Ashab-eSidq O Wafa 313

Ashab-eSidq O Wafa 313

تین سو تیرہ اصحاب صدق و وفا

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

قرآن کریم کی سورۃ جمعہ میں درج پیش گوئی کے عین مطابق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعثت ہوئی تو آپ نے احادیث میں درج پیش گوئی کےمطابق اپنی مختلف تصنیفات میں اپنے 313 اصحا ب صدق و صفا کا ذکر فرمایا۔ زیر نظر کتاب میں قابل قدر مؤلفین نے تین سو تیرہ اصحاب پر تحقیق و تالیف کا کام نہایت محنت اور عرق ریزی کے ساتھ کیا ہے اور ان صدق بھری روحوں کے کوائف و احوال جمع کئے ہیں۔ اس کتاب کی تالیف کا آغاز ماہنامہ ‘‘انصار اللہ’’ میں شائع ہونے والے ان مضامین سے ہوا ، جو صحابہ کرام حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی روح پرور اور ایمان افروز یادوں کے بارہ میں شائع کی جاتی رہیں۔ اس قیمتی اور ایمان افروز اثاثہ کو کتابی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

تير بسوتيرة صحاب صدق و وفا

Page 2

تين سوتيرة اصحاب صدق و وفا در اربعین آمده است که خروج مهدی از قریه کدعه باشد: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْرُجُ الْمَهْدِى مِنْ قِرْيَةٍ يُقَالُ لَهَا كَدْعَةٌ وَ يُصَدِّقُهُ اللَّهُ تَعَالَى وَ يَجْمَعُ أَصْحَابَهُ مِنْ أَقْصَى الْبِلادِ عَلَى عِدَّةِ أَهْلِ بَدْرَ بِثَلَاثِ مِائَةٍ وَ ثَلَاثَةِ عَشَر رِجَال وَ مَعَهُ صَحِيفَةٌ مَحْتُومَةٌ أَى مَطْبُوعَةٌ) مؤلفين Y

Page 3

تين سوتيراة اصحاب صدق وصفا 0000

Page 4

۳۱۳ تین سو تیره اصحاب صدق و صفا.$2007 $2011 نام کتاب: طبع اول : طبع دوم:

Page 5

i بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعَوْدِ پیش لفظ ( طبع اول) سورۃ الجمعہ میں حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا ذکر و آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (آیت:۴) میں کیا گیا ہے.یہ بعثت ثانیہ اس جماعت میں مقدر تھی جولَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ یعنی صحابہ کی پہلی مقدس جماعت سے ابھی نہیں ملے.اس کا ذکر صحیح بخاری میں اس طرح ہے.صلى الله عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِندَ النَّبِيِّ لا فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْجُمُعَةِ ( وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ) قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمُ صلى الله يُرَاجِعُهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلاثًا ، وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ ، وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ لا يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الإِيمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ.(جامع صحیح بخاری کتاب التفسير سورة الجمعة حدیث نمبر 4897) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے تو آپ پر سورۃ الجمعۃ نازل ہوئی جس میں آیت وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ کون لوگ ہیں.مگر آپ نے توجہ نہ فرمائی یہاں تک کہ میں نے تین مرتبہ عرض کیا اور ہمارے درمیان حضرت سلمان فارسی بھی تھے آپ نے حضرت سلمان فارسی پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تو اس شخص کی قوم سے رجال یا رجل ایمان کو دوبارہ قائم کر دیں گے.حضرت مسیح موعود و مہدی معہود نے اس پیشگوئی کا ذکر اپنی کتاب انجام آتھم میں فرمایا ہے.آپ زیرعنوان ” ایک پیشگوئی کا پورا ہونا‘ فرماتے ہیں:.چونکہ حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہوگی جس میں اس کے تین سو تیرہ اصحاب کا نام درج ہوگا.اس لئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ پیشگوئی آج پوری ہو گئی.یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے سے اس امت مرحومہ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا کہ جو مہدویت کا مدعی ہوتا اور اُس کے وقت میں چھاپہ خانہ بھی ہوتا اور اس کے پاس ایک کتاب بھی ہوتی جس میں تین سو تیرہ نام لکھے ہوئے ہوتے اور ظاہر ہے کہ اگر یہ کام انسان کے اختیار میں ہوتا تو اس سے پہلے کئی جھوٹے اپنے تئیں اس کا مصداق بنا سکتے.مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی پیشگوئیوں میں ایسی فوق العادت شرطیں ہوتی ہیں کہ کوئی جھوٹا ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اور اس کو وہ سامان اور اسباب عطا

Page 6

ii نہیں کئے جاتے جو بچے کو عطاء کئے جاتے ہیں“.شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اپنی کتاب جواہر الاسرار میں جو ۸۴۰ ھ میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں ” در اربعین آمده است که خروج مهدی از قریه کدعه باشد - قال النبى صلى الله عليه وسلم يخرج المهدى من قرية يقال لها كد عة و يصدقه الله تعالى ويجمع اصحابه من اقصى البلاد على عدّة اهل بدر بثلاث مائة وثلاثة عشر رجالا و معه صحيفة مختومة (اى مطبوعة) فيها عدد اصحابه باسمائهم وبلاد هم و خلالهم یعنی مهدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے ( یہ نام در اصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے ) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار سے برابر ہو گا یعنی تین سو تیرہ ہوں گے اور ان کے نام بقید مسکن و خصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے.اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سو تیرہ نام درج کر چکا ہوں اور اب دوبارہ اتمام حجت کے لئے تین سو تیرہ نام ذیل میں درج کرتا ہوں تا ہر ایک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق وصفا ر کھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضا کی راہوں میں ثابت قدم کرے 6❝ ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 324-325) ۳۱۳ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے ضمیمہ انجام آتھم کے تین سو تیرہ اصحاب صدق و وفا کا ذکر اس سے پہلے آئینہ کمالات اسلام میں بھی کیا ہے.یہ وہ صدق سے بھری ہوئی روحیں ہیں جن کے بارہ میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے خاص احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.میں اس بات کے اظہار اور اس کے شکر کے ادا کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا.میرے ساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں داخل ہونے والے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے.محبت اور اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرز پر رنگین ہیں.نہ میں نے اپنی محنت سے بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں.(فتح اسلام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 35)

Page 7

iii یہ وہ صدق سے بھری ہوئی روحیں ہیں جن کے اوصاف و خصائل کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: فانیاں را مانعی از یار نیست بچه و زن بر سرشان بار نیست عاشقاں در وفا! عظمت مولی فنا غرقه دریائے توحید از آنکه در عشق احد محو و فنا است هر چه زو آید ز ذاتِ کبریاست فانی لوگوں کیلئے کوئی چیز بھی یار سے مانع نہیں ہے.بیوی اور بچے ان کے سر پر بوجھ نہیں ہوتے.عاشق مولیٰ کی عظمت میں فنا ہیں اور وفاداری کی وجہ سے دریائے توحید میں غرق ہیں.جو خدا کے عشق میں فانی اور محو ہے جو کچھ بھی وہ کرتا ہے وہ ذات کبریا کی طرف سے ہے.میہ امر واقعہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کی آمد کے ساتھ وہ عظیم پیشگوئی پوری ہوئی جو حدیث التمی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے حضرت علی حمزہ بن علی ملک الطوسی نے جواہر الاسرار میں درج فرمائی تھی جس کے مطابق حدیث میں بستی کرعہ میں ظہور اور تین سو تیرہ اصحاب کے اسماء کا ایک مطبوعہ کتاب میں ہونا ،اس پیشگوئی کی عظمت اور شان کو ظاہر کرتا ہے.۳۱۳ مؤلفین نے تین سو تیرہ اصحاب پر تحقیق و تالیف کا کام نہایت محنت اور عرق ریزی کے ساتھ کیا ہے اور ان صدق سے بھری ہوئی روحوں کے کوائف و احوال جمع کئے ہیں جو احباب جماعت احمدیہ کے سامنے لائے جار ہے ہیں.فجزاهم الله احسن الجزاء -

Page 8

iv بسم اللہ الرحمن الرحیم دیباچہ (طبع ثانی ) سید نا حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کے روحانی فرزند عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ فرمایا آپ کا مشن دین حق کا احیاء تھا.اس لئے آپ نے اپنے آخرین کے مصداق خدام کو بھی انہی الہی برکات کی خوشخبری دی جود و ر اول میں انصار دین کو عطا ہوئیں.اسی لئے آپ نے فرمایا: ے مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا سورہ جمعہ کی آیت وَ آخَرِینَ مِنْهُمُ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:.اللہ جل شانہ نے اس آخری گروہ کو مِنْهُمُ کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں وہ بھی صحابہ کے رنگ میں ہی ہیں.سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا.اس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے.وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے دیکھا.وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دل آزاری اور بد زبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اُٹھا رہے ہیں جیسا کی صحابہ نے اُٹھایا.وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی.بہتیرے اُن میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں.جیسا کی صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے.بہتیرے ان میں ایسے ہیں جن کو سچی خوا ہیں آتی ہیں اور الہام الہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے.بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے.ان میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یا درکھتے اور دلوں کے نرم اور کچی تقویٰ پر قدم ماررہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی.وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر

Page 9

رہا ہے.اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا.غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اخَرِينَ مِنْهُمُ کے لفظ سے مفہوم ہورہی ہیں.اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ایام اصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 307,306) ہوتا !! رسول اللہ ﷺ کی ایک پیشگوئی کے مطابق آخری دور کی اس بابرکت جماعت آخرین کی ایک تعداد تین سو تیرہ بھی آئی ہے جو اصحاب طالوت اور اصحاب بدر کی مقدس تعداد کے موافق ہے.ہر چند کہ حضرت مسیح موعود کے رفقاء کی تعداد آپ کی زندگی میں ہزاروں تھی.جن میں سے 150 سے زائد کا تذکرہ اصحاب احمد کے مؤلف ملک صلاح الدین صاحب مرحوم در ویش قادیان نے 14 جلدوں میں کیا ہے.زیر نظر کتاب اصحاب صدق و صفا ۳۱۳ میں ان اولین مقدس ہستیوں کے سوانح مرتب کرنے کا اہتمام ہمارے قابل قدر کرم مولانا نصر اللہ خاں ناصر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ ( سابق ایڈیٹر ماہنامہ انصار اللہ ) اور مکرم جناب عاصم جمالی صاحب نے کیا ہے.جو ہماری جماعت پر ایک قرض تھا.اس کی پہلی اشاعت ہمارے قابل احترام سابق صدر انصار اللہ پاکستان صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے عہد میں ہوئی.پہلی مرتبہ یہ کتاب 1000 کی تعداد میں 2007ء میں شائع ہوئی.اب بعض مزید اضافوں اور بعض رفقاء کے تذکرہ کے ساتھ طبع ثانی شائع کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ اسے بابرکت اور نافع الناس بنائے.مؤلفین و مرتبین کو اس کی احسن جزاء عطا فرمائے اور ہمیں ان بزرگ رفقاء کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا ہو، جنہوں نے مسیح و مہدی کے ہاتھ پر بیعت کر کے خدا کی راہ میں اپنا تن ، من ، دھن قربان کر دیا اور زندہ جاوید ہو گئے.آمین.ھے خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

Page 10

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ـ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعَوْدِ عرض حال احمدیت ایک مذہبی تحریک کا نام ہے جس کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم سے 1889ء بمطابق 1306ھ میں رکھی جس طرح دو ہزار سال قبل حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے ذریعہ تجدید و احیاء دین کی تحریک کا ظہور ہوا اور یہ امر واقعہ ہے کہ احمدیت کسی نئے مذہب کا نام نہیں اور نہ ہی حضرت بانی سلسلہ احمد یہ ایسے دعوئی کے مدعی تھے کہ آپ کوئی جدید شریعت لائے ہیں.بلکہ تحریک احمدیت کی غرض و غایت اشاعت دین حق ہے.آپ اصلاح خلق اور تزکیہ نفوس کیلئے آئے اور اس کی خبر سورۃ الجمعہ آیت " میں وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ میں دی گئی تھی.سورۃ الجمعہ کے نزول کے وقت اس آیت کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے امتِ مسلمہ کو یہ نوید سنائی لو كَانَ الايْمَانُ عِنْدَ التَّريَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ اَوْ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلاءِ کہ اگر ایمان ( زمین سے دور ) ثریا ستارہ پر بھی ہوگا تو اسے دوبارہ زمین پر قائم کرنے وجود ظاہر ہوں گے.اس عظیم الشان غلبہ دین کے لئے آپ نے یہ خوشخبری بھی دی كَيْفَ تَهْلِكُ أُمَّةٌ أَنَا فِي أَوَّلِهَا وَالْمَسِيحُ فِي آخِرِهَا ، یعنی میری امت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے کہ میں جس کے ابتداء میں ہوں اور اس کے آخری دور میں مسیح موعود ہوگا اور پھر یہ خبر بھی دی کہ ظہور مہدی اور مسیح موعود کے ذریعہ ہی دین حق کی نشاۃ ثانیہ ہوگی اور اسے دور اول کی شان و شوکت حاصل ہوگی.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی دین حق کی عظمت و شان کے قیام اور باطل دجالی طاقتوں کے خلاف دفاع کیلئے آپ کو تصنیف براہین احمدیہ ( 1880ء تا 1884ء) کے دوران مارچ 1882ء میں وہ تاریخی الہام ہوا جس کا آپکے دعوئی ماموریت سے تعلق تھا اور خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنا مامور کہہ کر مخاطب فرمایا: يَا أَحْمَدُ بَارُكَ اللهُ فِيكَ - مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى - الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنْذِرَ ابَاتُهُمْ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ.....(براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد اول صفحه 265) اے احمد! اللہ نے تجھے برکت دی ہے پس جو وار تو نے دین کی خدمت کے لئے چلایا ہے وہ تو نے نہیں چلایا بلکہ در اصل خدا نے چلایا ہے.خدائے رحمن نے تجھے قرآن کا علم عطا کیا ہے تا کہ تو لوگوں کو ہوشیار کرے جن کے باپ دادے ہوشیار نہیں کئے گئے اور تا مجرموں کا راستہ واضح ہو جائے.لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا کی طرف سے مامور کیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مامور ہونے کا اعلان فرمایا مگر ابھی تک آپ کو بیعت لینے کا اذن نہ ہوا تھا اور آپ بدستور اعلائے کلمہ الحق میں مصروف رہے.پھر 1888ء کے آخر میں آپ نے خدا تعالیٰ سے

Page 11

vii حکم پا کر بیعت لینے کا اعلان فرمایا اور اس کا اشتہار یکم دسمبر 1888ء اور 12 /جنوری 1889ء میں دیا.مارچ 1889ء میں پہلی بیعت لی اور جب احباب نے آپ کے ہاتھ پر تو بہ واخلاص اور اطاعت کا عہد باندھا تو ہر بیعت کنندہ سے یہ اقرار لیا جاتا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.ابتدائی بیعت میں وہی لوگ شامل تھے جو پہلے سے آپ کے زیر اثر اور آپ کی صداقت کے قائل تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس حقیقت کا منجانب اللہ انکشاف ہوا کہ حضرت عیسی علیہ السلام جنہیں عامتہ الناس زندہ آسمان پر خیال کرتے ہیں اور آخری زمانہ میں آمد ثانی کے منتظر ہیں وہ دراصل وفات پاچکے ہیں اور ان کی دوسری آمد کا وعدہ ایک مثیل کے طور پر پورا ہونا تھا اور آپ کو بتایا گیا کہ مثیل مسیح خود آپ ہیں تو اس بارہ میں الہام ہوا کہ : ر مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے وَكَانَ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 406) وَعدُ اللَّهِ مَفْعُولاً اور پھر فرمایا کہ ” مہدی“ اور ”صحیح“ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور آپ اس کے مصداق ہیں تو آپ کے ان دعاوی کے ساتھ مخالفت کا سخت طوفان اٹھا.مگر شدید مخالفت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے پاک نفوس دئے جو ایمان وجاں نثاری میں ایک مثال ٹھہرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس امر کا اظہار یوں فرمایا : میں اس بات کے اظہار اور اس کے شکر کے ادا کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا.میرے ساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں داخل ہونے والے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے محبت اور اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرز پر رنگین ہیں.نہ میں نے اپنی محنت سے بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا (فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 35) کی ہیں.“ اسی طرح ایک دوسری کتاب میں فرمایا :.میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس قدر بنی آدم کی توبہ کا ذریعہ جو مجھ کو ٹھہرایا گیا یہ اس قبولیت کا نشان ہے جو وو خدا کی رضامندی کے بعد ہوتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنیوالوں میں دن بدن صلاحیت اور تقومی ترقی پذیر ہے میں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں.نا پاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں.( حاشیہ ضمیمہ انجام آنقم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 315) آنحضرت ﷺ کے صحابہ کو مشیت الہی سے کثرت کے ساتھ جانی و مالی قربانیاں دینی پڑیں جس سے ان کی شاندار ایمانی حالت کا اظہار ہوا.اب موجودہ دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء کو بھی ایسی قربانیاں دینے کا موقع ملا کہ ان کے ایمانوں کی کیفیت صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ رکھتی ہے اور بلاشبہ وہ جماعت

Page 12

viii اولین کے مشابہ ہیں اور سورۃ الجمعہ کی آیت وَآخَرِيْنَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم کے مصداق ہیں.آخرین کی یہ وہ جماعت ہے جو اخلاقی و روحانی لحاظ سے سخت تاریکی اور ظلمت کے زمانہ میں منصہ شہود میں آئی اور آنحضرت علی اللہ کے بروز کامل حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی روحانی تاثیرات کی بدولت حق و صداقت کی نشان ٹھہری.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان رفقاء کے صدق و اخلاص سے معمور حالات کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے بعض علماء و بزرگان سلسلہ احمدیہ کی توجہ ہوئی اور نہایت روح پرور کتب سیرت و سوانح پر شائع ہوئیں.ابتداء حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم نے کئی رفقاء کے حالات شائع کئے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس کی سیرت ذکر حبیب میں بعض رفقاء کے حالات کو بھی درج کیا.پھر محترم ملک صلاح الدین صاحب مرحوم نے ” اصحاب احمد کے نام سے نہایت قابل قدر کتب تالیف کیں.ایک نمایاں کوشش حضرت صوفی علی محمد صاحب بی اے بی ٹی ادارہ ریویو آف ریلیچز ربوہ نے کتاب In the Company of Promised Messiah کے نام سے شائع کی جس میں بعض بزرگان سلسلہ احمدیہ کی سیرت و سوانح ایک قیمتی اور ایمان افروز تذکرہ ہے.سیرت و سوانح ۳۱۳ / اصحاب صدق وصفا کا آغاز ماہنامہ انصار اللہ میں شائع ہونے والے ان مضامین سے ہوا جو سیرت رفقاء کی روح پر در اور ایمان افروز یادوں کے بارہ میں شائع کئے جاتے رہے.قارئین نے انہیں پسند کیا اور ان صدق وصفا سے معمور وجودوں کے حالات کو با قاعدہ شائع کرنے کی طرف توجہ دلائی چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے تین سو تیرہ اصحاب صدق وصفا کے حالات جمع کئے گئے جواب شائع کئے جارہے ہیں.اسی ضمن انجام آتھم میں مذکورہ پیشگوئی ”جواہر الاسرار کے قلمی نسخہ مؤلفہ حضرت شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی کے حصول کے لئے کوشش بار آور ہوئی جس میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے مقام ظہور ” کدعہ اور اصحاب بدر کے برابر حضرت مہدی معہود کے رفقاء کا ایک مختومہ (مطبوعہ ) کتاب میں ہونے کا تذکرہ بھی ہے جس کا ذکر کتاب ہذا میں ایک تحقیقی مضمون میں کیا گیا ہے.اس کتاب کی تیاری میں محترم مرزا خلیل احمد قمر صاحب، محترم غلام مصباح بلوچ صاحب محترم احمد طاہر مرزا صاحب، محترم حبیب الرحمن صاحب زیر وی، محترم محمد صادق ناصر صاحب لائبریرین خلافت لائبریری کی قابل قدر معاونت ہمیں حاصل رہی.نیز محترم جاوید احمد جاوید مربی سلسلہ احمدیہ، محترم ریاض محمود باجوہ صاحب اور محترم عبدالمالک صاحب سے تعاون حاصل کیا.ان سب احباب کے ہم تہ دل سے ممنون ہیں.جزاهم الله احسن الجزاء.دعاؤں کے از حد محتاج مولفین

Page 13

عرض حال (طبع دوم ) اصحاب صدق و صفا کا طبع دوم جو تین صد تیرہ احباب کرام کے مختصر کوائف کا مجموعہ ہے.احباب جماعت کی خدمت میں پیش ہے.اس ایڈیشن میں پروف کی بعض تصحیحات کی گئی ہیں.اور کئی بزرگان کرام کے کوائف میں مفید معلومات کا اضافہ کیا گیا.بعض احباب نے زبانی و خطوط کے ذریعہ جن اہم اصلاحات کی طرف توجہ دلائی انہیں درست کر دیا گیا ہے.تین صد تیرہ احباب کرام کے کوائف میں بالخصوص ان بزرگان کے حالات میں مزید مواد شامل کیا گیا ہے.نمبر ۳۰،۱۴،۱۰، ۱۲۵،۸۱،۹۹،۵۰،۴۹، ۱۳۱،۱۲۹، ۱۴۰، ۱۵۷، ۱۶۶،۱۶۱، ۱۸۳،۱۸۰،۱۶۸ ، ۲۰۰،۱۹۹،۱۹۷، ۲۴۳،۲۳۴ ، ۲۴۴، ۲۷۹، ۳۰۴،۳۰۱،۲۸۵.علاوہ ازیں مجموعی طور کئی مقامات پر بعض ضروری درستگیاں کی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے.احباب جماعت کی خدمت میں یہ بھی عرض ہے کہ ان اصحاب کے بارہ میں اگر کسی دوست کے پاس مستند معلومات ہوں تو قیادت اشاعت انصار اللہ پاکستان کی خدمت میں ضرور ارسال فرما ئیں تا آئندہ ایڈیشن میں انہیں بھی شامل اشاعت کیا جا سکے گا.طبع ثانی کیلئے مکرم محمدمحمود طاہر صاحب، مکرم چوہدری نذیر احمد خادم صاحب اور مکرم احمد طاہر مرزا صاحب نے مختلف طور پر معاونت کی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.آمین.

Page 14

I نمبر شمار فهرست عناوین اصحاب صدق وصفا صفحہ نمبر شمار عنوان ایک اور پیشگوئی کا پورا ہونا عکس پیشگوئی جواہرالاسرار جواہر الاسرار" کا تعارف اصحاب بدر 3 5 13 وَكَمْ مِنْ عِبَادِ الْرُونِي بِصِدْقِهِمْ 17 عاشقاں در عظمت مولی فنا 1 حضرت منشی جلال الدین صاحب بلانی کھاریاں ضلع گجرات 18 19 حضرت مولوی حافظ فضل دین صاحب 22 کھاریاں ضلع گجرات 3 حضرت میاں محمد دین پٹواری بلانی کھاریاں ضلع گجرات 4 حضرت قاضی یوسف علی نعمانی معہ اہلبیت تشام حصار 5 حضرت میرزا امین بیگ صاحب معه اہلبیت بہالوجی جے پور 22 24 26 6 حضرت مولوی قطب الدین صاحب 26 بد وملی سیالکوٹ 28 7 حضرت منشی روڑ ا صاحب کپورتھلہ حضرت میاں محمد خاں صاحب کپورتھلہ 32 34 و حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ 10 حضرت منشی عبدالرحمن صاحب کپورتھلہ 36 11 حضرت منشی فیاض علی صاحب کپورتھلہ 38 12 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹ 40 13 حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹ 42 عنوان صفحہ 14 حضرت مولوی وزیر الدین صاحب کانگڑہ 44 15 حضرت منشی گوہر علی صاحب جالندھر 45 16 حضرت مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی رہتاس جہلم 45 46 17 حضرت میاں نبی بخش صاحب رفوگر، امرتسر 18 حضرت میاں عبد الخالق صاحب رفوگر ، امرتسر 48 19 حضرت میاں قطب الدین خانصاحب میں گرامرتسر 49 20 حضرت مولوی ابوالحمید صاحب حیدر آباد دکن 50 21 حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم نورد دین صاحب معہ ہر دوز وجہ بھیرہ ضلع شاہ پور 22 حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امر و به ضلع مراد آباد 23 حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم فضل دین صاحب معہ ہر دوز وجہ بھیرہ 51 56 58 24 حضرت صاحبزادہ محمد سراج الحق صاحب جمالی نعمانی قادیانی سابق سرساوی معہ اہلبیت 60 25 حضرت سید ناصر نواب صاحب دہلوی حال قادیانی 26 حضرت صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانوی معہ اہلبیت قادیانی 27 حضرت صاحبزادہ منظور محمد صاحب معہ اہلبیت قادیانی 28 حضرت حافظ حاجی مولوی احمد اللہ خان معہ اہلبیت قادیانی 62 64 65 67

Page 15

II 29 حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا معہ اہلبیت مدراس 30 حضرت میاں جمال الدین سیکھواں گورداسپور معہ اہلبیت 31 حضرت میاں خیر الدین سیکھواں گورداسپور معہ اہلبیت 32 حضرت میاں امام الدین سیکھواں گورداسپور معہ اہلبیت 33 حضرت میاں عبدالعزیز پٹواری سیکھواں گورداسپور معہ اہلبیت 68 69 70 71 72 46 حضرت شیخ شہاب الدین صاحب لود یا نه 92 47 حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب لودیانه 93 48 حضرت منشی حمید الدین صاحب او د یا نه 95 49 حضرت میاں کرم الہی صاحب لو دیا نہ 96 50 حضرت قاضی زین العابدین صاحب خانپور سرہند 51 حضرت مولوی غلام حسن صاحب رجسٹرار پشاور 97 99 52 حضرت محمد انوار حسین خان صاحب ہر دوئی 101 53 حضرت شیخ فضل الہی صاحب فیض اللہ چک 103 54 حضرت میاں عبد العزیز صاحب دہلی 104 34 حضرت منشی گلاب دین رہتاس جہلم 73 35 حضرت قاضی ضیاءالدین صاحب قاضی کوئی 36 حضرت میاں عبداللہ صاحب پٹواری سنوری 37 حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب نومسلم سابق 76 78 55 حضرت مولوی محمد سعید صاحب شامی طرا بسی 104 56 جناب مولوی حبیب شاہ صاحب خوشاب 106 57 حضرت حاجی احمد صاحب بخارا 107 58 حضرت حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک 107 108 59 جناب شیخ نوراحمد صاحب امرتسر لیس دفعدار رسالہ 21 چھاؤنی سیالکوٹ 80 38 جناب مولوی مبارک علی صاحب امام چھاؤنی سیالکوٹ 82 60 حضرت مولوی جمال الدین صاحب سید والہ 110 61 حضرت میاں عبداللہ صاحب ٹھٹھہ شیر کا 111 62 حضرت میاں اسمعیل صاحب سرساوہ 112 39 حضرت میر زانیاز بیگ صاحب کلانوری 84 40 جناب میرزا یعقوب بیگ صاحب کلانوری 84 63 حضرت میاں عبد العزیز صاحب نو مسلم قادیان 64 جناب خواجہ کمال الدین صاحب بی اے 113 41 حضرت میرزا ایوب بیگ صاحب معه اہلبیت کلانوری 48 42 جناب میرزا خدا بخش صاحب جھنگ 87 43 حضرت سردار نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ 44 حضرت سید محمد عسکری خان صاحب سابق اکسٹرا اسسٹنٹ الہ آباد 45 حضرت میرزا محمد یوسف بیگ صاحب سامانه ریاست پٹیالہ 88 90 91 معہ اہلبیت لاہور 65 حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور 114 115 66 حضرت شیر محمد خاں صاحب بھکر ضلع شاہپور 118 67 حضرت منشی محمد افضل صاحب لاہور حال ممباسه 68 حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب گوڑیانی ملازم ممباسہ 118 119

Page 16

III 69 حضرت میاں کریم الدین صاحب مدرس قلعہ سوبھا سنگہ 70 حضرت سید محمد اسمعیل دہلوی طالب علم حال قادیان 121 122 91 حضرت مولوی حسن علی صاحب مرحوم بھاگلپور 146 92 حضرت مولوی فیض احمد صاحب لنگیاں والی گوجرانوالہ 93 حضرت سیدمحمود شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹ 147 71 حضرت با بوتاج الدین صاحب اکو نٹنٹ لاہور 123 94 حضرت مولوی غلام امام صاحب جناب شیخ رحمت اللہ صاحب تا جر لا ہور 124 عزیز الواعظین منی پور آسام 95 حضرت رحمن شاہ.ناگپور صاحب در ڈڑہ 125 73 حضرت شیخ نبی بخش صاحب لاہور 74 حضرت منشی معراج الدین صاحب لاہور 126 ضلع چانده 75 حضرت شیخ مسیح اللہ صاحب شاہجہانپوری 128 96 حضرت میاں جان محمد صاحب مرحوم قادیان 76 حضرت منشی چوہدری نبی بخش صاحب معہ اہلبیت بٹالہ 130 131 77 حضرت میاں محمد اکبر صاحب بٹالہ 78 حضرت شیخ مولا بخش صاحب ڈنگہ گجرات 132 79 حضرت سید امیر علی شاہ صاحب سارجنٹ سیالکوٹ 132 80 حضرت میاں محمد جان صاحب وزیر آباد 133 134 81 حضرت میاں شادی خاں صاحب سیالکوٹ 82 جناب میاں محمد نواب خانصاحب تحصیلد از جہلم 135 83 جناب میاں عبداللہ خان صاحب برا در نواب خان صاحب جہلم 136 4 حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلم 137 85 حضرت شیخ غلام نبی صاحب راولپنڈی 139 86 حضرت بابو محمد بخش صاحب ہیڈ کلرک چھاؤنی.انبالہ 7 حضرت منشی رحیم بخش صاحب میونسپل کمشنر او دهیانه 88 حضرت منشی عبد الحق صاحب عبدالحق کرانچی والا لدھیانہ جناب حافظ فضل احمد صاحب لاہور 141 142 143 144 97 حضرت منشی فتح محمد مع اہلبیت بز دار لیہ ڈیرہ اسمعیل خان 98 حضرت شیخ محمد صاحب...مگی و حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب مرحوم لودیانہ 100 حضرت منشی پیر بخش صاحب مرحوم جالندھر 101 حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب نومسلم قادیان 102 حضرت حاجی عصمت اللہ صاحب اودیانہ 147 148 150 150 152 154 155 158 159 160 103 حضرت میاں پیر بخش صاحب لو دیا نہ 161 104 حضرت منشی ابراہیم صاحب لودیا نہ 162 105 حضرت منشی قمر الدین صاحب لو دیانه 163 163 106 حضرت حاجی محمد امیر خاں صاحب سہارنپور 107 حضرت حاجی عبد الرحمن صاحب مرحوم اور دیا نہ 164 165 166 108 حضرت قاضی خواجہ علی صاحب او د یا نه 109 حضرت منشی تاج محمد خاں صاحب لودیا نہ 110 حضرت سید محمد ضیاء الحق صاحب رو پر 167 111 حضرت شیخ محمد عبد الرحمن صاحب 90 حضرت قاضی امیر حسین صاحب بھیرہ 144 عرف شعبان کابلی 16667

Page 17

180 181 181 182 IV 112 جناب خلیفہ رجب دین صاحب تاجر لاہور 168 113 حضرت پیر جی خدا بخش صاحب مرحوم ڈیرہ دون 169 114 حضرت حافظ مولوی محمد یعقوب خان صاحب ڈیرہ دون 170 129 حضرت قاضی غلام مرتضی صاحب اکسٹرا اسٹنٹ کمشن مظفر گڑھ حال پینشنز 130 حضرت مولوی عبد القادر خانصاحب جمالپور لودہیانہ 115 حضرت شیخ چراغ علی نمبر دار تھہ غلام علی 171 131 حضرت مولوی عبد القادر صاحب خاص لود یا نه 132 حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب مرحوم لاہور 133 حضرت مولوی غلام حسین صاحب لاہور 184 134 حضرت مولوی غلام نبی صاحب مرحوم خوشاب شاہ پور 185 135 حضرت مولوی محمد حسین صاحب علاقہ ریاست کپورتھلہ 187 136 حضرت مولوی شہاب الدین صاحب غزنوی کابلی 188 137 حضرت مولوی سید محم تفضل حسین صاحب اکسٹرا اسٹمنٹ علی گڑھ ضلع فرخ آباد 189 138 حضرت منشی صادق حسین صاحب مختار اٹاوہ 190 190 191 193 193 139 حضرت شیخ مولوی فضل حسین صاحب احمد آبادی جہلم 140 حضرت میاں عبدالعلی موضع عبد الرحمن ضلع شاہ پور 141 حضرت منشی نصیر الدین صاحب لونی حال حیدر آباد 142 حضرت قاضی محمد یوسف صاحب قاضی کوٹ گوجرانوالہ 171 172 172 173 174 175 175 176 177 178 178 116 جناب محمد اسمعیل غلام کبریا صاحب فرزند رشید مولوی محمد احسن صاحب امروہی 117 جناب احمد حسن صاحب فرزند رشید مولوی محمد احسن صاحب امروہی 118 حضرت سیٹھ احمد صاحب عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا تا جر مدراس 119 حضرت سیٹھ صالح محمد صاحب حاجی اللہ رکھا تا جر مدراس 120 حضرت سیٹھ ابراہیم صاحب صالح محمد حاجی اللہ رکھا مدراس 121 حضرت سیٹھ عبدالحمید صاحب حاجی ایوب حاجی اللہ رکھا مدراس 122 حضرت حاجی مهدی صاحب عربی بغدادی نزیل مدراس 123 حضرت سیٹھ محمد یوسف صاحب حاجی اللہ رکھا مدراس 124 حضرت مولوی سلطان محمود صاحب میلا پور مدراس 125 حضرت حکیم محمد سعید صاحب میلا پور مدراس 126 حضرت منشی قادر علی صاحب میلا پور مدراس 127 حضرت منشی غلام دستگیر صاحب میلا پور مدراس 179 143 حضرت قاضی فضل الدین صاحب قاضی کوٹ " 194 128 حضرت منشی سراج الدین صاحب 144 حضرت قاضی سراج الدین صاحب قاضی کوٹ 194 145 حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب 179 ترس کیری مدراس

Page 18

V کوٹ قاضی.گوجرانوالہ 146 حضرت شیخ کرم الہی صاحب کلرک ریلوے پٹیالہ 147 حضرت میرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم سامانہ پٹیالہ 194 195 196 168 حضرت مولوی حکیم نور محمد صاحب موکل 217 169 حضرت حافظ محمد بخش مرحوم کوٹ قاضی 218 1701 حضرت چوہدری شرف الدین صاحب کوٹلہ فقیر.جہلم 218 171 حضرت میاں رحیم بخش صاحب امرتسر 219 148 حضرت میرزا ابراہیم بیگ صاحب مرحوم " " 198 172 حضرت مولوی محمد افضل صاحب 149 حضرت میاں غلام محمد صاحب مہر الہ.لاہور 198 کملہ گجرات 150 جناب مولوی محمد فضل صاحب چنگا.گوجر خاں 200 173 حضرت میاں اسمعیل صاحب امرتسری 220 151 حضرت ماسٹر قا در بخش صاحب لود یا نه 201 174 حضرت مولوی غلام جیلانی صاحب 202 گہر ونواں جالندھر 152 حضرت منشی اللہ بخش صاحب اودیانہ 153 حضرت حاجی ملا نظام الدین صاحب او دیا نہ 203 175 حضرت منشی امانت خانصاحب 204 نا دون.کانگڑہ 154 حضرت عطاء الہبی غوث گڑھ.پٹیالہ 155 حضرت مولوی نور محمد صاحب مانگٹ - پٹیالہ 205 176 حضرت قاری محمد صاحب.جہلم 205 219 221 221 222 156 حضرت مولوی کریم اللہ صاحب امرتسر 157 حضرت سید عبدالہادی صاحب سوان - شملہ 206 178 حضرت حافظ نور احمد لودیا نہ 177 حضرت میاں کرم داد معہ اہلبیت.قادیان 223 158 حضرت مولوی محمد عبد اللہ خان صاحب پٹیالہ 159 جناب ڈاکٹر عبدالحکیم خاں صاحب پٹیالہ 208 160 حضرت ڈاکٹر بورینخانصاحب قصور ضلع لاہور 161 حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب لاہور حال چکرانہ 162 جناب غلام محی الدین خان صاحب فرزند ڈاکٹر بور میخانصاحب 163 حضرت مولوی صفدر حسین صاحب حیدر آباد دکن 208 209 211 223 179 حضرت میاں کرم الہی صاحب لاہور 224 225 180 حضرت میاں عبد الصمد صاحب نارووال 181 حضرت میاں غلام حسین معہ اہلیہ.رہتاس 182 حضرت میاں نظام الدین صاحب.جہلم 226 183 حضرت میاں محمد صاحب جہلم 227 184 حضرت میاں علی محمد صاحب جہلم 229 185 حضرت میاں عباس خاں کہو بار گجرات 229 186 حضرت میاں قطب الدین صاحب کوٹلہ فقیر جہلم 229 164 حضرت خلیفہ نور دین صاحب جموں 165 حضرت میاں اللہ دتا صاحب جموں 212 212 214 187 حضرت میاں اللہ دتہ خانصاحب اڈیالہ جہلم 230 188 حضرت محمد حیات صاحب چک جانی جہلم 230 189 حضرت مخدوم مولوی محمد صدیق صاحب بھیرہ 166 حضرت منشی عزیز الدین صاحب کانگڑہ 215 190 حضرت عبدالمغنی صاحب فرزند رشید 167 حضرت سید مهدی حسین صاحب علاقہ پٹیالہ 216 مولوی برہان الدین صاحب جہلمی 232 233

Page 19

VI 191 حضرت قاضی چراغ الدین کوٹ قاضی گوجرانوالہ 192 حضرت میاں فضل الدین صاحب قاضی کوٹ گوجرانوالہ 193 حضرت میاں علم الدین صاحب کوٹلہ فقیر جہلم 194 حضرت قاضی میر محمد صاحب کوٹ کھلیان 235 235 235 236 213 حضرت منشی امام الدین صاحب کلرک لاہور 253 214 حضرت منشی عبدالرحمن صاحب لاہور 253 215 حضرت خواجہ جمال الدین صاحب بی اے لاہور حال جموں 216 حضرت منشی مولا بخش صاحب کلرک.لاہور 255 217 حضرت شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی.پٹیالہ 254 256 195 حضرت میاں اللہ دتا صاحب نت گوجر انوال 236 218 جناب عالم شاہ صاحب کھاریاں.گجرات 256 196 حضرت میاں سلطان محمد صاحب گوجرانوالہ 237 219 حضرت مولوی شیر محمد صاحب ہو جن.شاہپور 256 197 حضرت مولوی خان ملک صاحب کہیوال 237 220 حضرت میاں محمد الحق صاحب 198 حضرت میاں اللہ بخش صاحب علاقہ بند امرتسر 239 اوور سیر بھیرہ حال ممباسه 199 حضرت مولوی عنایت اللہ مدرس مانانوالہ 240 221 حضرت میرزا اکبر بیگ صاحب.کلانور 258 200 حضرت منشی میراں بخش صاحب گوجر انوالہ 241 222 حضرت مولوی محمد یوسف صاحب.سنور 258 257 259 201 حضرت مولوی احمد جان صاحب مدرس گوجرانوالہ 241 223 حضرت میاں عبدالصمد صاحب.سنور 224 حضرت منشی عطا محمد صاحب.سیالکوٹ 260 202 حضرت مولوی حافظ احمد دین چک سکندر گجرات 203 حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب کہیوال.جہلم 204 حضرت میاں مہر دین صاحب.لالہ موسیٰ 242 243 244 247 205 حضرت میاں ابراہیم صاحب پنڈوری.جہلم 245 206 حضرت سید محمود شاہ صاحب فتح پور - گجرات 247 207 حضرت محمد صاحب.امرتسر 208 حضرت منشی شاہ دین صاحب دینا.جہلم 248 209 حضرت منشی روشن دین صاحب ڈنڈوٹ.جہلم 249 210 حضرت حکیم فضل الہی صاحب.لاہور 250 211 حضرت شیخ عبداللہ دیوانچند صاحب کمپونڈر.لاہور 212 حضرت منشی محمد علی صاحب لاہور 251 252 225 حضرت شیخ مولا بخش صاحب.سیالکوٹ 261 226 حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر ڈنگہ 227 حضرت منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر.گورداسپورہ 261 263 228 حضرت سیداحمد علی شاہ صاحب.سیالکوٹ 264 229 حضرت ماسٹر غلام محمد صاحب.سیالکوٹ 265 230 حضرت حکیم محمد دین صاحب.سیالکوٹ 265 231 حضرت میاں غلام محی الدین صاحب سیالکوٹ 266 232 حضرت میاں عبدالعزیز صاحب سیالکوٹ 266 233 حضرت منشی محمد دین صاحب سیالکوٹ 267 234 حضرت منشی عبدالمجید صاحب او جله گورداسپور 267 235 حضرت میاں خدا بخش صاحب بٹالہ 236 حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب 268

Page 20

VII حاجی پور کپورتھلہ 237 حضرت محمد حسین صاحب لنگیاں والی گوجرانوالہ 238 جناب منشی زین الدین محمد ابراہیم انجنیر.بمبئی 268 270 270 احمد آباد 260 حضرت منشی اللہ داد صاحب کلرک چھاؤنی شاہپور 261 حضرت میاں حاجی وریام - خوشاب 288 289 291 262 حضرت حافظ مولوی فضل دین صاحب خوشاب 292 239 حضرت سید فضل شاہ صاحب.لاہور 272 263 حضرت سید دلدار علی صاحب بلہور کانپور 293 240 حضرت سید ناصر شاہ صاحب سب اوور سیر 264 حضرت سید رمضان علی صاحب کانپور 294 274 اوڑی.کشمیر 241 حضرت منشی عطا محمد صاحب چنیوٹ جھنگ 275 242 حضرت شیخ نوراحمد صاحب جالندھر حال ممباسه 265 حضرت سید جیون علی صاحب پلول حال الہ آباد 266 حضرت سید فرزند حسین صاحب چاند پور 294 294 243 حضرت منشی سرفراز خان صاحب جھنگ 244 حضرت مولوی سید محمد رضوی صاحب حیدرآباد 245 حضرت مفتی فضل الرحمن صاحب معدہ اہلیہ بھیرہ 275 276 278 279 279 246 حضرت حافظ محمد سعید صاحب بھیرہ حال لندن 247 حضرت مستری قطب الدین صاحب بھیرہ 280 248 حضرت مستری عبد الکریم صاحب بھیرہ 281 249 حضرت مستری غلام الہی صاحب بھیرہ 281 پلول حال الہ آباد 267 حضرت سید اہتمام علی صاحب موہر ونڈ الہ آباد 295 268 حضرت حاجی نجف علی صاحب کثرہ محلہ اللہ آباد 295 269 حضرت شیخ گلاب صاحب کٹر محلہ الہ آباد 296 270 حضرت شیخ خدا بخش صاحب کٹرہ محلہ الہ آباد 269 271 حضرت حکیم محمد حسین صاحب لاہور 296 298 272 حضرت میاں عطا محمد صاحب.سیالکوٹ 250 حضرت میاں عالم دین صاحب بھیرہ 282 273 حضرت میاں محمد دین صاحب.جموں 298 251 حضرت میاں محمد شفیع صاحب بھیرہ 282 274 حضرت میاں محمد حسن صاحب عطار - لد ہیانہ 299 252 حضرت میاں نجم الدین صاحب بھیرہ 283 275 حضرت سید نیاز علی صاحب بدایون 253 حضرت میاں خادم حسین صاحب بھیرہ 284 285 حال رامپور 299 254 حضرت با بو غلام رسول صاحب بھیرہ 255 حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم بھیرہ 5 28 277 حضرت شیخ حافظ الہ دین صاحب 256 حضرت مولوی سردار محمد صاحب لون میانی 286 276 حضرت ڈاکٹر عبدالشکور صاحب.سرسہ 300 بی اے.جھاوریاں 257 حضرت مولوی دوست محمد صاحب لون میانی 287 278 حضرت میاں عبدالسبحان.لاہور 279 حضرت میاں شہامت خاں.نادون 258 حضرت مولوی حافظ محمد صاحب بھیرہ حال کشمیر 259 حضرت مولوی شیخ قا در بخش صاحب 288 280 حضرت مولوی عبد الحکیم صاحب دھار وار علاقہ بمبئی 300 301 302 303

Page 21

VIII 281 حضرت قاضی عبد اللہ صاحب.کوٹ قاضی 303 282 حضرت عبدالرحمن صاحب پٹواری سنوری 304 299 حضرت احمد دین صاحب چک کھاریاں 317 300 حضرت محمد امین کتاب فروش.جہلم ملازم پٹیالہ 317 319 283 حضرت برکت علی صاحب مرحوم.حصہ غلام نبی 305 301 حضرت مولوی محمود حسن خان صاحب مدرس 284 حضرت شہاب الدین صاحب.تھہ غلام نبی 305 285 حضرت صاحب دین صاحب تہال.گجرات 306 302 حضرت محمد رحیم الدین صاحب حبیب والہ 320 286 حضرت مولوی غلام حسن مرحوم.دینا نگر 307 303 حضرت شیخ حرمت علی صاحب الہ آباد 321 287 حضرت نواب دین صاحب مدرس.دینا نگر 307 304 حضرت میاں نور محمد صاحب غوث پٹیالہ 321 305 حضرت مستری اسلام احمد صاحب بھیرہ 306 حضرت حسینی خاں صاحب اللہ آباد 307 حضرت قاضی رضی الدین صاحب اکبر آباد 323 308 حضرت سعد اللہ خان صاحب الہ آباد 323 309 حضرت مولوی عبد الحق صاحب مدرس سامانہ پٹیالہ 308 288 حضرت احمد دین صاحب.منارہ 289 حضرت عبداللہ صاحب قرآنی.لاہور 309 290 حضرت کرم الہی صاحب کمپازیٹر.لاہور 310 291 حضرت سید محمد آفندی.ترکی 310 292 حضرت عثمان عرب صاحب.طائف شریف 311 293 حضرت عبدالکریم صاحب مرحوم چمار و 311 294 حضرت عبدالوہاب صاحب بغدادی 295 حضرت میاں کریم بخش صاحب مرحوم مغفور جمال پور ضلع لدھیانہ 312 312 310 حضرت مولوی حبیب اللہ صاحب مرحوم محافظ دفتر پولس.جہلم 322 322 324 324 326 326 327 311 حضرت رجب علی صاحب پیشنر ساکن جونسی کہنہ ضلع اللہ آباد 312 حضرت ڈاکٹر سید منصب علی صاحب پنشنز الہ آباد 313 حضرت میاں کریم اللہ صاحب سارجنٹ پولس جہلم 314 315 316 296 حضرت عبدالعزیز صاحب عرف عزیز الدین نا سنگ 297 حضرت حافظ غلام محی الدین صاحب بھیرہ حال قادیان 298 حضرت محمد اسمعیل صاحب نقشہ نویس کا لکا ریلوے

Page 22

1 ایک اور پیشگوئی کا پورا ہونا 66 سیدنا موعود علیہ اپنی تصنف انجام تم میں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف ضمیمہ انجام آتھم میں ” ایک اور پیشگوئی کا پورا ہونا " کے عنوان سے تحریر فرماتے ہیں: چونکہ حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہوگی جس میں اس کے تین سو ۳۱۳ تیرہ اصحاب کا نام درج ہوگا.اس لئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ پیشگوئی آج پوری ہوگئی.یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے اس سے امت مرحومہ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا کہ جو مہدویت کا مدعی ہوتا اور اس کے وقت میں چھاپہ خانہ بھی ہوتا.اور اس کے پاس ایک کتاب بھی ہوتی جس میں تین سو ۳۱۳ تیرہ نام لکھے ہوئے ہوتے.اور ظاہر ہے کہ اگر یہ کام انسان کے اختیار میں ہوتا تو اس سے پہلے کئی جھوٹے اپنے تئیں اس کا مصداق بنا سکتے.مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی پیشگوئیوں میں ایسی فوق العادت شرطیں ہوتی ہیں کہ کوئی جھوٹا ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اور اس کو وہ سامان اور اسباب عطا نہیں کئے جاتے جو بچے کو عطا کئے جاتے ہیں.شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اپنی کتاب جواہر الاسرار میں جو ۱۴۰ھ میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں.در اربعین آمده است که خروج مهدی از قریه کدعه باشد.قال النبي صلى الله عليه وسلم يخرج المهدى من قرية يقال لها كدعـه ويـصـدقـه الله تعالى ويجمع اصحابه من اقصى ،

Page 23

البلاد على عدّة اهل بدر بثلاث مائة وثلاثة عشر رجلا ومعه صحيفة مختومة (اى مطبوعة) فيهـا عـدد اصحابه باسمائهم وبلادهم وخلالهم یعنی مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے ( یہ نام دراصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا.اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار سے برابر ہوگا.یعنی تین ۳ تیرہ ہوں گے.اور ان کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں سو درج ہوں گے.اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعوی کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں.لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سو ۳۱۳ تیرہ نام درج کر چکا ہوں اور اب دوبارہ اتمام حجت کے لئے تین سو ۳۱۳ تیرہ نام ذیل میں درج کرتا ہوں تا ہر ایک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی.اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق وصفا رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضا کی راہوں میں ثابت قدم کرے.“ ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا اصفحات ۳۲۴-۳۲۵)

Page 24

فرمان او در آیند و و یکراو را شمشیری باشد که بی دست جنگ و کار دارکند دیگر دوش و طیور و بعد انس گیرند و نه ای و وفاین برد ظاهر شوند و از علامات در معالم تنزیل روایت کرده اند که خیبر منتقاد موسی را علیه السلام عادت کرده و شرح جبر عنقریب گفته شود دیگر فرموده است که بنی را اعد از وفات خود بدنیا بیرون آمد نسبت در حضور اولها در این بار در صورت می بینی مهدی پیرون خواهد آن، قال اپنی صلی الہ علیہ سلم من الم يغل جنتی فلیس منا و چون مهدی سپردن آید عیسی علیه السلام از آسمان خود آید مقام.د چون عیسی فرود آید خاتم اولیا قایم مقام او برا سمان رود و عیسی علیه السلام قائم او در زمین ها شده و زرین باب انا اصل شرع و اهل کشف سخن بسیار است چنا کا فضل محجاب خواجہ محمد پارسا ر الله له نقل کرده از احادیث صحیح حدیث این است قال نبی صلی اللہ علی وسلم کیوں اختلاف عند موت خلیفه فیوج رجل من بنی هاشم ماندن نیستی بانی مکه مجتمع اليه جيش من الشار شیخ جهان است نمین بهینه و هوکاره بھی یا توں ہیں لاکی و المقام فيخرج الیه جیش من الشام حتى اذا كانوا با بیدات منظم نیاية مضارب العراق وابدال لشام الى آخر الحديث استخا الله چنانکه در اربعین ابوالعلی حسن بن الوطن را مذکور آمده است که سنخرج الکتوز و بفتح مد امین الشركه وقت الام محال و بروایت اہل بیت درفضا الخطاب آ خطاب آورده است.در صفت مصدر که میکنم با عدل و یا مر به بیخرج من نامه با این در این مذکور آمده اند خروج از فقر به کد عه باشد بقول النبی صلى الله عليه وسلم يخرج المهدر مزازية يقال لها کده ویصد والله تعا ويجمع الله تعا له من اقصا السلاد مع عدد بدر مثال ثابتة وثلاث عش را جلا و مه صحیق مختومه فيها عوارضی به باستانیم و میلاد هم حلال به علم اذا جارد وقت خود جدا نشر ذلك العلم و انطقه الله عزوجل نادا العلم اخرج یا ولی اللہ دور محمد اخاذا جاہ وقت خود به اقلع ذلك السيف من مدة والظفر اللہ عزوجل

Page 25

دیکامل علیه سلام من بساره طوبی من میاره طوبی من نگاه وطوبى من اجوده بجای این قال به و در حدیثی دیگر آور دوست در صفت امته قال ابنی صلی اللہ علیہ وسلم مابال امته انا اقلم رحیمی المهدی افز هم در این نوع احدی از سالاصل محمد ایده آل سالم و امید رضی الله عنهم بسیار است که آوردن طولی دارد حضوحا در کتاب مهدی و اعلام در را اینجا از علامات او از کتاب مهدی علامتی چند ذکر کرده شود اول است که نفس کرد میشود زیر کشته شود نام محمد بن عسکری باشد یعنی از فرزندان او باشد و بر دست سفیانی د علاقت دیکر خروج سفیاست و علاقته دیگر کرف شمس است در بیت اہم مرضان و خروف قمر در آخر علامتی دیگر غارت کردن حاجیان مینا علامتی دیگر آن باشد که دیر خلاق خلکو چیر سال بیاید و یک پای برکوه سند و یک پای بر بیت المقدس و ندا کند چنان گرامید بشنونداتی امره بند فلان جلوه و دانست که در کتاب آمده یوم کیمون الصحة بالطق ذلک یوم مخروج ایی خروج انتقایم و آن در رمضان باشد و راقل روز که خبر د بد فرج مهدی و در آخرا از ابلیس آن از دید که حق در عینان جنینه است داد مردی ایله روی اعور باشد در یک چشم اوشانی سفید باشد تا خلق در کمان افتاد و گفته اند در زبان او کرانی باشد که در سخن گفتن دست راست بر رمان چین نے وزرا با همین مذکور است که قال ابنی صلی اللہ علیہ وسلم المصور رجل من ذكرى وجه کالکواکب الدری در حدیثی دیگرادار جین مذکور در صفت او آمده است که المهد را جل من دادی او په مون عربی مجسمه اسرائیل سے جذہ الامین خان کا لکوکب دری وقالی صلی اللہ علیہ وسلم مینا اتنی الانف في الحديث اخر اسم الانف یعنی بلند بینی و گفته اند که هردوی دو بر خه باشد پین شانہ کم مور و از جانب خداستان خروج کنه بار است سیاه و جوانان بسیار باره بیت کنند و سی ان انیتا در این است حدیثی که از یونان در اربعین به کشور است

Page 26

ٹائٹل ”جواہر الاسرار، قلمی نسخہ لائبریری گنج بخش مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان شماره خطی :.۳۰۵۹ اسم کتاب : جواهر الاسرار مؤلف علی حمزہ بن علی موضوع لعرفان، فارسی، نشر صفحات ۳۶۰۰ کتابت دون الموق کتابخانه گنج بخش مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسکن شد: شماره ۶۶/۷۷ محمد انجم گلزار تاریخ: ۸۲

Page 27

0000000 تحریر از قلمی نسخه جوار الاسرار شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی ، علامہ آذری تحریر کرتے ہیں: وو دا اربعین آمده است که خروج مهدی از قریه کدعه باشد.يقول النبي صلى الله عليه وسلم يخرج المهدى من قرية يقال لها كدعه ويصدقه الله تعالى ويجمع الله تعالى أصحابه من اقصى البلاد على عدة اگل بدر بثلاث مائة وثلاثة عشر رجلا و معه صحيفة مختومة اى مطبوعة) فيها عدد أصحابه باسمائهم وبلادهم وخلالهم.قلمی نسخہ جواہر الاسرار میں جو ۸۴۰ ۵ صفحه ۴۳)

Page 28

5 حضرت شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اور ان کی تصنیف ” جواہر الاسرار" کا تعارف آنحضرت ﷺ کی حدیث درباره ظهور امام مهدی و تذکره ۳۱۳ / اصحاب حضرت مهدی موعود ( در صحیفه مختومه ) حضرت شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی کی ولادت ۷۸۴ ھ کو اسفرائن ( ایران ) میں ہوئی.سلاطین بہمنیہ کے نویں سلطان احمد شاہ ولی اوّل (۸۲۵ ھ بمطابق ۱۴۲۲ء تا ۸۳۸ ھ بمطابق ۱۴۳۵ء) کے دور حکومت میں اسفرائن (ایران) کے حضرت علی حمزہ بن علی ملک بن حسن الطوسی نے ۸۳۰ھ (بمطابق ۱۴۲۶-۱۴۲۷ء) دکن میں قیام کیا.تذکروں میں آپ کو شیخ آذری کے نام سے یاد کیا گیا ہے لیکن خاں بہا در شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ نے آپ کو ملا آذری لکھا ہے.(۲۱) شیخ آذری نے خود اپنا نام کتاب ” جواہر الاسرار" کے دیباچہ میں صفحہ ٦ الف پر یوں درج کیا ہے.و علی بن حمزہ بن علی بن ملک بن حسن الطوسى المنسوب الى احمد بن محمد الزجی الہاشمی المروزی المولا الاسفرايني المحمدی عرف بآذری (۳) علامہ آذری ماروع میں پیدا ہوئے اور آپ کی پرورش اسفرائن (Asfara'in) میں ہوئی.آپ کے والد ماجد بجک (Baihak) کے سربدار (Sarbadar) تھے جو آپ کے عزیز واقارب کے زیر نگیں تھا.آپ کو نو جوانی ہی سے شاعری کی مشق تھی.آپ نے اپنا تخلص آذر (Azar) کے مہینہ کی مناسبت سے اختیار کیا تھا جس میں آپ کی پیدائش ہوئی تھی.شاہ رُخ (Shah Rukh) آپ سے متاثر تھا اور اُس نے آپ کو ملک الشعراء کا خطاب دینے کا وعدہ کیا تھا.لیکن جلد ہی آپ نے دنیاوی دھندوں کو ترک کر دیا اور شیخ محی الدین طوسی کے زیر ہدایت اپنی زندگی کو مذہبی امور کے لئے وقف کر دیا.بعد میں آپ مشہور و معروف صوفی نعمت اللہ ولی کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے.فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد آپ ہندوستان میں وارد ہوئے.کچھ عرصہ احمد شاہ بہمنی کے دربار سے وابستہ رہے.اُس کے لئے آپ نے ایک تاریخی نظم بہن نامہ لکھی.اپنے وطن مالوف میں واپسی کے بعد آپ نے اپنی زندگی کے آخری تیں سال گوشتہ گمنامی میں گزار دیئے.آپ کا انتقال سن 866ھ میں 82 سال کی عمر میں اسفرائن ( کچھ مصنفین کے نزدیک اسفزار (Asfizar) میں ہوا.جواہر الاسرار کا ذکر : درج ذیل کتب جن میں جواہر الاسرار کا ذکر موجود ہے.Daulat Shah Habib us-siyar Majalis-ul-Muminin دولت شاه حبیب اسیر ۲۰۴ صفحه ۱۸۴۱۰ ایڈیشن ۳۹۲ صفحه ۶۵۶۱ ایڈیشن مجالس المومنین ۳۳۵ صفحه ۵۴۱ ایڈیشن

Page 29

6 Haft Iklim Riyazush-Shuara Khizanah-i-Amirah Oude Catalogue Hammer, schöne Redekünste Firishtah ہفت اقلیم ۳۲۵ صفحه رياض الشعراء ۴۲ صفحه خزانہ عامرہ ۱۲ صفحه ۲۳۲ ایڈیشن ۳۱۵ صفحه 81920 ۳۰۰ صفحه فرشته ۲۹۹ صفحه ۵۴۱ ایڈیشن تاریخ فرشتہ نے شیخ آذری کی زندگی کا پورا احوال درج کیا ہے جس میں بہمنی دربار میں حاضری کے حالات بھی دیئے گئے ہیں.(۴) یہ اقتباس آپ کے مترجم کرنل برگس Col.Briggs نے بغیر توجہ دیے چھوڑ دیئے ہیں.آپنے کتاب کے دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ ۸۳۰ ء ھ میں ملک شام (Syria) سے واپسی پر آپ نے اس موضوع پر تصنیف کی جس کا نام مفتاح الاسرار تھا.ہندوستان میں قیام کے دوران ، احمد شاہ غازی ( یعنی احمد شاہ بہمنی ۸۲۵ھ تا ۸۳۸ھ) کے دارالخلافہ میں، جبکہ آپ دوسرے حج کی تیاریوں میں مصروف تھے.آپ کے بہت سے دوستوں نے کتاب لینے کی درخواست کی وہ آپ سے اسے حاصل کرنے کے مشتاق تھے.جب آپ گھر واپس لوٹے تو اپنے احباب کے پر زور اصرار کے پیش نظر اس تصنیف کو دوبارہ اور زیادہ اختصار سے لکھا.چند سوانحی حالات ( جو اولیائے کرام سے متعلق تھے جنہیں آپ نے اپنے سفروں کے دوران اکٹھا کیا تھا) کا اضافہ کیا.دیباچہ پر تاریخ ۸۴۰ ھ درج کی ہے.جواہرالاسرار اپنے نقش اول کے مطابق چار ابواب میں منقسم ہے یعنی :.(۱) قرآن کریم میں حروف مقطعات (Detached Letters) کے اسرار ورموز کے بارے میں، (صفحہ نمبر ۹) (۲) احادیث یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے اسرار ورموز (صفحہ ۵ اب) (۳) نثر نظم میں مشائخ کے اقوال کے اسرار ورموز (صفویه ۵ ب) (۴) شعراء کے اشعار کے اسرار ورموز (صفحہ ۷۳اب) اس تصنیف کا ذکر سٹیوریٹ (Stewart) کے کیٹلاگ کے صفحہ ۳۸ پر کیا گیا ہے.آپ کے دیوان کتاب غرائب الدنیا کا اندراج سینٹ پیٹر برگ (S.Peters Bargh) کے کیٹلاگ صفحہ نمبر ۳۹۹ پر ہے.اس طرح کو پن ہیگن Copen Hagen) کے کیٹلاگ کے صفحہ نمبر ۴۰ پر بھی ہے.(۵) سلطان احمد شاہ کی درخواست پر شیخ آذری ( حضرت علی حمزہ بن علی ملک بن حسن الطوسی) نے خاندان بہمنیہ کے حالات بہن نامہ“ کے نام سے لکھنے شروع کئے.آپ سلطان احمد شاہ کے عہد تک حالات قلمبند کر چکے تھے.تب واپس جانے کی اجازت مانگی سلطان احمد شاہ نے کہا کہ حضرت سید بندہ نواز گیسو دراز (۱۳۲۱ء.۱۴۲۲ء) کے وصال کے بعد جو خلا پیدا ہو گیا ہے.اس کو تم نے کسی حد تک پُر کر دیا ہے.اب اس طرح جدا ہو کر جانے سے بہت تکلیف ہوگی.شیخ آذری نے بادشاہ کو اتنا مہربان اور مخلص پایا تو اپنی اولاد کو بھی یہیں بلا لیا.سلطان احمد شاہ نے آپ کو ملک الشعراء کا خطاب

Page 30

7 دیا.عرصہ دراز کے بعد وطن کی محبت نے شیخ کو پھر ستایا.شہزادہ علاؤالدین کی کوششوں سے اسفرائن واپس چلے گئے اور پھر ۸۴۴ ھ میں راہی ملک عدم ہوئے.قیام دکن جنوبی ہندوستان کے دوران آپ نے اپنی مشہور تصنیف ”جواہر الاسرار“ ۸۴۰ھ میں لکھی.اُس زمانہ میں کتابوں کے اسی قسم کے نام رکھے جاتے تھے.آپ سے قبل حضرت سید محمد حسینی الملقب به بنده نواز گیسو دراز قدس سره نے ایک کتاب ”اسماء الاسرار‘ تالیف فرمائی تھی.شاید شیخ آذری نے اپنی تالیف ”جواہر الاسرار‘ کواُسی نام سے برکت کے لئے چن لیا اور کتاب فی الواقعہ با برکت ثابت ہوئی.(۶) شیخ آذری کی دیگر تصنیفات، مثنوی ثمرات، عجائب الغرائب، سعى الصفا، مثنوی امامیه، تاریخ کعبه، طغریٰ ہمایوں، غریب الدنیا، عجائب الاعلاء، دیوان قصائد و غزلیات ہیں.پہلے آپ شیخ محی الدین طوسی کے مرید ہوئے بعد میں حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کے مرید ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب انجام آتھم کے ضمیمہ صفحہ نمبر ۳۱۵ پر ( شیخ آذری) حضرت شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی کی کتاب ” جواہر الاسرار مؤلفہ ۸۴ھ میں مندرجہ حدیث کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہوگی جس میں اس کے تین سو تیرہ اصحاب کے نام درج ہوں گے.“ کو اپنے حق میں پیشگوئی پوری ہونے کا ذکر فرمایا ہے.اس کتاب ( خطی نسخہ) کی تصنیف کے بارے میں بوڈلین لائبریری آکسفورڈ برطانیہ کے کٹیلاگ سے متعلقہ حصہ یہاں نقل کرتے ہیں.حضرت شیخ علی حمزہ بن علی بن ملک بن حسن الطوسی کی کتاب ” جواہر الاسرار" دراصل موصوف کی کتاب ” مفاتیح الاسرار" کا دوسرا ایڈیشن ہے بلکہ اُس سے مقتبس ہے جسے مفاتیح الاسرار سے ملک شام سے واپسی پر بطوررف پیکیج Rough) Package ) بمطابق ۱۴۲۷ ء - ۱۴۲۶ ء ) میں لکھا تھا.کچھ عرصہ بعد احمد شاہ غازی ۸۲۵ ھ تا ۸۳۸ھ کے زمانہ میں آپ مکہ حج کے لئے گئے.آپ کی واپسی پر آپ کے بہت سے دوستوں نے اس تصنیف کے نسخے تیار کرنے کے لئے درخواست کی.آپ نے پہلے سے جمع کردہ مواد کو بطور نئے ایڈیشن کے شائع کرنے کا فیصلہ کیا جس میں آپ نے اُن علوم کا اضافہ کیا جو آپ نے اپنے سفروں بالخصوص عرب کے سفر سے حاصل کئے تھے لیکن بہت اختصار کے ساتھ.آپ نے اسے رجب ۸۴۰ھ (بمطابق جنوری ۱۴۳۷ء) میں مکمل کیا جس کا نام ” مفاتیح الاسرار رکھا جسے بعد میں ”جواہر الاسرار“ کا نام دیا گیا.دونوں تصانیف کی ترتیب ایک سی ہے.دونوں چار ابواب پر مشتمل ہیں.پہلے ایڈیشن میں چاروں ابواب کے عنوان حسب ذیل ہیں.معرفت فواتح کلام الله تعالیٰ شانه مشکلات احادیث نبوی صلی الله عليه وسلم بیان مرموزات کلام مشائخ رضوان الله عليهم

Page 31

8 O....تبيين الكلام مغلق شعراء اسلام ادام الله بركات معانيهم " مفاتیح الاسرار" کے نظر ثانی شدہ ایڈیشن ” جواہر الاسرار کے مندرجات درج ذیل ہیں : مصنف کا دیباچہ اور انڈیکس صفحہ نمبر 4 الف پر ہے.باب اوّل:در اسرار فواتح کلام اللہ تعالیٰ یا انڈیکس کے مطابق در معرفت مقطعات از قرآن جس میں نو اسرار کا بیان ہے.باب دوم: در بیان اسرار احادیث نبوی.جس میں نو اسرار کا بیان ہے.باب سوم: در اسرار کلام مشائخ.یہ دوابواب پر مبنی ہے.باب چهارم : در اشکال کلام ، شعر یا انڈیکس کے مطابق در بیان کلام شعرا جو دس ابواب پر مشتمل ہے.(۷) آکسفورڈ کے جس کیٹلاگ کا ذکر کیا گیا وہ خطی نسخوں سے متعلق ہے.اس سلسلہ میں کچھ امور خطی یا قلمی نسخوں یا مخطوطات کے بارہ میں تحریر ہیں.حضرت شیخ علی حمزہ کی کتاب ”جواہر الاسرار کا حوالہ حضرت مسیح موعود کے پاس حضرت مرزا خدا بخش صاحب کے ذریعہ پہنچا.(۹) جسے حضور نے انجام آتھم میں درج فرمایا.اس کتاب کے جو خطی نسخے سامنے آئے ہیں.اُن کا ذیل میں اجمالی تعارف دیا جاتا ہے.(۱) خطی نسخه زیر استعمال حضرت مسیح موعود : حضرت مسیح موعود نے شیخ علی حمزہ کی کتاب ”جواہر الاسرار کا حوالہ دیتے ہوئے لفظ ”کتاب“ کا اندراج فرمایا ہے.آپ نے یہ صراحت نہیں فرمائی کہ یہ ایک مطبوعہ کتاب ہے یا خطی نسخہ ہے.مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ نے جواہر الاسرار“ کو اپنی کتاب ”حدیقۃ الصالحین“ کے صفحہ ۹۰۴ پر بطور قلمی نسخہ کے اندراج کیا ہے اور مذکورہ کتاب کا صفحہ نمبر ۵۶ زیر نظر حوالے کا مقام درج کیا ہے.اس کے ساتھ اشارات فریدی جلد ۳ صفحہ سے مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ کا حوالہ بھی دیا ہے.(۸) (۲) نسخه برٹش لائبریری لندن : یہ نسخہ سلطان فتح علی ٹیپو شہید کے کتب خانہ کا مجموعہ جو ہزار کتب تاریخ و سوانح شعر وسخن علم الالسنہ، دینیات، فلسفه، کیمیا، طبیعات، تصوف، فقص لغت قانون ، مصوری اور فن حرب پر مشتمل جیسے ۱۸۳۸ء میں اس لائبریری کے ساتھ یہ نسخہ جواہر الاسرار انتخاب مفتاح الاسرار علی حمزہ اور تواریخ مشائخ برٹش میوزیم میں موجود تھا.اسے بعد میں برٹش لائبریری میں منتقل کر دیا گیا.لائبریری میں اس کا کیٹلاگ نمبر 7607-ADD ہے جو ۹ ۱۸۷ء میں لکھا گیا.اس نسخہ کے ۲۲۶ صفحات ہیں.لمبائی چوڑائی ۱/۲ ۱۹ اینچ ۱/۲ - ۵ اینچ ایک صفحہ پر ۱۹ لائنیں ہیں ایک لائن کی لمبائی ۱/۷-۳ انچ ہے.لکھائی خوبصورت نستعلیق خط میں ہے.جس پر حاشیہ سنہری ہے.یہ نسخہ ۱۰۳۴ھ ذوالحج بمطابق ۱۶۱۴ء میں تیار کیا گیا ہے.جسے محمد حسین الطبرانی نے نقل کیا ہے.(۹) (۳) نسخه کتاب خانه گنج بخش ( اول ) اسلام آباد : صفحات ۳۴۸- کاغذ نازک سمرقندی جو کہ بوسیدہ ہو چکا ہے.چمڑے کی

Page 32

9 جلد چڑھی ہوئی ہے.خط روشن پختہ سیاہی میں ہے.اس کے عناوین سرخ روشنائی سے مرتب ہیں.کاتب کا نام اور تاریخ کتابت درج نہیں ہے یہ کتاب مفتاح الاسرار نامی کتاب سے منتخب کر کے لکھی گئی اور اس کا نام ”جواہر الاسرار“ ہے.(۱۰) (۴) نسخه کتاب خانه گنج بخش ( دوم ) اسلام آباد: اس نسخے کو ابھی تک کیٹلاگ میں مطبوعہ صورت میں شامل نہیں کیا گیا.(۵) نسخہ آکسفورڈ ( بوڈلین لائبریری) برطانیہ: بالکل جدید خط نستعلیق میں لکھا گیا ہے.حاشیے پر گاہے گاہے فرہنگیں ہیں.جلد بھوری اور سنہری ہے.کتاب کا سائز ۳/۴ - ۱۱ اینچ اور ۱/۲ - ۷ انچ ہے.یہ نسخہ ۱۲۶۹ھ بمطابق ۱۸۵۲ء.۱۸۵۳ء میں تیار کیا گیا.(۱۱) جواہر الاسرار کا نسخہ تہران میں ادبیات نامی کتاب جلد محمد کاظم فرزند عبدالحسین سپاہانی کے ریکارڈ میں ہے، نسخہ مجلس کے ریکارڈ میں ۵۸۸۲/۲ آغاز برابر نمونہ آقائے عبدالحسین حائری کی یادداشت کے سلسلے میں درج کیا گیا ہے، دانشگاه ۲۹۰۹ نستعلیق ۱۲۹۸ صفحہ نمبر ۱ تا ۱۵۷، ملک ۱۵۰۲ نسخ جلد ۲ ۱۲۹۰ تا ۱۴ گ، ۲۰ س ف - ملک فارسی ۱۹۲ اور مجلس ۵۸ ۷ نستعلیق ۱۲۴۲ - آغاز برابر نمونه ا، ۱۸۷اگ ف مجلس ۲-۴۷۹ (۶) - الف) موجود ہیں جو نہیں مل سکے.(۱۲) در اربعین آمده است که خروج مهدی از قریه کدعه باشد قال النبي صلى الله عليه وسلم يخرج المهدى من قرية يقال لها كدعه و يصدقه الله تعالى و يجمع اصحابه من اقصى البلاد على عدة اهل بدر بثلاث مائة و ثلاثة عشر رجال و معه صحيفة مختومة (اى مطبوع ( فيها عدد اصحابه باسمائهم و بلادهم و خلالهم.....یعنی مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے ( یہ نام دراصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے ) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار کے برابر ہو گا.یعنی تین سو تیرہ ہوں گے اور ان کے نام بقید مسکن و خصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے.(۱۳) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود کے درج کردہ حوالہ جواہر الاسرار بحوالہ اربعین دیگر حوالہ جات یہ ہیں.الفاظ خطی نسخه برٹش لائبریری لندن زیر نمبر 27 MS-1.0 Islamic) مذکورہ ”جواہر الاسرار انتخاب مفتاح الاسرار تصنیف علی حمزه در تواریخ مشائخ تمام : در فصل الخطاب آورده در صفت مهدی که یحکم بالعدل ويامربه ويخرج من تهــامــه ويــصــدقـه الله تعالى في قوله ويجمع الله تعالى له من اقصى البلاد و على عدة اهل بدر بثلاث مائة و ثلاثه عشر رجل و معه صحيفة مختومة فيها عدد اصحابه باسمائهم وبلادهم و خلالهم

Page 33

10 الفاظ خطی نسخه مخزونه کتابخانه پنج بخش مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد- زیر نمبر ۴۷۲ از علی حمزه بن علی ملک بن حسن الطوسی مندرجہ جواہر الاسرار در فصل الخطاب آورده است در صفت مهدی که يحكم بالعدل و يا مربه و يخرج من تهامة ويصدقه الله تعالى في قوله و يجمع الله عم (كذا) له كه من اقصى البلاد عدة اهل بدر بثلاث مائة و ثلثه عشر رجل و معه صحيفة مختومة فيها عدد اصحابه باسمائهم وبلادهم و خلالهم (صفحه۳۰) الفاظ خطی نسخه مخز و نه کتابخانه گنج بخش مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد زیر نمبر ۳۰۸۹ ( شماره ۱۰۶۶/۸۸) مولفہ علی حمزہ بن علی مندرجہ جواہر الاسرار در فصل الخطاب آورده است در صفت مهدی که یحکم بالعدل و يا مر به يخرج مــن تـهـامـة امـا آنچه در اربعین مذکور آمده است خروج از قریه کدعه باشد يقول النبي صلى الله عليه وسلم يخرج المهدى من قريه يقال لها كدعه و يصدقه الله تعالى و يجمع الله تعالی که من اقصى البلاد و على عدة اهل بدر بثلاث مائة و ثلاث عشر رجلا و معه صحيفة مختومة فيها عدد اصحابه باسمائهم و بلادهم و خلالهم ( صفحه ۴۳) آکسفورڈ برطانیہ کی بوڈلین (Bodleian) لائبریری کے شعبہ اور نیل کولیکشن کے پاس خطی نسخہ جواہر نکلسن صاحبہ الاسرار زیر نمبر (175) MS Elliot میں حدیث نبوی کے درج ذیل الفاظ ہیں.جو محترمہ ڈورس نکا (Doris Nicholson) اور جناب کولن ویک فیلڈ صاحب (Colin Wake-Field) نے بھجوائے ہیں."يقول النبي صلى الله عليه وسلم يخرج المهدى من قرية يقال لها كدعه و يصدقه الله تعالى و يجمع الله تعالى من اقصى البلاد على عدة اهل بدر بثلاث مائة وثلاثة عشر رجلاً و معه صحيفة مختومة فيها عد د اصحابه باسمائم و بلادهم و خلالهم (۱۴) خلاصہ کلام یہ ہے کہ جونسخہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب اربعین‘ کے حوالے سے درج کیا اس میں مقام خروج حضرت مہدی علیہ السلام کدعہ لکھا ہے.کتابخانه گنج بخش ( دوم نسخہ ) اسلام آباد میں اربعین‘اور فصل الخطاب (۱۶) دونوں کتابوں کا ذکر ہے اور مقام خروج حضرت مہدی علیہ السلام تھامہ اور کد عدد ونوں کا ذکر ہے.مزید برآں اگر چہ آکسفورڈ والے نسخے میں خروج میں حضرت مہدی کے مقام تھامہ اور کدعہ دونوں کا ذکر

Page 34

11 ہے جس میں صراحتا مقام خروج حضرت مہدی علیہ السلام کو کدعہ کہا گیا ہے.اس کا اندراج حضرت مسیح موعود علیہ السلام والے نسخے میں بھی ہے، جس پر آپ کی بابرکت آمد سے مہر تصدیق ثبت ہو جاتی ہے کہ کدعہ جو کہ قادیان کا مغرب ہے.مقام خروج حضرت مہدی علیہ السلام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ صحیفہ مختومه، ایک پیشگوئی پر دلالت کرتے ہیں.جس کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے (ای مطبوعہ) چھپی ہوئی کتاب فرمایا ہے.اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چھپی ہوئی کتا بیں نہ ہوتی تھیں، نہ ہی چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تھا.پس ان الفاظ میں چھاپہ خانہ کی ایجاد کی پیشگوئی بھی ہے اور حضرت مہدی علیہ السلام کے دور سے وابستہ اس ایجاد کا ذکر بھی ہے.حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے اس پیشگوئی کے متعلق ضمیمہ انجام آتھم میں تحریر فرمایا: اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں...اتمام محبت کے لئے تین سو تیرہ نام ذیل میں درج کرتا ہوں تاہر ایک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق وصفار کھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں.اللہ سب کو اپنی رضا کی راہوں میں ثابت قدم کرے.(۱۵) خطی نسخہ زیر نظر کے مزید نسخوں کی تلاش میں جب برٹش لائبریری لندن کے جناب محمد عیسی ولی کیوریٹر پرشین وٹرکش مینوسکرپٹ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ایرانی لائبریریوں اور بوڈلین لائبریری آکسفورڈ سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا.آکسفورڈ میں ڈیپارٹمنٹ آف اور نینٹل کولیکشن کی جناب ڈورس نکلسن صاحبہ نے اسی شعبہ کے اسلامک ایکسپرٹ جناب کولن و یک فیلڈ صاحب سے رابطہ کروایا جنہوں نے جواہر الاسرار" کے ایک دوسرے نسخہ میں وہ مقام تلاش کر دیا جہاں تھامہ اور کدعہ دونوں کا ذکر ہے.خاکسار ( مکرم عاصم جمالی صاحب و مکرم مولا نا نصر اللہ خان صاحب ناصر ) کے رابطہ خانہ فرہنگ راولپنڈی سے معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں گنج بخش مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان میں جواہر الاسرار کا نسخہ موجود ہے چنانچہ وہاں کے لائبریرین ( کتابدار ) کے تعاون سے جواہر الاسرار کا متعلقہ نسخہ میسر آیا -الحمد لله علی ذالک.

Page 35

12 حوالہ جات (۱) تاریخ ہند وستان شمس العلماء مولوی محمد ذکا اللہ جلدم ، سنگ میل پبلیکیشنز لا ہور ۱۹۹۸ء صفحہ۱۸۲۱-۴۳ ۱۸-۱۸۵۸.(۲) محمد قاسم فرشته، تاریخ فرشتہ، جلد دوم، ترجمه عبدالحئی خواجہ ، بک ٹاک میاں چیمبرز ٹیمپل روڈ لاہور، صفحہ ۳۵۵-۳۵۶.(۳) جواہر الاسلام قلمی از گنھے بخش مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، نسخه صفحه ۱۲.(۴) محمد قاسم فرشته ، تاریخ فرشته، جلد دوم، ترجمہ عبدالحئی خواجہ ، بک ٹاک میاں چیمبر ٹیمپل روڈلاہور، صفحہ ۳۵۵-۳۵۶.(5) Catalouge of the Persian Manuscripts in the British Museum By Charles Rie Phd.Vol:1 PP.43-44 (1) شیخ محمد اکرام ، آب کوثر، فیروز سنز لمیٹیڈ لاہور طبع پنجم ۱۹۶۵ء صفحہ ۳۶۶ تا ۳۷۷.(7) Catalouge of the Persian Manuscripts Bodlein Library University of Oxford Department of Orienatal Collection London.(۸) اشارات فریدی جلد ۳ صفحہ سے مطبوعہ مفید عام پر لیس آگرہ.(۱۰۹) فهرست نسخه ھائے خطی کتابخانه گنج بخش تالیف محمدحسین تسبیحی ، جلد دوم صفحہ نمبر ۱۲۸-۱۲۹-۱۲۰.(11) Catalouge of the Persian Manuscripts Bodlein Library University of Oxford Department of Orienatal Collection London.(12) http://www.noormicrfilindia.com/mulall.htm.(۱۳) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۲۵.(14) Catalouge of the Persian Manuscripts Bodlein Library University of Oxford Department of Orienatal Collection London.(۱۵) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۳۲۵.

Page 36

13 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار اصحاب بدر ابتداء اسلام میں ایک عظیم معرکہ حق و باطل ہوا جس میں بدر کے مقام پر ۳۱۳ - اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شاندار قربانیوں کا نمونہ دکھاتے ہوئے بے سروسامانی کی حالت میں کفار مکہ کے ایک ہزار آزمودہ کار جنگجوؤں کو شکست فاش دی.قرآن کریم نے اس معرکہ حق و باطل کو يَومُ الفُرقان قرار دیا اور تاریخ عالم نے خدائے ذوالجلال کی عظمت کا ایک عظیم الشان نشان اور فتح مبین قرار دیا ہے.انہی اصحاب بدر کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے.جن کا ذکر حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اپنی کتاب انجام آتھم میں ایک اور پیشگوئی کا پورا ہونا کے عنوان میں کیا ہے اور اخلاص و وفا اور قربانی میں اپنے رفقاء کو ان کے مشابہ قرار دیا ہے.مقام بدر: رمضان المبارک ہ ھ بمطابق ۶۲۴ء کو اصحاب بدر اور کفار مکہ کے درمیان بدر کے مقام پر یہ معرکہ ہوا مقام بدر مدینہ سے ۸۰ میل جنوب مغرب بطرف اُس شاہراہ پر واقع ہے جو زمانہ قدیم سے شام اور ملکہ کے درمیان تجارتی قافلوں کی گزرگاہ رہی ہے.بحیرہ احمر سے اس مقام کا فاصلہ دس بارہ میل ہے.( معجم البلدان زیر لفظ بدر ورسول رحمت صفحه ۲۷۶ مصنفہ مولانا غلام رسول مہر ) غز و بدر کی اہمیت: غزوہ بدر کا نام اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان (حق و باطل میں فیصلہ کر دینے والا ) رکھا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 66.وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعُ......(سورة الانفال آیت : 42) اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر حق و باطل میں فیصلہ کر دینے والے دن میں نازل کیا تھا.جس دن کہ دونوں لشکر جمع ہوئے تھے.اس غزوہ میں شامل ہونے والے اصحاب بدر کہلاتے ہیں جن کی عظمت اور علو مرتبت کا ذکر کرنا مقصود ہے.اللہ تعالیٰ غزوہ بدر میں اہل ایمان کی تائید و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ اَذِلَّةٌ...(سوره آل عمران آیت : 124) ( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ اس سے پہلے ) بدر میں جب کہ تم حقیر اور قلیل التعداد) تھے یقینا تمہیں مدد دے چکا ہے.یہ نصرت الہی کفار کی سزا ہی کے لئے تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.

Page 37

14 وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَفِرِينَ لِيُحِقَّ الْحَقِّ وَيُنطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ ، ( سورۃ الانفال : 9.8) اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تا وہ اس طرح حق قائم کر دے اور باطل کو تباہ کر دے.خواہ مجرم اسے ناپسند ہی کیوں نہ کرتے ہوں.اس وقت نصرت الہی مومنوں کے ساتھ کچھ اس طرح شاملِ حال ہوئی جو قرآن کریم کے مطابق قبولیت دعا اور فرشتوں کی معیت کو ظاہر کرتی ہے.سورۃ الانفال میں ہے: إِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَكَةِ مُرْدِفِينَ (سورۃ الانفال آیت : 10) یعنی (اس وقت کو بھی یاد کرو) جب کہ تم اپنے رب سے التجائیں کرتے تھے اس پر تمہارے رب نے تمہاری دعاؤں کو سنا ( اور کہا کہ ) میں تمہاری مدد ہزار فرشتوں سے کروں گا.جن کا لشکر کے بعد لشکر بڑھ رہا ہوگا.اصحاب بدر کی فدائیت : قرآن کریم اور کتب حدیث میں اصحاب احمد کے جذبہ ایمانی اور فدائیت کا ذکر یوں ہے.آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے لشکر کفار کا ذکر کر کے مشورہ طلب فرمایا تو اس پر صحابہ نے جس فدائیت کا نمونہ دکھلایا وہ بے مثال ہے.اس موقع پر آپ انصار کے جواب کے منتظر تھے کہ وہ بھی کچھ بولیں.آپ کا خیال تھا کہ شاید انصاریہ سمجھتے ہوں کہ بیعت عقبہ کے تحت ہمارا فرض صرف اس قدر ہے کہ اگر مدینہ پر کوئی حملہ ہو تو اس کا دفاع کریں گے.چنانچہ باوجود اس عہد و پیمان کے آپ یہی فرماتے رہے کہ مجھے مشورہ دوسیرت ابن ہشام میں ذکر ہے بر ترجمہ: حضرت سعد بن معاذ رئیس اوس نے آپ کا منشاء سمجھ لیا تھا.اور انصار کی طرف سے عرض کی اے اللہ کے رسول شاید آپ ہماری رائے پوچھتے ہیں خدا کی قسم جب ہم آپ کو سچا سمجھ کر آپ پر ایمان لے آئے ہیں اور ہم نے اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دیا ہے تو پھر اب آپ جہاں چاہیں چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں.اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے.اگر آپ میدے اللہ ہمیں سمندر میں کود جانے کو کہیں گے تو ہم کود جائیں گے.اور ہم میں سے ایک فرد بھی دشمن سے مقابلہ میں پیچھے نہیں رہے گا.اور انشاء اللہ آپ سہمیں لڑائی میں صابر پائیں گے.اور ہم سے وہ بات دیکھیں گے.جو آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے گی.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد کی یہ تقریرین کر بہت خوش ہوئے.محضرت کے صحابہ اپنے عملی نمونہ میں بھی پیش پیش تھے.چنانچہ میدان بدر میں جب کفار مکہ کے سرداروں عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ نے مبارزت چاہی تو بلا تامل انصار مقابلے کے لئے بڑھے.لیکن کفار نے

Page 38

15 انصار کی بجائے اپنے خاندان والوں سے مقابلہ کرنا چاہا.اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہ بن الحارث کو مقابلے کے لئے بھجوایا.جنہوں نے ان تینوں سردارانِ ( ترجمه روایت ابوداؤ د کتاب الجہاد باب في المبارزة ) مکہ کو تہ تیغ کر دیا.“ انصار کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ بدر کے روز میں صف میں کھڑا تھا کہ میں نے اپنے دائیں اور بائیں دولڑکوں کو پہلو بہ پہلو کھڑے پایا.چنانچہ ان لڑکوں میں سے ایک نے مجھے پوچھا کہ چچا ابو جہل کہاں ہے؟ میں نے کہا میرے بھتیجے تو کیا کرے گا.اُس نے کہا میں نے اللہ سے عہد کیا ہوا ہے کہ میں اُسے قتل کروں گا.یا اس کوشش میں مارا جاؤں گا اور یہی بات خاموشی سے دوسرے نے کہی.میں خوش ہوا کہ میں بہادر آدمیوں کے درمیان کھڑا ہوں اور میں نے ابو جہل کی طرف اشارہ کر دیا.میرا اشارہ کرنا تھا کہ دونوں نو جوان اس پر عقاب کی طرح جھپٹے اور اس کو حملہ کر کے شدید زخمی کر دیا.“ بدری صحابہ کی فضیلت: ( بخاری کتاب المغازى باب فضل من شهد بدر) حضرت حارثہ ابھی جوان تھے وہ جنگ بدر میں شہید ہوئے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت الفردوس میں ہے.( بخاری کتاب الجہاد والسير ، باب من آتاه هم غرب فقتله ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بدر اور حدیبیہ میں شمولیت کی وہ دوزخ میں نہیں جائے گا.“ ( مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 396 مطبوعہ بیروت 1978ء) دوسری روایت میں آتا ہے کہ: (ترجمہ) حضرت جبرئیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اصحاب بدر کا مقام پوچھا تو آپ نے فرمایا وہ سب مسلمانوں سے افضل ہیں.تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہی مقام بدر میں شامل ہونے والے فرشتوں کا دیگر ( بخاری کتاب المغازی باب شہود الملئکتہ بدراً) فرشتوں سے ہے.اصحاب بدر کی تعداد صحیح بخاری میں صحاب بدر کی تعدا 310 سے کچھ زیادہ بیان ہوئی ہے.( صحیح بخاری کتاب المغازی باب عدة اصحاب بدر) حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ علیہ نے مشرکین کو دیکھا وہ ایک

Page 39

16 ہزار تھے اور آپ کے صحابہ 319 تھے.(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب الامداد بالملائكة في غزوہ بدر ) مسند احمد بن حنبل میں حضرت ابن عباس سے اہل بدر کی تعداد 313 مروی ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر اول صفحه : 248) حضرت عبداللہ بن عمر و سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ بدر کے دن 315 اصحاب کے ساتھ نکلے.حضرت ابوایوب انصاری سے روایت ہے کہ جب ہم مدینہ سے نکل کر ایک دو یوم کی مسافت طے کر چکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردم شماری کا حکم دیا جب تعداد شمار کی گئی تو ہم ۳۱۳ تھے یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد کی.(دلائل النبو لیبتی ابواب مغازی رسول اللہ باب ذکر عد داصحاب رسول اللہ جلد نمبر 3 صفحہ 37) اسی طرح بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ایک روایت ہے اہل بدر کی تعداد 313، اور 314 بیان کی ہے.دلائل النبوة جلد 3 صفحہ 40 مطبوعہ بیروت 1985ء) طبرانی نے بھی حضرت ابوایوب انصاری سے ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں اصحاب بدر کی تعداد 313 لکھی ہے.حضرت امام ابن سیرین بیان کرتے ہیں: ( معجم الکبیر طبرانی جلد نمبر 4 صفحہ 175) ترجمہ اہل بدر کی تعداد تین سو تیرہ یا تین سو چودہ تھی.ابن اسحاق کے نزدیک بشمول آنحضرت علی یہ تعداد 314 ہے.جن میں 83 مہاجرین، 1 6 قبیلہ اوس (ابن ہشام من حضر بدراً من المسلمین جلد نمبر 1 صفحه 270) سے اور 170 خزر جی تھے.علامہ ابن حجر شارح بخاری نے اصحاب بدر کی تعداد کے بارے میں مختلف اقوال درج کئے ہیں.(فتح الباری جلد نمبر 7 صفحہ: 2920) ان سب روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب بدر کی تعداد 313 ہی تھی.0000000

Page 40

17 وَكَمْ مِّنْ عِبَادِ الْرُونِي بِصِدْقِهِمْ کلام حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ وَإِنِّي بِبُرُهَـــانٍ قَوِيٌّ دَعَوْتُهُمُ وَإِنِّي مِنَ الرَّحْمَنِ حَكَمٌ مُعَدِّمِرُ اور میں نے ایک قومی حجت کے ساتھ اُن کو بلایا ہے اور میں خدا کی طرف سے اختلاف کا فیصلہ کرنے والا آیا ہوں وَقَدْ جِئْتُ فِي بَدْرِ الْمِنِينَ لِيَعْلَمُوا كَمَالِي وَنُوُرِى ثُمَّ هُمُ لَمْ يَبْصُرُوا اور میں ان کے پاس چودھویں صدی میں آیا جو صدیوں کی بدر ہے تا کہ وہ میرا کمال اور میر انور جان لیں.پھر وہ نہیں دیکھتے وَإِنَّ الْوَرى مِنْ كُلِّ فَجٍّ يَجِيتُنِي وَيَسْعَى إِلَيْنَا كُلُّ مَنْ كَانَ يُبْصِرُ اور مخلوق ہر ایک راہ سے میرے پاس آ رہی ہے اور ہر ایک دیکھنے والا میری طرف دوڑ رہا ہے وَكَمْ مِّنْ عِبَادٍ أَثَرُونِي بِصِدْقِهِمْ عَلَى النَّفْسِ حَتَّى خُوِّفُوا ثُمَّ دُمِّرُوا بہت سے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جان پر مجھ کو اختیار کر لیا یہاں تک کہ ڈرائے گئے پھر قتل کئے گئے وَمِنْ حِزْبِنَا عَبْدُ اللَّطِيفِ فَإِنَّهُ ارىٰ نُورَ صِدْقٍ مِنْهُ خَلْقٌ تَهَكَّرُوا اور ہمارے گروہ میں سے مولوی عبد اللطیف ہیں کیونکہ اس نے اپنے صدق کا نو ر ایسا دکھلایا کہ اسکے صدق سے لوگ حیران ہو گئے جَزَى اللَّهُ عَنَّا دَائِمًا ذَلِكَ الْفَتَى قَضَى نَحْبَهُ لِلَّهِ فَاذْكُرُ وَفَكِّرُ خدا اس جوان کو بدلہ دے وہ اپنی جان خدا کی راہ میں دے چکا.پس سوچ اور فکر کر عِبَادٌ يَكُونُ كَمُبْسِرَاتٍ وُجُودُهُمْ إِذَامَا آتَوُا فَالْغَيْـتُ يَأْتِي وَيَمْطُرُ یہ وہ بندے ہیں کہ مون سون ہوا کی طرح ان کا وجود ہوتا ہے جب آتے ہیں تو ساتھ ہی بارش رحمت کی آتی ہے أَتَعْلَمُ أَبْدَالا سِوَاهُمْ فَإِنَّهُمُ رُمُوا بِالْحِجَارَةِ فَاسْتَقَامُوا وَأَجْمَرُوا کیا توان کے سوا کوئی اور ابدال جانتا ہے کیونکہ یہ لوگ ہیں جن پر پھر چلائے گئے تو انہوں نے استقامت اختیار کی اور ان کی جمعیت باطنی بحال رہی (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 328 تا330)

Page 41

18 کامل عاشقاں در عظمت مولی فنا ( کلام حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ) کامل آن باشد که با فرزند وزن با عیال و جمله مشغولئے تن! وہ ہوتا ہے جو باوجود بیوی بچوں کے اور باوجود عیال اور جسمانی مشاغل کے با تجارت با همه بیع و شراء! یک زماں غافل نه گردد از خدا اور باوجود تجارت اور خرید و فروخت کے کسی وقت بھی خدا سے غافل نہیں ہوتا ایں نشانِ قوتِ مردانه است کاملاں را بس ہمیں پیمانہ است یہ ہے مردوں والی طاقت کا نشان کاملوں کے لئے بس یہی معیار ہے کاروبار عاشقاں کار جداست برتر از فکر و قیاسات شماست عاشقوں کا کاروبار ہی جدا ہے اور تم لوگوں کے فکر و قیاس سے بالاتر جاں فروشان از چنے مد پیکرے بر زبان صد قصه ها از دیگرے ان کی جان تو ایک حسین کے لئے تڑپتی ہے اور ان کی زبان پر اور کا ذکر ہوتا ہے فانیاں را مانعی از یار نیست بچه و زن برسرِ شاں بار نیست فانی لوگوں کے لئے کوئی چیز بھی یار سے مانع نہیں ہے.بیوی اور بچے ان کے سر پر بوجھ نہیں ہوتے عاشقاں در عظمت مولی فنا غرقه دریائے توحید از وفا! عاشق مولیٰ کی عظمت میں فنا ہیں اور وفاداری کی وجہ سے دریائے توحید میں غرق ہیں کین و مہر شاں ہمہ بہرِ خداست قہر شاں گرہست آں قہر خداست ان کی دشمنی اور دوستی سب خدا کے لئے ہے اگر ان کو غصہ بھی آتا ہے تو وہ خدا کا ہی غصہ ہے آنکه در عشق احد محو و فنا است ہر چہ زو آید ز ذاتِ کبریاست جو خدا کے عشق میں فانی اور محو ہے جو کچھ بھی وہ کرتا ہے وہ ذاتِ کبریا کی طرف سے ہے (اخبار ریاض ہندا مرتسر مورخہ یکم مارچ1886ء بحوالہ درنمین فارسی)

Page 42

19 ☆ -1.حضرت منشی جلال الدین صاحب بلانوی پنشنز سابق میر منشی رجمنٹ نمبر ۱۲ موضع بلانی کھاریاں ضلع گجرات ولادت ۱۸۳۰ء.بیعت مئی ۱۸۸۹ ء.وفات اگست ۱۹۰۲ء تعارف : حضرت منشی جلال الدین رضی اللہ عنہ مغل برلاس خاندان سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے آباؤ اجدا دقندھار (افغانستان ) سے ہجرت کر کے صوبہ پنجاب کے علاقہ گجرات میں آئے تھے.آپ کے والد کا نام مرزا غلام قادر صاحب تھا جو اس علاقہ میں طبیب تھے.ولادت و ابتدائی حالات: آپ ۱۸۳۰ء کو موضع بلانی میں پیدا ہوئے.آپ کی عمر سات سال تھی کہ آپ کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا.چنانچہ آپ کے ماموں مرزا زین العابدین نے آپ کے لئے گھر پر اساتذہ رکھ کر آپ کو تعلیم دلائی.آپ فارسی اور عربی کے معروف عالم تھے.چودہ برس کی عمر میں آپ کی شادی ہوگئی اور اسی عمر میں آپ کو سرکاری ملازمت مل گئی.۱۸۶۴ ء تک ملازمت کرتے رہے.بعد ازاں میر منشی کے طور پر فوج میں بھرتی ہو گئے اور ۱۸۹۵ء میں فوج سے ریٹائر ہوئے.حضرت اقدس سے تعلق : ۱۸۷۸ء میں اخبار منشور محمدی بنگلور میں آپ کی نظر سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مضمون گزرا.مضمون پڑھتے ہی دل نے گواہی دی کہ یہ مضمون کسی عام آدمی کا نہیں ہوسکتا.یہ یقیناً وہی شخص ہے جس کی آمد کے بارے میں حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں ہیں.چنانچہ آپ قادیان کے لئے روانہ ہو گئے مگر کسی روک کے باعث آپ واپس لوٹ آئے.بیعت کا پس منظر : ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت خواب میں ہوئی تو دل کی بے قراریاں اور بڑھ گئیں.دوبارہ جب حضرت اقدس کی زیارت خواب میں ہوئی تو آپ نے حضور کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا حضور ! آپ مجھے اپنے نام اور جائے قیام سے مطلع فرما ئیں تو حضرت نے آپ کو نام اور رہائش بتادی.جب آپ کی رجمنٹ جھانسی چلی گئی تو ۱۸۸۲ء یا ۱۸۸۳ء میں آپ نے چند ماہ کی رخصت لی اور قادیان کے لئے رخت سفر باندھا.یکے والا حضرت اقدس کے علاوہ کسی اور کے پاس آپ کو لے گیا تو آپ نے کہا کہ یہ وہ شخص نہیں اس پر یکے والا آپ کو حضرت اقدس کے پاس لے گیا.حضور پر نور کو دیکھتے ہی آپ نے پہچان لیا اور بیعت کی درخواست کی لیکن حضرت اقدس نے فرمایا کہ ابھی بیعت لینے کا حکم نہیں ملا.بیعت: جب حضرت اقدس نے بیعت کا اعلان فرمایا تو آپ نے فوراً بیعت کر لی.رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت ۹۳ نمبر پر درج ہے.بیعت کے بعد ایک نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی کہ آپ کی عبادات میں اس قدر رقت اور

Page 43

20 خشیت تھی کہ آنسوؤں سے آپ کا چہرہ مبارک تر ہوکر گرتا بھی بھیگ جایا کرتا.خدمت دین کا موقع : ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں آپ نے ایک خواب دیکھا کہ حضرت اقدس نے آپ کا نکاح ایک باکرہ ( کنواری لڑکی ) سے کر دیا ہے.خواب عرض کرنے پر حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ آپ کوئی دینی خدمت سرانجام دیں گے.چنانچہ آپ نے کتاب ” ثوابت قرآنی غلام احمد قادیانی“ بڑی جانفشانی سے لکھنی شروع کی مگر وہ مکمل نہ ہوسکی.آپ کی تبلیغ سے سردار سندر سنگھ وضعدار اور سردار جگت سنگھ لیس دفعدار مشرف بہ اسلام ہو کر احمدی ہوئے جن کا اسلامی نام بالترتیب سردار فضل حق “ اور شیخ عبدالرحیم تھا.حضرت منشی صاحب کا اعزاز : حضرت منشی صاحب نے جلسہ اعظم مذاہب عالم کے انعقاد میں خدمت کا اعزاز حاصل کیا.حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی اپنے ایک مضمون ۲۰ / جولائی ۱۹۴۶ء میں لکھتے ہیں:.جلسه اعظم مذاہب لاہور کے انعقاد سے قبل سوامی شوگن چندر رسالہ فوجی میں ہیڈ کلرک تھے اور منشی جلال الدین صاحب کے ہم نشین اور ہم صحبت تھے.حضرت اقدس مسیح موعود کے جلسہ اعظم مذاہب عالم لاہور میں شہرہ آفاق مضمون ”اسلامی اصول کی فلاسفی میں حضرت منشی صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہوا.حضرت صاحب نے منشی صاحب کو اس کی کاپی لکھنے پر مامور کیا اور فرمایا کہ حضرت منشی صاحب کا خط مايقرا ہے اس لئے آپ ہی اس کو لکھیں چنانچہ منشی صاحب نے وہ مضمون اپنی قلم سے لکھا.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ازالہ اوہام میں آپ کا ذکر مخلصین میں ہے.حضرت اقدس نے انجام آتھم میں اپنے مخلص دوستوں میں اور اشتہار ۲ فروری ۱۸۹۸ء میں اپنی پر امن جماعت میں آپ کا نام درج فرمایا ہے.اشتہار یکم جولائی ۱۹۰۰ء میں چندہ دہندگان منارۃ اُسیح میں آپ کا نام درج ہے.اسی طرح ملفوظات جلد چہارم میں بھی آپ کا نام محبت بھرے الفاظ میں درج ہے.وفات: اگست ۱۹۰۲ء میں آپ وفات پاگئے اور تدفین موضع بلانی میں ہوئی.آپ کا کتبہ یاد گار بہشتی مقبرہ قادیان میں ہے.آپ کی وفات پر حضرت اقدس نے سرد آہ بھر کر فرمایا حضرت منشی جلال الدین مرحوم ہمارے یکتا اور بے نظیر دوست تھے.“ آپ کی اولاد : آپ کی اولاد میں چار بیٹیاں اور چار بیٹے تھے.بڑے بیٹے مرزا محمد قیم لا ولد فوت ہو گئے.ایک بیٹا بچپن میں فوت ہو گیا.تیسرے بیٹے حضرت مرزا محمد اشرف کو بھی صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا.حضرت مرزا محمد اشرف صاحب صدر انجمن احمد یہ قادیان میں محاسب اور ناظم جائیداد ر ہے ہیں.جب کہ آپ کے اسی بیٹے سے نظام تحریک جدید کے پہلے واقف زندگی مرزا محمد یعقوب مرحوم تھے اور بیٹی مولانا محمد یعقوب طاہر صاحب انچارج صیغہ زود نویسی کی اہلیہ تھیں.مولانا محمد یعقوب طاہر صاحب کے بیٹے مکرم داؤ د احمد طاہر کمشنر انکم ٹیکس (ریٹائرڈ) اسلام آباد اور ایک داماد مولانا سعید احمد اظہر مرحوم ( مربی سلسلہ ) نائب ناظر مال تھے.حضرت منشی صاحب کے چوتھے بیٹے مرزا محمد افضل بھی رفیق بانی سلسلہ تھے.اسی طرح حضرت منشی صاحب کے برادران ماسٹر

Page 44

21 فضل الرحمن اور مرزا کمال الدین کو بھی رفیق بانی سلسلہ ہونے کی سعادت ملی.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائین جلد نمبر ۳ (۲) ضمیمہ انجام آنقم روحانی خزائن جلد نمبر ۱۸ (۳) مجموعه اشتہارات جلد سوم (۴) ملفوظات جلد چہارم (جدید ایڈیشن) (۵) رجسٹر بیعت از تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۴۸ (۶) اصحاب احمد جلد دہم ( ۷ ) سوانح حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی ( ۸ ) الحکم ۷ اپریل ۱۹۳۸، جلد ۴۳ نمبر ۱۳.☆ ۲.حضرت مولوی حافظ فضل دین صاحب.کھاریاں ضلع گجرات ولادت : ۱۸۵۶ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۴ را کتوبر ۱۹۳۲ء تعارف: حضرت مولوی حافظ فضل دین رضی اللہ عنہ کے والد کا نام حافظ عبداللہ صاحب تھا.آپ کے آباؤ اجداد کئی پشتوں سے حافظ چلے آتے تھے.دینی تعلیم کی تکمیل ہندوستان کے مختلف مدارس میں کی اور فارغ التحصیل ہونے پر کھاریاں کی مسجد کے امام بنے.بیعت کا پس منظر : جب کھاریاں میں عیسائی مشن کھولا گیا تو علاقے کے تمام لوگ پریشان تھے.آپ نے اپنے حلقہ درس کے شاگردوں کو فرمایا کہ ویرانوں میں جا کر دعائیں کرو.چنانچہ آپ خود بھی خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعائیں کرتے رہے.ایک دن عصر کی نماز کے لئے آپ وضو فرما رہے تھے کہ کسی نے آپ کو ایک اشتہار دیا.جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی ماموریت کا اعلان تھا.آپ کی بیعت : آپ نے ۱۸۹۲ء میں بیعت کی.رجسٹر بیعت میں آپ کا نام۳۵۴ نمبر پر ہے اور تاریخ بیعت ۸ ستمبر ۱۸۹۲ء درج ہے.آپ کی بیعت کے بعد کھاریاں کے لوگ احمدیت میں داخل ہونا شروع ہوئے اور گردونواح میں احمدیت نے بہت ترقی کی.مقدمہ جہلم کے دوران ۱۹۰۳ء میں جب حضرت اقدس مسیح موعود جہلم تشریف لائے تو آپ کھاریاں اسٹیشن پر حضور کی زیارت کے لئے گئے.جب گاڑی کھاریاں کے ریلوے اسٹیشن پر رکی تو زیارت کے لئے لوگ کشاں کشاں آئے اور کثرت سے لوگوں نے بیعت کے لئے اپنی پگڑیاں پھیلائیں اور ان کو پکڑ کر بیعت کی.خدمت دین : جب مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی تو ان دنوں آپ قادیان گئے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود نے آپ کو دینیات کا مدرس مقرر فرمایا.آپ کے ذریعہ ضلع گجرات میں متعدد احمدی جماعتیں قائم ہوئیں.آپ امیر جماعت احمد یہ بھی رہے.وفات : آپ نے بعمر ۷۶ سال ۱/۱۴اکتوبر ۱۹۳۲ء کو وفات پائی.آپ موصی تھے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.

Page 45

22 اولاد آپ کی اولاد میں آپ کے بیٹے چوہدری سعد الدین صاحب، ڈاکٹر کریم الدین صاحب اور چوہدری عبدالرحمن صاحب ہیں.دو بیٹیاں مکرمہ غلام فاطمہ بیگم اہلیہ چوہدری محمد ابراہیم آف اسماعیلہ جو کہ مکرم چوہدری منیر احمد صاحب مبلغ سلسلہ حال ایم ٹی اے ارتھ سٹیشن یو ایس اے کی دادی اور مکرم رشید احمد طیب صاحب مربی سلسله ابن مکرم عزیز احمد صاحب سابق ٹیچر ٹی آئی ہائی سکول بشیر آباد سندھ کی نانی محترمہ ہیں.( جو چوہدری محمد اسمعیل خالد صاحب مرحوم کی والدہ تھیں) اور مکرمہ ہاجرہ بیگم (اہلیہ چوہدری فضل الہی سابق امیر جماعت کھاریاں ) کی بیٹی مکرمہ طاہرہ جبیں صاحبہ اہلیہ مولانا محمد اشرف ناصر صاحب مرحوم مربی سلسلہ احمدیہ ہیں اور آپ کے ایک بیٹے مکرم محمد انور طاہر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ ہیں.ایک بیٹے مکرم افضل طاہر حلقہ رحمان پورہ لاہور اور مکرم فرید طاہر صاحب وقف جدید میں ہیں.آپ کے ایک پوتے (چوہدری سعد الدین صاحب کے ایک بیٹے ) ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب پہلے فضل عمر ہسپتال اور پھر مغربی افریقہ میں خدمات بجالاتے رہے ہیں.اور ان کے ایک بیٹے ڈاکٹر انوارالدین ہارٹ سپیشلسٹ طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ ربوہ میں خدمت سر انجام دے چکے ہیں.آپ کی ایک پوتی (چوہدری سعد الدین صاحب کی بیٹی ) مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب ناظر خدمت درویشاں (سابق ناظر اصلاح وارشاد مرکزیہ ) کی اہلیہ محترمہ ہیں.ماخذ : (۱) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۶۲ جدید ایڈیشن (۲) روزنامه الفضل ربوه ۹ /اگست ۱۹۹۹ء (۳) ماہنامہ انصار اللہ مارچ ۱۹۷۸ء (۴) بیان مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب ربوه (۵) بیان رشید احمد طیب صاحب مربی سلسلہ بوہ.۳.حضرت میاں محمد دین پٹواری بلانی کھاریاں ضلع گجرات ولادت :۱۸۷۳ء.بیعت : ۱۸۹۴ء.وفات: یکم نومبر ۱۹۵۱ء تعارف: حضرت میاں محمد دین رضی اللہ عنہ موضع حقیقہ پنڈی کھاریاں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام میاں نورالدین صاحب تھا.ایک روایت کے مطابق آپ شاہ پور کے علاقہ میں جھمٹ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جہاں سے آپ کے بزرگ نقل مکانی کر کے کھاریاں کے علاقے میں آگئے تھے.آپ ابتداء میں پٹواری تھے.۱۸۸۹ء میں تقرری موضع بلانی میں ہوئی.بعد میں ترقی پا کر گر داور ، قانونگو اور واصل باقی نویس بنے.آپ ۱۹۲۹ء میں ریٹائر ہوئے.بیعت کا پس منظر : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت منشی جلال الدین بلا نوی نے ۱۸۹۳ء میں سیالکوٹ سے اپنے بیٹے مرزا محمدتقیم صاحب کو کتابیں بھجوائیں.انہوں نے حضرت میاں محمد دین سے کہا کہ آپ دوسری کتابیں پڑھتے رہتے ہیں یہ بھی پڑھ کر دیکھیں.انہوں نے براہین احمدیہ آپ کو دی.حضرت میاں صاحب

Page 46

23 نے جب حضرت اقدس کی کتاب براہین احمدیہ پڑھنی شروع کی تو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر آپ کو کامل یقین ہو گیا.رجسٹر روایات جلد نمبرے میں آپ کی روایت درج ہے:.براہین کیا تھی آب حیات کا بحر ذخار تھا.براہین کیا تھی ایک تریاق کو ہ لائی تھا یا تریاق اربعہ دافع صرع و لقوہ تھا.براہین کی تھی ایک عین روح القدس یا روح مکرم یا روح اعظم تھا.براہین کیا تھی يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ تھی ایک نورِ خدا تھا جس کے ظہور سے ظلمت کا فور ہوگئی.آریہ، برہم ، دہریہ لیکچر اروں کے بداثر نے مجھے اور مجھ جیسے اکثروں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان اثرات کے ما تحت لا یعنی زندگی بسر کر رہا تھا کہ براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوں صفحہ ۹۰ کے حاشیہ نمبر اپر اور صفحہ ۱۴۹ کے حاشیہ نمبر پر پہنچا تو معا میری دہریت کا فور ہوگئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کوئی سویا ہوایا مرا ہوا...زندہ ہو جاتا ہے.(اخبار الحکم اکتوبر ۱۹۳۸ء) سردی کا موسم جنوری ۱۸۹۳ء کی ۱۹ تاریخ تھی.آدھی رات کا وقت تھا جب میں ہونا چاہئے“ اور ” ہے“ کے مقام پر پہنچا.پڑھتے ہی توبہ کی.کورا گھڑا پانی کا بھرا با ہر حسن میں پڑا تھا.سرد پانی سے تہہ بند پاک کیا.میرا ملازم سمی منگو سور ہا تھا وہ جاگ پڑا.وہ مجھ سے پوچھتا تھا کہ کیا ہوا؟ لاچہ ( تہہ بند ) مجھ کو دو.میں دھوتا ہوں مگر میں اس وقت ایسی شراب پی چکا تھا کہ جس کا نشہ مجھے کسی سے کلام کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا.آخرمنکو اپنا سارا زور لگا کر خاموش ہو گیا اور میں نے گیلا لاچہ پہن کر نماز پڑھنی شروع کی اور منگتو دیکھتا رہا.محویت کے عالم میں نماز اس قدر لمبی ہوئی منگو تھک کر سو گیا اور میں نماز میں مشغول رہا.پس یہ نماز براہین نے پڑھائی کہ بعد ازاں آج تک میں نے نماز نہیں چھوڑی.یہ حضرت مسیح موعود کے ایک عظیم معجزہ کا اثر تھا.اس پر میری صبح ہوئی تو میں وہ محمد دین نہ تھا جوکل شام تک تھا.“ بیعت : حضرت منشی جلال الدین بلانی تشریف لائے تو ان سے پتہ پوچھ کر بیعت کا خط لکھ دیا اور ۵ جون ۱۸۹۵ء کو حضرت اقدس سے دستی بیعت کی.خدمات : آپ نے ریٹائر ہونے کے بعد قادیان میں سکونت اختیار کی.سندھ کی زرعی زمینوں کے نگران رہے.تقسیم ملک کے بعد قادیان میں درویش کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے.(۱۹۳۰ء میں آپ نے خدمت دین کے لئے وقف زندگی کی تھی.) حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں اپنی پر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.وفات: قادیان میں یکم نومبر ۱۹۵۱ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.آپ کا وصیت نمبر ۱۸۵ ہے ۲۳ اکتوبر ۱۹۰۶ء کو آپ نظام وصیت میں شامل ہوئے.

Page 47

24 اولاد: آپ کی اولاد میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب ۱۸۹۸ء میں پیدا ہوئے ( آپ پیدائشی رفیق بانی سلسلہ تھے ) آپ ناظر مال خرچ اور ناظر اعلیٰ ثانی رہے.حضرت صوفی صاحب کے بیٹے مکرم چوہدری مبارک مصلح الدین احمد صاحب وکیل المال ثانی اور اب بطور وکیل التعلیم تحریک جدید خدمات بجالا رہے ہیں.حضرت میاں محمد دین صاحب کے بیٹے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ مرحوم.چوہدری غلام مرتضی مرحوم ایڈووکیٹ (سابق وکیل القانون )، چوہدری غلام یسین مرحوم سابق مربی امریکہ و جاپان اور انڈونیشیار ہے اور ان بھائیوں کی اولا دکو بھی خدمت سلسلہ کی توفیق ملی اور ابھی تک یہ توفیق پا رہے ہیں.حضرت میاں صاحب کے ایک پوتے چوہدری لطیف احمد صاحب جھمٹ ولد چوہدری غلام مرتضی صاحب نے مجلس نصرت جہاں کے تحت مغربی افریقہ میں کام کیا اور آج کل وکیل المال ثالث ہیں.اسی طرح آپ کی بیٹی زینب بی بی (ولادت: ۳۱ دسمبر ۱۹۰۳ء) الحاج مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل سابق مبلغ اٹلی و مغربی افریقہ کی اہلیہ تھیں، ان کے بیٹوں میں سے مکرم محمد زکریا ورک صاحب کنگسٹن کینیڈا اور مکرم محمد ادریس صاحب ایم اے جار جیا امریکہ میں ہیں.ماخذ : (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۳ (۲) مضمون ”براہین کے مطالعہ سے مطبوعہ روزنامہ الفضل ربوه ۲۶ / اپریل ۲۰۰۲ء (۳) ماہنامہ الفرقان ربوه درویشان قادیان نمبر اگست.اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۸۷ (۴) الفضل ۲۵ جولائی ۲۰۰۱ ء (۵) ماہنامہ انصار اللہ اپریل ۱۹۷۸ء (۶) رجسٹر روایات نمبر ۷ صفحه ۴۴.۴۶ (۷) یادوں کے چراغ (۸) انٹر ویواز مکرم چوہدری مبارک مصلح الدین احمد صاحب وکیل التعلیم تحریک جدیدر بوہ.-۴ حضرت قاضی یوسف علی نعمانی معہ اہلبیت تشام حصار بیعت: ابتدائی ایام.وفات: زمانہ حضرت اقدس میں تعارف و پس منظر بیعت : حضرت شیخ یوسف علی نعمانی رضی اللہ عنہ قصبہ تشام ضلع حصار کے رہنے والے تھے اور ریاست جنید میں ملازم تھے.سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں حضرت پیر سراج الحق نعمانی کی بیعت کی اور ان سے نہایت پُر جوش عقیدت اور ارادت رکھتے تھے.جب پیر صاحب نے حضرت اقدس کی بیعت کی تو آپ حضرت پیر صاحب سے بہت بحث و تکرار کرتے رہے.جب لا جواب ہو گئے تو پیر صاحب سے کہنے لگے.بتلائیں اب کیا کروں تو آپ نے فرمایا.تحقیقی بیعت کرنا تقلیدی بیعت نہ کرنا.حضرت اقدس کی بیعت منہاج نبوت کی بیعت ہے.حضرت اقدس سے روگردانی خدا سے روگردانی ہے اور آپ سے بیعت خدا سے بیعت ہے.شرف زیارت و بیعت : حضرت پیر صاحب سے گفتگو کے کوئی چار پانچ ماہ بعد حضرت شیخ صاحب معہ تحائف دارالامان حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پندرہ سولہ روز رہ کر شرف زیارت کے بعد وطن واپس چلے

Page 48

25 آئے.پھر دوبارہ قادیان گئے اور بیعت کر لی.آپ کے ذریعہ علاقہ جات سنگروز ، جیند ، ہانس ، شام ، دادری ، چرخی، رہتک میں سلسلہ احمدیہ کی اشاعت ہوئی اور بہت سے لوگ داخل سلسلہ احمد یہ ہوئے.آپ بار بار قادیان دارالامان آتے رہتے تھے.آپ کے بارے میں حضرت اقدس کی قبولیت دعا: ایک دفعہ آپ کی ملازمت میں ترقی رکی ہوئی تھی.آپ حضرت اقدس کو دعا کے لئے لکھتے رہے.حضرت اقدس جواب میں فرما دیتے تھے کہ ہاں دعا ضرور کریں گے.مطمئن رہو اور یاد دلاتے رہو.یہی بات حضرت پیر سراج الحق نے شیخ صاحب کو لکھ دی.موصوف نے چار ماہ تک ہر روز ایک عریضہ بھیجنا شروع کر دیا.ایک دن حضرت اقدس نے پیر صاحب سے فرمایا ”صاحبزادہ صاحب ہم نے دعا کر دی ہے ان کو لکھ دو کہ دعا کی گئی بلکہ قبول ہوگئی اب انشاء اللہ تعالیٰ جلد اپنے مقصد کو پہنچ جاؤ گے.اب سوائے خیریت کے اس قدر خطوط کی ضرورت نہیں.ابھی تین دن ہی نہ گزرے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ نے سب روکیں دور کر دیں.آپ ملازمت سنگروز کے دوران شدید بیمار ہو گئے اور وقت آخر سمجھ کر بغرض علاج قادیان تشریف لے گئے.حسب ارشاد حضرت اقدس آپ کو قریب کے مکان میں ٹھہرایا گیا.حضرت اقدس بھی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تھے.آپ کی صحت بہتر ہونی شروع ہوگئی.ایک رات بارہ بجے آپ کی حالت دگرگوں ہونی شروع ہو گئی.حضرت پیر صاحب حضور کی خدمت میں رات ایک بجے حاضر ہوئے اور حالت سے آگاہ کیا.حضرت اقدس نے کچھ ادویہ ایک گلاس میں ڈال کر دیں اور فرمایا جلدی جاؤ اور دوائی پلاؤ اللہ تعالیٰ شفا دے.( دوائی ) پلاتے ہی حضرت شیخ صاحب نے آنکھیں کھول دیں اور کچھ ہوش و حواس میں آگئے.صبح حضرت اقدس نے فرمایا کہ ایک دوا ہمیں الہاتا معلوم ہوئی ہے اس کو بھی شامل کر دیں اور روز میرے پاس سے لے جاویں.چنانچہ حضرت شیخ صاحب مکمل شفایاب ہو گئے.کچھ عرصہ بعد اچانک حالت غیر ہوگئی اور عصر کے وقت فوت ہو گئے.حضرت اقدس نے نماز جنازہ پڑھائی.حضور نے اتنی طویل نماز جنازہ پڑھائی کہ عشاء کا وقت ہو گیا.بعد نماز عشاء قادیان میں تدفین ہوئی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ میں پُرامن جماعت کے سلسلہ میں کیا ہے.ماخذ : (۱) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن ۱۳ (۳) خطبات محمود جلد ۱۴ (۵) رساله درود شریف (۶) تذکرۃ المہدی صفحه ۸۰ - ۱۰۲ ( ۷ ) ماہنامہ انصار اللہ مئی ۱۹۷۸ء

Page 49

26 ☆ ۵- حضرت میرزا امین بیگ صاحب معہ اہلبیت بہا لو جی جے پور بیعت : ابتدائی ایام.وفات : جون ۱۹۱۵ء سے قبل سکونت: حضرت میرزا محمد امین بیگ موضع بہا لوجی علاقہ کوٹ پوتلی ریاست کھیتر ی جے پور کے رہنے والے تھے.بیعت کا پس منظر : جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا تو اس بارے میں آپ کا اشتہار پڑھا جس سے قلبی اطمینان ہوا.تصدیق و بیعت حضرت اقدس : حضرت پیر سراج الحق نعمانی ہی سے آپ نے حضرت اقدس کے دعوی کے بارے میں سنا تو حضرت اقدس کے مصدق بنے اور قادیان حاضر ہوئے.حضرت اقدس مسیح موعود کی بیعت کی اور ایک مہینہ قادیان دارالامان میں رہے.حضور کو آپ سے بڑی محبت تھی.آپ ایک ظریف اور بذلہ سنج آدمی تھے آپ کی بات بات میں ظرافت تھی.حضرت اقدس میرزا امین بیگ صاحب سے گھنٹوں باتیں کرتے اور ظرافت آمیز باتوں سے لطف اٹھاتے.حضرت اقدس کی ایک ماہ کی صحبت کا اثر تھا کہ کوئی مولوی آپ کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا اگر چہ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے نمبر ۵۶ پر آپ کا ذکر کیا ہے کہ میرے ان احباب میں سے ہیں جو پُر امن اور حکومت کے وفادار ہیں.اخلاص و عقیدت: احمدیت کی صداقت پر یقین کی یہ کیفیت تھی کہ ایک روز کسی شخص نے کہا کہ تمہارا مرشد اول سراج الحق تو حضرت مرزا صاحب سے روگردان ہو گیا.( روگردانی کے بارہ میں غلط بیانی تھی ) اب تم بتاؤ تم کیا کرو گے تو آپ نے بڑا لطیف جواب دیا ”سراج الحق پھر گیا میں تو نہیں پھرا.“ وفات: تذكرة المہدی کے سن اشاعت ( 1915ء سے قبل) اندازہ ہے کہ آپ کی وفات اس وقت ہو چکی تھی.ماخذ: (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۳ (۲) تذکرة المهدی (۳) ماہنامہ انصار اللہ جون ۱۹۷۸ء ☆ ۶.حضرت مولوی قطب الدین صاحب بد ولی.سیالکوٹ ولادت: ۱۸۵۱ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۲۵ /اکتوبر ۱۹۴۸ء سکونت و ابتدائی تعلیم : حضرت مولوی حکیم قطب الدین رضی اللہ عنہ کی پیدائش ۱۸۵۱ء بمقام چدھڑ ضلع

Page 50

27 گوجرانوالہ میں ہوئی.آپ کے والد صاحب کا نام مولوی غلام حسین صاحب تھا جو کھوکھر راجپوت تھے.آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی.ازاں بعد ضلع جہلم کے مشہور عالم دین ( یکے از ۳۱۳) مولوی خان ملک کہیوال سے عربی علم حاصل کیا.جن ایام میں آپ لدھیانہ میں مولوی عبدالقادر صاحب سے پڑھتے تھے وہاں میر عباس علی لدھیانوی بھی پڑھنے آتے تھے.انہی دنوں سرسید احمد خان بھی لدھیانہ آئے تھے.حضرت اقدس کی زیارت : حضرت اقدس لدھیانہ تشریف لے گئے جہاں آپ کے قیام کا بندوبست محلہ نواں پنڈ میں تھا.ریلوے اسٹیشن پر پچاس آدمی استقبال کے لئے موجود تھے.حضرت اقدس گاڑی سے باہر تشریف لائے مولوی صاحب کا بیان ہے کہ حضرت اقدس کا چہرہ مبارک دیکھتے ہی آنکھیں پر نم ہو گئیں.طبیعت نے پلٹا کھایا اور یوں معلوم ہوا کہ پاؤں تلے سے زمین نکلی جا رہی ہے.دل پر ایسا اثر ہوا کہ جسم اندر سے پگھلا ہوا محسوس ہوا.اس وقت حضرت اقدس کا دعوی کا موریت تھا.جب پہلی مرتبہ قادیان گئے تو ایک نشان کے گواہ ٹھہرے جس دن حضرت صاحب کے کرتہ پر سرخی کے چھینٹے پڑنے کا واقعہ ہوا اس دن آپ بھی قادیان میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر تھے.تلاش حق : بیعت سے قبل آپ نے ایک دفعہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ میں حضور کو صادق سمجھتا ہوں لیکن جس رنگ کا اثر اہل اللہ کی صحبت کا سنا جاتا ہے وہ حضور کی صحبت میں بیٹھ کر اپنے اندر نہیں پاتا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ملک کا چکر لگائیں اور دیکھیں کہ جس قسم کے اہل اللہ آپ تلاش کرتے ہیں اور جو اثر آپ چاہتے ہیں وہ دنیا میں کہیں موجود بھی ہے یا نہیں.چنانچہ آپ نے اس غرض سے اجمیر، بمبئی، حیدرآباد دکن، کلکتہ وغیرہ کا چکر لگایا اور واپسی پر حضرت اقدس سے بٹالہ میں ملاقات ہوئی.بیعت اس عرصہ میں آپ کو ایک شخص چراغ دین ٹھیکیدار کے ذریعہ حضرت اقدس کی کتاب ازالہ اوہام ملی.بد ولی کے نمبر دار منشی سرفراز خان صاحب کو لے کر آپ قادیان پہنچے.حکیم مولانا نورالدین (خلیفتہ امسیح الاول) کی تحریک پر آپ نے حضرت اقدس کی بیعت ۱۸۹۲ء میں کی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام میں شرکاء جلسہ ۱۸۹۲ء میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.آریہ دھرم میں پُر امن جماعت کے احباب ساکنین قادیان میں آپ کا نام درج ہے.نیز کتاب البریہ میں پُر امن احباب کا ذکر کرتے ہوئے واعظ...بدوملہی اور سراج منیر میں آپ کا نام چندہ دہندگان میں ہے.نور القرآن میں آپ کا نام ان احباب میں جو امام کامل کے پاس حاضر ہیں، نمبر ۳ پر تحریر ہے.سلسلہ احمدیہ کے لئے خدمات: ایک دفعہ حضرت اقدس نے آپ کو تبلیغ کے لئے لاہور بھیجا تو چھ مہینے لاہور میں فریضہ تبلیغ سرانجام دیتے رہے.اسی طرح تبلیغ کے لئے حضرت اقدس نے آپ کو کئی دفعہ امرتسر، گوجرانوالہ، گجرات سیالکوٹ، فیروز پور ، لدھیانہ، انبالہ، رڑ کی اور سہارن پور وغیرہ بھیجا.

