Language: UR
چوہدری محمدعلی صاحب کی بلند علمی و ادبی شخصیت و گہری روحانی شاعری کے تعارف میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک خط کے اقتباس درج کئے جاتے ہیں:’’ آپ کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جو تبصرہ فرمادیا وہ یقینا آپ کی شاعری پر مہر ہےکہ’’ آپ آپ ہی ہیں۔ ہزاروں لاکھوں نے یہ مضمون باندھے ہوں گے مگر آپ کی تو ادا ہی الگ ہے۔ ماشاء اللہ چشمِ بد دور‘‘۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ آپ کا کلام پڑھنے والوں کو اس میں ڈوب کر اعلیٰ خیالات کے موتی تلاش کرنے کی توفیق دے۔ ۔۔۔۔آپ کی شاعری برائے شاعری نہیں ہوتی ۔ بلکہ آپ کا ہر شعر ، ہر مصرع ، ہر لفظ گہرے معانی لئے ہوئے ہوتا ہےاللھم زد و بارک‘‘ یہ مجموعہ کلام جسے یہ فخر حاصل ہے کہ اس کا نام عالمی جماعت احمدیہ کے محبوب امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے وہاں اسے یہ شرف بھی حاصل ہے کہ جگہ جگہ اسے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اصلاح سے نوازاہے۔ اس کے علاوہ اسے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، حضرت حافظ سید مختار احمد شاہجہانپوری اور حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب نے بھی اس کے کچھ حصے سنے اور اصلاح سے نوازا۔
اشکوں کے چراغ چوہدری محمد علی منتظر عارفی
اشکوں کے چراغ چوہدری محمد علی مضطر عارفی
کتاب: اشکوں کے چراغ مکرم چوہدری محمد علی صاحب مضطر عارفی
ترتیب پیغام دین حضرت ایلیا ایس ای ساید ال عالی بنصرہ العزیز ۱۳ وہ بولتا ہے تو سارا جہان بولتا ہے لوح دیباچه کتاب سخن ۱۷ مضطر جی! اک کام کرونا غلام نوازیاں ۲۳ اتنی مجبوریوں کے موسم میں الله په چه په بیا لا اله الله له مان له له چه ند نه تن به م 25 27 28 29 31 32 33 34 35 37 38 39 41 42 43 45 47 49 حرف و حکایت (احمد ندیم قاسمی) سمت ہے اس کی نہ حد آؤ حسن یار کی باتیں کریں جاگ اے شرمسار! آدھی رات 3 ہم نے جب دو چار غزلیں گائیاں 1 زیر لب کہیے، بر ملا کہیے بچہ سچا کیوں لگتا ہے 5 اندھیرا روشنی سے ڈر رہا ہے گھرا ہوا تھا میں جس روز نکتہ چینوں میں 7 زمیں کا زخم بھی اب بھر رہا ہے مصروف ہے سینوں میں اک آذر پوشیدہ و گھر کے کواڑ زیر زباں بولنے لگے کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے 11 تیرے کوچے میں بکھر جاؤں اگر ! صلہ کوئی تو سر اوج دار دینا تھا اٹھتے اٹھتے نقاب چہروں کے 13 اپنے اندر کی بھی سیاحت کر 15 تلاش منزل تان کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا کیا 17 مجھ کو مرے روبرو نہ کرنا ہری بھری گلفام ہیں نیلی پیلی ہیں 18 فرقت کو وصال کر دیا ہے چاند نگر کے چشمے خون اگلتے ہیں تنہائی 19 دل دیا ہے تو اب اتنا کر دے 20 پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے چراغ دشت کی لوبل گئی ہے 23 گلشن سے وہ جب نکل رہا تھا ہجوم رنگ سے گھبرا گئی ہے 24 میں ہی تو نہیں پکھل رہا تھا
85 89 91 92 93 95 97 99 100 101 آدھی رات کے آنسو! ڈھل 51 قصیده لامیه روح کے جھروکوں سے اذنِ خود نمائی دے 52 جاں بلف اشک بجام آئے گی وہ اسم اگر تحریر کروں 53 وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا اشک چشم تر میں رہنے دیجیے 54 اس کو اتنا نہ آزمانا تھا بات سنتے نہ بات کرتے ہو 55 جلا کر مرا پہلے گھر احتیاطاً موت ہے نہ حیات ہے یارو! 56 چلی مشین چلی کانٹا سا کھڑا ہے کوئی بن میں 57 وصل کے دن ہیں، رت ہے الفت کی بات را تجھے کی نہ قصہ ہیر کا 59 ددے، درد کے خزانے دے عشق اس کے عہد میں بے دست و پا ہو جائے گا 61 کشتہ تیغ انا لگتا ہے وہ ہنسنے کو تو ہنس رہا ہوئے گا برف 63 دیں جدا دینے لگے ، دنیا جدا دینے لگے 65 مجھ سے کہتے ہیں یہ عاشق بانورے(تضمین) 103 جھگڑے ہے پھول پھول ،لڑے ہے کلی کلی 67 لائی ہے بادِ صبا اُس پار سے خبر عظیم (تضمین) 107 احساس کو بھی جانچ، نظر کو ٹول بھی 69 تم کو بھی آتشِ نمرود میں جلتا دیکھوں مشتعل ہے مزاج کانٹوں کا جس حسن کی تم کو جستجو ہے شرم ہی کچھ ، حجاب سا کچھ ہے 110 71 نادان! اپنے جہل پر مجھ کو نہ کر قیاس (تضمین) 111 73 نا اُمیدانہ سوچتا کیا ہے 75 گفتگو کب کی بند ہے اب تو 77 ہے سارا سوز ، سارا ساز تیرا بے وفا سے وفا طلب کی ہے بادہ خواروں کو اذنِ بادہ ہے 79 سب مومن تھے، تو کافر تھا پھر تیری قسم کا نشانے پر لگا ہے 81 میرا گھر بھی تیرا گھر تھا یادوں کی بارات لیے پھرتا ہوں میں 82 تیل کے تالاب میں مچھلی کا منظر دیکھتے اشکوں نے دل کی دیوار گرا دی ہے 83 جسم اب بھی ہے، جان اب بھی ہے 117 120 121 123 124 125 127
کوئی آواز کا بھوکا،کوئی پیاسا نکلے 129 یادوں کی گزر گئیں سپاہیں میں خطا کار بھی تھا، لائق تعزیر بھی تھا 131 کہتی ہیں یہ منتظر نگا ہیں ورائے اشک اسے عمر بھر پکارا تھا 133 روکے سے نہ رک سکیں گی آہیں اندھیرا اب ادھر شاید نہ آئے اندر آنکھیں، باہر آنکھیں 135 دھرتی کو نہ آگ سے بیا ہیں 137 حادثہ یوں تو ٹل گیا ہے بہت تم عہد کے حالات رقم کیوں نہیں کرتے 138 میں برا اور وہ بھلا ہے بہت وہ بے ادب حدود سے باہر نکل گیا 139 چھوڑ کر عقل کی باتیں ساری نہ میں اس سے، نہ وہ مجھ سے ملا ہے 141 شور ہونے لگا پتنگوں میں شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو 143 تھک کے واپس آگئی چشم سوال آنکھ میں جو آ نسولر زا تھا میں تھا یا میرا سایہ تھا 145 یار خود آ گیا قریب مرے 147 کچھ تو دنیا بھی آنی جانی لگی خدمت کے مقام پر کھڑا ہوں 149 مرا بیاں ہے بہت مختصر بھی ، سادہ بھی 150 جانے کیا جی میں ٹھان بیٹھے ہیں بال جب آئنے میں آنے لگا پھر مجھے اندلس بلانے لگا تم کو بھی کوئی بدد عالگتی 151 ارمغاں ہے یہ پیر کامل کا 153 دل کی منزل بھی سر نہ ہو جائے اسے یہ ڈر ہے زمین پر آسماں گرے گا 154 صبح عہد شباب ہو جیسے ہر ایک سے گلے ملا ، ہنس کر جدا ہوا 155 یوں سوالات سر میں رہتے ہیں 161 162 163 164 165 167 169 170 171 172 173 174 175 176 177 178 179 180 مجھ سے کہتی ہے یہ اب میری گراں جانی بھی 157 حادثہ وہ جو اب کے سال ہوا اگر آتا نہ ہوا نکار پڑھنا اپنوں کو بھی پکارے، غیروں کا دم بھرے بھی 159 وہ چاہتا تھا کہ دو چار روز ہنس کے رہے حد ادراک تک پھیلی ہوئی ہیں رنگ کی گلیاں 160 نہ ہم فقیروں کی خاطر، نہ آشنا کے لیے 158 کبھی بہار کوتر سے کبھی خزاں سے ڈرے 181 182 183
اس شہر انتخاب کے پتھر اٹھا لیے 184 مت بھٹکتا پھرا کرے کوئی آنسو ابل کے دیدہ مضطر میں آگئے 185 ہم ہوئے ، چشم باطنی نہ ہوئی ہم ، یارکودیکھنے اغیار کالشکر نکلا 187 نے یہ تائید تمنا نے بہت تکمیل طلب کچھ وہی لوگ سرفروش رہے 189 چراغ شام مرجھایا تو ہوگا یشے میں جو ہو جائے سفارش کی پری بند 190 سحر نصیب ہے، سچی دعاؤں جیسا ہے 191 گل یہ کرتا ہوا فریاد آیا 215 216 217 218 219 221 193 خود منم اٹھ کے چلے آئے صنم خانے سے 222 عقل کا اندھا ہے، دیوانہ نہیں عرش پر جب اثر گیا ہوگا بحتة وہ اگر گیا ہوگا 195 ہجر کی رات مختصر نہ ہوئی اٹھتے اٹھتے اٹھے نقاب بہت 197 پیرانِ مے کدہ ہوئے ، اہلِ حرم ہوئے تصدیق چاہتا ہے اگر، آفتاب لا 199 تم نہ ٹالے سے بھی ملے صاحب ہر دید حضوری تو نہ ہو دے زخم کریدو، شور کرو، فریاد کرو 201 آہٹ کا اثر دہام بھی زنداں صدا کا ہے 202 مضطر سے تو کس لیے خفا ہے اس فیصلے میں میرا اگر نام آئے گا 203 محفل ضبطِ فغاں کی اب بھی قائل ہے قصہ یہ ہے کہ جس کو بھی دیکھا قریب سے 204 ہم ہوئے یا کوئی رقیب ہوا یہ اک اور قیامت ڈھائی لوگوں نے 205 کس لیے تو سامنے آیا نہ تھا پھر کسی سوچ نے گھونگھٹ کھولا میں جب بھی سر دیدہ تر گیا 207 ہوس کی وہ آندھی چلی شہر میں 208 تو کہیں اس سے ڈرر ہا تو نہیں مل ہی جائے گی دل کی منزل بھی 209 ذکر رخسار و چشم و اب کیا ہے کسی کے روکنے سے کم رکے گا 211 التفات نگاہِ یار تو ہے میں بچھڑ تو گیا ، جدا نہ ہوا طائر غم جو کبھی نغمہ سرا ہوتا ہے 213 عرش سے فرش تک، پھول سے خار تک 214 عقل تنہا، دل ناداں تنہا 223 224 225 227 228 229 230 231 233 234 235 237 239 240
روح زخمی جسم گھائل ہو گئے 270 241 کچھ یہاں اور کچھ وہاں گزری آہٹوں سے ہے سارا گھر آباد 243 ترے لب پہ بھول کر بھی مرا نام تک نہ آیا 271 حیرت سے ہے خود کو تک رہا کیا 245 کس لیے سائے سے ڈرتے ہو میاں! تو قریب رگ جاں تھا پہلے 246 کہہ رہا تھا نہ سن رہا کوئی بے سبب بھی کسی بہانے بھی 247 اشک در اشک سیاحت کی ہے آنسوؤں کی بھری بہار کے بعد 248 آئنے کا دل نہ اب چیرمیں بہت تو مے کا ذکر کراے کے گسار! آہستہ آہستہ 249 وہ یہیں آس پاس ہے اب بھی روٹھ کر جب وہ گل عذار گیا اپنوں ہی کا جھگڑا ہے نہ دشمن سے ہے کچھ کام 253 اپنے سائے سے ڈر رہے ہیں لوگ پھر وہی ذکر سرِ وادی سینا ہوگا 251 نہ ذکر دوری منزل، نہ فکر جادہ کریں 272 273 274 275 276 277 279 255 میں جب بھی اس کی محبتوں کی ، صداقتوں کی کتاب لکھوں 281 صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی شہادت پر 257 دل و جاں پر اس کی حکومت تو ہے عزیزان کلیم شاہ اور نسیم شاہ کی وفات پر 260 جس نے دیکھا اسے، دیکھتا رہ گیا 261 گرنے کو ہے مکان ، مگر تم کو اس سے کیا اچانک جھنگ کی تقدیر جاگی دیوار رنگ ہر کہیں حائل ہے راہ میں 262 چاہنے والوں کو ڈسنے والا جن کے لیے تو خوار ہوا شہر شہر میں 263 شعور رغم طبق اندر طبق ہے 264 سوچتا ہوں کہ کوئی تجھ سے بڑا کیا ہوگا 283 285 287 288 289 291 صلح ہوگی نہ لڑائی ہوگی صبانے شکوہ کیا ہے قفس نشینوں سے 265 روح کی لذت بن کر برسا مولا! تیری ذات کا نام 293 فرصت شام الم پوچھتے ہیں 266 راتوں کو اٹھ کے آنکھ کا آب حیات پی یہ رستے پوچھتے ہیں کارواں سے 267 ہو گئے ہم تو پاش پاش بہت کبھی ان کا لطف و کرم دیکھتے ہیں 268 لفظ مر جائیں تو مفہوم بھی مرجاتے ہیں ذکر شبنم نه فکر خار کرو 269 کیسے بات کروں ٹھنڈے انسانوں سے 295 296 297 298
ہماری طرف نہ عدو کی طرف 299 دوشعر ہم اکیلے ہیں بے حضور نہیں 300 واویلا کرتا ہوا را ون آیا ہے زلف و رخ کے اسیر رہنے دے 301 تیر جب اس کمان سے نکلا عاشقی جتنی وفادار ہوئی جاتی ہے 302 یہ کرم ہو گیا یا ستم ہو گیا حد نظر سے دور افق پار دیکھنا یہ کون سر غار حرا بول رہا ہے 303 ہونے کو وہ شوخ بہت مشہور ہوتا 304 ہو گیا سنسان کمرہ اس کا چہرہ دیکھ کر قصیدہ تہنیت بر موقع آغاز نشریات ایم ٹی اے 305 یہ پیٹ کیا اُگا ہے امسال گھر کے اندر مفہوم کو لفظوں کا دریچہ نہیں ملتا 307 لذت غم سے بہرہ ور کرنا منزلوں کی حکایتیں کرتے 309 اندر سے اگر نہ مسکراؤں پھسلنے کا اگر امکان ہوتا 310 نہیں وہ شخص تو ایسا نہیں ہے صبح اندیشے ، شام اندیشے 311 تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے کفر کا الزام میرے نام تھا 312 قریب رہ کے بھی وہ ہم سے دور اتنا تھا یہ خلش سی جو آبلے میں ہے 313 جنگل ہوں قدیم خارونس کا اشک جو آنکھ کے قفس میں ہے 315 مجھ کو بھی شفق شمار کر لے گھر سے نکلے تھے بے ارادہ بھی 317 مفہوم سے الجھوں کبھی الفاظ سنبھالوں 330 331 333 334 335 337 339 341 342 343 345 347 349 351 353 354 355 357 جلنے کا شوق تھا تو وہ جلتا تمام رات 319 دھوپ میں جو ملنے آیا ہے جلنے لگا مکاں تو گلی سوچنے لگی 321 زندان ہجر میں کوئی روزن نہ باب تھا بے سبب اور بے صدا ٹوٹا 323 کرسی پہ بیٹھ کر بھی وہ کتنا ملول تھا آپ کے لب پر پیار ہو، دل میں پیار نہ ہو 325 یہ سفر بھی دور کا ہے، یہ ہے دن بھی ڈھلنے والا 358 در کھٹکھٹا رہا ہے قفس کا زمانہ کیا 327 ناداں ! نا حق کیوں گھبراتا ہے 359 سپنوں میں بادلوں کی بارات لے کے آنا 329 پتھر اٹھائیے، کوئی دشنام دیجیے 360
حقیقت ہے یہ استعارہ نہیں ہے 361 یوں تو کرنے کو احتیاط بھی کی محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں 363 سر چھپانے کا بندوبست تو ہے اسی کو قرب ،اسی کو صلہ بھی کہتے ہیں 364 کوئی شکوہ، کوئی گلہ کرلیں اس قدرمت خموش جان ہمیں تم اپنے مرتبے کو کم نہ کرنا جسم میں رکھنا، جان میں رکھنا 365 یوں تو سورج سے تصادم مل گیا 366 ذکر اپنا بھی تمھارا کیا 367 تم اگر اتنے بے اُصول نہ ہو عہد ہوں، ایک اذیت اپنے اندر لے کر بیٹھا ہوں 369 سچا تو کائنات کو سچا دکھائی دے 371 عمر بھر اشک کی آواز پہ چلنے والے! سر عام سب کو خفا کر چلے گہرائیوں میں غم کی اتر جانا چاہیے 372 اتنا احسان اور کر دینا راہ کی روشنی منزل کا اجالا دینا 391 393 395 396 397 398 399 401 402 373 آنکھیں لے کر نکلے تھے آئینوں کے دلدادہ لوگ 403 405 رکنے کے بعد بھی میں برا بر سفر میں تھا 375 راہرور ستے میں بیٹھا رہ گیا میرا نامہ پڑھ کے میرا نامہ بر ہنسنے لگا 376 وہ دل میں آ کے نہ ٹھہریں کبھی گزر تو کریں 406 اپنا اپنا تھا، پر ایا تھا پر ایا پھر بھی 377 گھومتا پھرتارہے ہے قیس دن بھر گاؤں میں 407 378 رات ڈھل جائے گی ، سورج کا سفر بھی ہوگا 409 وہ اپنے حال پہ ہنستا تو ہوگا تیرے سوا تو کوئی مرارا ہبر نہ تھا 379 تم عہد کی آواز سے ڈر کیوں نہیں جاتے ناداں اُلجھ رہے تھے عبث آفتاب سے 381 دین مانگے نہ یہ دنیا مانگے دل نادان پہ حیران نہ منظر! ہونا 383 نظر کے لمس سے دامن نہیں بچائے گا کوئی کلاہ نہ کوئی لبادہ رکھتے ہیں 385 سحر پسند تو سب ہیں سحر چشیدہ نہیں میرے اس کے درمیاں تو فاصلہ کوئی نہ تھا 387 ساز آواز میں ڈھل جاتا ہے رنگ و بو کا سفر تمام ہوا 388 چادر سروں پر کوئی تو اے آسمان ! دے 411 413 414 415 417 419 کس کی یاد آ گئی نا گہاں شہر میں 389 اس کے دل میں اب بھی احساس زیاں کوئی نہ تھا 421
Λ اوّل آئینے سے الفت ہوگئی لمحے بیچ دیے، صدیاں نیلام کرو 423 اپنے اندازے میں اوروں کا نہ اندازہ ملا 425 ہر کوئی شہر بدر لگتا ہے آئی ہے اس کی یادیوں سونے گھروں کے بیچ 427 عشق کا جرم مرے نام لگایا جائے 455 456 457 آنکھ کے آسیب جب تک جانہ لیں 429 خواب چہرے پر سجائے ، دل میں تعبیریں لیے 458 459 460 461 463 464 465 467 469 470 471 472 473 475 477 478 479 480 سناٹوں سے کہہ دو یہ گھر میرا ہے 430 بن گئی زاد سفر بے سروسامانی بھی اشک دراشک ابتدا میں کہیں 41 کبھی یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ گلہ نہ کرے 432 اوڑھ کر آئین کا جھوٹا لبادہ اس برس سر مقتل وفا کے حوصلے بھی بس اک اشک سے دھل گئے سارے سینے 433 ہمیں ساتھ اے نامہ بر ! لیتے جانا حسن نظر سے جب بھی ہو احسن کا ملاپ 435 شیشے نہیں ٹوٹے ہیں کہ پتھر نہیں بولا وہ پل صراطِ صدا پار کر ہی جائے گا 437 درود تیرے لیے ہے، سلام تیرا ہے 440 زخم بولے تو جیسے بھر سے گئے راہ پکارے گی، چورستہ بولے گا 439 تم نے اگر نہ پھول کی حرمت بحال کی مجھ کو اپنے غم کا اندازہ نہ تھا موسم کے مراحل سے گزر جائے گا پانی 441 روشنی اکیلی تھی صبح و شام سے پہلے نہ سہی دوست، کوئی دشمن کامل اٹھے 443 سُن ! محو گفتگو ہے یہ کون آسمان سے سولی کو جو سجا سکے وہ سر تلاش کر 445 میں ترے معہد میں اگر ہوتا روح کے پتھر پگھل جانے بھی دے 446 تمہید کی اتنی بھی ضرورت تو نہیں تھی جولمحہ بھی اشکوں سے لا دا گیا یوں نہ مجبور کو مسند پہ بٹھایا جائے 447 آہوں کی بانہیں 449 اول تو اپنی آنکھ کا پانی لہوکر و ہر پھول انتخاب ہے ،خوشبولباس ہے 451 ریگ زاروں میں چاندنی ہوئی آنسو تھے تو آنکھ کا زیور ہو جاتے 453 کیا کیا نہ تو نے ہم پر احسان کر دیا ہے کیوں من و تو کی نہ تفریق مٹا دی جائے 454 اس سفر کا کبھی انجام نہ ہونے پائے
۹ ، چاند چھپا، تارے مرجھائے ، نرگس ہے بیمار 481 حسن مجبور ہو گیا ہوگا فاصلے ان کے ہمارے درمیاں کہنے کو ہیں 484 آپ اگر بدگمان اتنے ہیں پس لمحہ جو لمحہ سورہا ہے اوڑھ کر آواز کو تقریر آدھی رہ گئی 485 بے نظر بھی ہوں، بے ادب بھی نہیں 513 514 515 487 وصف جمال یار پر ختم ہے میری شاعری 516 تری چپ نامہ بر! اچھی نہیں ہے 488 اک حسیں پر جسم اور جاں وار کر 517 شہر کے ہوں یا گاؤں کے 489 ناز ہے مجھ کو بھی ان کے پیار پر ملا کو کبھی اتنا تنومند نہ کرنا 491 حریم ہجر میں کیسا چراغ روشن ہے مرے اندرلڑائی ہو رہی ہے 493 کب سے بیٹھے ہو بے یقینے سے 518 519 520 یہ نشاں ہے جو بے نشان سا ایک 495 کیوں اشک آنکھ سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں 521 ایک لکنت سی ہے زبان میں کیا! 497 محفل کا دل اداس ہے، ساقی خموش ہے 524 دل نہیں آج آشنا دل کا چھیڑ کر ہم نے سلسلہ دل کا اسے اندیشہ ہے گر کر سنبھلنے کا سوچتا ہوں تو تنہا تنہا لگتا ہوں 499 وہ جلال اور وہ جمال کہاں 525 500 غم ہائے روزگار کی نظروں نے کھالیاں 527 501 جہاں عشق نے برچھیاں ماریاں 503 صدمہ رنگ سے جنگل جاگا 528 کوئی شکوہ نہ شکایت نہ گلہ لکھا ہوا 505 پھر شب دیجور دروازہ کھلا اشک بر سے تو اس قدر بر سے 507 اوڑھ لینے کو بدن بھی ہوگا اصل کی نقل ہوں ، نشانی ہوں 508 آنکھ سے ٹیکا لہو بن کر جلا کون کہتا ہے اسے آدھا نگل 509 نعرہ زن بزم میں جب تو ہوگا یہ غزلیں مری ، یہ ترانے مرے 510 اپنے سائے سے ڈر رہی ہے رات خام ہوں ، گمنام ہوں ، مستور ہوں 511 وہ نہ تنہا مجھ سے کوسوں دور تھا کہیں گرنا، کہیں سنبھلنا تھا 512 خود سے مل کر ہوئے اداس بہت 529 530 531 532 533 534 535 537
رات پھر آئی امتحاں کی طرح 538 ہنجواں دی فصل پچھیتی اے رت بدلی ، سب ماند پڑے ہیں غم کے کاروبار 539 گولی آں میں تیرے دردی جسم زخمی ہے اور گیلے پر 540 ناں تیرے کجھ ہتھ ، ناں پہلے اے خطیب خوش بیاں ! آ دیکھ شانِ امتیاز 541 وے توں کول کھلوندیاں جھک گیا سنائی دے ہے یوں پائل کی آواز 543 آکھاں وی تے ڈھولناں! خواہشوں نے گھڑی ہیں تصویریں 544 سچ آکھاں تاں بھانبڑ نیچے گھڑی دو گھڑی تو بھی رولے میاں! 545 چناں کیتی اے اجیہی گل وے 546 وگ وگ وے جھناں دیا پا نیاں ! آرزو کے اسیر شہزادو! بے نواؤں کے یار! آ جاؤ 563 564 565 566 567 568 569 571 547 آگے آگ پچھے پر چھانواں، کدھر جانواں 573 گناہ گارہوں مولیٰ ! مرے گناہ نہ دیکھ 548 ننگے پنڈے چاننی گئی بگا نے پنڈ 549 تھک گیا سورج چلدا چلدا یاد کی مے ہے اور پی سی ہے ان آنکھوں میں جو ہلکی سی لالی ہے 550 اضافه ایڈیشن سوم وہ بے اصول اگر با اصول ہو جائے 551 تری آنکھوں میں عیاری بہت ہے ایسا نادان تو دیکھا نہ سنا تھا پہلے 552 ایک ماڑا، ایک تگڑا چوک میں اس عہد کے آسیب کو کرسی کی پڑی تھی فارسی اے کہ تو بندہ خدا شده ای دلم از آرزو بیگانه کردید پنجابی اکھاں دی رکھوالی رکھ ٹردا جاویں سدے ہتھ 555 جب بھی وہ عہد کا حسیں بولے 556 یہ جو صحرا میں گل کھلے ہیں میاں چناں ! وے تیری چانی ، تاریا ! وے تیری لو 561 قبلہ رخ ہو کے باوضو بولے سرحد امتحاں سے گزرتے ہوئے 559 برائی زمین و زماں میں نہیں ہے 560 حادثہ اندر ہی اندر ہو گیا 575 577 579 581 584 585 587 588 590 592 594 596
11 میں پہلے دل کی دیواروں کو دھولوں 599 وہ میری ماں ہے اسے اس یقیں سے ملتا ہوں 614 تو اپنے عہد کا مسند نشیں ہے 601 خدا کے واسطے آہستہ بولو جہاں پر قادیاں رکھا ہوا ہے 603 ہجر کی رات دن ہے فرقت کا جب اس نے رخ سے نقاب الٹا 605 جڑیں گہری ہیں اور شاخیں گھنی ہیں کچھ تو کرم فرماؤناں 606 نہیں آنسو ہی چشم تر سے آگے اے شور طلب اے آخر شب اے دیدہ نم اے ابر کرم 607 کیا ہمیں آپ بھی سرکار نہیں چاہتے ہیں دلِ ناداں ابھی زندہ بہت ہے رقص شیطاں ہوا تھا پہلے بھی 608 نہ اور جب انتظاراتھا 609 حرص و ہوا دا اڑیل گھوڑا محروم ہو نہ جاؤ کہیں اس ثواب سے 610 جیون جو گیا ٹھن پر ا گا دُکھاں دا 611 متفرق اشعار اجنبی آشنا نہ ہو جائے ہم نے مانا بہت بڑے بھی ہو 612 دیدہ نمناک کا تازہ شمارہ دیکھنا آہٹوں کا ریلا ہے 613 615 616 617 618 620 621 622 624 625 629
بسم الله الرحمن الرحيم سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا لندن/30.5.2006 پیغام پیارے مکرم چوہدری محمد علی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته آپ کی طرف سے آپ کے شعری مجموعہ کے لیے پیغام کا کہا گیا ہے.آپ کو شاید یاد ہور بوہ میں ایک دو دفعہ آپ سے عرض کی تھی اپنا شعری مجموعہ شائع کروا ئیں لیکن آپ طبعی عاجزی کی وجہ سے کچھ نہ کچھ عذر پیش فرما دیا کرتے تھے.الحمد للہ کہ اب آپ کسی طرح مانے تو سہی.کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے.اللہ تعالیٰ آپ کا کلام پڑھنے والوں کو اس میں ڈوب کر اعلیٰ خیالات کے موتی تلاش کرنے کی توفیق دے.آپ کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جو تبصرہ فرما دیا وہ یقیناً آپ کی شاعری پر مہر ہے کہ : ” آپ آپ ہی ہیں.ہزاروں لاکھوں نے یہ مضمون باندھے ہوں گے مگر آپ کی تو ادا ہی الگ ہے.ماشاء اللہ چشم ،، بد دور جن شعروں پر یہ تبصرہ تھا اُن میں سے دو شعر یہ تھے.
۱۴ جانتا ہوں دعا کے موسم میں وہ اکیلا کدھر گیا ہو گا پر اس کی آواز کی صداقت لفظ لذت سے بھر گیا ہو گا اس وقت ذہن اور مسائل میں اُلجھا ہوا ہے اور دوسری مصروفیت ہے کہ لمبا پیغام تو نہیں لکھ سکتا.جیسا کہ میں نے کہا آپ کے شعروں میں ڈوب کر اپنے اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق حکمت اور عرفان کی تلاش ہر پڑھنے سننے والا کرتا ہے.اللہ کرے پڑھنے والے آپ کے اس مجموعے سے استفادہ کریں.آپ کی شاعری برائے شاعری نہیں ہوتی بلکہ آپ کا ہر شعر، ہر مصرع ، ہر لفظ گہرے معنی لیے ہوئے ہوتا ہے.اللَّهُمَّ زِدْ وَ بَارِكُ.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی والی لمبی زندگی عطا فرمائے تا کہ یہ دل سے نکلی حکمت و عرفان کی باتیں ہمیں پڑھنے سنے کو ملتی رہیں.آمین والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد (دستخط) خليفة أسبح الخامس
۱۵ لندن 25-5-2006 بسم اللہ الرحمن الرحیم مکرم صدر صاحب مجلس انصاراللہ پاکستان السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی طرف سے فیکس موصول ہوئی جس میں آپ نے مکرم چوہدری محمد علی صاحب کے مجموعہ کلام کے لیے نام تجویز کرنے کے لیے لکھا ہے.اس کا نام ” رکھ لیں.علاوہ ازیں حضرت خلیفتہ المسح الرابع کے جو خطوط آپ نے ساتھ شائع کرنے کے لیے بھجوائے ہیں.ان کی اشاعت کی بھی اجازت ہے.بے شک وہ سارے شائع کر لیں.اللہ کرے کہ یہ مجموعہ کلام ہر لحاظ سے بابرکت اور مفید ثابت ہو اور علمی وادبی حلقوں میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہو.آمین والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد (دستخط) خلیفة المسیح الخامس
"។
۱۷ لوح دیباچه کتاب سخن ۱۹۹۱ء کے جلسہ سالانہ انگلستان کے دن تھے.میرے محبوب اور مخدوم امام و آقا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی علی الصبح سیر پر تشریف لے جایا کرتے تھے.عاجز کو بھی چند مرتبہ شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی.اس دوران عاجز غلام سے ارشاد فرماتے کہ اپنے اشعار سناؤں.نیز فرمایا یہ سب اشعار مجھے لکھ کر دے جاؤ اور باقی اکٹھے کرو اور مجھے بھجواؤ میں خود چھپواؤں گا.حضور رحمہ اللہ کی بے پایاں شفقتوں کا ذکر کرنے لگوں تو بات لمبی ہو جائے گی.خلاصہ کلام یہ کہ میں نے کچھ دوستوں عزیزوں کی مدد سے بچا کھچا رطب و یابس اکٹھا کیا.پھر یوں ہوا کہ مشکل کے بعد مشکلیں آتی چلی گئیں یہ امتحاں کا دور بہت مختصر نہ تھا افسوس کہ حضور انور رحمہ اللہ کی زندگی میں یہ مجموعہ چھپ نہ سکا.الحمد للہ کہ اب یہ اُس کے فضل اور رحم کے ساتھ قدرت ثانیہ کے پانچویں مقدس مظہر حضرت مرزا مسرور احمد ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عہد سعادت مہد میں چھپ کر آپ کی خدمت میں پیش ہے.سکول اور کالج کے زمانے کے اساتذہ کرام اور دوست احباب یاد آ رہے ہیں جن کی وجہ سے طبیعت شعر گوئی کی طرف مائل ہوئی.پرائمری کی تیسری جماعت تھی.مرحوم ماسٹر عبدالمجید صاحب فارسی پڑھاتے اور اپنے فارسی اشعار سنایا کرتے تھے.ہائی سکول میں مرحوم سید رضا حیدر زیدی لکھنوی کی شفقتوں سے حصہ ملا اور انھی کی وجہ سے فسانہ آزاد کی چاروں جلد میں پڑھ ڈالیں.کچھ مجھ میں آیا کچھ نہ آیا، لیکن اُردو زبان سے ایک
۱۸ شغف ضرور پیدا ہو گیا.۱۹۳۵ء میں سید صاحب ہی کے ایما پر میٹرک کے امتحان کے فارم میں اپنا نام محمد علی جناح لکھا.اسی زمانے میں یہ نظم ہو گئی ، جو فیروز پور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ زمیندار میں شائع ہوئی.یہ نظم کسی نہ کسی بہانے ہر آنے والے مہمان کو پڑھنی پڑتی تھی.چاندنی چھٹکی ہوئی تھی، تھا بہت اجلا سماں محفل انجم سے تھا معمور سارا آسماں کیا چرندے، کیا پرندے، محو تھے سب خواب میں واللہ اعلم کس طرح میں جاگ اُٹھا نا گہاں تھا سماں ایسا کہ جس سے نیند کو آجائے نیند خامشی کے بحر میں ڈوبا ہوا تھا سب جہاں دیکھ کر قدرت خدا کی ہو گیا میں بے قرار ڈوب گہری سوچ میں کہنے لگا زیر زباں چل رہا ہے کا ر قدرت روز و شب بے روک ٹوک یہ پتا چلتا نہیں کہ منتظم خود ہے کہاں پاس سے آواز آئی، اس قدر کیوں پاس ہے بے خبر ! جس کا تلاشی تو ہے تیرے پاس ہے یہ وہ زمانہ تھا جب ماہوار نہیں تو ہر دوسرے مہینے مخلص تبدیل کیا جا تا تھا.منظر عارفی برادرم عزیزم راجہ غالب احمد صاحب کی عنایت ہے اور یہ تقسیم ملک کے بعد کی بات ہے.عارفی ہمارے جد امجد محمد عارف کی نسبت سے ہے.کالج کا زمانہ بہت ہنگامہ خیز رہا.یہ انگریز دشمنی کا زمانہ تھا.جوش اور احسان دانش
19 چھائے ہوئے تھے.کمیونزم کے نعرے لگ رہے تھے.ہم بھی اسی کی لپیٹ میں آگئے تھے.یہ داستان لمبی ہے.یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں.اسی زمانے میں خوش قسمتی سے حضرت قاضی محمد اسلم مرحوم و مغفور سے ملاقات ہوگئی.۱۹۳۹ء کے جلسہ سالانہ میں چُھپ کر شمولیت کا موقع ملا اور زندگی بھر کی سوچ بدل گئی.انھی دنوں میں حسن مطلق پر ایک طویل نظم لکھی.استاذی المکرم صوفی غلام مصطفی تبسم مرحوم نے اس میں ایک تبدیلی فرمائی.”اے مُست رو محبت ! “ کی بجائے ”اے مست رو محبت !“ کر دیا اور حکماً گورنمنٹ کالج کی بزمِ اقبال کے سالانہ جلسے میں پڑھوائی ، حالانکہ کوئی شعری پروگرام نہیں رکھا گیا تھا.تین شعر یا درہ گئے ہیں جو یوں تھے.اے جانِ حسن مطلق ! اے حسن آسمانی! اے مست رو محبت! اے تیز رو جوانی! مریم کی روح تجھ میں تحلیل ہو رہی ہے انسانیت کی پھر سے تشکیل ہو رہی ہے روح الا میں بھی تیری نظروں کو چومتا ہے سارا جہان تیرے چوگرد گھومتا ہے ۱۹۴۰ء میں حضرت امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کے جانشین سیدنا مصلح موعود خلیفتہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہوا.اس کے بعد کی داستان اسی عشق کی داستان ہے.ہر چند کہ بد نام کننده نکونامے چند ہوں، اللہ تعالی کی ستاری و غفاری کے کرشمے ہیں کہ مجھ غریب پر میری نااہلی اور نادانی کے باوصف قدرت ثانیہ کے مظہر ثانی ، مظہر ثالث ، مظہر رابع ) نَورَ اللَّهُ مَرْقَدَهُمْ ) اور اب مظہر خامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الطاف کریمانہ کی بے پایاں اور مسلسل بارش ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی.
۲۰ پاکستان میں جماعت احمدیہ جن صبر آزما مراحل سے گزری اور گزررہی ہے اور جس طرح جماعت پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا یہاں تک کہ حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے لیے عظیم فرائض منصبی کی ادائیگی ناممکن بنادی گئی اور آپ کو بادل نخواستہ اپنے وطن عزیز سے ہجرت کرنی پڑی.اگر ان صدمات کی صدائے بازگشت ان اشعار میں سنائی دے تو چنداں تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے.شعر دراصل ظاہر کا باطنی عکس ہوا کرتا ہے.سقوط ڈھا کہ ہو یا اظہار و بیان پر قدغن ، تو جلیں گے.یہ مجموعہ جسے یہ فخر حاصل ہے کہ اس کا نام عالمی جماعت احمدیہ کے محبوب امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عطا فرمایا ہے وہاں اسے یہ شرف بھی حاصل ہے کہ جگہ جگہ اسے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے اصلاح سے نوازا ہے.اس کے علاوہ اسے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، حضرت حافظ سید مختار احمد شاہجہانپوری اور حضرت شیخ محمد احمد مظہر نے بھی اس کے کچھ حصے سنے اور اصلاح سے نوازا.ممکن ہے اس مجموعے میں کہیں کہیں ظاہری قواعد سے انحراف نظر آئے مثلاً مصرعے کے درمیان میں ” نہ “ کا دو حرفی استعمال وغیرہ.اسی طرح اگر اس مجموعے میں کوئی اور خامی نظر آئے تو خاکسار اس کے لیے معذرت خواہ ہے اور اگر کوئی خوبی کی بات دکھائی دے تو قاری کا حسن نظر ہے.دلی افسوس اس بات کا ہے کہ بہت سا کلام ضائع ہو گیا اور کچھ اینٹی احمد یہ آرڈینینس کی کرم فرمائی کے اندیشے کے پیش نظر اس مجموعہ میں شامل نہیں کیا جا سکا.عملاً اسے کلیات محمد علی بھی کہا جا سکتا ہے، اگر چہ یہ میری زندگی میں شائع ہو رہا ہے.اگر یہ چند باقی ماندہ منتشر
۲۱ اوراق زیور طبع سے آراستہ ہوئے ہیں تو اس کا سہرا دو نہایت پیاروں اور محترم و مخدوم عزیزوں کے سر ہے.یعنی محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد سلمہ اللہ تعالیٰ ناظر اعلیٰ و امیر مقامی سابق صدر مجلس انصاراللہ پاکستان اور محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد سلمہ اللہ تعالیٰ صدر مجلس انصاراللہ پاکستان.خاکسار شکر گزار ہے کہ سارے مسودے کو حضرت صاحبزادی سیدہ امتہ القدوس صاحبہ نے دقت نظر سے پڑھا اور مناسب اصلاح فرمائی.اسی طرح خاکسار عزیز صابر ظفر کا دلی شکریہ ادا کرتا ہے کہ اُنھوں نے سارا مسودہ پڑھا اور مفید مشوروں اور اصلاح سے نوازا.خاکسار عزیزان شاہد احمد سعدی، اسفند یار منیب، طارق محمود طاہر، مقصود احمد منیب اور نو ر الجمیل نجمی کا شکر گزار ہے جنھوں نے اس مجموعے کی تیاری کے دوران مختلف مراحل میں معاونت فرمائی اور خاص طور پر عزیز میر انجم پرویز کا جنھوں نے اوّل سے آخر تک بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ اسے اشاعت کے قابل بنایا.اسی طرح خاکسار عزیزم فرید الرحمن احمد کا بھی شکر گزار ہے جنھوں نے بڑی محبت اور محنت کے ساتھ اس کتاب کی کمپوزنگ کی.الحمد للہ کہ اب یہ بچا کھچار طب و یا بس پیش خدمت ہے.سپردم به تو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را ✰✰✰
۲۳ غلام نوازیاں ذیل میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمہ اللہ تعالیٰ کے مکتوبات گرامی، جو آپ نے مکرم محترم چوہدری محمد علی صاحب کے نام تحریر فرمائے ، پیش خدمت ہیں.لنڈن /17.01.1991 پیارے برادرم چوہدری محمد علی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی کس کس غزل پر کیسے اپنے ہاتھ سے لکھ لکھ کر داد دوں.میں تو قلم توڑے بیٹھا ہوں.محبت ہو گئی ہے تجھ سے مضطر! تو کس محبوب کا نوکر رہا ہے لندن/22.6.1369/1990 ☆☆☆ الفضل 3 جون 1990 ء کے شمارہ میں آپ کا منظوم کلام ”اپنے اندر کی بھی سیاحت کر پڑھا.بہت اعلیٰ پائے کی سہل ممتنع غزل ہے.آپ کا اپنا ہی رنگ ہے جو کسی اور کو اپنانے کی توفیق نہیں ملی کیونکہ یہ رنگ آپ کے مزاج کا رنگ ہے اور عموماً ایک زمانے میں ایک سے زیادہ محمدعلی پیدا نہیں ہوا کرتے.چشم بدور.اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدْ وَبَارِك.اللہ آپ کی عمر صحت میں برکت دے.خدا حافظ!
۲۴ 29-10-90 آپ کے منفرد کلام کی تعریف میں دو حرف ڈال دیے تو کون سی قیامت آ گئی.آپ کی ہر غزل پر اگر ایک الگ خط لکھوں تب بھی حق ادا نہ ہو سکے گا.پتہ ہے مجھے آپ کا کلام کیوں پسند ہے.شعراء کے کلام سے الگ اس میں ایک اپنی سی دلکشی ہے.سردست امتیازی جاذبیت کی صرف تین باتیں بتا دیتا ہوں.پتہ تو آپ کو ہوں گی مگر اپنے انکسار کے باعث بھلا خود کب مانیں گے.1.کھری کھری سنانی اور پتھر مارنے والوں پر پتھر مارنے تو بہتوں کو آتے ہیں مگر شعر و ادب کی پنکھڑیوں میں لپیٹ کر پتھر مارنے کوئی آپ سے سیکھے.پھر لطف یہ کہ پتھراؤ کا مزا بھی آتا ہے اور پنکھڑیوں کی نزاکت اور لطافت بھی مجروح ہوئے بغیر اپنے دلکش رنگ دکھاتی ہیں.آپ سر اپنا پتھروں کے حضور پیش کرتے ہیں اور پتھراؤ مارنے والوں کے سروں پر.جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے.2.سادہ سے لفظوں میں سر را ہے بظاہر یونہی عام سی بات کر جاتے ہیں لیکن ایک دو قدم آگے بڑھ کر پھر مڑنا پڑتا ہے.ایک خلش سی پیدا ہوتی ہے کہ کوئی بات تھی جو نظر سے رہ گئی ہے.بات بھی پھر ایسی گہری اور پر حکمت نکلتی ہے کہ دو قدم چھوڑ ہزاروں قدم واپس آ کر بھی حاصل ہو تو جواز سفر سے بڑھ کر نکلے.3.تیسری خاص بات یہ دیکھی ہے کہ مجال ہے جو کسی بھیٹر میں مل جل کر اپنی شخصیت گنوا بیٹھے ہوں.شاہوں میں فقیرانہ گدڑی میں اور فقیروں میں شاہانہ لباس اوڑھے پھرتے ہیں.کوئی دور ہی سے دیکھ کر کہے وہ دیکھو حمد علی کس سج دھج سے جارہا ہے.ان کو کتنا مزا آتا ہوگا جو کہہ سکیں یا کہتے ہوں گے کہ یہ میرا محمد علی ہے.ایک پیارا و جو درحمہ اللہ جو بجا طور پر یہ کہ سکتا تھاوہ اب ہم میں نہیں ہے.بیسیوں ایسے ہوں گے جو
۲۵ ☆☆☆ یہ کہنا چاہتے ہوں گے.لندن /1993/ہش 25.2.1372 آپ کی ہر غزل ہی ماشاء اللہ آسمان شعر پر ایک اور روشن ستارہ طلوع کرتی ہے مگر بعض ستارے دوسروں سے روشن تر ہوتے ہیں.سادگی کے ساتھ پر کاری کا لفظ تو آپ پر سجتا نہیں.کیونکہ پُر کاری میں کچھ فریب کے معنی پائے جاتے ہیں جبکہ نہ آپ کو پُر کاری آتی ہے نہ ادا کاری ، ہاں جانکاری ضرور آپ کی غزلوں میں دکھائی دیتی ہے.چنانچہ 2 فروری 1992ء کے الفضل میں شائع ہونے والی آپ کی غزل ساری ہی بڑی رواں اور اثر انگیز ہے اور یہ شعر تو کیا خوب ہے.گلشن کا نہ تھا قصور اس میں موسم ہی نہیں بدل رہا تھا آپ نے کمال کر دیا ہے.گلشن اور موسم کے تعلق میں ایسا مضمون پہلے کبھی نہیں سنا.سب نے بدلتے موسموں کی بات کی ہے.موسم نہ بدلنے کا مضمون پہلی دفعہ پیش ہوا ہے.یہ شعر بھی بہت عمدہ ہے.جنت کا شجر تھا اور اس کے سائے میں گناہ پک رہا تھا درخت کے سائے بیٹھے ہوئے ہیولے دکھائی دینے لگے.اسی طرح یہ شعر پڑھ کر بھی بڑا لطف آیا.اس میں آپ نے ایک عام تجربہ کی بات کی ہے لیکن شاید ہی کسی نے اس کو اس رنگ میں بیان کیا ہو.رونا تو وہ چاہتا تھا لیکن آنسو ہی نہیں نکل رہا تھا
۲۶ جس طرح بعض دفعہ صدمہ آنسوؤں میں نہیں ڈھلتا.اسی طرح یہ مضمون کسی سے شعر میں نہیں ڈھل سکا.جو آنسو صدمہ پر نہیں نکل سکا وہ اتنا خوبصورت شعر کا موتی بن کر نکلا ہے تو پھر آپ کو کیا شکوہ ہے.شعروں کے آئینہ میں آپ سے جو ملاقات ہوتی ہے وہ بہت پر لطف ہوتی ہے.اسی لیے بڑے شوق سے آپ کی نظموں کا مطالعہ کرتا ہوں اور انہیں پڑھنے کا انتظار رہتا ہے.گزشتہ دنوں جب الفضل میں اوپر تلے آپ کی کئی نظمیں شائع ہوئیں تو انہیں پڑھ کر بہت لطف آیا اور کئی پسندیدہ شعروں میں قلم سے نشان لگا کر غائبانہ داد دیئے بغیر نہ رہ سکا.اللہ آپ کی صلاحیتوں کو مزید نکھار عطا فرمائے اور خوشیوں سے معمور فعال لمبی زندگی عطا فرمائے.خدا حافظ و ناصر ہو.لندن /29.5.98 ☆☆☆ آپ کی سب نظمیں ماشاء اللہ آسمانِ ادب کی رفعتوں کو چھوتی ہیں اور ایک آپ ہیں کہ جن کا شاید ہی کوئی ایسا کلام ہو جس میں مجھے کوئی نہ کوئی خاص بات دکھائی نہ دیتی ہو ور نہ چوٹی کے شعراء کے کلام میں سے بھی مجھے رطب و یابس کے انبار سے اچھا کلام ڈھونڈنا پڑتا ہے.الفضل کے 19 مئی کے شمارہ میں آپ کی جو پنجابی نظم چھپی ہے اس کا معیار بھی بہت اعلیٰ ہے.پنجابی نظمیں پڑھنے میں کچھ دشواریاں ہوتی ہیں جو بعض دفعہ یہ احساس دلاتی ہیں کہ وزن ٹوٹ گیا ہے جبکہ شاعر خود پڑھنے کے انداز سے ہی اس ستم کو دور کر دیا کرتے ہیں.اس نظم میں بھی ایسی کئی جگہیں میرے لیے دشواری کا موجب بنی ہیں اور کچھ پنجابی محاوروں سے اپنی لاعلمی کا اعتراف بھی کرنا پڑا مثلاً آخری سے پہلے جو شعر ہیں.
۲۷ تینوں ٹھرک مکان دا سانوں ویل زمین تیری روزی شہر وچ تے ساڈے دانے پینڈ اس میں یا دونوں جگہ ” تے داخل ہونا چاہیے کہ اس سے سلاست پیدا ہوتی ہے یا پھر دونوں جگہ سے ” تے نکال دینی چاہیے اور اگر پہلے مصرعہ میں ” تے داخل نہیں کرنی تو پھر دوسرے مصرعے سے وچ نکال دیں.عین مصرعہ کے ”و“ جو وچ آیا ہوا ہے وہ کچھ او پر اسا لگ رہا ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ بھی انہی جگہوں میں سے ہو جن کے متعلق میں نے اپنی لاعلمی کا اظہار پہلے ہی کر دیا ہے.بہر حال نظم خوب کہی ہے.ماشاء اللہ چشم بد دور.اللہ آپ کے زور قلم کو اور بڑھائے اور صحت و سلامتی سے رکھے.لندن/8.5.89 الفضل کے 24 اپریل کے شمارہ میں آپ کی نظم پڑھی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو جو قدرت کلام عطا ہوئی ہے، اس کے چرچے تو مدتوں پہلے کالج کے زمانے کی شعروں کی محافل سے نکل کر عام ہو گئے اور کالج کے طلباء میں ہی نہیں بلکہ ربوہ کے دوسرے نو جوانوں میں جن کو کچھ ادبی ذوق تھا ، بہت ہی ہر دلعزیز ہوئے.آپ کے کلام میں انفرادیت اور اپنی خاص منفرد شخصیت کی چھاپ ہمیشہ نمایاں دکھائی دیتی ہے.لیکن یہ کلام جو الفضل میں شائع ہوا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ خاص طبیعت کی لہر میں کہا گیا ہے اور عام کلام سے بلند قامت ہے.اس کلام کو دیکھ کر مجھے وہ سفر یاد آ گیا جو آپ کے ساتھ غالباً 1945ء میں تبت کی سرحد کی جانب اختیار کیا تھا.لائنگ پاس سے گزرکر لاہول کی وادی میں آپ کی قیادت میں کالج کے طلباء کے ساتھ میں بھی شامل تھا.وہ علاقہ سطح مرتفع ہے جس کی بلندی کم از کم 10 ہزارفٹ بلند ہے لیکن سطح مرتفع سے بھی بلند تر پہاڑوں کی چوٹیاں نکلی ہوئی ایک عجیب رعبناک منظر پیدا کرتی تھیں.پس آپ کا کلام بالعموم سطح
۲۸ مرتفع ہے لیکن یہ نظم اس سطح مرتفع سے بلند ہونے والی ایک چوٹی ہے.کس کس شعر یا مصرعے کا حوالہ دوں.”جنگل میں جس طرح ہوں گوالے پڑے ہوئے“ یا ”جیسے ،، سمندروں میں ہمالے پڑے ہوئے.یا پھر اچانک قافیے کا ایک چونکا دینے والا استعمال جو اس مصرعہ میں ملتا ہے.”جونم بھی راہ میں ہوں اٹھالے پڑے ہوئے“.یہ مصرعے خود اپنی ذات میں ویسا ہی منظر پیدا کر رہے ہیں کیونکہ پہلا مصرعہ اگر سطح مرتفع ہے تو یہ مصرعے اس سے نکلی ہوئی چوٹیاں ہیں.آپ نے تو سمندروں میں بھی ہمالے ڈال دیئے لیکن ان سب میں جو غیر معمولی طور پر پیارا شعر ہے مجھے لگا ، وہ یہ ہے کہ اترا تھا چاند شہر دل و جاں میں ایک بار اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے خدا تعالیٰ کے فرستادہ بندوں کی آمد کے بعد حقیقت میں بالکل یہی منظر مدتوں دکھائی دیتا رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آئے ہوئے ایک صدی بیت گئی لیکن آج تک ہمارے آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے ہیں.ماشاء اللہ چشم بد دور.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.عمر و صحت میں برکت دے اور اس قادر الکلامی کو مزید تقویت اور جلا بخش دے.عید مبارک ہو.لندن /22.6.1990 ☆☆☆ روز نامہ الفضل کے شمارہ 3 فروری میں آپ کی نظم ” تضمین “ بہت اعلیٰ پایہ کی نظم ہے اور قابل داد ہے.ماشاء اللہ چشم بد دور.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت عمدہ ملکہ عطا فر مایا ہے.اس نظم کا ہر شعر قابلِ ستائش ہے.لیکن اس شعر کا کیا کہنا.پر تاج ہم نے پہن کے کانٹوں کا دار استراحت کی
۲۹ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی عطا فرمائے اور اپنا عبد بنائے اور حامی و ناصر ہو.10.6.1989 تھا.☆☆☆ آپ کا دلچسپ اور اداس خط ملا جس پر عبدالسلام اختر مرحوم کا یہ شعر صادق آ رہا یکھ اُفق پر گھٹا جو ہے اس میں کچھ اندھیرے ہیں، کچھ اجالے ہیں جو شعر آپ نے طبع نہیں کروائے اُن میں سے پہلے کو چھپارکھنے کا تو کوئی جواز ہی نہیں سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ " وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے ’ سائے کا ایسا انوکھا اور برمحل استعمال پہلے کبھی اردو ادب میں نہیں ہوا.جن پریشانیوں کا آپ نے ذکر فرمایا ہے وہ میرے دل کو بھی لاحق ہوگئی ہیں.انشاء اللہ مقدور بھر کوشش بھی کروں گا اور دعا بھی.آپ سب کے حوصلے اور صبر پر حیرت زدہ ہوں.یہاں الفاظ کی دلداری کام نہیں آتی.دعا ہی ہے جو مقبول ہو جائے تو اعجاز دکھاتی ہے.ورنہ دوا کی حد سے بھی بات بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے.گذشتہ خط میں یاد نہیں بطور خاص ایک شعر کا ذکر کیا تھا یا نہیں.اس کی چاندنی اب تک میرے دل کے آنگن پر پھیلی پڑی ہے.شاعری ایسے حسن کی مایہ میں شاذ شاذ ہی دھلا کرتی ہے.اترا تھا چاند شہر دل و جاں میں ایک بار اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے
۳۰ لندن/1993/ہش 7.5.1372 آپ کا سارا کلام ہی ماشاء اللہ ایک خاص اپنا سا انداز رکھتا ہے اور جس میں امتیازی رنگ پایا جاتا ہے لیکن آپ کے کلام میں بھی پھر بعض شعر بعض شعروں پر سبقت لے جاتے ہیں.2 فروری کے الفضل میں شائع ہونے والی نظم کے حسب ذیل چار شعر تو مجھے بہت ہی پسند آئے ہیں.ماشاء اللہ.اللہ آپ کے کلام کا حسن اور بھی بڑھائے اور اپنی جناب سے نور عطا کرے.آپ کو آئینوں کا بہت شوق ہے.میری آنکھوں کے آئینے میں ذرا اپنے کلام کا چہرہ دیکھیں.گلشن کا نہ تھا قصور اس میں موسم ہی نہیں بدل رہا تھا اس شور زمیں میں پیٹر تم کا جیسا بھی تھا پھول پھل رہا تھا جنت کا شجر تھا اور اس کے سائے میں گناہ پل رہا تھا رونا تو وہ چاہتا تھا لیکن آنسو ہی نہیں نکل رہا تھا 24 جنوری کے الفضل میں چھپنے والی نظم کا یہ پہلا شعر بھی بہت ہی اعلیٰ درجہ کا ہے.تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے واہ واہ سبحان الله نظر کی بھیک بھی تجھ سے پکار کر لیتے میرے علم میں کسی نے نظر پر اعتبار کے مضمون کو اس طرح نہیں باندھا جس طرح
۳۱ آپ نے باندھا ہے.اسی نظم کے حسب ذیل شعر بھی ماشاء اللہ بہت عمدہ ہیں اور انھیں پڑھ کر بہت محظو ظ ہو ا ہوں.وہ راہ چلتوں سے قول و قرار کر لیتے وفا کا عہد تو ان سے سنوار کر لیتے (اللہ اکبر) یہ قافلے جو کھڑے ہیں انا کی سرحد پر کسی بہانے سے سرحد کو پار کر لیتے نظر نہ آتے بگولے کبھی سرِ صحرا ہوا کے رخ کو اگر اختیار کرلیتے اللہ آپ کو صحت و عافیت والی فعّال اور بامراد لمبی عمر عطا فرمائے اور ہمیشہ اس کے پیار کی نظریں آپ پر پڑتی رہیں.خدا حافظ و ناصر ہو.لندن/1993/ہش 5.2.1372 ☆☆☆ الفضل کے 19 دسمبر 1992 ء اور 24 جنوری 1993ء کے شمارہ میں آپ کی جو نظمیں شائع ہوئی ہیں ان میں بعض تو بہت ہی چوٹی کے اشعار ہیں.ویسے تو آپ کا سارا کلام ہی ایک امتیازی شان لیے ہوتا ہے اور ہمیشہ دل پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے لیکن ان شعروں کی تو بات ہی کچھ اور ہے.پر اثر ، دل نشیں اور روح پر وجد کی سی کیفیت پیدا کرنے والے.ماشاء اللہ.چشم بد دور.کیا خوب فرمایا ہے.عہد کا کرب مکمل نہیں ہونے پاتا یہ دھواں وہ ہے جو کا جل نہیں ہونے پاتا تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے بھی بہت خوب ہے.بڑی مشکل بحر میں آپ نے
۳۲ حیرت انگیز مضمون باندھا ہے.اسی طرح ”وفا کا عہد تو ان سے سنوار کر لیتے “ والا بھی خوب مصرع ہے اور اس شعر میں تو آپ نے کمال ہی کر دیا ہے.نظر نہ آتے بگولے کبھی سر صحرا ہوا کے رخ کو اگر اختیار کر لیتے ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ مضمون ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ساری نظم ہی بڑی بلند پایہ ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اللہ آپ کی ذہنی وقلبی صلاحیتوں کو مزید مستقل فرمائے.خدا ☆☆☆ حافظ و ناصر ہو.24.4.91 آپ کا دل تو درد میں ڈوبا ہوا ہمیشہ سے تھا ہی اب جسم بھی دردوں سے کراہنے لگا.حیراں ہوں دل سنبھالوں کہ تھپکوں بدن کو میں صلیب عشق پر چڑھے ہوئے آپ کو عمر گزرگئی، نہ پھول برسے نہ گڑھے پڑے.لیکن انسانوں کے پھول برسانے سے بنتا بھی کیا ہے.میری دعا ہے کہ اللہ آپ پر اپنی رحمت کے پھول برسائے ، اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی.ایک غم تو نہیں جو آپ سینے سے لگائے پھرتے ہیں.عزیزوں نے تو اپنی اپنی صلیب اٹھارکھی ہے.آپ نے سب عزیزوں کی صلیبیں اٹھائی ہوئی ہیں.پھول بھی تو اتنے ہی برسنے چاہئیں.آپ کا کلام دن بدن زیادہ بلند اور زیادہ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے.دل کے بخارات رفعتوں سے گہرے پانیوں پر پانی برساتے ہیں.سطحی نظر سے دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ گہرے پانی پر سکون ہوتے ہیں.کبھی اتر کر دیکھیں تو دیکھیں کہ طوفان نے آفت مچا رکھی ہے.اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے اور سمندر دل کو گہری سکینت سے بھر دے جو
۳۳ پاتال تک اتر جائے اور قرار پکڑ جائے.خوشا کہ تم سے ملاقات ہو گی جلسے پر خوشا کہ آؤ گے تم سب عزیزوں کو محبت بھر اسلام.میری اور آپ کی عاجزانہ دعائیں انہیں ماؤں کے دودھ کی طرح لگیں.☆☆☆ آپ کا پنجابی کلام احمد یہ گزٹ کینیڈا میں پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی ہے.دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آپ کے لیے دعا اور تحسین کے کلمات نکلے ہیں.بہت پیارے خیالات ہیں جن کو پنجابی لفظوں میں پروکر ایک خوبصورت مالا بنادیا ہے.جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء آپ ماشاء اللہ اردو ، انگریزی اور پنجابی میں قادر الکلام ہیں.اپنی ان خداداد صلاحیتوں کو کاغذوں میں محفوظ کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ توفیق دے اور زندگی با برکت ہو.سب کو محبت بھر اسلام اور عید مبارک.لنڈن /6.2.92 ✰✰✰ پیار اور خلوص کا جو تحفہ آپ قادیان میرے لیے چھوڑ گئے تھے وہ لنڈن آ کر ملا، آپ نے لطف کے کوزوں میں کتنے ہی دریا بند کر کے بھیجے ہیں جو منالی سے گلو تک کی سٹرک کے ساتھ ساتھ بہتے ہوئے دریائے بیاس کی یاد تازہ کرتے ہیں.آپ بھولے تو نہیں ہوں گے.بھول سکتے بھی نہیں.کروٹ کروٹ وہ نئی نئی جنت دکھاتا تھا.اب بھی دکھاتا ہوگا مگر ہمیں کیا.قادیان میں کئی بار خیال آیا کہ آپ ساتھ چلیں تو ایک بار پھر وہاں ہو آئیں.آپ کی شاعری کو ایک نیا جنم مل جائے.ویسے نئے جنم کی اسے کوئی ضرورت تو نہیں ہے.ماشاء اللہ سدا بہار.بڑھاپے کی عقل اور جوانی کے ولولوں کو مدغم کئے ہوئے.
۳۴ فقیری میں شاہی کرتی ہوئی.کبھی خاموشی کوصدا بناتی ہوئی کبھی صداؤں کو بے آواز کرتی ہوئی کیٹس (Keats) کے گریشن ارن (Greecion Urn) کی تمثال دار.صاف گوئی میں اپنی مثال آپ.مبالغہ بھی کرے تو حقیقت کا گمان گزرے.کواکب کی طرح بازی گر.میرے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا اگر اپنے متعلق ہی سمجھ کر پڑھتا تو آپ کے شعروں کا کیا خاک لطف اٹھاتا.میں تو غالب ہی کے اس مصرعہ میں ڈوبا رہتا.اور میں وہ ہوں کہ گرجی میں کبھی غور کروں ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے ان ملبوسات ہی سے لطف اندوز ہوتا رہا جو بے جان پیکروں کو بھی زینت بخشتے ہیں.اسی تمنا میں جیتا اور مرتا ہوں اور یہی آپ میرے لیے دعا کیا کریں کہ دم نکلنے سے پہلے نفخ روح ہو جائے.وہ دم نکلے جو پیش کرنے کے لائق ہو.11.11.1989 چند ہفتے پہلے سہیل شوق صاحب کا وہ مقالہ پڑھنے کا لطف میسر آیا جو آپ کے بارہ میں تھا.مختصر مگر جی لگتا تھا.گو تمہید انہوں نے کچھ زیادہ ہی لمبی باندھی.آپ کو کلاسیکی اساتذہ سے ملانے کے لیے اتنے پر بیچ راستہ کی کیا ضرورت تھی.آپ کو تو لوگ گلی گلی جانتے ہیں گو پوری طرح نہ سہی.”خطا کار بے ہنر کے طور پر نہ سہی ”خود دار غم شناس“ کے طور پر تو سبھی آپ کے شناسا ہیں.آپ کا کلام ہمیشہ سے اچھا ہے مگر اب کچھ اور بھی اچھا ہو گیا ہے.یہ وہ زمین تھی جو آسماں سے اتری تھی وہ حوالہ تھا جو بار بار دینا تھا
۳۵ وہ اک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں اسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا تم اپنے آپ سے ملتے اگر اکیلے تھے کڑا تھا وقت تو ہنس کر گزار دینا تھا وہ برگزیدہ شجر لڑ رہا تھا موسم سے کہ پھولنا تھا اسے، برگ وبار دینا تھا اٹھائے پھرتے ہو مضطر اجاڑ گلیوں میں یہ سر کا بوجھ تو سر سے اتار دینا تھا ایک بہت اعلیٰ پائے کی غزل میں یہ چند اشعار جو اوپر لکھے ہیں بہت زیادہ اچھے لگے.ہاں ایک دو جگہ دوسری قراءت کی گنجائش بھی پائی.حسینوں کو تو سبھی کا فر قرار دیتے ہیں، ورنہ اکثر.اسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا میں ایک اپنی شان اور قوت ہے اور بڑا چست مصرعہ ہے مگر اقتضائے حال کے مطابق نہیں.”اسے تو لاکھوں نے کافر قرار دینا تھا اپنی ذات میں ویسا بانکا مصرعہ نہیں مگر اقتضائے حال کے زیادہ مطابق ہے بلکہ اسے کروڑوں نے کا فرقرار دینا تھا.“ مقطع بھی بہت بلند ہے لیکن اگر میری بات کو سخن گسترانہ خیال نہ فرما ئیں تو اس کے دوسرے مصرعہ کو میں کچھ اس طرح پڑھ لیا کروں.یہ سر تھا بوجھ، تو یہ بوجھ اتار دینا تھا آپ کی اس غزل کا مزاج بہت انوکھا اور پیارا ہے.وہ دن یاد آ گئے جب لاھول کوہ پیمائی کے لیے آپ کے ساتھ گئے تھے.جس طرح آپ ان دنوں ہمیں ڈانٹا کرتے
۳۶ تھے اسی ادا سے اس غزل میں اپنے آپ کو ڈانٹا ہے.قصور آپ کا نہیں ہمارا ہی تھا کیونکہ اس سفر میں مجھے یاد ہے.جھگڑے تھے پھول پھول ، لڑے تھی کلی کلی لندن/1990/ہش 26.6.1369 ہمیشہ کی طرح آپ کا کلام آپ کی اس ذات کا آئینہ دار ہوتا ہے جو سرسری نظر سے دکھائی نہیں دیتی مگر قریب رہ کر گہری نظر کے مطالعہ سے متعارف ہوتی ہے.اگر اس کلام کا وسیلہ نہ ہوتا تو آپ مجہول حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو جاتے.سوائے ان چند لوگوں کے جن میں میں بھی شامل ہوں آپ کے حسن مستور سے کوئی واقف نہ ہوتا.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں خالد میں شائع ہونے والی آپ کی نظم بعنوان ”ہر گلی کوچے میں اجلاس شبیہ ہوگا بہت ہی خوبصورت اور خوب سیرت ہے.یہ دل پر گہرا اثر کرنے والی نظم ہے.اسے پڑھ کر حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی خاص طور پر دعا کی تحریک ہوتی ہے اور آپ کے لیے بھی.اس کا ہر شعر اپنے رنگ میں ایک دلربائی رکھتا ہے لیکن مقطع ایک نئے زاویہ نگاہ سے ایک ایسی حقیقت کو دکھانے کا مطلع بن گیا ہے جو اس خوبصورت زاویے سے پہلے کسی نے شاید لوگوں کو نہ دکھائی ہو کشتی نوح میں بیٹھے تو ہو لیکن مضطر شرط یہ ہے یہیں مرنا یہیں جینا ہوگا وفا اور ثبات قدم کا مضمون خوب باندھا ہے.ماشاء اللہ.چشم بد دور.خدا حافظ! لندن /30.3.95 ☆☆☆ الفضل انٹرنیشنل کے 17 فروری اور 10 / مارچ کے شماروں میں آپ کی
۳۷ نظمیں پڑھ کر بے حد محظوظ ہو ا ہوں.ماشاء اللہ آپ آپ ہی ہیں.ہزاروں لاکھوں نے یہ مضمون باندھے ہوں گے مگر آپ کی تو ادا ہی الگ ہے.ماشاء اللہ.چشم بد دور.یہ شعر تو بہت ہی پسند آئے ہیں.دار پر شب گزر گئی ہو گی لوٹ کر کون گھر گیا ہو گا جانتا ہوں دعا کے موسم میں وہ اکیلا کدھر گیا ہو گا اس کی آواز کی صداقت پر لفظ لذت سے بھر گیا ہو گا آؤ دریا کی سیر کر آئیں اب تو پانی اُتر گیا ہو گا بہت ہی خوب اور تر و تازہ کلام ہے.واہ واہ ! کیا بات ہے آپ کی.اللہ آپ کے عرفان کو اور بھی بڑھائے.اس وقت جماعت کے شعراء میں خدا تعالیٰ نے آپ دونوں کو جو امتیازی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں وہ دوسرے شعراء خواہ مانیں یا نہ مانیں مگر میں چونکہ شعراء میں سے نہیں ہوں، میں مانتا ہوں.اپنی اپنی طرز میں آپ دونوں بعض دفعہ ایسی شان سے ابھرتے ہیں کہ لکھنے والوں کے قلم ٹوٹ جاتے ہیں.اللَّهُمَّ زِدْوَبَارِكُ.✰✰✰ یہاں پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مکرم عبید اللہ علیم مرحوم کا ذکر فرمایا.
۳۸ فرانس/23.5.89 آپ کی غزل ماہنامہ مصباح میں پڑھی ہے.بہت اچھی غزل ہے.دل پر گہرا اثر کیا ہے ، مگر یہ کوئی نئی بات نہیں.ہاں اس میں مقطع سے پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں یعنی سے اے رب ذوالجلال والمیزان بول بھی، کی بجائے ”اے رب ذوالجلال والاکرام ہوتا تو بہتر ہوتا.لیکن چونکہ آپ نے انصاف کا مضمون باندھا ہے ،اس لیے اندازہ ہو گیا کہ میزان پر کیوں آپ کا دل اٹکا اور کیوں قرآن کریم کے پر شوکت کلام اور عارفانہ محاورہ سے اک ذرا سا ہٹنا پڑا.مقطع میں لفظ ” دھل گئیں، چاہیے.غلطی سے ڈھل گئیں“ لکھا گیا ہے.الفضل میں شائع ہونے والے آپ کے کلام نے میرے لیے یادوں کے دریچے کھول دیے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے قلب و ذہن کو جلا بخشے اور لازوال رحمتوں سے نوازے.سب عزیزوں کو میر اسلام دیں.