Page 51

28 حضرت عیسی علیہ السلام کے سفر ہجرت کی تحقیقات کے لئے حضرت اقدس کی تحریک پر آپ نے اپنے تئیں پیش کیا لیکن بعد میں کسی وجہ سے سفر نصیبین کی تجویز رہ گئی.طبابت : آپ خود ایک طبیب تھے اور تقسیم ہند سے قبل لمبا عرصہ تک قادیان میں حکمت کرتے رہے.وفات : تقسیم برصغیر کے وقت اکتوبر ۱۹۴۷ء کو راولپنڈی میں سکونت اختیار کی اور ۲۵ اکتو بر ۱۹۴۸ءسیالکوٹ میں وفات پاگئے.آپ کی وصیت نمبر ۴۶ تھی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ نمبرے حصہ نمبر ۲ میں ہوئی.اولاد: آپ کے تین بیٹے مکرم محد الحق صاحب ہمکرم ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب ہکرم محمد یوسف صاحب تھے اور ایک بیٹی مکرمہ عائشہ بی بی صاحبہ تھیں.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ (۲) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد نمبر ۱۰ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۳ (۴) سراج منیر روحانی خزائن جلد نمبر۱۲ (۵) نور القرآن نمبر ۲ (۶) تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحه ۶۸ (۷) ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ستمبر ۱۹۹۹ء.☆ ۷.حضرت منشی روڑ ا صاحب.....کپور تھلہ صاحب ولادت : ۱۸۳۹ء.بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات: ۲۵ /اکتوبر ۱۹۱۹ء ابتدائی حالات: حضرت خانصاحب منشی محمد اروڑا خان رضی اللہ عنہ کپورتھلوی محلہ قصاباں کپورتھلہ ۱۸۳۹ء میں پیدا ہوئے.آپ کے والد صاحب کا نام محمد جیون صاحب تھا.کم عمری میں والد صاحب کے انتقال کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے.آپ نے کچہری میں ملازمت اختیار کرلی.حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت و بیعت: حاجی ولی اللہ صاحب کے ذریعے آپ کو حضرت مسیح موعود کی کتاب ”براہین احمدیہ دستیاب ہوئی جس سے حضرت مسیح موعود کی محبت آپ کے دل میں جاگزیں ہوگئی اور زیارت کے لئے بے چین ہو گئے.۱۸۸۴ء میں بمقام بٹالہ حضرت اقدس کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور لدھیانہ میں بیعت اولیٰ کے موقع پر بیعت کرنے والوں میں شامل ہو گئے.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کی بیعت ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کی ہے جہاں ولدیت جیون محلہ قصاباں کپور تھلہ درج ہے.اس وقت آپ نقشہ نویس ملازم تھے.خان صاحب کا خطاب: آپ کی ملازمت میں ترقی تدریجی تھی.پہلے کچہری میں چپڑاسی تھے پھر اہلمد ہوئے.پھر نقشہ نویس ہوئے اس کے بعد نائب تحصیلدار ہو گئے اور پھر تحصیلدار بن کر ۱۹۱۴ ء میں ریٹائر ہوئے.ریاست کی طرف سے آپ کو خانصاحب کا خطاب ملا.تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو حضرت اقدس مسیح موعود کی باتوں کو خدا نے کیسا سچ ثابت کیا.آپ نے میرے متعلق لکھا کہ سچائی کے کاموں میں یہ شخص بہادر ہے.اب

Page 52

29 بہادر پٹھان ہوتے ہیں میں ذات کا چھینہ ہوں مگر اس بات کو سچا کرنے کے لئے خدا نے مجھے خانصاحب کا خطاب دلایا.آپ کا حسن اخلاق : حضرت منشی صاحب کے بارے میں مسٹر ایل فریج وزیر اعظم کپورتھلہ (جو بعد میں پنجاب کے چیف سیکرٹری ہو گئے تھے ) نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہارا تحصیلدار کیسا ہے سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ وہ ہمارے لئے باپ کی مانند ہے اور ہمارا سچا ہمدرد ہے.اخلاص و فدائیت اور حضرت اقدس سے عاشقانہ تعلق : آپ اپنی تنخواہ میں سے کچھ رقم قوت لایموت کے لئے رکھ لیتے اور جب کچھ رقم جمع ہو جاتی تو قادیان کا سفر کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے اور وہ رقم حضور اقدس کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے یا حضرت اماں جان کی نذر کر دیتے تھے.آپ اکثر قادیان جاتے تھے.حضرت اقدس کے عشاق کی صف اول میں شمار ہوتے تھے.جن دنوں آپ سیشن جج کے دفتر میں ملازم تھے.آپ نے مجسٹریٹ سے کہا کہ مجھے چھٹی دے دیں میں نے قادیان جانا ہے.مجسٹریٹ نے کہا کہ کام بہت زیادہ ہے چھٹی نہیں دی جاسکتی.منشی صاحب نے کہا اچھا آپ کا کام ہوتا رہے میں تو آج ہی دعا میں لگ جاتا ہوں آخر مجسٹریٹ کو کوئی ایسا نقصان ہوا کہ وہ سخت ڈر گیا اور جب ہفتہ کا دن آتا تو وہ عدالت والوں کو کہتا کہ کام خود جلدی بند کر دینا منشی صاحب کی گاڑی کا وقت نہ نکل جائے.حضرت اقدس کی کتب میں آپ کا ذکر ازالہ اوہام، نشان آسانی میں نمبر پر جلسہ سالانہ ۱۸۹ء میں.آئینہ کمالات اسلام میں شرکاء جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں نمبر ۲ پر اور چندہ دہندگان میں نمبر پر ذکر ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کے اخلاص اور آریہ دھرم میں کپورتھلہ کی پر امن جماعت کے طور پر ذکر ہے.تحفہ قیصریہ میں ۱۸۹۷ء کے جلسہ ڈائمنڈ جو بلی کے شرکاء میں آپ کا تذکرہ ملتا ہے.ملفوظات جلد اول وجلد سوم (جدید ایڈیشن) میں بھی مخلصین میں ذکر ہے.حضرت اقدسش ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں: تمی فی اللہ منشی محمد اروڑ انقشہ نویس مجسٹریٹی.منشی صاحب محبت اور خلوص اور ارادات میں زندہ دل آدمی ہیں.سچائی کے عاشق اور سچائی کو بہت جلد سمجھ جاتے ہیں خدمات کو نہایت نشاط سے بجالاتے ہیں بلکہ وہ تو دن رات اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی خدمت مجھ سے صادر ہو جائے.عجیب منشرح الصدر اور جان شار آدمی ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ اُن کو اس عاجز سے ایک نسبت عشق ہے.شاید ان کو اس سے بڑھ کر اور کسی بات میں خوشی نہیں ہوتی ہوگی کہ اپنی طاقتوں اور اپنے مال اور اپنے وجود کی ہر ایک توفیق سے کوئی خدمت بجالا دیں.وہ دل و جان سے وفادار اور مستقیم الاحوال اور بہادر آدمی ہیں.خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے.آمین.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۲) آپ کے اخلاص کے بارہ میں تاریخی شہادت: ایک موقعہ پر حضرت اقدس نے ایک کتاب کی اشاعت و

Page 53

30 طباعت کے لئے حضرت منشی ظفر احمد صاحب سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ اس کا خرچ کپورتھلہ کی جماعت اٹھائے حضرت منشی صاحب نے حامی بھر لی اور کسی کو بتائے بغیر اپنی بیوی کا زیور بیچ کر رقم دے دی.جب حضرت منشی اروڑا خاں صاحب کے سامنے حضرت اقدس نے اس قربانی کا ذکر فرمایا تو آپ حضرت منشی ظفر احمد صاحب سے سخت ناراض ہوئے کہ دوسروں کو قربانی کا موقع کیوں نہیں دیا.یہ ناراضگی یا جذ بہ آپ کے اخلاص کے سبب سے تھا.حضرت مصلح موعود اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” نے اپنے خطبات میں اخلاص و فدائیت کے تعلق میں آپ کا ذکر فرمایا کہ ایک موقع پر آپ ایک پوٹلی میں سونے کے پونڈ لے کر آئے جو آپ نے جمع کر رکھے تھے جو حضرت اقدس کی خدمت میں نذرانہ کے لئے جمع کئے تھے مگر حضرت اقدس کی وفات ہو گئی.آپ قادیان تشریف لائے اور حضرت اقدس کی یاد میں روتے ہوئے نذرانہ حضرت ام المومنین کی خدمت میں پیش کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: مجھے ہمیشہ ایک واقعہ یا درہتا ہے ایک دفعہ انہوں نے مجھے دو یا تین پونڈ دیئے اور کہا کہ اماں جان ( ام المؤمنین) کو دے دینا.اس کے ساتھ ہی رو پڑے.یہ واقعہ حضرت صاحب کی وفات کے بعد کا ہے.میں نے خیال کیا کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی یاد سے رورہے ہیں.آخر جب دیر تک روتے رہے اور ان کی ہچکی بندھ گئی تو میں نے روکنے کے لئے کہا کہ آپ روتے کیوں ہیں کہنے لگے جب میں نے بیعت کی تو میں چھ سات روپے کا نو کر تھا.اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے چندہ کی تحریک کی.اس وقت اپنی اس تنخواہ میں سے بچا کر جب قادیان آتا تو وہ تھوڑی سی رقم لے آتا تا وہ دین کی راہ میں خرچ ہو لیکن میری خواہش ہمیشہ یہ ہوتی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سونے کی مہریں پیش کروں اس مقصد کے لئے میں اپنی تنخواہ میں سے بچاتا رہتا لیکن قبل اس کے کہ وہ مہریں بننے کی مقدار کا ہو بہت دیر ہو جاتی اور میں وہی روپے لے کر قادیان آ جاتا.اس طرح مجھے اپنی خواہش کو پورا کرنے کا کبھی موقع میسر نہ آیا.اب میں اس قابل ہوا کہ مُہریں پیش کروں.اس وقت ان کی تنخواہ ۸۰.۸۵ کے قریب تھی.“ روزنامه الفضل ۷۱۸ اکتوبر ۱۹۳۲ء) تاثرات مسٹر والٹر : ۱۹۱۴ ء میں مسٹر والٹر سیکرٹری آل انڈیا YMCA مصنف Ahmadiyya Movement قادیان آئے اور حضرت اقدس کے کسی پرانے خادم سے ملنے کی خواہش کی.مسٹر والٹر کو حضرت منشی صاحب کے ساتھ ملایا گیا.مسٹر والٹر نے دریافت کیا کہ آپ پر مرزا صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا ؟ منشی صاحب نے جواب دیا کہ میں پڑھا لکھا آدمی نہیں اور زیادہ علمی دلیلیں نہیں جانتا مگر مجھ پر جس بات نے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی.جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانت دار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا.انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے.باقی میں تو ان کے مونہ کا بھوکا

Page 54

31 ہوں.مجھے زیادہ دلیلوں کا علم نہیں.یہ کہہ کر منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود کی یاد میں اس قدر بے چین ہو گئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور روتے روتے ہچکی بندھ گئی.اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں اور ان کے چہرہ کا رنگ ایک دھلی ہوئی چادر کی طرح سفید پڑ گیا.بعد میں مسٹر والٹر نے مذکورہ کتاب میں اس واقعہ کا ذکر کر کے لکھا کہ جس شخص نے اپنی صحبت میں اس قسم کے لوگ پیدا کئے ہیں ہم اس کو کم از کم دھو کے باز نہیں کہہ سکتے.“ (اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۹۴-۹۵ ) ہجرت قادیان اور وفات: پیشن پا جانے کے بعد منشی صاحب نے قادیان میں رہائش اختیار کر لی اور ۲۵ / اکتو بر ۱۹۱۹ء کو بعارضہ فالج وفات پائی.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے جنازہ کو کندھا دیا.آپ کا وصیت نمبر ۸۵۲ تھا.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۳ حصہ ۲ میں ہوئی.اولاد: آپ کی ایک بیٹی آپ کی وفات کے وقت بٹالہ میں تھیں چنانچہ انہیں بٹالہ میں وفات کا پیغام بھجوا دیا گیا.بعد میں امرتسر میں رہیں.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ (۳) نشان آسمانی روحانی خزائن جلد نمبر ۳ (۴) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد نمبر ۱۰ (۵) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد نمبر ۱ (۶) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ ( ۷ ) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ (۸) ملفوظات جلد اول جدید ایڈیشن صفحه ۳۴۴ (۹) ملفوظات جلد سوم جدید ایڈیشن (۱۰) سیرت المہدی (۱۱) ماہنامہ انصار اللہ جولائی ۱۹۷۸ء (۱۲) سیر روحانی (۱۳) اصحاب احمد جلد چہارم (۱۴) مضمون ” حضرت منشی محمد اروڑا خان کپورتھلوی ماہنامہ خالدر بوہ جنوری ۲۰۰۲ء (۱۵) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول.

Page 55

32 ☆.حضرت میاں محمد خان صاحب.....کپور تھلہ ولادت : ۱۸۶۰ء.بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات : یکم جنوری ۱۹۰۴ء پس منظر بیعت : حضرت میاں محمد خان رضی اللہ عنہ کے والد دلاور خاں صاحب کپورتھلہ کے رہنے والے تھے.جن کے جد امجد افغانستان سے آ کر کپورتھلہ میں آباد ہوئے تھے.آپ کی ولادت سال ۱۸۶۰ء میں ہوئی.آپ ریاست کپورتھلہ کے سرکاری اصطبل کے انچارج تھے.جب براہین احمدیہ چھپی تو حضرت مسیح موعود نے اس کا ایک نسخہ حاجی ولی اللہ صاحب کو بھیجا ( جو کپورتھلہ میں مہتم بندوبست تھے.) حاجی صاحب نے یہ کتاب حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کو دے دی.کپورتھلہ میں یہ کتاب ایک محفل میں پڑھوا کر سنی جاتی تھی.حضرت میاں محمد خان نے بھی اس کتاب کا مطالعہ کیا اور انہیں حضرت مسیح موعود سے محبت ہو گئی.شرف بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ ء جب حضرت مسیح موعود کی لدھیانہ میں پہلی بیعت ہوئی تو حضرت میاں صاحب نے بھی بیعت کر لی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا بیعت نمبر ۵۸ ہے جبکہ آپ اہلمد فوجداری کپورتھلہ تھے.آپ کی اہلیہ صاحبہ نے ۲۱ فروری ۱۸۹۲ء میں بمقام کپورتھلہ حضرت اقدس کی بیعت کی.(مکتوبات احمدیہ ) اس طرح آپ کی والدہ محترمہ کی بیعت بھی ۲۱ فروری ۱۸۹۲ء کی ہے.جب دہلی میں مولوی نذیر حسین صاحب کے ساتھ مباحثہ ہوا تو اس وقت آپ حضرت اقدس کے ساتھ بارہ بزرگوں میں سے تھے جنہیں آپ نے حضرت مسیح ناصرٹی کے حواریوں کے ساتھ تشبیہ دی.صدق و اخلاص: جب حضرت اقدس کے بیٹے بشیر اوّل کی وفات ہوئی تو آپ نے صدمہ سے ان جذبات کا اظہار کیا کہ اگر میری ساری اولاد بھی مرجاتی اور ایک بشیر جیتا رہتا تو کچھ رنج نہ تھا.حضرت مولانا حکیم نورالدین نے اس موقع پر فرمایا کہ شخص تو ہم سے بھی آگے نکل گیا ہے“.حضرت مسیح موعود کے لئے میاں صاحب بہت غیرت رکھتے تھے.جب میاں صاحب فوت ہوئے تو حضرت اقدس کو الہام ہوا.اہلیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے حاضرین کو تعجب ہوا.دریں اثناء اسی مجلس میں حضرت میاں محمد خان کی وفات کی خبر ملی تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ الہام انہی کے بارہ میں تھا ( آپ کی وفات یکم جنوری ۱۹۰۴ء کو ہوئی) پھر حضرت اقدس نے اپنے اس عاشق کے بارہ میں فرمایا.”مجھے ۲ جنوری کو ایسی حالت طاری ہو گئی تھی جیسے کوئی نہایت عزیز مر جاتا ہے.ساتھ ہی الہام ہوا.اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا“ چنانچہ میاں صاحب کے فرزند اکبر نشی عبدالمجید خان صاحب آپ کے بعد افسر نکبھی خانہ مقرر ہوئے اور بالآ خر ترقی

Page 56

33 کرتے کرتے وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوئے اور اسی عہدہ سے پنشن پائی.اسی طرح باقی خاندان بھی اس الہام کا مصداق ٹھہرا.حضرت اقدس مسیح موعود نے آپ کو ( اہل کپورتھلہ کے احمدی احباب کے بارہ میں ) ایک خط میں لکھا کہ : آپ لوگ اس دنیا اور آخرت میں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے میرے ساتھ ہوں گے.“ حضرت اقدس نے احباب کپورتھلہ کے بارہ میں فرمایا ” مجھے کپورتھلہ کے دوستوں سے دلی محبت ہے.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ازالہ اوہام حصہ دوم میں حضرت اقدس فرماتے ہیں: د حتمی فی اللہ میاں محمد خاں صاحب کپور تھلہ میں نوکر ہیں.نہایت درجہ کے غریب طبع صاف باطن دقیق فہم حق پسند ہیں اور جس قدرا نہیں میری نسبت عقیدت وارادت و محبت و نیک ظن ہے میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا.مجھے ان کی نسبت یہ تردد نہیں کہ اُن کے اس درجہ ارادت میں کبھی کچھ ن پیدا ہو بلکہ یہ اندیشہ ہے کہ حد سے زیادہ نہ بڑھ جائے.وہ سچے وفا دار اور جاں نثار اور مستقیم الاحوال ہیں.خدا اُن کے ساتھ ہو.ان کا نوجوان بھائی سردار علی خاں بھی میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہے.یہ لڑکا بھی اپنے بھائی کی طرح بہت سعید ورشید ہے خدا تعالیٰ ان کا محافظ ہو.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۲ ) انجام آتھم میں فرمایا : اگر با فر است آدمی ایک مجمع میں ان کے منہ دیکھے تو یقینا سمجھ لے گا کہ یہ خدا کا ایک معجزہ ہے.جو ایسے اخلاص ان کے دل میں بھر دیے.ان کے چہروں پر ان کی محبت کے نور چمک رہے ہیں.وہ ایک پہلی جماعت ہے جس کو خدا صدق کا نمونہ دکھلانے کے لئے تیار کر رہا ہے.(ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۱۵) آئینہ کمالات اسلام مکتوب عربی اور جلسہ سالانہ۱۸۹۲ء میں ۲۵ نمبر پر چندہ دہندگان کی فہرست میں ۵۷ نمبر پر، کتاب البریہ میں پُر امن وفادار جماعت کے ضمن میں ذکر ہے، سراج منیر میں چندہ دہندگان کی فہرست میں، ملفوظات جلد سوم صفحہ ۵۲۶ میں ہے.حضرت اقدس نے وفات کا واقعہ سن کر فرمایا کہ نیکی کرنے والے کی اولا دکواس کی نیکی کا حصہ ملتا ہے، ملفوظات جلد پنجم میں ہے.”میاں محمد خاں صاحب مرحوم ہمارے بڑے مخلص اور محبت کرنے والے تھے کتاب من الرحمن میں حضرت اقدس نے اشتراک السنہ میں مدد کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے آپ کا ذکر کیا ہے.وفات: آپ کی وفات یکم جنوری ۱۹۰۴ء کو ہوئی.اولاد : آپ کے چار بیٹے تھے.حضرت عبدالمجید خان ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدہ پر فائز رہے.حضرت بشیر احمد خان صاحب ، حضرت برکت اللہ خان صاحب اور حضرت محمد ابراہیم خاں صاحب تھے اور دو بیٹیاں حمیدہ خانم اور زبیدہ خانم تھیں.حضرت منشی عبدالمجید خان ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے نواسہ مکرم خان محمد سعید خاں صاحب ( ولد کرنل

Page 57

34 اوصاف علی خاں آف مالیر کوٹلہ ) کی بیٹی محترمہ قیصرہ خانم سعید صاحبہ، حضرت مصلح موعودؓ کے فرزند صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب کے عقد میں آئیں.حضرت میاں محمد خاں صاحب کے بیٹے حضرت بشیر احمد خان کی بیٹی سعیدہ خانم کا عقد مکرم راجه فضل داد خان صاحب آف ڈلوال ضلع جہلم ( حال چکوال) کے ساتھ ہوا جن کے بیٹے مکرم راجہ نصر اللہ خان صاحب ربوہ ہیں جو ایک معروف قلم کار ہیں.حضرت عبدالمجید خان صاحب کی بیٹی مکر مہ امتہ اللہ صاحبہ کی شادی خان عبدالمجید خان آف ویرووال کے ساتھ ہوئی جو پروفیسر نصیر احمد خان صاحب مرحوم اور محترمہ منصورہ ڈاہری اور حضرت طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ حرم خلیفہ ثالث ہیں.دیگر بیٹے کرنل ایاز محمود صاحب سابق صدر عمومی ربوہ اور امین اللہ صاحب سالک ہیں.مکرم محمد ابراہیم خان صاحب کے بیٹے مکرم شاہد اضوان خان صاحب جو مولانا ابومنیر نور الحق صاحب کے داماد ہیں ان کے بیٹے دانش احمد خان صاحب جامعہ احمدیہ کے طالب علم ہیں.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) انجام آنقم روحانی خزائن جلد ۱ (۶) من الرحمن روحانی خزائن جلد ۹ (۷) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم (۸) ملفوظات جدید ایڈیشن جلد سوم وجلد پنجم (۹) خطبات نکاح از حضرت خلیفہ اسیح الثانی (۱۰) اصحاب احمد جلد چہارم (۱۱) مضمون ” حضرت میاں محمد خان روزنامه الفضل ربوه ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۱ (۱۲) ماہنامہ انصار اللہ ماہ اگست ۱۹۹۲ء.☆ ،، ۹.حضرت منشی ظفر احمد صاحب...کپور تھلہ ولادت: ۱۲۸۰ھ بمطابق ۱۸۶۳ء.بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات : ۲۰ راگست ۱۹۴۱ء تعارف: حضرت منشی ظفر احمد رضی اللہ عنہ کی پیدائش ۱۲۸۰ ھ میں باغپت ضلع میرٹھ میں ہوئی.آپ کے والد صاحب کا نام شیخ مشتاق احمد صاحب عرف محمدابراہیم تھا.سترہ سال کی عمر تک مختلف سکولوں میں تعلیم حاصل کی.آپ اپیل نویس حضرت اقدس سے عقیدت : جب براہین احمدیہ چھپی تو حضرت مسیح موعود نے اس کا ایک نسخہ حاجی ولی اللہ صاحب کو بھیجا جو کپورتھلہ میں مہتم بندوبست تھے.حاجی صاحب براہین احمدیہ کا نسخہ اپنے وطن سرا وہ ضلع میرٹھ میں لے گئے.وہاں عند الملاقات براہین احمدیہ حضرت منشی ظفر احمد کو دے دی.منشی صاحب اس کتاب کو پڑھا کرتے اور اس کی فصاحت و بلاغت پر عش عش کر اٹھتے کہ یہ شخص بے بدل لکھنے والا ہے.براہین کو پڑھتے پڑھتے منشی صاحب کو حضرت صاحب سے محبت ہو گئی اس کے تھوڑے عرصے بعد منشی صاحب کپورتھلہ آگئے.حضرت اقدس سے آپ کی پہلی ملاقات ۱۸۸۴ء.۱۸۸۵ء میں جالندھر میں ہوئی.

Page 58

35 بیعت: جب لدھیانہ میں حضرت اقدس نے بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو منشی ظفر احمد صاحب نے منشی عبدالرحمن صاحب سے لدھیانہ چلنے کو کہا.حضرت منشی عبدالرحمن صاحب نے کہا کہ میں استخارہ کرلوں.منشی ظفر احمد صاحب نے کہا کہ تم استخارہ کرو ہم تو جاتے ہیں.حضرت منشی اروڑا صاحب ، حضرت محمد خان صاحب اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے بیعت کرتے وقت حضرت صاحب نے دریافت فرمایا کہ آپ کے رفیق کہاں ہیں؟ منشی صاحب نے عرض کی کہ منشی اروڑا صاحب نے بیعت کر لی ہے اور محمد خان صاحب غسل کر رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ میں نہا کر بیعت کروں گا.چنانچہ محمد خان صاحب نے بعد میں بیعت کی جبکہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا نام رجسٹر بیعت اولی میں ۵۷ نمبر پر ظفر احمد ولد محمدابراہیم بوڑھا نہ ضلع مظفر نگر درج ہے اس وقت آپ کپورتھلہ میں تھے.اہل کپورتھلہ کے اخلاص کا ذکر: اہل کپورتھلہ کے اخلاص کے بارے میں حضرت اقدس نے فرمایا: مجھے کپورتھلہ کے دوستوں سے دلی محبت ہے...میں امید رکھتا ہوں کہ آپ لوگ اس دنیا اور آخرت میں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے میرے ساتھ ہوں گے“ آپ کی خدمات : آپ کو حضرت اقدس کے ہمرکاب رہنے کی سعادت حاصل تھی.۱۸۸۹ء کے بعد حضرت اقدس کے ہر سفر میں آپ ہمرکاب رہے.حضرت اقدس کی خط و کتابت میں بھی آپ نے حضور کے ذاتی معاون کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں.ایک مرتبہ حضور نے آپ کے ایک خط نہ کھولنے (جس کے بارہ میں لکھا تھا کہ حضور کے سوا کوئی نہ کھولے) پر فرمایا کہ منشی صاحب آپ بھی اس کو پڑھیں ہم اور آپ کوئی دو ہیں، حضرت مسیح موعود نے ایک دفعہ ایک کتاب کی اشاعت کے سلسلہ میں فرمایا کہ کپورتھلہ کی جماعت اس کی اشاعت کا خرچ برداشت کرے.حضرت منشی صاحب نے فوراً جا کر اپنی اہلیہ محترمہ کازیور فروخت کیا اور اشاعت کا خرچ برداشت کیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں فرمایا: جی فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب یہ جوان صالح کم گو اور خلوص سے بھرا دقیق فہم آدمی ہے.استقامت کے آثار و انوار اُس میں ظاہر ہیں.وفاداری کی علامات و امارات اُس میں پیدا ہیں.ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور اُن سے لذت اٹھاتا ہے.اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر سارا مدار حصول فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے.دونوں سیر تیں اُن میں پائی جاتی ہیں.جزاهم الله خيراً لجزاء“ (ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۳ صفحه۵۳۲-۵۳۳) متعدد کتب میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے احباب، چندہ دہندگان کی فہرست، پُرامن جماعت اور جلسہ ڈائمنڈ جوبلی کے شرکاء میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.وفات : آپ کی وفات ۲۰ / اگست ۱۹۴۱ء کو کپورتھلہ میں ہوئی.حضرت مصلح موعود اس وقت ڈلہوزی میں تھے جہاں آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی.قادیان میں حضرت مولانا شیر علی نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین

Page 59

36 ہوئی.قادیان آکر حضرت مصلح موعود نے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کے شائل کا تفصیلی ذکر فرمایا.اولاد : حضرت منشی صاحب کے بیٹے حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ (جن کا نام حضرت مسیح موعود نے رکھا) نے جماعت احمدیہ کی پہلی مجلس مشاورت میں 1922ء میں شرکت کی.آپ نے لمبا عرصہ وقف جدید کے صدر، مجلس افتاء کے تاحیات رکن اور امیر جماعت احمد یہ ضلع فیصل آباد کے فرائض سرانجام دیئے.اسی طرح آپ خلافت ثانیہ میں حضرت خلیفتہ اسیح کی علالت کے دوران نگران بورڈ کے رکن تھے اور خلافت ثالثہ کے دوران صدسالہ جو بلی کے بھی ممبر تھے.۱۹۷۴ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی معیت میں جماعت احمدیہ کے وفد کے ساتھ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش ہوئے.آپ کے بیٹے محترم شیخ مظفر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ ضلع فیصل آباد اور صدر مجلس وقف جدید ، صدر مجلس افتاء اور چیئر مین طاہر فاؤنڈیشن ہیں.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی وفات کے وقت حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کے کثرت اولاد کے لئے دعا تھی جو پوری ہوئی.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱ (۵) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۶) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۷) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحه ۳۵۶ (جدید ایڈیشن) (۸) ملفوظات جلد ۵ (جدید ایڈیشن) (۹) اصحاب احمد جلد چہارم (۱۰) ماہنامہ " تشخیز الاذہان فروری ۱۹۹۹ء (۱۱) مضمون حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی، مطبوعہ الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۹۴ء.۱۰.حضرت منشی عبدالرحمن صاحب.....کپورتھلہ صاحب.ولادت: ۱۸۳۹ء.بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات : ۲۶ جنوری ۱۹۳۷ء تعارف: حضرت منشی عبدالرحمن رضی اللہ عنہ قصبہ سرا وہ ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام شیخ حبیب علی صاحب تھا جو ضلع بلند شہر میں تھانیدار تھے.آپ کی ولادت ۱۸۳۹ء کی ہے.چھوٹی عمر میں اپنے والد صاحب کے ساتھ ریاست کپورتھلہ میں آگئے اور یہاں محکمہ بند و بست میں ملازمت اختیار کر و لی.آپ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے.بیعت اور اس کا پس منظر : آپ براہین احمدیہ کا مطالعہ کرتے ہی حضرت مسیح موعود کے معتقد ہو گئے اور جب بیعت کرنے کا اعلان ہوا تو استخارہ کے بعد فوراً بیعت کرنے کیلئے لدھیانہ روانہ ہو گئے اور بیعت اولی ۲۳/ مارچ ۱۸۸۹ء لدھیانہ میں شامل ہو گئے.رجسٹر بیعت کے مطابق بیعت کا نمبر ۵۹ ہے.جہاں پتہ سراوہ تحصیل ہاپوڑ ضلع میرٹھ درج ہے.آپ اس وقت کپورتھلہ میں تھے.بیعت کے بارہ میں آپ کا بیان ہے:

Page 60

37 مقام لدھیانہ سے اشتہار بیعت شائع ہوا.اس میں لکھا تھا کہ جس کو بیعت کرنا ہے بعد ادائے نماز استخارہ جیسا اس کو معلوم ہو وہ کرے اگر آنا معلوم ہو تو آ جائے اور اگر نہ آنا معلوم ہو تو نہ آئے.خاکسار اسی روز رات کو مسنون نماز استخارہ پڑھ کر اور دعا کر کے سو گیا.مجھ کو خواب میں آواز آئی کہ عبد الرحمن “ بس میں صبح ہوتے ہی مقام لدھیانہ رجسٹر روایات صحابہ جلد اول روایات منشی عبدالرحمن کپور تھلوی) پہنچا.“ قادیان کیلئے روانگی: آپ نے ۱۹۱۹ء میں پیشن حاصل کی اور قادیان رہائش اختیار کی.اس عرصہ میں حضرت منشی فیاض علی کپورتھلہ اہلمد محکمہ جرنیلی سے ریٹائر ہو کر سر اوہ ضلع میرٹھ چلے گئے.دونوں بچپن میں اکٹھے پڑھے تھے.کوئی رشتہ داری نہ تھی تاہم ایک جگہ میں رہنے کے باعث دوستانہ تھا.حضرت منشی عبدالرحمن نے انہیں سراوہ سے طلب کر کے ملازمت دلائی تھی.اپنے مکان میں سے نصف حصہ حضرت منشی فیاض علی کو دے دیا.اور آپ کے ذریعہ ہی انہیں بیعت کی سعادت نصیب ہوئی.جہاں تک دینی دوستی کا تعلق تھا 1919ء میں حضرت منشی صاحب ریٹائر ہو کر قادیان میں آئے تو ہر دو کی خواہش کہ اکٹھے رہیں کی تدبیر الہی منشاء بن گئی.ہر دو نے نظام وصیت میں شرکت کی.حضرت منشی فیاض علی دہلی میں فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی.حضرت منشی عبدالرحمن بھی ۲۶ جنوری ۱۹۳۷ء میں قادیان میں فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.گویا ہر دوا حباب سرا وہ کے رہنے والے ایک جگہ ملازمت کرتے رہے.ایک ہی وقت میں بیعت کی اور بمطابق وصیت ایک ہی مقام پر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام، آسمانی فیصلہ، آئینہ کمالات اسلام، تحفہ قیصریہ، سراج منیر اور کتاب البریہ اور ملفوظات میں اپنے خاص محبتوں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے احباب، چندہ دہندگان اور پُر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.وفات : حضرت منشی عبدالرحمن صاحب نے ۲۶ جنوری ۱۹۳۷ کو تقریباً ۱۰۰ سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.آپ کی اولاد : آپ کے بیٹے حضرت منشی عبدالسمیع صاحب مرحوم تھے ( مکرم قریشی سفیرا حم صاحب مربی سلسلہ ولد قرنیشی نذیر احمد صاحب ڈرائیور حضرت مصلح موعود ، حضرت منشی عبدالسمیع صاحب کے نواسہ ہیں.) ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) سراج منیر روحانی خزائن جلد۱۲ (۶) کتاب البر یہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۷) ملفوظات کی مختلف جلدیں (۸) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحه ۲۴۶ (جدید ایڈیشن) (۹) تاریخ احمدیت جلد هشتم صفحه ۴۳۴ (۱۰) مضمون حضرت منشی فیاض علی کپور تھلوی مطبوعه روز نامه الفضل ربوه ۶ را کتوبر ۲۰۰۱ء (۱۱) مضمون ماہنامہ انصار الله ۱۹۷۸ء (۱۲) اصحاب احمد جلد چہارم (۱۳) رجسٹر روایات صحابہ جلد اول روایات منشی عبدالرحمن کپور تھلوی.

Page 61

38 ☆ ا.حضرت منشی فیاض علی صاحب......کپور تھلہ ولادت ۱۸۴۱ء.بیعت ۴ /ستمبر ۱۸۸۹ء.وفات ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۵ء تعارف: حضرت منشی فیاض علی رضی اللہ عنہ محلہ قریشیاں سرا وہ تحصیل ہاپور ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے.آپ کی ولادت سال ۱۸۴۱ء کی ہے.آپ کے والد صاحب کا نام رسول بخش تھا.قوم قریشی باشی تھی.آپ کے جد امجد زاہد علی قریشی صاحب مغل شہنشاہ جہانگیر کے دور میں ملک عرب سے ہندوستان آئے تھے.زاہد علی قریشی نے حضرت مجدد الف ثانی سے بیعت کی اور اپنی اولاد کو وصیت کی کہ جو بھی امام مہدی کے دور کو پائے تو ان کی بیعت سے مشرف ہو.آپ کو حضرت منشی عبد الرحمن صاحب ( جو آپ کے دوست تھے ) نے سراوہ سے بلوا کر ریاست کپورتھلہ کی فوج میں کلرک بھرتی کروا دیا اور اپنے ہی مکان میں رہائش کے لئے انتظام کر دیا.بیعت کا پس منظر : حضرت منشی عبدالرحمن آپ کو براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت سے ہی سمجھاتے رہتے تھے اور خود بیعت کر لینے کے بعد ان کو بھی بیعت کی ترغیب دیتے رہتے تھے.بیعت : حضرت منشی فیاض علی قادیان تشریف لے گئے اور حضرت اقدس کی دوستی بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ کی بیعت ۴ ستمبر ۱۸۸۹ء کی ہے.( یعنی ۷ محرم الحرام ۱۳۰۷ھ ) رجسٹر بیعت میں نمبر ۱۲۳.(آپ کی دونوں اہلیہ اور ہمشیرہ نے ۲۱ فروری ۱۸۹۲ء کو بمقام کپورتھلہ اس وقت بیعت کی جب حضور کپورتھلہ تشریف لے گئے تھے ) جلسہ سالا نہ ۱۸۹۲ء میں آپ بھی شریک تھے.آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے والوں میں بھی آپ کا نام درج ہے.حضرت اقدس کی رفاقت : حضرت منشی صاحب حضرت اقدس کے سفر دہلی میں ساتھ رہے.آپ حضور کے سفر دہلی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضور کے ساتھ جو بارہ حواری تھے ان میں آپ بھی شامل تھے.حضرت منشی صاحب حقہ نوشی کے عادی تھے.جالندھر میں حضرت اقدس نے وعظ فرماتے ہوئے حلقہ نوشی کی مذمت فرمائی.حضرت منشی صاحب نے حضرت اقدس سے عرض کی کہ حقہ چھوڑنا مشکل ہے دعا فرمائی جائے تو چھوٹ جائے.حضور نے فرمایا کہ آؤ بھی دعا کریں چنانچہ دعا کروائی گئی.اس کے بعد حضرت منشی صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت نفیس حقہ آپ کے سامنے لایا گیا آپ نے حقہ کی ئے منہ سے لگانی چاہی توئے سیاہ سانپ بن کر لہرانے لگی.اس سے دل میں خوف پیدا ہوا اور آپ نے سانپ کو مار دیا اور پھر حقہ نوشی نہیں کی اور اس سے نفرت ہو گئی.حضرت منشی صاحب کے بارہ میں دو اہم روایات : حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں:

Page 62

39 (۱) '' کپورتھلہ کی مسجد احمدیہ کا مقدمہ سات سال تک جاری رہا.اتفاقاً دوران مقدمہ میں حضرت منشی فیاض علی نے لدھیانہ کے مقام پر بڑے عجز والحاح کے ساتھ آبدیدہ ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا.حضور دعا فرمائیں کہ مسجد ہمیں مل جائے.حضرت صاحب نے اس وقت بڑے جلال کے رنگ میں فرمایا کہ اگر میں سچا ہوں اور میر اسلسلہ سچا ہے تو مسجد تمہیں ضرور ملے گی، چنانچہ حضرت منشی فیاض علی نے اپنے مخالفین کو آ کر یہ خبر دے دی اور محلے کے ایک ڈاکٹر سے شرط بھی بندھ گئی.بالآخر مسجد کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں ہوا اور نہایت مخالفانہ حالات کے باوجود ہوا.(۲) ”ہمارے ایک دوست منشی فیاض علی ہیں.کپورتھلہ میں کرنل جوالا سنگھ ان کے افسر تھے اور ان کو بہت ستاتے تھے.انہوں نے حضرت اقدس کو دعا کے لئے لکھا.حضرت اقدس نے ان کو عشاء کی نماز کے بعد دوسومرتبہ لاحول پڑھنے کا ارشاد فرمایا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی دنوں بعد کرنل صاحب کی پنشن ہوگئی اور ان کی جگہ ان کا بیٹا مقرر ہو گیا.وہ ان کے ساتھ بہت مہربانی کرتا رہا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام، آئینہ کمالات اسلام تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں آپ کے اخلاص اور جلسہ سالانہ کے شریک احباب، چندہ دہندگان ،جلسہ ڈائمنڈ جو بلی اور پر امن جماعت کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے.وفات: آپ نے دہلی میں ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو وفات پائی اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.اولاد: حضرت منشی صاحب کی اولاد میں تین بیٹے قریشی مختار احمد صاحب، قریشی نثار احمد اور قریشی رشید احمد صاحب تھے.موخر الذکر دونوں کی اولاد کراچی اور لاہور میں ہے.آپ کی تین بیٹیاں تھیں.آپ کے بیٹے قریشی مختار احمد صاحب کی ایک بیٹی محترمہ عائشہ بیگم مرحومہ قریشی افتخار علی صاحب ( ریٹائرڈ چیف انجینئر اسریلیشن ) سابق وکیل المال الثالث تحریک جدید کی والدہ تھیں.آپ کی ایک نواسی (اہلیہ منظور احمد قریشی صاحب) محترم ڈاکٹر قریشی لطیف احمد صاحب معروف فزیشن و ماہر امراض قلب فضل عمر ہسپتال کی والدہ ہیں.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) اصحاب احمد جلد چہارم (۶) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۵۰ (۷) مضمون ” حضرت منشی فیاض علی صاحب کپور تھلوی ، مطبوعه روزنامه الفضل ۲۰ را کتوبر ۱۹۳۵ء (۸) روزنامه الفضل مورخه ۶ / اکتوبر ۲۰۰۱ء (۹) ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ۱۹۷۸ء (۱۰) ماہنامہ انصار اللہ ماہ اپریل ۱۹۹۷ء رض

Page 63

40 ☆ ۱۲.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب......سیالکوٹ ولادت : ۱۸۵۸ء.بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات : ۱۱ را کتوبر ۱۹۰۵ء تعارف: حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ ۱۸۵۸ء میں سیالکوٹ میں چوہدری محمد سلطان صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.آپ نے سیالکوٹ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی.بورڈ سکول سیالکوٹ میں فارسی مدرس کے طور پر کام کیا.آپ کے مضامین رسالہ انوار الاسلام“ اور ” الحق سیالکوٹ میں شائع ہوتے تھے.عیسائیت کے منادوں سے مذاکرات کا آپ کو خاص ملکہ تھا.آپ کبھی کبھی اردو، فارسی میں’’صافی مخلص سے شعر بھی کہتے تھے.حضرت اقدس کی بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت اقدس مسیح موعود کی بیعت کی.رجسٹر بیعت اُولیٰ میں آپ کا بیعت نمبر ۴۳ ہے.آپ کی والدہ حضرت حشمت بی بی صاحبہ کی بیعت ۷فروری ۱۸۹۲ء اور اہلیہ حضرت زینب بی بی صاحبہ کی بیعت بھی اسی روز کی ہے.اس سے قبل سرسید احمد خاں کی تحریرات سے متاثر تھے.۱۸۹۸ء میں سیالکوٹ چھوڑ کر قادیان تشریف لے آئے.قادیان میں ہجرت کرنے کے بعد آپ حضرت اقدس کی تائید میں مضامین لکھنے کے علاوہ خطبات، نقار میراور لیکچرز بھی دیتے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں: حبی فی اللہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی : مولوی صاحب اس عاجز کے یک رنگ دوست ہیں اور مجھ سے ایک کچی اور زندہ محبت رکھتے ہیں اور اپنے اوقات عزیز کا اکثر حصہ انہوں نے تائید دین کے لئے وقف کر رکھا ہے.اُن کے بیان میں ایک اثر ڈالنے والا جوش ہے.اخلاص کی برکت اور نورانیت اُن کے چہرہ سے ظاہر ہے میری تعلیم کی اکثر باتوں سے وہ متفق الرائے ہیں.خویم مولوی نور دین صاحب کے انوار صحبت نے بہت سا نورانی اثر اُن کے دل پہ ڈالا ہے.6 (ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۳) آسمانی فیصلہ ، آئینہ کمالات اسلام، سراج منیر، تحفہ قیصریہ، کتاب البریہ اور اس کے علاوہ ملفوظات میں متعدد جگہ اپنے مخلصین ، جلسہ میں شریک احباب، چندہ دہندگان، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پر امن جماعت کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے.خدمات دینیہ : حضرت اقدس کا اسلامی اصول کی فلاسفی والا مضمون جلسہ اعظم مذاہب عالم میں حضرت مولوی صاحب نے ہی پڑھ کر سنایا تھا.اس کے علاوہ خطبہ الہامیہ کو دوران خطبہ ساتھ ساتھ لکھتے رہے اور اس کا ترجمہ بھی کیا.حضرت اقدس کا لیکچر لاہور اور لیکچر سیالکوٹ جلسہ عام میں پڑھنے کی سعادت آپ کو حاصل ہوئی.کتاب من الرحمن

Page 64

41 میں حضرت اقدس نے اشتراک السنہ کے کام میں جان فشانی کرنے والے مردان خدا کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے آپ کا ذکر فرمایا ہے.تصانیف: (۱) الحق سیالکوٹ اکتوبر ۱۸۹۱ء ونومبر نمبر ۱۹۸۹ء (۲) القول الفصح فی اثبت حقیقی مثیل اسے (۳) لیکچر گناه (۴) لیکچر موت (۵) بادی کامل (۶) ایام اصلح فارسی ترجمہ (۷) حضرت مسیح موعود جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے کیا اصلاح اور تجدید کی.(۸) سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۹) ضمیمہ واقعات صحیحہ (۱۰) اعجاز اسیح اور حضرت مسیح موعود اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی (۱۱) خطبات کریمیہ (۱۲) دعوۃ الی الندوة - ندوۃ العلماء کی طرف ایک خط (۱۳) خلافت راشدہ حصہ اول (۱۴) خلافت راشدہ حصہ دوم المعروف فرقان.حضرت اقدس سے تعلق محبت : حضرت مسیح موعود حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب کی اس محبت کی کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں.ان کو میرے ساتھ نہایت درجہ کی محبت تھی اور وہ اصحاب الصفہ میں سے ہو گئے تھے جن کی تعریف خدا تعالیٰ نے پہلے سے ہی وحی کی تھی“.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: اخبار البدر قادیان ۱۲ / جنوری ۱۹۰۶ء) مسجد مبارک کے پرانے حصہ کی اینٹیں اب بھی اُن کی ذمہ دار تقریروں سے گونج رہی ہیں.(خطبہ نکاح بحوالہ سیرت حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی ص ۳۶) شادی: آپ کی شادی آپ کی پھوپھی زاد حضرت زینب بی بی سے ہوئی ( بیعت نمبر ۲۳۸ مورخہ ۷ فروری ۱۸۹۲ء) جو فخر الدین صاحب کی بیٹی اور منشی محمد اسمعیل صاحب کی ہمشیرہ تھیں.حضرت زینب بی بی صاحبہ کے والد صاحب کے جد امجد عطر سنگھ صاحب چوہڑ کا نہ حال فاروق آباد ضلع شیخوپورہ سے کشمیر چلے گئے اور مسلمان ہو کر عطریاب“ کہلائے.آپ کی دوسری شادی حضرت عائشہ بیگم سے ہوئی جو حضرت شادی خاں صاحب کی بیٹی تھیں.حضرت منشی شادی خاں صاحب نے منارہ اسیح کی تعمیر میں غیر معمولی مالی قربانی دی اور خلافت ثانیہ میں اپنا گھر یلو اثاثہ بھی فروخت کر کے تعمیر مینارہ مسیح کے لئے پیش کر دیا جسے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے صدیقیت کا نمونہ قرار دیا.اولاد : آپ کی کوئی اولا دن تھی.وفات : آپ ذیا بیطیس کے باعث بیمار ہوئے جس کی علامت کار بنکل ظاہر ہوئی.بیماری کے دوران حضرت اقدش کو الہام ہوا کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے وو چنانچہ آپ اار اکتوبر ۱۹۰۵ء کو انتقال فرما گئے اور قادیان میں تدفین ہوئی.بہشتی مقبرہ کا قیام آپ کی وفات کے بعد ہوا.جہاں بعد میں آپ کی تدفین سے بہشتی مقبرہ کا عملا افتتاح ہوا.حضرت اقدس نے آپ کی وفات پر ایک طویل فارسی نظم تحریر کی.جس کے چند اشعار یہ ہیں :

Page 65

42 گے تواں کردن شمار خوبی عبدالکریم آنکہ جاں داد از شجاعت بر صراط مستقیم حامی دیں آنکہ یزداں نام او لیڈر نہاد عارف اسرار حق گنجینه دین قویم صدق ورزید و بصدق کامل و اخلاص خویش مورد رحمت شد اندر درگه ربّ جنس نیکواں ایں چرخ بسیار آورد کم بزاید مادرے بایں صفاء دُر اے خدا بر تربت أو بارش رحمت بیار داخلش کن از کمال فضل در بیت (نقل از کتبہ حضرت مولوی عبدالکریم) ترجمہ: عبدالکریم کی خوبیاں کیونکر گنی جاسکتی ہیں جس نے شجاعت کے ساتھ صراط مستقیم پر جان دی وہ جو دینِ اسلام کا حامی تھا اور جس کا خدا نے لیڈ ر نام رکھا تھا وہ خدائی اسرار کا عارف تھا اور دین متین کا خزانہ.اس نے صدق اختیار کر لیا تھا اور اپنے اخلاص اور صدق کامل کی وجہ سے رپ علیم کی درگاہ میں رحمت کا مورد بن گیا تھا.اگر چہ آسمان نیکوں کی جماعت بکثرت لاتا رہتا ہے مگر ایسا شفاف اور قیمتی موتی ماں بہت کم جنا کرتی ہے.اے خدا اس کی قبر پر رحمت کی بارش نازل فرما اور نہایت درجہ فضل کے ساتھ اسے جنت میں داخل کر دے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۶) من الرحمن روحانی خزائن جلد ۹ (۷) ملفوظات جلد اول تا پنجم (۸) سیرت حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی (۹) مخدوم الملت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی مطبوعہ انصار اللہ جولائی ۲۰۰۰ (۱۰) مضمون مطبوعہ روز نامه الفضل ۱۲ / دسمبر ۱۹۸۸ء و۲ /جنوری ۱۹۹۹ء (۱۱) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۴۴ و ۳۵۸(۱۲) در شین فارسی.☆ ۱.حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹ ولادت ۱۸۵۹ء.بیعت ۲۹ دسمبر ۱۸۹۰ء.وفات ۱۵/ نومبر ۱۹۱۸ء تعارف: حضرت سید میر حامد شاہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت حکیم میر حسام الدین رضی اللہ عنہ تھے.شمس العلماء سید میر حسن انہی کے بھائی تھے جو شاعر مشرق علامہ سر محمد اقبال کے استاد تھے.حضرت سید حامد شاہ صاحب ۱۸۵۹ء میں پیدا ہوئے.آپ کے دادا کا نام میر فیض (۱۷۹۵ء.۱۸۵۷ء) اور پردادا میر ظہور اللہ تھے.جب حضرت اقدس ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ تشریف لائے تو انہی کے مکان پر فروکش ہوئے.۱۸۷۷ء میں آپ نے سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور ڈی سی آفس میں ملازم ہو گئے.جموں کی کچہری میں بھی ملازمت کی.

Page 66

43 بیعت : آپ نے ۲۹ دسمبر ۱۸۹۰ء کو حضرت اقدس مسیح موعود کی بیعت کی تھی.رجسٹر بیعت کے مطابق آپ کی بیعت کا نمبر ۲۱۳ ہے.آپ کی اہلیہ حضرت فیروزہ بیگم صاحبہ کی بیعت سے فروری ۱۸۹۲ء کی ہے.بیعت کا نمبر ۲۴۶ ہے.دینی خدمات : آپ نظم و نثر اور تقریر میں کمال رکھتے تھے.آپ نے ہی علامہ سرمحمد اقبال مرحوم کو طالب علمی کے ونٹ نے مرحوم کو دوران احمدیت کا پیغام پہنچایا اور اس کا اظہار ایک منظوم کلام میں فرمایا.سیالکوٹ کے مشاعروں میں اپنے حسن کلام کی بدولت معروف تھے.شمس العلماء سید میر حسن مرحوم حضرت میر صاحب کی پرہیز گاری اور تقویٰ کے معترف تھے.کتب (۱) لیکچر سیالکوٹ (۲) القول الفصل وما هو بالهزل (۳) جنگ مقدس کا فوٹو (۴) الجواب (۵) مسدس مسمی به احقاق حق (1) واقعات ناگزیر (۷) سخن معقول (۸) دعوت دہلی (۹) کلام حامد (۱۰) رباعیات حامد (۱۱) جام عرفان حضرت اقدس مسیح موعود کی نظر میں آپ کا مقام : حضرت اقدس مسیح موعود آپ کے متعلق ازالہ اوہام وو میں تحریر فرماتے ہیں: سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی.یہ سید صاحب محب صادق اور اس عاجز کے ایک نہایت مخلص دوست کے بیٹے ہیں.جس قد ر خدا تعالیٰ نے شعر اور خن میں ان کو قوت بیان دی ہے وہ رسالہ قول الفصل کے دیکھنے سے ظاہر ہوگی.میر حامد شاہ کے بشرہ سے علامات صدق و اخلاص و محبت ظاہر ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اسلام کی تائید میں اپنی نظم و نثر سے عمدہ عمدہ خدمتیں بجالائیں گے.ان کا جوش سے بھرا ہوا اخلاص اور ان کی محبت صافی جس حد تک مجھے معلوم ہوتی ہے میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا.مجھے نہایت خوشی ہے کہ وہ میرے پرانے دوست میر حسام الدین صاحب رئیس سیالکوٹ کے خلف رشید ہیں.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر ازالہ اوہام، آسمانی فیصلہ، آئینہ کمالات اسلام، تحفہ قیصریہ، سراج منیر ، کتاب البریہ اور حقیقۃ الوحی اور ملفوظات جلد پنجم میں کئی جگہ پر اپنے مخلصین ، جلسہ سالانہ کے شرکاء، چندہ دہندگان ، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پر امن جماعت کے ضمن میں فرمایا ہے.وفات: ۱۵/ نومبر ۱۹۱۸ ء کو آپ حرکت قلب بند ہونے سے انتقال فرما گئے.وفات کے وقت آپ کی عمر قریباً ۶۰ سال تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ہدایت پر جنازہ سیالکوٹ سے قادیان لایا گیا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین عمل میں آئی.آپ کی اولاد : آپ کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں.آپ کے بیٹے حضرت میر عبدالسلام صاحب (سابق امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ ) کی بیٹی تنویر الاسلام محترم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب ( ابن حضرت خلیفہ اسیح

Page 67

44 الثانی) کے عقد میں آئیں.حضرت میر عبدالسلام صاحب لندن میں مدفون ہیں.حضرت سید عبدالجلیل شاہ صاحب تھے جن کی بیٹی سیدہ آمنہ بیگم صاحبہ محترم صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب ( ابن حضرت خلیفہ اسیح الثانی) کے عقد میں آئیں.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد۲ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۶) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۷) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۸) ملفوظات جلد پنجم (۹) روزنامه الفضل قادیان ۲۳ نومبر ۱۹۱۸ء (۱۰) ماہنامہ انصار اللہ ماہ تمبر ۱۹۹۷ء (۱۱) مضمون مکرم احمد طاہر مرزا حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کی علمی خدمات از انصار اللہ مئی ۲۰۰۱ء (۱۲) مضمون تفخیذ الاذہان اکتوبر ۲۰۰۰ء (۱۳) روزنامه الفضل ربوه ۲۶ فروری ۱۹۹۹ء (۱۴) سیرت و سوانح حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ☆ ۱۴.حضرت مولوی وزیرالدین صاحب کانگڑہ بیعت : ۱۸۸۹ء.وفات : ۲ /اکتوبر ۱۹۰۵ء تعارف و بیعت: حضرت مولوی وزیر الدین رضی اللہ عنہ کا اصل وطن مکیریاں ضلع ہوشیار پور تھا.آپ کی بیعت ۱۸۸۹ء کی ہے.ملازمت کے سلسلہ میں آپ ضلع کانگڑہ میں رہے.آپ بطور ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ مڈل سکول کانگڑہ میں متعین تھے.حضرت مولوی صاحب نے کچھ عرصہ اور مینٹل کالج لاہور میں بھی تعلیم پائی.(آپ کے ہم جماعتوں میں رائے بہادر منشی گلاب سنگھ بھی تھے جو بعد میں لاہور کے ایک مطبع کے مالک بنے.) حضرت اقدس سے تعلق : براہین احمدیہ کے مطالعہ کے بعد حضرت اقدس کی ملاقات کے لئے گئے.حضرت اقدس نے آپ کو ملاقات کے لئے انتظار میں بیٹھے دیکھ کر فرمایا.کیسے تشریف لائے ہیں؟ مولوی صاحب نے جواب میں حضرت اقدس کے یہ اشعار سنائے نعرہ ہائے زنم بر آب زلال پیچو مادر دواں پیئے اطفال تا مگر تشنگال بادیه با گردم آئیند زیں فغان و صلا اور زبانی کہا کہ آب زلال پینے کے لئے حاضر خدمت ہوا ہوں.یہ اشعار سن کر حضور مسکرائے اور پھر اندرون خانہ تشریف لے گئے.چائے کا پیالہ ہاتھ میں لئے باہر تشریف لائے اور مولوی صاحب کو یہ پیالہ عنایت فرمایا.مولوی صاحب نے بصد شوق یہ پیالہ پی لیا.مولوی صاحب اکثر اس کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ حضرت اقدس نے بظاہر چائے پلائی مگر وہ چائے نہیں تھی عشق دین تھا.

Page 68

45 حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : مولوی صاحب جلسہ اعظم مذاہب عالم میں بھی شریک ہوئے تھے.آپ کے ساتھ آپ کے بیٹے حضرت مولوی محمد عزیز الدین بھی تھے.حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام تحفہ قیصریہ، سراج منیر، کتاب البریہ اور ملفوظات جلد چہارم جلسہ سالانہ کے شرکاء ، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی، چندہ دہندگان اور پرامن جماعت میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.وفات : ۲ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو آپ پر فالج کا حملہ ہوا جس سے آپ وفات پا گئے.آپ کی تدفین مکیریاں ضلع ہوشیار پور میں ہوئی.اولاد : آپ کی چھ بیٹیاں تھیں اور کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی.حضرت مسیح موعود کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹا عطا کیا.( حضرت مولوی عزیز الدین صاحب) اور لمبی عمر پائی.حضرت مولوی عزیز الدین صاحب کی ایک بیٹی بھی صحابیہ تھیں.مولانا حکیم دین محمد صاحب قادیان حضرت مولوی وزیر الدین صاحب کے پوتے ہیں.مکرم مولانا محمد شریف صاحب سابق بلاد عر بیہ، گیمبیا، مکرم مولانا محمد صدیق صاحب سابق لائبریرین اور ، مولا نانسیم سیفی صاحب سابق مبلغ مغربی افریقہ وسابق ایڈیٹر الفضل آپ کے خاندان سے ہیں.ماخذ : (۱) براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ (۳) تحفه قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۶) ملفوظات جلد چہارم (۷) غیر مطبوعہ حالات مرقومه حکیم دین محمد صاحب نائب ناظم وقف جدید قادیان (۸) الفضل ۲ جولائی ۱۹۶۳ء (۹) الفضل ۲۰ اکتوبر ۱۹۹۷ء.☆ -۱۵.حضرت منشی گوہر علی صاحب جالندھر بیعت : ۱۸/جنوری ۱۸۹۰ء تعارف و بیعت: حضرت منشی گوہر علی رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام جہانگیر خاں افغان تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جب دوسری بار کپورتھلہ تشریف لے گئے تو کپورتھلہ میں تین دن قیام حضرت منشی گوہر علی صاحب افسر ڈاک خانہ کے مکان پر رہا.( ابتداء آپ سب پوسٹ ماسٹر کپورتھلہ متعین ہوئے تھے ) حضرت اقدس سے آپ کا تعلق حضرت چوہدری رستم علی صاحب کے ذریعہ ہوا تھا.آپ نے ۱۸ جنوری ۱۸۹۰ء میں بیعت کی.آپ کی بیعت کا نمبر ۱۶۱ ہے.جہاں آپ کا نام میاں علی گوہر درج ہے.قادیان کی زیارت اور حضرت اقدس کی شفقت : حضرت منشی ظفر احمد کپورتھلوی فرماتے ہیں : «منشی گوہر علی صاحب کپورتھلہ میں ڈاک خانہ میں ملازم تھے.ساڑھے تین روپے ان کی پینشن ہوئی.گزارہ ان کا بہت

Page 69

46 تنگ تھاوہ جالندھر اپنے مسکن پر چلے گئے انہوں نے مجھے خط لکھا کہ جب تم قادیان جاؤ تو مجھے ساتھ لیتے جانا وہ بڑے مخلص آدمی تھے چنانچہ میں جب قادیان جانے لگا تو ان کو ساتھ لینے کے لئے جالندھر چلا گیا وہ بہت متواضع آدمی تھے میرے لئے انہوں نے پر تکلف کھانا پکوایا اور مجھے یہ پتہ لگا کہ انہوں نے کوئی برتن بیچ کر دعوت کا سامان کیا ہے.میں نے منشی علی گوہر کا ٹکٹ خود ہی خرید لیا تھا وہ اپنا کرایہ دینے پر اصرار کرنے لگے میں نے کہا یہ آپ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں.چنانچہ دو روپے انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیئے.آٹھ دس دن رہ کر جب ہم واپسی کے لئے اجازت لینے لگے تو حضور نے اجازت مرحمت فرمائی اورمنشی صاحب کو کہا آپ ذرا ٹھہریے پھر آپ نے دس یا پندرہ روپے منشی صاحب کو لا کر دیئے.منشی صاحب رونے لگے اور عرض کی حضور مجھے خدمت کرنی چاہئیے یا میں حضور سے لوں.حضرت صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا کہ یہ آپ کے دوست ہیں آپ انہیں سمجھائیں.پھر میرے سمجھانے پر کہ ان میں برکت ہے انہوں نے لے لئے اور ہم چلے آئے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام ، تحفہ قیصریہ، سراج منیر اور کتاب البریہ میں جلسہ سالانہ کے شرکاء، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی، چندہ دہندگان اور پُر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر ہے.اولاد: آپ کی اولاد میں سے مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب سالہا سال تک راج گڑھ لاہور کے صدر رہے ہیں.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۵۱ (۶) اصحاب احمد “ جلد دہم صفحه ۷۳ ( ۷ ) اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۱۵،۱۱۴ ☆ ،، ۱۶.حضرت مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی رہتاس.جہلم بیعت: ابتدائی ایام تعارف: حضرت مولوی غلام علی رضی اللہ عنہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست رہتاس جہلم حضرت اقدس کے ابتدائی عقیدت رکھنے والوں میں سے تھے.آپ ملازمت کے سلسلہ میں ڈچکوٹ ضلع لائکپور ( حال فیصل آباد ) میں رہے.حضرت اقدس سے تعلق و بیعت : حضرت اقدس کی براہین احمدیہ کی تصنیف کے دوران میں آپ مظفر گڑھ شہر میں ملازم تھے جہاں آپ کا حلقہ دوستی حضرت مولوی جلال الدین صاحب ساکن پیرکوٹ ثانی حال ضلع حافظ آباد (سابق ضلع گوجرانوالہ)، حضرت قاضی غلام مرتضی صاحب اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر مظفر گڑھ ( یکے از ۳۱۳) کے

Page 70

47 ساتھ تھا.وہیں آپ کو براہین احمدیہ کا پہلا اشتہارا اہتمام اشاعت کا ملا.آپ نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ کتاب کی پیشگی قیمت قادیان روانہ کر دی.براہین احمدیہ کے پہلے ایڈیشن کے ساتھ جو اعلان شائع ہوا ہے اس میں آپ کا نام بھی شامل ہے.آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.آپ کے پاس حضرت غلام حسین صاحب رہتاسی یکے از ۳۱۳ بھی بطور ملازم مقیم تھے.آپ کو حضرت مسیح موعودؓ کا ایک خط ملا کہ انہیں قادیان بھیج دیں.چنانچہ آپ نے انہیں قادیان بھیج دیا.دینی خدمات : ۳۱ / مارچ ۱۹۰۱ ء کو حضرت مسیح موعود نے ریویو آف ریجنز کے لئے خریداری حصص کی تحریک فرمائی.حضرت مولوی غلام علی رہتائی نے ۵ حصص خرید کئے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب آریہ دھرم اور کتاب البریہ میں اپنی پرامن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.حضرت مولوی صاحب کی بیماری کا تار موصول ہونے پر حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا: ”ہماری جماعت جواب ایک لاکھ تک پہنچی ہے سب آپس میں بھائی ہیں اس لئے اتنے بڑے کتبہ میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی نہ کوئی دردناک آواز نہ آتی ہو.جو گزر گئے وہ بھی بڑے مخلص تھے.جیسے ڈاکٹر بوڑے خاں، سید فصیلت علی شاہ ، ایوب بیگ منشی جلال الدین.خدا ان سب پر رحم کرے ( ملفوظات جلد دوم ص ص ۳۰۵-۳۰۶) ماخذ: (۱) براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد ۱ (۲) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱۰ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) الحکم ۱۴ جولائی ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۲۱ (۵) ملفوظات جلد دوم (۶) رجسٹر روایات نمبر۱۰ صفحه ۳۲۱ (۷) اخبار الحکم ۱۷ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ (۸) اخبار الحکم ۱۰ارا کتوبر ۱۹۰۲ء (۹) ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر ۲۰۰۱ء(۱۰) واقعات ناگزیر.۱۷.حضرت میاں نبی بخش صاحب رفو گر.امرتسر بیعت : ۱۸۹۳ء سے قبل.وفات :۳؍ جولائی ۱۹۱۸ء : حضرت اقدس سے ابتدائی تعارف : امرتسر میں مباحثہ جنگ مقدس کے دوران شیخ محمود احمد صاحب امرتسر نے حضرت اقدس کی دعوت کی.جب کھانا کھا چکے تو حضرت میاں نبی بخش رفوگر وسوداگر پشمینہ نے بڑے ادب سے عرض کیا کہ کل صبح میری دعوت منظور کی جاوے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اگر شیخ نور احمد صاحب منظور کر لیں تو ہمیں کوئی عذر نہیں ،حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی فرماتے ہیں:

Page 71

48 ”میاں نبی بخش مرحوم جو پہلے محض رفوگر تھے اور حضرت کی بیعت کے بعد ان کے کاروبار میں اس قدر ترقی ہوئی کہ وہ ایک مشہور تاجر پشمینہ ہو گئے (جن کا کاروبار جنوبی ہندوستان اور کلکتہ تک پھیل گیا.) وہ حضرت کی مجلس میں آتے تھے اور خاموشی سے حالات کا مطالعہ کرتے تھے وہ کچھ بہت پڑھے لکھے آدمی نہ تھے مگر صاحب شعور تھے اور سینہ صاف تھے قبول حق کے لئے کوئی روک نہ ہو سکتی تھی.انہوں نے بیعت میں مسابقت کی اور حضرت اقدس اور آپ کے موجودہ خدام کی ایک شاندار دعوت کی جس کو پشمینہ کی چادروں سے آراستہ کیا ہوا تھا...بیعت : حضرت اقدس صبح کو مع تمام احباب نبی بخش صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے.کھانے کے بعد شیخ نبی بخش نے بیعت کر لی.ملک مولا بخش (۱۸۷۹ء.۱۹۴۷ء) بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت جو میاں نبی بخش نے کی تھی.وہ ان کے مکان کے صحن میں ہوئی تھی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ، سراج منیر اور کتاب البریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی، چندہ دہندگان اور پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے.دینی خدمات : ۱۸۹۸ء میں امرتسر میں مسجد احمدیہ کی ضرورت محسوس ہوئی.حضرت میاں نبی بخش صاحب نے اپنا ایک مکان قیمتی بارہ سو ساٹھ روپیہ مسجد کے لئے سات سو روپیہ پر دینا منظور کیا اور باقی پانچ سو ساٹھ روپے بطور چندہ کے محسوب کروائے.وفات اور اولاد : آپ کی وفات ۳ جولائی ۱۹۱۸ء کو ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.آپ کے تین بیٹے تھے جن کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی.ماخذ (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) رساله نور احمد “ صفحه ۲۹ (۵) ” اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۱۲۱.(۶) حیات احمد جلد چہارم حصہ دوم صفحه ۴۹ (۷) الحکم ۲۷ / مارچ و ۶ اپریل ۱۸۹۸ء صفحہ ۷ کالم ۱.☆ ۱۸.حضرت میاں عبد الخالق صاحب رفوگر.امرتسر بیعت: ۱۸۹۳ء.وفات : نومبر ۱۹۱۵ء تعارف و بیعت : حضرت میاں عبد الخالق امرتسری رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود کے مباحثہ آتھم ۱۸۹۳ء کے قیام امرتسر کے دوران حضرت نبی بخش رفو گڑ کے ساتھ ہی بیعت کی تھی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب نزول مسیح میں اپنے بعض نشانات کے

Page 72

49 گواہ افراد میں آپ کا بھی ذکر فرمایا ہے.مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو عدالت میں کرسی نہ ملنے کے واقعہ میں حضور نے بطور گواہ آپ کا نام بھی تحریر فرمایا ہے.وفات: آپ نے نومبر ۱۹۱۵ء میں امرتسر میں وفات پائی.وصیت نمبر ۱۵۴۳ بهشتی مقبره قادیان قطعه نمبر ۴ حصه ۸ میں تدفین ہوئی.نوٹ : مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) تبلیغ رسالت جلد هفتم صفه ۲۸ ۳۴(۲) نزو اسی روحانی خزائن جلد ۱۸ (۳) افضل کم دمبر ۱۹۱۵ صفحی۲ ۱۹.حضرت میاں قطب الدین خانصاحب مسگر.امرتسر بیعت : ۱۸۹۱ء.وفات : اپریل ۱۹۱۰ء تعارف: حضرت میاں قطب الدین خاں رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام شیر محمد صاحب تھا جو امرتسر کے افغان تھے.حضرت شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پریس امرتسر جنگ مقدس سے پہلے کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ڈالا کہ وہ اِن پادری صاحب کو تلاش کریں جو عیسائیوں کی طرف سے مباحثہ میں بطور مناظر پیش ہوں گے.آپ مستری قطب الدین صاحب کی دکان پر گئے اور ان سے کہا...میرے ساتھ چلو تا کہ پادری عمادالدین سے دریافت کریں کہ مناظر کون ہے.بیعت : حضرت شیخ نوراحمد صاحب، نبی بخش صاحب کی بیعت کا ذکر کر کے لکھتے ہیں کہ ہم تین شخص ہو گئے ایک تو خود دوسرے مستری قطب الدین صاحب تیسرے نبی بخش صاحب رفوگر گویا مستری قطب الدین صاحب جنگ مقدس سے قبل بیعت کر چکے تھے.رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت ۲۷۲ نمبر پر ہے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے گھر میں دعوت دی تھی.اس بابرکت دعوت میں شامل ہونے کی سعادت مستری صاحب کے شاگرد مرز اغلام نبی صاحب مسگر کو بھی ملی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : پادری ہنری مارٹن کلارک کے مقدمے میں حضرت میاں قطب الدین صاحب کا بھی ذکر آیا ہے.حضرت اقدس نے اپنی کتاب نزول امیج میں اپنے نشانات میں آپ کا نام بطور گوا تحریر فرمایا ہے.آپ جلسہ سالانہ۱۸۹۲ء میں بھی شامل ہوئے آپ کا نام آئینہ کمالات اسلام جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شرکت کرنے والوں میں بھی موجود ہے.اسی طرح آریہ دھرم ، سراج منیر اور کتاب البریہ میں چندہ دہندگان اور پُر امن جماعت کے ضمن

Page 73

50 میں ذکر ہے.وفات : آپ کی وفات اپریل ۱۹۱۰ء میں ہوئی.اولاد: آپ کے ایک بیٹے کا نام محمد ابراہیم صاحب معلوم ہوا ہے.ماخذ: () آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) آریہ دھرم روحانی خزائن جلده (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) نزول اسیج روحانی خزائن جلد ۸۱ (۶) رساله نور احمد (۷) مضمون ” حضرت مرزا غلام نبی صاحب مسگر امرتسری از الفضل ۱۸ر جون ۱۹۹۰ء ( ۸ ) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اوّل.☆ ۲۰.حضرت مولوی ابوالحمید صاحب.حیدر آباد دکن بیعت : ۱۸۹۱ء تعارف: حضرت مولوی ابوالحمید رضی اللہ عنہ ریاست حیدر آباد دکن کی ہائی کورٹ کے وکیل تھے اور سر کار حیدرآباد دکن کے وظیفہ یاب بھی تھے.آزاد تخلص کرتے تھے.بیعت کا پس منظر : براہین احمدیہ کی اشاعت کا اشتہار کسی ذریعہ سے آپ کے پاس پہنچا تو آپ کو اور آپ کے دوستوں میں تحریک پیدا ہوئی کہ اس کتاب کو شائع کرنا چاہئیے.مرزا صادق علی بیگ صاحب استاد و ملازم نواب سر وقار الا مرا بهادر مدار المهام سر کار عالی ریاست حیدر آباد دکن نے براہین احمدیہ کی اشاعت کا تذکرہ نواب صاحب سے کیا.نواب صاحب نے ” براہین احمدیہ کی اشاعت کے لئے ایک سور و پیہ دیا تھا.جب براہین احمدیہ چھپ کر آئی تو اس کے پڑھنے سے آپ بے حد متاثر ہوئے.اس کے بعد فتح اسلام اور توضیح مرام پڑھی جس میں دعوئی ماموریت کیا گیا ہے تو آپ کے احباب میں سے مولوی میر مردان علی صاحب نے لکھا کہ میں نے اپنی عمر میں سے پانچ سال کاٹ کر آپ کے نام لگا دیئے اور مولوی ظہور علی صاحب اور مولوی غضنفر علی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مالی معاونت کی.حضرت اقدس نے اس کا تذکرہ ازالہ اوہام ( روحانی خزائن جلد سوم صفحہ ۶۲۴) پر کیا ہے.بیعت : آپ ”ازالہ اوہام تین بار پڑھ چکے تھے کہ مذکورہ احباب نے قادیان کے سفر کی تیاری کر لی تو آپ نے اپنے خیالات بذریعہ تحریر حضرت اقدس کو پہنچانے کے لئے دیئے.حضرت اقدس نے انہیں پڑھ کر جو روح پرور ارشاد فرمائے انہیں سن کر حضرت مولوی ابوالحمید صاحب بھی سلسلہ بیعت میں داخل ہو گئے.

Page 74

51 ۴ رفروری ۱۸۹۸ء کو جب حضرت اقدس نے طاعون کے بارے میں ذکر فرمایا تو جماعت احمدیہ حیدر آباد نے اس اشتہار پر ایک جلسہ احباب کر کے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک عریضہ روانہ کیا جس میں اپنے ایمانِ کامل کا اظہار کیا اور اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گواہ ٹھہرایا.اس پر دس افراد کے دستخط تھے جن میں آپ بھی شامل تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں آپ کا ذکر حضرت اقدس نے اپنی پر امن جماعت میں کیا ہے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) حیات حسن“ (مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) صفحه ۱۸ تا ۲۳ ۲۱.حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم نور دین صاحب معہ ہر دوز وجہ.بھیرہ.ضلع شاہ پور ولادت: ۱۸۴۱ء.بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات : ۱۳ / مارچ ۱۹۱۴ء ابتدائی حالات: حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم نورالدین صاحب (خلیفتہ امسیح الاول ) رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کا نام حافظ غلام رسول صاحب تھا.آپ کا نسب نامہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے.اس طرح آپ کی قریشی فاروقی نسبت ہے.آپ کی والدہ صاحبہ کا نام نور بخت تھا.آپ کی ولادت ۱۸۴۱ء کی ہے.آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کی گود میں قرآن کریم پڑھا اور انہی سے پنجابی زبان میں فقہ کی کتابیں پڑھیں.کچھ حصہ قرآن شریف کا والد صاحب سے بھی پڑھا.حکمت اور دیگر علوم بھیرہ ، لاہور، رام پور ،لکھنو ، بھوپال اور مکہ معظمہ کے علماء سے حاصل کیے.آپ کے استادوں میں مولوی رحمت اللہ کیرانوی اور شاہ عبد الغنی مسجد دی شامل تھے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام سے تعلق : حضرت اقدس سے تعلق و تعارف آپ کو سب سے پہلے ضلع گورداسپور کے ایک شخص شیخ رکن الدین صاحب کے ذریعہ ہوا جو ان دنوں جموں میں ملازم تھے.شیخ صاحب نے بتایا کہ ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی حمایت میں رسالے لکھے ہیں.غالباً ان دنوں براہین احمدیہ شائع ہو رہی تھی.آپ بھی مہاراجہ جموں کے ہاں ان دنوں ملازم تھے.حضرت مولوی صاحب نے یہ سُن کر حضرت کی خدمت میں خط لکھ کر کتابیں منگوائیں اور ان کے آنے پر جموں میں حضرت اقدس کا چرچا ہو گیا.حضرت مولوی صاحب مزید فرماتے ہیں:.

Page 75

52 آپ کا ایک مباحثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایک بڑے انگریزی تعلیم یافتہ اور مسلمان عہدیدار سے ہوا تھا اور اس کے خیالات اس قسم کے تھے کہ آنحضرت نے کمال دانائی اور عاقبت اندیشی سے ختم نبوت کا دعوی کیا کیونکہ آپ کو زمانہ کی حالت سے یہ یقین تھا کہ لوگوں کی عقلیں اب بہت بڑھ گئی ہیں اور آئندہ زمانہ اب نہیں آئے گا کہ لوگ کسی کو مرسل یا مهبط وحی مان سکیں.ایک طرف آپ کو ان خیالات سے صدمہ ہوا دوسری طرف وزیر اعظم جموں نے حضرت اقدس کا پہلا اشتہار دیا.اس میں اس ” سوفسطائی“ کا ظاہر اور بین جواب تھا.آپ یہ اشتہار لے کر اس عہدیدار کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ دیکھو کہ تمہاری وہ دلیل غلط اور ظنی ہے اس وقت بھی ایک شخص نبوت کا مدعی موجود ہے اور وہ کہتا ہے کہ خدا مجھ سے کلام کرتا ہے.وہ سخت گھبرایا اور حیرت زدہ ہو کر بولا اچھا دیکھا جاوے گا.“ قادیان آمد: حضرت مولوی صاحب اس اشتہار کے مطابق اس امر کی تحقیق کے واسطے قادیان کی طرف چل پڑے.مارچ ۱۸۸۵ء میں قادیان پہنچے.اس وقت حضور نے نہ بیعت کا سلسلہ شروع کیا اور نہ مسیحیت کے مدعی تھے مگر مولوی صاحب نے حضور کا نورانی مکھڑا دیکھتے ہی انوار مسیحیت کو بھانپ لیا اور آپ کی محبت اور عقیدت میں ایسے کھوئے گئے کہ بیچ بچے اپنے آپ کو حضور کے قدموں پر قربان اور فدا کر دیا.آپ نے دیکھتے ہی دل میں کہا یہی مرزا ہے اس پر میں سارا قربان ہو جاؤں یہ تعلق محبت بڑھتا گیا یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت مولوی صاحب جموں میں بیمار ہوئے تو حضرت اقدس مولوی صاحب کی تیمارداری کے لئے جموں بھی تشریف لے گئے.بیعت حضرت اقدس : حضرت مولوی صاحب نے ایک عرصہ سے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کر رکھا تھا کہ جب حضور کو بیعت کا اذن ہو تو سب سے پہلی بیعت آپ کی لی جائے.چنانچہ حضور نے یہ درخواست منظور فرمائی.جب حضور کو بیعت کا اذن ہوا تو حضور نے آپ کو بیعت سے پہلے استخارہ کا ارشاد فرمایا.چنانچہ مولوی صاحب استخارہ کر کے لدھیانہ پہنچے.۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت کا دن مقرر تھا اور آپ نے سب سے پہلے بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ کی زوجہ حضرت صغری بیگم جو حضرت صوفی احمد جان لدھیانہ کی بیٹی تھیں، نے خواتین میں سے سب سے پہلے بیعت کی.تاریخ بیعت ۲۵/ مارچ ۱۸۸۹ء ہے اور بیعت نمبر ۶۹ ہے.(رجسٹر بیعت اولی) مقدس آقا اپنے صحت کی نگاہ میں : حضرت حکیم حافظ مولانا نور الدین صاحب (خلیفہ اصبح الاول) اپنے ایک خط میں اپنی فدائیت اور اخلاص کا یوں ذکر فرماتے ہیں.مولانا.مرشدنا امامنا ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ.عالیجناب میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا وہ مطالب حاصل کروں.اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفاء دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑار ہوں.یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا

Page 76

53 میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیر و مرشد ! میں کمال راستی سے یہ عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنی خدمت بجا لاؤں کہ اس کی تمام قیمت اپنے پاس سے واپس کر دوں.حضرت پیر و مرشد نابکارشر مسار عرض کرتا ہے اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے.میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرج میرے پر ڈال دیا جائے.پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو.مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے طیار ہوں.دعا فرما دیں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو.“ حضرت اقدس کی نظر میں آپ کا مقام : حضرت اقدس اپنی کتاب فتح اسلام میں فرماتے ہیں: ”سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نو را خلاص کی طرح نور دین ہے میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلاء کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہوسکتیں.ان کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہے اس کے تصور سے قدرت الہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو اُن کو میسر ہیں ہر وقت اللہ ، رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں.اور میں تجربہ سے نہ صرف حُسن ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک سے دریغ نہیں اور اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے.“ حضرت اقدس آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں: كنت اصرخ فی لیلی و نهاری و اقول يارب من انصاری یا رب من انصاری انی فرد مهين.فلما تواتر رفع يدالدعوات.وامتلا منه جوّ السموات.اجيب تضرعي.وفارت رحمة ربّ العالمين فاعطانى ربّى صديقا صدوق اسمه كصفاته النورانية نور الدين هو بهیروی مولدًا وقرشى فاروقى نسبًا.....ومارايت مثله عالمًا في العالمين........ولما جاء نی ولاقانی ووقع نظری علیه رايته آيةً من آیات ربّى و ايقنت انه دعائى الذي كنت اداوم عليه و اشرب حسی ونبانی حدسی.انه من عباد الله المنتخبين ( ترجمہ ) اور میں رات دن اللہ تعالیٰ کے حضور چلاتا تھا اور کہتا تھا اے میرے رب میرا کون ناصر و مددگار ہے میں تنہا اور ذلیل ہوں.پس جب دعا کا ہاتھ پے در پے اٹھا اور آسمان کی فضا میری دعا سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے

Page 77

54 میری عاجزی اور دعا کو قبول کیا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا.اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے.وہ جائے ولادت کے اعتبار سے بھیروی ہے اور نسب کے لحاظ سے قریشی ہاشمی ہے.میں نے اس جیسا کوئی عالم دنیا میں نہیں دیکا....اور جب وہ میرے پاس آیا اور مجھے سے ملا اور میری نظر اس پر پڑی تو میں نے اس کو دیکھا کہ وہ میرے رب کی آیات میں سے ایک آیت ہے اور مجھے یقین ہو گیا کہ میری اسی دعا کا نتیجہ ہے جس پر میں دوام کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتا دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے.پھر حضرت اقدس نے اس وجود صدق و وفا کے بارہ میں فرمایا.چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے ضمیمہ انجام آتھم صفحہ اس پر حضرت اقدس نے آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وہ تمام دنیا کو پامال کر کے میرے پاس فقراء کے رنگ میں آ بیٹھے ہیں جیسا کہ اخص صحابہ نے طریق اختیار کر لیا تھا.“ نور القرآن نمبر ۲ میں آپ کا نام امام کامل کی خدمت میں رہنے والوں میں ذکر ہے.حضرت میر محمد الحق صاحب کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا حکیم نور الدین بیمار ہو گئے اس موقعہ پر حضرت اقدس بہت پریشان تھے.حضرت اماں جان نے تسلی کے طور پر حضرت اقدس سے کلام شروع کر دیا کہ جماعت کے بڑے بڑے عالم فوت ہو گئے.مولوی عبدالکریم بھی فوت ہو گئے.حضرت اقدس نے فرمایا.شخص ہزار عبدالکریم صاحب کے برابر ہے.“ (حیات نور صفحه ۲۹۸-۲۹۹) من الرحمن میں بھی حضرت اقدس نے اشتراک السنہ کے کام میں جان فشانی کرنے والے مردانِ خدا کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے آپ کا ذکر فرمایا ہے.آپ کا علمی مقام : حضرت اقدس فرماتے ہیں: حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور حدیث اور تفسیر میں اعلیٰ درجہ کی معلومات رکھتے ہیں.فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے.فن طبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں.ہر ایک فن کی کتابیں بلاد مصر و عرب وشام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ طیار کیا ہے اور جیسے اور علوم میں فاضل ہیں مناظرات دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظر وسیع رکھتے ہیں.بہت ہی عمدہ کتابوں کے مؤلف ہیں.حال میں کتاب تصدیق براہین احمدیہ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے.منہ.“ فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷ حاشیه )

Page 78

55 قادیان میں مستقل سکونت : حضرت مولوی صاحب ۱۸۹۲ء میں حضرت اقدس کی زیارت کے لئے تشریف لائے تو حضور نے آپ کو اپنے پاس قادیان ٹھہرالیا.آپ کے بارہ میں حضرت اقدس کو یہ الہام ہوا کہ لَا تَصْبُونَ إِلَى الوَطَنُ فِيهِ تُهَانُ و تُمْتَحَنُ.( تذکر صفحه ۲۵۲) حضرت اقدس نے مجھ سے فرمایا کہ وطن کا خیال چھوڑ دو چنانچہ میں نے وطن کا خیال چھوڑ دیا اور کبھی خواب میں بھی وطن نہیں دیکھا.“ ۱۸۹۲ء میں آپ قادیان ایسے آئے کہ واقعی حضرت اقدس پر سارے قربان ہو گئے.سفر و حضر میں حضور کی رفاقت تا وفات رہی.خطبات اور نمازوں کی امامت کی توفیق ملتی رہی.لیکھرام کی کتاب تکذیب براہین احمدیہ کا جواب تصدیق براہین احمدیہ حضور کے ارشاد پر تحریر فرمایا.متفرق واقعات : ۱۹۰۲ء میں آپ نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (خلیفہ لمسیح الثانی) کا ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین کی بیٹی صاحبزادی محمودہ بیگم سے نکاح پڑھا.۱۹۰۲ء میں آپ کا ایک خطبہ فونوگراف پر ریکارڈ کیا گیا.منصب خلافت پر فائز ہونا : حضرت اقدس کی وفات کے بعد ۲۷ رمئی ۱۹۰۸ء کو بطور خلیفہ اسی ، منصب خلافت پر فائز ہوئے اور ۶ سال تک نہایت نازک حالات میں اس الہی جماعت کی کامیاب قیادت فرمائی.انگلستان میں پہلا مشن ہاؤس آپ کے عہد خلافت میں قائم ہوا.جہاں حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب پہلے مبلغ بھجوائے گئے.وفات : آپ کا وصال ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو ہوا.آپ کی وفات کے بعد ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو خلافت ثانیہ کا قیام عمل میں آیا اور آپ کی نماز جنازہ اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.اولاد: آپ کی اہلیہ صغری بیگم المعروف اماں جی کی صاحبزادی امتہ ائی صاحبہ حضرت اقدس کے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسی الثانی کے عقد میں آئیں.آپ کے صاحبزادوں میں میاں عبدالحئی مدفون (بہشتی مقبرہ قادیان ) میاں عبد السلام عمر ، میاں عبدالمنان عمر اور میاں عبدالوہاب عمر تھے جن میں سے میاں عبدالسلام عمر جماعت احمدیہ مبائعین خلافت سے وابستہ رہے.اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.آپ کے ایک پوتے میاں منیر عمر صاحب ۲۸ رمئی ۲۰۱۰ ء کے سانحہ میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں شہید ہوئے.(نوٹ): آپ کے تفصیلی حالات مرقاۃ الیقین فی حیات نور الدین اور حیات نور میں ہیں.نیز حضرت اقدس کی متعدد کتب اور ملفوظات میں آپ کا بکثرت ذکر خیر ہے.ماخذ: (۱) فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد۳ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۸۱-۵۸۸ (۴) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۳۱ (۵) نور القرآن روحانی خزائن جلد ۹ (۶) من الرحمن روحانی خزائن جلد ۹ (۷) مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین‘ (۸) حیات نور (۹) ''الحکم قادیان ۲۲ / اپریل ۱۹۰۸ ء.فروری ۱۹۱۰ ء (10) In The company of Promised Messiah" (۱۱) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلداول.

Page 79

56 ☆ ۲۲ - حضرت مولوی سیدمحمد احسن صاحب امر و به ضلع مراد آباد بیعت : ۲۳ / اپریل ۱۸۸۹ء.وفات : ۱۵/ مارچ ۱۹۲۶ء تعارف: حضرت مولوی سید محمد احسن رضی اللہ عنہ کے والد سید مردان صاحب محلہ شاہ علی سرائے امروہہ کے رہنے والے تھے.آپ نواب صدیق حسن خان آف ریاست بھوپال کی مجلس علماء کے خاص رکن تھے.نواب صاحب کو دینی علم کا خاص شوق تھا.انہوں نے ہندوستان کے چیدہ علماء کی ایک جماعت کو منتخب کر کے اپنے پاس ملازم رکھا ہوا تھا.جو انہیں علمی مواد بہم پہنچاتے رہتے تھے جس کی مدد سے انہوں نے مختلف دینی کتب تصنیف کیں.ان علماء میں حضرت مولوی صاحب بھی شامل تھے.نواب صاحب کے ہاں آپ کی بڑی عزت تھی.آپ ریاست بھوپال میں مہتم مصارف کے عہدہ پر فائز تھے حضرت اقدس کا آپ سے تعلق محبت اور بیعت : آپ نے ۲۳ اپریل ۱۸۸۹ء کو حضرت اقدس کی تحریری بیعت کی.رجسٹر بیعت کے مطابق آپ کی بیعت کا نمبر ۷ ۸ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود نے جب ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو علماء کی طرف سے مخالفت کا زبر دست شور اٹھا.کفر کے فتوے لگائے گئے.حضور حقیقۃ الوحی“ میں بیان فرماتے ہیں: آپ ایک دفعہ نعمت اللہ ولی کا وہ قصیدہ دیکھ رہے تھے جس میں آپ کے آنے کی خبر ان کے اس شعر میں ہے:.مهدی وقت و عیسی دوراں عین اس شعر کے پڑھنے کے وقت الہام ہوا: از پئے آں محمد احسن را هر دو را شہسوار می بینم تارک روزگار می بینم یعنی میں دیکھتا ہوں کہ مولوی سید محمد احسن امروہی اس غرض کے لئے اپنی نوکری سے جو ریاست بھوپال میں تھی علیحدہ ہو گئے تا خدا کے مسیح کے پاس حاضر ہوں اور اس کے دعوے کی تائید کے لئے خدمت بجالا دیں اور یہ ایک پیشگوئی تھی جو بعد میں نہایت صفائی سے ظہور میں آئی.حضرت مولوی صاحب نے کمر بستہ ہو کر حضرت اقدس مسیح موعود کے دعوے کی تائید میں بہت سی کتابیں تالیف کیں اور لوگوں سے مباحثات کئے.اس کا آغاز حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کے بیان کے مطابق اس طرح ہوا.آپ فرماتے ہیں.” مجھے یاد ہے کہ جب حضرت اقدس نے اپنے دعویٰ مسیح موعود میں صرف ایک اشتہار مختصر نکالا تھا وہ مولوی صاحب کے پاس بھوپال پہنچ گیا اور مولوی صاحب نے تصدیق کی اور ایک کتاب اعلام الناس“ جو حضرت اقدس کے دعوی کے ثبوت میں تھی چھپوا کر لدھیانہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں

Page 80

57 پہنچے تو حضرت اقدس نے مجھ سے فرمایا کہ پڑھ کر سناؤ چند ورق تو میں نے سنا دیئے اور کچھ حصہ منشی ظفر احمد صاحب ساکن کپورتھلہ نے سنایا اور باقی حصہ مولوی محمود حسن صاحب دہلوی حال مدرس مدرسہ پٹیالہ نے سنایا.حضرت اقدس نے مضمون کو سن کر فرمایا کہ اس مضمون میں ہمارا اور مولوی صاحب کا توار د ہو گیا جو میں نے لکھا ہے وہی مولوی صاحب نے لکھا.دیکھو کیسی صحیح فراست ہے اور مولوی صاحب کیسے راسخ فی العلم ہیں کہ جو ہمیں خدا تعالیٰ نے سمجھایا وہ مولوی صاحب بھی سمجھ گئے.حالانکہ نہ ابھی ہماری طرف سے کوئی کتاب شائع ہوئی اور نہ کوئی اشتہار مدلل نکلا ہے اور نہ کوئی اس بارے میں ہماری تصنیف دیکھی.یہ صرف روح القدس کی تائید ہے“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت مسیح موعود ازالہ اوہام میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مولوی صاحب موصوف اس عاجز سے کمال درجہ کا اخلاص و محبت اور تعلق روحانی رکھتے ہیں ان کی تالیف کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ لیاقت کے آدمی اور علوم عربیہ میں فاضل ہیں.بالخصوص علم حدیث میں ان کی نظر بہت محیط اور عمیق معلوم ہوتی ہے.حال میں انہوں نے ایک رسالہ اعلام الناس اس عاجز کے تائید دعویٰ میں بکمال متانت و خوش اسلوبی لکھا ہے.جس کے پڑھنے سے ناظرین سمجھ لیں گے که مولوی صاحب موصوف علم دینیہ میں کس قدر محقق اور وسیع النظر اور مدقق آدمی ہیں.انہوں نے نہایت تحقیق اور خوش بیانی سے اپنے رسالہ میں کئی قسم کے معارف بھر دیئے ہیں.“ حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام میں ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں میں اور اسی کتاب کے عربی حصہ میں آپ کا ذکر فرمایا نیز تحفہ قیصریہ، سراج منیر اور کتاب البریہ میں چندہ دینے والے اور پُر امن جماعت کے ذکر میں نام درج فرمایا.اسی طرح ملفوظات میں کئی مرتبہ حضور نے مختلف پیرایوں میں ذکر فرمایا ہے.حضرت اقدس نے انجام آتھم میں فرمایا کہ:.ایسا ہی ہمارے دلی محبت جو اس سلسلہ کی تائید کے لئے عمدہ عمدہ تالیفات میں سرگرم ہیں.“ آپ نے ہی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا نام خلافت ثانیہ کے انتخاب کے لئے پیش کیا تھا اور بیعت کی تھی.کتب کا ذکر : حضرت امروہی صاحب نے حضرت اقدس کی دعاؤں کی تائید میں کی کتب لکھیں جن کا ذکر حضرت اقدس نے بھی فرمایا ہے.وفات اور تدفین : آپ نے ۱۵ جولائی ۱۹۲۶ء کو مردہ میں وفات پائی اور وہیں تدفین عمل میں آئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور آپ کے بارہ میں فرمایا: جو عقیدت اور اخلاص ان کو حضرت مسیح موعودؓ سے تھا وہ اپنے رنگ میں خاص تھا وہ ہر بات میں حضرت صاحب کی صداقت کا ثبوت نکالا کرتے تھے.اس وقت میں نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.

Page 81

58 اولاد : آپ کے دو بیٹوں (۱) جناب محمد اسمعیل غلام کبریا اور (۲) جناب احمد حسن صاحب کے نام ۳۱۳ (ضمیمہ انجام آتھم ) میں درج ہیں.ماخذ: (۱) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۴۷ (۲) ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۳ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۵) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۶) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۷) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۸) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴۶ - ۳۴۶ (۹) تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۱۸۵ (۱۰) تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۱۵ (۱۱) خطبات محمود از حضرت خلیفہ اسیح الثانی خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی ۱۹۲۶ء (۱۲) یا در رفتگان صفحه ۲۵-۳۷ ۲۳.حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم فضل دین صاحب معہ ہر دوز وجہ بھیرہ ضلع شاہ پور ولادت : ۱۸۴۲ء.بیعت : ۱۸۹۱ء.وفات: ۸/ابریل ۱۹۱۰ء تعارف: حضرت حکیم مولوی حافظ فضل الدین رضی اللہ عنہ بھیرہ کی ایک معزز خواجہ فیملی سے تعلق رکھتے تھے جو حضرت مولانا نورالدین صاحب (خلیفہ اسیح الاوّل) کے بچپن کے دوست تھے.آپ اکثر حضور کی خدمت میں قادیان حاضر ہوتے تھے.بیعت : آپ کی بیعت ۱۸۹۱ء کی ہے کیونکہ ازالہ اوہام کی تصنیف کے وقت آپ کے صدق و اخلاص اور مالی قربانی کا ذکر ہے.آپ کی ہر دوز وجہ نے بیعت کی.آپ کی اہلیہ حضرت فاطمہ صاحبہ کی بیعت کا اندراج رجسٹر بیعت میں ۱۰۳ نمبر پر ہے.آپ کی دوسری زوجہ حضرت مریم بی بی صاحب تھیں.خدمات دینیہ اور تعلق محبت : آپ سلسلہ کی خدمت دل کھول کر کرتے تھے.آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود کی خوشنودی حاصل تھی.ایک روز حکیم فضل الدین نے حضرت اقدس مسیح موعود سے عرض کیا کہ یہاں میں نکما بیٹھا کیا کرتا ہوں مجھے حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں وہاں درس قرآن کروں گا یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ میں حضور کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت ہو حضور نے فرمایا آپ کا بیکار بیٹھنا بھی جہاد ہے اور یہ بے کاری ہی بڑا کام ہے.غرض بڑے دردناک اور افسوس بھرے لفظوں میں نہ آنے والوں کی شکایت کی اور فرمایا.یہ عذر کرنے والے وہی ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں عذر کیا تھا.اِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ اور خدا تعالیٰ نے ان کی تکذیب کر دی.

Page 82

59 قادیان میں آپ نے مطبع ضیاء الاسلام قائم کیا جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں چھپتی تھیں.اس کے علاوہ مدرسہ احمدیہ کے سپرنٹنڈنٹ اور کتب خانہ حضرت مسیح موعود کے مہتم اور لنگر خانہ حضرت مسیح موعود کا کام آپ کے سپر د تھا.حضرت اقدس کے چھ گروپ فوٹوز میں سے چار میں شامل ہونے کا آپ کو اعزاز ملا.حضرت اقدش کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس فتح اسلام میں فرماتے ہیں: وو حکیم صاحب ممدوح جس قدر مجھ سے محبت اور اخلاص اور حسن ارادت اور اندرونی تعلق رکھتے 66 ہیں میں اس کے بیان سے قاصر ہوں.وہ میرے بچے خیر خواہ اور دلی ہمدرد اور حقیقت شناس مرد ہیں..ہمیشہ در پردہ خدمت کرتے رہتے ہیں اور کئی سو روپیہ پوشیدہ طور پر محض ابتغاء لمرضات اللہ اس راہ میں دے چکے ہیں خدا تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.وہ (فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸) حضرت اقدس نے آپ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے ازالہ اوہام میں فرمایا: د حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نورالدین کے دوستوں میں سے ان کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت با اخلاص آدمی ہیں.میں جانتا ہوں کہ ان کو اللہ اور رسول سے سچی محبت ہے اور اسی وجہ سے وہ اس عاجز کو خادم دین دیکھ کر حب للہ کی شرط کو بجالا رہے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دین کی حقانیت کے پھیلانے میں اسی عشق کا وافر حصہ ملا ہے جو تقسیم ازلی سے میرے پیارے بھائی حکیم نورالدین صاحب کو دیا گیا ہے.وہ اس سلسلہ کے دینی اخراجات بنظر غور دیکھ کر ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ چندہ کی صورت پر کوئی ان کا احسن انتظام ہو جائے چنانچہ رسالہ فتح اسلام جس میں معارف دینیہ کی پنج شاخوں کا بیان ہے انہیں کی تحریک اور مشورہ سے لکھا گیا تھا.ان کی فراست نہایت صحیح ہے.وہ بات کی تہہ تک پہنچتے ہیں اور ان کا خیال ظنون فاسدہ سے مصفی اور مزکی ہے.رسالہ ازالہ اوہام کے طبع کے ایام میں دوسور و پید ان کی طرف سے پہنچا اور ان کے گھر کے آدمی بھی ان کے اس اخلاص سے متاثر ہیں اور وہ بھی اپنے کئی زیورات اس راہ میں محض اللہ خرچ کر چکے ہیں.حکیم صاحب موصوف نے باوجود ان سب خدمات کے جوان کی طرف سے ہوتی رہتی ہیں.خاص طور پیج روپے ماہواری اس سلسلہ کی تائید میں دینا مقرر کیا.جزاهم الله خير الجزاء و احسن عليهم في الدنياء والعقبي.66 ازالہ اوہام میں معاونت اشاعت میں کئی سو روپے ہوئے مستقل چندہ دہندگان میں بھی آپ کا ذکر ہے.آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ میں ذکر و بعض الانصار کے تحت حضرت حکیم صاحب کا نام درج فرمایا ہے اور جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں کی فہرست میں نمبر پر آپ کا نام درج فرمایا اسی طرح تحفہ قیصریہ اور سراج منیر کتاب البریہ اور آریہ دھرم میں اپنی پُر امن جماعت اور چندہ دہندگان میں ذکر فرمایا ہے.پھر انجام آتھم

Page 83

60 میں مباہلہ کے بعد ظاہر ہونے والے نشانات میں آپ کا ذکر فرمایا کہ د حکیم صاحب مال اور جان سے اس راہ میں ایسے ہیں کہ گویا محو ہیں.“ نور القرآن نمبر ۲ میں امام کامل کی خدمت میں مصروف احباب میں آپ کا ذکر ہے.آپ کی ازدواجی زندگی: آپ نے تین شادیاں کیں لیکن آپ کے ہاں اولاد نہ تھی.وفات : آپ کی وفات ۱/۸اپریل ۱۹۱۰ء کو دوران سفر لاہور میں ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.ماخذ : (۱) فتح اسلام صفحہ ۳۸ و ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ (۳) نور القرآن روحانی خزائن جلد ۹ نمبر ۲ صفحه ۷۴ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۶) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۷) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱ (۸) سیرت حضرت مسیح موعود حصہ اول صفحہ ۱۵۹ (۹) تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحه ۶۳۷ (۱۰) تاریخ احمدیت جلدا (۱۱) البدر قادیان کے تا ۲۱ را پریل ۱۹۱۰ء (۱۲) بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحه ۲۸ تا ۵۳ (۱۳) ملفوظات جلد دوم صفحه ۴۱۲-۴۱۳ ☆ ۲۴.حضرت صاحبزادہ محمد سراج الحق صاحب جمالی نعمانی قادیانی سابق سرساوی معہ اہلبیت ولادت : ۱۸۵۵ء.بیعت : ۲۳ / دسمبر ۱۸۸۹ء.وفات: ۳/ جنوری ۱۹۳۵ء تعارف: حضرت صاحبزادہ حمد سراج الحق جمالی نعمانی رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام شاہ حبیب الرحمن تھا.آپ کے والد صاحب سرساوہ ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے اور نبیرہ قطب الاقطاب شیخ جمال الدین احمد دحضرت امام المسلمین نعمان ابو حنیفہ کوفی کی اولاد میں سے تھے.حضرت اقدس کی بیعت.پس منظر: آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایک مکان میں کثرت سے آدمی موجود ہیں اور حضرت رسول مقبول خاتم الانبیاءمحمد مصطفی اللہ تشریف رکھتے ہیں.آپ بے تکلف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا بیٹھے.آپ نے آنحضرت ﷺ کے قدم مبارک کو بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا.دو برس بعد لدھیانہ میں گئے تو حضرت اقدس مسیح موعود کا شہرہ منا تو آپ کی مجلس میں حاضر ہوئے آپ کی صورت دیکھی تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ توی صورت ہے جس صورت پر حضرت نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا تھا.اس ملاقات کے کوئی چھ ماہ بعد آپ حضرت اقدس کو قادیان میں ملے تو آپ کی اعتقادی حالت بہت ترقی کر چکی تھی.تب آپ بصدق دل بیعت سے مشرف ہوئے.آپ نے ۲۳ دسمبر ۱۸۸۹ء کو بیعت کی رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۱۵۳ نمبر پر درج ہے.آپ مباحثہ

Page 84

61 دہلی میں حضرت اقدس مسیح موعود کے ہمراہ تھے.قادیان میں سکونت اور خدمت سلسلہ : آپ ۱۸۹۲ء سے حضرت اقدس کی خدمت میں قادیان تشریف لایا کرتے تھے.بعد میں ۱۸۹۹ء میں مستقل طور پر قادیان میں رہائش رکھ لی.حضرت اقدس کی حیات کے واقعات پر آپ نے ایک ایمان افروز کتاب " تذکرۃ المہدی“ کے نام سے تصنیف کی.۱۹۰۱ء میں مردم شماری کے وقت احمدی مسلمان کا نام آپ کی تجویز پر دیا گیا.حضرت اقدس کی خط و کتابت میں بھی آپ مدددیتے رہے.حضرت اقدس کی کتب میں آپ کا ذکر : حضرت اقدس نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں صفحہ ۵۳۴ پر آپ کا ذکر یوں فرمایا ہے: ”صاف باطن یک رنگ اور لہی کاموں میں جوش رکھنے والے اور اعلائے کلمہ حق کے لئے بدل و جان ساعی وسرگرم ہیں.اس سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے خدا تعالیٰ نے جوان کے لئے تقریب پیدا کی وہ ایک دلچسپ حال ہے.“ آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والے احباب اور چندہ دہندگان میں آپ کا ذکر ہے.اسی طرح تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پُر امن جماعت میں ذکر ہے.نورالقرآن نمبر ۲ صفحہ ۷۹.۸۰ پر آپ کا نام دیگر خدمتگاروں میں درج ہے.ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۲۹ پر آپ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس نے فرمایا " صاحبزادہ پیر جی سراج الحق نے تو ہزاروں مریدوں سے قطع تعلق کر کے اس جگہ کی درویشانہ زندگی قبول کی.علاوہ ازیں متعدد مواقع پر بعض مجالس کے ضمن میں ملفوظات میں تذکرہ ہے.تصنيفات: (۱) تذکرۃ المہدی (حصہ اول، دوم) (۲) خمس (۳) علم القرآن (۴) قاعده عربی (۵) پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے فیصلہ کا ایک طریق (۶) سراج الحق حصہ اول تا پنجم آپ کی علمی یادگار ہیں.وفات آپ کی وفات ۳ /جنوری ۱۹۳۵ء کو ہوئی.اولاد: آپ کی اولاد میں ایک بیٹا فرقان الرحمن چھوٹی عمر میں فوت ہو گیا جو پہلی بیوی سے تھا آپ کی بیٹی مکرمہ محمودہ ناہید صاحبہ راولپنڈی میں ہیں جو مکرم سید احمد شاہ صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ مشرقی افریقہ کی خوشدامن ہیں.حضرت پیر صاحب کے تین نوا سے اور تین نواسیاں ہیں ایک نواسہ سید مبشر احمد صاحب کے بیٹے مکرم سید عمران احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) نور القرآن نمبر روحانی خزائن جلد ۲ (۴) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۵) تذکرۃ المہدی (۶) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ۱ و ۲ (۷) تاریخ احمدیت جلد ہشتم In The Company of Promised Messiah" (9) الفضل‘۱۲ مارچ ۱۹۷۸ء.

Page 85

62 ☆ ۲۵.حضرت سید ناصر نواب صاحب دہلوی.حال قادیانی ولادت: ۱۸۴۵ء.بیعت : ۱۸ارجون ۱۸۹۱ء.وفات : ۱۹ ستمبر ۱۹۲۴ء تعارف: حضرت سید میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ صوفیاء خاندان سے تعلق رکھتے تھے.جو مغل شہنشاہ شاہجہان کے زمانہ میں بخارا سے ہجرت کر کے ہندوستان وارد ہوا.پہلے بزرگ خواجہ محمد نصیر نقشبندی تھے جو حضرت بہاؤ الدین نقشبندی کی اولاد میں سے تھے.اس خاندان میں مشہور صوفی حضرت خواجہ محمد ناصر عندلیب پیدا ہوئے.جنہیں ایک بزرگ نے کشف میں ایک عظیم الشان بشارت دی کہ: ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی.اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی اور اس کا انجام مہدی موعود پر ہو گا.“ حضرت خواجہ صاحب نے اس عظیم الشان بشارت پر صوفیاء کے ایک نئے سلسلہ طریق محمدیہ کی بنیاد رکھی اور پہلی بیعت اپنے تیرہ سالہ بیٹے خواجہ میر درد سے لی.حضرت میر ناصر نواب صاحب حضرت خواجہ میر درد کے نواسے تھے.آپ کے والد گرامی کا نام حضرت میر ناصر امیر تھا.اس بشارت کا ظہور حضرت میر صاحب کی دختر سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شادی کے رنگ میں ہوا.حضرت اقدس سے تعلق : حضرت سید ناصر نواب امرتسر میں محکمہ انہار میں سب اوور سئیر ملازم ہوئے اور اس سلسلہ میں قادیان آنے کا موقع ملا اور حضرت اقدس مسیح موعود کے خاندان سے ابتدائی تعارف ہوا.مزید تعلق حضرت اقدس سے بعد میں آپ کی صاحبزادی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم (حضرت ام المومنین ) کے نکاح سے ہوا.حضرت اقدس سے نکاح ۱۸۸۵ء میں دہلی میں ہوا جو مشہور اہلحدیث عالم شیخ الکل مولانا نذیرحسین دہلوی نے پڑھا.اس وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شہرت نہ تھی.حضرت اقدس نے جب ”براہین احمدیہ“ شائع فرمائی تو آپ نے بھی ایک نسخہ خریدا.آپ محکمہ انہار میں ملازمت کے سلسلہ میں مختلف علاقوں میں متعین رہے.بیعت : ۱۸۸۹ء میں حضرت اقدس نے ماموریت کا دعویٰ فرمایا اور لدھیانہ میں سلسلہ بیعت شروع ہوا تو کچھ تو قف سے آپ نے ۱۸ جون ۱۸۹۱ء کو حضرت اقدس کی بیعت کر لی.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت ۱۳۳ نمبر پر ہے.اس بیعت کے نتیجے میں آپ کو اپنے زمانہ اہلحدیث کے دوستوں مولوی محمد حسین بٹالوی اور شیخ نذیرحسین صاحب دہلوی سے تعلقات چھوڑنے پڑے.جن کے ساتھ مل کر آپ حضرت مسیح موعود کی ابتداء مخالفت بھی کرتے رہے تھے.بیعت سے قبل ۱۲/ اپریل ۱۸۹۱ء کو آپ نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ ”میں نے جو کچھ مرزا صاحب کو فقط اپنی غلط فہمیوں کے سبب سے کہا نہایت بُرا کیا اب میں تو بہ کرتا ہوں.“

Page 86

63 حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے اپنی کتاب ازالہ اوہام حصہ دوم میں صفحہ ۵۳۵ پر فرمایا: میر صاحب موصوف علاوہ رشتہ روحانی کے رشتہ جسمانی بھی اس عاجز سے رکھتے ہیں کہ اس عاجز کے خسر ہیں.نہایت یک رنگ اور صاف باطن اور خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اتباع کو سب چیز سے مقدم سمجھتے ہیں اور کسی سچائی کے کھلنے سے پھر اس کو شجاعت قلبی کے ساتھ بلا توقف قبول کر لیتے ہیں..آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ میں شرکت اور چندہ دہندگان میں آپ کا ذکر موجود ہے.تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پُر امن جماعت میں آپ کا ذکر موجود ہے.نور القرآن نمبر ۲ میں حضرت اقدس کی خدمت میں رہنے والوں میں آپ کا ذکر بھی کیا گیا ہے.علاوہ ازیں مختلف اوقات میں حضرت اقدس کے ملفوظات میں بھی ذکر ہے.خدمات دینیہ : آپ کی تبدیلی پٹیالہ سے فیروز پور ہوئی جہاں سے پادری عبداللہ آتھم کے رشتہ داروں نے آپ کا تبادلہ مردان کروا دیا.مردان سے آپ پینشن پا کر مستقل قادیان آبسے.آپ حضرت اقدس مسیح موعود کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے.خدمتگار تھے.انجینئر تھے.لنگر خانہ کے مہتمم تھے.زمین کے مختار تھے.حضرت اقدس کے اکثر معجزات بچشم خود دیکھے.آپ کی خدمات میں مسجد نور، نور ہسپتال، دار الضعفاء وغیرہ کا قیام شامل ہے.حضرت میر صاحب شاعرانہ فطرت لے کر پیدا ہوئے تھے.ابتدائی زمانہ میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسے میں آپ نے ایک نظم پڑھی جس کا ایک شعر تھا.پھولوں کی گر طلب ہے تو پانی چمن کو دے جنت کی گر طلب ہے تو زر انجمن کو دے انجمن کو اس نظم کے وقت بہت سا روپیہ وصول ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے کلام کو پسند فرماتے تھے.آپ کی ایک نظم کو کتاب ” آر یہ دھرم میں بھی درج فرمایا.اسی طرح جلسہ اعظم مذاہب میں بھی آپ کو نظم پڑھنے کا موقع ملا.آپ کا ایک منظوم سفر نامہ بھی ہے.وفات : ۱۹ ستمبر ۱۹۲۴ء کو جمعہ کے دن آپ کا انتقال ہوا.بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.آپ کے جدی خاندان میں آپ کی ایک بھانجی حضرت سیدہ شوکت سلطان صاحبہ کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.اولاد: آپ کی صاحبزادی حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں رضی اللہ عنہا ، حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل اور حضرت میر محمد الحق تھے.اس طرح اس خاندان سادات کا حضرت اقدس کے خاندان کے ساتھ گہرا تعلق قائم ہوا بلکہ یہ ایک ہی خاندان ہو گیا.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱ (۶) نور القرآن نمبر ۲

Page 87

64 (۷) حیاتِ ناصر (۸) مضمون مطبوعہ 'الفضل ۱۲ / مارچ ۲۰۰۱ء (۹) مضمون مطبوعه الفضل ۲۳ فروری ۱۹۹۸ء (۱۰) مضمون مطبوعه الفضل ۳ /اکتوبر ۱۹۹۸ء (۱۱) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۵۵ (۱۲) دو بھائی از مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب (۱۳) سیرت سیدہ نصرت جہاں بیگم.☆ ۲۶.حضرت صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانوی معہ اہلبیت حال قادیانی بیعت : ۹ر جولائی ۱۸۹۱ء.وفات: ۸جنوری ۱۹۵۱ء تعارف: حضرت صاحبزادہ افتخار احمد رضی اللہ عنہ معروف صوفی خاندان کے بزرگ حضرت منشی احمد جان آف لدھیانہ کے بیٹے تھے.حضرت منشی احمد جان صاحب کی نگاہ نے حضرت اقدس مسیح موعود کو بہت پہلے سے شناخت کرلیا تھا اور اس کا اظہار بھی فرمایا ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ تم مسیحا بنو خدا کے لئے حضرت اقدس کی پہلی زیارت اور بیعت : پہلی بار حضرت صاحبزادہ نے حضرت اقدس کی زیارت ۱۸۸۷ء میں کی جب بشیر اول کے عقیقہ پر قادیان تشریف لائے اور ۹ / جولائی ۱۸۹۱ء کو حضرت اقدس کی بیعت کی سعادت پائی.آپ کی بیعت رجسٹر بیعت کے مطابق ۲۴۰ نمبر پر ہے.آپ کی اہلیہ حضرت ملکہ جان نے ۱۶ / اپریل ۱۸۹۲ء کو بیعت کی.آپ کی بیعت ۳۲۸ نمبر پر ہے.۱۹۰۱ء میں معہ اہل وعیال قادیان آ گئے.حضرت مولوی عبدالکریم کے ساتھ خط و کتابت میں معاونت کرتے رہے اور ۱۹۲۷ء تک خدمت بجالاتے رہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۳۹ پر حضرت اقدس نے فرمایا :.یہ جوان صالح میرے مخلص اور محب صادق حاجی حرمین شریفین منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کے خلف رشید ہیں اور بمقتضائے الولد سر لابیه تمام محاسن اپنے والد بزرگوار کے اپنے اندر جمع رکھتے ہیں اور وہ مادہ ان میں پایا جاتا ہے جو ترقی کرتا کرتا فانیوں کی جماعت میں انسان کو داخل کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ روحانی غذاؤں سے ان کو حصہ وافر بخشے اور اپنے عاشقانہ ذوق و شوق سے سرمست کرے.آمین ثم آمین کتاب آسمانی فیصلہ میں پہلے جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں آپ کا نام ۴۹ نمبر پر ہے اور آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ۱۸۹۲ء میں ۵۲ نمبر پر ذکر فرمایا ہے.تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پر امن جماعت کی فہرست

Page 88

65 میں بھی ذکر ہے.نورالقرآن نمبر ۲ میں حضرت اقدس امام کامل کی خدمت میں رہنے والوں میں آپ کا ذکر ہے.خدمات دینیہ ابتداء میں صاحبزادہ صاحب قادیان کے سکول میں مدرس تھے.حضرت مولانا عبد الکریم نے حضرت اقدس کی اجازت سے صاحبزادہ صاحب کو حضرت اقدس کا محرر ( لنگر اور سکول کا چندہ اور حضرت اقدس کی ڈاک کے کام کے لئے ) رکھ لیا.آپ نے ایک کتاب افتخار الحق لکھی جو آپ کے صوفیانہ مزاج کا پتہ دیتی ہے.اللہ تعالیٰ اور اس کے پیاروں سے تعلق کے ضمن میں لکھتے ہیں بادشاہ کے خادم بھی اس دستر خواں سے حصہ پاتے ہیں جو بادشاہوں کے سامنے چنا جاتا ہے صبر و رضا کے بارے میں لکھتے ہیں: ”خدا کے فضل اور رحم سے صابرین اور شاکرین کے لئے تکلیفیں ان پھلوں کی طرح ہیں جو پھلدار درختوں میں لگتے ہیں.پھول جھڑ جاتے ہیں اور پھل رہ جاتے ہیں“ وفات : حضرت صاحبزادہ صاحب ۸/ جنوری ۱۹۵۱ء کو رحلت فرما گئے وصیت نمبر ۱۰۱۱ اور آ پکی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ نمبر ۱۰ حصہ نمبر ۱۹ میں ہوئی.اولاد: آپ نے تین شادیاں کیں.(۱) حضرت ملکہ جان صاحبہ (۲) حضرت فاطمہ عمر دراز صاحبہ.دوسری اہلیہ حضرت فاطمہ عمر دراز سے اولاد ہوئی.اللہ تعالیٰ نے ان سے آپ کو ۱۶ بیٹے بیٹیوں سے نوازا.جن میں حضرت پیر مظہر قیوم صاحب، حضرت پیر مظہر الحق صاحب ، حضرت پیر خلیل احمد صاحب اور حضرت پیر حبیب احمد صاحب معروف ہیں.حضرت پیر حبیب احمد صاحب کی اولاد میں مکرم زاہد محمود صاحب مربی سلسلہ اور مکرم عبدالرحمن صاحب فیصل آباد جن کا وصال ۲۰۱۰ ء میں ہوا.ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد۲ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۶) نور القرآن نمبر ۲ (۷) انعامات خداوند کریم (۸) مضمون حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی مطبوعہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ مئی وجون ۱۹۹۹ء (۹) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلدا.☆ ۲۷.حضرت صاحبزادہ منظور محمد صاحب معہ اہلبیت حال قادیانی بیعت ۱۶ / فروری ۱۸۹۲ء.وفات ۲۱ جون ۱۹۵۰ء تعارف: حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد رضی اللہ عنہ حضرت صوفی احمد جان کے بیٹے تھے.آپ نقشبندیہ طریق تصوف پر کار بند تھے.ابتدائی تعلیم وتربیت آپ کے والد صاحب کے ذریعہ سے ہوئی.

Page 89

66 بیعت : آپ نے ۱۶ فروری ۱۸۹۲ء میں حضرت اقدس کی بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی میں ۳۵۲ نمبر پر آپ کی بیعت درج ہے.اس وقت آپ جموں میں ملازم تھے.قادیان میں رہائش: ریاست جموں وکشمیر کے محلہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوئے اور جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ جموں سے قادیان آئے تو آپ بھی قادیان آ کر رہائش پذیر ہو گئے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ۱۸۹۲ء اور تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی کے احباب میں اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.نور القرآن نمبر ۲ میں امام کامل کی خدمت میں رہنے والوں میں بھی آپ کا نام ہے.حضرت اقدس نے انجام آتھم کے ضمیمہ میں فرمایا میاں منظور محمد صاحب میرے پاس ہیں اور ہر ایک خدمت میں حاضر ہیں.گویا اپنی زندگی اس راہ میں وقف کر رہے ہیں.(حاشیہ صفحہ ۳۰) خدمات دینیہ : آپ نے محض حضرت اقدس علیہ السلام کی تصانیف کے لئے کتابت سیکھی.حضور کی بہت سی کتابوں کے پہلے ایڈیشن آپ ہی کے قلم سے لکھے ہوئے ہیں اور بہت دیدہ زیب اور نفیس ہونے کے علاوہ نہایت صاف اور صحیح ہیں.حضرت اقدس کی منظوری سے آپ نے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کو قرآن شریف ناظرہ پڑھایا اور انہی کی تعلیم کی غرض سے یسر نا القرآن“ کا مشہور و معروف قاعدہ تیار کیا.جس کے ذریعہ سے نہ صرف بر صغیر بلکہ بیرونی ممالک کے لاکھوں ان پڑھ لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی توفیق ملی اور اس وقت تک اس کے بے شمار ایڈیشن چھپ چکے ہیں.اس قاعدہ کی تعریف اور خوشنودی کا اظہار حضور نے ۱۹۰۱ء میں اپنی اولاد کی آمین میں فرمایا:.ره پڑھایا جس نے اس پر بھی کرم کر جزا دے دین اور دنیا میں بہتر تعلیم اک تو نے بتا دی فسبحان الذي اخزى الاعادى اس قاعدہ سے سینکڑوں روپے ماہانہ آمدنی ہوتی تھی لیکن آپ صرف ۳۰ یا ۴۰ روپے رکھ کر باقی رقم حضرت المصلح الموعود کی خدمت میں اشاعت قرآن کے لیے بھیج دیتے تھے.آپ کی تصانیف میں (۱) پسر موعود (۲) مصلح موعود (۳) نشان فضل (۴) قاعده میسرنا القرآن (۵) قرآن مجید بطرز قاعدہ میسرنا القرآن (۶) حمائل شریف (۷) ایک پنجابی نظم ”مرزا صاحب مہدی شامل ہیں.وفات : آپ کی وفات ۲۱ جون ۱۹۵۰ء کور بوہ میں ہوئی.اور آپ کی وصیت نمبر 119 ہے اور آپکی تدفین بہشتی مقبرہ قطعہ نمبر ۱۰ا حصہ نمبر 19 میں ہوئی.اولاد: آپ کی بیٹی حضرت صالحہ بیگم صاحبہ حضرت سید میر محمد الحق صاحب کے عقد میں آئیں.( جن کے بیٹے سید میر داؤ داحمد صاحب مرحوم ( سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ )، سید میر مسعود احمد صاحب مرحوم ( مبلغ ڈنمارک) اور سید میر

Page 90

67 محمود احمد ناصر صاحب صدرنور فاؤنڈیشن ربوہ ہیں ان کے علاوہ چار بیٹیاں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائیں.) آپ کی دوسری بیٹی حضرت حامدہ بیگم کی شادی سردار کرم داد صاحب سے ہوئی.جن میں سے آپ کی دو بیٹیاں تھیں محتر مہ رشیدہ بیگم فرحت جہاں کی شادی مکرم چوہدری مظفر الدین صاحب بنگالی واقف زندگی ( پرائیویٹ سیکرٹری مصلح موعود) سے ہوئی.حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر حضرت ام متین صاحبہ کے ہمراہ اکٹھا نکاح حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے پڑھایا دوسری بیٹی امینہ راحت صاحبہ کی شادی مکرم عبد الرحمن خان صاحب بنگالی (سابق مبلغ امریکہ ) سے ہوئی.ان کی اولا د مکرم کمال الدین صاحب اور دیگر بھائی بیرون ملک ہیں.یہ دونوں شادیاں حضرت سردار کرم داد خان صاحب کی خواہش پر ہوئیں کہ انہوں نے دونوں بیٹیوں کو وقف کیا ہے.مکرمہ رشیدہ بیگم فرحت جہاں جن کی اولاد میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں.جن میں مکرم مغفور احمد قمر صاحب مربی سلسلہ اور مکرم مسرور احمدطاہر فیصل آباد اور بڑی بیٹی مکرمہ ساجدہ نسیم صاحبہ اہلیہ مکرم ملک احسان اللہ مرحوم ( مبلغ سلسلہ ) حیات ہیں.حضرت پیر صاحب کی کوئی نرینہ اولا د ی تھی.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البر یہ روحانی خزائن جلد ۱۳(۴) نور القرآن نمبر ۲ (۵) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۹ (۶) مضمون ”حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب لدھیانوی مطبوعہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اکتوبر ۱۹۹۹ء (۷) احمدیہ کلچر ☆ ۲۸.حضرت حافظ حاجی مولوی احمد اللہ خان معہ اہلبیت حال قادیانی بیعت : ابتدائی زمانہ میں.وفات : ۱۵ را کتوبر ۱۹۲۶ء تعارف: حضرت حافظ حاجی مولوی احمد اللہ خاں رضی اللہ عنہ کا تعلق امرتسر سے تھا.یہاں سے نقل مکانی کر کے پشا ورصدر میں مقیم ہوئے.بیعت : حضرت مولوی غلام حسن صاحب پشاوری کے زیر اثر تھے اور انہی کی وجہ سے احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور تحقیقات کے بعد احمدی ہو گئے.بیعت کے بعد پشاور سے ہجرت کر کے قادیان آگئے.( بیعت سے پہلے آپ اہل حدیث کے امام الصلوۃ تھے.) ایک دفعہ عصر کے بعد مولوی حافظ احمد اللہ خاں صاحب امرتسر سے آئے اور انہوں نے حضرت اقدس پر مقدمہ اقدام قتل کی اطلاع کی کہ حضرت صاحب پر کسی پادری نے امرتسر میں دعویٰ کیا ہے جس کی خبر کسی طرح سے انہیں مل گئی ہے....حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی اور کتاب البریہ میں حضرت اقدس کی

Page 91

68 پر امن جماعت کی فہرست میں نام درج ہے.نور القرآن نمبر۲ میں امام کامل کی خدمت کرنے والوں میں آپ کا نام بھی درج ہے.وفات : آپ کی وفات ۱۵ / اکتوبر ۱۹۲۶ء کو ہوئی.آپ کی وصیت نمبر ۲۵۱۷ ہے تدفین قطعہ نمبر ا میں ہوئی.ماخذ : (۱) تحفہ قیصریہ (۲) کتاب البریہ (۳) نور القرآن نمبر ۲ (۴) ”خطبات محمود جلد نمبر ۲ صفحه ۳۶۲ (۵) سیرة المہدی حصہ سوم صفحه ۱۳۴ (۶) " تاریخ احمد یہ سرحد صفحہ ۵۸-۵۹ (۷) اصحاب احمد‘ جلد دوم صفحہ ۶۲۶ (۸) الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۲۶ء ☆ ۲۹ - حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا معہ اہلبیت مدراس بیعت : ۱۱ جنوری ۱۸۹۴ء.وفات : ۱۹۱۵ء تعارف: حضرت سیٹھ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ مدراس کے ایک متمول تاجر میمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے.بیعت : آپ اسلام کی مخدوش حالت سے پریشان تھے اور کسی مجدد، مہدی اور مسیح کے لئے بے قراری سے منتظر تھے.اسی دوران حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف لطیف فتح اسلام پر دل و جان سے فریفتہ ہو گئے.قادیان سے اور بھی کتابیں منگوائیں جو آپ نے بالاستیعاب پڑھیں.جب قادیان کے سفر کے لئے تیار ہوئے تو ۱۸۹۴ء میں آپ کے ساتھ مولوی حسن علی صاحب مسلم مشنری بھی تشریف لائے.چند دنوں کے قیام سے دونوں اس بات کے قائل ہو گئے کہ آپ عین وقت پر تشریف لائے ہیں.آپ نے 11 جنوری ۱۸۹۴ء کو بیعت کی سعادت پائی.حضرت اقدس سے تعلق اخلاص و وفا : آپ کا سارا خاندان احمدی تھا.آپ کے اخلاص کی یہ حالت تھی کہ اگر ان کے پاس کچھ نہ ہوتا تو بھی وہ حضرت اقدس کو قرض لے کر روپیہ بھیجتے رہتے.ایک دفعہ ان کو کاروبار میں سخت نقصان پہنچا اور سب کچھ نیلام ہو گیا.انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا.تھوڑے عرصہ کے بعد تین سور و پید انہوں نے بھیجا.حضرت اقدس نے فرمایا آپ کی یہ حالت تھی تو آپ نے روپیہ کیسے بھیجا.جس کے جواب میں انہوں نے عرض کی کہ میں نے کچھ رو پید اپنی ضروریات کے لیے قرض لیا تھا اس میں خدا کا بھی حق تھا سو میں نے وہ ادا کر دیا.آپ کی محبت اور اخلاص کا ذکر حقیقۃ الوحی میں نشان نمبر ۹۸ سے ملتا ہے آپ کے متعلق حضرت اقدس کا یہ الہام مشہور ہے.قادر ہے وہ بارگہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے ایک ایمان افروز واقعہ: آپ کے ایک ایمان افروز واقعہ کا حال حضرت عزیز الدین صاحب بیان فرماتے ہیں کہ:

Page 92

69 ایک وقت میں قادیان میں تھا کہ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس والے وہاں آئے ہوئے تھے جن کا اسباب کا لدا ہوا جہاز گم ہو گیا تھا اور وہ ابتلاء میں تھے.حضرت صاحب سے مشورہ لیتے تھے کہ جہاز گم ہو گیا ہے اور روپے کی زیر باری ہو گئی ہے.قرض خواہ قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں تو پھر کیا دیوالیہ نکال دیا جائے یا اور جو تجویز آپ فرما دیں عمل میں لائی جائے اور دعا بھی کریں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے یعنی ظاہری جائیداد اور بار یک در بار یک چیز یں قیمتی بھی جو تمہارے پاس ظاہر اور نہاں ہیں قرض خواہوں کے آگے پیش کر دیں اور ہم انشاء اللہ دعا بھی کریں گے.چنانچہ سیٹھ صاحب نے ایسا ہی کیا یعنی وہ چیزیں جو نہاں در نہاں پردہ میں ان کے پاس تھیں انہوں نے سب قرض خواہوں کو بلا کر پیش کر دیں.جب قرض خواہوں نے ظاہر جائیداد کے علاوہ اور قیمتی چیزیں بھی دیکھیں جو ان کے خواب خیال میں بھی نہیں آسکتی تھیں کہ ان کے پاس ہوں گی تو تمام قرض خواہ سیٹھ صاحب کی ایمانداری پر قربان ہو گئے اور انہوں نے ان کی تمام جائیداد زیورات اور قیمتی چیزیں سب کی سب واپس کر دیں اور کہا کہ ہمارا دل مطمئن ہو گیا ہے تم اس روپے سے یا اور ضرورت ہو تو ہم سے لے کر اپنا کاروبار جاری رکھو اور جب تمہارے پاس روپیہ ہو جائے تو ہمارا قرض ادا کر دیں.خدا کی قدرت کہ تین سال بعد گم شدہ جہاز کہیں پکڑا گیا اور آخر وہی جہاز مع تمام اسباب کے ان کو دستیاب ہو گیا.یعنی تقریباً تین لاکھ کا مال ان کومل گیا جس سے سیٹھ صاحب نے تمام قرض بھی اتار دیا اور ان کا حال بھی آسودہ ہو گیا.اس طرح حضرت مسیح موعود کی تجویز پر عمل کرنے اور دعا سے سیٹھ صاحب کی بگڑی بن گئی.حضرت اقدس کی کتب میں آپ کا ذکر : حقیقۃ الوحی میں نشانات حضرت اقدس کے گواہ ،سراج منیر میں چندہ دہندگان اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت میں آپ کا ذکر ہے.حضرت اقدس نے اشتہارالانصارم را کتوبر ۱۸۹۹ء میں آپ کی مالی قربانیوں کو نمونہ قرار دیتے ہوئے لکھا ان کا صدق اور ان کی مسلسل خدمات جو محبت، اعتقاد اور یقین سے بھری ہوئی ہیں تمام جماعت کے ذی مقدرت لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہیں.“ آپ کے نام حضرت اقدس کے بہت سارے خطوط مکتوبات احمد یہ جلد پنجم میں موجود ہیں.ضمیمہ انجام آتھم میں بھی حضرت اقدس نے فرمایا ہے مدراس سے دور دراز سفر کر کے میرے پاس تشریف لائے ہوئے ہیں...جنہوں نے کئی ہزار روپیہ ہمارے سلسلہ کی راہ میں محض اللہ لگا دیا ہے اور برابر ایسی سرگرمی سے خدمت کر رہے ہیں کہ جب تک انسان یقین سے نہ بھر جائے اس قدر خدمت نہیں کر سکتا وہ ہمارے درویش خانہ کے مصارف کے اول درجہ کے خادم ہیں.انہوں نے ایک سو روپیہ ماہواری اعانت کے طور پر اپنے ذمہ واجب کر رکھا ہے.“

Page 93

70 وفات : آپ کی وفات ۱۹۱۵ء میں ہوئی.آپ کو حضرت مسیح موعود نے صد را انجمن احمد یہ قادیان کا ٹرسٹی مقر فر مایا تھا.اولاد: آپ کی کوئی اولا دن تھی.ماخذ : (۱) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۴) مکتوبات احمد یہ جلد چہارم (۵) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۶) حیات قدسی (۷) In The" Company of Promised Messiah صفحه ۹۶ تا ۹۸ (۸) خطبات محمود جلد نمبر ۹صفحہ ۲۲۷.۳۳۶ (۹) تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۵۱۴ (۱۰) اخبار الفضل ۲۶ / اگست ۱۹۱۵ء (۱۱) ذکر حبیب.(۱۲) رجسٹر روایات جلد اول ۳۰.حضرت میاں جمال الدین سیکھواں گورداسپور معہ اہلبیت بیعت ۲۳ نومبر ۱۸۸۹ء.وفات :۱۴ اگست ۱۹۲۲ء تعارف: حضرت میاں جمال الدین رضی اللہ عنہ قادیان سے چار میل کے فاصلے پر جانب مغرب ایک گاؤں سیکھواں کے تھے.سیکھواں سے آپ کے بھائی میاں امام الدین اور میاں خیر الدین حضرت اقدس مسیح موعود کے قدیم اور مخلص رفقاء میں سے تھے.آپ کے والد کا نام محمد صدیق صاحب تھا.باقی دونوں بھائیوں کے حالات نمبر ۳۱ اور نمبر ۳۲ پر درج ہیں.بیعت آپ کی بیعت ۲۳ نومبر ۱۸۸۹ء کی ہے اور رجسٹر بیعت اولی میں ۱۴۹ نمبر پر نام درج ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آسمانی فیصلہ ۱۸۹۱ء کے جلسہ سالانہ آئینہ کمالات اسلام میں اور چندہ دہندگان کی فہرست میں نام شامل ہے.سراج منیر چندہ مہمانخانہ دینے والوں میں تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی کے شرکاء میں اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کی فہرست میں نام درج ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا کم معاش اور مالی قربانی کرنے والوں میں ذکر ہے.دینی خدمات : حضرت اقدس کی کتب میں ذکر کے علاوہ منارہ مسیح کے لئے مالی قربانی کرنے والے اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ جولائی ۱۹۰۰ء کے اشتہار میں ذکر موجود ہے.وفات: آپ کی وفات ۱۴، اگست ۱۹۲۲ء میں ہعمر ۶۳ سال میں ہوئی.آپ کی وصیت نمبر ۹۴ ہے تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۲ حصہ نمبر ۹ میں ہوئی.ماخذ: (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد۱۱ (۶) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۵ (۷) سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۳۰

Page 94

71 ☆ ۳۱.حضرت میاں خیر الدین سیکھواں گورداسپور معہ اہلبیت ولادت : ۱۸۶۹ء.بیعت : ۲۳ نومبر ۱۸۸۹ء.وفات : ۱۴ / مارچ ۱۹۴۹ء تعارف: حضرت میاں خیر الدین بھی سیکھواں نزد قادیان کے رہنے والے تھے.آپ کے والد محمد صدیق صاحب وائیں کشمیری خاندان سے تھے اور شالبافی پیشہ سے تعلق رکھتے تھے.بیعت : اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ ۲۳ نومبر ۱۸۸۹ء کو حضرت اقدس کی بیعت کی سعادت پائی.رجسٹر بیعت میں آپ کا نام ۱۵۰ نمبر پر ہے.آپ کی اہلیہ محترمہ امیر بی بی صاحبہ بھی آپ کے ساتھ ہی ۳۱۳ کی فہرست میں شامل ہیں.آپ بہت عبادت گزارا اور متقی خاتون تھیں.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آسمانی فیصلہ اور آئینہ کمالات اسلام جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء ۱۸۹۲ء کی فہرست میں آپ کا نام شامل ہے.سراج منیر میں چندہ دہندگان میں برائے مہمان خانہ تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پُر امن جماعت کی فہرست میں نام درج ہے.دینی خدمات : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۰ را کتوبر ۱۸۹۹ء کو ایک اشتہار میں مالی جہاد میں شمولیت کرنے والوں کا ذکر کیا.اس میں آپ نے حضرت میاں صاحب کی طرف سے دس روپے بطور سفرخرج وفد نصیبین کا بھی تذکرہ فرمایا.۸/ اگست ۱۹۰۲ء کو آپ نے حضرت اقدس کے سامنے تصدیق مسیح ، نظم سنائی.جولائی ۱۹۰۰ ء میں منارة امسیح میں اپنے والد اور بھائیوں کے ساتھ مالی قربانی کرنے والوں میں آپ کا نام شامل ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا ذکر کم معاش والے اور مالی قربانی کرنے والوں میں ہے.وفات : تقسیم ملک کے بعد جہلم میں ریل گاڑی کے حادثہ میں ۸۰ سال کی عمر میں ۱۴؍ مارچ ۱۹۴۹ء کو وفات پائی.تدفین ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں ہوئی.اولاد: آپ کی اولاد میں محترم قمرالدین صاحب فاضل انسپکٹر اصلاح وارشاد تھے.جو مجلس خدام الاحمدیہ کے پہلے پہلے صدر تھے.آپ کی اولاد میں سے خواجہ رشید الدین صاحب یو کے اور خواجہ صفی الدین صاحب قمر نظارت مال آمد ہیں.مولانا قمر الدین صاحب مرحوم کے نواسہ مکرم رفیق حیات صاحب امیر جماعت احمد یہ یوکے ہیں.ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۶) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۷) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۵۱ (۸) اخبار الحکم قادیان ۲۴ جولائی ۱۹۰۴ء (۹) بحوالہ ”الفضل‘۲۲ فروری ۲۰۰۰ (۱۰) الفضل ۳۰ راگست ۱۹۹۹ء (۱۱) ''الفضل ۲۱۴ را گست ۱۹۹۹ء (۱۲) تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اوّل

Page 95

72 ☆ ۳۲.حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھواں گورداسپور معہ اہلبیت بیعت ۲۳ نومبر ۱۸۸۹ء.وفات : ۸ مئی ۱۹۴۱ء تعارف : حضرت میاں امام الدین رضی اللہ عنہ موضع سکھواں ضلع گورداسپور سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے والد ماجد کا نام محمد صدیق صاحب وائیں کشمیری تھا.(حضرت میاں جمال الدین صاحب اور حضرت میاں خیر الدین صاحب.آپکے دو بھائیوں کا تذکرہ کیا جا چکا ہے.) بیعت : آپ اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ حضرت اقدس کے پاس آئے اور اپنے تعلق عقیدت سے حضرت میاں جمال الدین صاحب اور حضرت میاں خیر الدین صاحب کے ساتھ ہی ۲۳ نومبر ۱۸۸۹ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت ۱۵۱ نمبر پر ہے.آپ کی اہلیہ محترمہ حسین بی بی صاحبہ بھی ۳۱۳ کی فہرست میں آپ کے ساتھ شامل ہیں.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آسمانی فیصلہ اور آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء و۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والے احباب میں نام درج ہے.تحفہ قیصریہ میں ڈائمنڈ جوبلی جلسہ میں اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کی فہرست میں نام درج ہے.گورداسپور میں مقدمہ کرم دین کے موقع پر حضرت اقدس کی اقتداء میں نماز ظہر وعصر ادا کرنے والے احباب میں آپ کا ذکر ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا ذکر کم معاش والے اور مالی قربانی کرنے والوں میں ہے.دینی خدمات : حضرت اقدس نے آپ کی مخلصانہ مالی قربانی اور خدمت کا بھی تذکرہ فرمایا.آپ نے ضمیمہ اشتہار الانصار ۱۴ را کتوبر ۱۸۹۹ء میں فرمایا: ”میاں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداسپور اور ان کے دو برادران حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیر دین نے پچاس روپے دئے.جولائی ۱۹۰۰ ء میں ان بھائیوں اور ان کے والد محمد صدیق صاحب چاروں کی طرف سے ایک سو روپیہ منظور فرما کر فہرست برائے چندہ تعمیر منارة اسبیح میں ان کے نام نمبر ۸۴ پر درج فرمائے.مقدمہ کے دوران حضرت اقدس کی خدمت جب گورداسپور میں مولوی کرم دین صاحب سکنہ بھیں ( ضلع جہلم) کے مقدمہ کے سلسلہ میں عدالت میں پیشیاں پے در پے ہوتی رہیں اور یہ مقدمہ دوسال چلتا رہا.اُس دوران حضرت میاں امام الدین صاحب نے گورداسپور میں ایک مکان کرایہ پر لیا اور وہیں قیام کیا.اور حضرت اقدس کی خدمت سرانجام دیتے رہے.وفات : آپ کی وفات ۸ مئی ۱۹۴۱ء کو ہوئی.آپ کی وصیت نمبر ۹۵ ہے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں قطعہ نمبر ۲ حصہ

Page 96

73 نمبر ۲ میں تدفین ہوئی تھی.اولاد آپ کے فرزند حضرت بشیر احمد اور حضرت مولانا جلال الدین شمس تھے.حضرت مولانا جلال الدین شمس ( حضرت مصلح الموعود نے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کو خالد احمدیت“ کا خطاب دیا تھا.) مبلغ و ناظر اصلاح وارشاد مرکز یہ تھے.جو خود بھی صحابی تھے اور سلسلہ کے نہایت جلیل القدر متبحر عالم تھے.ان کے بعد ان کی اولاد کو بھی خدمت سلسلہ کی خاص توفیق ملی.آپ کے بیٹے مکرم منیر الدین شمس صاحب مربی سلسلہ احمدیہ بلاد عر بید و انگلستان رہے.اور اب ایڈیشنل وکیل الاشاعت لندن ہیں.علاوہ ازیں ان کے بیٹے مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب مرحوم اور مکرم فلاح الدین شمس صاحب امریکہ میں ہیں.جو Muslim Sunrise کے ایڈیٹر ہیں.ماخذ : (۱) نشان آسمانی روحانی خزائن جلد ۲ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد۱۱ (۱) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۱ (۷) روزنامه الفضل یکم مئی ۱۹۸۰ء و ۸ ستمبر ۲۰۰۰ء(۸) مجموعه اشتہارات (۹) تاریخ احمدیت جلد ۲ (۱۰) تاریخ نجنہ اماءاللہ.☆ ۳۳.حضرت میاں عبد العزیز پٹواری سیکھواں گورداسپور مع اہلبیت بیعت: ۱۸۹۲ء.وفات: ۱اراپریل ۱۹۴۶ء تعارف: حضرت میاں عبد العزیز رضی اللہ عنہ او جلہ ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.۱۸۹۱ء میں موضع سیکھواں میں تبدیلی کروائی.سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۰۳ سے آپ کے حالات پر روشنی پڑتی ہے.حضرت مسیح موعود نے جب ۳۱۳ صحابہ کی فہرست مرتب کی تو سیکھواں کے برادران میاں امام الدین صاحب، میاں جمال الدین صاحب اور میاں خیر الدین صاحبان مع منشی عبدالعزیز حضرت اقدس سے معلوم کرنے کے لئے حاضر ہوئے کہ کیا ان کے نام اس فہرست میں شامل ہوئے ہیں تو حضرت نے فرمایا کہ آپ کے نام پہلے ہی درج کئے گئے ہیں.بیعت : سیکھواں میں میاں امام الدین اور میاں خیر الدین سے واقفیت ہونے سے پہلے ازالہ اوہام پڑھی جس سے حضرت اقدس کی صداقت میخ کی طرح دل میں گڑ گئی اور ۱۸۹۲ء میں شرف بیعت حاصل کیا.مخلصانہ قربانی اگست ۱۸۹۸ء میں حضرت اقدس نے حضرت میاں صاحب کے بارے میں فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک علم عطا کیا ہے کہ ایسی ملازمتوں میں خدا تعالیٰ نے انہیں صاف رکھا اور صالح بنایا حضرت اقدس فرماتے ہیں:

Page 97

74 حضرت منشی عبد العزیز صاحب پنواری ساکن او جان ضلع گورداسپور نے باوجود قلت سرمایہ کے ۱۱۵ روپے دیئے ہیں.یہ مینارہ اسیح کی تعمیر کے سلسلہ میں آپ کی قربانی تھی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والے احباب میں آپ کا نام درج ہے.تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں اور کتاب البریہ میں پر امن جماعت کی فہرست میں آپ کا نام شامل ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں حضرت اقدس نے آپ کے ذکر میں فرمایا: میاں عبد العزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے.وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہوگا مگر لکھی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا.(روحانی خزائن جلدا اصفہ ۳۱۳-۳۱۴) وفات آپ کی وفات ارمئی ۱۹۴۶ء کو ہوئی.آپ کی وصیت نمبر ۱۱۸ تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۵ حصہ نمبرے میں ہوئی.اولاد: آپ کی اولاد چوہدری محمد شفیع صاحب ریٹائرڈ انجینئر محکمہ نہر مرحوم مدفون بہشتی مقبرہ ہیں.اور آپ کی چار بیٹیاں تھیں.محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولوی محمد دین صاحب سابق ناظر اعلیٰ وصدر صدر انجمن احمدیه، محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا رحمت علی صاحب مبلغ انڈونیشیا، محترمہ امتہ الحمید صاحبہ اہلیہ محترم چو ہدری احمد جان سابق امیر جماعت راولپنڈی محترمہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالستار صاحب اسلامیہ پارک لاہور، آپ کی ایک نواسی مکرمہ شاہدہ صاحبہ ( بنت محمد عبداللہ صاحب) اہلیہ مکرم پروفیسر منور شمیم خالد آڈیٹر انصار اللہ ابن مکرم شیخ محبوب عالم خالد سابق ناظر مال آمد ) ہیں.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۵) سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحه ۱۱۳ صفحه ۱۳۸ (۶) ذکر بیب صفحہ ۲۱ (۷) تاریخ احمدیت جلد دہم صفحہ ۶۱۴ (۸) الفضل ارمئی ۱۹۹۰ء.۳۴.حضرت منشی گلاب دین.رہتاس.جہلم ولادت: ۱۸۴۸ء.بیعت: ۸/ ستمبر ۱۸۹۲ء.وفات : ۲۳ /نومبر ۱۹۲۰ء تعارف: حضرت منشی گلاب دین رضی اللہ عنہ کا مسکن رہتاس ضلع جہلم تھا.آپ سکول ٹیچر تھے اور بڑے اعلیٰ پایہ کے شاعر بھی.آپ کے والد صاحب کا نام منشی شرف الدین تھا.آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی کی غیر فاطمی اولاد سے

Page 98

75 ہے.آپ کا خاندان مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں کے ساتھ وادی سون سکیسر سے ہوتا ہوا رہتاس آیا.آپ قبول احمدیت سے قبل شیعہ خیالات رکھتے تھے اور اپنے علاقہ کے مشہور واعظ اور ذاکر تھے.منشی صاحب یوم عاشور اور چہلم کے مواقع پر مجالس عزا سے خطاب کرتے تھے اور اہل تشیع میں مقبول اور ہر دلعزیز تھے.قبول احمدیت کے بعد آپ نے یہ تمام مصروفیات ترک کر دیں اور حضرت امام مہدی آخر الزمان کے دامن سے وابستہ ہو کر احمدیت کے شیدائی بن گئے.آپ جب جہلم تشریف لایا کرتے تو مسجد واقع نیا محلہ میں نماز جمعہ پڑھاتے اور درس دیتے تھے.حضرت منشی گلاب دین نے رہتاس میں تعلیم کے لیے پہلا ٹڈل سکول قائم کیا.بیعت کا پس منظر : حضرت منشی صاحب کی ہمشیرہ رانی (زوجہ علی بخش مرحوم) نے خواب دیکھا کہ آسمان پر چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے اور ہر طرف روشنی پھیل گئی ہے.انہوں نے صبح اپنی خواب حضرت منشی صاحب کو سنائی اور صرف اتنا کہا کہ مہدی آ گیا ہے اس کو ڈھونڈو.چند دن بعد حضرت منشی صاحب کے شاگر دسید غلام حسین شاہ (جو جہلم محکمہ مال میں ملازم تھے ) نے آپ کو حضرت اقدس کی کتاب براہین احمدیہ دی کہ اسے غور سے ملاحظہ کریں.اس کا مصنف کس شان کا ہے.جب آپ نے براہین کا مطالعہ کیا تو اپنی ہمشیرہ سے کہا کہ مبارک ہو آپ کی خواب پوری ہوگئی، امام مہدی کا ظہور ہو گیا ہے.دوران مطالعہ جب کوئی مشکل پیش آتی تو آپ اپنے ایک دوست کے پاس جاتے جو بڑے نیک انسان تھے.انہوں نے حضرت منشی صاحب سے کہا کہ آپ صبر سے کام لیں کہیں جلدی میں صادق کا انکار نہ ہو جائے.بیعت : حضرت مولانا برہان الدین مسلمی رضی اللہ عنہ قادیان اور ہوشیار پور سے حضرت اقدس کی زیارت کے بعد لوٹے.تو منشی صاحب نے کچھ اعتراض کئے.اس پر حضرت مولوی برہان الدین نے کہا پہلے اسے جا کر دیکھ آؤ پھر میرے ساتھ بات کرنا.چنانچہ منشی صاحب اور آپ کے ایک قریبی رشتہ دار ملک غلام حسین قادیان پہنچے.حضرت اقدس سیر سے واپس آ رہے تھے تو ملاقات ہوئی.آپ حضرت اقدس کا نورانی چہرہ دیکھ کر واپس آگئے.بعد میں جب حضرت اقدس نے دعوی کیا تو بیعت کا خط لکھ دیا.آپ کی بیعت ۸ ستمبر ۱۸۹۲ء کو حضرت اقدس مسیح موعود نے منظور فرمائی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۳۵۳ نمبر پر درج ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ ۱۸۹۲ ء اور چندہ دہندگان کی فہرست میں نام درج ہے.کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں بھی نام درج ہے.پیشگوئی لیکھرام کا نشان پورا ہونے کی شہادت دی جس کا ذکر تریاق القلوب میں ہے.وفات : ۲۳ نومبر ۱۹۲۰ء کو آپ کا انتقال ہو گیا.آپ موصی تھے کتبہ یاد گار بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر حصہ نمبرہ میں نصب ہے.آپ کا جنازہ حضرت مولوی عبد المغنی ابن حضرت مولوی برہان الدین جہلمی رضی اللہ عنہ نے پڑھایا.قلعہ رہتاس کے دروازہ خواص کے باہر مزار کمال چشتی کے احاطہ میں جانب مشرق دفن کئے گئے.آپ کی ایک کتاب

Page 99

76 کلیات گلاب بھی ہے.اولاد (۱) حضرت محمد حسن صاحب المعروف حسن رہتاسی صاحب ولادت ۱۸۷۷ء.بیعت ۱۸۹۶ء.وفات ۱۹۵۱ء (۲) استانی کرم بی بی صاحبہ وفات: ۱۹۰۵ء (۳) رحیم بی بی صاحبہ.وفات ۱۹۲۶ء ہر دو آپ کے قائم کردہ زنانہ سکولوں میں پڑھاتی رہیں.دونوں بیٹیوں کی بیعت ۱۹۰۵ء کی ہے آپ کی یہ ساری اولاد بھی صاحب اولاد ہے.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) تریاق القلوب صفحه ۱۸۰ (۴) مضمون حسن رہتاسی، مطبوعہ ہفتہ وار لاہور مورخه ۲۳ / ستمبر ۲۰۰۰ء (۵) کلام حسن رہتاسی (۶) مضمون براہین کے مطالعہ سے احمدیت «الفضل“ مورخه ۲۴ اپریل ۲۰۰۲ء (۷) رجسٹر بیعت مطبوعہ ” تاریخ احمدیت جلد نمبر اصفحه ۳۶۲ (۸) ماہنامہ انصار اللہ جنوری ۲۰۰۲ء.۳۵.حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب.قاضی کوئی ولادت: ۱۸۴۳ء.بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات: ۱۵ رمئی ۱۹۰۴ء ابتدائی حالات: حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کا مسکن کوٹ قاضی محمد جان تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ تھا اور آپ کے والد صاحب کا نام قاضی غلام احمد صاحب تھا.جنہیں آپ کی پیدائش سے قبل اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ملی تھی کہ گیارہ لڑکیوں کے بعد بیٹا پیدا ہو گا.قبول احمدیت سے پہلے آپ معلم اور امام مسجد تھے.حضرت اقدس کی زیارت و بیعت : حضرت مولوی عبداللہ غزنوی سے آپ کو عقیدت تھی.اسی وجہ سے امرتسر میں آمد و رفت تھی.انہی کی معرفت حضرت اقدس کا علم ہوا اور فروری ۱۸۸۴ء میں قادیان میں حضرت مسیح موعودؓ سے ملاقات ہوئی.واپسی پر جاتے ہوئے مسجد اقصی کی دیوار پر فارسی زبان میں ایک عبارت تحریر کر گئے کہ ” میری والدہ اگر بوڑھی اور ضعیفہ نہ ہوتی تو میں مرزا صاحب کی صحبت سے جدا نہ ہوتا.“ حضرت اقدس کی زیارت کے لئے تیسری مرتبہ آرہے تھے کہ بٹالہ میں اطلاع ملی کہ حضرت اقدس لدھیانہ میں ہیں.چنانچہ وہاں حاضر ہوئے اور ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت میں شامل ہو گئے.رجسٹر بیعت کے مطابق آپ کا نام ۵۳ نمبر پر ہے.آپ کی بیعت کے بعد ظہیر الدین قاضی نے سخت مخالفت کی.اس نے حضرت اقدس کے خلاف ایک قصیدہ اعجاز یہ بھی لکھا.مگر شائع کرنے سے پہلے ہلاک ہو گیا.حضرت اقدس سے تعلق اخلاص: ایک بار حافظ حامد علی صاحب نے حضرت اقدس سے آپ کے بارہ میں پوچھا کہ یہ کون شخص ہے آپ نے فرمایا اس شخص کو ہمارے ساتھ عشق ہے.بیعت کرنے کے بعد آپ کو بہت ابتلاء پیش آئے لیکن خدا تعالیٰ نے ان تمام مصیبتوں سے کامل نجات دی اور دشمن ذلیل وخوار ہوئے.آپ بہت منکسر

Page 100

77 المزاج تھے اپنے نام کے ساتھ مسکین لکھتے تھے.آپ کی وفات مورخہ ۵ رمئی ۱۹۰۴ء کو ہوئی تو حضرت اقدس مسیح موعود وو وہ بیچارہ فوت ہو گیا ہے“ کو الہاماً بتایا گیا.گویا اللہ تعالیٰ نے مسکین کے بالمقابل مترادف بیچارہ “ کا لفظ استعمال فرمایا.قادیان میں آمد: حضرت اقدس کی تاکید پر قادیان ہجرت کر کے آگئے.آپ جلد بندی کا کام کرتے تھے.چونکہ آپ کے والد کا نام بھی غلام احمد تھا اس لئے اس بات پر فخر کرتے تھے کہ میرے جسمانی باپ کا نام بھی غلام احمد ہے اور روحانی باپ کا نام بھی غلام احمد ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ۱۸۹۲ء اور چندہ دہندگان میں اور سراج منیر میں چندہ مہمانخانہ دینے والوں میں ذکر ہے.حضرت اقدس نے نزول امیج میں مندرجہ پیشگوئیوں نمبر ۴۹ اور ۱۵۰ میں اُن کے مصدق کے طور پر ذکر فرمایا ہے.نور القرآن نمبر ۲ میں امام کامل کی خدمت میں رہنے والوں میں آپ کا ذکر ہے.حضرت عبداللہ صاحب مرحوم غزنوی کا ایک کشف مولوی محمد حسین بطالوی کی نسبت حضرت قاضی ضیاءالدین کی شہادت سے رسالہ نور القرآن ۲ میں درج ہے.می بینم کہ محمدحسین پیرا ہے کلاں پوشیده است را کن (روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۵۷ ) پاره پاره شده است وفات : ۵رمئی ۱۹۰۴ء کو وفات پائی.اور قادیان میں آپ کی تدفین ہوئی.( روڑی والا ) قبرستان نز د دفتر جلسہ سالانہ قادیان میں آپ کا مزار ہے.حضرت اقدس نے گورداسپور سے واپسی پر آپ کا جنازہ پڑھایا اور بہت لمبی دعا کی حضرت اقدس نے فرمایا کہ بہت عمدہ آدمی تھے قریباً ۲۰ سال سے محبت رکھتے تھے بعد ازاں حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی نے چند آدمیوں کو مخاطب کر کے فرمایا ” پرانے آدمیوں کی ایسی ہی قدر ہوتی ہے حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء میں آپ کا نام معاصر علماء میں شامل کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کی تھی.اولاد: آپ کے بیٹے حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب اور حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب سابق مبلغ انگلستان تھے.(صحابه ۳۱۳ میں سب سے آخر میں سال ۱۹۷۳ء میں حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب کی وفات ہوئی.) حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب نے اپنی اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں بڑی مشکل سے تمہیں حضرت مسیح موعود کے در پر لے آیا ہوں اب میرے بعد اس دروازہ کو کبھی نہ چھوڑنا.چنانچہ آپ کی اولاد نے اس پر کامل طور پر عمل کیا.حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب کے ایک بیٹے قاضی عبد السلام صاحب بھٹی نیروبی ( مشرقی افریقہ ) رہے جن کے داماد مکرم مولانا عطاءالکریم شاہد مربی سلسلہ احمد یہ ہیں.

Page 101

78 نوٹ: تفصیلی حالات اصحاب احمد جلد ششم میں ملاحظہ فرمائیں.ماخذ : () آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) سراج منیر روحانی خزائن جلد۱۳۲ (۳) نزول مسیح روحانی خزائن جلده (۴) تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ (۱۵) نورالقرآن نمبر ا روحانی خزائن جلد ۹ (۶) اصحاب احمد جلد ششم (۷) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۴۶.(۸) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء(۹) مقاله احمد بیت ضلع گوجرانوالہ میں.☆ ۳۶.حضرت میاں عبداللہ صاحب پٹواری سنوری - ولادت : ۱۸۶۱ء.بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات: ۷/اکتوبر ۱۹۲۷ء تعارف: حضرت مولوی عبد اللہ سنوری رضی اللہ عنہ بڑے سعید فطرت انسان تھے اور بچپن ہی سے اہل اللہ سے تعلق قائم رکھنے کا شوق تھا.آپ کا سن ولادت ۱۸۶۱ ء ہے آپ کے والد صاحب کا نام کرم بخش ہے جنہیں براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانہ سے حضرت اقدس سے تعلق عقیدت تھا.براہین احمدیہ کے خریدار اور چندہ دہندگان میں سے تھے.حضرت اقدس کی زیارت و بیعت : آپ کے ماموں مولوی محمد یوسف صاحب سنوری نے ۱۸۸۲ء میں آپ کو بتایا کہ قادیان میں ایک بزرگ نے دس ہزار روپیہ انعام مقرر کر کے ایک کتاب بھنی شروع کی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بڑا کامل ہے.اس کی زیارت کے لئے چلا جا.حضرت مولوی صاحب کو یہ سن کر ایسا ولولہ اٹھا کہ سیدھے قادیان روانہ ہو گئے اور بٹالہ سے پیدل چل کر قادیان پہنچے اور دروازے پر دستک دی.حضور باہر تشریف لائے.حضور کا چہرہ دیکھتے ہی دل میں بے حد محبت پیدا ہوگئی.فرماتے ہیں:.اس وقت تک میں نے براہین احمدیہ یا اس کا اشتہار خود نہیں دیکھا تھا.یہاں آ کر بھی کوئی دلائل حضور یا کسی اور سے نہیں سنے بلکہ میری ہدایت کا موجب صرف حضور کا چہرہ مبارک ہی ہوا.“ آپ نے ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت اولی کے موقع پر شرف بیعت حاصل کیا.رجسٹر بیعت میں آپ کا نمبر بیعت اا ہے.بوقت بیعت آپ غوث گڑھ تحصیل سر ہند ریاست پٹیالہ میں مقیم تھے.حضرت اقدس کی رفاقت و خدمت حضرت مولوی صاحب کو براہین احمدیہ کی تالیف واشاعت کے آغاز میں ہی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی اور جلد چہارم کے طبع کے کام میں خدمت کا موقع ملا اور بعد میں سرخی کے چھینٹوں والے نشان کے ساتھ آپ کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید ہو گیا.حضرت اقدس کے ہوشیار پور، لدھیانہ، دہلی اور دیگر سفروں میں آپ بھی ہمراہ رہے.جب پہلی دفعہ حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوئے تو اس وقت آپ کی ابتدائی عمر تھی.اس کے بعد آخری لمحہ تک اخلاص و وفا میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا اور اس تعلق وفا میں

Page 102

79 پورے اترے.آپ کی بیان کردہ بہت ساری روایات سیرت المہدی میں ہیں.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ازالہ اوہام میں حضرت اقدس نے فرمایا: جبی فی اللہ میاں عبد اللہ سنوری.یہ جوان صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ وفادار دوستوں میں سے ہے جن پر کوئی ابتلاء جنبش نہیں لاسکتا.وہ متفرق وقتوں میں دو دو تین تین ماہ تک بلکہ زیادہ بھی میری صحبت میں رہا اور میں ہمیشہ بنظر امعان اس کی اندرونی حالت پر نظر ڈالتا رہا ہوں.سو میری فراست نے اس کی تہ تک پہنچنے سے جو کچھ معلوم کیا وہ یہ ہے کہ یہ نوجوان در حقیقت اللہ اور رسول کی محبت میں ایک خاص جوش رکھتا ہے اور میرے ساتھ اس کے اس قدر تعلق محبت کے بجز اس بات کے اور کوئی بھی وجہ نہیں جو اس کے دل میں یقین ہو گیا ہے کہ یہ شخص محبان خدا اور رسول میں سے ہے اور اس جوان نے بعض خوارق اور آسمانی نشان جو اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملے بچشم خود دیکھے ہیں جن کی وجہ سے اس کے ایمان کو بہت فائدہ پہنچا.الغرض میاں عبداللہ نہایت عمدہ آدمی اور میرے منتخب محبوں میں سے ہے اور باوجود تھوڑے سے گزارہ ملازمت پٹوار کے ہمیشہ حسب مقدرت اپنی مالی خدمت میں بھی حاضر ہے اور اب بھی بارہ روپیہ سالانہ چندہ کے طور پر مقرر کر دیا ہے.بہت بڑا موجب میاں عبداللہ کے زیادت خلوص و محبت و اعتقاد کا یہ ہے کہ وہ اپنا خرچ بھی کر کے ایک عرصہ تک میری صحبت میں آکر رہتا رہا اور کچھ آیات ربانی دیکھتا رہا.سو اس تقریب سے روحانی امور میں ترقی پا گیا.کیا اچھا ہو کہ میرے دوسرے مخلص بھی اس عادت کی پیروی کریں.“ آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء کی فہرست میں اور چندہ دہندگان میں سراج منیر تحفہ قیصریہ میں چندہ مہمانخانہ اور جلسہ ڈائمنڈ جوبلی کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.حقیقۃ الوحی ۵۵ ویں پیشگوئی اور نشان ۱۰۶ سرخی کے چھینٹوں والے نشان نیز ملفوظات جلد دوم سوم اور چہارم میں بھی ذکر ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں حضرت اقدس کے مخلصین اور مالی قربانی کرنے والوں میں آپ کا ذکر ہے.وفات : آپ کی وفات ۷ اکتو بر ۱۹۲۷ء کو ہوئی.آپ کا جنازہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے پڑھایا.حضرت اقدس مسیح موعود کا سرخ چھینٹوں والا کر تم بھی حضرت میاں صاحب کے ساتھ ہی دفنا دیا گیا اور اس کی شہادت اخبار میں شائع کرانے کے لئے حضرت خلیفتہ امسیح نے ارشاد فرمایا تاکہ بعد میں کوئی جعلی کر تہ نہ پیش کر سکے.آپ کی وصیت نمبر ۲۲۴ ہے تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۳ حصہ نمبرہ میں ہوئی.اولاد: آپ کے ایک بیٹے صوفی عبد القدیر صاحب نیاز مربی سلسلہ جاپان بھی رہے اور انگریزی رسالہ ریویو آف ریلیچنز کے ایڈیٹر بھی رہے اور کئی جماعتی خدمات بجا لاتے رہے.آپ نے درنشین کے منتخب اشعار کا انگریزی ترجمہ کیا جو Psalms of Ahmad کے نام سے شائع ہوا.آپ کی دوسری شادی حضرت ماسٹر قادر بخش صاحب

Page 103

80 رضی اللہ عنہ ( یکے از ۳۱۳) کی ہمشیرہ سے ہوئی اور آپ کی ایک بیٹی عزیزہ مریم بیگم اہلیہ مولانا عبد الرحیم در د صاحب تھیں.آپ کے ایک بیٹے حضرت مولوی رحمت اللہ صاحب سنوری تھے.جو قیام پاکستان کے بعد موضع ثابت شاہ متصل پنڈی بھٹیاں ضلع حافظ آباد میں تھے.ار جنوری ۱۹۵۰ء کو وفات پائی.میت ربوہ لائی گئی.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے خطبہ جمعہ میں آپ کی وفات کا ذکر کیا.اور نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی.حضور نے فرمایا کہ مجھے اس جنازہ کی خبر نہیں دی گئی تھی.یہ جنازہ حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے بیٹے کا تھا.جو مولوی عبد الرحیم صاحب درد ناظر امور خارجه صدرانجمن احمدیہ ) کے پھوپھی زاد بھائی تھے.مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی ہستی ایسی نہیں کہ جماعت کے جاہل سے جاہل اور نئے سے نئے آدمی کے متعلق بھی یہ قیاس کیا جا سکے کہ آپ کا نام معلوم نہیں.حضرت مسیح موعود کا وہ کشف جس میں کپڑے پر سرخ روشنائی ظاہری طور پر دکھائی دی.مولوی صاحب اس نشان کے حامل اور چشم دید گواہ تھے.ان کی آنکھوں کے سامنے وہ چھینٹے گرے اور پھر خدا تعالیٰ نے انہیں یہ مزید فضیلت بخشی تھی کہ ایک چھینٹا ان کی ٹوپی پر بھی آپڑا.گویا خدا تعالیٰ کے عظیم الشان نشان میں اور ایسے نشان میں جو دنیا میں بہت کم دکھائے جاتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ شامل تھے.لیکن ان کے لڑکے کا جنازہ مہمان خانہ میں پڑا رہا مگر کسی نیک بخت کو یہ نہیں سوجھا کہ وہ ( بیوت) میں اعلان کرے کہ فلاں کا جنازہ آیا ہے احباب نماز میں شامل ہوں“.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد۱۲ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۶) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۳۱ (۷) رجسٹر بیعت اولیٰ مطبوعہ تاریخ احمدیت جلدا (۸) حیات احمد جلد اول صفحه ۴۴۴ (۹) مضمون 'براہین احمدیہ کے مطالعہ سے احمدیت“ مطبوعہ روز نامہ الفضل“ ربوہ مورخہ ۲۵ / اپریل ۲۰۰۲ء (۱۰) سیرۃ المہدی جلد دوم صفحہ ۱۰۷، ۱۰۹ (۱۱) تاریخ احمدیت جلد ۱۴.☆ ۳۷.حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب الا ان میں مدارس دینیہ چھاونی سیالکوٹ ولادت :۱۸۷۳ء.بیعت : ۱۸۹۴ء.وفات : ۹/ جولائی ۱۹۵۷ء تعارف اور حضرت اقدس کی زیارت و صحبت : حضرت شیخ عبدالرحیم رضی اللہ عنہ (سابق جگت سنگھ ) کی ولادت ۱۸۷۳ء کی ہے آپ کا تعلق لاہور کے ایک سکھ گھرانے سے تھا آپ فوج میں ملازم تھے جب رخصت لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے قادیان آئے.بیعت : آپ نے درد دل سے دعا کی اور اس خیال نے زور پکڑا کہ حضرت مرزا صاحب سے کوئی تعلق پیدا کر لیں.حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ امسیح الاوّل) رضی اللہ عنہ سے آپ نے دریافت کیا کہ کیا یہ ہو سکتا ہے

Page 104

81 کہ حضرت صاحب سے بیعت کر لوں اگر بالفعل سکھ مذہب میں ہی رہوں.حضرت مولوی صاحب نے دریافت کیا تو حضرت اقدس نے فرمایا ہاں ہم ان کی بیعت لے لیں گے.بیعت اسی طرح لی گئی جس طرح احمدی ہونے کے وقت لی جاتی ہے.آپ کی بیعت ۱۸۹۴ء کی ہے.رجمنٹ میں حضرت منشی جلال الدین صاحب بلانوی کی نیک صحبت تھی جو میر منشی تھے.آپ نے حضرت اقدس کی کتب کا مطالعہ بھی جاری رکھا.۱۸۹۵ء میں ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد قادیان آگئے.۱۸۹۵ء سے ۱۸۹۹ ء تک آپ کو حضرت مسیح موعود کی بابرکت صحبت میں رہنے کا موقع ملا.آپ نے حضرت خلیفہ امسح الاول سے صرف ونحو اور طب کی تعلیم حاصل کی.جبکہ حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی سے ترجمہ قرآن پڑھا.مدرسہ تعلیم الاسلام کے ٹیوٹر اور بعد میں مدرس رہے.آپ کو حضرت مرزا محموداحمد صاحب (خلیفہ امسیح الثانی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے استاد ہونے کا شرف حاصل ہے.حضرت مسیح موعود کی موجودگی میں آپ کو نماز کی امامت کی سعادت بھی حاصل ہوئی.آپ ۱۸۹۵ء سے ۱۹۴۷ء تک قادیان رہائش پذیر رہے.تقسیم ہند کے وقت پاکستان آئے مگر دیار حبیب کی تڑپ میں ۱۹۴۸ء میں ہی واپس قادیان تشریف لے گئے.جہاں آپ ۱۹۵۲ء تک قیام پذیر رہے.آپ ناظر تعلیم و تربیت اور امیر مقامی قادیان بھی رہے.بچپن میں کتاب ”رسوم ہند کے انبیاء سے متعلق باب نے آپ کے دل میں اسلام کا بیج بویا تھا دھرم کوٹ بگہ ضلع گورداسپور کے سردار سند رسنگھ ( جو چار سال بعد احمدی ہوئے اور ان کا نیا نام سردار فضل حق رکھا گیا ) کے ساتھ ۱۸۹۳ء میں آپ کی نشست و برخاست شروع ہوئی تھی.ایک دفعہ آپ نے دلائل سے تنگ آ کر کہا کہ یہ پہلے کے قصے ہیں اب کوئی ایسا شخص موجود ہے تو موصوف نے حضرت مسیح موعود کا نام اور پتہ بتایا کہ آپ صاحب کشف والہام ہیں اور آپ کی پیش گوئیاں پوری ہوتی ہیں.بعد میں آپ نے حضرت اقدس کی کتب پڑھیں اور ۱۸۹۴ء میں ملازمت سے رخصت لے کر قادیان آئے اور پانچ چھ دن قیام کیا.(ان دنوں کھانا ایک ہندو کے ہاں سے کھاتے تھے.) خدمات دینیہ : آپ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ۲۹ سال تک پڑھایا.سفر جہلم ۱۹۰۳ء، سفر دہلی ۱۹۰۵ء میں حضرت اقدس کے ساتھ رہے.حدیث بخاری کا درس بھی دیتے رہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ساتھ بھی سفروں میں رفاقت رہی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کی فہرست میں نام درج ہے.نور القرآن نمبر ۲ میں آپ کے بارہ میں تحریر ہے و شیخ عبدالرحیم صاحب جو ان صالح اور متقی شخص ہیں.اُن کے ایمان اور اسلام پر ہمیں بھی رشک

Page 105

82 پیدا ہوتا ہے ان کو اسلام لانے کے وقت کئی ایک سخت ابتلاء پیش آئے.لیکن انہوں نے ایسے سخت ابتلاء کے وقت بڑی ثابت قدمی اور استقامت دکھلائی محض ابتغاء لِمرضَاتِ الله دفعداری چھوڑ کر قادیان میں امام کامل کے ہاتھ پر اسلام و بیعت سے مشرف ہوئے.قرآن شریف سے کامل الفت ہے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے مع ترجمہ اور تفسیر قرآن چند ماہ میں پڑھا ہے.66 ( نور القرآن ۲ صفحہ ۷۹ روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴ ۴۵ حاشیه ) وفات: آپ کی وفات ۹ر جولائی ۱۹۵۷ء کو ہوئی.آپ کی وصیت نمبر ۲۷۹۲ ہے تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ نمبر ۱۰ حصہ نمبرے میں ہوئی.اولاد : آپ کی اولاد میں سے ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب اکلوتے فرزند ملٹری میں میجر کے عہدہ پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے.تین داماد حضرت مولوی فضل الدین صاحب نائب مشیر قانونی.حضرت مولوی فرزند علی صاحب امیر جماعت فیروز پور سابق ناظر مال اور چوہدری محمد اسحاق صاحب ابن مولوی فخر الدین صاحب تھے.ماخذ : (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) نور القرآن نمبر ۲ روحانی خزائن جلد ۹ (۴) الحکم ۷ راگست ۱۹۲۳ء (۵) اصحاب احمد جلد دہم (4) مضمون ”حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب سابق جگت سنگھ، مطبوعہ ریویو آف ریلیجنز قادیان اپریل ۱۹۴۷ صفحه ۱۷ تا ۲۴ ۳۸.جناب مولوی مبارک علی صاحب امام چھاؤنی سیالکوٹ بیعت : ۲۸ رمئی ۱۸۹۱ء تعارف : جناب مولوی مبارک علی حضرت مولوی فضل احمد صاحب مرحوم سیالکوٹ چھاؤنی ( آف فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ ) کے فرزند تھے.جو ایک بزرگ اور عالم باعمل تھے.حضرت اقدس مسیح موعود کے استادزادہ تھے اور آپ سے از حد محبت تھی.بیعت : آپ نے ۲۸ مئی ۱۸۹۱ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت میں آپ کا اندراج ۲۲۶ نمبر پر ہے اس وقت آپ غوث گڑ پتحصیل سرہند ریاست پٹیالہ میں تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حسی فی اللہ مولوی محمد مبارک علی صاحب.....اس عاجز کے اُستاد زادہ ہیں.ان کے والد صاحب حضرت مولوی فضل احمد صاحب مرحوم ایک بزرگوار عالم باعمل تھے مجھ کو اُن سے از حد محبت تھی کیونکہ علاوہ اُستاد ہونے کے وہ ایک باخدا اور صاف باطن اور زندہ دل اور متقی اور پر ہیز گار تھے.عین نماز کی حالت میں

Page 106

83 ہی اپنے محبوب حقیقی کو جاملے اور چونکہ نماز کی حالت میں ایک تبتل اور انقطاع کا وقت ہوتا ہے اس لئے ان کا واقعہ ایک قابل رشک واقعہ ہے.خدا تعالیٰ ایسی موت سب مومنوں کے لئے نصیب کرے.مولوی مبارک علی صاحب ان کے خلف رشید اور فرزند کلاں ہیں.سیرت اور صورت میں حضرت مولوی صاحب مرحوم سے بہت مشابہ ہیں.اس عاجز کے یک رنگ اور پُر جوش دوست ہیں اور اس راہ میں ہر قسم کے ابتلاء کے برداشت کر رہے ہیں حضرت عیسی ابن مریم کی وفات کے بارے میں ایک رسالہ انہوں نے تالیف کیا ہے جو چھپ کر شائع ہو گیا ہے جس کا نام قول جمیل ہے.اس عاجز کا ذکر بھی اس میں کئی جگہ کیا گیا ہے چونکہ مولوی صاحب موصوف کی حدیث اور تفسیر پر نظر وسیع ہے اس لئے انہوں نے محدثین کی طرز پر نہایت خوبی اور متانت سے اس رسالہ کو انجام دیا ہے.مخالف الرائے مولوی صاحبان جن کو غور اور فکر کرنے کی عادت نہیں اور جو آنکھ بند کر کے فتوے پر فتویٰ لکھ رہے ہیں انہیں مناسب ہے کہ علاوہ اس عاجز کی کتاب ازالہ اوہام کے میرے دوست عزیز مولوی مبارک علی صاحب کے رسالہ اعلام الناس کو بھی ذرہ غور سے پڑھیں اور خدا تعالیٰ کی ہدایت سے نا امید نہ ہوں گو ان کی حالت بہت خطرناک اور قریب قریب یاس کے ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر یک چیز پر قادر ہے.مولویوں کا حجاب کفار کے حجاب سے کچھ زیادہ نہیں پھر کیوں اس سرچشمہ رحمت سے نومید ہوتے ہیں.وهو على كل شيء قدير ۱۹۰۴ء کے ایک مکتوب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی مبارک علی کی بابت حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو لکھا کہ موصوف میرے استادزادہ ہیں اس لئے ان کی سفارش کی ہے.مقدمہ: مولوی مبارک علی صاحب کے احمدی ہو جانے کے چند سال بعد چھاؤنی سیالکوٹ کے بعض غیر احمدی اشخاص نے جامع مسجد چھاؤنی سیالکوٹ کی امامت اور تولیت سے مولوی مبارک علی صاحب کو علیحدہ کرنے کے لئے مقدمہ دائر کیا اور جماعت احمد یہ سیالکوٹ نے حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب ایڈووکیٹ کو اس مقدمہ کی پیروی کرنے کے لئے وکیل مقرر کیا.اس مقدمہ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہوا.دینی خدمات : آپ بلند پایہ فارسی اور اردو کے شاعر تھے.آپ کا منظوم کلام اخبار الحکم میں با قاعدگی سے شائع ہوتا رہا.آپ نے صداقت حضرت مسیح موعود کے موضوع پر بعض اہم کتب تحریر کیں.آپ کی تصنیف ”القول الجمیل، حضرت مسیح موعود کی صداقت پر ابتدائی کتب میں شامل ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء میں آپ کی فارسی نظم بھی شامل ہے.حضرت اقدس نے انجام آتھم کے صفحہ ۳۱ پر اشاعت دین کے لئے مصارف برداشت کرنے والے احباب میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.حضرت مولانا شمس صاحب نے آپ کو معاصر علماء میں تحریر کیا ہے.جنہیں حضرت اقدس کی بیعت کا شرف حاصل ہوا.

Page 107

84 آپ نظام خلافت سے وابستہ نہ رہے اور بعد میں آپ کا تعلق انجمن اشاعت اسلام لاہور سے رہا.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۴۲، ۵۴۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد۱۱ (1) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۱۳۵۴ (جدید ایڈیشن) (۷) اصحاب احمد صفحه ۳۰ جلد یاز دہم (۸) حیات قدسی حصہ دوم صفحہ ۲۵.☆ ۳۹.حضرت میرزا نیاز بیگ صاحب کلانوری بیعت ۱۸۹۳ء.وفات / مارچ ۱۹۱۷ء تعارف: حضرت مرزا نیاز بیگ رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام میرزا احمد بیگ تھا.آپ رؤسائے پنجاب“ کے مرتبہ سرلیپل گریفن (مطبوعہ۱۸۹۱ء) کی فہرست کے مطابق ضلع دار نہر پراونشل درباری تھے.بیعت: جن دنوں امرتسر میں حضرت اقدس مسیح موعود کا عبد اللہ آتھم سے مباحثہ ہو رہا تھا ان ہی ایام میں آپ نے بیعت کر لی.آپ کے بیٹے حضرت مرزا ایوب بیگ ، حضرت مرزا اکبر بیگ اور جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ ۳۱۳ کی فہرست انجام آتھم میں شامل تھے.آپ کی بیعت سال ۱۸۹۳ ء کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : سراج منیر میں چندہ مہمان خانہ تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں حضرت اقدس نے ذکر فرمایا ہے.ماخذ : (۱) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۴) اصحاب احمد جلد اول صفحه ۶۵،۶۴ (۵) یاد رفتگان، حصہ اول صفحہ ۸۳ تا ۹۷ (۶).رؤسائے پنجاب ۴۰.جناب ڈاکٹر میرزا یعقوب بیگ صاحب کلانوری ولادت: ۱۸۷۲ء.بیعت ۵ فروری ۱۸۹۲ء.وفات ۱۲ / فروری ۱۹۳۶ء تعارف حضرت اقدس : جناب ڈاکٹر میرزا یعقوب بیگ کی عمر اٹھارہ انیس سال تھی اور آپ میڈیکل کے سیکنڈ ائیر کے سٹوڈنٹ تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لائے.آپ کا قیام محبوب رایوں کے مکان میں تھا.آپ کے ہم مکتب (ڈاکٹر) عبدالحکیم متعلم تھرڈ ائیر نے آپ کو حضرت اقدس کے قیام لاہور کی خبر دی.انہیں

Page 108

85 کے ساتھ آپ زیارت کے لئے پہنچے.حضرت اقدس کے حسن اخلاق کی شہادت: آپ نے دیکھا کہ حضرت اقدس نہایت کشادہ دلی سے لوگوں کے ساتھ بے تکلف ہو کر بات چیت کر رہے تھے.لوگ سوالات کرتے تھے اور آپ جوابات دیتے تھے.یہاں تک کہ ایک شخص وارد ہوا اور اس نے حضرت صاحب کو ان کے منہ پر گالیاں دینی شروع کیں.حضرت صاحب سر نیچا گئے اس کی گالیاں سنتے رہے.جب وہ گالیاں دیتے دیتے تھک گیا تو حضرت صاحب نے فرمایا ” بھائی کچھ اور کہہ لے اس پر وہ بہت شرمندہ ہوا اور حضرت صاحب سے معافی مانگنے لگا اور کہا کہ مجھے معاف کر دیں میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا.اتفاق سے سامعین میں ایک تعلیم یافتہ ہند بھی تھا.اس نے کہا کہ حضرت مسیح کے تحمل اور بردباری کا قصہ تو کتابوں میں پڑھا ہے مگر اس رنگ میں رنگین کوئی شخص دیکھنے میں نہ آیا تھا.اس نے یہ بھی کہا کہ شخص کا میاب ہو جائے گا.بیعت : حضرت صاحب کی شکل دیکھ کر اوران کا رویہ دیکھ کر آپ کو پکا یقین ہوگیا کہ یہ شخص صادق ہے جھوٹا نہیں“ اور آپ اسی روز یعنی ۵ فروری ۱۸۹۲ء کو بیعت کر کے لوٹے.آپ کا نام رجسٹر بیعت میں ۳۲۰ نمبر پر درج ہے.خدمات دینیہ : حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی کی آخری بیماری کے دوران آپ قادیان تین ماہ کی رخصت پر آئے ہوئے تھے.اس دوران آپ کو حضرت مولوی صاحب کی خدمت کا خوب موقع ملا.۱۸۹۵ء میں حضرت اقدس نے جو وفد چولہ باوانا نک سے متعلق تحقیقات کیلئے ڈیرہ بابا نانک بھیجا تھا.اس میں آپ بھی شامل تھے.حضرت اقدس علیہ السلام آپ کو اپنے اہل خانہ کے علاج کے سلسلہ میں عمو مالا ہور سے بلا لیتے تھے.حضرت اقدس کی آخری بیماری کے ایام میں بھی آپ کو خدمت کا موقع ملا.حضرت خلیفہ اسی الاول کے معالج بھی رہے.حضرت خلیفہ امسیح الاول کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ کے قیام پر آپ غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.آپ اسلامیہ کالج لاہور کے آنریری میڈیکل آفیسر تھے.آپ لاہور کی انجمن حمایت اسلام کے ممبر تھے.آپ کے خلاف ریزولیوشن پاس ہوا کہ چونکہ آپ احمدی ہیں اس لئے مسلمان نہیں لہذا آپ کو اس عہدہ سے فارغ کر دیا گیا.اس بات کا آپ کو بہت دکھ پہنچا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ کا ذکر کتاب البریہ میں پر امن جماعت کے ضمن میں بھی ہے.ضمیمہ انجام آتھم ملفوظات جلد دوم میں آپ کے عربی قصیدہ الاسنفا من فروة العلماء سنانے کا ذکر ہے.(ص:۳۰۲) میں حضرت اقدس نے فرمایا ” میں نے بارہا ان کو نمازوں میں روتے دیکھا ہے (صفحہ ۳۱) وفات: آپ خلافت اولی کے بعد نظام خلافت سے وابستہ نہ رہے اور غیر مبائعین میں شامل ہوئے گئے.آپ ۱۲ فروری ۱۹۳۶ء کو وفات پاگئے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم صفحه ۲۹ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۳ (۳) یاد رفتگان حصہ اول صفحه ۸۳ تا ۹۷ (۴) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۸ (۵) تاریخ احمدیت جلد هشتم صفحه ۳۲.

Page 109

86 ☆ ۴۱.حضرت میرزا ایوب بیگ صاحب کلانوری معہ اہلبیت ولادت: یکم اگست ۱۸۷۵ء.بیعت : یکم فروری ۱۸۹۲ء.وفات : ۲۸ را پریل ۱۹۰۰ء تعارف و بیعت حضرت اقدس: مرزا ایوب بیگ رضی اللہ عنہ چیفس کالج لاہور میں پروفیسر تھے.آپ نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ سے چند دن پہلے یکم فروری ۱۸۹۲ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت میں آپ کا نام ۲۱۷ نمبر پر درج ہے.حضرت اقدس سے تعلق محبت : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق صادق تھے.۳۰ ستمبر ۱۸۹۵ء کو جو وفد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چولہ باوانا تک صاحب کی تحقیقات کے لئے ڈیرہ بابا نا تک بھیجا آپ اس میں شامل تھے.آپ کسوف و خسوف کے آسمانی نشان کو دیکھنے کے لئے قادیان گئے تھے اور حضرت اقدس کے ساتھ اس آفاقی نشان کا مشاہدہ کیا تھا.وفات اور حضرت اقدس کا ذکر خیر کرنا : آپ کی وفات عین جوانی میں بعمر ۲۵ سال ۲۸ / اپریل ۱۹۰۰ء کو ہوئی تھی.بہشتی مقبرہ کے قیام کے بعد حضرت اقدس کے ارشاد پر تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی.حضرت اقدس نے آپ کے بھائی مرزا یعقوب بیگ کے نام جو تعزیت نامہ تحریر فرمایا اس میں لکھا:.ہماری توجہ اس عزیز کی طرف تھی کہ وہ کیونکر جلد ہماری آنکھوں سے نا پدید ہو گیا تو اس حالت میں یک دفعہ الہام ہوا: ”مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کی راہ سے داخل ہو، یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ عزیزی مرحوم کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو حضرت اقدس نے ملفوظات میں فرمایا :.نزول اصیح روحانی خزائن جلد ۱۸ ص ۶۰۰ ) ”ہماری جماعت جواب تک ایک لاکھ پہنچی ہے سب اس میں بھائی ہیں اس لئے اتنے بڑے کنبہ میں کوئی دن ایسا نہیں ہوا کہ کوئی دردناک آواز نہ آئی ہو.جو گزر گئے وہ بعد بڑے ہی مخلص تھے.جیسے ڈاکٹر بوڑے خاں ،سید فصیلت علی شاہ صاحب، ایوب بیگ صاحب اور منشی جلال الدین صاحب خدا ان سب پر رحم کرے.(ص ۳۰۶،۳۰۵) اسی طرح ایک جگہ تحریر فرمایا کہ: مرحوم مذکور نیک بخت جو اولیاء اللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھا (نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ص۶۰۰) آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۲ حصہ نمبر ۵ بلا وصیت منتقلی ہوئی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی کی فہرست میں نام درج ہے.ملفوظات جلد اول و دوم میں بھی آپ کا ذکر ہے.ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۳۱ پر اپنے مخلص احباب میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا ”مرزا ایوب بیگ جوان صالح میں نے بار ہا ان کو نمازوں میں روتے دیکھا ہے.اور نور القرآن نمبر۲ پر امام کامل کی خدمت میں مصروف رہنے والے احباب میں ذکر ہے.

Page 110

87 وفات: آپ کی وفات ۲۸ / پریل ۱۹۰۰ء کو ہوئی آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۲ حصہ نمبر ۵ میں ہوئی.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۱ (۲) نور القرآن نمبر۲ روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۵ ۲۵ (۳) تحفه قیصریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ (۴) ملفوظات جلد اول و دوم (۵) لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۳۷ (۶) آئینه صدق و صفا سیرت حضرت مرزا ایوب بیگ (1) ذکرِ حبیب‘ (۷) رجسٹر بیعت اولی از تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۵۸ - ☆ ۴۲.جناب میرزا خدا بخش صاحب جھنگ ولادت: ۱۸۵۹ء.بیعت : ۲۴ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات : ۵/اپریل ۱۹۳۷ء تعارف: مرزا خدا بخش جھنگ شہر میں مرزا مراد بخش صاحب کے گھر ۱۸۵۹ء میں پیدا ہوئے.محلہ باغوالہ جھنگ سے آپ کا تعلق تھا.بی ایسے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا.ہائی کورٹ لاہور میں بطور مترجم ملازمت مل گئی.حضرت اقدس سے تعلق : حضرت اقدس کے مجدد و صیح و مہدی ہونے کے دعوئی کا ذکر اپنے بڑے بھائی مرزا غلام عیسی سے سنا جو امرتسر میں سب پوسٹ ماسٹر تھے.آپ کو حضور سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا.چنانچہ چھ روز تک قادیان میں قیام کیا.اس بارے میں آپ نے ایک جگہ لکھا: ان ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.ناقل ) کی صورت اور ان کے چہرے کو دیکھ کر میری فطرت نے گواہی دی کہ یہ منہ جھوٹ بولنے والا نہیں ان کی تقریر میں وہ تاثیر تھی کہ بجلی کی طرح دلوں کے اندر ھستی چلی جاتی تھی تحریر میں وہ زور کہ ان کے قلم کے مقابلہ میں تمام اقلام تم ہوئے جاتے ہیں.ان کی چند روزہ صحبت اکسیر کا حکم رکھتی تھی ان کے ساتھ نماز پڑھنے سے ایک خاص سرور ولذت حاصل ہوتی تھی.“ ( عسل مصفی جلد دوم ) بیعت: رجسٹر بیعت کے مطابق ۶۴ نمبر پر آپ کی بیعت درج ہے.جو ۲۴ مارچ ۱۸۸۹ء کی ہے.دینی خدمات : آپ نے حضرت اقدس کے اخلاق کریمہ سے متاثر ہو کر سرکاری ملازمت چھوڑ دی.حضرت اقدس نے مکان کے ایک حصہ میں آپ کو جگہ دی.حضرت مسیح موعود کے فیض روحانی کے پھیلانے کے لئے ہندوستان کے مختلف شہروں میں جا کر آپ نے علماء سے مباحثے کئے.آپ کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی کتاب «عسل مصفی کی تصنیف ہے.اسے حضرت مسیح موعود نے تین ماہ تک مغرب سے عشاء تک سنا اور اظہار خوشنودی فرمایا.یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور چودہ سو صفحات پر مشتمل ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ازالہ اوہام میں آپ کا ذکر صاف باطن اور ہمدردی اسلام کا جوش رکھنے والوں میں ہے.آسمانی فیصلہ میں پہلے جلسہ میں شامل ہونے والوں ، آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ ء اور

Page 111

88 چندہ دہندگان، تحفہ قیصریہ میں ڈائمنڈ جوبلی میں شرکت کرنے والوں اور سراج منیر اور کتاب البریہ میں پُرامن جماعت میں آپ کا ذکر کیا ہے.کتاب من الرحمن میں حضرت اقدس نے اشتراک السنہ میں جاں فشانی کرنے والوں کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے آپ کا بھی ذکر فرمایا ہے.وفات : حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی وفات کے بعد مبائعین خلافت سے وابستہ نہ رہے اور احمد یہ انجمن اشاعت اسلام، لاہور کے ساتھ شامل ہو گئے.۴ را پریل ۱۹۳۸ء کو عمر ۷۸ سال وفات پائی.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ (۳) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد نمبر ۲ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ (۵) سراج منیر روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ (۶) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۳ (۷) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۴۶ (۸) من الرحمن روحانی خزائن جلد نمبر ۹ (۹) یا درفتگان صفحه ۳۹۵ تا ۴۱۰ (۱۰) تاریخ احمدیت جلد هشتم صفحه ۴۳۴ (۱۱) عسل مصفی جلد دوم صفحه ۴۸۹ ☆ ۴۳.حضرت سردار نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ولادت یکم جنوری ۱۸۷۰ء.بیعت ۱۹ نومبر ۱۸۹۰ء.وفات ۱۰ر فروری ۱۹۴۵ء تعارف: حضرت نواب محمد علی خاں رضی اللہ عنہ کے مورث اعلیٰ شیخ صدر الدین جلال آباد کے باشندہ تھے.شیروانی قوم کے پٹھان تھے جو ۱۴۶۹ ء میں سلطنت بہلول لودھی کے زمانہ میں اپنے وطن سے ہندوستان میں آئے اور ایک قصبہ آباد کیا جس کا نام مالیر کوٹلہ ہے.آپ کے والد ماجد کا نام نواب غلام محمد خاں صاحب تھا.تعلیم : ابتدائی تعلیم چیفس کا لج ( انبالہ والا ہور) سے حاصل کی.آپ ۱۸۸۷ء سے ۱۸۹۴ء تک محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس سے وابستہ رہے.اور آپ نے علی گڑھ کے مشہور سٹریجی ہال کی تعمیر میں پانچ صد روپیہ چندہ دیا.حضرت اقدس سے تعلق اور بیعت : حضرت اقدس مسیح موعوڈ سے خط و کتابت کا آغاز آپ کے استاد مولوی عبد اللہ فخری کاندھلوی ( بیعت ۴ رمئی ۱۸۸۹ء) کی تحریک سے ہوا.حضرت نواب صاحب اپنے ایک خط میں حضرت اقدس مسیح موعود کو لکھتے ہیں.ابتداء میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں ہیں.بلکہ مخالفان اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں.مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا اور نہ انکار.پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے دعوے کئے ہیں.یہ سب جھوٹے نہیں ہو سکتے.تب میں نے

Page 112

89 بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لود یا نہ ملنے گیا تو اس وقت میری تسکین خوب ہوگئی اور آپ کو ایک باخدا بزرگ پایا اور بقیہ شکوک کو بعد کی خط و کتابت نے میرے دل سے بکلی دھویا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک شیعہ جو خلفائے ثلاثہ کی کسرشان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے.تب میں نے آپ کی بیعت کر لی.بیعت : رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت ۲۱۰ نمبر پر درج ہے.آپ نے ۱۹ نومبر ۱۸۹۰ء کو حضرت اقدس کی بیعت کا شرف حاصل کیا.حضرت اقدس سے رشتہ دامادی: آپ کے گھر روحانی بادشاہ کی بیٹی آئی اور آپ کا نکاح حضرت مسیح الزمان و مہدی دوراں کی مقدس صاحبزادی حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ سے ہوا.آپ کی نسبت الہام حضرت اقدس : حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسبت ایک الہام میں حجتہ اللہ کے نام سے یاد فرمایا.حضرت اقدس نے کتاب من الرحمن میں اشتراک السنہ کے کام میں جاں فشانی کرنے والے مردان خدا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آپ کا ذکر بھی فرمایا ہے.وفات: آپ ایک سال کی علالت کے بعدہ ۸۱ فروری ۱۹۴۵ء کو وفات پاگئے.حضرت خلیفہ مسیح الثانی مصلح الموعود نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور حضرت مرزا سلطان احمد کے ساتھ بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین ہوئی.اولاد: آپ کی اہلیہ اول بو مہر النساء بیگم صاحبہ سے تین بیٹے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ، حضرت نواب عبدالرحمن صاحب اور حضرت نواب عبدالرحیم خان صاحب اور ایک بیٹی حضرت بو زینب بیگم صاحبہ تھیں.جو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے حرم میں تھیں.دوسری اہلیہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ کی جلد وفات ہوگئی جس سے کوئی اولاد نہیں تھی.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے آپ کے دو بیٹے (۱) نواب محمد احمد خان صاحب (۲) نواب مسعود خان صاحب اور تین بیٹیاں (۱) صاحبزادی منصورہ بیگم صاحبہ بیگم حضرت مرزا ناصر احمد خلیفة أسبح الثالث (۲) صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ بیگم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب، (۳) صاحبزادی آصفہ مسعودہ بیگم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب لاہور نواب محمد احمد خان صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی.نواب مسعود احمد خان صاحب کے دو بیٹے نواب مود و داحمد خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی اور نواب منصور احمد خان صاحب وکیل التبشیر تحریک جدید ہیں.آپ کے بیٹے نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کا عقد دخت کرام حضرت سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ سے ہوا جن کے تین بیٹے اور چھ بیٹیاں اور پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی کثیر تعداد ہے.حضرت سیدہ بو زینب بیگم صاحبہ کا عقد حضرت مرزا شریف احمد سے ہوا.جن کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں.آپ کے پوتے سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں علاوہ ازیں آپ کے پوتے پوتیوں اور نواسے

Page 113

90 نواسیوں اور پڑنوا سے پڑنواسیوں کی کثیر تعداد ہے آپ کے تفصیلی حالات کا ذکر سیرت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب مصنفہ محترم ملک صلاح الدین مرحوم میں ہے.ماخذ: (1) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر ۳ (۲) مکتوبات احمد یہ جلد ہفتم حصہ اول صفحہ ۵-۶ (۳) رجسٹر بیعت مندرجه تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحه ۴ ۳۵ جدید ایڈیشن (۴) ملفوظات حضرت اقدس (۵) تاریخ احمدیت جلد دہم صفحہ ۴۷۷ تا ۷ ۴۸ (۶) اصحاب احمد جلد دوم.☆ ۴۴.حضرت سید محمد عسکری خانصاحب سابق اکسٹرا اسٹنٹ اله آباد بیعت : ۲۳ / جنوری ۱۸۹۰ تعارف: حضرت سید محمد عسکری خاں رضی اللہ عنہ الہ آباد کے ضلع کے رہنے والے تھے.آپ کے والد ماجد کا نام سید محمد ماہ تھا جو کٹڑ اضلع اللہ آباد کے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود نے آپ کی نسبت تحریر فرمایا ہے کہ : اس عاجز سے دلی محبت رکھتے ہیں بلکہ ان کا دل عطر کے شیشہ کی طرح محبت سے بھرا ہوا ہے.نہایت عمدہ صاف باطن یک رنگ دوست ہے.معلومات وسیع رکھتے ہیں ایک جید عالم قابل قدر ہیں.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۹) بیعت : آپ نے ۲۳ جنوری ۱۸۹۰ء کو بیعت کی جس وقت حضرت اقدس نے ازالہ اوہام تصنیف فرمائی اُن دنوں بیمار تھے اور ملازمت سے پنشن پاچکے تھے.حضرت اقدس کا آپ کے نام مکتوب: حضرت اقدس نے حضرت سید محمد عسکری خاں رئیس ضلع الہ آباد اکسٹرا اسٹنٹ مدارالمہام ریاست بھوپال کے نام خط میں فرمایا: ” میری زندگی صرف احیاء دین کے لیے ہے اور میرا اصول دنیا کی بابت یہی ہے کہ جب تک اس سے بلکلی منہ نہ پھیر لیں ایمان کا بچاؤ نہیں.راحت ورنج گزرنے والی چیزیں ہیں اگر ہم دنیا کے چند دم مصیبت ورنج میں کائیں گے تو اس کے عوض جاودانی راحت پائیں گے.بہشت انہی کی وراثت ہے جو دنیا کے دوزخ کو اپنے لیے قبول کرتے ہیں اور لذات عیش و عشرت دنیوی کے لئے مرے نہیں جاتے.دنیا کیا حقیقت رکھتی ہے اور اس کے رنج و راحت کیا چیز ہیں جس کو آخری خوشحالی کی خواہش ہے اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ تکالیف دنیوی کو با انشراح صدر اٹھائے اور اس ناپاک گھر کی عزت اور ذلت کو کچھ نہ سمجھے یہ

Page 114

91 دنیا بڑا دھوکہ دینے والا مقام ہے جس کو آخرت پر ایمان ہے وہ کبھی اس غم سے غمگین اور نہ اس کی خوشی.خوش ہوتا ہے.والسلام کے فروری ۱۸۸۷ء ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۹ (۲) روز نامه الفضل ربوہ ۳۰ جنوری ۲۰۰۱ء(۳) رجسٹر جت مطبوعه تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۱ جدید ایڈیشن ☆ ۴۵.حضرت میرزا محمد یوسف بیگ صاحب سامانہ ریاست پٹیالہ بیعت : ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت مرزا محمد یوسف بیگ صاحب رضی اللہ عنہ کے والد محترم مرزا رستم بیگ صاحب ساکن محله اندر کوٹ سامانہ علاقہ پٹیالہ تھے.آپ کے حضرت اقدس سے اس وقت سے تعلقات تھے جب حضور گوشہ نشینی میں بیعت : آپ ان خوش نصیب اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے مارچ ۱۸۸۹ء کو لدھیانہ کے مقام پر حضرت مسیح موعود کی بیعت کی سعادت حاصل کی.رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت کا اندراج ۳۹ نمبر پر ہے.آپ کا سارا خاندان بفضلہ تعالیٰ شامل احمدیت تھا.حضرت مرزا ابراہیم بیگ ( یکے از تین سو تیرہ ) اور اس خاندان میں حضرت مرزا یوسف بیگ کے علاوہ دس خواتین نے ۱۸۸۹ء میں بیعت کر لی تھی.حضرت اقدس کا آپ کے بارہ میں ارشاد: حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں: جی فی اللہ مرزا محمد یوسف بیگ صاحب سامانوی.مرزا صاحب مرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم کے حقیقی بھائی ہیں جن کا حال رسالہ فتح اسلام میں لکھا گیا ہے..میرزا صاحب موصوف ایک اعلیٰ درجہ کی محبت اور اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور اعلیٰ درجہ کا حسن ظن اس عاجز سے رکھتے ہیں اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ سے میں ان کے خلوص کے مراتب بیان کر سکوں یہ کافی ہے کہ اشارہ کے طور پر میں اسی قدر کہوں کہ هو رجل يحبنا و نحبه و نَسئل الله خيره في الدنيا والآخرة.میرزا صاحب نے اپنی زبان اپنا مال اپنی عزت اس لیہی محبت میں وقف کر رکھی ہے اور ان کا مریدانہ اور شبانہ اعتقاد اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ اب ترقی کے لئے کوئی مرتبہ باقی نہیں معلوم ہوتا.و ذالک فضل الله يوتيه من يشاء....66 (ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۳ ص ۵۳۱،۵۳۰) آپ کے بارہ میں حضرت اقدس کا تذکرہ: حضرت مسیح موعود نے آپ کے بیٹے حضرت مرزا محمد ابراہیم بیگ صاحب کی وفات کے متعلق اپنے ایک کشف کو بطور نشان پیش فرمایا.اس نشان کا تذکرہ حضور نے اپنی کتاب

Page 115

92 تریاق القلوب اور نزول اسی دونوں میں کیا ہے.نزول مسیح میں حضور آپ کے بارہ میں فرماتے ہیں: ”ہمارے ایک مخلص دوست مرزا محمد یوسف بیگ صاحب ہیں جو سامانہ علاقہ ریاست پٹیالہ کے رہنے والے ہیں اور ایک مدت دراز سے ہمارے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ اسی تعلق میں تمام عمر ر ہیں گے اور اسی میں اس دنیا سے گزریں گے...66 ( نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ ص ۲۰۱) وفات اور روایات میں ذکر : آپ اپنے پیارے امام کی امیدوں پر پورا اترے اور اخلاص و وفا کے عہد نبھاتے ہوئے حضور کی زندگی میں ہی عالم جاودانی کو سدھار گئے.حضور کو بھی آپ کی وفات کا صدمہ تھا.چنانچہ حضرت عبدالکریم صاحب سکنہ عثمان پور ریاست جنید فرماتے ہیں کہ میں جب پہلی مرتبہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور یہ معلوم کر کے کہ میں سامانہ کے قریب ایک گاؤں سے آیا ہوں یہ دریافت فرماتے رہے کہ یوسف بیگ سامانوی کا انتقال کیسے ہو گیا.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۰، ۵۳۱ (۲) نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۶۰۱ (۳) رجسٹر روایات نمبر ۵ صفحه ۱۰۰.(۴) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۴۴ - ۳۴۸ و ۳۵۰.☆ -۴۶.حضرت شیخ شہاب الدین صاحب......لودیانه بیعت : ابتدائی ایام.وفات : ۶ رنومبر ۱۹۰۷ء تعارف: حضرت شیخ شہاب الدین صاحب رضی اللہ عنہ لدھیانوی حضرت مسیح موعود کے پرانے حسین میں سے تھے.اگست ۱۸۹۱ء میں اہل لدھیانہ کی طرف سے باجازت حضرت مسیح موعود ایک اشتہار شائع کیا گیا.جس میں علماء کو حضور سے بحث کی دعوت دی گئی ان مشتہرین افراد میں آپ کا نام بھی ۷۹ ویں نمبر پر شامل ہے.بیعت : آپ نے ابتدائی ایام میں بیعت کی.آسمانی فیصلہ میں جلسہ سالانہ میں شریک احباب کی فہرست میں نام درج ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ازالہ اوہام ، آسمانی فیصلہ تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں مخلصین ، جلسہ کے شرکاء، چندہ دہندگان اور پُر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر ہے.سکونت قادیان: اپنی آخری عمر میں آپ بیمار ہو گئے اور یہ ایام آپ نے قادیان میں ہی گزارے.حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی " فرماتے ہیں: وو حاجی شہاب الدین لود یا نوی اور بابا الہی بخش صاحب مالیر کوٹلوی جب بیمار ہوئے تو آپ (حضرت اقدس ) ان کی عیادت کو بھی جاتے.حاجی شہاب صاحب...اخلاص مند دل ان کے پہلو میں تھا.

Page 116

93 وفات حضرت شیخ شہاب الدین صاحب نے 4 نومبر ۱۹۰۷ء کو قادیان ہی میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ا حصہ نمبر ۳ میں بلا وصیت دفن ہوئے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۴۲،۵۴۱ (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد نمبر ۲ (۳) تحفه قیصر یہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۳(۵) سیرت حضرت مسیح موعود صفحه ۱۸۲ ☆ ۴۷.حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب.....لودیانه بیعت : ۱۸۸۹ء.وفات :۲۳ فروری ۱۹۲۸ء تعارف: حضرت عبدالمجید رضی اللہ عنہ کابل کے مشہور درانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے.آپ کا خاندان ہجرت کر کے لدھیانہ آ گیا اور شاہی پناہ گزین کی حیثیت سے آپ کے خاندان کو کئی پشتوں تک گورنمنٹ سے پنشن ملتی رہی.آپ گورنمنٹ ہائی سکول لدھیانہ سے رسمی تعلیم حاصل کر کے دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کی صحبت کو اختیار کیا.ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ملازمت اختیار کی.حضرت اقدس سے تعلق : حضرت مسیح موعود کی پہلی بار زیارت صوفی احمد جان کے ذریعہ لدھیانہ شہر کے محلہ صوفیاں میں نصیب ہوئی.ان دنوں کتاب براہین احمدیہ چھپ رہی تھی اور اس کی کا پیاں حضرت اقدس کی خدمت مبارک میں آتی تھیں.حضرت اقدس کے چند روزہ قیام کے دوران شہزادہ صاحب آپ کے پاس صوفی احمد جان صاحب کے ساتھ آتے تھے.بیعت : حضرت صوفی احمد جان حج کے لئے تشریف لے گئے تو شہزادہ صاحب بھی ساتھ تھے.حج سے واپس آکر موصوف نے ، صوفی احمد جان کے ارشاد و وصیت کے مطابق حضرت مسیح موعود کی بیعت کر لی.آپ کے چہرہ سے رُشد و سعادت کے آثار نمایاں تھے.ایک عام آدمی بھی انہیں دیکھ کر مجھتا تھا کہ یہ کوئی ولی اللہ ہے بع عشق الہی وسے منہ تے ولیاں ایہہ نشانی حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: ازالہ اوہام ، آسمانی فیصلہ آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ کے شر کا ءاور مخلصین میں آپ کا ذکر حضرت اقدس نے فرمایا ہے.دینی خدمات : جماعت احمدیہ لدھیانہ نے آپ کو امام الصلواۃ مقرر کیا.آپ خطیب بھی تھے اور درس قرآن بھی دیا کرتے تھے.قرآن شریف کے ساتھ آپ کو عشق تھا.اس سوز اور خوش الحانی سے قرآن کریم پڑھتے تھے کہ ایک سنگدل سے سنگدل انسان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا تھا.آپ کو ایک خاص شرف اور سعادت یہ بھی حاصل ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی کہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود آپ کی امامت میں نماز پڑھتے رہے.آپ قلم برداشتہ مضامین لکھا کرتے تھے اور سلسلہ احمدیہ کی اشاعت کے لئے اشتہارات بھی لکھتے تھے اس کے علاوہ آپ نے ایک کتاب انوار

Page 117

94 احمدی‘ کے نام سے ۱۹۰۱ء میں لکھی ایک اور رسالہ عاقبۃ المکذبین اور سورۃ الاخلاص‘ کی تفسیر بھی لکھی.جب آپ کی اہلیہ صاحبہ فوت ہو گئیں اور آپ ملازمت سے الگ ہو گئے تو لدھیانہ کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر قادیان دارالامان میں سکونت اختیار کر لی.حضرت حکیم الامت کا کتب خانہ اور حضرت مولانا مفتی محمد صادق کی ذاتی لائبریری سلسلہ کی طرف منتقل ہو چکے تھے.ان کی درستی اور ترتیب کا کام آپ کے سپر د ہوا.تائید الہی: حضرت شہزادہ صاحب پر ایک معاند سلسلہ احمدیہ مولوی عبد العزیز لدھیانوی نے فوجداری مقدمہ کیا مگر خدا تعالیٰ نے مدعی کے دل میں ایسا رعب ڈال دیا کہ اس نے مقدمہ چھوڑنے کے سوا چارہ نہ دیکھا.حضرت اقدس کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو آپ کی کرامت ظاہر ہوئی تو شہزادہ صاحب نے عرض کی کہ حضور یہ تمام ذلت اور نا کامیابی کے دکھ کی مار ہے جو فریق مخالف کو ہوئی جو صرف حضور کی دعا سے ہوئی.ایران میں داعی الی اللہ کی حیثیت سے: حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایران میں دعوت الی اللہ کے لئے آپ کو منتخب فرمایا.آپ ۱۲ جولائی ۱۹۲۴ء کو اپنے خرچ پر ایران کے لئے روانہ ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک رؤیا دیکھا کہ شہزادہ صاحب خانقاہ درویش میں حضرت مسیح موعود کے فارسی اشعار پڑھ کر سنا رہے ہیں اور تمام درویش اشعار سن کر وجد کی حالت میں جھوم رہے ہیں.تہران پہنچنے پر آپ نے خانقاہ درویش کا پتہ لگایا.دیکھا کہ وہاں بہت سے درویش بیٹھے ہیں.سلام مسنون کے بعد آپ نے حضرت اقدس کے اشعار پڑھنے شروع کر دیئے.درویش یہ اشعار سن کر جھومنے لگے.جب اشعار ختم ہوئے تو دعوت الی اللہ کی اور دعوت الامیر کے پچاس نسخے جو آپ کے پاس تھے تقسیم کر دیئے.آپ نہایت تنگدستی میں فریضہ تبلیغ سرانجام دیتے رہے.وفات : آپ فروری ۱۹۲۸ء کو تہران میں ہی فوت ہو گئے اور شہر کے جنوبی طرف چھوٹے سے قبرستان میں دفن کئے گئے.۱۹۵۳ء تک آپ کا مزار مبارک موجود تھا مگر اس کے بعد قبرستان ہموار کر کے عمارتیں تعمیر کر دی گئیں.آپ کی وصیت نمبر ۱۸۲۰ ہے.آپکا کتبہ یادگار بہشتی مقبرہ قادیان میں ہے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر ۳ حصہ دوم (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد نمبر ۶ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ (۴) مضمون ” حضرت شہزادہ عبدالمجید لدھیانوی از ماہنامہ انصار اللہ کئی وجون ۲۰۰۰ء (۵) تاریخ احمدیت جلد ہشتم.

Page 118

95 ☆ -- حضرت منشی حمید الدین صاحب لود یا نه ولادت : ۱۸۵۵ء.بیعت: ۲۵ / دسمبر ۱۸۹۵ء خاندان کا تعارف : حضرت منشی حمید الدین رضی اللہ عنہ میرٹھ کے رہنے والے تھے آپ کے والد صاحب کا نام شیخ بدرالدین صاحب تھا.آپ کے آباؤ اجداد کا پیشہ ملازمت تھا یا تجارت.یہ خاندان میرٹھ کے علاوہ کانپور لکھنو،ساگر اور ہندوستان اور یورپ کے اکثر شہروں میں آباد تھا.آپ کے دادا شیخ خدا بخش صاحب کے تین بیٹے فخر الدین صاحب ، شمس الدین صاحب اور بدرالدین صاحب تھے.آپ کے والد صاحب بوجہ ٹھیکیداری کا بار نہ اٹھا سکنے کے تتلاش روز گارسیا لکوٹ سے شاہ پور گئے اور وہاں محکمہ بندوبست میں ملازم ہو گئے.ولادت: حضرت منشی حمید الدین رضی اللہ عنہ کے خود نوشت مضمون مطبوعہ الحکم ۱۲؍ دسمبر ۱۹۳۵ء کے مطابق آپ ۱۸۵۵ء میں موضع و ہر تحصیل پھالیہ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے.اس موضع میں جانے کا پس منظر یہ تھا کہ آپ کے والد فقیر دوست اور صوفی مشرب تھے وہ نقشبندی خاندان کے ایک بزرگ اور صاحب ارشاد بابا فیض بخش صاحب کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے.حضرت منشی صاحب کی ولادت کے بعد آپ کے والد نے قصبہ مڈھ رانجھا والا (مڈھ رانجھا.ناقل ) تحصیل بھیرہ ( خاص تحصیل بھلوال ) ضلع شاہ پور ( حال ضلع سرگودھا) میں رہائش اختیار کر لی.تعلیم و ملازمت: حضرت منشی صاحب نے جس مدرسہ میں تعلیم پائی اس میں مولا نا عبدالرحیم فاضل قصبہ کلانور ضلع گورداسپور اور مولا نا عبدالحکیم صاحب پروفیسر یونیورسٹی کالج لاہور کے والد ماجد تعلیم دیا کرتے تھے.جہاں آپ نے بھی فارسی ریاضی اور دینیات کی تعلیم حاصل کی.اس کے بعد پہلے تو میڈیکل پوپل (Pupil) ہوکر رسالہ ہذا میں اور پھر ۱۸۷۳ء میں میڈیکل کالج لاہور میں داخل ہوئے (بوجہ چند موجبات تعلیم مکمل نہ کر سکے ) پھر خوشاب میں کچھ عرصہ محر ر عمارات رہ کر ۱۸۷۳ء میں محکمہ بندوبست میں میانوالی، سونی پت ضلع دہلی اور لودیانی میں محرر کھیوٹ رہے سونی پت میں آپ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا.۱۸۸۰ء میں محکمہ پولیس میں بطور محرر ملازم ہو گئے.جہاں ایک لمبا عرصہ ملازم رہے.بیعت کا پس منظر : حضرت منشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میڈیکل کالج لاہور میں تعلیم کے دوران چینیاں والی مسجد لاہور میں جایا کرتا تھا جہاں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب وعظ کیا کرتے تھے.وعظ کے اثر سے مقلدین اور غیر مقلدین اور ان کے رسائل و فتاوی جو ہر ایک کی تردید و تکفیر کے ہیں ان سے پرانے آئمہ اور اولیاء کرام کی عظمت دل سے اٹھ گئی.۱۳۰۲ھ میں آپ نے صوفیا کی طرف رجوع کیا اور حضرت صوفی احمد جان لودھیانوی جو ایک مشہور بزرگ اور صاحب ارشاد تھے ، کی خدمت میں گئے مگر وہ حج سے واپسی پر انتقال کر گئے.

Page 119

96 حضرت اقدس کی بیعت : ۱۸۹۰ء میں حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے بارہ میں سنا اور حضرت اقدس کے عقائد ودعاوی کا علم ہوا.چنانچہ قادیان جا کر ۲۵ / دسمبر ۱۸۹۵ء کو حضرت اقدس کے دست مبارک پر بیعت کر لی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ کا کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کی فہرست میں ذکر ہے.ماخذ: (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۳ (۲) اخبار الحکم قادیان.☆ ۴۹.حضرت میاں کرم الہی صاحب.....لود یا نه ولادت : ۱۸۴۲ء.بیعت : ۲ را گست ۱۸۹۱ء.وفات :۲۱ /اگست ۱۹۲۰ء تعارف: حضرت میاں کرم الہی رضی اللہ عنہ لود یا نہ کے رہنے والے تھے اور ارا ئیں قوم سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی ولادت ۱۸۴۲ء کی ہے.بیعت : رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت اس طرح درج ہے.۲ اگست ۱۸۹۱ء کرم الہی ولد حتو ساکن لدھیانہ قوم ارا ئیں ملازم پولیس.آپ کی بیعت کا نمبر ۲۴۹ ہے.حضرت اقدس کی کتب میں تذکرہ : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں آپ کا تذکرہ محفوظ ہے.۱۸۹۲ء میں جماعت احمدیہ کا دوسرا جلسہ سالانہ ہوا آپ بھی اس جلسہ میں شریک ہوئے.حضور نے شرکاء جلسہ کی فہرست ”آئینہ کمالات اسلام کتاب میں درج فرمائی ہے.حضرت میاں صاحب کا نام ۵۶ نمبر پر موجود ہے.اسی طرح حضور کی کتاب آریہ دھرم اور کتاب البریہ میں مندرج جماعت کے پاک ممبروں کی فہرستوں میں بھی آپ کا نام موجود ہے.اخلاص و محبت کا تعلق اور مالی قربانی میں حصہ : حضور کی کتب میں آپ کے ذکر کا اس طرح محفوظ ہونا آپ کی حضور کے ساتھ وابستگی اور اخلاص کو ظاہر کرتا ہے اور آپ کے اس مخلصانہ اور عقیدتمندانہ برتاؤ کے نتیجے میں حضور بھی آپ سے بے پناہ محبت رکھتے تھے.سلسلہ کی مالی معاونت میں بھی آپ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور مسابقت کے اس میدان میں بھی آپ کسی سے پیچھے نہ رہتے.جلسہ سالانہ۱۸۹۲ء کے موقع پر ایک فہرست ان اصحاب کے چندہ کی تیار کی گئی جو مطبع کے لئے چندہ بھیجتے رہیں گے آپ ان چندہ دہندگان میں شامل ہوئے.فہرست میں ۴۳ ویں نمبر پر آپ کا نام موجود ہے.اسی طرح جلسہ ڈائمنڈ جوبلی جون ۱۸۹۷ء میں بھی احباب جماعت نے سلسلہ کی ضروریات کے لئے چندہ دیا.حضرت میاں کرم الہی صاحب اس جلسہ میں تو شامل نہ ہو سکے لیکن آپ نے اس موقع پر چندہ بھجوایا آپ کا نام جلسہ احباب ( تحفہ قیصریه ) روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۱۲ پر موجود ہے.اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان

Page 120

97 میں حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی کے مکان کی تعمیر کے لئے چندے کی تحریک فرمائی تو آپ نے بھی حضور کی اس آواز پر لبیک کہا اور اس کارخیر میں بھی حصہ لیا.وفات : حضرت میاں کرم الہی نے تقریباً ۷۸ سال کی عمر میں ۲۱ راگست ۱۹۲۰ء کو لدھیانہ میں وفات پائی.آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے آپ کی وفات پر الفضل میں یہ اعلان شائع ہوا.ملا کرم الہی صاحب ساکن چھاؤنی لدھیانہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بہت پرانے اور مخلص خدام میں سے اور سلسلہ کے سرگرم خادم تھے انتقال کر گئے.آپ کی میت لدھیانہ سے قادیان لائی گئی اور بہشتی مقبرہ میں دفن کی گئی.احباب جنازہ غائب پڑھیں.آپ کی وصیت نمبر ۶۲۹ ہے اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۵ حصہ نمبر ۱۵ میں ہوئی.آپ کی اہلیہ : آپ کی اہلیہ مسمات فاطمہ بیگم صاحبہ بھی ایک دیندار اور مخلص خاتون تھیں.۱۹۱۵ء میں نظام وصیت کے ساتھ منسلک ہوئیں اور ۴ جون ۱۹۲۹ء کو وفات پا کر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ (۲) الحکم ۷ ارنومبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۷ کالم ۳ (۳) الفضل ۲ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحہ۲ کالم ۳ (۴) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحه ۳۵۵ ( رجسٹر روایات جلد ۵ صفحه ۱۰۰) (۶) ماہنامہ خالد اکتوبر ۲۰۰۴ء.۵۰.حضرت قاضی زین العابدین صاحب خانپور سر ہند بیعت : ۲۱ رفروری ۱۸۹۲ء.وفات: ۱۹۱۰ء تعارف: حضرت قاضی زین العابدین رضی اللہ عنہ ولد غلام حسین خان صاحب خانپور ریاست پٹیالہ ڈاکخانہ سر ہند کے رہنے والے تھے.بڑے وجیہ، خوبصورت اور خوش لحن تھے، نہایت ذہین اور زیرک تھے اور ایک عمدہ حکیم بھی تھے.آپ کے جدامجد عرب سے ہجرت کر کے افغانستان اور پھر مغلیہ دور حکومت میں خانپورسر ہند میں آئے.اس طرح آپ اصلاً قریشی تھے.آپ کے خاندان کو خانپور میں مغلیہ دور میں قاضی کا منصب دیا گیا.بیعت کا پس منظر : حضرت صوفی احمد جان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان اولین عشاق میں سے تھے جنہوں نے اپنے کثیر ارادت مندوں اور عقیدت مندوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن سے وابستگی اختیار کر لی تھی اور شاہی پر غلامی کو ترجیح دی.آپ کے اس نمونہ سے آپ کے مریدوں کی بھی ایک تعداد آپ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام امام الزمان کی بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئی، چنانچہ ایسے مریدوں میں ایک نام حضرت قاضی زین العابدین صاحب سرہندی کا بھی ہے.

Page 121

98 حضرت صوفی احمد جان کے ساتھ فریضہ حج پر دعائیں : ۱۸۸۵ء کے اوائل میں حضرت صوفی احمد جان صاحب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے جب حج پر روانہ ہونے لگے تو حضرت مسیح موعود نے اپنے قلم سے انہیں ایک دردانگیز دعاتحریر کے فرمائی اور ساتھ ہدایت دی کہ: آپ پر فرض ہے کہ انہیں الفاظ سے بلا تبدیل و تغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اس عاجز کی طرف سے دعا کریں.“ ریویو آف ریجنز اکتوبر ۱۹۴۲ صفحه ۱۶) چنانچہ حضرت صوفی صاحب نے یہ دعا بیت اللہ شریف میں بھی اور میدان عرفات میں بھی پڑھی.آپ کے پیچھے اس وقت آپ کے تقریباً ہمیں خدام اور عقیدت مند بھی تھے جن کو آپ نے فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود کا دعائیہ مکتوب بلند آواز سے پڑھتا ہوں تم سب آمین کہتے جاؤ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.آپ کے ساتھ اس عبادت حج اور پھر حضرت مسیح موعود کی دعا میں شامل ہونے والے خدام میں سے ایک حضرت قاضی زین العابدین بھی تھے.آپ فرماتے ہیں کہ حضرت منشی احمد جان وہ بزرگ ہستی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی ابتدائی حالت کو ہی دیکھ کر لوگوں کی بیعت لینی چھوڑ دی تھی اور جو کوئی آتا اس کو آپ فرمایا کرتے تھے کہ اب جس کو یا دالہی کا شوق ہو وہ قادیان مرزا غلام احمد صاحب کے پاس جائے ہم مخلوق خدا کو ایک ایک قطرہ دیا کرتے تھے مگر یہ شخص یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو ایسا عالی ہمت پیدا ہوا ہے کہ اس نے تو چشمہ پر سے پتھر ہی اٹھا دیا اب جس کا جی چاہے سیر ہو کر پئے.حضرت صوفی صاحب کی وفات کے بعد جو ۲۷ / دسمبر ۱۸۸۵ء میں ہوئی، حضرت قاضی صاحب نے حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جا کر مراقبہ کیا اور یاد الہی میں محور ہے.اس دوران آپ کئی بار قادیان آئے اور آ کر ہفتہ ہفتہ ٹھہر کر واپس چلے جاتے.بالآ خر فرماتے ہیں کہ حضرت منشی احمد جان صاحب کی عقیدت کی وجہ سے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی پھر حضرت اقدس کی مجلس کا جو رنگ مجھ پر چڑھا اس کے پہلا پھیکا لگا.بیعت : آپ نے ۲۱ فروری ۱۸۹۲ء کو بمقام کپورتھلہ حضور علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیا جبکہ حضور سیالکوٹ سے واپسی پر کپورتھلہ تشریف لے گئے تھے.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کی بیعت کا اندراج ۲۹۶ نمبر پر ہے ۲۱ فروری ۱۸۹۲ء بمقام کپورتھلہ زین العابدین ولد غلام حسین خان پور ریاست پٹیالہ ڈاکخانہ سرہند تحریر ہے.آپ کے دوسرے بھائی قاضی نظام الدین بھی رفیق حضرت اقدس کے تھے.حضرت اقدس سے اخلاص کے تعلق کا ذکر : دسمبر ۱۸۹۲ء میں آپ قادیان آئے اور جماعت احمدیہ کے دوسرے تاریخی جلسہ میں شرکت فرمائی چنانچہ آپ کا نام شاملین جلسہ کے اسماء مندرجہ آئینہ کمالات اسلام میں ۷۸ ویں نمبر پر درج ہے.اس خوش نصیبی کے علاوہ آپ کے حصہ میں یہ سعادت بھی آئی کہ حضور علیہ السلام نے آپ کا نام ۳۱۳ صحا بہ مندرجہ کتاب انجام آتھم میں بھی رقم فرمایا ہے.

Page 122

99 اسی طرح حضور نے اپنے ایک اشتہار میں مخالفین کی طرف سے گورنمنٹ کو پہنچائی گئی ، خلاف واقعہ اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے اپنے خاندان اور سلسلہ کے صحیح حالات بیان فرمائے ہیں اور بطور نمونہ اپنی جماعت کے ۳۱۶ اصحاب کے نام درج فرمائے ہیں جس میں آپ کا نام بھی ۲۳۱ نمبر پر موجود ہے.یہ اسماء تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۲۷ اور کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۵۰.۳۵۷ پر موجود ہیں.اولاد: آپ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب آف ڈولی کہار آگرہ کے ساتھ کی جو آپ کے شاگردوں میں سے ہی تھے.آپ کے تین بیٹے قاضی منظور احمد ، عبداللطیف اور منظور الحق صاحب تھے.اب ان کی اولاد لکھنو اتر پردیش بھارت ) کراچی اور لندن میں ہے.آپ کے ایک پوتے چوہدری محمد نسیم صاحب لکھنو امیر جماعت احمد یہ اتر پردیش ( بھارت) ہیں.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ (۲) رجسٹر بیعت مندرجہ تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحه ۳۶۰ (۳) تبلیغ رسالت جلد ۱۳ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ (۵) رجسٹر روایات نمبر ۷ صفحه ۳ (۶) رجسٹر روایات نمبرا اصفحہ ۳۵۸ (۷) انٹرویو چوہدری محمدنیم امیر جماعت احمدیہ لکھنو ( اتر پردیش بھارت) (۸) ریویو آف رپیچنز اکتوبر ۱۹۴۲ صفحه ۱۶.۵۱ - حضرت مولوی غلام حسن صاحب رجسٹرار......پشاور ولادت : ۱۸۵۲ء.بیعت ۷ ارمئی ۱۸۹۰ء.وفات یکم فروری ۱۹۴۳ء تعارف: حضرت مولوی غلام حسن رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام جہان خان صاحب تھا.آپ کی اصل سکونت میانوالی تھی اور یہ علاقہ ضلع بنوں میں تھا.آپ کے خاندان کے احباب اب بھی اس علاقے خصوصاً موسیٰ خیل میں موجود ہیں.آپ کی عارضی سکونت پشاور میں تھی.بیعت کے وقت آپ گورنمنٹ سکول ( یعنی میونسپل بورڈ سکول پشاور ) میں مدرس تھے.بعد میں آپ رجسٹرار ہو گئے تھے.حضرت مولوی صاحب کے مہربان و مربی حضرت مرزا محمد اسماعیل قندھاری ( جن کی ہمشیرزادی سے آپ کا نکاح ہوا تھا) ایک بلند پایہ صوفی بزرگ تھے جو پشا ور محلہ گل بادشاہ کے رہنے والے تھے.حکومت انگریزی میں ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکوئز تھے.انہوں نے کتاب براہین احمدیہ کی اشاعت کے لئے چندہ بھیجا تھا اور براہین احمدیہ کو پڑھ کر فرماتے تھے کہ اس شخص کی تحریر مسیح ناصری کی تحریر وتقریر سے ملتی ہے.یہ بڑے عالی مرتبہ کا ولی ہے.بیعت کا پس منظر : حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحب نے حضرت اقدس کا تذکرہ پیر صاحب کوٹھہ شریف سے صرف اس قدر سن رکھا تھا کہ اب اُن کا (یعنی پیر صاحب کو ٹھہ شریف کا دور ختم ہو گیا ہے کیونکہ مہدی آخرالزمان پیدا

Page 123

100 ہو چکا ہے اس کی زبان پنجابی ہے اور بعض لوگ مہدی آخر الزمان کو دیکھ لیں گے.حضرت مرز امحمد اسماعیل صاحب قندھاری نے حضرت اقدس سے کشفی طور پر مصافحہ کر رکھا تھا اور اس مصافحہ کو بیعت تصور کرتے تھے.جب دسمبر ۱۸۸۸ء میں حضرت مسیح موعود قادیان سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور حضرت اقدس نے اپنی بعثت کا اعلان کیا تو مرزا محمد اسماعیل صاحب نے مولوی غلام حسن صاحب سے کہا کہ حضرت اقدس کی ملاقات کو جاؤ.بیعت : حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحب کی تحریک پر مولوی صاحب نے لدھیانہ جا کر حضرت اقدس سے ملاقات کی.انہی ایام میں حضرت اقدس نے بیعت لینے کا اعلان بھی کیا.حضرت مولوی غلام حسن صاحب نے ۷ ارمئی ۱۸۹۰ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت نمبر ۱۹۲ پر درج ہے اور سکونت اصلی میانوالی ضلع بنوں ہے.رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۳) حضرت اقدس سے تعلق : حضرت مسیح موعود کی زندگی میں مولوی صاحب کی تجلی بیٹی لڑکی کی شادی حضرت اقدس کے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ سے ہوئی.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت مولوی صاحب غیر مبائعین میں شامل ہو گئے مگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ کی دعاؤں بالخصوص دوران تصنیف کتاب ”سلسلہ احمدیہ اور حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کی کوششوں سے حضرت مولوی صاحب نے صدق دل سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیعت کر لی.ایک بار حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (ایم.ایم.احمد ) نے حضرت مولوی صاحب سے ۱۹۴۲ء میں قادیان میں پوچھا کہ آپ قریباً چالیس سال علیحدہ رہے.اب کس طرح بیعت (خلافت) کرلی.آپ نے ایک چھوٹا سا فقرہ جواب میں کہا جو بہت سبق آموز تھا.فرمانے لگے میں اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کو رد نہیں کر سکتا“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ازالہ اوہام میں حضرت اقدس نے فرمایا: وفا دارا در مخلص ہیں بہت جلد اللہی راہوں اور دینی معارف میں ترقی کریں گے کیونکہ فطرت نورانی رکھتے ہیں.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد سوم ) آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء اور چندہ دہندگان میں ذکر ہے.کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کی فہرست میں نام شامل ہے.خدمات دینیہ : آپ مفسر قرآن بھی تھے اور ایک کتاب تفسیر حسن بیان لکھی تھی.قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کا یہ عالم تھا کہ کوئی دو ہزار سے زائد مرتبہ تلاوت قرآن کر چکے تھے اور جن مقامات کو نہیں سمجھتے تھے ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ یہ انسان کی اپنی استعدادوں کا قصور ہے.وفات : حضرت مولوی صاحب نے یکم فروری ۱۹۴۳ء کو قادیان میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.آپ نے ۲۲؍ جنوری ۱۹۴۲ء کو خلافت ثانیہ کی بیعت کرلی تھی.۱۹۱۱ ء میں آپ کی خدمت کے پیش نظر دہلی دربار

Page 124

101 میں خان بہادر کا خطاب دیا گیا.اولاد : آپ کی ایک صاحبزادی حضرت سرور سلطان صاحبہ حضرت اقدس کی مبشر اولا د حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے عقد میں آئیں جن کے بیٹے (۱) حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (ایم ایم احمد ) (۲) صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب (۳) صاحبزادہ مرزا امنیر احمد صاحب (۴) صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب (۵) صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب.مرز اغلام قادر صاحب شہید ابن صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب آپ کی اُسی بیٹی سے پوتے تھے.(۶) صاحبزادی امتہ السلام بیگم مرزارشید احمد صاحب (۷) صاحبزادی امتہ الحمید بیگم نواب محمد احمد خان (۸) صاحبزادی امتہ المجید بیگم بر یگیڈ ئیر وقیع الزمان صاحب (۹) صاحبزادی امتہ اللطیف بیگم سید محمد احمد صاحب.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) روزنامه الفضل ربوه ۱۸ / اکتوبر ۱۹۹۹ء و ۱۹/ جون ۲۰۰۰ ء و ۲۶ جون ۲۰۰۰ء (۵) ''یاد رفتگان، حصہ اول صفحه ۱۳۴ و ۳۹۳ (۶) روزنامه الفضل ربوه ۸/ جون ۲۰۰۰ء ( ۷ ) رجسٹر بیعت اولی اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳ ۳۵ (۸) تاریخ احمدیت جلد نم صفحه ۴۵۹ (۹) تاریخ احمد بیت سرحد صفحه ۲۲ مطبوعہ ۱۹۵۹ء (۱۰) روزنامه الفضل ربوه ۱۸ جولائی ۱۹۸۹ء.(۱۱) روز نامہ الفضل نمبر ۱۸ جلد ۲۸، ۲۵ جنوری ۱۹۴۰ء ☆ ۵۲.حضرت محمد انوار حسین خانصاحب شاہ آباد.ہر دوئی بیعت: ۱۸۹۱ء.وفات : ۲۷/ جولائی ۱۹۳۱ء تعارف: حضرت محمد انوار حسین خاں رضی اللہ عنہ کی شاہ آباد ضلع ہر دوئی (یو.پی ) کے معروف رئیس اور زمیندار تھے.بالخصوص آم کے باغات تھے.اعلیٰ اقسام کو ملا کر پیوند کرنے کا آپ کو بہت شوق تھا.جو بہترین پھل ہوتے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھجواتے.بیعت : آپ دیو بند کے فارغ التحصیل عالم تھے اور دارالعلوم دیو بند سے دستار بندی ہوئی تھی.حضرت صوفی (منشی) احمد جان صاحب نے ایک کتاب "طب روحانی لکھی انہوں نے اس کا پہلا حصہ دیکھا اور کہا کہ دوسرا بھی روانہ کر دیں.حضرت منشی صاحب کی طرف سے جواب گیا کہ اس کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی.آپ نے کہا اس کا مسودہ ہی بھجوا دیں.جواب آیا کہ مسودہ بھی پھاڑ کر پھینک دیا ہے.انہوں نے کہا کہ وہ پھاڑا ہوا مسودہ ہی بھجوا دیں.اس پر حضرت منشی صاحب نے جواب دیا کہ اں قدح بشکست و آں ساقی نماند پنجاب میں آفتاب نکلا ہے.اب ستارے راہبری نہیں کر سکتے.اس کا نام مرزا غلام احمد ہے.اس نے

Page 125

102 کتاب براہین احمدیہ کھی ہے.وہ منگوا کر مطالعہ کریں.براہین احمدیہ پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کی درخواست کی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ بیعت کا اذن نہیں ہوا مگر آپ کا تعلق عقیدت قائم رہا اور جب بیعت کا اشتہار حضرت اقدس کی طرف سے شائع ہوا تو ۱۸۹۱ء میں لدھیانہ کے مقام پر بیعت کی.آپ حضرت اقدس کے ہاں گول کمرہ میں مہمان ہوا کرتے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام میں۲۸۰ نمبر پر جلسہ سالانہ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں میں ”مولوی انور حسین خان صاحب تحریر فرمایا ہے اور کتاب البریہ میں ۱۶۰ نمبر پر سید انوار حسین شاہ رئیس شاہ آباد ضلع ہر دوئی کا نام اپنی پُر امن جماعت کی فہرست میں تحریر فرمایا ہے.آر یہ دھرم میں بھی آپ کا ذکر فہرست دستخط کنندگان میں فرمایا ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا نام مالی مصارف کرنے والے احباب میں درج ہے.وفات: ۲۷ جولائی ۱۹۳۱ء کو آپ کی وفات ہوئی اور آپ کی وصیت نمبر ۲۸۷۹ ہے اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۵ حصہ نمبر میں ہوئی.اولاد: آپ کی اہلیہ صاحبہ ۱۹۲۱ء میں فوت ہوئیں.آپ کے ۴ بیٹے اور بیٹیاں تھیں.(۱) حضرت عبدالغفار خاں صاحب (۲) حضرت عبدالستار خاں صاحب (۳) حضرت خاں محمد یحییٰ خاں صاحب ہیں.(۴) حضرت عبدالکریم خان صاحب،سب نے قادیان میں تعلیم پائی.مکرم عبدالستار خاں صاحب (وفات (۱۹۷۸ء) کی اولاد میں عبد الحکیم خاں صاحب.U.B.L کراچی میں وائس پریذیڈنٹ اور مکرم عبد السلام خاں صاحب شاہجہاں آباد (یوپی) میں ایڈووکیٹ رہے ہیں.آپ کی ایک بیٹی کی شادی محمد ابراہیم خان صاحب ابن حضرت محمد خان صاحب آف کپورتھلہ ( یکے از۳۱۳) سے ہوئی.جن کے بیٹے محمد عثمان خان صاحب اور شاہد رضوان صاحب اور طاہر عمران صاحب ہیں.شاہد رضوان صاحب جو کہ مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب کے داماد ہیں.حضرت محمد یحیی خان صاحب کی روایات در جسر روایات میں درج ہیں.ان کے ایک بیٹے مکرم عبداللطیف خان صاحب المعروف ننھا حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے اسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری رہے جن کی شادی حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب ( یکے از۳۱۳) کی بیٹی سے ہوئی جو آج کل بمعہ اولا د جرمنی میں مقیم ہیں.حضرت عبدالکریم خان صاحب کے بڑے بیٹے خورشید احمد خان مرحوم منیر احمد خان (انجینئر ) مکرم سهیل احمد خان صاحب ( ریٹائر ڈایڈ مرل ) مکرم نعیم احمد خان صاحب امریکہ میں ڈاکٹر ہیں،مکرم خورشید احمد خان کے بیٹے منصور احمد خان مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے معروف قلم کار ہیں.

Page 126

103 ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۴) مضمون مطبوعه روزنامه الفضل ربوه ۴ / جنوری ۱۹۹۴ء (۵) مضمون ” مکرم عبدالستار خاں صاحب آف شاه آباد بھارت کا ذکر خیر روزنامه افضل ربوه ۴ جون ۱۹۷۸ء (۶) الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۴۲ء / (۷) روزنامه الفضل ربوه ۲۴ اگست ۱۹۹۹ ء بیان فرموده حضرت خلیفه امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ (۸) اصحاب احمد جلد ششم (۹) بیان مکرم محمد عثمان خان صاحب ڈیفنس کراچی.☆ ۵۳ - حضرت شیخ فضل الہی صاحب....فیض اللہ چک..بیعت: ابتدائی زمانہ میں تعارف: حضرت شیخ فضل الہی رضی اللہ عنہ فیض اللہ چک کے نمبردار تھے.میاں کریم اللہ صاحب فیض اللہ چک کے چچازاد بھائی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق اور بیعت : آپ حضرت اقدس مسیح موعود کے دعوئی سے بہت پہلے سے حضور کی خدمت میں قادیان حاضر ہونے والوں میں سے تھے.آپ ابتدائی زمانہ میں بیعت سے مشرف ہو چکے تھے.اس لئے آپ کا نام ۳۱۳ اصحاب صدق وصفا ضمیمہ انجام آتھم میں ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے سراج منیر اور تحفہ قیصریہ میں چندہ دہندگان کی فہرست میں اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کی فہرست میں ذکر کیا ہے.اولاد : آپ کے بیٹے میاں عظیم اللہ صاحب فیض اللہ چک اور دو ملحقہ گاؤں کے نمبر دار تھے.اسی طرح تقسیم ملک کے بعد ساہیوال شہر سے بیس میل کے فاصلے پر ان کو اراضی الاٹ ہوئی تقسیم ہند کے فسادات ۱۹۴۷ء میں میاں کریم اللہ صاحب فیض اللہ چک گورداسپور میں شہید ہو گئے تھے.موصوف کے ذکر میں مکرم ملک صلاح الدین مرحوم ایم.اے نے حضرت شیخ فضل الہی صاحب کا تذکرہ کیا ہے کہ آپ اُن کے چچازاد بھائی تھے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۲) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) دو ماہی اصحاب احمد قادیان ۵/ نومبر ۱۹۵۵ء (۶) سوانح حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی صفحہ ۱۴۵ ( ۷ ) الفضل ربوہ.۹ مئی ۱۹۹۳ء.

Page 127

104 ☆ ۵۴.حضرت میاں عبد العزیز صاحب.....دہلی بیعت ۱۸۹۱ء تعارف: حضرت میاں عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا دہلی میں علمی حلقہ خاصا مشہور تھا.مرزا حیرت دہلوی سے دوستی تھی.بیعت : ستمبر ۱۸۹۱ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تشریف لائے تو آپ بھی جاں نثاروں میں شامل ہو گئے.آپ کو قادیان میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہونے کا بار ہا موقع ملا.دینی خدمات : آپ نے صداقت احمدیت اور معترضین کے جواب میں چند ایک کتابیں لکھیں.مثلا "حیرت کی حیرانی ( دوحصے) جس میں مرزا حیرت دہلوی کے اعتراضات کا جواب دیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء تحفہ قیصریہ و کتاب البریہ جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور چندہ دہندگان اور پُر امن جماعت میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.نوٹ: آپ کے تفصیلی سوانح حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) روزنامه الفضل ربوہ ۲۳ / جولائی ۱۹۹۸ء.☆ ۵۵.حضرت مولوی محمد سعید صاحب شامی طرابلسی بیعت: ابتدائی زمانہ میں تعارف: حضرت مولوی محمد سعید رضی اللہ عنہ نہایت درجہ بزرگ اور نابغہ روزگار عالم تھے.اور فخر الشعراء اور مجد الادباء کے نام سے یاد کئے جاتے تھے.طرابلس (شام) بیروت سے تمیں کوس کے فاصلے پر ہے.حضرت مولوی صاحب طرابلس سے براستہ کراچی، کرنال گئے.وہاں سے دہلی بغرض علاج حکیم اجمل خان دہلوی کے پاس گئے اور دہلی کے مشہور مدرسہ فتح پوری میں علوم عربیہ کی تدریس کے فرائض بجالاتے رہے.حضرت اقدس سے تعلق : انہیں ڈیرہ دون میں حضرت حافظ محمد یعقوب نے آئینہ کمالات اسلام میں مندرجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ قصیدہ سے تعارف کروایا جسے پڑھ کر آپ بے ساختہ پکار اٹھے کہ عرب بھی اس سے بہتر کلام نہیں لا سکتے.ازاں بعد آپ کو سیالکوٹ جانے کا اتفاق ہوا جہاں حضرت میر حسام الدین نے انہیں آئینہ کمالات اسلام کے

Page 128

105 عربی حصہ کا رد لکھنے پر ایک ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا.اس وقت حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوئی بھی وہاں موجود تھے جن سے حضرت مولوی محمد سعید صاحب نے حضرت اقدس کے بارے میں تعارف حاصل کیا اور قادیان حاضر ہو گئے.قادیان میں قیام اور بیعت : آپ تقریباً سات ماہ تک تحقیق میں مصروف رہے.حضرت اقدس کو نہایت قریب سے دیکھا اور حضور کے علمی فیضان سے متمتع ہوئے اور بالآخر بعض مبشر رویا کی بناء پر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب لکھتے ہیں : غالبا ۱۸۹۴ء کے قریب دو عرب شامی جو علوم عربیہ کے ماہر اور فاضل تھے قادیان آئے ایک عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہے ہر دو کا نام محمد سعید تھا اور طرابلس علاقہ شام کے رہنے والے تھے اُن میں سے ایک صاحب شاعر بھی تھے.مالیر کوٹلہ میں ایک ہندوستانی لڑکی سے حضرت نواب محمد علی نے شادی کروادی....دوسرے محمد سعید نے ایک رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں تصنیف کیا تھا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر جو بصورت رسالہ چھپی تھی لے کر اپنے وطن ملک شام سلسلہ حقہ کی تبلیغ کے واسطے چلے گئے.“ (ذکر حبیب ص ۴۲) دینی خدمات: مولوی محمد سعید صاحب شامی طرابلسی نے دو کتابیں تصنیف کیں.ایک ”الانصاف بین الاحباء “ اور دوسری ایقاظ الناس‘ ہے.تذکرہ واقعات آپ نے اپنی کتاب ”ایقاظ الناس میں حضرت اقدس کی تین ایمان افروز کرامات کا ذکر کیا ہے.(1) ماحول مکہ شریف کا ایک عرب پنجاب آیا جو حضرت اقدس کے خلاف الزام طرازی کرتا تھا لیکن جب قادیان آیا تو بیعت کر لی.جب اس سے اس وابستگی کا سبب پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ عالم رویا میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور حضرت اقدس کے متعلق ارشاد فرمایا کہ وہ اپنے دعوی میں صادق ہیں جاؤ اور جا کر بیعت کر لو“ (۲) مولوی صاحب ایک دفعہ اپنے حجرہ میں بیٹھے تھے کہ دھوبی آپ کے دُھلے ہوئے کپڑے لایا.آپ کے دل میں خیال گزرا کہ اگر حضرت اقدس اس وقت موجود ہوتے تو اسے اجرت دے دیتے.عین اسی لمحہ جب مولوی صاحب یہ بات سوچ رہے تھے کہ یکا یک حضور رونق افروز ہوئے اور دست مبارک سے دھوبی کو اس کی مطلوبہ رقم مرحمت فرما دی.(۳) ایک امر شرعی نے آپ کو سخت مشکل میں ڈال رکھا تھا اور اس بارے میں اکثر احباب تشفی کرانے سے قاصر تھے.مولوی صاحب کا خیال تھا کہ حضرت اقدس نماز ظہر کے لئے تشریف لائیں گے تو آپ سے دریافت کروں گا.آپ نے ظہر کی نماز میں آتے ہی فرمایا کہ جس مسئلہ نے آپ کو اور دیگر حضرات کو الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے اس کا حل یہ ہے حالانکہ آپ سے اس بارہ میں قطعا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا.ماخذ : (۱) عالم روحانی کے لعل و جواہر نمبر ۱۶۷، از روزنامه الفضل ربوہ ۲۱ جولائی ۲۰۰۱ء(۲) ذکر حبیب صفحہ ۴۲.