۳۹ حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مکتوب گرامی بسم الله الرحمن الرحیم پیارے مکرم محترم چوہدری محمد علی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہوں گے.کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ دفتری خط و کتابت سے ہٹ کر بھی آپ کو خط لکھوں.آپ سے ایک پرانا تعلق بھی ہے اس حوالے سے دعا کے لیے بھی کہوں.چند دن ہوئے آپ کا پرانی یادوں کا پروگرام سنا.چند منٹ ہی گوسنا لیکن احساس ہوا کہ آپ بزرگوں کو اپنی پرانی یادداشتیں ضرور ر یکارڈ کروانی چاہئیں.پھر کل ایک مشاعرہ میں آپ کا خاص انداز کے ساتھ اپنا کلام پڑھنا سنا.ماشاءاللہ آواز سے تو نہیں لگتا کہ چوراسی پچاسی سال کا بوڑھا ہے.پھر جو کام آپ کر رہے ہیں اس عمر میں اور بعض عوارض کے باوجود اس سے آپ کی قدر اور بڑھتی ہے.کچھ بوجھ دوسروں پر بھی ڈالیں اور خود نگران بنیں.زیادہ پریشان نہ ہوا کریں.ہمیں ابھی آپ کی بہت ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر اور صحت میں بے انتہا برکت ڈالے.دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں.کل انشاء اللہ کینیڈا کے سفر پر جانا ہے.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد ( دستخط) 20/6/04 ☆☆☆
ام حرف وحكايت ( مکرم احمد ندیم قاسمی صاحب) سنا ہے کہ تلاش گم شدہ کے بعض اشتہارات بہت نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں.مثلاً مشہور ہے کہ ایک شخص کا بریف کیس چوری ہو گیا.اس نے پولیس میں رپٹ لکھوانے کی بجائے اخبار میں ایک اشتہار دیا جس کا مضمون کچھ اس طرح کا تھا.محترم چور صاحب قبلہ ! السلام علیکم آپ نے میرا بریف کیس چرایا ہے، اس میں میرے پاسپورٹ کے سوا جو کچھ بھی ہے دو بریف کیس سمیت اپنے پاس رکھیے مگر کسی طرح یہ پاسپورٹ مجھے بھجوادیجیے.چند اور کاغذات بھی ہیں.ان کا غذات میں سوسو کے چھ نوٹ بھی شامل ہیں.یہ بھی اپنے کام میں لائیے.بریف کیس پرانا ہے اس لیے آپ کو اٹھاتے ہوئے شرم آئے گی کیونکہ جب آپ چوری سے اتنا کچھ کما لیتے ہیں تو سوسائٹی میں آپ ماشاء اللہ بڑے معزز ہوں گے.چنانچہ اگر آپ کا کوئی برخوردار پرائمری میں پڑھتا ہے تو بریف کیس میری دعا اور پیار کے ساتھ اسے دے دیجیے.مجھے صرف میرا پاسپورٹ درکار ہے! اور سنا ہے کہ دوسرے ہی روز اس شخص کو اس کا پاسپورٹ رجسٹرڈ پارسل کے ذریعے موصول ہو گیا تھا.البتہ جب ہم مطالعے کی عینک بر وقت رکشا حاصل کرنے کی خوشی میں، رکشا ہی میں چھوڑ کر اتر گئے تھے تو ہم نے رکشا ڈرائیور کو مخاطب کر کے متعدد کالم لکھے.پھر ان سواریوں کو مخاطب کیا جو ہمارے بعد اس رکشا میں بیٹھی ہوں گی.ہم نے ان کی شرافت و نجابت
۴۲ کے قصیدے پڑھے اور انہیں یہ بھی سمجھایا کہ اگر وہ ہماری عینک کو اپنے استعمال میں لائے تو انہیں اپنی آنکھوں کا نمبر بدلوانے کا تر ددکرنا پڑے گا.مگر افسوس کہ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور ہم اپنی اس یادگار عینک سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے.اب ہمارے ایک کرم فرما جناب محمد علی چودھری نے ، جو ایف سی کالج لاہور میں شعبہ فلسفہ کے صدر ہیں ہمیں مطلع کیا ہے کہ دوماہ سے زیادہ عرصہ گزرا ان کا بریف کیس ایک دوست کی بظاہر مقفل گاڑی میں سے پولیس چوکی سمن آباد سے تین چار فرلانگ کے فاصلے پر چوری ہو گیا.اخبارات میں اشتہارات دیئے، انعامات کا بھی اعلان کیا لیکن بریف کیس نہ ملا.چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ بریف کیس میں نہایت قیمتی کا غذات تھے.اگر یہ کا غذات ہی کسی طرح انھیں واپس مل جاتے تو چوری کے دکھ میں معتد بہ افاقہ ہوجاتا.ان کی خواہش پر ہم محترمی چور صاحب سے اپیل کرتے ہیں کہ بریف کیس بے شک اپنے پاس رکھیے مگر چودھری صاحب کے کاغذات واپس فرما دیجیے.آر عنداللہ ماجور ہوں گے.ہمیں یقین ہے کہ جب چور صاحب ان کا غذات کی تفصیل سنیں گے تو ان کی واپسی کے لیے بے چین ہو جائیں گے.بات یہ ہے کہ جناب محمد علی چودھری شاعر بھی ہیں.چنانچہ وہ اپنی ان تقریباً تین درجن غزلوں کو بھی قیمتی کا غذات میں شامل فرماتے ہیں.ستم یہ ہے کہ یہ بھی غزلیں غیر مطبوعہ ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ شاعر کے ذہن سے یہ غزلیں محو ہو چکی ہیں.چنانچہ ان کا وجود اگر کہیں ہے تو اس بریف کیس میں ہے جو شاعر صاحب سے چورصاحب کو منتقل ہو چکا ہے.ہم اس اپیل میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر چور اتفاق سے شاعر
۴۳ بھی ہے تو مقطع میں اپنا تخلص داخل کر کے انہیں کم سے کم چھپواہی دے تا کہ چودھری صاحب کو یہ تسلی تو ہو کہ ان کی کاوش مکمل طور پر غارت نہیں ہوگئی.البتہ چور کو اپنا خلص داخل کرتے ہوئے عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے جیسے ایک شاعر متخلص بہ گنہ گاڑ“ نے لیا تھا کہ ایک پرانے شاعر مصحفی کی غزل چرائی اور اپنا تخلص یوں شامل کیا کہ مصرع بحر سے خارج ہو کر ساحل پر جا پڑا مصحفی کا مصرع تھا:.مصحفی! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم آپ نے اسے یوں اپنایا :- گنہگار! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم جناب محمد علی چودھری فلسفی ہیں اس لیے بہت سادہ مزاج ہیں.سوفر ماتے ہیں کہ ممکن ہے چور صاحب نے یہ کا غذات بریف کیس میں سے نکال کر پھینک دیے ہوں اور کسی راہ چلتے کومل گئے ہوں، چنانچہ ان راہ چلتے صاحب سے بھی گزارش ہے کہ اگر وہ یہ کا غذات اور مسودات چودھری صاحب کو واپس کر دیں تو وہ ان انعامات کے مستحق ہوں گے جن کا اس سے قبل چوری کے اشتہار میں اعلان کیا جا چکا ہے.کچھ کر لو نوجوانو! اٹھتی جوانیاں ہیں امروز - 28 ستمبر، 1977ء)
1 قُلُ هُوَ اور ہے اس کی نہ حد الله أَحَدُ ہیں محتاج ذات ہے اس کی صمد یکه و تنہا ہے وہ اس کا والد نہ ولد لا کا ہے اثبات وہ نفی ہے اس کی نہ رو اس کے در کے ہیں فقیر پست و بالا، نیک و بد کون ہے اس کے سوا معتبر اور مستند اس کے حرف و صوت و لفظ زیر و پیش، مد و شد
2 اس کے سارے انقلاب جذر سارے ، سارے مد حساب اس کے حساب ہر عدد اس کا عدد وقت ہے اس کا غلام ہر ازل اور ہر ابد عشق اس کا معجزہ عقل اس کے خال و خد ہے خبیر وہ اور میں ہوں ناداں ، نابلد اے مری جاں کی پسند! الغياث الْمَدَدُ !
3 آؤ حسن یار کی باتیں کریں یار کی، دلدار کی باتیں کریں اک مجسّم خُلق کے قصے کہیں احمد مختار کی باتیں کریں کہیں جس کو سب سرکارِ دو عالم ہم اسی سرکار کی باتیں کریں اک گل خوبی کا چھیڑیں تذکرہ حسن خوشبودار کی باتیں کریں غلط ہو جائیں سب کونین کے جب بھی اس غمخوار کی باتیں کریں جس کی ستاری پہ دل قربان ہے ہم اسی سٹار کی باتیں کریں پھر غم جاناں کی چادر اوڑھ کر غم کے کاروبار کی باتیں کریں
4 حسن سے حسنِ طلب کی داد لیں عشق کی، تکرار کی باتیں کریں یار ہے آمادہ لطف و کرم کیوں عبث انکار کی باتیں کریں پھر بہار آئی ہے اک مدت کے بعد پھر گل و گلزار کی باتیں کریں غیر کو جلنے دیں اس کی آگ میں مسکرائیں، پیار کی باتیں کریں پی لیا دریا کا پانی ریت نے آؤ دریا پار کی باتیں کریں شب گزیدو! آؤ مل کر صبح تک صبح کے آثار کی باتیں کریں صبح ہونے کو ہے مضطر! آئیے مطلع انوار کی باتیں کریں
LO 5 جاگ اے شرمسار! آدھی رات اپنی بگڑی سنوار آدھی رات یہ گھڑی پھر نہ ہاتھ آئے گی باخبر ، ہوشیار! آدھی رات وہ جو بستا ہے ذرے ذرے میں کبھی اس کو پکار آدھی رات اس کے دربار عام میں جا بیٹھ سب لبادے اتار آدھی رات دو گھڑی عرض مدعا کر لے وقت ہے سازگار آدھی رات باب رحمت کو کھٹکھٹانے دے میرے پروردگار! آدھی رات شدت غم میں کچھ کمی کر دے اب تو اے غمگسار! آدھی رات...آدھی کو پنجابی لفظ ادھی کے معنوں میں سمجھا جائے.
کھلتے کھلتے کھلے گا باب قبول عرض کر بار بار آدھی رات اپنے داتا کے در پہ آیا ہے ایک امیدوار آدھی رات ہوش و صبر و قرار کا دامن ہو گیا تار تار آدھی رات میری فریاد کا جواب تو دے بول اے کردگار! آدھی رات بے کسوں کو تری کریمی کا آ گیا اعتبار آدھی رات اشک در اشک جھلملانے لگا میرا قرب و جوار آدھی رات کس لیے بے قرار ہے مضطر کس کا ہے انتظار آدھی رات
7 گھر اہوا تھا میں جس روز نکتہ چینوں میں بے لحاظ کھڑا تھا تماش بینوں میں وہ وہ کشمکش ہوئی انکار کے قرینوں میں رہا نہ فرق شریفوں میں اور کمینوں میں مری خبر سرِ اخبار چھاپنے والا ملا تو ڈوب گیا شرم سے پسینوں میں وہ اپنے عہد کی آواز کا ڈرایا ہوا کھڑا تھا صورتِ دیوار ہم نشینوں میں نحیف روح بلکتی رہی کنارے پر بدن کا بوجھ بہا لے گئے سفینوں میں ق یکس کے عکس کی آہٹ مکان میں آئی یہ کون ہولے سے اترا ہے دل کے زینوں میں
8 وہی لباس، وہی خدوخال ہیں اس کے وہ ایک پھول ہے خوشبو کے آبگینوں میں کبھی تو اس سے ملاقات ہو گی جلسے پر کبھی تو آئے گا وہ وصل کے مہینوں میں صلیب عشق پہ چڑھنے کی دیر تھی مضطر ! وہ پھول برسے، گڑھے پڑ گئے زمینوں میں
9 مصروف ہے سینوں میں اک آذر پوشیدہ کچھ بت ہیں تراشیدہ ، کچھ غیر تراشیده ان عقل کے اندھوں کو اللہ ہدایت دے جو کام کیا الٹا ، جو بات کی پیچیدہ ڈر ہے تو یہی ان کو، بیدار نہ ہو جائے مخلوق خدا کی جو مدت سے ہے خوابیدہ ق اس حسن مجسم نے مسحور کیا سب کو اپنے بھی غلام اس کے، بیگانے بھی گرویدہ اس جانِ تمنا کو، اس غیرت محفل کو چاہا بھی تو در پرده ، دیکھا بھی تو دزدیده تعریف سے بالا ہے، توصیف سے مستغنی ہر بات حسیں اس کی ، ہر کام پسندیدہ تھا شور بپا اتنا کل بزم نگاراں میں جب ذکر چھڑا اس کا سب ہو گئے سنجیدہ
10 ان سرخ ستاروں کو پلکوں میں پرولیں گے سجدوں میں سمو لیں گے ہم اے دل شوریدہ! ہم پہ جو گزرتی ہے معلوم ہے سب اس کو حالات ہمارے تو اس سے نہیں پوشیدہ پوچھیں تو دکھا دینا جو داغ میں فرقت کے یا پڑھ کے سنا دینا مکتوب دل و دیدہ ہم بھی کبھی جائیں گے دربار محبت میں ترسیده و لرزیده، غلطیده و لغزیده با ایں ہمہ دلداری، با ایں ہمہ ستاری مضطر ! وہ کہیں تم سے ہو جائیں نہ رنجیدہ
11 کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے پیاسوں کے درمیاں ہیں پیالے پڑے ہوئے آندھی بھی ہے چڑھی ہوئی ، نازک ہے ڈور بھی کچھ بیچ بھی ہیں اب کے نرالے پڑے ہوئے یہ مقبرے نہیں ہیں شہیدان عشق کے ایفائے عہد کے ہیں حوالے پڑے ہوئے اترا تھا چاند شہر دل و جاں میں ایک بار اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے رہزن کو بھی فرار کا رستہ نہ مل سکا چاروں طرف تھے قافلے والے پڑے ہوئے تیرے لیے ہی اترے ہیں یہ آسمان سے جو غم بھی راہ میں ہوں اٹھالے پڑے ہوئے آمادگی کا نور غزل خواں ہے آنکھ میں فرط حیا سے لب پہ ہیں تالے پڑے ہوئے
12 اشکوں میں ہیں آنا کی چٹانیں چھپی ہوئی جیسے سمندروں میں ہمالے پڑے ہوئے رہزن کا یوں پڑاؤ ہے رادھا کے کنڈ پر جنگل میں جس طرح ہوں گوالے پڑے ہوئے دل سر بہ مہر ، کانوں میں روٹی بھری ہوئی آنکھوں میں اختلاف کے جالے پڑے ہوئے باہر اٹھا کے پھینک دیے بت غرور کے کب سے تھے یہ مکان میں سالے پڑے ہوئے تجدید عہد کے لیے پڑھتا ہوں بار بار گھر میں ہیں کچھ پرانے رسالے پڑے ہوئے مضطر کو فکر عصمت ایمان و آگہی یاروں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے
13 صلہ کوئی تو سر اوج دار دینا تھا نہیں تھا پھول تو پتھر ہی مار دینا تھا حریف دار بھی پروردگار! دینا تھا نہ دیا تھا غم تو کوئی غمگسار دینا تھا وہ زمین تھی جو آسماں سے ے اتری تھی وہ حوالہ تھا جو بار بار دینا تھا وہ اک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں اسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا میں اپنی تنگی داماں کا عذر کیا کرتا وہ دے رہا تھا، اُسے بے شمار دینا تھا تم اپنے آپ سے ملتے اگر اکیلے تھے کڑا تھا وقت تو ہنس کر گزار دینا تھا نہیں بتانا تھا لوگوں کو اپنا نام پتا سر صلیب کوئی اشتہار دینا تھا
14 وہ بے لحاظ بھی کہتا کبھی خدا لگتی اسے بھی زخم کوئی مستعار دینا تھا وہ برگزیدہ شجر لڑ رہا تھا موسم سے کہ پھولنا تھا اسے برگ و بار دینا تھا ہمیں بھی عہد کے انجام سے تھی دلچپسی کہ ہم فقیروں کا اس نے ادھار دینا تھا اٹھائے پھرتے ہو مضطر ! اجاڑ گلیوں میں یہ سر کا بوجھ تو سر سے اُتار دینا تھا...حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت اس کی اصلاح یوں فرمائی.یہ سر تھا بوجھ تو یہ بوجھ اتار دینا تھا
15 اٹھتے اٹھتے نقاب چہروں کے ڈھل گئے آفتاب چہروں کے ہم سے پوچھو عذاب چہروں کے ہم بھی تھے ہمرکاب چہروں کے ہم ہیں قاری صحیفہ رخ کے ہم ہیں اہل کتاب چہروں کے ہم نے دیکھے ہیں جاگتی آنکھوں خواب در خواب خواب چہروں کے ذہن کے پار تک ہیں پھیلے ہوئے سلسلے بےحساب چہروں کے گئے لقمہ نہنگ نظر کیسے کیسے گلاب چہروں کے شیخ پکڑے گئے سر بازار منتظر تھے جناب چہروں کے
16 رنگ لا کر رہیں گے بالآ خر یہ سوال و جواب چہروں کے بات دل کی زباں یہ آ نہ سکی دیکھ کر اضطراب چہروں کے ان کو آزردہ دیکھ کر مضطر! رنگ بدلے شتاب چہروں کے
17 تان کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا کیا دم اگر گھٹنے لگا تو ہاتھ سے پنکھا کیا کھٹکھٹانے پر بھی دل کا وا نہ دروازہ کیا ہم نے ہر حالت میں اپنے آپ سے پردہ کیا مشتعل چہرے اندھیری رات میں جلتے رہے بوند پانی کی نہ برسی، شہر نے فاقہ کیا لوگ دیواروں کے رستے انجمن میں آگئے خود بھی رسوا ہو گئے، اوروں کو بھی رسوا کیا تیری دنیا دائره در دائره در دائره دائروں کے دیس میں ہم نے سفر تنہا کیا رات کو شیشہ دکھا کر شہر کی تصویر لی دور تک کھڑکی کے رستے چاند کا پیچھا کیا تم تو اک پتھر گرا کر مسکرا کر چل دیے وقت کا ویران سینہ مدتوں گونجا کیا آہٹیں درانہ در آئیں سسکتی ہانپتی میں نے جب سنسان کمرے میں ترا چرچا کیا رات غم کی داستاں ہم بھی یہ مضطر سن سکے بات لمبی ہو گئی تھی، نیند نے غلبہ کیا (۱۹۵۸-۵۹ء)
18 ہری بھری گلفام ہیں نیلی پیلی ہیں دل کے دیس کی پریاں رنگ رنگیلی ہیں بھنورے بن باسی کیوں بن کو چھوڑ گئے پھولوں کے خیمے چاک، طنابیں ڈھیلی ہیں خواہش کے خاموش پہاڑو! سانس نہ لو بادل کا دل بوجھل، پلکیں گیلی ہیں چاند پت جھڑ کے جاسوس چمن میں پھیل گئے چاند کا چہرہ زرد ہے، کلیاں پیلی ہیں کھلے، خورشید جلے، دل خون ہوئے منزل اوجھل ہے، راہیں چمکیلی ہیں کس کس کی تعمیل کروں، کس کی نہ کروں آنکھوں کے احکام بہت تفصیلی ہیں موت کے بعد تو لوگو! چین سے سونے دو خاک میں جا لیٹے ہیں، آنکھیں سی لی ہیں ساقی! صاف بتا دے کون سا جام پیوں آنکھیں امرت ہیں، زلفیں زہریلی ہیں مضطر ! اب طوفان میں جیسے جان نہیں دریا دھیما ہے، لہریں شرمیلی ہیں (۱۹۵۱،۵۲ء)
19 چاند نگر کے چشمے خون اگلتے ہیں دریا سوکھ گئے ہیں، ساحل جلتے ہیں جھیلوں کے پردیسی بھیگی راتوں میں رک رک کر رٹے کے پلوں پر چلتے ہیں بارش ہو تو دھو لیتے ہیں چہروں کو دھوپ کھلے تو بھوک کا غازہ ملتے ہیں جاگنے والے! اشکوں کی آواز نہ سن آنکھ کے سورج ڈھلتے ڈھلتے ڈھلتے ہیں یاروں نے تو کب کا ملنا چھوڑ دیا دشمن ہفتے عشرے آن نکلتے ہیں جا رہنے کو شہر بھی ہیں، ویرانے بھی ان کی گلی میں جاؤ تو ہم بھی چلتے ہیں دل کے ہاتھوں کس نے سکھ کا سانس لیا دوست پریشاں حال ہیں، دشمن جلتے ہیں ہم سیلانی، تم مالک ہو شہروں کے عیش کرو ، آرام کرو.ہم اپنے بیگانے حیران ہیں مدت سے حضرتِ مضطر گرتے ہیں نہ سنبھلتے ہیں (۱۹۵۵ء) چلتے ہیں
20 20 تنہائی دیدہ و دل میں گھول رہے ہیں درد کے اوقیانوس مجبوروں کے ایشیا اور مزدوروں کے رُوس تنہائی میں جل اُٹھے ہیں یادوں کے فانوس یاد کی جوت جگائی تنہائی 6 تنہائی بنجر ٹیلوں میں اُگ آئے خواہش کے شہتوت حال کے گلشن میں لا رکھا ماضی کا تابوت بزمِ طرب میں ڈرتے ڈرتے آیا ایک اچھوت کیوں ڈرتے ہو بھائی! تنہائی 6 تنہائی پت جھڑ کے طوفان میں پہلے پتے ہیں مجبور وقت کا سینہ کھود رہے ہیں لمحوں کے مزدور تنہائی میں چاند نے چوسے اشکوں کے انگور آگ سے آگ بجھائی تنہائی تنہائی
21 چور دھیان کی ٹہنی ٹہنی پر رقصاں ہیں من کے مور لفظوں کے دروازے توڑ رہے ہیں گونگے دشت کے سینے میں برپا ہے تنہائی کا شور قیس نے ٹھوکر کھائی تنہائی تنہائی شعر کے گورے گال نکلا تنہائی کا تل لفظوں کے درویش کھڑے ہیں اُٹھ عزت سے مل یاد کی گت پر ناچ رہے ہیں دروازوں کے دل چیختی ہے تنہائی شہنائی تنہائی یہ کس کی تصویر کو جھک کر چوم رہے ہیں چاند نیند کی نیا ڈول رہی ہے جھوم رہے ہیں چاند پانی کے پردیس میں تنہا گھوم رہے ہیں چاند پار تنہائی یون لہرائی تنہائی کوٹھوں پر یوں سیر کو نکلی ہیں کس کی آشائیں نچلی منزل والوں سے کہہ دو اوپر مت آئیں تھک جائیں تو بھیگی آنکھوں سے تلوے سہلائیں گھورتی ہے گہرائی تنہائی تنہائی
اله 22 روما کی دیواروں سے رہتی ہے خون کی ہے سیزر کو جب مار چکو، بولو سیزر کی ہے مصر کے مردہ خانوں میں اک ممی بول رہی ہے ہنستا تنہائی ہے سودائی 6 تنہائی وقت کی نیلی جھیل میں اُٹھا لمحوں کا طوفان انسانوں سے آن ملیں گے پھر واپس انسان صحرا کے سینے میں جاگے آس کے نخلستان دشت میں آندھی آئی تنہائی (۱۹۵۱-۵۲ء) تنہائی
23 23 چراغ دشت کی لو ہل گئی ہے سواری دل کی بے منزل گئی بڑی بے کیف تھی ہے شام غریباں تم آئے ہو تو جیسے کھل گئی ہے جو اٹھی ہے کبھی مجبور ہو کر صداؤں میں صدا گھل مل گئی ہے تری محفل میں میری نگہ گستاخ جھگڑ نے آئی تھی قائل گئی ہے اسے اس کی شہنشاہی مبارک مجھے میری فقیری مل گئی ہے کوئی ڈوبا نہ ہو دریا میں مضطر! بڑی خلقت سوئے ساحل گئی (۱۹۵۴ء)
24 مان ہجوم رنگ سے گھبرا گئی ہے صبا گلشن باہر آ گئی سے باہر ہے بھنور سے پڑ گئے خاموشیوں میں صداؤں سے صدا ٹکرا گئی ہے غم دوراں کے دھندلے غمکدوں میں تری تصویر بھی دھندلا گئی ہے ستاروں کے کنارے گھس گئے ہیں اُجالوں کی نظر پتھرا گئی ہے گوالے رک گئے ہیں راستوں میں یہ کس سے روٹھ کر رادھا گئی ہے غریب شہر نے کس کو پکارا بڑی گہری خموشی چھا گئی ہے تمنا کی پری سپنے میں مضطر! سہاروں کی جبیں سہلا گئی ہے
25 وہ بولتا ہے تو سارا جہان بولتا ہے زمین بولتی ہے، آسمان بولتا ہے رہائی ملتی ہے آواز کو اسیری سے ہزار سال کے بعد آسمان بولتا ہے صدا اسی کی ہے لیکن ازل کے گنبد میں کبھی مکان، کبھی لامکان بولتا ہے وہ ایسے بول رہا ہے وجود میں میرے کہ جیسے مالک کون و مکان بولتا ہے دل و نگاہ کے عیسیٰ ہیں گوش بر آواز سرِ صلیب کوئی ہم زبان بولتا ہے خموش بیٹھے ہیں دونوں اُجاڑ کمرے میں نہ میزبان نہ کچھ مہمان بولتا ہے جھگڑ رہے ہیں ہوا سے کواڑ کمروں کے مکین جاگ رہے ہیں، مکان بولتا ہے
26 کوئی تو ہے جو کھڑا ہے صدا کے پہلو میں میں بولتا ہوں تو یہ درمیان بولتا ہے عدو سے کرتا ہوں اب گفتگو اشاروں میں میں اس کی اور وہ میری زبان بولتا ہے تمام شہر ہے قائل تری صداقت کا یہ اور بات ہے اک بدگمان بولتا ہے سفر پہ جب بھی نکلتا ہے باوضو ہو کر نماز پڑھتا ہے لمحہ ، اذان بولتا ہے یہ کون گزرا ہے صحرا پہ منکشف ہو کر قدم قدم پہ قدم کا نشان بولتا ہے ازل کی دھوپ کو سر پر سجا تو لوں مضطر ! مگر وجود کا یہ سائبان بولتا ہے
27 کرو نا مضطر جی! اک کام کرو نا صبح کو رو رو شام کرو نا دل کو بھی سمجھاؤ نا اس سے تفهیم و افہام آپ ہی اپنے خط کو پڑھ کر اپنی نیند حرام کرو نا دوست نہیں دشمن بن جاؤ اتنا تو اکرام کرو نا مجھ کو تو کافر ٹھہرایا خود ترک اسلام کرو نا کرو نا میرا نام چرانے والو! واپس میرا نام لفظ اپنا منصب پہچانیں لفظوں کو الہام کرو نا کرو نا آنکھیں دیں، آئینے بخشے چہرے بھی انعام کرو نا شہر پناہ کو ڈھانے والو! ملبہ بھی نیلام عیب تراشو! غیب شناسو! تم بھی کبھی آرام کرو نا ہم مجبوروں کا بھی مضطر ! ذکر برائے نام کرو نا صوتی مجبوری
28 مان اتنی مجبوریوں کے موسم میں جشن برپا ہے دیدہ نم میں منسلک بھی ہیں رشتہ غم میں فاصلے بھی ہیں کس قدر ہم میں آسمان اور زمین کا ہے فرق درد میں اور درد پیہم میں ہجر کی شب ہی وصل کی شب ہے یعنی رمضان ہے محرم میں ایک ترتیب ہے پس پرده پیچ در پیچ زلف برہم میں رنگ و بو اور دل کشی کے سوا پھول کا خون بھی ہے شبنم میں دمِ عیسی ہے معجزہ کس کا کس کی پاکیزگی ہے مریم میں بھول جاؤں میں راستہ اے کاش! زلف جاناں کے بیچ اور خم میں زخم بھرنے لگے ہیں، یاروں نے کچھ ملا نہ دیا ہو مرہم میں ہو گیا کون زندہ جاوید خون کس کا ہے ساغرِ جم میں جس سے پوچھو وہی فرشتہ ہے کیا کوئی آدمی نہیں ہم میں! میرے مالک ! کوئی بشارت دے دل کی تبدیلیوں کے موسم میں یہ رہ مستقیم ہے مضطر! دائرہ ہے جو زلف کے خم میں
29 29 ہم نے جب دو چار غزلیں گائیاں اور گہری ہو گئیں گہرائیاں ہجر کی شب کیسی کیسی صورتیں ہم سے تنہائی میں ملنے آئیاں رات پروانوں کو جلتا دیکھ کر شمع خود لینے لگی انگڑائیاں دل جلے اچھے پھلے خاموش تھے بات کی تو بڑھ گئیں تنہائیاں کوچه و بازار میں برسا لہو بادلوں کی رُت میں آنکھیں آئیاں افتان و خیزاں چلے تیری طرف راستے میں ٹھوکریں بھی کھائیاں دشمنوں سے دشمنی بھی چھوڑ دی دوستوں کی گالیاں بھی کھائیاں
30 30 ہم پہ ہیں سایہ فگن اس دھوپ میں اب بھی تیرے پیار کی پرچھائیاں اب بھی تیری یاد سے آباد ہیں و جان کی پہنائیاں شہر جسم تیری سچائی کی ہیں حلقہ بگوش پرانی اور نئی سچائیاں کیسی کیسی عزتوں میں ڈھل گئیں کیسی ذلتیں ، رُسوائیاں کیسی ہم نے دیکھا ظلم بھی ، انصاف بھی ہم نے ہر حالت میں غزلیں گائیاں ہم کو جنت سے نہ دوزخ سے غرض ہم ہیں تیرے نام کی سودائیاں اب کوئی حسرت نہیں ، تیری قسم! ہم نے منہ مانگی مرادیں پائیاں
31 برملا کہیے کیسے مجھے برا کیسے اب تقاضا ہے مصلحت کا ہے یہی واعظ شہر کو خدا کیسے دیکھیے مت قریب سے مجھ کو ڈور سے تکیے، پارسا کہیے میرا اپنا کوئی وجود نہیں عکس مجھ کو وجود کا کیسے لفظ لڑنے کو اب بھی ہیں تیار اس سے کیا ہو گا فائدہ، کہیے وہ جو آ کر چلا گیا لمحہ اس کو صدیوں کا خوں بہا کہیے عکس بن کر اُتر رہا ہوں میں میری آہٹ کو زلزلہ کہیے قاتل شہر میرے قتل کے بعد مجھ کو اپنا کہے تو کیا کیسے بر سرِ دار بھی خموش رہا اس کو مضطر کا حوصلہ کہیے
بچہ سچا کیوں لگتا ہے اتنا اچھا کیوں لگتا ہے سورج ڈوبنے لگتا ہے جب سایه کیوں آواز نہیں سنتا ہے لمبا کیوں لگتا ہے مل ملامل گنبد بہرا کیوں لگتا ہے ہے ہے ہے بوڑھا تو بوڑھا ہے لیکن بچہ بوڑھا کیوں لگتا تیرا نام لکھوں تو کاغذ اُجلا اجلا کیوں لگتا تن کر چلتا ہے جب انساں اتنا چھوٹا کیوں لگتا مر جاتا ہے مرنے والا پھر بھی زندہ کیوں لگتا اتنے تاروں کے جھرمٹ میں چاند اکیلا کیوں لگتا ہے منزل تو آباد ہے لیکن رستہ سُونا کیوں لگتا ہے اتنی مہنگائی کی رُت میں انساں ستا کیوں لگتا ہے اپنا تو اپنا ہے مضطر ! غیر بھی اپنا کیوں لگتا ہے ہے 32 32
color 3 33 اندھیرا روشنی سے ڈر رہا ہے مگر سورج کا چرچا کر رہا ہے تمھارے نام کا تھا ذ کر جس میں وہ مضموں سب سے بالا تر رہا ہے تھاذ مبارک ہو ہمیں الفت کا الزام یہ سہرا بھی ہمارے سر رہا ہے صدی کے سر پہ جو ابھرا ہے ڈھل کر وہ چہرہ آنسوؤں سے تر رہا ہے وہی زندہ رہے گا در حقیقت جو لمحہ مسکرا کر مر رہا ہے دل ناداں کو بھی اب قتل کر دو یہی اک شہر میں کافر رہا ہے عدو جو بن رہا ہے آج اپنا یہ کل تک غیر کا دلبر رہا ہے علی المرتضیٰ کے شہسوارو! وہ دیکھو سامنے خیبر رہا ہے چھلک جائے گا وقت آنے پہ مضطر ! یہ برتن قطرہ قطرہ بھر رہا ہے
34 =4 زمیں کا زخم بھی اب بھر رہا ہے نہ دتی ہے، نہ امرتسر رہا ہے رہا ہے تو ہمارے قتل کے بعد ہمارا ذکر ہی اکثر رہا ہے یہ کمرہ جس سے خوشبو آ رہی ہے ہمارے یار کا دفتر رہا ہے صداقت سامنے عریاں کھڑی ہے وہ آئینے سے جھگڑا کر رہا ہے پگھلنے کی اسے فرصت نہیں ہے یہ نظھر عمر بھر پتھر رہا ہے اسے چالاکیاں آتی نہیں ہیں وہ اکثر شہر سے باہر رہا ہے وہ پیاسوں کی اذیت کا ہے محرم وہ صحراؤں سے ہم بستر رہا ہے اسے معلوم ہے رڈی کا بھاؤ وہ اخباروں کا سوداگر رہا ہے کسی کو اب شکایت ہے نہ شکوہ ہم اپنے گھر، وہ اپنے گھر رہا ہے یہ آنسو جس کو آنسو کہہ رہے ہو یہی تو آنکھ کا زیور رہا ہے محبت ہو گئی ہے تجھ سے مضطر ! تو کس محبوب کا نوکر رہا ہے
35 گھر کے کواڑ زیر زباں بولنے لگے مالک چلے گئے تو مکاں بولنے لگے دشمن اگر ہماری زباں بولنے لگے بجھ جائے آگ اور دھواں بولنے لگے سورج چلا گیا تو اُتر آئی چاندنی پلکوں یہ روشنی کے نشاں بولنے لگے وہ سنگدل بھی کوئے ندامت میں جا بسا پتھر بھی پانیوں کی زباں بولنے لگے پہلے خلائے جاں میں خموشی رہی مگر پھر یوں ہوا کہ کون و مکاں بولنے لگے نمرود نے جلائی تھی جو آگ، بجھ گئی آزردگان آذر جاں بولنے لگے پانی اتر گیا تو نظر آئے فاصلے ساحل سمندروں کی زباں بولنے لگے
36 دشت جنوں میں عقل کا سیلاب آ گیا اندیشہ ہائے سود و زیاں بولنے لگے بیتے ہوئے دنوں سے نہ سرگوشیاں کرو ایسا نہ ہو کہ عمر رواں بولنے لگے کس کی مجال تھی کہ سرِ دار بولتا بولے ہیں ہم تو تم بھی میاں! بولنے لگے مضطر ! ضمیر لفظ کے سونے مکان میں وہ حبس تھا کہ وہم و گماں بولنے لگے
الله 37 تیرے کوچے میں بکھر جاؤں اگر ! حادثہ اک یہ بھی کر جاؤں اگر ! اپنی غزلوں کو سجا کر طشت میں تیرے دروازے پر دھر جاؤں اگر ! عہد کی تصویر کو کر کے خفا اس میں کوئی رنگ بھر جاؤں اگر ! میں ترا ہی عکس ہوں لیکن ترے پاس سے ہو کر گزر جاؤں اگر ! واپس آ جاؤں میں اپنے آپ میں اپنی آہٹ سے نہ ڈر جاؤں اگر ! کیوں بلا بھیجا تھا اتنے پیار سے اب کبھی واپس نہ گھر جاؤں اگر ! تجھ سے ملنا تو انوکھی بات ہے خود سے مل کر بھی مگر جاؤں اگر ! حادثہ ہو جائے شہر ذات میں اس ٹریفک میں ٹھہر جاؤں اگر ! کوئی سمجھے گا نہ اب میری زباں کوٹ کر بار دگر جاؤں اگر ! عقل کے میدان میں کھا کر شکست عشق کی بازی بھی ہر جاؤں اگر ! جی اٹھوں مضطر ! ہمیشہ کے لیے مسکرا کر آج مر جاؤں اگر !
38 38 اپنے اندر کی بھی سیاحت کر کبھی اپنی طرف بھی ہجرت کر اپنے اندر کے آدمی سے میل اس ملاقات کی بھی صورت کر بوریت کچھ تو دُور ہو جائے میرے دشمن! کوئی شرارت کر دل میں محسوس کر اسے ، لیکن دیکھنے کی کبھی نہ جرأت کر منطق الطير بخشنے والے! پر پرواز بھی عنایت کر بول اے معترض ! خموش ہے کیوں کوئی خودساختہ روایت کر ہر کسی کو نظر نہ آیا کرے اپنی تصویر کو نصیحت کر موت کے بعد بھی نہ بھول ہمیں قبر میں بھی نہ استراحت کر اپنی صورت سے باخبر بھی رہ آئنہ دیکھنے کی عادت کر تیرا مسلک اگر محبت ہے اپنے دشمن سے بھی محبت کر عشق میں مصلحت نہیں ہوتی عشق کر اور بے ضرورت کر جا رہا ہوں سفیر دل بن کر مجھ کو عزت کے ساتھ رخصت کر اشک در اشک روح کو بھی کھنگال اُٹھ کے راتوں کو غسل صحت کر بخش دے تو مجھے بغیر حساب میں نہیں کہہ رہا رعایت کر عقل کے ہاتھوں تنگ ہے مضطر دل ناداں! کوئی حماقت کر
39 تلاش منزل سراب ریگ رواں کے سینے پر یہی نشاں ہیں چند ٹوٹے ہوئے سفینے کہ جن کے بل پر ضمیر کی الجھنوں کی رت میں دلوں کے آذر جہاں پر روکا تھا چاندنی نے نظر کے زرگر نظر کے دامن کی آڑ لے کر ازل کے بے کار سکوتِ صحرا میں چھپ گئے ہیں غم کے فن کار صداؤں کے ساز پر کسی نے فرط غم سے ہزار لفظوں کے بند باندھے فنا کے مندر میں ڈھلک گئے ریتلے کنارے ریت کے بت بنا رہے ہیں چھلک گئے غم کے آبگینے سرکتے، کروٹ بدلتے نہ بت بنے ہیں نہ بت پرستی صحرا کے رخ پر صنم تراشی سے رک سکے پھیلی ہوئی لکیریں بت بنانے والے زمیں کے ماتھے پر چھڑیاں ہیں ہزاروں رہزن کہ ذہن ماضی ضمیر صحرا پہ کروڑوں راہی تلاش منزل میں وقت کے پاؤں کے نشاں ہیں بت کدوں کے کواڑوں کو
40 40 ہوس کے جھگڑ کھٹکھٹار سے ہیں ڈھلی ہوئی ریت کے سپاہی تھلوں میں جذبات کے بگولے ہو او صحرا کے نیک راہب خموش ساحر چلے عبادت گزار بن کر ذہین بوڑھے بدن کے رہزن بھی ڈرتے ڈرتے خیال کے سارباں پجاریوں کا لباس اوڑھے ازل کے امیں صنم کدوں سے کسی بہانے ستاروں کے رازداں بتوں کے زیور لہو کے دانے یوں ٹھٹک گئے ہیں کہ جیسے حیران ہو گئے ہوں منہ جانے جمال کی نیلگوں فضا میں کیسے تارلائے نظر کے طائر غبار فردا کے سائے میں کئی مہینوں سے آرزو کی مورت غموں کی دیوی تکر ہے ہیں اسی پجاری کی منتظر ہے کہ جس کے غم میں اداس تنها نگاه گرداب گردِ ماضی کف تمنا کے بھوج پر پہ امید کی کہکشاں پہ زینے لگاؤ شاید دکھائی دے دیں سراب ریگ رواں کے سینے پر چندٹوٹے ہوئے زائچے سے بنارہی ہے سفینے ی ان گنت باوقار ٹیلے
41 color مجھ کو مرے روبرو نہ کرنا اتنا بے آبرو نہ کرنا پہچان نہیں سکو گے چہرے آئینوں کی آرزو نہ کرنا خواہش کے قفس میں رہنے والو! تزئین قفس کی خو نہ کرنا جس بات پہ عقل کا ہو اصرار اے دل! اسے ہو بہو نہ کرنا معلوم ہیں اس کو راز سارے دیوار سے گفتگو نہ کرنا آنسو ہوں اگر تمھیں میٹر پانی سے کبھی وضو نہ کرنا یوسف کی قمیض کا ہوں میں چاک للہ ! مجھے رفو نہ کرنا آنکھوں کا تو فرض ہے کہ دیکھیں آنکھوں کا گلہ کبھو نہ کرنا فرقت میں یہ حال ہو گیا ہے کرنا کبھی گفتگو نہ کرنا رو رو کے فراق والدہ میں دامن کو لہو لہو نہ کرنا میں اپنی تلاش کو چلا ہوں مضطر ! مری جستجو نہ کرنا
42 فرقت کو وصال کر دیا ہے تو نے تو نہال کر دیا ہے آنسو ہی نہیں مریض دل کو ہر زہر اُبال کر دیا ہے یہ دین ہے تیری دینے والے! جو غم بھی ہے پال کر دیا ہے اتنا تو کیا ہے تو نے قاتل! اظہار ملال کر دیا ہے دشنام بھی دی ہے مسکرا کر پتھر بھی اُچھال کر دیا ہے اس کو مرے راستے میں رکھ دو کانٹا جو نکال کر دیا ہے فرہاد کا رک گیا ہے تیشہ پتھر نے سوال کر دیا ہے ہم نے سرِ دار مسکرا کر مشکل کو محال کر دیا ہے چپکے سے چلا گیا بچھڑ کر مضطر نے کمال کر دیا ہے
43 color دل دیا ہے تو اب اتنا کر دے اس کو کچھ اور کشادہ کر دے بھر نہ جائے کہیں سہلانے سے کو اور بھی گہرا کر دے کہیں ایسا نہ ہو میرا سایہ تیری تصویر کو دھندلا کر دے پھر پس پرده گرد ایام کوئی لمحہ نہ اشارہ کر دے میں ہوں شرمندہ خواب غفلت مر چکا ہوں، مجھے زندہ کر دے بھول جائے نہ مرا نام مجھے اس کو الزام پر کندہ کر دے فرطِ حیرت سے کہیں آئینہ تیری صورت کو نہ سجدہ کر دے
44 چڑھ بھی اے آنکھ کے سیے سورج! اب تو پلکوں پہ اُجالا کر دے مل نہ جائے کہیں آوازوں میں میری آواز کو رسوا کر دے مجھ کو ڈر ہے کہ یہ میرا آنسو تیرے دامن کو نہ میلا کر دے میں تجھے دل تو دکھا دوں مضطر ! تو اگر اس کا نہ چرچا کر کر دے
45 پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے میں برا ہوں مجھے اچھا کر دے کہیں ایسا ہو نہ کوئی لمحہ تجھ کو چھو کر تجھے تنہا کر دے لفظ مر جائے اگر بچپن میں اس کا وارث کوئی پیدا کر دے بخش دے میری علامت مجھ کو میرے سر پر مرا سایہ کر دے رنگ و بو بانٹ دے اس سے لے کر پھول کے بوجھ کو ہلکا کر دے میں ہوں آلودہ گرد غفلت مجھ کو چھو کر مجھے اُجلا کر دے میں بکھر جاؤں تو مجھ کو چن کر اپنے آنگن میں اکٹھا کر دے
46 46 مجھ کو ڈر ہے کہ مری خاموشی کوئی تجھ سے نہ تقاضا کر دے آج کی صبح ہے صبح صادق آج ہر خواب کو سچا کر دے میں بھی پہچان لوں خود کو شاید میری جانب مرا چہرہ کر دے چھین کر اشک سے اس کی آواز اور بھی اس کو نہتا کر دے مجھ کو ڈر ہے کہ سرِ بزم ”ادب“ تو کہیں ذکر نہ میرا کر دے نہ آئنے ٹوٹ جائیں مضطر ! دل کی دیوار کو سیدھا کر دے
47 گلشن سے وہ جب نکل رہا تھا جو پیڑ تھا ہاتھ مل رہا تھا پروا تھی نہ اس کو ڈر کسی کا سورج سرِ عام ڈھل رہا تھا غصے کو تو پی چکا تھا پاگل اشکوں کو بھی اب نگل رہا تھا نادان تھا اس قدر کہ اب بھی ماضی کے لیے مچل رہا تھا آیا تھا سمندروں سے مل کر ساحل کی طرح سنبھل رہا تھا منزل بھی قریب آ گئی تھی رستہ بھی لہو اگل رہا تھا چہرے تو بدل چکے تھے سارے منظر ہی نہیں بدل رہا تھا
48 آیا تھا پہاڑ سے اتر کر صحرا میں جو پھول جل رہا تھا اس کو بھی وہ لے گیا ٹچرا کر دھرتی پہ یہی کنول رہا تھا اوپر سے وہ ہو رہا تھا ناراض اندر سے مگر پگھل رہا تھا اس درد سے دے رہا تھا دستک دروازوں کے دل بدل رہا تھا اک آگ لگی ہوئی تھی دل میں کب سے یہ مکان جل رہا تھا مضطر کو وہ یاد کیسے رہتا خطرہ بھی تو صاف ٹل رہا تھا
49 49 رہا تھا میں ہی تو نہیں پگھل اس کا بھی لباس جل رہا تھا وہ جا بھی چکا تھا مجھ سے مل کر میں تھا کہ ابھی سنبھل رہا تھا گلشن کا نہ تھا قصور اس میں موسم ہی نہیں نہیں بدل رہا تھا اس شور زمیں میں پیر غم کا جیسا بھی تھا پھول پھل رہا تھا فرقت کا نہیں تھا داغ دل میں صحرا میں چراغ جل رہا تھا دریا کو تھا پی چکا سمندر ساحل کو بھی اب نگل رہا تھا جنت کا شجر تھا اور اس کے سائے میں گناہ پل رہا تھا
50 50 میں ہی تو نہیں تھا اپنے ہمراہ تو بھی مرے ساتھ چل رہا تھا آیا تھا میں آئنوں سے مل کر زخمی تھا مگر سنبھل رہا تھا دل تھا کہ اسے قریب پا بچوں کی طرح مچل رہا تھا رونا تو وہ چاہتا تھا لیکن آنسو ہی نہیں نکل رہا تھا سردی تھی کہ بڑھ رہی تھی مضطر ! سورج تھا کہ پھر بھی ڈھل رہا تھا
51 مان آدھی رات کے آنسو! ڈھل ڈھل، میری تقدیر بدل کھل کے برس اے دل بادل ! ڈھل جانے دے نین کنول سوہنا، سچا اور شیتل آنسو ہے یا گنگا جل عمر کے سورج ! ہولی چل ڈھلتے ڈھلتے ڈھلتے ڈھل حسن ازل! لہرا آنچل گیسوئے جاناں ! پنکھا جھل ہٹ جا میرے رستے سے ٹل تقدیر مبرم! ٹل انگارے بن جائیں پھول جلنا ہے تو اتنا جل ان کی ضد بھی پکی ہے فیصلہ میرا بھی ہے اٹل جاگ اٹھے ہیں کشمیری جلنے لاگا حضرت بل چشم زدن میں راکھ ہوئے کیسے کیسے خواب اچھے پھلے انسانوں کے ہوش حواس ہوئے مختل گلیوں میں ایسے میں گھر سے نہ نکل بپا ہے ہے لب سی لے اور اشک نگل ان ہونی بھی ہو کے رہے گی آج یا کل سٹاٹا لگتا کہتا فیض ہے جاناں کا ورنہ کیا مضطر، کیا اس کی غزل محل (۱۱؍ دسمبر ۱۹۹۷ء)
52 52 روح کے جھروکوں سے اذنِ خود نمائی دے مجھ کو بھی تماشا کر، آپ بھی دکھائی دے اشک ہوں تو گرتے ہی ٹوٹ کر بکھر جاؤں شور میرے گرنے کا دُور تک سنائی دے تو نے درد دل دے کر میری سرفرازی کی تو ہی درد کے داتا! درد سے رہائی دے لخت لخت ہو کر میں منتشر نہ ہو جاؤں ایک ذات کے مالک ! ذات کی اکائی دے پور پور تنہائی ، انگ انگ سٹاٹا جس طرف نظر اٹھے فاصلہ دکھائی دے بولنے کی ہمت دے بے صدا مکانوں کو اب تو بے زبانوں کو اذن لب کشائی دے یا نه کھٹکھٹانے دے اور کوئی دروازہ یا نہ ہم فقیروں کو کاسہ گدائی دے اپنی بے نگاہی پر عرق عرق ہوں مضطر ! روح بھی ہے شرمندہ، جسم بھی دہائی دے
53 55 وہ اسم اگر تحریر کروں اسے پلکوں سے تصویر کروں چڑھ جاؤں ستم کی سولی پر کوئی جینے کی تدبیر کروں میں اندر باہر سے ڈھل کر جس کو چھو دوں ، اکسیر کروں صدیوں کی ہجر حکایت کو دل دامن پر تحریر کروں جب صدیاں لمحے بن جائیں میں لمحوں کو زنجیر کروں وہ میرا ہے، میں اس کا ہوں کیوں فکر کو دامن گیر کروں سچا ہوں اگر تو خوف ہے کیا کوئی ”جرم“، کوئی ” تقصیر“ کروں آیت کی طرح اس چہرے کو پڑھ لوں تو کوئی تفسیر کروں اسی صورتِ زیبا کو چاہوں اس زلف کی آنکھ اسیر کروں اس پھول کے رنگ اعلان کروں اور خوشبو کی تشہیر کروں وہ خواب جو اُس نے دیکھا تھا اس خواب کی کیا تعبیر کروں اس خواب کے پورا ہونے تک کوئی خواب محل تعمیر کروں ممکن ہے کہ پردہ اٹھنے تک دو چار گھڑی تاخیر تاخیر کروں ہو اذن تو اپنی غزلوں کو مستقبل کی جاگیر کروں میں پیار کی دولت بانٹتا ہوں مجھے حکم ہے دل تسخیر کروں شاید کوئی سننے والا ہو صحرا میں کھڑا تقریر کروں وہ رہبر کامل عہد کا ہے مضطر ! میں جس کو پیر کروں
54 5.4 اشک چشمِ تر میں رہنے دیجیے گھر کی دولت گھر میں رہنے دیجیے ریت کی خوشبو، روایت کی مہک راہ کے پتھر میں رہنے دیجیے کوئی نامحرم نہ اس کو دیکھ لے چاند کو چادر میں رہنے دیجیے گھر کی تصویریں نہ ہو جائیں اداس آئینوں کو گھر میں رہنے دیجیے میں اگر سقراط ہوں، میرے لیے زہر کچھ ساغر میں رہنے دیجیے راہ میں کانٹے بچھا دیجے ، مگر پھول پس منظر میں رہنے دیجیے کچھ نہ کچھ تو فرق بہر امتیاز پھول اور پتھر میں رہنے دیجیے آپ مضطر ! جائیے لیکن ہمیں کوچه دلبر میں رہنے دیجیے
55 بات سنتے نہ بات کرتے ہو کس قدر احتیاط کرتے ہو سچ کہو! انتظار کس کا ہے صبح کرتے نہ رات کرتے ہو عقل کے بھی ہو زر خرید غلام عشق بھی ساتھ ساتھ کرتے ہو ہاتھ جاناں کے ہاتھ میں دے کر کیوں غم پل صراط کرتے ہو چاہتے کیا ہو؟ کھل کے بات کرو کیوں اشاروں میں بات کرتے ہو اب وہ پہلی سی نوک جھونک نہیں نہ وہ التفات کرتے ہو پہلے اس کا جواز ڈھونڈتے ہو پھر کوئی واردات کرتے ہو جب بھی کرتے ہو قتل مضطر کا نہر فرات کرتے ہو
ادی 56 56 موت ہے نہ حیات ہے یارو! ایک مولیٰ کی ذات ہے یارو! ہاتھ میں جس کے ہاتھ ہے یارو! وہ بڑا خوش صفات ہے یارو! جا رہی ہے جو شہر جاناں کو یہی راہ نجات ہے یارو! آج بھی دشت کے مسافر پر بند نہر فرات ہے یارو! چن لیا اس نے ہم فقیروں کو اپنی اپنی برات ہے یارو!“ پھر وہی دن ہیں اور وہی راتیں پھر وہی التفات ہے یارو! آج کا دن ہے وصلِ یار کا دن آج کی رات رات ہے یارو! چھٹنے والے ہیں ظلم کے بادل ایک دو دن کی بات ہے یارو! ہر قدم احتیاط سے رکھنا ہر قدم پل صراط ہے یارو! کس لیے موت سے ڈراتے ہو موت بھی تو حیات ہے یارو! اپنے بیگانے سب خلاف سہی یار تو اپنے ساتھ ہے یارو! عشق کی جیت ہونے والی ہے عقل کی بازی مات ہے یارو! عقل کیا زیست کی خبر دے گی یہ تو خود بے ثبات ہے یارو! آؤ مضطر کا ذکر خیر کریں مر کے بھی جو حیات ہے یارو!
57 کانٹا سا کھڑا ہے کوئی بن میں کاٹو تو لہو نہیں بدن میں آہستہ خرام بلکه مخرام پھولوں کے ہیں مقبرے چمن میں سولی سوار ہے زمانہ گل ہیں کہ مگن ہیں اپنے من میں پرچم ہے یہ دل کی مملکت کا تیشہ نہیں دست کو بکن میں آنو کو سجا لیا مژہ پر پتھر کو پرو لیا کرن میں صدیوں کی صلیب بھی اٹھا لی لمحوں کو لپیٹ کر کفن میں چہروں کی لیے اجاڑ چادر آتے ہیں اسیر انجمن میں
58 زخموں کے کواڑ بند کر لیں اتنی بھی سکت نہیں بدن میں مطرب سے کہو غزل سنائے تلخی ہے نہ کیف ہے سخن میں ہم بھی کبھی فاتحانہ مضطر ! جائیں گے دیارِ برہمن میں (سقوط ڈھاکہ)
59 59 بات رانجھے کی نہ قصہ ہیر کا ذکر ہے اک خواب کی تعبیر کا پیرہن جلنے لگا تصویر کا ہر طرف ہے شور دار و گیر کا کس نے دستک دی در انصاف پر سلسلہ ملنے لگا زنجیر کا آننه در آنته در آننه جمگھٹا ہے ایک ہی تصویر کا پھر قسم زیتون کی کھائی گئی ذکر پھر ہونے لگا انجیر کا آئنے کی طرح چکنا چور ہے کوئی رُخ ثابت نہیں تصویر کا گھر کی باہر سے سفیدی ہو گئی فائده اتنا ہوا تعزیر کا مجھ کو سولی دی گئی آواز کی میں شہید وقت ہوں تقریر کا مجھ کو بھی کچھ تجربہ ہے عشق کا میں بھی زخمی ہوں نظر کے تیر کا مجھ سے بھی کر لیجیے گا مشورہ آمنه بردار ہوں تقدیر کا
60 60 اس کو میرا کفر لوٹایا گیا وہ جو شائق تھا مری تکفیر کا ناقت اللہ کو ستایا بے سبب کاٹنا چاہا شجر انجیر کا آئینے کا بال رہنے دیجیے فکر کیسے آنکھ کے شہتیر کا تھوڑے ہو کر بھی نہ ہم تھوڑے لگے معجزہ ہم کو ملا تکثیر کا دی جگہ مجھ کو فراز دار پر معترف ہوں دل سے اس توقیر کا میرا قاتل بچ کے جا سکتا نہیں مجھ سے وعدہ ہے یہ میرے پیر کا میرے کاٹے کا نہیں کوئی علاج مجھ کو آتا ہے عمل تسخیر کا میں تمھیں کر کے تہ دل سے معاف سے بدلہ لوں گا اس تحقیر کا ٹوٹ ہی جائے گا مضطر! ایک دن سلسلہ اس جرم بے تقصیر کا
61 عشق اس کے عہد میں بے دست و پا ہو جائے گا آنکھ استنبول، سینہ قرطبہ ہو جائے گا میری قسمت کی لکیریں دیکھ کر کہنے لگا یہ لکیریں مل گئیں تو حادثہ ہو جائے گا ایک ہی بستر میں ہیں سوئے ہوئے بستی کے لوگ صبح جاگیں گے تو باہم فاصلہ ہو جائے گا وہ گئے دن کا مسافر ہے، اسے ملتے رہو ذکر منزل برسبیل تذکرہ ہو جائے گا رات لمبی ہے تو باہم گفتگو کرتے رہو بات چل نکلی تو بہتوں کا بھلا ہو جائے گا کس لیے شرما رہے ہو آزما کر دیکھ لو وہ بڑا زود آشنا ہے، آشنا ہو جائے گا ہر طرف آنکھیں ہیں اس کی راہ میں لیٹی ہوئی آئے گا تو آئنہ در آئنہ ہو جائے گا سر بریدہ لفظ ہم سے رات یہ کہنے لگے اب نہ بولو گے تو کاغذ کربلا ہو جائے گا
29 62 ان بھری گلیوں میں پھرتا رہ، اسی میں خیر ہے اپنے اندر جا چھپا تو لاپتا ہو جائے گا جب سر عہد وفا صدیاں جھنجھوڑی جائیں گی وقت کی زنجیر سے لمحہ رہا ہو جائے گا دامن آواز بھر جائے گا میرے خون سے آستیں خوش رنگ، چہرہ خوش نما ہو جائے گا عشق تو لا جائے گا جب موت کی میزان میں حسنِ بے پروا بھی مصروف دعا ہو جائے گا میں صلیب لفظ پر چڑھ جاؤں گا ہنستا ہوا یہ پرانا قرض بھی آخر ادا ہو جائے گا وہ مری آواز کا قاتل بھی ہے، مقتول بھی میرا اس کا آج کل میں فیصلہ ہو جائے گا کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا عہد بے آواز میں ہم جدا ہو جائیں گے یا وہ جدا ہو جائے گا پھر خدائی کا کیا دعویٰ کسی فرعون نے پھر سرِ دربار کوئی معجزہ ہو جائے گا اکثریت کا جو تم نے سانپ تھا پالا ہوا کیا خبر تھی بڑھتے بڑھتے اثر رہا ہو جائے گا بیچ کر عزت کو نکلا تھا وہ جس کے پھیر سے پھر اسی چکر میں مضطر! مبتلا ہو جائے گا (۱۹۸۴-۸۵ء)
وہ ہنسنے کو تو ہنس رہا ہوئے گا مگر حال اس کا بُرا ہوئے گا مرا اس سے جو فاصلہ ہوئے گا مجھے بھی نہ اس کا پتا ہوئے گا وہ لمحہ جو امسال رک کر ملا خدا جانے کب کا چلا ہوئے گا جسے میرے ایماں کا بھی علم ہے وہ جھوٹا نہیں تو خدا ہوئے گا جمائی ہے سرخی جو اخبار نے سنا اس کو، تیرا بھلا ہوئے گا وہ آئے گا اخبار اوڑھے ہوئے عجب کاغذی سلسلہ ہوئے گا بھری بزم میں مسکرانے لگا بڑا ہی کوئی من چلا ہوئے گا 80 63
64 وہ چپ ہو گیا عمر بھر کے لیے ، کچھ تو میں نے کہا ہوئے گا خبر جس میں چھاپی گئی تھی مری وہ اخبار اب بک گیا ہوئے گا اٹھا لیجیے آپ بھی سنگ صوت جلوس اب قریب آ گیا ہوئے گا ابھی سے ہے مضطر ! تمھارا یہ حال وہ جانے لگے گا تو کیا ہوئے گا
65 59 برف کتنی خاموشی ہے تنہائی ہے وادگی قاف میں پریوں کا نزول رات لمبی ہے کوئی بات کرو یا دا نام کے کنواب لچھوں کا خرام دور مت بیٹھو، قریب آجاؤ قلہ کوہ پر اترا ہے کہستاں کا غرور سرما کا سرور شام کی گود میں پھر رونے لگی با دشمال جیسے کا فور کی شمع کا شفاف دھواں جم گیا برف کے انفاس سے بادل کا ضمیر وادی نور کے اجلے سائے چاند کی شمع ہے دھندلائی ہوئی چاندنی رات کے گورے سپنے رات مدہوش، کفن پوش خموش صلح کے ایلچی ، سرما کے سوار برف کے گالے زمستاں کے سفیر قطب شمالی کے کنول دودھیا جسم، تمنا کے اسیر کو ہساروں کی کنواری کلیاں پہنے ہوئے اُجلے سماوی ملبوس خندہ ماہ کے پھول بےصدا خوف کے گھوڑوں پر سوار چاند کے ٹکڑے،گھٹاکے فانوس یوں دبے پاؤں گریزاں، ترساں سدرہ وطوبی کے خاموش طیور غول کے غول فضا سے اُترے بال جبریل کے پاکیزہ خطوط جیسے تنہائی میں آہٹ کی صدا جیسے بڑاق کے پر
بادل کے بھنور ابر کی ریش دراز پیر فرتوت کی ڈھیلی دستار 99 66 اداسی کے ہجوم خواہش کے پہاڑ منجمد ہونٹوں سے اب یاد کے بگلے، تصویر کے پرند روک دو سیلاب سکوت چشم تحیر کے سوال جیسے بچپن کے خیال شور گمنام میں کھو جائیں ٹھہری ہوئی ٹھٹھری ہوئی من وتو کےسوال منجمد نیند کی جھیل سایہ ماہ میں مرمریں رات کی دوشیزہ ہنسی پروان چڑھے طور امید کے ٹھنڈے شعلے صبح سفید جیسے مجبور کے چہرے پر تبسم کا غلاف وقت کا احساس مٹے رات کئے لفظوں کا لحاف کتنی خاموشی ہے، تنہائی ہے باغ فردوس میں نغموں کی گھٹا برسی ہے بس وہی کوشش گفتار شدت غم سے گرانبار ہے آغوش سحاب وہی جنبش لب تھک گئے نور کے احساس سے رات لمبی ہے کوئی بات کرو اشجار کے ننگے بازو سو گئے برف کے پردوں میں دور مت بیٹھو قریب آجاؤ
67 پروفیسر سید عباس بن عبد القادر مرحوم کی شہادت پر جھگڑے ہے پھول پھول ،لڑے ہے کلی کلی ہوتا ہے ان دنوں یہ تماشا گلی گلی آیت کی طرح یاد ہے حفاظ شہر کو چہرہ وہ بھولا بھالا، وہ باتیں بھلی بھلی یادش بخیر کتنی حسیں غم کی رات تھی یہ دو گھڑی کی بات تھی جب تک چلی، چلی بارش ہوئی تو اور بھی جلنے لگی زمیں خاک نجف پکار اٹھی، اُٹھی، میں جلی جلی چہروں کے زرد چاند پڑے ہیں زمین پر مٹی میں مل رہا ہے یہ سونا ڈلی ڈلی لیٹے ہوئے ہیں کبر کے سائے زمین پر جیسے ہو دو پہر بھی ستم کی ڈھلی ڈھلی
...مراد الله تعالى 68 وہ بے نیاز چاہے تو ساری انڈیل دے یوں جوڑنے کو جوڑے ہے بندہ پلی پلی سر پر خیالِ یار کی چادر کو تان کر چرچا کیا ہے یار کا گھر گھر، گلی گلی مقتل میں تیغ تیغ ہمیں نے اذان دی ہم ہی نے دار دار پکارا علی علی کرتے رہے جھرو کہ درشن“ سے گفتگو پر جا کے پاس چل کے نہ آئے مہابلی کیا چاند رات کا اسے مطلق پتا نہ تھا اس نے جو اپنی مانگ میں یہ چاندنی ملی أتری جب آسمان سے شبنم گلاب پر خوشبو نے مسکرا کے کہا میں بکھر چلی خوددار، غم شناس، خطاکار، بے ہنر سب جانتے ہیں آپ کو مضطر ! گلی گلی
69 69 پروفیسر سید عباس بن عبد القادر مرحوم کی شہادت پر احساس کو بھی جانچ، نظر کو ٹٹول بھی ماحول جل رہا ہے تو کچھ منہ سے بول بھی یوں تو ازل سے روح تھی اس کی سحر سپید وہ سروقد تھا جسم کا سچا سڈول بھی میں روح عصر ہوں، نہ مجھے موت سے ڈرا میری ادا کو جان، مجھے ماپ تول بھی تو کیوں تکلفات کی سُولی پر چڑھ گیا کافی تھے مجھ کو پیار کے دو چار بول بھی میں اہم ہوں تو اسم کا کچھ احترام کر سولی پہ بھی سجا مجھے مٹی میں رول بھی دار و رسن سے ماپ مرے قد کو لاکھ بار اک بار خود کو میرے ترازو میں تول بھی
70 چہرے تو میر ملک نے نیلام کر دیے کیا دیکھتا ہے، بیچ دے چہروں کے خول بھی تو فیصلہ تو کر مگر اتنا نہ مسکرا ایسا نہ ہو کہ ڈھول کا کھل جائے پول بھی ہو گا اک اور فیصلہ اس فیصلے کے بعد راترا نہ اس قدر کہ یہ دُنیا ہے گول بھی انصاف اٹھ گیا ہے، ترا خوف مٹ گیا اے رب ذوالجلال و الاکرام! بول بھی مضطر ! لہو سے ڈھل گئیں دل کی سیاہیاں سورج چڑھا ہوا ہے ، ذرا آنکھ کھول بھی
71 مشتعل ہے مزاج کانٹوں کا کیجیے کچھ علاج کانٹوں کا گل بھی کچھ مسکرا رہے ہیں بہت کچھ ہے برہم مزاج کانٹوں کا اک طرف مملکت ہے پھولوں کی اک طرف سامراج کانٹوں کا اک طرف پھول کی روایت ہے اک طرف ہے رواج کانٹوں کا درمیاں میں کھڑی ہے خلق خدا گل ہیں اور احتجاج کانٹوں کا ادا کر دیا ہے قادر نے جس قدر تھا خراج کانٹوں کا اپنی سچائی کی گواہی دی پہن کر اس نے تاج کانٹوں کا
72 بھر گیا اس کے خونِ ناحق سے کاسه احتیاج کانٹوں کا اُس گل منتخب کے کھلتے ہی بڑھ گیا احتجاج کانٹوں کا اب بھی دل پہ ہے راج پھولوں کا راج کل تھا نہ آج کانٹوں کا آبلوں سے بہت پرانا ہے رشته ازدواج کانٹوں کا اوس تو اوس ہے بہر صورت اشک بھی ہے اناج کانٹوں کا کوئی صورت نظر نہیں آتی“ ہے مرض لا علاج کانٹوں کا اب تو کانٹے بھی کہتے ہیں مضطر ! کیجیے کچھ علاج کانٹوں کا
الله 73 انتخاب خلافت خامسہ کے بعد جس حسن کی تم کو جستجو ہے وہ حسن ازل سے باوضو ہے خوش رنگ ہے اور خوبرو ہے ہے وہ پھول ہو بہو ہے لگتا تاریخ کا سانس رک گیا ہے آئینہ سا کوئی روبرو ہے اترا ہے جو آج آسماں سے عزت ہے ہماری آبرو ہے جو دل بھی ہے یقیں سے پُر ہے جو آنکھ بھی ہے وہ باوضو ہے ہم ہنس بھی رہے ہیں صدق دل سے ہر چند کہ دل لہو لہو ہے
74 اے قدرتِ ثانیہ کے مظہر ! تو کتنا حسیں ہے، خوبرو ہے اللہ کے اور رسول کے بعد واللہ کہ آج تو ہی تو ہے سرشار ہے جو ہے تیرا خادم شرمندہ ہے جو ترا عدد ہے خاموش! مقام ہے ادب کا آقا مرا محو گفتگو ہے سرشار ہوں پی کے میں بھی مضطر ! پھر سے وہی جام ہے، سبو ہے
75 شرم سی کچھ ، حجاب سا کچھ ہے قرب بھی بے حساب سا کچھ ہے ماه سا، ماہتاب سا کچھ ہے ہو بہو آنجناب سا کچھ ہے مسکراتا ہوا ، حسین و ایک چہرہ گلاب سا کچھ جمیل ہے کو دیکھا تو یوں لگا جیسے عشق کارِ ثواب سا کچھ ہے اس میں آنکھوں کا کچھ قصور نہیں حسن خود بے نقاب سا کچھ ہے اس نے دیکھا نہ ہو رُخِ انور آتنه آفتاب سا کچھ کچھ ہے اکیلے نہیں ہیں کرم سفر ہم آسماں ہمرکاب سا کچھ ہے کون شائستہ صلیب ہے آج عرش پر انتخاب سا کچھ ہے
76 آج پھر آسمان بولا ہے عشق پھر کامیاب سا کچھ ہے ہم فقیروں کا، ہم اسیروں کا جواب الجواب سا کچھ ہے لفظ لفظ آسماں سے اترا ہے جو حسن خطاب سا کچھ ہے ہو رہا ہے حریف شرمندہ معترض لاجواب سا کچھ ہے دشمن جاں سے زیر لب ہی سہی اک سوال و جواب سا کچھ ہے آسماں سے برس رہی ہے آگ ایک عالم کباب سا کچھ ہے تم نے کابل میں جو کیا تھا ستم اس ستم کا حساب سا کچھ ہے تم نے کی تھی جو التجا مضطر ! اس کا یہ استجاب سا کچھ ہے
77 بے وفا سے وفا طلب کی ہے تم نے جو بات کی عجب کی ہے یہ شکایت جو زیر لب کی ہے ہم نے اک بات بے سبب کی ہے روز اوّل سے کرتے آئے ہیں یہ گزارش جو ہم نے اب کی ہے آج کا دن طویل تھا کتنا آج برسوں کے بعد شب کی ہے گھر میں بیٹھے رہو خدا کے لیے شہر میں تیرگی غضب کی ہے رنگ لا کر رہے گی بالآخر جو صدا ہم نے زیر لب کی ہے کون ہے جو نہیں اسیر اس کا عشق تقصیر ہے تو سب کی ہے
78 اس کی آواز کے گلے لگ کر اپنی آواز بھی طلب کی ہے اس کی کس کس ادا کا ذکر کریں اس کی ہر اک ادا غضب کی ہے ذکر ہے تو کسی کے قد کا ہے گفتگو ہے تو چشم و لب کی ہے وہی محبوب ہے، وہی مقصور بات کی ہے اسی کی جب کی ہے جب بھی چاہا اسی کو چاہا ہے اک یہی بات ہم میں ڈھب کی ہے وہی ہو گا جو اس کو ہے منظور حمد...ضرورت شعری یعنی مرضی جو میرے رب کی ہے کاش سب کو نصیب ہو جائے موت جو ہم نے منتخبجے کی ہے تم بھی مضطر ! اٹھو کہ یار نے آج جسم مانگا ہے، جاں طلب کی ہے
79 بادہ خواروں کو اذن بادہ ہے محسن معصوم، عشق سادہ ہے مسکراتا پھرے ہے صحرا میں قیس کا جانے کیا ارادہ ہے زندگی ہے تو درد ہے پیارے! زندگی درد کا لبادہ ہے سارا حسن نظر کا ہے اعجاز حسن عیار ہے نہ سادہ ہے گل بھی ہیں، خار بھی ہیں گلچیں بھی گلشن بہت کشادہ ہے کھا رہا ہے چمن کو سناٹا سرو خاموش ایستاده ہے پتے پتے میں منتظر ہے خزاں کانٹا کانٹا بہار زادہ ہے
80 ذرے ذرے میں دشت ہیں آباد قطرے قطرے میں رقص بادہ ہے پھول میں جل رہا ہے خونِ بہار چاندنی چاند کا برادہ ہے عقل گردوں سوار ہے اب تک دل بدستور پاپیادہ ہے رقص کون و مکاں تمام ہوا کوئی منزل رہی نہ جادہ ہے تو نے جو کچھ دیا ہے مضطر کو اس کی امید سے زیادہ ہے
81 پھر تیر تبسم کا نشانے لگا ہے لگتا ہے اسی زخم پرانے پہ لگا ہے ساحل کے نشانات مٹانے یہ لگا ہے یہ بند جو دریا کے دہانے پہ لگا ہے رکھ لینا اسے عشق کا انعام سمجھ کر پتھر جو مرے آئینہ خانے پہ لگا ہے اب آج سے اس شہر کا ہر شخص ہے مجرم نوٹس یہ کھلے شہر کے تھانے پہ لگا ہے ہر لمحہ تازہ ہے نئی شان کا حامل دل ہے کہ اسی اگلے زمانے پر لگا ہے تھکتا ہی نہیں، مفت کی مے بانٹ رہا ہے یہ کون ہے جو پینے پلانے پہ لگا ہے خوشبو کو، تبسم کو چھپا کر نہیں رکھتے الزام یہ پھولوں کے گھرانے پہ لگا ہے گرتی ہوئی دیوار تو گرنے کو تھی مضطر ! سیلاب کا ریلا بھی ٹھکانے پہ لگا ہے پ کی پنجابیت پر معذرت کے ساتھ.