Page 129

106 ☆ ۵۶.جناب مولوی حبیب شاہ صاحب خوشاب بیعت : ابتدائی ایام میں.وفات : ۱۹۲۹ء بیعت : جناب مولوی حبیب شاہ صاحب خوشاب کے رہنے والے تھے.آپ کا خاندان قریشی تھا مگر اس کے افراد شاہ کے لقب سے ملقب تھے.آپ نے حضرت مولوی فضل الدین کے ساتھ قادیان جا کر بیعت کی تھی.جناب مولوی حبیب شاہ صاحب کا نام ضمیمہ نجام آتھم میں درج ہے.حضرت اقدس سے تعلق : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بارشاہ صاحب کی آمد پر آپ کو مخاطب کر کے فرمایا ” میری طبیعت علیل تھی اور میں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پر میں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتا ہے.جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں.حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کی فہرست میں آپ کا ذکر کیا ہے.وفات : آپ کی وفات ۱۹۲۹ء میں ہوئی.تدفین مقامی قبرستان خوشاب میں ہوئی.وفات سے قبل سلسلہ احمدیہ سے کوئی عملی تعلق نہ رہا تھا.مکرم حضرت حافظ عبدالکریم خاں ولد فتح الدین خاں صاحب اور مکرم اللہ دتہ صاحب ولد جیون کی روایت کے مطابق آپ ایک مرتبہ قرضہ کے لئے حضرت اقدس کے پاس گئے تھے تو حضور نے معذرت کی تھی واپس آکر آپ نے احمدیت سے کلی تعلق نہ رکھا.مگر آپ نے کبھی حضرت اقدس کی مخالفت بھی نہ کی تھی.(نوٹ): آپ کا ایک بیٹا مجید شاہ احمدیت کا مخالف رہا جس کا آخر کار انجام اچھا نہ ہوا اور اس کی عبرتناک موت واقع ہوئی.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آنتم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) مطبوعہ ”روز نامه الفضل ربوہ مورخہ ۱۰ را کتوبر۲۰۰۰ ء ( بیان فرموده حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ) ( ۴ ) بیان مکرم حافظ عبدالکریم ، فتح دین خاں صاحب و مکرم اللہ دتہ صاحب ولد میاں جیون خوشاب (۵) انٹر ویو کرم رانا عطاء اللہ خان صاحب لندن اور مکرم ظفر اقبال خان صاحب آف خوشاب حال ربوه (۶) خوشاب میں احمدیت غیر مطبوعہ مقالہ مکرم فضل احمد صاحب مجوکہ مربی سلسلہ.

Page 130

107 ☆ ۵۷.حضرت حاجی احمد صاحب...بخارا ولادت : ۱۸۶۰ء.بیعت : ۱۸۹۴ء.وفات : ۱۹۲۴ء ابتدائی حالات و بیعت: حضرت حاجی احمد بخارا رضی اللہ عنہ کا اصل وطن بھیرہ تھا.آپ اپنے بچپن میں والدین کے ہمراہ حج پر تشریف لے گئے.مکہ شریف پہنچنے پر آپ کے والدین کا انتقال ہو گیا.اس بے بسی کے عالم میں حضرت حکیم مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ بھیروی سے خانہ کعبہ کے احاطہ میں ملاقات ہو گئی اور انہی کے پاس رہنے لگے.حضرت مولوی صاحب کی دعا سے آپ خوشحال ہو گئے.آپ نشان کسوف و خسوف کے تحریری گواہ تھے.(نوٹ) حضرت اقدس اپنے عالی مرتبہ سے حکام کو اپنا اور اپنی جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے فرماتے ہیں.ایک مشہور فرقہ کا پیشوا ہوں جو پنجاب کے اکثر مقامات میں پایا جاتا ہے.اور نیز ہندوستان کے اکثر اضلاع اور حیدر آباد داور بمبئی اور مدراس اور ملک عرب اور شام اور بخارا میں میری جماعت کے لوگ موجود ہیں.وو حضرت اقدس نے جو یہاں ”بخارا کا ذکر فرمایا ہے.ممکن ہے بخارا کی اسی شخصیت کی طرف اشارہ مقصود ہو.وفات : آپ کا وصال ۱۹۲۴ء میں ہوا.اولاد آپ کے فرزند فضل احمد صاحب رفیق بانی سلسلہ احمدیہ ہیں ( ولادت ۱۸۸۱ء، وفات ۱۹۳۶ء) ماخذ : (۱) کشف الغطاء روحانی خزائن جلد ۱۴ (۲) ” بھیرہ کی تاریخ احمدیت (۳) سیرت صحابه ضلع سرگودها مرتبه افتخار احمد گوندل ( غیر مطبوعہ مقالہ جامعہ احمد یه ۱۹۸۳ء) ☆ ۵۸.حضرت حافظ نورمحمد صاحب.فیض اللہ چک ولادت: ۱۸۴۶ء.بیعت : ۲۱ / ستمبر ۱۸۸۹ء.وفات : ۲۷/ دسمبر ۱۹۴۶ء تعارف : حضرت حافظ نور محمد رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام شیخ مراد علی صاحب تھا آپ کی قوم گلے زئی (افغان) تھی.آپ کا تعلق قادیان کے نزدیکی گاؤں فیض اللہ چک ضلع گورداسپور سے تھا.آپ کی ولادت سال ۱۸۴۶ء میں ہوئی.بیعت : آپ نے ۲۱ دسمبر ۱۸۸۹ء کو بیعت کا شرف حاصل کیا رجسٹر بیعت اولیٰ میں نمبر ۱۴۶ پر آپ کا نام درج

Page 131

108 ہے.آپ ان خوش قسمت احباب میں سے تھے جن کو حضرت مسیح موعود کے دعوی سے قبل حضور کی پاک صحبت سے مستفیض ہونے اور بار بار خدمت اقدس میں حاضر ہونے کا شرف ملا.آپ کے حضرت اقدس کے ساتھ بے تکلفانہ مراسم تھے.حضور نے کئی بار ان کی اقتداء میں نماز پڑھی.تہجد کے لیے بیدار ہونے کے لئے کئی بار حضور کے کمرے میں سورہتے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء، آریہ دھرم، تحفہ قیصریہ میں ڈائمنڈ جوبلی ،سراج منیر میں چندہ مہمان خانہ اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کی فہرست میں نام درج ہے.وفات: آپ نے ۲۷ دسمبر ۱۹۴۶ء کو وفات پائی.آپ کی وصیت نمبر ۲۶۷ ہے اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۵ حصہ نمبرے میں ہوئی.اولاد : آپ کے ایک بیٹے کا نام حضرت اقدس نے رحمت اللہ رکھا جو بعد میں رحمت اللہ شاکر کے نام سے مشہور ہوئے اور نامور صحافی بنے.اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل اور مینیجر الفضل کے طور پر ربع صدی خدمت کرتے رہے.ان کی تالیف مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے بہت معروف ہے.آپ کے ایک پوتے مکرم صبغت اللہ صاحب ( ابن مکرم رحمت اللہ شاکر صاحب مرحوم) سیالکوٹ میں وکیل ہیں.آپ کے ایک نواسے ملک خالد محمود صاحب لندن میں مقیم ہیں.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد۱۰ (۶) اصحاب احمد جلد ۱۳ (۷) مضمون ” حضرت حافظ نور محمد صاحب ، مطبوعہ روز نامہ الفضل ارمئی ۲۰۰۱ء (۷) تاریخ احمدیت جلد دہم (۸) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۱.☆ ۵۹.حضرت شیخ نور احمد صاحب...امرتسر ولادت: ۱۸۳۹ء.بیعت : یکم فروری ۱۸۹۲ء.وفات ۸/ جون ۱۹۲۸ء تعارف: حضرت شیخ نور احمد رضی اللہ عنہ کے والد کا نام شیخ بہادر علی صاحب تھا.آپ ۱۸۳۹ء میں پیدا ہوئے آپ میرٹھ میں رہتے تھے.آپ اخبار ” لوح محفوظ مراد آباد میں پریس میں تھے.آپ کا پی لکھنے کی سیاہی اچھی بناتے تھے جوامرتسر کے اخبار وکیل میں بھی استعمال ہوتی تھی اس کے مینجر پادری رجب علی نے آپ کو امرتسر بلوالیا.حضرت اقدس سے تعلق : براہین احمدیہ جس پریس میں شائع ہوئی اس کے کارکنان میں سے بھی سعید روحوں کو ہدایت نصیب ہوئی.حضرت مسیح موعود نے براہین احمدیہ کی طباعت کے لئے مطبع ” سفیر ہند امرتسر میں انتظام کیا

Page 132

109 جس کے مالک پادری رجب علی صاحب تھے.انہوں نے براہین احمدیہ کی بہترین طباعت کے لئے مراد آباد سے حضرت شیخ نوراحمد صاحب کو بلایا جو اپنے فن میں بہت ماہر تھے.تھوڑے عرصے بعد انہوں نے پادری صاحب سے الگ ہو کر اپنا ذاتی مطبع ریاض ہند کے نام سے جاری کیا اور پادری صاحب نے براہین احمدیہ کی طباعت کا وہی معیار برقرار رکھنے کے لئے طباعت کا کام اجرت پر شیخ نور احمد صاحب کو دے دیا.اسی دوران حضرت مسیح موعود ان کے پریس میں تشریف لائے اور حضور سے ان کا تعارف ہو.بیعت : کتاب براہین احمدیہ ہی حضرت شیخ نور احمد صاحب کو مراد آباد سے پنجاب لائی اور یہی آپ کو سلسلہ احمدیہ میں داخل کرنے کا موجب ہوئی.ان کے ساتھ حضرت شیخ محمد حسین صاحب اور منشی غلام محمد صاحب بھی یکم فروری ۱۸۹۲ء کو سلسلہ میں شامل ہو گئے.رجسٹر بیعت اولی میں حضرت شیخ نوراحمد صاحب کی بیعت ۲۰۸ نمبر پر یوں درج ہے.شیخ نوراحمد مہتم مطبع ریاض ہند ولد شیخ بہادر علی ساکن حال امرتسر.سلسلہ کی خدمات : حضرت شیخ نور احمد صاحب حضرت مسیح موعود کی تمام کتب واشتہارات کے علی العموم پرنٹر رہے.آپ کو پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عبداللہ آتھم کے مناظرہ میں نمایاں خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.جب جنگ مقدس کے دوران بہت سے مہمان جمع ہو گئے تو ایک روز حضرت اقدس کے لئے حضرت شیخ صاحب کی اہلیہ کھانا پیش کرنا بھول گئیں.رات کا بہت بڑا حصہ گزر گیا.حضرت اقدس نے استفسار فرمایا.صورت حال کا اظہار کیا گیا تو فرمایا اس قدر گھبراہٹ اور تکلیف کی کیا ضرورت ہے دستر خوان میں دیکھ لو کچھ بچا ہوگا وہی کافی ہے.وہاں روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے.فرمایا یہی کافی ہیں اور وہی کھالئے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ کا ذکر آسمانی فیصلہ میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں ، آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والے احباب اور چندہ دہندگان کی فہرست میں ، آریہ دھرم، تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پر امن جماعت کی فہرست میں نام درج ہے.وفات : آپ کی وفات ۸ جون ۱۹۲۸ء بعمر ۸۹ سال کو ہوئی.آپ کی وصیت نمبر ۱۲ ۲۷ ہے اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۴ حصہ نمبر میں ہوئی.ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد۱۰ (۵) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۷) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۸) مضمون ”براہین احمدیہ کے مطالعہ سے احمدیت ، روزنامه الفضل ربوه مورخه ۲۵ / اپریل ۲۰۰۲ء (۹) روز نامه الفضل ربوه ۲ جولائی ۲۰۰۰ء (۱۰) روزنامه الفضل ربوه ۲۹ جون ۱۹۹۵ء (۱۱) سیرت حضرت مسیح موعود (۱۲) رسالہ ”نور احمد مصنفہ حضرت شیخ نور احمد صاحب احمدی (۱۳) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول.

Page 133

110 ☆ -۶۰ حضرت مولوی جمال الدین صاحب سید والا بیعت : ۱۸۸۹ء.وفات :۲۲ جولائی ۱۹۰۵ء تعارف و بیعت : حضرت مولوی جمال الدین رضی اللہ عنہ سید والہ کے رہنے والے تھے.اس وقت سیّد والا ضلع منٹگمری (ساہیوال) میں تھا اب ضلع ( ننکانہ صاحب ) میں ہے.آپ ایک قافلہ کے ساتھ پیدل قادیان آئے.حضور آپ کو قادیان میں بار بار آنے کی تاکید فرماتے رہتے.آپ نے ۱۸۸۹ء میں حضرت اقدس کی بیعت کی.حضرت میاں عبداللہ ٹھٹھہ شیر کا کی بیعت ( رجسٹر بیعت اولی نمبر ۱۴۸ ) آپ ہی کے ذریعے ہوئی تھی.جون ۱۸۹۷ء قادیان جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں آپ کو پنجابی میں تقریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ، وو حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ ۱۸۹۲ء، تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی اور کتاب البریہ میں اپنی پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.وفات : ۲۲ جولائی ۱۹۰۵ء کو آپ کی وفات ہوئی.حضرت اقدس نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی، آپ کی تدفین سید والہ میں ہوئی.ایک مرتبہ دریائے راوی کے سیلاب سے آپ کی قبر متاثر ہورہی تھی کہ مقامی دوستوں نے دوسری جگہ میت کی تدفین کی.۷ / دسمبر ۱۹۰۵ء کو حضور نے وفات پا جانے والے احباب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا.سال گزشتہ میں ہمارے کئی دوست جدا ہو گئے.مولوی جمال الدین سید والہ بھی ، مولوی شیر محمد ہو جن والے بھی، اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ میں کوئی مصالح رکھے ہوں گے اس سال میں حزن کے معاملات دیکھنے ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۵۸۶) اولاد : آپ کے بیٹے مولوی نورالدین صاحب کے علاوہ بیٹیاں تھیں.حضرت مولوی جمال الدین صاحب کے دو پوتے مولوی سراج الحق صاحب اور مولوی رمضان الحق صاحب تھے.آپ کے ہر دو مذکورہ پوتوں سے اولاد ہے.حضرت مولوی جمال الدین صاحب کے پوتے مولوی رمضان الحق صاحب کے نواسہ مکرم نوید الاسلام صاحب واقف زندگی ( والد مکرم مشتاق احمد بھٹہ صاحب ) معلم اصلاح و ارشاد مقامی ہیں.حضرت مولوی جمال الدین صاحب کے ایک داماد حضرت مولوی عبدالحق صاحب بھی رفیق بانی سلسلہ تھے.موصوف نوید الاسلام صاحب انہی کے پوتے ہیں.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی پڑے.،،

Page 134

111 خزائن جلد ۱۳ (۴) سیرۃ المہدی جلد دوم (۵) الحکم ۷ جنوری ۱۹۰۹ء (۶) ملفوظات جلد چہارم (۷) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۱- (۸) بیان مکرم نوید الاسلام معلم اصلاح وارشاد مقامی والد مکرم مشتاق احمد صاحب بھٹہ.۶۱.حضرت میاں عبداللہ صاحب ٹھٹھہ شیر کا ولادت: ۱۸۴۵ء.بیعت ۵/ دسمبر ۲۸۹۱ء.وفات : ۱۹۳۰ء تعارف: حضرت میاں عبداللہ رضی اللہ عنہ کا اصل نام محمد سردار تھا.آپ ۱۸۶۵ء میں پیدا ہوئے.حضرت مسیح موعود نے بدل کر میاں محمد عبد اللہ رکھا تھا.والد کا نام محد مراد تھا.آپ کے دو بڑے بھائی بھی تھے.آپ زمیندار رائے کھرل تھے.بیعت : آپ نے دو دفعہ پیدل حج بیت اللہ کی سعادت پائی.حج کے دوران آپ نے ایسی خواہیں دیکھیں جس سے حضرت اقدس کی صداقت ظاہر ہو گئی.چنانچہ واپسی پر چند دن ٹھٹھہ شیر کا میں قیام کے بعد قادیان روانہ ہو گئے اور حضور کی بیعت کر لی.رجسٹر بیعت اولیٰ میں ۱۴۸ نمبر پر بیعت درج ہے.میاں عبداللہ ولد مرادسا کن شیر کا ٹھٹھہ ضلع منٹگمری ضلع ساہیوال مقام چوچک قوم کھرل پیشہ زمینداری ، اصل پسته : مقام سید والا ضلع منٹگمری ( حال ضلع ننکانہ صاحب.....ناقل ) معرفت مولوی جمال الدین صاحب میاں عبداللہ صاحب ۵/ دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں بیعت کے بعد واپس گاؤں پہنچے تو بھائیوں نے شدید مخالفت کی زمین اور مال و مویشی چھین لئے اور ان کے بیوی بچوں کو بھی لے گئے مگر میاں صاحب کے ثبات قدم میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ اخلاص میں آگے بڑھتے گئے.سلسلہ کی امداد کے لئے حسب توفیق قادیان رقم بھجواتے رہے جس کا حضور نے اپنی کتب میں ذکر فرمایا ہے.چک نمبر ۲۷۸ گ ب شیر کا ضلع فیصل آباد میں شیر کا برادری نے فی آدمی ایک مربع زمین الاٹ کروائی تھی.میاں صاحب بھی یہاں آکر آباد ہو گئے.الائمنٹ کا سلسلہ کئی سال سے بند ہو چکا تھا مگر میاں صاحب نے لوگوں کے منع کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے درخواست دے دی.ڈپٹی کمشنر نے ایک مربع زمین الاٹ کر دی جبکہ اس سے قبل اور بعد میں لوگوں کی درخواستیں رد ہو گئیں.گاؤں کے نمبر دار تبریز ولد مبارک نے حضرت میاں صاحب کی شدید مخالفت کی حضور کے خلاف گندی زبان استعمال کی.چنانچہ حضرت اقدس کی دعا کے ساتھ جلد اپنے عبرتناک انجام کو پہنچ گیا.آج اس کی نسل تک دنیا میں نہیں.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی

Page 135

112 میں شریک اور پُر امن جماعت میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.وصیت : آپ کو ۱۹۰۸ء میں وصیت کی توفیق حاصل ملی.یہ وصیت ۰ار فروری ۱۹۰۸ء کو الحکم قادیان میں شائع ہوئی.وفات : میاں صاحب آخر تک کام کاج کرتے رہے.۸۵ سال کی عمر میں ۱۹۳۰ء میں وفات پائی اور گاؤں کے قبرستان میں دفن ہوئے.اولاد آپ کے بیٹے بھی رفیق بانی سلسلہ تھے جن کا ذکر آپ کی وصیت میں ہے.بیٹے کا نام حضرت محمد عمر صاحب تھا.آپ کے نواسہ رائے محمد عیسی صاحب تھے جن کے بیٹے رائے بشیر احمد صاحب کے بیٹے رائے رضوان بشیر صاحب آج کل شاہدرہ ٹاؤن لاہور میں رہتے ہیں.ماخذ: (۱) رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۱ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) اخبار الحکم قادیان ۱۹۰۸ء (۵) بیان مکرم ناصر احمد بھٹی صاحب معلم وقف جدید چک ۲۷۸ گ ب شیر کا.☆ ۶۲.حضرت میاں اسمعیل صاحب.....سر ساوه بیعت : ابتدائی زمانہ.وفات : ۲۵ جون ۱۹۴۴ء تعارف و بیعت : حضرت محمد اسمعیل سرساوی رضی اللہ عنہ حضرت پیر جی ( سراج الحق نعمانی جمالی سرساوی) کے ہم وطن اور شاگرد تھے.پیر جی سے بڑی محبت رکھتے تھے.چونکہ تخم سعادت دل میں تھا.دعائیں کرتے رہے جو کارگر ہوئیں اور خدا تعالیٰ نے راہ راست دکھا دی اور حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا کی.۱۸۹۴ء میں قادیان آگئے تھے.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کے ذریعہ بیعت کی.حضرت اقدس کے زمانہ میں اذان کہنے کی توفیق ملتی رہی.بحیثیت استاد تعلیم الاسلام ہائی سکول آپ کو تعریفی کلمات سے نوازا گیا.ایک دن سورۃ الکافرون کی آیت لکم دینکم ولی دین “ کی حضرت پیر صاحب سے تفسیر سن کر آپ کی آنکھیں کھل گئیں.آپ حضرت اقدس علیہ السلام کی باتیں اور کلمات طیبات کو شوق سے سنتے تھے.قادیان آمد اور حضرت اقدس کی خدمت کچھ عرصہ بعد قادیان چلے آئے اور اکثر حضرت اقدس علیہ السلام کے پس پشت بیٹھ کر کندھے، گردن اور بازو دبایا کرتے تھے.حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی اور مولانا برہان الدین جہلمی کے ایسا کرنے سے منع کرنے پر آپ نے حضرت اقدس سے پوچھ لیا کہ آپ کو اس سے تکلیف تو نہیں

Page 136

113 ہوتی فرمایا ”ہمیں تمہارے اخلاص اور عقیدت سے دبانے سے آرام پہنچتا ہے.“ حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسمعیل ابن حضرت سید میر ناصر نواب اور میاں محمد اسمعیل مل کر اکثر حضرت اقدس کی خدمت میں جاتے تو آپ دیکھ کر فرماتے ” سمعیلین “ پھر یہ دونوں آپ کے پائے مبارک دبانے بیٹھ جاتے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شریک اور اپنی پُر امن جماعت کے ضمن میں فرمایا ہے.وفات : ۲۵ / جون ۱۹۴۴ء کو قادیان میں آپ کی وفات ہوئی.آپ کا وصیت نمبر ۷۵۱۰ ہے اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۴ حصہ نمبر ۵ میں ہوئی.ماخذ: (۱) تذکرة المهدی (۲) سیرت حضرت مسیح موعود جلد سوم (۳) رسالہ تعلیم الاسلام دسمبر ۱۹۰۶ء (۴) رجسٹر روایات جلد چہارم.۶۳.حضرت میاں عبدالعزیز صاحب نومسلم.قادیان بیعت : ۱۸۹۵ء تعارف و بیعت: حضرت میاں عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کا پہلا نام چھتر سنگھ تھا.حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی صاحب فرماتے ہیں: و شیخ عبدالعزیز صاحب (نومسلم) جو علاقہ ریاست جموں کے باشندے تھے مجھ سے قریباً دو ہفتے قبل قادیان میں آچکے تھے.وہ میرے ساتھ تعلق محبت رکھتے اور مل جل کر رہتے تھے.اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۱۸۹۵ء میں آپ بیعت کر چکے تھے.( کیونکہ یہی وہ سال ہے جب حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی نے قادیان میں بیعت کی تھی.) ان کو لوگ اکثر کہتے تھے کہ ختنہ کروالو.وہ بیچارے چونکہ بڑی عمر کے ہو گئے تھے.اس لئے ہچکچاتے تھے اور تکلیف سے بھی ڈرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ آیا ختنہ ضروری ہے فرمایا بڑی عمر کے آدمی کے لئے ستر عورت فرض ہے مگر ختنہ صرف سنت ہے.اس لئے ان کے لئے ضروری نہیں کہ ختنہ کروائیں.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شامل ہونے والوں میں آپ کا ذکر کیا ہے.نور القرآن میں آریہ صاحبان کے نام جو حضرت امام کامل کی خدمت میں حاضر ہیں.آپ کا نام بھی درج ہے.حاشیہ میں لکھا ہے.شیخ عبد العزیز صاحب بھی ابھی تھوڑا عرصہ ہوا قادیان میں مشرف باسلام ہوئے.نیک صالح

Page 137

114 آدمی ہیں.اس جوانی میں صلاحیت حاصل ہونا محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.“ نور القرآن حصہ دوم نمبر ۲ روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۵۵) قادیان گائیڈ میں (۱۹۲۰ء) میں نو مسلم بھائیوں کے تحت آپ کا نام درج ہے.(صفحہ ۹۶) گویا اس وقت آپ زندہ تھے.( تاریخ وفات کے بارہ میں علم نہیں ہو سکا ) ماخذ : (۱) تحفہ قیصریہ (۲) نور القرآن حصہ دوم نمبر ۲ روحانی خزائن جلد ۹ (۳) سوانح حضرت بھائی جی عبدالرحمن قادیانی (۴) سیرۃ المہدی جلد دوم (۵) اصحاب احمد جلد نہم ایڈیشن ۱۹۲۲ء (۶) قادیان گائیڈ از محترم محمد یا مین تاجر کتب قادیان.☆ ۶۴ - جناب خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے معہ اہلبیت لاہور ولادت : ۱۸۷۰ء.بیعت ۱۸۹۴ء.وفات ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۲ء تعارف : جناب خواجہ کمال الدین صاحب لاہور کے رہنے والے تھے.آپ کی ولادت سال ۱۸۷۰ء کی ہے.آپ نے بی.اے کے بعد وکالت کا امتحان ایل.ایل.بی.پاس کیا تھا اور مشن کالج کے مشہور پادری پرنسپل ڈاکٹر یوانگ اور دیگر ہم عصروں کی صحبت سے اس خیال پر پختہ ہو چکے تھے کہ جب دنیا ہی مقصود خاطر ہے تو پھر عیسائی مذہب اختیار کیا جائے.براہین احمدیہ سے متاثر ہونا : آپ کو حضرت مسیح موعود کی کتاب ” براہین احمدیہ ملی اور مطالعہ کے بعد اپنے خیالات سے تو بہ کر لی.پادری یوانگ کے استفسار پر آپ نے اسے بتایا کہ میں اس کتاب کو پڑھ کر نئے سرے سے اسلام کو ترجیح دے رہا ہوں.بیعت : ابھی خواجہ صاحب کے دل میں طرح طرح کے وساوس موجزن تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان سے ملتان تشریف لے جارہے تھے کہ امرتسر کے اسٹیشن پر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں خواجہ صاحب حاضر ہوئے.حضرت صاحب نے خلاف معمول خواجہ صاحب کو زور سے سینہ سے لگایا اور بیعت بھی لی.آپ کی بیعت ۱۸۹۴ء کی ہے.خواجہ صاحب کا بیان ہے کہ وساوس تو سینے سے یوں ڈھل گئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی ، سراج منیر میں چندہ دہندگان اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت میں آپ کا نام درج ہے، حقیقۃ الوحی اور ملفوظات حضرت اقدس میں بھی آپ کا ذکر ہے.کتاب منن الرحمن میں حضرت اقدس نے اشتراک السنہ میں مدد کرنے والے مخلصین کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے آپ کا نام بھی درج فرمایا ہے.

Page 138

115 حضرت اقدس کی خدمت میں: خواجہ صاحب نے بحیثیت وکیل حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں حضور پر مخالفین و معاندین کی طرف سے دائر کئے گئے مقدمات میں قابل قدر خدمات سرانجام دیں.آپ کئی سفروں میں حضرت اقدس کے ساتھ رہے اور جب صدر انجمن احمد یہ قائم ہوئی تو اس کے مبر بھی مقرر کئے گئے.خلافت اولی کے دور میں آپ حضرت سید محمد رضوی حیدر آباد ( یکے از ۳۱۳) کے ایک مقدمہ کے سلسلہ میں لندن پر یوی کونسل میں گئے جہاں آپ کو دوکنگ میں اشاعت حق کی توفیق ملی اور لارڈ ہیڈلے، سر عمر بیو برٹ ، جون بیچی النصر، مسٹر پکھتال اور کئی دوسرے انگریزوں کو آپ کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.مکرم مولوی محمد علی صاحب ایم اے انہی کے ذریعہ احمدیت سے وابستہ ہوئے.وفات : حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی وفات کے بعد آپ نظام خلافت سے وابستہ نہ رہے اور غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.آپ نے ۲۸ دسمبر ۱۹۳۲ء کو لاہور میں وفات پائی.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی.آپ کی نماز جنازہ کے بارہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے فرمایا: انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت کچھ خدمات بھی کی ہیں.اسی وجہ سے ان کی موت کی خبر سنتے ہی میں نے کہہ دیا کہ انہوں نے میری جتنی مخالفت کی وہ میں نے سب معاف کی.خدا تعالیٰ بھی اس کو معاف کرے.حقیقت یہ ہے کہ جن بندوں کو خدا تعالیٰ بھینچ کر اپنے مامورین کے پاس لاتا ہے.ان میں ہوسکتا ہے کہ غلطیاں بھی ہوں لیکن خوبیاں بھی ہوتی ہیں.ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے.میں سمجھتا ہوں کہ خلافت کا انکار بڑی خطا ہے خدا تعالیٰ نے اسے بڑا گناہ قرار دیا ہے مگر ہمارا جہاں تک تعلق ہے ہمیں معاف کرنا چاہئے.خدا تعالیٰ کے نزدیک اگر ایسے شخص کی نیکیاں بڑھی ہوئی ہوں گی تو وہ اس سے بہتر سلوک کرے گا.“ (الفضل قادیان.یکم جنوری ۱۹۳۳ء) ماخذ: (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ ( ۲) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۵) من الرحمن روحانی خزائن جلد ۹ (۶) ملفوظات (۷ یا درفتگان جلد اول صفحه ۶۴ تا ۷۰ (۸) لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۱۸۷ (۹) تاریخ احمدیت جلد دوم بار اول صفحه ۳۳۲ (۱۰) الفضل قادیان یکم جنوری ۱۹۳۳ء.۲۵ - حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیرہ ضلع شاہپور ولادت : ۱۱/جنوری ۱۸۷۳ء.بیعت : ۳۱ / جنوری ۱۸۹۱ء.وفات : ۱۳ / جنوری ۱۹۵۷ء تعارف: حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام مفتی عنایت اللہ قریشی عثمانی تھا.آپ کی ولادت

Page 139

116 بھیر مضلع شاہ پور (حال ضلع سرگودھا) میں ہوئی.آپ کی تاریخ ولادت ۱۱؍ جنوری ۱۸۷۳ء ہے.حضرت اقدس کا تذکرہ اور شرف بیعت حضرت مسیح موعود کا نام سب سے پہلے آپ نے بھیرہ میں ایک شخص حکیم احمد دین صاحب سے سنا اس وقت آپ کی عمر ۱۳ سال تھی.اس سے قبل جب آپ کی عمر دس بارہ سال تھی آپ اپنے ساتھی لڑکوں کو کہا کرتے تھے کہ عجب زمانہ ہے کہ نہ کوئی اس زمانہ میں بادشاہ ہے اور نہ پچیمبر ہے.آپ حضرت خلیفہ المسیح الاول کے عزیزوں میں سے تھے اور حضرت مولوی صاحب کے زیر سایہ جموں میں ہی تعلیم پائی.۱۸۹۰ء میں جب پہلی بار آپ قادیان گئے تو حضرت اقدس کے نام حضرت حکیم مولانا نورالدین (خلیفہ امسیح الاول ) کا تعارفی رقعہ بھی ساتھ لے گئے.اگلے روز صبح سیر کے دوران سید فضل شاہ صاحب نے چند سوال کئے.آپ اس ملاقات کے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ : میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے حضرت صاحب کی صداقت کو قبول کرنے اور آپ کی بیعت کر لینے کی طرف کشش کی سوائے اس کے کہ آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا جس پر یہ گمان نہ ہوسکتا تھا کہ وہ جھوٹا ہو.“ آپ نے ۳۱ / جنوری ۱۸۹۱ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی میں ۲۱۷ نمبر پر آپ کا نام درج ہے.قادیان میں مستقل رہائش و خدمات دینیہ : ایک سرکاری عہدہ سے استعفیٰ دے کر آپ نے ۱۹۰۰ء میں قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی.حضرت مسیح موعود کی تحریک پر آپ نے لاہور میں ایک یہودی عورت تفاحہ (سیب) نامی کے ایک عزیز مسلمان سے عبرانی سیکھی جو بعد میں احمدی ہو گیا.آپ پہلے مدرسہ احمدیہ میں استاد اور بعد ازاں ۱۹۰۳ء میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.۱۹۰۵ء میں منشی محمد افضل صاحب ایڈیٹرالبدر کی وفات پر ایڈیٹر مقرر ہوئے.حضرت اقدس نے آپ کی تقرری پر فرمایا: اطلاع میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگر چہ منشی محمد افضل صاحب مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر بقضائے الہی فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آ گیا ہے یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک بزرگ رکن جوان صالح اور ہر ایک طور سے لائق جن کی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں یعنی محمد صادق صاحب بھیروی قائمقام محمد افضل مرحوم ہو گئے ہیں.میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کا ایسالائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا.یہ کام ان کے لئے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے.آمین.خاکسار مرزا غلام احمد“ ( ریویو آف ریلیجنز ا پریل ۱۹۰۵ء) پھر جب البدر به سبب طلب ضمانت کے بند ہوا تو آپ بنگال، اڑیسہ، احمد آباد اور حیدرآباد میں مبلغ رہے.مارچ ۱۹۱۷ء میں خدمت دین کے لئے انگلستان تشریف لے گئے.جنوری ۱۹۲۰ء میں انگلستان سے امریکہ پہلے مبلغ کے طور پر پہنچے اور لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی.جہاں آپ نے The Muslim

Page 140

117 Sunrise رسالہ جاری کیا جو آج بھی سہ ماہی رسالہ کے طور پر جاری ہے.آپ سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ، نائب امیر مقامی قادیان اور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ( مصلح موعودؓ ) بھی رہے.خلافت ثانیہ میں مسلمانان برصغیر کے حقوق کے سلسلہ میں خدمات کا موقع ملا.حضرت اقدس مسیح موعود کو انگریزی اخبارات اور کتب کا ترجمہ سنایا کرتے تھے.انگریزی زبان میں خط و کتابت آپ کے ذریعہ بھی ہوا کرتی تھی.انگریزوں میں تبلیغ کرنے کا بہت شوق تھا.حضرت اقدس کے الہامات اور ملفوظات لکھنے کا کام جس طرح حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ایڈیٹر الحکم نے کیا بالکل اسی طرح حضرت مفتی صاحب کرتے رہے.اخبار بدر قادیان کے ایڈیٹر لمبا عرصہ رہے.آپ نے کئی عمدہ اور اعلی علمی کتا بیں بھی تصنیف کیں مثلاً ذکر حبیب، بائیبل کی بشارات بحق سرور کائنات، تحفہ بنارس، تحقیقات قبر مسیح ، واقعات صحیحہ ، آپ بیتی، لطائف صادق، وغیرہ.انجام آتھم میں مالی معاونت کرنے والوں میں آپ کا نام درج ہے.کتاب منن الرحمن میں حضرت اقدس نے اشتراک السنہ میں جان فشانی کرنے والے احباب کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے آپ کا ذکر فرمایا ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: ازالہ اوہام میں اپنے مخلصین میں حضرت اقدس نے آپ کا نام درج کیا ہے.سراج منیر میں چندہ مہمان خانہ کتاب البریہ وآریہ دھرم میں پُر امن جماعت، تحفہ قیصریہ میں ، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شرکت، حقیقۃ الوحی میں نشان کے گواہ اور ملفوظات میں کئی موقعوں پر ذکر فرمایا ہے.وفات : ۱۳/ جنوری ۱۹۵۷ء کو آپ نے وفات پائی اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ نمبر ۱۰ حصہ نمبر ۱۷ میں ہوئی.اولاد: آپ نے دو شادیاں کیں.آپ کی اولاد میں (۱) حضرت منظور احمد صاحب بھیروی (۲) عبدالسلام صاحب (۳) مفتی احمد صادق صاحب متقیم امریکہ ہیں.ایک بیٹی امتہ المومن صاحبہ مرحومہ اہلیہ کمانڈ عبدالمومن صاحب کراچی تھیں.(نوٹ) تفصیلی حالات آپ کی تصنیفات ذکر حبیب، آپ بیتی اور لطائف صادق میں ملاحظہ ہوں.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد۳ (۲) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳(۵) حقیقته الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۶) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۷) من الرحمن روحانی خزائن جلد ۹ (۸) ملفوظات حضرت اقدس (۹) ذکر حبیب (۱۰) لا ہور تاریخ احمدیت (۱۱) الفضل ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء (۱۲) ماہنامہ تفخیذ الاذہان اگست (۱۹۹۹ء (۱۳) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۴ (۱۴) آپ بیتی (۱۵) لطائف صادق صفحه ۱۴۰ - ۱۴۱ (۱۶) ریویو آف ریلیجنز اپریل ۱۹۰۵ء (۱۷) سیرت المہدی حصہ اوّل (۱۸) اصحاب احمد جلد اوّل (۱۹) مجددا عظم صفحہ ۶۶۷ - (۲۰)The Muslim Sunrise USA

Page 141

118 ۶۶.حضرت شیر محمد خان صاحب بکہر ضلع شاہپور بیعت ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت شیر محمد خان رضی اللہ عنہ باہر ضلع شاہ پور ( حال ضلع سرگودھا) کے رہنے والے تھے موضع بکہر دریائے جہلم کے کنارے شاہ پور کے بالائی جانب ہے.محمد ن کا لج علی گڑھ میں بی اے تک تعلیم حاصل کی.آپ حضرت حافظ عبدالعلی صاحب ( یکے از ۳۱۳) کے ہم جماعت تھے.اس لئے آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں آپ کا نام پر امن جماعت میں درج فرمایا ہے.تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شریک ہونے والوں میں نام درج ہے.ماخذ: (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.۶۷.حضرت منشی محمد افضل صاحب لاہور حال ممباسہ ولادت : ۱۸۷۰ ء یا ۱۸۷۱ء.بیعت: ابتدائی زمانہ.وفات :۲۱ مارچ ۱۹۰۵ء تعارف و بیعت : حضرت منشی محمد افضل رضی اللہ عنہ لاہور کے رہنے والے تھے.آپ با بومحمد افضل صاحب کے نام سے معروف تھے.آپ کی ولادت سال ۱۸۷۰ء کی ہے یا ا۱۸۷ء کی.اس لئے آپ کی بیعت بالکل ابتدائی زمانہ کی ہے.کیونکہ ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا نام اصحاب صدق وصفا میں ۳۱ نمبر پر درج ہے اور اس کے بعد ۱۸۹۶ء میں ممباسہ (افریقہ ) بسلسلہ ملازمت ریلوے چلے گئے.آپ کینیا یوگنڈا ریلوےConstruction کے سلسلہ میں مشرقی افریقہ پہنچے.حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب اور حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل گوڑیانی نے آپ کے ساتھ مل کر ایک یونین قائم کی جس کے سیکرٹری آپ ہی تھے.آپ دوبارہ ۱۲ار فروری ۱۸۹۸ء میں ممباسہ گئے.قادیان میں سکونت: ۱۹۰۲ء میں وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد قادیان میں سکونت پذیر ہو گئے.اخبار البدر کے اجراء کی خدمت: ستمبر ۱۹۰۲ء میں ایک اخبار القادیان“ قادیان سے جاری کیا.حضرت اقدس نے فرمایا ”ہماری طرف سے اجازت ہے خواہ ایک سو پر چہ جاری کریں.اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے

Page 142

119 دے.لیکن اگلے ہی مہینے یعنی اکتوبر ۱۹۰۲ء میں حضرت اقدس نے اس اخبار کا نام بدل کر ” البدر “ رکھ دیا.حضرت بابو صاحب اپنے اخبار میں بڑی باقاعدگی کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ڈائری شائع کیا کرتے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ میں پر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا نام درج ہے.وفات : آپ ۲۱ مارچ ۱۹۰۵ء کو وفات پاگئے.آپ کی وفات پر حضرت اقدس نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو البدر کا ایڈیٹر مقرر فرمایا.اور فرمایا کہ: میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگر چہ منشی محمد افضل مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الہی سے فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آ گیا ہے.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۲۵۱) اولاد: آپ کی وفات سے چھ دن قبل ۱۵ار مارچ ۱۹۰۵ء کو آپ کا نو عر بیٹا عبداللہ فوت ہو گیا.آپ کی چار بیٹیاں اور دو بیوائیں یادگار تھیں.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) ملفوظات جلد چہارم صفحه ۲۵۱ (۵) اخبار الحکم نمبر، اجلد ۹، ۲۷ / مارچ ۱۹۰۵ء (۶) اخبار الحکم نمبر۴ جلد ۲۴۰۹ را پریل ۱۹۰۵ء (۷) اخبار بدر قادیان مارچ تا دسمبر ۱۹۰۵ء وجنوری ۱۹۰۶ ء - (۸) لا ہور تاریخ احمدیت صفحہ ۱۳۸ ☆ ۲۸ - حضرت ڈاکٹر محمداسمعیل خانصاحب گوڑیانی ملازم مسباسہ بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۹/جون ۱۹۲۱ء تعارف: حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں رضی اللہ عنہ گوڑیانی تحصیل جھجھر ضلع رہتک کے رہنے والے تھے.بابو غلام محمد بیان فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۴ء میں جو جلسہ مزار داتا گنج بخش کے عقب میں ہوا تھا اس کی جلسہ گاہ بنانے کے لئے ایک سٹیج لگایا گیا تھا، جس کے دونوں طرف قریباً پچاس پچاس سائبان لگائے گئے تھے.حضور اقدس کی گاڑی کے پیچھے میرا بھائی پہلوان کریم بخش اور ڈاکٹر محمد اسماعیل خان گوڑیا نوی بھی کھڑے تھے اور پولیس اور رسالے کا بھی کافی انتظام تھا.بیعت : آپ نے کتاب آئینہ کمالات اسلام سے متاثر ہو کر حضور کی بیعت کی.ان دنوں آپ کڑیانوالا ضلع گجرات میں بطور سب اسٹمنٹ سرجن ڈیوٹی کر رہے تھے.دینی خدمات: افریقہ میں سلسلہ کی اشاعت کے لئے آپ نے بے حد کوشش کی.آپ فوجی خدمات پر ممباسہ کے گردو نواح دیگر بندرگاہوں پر جاتے رہے آپ کو تبلیغ کے سلسلہ میں خاص مہارت تھی.مؤلف مسجد داعظم نے لکھا

Page 143

120 ڈاکٹر محمد اسمعیل خانصاحب جھجھر ضلع رہتک کے ایک پٹھان تھے جو حضرت اقدس مرزا صاحب کے مخلص مریدوں میں سے تھے.ایک استفسار پر حضرت مرزا صاحب نے ۲۷ /جنوری ۱۸۹۹ء کو ایک اشتہار کے ساتھ ان فتاوی کو شائع کیا اور لکھا کہ کس طرح وہ پیشگوئی جَزَاءُ سَيِّئَةٍ...الخ جو ۲ رنومبر ۱۸۹۸ء کو شائع کی گئی تھی واقعات کے رنگ میں پوری ہوگئی.کیا استفسار میں درج کردہ عقیدہ وہی نہیں جو مولوی محمد حسین بٹالوی نے انگریزی رسالہ میں اپنا عقیدہ ظاہر کر کے انگریزوں سے زمین حاصل کرنی چاہی ہے.( مجدد اعظم جلد دوم صفحہ ۵۹۷) ۱۸۹۸ء میں ہندوستان واپس آئے.ہندوستان آنے کے بعد آپ کی ڈیوٹی پلیگ کی وباء پر ضلع جالندھرو ہوشیار پور میں لگا دی گئی.اسی سلسلہ میں آپ ضلع گورداسپور میں بھی متعین رہے.حضور جب مقدمہ کے سلسلے میں گورداسپور جاتے تو آپ کے پاس بھی قیام فرماتے.آپ ایک پر جوش داعی الی اللہ تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک رسالہ گورنمنٹ کو خوش کرنے اور زمینیں حاصل کرنے کے لئے لکھا جس میں لکھا کہ مسلمانوں کے آمد مہدی کے عقیدہ کی کوئی سند نہیں ہے اور اس سے انکار کیا.ڈاکٹر محمد اسماعیل یہ استفتاء دہلی اور امرتسر کے علما کے پاس لے گئے جنہوں نے لکھدیا کہ مہدی کے آنے کا منکر کافر ہے.جب یہ فتویٰ شائع ہوا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی علماء کے پاس جا کر روئے پیٹے.تو اہلحدیث علما نے لکھ دیا کہ ہم نے جو فتویٰ دیا تھا وہ مرزا صاحب کے خلاف تھا مولوی محمد حسین بٹالوی کے متعلق نہ تھا.لوگ ان علماء کی حرکت پر متعجب تھے لیکن حنفی علماء اس فتوے پر قائم رہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں اپنی پر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.اولاد: آپ کی اولاد میں سے ایک بچی کا ذکر آتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہاں کہاں پر تھی اور اس کی اولا دکہاں ہے.وفات : آپ نے ۹ رجون ۱۹۲۱ء میں وفات پائی اور آپ بلا وصیت بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۳ حصہ نمبر۲ میں دفن ہوئے.آپ کی وفات والے دن صبح ہی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ( مصلح موعودؓ ) نے آپ کی وفات کے متعلق رویا دیکھی تھی.ماخذ : (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) ذکر حبیب صفحه ۵۱-۵۲ (۳) لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۲۳۰ (۴) روزنامه الفضل ربوه ۲۲ را پریل ۲۰۰۰ء - (۵) مکتوبات احمد جلد ہفتم حصہ اول صفحه ۳۷ (۶) مجد داعظم صفحہ ۵۶۷

Page 144

121 ☆ ۶۹.حضرت میاں کریم الدین صاحب مدرس قلعہ سوبھا سنگھ بیعت : ۲۹ / دسمبر ۱۸۹۶ء.وفات: ۷/اکتوبر۱۹۵۷ء تعارف: حضرت میاں کریم الدین رضی اللہ عنہ موضع پنج گرائیں تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.۱۸۹۵ء میں نارمل سکول لاہور سے امتحان پاس کیا اور مڈل سکول قلعہ سوبھا سنگھ میں نائب مدرس مقرر ہوئے.رویا میں راہنمائی: سکول میں ایک سیکنڈ ماسٹر جو سید تھے حضرت اقدس کی کتاب ” ازالہ اوہام پڑھا کرتے تھے لیکن حضور کی بیعت نہیں کی تھی.ان ہی دنوں میں آپ نے حضرت اقدس کو خواب میں دیکھا اور مصافحہ بھی کیا.بعد ازاں آپ نے چوہدری نبی بخش صاحب حوالدار کو خواب میں دیکھا کہ انہیں الہام ہوتا ہے اور وہ بیعت بھی کر چکے تھے.اس کا ذکر آپ نے اس سید صاحب (سیکنڈ ماسٹر ) سے کیا تو وہ ٹال گئے لیکن آپ کو یقین ہو گیا کہ جب حضرت اقدس کے مریدوں کو الہام ہوتا ہے تو حضرت کا دعویٰ بالکل درست ہے.بیعت : ۱۸۹۶ء میں پیدل قادیان پہنچے اور حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کی وساطت سے حضرت اقدس سے ملاقات کی اور ۲۹ دسمبر ۱۸۹۶ کو بیعت کر لی.وفات : ۷ اکتو بر ۱۹۵۷ء کو وفات پائی.آپ کی وصیت نمبر ۴۲۱۹ ہے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبرے حصہ نمبر ۲۵ ہے اولاد : آپ کی اولا د سیالکوٹ ، ملتان ، جیکب آباد میں ہے آپ کے بیٹے عبد الکریم صاحب اور پوتے مقصود احمد انجینئر جیکب آباد اور دوسرے پوتے ڈینٹل سرجن ڈاکٹر جاوید احمد بھٹی کراچی میں ہیں ( آپ نے مٹھی ضلع تھر پارکر اور نگر پار کر کے ہسپتال کے لئے واقف زندگی کے طور پر کام کیا ہے.) نوٹ : مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۸ صفحه ۱۲۷۱ تا۲۷۴ (۲) روز نامه الفضل ربوه ۹ اکتوبر ۱۹۵۷ (۳) روز نامه الفضل ربو ه ۲۴ / اگست ۱۹۹۹ء ( بیان فرموده حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ )

Page 145

122 ☆ ۷۰.حضرت سید محمداسمعیل صاحب دہلوی حال طالب علم قادیان ولادت: ۱۸/ جولائی ۱۸۸۱ء.بیعت: ۱۵/جون ۱۸۹۱ء.وفات: ۱۸؍ جولائی ۱۹۴۷ء تعارف: حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسمعیل رضی اللہ عنہ دہلی کے معروف سید خاندان سے تھے حضرت ( نانا جان ) میر ناصر نواب صاحب کے فرزند ارجمند تھے.آپ کی تاریخ ولادت ۲۸ جولائی ۱۸۸۱ء ہے.بیعت : آپ نے بچپن میں ہی (اپنے والد صاحب کے ساتھ ) ۱۵ جون ۱۸۹۱ء کو بیعت کی.نمبر ۱۳۳ پر حضرت میر ناصر نواب صاحب کی بیعت درج ہے جو رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ ۳۵۵ پر درج ہے.آپ کے بارہ میں ایک الہام : ۱۹۰۵ء میں جب کانگڑہ کا زلزلہ آیا.آپ ان دنوں لا ہور میڈیکل کالج میں پڑھ رہے تھے.زلزلہ کے موقع پر آپ کے بارہ میں کوئی اطلاع نہ آئی تو حضرت اقدس علیہ السلام کو الہام ہوا اسسٹنٹ سرجن ( جو منجانب اللہ کہ ایک بشارت تھی).چنانچہ اس سال آپ پنجاب بھر میں اول رہے اور اسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے.۱۹۳۹ء میں سول سرجن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے.حضرت اقدس سے تعلق محبت : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ سے بڑی محبت تھی جب حضرت اقدس نے خطبہ الہامیہ ارشاد فرمایا تو آپ نے اسے حفظ کر لیا.۱۹۰۶ء میں حضرت اقدس نے صدرانجمن احمدیہ کا ممبر مقرر کیا.۱۹۲۴ء میں ناظر اعلیٰ مقرر کئے گئے.پنشن یاب ہو کر آپ نے قادیان میں رہائش اختیار کر لی تھی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی، کتاب البریہ اور آریہ دھرم میں پر امن جماعت میں ذکر موجود ہے.دینی خدمات : آپ نے گیارہ کتابیں لکھیں.جن میں سے ” بخار دل“ اور ”کر نہ کر بہت مقبول ہوئیں.حضرت اقدس کے فارسی کلام کا اردو ترجمہ بھی کیا.تاریخ مسجد فضل لندن ، مقطعات قرآنی ، اربعین اطفال، تحفہ احمدیہ، ،حفاظت ریش ، جامع الافکار اور آپ بیتی لکھیں.آپ نہایت بلند پایا شاعر تھے اور صوفیانہ مزاج رکھتے تھے.آپ کے مضامین الفضل میں بھی شائع ہوتے رہے.آپ کے مضامین کا مجموعہ دو جلدوں میں شائع ہوا ہے.بدرگاہ ذیشان خیر الانعام آپ کی معروف نعت ہے.وفات : آپ ۱۸ جولائی ۱۹۴۷ء کو قادیان میں وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.اولاد: (۱) حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (ام متین) حرم حضرت مصلح الموعود (۲) محترمہ سیدہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ پیر صلاح الدین صاحب (۳) محترمہ سیدہ طیبہ صدیقہ صاحبہ اہلیہ نواب مسعود احمد خان صاحب (۴) محترم سید محمد احمد صاحب ریٹائر ڈ P.A.F(۵) محترمہ سیدہ امتہ القدوس صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب موصوفہ کی ایک

Page 146

123 بیٹی صاحبزادی امتہ العلیم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان مکرم نواب منصور احمد خان وکیل التبشیر تحریک جدید ربوہ کی بیگم ہیں (۶) محترم سید احمد ناصر صاحب مرحوم.آپ کے بڑے بیٹے سید طاہر احمد صاحب ایڈیشنل ناظر ایم ٹی اے اور دوسرے بیٹے سید مدثر احمد صاحب معاون ناظر ضیافت ربوہ ہیں (۷) محترمہ سیدہ امتہ الہادی صاحبہ اہلیہ پیر ضیاء الدین صاحب (۸) محتر مہ امۃ الرفیق صاحبہ اہلیہ حضرت اللہ پاشا صاحب آپ کے ایک بیٹے سید حمید اللہ نصرت پاشا صاحب فضل عمر ہسپتال میں ڈینٹل سرجن ہیں.(۹) محترمہ سیدہ امتہ السمیع صاحبہ اہلیہ محترم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب مرحوم کے ایک بیٹے مکرم مرزا عبدالصمد احمد صاحب ناظر خدمت درویشاں ہیں (۱۰) محترم سیدامین احمد صاحب.ماخذ : (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد۱۰ (۴) تاریخ احمدیت جلد اول (۵) تاریخ احمدیت جلد نهم (۶) مضامین حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسمعیل صاحب ☆ اے.حضرت بابو تاج الدین صاحب اکا ؤنٹنٹ...لاہور بیعت : ۶ رفروری ۱۸۹۲ء.وفات جون ۱۹۲۱ء تعارف: حضرت منشی تاج الدین رضی اللہ عنہ اکاؤنٹنٹ دفتر ریلوے لا ہورا بتدائی رفقاء میں سے تھے.محلہ کوٹھی داراں لاہور میں ان کی رہائش تھی.بیعت: آپ کی بیعت ۱۸۹۲ء سے قبل کی ہے.آپ کی بیعت ۳۶۴ نمبر پر درج ہے.دعویٰ سے قبل حضرت اقدس سے آپ کی ملاقات تھی.بہت وجیہ انسان اور سلسلہ کے فدائی تھے.جب بھی ذرا فرصت ہوتی تو فوراً قادیان پہنچ جاتے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں بھی آپ شامل ہوئے تھے.آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام جلسہ میں شامل ہونے والوں میں درج ہے.خدمات سلسلہ: سلسلہ کی خدمات کا آپ کو بہت موقع ملا.جو وفد حضرت مسیح موعود نے ابتداء چولہ بابا نانک کی تحقیقات کے لئے ڈیرہ بابا نانک بھیجا تھا اس کے آپ بھی ممبر تھے.لاہور میں آپ کی بیٹھک سنہری مسجد کی سیڑھیوں کے سامنے تھی جہاں حضرت حکیم مولانا نور الدین (خلیفتہ امسیح الاول) کی قیام گاہ ہوتی تھی.آپ بعض اوقات وہیں ٹھہرا کرتے تھے.آپ کے ہی مشورہ بغرض تحقیق سے حضرت مولوی محمد دین صاحب (جو بعد میں صدر، صدر انجمن احمدیہ کے عہدوں پر فائز ہوئے ) قادیان گئے تھے اور حضرت اقدس کی بیعت کر کے حضوڑ کے روحانی فرزندوں میں شامل ہو گئے.

Page 147

124 وفات آپ کی وفات جون ۱۹۲۱ء بعمر ۸۴ سال کو ہوئی.اولاد: (۱) سردار محمد صاحب (۲) مظفرالدین صاحب ( جو پشاور کی جماعت کے امیر بھی رہے ) ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۹ (۳) لاہور تاریخ احمدیت (۴) خطبات محمود جلد نمبر۷ (۵) روزنامه الفضل ربوه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۳ء.☆ ۷۲.جناب شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور بیعت ۲۹ مئی ۱۸۹۱ء.وفات ۱۰ / مارچ ۱۹۲۴ء تعارف و بیعت: جناب شیخ رحمت اللہ صاحب ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.آپ نے ۲۹ مئی ۱۸۹۱ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۲۹ نمبر پر ہے.آپ کے ایک بھائی شیخ عبدالرحمن صاحب بھی ۳۱۳ رفقاء میں سے ہیں.جن کی بیعت ۷۶ انمبر پر رجسٹر بیعت اولیٰ میں درج ہے اور تاریخ بیعت ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ ء ہے.ستمبر ۱۸۹۱ء کو حضرت مسیح موعود نے دہلی کا سفر اختیار فرمایا تو اس میں جناب شیخ رحمت اللہ صاحب حضور کے ساتھ تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں آپ کے متعلق لکھا : جواں صالح یک رنگ آدمی ہے ان میں فطرتی طور پر مادہ اطاعت اور اخلاص اور حسن ظن اس قدر ہے کہ جس کی برکت سے وہ بہت ہی ترقیات اس راہ میں کر سکتے ہیں.“ آسمانی فیصلہ اور آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹ء ۱۸۹۲۷، تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں، آریہ دھرم ، سراج منیر میں پُر امن جماعت کے ضمن میں نام درج ہے.ملفوظات کی تمام جلدوں میں مختلف رنگ میں ذکر ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں خصوصی معاونت کرنے والوں میں آپ کا نام شامل ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں: حتمی فی اللہ شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی، شیخ رحمت اللہ جوان صالح ، یک رنگ آدمی ہے ان میں فطرتی طور پر مادہ اطاعت اور اخلاص اور حسن ظن اس قدر ہے.جس کی برکت سے وہ بہت سی ترقیات اس راہ میں کر سکتے ہیں ان کے مزاج میں غُربت اور ادب بھی از حد ہے اور ان کے بشرہ سے علامات سعادت ظاہر ہیں.حتی الوسع وہ خدمات میں لگے رہتے ہیں.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۷) لاہور انگلش وئیر ہاؤس کے نام سے آپ کا کپڑے کا بڑا کاروبار تھا آپ حضرت اقدس کی خدمت میں گرم کپڑے تیار کر کے بڑے اخلاص سے پیش کیا کرتے تھے.

Page 148

125 آپ کے بھائی شیخ عبدالرحمن صاحب اور بھتیجے عبدالرزاق صاحب بیرسٹر نے بھی حضرت اقدین کی بیعت کی.آپ کی وفات حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی وفات کے بعد نظام خلافت سے وابستہ نہ رہے اور غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.آپ کی وفات ۱۰ مارچ ۱۹۲۴ء کو ہوئی.مگر کبھی بھی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی مخالفت نہ کی.اولاد: آپ نے ایک یورپین خاتون سے بھی شادی کی تھی.جس سے ایک بیٹا پیدا ہوا حضرت اقدس نے اس کا نام عبد اللہ رکھا.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۶) آریہ دھرم روحانی خزائن جلده ۱ (۷) ضمیمہ انجام آتھم صفحه ۲۹ (۸) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ ۳۵۵-۳۷۶(۹) لا ہور تاریخ احمدیت ☆ ۷۳.حضرت شیخ نبی بخش صاحب لاہور ولادت: ۱۸۶۳ء.بیعت : ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء.وفات : ۱۹۴۴ء تعارف: حضرت شیخ نبی بخش رضی اللہ عنہ کا تعلق علاقہ کشتوار راجستھان کے راجپوتوں سے تھا.( جو مذ ہب ہندو تھے ) بعد میں حضرت شیخ صاحب موصوف کا تعلق مستقل لاہور سے ہے.آپ کے والد صاحب کا نام عبدالصمد صاحب تھا.آپ انٹرنس کے امتحان میں اول رہے اور اس طرح وظیفہ کے حقدار ٹھہرے.بیعت کا پس منظر : آپ نے ستمبر ۱۸۸۲ء میں حضرت اقدس کو خواب میں دیکھا تھا.جو ۱۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ء کو پورا ہوا.رؤیا میں ایک پیر مرد نورانی صورت آپ کے سامنے آیا ہے.اس کا تمام و کمال حلیہ آپ کے دل پر نقش ہوا آپ بیدار ہو گئے.براہین احمدیہ کے بار بار مطالعہ سے آپ کے دل میں ایک امنگ پیدا ہوئی کہ خود قادیان جا کر حضرت اقدس سے ملاقات کی جائے.۱۳ار جون ۱۸۸۶ ء میں پنڈت لیکھرام کا بیان صاحبزادی عصمت بیگم کی ولادت کے موقع پر حضرت اقدس کی پیشگوئی پسر موعود کے خلاف شائع ہوا.آپ نے اُس پر ایک استفسار حضور سے کیا جس کا ذکر اشتہار محک الا خیارو الاشرار پر ہے.اکتوبر ۱۸۸۶ء میں آپ قادیان گئے اور حضرت اقدس کی اقتداء میں نماز پڑھی.حضرت اقدس کے رسالہ فتح اسلام اور توضیح مرام کی اشاعت پر ہندوستان میں ایک سخت مخالفت کا طوفان برپا ہوا.حضرت اقدس کو ایک جلسہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی.اُس پر آپ کو بھی حضرت اقدس نے دو مکتوب لکھے.بیعت : ۲۷/ دسمبر ۱۸۹۱ء کو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب آسمانی فیصلہ سنانے کیلئے مقرر کئے گئے لیکن آپ نے جب حضرت اقدس کے رُوئے مبارک اور لباس کی طرف دیکھا تو وہی حلیہ تھا اور وہی لباس زیب تن تھا جس کو

Page 149

126 ایام طالب علمی میں آپ نے ۱۸۸۲ء کی رؤیا میں دیکھا تھا.جلسہ برخاست ہونے پر آپ نے بیعت کر لی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۷۵ انمبر پر درج ہے جہاں ساکن را ولپنڈی حال ملازم دفتر ایگزامینر صاحب بہادر لاہور تحریر ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آسمانی فیصلہ، آئینہ کمالات اسلام، جلسہ سالا نہ ۱۸۹ء،۱۸۹۲ء میں شمولیت اور مالی تحریکات میں ذکر ہے.تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی ، کتاب البریہ اور آریہ دھرم میں پر امن جماعت کے سلسلہ میں ذکر ہے.اسی طرح حضرت شیخ نبی بخش کا ذکر مجموعہ اشتہارات میں بھی آیا ہے.دینی خدمات : تین سال تک مشرقی افریقہ بطور امیر ممباسہ رہنے کے بعد ہندوستان آئے تو دفتر ریویو آف رمیچز میں بطور کلرک کام کرتے رہے.حضرت اقدس کی استجابت دعا سے کئی بار مستفید ہوئے.آپ نے مینارہ مسیح کی تحریک میں یکصد روپے چندہ دیا جب کہ آپ ممباسہ میں پہلے امیر کے طور پر بھی خدمت کرتے رہے.آپ انجمن حمایت اسلام کے مہتم کتب خانہ بھی رہے جہاں آپ ہی کے زیر اہتمام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مضمون ایک عیسائی (جیمز ) کے تین سوالوں کا جواب شائع ہوا تھا.حضرت صوفی نبی بخش کی حضرت اقدس کے سامنے نظم پڑھنے کی بھی روایت ملتی ہے.جو اخبار البدرقادیان میں شائع ہوئی.اس کے چودہ بند تھے.حضور نے اس کے شوکت الفاظ کی بہت تعریف کی.آپ نے حضرت سید محمد حسن امروہی کی تعمیر مکان کے سلسلہ میں مالی معاونت بھی کی.اسی طرح آپ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی مالی تحریک میں بھی حصہ لیا.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم ) وفات : آپ کی وفات ۱۹۴۴ء میں ہوئی.اولاد: آپ کی اولا د میں چھ بیٹے اور چھ بیٹیاں تھی.آپ کی اہلیہ حضرت غلام فاطمہ نے لوائے احمدیت کی تیاری کیلئے سوت تیار کیا تھا جس میں آپ کی بیٹی حضرت حمیدہ بیگم اہلیہ حضرت وزیر خان نے بھی حصہ لیا.آپ کی ساری اولاد حضرت اقدس کے رفقاء میں شامل تھی.حضرت تاج الدین کا نام ۱۸۹۷ء کی ایک فہرست میں ہے جو حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے تیار کی تھی.آپ کے ایک بیٹے حضرت راجہ محمد شریف صاحب ( ذوالقرنین ) تھے.اسی طرح حضرت راجہ عبد العزیز ، حضرت راجہ عبد السلام، حضرت راجہ عبدالحمید کی عمر میں دس سال سے زائد تھی.ان کے سب سے چھوٹے بیٹے راجہ عبدالقدیر ۱۹۰۶ میں پیدا ہوئے.حضرت مہتاب بیگم حضرت آمنہ بیگم کی نسل میں سے ایک بیٹے سردار مجید الدین احمد صاحب اور سردار منیر الدین احمد صاحب تھے.سردار مجید الدین کی اولاد میں سے سردار ناصر الدین صاحب، سردار ظہیر الدین بابر صاحب انصار اللہ پاکستان ربوہ میں بطور ہومیو پیتھک ڈاکٹر خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور تیسرے بیٹے سردار نصیر الدین ہمایوں صاحب عملہ حفاظت خاص لندن میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں.حضرت آمنہ بیگم کے پوتے اور حضرت راجہ عبدالسلام صاحب کے نواسے ہیں.حضرت حمیدہ بیگم حضرت اقدس کی بیعت میں شامل تھے.

Page 150

127 ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵(۳) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد۱۰ (۶) سرمه چشم آرید روحانی خزائن جلد نمبر ۲ (۷) تبلیغ رسالت جلد دوم ص ۱۱۸ (۸) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ ۳۵۶ (۹) لاہور تاریخ احمدیت (۱۰) تاریخ احمدیت راولپنڈی (۱۱) اخبار الحکم قادیان ۱۹۰۲۶۱۹۰۱ (۱۲) اخبار بدر ۱۹۰۰ (۱۳) تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول (۱۴) مکتوب راجہ عبدالجبار فرینکفورٹ جرمنی ☆ ۷۴.حضرت منشی معراج الدین صاحب لاہور ولادت : ۱۸۷۸ء.بیعت : ۱۶ جولائی ۱۸۹۱ء.وفات : ۲۱ / جولائی ۱۹۴۰ء تعارف: حضرت منشی معراج الدین رضی اللہ عنہ وارث میاں محمد سلطان صاحب میاں عمر دین کے بیٹے تھے جن کے والد میاں الہی بخش ولد میاں قادر بخش تھے.آپ کے دادا میاں الہی بخش کے بھائی میاں محمد سلطان ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے.جنہوں نے لاہور ریلوے اسٹیشن، ضلع کچہری اور سرائے سلطان تعمیر کروائی تھی.آپ کی ولادت سال ۱۸۷۸ء کو ہوئی.بیعت: حضرت منشی صاحب حضرت مولوی رحیم اللہ کی تبلیغ سے حضرت مسیح موعود کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے اور آپ کی بیعت کے چند سال کے اندر اندر سارا خاندان سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گیا.شہر لاہور کے پرانے باشندوں میں یہ ایک بڑا خاندان ہے جس نے سب سے پہلے احمدیت قبول کی.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت ۱۲ جولائی ۱۸۹۱ء کی ہے.( تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ ۲۵۵) حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی، کتاب البریہ آریہ دھرم میں پُر امن جماعت اور حقیقۃ الوحی میں نشانات کے گواہ کے طور پر آپ کا ذکر ہے.دینی خدمات: آپ کو تحریر کا خوب ملکہ تھا اور ایک قابل انشاء پرداز تھے.براہین احمدیہ ہر چہار حصص کی ایک اشاعت پر آپ نے اس کا دیباچہ لکھا جس میں حضرت اقدس کے حالات درج کئے.حضرت اقدس کی تائید میں ٹریکٹ وغیرہ لکھ کر شائع کرواتے تھے.آپ کی کتب میں صداقت مریمہ « تقویم جنتری (۱۷۸۳ء تا ۱۹۰۷ء) (The Crusufixion by an eye witness) (ترجمہ) شامل ہیں.آپ اخبار بدر قادیان کے مالک رہے.وفات : آپ کی وفات ۲۱ جولائی ۱۹۴۰ء کو عمر باسٹھ سال ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۵ حصہ میں تدفین ہوئی.

Page 151

128 اولاد: آپ کے ۲ بیٹے اور بیٹیاں تھے جن میں سے میاں نذیر احمد صاحب بطور اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل خدمات بجا لاتے رہے.ماخذ : (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱۰ (۴) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۵) رجسٹر بیعت اولی اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ ۳۵۶ (۶) لاہور تاریخ احمدیت.☆ ۷۵.حضرت شیخ مسیح اللہ صاحب شاہجہان پوری بیعت: ۱۸۹۵ء.وفات :۶ / نومبر ۱۹۰۶ء تعارف: حضرت شیخ مسیح اللہ رضی اللہ عنہ بھارتی صوبہ اتر پردیش کے مشہورشہر شاہجہانپور سے تعلق رکھتے تھے.احمدیت سے تعارف : خیال ہے آپ تک احمدیت کا پیغام حضرت مرزا نیاز بیگ صاحب ( والد حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب) کے ذریعہ پہنچا جو ان دنوں محکمہ انہار ملتان میں ضلعدار تھے اور ۱۸۹۷ء میں وہاں سے پنشن یاب ہوئے.اس وقت حضرت شیخ صاحب بطور خانساماں مہتم محکمہ انہار ملتان میں تھے.بیعت : ستمبر ۱۸۹۵ء میں حضور نے حکومت کے نام ایک اشتہار شائع کیا جس کے آخر میں اپنی جماعت کے قریباً ۷۰۰ افراد کے نام درج فرمائے.حضرت شیخ مسیح اللہ صاحب کا نام بھی اُن احباب میں شامل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۸۹۵ء تک آپ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو چکے تھے.حضور کا یہ اشتہار ” آر یہ دھرم میں درج ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : سراج منیر میں چندہ مہمان خانہ میں اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں نام درج ہے.حضرت اقدس نے ایک اشتہار میں مخالفین کی طرف سے گورنمنٹ کو پہنچائی گئی خلاف واقعہ اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے اپنے خاندان اور سلسلہ کے صحیح حالات بیان فرمائے.چنانچہ ۲۴ رفروری ۱۸۹۸ء کو دیئے گئے اشتہار میں آپ کا نام بھی شامل ہے.نمبر ۲۸۳ مسیح اللہ خاں صاحب ملازم ایگزیکٹو انجینئر صاحب ملتان.دینی خدمات : حضرت شیخ مسیح اللہ ہجرت کر کے مسیح الزماں کے قدموں میں قادیان آگئے.آپ کا سن ہجرت معلوم نہیں ہو سکا.قادیان آ کر مدرسہ تعلیم الاسلام کے بورڈنگ میں ملازم رہے پھر ایک دوکان کھول لی.اس کے علاوہ قادیان میں بھی بطور خانساماں خدمت کی توفیق پائی.۱۷ار نومبر ۱۹۰۱ء کی صبح کو حضور سیر سے واپس تشریف لائے تو ایک برطانوی سیاح ڈی ڈی ڈکسن تشریف لائے اور بتایا کہ سیاحت کرتے ہوئے صرف ایک دن کے قیام کا پروگرام لے کر آئے ہیں.حضور نے مزید دن ٹھہرنے کو کہا مگر اصرار کے باوجود صرف ایک رات کے رہنے پر

Page 152

129 رضا مند ہوئے.حضرت اقدس نے ہدایت فرمائی کہ شیخ مسیح اللہ خانساماں ان کے حسب منشاء کھانا تیار کریں اور انہیں گول کمرہ میں ٹھہرایا جائے.وفات : آپ قادیان میں ہجرت کے دن گزار رہے تھے کہ واپسی کا پیغام آ گیا اور آپ ۶ نومبر ۱۹۰۶ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی ہی میں عالم آخرت کو سدھار گئے.آپ کی وفات پر اخبار البدر نے یہ خبر شائع کی.شیخ مسیح اللہ صاحب ساکن شاہجہانپور ۶ نومبر ۱۹۰۶ء کی صبح کو ستر اسی (سال) کی عمر میں فوت ہوئے انا اللہ وانا اليه راجعون - شیخ صاحب مرحوم مدت تک انگریزوں کی خانسامہ گیری کرنے کے بعد بالآ خر قادیان میں آکر بیٹھ گئے تھے.چند سال مدرسہ تعلیم الاسلام کے بورڈنگ میں ملازم رہے اور آج کل گوشت روٹی کی دوکان کرتے تھے.آپ کو مقبرہ بہشتی میں دفن کیا گیا اللہ تعالی مغفرت کرے.شیخ صاحب ایک چھوٹا سا بچہ یتیم چھوڑ گئے جو مدرسے سے وظیفہ پاتا ہے.“ ماخذ : (۱) تبلیغ رسالت جلد ہفتم (۲) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۳۱۰) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) البدر ۱۸ نومبر ۱۹۰۱ء (۶) ریویو آف ریلیجنز ۱۹۰۳ء جلد نمبر ۱۱ ۱۲ (۷) اخبار الحکم ۳۰ را پریل ۱۹۰۵ء (۸) اخبار البدر / نومبر ۱۹۰۶ء (۹) ذکر حبیب.تین سو تیرہ تین سو تیرہ وہ رکھتے تھے مثالی زندگی اُن میں سے ہر ایک تھا عشق و محبت کا رُباب دیکھ نور الدین کو اور دیکھ تو عبدالکریم دوسرا ہے گر ستارہ، تو ہے پہلا ماہتاب باغ احمد کے عنادِل آئے نزد و دُور سے افتخار از لدھیانه، دتی سے ناصر نواب شیخ نوراحمد از امرتسر تھا دیوانہ اگر تھا جالندھر کا بھی گوہر دل میں رکھتا اضطراب سُرخ چھینٹوں کا جو گذرا تھا انوکھا ماجرا عینی شاہد تھا سنور کی برآں کشف لاجواب مولوی بُرہان از جہلم تھا پروانہ اگر تو خوشابی مولوی تھا عشق احمد میں کباب وہ ریکس کوٹلہ، وہ حق تعالیٰ کی دلیل حضرت صادق ز بھیرہ اک مہکتا سا گلاب ( مکرم عبد السلام اسلام)

Page 153

130 ☆ -4 حضرت منشی چوہدری نبی بخش صاحب مع اہلبیت بٹالہ ولادت: ۱۸۲۷ء.بیعت : ۲۸ / جون ۱۸۸۹ء.وفات :۲ / جولائی ۱۹۳۸ء تعارف: حضرت منشی چوہدری نبی بخش رضی اللہ عنہ بٹالہ میں ذیلدار تھے.آپ کا اصل نام عبدالعزیز تھا.آپ کے والد صاحب کا نام محمد بخش صاحب تھا.آپ کی ولادت سال ۱۸۲۷ء میں ہوئی.آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام ۱۲۸ نمبر پر مہر نبی بخش صاحب نمبر دار و میونسپل کمشنر بٹالہ لکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک مکتوب مورخہا ارمئی ۱۸۸۸ء بنام چوہدری رستم علی صاحب جالندھر تحریر فرمایا.بشیر احمد سخت بیمار ہو گیا تھا.اس لئے یہ عاجز ڈاکٹر کے علاج کے لئے بٹالہ میں آگیا ہے.شاید ماہ رمضان بٹالہ میں بسر ہو.نبی بخش ذیلدار کے مکان پر جو شہر کے دروازہ پر ہے فروکش ہوں“ ۲۸ مئی ۱۸۸۸ء کے مکتوب بنام حکیم مولوی نورالدین صاحب جموں (خلیفہ امسیح الاول) کولکھا.یہ عاجز بمقام بٹالہ نبی بخش ذیلدار کے مکان پر اترا ہوا ہے اسی طرح ۳ رجون اور ۴ رجون ۱۸۸۸ء کے مکتوبات میں تحریر فرمایا ہے.یہ عاجزاب تک بٹالہ میں ہے.“ پھر ۵/ جون ۱۸۸۸ء کے مکتوب میں تحریر فرمایا: "یہ عاجز اخیر رمضان تک اس جگہ بٹالہ میں ہے غالباً عید وو 66 پڑھنے کے بعد قادیان جاؤں گا.“ گویا حضرت اقدس چوہدری نبی بخش بٹالہ کے پاس اوائل مئی سے اواخر جون ۱۸۸۸ء تک بسلسلہ علاج بشیر اول قیام فرمار ہے.بیعت : آپ کی بیعت ۲۸ / جون ۱۸۸۹ء کی ہے.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام یوں درج ہے.نمبر ۰۲ امنشی عبدالعزیز معروف نبی بخش ولد میاں محمد بخش ساکن بٹالہ ہاتھی دروازہ پیشہ زمینداری.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضور نے آپ کا نام آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ۱۸۹۲ ء اور چندہ دہندگان سراج منیر ، چندہ مہمان خانہ تحفہ قیصریہ، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ اور آریہ دھرم میں پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.نیز انجام آتھم میں حضرت اقدس نے آپ کا نام درج فرمایا ہے.وفات : آپ نے ایک سو گیارہ سال کی عمر میں ۲؎ جولائی ۱۹۳۸ء میں وفات پائی.ماخذ: (۱) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۳ صفحه ۸۱ تا ۸۳ (۲) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۶) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۷) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱ (۸) ضمیمه انجام آنقم روحانی خزائن جلد ۱ (۹) ملفوظات جلد سوم (۱۰) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۴۸ (۱۱) تاریخ احمدیت جلد هشتم

Page 154

131 ☆ ۷۷.حضرت میاں محمد اکبر صاحب.....بٹالہ بیعت: ۱۸۸۹ ء وفات ۲۳ / جولائی ۱۹۰۰ء تعارف و بیعت : حضرت میاں محمد اکبر رضی اللہ عنہ بٹالہ میں دوکانداری ٹھیکیداری کرتے تھے.آپ کے والد منشی محمد ابراہیم صاحب تھے.آپ کے تین اور بھائی بھی تھے.آپ کی بیعت ۱۸۸۹ ء کی ہے.براہین احمدیہ میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر پڑھ کر احمدی ہوئے.حضرت اقدس سے تعلق اخلاص : آخری بیماری میں قادیان آگئے.حضرت مسیح موعود آپ کی عیادت کو بھی تشریف لے گئے.آپ بہت مخلص اور شیدائی احمدی تھے.حضرت مولانا شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے آپ کو بٹالہ کا آدم قرار دیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: براہین احمدیہ میں آپ کا ذکر موجود ہے.آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ کی فہرست ، آریہ دھرم میں دستخط کنندگان اور سراج منیر میں چندہ مہمان خانہ تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی کتاب البریہ میں پر امن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.دینی خدمات : قادیان جانے والے مہمان آپ کے ہاں ٹھہرتے تھے.آپ ان کی مہمان نوازی کرتے تھے.اسی طرح قادیان کی ریلوے بلٹیاں اور دیگر تعمیراتی و سامان خورد و نوش آپ قادیان پہنچاتے تھے.وفات : آپ کی وفات ۲۳ جولائی ۱۹۰۰ء کو ہوئی.حضرت اقدس نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور قادیان میں تدفین ہوئی.ذکر خیر : حضرت اقدس اپنے پیاروں کی جدائی پر غمگین ہو جایا کرتے تھے.حضرت میاں محمد اکبر کی وفات کے بارہ میں حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوائی بیان کرتے ہیں: حضور اپنے خادموں کی جدائی (وفات وغیرہ) پر صدمہ محسوس فرماتے تھے.چنانچہ جس روز میاں محمداکبر صاحب تاجر چوب بٹالہ فوت ہوئے.وہ جمعہ کا دن تھا.مولوی عبداللہ صاحب کشمیری ( جو آج کل کشمیری ہائی کورٹ میں وکیل ہیں ) نے مسجد اقصیٰ میں بعد نماز جمعہ حضور کی خدمت میں ایک نظم خود تیار کردہ سنانے کے لئے عرض کی تو حضور نے فرمایا کہ آج محمد اکبر فوت ہو گیا ہے.اس وقت میری طبیعت سننا نہیں چاہتی.“ (سیرت المہدی حصہ چہارم روایت نمبر ۱۲۶۲) آپ کی اولاد: آپ کے تین بیٹے (۱) حضرت میاں محمد ابراہیم صاحب (۲) حضرت محمد اسمعیل صاحب (ان کے ایک بیٹے مکرم محمد جمال صاحب سابق انسپکٹر مال رہے ہیں ) (۳) حضرت محمد یعقوب صاحب.آپ حضرت مولوی محمد حسین صاحب سبز پگڑی والے کے تایا تھے.آپ کی اہلیہ حضرت امام بی بی نے ۲۹ جولائی ۱۹۵۷ء

Page 155

132 کو وفات پائی جولجنہ اماءاللہ کی ابتدائی فعال رکن تھیں.ماخذ : (۱) براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد اول (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵(۳) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱۰ (۴) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۶) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) سیرۃ المہدی جلد سوم (۵) اخبار الحکم ۱۶ اگست ۱۹۰۰ء (۶) رجسٹر روایات نمبر ۱۴۰۱۱ ☆ ۷۸.حضرت شیخ مولا بخش صاحب.....ڈنگہ گجرات بیعت : ابتدائی زمانہ میں حضرت شیخ مولا بخش رضی اللہ عنہ ڈنگہ ضلع گجرات کے تاجر چرم تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا نام ۳۱۳ / اصحاب صدق وصفا میں درج ہے.حضرت اقدس نے کتاب سراج منیر میں چندہ مہمان خانہ دینے والوں میں اور تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.نوٹ : تفصیلی سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۴) انجام آتھم روحانی خزائن جلدا ☆ ۷۹.حضرت سیدامیر علی شاہ صاحب سارجنٹ سیالکوٹ ولادت : ۱۸۴۱ء.بیعت: ۲۹ رمئی ۱۸۹۱ء تعارف: حضرت سید امیر علی شاہ رضی اللہ عنہ مالو کے بے تحصیل پسر ورضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.اصل نام علاؤ الدین عرف امیر علی شاہ تھا.والد ماجد کا نام سید ہدایت علی شاہ صاحب تھا.آپ کے بھائی حضرت سید خصیلت علی شاہ انسپکٹر پولیس یکے از ۳۱۳ رفقاء حضرت اقدس میں سے تھے.آپ کی ولادت ۱۸۴۱ء کو ہوئی.آپ کی شادی حضرت حکیم میر حسام الدین کی بیٹی سے ہوئی تھی.حضرت اقدس سے تعلق : واقعات مباحثہ دہلی میں حضرت پیر سراج الحق نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ حضرت اقدس کا قیام نواب لوہارو کی کوٹھی پر تھا.آپ کے پہنچنے پر آپ کو بالا خانے پر بلوایا گیا وہاں جناب سید امیر علی شاہ سیالکوٹی اور حضرت غلام قادر فصیح سیالکوٹی تھے اور ایک اشتہار چھپوانے کی تجویز کرتے تھے

Page 156

133 بیعت : آپ نے ۲۹ مئی ۱۸۹۱ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی میں ۲۳۱ نمبر پر آپ کا نام درج ہے.اس وقت آپ سیالکوٹ میں مقیم تھے.آپ کی اہلیہ محترمہ محمودہ بیگم ( بنت حضرت حکیم میر حسام الدین) کی بیعت ۷ فروری ۱۸۹۲ء کی ہے جو رجسٹر بیعت اولیٰ میں ۲۳۷ نمبر پر ہے.كتاب تذكرة المهدی میں ذکر : مباحثہ دہلی کے دوران ایک روز مرزا حیرت دہلوی بناوٹی انسپکٹر بنے اور حضرت اقدس علیہ السلام سے کہا میں انسپکٹر ہوں سرکار سے حکم ہوا ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہ ہوگا.حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کے کہنے پر بالکل خیال تک بھی نہ کیا اور کوئی جواب نہ دیا.صرف سید امیر علی شاہ نے جو کہ اہلکار پولیس تھے ایک بات کی تو مرزا حیرت صاحب حیرت زدہ ہو گئے اور چل دیئے.دہلی میں مخالفت کا ایک اور واقعہ ہے:.ایک روز دہلی والے شرارت کی راہ سے حضرت اقدس علیہ السلام پر حملہ آور کئی سو آدمی آگئے چونکہ دروازہ زینہ کا تنگ تھا.اس سے ایک ایک کر کے چڑھنے لگے اتنے میں سید امیر علی شاہ صاحب آگئے انہوں نے نہ آنے دیا وہ لوگ زور سے گھنے لگے مگر شاہ صاحب ایک قوی الجثہ آدمی تھے ان کا وہ کیا مقابلہ کر سکتے تھے.ایک ہی دھکے میں سب ایک دوسرے پر گرتے گئے اور فرار ہو گئے اور گالیاں دینے اور ٹھٹھا بازی کرنے کے سوا کچھ نہ کر سکے.“ ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۵-۳۵۸ (۳) تذكرة المهدی (۴) ملفوظات جلد اول و چهارم (۵) سیرت احمد صفحه ۱۲۴ (۶) الحکم ۲۴ را کتوبر ۱۹۰۱ء.۸۰.جناب میاں محمد جان صاحب......وزیر آباد بیعت: ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء.وفات : ۲۷ را پریل ۱۹۳۸ء تعارف: حضرت میاں محمد جان رضی اللہ عنہ ولد محمد بخش صاحب وزیر آباد کے رہنے والے تھے اور اہلحدیث میں شامل تھے.لیکن جب حضرت اقدس مسیح موعود کے دعوئی سے اطلاع ہوئی تو آپ نے تحقیق شروع کر دی اور حضرت اقدس کی صداقت کے قائل ہو گئے.بیعت: آپ نے حضرت مولانا حکیم نور الدین (خلیل صحیح الاول) کی معیت میں حضرت اقدس مسیح موعود کی بیعت کی تھی اور ابتدائی رفقاء میں شامل تھے اور وزیر آباد کے ابتدائی بیعت کنندگان میں شامل تھے.آپ کی بیعت ۱۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ء کی ہے.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۱۸۲ نمبر پر یوں درج ہے.حضرت شیخ محمد جان سکنہ وزیر آباد ملازم محل چوب بر دار راجہ امر سنگھ صاحب جموں.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ جماعت احمدیہ کے پہلے جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں بھی شامل ہوئے.آسمانی فیصلہ، آئینہ کمالات اسلام میں شمولیت جلسہ سالانہ ۱۸۹۲۶۱۸۹۱ء اور سراج منیر چندہ مہمانخانہ تحفہ قیصریہ میں

Page 157

134 جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت میں ذکر ہے.وفات : آپ کی وفات ۲۷ / اپریل ۱۹۳۸ء کو ہوئی.ماخذ: (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) یا درفتگان حصہ دوم صفحه ۶۸ تا ۷۰ (۶) تاریخ احمدیت جلد ہشتم (۷) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۷ ☆ ۸۱.حضرت میاں شادی خاں صاحب.....سیالکوٹ ولادت : ۱۸۵۶ء.بیعت یکم فروری ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۹ مارچ ۱۹۲۸ء تعارف و بیعت حضرت میاں شادی خان رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کا نام جیون خان صاحب تھا.آپ کی ولادت ۱۸۵۶ء کی ہے.آپ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے بیعت کے دنوں میں راجہ امر سنگھ جموں کے ملازم تھے.آپ کا نام رجسٹر بیعت اولیٰ میں ۲۱۸ نمبر پر درج ہے اور بیعت یکم فروری ۱۸۹۲ء کی ہے.۲۳۸ نمبر پر زینب بی بی زوجہ مولا نا عبدالکریم کی بیعت درج ہے جو کہ مولانا سیالکوٹی کی پہلی بیوی تھیں.قابل قدرا خلاص اسوۃ صدیقیت : منارة امسیح بنانے کی تجویز حضرت اقدس کے زیر غور تھی.ان دنوں آپ راجہ امر سنگھ جموں کے ہاں ملازم تھے.حضرت اقدس نے دس ہزار کا تخمینہ لگایا اور دس ہزار کوسو، سو کے حصوں میں تقسیم کیا گیا.حضرت منشی شادی خان کے ذمہ بھی روپیہ گا تھا.انہوں نے اپنے گھر کا تمام سامان بیچ کر تین سو روپیہ پیش کر دیا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شادی خان صاحب سیالکوٹی نے بھی وہی نمونہ دکھایا ہے جو حضرت ابو بکڑ نے دکھایا تھا کہ سوائے خدا کے اپنے گھر میں کچھ نہیں چھوڑا.جب حضرت میاں شادی خان صاحب رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو گھر میں جو چار پائیاں تھیں ان کو بھی فروخت کر ڈالا اور ان کی رقم حضرت صاحب کے حضور پیش کردی..حضرت منشی شادی خان کی والدہ محترمہ حضرت اقدس کے گھر میں خدمت کرتی تھیں اور دادی“ کے نام سے مشہور تھیں.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام ، تحفہ قیصریہ، سراج منیر اور کتاب البریہ اور ملفوظات جلد دوم چہارم اور پنجم میں ذکر ہے.وفات: آپ کی وفات ۱۹ مارچ ۱۹۲۸ء کو ہعمر سے ہوئی آپ کی وصیت نمبر ۶۶ ہے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۳ حصہ نمبر۴ میں ہوئی.اولاد: آپ کے ایک بیٹے عبدالرحمن جو روزنامہ الفضل میں کارکن تھے.۱۹۴۱ء میں وفات پا گئے.آپ کی بیٹی

Page 158

135 حضرت عائشہ بی بی کی شادی حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی سے ہوئی.حضرت مولوی عبدالکریم کے وصال کے بعد انہی کی شادی سیدنا حضرت مسیح موعود السلام نے حضرت صوفی غلام محمد یکے از تین سو تیرہ ( مبلغ ماریشس ) سے کروا دی جن سے اولاد ہوئی جن کا ذکر حضرت صوفی غلام محمد صاحب کے حالات میں کیا گیا ہے.دوسری بیٹی کی شادی حضرت حافظ روشن علی صاحب سے ہوئی.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) رجسٹر بیعت مندرجه تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۸ (۶) ملفوظات جلد دوم چهارم پنجم (۷) انوار العلوم جلد نمبر ۵ (۸) اصحاب احمد جلد ششم (۹) تاریخ احمدیت جلد دوم (۱۰) روزنامه الفضل قادیان ۱۹۴۱ء.۸۲.جناب میاں محمد نواب خان صاحب تحصیلدار.جہلم بیعت : ۱۸۹۵ء تعارف و بیعت: میاں محمد نواب خان صاحب ہر یا نہ ہوشیار پور کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ۱۸۹۵ء کی ہے.آپ نے حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کے مکان کی تعمیر و توسیع میں بھی چندہ دیا.جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مولوی کرم دین سکنہ بھیں ( ضلع جہلم) کی طرف سے دائر کردہ مقدمہ ازالہ حیثیت عرفی کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے تو آپ گجرات میں تحصیل دار تھے.گجرات کے ریلوے اسٹیشن پر حضرت چوہدری نواب خاں نے کھانا پیش کیا.چونکہ اس قدر وقت نہ تھا کہ حضرت اقدس اور آپ کے خدام وہاں ٹھہر کر کھانا تناول کرتے اس لئے حضرت نواب صاحب نے کھانا اور برتن ساتھ ہی دے دیئے اور احباب نے کھانا ریل میں ہی کھایا.آپ جناب اقدس کے لئے ایک خاص قسم کی فرنی بھی تیار کر کے لائے تھے.حضرت اقدس نے فرنی“ کا یہ پیالہ حضرت مولوی فضل دین کو دے دیا.انہوں نے ابھی کھانا نہیں کھایا تھا) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی تحریر کے مطابق آپ بھیرہ میں بھی تحصیلدار رہے ہیں.اسی طرح آپ پھالیہ ضلع گجرات ( حال ضلع منڈی بہاؤالدین) میں بھی تحصیلدار ر ہے.حضرت نواب محمد دین صاحب (ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر ) آف تلونڈی عنایت خاں ضلع سیالکوٹ ( جنہوں نے مرکز احمدیت ربوہ کی زمین کے انتخاب و خرید میں حصہ لیا تھا) کے مطابق میاں محمد نواب خاں صاحب خلافت ثانیہ کے وقت غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.حضرت نواب محمد دین صاحب کے ساتھ حضرت میاں صاحب کی ملاقات وزیر آباد ریلوے اسٹیشن پر ہوئی تھی.( باجوہ خاندان ) حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : سراج منیر تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے چندہ مہمانخانہ،

Page 159

136 جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پر امن جماعت کے ضمن میں ذکر کیا ہے.ماخذ : (۱) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) سیرت حضرت مسیح موعود جلد سوم (۵) تاریخ احمدیت جلد دوم (۶) حیات قدسی (۷) با جوه خاندان از غلام الله با جوه (۸) اخبار الحکم ۲۴ اکتوبر ۱۸۹۹ (۹) یا درفتگان جلد اول.☆ ۸۳.جناب میاں عبداللہ خانصاحب برادر نواب خانصاحب جہا بیعت: ابتدائی زمانہ تعارف و بیعت : میاں عبداللہ خان ہریانہ ضلع ہوشیار پور حضرت چوہدری نواب خان ( یکے از ۳۱۳) کے بھائی تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا نام ۳۱۳ اصحاب صدق وصفا میں درج ہیں.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں حضور نے آپ کا نام راجہ عبداللہ خان صاحب رئیس ہریانہ لکھا ہے.سراج منیر میں آپ کا چندہ مہمانخانہ دینے کا ذکر ہے.متفرق حالات : آپ جولائی ۱۹۴۰ء میں اپنے داماد مکرم رانا عبدالحمید صاحب وکیل منٹگمری کے پاس مقیم تھے.حضرت ملک نیاز محمد صاحب ( والد محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مؤلف اصحاب احمد‘ ) جو ۱۹۴۰ء میں ضلع منٹگمری میں انچارج ڈسپنسری تھے نے ان کی روایات قلم بند کیں.آپ نے ۱۸۹۷ء کی عید الاضحی قادیان میں ادا کی.حضرت مسیح موعود کی خدمت میں لیکھرام کے قتل کی سب سے پہلے اطلاع آپ ہی نے دی.(نوٹ) خلافت اولی کے بعد نظام خلافت سے وابستہ نہ رہے اور غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) رجسٹر روایات (۵) لا ہور تاریخ احمدیت (۶) یا درفتگان جلد دوم.

Page 160

137 ☆ ۸۴.حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلم ولادت : ۱۸۳۰ء.بیعت : ۲۰ / جولائی ۱۸۹۲ء.وفات :۳ / دسمبر ۱۹۰۵ء تعارف: حضرت مولوی برہان الدین رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام مولوی بین صاحب تھا.آپ کی قوم گھر تھی.آپ کی ولادت ۱۸۳۰ ء ہوئی آپ للیانی نزد چک سکندر ضلع گجرات کے رہائشی تھے ( بور یا نوالی میں زرعی زمین تھی) وہاں سے جہلم شہر میں آگئے جہاں آپ امام الصلوۃ تھے.آپ پچیس سال کی عمر میں دہلی تشریف لے علم کی جستجو : آپ نے سید نذیر حسین دہلوی سے علم حدیث حاصل کیا.۱۸۵۶ء میں واپس جہلم آکر تحریک اہلحدیث کے پُر جوش کارکن کے طور پر کام کرتے رہے.زبان میں بہت اثر تھا.آپ طبیب بھی تھے.لوگوں میں خاصی عزت و شہرت تھی.جہلم ، گجرات، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں اہلحدیث محرک اور معروف عالم تھے اور اس کی اشاعت کرتے رہے.آپ کو ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علم کی بھی جستجو رہتی تھی.کئی سال حضرت مولوی عبداللہ غزنوی کی صحبت میں رہے بعد ازاں حضرت پیر صاحب کوٹھہ شریف کی مریدی اختیار کی لیکن روحانی تسکین حاصل نہ ہوسکی.حضرت اقدس سے تعلق : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمد یہ پڑھ کر زیارت کا شوق اور یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ شخص آئندہ کچھ بنے والا ہے اس لئے اسے دیکھنا چاہئے.اس ارادہ سے قادیان پہنچے لیکن حضرت اقدس ہوشیار پور بغرض چلہ کشی مقیم تھے.آپ بھی ہوشیار پور گئے اور خادم کے ذریعہ اطلاع بھجوائی.جب خادم اندر گیا تو الہام ہوا کہ جہاں آپ نے پہنچا تھا پہنچ گئے ہیں اب یہاں سے مت ہیں.خادم نے واپس آ کر معذرت کی کہ اس وقت فرصت نہیں.اس لئے پھر کسی وقت تشریف لائیں.حضرت مولوی صاحب نے خادم سے کہا میرا گھر دور ہے میں انتظار میں یہیں دروازہ پر ہی بیٹھتا ہوں.خادم پھر اندر گیا اور حضور کو جواب سے مطلع کیا.اس وقت حضور کو الہام ہوا کہ مہمان آئے تو اس کی مہمان نوازی کرنی چاہئے.جس پر حضور نے خادم کو جلدی سے دروازہ کھول کر مہمان کو اندر لے کر آنے کا حکم دیا.جب حضرت مولوی صاحب اندر ملاقات کیلئے گئے تو حضور بڑی خندہ پیشانی سے ملے اور فرمایا ابھی الہام ہوا ہے حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ مجھے بھی الہام ہوا تھا کہ یہاں سے مت ہیں.جہاں پہنچنا تھا آپ پہنچ گئے.حضرت مولوی صاحب تمام دینی علوم تفسیر حدیث فقه نحو وغیرہ کے معتبر عالم تھے.طب یونانی میں خاص ملکہ تھا.اردو، فارسی، عربی ، پشتو کے ماہر اور تقریر وتحریر میں یکتائے روزگار تھے.حضرت اقدس کی بیعت : حضرت مولوی صاحب چند روز ہوشیار پور رہے.آپ کا تعارف مرزا اعظم بیگ

Page 161

138 ہوشیار پوری سے ہوا جو ان دنوں وہاں مہتمم بندوبست تھے.مولوی صاحب وہاں حضرت اقدس کے معمولات کا مشاہدہ کرتے رہے.حضرت اقدس سے بیعت کی درخواست کی لیکن حضور نے انکار فرما دیا کہ ابھی بیعت لینے کا حکم نہیں ملا اور بعد ازاں آپ نے ۲۰ / جولائی ۱۸۹۲ء کو بیعت کی رجسٹر بیعت میں آپ کا نام ۳۴۵ نمبر پر درج ہے.رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۶۲) دینی خدمات: بیعت کے بعد حضرت مولوی صاحب کثرت سے قادیان جاتے اور روحانی چشمہ سے سیراب ہو کر واپس لوٹتے.قادیان میں زائرین کو دعوت الی اللہ کرتے اور کتب کی طباعت کے کام میں مدد دیتے اور پروف کی تصحیح کرتے.ایک مرتبہ حضرت اقدس نے مولوی صاحب کو خطبہ کے لئے ارشاد فرمایا.آپ نے پنجابی زبان میں خطبہ دیا جسے لوگوں نے پسند کیا اور بہت سے لوگوں نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی.حضرت اقدس سے عاشقانہ تعلق فدائیت : حضرت اقدس کے عشق میں گداز تھے.حضرت اقدس سیر کر کے جب واپس آتے تو آپ آگے بڑھ کر حضور کی نعلین مبارک اپنے کندھے والی چادر ( پر ناں) سے صاف کرتے.مستری نظام الدین صاحب سیالکوٹی سنایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب کا اخلاص جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا.جب حضرت اقدس سیالکوٹ گئے اور حضرت مولوی صاحب سڑک پر آ رہے تھے کہ کسی عورت نے کھڑکی سے حضور پر راکھ ڈالی.حضور آگے نکل چکے تھے.اس لئے راکھ مولوی صاحب کے سر پر پڑی.اس سے مولوی صاحب وجد میں آگئے اور محویت کے عالم میں پنجابی میں کہا.پارے مائے پا یعنی اے محترمہ! اور راکھ ڈالو تا کہ حق کے راستہ میں اس قسم کے سلوک سے میں پوری طرح لطف اندوز ہوسکوں.سیالکوٹ میں ایک موقع پر حضرت اقدس کی رہائش گاہ پر واپس آتے ہوئے آپ بڑھاپے کے باعث پیچھے رہ گئے تو بعض شریروں نے آپ کی بے عزتی کی بلکہ پکڑ کر مٹی گوبر وغیرہ منہ میں ٹھونس دیا تو آپ پر پھر وجد کی کیفیت واہ بر ہانا ایہ نعمتاں کتھوں“ طاری ہوگئی اور فرمایا : - یعنی برہان الدین یہ نعمتیں روز روز اور ہر شخص کو کہاں نصیب ہوتی ہیں.آپ کے شاگرد: علم حدیث میں آپ کے بہت سے شاگرد ہوئے جن میں جناب مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی، حضرت مولوی عبدالرحمن کھیوال اور حضرت مولوی محمد قاری معروف تھے.(ضلع چکوال تاریخ احمدیت ) حضرت اقدس کی کتب میں تذکرہ: ان کو یہ بھی سعات حاصل ہوئی کہ حضرت مسیح موعود سے قرآن شریف پڑھا.حضرت اقدس نے حضرت مولوی صاحب کی وفات پر فرمایا:.وو وہ اول ہی اول ہوشیار پور میں میرے پاس آگئے.ان کی طبیعت میں حق کیلئے ایک سوزش اور جلن تھی.مجھ سے قرآن شریف پڑھا.بائیس برس سے میرے پاس آتے تھے.صوفیانہ مذاق تھا.جہاں فقراء کو دیکھتے وہیں چلے جاتے.میرے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے.میں چاہتا ہوں کہ ماتم پر سی کیلئے لکھ دوں.بہتر ہے کہ ان کا جولڑ کا ہو

Page 162

139 وہ یہاں آجاوے تا کہ وہ بھی باپ کی جابجا ہو.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۵۸۵-۵۸۶) آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ کے شرکاء میں آپ کا بھی ذکر فرمایا ہے.سراج منیر تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں چندہ مہمان خانہ جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پر امن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.اسی طرح ملفوظات میں مختلف رنگ میں بھی بار ہاذکر ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا خدمت حضرت اقدس میں مصروف احباب میں نام درج ہے.وفات: آپ کی وفات سے قبل حضرت اقدس مسیح موعود کو الہام ہوا دو شہتیر ٹوٹ گئے انہیں دنوں حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی اور حضرت مولوی برہان الدین جہلمی کی وفات ہوئی.آپ کی وفات ۳ دسمبر ۱۹۰۵ء کو ہوئی اور آپ کی تدفین جہلم کے قبرستان میں ہوئی.مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ان ہر دو علماء کی وفات کے بعد ان کی یاد میں اور نئے علماء پیدا کرنے کے لئے رکھی گئی.اولاد: آپ کی اولاد میں حضرت مولوی عبدالمغنی رضی اللہ عنہ تھے جن کا اسم گرامی ۳۱۳ کی فہرست’انجام آتھم میں درج ہے حضرت مولوی عبد المغنی ایک لمبا عرصہ امیر جماعت احمدیہ جہلم رہے.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۳۱ روحانی خزائن جلد ۱ (۶) ملفوظات جلد چہارم (۷) رجسٹر روایات (۸) تفسیر کبیر جلد نم (۹) الفضل ربوہ ۲۸ / جولائی ۲۰۰۱ ء (۱۰) عالم روحانی کے لعل و جواہر از الفضل ربوہ ارجون ۲۰۰۱ (۱۱) ماہنامہ انصار الله بجون ۱۹۹۵ء (۱۲) روزنامه الفضل ربوه مورخه ۲۱ جنوری ۱۹۸۹ء.(۱۲) رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد ۱ (۱۴) ضلع چکوال تاریخ احمدیت.☆ ۸۵.حضرت شیخ غلام نبی صاحب...راولپنڈی صاحب بیعت : ۱۸۹۲ء وفات ۱۶ را پریل ۱۹۳۰ء تعارف و بیعت: حضرت شیخ غلام نبی رضی اللہ عنہ موضع کوٹھیاں ضلع چکوال کے رہنے والے تھے جو بعد میں بسلسلہ تجارت راولپنڈی چلے گئے آپ کے والد کا نام شیخ فضل دین تھا خواجگان برادری تجارت کلکتہ بنگال سیٹھی فیملی سے تعلق رکھتے تھے.جب حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کے چاچو ہدری محمد بخش سیالکوٹی راولپنڈی گئے تو اُن دنوں حضرت شیخ غلام نبی صاحب راولپنڈی میں تھے.چوہدری محمد بخش صاحب نے ذکر کیا کہ حضرت مرزا غلام احمد نے مسیح مہدی ہونے کا دعوی کر دیا ہے.حضرت شیخ صاحب کا اس سے قبل حضرت حافظ حکیم مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ (خلیفة أسبح الا قول ) اور مولوی عبدالکریم سیالکوٹی سے قریبی رابطہ معلوم ہوتا ہے.اس لیے آپ نے موصوف سے پوچھا کہ مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اسیح الاوّل) اور مولوی عبد الکریم سیالکوٹی کا کیا حال ہے انہوں نے آپ

Page 163

140 سے کہا کہ دونوں قادیان گئے ہیں.چنانچہ آپ کی درخواست پر چوہدری صاحب کارڈ لے آئے (حضرت شیخ صاحب بخار میں مبتلا تھے.( بیعت کا کارڈ انہوں نے ہی لکھا اور آپ نے آمنا و صدقنا فاكتبنا مع الشاهدين لکھ کر دستخط کردیئے.سیٹھی غلام نبی کے احمدیت قبول کرنے پر بھائیوں میں اختلاف ہوا اور کاروبا را الگ الگ ہو گیا.آپ کی قادیان روانگی: تھوڑی مدت کے بعد آپ قادیان گئے تو حضرت اقدس کے بالا خانے پر حضرت اقدس کے خادم حضرت حافظ حامد علی کے ساتھ ملاقات ہوئی.حضرت اقدس کھڑے رہے اور آپ کو چار پائی پر بیٹھنے کو کہا اور خود ایک بکس میں سے مصری نکالی اور خود شربت بنا کر آپ کو پلایا.مذکورہ ملاقات میں آپ نے حضرت اقدس سے براہین احمدیہ مانگی جو ختم ہو چکی تھی صرف ایک نسخہ حضرت کے استعمال کا تھا جسے آپ نے سیٹھی صاحب کو دے دیا.واپسی پر آپ بھیرہ حضرت حکیم مولانا نورالدین (خلیفہ اسی الاول) سے ملاقات کر کے گھر واپس آئے.ایک روایت کے مطابق آئینہ کمالات اسلام توسیع کے زیر تصنیف کے ۸۰ صفحات حضرت اقدس نے آپ کو دیئے.حضرت اقدس سے تعلق.بیٹوں کی ولادت کی خبر : حضرت سیٹھی صاحب کی اہلیہ محترمہ کو اٹھر کی پیاری تھی.جب حضرت حکیم مولانا نورالدین (خلیفتہ امسیح الاول ) قادیان تشریف لائے تو بغرض علاج سیٹھی صاحب بھی بمع اہلیہ قادیان تشریف لے گئے.ایک دن حضرت اقدس اور اہل خانہ اپنے باغ میں گئے اور مالی سے شہتوت لانے کو فرمایا.حضرت سیٹھی صاحب کی اہلیہ شہتوت تو ڑ لائیں.جو مالی شہتوت لایا وہ صاف نہیں تھے.جب حضرت اقدس کے پاس رکھے گئے تو آپ نے فرمایا مالی والے شہتوت صاف نہیں اور یہ صاف ہیں.حضرت اماں جان نے فرمایا کہ یہ غلام نبی کی بیوی تو ڑ کر لائی ہے.حضور نے اوپر دیکھا تو فرمایا خدا اس کو بیٹا دے.جب حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب ( خلیفہ اُسیح الاوّل) مطب پر آئے تو آپ نے سیٹھی صاحب کو مبارک دی کہ اب کسی دوائی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حضور نے یہ لفظ فرمائے ہیں جو پورے ہوں گے.چنانچہ سیٹھی صاحب کے ہاں بیٹا پیدا ہوا مگر ڈیڑھ سال کا ہو کر فوت ہو گیا.حضرت اقدس کو اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا دوسرے کا انتظار کرو.پھر لڑکا پیدا ہوا جس کا نام کرم الہی رکھا گیا.حضور کی دعا کے مطابق بڑی عمر والا ہوا.سیرت المہدی میں ہے کہ حضرت اقدس نے ایک مرتبہ اپنا کر نہ تبرک دیا اور ایک دفعہ مصری کا شربت تیار کر کہ پلایا.آپ نے مختلف مالی تحریکات میں بھی حصہ لیا.ایک دفعہ سیٹھی صاحب کا قیام حضرت مولانا حکیم نورالدین (خلیفہ اسیح الاوّل) کے گھر ہوا.رات کے بارہ بجے کسی نے دروازے پر دستک دی.دیکھا کہ ایک ہاتھ میں لیمپ اور ایک ہاتھ میں گلاس دودھ کا لئے حضرت مسیح موعوڈ کھڑے ہیں اور فرمایا بھائی صاحب کہیں سے دودھ آ گیا تھا تو میں آپ کے لئے لے آیا.(آپ راولپنڈی میں تجارت کرتے تھے.آپ ۱۹۲۴ء میں قادیان ہجرت کر کے آگئے اور دارالرحمت میں مکان لیا) حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.وفات: آپ ۱۶ را پریل ۱۹۳۰ء کو وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب کے

Page 164

141 پہلو میں دفن ہوئے.چکوال میں کاروبار نہ چلنے کی وجہ سے آپ قادیان چلے گئے تھے.شادی اور اولاد : آپ کی پہلی شادی سہگل برادری میں ہوئی تھی اس کی وفات کے بعد دوسری شادی محترمہ شہزادی بیگم صاحبہ سے ہوئی.آپ کی ایک دو بیٹیاں عائشہ بیگم اور حلیمہ بیگم تھی آپ کا ایک بیٹا فضل الہی جو آٹھ سال کی عمر میں فوت ہو گیا تھا.آپ کے ایک بیٹے سیٹھی کرم الہی تھے.ایک پوتے سیٹھی حمید احمد ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر لا ہور اور پوتی محترمہ حمیدہ بیگم سیٹھی صاحبہ احمد یہ ہائی سکول کبوتر انوالی سیالکوٹ کی ہیڈ مسٹرس تھیں.ماخذ : (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) سیرۃ المہدی جلد سوئم (۳) خود نوشت میں کیونکر احمدی ہوا“ حضرت سیٹھی غلام نبی صاحب از سیٹھی کرم الہی صاحب سیالکوٹ مطبوعہ روز نامه افضل ر بوه مورخه ۱۴ جون ۱۹۴۷ء ☆ ۸۶ - حضرت با بومحمد بخش صاحب ہیڈ کلرک چھاؤنی انبالہ بیعت : ۱۸۸۹ء وفات ۱۵/ مارچ ۱۹۳۲ء تعارف: حضرت بابو محمد بخش رضی اللہ عنہ انبالہ کے رہنے والے تھے اور امرتسر کے معروف خدا رسیدہ عالم مولوی عبداللہ غزنوی کے ساتھ عقیدت رکھنے والوں میں سے تھے.حضرت اقدس سے تعلق اور بیعت: حضرت بابو محمد بخش صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ کے فدائیوں میں شامل تھے.آپ کی بیعت ابتدائی سال ایام ۱۸۸۹ء کی ہے.ہر خدمت کو بجالانا اپنی سعادت اور خوش بختی سمجھتے تھے.حضرت منشی محمد بخش صاحب براہین احمدیہ کی اشاعت کیلئے بدل و جان مصروف رہے.اس کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مکتوب بنام حضرت منشی احمد جان صاحب (مورخه ۱۵/ مارچ ۱۸۸۴ء) میں فرمایا ہے.حضرت با بوصاحب کے دیگر چند ساتھی منشی الہی بخش اور منشی عبدالحق جو ( حضرت صوفی منشی احمد جان صاحب کے مریدوں میں سے تھے ) حضرت اقدس سے تعلق کو قائم نہ رکھ سکے.جبکہ آپ نے حضرت اقدس سے اس تعلق اخوت کو آخر دم تک قائم رکھا.حضرت اقدس کی کتب میں فرگر : حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اپنے مکتوب مورثہ استمبر ۱۸۸ء بنام حکیم مولوی نورالدین صاحب ( خلیفہ امسیح الاول ) میں حضرت بابو صاحب کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:.اس عاجز سے ارادت اور محبت رکھتا ہے اور وہ بہت عمدہ آدمی ہے.اس کے مال سے ہمیشہ آج تک وو مجھ کو مدد پہنچتی رہی ہے.“ ازالہ اوہام میں چندہ دہندگان میں بھی آپ کا ذکر ہے.آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء کے

Page 165

142 شرکاء جلسہ میں آپ کا ذکر ہے.وفات : آپ کی وفات ۱۵ مارچ ۱۹۳۲ء کو ہوئی آپ کی وصیت نمبر ۱۰۴۲ ہے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبرے حصہ نمبر۴ میں ہوئی.ماخذ: (۱) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر (۲) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ - ☆ ۸۷- حضرت منشی رحیم بخش صاحب میونسپل کمشنر لدھیانه بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت منشی رحیم بخش رضی اللہ عنہ کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ایک رویا میر عباس علی سے بیان کیا.جسے بیان کر کے حضرت اقدس نے فرمایا کہ شاید وہ تمہارالدھیانہ ہی نہ ہو.پھر وہ رویا حضرت منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر پورا ہوا.وہ رؤیا حضرت اقدس بیان فرماتے تھے کہ: ہم کسی شہر میں گئے ہیں اور وہاں کے لوگ ہم سے برگشتہ ہیں اور انہوں نے کچھ اپنے شکوک دریافت کئے.جن کا جواب دیا گیا لیکن وہ ہمارے خلاف ہی رہے نماز کے لئے کہا کہ آؤ تم کو نماز پڑھائیں تو جواب دیا کہ ہم نے پڑھی ہوئی ہے اور خواب میں یہ واقعہ ایسی جگہ پیش آیا تھا جہاں ہماری دعوت تھی.اس وقت ہمیں ایک کھلے کمرہ میں بٹھایا گیا.لیکن اس میں کھانا نہ کھلایا گیا پھر بعد میں ایک تنگ کمرہ میں بٹھایا گیا اور اس میں بڑی دقت سے کھانا ) سیرت المہدی جلد سوم ) کھایا گیا.“ یہ رویا یوں پوری ہوئی کہ حضرت صاحب لدھیانہ تشریف لے گئے اور منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر دعوت ہوئی.جہاں پہلے ایک کھلے کمرہ میں بٹھا کر پھر ایک تنگ کمرہ میں کھانا کھلایا گیا.پھر وہاں ایک شخص مولوی عبدالعزیز صاحب کی طرف سے منشی احمد جان کے پاس آیا اور آکر کہا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ قادیان والے مرزا صاحب ہمارے ساتھ آ کر بحث کر لیں یا کو توالی چلیں.اس پر غشی صاحب نے کہا کہ ” اگر کسی نے اپنے شکوک رفع کروانے ہیں تو محلہ صوفیاں میں آجائے.جہاں حضرت صاحب ٹھہرے ہوئے ہیں.اس رؤیا کے پورا ہونے پر لالہ ملاوا مل نے شہادت دی تھی کہ واقعی رویا پورا ہوگیا.“ اس دعوت میں حضرت میر عنایت علی شاہ لدھیانوی بھی شریک تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں پر امن جماعت میں آپ کا نام درج فرمایا ہے.ماخذ : (۱) انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) سیرت المہدی جلد سوم

Page 166

143 ☆ ۸۸.حضرت منشی عبدالحق صاحب کرانچی والہ.لدھیانہ بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء تعارف حضرت منشی عبدالحق رضی اللہ عنہ لدھیانہ کے رہنے والے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوب مورخه ۲۹ ستمبر ۱۸۹۱ء بنام حضرت چوہدری رستم علی صاحب میں حضرت منشی عبدالحق صاحب کرانچی والہ لدھیانہ کا ذکر ہے جو آپ نے کوٹھی نواب لوہارو واقع بازار یکی ماراں دہلی ) سے لکھا تھا.آج یہ عاجز بخیر و عافیت دہلی میں پہنچ گیا ہے.ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ القدیر ایک ماہ تک اسی جگہ رہوں.کوٹھی نواب لوہارو جوبلی ماراں والے بازار میں ہے رہنے کے لئے لی ہے.آپ ضرور آتی دفعہ ملیں اور میں نہایت تاکید سے آپ کو سفارش کرتا ہوں کہ آپ شیخ عبدالحق کرانچی والے کی نوکری کی نسبت ضرور کوشش فرما دیں کہ وہ میرے بہت مخلص ہیں.زیادہ خیریت بیعت : آپ نے ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت ۶ نمبر پر درج ہے.“ عبد الحق خلف عبدالسمیع لدھیانہ محلہ رنگریزاں، پیشہ نوکری رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول) جماعت احمدیہ کراچی کے صد سالہ جو بلی سونیر وغیرہ میں صفحہ ۲۴۷ اور " کراچی تاریخ احمدیت میں آپ کا تعارف درج ہے.آپ کی مہمان نوازی کے بارہ میں روایت: اخبار الحکم ۱۹۰۲ء کی ایک شائع شدہ روایت میں حضرت اقدس کی مہمان نوازی کا خاص طور پر ذکر ہے ”حضرت قریباً روزانہ نشی عبدالحق کو سیر سے واپس لوٹتے وقت یہ فرماتے کہ آپ مہمان ہیں آپ کو جس چیز کی تکلیف ہو مجھے بے تکلف کہیں.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام، آسمانی فیصلہ اور آئینہ کمالات اسلام میں نے مخلصین ، جلسہ سالانہ میں شرکت و چندہ دہندگان اور سراج منیر میں چندہ مہمان خانہ دینے والوں میں ذکر کیا ہے.حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں آپ کے بارہ میں فرمایا.”میاں عبدالحق ( خلف) عبدالسمیع یہ ایک اول درجہ کا مخلص اور سچا ہمدرد اور محض اللہ محبت رکھنے والا دوست اور غریب مزاج ہے...میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دولت مندوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں کہ اس سعادت کا عشر بھی حاصل کر سکیں.ایک عاشق صادق کی طرح محض اللہ خدمت کرتا رہتا ہے.اور اس کی یہ خدمات اس آیت کا مصداق اُس کو ٹھہرا رہی ہیں."يُوثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر: ١٠) “ اپنے (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد سوم صفحه ۵۳۷) ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) آسمانی فیصلہ روحانی

Page 167

144 خزائن جلد ۲ (۴) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۳ (۶) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۴۲ (۷) صد ساله سوو نیئر جماعت کراچی ۱۹۸۹ء صفحه ۲۴۷ (۸) کراچی تاریخ احمدیت ☆ -۸۹.جناب حافظ فضل احمد صاحب.لاہور بیعت : ۲۷/ دسمبر ۱۸۹۱ء تعارف و بیعت : حافظ فضل احمد صاحب گجرات کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام میاں نوراحمد صاحب تھا آپ کا ذکر رجسٹر بیعت میں ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء کی ہے جہاں آپ کی بیعت ۷۴ نمبر پر درج ہے جہاں پورا تعارف یوں ہے حافظ فضل احمد ولد میاں نوراحمد ساکن گجرات پنجاب حال وارد و ملازم دفتر ایگزامین ریلوے محلہ سیٹیاں دروازہ بھائی لاہور آفس میں کلرک ( رجسٹر بیعت اُولیٰ مندرجہ تاریخ احمدیت جلداول) حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آسمانی فیصلہ میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں اور آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں کی فہرست میں آپ کا نام درج فرمایا ہے نیز تحفہ قیصریہ، کتاب البریہ اور آریہ دھرم میں چندہ دہندگان جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پر امن جماعت میں بھی ذکر ہے.(نوٹ) آپ کا تعلق جناب شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر سے تھا.خلافت اولی کے بعد نظام خلافت سے وابستہ نہ رہے اور غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) آریہ دھرم روحانی خزائن جلده ۱ (۵) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۶) لاہور تاریخ احمدیت (۷) رجسٹر بیعت اولی مندرجہه تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ ۳۵۶.☆ ۹۰.حضرت قاضی امیر حسین صاحب.بھیرہ ولادت.۱۸۴۸ء.بیعت مئی ۱۸۹۳ء.وفات ۲۴ راگست ۱۹۳۰ء تعارف: حضرت قاضی امیر حسین رضی اللہ عنہ بخاری سید تھے.مغلوں کے عہد میں آپ کے آباء کو قاضی کا جلیل القدر عہدہ ملا تھا.حصول تعلیم کا آغاز جوانی کے عالم میں ہوا.اس سے قبل اپنے والد صاحب کے ساتھ گھوڑوں کی تجارت کرتے تھے.سہارن پور کے مدرسہ مظہر العلوم سے تعلیم کی تکمیل کی.جب واپس بھیرہ تشریف لائے تو محلّہ

Page 168

145 قاضیاں میں اپنی خاندانی مسجد میں حدیث کا درس دیا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل سے تعلق : حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ ان دنوں بھیرہ میں تھے اور اُن کی سخت مخالفت ہورہی تھی.انہی دنوں آپ کی شادی حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب کی بھانجی سے ہوئی تھی.آپ نے مدرستہ المسلین امرتسر میں ملازمت کا آغاز کیا.بیعت : مئی ۱۸۹۳ء میں جنگ مقدس (مباحثہ پادری عبداللہ آتھم ) امرتسر کے دوسرے روز آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ میری دعوت منظور فرماویں حضرت نے آپ کی دعوت کو حضرت شیخ نور احمد صاحب کی منظوری پر رکھا.حضرت قاضی صاحب نے دعوت کی حضرت اقدس نے منظوری دے دی.اس دعوت کے بعد حضرت قاضی صاحب نے بیعت کر لی.دینی خدمات : آپ امرتسر سے ملازمت چھوڑ کر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان آگئے.آپ کے شاگردوں میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی) اور حضرت میر محمد اسحاق شامل تھے.”جمہیر الصوت“ ہونے کے با وجود کلام الہی کی تلاوت آہستہ آہستہ کرتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل آپ کی قرآن فہمی کی اکثر دارد یتے تھے.اور ان کے قرآنی نکات کی قدر کرتے تھے.آپ حضرت مسیح موعود کے عشق و محبت اور آپ کی اطاعت میں گداز تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو خدا تعالیٰ کی ایک آیت رحمت یقین کرتے تھے.آپ کے تلامذہ میں سے حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.آپ کے بعض علمی مضامین الحکم اور الفضل میں شائع ہوتے رہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام میں سالانہ جلسہ۱۸۹۲ء میں شریک ہونے والوں اور چندہ دہندگان میں ذکر ہے.حضرت مصلح موعود کے تعلق : حضرت خلیفہ مسیح الثانی مصلح الموعو ے آپ کا تعلق استاد کی حیثیت سے تھا.سے وفات: آپ نے ۲۴ / اگست ۱۹۳۰ء کو وفات پائی آپ کا وصیت نمبر ۲۱۲۵ ہے.اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) رسالہ ” نوراحمد (۳) ذکر حبیب (۴) روزنانہ الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۵۰ء (۵) تاریخ احمدیت بھیرہ.