82 48 یادوں کی بارات لیے پھرتا ہوں میں صدیاں اپنے ساتھ لیے پھرتا ہوں میں فرقت کے لمحات لیے پھرتا ہوں میں کتنی لمبی رات لیے پھرتا ہوں میں سوچ رہا ہوں آئینه در آئینه ذات کے اندر ذات لیے پھرتا ہوں میں تیرا نام سجا کر اپنے ماتھے پر ساری ساری رات لیے پھرتا ہوں میں مجھ کو بھی معلوم نہیں وہ بات ہے کیا سینے میں جو بات لیے پھرتا ہوں میں برسوں گا تو مضطر ! کھل کر برسوں گا بادل ہوں، برسات لیے پھرتا ہوں میں
83 اشکوں نے دل کی دیوار گرا دی ہے گھومنے پھرنے کی امشب آزادی ہے کس نے زخموں کی زنجیر ہلا دی ہے درباں! دیکھ کوئی باہر فریادی ہے پھول نے ہنس کر بگڑی بات بنا دی ہے جینا بھی شادی، مرنا بھی شادی ہے دشت نے چاہا تھا اس کو تسلیم کرے قیس نے اس کی یہ خواہش ٹھکرا دی ہے جس کی خاطر رو رو جی بلکان کیا عہد نے وہ آواز ہمیں لوٹا دی ہے فرصت ہو تو اب اس کی پہچان کرو ہم نے پانی پر تصویر بنا دی ہے دل کی دلّی کے کھنڈرات میں مقتل تک اس سے پرے آبادی ہی آبادی ہے
...صوتی مجبوری 84 کل کو آج کے آئینے میں دیکھا ہے حال نے ماضی کو امسال سزا دی ہے آنکھ سمندر، سینہ اک پیاسا صحرا ان دونوں کا روگ بہت بنیادی ہے وسچی باتوں“ ނ ناحق بدنام ہوا عشق بھی عبدالماجد دریابادی ہے مضطر ! تم بھی جاؤ نا اس سے مل آؤ سچائی اس دھرتی کی شہزادی ہے
85 55 قصیدہ لامیہ اے احتیاط کے پتلے ! ابھی نہ بھیس بدل ابھی اُجالا ہے باہر، ابھی نہ گھر سے نکل وہ التفات کے بر سے ہیں رات بھر بادل زمین جاگ اٹھی ، سبز ہو گئے جنگل ستارے اس میں فروکش ہیں، چاند رہتا ہے بھری ہوئی ہے اجالوں سے جھیل اک شیتل ید اشک آنکھ کا گہنا ہیں، روح کی زینت رکیں تو نارِ جہنم، بہیں تو گنگا جل کبھی نہ شعر کے فنکار کی ہوئی تسکین بنا بنا کے گرائے غزل کے تاج محل تمام خار حسیں ہیں ، تمام گل محبوب نہیں ہے فرق کوئی طور ہو کہ بندھیا چل اس التزام سے ذکرِ جمالِ یار ہوا تمام شہر کے بیمار ہو گئے پاگل
86 در بچے کھول کے در آئے آہٹوں کے ہجوم مکین کانپ رہے ہیں، مکاں ہیں متزلزل اداس کب سے کھڑے ہیں صدا کے سنگم پر یہ انتظار کے صحرا، یہ ہجر یار کے تھل ابھی نہ چہرہ دکھائیں، یہ راستوں سے کہو غبار کوچہ جاناں کا اوڑھ لیں آنچل بھڑک کے شعلہ نہ بن جائیں داغ سینے کے خیال زلف پریشاں نہ اور پنکھا جھل کبھی جو وقت کے سینے کو چیر کر دیکھا نہ کوئی شام ابدتھی ، نہ کوئی صبح ازل اسی کا عکس ہیں دیروز و فردا و امروز وہ خود زمانہ ہے، اس کے لیے نہ آج نہ کل وہ بزم گن کا ہے مالک بھی اور خالق بھی اسی کے اذن سے پھوٹی وجود کی کونپل میں اس کی بزم تحیر میں بار بار گیا کبھی بدن کے سہارے، کبھی نگاہ کے بل میں ایک جست میں اس کے حضور جا پہنچا ہزار راہ میں حائل تھی عقل کی دلدل وہ مشرقی ہے نہ وہ مغربی مگر بخدا وہی ہے مشرق و مغرب کی مشکلات کا حل
87 بنامِ شامِ غریباں بفیض کرب و بلا اجڑ اجڑ گئے رخسار، ڈھل گئے کاجل یہ کس کے سامنے دشت نجف ہے شرمندہ شہید ملنے گئے ہیں کسے سر مقتل نقاب رخ سے اٹھائے ، مجال کس کی ہے خرد ہے سربگریبان ، عشق خوار و خجل یہی تو ہے کہ جو قوسین کا ہے وتر جمیل سجا ہوا ہے جو کاندھے پہ نور کا کمبل قریب رہ کے بھی محفل میں بار پا نہ سکا مرے حبیب! مقدر کے فیصلے ہیں اٹل یہ داغ کیسے ہیں دامن پر خون کس کا ہے یہ کس کے قتل سے کس کا ضمیر ہے بوجھل پھرا کریں ہیں بگولے تلاش میں کس کی رہا کریں ہیں یہ کس کے فراق میں بے کل یہ کس کا ذکر ہوا آرزو کے آنگن میں یہ کس کی زلف کی خوشبو میں بس گئی ہے غزل بلا رہا ہے نہ جانے کسے اشاروں سے سے دور لب دل حسین اک چنچل نظر.سکھی ری کرشن مراری دوارکا سے چلے چناب پار سرِ شام بس گئے گو کل
88 جہاں پہ بیٹھ گئے شہر ہو گئے آباد جہاں رکے وہیں جنگل میں ہو گیا منگل نگر میں آئی ہے پھر بن سے بنسری کی صدا لطیف اس کے ہیں سُر تال اس کی ئے کومل قدم قدم پہ فروزاں ہیں شمعیں کافوری سلگ رہے ہیں محبت کے عود اور صندل لرز رہی ہیں ستاروں کی سرخ دیواریں یہ آفتاب مرے سانس سے نہ جائیں پگھل قفس کو آگ نہ لگ جائے میری آہوں سے مری پکار سے سینوں میں دل نہ جائیں دہل ہوس کی تند ہواؤں سے بجھ نہ جائیں کہیں سلگ رہے ہیں جو پلکوں پہ آنسوؤں کے کنول ابھی تو خواب تحیر سے جاگنا ہے مجھے شتاب اتنا تو اے آفتاب عمر! نہ ڈھل نه زادِ راہ ہے کوئی، نہ سہل ہے رستہ سفر طویل ہے اے عمر! میرے ساتھ نہ چل نہ چھیڑ خاک نشینوں کو اس قدر مضطر ! چھلک نہ جائے فقیروں کے صبر کی چھا گل
89 جاں بکف اشک بجام آئے گی نالہ کرتی ہوئی شام آئے گی در بدر روتی پھرے گی خلقت کوئی تدبیر نہ کام آئے گی شور رک جائے گا آوازوں کا اک صدا بر سرِ عام آئے گی سائے چھپ جائیں گے دیواروں میں منزلِ ماہِ تمام آئے گی داغ در داغ جلیں گے سینے یاد یاروں کی مدام آئے گی عمر بھر دل کے گلی کوچوں سے اک صدا نام بنام آئے گی منصور پھر سرِ دار ہنسے گا زندگی پھر کسی کام آئے گی
90 90 پھر وہی جشن شہیداں ہو گا زندگی بہر سلام آئے گی دن چڑھے نکلیں گے راہی گھر سے دل کے چوراہے میں شام آئے گی گزر جائے گی آخر مضطر ! صبح آہستہ خرام آئے گی
91 وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا عشق تھا اور غائبانہ تھا جس حسیں سے تمھیں محبت تھی اس سے اپنا بھی عاشقانہ تھا وہ کہیں دل کے پار رہتا تھا فقط دل کا واہمہ نہ تھا وہ اس کی ہر ایک ہر ایک سے لڑائی تھی اس کا ہر اک سے دوستانہ تھا اس کے آنے پہ کس لیے ہو خفا اس نے آخر کبھی تو آنا تھا اس میں انوار تھے خدائی کے ہم نے مانا کہ وہ خدا نہ تھا وہ اسی کا تھا خاص بھیجا ہوا اس کا آنا خدا کا آنا تھا وہ شجر تھا گھنا محبت کا اس کے سائے میں بیٹھ جانا تھا بھول کر بھی نہ اس کو بھول سکے تعلق بہت پرانا تھا معتکف تھے قفس میں ہم مضطر! کہیں آنا کہیں نہ جانا تھا
92 46 اس کو اتنا آزمانا تھا نہ وہ حقیقت نہیں فسانہ تھا شهر مسحور کے مسافر کا ٹھور تھا ترجمے اس کے چھپ چکے تھے کئی دل کا قصہ بہت پرانا تھا کوئی ٹھکانہ تھا عہد کو نیند آ گئی تھی اگر جھنجھوڑنا تھا اسے جگانا تھا سب مسافر تھے اپنے اندر کے جو تھا اپنی طرف روانہ تھا تو نے واعظ سے دوستی کر لی ور نہ تو اس قدر برا نہ تھا آنکھ کے اجنبی پرندے کو منہ اندھیرے ہی لوٹ جانا تھا ایک دو روز کی یہ بات نہ تھی عمر بھر اس کو مسکرانا تھا کیوں اکیلے الجھ گئے خود سے تم نے مضطر ! ہمیں بتانا تھا
color 83 93 جلا کر مرا پہلے گھر احتیاطاً اب آیا ہے وہ بام پر احتیاطاً نہ شیخی بگھار اپنی کرسی کی اتنی مکافات سے کچھ تو ڈر احتیاطاً جو کل تک تھے بد نام چھوٹوں بڑوں میں وہ اب بن گئے معتبر احتیاطاً پتا تھا اگرچہ اسے اپنے گھر کا وہ پھرتا رہا دربدر احتیاطاً کھلے شہر میں ہم سے ملنے کی خاطر ت لوگ آئے ، مگر احتیاطاً اگر چہ ضرورت تو اس کی نہیں تھی وہ ہنستا رہا عمر بھر احتیاطاً نکل جائے بیچ کر اگر میرا قاتل مجھے بھیج دینا خبر احتیاطاً
94 سفر کی صعوبت سے گھبرا کے آخر ہو گئے ہمسفر احتیاطاً جدا تو سُن لے جو خلق خدا کہہ رہی ہے مگر اس کو کر یا نہ کر احتیاطاً کریں نہ کریں وہ تمھیں قتل مضطر ! جھکا دینا تم اپنا سر احتیاطاً
چلی مشین چلی ٹوٹ گیا آشا کا تاگا جی بھر آیا، سینہ جاگا رات گئی، اب اُڑ جا کا گا گھر گھر ، گلی گلی شیام نگر کے راگ رنگ میں نیل چناب، جمن گنگ میں جوڑ جوڑ میں ، انگ انگ میں غم کی آگ جلی دل میں آگ، نظر میں شعلے اٹھ پردیسی! دم بھر رو لے لوگ ہنسیں، یہ منہ سے نہ بولے انگ بھبھوت ملی ظلم اٹھا دے ، رخ نہیں موڑے دکھڑوں کے دن رہ گئے تھوڑے رام لنڈھاوے گیا ، جوڑے بنده پلی پلی 95 55
96 90 مرے آڑے آیا پتھر ٹکرایا رووے شہروں میں ہمسایہ بن میں کلی کلی لفظوں کی چھائی اندھیاری پاس بلا لو کرشن مراری شور کرے بیتا کی ماری پہنچو مہابلی بن تیرے اب کون سہارا اپنوں نے اپنوں کو مارا مولا ! یہ جیتے ، میں بارا جیت سے ہار بھلی تنہائی مت گھبراؤ ہو آؤ کوچہ جاناں سے اچھلو، گودو، ناچو، گاؤ بولو علی علی * شاہوں کی سرکار تمھی بے یاروں کے یار تمھی کشتی تم، پتوار تمھی تم مضطر کے ولی (۱۹۵۳ء)...علی اللہ تعالیٰ کا نام ہے.ہو ہو ہو
40 97 وصل کے دن ہیں، رُت ہے الفت کی عشق کی، پیار کی ، محبت کی تیرے کہلائے ، تجھ سے نسبت کی ہم نے کیا کیا نہیں جسارت کی تجھ کو چاہا، تری عبادت کی تیری جانب کی جب بھی ہجرت کی یہ امانت جو ہے امامت کی حسن سیرت کی، حسن صورت کی یہ علامت ہے تیری قدرت کی ہم مریضوں کے غسل صحت کی مصحف رُخ کی بھی تلاوت کی سیر کی ایک ایک آیت کی آنسوؤں نے اگر رفاقت کی ڈھل ہی جائے گی گرد غفلت کی میں کہ ہوں اک پرانا ناشکرا مجھ پر برسیں گھٹائیں شفقت کی چاند نے رات چاندنی بخشی اپنی تصویر بھی عنایت کی ق تم بھی آئے ہو اپنے مطلب سے بات ہم نے بھی کی ہے مطلب کی سچ کو سچ جانا اور جھوٹ کو جھوٹ ہم نے کی بھی تو یہ سیاست کی تاج ہم نے پہن کے کانٹوں کا بر سر دار استراحت کی تم نے اس کو بھی کاٹنا چاہا یہ جو انگشت ہے شہادت کی گپ اندھیرا ہے اور غضب کا ہے روشنی بھی ہے اور قیامت کی آسماں سے برس رہی ہے آگ دھوپ بھی پڑ رہی ہے شدت کی
98 98 پھر کہیں دل میں ہوک سی اٹھی پھر کسی آرزو نے رحلت کی بارہا دل کے فیصلے بدلے یعنی توہین کی عدالت کی دل ہی دل میں ہوں اس سے شرمندہ یہ جو افتاد ہے طبیعت کی رات گزری پلک جھپکتے میں مسکرائی سحر صداقت کی کھل رہے ہیں قفس کے دروازے ڈھے رہی ہے فصیل نفرت کی فوج در فوج آ رہے ہیں لوگ اوڑھ کر چادریں محبت کی ہر طرف کھیل رہے ہیں پھول ہی پھول چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دعا کیجیے قبول ہے آج ( یکم فروری ، ۱۹۹۸ء)
99 درد دے، درد کے خزانے دے دینے والے! کسی بہانے دے کچھ نئے رنج ، کچھ پرانے دے مجھ کو لمحے نہیں زمانے دے بر سر دار آشیانے دے بے ٹھکانوں کو بھی ٹھکانے دے یا مرا مجھ سے فاصلہ کر دے یا نہ احساس کے خزانے دے ان کہی بات کو چھپا کر رکھ اس کو لب پر کبھی نہ آنے دے تو اگر مسکرا نہیں سکتا دوسروں کو تو مسکرانے دے مجھ کو اشکوں کا آئنہ لے کر شہر مسحور میں نہ جانے دے عشق کا اندلس ملے نہ ملے کشتیاں تو مجھے جلانے دے شارخ اُمید بھی ہری ہو جائے اس کو پت جھڑ کے تازیانے دے رنگ بھر لینا بعد میں مضطر ! مجھے کو تصویر تو بنانے دے
100 ادی کشته تیغ انا لگتا واعظ شہر خدا لگتا ہے کوئی چہرہ نہیں لگتا چہرہ آئینہ ٹوٹ گیا اس کے اندر ہے بلا کی وسعت یہ کھلا شہر لگتا ہے ہے مل مل مل کھلا شہر کھلا لگتا ہے پھر کہیں سوچ کے سٹاٹے میں برگِ آواز گرا لگتا ہے پھر پھرا کر وہیں آجاتا ہے وقت گنبد کی صدا لگتا ہے ہے یا اخی کہہ کے بلاتے ہیں لوگ کوہ غم کوہ ندا لگتا ماہ لگتا ہے ترا دستِ دعا مہر نقش کف پا لگتا ہے تو اگر بول رہا ہو پیارے! کوئی بولے تو برا لگتا ہے.باغ جنت سے نکلنے والا راستہ بھول گیا لگتا ہے مجھ سے ہمدردی جتانے والے! تو مرا کون ہے ، کیا لگتا ہے جب ہوا چلتی ہے ٹھنڈی مضطر ! شہر دیوار سے جا لگتا ہے...محترمی جناب احمد ندیم قاسمی مرحوم کا مشہور شعر ہے.اتنا مانوس ہوں سناٹے سے کوئی بولے تو بُرا لگتا ہے
101 دیں جدا دینے لگے، دنیا جدا دینے لگے جس قدر مانگا تھا اس سے کچھ سوا دینے لگے جاں کا غم ، جاناں کا غم ، دنیا کا غم عقبی کا غم کیا نہیں دیتا ہے جب میرا خدا دینے لگے شاعری چھوڑو ، قلم توڑو ، کرو ترک وطن ہم کو یہ احباب مل کر مشورہ دینے لگے چاند بھی کھڑکی کے رستے آ گیا دالان میں آہٹوں کو گھر کے آئینے صدا دینے لگے پھول تھا تو پھول کے جذبات کا رکھتے خیال تم اسے گلدان میں رکھ کر بھلا دینے لگے جیتے جی کوئی کسی کا پوچھنے والا نہ تھا مر گئے تو اپنے بیگانے دعا دینے لگے ہاتھ رنگیں کر لیے پہلے ہمارے خون سے پھر اٹھی ہاتھوں سے ہم کو خوں بہا دینے لگے
102 ساحلوں کے تشنہ لب بارش کی پہلی بوند کو دیکھتی آنکھوں سمندر میں گرا دینے لگے راستوں کے بے تکے پن کا نہیں کوئی علاج دشت میں جا کر حوالہ شہر کا دینے لگے قافیوں سے لڑ پڑے تو پھاڑ دی ساری غزل جرم دیواروں کا تھا، گھر کو سزا دینے لگے ہجر کے بیمار کو مضطر! قرار آ ہی گیا زخم پھر بھی زخم تھے، آخر مزا دینے لگے
103 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر معارف فارسی منظوم کلام پر تضمین مجھ سے کہتے ہیں یہ عاشق، بانورے! تو بھلا توصیف اس کی کیا کرے مرتبہ جس کا گماں سے ہو پرے روح کانپے، ذہن لرزے، دل ڈرے در دلم جوشد ثنائے سرورے آنکه در خوبی ندارد ہمسرے“ میں کروں کیا عرض، کیا میری مجال وہ ہے محبوب خدائے ذوالجلال حسن کا اس کے تصور ہے محال وہ مکمل ہے.، نہیں اس کی مثال رختم شد بر نفس پاکش ہر کمال لا جرم شد ختم ہر پیغمبرے“ اس کا عالم میں نہیں کوئی مثیل ہے محمد ہی محمد کی دلیل اس کے خادم جن و انساں، جبرئیل صاحب تسنیم و کوثر ، سلسبیل پہلوان حضرت رب جلیل بر میاں بستہ زِ شوکت خنجرے“
104 نور سے اس کے منور ہے جہاں اس سے ہیں آباد دل کی بستیاں اس سے وابستہ ہیں سب سچائیاں ہے ثناء خواں اس کی ارض قادیاں آفتاب ہر زمین و ہر زماں رہبر ہر اسود و ہر احمر اس کا ہر ارشاد سچا برمحل مجھ کو سودا ہے اسی کا آجکل ٹھیر بھی اے عمر کے سورج! نہ ڈھل دل گیا اس کی محبت میں پگھل آنکه جانش عاشق یار ازل آنکه روحش واصل آں دلبرے“ میں غلاموں کے غلاموں کا غلام میں بھلا کس منہ سے لوں احمد کا نام میم کے پردے میں ہے جس کا مقام اس پہ ہوں لاکھوں درود، اربوں سلام سالکاں را نیست غیر از وے امام رہرواں را نیست جز دے رہبرے قافلہ سالار خیل صادقاں كعبة أميد شہر عاشقاں
105 مجھ سے لاچاروں حقیروں کی اماں اہل ربوہ میں اسی کے نعت خواں ے خدا! بر وے سلام ما رساں ہم بر اخوانش ز ہر پیغمبرے“ سيد الكونين 6 ختم الانبياء مظہر کامل ہے جو اللہ کا راستہ جس کا خدا کا راستہ عرش سے آگے ہے جس کا مرتبہ جائے او جائے کہ طیر قدس را سوزد از انوار آں بال و پرے دو کامران و کامگار و کامیاب خوبیاں اس کی ہیں بے حد وحساب اس کا خالق نے کیا خود انتخاب وہ محمد ہے، نہیں اس کا جواب حسن رویش به ز ماه و آفتاب خاک کولیش په ز مشک و عنبرے“ کائنات اس کی محبت میں ہے مست اس کی خاطر ہے یہ ساری بود و هست حاصل تخلیق اس کی سرگزشت وسعت کونین اس کی سلطنت مَجْمَعُ البَحْرَيْنِ علم و معرفت جامع الاسْمين ابر و خاورے وو
106 اس کا سینہ خلق کے غم میں گداز زندگی اس کی محبت کی نماز مهدی موعود ہے اس کا ایاز او دو جہانوں میں ہوا جو سرفراز و چه می دارد بمدح کس نیاز مدح او خود فخر ہر مدحت گرے“ مهدی موعود نے برحق کہا سلسلہ میرا ہے اُس کا سلسلہ ما مسلمانیم از فضل خدا مصطفی ما را امام و پیشوا لالہ و ریحاں چه کار آید مرا من سرے دارم باں روے وسرے“ ہست أو خير الرسل، خیر الانام ہر نبوت را برو شد اختتام حسن و خلق و دلبری بر او تمام صحبة بعد از لقائي أو حرام مے پریدم سوئے کوئے او مدام من اگر می داشتم بال و پرے
107 تضمین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر معارف فارسی منظوم کلام پر تنضم لائی ہے باد صبا اس پار سے خبر عظیم وہ خدائے لم یزل جو عرش کن پر ہے مقیم ہے اسی کو علم سارا، ہے وہی تنہا علیم شان احمد را که داند جز خداوند کریم آنچنان از خود جدا شد کز میاں افتاد میم همسر او در زمین و آسمان مادر نه زاد دیکھ کر اس کو پکار اٹھے فرشتے زندہ باد خوش جمال و خوش خیال و خوش خصال و خوش نهاد زال نمط شد محو دلبر کز کمال اتحاد پیکر او شد سراسر صورتِ رب رحیم اس کی آہ نیم شب سے رات کا سینہ ہے چاک اس کا چہرہ چاند اور سورج سے بڑھ کر تابناک شرمہ چشم بصیرت اس کے نقش پا کی خاک ہوئے محبوب حقیقی می دمدزاں روئے پاک ذات حقانی صفاتش، مظہر ذات قدیم
108 کیا بتاؤں تم کو اس کا مرتبہ، اس کا کمال ایک ہی دل میں لگن ہے، ایک ہی دل میں خیال گالیاں بھی دو اگر مجھ کو، نہیں اس کا ملال گرچه منسوبم کند کس سوئے الحاد و ضلال چوں دلِ احمد نمی بینم دگر عرش عظیم ، تونے یارب! دی مجھے اس کی غلامی کی سند وہ غلامی جس کی لذت کی نہایت ہے نہ حد مان لے یہ التجا بھی، الغياث و المدد! در ره عشق محمدؐ این سر و جانم ایں تمنا، ایں دُعا، این در دلم عزم صمیم رود عشق کی منزل کٹھن ہے، راستہ ہے صعب ناک مجھ کو ڈر ہے تم نہ ہو جاؤ کہیں رہ میں بلاک آؤ کرلو مجھ سے مل کر اس سفر میں اشتراک از عنایات خدا وز فضل آں دادار پاک دشمن فرعونیانم بهر عشق آں کلیم گرچہ ہوں میں بس ضعیف و ناتوان و دل فگار ہیں درندے ہر طرف، میں عافیت کا ہوں حصار میں ہوں وہ نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار منت ایزد را که من بر رغم اہل روزگار صد بلارا می خرم از ذوقِ آں عین النعيم 66
109 میں غلام احمد مرسل ہوں اے کروبیاں! دے رہا ہوں اپنے خالق کی بڑائی کی اذاں قریہ قریہ، ربوہ ربوہ، قادیاں در قادیاں آں مقام و رتبت خاصش که برمن شد عیاں گفتی گردید مے طبعے دریں راہ سلیم ( جون ۱۹۸۸ء)
110 تم کو بھی آتش نمرود میں جلتا دیکھوں چاہتا ہوں کہ تمھیں پھولتا پھلتا دیکھوں میں تو پتھر ہوں پگھل جاؤں گا آنسو بن کر تم کو بھی برف کی مانند پگھلتا دیکھوں اپنی گستاخ نگاہی پر خجل ہو جاؤں اس کا محفل میں اگر رنگ بدلتا دیکھوں
111 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر معارف فارسی منظوم کلام پر تضمین نادان! اپنے جہل پر مجھ کو نہ کر قیاس میرا وجود ہی مرے دعوے کی ہے اساس آیا ہوں عین وقت پر اے قوم ناشناس ! میں مقدم نہ جائے شکوک ست والتباس سید جدا کند زِ مسیحائے احمرم P آشوب اختلاف کا منظر ہے دلخراش ایمان و آگہی کا سفینہ ہے پاش پاش تجھ کو اگر ہے مہدی موعود کی تلاش ”اے قومِ من! بگفته من تنگ دل مباش ز اول چنیں مجوش ہیں تا با خرم رجل رشید کوئی تو ہو، کوئی مرد قوم کوئی گروہ، کوئی جماعت یا فردِ قوم محسوس کر سکے جو کوئی گرم و سرد قوم ”ہر شب ہزار غم بمن آید ز درد قومه يارب! نجات بخش ازین روز پرشرم
112 نقد عمل نہ دولتِ ایمان ان کے پاس دن رات ان کا مشغلہ تکفیر و التباس دنیا ہی ان کو راس نہ عقبی ہی ان کو راس ” دل خون شد است از غم این قوم ناشناس واز عالمان حج که گرفتند چنبرم مٹ جائے گی جہان سے تفریق نیک و بد میں ہوں گا اور حاسدوں کی آتش حسد ہو گی مخالفت کی نہایت نہ کوئی حد جائیکه از مسیح و نزولش سخن رود گوییم سخن اگر چه ندارد باورم ملائے بدزبان کی بازی ہوئی ہے مات دل میں ہے اس کے گند، زباں پر مغلظات سورج چڑھا ہوا ہے مگر قوم پر ہے رات یارب! گجاست محرم راز مکاشفات تا نور باطنش خبر آرد ز مخبرم واللہ! میں غلام ہوں احمد کا زر خرید میرے مرید اصل میں احمد کے ہیں مرید ملا کا غم نہیں ہے کہ ملا تو ہے پلید ے حسرت این گروه عزیزاں مرا ندید وقتے به بیندم که ازیں خاک بگذرم
113 یہ آستین کا سانپ، یہ کرسی کا سُوسمار کب سے غریب قوم کی گردن پہ ہے سوار اس کے ڈسے ہوؤں کے نہ کر زخم ہی شمار اے دل! تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کاخر کنند دعوی حب پیمبرم اٹھے تھے لوگ پہلے بھی کثرت کے نام پر کثرت تھی ان کے زعم میں معیار خیر وشر تنہا تھے آں حضور بھی، اتنا تو غور کر ”اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر از باغباں بترس که من شارخ مشمرم مکر تجھ و فریب کا یہ ضرورت کا فلسفہ پر ہے اقتدار کا نشہ چڑھا ہوا نشے میں کیا کسی کو تو رستہ دکھائے گا خواہی کہ روشنت شود احوال صدق ما روشن دلی بخواه ازاں ذات ذوالکرم طاقت سے کرنا چاہتا ہے مجھ کو لاجواب اللہ کی زمین کو اتنا نہ کر خراب قرآں مری کتاب ہے، سنت مرا نصاب من نیستم رسول و نیاورده ام کتاب ہاں استم و خداوند منذرم
114 ہے کس قدر طویل ترا مجھ سے فاصلہ میں آسماں کا نور، تو کیڑا زمین کا هر آن خیمہ زن ہوں سر دشت کربلا جانم فدا شود بره دین مصطفی این است ت کام دل اگر آید میشرم“ میری زبان بند ہے، میری اذان بند جتنی غلیظ گالیاں اور جس قدر ہے گند پر اچھالنے کو چلے دیں کے دردمند بد گفتنم ز نوع عبادت شمرده اند در چشم شاں پلید تر از هر مزورم کا فیصلہ ہو کہ مُلا کا فکر وفن میرے خلاف ملتِ واحد ہیں مرد و زن تکفیر کی لپیٹ میں ہیں شہر ہوں کہ بن من امروز قوم من نشناسد مقام روزے بگریه یاد کند وقت خوشترم جب تک یہ راز منبر ومحراب کا ہو فاش کرسی پر بیٹھ کر کوئی الزام ہی تراش اللہ کے غضب کو ہے کب سے تری تلاش ے معترض! بخوفِ الہی صبور باش تا خود خدا عیاں کند آں نور اخترم
115 سوچا بھی ہے کبھی کہ اے سرخیل دشمناں! میں ہوں مسیح وقت ، میں ہوں مہدی زماں ڈر میری آہ سے کہ ہوں مرزائے قادیاں بر من چرا کشی تو چنیں خنجر زباں از خود نیم ز قادر ذوالمجد اکبرم قرآن کے چمن سے ہدایت کے پھول نچن کچھ کام آئے گی نہ یہ خالی ادھیڑ بن میری نہ سن اے بے خبر ! اللہ کی توشن رو یک نظر به جانب فرقاں زغور کن تا بر تو منکشف شود این راز مضمرم غم ہے اگر مجھے تو فقط دین کا ہے غم اس غم سے سینہ چاک ہے، دل تنگ ، آنکھ نم مہدی بھی ہوں مسیح بھی، کچھ بیش ہوں نہ کم موعودم و محلیه ماثور آمدم حیف است گر بدیده نه بینند منظرم طوفان معجزات کا اُٹھا ہے یم بہ یم میں عہد کا کلیم ہوں، میں صاحب قلم تو جس کا منتظر تھا وہی ہوں برادرم! اینک منم که حسب بشارات آمدم عیسی کجاست تا بنهد پا منبرم
116 ہے محترم اگر تو محمد ہے محترم نقش قدم پہ اس کے رواں ہوں قدم قدم اس کا بروز تام ہوں اللہ کی قسم بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم“ (۱۹۸۷ء)
117 نذر غالب نا امیدانہ سوچتا زندگی ہے درد کے سوا کیا ہے رو رہا کیوں ہے، ہنس رہا کیا ہے دل ناداں! مجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے“ تیرا احسان ہے اے فرقت یار! ہم خطا کار بھی ہیں شب بیدار کوئی سمجھائے عشق کے اسرار ہم ہیں مشاق اور وہ بیزار یا الہی! ماجرا کیا ہے جسم رکھتا ہوں، جان رکھتا ہوں دل بھی اے مہربان! رکھتا ہوں ایک طرز بیان رکھتا ہوں میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے 66
118 استے گم ہیں، منزلیں مفقود ایک دھوکا ہے شورِ ہست و بود عکس باہم ہیں شاہد و مشہور کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود ” جب پھر یہ ہنگامہ اے خدا! کیا ہے“ پاس اعمال ہیں نہ پیسے ہیں پھر بھی مخمور غم کی مے سے ہیں مجھتے ہیں ہم تو جیسے ہیں پری چہرہ لوگ کیسے ہیں عشوہ و ادا کیا ادا کیا ہے و اس کے لب پر نہیں نہیں کیوں ہے دل میں ہے درد اور یہیں کیوں ہے ہر حسیں اس قدر حسین کیوں ہے شکن زلف عنبریں کیوں ہے 66 نگه چشم سرمہ سا کیا ہے خواہشوں نے پرے جمائے ہیں دور تک حسرتوں کے سائے ہیں ہم نے بت تو خود بنائے ہیں سبزه و گل کہاں سے آئے ہیں ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے“
119 بند جب سے ہوئی ہے گفت و شنید خطرہ ہجر ہے : خواہش دید دو حریفوں کو جا کے اب یہ نوید ” ہم کو ان سے وفا کی ہے اُمید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے حادثہ دل کا جب ہوا ہو گا تو بھی حیران رہ گیا ہو گا اب پشیمانیوں سے کیا ہو گا ”ہاں بھلا کر، ترا بھلا ہو گا اور درویش کی صدا کیا ہے“ دشمنوں سے بھی پیار کرتا ہوں شکر ہوں پروردگار کرتا کچھ تو اے میرے یار! کرتا ہوں ”جان تم پر نثار کرتا نثار کرتا ہوں میں نہیں جانتا دعا کیا ہے 66 ہو منجملہ اہل دیں غالب و زابد و متیں غالب شیخ کے بھی کے بھی ہو ہم نشیں غالب ”ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالب مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
120 گفتگو کب کی بند ہے اب تو وہ بڑا عقل مند ہے اب تو پہلے اک دل رُبا تبسم تھی زندگی زہر خند ہے اب تو پھر سر شاخ لہلہانے لگا گل کا پرچم بلند ہے اب تو وہ جو کل تک تھے جان کے دشمن ان کو مضطر پسند ہے اب تو
121 ہے سارا سوز ، سارا ساز تیرا پس پردہ ہے سب اعجاز تیرا اگرچہ تو ہی اوّل، تُو ہی آخر کوئی انجام نہ آغاز تیرا تو ہر اک کا ہے محرم اور ہمراز نہیں کوئی مگر ہم راز تیرا کروں تو میں کروں تجھ سے محبت اٹھاؤں تو اٹھاؤں ناز تیرا نہیں مظہر نہیں ہے میرے غم کا یہ آنسو ہے فقط نماز تیرا نہیں ہے یہ صدا مجھ بے صدا کی ہے سب پیش و پس آواز تیرا مری پرواز بھی پرواز تیری کہ میں تیرا ، پر پرواز تیرا
122 نہ اتراؤں میں کیوں سولی پر چڑھ کر عطا کردہ ہے یہ اعزاز تیرا سمجھتا کیوں نہیں ہے میرا قاتل غضب کتنا ہے بے آواز تیرا کہاں جائے گا آدھی رات مضطر ! اگر ہو گا نہیں در باز تیرا
123 سب مومن تھے، تو کافر تھا یہ بھی اک طرفہ چکر تھا گھر کے اندر بھی اک گھر تھا جس کے ڈھے جانے کا ڈر تھا تُو ہی تھا گھر کا دروازہ تُو ہی کونے کا پتھر تھا تو ہی تھا آواز کا مبیط تو الفاظ کا نامہ بر تھا ڈھونڈنے نکلے تھے ہم جس کو نام پتا اس کا ازبر تھا ہم نے پھینک دیا تھا باہر عقل کا جو میلا بستر تھا باہر لمحوں کا لشکر تھا اندر صدیاں سوچ رہی تھیں اپنے بھی تھے، بیگانے بھی جو بھی تھا مجھ سے بہتر تھا جیسا بھی تھا ، جتنا بھی تھا آخر میں تیرا مظہر تھا اونچے محل مناروں والا اپنے گھر میں بھی بے گھر تھا شہر ذات کا رہنے والا اپنی ذات سے ہم بستر تھا لفظوں کے لب سوکھ گئے تھے کاغذ کا سینہ بنجر تھا دشت نجف تھا اور سناٹا اک لاشہ تھا اور بے سر تھا اتنا ہننے والے کو جب چھو کر دیکھا تو پتھر تھا رات ملا تھا جو مضطر نام تو اس کا بھی مضطر تھا
124 میرا گھر بھی تیرا گھر تھا تُو اندر تھا، تو باہر تھا وہ الفاظ بالاتر تھا تیرے پیار کا جو منظر تھا پلکوں پر جو نور سحر تھا اس سے تاریکی کو ڈر تھا مجھے کو تھا کچھ فکر نہ فاقہ میرا سر تھا، تیرا در تھا تو مرکز تھا میری جاں کا میری ذات کا تو محور تھا میں اک بھوکا پیاسا راہی تو میرا حوض کوثر تھا تیری یاد میں بہنے والا ہر آنسو گھر کا زیور تھا تو اس عہد کا دیدہ ور تھا محرم تھا میرے غم کا بے قامت تھے تیرے دشمن تو ہی تھا جو قدآور تھا سب نے آنسو روک لیے تھے بستی کو بارش کا ڈر تھا اپنوں پر موقوف نہیں ہے تو غیروں کا بھی دلبر تھا سچائی کا پیکر تھا تیرا ہر دعوی تھا سچا تو نے سب سے پیار کیا تھا یہ الزام بھی تیرے سر تھا سینہ لہولہان تھا تیرا چہرہ بھی اشکوں سے تر تھا حشر کا دن تھا گھر کے اندر باہر بھی روز محشر تھا خلقت ملنے کو آئی تھی لیکن تو سر گرم سفر تھا باہر سورج ڈوب رہا تھا اندر برفانی بستر تھا تو نے پیار کیا تھا جس ނ وہ ناچیز ترا مضطر تھا
125 تیل کے تالاب میں مچھلی کا منظر دیکھتے رام راجا تھے تو پر جا کا سوئمبر دیکھتے آئنے لے کر نکل آئے کھلی سڑکوں پر لوگ آئنه در آئنہ پتھر یہ پتھر دیکھتے تجربہ تم کو بھی کو بھی ہو جاتا عذاب دید کا تم اگر ان فاصلوں کو اپنے اندر دیکھتے روزن گل سے اسے اب عمر بھر دیکھا کرو تم نے چاہا تھا کہ رنگ و بو کا پیکر دیکھتے وہ سراسر لمس کی لذت سے تھا نا آشنا لفظ کو چھونے سے پہلے اس کے تیور دیکھتے کیسے کیسے خوبرویوں سے ملاقاتیں رہیں آنکھ کھل جاتی تو ان چہروں کو کیونکر دیکھتے تم بھی دامن خون سے رنگین کر لیتے اگر کتنا آتش رنگ ہے خونِ کبوتر دیکھتے
126 اپنا نام کھدواتے فصیل شہر پھر گزرتے موسموں کا چور چکر دیکھتے کو بھی للکارتا دیوار کا لکھا ہوا تم بھی آپے سے اگر باہر نکل کر دیکھتے خون کی پیاسی تھی گر شہر نگاراں کی زمیں کوئی باغی ڈھونڈ لاتے ، کوئی کافر دیکھتے بید جی کرسی کے کاٹے کا بھی کچھ کرتے علاج کوئی پوچھی کھول لیتے، کوئی منتر دیکھتے ہر کوئی اپنا نظر آتا تمھیں بھی عشق میں اُٹھ کے سینے سے لگاتے جس کو مضطر دیکھتے
127 جسم اب بھی ہے ، جان اب بھی ہے عشق کا امتحان اب بھی ہے اس پہ روح القدس اترتا ہے وہ سراپا نشان اب بھی ہے اب بھی پیاسی ہے سرزمین نجف دھوپ کا سائبان اب بھی ہے وہ اگر ہے تو ہم ہیں یعنی جان ہے تو جہان اب بھی ہے مجھ کو پروا نہیں زمانے کی مہربان اب بھی ہے وہ اگر جا چکا وہ مگر کف جاں پر نقش یا کا نشان اب بھی ہے ڑھے چکا کب کا قصر استبداد میرا کچا مکان اب بھی ہے
128 بول سکتا ہوں میں اگر چاہوں میرے منہ میں زبان اب بھی ہے لاکھ سمجھایا ، لاکھ دھمکایا ول مگر بد گمان اب بھی ہے خاک پا اس کا، جاں نثار اس کا مضطر ناتوان اب بھی ہے
129 کوئی آواز کا بھوکا، کوئی پیاسا نکلے شہر مسحور میں کوئی تو شناسا نکلے رات دن جس کو برا کہتی ہیں تیری آنکھیں کیا عجب ہے وہ براشخص بھی اچھا نکلے شہر میں دھوم تھی اس شوخ کی عیاری کی دیکھیے ! دشت میں آیا ہے تو کیسا نکلے ہم نے مانا کہ بہت سادہ و پرکار تھا وہ چاہنے والے تو کچھ اور بھی سادہ نکلے مسحور میں جاؤ تو خبردار رہو کہیں ایسا نہ ہو سا یہ بھی نہ سایہ نکلے دیکھنے والوں کی آنکھیں نہ کہیں تھک جائیں پردہ غیب سے جب تک ترا چہرہ نکلے دو قدم اور سہی اے تھکے ماندے راہی! کیا عجب ہے کہ یہیں سے کوئی رستہ نکلے
130 اس کے آنے کی خبر سنتے ہی بچے بوڑھے اپنی پلکوں پہ لیے دل کا تقاضا نکلے آبلے پاؤں کے واقف تھے پرانے لیکن روح کے روگ بھی کانٹوں کے شناسا نکلے تو کبھی پی تو سہی اشک ندامت چھپ کر عین ممکن ہے کہ یہ زہر گوارا نکلے تم بھی آ جانا ملاقات کی خاطر مضطر! سر دار مقدر کا ستارہ نکلے
131 نذر غالب.بصد ادب اور معذرت میں خطا کار بھی تھا، لائق تعزیر بھی تھا تو وہ سورج جو زمینوں سے بغلگیر بھی تھا دُور سے برف کے تودے کی طرح یخ بستہ پاس سے جلتی ہوئی آگ کی تصویر بھی تھا اے نہ بھولے سے کبھی خواب میں آنے والے! تو مرا خواب بھی تھا ، خواب کی تعبیر بھی تھا تھے گلوگیر نہ تنہا غم جاں کے بندھن گیسوئے یار ترا حلقہ زنجیر بھی تھا طائر سدره نشیں بر سر شاخ الهام رات کے پچھلے پہر مائل تقریر مائل تقریر بھی تھا نیلگوں نتھرے ہوئے گہرے سمندر کی طرح جتنا شفاف تھا وہ اتنا ہی گھمبیر بھی تھا
132 عشق میں اس کے ملوث تھے سبھی چھوٹے بڑے ہر کف دست ماجرا تحریر بھی تھا اس کے سو چہرے تھے، ہر چہرے کے لاکھوں منظر ایک ہی وقت میں وہ رانجھا بھی تھا ، ہیر بھی تھا کرسیاں کتنی ہی خالی تھیں سر بزمِ " بزم سخن یوں تو غالب بھی تھا ، اقبال بھی تھا ، میر بھی تھا یوں تو ہونے کو وہ خاموش تھا لیکن مضطر! خوش بھی تھا، تیرے چلے جانے سے دیگر بھی تھا
133 ورائے اشک اسے عمر بھر پکارا تھا وہی سکون تھا دل کا، وہی سہارا تھا گل مراد کھلا تھا ہزار سال کے بعد چمن کا ورنہ روایات پر گزارہ تھا تمام عمر کئی کئی اور فیصلہ نہ ہوا که جرم عشق کا اس کا تھا یا ہمارا تھا جو ایک بار اسے دیکھا تو دیکھتے ہی رہے کوئی علاج تھا اس کا نہ کوئی چارہ تھا شب وصال میں فرقت کے فاصلے نہ گئے که وصل یار بھی فرقت کا استعارہ تھا یہ کس کا عکس اتر آیا تھا رگِ جاں میں کہ لاکھ پردوں میں چھپ کر بھی آشکارا تھا میں اپنی ذات سے آگے سفر پہ کیا جاتا کہ اس جزیرے کے چاروں طرف کنارہ تھا
134 میں عہد عشق کا منصور تو نہ تھا لیکن کسی نے سنگ، کسی نے تو پھول مارا تھا میں اشک اشک ستارے تراشتا کیسے پکھل گیا تھا وہ منظر جو سنگ خارا تھا تم آسماں سے بچھڑ کر اُداس کیا ہوتے زمین زہر تھی اور زہر بھی گوارا تھا یہ اور بات ہے منزل جدا جدا تھی مگر جو راستہ تھا ہمارا وہی تمھارا تھا شب فراق کو آباد کر گیا مضطر! وہ اشک جو کبھی صورت ، کبھی ستارہ تھا
135 اندھیرا اب ادھر شاید نہ آئے اسے رستہ نظر شاید نہ آئے وہ نااُمید ہے اتنا کہ اس کی دعاؤں میں اثر شاید نہ آئے دل نادان کو تم جانتے ہو یہ باغی راہ پر شاید نہ آئے چلا ہے ڈھونڈ نے تصویر اپنی اسے کچھ بھی نظر شاید نہ آئے بڑی مدت کے بعد آیا ہے واپس لمحہ لوٹ کر شاید نہ آئے وہ جا کر بھی کبھی جاتا نہیں ہے مگر بار دگر شاید نہ آئے ستاروں ہی پہ کر لینا قناعت کہ وہ رشک قمر شاید نہ آئے
136 کھلے رکھو دریچے گھر کے، شاید وہ آ جائے مگر شاید نہ آئے تم اپنے سائے میں آرام کر لو کہ رستے میں شجر شاید نہ آئے وہ دریا پار کا ہے رہنے والا پانی سے ڈر شاید نہ آئے کسی ٹہنی یہ کر لے گا بسیرا پرنده اب ادھر شاید نہ آئے کہیں زیر زمیں کر لے گا آرام مسافر اب کے گھر شاید نہ آئے کنارے توڑ کر نکلا ہے سیلاب کناروں کی خبر شاید نہ آئے جسے تم ڈھونڈتے پھرتے ہو مضطر! وہ منزل عمر بھر شاید نہ آئے
137 اندرا آنکھیں ، باہر آ ، باہر آنکھیں جاگ رہی ہیں گھر گھر آنکھیں بھیگ گیا صحرا کا سینہ برسیں سوکھے امبر آنکھیں جانے والے کب آئیں گے پوچھتی ہیں یہ اکثر آنکھیں ان کو بینائی بھی دے دے آیا ہوں میں لے کر آنکھیں حیرت ہے اس اندھیارے میں دیکھ رہی ہیں کیونکر آنکھیں عہد کے ماتھے پر اُگ آئیں کیسی کیسی بنجر آنکھیں آوازوں پر چسپاں کر دو لفظوں کی بے منظر آنکھیں رہ چلتوں کو تکتے تکتے جاتی ہیں پتھر آنکھیں ہو ٹوٹ رہا ہے عہد کا انساں دل دتی ، امرتسر آنکھیں مضطر سے ملنے آئی ہیں کیسی کیسی کافر آنکھیں
138 تم عہد کے حالات رقم کیوں نہیں کرتے تصویر کے ٹکڑوں کو بہم کیوں نہیں کرتے چہروں کے کھنڈر بھی ہیں بہت دید کے قابل سیران کی بھی دو چار قدم کیوں نہیں کرتے تم کس لیے معیار کی سولی پہ چڑھے ہو دانا ہو تو معیار کو کم کیوں نہیں کرتے کیوں چھوڑ نہیں دیتے ہمیں حال پہ اپنے اے اہل کرم! اتنا کرم کیوں نہیں کرتے کیوں اتنے خداؤں کی پرستش میں لگے ہو سر ایک کی دہلیز پر خم کیوں نہیں کرتے صحرائے تحیر میں کھڑے سوچ رہے ہو رم خوردہ ہو تم لوگ تو رم کیوں نہیں کرتے میں بھی تو حسین ابن علی کا ہوں ثنا خواں سر میرا سرِ عام قلم کیوں نہیں کرتے دم توڑ نہ دے آپ کا بیمار محبت عیسی ہو تو بیمار پر دم کیوں نہیں کرتے حیراں ہیں صنم خانے بھی اس بات پہ مضطر ! جو کہتے ہیں وہ بات صنم کیوں نہیں کرتے
139 وہ بے ادب حدود سے باہر نکل گیا سورج کو اس نے ٹوکنا چاہا تھا جل گیا میرے لیے جلائی تھی اس نے چتا مگر شعلے ہوئے بلند تو موسم بدل گیا میں سنگ رہگزر تھا اکیلا پڑا رہا طوفاں مرے قریب سے ہو کر نکل گیا دھرتی کو کھا کے ساحلوں کو چاٹتا ہوا نفرت کا سانپ کتنے سمندر نگل گیا کس طرح اپنے آپ سے لڑتا میں چومکھی غصہ کیا جو ضبط تو آنسو نکل گیا نکلے تھے لوگ عہد کا یوسف خریدنے بازار میں گئے تو ارادہ بدل گیا ایوانِ شہر یار میں پھسلن تھی اس قدر جو شخص بھی قریب سے گزرا پھسل گیا
140 گر وہ نہیں تو اس سے کئی اور بھی تو ہیں کالک جبینِ شہر یہ کوئی تو مل گیا کچھ دشت نینوائے ہوس بھی تھا ناشناس کچھ تیر بھی شہادت عظمی کا چل گیا پھر یوں ہوا کہ دفعہ بدلا ہوا کا رُخ جس حادثے کا لوگوں کو خدشہ تھا، ٹل گیا صوت و صدا کا سلسلہ کچھ تو ہوا بحال صد شکر ہے کہ روح کا پتھر پگھل گیا آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی“ موسم بھی سازگار ہے، سورج بھی ڈھل گیا مضطر! تم آدمی ہو تو ہے وہ بھی آدمی دیکھو گے ایک دن کہ وہ گر کر سنبھل گیا
141 نہ میں اس سے، نہ وہ مجھ سے ملا ہے مگر دل ہے کہ اس کو جانتا ہے کیسی صبح کا چرچا ہوا ہے اندھیرے میں نظر آنے لگا ہے میں اپنے سامنے ہوں بھی ، نہیں بھی نظاره آنه در آئنہ ہے یونہی بُھولے سے آ جاؤ کسی دن کہ اس گھر کا تو دروازہ کھلا ہے کوئی آہٹ تو آئی ہے قفس میں کہیں اُمید کا پردہ ہلا ہے لرز اُٹھا ہے آدھی رات کا دل اندھیرے میں کوئی آنسو گرا ہے خدا رکھتے سلامت تجھ کو قاتل! کہ تو اپنا پرانا آشنا ہے
142 اندھیرا صبح کو جھٹلا رہا تھا اسے بھی اب یقیں آنے لگا ہے ہمہ تن گوش ہے ساری خدائی ہے پس پردہ کوئی تو بولتا کھڑا ہوں دم بخود ان کی گلی میں بڑی مدت کے بعد آنا ہوا ہے
143 شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو لمحہ فراق! کبھی مختصر بھی ہو کس طرح سے کٹے گی یہ کالی پہاڑ رات کوئی تو اس سفر میں ترا ہمسفر بھی ہو اس کو سر صفات پکارا لازم کرو، مگر نہیں کہ مرحلہ شوق سر بھی ہو وہ رنگ ہے تو اس کا بھی کوئی لباس ہو خوشبو ہے وہ اگر تو کوئی اس کا گھر بھی ہو اتنا تو ہو کہ اس کی ملاقات کے لیے سینہ بھی ہو دُھلا ہوا اور آنکھ تر بھی ہو وہ چاہتا ہے جب مرے خط کا جواب دے میں بھی ہوں اور ساتھ مرا نامہ بر بھی ہو بیٹھے ہیں انتظار میں چہروں کے چوک میں شاید کہ دل کا حادثہ بار دگر بھی ہو
144 پت جھڑ کی آنکھ ڈھونڈ تو لے گی ہمیں ، مگر اس شاخ سبز پر کوئی لمحہ بسر بھی ہو بیٹھے رہو اذیتوں کی پل صراط پر ممکن ہے اس طرف سے کسی کا گزر بھی ہو دوشِ صبا پہ سیر کو نکلی ہے چاندنی ایسا نہ ہو کہ راہ میں گل کا بھنور بھی ہو مضطر نے اپنے آپ سے کر لی مفاہمت پر یوں نہیں کہ اس کی کسی کو خبر بھی ہو
145 مجھ آنکھ میں جو آنسو لرزا تھا اس پر تیرا نام لکھا تھا صدی تھی یا شاید لمحہ تھا رک کر جو ملنے آیا تھا پر جو بادل برسا تھا بارش کا پہلا قطرہ تھا سب تیرے تھے ، تو سب کا تھا پھر بھی تو کتنا تنہا تھا! میرے اندر جو بچہ تھا میں جھوٹا تھا، وہ سچا تھا عہد نے جو پتھر پھینکا تھا میں نے اس کو چوم لیا تھا آنسو بھی دُھل کر نکلا تھا بادل بھی کھل کر برسا تھا سولی تھی مجھ سے بھی اُونچی میں سولی سے بھی اونچا تھا میں نے جو چہرہ دیکھا تھا وہ تجھ سے ملتا جلتا تھا جس دن تو ناراض ہوا تھا وہ دن بھی کتنا لمبا تھا تاریکی ہی تاریکی تھی سناٹا ہی سناٹا تھا آئینہ حیران کھڑا تھا اس نے تجھ کو دیکھ لیا تھا منزل کے اندر منزل تھی رستوں کے اندر رستہ تھا سب صدیاں تیری صدیاں تھیں ہر لمحہ تیرا لمحہ تھا اور بھی تھے دُنیا میں اچھے لیکن توس سب سے اچھا تھا
146 تو ہی تھا مفہوم کا مالک لفظ تری خاطر اُترا تھا تیرے ہی چاکر تھے لمحے تو ہی صدیوں کا آقا تھا سب دروازے بند تھے لیکن اک تیرا در تھا جو کھلا تھا دُنیا تجھ کو ڈھونڈ رہی تھی تو سب کے ہمراہ کھڑا تھا سب کچھ کھو کر تجھ کو پایا سودا کتنا سنا تھا خوشبو بھی بے تاب تھی مضطر ! پھول بھی خوشبو کا رسیا تھا
147 میں تھا یا میرا سایہ تھا سورج جب ملنے آیا تھا میں نے جب پتھر کھایا تھا تو نے چوٹ کو سہلایا تھا دیواریں ہی دیواریں تھیں در تھا نہ کوئی دروازہ تھا دھوپ تھی اور تیبا صحرا تھا پیٹر تھا نہ کوئی سایہ تھا میں ہمسائے سے کیا لڑتا ہمسایہ تو ماں جایا تھا چوٹ لگی تھی میرے دل پر تو کیوں آنسو بھر لایا تھا صدیوں کی پیاسی تھی دھرتی تو بارش بن کر آیا تھا تو تھا آدھی رات کا آنسو تو دھرتی کا سرمایہ تھا صدیوں نے پہچان لیا تھا لمحوں نے بھی اپنایا تھا چاند کا چہرہ ماند ہوا تھا سورج کا رُخ گہنایا تھا تیری آنکھوں میں تھے آنسو میرا بھی جی بھر آیا تھا اس کی چوٹ لگی تھی تجھ کو میں نے جو پتھر کھایا تھا ماضی، حال اور مستقبل پر چاروں اور ترا سایہ تھا تو آئینه در آئینه آئینوں سے اور بروزن شور بمعنی طرف ٹکرایا تھا
148 پتھر آئینے سے اُلجھ کر سورج تھا بچپن کا ساتھی دل ہی دل میں پچھتایا تھا چاند پرانا ہمسایہ تھا شہروں میں تھیں ننگی سڑکیں بن میں سایہ ہی سایہ تھا شجر ممنوعہ سے مل کر میرا بھی جی للچایا تھا میں تو شاید گم ہو جاتا تو تھا جو آڑے آیا تھا اک لمحہ لمحوں سے کٹ کر مضطر ނ ملنے آیا تھا (اگست، ۱۹۸۸ء)
149 خدمت کے مقام پر کھڑا ہوں چھوٹا ہوں مگر بہت بڑا ہوں تیری ہی نہیں تلاش مجھ کو خود کو بھی تلاش کر رہا ہوں منسوخ نہ ہو سکوں گا ہرگز قدرت کا اٹوٹ فیصلہ ہوں ایسا نہ ہوٹوٹ پھوٹ جاؤں آئینہ ترے وجود کا ہوں مالک ہے تو میرے جسم و جاں کا چاہوں نہ تجھے تو کس کو چاہوں بولوں تو ہوں عہد کی علامت خاموش رہوں تو معجزہ ہوں جس شوخ کی بات کر رہے ہو اس کو تو ازل سے جانتا ہوں وہ میرے وجود کا مخالف میں اس کے بھلے کی سوچتا ہوں طوفاں کو بھی ہو چلا ہے احساس ساحل کے قریب آ گیا ہوں منزل ہوں تو معتبر ہوں مضطر ! رستہ ہوں تو سیدھا راستہ ہوں
150 بال جب آئنے میں آنے لگا عکس اندر سے ٹوٹ جانے لگا آنکھ باقی رہی نہ تصویریں آئنہ آئنے کو کھانے لگا تھک نہ جائیں مری نحیف آنکھیں آتے آتے نہ اب زمانے لگا ہم نے صدیوں کو سہ لیا ہنس کر اب نہ لمحوں کے تازیانے لگا منزلوں کو اُجالنے اُجالنے والے! قافلوں کو کسی ٹھکانے لگا آنکھ ، آئینہ، عکس، سب تیرے کون یہ درمیاں میں آنے لگا لا الله کا ہو یا اَنَا الْحَقِّ کا کوئی نعرہ کسی بہانے لگا ނ معترض! کچھ تو پوچھ مضطر کوئی الزام ہی پرانے لگا
151 پھر مجھے اندلس بلانے لگا میں بھری کشتیاں جلانے لگا گھل رہے ہیں قفس کے دروازے کون آیا ہے، کون جانے لگا اپنی طاقت کے بل پہ اک ناداں ہم فقیروں کو آزمانے لگا پہلے پوچھا ہمارا نام پتا پھر ہمیں گالیاں سنانے لگا ہم نے اُس کو پیام زیست دیا وہ ہمیں موت سے ڈرانے لگا اس کو چین آ سکا نہ کرسی میں سر دار مسکرانے لگا اس نے گل کر دیے چراغ تو میں اشک در اشک جھلملانے لگا
152 آنکھ سے آنکھ تک چراغ جلے شہر کا شہر جگمگانے لگا جو مسلط رہا تھا سال ہا سال نام تک اس کا بھول جانے لگا دل تشکر کے جشن میں مضطر ! فرط لذت سے جھوم جانے لگا
153 تم کو بھی کوئی بددعا لگتی تم بھی کہتے کبھی کبھی خدا خدا لگتی حسرتوں کا شمار بھی ہوتا یہ نمائش بھی اے خدا! لگتی بات کرتے اگر حوالے سے نئی بات آشنا لگتی ہر کس قدر جبس ہے سرِ مقتل! ابر کھلتا تو کچھ ہوا لگتی ناخدا! اس میں تیرا کیا جاتا میری کشتی کنارے جا لگتی دل کی دتی اُجڑ گئی مضطر ! پھول والوں کی کیا صدا لگتی (۱۹۸۳ء)
154 Javor اسے یہ ڈر ہے زمین پر آسماں گرے گا پرا بدل کے رکھ دے گا شکل وصورت جہاں گرے گا اپنی بانہوں میں اس کو بڑھ کر سنبھال لینا ہوا کے رخ پر جہاز کا بادباں گرے گا نجات مل جائے گی سفر کی صعوبتوں سے سمندروں میں سراب عمر رواں گرے گا تو دیکھے گا اپنی صورت کو آئنے میں کبھی تو اپنی نظر میں وہ بدگماں گرے گا خدا کرے آسماں کا خیمہ رہے سلامت مکین بھی اب تو کہہ رہے ہیں مکاں گرے گا بس ایک ہلکا سا لمس درکار ہے نظر کا منافرت کا مجسمہ ناگہاں گرے گا بدن کی اس آگ کو جلاتے رہو عزیزو! تمھارے اوپر ہی پھر پھرا کر دُھواں گرے گا پکڑنے والے بھی منتظر ہیں چھتوں پہ مضطر ! کہ یہ پرندہ گرا تو اب نیم جاں گرے گا
155 ہر ایک سے گلے ملا، ہنس کر جدا ہوا وہ جا چکا تو شہر میں محشر بپا ہوا.جاناں کا اس طرح سے ہے چہرہ جلا ہوا جس طرح ہو گلاب پہ کندن ملا ہوا گل چیں اداس، پھول پریشاں، چمن خموش غم فراق میں کس کا بھلا ہوا عهد نکلا ہے آج اپنی انا کی حدود سے ورنہ تھا اپنی سمت وہ کب کا چلا ہوا لہروں کے لمس سے تھے کنارے تھکے ہوئے پانی اتر گیا تو ذرا حوصلہ ہوا دریا کو بی کے اور بھی بے تاب ہو گیا دھرتی کے درد سے تھا سمندر بھرا ہوا نہر فرات دیدہ و دل خشک ہو گئی اب کے برس وہ معرکہ کربلا ہوا
156 پھر داغ ہائے دل کا نظارہ ہے دیدنی پھر گلشن فراغ ہے پھولا پھلا ہوا دینے لگا دکھائی کنارہ وجود کا مدت کے بعد پیر نظر کا ہرا ہوا متٹی میں مل کے بھی نہ کسی کام آ سکا ستے کا روگ بن گیا پتھر پڑا ہوا میں جس کو ڈھونڈتا رہا آبادیوں کے بیچ وہ مسکرا رہا تھا اکیلا کھڑا ہوا میرا وجود اس کے تصور میں کھو گیا ه خود اگر نہ سامنے آیا تو کیا ہوا وہ مضطر ! بڑے طویل ہیں فرقت کے فاصلے راہی تھکا تھکا ہوا اور دن ڈھلا ہوا
157 مجھ سے کہتی ہے یہ اب میری گراں جانی بھی کیا ابھی اور کوئی رہتی ہے قربانی بھی شکل اس شوخ کی تھی ہم نے تو پیچانی بھی وہ جو اس عہد کے انکار کا تھا بانی بھی اب تو کہتے ہیں یہ غولان بیابانی بھی عشق اس شہر کی عادت بھی ہے عریانی بھی خوں بہا دے نہ سکا میرے لہو کا قاتل یوں تو اس عہد میں تھی خون کی ارزانی بھی یہ الگ بات کہ ہو جاتی ہیں نظریں زخمی ور نہ منظر سے لپٹنے میں ہے آسانی بھی حسن خود مائل گفتار ہے لیکن مضطر ! کچھ تو ہو اس کے لیے سلسلہ جنبانی بھی
158 اگر آتا نہ ہو انکار پڑھنا کبھی اس عہد کے اخبار پڑھنا تم اپنا جھوٹ خود پڑھ کر سنا دو ہمیں آتا نہیں سرکار پڑھنا وفا کے جرم میں اہلِ وفا کو کبھی باغی ، کبھی غذار پڑھنا خدائی کا اگر دعوی کیا ہے دلوں کو بھی بت عیار! پڑھنا یہی تو ہے جھلک صبح ازل کی کسی چہرے کو پہلی بار پڑھنا میں مل کر آ رہا ہوں اک حسیں سے مجھے اے آئنہ بردار! پڑھنا مرا غم بن گیا ہے شہر کا غم مرے غم کو مرے غمخوار! پڑھنا مری فرد عمل سب سے چھپا کر مرے سید ، مرے ستار! پڑھنا تمھی چاروں طرف لکھے ہوئے ہو مرے دل کے در و دیوار پڑھنا بدل جائے گا مضطر! میرا مفہوم کبھی مجھ کو نہ اتنی بار پڑھنا
159 اپنوں کو بھی پکارے، غیروں کا دم بھرے بھی سائے سے ڈرنے والا دیوار سے ڈرے بھی نیلام گھر کی بولی جیتے بھی اور ہرے بھی میرے وطن کے سکے کھوٹے بھی تھے، کھرے بھی آواز کے کنارے کوئی تو بولتا ہے کوئی تو بولتا ہے آواز سے پرے بھی موسم بھی معتدل تھا، مٹی میں بھی نمی تھی کچھ زخم بھر گئے تھے، کچھ زخم تھے ہرے بھی چکر میں آ گیا تھا آواز کا پرندہ حائل تھے راستے میں موسم کے مشورے بھی سنگلاخ راستوں میں گم ہو گئے مسافر ایک ایک کر کے ٹوٹے منزل کے آسرے بھی آشوب آرزو کے اس عہد بے نظر میں متروک ہو گئے تھے دل کے محاورے بھی اس شوخ کو ہے یوں تو وعدے کا پاس لیکن پورا نہیں کرے گا وعدہ اگر کرے بھی وہ پھول جا چکا تھا گلشن سے دُور مضطر ! پر مانتے نہیں تھے بھنورے تھے بانورے بھی
160 حد ادراک تک پھیلی ہوئی ہیں رنگ کی گلیاں ترے انفاس کی خوشبو، ترے آہنگ کی گلیاں جبین شب بتا کس مہ جبیں کی آمد آمد ہے سرا پا شوق بن کر منتظر ہیں جھنگ کی گلیاں در و دیوار کو مہکا رہے ہیں زلف کے سائے غزل میں ڈھل گئی ہیں حسن شوخ و شنگ کی گلیاں وہ اُجلے اُجلے، نکھرے نکھرے غم کے آئینہ خانے وہ گدرائی ہوئی رخسار و رقص و رنگ کی گلیاں ذرا سے زلزلے سے ڈھے گئیں فرقت کی دیواریں غرور عشق کے بازار، نام و ننگ کی گلیاں ڈبو کر خون میں نکھری ہوئی رنگیں ردا لاؤ کہ شہر ہجر میں ننگی ہیں خشت و سنگ کی گلیاں حریف اتنا پریشاں ہو رہا ہے کس لیے مضطر ! جو ہمت ہے بسالے وہ بھی اپنے ڈھنگ کی گلیاں
161 یادوں کی گزر گئیں سپاہیں تکتی رہیں دور دور سے نگاہیں فرقت کے برس رہے ہیں پتھر خطرے میں ہیں انتظار گاہیں پت جھڑ سے حساب مانگتی ہیں پیڑوں کی خزاں رسیدہ بانہیں پھولوں کا سکڑ گیا ہے سینہ خوشبوؤں کی چھن گئیں پنا ہیں تاریخ سے محو گفتگو گفتگو ہوں امکان پہ نصب ہیں نگاہیں صحرائے نجف ہے اور میں ہوں اللہ ! کہاں ہیں میری بانہیں شہروں نے نگل لیا زمیں کو راہوں سے بچھڑ گئی ہیں راہیں حیرت سے قلم کو تک رہی ہیں کاغذ کی پھٹی ہوئی نگاہیں ہونا تھا جو ہو چکا ہے مضطر! اب چین سے عمر بھر کراہیں (۱۹۸۸ء)
162 کہتی ہیں یہ منتظر نگاہیں اُتریں گی زمین پر پناہیں حالات سے کس طرح نباہیں جینا بھی اگر نہ لوگ چاہیں منظر کی نہ تاب لا سکیں گی بھولے سے اگر ملیں نگاہیں سینے ہیں مزار خواہشوں کے چہرے ہیں ہوس کی خانقاہیں خیموں میں ہیں بے وطن مسافر خیموں کی کٹی ہوئی ہیں بانہیں شاید انھیں مل گئے کھلونے بچوں کی بدل گئیں نگاہیں آئے گا جواب آسماں سے بولیں گی ضرور سجدہ گاہیں اچھی بھی ہے عقل اور بُری بھی اتنا بھی نہ عقل کو سراہیں چھوڑیں بھی ہمیں ، ہمارا کیا ہے اللہ سے اپنی خیر چاہیں ہم سا بھی نہ ہو گا کوئی ناداں تجھ سے بھی اگر نہ ہم نبا ہیں چتوں پہ لکھی ہوئی ہیں مضطر! پت جھڑ کی تمام اصطلاحیں
163 رو کے سے نہ رک سکیں گی آہیں لمبی ہیں محبتوں کی بانہیں خوشبو کے خرید کر جزیرے پھولوں نے تراش لیں پناہیں پھولوں کا لباس جل گیا ہے غنچوں کی جھلس گئیں کلا ہیں یہ صوت وصدا ، یہ حرف و معنی ناقص ہیں تمام اصطلاحیں لگتا ہے نماز پڑھ رہے ہیں لفظوں کی کٹی ہوئی ہیں بانہیں یا رب! کوئی آبرو کا آنسو پانی کو ترس گئیں نگاہیں پت جھڑ کے شہید سو رہے ہیں تا حد نظر ہیں خانقاہیں تصویر کو اذن دے سخن کا آئینے کو بخش دے نگاہیں یادوں میں گھری ہوئی ہیں مضطر ! ماضی کی تمام سیر گاہیں
164 دھرتی کو نہ آگ سے بیا ہیں ہو جائیں بھسم نہ خواب گاہیں موڑے سے نہ مڑسکیں گے دریا روکے سے نہ رک سکیں گی راہیں شہروں سے نکل کے راستوں نے کھنڈرات میں ڈھونڈ لیں پناہیں تصویر کو آ گیا پسینہ آئینے کی تھک گئیں نگاہیں ہے ایک سے اک حسین بڑھ کر چاہیں بھی تو کس حسیں کو چاہیں بارش نہ ہوئی تو آنسوؤں سے دھو لیں گے وفا کی شاہراہیں دیوار پہ بولتے ہیں کوے آنگن میں گڑی ہوئی ہیں بانہیں مولا! اسے سایہ دار کر دے ننگی ہیں مرے وطن کی راہیں مضطر ہے جہان بھر کا ضدی چاہے گا وہی جو آپ چاہیں
165 حادثہ یوں تو ٹل گیا ہے بہت گھر کا نقشہ بدل گیا ہے بہت اپنے اندر سے جل گیا ہے بہت آگ بھی وہ نگل گیا ہے بہت کچھ تو ماحول بھی تھا آلودہ زہر بھی وہ اُگل گیا ہے بہت اس کو پی لیجیے تسلی اب یہ آنسو اُبل گیا ہے بہت عہد یوں بھی سفید پوش نہ تھا کوئی کالک بھی مل گیا ہے بہت زندگی رہ گئی ہے رستے میں وقت آگے نکل گیا ہے بہت کھڑکیاں کھول دو مکانوں کی اب تو سورج بھی ڈھل گیا ہے بہت
166 اب کوئی حادثہ نہیں ہو گا سنبھل کیا ہے بہت دل سرحدوں میں سما نہیں سکتا نظارہ پکھل گیا ہے بہت اس نے جب سے مکان بدلا ہے اس کا لہجہ بدل گیا ہے بہت خواہشوں کی پھوار میں کوئی چلتے چلتے پھل گیا ہے بہت اس کی شاخیں تراش دو مضطر ! یہ شجر پھول پھل گیا ہے بہت
167 میں بُرا اور وہ بھلا ہے بہت میرے اللہ ! فاصلہ ہے بہت اچھا اچھا، بُرا بُرا ہے بہت اب تو آسان فیصلہ ہے بہت دیکھیے ! جیت کس کی ہوتی ہے میرا مجھ سے مقابلہ ہے بہت اجنبی اجنبی سا لگتا ہے یہ نیا گھر ابھی نیا ہے بہت ٹوٹ جائے نہ فرطِ لذت سے آئنہ مسکرا رہا ہے بہت کوئی صورت نظر نہیں آتی سر سے پانی گزر گیا ہے بہت ہم ترے عہد میں ہوئے پیدا ہم کو اتنا بھی واسطہ ہے بہت
168 غم دیا، غم کا احترام دیا تو نے جو بھی دیا، دیا ہے بہت پھر کوئی حادثہ نہ ہو جائے آرزوؤں کا جمگھٹا ہے بہت یار! اتنے بھی ہم حقیر نہیں ہم نے مانا کہ تو بڑا ہے بہت عقل ناراض ہو گئی مضطر ! دل نادان بولتا ہے بہت
169 چھوڑ کر عقل کی باتیں ساری عشق سے مانگ زکوتیں ساری اس کی توصیف مکمل نہ ہوئی ہو گئیں ختم لغاتیں ساری توڑ کر پھینک دے اس کے در پر قلم اور دوائیں ساری اس کی نظروں سے چھپا کر رکھنا صوم اپنے یہ صلاتیں ساری اس سے ہی ملتے ہیں سارے انعام سارے اکرام، نجاتیں ساری دیکھنا ان کو چھپا کر رکھنا کام آئیں گی یہ راتیں ساری ہے فقط عشق نجیب الطرفین اور کم ذات ہیں ذاتیں ساری تن کی مٹی ہو کہ من کا سونا ایک ہی دھات ہیں دھاتیں ساری سامنا ان سے ہوا جب مضطر! خود گرا دو گے قناتیں ساری
170 شور ہونے لگا پتنگوں میں روشنی بٹ گئی ہے رنگوں میں کیسے کیسے جوان مارے گئے حرف وصوت وصدا کی جنگوں میں اس میں کچھ آنکھ کا قصور نہیں رنگ ہی مل گئے ہیں رنگوں میں رات جب روشنی قریب آئی فاصلے بڑھ گئے پتنگوں میں ان کو ایفائے عہد کا ہے خیال ہے شرافت ابھی لفنگوں میں آنکھ لڑتی، زباں جھگڑتی ہے زندگی گھر گئی تلنگوں میں کیا ملا تھا معاوضہ اے دل! تو بھی زخمی ہوا تھا جنگوں میں آندھیاں بھی نہ ان کو کھول سکیں ایسی گرہیں پڑیں پتنگوں میں کاش اپنا شمار ہو جائے تیری درگاہ کے ملنگوں میں ان کو ڈر ہے کہ اب کے مضطر بھی گھر نہ جائے کہیں اُمنگوں میں
171 تھک کے واپس آ گئی چشم سوال ہر طرف حائل ہے دیوار خیال وہ نگاہوں کا مقام اتصال ہنس کے ملتے ہیں جہاں عجز و کمال عالم تاب کے دربار میں اب بھی ذرے بولتے ہیں خال خال جسم و جاں دونوں معطر ہو گئے کتنا خوشبودار ہے تیرا خیال اب نظر آئیں گے دل کے فاصلے چاند نکلا ہے سر غار خیال باغ میں پت جھڑ کا ننگا ناچ ہے گا رہی ہے ماہیا باد شمال دیکھنے والے بھی مضطر ! آئیں گے حسن کو جب ہوگا احساس جمال
172 یار خود آ گیا قریب مرے دیکھتے رہ گئے رقیب مرے چاہتا ہوں ، پکارتا ہوں تجھے بولتے کیوں نہیں مجیب مرے! ابھی دل کے صنم نہیں ٹوٹے بت شکن ، کاسر صلیب مر.تم تو آؤ سرورِ جاں بن کر آگے قسمت مری، نصیب مرے چادر عفو میں چھپا لیے اور آ جائیے قریب مرے تیرے محبوب کا غلام ہوں میں زہے قسمت مری ، نصیب مرے ”موت کیا زندگی نہیں ہوتی کیوں پریشان ہیں طبیب مرے کچھ تو مضمون بھی نرالا ہے کچھ ہیں عنوان بھی عجیب مرے نام بدنام ان کے فیض سے ہے میرے احباب ہیں نقیب مرے ذکر ہو گا مری وفاؤں کا زخم بولیں گے عنقریب مرے ٹوٹ کر بھی ابھی نہیں ٹوٹے بت نرالے ، صنم عجیب مرے رات جب فاصلے بڑھے مضطر! شمع اور آ گئی قریب مرے
173 کچھ تو دنیا بھی آنی جانی لگی کچھ گلی یار کی سہانی لگی ان کی ہر بات کا یقیں آیا ان کی ہر بات آسمانی لگی ان کا غصہ ہے پیار سے بڑھ کر ان کی سختی بھی مہربانی لگی ان سے مل کر بدل گئی ہر چیز عمر فانی بھی جاودانی لگی اک قیامت گزر گئی دل پر سننے والوں کو اک کہانی لگی سر جھکا کر جو غور سے دیکھا ہر نئی آرزو پرانی لگی تیرے غم کے بغیر مضطر کو کتنی بے کار بے کار زندگانی لگی
174 مرا بیاں ہے بہت مختصر بھی، سادہ بھی جو سننا چاہو تو اس کا کروں اعادہ بھی میں اپنے آپ سے بھی کھل کے مل نہیں سکتا اگر چہ اس کا کیا بارہا ارادہ بھی عجب نہیں کہ اچانک پرانا ہو جائے عروس عہد کا تازہ ترین لبادہ بھی میں ایک ہوں، کبھی تقسیم ہو نہیں سکتا اگر چہ بانٹ لو تم مل کے آدھا آدھا بھی وہ دل کی بات تھی کھل کر زباں پہ آ نہ سکی اگرچہ اس نے کیا بار بار وعدہ بھی اسے اکیلے اُٹھاؤ گے کس طرح مضطر ! بدن کا بوجھ ہے اور بوجھ ہے زیادہ بھی
175 جانے کیا جی میں ٹھان بیٹھے ہیں تیری محفل میں آن بیٹھے ہیں مجبوریاں اس طرف بھی تو یک نظر دیکھو ہم بھی اے مہربان! بیٹھے ہیں گنواؤ ہم تو پہلے ہی مان بیٹھے ہیں ہجر کا غم سب دلوں کو ٹٹول کر دیکھیں جس قدر صاحبان بیٹھے ہیں وصل کی امید جان ہے نہ جہان، بیٹھے ہیں ایک ہم ہیں جو تیری محفل میں بے غرض ، بے نشان بیٹھے ہیں اس طرف آگ، اُس طرف بھی آگ اور ہم درمیان بیٹھے ہیں اشک بر سے تو اس قدر برسے ڈھے گئے دل، مکان بیٹھے ہیں دوست احباب ہی نہیں مضطر! اور بھی بدگمان بیٹھے ہیں
176 ارمغاں ہے یہ پیر کامل کا داغ ہے یا چراغ ہے دل کا وار اوچھا پڑا ہے قاتل کا دیدنی ہو گا رقص بسمل کا گر گئی اس کے ہاتھ سے تلوار جاگ اُٹھا ضمیر قاتل کا آپ طوفاں سے ڈر رہے ہوں گے مجھ کو کھٹکا لگا ہے ساحل کا جس قدر تھا قصور آنکھ کا تھا نام بدنام ہو گیا دل کا اب کے گزرا کچھ اس طرح طوفاں مٹ گیا ہے نشان ساحل کا منزلوں سے گزر رہے ہیں لوگ پوچھتے ہیں نشان منزل کا تیرے چہرے کی چاندنی کی قسم راستہ جگمگا اٹھا دل کا عقل کیا، عقل کی حقیقت کیا جمگھٹا سا ہے اک دلائل کا راستے پاس آ گئے منظر! رات قضہ چھڑا تھا منزل کا
177 دل کی منزل بھی سر نہ ہو جائے بے صدا گھر کا گھر نہ ہو جائے میری فریاد کو نہ غور سے سن تیرے دل پر اثر نہ ہو جائے پھر کوئی آ رہا ہے جانب دل کہیں دل کو خبر نہ ہو جائے شب فرقت ہو تیری عمر دراز تو کہیں مختصر نہ ہو جائے غم دُنیا بھی خوب ہے پیارے! اس کی عادت اگر نہ ہو جائے حسن کی شان میں کوئی تقصیر تجھ سے اے بے نظر! نہ ہو جائے شب غم کے قرار ! آ جاؤ آ بھی جاؤ، سحر نہ ہو جائے تھام لے اب زبان کو مضطر ! گفتگو بے اثر نہ ہو جائے
178 صبح عہد شباب ہو جیسے فرصت بے حساب ہو جیسے چاندنی زندگی محو خواب ہو، چناب ہو جیسے اتنی ناکامیابیوں کے بیچ زندگی کامیاب ہو جیسے آرزوؤں کی دھوپ چھاؤں میں آرزو محو خواب ہو جیسے میری کشتی کے ڈوبنے کے بعد مطمئن سطح آب ہو جیسے سوچتا ہوں کہ اپنے آپ سے بھی ایک گونہ حجاب ہو جیسے ان کو دیکھا تو یوں ہوا یوں ہوا محسوس عشق کارِ ثواب ہو جیسے دیکھتے ہیں وہ اس طرح مضطر! کوئی ان کا جواب ہو جیسے
179 یوں سوالات سر میں رہتے ہیں جیسے مجبور گھر میں رہتے ہیں آنسوؤں کو نہ روکیے صاحب! مسافر سفر میں رہتے ہیں دشت در دشت آهوان خیال انتظار سحر میں رہتے ہیں فصل وحشت میں احتیاطاً لوگ پا بہ زنجیر گھر میں رہتے ہیں ہو کے مستور لاکھ پردوں میں دل میں بستے، نظر میں رہتے ہیں کس لیے ٹوکتے ہو مضطر کو کیا یہی شہر بھر میں رہتے ہیں
180 حادثہ وہ جو اب کے سال ہوا حسب أميد 6 حسب حال ہوا سن کے کہنے لگے مرا احوال صدمہ ہوا ، ملال ہوا ایک تجھ سے وفا کی تھی امید تو بھی لوگوں کا ہم خیال ہوا جس ނ تیرے بے وجہ مسکرانے پر ہم کو کیا کیا نہ احتمال ہوا پوچھو وہی فرشتہ ہے آدمی کوئی خال خال ہوا ایک بندہ، ہزار بندہ نواز بندگی کیا ہوئی، وبال ہوا دل مرحوم کو خدا بخش ایک ہی صاحب کمال ہوا کچھ تو دل کو قرار آئے گا تو ہوا یا ترا خیال ہوا عشق کی دار و گیر میں مضطر! ایک دل تھا جو پائمال ہوا
181 کبھی بہار کو ترسے ، کبھی خزاں سے ڈرے یہ پھول کھلنے سے پہلے ہزار موت مرے یہ اشک ہیں کہ حسینوں کے ہیں پرے کے پرے ڈھلے دھلائے ہوئے بانورے بنے سنورے نقاب پوش کھڑے ہیں صدا کی سرحد پر فصیل شہر خموشاں ہے آہٹوں سے پرے غروب ہو گئے چہرے، اُجڑ گئی محفل نه حسن جلوہ نمائے ، نہ عشق خوش نظرے صنم فروش ، صنم گر ، صنم پرست ہے دل یہ اور بات ہے کہتے ہوئے زباں سے ڈرے کبھی جو عہد گزشتہ کو لوٹ کر دیکھا دل و نگاہ نے کیا کیا نہ اس میں رنگ بھرے انھی کے فیض سے قائم ہے زندگی کی بہار خدا کرے کہ رہیں زندگی کے زخم ہرے خدا کرے کہ مری یاد بھول جائے اُسے میں اُس کو بھول سکوں ، یہ کبھی خدا نہ کرے پھرا کرے ہے اکیلا اُداس کیوں مصنطر ! نہ مسکرائے ، نہ بولے کبھی ، نہ آہ بھرے
182 وہ چاہتا تھا کہ دو چار روز ہنس کے رہے یہ اور بات ہے سونے کے سانپ ڈس کے رہے میں جان دے کے بھی امسال مطمئن نہ ہوا سر صلیب بھی چرچے مری ہوس کے رہے فقیہ شہر نے قدغن لگا دی موسم پر جمال یار کے بادل مگر برس کے رہے ہزار بے وطنی تھی، ہزار بے بدنی گل مراد کی خوشبو میں شہر بس کے رہے نہ گل رہا ہے، نہ گل چیں، نہ رسم گل چینی رہی تو لمس کی لذت ، نظر کے چسکے رہے ہوا نہ ہو گا کبھی یہ ستم زمانے میں کہ گوجرے میں رہے یار، آپ ڈسکے رہے بدن سے مل کے بدن اور ہو گئے تنہا جو فاصلے تھے وہی فاصلے ہوس کے رہے مجھے جلا دے، مری آہ کو اسیر کرے اسے کہو کہ نہ درپے مرے قفس کے رہے کچھ ایسے بدلا ہے آئین گلستاں مضطر ! که تاب برق نہ اب حو صلے قفس کے رہے
183 نہ ہم فقیروں کی خاطر، نہ آشنا کے لیے ت ” تو اپنی جان کی مت کھا قسم خدا کے لیے“ روش روش پہ ہیں بے تاب منزلوں کے ہجوم قدم قدم پہ ہیں خطرات رہنما کے لیے طفیل جس کے غم دوجہاں قبول کیا ترس گئے ہیں اسی چشم آشنا کے لیے نہ اپنی مانے، نہ اوروں کا اعتبار کرے مقام خوف ہے عقل گریز پا کے لیے ہزار آنکھ میں اشکوں کے جل رہے تھے چراغ دیے بھی ساتھ تری یاد کے جلا کے لیے سحر تو سر پر کھڑی ہے، سحر کا نام نہ لو سحر سحر نہ کرو قاتلو! خدا کے لیے ستارے شام غریباں کے چاند بن کے چڑھے یہ اہتمام مقدر تھا کربلا کے لیے سب اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے وفا کی رسم چلی ایک باوفا کے لیے کرم کی ان کے ہے مضطر ! جہان بھر میں دھوم چلو نہ تم بھی کبھی عرض مدعا کے لیے
184 اس شہر انتخاب کے پتھر اٹھا لیے واللہ ہم نے لعل و جواہر اٹھا لیے گھر سے چلے تو خاک وطن سر پہ ڈال لی پلکوں پہ جیتے جاگتے منظر اٹھا لیے پت جھڑ کے زرد شور میں بادِ شمال نے افتادگان ماہ دسمبر اٹھا لیے بزم شعورِ ذات کے مندنشین ہیں وہ غم جو لاشعور سے لے کر اٹھا لیے اس شہر بے قرار کے حالات دیکھ کر آسودگان شہر نے بستر اٹھا لیے چہرے کی تیز دھوپ میں چہرہ لپیٹ کر زلف سیاه یار کے اثر در اٹھا لیے تن کی چتا سے عقل کی عیار آنکھ نے جلتے ہوئے جمال کے پیکر اٹھا لیے دار و رسن کے مذہب و آئین کے خلاف ہم جا چکے تو آپ نے پتھر اٹھا لیے صدمے جو بھول کر بھی اٹھائے نہ تھے کبھی عہدِ غم فراق میں مضطر ! اٹھا لیے
185 آنسو اُبل کے دیدہ مضطر میں آ گئے دستک دیے بغیر بھرے گھر میں آ گئے لذت ہمیں نصیب ہوئی انتظار کی انعام سب ہمارے مقدر میں آ گئے آنسو گرا تو سوچ کا سینہ لرز گیا طوفان آہٹوں کے سمندر میں آ گئے ہنگام ذبیح عمر گزشتہ کے واقعات ایک ایک کر کے ذہن کبوتر میں آ گئے خواب سحر سے جاگ بھی نادان ! آنکھ کھول سورج پکھل کے جام گل تر میں آ گئے پرده اُٹھا تو عقل کا چہرہ اُتر گیا لاکھوں شگاف ذہن کی چادر میں آ گئے اصل شهود و شاہد و مشہور ایک ہے“ کیوں مشاہدات کے چکر میں آ گئے
186 کچھ لوگ رہن چشمه آب بقا ہوئے اور کچھ فریب بادہ و ساغر میں آ گئے دو ہر روز روز عید ہے ، ہر شب شب برات محفل سے اٹھے کوچۂ دلبر میں آ گئے ذرات کی برہنگی کی تاب تھی کسے ذرے جلے تو چاند بھی چکر میں آ گئے چهره الفاظ دکھا دے شاہد معنی! قریب آ زلف معنبر میں آ گئے دام اب بوالہوس غریب کرے بھی تو کیا کرے جو حادثے تھے دامن مضطر میں آ گئے
187 یار کو دیکھنے اغیار کا لشکر نکلا یار وہ شوخ نہ گھر سے کبھی باہر نکلا پاس مقتل کے مرے کوچۂ دلبر نکلا دار مجھے تھے جسے یار کا دفتر نکلا دشت پیمائی کی تکلیف اُٹھائی نہ گئی دشت پیمائی کا ساماں تو میٹر نکلا ذرے ذرے میں ملے گھومتے پھرتے سورج قطرے قطرے کو جو چیرا تو سمندر نکلا اس میں لذت بھی ہے تلخی بھی ہے تنہائی بھی ہجر کا دن تو شب وصل سے بہتر نکلا جیسے یہ آپ ہی خود اپنا تماشائی ہو چاند یوں رات سر شاخ صنوبر نکلا منزلوں پھیل گئی تیرے بدن کی نکہت راستہ تیری ہی خوشبو سے معطر نکلا
188 کون یہ آخر شب کر گیا مجھ کو بے تاب کون یہ گھر کو مرے آگ لگا کر نکلا اپنوں بے گانوں میں رہنے لگے چرچے ہر دم اتنا احسان تو احباب کا ہم پر نکلا ہر طرف پھیل گئی ہجر کی زردی مضطر ! چاند چہرے پہ لیے درد کی چادر نکلا
189 کچھ وہی لوگ سرفروش رہے موت کا ڈر نہ جن کو ہوش رہے آپ نے بات بات پر ٹوکا ہم سردار بھی خموش رہے کس قدر وضعدار ہیں ہم لوگ قبر میں بھی سفید پوش رہے ہم خطا کار تھے بہر صورت وہ بہر حال عیب پوش رہے بیٹھے بیٹھے وہ انقلاب آیا رند باقی نہ مے فروش رہے ہم نے اک بات سرسری کی تھی آپ کیوں عمر بھر خموش رہے ڈھل چکا دن، اُتر گئے دریا ولولے ہیں نہ اب وہ جوش رہے ان کے ہو جاؤ تم اگر مضطر ! فکر فردا نہ فکر دوش رہے
190 شیشے میں جو ہو جائے سفارش کی پری بند پھر شہر نہ دیہات نہ پنڈی نہ مری بند کچھ جبس بھی بڑھ جائے ، اندھیرا بھی سوا ہو کر دینا در بچوں کو مری جان! ذری بند اب لوگ لوگ سر عام لیے پھرتے ہیں شیشے شیشه شکنی بند ہے کے شیشہ گری بند منزل کی ہو خواہش تو نکل آتے ہیں رستے نیت ہو اگر نیک تو خشکی نہ تری بند طرفین میں ہے اب بھی محبت کا تعلق ہو گی نہ کبھی رسم و رہ نامہ بری بند لا عشق کا آزار نہ آشوب جنوں کا اک عقل کی آواز تھی سو تم نے کری بند لگتا ہے کہ مضطر پہ کوئی ہو گی عنایت نکلے ہو پہن کر جو سیاست کے پری بند
191 عقل کا اندھا ہے دیوانہ ہیں تم نے دیوانے کو پہنچانا نہیں عاشق صادق ہوں فرزانہ نہیں میرے اندر عقل کا خانہ نہیں میں گیا موسم نہیں ہوں، وقت ہوں مجھ کو واپس لوٹ کر آنا نہیں نیک ہونے کا ہے نیت پر مدار نیکیوں کا کوئی پیمانه نہیں چین آ سکتا نہیں اس دور میں اور آ جائے تو کھبرانا نہیں کوئی منزل ہے نہ کوئی راستہ کہیں آنا نہیں جانا نہیں پیش و پس کا کیا تجھے ادراک ہو تو کسی تسبیح کا دانہ نہیں
192 زندہ رہنے کی سزا ہے زندگی کوئی مرنے کا بھی جرمانہ نہیں دل پہ دستک دے رہے ہو کس لیے گھر میں کوئی صاحب خانہ نہیں جاؤ لے آؤ شرافت کی سند کیا تمھارے شہر میں تھانہ نہیں و سے مضطر! ایک ہی در کا غلام ہے تیری قسمت ٹھوکریں کھانا نہیں
193 عرش اثر گیا ہو گا نالہ بھی تا سحر گیا ہو گا مشکل آسان ہو ہو گئی ہو گی“ سے گزر گیا ہو درد حد گا جانتا ہوں دعا کے موسم میں اکیلا کدھر گیا ہو گا وہ نارِ نمرود بجھ گئی ہو گی صحن پھولوں سے بھر گیا ہو گا دار ش گزر گئی ہو گی لوٹ کر کون گھر گیا ہو گا آرزو کے محاذ پر کوئی ضبط کی بازی ہر گیا ہو گا اس کی آواز کی صداقت پر لفظ لذت سے بھر گیا ہو ہو گا
194 روز ناموں کا نامہ اعمال میری خبروں سے بھر گیا ہو گا عہد غم میں نہ جانے کس کس کی جاں گئی ہو گی، سر گیا ہو گا اس میں خنجر کا کچھ کمال نہیں زخم خود بن سنور گیا ہو گا آؤ دریا کی سیر کر آئیں تو پانی اُتر گیا ہو گا اب نہیں ایسا نہ ہو چھلک جائے صبر کا جام بھر گیا ہو گا منه سے بولا نہیں اگر مضطر کچھ اشارہ تو کر گیا ہو گا
195 بَغْتَةً وہ اگر گیا ہو گا راکھ بن کر بکھر گیا ہو گا اپنا انجام دیکھ کر اس کا ملتمع اُتر گیا ہو گا مٹ گئے ہوں گے عہد کے آثار ستمگر جدھر گیا ہو گا وہ دیکھ کر میری مسکراہٹ کو اس کا چہرہ اُتر گیا ہو گا اپنے انجام پر نظر کر کے پہلے مر و گا اس نے دیکھا تو ہو گا آئینہ لوٹ کر جب وہ گھر گیا ہو گا مجھ کو خبروں سے مارنے والا مر گیا ہو گا سر اخبار مر گیا زر آواز کوٹنے کے بعد دن دہاڑے مکر گیا ہو گا
196 چین کی بھیک مانگنے کے لیے جانے کس کس کے گھر گیا ہو گا دن چڑھے آنکھ کھل گئی ہو گی سارا نشہ اتر گیا ہو گا اس کو دیکھے ہوئے سیر اخبار اک زمانہ گزر گیا ہو گا لوگ جاتے ہیں اپنی مرضی وه برنگ دگر گیا ہو گا جس کڑے دن کا ذکر کرتے ہو بھی آخر گزر گیا ہو گا وہ آؤ مقتل کی سیر کر آئیں کچھ تو موسم نکھر گیا ہو گا خشک پتوں کی طرح بالآخر وہ خلا میں بکھر گیا ہو گا خون ناحق سے ہی سہی مضطر! اس کا دامن تو بھر گیا ہو گا
197 اٹھتے اٹھتے اٹھے نقاب بہت ہو گیا کوئی بے حجاب بہت شرم سے ہے وہ آب آب بہت اس کو اتنا بھی ہے عذاب بہت بخش دے تو مجھے بغیر حساب مجھ کو اتنا بھی ہے حساب بہت ب غفلت سے جاگ ، آنکھیں کھول آ گیا سر پہ آفتاب بہت ایک دل تھا کہ مطمئن نہ ہوا یوں تو میں نے دیے جواب بہت کچھ تمھارا سوال بھی تھا غلط ہو گیا وہ بھی لاجواب بہت میرے ہمزاد نے کہا مجھ سے ” میں کروں گا تجھے خراب بہت 66
198 ایک عیار ہے دل ناداں بھیس ہیں اس کے بے حساب بہت مسکرا کر ملا کرو ہم اس کا ہو گا تمھیں ثواب بہت اور بھی پھول ہوں گے دنیا میں ہم کو ہے ایک ہی گلاب بہت مسکرانے بھی انھیں مضطر ! دے کر نہ زخموں کا احتساب بہت
199 تصدیق چاہتا ہے اگر ، آفتاب لا منہ بولتا ثبوت کوئی ہمرکاب لا اظہار کی چتا میں سلگنے کی تاب لا شب ماہتاب بانٹ، سحر آفتاب لا اتنا تو ہو تو اُس کے لیے بے قرار ہو تو چاند ہے تو چاندنی کا اضطراب لا جس کا عدالتوں میں حوالہ دیا گیا وہ اقتباس میں بھی پڑھوں لا کتاب لا خلقت کھڑی ہے کاسئہ حیرت لیے ہوئے اے حسنِ تام! حسن کو زیر نقاب لا اتنا تو دیکھ آ رہا ہوں کتنی دور سے اے بے مقام! میرے سفر کا ثواب لا تحفہ تو پیش کر کوئی منصور وقت کو پتھر اگر نہیں ہے تو برگِ گلاب لا
200 کب سے گھرا ہوا ہوں صدا کے حصار میں میرے مجیب! میری فغاں کا جواب لا پیاسا ہوں، مجھ کو بخش دے نہر فرات غم اس دشتِ بے سحاب میں کوئی سحاب لا پاؤں میں اس کو روندتا پھرتا رہا ہے تو اللہ کی زمین کا مضطر ! حساب لا
201 ہر دید حضوری تو نہ ہووے اور دوری بھی دوری تو نہ ہووے کر سکتے ہیں بات مختصر بھی تمہید ضروری تو نہ ہووے کس طرح ادا ہو حرفِ مطلب تمہید ہی پوری تو نہ ہووے سیکھا نہیں جاتا عشق کا فن بات شعوری تو نہ ہووے مل جاتی ہے بے سبب بھی عزت «تقصیر» ضروری تو نہ ہووے ألفت ہے خود آپ اپنی منزل یہ چیز عبوری تو نہ ہووے کھل کر کرو بات ان سے مضطر! فریاد ادھوری تو نہ ہووے
202 زخم کریدو ، شور کرو ، فریاد کرو بنجر راتیں راتیں رو رو کر آباد کرو سرخ سنہری آگ جلاؤ اشکوں کی گھر بیٹھے سیر اسلام آباد کرو قاتل ہوں، مقتول بھی ہوں ،مقتل بھی ہوں حیثیت سے بولوں، ارشاد کرو ہم بھی پیارے! تیرے چاہنے والے ہیں آنکھ سے آنکھ ملاؤ، روح کو شاد کرو ناداں، نالائق ہے، عقل سے عاری ہے ہے،عقل عقل کے اندھو! مضطر کو استاد کرو
203 اس فیصلے میں میرا اگر نام آئے گا تہمت لگے گی تم پہ بھی الزام آئے گا اس کو علامتوں کی ضرورت نہیں رہی اب کے وہ آئے گا تو سرِ عام آئے گا کب تک رہے گی خلق خدا اس کی منتظر کوئی تو آسمان سے پیغام آئے گا سائے کی طرح ہر کوئی دیوار گیر ہے وہ جائے گا تو خلق کو آرام آئے گا خوشبو پہن کے نکلی ہے آواز عہد کی لگتا ہے کوئی صاحب الہام آئے گا آواز آ رہی ہے یہی آسمان سے اب طائر زمیں نہ نہ دام آئے گا مجھ ہی سے اس کی خط و کتابت ہے آجکل آئے گا اس کا خط تو مرے نام آئے گا مضطر کو جلنے دیجیے فرقت کی آگ میں پتھر پگھل گیا تو کسی کام آئے گا
204 قصہ یہ ہے کہ جس کو بھی دیکھا قریب سے لپٹا ہوا تھا آپ ہی اپنی صلیب سے میں خود بھی اپنے آپ کو پہچانتا نہ تھا ناحق گزر رہا تھا وہ میرے قریب سے اے اہل شہر ! شہر کے دُکھڑوں کی داستاں لکھوا لیا کرو کسی اچھے ادیب سے آئیں خبر فروش تو ان سے ملاؤ ہاتھ مقتل میں جا کے صلح بھی کر لو رقیب سے! اب آئنوں میں شہر کی قسمت پڑھا کرو ہیں صورتیں نئی نئی ، چہرے عجیب سے اب کر سکو تو آپ ہی اس کا کرو علاج درماں کی کچھ امید نہ رکھو طبیب.ނ لکھا گیا ہے دار پہ جس باوفا کا نام اس کے نصیب پوچھ کسی خوش نصیب سے کافر لکھا ہے نام ہمارا سر صلیب ملتا ہے ایسا مرتبہ مضطر! نصیب سے
205 یہ اک اور قیامت ڈھائی لوگوں نے یار سے جا کر چغلی کھائی لوگوں نے تیرے نام کی دے کے دُہائی لوگوں نے بستی بستی آگ لگائی لوگوں نے جیتے جی مرنے کے لیے بے چین رہے مر کے بھی تسکین نہ پائی لوگوں نے لین دین کے صاف، گرہ کے پورے ہیں ایک سنی تو لاکھ سنائی لوگوں نے اپنوں کے گاہک بھی ہیں، بیو پاری بھی بیچ دیا یوسف سا بھائی لوگوں نے ہجر کی رت میں اشک بہائے، نیر پیسے یونہی آگ سے آگ بجھائی لوگوں نے ایک ہی دن میں رو رو کر بے حال ہوئے کب دیکھی تھی ایسی جدائی لوگوں نے
206 چہرے نوچ کے پھینک دیے آوازوں کے لفظوں کی دیوار گرائی لوگوں نے کرنے کو تو ایک اشارہ کافی تھا ناحق شور کیا سودائی لوگوں نے اپنے بیگانے سب آئے ملنے کو چھین لی مضطر کی تنہائی لوگوں نے
207 پھر کسی سوچ نے گھونگھٹ کھولا دور اندھیرے میں کوئی پھر بولا پھر وہی دھیان کی منزل آئی روح رونے لگی، سینہ ڈولا کچھ فرشتے تھے جو آڑے آئے آدمی کوئی نہ ہنس کر بولا ہم نے میزان عدالت دیکھی مشتق تولا گیا تولہ تولہ یوں نہ ڈھل پائے گا دل کا دامن آنکھ کے پانی میں جا کر دھو لا رہ گئیں دل ہی میں دل کی باتیں زخم چلائے نہ آنسو بولا مضطر رات بھر روتا رہا ہے اس کو سینے سے لگا لے ڈھولا !
208 میں جب بھی سر دیدہ تر گیا نہاں خانہ دل سے ہو کر گیا ہوئے جب سے ہم آہٹوں کے اسیر وہ سننے سنانے کا چکر گیا اندھیروں کے انجام کو دیکھنے پر چشم تاروں کا لشکر گیا ستارے ستاروں سے ٹکرا گئے خلاؤں کا دل شور سے بھر گیا کبھی راستے دشت میں رہ گئے میں خود دشت کے یار اکثر گیا سر دار کوئی صدا تھی نہ شور تو کیوں اپنی آواز سے ڈر گیا میں بیٹھا رہا دل کی دہلیز نہ باہر رُکا میں، نہ اندر گیا وہ صدیوں سے اس گھر میں آباد ہے ابھی چاند کھڑکی سے باہر گیا ازل آرزوؤں کی دیوار پر جو بیٹھا ہوا تھا کبوتر گیا وہ پھر آ گئی زندگی راہ پر وہ پھر ان کے ہاں آج مضطر گیا
209 مل ہی جائے گی دل کی منزل بھی کچھ تو اپنی جگہ سے تو ہل بھی ہم فقیروں سے بے نواؤں سے مسکرا کر کبھی گلے مل بھی اس سے سارا جہان ہے ناراض جو ہے سارے جہان کا دل بھی ریزه در ریزه لمحه در لمحہ ٹوٹ جائے گی وقت کی سل بھی عہد ہے اس کے دریے آزار عہد کا ہے جو پیر کامل بھی کوئی طوفان بھیج دے یا رب! اب تو پاس آ گیا ہے ساحل بھی کبھی ملتا کبھی نہیں ملتا سہل بھی اس کا ملنا مشکل بھی
210 مسکراہٹ کو دیکھ کر میری اب تو گھبرا گیا ہے قاتل بھی جن کو دعوی سے دوستی کا آج کل مرے قتل میں تھے شامل بھی کبھی اس پر بھی غور کر مضطر! تیرا دل ہے تو اس کا ہے دل بھی
211 کسی کے روکنے سے کم رکے گا یہ طوفاں خود بخود یک دم رکے گا طلوع صبح تک ہے شورِ محشر گھڑی بھر میں یہ زیر و بم رکے گا ہوس کی آگ ہے جلتی رہے گی دھواں اُٹھتا رہے گا، دم رکے گا تم آ جاؤ تو کچھ تسکین ہو گی دردِ دل ذرا باہم رکے گا ہماری یاد تڑپایا کرے گی زمانہ روئے گا جب دم رُکے گا بتا اے کاروبار غم کے خالق! کبھی یہ کاروبار غم رکے گا؟ کہیں گل بھی نہ ہنسنا بند کر دیں گریۂ شبنم رکے گا سنا ہے
212 چلتا چوک ہے چہرے چھپا لو یہاں ہر ایک نامحرم رکے گا کہیں تو ہے، وہ شہر طلب ہے چاند کا پرچم رکے گا عدم کی سرزمیں بھی آن پہنچی پرائے دیس کا ماتم رکے گا یہی رودِ چناب آرزو ہے یہیں تو چاند کا پرچم رکے گا زمانہ آئے گا ملنے کو مضطر! سیر مرقد بچشم نم رکے گا
213 میں بچھڑ تو گیا، جدا نہ ہوا مجھ کو فرقت کا غم ذرا نہ ہوا اشک آنسو تھا جب روانہ ہوا پھیلتے پھیلتے فسانہ ہوا اب عروس خرد کی بات کرو دل کا قصہ بہت پرانا ہوا دل کی چالوں سے بچ سکو تو بچو ایک عیار ہے یہ مانا ہوا لاکھ سمجھایا ، لاکھ دھمکایا گنہگار پارسا نہ ہوا نگھروں کے غریب خانے پر آپ ہی کیسے کیسے آنا ہوا لاکھ دعوے کیے خدائی کے بندہ بندہ رہا خدا نہ ہوا اس کی ستاریوں کے صدقے میں میں بُرا ہو کے بھی بُرا نہ ہوا ہوگئی کائنات زیر و زبر رات کا تیر تھا خطا نہ ہوا اس کا احساں ہے اس سے مل کر بھی جس کا ڈر تھا وہ حادثہ نہ ہوا دشمنوں سے بھی دشمنی نہ ہوئی دوستوں کا بھی حق ادا نہ ہوا یہ رہائی نہیں اسیری ہے میں رہا ہو کے بھی رہا نہ ہوا اس کے احسان کیسے گنواؤں جو خفا ہو کے بھی خفا نہ ہوا زندگی ہنس کے وار دی اس پر شکر کا پھر بھی حق ادا نہ ہوا دل کی دنیا بدل گئی مضطر! ان کے ہاں جب سے آنا جانا ہوا
214 نذر غالب طائر غم جو کبھی نغمہ سرا ہوتا ہے دل کا ہر سوکھا ہوا زخم ہرا ہوتا ہے رات بھر ہوتی ہیں دل کھول کے دل کی باتیں ایک میں ہوتا ہوں، اک میرا خدا ہوتا ہے ریت کے سینے پہ جب ہوتا ہے لہروں کا خرام دشت در دشت کوئی سوچ رہا ہوتا ہے رقص فرماتے ہیں جس وقت غزالانِ خیال تو بھی خاموش کہیں پاس کھڑا ہوتا ہے پاس آداب نظر چاہیے اے محو جمال! آنکھ کیا ہوتی ہے اک شہر حیا ہوتا ہے پیاس تو پیاس ہے، بجھتی ہے یہ بجھتے بجھتے سینکڑوں کانٹوں میں اک آبلہ پا ہوتا ہے مضطر سوختہ جاں! بات سنبھل کر کیچو شعر بن جاتا ہے جو تیرا کہا ہوتا ہے
215 مت بھٹکتا پھرا کرے کوئی شہر دل میں رہا کرے کوئی دین و دنیا کے غم غلط ہو جائیں ہم کہیں اور سنا کرے کوئی اب غم ہجر بھی گوارا ہے آئے خدا کرے کوئی رسم آہ و بکا بھی عام ہوئی اب نہ آہ و بکا آہ و بکا کرے کوئی کیوں غرض درمیان میں آئے جب کسی سے وفا کرے کوئی ایک گونہ عذاب ہے یہ بھی دل اب دریچہ نہ وا کرے کوئی تمھارا بھی انتظار نہیں نہ آؤ تو کیا کرے کوئی عشق کی رسم مٹ گئی مضطر ! اب نہ ایسی خطا کرے کوئی
216 ہم ہوئے، چشم باطنی نہ ہوئی دن چڑھا بھی تو روشنی نہ ہوئی غم جاناں بھی نا تمام رہا زلف چھائی مگر گھنی نہ ہوئی دوستوں کا بھی حق ادا نہ ہوا دشمنوں سے بھی دشمنی نہ ہوئی آه تاریکی شب فرقت چاند نکلا تو چاندنی نہ ہوئی جان دے کر مریض لیٹ گیا مرگِ اُلفت میں جاں کنی نہ ہوئی مجھ کو میرا سراغ مل جاتا تیرے چہرے کی چاندنی نہ ہوئی حیف ایسے سرور پر مضطر! درد کی جس میں چاشنی نہ ہوئی
217 نے یہ تائید تمنا، نے یہ تکمیل طلب شہر بھر میں کوئی بھی نہ سوسکا فرقت کی شب دشت پیمائی کی فرصت تھی نہ رستے کا شعور قافلے بڑھتے رہے منزل کی جانب بے سبب حسن کو جب بھی خود آرائی سے کچھ فرصت نہ تھی عشق کا بیمار اب بھی منتظر ہے جاں بلب آئنه در آئنہ ہم بھی بہت بے تاب تھے کچھ تری تصویر بھی کو دے اُٹھی فرقت کی شب دوستو! اے دوستو! اے دوستو! اے دوستو ! کوئی ہنگامہ! کوئی نعرہ! کوئی رقص طلب! تری آواز تھی یا میرے دل کا شور تھا سنتے ہی جس کو گوارا ہو گئی بزمِ طرب اب کوئی مرنے میں لذت ہے نہ جینے میں مزہ ان کی خوشیاں بے تمنا ، ان کے نالے بے طلب صوفی و واعظ، فقیہ شہر، پیر خانقاه اب بھی مضطر حسب سابق بے نظر ہیں سب کے سب
218 چراغ شام مرجھایا تو ہو گا سحر کا رنگ گدرایا تو ہو گا ابھی تک پتیاں بکھری پڑی ہیں گلوں کا قافلہ آیا تو ہو گا اچانک کھل گیا دل کا معمہ خردمندوں نے الجھایا تو ہو گا پرائے دیس کی آبادیوں میں غریب شہر گھبرایا تو ہو گا سنا ہے دل کی وحشت میں کمی ہے یہ باغی راہ پر آیا تو ہو گا چلو دل کے خرابے ہی میں گھومیں کہیں دیوار کا سایہ تو ہو گا وہ مضطر ! ان کے ہاں پھر جا رہا ہے اسے یاروں نے سمجھایا تو ہو گا
219 سحر نصیب ہے، کچی دعاؤں جیسا ہے وہ دیوتا تو نہیں، دیوتاؤں جیسا ہے ملا تو کرتا ہے تصویر بن کے خوابوں میں وہ اجنبی ہے مگر آشناؤں جیسا ہے نہ پان بیڑی، نہ سگرٹ ، نہ جھوٹ کی عادت یه شخص شہر میں رہ کر بھی گاؤں جیسا ہے رُکے تو عین اذیت، چلے تو بادِ مراد ہمارا اس کا تعلق ہواؤں جیسا ہے خدا کرے کہ سلامت رہیں حسین اس کے یہ شہر جیسا بھی ہے کر بلاؤں جیسا ہے بنام ترک تعلق، به فیض شام فراق نہ شہر شہر، نہ اب گاؤں گاؤں جیسا ہے عجب نہیں کہ تجھے چھوڑ کر چلا جائے وہ باوفا ہے مگر بے وفاؤں جیسا ہے
220 زہے نصیب کہ اب خیمہ زن ہے پلکوں پر وہ ایک اشک جو ماں کی دعاؤں جیسا ہے جھگڑ رہا ہے صداؤں سے گھر کا سناٹا یہ بے صدا ہے پہ لاکھوں صداؤں جیسا ہے کیا ہے خار نے بھی احتجاج گلشن سے یہ احتجاج مگر التجاؤں جیسا ہے اگر بُرے ہو تو گھبرا رہے ہو کیوں مضطر! سلوک اس کا بُروں سے بھی ماؤں جیسا ہے
221 گل یہ کرتا ہوا فریاد آیا کوئی لکھیں ہے نہ یاد آیا کھنچ سکی پھر بھی نہ تیری تصویر کبھی مانی، کبھی بہزاد آیا اب نہ تیشے کی غلامی ہو گی نالہ کرتا ہوا فرہاد آیا پھر سر شام ستارے ٹوٹے پھر کوئی صاحب ایجاد آیا پھر سر شاخ پکاری بلبل پھر وہی موسم فریاد آیا ہم نے اک عمر گنوا کر دیکھی ہم سا کب خانماں برباد آیا سینکڑوں لوگ نظر سے گزرے کوئی ہم سا نہ ہمیں یاد آیا کوئی مضطر سا نہ ہو گا ناداں شاد ہو کر بھی جو ناشاد آیا
222 خود صنم اٹھ کے چلے آئے صنم خانے سے کھوئے کھوئے سے، پریشان سے، بیگانے سے چاند نکلے گا ابھی بن میں اُجالا ہو گا میں گھبرا کے نکل جائے گا ویرانے سے اجنبی چہروں کے سیلاب مسلسل میں کہیں اور بھی لوگ ہیں کچھ جانے سے، پہچانے سے کوئی مقصد نہ کوئی زیست کا حاصل مضطر! دشت در دشت پڑے پھرتے ہیں دیوانے سے (ابتدائی)
223 ہجر کی رات مختصر نہ ہوئی نالہ کرتے رہے، سحر نہ ہوئی ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے لوگ دن چڑھا بھی تو کچھ خبر نہ ہوئی ہم اسے آدمی نہیں کہتے جس کی انجام پر نظر نہ ہوئی اڑ گئے خاک ہو کے راہوں میں منزلِ شوق پھر بھی سر نہ ہوئی کبھی غیروں سے بھی نباہ کیا کبھی اپنوں میں بھی بسر نہ ہوئی سو بہانے کیے، ہزار جتن دن گزارا تو شب بسر نہ ہوئی تیرے ہو کر کسی کے کہلاتے اک یہی بات عمر بھر نہ ہوئی آخر ان کو بھی پیار آ ہی گیا میری فریاد بے اثر نہ ہوئی تجھ سے مل کر بھی تیری فرقت میں کون سی آنکھ تھی جو تر نہ ہوئی کبھی رویا، کبھی ہنسا مضطر ! کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی
224 پیرانِ مے کدہ ہوئے، اہل حرم ہوئے سب کے سر نیاز ترے در پہ خم ہوئے ملنے کی حسرتیں ہوئیں، فرقت کے غم ہوئے کیا کیا نہ حسنِ یار کے قصے رقم ہوئے وہ کونسی عطا ہے جو احباب نے نہ کی کیا کیا نہ میرے حال پر ان کے کرم ہوئے باہم شب فراق بڑی صحبتیں رہیں حیران وہ ہوئے کبھی حیران ہم ہوئے مضطر ! اگر چہ یار سا محسن نہیں کوئی تم سے خطا شعار بھی دُنیا میں کم ہوئے
225 تم نہ ٹالے سے بھی ملے صاحب ! کیوں مری آگ میں جلے صاحب! میں بُرا، تم ہو گر بھلے صاحب! میرے ہمراہ کیوں چلے صاحب! آپ کو کیا خبر کہ دھوپ ہے کیا آپ آئے ہیں دن ڈھلے صاحب! چھین کر چین ہم فقیروں کا اب اکیلے کہاں چلے صاحب! تم کو پروا نہیں ہے اپنی بھی تم بھی ہو ایک منچلے صاحب! تم بھی تھے جل رہے ہمارے ساتھ ہم اکیلے نہیں جلے صاحب! دار سے یار تک پہنچنے کے اور کتنے ہیں مرحلے صاحب! مسئلہ تھا تو جب بھی دل کا تھا اب بھی دل کے ہیں مسئلے صاحب!
226 ایک دو روز کی نہیں ہے بات جلتے جلتے ہی گھر جلے صاحب! خون آلوده زرد چہروں پر خاک بھی اب کوئی ملے صاحب! ان کو سکھلائیے گا استعمال لفظ ہیں کچھ برے بھلے صاحب! ان کی پہچان ہے فقط خوشبو لفظ گورے نہ سانولے صاحب! بات ہو مختصر، ارادہ نیک بول بھی ہوں بھلے بھلے صاحب! حسن و احسان ، لطف و جود و کرم اس حسیں کے ہیں مشغلے صاحب! جسم اس کا ہے، جان اس کی ہے اس کے ٹکڑوں پہ ہیں پلے صاحب! ہم نشیں کب کے جا چکے مضطر ! لیجیے! ہم بھی اب چلے صاحب! ( مارچ، ۱۹۹۵ء)
227 آہٹ کا اثر دہام بھی زنداں صدا کا ہے آواز ایک سلسلہ کرب و بلا کا ہے یادوں میں ہے اٹا ہوا آنگن خیال کا ماضی کے اس مزار پہ پہرہ ہوا کا ہے فرقت کی اُس فصیل کو کس نے گرا دیا اعجاز ہے اگر تو یہ کس کی دعا کا ہے میں اس کے غم کی سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا خطرہ نہ اب ملال غم ماسوا کا ہے آنسو ازل بدوش ہے، شبنم ابد مقام تو کیوں اسیر چشمۂ آب بقا کا ہے سقراط ہو، حسیں ہو، عبداللطیف ہو صدیوں پرانا سلسلہ اہل وفا کا ہے میں ہی متاع عشق کا وارث ہوں ، تو نہیں اے معترض! یہ فیصلہ میرے خدا کا ہے کچھ میرے کام آ گیا میرا عذاب دید کچھ ازدحام حسن بھی مضطر! بلا کا ہے
228 مضطر سے تو کس لیے خفا ہے اس نے تو تجھے خدا کہا ہے رستوں سے پرے جو راستہ ہے تیری ہی طرف تو جا رہا ہے منہ سے بولتا ہے زنجیر صدا کا شور سن کر بیٹھا ہے یہ کون راکھ مل کر ہنستا ہے پتھر آہٹ کا اسیر کانپتا ہے برس رہے ہیں پتھر ایسے میں کسے پکارتا ہے منزل سوہنی کا ہے منتظر مہینوال دریا بھی غضب چڑھا ہوا ہے ہے نہ اس کا کوئی مسکن انساں کا قدم اکھڑ گیا ہے کشتی کو ہے ڈوبنے کی خواہش ساحل بھی قریب آ گیا ہے چہروں سے بھی ہوئی ہے سولی مضطر ہے کہ دم بخود کھڑا ہے پنجابی تلفظ کے ساتھ پڑھا جائے.
229 محفل ضبطِ فغاں کی اب بھی قائل ہے دل کو کون سنبھالے ، دل کی مشکل ہے پینے پلانے پر اب کیسی پابندی اپنا ساقی ہے، اپنی ہی حق ہے ہنس کے بلانے، پیار سے پاس بٹھانے میں کون سی مشکل ہے جو راہ میں حائل ہے عزت سے جینا اور عزت سے مرنا پہلے بھی مشکل تھا، اب بھی مشکل ہے کہنے کو تو نہ جانے کیا کچھ کہہ گزریں ایک لحاظ سا ہے جو راہ میں حائل ہے جاؤ مضطر ! مضطر! تم بھی دامن پھیلاؤ کہتے ہیں اب یار کرم پر مائل ہے
230 ہم ہوئے یا کوئی رقیب ہوا تجھ سے ملنا کسے نصیب ہوا ہم کو خلعت ملی فقیری کی کوئی ہم سا نہ خوش نصیب ہوا عشق ہے یا خلل دماغ کا ہے کچھ تو مجھ کو مرے طبیب ! ہوا فاصلے اور بڑھ گئے مضطر ! جسم جب جسم کے قریب ہوا
231 کس لیے تو سامنے آیا نہ تھا تجھ کو چاہا تھا، فقط سوچا نہ تھا تیری خاطر میری رسوائی ہوئی تو نے میرا حال تک پوچھا نہ تھا مجھ کو سولی دی گئی بازار میں تُو نے مجھ پر پھول تک پھینکا نہ تھا دار پر خواہش کی دیواریں نہ تھیں دور تک آواز کا پہرہ نہ تھا تیری منزل کے سوا منزل نہ تھی تیرے رستے کے سوا رستہ نہ تھا میرا سایہ بھی تھا میرے ساتھ ساتھ میں اکیلا تھا مگر تنہا نہ تھا منزلیں لیٹی ہوئی تھیں راہ میں راہرو کوئی ادھر آیا نہ تھا
232 ایک تو تھا، اک تری تصویر تھی درمیاں حائل کوئی پرده : تھا سے مجھ کو خطرہ تھا تو اپنے آپ غیر سے مجھ کو کوئی خطرہ نہ تھا منتظر بیٹھے تھے سب چھوٹے بڑے چاند چہرے کا ابھی نکلا نہ تھا اوڑھ لی تھی ہم نے چادر ذات کی عشق میں اس کے سوا چارہ نہ تھا تجھ کو ساری کیفیت معلوم تھی تو اگرچہ منہ سے کچھ کہتا نہ تھا مجھ کو تیری بندگی مطلوب تھی میں کسی انعام کا بھوکا نہ تھا تم تو مضطر! آپ رسوا ہو گئے اس قدر اصرار بھی اچھا نہ تھا
233 ہوس کی وہ آندھی چلی شہر میں بجھی عشق کی آگ دو پہر میں برہنہ بدن ہیں سبھی شہر میں نہیں فرق کچھ ملک اور مہر میں فقیروں کے چھتر سلامت رہے محل یہ گئے ایک ہی لہر میں میں سقراط کو ہوں، مرے واسطے ملا دیجیے انگبیں زہر میں ضرورت ہے آج اس کی اخبار کو اُڑا دیجیے خبر شہر میں زمانے کی پہنائیوں سے نہ ڈر خدا آپ آباد ہے دہر میں بہت زور ماریں گے مضطر ! رقیب غزل ہو سکے گی نہ اس بحر میں
234 تو کہیں اس سے ڈر رہا تو نہیں واعظ شہر ہے، خدا تو نہیں ایک ہی خاندان کے ہیں فرد آئے آنکھ سے جدا تو نہیں اپنی مرضی سے بات کرتا ہے اشک ہر وقت بولتا تو نہیں جی میں جو آئے کر گزرتا ہے دل نادان سوچتا تو نہیں اس بُرے سے بھی کوئی بات کرو بُرا اس قدر بُرا تو نہیں اس سے آگے ہے وقت کی سرحد اس سے آگے کوئی گیا تو نہیں عنایت ہے آپ کی، ورنہ ذکر اس میں ہمارا تھا تو نہیں عیب ہیں مجھ میں سینکڑوں مضطر! آدمی ہوں میں دیوتا تو نہیں
235 ذکر رخسار و چشم و و لب که کیا ہے آخر اس ذکر کا سبب کیا ہے خود فروشی خود فراموشی ہے خواہش دید بے طلب کیا ہے تیرے حسن تمام کا ہے ذکر شعر کیا چیز ہے، ادب کیا ہے ل تجھے چاہتا ہے، پکارتا ہے دل کا بیمار جاں بلب کیا ہے آج انسان بے قرار ہے کیوں بے کلی سی یہ بے سبب کیا ہے یہ نتیجہ ہے تجھ سے دُوری کا ورنہ کیا ہے عجم ، عرب کیا ہے مُطَّلَى ملی ، قريت مطلى کیا حسب ہے ترا ، نسب کیا ہے! مدنی“ پڑھا جائے
236 غیر بھی اب تو ہو گئے قائل گر ہیں اپنے خموش تب کیا ہے آگ سی ہے لگی ہوئی دل میں تیرے دیدار کی طلب کیا ہے دین مل جائے اور دنیا بھی ساتھ تو بھی ملے عجب کیا ہے تیری رحمت غضب پر حاوی ہے تیرے آگے ترا غضب کیا ہے چادر عفو میں چھپا لیجے دیر اس میں شہ عرب کیا ہے چاند نکلا، اندھیرے بھاگ گئے فرق اب بین روز و شب کیا ہے نام مضطر ہے، عشق ہے مذہب ہم نہیں جانتے لقب کیا ہے
237 ہے التفات نگاه یار تو تیر اک دل کے آر پار تو ہے سینہ غم سے مرا نگار تو اپنے ہونے کا اعتبار تو ہے ہے پھر کوئی آ رہا ہے جانب دل دُور اُفق سے پرے غبار تو ہے آپ الگ بات درگزر نہ کریں کو اس کا اختیار تو ہے یہ بھی کیا کم ہے بلبل ناداں! موسم گل تو ہے، بہار تو ہے دوستی کے اگر نہیں قابل دشمنوں میں مرا شمار تو ہے غم جاناں ہو یا غم دنیا آدمی غم سے ہمکنار تو ہے
238 میرا ہو جائے کچھ بعید نہیں مجھ پہ مائل وہ گل عذار تو ہے کیا عجب ہے معاف بھی کر دے دل ہی دل میں وہ شرمسار تو ہے غم قابو اگر نہیں مضطر ! اس میں لذت تو ہے، خمار تو ہے
239 عرش سے فرش تک ، پھول سے خار تک تو ہی آباد ہے دشت کے پار تک ہم خطا کار تیرے وفادار ہیں تو خفا ہو کے ہم کو نہ اے یار! تک تیری ایک اک ادا ہم کو مرغوب ہے ہم کو محبوب ہے تیرا انکار تک تو نہاں خانہ دل میں بیٹھا رہا لوگ ڈھونڈا کیسے عرش کے پار تک تیری فرقت میں اب حال بے حال ہے میرے دلدار! آ، میرے غمخوار! تک تو جواب اس کا کیا دے گا اے بے خبر ! بات پہنچی اگر میرے دلدار تک شہر جاناں کے حالات کو بھی سمجھ چہرے کو پڑھ ، کوئی اخبار تک اب نہ شکوہ شکایت نه شور طلب سلسلے تھے مضطر زار تک
240 عقل تنہا، دل ناداں تنہا جس کو دیکھو، ہے پریشاں تنہا اشک در اشک پکارا ان کو رات کی سیر چراغاں تنہا پھر کسی یاد کے چوراہے پر رُک گئی عمر گریزاں تنہا کوئی ساتھی ہے نہ کوئی محرم کیسے گزرے گی مری جاں! تنہا نہاں خانہ دل میں مستور میں بھری بزم میں عریاں تنہا اتنے شائستہ منزل ہو کر پھر بھی رہتے ہیں غزالاں تنہا اس کا مفہوم بدل جاتا ہے زندگی یوں تو ہے آساں تنہا راستے محو تلاش منزل منزلیں سریگر یہاں تنہا وہ بھی مضطر ہیں ہماری خاطر ہم ہی ان پر نہیں قرباں تنہا ہم تو کافر ہیں بجا ہے صاحب ہو تو اک تم ہو مسلماں تنہا شیخ بے ذوق ہے، واعظ غافل ایک مضطر ہے غزل خواں تنہا
241 روح زخمی، جسم گھائل ہو گئے ہر طرف پیدا مسائل ہو گئے ہو گئے آئنہ دیکھا تو قائل اپنے ہاتھوں آپ گھائل ہو گئے جس قدر ٹکڑے تھے میرے جسم کے میرے ہی رستے میں حائل ہو گئے ہم نے مانگا ہے انھیں اللہ سے ان کی خاطر ہم بھی سائل ہو گئے میرے حصے کے تھے جو رنج و الم حد سے گزرے تو وسائل ہو گئے جب کبھی ٹوٹے ہوئے بازو اُٹھے ان کی گردن میں حمائل ہو گئے آتے آتے اعتبار آ ہی گیا ہوتے ہوتے وہ بھی قائل ہو گئے
242 اُنگلیاں بھی اب ڈبو لو خون میں خون ناحق پر تو مائل ہو گئے فیصلہ اب عقل کے ہاتھوں میں ہے دل کی جانب سے دلائل ہو گئے اب تو مضطر سے کوئی جھگڑا نہیں جو گلے شکوے تھے زائل ہو گئے
243 آہٹوں سے ہے سارا گھر آباد اس خرابے کے ہیں کھنڈر آباد ایک پل بھی ہمیں سکوں نہ ملا لوگ رہتے ہیں عمر بھر آباد کون محو خرام ہے دل میں خرابہ ہے کس قدر آباد گھورتی ہیں ہزا رہا آنکھیں کہیں چہرے، کہیں بھنور آباد منتظر ہیں روش روش یادیں ٹہنی ٹہنی، شجر شجر آباد شدت غم سے داغ داغ ہے دل ایک گھر میں ہیں لاکھ گھر آباد کوئی اپنا رہے بے گانہ دل میں ہو جاؤ تم اگر آباد
244 حد فاصل کو پار کون کرے ہم ادھر اور تم ادھر آباد سارا ہنگامہ تیرے فیض سے ہے تو رہے شاد ، نامه بر! آباد ہے کون مضطر ادھر سے گزرا.گئی ساری رہ گزر آباد ہو
245 حیرت سے ہے خود کو تک رہا کیا اپنا بھی نہیں تجھے پتا کیا کیا جانیے مجھ کو ہو گیا کیا کہنا تھا کچھ اور کہہ دیا کیا جل رہے ہیں گھر گھر ہے یہ آج رتجگا کیا تھا کو زندانی زلف و چشم و رخسار کوئی بھی نہیں مرے سوا کیا سے سوال کرنے والے! ہے تو پکارتا کیا قاتل! تُو رہے سدا سلامت ہم کیا ہیں، ہمارا خوں بہا کیا تیرے بغیر کون اپنا تگو ہی نہ رہا تو پھر رہا کیا بھولے سے کیا ہے یاد کس نے سینے میں یہ درد سا اٹھا کیا سائے سے جھگڑ رہا ہے ناداں مضطر کو نہ جانے ہو گیا کیا
246 تو قریب رگِ جاں تھا فاصلہ اتنا کہاں تھا پہلے **** باندازہ جاں تھا پہلے غم کا یہ حال کہاں تھا پہلے راز جو دل میں لیے پھرتے ہیں صاف چہروں سے عیاں تھا پہلے یوں دل کھلونوں سے بہل جائے گا ایسا نہ گماں تھا پہلے لمس کی چوٹ سے باہر نکلا راز پتھر میں نہاں تھا پہلے اب کہاں دل پہ بھروسہ مضطر ! جو بھروسہ مری جاں! تھا پہلے
247 بے سبب بھی، کسی بہانے بھی کبھی مانے، کبھی نہ مانے بھی حادثہ تھا کہ شامت اعمال انھیں جان کر نہ جانے بھی اپنے وعدوں کو کر دیا پورا صادق الوعد کبریا نے بھی قدرت ثانیه کو دیکھ لیا جاں شاران باوفا نے بھی ساتھ بھیجی سکون کی بارش آسماں سے مرے خدا نے بھی ساتھ توفیق صبر کی بھی دی بخش کر درد کے خزانے بھی پھر سے عہد قدیم دُہرایا قافلے نے بھی، رہنما نے بھی بخشوا لے گئے خطاؤں کو یہ خطا کار تھے سیانے بھی واقعہ بھی تھا اور حقیقت بھی تم نے کچھ گھڑ لیے فسانے بھی
248 حضرت مصلح موعود کی یورپ سے تشریف آوری پر جشن ملت کے موقع پر آنسوؤں کی بھری بہار کے بعد چاند نکلا ہے انتظار کے بعد پھول ہیں یا کسی کے نقش قدم اک بہار آئی ہے بہار کے بعد گول بازار میں چراغاں ہے داغ کو دے اٹھے شمار کے بعد عظمتوں کو عظیم تر پایا سر اٹھایا جو انکسار کے بعد بات دل کی زباں پہ آ نہ سکی یار آیا تھا انتظار کے بعد حال مضطر کا غیر تھا کب سے ہے وصل یار کے بعد آج بہتر
249 حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کی وفات پر تو مے کا ذکر کر اے مے گسار! آہستہ آہستہ پری کو یار شیشے میں اتار آہستہ آہستہ زمانہ ہو رہا ہے بے قرار آہستہ آہستہ تو زلفوں کو نہ اب جاناں ! سنوار آہستہ آہستہ محبت کا چڑھے گا جب خمار آہستہ آہستہ تو مل جائیں گے سارے اختیار آہستہ آہستہ دھواں سا اٹھ رہا ہے دل کے پار آہستہ آہستہ نہ جل جائیں کہیں قرب و جوار آہستہ آہستہ گلوں سے کہہ رہے تھے رات خار آہستہ آہستہ گزر جائے گی پھر اب کے بہار آہستہ آہستہ جو چاہے لُوٹ لے دل کا قرار آہستہ آہستہ مگر آہستہ ٹوٹ اے شہر یار! آہستہ آہستہ نہ چھیڑ اس ذکر کو اب بار بار آہستہ آہستہ کہ محفل ہو گئی کیوں اشکبار آہستہ آہستہ
250 نہ کھول اس راز کو اے راز دار! آہستہ آہستہ خفا کیوں ہو گیا وہ گلعذار آہستہ آہستہ تو کر اک ایک لمحے کا شمار آہستہ آہستہ یہ غم کی رات ہے اس کو گزار آہستہ آہستہ لحد میں اس ستارے کو اتار آہستہ آہستہ چراغ زندگی کو پھونک مار آہستہ آہستہ اُٹھا ساغر پلا پھر ایک بار آہستہ آہستہ کہ اٹھتے جاتے ہیں سب بادہ خوار آہستہ آہستہ نہ ان کو بھول جا اے بزم یار! آہستہ آہستہ بچھڑ کر جانے والوں کو پکار آہستہ آہستہ وہ خود رہنے لگیں گے بے قرار آہستہ آہستہ انھیں ہو جائے گا مضطر سے پیار آہستہ آہستہ
251 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی وفات پر روٹھ کر جب وہ ہ گل عذار گیا تیر اک دل کے آر پار گیا ابن احمد ، برادر محمود اور بار ازل کا یار گیا قَمَرُ الأنبياء ، حلیم و حکیم پیکر عجز , انکسار گیا حسن و احسان میں نظیر پدر آدمیت کا شاہکار شاہکار گیا بے نواؤں کا، بے سہاروں کا چین جاتا رہا، قرار گیا اس کا اُٹھنا ، جہان کا اُٹھنا علم رخصت ہوا ، وقار گیا
252 عشق کے، درد کے، محبت کے قرض جتنے تھے سب اُتار گیا اپنے اک دلربا تبسم سے میری بگڑی ہوئی سنوار گیا ز ہے اس کی حیات ، اس کی ممات کامیاب آیا، کامگار گیا اپنے بھائی کو چھوڑ کر تنہا بھائی کا غمگسار گیا وہ بغیر حساب کا مصداق مغفرت کا اُمیدوار گیا وقت رخصت بصد ہزار درود لے کر اشکوں کا میں بھی ہار گیا فرط غم سے نہ جانے کیوں مضطر! اس کے در پر میں بار بار گیا
253 حضرت صاحبزدہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( بعد میں حضرت خلیفہ لمسیح الثالث) کی بلا جرم و جواز اسیری پر اپنوں ہی کا جھگڑا ہے نہ دشمن سے ہے کچھ کام ہے ہم پہ فقط تیری وفاداری کا الزام اے عشق! مجھے گھیر کے میدان میں مت لا گمنام ہی اچھا ہوں، مجھے رہنے دے گمنام دیکھا ہے ضرور اس نے جلال رخ تاباں کیوں عہد ہوا جاتا ہے یوں لرزہ بر اندام دودھ سے سے پانی کو جدا کر کے رہے گا یہ فتنہ تازہ کہ جو اٹھا ہے سر بام اترا نہ اس آغاز کو انجام سمجھ کر دیکھا ہی نہیں تو نے اس آغاز کا انجام نا کام نہیں ہوتا محبت میں کبھی عشق وہ عشق ہی ناقص ہے جو ہو جاتا ہے ناکام
254 اک درد سا ہے دل میں، چھپائے لیے پھرتے خاموش نظر آتے ہیں کچھ روز سے خدام بڑھ جاتا ہے مجبوری و مهجوری کا احساس جب ذہن میں آ جاتے ہیں کچھ لوگ سر شام یہ کون سا انصاف ہے تم خود ہی بتاؤ ” ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا“
255 بروفات حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی پھر وہی ذکر سر وادی سینا ہو گا وہی ساقی ، وہی بادہ، وہی مینا ہو گا اب اسی دُھن میں بھرے شہر کو جینا ہو گا تجھ سے ملنے کا بھی کوئی تو قرینہ ہو گا اشک در اشک تجھے ڈھونڈنے نکلیں گے لوگ وصل کے عہد میں فرقت کا مہینہ ہو گا ہجر کی رات ہے رو رو کے گزاریں گے اسے ہر گلی کوچے میں اجلاس شبینہ ہو گا صبح تقدیر جدھر چاہے گی لے جائے گی ہم نہیں ہوں گے، مقدر کا سفینہ ہو گا جسم کے رہ جائیں گی عشاق کی نظریں اس پر تیرے کوچے میں جو اُمید کا زینہ ہو گا تیری ہر ایک ادا رستہ دکھائے گی ہمیں تو نہیں ہو گا، ترا دیدہ بینا ہو گا تجھ سے ملنے کی فقط اس کو اجازت ہو گی جس کے اندر نہ انا ہو گی، نہ کینہ ہو گا
256 جس کی پلکوں پہ سجے ہوں گے وفا کے موتی جس کے سینے میں محبت کا خزینہ ہو گا آنے والے کے گلے لگ کے بلکنے والے! جانے والے نے ترا چین تو چھینا ہوگا تیری کرنوں کو اب اے عہد کے سچے سورج! ہجر کی رات کا یہ چاک بھی سینا ہو گا شربتِ وصل میں شامل ہے جو زہر فرقت ہے اگر عشق تو یہ زہر بھی پینا ہو گا ارض ربوہ! اسے سینے سے لگا کر رکھنا آبگینوں سے بھی نازک یہ دفینہ ہو گا حسن پھر اُترا ہے روحوں پر سکینت بن کر قافلہ پھر سے رواں سوئے مدینہ ہو گا یوں چڑھا ہے جو نئے عہد کا سورج بن کر خاتم یار کا یہ چوتھا نگینہ ہو گا اس کے دربار میں جاؤں گا خطائیں لے کر میرے ہمراہ ندامت کا پسینہ ہو گا کشتی نوح میں بیٹھے تو ہو لیکن مضطر! شرط یہ ہے یہیں مرنا، یہیں جینا ہو گا (۹/ جون ۱۹۸۲ء)
257 صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کے راہ مولیٰ میں قربان ہونے پر اُن کے والد گرامی صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب سَلْمَهُ اللهُ تَعَالٰی کی زبان سے ڈھل گئی رات کوئی بات کرو بانٹنے آئیں گے میرے غم کو تجھ سے ملنے کے لیے آیا ہوں پونچھنا چاہیں گے چشم نم کو کاسئہ جاں کو لیے دینے آئیں گے محبت کا صلہ اشک بکف کرنے آئیں گے گلہ دست به دل کہ تجھے جانے کی چند لمحے جو ہیں تنہائی کے اتنی بھی جلدی کیا تھی ان کو غنیمت جانو اور ان سب کے احسان تلے دن چڑھے اور بھی جھک جائیں گے جوق در جوق چلے آئیں گے ناتواں کاندھے مرے سوگواروں کے ہجوم بچے اور بوڑھے ایسے محسوس کروں گا جیسے میں ہی زخمی نہیں غریب اور امیر چاہنے والے تیرے تیری الفت کے اسیر زخمی سب ہیں اور پھر کس کو نہیں ہے معلوم نرم گفتار تھا تو
صاحب کردار بھی تھا 258 کیسے گزریں گے مجھے معلوم نہیں آہنی عزم وارادے کا دھنی تھا کتنا للہ الحمد کہ مالک کی رضا کے آگے مسکراتا ہوا، ہنستا ہوا سر تسلیم ہے خم واپس آیا اتنی فتوحات کے بعد وہ اگر خوش ہے وقف کا عہد نبھانے کے لیے تو میں بھی خوش ہوں خدمت دین کی ، درویشی کی خلعت پہنے اور یہ مرحلہ محرومی کا بصد بجز و نیاز آخر کار گزرجائے گا بخدا بیٹے ہی نہیں ہو میرے لیکن اے جان پدر! میرے محبوب بھی ہو نہیں میرے محبوب نہیں اک کٹھن مرحلہ اور بھی ہے یعنی وہ ما در مشفق تیری میرے محبوب کے محبوب کے بھی ہو صبر و تسلیم کی چادر اوڑھے زہے قسمت تیری یاد سینے سے لگائے ، خاموش زہے قسمت میری دم بخود ، مہر بلب بیٹھی ہے یہ سعادت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے اور پھر لیکن اے جان پدر! وہ عفیفہ ، مری بیٹی مری عزت یہ حقیقت ہے اگر ، تری جیون ساتھی یہ بھی تو ایک حقیقت ہے لٹ گیا جس کا سہاگ کہ یہ تنہائی کے لمحات اور وہ ننھے فرشتے چاروں کتنے لمبے ہیں ہو بہو باپ کی تصویر کٹھن بھی ہیں بہت ان کھلے غنچے
259 مرے نور نظر مرے باغ کے پھول جگر کے ٹکڑے لوٹ کر نہ آنے کی ہے اس لیے جان پدر! مری تنہائی غنیمت جانو سطوت اور کرشن مطلع اور نور الدین ڈھل گئی رات کوئی بات کرو ان کو کچھ علم نہیں اور کوئی لفظ، کوئی لہجہ ہی سوغات کرو حشر برپا ہوا پھر کسی یاد کی برسات کرو کیسی قیامت ٹوٹی کشت ویراں ہے مری ان کو سمجھاؤں تو کیسے سمجھاؤں میرا سینہ ہے اجاڑ نہ مرے پاس کوئی لفظ ، نہ کوئی لہجہ اور یہ فرقت کا پہاڑ ان کو کیا علم کہ یہ ایک دو پل کی نہیں بات خشک، بے آب و گیاہ مسکرا کر اسے جل تھل کر دو کہ یہ بات زمانے کی ہے فرط لذت سے مجھے پاگل کر دو
260 عزیزان کلیم شاہ اور نسیم شاہ کی وفات پر سید کلیم شہ ہو کہ سید نسیم شاہ اک دوسرے سے بڑھ کے تھے دونوں عظیم شاہ دونوں ہی خوش خرام تھے ، شیریں کلام تھے دونوں «نسیم“ شاہ تھے، دونوں ”کلیم شاہ دونوں ہی خاکسار تھے، دونوں عظیم تھے دونوں ہی بادشاہ تھے، دونوں ”گلیم شاہ دونوں سے پیار تھا مجھے، دونوں عزیز تھے یہ بھی بہت عزیز ہے یعنی نعیم شاہ خوش فکر ، خوش خیال ہے اور خوش کلام ہے بے شک نعیم شہ ہے ذہین و فہیم شاہ اللہ اپنے فضل سے صحت کے ساتھ اسے عمر دراز دے کے بنا دے قدیم شاہ بھولے سے بھی بھلائی نہ جائے ہے ان کی یاد تینوں کے تینوں دل میں ہیں میرے مقیم شاہ
261 اچانک جھنگ کی تقدیر جاگی ہوا بیدار رانجھا ، ہیر جاگی بغاوت ہو گئی تیری گلی میں مری سوئی ہوئی تقدیر جاگی مصور کے قلم سے خون ٹپکا خروش رنگ سے تصویر جاگی یہ کیسا شور ہے زندانیوں میں در زنداں ہلا، زنجیر جاگی غزل بن کر بہا خونِ شہیداں کفن شوخی تحریر جاگی نہ آنسو ہیں، نہ اب آہیں ہیں مضطر ! یونہی کچھ روز سے تاثیر جاگی
262 دیوار رنگ ہر کہیں حائل ہے راہ میں ہے پھول پھول حسن کے زنداں لیے ہوئے یہ کیسا دور اُفق سے اٹھا ہے غبار سا آثارِ بے قراری انساں لیے ہوئے وہ چاند آ کے جا بھی چکا، صبح ہو چکی اب آ گئے ہو دیدۂ گریاں لیے ہوئے نرگس کی آنکھ میں بھی ہے آمادگی کا نور حیرت ہے اس کی لذتِ پنہاں لیے ہوئے یہ کون پھر رہا ہے گل تر کے آس پاس پلکوں پہ اپنی آتش عریاں لیے ہوئے رک جاؤ دو گھڑی کے لیے تم بھی دوستو ! ہم آ رہے ہیں عمر گریزاں لیے ہوئے یوسف کے انتظار میں مضطر غریب بھی بیٹھا ہے کب سے نقد دل و جاں لیے ہوئے
☆ 263 جن کے لیے تو خوار ہوا شہر شہر میں وہ تیرا نام بھول گئے آٹھ پہر میں دیوار و در غضب میں، خدائی ہے قہر میں پتھر برس رہے ہیں شہیدوں کے شہر میں پھر قربتوں کی آنچ سے پتھر پگھل گئے آب حیات کھل گیا زخموں کے زہر میں پھر زیر آب آ گئیں پھولوں کی بستیاں سورج غروب ہو گئے شبنم کے شہر میں سوچو تو دور دور کوئی آدمی نہیں دیکھو تو ہم سے سینکڑوں پاگل ہیں دہر میں گھر گھر یہاں صلیب ہے، سولی گلی گلی عیسی کا انتظار ہے مدت سے شہر میں پکھلی جو برف گله کوه سفید پر پتھر پکھل کے ہو گئے آباد نہر میں مضطر تلاش آب میں گھر سے نکل گیا اس چلچلاتی جاگتی جیتی دو پہر میں ضرورت شعری
264 صلح ہو گی گی نہ لڑائی ہو گی وصل در وصل جدائی ہو گی اشک میں اشک پروئے ہوں گے آگ سے آگ بجھائی ہو گی ہم کو بے چین بنا کر پیارے! تجھ کو بھی نیند نہ آئی ہو گی عشق بدنام ہے اول دن سے کوئی تو اس میں برائی ہو گی ہم فقیروں میں بھی آ کر بیٹھو بوریا ہو گا، چٹائی ہو گی حشر کے روز بقول غالب ”کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی“ اک طرف ہو گا وہ جانِ خوبی اک طرف ساری خدائی ہو گی پھر گیا جانب صحرا مضطر پھر کوئی جی میں سمائی ہو گی
265 ނ صبا نے شکوہ کیا ہے قفس نشینوں خبر ملی نہ کوئی خط کئی مہینوں سے سے گرا نہ دیں در و دیوار کو مشینوں مکان روٹھ نہ جائیں کہیں مکینوں سے ترا جمال تو نظروں سے ہو گیا اوجھل نکل نہ جائے تری آرزو بھی سینوں سے دل و نگاہ نے ہر گام پر دیے دھو کے کسی نے فیض نہ پایا کبھی کمینوں سے شب ستائش باہم ہے، ہوشیار رہو نکل نہ آئیں کہیں سانپ آستینوں سے مقام حسن کی تعیین ہونے والی ہے حسین ملنے کو آئیں گے اب حسینوں سے فراز دار پہ سب فرق مٹ گئے مضطر ! فلک نشین ملے بوریا نشینوں
266 فرصت شام الم پوچھتے ہیں یعنی اندازہ غم پوچھتے ہیں الفاظ نے یورش کر دی آپ آداب قلم پوچھتے ہیں ہم سے کیا صلح نہیں ہو سکتی؟ لفظ با دیدہ نم پوچھتے ہیں دشت میں کوئی تو دروازہ ہو کس طرف جائیں، قدم پوچھتے ہیں بات جو پوچھی ہے تم نے مضطر! یوں بھری بزم میں کم پوچھتے ہیں
267 رستے پوچھتے ہیں کارواں سے کدھر جاتے ہو، آئے ہو کہاں سے بچھڑنے والو! یہ سوچا تو ہوتا کہاں جاؤ گے کٹ کر کارواں سے طلوع صبح سے ہے تجھ کو نسبت شام غم! لاؤں کہاں سے تجھے وہیں پر روشنی ہو جائے آباد مرا سورج گزر جائے جہاں سے کہاں مضطر، کہاں وہ جانِ خوبی ہے نسبت خاک کو کیا آسماں سے
268 کبھی ان کا لطف و کرم دیکھتے ہیں ぢぢ کبھی اپنی حالت کو ہم دیکھتے ہیں ہم اپنی طرف کم سے کم دیکھتے ہیں جو دیکھیں تو باچشم نم دیکھتے ہیں یہاں عشق معیار قامت نہیں ہے یہاں لوگ دام و درم دیکھتے ہیں چلو چودھویں رات کی چاندنی میں ازل آرزوؤں کا رم دیکھتے ہیں وہ بخشش پر مائل ہیں، مانیں نہ مانیں ہم آواز کا زیر و بم دیکھتے ہیں ہمی ہیں جو اُن کے لیے جی رہے ہیں خوشی دیکھتے ہیں نہ غم دیکھتے ہیں یہ واعظ سے کہہ دو کہ آہستہ بولے صنم سوئے اہلِ حرم دیکھتے ہیں محبت کا انجام کیا ہو گا مضطر ! نہ وہ دیکھتے ہیں، نہ ہم دیکھتے ہیں
269 ذکر شبنم نه فکر خار کرو گل کو چھوڑو ، چمن سے پیار کرو آدمی آدمی کا دشمن ہے آدمی کا نہ اعتبار اعتبار کرو مفت کی مے ہے، يي سکو تو پیو فصل گل کا نہ انتظار کرو ہر تم ہے کوئی تم سے پیار کرتا بھی پھولو! کسی سے پیار کرو اگلی پچھلی خطائیں کر کے معاف شرمساروں کو شرمسار کرو اب نہ آئے گا بزم میں کوئی اب کسی کا نہ انتظار کرو اور بھی لوگ ہیں زمانے میں ذكر مضطر نہ بار بار کرو
270 کچھ یہاں اور کچھ وہاں گزری خوب گزری جہاں جہاں گزری حال دل سن کے ہو گئے خاموش بات سچی تھی ، کچھ گراں گزری ان کا غصہ تھا، پیار تھا، کیا تھا! اک قیامت تھی ناگہاں گزری پنکھا جھلتی ہوئی وفاؤں کا یاد یارانِ مہرباں گزری نور میں ڈھل کے آنسوؤں کی پری دیدہ تر سے پرفشاں گزری چاند نکلا نہ ہم نشیں آئے شام فرقت دھواں دھواں گزری دن گزارا خدا خدا کر کے رات کانٹوں کے درمیاں گزری یہ قیامت جو ہم پہ گزری ہے تجھ پر اے بے خبر! کہاں گزری
271 ترے لب پہ بھول کر بھی مرا نام تک نہ آیا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ سلام تک نہ آیا ز ہے منزلِ محبت، زہے رہنمائے کامل یہ سفر تھا تیز اتنا کہ مقام تک نہ آیا ترے تشنگانِ غم کی یہی خوش نصیبیاں ہیں کبھی مل گئے سمندر، کبھی جام تک نہ آیا یہی ڈر ہے تھک نہ جائیں مری منتظر نگاہیں مجھے اس کا غم نہیں ہے کہ تو بام تک نہ آیا جو بھٹک گئے تھے آئے سبھی لوٹ کر مسافر کوئی صبح تک نہ آیا، کوئی شام تک نہ آیا
272 Jako کس لیے سائے سے ڈرتے ہو میاں! کیوں نہیں کہتے جو کرتے ہو میاں! کوئی تم کو دیکھنے والا نہیں کس لیے بنے سنورتے ہو میاں! تم نے دل کی بات کیوں مانی نہ تھی اب نہ جیتے ہو، نہ مرتے ہو میاں! اس سے کچھ عزت نہیں بڑھ جائے گی چوٹ کھا کر کیوں مکرتے ہو میاں! بے ہنر ، خوددار، دیوانه ، حقیر کس لیے مضطر پہ مرتے ہو میاں!