Page 169

146 ☆ ۹۱ - حضرت مولوی حسن علی صاحب مرحوم.....بھاگلپور ولادت : ۲۲ / اکتوبر ۱۸۵۲ء.بیعت : ۱۸۹۴ء.وفات : فروری ۱۸۹۶ء تعارف: حضرت مولوی حسن علی رضی اللہ عنہ بھاگلپوری پٹنہ بہار میں ٹیچر تھے.آپ کی ولادت ۲۲ را کتوبر۱۸۵۲ء کو ہوئی.حضرت مسیح موعود کی پہلی ملاقات کے لئے ۱۸۸۷ء میں قادیان آئے.آپ حضور اقدس سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : میں مرزا صاحب سے رخصت ہوا.چلتے وقت انہوں نے اس کمترین کو براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ کی ایک ایک جلد عنایت کی.انہیں میں نے پڑھا.ان کے پڑھنے سے مجھے معلوم ہوا کہ جناب مرزا صاحب بہت بڑے رتبے کے مصنف ہیں.خاص کر براہین احمدیہ میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر دیکھ کر مجھ کو کمال درجہ کی حیرت مرزا صاحب کی ذہانت پر ہوئی.“ بیعت : آپ حضور کی دوسری ملاقات کے لئے ۱۸۹۴ء میں قادیان آئے اور بیعت کر لی.دینی خدمات: آپ کی مساعی سے برٹش انڈیا میں بہت سی سعید روحیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں شامل ہوئیں.پروفیسر آرنلڈ (Prof.Arnold) لنڈن یونیورسٹی نے اپنی کتاب ”پریچنگ آف اسلام“ (Preaching of Islam) ۱۹۱۳ء صفحہ ۳۸۳ پر آپ کی خدمات کو ز بر دست خراج تحسین ادا کیا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ۱۸۹۴ء میں آپ کو مغربی ممالک کے اولین واعظ کی حیثیت سے منتخب فرمایا.مگر افسوس زندگی نے وفا نہ کی.آپ نے ایک کتاب تائید حق، تصنیف فرمائی جسے حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب آف مدراس نے پنجاب پر لیس سیالکوٹ سے زیر اہتمام حضرت منشی غلام قادر فصیح " شائع کرایا.آپ پٹنہ (بہار) ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے.آپ فصیح البیان واعظ تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر ہے.وفات : آپ نے فروری ۱۸۹۶ء میں وفات پائی.بھاگلپور شہر کے شاہ جنگی قبرستان میں تدفین ہوئی.ماخذ : (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) رساله نور احمد (۳) رسالہ تائید حق (۴) اصحاب احمد جلد دہم

Page 170

147 ☆ ۹۲ - حضرت مولوی فیض احمد صاحب لنگیاں والی.گوجرانوالہ بیعت : ۸ ستمبر ۱۸۹۲ء تعارف و بیعت : حضرت (ڈاکٹر) مولوی فیض احمد رضی اللہ عنہ لنگیا نوالی ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے لیکن بیعت کے دنوں میں ضلع جہلم میں بطور ویکسی نیٹر (vaccinator) کام کر رہے تھے.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت ۳۵۱ نمبر پر ہے جو ۸ ستمبر ۱۸۹۲ء کی ہے.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کی ایک تقریر میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاصر علمائے کرام میں شامل کیا گیا ہے.آپ کے ایک بڑے بھائی حضرت میاں حسن احمد صاحب کی وفات کا ذکر الحکم ۲۴ / جولائی ۱۹۰۱، صفحہ ۱۳ کالم ۳ پر موجود ہے.اولاد مکرم ناصر احمد صاحب جموں آپ کے بیٹے تھے جو ۱/۸ کتو بر ۱۹۹۳ء کو وفات پاگئے.(نوٹ) آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ ۳۵۶ (۲) اخبار الحکم قادیان جولائی ۱۹۰۱ء (۳) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسه سالانه ۱۹۶۴ء ☆ ۹۳.حضرت سید محمود شاہ صاحب مرحوم.سیالکوٹ بیعت: ۲۷ / مارچ ۱۸۹۱ء تعارف: حضرت سید محمود شاہ رضی اللہ عنہ حضرت حکیم میر حسام الدین کے بیٹے تھے.آپ کے بڑے بھائی حضرت سید میر حامد شاہ بھی ۳۱۳ صحابہ میں شامل تھے.آپکے خاندان کے بزرگوں سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قریبی دوستانہ مراسم تھے.بیعت : آپ اتفاق سے لدھیانہ گئے ہوئے تھے.وہیں آپ نے بیعت کر لی.آپ کی بیعت کے بعد حضرت میر حامد شاہ صاحب اور ان کے بہنوئی حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب نے بیعت کی.آپ کے خاندان میں آمد ”امام“ کا پہلے سے تذکرہ تھا.حضرت چنانچہ سید فصیلت علی شاہ صاحب کی ایک خالہ نے ایک رات آپ کے والد کو آواز دے کر کہا کہ بین لوامام سات سال کا ہو گیا ہے.

Page 171

148 آپ کی بیعت ۲۷ مارچ ۱۸۹۱ ء کی ہے جو ۲۲۲ نمبر پر رجسٹر بیعت اولیٰ میں درج ہے جہاں میر محمود احمد شاہ ولد میر حسام الدین صاحب ساکن سیالکوٹ تحریر ہے.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی اہلیہ حضرت صغریٰ بی بی کی بیعت ۲۲ ۲ نمبر پر درج ہے.تاریخ بیعت سے فروری ۱۸۹۲ ء ہے.(رجسر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ ۳۵۸) حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں اپنے مخلصین ، آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ ۱۸۹۲ء کے شرکاء میں آپ کا ذکر کیا ہے.وفات : حضرت سید محمود شاہ صاحب اور آپ کی اہلیہ صاحبہ چالیس روز کے وقفے سے عین ایام جوانی میں وفات پاگئے.اولاد : آپ کی یادگار محترم میر عبدالسلام صاحب (امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ) تھے جن کی صاحبزادی محترمہ تنویر الاسلام صاحبه محترم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب ابن حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیگم ہیں.محترم میرعبدالسلام صاحب لندن (انگلستان) میں فوت ہوئے اور وہیں آپ مدفون ہیں.ماخذ : (۱) رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۴ ۳۵ (۲) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد۳ (۳) آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) مضمون ” حضرت میر عبدالسلام صاحب، مطبوعہ الفضل ۲۴ را پریل ۱۹۸۹ء ☆ ۹۴.حضرت مولوی غلام امام صاحب عزیز الواعظین منی پور.آسام بیعت : ۷/ جون ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۹۱۹ء کے بعد تعارف: حضرت مولوی غلام امام رضی اللہ عنہ منی پور آسام کے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام شاہ محمد بن محمود شاہ تھا ساکن جمال پور تھے.آپ چھوٹے سے قد کے دُبلے پتلے، غریب، منکسر المزاج ، کم گو، متقی اور صاف باطن شخصیت کے مالک عزیز الواعظین کا لقب پانے والے تھے.حضرت مولوی غلام امام صاحب اصل میں شاہجہانپور کے رہنے والے تھے لیکن اپنی ملازمت کے سلسلے میں بھارتی صوبہ آسام کے شہر منی پور میں سکونت اختیار کر گئے اور وہیں اپنی ساری عمر گزاری.بیعت : رجسٹر بیعت اولیٰ کے ریکارڈ میں آپ کی بیعت ۷ جون ۱۸۹۲ء کی ہے جو ۳۲۷ نمبر پر ہے جہاں آپ کو مولوی غلام امام عزیز الواعظین ابن شاه محمد بن محمود شاہ ساکن جمال پوری حال منی پور ملازم صاحب لکھا گیا ہے.آپ منی پور میں ایک انگریز ایگزیکٹو انجینئر مسٹر مچل کے ہاں بطور خانساماں ملازم تھے اور ان کے تمام گھر کا انتظام کرتے حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : تبلیغ رسالت جلد ہشتم میں مندرجہ ایک اشتہار میں حضور نے اپنی جماعت

Page 172

149 سے مخلصین کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان کے اخلاص کو تعریفی کلمات سے نوازا ہے.ان مخلصین میں آپ کا نام بھی شامل ہے.اسی طرح آئینہ کمالات اسلام (حصہ عربی ) میں حضور اپنے مریدوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.ومِنَ الاحِبَّاءِ في الله أخى المولوی غلام امام منی پور.“ 66 حضرت اقدس نے سراج منیر میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی کے شرکاء اور کتاب البریہ میں پرامن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.صاحب الہام و رویا وجود : آپ ایک صاحب الہام ور دیا صادقہ بزرگ تھے خود انگریز انجینئر آپ کی بزرگی کا قائل تھا.آپ دو دفعہ منی پور آسام سے قادیان گئے.حضرت مسیح موعود کی صداقت تک رسائی کا بڑا ذریعہ خود آپ کے کشوف و رو یا صادقہ ہوئے.اس امر کو حضرت غلام امام صاحب نے قادیان کے مجمع میں بھی بیان کیا تھا.آپ فرماتے ہیں.میں نے بہت دفعہ حضرت اقدس کو رویا میں دیکھا ہے اور کئی مرتبہ حضرت رسول خدا صلی اللہ وو علیہ وسلم نے بھی ان کی تصدیق کی ہے کہ یہ شخص یعنی حضرت مرزا صاحب اپنے دعوئی میں بالکل سچا ہے...دینی خدمات: بھارت کے دور دراز صوبے آسام میں آپ کے ذریعے احمدیت کو بہت فروغ ملا اور بہت سے افراد آپ کے ذریعہ احمدی ہوئے.سلسلے کی مالی تحریکات میں بھی مسابقت کا رنگ رکھتے تھے.آپ منی پور میں صدر انجمن کے سیکرٹری رہے اور نہایت محنت سے اس ذمہ داری کو نبھایا.رپورٹ صدر انجمن احمد یہ قادیان ۱۲.۱۹۱۱ ء میں ذکر ہے کہ: ومنی پور واقعہ آسام سیکرٹری مولوی غلام امام صاحب عزیز الواعظین ، اس جگہ مولوی صاحب کا وجود غنیمت ہے اور آپ ہی کی کوشش کا نتیجہ یہ ہے.مولوی صاحب کو سلسلہ سے بڑا اخلاص ہے اور بڑی محنت سے تکلیف اٹھا کر کام کرتے ہیں.جزاه الله خيراً آپ حضرت مسیح موعود کو ایک معقول رقم سے چندہ ادا کرتے.حضرت مسیح موعود کا پہلا تبلیغی اشتہار جو انگریزی اور اردو میں تھا آپ ہی کی توسط سے آسام کے مولانا محمد امیر صاحب کے پاس پہنچا.خلافت ثانیہ کے انتخاب پر آپ نے غیر مبائعین کے رویہ پر نہایت تاسف کا اظہار فرمایا اور انہیں امام کا دامن پکڑنے کی تلقین فرمائی.ماخذ: (۱) رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۶۱ (۲) تاریخ احمدیت صفحه ۲ ۲۵ جلد چهارم (۳) تاریخ احمدیت جلد دوم ( باراول ) (۴) رجسٹر روایات صحابہ نمبر۱۱ (۵) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۶) تبلیغ رسالت (۷) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۸) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۹) عسل مصفی (۱۰) رپورٹ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۱۱ء (۱۱) لفضل ۱۳ را پریل ۱۹۱۴ء صفحه ۳.

Page 173

150 ☆ ۹۵ - حضرت رحمن شاہ صاحب ناگپور ضلع چاندہ.روڈ ڈہ بیعت : ابتدائی زمانہ میں ره تعارف و بیعت : حضرت رحمن شاہ رضی اللہ عنہ ناگپور ضلع چاندہ روڈڑہ کے رہنے والے تھے.حضرت اقدس مسیح موعودؓ نے آپ کا نام چند احباب جماعت کی فہرست کتاب البریہ میں صفحہ ۲۳۴ پر درج فرمایا ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا نام ۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں شامل ہے.( نوٹ ) آپ کے تفصیلی سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.☆ ۹۶ - حضرت میاں جان محمد صاحب مرحوم.قادیان بیعت : ۱۴/جون ۱۸۸۹ء.وفات: ۱۸۹۶ء تعارف و بیعت : حضرت میاں جان محمد رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام میاں ساگر صاحب تھا.کشمیر کے رہنے والے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا نام براہین احمدیہ (حصہ اول) کے مالی معاونین میں بھی درج فرمایا ہے.آپ کی بیعت ۱۴ جون ۱۸۸۹ء کی ہے.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۹۸ نمبر پر درج ہے.جہاں تعارف امام مسجد کلاں لکھا ہے.بیت اقصیٰ حضرت اقدس کے والد ماجد نے انہیں امام الصلوۃ مقررفرمایا تھا.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی تحریر فرماتے ہیں: میاں جان محمد صاحب کشمیری قادیان کی مسجد اقصیٰ کے امام ہوا کرتے تھے.ہمارے دادا صاحب نے انہیں مقرر کیا ہوا تھا.وہ ہمارے گھر کا کام کاج بھی کرتے تھے.“ ( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحه ۴۱۳) حضرت میاں جان محمد صاحب حضرت صاحب کے پرانے دوستوں میں سے تھے.اور حضور کے بعض سفروں میں ساتھ بھی رہے.حضرت میر عنایت علی صاحب لدھیانوی ( بیعت ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء ) بیان کرتے ہیں.” جب اول ہی اول حضور اقدس لدھیانہ تشریف لائے تھے تو صرف تین آدمی ہمراہ تھے.میاں جان محمد صاحب و حافظ حامد علی صاحب اور لالہ ملا وامل صاحب.....غالباً تین روز حضور لدھیانہ میں ٹھہرے“ (سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر ۵۳۱)

Page 174

151 آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ۱۸۸۴ء میں لدھیانہ گئے تھے.ابھی براہین احمدیہ کبھی بھی نہیں گئی تھی کہ حضرت میاں جان محمد صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ ان کی والدہ کے بطن سے حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں جب براہین احمدیہ کھی گئی اور مجددیت کا دعوی کیا تو یہ تعبیر معلوم ہوئی کہ یہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہی ہیں.آپ کا گھر اور مرزا غلام مرتضیٰ کا گھر دوگھر نہیں ہیں اور آپ بچپن سے حضرت اقدس کی والدہ کو ماں کہا کرتے تھے.حضرت اقدس کے پاس جب میاں جان محمد صاحب آ جاتے تو آپ سب کام چھوڑ کر ملتے.حضرت خلیفہ اسیح الاول اس پر بہت رشک کرتے تھے.حضرت میاں جان محمد صاحب حضرات سیکھوانی برادران کے ماموں تھے.چنانچہ سیکھوانی برادران کی روایات میں ان کا ذکر خیر موجود ہے.حضرت اقدس کی پیشگوئی کے شاہد : حضرت اقدس نے تریاق القلوب میں آپ کا ذکر پیشگوئیوں کے گواہ کے طور پر بھی فرمایا ہے.حضرت اقدس کی کتب میں تذکرہ : ازالہ اوہام میں مخلصین کے ضمن میں، آسانی فیصلہ اور آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں میں اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے طور پر ذکر ہے.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی میں آپ کا بڑی محبت اور اخلاص سے ذکر کیا ہے.وفات : آپکی وفات ۱۸۹۶ء میں ہوئی.آپ کا جنازہ سیدنا حضرت مسیح موعود نے خود پڑھایا تھا اور نماز جنارہ بہت لمبی ہو گئی تھی.اس کے بارہ میں حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں: ” جب مرحوم کا جنازہ قبرستان گیا تو حضرت اقدس علیہ السلام نے نماز جنازہ پڑھائی اور خود امام ہوئے.نماز میں اتنی دیر لگی کہ ہمارے مقتدیوں کے کھڑے کھڑے پیر دکھنے لگے...اور یوں بگڑا کہ کبھی ایسا موقع مجھے پیش نہیں آیا کیونکہ ہم نے دومنٹ میں نماز جنازہ ختم ہوتے دیکھی ہے.پھر مجھے ہوش آیا آیا تو سمجھا کہ نماز تو یہی نماز ہے.پھر تو میں مستقل ہو گیا اور ایک لذت اور سرور پیدا ہونے لگا.ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور! اتنی دیر نماز میں لگی کہ تھک گئے.حضور کا کیا حال ہوا ہوگا.یعنی آپ بھی تھک گئے ہوں گے.حضرت اقدس علیہ السلام : ہمیں تھکنے سے کیا تعلق ہم تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے تھے.اس سے مرحوم کی مغفرت مانگتے تھے.مانگنے والا بھی تھکا کرتا ہے.جو مانگنے سے تھک جاتا ہے وہ رہ جاتا ہے.ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا پھر تھکنا کیسا.تذكرة المهدی حصہ اول طبع جدید ، صفحہ ۱۷۷۱۷۶) اولاد: آپ کے ایک لڑکے کا نام میاں دین محمد عرف میاں بگا تھا جنہیں قادیان کے اکثر لوگ جانتے تھے.میاں غفا را یکہ حضرت میاں جان محمد صاحب کے بھائی تھے.اور ان پڑھ تھے.ابتداء میں حضرت اقدس کے بعض

Page 175

152 سفروں میں بھی جاتے رہے.بعد میں یکہ بانی کرتے رہے.بوجہ ان پڑھ ہونے کے انہوں نے بیعت نہ کی.بعد میں خلافت ثانیہ میں آپ نے بیعت کی.ماخذ : (۱) براہین احمدیہ حصہ اول روحانی خزائن جلد ۱ (۲) ازالہ اوہام روحانی خزائن ۳ (۳) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد۴ (۴) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۵) کتاب البریه (۶) تریاق القلوب ( ۷ ) ملفوظات جلد دوم (۸) سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۹۲ ۱۶۳ (۹) تذکرة المهدی (۱۰) تاریخ احمدیت جلد اول (۱۱) سیکھوانی برادران مولفہ احمد طاہر مرزا غیر مطبوعہ.☆ ۹۷- حضرت منشی فتح محمد مع اہلبیت بز دارلیۃ.ڈیرہ اسماعیل خان بیعت: ۱۸۹۵ ء سے قبل.وفات: اپریل ۱۹۰۵ء تعارف: حضرت منشی فتح محمد خان رضی اللہ عنہ بلوچ بُز دار خاندان کے چشم و چراغ تھے.آپ کے والد ماجد کا نام محمد خان بز دار تھا آپ لیہ کے رہنے والے تھے جو ان دنوں ضلع ڈیرہ اسمعیل خان میں شامل تھا.آپ گورنمنٹ انگریزی کے محکمہ ڈاک میں بطور اسسٹنٹ پوسٹماسٹر ملازم تھے.بیعت : آپ کی بیعت کا زمانہ ۱۸۹۵ء سے قبل کا معلوم ہوتا ہے.آپ کی ہمشیرہ محترمہ غلام فاطمہ صاحب کے الہام تھیں.انہیں حضرت اقدس کے دعوئی مسیحیت و مہدویت کی خبر ملی اس کی شہادت حضرت فتح محمد بزدار نے ایک اشتہار میں ۱۲ مئی ۱۸۹۷ء کو شائع کرائی.ستمبر ۱۸۹۵ء میں حضرت مسیح موعود نے حکومت کے نام ایک اشتہار شائع کیا جس کے آخر میں اپنی جماعت کے تقریباً ۷۰۰ افراد کے نام درج فرمائے حضرت منشی فتح محمد خان صاحب کا نام بھی بلا ومتفرقات کے تحت شامل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۸۹۵ ء تک آپ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو چکے تھے حضور کا یہ اشتہار کتاب آریہ دھرم میں درج ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: سراج منیر کے آخر میں ” فہرست چندہ برائے طیاری مہمان خانہ و چاه وغیرہ کے تحت شامل اسماء میں آپ کا چندہ پانچ روپے اور تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی ۱۸۹۷ء کے تحت آپ کے ایک روپیہ چندے کا ذکر ہے.کتاب البریہ میں بھی آپ کا نام فہرست احباب میں درج ہے.وفات : آپ علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان میں نمایاں احمدی تھے.آپ کی وفات ۱۹۰۵ء میں اپریل کے آخری ہفتے میں ہوئی.آپ کے بھائی مکرم محمد حسین صاحب بلوچ نے اخبار کے نام مرسلہ مکتوب میں آپ کی وفات کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا:.فسوس که نیازمند کا بزرگ بھائی فتح محمد خان بلوچ بزدار اس دنیائے دوں سے عالم بالا کو چل بسے ہیں اگر چه برادر موصوف دنیاوی معاملات کے علاوہ مذہبی خیالات میں بھی بندہ سے کچھ مختلف تھے ان کی وفات نے

Page 176

153 میرے شیشہ دل پر پتھر کا کام کیا.کیا کہوں ! مختصر یہ کہ اب غم والم نا قابل برداشت ہے.بھائی صاحب متقی، پرہیز گار اور ہمارے سر کے سرتاج تھے ان کی وفات کی عجیب کہانی ہے کنگھڑ، علاقہ ڈیرہ غازی خان میں احمدی مشن کی تبلیغ بڑے زور سے کر رہے تھے اور اس علاقہ کی احمدی جماعت ( جو کہ بے یارو مددگار دشمن کے منہ کا شکارتھی ) میں ایک نئی روح پھونک دی تھی.کوہ سلیمان میں مدفون ہوئے.ہر چند کہ ان کی موت قابل رشک ہے لیکن دوارمان دل کے اندر رہ ہی گئے ایک تو یہ کہ ان کا مزار بے ٹھکانہ ہے دوسرے بسبب بعد مسافت کے ان سے زندگی میں ملنا تو درکنار جنازہ میں بھی شامل نہ ہو سکا.۷ دسمبر ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعود نے وفات پا جانے والے چند اصحاب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: وو سال گذشتہ میں ہمارے کئی دوست جدا ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ میں کوئی مصالح رکھے ہوں گے اس سال میں خون کے معاملات دیکھنے پڑے.“ البدر ۱ جنوری ۱۹۰۶ صفحہ ۸ نے بھی پچھلے سال کے فوت شدہ خلصین کا ذکر کیا ہے جس میں آپ کا نام بھی شامل ہے.اولاد: سردار محمد عنایت اللہ خان حیرت لیہ آپ کے پوتے تھے.جنہوں نے قادیان تعلیم پائی اور خاندان حضرت اقدس میں تربیت پائی (جن کا انتقال ۱۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء کو ہوا.) مکرم منشی فتح محمد کے دو بیٹے تھے.مکرم عبداللہ خان صاحب اور مکرم عبدالرحمن صاحب - مکرم عبد اللہ خان صاحب میں سے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن میں سے صرف سردار محمد عنایت اللہ صاحب احمدی تھے.حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو حیرت کا خطاب دیا.مکرم سردارمحمد عنایت اللہ خان صاحب کو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ آپ کے خاندان سے احمدیت ختم نہ ہوگی.چنانچہ آپ کے 4 بیٹے اور 4 بیٹیاں خدا کے فضل سے احمدی ہیں.مکرم منور اقبال صاحب بلوچ آپ کے بیٹے سابق امیر ضلع لیہ ہیں.(ان کے بیٹے مکرم ڈاکٹر احمد عمران صاحب فضل عمر ہسپتال میں خدمات بجالا رہے ہیں.) ماخذ: (۱) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱۰ (۲) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) اخبار البدر ۱۲ جنوری ۱۹۰۶ ء (۶) روزنامه الفضل ربوه مورخها ارجون ۱۹۹۴ء مضمون محترم سردار محمد عنایت اللہ خان حیرت (۷) عسل مصفی حصہ دوم صفحه ۴۶۸ تا ۴۷۰ ایڈیشن دوم ۱۹۱۴ء.

Page 177

154 ☆ ۹۸- حضرت شیخ محمد صاحب....ملتی بیعت: ۱۰/جولائی ۱۸۹۱ء.تعارف: حضرت شیخ محمد رضی اللہ عنہ ( بن شیخ احمد ) مکہ میں شعب بنی عامر میں رہائش رکھتے تھے.جہاں مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مولدحضرت علی رضی اللہ عنہ اور بنو ہاشم کے مکانات واقع تھے.سلسلہ احمدیہ سے رابطہ اور بیعت : آپ بغرض سیر و سیاحت بلاد ہند میں تشریف لائے تھے.آپ نے خواب میں دیکھا کہ عیسی آسمان سے نازل ہو گیا اور دل میں کہا کہ انشاءاللہ القدیر اپنی زندگی میں عیسی کو دیکھ لیں گے.جموں میں احمدیت کا پیغام ملا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر۴ را پریل ۱۸۸۵ء کو الہام نازل ہوا:." يَدْعُونَ لَكَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللهِ مِنَ الْعَرَبِ یعنی تیرے لئے ابدال شام اور عرب کے نیک بندے دعا کرتے ہیں.اس آسمانی خبر کے ساڑھے پانچ سال بعد لدھیانہ میں ۱۰ جولائی ۱۸۹۱ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر آپ نے بیعت کر لی.آپ کی بیعت ۱۴۱ نمبر پر رجسٹر بیعت اولی میں درج ہے.جہاں پورا نام یوں درج ہے شیخ محمد بن شیخ احمد مکی بن حاره شعب عامر ( رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۵) کچھ عرصہ برکات سے مستفید ہونے کے بعد ۱۸۹۳ء کے وسط میں مکہ شریف بخیریت واپس پہنچ گئے.فریضہ حج کی بجا آوری کے بعد ۴ را گست ۱۸۹۳ء کو حضرت اقدس کی خدمت میں تفصیلی کوائف و حالات لکھے.نیز شعب عامر کے ایک تاجر السید علی طالع تک پیغام حق پہنچانے اور انہیں عربی تصانیف بھجوانے کی نسبت عرضداشت کی.چنانچہ حضرت اقدس نے ”حمامة البشرئ (عربی) مکہ معظمہ بھجوائی جس میں حضور نے دعویٰ مسیحیت ، دلائل وفات مسیح اور نزول مسیح اور خروج دجال کا تذکرہ فرمایا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں فرمایا جبی فی اللہ محمد ابن احمد مکی من حاره شعب عامر یہ صاحب عربی ہیں اور خاص مکہ معظمہ کے رہنے والے صلاحیت اور رشد اور سعادت کے آثار ان کے چہرہ پر ظاہر ہیں حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں آپ کے دور وباء کا ذکر فرمایا ہے.ان کا کہنا ہے کہ جب میں آپ کی نسبت برے اور فاسدظنون میں مبتلا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے کہتا ہے محمد اَنْتَ كَذَّابٌ یعنی اے محمد کذاب تو ہی ہے ان کا یہ بھی بیان ہے کہ تین برس ہوئے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ عیسی آسمان سے نازل ہو گیا ہے اور میں نے اپنے دل میں کہا تھا کہ انشاء اللہ القدیر میں اپنی زندگی میں عیسی کو دیکھ لوں گا.(صفحہ ۵۳۹) وفات : آپ کی وفات کی تاریخ کا حتمی طور پر علم نہیں ہو سکا.

Page 178

155 ماخذ : (1) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) حمامته البشرکی روحانی خزائن جلد۷ (۴) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۵ (۵) مضمون ” حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اسیح الاول کی مالی تحریکات روزنامه الفضل ربوه مورخه ۴ / جنوری ۲۰۰۲ (۶) روزنامه افضل ۱۹ مئی ۱۹۸۳ء ۹۹.حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب مرحوم.لود یا نہ ولادت : ۱۲۳۰ھ.وفات : ۲۷ / دسمبر ۱۸۸۵ء تعارف: حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ لدھیانہ کے صوفی بزرگ اور پیشوا تھے.آپ کو چہ محمد دہلی میں ۱۲۳۰ھ میں پیدا ہوئے.بھیرہ کے پاس ایک گاؤں چک سا ہو جو اب اُجڑ چکا ہے آپ کا آبائی وطن تھا.آپ کے والد حافظ الہی بخش تھے.دادا کا نام مولوی محمد عاقل صاحب تھا لال قلعہ کی مغل شاہی خاندان کی بیگمات ان کی مرید تھیں.آپ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے.والدین کے فوت ہونے کے بعد بچپن میں پرورش دیلی کے ایک رئیس الہی بخش نے آپ بالکل بچپن میں دلی سے نکل آئے.خواجہ آتش دہلوی سے نسبت تلمیذ تھی.سولہ برس کی عمر میں فقہ کی کتاب مصنفہ قاضی ثناء اللہ صاحب کو اردو میں منظوم کیا جو طريقة الصلواۃ کے نام سے طبع ہو چکی ہے.جب آپ نے ملازمت ترک کر دی تو پھرتے پھراتے ایک بزرگ مولوی الہی بخش بمقام پاٹلی (پٹیالہ) کے کہنے پر ضلع گورداسپور موضع رتڑہ چھترہ میں حضرت امام علی شاہ (طریقہ نقشبندیہ) کے پاس آکر مرید ہو گئے.یہاں پر مجاہدات شاقہ کئے.آپ ایک فانی فی اللہ بزرگ تھے.آپ کی پاک فطرت نے حضرت اقدس کا مقام شناخت کر لیا تھا.چنانچہ آپ کا یہ یادگار شعر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شان اقدس کو ظاہر کرنے والا اور آپ کی روحانی بصیرت سے شناخت کی دلالت کرتا ہے.ہم مریضوں کی ہے تمہی یہ نگاہ تم مسیحا بنو خدا کے لئے ازالہ اوہام میں تذکرہ: حضرت اقدس مسیح موعود حضرت صوفی صاحب کی با تحریر فرماتے ہیں کہ: حاجی صاحب مرحوم و مغفور ایک جماعت کثیر کے پیشوا تھے اور ان کے مریدوں میں آثار رشد و سعادت واتباع سنت نمایاں ہیں.اگر چہ حضرت موصوف اس عاجز کے سلسلہ بیعت سے پہلے ہی وفات پا چکے لیکن یہ امران کے خوارق میں سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے بیت اللہ کے قصد سے چند روز پہلے اس عاجز

Page 179

156 کو ایک خط ایسے انکسار سے لکھا جس میں انہوں نے در حقیقت اپنے تئیں اپنے دل میں سلسلہ بیعت میں داخل کر لیا.چنانچہ انہوں نے اس سے سیرۃ صالحین پر اپنا تو بہ کا اظہار کیا اور اپنی مغفرت کے لئے دعا چاہی اور لکھا کہ میں آپ کی لہمی ربط کے زیر سایہ اپنے تئیں سمجھتا ہوں اور پھر لکھا کہ میری زندگی کا نہایت عمدہ حصہ یہی ہے کہ میں آپ کی جماعت میں داخل ہو گیا ہوں اور پھر کسر نفسی کے طور پر اپنے گذشتہ ایام کا شکوہ لکھا اور بہت سے رقت آمیز ایسے کلمات لکھے جن سے رونا آتا تھا.اس دوست کا وہ آخری خط جو ایک دردناک بیان سے بھرا ہے اب تک موجود ہے مگر افسوس کہ حج بیت اللہ سے واپس آتے وقت اس مخدوم پر بیماری کا ایسا غلبہ طاری ہوا کہ اس دور افتادہ کو ملاقات کا اتفاق نہ ہوا بلکہ چند روز کے بعد ہی وفات کی خبر سنی گئی اور خبر سنتے ہی ایک جماعت کے ساتھ قادیان میں نماز جنازہ پڑھی گئی.حاجی صاحب اظہار حق میں بہت بہادر آدمی تھے.بعض نا فہم لوگوں نے حاجی صاحب موصوف کو اس عاجز سے تعلق ارادت رکھنے سے منع کیا کہ اس میں آپ کی کسر شان ہے.لیکن انہوں نے فرمایا کہ مجھے کسی شان کی پرواہ نہیں اور نہ مریدی کی (ازالہ اوہام جلد دوم صفحه ۵۶۹،۵۳۸) براہین احمدیہ چھپی تو حضرت منشی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعارف ہوا.آپ نے اس کی حاجت 66 تائید میں ایک طویل اشتہار شائع کیا جس میں ایک شعر تھا ہم مریضوں کی ہے تہی پر نگاہ تم مسیحا بنو حضرت صوفی صاحب کا تذکرہ از حضرت مصلح موعود: بنو خدا کے لئے حضرت مسیح موعود ایک دفعہ لدھیانہ تشریف لے گئے حضرت خلیفہ اول کے خسر صوفی احمد جان جو ایک مشہور پیر اور بزرگ انسان تھے اور جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی کتاب ” براہین احمدیہ بھی پڑھی ہوئی تھی.انہوں نے آپ کی تشریف آوری کی خبر سنی تو بڑے خوش ہوئے اور ایک مرید سے جو کابل کے شہزادوں میں سے تھے آپ کی دعوت کروائی.حضرت مسیح موعود ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور جب کھانے سے فارغ ہوئے تو صوفی صاحب آپ کو مکان تک پہنچانے کے لئے آپ کے ساتھ ہی چل پڑے.صوفی احمد جان رتر چھتر والوں کے مرید تھے ( رتر چھتر گورداسپور کے علاقہ میں ہے ) حضرت مسیح موعود نے راستہ میں دریافت فرمایا که صوفی صاحب سنا ہے رتر چھتر والوں کی آپ نے بارہ سال تک خدمت کی ہے.کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ نے ان کی صحبت سے کیا فیض حاصل کیا ؟ انہوں نے کہا حضور ! وہ بڑے بزرگ اور باخدا انسان تھے.میں بارہ سال ان کی صحبت میں رہا اور بڑا فائدہ حاصل کیا.پھر انہوں نے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا جو ان کے پیچھے آرہا تھا اور کہا حضور ! ان کی برکت سے اب مجھ میں اتنی طاقت پیدا ہو چکی ہے کہ اگر میں اس شخص کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھوں تو فور از مین پر گر پڑے اور تڑپنے لگ جائے حضرت مسیح موعود

Page 180

157 یہ سنتے ہی کھڑے ہو گئے.تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر اس سوٹی کو جو آپ کے ہاتھ میں تھی زمین پر رگڑتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ میاں صاحب پھر اس کا آپ کو کیا فائدہ پہنچا اور اگر ایسا ہو جائے تو اس شخص کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ وہ چونکہ اہل اللہ میں سے تھے اس لئے آپ نے ابھی اتنا ہی فقرہ کہا تھا کہ وہ فوراً سمجھ گئے اور کہنے لگے حضور میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ میں ایسا نہیں کروں گا.میں سمجھ گیا ہوں کہ یہ ایک بے فائدہ چیز ہے.اس کا دین اور روحانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں“ ( تفسیر کبیر جلد پنجم صفحه ۳۴۲) نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزہ تو جب ہے کہ گرتے کو تھام لے ساقی حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے آپ کے بارے میں لکھا: آپ ہی وہ بزرگ تھے جن کی معرفت آموز اور حقیقت شناس آنکھوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جھکی ہوئی نیم باز آنکھوں میں اللہ تعالیٰ کی تجلی کا ایک خاص نور مسیحیت ،مہدویت اور نبوت کے دعوے سے پیشتر ہی دیکھ لیا تھا جو ہرہ کی تابانی سے چمک رہا تھا.“ طب روحانی: سیدنا حضرت مسیح موعود نے آپ کی تصنیف ”طب روحانی کا تعارف رسالہ نشان آسانی دیا ہے اور اسے پڑھنے کی تحریک فرمائی ہے.وفات: حضرت صوفی احمد جان کی وفات ۱۹ار ربیع الاول ۱۳۰۴ھ کو ہوئی لدھیانہ کے قبرستان گور غریباں“ میں تدفین ہوئی.اولاد: آپ کی اہلیہ حضرت قمر جان صاحبہ نے ۱۳ جنوری ۱۹۱۶ء کو وفات پائی جن سے آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئی.آپ کی ایک بیٹی حضرت صغری بیگم المعروف حضرت اماں جی ” حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے عقد میں آئیں.جنہوں نے خواتین میں سب سے پہلے بیعت کی.دوسری بیٹی حضرت غفور بیگم صاحبہ نے ۱۴ را پریل ۱۹۵۷ء کو وفات پائی.آپ کے بیٹے حضرت پیر افتخار احمد صاحب اور حضرت منظور محمد صاحب رفقا ۳۱۳۰ میں شامل ہیں.آپ کی اہلیہ حضرت قمر جان اور ساری اولاد کو حضرت اقدس کی بیعت کا شرف حاصل ہوا اور حضرت ملک جان اہلیہ حضرت پیر افتخار احمد اور حضرت محمدی بیگم اہلیہ پیر منظور محمد صاحب اور ان کی اولا د کور فقاء میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا.حضرت صوفی احمد جان کی اولا دلا ہور ، فیصل آباد، کراچی اور ربوہ میں آباد ہے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) حیات احمد جلد سوم (۳) تفسیر کبیر جلد پنجم (۴) مضمون ” حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی، مطبوعہ ریویو آف ریجنز (اردو) ستمبر ۱۹۴۷ء.

Page 181

158 ۱۰۰.حضرت منشی پیر بخش صاحب مرحوم...جالندھر بیعت: ۱۸۹۵ء سے قبل.وفات: ۱۸۹۷ء سے قبل تعارف: حضرت منشی پیر بخش رضی اللہ عنہ جالندھر شہر کے محلہ پوتیاں سو کے رہنے والے تھے.ارائیں قوم سے تعلق تھا.ضمیمہ انجام آتھم میں حضور نے انہیں ”مرحوم، تحریر فرمایا ہے.گویا اس وقت آپ قبول احمدیت کی سعادت پاچکے تھے.نوٹ: آپ کے تفصیلی حالات حاصل نہیں ہو سکے.اولاد : آپ کے بیٹے حضرت محمد ابراہیم صاحب نے ۱۸۹۷ء میں بیعت کی.آپ ان دنوں جہلم میں محکمہ ویکسی نیشن میں ملازم تھے.(ان کی اہلیہ کا نام حضرت جنت بی بی تھا.ہر دو کا وصیت نمبر ۹۴۴.۹۴۵ ہے.) ماخذ : (۱) الفضل قادیان ۱۵ / جولائی ۱۹۱۵ء(۲) تاریخ احمدیت جلداول.۱۰۱.حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب نومسلم قادیان ولادت: یکم جنوری ۱۸۷۹ء.بیعت: اکتوبر ۱۸۹۵ء.وفات : ۵/جنوری ۱۹۶۱ء تعارف: حضرت شیخ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ( ہریش چندر موہیال) کنجر وڑ دیتاں تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور ( حال ضلع نارووال ) میں یکم جنوری ۱۸۷۹ء کو پیدا ہوئے.آپ موہیال قبیلہ کے چشم و چراغ تھے.ہندو مذہب میں سابق نام ہریشچند رموہیاں تھا.آپ کے والد صاحب کا نام مہتہ گوراند تبدیل تھا.آپ کے آباء ممدوٹ کے کاروبار حکومت میں بڑا دخل رکھتے تھے.خاندان میں سے کسی نے اظہار اسلام کر دیا تو پوری قوم نے ریاست ممدوٹ کے نواب سے اسے واپس کرنے کو کہا لیکن نواب صاحب نے اسے واپس نہ کیا تو یہ لوگ برسر پر کار ہو گئے اور آخر نقل مکانی کر کے کنجروڑ میں دست برادری کے پاس و دوباش اختیار کی.اسلام کی طرف رغبت : ہندوانہ رسوم کے زیر اثر شیخ صاحب کے والدین نے آپ کے کان چھدوا رکھے تھے.دیوی دیوتا کے سامنے نہایت عقیدت اور شوق سے اپنے جسم کا خون گراتے.ایک پنڈت سے وید منتر یاد کر رکھے تھے.تالاب پر جا کر پڑھ پڑھ کر پوجاپاٹھ اور پرارتھنا کرتے.یہ اس زمانہ کی باتیں ہیں جب آپ کی عمر نو دس یا گیارہ سال کی

Page 182

159 تھی اور زمانہ ۱۸۸۸ء یا ۱۸۸۹ء کا تھا.آپ پانچویں کلاس میں پڑھتے تھے اور اس زمانہ کے مدارس کے نصاب میں ایک کتاب ”رسوم ہند شامل تھی.جوطلباء کو سبقا سبق پڑھائی جاتی تھی.اس کتاب نے آپ پر مقناطیسی اثر کیا.آپ ظلمات کی گھٹا سے نکل کر اُجالے میں آگئے اور آپ کے خیالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ بت پرستی کے موروثی جذ بہ پر بت شکنی اور وحدانیت کا فطرتی نور غالب آ گیا.۱۸۹۱ء میں ضلع قصور کے عیسائی مشنریوں نے چونیاں کے علاقہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا.لوگ ان کی طرف مائل تھے.صرف مسلمان ہی تھے جو بغیر دولہا کی برات تھے.منتشر اور بکھری ہوئی بھیڑوں کی طرح ان کو جو چاہتا اُچک لیتا کوئی نگران تھا نہ پاسبان.بعض خاندانی لوگ عیسائیت کا شکار ہو گئے اور بعض آرین خیالات کی وجہ سے دہریہ بن گئے.آپ ان ہر دو مجالس میں شامل ہوتے لیکن یہ بات کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے آپ کے دل میں میخ فولادی کی مانند گڑ گئی تھی.احمدیت سے تعارف : ۱۸۹۴ء کے ماہ رمضان میں مہدی آخر الزمان کے ظہور کی مشہور علامت یعنی کسوف و خسوف پوری ہوئی تو آپ کے سکول کے ہیڈ ماسٹر مولوی جمال الدین صاحب نے کمرہ جماعت میں بتایا کہ ”مہدی آخر الزمان کی اب تلاش کرنا چاہئے وہ ضرور کسی غار میں پیدا ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے ظہور کی بڑی علامت آج پوری ہو گئی ہے اس خبر نے آپ کے دل پر عجیب اثر کیا اور آپ کو مہدی آخرالزماں کی زیارت کی تڑپ پیدا ہوگئی.یہ سلسلہ جاری تھا کہ چونیاں میں ڈاکٹر سید میر حیدر صاحب حکمت خداوندی سے تعینات ہوئے.وہ حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کے رشتہ دار تھے.ڈاکٹر صاحب کے ایک صاحبزادے سید بشیر حیدر آپ کے کلاس فیلو تھے.وہ آپ سے بہت محبت سے پیش آیا کرتے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود کا نام ابھی تک آپ نے نہ سنا تھا.پہلی بار ایک لڑکا جو لا ہور گیا تو اس نے واپسی پر بتایا کہ ایک مسلمان مولوی نے جو بڑا عالم ہے ایک انگریز کی موت کی پیشگوئی کی اور وہ پوری ہوگئی اور وہ دور کہیں روس کی سرحد پر رہتا ہے.اس دوران آپ کے والد صاحب تبدیل ہو کر کہیں دور لائل پور کے علاقہ میں چلے گئے.حضرت بھائی جی کی سید بشیر حیدر صاحب سے خط و کتابت جاری تھی جس کا آپ کے والدین برا مناتے اور سمجھتے کہ یہ مسلمان ہو چکا ہے اس لئے آپ کو اس تعلق سے منع کرتے تھے.آپ کو والدین نے تلاش روزگار کے لئے بھجوایا.کاریگری آپ جانتے تھے یعنی پارے کا گلاس بنانا جو آپ نے اپنے والد صاحب سے سیکھا تھا.اس دوران آپ حسب وعدہ بذریعہ خط و کتابت سید بشیر حیدر کے پاس سیالکوٹ پہنچے.قادیان میں آمد اور بیعت : ایک دن سید بشیر حیدر صاحب کی کتابوں میں آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود کی کتابیں ”نشان آسمانی “ اور ” انوار الاسلام ملیں جو آپ نے بالاستیعاب پڑھیں.ان کے بارے میں سید بشیر حیدر صاحب کے بالا خانہ پر روزانہ بحث ہوا کرتی تھی چونکہ آپ کتب کے دلائل سے متاثر تھے اس لئے ان کی تائید میں دلائل دیتے جس سے ہندو آپ کے خیالات کا برا مناتے تھے.اس طرح آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود اور آپ

Page 183

160 کے دعوی سے متعلق تفصیلی تعارف ہو گیا اور آپ کے دل میں قادیان جانے کی آرزو مچلنے لگی.حضرت سید میر حامد شاہ کے پاس ماجرا عرض کیا گیا تو آپ نے کہا قادیان چلے جاؤ اور ایک رقعہ حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی" کے نام لکھ دیا.آپ قادیان گئے تو حضرت مولوی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا یہ لڑکا نابالغ ہے ایسانہ ہو کہ ہندو کوئی فتنہ کھڑا کر دیں.مولوی صاحب نے عرض کیا لڑکا سمجھدار اور خوب سوچ کے آیا ہے.اس پر آپ کھڑے ہو گئے اور عرض کیا کہ میں نے حضور کی کتاب ”انوار الاسلام “ اور ”نشانِ آسمانی“ کو اچھی طرح پڑھا ہے مجھے اسلام کا شوق ہے میں جوان اور بالغ ہوں وغیرہ وغیرہ.چنانچہ بھائی جی بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.یہ اکتوبر ۱۸۹۵ء کا زمانہ تھا.پھر ایک لمبے عرصہ تک ابتلاء وامتحان میں گزرے بڑی اذیتیں برداشت کیں.مگر ہر امتحان میں ثابت قدم رہے.خدمات دینیہ : آپ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے دور میں پہرہ دینے ، بٹالہ سے ڈاک لانے اور لے جانے اسی طرح لنگر کے لئے آٹا فراہم کرنے کے فرائض سر انجام دیتے رہے.جلسہ مذاہب عالم سے پہلے اشتہارات لے کر آپ ہی قادیان سے لاہور گئے.پھر لاہور ہی میں حضرت اقدس کی آخری علالت میں جہاں حضرت اقدس کی خدمت کا موقع ملا وہاں آخری زیارت کرانے کی ذمہ داری بھی آپ نے سرانجام دی.ہر مالی تحریک میں نمایاں حصہ لیا.آپ حضرت اقدس کے عاشق صادق تھے اور اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ قادیانی لکھا کرتے تھے.آپ کو بھائی جی پکارا جاتا تھا.اسطرح آپکا پورا نام بھائی جی عبدالرحمن قادیانی پڑ گیا.آپ صدر انجمن احمد یہ قادیان کے رکن تھے اور کئی دفعہ امیر مقامی اور قائم مقام ناظر اعلیٰ بھی رہے.حضرت اقدس مسیح موعود کا یہ جملہ آپ کی قدر و منزلت کو ظاہر کرتا ہے.جب بیعت کے وقت حضرت اقدس نے حضرت خلیفتہ اسیح الاول کی تشویش پر فرمایا: ”ہمارا ہے تو آ جائے گا“ ۱۹۲۴ ء میں آپ کو سفر انگلستان میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے رفیق سفراور ڈائری نویس ہونے کا شرف ملا اور آپ روئیداد سفر پر ڈائری مرتب کر کے قادیان بھجواتے رہے جو قادیان میں پڑھ کر سنائی جاتی رہی.وفات و تدفین : آپ نے ۵/ جنوری ۱۹۶۱ء عمر ۸۲ سال دورانِ سفر کراچی بمقام خانیوال وفات پائی.لاہور اور ربوہ میں جنازہ ہوا.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.اولاد: حضرت بھائی جی کی شادی ڈنگہ ضلع گجرات کے ایک مخلص احمدی شیخ محمد دین کی بیٹی محترمہ زینب بیگم صاحبہ سے ہوئی.جن سے آپ کی نرینہ اولاد (۱) مکرم مہتہ عبد الخالق صاحب (لاہور ) معروف جیالوجسٹ ( حکومت پاکستان کے مشیر رہے ہیں ) (۲) مکرم مہتہ عبدالسلام صاحب (۳) مکرم مہتہ عبدالقادر صاحب ( کراچی ) ہیں.ماخذ : (۱) ملفوظات حضرت اقدس (۲) سیرت و سوانح حضرت بھائی جی عبد الرحمن صاحب قادیانی (۳) الفضل ۱۹ نومبر ۲۰۰۱ء(۴) اصحاب احمد جلد نہم (۵) ماہنامہ انصار اللہ صد سالہ جوبلی نمبر ۱۹۸۹ء (۶) سفر یورپ ۱۹۲۴ء.

Page 184

161 ☆ ۱۰۲.حضرت حاجی عصمت اللہ صاحب لودیانہ بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۷ رمئی ۱۹۳۶ء تعارف و بیعت : حضرت حاجی عصمت اللہ رضی اللہ عنہ لودھیانہ سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.آپ جلسہ ۲۸ ۱ دسمبر ۱۸۹۲ء میں شریک ہوئے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود نے آپ کا ذکر شر کاء جلسہ میں اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں کیا جس سے آپ کے پیشے کا بھی پتہ چلتا ہے یعنی ے.میاں عصمت اللہ صاحب مستری لودھیانہ بازار خرادیاں.“ نوٹ: مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۱۹ ☆ ۱۰۳.حضرت میاں پیر بخش صاحب لودیا نہ بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۸۹۷ء تعارف و بیعت : حضرت میاں پیر بخش صاحب رضی اللہ عنہ لودھیانہ کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.آپ جلسہ ۱۸۹۲ء میں شریک تھے.آپ کے نام کے اندراج سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ زمیندار پیشہ تھے یعنی : ۸۵.میاں پیر بخش صاحب کھیر و ریاست پٹیالہ ( زمیندار ) حضرت مسیح موعود کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی میں شرکت کے سلسلے میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.نوٹ مزید تفصیلی سوانحی حالات دستیاب نہیں ہو سکے.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲

Page 185

162 ☆ ۱۰۴.حضرت منشی ابراہیم صاحب لود یا نه بیعت ۱۸۹۱ ء وفات دسمبر / ۱۹۰۹ء تعارف و بیعت : حضرت منشی ابراہیم رضی اللہ عنہ کا اصل وطن ہوشیار پور تھا لیکن سکھا شاہی کی تکالیف اور مصائب دیکھ کر لودھیانہ چلے گئے.آپ کی ابتدائی تعلیم مشن سکول لدھیانہ سے ہوئی.آپ کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا.آپ ۶۰ سال کی عمر میں حضرت صوفی احمد جان کے مریدوں میں داخل ہوئے.حضرت صوفی احمد جان نے ایک اشتہار حضرت مجدد زمان کی تائید میں دیا اس سے متاثر ہو کر آپ نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی.بیعت کے بعد لدھیانہ کے علماء نے آپ کی شدید مکالفت کی لیکن حضرت منشی صاحب نے کمال ہمت اور استقلال سے مقابلہ کیا.ازالہ اوہام میں آپ کا نام چندہ دہندگان میں درج ہے اور آئینہ کمالات اسلام میں ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے والوں میں نام درج ہے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ ۱۸۹۱ء کی ہے.آپ السابقون الاولون میں سے تھے.آپ مطب بھی کرتے رہے اور کچھ عرصہ مشین پریس میں کام کرتے رہے.تجارت بھی آپ کا شغل رہا.بیعت کے بعد آپ کی عبادت میں حقیقی حسن پیدا ہو گیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں چندہ دہندگان اور آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے سلسلہ میں ذکر فرمایا ہے.وفات حضرت منشی ابراہیم صاحب نے 110 سال کی عمر میں وفات پائی.آپ ۱۹۰۸ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے.اخبار البدر۷ار دسمبر ۱۹۰۹ ء صفحه ۸) اولاد آپ کے بیٹے حضرت منشی قمر الدین تھے جو یکے از ۳۱۳ رفقاء میں سے تھے.ایک پوتے بابو غلام حسین صاحب ۳۵ سال تک جماعت احمد یہ دہلی کے سیکرٹری مال رہے.۱۵ دسمبر ۱۹۵۳ء کو کراچی میں وفات پاگئے.ماخذ : (1) ازاله او بام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) کتاب البر یہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) «المصلح، کراچی ۷ دسمبر ۱۹۵۳ ، صفحه (۵) احکم قادیان ۲۱ / اپریل ۱۹۳۴ء (۶) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۷) اخبار بدر قادیان ۱۷ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۸ -

Page 186

163 ☆ ۱۰۵.حضرت منشی قمر الدین صاحب لودیا نہ ولادت : ۱۸۵۶ء.بیعت : ۱۸۹۱ء.وفات : ۲۲ نومبر ۱۹۲۶ء تعارف و بیعت : حضرت منشی قمر الدین رضی اللہ عنہ لودھیانہ کے رہنے والے تھے.آپ کا سن ولادت ۱۸۵۶ء ہے.آپ کے والد صاحب کا نام حضرت منشی محمدابراہیم ( نمبر ۱۰۴) تھا.آپ نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم بھی حاصل کی مینشی فاضل کا امتحان پاس کر کے محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے.۱۸ سال کی عمر میں محکمہ تعلیم کی نوکری مل گئی اور ایک لمبا عرصہ محکمہ تعلیم میں ملازم رہے.آپ کی مخالفت کے باوجود مدرس کے طور پر آپ کا تقرر بحال رکھا گیا.آپ تقریباً ۲۰ سال تک جماعت احمد یہ لدھیانہ کے محاسب، سیکرٹری اور صدر رہے.معاند احمد بیت سعد اللہ لدھیانوی جب اپنی نظموں میں جماعت احمدیہ کے خلاف گندہ دہنی کرتے تو آپ مومنانہ طور پر اس کا جواب دیتے رہے.۱۹۱۴ء میں نظام خلافت کے استحکام کے لئے موثر کوشش کی اور ہر قسم کے فتنوں کا مقابلہ کیا.حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.وفات : آپ نے ۲۲ نومبر ۱۹۲۶ء کوہ ے سال کی عمر میں وفات پائی.اولاد: آپ کے بیٹے حضرت بابو شیخ غلام حسین صاحب جماعت احمد یہ دہلی کے ۳۵ سال تک سیکرٹری مال رہے جو ۱۵؍ دسمبر ۱۹۵۳ء کو کراچی میں وفات پاگئے.عمر ۶۰ سال تھی.حضرت بابو صاحب اور آپ کے والد اور ان کے والد رفقا بانی سلسلہ احمد یہ تھے یعنی والد اور دا د ۳۱۳ رفقاء میں شامل تھے.آپ کی اولا دایک بیٹا اور چھ بیٹیاں ہیں.قمصد ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) مصلح کراچی ۷ اردیسمبر ۱۹۵۳ء.☆ ۱۰۶.حضرت حاجی محمد امیر خان صاحب.سہارنپور بیعت :۲۱ / فروری ۱۸۹۲ء تعارف: حضرت حاجی محمد امیر خان رضی اللہ عنہ سہارنپور ریاست پیالہ کے تھے.اور آپ کے والد کا نام مکرم چوہڑ خان صاحب تھا حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد لدھیانوی کی روایت کے مطابق جب ان کے والد ماجد حضرت صوفی احمد جان رضی اللہ عنہ حج بیت اللہ کے لئے گئے تو ان کے ساتھ تقریباً نہیں افراد کا قافلہ تھا.جس میں حضرت محمد امیر بھی شامل تھے اور جو عبارت ( حج بیت اللہ میں ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے پڑھی جاتی تھی.

Page 187

164 اس میں آپ بھی شریک تھے.(افتخار الحق یا انعامات خداوندی) بیعت : آپ کی بیعت ۲۱ فروری ۱۸۹۲ء بمقام کپورتھلہ مطابق رجسٹر بیعت نمبر ۲۹۵ درج ہے.رجسٹر بیعت میں مقیم سہارنپور تحریر ہے.آپ کے ذریعہ شیخ عبدالوہاب صاحب نے ہندوؤں میں سے اسلام قبول کیا انہوں نے غنیۃ الطالبین فتوح الغیب، اکسیر ہدایت اور احیاء العلوم پڑھی ( وفات ۱۰ راکتو بر ۱۹۵۴) حضرت اقدس نے آپ کا نام کتاب البریہ میں پُر امن جماعت میں تحریر کیا ہے.وفات: آپ ۵/جنوری ۱۹۰۸ء کو وفات پا گئے اور آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے.آپ کی بیوہ محترمہ عسکری بیگم صاحبہ کا بعد میں راجہ مددخان صاحب کے ساتھ عقد ہوا.اولاد: آپ کی اولا دایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی.ماخذ: (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۶۰ (۳) رجسٹر روایات نمبرے صفحہ ۳ (۴) الحکم ۱۵ اور ۶ / جنوری ۱۹۰۸.(۴) افتقار الحق یا انعامات خداوندی.☆ ۱۰۷.حضرت حاجی عبدالرحمن صاحب مرحوم.لودیا نہ بیعت: ۹۱-۱۸۹۰ ء وفات: ۱۸۹۷ء سے قبل : تعارف و بیعت: حضرت حاجی عبدالرحمن رضی اللہ عنہ لودھیانہ کے رہنے والے تھے.حضرت اقدس نے نشان آسمانی اور آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا ذکر کیا ہے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ ۹۱-۱۸۹۰ء کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں میں کیا ہے.اسی طرح نشان آسمانی اور کتاب البریہ میں چندہ دہندگان اور پرامن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.وفات : آپ ۱۸۹۷ ء سے قبل وفات پا گئے.نوٹ آپ کے تفصیلی سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) نشان آسمانی روحانی خزائن جلد ۲ (۳) کتاب البریه روحانی خزائن جلد ۱۳.

Page 188

165 ☆ -۱۰۸.حضرت قاضی خواجہ علی صاحب.اودیانہ بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات : ۲۴ /اگست ۱۹۱۲ء تعارف : حضرت قاضی خواجہ علی رضی اللہ عنہ حضرت اقدس کے ایک مخلص اور عاشق صادق لدھیانہ کے رہنے والے تھے.حضرت اقدس سے تعلق اخلاص : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں حضرت قاضی خواجہ علی رضی اللہ عنہ کو اپنے منتخب دوستوں میں شمار کیا ہے اور لکھا کہ قاضی صاحب ہمیشہ خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ایام سکونت لودھیا نہ میں ایک بڑا حصہ مہمانداری کا خوشی کے ساتھ اپنے ذمے لے لیتے ہیں.حضرت اقدس فرماتے ہیں: موصوف اس عاجز کے منتخب دوستوں میں سے ہیں.محبت و خلوص و وفا وصدق وصفا کے آثاران کے چہرہ پر نمایاں ہیں.خدمت گزاری میں ہر وقت کھڑے رہتے ہیں.حقانیت کی روشنی ایک بے غرضانہ خلوص اور لکھی محبت میں دمبدم ان کو ترقی دے رہی ہے.وہ دنیوی طور سے ایک صحیح اور بار یک فراست رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل نے اس عاجز کی روحانی شناسائی کا بھی ایک قابل قدر حصہ انہیں بخشا ہے.“ (ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۹ _۵۳۰) آپ مشہور رفیق ( یکے از ۳۱۳) حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گوڑیانی کے سُسر تھے.بیعت : لدھیانہ میں ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت قاضی خواجہ علی کو تیسرے نمبر پر بیعت کرنے کی سعادت ملی.خدمت سلسلہ: آپ عمر کے آخری حصہ میں قادیان آگئے تھے اور مہتم لنگر خانہ کے فرائض نہایت درجہ استقلال کے ساتھ ادا کرتے رہے.جب علماء نے حضرت اقدس مسیح موعود کے بارے میں کفر کا فتویٰ دیا تو آپ نے ایک نکتہ لطیف سے غلام دستگیر قصوری علماء میں سے ایک کے قصوری ہونے کا ذکر فرمایا کہ ایسے قصوری کا فتویٰ کیسے درست ہو سکتا ہے.وفات : آپ ۲۴ / اگست ۱۹۱۲ء کو لدھیانہ میں فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۹ (۲) سیرت المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۳۰۹ (۳) تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۹ (۴) ذکر حبیب (۵) رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۸ صفحه ۳ بروایت حضرت مولانا محمد ابراہیم بقا پوری.

Page 189

166 ☆ ۱۰۹.حضرت منشی تاج محمد خان صاحب.لودیا نہ ۱۵ جون بیعت : ۱۸۹۱ ء وفات: ۰۷-۱۹۰۶ء تعارف و بیعت : حضرت منشی تاج محمد خان رضی اللہ عنہ لدھیانہ کے رہنے والے تھے.آپ کے والد کا نام نجم الدین صاحب تھا.آپ کا اصل وطن موضع سیر بانڈی ریاست پونچھ متصلہ ریاست کشمیر تھا.وہاں سے ہجرت کر کے بھوکڑی ضلع لدھیانہ میں مقیم ہو گئے.رجسٹر بیعت کے مطابق آپ کی بیعت ابتدائی ۱۵ار جون ۱۸۹۱ء کی ہے اور کوائف میں پیشہ وعظ ومولویت تحریر ہے.لدھیانہ میں آپ میونسپل کمیٹی کے کلرک بھی رہے جیسا کہ حضرت اقدس نے ” آریہ دھرم میں کتاب البریہ میں آپ کے نام ساتھ تحریر فرمایا ہے.حضرت اقدس نے ازالہ اوہام اور آئینہ کمالات اسلام میں چندہ دہندگان میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.احباب لاہور اور لدھیانہ نے جو خط علمائے وقت کے نام حضرت مسیح موعود سے براہین احمدیہ کے بارے میں ظاہری و باطنی مباحثہ سے تصفیہ کے لئے لکھا تھا آپ اس کے دستخط کنندگان میں شامل تھے.آپ کے نام کا اندراج اس طرح سے ہے:.مولوی تاج محمد ساکن بھوکڑی علاقہ لودہیانہ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت منشی تاج محمد خاں رضی اللہ عنہ کا ذکر حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں اپنے مخلصین میں فرمایا ہے نیز آئینہ کمالات اسلام میں چندہ دہندگان اور کتاب البریہ میں پرامن جماعت کے ضمن میں ذکر فرمایا.اولاد: آپ کے بیٹے حضرت محمد حسن تاج صاحب ۱۸۹۹ء میں پیدا ہوئے.حضرت مولوی تاج محمد خان صاحب کی وفات حضور کی زندگی میں ہوئی تھی.حضور کے ارشاد پر انکے بیٹے کو جماعت لدھیانہ سے قادیان بھجوا دیا گیا جہاں آپ محلہ دارالرحمت میں سکونت پذیر رہے.ان کی روایات رجسٹر روایات نمبر 7 میں محفوظ ہیں.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.(۵) آریہ دھرم (۶) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول طبع جدید ایڈیشن (۷) رجسٹر روایات نمبرے صفحہ ۳۵۵.

Page 190

167 ☆ ۱۱۰.حضرت سید محمد ضیاء الحق صاحب روپڑ بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف: حضرت سید محمدضیاء الحق آپ کا تعلق روپڑ سے تھا.رو پڑ ضلع انبالہ میں واقع ہے.بیعت : انجام آتھم کی فہرست ۳۱۳ میں آپ کا ذکر آیا ہے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.نوٹ آپ کے سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.☆ ا.حضرت شیخ محمد عبد الرحمن صاحب عرف شعبان - کابلی بیعت: ابتدائی زمانہ میں.شہادت ۲۰ / جون ۱۹۰۱ء تعارف: حضرت شیخ محد عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کا آبائی وطن قریہ کندر خیل تھا.یہ بستی گردیز سے متصل ہے جو آج کل صوبہ پکتیا کا ہیڈ کوارٹر ہے.آپ کی قوم منگل تھی اور آپ کا قبیلہ احد ز ئی تھا.بیعت اور قیام قادیان: آپ ۱۸۹۷ء سے قبل قادیان آچکے تھے اور بیعت کر لی تھی.آپ قادیان میں دو یا تین دفعہ آئے تھے.ہر دفعہ کئی کئی مہینہ قادیان میں حضرت اقدس کی صحبت میں رہے اور آپ کی تعلیم اور براہین سے مستفیض ہوتے رہے.مخالفت اور ابتلاء: آخری دفعہ جب آپ واپس گئے تو آپ کی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی خبر امیر عبدالرحمن شاہ افغانستان کو بعض پنجابیوں نے پہنچائی جو آپ کے ساتھ ملازمت میں تھے.امیر اس بات کو سُن کر سخت برافروختہ ہو گیا اور آپ کو قید کرنے کا حکم دے دیا.حضرت اقدس کی پیشگوئی کے مصداق اور شہادت کا تذکرہ: مزید تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ قید کے دوران آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر حبس دم کر کے شہید کر دیا گیا.اس طرح آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الہام شَاتَانِ تُذْبَحَانِ کے اولین مصداق ٹھہرے جو حضرت مسیح موعود کی کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے اور یہ ۲۰ / جون ۱۹۰۱ء کا دن تھا جب ایک دوست نے قادیان آکر ان کی شہادت کی اطلاع دی.حضرت اقدس نے تذکرۃ الشہادتین میں پیشگوئی.شَاتَانِ تُذْبَحَانَ

Page 191

168 یعنی دو بکریاں ذبح کی جائیں گی کا مصداق قرار دیا.اور فرمایا: اور یہ پیشگوئی شہید مرحوم مولوی محمد عبد اللطیف اور اُن کے شاگر د عبدالرحمن کے بارے میں ہے کہ جو براہین احمدیہ کے لکھے جانے کے بعد پورے تئیس برس بعد پوری ہوئی.اب تک لاکھوں کروڑوں انسانوں نے اس پیشگوئی کو میری کتاب براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۱ میں پڑھا ہوگا.( تذكرة الشهادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۷۲ ) حضرت اقدس حقیقۃ الوحی میں حضرت مولوی عبدالرحمن کے بارہ میں فرماتے ہیں : اسی طرح شیخ عبدالرحمن کو بھی کاہل میں ذبح کیا گیا اور دم تک نہ مارا اور یہ نہ کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں بیعت کو تو ڑتا ہوں.یہی بچے مذہب اور بچے اسلام کی نشانی ہے کہ جب کسی کو اس کی پوری معرفت حاصل ہو جاتی ہے اور ایمان کی شیرینی دل و جان میں رچ جاتی ہے تو ایسے لوگ اس راہ میں مرنے سے نہیں ڈرتے.“ (حقیقه روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه نمبر ۳۶۰) کربلا کے خون ناحق سے ہوا یہ آشکار موت بھی ہوتی ہے دنیا میں بجائے زندگی مقتل عشق ہوتا ہے چشمہ آب بقا ابتلائے زندگی اصطفائے زندگی ہے ماخذ : (۱) براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد ۱ (۲) تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ (۳) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۴) حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب کا بل مطبوعہ الفضل ۱۳ مئی ۲۰۰۲ (۵) اخبار الحکم ۱۷ ستمبر ۱۹۰۱ء (۱) شیخ عجم (۷) مضمون حضرت مولوی عبدالرحمن خان صاحب مطبوعہ ”انصار اللہ ماہ جولائی ، اگست ۲۰۰۱ء (۸) مسوده سید محمود احمد افغانی بزبان پشتو " تاریخ احمدیت افغانستان (۹) ذکر حبیب(۱۰) چشم دید حالات.☆ ۱۱۲.جناب خلیفہ رجب دین صاحب تاجر.لاہور بیعت : ۱۸۹۲ء اندازاً.وفات : ۱۹۱۴ء کے بعد تعارف: جناب خلیفہ رجب دین صاحب کا مسکن لاہور تھا.آپ جماعت اہلحدیث سے تعلق رکھتے تھے اور جناب خواجہ کمال الدین صاحب ( یکے از ۳۱۳) کے خسر تھے.آپ اپنی شکل و شباہت ، جبہ و دستار اور علمی و دینی قابلیت اور بات چیت وغیرہ سے بڑی اہمیت کے حامل تھے.ڈپٹی نذیر احمد دہلوی جب لاہور آتے تو جناب خلیفہ صاحب کو ضرور یاد کرتے.ایک دفعہ ڈپٹی صاحب نے پوچھا خلیفہ جی! میرے ترجمہ قرآن کے متعلق حکیم نورالدین صاحب کی کیا رائے ہے.خلیفہ صاحب نے کہا وہ کہتے ہیں کہ انسی مُتَوَفِیک کا ترجمہ کرنے میں ڈپٹی صاحب لوگوں سے ڈر گئے ہیں.ڈپٹی صاحب نے کہا تو کیا میں مسیح کی وفات کا ترجمہ کر کے کفر کا فتویٰ لے لیتا ؟

Page 192

169 بیعت : آپ کی بیعت ۱۸۹۲ء کی ہے.حضرت مسیح موعود جب اپنے آخری ایام زندگی میں لاہور تشریف لائے تو جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد خلیفہ صاحب نے حضرت صاحب سے سوال کیا اس پر حضرت اقدس نے ایک تقریر فرمائی جو بعد میں ”حجۃ اللہ کے نام سے شائع ہوگئی.۱۹۱۳ء میں جب اخبار ”پیغام صلح جاری ہوا تو خلیفہ صاحب کو اس کا مینیجر اور پرنٹر و پبلشر مقرر کیا گیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر آئینہ کمالات اسلام، آسمانی فیصلہ میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں میں تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں کیا ہے.وفات : آپ کی وفات ۱۹۱۴ء میں ہوئی.خلافت اولی کے بعد غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد۲ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۴۶ (۶) ''یاد رفتگان صفحه ۲۱ تا ۲۶ -۱۱۳ حضرت پیر جی خدا بخش صاحب مرحوم.ڈیرہ دون بیعت : ۲۴ مئی ۱۸۸۹ء.وفات: ۱۸۹۷ء سے قبل : تعارف: حضرت پیر جی خدا بخش رضی اللہ عنہ کے والد میاں محمد رمضان اصل ساکن نجیب آباد ضلع بجنور بعده مستقل سکونت دھاما نوالہ ڈیرہ دون محلہ میں تھی.آپ ڈیرہ دون (یوپی) انڈیا میں اسلحہ کے ایک بڑے سوداگر تھے.آپ پہلے حنفی مسلک اور مذہباً دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے پھر اہل حدیث ہو گئے.آپ اپنے زہد و عبادت اور تقویٰ کی وجہ سے عوام و خواص میں پیر جی کے نام سے مشہور تھے.حضرت اقدس کے دعوی کی تحقیق : جب آپ نے سنا کہ قادیان ( پنجاب ) میں کسی شخص نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو کہا امام مہدی کے ظہور کا زمانہ تو یہی ہے اور اپنے دوست حکیم حافظ مولوی محمد یعقوب خان صاحب کے مشورہ سے چند سوالات حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت میں بھجوائے.قادیان سے حضرت کا جواب آیا تو آپ کی تسلی ہوگی لیکن آپ کے دوست حکیم صاحب نے کہا کہ ہمیں عجلت سے کام نہیں لینا چاہئیے قادیان چل کر مزید تحقیق کرلیں.آپ نے اپنی آمد کی اطلاع حضرت اقدس کی خدمت میں بھجوائی.ڈیرہ دون سے بٹالہ پہنچے اور بٹالہ سے یکہ پر سوار ہو کر قادیان آرہے تھے کہ ادھر سے کچھ گرد و غبار سا نظر آیا.جب بالکل قریب پہنچے تو یکہ سے اتر پڑے.حضرت خدا بخش صاحب نے اپنی فراست سے پہچان لیا کہ یہ مرزا صاحب ہیں.چنانچہ آپ نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا.حضرت حکیم حافظ مولوی یعقوب صاحب نے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب گومرزا صاحب سمجھ کر مصافحہ

Page 193

170 کیا تو حضرت مولوی صاحب نے کہا مرزا صاحب وہ ہیں تو پھر حضرت حکیم حافظ مولوی یعقوب صاحب نے حضرت اقدس سے مصافحہ کیا.پیر جی نے حضرت اقدس سے عرض کیا ہم ڈیرہ دون سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں.حضور نے فرمایا ہم بھی آپ حضرات کے استقبال ہی کے لئے آئے ہیں.بیعت : حضرت حکیم مولانا نورالدین (خلیفہ امسیح الاوّل) کوئی سوال کرتے اور حضور اس پر مدلل ومبسوط تسلی بخش جواب دیتے.تین روز تک حضور نے مزید تحقیق استخارہ وغیرہ کا مشورہ دیا اور چوتھے روز دونوں دوستوں کو شرفِ بیعت عطا فرمایا.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت ۹۵ نمبر پر ہے.آپ کی بیعت ۲۴ مئی ۱۸۸۹ ء کی ہے.وفات : آپ ۱۸۹۷ء سے قبل وفات گئے تھے.اولاد ماخذ: (۱) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۴۸(۲) کتاب ”عالمگیر برکات مامور زمانه صفحه ۱۴۶ تا ۱۵۶ (۳) روزنامه الفضل ربوہ مورخہ ۷ جنوری ۲۰۰۰ء.☆ ۱۱۴.حضرت حافظ مولوی محمد یعقوب خان صاحب ڈیرہ دون بیعت : ۲۴ رمئی ۱۸۸۹ء.وفات : ۱۹۱۴ء کے بعد تعارف: حضرت حافظ مولوی محمد یعقوب خان رضی اللہ عنہ ولد حافظ محمد سعید خاں موضع برتھ کا ئنہ نواح سہارنپور کے رہنے والے تھے.آپ کی قبول احمدیت کا حضرت خدا بخش صاحب مرحوم پیر جی ڈیرہ دون میں ذکر آچکا ہے.بیعت : رجسٹر بیعت اولی میں آپ کی بیعت ۲۴ مئی ۱۸۸۹ کی ہے اور ۹۴ نمبر پر درج ہے.جہاں آپ کی ولدیت حافظ محمد سعید خان اصل سکونت موضع برتھ کا ئنہ نواح سہارنپور بعدہ مستقل سکونت ڈیرہ دون محلہ دھامانوالہ تحریر ہے.جب حکیم حافظ صاحب نے مولوی محمد سعید شامی طرابلسی یکے از ۳۱۳ کو ڈیرہ دون میں آئینہ کمالات اسلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کا مطبوعہ عربی قصیدہ دکھلایا تو پڑھ کر مولوی محمد سعید شامی طرابلسی بے ساختہ پکار اٹھے کہ عرب بھی اس سے بہتر کلام نہیں لا سکتے خدا کی قسم میں ان اشعار کو حفظ کروں گا “.قادیان سے واپسی پر سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اسی حالت میں وفات ہوگئی.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) رسالہ سچائی کا اظہار صفحہ ۵ - ۶ طبع اول مئی ۱۸۹۳ء (۲) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحه ۳۴۸ (۳) روزنامه الفضل ربوه ۲۱ جولائی ۲۰۰۱ء (۴) عالمگیر برکات مامور زمانه صفحه ۱۶۱

Page 194

171 ☆ ۱۱۵.حضرت شیخ چراغ علی نمبر دار صاحب.تصہ غلام علی بیعت : ۴ را گست ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت شیخ چراغ علی رضی اللہ عنہ حصہ غلام نبی ضلع گورداسپور کے تھے آپ کے والد عطا محمد صاحب تھے جو زمیندارہ کرتے تھے.آپ حضرت شیخ حامد علی صاحب خادم حضرت مسیح موعود کے چچا تھے.بیعت : رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت ۱۰۸نمبر پر درج ہے.جوم را گست ۱۸۹۹ء کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ازالہ اوہام میں مخلصین میں آپ کا ذکر ہے.آئینہ کمالات اسلام میں چندہ دہندگان کی فہرست میں شر کا ء جلسہ سالانہ ، اسی طرح آسمانی فیصلہ میں پہلے جلسہ سالانہ کے شرکاء تحفہ قیصریہ سراج منیر اور کتاب البریہ میں ذکر ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۶) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۶) رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۴۹ (۷) ذکر حبیب صفحه ۳۰۱ (۸) سیرت المہدی جلد دوم صفحه ۲۵۸ ۱۱۶.جناب محمد اسمعیل غلام کبریا صاحب فرزند رشید مولوی محمد احسن صاحب امروہی بیعت ۱۸۹۲ء سے قبل تعارف: جناب محمد اسمعیل غلام کبریا، حضرت مولانا محمد احسن امروہی کے بیٹے تھے.حضرت اقدس علیہ السلام کے مکتوب میں تذکرہ : حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت مولوی محمد احسن امروہی صاحب کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا جو موصوف کو اور آپ ک بیٹے کو بھجوایا جا تا تھا.اس کا تذکرہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحب میں مذکور ہے.حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں.جو کچھ وظیفہ آپ نے مولوی صاحب ( مولانا محمد احسن صاحب امروہی.ناقل ) کا مقرر فرما رکھا

Page 195

172 ہے.اس میں سے مبلغ ۲۰ آنے ان کے نام قادیان میں بھیج دیں اور باقی ان کے صاحبزادہ کے نام سید محمد اسمعیل کو بمقام امروہہ شاہ علی سرائے روانہ فرما دیں.نوٹ: ۱۹۱۶ء میں غیر مبائعین میں شامل ہو گئے اور نظام خلافت سے تعلق نہ رہا.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) مکتوبات احمدیہ مکتوب مورخه ۱۲ / دسمبر ۱۹۰۰ء (۳) اصحاب احمد جلد ہفتم حصہ اول.☆ ۱۱۷.جناب احمد حسن صاحب فرزند رشید مولوی محمد احسن صاحب امروہی بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف: احمد حسن حضرت مولوی محمد احسن امروہی کے بیٹے تھے.مزید سوانحی حالات دستیاب نہیں ہو سکے.نوٹ : ۱۹۱۴ء میں غیر مبائعین میں شامل ہو گئے اور نظام خلافت سے تعلق نہ رہا.ماخذ: ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.☆ ۱۱۸.حضرت سیٹھ احمد صاحب عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا تا جر مدراس بیعت : ۱۸۹۴ء تعارف و بیعت : حضرت سیٹھ احمد عبدالرحمن رضی اللہ عنہ مدر اس کے تاجر خاندان سے تھے.آپ کا ذکر حضرت اقدس کے بعض مکتوبات میں ہے.حضرت اقدس کے ان مکتوبات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی بیعت ۱۸۹۴ء کی ہے.حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کے نام بعض مکتوبات میں حضور نے حضرت سیٹھ احمد عبدالرحمن صاحب کا بھی ذکر کیا ہے.حضرت سیٹھ صاحب کی اہلیہ بیمار ہوئیں حضور کو دعا کے لئے لکھا گیا تو حضور نے جواباً فرمایا عزیزی سیٹھ احمد عبدالرحمن صاحب کی اہلیہ کیلئے بھی دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ ہر ایک ابتلا سے بچاوے.آمین.( مکتوب نمبر ۴۲) خدا تعالی کی قدرت کہ تقریباً ایک سال بعد وہ وفات پاگئیں.حضور نے حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کے نام تحریر فرمایا:

Page 196

173 آج آپ کی تار کے ذریعہ یکدفعہ غم کی خبریعنی واقعہ وفات عزیز ی سیٹھ احمد صاحب کی بیوی کاسن کر دل کو بہت غم اور صدمہ پہنچا انا للہ و انا الیه راجعون.دنیا کی نا پائیداری اور بے ثباتی کا یہ نمونہ ہے کہ ابھی تھوڑے دن گزرے ہیں کہ عزیز موصوف کی اس شادی کا اہتمام ہوا تھا اور آج وہ مرحومہ قبر میں ہے.اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے اور نعم البدل عطا کرے اور عزیز سیٹھ احمد صاحب کی عمر لمبی کرے آمین ثم آمین اس خبر کے پہونچنے پر ظہر کی نماز میں جنازہ پڑھایا گیا اور نماز میں مرحومہ کی مغفرت کے لئے بہت دعا کی گئی.“ پھر ایک اور خط میں آپ نے تحریر فرمایا :.”خداوند تعالیٰ عزیزی سیٹھ احمد کی عمر دراز کرے اور اس کی عوض میں بہتر صورت عطا فرمائے...مناسب ہے کہ اب کی دفعہ ایسے خاندان سے رشتہ نہ کریں جن میں یہ بیماری ہے حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت سیٹھ احمد کا ذکر کتاب البریہ میں پر امن جماعت کے ضمن میں ہے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا ۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) مکتوبات احمد یہ ☆ ۱۱۹.حضرت سیٹھ صالح محمد صاحب حاجی اللہ رکھا تا جر مدراس بیعت : ۱۸۹۲ء تعارف و بیعت : حضرت سیٹھ صالح محمد رضی اللہ عنہ کا تعلق بھی مدر اس کے تاجر خاندان سے ہے.آپ کا حضرت اقدس کے مکتوبات میں ذکر ہے.ان مکتوبات سے آپ کی بیعت ۱۸۹۲ء کی معلوم ہوتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود کے مکتوبات جو آپ نے حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کے نام تحریر فرمائے ہیں آپ کا ذکر ملتا ہے ان کے نام مکتوبات میں حضور اکثر حضرت سیٹھ صالح محمد صاحب کو بھی سلام بھجواتے.ایک مکتوب نمبر ۱۷ میں حضور فرماتے ہیں.(مکتوبات احمد جلد دوم ص ۳۵۴) بخدمت مجھی سیٹھ صالح محمد صاحب السلام علیکم جو آپ نے کپڑے اور کڑے لڑکی کے لئے بھیجے تھے وہ سب پہونچ گئے ہیں باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ حضور نے جب چندہ توسیع مسجد کی تحریک فرمائی تو حضرت سیٹھ صالح محمد صاحب نے چندہ حضور کی خدمت میں بھجوایا.اسی طرح آپ نے حضور کی خدمت میں جاپان کا سفر اختیار کرنے کے متعلق استخارہ کی درخواست کی حضور نے فرمایا ” بعد سلام علیکم میری دانست میں سفر جاپان مناسب نہیں.( مکتوب نمبر ۶)

Page 197

174 ۱۸۹۷ء میں آپ کے ایک بیٹے کی وفات پر حضور نے تحریر فرمایا: "یہ عاجز اب تک آنکھوں کے آشوب سے بیمار رہا اس لئے واقعہ وفات فرزند مرحوم اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب پر عزائد سی نہ کر سکا اور نہ آپ کی طرف کوئی خط لکھ سکا ہمیں وفات فرزند دلبند سیٹھ صالح محمد صاحب کا سخت رنج ہے اللہ تعالیٰ ان کو صبر عطا فرما دے.“ حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی رضی اللہ عنہ کے ایک چھوٹے بھائی کا نام محمد صالح تھا.حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب فرماتے ہیں: ” میرا چھوٹا بھائی محمد صالح " جو ایک روز پہلے سے بنگلور آیا ہوا تھا وہاں آ گیا اور : ایک کتاب بھی ساتھ لایا اور وہ یوں کہنے لگا کہ یہ کتاب مجھے سیالکوٹ (پنجاب) سے غلام قادر در فصیح نے بھیجی ہے اور قابل پڑھنے اور سننے کے ہے یہ کہ کر انہوں نے اس کو پڑھنا شروع کر دیا اور وہ کتاب حضور اقدس کی پہلی کتاب دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کے بعد کی تھی جس کا مبارک نام فتح اسلام ہے.“ اس کتاب کے کوئی دو ورق پڑھے گئے ہوں گے کہ سیٹھ عبد الرحمن کے دل پر اس کا عجیب اثر ہوا.آپ کے بھائی زکریا مرحوم جو اس وقت بیمار تھے ایک جوش کے ساتھ یہ آواز بلند پکارا ٹھے کہ خدا کی قسم یہ بیشک وہی ہیں اور ان کا کلام اس کی پوری شہادت دے رہا ہے.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے آپ کا ذکر پر امن جماعت کے ضمن میں کیا ہے.شہادت تصدیق صاحب العلم : حضرت پیر رشید الدین صاحب العلم ( پیر جھنڈے والے ) کی تصدیق جو انہوں نے اپنے ایک رؤیا اور کشف میں کی اس وقت آپ بھی حضرت اسمعیل آدم کے ساتھ تھے.اس طرح حضرت پیر صاحب کے بیان کے آپ بھی شاہد تھے.ماخذ: (۱) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد۱۷ (۴) حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۵) ماہنامہ انصار اللہ مارچ ۱۹۹۷ء.☆ ۱۲۰.حضرت سیٹھ ابراہیم صاحب صالح حمد حاجی اللہ رکھا تاجر مدراس بیعت : ۱۸۹۴ء تعارف و بیعت : حضرت سیٹھ ابراہیم صالح محمد رضیاللہ عنہ کا تعلق بھی مدر اس کے اسی خاندان سے تھا.آپ سیٹھ صالح محمد صاحب اللہ رکھا تا جر مدراس ( یکے از ۳۱۳) کے فرزند تھے.حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس ( یکے از ۳۱۳) کے نام ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود نے سیٹھ

Page 198

175 ابراہیم صاحب صالح محمد ( یکے از ۳۱۳) کی وفات پر مورخہ ۹/اکتوبر ۱۸۹۷ء کو تعزیت کی.آپ ابتدائی بیعت کرنے والوں میں سے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے اپنی پر امن جماعت میں ان کا ذکر کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول صفحہ ۱۰.☆ ۱۲۱ حضرت سیٹھ عبدالحمید صاحب حاجی ایوب حاجی اللہ رکھا تاج مدراس بیعت : ۱۸۹۴ء تعارف و بیعت: حضرت سیٹھ عبدالحمید رضی اللہ عنہ بھی مدر اس کے اسی تاجر خاندان سے تعلق رکھتے تھے.آپ حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب ( یکے از ۳۱۳) کے بھانجے تھے.آپ حضرت سیٹھ صاحب کی زندگی میں ہی وفات پا گئے تھے.آپ ابتدائی بیعت کرنے والوں میں سے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) کتاب البریه روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) آب بیتی م سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس شمولہ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ ۴۵.☆ ۱۲۲.حضرت حاجی مہدی صاحب عربی بغدادی نزیل مدراس بیعت: ابتدائی ایام تعارف و بیعت حضرت حاجی مهدی رضی اللہ عنہ کا تعارف عربی بغدادی کے طور پر ہوا ہے.حضرت اقدس کے ۳۱ / جولائی ۱۸۹۷ء کے مکتوب بنام حضرت سیٹھ عبدالرحمن مدر اس میں ذکر ہے کہ آپ نے ایک فضیلت والی مسجد کے

Page 199

176 لئے چندہ کی تحریک کی تھی.جس کا تذکرہ براہین احمدیہ میں ہے.اس پر حضرت حاجی مہدی نے بھی چندہ دیا.اس کا حضرت اقدس نے اپنے ۹ را کتوبر ۱۸۹۷ء کے مکتوب میں ذکر فرمایا ہے.مزید برآں آپ نے ۲۲ نومبر ۱۸۹۸ء کے خط میں حضرت حاجی مہدی کے پچاس روپیہ بھجوانے کی رسید لکھی ہے.آپ مدراس میں وارد ہوئے.اور مدراس کے دیگر مبائعین کے ساتھ ہی حضرت اقدس کی بیعت کی.آپ کا نام ضمیمہ انجام آتھم میں ۳۱۳ اصحاب احمد صدق صفا میں ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ کا ذکر حضرت اقدس نے سراج منیر میں چندہ دہندگان کے ضمن میں کیا ہے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آگفتم روحانی خزائن جلدا (۲) سراج منیر روحانی خزائن جلد۱۲ (۳) ذکر حبیب (۴) مکتوباتِ احمد یہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحه ۲۲۱ ☆ ۱۲۳.حضرت سیٹھ محمد یوسف صاحب حاجی اللہ رکھا.مدراس بیعت: ابتدائی ایام تعارف و بیعت : حضرت سیٹھ محمد یوسف رضی اللہ عنہ مدر اس کے اسی مخلص خاندان سے تعلق رکھتے تھے.آپ کا نام ضمیمہ انجام آتھم میں ۳۱۳ اصحاب احمد صدق صفا میں ہے.آپ حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس ( یکے از ۳۱۳) کے بھائی تھے.حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب کے چھ بھائی تھے ( مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول صفحہ ۱۴) جن کے نام کتاب مذکور سے واضح ہیں.(۱) حضرت سیٹھ حاجی ایوب صاحب (۲) حضرت سیٹھ زکریا صاحب (۳) حضرت سیٹھ صالح محمد صاحب (۴) حضرت سیٹھ عالی محمد صاحب (۵) حضرت سیٹھ محمد یوسف صاحب اور (1) خودحضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ ابتدائی بیعت کرنے والوں میں سے تھے.حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں اپنی پر امن جماعت میں ذکر کیا ہے.نوٹ آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم

Page 200

177 ☆ ۱۲۴.حضرت مولوی سلطان محمود صاحب میلا پور.مدراس یعت : ۱۸۹۴ء.وفات : دسمبر ۱۹۱۷ء تعارف و بیعت : حضرت مولوی سلطان محمود رضی اللہ عنہ میلا پور مدراس کے رہنے والے تھے.مدراس میں جب احمدیت کا چرچا ہوا اور حضور کے دعویٰ کی اطلاع پہنچی تو حضرت سلطان محمود صاحب بھی اس طرف متوجہ ہوئے.آپ کی بیعت ۱۸۹۴ء کی ہے.حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی فرماتے ہیں.وو....سلطان محمود صاحب اور ان کے برادر زادہ اپنی جگہ پر باہم اس بارے میں بحث کرتے تھے اور آخر وفات عیسی پر دونوں کا اتفاق ہو گیا اور سلطان محمود صاحب نے مجھے خط لکھا اور حضور کی کتابوں کی خواہش ظاہر کی اس خط کے طرز تحریر سے یہ پتہ لگ گیا کہ حضور کی جانب ان کا حسن ظن ہے.غرض میرے پاس جو کتا ہیں موجود تھیں وہ تو بھیج دیں اور آئینہ کمالات اسلام ایک مولوی کو دی تھی ان سے لینے کو لکھ دیا اور پھر بعد میں ملاقات کی اور میرے سے زیادہ ان کا میلان حضور کی طرف پایا اور اس وقت تک وفات عیسی پر مجھے کامل یقین نہ ہوا تھا مگر ان کا حضور کی طرف رجوع کرنا بڑی تقویت کا باعث ہو گیا اور قلیل عرصہ میں ایک چھوٹی سی جماعت طیار ہوگئی..حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی فرماتے ہیں جب میں پہلی مرتبہ بمع حضرت مولوی حسن علی صاحب قادیان حضور کی بیعت اور زیارت کر کے تقریباً ایک مہینہ کے بعد مدراس پہنچا تو حضرت مولوی سلطان محمود صاحب نے بڑا ہی 66 اہتمام فرمایا تھا اسیشن سے سیدھا میلا پور لے گئے اور پر تکلف دعوت دی ساتھ ہی اس ناچیز کو ایک ایڈریس بھی دیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت مسیح موعود حضرت سیٹھ عبدالرحمن مدراسی صاحب کے نام مکتوبات میں حضرت سلطان محمود صاحب کو بھی سلام بھجواتے تھے.کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے اپنی پر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر کیا ہے.وفات : آپ نے دسمبر ۱۹۱۷ء میں مدراس میں وفات پائی.حضرت اقدس کے مکتوبات میں آپ کا ذکر پایا جاتا ہے.ماخذ : (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳(۲) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول (۳) الفضل ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۷، صفحه ۲

Page 201

178 ۱۲۵.حضرت حکیم محمد سعید صاحب میلا پور.مدراس بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت حکیم محمد سعید رضی اللہ عنہ میلا پور مدر اس سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی مدراس زمانہ کی ہے.میلا پور میں آپ کی رہائش میلا پور روڈ پر تھی.۱۹۲۴ء کے ایام میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اتحاد بین المسلمین پر اپنے خطابات و خطبات میں بہت تحریک فرمائی.البتہ بعض اوقات ”پیغام صلح نے اس پر تنقید کی.ایک موقعہ پر حضرت حکیم محمد سعید صاحب نے پیغام صلح کے جواب میں بعنوان ” ہمارے بچھڑے ہوئے بھائی اور اتحاد“ لکھا جس میں ”پیغام صلح کے نظریات کا با حسن رد کیا.یہ مضمون ۱۲ فروری ۱۹۲۴ء کے الفضل میں شائع ہوا.اس سے مترشح ہوتا ہے کہ حضرت حکیم صاحب اس وقت بھی میلا پور میں ہی مقیم تھے.کیونکہ آپ کے نام ساتھ یہ تحریر ہے کہ حکیم محمد سعید چودہری.میلا پور روڈ مدر اس.آپ کی وفات کا حتمی طور پر علم نہیں ہوسکا.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۳) الفضل قادیان ۱۲ فروری ۱۹۲۴ء.۱۲۶.حضرت منشی قادر علی صاحب میلا پور.مدراس بیعت ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت منشی قادر علی رضی اللہ عنہ میلا پور مدراس کے رہنے والے تھے اور ابتدائی بیعت کرنے والوں میں تھے.آپ مدراس میں کسی جگہ کلرک متعین تھے.آپ کے نام کا اندراج حضرت اقدس مسیح موعود نے کتاب البریہ میں بھی احباب جماعت کی فہرست میں کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات دستیاب نہیں ہو سکے.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳

Page 202

179 ☆ ۱۲۷.حضرت منشی غلام دستگیر صاحب میلا پور.مدراس بیعت: ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت منشی غلام دستگیر رضی اللہ عنہ میلا پور مدر اس سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے ۶۹ نمبر پر اپنی پر امن جماعت کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے.اور آپ کے نام کے ساتھ لفظ سلوتری کا اضافہ فرمایا ہے.نوٹ آپ کے مزید سوانحی حالات دستیاب نہیں ہو سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ ۱۲۸ - حضرت منشی سراج الدین صاحب ترمل کہیڑی.مدراس بیعت: ابتدائی زمانہ میں.وفات: ۱۹۵۷ء سے قبل تعارف و بیعت : حضرت منشی سراج الدین رضی اللہ عنہ کی ابتدائی زمانہ کی بیعت ہے.آپ کے بارہ میں روایت ہے کہ حضرت منشی صاحب یوپی والوں کے پاس حضرت اقدس مسیح موعود کی ایک تصویر تھی.جس میں حضور نے سر پر لدھیانوی لنگی باندھی ہوئی تھی.جو حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے آپ کے پاس دیکھی تھی.آپ ترمل کہیڑی میں کلرک تھے.حضرت منشی صاحب کا انتقال ( مغربی ) پاکستان میں ہوا.پیدائش انداز آ۱۸۵۷ء سے قبل کی ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات دستیاب نہیں ہو سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آنقم روحانی خزائن جلدا (۲) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اول صفحه ۴۹

Page 203

180 ☆ ۱۲۹.حضرت قاضی غلام مرتضی صاحب اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر مظفرگر حال پنشنر بیعت : ۱۹ ستمبر ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت قاضی غلام مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے والد قاضی محمد روشن دین صاحب تھے.آپ کا اصل وطن احمد پور سیال ضلع جھنگ تھا.بیعت کے وقت آپ اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر مظفر گڑھ تھے.اس وقت آپ سکنہ قریہ دین پور نزد مظفر گڑھ میں مقیم تھے.حضرت اقدس سے تعلق : آپ کا یہ تعلق براہین احمدیہ کے زمانہ سے ہے.۱۸۷۰ کے عشرہ میں جب آپ مظفر گڑھ میں اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر محکمہ بندو بست تھے تو آپ نے براہین احمدیہ کی پیشگی قیمت ارسال کر دی بیعت : آپ نے ۱۹ ستمبر ۱۸۸۹ء میں بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کی بیعت ۱۴۵ نمبر پر درج ہے.حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں آپ کا ذکر پُر امن جماعت کے ضمن میں فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مکتوب ۲۵ فروری ۱۸۹۰ء بنام حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب (خلیفۃ المسیح الاول ) میں حضرت قاضی غلام مرتضی صاحب کا ذکر فرمایا ہے.طبیعت اس عاجز کی بفضلہ تعالیٰ اب کسی قدر صحت پر ہے.گھر میں بھی طبیعت اصلاح پر آگئی ہے.میرا ارادہ تھا کہ اس حالت میں آپ کے دوست کے لئے چند روز بجد وجہد جیسا کہ شرط ہے توجہ کروں.مگر افسوس که بباعث آمد قاضی غلام مرتضی کے میں مجبور ہو گیا.وہ برابر دس روز تک اس جگہ رہیں گے چونکہ بہت خرچ اٹھا کر آئے ہیں اور دور سے خرچ کثیر کر کے آئے ہیں.اس لئے بالکل نامناسب ہے کہ ان کی طرف توجہ نہ ہو.پھر ان کے ساتھ ہی سیدا میر علی شاہ صاحب لاہور سے آنے والے ہیں وہ برابر پندرہ روز تک رہیں گے.ان کے جانے کے بعد انشاء اللہ العزیز توجہ کامل کروں گا.“ حضرت اقدس کی دعا سے اولاد: حضرت اقدس کی خدمت میں آپ نے اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی اور عرض کی کہ چند نکاح کر چکا ہوں.دعا کریں میرے اندھیرے گھر میں کوئی چراغ پیدا کرے.مصنف عسل مصفی لکھتے ہیں.اس پر حضرت فانی فی اللہ اُن کے لئے دعا کا خاص انتظام کر کے دعا کرنے لگے چند روز میں اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر خبر دی کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد آپ کو اولا د عطا کرے گا.“ چنانچہ ایک لڑکا پیدا ہوا اس کے بعد اور بھی اولاد پیدا ہوئی.ماخذ : (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ص ۷۶ (۳) رجسٹر بیعت اولی (۴) عسل مصفی جلد دوم ص ۵۵۹ (۵) انجام آنقتم روحانی خزائن جلدا (۱) رجسٹر روایات جلد سوم روایات حضرت چوہدری عبدالعزیز سیالکوٹی.

Page 204

181 ☆ ۱۳۰.حضرت مولوی عبد القادر خانصاحب جمالپور.لودیانہ بیعت : ۲۴ / مارچ ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت مولوی عبد القادر خان رضی اللہ عنہ موضع چنکن تحصیل لدھیانہ کے رہنے والے تھا.آپ کے والد مامون خاں تھے.آپ بسلسلہ ملازمت مدرس موضع جمال پور ضلع تحصیل لودھیا نہ میں مقیم تھے.بیعت : رجسٹر بیعت اولی کے مطابق آپ نے ۲۴ مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت کی اور آپکی بیعت کا اندراج ۶۷ نمبر پر ہے.آپ علماء کی مخالفت کے طوفان کے وقت ثابت قدم رہے بلکہ دعوت حق کرتے رہے اور اول المؤمنین میں داخل رہے.ایک تھوڑی سے تنخواہ پر گزارہ تھا لیکن حضرت اقدس کی خدمت میں امداد بھجواتے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے بارے میں گلاب شاہ کی شہادت کے ذکر میں لکھا ہے اس کا اندراج ازالہ اوہام میں ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آسمانی فیصلہ ازالہ اوہام ، آئینہ کمالات اسلام اور کتاب البریہ میں آپکا ذکر جلسه سالانه ۱۸۹ء و۱۸۹۲ء کے شرکاء اور چندہ دہندگان میں اور پُر امن جماعت کے ضمن میں کیا ہے.ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) ازالہ اوہام صفحه ۵۳۸ روحانی خزائن جلد ۳ (۵) اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۱۳.۱۶ (۶) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۵۴ ☆ ۱۳۱.حضرت مولوی عبدالقادر صاحب.خاص لو دیا نہ ولادت : ۱۸۴۰ء.بیعت : ۱۸۹۲ء سے قبل.وفات : ۳۱ دسمبر ۱۹۲۰ء : تعارف و بیعت : حضرت مولوی عبد القادر رضی اللہ عنہ خاص لو دھیانہ کے رہنے والے تھے.آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں کی فہرست میں آپ کا نام ہے.گویا اس وقت آپ حضرت اقدس کی بیعت میں شامل تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے بعد آپ کو بہت سی مالی و دیگر قربانیاں دینی پڑیں لیکن آپ چٹان کی طرح اپنے عقیدہ پر تادم آخر قائم رہے.سیدنا حضرت اقدس نے آپ کو بیعت کی اجازت بھی دے

Page 205

182 رکھی تھی.آپ بڑے پایہ کے منفی عالم اور صاحب درس تھے اور صرف و نحو کے بڑے عالم تھے.حضرت مولانا محمد ابراہیم بقا پوری آپ کے شاگرد تھے.تبلیغ کے بہت شائق تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ کے شرکا ء اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں کیا ہے.وفات: آپ کی وفات ۸۰۰ سال کی عمر میں ۳۱ دسمبر ۱۹۲۰ء کو ہوئی.آپ کی وفات پر سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ کے بعد فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس کے مخلص دوست تھے.آج فوت ہو گئے ہیں میں جمعہ پڑھنے کے بعد ان کا جنازہ پڑھنے کے لئے جاؤں گا احباب بھی چلیں.چنانچہ ایک بہت بڑی جماعت کے ساتھ جس میں جلسہ سالانہ کے مہمان بھی شامل تھے حضور نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور مقبرہ بہشتی قادیان کے اس حصہ میں تدفین ہوئی جو بزرگان سلسلہ کے لئے مخصوص ہے.اولاد: آپ نے تین شادیاں کیں اور صاحب اولاد تھے.آپ کی اولاد میں حضرت حکیم محمد عمر صاحب بھی تھے.دوسرے حضرت محمد شریف خاں صاحب جن کی تاریخ پیدائش ۱۸۹۸ء اور پیدائشی احمدی تھے.آپ بیان کا ہے: میں لدھیانہ میں دوسری جماعت میں تھا کہ حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام ) کو سب جماعت سٹیشن لدھیانہ پر استقبال کے لئے گئی.ریل کا ڈبہ کاٹ کر سائیڈ نگ میں لگا دیا گیا.اور حضور کے لئے گھوڑا گاڑی تیاری تھی.پھر والدہ صاحبہ مجھے حضور کی زیارت کے لئے لے گئی میں حضور کے سامنے بیٹھا تھا اور دیکھتا تھا کہ حضور مستوارات میں بالکل آنکھیں بند کر کے بیٹھے تھے.حضور کا ایک احاطہ میں لیکچر ہوا اور برادرم حکیم محمد عمر خانصاحب حضور کے پیچھے بطور پہرہ دار کھڑے تھے.جب میں چوتھی جماعت میں ہوا.تو لدھیانہ میں حضور کی وفات کی خبر پہنچی.“ حضرت محمد شریف خاں صاحب بعد میں قادیان آگئے اور بطور ٹیوٹر خدمات بجالاتے رہے.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام (۲) کتاب البریہ (۳) خطبات محمود جلد نمبرم صفحه ۵۸۰ (۴) تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۳۹ (۵) اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۴ - ۱۶ - ۵۲۸ - (۶) الفضل قادیان ۲۰/۱۷ اپریل ۱۹۲۲ء ( ۷ ) رجسٹر روایات جلد پنجم روایات محمد شریف خاں ولد مولوی عبد القادر لدھیانہ.☆ ۱۳۲.حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب مرحوم لاہور ولادت: ۱۸۱۳ء.بیعت: ۳۰ را گست ۱۸۹۱ء.وفات : ۱۸۹۴ء تعارف: حضرت مولوی رحیم اللہ رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام حبیب اللہ صاحب تھا.حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب مرحوم کی ولادت ۱۸۱۳ء کی ہے آپ راجپوت قوم کے چشم و چراغ تھے.حضرت مولوی صاحب مسجد کو چہ

Page 206

183 سیٹھاں بالمقابل تالاب آب رسانی لنگے منڈی بازار لاہور کے امام الصلوۃ تھے.میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کے دادا میاں الہی بخش صاحب نے یہ مسجد بنوائی تھی اور مولوی صاحب کو امام الصلوۃ مقرر کیا تھا.حضرت اقدس سے عقیدت اور بیعت : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جب بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو حضور کے ساتھ عقیدت رکھنے کی وجہ سے بیعت پر آمادہ ہو گئے مگر بیعت کرنے سے قبل پرانے وفات یافتہ بزرگوں کے مزاروں پر جاتے تھے.حضرت اقدس کے دعاوی کے متعلق استخارہ کیا تو جواب میں ایک ڈولا' پالکی آسمان سے اترتے دیکھا اور آپ کے دل میں خیال ہوا کہ حضرت مسیح آسمان سے اتر رہے ہیں.جب پالکی کا پردہ اُٹھا کر دیکھا تو اس کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پایا.آپ نے حضرت اقدس کے بارہ میں دریافت کیا.تصدیق ہونے پر پا پیادہ قادیان پہنچے اور جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچایا اور بیعت کر لی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کی بیعت ۲۵۲ نمبر پر ۳۰ /اگست ۱۸۹۱ء کی ہے.کچھ زبانی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بیعت لدھیانہ میں کی تھی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آسمانی فیصلہ میں جلسہ سالانہ کے شرکاء اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر کیا ہے.اوصاف حمیدہ: آپ بہت نیک اور متقی بزرگ تھے.حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب پروفیسر چیفس کالج لاہور آپ کے درس میں شامل ہوا کرتے تھے.آپ کی مسجد میں حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے بھی نمازیں ادا کی ہیں.حضرت مولوی صاحب حافظ قرآن بھی تھے.اس زمانہ کے رواج کے مطابق غرارہ ( کھلے پائنچہ کا پاجامہ پہنا کرتے تھے.آپ حضرت میاں عبد العزیز المعروف مغل کے استاد تھے.وہ بیان کرتے ہیں کہ مولوی صاحب پہلے کثرت سے مثنوی مولانا روم پڑھا کرتے تھے مگر بالآخر قرآن مجید اس کثرت سے انہوں نے پڑھنا شروع کیا کہ جب بھی آپ کو دیکھا آپ تلاوت قرآن میں مشغول ہوتے.مولوی صاحب کی چار بیویاں تھیں وہ ان کی وفات سے پہلے ایک ہی ماہ میں فوت ہو گئیں.ان بیویوں سے آپ کی کوئی اولاد نہ تھی.اہل اللہ سے بہت محبت تھی چنانچہ حافظ غلام رسول صاحب قلعہ والے اور مولوی عبداللہ غزنوی سے اکثر میل جول تھا.وفات: آپ ۱۸۹۴ء میں بعمر ۸۰ سال وفات پاگئے.ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ (۲) کتاب البریہ (۳) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۵۶ (۴) لاہور تاریخ احمدبیت صفحه ۸۱ تا ۸۳ (۵) روزنامه الفضل ۲۵ / جنوری ۱۹۸۹ء مضمون مکرم عبدالعزیز صاحب ابن مکرم چراغ الدین صاحب (۶) اصحاب احمد جلد اول صفحه ۴۹ تا ۵۴

Page 207

184 ☆ ۱۳۳.حضرت مولوی غلام حسین صاحب.لاہور ولادت : ۱۸۴۲ء.بیعت : ۱۸۹۱ء.وفات: یکم فروری ۱۹۰۸ء تعارف و بیعت : حضرت مولوی غلام حسین رضی اللہ عنہ کا تعلق لاہور سے تھا.آپ کی ولادت ۱۸۴۲ء کی ہے آپ کو میاں محمد شریف صاحب ریٹائر ڈالی.اے سی نے دیکھا ہوا تھا.اُن کا بیان ہے کہ موصوف دُبلے پتلے گورے رنگ کے تھے.عمامہ باندھتے تھے.قد درمیانہ تھا.آپ گئی بازار والی مسجد کے امام اور متولی تھے.آپ کی بیعت ۱۸۹۱ء کی ہے.آسمانی فیصلہ میں آپ ان ۷۵ خوش نصیبوں میں شامل تھے جنہوں نے پہلے جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں شرکت کی تھی.اوصاف حمیدہ: حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ عن نے ایک فعہ بیان فرمایا کہ مولوی صاحب مرحوم ایک بڑے عالم اور نیک انسان تھے.حضرت مسیح موعود کے رفقاء میں سے حضرت خلیفتہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ اور مولوی صاحب گویا کتابوں کے کیڑے تھے.حافظہ زبر دست تھا.ایک دفعہ حضرت مولانا نورالدین کے سامنے آپ ایک صفحہ پر نظر ڈالتے اور اسے الٹ دیتے پھر دوسرے پر نظر ڈالتے اور اسے چھوڑ دیتے.حضرت خلیفۃ اسیح الاول نے انہیں اس حالت میں دیکھ کر کہا کہ مولوی صاحب آپ کتاب پڑھیں تو سہی.وہ کہنے لگے مجھ سے کوئی بات پوچھ لیں.حضرت خلیفہ ایسی الاول کے پوچھنے پر آپ نے کتاب کا مضمون بتا دیا.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ کا ذکر آسمانی فیصلہ میں جلسہ سالانہ ۱۸۹ء کے شرکا ء اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.وفات و تدفین : کتابوں کے شوق میں کلکتہ کسی کتاب کے لئے گئے اور وہیں سے بیمار ہو کر واپس آئے اور یکم فروری ۱۹۰۸ء کو فوت ہو گئے.جب جنازہ قادیان لے کر گئے تو معتمدین نے اعتراض کیا کہ آپ موصی نہیں تھے تدفین بہشتی مقبرہ میں نہیں ہو سکتی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو علم ہوا تو حضور نے فرمایا ان کی وصیت کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو مجسم وصیت ہیں.یہ ہوئے خلیفہ ہدایت اللہ لا ہوری ہوئے.ایسے لوگوں کو ( وصیت کی ) کیا ضرورت ہے؟ آپ کا جنازہ حضرت مسیح موعود نے پڑھایا اور جنازہ کو کندھا دیا.آپ کے اخلاص کا تذکرہ: حضرت مسیح موعود مسجد مبارک میں تشریف رکھتے تھے کہ انبیاء کے متبعین کا ذکر آیا.حضور نے فرمایا کہ عام طور پر انبیاء کے ماننے والے ان سے کم عمر کے لوگ ہوتے ہیں.بڑے بوڑھے بہت کم مانتے ہیں.مگر مولوی غلام حسین لاہوری بابا ہدایت اللہ شاعر لاہوری یہ دونوں ہیں جو بڑے بوڑھے ہوکر ایمان لائے.ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۸۵ تا ۹۰

Page 208

185 ☆ ۱۳۴.حضرت مولوی غلام نبی صاحب مرحوم خوشاب شاہ پور بیعت : ۲۹ مئی ۱۸۹۱ء.وفات : ۱۸۹۷ء سے قبل تعارف: حضرت مولوی غلام نبی رضی اللہ عنہ موضع ناڑی نز دیلی ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے.(اب یہ موضع ضلع خوشاب میں ہے.ناقل ) آپ کا نام مولوی عبدالغنی تھا مگر آپ مولوی غلام نبی کے نام سے معروف ہوئے.آپ کے والد صاحب کا نام سید احمد صاحب تھا.آپ نے دوشادیاں کیں اور دونوں بیویوں سے اللہ تعالیٰ نے اولا د عطا کی.ناڑی سے قریب قصبہ نلی آپ کے خاندان ہی کی وجہ سے مشہور تھا.آپ کے بزرگوں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے قرآن پاک کے نسخے کچھ عرصہ پہلے تک نلی میں موجود تھے.حضرت اقدس کے دعوی کی تحقیق اور بیعت : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قیام مئی ۱۸۹۱ء میں لدھیانہ میں تھا.مولوی صاحب نے حضرت اقدس کا ذکر سن رکھا تھا اور اپنے علمی زعم میں انہی ایام میں لدھیانہ چلے آئے.مولوی صاحب ہر گلی میں تھوڑی تھوڑی دیر آپ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے تھے.ایک روز وہ اس کو چہ میں بھی آگئے جس میں حضرت اقدس کا قیام تھا.اس مکان کی بیٹھک سڑک کے کنارہ پر تھی اور زنانہ حصہ مکان کے عقب میں تھا اور زنانہ حصہ سے بیٹھک کے اندر جانے کے لئے سڑک پر سے گزرنا ہوتا تھا.اتفاق ایسا ہوا کہ مولوی صاحب اس کو چہ میں باتیں کر رہے تھے.حضور عقبی حصہ مکان سے بیٹھک کی طرف تشریف لا رہے تھے.جب مولوی صاحب نے برکات انوار الہیہ سے روشن حضور کے روئے مبارک کو دیکھا تو تاب نہ لا سکے اور ایسا معجزانہ تصرف الہی ہوا کہ یا تو وہ حضور کے برخلاف کئی روز سے بول رہے تھے یا حضور کا مبارک چہرہ دیکھتے ہی فوراً حضور پُر نور کی طرف لپکے اور تقریر وغیرہ سب بھول گئے.حضور نے مصافحہ کے لئے اپنا ہاتھ دے دیا.وہ حضور کا ہاتھ پکڑے حضور کے ساتھ اندر بیٹھک میں داخل ہو گئے اور پاس بیٹھ گئے اور عقیدت کا اظہار کرنے لگے.آپ کے تمام ساتھی باہر گلی میں کھڑے اس ماجرے کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے اور باہر کھڑے انتظار کرتے رہے مگر مولوی صاحب تھے کہ اندر سے باہر نہ آتے تھے.ادھر مولوی صاحب تائب ہو کر ایمان لے آئے اور ان کی درخواست پر حضور اقدس نے ان کی بیعت قبول فرمالی.ان کے ساتھیوں نے جو برابر باہر انتظار میں تھے مولوی صاحب کو بلانے کے لئے اندر پیغام بھیجا.مگر یہاں سماں ہی کچھ اور تھا.یہ علم ہونے پر ان کے تمام ساتھی مولوی صاحب کو گالیاں دیتے ہوئے منتشر ہو گئے.حضرت اقدس سے گفتگو کی تفصیل : حضرت اقدس سے مولوی صاحب کی گفتگو کی تفصیل یہ ہے کہ انہوں نے پوچھا کہ حضرت! آپ نے

Page 209

186 وفات مسیح کا مسئلہ کہاں سے لیا ہے؟ فرمایا قرآن شریف حدیث اور علمائے ربانی کے اقوال سے.مولوی صاحب کے دریافت کرنے پر دو آیات دکھائیں اور بتایا کہ وفی اور توقی الگ الگ باب سے ہیں آپ غور کریں.مولوی صاحب دو چار منٹ سوچ کر کہنے لگے صاف فرمائیے.آپ نے جو فرمایا وہ صحیح ہے قرآن مجید آپ کے ساتھ ہے.حضورڑ نے پوچھا جب قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے تو آپ کس کے ساتھ ہیں.اس پر مولوی صاحب کے آنسو جاری ہو گئے اور ان کی ہچکی بندھ گئی اور انہوں نے عرض کی کہ یہ خطا کار بھی حضور کے ساتھ ہے.مولوی صاحب حضرت اقدس کا چہرہ دیکھتے رہتے.حضرت اقدس نے سورۃ الزلزال کی تفسیر سے کچھ فرمایا تو وجد میں آگئے.بیعت: آپ نے ۲۹ مئی ۱۸۹۱ء میں بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی کے مطابق آپ کی بیعت ۲۳۰ نمبر پر ہے.اخلاص و محبت میں ترقی : بیعت کے بعد مولوی صاحب کو ایک مرتبہ خط آیا کہ جلد آجائیں ورنہ ملازمت جاتی رہے گی.لیکن مولوی صاحب نے کہا کہ بیعت میں شرط دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی ہے.مجھے ملازمت کی پرواہ نہیں.ایک روز اس کا ذکر ہونے پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ خود ملازمت ترک کرنا ناشکری ہے.آپ کو ملا زمت پر ضرور چلے جانا چاہئیے چنانچہ دوبارہ بیعت کر کے مجبور روانہ ہو گئے.لیکن پھر ہنستے ہوئے واپس آگئے کہ ریل گاڑی کے آنے میں وقت تھا.میں نے کہا کہ جتنی دیر اسٹیشن پر لگے گی اتنی دیر حضرت صاحب کی صحبت میں رہوں تو بہتر ہے.یہ صحبت کہاں میسر ہے.حضور نے فرمایا.جزاک اللہ.یہ خیال بہت اچھا ہے.اس میں کچھ حکمت الہی ہے.یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دوسرا خط آیا کہ اپنی ملازمت پر حاضر ہو جائیں یا درخواست رخصت بھیج دیں میں کوشش کر کے رخصت دلوا دوں گا.حضرت اقدس نے فرمایا ریل کے نہ ملنے میں یہ حکمت الہی تھی.حضور کے ارشاد پر مولوی صاحب نے رخصت کی درخواست دے دی جو منظور ہوگئی اور مولوی صاحب کو بہت روز تک حضرت اقدس کی خدمت میں رہنے اور فیض صحبت حاصل کرنے کا موقع ملات حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ کا ذکر ازالہ اوہام میں مخلصین کے طور پر ہے.(۷) تھی فی اللہ مولوی عبد الغنی صاحب معروف مولوی غلام نبی خوشابی دقیق فہم اور حقیقت شناس ہیں اور علوم عربیہ تازہ بتازہ ان کے سینہ میں موجود ہیں اوائل میں مولوی صاحب موصوف سخت مخالف الرائے تھے.جب ان کو اس بات کی خبر پہنچی کہ یہ عاجز مسیح موعود ہونے کا دعوی کر رہا ہے اور مسیح ابن مریم کی نسبت وفات کا قائل ہے.تب مولوی صاحب میں پورا نے خیالات کے جذبہ سے ایک جوش پیدا ہوا اور ایک عام اشتہار دیا کہ جمعہ کی نماز کے بعد اس شخص کے رڈ میں ہم وعظ کریں گے.شہر لودھیانہ کے صدہا آدمی وعظ کے وقت

Page 210

187 موجود ہو گئے.تب مولوی صاحب اپنے علمی زور سے بخاری اور مسلم کی حدیثیں بارش کی طرح لوگوں پر برسانے لگے اور صحاح ستہ کا نقشہ پُرانی لکیر کے موافق آگے رکھ دیا.اُن کے وعظ سے سخت جوش مخالفت کا تمام شہر میں پھیل گیا کیونکہ ان کی علمیت اور فضیلت دلوں میں مسلم تھی لیکن آخر سعادت از لی کشاں کشاں اُن کو اس عاجز کے پاس لے آئی اور مخالفانہ خیالات سے تو بہ کر کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے.اب اُن کے پرانے دوست اُن سے سخت ناراض ہیں مگر وہ نہایت استقامت سے اس شعر کے مضمون کا ورد کر رہے ہیں.حضرت ناصح جو آویں دیدہ و دل فرش راہ پر کوئی مجھ کو تو سمجھا دے کہ سمجھائیں گے کیا وفات : آپ کی وفات ۱۸۹۷ء سے قبل ہوئی.اولاد : آپ کے ایک پوتے (ر) صوبیدار فضل حق صاحب خلافت ثانیہ کے دور میں ربوہ مرکز سلسلہ آئے تھے اور سلسلہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے.انہوں نے وہ نسخہ بھی محفوظ رکھا ہوا تھا جس میں مولوی غلام نبی کا ذکر تھا آپ نے ۱۹۸۳ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع سے ربوہ آکر ملاقات کی.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام حصہ دوم (۲) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۵ (۳) مضمون ”حضرت مولوی غلام نبی خوشابی کی بیعت مطبوعہ روزنامه الفضل ربوہ ۲۷ / جنوری ۲۰۰۱ء (۴) تبلیغ رسالت جلد دوم (۵) اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۱۰۹ بحوالہ رسالہ نور احمد نمبر اصفحه ۱۳ و اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۱۰۲ - ۱۰۹ بحوالہ تذکرۃ المہدی (۶) حیات احمد جلد سوم صفحہ ۱۳۷ ۱۴۲ (۷) ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ماہ اکتوبر ۱۹۹۵ء (۸) مضمون ” حضرت مولوی غلام نبی خوشابی کی قبول احمدیت کی عظیم الشان داستان مطبوعة تحیذ الا ذبان ربوہ جنوری ۲۰۰۲ء (۹) انٹرویو مکرم را نا عطاء اللہ صاحب لندن (۱۱) مکرم ظفر اقبال خاں صاحب آف خوشاب حال ربوہ.☆ ۱۳۵.حضرت مولوی محمد حسین صاحب علاقہ ریاست کپورتھلہ بیعت : ۴ /جون ۱۸۹۱ء تعارف: حضرت مولوی محمد حسین بھا گورائے کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام روڑا خاں تھا.بیعت : آپ نے ۴ جون ۱۸۹۱ء کو بیعت کی رجسٹر بیعت اولی کے مطابق بیعت ۲۳۲ نمبر پر درج ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ازالہ اوہام میں مخلصین ، آسمانی فیصلہ میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء کے شرکاء اور آئینہ کمالات اسلام میں چندہ و جلسہ سالانہ کے ضمن میں تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت میں آپ کا ذکر ہے.

Page 211

188 ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ کے مقاصد میں مطبع خانے کا قیام اور ایک اخبار کا اجراء بھی تھا.مطبع کے لئے چندہ دینے والوں کی فہرست میں آپ نے دور و پیہ سالا نہ چند لکھوایا تھا.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۶) رجسٹر بیعت اولیٰ مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول (۷) اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۹.۲۷.۲۸ ☆ ۱۳۶.حضرت مولوی شہاب الدین صاحب غزنوی.کابلی بیعت: ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت مولوی شہاب الدین غزنوی رضی اللہ عنہ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.مولوی عبدالستار خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید صاحب کے شاگرد براستہ ہندوستان حج کے لئے روانہ ہوئے.جب دہلی پہنچے تو کسی شخص نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اطلاع دی اور حضور کی بہت تعریف و توصیف کی.آپ کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا اور آپ قادیان آگئے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے آپ کی باتیں سن کر اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے حضور کی بیعت کر لی.جب وہ اپنے ملک واپس جانے لگے تو حضرت مسیح موعود سے افغانستان کے امیر عبدالرحمن خان کے نام ایک تبلیغی خط لکھنے کی آرزو کی.حضور نے پہلے تو فرمایا کہ وہ ایمان نہیں لائے گا لیکن اس شاگرد کے اصرار پر حضور نے انہیں ایک خط فارسی زبان میں لکھ دیا.جب یہ شاگر د خوست پہنچے تو انہوں نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو وہ خط دے دیا تو آپ نے فرمایا یہ بات تو سچی ہے اور یہ کلام ایک عظیم الشان کلام ہے لیکن امیر عبدالرحمن خان اتنی سمجھ نہیں رکھتا کہ وہ اسے سمجھ سکے اور ایمان لے آئے اسے یہ خط بھجوانا بے سود ہوگا.یہ خط حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے پاس پڑا رہا.خیال ہے.یہ وہی شاگرد ہیں جن کا نام مولوی شہاب الدین صاحب غزنوی کا بلی تھا..نوٹ: مزید تفصیلی حالات دستیاب نہیں ہو سکے.ماخذ : (۱) انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) شیخ عجم از سید میر مسعود احمد صاحب،(۳) خالدا کتوبر ۲۰۰۳ء

Page 212

189 ☆ ۱۳۷.حضرت مولوی سید محمد فضل حسین صاحب اکسٹرا اسٹنٹ علی گڑھ ضلع فرخ آباد بیعت: ۷/اپریل ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت مولوی سید تفضل حسین رضی اللہ عنہ کا اصل وطن اٹا وہ تھا.آپ کے والد ایک بزرگ عارف باللہ مولوی الطاف حسین مرحوم کے خلف الرشید تھے.آپ فطر تا صالحیت اپنے اندر رکھتے تھے.حضرت اقدس سے تعلق عقیدت : جس زمانہ میں آپ تحصیلدار تھے تو آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”براہینِ احمدیہ کے ساتھ خاص عقیدت تھی.وہ کئی مرتبہ حضرت اقدس کی خدمت میں علی گڑھ تشریف لانے کی درخواست کر چکے تھے.جسے حضور نے قبول فرمایا.بیعت : حضرت اقدس اپریل ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ سے علی گڑھ تشریف لے گئے.اس سفر میں حضور کے ہمراہ آپ کے خدام میں حضرت مولوی عبد اللہ سنوریؒ اور حضرت حافظ حامد علی بھی تھے.حضرت اقدس سید محمد تفضل حسین صاحب ( تحصیلدار) کے ہاں ٹھہرے.جو ان دنوں دفتر ضلع میں سپرنٹنڈنٹ تھے.بیعت : حضرت مولوی صاحب نے کے راپریل ۱۸۸۹ء کو بیعت کی.آپ کی بیعت ۷۸ نمبر پر درج ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ازالہ اوہام میں خلصین اور کتاب البریہ میں پر امن جماعت میں آپ کا ذکر ہے.رسالہ نورالدین میں آپ کا ذکر : آپ کے بارہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول تحریر کرتے ہیں : ”ہمارے مکرم معظم دوست سید تفضل حسین ڈپٹی کلکٹر جب آخر کے اوراق چھپ رہے تھے قادیان تشریف لائے اور اس رسالہ نورالدین کو پڑھا اور فرمایا کہ سوال نمبر ۲۸ کا جواب ادھورا رہ گیا.میں نے عرض کیا کہ ہر ایک پہلو پر گفتگو کرنا اور اس میں توسیع اس رسالہ کی شان نہیں الْيَومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دَيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ کی صدا کے لئے انسان کامل چاہئیے مگر ان کی خاطر ایک طرف دیباچہ کا آخری صفحہ خالی نظر آیا.ایک طرف اس واسطے یہ چند سطور گزارش ہیں.“ رسالہ نورالدین بجواب ترک اسلام صفحه ۶۲) حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت اقدس کے معاصر علماء میں آپ کا ذکر کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کی.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام صفحه ۵۴۳ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) رساله نورالدین بجواب ترک اسلام صفحه ۶۲ (۴) مضمون ” براہین احمدیہ کے مطالعہ سے روزنامہ الفضل ۲۴ / اپریل ۲۰۰۲ صفحه ۴ (۵) رجسٹر بیعت اولی تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۴۷.(۶) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء.