273 کہہ رہا تھا نہ سن رہا کوئی عمر بھر بولتا رہا کوئی بات کے موڑ پر کھڑا کوئی جانے کیا سوچتا رہا کوئی اشک یوں رک گئے سر مژگاں جیسے گر کر سنبھل گیا کوئی سنگدل تھے تمام چھوٹے بڑے کوئی پتھر تھا ، آئنہ کوئی گھر میں آیا تو اپنے آپ سے بھی اجنبی کی طرح ملا کوئی اپنی تصویر ނ آئنے ނ لڑائی ہے نہیں گلہ کوئی موت کے بعد یوں لگا مضطر ! جیسے پیدا ہوا پیدا ہوا نہ تھا کوئی
274 اشک در اشک سیاحت کی ہے گھومنے پھرنے کی عادت کی ہے بر سر دار محبت کی ہے کہیں تیری حکایت کی ہے تجھ کو سوچا ہے، تجھے چاہا ہے جب بھی کی تجھ سے محبت کی ہے ہم نے اظہار کی راہیں کھولیں ہم نے لفظوں سے سے بغاوت کی ہے پاس آ جاؤ تو سجدہ کر لوں یہ گھڑی یوں بھی عبادت کی ہے منہ نہ کھلواؤ کہ ہم نے مضطر ! اب سے چپ رہنے کی نیت کی ہے
275 آئنے کا دل نہ اب چیریں بہت اس میں آسودہ ہیں تصویریں بہت دل کی دیواروں پہ جو لکھی گئیں ہم کو اتنی بھی ہیں تحریریں بہت جو لکھا ہے اس کو دہرایا کرو مت کرو اب اس کی تفسیریں بہت جاؤ گے کس منہ سے ان کے سامنے نیکیاں کم اور تقصیریں تقصیریں بہت اب مجھے پڑھنے کی کوشش بھی کرو پڑھ چکے ہو میری تحریریں بہت آرزو آرزوؤں کی اسیر ہے اس کے پاؤں میں ہیں زنجیریں بہت اک دل ناداں نہ آیا راہ پر ہم نے کیں کرنے کو تسخیریں بہت خوبیاں اُن کی مبارک ہوں انھیں مجھ کو مضطر ! میری تقصیریں بہت
276 وہ یہیں آس پاس ہے اب بھی اس سے ملنے کی آس ہے اب بھی ایک آنسو گرا تھا پچھلے سال شہر بھر میں ہراس ہے اب بھی ہے آنسوؤں کی زباں سمجھتا وہ ستارہ شناس ہے اب بھی ہے وہ لہو میں نہا کے نکلا اس کا اجلا لباس ہے اب بھی وہ گئے موسموں کی خوشبو ہے اس کی پھولوں میں باس ہے اب بھی کہیں ننگے بدن نہ جایا کرے گل سے یہ التماس ہے اب بھی تیرا فردوس سے نکالا ہوا آدمی بے لباس ہے اب بھی عقل کو اب بھی ہے گلہ مضطر! دل سراپا سپاس ہے اب بھی
277 نہ ذکرِ دورئی منزل، نہ فکرِ جادہ کریں براہ عشق ہے ، طے اس کو پا پیادہ کریں بفیض ساقی کوثر مئے طہور پئیں نہ شیخ شہر سے الجھیں، نہ ترک بادہ کریں سفر طویل ہے، اہل سفر نہ گھبرائیں نظر بلند ، قدم تیز ، دل کشادہ کریں ہیں جس سے آج بھی اغیار لرزہ بر اندام اسی روایت کہنہ کا پھر اعادہ کریں یہ درس جس نے دیا تھا شہید زندہ ہیں، اسی مدرس اعلی سے استفادہ کریں بلا کشان محبت یہ بندگان حقیر پہاڑ پیں کے رکھ دیں اگر ارادہ کریں حدیث ان کے مقام بلند پر ہے گواہ حدیث جس کی روایت ابوقتادہ کریں
278 نہیں پسند انھیں ڈھنگ اہل دنیا کے یہ وار سخت کریں اور بات سادہ کریں سلام بھیجا ہے کشمیر کے اسیروں نے قدم بڑھائیں، توقف نہ اب زیادہ کریں یہ مسجدیں ، یہ مقابر ، یہ بے کفن مقتول حضور داور محشر گلہ مبادا کریں نہ ہاتھ اٹھانے کی جرات ہو پھر کبھی اس کو کچھ اس ارادے سے دشمن کو بے ارادہ کریں بیادِ اہل وفائے چونڈہ و لاہور قدم قدم پر لڑیں، رقص جادہ جادہ کریں حضور خواجه بدر و حسنین بہر سلام لہو میں بھیگا ہوا زیب تن لبادہ کریں گزر رہے ہیں شہیدوں کے قافلے مضطر ! کریں تو ان سے ملاقات کا ارادہ کریں (۱۹۶۵ء)
279 اپنے سائے سے ڈر رہے ہیں لوگ جی رہے ہیں نہ مر رہے ہیں لوگ آج خود سے ملے ہیں پہلی بار جانے اب تک کدھر رہے ہیں لوگ اپنی تصویر دیکھنے کے لیے پانیوں میں اتر رہے ہیں لوگ جو سورج چڑھا ہے آدھی رات اس کا انکار کر رہے ہیں لوگ ق ان کو چاہو، انھیں سلام کرو چاند کے ہمسفر رہے ہیں لوگ جانتے ہیں پتے حسینوں کے عمر بھر نامہ بر رہے ہیں لوگ ہو رہے ہیں یہ زندہ جاوید مر رہے ہیں نہ ڈر رہے ہیں لوگ
280 عین ازل اور ابد کے سنگم پر لمحہ لمحہ گزر رہے ہیں لوگ جس حقیقت کو کھو دیا تم نے اس کو دریافت کر رہے ہیں لوگ آ گئے ہیں نکل کے سڑکوں پر زینت بام و در رہے ہیں لوگ تم بھی مضطر! اسے بغور سنو جو اعلان کر رہے ہیں لوگ
281 لکھوں لکھوں میں جب بھی اس کی محبتوں کی ، صداقتوں کی کتاب لکھ تو سب سے پہلے اسے محمدؐ کہوں، رسالت مآب کہ لکھوں لکتھوں کروں تلاوت صحیفہ رُخ کی اور اسے الكتاب جو خواب میں اس کو دیکھ پاؤں تو خواب کو کیسے خواب لکھوں مرے خدا! اپنی طبع مشکل پسند کا کیا جواب آ وہ کام جس کے نہیں ہوں قابل اسی کو کارِ ثواب لکھوں صبا نہاؤں ، گلاب پہنوں تو سوچنے کی کروں جسارت وضو کروں پہلے آنسوؤں سے تو اسم عالی جناب لکھوں ٹھہر بھی جا اشک شامِ ہجراں! ذرا اجازت دے سوچنے کی جو خط ابھی تک لکھا نہیں ہے کوئی تو اس کا جواب لکھوں اسی کو چاہوں، اسی کو سوچوں، اسی کی کرتا رہوں تلاوت جو اذن لکھنے کا پاسکوں تو اسی کو میں بے حساب لکھوں سر مژہ جو لرز رہے ہیں درود اور نعت کے ستارے انھیں شفاعت کے پھول لکھوں کہ مغفرت کے گلاب لاکھوں
282 وہی تو ہے جو الوہیت کی صفات کا مظہر اتم ہے لکھوں تو اس کو نقاب اندر نقاب اندر نقاب لکھوں تمام سچائیوں کا حامل، وہی ہے کامل، وہی ہے ہے اکمل اسی کو لوح و قلم، اسی کو کتاب اندر کتاب لکھوں جو حرف اب بھی اُتر رہے ہیں، جواب بھی الفاظ بولتے ہیں اسی کا حسنِ بیان ، حسنِ کلام، حسنِ خطاب لکھوں وہی ہے نیت ، وہی ارادہ ؛ وہی ہے منزل، وہی ہے جادہ وہ راہبر ہو اگر سفر میں تو ہر سفر کامیاب لکھوں دل و نظر اشک اشک دھوؤں تو اس پر بھیجوں درود مضطر ! سجاؤں پلکوں کو آنسوؤں سے تو نعت کو آب آب لکھوں
283 دل و جاں پہ اس کی حکومت تو ہے حکومت یہ اب تا قیامت تو ہے اسے دیکھنے سر کے بل جاؤں گا اسے دیکھ لینے کی حسرت تو ہے تمھیں بھی خوشی ہو گی مل کر اسے وہ ” کا فر“ سہی خوبصورت تو ہے میں اس کے غلاموں کا ادنی غلام میں جیسا بھی ہوں اس سے نسبت تو ہے اگر کچھ نہیں پاس نقد عمل مرے دل میں اس کی محبت تو ہے میں ممنون ہوں اپنی تکفیر پر کہ یک گونہ یہ ایک عزت تو ہے میں کیسے کروں ہجر کا تذکرہ کہ یہ میری اپنی ہی غفلت تو ہے دعا کیجیے گا شفا کے لیے مریض آپ کا روبصحت تو ہے ابھی آئے گا مسکراتا ہوا اسے مسکرانے کی عادت تو ہے عجب کیا کہ آجائے وہ خواب میں اسے شوق سیر و سیاحت تو ہے عجب کیا کہ اپنا بنا لے مجھے اگرچہ یہ کہنا جسارت تو ہے محمد کی ، احمد کی ، محمود کی سپرد آج اس کے نیابت تو ہے وہی تو ہے زندوں میں جو نیک ہے کہ نیکی اب اس سے عبارت تو ہے وہی ایک ہے آج کوہ وقار وہی صاحب عزم و ہمت تو ہے حسین و جمیل و حلیم و کریم سراسر وہ شفقت ہی شفقت تو ہے وہ صادق بھی ہے اور صدیق بھی وہ معیار حق و صداقت تو ہے وہی آج ہے معرفت کا امیں وہی حامل علم و حکمت تو ہے وجود اس کا اللہ کی دین ہے اسی کی وہ ہم پر عنایت تو ہے
284 وہ ہے مظہر قدرتِ ثانیہ وہ اللہ کی ایک آیت تو ہے وہ سچا ہے بچوں کا سردار بھی کہ ساتھ اس کے کچی جماعت تو ہے جو کہتا ہے اس کو وہ کرتا بھی ہے کہ بچوں کی یہ اک علامت تو ہے وہی تو ہے مہدی کا فرزندِ خاص وہی ہو بہو شکل وصورت تو ہے خلافت کی دستار ہے زیب سر امانت کی کاندھوں پہ خلعت تو ہے اٹھایا ہوا ہے جو بہر خدا یہی بار بار امانت تو ہے اسے غم اگر ہے تو اسلام کا اسے ہے اگر تو یہ حسرت تو ہے فتوحات اس کی گنوں کس طرح کہ ہر کام میں اس کے برکت تو ہے پہاڑوں سے بھی ہنس کے ٹکرا گیا اگر سوچیے یہ کرامت تو ہے بچا لے گیا ہم کو طوفان سے اسی کا یہ فہم و فراست تو ہے وہی ڈھال ہے میرے تیرے لیے جماعت اسی سے جماعت تو ہے وہ تعویذ ہے آج سب کے لیے اسی سے ہماری حفاظت تو ہے ہے باطل میں جس سے سراسیمگی اسی کا یہ زور خطابت تو ہے زباں پر کھلے ہیں محبت کے پھول بیاں میں عجیب ایک لذت تو ہے مدرس، مرتبی، مزکی وہی وہ سر چشمہ رشد و حکمت تو ہے اگر مل سکے تو اسے جا کے مل کر تسکین جاں کی یہ صورت تو ہے سدا جاری ساری رہے سلسلہ کہ یہ سلسلہ تاقیامت تو ہے سلسبیل وہی وارث باغ جنت تو ہے وہی آج کوثر، وہی وہی آج ہے مہبطِ جبرئیل اُسی پر اُترتا ہے ربّ جلیل
285 جس نے دیکھا اسے، دیکھتا رہ گیا دیکھ کر اس کو پھر اور کیا رہ گیا لوگ آئے، رکے اور چلے بھی گئے میں جہاں تھا کھڑے کا کھڑا رہ گیا ہاتھ جب بھی اُٹھائے دُعا کے لیے ایک میں، ایک میرا خدا رہ گیا مٹ گیا نقطہ مرکزی کا نشاں ایک موہوم سا دائرہ رہ گیا یوں تو شہ رگ سے بھی وہ قریب آگئے پھر بھی کچھ درمیاں فاصلہ رہ گیا سکرائے تو تھے وہ مری بات پر کچھ بھرم تو مری بات کا رہ گیا چاند نکلا تو چھوٹے بڑے ہو گئے نہ رہے، وہ جو تھے، جو نہ تھا رہ گیا
286 دوستی نہ سہی، دشمنی ہی سہی کوئی تو باہمی واسطہ رہ گیا اور پھر یوں ہوا دیکھتے دیکھتے شکل گم ہو گئی، آئنہ رہ گیا یوں سمجھ سمجھ لیجیے گا کہ مضطر نہیں راہ میں ایک پتھر پڑا رہ گیا
287 گرنے کو ہے مکان، مگر تم کو اس سے کیا سر ہے نہ سائبان، مگر تم کو اس سے کیا اس شہر بے امان کے شعلوں کے درمیاں میرا بھی ہے مکان، مگر تم کو اس سے کیا انسان ہوں میں اور مرے سینے میں دل بھی ہے منہ میں بھی ہے زبان، مگر تم کو اس سے کیا وہ بھی تھا امتحان سر دشت نینوا یہ بھی ہے امتحان، مگر تم کو اس سے کیا کیا جانتے ہو کس نے اجاڑا بہشت کو تم ہی نے میری جان ! مگر تم کو اس سے کیا کر تب تمھارے دیکھ کے حیرت میں ہے زمیں ششدر ہے آسمان ، مگر تم کو اس سے کیا اب ڈھونڈتے پھرو ہو عبث اپنے آپ کو ہے جان نہ جہان، مگر تم کو اس سے کیا جاگو کہ رات ختم ہوئی، صبح ہو چکی ہونے کو ہے اذان، مگر تم کو اس سے کیا مضطر تمھارے سائے سے بچ کر نکل گیا اللہ کی ہے شان، مگر تم کو اس سے کیا (مئی، ۱۹۹۵ء)
288 چاہنے والوں کو ڈسنے والا آ گیا ابر برسنے والا کتنا مرعوب ہے سناٹے سے میری آواز پہ ہنسنے والا بن گیا آپ ہی اپنی زنجیر میری زنجیر کو کسنے والا بانٹتا پھرتا ہے دریاؤں کو قطرے قطرے کو ترسنے والا تنگ آ جائے گا ہنستے ہنستے کبھی روئے گا یہ ہنسنے والا اب گرجتے ہوئے گھبراتا ہے راه چلتوں پہ برسنے والا اس کو پرواز کا فن آتا ہے یہ پرندہ نہیں پھننے والا بس گرجتا ہی چلا جاتا ہے یہ نہیں ابر برسنے والا سامنے کیوں نہیں آتا کھل کر جسم اور جان میں بسنے والا کس قدر دور ہے مجھ سے مضطر! میرے ہمسائے میں بسنے والا
289 شعور غم طبق اندر طبق ہے اسی غم سے زمیں کا سینہ شق ہے یہ تیری دین ہے اے غم کے خالق! دلوں میں روشنی کی جو رمق ہے سنایا ہے جسے سولی پر چڑھ کر کتاب عشق کا پہلا ورق ہے عطا کر دے مجھے بھی خلعت اگر چہ کوئی دعوی ہے نہ حق ہے کوئی آیا نہ ہو دارالاماں میں یہ کیا غوغائے شَرِّ ما خَلَقُ ہے نہ اب زیتون کو خطرہ خزاں کا نہ اب رنگ رخ انجیر فق ہے یہی تو ہے مقامِ قَابَ قَوْسَيْن ادھر تو ہے، اُدھر رپ فلک ہے
290 ترے دشمن بھی کہنے پر ہیں مجبور تو سچا ہے ، تو صادق ہے ، تو حق ہے بھرم قائم ہے جس سے زندگی کا وہ تیری مسکراہٹ کی شفق ہے شعور غم تھی ނ مانگتا ہوں که نازک مسئلہ ہے اور ادق ہے نہیں یہ قطرۂ شبنم نہیں ہے یہ گل ہائے عقیدت کا عرق ہے غلامی کا شرف تجھ کو ہے حاصل تجھے کس بات کا مضطر! قلق ہے
291 سوچتا ہوں کہ کوئی تجھ سے بڑا کیا ہوگا تو اگر تو ہے تو پھر تیرا خدا کیا ہو گا میں غلاموں کے غلاموں کا اک ادنیٰ خادم مجھ سا قسمت کا دھنی کوئی بھلا کیا ہو گا تجھ کو اللہ نے لولاک کی خلعت بخشی مستحق اس کا کوئی تیرے سوا کیا ہو گا میم کے پردے میں مستور ہے تیرا مسکن لکھوں تو بتا تیرا پتا کیا ہو گا نامه جب دَنی کا فَتَدَلّی سے ہوا ہو گا ملاپ فرق قوسین کے مابین رہا کیا ہو گا جب ملاقات ہوئی ہو گی سرِ عرشِ بریں دوست نے دوست سے کیا جانے کہا کیا ہوگا جس نے مظلوم کی تقدیر بدل کر رکھ دی زلزلہ ہو گا ، ترا اشک گرا کیا ہو گا
292 جس کی ہیبت سے پہاڑوں کے بھی دل ہیں لرزاں تجھ پہ اُترا جو سر غار حرا ، کیا ہو گا تو کہ اللہ کا سایہ ہے اے حسنِ کامل! جو ترا سایہ ہے وہ تجھ سے جدا کیا ہو گا تو محمد بھی ہے ، احمد بھی ہے، محمود بھی ہے تیری توصیف کا حق ہم سے ادا کیا ہو گا تیرا احساں ہے کہ میں نعت لکھوں، تو خوش ہو ورنہ میں کیا ہوں، مرا لکھا ہوا کیا ہوگا
293 روح کی لذت بن کر برسا مولا! تیری ذات کا نام بھول گئے ہم سارے موسم، یاد رہا برسات کا نام ایک صحیفہ جس کو تو نے صبح ازل تصنیف کیا یعنی اسم محمد جس کا اسم ابد آیات کا نام ہم نادانوں، بے سمجھوں کو اس استاد کامل نے اپنی ذات پر لکھ کے سکھایا تیری ذات صفات کا نام مسکینوں پر تو ہی نورِ مجسم بن کر اُترا ہم تیرے ذکر کا نام محمد، قرآں تیری بات کا نام یک صحیفہ واپس لایا کتنے اور صحیفوں کو یعنی پھر مذکور ہوا انجیل کا اور تورات کا نام کعبہ جسم و جان ہے اب بھی تیرے قبضہ قدرت میں شرمندہ، سرافگندہ ہے اب بھی لات منات کا نام شہر ہجر میں اب بھی تیرے نام کا سکہ جاری ہے صدیوں پر بھاری ہے اب بھی قربت کے لمحات کا نام
294 تو چاہے تو آپ چھپا لے ستاری کی چادر میں میری فردِ عمل کا، میرا اور میرے حالات کا نام خالی خیمے آج بھی کوفے والوں سے یہ کہتے ہیں ہمت ہے تو واپس کر دو اب بھی نہر فرات کا نام کیا مضطر اور کیا اس کی اوقات کہ تیری محفل میں لے تو کس برتے پر لے اشکوں کی اس سوغات کا نام
295 راتوں کو اُٹھ کے آنکھ کا آب حیات پی ان خشک سالیوں میں سر پل صراط پی زہر غم حیات بھی پینے کی چیز ہے اس کو بھی آزما ، اسے بھی آج رات پی پي تحفہ ملی ہے تجھے شہریار سے اور اس کو بر سر نہر فرات پی
296 ہو و گئے ہم تو پاش پاش بہت کر ہماری نہ اب تلاش بہت اک تبھی تم ہو کیوں زمانے میں اور بھی تم سے ہوویں کاش! بہت بت پرستی کی تھی روایت بھی تم نے بت بھی لیے تراش بہت میری کشتی کے ڈوبنے کے بعد اس قدر بھی ہے ارتعاش بہت آرزو کو نہ گھور کر دیکھو آ نہ جائے اسے خراش بہت عقل ہی مستقل مریض نہیں دل بھی ہے صاحب فراش بہت شہر بیتی نہ پوچھیے مضطر ! یہ کہانی ہے دلخراش بہت
297 Savox لفظ مر جائیں تو مفہوم بھی مر جاتے ہیں کتنے کاغذ کے کفن خون سے بھر جاتے ہیں دشت در دشت پھرا کرتے ہیں خنداں فرحاں گھر کے پردیس میں آتے ہیں تو ڈر جاتے ہیں گھورتی رہتی ہیں الفاظ کی آنکھیں ان کو شعر کے رُخ پہ جو نظارے بکھر جاتے ہیں رات دن دار پہ تانتا سا بندھا رہتا ہے چاہنے والے ترے جانے کدھر جاتے ہیں ڈر نہ انکار کے سیلاب سے اتنا مضطر ! یہ وہ دریا ہیں جو چڑھ چڑھ کے اُتر جاتے ہیں
298 کیسے بات کروں ٹھنڈے انسانوں سے خوف آتا ہے بے آباد مکانوں سے جاگ رہی ہیں سُونے گھر کی تصویریں چہرے گھور رہے ہیں روشن دانوں سے تنہا آنسو کیسے بچ کر نکلے گا پلکوں کے ان دو رویہ دربانوں سے آئین کی لاش اُٹھائے پھرتے ہو لوگ حکومت کرتے ہیں فرمانوں سے کوہ ندا کے بن باسی بھی بولیں گے آخر شور اٹھے گا بند مکانوں سے دانش مندو! اس کا استقبال کرو جھونکا جو آیا ہے ویرانوں سے آخر پتھر پگھلا ضبط تکلم مضطر ! کشتی بچ نکلی طوفانوں سے
299 Jab ہماری طرف نہ عدد کی طرف زمانہ ہے اک خوبرو کی طرف تو ان ابروؤں کے اشارے کو دیکھ نہ تک عزت و آبرو کی طرف خدا جانے کیوں عہدِ الزام میں بھی ہم ہیں جام و سبو کی طرف یہ سب رنگ و بو عارضی چیز ہے نہ جانا کبھی رنگ و بو کی طرف سے دیکھا کبھی آپ کو کبھی آپ کی گفتگو کی طرف نہیں فرق عشق و ہوس میں کوئی یہ پیاسی طرف ہے، وہ بھوکی طرف زمانے کی رفتار کو روک دے بڑھا ہاتھ جام و سبو کی طرف وہ وہ پھر چاند تاروں کی محفل سجی مضطر گیا آبجو کی طرف
300 ہم اکیلے ہیں بے حضور نہیں رہ کر بھی تجھ سے دور دور ره سے دور نہیں تیرے غم سے نڈھال ہیں ورنہ زندگی کا کسے شعور نہیں میری آنکھیں گناہگار سہی تیرے جلوے بھی بے قصور نہیں ہنس رہے ہیں چمن کی حالت پر پھول لمسن ہیں بے شعور نہیں جس سے پوچھو وہی فرشتہ ہے آدمی کوئی دور دور نہیں گل و گلشن اداس ہیں مضطر ! چشم نرگس میں جیسے نور نہیں
301 زلف و رخ کے اسیر رہنے دے مفلسوں کو امیر رہنے دے اک عدو، اک ضمیر رہنے دے دونوں منکر نکیر رہنے دے بادشاہت کا اعتبار نہیں احتیاطاً فقیر رہنے دے راز تیرے نہ فاش ہو جائیں میرے دل کو نہ چیر، رہنے دے عظمتوں کو عظیم تر کر دے پستیوں کو حقیر رہنے دے قصه غم دراز ہے مضطر ! رات پہنچی اخیر، رہنے دے
☆ 302 SaleR عاشقی جتنی وفادار ہوئی جاتی ہے دلبری اتنی ہی دلدار ہوئی جاتی ہے میرے محبوب! مجھے چھوڑ گئے ہو تنہا کیوں خفا بندے سے سرکا ر ہوئی جاتی ہے عشق مظلوم ہے بے بس ہے نہ جانے کب سے بے بسی عادتِ ابرار ہوئی جاتی آج بھی جلتے ہیں پروانے حضور جمع حسن سے عشق کی تکرار ہوئی جاتی ہے عاشقو! یار کے دربار میں فریاد کرو عاشقی طعنہ اغیار ہوئی جاتی ہے آج پھر زور پہ ہے معرکہ ظلمت و نور منتشر مجلس احرار ہوئی جاتی ہے رقص ابلیس کو اب روک بھی دے اے مولا ! قوم کی قوم گنہگار ہوئی جاتی ہے خود ہی آجاؤ یا مضطر کو بلا لواے دوست! زندگی حسرتِ دیدار ہوئی جاتی ہے (۱۹۵۳ء) بروزن فعلن
303 حد نظر سے دور افق پار دیکھنا آواز کس نے دی ہے مرے یار! دیکھنا اک بے وطن ہے درد سے لا چار دیکھنا تو بھی چمن میں نرگس بیمار دیکھنا اک اور شام جیسے مکدر سی ہو گئی اک مرحلہ تھا پرسش غم خوار دیکھنا ہر جراتِ سوال پہ پیش حضورِ دوست حیرت سے اپنے آپ کو ہر بار دیکھنا جی چاہتا ہے دیکھنا ان کو قریب سے اور ان کا مسکرا کے مرے پار دیکھنا مضطر کو اپنی پیچ مدانی ناز ہے اترا رہا ہے بر سر بازار دیکھنا
304 کون سر غار حرا بول رہا ہے لگتا ہے کہ خود آپ خدا بول رہا ہے ہو جائے نہ صحرا سے کہیں اس کی لڑائی صحرا میں اکیلا جو کھڑا بول رہا ہے واللہ کہ یہ میم فقط میم نہیں ہے اس میم کے پردے میں خدا بول رہا ہے آواز تو آئی ہے انا الحق کی کہیں سے کوئی تو سر کرب و بلا بول رہا ہے کملی کے چھپانے سے کبھی چھپ نہ سکے گا رُخ پر جو ترے رنگ حیا بول رہا ہے ہے فرش سے تا عرش چکا چوند کا عالم کس شوخ کا نقش کف پا بول رہا ہے کچھ منہ سے تو کہنے کی ضرورت نہیں اے دل! آنسو بھی تو ہنگام دُعا بول رہا ہے تاثیر نے حل کر دیے آواز کے عقدے جو لفظ کبھی بولا نہ تھا بول رہا ہے مضطر کو بھی لے جانا سر کوئے ملامت یہ شوخ بھی امسال بڑا بول رہا ہے (قدیم)
305 قصیدہ تہنیت بر موقع آغاز نشریات ایم ٹی اے یہ جو ہم اس قدر رہے ہیں ملول اس کا انعام ہو گیا ہے وصول سارے شکوے گلے ہوئے معزول سارے رنج اور غم گئے ہیں بھول آسماں سے سر منارہ ” شرق» لا ابن مریم کے “ کا ہو رہا ہے نزول روز اُترتا ہے روز کھلتا ہے وہ گلاب کا پھول مسکراتا ہوا روز چڑھتا ہے چاند چہرے کا روز ہوتا ہے چاندنی کا نزول روز للکارتا ہے باطل کو سیر نہر فرات ”ابن بتول“ اس کی للکار، اس کا زور خطاب ایک تیغ برهنه و مسلول روز اس کا علاج کرتا ہے قوم کو یہ جو ہو گیا ہے زہول جھوٹ بھی ان کا بن رہا تھا سچ میرا معقول بھی تھا نا معقول غسل صحت کیا ہے ٹی وی نے اس میں شیطان کر گیا تھا حلول فوج در فوج آ رہے ہیں لوگ ہر طرف کھل رہے ہیں پھول ہی پھول چاند چہرے کو دیکھ لو اک بار کیوں عبث دے رہے ہو بحث کوطول آج رُوئے زمیں پہ زندوں میں ایک ہی آسماں ایک ہی آسماں پہ ہے مقبول لے ایم ٹی اے کے زیر استعمال مشرقی یورپ کا سیٹلائیٹ مراد ہے.ے حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی والدہ محترمہ مرحومہ کا اسم گرامی بھی مریم ہے.
306 مقبول جس صداقت کی دے رہا ہے اذاں وہ تو آثار میں بھی ہے منقول چاند سورج بتا چکے کب کے كون محروم ، کون ہے معترض کا بھی کیا گلہ کرنا دین مذہب نہ جس کا کوئی اُصول بند کر دے گا سارے دروازے میرے بھولے عدو کی ہے یہ بھول میری تضحیک مشغلہ اس کا میری تکفیر روز کا معمول اس کو غم ہے تو یہ کہ کیوں میں نے سچ کو سچ جان کر کیا ہے قبول میں کہ ہوں ایک ذرہ ناچیز کتنا گمنام، کس قدر مجهول میری منزل ہے نقش پا تیرا میرا مقصد تری رضا کا حصول کاش مجھ کو یہ مرتبہ مل جائے کاش ہو جاؤں تیرے پاؤں کی دُھول اپنا دیں ہے بس اس قدر پیارو! ایک اللہ اور ایک رسول اُٹھ رہا ہے جو افترا کا دھواں اُڑ رہی ہے جو اختلاف کی ڈھول ایک اک کر کے کاٹنے ہوں گے بو رہے ہو جو نفرتوں کے ببول ہم جو خاموش ہیں سرِ مقتل بُزدلی پر نہ اس کو کر محمول کچھ تو واجب ہے پیار پر بھی زکوة کچھ تو لگتا ہے عشق پر محصول گالیاں سن کے دے رہے ہیں دعا تم بھی مشغول ، ہم بھی ہیں مشغول ہاتھ قاتل کا روک دے یا رب! لفظ گھائل ہے اور صدا مقتول مانگنے والے! مانگ، نہ کر منتظر دیر نہ ہے دعا کا باب قبول
307 مفہوم کو لفظوں کا دریچہ نہیں ملتا وہ شور ہے، آواز کو رستہ نہیں ملتا پہچان نہ لے کوئی وہ ڈرتا نہیں ملتا ملتا ہے سر عام، اکیلا نہیں ملتا نشتر کی طرح وہ جو رگِ جاں میں ہے پیوست اس کا تو کسی شخص سے حلیہ نہیں ملتا نے جو بہم مل کے بنایا ہے عزیزو! اس کا تو مرے شہر سے نقشہ نہیں ملتا خواہش کے پہاڑوں کی یہ بے چہرہ چٹانیں چہروں میں بدل جائیں تو چہرہ نہیں ملتا وہ شوخ جو کل تک تھا محلات کا مالک آج اس کو کرائے پہ بھی کمرہ نہیں ملتا دیکھو تو سنبھل جاتا ہے چالاک ہے اتنا آواز بدل جاتی ہے لہجہ نہیں ملتا
308 سیلاب کو شکوہ کہ مرا ذوق ہے پایاب کو شکایت کہ کنارہ نہیں ملتا دیکھو تو نظر آتے ہیں یہ لوگ تہی دست سوچو تو سر دار انھیں کیا نہیں ملتا یہ آگ کا دریا تھا کہ سنگلاخ زمیں تھی مضطر کا کہیں نقش کف پا نہیں ملتا
309 Jako منزلوں کی حکائیتیں کرتے گزری روایتیں کرتے اذن ہوتا اگر صحیفوں کو حمایتیں کرتے آیتوں تم نہ کہتے ہمیں فقط کافر اور بھی کچھ عنایتیں کرتے دن گزرتا کہانیاں کہتے رات کشتی روایتیں کرتے منزلوں سے جھگڑنے والوں کی راستے کیوں رعایتیں کرتے دل کی دولت سمیٹ لی ہم نے گئے تم روایتیں کرتے ره آنکھ سے لڑ پڑے، کبھی دل سے عمر گزری شکائیتیں کرتے بخشنا ہی پڑا بغیر حساب ہ کہاں تک رعایتیں کرتے وہ
310 پھسلنے کا اگر امکان ہوتا سنبھلنے کا بھی کچھ سامان ہوتا فقیہ شہر اگر انسان ہوتا تو اہل شہر پر احسان ہوتا سلیب شہر جھک کر بات کرتی اسیروں کو بھی اطمینان ہوتا زمیں پر رات بھر تارے برستے فلک پر جشن کا اعلان ہوتا جو آجاتا کبھی وہ دشت جاں میں یہیں پر مستقل مہمان ہوتا وہ آئینے سے مل کر مسکراتے اگر چہ اگر چہ آئنہ حیران ہوتا اگر پہچان لیتا مجھ کو قاتل میں اس کی، وہ مری پہچان ہوتا غم دوراں، غم جاناں، غم جاں کوئی تو زیست کا سامان ہوتا کوئی لہجہ تو ہوتا عرض فن کا غزل کا کوئی تو عنوان ہوتا اگر رونق نہ ہوتی منزلوں کی تو رستہ کس قدر ویران ہوتا تو جینا کس قدر آسان ہوتا اگر آسان ہوتا مسکرانا اگر ہوتا یقیں اس بے یقیں کو تو جھگڑا بر سر میدان ہوتا کوئی تو بات مضطر کی سمجھتا کوئی تو شہر میں انسان ہوتا
311 صبح اندیشے، شام اندیشے بے وطن، بے مقام اندیشے روزمرہ کے عام اندیشے ہر قدم گام گام اندیشے یہ اگر ہیں تو ہم بھی ہیں، یعنی زندگی کا ہے نام اندیشے کیف اور درد عشق کا انعام عقل کا انتقام اندیشے عمر بھر ساتھ ساتھ چلتے ہیں خوش قدم، خوش خرام اندیشے بے غرض، بے زبان، بے صورت بے حقیقت سے، عام اندیشے کچھ شب وروز مصلحت کے اسیر اور کچھ بے لگام اندیشے بے نشاں ، بے زبان، بے آواز آئے بہر سلام اندیشے دل نادان سے خدا سمجھے کچھ بھی ہو، اس کا کام اندیشے کبھی مضطر غلام ہے ان کا کبھی اس کے غلام اندیشے
312 کفر کا الزام میرے نام تھا کون کہتا ہے کہ میں ناکام تھا کوئے جاناں اور جاں کے درمیاں فاصلہ تھا بھی تو یک دو گام تھا جانے کیوں خاموش تھے چھوٹے بڑے گفتگو کا یوں تو اذنِ عام تھا اب لیے پھرتا ہوں اپنے اپنے آپ کو مجھ کو سولی پر بہت آرام تھا سائے لمبے ہو رہے تھے شہر کے تھک گئے تھے پیٹر، وقت شام تھا
313 خلش سی جو آہلے میں ہے تحس سزا میں ہے، کس صلے میں ہے قصر نمرود زلزلے میں ہے بت شکن کوئی بت کدے میں ہے زندگی کا طلسم ہوش ربا آج بھی گن کے مرحلے میں ہے بات ہے ایک بات کے اندر دائرہ ایک دائرے میں ہے وہ مرا اشک ناتمام کہیں ایک مدت سے راستے میں ہے وہ گل نا شگفته فردا مسکرانے کے مرحلے میں ہے لاکھ چھپ کر بھی وہ گل خوبی عکس در عکس آئنے میں ہے ہمنشیں ہے نہ کوئی ہمسایہ وہ اکیلا ہے اور مزے میں ہے حادثہ ہے کہ خوش نصیب ہوں میں میرا گھر اس کے راستے میں ہے فاصلہ بھی ہے قرب کے اندر قرب بھی ایک فاصلے میں ہے
314 حملہ آور ہیں آج آدم خور آدمیت محاصرے میں ہے چور ہے کوئی دیوار گرنے والی ہے کوئی طوفان راستے میں ہے اک مکان کے اندر ایک جاسوس قافلے میں ہے ایک انبوہ ناشناساں ہے جو ازل سے مقابلے میں ہے بند کر دے گا سارے دروازے معترض اس مغالطے میں ہے کہہ رہی ہے کتاب مدت سے ایک انجام راستے میں ہے عقل دل کی غلام بھی مضطر ! دل بھی اب عقل کے کہے میں ہے
315 اشک جو آنکھ کے قفس میں ہے ایک سجدے کی دسترس میں ہے دل ناداں! یہ عشق کا الزام تیرے بس میں نہ میرے بس میں ہے صبح صادق بھی امتحان ہے ایک ابتلا ایک چاند رس میں ہے رقص ہے ایک دل کی دھڑکن میں ایک دُھرپد نفس نفس میں ہے ایک گمنام آتش خاموش اب بھی موجود خار و خس میں ہے اس کی حد ہے نہ کوئی سرحد ہے و نظر بند جس قفس میں ہے سامنے ہے قیامت صغری اور تُو ہے کہ پیش و پس میں ہے
316 معترض! مجھ کو بھی ہوس ہے ایک فرق لیکن ہوس ہوس میں ہے نہ ترے کام سے ہے مجھ کو کام نہ ترا جھوٹ میرے بس میں ہے آج وہ بھی ہے درپئے آزار جو نہ دو چار میں، نہ دس میں ہے میں قفس میں تو ہوں مگر مضطر ! اک مزہ ہے جو اس قفس میں ہے
317 گھر سے نکلے تھے بے ارادہ بھی بے خبر بھی تھے لوگ سادہ بھی نے اوڑھا تھا جو لبادہ بھی لبادہ تھا رہن بادہ بھی وہ یاد تو ہو گا، ہم فقیروں ایک تم نے کیا تھا وعدہ بھی تم نے تقسیم کر کے دیکھ لیا اپنے آدھا آدھا بھی جسم کو ایک ہی رنگ میں ہوئے رنگیں شاہ بانو بھی، شاہ زادہ بھی ایک تھیلی کے چٹے بٹے تھے پوتے، پڑپوتے اور دادا بھی بات دل کی زباں یہ آ نہ سکی لاکھ اس کا کیا ارادہ بھی
318 یوں تو منزل بھی تھی قریب بہت راستہ تھا بہت کشادہ بھی اس کے نقش قدم پر چل نکلے ہم اگر چہ تھے پا پیادہ بھی ہم نے ہنس کر اُٹھا لیا مضطر ! جس قدر بوجھ اس نے لادا بھی
319 جلنے کا شوق تھا تو وہ جلتا تمام رات پتھر تھا، موم بن کے پگھلتا تمام رات منظور تھا اگر اُسے دھرتی کا احترام پاؤں تلے نہ اس کو کچلتا تمام رات نہ چاند ہوتا اگر نکلنے کا انتظار باہر کوئی نہ گھر سے نکلتا تمام رات ہوتی اگر نہ یاد کی کھڑکی کھلی ہوئی امید کا چراغ نہ جلتا تمام رات در کھٹکھٹاتا رہتا وہ اپنے مکان کا خود سے ملے بغیر نہ ٹلتا تمام رات منزل پہ جا پہنچتا مسافر ضمیر کا گرتا تمام رات، سنبھالتا تمام رات اتنا بھی کیا کہ اپنی ہی آہٹ سے ڈر گیا ڈھلنے لگا تھا اشک تو ڈھلتا تمام رات
320 آواز اور سرحد آواز سے پرے صوت و صدا کا سلسلہ چلتا تمام رات پیاسے کو چاہیے تھا کہ پیاسوں کے درمیاں چھپ کر نہ آنسوؤں کو نگلتا تمام رات ق اس کو اگر جلاتی نہ یہ آگ ہجر کی پہلو نہ کرب سے میں بدلتا تمام رات نظریں اُٹھا کے دیکھ نہ سکتا اسے مگر دیکھے بنا بھی دل نہ بہلتا تمام رات مضطر بھی اس کے سائے میں سو جاتا چین سے فرقت کا پیٹر پھولتا پھلتا تمام رات
321 جلنے لگا مکاں تو گلی سوچنے لگی نگی نکور دھوپ جلی سوچنے لگی آنکھیں اُگی ہوئی تھیں گلی میں ، مگر گلی پھر بھی نہ سوچنے سے ٹلی، سوچنے لگی سوئی ہوئی تھی عمر گزشتہ کی سیج پر جاگی تو مسکرا کے کلی سوچنے لگی روٹھی ہوئی تھی زندگی سوکھی زمین سے بارش ہوئی تو اچھی بھلی سوچنے لگی واپس کبھی تو آئیں گے مالک مکان کے خالی مکاں کی بند گلی سوچنے لگی ڈھلنے کو رات ہجر کی ڈھل تو گئی مگر اک بار ڈھل کے پھر نہ ڈھلی ،سوچنے لگی شبنم جو چھپ کے پھول سے اتری تھی پھول پر خوشبو کا خون پی کے ٹلی، سوچنے لگی زخموں کو سی رہی تھی گزرتی ہوئی صدی اشکوں نہائی پلکوں پلی سوچنے لگی
322 ان خشک سالیوں کی کوئی انتہا بھی ہو بن میں جہاں جہاں تھی کلی سوچنے لگی مقتل میں بہر گفتگو آئی تھی زندگی جب گفتگو نہ آگے چلی ، سوچنے لگی سولی بھی اُس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یہ اللہ کا ہے کوئی ولی، سوچنے لگی حیران تھی زمین کہ اہل زمین نے چہروں پر کیوں بھبھوت ملی ، سوچنے لگی جب بھی گری زمین پر بچے کے ہاتھ سے مٹی کی چور چور ڈلی سوچنے لگی صورت جو انتظار کے ماتھے پہ ثبت تھی کیا جانے کیا محمد علی! سوچنے لگی
323 بے سبب اور بے صدا ٹوٹا اشک اندر سے سے بارہا ٹوٹا حشر آواز کا ہوا برپا قفل جب بھی سکوت کا ٹوٹا عکس سے عکس کی صداقت تک آئنوں کا نہ سلسلہ ٹوٹا دیکھ کر بھی نہ اس کو دیکھ سکے آنکھ کا جو بھرم بھی تھا ، ٹوٹا اور جتنے تھے آسرے ٹوٹے ایک تیرا نہ آسرا ٹوٹا سخت تھا زندگی کا پھیر بہت مشکلوں دائرہ ٹوٹا تاب کب لا سکا صداقت کی فرط لذت سے آئنہ ٹوٹا
324 بھول کر بھی نہ اس کو بھول سکے ٹوٹ کر بھی نہ رابطہ ٹوٹا بات ہوتی رہی اِشاروں میں گفتگو کا نہ سلسلہ ٹوٹا کتنے طوفاں گزر گئے سر سے زندگی کا نہ بلبلا ٹوٹا ہم ہی کچھ سخت جان تھے مضطر! دل ناداں تو بارہا ٹوٹا
325 آپ کے لب پر پیار ہو، دل میں پیار نہ ہو آپ کا لب سرکار کہیں عیار نہ ہو تیر نظر کے گھائل کیونکر قائل ہوں جب تک تیر نظر کا دل کے پار نہ ہو چاند کھڑا ہے مدت سے دروازے میں چہرہ بھی پیلا سا ہے، بیمار نہ ہو وہ اس جنگ میں لڑنے کے لیے مت نکلیں جن کے پاس محبت کی تلوار نہ ہو کوئے ملامت میں جانے سے ڈرتا ہے دل دیوانه اتنا بھی ہشیار نہ ہو منگتا مانگتا جائے اپنے داتا سے داتا کو بھی دینے سے انکار نہ ہو سورج چاند ستارے سب گہنا جائیں آخرِ شب وہ آنکھ اگر بیدار نہ ہو
326 مانگ تو لوں اس زُلف سے سایہ تھوڑا سا کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے، انکار نہ ہو عشق اگر ہو عشق تو کیونکر ممکن ہے عشق تو ہو لیکن اس کا اظہار نہ ہو سر کے بل جاؤں اس پھول سے ملنے کو راہ میں خوشبو کی رنگیں دیوار نہ ہو ڈرتا ہوں میں یار کی طبع نازک پر پیار کا یہ اظہار بھی مضطر! بار نہ ہو
327 نذر آتش بصد ادب ر کھٹکھٹا رہا ہے قفس کا زمانہ کیا آہٹ کا جو اسیر تھا وہ بھی نہ مانا کیا در پتا کوئی ہلا تو پرنده لرز گیا شارخ نہالِ غم پہ کیا آشیانہ کیا مجھ کو یہ ڈر ہے تو کہیں ناراض ہو نہ جائے ان کو یہ خوف ہے کہ کہے گا زمانہ کیا اب ڈھونڈتے پھرو ہو عبث اپنے آپ کو آئے تھے شہر ذات میں تم فاتحانہ کیا جینا اگر محال تھا اس اثر دہام میں مرنے کا بھی نہ مل سکا تم کو بہانہ کیا عہدِ غم فراق کی جنگ عظیم میں دل بھی لڑے گا عقل کے شانہ بشانہ کیا فتووں کے لین دین پہ قدغن نہیں رہی حل ہو گیا یہ مسئلہ بھی تاجرانہ کیا
328 جس کے نصیب میں ہو ” کھلے شہر“ کی صلیب اس خوش نصیب کی ہو خوشی کا ٹھکانہ کیا اس کو کرو کمال اتاترک کے سپرد ملا کو آزمانے کے بعد آزمانا کیا اک زلزلہ سا آ گیا ایوانِ اشک میں مضطر پہ مہرباں ہوا دشمن پرانا کیا
329 سپنوں میں بادلوں کی بارات لے کے آنا ساتوں سمندروں کی خیرات لے کے آنا جب قرب کی قیامت برپا ہو جسم و جاں میں دو چار ہجر کے بھی لمحات لے کے آنا ترتیل سے کریں گے ہر زخم کی تلاوت آنا تو فرقتوں کی تورات لے کے آنا پیاسوں کی التجا ہے اے پانیوں کے مالک! دشت نجف میں اب کے برسات لے کے آنا حالات کا ہمالہ ہے ٹوٹ جانے والا موسم جو مستقل ہو وہ ساتھ لے کے آنا اے رات کے مسافر ! اس سانولے سفر میں جو دن کی ہمسفر ہو وہ رات لے کے آنا داخل نہ ہو سکو گے بچوں کی سلطنت میں آنا تو کوئی سچی سوغات لے کے آنا
330 فرقت کے فاصلوں میں اس عہد کی ہے عادت وہ دن کو چھین لینا جو رات لے کے آنا جنس وفا کو لے کر آئیں جب آنے والے لازم نہیں ہے ان پر کچھ ساتھ لے کے آنا پہچاننے میں مضطر! دقت نہ ہو کسی کو تاریخ کے پرانے صفحات لے کے آنا ☆ خدا جانے وہ اب کس حال میں ہیں انھیں دیکھے ہوئے عرصہ ہوتا ہے نہیں ہے بے خبر اتنا بھی مضطر اسے معلوم ہے جو ہو رہا ہے
331 واویلا کرتا ہوا راون آیا ہے سیتا کو لینے کیوں کچھمن آیا ہے ارجن کو بلواؤ کرو کھشیر میں گیتا کے اپدیش کو بھگون آیا ہے دروپدیوں کی عزت لوٹ کے جوئے میں منہ سے واپس دریودھن آیا ہے جنس وفا منگوائی تھی مجبوروں نے شہر سے واپس خالی برتن آیا ہے آنکھیں فرش کرو، چہرے دہلیز کرو ساجن سے ملنے کو ساجن آیا ہے چہرے جھانک رہے ہیں روشن دانوں سے لگتا ہے کوئی روزن روزن آیا ہے موسم بھی مدہوش سے فرط لذت سے ہے دھرتی پر بھی ٹوٹ کے جو بن آیا ہے
332 ساز کا قبضہ ہے آواز کی لہروں پر سوز کو بھی چپ رہنے کا فن آیا ہے خالی ہاتھ کھڑے ہیں لفظ قطاروں میں ہے آواز کا مدفن آیا ہے لگتا حضرت یوسف سے کہہ دو محتاط رہیں شہر میں کہتے ہیں اک نردھن آیا ہے گندم کے مقروض کھڑے ہیں ساحل پر دریا پار سے ایک مہاجن آیا ہے کچھ کرلے سیلاب کا بندوبست میاں! ہاڑ گیا اور سر پر ساون آیا ہے آنکھ اٹھا کر دیکھ ستارہ قسمت کا نیند کے ماتے! جاگ، برہمن آیا ہے مضطر کی خاموشی پر حیران نہ ہو اس نے کیا ہے جو اس سے بن آیا ہے
333 تیر جب اس کمان سے نکلا ایک شعلہ چٹان سے نکلا اپنی آواز لے گیا ہمراہ جب پرندہ مکان سے نکلا کوئی اپنا رہا نہ بے گانہ فاصلہ درمیان سے نکلا راستہ دے دیا سمندر نے اشک اس آن بان سے نکلا مٹ چکا تھا نشان جنگل کا جب شکاری مچان سے نکلا شہر مسحور میں سرِ منبر مولوی مرتبان سے نکلا اب زمیں سے لپٹتا پھرتا ہے سایہ کیوں سائبان سے نکلا بات دل کی زباں پہ آ نہ سکی کام کب ترجمان سے نکلا بے سبب تو خفا نہیں دُنیا کچھ تو میری زبان سے نکلا خواب ہے یا خیال ہے مضطر! آن کر پھر نہ دھیان سے نکلا
334 یہ کرم ہو گیا یا ستم ہو گیا دفعہ ہو گیا، ایک دم ہو گیا گھر سے نکلا تھا جو روکنے کے لیے ساتھ چلنے لگا ، ہم قدم ہو گیا بار کچھ تو امانت کا ہلکا ہوا ہاتھ کاٹے گئے، سر قلم ہو گیا بر سر دار ہم بھی بلائے گئے فاصلہ باہمی اور کم ہو گیا بات کی تھی سرِ راہ اک سرسری ذکر اس کا عدم تا عدم ہو گیا یہ گلی کس کی ہے، سنگ در کس کا ہے کیوں جبیں جھک گئی ، سر بھی خم ہو گیا بھی اچھا ہوا منصفو! ثالثو! خونِ ناحق سے کچھ شور کم ہو گیا پھر لہو رنگ ہے سرزمین وفا پھر یہ خطہ بھی رشک ارم ہو گیا تم سمجھتے ہو مضطر! اُتر جائے گا؟ یہ جنوں تم کو جو ایک دم ہو گیا
335 ہونے کو وہ شوخ بہت مشہور ہوا جانے کیوں بالآخر نامنظور ہوا اشک جب الزام لگا عریانی کا فرط حیا سے اور بھی چکنا چور ہوا مٹتے مٹتے داغ مٹیں گے دامن کے چھینٹوں کا دور بہت بھر پور ہوا ننگ دھڑنگ اک ٹیلہ پیلے پتھر کا عشق کی آگ میں جل کر کوہِ طور ہوا دل بھی ایک عجائب گھر ہے یادوں کا جتنا پاس آیا اتنا ہی دور ہوا ނ آخر پتھر پگھلا ضبط تكلم کوہ ندا کا بن باسی مجبور ہوا اپنے جہل مرکب میں وہ سمجھتا ہے میرے قتل سے عند اللہ ماجور ہوا
336 دونوں افتاد پڑی محرومی کی پر ایبٹ آباد ہوا یا لائل پور ہوا کٹتے کٹتے رات کئی مجبوروں کی دیکھتے دیکھتے اندھیارا کافور ہوا مانگنے والے! مانگ کہ اب بھی ملتا ہے دل کا چین ہوا ، آنکھوں کا نور ہوا منظر ! ہم بھی عرض کریں گے جاناں سے فرط ادب سے دل نہ اگر مجبور ہوا
337 ہو گیا سنسان کمرہ اس کا چہرہ دیکھ کر ڈر گیا وہ خود بھی آئینوں کو ڈرتا دیکھ کر لکھ رہے ہیں لوگ کیا کیا اس حسینی کی شان میں ہم بھی کچھ لکھیں گے لیکن ناک نقشہ دیکھ کر شاید اس پر نام لکھا ہو اُسی عیار" کا رُک گیا ہوں راہ میں کاغذ کا پرزہ دیکھ کر ریس رہا ہے اس کی دیواروں سے یادوں کا لہو آپ کو تکلیف ہو گی میرا کمرہ دیکھ کر منجمد، سنگلاخ، بے حس میرے اندر کا پہاڑ پانی پانی ہو گیا بادل برستا دیکھ کر رات ہم نے احتیاطاً اپنے مٹی کے حصار اور اونچے کر لیے پانی کو چڑھتا دیکھ کر رات کے عفریت دیواروں کے اندر چھپ گئے شہر زندہ ہو گیا سورج نکلتا دیکھ کر یہ کمالِ قرب تھا یا اپنے منصب کا شعور ایک آمر ریت بھی چلنے لگی دریا کو چلتا دیکھ کر
338 ہر طرف آنکھیں ہی آنکھیں جیتی جلتی ، جاگتی ڈر گیا وہ شوخ بھی آنکھوں کا پہرہ دیکھ کر اپنے بنجر ہاتھ پر اتنے نہ گل بوٹے بنا تو کہیں قائل نہ ہو جائے تماشہ دیکھ کر ہو چکا ہے ٹوٹ کر تقسیم اک انبوہ میں لوگ تنہا جانتے ہیں اس کو تنہا دیکھ کر پھر حسین ابن علی پہنچے سر نہر فرات پھر فلک نیچے اتر آیا نظارہ دیکھ کر پھر وہی اظہار کی سولی ہے اور منظر ! ہوں میں پھر مجھے لفظوں نے آگھیرا اکیلا دیکھ کر (۱۸۷۹-۸۰ء)
339 یہ پیٹر کیا اُگا ہے امسال گھر کے اندر موسم بدل گیا ہے قلب و نظر کے اندر ہیں سینکڑوں در بیچے دیوار و در کے اندر مخفی نہیں کسی سے جو کچھ ہے گھر کے اندر یہ آنے جانے والی پگڈنڈیاں نہیں ہیں اُلفت کے راستے ہیں میرے نگر کے اندر اے مسکرانے والے! تو جانتا نہیں ہے ہم بھی ہیں اک حقیقت شام وسحر کے اندر چندھیا گئی ہیں جس سے میری نحیف آنکھیں یہ کون آ گیا ہے یوں بن سنور کے اندر اندر سے کر سکو گے طوفان کا تماشا آؤ نا بیٹھ جاؤ تم بھی بھنور کے اندر جب بھی کیا ہے ان سے تصویر کا تقاضا خود چل کے آگئے ہیں وہ چشم تر کے اندر
340 اندر کے آدمی کا آساں نہیں ہے مرنا زندہ ہے آدمیت اب بھی بشر کے اندر کامل ہو راہبر تو ہر اک قدم ہے منزل یہ تجربہ ہوا ہے اب کے سفر کے اندر کوئی تو ہو رہا ہے اعلان آسماں پر ہلچل مچی ہوئی ہے شمس و قمر کے اندر ڈر ہے نکل نہ جائے یہ پھاڑ کر چھتوں کو وہ قوت نمو ہے، مضطر ! شجر کے اندر
341 لذتِ غم سے بہرہ ور کرنا اتنا احسان چشم تر! کرنا - ڈھا بھی دو آب انا کی دیواریں سیکھ لو حصار سر کرنا کرنا تجھ سے مل کر تو اے شب زندہ جی نہیں چاہتا سحر صبح صادق ملے گی رستے میں منہ اندھیرے کبھی سفر کرنا نیند آئے اگر نہ سولی اس کے سائے میں شب بسر کرنا عهد پر بھول جانا تو بھول ہی جانا یاد کرنا تو عمر بھر کرنا ہد غم میں کسی کمینے کو اس قدر بھی نہ معتبر کرنا تن تنہا کھڑا ہوں مقتل میں دوستوں کو مرے خبر کرنا ہم فقیروں کے قتل سے پہلے اپنے انجام پر نظر کرنا ایک نیچے کی خاک پا ہوں میں فکر میرا نہ اس قدر کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ جی اُٹھے خاک کو خون سے نہ تر کرنا وہ سمجھتے ہیں سب اشاروں کو بات کرنا تو مختصر کرنا پہلے کر لینا معذرت ان سے ذکر مضطر کا ہو اگر کرنا
342 اندر سے اگر نہ مسکراؤں اس شور میں ٹوٹ پھوٹ جاؤں اے حسنِ تمام! تیرے احساں چاہوں بھی تو کس طرح بھلاؤں نسبت ہے مجھے بھی اک حسیں سے گمنام ہوں، نام کیا بتاؤں مدت سے ہوں منتظر صدا کا تو بولے تو میں بھی گنگناؤں تو آئے جو نور میں نہا کر میں راہ میں جسم و جاں بچھاؤں پلکوں میں سمیٹ لوں ستارے آئینوں کو آئنہ دکھاؤں تو آ تو سہی ، میں اس خوشی میں جاں وار دوں، تن بدن لٹاؤں اس چاند کی چاندنی میں منظر! کیا جلاؤں
343 نہیں وہ شخص تو ایسا نہیں ہے اسے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے نہیں یوں بھی کہ وہ ملتا نہیں ہے مگر مجبور بھی اتنا نہیں ہے رکیں تو آپ رک جاتے ہیں دریا مگر ایسا کبھی ہوتا نہیں ہے وہ سچا بھی ہے، سچا بھی، حسیں بھی و اگر دیکھا نہیں ہے اسے اسے چاہا کرو تنہائیوں میں وہ سب کا ہے فقط میرا نہیں ہے اسے معلوم ہے ساری حقیقت اگر چہ منہ سے کچھ کہتا نہیں ہے وہی زندوں میں ہے اب ایک زندہ وہ مر کر بھی کبھی مرتا نہیں ہے
344 اتنی حقارت سے نہ دیکھو اکیلا ہے، مگر تنہا نہیں ہے اسی کے نام کا سکہ چلے گا تم نے کبھی سوچا نہیں ہے بتا دوں گا میں سارا حال اس کو کوئی اس کے سوا چارہ نہیں ہے یونہی اک فاصلہ سا ہو گیا ہے وگرنہ تم سے کچھ پردہ نہیں ہے جواب اس خط کا بھی آیا ہے امشب جسے ہم نے ابھی لکھا نہیں ہے تماشائی بھی اب تو کہہ رہے ہیں یہ سودا اس قدر سستا نہیں ہے چھپا سکتا نہیں خوشبو کو، مضطر! یہ تھانے دار نے سوچا نہیں ہے
345 تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے نظر کی بھیک بھی تجھ سے پکار کر لیتے وہ راہ چلتوں سے قول و قرار کر لیتے وفا کا عہد تو ان سے سنوار کر لیتے اگر نصیب میں لکھی تھی منزلِ مقصود تو اپنے ساتھ ہمیں بھی سوار کر لیتے یہ قافلے جو کھڑے ہیں انا کی سرحد پر کسی بہانے سے سرحد کو پار کر لیتے نہ کرنا پڑتا کبھی ذکر اور کا ہرگز تمھارا ذکر اگر ایک بار کر لیتے گل مراد کو نظروں سے چومنے والے نظر کے زخم تو پہلے شمار کر لیتے نہ جی کا روگ لگاتے امیر بستی میں منافع بخش کوئی کاروبار کر لیتے
346 میں تاج کا نٹوں کا خود اپنے سر پہ رکھ لیتا مرے حریف مرا انتظار کر لیتے نظر نہ آتے بگولے کبھی سر صحرا ہوا کے رخ کو اگر اختیار کر لیتے میں ایک ذرہ خاکی تھا اور مرے سورج قریب تھا کہ مجھے ہمکنار کر لیتے خدا گواہ، نہ تھے اس کے اہل ہم مضطر ! یہ اور بات ہے وہ ہم سے پیار کر لیتے
347 قریب رہ کے بھی وہ ہم سے دور اتنا تھا ہمارا اس کا تعلق ضرور اتنا تھا سوائے اپنے اسے کچھ نظر نہ آتا تھا فقیہ شہر کے سر میں فتور اتنا تھا اسے تھا دعوی کہ اُس کے سوا نہیں کوئی اڑا ہوا تھا وہ ضد پر، غرور اتنا تھا نظر نہ آیا اسے اپنی آنکھ کا شہتیر وہ آدمی تھا مگر بے شعور اتنا تھا نشان راہ نہ منزل دکھائی دیتی تھی غبار اب کے برس دور دور اتنا تھا ق نظر اٹھا کے اسے دیکھنا تھا ناممکن مرے حسین کے چہرے پر نور اتنا تھا
348 وہ چاہتا تھا تری عاقبت سنور جائے کسی سے کہتا نہیں تھا، غیور اتنا تھا ہر ایک چھوٹے بڑے کو اسی سے تھا شکوہ وہ بے قصور تھا، اس کا قصور اتنا تھا وہ ملنے آیا تو میں اُٹھ کے مل سکا نہ اسے سے میرا بدن چور چور اتنا تھا تھکن میں ایک لمس سے ہوش و حواس کھو بیٹھا میں جس کو ضبط پر اپنے غرور اتنا تھا گزر چکا تھا میں گفت وشنید کی حد سے نگاہ لطف کا مضطر! سرور اتنا تھا
349 جنگل ہوں قدیم خار وخس کا خمیازہ ہوں باغ کی ہوس کا پھولوں کا لہو ہے اس کی خوراک شبنم ہے نچوڑ چاند رس کا تنہا بھی ہے اور گھرا ہوا بھی ہے اسیر پیش و پس کا واعظ کو بھی بحث کی ہے عادت یاروں کو بھی گفتگو کا چسکا اک غار میں روشنی ہوئی تھی قصہ ہے یہ سینکڑوں برس کا بھی بجھا دو دروازہ بھی کھول دو قفس کا لگتا ہے کہ صبح ہو گئی ہے سورج بھی نیا ہے اس برس کا
350 کرنوں نے جگا دیا زمیں کو محتاج تھا قافلہ جرس کا اندازہ نہیں تھا منزلوں کو آہستہ رووں کی دسترس کا آیات کی ہو رہی ہے بارش نظارہ ہے دیدنی قفس کا سب شہر تری گرفت میں ہیں پنڈی ہو، لہور ہو کہ ڈسکہ بدلا ہے مکان جب سے مضطر ! رستہ ہی بدل گیا ہے بس کا
351 مجھ کو بھی شفق شمار کر لے سورج مجھے ہم کنار کر لے منصور ہوں آخری صدی کا سولی مرا انتظار کر لے صحرا کے سکوت سے نہ گھبرا جو نام بھی لے پکار کر لے خاک اور خون کا سمندر دن ڈھلنے سے پہلے پار کر لے شاید کوئی اس طرف سے گزرے دیوار کو سایہ دار کر لے اتنا بھی بڑھا نہ داستاں کو تو اختصار کر لے ہے تیخی آواز کو چھوڑ دے یہیں پر لفظوں کی خلیج پار کر لے
352 اتنا بھی برس نہ اپنے اندر اشکوں کو نہ آبشار کر لے تصویر کو دیکھ کر سنبھل جا آئینے کا اعتبار کر لے ہے جرم عظیم اگر محبت یہ جرم بھی میرے یار! کر لے خوشبو کو ہے اختیار مضطر! جو رنگ بھی اختیار کر لے
353 مفہوم سے المجھوں کبھی الفاظ سنبھالوں اظہار کے آشوب میں آواز سنبھالوں صحرائے ملامت سے گزر جاؤں اکیلا الزام کی سوغات بصد ناز سنبھالوں میں خاک نشیں، خاک بسر، خاک بداماں کس طرح ترے قرب کا اعزاز سنبھالوں جاؤں تو کہاں جاؤں ترے ہجر کی رت میں ہنس ہنس کے نہ فرقت کا اگر راز سنبھالوں دریا ہوں مگر اپنے کناروں سے نہ نکلوں جب عشق کروں عشق کے انداز سنبھالوں اپنوں کو بھی اغیار بنا لوں تری خاطر انجام سے گھبراؤں نہ آغاز سنبھالوں جب لفظ ترے فیض سے اک معجزہ بن جائے کیوں لفظ کو اے صاحب اعجاز ! سنبھالوں میں فرطِ محبت سے اگر گاؤں تو مضطر! سُر تال نہ کے ؛ ساز نہ آواز سنبھالوں (۶/جنوری ، ۱۹۸۶ء)
354 دھوپ میں جو ملنے آیا ہے میرا اپنا ہی سایہ ہے چوٹ لگی ہے میرے دل پر تو کیوں آنسو بھر لایا ہے تیرے دکھ کی خاطر ہم نے دھرتی کا دکھ اپنایا ہے اپنوں کے بھی ناز سہے ہیں غیروں کا بھی غم کھایا ہے یہ جو بانٹ رہا ہوں سب میں تیری یاد کا سرمایہ ہے دھوپ کی شدت ہے سولی تک آگے سایہ ہی سایہ ہے ق چھپ کر دل میں کون آیا ہے کس نے زخم کو سہلایا ہے اپنے آپ سے لڑنے والے! تجھ کو کس نے اکسایا ہے تیرا نام لکھا تھا اس پر ہم نے جو پتھر کھایا ہے پہلا پتھر مارنے والے! کیا تو میرا ہمسایہ ہے؟ ، کیسے جھگڑوں ہمسایہ تو ماں جایا ہے ہمسائے سے خود بھی تڑپے ہو تم مضطر! اوروں کو بھی تڑپایا ہے
355 زندان ہجر میں کوئی روزن نہ باب تھا وہ جس تھا کہ سانس بھی لینا عذاب تھا ہم جی رہے تھے تیری ہی رحمت کی گود میں سایه یمکن ترے ہی کرم کا سحاب تھا تیری عنایتوں کی نہ تھی کوئی انتہا میری خطاؤں کا بھی نہ کوئی حساب تھا تیرے ہی نور سے تھیں منوّر صداقتیں تو ہی تھا ماہتاب، تو ہی آفتاب تھا تھی خوشبوؤں میں بھی تری خوشبو ہی دلنواز پھولوں میں پھول تیرے ہی رُخ کا گلاب تھا نیکی ترے بغیر گناہ عظیم تھی لمحہ جو تیری یاد میں گزرا ثواب تھا تو ہی تھا وہ سوال جو اکثر کیا گیا تو ہی تھا وہ جواب کہ جو لاجواب تھا
356 اے حسنِ تام ! علم بھی تو تھا، عمل بھی تو لوح و قلم بھی تو ہی تھا، تو ہی کتاب تھا صبح ازل مشیت یزداں تھی دیدنی جس صبح بزم گن میں ترا انتخاب تھا اول بھی تو ، اخیر بھی تو ، تو ہی درمیاں تو تھا پس نقاب، تو پیش نقاب تھا کام آ گئی غریب کے، مدحت حضور کی مضطر کا آج کہتے ہیں یوم الحساب تھا (۱۹۶۷ء)
357 کرسی پہ بیٹھ کر بھی وہ کتنا ملول تھا میں مسکرا رہا تھا، یہ میرا اصول تھا عهد غم فراق میں اوج صلیب پر پتھر جو تیرے نام پہ کھایا تھا پھول تھا آیا تھا میری دنیا و دیں کو سنوارنے آنسو جو تیری یاد میں ٹپکا رسول تھا مجھ کو تھی تیرے نام کی غیرت کہ پھر مجھے تحفہ جو گالیوں کا ملا تھا قبول تھا دامن کے داغ دھل گئے تھے ایک بوند سے آنسو نہیں تھا ابرِ کرم کا نزول تھا اس کو یہ زعم تھا کہ وہ میر سپاہ ہے مجھ کو یہ فخر میں ترے پاؤں کی دھول تھا اس کو تھا اقتدار کا نشہ چڑھا ہوا اس کا اصول یہ تھا کہ وہ بے اصول تھا اب تیرے بعد تیرا حوالہ دیے بغیر جو حرف بھی زبان پہ آیا فضول تھا تھا شعر و شاعری سے نہ مضطر کا واسطہ مقصود اس کا تیری رضا کا حصول تھا
358 یہ سفر بھی دور کا ہے، یہ ہے دن بھی ڈھلنے والا مرے ساتھ کیا چلے گا مرے ساتھ چلنے والا کبھی یہ تو سوچ لیتے کہ بزعم اکثریت جسے کاٹنے چلے ہو وہ شجر ہے پھلنے والا ہے بھنور بھنور حکایت، ہے یہ موج موج چرچا کہ یہ بیڑا روز اول سے تھا بچ نکلنے والا دل و جان کے مریضو! یہ خبر سنی تو ہوگی وہ طبیب آ گیا ہے جو ہے دل بدلنے والا لو ہوا ہے پھر سویرا ، وہ گھڑی بھی آن پہنچی وہ جو دن تھا فیصلے کا نہیں آج ٹلنے والا مجھے خوف ہے تو یہ ہے کہیں تم نہ ڈوب جاؤ کہ زمیں کا ذرہ ذرہ ہے لہو اُگلنے والا نہ سفر ہے مخلصانہ، نہ ہی راہبر ہے دانا نہ ہی تم سنبھل سکو گے ، نہ ہے وہ سنبھلنے والا نہیں ایک تو ہی مضنظر! یہ مکیں بھی جانتے ہیں تری آہ آتشیں سے یہ مکاں ہے جلنے والا (اگست ، ۱۹۸۸ء)
359 ناداں! ناحق کیوں گھبراتا ہے یہ رستہ منزل کو جاتا ہے بات بنائے سے نہیں بنتی ہے دل جب آتا ہے آ جاتا ہے مت مایوس ہو اس کی رحمت سے وہ داتا تو سب کا داتا ہے ہواس عہد نے جو تصویر بنائی ہے اس کا ہم دونوں سے ناتا ہے ہم سب اس کی کوکھ سے نکلے ہیں یہ دھرتی تو دھرتی ماتا ہے تو گھبراتا ہے آئینے سے آئینہ تجھ سے گھبراتا ہے سب لمحے زندہ ہو جاتے ہیں وہ لمحہ جب ملنے آتا ہے ہم اس عہد کے اندر رہتے ہیں تو جس کی تفصیل بتاتا ہے وہ مالک ہے اپنی مرضی کا جب چاہے چہرہ دکھلاتا ہے غربت میں اس گل کے تصور سے خوشبو سے کمرہ بھر جاتا ہے منظر بھی کتنا خوش قسمت ہے غصہ پیتا ہے، غم کھاتا ہے (اگست،۱۹۸۸ء)
360 پتھر اٹھائیے ، کوئی دشنام دیجیے مجرم ہوں جرمِ عشق کا، انعام دیجیے یہ کیا کہ چھپ کے عشق کا الزام دیجیے دینی ہے جو سزا بھی سرِ عام دیجیے اتنی بھی احتیاط نہ کیجے.نعرہ لگائیے، کوئی پیغام دیجیے زہر غم حیات بھی پینے کی چیز ہے سقراط ہوں تو زندگی کا جام دیجیے میں بھی لکھوں فراق کے قصے کتاب میں بے کار پھر رہا ہوں ، کوئی کام دیجیے پہلے دل و دماغ کو پلکوں سے پونچھیے پھر آنسوؤں کا جامہ احرام دیجیے کر دیجیے گا، قتل پہ مضطر کے، دستخط کوئی تو کام آپ بھی انجام دیجیے (جون، ۱۹۸۸ء)
361 استعارہ نہیں حقیقت ہے یہ وہ خود مر گیا، اس کو مارا نہیں ہے ہے یہ سب اس کے اپنے کیے کی سزا ہے قصور اس میں ہرگز ہمارا نہیں ہے وہ تمہار غفار بھی ہے عزیزو! پکارو اسے گر گر پکارا نہیں ہے دکھایا ہے ہیبت کے ساتھ اس نے چہرہ سوا اس کے اب کوئی چارہ نہیں ہے کر وعرضِ حال اس سے تنہائیوں میں وہ سب کا ہے تنہا ہمارا نہیں ہے وہی بے سہاروں کا ہے اک سہارا سوا اس کے کوئی سہارا نہیں ہے یہ سارا قصور آپ کی آنکھ کا ہے اگر اب بھی حق آشکارا نہیں ہے
362 جسے آپ حد نظر کہہ رہے ہیں نظر ہے، کنارہ نہیں فریب ہے نہیں بولتے ہم، نہیں مسکراتے اگر آپ کو یہ گوارا نہیں ہے ہے یہ سب سرز میں ”سر“ کے اجداد کی.یہ ٹکڑا زمیں کا ہمارا نہیں ہے نہ اتنا حکومت پہ اترائیے گا حکومت کسی کا اجارہ نہیں ہے میں اپنے خدا کی ثنا کر رہا ہوں یہ اشک ثنا وہ سجدہ نہیں، اور ہی کوئی شے ہے جے آنسوؤں نے سنوارا نہیں ہے ہے، ستارہ نہیں ہے اشاروں ہی میں گفتگو کیجیے گا ہے اگر بات کرنے کا یارا نہیں ہمیں ہر کسی سے محبت ہے مضطر! کسی سے بھی نفرت گوارا نہیں ہے
363 محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں خموشی سے تکرار تک آ گیا ہوں وہ سورج ہے نکلا ہے مغرب میں جا کر میں سایہ ہوں دیوار تک آ گیا ہوں مہک ہوں تو میں پھیلتا جا رہا ہوں اگر پھول ہوں خار تک آ گیا ہوں یہ اعجاز ہے ہجر کا اے شب غم! که فرقت سے دیدار تک آ گیا ہے نہیں اتنی جرات کہ در کھٹکھٹاؤں اگر چہ در یار تک آ گیا ہوں ملاقات کی کوئی صورت تو ہو گی یہی سوچ کر دار تک آ گیا ہوں اگر چپ رہا ہوں تو چرچے ہوئے ہیں ہنسا ہوں تو اخبار تک آ گیا ہوں بگولوں کا ڈر ہے نہ آندھی کا خطرہ میں اب دشت کے پار تک آ گیا ہوں ملے نہ ملے ، اس کی مرضی ہے منظر! میں داتا کے دربار تک آ گیا ہوں (اگست، ۱۹۸۸ء)
364 اسی کو قرب، اسی کو صلہ بھی کہتے ہیں قفس نصیب اسے فاصلہ بھی کہتے ہیں یہ دور دور جو صحرا ہے بے یقینی کا یقین ہو تو اسے کربلا بھی کہتے ہیں وہی تو ہے کہ جو محرم ہے منزلِ غم کا وہ رہنما کہ جسے قافلہ بھی کہتے ہیں گیا بھی ہے تو وہ ہر بار لوٹ آیا ہے بہت قدیم ہے یہ سلسلہ بھی، کہتے ہیں عجیب بات ہے تم نے اسے نہ پہچانا وہ معجزہ جسے دست دعا بھی کہتے ہیں وہی تو ہے کہ جو آیا ہے میرے تیرے لیے وہ ایک اچھا کہ جس کو برا بھی کہتے ہیں کبھی تو ہو گا ادا آسمانِ غیرت پر وہ قرض خوں کہ جسے خوں بہا بھی کہتے ہیں نظر بھی آتا ہے اور راہ بھی دکھاتا ہے وہ نقش پا جسے قبلہ نما بھی کہتے ہیں زہے وہ حرف تستی ، زہے وہ اذنِ سلام جسے وفاؤں کا مضطر! صلہ بھی کہتے ہیں (اگست ، ۱۹۸۸ء)
365 اس قدرمت خموش جان ہمیں بے زبانی بھی ہے زبان ہمیں ہم ہیں افراد غم قبیلے کے ہو مبارک یہ خاندان ہمیں قریۂ جاں میں، کوچۂ دل میں کوئی دلوائیے مکان ہمیں ہم موذن ہیں عہد کے لیکن کوئی دینے بھی دے اذان ہمیں پھول خوشبو کے تھے سفیر مگر دے گئے لمس کی تکان ہمیں کس نے آنکھیں بنا کے پھینک دیا اتنے چہروں کے درمیان ہمیں ق اس قدر بدگمانیوں کے بعد کیا کہے گا وہ بدگمان ہمیں کر لیا اس نے شہر پر قبضہ بانٹ کر شہر کے مکان ہمیں چھین کر لے گیا سفر کا شعور دے گیا راہ کی تکان ہمیں ہجر میں ہے وصال کی لذت ارض ربوہ ہے قادیان ہمیں اس کو لکھا ہے ہم نے پلکوں سے حفظ ہے ساری داستان ہمیں ہم بغلگیر ہیں ستاروں سے ہنس کے ملتا ہے آسمان ہمیں دائیں بائیں کا فرق ہے پیارے! تو اسے مان لے یا مان ہمیں اب تو تن کی خبر نہیں مضطر ! کبھی من کا تھا گیان دھیان ہمیں.
366 اپنے مرتبے کو کم نہ کرنا سر مقتل بھی گردن خم نہ کرنا وہ آئیں یا نہ آئیں، غم نہ کرنا دیے کی کو کبھی مدھم نہ کرنا ستارے کہہ رہے ہیں صبح نو سے ہماری موت کا ماتم نہ کرنا میں اپنے آپ سے ٹکرا نہ جاؤں مجھے میرا کبھی محرم نہ کرنا اندھیرے میں نظر آنے لگوں گا چراغوں کو ابھی مدھم نہ کرنا تصوّر سے سدا لڑنا جھگڑنا مگر تصویر کو برہم نہ کرنا کلی ہے اور مسلسل مسکراہٹ اسے راس آ گیا ہے غم نہ کرنا ہے.اگر زندگی مطلوب مضطر ! ہے صداؤں میں صدا مدغم نہ کرنا
367 میں رکھنا، جان میں رکھنا اس کی خوشبو مکان میں رکھنا اس سے دیوانہ وار مل کر بھی فاصلہ درمیان میں رکھنا اس نے چوما ہے اُس کے قدموں کو یہ زمیں آسمان میں رکھنا دشت در دشت گھومنا پھرنا دل مگر قادیان میں رکھنا اس قدر بھی نہ ہم فقیروں کو معرض امتحان میں رکھنا اشک در اشک، سجده در سجده تیر کوئی کمان میں رکھنا راستوں سے بھی دوستی کرنا منزلوں کو بھی دھیان میں رکھنا
368 ہم فقیروں کی ، بے نواؤں کی لاج ہر دو جہان میں رکھنا دو پہر ہے، برس رہی ہے آگ پھول کو سائبان میں رکھنا جب سمندر سے دوستی کر لی دھیان کیا بادبان میں رکھنا یہ محبت کے پھول ہیں مضطر! ان کو اجلے مکان میں رکھنا
369 عہد ہوں، ایک اذیت اپنے اندر لے کر بیٹھا ہوں رگ رگ میں لاکھوں نوکیلے نشتر لے کر بیٹھا ہوں شور قیامت برپا ہے انکار کے عریاں خانوں میں باہر میں ہوں اور اقرار کے محشر لے کر بیٹھا ہوں مجھ سے ملو، مجھ کو پہچانو ، مستقبل ہوں دھرتی کا قطرہ ہوں، دامن میں سات سمندر لے کر بیٹھا ہوں اس کو شوق ہے ہر نووارد لمحے کی توصیف کرے میں پلکوں میں ایک پرانا منظر لے کر بیٹھا ہوں تخت و تاج کا شوق نہ مجھ کو خواہش جھوٹی عزت کی خاک نشیں ہوں، خاک میں بوریا بستر لے کر بیٹھا ہوں چاہتا ہوں میں ایک نرالا تاج محل تعمیر کروں کتنے آنسو، کتنے لعل جواہر لے کر بیٹھا ہوں ان کو خوف ہے کشتی ڈوب نہ جائے ایک تھیڑے سے میں طوفان میں اطمینان کے لنگر لے کر بیٹھا ہوں
370 میں نے کہا تھا شہر صلیب میں بارش ہو گی پھولوں کی وہ بولا تھا میں رستے میں پتھر لے کر بیٹھا ہوں میرے فرقت خانے کی جانب بھی جاناں ایک نظر کتنی اُمیدوں کے، پیار کے پیکر لے کر بیٹھا ہوں تیپا صحرا ہے اور بادِ سموم کے جلتے جھگڑ ہیں میں ہوں اور تیری پہچان کی چادر لے کر بیٹھا ہوں تیرے لطف کی بارش نے بھی تھمنے کا نہیں نام لیا میں بھی تیری حمد و ثنا کے دفتر لے کر بیٹھا ہوں چاہو تو اب پارس کر دو ان کو ایک اشارے سے غفلت کے انبار ، عمل کے کنکر لے کر بیٹھا ہوں (۹ را گست، ۱۹۹۷ء)
371 سر عام سب کو خفا کر چلے جو کرنا تھا اس سے سوا کر ترے نام کا تذکرہ کر چلے فقیروں سے جو ہو سکا کر چلے نماز محبت ادا کر چلے ہم اپنے لہو میں نہا کر چلے جو بار امانت اٹھا کر اسے چاہیے مسکرا کر ترے ساتھ چلنا ہے اس کو اگر قدم سے قدم تو ملا کر چلے ہمیں مل گیا دل کا ہسپانیہ کہ ہم کشتیوں کو جلا کر چلے بلند سوا نیزے پر ہو گئے زمین وطن کر بلا کر چلے بجا حضرت میر فرما گئے فقیرانہ آئے صدا کر چلے جو چھپ کر بھی مضطر! نہ تم سے ہوا وہی کام ہم برملا کر چلے
372 گہرائیوں میں غم کی اُتر جانا چاہیے یہ مرحلہ بھی سر سے گزر جانا چاہیے سولی پر چڑھ کے کس لیے ہنستے نہیں ہیں لوگ بے یقینیاں ہیں تو مر جانا چاہیے سب ڈھے چکی ہیں ساحل غم کی عمارتیں اب تو سمندروں کو اُتر جانا چاہیے تاریکیاں نہ قبضہ جما لیں مکان پر اے آفتاب! لوٹ کے گھر جانا چاہیے پت جھڑ کے اثر دہام میں خوشبو کے دوش پر پھولوں کو مسکرا کے بکھر جانا چاہیے پلکوں کے یار لاکھوں نکلتے ہیں راستے اے اشک ناتمام! کدھر جانا چاہیے ہیں منتظر پرانے مکاں کی خموشیاں کوئی سفیر صوت ادھر جانا چاہیے مضطر ! حریم ذات میں اتنی جسارتیں ڈرنے کا ہو مقام تو ڈر جانا چاہیے
373 راہ کی روشنی، منزل کا اُجالا دینا کوئی تو ہجر کی شب اپنا حوالہ دینا غم جدا، غم کی علامات جدا لا دینا میری پہچان مجھے بہرِ خدا لا دینا تیری ہر دین پہ ہے تیرا حوالہ دینا جو بھی دینا ہے مجھے ارفع و اعلیٰ دینا لذت وصل سے پُر وصل پیالہ دینا کوئی فرقت کا نہ اب کوہ ہمالہ دینا میرے بچوں کی بھی خواہش ہے کہ تجھ کو دیکھیں ان چراغوں کو شب ہجر سنبھالا دینا آنکھ دی ہے تو اسے بخش دے بینائی بھی دل اگر دینا ہے تو چاہنے والا دینا میں کہ آواز کا سقراط ہوں میر مقتل میری آواز کو بھی زہر پیالہ دینا
374 وہ صداقت جو نئی بھی ہے، پرانی بھی ہے اس صداقت کا کوئی تازہ حوالہ دینا ہم فقیروں کو سر دار اگر تو مل جائے اس سے بالا نہ کوئی منصب بالا دینا چاند چہرے کا کوئی آنکھ کا تارا مضطر! رات کالی ہے تو ماحول نہ کالا دینا ( ۲۴ / جون ، ۱۹۸۷ء)
375 رکنے کے بعد بھی میں برابر سفر میں تھا اک مستقل جنون تھا جو میرے سر میں تھا ملنے کو بے قرار تھے منزل سے راستے ہر سنگ میل معرض خوف و خطر میں تھا بیٹھے تھے لوگ راستے میں بت بنے ہوئے اک منجمد ہجوم تھا جو رہ گزر میں تھا آبادیوں کو گھور رہی تھی بھنور کی آنکھ ساحل کا احترام بھی اس کی نظر میں تھا تالے پڑے ہوئے تھے پرانے مکان میں یہ اور بات ہے کہ خدا اپنے گھر میں تھا مدت کے بعد آیا تھا وہ شوخ راہ پر لیکن ابھی چھپا ہوا گردِ سفر میں تھا ہم نے قبول کر لیا تھا اس کے عذر کو چرچا ہماری سادگی کا شہر بھر میں تھا لکھا تھا اس نے یوں تو لہو سے کتاب کو مضطر ! جو اس کا حاشیہ تھا آب زر میں تھا
376 میرا نامہ پڑھ کے میرا نامہ بر ہنسنے لگا اور پھر تو یوں ہوا کہ شہر بھر ہنسنے لگا اس کو ہنسنے کے الم کا کوئی اندازہ نہ تھا مجھ کو ہنستا دیکھ کر وہ بے خبر ہنسنے لگا بے خبر! مجبور کو ہنسنے پہ مت مجبور کر تیرا کیا باقی رہے گا وہ اگر ہنسنے لگا ہنسنے رونے میں بظاہر فاصلہ کوئی نہ تھا رات جو رویا تھا ہنگام سحر ہنسنے لگا میرے عرض حال پر وہ ہو گیا بے تاب سا اور پھر کیا جانیے کیا سوچ کر ہنسنے لگا کس محبت سے در و دیوار نے دیکھا اسے مسکرائے آئنے اور گھر کا گھر ہنسنے لگا بخش دی منظر کو اُس نے جب سے غم کی سلطنت التجائیں مسکرائیں اور اثر ہنسنے لگا
377 اپنا اپنا تھا، پرایا تھا پرایا پھر بھی وہ عجب ہے کہ مری اور نہ آیا پھر بھی ہمہ تن گوش تھا میں سوچ کے سناٹے میں اس نے کیوں لفظ کا پتھر نہ گرایا پھر بھی وہ پس پردہ جاں روز ملا کرتا ہے اس نے کھل کر نہ کبھی ہاتھ ملایا پھر بھی مجھ کو معلوم ہے اس شوخ کو صدمہ ہو گا لے کے چھوڑوں گا میں کرسی کا کرایہ پھر بھی چاند موجود تھا ، تارے بھی تھے رستے میں کھڑے راه گم کردہ نہ کیوں راہ پر آیا پھر بھی نہ میں سورج، نہ ستارہ ، نہ میں چہرہ مضطر ! مجھ سے ڈرتا ہے بھرے شہر کا سایہ پھر بھی اور بروزن شور بمعنی طرف
378 وہ اپنے حال پہ ہنستا تو ہو گا اسے فرقت کا دن ڈستا تو ہو گا کوئی تو موڑ آئے گا سفر میں کہیں رستے میں چورستہ تو ہو گا بجھے گی پیاس پھر دشت نجف کی لہو انسان کا سستا تو ہو گا اگر آباد ہے کون و مکاں میں وہ جسم و جاں میں بھی بستا تو ہوگا اسے معلوم ہے ساری حقیقت وہ ہنسنے والوں پہ ہنستا تو ہو گا مناؤ خیر اب منزل کی مضطر! اگر منزل رہی رستہ تو ہو گا (جون، ۱۹۸۵ء)
379 تیرے سوا تو کوئی مرا راہبر نہ تھا یہ اور بات ہے کہ ترا ہم سفر نہ تھا سب بے قرار تھے ترے دیدار کے لیے وہ کون سا حسین تھا جو بام پر نہ تھا پر افتاد آ پڑی تھی کچھ ایسی مریض لب پر دعا تھی پر دعا تھی اور دعا میں اثر نہ تھا مشکل کے بعد مشکلیں آتی چلی گئیں یہ امتحاں کا دور بہت مختصر تھا تو نے کہا تو آنسوؤں کو بولنا پڑا ورنہ کوئی صدا نہ تھی جس میں بھنور نہ تھا صبح ازل تھی لمس کی لذت پہ خندہ زن جنت میں دور دور کوئی بھی شجر نہ تھا اس کو پتا تھا سارے سیاہ و سفید کا بے نور تو ضرور تھا وہ بے خبر نہ تھا
380 لیٹے ہوئے تھے ریتلے سائے زمین سوکھے سمندروں سے کسی کو مفر نہ تھا ہم نے لحد میں چین سے بستر بچھا لیے مٹی میں کوئی معرکہ خیر و شر نہ تھا اس مطلق العنان کا نعرہ بھی تھا غلط جمہور کا یہ فیصلہ بھی معتبر نہ تھا تو بھی تو آ رہا تھا نظر اس کی اوٹ میں مضطر کا انحصار فقط چاند پر نہ تھا
381 ناداں اُلجھ رہے تھے عبث آفتاب سے ہم نے دکھا دیا تھا حوالہ کتاب سے یہ اور بات ہے کہ ابھی مطمئن نہ تھا خاموش تو وہ ہو گیا تھا اس جواب سے آنکھیں کھلی ہوئی تھیں مگر دیکھتی نہ تھیں کوئی بڑا عذاب نہ تھا اس عذاب سے لہروں میں چھپ گئے تھے کنارے کٹے ہوئے بچ کر نکل گیا تھا سفینہ سراب سے اللہ بھیج سایہ ابر رواں کوئی سنولا گئے ہیں دھوپ میں چہرے گلاب سے کچھ بند پانیوں سے تعلق نہیں رہا سیراب ہو کے آئے ہیں رودِ چناب سے کچھ تو جواب دیجیے، شبنم ہی رولیے پھولوں نے احتجاج کیا ہے جناب سے
382 کوئی تمیز اچھے برے کی نہیں رہی دھندلا گئی ہیں سرحدیں اس انقلاب سے میلی نگاہ سے انھیں دیکھا نہ ہو کہیں کملا گئے ہیں گل جگہ انتخاب سے آئینہ میرے کانپتے ہاتھوں سے گر گیا میں بال بال بچ گیا یوم الحساب سے مضطر کے نام پر خط تنسیخ کھینچ کر خود کو بھی تم نے کر دیا خارج نصاب سے
383 دل نادان پہ حیران نہ مضطر ! ہونا اس کی فطرت میں ہے مومن کبھی کافر ہونا ہجر کی رات بھی آرام کا خوگر ہونا باور آیا ہمیں مجبور کا پتھر ہونا شہر بیدار کی راتوں کا سہارا لے کر جاگنے والے! کبھی گھر سے نہ بےگھر ہونا موم کی طرح پگھل جاتے ہیں پاگل پتھر وصل کے عہد میں ممکن نہیں آذر ہونا تیری محفل سے ترے غم کے خزانے لے کر ہم چلے جائیں تو ناراض نہ ہم پر ہونا اب نہ الفاظ کے کثر دم ہیں نہ آواز کے سانپ اب کسی جھوٹ کو آئے گا نہ اثر در ہونا عمر بھر رہتے ہیں وہ لوگ مقدر بن کر جن کی قسمت میں ہو خاک رہ دلبر ہونا
384 عشق کا ایک ہی چہرہ ہے فقط ایک ہی نام اس کو آتا نہیں رہزن کبھی رہبر ہونا شہر جاناں کے ہے آداب کی لمبی تفصیل مختصر یہ ہے کہ آپے سے سے نہ باہر ہونا عشرتِ شام غریبانِ چمن ہے مضطر! بر سر چشم ستاروں کا میسر ہونا
385 نذر غالب کوئی کلاہ نہ کوئی لبادہ رکھتے ہیں سفر نصیب ہیں، احرام سادہ رکھتے ہیں سلگ رہے ہیں جوان منجمد پہاڑوں پر یہ پھول آگ ہیں، جلنے کا مادہ رکھتے ہیں ہمیں بتاؤ ملاقات کا طریقہ بھی کہ اس سے ملنے کا ہم بھی ارادہ رکھتے ہیں ہمارے ہاں تو حکومت فقط اسی کی ہے نہ کوئی شاہ، نہ ہم شاہزادہ رکھتے ہیں ہم اس کے نام پہ خلقت میں بانٹنے کے لیے قبول ہو تو بدن کا برادہ رکھتے ہیں اگر وہ ہے تو اسے چاہیے کہ بولے بھی اگر چہ ”ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں“ اصل لفظ مادہ ہے.
386 ہمی تو ہیں کہ جو صحرائے بے تمنا میں شعورِ منزل و تکلیف جادہ رکھتے ہیں تو آزما تو سہی حوصلے فقیروں کے مکان تنگ سہی، دل کشادہ رکھتے ہیں جھگڑ رہے ہو عبث آنسوؤں سے تم مضطر ! یہی تو ہیں جو سفر کا ارادہ رکھتے ہیں
387 میرے اس کے درمیاں تو فاصلہ کوئی نہ تھا پھر نہ جانے کیوں مجھے اس سے گلہ کوئی نہ تھا آسماں نیچے اتر آیا تھا مجھ کو دیکھ کر اس کا اب رمز آشنا میرے سوا کوئی نہ تھا را ہر و رفتار کے چکر میں تھے آئے ہوئے منزلیں ہی منزلیں تھیں، راستہ کوئی نہ تھا لفظ ننگے پاؤں، ننگے سر، بھرے بازار میں پھر رہے تھے اور ان کو ٹوکتا کوئی نہ تھا عشق اپنی اوٹ میں سویا ہوا تھا چین سے اس کا دعوی تھا اسے پہچانتا کوئی نہ تھا ایک ہی کشتی میں تھے بیٹھے ہوئے چھوٹے بڑے نوح“ کے طوفان میں چھوٹا بڑا کوئی نہ تھا آئنہ خانوں پہ اک بحران تھا آیا ہوا آئنه بردار گم تھے، آئنہ کوئی نہ تھا پہلے بھی کوئے ملامت سے تھی نسبت دُور کی اور اب تو شہر میں مجھ سے برا کوئی نہ تھا مجھ کو اپنی بندگی کی شرم دامن گیر تھی وہ سمجھتا تھا کہ مضطر کا خدا کوئی نہ تھا
388 رنگ و بو کا سفر تمام ہوا کو ہوا یا ترا پیام ہوا پھول سے پھول ہم کلام ہوا وصل کا کچھ تو اہتمام ہوا مجھ کو خلعت ملی غلامی کی عشق کا ملک میرے نام ہوا آپ آقاؤں کے بھی ہیں آقا میں غلاموں کا بھی غلام ہوا میں مقامی ہوں اور کہیں بھی نہیں تو ہوا اور بے مقام ہوا رگر گیا جو تری نظر سے گرا نے جس کو چنا امام ہوا جیسے سچ سچ ہی آگئے ہوں آپ آہٹوں کا وہ اثر دہام ہوا جب ہوا، تیرے نام پر ہر بار کربلا سے کہیں، کہیں ربوہ ہے ہم فقیروں کا قتل عام ہوا یہ تماشا بھی صبح و شام ہوا ہم بھی جائیں گے سر کے بل مضطر ! دید کا جب بھی اذنِ عام ہوا
389 کس کی یاد آ گئی ناگہاں شہر میں رک گئے کرب کے کارواں شہر میں کس کے عاشق ہیں اس بے اماں شہر میں خیمہ زن آگ کے درمیاں شہر میں کون ہے وجہ تسکین جاں شہر میں کس کا سکہ ہے اب بھی رواں شہر میں کس کا دستِ دعا شہر کی ڈھال ہے کس کے سجدوں کے ہیں سائباں شہر میں لے گیا اپنے ہمراہ سب رونقیں وہ جو تھا اک حسیں نوجواں شہر میں مسکراتا رہے وہ جہاں بھی رہے کہہ رہے ہیں یہ خالی مکاں شہر میں آئے گا ایک دن مسکراتا ہوا زخم بولیں گے بن کر زباں شہر میں
390 چاند تاروں سے کنج قفس بھر گیا رات مہمان تھا آسماں شہر میں شہر کا ناز تو شہر سے جا چکا کس لیے آئے ہو اب میاں! شہر میں ایسی برسات میں تم ہی مضطر! کہو اٹھ رہا ہے یہ کیسا دھواں شہر میں (۱۹۸۴ء)
391 یوں تو کرنے کو احتیاط بھی کی ان کو چاہا بھی، ان سے بات بھی کی سر اوج سناں حیات بھی کی ان کی بیعت سر فرات بھی کی دور ان سے رہے ہزاروں سال زندگی ان کے ساتھ ساتھ بھی کی لمحہ لمحہ گنا فراق کا دن چاند نکلا تو چاند رات بھی کی سجدہ گاہوں کو کر دیا سیراب اشک در اشک شب برات بھی کی چڑھ گئے مسکرا کے سولی پر جسم اور جاں کی بازی مات بھی کی ان کہی کو بھی کہہ دیا منہ پر ساتھ اُمید التفات بھی کی
392 ایک دل ہی نہ راہ پر آیا یوں تو تسخیر کائنات بھی کی ہم نے سولی کو بڑھ کے چوم لیا دن دہاڑے یہ واردات بھی کی ނ کیوں خفا ہو رہے ہو مضطر کچھ کہا اس نے؟ کوئی بات بھی کی؟ ( ۲۰ / جولائی ، ۱۹۹۱ء)
393 سر چھپانے کا بندوبست تو ہے شاخیں ننگی سہی درخت تو ہے کیا عجب خود شناس بھی نکلے قاتل شهر خود پرست تو ہے مسکرا کر بٹھا لے پاس اپنے تیرے پہلو میں اک نشست تو ہے راہ چلتوں پہ گر نہ جائے کہیں دل کی دیوار لخت لخت تو ہے دوستوں سے یہ دوستوں کا گریز عبد و آئین کی شکست تو ہے تم سناتے ہو بار بار جسے میری اپنی ہی سرگزشت تو ہے جس کو کہتے ہو عالم بالا طائرِ جاں کی ایک جست تو ہے
394 ان کے ہاں بھی بقدرِ ظرف و مذاق امتیاز بلند و پست تو ہے یہ بھی آخر گزر ہی جائے گا مرحلہ زندگی کا سخت تو ہے ایک دن یار تک بھی پہنچے گا ذکر منظر کا دشت دشت تو ہے
395 کوئی شکوہ، کوئی گلہ کر لیں آ غموں کا تبادلہ کر لیں صبح ہونے کو ہے، دعا کر لیں آؤ، مضطر! خدا خدا کر لیں یہ گھڑی پھر نہ ہاتھ آئے گی آج سجدوں کی انتہا کر لیں اتنی معصومیت نہیں اچھی شیخ صاحب! کوئی خطا کرلیں جو بغل میں چھپا کے رکھتے ہیں ان بتوں سے بھی مشورہ کر لیں آپ کو اختیار ہے صاحب! جس کو چاہیں اسے خدا کر لیں آپ ہی جس کے ہوں تماشائی کوئی ایسا نہ حادثہ کر لیں راستوں سے کہو کہ منزل کا ہر طرف سے محاصرہ کر لیں آنکھ سے عرض مدعا کے لیے مستقل اک معاہدہ کر لیں وہ جو بستا ہے شہر پنہاں میں اس کی تصویر گھر بلا کر لیں وقت بے وقت اس کو یاد کریں اس کو چھیٹر میں، اُسے خفا “ کرلیں ہم ہیں کوہ ندا کے بن باسی لفظ ہم سے معانقہ کر لیں منطق الطیر جاننے والے پر پرواز کو بھی وا کر لیں شہر میں ہے جو بے صدا مخلوق اس سے مل کر نہ جی برا کر لیں جو بھی دعویٰ کریں، کریں مضطر ! پہلے اپنا محاسبہ کر لیں
396 یوں تو سورج سے تصادم ٹل گیا دھوپ سے دھرتی کا چہرہ جل گیا بر سر بازار پھر سولی سجی پھر کوئی منصور سر کے بل گیا پھر نکل آئے گلی کوچوں میں لوگ جلتے جلتے شہر سارا جل گیا ہوتے ہوتے ہو گئی ترکی تمام پھر وہی پہلا سا چکر چل گیا کوئی تو آیا تھا چھپ کر شہر میں کوئی تو چہروں پر کالک مل گیا اب نہیں پہلی سی شدت دھوپ میں آفتاب عمر مضطر! ڈھل گیا
397 ذکر اپنا کبھی تمھارا کیا جس طرح ہو سکا گزارا کیا بر سر دار دی وفا کی اذاں عشق کا جرم آشکارا کیا درد ہی لاعلاج تھا اپنا ورنہ کیا کیا نہ ہم نے چارہ کیا بات دل کی زباں پہ آ نہ سکی یوں تو کرنے کو ذکر سارا کیا ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے ہم لوگ کھڑا زلف کو سنوارا کیا وہ تو نہ آیا تو درد کا مارا تیری تصویر کو پکارا کیا وہ کھلے شہر“ ہی میں رہتا تھا تو جسے عمر بھر پکارا کیا تیرے غم کے طفیل مضطر نے ساری دنیا کا غم گوارا کیا
398 تم اگر اتنے بے اُصول نہ ہو مسکراتے رہو، ملول نہ ہو پیش ہم بھی کریں گے ہدیہ دل یہ الگ بات ہے قبول نہ ہو کبھی روئے، کبھی ہنسے ہم لوگ کوئی ہم سا بھی بے اصول نہ ہو جس کو منزل سمجھ رہے ہو میاں! وہ کہیں قافلے کی دھول نہ ہو قتل کے بعد مسکرا دینا یہ ترے عہد کا اُصول نہ ہو ایسے گزروں قریب سے اپنے مجھ کو میری خبر وصول نہ ہو تو نے ماتھا سجا لیا جس سے وہ کسی آبرو کا پھول نہ ہو لوگ اتنے خلاف ہیں اُس کے وہ کہیں عہد کا رسول نہ ہو جرم تیرا عظیم ہے مضطر ! تو سر دار بھی ملول نہ ہو
399 دے سچا تو کائنات کو سچا دکھائی اور بات ہے تمھیں جھوٹا دکھائی دے اوج صلیب غم پہ جو بیٹھا دکھائی دے ہم کو تو اپنے عہد کا عیسی دکھائی دے آواز کے افق پہ جو چہرہ دکھائی دے آنکھوں میں نور ہو تو ہمیشہ دکھائی دے سب سے جدا ہو، سب سے انوکھا دکھائی دے کوئی تو اس ہجوم میں تم سا دکھائی دے اوڑھے ہوئے نہ ہو اگر آواز کی ردا ہر لفظ بے لباس ہو، ننگا دکھائی دے آشوب اختلاف سے دھندلا گئی نظر اپنا دکھائی دے نہ پرایا دکھائی دے تو بھی کبھی وجود.سے باہر نکل کے دیکھ شاید تجھے وجود کا ملبہ دکھائی " دے
400 مٹی کا لمس، دھوپ کی لذت کہیں اسے پانی پہاڑ سے جو اُترتا دکھائی دے اس سے کہو کہ دن کو نہ نکلے مکان سے جو شخص چاند رات میں ہنستا دکھائی دے بالشتیوں کے دیس کی رسمیں عجیب ہیں ہر کوئی اپنے قد سے جھگڑتا دکھائی دے جوش نمو نه لذت آزار آرزو اندر ہی کچھ نہ ہو تو اسے کیا دکھائی دے مضطر! فراق یار کے یہ معجزات ہیں لمحہ کبھی صدی، کبھی لمحہ دکھائی.دے
401 عمر بھر اشک کی آواز پہ چلنے والے! فکر مت کر کہ یہ سورج نہیں ڈھلنے والے عمر گزرے گی یونہی آنکھ کی دربانی میں رکنے والے ہیں نہ یہ اشک سنبھلنے والے تم اگر ہنس کے بلا لو تو بہل جائیں گے ہم ہیں نادان کھلونوں سے بہلنے والے اپنی تصویر کا انجام بھی سوچا ہوتا اے مرے شہر کی تصویر بدلنے والے! منجمد چہروں کی خاموش نگاہی پہ نہ جا ایک آہٹ سے یہ پتھر ہیں پگھلنے والے میں اکیلا تو ہوں، تنہا نہیں ان گلیوں میں میرے بدخواہ مرے ساتھ ہیں چلنے والے آنکھ کے پانی سے کچھ اس کا مداوا کر لے شہر جلنے کو ہیں، دریا ہیں اُبلنے والے چڑھ بھی اے آنکھ کے سورج ! سر شاخ اُمید صبح ہونے کو ہے، نقشے ہیں بدلنے والے دل بھی بوجھل ہے بہت، آنکھ بھی نم ہے مضطر ! گھر کے آئے ہیں یہ بادل نہیں ملنے والے
402 اتنا احسان اور کر دینا اپنے گھر کے قریب گھر دینا ہجر کی رات مختصر دینا وصل کا دن طویل کر دینا تیرے پاؤں کی خاک بن جاؤں اپنی دہلیز اپنا در دینا کام دینا جو ہو پسند تجھے نام دینا تو معتبر دینا بھول جاؤں نہ اپنے آپ کو میں قرب مجھ کو نہ اس قدر دینا جب بھی جانا پڑے پرائے دیں ”اپنے احوال کی خبر دینا راستے کا جسے شعور نہ ہو کوئی ایسا نہ ہمسفر دینا جب کچھڑ جاؤں اپنے آپ سے میں مجھ کو میرے قریب کر دینا بخش کر اپنے درد کی دولت کیا ہمیں ملک و مال و زر دینا راہ چلتے اگر سوال کریں مت جواب ان کا نامہ بر دینا تیری خاطر چلا تو ہے مضطر اس کی آواز میں اثر دینا
403 آنکھیں لے کر نکلے تھے آئینوں کے دلدادہ لوگ اب تک گھوم رہے ہیں قریہ قریہ، جادہ جادہ لوگ کل تک مرنے کے شائق تھے بھولے بھالے سادہ لوگ ایک ذرا سی بات پہ ہیں اب جینے پر آمادہ لوگ دھلے دھلائے، سیدھے سادے، اجلے، صاف، کشادہ لوگ اتنے ہی نایاب لگیں ہیں جتنے بھی ہوں زیادہ لوگ بات بات پر ٹوکنے والے بوڑھے نیک ارادہ لوگ پوتوں سے بھی بڑھ کر بے آواز ہوئے ہیں دادا لوگ کیا جانیں لفظوں کا بھاؤ، کیا بوجھیں لہجوں کے دام تم شہری آواز کے تاجر، ہم دیہاتی سادہ لوگ تم اک دوجے کی دیواریں اونچی کرتے رہتے ہو ہم سے خواب میں آکر مل جاتے ہیں دور افتادہ لوگ رہ چلتوں کو تکتے تکتے بالآخر یہ ہوتا ہے پتھر بن کر رہ جاتے ہیں راہوں میں ایستاد لوگ استادہ پڑھا جائے
404 پلکوں سے تعمیر کیسے تھے جن لوگوں نے تاج محل اے تخت طاؤس! بتا وہ کہاں گئے شہزادہ لوگ اس سردی میں چلتے پھرتے رہنا ایک عبادت ہے گرتے پڑتے منزل پا لیتے ہیں پیر پیادہ لوگ غم فراق میں مضطر! آنا جانا چھوٹ گیا اب فٹ پاتھ پر باہم مل لیتے ہیں بلا ارادہ لوگ
405 گیا راہرو رستے میں بیٹھا رہ گیا ڈھے گئی دیوار سایہ رہ مر کے بھی یہ شخص زندہ رہ گیا عشق کا بیمار اچھا رہ گیا چھپ گئی منزل نظر کی اوٹ میں راستہ کروٹ بدلتا رہ گیا لاکھ برگ شرم سے ڈھانپا بدن ابن آدم پھر بھی نگا رہ گیا میں شہید عشق ہوں، میرے لیے ایک ہی جینے کا رستہ رہ گیا رات آدھی رات کو قطبین پر چھپ گیا سورج ، اجالا رہ گیا لوگ تصویریں بنا کر لے گئے میں لکیروں سے جھگڑتا رہ گیا ہوتے ہوتے پیٹر خالی ہو گئے ایک پانی کا پرندہ رہ گیا آئنوں سے بات کرنے کے لیے آئنہ بردار تنہا رہ روشنی کا ذکر کرنے کے لیے ایک میں آنکھوں کا اندھا رہ گیا گیا
406 وہ دل میں آکے نہ ٹھہریں، کبھی گزر تو کریں غریب شہر کے حالات پر نظر تو کریں بلا سے قافلے والے قدم شناس نہیں علاج دوری منزل کا راہبر تو کریں تمھارا اسم بھی ہو جائے گا دلوں پر نقش تمھارے اسم کی تکرار عمر بھر تو کریں سکر پکارے گی، تارے کریں گے سرگوشی فصیل ہجر کے سائے میں شب بسر تو کریں گھڑی قبول کی بھی آئے گی کبھی نہ کبھی صدائے نالہ و واویلا تا سحر تو کریں وہ ہم سے ملنے کو آئیں گے خود بخود مضطر ! حریم ناز میں جا کر انھیں خبر تو کریں
407 گھومتا پھرتا رہے ہے قیس دن بھر گاؤں میں اس کا بنگلہ شہر میں ہے اور دفتر گاؤں میں شہر اس کو دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے وہ چلا جائے گا تصویریں دکھا کر گاؤں میں پر لڑکیاں ہنسنے لگیں اس کی پھٹی پتلون شہر کے لڑکے کا اب جینا ہے دوبھر گاؤں میں رونگٹے جس سے کھڑے ہو جائیں اہل شہر کے ہم نے ان آنکھوں سے دیکھا ہے وہ منظر گاؤں میں اب وہ اس چکر میں ہے کہ ابتدا کس سے کرے ایک کافر شہر میں ہے، ایک کافر گاؤں میں شہر کی سڑکوں پہ جو منڈلا رہے ہیں ان دنوں اُڑ رہے تھے کل یہی اجلے کبوتر گاؤں میں صبح تک ہوتی رہی آواز کی جنگ عظیم رات بھر لڑتے رہے لفظوں کے لشکر گاؤں میں
408 جا چکا ہے تیرا گاؤں شہر کی آغوش میں اور تُو بیٹھا ہے اب تک گھر کے اندر گاؤں میں میں اگر ہمسر نہیں ہوں تیرا ہمسایہ تو ہوں میرا گھر بھی ہے ترے گھر کے برابر گاؤں میں آئنوں کے ٹوٹنے کا اب کوئی خطرہ نہیں آئنے سب شہر میں ہیں اور پتھر گاؤں میں ایک ہی ریلے میں مضطر ! بہ گئے ان کے محل اب بھی ہے زندہ سلامت میرا چھپر گاؤں میں
409 رات ڈھل جائے گی،سورج کا سفر بھی ہوگا صبح ہوتے ہی کوئی شہر بدر بھی ہو گا پھر سر اوج سناں عشق کی ہو گی تصدیق حسن خود دیکھنے آئے گا جدھر بھی ہو گا لوئی تو سمجھے گا اس عہد کے آدم کی زباں شہر مسحور میں کوئی تو بشر بھی ہو گا تو ہے وہ خواب جسے عین حقیقت کہیے تو مرے پہلو میں ہنگام سحر بھی ہو گا تیری تصویر کو پلکوں پہ سجانے والا خود ہی تصویر نہ بن جائے، یہ ڈر بھی ہوگا تیرے دیدار کی طاقت تو نہ ہو گی لیکن ہر کوئی تیری طرف محو سفر بھی ہو گا عشرت سجدہ نہ ہو گی مجھے حاصل کیا کیا تیری دہلیز بھی ہو گی، مرا سر بھی ہو گا
410 تو کہیں چاند ، کہیں پھول، کہیں شبنم ہے حسن آوارہ! ترا کوئی تو گھر بھی ہو گا سر دار کبھی اس کو بلاؤ تو سہی خود چلا آئے گا وہ شوخ جدھر بھی ہو گا ہے ابھی وقت کوئی اس کا مداوا کر لے اب کے سیلاب کی زد میں ترا گھر بھی ہوگا دشت در دشت گئی رُت کا منادی مضطر ! دشت میں آیا تو اب دشت بدر بھی ہوگا
411 تم عہد کی آواز سے ڈر کیوں نہیں جاتے پندار کی سولی سے اتر کیوں نہیں جاتے سب کہنے کی باتیں ہیں مری جان! وگرنہ شرمندہ ہو تو شرم سے مرکیوں نہیں جاتے عرق خجالت میں شرابور مسافر صحرائے ندامت سے گزر کیوں نہیں جاتے نیچے ہیں ترے ہاتھ تو پھر تیرے قلم سے چہروں کے خدو خال سنور کیوں نہیں جاتے برسات کا موسم ہے نہ پچھلی ہے کہیں برف یہ آنکھ کے تالاب اُتر کیوں نہیں جاتے کیوں محو تماشا ہیں سرِ بام تختیر نظارے ترے رُخ پر بکھر کیوں نہیں جاتے گھر سے تو نکل آئے ہو زنجیر پہن کر اس شور میں چپکے سے گزر کیوں نہیں جاتے
412 سپنے جو ہمیں ملنے کو آئے تھے سرِ شب گھر لوٹ کے ہنگام سحر کیوں نہیں جاتے امکان کی سرحد پہ کھڑے سوچ رہے ہو کیوں ڈرتے ہو تاحد نظر کیوں نہیں جاتے مضطر ! یہ گئے دور کے بیدار مسافر اب لوٹ کے آئے ہیں تو گھر کیوں نہیں جاتے
413 دین مانگے نہ یہ دنیا مانگے دل ناداں تجھے تنہا مانگے بات کرنے کا سلیقہ مانگے لفظ تجھ سے ترا لہجہ مانگے ہر نئی رت کا پیمبر تجھ سے سبز پتوں کا صحیفہ مانگے آئنہ مانگے تو میرا ہمزاد مجھ سے چہرہ بھی پرایا مانگے تیری آیات کا حافظ تجھ سے تیری آواز کا تحفہ مانگے بحر ظلمات کا بوڑھا غواص ایک گم گشتہ جزیرہ مانگے صاف رہنے کی ہے عادت اس کو پھول ملبوس بھی اُجلا مانگے میں کبھی گھر سے نہ باہر نکلا تو بھرے شہر کا نقشہ مانگے رات کا چور مسافر بن کر گھر کے اندر کوئی کمرہ مانگے رک گیا شہر پنہ کے باہر دشت دیوار سے رستہ مانگے میری آواز کا قاتل مجھ سے قتل کے بعد کرایہ مانگے قتل بھی میرا کرے وہ ناحق مجھ سے انعام بھی اُلٹا مانگے یہ اندھیروں کے پجاری مضطر ! تو سر چشم اُجالا مانگے
414 نظر کے لمس سے دامن نہیں بچائے گا وہ آ گیا ہے تو اب لوٹ کر نہ جائے گا یہی وفا کا تقاضا مصلحت سے یہی وہ باوفا ہے مجھے خود ہی بھول جائے گا زباں پہ اس کی ، حکومت ہے ایک بچے کی جو بات اس نے سنی ہے وہی سنائے گا تمام کھڑکیاں مشرق کی سمت کھلتی ہیں کتاب کہتی ہے وہ اس طرف سے آئے گا مری نحیف نگاہی کا علم ہے اس کو وہ خوش لباس کبھی سامنے نہ آئے گا کھلیں گے پھول محبت کے اس کے آنگن میں وہ دیکھ دیکھ کے خوش ہو گا مسکرائے گا نہ جانے کیوں اسے مضطر ! یقیں نہیں آتا وہ کہہ رہا ہے مجھے پھر بھی آزمائے گا
415 سحر پسند تو سب ہیں، سحر چشیدہ نہیں امیر شہر میں کوئی بھی شب گزیدہ نہیں ނ لگے ہو کر نے تو سارے گلے کروان.دو، تین ، چار نہیں اور چیدہ چیدہ نہیں اسے یہ زعم کہ مالک ہے وہ خدائی کا خدا کا شکر ہے واعظ خدا رسیدہ نہیں ازل سے کہتے چلے آئے ہیں حریف اسے جو بات تم نے کہی ہے وہ ناشنیدہ نہیں یہ وہ کتاب ہے جو عمر بھر اترتی ہے مرا یقین ہے یہ سرسری عقیدہ نہیں تمھارے ہاں بھی تو آیا تھا عہد کا یوسف یہ اور بات ہے تم نے اسے خریدا نہیں جو ملنا چاہو تو اس سے ملا بھی سکتے ہیں ہمارا اس کا تعلق بہت کشیدہ نہیں
416 ہمیں ستایا گیا ہے اگر تو اس کے لیے ستم چشیدہ کہو، ہم ستم رسیدہ نہیں تو دست ناز سے ان کے دلوں پہ دستک دے فضا اگرچه مکدر ہے دل کبیدہ نہیں کسی کے بت کو بھی ہم تو برا نہیں کہتے زباں دراز نہیں ہم دین دریدہ نہیں میں کون ہوں جو کروں دعوی ثنا خوانی غزل کہی ہے تری شان میں، قصیدہ نہیں بغیر اذن کے غم بھی نہ کھائے گا مضطر! ہزار بھوکا سہی وہ مگر ندیدہ نہیں
417 ساز آواز میں ڈھل جاتا ہے پھول بن جاتا ہے، پھل جاتا ہے کتنے احساس کے انگاروں کو وقت کا سانپ نگل جاتا ہے چوم لیتا ہے جو پتھر اس کو موم کی طرح پگھل جاتا ہے اشک یوں چہرہ چھپا لیتے ہیں..جیسے اک حادثہ ٹل جاتا ہے چور دروازے سے پھر سے گھر کا سایہ جانب دشت نکل جاتا ہے دل میں تصویریں ہی تصویریں ہیں اور دل ہے کہ بہل جاتا ہے عشق ہو جائے تو حیران نہ ہو یہ وہ جادو ہے جو چل جاتا ہے
418 عدم آباد کو جانے والا آج جاتا ہے نہ کل جاتا ہے اس کے انجام سے مایوس نہ ہو آدمی گر کے سنبھل جاتا ہے رنگ یوں بزم کا بدلا مضطر ! جیسے نظارہ بدل جاتا ہے
419 چادر سروں پہ کوئی تو اے آسمان! دے سایہ اگر نہیں ہے تو سورج ہی تان دے بیدار پانیوں کے کنارے مکان دے داتا! نئی زمین، نیا آسمان دے صدیوں کو تو زبان دی ، لہجہ عطا کیا لمحہ بھی بولتا ہے، اسے بھی زبان دے طے ہوسکیں گے ہم سے نہ فرقت کے فاصلے دینا ہے کچھ تو قربتوں کے درمیان دے سورج بکھیر دے مرے اندر صفات کے اس دھند میں بھی روشنی کے سائبان دے کیوں بار غم اُٹھا لیا تھا تو نے عشق کا اس کا جواب بھی اے دلِ ناتوان! دے ایسا نہ ہو کہ پھر کہیں ہو جائیں قلعہ بند ہم لامکانیوں کو نہ کوئی مکان دے
420 اپنی نظر سے بھی کبھی اپنی نظر ملا دعوی ہے عشق کا تو کوئی امتحان دے لفظوں کے لب پہ حرف تمنا نہ آئے گا اے عہد کے کلیم! انھیں ترجمان دے انکار کے بھنور میں ہے کشتی پھنسی ہوئی باد مراد عشق! کوئی بادبان دے یہ عہد نو جو پیدا ہوا ہے ابھی ابھی اٹھ اور اس کے کان میں مضطر ! اذان دے
421 اس کے دل میں اب بھی احساس زیاں کوئی نہ تھا وہ سمجھتا تھا کہ سر پر آسماں کوئی نہ تھا اس کا دعویٰ تھا کہ عہد عشق میں میرے بغیر اس کی تیغ ناز کے شایانِ شاں کوئی نہ تھا جھونک دی تھیں کشتیاں اس نے انا کی آگ میں اس کو اب اندیشہ سود و زیاں کوئی نہ تھا جل رہے تھے شہر اور دیہات اس کی آگ میں اس بت عیار سا آتش بیاں کوئی نہ تھا لفظ گونگے ہو گئے تھے آبرو کے خوف سے عفت آواز کا اب پاسباں کوئی نہ تھا روح تھی کانٹوں کی ننگی سیج پر لیٹی ہوئی جسم دھڑ دھڑ جل رہا تھا اور دھواں کوئی نہ تھا لوگ سرکاری مسلماں بن گئے تھے دفعہ اس نرالے فیصلے پر شادماں کوئی نہ تھا
422 جس کا دعویٰ تھا : ' مری گرسی بڑی مضبوط ہے ذکر اس کا داستاں در داستاں کوئی نہ تھا جانے کیوں لوگوں نے اس پر کر لیا تھا اعتبار اس کی بزم ناز میں کیا بدگماں کوئی نہ تھا پر کر لیا آخر بسیرا اس نے اوج دار اس پرندے کا چمن میں آشیاں کوئی نہ تھا آئنے تک تو دبے پاؤں وہ آیا تھا مگر اس سے آگے دور تک اس کا نشاں کوئی نہ تھا اب گئی رت کی کہانی تھی قریب الاختتام پھول اس پت جھڑ میں زیب گلستاں کوئی نہ تھا جا چکے تھے سب تماشائی گھروں کو لوٹ کر ماسوا مقتول کے وقت اذاں کوئی نہ تھا شہر میں شاید اُتر آیا ہو دیواروں کے بیچ دشت میں تو سایہ ابرِ رواں کوئی نہ تھا ایک سوتیلے کو ہے افسوس مضطر! آج تک یوسف دوراں کے رستے میں کنواں کوئی نہ تھا (۸۰، ۱۹۷۹ء)
423 اوّل آئینے سے الفت ہو گئی غور سے دیکھا تو نفرت ہو گئی اپنے خادم کی خطائیں دیکھ کر اور بھی اس پر عنایت ہو عشق کا الزام ثابت ہو گیا اب تو سچائی بھی تہمت ہو گئی مسکراتا ہی رہا وہ عمر بھر مسکرانا اس کی عادت ہو گئی وہ اکیلا اور اس کے ارد گرد چاہنے والوں کی کثرت ہو گئی جس قدر نزدیک سے دیکھا اسے اتنی ہی اس سے محبت ہو گئی ہوں تو اک ذرہ مگر حیران ہوں کس طرح سورج سے نسبت ہو گئی
424 رات بھر ہوتا رہا راز و نیاز دن چڑھے تصویر رخصت ہو گئی پابجولاں ہم بھی بلوائے گئے کوئی تو ملنے کی صورت ہو گئی غیر کو مضطر ! ہے ناحق اعتراض ہو گئی جس سے محبت ہو گئی
425 لمحے بیچ دیے، صدیاں نیلام کرو وقت حسین ہے اس کا قتل عام کرو اندر آ جاؤ دل کے دروازے سے راہ میں رک کے ٹریفک کومت جام کرو جیسے بھی ہو اس کی کوکھ سے نکلے ہو نادانو ! دھرتی کا کچھ اکرام کرو آنکھیں ہوں تو اپنی صورت پہچانو آئینوں کو مت زیر الزام کرو پردہ اُٹھ جانے دوگھور اندھیروں.روشنیوں کا چرچا صبح و شام کرو ایسا نہ ہو میں گھل مل جاؤں غیروں میں میرے دوست بنو، مجھ کو بدنام کرو عادت نہ پڑ جائے سفر میں جھکنے خیمے اونچے رکھو جہاں مقام کرو
426 عقل پہ قبضہ کر رکھا ہے اوروں نے اس جاگیر کو اب اپنوں کے نام کرو صُمٌّ بُكُم عُمی کی دیواروں سے روزن روزن تفهیم و افہام کرو میری غزلیں گاؤ شہروں گلیوں میں مجھ پر پتھر پھینکو، مجھے سلام کرو پتھر ہوں تو کام لو کوئی پتھر سے چہرہ ہوں تو آئینہ انعام کرو ٹھیس نہ لگ جائے گونگے سناٹوں کو صوت و صدا کو خاموشی الہام کرو دامن تھام لو سوہنے سچے مرشد کا ہر رہ چلتے کو مت پیش امام کرو زندہ رہنے کی اب ایک ہی صورت ہے سوتے جاگتے مضطر! شور مدام کرو
427 آئی ہے اس کی یاد یوں سونے گھروں کے بیچ جیسے کوئی گلاب کھلے پتھروں کے بیچ محصور خیمہ زن ہیں سر دشت کربلا بیٹھے ہوئے ہیں ہم بھی انھی بے گھروں کے بیچ لایا ہوں اوج دار سے اس کو اتار کر لپٹا ہوا ہے سر جو نئی چادروں کے بیچ دیکھا قریب سے تو نظارہ بدل گیا اور اختلاف بڑھ گیا دیدہ وروں کے بیچ آباد ہو رہے ہیں پرانے صنم کدے بت مسکرا رہے ہیں نئے آذروں کے بیچ نکلے ہیں لوگ عمر گزشتہ کو ڈھونڈنے انسان کھو گیا ہے کہیں مقبروں کے بیچ سب ڈھے گئی ہے شہر پنہ شہر ذات کی اب دائرے ہی دائرے ہیں دائروں کے بیچ
428 پینا پڑے تو پیجیے گا احتیاط سے زہر غم حیات ہے ان ساغروں کے بیچ کرنے نے چلا ہے فیصلہ سانپ اقتدار کا موسی کے اور مصر کے جادوگروں کے بیچ مضطر ! شب فراق کا مرغ سحر شناس تارے چھپا کے لے گیا اُجلے پروں کے بیچ
429 آنکھ کے آسیب جب تک جا نہ لیں خوں بہا تصویر کا لیں یا نہ لیں چاند کو ڈر ہے کہ اس آشوب میں آہٹیں آبادیوں کو کھا نہ لیں پوچھتی ہے مجھ سے کم ظرفی مری اس گل خوبی سے کیا لیں، کیا نہ لیں ہر کوئی شامل تھا قتل عام میں ذمہ تن تنہا نہ لیں آپ یہ تمھارے ساتھ ہیں جیسے بھی ہیں ان اسیروں سے مگر وعدہ نہ 3335 جس کے مالک بھی بکاؤ مال ہوں آپ اس دُکان سے سودا نہ لیں دور ہے روح کہتی ہے کہ منزل ہے ذرا سستا نہ لیں؟ جسم کہتا اس کی خاطر اس دھوئیں اور دھند میں کوئی بے آواز ٹھوکر کھا واہ مضطر! تم بھی کہتے ہو کہ پھول قتل ہو جائیں مگر بدلہ نہ لیں نہ لیں
430 ستانوں سے کہہ دو یہ گھر میرا ہے دل دیواریں میری ہیں، در میرا ہے میں خود ہی مدفون ہوں گھر کے آنگن میں نیزے پر جو رکھتا ہے سر میرا ہے میں ہی صف بستہ ہوں سوچ سمندر میں ساحل پر بھی پیاس کا لشکر میرا ہے پر کانٹے ہی کانٹے ہیں دشت ملامت میں ان کانٹوں کے اوپر بستر میرا ہے جس کی ضرب سے اندھیارے مسمار ہوئے وہ آنسو، وہ آنکھ کا پتھر میرا ہے میرے نام پہ قدغن ہے اخباروں میں اور خبروں میں ذکر بھی اکثر میرا ہے میں ہی جاگ رہا ہوں عہدِ اذیت میں حد نظر تک سارا منظر میرا ہے اونچے محل منارے چکنا چور ہوئے صحیح سلامت اب بھی چھپر میرا ہے بگڑی بات بنی، جب میرے آقا نے ہولے سے فرمایا: مضطر میرا ہے
431 اشک در اشک ابتدا میں کہیں مضطرب تھا کوئی حرا میں کہیں عشق تھا معرض وفا میں کہیں رک گیا جا کے نینوا میں کہیں ہو گئے جمع عہد کے آسیب رقص ہونے لگا گھٹا میں کہیں پھر لہو رنگ ہے زمین نجف زخم بولے ہیں کربلا میں کہیں کانپ اُٹھی ہے وسعت کو نین کوئی آنسو گرا خلا میں کہیں ہو رہی ہے سرِ صلیب حیا کشمکش اشک اور انا میں کہیں بند کر دیجیے گا دروازے جی نہ اُٹھوں کھلی ہوا میں کہیں منتظر ہے کسی بہانے کی اس کی بخشش مری خطا میں کہیں وہ مرے ہو گئے تھے ہمیں ان کا مدتوں پہلے ابتدا میں کہیں میں بھی نازاں ہوں اپنی قسمت پر میں بھی ہوں ان کی خاک پا میں کہیں مجھ کو ڈر ہے کہ فرط لذت سے گم نہ ہو جاؤں آشنا میں کہیں ٹوٹ جائے نہ رابطہ مضطر ! عہد اور عہد کے خدا میں کہیں
432 سر مقتل وفا کے حوصلے بھی محبت کی سزا بھی ہیں، صلے بھی شکایت بھی کرے،شکوے گلے بھی مگر وہ سامنے آ کر ملے بھی زبانوں پر ہیں خاموشی کے پہرے در جاں پر صدا کے سلسلے بھی اگر یہ فاصلے ہیں بندگی کے ہمیں منظور ہیں یہ فاصلے بھی زمانہ مندمل کر دے گا ان کو سلے ہوں زخم یا ہوں ان سلے بھی کسے فرصت تھی رک کر دیکھنے کی یہ غنچے مسکرائے بھی، کھلے بھی ضروری تو نہیں اس طرح ملنا وہ مل سکتا ہے ہم سے بن ملے بھی اُٹھا کر پھینک تو دوں اس کو مضطر ! مگر یہ ہجر کا پتھر ہلے بھی؟
433 بس اک اشک سے دھل گئے سارے سینے گلے ہیں نہ شکوے ، کدورت نہ کہنے میں کس کس کا لوں نام اس سلسلے میں یہ احساں تو مل کر کیا تھا سبھی نے پلٹ کر پڑی منہ پہ جا کر اسی کے دعا کی تھی ہم پر جو اک مولوی نے اسے کام آئی نہ طاقت، نہ کثرت مری لاج رکھ لی مری بے کسی نے کبھی تو گرے گی یہ دیوار فرقت کبھی ہم بھی جائیں گے مکے مدینے اسے زعم میری زباں بند کر دی مجھے آ گئے گفتگو کے قرینے جے فخر تھا اپنے زور بیاں پر اسے مار ڈالا مری خامشی نے
434 یہ ساری زمیں میرے رب کی زمیں ہے تم بے زمینے، نہ ہم بے زمینے وہ چہرہ نہیں چاند ہے چودھویں کا اُسے بھی کبھی دیکھ اے بے یقینے ! فرقت کی راتیں ہیں آباد راتیں مہینے یہی وصل کے ہیں مہینے میں جاناں کی خدمت میں کیا لے کے جاؤں یہ جسم اور جاں تو دیے ہیں اسی نے ہمی مستحق تھے ملامت کے مضطر! محبت کا دعوی کیا تھا ہمی نے
435 حسن نظر سے جب بھی ہوا حسن کا ملاپ لو دے اُٹھی ہے کاغذی تصویر اپنے آپ گم ہو نہ جائے تو کہیں اپنی تلاش میں اے خودشناس! روح کی گہرائیاں نہ ماپ ناداں ! بدن سمیٹ لے صحرا کو بھاگ چل جلنے کا خوف ہے تو نہ چہروں کی آگ تاپ مدت ہوئی کہ ہم تری محفل سے جا چکے اے بے لحاظ ! یہ خبر اخبار میں نہ چھاپ اس راگ میں مزہ ہے نہ رونق، نہ روشنی فن کا ہے احترام تو یہ راگ مت الاپ چھپتا پھرے ہے اپنی خطاؤں کی اوٹ میں بیٹے کے ڈھنگ دیکھ کے شرما گیا ہے باپ روز حساب دامین رحمت میں چھپ گئیں ان کی تمام لغزشیں، میرے تمام پاپ
436 چھپنے نہ پائی اس کی سر شب روانگی پہچانتا تھا ہر کوئی اس کے قدم کی چاپ نالہ نہیں، فغاں نہیں، دل کا دھواں نہیں تم آہ کہہ رہے ہو جسے جسم کی ہے بھاپ مضطر ! تم آخرت میں کسے منہ دکھاؤ گے یہ فلم زندگی کی اگر ہو گئی فلاپ
437 وہ پل صراط صدا پار کر ہی جائے گا کٹھن ہے مرحلہ لیکن گزر ہی جائے گا وصال رُت میں سما جائے گا دل و جاں میں سمندروں میں یہ دریا اتر ہی جائے گا اسے کہو کہ نہ تاریخ سے ملے ہرگز اگر ملا تو ندامت سے مر ہی جائے گا پرانے سال کو اب ریزہ ریزہ کر ڈالو کہ جب بھی جائے گا یہ ٹوٹ کر ہی جائے گا شہر نامہ دل ہے اسے بغور پڑھو کہ دن چڑھے تو نظارہ بکھر ہی جائے گا خدا کرے کہ ترا دل امیر ہو جائے زر مراد سے دامن تو بھر ہی جائے گا اندھیری رات میں تنہا کبھی نہ چھوڑے گا سحر مثال ہے وہ تا سحر ہی جائے گا
438 کے شعور سخن ہے، کسے مجال نظر حضور یار فقط نامہ بر ہی جائے گا اگر وہ آئے تو ہمراہ لائے ہوش و حواس وگرنہ قرب کی لذت سے مر ہی جائے گا لرز رہا ہے ستارہ جو سرحدِ جاں پر اُجاڑ آنکھ کو آباد کر ہی جائے گا اسے کہو کہ وہ پھرتا رہے خلاؤں میں اگر زمین پہ اترا تو ڈر ہی جائے گا اگر گیا بھی تو جائے گا منقسم ہو کر انا کے دوش پہ کھل کر بکھر ہی جائے گا ہزار آئنے دیکھو، گواہ ٹھہراؤ مکرنے والا تو مضطر! مکر ہی جائے گا
439 راه پکارے گی، چورستہ بولے گا رسته زنده تو رستہ بولے گا ہے وصل میں گھل جائے گی ہجر کی لذت بھی روٹھنے والا ہنستا ہنستا بولے گا منزل آپ پکارے گی رہ چلتوں کو رستوں کے اندر اک رستہ بولے گا جھوٹا بول رہا تھا اتنے عرصے سے سچا بھی اب جستہ جستہ بولے گا اُٹھ جائیں گے پردے اصل حقیقت سے صدیوں کا راز سربستہ بولے گا دل کی دتی کے کھنڈرات پکاریں گے سایه دیوار شکستہ بولے گا نسخہ بن کر پس جاؤ گے نادانو ! جب تقدیر کا ہاون دستہ بولے گا سورج چاند گواہی دیں گے بالآخر وقت آنے پر عہدِ گزشتہ بولے گا مضطر ! سینہ بھر جائے گا خوشبو سے گل موسم میں خود گلدستہ بولے گا
440 مجھ کو اپنے غم کا اندازہ نہ تھا غم کی دیواریں تھیں، دروازہ نہ تھا یہ صدا تھی میرے دل کے چور کی گنبد گردوں کا آوازہ نہ تھا یہ سزا تھی میرے حسن ذوق کی عشق کی لذت کا خمیازہ نہ تھا تھے دریچے بند پھولوں کے ابھی منتشر خوشبو کا شیرازہ نہ تھا جم رہی تھی اس پہ دھول ایام کی پھول تھا لیکن تر و تازہ نہ تھا بیربل کیوں شہر کے گھبرا گئے وہ فقط ملا تھا، دو پیازہ نہ تھا معجزه مضطر ! تھا کردار کا فقط گفتار کا غازہ نہ تھا
441 موسم کے مراحل سے گزر جائے گا پانی برسے گا تو کچھ اور اُتر جائے گا پانی لرزے گا سر چشم اگر فرط حیا سے شبنم کی طرح رُخ پہ بکھر جائے گا پانی انکار کے قطبین پہ سردی ہے بلا کی نفرت کے تبسم سے ٹھٹھر جائے گا پانی شبنم.ہو، ندامت کا پسینہ ہو کہ آنسو جتنا بھی سنوارو گے سنور جائے گا پانی فرقت کی صلیب اُس کو اُٹھانی ہی پڑے گی راتوں کو نہ جاگے گا تو مر جائے گا پانی حیران نگاہوں سے کہو اس کو نہ دیکھیں آئینہ ہے آئینوں سے ڈر جائے گا پانی اس کو تو بچھڑ کر بھی بچھڑنا نہیں آتا مل جائے گا پانی میں جدھر جائے گا پانی
442 ہے مونس و غمخوار یہی اس کی ازل سے دھرتی سے جدا ہو کے کدھر جائے گا پانی یوں جبر وستم سے اسے رکنا نہیں آتا روکو گے تو کچھ اور بھر جائے گا پانی برسے گا سر بزم وفا ٹوٹ کے مضطر! جائے گا تو اس شوخ کے گھر جائے گا پانی
443 نہ سہی دوست، کوئی دشمن کامل اٹھے کوئی ہنگامہ ، کوئی نعرہ باطل اٹھے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو گے کب تک در زنداں نہ کھلے، شورِ سلاسل اٹھے دوست احباب، اعزہ و اقارب کے سوا اتنی فرصت ہی کسے میرے مقابل اٹھے شدّتِ شوق تھی یا قحط یقین کامل منزل آئی تو نہ پاؤں سوئے منزل اٹھے کتنے سوکھے ہوئے آنسو سر مژگاں لرزے کتنے سوئے ہوئے طوفاں سر ساحل اٹھے ہم بھی اظہارِ تمنا کی اجازت پا کر منہ سے کچھ کہہ نہ سکے صورت سائل اٹھے پھر سر بزم جنوں عہد کے کچھ فرزانے گھر سے حجت کے لیے آئے تھے، قائل اُٹھے
444 جب سے اک محسن کامل کا ہے چہرہ دیکھا پھر کسی اور کے احسان نہ اے دل! اٹھے دو محفل ہے جہاں دیر ہے، اندھیر نہیں کوئی مایوس نہ ہو، کوئی نہ بے دل اٹھے جس سے پوچھو، ہے اُسے دعویٰ وفا کا مضطر ! ” بے وفا کوئی تو ہو، کوئی تو ”قاتل“ اٹھے (۱۹۵۰ء)
445 سولی کو جو سجا سکے وہ سر تلاش کر اے شیخ شہر! پھر کوئی کافر تلاش کر موسم بدل چکا ہے، بدل لے لباس بھی عینک اتار دے، نئے منظر تلاش کر کیوں گر رہا ہے تیرا بدن ٹوٹ ٹوٹ کر اس کا بھی کچھ علاج ، برادر! تلاش کر جاناں کا غم، جہان کا غم ہو کہ جان کا کوئی تو اپنی ذات کا محور تلاش کر کچھ کر سکے تو ساحل غم کے سبک نشیں! سیلاب میں گھرے ہوؤں کے گھر تلاش کر تھوڑی بہت انھی سے توقع ہے خلق کو غنڈوں کا عہد عشق میں دفتر تلاش کر منصور عہد ہوں، مرا کر کچھ تو احترام کچھ پھول توڑ لا، کوئی پتھر تلاش کر یہ پیاس بجھ سکے گی نہ آب حیات سے اے تشنہ کام! آنکھ کا کوثر تلاش کر دیوار وضعداری دل کب کی ڈھے چکی مٹتے ہوئے محاذ نہ مضطر ! تلاش کر (سقوط ڈھاکہ)
446 روح کے پتھر پکھل جانے بھی دے سوچ کو سانچوں میں ڈھل جانے بھی دے ان گلی کوچوں کو جل جانے بھی دے شہر کا نقشہ بدل جانے بھی دے اس قدر اکرام کی بارش نہ کر ہم فقیروں کو سنبھل جانے بھی دے آج میرا مجھ سے ہو گا سامنا یہ قیامت سر سے ٹل جانے بھی دے منجمد سورج ہوں آدھی رات کا میری برفوں کو پگھل جانے بھی دے آگ کی تطہیر ہو گی آگ سے خود بھی جل، مضطر کو جل جانے بھی دے
447 جو لمحہ بھی اشکوں سے لادا گیا وہ آدھا رکا اور آدھا گیا وہ بادل جو گرجا تھا احساس کا برستا ہوا حسب وعدہ گیا وہ مجبور تھا اپنے حالات سے جدھر بھی گیا بے ارادہ گیا نہاں خانہ دل کا پردہ نشیں بھری بزم میں بے لبادہ گیا سلگتا ، سنورتا ، سنبھلتا ہوا یہ کس دیس کا شاہزادہ گیا پر وہ بیٹھا رہا دل کی دہلیز میں جس کے لیے جادہ جادہ گیا وہ خود بے حجابانہ آ کر ملا میں جب اس کے ہاں پا پیادہ گیا
448 وہی بن گیا مرجع خاص و عام جو اس کی گلی میں زیادہ گیا ہوس کی سواری گئی ساتھ ساتھ جہاں تک بدن کا برادہ گیا حسینوں کے انداز بدلے گئے وہ بت اس قدر تھا جو سادہ گیا میں خوش ہوں کہ مضطر ! قدم دو قدم قفس تک تو رستہ کشادہ گیا
449 یوں نہ مجبور کو مسند بٹھایا جائے فیصلہ تم نے جو لکھا ہے سُنایا جائے قتل ناحق کا اگر حکم سنایا جائے کچھ تو اس حکم کا مقصد بھی بتایا جائے کی عطا جس نے ہمیں اپنی غلامی کی سند اس کا احسان بھلا کیسے بھلایا جائے یوں سما جاتا ہے وہ روح میں لذت بن کر جیسے آئینے کے اندر کوئی سایہ جائے روز ہو جاتی ہے دربان سے نکر اپنی مقتل جاں میں بھی چپکے سے نہ جایا جائے اس کے انجام کو دیوار پہ چسپاں کر دو وہ اگر جاتا ہے تو بار خدایا جائے میرے ہمدرد نہ بن جائیں مرے ہمراہی میرے ماتھے پہ مرا غم نہ سجایا جائے
450 چاندنی رات کو پھرنے دیا جائے تنہا چاند کے دودھ میں پانی نہ ملایا جائے چین سے سونے دیا جائے کتابوں میں مجھے مجھ گئے وقت کو واپس نہ بلایا جائے اب تو اپنے بھی یہاں نام پتا پوچھتے ہیں گوئے الزام میں اپنا نہ پرایا جائے اس کو سمجھانے کی کوشش تو میں کر لوں مضطر ! دل ناداں کو مرے سامنے لایا جائے
451 ہر پھول انتخاب ہے، خوشبو لباس ہے تو اس ہجوم حسن میں بھی کیوں اداس ہے جس کو شعورِ ذات کی خلعت نہیں ملی پھول بیچ باغ کے بھی بے لباس ہے وہ مسرور ہو رہا ہے سر اوج دار غم یہ غم شناس بھی بڑا لذت شناس ہے کس کے لہو سے ہے یہ لبالب بھرا ہوا قاتل کے دست ناز میں کیسا گلاس ہے سب راستے گزرتے ہیں اس کے قریب سے صحرائے نینوا میں جو چیرنگ کراس ہے ڈھونڈتے پھرو ہو میاں! جس حسین کو اس کا کوئی بدن ہے نہ کوئی لباس ہے سولی پہ سو رہے ہو سر اوج احتمال مرنے کا حوصلہ ہے نہ جینے کی آس ہے بستے ہیں اس میں سینکڑوں کثر دم ، ہزار سانپ غافل ! جو تیری عقل کے آنگن میں گھاس ہے
452 گھٹ کے مر گیا ترے اندر کا آدمی کیا اس کا خوں بہا بھی ہے؟ کوئی قصاص ہے؟ طول امل سے کچھ نہیں حاصل ہوا کبھی یہ وہ محل ہے ریت پہ جس کی اساس ہے چمٹا ہوا ہے ہر کوئی لمحوں کی لاش سے ماضی کی تلخیوں میں بھی کتنی مٹھاس ہے کوئی فصیل شہر کو اب پھاند کر نہ آئے یاروں کا شہریار سے یہ سے یہ التماس ہے تنہائیوں کو بھی نہیں تنہائیاں نصیب لگتا ہے کوئی دیکھنے والا بھی پاس ہے تو آئنے سے بات تو کر، سامنے تو آ اس کا نہ کر گلہ کہ وہ چہرہ شناس ہے جایا کروں ہوں بہرِ زیارت کبھی کبھی ماضی کا مقبرہ تو یہیں دل کے پاس ہے غالب کی سرزمین میں رکھا تھا کیوں قدم؟ مضطر! نہ تو کبیر ہے نے سورداس ہے (۱۹۵۸ء)
453 آنسو تھے تو آنکھ کا زیور ہو جاتے سینے دھل جاتے ، چہرے تر ہو جاتے گھومنے پھرنے والے بے گھر بن باسی اپنے گھر میں رہ کر بے گھر ہو جاتے گھائل ہو جاتیں آوازیں لفظوں سے لفظ بھی ہوتے ہوتے بنجر ہو جاتے آتے جاتے رہتے دل کی محفل میں راہ میں جتنے موڑ تھے ازبر ہو جاتے سن لیتے فریاد اگر تصویروں کی تصویروں کے مومن کافر ہو جاتے آ جاتا سیلاب چمن میں خوشبو کا پھول اگر آپے سے باہر ہو جاتے کانٹوں پر چلنے میں کیا دشواری تھی چلتے تو چلنے کے خوگر ہو جاتے شہروں کی دیواریں خونِ ناحق سے ڈھل جاتیں تو شہر پوتر ہو جاتے مضطر ! ان کو نطق و بیاں کا اذن نہ تھا ورنہ آئینے پیغمبر ہو جاتے
454 کیوں من و تو کی نہ تفریق مٹا دی جائے میں اگر میں ہوں تو مجھ کو بھی سزا دی جائے میں وہ لمحہ ہوں جو گزرا ہے علامت بن کر مجھ کو آواز نہ اب بہر خدا دی جائے اب تو ایمان کو بازار میں لے آئے ہو اس کی قیمت بھی لگے ہاتھوں چکا دی جائے میرا بھی حق ہے کہ دیوار پر لکھا جاؤں میری تصویر بھی سولی پہ سجا دی جائے بوجھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے لمحہ لمحہ وقت کی دھول نہ الفاظ پہ لادی جائے کتنا آساں ہے گھلے شہر میں آنا جانا کوئی دیوار تو رستے میں بنا دی جائے اپنے انجام کی تصویر بھی لیتے جائیں بھاگتے دوڑتے لمحوں کو صدا دی جائے عقل اس عہد میں ہے محو تماشا مضطر! کچھ تو اس عہد کی میعاد بڑھا دی جائے
455 اپنے اندازے میں اوروں کا نہ اندازہ ملا عین اپنی ذات کے پرزوں کا شیرازہ ملا زندگی کی عمر بھر دلچسپیاں قائم رہیں اس سفر میں ہر قدم پر موڑ اک تازہ ملا ذات میں گم ہو گیا تو واپسی ہو گی محال وصل کے نشے میں فرقت کا بھی خمیازہ ملا مجھ کو بھی کچھ تجربہ ہے جرم بے تقصیر کا اپنے اندازے میں کچھ میرا بھی اندازہ ملا راہ چلتوں سے لڑائی پر کمر باندھے ہوئے راستے میں ہر قدم پہ ملا دو پیازہ ملا یہ گئیں ہیں ساری فصلیں آنکھ کے سیلاب میں کتنی آسانی سے اب کے گھر کا دروازہ ملا اپنے منصب کو سمجھ ، پہچان اپنے آپ کو عشق ہے تو عشق میں ایمان کا غازہ ملا دیکھتی آنکھوں مرے قاتل کو بھی روز حساب مسکراتا، اینڈتا خلقت کا آوازه ملا زندگی کا زخم بھی مضطر! نرالا پھول تھا جس قدر گہرا لگا اتنا تر و تازہ ملا
456 ہر کوئی شہر بدر لگتا.اب تو اس شہر سے ڈر لگتا ہے ہے دشت در آیا ہے گھر کے اندر دشت اب دشت نہ گھر لگتا ہے مل کے آیا ہے کسی منزل - ނ راسته خاک بسر لگتا ہے غم جاں کو بھی اُٹھا لے ہنس کر یہ ترا زادِ سفر لگتا ہے راہ چلتوں سے سنبھل کر ملنا ان په منزل کا اثر لگتا ہے صبح صادق ہے یا کوئی آنسو کچھ تو اے دیدہ تر! لگتا ہے کوئی گزرا نہ ہو منزل بن کر راسته زیر و زبر لگتا ہے اور بڑھ جاتی ہے لذت اس کی جب بار دگر لگتا زخم جب بار وہ جدھر ہاتھ اُٹھا دے شہر کا شہر ادھر لگتا مضطر ! ہے ہے
457 عشق کا جرم مرے نام لگایا جائے شرط یہ ہے کہ سر عام لگایا جائے کافر شہر ہوں، کافی ہے یہ عزت مجھ کو پہ اب اور نہ الزام لگایا جائے مجھ اپنی تعریف میں اچھی سی عبارت لکھ کر کوئی پتھر ہی سرِ بام لگایا جائے دلِ ناداں کا تقاضا ہے کہ گا ہے ما ہے اس کے ذمّے بھی کوئی کام لگایا جائے کہیں ایسا نہ ہو تم کو بھی یقیں آ جائے اب یہ نعرہ نہ سر عام لگایا جائے مصلحت کا یہ تقاضا ہے کہ دشت جاں میں کوئی خیمہ نہ سر شام لگایا جائے اب تو انجام نظر آنے لگا ہے اس کو اب نہ اندازہ انجام لگایا جائے میں اگر عہد کا سقراط نہیں ہوں مضطر! میرے ہونٹوں سے نہ یہ جام لگایا جائے
458 خواب چہرے پر سجائے ، دل میں تعبیریں لیے آئنہ خانے میں کون آیا ہے تصویریں لیے ریت کے سینے پر ہے لکھا ہوا کس کا کلام دم بخود بیٹھا ہے صحرا کس کی تحریریں لیے دشت کے وحشی بھی ہو جائیں گے پابند قیود کوئی تو صحرا میں بھی آئے گا زنجیریں لیے جب بھی اذنِ عام ہو گا ان کے عہدِ حسن میں ہم بھی جائیں گے سر دربار تقصیریں لیے آخر شب کھٹکھٹائے گا کوئی باب قبول التجا جائے گی اپنے ساتھ تاثیریں لیے اپنے آباء کی طرح اس عہد کے آشوب میں ہم بھی بیٹھے ہیں تری الفت کی جاگیریں لیے زندگی سوئی ہوئی ہے سایہ زیتون میں اور تم پھرتے ہو مضطر ! غم کی انجیریں لیے
459 بن گئی زادِ سفر بے سروسامانی بھی منزلیں مات ہوئیں جانی بھی، انجانی بھی شکل اس شوخ کی تھی ہم نے تو پہچانی بھی وہ جو اس عہد کے انکار کا تھا بانی بھی یہ الگ بات کہ ہو جاتا ہے پتھر زخمی ورنہ تیشے سے لپٹنے میں ہے آسانی بھی رہ گیا ایک شہادت کا فریضہ باقی ریت بھی روٹھ گئی، بند ہوا پانی بھی حق ادا کیسے کروں کوئے ملامت! تیرا تو نے دانائی بنا دی مری نادانی بھی ہم فقط سلطنتِ دل کے محافظ ہی نہیں ہم کو حاصل ہے درِ یار کی دربانی بھی ہیں لاکھ ناکارہ ہیں، نادان ہیں، نالائق ہم ہیں اے حسن ! تری زلف کے زندانی بھی ہو گئی مجھ سے بغل گیر صلیب فرقت آ گئی کام مرے میری تن آسانی بھی ہر کوئی ہم سے ملا اپنا سمجھ کے منتظر! سلسلہ اپنا ہے جسمانی بھی، روحانی بھی
460 کبھی یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ گلہ نہ کرے یہ اور بات ہے اوروں سے تذکرہ نہ کرے اسے کہو کہ بڑے شوق سے ملے لیکن مجھے قریب سے دیکھے تو جی برا نہ کرے ہمی نے وقت کی دہلیز پر کھڑے ہو کر اسے کہا تھا کہ جلدی میں فیصلہ نہ کرے زمین سب سے بغل گیر ہو کے پوچھتی ہے وہ کون ہے کہ جو مجھ سے معانقہ نہ کرے نہ اس کی سڑکیں کشادہ ، نہ اس کی گلیاں صاف تو شہر ذات میں آئے کبھی خدا نہ کرے وہ اپنے آئنہ خانے میں بیٹھ کر مجھ پر ہنسے ضرور، مگر اس قدر ہنسا نہ کرے جھگڑنا ہو تو جھگڑتا رہے وہ ماضی سے گزر رہا ہے جو لمحہ اسے خفا نہ کرے خدا نے عقل بھی دی ہے اسے، ارادہ بھی جو میری مانے تو ”خوباں“ سے مشورہ نہ کرے نہ تیرے پاؤں میں چھالے نہ راہ میں کانٹے خدا کبھی تجھے مضطر! برہنہ پا نہ کرے