Page 213

190 ☆ ۱۳۸ - حضرت منشی صادق حسین صاحب مختار.اٹاوہ بیعت : ۱ارا پریل ۱۸۸۹ء.وفات:۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء تعارف: حضرت منشی صادق حسین رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام حکیم وارث علی تھا.بیعت سے قبل آپ اہل تشیع تھے.آپ ایک کامیاب وکیل اور پختہ قلم کار تھے.آپ ایک رسالہ ماہنامہ ”صبح صادق نکالا کرتے تھے.جس میں آپ کی نگرانی میں ہونے والے ماہانہ مشاعرہ کی روداد چھپتی تھی.اس مشاعرہ میں داغ دہلوی اور امیر مینائی بھی اپنا کلام پیش کرتے تھے.بیعت : رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت ۸۰ نمبر پر ہے.آپ کی بیعت اراپریل ۱۸۸۹ء کی ہے.علمی خدمات آپ کی پوری زندگی قلمی جہاد میں گزری.آپ کی تصنیفات میں مندرجہ ذیل کتب شامل ہیں.صادق کلمات، ثنائی ہفوات، ازالته الشکوک (رد آریہ سماج) الحق دہلی، تصدیق کلام ربانی ( رد آریہ ) مثنوی پیام صادق، تحفتہ الشیعی نمبر نمبر ۲ نمبر ۳ ، سیف الله القہار علی رؤس الاشرار صمصام الحق ( ردشیعہ تحریک ) اٹاوہ میں شیعہ سنی تحریری مباحثہ، بند صادق (منظوم)، کشف الاسرار ( قبرمسیح).آپ کے کئی علمی مضامین ریویوار دو تشخیذ الا ذہان اور الحکم میں شائع ہوتے رہے.آپ کا منظوم کلام بھی سلسلہ کے جرائد میں شائع ہوتارہا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں آپ کا نام ڈائمنڈ جو بلی کے جلسہ اور پُر امن جماعت میں ذکر کیا ہے.وفات: آپ کی وفات ۶ را کتو پر ۱۹۴۹ء کو ہوئی.آپ کی وصیت نمبر ۱۲۰۷ ہے.ماخذ: (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) رجسٹر بیعت مندرجه تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۴۷ (۴) تاریخ احمدیت جلد دهم صفحه ۳ ۸ تا ۸۵ - (۵) الحکم قادیان.رسالہ ریویو تشخیذ الا ذہان ☆ ۱۳۹ حضرت شیخ مولوی فضل حسین صاحب احمد آبادی.جہلم ولادت: ۱۸۷۵ء.بیعت : ۱۸۹۶ء.وفات : ۲۵ /اگست ۱۹۵۷ء تعارف و بیعت : حضرت شیخ فضل حسین صاحب رضی اللہ عنہ کا اصل نام مولوی فضل الہی صاحب تھا یہ درستی پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے ذریعہ ہوگئی تھی.(لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۹۴)

Page 214

191 حضرت مولوی فضل الہی صاحب بھیروی کے والد ماجد کا نام میاں کرم دین ( میاں کرم الہی ) تھا.آپ خاندان مغلیہ میں سے تھے.آپ کی ولادت ۱۸۷۵ء میں ہوئی.۱۸۵۷ء کے غدر میں دتی چھوڑ کر پنجاب آ گئے تھے اور احمد آباد میں دریائے جہلم کے دوسرے کنارے ( بھیرہ کے شمال مغربی جانب ) آباد ہوئے اور باقی عمر یاد الہی میں گزاری.میاں کرم دین (میاں کرم الہی کے ہاں ایک یہی لڑکا ہوا جسے حضرت اقدس کے ابتدائی ( رفقاء) میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا.آپ کی بیعت ۹۳.۱۸۹۲ء کی ہے.دینی خدمات: آپ نے اور مینٹل کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی تعلیم کے بعد سرگودھا میں ٹھیکیداری کا کام شروع کیا تھا جس میں نمایاں کامیابی ہوئی.اپنے مکان کے ساتھ مسجد احمد یہ بنوائی.اردگرد کے چکوک میں جماعتیں قائم کیں بعد میں آپ قادیان آگئے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے اور لاہور میں مقیم ہوئے.قادیان میں تعمیرات کے فرائض سرانجام دیئے.وفات : آپ کی وفات ۲۵ / اگست ۱۹۵۷ء کو بھمر ۸۲ سال ہوئی.آپ کا وصیت نمبر ۲۱۴۶ ہے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ نمبر ۱۵ میں ہوئی.اولاد: آپ کے تین بیٹے فضل الرحمن صاحب، عطاء الرحمن صاحب چغتائی جنرل سیکرٹری جماعت احمد یہ ماڈل ٹاؤن اور برکات الرحمن نسیم ہیں.بیٹیوں میں مکرمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی غلام احمد ارشاد صاحب، امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور امتہ المجید بیگم صاحبہ ہیں.مکرم عطاء الرحمن چغتائی کے ایک بیٹے مکرم شاہد احمد چغتائی پاکستان ٹیلی ویژن میں پروڈیوسر ہیں.اور مکرم ماجد احمد چغتائی بیرون ملک ہیں آپ کی ایک بیٹی مکرمہ نعیمہ فردوس صاحب اہلیہ چوہدری محمد سلیم احمد صاحب چرغہ ہاؤس ربوہ ہیں.ماخذ: (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۱۹۵-۱۹۶.☆ ۱۴۰.حضرت میاں عبد العلی موضع عبد الرحمن ضلع شاہ پور ولادت : ۱۸۷۴: بیعت : ابتدائی زمانہ تعارف : حضرت میاں عبدالعلی رضی اللہ عنہ ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں اور حمہ ( موضع عبد الرحمن سابق ضلع شاہ پور ) کی جٹ رانجھا برادری میں سے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام مولوی نظام الدین صاحب تھا.(اور اصل متوطن چادہ نزدبھیرہ کے تھے.پرورش کیلئے اور حمہ میں اپنے ننھیال رانجھا برادری کے پاس آ گئے تھے.) آپ کی ولادت ۱۲۹۰ھ میں ہوئی.والدہ بھی حافظ قرآن تھیں اور آپ خود بھی حافظ قرآن تھے.اور سات سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کر لیا.ابتدائی تعلیم کے بعد آپ اپنے چھوٹے بھائی حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ گورنمنٹ ہائی

Page 215

192 سکول بھیرہ گئے.پھر مزید تعلیم علی گڑھ یونیورسٹی سے حاصل کی.بعد لاہور سے لاء کی تعلیم حاصل کی.بیعت : حضرت حافظ صاحب کے خاندان میں سب پہلے آپ کے چا حضرت مولوی شیر محمد صاحب بجن ( یکے از ۳۱۳) نے احمدیت قبول کی.حضرت مولوی شیر محمد صاحب کی مسلسل نو سال کی تبلیغ سے حضرت حافظ صاحب کے والد صاحب نے احمدیت قبول کی اور قادیان جا کر حضرت اقدس کی بیعت کی.آپ کی والدہ حضرت گو ہر بی بی ان سے پہلے بیعت کر چکی تھیں.انکے علاوہ حضرت حکیم فضل الدین بھیروی اور حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب (خلیفہ امسیح الاول ) کے ذریعے بھی حقیقت سے آگاہی ہوئی.علی گڑھ جانے سے پیشتر حضرت اقدس کی بیعت کر چکے تھے.حضرت حافظ صاحب کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا شیر علی صاحب نے ۱۸۹۷ء میں بیعت کی.حضرت اقدس سے تعلق اخلاص: ایک دفعہ ۱۸۹۸ء کے موسم گرما میں ظہر سے پہلے تخلیہ میں چھوٹی مسجد میں حضور نے آپ سے ایک کتاب (انگریزی) سنی.جو کسی یہودی نے عیسائیت کے رڈ میں لکھی تھی.حضرت مولوی صاحب بوقت خطبہ الہامیہ مجلس میں موجود تھے.آپ فرماتے تھے کہ حضور کی آواز اس وقت بدلی ہوئی تھی.۱۹۰۴ء میں یا پہلے حضرت اقدس مسیح موعود نے مسجد اقصیٰ میں خطبہ پڑھا.آپ نے فرمایا ایک آدمی در دبھری داستان سن کر رو سکتا ہے اور ایسا ہی ایک درد بھرا منظر دیکھ کر آنسو بہا سکتا ہے مگر خدا کے حضور وہ رونا قابلِ قدر ہے جو اس کی خشیت کے ماتحت رویا جاوے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں آپ کا ذکر پر امن جماعت میں کیا ہے.خدمات سلسلہ : آپ ضلع سرگودھا میں پہلے مسلمان وکیل تھے.امیر جماعت احمد یہ ضلع سرگودھا کے طور پر آپ کو خدمت کی توفیق ملی.اولاد: (۱) مکرم چوہدری عبدالمالک صاحب مرحوم ( ان کی اولا د مکرم کیپٹن اعجاز السمیع صاحب ،مکرم فرحت الطاف اہلیہ ڈاکٹر الطاف الرحمن صاحب، مکرم چوہدری شاہد مصطفی صاحب، چوہدری وقار مصطفی صاحب، چوہدری انوار السمیع صاحب PAF کراچی) (۲) مکرمہ مبارکہ بیگم اہلیہ ثانی چوہدری علی اکبر مرحوم ( سابق نائب نا ظر تعلیم ) ( ان کی اولاد نعیم الرحمن صاحب لیفٹینٹ کرنل ڈاکٹر الطاف الرحمن صاحب (ر) مقصود الرحمن صاحب، احسان الرحمن مرحوم کار کن تحریک جدید ، انوار الرحمن مرحوم اور افضال الرحمن مرحوم ہیں.ان سے ایک نواسی اہلیہ طاہر مہدی امتیاز احمد صاحب پرنٹر و پبلشر روزنامه الفضل ربوہ.اور ایک نواسی اہلیہ منیر الرحمن باجوہ صاحب آف فورٹ عباس ہیں ) (۳) مکرمہ فاطمہ بیگم مرحوم اہلیہ مخدوم بشیر احمد مرحوم (۴) مکرمه روشن بخت اہلیہ قریشی غلام احمد صاحب مرحوم (۵) مکرمہ غلام حفصہ اہلیہ چوہدری نذیر احمد مرحوم (۶) مکرمه زیب النساء اہلیہ ڈاکٹر محمد سعید مرحوم ( ان کے بیٹے چوہدری مبشر احمد صاحب AVP ریٹائر ڈ MCB مقیم اسلام آباد ہیں.ماخذ : (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) مضمون حضرت مولوی شیر علی صاحب از چوہدری علی محمد صاحب بی اے بی ٹی الفضل ۱۷ار فروری ۱۹۹۴ء (۳) رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱ (۴) بیان مکرم چوہدری مطیع الرحمن صاحب نائب ناظر امور عامه (۵) بیان لیفٹینٹ کرنل ڈاکٹر الطاف الرحمن ( ر ) فضل عمر ہسپتال ربوہ.

Page 216

193 ☆ ۱۴۱.حضرت منشی نصیر الدین صاحب لونی.حیدر آباد بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت منشی نصیر الدین لونی رضی اللہ عنہ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.ضمیمہ انجام آتھم کے ۳۱۳ اصحاب صدق وصفا میں آپ کا نام درج ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں پُرامن جماعت میں آپ کا ذکر کیا ہے.نوٹ : آپ کے تفصیلی سوانحی حالات نہیں مل سکے.(البتہ اتنا معلوم ہوا ہے کہ آپ ریاست حیدرآباد کے ریونیو بورڈ میں پیشکار تھے ) ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البر یه صفحه ۳۵۱ ☆ ۱۴۲.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب.قاضی کوٹ.گوجرانوالہ بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت: حضرت قاضی محمد یوسف رضی اللہ عنہ کوٹ قاضی جان محمد گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے اور گاؤں کی ایک پتی کے نمبر دار کے بھائی تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.آپ حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کی تبلیغ سے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے تھے.۱۹۰۱ء میں ریویو آف ریلیجنز کے اجراء پر ابتدائی خریداروں میں سے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ، سراج منیر اور کتاب البریہ میں آپ کا ذکر کیا ہے.جلسہ ڈائمنڈ جوبلی ، چندہ دہندگان اور پر امن جماعت میں ذکر کیا ہے.(نوٹ) آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) اصحاب احمد جلد ششم صفحہ ۲.

Page 217

194 ☆ ۱۴۲ حضرت قاضی فضل الدین صاحب.قاضی کوٹ گوجرانوالہ بیعت: ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت قاضی فضل الدین رضی اللہ عنہ قاضی کوٹ حضرت قاضی سراج الدین صاحب کے بھائی تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے آپ بھی حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کی تبلیغ سے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے تھے.(نوٹ ) آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۳ (۲) اصحاب احمد جلد ششم صفحه ۲۰ ☆ ۱۴۴.حضرت قاضی سراج الدین صاحب.قاضی کوٹ گوجرانوالہ بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت قاضی سراج الدین رضی اللہ عنہ بھی کوٹ قاضی کے رہنے والے تھے اور حضرت قاضی فضل الدین کے بھائی تھے.حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کی تبلیغ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.آپ گاؤں کی ایک پتی کے نمبردار تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس نے آپ کا ذکر۳۱۳ رفقائے صدق وصفا میں کیا ہے.(نوٹ) آپ کے تفصیلی سوانحی حالات نہیں مل سکے.رفقائے احمد جلد ششم میں آپ کا ذکر ہے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) اصحاب احمد جلد ششم صفحه ۲۰ ۱۴۵.حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب فرزند رشید قاضی ضیاءالدین صاحب کوٹ قاضی گوجر انوالہ ولادت ۲۳ / جون ۱۸۸۱ء.بیعت ۱۸۸۹ء.وفات ۲۹ /اکتوبر ۱۹۵۳ء تعارف و بیعت حضرت قاضی عبدالرحیم رضی اللہ عنہ قاضی کوٹ گوجرانوالہ میں حضرت قاضی ضیاء الدین

Page 218

195 رضی اللہ عنہ ( یکے از ۳۱۳) کے ہاں ۲۳ جون ۱۸۸۱ء میں پیدا ہوئے اور اپنے والد گرامی کے ہمراہ ۱۸۸۹ء میں حضرت مسیح موعود کی بیعت سے مشرف ہوئے.ابتدا جموں میں ملازم تھے.ستمبر ۱۹۰۱ء میں ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے.محرر کی آسامی پر کام کرتے رہے.حضرت اقدس کی صحبت میں رہنے کو سعادت سمجھتے تھے.خدمات سلسلہ قادیان میں جب تعمیرات کے شعبے کا کام شروع ہوا تو آپ کو تعمیرات کا کام کرنے کی سعادت ملی اور آپ کو عظیم الشان عمارات بنوانے کا موقع ملا.۱۹۴۷ء کے فسادات میں حضرت مسیح موعود کی قبر کی حفاظت آپ کے سپرد تھی.ربوہ میں پانی آپ ہی کی زیر نگرانی بورنگ کے ذریعہ نکلا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اس الہام کو پورا کرنے کا آپ کو وسیلہ بنایا کہ ھے پاؤں کے نیچے سے مرے پانی بہا دیا اس طرح مسجد مبارک ربوہ اور دفاتر صدر انجمن احمدیہ کی تعمیر کا کام آپ کی زیر نگرانی ہوا.حضرت مصلح موعود نے آپ کے کاموں پر اظہار خوشنودی فرمایا.اولاد: قاضی بشیر احمد.قاضی عبدالسلام نیروبی والے ( دار الصدر شمالی)، قاضی منصور احمد اور قاضی مبارک احمد ہیں.حضرت قاضی صاحب کی اولاد مختلف ممالک میں ہے جو احمدیت سے مخلصانہ تعلق رکھتی ہے.حضرت قاضی عبدالرحیم کی ایک پوتی مکر مہ امتة الباسط صاحبہ بنت قاضی عبد السلام بھٹی ( زوجہ مولانا عطاء الکریم شاہد صاحب) ہیں.وفات : آپ کا انتقال ربوہ میں ۲۹ اکتوبر ۱۹۵۳ء کو ہوا اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ نمبر ۸ حصہ نمبر ۲۳ میں تدفین ہوئی.ماخذ: (۱) اصحاب احمد جلد ششم صفحه ۲۱ (۲) مضمون حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب ا ز الفضل ۱۷/ دسمبر ۱۹۹۹ء ☆ ۱۴۶.حضرت شیخ کرم الہی صاحب کلرک ریلوے.پٹیالہ ولادت : ۱۸۵۶ء.بیعت : ۲۸ فروری ۱۸۹۰ء.وفات : ۹/ جون ۱۹۵۳ء تعارف: حضرت شیخ کرم الہی صاحب رضی اللہ عنہ راجپورہ ریاست پٹیالہ میں ریلوے کے ریکارڈکلرک تھے.آپ کے والد صاحب کا نام شیخ اللہ بخش صاحب تھا.ولادت سال ۱۸۵۶ء کو ہوئی.بیعت : آپ نے ۲۸ فروری ۱۸۹۰ء کو بیعت کی اور رجسٹر بیعت اولیٰ میں ۱۷۴ نمبر پر بیعت درج ہے.جہاں آپ کا نام محمد کرم الہی صاحب ریکارڈ کلرک راجپورہ اسٹیشن ڈاک بنگلہ سرکا رکھا ہے.ازالہ اوہام میں ذکر : حضرت اقدس فرماتے ہیں: بابو صاحب متانت شعار مخلص آدمی ہیں وہ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ اگر چہ آپ کے رسالوں کو پڑھنے کے بعد

Page 219

196 بعض علماء طرح طرح کے تو ہمات میں مبتلا ہو گئے ہیں مگر الحمد للہ میرے دل میں ایک ذرہ بھی شک راہ نہیں پایا.سو میں اس کا شکر یہ ادا نہیں کر سکتا.کیونکہ ایسے طوفان کے وقت میں شکوک اور شبہات سے بچنا بشر کے اختیار میں نہیں.میری تنخواہ بہت کم ہے مگر تا ہم کم سے کم ایک روپیہ ماہواری آپ کے سلسلہ کی امداد کے لئے بھیجا کروں گا کیونکہ تھوڑی خدمت میں بھی شریک ہو جانا بکلی محروم رہنے سے بہتر ہے.فقط.سو بابو صاحب نہایت اخلاص اور محبت سے ایک روپیہ ماہواری بھیجتے رہتے ہیں.جزاهم الله خير الجزاء - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۸) ایک روایت : آپ کی ایک روایت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے رضی اللہ عنہ نے سیرۃ المہدی میں درج فرمائی ہے کہ ایک شخص محمد حسین جو پٹیالہ کا باشندہ تھا اس نے لوگوں کو وعظ میں بتایا کہ ایک دفعہ وہ حضرت مرزا صاحب کی ملاقات کو گیا.وہاں اندر سے ان کے واسطے کھانا آیا جو صرف ایک دو آدمیوں کی مقدار کا کھانا تھا مگر مجلس میں حاضر سب نے کھایا اور سیر ہو گئے حالانکہ دس بارہ آدمی تھے.دعویٰ مسیحیت پر اس شخص کو ٹھوکر لگی تھی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام، تحفہ قیصریہ، سراج منیر اور کتاب البریہ میں اپنے مخلصین ، ڈائمنڈ جوبلی کے جلسہ میں شرکت، چندہ دہندگان اور پُر امن جماعت میں ذکر کیا ہے.وفات : آپ کی وصیت الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۴۴ء صفحہ ۵ پر درج ہے آپ نے ۹۷ سال کی عمر میں ۹ رجون ۱۹۵۳ء کو وفات پائی.قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں.آپ کا وصیت نمبر ۷۱۹۰ ہے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) سیرۃ المہدی جلد اول صفحه ۱۴۹ (۶) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۵۲.☆ ۱۴۷.حضرت میر زا عظیم بیگ صاحب مرحوم - سامانہ، پٹیالہ بیعت : ۱۸۸۹ء.وفات : ۱۸۹۰ء تعارف: حضرت میرزا عظیم بیگ رضی اللہ عنہ حضرت مرزا محمد یوسف بیگ سامانہ پٹیالہ کے حقیقی بھائی تھے.بیعت : حضرت میرزا عظیم بیگ کی بیعت ۱۸۸۹ء کی ہے.خاندان کے دیگر افراد بھائیوں اور بیٹی نے ۱۸۸۹ء میں ہی ریاست کی تھی.فتح اسلام میں محبت بھر اذکر : حضرت اقدس نے فتح اسلام میں فرمایا.”میرے نہایت پیارے بھائی اپنی جدائی سے ہمارے دل پر داغ ڈالنے والے میر زا عظیم بیگ صاحب مرحوم و مغفور رئیس سامانه علاقہ پیالہ کے ہیں جو دوسری ربیع الثانی ۱۳۰۸ھ میں اس جہان فانی سے انتقال کر

Page 220

197 كَ إِنَّ لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ..اَلْعَيْنُ تَدْمَعُ وَالْقَلْبُ يَحْزَنُ وَإِنَّا بِفِراقِهِ لَمَحْزُونُونَ ميرزا صاحب مرحوم جس قدر مجھ سے محض اللہ محبت رکھتے اور جس قدر مجھ میں فنا ہورہے تھے میں کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں تا اس عشقی مرتبہ کو بیان کر سکوں اور جس قدر ان کی بے وقت مفارقت سے مجھے غم واندوہ پہنچا ہے میں اپنے گزشتہ زمانہ میں اس کی نظیر بہت ہی کم دیکھتا ہوں.وہ ہمارے فرط اور ہمارے میر منزل ہیں جو ہمارے دیکھتے دیکھتے ہم سے رخصت ہو گئے.جب تک ہم زندہ رہیں گے ان کی مفارقت کا غم ہمیں کبھی نہیں بھولے گا.در دیست در دلم که گر از پیش آب چشم بردارم آستیں پرود تا بدامنم اُن کی مفارقت کی یاد سے طبیعت میں اُداسی اور سینہ میں قلق کے غلبہ سے کچھ خلش اور دل میں غم اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.ان کا تمام وجود محبت سے بھر گیا تھا.میرزا صاحب مرحوم محبانہ جوشوں کے ظاہر کرنے کے لئے بڑے بہادر تھے.انہوں نے اپنی تمام زندگی اسی راہ میں وقف کر رکھی تھی.مجھے امید نہیں کہ انہیں کوئی اور خواب بھی آتی ہو.اگر چہ میرزا صاحب بہت قلیل البضاعت آدمی تھے مگران کی نگاہ میں دینی خدمتوں کے محل پر جو ہمیشہ کرتے رہتے تھے خاک سے زیادہ مال بے قدر تھا.اسرار معرفت کے سمجھنے کے لئے نہایت درجہ کا فہم سلیم رکھتے تھے.محبت سے بھرا ہوا یقین جو اس عاجز کی نسبت وہ رکھتے تھے خدا تعالیٰ کے تصرف تام کا ایک معجزہ تھا ان کے دیکھنے سے طبیعت ایسی خوش ہو جاتی تھی جیسے ایک پھولوں اور پھلوں سے بھرے ہوئے باغ کو دیکھ کر طبیعت خوش ہوتی ہے.“ وو ازالہ اوہام میں حضرت اقدس فرماتے ہیں.(فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۹) ان دونوں بزرگوار بھائیوں ( مرزا عظیم بیگ مرحوم و مرزا محمد یوسف بیگ) کی نسبت میں ہمیشہ حیران رہا کہ اخلاق اور محبت کے میدانوں میں زیادہ کس کو قر اردوں.“ (ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۰) حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے فتح اسلام ، ازالہ اوہام میں اپنے مخلصین میں اور تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی کے شرکاء میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.وفات : آپ کی وفات ۱۳۰۸ھ بمطابق ۱۸۹۰ء میں ہوئی.ماخذ: (۱) فتح اسلام صفحہ ۶۷ (۲) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۳۳۹.

Page 221

198 ☆ ۱۴۸.حضرت میرزا ابراہیم بیگ صاحب مرحوم سامانہ.پٹیالہ بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات : ۱۸۹۷ء سے قبل تعارف: حضرت میرزا ابراہیم بیگ رضی اللہ عنہ بھی سامانہ پٹیالہ کے رہنے والے تھے.حضرت مرز امحمد یوسف بیگ صاحب یکے از۳۱۳ رفقاء کے فرزند رشید تھے.بیعت : آپ نے ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو لدھیانہ میں حضرت اقدس کی بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی کے مطابق آپ کی بیعت کا چالیسواں نمبر ہے.آپ کے والد حضرت مرزا یوسف بیگ کا بیعت نمبر ۳۹ اور ان کے بھائی مرزا سعادت بیگ کا نمبر بیعت ۳۸ ہے.( تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۴۵) جبکہ اسی خاندان (یعنی حضرت مرزا یوسف بیگ) کی دس خواتین کی بیعت بھی ۱۸۸۹ء کی ہے.نزول مسیح میں آپ کا ذکر : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شفا آپ کی وفات کی اطلاع دی گئی تھی.حضور فرماتے ہیں:.ہمارے ایک مخلص دوست مرزا محمد یوسف بیگ صاحب ہیں جو سامانہ علاقہ پٹیالہ کے رہنے والے ہیں.ایک دفعہ ان کا لڑکا مرزا ابراہیم بیگ مرحوم بیمار ہوا تو انہوں نے میری طرف دعا کے لئے خط لکھا.ہم نے دعا کی تو کشف میں دیکھا کہ ابراہیم ہمارے پاس بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بہشت سے سلام پہنچا دو، اس کے معنے یہی دل میں ڈالے گئے کہ اب ان کی زندگی کا خاتمہ ہے.اگر چہ دل نہیں چاہتا تھا تا ہم بہت سوچنے کے بعد میرزا محمد یوسف بیگ صاحب کو اس حادثہ کی اطلاع دی گئی اور تھوڑے دنوں کے بعد وہ جوان غریب مزاج فرمانبردار بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے اس جہان فانی سے چل بسا.“ وفات : ۱۸۹۷ء سے قبل اپنے والد صاحب کی زندگی میں آپ کی وفات ہو چکی تھی.ماخذ: (۱) نزول اسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ (۲) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اول.☆ ۱۴۹.حضرت میاں غلام محمد طالب علم مچھر الہ لاہور ولادت ۱۸۸۱ء.بیعت مئی ۱۸۹۵ء.وفات اکتوبر ۱۹۴۷ء بمقام لاہور تعارف و بیعت : حضرت میاں غلام محمد رضی اللہ عنہ صاحب صوفی غلام محمد صاحب ( ماریشس) کے نام سے مشہور

Page 222

199 ہوئے.آپ کے والد کا نام دل محمد صاحب تھا.آپ کی ولادت ۱۸۸۱ء کی ہے.آپ کا گاؤں مچھرالہ موجودہ ضلع شیخو پورہ میں واقع ہے.آپ ابھی بچہ ہی تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور حضرت چوہدری رستم علی کورٹ انسپکٹر کی کفالت میں آگئے اور انہی کے خرچ پر قادیان میں تعلیم پائی.خود نوشت سوانح کے مطابق حضرت چوہدری صاحب کے ہمراہ دسمبر ۱۸۹۳ء کا جلسہ قادیان دیکھا اور مئی ۱۸۹۵ء میں حضرت اقدس کی بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ بیان کرتے ہیں کہ : ۱۸۹۴ء کو چاند گرہن اور سورج گرہن ایک ہی رمضان کی ۲۸ کو سورج گرہن ہوا تھا.وہ میں نے اپنی آنکھ سے منٹگمری میں دیکھا.چاند گرہن مغرب کی نماز کے بعد ہی لگ گیا تھا.اس وقت یہی تذکرہ تھا کہ یہ چاند گرہن مہدی کا نشان حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے.“ التحام قادیان ۲۱ ستمبر ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۴ء) ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام سے ہی حاصل کی.بعدہ ایم.اے.اوکالج علیگڑھ سے تعلیم حاصل کی اور ۱۹۱۲ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا.خدمات سلسلہ : ۱۹۰۶ء میں جب حضرت اقدس مسیح موعود نے وقف زندگی کی تحریک کی تو آپ نے اپنا نام پیش کر دیا.۱۹۰۷ء میں آپ اسٹنٹ ایڈیٹر ریویو مقرر کئے گئے اور پھر مدرسہ احمدیہ قادیان میں خدمات کی توفیق پائی.مجاہد ماریشس : آپکا بیان ہے: بی.اے کا امتحان پاس (کرنے) کے بعد میں نے خلیفہ اول سے پوچھا کہ قرآن شریف یاد کروں کہ ایم.اے کا امتحان دوں.فرمایا قرآن یاد کروایم.اے کیا ہوتا.سو میں نے چھ ماہ میں قرآن شریف یاد کیا اور جب میں نے خلیفہ اول کو لکھا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عہد کیا تھا.کہ میں اپنی زندگی دین کیلئے وقف کرتا ہوں.اس لئے مجھے آپ جہاں چاہیں بھیج دیں.آپ چونکہ ان کے خلیفہ برحق ہیں اس لئے مجھے تبلیغ کے لئے بھیج دیں.آپ کے ارشاد کے ماتحت میں نے پاسپورٹ کی درخواست دی.نیروبی والوں نے عربی انگریزی دان قرآن پڑھانے والے کے متعلق درخواست دی تھی.حضور خلیفہ اول نے فرمایا تھا کہ ایسٹ افریقہ کینیا کالونی کے لئے پاسپورٹ کی درخواست دیدو.ایسٹ افریقہ کیلئے میرا پاسپورٹ منظور نہ ہوا.کیونکہ لڑائی شروع ہوگئی تھی ).تب میں نے ماریشس کیلئے درخواست دی جو منظور ہوگئی اور حضرت خلیفہ اسیح الاول کا وصال ہو گیا.دسمبر ۱۹۱۴ء میں میری منظوری پاسپورٹ کی آگئی اور ۲۰ فروری ۱۹۱۵ء میں میں یہاں قادیان سے روانہ ہوا.۱۴ مارچ ۱۹۱۵ء کو کولمبو پہنچا.میں وہاں پونے تین ماہ رہا.وہاں احمد یہ ایسوسی ایشن کولمبو قائم کی.سلیون آئی لینڈ کولمبو جماعت کا مرکز بن گیا اور میں سب سے پہلا آنریری پریذیڈنٹ مقرر ہوا.۶ جون ۱۹۱۵ء کو روانہ ہوا اور ۱۵ جون ۱۹۱۵ء کو ماریشس پہونچا.پورٹ لوئی بندرگاہ پر اترا.روزبل میں مقیم ہوا.روزہل کے مقدمہ کی ستر نشستیں پونے دو سال میں ختم ہوئیں.سارے جزیرہ میں احمدیت کی دھاک بیٹھ گئی.ماریشس میں پونے چار لاکھ آبادی ہے.احمدی مرد و زن صغیر و کبیر چھ سات سو کے درمیان ہیں.بارہ سال وہاں گزارے.۱۹۲۶ء میں دو ہفتے کیلئے مڈغاسکر گیا.وہاں تبلیغ کیلئے وسیع میدان ہے.۳ یا ۴ مارچ ۱۹۲۷ء کو ماریشس سے چلا اور ۱۲ یا ۱۳ کو بمبئی پہنچا.۶ امارچ

Page 223

200 کو قادیان میں داخل ہوا.مئی ۱۹۲۷ء کو مدرستہ البنات میں لگا دیا گیا اور ۱۹۳۰ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تبدیل کیا گیا.یکم اپریل ۱۹۳۷ء سے پنشنر بن گیا.( رجسٹر وایات صحابہ جلد ہفتم) آپ کی دو مختصر تالیفات بھی ہیں.روئیداد مباحثہ دربارہ حیات و وفات مسیح علیہ السلام جو ماریشس کا مشہور مباحثہ ہے اور ایک کتابچہ لا الہ الا اللہ آپ نہایت خوش خلق، شیریں بیان اور تحمل مزاج بزرگ تھے.حافظ قرآن تھے اور آپ کی تلاوت سے پرانے اصحاب کے بیان کے مطابق حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی کی یاد تازہ ہو جاتی تھی.وفات: ہجرت کے بعد لاہور میں اکتوبر ۱۹۴۷ء میں وفات پائی اور میانی صاحب کے قبرستان میں دفن ہوئے بعد ازاں دارالہجرت ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں تابوت لے جا کر دفن کیا گیا.رض شادی و اولاد: ۱۹۰۶ ء حضرت مسیح موعود نے آپ کی شادی حضرت منشی شادی خان کی بیٹی حضرت عائشہ بیگم صاحبہ ( بیوہ حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی ) کرائی.آپ کی اہلیہ بعد میں نومبر ۱۹۱۷ء میں ماریشس پہنچیں اور وہاں خدمات سلسلہ کی توفیق پائی.حضرت صوفی صاحب کی اہلیہ کا انتقال ۱۶ جنوری ۱۹۲۸ء میں قادیان میں ہوا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.جن سے ایک بیٹی اور پانچ بیٹے پیدا ہوئے.(۱) مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.(۲) ڈاکٹر احمد صاحب مرحوم آف کراچی (جن کی بیٹی مکرمہ غزالہ مسعود مکرم مسعود احمد طاہر، طاہر فوٹوسٹوڈیور بوہ حال کینبرا آسٹریلیا کی زوجہ ہیں ) (۳) صوفی محمد صاحب.(۴) صوفی محمود صاحب - (۵) صوفی حامد صاحب ( جن کی بیٹی محترمہ سلمی جاوید صاحبہ اہلیہ مکرم ملک منور احمد جاوید نائب نا ظر ضیافت ربوہ ہیں ) (۶) ایک بیٹا بچپن میں وفات پا گیا.آپ کی دوسری شادی ۱۴ مارچ ۱۹۲۸ء کو استانی فاطمہ بیگم کے ساتھ ہوئی جس سے چار بچے پیدا ہوئے.(۱) مکرمہ نسیمہ بیگم صاحبه (۲) مکر مہ نعیمہ بیگم صاحبہ (۳) وسیمہ صاحبہ بچپن میں وفات.(۴) صوفی حمید احمد صاحب آف کراچی.( ان کی تین بیٹیاں ہیں مکرمہ آمنہ صاحبہ، مکرمہ نسیمہ صاحبہ مکرمہ نعیمہ صاحبہ ) ماخذ: (۱) لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۹۳ ۱۹۴ (۲) انٹرویو مکرم ملک منور احمد جاوید صاحب (۳) مجاہد ماریشس مؤلفہ مکرم احمد طاہر مرزا ( غیر مطبوعہ) (۴) (رجسٹروایات صحابہ جلد ہفتم) (۵) ( الحکم قادیان ۲۱ ستمبر ۱۴ راکتو بر۱۹۳۴ء) ☆ ۱۵۰.مولوی محمد فضل صاحب چنگا.گوجر خاں بیعت: ابتدائی زمانہ میں.وفات : جون ۱۹۳۸ء تعارف و بیعت مولوی محمد فضل صاحب چنگا بنگیال گوجر خان ضلع راولپنڈی سے تعلق تھا.ابتدائی زمانہ میں

Page 224

201 بیعت کی.اور بعض مفید کتب بھی لکھیں.جن میں اسرار شریعت معروف ہے.انجام : مولوی محمد فضل خاں چنگا بنگیال نے بعد میں احمدیت سے ارتداد اختیار کیا اور یہ اعلان اخبار اہلحدیث امرتسر ستمبر ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں نازیبا الفاظ کلمات کہے اور اسی حالت میں ہی وفات پائی.وفات : ۱۹۳۸ء میں وفات پائی.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) اخبار اہلحدیث امرتسر ستمبر ۱۹۳۷ء (۳) تاریخ احمدیت جلد اول (۴) روزنامہ الفضل ربوہ ۱۱ جولائی ۱۹۹۵ء.☆ ۱۵۱.حضرت ماسٹر قا در بخش صاحب لو دیانه لودیانه ولادت ۱۴۰ راگست ۱۸۷۰ء.بیعت: ۲۵ /ستمبر ۱۸۹۱ء.وفات: ۱۰/ جولائی ۱۹۲۳ء تعارف: حضرت ماسٹر قا در بخش رضی اللہ عنہ کے والد کا نام عظمت علی صاحب تھا.آپ کی ولادت ۱۴ اگست ۱۸۷۰ء کو ہوئی.آپ مشن سکول لدھیانہ میں ملازم تھے.مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے ابتدائی بزرگ اساتذہ میں سے تھے.آپ مولوی رحیم بخش ایم.اے ( جو بعد میں مولانا عبدالرحیم درڈ کے نام سے معروف ہوئے ) کے والد ماجد تھے.بیعت : آپ نے ۲۵ ستمبر ۱۸۹۱ء کو بیعت کی رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۶۳ نمبر پر ہے.ایک روایت : حضرت ماسٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ آتھم کی پندرہ ماہ کی میعاد کے دنوں میں لدھیانہ میں لوئیس صاحب ڈسٹرکٹ جج تھا.آتھم چونکہ لوئیس کا داماد تھا.اس لئے لدھیانہ میں لوئیس صاحب کی کوٹھی پر آ کر ٹھہرا کرتا تھا.ایک دفعہ میں دوران میعاد آتھم لدھیانہ میں آیا.ان دنوں آپ کا ایک غریب غیر احمدی رشتہ دار جو لوئیس صاحب کا نوکر تھا اور آتھم کے کمرے کا پنکھا کھینچا کرتا تھا.اس سے ماسٹر صاحب نے پوچھا کہ تم نے آتھم کی رہائش پر کبھی اس کے ساتھ کوئی بات بھی کی ہے.اس نے کہا صاحب ( یعنی آتھم ) رات کو روتا رہتا تھا.تو ایک دفعہ اس نے پوچھنے پر بتایا کہ اسے تلواروں والے نظر آتے ہیں.اس پر ملازم مذکور نے کہا کہ ان کو پکڑ کیوں نہیں لیتے تو صاحب نے کہا وہ صرف مجھے ہی نظر آتے ہیں اور کسی کو نظر نہیں آتے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : سراج منیر تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے آپ کا ذکر ڈائمنڈ جوبلی جلسہ اور پُر امن جماعت کے ضمن میں کیا ہے.وفات حضرت ماسٹر صاحب کا انتقال ۱۰ر جولا ئی ۱۹۲۳ء کو لاہور میں ہوا.اولاد: حضرت ماسٹر قادر بخش کی اولاد میں تین بیٹے (۱) حضرت مولانا عبدالرحیم درد (۲) مکرم با بو برکت اللہ

Page 225

202 صاحب ریٹائر ڈ پوسٹ ماسٹر (۳) مکرم مصلح الدین سعدی صاحب اور دو بیٹیاں مکرمہ صغری بیگم زوجہ صوفی عبد القدیر نیاز سابق مبلغ جاپان ( ابن حضرت مولوی عبد اللہ سنوری) اور مکرمہ کلثوم بیگم زوجہ حضرت چوہدری فتح محمد سیال جو سابق مبلغ انگلستان و ناظر دعوۃ والسبلیغ وناظر امور عامہ رہے ہیں.جب کہ حضرت مولانا عبدالرحیم درڈ کی اولاد دو بیویوں سے چھ بیٹے اور آٹھ بیٹیاں ہیں.ان میں مکرم مجیب الرحمن درد صاحب نائب ناظر امور عامہ (صنعت و تجارت اور مکرم محمد عیسی در د مرحوم ہیں اور بیٹیوں میں سے مکرمہ رضیہ درد صاحبہ سابق نائب صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اہلیہ مکرم پر وفیسر مسعوداحمد عاطف مرحوم مکرمه صالحه در دصاحبه جنرل سیکرٹری لجنہ اللہ لاہور، مکر مہ خاتم النساء درد صاحبہ (اہلیہ مکرم مولانا محمد شفیع اشرف مرحوم ناظر امور عامہ جن کے بیٹے ڈاکٹر محمد اشرف صاحب اور محمود احمد اشرف صاحب پروفیسر جامعہ احمد یہ ہیں ) مکرمہ نعیمہ در دصاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ سرگودھا ( اہلیہ ملک رب نواز مجو کہ صاحب) ہیں.ماخذ : (۱) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) رجسٹر بیعت اولی تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۵۶ (۴) الحکم سے ستمبر ۱۹۲۲ء (۵) سیرۃ المہدی جلد اول صفحه ۴ ۱۸-۱۸۵ (۶) الفضل ۱۱؍ جولائی ۱۹۸۳ء ( ۷ ) والد صاحب صفحہ ۵۵ تا ۶۳.☆ ۱۵۲.حضرت منشی اله بخش صاحب.لودیا نہ بیعت : ۲۲ / مارچ ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت منشی اللہ بخش رضی اللہ عنہ لدھیانہ کے رہنے والے تھے.بیعت : آپ کی بیعت سیرت المہدی حصہ سوم کے مطابق پہلے دن کی ہے.بیعت اولیٰ کی فہرست میں آپ کی بیعت آٹھویں نمبر پر ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: ازالہ اوہام میں حضور نے حضرت میاں کریم بخش صاحب آف جمالپور کی شہادت کے متعلق آپ کی گواہی بھی درج فرمائی ہے.(صفحہ ۴۸۳) نیز ازالہ اوہام ہی میں حضور نے آپ کا نام ”بی فی اللہ فی اللہ بخش صاحب اپنے مخلصین میں لکھا ہے.آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ کے شرکاء میں آپ کا نام درج ہے.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام صفحه ۴۸۳ روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۹ (۴) تاریخ احمدیت جلد اول.

Page 226

203 ☆ ۱۵۳ - حضرت حاجی ملا نظام الدین صاحب - اودیانہ بیعت : ۱۸۹۱ء تعارف: حضرت حاجی ملا نظام الدین رضی اللہ عنہ لدھیانہ کے رہنے والے تھے.آپ نے پہلے جلسہ سالانہ ۱۸۹ء میں شمولیت کی سعادت پائی.بیعت کا پس منظر : مباحثہ لدھیانہ (۲۰ مئی تا ۲۹ مئی ۱۸۹۱ء) سے پہلے میاں نظام الدین صاحب نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے پوچھا کہ حضرت مسیح کی زندگی پر قرآن شریف میں کوئی آیت ہے تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کہا کہ میں آیات موجود ہیں.مولوی محمد حسین کی رضا مندی سے میاں صاحب حضرت اقدس مسیح موعود کے پاس حاضر ہوئے اور وفات عیسی علیہ السلام کی دلیل طلب کی.حضرت اقدس نے فرمایا قرآن شریف ہے.میاں نظام الدین نے کہا اگر قرآن شریف میں حیات مسیح ثابت ہو تو آپ مان لیں گے؟ حضرت اقدس نے فرمایا ہاں ہم مان لیں گے.میاں نظام الدین صاحب نے اس پر کہا میں آپ کو میں آیات حضرت مسیح کی زندگی پر لا دوں گا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا میں کیا تم ایک ہی آیت لا دو.میں قبول کرلوں گا اور اپنا دعوی مسیح موعود چھوڑ دوں گا.میاں نظام الدین چادر، جوتا اور دوپٹہ (پرنا ) چھوڑ کر برہنہ پا دوڑتے ہوئے مولوی محمد حسین اور دیگر مولویوں کے پاس گئے اور کہا میں مرزا صاحب کو ہرا آیا ہوں.مولوی خوش ہوئے اور پوچھا کس طرح؟ بتایا کہ حیات مسیح پر ہیں آیات کا وعدہ کر آیا ہوں آپ حسب وعدہ مجھے ہیں آیات نکال دیں.حضرت مولوی محمد حسین بٹالوی گھبرا کر کھڑے ہوئے اور عمامہ سر سے پھینک دیا اور کہا تو مرزا کو نہیں ہمیں ہرا آیا اور ہمیں شرمندہ کیا.میں مدت سے مرزا کو حدیث کی طرف کھینچتا ہوں اور وہ مجھے قرآن کی طرف لاتے ہیں.تب مولوی نظام الدین صاحب کی آنکھیں کھل گئیں تو کہا جب قرآن تمہارے ساتھ نہیں تو جدھر قرآن شریف ہے ادھر میں ہوں.بیعت حضرت اقدس مولوی نظام الدین یہ کہ کر واپس چلنے لگے تو مولوی محمد حسین صاحب نے مولوی محمد حسن صاحب ( جنکے مکان پر تمام مولوی ٹھہرے ہوئے تھے) سے کہا کہ اس کی روٹی بند کر دو لیکن مولوی نظام الدین پر حق آشکار ہو چکا تھا.انہوں نے اس تحریص کی کوئی پرواہ نہ کی اور حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو کر شرمندہ سے ہو کر رہ گئے.دو چار بار کے دریافت کرنے پر رو کر عرض کیا کہ حضرت وہاں یہ معاملہ گزرا میری روٹی بھی بند کر دی اب تو جدھر قرآن شریف ادھر میں.پھر مولوی صاحب نے بیعت کر لی ان کا بیعت کرنا تھا کہ مولویوں میں ایک شور مچ گیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آسمانی فیصلہ اور آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ

Page 227

204 ۱۸۹۱ ء و۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں میں اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.حضرت اقدس کی دلجوئی کا ایمان افروز واقعہ : ابتدائی زمانہ میں مسجد مبارک بہت چھوٹی تھی.ایک دعوت کے موقع پر حضرت حاجی صاحب لوگوں کو جگہ دیتے دیتے جوتیوں والی جگہ پر پہنچ گئے.کھانا شروع ہوا تو حضرت اقدس کی دور بین نگاہ بھانپ چکی تھی.حضور ایک پیالہ سالن کا لے کر آئے اور انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ آدمیاں نظام دین میں اور آپ اندر بیٹھ کر ا کٹھے کھاتے ہیں.“ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی روایت کے مطابق اس دلجوئی کا ذکر ہے.ماخذ: (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن ۲ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) اصحاب احمد جلد چہارم.۱۵۴.حضرت عطاء الہی صاحب غوث گڑھ.پٹیالہ بیعت : ۲۵ / جولائی ۱۸۹۰ء تعارف : حضرت عطاء الہی رضی اللہ عنہ غوث گڑھ تھا نہ کہمانوں تحصیل سرہند ریاست بیٹیالہ کے رہنے والے تھے اور زمیندار تھے.آپ کے والد ماجد کا نام فتح محمد صاحب تھا.حضرت میاں عبد اللہ سنوری کے ذریعہ آپ کو احمدیت کی حقانیت کا علم ہوا.بیعت : آپ نے ۲۵ جولائی ۱۸۹۰ء کو بیعت کی تھی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کی بیعت ۲۰۱ نمبر پر درج ہے.آپ کے علاوہ غوث گڑھ سے حضرت کرم الہی ثانی ولد ما وانمبر ۲۰۰ اور حضرت نور محمد ولد ہوشناک نمبر دار نمبر۲۰۳ اور حضرت نور محمد صاحب ولد لکھا نمبر دار نمبر ۷۸ ابھی ہیں ، نے جولائی ۱۸۹۰ء میں حضرت اقدس کی بیعت کی جن کا اندراج رجسٹر بیعت میں ہے.چوہدری منیر احمد ایڈوکیٹ آپ کی ہی نسل سے ہیں.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضور نے آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شرکت کرنے والوں میں درج فرمایا ہے.وفات : حضرت عطاء الہی صاحب کی وفات غوث گڑھ میں ہوئی اور وہیں مدفون ہیں.اولاد (1) آپ کے بیٹے چوہدری مبارک احمد صاحب چک نمبر ۳۸ جنوبی ضلع سرگودھا ہیں.اشفاق احمد ڈرائیور دارالفضل ربوہ بھی آپ کی نسل سے ہی ہیں.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۵۳.

Page 228

205 ۱۵۵.حضرت مولوی نور محمد صاحب.مانگٹ پٹیالہ بیعت : ۱۷ سراپریل ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت مولوی نور محمد رضی اللہ عنہ موضع مانگٹ کے والد صاحب کا نام مولوی عبداللہ صاحب تھا.بیعت کے ریکارڈ کے مطابق مانگٹ ضلع لودھیانہ میں لکھا ہے.بیعت : آپ کی بیعت ۷ اراپریل ۱۸۸۹ء کی ہے اور اور آپ کا نام نمبر ۸۶ پر رجسٹر بیعت میں درج ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام ، آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام درج فرمایا ہے.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت اقدس کے معاصر علماء میں آپ کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی تھی.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۴۷ (۴) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانه ۱۹۶۴ء.☆ ۱۵۶.حضرت مولوی کریم اللہ.امرتسر بیعت : ۱۸۹۱ء تعارف: حضرت مولوی کریم اللہ رضی اللہ عنہ کا تعلق امرتسر سے تھا.بیعت : آپ کا ذکر آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ میں شرکت کرنے والوں میں ۲۸۲ نمبر پر ہے.لہذا آپ کی بیعت ۱۸۹۲ء سے پہلے کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام میں حضرت اقدس نے آپ کا ذکر کیا ہے.آپ کا تذکرہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تقریر میں ان علماء کرام میں کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی تھی.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء.

Page 229

206 ☆ ۱۵۷.حضرت سید عبدالہادی صاحب.سولن شملہ بیعت : ۴ / مارچ ۱۸۹۰ء تعارف: حضرت سید عبدالہادی رضی اللہ عنہ اوورسیئر تھے.آپ کے والد کا نام سید شاہنواز صاحب تھا.آپ کا اصل وطن ماچھی واڑہ ہے.لدھیانہ شہر سے ۲۲ میل پر قصبہ سمرالہ تحصیل ہیڈ کواٹر ہے جس کے آگے قصبہ ماچھی واڑہ ہے.رجسٹر بیعت اولی کے کوائف کے مطابق آپ سب اور سٹئیر ملٹری پولیس بلیلی علاقہ کوئٹہ میں ملازمت کر رہے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے سے قبل آپ کے حضرت اقدس سے روابط تھے.آپ کی طبیعت فقر و تصوف کی طرف مائل تھی.حضرت اقدس کی بڑی سرگرمی سے خدمت کرتے تھے.(آپ پہلے مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھی معتقد تھے.) حضرت اقدس کی بیعت : آپ کو م / مارچ ۱۸۹۰ء کو بیعت کرنے کی سعادت ملی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۷۷ انمبر پر ہے.بیعت کے وقت آپ سب اورسیئر ( ملٹری پولیس جیل کو ئٹہ ) میں تھے.ازالہ اوہام حصہ دوم میں حضرت اقدس نے سید عبدالہادی صاحب کے بارہ میں فرمایا یہ سید صاحب انکسار اور ایمان اور حسن ظن اور ایثار اور سخاوت کی صف میں حصہ وافر رکھتے ہیں.وفا دار اور متانت شعار ہیں.وعدہ اور عہد میں پختہ ہیں.حیا کی قابل تعریف صفت اُن پر غالب ہے...(روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۳) ایک اہم واقعہ میں ذکر : مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت سیدعبدالہادی صاحب کو لکھا کہ وہ لدھیانہ سے دریائے ستلج بذریعہ کشتی پار کر کے ماچھی واڑہ آ رہے ہیں.سید عبدالہادی صاحب گھر آئے کہ اب حضرت مسیح موعود کا مرید ہوں.مولوی صاحب آئیں گے تو میرے ساتھ الجھ پڑیں گے.انہوں نے قادیان حضور کو خط لکھا کہ مجھے بہت گھبراہٹ ہے.حضور سے دعا کے لئے درخواست کی.حضور نے جواب دیا کہ آپ مطلق نہ گھبرا ئیں.محمد حسین ماچھی واڑہ میں نہیں آئے گا.مقررہ دن شہر میں مولوی صاحب کے استقبال کے لئے خوب تیاریاں شروع ہو گئیں اور جامع مسجد میں ان کے استقبال اور وعظ کے لئے بڑا مجمع ہو گیا.چند آدمیوں کو ایک پالکی دے کر دریا پر بھجوا دیا گیا.مولوی صاحب نے کشتی سے اُتر کر ادھر ادھر دیکھا.ان لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا میرے آنے کی شہر والوں کو خبر نہ تھی.ان لوگوں نے کہا جناب خبر تھی اس لئے تو یہ پالکی آپ کے لئے بھجوائی ہے.اس میں سوار ہو جائیں.ہم آپ کو شہر لے چلیں گے وہاں تمام شہر کے لوگ جمع ہیں.وہاں مسجد میں استقبال ہوگا.مولوی محمد حسین صاحب سخت برہم ہوئے اور نا راضگی سے اس کشتی میں بیٹھ کر واپس لدھیانہ شہر کو چلے گئے.

Page 230

207 حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر ازالہ اوہام میں مخلصین اور آئینہ کمالات اسلام میں چندہ دہندگان اور جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں اور کتاب البریہ میں پرامن جماعت میں فرمایا ہے.خاندان میں احمدیت: آپ کے بڑے بھائی حضرت سید شاہ محمد صاحب پرشین ٹیچر گورنمنٹ سکول سمرالہ بھی صحابی تھے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) مضمون ”سید محمد حسن شاہ کی یاد میں مندرجہ.الفضل ربوه یکم فروری ۱۹۸۳ء صفحه ۴ (۵) رجسٹر بیعت مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۲ (۶) الفضل ربوہ ۱۲ را پریل ۱۹۸۹ء.☆ ۱۵۸.حضرت مولوی عبداللہ خان صاحب.پٹیالہ بیعت ۴ رمئی ۱۸۸۹ء.وفات : ۱۹۳۵ء تعارف: حضرت مولوی محمد عبد اللہ خاں رضی اللہ عنہ مہندر کالج پیٹیالہ میں عربی کے پروفیسر تھے.آپ کے والد میاں بہرام علی صاحب تھے.وزیر ریاست پٹیالہ خلیفہ محمد حسن جیسے اعلیٰ پایہ کے لوگ انہیں اپنی مجلس کی زینت سمجھا کرتے تھے.بیعت : حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نہایت ابتدائی زمانہ میں جب چاروں طرف مخالفت کی آگ بھڑک رہی تھی تو آپ نے شرف بیعت حاصل کیا.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کی بیعت ۹۲ نمبر پر ہے جہاں مولوی محمد عبداللہ فخری کاندھلہ ضلع مظفر نگر شعبہ تدریس ملازمت تحریر ہے.یہی پٹیالہ والے مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہیں.آپ نے ۴ رمئی ۱۸۸۹ء کو بیعت کی.پٹیالہ سے پنشن پا کر مستقل طور پر لاہور میں سکونت اختیار کر لی.آپ کے فرزند مولانا مصطفیٰ خان ماہنامہ ”ادب“ نکالا کرتے تھے.آپ نے حضرت اقدس سے اپنی سب سے پہلی ملاقات کے بارے میں ۱۳ / جون ۱۸۸۸ء کی خود نوشت میں ذکر کرتے ہیں : حضور جب پٹیالہ سے متصل قصبہ سنور میں تشریف لائے تو مجھے آپ کی زیارت نصیب ہوئی میانہ قد گندمی رنگ کشادہ پیشانی داڑھی خضاب کی ہوئی.عمر چالیس سال کے قریب رکھتے تھے.سلام کہہ کر مصافحہ کیا اور بیٹھ گیا.بہت مخلوق آپ کے دیدار کے لئے آئی ہوئی تھی.آپ کے چہرے سے بزرگی اور جلال الہی کے آثار نمایاں تھے.آپ کا ظاہر احکام شریعت کے موافق اور باطن اللہ جانتا ہے.حلم وحیا آپ پر غالب تھے.نماز ظہر آپ کے پیچھے ادا کی.ہر چند کہ ایسے لوگوں کی استعداد شناخت نہیں رکھتا.مگر ان کا وجود مبارک بمنزلہ رحمت الہی اور دین حق کے لئے غیر محدود قوت کا موجب ہے.ان کے مجدد ہونے سے انکار سراسر جہل و نادانی ہے.66

Page 231

208 حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے نشان آسمانی میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے فتویٰ کفر میں علماء کی فہرست میں عبداللہ بیٹیالوی کا نام درج کیا تھا تو حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب نے فوراً ایک اشتہار شائع کیا کہ میرے ہم نام مولوی عبد اللہ بٹالوی اور شخص ہیں جو کبھی بھی مرزا صاحب کے معتقد نہ تھے اور نہ ہیں.باقی رہا نیاز مند.اسی طرح فدائے قوم و کشتہ اسلام کا معتقد اور نیاز مند ہوں.“ کتاب البریہ میں پُر امن جماعت میں آپ کا ذکر بھی ہے.اولاد: آپ کے فرزند مولانا مصطفیٰ خان ماہنامہ ”ادب“ شائع کرتے تھے.ماخذ : (۱) نشان آسمانی روحانی خزائن جلد ۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) یا درفتگان حصہ دوم صفحه ۱۰۳.۱۰۵ (۴) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۴۷.☆ ۱۵۹.ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب.پٹیالہ بیعت: ابتدائی زمانہ میں تعارف: آپ زمانہ طالب علمی سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے حسن ظن اور عقیدت رکھتے تھے.بیعت ابتدائی زمانہ کی تھی.بعد میں سلسلہ احمدیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہ رہا.اور حضرت اقدس کی مخالفت کرتے رہے.آپ انگریزی زبان میں مہارت رکھتے تھے.ماخذ : (1) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۷ (۲) انجام آنقم روحانی خزائن جلد ۱ (۳) تاریخ احمدیت جلد ۲ ☆ ۱۶۰.حضرت ڈاکٹر بوڑے خان صاحب.قصور ضلع لاہور بیعت : ۱۸۹۴ء.وفات : جولائی ۱۸۹۹ء تعارف: حضرت ڈاکٹر بوڑے خان رضی اللہ عنہ قصور ( ضلع لاہور) کے رہنے والے تھے.بہت مخلص اور فدائی احمدی تھے.آپ کے بیٹے مولوی غلام محی الدین قصوری ابھی بچہ تھے اور حضرت ڈاکٹر صاحب کے ساتھ قادیان جایا کرتے تھے.( بعد میں مولوی غلام محی الدین قصوری صاحب کا احمدیت سے تعلق نہ رہا.) بیعت : آپ کی بیعت سال ۱۸۹۴ء کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت مولوی غلام علی رہتاس کی بیماری کا تار موصول ہونے پر حضرت

Page 232

209 اقدس مسیح موعود نے فرمایا ( جس میں ڈاکٹر صاحب کی وفات کا بھی ذکر ہے.) ”ہماری جماعت جواب ایک لاکھ تک پہنچی ہے.سب آپس میں بھائی ہیں.اس لئے اتنے بڑے کنبہ میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی نہ کوئی دردناک آواز نہ آتی ہو.جو گزر گئے وہ بھی بڑے ہی مخلص تھے.جیسے ڈاکٹر بوڑے خان سید فصیلت علی شاہ ایوب بیگ منشی جلال الدین.خدا ان سب پر رحم کرے.“ ڈاکٹر صاحب جب آخری دفعہ قادیان آئے تو واپسی پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آپ کو چھوڑنے کے لئے ساتھ ساتھ چلتے موڑ تک تشریف لے آئے.یکہ خالی ساتھ ساتھ چلتا رہا.ڈاکٹر صاحب نے رستہ میں ایک دفعہ اصرار بھی کیا کہ حضور اب واپس تشریف لے جائیں مگر حضور موڑ تک تشریف لے آئے.وفات: اس کے چند دن بعد حضرت ڈاکٹر بوڑے خان صاحب کسی مریض کا آپریشن کر رہے تھے کہ ان کے ہاتھ پر نشتر لگ گیا اور اس نشتر کے زہر سے ان کی موت واقع ہوگئی.آپ کی نماز جنازہ حضرت مسیح موعود نے پڑھائی.حضرت مسیح موعود اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں اپنے ایک نشان کے متعلق فرماتے ہیں: ۲۴ نشان.۳۰ / جون ۱۸۹۹ء میں مجھے یہ الہام ہوا پہلے بے ہوشی ، پھر شی پھر موت.ساتھ ہی اس کے یہ تفہیم ہوئی کہ یہ الہام ایک مخلص دوست کی نسبت ہے جس کی موت سے ہمیں رنج پہنچے گا.چنانچہ اپنی جماعت کے بہت سے لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا...پھر آخر جولائی ۱۸۹۹ء میں ہمارے ایک نہایت مخلص دوست ڈاکٹر محمد بوڑے خاں اسٹنٹ سرجن ایک نا گہانی موت سے قصور میں گزر گئے.اول بے ہوش رہے پھر ایک دفعہ غشی طاری ہوگئی پھر اس نا پائیدار دنیا سے کوچ کیا اور ان کی موت اور اس الہام میں صرف ہیں بائیس دن کا فرق تھا.“ حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ میں ڈائمنڈ جوبلی جلسہ میں شرکت کرنے والوں میں بھی آپ کا نام تحریر فرمایا ہے.ماخذ : (۱) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحه ۱۹۵ (۴) اخبار الحکم، ۱ را کتوبر ۱۹۰۲ء ملفوظات جلد دوم.☆ ۱۶۱.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب.لاہور حال چکرانہ ولادت: ۱۸۶۶ء.بیعت: ۲ /جنوری ۱۸۹۲ء.وفات: یکم جولائی ۱۹۲۶ء تعارف: حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کا حسب و نسب حضرت ابوبکر صدیق سے ملتا ہے.یہ خاندان خلیفہ بدیع الدین کی سرکردگی میں ہندوستان آیا خاندان کا کچھ حصہ ممبئی میں اور باقی کالا ہور ٹھہرا.آپ کے والد ماجد خلیفہ حمید الدین صاحب انجمن حمایت اسلام لاہور کے بانیوں میں سے تھے.خلیفہ حمید الدین صاحب کی رہائش اندرون موچی گیٹ تھی.آپ ہی کے وقت انجمن حمایت اسلام کے تعلیمی ادارے قائم ہوئے.آپ انجمن کے صدر

Page 233

210 ی ہے.وفات کے بعد خلیفہ صاحب کو اسلامیہ کالج لاہور میں دفن کیا گیا.لعلیم : حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب حافظ قرآن تھے.سکول کی تعلیم کے بعد آپ نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تعلیم پائی.اس خاندان کی خصوصیت تھی کہ سب لڑکے اور لڑکیاں حافظ قرآن تھے.آپ نے زمانہ طالب علمی میں بینگ میں محمڈن ایسوسی ایشن (Young Men Mohammaden Association) کی بنیادرکھی.بیعت : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر ۲ جنوری ۱۸۹۲ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۷ ۱۸ نمبر پر درج ہے.خدمت خلق: لاہور اور آگرہ کے میڈیکل کالج میں پروفیسر رہے.ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان آگئے تھے اور نور ہسپتال میں کئی سال تک انچارج کے طور پر کام کیا.آپ اپنے پیشہ سے اس قدر مخلص تھے کہ ایک دفعہ رات بارہ بجے ایک شخص اپنی بیوی کی تشویشناک حالت کے لئے دوائی لینے آیا آپ اس کی کیفیت کے پیش نظر اس کے ساتھ ہو لئے.خود دوائی دی اور بتایا کہ اسے ایک گھنٹے بعد دوبارہ دورہ پڑے گا.باہر کہیں جانوروں کی جگہ انتظار کرتے رہے ٹھیک گھنٹہ بعد دوبارہ دوائی دینے کے لئے گئے.اس وقت خاتون کی حالت خراب تھی.آپ نے دوائی دی اور اللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے صحت دی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر ازالہ اوہام ، آئینہ کمالات اسلام، سراج منیر، کتاب البریہ، تحفہ قیصریہ میں اپنے مخلصین چندہ دہندگان اور جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شامل ہونے والوں میں کیا ہے.حضرت اقدس نے آپ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت اخلاص دیا ہے.ان میں اہلیت اور زیر کی بہت ہے.اور میں نے دیکھا ہے کہ ان میں نور فراست بھی ہے.“ آپ کی بڑی بیٹی حضرت رشیدہ المعروف حضرت محمودہ بیگم صاحبہ کی شادی ۱۹۰۳ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود صاحب سے ہوئی.جو بعد میں’ام ناصر“ کے نام سے معروف ہوئیں.اب ان کو قربانی کی ضرورت نہیں“ سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کی مالی قربانی کے بارہ میں ۱۹۲۶ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر فرمایا: اُن کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپ پر مقدمہ گورداسپور میں....تھا اور اس میں روپیہ کی سخت ضرورت تھی.حضرت صاحب نے دوستوں کو تحریک کی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں.لنگر خانہ تو دو جگہ پر ہو گیا ہے.ایک قادیان میں اور دوسرا گورداسپور میں.اس کے علاوہ اور

Page 234

211 مقدمہ پر خرچ ہو رہا ہے.لہذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اُسی دن اُن کو تنخواہ تقریباً ۴۵۰ روپے ملی تھی.وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضور کی خدمت میں بھیج دی.ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ تو گھر کی ضروریات کیلئے رکھ لیتے تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح کہتا ہے کہ دین کیلئے ضرورت ہے تو پھر اور کس کیلئے رکھ سکتا ہوں.غرض ڈاکٹر صاحب تو دین کیلئے قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحب کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہیں کہنا پڑا کہ اب ان کو مالی قربانی کی ضرورت نہیں.“ وفات : آپ کی وفات یکم جولائی ۱۹۲۶ ء ہوئی.آپ کا وصیت نمبر ۷۵۳ ہے.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں قطعہ نمبر ۳ حصہ نمبر 1 میں ہوئی.اولاد : آپ کے بیٹے بیٹیوں اور ان کی اولاد کی تعداد ۲۰ سے زائد ہے.آپ کی دوازواج تھیں.اہلیہ اول حضرت عمدہ بیگم سے نو بیٹے بیٹیاں تھیں جن میں سے حضرت رشیدہ بیگم (المعروف حضرت محمودہ بیگم سیدہ ام ناصر ) حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے عقد میں آئیں.کرنل تقی الدین اور مکرم خلیفہ علیم الدین صاحب انہی کی اولاد تھے.اہلیہ ثانی حضرت مراد خاتون سے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں محترم خلیفہ صلاح الدین صاحب اور خلیفہ منیر الدین صاحب پاک بھارت جنگ ۱۹۶۵ء کے شہید (ستارہ جرات) ان کی اولاد تھے.خلیفہ صلاح الدین مرحوم کے بیٹے خلیفہ صباح الدین مرحوم ( مربی سلسلہ احمدیہ ) ، خلیفہ فلاح الدین اور خلیفہ رواح الدین لندن میں آپ کی نسل سے ہیں.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد نمبر ۲ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ (۵) رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۵۷ (۶) لا ہور تاریخ احمدیت صفحہ ۱۴۶ - ۱۴۷ (۷) مضمون مندرجه روزنامه الفضل ۲۳ جون ۱۹۹۸ء ( ۷ ) ماہنامہ انصار اللہ ماہ ستمبر، اکتوبر ۱۹۹۵ء (۸) تاریخ لاہور از ڈاکٹر کنہیا لال صفحہ ۵۲ (۹) روزنانہ الفضل ۱۱ار جنوری ۱۹۲۷ء.☆ ۱۶۲.جناب مولوی غلام محی الدین خانصاحب فرزند ڈاکٹر وڑے خانصاحب بیعت مارچ ۱۸۹۷ء.وفات : ۱۹۶۴ء حضرت اقدس سے تعلق اور بیعت: جناب مولوی غلام محی الدین خاں صاحب حضرت ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب قصوری کے بیٹے تھے چونکہ چھوٹی عمر سے ہی اپنے والد ماجد کے ساتھ قادیان جایا کرتے تھے.اس لئے ضمیمہ انجام آتھم میں ۳۱۳ کی فہرست میں نام درج ہے.آپ نے مارچ ۱۸۹۷ء میں بیعت کی تھی.حضرت ڈاکٹر صاحب تو بہت مخلص اور فدائی احمدی تھے مگر جناب مولوی صاحب کا احمدیت سے تعلق نہ رہا.پیشہ وکالت میں معروف

Page 235

212 تھے.آخری عمر میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے صدر رہے.تاریخ احمدیت لاہور میں ہے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جناب چوہدری سر شہاب الدین صاحب اور مولوی غلام محی الدین قصوری صاحب اکٹھے قادیان گئے تھے اور ایک ہی روز انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.ماخذ: (۱) انجام آنقم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) لاہور تاریخ احمدیت جدید ایڈیشن صفحہ ۲۲۸.۲۲۹.☆ ۱۶۳.حضرت مولوی صفدر حسین صاحب.حیدر آباد دکن بیعت : ۲۷ /اگست ۱۸۹۲ء تعارف: حضرت مولوی صفدر حسین رضی اللہ عنہ کے والد کا نام محی الدین صاحب تھا آپ ریاست حیدر آباد دکن میں مہتم تعمیرات تھے.بیعت : رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۳۴۹ نمبر پر ہے کہ آپ نے ۱۴ اگست ۱۸۹۲ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت میں نام ” مولوی منشی صفدر علی صاحب ولد محی الدین صاحب ساکن...ضلع میدک علاقہ ملک سر کا ر نظام درج ہے.دینی خدمات: مولوی انوار اللہ خان صاحب افسر اعلیٰ امور مذہبی حیدر آباد دکن نے ازالہ اوہام کے جواب میں انوار الحق نامی ایک کتاب لکھی.حضرت مولوی صفدر حسین صاحب نے اس پر تنقیدی نظر ڈالی بعد میں حضرت مولا نا مولوی میر محمد سعید نے انوار الحق کا جواب نہایت شرح وبسط سے تصنیف کیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام، کتاب البریہ میں پر امن جماعت میں ذکر فرمایا ہے.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت اقدس کے معاصر علماء میں آپ کا شمار کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کی.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۵۶۲ (۴) حیات حسن صفحه ۲۱- ۲۳ (۵) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانه ۱۹۶۴ء.-۱۶۴.حضرت خلیفه نوردین صاحب جمولی ولادت: ۵۲-۱۸۵۱ء.بیعت : ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء.وفات : ۲ ستمبر ۱۹۴۲ء تعارف اور بیعت : حضرت خلیفہ نور دین صاحب جمونی رضی اللہ عنہ جلال پور جٹاں ضلع گجرات کے رہنے والے

Page 236

213 تھے.آپ کے والد کا نام میاں عبداللہ عرف میاں موجدین تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعوئی سے قبل جب حضرت خلیفہ اسیح الاول کی عیادت کے لئے جموں تشریف لے گئے تو خلیفہ نور دین صاحب کے مکان پر ٹھہرے تھے.حضرت خلیفہ نوردین صاحب نے جلال پور جٹاں سے نقل مکانی کر کے جموں میں جا کر رہائش اختیار کر لی تھی.مناظرہ دہلی کے بعد حضرت اقدس نے اپنے دوستوں کو قادیان بلایا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول سیالکوٹ میں ایک سرائے میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں خلیفہ نوردین صاحب کی آپ سے ملاقات ہوئی تو آپ بھی ساتھ ہو لئے اور قادیان پہنچ کر حضرت اقدس کی بیعت کر لی.آپ کی بیعت ۲۷ نومبر ۱۸۹۱ء کی ہے.آپ کو خلیفہ کا نام مہاراجہ کشمیر نے دیا.ریاست میں اونچی اذان دینا ممنوع تھا.ایک دفعہ جب آپ نے اونچی اذان دے دی تو مہاراجہ صاحب حضرت حکیم نورالدین صاحب ( حضرت خلیفہ اسیح الاول) کے ادب کی وجہ سے منع تو نہ کر سکے مگر کہا مولوی صاحب! آپ کا خلیفہ اونچی اونچی بانگیں دیتا ہے اس دن سے آپ خلیفہ نور دین مشہور ہو گئے.آتھم کے مباحثہ میں آپ بھی لکھنے والوں میں سے تھے.آخری دن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آتھم کے متعلق پیشگوئی کا اعلان فرمایا تو آتھم نے خوف زدہ ہو کر کانوں کی طرف ہاتھ اٹھائے اور دانتوں میں انگلی لی اور کہا میں نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال نہیں کہا.انکشاف قبر مسیح: ایک دفعہ خلیفہ نوردین صاحب کشمیر میں ہیضہ کے ایام میں گشت سرکاری کی ڈیوٹی پر تھے جس محلہ میں جاتے مزاروں کے مجاوروں سے سوال کرتے اور حالات معلوم کرتے تھے.محلہ خانیار ( سری نگر ) میں ایک مزار کے بارے میں پوچھا تو مزار پر ایک بڑھیا اور بوڑھے نے بتایا کہ یہ قبر یوز آسف شہزادہ نبی اور پیغمبر صاحب کی قبر مشہور ہے.ایک عرصہ بعد حضرت مسیح موعود نے ایک مجلس میں فرمایا کہ و اونهما إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِينٍ (المؤمنون: ۵۱) سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسی کسی ایسے مقام کی طرف گئے جیسے کشمیر.اس پر حضرت خلیفہ مسیح الاول نے خلیفہ نور دین کو اس کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تو آپ نے کشمیر میں پھر کر....علماء سے دستخط کروا کر حضور کی خدمت میں پیش کئے.جسے حضور نے بہت پسند کیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضور نے آپ کا ذکر آئینہ کمالات اسلام، آسمانی فیصلہ تحفہ قیصریہ ،سراج منیر، کتاب البریه، راز حقیقت اور ملفوظات میں کیا ہے.وفات: آپ کی وفات ۲ ستمبر ۱۹۴۲ء کو ہمر ۹۵ سال ہوئی آپ کا وصیت نمبر ۳۸۹ ہے.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں قطعہ نمبر ۵ حصہ نمبر ۳ میں ہوئی.اولاد: آپ کے اولاد نہیں ہوتی تھی.خلیفہ صاحب نے چار شادیاں کی تھیں.ان کی بیٹی کی شادی ماسٹر عبدالرحمن صاحب ( سابق مہر سنگھ ) سے ہوئی تھی.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں خدمت کی توفیق ملی.انہوں نے

Page 237

214 اولاد کے بارے میں دعا کرائی تو حضرت اقدس نے فرمایا ہاں ہم دعا کریں گے...خدا تعالیٰ کے فضل اور دعا کی برکت سے عبدالرحیم لڑکا پیدا ہوا.آپ کی اولاد میں ان کے بیٹے خلیفہ عبدالرحیم صاحب اور خلیفہ عبدالرحمن صاحب کوئٹہ ہیں.خلیفہ عبدالرحیم صاحب کے بیٹے خلیفہ عبدالوکیل اور خلیفہ عبدالوہاب صاحب سیکرٹری گورنمنٹ کشمیر ہیں.خلیفہ عبدالرحمن صاحب کے بیٹے خلیفہ طاہر احمد صاحب سابق صدر چیمبر آف کامرس بلوچستان اور خلیفہ جمیل احمد کوئٹہ تھے.آپ کی اولاد سے خلیفہ عبدالعزیز صاحب نائب امیر کینیڈا اور خلیفہ عبدالباسط صاحب کینیڈا میں ہیں.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۳(۴) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۶) راز حقیقت روحانی خزائن جلد ۱۴ (۷) ملفوظات حضرت مسیح موعود (۸) سیرۃ المہدی حصہ اول صفحہ ۱۹۲ (۹) تذکرۃ المہدی صفحہ ۱۸۵-۱۸۴ (۱۰) رجسٹر بیعت مندرجه تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۵۶ (۱۱) تاریخ احمدیت جموں و کشمیر (۱۲) تاریخ احمدیت جلد نم صفحہ ۳۷۹ (۱۳) بھیرہ کی تاریخ احمدیت.☆ ۱۶۵.حضرت میاں اللہ دتا صاحب جموں بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۲ / جنوری ۱۹۱۵ء تعارف: حضرت میاں اللہ دتہ رضی اللہ عنہ اصل سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.حضرت خلیفہ نور دین جمونی کے بہنوئی تھے.بیعت : آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں میں آپ کا ذکر ہے.اس طرح بیعت ۱۸۹۲ء کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت میاں اللہ دتا صاحب رضی اللہ عنہ آف جموں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی ۱۸۹۷ء قادیان میں شامل ہوئے.جلسہ احباب میں آپ کے نام کے ساتھ تاجر کتب لکھا ہے.کتاب آریہ دھرم میں حضور نے آپ کے نام کے ساتھ تاجر چرم لکھا ہے.سراج منیر اور تحفہ قیصریہ میں آپ کے چندے اور جلسہ ڈائمنڈ جو بلی میں شرکت کا ذکر ہے.وفات : آپ ۱۲ جنوری ۱۹۱۵ء کو فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے.آپ کی اہلیہ حضرت مریم بیگم صاحبه ( وفات ۵ فروری ۱۹۴۹ء) بہشتی مقبرہ ربوہ رفقاء سلسلہ احمدیہ میں دفن ہیں.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱۰ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۳.

Page 238

215 ☆ ۱۶۶.حضرت منشی عزیز الدین صاحب.کانگڑہ ولادت ۲۲ جون ۱۸۸۸ بیعت: پیدائشی احمدی.وفات :۲۱ فروری ۱۹۶۳ء تعارف و بیعت : آپ حضرت مولوی وزیر الدین صاحب نکیریاں ضلع ہوشیار پور یکے از ۳۱۳ رفقاء کے بیٹے ہیں.جنہوں نے بیعت ۱۸۸۹ ء کی.حضرت منشی عزیز الدین کا بیان ہے کہ میں پیدائشی احمدی ہوں.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے آپ کا نام شیخ عزیز الدین ذکر فرمایا ہے.حضرت مولوی وزیرالدین صاحب کی چھ بیٹیاں تھیں اور کوئی نرینہ اولا د نہیں تھی.حضرت مسیح موعود کی دعا سے حضرت منشی عزیز الدین صاحب کی ولادت ہوئی.آپ کا نام بھی حضرت اقدس نے ہی رکھا.میٹرک تک قادیان سے تعلیم حاصل کی اور لا ہور سے دوران ملازمت طبیہ کالج سے طب کی تعلیم حاصل کی.آپ ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کانگڑہ کے عینی شاہد تھے.خلافت سے والہانہ محبت رکھتے تھے.آپ نے پانچویں حصہ جائیداد کی وصیت کی.آپ مکرم مولانا حکیم محمد الدین صاحب نائب ناظم وقف جدید قادیان کے والد ہیں.آپ کے دامادمولا نا چوہدری محمد صدیق صاحب ایم اے سابق انچارج خلافت لائبریری ربوہ ہیں.آپ نے محکمہ ریلوے میں ملازمت کی اور ۱۹۱۴ء کی جنگ کے دوران میسور سے بغداد وغیرہ جانے کا بھی اتفاق ہوا.وفات : آپ کی وفات ۲۱ فروری ۱۹۶۳ء کو بعمر ۷۵ سال ہوئی آپ کا وصیت نمبر ۸۳۷ ہے.آپ کی تدفین بہشتی مقبره ربوہ قطعہ نمبرے حصہ نمبر ۲۶ میں ہوئی.اولاد : آپ نے دوشادیاں کیں.اہلیہ اول محترمہ عائشہ بیگم.اہلیہ ثانی محترمہ امینہ بیگم.ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں.مکرم علیم الدین صاحب سابق اسٹنٹ فنانشل ایڈوائزر فنانس ڈیپارٹمنٹ پاکستان.مولانا حکیم محمد الدین صاحب قادیان.مکرم عطاء اللہ صاحب.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آنقم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) خطبات محمود جلد نمبر ۹ صفحیم ۸ (۳) الفضل ربوہ ۲ تا ۶ جولائی ۱۹۶۳ء

Page 239

216 ☆ ۱۶۷.حضرت سید مهدی حسین صاحب علاقہ پٹیالہ ولادت: ۷ محترم ۱۲۸۵ھ.بیعت: مارچ ۱۸۹۳ء.وفات:۳۱ /اگست ۱۹۴۱ء تعارف و بیعت حضرت سید مهدی حسین رضی اللہ عنہ پٹیالہ کے گاؤں سیّد خیری میں ایک شیعہ خاندان میں ۷ محرم ۱۲۸۵ ھ کو پیدا ہوئے.لدھیانہ میں علم خطاطی سے شناسائی حاصل کی.سرمہ چشم آریہ، سبز اشتہار تصانیف حضرت اقدس مسیح موعود پڑھنے کے بعد ایک خواب میں یہ تحریر پڑھی ہے حضرت مرزا صاحب اس سے حضرت اقدس کی صداقت کے قائل ہو گئے اور ۱۸۹۳ء میں بیعت کر لی.قادیان آمد : آپ کا بیان ہے کہ: میں جب قادیان پہنچا تو سیدھا مسجد اقصیٰ میں گیا.ڈاکٹر فیض علی صاحب نے مجھے کہا کہ چلئے حضرت صاحب سے ملئے.میں آپ کو لے چلتا ہوں.میں نے کہا.میں دن کے وقت ملوں گا.اس وقت نہیں.انہوں نے کہا کہ ملنے کا یہ وقت ہے.دن کو حضرت صاحب کسی سے نہیں ملتے.پھر کل اسی وقت ملاقات ہو سکے گی.اس پر میں کچھ دھیما ہو گیا.اور وہ میری گٹھری اُٹھا کر مسجد مبارک کو چلے.اور مجھے کہا.کہ میرے پیچھے چلو.مجھے ناچار ان کے ساتھ چلنا پڑا.اب وہ مجھے مسجد مبارک میں لے کر پہنچے.اور حضرت اقدس مسجد میں تشریف رکھتے تھے.مجھے کہا کہ یہ حضرت صاحب تشریف رکھتے ہیں.میں نے غلطی سے مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف رخ کیا.جو محراب میں بیٹھے تھے.اور مولوی صاحب نے مجھے حضرت صاحب کی طرف بھیج دیا.میں نے السلام علیکم کہہ کر حضور سے مصافحہ کیا.اس وقت مجھے اس قدر سرور حاصل ہوا کہ سب کلفت راہ کی بھول گئی.اور میں اپنے کو جنت میں پاتا تھا.یہ دسمبر ۱۹۰۰ء تھا.اور ۱۰ اور ۱۵ دسمبر کے درمیان کا کوئی وقت تھا.حضرت اقدس نے تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے دریافت فرمایا.آپ کہاں سے آئے ہیں.میں نے جگہ کا نام بتلایا.تو مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا کہ ہاں ان کے خطوط آتے ہیں.پھر تھوڑی دیر بعد حضور نے دریافت فرمایا.آپ نے کھانا کھایا ہے؟ میں نے عرض کی کہ حضور اس وقت تو میرا کھانا یہ چہرہ مبارک ہے.جس کے لئے میں سات سال ترس رہا تھا.مجھے اس سے بڑھ کر اور کوئی غذا نہیں چاہئے.جو مجھے اس رجسٹر روایات جلدا اروایات میر مهدی حسین صفحه ۲۶۶) وقت حاصل ہو رہی ہے.“ پھر بیان کیا: ” جب ۱۹۰۱ء میں میں ہجرت کر کے آیا.تو خدا تعالیٰ کی توفیق سے میں نے ایک نظم اپنی آمدہ متعلق الحکم میں شائع کی.جس کا پہلا مصرعہ یہ ہے : ” خدایا شکر ہے تیرا کہ مجھ کو قادیان لایا ( رجسٹر روایات جلد ا اروایات میرمهدی حسین ) دینی خدمات : ۱۹۱۰۱ میں ہجرت کر کے قادیان آگئے.حضرت میر مہدی حسین صاحب حضرت اقدس کے کتب

Page 240

217 خانہ کے مہتمم تھے اور حضرت صاحب کے دیکھنے کے بعد کبھی کبھی اپنے شوق سے کاپی اور پروف وغیرہ دیکھ لیا کرتے تھے.اس طرح آپ کے سپر دلنگر خانہ کا انتظام بھی تھا.اکتو بر۱۹۳۴ء میں بغرض تبلیغ ایران تشریف لے گئے اور چھ ماہ تک اعلائے کلمۃ اللہ میں مصروف رہنے کے بعد ۱۲ رمئی ۱۹۳۵ء کو واپس آئے.وفات : ۳۱ را گست ۱۹۴۱ء کو وفات پائی.آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.ماخذ : (۱) سیرت المہدی جلد دوم صفحہ ۱۳۸ (۲) عالم روحانی کے لعل و جواہراز الفضل یکم جولائی ۲۰۰۰ء (۳) تاریخ احمدیت جلد اوّل طبع جدید صفحه ۴۹۷ (۴) تاریخ احمدیت جلد نهم صفحه ۲۷۹ (۵) ذکر حبیب (۶) رجسٹر روایات جلد ۱۱ روایات میرمهدی حسین.☆ ۱۶.حضرت مولوی حکیم نورمحمد صاحب موکل بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت ڈاکٹر نور محمد رضی اللہ عنہ احمدی مالک نوری شفاخانه موکل ضلع لا ہور ( حال ضلع قصور ) مخلص فدائی وجود تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.اخبار البدر کے اجراء پر جب حضور کے روزانہ کے معمولات چھپنے لگے تو آپ کو بہت خوشی ہوئی، چنانچہ آپ نے ایڈیٹر صاحب کو لکھا.مبارک! صد مبارک! مبارک! میرا دلی منشا تھا کہ قادیان شریف میں ایسا اخبار ہو جس میں حضرت اقدس کے روزانہ اقوال وافعال کا حال پورا درج ہو...خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ نے القادیان ( البدر کا پہلا شمارہ القادیان کے نام سے شروع ہوا) جاری فرما کر میری دلی تمنا پوری کردی مجھے بزمرہ خریداران درج فرماویں.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی ، سراج منیر میں چندہ دہندگان اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت میں آپ کا ذکر کیا ہے.آپ کا تذکرہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ان علماء کی فہرست میں کیا ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں آپ کی بیعت کی تھی.آپ کا خاندان آجکل موکل میں آباد ہے جو احمدیت میں نہیں ہیں.ماخذ : (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) اخبار البدر۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ء (۵) صداقت حضرت مسیح موعود - تقریر جلسه سالانه ۱۹۶۴ء.(۴) مکتوب مکرم عبدالواسع عابد مر بی ضلع قصور محرر ۲۲۰ فروری ۲۰۰۳ء

Page 241

218 ☆ ۱۶۹.حضرت حافظ محمد بخش مرحوم ، کوٹ قاضی بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت حضرت حافظ محمد بخش رضی اللہ عنہ کوٹ قاضی کے تھے.حضرت قاضی ضیاء الدین ( یکے از ۳۱۳) کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ سے تعارف ہوا اور بیعت کی.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : انجام آنقم روحانی خزائن جلدا.☆ ۱۷۰.حضرت چوہدری شرف الدین صاحب کو ٹلہ فقیر جہلم بیعت : ۱۸۹۲ء تعارف: حضرت چوہدری شرف الدین رضی اللہ عنہ کوٹلہ فقیر جہلم کے رہنے والے تھے.آپ کے بیٹے چوہدری قطب الدین ( یکے از ۳۱۳) کا نام انجام آتھم میں ۸۶ نمبر پر ہے.بیعت : آپ کی بیعت ۱۸۹۲ء کی ہے.آپ ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں، تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ میں پُرامن جماعت میں حضرت اقدس نے ذکر فرمایا.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳.

Page 242

219 ☆ ۱۷۱.حضرت میاں رحیم بخش صاحب امرتسر بیعت: ابتدائی زمانہ میں.وفات: ۲ / جولائی ۱۹۳۲ء تعارف و بیعت : حضرت میاں رحیم بخش رضی اللہ عنہ کو حضرت اقدس مسیح موعود کی ماموریت سے قبل زیارت و ملاقات کا شرف حاصل تھا.آپ کے والد کا نام رانجھا خان تھا.بیعت سے قبل حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.آپ کی وفات 2 جولائی 1932ء کو ہوئی.نوٹ : آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحه ۲۷۵ (۲) روزنامه الفضل ۱۵ راگست ۱۹۳۴ء.۱۷۲.حضرت مولوی محمد افضل صاحب کملہ.گجرات بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت مولوی محمد افضل رضی اللہ عنہ کملہ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.کملہ ڈنگہ سے مشرقی جانب چند میل کے فاصلہ پر واقع ہے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے آپ کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمعصر علماء کرام میں شامل کیا ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں پُر امن جماعت میں ذکر کیا ہے.اولاد: آپ کے بیٹے حضرت محمدا کرم صاحب بھی رفیق بانی سلسلہ تھے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء.

Page 243

220 ☆ ۱۷۳.حضرت میاں اسمعیل صاحب امرتسری بیعت: ابتدائی زمانہ میں.وفات ۲۷ /اکتوبر ۱۹۳۵ء تعارف و بیعت : حضرت میاں اسمعیل رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود کے رشتے داروں میں سے تھے آپ کا نام مرزا اسمعیل بیگ تھا آپ کے والد کا نام مرزا بڑھا بیگ قادیان تھا.آپ کے جدا مجد بھی مرزا ہادی بیگ (جد امجد حضرت مسیح موعود ) کے ساتھی تھے.انہی کے ساتھ ثمر قند کے ساتھ قادیان پہنچے تھے.اس خاندان کا حضرت مسیح موعود کے ساتھ خادمانہ تعلق تھا.حضرت مسیح موعود کی حرم اول محترمہ حرمت بی بی آپ کی رشتہ میں پھوپھی زاد بہن تھی.آپ چھاپہ خانہ میں (pressman) رہے.اپنے بھائی مرزا احمد بیگ کی اہلیہ کی وفات پر ان کی اولاد کی پرورش کی.آپ خاموش طبع تھے آپ کے نام کا لاحقہ امرتسری اس دور کی یادگار ہے جب حضرت مسیح موعود کے حکم پر امرتسر میں لیتھو پرنٹنگ کے پرانے طریق کار دھاتی پلیٹ پر چھپائی کی ٹریننگ کیلئے امرتسر میں مقیم تھے.(آپ کے بھائی مرزا احمد بیگ کے پوتے مرزا سلیم بیگ ابن مرزا رشید احمد دار العلوم غربی میں مقیم ہیں ).حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں کہ حضرت حافظ معین الدین صاحب ( جو حضرت اقدس کے بہت ابتدائی خدام میں سے تھے ) کے زمانہ کے قریب مرزا محمد اسماعیل بیگ صاحب بھی تھے جنہوں نے بعد میں قادیان میں ایک دوکان بنائی تھی وہ حضرت اقدس کی خدمت میں رہا کرتے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.ماخذ: (۱) انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) روزنامه الفضل ۱۵ مئی ۱۹۹۵ء صفہ ۳.( نوٹ ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۱۳ رفقاء کی فہرست کے ساتھ ان کی سکونت کا ذکر فرمایا ہے مگر چند رفقاء کی سکونت کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ ان کے وطن مالوف کی نسبت کا ذکر فرمایا ہے.گمان غالب ہے کہ یہ لوگ اپنے حالات کے لحاظ سے قادیان میں ہی سکونت رکھتے تھے اور اپنے وطنوں کو چھوڑ کر حضرت اقدس مسیح موعود کے در پر دھونی رمائے بیٹھے تھے اس لئے حضرت اقدس نے ان کی دلداری کیلئے ان کے وطن کا ذکر ان کے نام کے ساتھ مذکورہ فہرست میں کیا مثلاً نمبر ۷۵ پر جیسے حضرت شیخ مسیح اللہ صاحب شاہجہانپوری ہیں.اسی طرح حضرت میاں اسمعیل صاحب کے ساتھ امرتسری تحریر فرمایا ہے.

Page 244

221 ☆ ۱۷۴.حضرت مولوی غلام جیلانی صاحب گہڑ ونواں.جالندھر بیعت: ۲۶ / اپریل ۱۸۹۰ء تعارف: حضرت مولوی غلام جیلانی رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کا نام میاں غوث علی صاحب ساکن نو ہوں تحصیل رو پر ضلع انبالہ پیشہ مدرسی سکونت عارضی گڑ ونو ہہ علاقہ ریاست پٹیالہ.بیعت رجسٹر بیعت اولی میں آپ کی بیعت ۱۹۰ نمبر پر درج ہے اور تاریخ ۲۶ را پریل ۱۸۹۰ ء ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں ذکر کردہ اپنے مخلص مبائعین میں آپ کا نام حبی فی اللہ مولوی غلام جیلانی صاحب لکھا ہے.مزید سوانحی حالات دستیاب نہیں ہو سکے.البتہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے آپ کا تذکرہ اپنی تقریر صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (جلسه سالانه ۱۹۶۴ء) میں حضرت اقدس کے ہم عصر علماء کے اسماء گرامی کے ساتھ کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۳) رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۳ (۴) صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر جلسه سالانه ۱۹۶۴ء.۱۷۵.حضرت منشی امانت خان صاحب.نادون.کانگڑہ بیعت : ۱۸۹۰ء تعارف و بیعت حضرت منشی امانت خان رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام امان خان صاحب تھا.آپکا یوسف زئی خاندان سے تعلق تھا اور نا دون کانگڑہ کے رہنے والے تھے.قادیان کے صحابہ کی فہرست تاریخ احمدیت جلد ہشتم میں بطور ضمیمہ درج کی گئی ہے.یہ فہرست حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد کی زیر نگرانی مرتب کی گئی تھی.حضرت امانت خان نادون، حضرت شہامت خان نادون کے بھائی تھے جو ۳۱۳ میں شامل ہیں.آپ کے ایک اور بھائی حضرت منشی دیانت خان کی بیعت بھی سال ۱۸۹۲ء کی ہے.حضرت منشی دیانت خال کے ایک پوتے مکرم ظہیر احمد خاں صاحب ولد رشید احمد خان مربی سلسلہ حال لندن خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ دوسرے پوتے مکرم طلحہ محمود خاں ابن لطیف احمد خاں لاہور میں مربی سلسلہ ہیں اور ایک پوتے مکرم شاہد محمود خاں ولد لطیف احمد خاں واقف زندگی جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل

Page 245

222 کر رہے ہیں.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں آپ کا ذکر پُرامن جماعت میں کیا ہے.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۶ ( غیر مطبوعہ) منشی دیانت خان ( بیعت ۱۸۹۲ء) ولد امان خان صاحب نادون ضلع کانگڑہ دارالفضل قادیان.☆ ۱۷.حضرت قاری محمد صاحب.جہلم بیعت : ابتدائی ایام میں.وفات ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۹ء تعارف: حضرت قاری محمد رضی اللہ عنہ جہلم شہر میں امام مسجد تھے.آپ کے والد کا نام نور حسین صاحب تھا.حضرت اقدس کا تعارف اور بیعت: جہلم میں ایک مسجد حضرت حافظ قاری محمد صاحب کی تھی جو قصاباں والی کہلاتی تھی.آپ نے جہلم میں ابتدائی ایام میں احمدیت قبول کی.آپ حضرت مولوی برہان الدین کے شاگر د بھی تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.لوگوں نے متولی سے شکایت کی کہ مولوی قاری کا فر ہو گئے ہیں انہیں الگ کیا جائے اور اس جگہ کا اور امام مقرر کیا جائے.متولی نے دریافت کیا کہ قاری صاحب کیا شہادت دیتے ہیں تو انہوں نے کہا شہادت تو یہی دیتے ہیں کہ اشهد ان محمد رسول الله.پھر پوچھا اذان کس طرح دیتے ہیں اور نماز کس طرح پڑھتے ہیں تو جب اسے جواب مل گئے کہ یہ سب کچھ وہی ہے جو پہلے تھا تو متولی نے ان لوگوں کو جواب دیا کہ ان حالات میں میں اسے الگ نہیں کر سکتا.تمہاری مرضی ہے تو نماز پڑھو ورنہ نہ پڑھو.وفات: آپ کی وفات • ارا کتوبر ۱۹۰۹ء جہلم میں ہوئی اور جہلم میں ہی آپ مدفون ہیں.آپ کا وصیت نمبر ۳۴۵ ہے.آپ کا کتبہ قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ قادیان میں نصب ہے.اولاد : آپ کے بیٹے حضرت میاں محمد یوسف خان تھے جو خلافت ثانیہ میں پرائیویٹ سیکرٹری رہے.ان کی بیٹی حضرت حیدرشاہ صاحبہ ۱۹۰۴ میں وفات پاگئیں.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن ۱۱ (۲) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) آریہ دھرم روحانی خزائن جلده ۱ (۶) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳(۷) عالمگیر برکات مامورز مانه صفحه ۳۹ تا ۴۱

Page 246

223 ☆ ۱۷۷.حضرت میاں کرم داد معہ اہلبیت.قادیان ولادت :۱۸۳۳ء.بیعت : ۱۰ / جولائی ۱۸۹۲ء.وفات فروری ۱۹۵۰ء تعارف و بیعت : حضرت میاں کرم دا درضی اللہ عنہ موضع نہنگ یا ڈھینگ ضلع گجرات کے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام علم دین تھا، موضع نہنگ ضلع گجرات لکھا ہے.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کی بیعت • ارجولائی ۱۸۹۲ء کو ۲۴۱ نمبر پر ہے.متفرق حالات اصحاب احمد جلد ششم میں حضرت قاضی عبدالرحیم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے: میاں محمد بخش عرف میاں مہندا والد میاں عبداللہ احراری جو خو جوں والی مسجد ( جو کو چہ الحکم میں واقع ہے.مؤلف) کاملاں تھا.قادیان میں قصائیوں کے جانور ذبح کیا کرتا تھا.جب مرزا امام الدین صاحب فوت ہوئے تو میاں مہندا نے ان کا جنازہ پڑھایا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کیلئے یہ انتظام فرمایا کہ بجائے مہندا کے آئندہ میاں کرم داد جانور ذبح کیا کریں اور ایک قصاب کو احمد یہ چوک میں بٹھایا گیا.جس سے میاں کرم داد کا ذبیحہ گوشت خریدا جاتا تھا.“ اصحاب احمد جلد دہم میں ہے کہ حضرت شیخ عبدالرحیم شرما کی دوسری شادی آپ کی بیٹی محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ سے ہوئی.حضرت شیخ صاحب کی پہلی بیوی فوت ہو چکی تھیں.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آنقم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۶۳ (۳) اصحاب احمد جلد ششم (۴) اصحاب احمد جلد دہم.☆ ۱۷۸.حضرت حافظ نور احمد صاحب لو دیا نہ بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت حافظ نور احمد رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام قادر بخش صاحب تھا.آپ محلہ موچھ پورہ لدھیانہ کے رہنے والے تھے.بیعت کا پس منظر : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی کوئی دعوی نہیں کیا تھا کہ حافظ صاحب کو خواب میں

Page 247

224 ایک نظارہ دکھایا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بہت سے عالی مرتبہ صحابہ کے ساتھ تھے اور ایک شخص ایسا تھا کہ جس کا لباس مختلف تھا.دریافت کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہذا عیسیٰ اور فرمایا کہ یہ قادیان میں رہتا ہے اور تم اس پر ایمان لانا.حافظ صاحب نے قادیان کی تلاش کی جولدھیانہ میں ایک گاؤں ہے لیکن کچھ نہ معلوم ہوسکا.جب حضرت مسیح موعود لدھیانہ تشریف لے گئے تو آپ کا نام سن کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ وہی وجود ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا.آپ کا نام ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو ۵ نمبر پر رجسٹر بیعت میں درج ہے.قادیان آمد اور کاروبار : حافظ صاحب ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے.آپ پشمینہ کے سوداگر تھے.آپ کو ایک بار کاروبار میں سخت خسارہ ہو گیا.کاروبار تقریبا بند ہو گیا.آپ کا روبار کے لئے کسی دوسری جگہ چلے جانا چاہتے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ روپیہ مانگا.حضور ایک صندوقچی جس میں روپیہ رکھا کرتے تھے، اٹھا کر لے آئے اور آپ کے سامنے صندوقچی رکھ دی کہ جتنا چاہے لے لو اور اس بے تکلفی سے حضور کو بہت خوشی ہوئی.حضرت حافظ صاحب نے اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا گو حضور یہی فرماتے رہے سارا ہی لے لو.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس مسیح موعود نے آپ کی نسبت لکھا کہ آپ اول درجہ کے اخلاص رکھنے والے ہیں اور ہمیشہ اپنے مال سے خدمت کرتے رہتے ہیں.حضرت اقدس نے آپ کا ذکر ازالہ اوہام، آسمانی فیصلہ آئینہ کمالات اسلام و سراج منیر میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں اور چندہ دہندگان میں کیا ہے.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام (۲) آئینہ کمالات اسلام (۳) آسمانی فیصلہ (۴) سراج منیر (۵) سیرۃ المہدی جلد دوم صفحه ۱۱۶ (۶) سیرت حضرت مسیح موعود جلد سوم صفحہ ۳۱۶.۳۱۷ (۷) رجسٹر بیعت مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۴۶ ☆ ۱۷۹.حضرت میاں کرم الہی صاحب لاہور بیعت : ۱۸۹۱ء تعارف و بیعت : حضرت منشی کرم الہبی رضی اللہ عنہ مدرس نصرت الاسلام لاہور تھے.ان کی رہائش تکیہ سادھواں میں تھی.آپ حضرت سید فضل شاہ اور حضرت سید ناصر شاہ کے ماموں تھے.جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں شرکت کی.ازالہ اوہام کی تصنیف کے زمانہ میں احمدیت میں داخل ہو چکے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں شمولیت کی توفیق پائی.حضرت اقدس نے ازالہ

Page 248

225 اوہام میں فرمایا دغشی کرم الہی صاحب بھی اس عاجز کے یک رنگ دوست ہیں.“ جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں بھی شریک ہوئے.جلسہ ڈائمنڈ جوبلی ۱۸۹۹ء میں بھی شامل ہوئے اور چار آنے چندہ دیا.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ ( ۵ ) لا ہور تاریخ احمد بیت صفحه ۱۴۹ ☆ ۱۸۰.حضرت میاں عبد الصمد صاحب.نارووال بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.آپ تحصیل نارووال کے ایک گاؤں مانک کے رہنے والے تھے.آپ کا خاندان وہیں آباد ہے.محترم محمد یعقوب امجد صاحب مرحوم آف کھاریاں کے بیان کے مطابق آپ نے نارووال شہر کی بیت میں کئی مرتبہ انہیں نماز پڑھتے دیکھا ہے.آپ کی وفات قیام پاکستان کے بعد ہوئی.نوٹ مزید تحقیق جاری ہے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن ۱۱.۱۸۱.حضرت میاں غلام حسین معہ اہلیہ رہتاس بیعت : ۹/اکتوبر ۱۸۹۲ء.وفات: ۶ /جنوری ۱۹۵۴ء تعارف و بیعت : حضرت میاں گلاب دین اور حضرت میاں غلام حسین رہتاس ضلع جہلم کے تھے.اپنی ہمشیرہ رانی ( زوجہ علی بخش ) کی خواب کہ آسمان پر چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے اور ہر طرف روشنی پھیل گئی ہے پر براہین احمدیہ کا مطالعہ کیا.اس کے بعد مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کے سفر قادیان سے واپسی پر جہلم جا کر کچھ اعتراض کئے تو موصوف نے فرمایا کہ پہلے اسے جا کر دیکھ آؤ پھر میرے ساتھ بات کرنا.چنانچہ حضرت منشی گلاب دین قادیان گئے تو آپ کے قریبی رشتہ دار بھی حضرت اقدس مسیح موعود کی زیارت کے لئے قادیان گئے.حضرت اقدس سیر سے واپس آ رہے تھے.آپ کی زیارت اور ملاقات کے بعد واپس آگئے اور حضرت اقدس کو بیعت کا خط لکھ دیا.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کا نام ۳۵۷ پر درج ہے.حضرت ملک غلام

Page 249

226 حسین صاحب رہتاسی لنگر خانہ حضرت مسیح موعود میں بطور خادم کے کام کیا کرتے تھے.آپ کے بیٹے ملک محمد حسین صاحب کے بارہ میں حضور کو الہام ہوا محمد حسین ڈپٹی کمشنر بنے گا اور جو غیر معمولی حالات میں پوری ہوئی جبکہ وہ مشرقی افریقہ چلے گئے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر آئینہ کمالات اسلام میں چندہ دہندگان ،تحفہ قیصریہ ، سراج منیر اور کتاب البریہ میں چندہ دہندگان اور پُر امن جماعت میں فرمایا ہے.اولاد: آپ کے بیٹے حضرت ملک محمد حسین صاحب تھے جو مشرقی افریقہ چلے گئے.وفات : آپ کی وفات آپ کے بیٹے ملک محمد حسین کے پاس 4 جنوری ۱۹۵۴ء کو نیر و بی مشرقی افریقہ میں ہوئی اور اہلیہ صاحبہ نے وہیں ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو وفات پائی.دونوں میاں بیوی احمد یہ قبرستان نیروبی میں دفن ہیں.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن ۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن ۱۳ (۵) مضمون مطبوعه روزنامه الفضل ۱۹ر جون ۲۰۰۰ء (۶) روزنامه الفضل ۳ /۱اپریل ۲۰۰۲ء ( ۷ ) رجسٹر بیعت اولی مندرجه تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۶۲ ☆ ۱۸۲.حضرت میاں نظام الدین صاحب.جہلم بیعت: جولائی ۱۸۹۱ء تعارف و بیعت : حضرت میاں نظام الدین رضی اللہ عنہ جہلم کے تھے.رجسٹر بیعت میں مولوی نظام الدین نام کے کئی بزرگ ہیں.رجسٹر بیعت اولی میں جہلم والے مولوی نظام الدین کا نام شیخ نظام الدین ولد محمد باشم دوکاندار ۳۴۶ نمبر پر ہے ( تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۶۲) جبکہ ملا نظام الدین لدھیانہ کا نام ۶۰ نمبر پر ہے.جن کا حضرت اقدس کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھانے کا واقعہ ہے.حضرت میاں نظام الدین رنگ پور والوں کا نام ۲۵۶ نمبر پر اندراج ہے ”نظام الدین ولد میاں غلام علی قوم اعوان رنگ پور تحصیل و ضلع مظفر گڑھ پنجاب ( تاریخ احمدیت جلدا صفحه ۲۵۹ مگر ان کا نام فہرست ۱۳۱۳ انجام آتھم میں نہیں.) حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام میں چندہ دہندگان اور جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں میں آپ کا ذکر کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد ۱ (۳) تذكرة المهدی صفحه ۱۵۵ تا ۱۵۸ (۴) مضمون مطبوعه روزنامه الفضل ۱۶ / دسمبر ۱۹۸۱ء.

Page 250

227 ☆ ۱۸۳.حضرت میاں محمد صاحب جہلم بیعت : ۱۸۹۳ء تعارف و بیعت : حضرت میاں محمد رضی اللہ عنہ جہلم شہر محلہ خواجگاں متصل ڈاکخانہ شہر کے رہنے والے تھے.اور اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے.آپ کا اصل نام شیخ محمد شفیع سیٹھی تھا.۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں آپ کا نام حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی نے لکھوایا.وہ آپ کو اسی نام سے جانتے تھے.حضرت سیٹھی قادیان آمد و بیعت کے بارہ میں اپنی خود نوشت میں بیان کرتے ہیں: ”ہمارے شہر کے مولوی برہان الدین صاحب حضرت مسیح موعود کے پاس قادیان جایا کرتے تھے.مولوی صاحب سے میرا بہت تعارف تھا.وہ بھی پہلے اہلحدیث تھے.میں بھی اہل حدیث تھا.۱۸۹۱ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا.تو شہر اور آس پاس بہت شور وغل رہا.آخر ۱۸۹۳ء میں بات بہت مشہور ہو گئی اور آپ کا دعویٰ بہت شہرت پکڑ گیا.ایک دن میں اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو پہلی جماعت ہو چکی تھی.(آگے پیچھے بھی جاتا تھا ) اس روز حافظ غلام محی الدین سکنہ بھیرہ جو کہ حضرت خلیفہ امسیح اول کے شیر بھائی تھے.انہوں نے جماعت کرائی تو ہم تین آدمی مقتدی تھے.جب انہوں نے بلند آواز سے قرآت شروع کی تو وہ دونوں میرے دائیں بائیں سے ہٹ گئے.میں نے اختلاف کیا.اور ساتھ نماز ادا کر لی.حافظ صاحب موصوف بیعت کر چکے ہوئے تھے.جب نماز ادا کر کے میں گھر آیا تو معا راستہ میں مجھے خیال آیا تو راستے میں ایک آدمی کو کہا کہ میرے ساتھ قادیان چلو.نصف کرا یہ دیتا ہوں.یہ صاحب میرے قریبی رشتہ دار تھے.اس نے کہا مجھے فرصت نہیں.معا خیال آیا کہ جو حضرت مسیح موعود کو مانتے ہیں وہ دلی صفائی سے مانتے ہیں جو انکار کرتے ہیں وہ بڑی بد زبانی سے ماننے والوں کو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یاد کرتے ہیں.مجھے خیال آیا کہ اے دل تو بھی دیکھ کہ تو کدھر ہوتا ہے.ماننے والے خوب مانتے ہیں اور لوگوں کی گالیاں سہتے ہیں.نقصان برداشت کرتے ہیں.اس سے پہلے میرا حقیقی بڑا بھائی شیخ قمرالدین قادیان سے ہو آیا تھا.مگر بیعت سے محروم رہا.لیکن قادیان کی مہمان نوازی کی صفت ضرور کرتا رہا.دوسرے روز ساڑھے بارہ بجے یا ایک بجے قادیان پہنچ گیا اور مسجد مبارک میں گیا.جہاں خلیفہ اسیج اول اور مولوی عبد الکریم صاحب، حکیم فضل الدین صاحب علاوہ ان کے اور بھی دو چار آدمی تھے.حضرت مسیح موعود تشریف لانے والے تھے اور حضور اندر سے معاً تشریف لائے اور صف کھڑی ہوگئی اور امام مولوی عبدالکریم صاحب تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام میری دائیں جانب ایک مقتدی چھوڑ کر کھڑے تھے.بعد نماز حضور سے تعارف ہوا.یہ سب واقعہ ۱۸۹۳ء کا ہے.اس روز غالباً جمعرات تھی.میں نے جب ان کو دیکھا تو ان کے نورانی چہرہ کو دومنٹ

Page 251

228 تک بھی نظر بھر کر نہ دیکھ سکا.یہ ہستی جھوٹ بولنے والی نہیں ہے.جب میں دو تین روز بعد واپس جہلم آیا اور گھر پہنچا تو اس وقت میں بیعت کر چکا ہوا تھا.( میں نے بیعت گول کمرہ میں جمعہ سے پہلے اکیلے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر کی ) جب دکان پر گیا تو جس بھائی کو میں ساتھ قادیان لے جانا چاہتا تھا اس نے مجھے قادیان خط لکھا تھا کہ میرے لئے وہاں دعا کرنا.وہ لفافہ واپس جہلم آ گیا.اس خط کے واپس آنے کے باعث میرے بھائی نے پراپیگنڈہ کیا کہ خط واپس آ گیا ہے.اب محمد شفیع قادیان جانے کے متعلق انکار کرے گا.جب دکان پر آیا قدم رکھتے ہی میرے بھائی نے پوچھا کہ کہاں گیا تھا میں نے صاف قادیان کا کہا.وہ خاموش ہو گیا.اور پراپیگنڈہ بنا بنایا رہ گیا.لوگوں میں شہرت ہوگئی کہ ایک بھائی موافق ایک مخالف ہے.پھر میں قادیان گاہ بگاہ جاتا رہا..جس روز صحابہ ۳۱۳ شمار میں آئے تو خاکسار وہیں تھا.ہمارے مولوی برہان الدین صاحب بھی وہیں تھے اور بھی بعض بعض جہلم کے لوگوں کے نام ۳۱۳ میں ہیں.چونکہ مولوی صاحب مجھے میاں محمد کے نام سے یاد کرتے تھے.یہی نام میرا مولوی صاحب نے لکھوا دیا.ویسے میرا پورا نام شیخ محمد شفیع سیٹھی ہے.“ خدمات : ” جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰۳ء میں بمقد مہ کرم دین جہلم تشریف لائے اس روز جمعہ تھا.ہماری جماعت نے وسیع پیمانہ پر انتظام کیا ہوا تھا.مکانات کوٹھیاں لی ہوئی تھیں.روٹی کھانے والے مہمانوں کی تعداد ساڑھے چار صد تھی.یہ تعداد کھانا کھانے والے احمدیوں کی تھی.ویسے کچہریوں میں دیکھنے والے ہزاروں تھے.تمام راشن کا انتظام میرے سپرد تھا.گھوڑے گا ڑیاں بہت دہلی گئی ہوئی تھیں.تھانیدار میاں سنگھ ڈوگرہ تھا.تحصیلدار با بو غلام حیدر تھا.ان کو ہم نے عرض کیا کہ جتنی گاڑیاں ہیں.ہمیں دی جائیں.سب کا کرایہ ہم ادا کریں گے.مرید کئے اور کامونکی کے درمیان حضور کو الہام ہوا کہ ہمارے بسترے روساء اٹھا ئینگے.تو معا جہلم گاڑی جاتے ہی ان دونوں نے بھی اٹھائے.جس کے باعث وہ الہام پورا ہوا.دوسرا الہام ہوا کہ لوگ درختوں پر چڑھ کر تم کو دیکھیں گے.سو ویسا ہی ہوا.جگہ کی قلت کے باعث لوگ درختوں پر چڑھ کر حضور کو دیکھتے رہے.“ آپ ۱۹۱۷ میں حافظ آباد اور ۱۹۱۹ ء وزیر آباد شفٹ ہو گئے.چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں: در جہلم بہت مخالفت رہی.لوگوں نے زور لگایا کہ میرے اور میرے بھائی میں نفاق پڑے.میں نے بھائی سے کہا کہ میرے بیٹھے حضرت صاحب کی ہجو نہ کیا کرو.میں ان کے متعلق تجھے کچھ نہ کہا کرونگا مگر باز نہ آیا نا چار میں اس سے الگ ہو گیا.اس نے مجھے بڑی مالی ضرب لگائی.میرے بچوں کی منگنیاں رکوا دیں مگر میں نے معاملہ خدا کے سپرد کیا.زمانہ گزرتا گیا.مخالفت بڑھتی گئی.میرے بچوں کے رشتے چھینے گئے.مگر اللہ نے ہر میدان میں کامیاب ثابت رکھا.اور خدا نے احمدیوں کے ہاں رشتہ کی تجویزوں کو کامیاب کیا.مخالف پھر رشتے دیتے تھے مگر نہ لئے.میں ۱۹۱۷ء میں اپنی دکان جہلم سے منتقل کر کے حافظ آباد گیا.وہاں جماعت احمد یہ بنائی.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی بھی جایا کرتے تھے.میں ۱۹۱۹ ء تک وہاں رہا.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن ۱۱ (۲) رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۳ صفحه ۲۰۰،۱۹۶.

Page 252

229 ☆ ۱۸۴.حضرت میاں علی محمد صاحب جہلم بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۹۱۰ء تعارف: حضرت میاں علی محمد رضی اللہ عنہ نے ۱۸۹۲ء میں ، حضرت مولوی برہان الدین جہلمی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیعت کی تھی.حضرت مولوی صاحب کی بیعت ۲۰ / جولائی ۱۸۹۲ء کی ہے.آپ جلسہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہوئے.آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام ۳۸ نمبر پر موجود ہے جہاں آپ کے نام کے ساتھ امام مسجد لکھا ہے.اولاد آپ کے بیٹے عبد الکریم صاحب تھے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تاریخ احمدیت کشمیر صفحه ۲۷۲ ☆ ۱۸۵.حضرت میاں عباس خاں صاحب کہو ہار.گجرات بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت عباس خاں رضی اللہ عنہ کہو بار ضلع گجرات کے تھے.کہو ہار سرائے عالمگیر سے جنوب مغربی جانب نہر اپر جہلم اور دریائے جہلم کے درمیان واقع ہے.آپ کی بیعت ابتدائی دور کی ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.☆ ۱۸۶.حضرت قطب الدین صاحب کو ٹلہ فقیر جہلم بیعت ۱۸۹۲ء تعارف و بیعت : حضرت قطب الدین رضی اللہ عنہ کوٹلہ فقیر جہلم سے تعلق رکھتے تھے.حضرت قطب الدین اپنی ایک رؤیا کی بناء پر سیالکوٹ پہنچے اور حضرت اقدس اور دیگر حالات کو رڈیا کے مطابق پا کر بیعت کر لی.آئینہ کمالات

Page 253

230 اسلام میں آپ کا ذکر ہے.آئینہ کمالات اسلام کی تصنیف کے وقت آپ بیعت کر چکے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ میں ڈائمنڈ جوبلی میں شرکت کرنے والوں، سراج منیر میں چندہ دہندگان اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے احباب میں آپ کا نام درج ہے.روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے حضرت میاں قطب الدین کو دورانِ سر کی تکلیف کے دوران بلا کر پنڈلیوں کی مالش کا ارشاد فرمایا تھا.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) تذکرة المهدی (۵) عسل مصفی حصہ دوم صفحه ۰۲ ۵ تا ۵۰۴ - ۱۸۷.حضرت میاں اللہ دتا خان صاحب اڈیالہ جہلم بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت میاں اللہ دتا خاں رضی اللہ عنہ اڈیالہ جہلم کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس کی کتاب آریہ دھرم سے اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ آپ گورنمنٹ ہند کے پاس مذہبی مباحثات سے متعلق بھجوائے گئے.ایک نوٹس کے دستخط کنندگان میں سے تھے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) آر یہ دھرم روحانی خزائن جلد۱۰.۱۸۸.حضرت محمد حیات صاحب چک جانی جہلم ولادت : ۱۸۶۱ء.بیعت : ۹۲-۱۸۹۱ء.وفات : ۱۴ار جولائی ۱۹۴۶ء تعارف: حضرت محمد حیات رضی اللہ عنہ کے والد کا نام میاں کرم الدین صاحب تھا.آپ کا تعلق چک جانی تحصیل پنڈ دادنخان ضلع جہلم (چکوال) سے ہے.آپ کی ولادت ۱۸۶۱ء کی ہے.تعلیم حاصل کرنے کے بعد ریلوے پولیس میں ملازم ہوئے.

Page 254

231 بیعت : آپ ملازمت کے سلسلہ میں بھیرہ ریلوے اسٹیشن پر تھے جب حضرت اقدس کے دعوئی مہدویت کا علم ہوا تو ۱۸۹۱ء.۱۸۹۲ء میں بیعت کا خط لکھا اور اپنے آپ کو حضور کے سپرد کرتے ہوئے لکھا کہ میرے پاس تلوار ہے اور ڈھال ہے جہاں حضور حکم کریں حاضر ہو جاؤں.اس خط کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ اپنی جگہ سے تمام دنیا میں حق کی آواز پہنچا ئیں.درود شریف ، لاحول کثرت سے پڑھیں.پانچوں نمازیں پڑھیں اور تہجد پڑھیں.یہی جہاد ہے.دینی خدمات : ۱۹۰۳ء میں حضرت اقدس جب مولوی کرم دین بھیں والے مقدمہ میں جہلم آئے تو آپ حضور کی خدمت میں دن رات حاضر رہے.ان دنوں آپ پولیس لائن میں تھے اور تین دن رخصت لے کر حضور کی خدمت میں رہے.سیرت المہدی حصہ سوم میں ہے کہ: ” جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گاڑی جہلم کے اسٹیشن پر پہنچی تو اسٹیشن پر لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ بس جہاں تک نظر جاتی تھی آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے اور مرد، عورت، بچے ، جوان، بوڑھے پھر ہندو مسلمان ، سکھ، عیسائی، یورپین ہر مذہب کے لوگ موجود تھے اس قدر گھمسان تھا کہ پولیس اور سٹیشن کا عمله با وجود قبل از وقت خاص انتظام کرنے کے قطعا کوئی انتظام نہ رکھ سکتے تھے اور اس بات کا سخت اندیشہ پیدا ہو گیا کہ کوئی شخص ریل کے نیچے آکرکٹ نہ جائے یا لوگوں کے ہجوم میں دب کر کوئی بچہ یا عورت یا کمزور آدمی ہلاک نہ ہو جائے لوگوں کا ہجوم صرف اسٹیشن تک ہی محدود نہ تھا بلکہ ٹیشن سے باہر بھی دور دراز تک ایک سا ہجوم چلا جاتا تھا اور جس جگہ کسی کو موقع ملتا وہ وہاں کھڑا ہو جاتا حتی کہ مکانوں کی چھتوں اور درختوں کی شاخوں پر لوگ اس طرح چڑھے بیٹھے تھے کہ چھتوں اور درختوں کے گرنے کا اندیشہ ہو گیا تھا.میں نے دیکھا کہ ایک انگریز اور لیڈی فوٹو کا کیمرا ہاتھ میں لئے ہجوم میں گھرے ہوئے تھے کہ کوئی موقع ملے تو حضرت صاحب کا فوٹو لے لیں مگر کوئی موقع نہ ملتا تھا اور میں نے سنا تھا کہ وہ پچھلے کئی سٹیشنوں سے فوٹو کی کوشش کرتے چلے آ رہے تھے مگر کوئی موقع نہیں ملا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ریل سے اتر کر اس کوٹھی کی طرف روانہ ہوئے جو سردار ہری سنگھ رئیس اعظم جہلم نے آپ کے قیام کے لئے پیش کی تھی تو راستہ میں تمام لوگ ہی لوگ تھے اور آپ کی گاڑی بصر مشکل کوٹھی تک پہنچی.جب دوسرے دن آپ عدالت میں تشریف لے گئے تو مجسٹریٹ ڈپٹی سنسار چند آپ کی تعظیم کے لئے سروقد کھڑا ہو گیا اور اس وقت وہاں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ جگہ نہیں ملتی تھی بعض لوگ عدالت کے کمرے میں الماریوں کے او پر مجسٹریٹ کے چبوترے پر چڑھے ہوئے تھے.جہلم میں اتنے لوگوں نے حضرت صاحب کی بیعت کی کہ ہمارے وہم وخیال میں بھی نہ تھا.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ۷ مارچ ۱۹۰۷ء کو حضور علیہ السلام کو الہام ہوا چھپیں دن یا یہ کہ چھپیں دن (سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۷۰،۶۹ )

Page 255

232 تک.جس سے یہ تفہیم ہوئی کہ آئندہ پچیس دنوں تک جو ۳۱ / مارچ تک بنتے ہیں کوئی نیا واقعہ ہونے والا ہے چنانچہ ۳۱ / مارچ ۱۹۰۷ء کو آسمان سے ایک شہاب ثاقب قریباً ۳ بجے دوپہر ٹوٹا جو ملک میں ہر جگہ دیکھا گیا،حضوڑ نے اپنی الہامی پیشگوئی کا ذکر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی“ میں کیا ہے ساتھ ہی پچاس سے زائد گواہیاں بھی درج فرمائی ہیں جس میں حیات محمد کنسٹیل پولیس جہلم کی گواہی درج ہے آپ حضور کی خدمت میں لکھتے ہیں : اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ جس نشان کی نسبت یہ خبر دی گئی تھی کہ ۳۱ / مارچ یا مارچ کے اکتیسویں دن پورا ہوگا وہ نشان آسمانی انگار کے ظہور سے ظاہر ہوگیا.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۳۰) ہجرت قادیان : ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد ۱۹۲۰ء میں آپ ہجرت کر کے قادیان چلے آئے یہاں پہنچ کر سلسلہ کے مختلف کام آنریری طور پر کئے.آپ بڑھاپے میں بھی جوانوں کی طرح کام کرتے تھے.آپ کے اند را یک مومنانہ جذبہ اور عشق تھا خدمت سلسلہ کو اپنے ذاتی کاموں اور آراموں پر ترجیح دیتے آپ کو حضرت اقدس کی اولاد سے والہانہ محبت تھی.پیغامیوں کے فتنہ کا مقابلہ آپ نے ہر جگہ کیا اور ان کے دام نز ویر سے اپنے متعلقین کو بچایا.وفات: آپ نے ۱۴؍جولائی ۱۹۴۶ء بروز اتوار وفات پائی اور تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی.اولاد : آپ کی اہلیہ محترمہ نے حضور کے سفر جہلم کے دوران بیعت کا شرف پایا.آپ کے بیٹے مکرم صو بیدار میجر محمد عبدالرحمن صاحب تھے.ماخذ : (۱) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۲) سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۶۹-۷۰ (۳) روزنامه الفضل ۱۵ر جولائی ۲۲۰ را گست ۱۹۴۶ء (۴) تاریخ احمدیت جلد هشتم ☆ ۱۸۹.حضرت مخدوم مولوی محمد صدیق صاحب بھیرہ ولادت : ۱۸۶۶ء.بیعت : ۱۸۹۱ء.وفات :۲۳ فروری ۱۹۲۸ء تعارف : حضرت مخدوم مولوی محمد صدیق رضی اللہ عنہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کی اولاد میں سے تھے.آپ کی ولادت سال ۱۸۶۶ء میں ہوئی.مخدوم صاحب کے والد صاحب کا نام مخدوم محمد عثمان صاحب تھا.پیری مریدی کا سلسلہ آپ کے خاندان میں ایک مدت سے چلا آتا تھا.آپ کے والد صاحب نے آپ کی تعلیم کے لئے مشہور عالم دین حضرت مولوی خان ملک کھیوال مصنف قانونچہ کو اتالیق مقرر کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے عہد خلافت میں

Page 256

233 جب مقامی جماعتوں کی تنظیم قائم کی گئی تو حضرت مخدوم صاحب کو بھیرہ جماعت کا پہلا امیر مقرر کیا گیا اور تازیست آپ کو یہ مقام حاصل رہا.بیعت : آپ حضرت مولانا حکیم نور الدین رضی اللہ عنہ کے شاگر د خاص تھے.جب حضرت حکیم صاحب نے بیعت کی تو استاد کی پیروی میں آپ کو بھی بلا حیل و حجت احمدیت قبول کر کے ۳۱۳ صحابہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا.آپ قادیان میں حضرت مولانا حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ (خلیفہ امسیح الاول ) کے درس القرآن میں با قاعدگی سے شامل ہوتے.آپ کے بیٹے حضرت مخدوم محمد ایوب صاحب بھی بھیرہ کے امیر رہے ہیں.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں آپ کا نام پر امن جماعت میں کیا ہے.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت اقدس کے معاصر علماء میں آپ کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کی.اولاد: آپ کے بیٹے حضرت مخدوم محمد ایوب صاحب تھے.ماخذ : (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحه ۵۹ (۳) روزنامه الفضل ۱۸ر جون ۱۹۳۷ء (۴) روزنامه الفضل ۷ ارجون ۱۹۶۷ء (۵) روزنامہ الفضل مورخہ ۷ اراپریل ۱۹۹۰ء (۶) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسه سالانه ۱۹۶۴ء ☆ ۱۹۰.حضرت عبد المغنی صاحب فرزند رشید مولوی بر بان الد ین صاحب جہلمی بیعت : ۱۸۹۶ء.وفات : ۱۰ جون ۱۹۶۶ء تعارف و بیعت: حضرت مولوی برہان الدین جہلمی رضی اللہ عنہ سات بھائی تھے.ساتوں بڑے پایہ کے عالم تھے اور علیحدہ علیحدہ مساجد کے امام بھی تھے لیکن احمدیت صرف حضرت مولوی برہان الدین صاحب کو نصیب ہوئی.حضرت مولوی عبد المغنی رضی اللہ عنہ، حضرت مولوی برہان الدین جہلمی کے بیٹے تھے.آپ کی بیعت ۱۸۹۶ء کی ہے.قادیان میں میٹرک کے بعد مولوی فاضل بھی کیا.فوج میں بھرتی ہو کر پنجاب رجمنٹ میں شامل ہوئے اور صو بیدار کے عہدے سے ریٹائر ہوئے.ملٹری کالج سرائے عالمگیر میں کوارٹر ماسٹر بھی رہے.ملایا اور پونا شہروں میں رہے.ریٹائر ہونے کے بعد باغ محلہ شہر جہلم میں تا دم آخر ر ہائش رہی.( مشہدی پگڑی باندھتے تھے اور کبھی بھی بغیر پگڑی کے نماز ادا نہیں کرتے تھے.)