461 اوڑھ کر آئین کا جھوٹا لبادہ اس برس بن گیا ملا کا بچہ شاہزادہ اس برس جھوٹ کے اس عہد میں شوخی سے ٹخنے جوڑ کر ایک جھوٹے نے کیا اک اور وعدہ اس برس دیکھیے کیا غیب سے ظاہر ہو، وہ نکلا تو ہے میرے قتل عام کا کر کے ارادہ اس برس جھوٹ بولا ہے جو اس نے مصطفی کے نام پر اس کا اخباروں میں اب ہو گا اعادہ اس برس ہر طرح کے مجھ پہ اب بہتان باندھے جائیں گے جھوٹ سے جھوٹے کریں گے استفادہ اس برس قوم کی ناموس کو ظالم نے گروی رکھ دیا بک گیا جتنا بھی تھا غیرت کا مادہ اس برس ان بھری گلیوں میں ہو گا کوئی تو رجل رشید کہہ سکے جو اس کے منہ پر حرف سادہ اس برس
462 حسب سابق بیچ کھانے کے لیے شاہ و وزیر بانٹ لیں گے ملک کو پھر آدھا آدھا اس برس کیفر کردار کو پہنچیں گے سب مذہب فروش کر دیے جائیں گے مجرم بے لبادہ اس برس ق منزلیں کیوں جاگ اُٹھی ہیں سرِ شام فراق کس حسیں کا منتظر ہے جادہ جادہ اس برس حیدر کرار کے دیدار کی حسرت لیے ایک خلقت راہ میں ہے ایستادہ اس برس یار اگر واپس نہ آیا جلد شہر ہجر میں جائیں گے ملنے کو ہم بھی پا پیادہ اس برس جب بھی وہ گزریں سر شہر فراق آرزو پھینک دیجے راہ میں میرا برادہ اس برس جب دریچے فرش کے مضطر ! مقفل ہو گئے عرش کے در ہو گئے ہم پر کشادہ اس برس (۱۹۸۵ء)
463 ہمیں ساتھ اے نامہ بر! لیتے جانا فقیروں کو بھی اس کے گھر لیتے جانا جانا اگر ہو سکے چشم تر لیتے شب غم کے شمس و قمر لیتے جانا چلے ہو تو رختِ سفر لیتے جانا اللہ کا دل میں ڈر لیتے جانا اگر شوق ہے نور کو دیکھنے کا نظر ساتھ اے بے نظر ! لیتے جانا سُن اے یوسفوں کو بچا لینے والے! زلیخاؤں کی بھی خبر لیتے جانا چلے ہو اگر اتنے لمبے سفر پر کوئی ساتھ زادِ سفر لیتے جانا اگر وسعتیں دیکھنی ہوں فلک کی کھلے شہر کے بام و در لیتے جانا اثر اس ہوتا نہیں موسموں کا ازل آرزو کا تجر لیتے جانا اگر کوئی مصرف ہو اس بے ہنر کا تو مضطر کا سر کاٹ کر لیتے جانا
464 شیشے نہیں ٹوٹے ہیں کہ پتھر نہیں بولا اس پر بھی یہ شکوہ ہے کہ منظر نہیں بولا دشنام کی بارش بھی ہوئی سنگ بھی برسے واللہ کہ وہ صبر کا پیکر نہیں بولا مضطر کو خوشی ہے کہ کئی مفت میں گردن گردن کو شکایت ہے کہ خنجر نہیں بولا شبنم میں بھگویا، کبھی اشکوں سے نکھارا موسم سے مگر پھر بھی گل تر نہیں بولا رہ جاتا بھرم کچھ تو مرے کچے مکاں کا سیلاب ہی بستی کو نگل کر نہیں بولا ہونے کو در لفظ پہ دستک تو ہوئی تھی دیوار کے لب بند رہے، در نہیں بولا کچھ ایسی مٹی رسم و ره خارا تراشی پتھر کو تراشا بھی تو پتھر نہیں بولا برپا تو ہوئی بزم سخن شہر سخن میں افسوس سخن ور سے سخن ور نہیں بولا کیا جانیے کیا صدمہ ہوا ہے اسے مضطر ! امسال بھی ساحل سے سمندر نہیں بولا
465 درود تیرے لیے ہے، سلام تیرا ہے خدا کے بعد مرے لب پہ نام تیرا ہے ترے مقام کی سرحد کو چھو سکا نہ کوئی کہ ہر مقام سے آگے مقام تیرا ہے ترا ہی نطق ہے مَا يَنْطِقُ کا آئینہ خدا کا ہے جو بظاہر کلام تیرا ہے ترے بغیر تو ملتا نہیں ہے مالک بھی کہ اس کی ذات کو بھی احترام تیرا ہے ترے جلال پہ حاوی جمال ہے تیرا تمام عفو ہے جو انتقام تیرا ہے اصفر رہے نہ اسود و ابیض، نہ احمر و یہ کام تو نے کیا ہے، یہ کام تیرا ہے چھلک رہا ہے جو دن رات جام رحمت کا مرے کریم یہ کاس الکرام تیرا ہے
466 جہاں قرار ملا مجھ سے بے قراروں کو قرارگاه وہ دار السلام تیرا ہے سبھی حسین ترے حسن کے بھکاری ہیں کہ نا تمام ہیں اور حسن تام تیرا ہے ترا ہی چشمہ صافی ہے کوثر و تسنیم مئے طہور سے لبریز جام تیرا ہے عجب نہیں کہ خدا مہربان ہو جائے که ذکر میری زباں پر مدام تیرا ہے عجب نہیں ہے کہ مضطر کی لاج رہ جائے کہ بے ہنر تو ہے لیکن غلام تیرا ہے
467 تم نے اگر نہ پھول کی حرمت بحال کی اُٹھ جائے گی جہان سے خوشبو کی پالکی توصیف کیا کرے گا ترے ماہ و سال کی جس نے کبھی نہ کھائی ہو روزی حلال کی میونزم تشبیہ اور حضور کے حسن و جمال کی! یعنی مثال ہی نہ ہو جس بے مثال کی جس کے کمال کو نہیں خطرہ زوال کا ہم بات کر رہے ہیں اسی لازوال کی وہ گل سدا بہار ہے، موسم کوئی بھی ہو فرقت کی ہو دے فصل کہ رت ہو وصال کی واللہ ! بے مثال تھا جو کام بھی کیا ” جو بات کی، خدا کی قسم! بے مثال کی“ رہ جائیں گے ٹھٹھر کے ترے پاشکستگاں شدت اگر نہ کم ہوئی باد شمال کی
468 بچ کر نکل نہ جائے سفینہ مراد کا طوفان کو خلش ہے اسی احتمال کی اس نے تو مجھ کو زندہ جاوید کر دیا یہ جو خبر اڑی ہے مرے انتقال کی اس میں نہ تھا قصور فقط باغبان کا تقصیر پات پات کی تھی، ڈال ڈال کی مرجھا نہ جائے پیٹر کہیں انتظار کا اس کی نہ جسم و جاں سے اگر دیکھ بھال کی تنہائیوں کے اشک ندامت کا ذکر ہے ہے بات آدھی رات کے آب زلال کی میں ہوں تو صرف احمدی ہوں اور محمدی ہوں شافعی نہ حنبلی، حنفی نه مالکی یہ کیا کہ ملنے آئے ہو مضطر غریب سے صحبت میں جا کے بیٹھو کسی باکمال کی
469 زخم بولے تو جیسے بھر سے گئے مسکرائے تو بن سنور سے گئے گھر کے اندر بھی دشت تھے آباد گھر میں آئے تو پھر نہ گھر سے گئے ان کو سچ بولنے کی عادت تھی آئنے آئنوں سے ڈر سے گئے آہٹوں کے اسیر سنائے کبھی ٹھہرے، کبھی گزر سے گئے آنسوؤں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا یہ مسافر بھی اب سفر سے گئے یاد کی محفلیں بھی خواب ہوئیں خواب کے رنگ بھی بکھر سے گئے دوست بھی جا چکے رہا ہو کر اور دشمن بھی جیسے مر سے گئے اشک بر سے تو چاہتوں کے چناب لذت تشنگی سے بھر سے گئے ہم بھی کیا آئے محفل جاں میں بے خبر آئے بے خبر سے گئے تاب کب لا سکے اذیت کی آئینے ٹوٹ کر بکھر سے گئے گوئے الزام! تیری عمر دراز تجھ سے نکلے تو شہر بھر سے گئے رات جب بھیگنے لگی مضطر! چاند چہرے بھی کچھ نکھر سے گئے (۸/ جولائی، ۱۹۹۵ء)
470 روشنی اکیلی تھی صبح و شام سے پہلے آنکھ بے تماشہ تھی اژدہام سے پہلے ان کا ہم فقیروں پر یہ بھی ایک احساں ہے مسکرا تو دیتے ہیں قتل عام سے پہلے گن رہے ہو کیوں ناحق انتظار کی گھڑیاں لوٹ کر نہ آئیں گے لوگ شام سے پہلے بے ادب کی محرومی، سچ تو یہ ہے مخدومی! مرتبہ یقیں کا ہے احترام سے پہلے آج کون قاتل ہے اور کون ہے مقتول فیصلہ تو کر لیجے اہلِ شام سے پہلے اب تو ہر کسی سے وہ بے سبب بھی ملتے ہیں مشکلوں سے ملتے تھے جو غلام سے پہلے اشک کی صداقت سے محترم ہوئے کتنے آدمی جو لگتے تھے یوں ہی عام سے پہلے.مجھ سے تو بہر صورت آپ لوگ بہتر ہیں اپنا نام لکھ لیجے میرے نام سے پہلے ذکر اک حسیں کا بھی ناگزیر ہے مضطر ! عشق کی کہانی کے اختتام سے پہلے
471 سُن ! محو گفتگو ہے یہ کون آسمان - سے پردے تمام اُٹھ رہے ہیں درمیان سے اتنے وثوق سے جسے جھٹلا رہے ہیں آپ اترا نہ ہو وہ چاند کہیں آسمان سے خلقت تمام چل رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ مجبور گھر سے نکلا ہے اس آن بان سے وہ امتحاں کا دور تھا، آیا گزر گیا اب معذرت کیا کرو خالی مکان سے اس کی بلند شان کا کیا تذکرہ کروں بالا ہے جس کا مرتبہ وہم و گمان سے واپس اگر گیا بھی تو مشکل سے جائے گا ملا کا بھوت نکلا ہے جو مرتبان سے ہے ، آئنوں میں پہلی سی رونق نہ روشنی آنکھیں چرا کے لے گیا کوئی مکان سے اب اس سے کیا غرض کہ لگا یا خطا گیا جب تیر ہی نکل گیا مضطر ! کمان سے
472 میں ترے عہد میں اگر ہوتا تیرا در ہوتا ، میرا سر ہوتا اگر آواز کا بھی گھر ہوتا کوئی دیوار، کوئی در ہوتا تیرے پاؤں کی خاک بن جاتا میں اگر تیرا ہمسفر ہوتا فرط لذت سے گنگ ہو جاتا ذکر تیرا نہ مجھ سے کر ہوتا میری پہچان مجھ کو مل جاتی میں اگر اتنا معتبر ہوتا رات کٹتی ترے تصور میں دن تری یاد میں بسر ہوتا پوچھتے لوگ مجھ سے تیرا حال میں اگر تیرا نامہ بر ہوتا تکتا رہتا تجھے تحیر دار سے یار تک مسافر کا اک یہی کام عمر بھر ہوتا راستہ کتنا مختصر ہوتا زندگی چین سے گزر جاتی خوف ہوتا نہ کوئی ڈر ہوتا دیکھ لیتا اگر تجھے مضطر! اس کی آواز میں اثر ہوتا
473 تمہید کی اتنی بھی ضرورت تو نہیں کچھ اور ہی شے تھی یہ وضاحت تو نہیں تھی کہتے ہو کہ یہ کوئی شہادت تو نہیں تھی اور قرب قیامت کی علامت تو نہیں تھی اتنا تو کیا، قتل کا فتویٰ دیا تم نے تھا کہ تمھیں اس کی بھی فرصت تو نہیں تھی کو تو ندامت کا پسینہ بھی نہ آیا کیا جانیے کیا تھی، یہ ندامت تو نہیں تھی مقتول نے لکھی تھی وہ تقدیر لہو سے لکھنے کی جسے اس کو بھی قدرت تو نہیں تھی ہاں ہاں تمھیں اس روز بڑی داد ملی تھی وه داد مگر دادِ شجاعت تو نہیں تھی اب قتل کے بعد آئے ہو مقتول سے ملنے اس طرفہ تکلف کی ضرورت تو نہیں تھی
474 ہم نوکِ سناں پر بھی رہے زندہ سلامت کچھ اس کے سوا جینے کی صورت تو نہیں تھی سولی بصد ناز ترا نام لیا تھا واللہ ! ہمیں فخر کی عادت تو نہیں تھی ہم لوگ سردار بھی جی بھر کے ہنسے تھے ہر چند کہ ہنسنے کی اجازت تو نہیں تھی کیا جانیے کس طرح اسے دیکھ لیا تھا اس حسن کی کچھ حد و نہایت تو نہیں تھی رو رو کے گزارا تھا تجھے اے شب ہجراں! شکوہ تو نہیں تھا یہ شکایت تو نہیں تھی ہم خاک بسر عہد اذیت کے امیں تھے سوچو تو اذیت بھی اذیت تو نہیں تھی ہم نے جو تہ دل سے تمھیں دی تھی معافی احساں تو نہیں تھا وہ عنایت تو نہیں تھی منظر کی عیادت کے لیے آئے تھے احباب ہر چند عیادت کی اجازت تو نہیں تھی
475 آہوں کی بانہیں آہوں کی بانہیں لمبی ہیں ان بانہوں کو مت پھیلاؤ ان بانہوں کی دربانی ان آہوں کی عریانی اظہار کے رستے بند ہوئے لفظوں کے پابند ہوئے چپ رہنے پر مجبور ہوئے ہم تھک کر چکنا چور ہوئے اظہار کے اوجھل رستوں پر آوازوں کے چورستوں پر مفہوم کہ زخمی رہتے ہیں ہر رہ چلتے سے کہتے ہیں ہم چھپ چھپ کر مہمان گئے سب جان گئے، پہچان گئے
476 اب موڑ دو رُخ آوازوں کے در بند کرو دروازوں کے لب پر نہ فغاں کو آنے دو جاں جلتی ہے جل جانے دو طوفانوں سے مت گھبراؤ تم ساحل ساحل آ جاؤ اظہار کی راہیں لمبی ہیں آہوں کی بانہیں لمبی ہیں ان بانہوں کو مت پھیلاؤ خاموش رہو یا سو جاؤ
477 اول تو اپنی آنکھ کا پانی لہو کرو پھر اس لہو سے رات کو اُٹھ کر وضو کرو لیٹے ہوئے ہو کس لیے سولی کی اوٹ میں تم مر نہیں گئے ہو، اُٹھو گفتگو کرو مجھ کو بھی اپنے آپ سے ملنے کا شوق ہے مجھ کو پکڑ کے لاؤ ، مرے روبرو کرو اچھے بُرے کے پھیر میں پڑتے ہو کس لیے جو کچھ کے حبیب وہی ہو بہو کرو کانٹوں کے تاج، دارورسن ، گالیوں کے پھول سارا انتظام سپرد عدد کرو ”تم لوگ لوگ“ اور بار امانت اٹھا سکو! اللہ ہو ، تم اللہ ہو اللہ ہو کرو مضطر ! غم حبیب تو مولا کی دین ہے اس غم کا بھول کر بھی نہ چرچا کبھو کرو
478 ریگ زاروں میں چاندنی ہوئی اب نہ بھوکا رہا کرے کوئی ذرے ذرے کو خون سے سینچا آنسوؤں سے روش روش دھوئی پھول ہنسنے لگے تو ہنستے رہے اوس روئی تو عمر بھر روئی جب محلات میں جگہ نہ ملی زندگی راستوں میں جا سوئی آئنہ دیکھ کر پس تصویر ہنس دیا کوئی، رو دیا کوئی اک فسانہ بنی زمانے میں خامشی اس کی ، میری کم گوئی عشق کی ساکھ اٹھ گئی مضطر! عشق کرنے لگا ہے ہر کوئی
479 کیا کیا نہ تو نے ہم پر احسان کر دیا ہے ساری صداقتوں کا اعلان کر دیا ہے قول و عمل کو ایسا یکجان کر دیا ہے ہر حرکت و سکوں کو قرآن کر دیا ہے جو کچھ تھا گھر میں تجھ پر قربان کر دیا ہے تو نے تو زندگی کو آسان کر دیا ہے تیری نظر نہیں تھی ، اک معجزہ تھا جس نے حیوان کو اُٹھا کر انسان کر دیا ہے جتنے بھی بہت تھے، تو نے سارے گرا دیے ہیں سارے صنم کدوں کو ویران کر دیا ہے اس کا معاوضہ تو لے گا نہیں کسی سے جو کچھ دیا ہے تو نے یہ جان کر دیا ہے دریا بنا دیا ہے قطرے کو اک نظر سے جس لہر کو چھوا ہے طوفان کر دیا ہے چشم کرم تو ہو گی مضطر حقیر پر بھی جب دوسروں پہ اتنا احسان کر دیا ہے تو نے جو بخش دی ہے مدحت کی یہ سعادت مضطر کی مغفرت کا سامان کر دیا ہے (اگست، ۱۹۸۸ء)
480 اس سفر کا کبھی انجام نہ ہونے پائے ساتھ سورج کے چلو، شام نہ ہونے پائے نہ سہی دوست مگر دشمن جاں ہے اپنا قاتل شہر ہے، بدنام نہ ہونے پائے سر قلم لفظ کا کرنے تو چلے ہو لیکن قتل ناحق ہے، سر عام نہ ہونے پائے کیا کرتے ہو تنقید برائے تنقید کام یہ ہے کہ کوئی کام نہ ہونے پائے
481 چاند چھپا، تارے مرجھائے ،نرگس ہے بیمار بوٹا بوٹا جاگ رہا ہے، کلی کلی بیدار ستلج پار سے ایک مداری کھیل دکھانے آیا ہاتھ کی پھرتی ، آنکھ کا جادو، بندر بانٹ کا سایہ بھیس بنائے، ناچا گایا، سبز باغ دکھلائے اک تھکی سے بچے بالے میٹھی نیند سلائے دتی سے اک آندھی اُٹھی، جا پہنچی کشمیر پیر فقیر، بال، نر ناری لٹ گئے بے تقصیر اک کشمیری قید ہے اب سری نگر کے پاس کیا جانے کیا سوچ رہا ہے تنہا اور اداس بات بات پہ روٹھنے والے! روٹھ گئی تقدیر اب بن باسی بال بکھیرے بیٹھا ہے دلگیر اب مقتول کی گردن ہے اور قاتل کی تلوار سری نگر کے خون سے لوگو! جہلم ہے گلنار....جناب شیخ عبدالله وقت پڑے پر مولوی ملاں حجروں میں جاسوئے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ، دیکھ کبیرا روئے
482 کہاں گئے احرار، کدھر ہیں قوم کے ٹھیکیدار جس کا کھائیں اسی کا گائیں یہ ازلی غذار سُن پر دیسی! گر تو مانے دل کی بات بتاؤں مرجاؤں پر بھیک نہ مانگوں ، ہاتھ نہ یوں پھیلاؤں بھیک منگوں کی ٹولی بولی آئے ہو بڑے غیور ان داتا کے دان کو کیسے کر دیں نامنظور مانگیر کے بیٹے ہیں سیہ، نیو کی اولاد لالہ جی کے خوف سے رورو کرتے ہیں فریاد جان گئی، عزت لٹوائی، شرم نہ رہ گئی کوئی سکھوں کو داماد بنایا، ہندو کو بہنوئی غیرت ہی کو چھوڑ چکے جب بے غیرت انسان کس کی بہن اور کہاں کی بیٹی؟ کیسا پاکستان؟ قسمت پھوٹی ، ہمت ٹوٹی ، ٹوٹ گئی شمشیر بے غیرت کو ناممکن ہے مل جائے کشمیر غور کرو تو موت حیات کے جھگڑے ہیں سب بیچ ماضی بیچا، حال بھی بیچا، مستقبل مت بیچ جیب ہے خالی ، پیٹ ہے خالی، خالی ہے کشکول جان گئی ، عزت مت جائے ، عزت ہے انمول تم محمود کے بیٹے ہو اور احمد کے فرزند خون کے دھبے خون سے دھوؤ گر ہو غیرت مند
483 بھیک مانگنا چھوڑ ، چلا اب غیرت کی تحریک سری نگر بھی دور نہیں، ہے دتی بھی نزدیک حیدرآباد ہو ، جونا گڑھ ہو یا جموں کشمیر جان گئی پر آن نہ جائے کہہ گئے بھگت کبیر رستم ہو، رنبیر بھی ہو اور بڑے بڑے بلوان عید یہی ہے آن کی خاطر ہو جاؤ قربان یارب! قوم کے رستے میں آیا ہے کیسا موڑ خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں ہیجڑے آٹھ کروڑ ھے نہرو.علی گفتگو.شیخ عبداللہ کی گرفتاری.سری نگر میں فائرنگ.عید الاضحی.پنڈت نہرو کراچی آئے.مسٹر محمد علی سے پاک بھارت جھگڑوں خصوصاً کشمیر کے بارہ میں بات چیت.سادہ لوح اہل وطن سمجھے کہ اب پنڈت نہرو ہنسی خوشی کشمیر کو پاکستان کی جھولی میں ڈال دیں گے.پنڈت نہرو نے جاتے ہی کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر شیخ عبداللہ کا کانٹا نکال باہر کیا.یہ واقعہ عید الاضحی کے دنوں میں پیش آیا.).....اندنوں ملک کی آبادی آٹھ کروڑ تھی.
484 فاصلے ان کے ہمارے درمیاں کہنے کو ہیں لوگ اس نامہرباں کو مہرباں کہنے کو ہیں گھر کے سناٹوں سے محو گفتگو ہیں آہٹیں یہ مکاں خالی نہیں، خالی مکاں کہنے کو ہیں منزلیں کم ہو گئیں، رہتے اکیلے رہ گئے یہ جو قدموں کے نشاں سے ہیں ، نشاں کہنے کو ہیں کچھ بزرگوں کا ادب باقی نہ چھوٹوں کا لحاظ یہ ادب آداب کی باتیں میاں! کہنے کو ہیں ایک ہی حسرت تھی منظر اوہ بھی پوری ہوگئی حسرتوں کے کارواں در کارواں کہنے کو ہیں
485 پس لمحہ جو لمحہ سو رہا ہے یہ سب کچھ اس کی خاطر ہو رہا ہے جسے تم کہہ رہے ہو عہدِ رفتہ وہ رفتہ رفتہ زندہ ہو رہا ہے اسی کا نام ہے شاید محبت یونہی جو سانحہ سا ہو رہا ہے گئی ہے ماں کہیں محفل سجانے مگر بچہ اکیلا سو رہا ہے نظر آنے لگے ہیں چاند چہرے قفس میں کوئی تارے بو رہا ہے جو کھویا تھا اسے پانے کی خاطر جو پایا تھا اسے بھی کھو رہا ہے لہو کے داغ ہیں جو آستیں انھیں اپنے لہو میں دھو رہا ہے
486 اگر چہ منہ سے کچھ کہتا نہیں ہے اسے معلوم ہے جو ہو رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو بن جائے پتھر کہ ہنستا ہے نہ پاگل رو رہا ہے سوا نیزے پہ آ پہنچا ہے سورج دل نادان پھر بھی سو رہا ہے
487 اوڑھ کر آواز کو تقریر آدھی رہ گئی آئنے میں آن کر تصویر آدھی رہ گئی ہو گئے اہل وطن اپنے وطن میں بے وطن عدل اور انصاف کی تو قیر آدھی رہ گئی اب اُتر بھی آفلک سے اے مری جاں کی پناہ! ملک آدھا، وادی کشمیر آدھی رہ گئی کٹتے کٹتے کٹ گئی تنہائیوں میں زندگی گھٹتے گھٹتے زلف کی زنجیر آدھی رہ گئی اس ستمگر کی ہوئی تو قیر اتنی شہر میں شہر بھر کی عزت و توقیر آدھی رہ گئی لوگ ناموس قلم کو بیچ کر بازار میں پوچھتے ہیں کس لیے تاثیر آدھی رہ گئی لٹ گئی عصمت صدا کی ، آبرو آواز کی لفظ بونے ہو گئے ، تحریر آدھی رہ گئی عزتِ سادات ہی مضطر ! نہیں اس عشق میں عزت آواز بھی اے میر! آدھی رہ گئی
488 تری چُپ نامہ بر! اچھی نہیں ہے ہے خبر اچھی نہیں مجھے ڈر ہے بتا پھر اور کیا اچھا ہے واعظ! محبت بھی اگر اچھی نہیں ہے عبث خوش ہو رہے ہو اس کو سن کر خبر اے بے خبر! اچھی نہیں ہے نظر آتا نہیں کیوں چاند چہرہ تری شاید نظر اچھی نہیں ہے لپٹ جا شام سے جا کر لپٹ جا اگر تیری سحر اچھی نہیں ہے قصور اس میں ہو منزل کا بھی شاید اگر یہ رہگزر اچھی نہیں ہے ہیں شب بیداریاں بے کار مضطر ! تری نیست اگر اچھی نہیں ہے
489 شہر کے ہوں یا گاؤں کے بیٹے ہیں سب ، ماؤں کے پاؤں ہیں یہ ماؤں کے ماؤں ٹھنڈی چھاؤں کے چوم رہے ہیں کانٹوں کو چھالے میرے پاؤں کے کوہ طور محبت کے ٹیلے صحراؤں کے روک لیے ہیں شہروں نے رستے میرے گاؤں کے تم مالک ہو شہروں کے ہم ہاری ہیں گاؤں کے فتوے کٹھ ملاؤں کے جوتے میرے پاؤں کے کے باتیں عقل کے اندھوں کی قصے نابیناؤں سب گھائل ہیں فتووں کے اور زخمی ملاؤں کے کچھ آزار اسیری کے کچھ ناسور جفاؤں کے آئیں چند یتیموں کی نالے کچھ بیواؤں کے کچھ آشوب خموشی کا کچھ بحران صداؤں کے کچھ گھپلے نادانوں کے کچھ دھو کے داناؤں کے کچھ ٹھوٹھے مسکینوں کے کچھ کشکول گداؤں کے بھتنے زرد صحافت کے لے پالک آقاؤں کے بھوت پریت جہالت کے مجبوں اور قباؤں کے
490 دشمن مری اذانوں کے قاتل مری صداؤں کے چشم زدن میں خاک ہوئے رجواڑے راجاؤں کے صحن وطن میں اُترے ہیں غول کے غول بلاؤں کے نیت دیکھ کے موسم کی دل ڈولے دریاؤں کے بارے کچھ طوفان رکا ٹوٹے زور ہواؤں کے خوش ہیں پتھر کھا کر بھی عادی نرم غذاؤں کے پھر پردیس سے آئے ہیں جھونکے مست ہواؤں کے یہ سورج اور چاند نہیں نقش ہیں تیرے پاؤں کے میری گلیاں الفت کی میرے شہر وفاؤں کے کل بھی تھے اور آج بھی ہیں ہم محتاج دعاؤں کے ساون ہے ستاری کا موسم نہیں سزاؤں کے ہم نے پیٹر لگائے ہیں سایہ دار دعاؤں کے ایک نظر اس جانب بھی خشنهار خطاؤں کے
491 اک محب وطن پاکستانی کی نصیحت اپنے بچوں سے ملا کو کبھی اتنا تنومند نہ کرنا اللہ کی تم سب کو ہے سوگند ، نہ کرنا غیرت سے ،شرافت سے سیاست سے، وطن سے جو ہم نے کیا تم مرے فرزند! نہ کرنا پنجاب کو پامال کیا، سندھ اجاڑا اب قصد بخارا و سمرقند نہ کرنا ملا کی کبھی نقل نہ کرنا مرے بیٹو! جو کچھ یہ کہے کرنے کو ہر چند نہ کرنا لاکھ سکھائے تمھیں نفرت کے طریقے دروازے محبت کے کبھی بند نہ کرنا اب اور نہ مہلت اسے دینا مرے مالک! اس پر یہ کرم میرے خداوند! نہ کرنا
492 بڑھ جائے ستم حد سے تو پھر آہ و فغاں کو اتنا بھی قوانین کا پابند نہ کرنا گمراہ نہ ہو جائیں کہیں اہل خرد بھی معبود! انھیں اتنا خردمند نہ کرنا کعبے کی طرف جانا اگر جانا ہو مضطر! رُخ جانب اچھرہ و دیوبند نہ کرنا
493 مرے اندر لڑائی ہو رہی ہے مری مجھ سے جدائی ہو رہی ہے خدا خوش ہو رہا ہے آسماں پر خفا ساری خدائی ہو رہی ہے یہ کس کی آمد آمد ہے قفس میں دیکھو صفائی ہو رہی ہے جدھر کیسے ڈھونڈا کرو ہو آئنے میں یہ کس سے آشنائی ہو رہی ہے اُٹھاؤ بوریا بستر یہاں سے یہ محفل اب پرائی ہو رہی ہے مَعَاذَ الله ! قانوناً قفس میں مسلط پارسائی ہو رہی ہے فصیل شہر جاں پر ہر طرف سے چڑھائی پر چڑھائی ہو رہی ہے
494 لیا تھا قرض کچھ نادانیوں کا ادا اب پائی پائی ہو رہی ہے میں کس منہ سے بتاؤں شہر دل کی جو حالت میرے بھائی! ہو رہی ہے حکومت اور ملائے حزیں میں سنا ہے کتخدائی ہو رہی ہے بہت کچھ ہو رہی ہے بحث و تمحیص اگرچہ جگ ہنسائی ہو رہی ہے بقول ان کے بشکل قتل ناحق اسیروں کی رہائی ہو رہی ہے لہو کا رنگ پھیکا پڑ رہا ہے صورت حنائی ہو رہی ہے مگر جہاں مدفون ہیں فتنے پرانے وہیں پر اب کھدائی ہو رہی ہے کبھی مضطر سے کھل کر جنگ ہو گی ابھی تو ہاتھا پائی ہو رہی ہے
495 نشاں ہے جو بے نشان سا ایک اس میں آباد ہے جہان سا ایک اشک ہے یہ جو بے زبان سا ایک یہی اپنا ہے ترجمان سا ایک اس سے لڑتا جھگڑتا رہتا ہوں دل کے اندر حوصلہ کر عطا مجھے یا رب! ہے بدگمان سا ایک میرا دشمن ہے بدزبان سا ایک صبح ہوتے ہی اُڑ نہ جائے کہیں یہ پرندہ ہے مہمان سا ایک شہر جاناں! ہو تیری عمر دراز ہے تو زمیں پر ہے آسمان سا ایک اگر تو ہمیں بھی بتلاؤ یار اُس یار مهربان سا ایک آج مظہر ہے قدرت حق کا وہ جو کل تک تھا نوجوان سا ایک زہے قسمت غلام ہوں اُس کا جو ہے وعدے کا اور زبان کا ایک
496 ایسے لگتا ہے اس کے سائے میں جیسے سر پر ہو سائبان سا ایک وہی لیل و نہار ہیں اُس کے شہر ربوہ ہے قادیان سا ایک موڑ کے بعد آ رہا ہے موڑ ہر قدم پر ہے امتحان سا ایک چوکھی لڑ رہا ہے طوفاں سے جنگجو ہے کوئی چٹان سا ایک بھیجنے والے! بھیج باد مراد اور بادل بھی بادبان سا ایک تم بھی اے کاش کہہ سکو مضطر! شعر کوئی نصیر خان سا ایک
497 ایک لکنت سی ہے زبان میں کیا! پھر کوئی آ رہا ہے دھیان میں کیا! روشنی سی ہے جسم و جان میں کیا؟ چاند اترا ہے قادیان میں کیا! ہو رہی ہے زمین زیر و زبر شور برپا ہے آسمان میں کیا دن میں بھی کچھ نظر نہیں آتا کوئی روزن نہیں مکان میں کیا؟ کتنی معصومیت سے پوچھتے ہیں اور بھی لوگ ہیں جہان میں کیا؟ کس کو آواز دے رہے ہو میاں! کوئی رہتا ہے اس مکان میں کیا“ روح کے فاصلے ہی کیا کم تھے آ گئے جسم درمیان میں کیا
498 فرق اور فاصلہ نہیں کوئی اس جہان اور اس جہان میں کیا؟ قاتل شہر کیوں پریشاں ہے کچھ کہا ہم نے اس کی شان میں کیا لہو کی فرات ہے کر بلاؤں کے درمیان میں کیا
499 دل نہیں آج آشنا دل کا کیا بنے گا مرے خدا! دل کا عشق کے کاروبار میں اے دل! کیا ملا تھا معاوضہ دل کا کر لیے قید چاہنے والے کھینچ کر ہم نے دائرہ دل کا اس کی خدمت میں پیش کیا کرتا ایک دل ہی تو تھا صلہ دل کا دو قدم تک تو دل کا ساتھ رہا پھر نہ کوئی پتا چلا دل کا اس وسیع و عریض دنیا میں کون ہے آپ کے سوا دل کا زندگی کے اُجاڑ رستوں میں مل گیا دل کو راستہ دل کا بات آنے نہ پائی تھی لب پر دل کو پیغام مل گیا دل کا اک زبان ، ایک ہی لب ولہجہ ایک ہی تھا محاورہ دل کا ایک جانب ہیں عقل کے فتوے ایک جانب ہے فیصلہ دل کا دیکھیے! جیت کس کی ہوتی ہے سے ہے مقابلہ دل کا صاف ، شفاف ، مستند، سچا حرفِ آخر ہے فیصلہ دل کا بڑھ گئے فاصلے مکانوں کے دل سے جب فاصلہ بڑھا دل کا اپنے زخموں کو گنتا رہتا ہے آجکل ہے یہ مشغلہ دل کا عقل کیا راستہ دکھائے گی دل پہ چھوڑو معاملہ دل کا میرے اللہ ! کیسے گزرے گا مرحلہ وار مرحلہ دل کا لا سکے گا نہ تاب لذت کی ٹوٹ جائے گا آئنہ دل کا ہ دل سے معاف کر دینا جس قدر ہے کہا سنا دل کا نیت اپنی خراب ہے مضطر! کر رہے ہو عبث گلہ دل کا
500 چھیڑ کر ہم نے سلسلہ دل کا کر لیا خود ہی حادثہ دل کا دل کے چاروں طرف ہیں دیواریں کوئی رستہ نہیں رہا دل کا منتظر ہو گا آئنہ دل کا اپنا چہرہ بھی ساتھ لے جانا دیکھیے! جیت کس کی ہوتی ہے دل سے ہو گا مقابلہ دل کا دل کی مجبوریاں، معاذ اللہ ! اب نہ کرنا کبھی گلہ دل کا اس کا نعم البدل نہیں کوئی ہے تو دل ہے فقط صلہ دل کا عقل منزل کے دھیان میں گم تھی کٹ گیا رہ میں قافلہ دل کا پی لیا مسکرا کے اشکوں کو دیکھ کر ہم نے حوصلہ دل کا کچھ تو ہے درمیان میں حائل کچھ تو ہے دل سے فاصلہ دل کا در دل تک تو دل کا ساتھ رہا پھر نہ کوئی پتا چلا دل کا عقل کیا اس میں مشورہ دے گی دل پہ چھوڑو معاملہ دل کا خیریت سے گزر گیا مضطر! سخت نازک تھا مرحلہ دل کا (مئی، ۱۹۹۵ء)
501 سے اندیشہ ہے گر کر سنبھلنے کا آنسو اب نہیں باہر نکلنے کا اگر خطرہ تھا موسم کے بدلنے کا ارادہ کیوں کیا تھا ساتھ چلنے کا ذرا سی بات پر طوفاں کی نیت کو بہانہ مل گیا تھا رُخ بدلنے کا کھلونے پھینک دو باہر دریچے سے کہ یہ بچہ نہیں اب کے بہلنے کا ابھی تو جل رہی ہے آگ سینوں میں ابھی دیکھو گے منظر گھر کے جلنے کا تمھاری موت کا منظر ہے نادانو ! یہ نظارہ نہیں سورج کے ڈھلنے کا دھرے رہ جائیں گے سب عہد اور پیماں نہیں یہ حادثہ امسال ٹلنے کا
502 نہ جانے پھول کا انجام کیا ہو گا کہ اس کا جرم ہے شبنم نگلنے کا غنیمت ہے ابھی رستے میں کانٹے ہیں ابھی موسم ہے ننگے پاؤں چلنے کا میں اپنے آنسوؤں کو پی بھی سکتا ہوں مجھے آتا ہے فن پتھر نگلنے کا میں اپنی ذات میں محصور ہوں مضطر ! کوئی رستہ نہیں باہر نکلنے کا
503 لگتا ہوں سوچتا ہوں تو تنہا تنہا کھویا کھویا ، بکھرا بکھرا لگتا ہوں گر جاؤں تو بے حیثیت آنسو ہوں رک جاؤں تو بے اندازہ لگتا ہوں ناداں ہوں ، نالائق ہوں اور بے ہنرا جانے کیوں میں اس کو اچھا لگتا ہوں وہ ستچا ہے، کتنا سچا لگتا ہے میں جھوٹا ہوں ، کتنا جھوٹا لگتا ہوں جب سے دیکھا ہے وہ اتنا اونچا ہے پہلے سے بھی بڑھ کر چھوٹا لگتا ہوں دن اس کے اس ہنستی بستی دُنیا میں اپنا لگتا لگتا ہوں ہوں نہ پرایا میرا اس کا ساتھ ہے چولی دامن کا وہ میرا ہے اور میں اس کا لگتا ہوں
504 اس کی خاطر تاج پہن کر کانٹوں کا لذت کی سولی پر بیٹھا لگتا ہوں مجھ کو بھی دو گھونٹ عطا ہوں شبنم کے صحرا ہوں اور کتنا پیاسا لگتا ہوں لگتا ہے یہ گلیاں دیکھی بھالی ہیں پہلے بھی اس شہر میں آیا لگتا ہوں مضطر! میں تخلیق ہوں اپنے خالق کی وہ جانے میں اس کو کیسا لگتا ہوں
505 کوئی شکوہ نہ شکایت نہ گلہ لکھا ہوا ہے تو چہرے پر ہے اس کے شکر یہ لکھا ہوا یہ جو اس کے لب پہ ہے حرفِ دعا لکھا ہوا كاتب تقدیر نے ہے معجزہ لکھا ہوا آسماں پر ہو چکا تھا فیصلہ اس کے خلاف وہ جو تھا اہل زمیں نے فیصلہ لکھا ہوا کوئی تو نازک بدن محو خرامِ ناز ہے ذرے ذرے پر ہے جس کا نقش پا لکھا ہوا دیکھنے ہم بھی گئے تھے مشہد ہجر و فراق ایک ہی عہدِ وفا تھا جا بجا لکھا ہوا ڈھونڈنے نکلے تھے جس کو شہر جسم و جان میں تھا در و دیوار پر اس کا پتا لکھا ہوا آہ وہ اشک ندامت جو اندھیری رات میں ایک آیت کی طرح پلکوں پہ تھا لکھا ہوا
506 حوصلہ ہے تو اسے پڑھیے گا دل کو تھام کے سامنے دیوار پر ہے فیصلہ لکھا ہوا مجھ سے لے کر رکھ لیا واپس مرے ستار نے نامہ اعمال میں تھا جانے کیا لکھا ہوا ایک ہی چہرہ ہے مضطر! ایک ہی حسن تمام آتنه در آئنه در آئنہ لکھا ہوا
507 اشک بر سے تو اس قدر بر سے دُھل گئی ہے زمین اندر سے پرسکوں ہیں اگر چہ باہر سے ڑھے رہے ہیں مکان اندر سے ہو کے ناراض دیدۂ تر سے اشک اکیلا نکل گیا گھر سے کوئی خطرہ نہیں سمندر سے ڈر اگر ہے تو دیدہ تر سے خشک سالی سی خشک سالی آنکھ اور بوند بوند کو ترسے! ہے کوئی اپنا رہا نہ بے گانہ رات پانی گزر گیا سر سے کیا تجھے راستہ دکھائیں گے راہ میں جو پڑے ہیں پتھر سے کچھ تو خوف خدا کرو لوگو! اس قدر جھوٹ اور منبر سے! ہے خبر گرم رات مولانا قرض لینے گئے تھے کافر سے اپنے سائے سے ڈرتا پھرتا ہے محتسب احتساب کے ڈر سے آپ کا اس نے کیا بگاڑا ہے کیوں خفا ہو رہے ہو مضطر سے (۱۹۸۹ء)
508 اصل کی نقل ہوں، نشانی ہوں اک روایت ہوں اور پرانی ہوں میرا محبوب قادیانی ہے بخدا میں بھی قادیانی ہوں نام لیوا ہوں عہد رفتہ کا اور اس عہد کا بھی بانی ہوں جس کو لکھا گیا ہے صدیوں میں میں وہ تازہ تریں کہانی ہوں در حقیقت وہی حقیقت ہے جس حقیقت کا دورِ ثانی ہوں کیسے سمجھاؤں تجھ کو اپنی بات تو زمینی ، میں آسمانی ہوں آئنہ بھی ہے تجھ سے شرمندہ شرم سے میں بھی پانی پانی ہوں میں وہی مرگِ ناگہانی ہوں موت مجھ سے سنبھل کے بات کرے عشق کی آخری نشانی ہوں کس کو حاصل دوام ہے پیارے! تو بھی فانی ہے، ہمیں بھی فانی ہوں لوٹ کر جو کبھی نہیں آتی میں وہ گزری ہوئی جوانی ہوں دشمن جاں کے حق میں بھی مضطر ! جس کو ہر لیکھرام جانتا ہے مہربانی ہی مہربانی ہوں
509 کون کہتا ہے اسے آدھا نگل زندگی کا زہر ہے، سارا نگل چھوٹنے پائے نہ دامن صبر کا گالیاں کھا، مسکرا ، غصہ نگل عشق ہے تو آزما آواز کو شور کو للکار، سناٹا نگل جزو جسم و جان بن جائے ترا اشک کو اتنا نگل، اتنا نگل دیکھ آدھی رات کا آنسو ہوں میں اے شب زندہ! مجھے زندہ نگل تشنگی! اے تشنگی! اے تشنگی! پیاس کے دریا نگل ، صحرا نگل ہاتھ دے کر اک حسیں کے ہاتھ میں ماسوا کا خوف اور خطرہ نگل یا نہ کر اے گل! چمن پر تبصرہ یا ہنسی کو روک لے، خندہ نگل ماپ صدیوں کا سفر لمحات میں اور صدیاں لمحہ در لمحہ نگل عشق ہے تو ہر کسی سے پیار کر امتیاز ادنی و اعلی نگل عہدِ جاناں کا ہے مضطر! فیصلہ عہد کے آزار کو تنہا نگل
510 یہ غزلیں مری، یہ ترانے مرے ملاقات کے ہیں بہانے مرے کھڑے ہیں جو دشمن سرھانے مرے یہ سب مہرباں ہیں پرانے مرے نہ جانے اسے کیوں پسند آ گئے مرے عذر ، حیلے بہانے مرے ہے سب آنا جانا اُسی کے لیے نہ آنے مرے ہیں، نہ جانے مرے اُسی کے لیے ہیں اسی کی قسم یہ جتنے بھی ہیں عاشقا نے مرے نہیں ہیں فقط ماہ اور سال ہی یہ صدیاں مری ہیں، زمانے مرے ندامت کے آنسو ہیں، چن لیجیے یہ تسبیح کے دانے دانے مرے حقیقت بنے دیکھتے دیکھتے کبھی خواب تھے جو سہانے مرے مجھے ڈر کہیں جل نہ جائے چمن اگر جل گئے آشیانے مرے پرندوں کو بھی ہو گی شرمندگی خطا ہو نہ جائیں نشانے مرے میں کچھ بھی نہیں ہوں مگر بعد میں بنا لیجیے گا فسانے مرے ملاقات اب ہو گی مضطر! وہیں سر دار ہیں جو ٹھکانے مرے
511 خام ہوں، گمنام ہوں ، مستور ہوں تیرا کنمی ہوں، ترا مزدور ہوں دور ہے تو اور پھر بھی پاس ہے پاس ہوں میں اور پھر بھی دور ہوں آننه در آننه در.آننه عکس کی آہٹ سے چکنا چور ہوں پوچھتا ہے اشک آدھی رات کا کون ہوں؟ کس کی نظر کا نور ہوں گالیاں کھاتا ہوں، دیتا ہوں دعا آجکل اس امر پر مامور ہوں چین سے بیٹھا ہوں اوج دار پر کیا بتاؤں کس قدر مسرور ہوں شیخ ہوں اور ہوں بھی سیدھے ہاتھ میں وار ہوں اور کس قدر بھر پور ہوں فیصلوں میں بھی ہیں میرے تذکرے اور خبر ناموں میں بھی مذکور ہوں معترض کو ہے فقط یہ اعتراض کس لیے آثار میں مسطور ہوں اس کا دعوی ہے وطن میں رہ کے بھی بے وطن ہوں اور نامنظور ہوں میں تو ہر جھوٹے پہ لعنت بھیج کر اور کچھ کہنے سے بھی معذور ہوں ہوں غلام ابن غلام ابن غلام پھر بھی کہتے ہو کہ کیوں مشہور ہوں جو کبھی منسوخ ہو سکتا نہیں عہد کا مضطر ! میں وہ منشور ہوں (۳۱/جنوری ،۱۹۹۷ء)
512 کہیں گرنا ، کہیں سنبھلنا تھا یہ رفاقت تو عمر بھر کی تھی کام اپنا مدام چلنا تھا عمر بھر ساتھ ساتھ چلنا تھا ان کے کاٹے کا کچھ علاج نہیں آنسوؤں کو نہیں نگلنا تھا اپنے ہمراہ کس طرح چلتے تیرے ہمراہ بھی تو چلنا تھا لفظ یخ بستہ ہو گئے تھے اگر تم کو لہجہ نہیں بدلنا تھا اشک سے بھی نہیں گلہ کوئی یہ ستارہ کبھی تو ڈھلنا تھا پھول تھا وہ تو اس کو پت جھڑ میں گھر سے باہر نہیں نکلنا تھا یہ جو تازہ ہوا کا جھونکا تھا اس کو طوفاں کا رُخ بدلنا تھا با کجھ تھا وہ درخت نفرت کا پھولنا تھا اسے نہ پھلنا تھا ہم بدلتے تو کوئی بات بھی تھی تم کو مضطر! نہیں بدلنا تھا
513 گا حسن مجبور ہو گیا ہو گا یعنی مستور ہو گیا ہو گا عشق بدنام ہو گیا ہو گا اور مشہور ہو گیا ہو کٹ گئی ہوگی پھول سی گردن وار بھر پور ہو گیا ہو گا کوئی الزام تو لگا ہو گا کچھ تو مشہور ہو گیا ہو گا دور تھا آسمان پہلے ہی اور بھی دور ہو گیا ہو گا وہ پرانا مطالبہ دل کا اب تو منظور ہو گیا ہو گا معجزہ اُن کے لوٹ آنے کا چشم بد دور! ہو گیا ہو گا اُن کی ہلکی سی مسکراہٹ سے درد کافور ہو گیا ہو گا گر گیا ہو گا اپنی نظروں میں اشک مغرور ہو گیا ہو گا روح اصرار کر رہی ہو گی جسم مجبور ہو گیا ہو گا بڑھ گیا ہو گا ہجر کا آزار زخم ناسور ہو گیا ہو گا چاند نکلا تو ہر طرف مضطر! نور ہی نور ہو گیا ہو گا (نومبر ، ۱۹۹۶ء)
514 آپ اگر بدگمان اتنے ہیں کس لیے مہربان اتنے ہیں یہ شریفوں کا شہر ہے پیارے! آپ کیوں بد زبان اتنے ہیں اتنے معصوم ہو تو دامن پر داغ کیوں میری جان ! اتنے ہیں بولنا بھی انھیں سکھا دیجے یہ جو اہل زبان اتنے ہیں صلح کیسے ہو عقل کی دل سے فاصلے درمیان اتنے ہیں اے زمان و مکان کے مالک! آپ کیوں لا مکان اتنے ہیں ختم ہونے میں ہی نہیں آتے عشق کے امتحان اتنے ہیں لطف وجود و کرم کے فرقت کے راہ میں سائبان اتنے ہیں کہیں ربوہ ہے اور کہیں لندن ہر طرف قادیان اتنے ہیں وصل در وصل، ہجر اندر ہجر جان ہے تو جہان اتنے ہیں چین سے کٹ رہی ہے زیر زمیں سر پہ بھی آسمان اتنے ہیں ”چاند چہرہ ستارہ آنکھیں“ لوگ حسن کے ترجمان اتنے ہیں عشق کا ایک ہی قبیلہ ہے عقل کے خاندان اتنے ہیں بولتے کس لیے نہیں مضطر! آپ کیوں بے زبان اتنے ہیں
515 بے نظر بھی ہوں ، بے ادب بھی نہیں دیکھ پاؤں اُسے، عجب بھی نہیں اُس سے مل کر بھی اُس سے ملنے کی پیاس ہے اور بے سبب بھی نہیں چاند نکلا، اندھیرے بھاگ گئے شب بھی ہو جیسے اور شب بھی نہیں کھا رہا ہے قفس کو سناٹا کوئی آواز زیر لب بھی نہیں وقت کے بیکراں سمندر میں لیکن شور بھی وہ نہیں، شغب بھی نہیں موت کا منتظر بھی ہے دل کا بیمار جاں بلب بھی نہیں میرے اور تیرے درمیاں واعظ! صلح جب بھی نہیں تھی، اب بھی نہیں وہ بضد ہیں کہ کائنات کا رب ان کا رب ہے، ہمارا رب بھی نہیں تجھ سے ملنے کا شوق ہے مضطر ! تجھ سے ملنے کی کچھ طلب بھی نہیں
516 وصف جمالِ یار پرختم ہے میری شاعری اللہ کرے کہ حسن کی کھیتی رہے ہری بھری شعلہ بغیر سوز کے شعلہ نہیں ہے، رنگ ہے درد بغیر شاعری کیا ہے سوائے دل لگی منزل شوق کے قریب درد کا مارا سو گیا گردِ سفر میں چھپ گئی منزلِ دل کی دلکشی جب بھی دیار عشق میں ہوش کی بستیاں بسیں درد کے شہر اجڑ گئے ، غم کی بساط الٹ گئی تیرے جمال کی حدیں گر دنظر میں کھو گئیں گرد نظر کا واسطہ رُخ بھی دکھا کبھی کبھی اُٹھی ، گھری، برس گئی تیرے جمال کی گھٹا دل کا غبار دُھل گیا، تھم گیا شورِ آگہی ہوش کی دُھند چھا گئی ذہن کے آسمان پر تارے غروب ہو گئے، چاند رہا نہ چاندنی مضطر بے قرار سے کہہ دو کہ شور مت کرے درد جگر کا تذکرہ اچھا نہیں گھڑی گھڑی (۱۹۴۴ء)
517 اک حسیں پر جسم اور جاں وار کر جیت لی تھی ہم نے بازی ہار کر شاید آجائیں وہ ملنے کے لیے دار پر بیٹھے ہیں دھرنا مار کر بول سکتا ہے تو بول اس جبس میں کر سکے تو جرأت اظہار کر جرم ہے گر اعتراف عشق بھی جرم کر اور بر سر دربار کر کر کے دشمن کو تہ دل سے معاف پھر سے لا تقریب کی تکرار کر پیار کے عادی نہ ہو جائیں کہیں ہم حقیروں سے نہ اتنا پیار کر میں بھی پیاسا ہوں کسی کی دید کا میرے اندر بھی ہے اک تھر پارکر کون سچا اور جھوٹا کون ہے فیصلہ خود ہی، بتِ عیار! کر کچھ نہیں تو ہم فقیروں کے خلاف کوئی سازش ہی پس دیوار کر تاب لائے گا کہاں سے دید کی حد فاصل کو نہ مضطر! پار کر ( ۴ / دسمبر ، ۱۹۹۵ء)
518 ناز ہے مجھ کو بھی ان کے پیار پر اور اپنے طالع بیدار پر شیخ بے کردار کے اصرار پر فیصلہ لکھ دیجیے دیوار پر ٹوٹ کر باز واگیں گے صحن میں جسم برسیں گے در و دیوار پر کوئی شکوہ ہے نہ اب کوئی گلہ چین سے بیٹھے ہیں اوج دار پر جھوٹ لکھیے اور لکھتے جائیے اب کوئی قدغن نہیں اخبار پر اب کہیں دیوار کا سایہ نہیں کس کا سایہ پڑ گیا دیوار پر کیا عجب کوئی خبر سچی بھی ہو ڈال لیجے اک نظر اخبار پر عشق کہتا ہے کہ میں تیار ہوں عقل کو انکار ہے کیوں اسے مضطر! یقیں آتا نہیں صبح پر اور صبح کے آثار انکار پر
519 ہے حریم ہجر میں کیسا چراغ روشن جدھر اٹھائیں نظر داغ داغ روشن ہے یہ کون شعلہ قدم اس طرف سے گزرا ہے کہ منزلیں ہیں فروزاں، سراغ روشن ہے یہ کس کی یاد میں راتیں سیاہ پوش ہوئیں یہ کس کے فیض سے دن کا چراغ روشن ہے یہ کس کے حسن سے حصہ ملا ہے پھولوں کو یہ کس کے دم سے چمن داغ داغ روشن ہے یہ کس کی آتش رُخ کو شراب کہتے ہیں یہ کس کے نور سے دل کا ایاغ روشن ہے یہ کس کے ہجر میں روتی ہے رات بھر شبنم یہ کس کے وصل سے گل کا چراغ روشن ہے یہ کس نے نام لیا آفتاب کا مضطر! که روشنی سی ہے دل میں، دماغ روشن ہے
520 کب سے بیٹھے ہو بے یقینے سے موت بہتر ہے ایسے مہکنے لگے گھر مہکنے کوئی آیا نہ ہو مدینے سے وہ تو داتا ہے دے گا ہر صورت تم بھی مانگو کسی قرینے سے آنکھ کھلتے ہی ٹوٹ جائیں گے آنسوؤں کے یہ آبگینے آنے والے! نہ اتنی دیر لگا منتظر ہوں کئی مہینے سے منتظر ہیں اسیر مدت سے آ بھی جا اب اُتر کے زینے سے غم میں یہ معجزہ بھی ہوا لوگ جی اُٹھے اشک پینے عهد زہے قسمت مری، نصیب مرے وہ مخاطب ہیں مجھ کمینے سے ہم فقیروں کو کر دیا زندہ اس نے مضطر! لگا کے سینے سے
521 کیوں اشک آنکھ سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں کہ اُس کو دیکھنے والے سنبھل کے دیکھتے ہیں سنا ہے دید کے قابل ہے اُس کی ہر اک بات یہ بات ہے تو چلو ہم بھی چل کے دیکھتے ہیں“ سنا نا ہے اُس کے لیے آسمان پر ہے شور زمیں پہ سلسلے جنگ و جدل کے دیکھتے ہیں سنا ہے بولے تو الفاظ فرط لذت سے حريم صوت سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں سنا ہے جب وہ سر بزم مسکراتا ہے تو جھوم جاتے ہیں عاشق ، مچل کے دیکھتے ہیں سنا ہے اُس نے کہا تھا یہ ایک آمر سے کہ ہوشیار! فرشتے اجل کے دیکھتے ہیں سنا ہے ہاتھ اٹھائے اگر دعا کے لیے تو حادثات ارادہ بدل کے دیکھتے ہیں
522 سنا ہے اُس کے غلاموں کی بھی غلام ہے آگ یہ بات ہے تو چلو ہم بھی جل کے دیکھتے ہیں سنا ہے بھیگنے لگتی ہے جب شب فرقت تو اشک اشک ستارے پگھل کے دیکھتے ہیں سنا ہے دل کا بدلنا بہت ضروری ہے اگر یہ بات ہے دل کو بدل کے دیکھتے ہیں سنا ہے سوچیں اگر اس کو باوضو ہو کر تو اختلاف کے پتھر پگھل کے دیکھتے ہیں سنا ہے اُس کی فتوحات کا شمار نہیں یہ اور بات ہے اغیار جل کے دیکھتے ہیں سنا ہے دین ہیں اک کالی کملی والے کی یہ معجزات جو فکر و عمل کے دیکھتے ہیں سنا ہے عاشق صادق وہ اک حسیں کا ہے کہ اُس کی نثر میں موسم غزل کے دیکھتے ہیں سنا ہے زندوں میں اونچا ہے سب سے قامت میں کیوں پست قد اسے ناحق اچھل کے دیکھتے ہیں سنا ہے جب وہ ”منالی“ کی سیر کو جائے تو کوہسار کے چشمے اہل کے دیکھتے ہیں
523 سنا ہے اس کے غلام اس کے عہدِ الفت میں کرشمے آج بھی حسن ازل کے دیکھتے ہیں سنا ہے جب بھی وہ جھکتے ہیں اپنے رب کے حضور پکارتے ہی نہیں اُس کو بلکہ دیکھتے ہیں ق عقل کے اندھوں کا کچھ علاج نہیں ہے کہ اب ہلکے ہلکے دیکھتے ہیں سنا ہے مگر سنا ہے سنا ہے آج بھی ارضِ وطن کے فتوی فروش ضمیر صوت و صدا کو کچل کے دیکھتے ہیں نہ جانے کیوں انھیں منزل نظر نہیں آتی وہ راستہ کبھی رہبر بدل کے دیکھتے ہیں گلہ ہے کس لیے ملائے شہر کو مضطر! وفا کے پیر اگر پھول پھل کے دیکھتے ہیں
524 نذر غالب محفل کا دل اداس ہے، ساقی خموش ہے ایسے میں کس کو پینے پلانے کا ہوش ہے نرگس کی آنکھ بیچتی ہے آرزو کے پھول یہ خود فروش بھی بڑی لذت فروش ہے بے ادب نے دست تمنا کیا دراز بزم طلب میں غلغلہ پوش پوش ہے جوشِ طلب سے سینہ گل میں لگی ہے آگ کلچھیں سمجھ رہا ہے چمن سرخ پوش ہے آب حیات، شبنم و گل سے لدی ہوئی ہر شاخ سے بجام ہے، مینا بدوش ہے یہ میرے بس کی بات ہے نہ تیرے بس کی بات میں گر خطا شعار ہوں، تو عیب پوش ہے اپنے وطن میں لڑتا جھگڑتا تھا رات دن مضطر دیارِ غیر میں کتنا خموش ہے
525 نذر غالب بصد ادب و احترام وہ جلال اور وہ جمال کہاں ہم کہاں، عالم مثال کہاں نه فرقت و وصال کہاں خوشی اور وہ ملال کہاں وہ تنگ دستی میں، فاقہ مستی میں عشرت دست بے سوال کہاں ریخ جاناں کو دیکھنے کے لیے چشم شائستہ جمال کہاں ایک لمحہ بسر نہیں ہوتا عزم تسخیر ماہ و سال کہاں اک نظر دیکھنے کی تاب نہیں جرات لمس کا سوال کہاں
526 بات کرتے زبان ہے حرف مطلب کا احتمال کہاں آتنه آرزو کا ٹوٹ گیا خواہش دید کی مجال کہاں اب نہ ہم وہ ہیں اور نہ تم وہ ہو اب وہ پہلے سے ماہ و سال کہاں ایک ہی خواب، ایک ہی تھا خیال اب وہ خواب اور وہ خیال کہاں کہیں غالب تھا اور کہیں تھا میر اب وہ پہلے با کمال کہاں عشق تو معتدل نہیں ہوتا قلب مضطر میں اعتدال کہاں
527 غم ہائے روزگار کی نظروں نے کھا لیاں آنکھوں کی مستیاں، ترے ہونٹوں کی لالیاں وہ : گالیاں جو رات عدد نے نکالیاں کیا جانیے کہ کس لیے ہنس ہنس کے کھا لیاں اپنے تو اپنے غیر بھی کب رات سو سکے رو رو کے ہم نے بستیاں سر پر اُٹھا لیاں اوج فراز دار دییک جلائیے شمعیں سر مژہ تو بہت جگمگا لیاں مٹی میں مل کے زندہ جاوید ہو گئیں وہ صورتیں جو اشک کے شیشوں میں ڈھالیاں اک شکل چاند سی ہمیں کل خواب میں ملی پوچھا جو ہم نے نام تو نظریں جھکا لیاں سائے سے پھر رہے ہیں، کوئی آدمی نہیں گلیاں پرائے شہر کی ہیں دیکھی بھالیاں دھونی رما کے بیٹھ گیا در یار کے مضطر کے کام آ گئیں بے اعتدالیاں
528 جہاں عشق نے برچھیاں ماریاں دھری رہ گئیں شوخیاں ساریاں زمانے میں ضرب المثل بن گئیں مری ہستیاں ، اس کی ستاریاں بس اک لمس سے سر بسر مٹ گئیں سبھی دوریاں، ساری بیماریاں مرے چارہ گر، میرے غم خوار کو پسند آ گئیں میری لاچاریاں لہو رنگ ہے سرزمین وفا یہ کس شوخ نے کی ہیں گل کاریاں وہ خود آ گیا مسکراتا ہوا جسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہاریاں تری پارسائی مبارک تجھے مجھے بکس ہیں میری خطا کاریاں مبارک تمھیں عقل کی عزتیں مجھے مل گئیں عشق کی خواریاں مری سادگی میرے کام آ گئی خجل ہو گئیں تیری عیاریاں حقیروں کو عزت پہ عزت ملی چھنیں سرفرازوں سے سرداریاں کدھر کے ارادے ہیں مضطر ! کہو مری جاں! کہاں کی ہیں تیاریاں؟
529 صدمہ رنگ سے جنگل جاگا دل میں پھر درد سا ہونے لاگا کوئی ساتھی ہے نہ کوئی محرم پار پردیس کو اُڑ جا کا گا پھر وہی شام غریباں آئی پھر سر چشم ستارہ جاگا پھر ہوئی دل کی حکومت قائم عشق حاضر ہوا بھاگا بھاگا پھر کوئی کھوئی ہوئی یاد آئی شہر مسحور میں کوئی جاگا پھر سر بزم نگاراں مضطر ! دل کا دامن ہوا تا گا تا گا
530 پھر شب دیجور دروازه کھلا کا باب اک تازہ کھلا کون کافر ہے، مسلماں کون کون ہے کھلا ہو گیا خلقت کو اندازہ آگ اور پانی گلے ملنے لگے بیربل سے ملا دوپیازہ کھلا کھلے کھلتے اس بت عیار کا ہر قدم پر جھوٹ اک تازہ کھلا پارہ پارہ ہو گئی دل کی کتاب بیچ چوراہے کے شیرازہ کھلا بے خبر شہر عشق کا پہلے ہی رات دن رہ دروازہ کھلا رہتا میں شہید عشق ہوں، رُخ پر مرے اشک اور الہام کا غازہ کھلا ہے چھپ کے پیتا ہوں فقیہ شہر سے کر رہا ہوں ذکر خمیازہ کھلا آسماں سے بات کرنے کے لیے کوئی تو رہنے دو دروازہ کھلا
531 اوڑھ لینے کو بدن بھی ہو گا قبر بھی ہو گی ، کفن بھی ہو گا ہم درختوں سے گلے مل لیں گے ساتھ وہ رشک چمن بھی ہو گا ہم سے چھپنے کی بھی کوشش ہو گی ہم سے ملنے کا جتن بھی ہو گا عشق کی کوئی تو منزل ہو گی کوئی تو اس کا وطن بھی ہو گا کیا خبر تھی کہ دل آواره دار و رسن بھی ہو گا کوئی تو سمجھے گا مضطر کی زباں کوئی تو محرم فن بھی ہو گا
532 آنکھ سے ٹپکا، لہو بن کر جلا اشک آخر اشک تھا، گھر گھر جلا شاہد معنی کو کر رو برو ہم نے دی اظہار کی چادر جلا راستے بھر روشنی ہوتی رہی ننگ محفل یادگار رفتگاں دل جلا ، جل کر بجھا ، بجھ کر جلا ہے اک پتنگا پر جلا معجزہ تھا آنکھ کی برسات کا رہ گیا دل کا دامن بھیگ کر بہتر جلا راہ چلتوں کو بھی ہو گا فائدہ کچھ دیے دیوار کے اوپر جلا بانٹ دے اس آتش سیال کو پھونک دے شہروں کو، گھر کے گھر جلا سحر باطل ہو گیا اک آن میں میرے جلتے ہی وہ جادوگر جلا ہم جلیں یا نہ جلیں اس سے غرض کیوں ہماری آگ میں مضطر جلا
533 نعرہ زن بزم میں جب تو ہوگا کس کو جذبات پر قابو ہو گا ہم چلے جائیں گے اُٹھ کر تنہا بھی فریاد کا پہلو ہو گا رات بھر سیر چراغاں ہو گی کہیں آنسو، کہیں جگنو ہو گا سب تھکے ماندے کریں گے آرام ڈور تک سایہ گیسو ہو گا زیست کی کوئی تو صورت ہو گی چین کا کوئی تو پہلو ہو گا کس کو حاصل ہے دوام اے قاتل! ہم نہیں ہوں گے تو کیا تو ہو گا قیں! تنہائی سے ڈرتا کیوں ہے دشت میں کوئی تو آہو ہو گا دم بخود جس سے ہے شہر مسحور وہ تری آنکھ کا جادو ہو گا جس نے گرتوں کو سنبھالا مضطر ! وہ مرے یار کا بازو ہو گا
534 اپنے سائے سے ڈر رہی ہے رات جی رہی ہے نہ مر رہی ہے رات صبح نو سے ملی ہے پہلی بار جانے اب تک کدھر رہی ہے رات اپنی تصویر دیکھنے کے لیے پانیوں میں اتر رہی ہے رات جانتی ہے پتے ستاروں کے چاند کی ہمسفر رہی ہے رات پھر کسی صبح کے تصور میں لمحہ لمحہ گزر رہی ہے رات جو سورج چڑھا ہے آدھی رات اس کا انکار کر رہی ہے رات پھر ازل اور ابد کے سنگم دبے پاؤں گزر رہی ہے رات آ گئی ہے اُتر کے دھرتی تن تنہا ہے، ڈر رہی ہے رات تم بھی مضطر ! اسے بغور سنو جو اعلان کر رہی ہے رات
535 وہ نہ تنہا مجھ سے کوسوں دور تھا میں بھی ننگے پاؤں تھا ، مجبور تھا میں غزل خواں تھا فقط تیرے لیے بات کیا تھی اور کیا مشہور تھا اس قدر پھولوں کا پتھراؤ ہوا پتھر بھی چکنا چور تھا شرم ނ شیخ بھی آئے تھے چھپ کر دیکھنے پردہ سیمیں رقص حور تھا لمس کی کو سے تھا گدرایا ہؤا دھیان کی ٹہنی پہ جو انگور تھا چل رہے تھے گٹھڑیاں سر پر لیے اس سفر میں ہر کوئی مزدور تھا وہ بھی اپنی ذات میں تھا قلعہ بند میں بھی اپنے آپ میں محصور تھا
536 عشق کے حالات تھے بدلے ہوئے جانے کیا اللہ کو منظور تھا تو بھی جاتا آگ لینے کے لیے تیرے اندر بھی تو کوہِ طور تھا کوئی تو تجھ پر بھی پتھر پھینکتا تو اگر اس عہد کا منصور تھا ہر کوئی عاشق ہے اپنے آپ پر اس سے پہلے تو نہ دستور تھا غیر بھی حیراں تھا اس کو دیکھ کر یار کے رُخ پر جو مضطر! نور تھا
537 خود سے مل کر ہوئے اداس بہت خود سے ملنے کی بھی تھی پیاس بہت ملنے اس کی ہر ایک سے لڑائی ہے دلِ ناداں ہے ناشناس بہت اس کو برگ حیا عنایت کر ابنِ آدم ہے بے لباس بہت تیرے لطف و کرم کے قلزم سے مجھ کو ہیں ایک دو گلاس بہت اوڑھ لیں گے ترے ستم کی ردا ہم کو اتنا بھی ہے لباس بہت تجھ کو چاہوں تو کس طرح چاہوں میں اکیلا ہوں اور حواس بہت میں بھی شاید کہیں نظر آ جاؤں اس ملاقات کی ہے اس بہت داستاں جولکھی ہے یاروں نے مت سنا اس کے اقتباس بہت کبھی ان سے بھی مل صحیفوں میں تیرے اجداد ہیں اداس بہت اب یہیں مستقل رہائش ہے دل کی آب و ہوا ہے راس بہت وہ برا مان جائیں گے مضطر! مت کرو ان سے التماس بہت
538 رات پھر آئی امتحاں کی طرح بن بُلائے بلائے جاں کی طرح آرزوئیں کھڑی ہیں راہوں میں دم بخود گردِ کارواں کی طرح کس کی خوشبو قفس میں پھیل گئی کون گزرا ہے گلستاں کی طرح گھورتی ہیں روش روش آنکھیں نقش پائے گزشتگاں کی طرح اُن کو دیکھا تو دیکھتے ہی رہے لٹ گیا دل بھی نقدِ جاں کی طرح ہم کسی کو برا نہیں کہتے اپنے یارانِ مہرباں کی طرح ہم اشاروں میں بات کرتے ہیں ہم نے ڈالی نئی زباں کی طرح اشک بر سے تو اس قدر برسے دھل گئے دل بھی آسماں کی طرح عمر بھر ہم رہا کیسے مضطر اپنے گھر میں بھی میہماں کی طرح
539 رت بدلی، سب ماند پڑے ہیں ٹم کے کاروبار دل آواره، غم کا مارا پھرتا ہے بے کار چاند چھپا، تارے مرجھائے، نرگس ہے بیمار بوٹا بوٹا جاگ رہا ہے، کلی کلی بیدار پھونک پھونک کر پاؤں رکھے، عقل بڑی ہشیار من مورکھ ہے بات بات پر مرنے کو تیار نیلی، نتھری نتھری اُس کی شیتل جھیل یاد کی رادھا تیر رہی ہے دور کہیں اس پار شب کی آنکھ میں اوس کے آنسو امڈ امڈ کر آئے چاند کے رس میں بھیگ رہے ہیں شبنم کے اسرار سوکھے پتے ناچ رہے ہیں موت کا پاگل ناچ سونی خلوت گاہوں میں ہے پت جھڑ کی جھنکار حسن کی باتیں عشق کے قصے ، جھوٹ ہیں یارو! جھوٹ گل جھوٹا، بلبل بھی جھوٹی، جھوٹا سب سنسار ہار اور جیت کے جھگڑوں سے بالا ہے دل کا کھیل عشق کا پانسہ جس نے پھینکا اس کی جیت نہ ہار
540 ور گیلے پر جسم زخمی ہے اور کون بیٹھا ہے غم کے ٹیلے پر یہ پرندہ کہاں سے آیا ہے اس قدر کیوں ہیں اس کے پہلے پر ہر کسی کو نظر نہیں آتے طائر صبح کے سجیلے پر مرغ آواز اُڑ گیا آخر پھینک کر اپنے نیلے پیلے پر جس نے اپنا لیا ہے ماں بن کر ناز ہے مجھ کو اس قبیلے پر گھر کے برسی ہے تیرے غم کی گھٹا تن کے جلتے ہوئے فتیلے پر بے سہاروں کو بے وسیلوں کو ہے بھروسہ ترے وسیلے پر رکنے پائے نہ یہ اُڑان کبھی ٹوٹ جائیں تو اور سی لے پر شہر آباد ہو گیا مضطر ! ایک صدیوں پرانے ٹیلے پر
541 اے خطیب خوش بیاں! آ دیکھ شانِ امتیاز میرا آقا محرم حق اور تو محروم راز سردی کردار تیرے سجدے رمز الا اللہ سے واقف نہیں سے ہے منجمد تیری نماز نہیں گوسفندان محمد کا کوئی رہبر پاس گرگان کہن بھی کر رہے ہیں سازباز کس مسیح وقت نے پھونکا ہے صور اسرفیل قدسیاں نعرہ زناں آئیند از دور و دراز کیا کسی عیسی نفس نے تُم بِاِذْنِ اللہ کہا کروٹیں سی لے رہی ہے ساقیا! خاک حجاز تیری آہ صبح گاهی نرم ریز و حشر خیز تیرے پاکیزہ نفس سے سنگ و آہن بھی گداز ساقیا! کچھ روز سے تیری نگاہوں کے طفیل بادہ مغرب کا عادی پی رہا ہے خانہ ساز
542 آستانِ شوق کے جلوے ہیں فردوس نظر ساحل اُمید کے پھولوں کی خوشبو دل نواز شش جہت پر چھا گئے اے حسن ! پروانے ترے کر گئی سرمست ان کو تیری چشم نیم باز ہر خطا کاری سے پہلے میرے من کے چور نے وقت پر اکثر سجھائی ہے مجھے وجہ جواز تیری ستاری پہ عیبوں کو پسینے آ گئے ڈھانپ لے رحمت کی چادر میں مرے بندہ نواز ! (۱۹۴۴ء)
543 سنائی ہے یوں پائل کی آواز کہ جیسے ہجر کی شب دل کی آواز آزاد عدد ہے، مانے نہ مانے مری آواز محفل کی آواز ہے صداقت کے سمندر منتظر ہیں کبھی تو آئے گی ساحل کی آواز گر کر بہ گیا خونِ شہیداں فقط آواز قاتل کی آواز ہے میں ضامن ہوں طلوع صبح نو کا مری آواز مستقبل کی آواز میک اٹھیں گے پھر آموں کے جنگل سنائی دے گی پھر کوئل کی آواز کدھر جاؤں، میں خود حیراں ہوں مضطر ! ادھر دل کی، اُدھر محفل کی آواز
544 خواہشوں نے گھڑی ہیں تصویریں ہر قدم پر کھڑی ہیں تصویریں میرے شانوں پہ چڑھ کے مل ان سے تیرے قد سے بڑی ہیں تصویریں غم جاناں ہے یا غم دنیا یا گھڑی دو گھڑی ہیں تصویریں بیچ میں ہے مزار ماضی کا دائیں بائیں پڑی ہیں تصویریں ہر کسی کو نظر نہیں آتیں سامنے جو کھڑی ہیں تصویریں حادثوں کی زباں سمجھتی ہیں چوک میں جو گڑی ہیں تصویریں اور بھی لوگ تھے زمانے میں کیوں ہمی سے لڑی ہیں تصویریں بت شکن بھی ہے، بت فروش بھی ہے دل کی مضطر! بڑی ہیں تصویریں
545 گھڑی دو گھڑی تو بھی رولے میاں! کہیں بجھ نہ جائیں یہ شعلے میاں! وہ کُھل کھیلنے کا زمانہ گیا یہ دن مشکلوں کے ہیں بھولے میاں! یہ فرصت بھی شاید نہ پھر مل سکے جو کھونا ہے جلدی سے کھولے میاں! حنا رنگ ہو جائیں گی انگلیاں رقعہ لہو میں ڈبو کے میاں! کوئی تو بتائے یہ قصہ ہے کیا سردار کوئی تو بولے میاں! مجھے کھینچ لینے دے زنجیر عدل تو کپڑے لہو میں بھگو لے میاں! اگر ہو سکے تو ہمیں بھی سنا جو تُو نے کہے رات ڈھولے میاں! یہ دامن پہ جو خون کے داغ ہیں اگر دھل سکیں ان کو دھو لے میاں! کہاں گم تھے مضطر، کدھر دھیان تھا بڑی دیر کے بعد بولے میاں!