Page 257

234 والد صاحب کی تلاش کا واقعہ: اس وقت آپ کی عمر گیارہ بارہ سال تھی جب آپ کے والد صاحب حضرت مولوی برہان الدین صاحب چھ ماہ تک گھر نہ آئے (حضرت مولوی برہان الدین صاحب گاؤں گاؤں پھرا کرتے تھے اور دعوت الی اللہ کرتے تھے ) تو آپ کی والدہ آپ کو لے کر قادیان پہنچی اور ساتھ گڑ کی میٹھی روٹیاں پکا کر لے گئیں.والدہ صاحبہ اور آپ نماز عصر کے وقت مسجد مبارک پہنچے.والدہ صاحبہ بُرقع اوڑھے باہر کھڑی رہیں اور مولوی صاحب اندر گئے تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ چند رفقاء کے ساتھ تشریف فرما تھے.حضرت مولوی عبد المغنی صاحب نے کہا میری والدہ گھر سے بہت کم نکلا کرتی ہیں اور اب ہم والد صاحب کو ڈھونڈتے آئے ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا آپ کی بغل میں کیا ہے؟ والدہ صاحبہ نے کہا سفر کے لئے میٹھی روٹیاں ہیں.والدہ صاحبہ کی دعوت پر حضرت اقدس نے مسکراتے ہوئے ٹکڑا توڑ کر منہ میں ڈالا اور ساتھ والوں کو بھی دیا.پھر رومال باندھ کر واپس دیا اور فرمایا والدہ کو گھر ( حضرت ام المومنین کے پاس ) اندر لے جاؤ یہاں پر پردہ کا انتظام ہے.والد بھی مل جائیں گے.دینی خدمت: آپ سرائے عالمگیر میں صوبیدار کوارٹر ماسٹر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے.ہر جمعہ با قاعدگی سے جہلم سائیکل پر نماز پڑھانے آتے تھے.جہلم کے امیر جماعت بھی رہے.آپ کے اساتذہ میں دو نام قابل ذکر ہیں جو حضرت خلیفہ امسیح الاول اور حضرت مولوی غلام رسول را جیکی جیسے وجود تھے.ایک ایمان افروز واقعہ : حضرت میاں عبداللہ سنوری نے ایک روایت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد سے بیان کی کہ ”میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند مہمانوں کی دعوت کی اور ان کے واسطے گھر میں کھانا تیار کر وایا مگر عین جس وقت کھانے کا وقت آیا اتنے ہی اور مہمان آ گئے اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی.حضرت صاحب نے اندر کہلا بھیجا کہ اور مہمان آ گئے ہیں کھانا زیادہ بھجواؤ.اس پر بیوی صاحبہ نے حضرت صاحب کو اندر بلوا بھیجا اور کہا کہ کھانا تو تھوڑا ہے.صرف ان چند مہمانوں کے مطابق پکایا گیا تھا.جن کے واسطے آپ نے کہا تھا مگر شاید باقی کھانے کا تو کچھ کھینچ تان کر انتظام ہو سکے گا لیکن زردہ تو بہت ہی تھوڑا ہے.اس کا کیا کیا جاوے.میرا خیال ہے کہ زردہ بھجواتے ہی نہیں صرف باقی کھانا نکال دیتی ہوں.حضرت صاحب نے فرمایا نہیں یہ مناسب نہیں.تم زردہ کا برتن میرے پاس لاؤ.چنانچہ حضرت صاحب نے اس برتن پر رومال ڈھانک دیا اور پھر رومال کے نیچے اپنا ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں زردہ میں داخل کر دیں اور پھر کہا اب تم سب کے واسطے کھانا نکالوخدا برکت دے گا.چنانچہ حضرت میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ زردہ سب کے واسطے آیا اور سب نے کھایا اور پھر کچھ بیچ بھی گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب میاں عبداللہ صاحب نے یہ روایت بیان کی تو حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب بھی پاس تھے انہوں نے کہا کہ حضرت سید فضل شاہ صاحب نے بھی یہ روایت بیان کی تھی.حضرت میاں عبداللہ صاحب نے کہا اچھا تب تو اس روایت کی تصدیق بھی ہوگئی.شاہ صاحب بھی اس وقت موجود ہوں گے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسرے دن حضرت میاں عبداللہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے

Page 258

235 سید فضل شاہ صاحب سے پوچھا ہے وہ بھی اس وقت موجود تھے اور ان کو یہ روایت یاد ہے.“ وفات : آپ نے ۱۰ جون ۱۹۶۶ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.اولاد : آپ کی بیٹی محترمہ زبیدہ بیگم زوجہ کرامت اللہ صاحب ہیں.آپ کے ایک بیٹے مکرم عبدالحئی صاحب عرب ریاستوں میں مقیم رہے ہیں.ماخذ : (۱) روزنامه الفضل ۲۲ /اکتوبر ۱۹۹۰ء (۲) تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۳۹۸ (۳) سیرت المہدی جلد اوّل.۱۹۱.حضرت قاضی چراغ الدین کوٹ قاضی گوجرانوالہ بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت قاضی چراغ الدین رضی اللہ عنہ کا تعلق بھی کوٹ قاضی گوجرانوالہ سے تھا.آپ حضرت قاضی سراج الدین ( یکے از ۳۱۳) کے بھائی تھے.آپ حضرت قاضی ضیاء الدین رضی اللہ عنہ کی تبلیغ سے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن ۱۱ (۲) اصحاب احمد جلد ششم صفحه ۲۱.۱۹۲.حضرت میاں فضل الدین صاحب قاضی کوٹ بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت میاں فضل الدین رضی اللہ عنہ قاضی کوٹ بھی حضرت قاضی ضیاء الدین کے ذریعہ احمدیت سے متعارف ہوئے اور بیعت کر کے داخل سلسلہ احمد یہ ہوئے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) اصحاب احمد جلد ششم ۱۹۳.حضرت میاں علم الدین صاحب کو ٹلہ فقیر.جہلم بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت میاں علم الدین رضی اللہ عنہ کو ٹلہ فقیر ضلع جہلم ایک پارسا بزرگ تھے.آپ حضرت قطب الدین صاحب (۱۸۶) ( یکے از ۳۱۳) کے چچا تھے.حضرت میاں شرف الدین صاحب کے بھائی تھے.آپ ایک موحد آدمی تھے جب حضرت میاں حافظ قطب الدین امام وقت کی تلاش میں نکلنے لگے تو آپ نے فرمایا

Page 259

236 کہ پہلے استخارہ کر لو کیونکہ استخارہ کرنا سنت ہے.حضرت میاں حافظ قطب الدین کے بیعت کرنے کے بعد آپ نے بھی حضور کی بیعت کر لی.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر تحفہ قیصریہ میں آپ کے ایک آنہ چندہ کا ذکر محفوظ ہے.مزید سوانحی حالات دستیاب نہیں ہو سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) عسل مصفحے جلد دوم ۱۹۴.حضرت قاضی میر محمد صاحب کوٹ کھلیان بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت حضرت قاضی میر محمد رضی اللہ عنہ کوٹ کھلیان ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے.حضرت قاضی ضیاء الدین رضی اللہ عنہ کے ذریعہ احمدیت قبول کی.مارچ ۱۹۰۱ء میں جب حضرت اقدس نے انجمن اشاعت اسلام کا قیام فرماتے ہوئے رسالہ ریویو آف ریجنز کے سرمایہ کے لئے احباب جماعت کو حصص خرید نے کی تحریک فرمائی تو حضرت قاضی میر محمد صاحب نے بھی ایک حصہ خرید کیا.آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) الحکم ۷ار اپریل ۱۹۰۱ صفحه ۱ (۲) اصحاب احمد جلد ششم ☆ ۱۹۵.حضرت میاں اللہ دیتا صاحب نت گوجرانوالہ بیعت : ۱۸۹۰ء.وفات : ۲۱ ستمبر ۱۹۲۴ء تعارف و بیعت : حضرت میاں اللہ دتا رضی اللہ عنہ گوجرانوالہ کے قریب موضع نت کلاں کے رہنے والے تھے.موضع نت ، بوتالہ متصل جھنڈا سنگھ ہے.آپ حضرت قاضی ضیاء الدین کے ذریعہ احمدیت سے متعارف ہوئے اور حضرت اقدس کی بیعت کی.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.آپ طبیب اور امام الصلوۃ کے طور پر چک نمبر ۲۷۶ ج.ب گوکھو وال ضلع فیصل آباد میں خدمات بجالاتے رہے.وفات: چک ۲۷۶ ج ب گوکھو وال ضلع فیصل آباد میں آپ کی وفات ۲۱ ستمبر ۱۹۲۴ء کو ہوئی اور وہیں مدفون ہیں.اولاد : آپ کی اولاد میں میاں محمدعبداللہ صاحب ، حکیم عبدالرحمن صاحب ، حکیم عبد الحکیم اور حکیم محمد یعقوب صاحب تھے.حضرت میاں صاحب کے ایک پوتے خواجہ شریف احمد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کے ضلعی اور علاقائی قائد ر ہے جب کہ ایک پوتی مکرم آغا سیف اللہ صاحب (سابق مربی سلسلہ مینیجر و پبلشر الفضل ربوہ.) کی اہلیہ ہیں.آپ کی

Page 260

237 ایک پوتی اہلیہ ملک مبارک احمد آف کراچی ہیں جن کی اولاد امریکہ میں ہے.جبکہ پوتے خواجہ شریف احمد مرحوم کی اولا دجرمنی میں ہے.اسی طرح ایک پوتی اہلیہ چوہدری صالح محمد صاحب نیوجرسی امریکہ میں ہے.ماخذ: (۱) اصحاب احمد جلد ششم (۲) بیان محترم آغا سیف اللہ صاحب مینیجر روزنامه الفضل (۳) الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۲۵ء صفحه ۲ (۴) غیر مطبوعہ مقالہ ضلع گوجرانوالہ میں احمدیت از مکرم طاہر احمد چوہدری.☆ ۱۹۶.حضرت میاں سلطان محمد صاحب گوجرانوالہ بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت میاں سلطان محمد رضی اللہ عنہ کا تعلق بھی گوجرانوالہ کے علاقہ سے ہے.آپ کو حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب سے احمدیت کا تعارف ہوا اور آپ کے ذریعہ بیعت کی.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد۱۱ (۲ اصحاب احمد جلد ششم ☆ ۱۹۷.حضرت مولوی خان ملک صاحب کھیوال ولادت: ۱۸۰۳ ء اندازاً.بیعت : ابتدائی زمانہ میں.وفات : ۱۹۱۳ء تعارف: حضرت مولوی خان ملک کھیوال رضی اللہ عنہ کھیوال تحصیل چکوال کے رہنے والے تھے.قانونچہ کھیوالی ( عربی گرائمر ) کے مصنف تھے.مخدوم فیملی کے آپ اتالیق تھے.جہاں سے جلال پور شریف ( جہلم ) والے پیر حیدر شاہ انہیں اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے لے گئے.آپ بھیرہ ، جہلم، اٹک میں مختلف خاندانوں میں اتالیقی کی خدمات سرانجام دیتے رہے.عمر کے آخری حصہ میں قادیان چلے گئے.آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے آپ کا ذکر جلسہ ڈائمنڈ جو ہلی اور پُر امن جماعت کے طور پر فرمایا ہے.تلامذہ: ہندوستان کے بڑے بڑے علماء آپ کے حلقہ تلمذ میں شامل ہوئے.کیمبل پور (اٹک) کے بڑے بڑے مولوی ، ملک صاحب کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے تھے.ان کے دوستوں نے

Page 261

238 اعتراض کیا کہ مرزائی کی اتنی تعظیم کیوں؟ تو وہ جواب دیتے کہ علم کی قدر ہے“ آپ کے پوتے حافظ مبارک احمد صاحب سابق پروفیسر جامعہ احمد یہ بیان کرتے ہیں کہ : حافظ نور محمد صاحب سکنہ فیض اللہ چک والے نے بیان کیا کہ آپ کے دادا مولوی خان ملک صاحب پہلے پہلے جب حضرت مسیح موعود کے پاس قادیان تشریف لائے تھے تو میں اس وقت یہاں موجود تھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سب سے پہلے یہ عرض کیا کہ میں آپ کو رسول کریم ﷺ کا السلام علیکم پہنچاتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کا سلام مجھے پہنچایا ہے.حافظ نور محمد صاحب کہتے تھے کہ میں نے مولوی صاحب سے مشکوۃ شریف پڑھی تھی.رجسٹر روایات نمبرا اروایات مولوی خان ملک صاحب غیر مطبوعہ ) حضرت مولوی صاحب کے پوتے حافظ مبارک احمد صاحب اپنے والد کی روایت بیان کرتے ہیں کہ: حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز جب خلافت اولی کے زمانہ میں چکوال گئے تھے تو اس وقت مولوی خاں ملک صاحب ان کی خاص زیارت کے لئے باوجود پیری اور ضعف کے حاضر ہوئے اور ایک مصلی نذر میں پیش کیا.بعد میں پوچھا گیا کہ آپ نے مُصلی کیوں خاص طور پر پیش کیا ہے.تو فرمانے لگے کہ یہی تو مصلی کا مالک ہے اس کے سامنے مُصلی کی نذرانہ پیش کی جائے تو کس کے سامنے کی جائے.مطلب ان کا یہ تھا کہ یہ خلافت کے مستحق ہیں.اس سفر میں حضرت حافظ روشن علی صاحب بھی حضرت صاحب کے ساتھ تھے اور ایک روپیہ جو مولوی صاحب نے حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت میں پیش کیا تھا وہ بھی حضرت نے قبول فرما لیا تھا.حافظ روشن علی صاحب نے ایک روپیہ مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کیا تھا اور عرض کیا تھا کہ ہم آپ کے شاگرد ہیں.حافظ صاحب نے اس موقعہ پر فرمایا کہ مولوی خاں ملک صاحب اپنی شہرت کے لحاظ سے تمام پنجاب بلکہ ہندوستان میں بھی مشہور تھے اور اکثر علماء ان کے شاگرد تھے.لیکن باوجود اس عزت اور شہرت کے نہایت سادہ مزاج اور صوفی منش تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کوئی سخت لفظ نہیں سن سکتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جلال پور شریف والے پیر مظفر شاہ صاحب نے ان کو اپنے صاحبزادوں کی تعلیم کے لئے بلایا لیکن حضرت مسیح موعود کی شان میں ایک سخت کلمہ کہا اس پر آپ نے فرمایا کہ میں آپ کے بچوں کو پڑھانے کے لئے تیار نہیں.مولوی صاحب کی وفات حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے آخری زمانہ میں ہوئی ہے.“ حضرت خلیفہ اول ان کی خاص عزت کیا کرتے تھے.اس کی وجہ مولوی خاں ما لک صاحب خود فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب مجھ سے طالب علمی کے زمانہ میں کہا کرتے تھے کہ آپ دعا کریں کہ میں بہت بڑا آدمی بن جاؤں.بڑا آدمی ہونے سے مراد دین میں ترقی کرنا تھا.فرماتے تھے کہ میں نے حضرت مولوی صاحب کیلئے دعا کی.قبولیت کے آثار دیکھ کر اس وقت ہی کہا تھا کہ آپ بڑے دینی عالم بن جائیں گے.( محولہ بالا ایضاً)

Page 262

239 وفات : آپ اپنا وطن چھوڑ کر قادیان چلے گئے اور قادیان میں ۱۹۱۳ء میں ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے.اولاد : آپ کے فرزند مولوی عبدالرحمن صاحب تھے ( بیعت ۱۸۹۴ء.وفات ۱۹۴۰ء) مخدوم فیملی (میانی و گوگھیاٹ ) بھیرہ کے اتالیق تھے.قرآن وحدیث اور فقہ کے عالم تھے.جامعہ احمدیہ میں مولف کے استاذ الحدیث حافظ مبارک احمد صاحب مرحوم ( ولد مولوی عبد الرحمن صاحب) حضرت مولوی خان ملک کے پوتے تھے جو حضرت حافظ روشن علی کے داماد بنے.آپ کی پوتی بخت با نو اہلیہ الیاس بیوال کے بیٹے افضل چکوال میں ہیں.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحه ۵۹-۶۰ (۵) رجسٹر روایات نمبرا اروایات مولوی خان ملک صاحب.☆ ۱۹۸.حضرت میاں اللہ بخش صاحب علاقہ بند - امرتسر ولادت ۱۸۵۴ء.بیعت ۱۸۹۳ء.وفات اواخر ۱۹۲۰ء تعارف: حضرت میاں اللہ بخش رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام میاں محمد بخش صاحب تھا.آپ کی ولادت سال ۱۸۵۴ء کی ہے.آپ کا اور آپ کے والد صاحب کا پیشہ مہاراجہ کپورتھلہ کے ہاں ہاتھیوں کے جھول اور فوج کے کمر بند تیار کرنا تھا.اس کے علاوہ زیورات میں دھاگہ ڈالنا، زیورات کی جالیاں اور جھالریں بنانا بھی تھا.آپ علاقہ بندی یا پٹوار کا کام بھی کرتے تھے.ابتداء میں آپ لاہور میں حکیم محمد حسین صاحب قریشی کے دادا با با محمد چٹو کے شاگرد ہوئے جو یہ کام کرتے تھے.بعد میں امرتسر میں آخر عمر تک یہ کام کرتے رہے.بیعت : بابا محمد چٹو کے ہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر بھی ہوتا رہتا تھا مگر ان کا انجام مذہب اہل قرآن پر ہوا جبکہ بابا صاحب کی اولا دا اور میاں اللہ بخش صاحب احمدیت کی آغوش میں آگئے.بعد میں حضرت مرزا قطب الدین مس گڑ کے ساتھ جنگ مقدس کے مشہور مباحثہ میں موجودر ہے اور اس دوران احمدیت قبول کر لی.دینی خدمت ہر سال قادیان کے غرباء کے لئے کپڑے بھجوایا کرتے تھے.مؤرخ احمدیت کے مطابق آپ آخری عمر میں قادیان ہجرت کر کے آگئے تھے.وفات : آپ نے ۱۹۲۰ء میں وفات پائی اور مؤلف اصحاب احمد نے آپ کا امرتسر میں بیمار ہونا اور گورداسپور میں وفات پانا ، آپ کے داماد ملک مولا بخش صاحب کے حوالے سے لکھا ہے اور گورداسپور میں ہی تدفین لکھی ہے.اس طرح تاریخ وفات بھی مزید تحقیق طلب ہے.

Page 263

240 نوٹ: بابا محمد چٹو صاحب نے آپ کی شادی اپنی بیوہ بہو غلام فاطمہ صاحبہ سے کروا دی تھی.محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ حضرت اقدس کی بیعت سے مشرف ہوئی تھیں.بڑی مخلص اور قربانی دینے والی خاتون تھیں اپنی آخر عمر تک بچوں کو قرآن مجید پڑھاتی رہیں.ماخذ : (۱) رساله اصحاب احمد نومبر ۱۹۵۵ء (۲) تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۶۱۵ (۳) اصحاب احمد جلد اول ص ۵۵ تا ۶۲ ☆ ۱۹۹.حضرت مولوی عنایت اللہ مدرس- مانانوالہ بیعت: ۱۸۹۵ء وفات ۲۳ جنوری ۱۹۳۱ء حضرت مولوی عنایت اللہ صاحب کے والد کا نام محمد حسین صاحب تھا.آپ کا اصل گاؤں چبہ سندھواں گوجرانوالہ تھا اور مانا نوالہ ضلع گوجرانوالہ میں مدرس تھے.آپ کی بیعت ۱۸۹۵ء سے قبل کی ہے.آپ جولائی ۱۹۰۷ ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے.وفات : ۲۲ اور ۲۳ جنوری کی درمیانی رات کو چبہ سندھواں میں وفات ہوئی اگلے روز بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.وفات کے وقت آپ کی عمر ۶۶ سال تھی.آپ کی وفات پر مکرم قاضی فضل الہی قریشی سیکرٹری تعلیم و تربیت گوجرانوالہ نے لکھا کہ : ”مولوی عنایت اللہ صاحب ساکن چبہ سندھواں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے خادم تھے اور ۳۱۳ صحابہ نہیں سے تھے.۲۳٬۲۲ جنوری ۱۹۳۱ء کی درمیانی رات کو فوت ہو گئے.اناللہ وانا الیہ راجعون.“ ماخذ : (۱) نور القرآن نمبر ۲ روحانی خزائن جلد ۹ (۲) الفضل ۳ / مارچ ۱۹۳۱ صفحه ۲ (۳) فہرست موصیان ۱۹۰۵ ء تا ۲۰۰۷ء.

Page 264

241 ☆ ۲۰۰.حضرت منشی میراں بخش صاحب گوجرانوالہ بیعت : ۱۸۹۱ء تعارف و بیعت : حضرت منشی میراں بخش رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام بہادر خان کیروی تھا.آپ ہیڈ کلرک پولیس گوجرانوالہ تھے.ایک مجذوب نے منشی صاحب کو خبر دی کہ عیسی جو آنے والا تھا وہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی ہی ہیں.یہ خبر حضرت اقدس کے اظہار دعوی سے کئی سال پیشتر آپ سن چکے تھے.صد ہا آدمیوں میں شہرت پا چکی تھی.حضرت منشی صاحب کا ذکر ازالہ اوہام میں مخلصین کی جماعت میں کیا گیا ہے اس لئے آپ کی بیعت ۱۸۹۱ء کی ہے.آپ نے لیکھرام کی پیشگوئی کے متعلق شروع شروع میں ریاست گوالیار میں خط لکھا.اس کا جواب حضور کی طرف سے قصیدے کی صورت میں آیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں آپ کا ذکر اپنے مخلصین میں فرمایا ہے.آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ میں شریک ہونے والوں میں ذکر ہے.حضرت منشی صاحب کے ذریعہ حضرت مولوی محمد اسمعیل تر گڑی صاحب (المعروف چٹھی مسیح) احمدی ہوئے تھے.اولاد: آپ کی دختر محترمہ حافظہ بی بی صاحب تھیں.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۴۲ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) روز نامه الفضل اار نومبر ۲۰۰۰ (۴) رجسٹر روایات نمبر ۱۲ روایات حضرت مولوی محمد اسمعیل سنتر گڑی.☆ ۲۰۱ - حضرت مولوی احمد جان صاحب مدرس گوجرانواله بیعت : ۱۸۹۱ء تعارف و بیعت : حضرت مولوی احمد جان رضی اللہ عنہ جالندھر کے رہنے والے تھے.آپ لاہور میں بھی مدرس رہے.حضرت شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگرہ ہاؤس گوجرانوالہ کی روایت ہے کہ انہوں نے اپنے استاد حضرت مولوی احمد جان صاحب سے دریافت کیا کہ یہ مرزا صاحب کون ہیں.جن کی شہر میں ہر جگہ باتیں ہو رہی ہیں.حضرت مولوی صاحب موصوف نے جواب دیا کہ بیٹا آج دنیا میں قرآن کریم کو جاننے اور سمجھنے والے صرف

Page 265

242 مرزا صاحب ہیں.اس پر حضرت شیخ صاحب کو ان کے بڑے بھائی حضرت شیخ کریم بخش نے کہا کہ کل تم اپنے ماسٹر صاحب سے حضرت مرزا صاحب کی کوئی کتاب لے کر آنا.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے براہین احمدیہ لا کر دی جسے پڑھ کر دونوں بھائیوں شیخ صاحب دین اور شیخ کریم بخش صاحب نے بیعت کر لی.یہ واقعہ ۱۸۹۱ء.۱۸۹۲ء کا ہے.حضرت رحیم بخش صاحب ، حضرت مولوی احمد جان کے بیٹے تھے جن کی بیعت رجسٹر بیعت اولیٰ میں ۱۵/ نومبر ۱۸۹۱ء کی ہے اور نمبر ۱۶۶ پر شیخ رحیم بخش کے نام کے ساتھ شیخ احمد جان صاحب ایم اے مدرس سکول ، لا ہوراصل باشندہ جالندھر لکھا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مولوی احمد جان صاحب ۱۸۹۱ء میں احمدیت قبول کر چکے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ کا نام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام جلسہ ۱۸۹۲ء کے احباب کی فہرست میں نمبر شمار ۳۱۷ پر بایں الفاظ درج فرمایا ہے:.مولوی احمد جان صاحب جالندھر شہر مدرس ضلع گوجرانوالہ حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں پر امن جماعت کے ضمن میں ذکر کیا ہے.نوٹ : حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہم عصر علمائے کرام کی فہرست میں آپ کا نام بھی شامل کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کی تھی.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلدا (۴) لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۱۳۹ (۵) صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر جلسه سالانه ۱۹۶۴ء.☆ ۲۰۲.حضرت مولوی حافظ احمد دین چک سکندر گجرات بیعت : ۲۴ ستمبر ۱۸۹۲ء.وفات: ۱۹۱۱ء تعارف و بیعت : حضرت مولوی حافظ احمد دین رضی اللہ عنہ ولد حافظ فضل الدین صاحب ساکن موضع چک سکندر متصل دھور یہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.آپ کا پیشہ زمینداری تھا.جب حضرت اقدس پر دعوی کے بعد فتوکی تکفیر لگایا گیا تو آپ نے کہا کہ میں ان کے خلاف فتویٰ نہیں دوں گا.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت ۲۴ ستمبر۱۸۹۲ ء ہے.آپ ایک لمبے عرصہ تک صدر جماعت احمد یہ چک سکندر رہے.بڑے ہمدردی خلق کرنے والے انسان تھے.مزید سوانحی حالات دستیاب نہیں ہو سکے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر تحفہ قیصریہ میں حضرت اقدس نے ڈائمنڈ جوبلی کے جلسہ میں شامل ہونے

Page 266

243 والوں میں ذکر کیا ہے.وفات : آپ کی وفات کے بارہ میں اخبار بدر قادیان ۶ / اپریل ۱۹۱۱ء نے لکھا ” حافظ احمد الدین صاحب ساکن چک سکندر ضلع گجرات جو ایک صالح احمدی بزرگ تھے فوت ہو گئے.“ اولاد: آپ کی اولاد میں (۱) محترم عبد المالک صاحب (۲) محترم محمد عبد اللہ صاحب (۳) محترم مولوی عبدالخالق صاحب ( مبلغ ایران و مغربی افریقہ ) سابق استاذ الجامعہ تھے.آپ کے ایک پوتے مکرم ناصر احمد صاحب پہلے نائیجیریا میں خدمات بجالاتے رہے اور اب جرمنی میں مقیم ہیں.اسی بزرگ کی نسل سے مکرم محمود ناصر ثاقب مربی سلسلہ احمدیہ ولد مکرم غلام احمد صاحب (سابق منیجر سندھ اسٹیٹس ) مغربی افریقہ میں خدمات بجالا رہے ہیں.ماخذ: (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۶۲ (۳) اخبار بدر ۶ را پریل ۱۹۱۱ء صفحہا.☆ ۲۰۳.حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب کہیوال.جہلم بیعت : ۱۸۹۶ء.وفات : ۱۹۴۰ء تعارف و بیعت : حضرت مولوی عبد الرحمن کہیوال جہلم کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت مولوی عبد الرحمن کہیو ال حضرت خان ملک کہیوال کے ( یکے از ۳۱۳) مصنف قانونچہ کے فرزند اور اُن کے ہمعصر علماء میں سے تھے.بھیرہ کی مخدوم فیملی کے اتالیق رہے.ماسٹر سراج الدین صاحب ولادت ۱۹۰۸ء آف ہر یہ ضلع منڈی بہاؤ الدین موضع سالم میں آپ کے ذریعہ احمدی ہوئے ( جو مکرم مولوی عبدالرشید یحیی صاحب مبلغ سلسلہ کے دادا تھے ) حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ، سراج منیر اور کتاب البریہ میں ڈائمنڈ جو بلی کے جلسہ چندہ دہندگان اور پر امن جماعت میں ذکر کیا ہے.وفات : حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب کی وفات ۱۹۴۰ء میں قادیان میں ہوئی.اولاد : آپ کے بیٹے استاذی المکرم حافظ مبارک احمد صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ ایک فاضل استاد تھے اور حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کے داماد تھے.آپ کے ایک بیٹے و دود احمد صاحب بھی ہیں.نوٹ : حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم نے آپ کا شمار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے والے ہم عصر علمائے کرام میں کیا ہے.

Page 267

244 ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا ۱ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانه ۱۹۶۴ء (۶) بھیرہ کی تاریخ احمدیت (۷) چکوال تاریخ احمدیت.۲۰۴.حضرت میاں مہر دین صاحب.لالہ موسیٰ بیعت : اگست ۱۸۹۴ء.وفات : ۲۹ مئی ۱۹۵۴ء تعارف: حضرت میاں مہر دین رضی اللہ عنہ موضع قہر والی ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے.آپ لالہ موسیٰ میں ریلوے گارڈ ریسٹ روم میں خانساماں تھے.حضرت مولوی برہان الدین جہلمی سے قرآن شریف پڑھا کرتے تھے.مولوی صاحب اس وقت احمدی تھے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں آپ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم جا کر حضرت صاحب کو دیکھ لو اور ان سے ملاقات کرو.قادیان کی زیارت آپ چار یوم کی رخصت لے کر قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.مغرب کا وقت تھا اور حضور مسجد مبارک کی چھت پر تشریف رکھتے تھے.اس وقت حکیم مولوی فضل دین بھیروی نے حضور کی خدمت میں عرض کیا حضور مہر دین کی بیعت منظور فرمائیں حضور نے فرمایا ابھی نہیں.مولوی برہان الدین جہلمی ( جو پہلے سے قادیان آئے ہوئے تھے.) نے کہا حضور جیسے فرماتے ہیں وہی درست ہے.بیعت چار دن بعد آپ واپس آگئے پھر تین چار ماہ بعد دوبارہ قادیان گئے اور حضرت اقدس سے ملے.حضور سیڑھیوں کے اوپر کھڑے تھے.میاں صاحب کے سلام کرنے کے بعد میاں صاحب سے حالات پوچھنے لگے.آپ نے بیعت قبول کرنے کے لئے عرض کیا تو آپ نے بیعت منظور فرمالی.آپ کی بیعت اگست ۱۸۹۴ء کی ہے.ایک دفعہ آپ اپنے گاؤں کے لوگوں کو ساتھ لے گئے تو حضرت اقدس نے فرمایا ان کی پہلے دعوت جسمانی کی جائے پھر دعوت روحانی کی جائے اور اس کام کے لئے حضرت مولوی محمد احسن صاحب لاہور اور حضرت مولانا حافظ حکیم مولوی نورالدین کوفرمایا لیکن حضرت میاں مہر دین صاحب کی تجویز پر کہ اس کام کے لئے حضرت مولوی برہان الدین کو لگایا جائے تو حضرت اقدس مسیح موعود نے آپ کی تجویز کو منظور فرمالیا.مولوی صاحب موصوف نے پنجابی میں تقریر کی چنانچہ پچیس آدمیوں نے بیعت کر لی.رجسٹر روایات صحابہ نمبرا میں ہے کہ لالہ موسیٰ میں احمدیت کا پودا آپ کے ہاتھوں لگا.آپ کمال محبت سے مہمانوں کی خدمت بجالاتے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا نام تحفہ قیصریہ جلسہ ڈائمنڈ جوبلی کے شرکاء میں درج فرمایا ہے.

Page 268

245 حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت اقدس کے معاصر علماء میں آپ کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی.دینی خدمت: ریٹائر منٹ کے بعد آپ نے حضرت چوہدری حاکم علی کی خواہش پر اپنے آپ کو وقف کر کے چک ۹ پنیا ضلع سرگودھا میں بطور معلم خدمت سلسلہ سرانجام دی.اولاد: آپ کے بیٹے برکت اللہ صاحب، رحمت اللہ صاحب اور عبدالحمید صاحب تھے.برکت اللہ صاحب کے بیٹے عطاء اللہ لاہور میں ہیں.رحمت اللہ صاحب جوانی میں فوت ہو گئے.ان کی تدفین چک ۹ پنیار ضلع سرگودھا میں ہوئی.ان کے دو بیٹے نعمت اللہ صاحب اور کرامت اللہ صاحب فیصل آباد میں ہیں.تیسرے بیٹے عبدالحمید صاحب کی اولاد کرنل مجید احمداور تین بھائی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں.آپ کی تین بیٹیاں تھیں ایک بیٹی زینت بیگم کی اولا د ملک حمید اللہ صاحب ڈسکہ سابق امیر ضلع سیالکوٹ اور چار دیگر بیٹے ہیں.آپ کے ایک نواسہ اور نواسی ( ملک مبارک احمد مرحوم و اہلیہ ملک صاحب) نواب شاہ سندھ میں ہیں.مکرم عبدالحمید صاحب کی ایک بیٹی مکر مہ امتہ المالک صاحبہ اہلیہ مکرم سردار احمد را نا سیشن حج (منڈی بہاؤالدین ) ٹاؤن شپ لا ہور تھیں.ماخذ: (۱) انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) رجسٹر روایات صحابہ نمبر ا (۴) صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء.☆ ۲۰۵.حضرت میاں ابراہیم صاحب پنڈوری.جہلم بیعت : ابتدائی زمانہ میں.وفات ۲۴ ستمبر ۱۹۲۶ء تعارف و بیعت: حضرت میاں ابراہیم رضی اللہ عنہ پنڈوری ڈومیلی سوہا وا چکوال روڈ کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام میاں عمر بخش تھا جبکہ سات پشتیں قبل جدا مجد نورالدین در بارا کبری میں آئے تھے جبکہ مدینہ منورہ سے سعد الدین نے افغانستان کی طرف ہجرت کی تھی.محلہ خواجگان ( جسے اب محلہ سیٹھیاں کہتے ہیں ) میں پیدا ہوئے.آپ کے والد صاحب کا گھر جہلم میں چوک اہلحدیث کے نزدیک محلہ خواجگان میں تھا.اس گھر کا ایک حصہ آپ کی اولاد کے پاس ہے.نمک، گا چینی مٹی ، اور کچے برتنوں کا کاروبار کرتے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.آپ اس بات کے قائل تھے کہ یہ زمانہ ظہور امام کا ہے اور تلاش مسیح میں افغانستان چلے گئے وہاں کسی نے بتایا کہ قادیان پنجاب کے گاؤں میں کسی نے دعوی کیا ہے چنانچہ پوچھتے پوچھتے قادیان چلے آئے.اور حضرت اقدس کی بیعت کر لی.

Page 269

246 حضرت اقدس کے سفر جہلم میں آپ کی موجودگی: جب حضرت مسیح موعود جہلم تشریف لائے اور جہلم کے ریلوے اسٹیشن پر اُترے تو میاں ابراہیم صاحب حضرت اقدس کے یکے کے آگے خوشی سے اچھلتے تھے اور اپنی پگڑی فضا میں لہراتے اور اوپر پھینک کر پکڑتے اور نعرے لگاتے مرزا غلام احمد کی ہے.آپ کے ساتھ مولوی برہان الدین جہلمی بھی تھے.طاعون کے دنوں میں میاں صاحب کے بیٹے عبدالحق کی بُن ران میں گلٹی نکل آئی.غیر احمدی سیٹھی برادری نے طعنہ دیا کہ تم مرزا صاحب کی سچائی کی دلیل طاعون دیتے ہو.اس پر میاں صاحب نے کہا اگر میرا بیٹا اس طاعون سے فوت ہو گیا تو مسیح موعود ( نعوذ باللہ ) جھوٹے اور تم بچے اگر اس کے الٹ ہوا تو تمہیں ماننا پڑے گا.چنانچہ سیٹھی عبدالحق زندہ رہے اور ۸۵ سال کی عمر پائی جبکہ اس وقت ہر طرف موتا موتی تھی.لیکن لوگوں نے وعدہ کے با وجود نہ مانا.سیٹھی عبدالحق صاحب اپنے پھوڑے کا نشان دکھایا کرتے تھے.وفات : آپ کی وفات ۲۴ ستمبر ۱۹۲۶ء کو ہوئی.بمطابق وصیت حضرت مولوی برہان الدین کے ساتھ جہلم کے قبرستان میں دفن ہیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ کرم بی بی بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں.اولاد: آپ کی اولاد میں (۱) سیٹھی خلیل الرحمن صاحب، (۲) سیٹھی عزیز الرحمن صاحب (۳) سیٹھی محمد اسمعیل صاحب، (۴) سیٹھی محمد اسحق صاحب (۵) سیٹھی عبدالحق صاحب اور (۲) سیٹھی فضل حق صاحب تھے.ان بھائیوں کی اولاد جہلم ، راولپنڈی، اسلام آباد، ربوہ، جرمنی، انگلینڈ، کینیڈا اور امریکہ میں مقیم ہے سیٹھی احسان الحق صاحب ریٹائر ڈسیشن حج اور سیٹھی منظور الحق صاحب بقید حیات ہیں.آپ کے ایک پوتے سیٹھی مقبول احمد صاحب ولد سیٹھی محمد اسحق صاحب ) ۱۹۷۴ء میں راہ مولیٰ میں شہید کر دیئے گئے سیٹھی خلیل الرحمن کے بیٹے سیٹھی ولی الرحمن صاحب جہلم میں ہیں.ماخذ : (۱) انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) بیان مکرم منظور الحق سیٹھی ( سیٹھی میڈیکل سٹور گولبازار بوہ ) جون ۲۰۰۵ ء - بروایت ( حضرت کرم بی بی ) دادی جان جو میاں محمد ابراہیم صاحب کی زوجہ ثانی تھیں.(۳) الفضل ۲۴؎ ستمبر ۱۹۲۶ء (۴) ہفت روزہ لاہور ۱۹۷۴ء.

Page 270

247 ☆ ۲۰۶.حضرت سید محمود شاہ صاحب فتح پور گجرات بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت سید محمودشاہ رضی اللہ عنہ محمدی پور گجرات شہر کے رہنے والے تھے.فتح پور میں ان کی بیٹی فاطمه بی بی زوجہ حضرت سید محمد شاہ تھیں.آپ کی بیعت ۱۸۹۷ء سے قبل کی ہے.حضرت اقدس کے ساتھ خاص تعلق کی عکاسی ایک خط سے بھی ہوتی ہے.نوٹ : حضرت مولانا جلال الدین شمس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ان معاصر علماء کرام کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ہے جنہوں نے آپ کی بیعت میں شمولیت کا شرف حاصل کیا تھا.فتح پور کے ایک اور صحابی حضرت منشی عبدالکریم کی بیعت اور تربیت آپ کے ذریعہ ہوئی.وفات: آپ کی وفات ۲۰ فروری ۱۹۲۰ء کو ہوئی.آپ کی وصیت نمبر ۱۷۴۹ ہے آپ کا کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں قطعہ نمبر ۴ حصہ نمبر ۱۴ میں نصیب ہوئی.اولاد: حضرت سید محمود شاہ صاحب کی اولاد میں سے سید زین العابدین شاہ بھی رفیق بانی سلسلہ تھے.ان کے پڑپوتے سید رضا شاہ بمعہ اپنی والدہ سیدہ غلام مریم صاحبہ اور چار بیٹیاں ربوہ میں مقیم ہیں.حضرت سید محمودشاہ صاحب کی نواسی مبار کہ بیگم بنت سید محمد شاہ صاحب، مکرم سید عزیز احمد شاہ صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کی اہلیہ وفات پاچکی ہیں اور ان کی اولاد میں سید فرخ شاہ اسیر راہ مولیٰ لا ہور رہے ہیں.ماخذ: (۱) صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر جلسه سالانه ۱۹۶۴ء (۲) الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۶۴ء (۳) الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۵۷ء (۳) بیان مکرم مرزا عبدالرشید برلاس آف فتح پور حال ربوه محمد ☆ ۲۰۷.حضرت محمد جو صاحب.امرتسر بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت محمد جو رضی اللہ عنہ امرتسر کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ۱۸۹۷ء سے قبل کی ہے.(نوٹ) آپ کے تفصیلی سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.

Page 271

248 ☆ ۲۰۸.حضرت منشی شاہ دین صاحب.دینا.جہلم ولادت : ۱۸۷۰ء.بیعت : ابتدائی زمانہ.وفات: ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء تعارف : حضرت منشی شاہ دین رضی اللہ عنہ کی بیعت دینہ ضلع جہلم سے ہے.آپ کا اصل گاؤں سا ہو والہ تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ تھا.دوران ملازمت مختلف جگہوں پر اسٹیشن ماسٹر رہے.بیعت : ابتدا میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے تعلق رکھتے تھے.پھر خدا تعالیٰ نے آپ کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: تحفہ قیصریہ، سراج منیر اور کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے آپ کا ذکر ڈائمنڈ جوبلی جلسہ میں شرکت، چندہ دہندگان اور پُر امن جماعت میں ذکر کیا ہے.قادیان ہجرت کرنا: حضرت اقدس کی زندگی کے آخری ایام میں بیمار ہو کر قادیان آگئے.حضرت اقدس جب حضرت ام المومنین کی علالت کے باعث مشیت ایزدی کے ماتحت لاہور آگئے تو حضرت اقدس نے وفات سے تیرہ روز پیشتر حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین کو نشی شاہ دین کی خبر گیری کے لئے تا کیدا خطوط لکھے.وفات حضرت منشی صاحب کی وفات ۲۵ رمئی ۱۹۰۸ء میں ہوئی.ملک محمودخان صاحب مردان کے حالات میں اصحاب احمد جلد دہم میں لکھا ہے کہ ” جب نوشہرہ سے بطرف در گئی و مالا کنڈ ریلوے لائن بنائی گئی تو مردان کے سب سے پہلے اسٹیشن ماسٹر حضرت بابوشاه دین صاحب مقرر ہوئے.آپ احمدیت کے قابل قدر خادم تھے بگٹ گنج مردان میں جماعت قائم کی.بڑے مہمان نواز اور جاذب شخصیت کے مالک تھے.آپ کے حسن اخلاق سے نوشہرہ سے درگئی تک کئی ریلوے ملازم احمدی ہوئے.ماخذ : (۱) انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) سیرت حضرت مسیح موعود جلد سوم صفحه ۴۲۵ تا ۴۲۷ (۶) اصحاب احمد جلد ا صفحہ ۷ ۱۹ ( ۷ ) مضمون مطبوع روزنامه الفضل ربوه ۱۲ فروری ۱۹۶۶ء.

Page 272

249 ☆ ۲۰۹.حضرت منشی روشن دین صاحب.ڈنڈوت جہلم بیعت: ۱۸۸۹ ء یا ۱۸۹۰ء.وفات : ۱۹۲۸ء تعارف حضرت منشی روشن دین رضی اللہ عنہ سیالکوٹ شہر کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب ٹھیکیدار تھے.آپ کی ایک وسیع برادری تھی جس کے بیشتر افراد نہایت متمول تھے.بیعت: زمانہ طفولیت ہی میں آپ کی والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا پھر جب والد صاحب بھی فوت ہو گئے تو تھوڑے ہی عرصہ بعد حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی آپ کے سر پرست، مربی اور استاد مقرر ہو گئے.یہ تعلق اس حد تک بڑھا کہ اہالیان سیالکوٹ آپ کو اُن کا بیٹا سمجھنے لگے.جب حضرت مولوی صاحب فوت ہوئے تو اس تعلق کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الاول نے آپ کو بلا کر کہا جب میں زندہ ہوں تو آپ سمجھیں کہ مولوی عبد الکریم زندہ ہیں.اپنے دو دوستوں کے ہمراہ تلاش روزگار کے لئے نکلے تو ایک انگریز افسر کے پیش ہوئے.خدا تعالیٰ نے تینوں دوستوں کومختلف ریلوے اسٹیشنوں پر تعینات ہونے کا موقع فراہم کر دیا.آپ کو ڈنڈوت کے اسٹیشن پر متعین کیا گیا.بیعت اور اس کا پس منظر : اسٹیشن ماسٹر جو ہندو آریہ تھا ایک روز آپ کو شہر لے گیا شہر کے چکر کے دوران ایک جگہ آپ کو ٹھہرا کر وہ آریہ سماج میں گیا تھوڑی دیر بعد ایک اشتہار یا رسالہ آپ کو دے کر کہنے لگا.بٹالہ ضلع گورداسپور میں ایک شخص مرزا غلام احمد نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے.تم نے سنا ہے؟ آپ نے اشتہار اس سے لے کر حضرت مولوی عبدالکریم کی خدمت میں عریضہ اور اشتہار بھیج دیا.نیز لکھا کہ اس جگہ پیاس نہیں بجھتی.ان کا جواب آیا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے جو نہایت متقی پرہیز گارانسان ہیں ایسا دعویٰ کیا ہے.مولوی نورالدین جیسے نیک اور علامہ نے ان کو راستباز اور اپنے دعوئی میں سچا پا کر بیعت کرلی ہے اور اپنی بیعت کا بھی لکھا اور یہ بھی لکھا کہ آپ فوراً بذریعہ خط بیعت کر لیں.چنانچہ آپ نے بھی حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا.آپ فرماتے تھے کہ اس کے بعد اطمینان اور سکون میسر آ گیا اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا پر خوش رہتا.آپ کا اخلاص : آپ جس اسٹیشن پر جاتے وہاں پھلدار پودوں کے باغ لگواتے.ان باتوں کے سبب آپ کے اسٹیشن کو اول پوزیشن حاصل ہوتی.بٹالہ کے اسٹیشن پر ایک آم کا پرانا درخت تھا جس کو کئی سالوں سے پھل نہیں لگتا تھا.آپ نے اس باغ میں نماز کی جگہ بنائی.یہاں علاوہ دیگر احباب جماعت کے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اور آپ کے اہل وعیال بھی تشریف لاتے.اس برکت سے اس آم کو پہلا پھل لگا.باغ کا مالی جو۰ ۸ سال کے لگ بھگ تھا بڑا حیران تھا اور شہر میں دھوم مچ گئی.کثرت سے لوگ دیکھنے آتے اور کہتے کہ یہ بابو صاحب کی برکت ہے لیکن آپ کہتے

Page 273

250 یہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی برکت، قرآن کریم کی برکت اور نمازوں کی برکت ہے.دو سال خوب پھل لگتا رہا.جب تیسرے سال آپ تبدیل ہو کر گوجرانوالہ چلے گئے تو پھل لگنا بند ہو گیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں آپ کا ذکر پُر امن جماعت کے سلسلہ میں فرمایا ہے.وفات : آپ کو اپنی وفات کی پہلے سے ہی خبر ہو چکی تھی چنانچہ آپ نے اپنی ڈائری میں لکھا:.عمر پوری ہو گئی.ہمارا زمانہ بہتر تھا.روشن دین.۲۷/ دسمبر ۱۹۲۸ء چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ کی وفات ۲۳ جنوری ۱۹۲۹ء کو ہو گئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.اولاد: آپ کی اولاد میں میاں محمد بشیر صاحب چغتائی کا ذکر ملتا ہے.ماخذ : (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳(۲) مضمون ” حضرت با بوروشن دین صاحب سیالکوٹی * از مکرم میاں محمد بشیر صاحب چغتائی ( ابن حضرت با بوروشن دین صاحب سیالکوٹی ) الفضل ربوہ ۱۲ رفروری و ۱۵ فروری ۱۹۶۶ء.۲۱۰.حضرت حکیم فضل الہی صاحب.لاہور بیعت:۹۳-۱۸۹۲ء.وفات: ۸/اپریل ۱۹۰۶ء تعارف و بیعت حضرت اقدس : حضرت حکیم فضل الہی رضی اللہ عنہ لا ہور کے مقام ستھان کے رہنے والے تھے.لاہور تاریخ احمدیت کے مطابق آپ کی بیعت ۹۳-۱۸۹۲ء کی ہے (صفحہ ۱۴۹).جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی تو احباب لاہور کی ایک انجمن جس کا نام انجمن فرقانیہ تھا، نے خوب کام کیا.اس کے صدر حکیم فضل الہی صاحب ، سیکر ٹری منشی تاج الدین صاحب اور جائنٹ سیکرٹری میاں معراج الدین عمر صاحب تھے.چونکہ پیر صاحب حیلے بہانے سے اس مقابلہ کو ٹال رہے تھے اور لاہور کی پبلک کو مغالطہ میں ڈال کر حضرت اقدس کے خلاف مشتعل کر رہے تھے.اس لئے اس انجمن نے ان ایام میں متعد داشتہارات شائع کر کے لوگوں پر حقیقت حال کو واضح کیا تھا.دینی خدمات : حضرت حکیم صاحب بڑے مخلص اور جانثار تھے مخالفین کے سامنے سینہ سپر رہے تھے.مالی قربانی میں بھی حضرت حکیم صاحب پیش پیش رہا کرتے تھے.تبلیغی پمفلٹوں کے خرچ میں ان کا کافی حصہ ہوتا تھا.تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے.آپ کا اعزاز : حضرت اقدس مسیح موعود کے زمانہ میں ۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء کو جب منارة المسیح کی بنیا درکھنے کا وقت آیا تو حضرت حکیم صاحب مرزا خدا بخش صاحب ، شیخ مولا بخش صاحب اور قاضی ضیاء الدین صاحب نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور آج مینارہ اسیح کی بنیاد رکھی جائے گی اگر حضور خود اپنے ہاتھ سے رکھیں تو بہت

Page 274

251 مبارک ہوگا.اس پر حضور نے فرمایا.آپ ایک اینٹ لے آئیں میں اس پر دعا کروں گا.پھر جہاں میں کہوں وہاں جا کر رکھ دیں.چنانچہ حکیم فضل الہی صاحب اینٹ لے آئے اور حضور نے لمبی دعا کی.دعا کے بعد حضرت حکیم صاحب سے ارشاد فرمایا کہ آپ اس کو مجوزہ منارہ مسیح کے مغربی حصہ میں رکھ دیں.حضرت حکیم صاحب اور دوسرے احباب نے یہ مبارک اینٹ لے کر مسجد اقصیٰ میں بنیاد کے مغربی حصہ میں نصب کر دی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں چندہ دہندگان اور پُر امن جماعت میں ذکر کیا ہے.وفات : آپ کی وفات ۱۸اپریل ۱۹۰۶ء کو ہوئی.بہشتی مقبرہ قادیان میں لاہور کے ایک صاحب فضل الہی کا کتبہ نصب ہے اگر یہی حکیم فضل الہی مراد ہیں تو تاریخ وفات ۱۸ اپریل ۱۹۰۶ ء ہے.ماخذ : (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۴۹.۱۵۰ ☆ ۲۱۱.حضرت شیخ عبداللہ دیوانچند صاحب کمپونڈ ر لا ہور بیعت ۱۸۹۴ء.وفات ۴ ستمبر ۱۹۵۳ء تعارف و بیعت : حضرت شیخ عبداللہ دیوانچند رضی اللہ عنہ ابتداء میں انجمن حمایت اسلام لاہور میں بطور کمپونڈر ملازم تھے مگر پھر ہجرت کر کے قادیان چلے گئے اور ایک لمبا زمانہ نور ہسپتال میں کام کیا.مدرسہ احمدیہ اور غالباً تعلیم الاسلام مدرسہ کے ہوٹلوں میں سالہا سال تک طبی معائنہ کے لئے جاتے رہے.کسی بے ضابطگی کی وجہ سے شیخ صاحب قادیان سے لائل پور تشریف لے گئے اور اپنا تعلق انجمن اشاعت اسلام لاہور کے ساتھ قائم کر لیا.ایک عرصہ بعد دو مرتبہ قادیان جا کر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی سے ملاقات بھی کی.حضور بہت محبت سے پیش آتے.شیخ عبد القادر صاحب (سابق سوداگریل) کا بیان ہے کہ حضرت شیخ صاحب کی ان سے ملاقات تھی اور آپ حضرت خلیفتہ امیج کو خلیفہ برحق بتایا کرتے تھے اسی طرح آپ کی اولاد کے خیالات تھے.رساله نور القرآن نمبر ۲ کے حاشیہ پر پیر محمد سراج الحق صاحب جمالی نعمانی نے چند اصحاب کے نام درج کئے ہیں جو حضرت امام کی خدمت میں حاضر تھے ان میں شیخ عبداللہ صاحب بھی تھے ان کے ذکر میں لکھتے ہیں: در شیخ عبداللہ صاحب جوان صالح ہیں.رشد کے آثار اور اتقاء کے نشان ان کے بشرہ سے ظاہر ہوتے ہیں.جب انہوں نے اسلام کی طرف میلان کیا تو کئی ابتلاء پیش آئے.از انجملہ ایک یہ ہے کہ لیکھر ام آریہ سے کئی بار مباحثہ ہوا آخر کار لیکھرام کوانہوں نے شکست فاش دی چونکہ آریہ تھے اس تعلیم خراب سے دستبردار ہوکر اسلام زورو شور سے قبول کیا اور امام وقت سے بیعت کی مجھ سے کہتے تھے کہ ازالہ اوہام کے دیکھنے سے مجھے اسلام کا شوق پیدا ہوا.جب پیشگوئی جو آتھم کے رجوع الی الحق یا موت کی تھی.اس کا رجوع الی الحق ہونا اور موت سے بچنا پوری ہو

Page 275

252 گئی.سچے دل سے امام وقت کی شناخت حاصل ہوئی.الحمد للہ.سراج الحق جب کبھی حضرت اقدس شیخ عبداللہ دیوانچند کو خط لکھا کرتے تو شناخت کے واسطے عبداللہ دیوانچند دونوں نام لفافے پر لکھ دیتے تھے تا کہ پوسٹ مین کو غلطی نہ لگے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں پرامن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.وفات: آپ کی وفات ۴ ستمبر ۱۹۵۳ء کو ہوئی.اولاد: آپ کی اولاد میں کیپٹن ڈاکٹرعبدالرحیم صاحب طارق آباد فیصل آبادو ڈاکٹر عبداللطیف صاحب شیخو پورہ اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ہیں.ماخذ: (۱) رساله نور القرآن نمبر ۲ صفحه ۴۵۲ - ۲۵۵ روحانی خزائن جلد ۹ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۵۱ تا ۱۵۳ (۴) ذکر حبیب صفحہ ۲۳۰.۲۳۱.☆ ۲۱۲ - حضرت منشی محمد علی صاحب.لاہور ولادت : ۱۸۵۹ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات: ۵/ستمبر ۱۹۱۴ء تعارف: حضرت منشی محمد علی رضی اللہ عنہ جلال پور جٹاں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.آپ کی ولادت ۱۸۵۹ء کی ہے.آپ صوفی کے نام سے بھی پکارے جاتے تھے.منشی صاحب ریلوے ایگزامینر آفس میں کلرک تھے.بیعت : بہت ابتدائی ایام میں بیعت کی.آپ کا نام جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء کی فہرست مندرجہ آئینہ کمالات اسلام میں ۱۱۲ نمبر پر درج ہے.گویا آپ ان ایام میں بیعت کر چکے تھے.اس طرح آپ کی بیعت ۱۸۹۲ء کی ہے.منارۃ اُسیح پر آپ کا نام کندہ ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام اور کتاب البریہ میں آپ کا جلسہ سالانہ میں شرکت اور پر امن جماعت میں ذکر فرما دیا ہے.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت اقدس کے معاصر علماء میں آپ کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کی.وفات : آپ کی تاریخ وفات ۷۵ ستمبر ۱۹۱۴ ء ہے.آپ کا وصیت نمبر ۲۵ ہے.آپ کا مقبرہ بہشتی مقبرہ یاد گار قادیان میں قطعہ نمبر ۲ حصہ نمبرہ میں ہے.

Page 276

253 اولاد: آپ کی اولا د حضرت صوفی محمد رفیع صاحب ریٹائر ڈ ڈی.ایس.پی سکھر جوامیر جماعت احمد یہ سکھر اور خیر پور ڈویژن تھے.آپ رفیق بانی حضرت اقدس اور صاحب کشف و الہام بزرگ تھے.راقم الحروف حضرت صوفی صاحب کو مختلف اوقات میں سکھر میں مالتا رہا آپ کو الہاما بتایا گیا تھا کے آپ کی عمر اس قدر ہے جب وہ پوری ہوگئی تو اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا گیا تو اس کے کچھ عرصے بعد وفات ہو گئی.ان کی اولاد میں راجہ فخر الدین صاحب تحصیلدار اور راجہ بشیر الدین صاحب معروف ہیں.ان کی اولاد سکھر، کراچی اور بیرونی ممالک میں ہے.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) لاہور تاریخ احمدیت لاہور صفحہ ۱۵۶ (۴) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء ☆ ۲۱۳.حضرت منشی امام الدین صاحب کلرک.لاہور بیعت ۷ فروری ۱۸۹۲ء تعارف و بیعت : حضرت منشی امام الدین رضی اللہ عنہ ولد امیر ساکن موضع مانا نوالہ تحصیل و ضلع گوجرانواله وارد لاہور محلہ سہان بھائی دروازہ.آپ کی بیعت کے فروری ۱۸۹۲ء کی ہے.رجسٹر بیعت میں ۲۳۴ نمبر پر آپ کی بیعت درج ہے.(نوٹ) آپ کے تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحہ۳۵۸ (۲) لا ہور تاریخ احمدیت.☆ ۲۱۴.جناب منشی عبدالرحمن صاحب کلرک.لاہور بیعت: ۲۷ ستمبر ۱۸۹۱ء تعارف و بیعت: جناب منشی عبد الرحمن صاحب ساکن گجرات، جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کے بھائی تھے.آپ کی بیعت ۷۶ نمبر پر رجسٹر بیعت میں درج ہے.حضرت منشی صاحب اندرون موچی دروازہ لاہور میں رہتے تھے.پہلے ریلوے میں کلرک تھے پھر بسلسلہ روزگار افریقہ چلے گئے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ کو جماعت احمدیہ کے پہلے جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں شمولیت

Page 277

254 کی توفیق ملی جس میں ۱۷۵افراد شامل ہوئے.آسمانی فیصلہ میں حضور نے آپ کا نام منشی عبدالرحمن صاحب کلارک لو کو آفس لا ہور لکھا ہے.تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں ،جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پُر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر کیا ہے.وفات: خلافت ثانیہ کی بیعت نہ کی اور نظام خلافت سے غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.خلافت ثانیہ کی ابتداء میں وفات پائی.ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) تحفہ قیصریه روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۶ (۵) لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۵۳.☆ ۲۱۵.حضرت خواجہ جمال الدین صاحب بی.اے لا ہو ر حال جموں بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت: حضرت خواجہ جمال الدین رضی اللہ عنہ، خواجہ کمال الدین صاحب کے بھائی تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس کے الہام میں تذکرہ: ان کے متعلق حضرت مسیح موعود نے نزول مسیح میں لکھا ہے.خواجہ جمال الدین بی.اے جو ہماری جماعت میں داخل ہیں.جب امتحان منصفی میں فیل ہوئے اور ان کو بہت نا کامی اور نا امیدی لاحق ہوئی اور سخت غم ہوا تو ان کی نسبت الہام ہوا کہ سیــغـفـر یعنی اللہ تعالیٰ ان کے اس غم کا تدارک کرے گا.چنانچہ اس کے مطابق وہ جلد ریاست کشمیر میں ایک ایسے عہدے پر ترقی پا گئے جو عہدہ منصفی سے ان کیلئے بہتر ہوا.یعنی وہ تمام ریاست جموں وکشمیر کے انسپکٹر مدارس ہو گئے“ وفات : خلافت اولیٰ کے ایام میں وفات پائی.ماخذ: (۱) نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ (۲) تاریخ احمدیت لاہور صفحہ ۱۸۸ ۱۸۹.

Page 278

255 ☆ ۲۱۶.حضرت منشی مولا بخش صاحب کلرک.لاہور بیعت : ۱۸۹۱ء ۷ فروری ۱۸۹۲ء.وفات :۱۴ فروری ۱۹۲۸ء تعارف : حضرت منشی مولا بخش رضی اللہ عنہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم کے چچا تھے.لودھیانہ کے قریب کسی گاؤں کے باشندہ تھے.ایک مدت تک لاہور ریلوے ایگزامینر آفس میں کلرک رہے ہیں.بیعت : آپ کی بیعت کا اندراج رجسٹر بیعت اولیٰ میں ۲۲۸ نمبر پر ہے.لیکھرام کی پیشگوئی کے پورا ہونے پر متواتر اشتہارات شائع کروائے اور لکھا کہ کسی دوسرے آریہ کو مقابلہ میں کھڑا کر کے قبولیت دعا اور مباہلہ کے نشان دیکھ لیں.اولاد : آپ کی اولاد میں (۱) شیخ مبارک اسمعیل صاحب (۲) شیخ مسعود احمد صاحب انجنئیر (۳) شیخ محمد اسحق صاحب ہیں.حضرت شیخ مولا بخش رضی اللہ عنہ کے ایک پوتے مکرم شیخ خالد پرویز صاحب گجرات میں رہائش پذیر ہیں.ماخذ: (۱) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۵۸ (۲) لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۵۳ (۳) ذکر حبیب صفحه ۲۱۵-۲۱۶.☆ ۲۱۷.حضرت شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی.پٹیالہ بیعت ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات: ۲۸ ستمبر ۱۹۰۹ء تعارف: حضرت شیخ محمدحسین رضی اللہ عنہ مراد آبادی پٹیالہ کے رہنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس سب سے پہلے کا تب تھے.نہایت مخلص بزرگ تھے.بیعت : آپ نے حضرت اقدس کی بیعت تیسرے نمبر پر کی تھی ( جو تاریخ احمدیت جلد نمبرا کے مطابق ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ ء ہے.گویا ابتدائی دس بیعت کرنے والے احباب میں آپ بھی شامل تھے.دینی خدمات : آپ نے کچھ ابتدائی کتابوں کی کتابت کی تھی.فتح اسلام کی بھی کتابت آپ نے کی تھی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام، آئینہ کمالات اسلام، تحفہ قیصریہ، سراج منیر

Page 279

256 میں آپ کا ذکر مخلصین جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور چندہ دہندگان میں فرمایا ہے.وفات : آپ کی وفات ۲۸ ستمبر ۱۹۰۹ء کو ہوئی.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحه ۲۵۱ (۶) تاریخ احمدیت جلدا (۷) سیرت المہدی جلد سوم.☆ ۲۱۸.عالم شاہ صاحب کھاریاں.گجرات بیعت ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت: عالم شاہ صاحب سید احمد شاہ صاحب کے چچا زاد بھائی تھے اور عمر میں ان سے بڑے تھے.آپ حضرت مولوی فضل دین گکھاریاں کے ساتھ قادیان گئے اور بیعت کی.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.عالم شاہ صاحب کھاریاں کی مسجد میں امام تھے.بیعت پر قائم نہ رہے کہ امامت نہ چھوٹ جائے بروایت ڈاکٹر سید محمد یوسف شاہ صاحب لالچ میں آگئے.اس طرح آپ کا احمدیت سے کوئی تعلق نہ رہا.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) بروایت مکرم سیدمحمد یحی خضر صاحب طفیل رو ڈلا ہور چھاؤنی.۲۱۹.حضرت مولوی شیر محمد صاحب ہو جن.شاہپور بیعت ۲۰ ستمبر ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت مولوی شیر محمد رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام غلام مصطفیٰ صاحب تھا.آپ موضع بھن ضلع شاہپور کے رہنے والے تھے.آپ کا پیشہ طبابت اور زمینداری تھا.بیعت : آپ نے ۲۰ ستمبر ۱۸۸۹ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۱۲۴ نمبر پر درج ہے.حضرت حکیم مولوی شیر محمد حضرت حافظ عبدالعلی موضع عبدالرحمن ( ادرحمہ...ناقل ) ضلع شاہپور اور حضرت مولانا شیر علی ( مترجم انگریزی قرآن شریف) کے چاتھے.علی گڑھ کالج میں حافظ عبدالعلی صاحب کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی.انہی کے توسط سے حضرت مولوی شیر علی صاحب نے احمدیت قبول کی تھی.علاوہ طبابت کے حکیم صاحب بہت بلند پایہ عربی / فارسی کے عالم تھے.آپ کی وفات عین جوانی کے عالم میں ہوئی.

Page 280

257 حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں اپنے مخلصین میں تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی کے شرکاء اور سراج منیر اور کتاب البریہ میں اپنی پُر امن جماعت میں ذکر فرمایا ہے.آپ کا نام حضرت مولا نا جلال الدین شمس نے حضرت مسیح موعود کے معاصر علماء کی فہرست میں لکھا ہے.وفات : آپ کی وفات عام الحزن میں ہوئی.جس کا تذکرہ حضرت اقدس نے بڑے دردمند دل کے ساتھ فرمایا ہے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳(۴) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۰ جدید ایڈیشن (۶) تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۱۸۵-۱۸۶ (۷) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانه ۱۹۶۴ء (۸) نجم الہدی سوانح مولوی شیر علی صاحب مرتبه محتر مہ رقیہ بقا پوری.☆ ۲۲۰.حضرت میاں محمد اسحاق صاحب او در سیر بھیرہ حال ممباسہ ولادت : ۱۸۶۸ء.بیعت : ۱۸۹۱ء.وفات : ۱۹۲۵ء تعارف: حضرت میاں محمد اسحاق رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام مولوی چراغ دین صاحب ہے.آپ کا خاندان اہلحدیث تھا.آپ کی ولادت سال ۱۸۶۸ء میں ہوئی.پانچ سال کی عمر میں آپ کو قرآن کریم حفظ کیا.آپ صناع خاندان سے تعلق رکھتے تھے.آپ نے انجینئر نگ کی تعلیم میوسکول آف آرٹس لاہور میں پائی.۱۹۰۵ء میں کالج کی تعلیم سے فارغ ہو کر محکمہ نہر میں ملازم ہو گئے.بیعت حضرت اقدس : لاہور میں حضرت مسیح موعودؓ سے آپ کا تعارف ہوا اور حضور سے لاہور میں سبز اشتہار لیا.اس اشتہار کا پڑھنا تھا کہ ایک خاص کیفیت جذب کی پیدا ہوگئی اور حضرت مسیح موعود سے محبت اور عشق پیدا ہو گیا.۱۸۹۰ء میں ایک رؤیا کے ذریعہ آپ پر راہ ہدایت کھل گئی اور محبت وعشق کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اب وہ پوری قوت سے روشن ہوگئی.چنانچہ آپ قادیان گئے اور حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کر لی.تعلق اخلاص: حافظ صاحب کو لاہور میں کوئی موقع ملتا تو رات کوٹرین سے بٹالہ جاتے اور قادیان پہنچ جاتے.علی الصبح فجر کی نماز میں حضرت مسیح موعودؓ سے ملاقات کرتے.بارہا حضرت اقدس تعجب کرتے کہ آپ کب آئے.جب راتوں رات آنے کا علم ہوتا تو حضور بہت خوش ہوتے.آپ سرکاری ملازمت میں اوور سٹئیر تھے.پھر میو سکول آف آرٹس ( نیشنل کالج آف آرٹس) لاہور میں انسٹرکٹر مقرر ہوئے.اس عرصہ میں آپ نے کئی احمدی نوجوانوں کو ڈرائنگ ماسٹر کا تربیتی کورس کروایا.آپ مشرقی افریقہ بھی گئے.جہاں ملازمت کے ساتھ ساتھ خدمت دین میں مصروف رہے.

Page 281

258 وفات : آخری عمر میں حیدر آباد دکن جا کر رہائش اختیار کر لی اور وہیں ۱۹۲۵ء میں وفات پائی.اولاد: آپ کی بیٹی کی شادی حضرت امام الدین کے بیٹے عبد القدوس صاحب بی ایس سی انجینئر کے ساتھ ہوئی.ان کی اولاد مسلم ٹاؤن لاہور میں رہائش پذیر ہے.ماخذ: (۱) تاریخ احمدیت جلد ہفتم (۲) مضمون ” حافظ محمد اسحاق بھیروی مطبوعہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جون ۱۹۹۹ء (۳) بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحہ ۶۰-۶۱.☆ ۲۲۱ - حضرت میرزا اکبر بیگ صاحب کلانور بیعت : ۱۸۹۳ء.وفات : ۱۲ / جولائی ۱۹۲۷ء تعارف: حضرت مرزا اکبر بیگ رضی اللہ عنہ کلا نو ر ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام حضرت مرزا نیاز بیگ تھا.بیعت : آپ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ اور حضرت مرزا ایوب بیگ کے بھائی تھے.اس طرح باپ اور تین بیٹوں کا شمار۳۱۳ رفقاء میں ہوتا ہے آپ محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر تھے اور کمرمشانی ضلع میانوالی میں تعینات تھے.اولاد: آپ کے اکلوتے بیٹے حضرت مرزا مبارک احمد رفیق بانی سلسلہ تھے اور وہ بھی خلافت سے وابستہ رہے ہیں.وفات: آپ کی وفات ۱۲ جولائی ۱۹۲۷ء کو کلانور میں ہوئی اور وہیں تدفین ہوئی.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۲) اصحاب احمد جلد اول صفحه ۸۰-۸۶ (۳) آئینه صدق وصفا مصنفہ مرزا مسعود بیگ.☆ ۲۲۲.حضرت مولوی محمد یوسف صاحب.سنور بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت مولوی محمد یوسف سنوری رضی اللہ عنہ ولد کریم بخش صاحب سنور محلہ تنبواں علاقہ پٹیالہ کے رہنے والے تھے اور بطور مدرس ملازم تھے.آپ حضرت مولوی عبداللہ سنوری کے ماموں تھے.آپ نے ہی حضرت مولوی صاحب کو بتایا تھا کہ قادیان میں ایک بزرگ نے دس ہزار کا انعامی اشتہار دیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بڑا کامل ہے اس کی زیارت کے لئے جاؤ.

Page 282

259 بیعت : آپ کی بیعت ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کی درج ہے.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۱۷ ویں نمبر پر ہے.بیعت کے وقت آپ مدرس تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ نے جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شمولیت فرمائی حضور نے آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام ۸۴ ویں نمبر پر لکھا ہے.ازالہ اوہام میں حضور آپ کے متعلق فرماتے ہیں.(۲۰) حبی فی اللہ مولوی محمد یوسف سنوری میاں عبداللہ صاحب سنوری کے ماموں ہیں.بہت راست طبع نیک ظن پاک خیال آدمی ہیں.اس عاجز سے استقلال اور وفا کے ساتھ خلوص اور محبت رکھتے ہیں.“ ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 (۲) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 (۳) حیات احمد جلد اول صفحہ ۴۴۳ مطبوعہ نومبر ۱۹۳۸ء امرتسر (۴) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحه ۳۴۳ (۵) مضمون ”براہین احمدیہ کے مطالعہ سے احمدیت ، مطبوعه روزنامه الفضل مطبوعه روزنامه الفضل ربوه ۲۵ را پریل ۲۰۰۲ء ☆ ۲۲۳.حضرت میاں عبدالصمد صاحب سنور بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات: ۳۱ / جولائی ۱۹۳۰ء تعارف: حضرت میاں عبد الصمد رضی اللہ عنہ سنور محلہ مجاوراں ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام اللہ بخش صاحب تھا.آپ کا اصل نام علی محمد تھا اور عرف عبد الصمد تھا.آپ جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں ہے.شریک ہوئے.بیعت : آپ کی بیعت رجسٹر بیعت اولی کے مطابق ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آپ کا نام آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ میں شرکت اور چندہ دہندگان میں تحفہ قیصریہ میں ڈائمنڈ جوبلی کے شرکاء میں ذکر ہے.نوٹ : حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت اقدس کے معاصر علماء میں آپ کا ذکر کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کی.وفات : آپ کی وفات ۳۱ جولائی ۱۹۳۰ء کو ہوئی اور آپ کا وصیت نمبر ۱۷۴۵ ہے.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبرہ میں ہوئی.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) رجسٹر بیعت اولی مطبوعه تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۴۴ (۴) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء.

Page 283

260 ☆ -۲۲۴.حضرت منشی عطا محمد صاحب.سیالکوٹ بیعت : ابتدائی زمانہ میں.وفات : ۱۹۴۰ء تعارف: حضرت منشی عطا محمد رضی اللہ عنہ ولد شیخ نور محمد صاحب کلاه ساز سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.ڈاکٹر سرمحمد اقبال ( شاعر مشرق ) کے بڑے بھائی تھے.علامہ موصوف کی اعلی تعلیم میں آپ نے پوری طرح سر پرستی کی.آپ سب اوور سیئر کے طور پر ملازم تھے.آپ کے والد صاحب ( جو ۱۹۰۵ ء تک احمدی رہے ہیں ) کا نام شیخ نور محمد کلاہ ساز سیالکوٹ کے نام سے تحفہ قیصریہ میں ۲۷۲ نمبر پر درج ہے.بیعت: اس لئے آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر موجود ہے.سراج منیر میں چندہ دہندگان میں بھی حضرت بابو عطا محمد صاحب سب اوورسیئر سیالکوٹ درج ہے.وفات : آپ کی وفات ۱۹۴۰ء میں سیالکوٹ میں ہوئی.حضرت بابوصاحب نے علامہ سرمحمد اقبال کی تعلیم کے لئے خاص جد و جہد کی.اولاد: شیخ اعجاز احمد صاحب مرحوم معروف قانون دان اور وکیل آپ کا بیٹا ہے یہ خاندان کراچی میں منتقل ہو گیا.شیخ صاحب کی وفات اور تدفین کراچی میں ہی ہوئی.ان کی اولا د کراچی میں ہے.ماخذ: (۱) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) مظلوم اقبال (۵) اپنا گریبان چاک از ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال.☆ ۲۲۵.جناب شیخ مولا بخش صاحب.سیالکوٹ بیعت : یکم فروری ۱۸۹۲ء.وفات : ۵/ نومبر ۱۹۳۳ء تعارف: شیخ مولا بخش رضی اللہ عنہ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام شیخ نبی بخش صاحب تھا.آپ دو دروازہ سیالکوٹ میں بوٹ فروش تھے.ابتداً اہلحدیث خیالات سے متاثر تھے.سیالکوٹ کے بزرگان حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ، حضرت میر حامد شاہ صاحب نیز حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی - رابطہ تھا اور یہ احباب شیخ صاحب کے ہاں اپنی آمد و رفت رکھتے تھے.

Page 284

261 حضرت اقدس سے تعلق : حضرت مسیح موعود کے ایسے عاشق تھے کہ حضرت اقدس کا کوئی جلسہ ایسا نہیں تھا جس میں شریک نہ ہوئے ہوں.مباحثات اور مقدمات کے چشم دید واقعات سنایا کرتے تھے.حضرت اقدس کی کتابوں پر بڑا عبور حاصل تھا.عبارتوں کی عبارتیں از بر تھیں.ایک کتاب ” بشارات احمد“ کے مصنف بھی تھے.بیعت : آپ کی بیعت یکم فروری ۱۸۹۲ء کی ہے رجسٹر بیعت کے مطابق آپ کی بیعت ۳۱۴ نمبر پر ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر آئینہ کمالات اسلام میں شمولیت جلسہ سالانہ تحفہ قیصریہ میں ڈائمنڈ جوبلی کے جلسہ اور سراج منیر چندہ دہندگان کے سلسلہ میں فرمایا ہے.وفات: آپ کی وفات ۱۵/ نومبر ۱۹۳۳ء کو ہوئی.حضرت خلیفتہ اُسیح الاوّل کی وفات کے بعد نظام خلافت سے الگ ہو گئے اور غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۸ (۴) یا درفتگان حصہ دوم صفحه ۶۳ تا ۶۷ ☆ ۲۲۶.حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر ڈنگہ ولادت : ۱۸۵۶ء.بیعت : ۹ / جولائی ۱۸۹۱ء.وفات : ۱۵ ستمبر ۱۸۹۸ء تعارف: حضرت سید فصیلت علی شاہ رضی اللہ عنہ خاندان سادات کے چشم و چراغ تھے.آپ کی اصل سکونت مالو مہے تحصیل پسر ورضلع سیالکوٹ میں تھی.آپ خوارزمی بخاری سید تھے.آپ کے والد کا نام سید ہدایت علی شاہ صاحب تھا.آپ کی ولادت ۱۸۵۶ء کی ہے.بیعت کے وقت ڈنگہ ضلع گجرات میں ڈپٹی انسپکٹر پولیس تھے.آپ تین بھائی سید محمد علی شاہ صاحب ، سید احمد علی شاہ صاحب اور سید امیر علی شاہ صاحب تھے.خاندانی تعارف : آپ کا خاندان بطور صوفی خاندان مشہور تھا.آپکو بار ہابزرگان صوفیاء ومشائخ کی زیارت نصیب ہوئی اور بارہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے فیض یاب ہوئے.آپ نے اپنے کشوف و کرامات کا اپنی بیاض میں ذکر کیا ہے.جن میں سے بعض کا ذکر حضرت میر حامد شاہ صاحب نے کتاب ”واقعات ناگزیز میں کیا ہے.حضرت اقدس کے بارہ میں تحقیق اور بیعت: حضرت شاہ صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دریافت حال کے لئے اپنے محکمہ سے تین ماہ کی رخصت لی.ان دنوں حضرت اقدس حویلی سندھی خاں کو توالی امرتسر میں فروکش تھے.حضرت اقدس کے جولائی ۱۸۹۱ء کو دن کے دس بجے دیوان خانہ میں رونق افروز ہوئے.حضرت سید محمد علی شاہ اور حضرت سید احمد علی شاہ بھی آپ کے ساتھ امرتسر گئے تھے.حضرت اقدس نے واعظانہ تقریر شروع کی مگر حضرت شاہ صاحب پر نیند نے غلبہ کیا.آپ نے اٹھ کر منہ پر پانی بھی ڈالا لیکن پھر نیند کا غلبہ

Page 285

262 ہوا.دیکھا کہ ایک باغ میں داخل ہوتے ہیں.اندر ایک حوض ہے جو خشک تھا.پھر آپ جنوب کی طرف چلے گئے.وہاں الماریاں اور طاق بنے ہوئے ہیں اور آپ کے والد صاحب کھڑے ہیں.انہوں نے آپ سے فرمایا کہ یہ گھاس اور کتابیں اب طاق میں رکھ دو تعمیل ارشاد کی.فور اسر کو جھٹکالگا اور معا تفہیم ہوئی کہ تم پہلا علم اور حال بالائے طاق رکھو.چونکہ آپ کے والد صاحب آپ کے پیر طریقت بھی تھے.اُسی وقت حسب ایماء آنجناب حضرت مسیح موعود سے شرف بیعت حاصل کی اس کے بعد بالکل نیند نہ آئی.آپ کی شادی ۱۸۷۷ء میں حضرت حکیم سید میر حسام الدین صاحب کی بیٹی سے ہوئی تھی.اس سے ظاہر ہے کہ آپ کے حضرت اقدس سے قدیمی مراسم تھے.کیونکہ حضرت اقدس کا قیام حضرت حکیم سید میر حسام الدین کے ہاں ہوا کرتا تھا.۱۸۷۹ء میں محکمہ پولیس میں عارضی طور پر مقرر ہوئے اور پھر اپنی خدا دادلیاقت سے ۲۰ سال بعد انسپکٹر پولیس کے عہدے پر پہنچ گئے.بیعت : آپ کا نام رجسٹر بیعت اولی میں ۱۳۸ نمبر پر ہے.آپ نے ۹ / جولائی ۱۸۹۱ء کو بیعت کی.آپ نے جلسه ۱۸۹۲ء میں بھی شرکت کی.جس کا ذکر حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام میں فرمایا ہے.(۲۱) سید خصیلت علی شاہ ڈپٹی انسپکٹر پولیس کڑیانوالہ ضلع گجرات حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ایک تعزیتی خط میں حضرت حکیم سید میر حسام الدین رضی اللہ عنہ کو حضرت شاہ صاحب کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: سید فصیلت علی شاہ صاحب کو جس قد ر خدا تعالیٰ نے اخلاص بخشا تھا اور جس قد رانہوں نے ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کی تھی اور جیسے انہوں نے اپنی سعادت مندی اور نیک چلنی اور صدق اور محبت کا عمدہ نمونہ دکھایا تھا یہ باتیں عمر بھر کبھی بھولنے کی نہیں ہمیں کیا خبر تھی کہ اب دوسرے سال پر ملاقات نہیں ہوگی.“ ) مکتوبات احمدیہ جلد ۵ نمبر ۵ صفحه ۱۱۴ تا ۱۱۵، واقعات ناگزیر صفحه ۲۴۹-۲۵۰) ازالہ اوہام اور آئینہ کمالات اسلام تحفہ قیصریہ اور سراج منیر میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں ،جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور چندہ دہندگان میں بھی آپ کا ذکر کیا ہے.اسی طرح حضرت مولوی غلام علی رہتاسی کی بیماری کا تار موصول ہونے پر فرمایا: ”ہماری جماعت جواب ایک لاکھ تک پہنچی ہے سب آپس میں بھائی ہیں اسی لئے اتنے بڑے کنبہ میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی نہ کوئی دردناک آواز نہ آتی ہو.جو گزر گئے وہ بھی بڑے ہی مخلص تھے.جیسے ڈاکٹر بوڑے خاں، سید فصیلت علی شاہ، ایوب بیگ منشی جلال الدین خدا ان سب پر رحم کرے.“ (اخبار الحکم قادیان ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۲ء)

Page 286

263 وفات : آپ کو شوگر کی تکلیف تھی.کھاریاں قیام کے دوران آپ بیمار ہوئے.۱۵ارستمبر ۱۸۹۸ء کو ۴۲ سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے.گجرات میں آپ کا جنازہ پڑھا گیا حضرت مسیح موعود نے بھی نماز جنازہ غائب ادا کی.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ ( ۴ ) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۵ (۶) اصحاب احمد جلد ۱ (۷) مضمون ”حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب مطبوعه ماه نامه تشخیز الاذہان مارچ ۲۰۰۱ء (۸) مضمون ” حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب سیالکوٹی ، مطبوعہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر ۲۰۰۱ء(۹) مضمون حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب روز نامه الفضل ربوه ۲۴۰ ستمبر ۱۹۹۸ء ☆ ۲۲۷.حضرت منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر گورداسپور بیعت : ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.وفات : ۱۱/جنوری ۱۹۰۹ء تعارف اور حضرت اقدس سے بیعت : حضرت منشی رستم علی رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام شہاب خان صاحب تھا.آپ مدار ضلع جالندھر کے ایک معزز اور شریف خاندان سے تعلق رکھتے تھے.ابتدا محکمہ پولیس میں ملازم ہوئے اور ترقی کر کے کورٹ انسپکٹر کے عہدہ تک پہنچے.براہین احمدیہ کے مطالعہ نے ان کی کایا ہی پلٹ دی اور حضرت اقدس مسیح موعود کے ارادتمندوں میں شامل ہو گئے.سلسلہ کی ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.حضور کو آپ کے نام کا الہام بھی ہوا یعنی ” چوہدری رستم علی آپ کی بیعت ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو لدھیانہ میں ہوئی جبکہ آپ کا نگڑہ میں متعین تھے.جہاں پتہ علاقہ قیصری ڈپٹی انسپکٹر پولیس کا نگر تحریر ہے.رجسٹر بیعت اولی کے مطابق بیعت کا اندراج ، اویں نمبر پر ہے.تعلق اخلاص: ملازمت کے آخری ایام میں گورداسپور تبدیل ہو کر آگئے اور اکثر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضری دیتے رہے.ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد قادیان میں حضرت اقدس کے مہمانوں کی خدمت کرتے تھے.حضرت اقدس کے دل میں آپ کے لئے بہت محبت تھی جس کا اظہار آپ کے حضرت اقدس کے نام مکتوبات میں ملتا ہے ۱۸۸۶ء میں حضرت اقدس نے حصول نشان ( جو بعد میں پیشگوئی مصلح موعود کی صورت میں ظاہر ہوا) کے لئے جب سفر کا ارادہ کیا تو اس سفر کی اطلاع بعض چنیدہ دوستوں کو دی جب میں حضرت چوہدری صاحب بھی شامل تھے.حضور نے آپ کے نام ایک مکتوب محررہ ۱۳ جنوری ۱۸۸۶ء میں تحریر فرمایا.”اس خاکسار نے حسب ایماء خداوند کریم اس شرط سے سفر کا ارادہ کیا ہے شب وروز تنہا ہی رہے اور کسی کی ملاقات نہ ہو اور خداوند کریم جلشانہ نے اس شہر کا نام بتا دیا ہے جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہئے اور وہ ہوشیار پور ہے آپ کسی پر

Page 287

264 ظاہر نہ کریں کہ بجز چند دوستوں کے اور کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : ازالہ اوہام میں حضرت اقدس نے آپ کا ذکر اپنے مخلصین اور چندہ دہندگان میں بھی فرمایا ہے.(۲۴) حسی فی اللہ نشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے یہ ایک جوان صالح اخلاص سے بھرا ہوا میرے اول درجہ کے دوستوں میں سے ہے ان کے چہرے پر ہی علامات غربت و بے نفسی و اخلاص ظاہر ہیں.کسی ابتلا کے وقت میں نے اس دوست کو منتر لزل نہیں پایا اور جس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے میری طرف رجوع کیا ، اس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں بلکہ روز ابزاں ہے.وہ دور و پیہ چندہ اس سلسلہ کے لئے دیتے ہیں.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ ص ۱۵۳۶) اسی طرح آسمانی فیصلہ میں پہلے جلسہ سالانہ میں شرکت، آئینہ کمالات اسلام، تحفہ قیصریہ، سراج منیر، کتاب البریہ اور ملفوظات میں مختلف مواقع پر آپ کے اخلاص، چندہ دہندگان ، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شرکت اور پُر امن جماعت میں ذکر فرمایا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود نے آپ کی نسبت تحریر فرمایا کہ: آپ اول درجہ کے دوستوں میں سے ہیں کسی ابتلاء کے وقت متزلزل نہیں پائے گئے.“ وفات : آپ کی وفات اارجنوری ۱۹۰۹ء کو ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائین جلد نمبر ۲ (۲) ازالہ اوہام روحانی خزائین جلد نمبر۳ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائین جلد نمبر ۵ (۴) تحفہ قیصریہ روحانی خزائین جلد نمبر ۱۲ (۵) سراج منیر روحانی خزائین جلد نمبر۱۲ (1) ملفوظات (۷) تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۴۳ (۱۰) تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۱۷ (۱۱) حیاتِ احمد صفحه ۳۴.☆ ۲۲۸.حضرت سید احمد علی شاہ صاحب.سیالکوٹ بیعت : ۲۰ فروری۱۸۹۲ء بمقام سیالکوٹ تعارف: حضرت سید احمد علی شاہ رضی اللہ عنہ مالوم بے تحصیل پسر ورضلع سیالکوٹ کے تھے آپ سید ہدایت علی شاہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.آپ حضرت سید فصیلت علی شاہ کے بھائی تھے.آپ سفید پوش کے لقب سے بھی مشہور تھے.بیعت : آپ کی بیعت ۲۰ فروری ۱۸۹۲ء کی ہے رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کا نام ۲۷۹ نمبر پر درج ہے.جہاں سید احمد علی شاہ ولد ہدایت شاہ سید ساکن موضع ساکن ما لو مبے تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ درج ہے اور آپ کی اہلیہ احمد بی بی صاحبہ کی بیعت ۷فروری ۱۸۹۲ء کی ہے.

Page 288

265 حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے حقیقۃ الوحی میں اپنی الہامی پیشگوئی پچیس یوم“ جو ایک ہولناک تعجب انگیز گولہ آسمانی کا نشان ظاہر ہونے پر کی تھی اس کے متعلق احباب کے تصدیقی خطوط درج فرمائے ہیں.پہلا تصدیقی مکتوب حضرت شاہ صاحب کا ہی درج ہے.کتاب البریہ میں پُرامن جماعت کے ضمن میں بھی آپ کا ذکر فرمایا ہے.ماخذ : (۱) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) مضمون ” حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب مطبوعه روزنامه الفضل ربوه ۲۴ رستمبر ۱۹۹۸ء (۴) ماہنامہ انصار اللہ نومبر ۲۰۰۱ء (۵) ماہنامہ تنخحید الاذہان ربوہ مارچ ۲۰۰۱ ء (۶) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۵۹ ۲۲۹.حضرت ماسٹر غلام محمد صاحب.سیالکوٹ بیعت : ۹ جولائی ۱۸۹۱ء تعارف و بیعت : حضرت ماسٹر غلام محمد رضی اللہ عنہ سیالکوٹ میں محلہ حکیم میر حسام الدین کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت 9ر جولائی ۱۸۹۱ء کی ہے.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۱۳۹ نمبر پر ہے.جہاں منشی غلام محمد ولد فضل الدین ساکن سیالکوٹ محلہ میر حسام الدین تحریر ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر ازالہ اوہام میں اپنے مخلصین اور آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ کے شرکاء میں کیا ہے.من الرحمن میں حضرت اقدس نے ایسے احباب میں آپ کا ذکر شکریہ کے ساتھ تحریر کیا ہے جنہوں نے زبانوں کا اشتراک ثابت کرنے کے لئے مدد دی ہے.حضرت اقدس نے فرمایا ہے ان مردان خدا نے بڑی بہادری سے اپنے عزیز وقتوں کو ہمیں دیا ہے اور دن رات بڑی محنت اور عرق ریزی اٹھا کر اس عظیم الشان کام کو سرانجام دیا ہے.ہر ایک ان میں سے الہی تمغہ پانے کا مستحق ہے.“ (نوٹ) آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) منن الرحمن روحانی خزائن جلد ۹ (۴) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۲۵۵.۲۳۰.حضرت حکیم محمد دین صاحب.سیالکوٹ بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت حکیم محمد دین رضی اللہ عنہ سیالکوٹ کا نام حضرت اقدس نے انجام آتھم کی فہرست ۳۱۳ میں درج فرمایا ہے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.

Page 289

266 (نوٹ) آپ کے مزید تفصیلی سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.☆ ۲۳۱.حضرت میاں غلام محی الدین صاحب.سیالکوٹ بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت میاں غلام محی الدین رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام حاجی محمد را تھر تھا.آپ بانڈی پورہ سری نگر مقبوضہ کشمیر کے رہنے والے تھے آپ کا پیشہ تجارت تھا.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا نام کتاب البریہ میں پر امن جماعت کے ضمن میں کیا ہے.اولاد: آپ کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں.آپ کے ایک بیٹے عبدالکریم جموں میں آئل انجن انجینئر تھے.ان کے ایک پوتے مکرم محمداکبر صاحب را تصر ریٹائر ڈ ڈپٹی ناظم محکمہ جنگلات دار العلوم غربی ربوہ میں مقیم ہیں.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) آپ کے پوتے مکرم عبدالکریم صاحب کے بیٹے ) مکرم محمد اکبر راتھر ریٹائر ڈ ڈپٹی ناظم جنگلات سکنہ دار العلوم غربی ربوہ نے یہ مختصر احوال بیان کئے.☆ ۲۳۲.حضرت میاں عبدالعزیز صاحب.سیالکوٹ بیعت : ۲۲ را پریل ۱۸۹۲ء.وفات: ۹ نومبر ۱۹۳۶ء تعارف: حضرت میاں عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.حضرت اقدس جب سیالکوٹ آئے تو حضرت حکیم حافظ مولانا نورالدین کا قیام بابوعبد العزیز کے مکان پر ہوا.بیعت : آپ نے ۱۸۹۲ء میں بیعت کی.جہاں ۲۳۹ نمبر آپ کی بیعت کا اندراج پر سابق فارسٹر جنگلات پنجاب ساکن شہر سیالکوٹ محلہ خیمہ دوزاں متصل مسجد حیات لدھر تحریر ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر تحفہ قیصریہ اور سراج منیر میں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی اور چندہ دہندگان میں کیا ہے.

Page 290

267 وفات : آپ کی وفات ۹ نومبر ۱۹۳۶ء کو ہوئی.آپ کی وصیت نمبر ۴۳۸۵ ہے.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.اولاد: آپ کے بیٹے ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ پر نسپل طبیہ کالج علی گڑھ تھے.ماخذ: (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۳۰.۳۱ (۴) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۶۱ (۵) تاریخ احمدیت جلد هشتم صفحه ۳۲۳ (۶) روزنامه الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۳۶ء.☆ ۲۳۳.حضرت منشی محمد دین صاحب.سیالکوٹ بیعت : ۱۸۹۱ء تعارف و بیعت : حضرت منشی محمد دین رضی اللہ عنہ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.آپ اپیل نولیس تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی تھی.آپ نے ۱۸۹۱ء کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی تھی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آسمانی فیصلہ، ازالہ اوہام ، آئینہ کمالات اسلام ، کتاب البریہ اور سراج منیر میں اپنے مخلصین اور جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں اور ڈائمنڈ جوبلی میں اور پُرامن جماعت میں ذکر کیا ہے.حضور نے حقیقۃ الوحی میں اپنی ایک پیشگوئی کے پورا ہونے کے متعلق حضرت منشی محمد دین صاحب کا تصدیقی مکتوب بھی درج فرمایا ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ (۳) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳(۵) سراج منیر روحانی خزائن جلد۱۲ (۶) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲.۲۳۴.حضرت منشی عبدالمجید صاحب.اوجله گورداسپور بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت: حضرت منشی عبدالمجید رضی اللہ عنہ او له ضلع گور اسپور سے تعلق رکھتے تھے.حضرت منشی عبدالعزیز

Page 291

268 اوجلوی پٹواری سیکھواں ( یکے از ۳۱۳) آپ کے تایا تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھانے کا شرف حاصل ہوا.(نوٹ) آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۸۹ ☆ ۲۳۵.حضرت میاں خدا بخش صاحب.بٹالہ بیعت: یکم مئی ۱۸۸۹ء تعارف و بیعت : بالہ میں اس نام کے کسی بزرگ کا ذکر نہیں ملتا البتہ حضرت اقدس کی بیعت کے ریکارڈ میں نمبر 9 پر مولوی خدا بخش جالندھری کا نام ہے آپ کی بیعت یکم مئی ۱۸۸۹ء کی ہے.حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی ( یکے از ۳۱۳) جن ایام میں ابتلاء اور امتحان کے دور میں تھے اور قادیان سے ان کے والد صاحب آپ کو دوسری مرتبہ لے گئے تھے اور اس پر ایک عرصہ گزر گیا تو قادیان کے بزرگوں اور دوستوں نے آپ کی خیریت معلوم کرنے کے لئے دریافت حال کی غرض سے حضرت بھائی جی کی تلاش میں آپ کو بھیجا.طویل اور سخت سفروں کی تکالیف برداشت کر کے ایک عرصہ کے بعد حضرت اقدس کے پاس واپس آئے تھے اور حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی رضی اللہ عنہ کے متعلق صرف اتنی خبر پا کر کہ عبدالرحمن زندہ ہے اور دینِ حق پر قائم ہے تصدیق لے کر قادیان گئے.حضرت میاں صاحب عمر رسیدہ بزرگ تھے.اپنے اندر تبلیغ کا ایک جوش رکھتے تھے اور عموماً سیا حانہ زندگی کے عادی اور واعظ بھی تھے.حضرت ماسٹر عبدالرحمن جالندھری کے قبول حق میں ان کی مساعی کا دخل تھا.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) رجسٹر بیعت از تاریخ احمدیت جلد اص ۳۴۷ (۲) سوانح حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی ص۹۴-۹۷ ۲۳۶.حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب حاجی پور کپور تھلہ ولادت : ۱۸۷۰ء.بیعت: مارچ ۱۸۹۱ء.وفات: یکم دسمبر ۱۹۳۰ء تعارف: حضرت منشی حبیب الرحمن رضی اللہ عنہ میرٹھ اتر پردیش کے ایک قصبہ سراوہ کے رہنے والے تھے.آپ کی

Page 292

269 ولادت سال ۱۸۷۰ ء کو ہوئی.ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی.بڑے بھائی کے ساتھ حفظ قرآن شروع کیا.ساتھ ہی مروجہ علم کا درس اور عربی کی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے.اس دوران آپ کے تایا نے اپنے پاس بلوا کر مدرسہ میں انگریزی تعلیم کے لئے داخل کروایا.آپ کے تایا کا نام حاجی محمد ولی اللہ صاحب تھا.آپ بڑے ولی اللہ اور زاہد و عابد تھے.حضرت اقدس کی بیعت : حاجی محمد ولی اللہ صاحب نے ۱۸۸۴ء میں پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود کے اشتہار براہین احمدیہ کے متعلق پڑھ کر حضرت اقدس سے تعارف حاصل کیا اور خط و کتابت کے ذریعے حضور سے رابطہ رکھا.آپ ہی کے ذریعہ سے احباب کپورتھلہ احمدیت سے متعارف ہوئے.منشی حبیب الرحمن صاحب بھی حاجی محمد ولی اللہ صاحب کے ذریعہ سے حضرت اقدس سے متعارف ہوئے.( حاجی ولی اللہ صاحب، حضرت شیخ محمد احمد مظہر کے پھوپھا تھے.مگر حاجی صاحب قبول احمدیت کی سعادت سے محروم رہے.آپ نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ لودھیا نہ کے ایک چوڑے بازار سے ایک شخص پکار کر کہہ رہا ہے کہ جلد آؤ توقف کیوں ہے“ اس خواب سے آپ کا دل نوریقین سے بھر گیا آپ مارچ ۱۸۹۱ء میں بیعت حضرت اقدس سے مشرف ہوئے.رجسٹر بیعت میں آپ کا نام ۲۱۹ نمبر پر ہے.حضرت اقدس کی رفاقت میں سفر : مقدمات کی پیشیوں پر جالندھر، لودھیانہ، امرتسر جاتے رہے.آپ کی آمد کی اطلاع ہونے پر حضرت اقدس موسم کے مطابق شربت یا چائے اٹھائے ہوئے شگفتہ چہرہ ہشاش بشاش باہر تشریف لے آتے اور کبھی کسی کے ہاتھ بھجوا دیتے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : بعض الہامات کے نزول کے دوران حضرت اقدس کو دیکھنے کی توفیق ملی.آپ کا ذکر حضرت اقدس نے اپنی کتب مثلاً ازالہ اوہام ، آسمانی فیصلہ آئینہ کمالات اسلام، نزول اسیح اور کتاب البریہ میں پہلے جلسہ سالانہ میں شریک ہونے ، چندہ دہندگان اور پر امن جماعت کے ضمن میں کیا ہے.وفات : آپ نے یکم دسمبر ۱۹۳۰ء کو ۷ سال کی عمر میں وفات پائی اور قادیان میں تدفین ہوئی.اولاد مکرم شیخ خلیل الرحمن صاحب سیکرٹری ضیافت کراچی آپ کی اولاد میں سے تھے.ماخذ: (۱) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۳۵۴ (۲) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۳) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۴) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۵) نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ (۶) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۷) روایات ظفر ( حضرت منشی ظفر احمد) از حضرت شیخ محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ سابق امیر ضلع فیصل آباد (۸) مضمون ”حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب“ مطبوعه روزنامه الفضل ربوه ۱۳/جون ۲۰۰۰ (۹) مضمون مطبوعه روزنامه الفضل ربوه ۱۴ /اکتوبر ۱۹۹۸ء.

Page 293

270 ☆ ۲۳۷.حضرت محمد حسین صاحب لنگیاں والی.گوجرانوالہ بیعت ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت: حضرت محمد حسین رضی اللہ عنہ لنگیاں والی ضلع گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے تھے.حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب ( یکے از ۳۱۳) کے ذریعہ احمدیت سے تعارف حاصل ہوا.آپ کا مختصر ذکر ” اصحاب احمد جلد ششم میں ہے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.ماخذ : (۱) انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) اصحاب احمد جلد ششم (۳) بیان زبیر گل صاحب سابقه کارکن دفتر P.S ربوہ.۲۳۸.جناب منشی زین الدین محمد ابراہیم.انجینئر بمبئی بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات فروری ۱۹۲۶ء تعارف و بیعت : جناب منشی زین الدین محمد ابراہیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے مخلصوں میں سے تھے.بمبئی میں انجینئر تھے.حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا ذکر کیا ہے.گویا اس تصنیف کے وقت آپ بیعت کر چکے تھے.آپ ایک کپڑے کی مل میں انجینئر تھے.عمر کے آخری حصے میں بہت اونچا سننے لگے تھے.آپ نے خلافت ثانیہ کی بیعت بھی کی تھی لیکن بعد میں غیر مبائعین کے ہم خیال ہو گئے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب انجام آتھم میں آپ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ”ہمارے مخلص دوست منشی زین الدین محمد ابراہیم صاحب انجینئر بمبئی وہ ایمانی جوش رکھتے ہیں کہ میں گمان نہیں کر سکتا کہ تمام بمبئی میں ان کا کوئی نظیر بھی ہے." حضرت اقدس نے سراج منیر میں دنیا کو اپنے الہام يَنْصُرُكَ رِجَالُ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِّنَ السَّمَاءِ کے تحت اپنے مخلصین کی مثال دیتے ہوئے فرمایا ” کہاں ہے بمبئی جس میں منشی زین الدین ابراہیم جیسے مخلص پُر جوش طیار کئے گئے.اسی طرح حضور آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی میں اپنے محبین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.و من الاحباء في الله منشی زین الدین محمد ابراهیم بمبئی“ کتاب البریہ میں آپ کا ذکر پُر امن جماعت کے ضمن میں فرمایا ہے.سراج منیر میں چندہ مہمان خانہ کے

Page 294

271 ضمن میں بھی آپ کا نام درج ہے.وفات : آپ کی وفات ۱۹۲۶ء میں ہوئی.وفات کے وقت غیر مبائع تھے اور نظام خلافت سے وابستہ نہ تھے.آپ کے متعلق حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے رویا میں دیکھا کہ مولوی عبد الکریم مرحوم آئے ہیں.زین الدین صاحب کو لے جانا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے اس رویا کی تعبیر کی جو نشی صاحب کی وفات پر دلالت کرتی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کا جنازہ پڑھا.جنازہ کے موقع پر آپ نے فرمایا: میرے زین الدین صاحب) یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے مخلصوں میں سے تھے.بمبئی میں انجینئر تھے.اب ضعیف العمر تھے بہت اونچا سنتے تھے لیکن بعد میں سیٹھ اسمعیل آدم صاحب کے سبب غیر مبائعین کے ہم خیال ہو گئے.چونکہ خود وہ اونچا سنتے تھے اور سیٹھ اسمعیل آدم کے ساتھ ان کے تعلقات تھے.اس لئے سیٹھ صاحب ہی ان کے کان تھے.سیٹھ صاحب بہت مخلص تھے اور اب بھی وہ مخلص ہیں لیکن جب وہ کسی حد تک پیغامی ہو گئے تو یہ بھی کچھ ست ہو گئے اور ادھر متوجہ ہو گئے.نزدیک غیر مبائعین کا جنازہ پڑھنا جائز ہے.زین الدین کے متعلق بھی میں نے دیکھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم آئے ہیں.میں نے دریافت کیا آپ کہاں.فرمانے لگے میں بھی آیا ہوں اور حضرت صاحب بھی آئے ہیں.زین الدین کو لے جانا ہے.میں نے اس سے سمجھ لیا کہ رویا ان کی موت پر دلالت کرتی ہے.ان کی عمر ۹۵ یا سو سال کے قریب تھی حضرت صاحب کے دیرینہ مخلص تھے...چند لوگ جنہیں حضرت صاحب بہت پیار کرتے تھے.ان میں سے ایک زین الدین صاحب بھی تھے.“ (خطبه جمعه ۶ ار فروری ۱۹۲۶ء) ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) انجام آتھم روحانی خزائن جلد۱۱ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) خطبات محمود خطبه جمعه ۱۶ / فروری ۱۹۲۶ء مطبوعہ جلد نمبر، اصفحه ۶۱ ۶۲ (۵) اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۵۲۵ -

Page 295

272 ☆ ۲۳۹.حضرت سید فضل شاہ صاحب.لاہور ولادت ۱۸۶۰ء.بیعت ۲ / جنوری ۱۸۹۱ء.وفات یکم فروری ۱۹۲۴ء تعارف: حضرت سید فضل شاہ رضی اللہ عنہ ولد سید محمد شاہ صاحب بیعت کے وقت محلہ ستھاں لاہور میں رہتے تھے.آپ اصل متوطن ریاست جموں کے تھے.آپ کی ولادت سال ۱۸۶۰ء کی ہے.ابتداء میں کچھ عرصہ ریاست جموں و کشمیر میں ملازمت کی.آپ سید ناصر شاہ صاحب بارہ مولا ( یکے از ۳۱۳) کے بڑے بھائی تھے.بیعت : رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت نمبر ۲۱۴ پر ۲ جنوری ۱۸۹۱ء میں درج ہے.جب کہ آپ کی اہلیہ صاحبہ کی بیعت ۱۸۹۸ء کی ہے.حضرت اقدس سے تعلق خاص : ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح موعود کے چا زاد بھائی مرزا امام الدین صاحب نے حضور کے گھر کے آگے دیوار ایسے طور پر کھینچ دی کہ اس سے مسجد مبارک میں آنے جانے کا رستہ رک گیا.ایک روز حضور بہت تشویش میں تھے کہ سلسلہ الہام شروع ہوا.حضور نے اس الہام کی کیفیت حقیقۃ الوحی میں یوں درج فرمائی ہے.مجھے یاد ہے کہ اس وقت سید فضل شاہ صاحب لاہوری برادر سید ناصر شاہ صاحب او ورسئیر متعین بارہ مولا کشمیر میرے پاؤں دبارہا تھا اور دوپہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا.میں نے سید صاحب کو کہا مقدمہ کی نسبت الہام کے بارہ میں ہے.آپ جیسے جیسے یہ الہام ہوتا جائے لکھتے جائیں.چنانچہ انہوں نے قلم دوات اور کاغذ لے لیا.پس ایسا ہوا کہ ہر یک دفعہ غنودگی کی حالت طاری ہو کر ایک ایک فقرہ وحی الہی کا جیسا کہ سنت اللہ ہے زبان پر جاری ہوتا تھا.پھر جب ایک فقرہ ختم ہو جاتا تھا اور لکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دوسرا فقرہ وحی الہی کا زبان پر جاری ہو جاتا تھا.یہاں تک کہ گل وحی الہی نازل ہو کر سید فضل شاہ صاحب لاہوری کی قلم سے لکھی گئی.اس وحی کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں : عجیب بات ہے کہ اس الہام میں بشارت فضل کے لفظ سے شروع ہوتی ہے اور جس کے ہاتھ سے بوقتِ نزول یہ وحی قلمبند کرائی گئی اس کا نام بھی فضل ہے" سیرت المہدی کی ایک روایت جو حضرت مولوی عبداللہ سنوری سے مروی ہے ایک موقع زیادہ مہمان آ گئے اور کھانا کم تھا.حضرت اقدس نے زردہ والے برتن کے بارہ میں فرمایا کہ ڈھانپ دیں اور خود حضرت اقدس نے

Page 296

273 سب مہمانوں کو دیا.سید فضل شاہ صاحب اس وقت موقع پر موجود تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں: حبی فی اللہ سید فضل شاہ صاحب لاہوری اصل سکنہ ریاست جموں نہایت صاف باطن اور محبت اور اخلاص سے بھرے ہوئے اور کامل اعتقاد کے نور سے منور ہیں اور مال و جان سے حاضر ہیں اور ادب اور حسن ظن جو اس راہ میں ضروریات سے ہے ایک عجیب انکسار کے ساتھ ان میں پایا جاتا ہے.وہ تہ دل سے کچی اور پاک اور کامل ارادت اس عاجز سے رکھتے ہیں اور لہی تعلق اور محب میں اعلیٰ درجہ انہیں حاصل ہے اور یک رنگی اور وفاداری کی صفت ان میں صاف طور پر نمایاں ہے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۲) حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں پر امن جماعت کے ضمن میں بھی ذکر فرمایا ہے.وفات : آپ کی وفات خلافت ثانیہ کے دور میں یکم فروری ۱۹۲۴ء کو ہوئی.آپ کی وصیت نمبر ۱۵۰ ہے.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں قطعہ نمبر ۳ حصہ نمبر ۳ میں ہوئی.آپ کی اہلیہ صاحبہ ۱۶ جنوری ۱۹۶۱ء کو وفات پائیں.اولاد: آپ کی اولا دڈاکٹر سید عنایت اللہ شاہ صاحب ٹیمپل روڈ لاہور تھے.(وفات: ۹؍ دسمبر ۱۹۷۹ء) ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) سیرت المہدی حصہ اوّل (۵) لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۱۰۷ ، ۱۰۸ (۶) مضمون روزنامه الفضل ۲۱ رمئی ۱۹۸۰ء از کرنل نور احمد صاحب کینیڈا.(۷) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۴.

Page 297

274 ☆ ۲۴۰.حضرت سید ناصر شاہ صاحب اور سیر اوڑی کشمیر بیعت : ۱۸۹۱ء.وفات: یکم جنوری ۱۹۳۶ء تعارف: حضرت سید ناصر شاہ رضی اللہ عنہ کو حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت میں براہین احمدیہ حصہ چہارم کی اشاعت کے زمانہ سے حاضری کی سعادت حاصل ہے.آپ حضرت اقدس کی قبولیت دعا کے مجسم نشان تھے.آپ ڈویژنل افسر گلگت کے دفتر میں اوورسئیر تھے.آپ سید فضل شاہ ( یکے از ۳۱۳) کے برادر حقیقی تھے.آپ نہایت وجیہہ اور خوش مزاج تھے.بیعت : ایک دفعہ آپ کشمیر میں تھے کہ حج بیت اللہ کے ارادہ سے روپیہ جمع کیا.حج کے لئے تیار تھے کہ آپ کو خواب میں بتلایا گیا کہ حضرت مسیح موعود کو آپ کی ضرورت ہے.آپ نے ۱۸۹۱ء میں بیعت کی.کتاب آسمانی فیصلہ میں آپ کا ذکر ہے.قادیان آمد اور حضرت اقدس سے اخلاص کا تعلق : جب آپ قادیان تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ نزول اسیح کا مسودہ تیار ہے.مگر روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے اشاعت التواء میں پڑی ہے.آپ نے یہ سن کر اس وقت ڈیڑھ ہزار روپیہ جو آپ کے پاس موجود تھا.حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کر دیا اور عرض کی کہ حضور میں کشمیر جا کر طباعت کے لئے باقی جس قدر روپیہ کی ضرورت ہے وہ بھی روانہ کر دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے: در حقیقت یہ نوجوان مخلص نہایت درجہ اخلاص رکھتا ہے اور قریب دو ہزار روپیہ کے یا زیادہ اس سے اپنی محبت کے جوش سے دے چکا ہے.“ حضرت سید ناصر شاہ کا بیان ہے کہ یہ ان کے بارہ میں ہے ایک دفعہ حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب نے آپ کی گردن میں ہاتھ ڈال کر فرمایا تھا.شاہ صاحب، حضرت صاحب جس طرح آپ کے ساتھ محبت کرتے ہیں اسے دیکھ کر خدا کی قسم ہمیں تو رشک آتا ہے.احکم قادیان ۱۰ را اگست ۱۹۰۲ء میں ذکر ہے.جب شاہ صاحب حضرت اقدس کے پاؤں دبانے لگے تو حضرت اقدس نے فرمایا آپ بیٹھ جائیں.شاہ صاحب دیر تک پاؤں دبانا چاہتے تھے حضور نے پھر فرمایا آپ بیٹھ جائیں.الآمُرُ فَوق الادب شاہ صاحب شہ نشین کے اوپر بیٹھ گئے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آسمانی فیصلہ میں جلسہ سالانہ کے شرکا ء اور کتاب البریہ میں اور پر امن جماعت کے ضمن حضرت اقدس نے ذکر کیا ہے.وفات : آپ کی وفات یکم جنوری ۱۹۳۶ء کو ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.

Page 298

275 ماخذ: (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) اخبار الحکم قادیان ۱۰ / اگست ۱۹۰۲ ۱۴ / جنوری ۱۹۳۵ء (۵) ملفوظات جلد دوم (۶) مضمون عالم روحانی کے لعل و جواہر ( نمبر ۱۷۹) از روزنامه الفضل ربوه مورخه ۳۰ /اکتوبر ۲۰۰۱ (۱) فهرست وفات یافتگان بہشتی مقبره ☆ ۲۴۱.حضرت منشی عطا محمد صاحب چنیوٹ بیعت : ۱۸۹۵ء.وفات ۱۹۰۹ء تعارف و بیعت : حضرت منشی عطا محمد رضی اللہ عنہ چنیوٹ کے مشہور وہرہ خاندان میں سے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام حافظ محمد حیات صاحب تھا.آپ تا جر اور اشکام فروش تھے.وفات : آپ نے ۱۹۰۹ء کو وفات پائی.آپ کا وصیت نمبر ۱۹ ہے.منشی صاحب محترم شیخ شمس الدین صاحب ولد شیخ حاجی عمر حیات صاحب کے خسر تھے.آپ کی بیعت ۱۸۹۵ء کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں پُرامن جماعت میں آپ کا ذکر کیا ہے.اولاد: آپ کی بیٹی حضرت اللہ جوائی صاحب صحابہ تھیں جو محترم شیخ شمس الدین کی اہلیہ تھیں جن سے ان کی دو بیٹیاں اور تین بیٹے تھے.نوٹ : آپ کے مزید حالات معلوم نہیں ہو سکے.ماخذ: (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۳۶۶ (۳) سرزمین ربوہ اور اس کے ماحول کا تاریخی اور روحانی پس منظر الفضل ۲۱ ستمبر ۲۰۰۲ء (۴) اخبار بدر ۱۸ / فروری ۱۹۰۹.☆ ۲۴۲.حضرت شیخ نوراحمد صاحب جالندھر حال ممباسه بیعت یکم فروری ۱۸۹۲ء.وفات ۲۹ جنوری ۱۹۳۶ء تعارف و بیعت : حضرت شیخ نور احمد رضی اللہ عنہ ولد غلام غوث جالندھر شہر کے رہنے والے تھے.آپ نے یکم فروری ۱۸۹۲ء میں بیعت کی رجسٹر بیعت میں ۲۱۹ نمبر پر آپ کا نام درج ہے.حضرت اقدس سے تعلق اخلاص : یہ ۱۸۹۷ء تصنیف ”انجام آتھم سے پہلے کا واقعہ ہے جسے حضرت پیر سراج

Page 299

276 الحق صاحب نعمانی نے اپنی کتاب میں درج فرمایا ہے اور اس میں حضرت شیخ صاحب کا بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں آنے کا تذکرہ ہے: ایک روز کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کو دوران سر ہوا میاں قطب الدین مرحوم ( یکے از ۳۱۳) ساکن کوٹلہ فقیر کو بلوایا اور میں پاس بیٹھا ہوا تھا.آپ کا سرد بار ہا تھا.فرمایا تیل لگا کر ہماری پنڈلیوں کی مالش کرو.سر میں درد بہت ہے.ہم دونوں آپ کی پنڈلیوں کی مالش کرنے لگے.اس عرصہ میں شیخ نور احمد صاحب ضلع جالندھر کے رہنے والے آگئے.وہ بھی آپ کی پنڈلیوں کی مالش میں شامل ہو گئے.“.نوٹ: آپ کے مزید حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) رجسٹر بیعت اولی تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۸ (۲) تذکرۃ المہدی صفحه ۵۲ (۳) تاریخ احمدیت جلد هشتم صفحہ ۳۲۱.☆ ۲۴۳.جناب منشی سرفراز خانصاحب.جھنگ بیعت : ۱۸۹۱ء.وفات ۱۹۴۵ء تعارف و بیعت : آپ ملہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے.والد صاحب کا نام چوہدری حسین بخش ملہی تھا.ضمیمہ انجام آتھم میں حضرت منشی سرفراز خاں صاحب آف جھنگ ذکر ہے.آپ دراصل بدوملہی کے رہنے والے تھے.مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب انصاری بیان کرتے ہیں کہ میں ان کے بیٹے مکرم چوہدری عبدالحق صاحب سے ایک دو بار سنا کہ جب میرے والد صاحب نے بیعت کی تو ہمارے دادا نے ان کی شدید مخالفت کی اور انہیں گھر سے نکال دیا اور آپ کچھ سالوں کے لئے چنیوٹ (جھنگ) میں ملازمت کرتے رہے.اسی نسبت سے ان کے نام کے ساتھ جھنگ لکھا گیا.بیعت کے بارہ حضرت مولوی قطب الدین صاحب بدوملہی یکے از تین سو تیرہ کا بیان کرتے ہیں : اس دوران میں ایک شخص مسمی چراغدین ٹھیکیدار اپنے کسی کام کے لئے بدوملہی آیا.اس سے مجھے حضور علیہ السلام کی کتاب ”ازالہ اوہام علی اور بیعت کا علم ہوا چنانچہ میں اور بدوملہی کا بڑا نمبر دار ( حضرت چوہدری محمد سرفراز خان صاحب) قادیان آئے اور ہم دونوں نے مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی.غالباً ۱۸۹۱ء.حضور نے فرمایا کہ کچھ مدت یہاں رہیں اور فرمایا کہ بیعت کے بعد انسان کو پختہ ہو جانا چاہیئے کیونکہ بیعت سے پھرنے والے پر گرفت ہوتی ہے.حضور کے اس فرمان سے میرے اندر استقلال پیدا ہو گیا اور کبھی تر در پیدا نہ ہوا.“ الفضل لاہور ۹ جنوری ۱۹۴۹ صفحه ۶)

Page 300

277 آئینہ کمالات اسلام میں حضرت اقدس نے چوہدری سرفراز خاں صاحب نمبر دار بد و ملی ضلع سیالکوٹ ۲۷ نمبر پر تحریر فرمایا ہے.حضرت مولانا غلام احمد مرحوم بد و ملہوی کا بیان ہے: بدوملہی میں ۳۱۳ صحابہ میں سے چوہدری سرفراز خان صاحب نمبردار تھے.چوہدری صاحب چینوٹ میں اہلمد کا کام کرتے تھے.جب گھر واپس آتے ہوئے لاہور سے گزرے تو حضرت مسیح موعود کا تذکرہ سن کراحمدی ہوئے تھے.۱۸۹۸ ء تک اس ضلع (جھنگ) میں کام کرتے رہے بعد میں اپنے گاؤں واپس آگئے.حضرت چوہدری سرفراز خان صاحب کے بھائی حضرت چوہدری غلام حیدر خان صاحب نے ریکارڈ کے مطابق جون ۱۹۰۳ میں بیعت کی سعادت حاصل کی.اس بات کا امکان ہے کہ آپ نے اس قبل ہی بیعت کر لی ہو.(الحکم قادیان ۲۴ جون ۱۹۰۳ص۱۶) خدمات : آپ کی تبلیغی کوششوں سے اس علاقہ میں کثرت سے بیعتیں ہوئیں.قادیان سے جو بھی کوئی مالی تحریک نکلتی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.الحکم اخبار کے آپ باقاعدہ خریدار تھے.۱۹۰۲ میں جب تعلیمی ضروریات پوری کرنے کیلئے یہودیوں کے بارہ میں ضخیم کتاب دائرۃ المعارف Jewish Encyclopeadia کی ضرورت پڑی تو اس پر کئی احباب نے مالی تعاون فرمایا.ایک رپورٹ میں مکرم چوہدری سرفراز خان صاحب بدوملہی ،حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی اور حضرت سید فضل شاہ کے اسماء مذکور ہیں.(احکم قادیان ۲۱ فروری ۱۹۰۳ص۱۶) خبار الحلم قادیان اور بدر قادیان میں گاہے بگاہے آپ کی قادیان آمد اور بعض مالی تحریک میں حصہ لینے کا ذکر ملتا ہے.اخبار بدر میں آپ کا ایک خط بھی مرقوم ہے جو آپ نے ایڈیٹر بدر کے نام ۱۹۰۵ میں لکھا.اخبار بدر قادیان ۱۰ جنوری ۱۹۰۵ ص ۷ ) آپ بعد میں غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.وفات : ۱۹۴۵ء حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۴۵ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی.اولاد: مکرم چوہدری عبدالحق صاحب.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد۱۰ (۳) الحکم قادیان ۲۱ فروری ۱۹۰۳ص ۱۲ (۴) اخبار بدر ۱۰ جنوری ۱۹۰۵ ص ۷ (۵) مجاہد کبیر : مؤلفه ممتاز احمد فاروقی (۶) (الفضل لاہور جنوری ۱۹۴۹ء صفحه ۶ ) (۷) روزنامه الفضل ۳ مئی ۱۹۶۵ء) (۸) انٹرویو مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب بدوملہی والد مکرم محمد اسماعیل منیر ثانی مربی سلسلہ مرحوم حال جو ہر ٹاؤن لاہور جو مکرم احمد طاہر مرزا صاحب نے ۲۰۰۶ ء میں نے لیا.

Page 301

278 ☆ ۲۴۴.حضرت مولوی سید محمد رضوی صاحب.حیدر آباد ولادت : ۱۸۶۲ء یا ۱۸۶۴ء.بیعت : ابتدائی ایام میں.وفات : ۳۱ راگست ۱۹۳۲ء تعارف: حضرت مولوی سید محمد رضوی رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام نواب امیر ابو طالب تھا.آپ ۱۸۶۲ ء یا ۱۸۶۴ء میں بمقام ایلور علاقہ مدراس میں پیدا ہوئے.آپ بڑے وجیہہ اور خوبصورت تھے.حیدر آباد دکن میں ہائی کورٹ کے وکیل تھے.آپ نے سلسلہ کی بہت ہی مالی معاونت کی.حضور کی زندگی میں مسجد اقصیٰ کے لئے دریوں کا تحفہ بھی لائے.بیعت : آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.قادیان میں آمد : ایک دفعہ آپ ایک جماعت لے کر قادیان آئے.چونکہ حیدر آباد کے لوگوں کو عموما ترش سالن کھانے کی عادت ہوتی ہے اس لئے آپ کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود نے ارشاد فرمایا کہ ان کے لئے کھٹے سالن تیار ہوا کریں تا کہ ان کو تکلیف نہ ہو.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.جناب خواجہ کمال الدین صاحب مقدمہ میں وکیل: آپ کے ایک مقدمہ جائیداد کے سلسلہ میں جو ( نظام حیدر آباد دکن کے مقابل) پر یومی کونسل لندن میں زیر اپیل تھا.جناب خواجہ کمال الدین صاحب لندن کی پریوی کورٹ میں آپ کی اپیل کے لئے گئے تھے.حضرت رضوی صاحب نے تمام اخراجات اس سفر کے برداشت کئے تھے.علاوہ ازیں بھی آپ کو مالی قربانیوں کی بہت تو فیق ملی.وفات : آپ حیدر آباد سے ۱۹۰۹ء میں بمبئی منتقل ہو گئے تھے.۳ راگست ۱۹۳۲ءکو بمبئی میں ہی وفات پائی.اولاد : آپ کے بیٹے سید عبد المومن رضوی کراچی میں رہائش پذیر رہے جن کا ۱۹۷۹ء میں انتقال ہوا اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں.اور ان کی اولا د کراچی میں سکونت پذیر ہے.حضرت نواب صاحب کا ایک پڑپوتا سید عطاء الواحد رضوی ( آف کراچی ) مربی سلسلہ احمدیہ ہے اور بیرون ملک خدمات کی توفیق پا رہا ہے.ماخذ: (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) حیات قدسی (۳) حیات احمد (۴) سیرت حضرت مسیح موعود جلد اوّل صفحه ۱۵۲ (۵) روزنامه الفضل ربوه ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۳ء (۶) روزنامه الفضل جون ۲۰۰۵ء (۶) فہرست وفات یافتگان بہشتی مقبرہ.