546 آرزو کے اسیر شہزادو! مجھ کو میرے وطن میں پہنچا دو جس کو کہتے ہو آدم خاکی آگ ہی آگ ہے پری زادو! میں بھی مجبور ، تم بھی ہو مجبور میرے آباؤ! میری اولا دو! کچھ تو بولو کہ بے اثر کیوں ہو شب کے نالو! سحر کی فریادو! شیخ و واعظ میں ٹھن گئی ہے آج شہر میں اس خبر کو پھیلا دو راستے کی بھی آبرو رہ جائے میری منزل قریب تر لا دو نوچ ڈالو نقاب پھولوں کے رنگ و بو کے صنم کدے ڈھا دو کبھی عقل و خرد کی محفل میں دل کی آواز کو بھی رستہ دو کبھی اجداد کی صدا بھی سنو عہدِ نو کی ذہین اولادو! نسل آدم کا کچھ شمار نہیں آدمی کوئی ہوں گے ایک یا دو میں شہنشاہِ عشق ہوں مضطر ! مجھ کو کانٹوں کا تاج پہنا دو
547 بے نواؤں کے یار! آ جاؤ غمزدوں کے قرار ! آ جاؤ آج ارض و سما پر بوجھل ہے کہکشاں کا غبار، آ جاؤ چاندنی ہے ، چناب ہے، مے ہے جمع ہیں بادہ خوار آ جاؤ قلب ویراں کے گوشے گوشے سے اُٹھ رہی ہے پکار، آ جاؤ.ہو سکا تو کریں گے مل جل کر کچھ غموں کا شمار، آ جاؤ دور احساس کے کنارے پر چھپ کے بیٹھے ہو، پار آ جاؤ میری تنہائیوں نے چاہا ہے تم کو پھر ایک بار، آ جاؤ مضطر زار کا تمھارے بغیر کون ہے غمگسار آ جاؤ
548 گناہ گار ہوں مولیٰ! مرے گناہ نہ دیکھ نہ دیکھ نامہ اعمال ہے سیاہ نہ دیکھ ہے عشق میری عبادت ، وفا نماز مری مرے گناہوں کو اے شیخ بے گناہ! نہ دیکھ تو بے محابا چلا آ کھلے دریچوں سے خدا کے واسطے آداب رسم و راہ نہ دیکھ کہیں تجھے بھی سفر کا جنوں نہ ہو جائے تو پانیوں میں گرفتار عکس ماہ نہ دیکھ یہ دیکھ درد سے دل بھی گداز ہے کہ نہیں فروغ رنگ رخ پیر خانقاہ نہ دیکھ ان آنسوؤں سے پرے بھی ہیں بستیاں آباد یہ جھلملاتے ستارے ، یہ مہر و ماہ نہ دیکھ زمیں ہے جن کے لیے اب بھی گوش بر آواز ان آہٹوں کی ، اس آواز پا کی راہ نہ دیکھ بُرا ہوں، اچھا ہوں، جیسا بھی ہوں میں تیرا ہوں تری پسند ہے، پیارے! تو دیکھ خواہ نہ دیکھ لوگ محرم اسرار غم نہیں مضطر تو آہ آہ نہ دیکھ ان کی واہ واہ نہ دیکھ
549 یاد کی ہے ہے اور پی سی ہے چشم ساقی جھکی جھکی سی ہے پایا پا لیا کچھ تم کو پا کر بھی کچھ کمی سی ہے ہم بھی احباب سے نہیں ہیں خوش ان کو بھی ہم سے دشمنی سی ہے کہہ دیا کیا صبا نے پھولوں سے رُخ پہ گلھیں کے برہمی سی ہے یاد آئی ہے کوئی بزم طرب پھول کی آنکھ شبنمی سی ہے اُٹھیں، ٹکرائیں، جھک گئیں نظریں اک خطا جیسے باہمی سی ہے کے سائے میں سو گئی شبنم نیند کی گود ریشمی سی ہے رات رویا نہ ہو کہیں مضطر ریگ صحرا میں کچھ نمی سی ہے (۱۹۴۰ء)
550 ان آنکھوں میں جو ہلکی سی لالی ہے موہ کا میلہ ہے، دل کی دیوالی ہے جینا بھی گالی، مرنا بھی گالی ہے نے یہ خلعت خود ہی سلوا لی ہے کثرت کی بندوق کی یہ جو نالی نادانو ! تم پر ہی چلنے والی ہے ہے جاگ کہ پیار کا سورج چڑھنے والا ہے دیکھ کہ اب انکار کا ترکش خالی ہے کس نے دستک دی ہے اس سناٹے میں باہر جا کر دیکھو کون سوالی ہے ان سے ملے بغیر نہ واپس جاؤں گا میں ہوں آج اور اس روضے کی جالی ہے عملوں کی گوں کس کا بیڑا پار ہوا مضطر ! یہ سب تیری خام خیالی ہے
551 وہ بے اصول اگر با اصول ہو جائے فقیہ شہر کا فتویٰ فضول ہو جائے خدا کرے کہ وہ بندہ بنے، خدا نہ بنے خدا کرے کہ کوئی اس سے بھول ہو جائے اسے بھی عکس نظر آئے اپنے چہرے کا اسے بھی آنکھ کی قیمت وصول ہو جائے عجب نہیں ہے کہ میری خطاؤں کے باوصف تری دعا مرے حق میں قبول ہو جائے میں تیری یاد سے بہلا لیا کروں دل کو جو بیٹھے بیٹھے طبیعت ملول ہو جائے اگر ہو اذن تو اس جانِ ناتواں کی طرح مرا بدن بھی ترے در کی دھول ہو جائے ترے خیال کی خوشبو کچھ اس طرح پھیلے یہ خار خارقفس پھول پھول ہو جائے یقیں نہ آئے گا مضطر! ابولہب کو کبھی کہ اس کا اپنا بھتیجا رسول ہو جائے!
552 ایسا نادان تو دیکھا نہ سنا تھا پہلے جو برا بن نہ سکا، بن گیا اچھا پہلے وہ جو انکار کی آیا ہے علامت بن کر نے لکھ رکھا تھا اس شوخ کا حلیہ پہلے ہم بھی ”احباب سے ملنے کے لیے ہیں بے تاب کوئی تو ان کی طرف سے ہو اشارہ پہلے
553 حصہ فارسی
554
555 اے کہ تُو بندہ خدا شده ای از همه بندہا رہا شده ای شیخ زهدت را خوب می دانم پیر گشتی و پارسا شده ای وقت جلوه نقاب می پوشی بندہ پرور مگر خدا شده ای تو زِ روزِ ازل حسین استی تو نه امروز خوش نما شده ای چشم بیدار را شب فرقت اشک در اشک آئنه شده ای راه گم کرده محبت را دشت در دشت رہنما شده ای ہم ربودی قرار ما از دل هم سکون و قرار ما شده ای تا حسینی دگر پدید آید ہمہ تن شوق کربلا شده ای تو بہ صحرائے اعظم جاں را ابر و بارانِ جانفزا شده ای من نه پرسم چرا محمد علی در تپ عشق مبتلا شده ای یہ تک بندی زمانہ طالب علمی میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک طرحی مشاعرے میں پڑھی گئی.صدارت محترم عبدالمجید سالک مرحوم نے فرمائی.
556 دلم از آرزو بیگانه گردید که دزد عقل صاحب خانه گردید رو شستم ہمہ وابستگی ہا عیارم خلق را پیمانه کردید عطا کن رشته محکم صفاتے که تسبیح ما دانه دانه گردید نمی دارم گله از آه خویشم تف آہم چراغ خانه گردید سر محفل مکن این راز را فاش چرا آن آشنا بیگانه گردید تو یک اشک ندامت مرحمت کن که تن از تشنگی ویرانه گردید مپرس از شمع بر روئش نظر کن که پروانه چرا پروانه گردید بترسد ز آب پیچو سگ گزیده دل مضطر مگر دیوانه گردید
557 حصہ پنجابی
558
559 اتھاں دی رکھوالی رکھ عینک بھانویں کالی رکھ جیویں رات بھنیری اے دل دا دیوا بالی رکھ اتوں راون نچین دے وچوں رام دوالی رکھ غصہ، گلا، کام، کروده اپنے سپ نہ پالی رکھ اگو یار ناں یاری لا دشمن پینتی چالی رکھ چناں دل دیاں گلاں نوں گلیں باتیں ٹالی رکھ مضطر! منزل آ پیجی جوڑی کھول پنجالی رکھ
560 ٹردا جاویں سدے ہتھ سیانے اگو مت شالا اینویں ویں نہ گھول تیری میری اگو رت سے کھے ویری تیرے ویری تیرے پینج نہ ست دھنگا کھا کے سدھا ہویا گے نوں راس آ گئی کت سا موریاں توں سدا آیا اٹھ دھتے ہن سوت نہ گت چت نہ چیتے وانگ بریتے انبر ڈگی چھت اوٹھاں والے لاہ کے لے گئے ہری ٹاہنیاں ، کچے پتّ دنیا ہنجو رووے مضطر ! میں روواں اُبلدی رت
561 چناں! دے تیری چاننی، تاریا! وے تیری لو چن پکاوے روٹیاں تے تارا لوے کنسو اسیں سائے شکر دوپہر دے، سانوں کندھاں لیا لکو سانوں یار نے جتھے آکھیا اسیں اوتھے رہے میں کراں تے کلی کی کراں؟ کدے ہست پواں، کدے رو کدے چرخہ اُٹھ کے ڈاہ لواں، کدے چکی دیواں جھو اج لہراں کھاون پیندیاں، آج بھکتھا گھمن گھیر توں بیٹری ٹھیل مہانیاں! جو رب کرے سو ہو اسیں ہس ہس عمر لنگھا لئی، تینوں شک نہ دیتا بین جو زخم سی تیرے ہجر دے اوہ تیتھوں لئے لکو سوچاں دے تنبو تان کے اسی ویلا لیا لنگھا یاداں دے تاگے کت کے امیں ہنجو لئے پرو سبھناں دے سانجھے رانجھناں! توں جانویں کی بڑے راہ ترا عاشق کل جہان اے، ترے عاشق اک نہ دو
562 میں سورج ادھی رات دا ، مرے برفاں چار چوفیر مری اگ تاں آگے بجھ گئی، مرا نور نہ میتھوں کھو کل تاریاں ہیٹھ کھڑو کے میں مضطر ! ادھی رات جد کھڑکی کھولی وقت دی آئی صدیاں دی خشبو
563 ہنجواں دی فصل پچھیتی اے تینوں وڈھن دی کیوں چھیتی اے کرماں والی کھیتی اے ایید اه کھیتی خصماں کیتی اے نہ ایہہ تھکدی اے نہ ایہہ جھکدی اے تیری دھن زبان دی ریتی اے پھر سُفنے دے وچ لگ چھپ کے کوئی آیا اچن چیتی اے من مورکھ دا عتبار نہ کر ایه مورکھ گھر دا بھیتی اے من ویلا هستن کھیڈن دا عمر وی بنتی تیتی اے مضطر لكدا پھر دا اے فیر دل تے پئی ڈکیتی اے (۱۹۵۰ء)
564 گولی آں میں تیرے در دی آن کھلوتی ڈردی ڈردی چھوٹے وڈے مینے مارن نہ میں جیوندی، نہ میں مردی اج میری کوئی قدر نہ قیمت دال برابر مرغی گھر دی جے میں دل دا حال سنانواں مینوں آکھن اینویں کردی ایہہ دنیا اے کرنی بھرنی ناں میں کر دی، ناں میں بھر دی اج دشمن نیں میرے سجن اج بے درد میں میرے دردی اوڑک قبریں ڈیرا ڈیرا لایا پہن لئی مٹی دی وردی ایه ایید مٹی درداں دا دارو مئی اے تیرے در دی متھے وٹ نہ پایا مضطر ! ہس کے سہ لئی گرمی سردی
565 ناں تیرے کچھ ہتھ، ناں پلے اینویں کرنا ایں بلے ملے ساڈے ورگے لکھاں پھرن تھلاں وچ ہو گئی اپر تھلے دنیا تسیں ناں اپنی تھاں توں ہلتے لعام لق اجے نہ سانوں مہنا ماریں ساڈے زخم اجے نہیں آتے سانوں ہی کے آکھن لگا فیر نہ آؤناں ساڈے محلّے سونا جا مہنگا ہویا بندے اونے ہوئے سوتے مالک ڈنگر کبھن کر گئے چوراں نے آ ڈیرے ملے سانوں آن کے متاں دیون روس تے امریکہ دے دتے ڈاہڈے ناں ہن یاری لا کے مضطر جی! تسیں کدھر چلے
566 وے توں کول کھلوندیاں جھک گیا ساڈی جان گئی ، تیرا نک گیا اسیں عاجز گلاں کیہ کریئے ساڈا گل کرن دا حق گیا یاراں دے کوڑے ہاسے نوں میں ہسدیاں ہسدیاں پھٹ گیا اسیس چتاں اینویں ہستے سال گل ایتھے آن کے مکدی اے کوئی تھک گیا کوئی اک گیا من تیرے دل وچ کیہہ کیہہ شک گیا اکھاں دا فرش و چھانواں گے جدوں سوہنا ساڈے چک گیا مورکھ آکھے نئیں لگدا میں کہندیاں کہندیاں تھک گیا انج مهنا ماریا حاسد نے جویں کتا بھانڈا ل گیا یاراں دیاں گلاں سُن سُن کے مضطر دا سینہ پک گیا
567 آکھاں وی تے ڈھولنا! بوہا کدی نہ کھولنا اینویں ناں وس مونہوں وی گش بولنا گھولنا دی جا ہن ڈھولنا میں کلی، کوئی کول نا رس کے جاون والیا! تیرے نال کیہہ بولنا کتھے کتھے نہیں لے گیا دل دا اڑن کھٹولنا من وچ ٹھونگے ماردا نگا جيها ممولنا زلفاں وڈھن پیندیاں وکھو وکھ سپولنا بولی کھا کے غیر دی فیر کیہہ ہسناں بولنا اترے نیں ایہہ عرش توں ہنجو نہ ڈوہلنا دل دا دیوا بال کے اپنا آپ پھر ولنا و چون روناں رات دن اتوں ہستاں بولنا چتاں میں کوئی چور سی توں کیوں لیا اڈول ناں چھڈ وے اڑیا ڈھولنا تیرے نال کی بولنا جیہنیں پہلاں بولنا او نہیں گنڈا یار ناں یاری لا کے مضطر فیر کی ڈولنا کھولنا
568 سچ آکھاں تاں بھانبڑ تھے میں ”جھوٹھا ، میرے دشمن ” سچے“ سچیاں نوں جاپن سب بچے سچے سب کتاں دے کناں دے کچے ہم ہما کے ہنجو آئے اکھاں دے بھر گئے چوبچے چن چڑھیا کل عالم تکے تارے بستن دیوا نچے پاگل سوچیں پے مضطر ! شکوہ کیا بچے لنا
569 وے چناں کیتی اے اجیہی گل ساڈے سینے وچ پے گئے نیں سکل وے پار لنگناں تاں نال ساڈے چلن وے چل پین جھناں دا مال دے جے توں منیں تاں میں دساں اک گل وے چن سُورج نہیں دونویں ساڈے ول وے سانوں ہنجواں نے مار مکایا آ کے ہنجواں نوں پا دے ٹھل وے اگ عشقے دی بجھدی جاندی زلف دا پکھا جھل وے لوکی آخدے نیں کملی کملی ساڈی پے گئی اے کملی آن وے سوہنا منگے تاں سواں دیئے جتیاں اسیں پٹھی لہا کے کھل وے
570 میں آں کملی تے اوگن ہاری کیپڑے منہ ناں کراں میں گل وے بیلے وچ نیں شیاں دے ڈیرے کنڈی اتے گناہاں دے جھل دے پینڈا لماں اے تے رات ہنیری وے میں تھی آں توں نال میرے چلت وے ہاڑے پانواں تے پئی گرلانواں وے وچ سفنے سنیپڑا گھل 봄에 بیٹھ کسے نہیں رہنا کوئی آج گیا کوئی جاوے کل وے یاری لا کے ڈاہڈے نال مضطر ! ہن سر تے پیاں نوں جھل وے
571 وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں ! کنڈھے بیٹھ کے اوسیاں پاؤنی آں داغ ہجر وچھوڑے دے کھانی آں کدے ہسدی آں، کدے کر لانی آں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں! ہتھیں جنھیں ایہہ میرا سوال اے گل کراں کیہہ میری مجال اے جگ گوڑا کہ میں ای دیوانی آں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں! رات ہنیری تے چن میرا دور اے چناں دس کیہہ میرا قصور اے؟ جیویں جیوندیاں رہن جوانیاں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں! ماہی پار تے میں آں ارار وے چھڑ بھیڑیا شوکاں نہ مار دے ٹھل جان دے اساں نمانیاں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں
572 آج کنڈھا قرار دا ڈھے گیا پانی دستیاں روہر کے لے گیا غوطے کھانی آں رہڑ دی جانی آں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں! گھڑا کچا تے گھمن گھیر اے چناں آ دی جا ہن کی ڈیر اے آ جا آ وی جا یار جانیاں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں! گھمن گھیر چوں جدوں توں بولدا پنڈا کنبدا ، کالجہ ڈولدا کنڈھا دور تے بیڑی پرانی آں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں! کلی جندڑی، دور دا راسته ای آجا دلبرا ! رب دا واسطه ای رکھاں رکھ لے آج پرانیاں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں!
573 آگے آگ پچھتے پر چھانواں، کدھر جانواں میں گھی میرا یار اکلا، اُڈ جا کانواں ادھی راتیں پنجیں ہاتھیں ہنجو لشکن پرانا، میں ان تارو، ڈب نہ جانواں ثلا سوہنا جا تا سرکارے دھر دربارے اینویں بیٹھی اوسیاں پانواں جی پر چانواں سوہنا جے سُفنے وچ کھل کے پھیرا پاوے واری واری جانواں جنڈری گھول گھمانواں نہ کوئی ساتھی نہ کوئی سنگی، کلم کلی کیہنوں زخم دکھانواں، کیہنوں حال سنانواں کملیاں وانگر ہٹ پٹ تگاں، بول نہ سکاں کیہہ دستاں، کیہہ دسدیاں جھکاں، کیوں شرمانواں لگ چُھپ کے کوئی کرے اشارے عشق منارے تارا وی پیا سینتاں مارے ٹانواں ٹانواں
574 میں کملی، کمزور، نمانی، اوگن ہاری در اوہدے تے روندی جانواں، ہسدی آنواں میں ڈاہڈے دی گولی ، اوہنوں میریاں شرماں ایویں پئی کرلانواں، ایویں پئی گھبرانواں نگی ایدھر ر محل ریت بریتے بگے بجے کھتے اُساراں مضطر ایدھر ڈھانواں
575 ننگے پنڈے چاننی گئی بگا نے پنڈ عاشق بھکتھے سوں گئے رات پرانے پنڈ کیکر دے گل لگ کے آکھے جنڈ کریر کلم کلے رہ گئے اسیں نمانے پنڈ ہولی ہولی شہر نے مٹی لئی خرید وکدے وکدے وک گئے آنے آنے پنڈ منڈیاں گڑیاں پالئے بنگلے شہر لہور ماں پیو موت اُڈیکدے نمو جھانے پنڈ ناں کوئی آنڈھ گوانڈھاے تے نہ کوئی بخن ساق توں وسنیک ایں شہر دا توں کی جانے پنڈ پنڈوں آوے پیار دی تھی تھی وا وسدیاں رہن حویلیاں تے موجاں مانے پینڈ سرگھی ویلے جا گدے ربوے دے وسنیک لوکاں بھانے شہراے تے ساڈے بھانے پینڈ
576 نگھی ، نرم ، نویکلی پنڈاں دی پرتیت سفنے دے وچ جاوڑاں آنے بہانے پینڈ کچے پکے شہر دی ونگی ٹیڑھی سوچ ویندیاں ویندیاں آوڑی زور تکھانے پینڈ تینوں ٹھرک پلاٹ دا، سانوں ویل زمین تیری روزی شہر وچ تے ساڈے دانے پنڈ کندھاں دے گل لگ کے کوٹھے دیسی ڈھا جے مضطر نوں لے گئیوں اج پرانے پنڈ
577 تھک گیا سورج چلدا چلدا بجھ گیا دیوا بلدا بلدا آس دا بوٹا سک نہ جاوے پھلدا پھلدا، پھلدا پھلدا تھک نہ جاویں، اک نہ جاویں پیار دا پکھا جھلدا جھلدا دیکھیں رستہ بھل نہ جاویں کلم کلا چلدا چلدا چھلا سولی وچ جا وجا چھل پیر میں چلدا چلدا ڈاہڈے دے نال یاری لا کے ہن پھردا اے ٹلدا ٹلدا و ہندیاں و ہندیاں بڑھا ہویا منا اکھاں ملدا ملدا اشک نمانا یار پرانا سوچیں پے گیا ڈھلدا ڈھلدا شہر دے کندھاں کو ٹھے ڈھاکے رک گیا راوی چلدا چلدا دُکھاں دے دریانوں پی کے رڑھ گیا کنڈھا ڈھلدا ڈھلدا ہجر دا یین ، دکتھاں دے دانے تھک نہ جاویں دلدا دلدا سوہنا مٹی وچ جا ستا پیار دا پکھا جھلدا جھلدا شالا دیکھیں ڈب نہ جاویں دریانواں نوں ٹھلدا ٹھلدا ہور وی دون سوایا لگے جھلا طعنے جھلدا جھلدا سوہنا سوں گیا سرگھی ویلے دعوت نامے گھلدا گھلدا
578 ہجر دی سولی تے جا چڑھیا وصل دے ولگن ولدا ولدا دل تے داغ سی بدظنی دا کینسر بن گیا گلدا گلدا دل دا کالا نہ ہو جاویں منه تے کالک ملدا ملدا مضطر مٹی وچ جا ستا لگدا چھپدا، ٹلدا تلدا مضطر ورگا کھوٹا سکہ چل جاندا اے چلدا چلدا
579 اضافه ایڈیشن سوم
580
581 تری آنکھوں میں عیاری بہت ہے صداقت کم اداکاری بہت ہے ہے فقیه شهر، درباری بہت اور اس کی سوچ سرکاری بہت ہے مری تکفیر کے فتوے سے تجھ پر حکومت کا نشہ طاری بہت ہے الٹی آنکھ کے ہیں کارنامے کہ سیدھی نور سے عاری بہت ہے میں کیسے مان لوں اسلام تیرا یہ اسلام سرکاری بہت ہے لب چٹا جھوٹ ہے اعلان تیرا و لہجہ بھی بازاری بہت ہے ادھر ہے تیرا توے دن کا وعدہ اُدھر کرسی تجھے پیاری بہت ہے
582 کلاشنکوف کی اور ہیروان کی سنا ہے گرم بازاری بہت ہے ہوں تیرے رتجگے تجھ کو مبارک مجھے سحری کی بیداری بہت ہے تو عادی قتل ناحق کا لیکن ہے خود اپنی جاں تجھے پیاری بہت ہے تخت و تاج ہوں تجھ کو مبارک مجھے سولی کی سرداری بہت ہے مبارک تجھ کو تیری پارسائی مجھے اپنی خطا کاری بہت ہے میں تیری ہاں میں ہاں کیسے ملا دوں دل نادان انکاری بہت ہے میں ہنستا مسکراتا جا رہا ہوں اگر چه زخم بھی کاری بہت ہے خریدو عشق کو، لیکن سنبل کر کہ اس میں چور بازاری بہت ہے ہے جی اٹھا اسلم قریشی خبر لیکن یہ اخباری بہت ہے
583 بتا تو دوں ترے انجام کی بات مگر یہ بات انذاری بہت ہے نہ جانے پھول کا انجام کیا ہو اسے بننے کی بیماری بہت ہے اسیر زلفِ جاناں ہو چکے ہیں ہمیں اتنی گرفتاری بہت ہے عجب کیا جاتے جاتے رک بھی جاؤں اگر چہ اب کے تیاری بہت ہے گزرنے میں نہیں آتا مضطر ہے لمحہ ہجر کا بھاری بہت ہے
584 ایک ماڑا، ایک تگڑا چوک میں کر رہے تھے رات، جھگڑا چوک میں تماشا دیکھنے کے واسطے جمع تھا ہر کولا لنگڑا چوک میں کاٹ کھائی ماڑے نے تگڑے کی ٹانگ تگڑے نے ماڑے کو رگڑا چوک میں مل گئی ماڑے کی عزت خاک میں ڑھے گیا تگڑے کا پکڑا چوک میں فیصلہ پھر بھی نہ مضطر کون ہے مدفون جبڑا چوکہ مضطر ہو سکا میں ایک آمر کی باقیات کا مدفن جو عرف عام میں جبڑا چوک کہلاتا ہے.
585 اس عہد کے آسیب کو کرسی کی پڑی تھی مخلوقِ خدا تھی کہ پریشان کھڑی تھی علماء سوء اس لمحہء بیدار سے جب آنکھ لڑی تھی دن حشر کا تھا اور قیامت کی گھڑی تھی ہم تھے تو فقط تیری طرف محو سفر تھے رستہ بھی خطرناک تھا منزل بھی کڑی تھی ہم عہد اذیت میں اکیلے تو نہیں تھے اُس عہد کی آواز بھی ہمراہ کھڑی تھی اے دیدۂ گریاں! یہ مرے اشک نہیں تھے آیات کی برسات تھی ساون کی جھڑی تھی امسال تو قاتل بھی کسی کام نہ آیا ہر چند کہ اس شوخ سے امید بڑی تھی کیا جانیے کیوں پڑھ نہ سکی فرد عمل کو یہ قوم * سنا ہے کہ بہت لکھی پڑھی تھی
586 عشق کے اعلان کے سو سال نہیں تھے لذت سے لرزتے ہوئے لمحوں کی لڑی تھی ہم لوگ بڑے چین سے بیٹھے تھے بھنور میں تاریخ بھی حیران کنارے یہ کھڑی تھی مضطر پس آواز کوئی تھا جو کھڑا تھا واللہ ہمیں اس سے محبت بھی بڑی تھی
587 بھی وہ عہد کا حسیں بولے جب عرش بولے، بھی زمیں بولے جب وہ بولے تو ساتھ ساتھ اس کے ذره ذره ذره بصد یقیں بولے چاند سورج گواہی دیں اس کی اُس کا منکر نہیں نہیں بولے شور برپا ہے برسردار اک من حسیں مقتل میں بولے اشک ہی تھے جو چپ رہے، یعنی اشک ہی تھے جو بہتریں بولے کرے اپنے جرم کو تسلیم کس لئے مار آستیں بولے ہمارا ہی حوصلہ ہے میاں قتل ہو کر بھی ہم نہیں بولے قتل ناحق کس لئے مضطر چپ رہے آپ، کیوں نہیں بولے
588 جو صحرا میں گل کھلے ہیں میاں گل نہیں ہیں یہ معجزے ہیں میاں کیسے کیسے نشان رحمت کے آسماں سے برس رہے ہیں میاں کبھی روکے سے رک نہیں سکتے محبت کے قافلے ہیں میاں سب گزرتے ہیں کوئے جاناں سے عشق کے جتنے راستے ہیں میاں وہی تم انداز آواز ہے وہی پہلے کہیں ملے ہیں میاں گالیاں سن کے دے رہے ہیں دعا یہ فقیروں کے حوصلے ہیں میاں دیکھئے جیت کس کی ہوتی ہے میرے مجھ سے مقابلے ہیں میاں
589 منزلوں کے ہیں چشمدید گواہ یہ جو پاؤں کے آبلے ہیں میاں ہم انہیں فاصلے نہیں کہتے یہ جو فرقت کے فاصلے ہیں میاں حملہ آور ہے آج دشمن جاں ہم بھی میدان میں کھڑے ہیں میاں منزلیں رو پاس آ گئیں چل کر و قدم بھی نہیں چلے ہیں میاں کر دیئے ہم نے سارے قتل معاف کوئی شکوے نہ اب گلے ہیں میاں سورج اور چاند ہی نہیں مضطر اب ستارے بھی بولتے ہیں میاں
590 امتحاں سے گزرتے ہوئے ہم بھی حاضر ہوئے ڈرتے ڈرتے ہوئے ہجر کی رت میں یہ کس کی یاد آ گئی آپ کیوں رک گئے بات کرتے ہوئے شرم سے ڈوب کر مر گیا معترض ہم امر ہو گئے مرتے مرتے ہوئے اوج قطبین قطبين پر بھی ہیں گرم سفر ننگے پاؤں مسافر ٹھٹھرتے ہوئے سائے انکار کے منجمد ہو گئے گھٹتے گھٹتے ہوئے بڑھتے بڑھتے ہوئے آئنہ دیکھنے کی نہ جرات ہوئی عمر گزری تھی بنتے سنورتے ہوئے چاند سورج بھی ہیں دائیں بائیں کھڑے صبح صادق کی تصدیق کرتے ہوئے
591 کہیں انکار ہی کی سزا تو نہیں فتنوں فتنے ابھرتے ہوئے خود وصل کی رُت میں بھی تم ہو کیوں دم بہ کیوں زباں رک گئی بات کرتے ہوئے مجھ کو تسلیم ہیں ساری گستاخیاں شرم آتی مضطر مکرتے ہوئے
592 برائی زمین و زماں میں نہیں مکینوں میں ہے یہ مکاں میں نہیں ہے ہے تجھے دیکھ کر تیرا انکار کر دے کوئی ت کسی بدگماں میں نہیں ہے وجه ترک تعلق عزیزو! مرے آپ کے درمیاں میں نہیں ہے دھوکا لگا ہے مرے معترض کو کہ وہ معرض امتحاں میں نہیں ہے اگر آپ آ جائیں واپس تو کیا ہے جو ر بوے میں اور قادیاں میں نہیں ہے منتظر ہیں شکاری بڑی دیر سے پرنده مگر آشیاں میں نہیں ہے گلی میں تو چرچا ہے اب بھی اسی کا سنا ہے کہ مالک مکاں میں نہیں ہے
593 فقط دائیں بائیں کا ہے فرق ورنہ کوئی فاصلہ درمیاں میں نہیں ہے فقط شور ہی شور ہے یہ سراسر اگر سوز آہ و فغاں میں نہیں ہے یہ دعویٰ ہے دجال کا اب بھی مضطر دریچه کولی آسماں میں نہیں ہے
594 حادثہ اندر ہی اندر ہو گیا وہ ہنسا اور ہنس کے پتھر ہو گیا بولنا بھی تھا بہت مشکل مگر اب تو چپ رہنا بھی دوبھر ہو گیا ریزہ ریزہ ہو گئی تصویر بھی آئنہ ناراض مل کر ہو گیا ہم ہوئے بدنام اگر اس کے لیے تذکرہ اس کا بھی گھر گھر ہو گیا کی دیوار تو تھی ہی خلاف ماری اخلاقی سایہ بھی اب حملہ آور ہو گیا دل پگھل کر بہہ گئے فرقت کی شب آنکھ کا صحرا سمندر ہو گیا اس قدر اس نے ستایا خلق کو سب کو اس کا نام ازبر ہو گیا
595 دن چڑھے بیمار کو نیند آ گئی زندگی کا مرحلہ سر ہو گیا کس لئے حیران ہیں دشمن مرے معجزہ تھا بار دیگر ہو گیا اب بھی حیرت ہے کہ دل کا مرحلہ اس قدر آسان کیونکر ہو گیا جب سے مضطر کی زباں بندی ہوئی غزل کہنے کا خوگر ہو گیا وہ
596 قبلہ رخ ہو کے با وضو بولے لفظ ڈھل جائے جس کو تو بولے نرم و نازک، حسین، خوشبودار ایک ہی پھول چارسو بولے للهِ الحَمدُ عہدِ الفت میں پانچ کے پانچ خوبرو بولے قدرت ثانیہ کا ہر مظہر عکس در عکس ہو ༤ ہو بولے سلسلہ وار ایک ایک ہی آواز دشت در دشت گو به گو بولے اس کراں تا کراں خموشی میں کون بولے اگر نہ تو بولے کون تیرا ہے تو کہاں سے آیا ہے گفتگو انداز بولے
597 تجھ سے ملنے کے بعد بھی دل میں تجھ سے ملنے کی آرزو بولے میرے اندر بھی بولتا ہے میرے باہر بھی تو ہی تو بولے بولنا بھول جائے دنیا کو مسکرا کر اگر نہ تو بولے مسكرا اگر دول مقتل میں نہ بولوں مرا لہو بولے پھول تو پھول ہے بہر صورت چپ رہے بھی تو رنگ و بو بولے قتل ناحق ، قتل ناحق تک سارا لہو لہو بولے ق یا سنے حوصلے سے میری بات یا نہ مجھ سے مرا عدد بولے بولنے کا جسے بھی دعوی ہو سامنے آئے رو برو بولے
598 مفت کی بٹ رہی ہے جوتوں میں جام بولے نہ اب سبو بولے کٹ گئی آبرو سر اخبار اب نہ عزت نہ آبرو بولے سیکھ لے اگر مضطر بولنا سیکھ بھول کر بھی نہ پھر کبھو بولے
599 میں پہلے دل کی دیواروں کو دھو لوں پھر اس کے بعد ہمت ہو تو بولوں تقاضا کر رہی ہے تن کی مٹی کہ اب زیر زمیں کچھ دیر سو لوں میں اکثر دل ہی دل میں سوچتا ہوں کہ سولی پر بھی بولوں یا نہ بولوں پر مسلسل ہو رہی ہے ہو رہی ہے دل پہ دستک مگر میں ہوں کہ دروازہ نہ کھولوں میں کیوں شکوہ کروں فرقت کی شب کا میں کیوں اس انگبیں میں زہر گھولوں تیری یاد کے آنسو ہیں ان کو چھپا لوں اور پلکوں میں پرو لوں محبت کی زباں آتی ہے مجھ کو میں سب کہہ دوں مگر منہ سے نہ بولوں
600 اگر ہو اذن تو فردِ عمل کو میں چھپ کر آنکھ کے پانی سے دھولوں محبت راز ہے اور سوچتا ہوں کہ میں یہ راز کھولوں یا نہ کھولوں تمہارے نام کا دامن پکڑ کر میں سولی پر بھی گھبراؤں نہ ڈولوں مجھے آتے ہیں آداب جنوں بھی ہنسوں محفل میں تنہائی میں رو لوں میں اپنی سوچ میں دشتِ وفا کا کوئی کانٹا کوئی کنکر چھو لوں یہ بزمِ یار کی خوشبو ہے مضطر اسے میں جسم اور جاں میں سمو لوں
601 30* 小 عہد کا مسند نشیں ہے چا ہے حسیں ہے زمانے میں کہاں تجھ سا حسیں ہے نہیں، ہرگز نہیں، ہرگز نہیں ہے جہاں تو ہے مرا دل بھی وہیں ہے وہیں پر ہے، وہیں پر ہے، وہیں ہے ترے اجداد اک دوجے سے بڑھ کر که تو خود بھی یکے از کاملیں ہے ترے رخ سے اجالا ہے جہاں میں کہ تو اس عہد کا ماہ میں ہے ترے ہمراہ ہے سچی جماعت کہ تو سچوں کا آتا ہے امیں ہے فقط تو قافلہ سالار ہے آج مرا ایمان ہے، میرا یقیں ہے
602 بتاؤں کس طرح خلق خدا کو کہ تو اس عہد کا حصن حصیں ہے تری دہلیز ہے اور میں ہوں پیارے مرا جینا مرا مرنا، یہیں ہے عجب کیا وقت کی رفتار رک جائے مگر ایسا کبھی ہوتا نہیں مجھے خطرہ کرا ہے ہے تو اسی سے تکلف کا جو مار آستیں ہے مئی مجھ کو کھا جائے گی آخر کہ میں اس کا ہوں یہ میری نہیں ہے تو اس کے پاؤں کی ہے خاک مضطر بچھڑ کر جس سے دنیا ہے نہ دیں ہے
603 جہاں پر قادیاں رکھا ہوا وز میں پر آسماں رکھا ہوا ہے کہیں کون و مکاں رکھتے ہوئے ہیں کہیں پر لا مکاں رکھا ہوا ہے محبت کا اطاعت کا، وفا کا سروں پر سائباں رکھا ہوا ہے بہت آسان ہے ان سے ملاقات مگر اک امتحاں رکھا ہوا ہے وہ دل کو مسکرا کر لے گئے تھے خدا جانے کہاں رکھا ہوا ہے کروڑوں چاہنے والے ہیں اس کے مگر اک بدگماں رکھا ہوا ہے تمہارے اپنے جھگڑے ہیں عزیزو! ہمیں کیوں درمیاں رکھا ہوا ہے
604 ترا احسان ہے پیارے کہ مجھ کو بڑھاپے میں جواں رکھا ہوا ہے پرندے جا چکے کب کے شجر سے مگر اک آشیاں رکھا ہوا ہے یہ آدھی رات کا آنسو ہے، تم نے اسے کیوں بے زباں رکھا ہوا ہے زے قسمت اسیروں، بیکسوں کا کوئی تو ترجماں رکھا ہوا ہے مکیں تو جا چکے ہیں کب کے مضطر مگر خالی مکاں رکھا ہوا ہے
605 جب اس نے رخ سے نقاب الٹا تو رک گیا آفتاب الٹا جب آسماں نے نقاب الٹا زمیں ہوئی لا جواب الٹا وہ خلط مبحث ہوا قفس میں سوال الٹا، جواب الٹا جو گھر سے نکلا تھا ٹوکنے کو وہ ہو گیا ہم رکاب الٹا تھا اپنی کثر ناز ان کو میں ہو گیا حساب الٹا سوال تم نے کیا تھا مضطر وہ ہو گئے لاجواب الٹا
606 کچھ تو کرم فرماؤ ناں اتنا یاد نہ آؤ ناں پنے چاہنے والوں سے اتنا بھی شرماؤ ناں فرصت ہو تو چیکے جا بھی رہے ہو ނ سپنے میں میں آ جاؤ ناں کہتے ہو گھبراؤ ناں ہم بھی آتے جاتے ہیں تم بھی آؤ جاؤ ناں عشق اگر دھوکا ہے میاں دھوکا بھی کھاؤ ناں ہجر کی رت میں رو رو رو کر کندھاں کوٹھے ڈھاؤ ناں شور مچا ہے مقتل میں ناحق اپنی کثرت پر تم بھی شور مچاؤ ناں اتنا بھی اتراؤ اذنِ عام ہے کہتے ہیں مضطر تم بھی جاؤ ناں اتراؤ ناں
607 اے شورِ طلب اے آخر شب اے دیدہ نم اے ابرِ کرم خاموش کہ کچھ کہنا ہے گناہ ہشیار کہ چپ رہنا ہے ستم اے حسن مہک ، اے عشق بہک، اے شدت غم کے جام چھلک اے چشم تحیر گل کو نہ تک، بیدار نہ ہو جائے شبنم رستے کی تھکن سے چور بدن مجبور وطن سے دور بدن تو چاہے تو تم اے تیز قدم جو نہ چاہے تو چل تیار ہیں ہم گو برق تبسم کوند چکی پر طور تحیر قائم ہے اے حسن! گرا چلمن کو ذرا کہیں دیکھ نہ لے کوئی نامحرم گلشن میں ہے اک کہرام مچا، موسم بھی ہے سہا سہا سا دامن کو بچا اے بادِ صبا، کانٹے ہیں خفا اور گل برہم اے شمع ازل چل دیدہ و دل کی محفل میں پھر رقص کریں پروانے جنوں سے بے گانے ، یونہی بھول گئے سُر ، تال، قدم مے خانہ ترا آباد رہے، آزاد رہے، دلشاد دو گھونٹ پلا دے منظر کو، تجھے تیرے ہی جو دو عطا کی قسم پلادے منظر نجود (1947)
608 دل ناداں ابھی زندہ بہت ہے اسے امید آئندہ بہت ہے بہت وعدے کئے ہیں اس نے، لیکن جیسا بھی ہے شرمندہ بہت ہے خدا محفوظ رکھے اس کے شر سے مار آستیں زندہ بہت ہے بہار آئی ہوئی آنسوؤں کی ہے فرقت درخشندہ بہت ہے نہیں زلزلوں کی اس کو ہے پروا فصیل شہر پائنده بہت ہے اگر میدان سے بھاگا تو اب کے ابوسفیان کو ہندہ بہت ہے تری تائید شامل ہو تو مالک فقط تیرا نمائنده بہت ہے نظر آتا نہیں اندھوں کو مضطر اگرچہ چاند تابندہ بہت ہے
609 رقص شیطاں ہوا تھا پہلے آسماں پر خدا تھا میں اسے جانتا تھا وہ تم میرا آشنا تھا نے احساں کیا لد بھی بھی بھی پہلے بھی میرا گھر جل گیا تھا پہلے بھی اس کے تیور ہیں اب کے اور ہی کچھ اگر چہ خفا تھا پہلے بھی وہ مجھ سے اب بھی انہیں شکایت ہے مجھ کو ان سے گلہ تھا پہلے بھی اب کے اس کی ہنسی ہے اور ہی کچھ پھول یوں تو ہنسا تھا پہلے بھی ہم فقیروں کو، ہم اسیروں کو اُس نے اپنا لیا تھا پہلے بھی ہے اب لہو میں نہا کے نکلا اشک یوں تو گرا تھا پہلے بھی
610 محروم ہو نہ جاؤ کہیں اس ثواب قسمت میں ہے تو جا کے ملو آفتاب سے لوگ مضطرب ہیں اسی اضطراب سے گزرے گی کیسے اب اگر جاگے نہ خواب سے جب بھی ہلے ہیں ہونٹ وہ نازک گلاب سے کانٹے بھی جیسے ہو گئے ہوں لاجواب سے دل کو یقین تازہ ملا ان کو دیکھ کر میں بال بال بچ گیا یوم الحساب سے نور آسمان سے اترا نہ ہو کہیں بڑھ کر چمک رہا ہے مہ و آفتاب سے زندہ ہے حسن آج بھی اللہ کی قسم! آواز آ رہی ہے مسلسل کتاب سے نور و ظہور قدرت ثانی! خدا گواہ بگڑی سنور گئی ہے ترے انتخاب سے 66 آخر کنند دعوای حُبّ پیمبرم مالک انہیں نجات دے اب اس عذاب سے
611 اجنبی آشنا پھر کوئی حادثہ ہو جائے ہو جائے پھول کا رنگ اڑ نہ جائے کہیں اور خوشبو رہا نہ مجھ کو ڈر ہے کہ فرط لذت سے پیٹر غم کا ہرا نہ ہو جائے دیکھتی آنکھوں ہو جائے برسم دربار پھر کوئی معجزہ نہ ہو جائے فرقت ہو تیری عمر دراز تو بھی جدا نہ ہو جائے با ملاحظه ہشیار کہیں نقشِ پا نہ ہو جائے بے یقینوں کو آ نہ جائے یقیں درد پھر لا دوا نه ہو جائے دل ہی اک یار غار ہے اپنا کہیں بھی خفا نہ ہو جائے اکثریت کے زعم میں مضطر کہیں بندہ خدا نہ ہو جائے
612 ہم نے مانا بہت بڑے بھی ہو آئینوں سے کبھی لڑے بھی ہو؟ وت کا کر رہے ہو صاف انکار موت کے سامنے کھڑے بھی ہو! کبھی چھوٹوں میں ہو بہت چھوٹے اور بڑوں میں بہت بڑے بھی ہو! سچ بتاؤ کے چاہتے کیا ہو؟ چل رہے بھی ہو اور کھڑے بھی ہو! مجموعه عجب اضداد کا ہو یعنی چھوٹے بھی ہو بڑے بھی ہو! شامل حال ہو کبھی سب کے کبھی سب سب سے سے الگ کھڑے بھی ہو! خود ہی عاشق ہو اور خود معشوق خود ہی سولی یہ جا چڑھے بھی ہو چل رہے ہو ازل سے اپنی طرف اور ازل سے یہیں کھڑے بھی ہو سب سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہو کبھی لڑے بھی ہو؟ آئینے سینے سے
613 آہٹوں کا ریلا ہے راه رو اکیلا ہے خاک و خوں ہے خیمے ہیں تن کی جھوٹ گاڑی کو کربلا کا میلا ہے جھوٹ نے دھیلا ہے وہ بھی ایک جھوٹا تھا یہ بھی اس کا چیلا ہے اس ہجوم کے اندر آدمی اکیلا ہے ہر ہر ستم کو جھیلا ہے خوشی کو چکھا ہے ہم نے کھیل فرقت کا اٹھ اذان دے مسکرا کے کھیلا ہے مضطر جاگ فجر ویلا ہے
614 وہ میری ماں ہے اسے اس یقیں سے ملتا ہوں میں جب بھی ملتا ہوں جھک کر زمیں سے ملتا ہوں بلندیوں کا ثناخواں ہوں پستیوں کا امیں میں آسماں سے اتر کر زمیں سے ملتا ہوں وہ دیکھ لیتا ہے میرے اندر کی میں آئینے ނ نہیں ہم سے ملتا ہوں نشیں وہ حرف و صوت کا قاتل پکار کر بولا میں ایک سانپ ہوں اور آستیں سے ملتا ہوں اسی کا بھیجا ہوا ہوں اسی کے کہنے پر جہاں پہ اترا ہوں مضطر وہیں سے ملتا ہوں
615 خدا کے واسطے آہستہ بولو پرندے سو رہے ہیں آشیاں میں فرشتے آ رہے ہیں فوج در فوج نہ تھے یہ معجزے وہم و گماں میں کناروں تک زمیں کے روشنی ہے چڑھا ہے چاند امشب قادیاں میں کھلی ہیں کھڑکیاں اور روشنی ہے کوئی تو جاگتا ہے اس مکاں میں وو مٹا جب فرق اچھے اور بُرے کا عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں
616 ہجر کی رات دن ہے فرقت کا کوئی لمحہ نہیں ہے فرصت کا کے بہر سلام آیا ہے ایک ادنی غلام حضرت کا تیری دلداریاں گنوں کیسے نام لوں کیسی کیسی شفقت کا میں تو گھائل ہوں روز اوّل سے تیری صورت کا تیری سیرت کا داہنے ہاتھ میں ہو فردِ عمل وقت جب آئے میری رحلت کا آسماں پر پیش ہے کا میں ہوں امیدوار مہلت تیرے قدموں میں موت ہو میری ملتمس ہوں میں اس عنایت کا
617 ہیں جڑیں گہری ہیں اور شاخیں گھنی بوڑھے پیڑ قسمت کے دھنی ہیں نہ ڈھے جائیں کہیں ان بارشوں میں بڑی مشکل سے دیواریں بنی ہیں بہت شفاف ہیں اندر لوگ کہ خالی ہاتھ ہیں دل کے عنی ہیں ابھی آیا نہیں وقت رخصت ابھی کچھ روز سڑکیں ناپنی ہیں کیا ہے کہ ان میں جان پڑ جائے بڑے جتنوں سے تصویریں بنی ہیں کسی طوفان کی ہیں پیش خیمہ یہ سر پر بدلیاں کی جو تنی ہیں رنگا رنگ کے ہیں پھول مضطر سپید و سُرخ ہیں اور کاسنی ہیں
618 نہیں آنسو ہی چشم تر سے آگے عجب منظر ہے اس منظر سے آگے محمد مصطفی ہی مصطفی ہیں وہی بہتر ہیں ہر بہتر سے آگے در پہلا بھی ہے اور آخری بھی ہے کوئی در اس در سے آگے مجھے اذنِ حضوری مل گیا ہے میں خود پہنچوں گا نامہ بر سے آگے ره صدق و صفا میں تیرے خادم زہے قسمت کہ ہیں اکثر سے آگے طوفان بلائے ناگہانی گزر جانے کو ہے اب سر سے آگے یہیں روک لیجے گا یہ ریلا ترا گھر بھی ہے میرے گھر سے آگے
619 یہ کیسا شور و غل برپا ہے امشب ہمارے گھر کے بام و در سے آگے محبت کے کھلے ہیں پھول ہر سو عجب موسم ہے چشمِ تر سے آگے ادب گاہ محبت میں کھڑے ہیں سبھی چھوٹے بڑے مضطر سے آگے
620 کیا ہمیں آپ بھی سرکار نہیں چاہتے ہیں یا فقط مفتی دربار نہیں چاہتے ہیں شام ہونے کو ہے اور منزل مقصود مقصود ہے دور عشرت سایۂ دیوار نہیں چاہتے ہیں گھپ اندھیرا ہے مگر عقل کے اندھے اب بھی جانے کیوں صبح کے آثار نہیں چاہتے ہیں آر کے دل میں ہے جو بات وہی تو ہے بات آپ جس بات کا اقرار نہیں چاہتے ہیں لئے عشق کے اظہار سے خائف ہیں آپ آپ کیوں عشق کا اظہار نہیں چاہتے ہیں دعوای عشق اگر سچا ہے پھر کیوں احباب رقص بسمل سر بازار نہیں چاہتے ہیں لذتِ درد میں مضطر نہ افاقہ ہو جائے کے بیمار نہیں چاہتے ہیں روا شہر
621 اور تو دور افق انتظار اٹھا سے غبار اٹھا شور کیا دل کے پار اٹھا جو دل تھا اختیار اختیار اٹھا کر سکے عقل عشق وہ رات ހނ لڑائی انحصار اٹھا دن مسکرانے والا نہ جانے کیوں بے قرار اٹھا
622 حرص , ہوا دا اڑیل گھوڑا اکھوں اتہا گتوں ڈورا پتھر کھا کے پیر وی ہووے سواد وی آوے تھوڑا تھوڑا میں آن در تیرے دی مٹی میں تیری سردل دا روڑا عاشق سچے تے نہ کوئی کالا سُچے نہ کوئی گورا منگتا میں آن در تیرے دا بھر دے میرا کاٹھ کٹورا ایہہ روٹی جلسے دی دی روٹی ونڈ کے کھاویں بھورا بھورا ایہہ وطناں دے ہڈیں بہہ گیا لیڈر تے ملاں دا جوڑا
623 ایدھر پلکس دے چھتر و جن اودھر مارشل لا دا کوڑا پہلاں بجلی مہنگی ہوئی اتوں پیا آئے دا توڑا ایم ٹی اے نوں ویکھ کے مضطر بھل گیا سارا ہجر و چھوڑا
624 جیون جو گیا بھن میرا گا دُکھاں دا تھے تھے، لکھتے لکھے سکھاں وا پیریں چوراں وانگر پھرے پیا اک پر چھانواں انگلیاں پچھلیاں دکھاں دا بڑھا پیل غیر ہرا ہو جاوے گا رہ جاوے گا مان پرانے رکھاں دا لوکی اک دوجے نوں لبھدے پھر دے نیں کھاتا کھول کے اپنیاں اپنیاں دکھاں دا اسیں وی کے تسیں وی کلے او سانوں مجھ اندازہ اے تہاڈیاں بھاکھاں دا تیں وی اوناں، اسی وی دیکھن جاواں گے گھول پرانے دُکھاں دا تے سکھاں دا چھوٹے وڈے ٹچکاں کردے پھر دے نیں میں زخمی پردھاناں تے پر مکتھاں دا چھڈو مضطر کدے تاں کم دی گل کرو اے جھگڑا اے اپنیاں اپنیاں دکھاں دا
625 متفرق اشعار محتاج ہے لفظ تیرے بھی منتظر مفہوم ہے کب کا چاہوں نہ اسے تو کس کو چاہوں محبوب ہے وہ جو میرے رب کا الله طویل کر دے ہے کب کا رحلہ منتظر ہے جس روز تصور میں ملاقات ہوئی تھی برسات کا موسم نہ تھا، برسات ہوئی تھی دن کو بھی ملاقات ہوا کرتی ہے ان سے اُس رات ملاقات گئی رات ہوئی تھی دن رات کیا کرتا ہوں اب ذکر اسی کا جس رات اکیلے میں ملاقات ہوئی تھی
626 تہمت چند ساتھ لے کے زندگی کی زکوۃ لے کے چلے پیاس اتنی شدید تھی اب کے ساتھ نہر فرات لے کے چلے عقل و ہوش و حواس، وہم و گماں کتنے لات و منات لے کے چلے جو کہنا ہے کھل کر کہا جائے ناں اگر کہہ بھی دیں تو سنا جائے ناں یہ دل ہی تو ہے اس کا کیا کیجئے ہے تو آ جائے ناں کہ آنے لگے گلی کوچے ربوے کے ہیں منتظر اسے بھی کہو کہ وہ آ جائے ناں ہرگز وہ خموشی سے نہ انکار سے نکلے جو کام مری جرات اظہار سے نکلے کیا جانیے کیا ان کا ارادہ تھا سرِ شام سائے جو بھرے شہر کی دیوار سے نکلے
627 ☆ فرقت کا چاک اب کے برس بھی نہ رسل سکا میں سنگِ راہ اپنی جگہ سے نہ ہل سکا مضطر کو اس کی شامت اعمال کے سبب اب کے برس بھی اذن حضوری نہ مل سکا (2008) قریب تھا کہ مرا حال مجھ یہ کھل جاتا مرا ضمیر ترازو کے تول تل جاتا نہیں تھی تاب مجھے اپنے اشک عریاں کی سنبھل کے ملتا تو سارا وجود ڈھل جاتا ☆ گھپ اندھیرا بھی بہت زیادہ تھا اندازے سے روشنی لوٹ گئی شہر کے دروازے سے پھول وہ پھول جو محتاج نہیں موسم کا حسن وہ حسن جو مانوس نہیں غازے سے عجمی ہوں نہ میں اعرابی ہوں گرد بادِ رہِ بے تابی ہوں حالت جنگ میں رہتا ہوں سدا احدی ہوں کبھی احزابی ہوں
628 ☆ جو خواب دیکھوں تو خواب اس کا ہو سوال اسی کا جواب اس کا ہو ☆ فراز دار سے اتروں تو کوئی بات کروں زمیں پہ دن کو گزاروں فلک پہ رات کروں خالی ہے جان خالی ہے کھلے ہیں مکان خالی ہے اور بات ہے اس کو آنکھ پڑھ نہیں سکتی ہاتھ کی ہتھیلی پر کچھ لکھا تو ہوتا ہے دل ہے در حبیب ہے اور اذنِ عام ہے اے بے ادب سمبھل یہ ادب کا مقام ہے کہو تم جانور کتنے ہو اور انسان کتنے ہو اگر گننے پر آجاؤں تو میری جان کتنے ہو؟ ☆ پھول مسکرائیں گے تیرے مسکرانے سے اپنا غم چھپالیں گے ہم بھی اس بہانے سے
629 دیده نمناک کا تازہ شمارہ دیکھنا ق قسمت کا سرمژگاں ستارہ دیکھنا خود بخود پاؤں کھنچے جاتے ہیں سولی کی طرف اس بلندی سے ہمیں کس نے پکارا دیکھنا عین ممکن ہے انہیں میں ہو نیا چہرہ کوئی بارہا دیکھے ہوئے چہرے دوبارہ دیکھنا دن دہاڑے پی لیا دریا کا پانی ریت نے آ ملے گا اب کنارے سے کنارا دیکھنا عقل اگر ٹکرا گئی ناحق دلِ نادان سے تم کھڑے ہو کر کنارے پر نظارہ دیکھنا حلقہ کوئے ملامت میں شمولیت کے بعد کیا منافع دیکھنا اور کیا خسارہ دیکھنا رات دن دیتے رہو دستک در فریاد پر زہر فرقت کا نہ ہو جائے گوارا دیکھنا
630 منتظر مت رہنا بزم ناز میں فرمان کا آنکھ کا ارشاد - ابرو کا اشارہ دیکھنا میں غلام ابن غلام ابن غلام میری جانب بھی کبھی مڑ کر خدارا دیکھنا گم نہ ہو جاؤ کہیں آواز کے آشوب میں لفظ کے غم کا نہ مضطر گوشوارہ دیکھنا (الفضل انٹر نیشنل ۰۷ مارچ ۲۰۱۳ء)
پروفیسر چوہدری محمد علی مضطر عارفی آپ 1917ء کو ضلع فیروز پور ( مشرقی ) پنجاب میں پیدا ہوئے.گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم.اے کیا.نوجوانی میں احمدیت قبول کرنے اور پھر ساری عمر سلسلہ کی خدمات بجالانے کی توفیق پائی.1944ء میں جب قادیان میں تعلیم الاسلام کالج کا قیام ہوا تو آپ کو اس موقر تعلیمی ادارے ادارے کے بانی اساتذہ میں شامل ہونے کی سعادت ملی اور کالج میں فلسفہ، نفسیات اور انگریزی زبان وادب کے پروفیسر رہے.بعد میں اسی کالج کے پرنسپل ہو کر ریٹائر ہوئے.آپ ایک طویل عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی کی Senate اکیڈیمک کونسل اور بورڈ آف سٹڈیز (نفسیات) کے ممبر رہے.کالج میں ہوٹل کے علاوہ تیرا کی کشتی رانی، کوہ پیمائی، باسکٹ بال، یو.ٹی.سی اور آئی.اے ٹی سی کے شعبوں کے انچارج اور پاکستان کی قومی باسکٹ بال کے سینئر وائس پریذیڈنٹ رہے.آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے پرائیویٹ سیکرٹری رہنے کا شرف حاصل ہوا.اسی طرح آپ حضور کے غیر ممالک کے سفروں میں بھی ساتھ رہے.ایک عرصہ تک جامعہ احمدیہ میں شعبہ انگریزی کے سر براہ ہونے کے ساتھ ساتھ وکیل وقف نو کے طور پر بھی تحریک جدید میں خدمات سرانجام دیتے رہے.آج کل آپ وکیل التصنیف کے طور پر کام کر رہے ہیں.آپ نے سلسلہ کی
بہت سی کتابوں کا اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا اور مزید کتب کے تراجم کر رہے ہیں.آپ اردو ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور بلند پایہ اور قادرالکلام شاعر ہیں.آپ کا کلام جماعت اور ملک کے ادبی حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.
جاگ اے شرمسار! آدھی رات اپنی بگڑی سنوار آدھی رات یہ گھڑی پھر نہ ہاتھ آئے گی باخبر ، ہوشیار! آدھی رات وہ جو بستا ہے ذرے ذرے میں کبھی اس کو پکار آدھی رات کھلتے کھلتے گھلے گا باب قبول عرض کر بار بار آدھی رات