Page 302

279 ☆ ۲۴۵.حضرت مفتی فضل الرحمن صاحب معہ اہلیہ.بھیرہ ولادت : ۱۸۷۶ء.بیعت : ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء.وفات : ۱۹۲۴ء تعارف: حضرت مفتی فضل الرحمن رضی اللہ عنہ بھیرہ کے مفتی خاندان سے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام مفتی شیخ عبداللہ تھا.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے شاگرد اور داماد تھے آپ کی اہلیہ صاحبہ کا نام امامہ تھا.نیز حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ہم سبق اور ہم زلف تھے.ہجرت کر کے قادیان آگئے.بیعت : آپ کی بیعت کے دسمبر ۱۸۹۱ء کی ہے اور رجسٹر بیعت میں ۱۸۴ نمبر پر آپ کا نام درج ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر آسمانی فیصلہ میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں، تحفہ قیصریہ میں ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ میں پرامن جماعت کے ضمن میں کیا ہے.حضرت اقدس کا ایک الہام سیھدی آپ کے بارہ میں ہے.حضرت اقدس کی خدمت : آپ کو حضرت اقدس کی اکثر خدمت کا موقع ملتار ہا.آپ کے پاس ایک گھوڑا ہوا کرتا تھا.گورداسپور مقدمہ کے موقع پر گھوڑ ا ساتھ رکھا.تا کہ حسب حالات اس سے کام لے سکیں.بعض فرائض کو نہایت ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتے رہے.حضرت اقدس کا آپ کے ساتھ مشفقانہ سلوک ہوا کرتا تھا.حضور نے ایک مرتبہ آپ کو اپنی پگڑی بھی پہنے کا ارشاد فرمایا تھا.وفات : آپ نے ۱۹۲۴ء میں وفات پائی اور وفات کے بعد قادیان میں ہی تدفین ہوئی.اولاد آر آپ کے بیٹے مکرم بشیر احمد صاحب مفتی جودھامل بلڈ نگ لاہور اور رفیق احمد مفتی جرمنی میں ہیں.ایک بیٹی مکرم مولوی عبدالوہاب صاحب کی اہلیہ تھیں.ماخذ : (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد۲ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۵۷ (۴) سیرت حضرت مسیح موعود (۵) بھیرہ کی تاریخ احمدیت ، صفحہ ۶۱ ۲۴۶.حضرت حافظ محمد سعید صاحب بھیرہ.حال لندن بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت حافظ محمد سعید رضی اللہ عنہ بھیرہ سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی

Page 303

280 ہے.تاریخ احمدیت بھیرہ میں حضرت حافظ محمد سعید صاحب بھیرہ حال لندن کا ذکر کیا گیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید حالات دستیاب نہیں سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا ☆ ۲۴۷.حضرت مستری قطب دین صاحب بھیرہ ولادت : ۱۸۶۶ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۹۳۴ء تعارف و بیعت : حضرت مستری قطب الدین رضی اللہ عنہ صوفی منش بزرگ تھے.آپ کی ولادت ۱۸۹۲ء کی ہے حضرت اقدین کے فدائی تھے.بھیرہ سے ہجرت کر کے قادیان چلے گئے.آپ کی بیعت ۱۸۹۲ء کی ہے.قادیان مستقل سکونت : آپ افریقہ بسلسلہ ملازمت گئے لیکن واپس قادیان چلے آئے اور مسجد اقصیٰ کے قریب مکان تعمیر کر کے رہائش پذیر ہو گئے.جلسہ سالانہ کے موقع پر بھیرہ کی جماعت کو اپنے ہاں ٹھہراتے تھے.اعجاز مسیحا کا ایک واقعہ: ایک واقعہ آپ ہی کی زبان مبارک سے ملاحظہ ہو.ایک دفعہ ایک ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ تمہاری آنکھوں میں موتیا بڑے زور سے اتر رہا ہے.دو ماہ کے اندر اندر تمہاری نظر بند ہو جائے گی.میں یہ سن کر خاموش ہو رہا.کچھ عرصہ کے بعد میں لا ہور گیا تو وہاں بغیر میرے دریافت کرنے کے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے بھی بعینہ وہی بات کہی جو پہلے ڈاکٹر نے کہی تھی تب مجھے فکر ہوا اور میں نے سوچا کہ خدا تعالیٰ نے حضور سے فرمایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.میرے پاس جو عصا ہے وہ بھی حضور کے ہاتھ کی ایک چیز ہے میں کیوں اس سے برکت نہ ڈھونڈوں چنانچہ میں نے گھر آکر عصا ہاتھ میں لیا اور دعا کر کے عصا کو آنکھوں سے لگایا خدا کے فضل کی بات ہے کہ بائیس برس گزر گئے مگر میری نظر بدستور ہے اور بغیر عینک لگائے باریک کام کر سکتا ہوں.“ حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آریہ دھرم میں صفحہ ۸۹ پر آپ کا نام بھی تحریرفرمایا ہے کہ ہدایت کی پابندی کریں گے.وفات: آپ نے ۲۹ مئی ۱۹۳۴ء کو وفات پائی.آپ کا وصیت نمبر ۸۵۴ ہے.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں قطعہ نمبر ۴ حصہ نمبر میں ہوئی.ماخذ : (۱) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) اخبار الحام ۱۴ اگست ۱۹۳۵ء (۳) ” بھیرہ کی تاریخ احمدیت‘ صفحہ ۶۲

Page 304

281 ☆ ۲۴۸.حضرت مستری عبد الکریم صاحب.بھیرہ ولادت : ۱۸۷۴ء.بیعت ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۹۲۳ء تعارف و بیعت: حضرت مستری عبدالکریم رضی اللہ عنہ ایک دراز قد اور شہ زور آدمی تھے.۱۸۹۲ء میں بیعت کر کے داخل سلسلہ احمد یہ ہوئے.اکثر قادیان جایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اظہار محبت کرتے ہوئے آپ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا.وفات : ۱۹۲۳ء میں آپ کی وفات ہوئی.اولاد: آپ کے ایک بیٹے عبدالرحیم کا انتقال نوجوانی کے عالم میں ہو گیا.دوسرے بیٹے بشیر احمد مخلص احمدی ہیں تجارت اور زمیندارہ کرتے ہیں.آپ کے تیسری بیٹے لیفٹینٹ مشتاق احمد صاحب ایم اے بھی مخلص احمدی ہیں.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحہ ۶۱ ۶۲.☆ ۲۴۹.حضرت مستری غلام الہی صاحب.بھیرہ ولادت : ۱۸۶۲ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات: ۱۹۱۵ء تعارف: حضرت مستری غلام الہی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں تاریخ سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپ شوق سے دینی خدمات بجالاتے تھے.سلسلہ سے بہت محبت تھی.عموماً قادیان جاتے تھے.واپس آ کر نہایت محبت سے حضور علیہ السلام کی باتیں سناتے تھے ( آپ کے بھائی ماسٹر عبدالرؤف صاحب بھی حضرت اقدس کے رفقاء تھے جن کی بیعت ۱۸۹۸ء کی ہے.) آپ کے تفصیلی حالات نہیں ملے.اولاد آپ کے بیٹے حافظ فضل الرحمن صاحب مخلص احمدی اور ایک اچھے قاری تھے.بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے رہے ہیں ان کی اولا دبھی احمدیت سے اخلاص کا تعلق رکھتی ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحہ ۶۴ (۲) انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.

Page 305

282 ☆ ۲۵۰.حضرت میاں عالم دین صاحب.بھیرہ ولادت : ۱۸۶۰ء.بیعت : ۷/فروری ۱۸۹۲ء.وفات: ۱۹۱۱ء تعارف: حضرت میاں عالم دین رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام حاجی احمد یار تھا حضرت نجم الدین صاحب ( یکے از ۳۱۳) آپ کے بھائی تھے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے.قرآن مجید کے عاشق تھے.ہر وقت قرآن کریم پاس رکھتے تھے.ذراسی بھی فرصت ملنے پر تلاوت کرنے لگ جاتے.بیعت : آپ کی بیعت ۷ فروری ۱۸۹۲ء کی ہے.رجسٹر بیعت میں ۳۳۵ نمبر پر آپ کا نام درج ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ میں آپ کے جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شامل ہونے کا ذکر فرمایا ہے.اولاد : آپ کی ایک لڑکی تھی ( جو معذور ہونے کی وجہ سے قادیان نہ جاسکتی تھی اس لڑکی کی بیعت حضرت اقدس کی اجازت سے حضرت میاں عالم دین صاحب نے اپنے ہاتھ پر لی تھی.وفات : آپ کی وفات ۱۹۱۱ء کو ہوئی.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۹ (۳) " بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحہ ۶۵.☆ ۲۵۱.حضرت میاں محمد شفیع صاحب بھیرہ ولادت : ۱۸۷۸ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات: ۱۹۵۷ء تعارف : حضرت میاں محمد شفیع رضی اللہ عنہ بھیرہ کے رہنے والے تھے والد صاحب کا نام قریشی کامل دین تھا.حضرت مولانا حکیم نورالدین (خلیفہ مسیح الاول) کے بھانجے تھے اور آپ کی حقیقی ہمشیرہ امام بی بی کے بیٹے تھے.محلہ معماران بھیرہ میں رہائش تھی.حضرت مولانا حکیم نورالدین (خلیفہ اسی الاول) کے درس میں شامل ہوا کرتے تھے.آپ کے ایک بھائی کی بیماری اور وفات کا واقعہ حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل نے اپنی خود نوشت مرقاۃ الیقین میں درج فرمایا ہے اور حیات نور میں بھی اس کا ذکر ہے.اسی تذکرہ میں ایک اور بھائی کی ولادت اور بعارضہ پیچش بیمار

Page 306

283 رہ کر وفات پانے کا ذکر ہے.اس کے بعد قریشی محمد شفیع کی ولادت ہوئی.سب اوورسیئر کے طور پر...کالا باغ ، بھکر ہمندری نمل ڈیم، میانوالی اور لائکپورمحکمہ انہار میں ملازمت رہی.بیعت : آپ نے ۱۸۹۴ء میں بیعت کی.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے ایک مرتبہ سے کہا کہ میں نے ایک مرشد کیا ہے اور حضرت مسیح موعود کا ذکر کیا کہ حضور زمانہ کہ امام ہیں.اس پر آپ نے بھی بیعت کر لی.اولاد: آپ کے تین بیٹے تھے.(۱) قریشی مشتاق احمد صاحب جن کی اولاد کراچی میں ہے.ان کے ایک بیٹے اخلاق احمد قریشی ہالینڈ میں ہیں.(۲) قریشی غلام احمد صاحب سکھر سے محکمہ انہار میں لینڈ ریکیمیشن آفیسر (L.R.O) ریٹائر ڈ ہوئے اور بعد میں مختار عام صدر انجمن احمدیہ کی حیثیت سے ڈیوٹی دیتے رہے اور دوران ڈیوٹی دفتر میں حرکت قلب بند ہونے سے وفات ہوئی.(آپ کے خسر حضرت حافظ عبدالعلی صاحب ایڈووکیٹ آف اور حمہ یکے از ۱۳۱۳ امیر ضلع سرگودھا کی بیٹی تھیں ) مکرم اسمعیل عبدالله موحوم اور HBLلالیاں ،مکرم اسمعیل عبدالماجد صاحب ولد قریشی غلام احمد صاحب وائس پریذیڈنٹ (ر) مسلم کمرشل بینک انہی کے پوتے ربوہ میں ہیں.(۳) تیسرے بیٹے قریشی احمد شفیع صاحب میانوالی مین بازار میں تاجر رہے ہیں.۱۹۷۴ء میں مخالفین نے زخمی کیا.آپ میانوالی کے صدر جماعت احمد یہ رہے.جن کے بیٹے صلاح الدین صاحب اور عنایت الدین اور نعیم الدین تھے.وفات: آپ کی وفات ۱۲ نومبر ۱۹۵۸ء کو ہوئی.آپ کا وصیت نمبر ۵۲۷۵ ہے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ نمبر ۹ حصہ نمبر ۱۴ میں ہوئی.حضرت میاں محمد شفیع صاحب کی اہلیہ حضرت سردار بی بی بھی حضرت اقدس کے رفقاء میں سے تھیں جو وفات کے بعد بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں.ماخذ : (۱) انجام آتھم ، روحانی خزائن جلدا (۲) مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین (۳) حیات نور (۴) تاریخ احمدیت بھیرہ (۵) انٹر ویو مکرم اسمعیل عبدالماجد صاحب ربوہ ( نبیرہ حضرت قریشی میاں محمد شفیع بھیرہ) ☆ ۲۵۲.حضرت میاں نجم الدین صاحب بھیرہ ولادت : ۱۸۶۴ء.بیعت ۴ را گست ۱۸۹۱ء.وفات ۱۹۱۲ء تعارف: حضرت میاں نجم الدین رضی اللہ عنہ حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے دوست اور قریبی رشتہ دار تھے.حضرت میاں محمد شفیع صاحب ( یکے از ۳۱۳) کے حقیقی چاتھے.بیعت : حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے ذریعہ احمدیت کا تعارف ہوا اور ۴ راگست ۱۸۹۱ء کو بیعت کی.دینی خدمات: لنگر خانه ( دارالضیافت) کے مہتمم رہے.حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی لکھتے ہیں کہ آپ بڑے مخلص اور مجتہدانہ طبیعت کے مالک اور جفاکش تھے.حضرت مسیح موعود کی محبت میں سرشار تھے.مہمانوں کو کھانا

Page 307

284 کھلانے کے بعد رات گئے جانوروں کو بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے کھلاتے.کتاب محبۂ حق کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا تو دوبارہ اپنی گرہ سے طبع کروا کر حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کر دیا.وفات: آپ کی وفات ۱۹۱۲ء میں ہوئی.اولاد : ان کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی.ایک بیٹی سردار بی بی کی نواسی قریشی احمد شفیع صاحب ( میاں محمد شفیع یکے از ۳۱۳ کے بیٹے تھے ) کی اہلیہ تھیں.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۲) سیرت حضرت مسیح موعود صفحه ۳۵۵ (۳) حیات احمد جلد دوم (۱۸۸۹ء ۱۸۹۲ء) (۴) تاریخ احمدیت بھیرہ (۵) انٹرویو مکرم اسمعیل عبدالماجد صاحب ( نبیرہ حضرت میاں محمد شفیع) ۲۵۳.حضرت میاں خادم حسین صاحب.بھیرہ ولادت : ۱۸۷۲ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۹۳۵ء تعارف و بیعت: حضرت میاں خادم حسین رضی اللہ عنہ بھیرہ کے رہنے والے تھے.آپ کی ولادت سال ۱۸۷۲ء کو ہوئی.آپ فارسی زبان کے عالم تھے.تاریخ احمدیت بھیرہ کے مطابق ۱۸۹۳ء میں بیعت کی.افغان قونصل خانہ میں میر منشی تھے.لیکن امیر امان اللہ خان کے اعلان خود مختاری پر قونصل خانہ افغان کا دفتر ختم ہو گیا اور آپ واپس بھیرہ آکر سکول ماسٹر بنے.مختلف مقامات پر ٹیچر کے طور پر کام کیا.محققانہ طبیعت پائی تھی.تحقیقات واقعات کربلا آپ کی مشہور کتاب ہے.شیعہ مذہب کے بارے میں آپ کے متعدد مضامین اور مقالات شائع ہوئے اور تر دید اہل تشیع کے بارہ میں کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے.آپ جماعت بھیرہ کے جنرل سیکرٹری رہے.حضرت مولوی دلپذیر بھیروی نے حضرت منشی خادم حسین کی وفات پر مرثیہ لکھا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں ذکر فرمایا ہے.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت اقدس کے معاصر علماء میں تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کی.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) تاریخ احمدیت بھیرہ صفحہ ۷۰ تا ۷۲ (۳) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء.

Page 308

285 ☆ ۲۵۴.حضرت بابو غلام رسول صاحب.بھیرہ ولادت : ۱۸۷۸ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۹۱۹ء تعارف اور بیعت : حضرت با بو غلام رسول رضی اللہ عنہ اعوان برادری سے تھے.آپ کی ولادت ۱۸۷۸ء میں ہوئی.ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے.فرنٹئیر میں کسی اسٹیشن پر متعین تھے.۱۸۹۲ء میں آپ نے بیعت کی.ایک پٹھان نے آپ کو احمدیت کے باعث قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور کئی دفعہ مواقع کی تلاش کرتار ہا لیکن ناکام رہا اور اس کے دل میں خوف طاری ہو گیا.اس نے نہ صرف یہ ارادہ ترک کر دیا بلکہ آپ کی خدمت کرنے لگا.اس کے بعد بابو صاحب تبدیل ہو کر بھیرہ گئے.آپ مقامی جماعت کے سرگرم رکن تھے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) تاریخ احمدیت بھیرہ صفحہ ۶۹-۷۰.۲۵۵.حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم بھیرہ ولادت : ۱۸۷۲ء.بیعت : ۱۴ / دسمبر ۱۸۹۰ء.وفات : ۴ / جون ۱۹۵۲ء تعارف: حضرت شیخ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ( سابق سردار مہر سنگھ) ڈومیلی تحصیل پھگواڑہ (ریاست کپورتھلہ ) ضلع ( جالندھر کے ایک سکھ خاندان کے چشم و چراغ تھے.آپ کا نام والدین نے مہر سنگھ رکھا تھا.آپ کی ولادت سال ۱۸۷۲ء کو ہوئی.آپ کے والد صاحب کا نام سردار دسوندھا رام تھا.بیعت : سکھ قوم کی جہالت اور ہندوانہ طرز معاشرت سے نالاں تو تھے ہی.بغرض علاج حضرت مولوی خدا بخش صاحب جالندھری کی وساطت سے حضرت حکیم مولانا نورالدین کی خدمت میں بغرض علاج بھیرہ تشریف لے گئے.بعد میں ۱۸۹۰ء میں قادیان حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کر لی.آپ نے پندرہ سال کی عمر میں ۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۰ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت میں آپ کا نام ۲۱۱ نمبر پر درج ہے.بھیرہ میں دسویں تک تعلیم حاصل کی اور قادیان میں بی.اے کیا.۱۹۰۲ء میں آپ کی شادی حضرت خلیفہ نوردین جموٹی کی صاحبزادی غلام فاطمہ سے ہوئی جن کو حضور کے گھر خدمت کی سعادت حاصل ہوئی.آپ نے ۳۶ علمی و تحقیقی کتب تصنیف کیں.آپ سے مروی روایات ”سیرت المہدی“ میں درج ہیں.بیعت کے ریکارڈ میں

Page 309

286 ساکن دہلی اور عمر پانزدہ سال ہے.دینی خدمات : آپ تین سال کے لئے جزائر انڈیمان میں بطور ہیڈ ماسٹر رہے اہل وعیال کو بھی ساتھ بھجوایا گیا.اس بنیاد پر آپ کالے پانی والے بھی مشہور ہوئے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شرکت اور چندہ دہندگان اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت میں ذکر ہے.اولاد: آپ کے بیٹے ڈاکٹر سردار نذیر احمد مرحوم اور سردار بشیر احمد مرحوم انجینئر کا ذکر آپ کی اولاد میں نمایاں ہے.سردار بشیر احمد مرحوم ربوہ کی تعمیر کے وقت کا سروے کرنے والی ٹیم کے سربراہ بھی رہے.آپ کی ایک پوتی ( سردار ڈاکٹر نذیر احمد مرحوم کی بیٹی) مکرم انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب بھیرہ امیر ضلع اٹک کی بیگم ہیں.حضرت شیخ صاحب کے ایک پوتے سردار رفیق احمد مرحوم لندن میں مقیم تھے.ماخذ: (۱) رجسٹر بیعت از تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۴ ۳۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) مضمون ماسٹر عبدالرحمن سابق مہر سنگھ از الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۹۰ء (۴) اصحاب احمد جلد ہفتم.۶ ۲۵.حضرت مولوی سردار محمد صاحب لون میانی بیعت : ۹ / جنوری ۱۸۹۲ء تعارف: حضرت مولوی سردار محم ولد مولوی غلام احمد صاحب لون میانی ضلع شاہپور کے رہنے والے تھے.آپ مولانا حکیم نورالدین حضرت خلیفہ اسی الاول کے برادر زادہ تھے.بیعت : آپ نے ۹ / جولائی ۱۸۹۲ء میں بیعت کی رجسٹر بیعت میں آپ کا نام ۱۹۱ نمبر پر درج ہے.میاں سردار خان ولد مولوی غلام احمد صاحب برادرزاده مولوی حکیم نورالدین ساکن لون میانی تحریر ہے.حضرت اقدس سے تعلق اخلاص: ایک دفعہ آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھا اور اظہار اخلاص میں لکھا کہ میں قادیان پر قربان جاؤں.حضرت اقدس اس پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ اخلاص کی علامت ہے.جب انسان کسی کے ساتھ سچا اخلاص رکھتا ہے تو محبوب کے قرب وجوار بھی پیارے لگتے ہیں.“ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت اقدس کے ان معاصر علماء میں آپ کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے پرامن جماعت میں آپ کا ذکر کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن ۱۳ (۲) ذکر حبیب صفحه ۱۶۶ (۳) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۵۷ (۴) شجرہ نسب مطبوعہ کلام امیر.

Page 310

287 ☆ ۲۵۷.حضرت مولوی دوست محمد صاحب لون میانی بیعت : ۲۷/ دسمبر ۱۸۹۱ء تعارف: حضرت مولوی دوست محمد رضی اللہ عنہ لون میانی بھیرہ کے متوطن تھے.آپ جموں میں محکمہ پولیس میں ملازم بھی رہے.آپ کے والد صاحب کا نام حکیم غلام احمد تھا آپ کی قوم قریشی تھی.نیروبی ( مشرقی افریقہ ) جب ابھی آباد ہورہا تھا تو آپ وہاں چلے گئے.حضرت اقدس کی بیعت: جہلم سے آپ ایک دفعہ لاہور آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت ان دنوں زوروں پر تھی.ایک مخالف مولوی سے ( جبکہ اس کی مسجد میں آپ ٹھہرے ہوئے تھے ) آپ نے سنا کہ (نعوذ باللہ ) حضرت مرزا صاحب کو کوڑھ ہے اور ان کے ہاتھ دیکھے نہیں جا سکتے.جب وہ قادیان پہنچے اور مسجد مبارک میں گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے اور نماز کے بعد احباب کے دائرہ میں سورج کی طرح ایک نورانی وجود نظر آتے تھے اور آپ بات کرتے تو ہاتھ کو کسی وقت اٹھاتے کسی وقت اس کو حرکت دیتے.آپ خاموش یہ نظارہ دیکھتے رہے اور حضور کے ہاتھوں کو بھی دیکھا لیکن وہ تو بہت خوبصورت ، پیارے اور دلکش تھے.ان پر کوئی دھبہ تک بھی نہ دیکھا.اسی مجلس میں آپ نے بیعت کر لی اور حضور کے غلاموں میں داخل ہو گئے.آپ نے ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء میں بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۱۸۶ نمبر پر درج ہے.حضرت اقدس پر پروانہ وار فدا تھے.آپ کافی عرصہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر رہے.اس وقت بھی حضوڑ کے ساتھ ہی تھے جب لیکھرام پیشاوری نے حضور کو بار با رسلام کیا اور حضور نے جواب نہ دیا.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت اقدس کے معاصر علماء میں آپ کا تذکرہ کیا ہے.جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی.اولاد: قریشی عبدالرحمن آپ کے بیٹے تھے.ماخذ: (۱) تاریخ احمدیت جلد هشتم صفحه ۲۷۵ (۲) مضمون محترم قریشی عبدالرحمن صاحب مرحوم آف نیروبی کی یاد میں از الفضل ربوہ مورخہ ۲ جون ۱۹۶۷ء (۴) رجسٹر بیعت اولی تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۵۷ (۵) تاریخ احمدیت جلد سوم (۶) کیفیات زندگی از مولانا شیخ مبارک احمد مرحوم (۷) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء

Page 311

288 ☆ ۲۵۸.حضرت مولوی حافظ محمد صاحب بھیرہ - حال کشمیر بیعت: ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت مولوی حافظ محم رضی اللہ عنہ بھیرہ کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام مولوی سلطان احمد صاحب تھا جو حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے سب سے بڑے بھائی تھے.” تاریخ احمدیت جموں و کشمیر ، صفحہ ۷ اپر حضرت مولوی حافظ محمد صاحب بھیرہ.حال کشمیر کا نام رفقاء حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ میں درج کیا ہے لیکن مؤلف تاریخ احمدیت جموں و کشمیر کو اس کتاب کے صفحہ ۱۹ کے نوٹ کے مطابق ، حالات نہیں مل سکے.تاریخ احمدیت بھیرہ میں بھی مؤلف نے صرف نام درج کیا ہے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کی تھی.حضرت مولانا جلال الدین شمس نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیعت کرنے والے علماء میں شمار کیا ہے.ماخذ : (۱) ضمیمه انجام آنقم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۲) تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۲۱ ۲۲ (۳) تاریخ احمدیت جموں وکشمیر (۴) تاریخ احمدیت بھیرہ (۵) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسه سالانه ۱۹۶۴ء (۶) شجرہ نسب مطبوعہ کلام امیر.☆ ۲۵۹.حضرت مولوی شیخ قادر بخش صاحب احمد آباد ولادت : ۱۸۵۲ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۹۰۶ء تعارف و بیعت حضرت مولوی شیخ قادر بخش رضی اللہ عنہ احمد آباد (جہلم) نزد بھیرہ ( دریائے جہلم کے دوسری جانب) کے رہنے والے تھے.حضرت حکیم مولانا مولوی نورالدین کے محبوں میں سے تھے.اوائل میں ہی احمدیت قبول کرنے کا شرف حاصل کیا.آپ ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں شریک ہوئے اور ہجرت کر کے قادیان چلے گئے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء کی فہرست میں ۳۳ نمبر پر آپ کا نام درج فرمایا ہے.جہاں حکیم شیخ قادر بخش احمد آباد ضلع جہلم تحریر کیا ہے.کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے.وفات: آپ ابتداء میں ہی ہجرت کر کے قادیان چلے گئے تھے اور وہیں ۱۹۰۶ء میں وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) بھیرہ کی تاریخ احمد بیت صفحہ ۱۱۸

Page 312

289 ☆ ۲۶۰ - حضرت منشی اللہ داد صاحب کلرک چھاؤنی شاہپور ولادت ۱۷۸۳.بیعت ۱۸۹۰ء.وفات: ۲۷ مئی ۱۹۰۶ء تعارف : حضرت منشی اللہ دا درضی اللہ عنہ شاہپور (ضلع سرگودھا) کے رہنے والے تھے.آپ تقریباً ۱۸۷۳ء میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی.تعلیم حاصل کرنے کے بعد شاہ پور چھاؤنی میں دفتر رجسٹرار میں کلرک کے طور پر ملازمت اختیار کی جہاں آپ کو پچاس روپے ماہانہ ملتے تھے.بیعت : ابھی آپ سترہ سال کے تھے کہ عین جوانی کے عالم میں حضرت اقدس بانی سلسلہ کی بیعت کی توفیق پائی اور بیعت کے بعد آپ کی زندگی در جوانی تو بہ کر دن کا عظیم نمونہ پیش کر رہی تھی.آپ حضور کے نام اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:.اس امر کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں سمجھتا کہ خاکسار کے دل میں عرصہ دراز سے شعلہ محبت بھڑ کا ہوا تھا.سال ۱۸۹۰ء یعنی ایام طالب علمی سے جبکہ خاکسار بھی انٹرنس تعلیم پاتا تھا محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضور ے ساتھ تعلق اخلاص مندی نصیب ہوا جس کو اب چودھواں سال جارہا ہے.(مکتوبات احمد یہ جلد پنجم جز نمبر پنجم ) ابتلاؤں کا سامنا: شاہ پور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک اچھی ملازمت پر آپ متعین تھے لیکن ان خوشحال مواقع کے ساتھ ساتھ کچھ مشکلات بھی آپ کے در پے تھیں جس کے لئے وقتا فوقتا آپ حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے لکھتے رہتے.چنانچہ ان مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے حضور کی خدمت میں لکھا:- وہاں شاہ پور میں خاکسار کی موجودہ حالت بھی کچھ ابتلاء سے کم نہیں ہے جو...افسر ہے بوجہ عناد مذہبی کے سخت مخالف ہے.اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے.“ (مکتوبات احمد یہ جلد پنجم ) حضور آپ کے خطوط کو پڑھ کر صبر اور استقلال کی تلقین کے جوابات تحریر فرماتے اور ہمت نہ ہارنے کی تاکید فرماتے چنانچہ ایک مکتوب میں حضور نے آپ کو تحریر فرمایا : - محبی اخویم منشی اللہ داد صاحب کلرک سلمہ اللہ تعالیٰ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.یادر ہے کہ ہر ایک مومن کے لئے کسی حد تک تکالیف اور ابتلاء کا ہونا ضروری ہے اس کو صدق دل سے برداشت کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کا انتظار کرنا چاہئے.( مکتوبات احمد یہ جلد پنجم ) قادیان سے محبت : حضرت چودھری اللہ داد صاحب بھی محبت امام الزمان سے سرشار تھے.آپ اپنے آپ سے کہتے رہتے کہ مامور صادق کے مبارک قدموں میں زندگی گزارنا تمہارا مقصود بالذات ہونا چاہئے.دارالامان سے

Page 313

290 باہر رہنا تو زندگی کا عبث گزارنا ہے.آپ نے قادیان سے محبت کی اس دلی کیفیت کا اظہار حضور کی خدمت میں بھی کیا جس کا ذکر اپنے مکتوب بنام حضرت اقدس میں کیا گیا ہے.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم ص ۲۵۳) قادیان کی طرف ہجرت : آپ قادیان میں سکونت پذیر ہونے کے خواہشمند تھے اس سلسلے میں آپ کو موقع کی تلاش تھی.شاہ پور میں آپ کو ۵۰ روپے تنخواہ ملتی تھی لیکن قادیان کی محبت میں آپ یہ سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار تھے.جب رسالہ ریویو آف ریلیجنز کا آغاز ہوا تو دفتر میگزین میں کلرک کی ضرورت تھی.مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے اس آسامی کے لئے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ اس جگہ آجائیں ۱۵ روپے ماہوار ملا کر لیں گے آگے جیسے جیسے رسالہ میں ترقی ہوگی.الاؤنس بھی بڑھنے کا امکان ہوگا لیکن آپ ان ۱۵ روپے میں بھی بہت خوش تھے اس کی وجہ یہ تھی آپ نہایت سادہ زندگی گزارنے کے عادی تھے.بس ایک بات کا آپ کو انتظار تھا کہ حضرت اقدس اس سلسلے میں خود وو اجازت عنایت فرماویں.چنانچہ آپ نے حضور کی خدمت میں لکھا.حضور نے فرمایا :.آپ کے صدق و ثبات پر نظر کر کے میری رائے یہی ہے کہ آپ تو کل علی اللہ اس نوکری کو لعنت بھیجیں اور اس محبت کو غنیمت سمجھیں اور بالفعل ۱۵ روپیہ پر قناعت کریں.( مکتوبات احمدیہ حصہ پنجم نمبر پنجم ) اس پاک وجود کے دہن مبارک سے اجازت ملنے پر خوشی کی انتہانہ تھی.۱۹۰۴ء کی ابتداء ہی میں قادیان مہاجر ہوکر آگئے.دفتر میگزین میں ہیڈ کلرک متعین ہوئے اور اس خدمت میں دن رات صرف کر دیئے.مالی قربانیاں: حضرت چودھری اللہ داد صاحب کا شاہ پور میں ۵۰ روپے کی ملازمت ترک کر کے قادیان میں ۱۵ روپے الاؤنس کی خدمت پر رضامند ہو کر آجانا مالی قربانی کی عظیم الشان مثال ہے.اس کے علاوہ آپ نے جماعت کی ہر مالی تحریک میں حصہ ڈالنے کی سعی کی.رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے خریدار، مدرسہ تعلیم الاسلام اور امداد داخلہ امتحان طلباء کالج کی مدات میں آپ شامل ہوتے.حضرت اقدس نے جب قادیان میں مدرسہ کے قیام کی تجویز پیش کی اور دوستوں کو مالی تحریک فرمائی تو آپ بھی لبیک کہنے والوں میں سے تھے.اخبار البدر قادیان ۱۲۹ کتوبر ۱۹۰۳ء) اسی طرح حضرت چودھری صاحب نے کئی احباب کے نام اپنی طرف سے اخبار بدر جاری کروایا.(اخبار البدر قادیان ۹ فروری ۱۹۰۶ ء ص ) مئی ۱۹۰۶ ء میں آپ تپ محرقہ سے علیل ہو گئے اور سترہ دن تک بخار میں مبتلا رہ کر ۲۷ مئی ۱۹۰۶ء کو اپنی جان اپنے مالک حقیقی کو سونپ دی.حضرت بانی سلسلہ نے فرمایا کہ چودھری اللہ داد صاحب بڑے مخلص تھے.ایسا آدمی پیدا ہونا مشکل ہوتا ہے اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ان کو بہشتی مقبرہ میں دفن کیا جائے چنانچہ حسب الحکم ایسا ہی کیا گیا.

Page 314

291 حضرت اقدس بانی سلسلہ کی پاکیزہ مجلس میں آپ کا ذکر ہوا تو حضور نے فرمایا:- فرمایا: بڑے مخلص آدمی تھے ایسا آدمی پیدا ہونا مشکل ہے.فرمایا جو الہام الہی نازل ہوا تھا کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے“ ان میں سے ایک شہتیر تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے، دوسرے چودھری صاحب معلوم ہوتے ہیں.یہ جو رویا دیکھا تھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی قبر کے پاس دو اور قبریں ہیں وہ بھی پورا ہوا.ایک قبرائی بخش صاحب ساکن مالیر کوٹلہ کی بنی اور دوسری چودھری صاحب مرحوم کی بنی.اخبار البدر قادیان ۱۷ جون ۱۹۰۶ ء ) ماخذ : (۱) تبلیغ رسالت (۲) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم (۳) حیات احمد جلد دوم (۴) اخبار البدر قادیان ۹ فروری ۱۹۰۵، ۲۰ جولائی ۱۹۰۵، (۵) ملفوظات جلد پنجم (۶) الفضل ۹ فروری ۱۹۱۶ - الفضل ۱۳ را کتوبر ۲۰۰۵ء.☆ ۲۶۱.حضرت میاں حاجی وریام خوشاب بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت میاں حاجی وریام رضی اللہ عنہ خوشاب کے محلہ سنو چڑاں کے رہنے والے تھے.والد کا نام میاں جیون تھا.آپ ارائیں قوم سے تھے.آپ گلہ بانی کرتے تھے.قران کریم کی تلاوت بڑی خوش الحانی سے کیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ گلہ بانی کے دوران بھی جاری رہتا تھا.احمدیت قبول کرنے سے قبل اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.بیعت : حضرت میاں فضل دین کے ساتھ حضرت میاں حاجی وریام نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر نور القرآن نمبر 1 میں حضرت اقدس کی خدمت میں رہنے والوں میں آپ کا ذکر ہے.وفات و اولاد : آپ کی وفات خوشاب میں ہوئی.جہاں آپ مقامی قبرستان میں مدفون ہیں.آپ کی یادگار صرف ایک لڑ کی عمراں بی بی تھی.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۲) نور القرآن نمبر ۲ (۳) روایات حضرت اللہ داد مرحوم و حافظ عبد الکریم مرحوم خوشاب (۴) بیان مکرم را نا عطاء اللہ صاحب آف خوشاب حال لندن.

Page 315

292 ☆ ۲۶۲.حضرت مولوی فضل دین صاحب.خوشاب ولادت : ۱۸۳۶ء.بیعت: ۱۸۹۵ء.وفات : ۲۴ ستمبر ۱۹۰۸ء تعارف: حضرت مولوی فضل دین رضی اللہ عنہ خوشاب شہر کے محلہ آہیرا نوالہ میں پٹھان خاندان سے تھے.آپ کی ولادت سال ۱۸۳۶ء میں ہوئی.آپ کے قریبی عزیز حضرت فتح دین خاں صاحب بھی رفقاء تھے.جو امام الصلوۃ تھے.آپ حافظ قرآن تھے.بیعت آپ خوشاب شہر کے پہلے احمدی تھے آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت ۱۸۹۵ء کی تھی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا تحفہ قیصریہ میں ڈائمنڈ جوبلی کے لئے چندہ دینے والوں میں نام درج فرمایا ہے.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت اقدس کے معاصر علماء میں آپ کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کا شرف حاصل کیا ہے.حضرت حافظ صاحب کے بھانجے مکرم عبدالرحیم خاں اور حافظ عبدالکریم خاں صاحب تھے ہر دو نے ۱۹۲۴ ء اور ۱۹۲۶ء میں بیعت کی.حافظ عبدالکریم صاحب نے ۷۲ افراد کے ساتھ بیعت کی.ان کے چھ بیٹے ہیں.جن میں سے مکرم عبدالرشید خان صاحب تحصیلدار ( والد مکرم عبدالسمیع خاں صاحب ایڈیٹر الفضل ربوہ ) اور مکرم عبدالستار خاں صاحب مربی سلسلہ.وفات: آپ کی وفات ۲۲ تمبر ۱۹۰۸ء میں ہوئی.حضرت خلیفہ امسیح الاول نے آپ کی نماز جنازہ غائب جمعہ کے دن پڑھانے کا ارشاد فرمایا.آپ نے ۳ امئی ۱۹۰۶ء کو وصیت کی.وصیت نمبراا ہے جو الحکم میں ۱۰ را پریل ۱۹۰۷ء کو شائع ہوئی.بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کا کتبہ نصب ہے.ماخذ : (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) الحکم.ار ا پریل ۱۹۰۷ء جلد نمبر۱۲ (۳) اخبار بدر جلد نمبر ۳۶(۴) میرا خاندان الفضل ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۵ء (۵) بیان مکرم را نا عطاء اللہ صاحب آف خوشاب حال لندن (۶) بیان مکرم مولانا عبدالستار خان صاحب آف خوشاب مربی سلسلہ پین و گوئٹے مالا.

Page 316

293 ۲۶۳.حضرت سید دلدار علی صاحب بلہور.کانپور بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت دلدار علی رضی اللہ عنہ باہور کانپور کے رہنے والے تھے.محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حکومت کی طرف سے بھجوائے گئے ایک نوٹس بابت مذہبی مباحثات کے دستخط کنندگان میں آپ کا بھی نام تھا.کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے آپ کا نام ۶ نمبر پر درج فرمایا ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۲) ضمیمہ انجام آتھم (۳) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد۱۰.رفقائے باکمال وہ مهدی ( مکرم عبد الکریم قدسی صاحب) ساتھی میسج پاک" کے جو ابتدا کے تھے مخلص تھے، جانثار تھے، پتلے وفا کے تھے بوریا نشین سہی لیکن تھے باکمال سوتے تھے فرش خاک پر وہ آسماں کے لال ہر حکم ورق دل لکھا، زیب تن کیا پر کے قُرب نے انہیں ڈر عدن کیا کھانے کا ان کو ہوش نہ پینے کا ان کو ہوش بس دعوت الی اللہ کا رہتا تھا ایک جوش وہ بے نظیر لوگ تھے اور دیں کی ڈھال تھے بیعت نبھانے والے عجب بے مثال تھے اک انجمن تھے ذات میں خوبی میں چاند تھے ان کے عمل کے سامنے تارے بھی ماند تھے اب ایسے جاں سپاس کہاں، ڈھونڈ لیے ہزار لازم ہے ان کے ہم پڑھیں حالات بار بار تین سو اور تیرہ میں کس کس کا ذکر ہو وہ لعل باکمال ہے جس جس کا ذکر ہو ان

Page 317

294 ۲۶۴.حضرت سید رمضان علی صاحب بلہور.کانپور بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت سید رمضان علی رضی اللہ عنہ بلہور کا نپور کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں آپ کے ذکر کے ساتھ لکھا ہے پنشن ڈ پٹی انسپکٹر پولیس الہ آباد.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) آریہ دھرم صفحه ۹۳ روحانی خزائن جلد۱۰.۲۶۵.حضرت سید جیون علی صاحب پلول.حال اللہ آباد بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت سید جیون علی رضی اللہ عنہ پلول الہ آباد کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے اپنی پُر امن جماعت میں آپ کا نام درج فرمایا ہے.جہاں آپ کوا کا ؤنٹنٹ محکمہ پولیس الہ آباد کے طور پر تحریر فرمایا ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۰ ۲۶۶ - حضرت سید فرزند حسین صاحب چاند پور.الہ آباد بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت سید فرزند حسین رضی اللہ عنہ چاند پور الہ آباد کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت

Page 318

295 ابتدائی ایام کی ہے.پولیس میں ملازم تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ذکر میں سید فرزندعلی ملازم پولیس الہ آباد کا تعارف درج ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ ☆ ۲۶۷.حضرت سید اہتمام علی صاحب موہر ونڈا.الہ آباد بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت: حضرت سید اہتمام علی رضی اللہ عنہ موہٹر ونڈا الہ آباد سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس نے انجام آتھم میں آپ کا نام درج کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.۲۶۸.حضرت حاجی نجف علی صاحب.کڑہ محلہ.الہ آباد بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت حاجی نجف علی صاحب رضی اللہ عنہ الہ آباد سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس نے انجام آتھم اور ۳۱۳ میں آپ کا نام اور رفقاء میں آپ کا ذکر کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : ضمیمہ انجام آنقم روحانی خزائن جلدا.

Page 319

296 ☆ ۲۶۹.حضرت شیخ گلاب صاحب.کڑہ محلہ.الہ آباد بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت شیخ گلاب رضی اللہ عنہ کڑہ محلہ الہ آباد کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.کتاب البریہ میں پُرامن جماعت کے طور پر آپ کا ذکر کیا گیا ہے.حضرت اقدس نے انجام آتھم میں آپ کا نام درج کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۰.☆ ۲۷۰.حضرت شیخ خدا بخش صاحب.کڑہ محلہ.الہ آباد بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت: حضرت شیخ خدا بخش رضی اللہ عنہ کڑہ محلہ الہ آباد سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام غوث محمد صاحب تھا جو جو نپور کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.آپ کا نام حضرت مسیح موعود نے گورنمنٹ کے پاس بھجوائے گئے ایک نوٹس میں کیا ہے جو کتاب آریہ دھرم میں درج ہے.حضرت اقدس نے انجام آتھم میں آپ کا نام درج کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) آر به دهرم صفحه ۹۳ روحانی خزائن جلد ۱۰ ☆ ۲۷۱.حضرت حکیم محمد حسین صاحب لاہور ولادت ۳ رمئی ۱۸۶۹ ء.بیعت : ۱۴ / جولائی ۱۸۹۱ء.وفات : ۱۲ / اپریل ۱۹۳۲ء تعارف: حضرت حکیم محمد حسین رضی اللہ عنہ ۳ رمئی ۱۸۶۹ء میں پیدا ہوئے.آپ حافظ قرآن بھی تھے.آپ کے والد صاحب کا نام مولوی الہی بخش صاحب تھا دادا کا نام مولوی محمد بخش صاحب تھا.(لا ہور تاریخ احمدیت )

Page 320

297 ابتدائی تعلیم حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب سے حاصل کی.۱۸۸۶ء میں آپ گورنمنٹ سکول لاہور کی مڈل کلاس میں داخل ہوئے.طبی تعلیم کی تکمیل کے لئے آپ نے حکیم حاذق عمدۃ الحکماء اور زبدۃ الحکماء کے امتحانات پاس کئے.آپ حضرت حکیم محمدحسین موجد مفرح عنبری کے طور پر معروف ہیں.حضرت اقدس کی بیعت : آپ کو براہین احمدیہ پڑھنے کا موقع ملا اور حضرت اقدس کی محبت کا جوش پیدا ہوا.۱۴ جولائی ۱۸۹۱ء میں آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.رجسٹر بیعت اولی میں آپ کا نام ۱۴۳نمبر پر درج ہے.تاریخ بیعت ۱۴ جولائی ۱۸۹۱ء کی ہے جہاں پوتا میاں چٹو ساکن لاہور تحریر ہے.( چونکہ دادا کا رنگ بہت گورا تھا اس لئے میاں چنو یعنی چٹا مشہور تھے.اصل نام مولوی محمد بخش صاحب تھا.) آپ نے طب کی تعلیم حضرت خلیفہ اسیح الاوّل سے جموں سے حاصل کی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام میں لنگے منڈی کے تعارف سے جلسہ سالانہ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والے احباب میں ذکر کیا ہے.تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی کے شرکاء اور پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے.دینی خدمات آپ جماعت احمد یہ لاہور کے سرگرم رکن تھے.جماعت احمدیہ لاہور کے جنرل سیکرٹری بھی رہے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ۱۹۲۴ء میں یورپ جانے پر قائمقام امیر بھی رہے.مسجد احمدیہ کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.وفات : آپ کی وفات ۱۲ س ا پریل ۱۹۳۲ء کو ہوئی.اولاد : آپ کی اولاد میں معروف قریشی محمد اسمعیل صاحب ہیں.آپ کی بیٹی زینب حضرت اقدس کے زمانہ میں وفات پا گئی تھیں.حضرت حکیم محمد حسین کے دادا شیخ محمد چٹو صاحب آخر اکتوبر ۱۹۰۶ء میں قادیان گئے.حضرت حکیم صاحب اپنے ساتھ اپنے دادا کے علاوہ دو اور چکڑالویوں کو بھی لے گئے.سید محمد یوسف بغدادی ان میں سے ایک تھے.شیخ محمد چٹو صاحب آخری عمر میں چکڑالوی مکتب فکر کے ہو گئے.اس نے حضرت اقدس سے آپ کے دعوئی امامت کا ثبوت قرآن سے مانگا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ جن دلائل سے آپ نے قرآن شریف کو سچا مانا ہے.66 انہی دلائل کے ذریعہ سے پھر میری سچائی کو پرکھ لیں.شیخ محمد چٹو صاحب اس دلیل کا کوئی جواب نہ دے سکے.“ ( تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحه ۴۷۳) ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن ۱۲ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن ۱۳ (۴) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلدا (۵) لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۵۶ تا ۱۶۸ (۶) مکتوبات احمدیہ

Page 321

298 ضروری نوٹ: محترم شیخ عبدالقادر مرحوم ( سابق سوداگر مل ) مربی سلسلہ احمد یہ لاہور ، مصنف لا ہور تاریخ احمدیت نے صفحہ ۱۲۵ تا۱۳۴ پر حضرت حکیم محمد حسین مرہم عیسی کے سوانح کا ذکر کرتے ہوئے اسماء صحابہ کی فہرست میں ۲۷۱ نمبر پر حضرت حکیم محمد حسین اگر ہم عیسی کا نام لکھا ہے.جبکہ رجسٹر بیعت میں میاں چٹو کے پوتا حکیم محمدحسین ولد الہی بخش لا ہور عمر ۲۲ سال کا ذکر ہے.چونکہ دونوں مذکورہ احباب میں نام کی حد تک موافقت ہے مگر رجسٹر بیعت میں مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۸۹۱ء کے حوالہ سے حکیم محمد حسین ولد الہی بخش پونا میاں محمد چٹو کا ہی ذکر ہے.قرین قیاس ہے کہ فہرست ضمیمہ انجام آتھم کے ۲۷۱ نمبر پر درج یہی شخصیت مراد ہیں.☆ ۲۷۲.حضرت میاں عطا محمد صاحب سیالکوٹ بیعت : ابتدائی زمانہ میں تعارف و بیعت : حضرت میاں عطا محمد رضی اللہ عنہ کا تعلق سیالکوٹ شہر سے ہے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس کی طرف سے گورنمنٹ کو بھجوائے گئے ایک نوٹس کے دستخط کنندگان میں آپ بھی شامل ہیں.حضرت اقدس نے انجام انتظم میں آپ کا نام درج کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱۰ آنقم ۱ ☆ ۲۷۳.حضرت میاں محمد دین صاحب جموں بیعت: ابتدائی ایام.وفات: ۱۹۴۹ء تعارف: حضرت میاں محمد دین رضی اللہ عنہ کا تعلق جموں سے تھا.آپ کے والد کا نام امام دین صاحب تھا.مکرم مولانا محمد اسد اللہ قریشی الکاشمیری مرحوم نے " تاریخ احمدیت جموں و کشمیر پر حضرت میاں محمد دین صاحب جموں کا نام درج کیا ہے لیکن انہیں تفصیلی حالات نہیں مل سکے.آپ ایک معروف سرویر Surveyor تھے.جہلم اور اٹک کے پلوں کی تعمیر پر کام کیا.ایک عرصہ افریقہ میں ملازمت پر گزارا.۱۹۲۵ء میں دارالرحمت قادیان میں سکونت اختیار کی.زیارت و بیعت : حضرت میاں صاحب جموں سے قادیان حضرت اقدس کی زیارت کے لئے تشریف لائے اور

Page 322

299 شرف بیعت حاصل کیا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب ”کتاب البریہ“ میں اپنی پر امن جماعت کے اسماء بطور نمونہ دیتے ہوئے آپ کا نام بھی ۲۱۰ نمبر پر لکھا ہے اور نام کے ساتھ تاجر و پروپرائٹر شومینگ جموں لکھا ہے.اسی طرح حضور کی کتاب ” سراج منیر اور تحفہ قیصریہ میں آپ کے دو آ نے چندے کا ذکر محفوظ ہے.یہاں حضور نے نام کے ساتھ بوٹ فروش لکھا ہے.آپ جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں بھی شامل ہوئے.وفات: آپ نے ۱۹۲۹ء میں جہلم میں وفات پائی.اولاد: احمد دین بٹ مرحوم آپ کے بیٹے تھے.جن کے دیگر چھ بھائی دو بہنیں تھیں.آپ کے پوتے پوتیاں ہیں.جن میں سے اعجاز احمد بٹ صاحب جہلم معروف ہیں.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آنتم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) تحفہ قیصر میر وحانی خزائن جلد ۱۲ (۵) تاریخ احمدیت جموں وکشمیر(۱۶) بیان مکرم اعجاز احمد صاحب بٹ جہلم ☆ ۲۷۴.حضرت میاں محمد حسن صاحب عطار.لد ہیانہ بیعت: ابتدائی زمانہ میں حضرت میاں محمد حسن رضی اللہ عنہ لدھیانہ کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس نے انجام آتھم میں آپ کا نام درج کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.☆ ۲۷۵.حضرت سید نیاز علی صاحب بدایوں حال را مپور بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت: حضرت سید نیاز علی رضی اللہ عنہ بدایوں رام پور میں پیدا ہوئے.آپ ضلع رام پور میں محر ملازم تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.

Page 323

300 حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آپ کا ذکر کتاب البریہ میں پر امن جماعت کے ضمن میں کیا ہے.اولاد: آپ کے بیٹے حکیم ارشاد علی صاحب تھے جنہوں نے لکھنو میں حکمت کی تعلیم حاصل کی اور رام پور میں مطب کرتے رہے.تذکرہ کا ملاں رامپور میں ان کا ذکر ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) بیان مکرم محمد رضا بهل صاحب کراچی.۲۷۶.حضرت ڈاکٹر عبدالشکور صاحب.سرسہ بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت ڈاکٹر عبدالشکور رضی اللہ عنہ سرسہ کے رہنے والے تھے.سرسہ ضلع گیا میں واقع ہے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.(وہاں کے ایک اور رفقاء حضرت سید محمد عالم صاحب تھے جن کی روایات رجسٹر روایات میں درج ہیں.) حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : کتاب آریہ دھرم اور کتاب البریہ میں اپنی پر امن جماعت کے ذکر کردہ احباب میں آپ کا بھی نام لکھا ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد۱۰ (۳) کتاب البر یہ روحانی خزائن جلد ۱۳ ۲۷۷.حضرت شیخ حافظ الہ دین صاحب بی.اے جھاوریاں بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت شیخ حافظ الہ دین بی اے رضی اللہ عنہ کانام قصبہ جھادریاں کی نسبت سے انجام آتھم میں

Page 324

301 درج ہے.یہ بھی حضرت حکیم مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ کے علمی اور روحانی فیضان کا ہی کرشمہ نظر آتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ اہم شخصیت نے حضرت اقدس سے بیعت اخوت کا تعلق قائم کیا.بھیرہ کی تاریخ احمدیت میں ڈاکٹر ایم ڈی کریم صاحب کے ذکر میں حضرت میاں محمد دین صحابی سکنہ جھاوریاں کے بارہ میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان کے داماد تھے.قیاس ہے کہ میاں محمد دین حضرت شیخ حافظ الہ دین سکنہ جھاوریاں کے بھائی ہیں.کیونکہ نام بھی ملتا جلتا ہے.بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) تاریخ احمدیت جلد ہشتم (۳) سیرت حضرت مسیح موعود (۴) بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحہ ۱۲۱.☆ ۲۷۸.حضرت میاں عبدالسبحان.لاہور بیعت : ۲۳ /اپریل ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت میاں عبدالسبحان رضی اللہ عنہ جمال تھے.آپ کے والد صاحب کا نام عبدالغفار کشمیری تھا.بھائی دروازہ کے کشمیری خاندان سے تعلق تھا.ہجرت کر کے قادیان آگئے.مکانوں کی سفیدی کا کام کرتے تھے.بیعت : آپ کی بیعت ۲۳ /۱اپریل ۱۸۸۹ء کی ہے.رجسٹر بیعت اُولیٰ میں اندراج ۸۸ نمبر پر ہے.آپ کی بیعت میں پیشہ ملازم ریلوے تحریر ہے.رجسٹر روایات میں ہے ”مستری عبدالسبحان صاحب کو قاضی غلام قادر صاحب ٹیچر گورنمنٹ سکول اور ان کے بیٹے عبدالغنی صاحب نے حضرت مرزا صاحب کی بیعت کی تحریک کی.کہنے لگے کہ میری غرض تو بیعت سے خدا تعالیٰ کو دیکھنا ہے.انہوں نے جوابا کہا یہ تو ناممکن ہے.اس پر مستری صاحب نے کہا کہ میں بیعت نہیں کرتا مگر ساتھ ہی تجویز پیش کی کہ ان کی طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں ادب سے خط لکھو کہ اس کا مطالبہ خدا کے دیدار کرنے کا ہے.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.حضرت مسیح موعود کی طرف سے یہ عنایت نامہ صادر ہوا کہ.دل لگا کر نماز پڑھو اور اپنی زبان میں دعائیں مانگتے رہو یہی طریقہ ہے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا اس مبارک تحریر سے ان کا دل یقین سے لبریز ہو گیا کہ یہی بیج ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) رجسٹر بیعت اُولیٰ مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۴۷ (۲) لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۵۴

Page 325

302 ۲۷۹.حضرت میاں شہامت خان.نادون بیعت ۲۳ را پریل ۱۸۸۹ء.وفات ۱۹۲۹ء تعارف: حضرت میاں شہامت خان رضی اللہ عنہ نا دون ضلع کانگڑہ کے رہنے والے تھے.آپ کے بھائی حضرت میاں امانت خان صاحب بھی تین صد تیرہ بزرگان میں شامل ہیں جن ۱۷۵ ویں نمبر پر ذکر کیا گیا ہے.ایک دفعہ جب حضرت میاں امانت خان حضرت اقدس سے بیعت کرنے گئے تو حضرت اقدس نے ان سے آپ کا ( یعنی میاں شہامت خاں صاحب) کی خیریت دریافت فرمائی.بیعت کا پس منظر : حضرت ڈاکٹر نعمت خاں صاحب ولد میاں امان خاں صاحب نادون جو حضرت میاں شہامت خان صاحب کے تایا زاد بھائی تھے بیان کرتے ہیں: ( نادون میں ) ایک فقیر رہتا تھا.جس کو سائیں قلندرشاہ کہتے تھے.اس کے ساتھ میرے تایا زاد بھائی منشی شہامت خاں کی محبت تھی.اس زمانہ میں منشی صاحب کو بھی ور دو ظائف کا شوق تھا اور وہ بہت سا حصہ رات کا لیکر مسجد جولب چشمہ ہے اور اب ہماری جماعت کے قبضہ میں ہے چلے جایا کرتے تھے.یہ کوئی ۱۸۸۱ ء یا ۱۸۸۲ء کا ذکر ہے کہ ایک روز سائیں قلندر شاہ ان سے کہنے لگا.خاں میاں مہدی پیدا ہو گیا ہے.انہوں نے تعجب سے پوچھا.سائیں کہاں.کہنے لگا قادی.انہوں نے کبھی قادی کا نام نہ سنا تھا.وہ کہنے لگے سائیں کہاں ہے.وہ کہنے لگا کہ پنجاب میں بٹالہ سے آگے ہے.چنانچہ ان دنوں ہم چھوٹے چھوٹے تھے.اور سکول میں پڑھا کرتے تھے.کچھ خیال نہ کیا.لیکن جس وقت حضرت صاحب نے دعویٰ کیا تو اس وقت ہمارے خاندان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے میں کوئی تکلیف حائل نہ ہوئی.اور میرے دونوں تایا زاد یہاں امانت خاں اور شہامت خاں حضرت صاحب کی بیعت میں داخل ہو گئے اور ۳۱۳ صحابیوں میں ان کے نام آ گئے“ (رجسٹر روایات نمبر ۴ صفحه ۲-۳) حضرت اقدس کی بیعت: جب ۱۸۸۶ء میں براہین احمدیہ کا اشتہار شائع ہوا تو آپ نے براہین احمد یہ منگوالی اور جب بیعت کا اعلان ہوا.تو بیعت کر لی.وفات : حضرت میاں شہامت خان کی وفات ۱۹۲۹ ء میں ہوئی.حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.اولاد: آپ کے بیٹے ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کے بارے میں فرمایا ” ان کے بیٹے ڈاکٹر مطلوب خان صاحب کے متعلق جب کہ وہ جنگ کے دنوں میں ۱۹۲۸ء میں لڑائی پر گئے ہوئے تھے.گورنمنٹ کی طرف سے تار آیا تھا کہ وہ مارے گئے ہیں.لیکن مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا تھا کہ وہ فوت نہیں ہوئے چنانچہ ایسا ہی ہوا کچھ دنوں کے بعد گورنمنٹ نے اطلاع دی کہ وہ زندہ اور قید میں ہیں ماخذ: (۱) تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحه ۱۸۹ (۲) رجسٹر روایات نمبر ۴ (۳) رجسٹر روایات نمبر ۶ (۴) الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۲۹ء

Page 326

303 ☆ ۲۸۰ - حضرت مولوی عبدالحکیم صاحب دھار وار علاقہ بمبئی بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت: حضرت مولوی عبدالحکیم رضی اللہ عنہ علاقہ دھاروار بمبئی کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس نے انجام آتھم میں آپ کا نام درج کیا ہے.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے آپ کا نام حضرت اقدس مسیح موعود کے معاصر علماء کرام کی فہرست میں درج کیا ہے جنہوں نے آپ سے عقدا خوت باندھا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں اپنی پر امن جماعت میں آپ کا نام بھی درج فرمایا ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر جلسہ سالانه ۱۹۶۴ء.۲۸۱.حضرت قاضی عبد اللہ صاحب.کوٹ قاضی ولادت ۹ / نومبر ۱۸۸۶ء.بیعت : ۱۸۸۹ء.وفات : ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء تعارف و بیعت : حضرت قاضی محمد عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی ولادت ۹ / نومبر ۱۸۸۶ء کی ہے.آپ قاضی ضیاء الدین صاحب کے بیٹے تھے.حضرت قاضی ضیاءالدین صاحب کی بیعت ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کی ہے اور آپ کی بیعت بھی ساتھ ہی ہو گئی.۲۹ / مارچ ۱۹۰۰ ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل ہوا.ان ہی ایام میں آپ مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے.آپ نے بی اے بی ٹی تک تعلیم پائی.دینی خدمات : حضرت اقدس مسیح موعود کے زمانہ میں زندگی وقف کی.آپ نے انگلستان میں ۶ ستمبر ۱۹۱۵ء تا ۲۸ نومبر ۱۹۱۹ء کا عرصہ فریضہ تبلیغ میں گزارا.کشمیر کمیٹی میں بھی حضرت قاضی صاحب کو خدمات کا موقع ملا.پھر ملکا نہ میں شدھی کی تحریک کا مقابلہ کرتے رہے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے.حضرت اقدس سے اخلاص کا تعلق : آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کو دیکھا اور پھر ہمیشہ اپنے.

Page 327

304 عمل سے ثابت کیا کہ انہوں نے اس عظیم شخصیت کو صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ اپنے آقا کا رنگ بھی اپنی زندگی پر چڑھانے کی آخر دم تک کوشش کی.جو آپ کو عزت و احترام کا موجب بناتی رہی.قاضی کے طور پر اور صحافت کے فرائض بھی مرکز میں سرانجام دیئے.آپ کی شادی اور اولاد : آپ کی دوشادیاں ہوئیں.پہلی شادی ۱۹۰۸ء میں جو حضرت سید عبدالرحمن صاحب کی بیٹی کلثوم بانو سے ہوئی.اس سے آپ کی ایک بیٹی امتہ الوہاب تھی جس کی شادی حضرت حکیم انوار حسین صاحب ( یکے از ۳۱۳) کے پوتے مکرم عبداللطیف خاں مرحوم سابق اسٹمنٹ پرائیویٹ سیکرٹری سے ہوئی.حضرت قاضی صاحب کی یہ بیٹی جرمنی میں ہیں.اہلیہ ثانی محترمہ امتۃ الرشید صاحبہ، ڈاکٹر عطاء محمد خان صاحب سکنہ موضع کھرل ضلع ہوشیار پور کی بیٹی تھیں ان سے آپ کی کوئی اور اولاد نہ تھی.وفات: ۸۲ برس کی عمر میں وفات پائی اور آپ کا جنازہ حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے پڑھایا.آپ کی وفات ۳۱۳ رفقاء میں سب سے آخر میں ہوئی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.نوٹ: تفصیلی حالات اصحاب احمد جلد ششم میں ہیں.ماخذ : (۱) اصحاب احمد جلد ششم صفحه ۱۳۸۹ (۲) الفضل ۲۸ اگست ۱۹۹۸ء (۳) روزنامه الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۷۶ء ☆ ۲۸۲.حضرت عبدالرحمن صاحب پٹواری سنوری بیعت : ۳ / مارچ ۱۸۹۰ء تعارف: حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ولد دیدار بخش صاحب ساکن سنور علاقہ پٹیالہ سے تھے.آپ زمینداری کرنے کے علاوہ بطور پٹواری بھی ملازم تھے.بیعت : رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت ۱۷۶ نمبر پر ہے.آپ نے ۳ / مارچ ۱۸۹۰ء کو بیعت کی.آپ حضرت میاں عبد اللہ سنوری کے ماموں زاد بھائی تھے.آپ نے جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شمولیت کی توفیق پائی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں مخلص چندہ دہندگان میں اور آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام ۸۲ نمبر پر لکھا ہے.کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں ذکر کیا ہے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۳) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۴) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۲ (۵) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ پنجم.

Page 328

305 ☆ ۲۸۳.حضرت برکت علی صاحب مرحوم تھہ غلام نبی بیعت: ابتدائی ایام میں.وفات : جنوری ۱۸۹۷ء تعارف و بیعت: حضرت برکت علی رضی اللہ عنہ سکنہ راہوں ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.آپ حضرت حافظ حامد علی صاحب کے چھوٹے بھائی تھے.(آپ کے بیٹے محترم ملک عبدالرحمن صاحب، عمر کے آخری حصہ میں سمن آباد لاہور میں رہائش پذیر رہے.آپ کے بیٹے کے ہم نام آپ کے بھانجے حضرت مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل ( امیر جماعت قادیان وفات: جنوری ۱۹۷۷ ء ) جن کے والد بھی آپ کے ہمنام تھے جو شیخ کہلاتے تھے اور فیض اللہ چک نز د قادیان کے رہنے والے تھے.) وفات : حضرت برکت علی صاحب کی وفات جنوری ۱۸۹۷ء کو ہوئی.اولاد : آپ کے بیٹے ملک عبد الرحمن صاحب سمن آبا دلا ہور میں سکونت پذیر ہوئے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) الفضل ۱/۱۸اپریل ۱۹۹۳ء (۳) الفرقان ر بوه در ویشان قادیان نمبر ، اگست ۱۹۶۳ء (۴)272-269 In the Company of the Promised Messiah Page" ۲۸۴.حضرت شہاب الدین صاحب.تھہ غلام نبی بیعت ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء تعارف: حضرت شہاب الدین رضی اللہ عنہ ولد مہتاب دین صاحب تھہ غلام نبی تھے.بیعت : بیعت کے وقت جموں میں ملازم تھے.رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت کا نمبر ۱۳ ہے ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو آپ نے بیعت کی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آسمانی فیصلہ میں پہلے جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں شامل ہونے والوں میں تھے.ازالہ اوہام میں حضور نے آپ کے متعلق فرمایا (۳۵) حبی فی اللہ شیخ شہاب الدین موحد - شیخ شہاب الدین غریب طبع اور مخلص اور نیک خیال آدمی ہے.نہایت تنگدستی اور عسر سے اس مسافر خانہ کے دن پورے کر رہا ہے.“

Page 329

306 آئینہ کمالات اسلام اور تحفہ قیصریہ میں جلسہ سالانہ اور جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شامل ہونے والوں میں ذکر ہے.نوٹ: آپ کے مزید تفصیلی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحه ۳۴۴ (۲) آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۲ (۳) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۴) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۵) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲.۲۸۵.حضرت صاحب دین صاحب تہال.گجرات ولادت : ۱۸۷۴ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۹۰۸ء تعارف: حضرت میاں صاحب دین رضی اللہ عنہ تہال ضلع گجرات کے رہنے والے تھے جو کھاریاں کے قریب واقع ہے.آپ تہال میں امام مسجد تھے.اور بہت بزرگ اور خدا رسیدہ انسان تھے.آپ کے خاندان سے ایک صاحب صوبہ خان حفظ قرآن کیلئے گولیکی ضلع گجرات گئے.ادھر واپس آکر یہاں قیام کیا.آپ کو علم کا بیحد شوقت تھا اور تہال میں ایک ذاتی کتب خانہ بھی تھا.بیعت : آپ ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں شامل تھے اور یہی سال آپ کی بیعت کا ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : آئینہ کمالات اسلام میں آپ کے نام کا اندراج جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں میں 11 نمبر پر ہے.تحفہ قیصریہ میں آپ کا جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شامل ہونے والوں میں بھی ذکر ہے.حضور نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں اپنے ایک نشان کے متعلق آپ کی گواہی بھی درج کی ہے کہ ۳۱۲ مارچ ۱۹۰۷ء کو بوقت تخمیناً چار بجے دن کے آپ کے الہام کے مطابق ایک تعجب انگیز واقعہ ظہور میں آیا یعنی آسمان پر ایک انگارا نمودار ہوا جس کے دیکھتے ہی ہزاروں آدمی تعجب میں رہ گئے.“ (صفحہ ۵۲۹) دینی خدمت: جماعت احمد یہ تہال کی بنیاد آپ نے ہی رکھی تھی.آپ کی کوششوں سے تہال میں جماعت قائم ہو گئی.آپ لمبا عرصہ تہاں جماعت کے امام الصلوۃ رہے.وفات : آپ کی وفات ۱۹۰۸ء میں ہوئی.اولاد: آپ کے بیٹے کا نام عبدالرحیم صاحب تھا.جن کے دولڑ کے تھے مکرم صاحب دا داور مکرم کرم داد صاحب.مکرم کرم داد صاحب تہاں جماعت کے صدر بھی رہے.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۲۰ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ (۴) گجرات میں احمدیت غیر مطبوعہ مقالہ مکرم عبد الرزاق صاحب گجراتی.

Page 330

307 ☆ ۲۸۶.حضرت مولوی غلام حسن مرحوم.دینا نگر بیعت: ابتدائی ایام میں.وفات ۱۸۹۷ء سے قبل تعارف و بیعت : حضرت مولوی غلام حسن رضی اللہ عنہ دینا نگر گورداسپور سے تعلق رکھتے تھے.دینا نگر گورداسپور سے پندرہ میں میل کے فاصلے پر ایک ریلوے اسٹیشن ہے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.وفات آپ کی وفات ۱۸۹۷ء سے قبل ہوئی.نوٹ: آپ کے سوانحی حالات دستیاب نہیں ہو سکے.مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم نے آپ کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہم عصر علماء میں درج کیا جنہوں نے آپ کی بیعت کی.ماخذ : (۱) انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) ملاحظہ نقشہ مندرجہ "اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۴۸ (۳) صداقت حضرت مسیح موعود تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ء ۲۸۷.حضرت نواب دین صاحب مدرس دینا نگر بیعت : ۱۸۹۰/۶۱۸۸۹ء.وفات : ۱۹۱۴ ء یا ۱۹۱۵ء تعارف و بیعت : حضرت نواب دین رضی اللہ عنہ کا آبائی شہر بٹالہ تھا.دینا نگر ضلع گورداسپور میں ہیڈ ماسٹر تھے.جو گورداسپور سے پندرہ میل کے فاصلہ پر واقع ہے.طالب علمی کے دور میں قادیان گئے تو حضرت اقدس کا چہرہ دیکھتے ہی بیعت کر لی.برادری کے دباؤ پر گھر سے نکال دیئے گئے.گھر سے نکالے جانے کے بعد یہی کہتے رہتے کہ میں نے جونور اور سچائی آپ کے چہرے پر دیکھی ہے.اس سے انکار نہیں ہوسکتا.پھر دینا نگر میں ہی آپ کو ملازمت مل گئی جہاں آپ ہیڈ ماسٹر ہو گئے.بعد میں بٹالہ میں مکان بنایا.آپ بسا اوقات قادیان سائیکل پر جاتے تھے.بائیسکل کو انگریزی گھوڑا کہتے تھے.تحفہ قیصریہ میں حضرت اقدس نے آپ کا نام جلسہ ڈائمنڈ جوبلی کے حاضرین چندہ دہندگان میں ذکر فرمایا ہے.آپ کے ایک شاگر د پشاوری مل پلیڈر لکھتے ہیں کہ : ” مولوی نواب الدین صاحب ہمارے دینا نگر کے میونسپل بور ڈنڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے.نہایت متقی حلیم پر ہیز گار اورسخی تھے.ان کی تمام زندگی نہایت سادہ تھی غرور کا

Page 331

308 نام ونشان تک نہ تھا آپ احمدیت میں بہت راسخ ایمان رکھتے تھے.مولوی صاحب کی مشابہت اس پھول سے ہے جو کہ نہایت خوبصورت اور خوشبودار تھا.لیکن جنگل میں کھلا وہاں اپنی خوشبو پھیلائی اور اس کو کسی نے نہ پہچانا سوائے چند مسافروں کے.“ اولاد : پشاوری مل نے لکھا ہے کہ آپ کے دولڑ کے تھے ایک کا نام نذیر احمد انہیں یاد ہے.۱۹ نومبر ۲۰۰۴ء کے روزنامہ الفضل کے ایک مضمون سے نشاندہی ہوتی ہے کہ مکرمہ انور سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم شیخ عبدالحئی صاحب کراچی حضرت نواب دین صاحب کی پوتی ہیں.وفات: خلافت ثانیہ کے ابتداء میں آپ کی وفات ۱۹۱۴ یا ۱۹۱۵ء میں ہوئی.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) الفضل ۱۹/ نومبر ۲۰۰۴ء (۴) رسالہ اصحاب احمد جلد اول نمبر ۶ صفحه ۲۵-۲۶ (۵) مکتوب محمد احمد ابن عبد الحئی صاحب مرحوم دستگیر کالونی کراچی.☆ ۲۸۸.حضرت احمد دین صاحب.منارہ ولادت : ۱۸۵۰ء.بیعت : ۱۸ فروری ۱۸۹۲ء.وفات ۱۹۲۳ء تعارف و بیعت : حضرت احمد دین رضی اللہ عنہ موضع منارہ تحصیل پنڈ دادنخان (علاقہ وشہر میں سب سے پہلے احمدی) ( حال ضلع چکوال) کے رہنے والے تھے.آپ کی ولادت ۱۸۵۰ میں ہوئی.آپ کے والد کا نام محمد حیات صاحب تھا.آپ نے ۱۸ فروری ۱۸۹۲ء میں بیعت کی.رجسٹر بیعت اولیٰ میں اندراج ۲۶۷ نمبر پر ہے.آپ اس وقت سیالکوٹ میں تھے.آپ اس علاقہ کے استاد تھے.لوگ آپ کی نیکی و تقویٰ اور علم کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور گاؤں کی مسجد کے امام بھی تھے.لیکن جب آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو لوگوں نے آپ کو مسجد سے نکال دیا اور ان کے پیچھے نماز ترک کر دی.وہ بہت عرصہ گھر پر ہی نماز ادا کرتے رہے.آپ نہایت سادہ، بچے اور زہد میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے نہایت خوش اخلاق اور دعا پر یقین رکھنے والے تھے.آپ کے ایک رؤیاء سے منارہ میں سے گزرنے کا ذکر ملتا ہے.مخالفت : ۱۹۲۳ء میں آپ کے ان حالات سے اطلاع پا کر ملک گل محمد صاحب پنشنر ریڈر ( قادیان) آپ کے پاس گئے.ملک صاحب نے لوگوں کو سمجھایا کہ وہ مولوی ظہور شاہ کو شرارت سے روکیں جو ان حالات کو پیدا کر رہا تھا اور حضرت مولوی صاحب کو ملک صاحب اپنی رہائش گاہ پر لے گئے وہاں سب نے آپ کی اقتداء میں عشاء کی نماز پڑھی.وفات: آپ کی وفات ۱۹۲۳ء میں ۷۳ سال کی عمر میں ہوئی تھی آپ منارہ کے قبرستان میں مدفون ہیں.

Page 332

309 اولاد: چکوال تاریخ احمدیت سے آپ کے ایک پوتے عبدالغفور صاحب کا ذکر ملتا ہے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۳۵۹ (۳) ضمیمه تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحه ۳۲ (۴) ''ذکر حبیب از ملک گل محمد صاحب پنشنز ریڈر ( قادیان) مطبوعہ ریویو آف ریلیچنز (اُردو) مارچ ۱۹۴۳ء صفحہ ۳۶-۳۷ (۵) الفضل.۲۱ مئی ۱۹۹۷ء (۶) چکوال تاریخ احمدیت ( ۷ ) بیان مکرم منور احمد عارف جہلمی رحمن کالونی ربوہ.☆ ۲۸۹.حضرت عبداللہ صاحب قرآنی.لاہور بیعت: ابتدائی ایام میں.وفات : ۲۱ را کتوبر ۱۹۱۵ء تعارف و بیعت : حضرت عبداللہ صاحب قرآنی رضی اللہ عنہ لاہور سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی تھی.ایک صاحب عبداللہ صاحب لاہور کا نام بہشتی مقبرہ قادیان میں درج ہے اور تاریخ وفات ۲۱ /اکتوبر ۱۹۱۵ لکھی ہے ممکن ہے یہی مراد ہوں.واللہ اعلم بالصواب ( بحوالہ لا ہور تاریخ احمدیت ) نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۵۴

Page 333

310 ☆ ۲۹۰.حضرت کرم الہی صاحب کمپازیٹر.لاہور بیعت ابتدائی زمانہ.وفات ۱۶؍ دسمبر ۱۹۳۴ء تعارف و بیعت : حضرت کرم الہی رضی اللہ عنہ ، صوفی فضل الہی صاحب کے والد تھے.لاہور میں کمپازیٹر تھے.احمدیت قبول کرنے سے قبل پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے مرید تھے.نماز با جماعت کے بڑے پابند تھے.خاموش طبع مگر ہنس مکھ تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی تھی.وفات : آپ ۱۶ار دسمبر ۱۹۳۴ء کو فوت ہوئے کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں نصب ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) لا ہور تاریخ احمدیت صفحہ ۱۵۵.☆ ۲۹۱.حضرت سید محمد آفندی.ترکی بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت سید محمد آفندی ترکی رضی اللہ عنہ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.اور یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے رومی ( ترکی ) حکومت کے نائب قونصل مقیم کراچی کے بارہ میں جو پیشگوئی مئی ۱۸۹۷ء کو فرمائی تھی.اس کے سچا ثابت ہونے پر آپ کی خدمت میں اخبار نیر آصفی مدراس (۱۲ / اکتوبر ۱۸۹۹ء) کی اشاعت سے قبل جو خبر پہنچی اس کا تذکرہ حضور نے ایک معزز تر کی کی معرفت ہمیں خبر ملی تھی.“ کے الفاظ میں فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت سید محمد آفندی تر کی تھے اگر چہ حضرت اقدس نے نام نہیں لیا.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵

Page 334

311 ☆ ۲۹۲.حضرت عثمان عرب صاحب طائف شریف بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت: حضرت عثمان عرب رضی اللہ عنہ کا تعلق طائف شریف سے تھا.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے بیعت کرنے کا تذکرہ اپنی کتاب تحفہ بغداد صفحہ ۱۶ (طبع اول ) پر فرمایا ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) تحفہ بغداد روحانی خزائن جلد ۷ (۳) الفضل ۲ جولائی ۲۰۰۱ء ☆ ۲۹۳.حضرت عبدالکریم صاحب مرحوم چمارو بیعت :۱۸۹۲ء.وفات : ۱۸۹۷ء سے قبل تعارف: حضرت عبدالکریم رضی اللہ عنہ کا وطن موضع چهار دریاست پٹیالہ میں واقع ہے.جلسہ سالانہ میں شرکت اور بیعت : آئینہ کمالات اسلام میں حضرت عبدالکریم صاحب نمبر دار کا نام جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں میں ۹۰ نمبر پر موجود ہے.اسی طرح ۱۸۹۲ء میں آپ احمدیت قبول کر چکے تھے.وفات : آپ کے نام کے ساتھ مرحوم لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی وفات ۱۸۹۷ء سے قبل کی تھی.حضرت میر مہدی حسین صاحب کے ذریعہ احمدیت سے متعارف ہوئے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ (۳) سیرت احمد مصنفہ حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب (۴) مکتوبات احمد یہ جلد ششم حصہ اول صفحه ۲۱

Page 335

312 -۲۹۴.حضرت عبدالوہاب صاحب.بغدادی بیعت ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت عبدالوہاب رضی اللہ عنہ المعروف بغدادی سیاحت یا کاروبار کے لئے ملک ہند میں وارد ہوئے اور قبول حق کی توفیق پائی.حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں آپ کا نام قاضی عبدالوہاب نائب قاضی ضلع بلاسپور ممالک متوسط ۲۶۸ نمبر پر درج فرمایا ہے.( ملک متوسط Middle East بغداد کا علاقہ ہے.مرتب) اس طرح آپ کا تعلق بغداد سے ثابت ہے.مصدقین پیشگوئی لیکھر ام کے ناموں کا اندراج فرماتے ہوئے حضرت اقدس نے فرمایا ہے.نمبر ۹۲ عبدالوہاب خان صاحب محمد یہ بن عبداللہ صاحب محمد یہ چیت پیت پور شمالی ارکاٹ مؤلف کی رائے میں یہ شخصیت نائب قاضی ضلع بلاسپور ممالک متوسط ہیں.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳، ص ۳۵۶ (۲) تریاق القلوب صفحه ۴ ۱۸ ( روحانی خزائن جلد ۱۵) (۳) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۴) سیرت حضرت مسیح موعود صفحه ۱۴۱-۱۴۲ ۲۹۵.حضرت میاں کریم بخش صاحب مرحوم مغفور جمال پور ضلع لد ہیانہ بیعت: ۲۵ /ستمبر ۱۸۹۱ء تعارف: حضرت میاں کریم بخش رضی اللہ عنہ کا تعلق منصور اں ضلع لدھیانہ سے ہے.آپ کے والد کا نام غلام رسول تھا اور جمال پور میں مدرس تھے.جس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیحیت پر فتوے شائع ہورہے تھے اور گالیاں اور سب و شتم ہورہا تھا.میاں کریم بخش صاحب حضرت گلاب شاہ صاحب کی شہادت لے کر آ گئے.اس کا مفصل حال’ ازالہ اوہام میں درج ہے.نشان آسمانی میں حضرت اقدس نے آپ کے مؤکد بعذاب حلف اٹھانے کا ذکر فرمایا ہے جس میں مجذوب گلاب شاہ کی یہ پیشگوئی بیان کی کہ وہ آنے والا جوان ہو گیا ہے اور قادیان میں ہے جو بٹالہ کے پاس ہے اور اس کا نام غلام احمد ہے.بیعت: لدھیانہ میں ہی میاں صاحب نے بیعت کی تھی.رجسٹر بیعت میں ۱۶۲ نمبر آپ کی بیعت ۲۵ رستمبر ۱۸۹۱ء کو

Page 336

313 ”میاں کریم بخش ولد غلام رسول ساکن عباس پور قوم ارائیں پیشہ زمینداری تحریر ہے.مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ نے میاں کریم بخش کو بہت روکا اور سمجھایا کہ یہ شہادت گلاب شاہ کی نہ بیان کرے لیکن یہ باخدا، خدا ترس اور متقی شخص اس سے باز نہ آئے.سن ۱۸۷۱ء میں نابھہ کے راجہ ہیر اسنگھ تھے.خود سکھ تھے مگر دوسرے مذاہب کے لوگوں کی بھی قدر کرتے تھے.ایک دفعہ دربار کے موقع پر نمبردار حاضر تھے.میاں کریم بخش صاحب نمبر دار موضع رائے پور کو بلوایا اور کہا کہ میاں کریم بخش یہ جو اس وقت تینوں فرقوں کے تقریباً بارہ سولوگ جمع ہیں ان میں سے مجھے تمہارے اخلاق کیوں پسند ہیں؟ انہوں نے عرض کیا مجھے تو اپنے اندر ایسی کوئی خوبی نظر نہیں آتی.تاہم یہ ضرور ہے کہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا مرید ہوں.اور وہ چونکہ اس زمانہ کے اوتار اور گورو ہیں.ان کی صحبت میں رہ کر میں یہ فیض حاصل کرتا ہوں.مہاراجہ صاحب نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا تھوڑی دیر ٹھہرو میں ابھی آیا اور میاں کریم بخش صاحب کو ہمراہ لے کر محل کے اندر چلے گئے.فرمایا یہ جو تصویر میں اس کمرہ میں لگی ہوئی ہیں ان کی طرف دیکھو وہ ساری تصویریں گوروؤں کی تھیں.جس طرح اور گوروؤں کی تصاویر سنہری چوکھٹوں میں لگی ہوئی تھیں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی قد آدم تصویر بھی سنہری چوکھٹے میں لگی ہوئی تھی اور کہا دیکھو میاں کریم بخش یہ تصویر پہلے سے ہمارے پاس موجود ہے.“ پھر مسند پر بیٹھ گئے اور چوبدار کو باہر بھجوا دیا اور فرمایا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو میری طرف سے درخواست کرو اور حضور کو ہمراہ لے کر یہاں آؤ.ان کی آمد و رفت کے تمام اخراجات میں برداشت کروں گا.میں ضعیف العمر ہوں وہاں نہیں جاسکتا.میاں کریم بخش صاحب قادیان گئے اور مہاراجہ صاحب کی طرف سے درخواست بھی کر دی.حضرت اقدس نے فرمایا.ان سے جا کر عرض کر دیں کہ کنواں پیاسے کے پاس نہیں جایا کرتا بلکہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے.“ چوہدری کریم بخش صاحب نے راجہ صاحب کی خدمت میں حضرت صاحب کا جواب عرض کر دیا تو راجہ صاحب نے کہا کہ اگر ہم وہاں جائیںتو انگریز ہم کو فورا گدی سے اتار دیں گے.نوٹ: اس نام کے ایک بزرگ منصوراں ضلع لدھیانہ کے رہنے والے تھے اور جمال پور میں مدرس تھے.جب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جمال پور میں جلسہ کرنے گئے تو ان ہی کے پاس ٹھہرے تھے.آپ حضرت منشی (صوفی ) احمد جان صاحب کے مرید تھے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) ضمیمه انجام آنقم روحانی خزائن جلدا (۳) تذکرۃ الشہا دتین روحانی خزائن جلد ۲۰ (۴) نشان آسمانی روحانی خزائن جلد ۲ (۵) تذکرۃ المہدی صفحه ۱۲۷ (۶) الفضل ۲۱ فروری ۱۹۸۹ء (۷) اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۳ تا ۱۶ ( ۸ ) اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۳ ۱۴ (۹) تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۵۶.

Page 337

314 ۲۹۶.حضرت عبدالعزیز صاحب عرف عزیز الدین ناسنگ ولادت: ۱۸۵۷ء.بیعت:۱۸۹۲ء سے قبل تعارف و بیعت: (نوٹ) حضرت عزیز دین شیخ صاحب ساکن پٹی ( آئینہ کمالات اسلام میں ۲۶۰ نمبر ) کے حالات کونام کی مناسبت سے مطلوبہ زیرنظر رفقاء ربانی سلسلہ ۳۱۳ میں رکھا گیا ہے.مزید تحقیق جاری ہے.حضرت خلیفۃ اصیح الرابح بیان فرماتے ہیں.انہوں نے سنا کہ قادیان میں ایک شخص خود کو مجدد کہتا ہے.۱۸۸۹ء میں یہ قادیان گئے اور ایمان لے آئے مگر باضابطہ بیعت ۱۸۹۲ء میں کی.انہوں نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود نے ایک بار فرمایا کہ میں بڑ کے درخت کے نیچے بڑے بڑے مکانات دیکھتا ہوں.یہ شہر دریائے بیاس تک پھیل گیا ہے.قادیان کے بازاروں میں بڑے بڑے سیٹھ جواہرات رکھے بیٹھے ہیں.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا امید ہے کہ یہ روایت اپنے وقت پر پوری ہوگی اور قادیان بیاس تک پھیل جائے گا.ان کی روایت ہے کہ ان کو مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب پر بڑا اعتماد تھا.یہ کہتے ہیں کہ میں ان کی بڑی خدمت کرتا تھا.ہمارے علاقے کا چوہدری ماجھی خان بھی مولوی صاحب کی بہت خدمت کرتا تھا.میں مولوی محمد حسین کو ملا تو وہ قصاب کی دکان پر گوشت خرید رہے تھے.مجھے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور پاؤ بھر گوشت میرے لئے اور لے لیا.میں نے کہا کہ میں قادیان میں جاؤں گا مولوی صاحب نے کہا ہرگز نہ جانا وہاں تو دکانداری بنائی ہوئی ہے.میں نے کہا خواہ دکانداری ہو، جانا ضرور ہے.پھر مولوی محمد حسین صاحب نے کہا کہ اچھا جاؤ مگر بیعت میں شامل نہ ہو جانا اور ان کی روٹی نہ کھانا.مولوی صاحب نے پراٹھے پکوا کر قیمہ رکھ کر ساتھ دے دیا کہ آنکھیں بھی نہ ملانا.میں نے کہا میں آنکھیں نیچی رکھوں گا.ساری رات مولوی محمد حسین صاحب مجھے کہتا رہا کہ نہ جاؤ.یہ بتاتے ہیں کہ میں روانہ ہوا.نہر پر پہنچا تو مجھے بھوک لگی ہوئی تھی.ایک پر اٹھا میں نے وہیں کھا لیا باقی باندھ لیا.قادیان پہنچا.حضرت صاحب کی خدمت میں مولوی محمد حسین صاحب کی با تیں عرض کیں.حضور ہنسے.میں نے بیعت کر لی.واپس بٹالے گیا تو میں نے بتایا کہ میں نے بیعت کر لی ہے.مولوی محمد حسین صاحب نے کہا کہ بہت خراب کام کیا ہے.مولوی محمد حسین صاحب نے کہا کہ اب میں فتوے کا انتظام کرتا ہوں.“ نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) بیان فرموده حضرت خلیفہ مسیح الرابع از لفضل ۱۲۱ اگست ۱۹۹۹ء.

Page 338

315 ☆ ۲۹۷.حضرت غلام محی الدین صاحب بھیرہ حال قادیان ولادت : ۱۸۶۰ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۹۴۴ء تعارف و بیعت : حضرت حافظ غلام محی الدین رضی اللہ عنہ بھیرہ کے رہنے والے تھے.حضرت خلیفہ المسح الاول کے رضاعی بھائی بھی تھے اور آپ کے ساتھ ہی قادیان آگئے تھے جلد سازی کا کام کرتے تھے اور حضرت اقدس کی ڈاک لایا کرتے تھے.ڈاک خانہ میں وہی جایا کرتے تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : تحفہ قیصریہ میں صد سالہ جو بلی کے جلسہ میں شرکت اور کتاب البریہ میں ۲۸۳ نمبر پر پُر امن جماعت کے ضمن میں حضرت اقدس نے آپ کا ذکر فرمایا ہے.لیکھرام جب قتل ہوا تو حضرت اقدس کے مکانات کی تلاشی کے ساتھ حضرت حافظ صاحب کے مکان کی بھی تلاشی لی گئی تلاشی کے وقت بعض خطوط جو پوسٹ نہ ہوئے تھے وہ بھی آپ کے مکان پر تھے تو حضرت اقدس نے فرمایا ”حافظ جی یہ خط رکھنے کے لئے تو نہیں دیئے گئے تھے.اگر آج یہ نہ دیکھے جاتے تو پتہ بھی نہ لگتا اور ہم سمجھتے رہتے کہ خط لکھ دیا ہوا ہے ادھر دوسرے لوگ سمجھتے کہ ہم خط لکھ چکے ہیں.خیر جو ہوا اچھا ہو گیا.مصلحت اعلیٰ یہی ہوگی.“ حضرت حافظ صاحب کے نواسے حضرت ملک عزیز احمد صاحب ابن حضرت ملک نوردین صاحب بیان کرتے ہیں: حضرت خلیفہ اول میرے نانا حافظ غلام محی الدین صاحب مرحوم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی ایام میں ڈاک کا کام کیا کرتے تھے رضاعی بھائی تھے.حضرت خلیفہ اول اس تعلق کی بنا پر یا اس ہمدردی کے ماتحت جو حضور کو بنی نوع انسان کے ساتھ تھی.فوراً والدہ صاحبہ کے ساتھ تشریف لا کر مجھے دیکھا.والدہ صاحبہ کو تسلی دی مگر ساتھ ہی واپس جا کر میرے آقا فداہ روحی کو اطلاع دی.وو حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب فرماتے ہیں:...حضرت حافظ غلام محی الدین صاحب کو یہ سعادت حاصل تھی کہ وہ حضرت خلیفہ اول کے رضاعی بھائی تھے اور حضرت خلیفہ اول کو میں نے دیکھا کہ وہ ان سے ماں جائے بھائیوں کی طرح محبت کرتے تھے اپنے ہی مکان میں ان کو رکھا تھا اور ان کی اولاد کے ساتھ ہمیشہ اپنی اولاد کی طرح سلوک کرتے.حضرت حافظ غلام محی الدین صاحب کی زندگی بچپن سے آخر تک حضرت خلیفہ اول کے سایہ میں گزری.حافظ صاحب دراصل تاجر کتب تھے اور اس زمانہ میں دیہات میں کتب فروشی کرنے والے صحاف کہلاتے تھے اور جلد سازی بھی کر لیا کرتے تھے.مکرم حافظ صاحب کے ایک بھائی جہلم میں تاجر کتب تھے اور

Page 339

316 مخلص احمدی تھے.رسالہ اصحاب احمد سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حافظ صاحب کے ایک بھائی حضرت محمد امین کتاب فروش جہلم والے ( یکے از ۳۱۳) تھے.جو مکرم مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق پرنسپل جامعہ احمدیہ کے دادا تھے.وفات: آپ کی وفات ۱۹۴۴ء سے قبل ہوئی.آپ کی وصیت نمبر ۴ ۵۲۸ ہے.آپ کا کتبہ یادگار بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ نمبرے حصہ نمبر ۱۲ میں ہے.تاریخ احمدیت بھیرہ کا آپ کی وفات ۱۹۴۵ لکھنا سہو ہے.اولاد : آپ کے بیٹے عبدالعزیز (بیعت ۱۸۹۷ء) تھے.آپ کی بیٹی محترمہ زینب بیگم صاحبہ حضرت ملک نور الدین کی اہلیہ ہیں.یہ رشتہ بھی حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی تحریک پر ہوا.اسی طرح آپ کے پڑ نواسہ ملک عزیز احمد تھے اور کیولری گراؤنڈ لاہور میں ہیں.ماخذ: (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۳) سیرت حضرت مسیح موعود (۴) بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحه ۷۳ (۵) رساله اصحاب احمد مئی و جولائی ۱۹۵۵ء (۶) تاریخ احمدیت جلد اصفحه ۶۴۶ ☆ ۲۹۸.حضرت محمد اسمعیل صاحب نقشہ نویس کا لکا ریلوے بیعت ۱۶ / جولائی ۱۸۹۲ء تعارف: حضرت محمد اسمعیل رضی اللہ عنہ نقشہ نویس کا لکا ریلوے میں ملازم تھے.بیعت : رجسٹر بیعت میں آپ کا نام منشی محمد اسماعیل نقشہ نویس و فوٹوگرافر صدر بازارکیمپ انباله رشته دارمنشی عبدالعزیز لکھا ہے.رجسٹر بیعت اُولیٰ میں بیعت ۱۶ / جولائی ۱۸۹۲ء کا اندراج ۳۴۴ نمبر پر ہے.آپ اس وقت کا لکا ریلوے ضلع انبالہ میں ملازم تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے تحفہ قیصریہ میں جلسہ سالا نہ ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ میں پر امن جماعت میں آپ کا ذکر کیا ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) رجسٹر بیعت اولی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۳۶۲.

Page 340

317 ☆ ۲۹۹.حضرت احمد دین صاحب چک کھاریاں بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت احمد دین رضی اللہ عنہ کا نام حضرت اقدس نے انجام آتھم کی فہرست ۳۱۳ میں چک کھاریاں سکونت کے ساتھ تحریر کیا ہے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.نوٹ: آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.☆ ۳۰۰.حضرت محمد امین کتاب فروش جہلم ولادت: ۱۸۵۲ء.بیعت ۱۸۹۰ء.وفات : ۲۹ / دسمبر ۱۹۴۲ء تعارف و بیعت: حضرت محمد امین رضی اللہ عنہ بھیرہ کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب کا نام کرم الدین صاحب تھا آپ کی ولادت ۱۸۵۲ء کی ہے حضرت حکیم نور الدین (خلیفہ امسیح الاول) کے رضاعی بھائی تھے.دونوں نے ایک دوسرے کی والدہ کا دودھ پیا تھا.یہ سب اس لئے کیا گیا تا کہ پردہ کی قید نہ رہے.آپ حافظ قرآن بھی تھے.آپ حضرت خلیفہ اسی الاول کے توسط سے قادیان گئے.آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں میں نمبر ام پر ہے.حضرت اقدس سے تعلق : آپ کی ایک بچی کی وفات کے بعد اولاد نہ تھی.حضرت مسیح موعود کی خدمت میں درخواست کی گئی تو آپ نے اجتماعی دعا کروائی جس میں حاضر رفقاء بانی سلسلہ سب شامل تھے.دعاختم ہوئی تو ایک دوست نے جن کو علم نہ تھا کہ دعا کس کے لئے ہو رہی ہے.عرض کیا حافظ محمد امین صاحب کو اولاد حاصل ہونے کے لئے بھی دعا کروا دیں.حضرت مسیح موعود نے کمال شفقت سے دوبارہ دعا کروائی.چنانچہ حضرت حافظ صاحب کے ہاں تو ام بچے پیدا ہوئے.یعنی حضرت محمد سلیم صاحب جو کہ مکرم جمیل الرحمن رفیق پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ کے والد ہیں اور ایک دوسرے بیٹے جو جلد ہی انتقال کر گئے تھے.اخلاص و محبت کا تعلق : حضرت اقدس شروع شروع میں ہر کتاب پر الیسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کی مہر لگاتے اور اپنے دستخط کرتے اور یہی سمجھا جاتا کہ اس کے بغیر کتاب مسروقہ سمجھی جائے گی.بعد میں دستخط چھوڑ دیئے گئے اور

Page 341

318 صرف مہر لگتی تھی.حضرت اقدس کی دستخط شدہ کتاب ایام الصلح ، مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب کے پاس ہے جس پر تاریخ ۲۰ جنوری ۱۸۹۹ لکھی ہے.ایک دفعہ غیر احمدیوں کی طرف سے کوئی مشکل کتابت کے بارے میں پیش آئی تو حافظ صاحب نے اپنے بیٹے حضرت محمد سلیم صاحب کو کتابت سیکھنے کی ہدایت کی اور انہوں نے کتابت سیکھی.آخری بار حضرت حافظ صاحب نے حضرت اقدس کو آخری سفرلاہور میں دیکھا.حافظ صاحب کے بیٹے حضرت محمد سلیم بھی ساتھ تھے اور ان کو بخار تھا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کو واپس لے جائیں اور جاتے ہوئے مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اسیح الاول.ناقل) سے دوائی لیتے جائیں.آپ کا بخار راستے میں ہی وزیر آبا در میلوے اسٹیشن پر ٹھیک ہو گیا.جب آپ بھیرہ سے جہلم گئے تو وہاں آپ نے ایک ہینڈ پریس لگایا جس کا نام یو نیورسل پرنٹنگ پریس جہلم تھا.آپ کا پریس پورے پنجاب میں مشہور تھا.درج ذیل کتابوں کے پہلے ایڈیشن آپ ہی کے پریس سے شائع ہوئے.گلزار مکہ ( مولوی دلپذیر بھیروی) سیف الملوک ( میاں محمد بخش) یہ کتب جہلمی چھاپہ کے نام سے چھپی ہوئی معروف تھیں جبکہ یہ کتب دوسرے اشاعتی اداروں سے بھی شائع ہوئی تھیں.آپ کے کلام کا مجموعہ "مناجات امین کے نام سے شائع ہوا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں میں ا نمبر پر لکھا ہے.اس طرح کتاب البریہ میں پر امن جماعت کے ضمن میں بھی آپ کا ذکر ہے.وفات : ۲۹ / دسمبر ۱۹۴۲ء کو جہلم میں آپ کا وصال ہوا.آپ کا جسد خا کی قادیان لایا گیا.جنازہ حضرت مولانا سرور شاہ صاحب نے پڑھایا اور قطعہ رفقاء میں مدفون ہوئے.حضرت حافظ صاحب کے ایک رشتہ دار حضرت محمد حبیب صاحب کی بیعت ۱۸۹۹ء کی ہے ان کی وفات ۱۹۵۰ء میں ہوئی.آپ کے ایک بیٹے نذیر احمد صاحب ملتان میں ہیں.اولاد : آپ کے بیٹے حضرت ملک محمد سلیم بھی رفقاء بانی سلسلہ احمدیہ تھے.( تاریخ وفات ۵/ مارچ ۲۰۰۰ء ).حضرت ملک صاحب کی اولا د مکرم حفیظ الرحمن صاحب صدر انجمن احمدیہ کے لئے افسر تعمیرات تھے.مکرم مولانا جمیل الرحمن رفیق پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ ہیں.مکرم فضل الرحمن سعید صاحب اور مکرم خلیل الرحمن فردوسی بھی سلسلہ احمدیہ سے مخلصانہ تعلق رکھتے ہیں.حضرت حافظ غلام محی الدین صاحب آپ کے بھائی تھے.ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) تاریخ احمدیت بصیره (۴) بیان مورخه ۲۵ ستمبر ۲۰۰۱ء مکرم مولانا جمیل الرحمن رفیق صاحب پرنسپل جامعہ احمد یه ربوه (۵) روز نامه الفضل ربوہ ۷ / مارچ ۲۰۰۰ (۶) روزنامه الفضل ۲ / جنوری ۱۹۴۳ء (۷) ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ.

Page 342

319 ☆ ۳۰۱.حضرت مولوی محمود حسن خان صاحب مدرس ملازم پٹیالہ بیعت ۶ رمئی ۱۸۹۱ء تعارف: حضرت مولوی محمود حسن خاں رضی اللہ عنہ دہلی کے رہنے والے تھے.پٹیالہ میں مدرس تھے.جب مولوی محمد احسن امروہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار دعویٰ مسیحیت کے ملنے پر ایک کتاب اعلام الناس چھپوا کر حضرت اقدس کی خدمت میں لدھیانہ پہنچے تو حضرت اقدس نے اس کو پڑھ کر سنانے کے لئے حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کو ارشاد فرمایا.کچھ حصہ حضرت پیر صاحب نے اور کچھ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے سنایا اور باقی حصہ مولوی محمود حسن صاحب دہلوی نے سنایا بیعت : آپ نے ابتدا کتاب براہین احمدیہ پڑھی اور یہ آپ کے پاس کپورتھلہ کے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے توسط سے پہنچی تھی.رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت ۶ مئی ۱۸۹۱ ء کی ہے رجسٹر بیعت اولی میں جس کا اندراج ۲۲۴ نمبر پر ہے.ازالہ اوہام میں حضرت اقدس نے اپنے صاف باطن اور ہمدردی اسلام کا جوش رکھنے والے احباب میں مولوی محمود حسن خان صاحب“ کا نام لکھا ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں مخلصین ، تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جو بلی ،سراج منیر میں چندہ دہندگان اور کتاب البریہ میں پُر امن جماعت کے سلسلہ میں آپ کا ذکر کیا ہے.اولاد: آپ کی اولا د دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں.ایک بیٹی صغری خانم ، چوہدری تصدق حسین رانجھا( چازاد حضرت مولانا شیر علی کی اہلیہ محترمہ تھیں.آپ کے ایک بیٹے حضرت محمد حسن آسان دہلوی کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں.مکرم مسعود احمد خاں دہلوی سابق ایڈیٹر روز نامہ الفضل، مکرم پروفیسر سعود احمد خاں ایم اے ، مکرم پر وفیسر مولوداحمد خان سابق مبلغ انگلستان اور ان کے دیگر بھائی بیرونی ممالک میں مقیم ہیں اور ایک پوتی بشر کی آسان کراچی میں ہیں.ماخذ: (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۲ (۲) تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ (۳) سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ (۴) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ (۵) تذکرۃ المہدی صفحه ۱۵ حصہ اول (۶) رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه ۴ ۳۵ (۷) تاریخ احمدیت لاہور صفحہ ۲۷۵ (۸) تاریخ احمدیت جلد ۱۵ (۹) اصحاب احمد جلد چہارم.ا.نئی زندگی ناشر لجنہ اماء اللہ لاہور.(۱۱) سفر حیات خود نوشت مسعود احمد خان دہلوی.

Page 343

320 ☆ ۳۰۲.حضرت محمد رحیم الدین.حبیب والہ ولادت ۱۸۶۲ء.بیعت ۱۸۹۴ء.وفات ۴ ستمبر ۱۹۴۷ء تعارف: حضرت محمد رحیم الدین رضی اللہ عنہ کا وطن سیو بارہ حبیب والہ ضلع بجنور ( صو بہ اتر پردیش) تھا.آپ کی ولادت سال ۱۸۶۲ء کو ہوئی.ڈاک پتھر ڈیرہ دون میں بھی ملازم رہے.بیعت : آپ نے بیعت ۱۸۹۴ء میں کی.حضرت اقدس مسیح موعود کے پاس کئی بار قادیان تشریف لائے.آپ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع خدام مشرق کی طرف جو سڑک جاتی ہے سیر کو گئے.سیٹھ عبدالرحمن مدراسی بھی ہمراہ تھے.آپ نے فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ قادیان کی آبادی سری گوبند پور تک چلی جاوے گی.گویا سری گو بند پور اور قادیان ایک شہر ہو گیا ہے“ آپ نے سنا کہ کرم دین کے مقدمہ میں مجسٹریٹ حضرت صاحب علیہ السلام کو نہیں چھوڑے گا آپ نے دعا کی تو الہام ہوا.مرزا صاحب کا بال بھی بیکا نہ ہوگا“ وفات : آپ نے اپنی عمر کا آخری حصہ دارالامان قادیان میں گزارا.ہم رستمبر ۱۹۴۷ء میں آپ کی وفات ہوئی.بہشتی مقبرہ قطعہ رفقاء میں مدفون ہیں.اولاد: حضرت منشی رحیم الدین صاحب کی شادی محترمہ رحمت النساء صاحبہ سے ہوئی.حضرت منشی صاحب کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں.آپ کی بیٹیاں صفیہ بانو اور رشیدہ بانو تھیں بیٹیاں احمدی تھیں مگر بیٹے احمدیت کی نعمت سے محروم رہے.آپ کی صاحبزادی مکرمہ صفیہ بانو کی شادی میاں محمد یا مین تاجر کتب آف قادیان سے ہوئی تھی.اس بیٹی سے اولا د مکر مہ امتہ الرحمن صاحبہ اہلیہ قریشی عبد الوحید صاحب آف قصور اور مکرم محمد یوسف صاحب حال کینیڈا ہیں.اسی طرح امۃ الرحیم ( اہلیہ حافظ شفیق احمد مرحوم انچارج حافظ کلاس) اور دیگر تین بیٹیاں بھی تھیں.ماخذ : (۱) احمدی جنتری ۱۹۵۴، صفحه ۳۰ (۲) رجسٹر روایات نمبر ۳ غیر مطبوعه (۳) بیان فرمودہ حضرت خلیفه امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی، مطبوعہ الفضل ۲۵ / اگست ۱۹۹۹ء (۴) بیان مکرم فخر الحق شمس اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل.

Page 344

321 ☆ ۳۰۳.حضرت شیخ حرمت علی صاحب کراری.الہ آباد بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت شیخ حرمت علی صاحب رضی اللہ عنہ کراری الہ آباد کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب آریہ دھرم میں آپ کے نام کے ساتھ محلہ بارہ دری“ لکھا ہے.نوٹ : آپ کے تفصیلی سوانح حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد۱۰.☆ ۳۰۴.حضرت میاں نور محمد صاحب غوث گڑھ.پٹیالہ بیعت : ۴ / مارچ ۱۸۹۰ء تعارف: حضرت میاں نور محمد رضی اللہ عنہ والد مکرم چوہدری لکھا غوث گڑھ کے زمیندار تھے.غوث گڑھ تحصیل سرہند ریاست پٹیالہ میں ہے.حضرت منشی عبداللہ سنوری کے ذریعہ احمدیت کا تعارف ہوا.بیعت : رجسٹر بیعت اولی میں ۲۰۲ نمبر پر آپ کی بیعت کا اندراج ہے.آپ نے ۴ / مارچ ۱۸۹۰ء کو بیعت کی سعادت پائی.تاریخ احمدیت میں غوث گڑھ کے دو احباب نور محمد صاحب کے نام سے محفوظ ہیں.ایک نور محمد صاحب ولد لکھا نمبر دار غوث گڑھ بیعت ۴ مارچ ۱۸۹۰ء ہیں.پیشہ نمبرداری و زراعت و زمینداری لکھا ہے.دوسرے نورمحمد ولد ہوشناک غوث گڑھ پٹیالہ رجسٹر بیعت میں اندراج ۱۷۸ نمبر پر ہے اور ۲۵ جولائی ۱۸۸۹ء کی بیعت ہے.آپ بھی نمبر دار اور زمیندار تھے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت میاں نور محمد صاحب زمیندار غوث گڑھ ریاست پٹیالہ جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں بھی شامل ہوئے.آئینہ کمالات اسلام میں ۹۳ نمبر پر حضور نے آپ کا نام لکھا ہے.اولاد: حضرت میاں نور محمد صاحب کے بیٹے چوہدری عبد القدیر صاحب تقسیم ہند کے بعد ضلع سرگودھا کے چک ۳۸ جنوبی میں رہائش پذیر ہوئے.آپ کے دوسرے بیٹے چوہدری بشیر احمد صاحب مرحوم والد مکرم چوہدری نصیر احمد

Page 345

322 صاحب ایڈووکیٹ ( مدفون چک ۳۸ ضلع سرگودھا).میاں نور محمد صاحب کے پوتے ہیں.چوہدری عبدالمجید صاحب مرحوم ( مدفون غوث گڑھ).محترمہ رقیہ بیگم مرحومہ اہلیہ مکرم عبد اللطیف صاحب ( مدفون چک ۳۸ ضلع سرگودھا) ماخذ: (۱) آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ (۲) رجسٹر بیعت اولی مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۳۵۳-۳۵۲ (۳) انٹرویو مکرم چوہدری عبد القدیر صاحب نمبر چک ۳۸ جنوبی سرگودھا جو کرم ریاض محمود باجوہ صاحب مربی سلسله دفتر شعبه تاریخ احمدیت نے 21 ستمبر 2007ء کولیا.☆ ۳۰۵.حضرت مستری اسلام احمد صاحب.بھیرہ ولادت : ۱۸۵۰ء.بیعت : ۱۸۹۲ء.وفات : ۱۹۱۹ء تعارف: حضرت مستری اسلام احمد رضی اللہ عنہ بھیرہ سے تعلق رکھتے تھے آپ کا نام اسلام دین تھا.مگر سید نا حضرت مسیح موعود نے اسلام احمد سے تبدیل کر دیا.آپ کی ولادت ۱۸۵۰ء میں ہوئی.حضرت حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ (خلیفہ اسیح الاوّل) کے ہمسایہ تھے.اکثر قادیان جاتے تھے.ایک مرتبہ حضور نے مجلس عرفان میں دوستوں کو تقویٰ کی تاکید فرمائی تو مکرم اسلام احمد صاحب نے عرض کیا حضور ! تقویٰ کی تشریح فرما دیں.حضور نے فرمایا.”دیکھو انسان جب جنگل میں سے گزرتا ہے تو اپنے جسم اور کپڑوں کو جھاڑیوں سے بچا کر گزرتا ہے.اسی طرح ہر خراب بات سے بچنا تقوی ہے.بیعت : تاریخ بھیرہ کے مطابق آپ کی بیعت سال ۱۸۹۲ ء کی ہے.وفات : آپ نے بھیرہ میں ۱۹۱۹ء میں وفات پائی.نوٹ : آپ کے تفصیلی سوانح حالات نہیں مل سکے.ماخذ : تاریخ احمدیت بھیرہ.☆ ۳۰۶.حضرت حسینی خاں صاحب.الہ آباد بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت حسینی خاں رضی اللہ عنہ الہ آباد کے رہنے والے تھے.ضمیمہ انجام آتھم میں ۳۱۳ اصحاب صدق وصفا میں آپ کا نام حضرت اقدس نے درج فرمایا.

Page 346

323 البتہ حضرت اقدس نے آپ کا نام کتاب آریہ دھرم میں گورنمنٹ ہند کے پاس بھجوائے گئے مذہبی مباحثات سے متعلق نوٹس کے دستخط کنندگان میں شامل کیا ہے.آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.نوٹ: آپ کے تفصیلی سوانح حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) آریہ دھرم روحانی خزائن جلد۱۰ ۳۰۷.حضرت قاضی رضی الدین صاحب.اکبر آباد بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت قاضی رضی الدین رضی اللہ عنہ اکبر آباد کے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.حضرت اقدس نے آپ کا نام ضمیمہ انجام آتھم کی فہرست اصحاب صدق وصفا میں درج کیا ہے.کتاب البریہ میں پُرامن جماعت میں آپ کا نام درج ہے.نوٹ: آپ کے تفصیلی سوانح حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آنقم روحانی خزائن جلداا (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ ☆ ۳۰۸.حضرت سعد اللہ خان صاحب.الہ آباد بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت: حضرت سعد اللہ خان رضی اللہ عنہ الہ آباد کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.حضرت اقدس نے آپ کا نام ضمیمہ انجام انتم کی فہرست اصحاب صدق وصفا میں درج کیا ہے.کتاب البریہ میں آپ کا نام پر امن جماعت میں درج ہے.نوٹ : آپ کے تفصیلی سوانح حالات نہیں مل سکے.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلدا (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳

Page 347

324 ☆ ۳۰۹ حضرت مولوی عبدالحق صاحب والد موادی فضل حق صاحب مدرس سامانه پیاله بیعت ۱۸۹۱ء تعارف و بیعت : حضرت مولوی عبدالحق رضی اللہ عنہ سامانہ پٹیالہ کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ۱۸۹۱ء میں ہوئی.حضرت اقدس نے آپ کا نام ضمیمہ انجام آتھم کی فہرست اصحاب صدق وصفا میں درج کیا ہے.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر: ازالہ اوہام میں آپ کا نام ”جبی فی اللہ میاں عبدالحق صاحب متوطن پٹیالہ مخلصین میں درج ہے.یہ کتاب ۱۸۹۱ء کی تصنیف ہے.لہذا اس وقت حضرت میاں عبدالحق سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو چکے تھے.مولانا جلال الدین صاحب شمس نے آپ کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیعت کنندگان معاصر علماء کرام کی فہرست میں درج کیا ہے جنہوں نے حضرت اقدس کی بیعت کی تھی.نوٹ: آپ کے تفصیلی سوانح حالات نہیں مل سکے.ماخذ : (۱) ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ (۲) صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر جلسه سالانه ۱۹۶۴ء.☆ ۳۱۰.حضرت مولوی حبیب اللہ صاحب مرحوم حافظ دفتر پولس جہلم بیعت: ابتدائی ایام میں وفات : ۱۸۹۷ء سے قبل تعارف و بیعت : حضرت مولوی حبیب اللہ رضی اللہ عنہ دفتر پولیس جہلم میں محافظ ملازم تھے.آپ کے والد ماجد کا نام حافظ اللہ دتا صاحب تھا.آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے آپ کا اسم گرامی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاصر علماء کرام جنہوں نے آپ کی بیعت کی تھی کی فہرست میں درج کیا ہے.آپ کے دوسرے بھائی حضرت میاں کریم اللہ صاحب سارجنٹ پولیس جہلم بھی ۳۱۳ کی فہرست ضمیمہ انجام آتھم میں شامل ہیں.جن کا نام نمبر ۳۱۳ پر ہے.تیسرے بھائی حضرت مرزا عظیم اللہ تھے جنہوں نے ۱۹۰۳ء میں جہلم میں حضرت اقدس کی دوستی بیعت کی تھی.آپ کا خاندان موضع متعال جہلم شہر کے جانب ۷، ۸ میل کے فاصلہ پر میں آباد تھا.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں آپ کا نام پُر امن جماعت میں تحریر

Page 348

325 فرمایا ہے.وفات اور اولاد : آپ حضرت اقدس کی زندگی میں ہی وفات پاگئے تھے.آپ کی اولاد میں مکرم مرزا عبدالحق صاحب اور مکرم مرزا عبد الخالق صاحب تھے.اور ایک بیٹی زینب بی بی صاحبہ ان میں سے صرف مرزا عبدالحق صاحب احمدی تھے آگے ان کی اولاد بیٹے اور بیٹیاں تھیں حضرت مولوی حبیب اللہ کی پوتی مکرمہ امۃ الرشید صاحبہ (اہلیہ چوہدری منور احمد صاحب) کے بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ایک بیٹا مکرم عزیز محمد سعید واقف زندگی ہیں.ماخذ : (۱) ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البریہ روحا خزائن جلد ۱۳ (۳) صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر جلسہ سالانه ۱۹۶۴ء (۴) غیر مطبوعہ مقالہ ضلع جہلم کے صحابہ از ملک منور احمد احسان صاحب (۵) انٹرویو مکر مہ امتہ الرشید صاحبہ ومکرم چوہدری منور احمد صاحب دارالرحمت وسطی ربوہ.تین صد تیرہ اصحاب صدق و وفا ( مکرم مسعود چوہدری صاحب) خلوص و مہر و الفت کے تھے مظہر تین سو تیرہ بلا شک جانثاری میں تھے بڑھ کر تین سو تیرہ مسیح موعود سے وہ والہانہ پیار کرتے تھے اسی خاطر ہوئے کنکر سے گوہر تین سو تیرہ ہجوم عاشقاں دیکھا مسیح خوش نوا کے گرد کہ جیسے چاند کے ہوں گرد اختر تین سو تیرہ اذان صبح کے پیکر، جمال شام کے عنوان گلستان مسیحا کے گلِ تر تین سو تیرہ شب تاریک میں چمکے مہ و انجم سے بھی بڑھ کر وہ جلووں سے مسیحا کے منور تین سو تیرہ فلک تو ایک سورج سے ہے نازاں اپنی قسمت پر زمیں پر ضوفشاں تھے مثل خاور تین سو تیرہ بلند و بالا مذہب کو کیا کردار سے اپنے تھے دُنیا میں حقائق کے دلاور تین سو تیرہ مسیحی آگہی سے علم کا پرچم کیا روشن تھے احساسات کی دُنیا کے زیور تین سو تیرہ سراپا انقلاب ان کو ہر اک ذی روح کہتا ہے تھے انسانوں کی دُنیا میں قلندر تین سو تیرہ جسے دیکھو وہ اپنی ذات میں اک انجمن ٹھہرا لکھا کے لائے تھے اعلیٰ مقدر تین سو تیرہ ہمیشہ ڈھال بن کر رہتے تھے وہ دین کی خاطر تھے بحر وحدتِ حق کے شناور تین سو تیرہ رہے گا نام زندہ جب تلک قائم ہے یہ دُنیا محبت اور اخوت کے تھے پیکر تین سو تیرہ نظیر ان کی نہیں ملتی کھنگال آئے جہاں سارا تھے قلب و روح کی منزل کے رہبر تین سو تیرہ رہیں گے کارنامے ان کے ہر تاریخ میں زندہ تھے عرشِ ذات پر مہر منور تین سو تیرہ سکوں مسعود مل جاتا ہے ان کے ذکر سے مجھ کو حقیقت میں تھے وہ مہدی کے دلبر تین سو تیرہ

Page 349

326 ☆ -۳- حضرت رجب علی صاحب پینشنر ساکن چونی کہ ضلع الہ آباد بیعت : ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت رجب علی رضی اللہ عنہ جیونسی کہنہ کے رہنے والے تھے.آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.حضرت اقدس نے آپ کا نام ضمیمہ انجام آتھم کی فہرست اصحاب صدق وصفا میں درج کیا ہے.نوٹ: آپ کے تفصیلی سوانح حالات نہیں مل سکے.ماخذ : ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا.☆ ۳۱۱.حضرت ڈاکٹر سید منصب علی صاحب پنشن.الہ آباد بیعت: ابتدائی ایام میں تعارف و بیعت : حضرت ڈاکٹر سید منصب علی رضی اللہ عنہ کا تعلق بھی الہ آباد سے تھا.آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.نوٹ: آپ کے تفصیلی سوانح حالات نہیں مل سکے.ماخذ : ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلداا

Page 350

327 ☆ ۳۱۳.حضرت میاں کریم اللہ صاحب سارجنٹ پولس جہلم بیعت: ابتدائی ایام میں.وفات : اپریل ۱۹۲۸ء تعارف : حضرت میاں کریم اللہ رضی اللہ عنہ سارجنٹ پولیس جہلم تھے.آپ کے والد ماجد کا نام حافظ اللہ دتا صاحب تھا آپ بر لاس مغل قوم سے تھے.آپ موضع متعال ( جہلم شہر سے شمالی جانب ۸،۷ میل کے فاصلہ پر ) کے رہنے والے تھے.آپ پولیس میں عام سپاہی کی حیثیت سے ملازم ہوئے.بیعت : آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے.قبول احمدیت کے بعد زیادہ وقت مسجد احمد یہ نیا محلہ جہلم شہر میں رہتے.مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.پنشن کے بعد جہلم میں مسجد احمد یہ میں واقع احمد یہ پرائمری سکول میں انچارج مقرر ہوئے.حضرت مسیح موعود کی کتب میں ذکر : حضرت اقدس نے کتاب البریہ میں آپ کا نام پر امن جماعت کے ضمن میں درج فرمایا ہے.وفات : آپ نے اپریل ۱۹۲۸ء میں وفات پائی.اولاد: آپ نے چار شادیاں کیں.جن سے کوئی نرینہ اولاد نہ ہوئی.دو بیٹیاں بھی ابتداء میں وفات پاگئیں.ماخذ: (۱) ضمیمه انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ (۲) کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ (۳) مقاله جامعه احمد یہ ضلع جہلم کے صحابہ ( غیر مطبوعہ ) از ملک منور احمد احسان صاحب (۴) انٹر ویوامتہ الرشید صاحبه و چوہدری منور احمد صاحب دار الرحمت وسطی ربوہ.00000

Page 351

328 اصحاب صدق وصفا کی عظیمہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں“ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی آمد سے اس مبارک دور کا آغاز ہوا جس سے دین حق کا غلبہ مقدر تھا.آپ کے ذریعہ ایک عظیم روحانی تغیر بر پا ہوا.جس کا اشارہ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ مِیں ہے اور جامع بخاری کی حدیث کے مطابق حضرت ابو ہریرہ کے دریافت کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرین کی جماعت کو اپنے صحابہ کرام کا مثیل قرار دیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رفقاء کی عظمت کے بارہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا فرمائی ہیں.فرمایا: میں اس بات کے اظہار اور اس کے شکر کے ادا کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا.میرے ساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں داخل ہونے والے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے.محبت اور اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرز پر رنگین ہیں.نہ میں نے اپنی محنت سے بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۵) ہیں.وو انجام آتھم میں اپنے مخلص رفقاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: پس میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس قدر بنی آدم کی توبہ کا ذریعہ جو مجھ کو ٹھہرایا گیا یہ اس قبولیت کا نشان ہے جو خدا کی رضامندی کے بعد حاصل ہوتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقوی ترقی پذیر ہے.گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہو گیا ہے.میں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں.نا پاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں.ہماری ہندوستان کے شہروں کی مخلص جماعتیں وہ نو را خلاص اور محبت اپنے اندر رکھتی ہیں کہ اگر ایک با فراست آدمی ایک مجمع میں ان کے منہ دیکھے تو یقینا سمجھ لے گا کہ یہ خدا کا ایک معجزہ ہے جو ایسے اخلاص ان کے دل میں بھر دئیے.اُن کے چہروں پر اُن کی محبت کے نور چمک رہے ہیں وہ ایک پہلی جماعت ہے جس کو خدا صدق کا نمونہ دکھلانے کے لئے تیار کر رہا ہے.“ رت خلیفة المسیح الاول رنة ول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت انجام آتھم روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۱۵) ”ہماری خوش قسمتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے امام کو بھی آدم کہا کہ اس آدم کی اولا د بھی دنیا میں اس

Page 352

329 طرح پھیلنے والی ہے.میرا ایمان ہے کہ بڑے خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کے تعلقات اس آدم کے ساتھ ہوں گے کیونکہ اس کی اولاد میں اس قسم کے رجال اور نساء پیدا ہونے والے ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور میں خاص طور پر منتخب ہو کر اس کے مکالمات سے مشرف ہوں گے مبارک ہیں وہ لوگ.66 ( حقائق الفرقان جلد دوم صفحه ۴ ) حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے صحابہ حضرت محمود کے جذبہ ایثار وفدائیت کی مثال دیتے ہوئے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کئی لوگ ایسے تھے جنہیں قادیان میں صرف دو تین دفعہ آنے کا موقعہ ملا اور انہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ ہمارا قادیان سے تعلق پیدا ہو گیا.مگر آج اس چیز کی اس قدر اہمیت ہے کہ ہماری جماعت میں سے کئی لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود کا زمانہ یا دکر کے بڑی خوشی سے یہ کہنے کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ کاش ہماری عمر میں سے دس یا بیس سال کم ہو جاتے لیکن ہمیں زندگی میں صرف ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کو دیکھنے کا موقعہ مل جاتا.حضرت مسیح موعود کا زمانہ تو گزر گیا اب آپ کے خلفاء اور صحابہ کا زمانہ ہے مگر یاد رکھو کچھ عرصہ کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا جب چین سے لے کر یورپ کے کناروں تک لوگ سفر کریں گے اس تلاش ، اس جستجو اور اس دھن میں کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود سے بات کی ہومگر انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا.پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود سے بات نہ کی ہو، آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو صرف اس نے آپ کو دیکھا ہی ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نظر نہیں آئے گا.پھر وہ تلاش کریں گے کہ کاش انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے گو حضرت مسیح موعود سے بات نہ کی ہو، آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو، آپ کو دیکھا نہ ہو مگر کم از کم وہ اس وقت اتنا چھوٹا بچہ ہو کہ حضرت مسیح موعود نے اس کو دیکھا ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نہیں ملے گا لیکن آج ہماری جماعت کے لئے موقعہ ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کرے.“ (الفضل ۱۵ را پریل ۱۹۴۴ء صفحه ۳-۴) سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی فرماتے ہیں : را غور کر تم پراللہ تعال نے کتنا ض کیا کہ اپنا ہی تمہیں کھایا، پھر دنیا پر نہیں کیا اترام نہیں آتا کہ مسیح موعود کے صحابہ ہی اسے دکھا دو.پچاس ساٹھ سال کے بعد یہ ہم میں نہیں ہوں گے.غور کرو یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ہم دنیا کو جا کر جب آپ کا پیغام سنائیں اور لوگ پوچھیں کہ وہ کہاں ہیں تو ہم کہہ دیں وہ فوت ہو گئے اور جب وہ پوچھیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو آپ کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے تو کہہ دیں کہ وہ بھی فوت ہو گئے.مجھے یہ واقعہ بھی نہیں بھولتا، میں جب انگلستان میں گیا تو وہاں ایک بوڑھا انگریز نو مسلم تھا، اسے علم تھا کہ میں حضرت مسیح موعود کا بیٹا اور خلیفہ ہوں مگر پھر بھی وہ نہایت محبت اور اخلاص سے کہنے لگا کہ میں ایک بات پوچھتا ہوں آپ ٹھیک جواب دیں گے؟ میں نے کہا ہاں ! وہ کہنے لگا.کیا حضرت مسیح موعود

Page 353

330 نبی تھے؟ میں نے کہا ہاں ! تو اس نے کہا اچھا مجھے اس سے بڑی خوشی ہوئی.پھر کہنے لگا آپ قسم کھا کر بتا ئیں کہ آپ نے انہیں دیکھا؟ میں نے کہا ہاں میں ان کا بیٹا ہوں.اس نے کہا.نہیں میرے سوال کا جواب دیں کہ ان کو دیکھا ! میں نے کہا ہاں دیکھا تو وہ کہنے لگا کہ اچھا میرے ساتھ مصافحہ کریں اور مصافحہ کرنے کے بعد کہا مجھے بڑی ہی خوشی ہوئی کہ میں نے اس ہاتھ کو چھوا جس نے مسیح موعود کے ہاتھوں کو چھوا تھا.اب تک وہ نظارہ میرے دل پر نقش ہے.مجھے اس خیال سے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ وہ لاکھوں انسان جو چین، جاپان، روس، افریقہ اور دنیا کے تمام گوشوں میں آباد ہیں اور جن کے اندر نیکی اور تقویٰ ہے ان کے دلوں میں خدا کی محبت ہے مگر ان کو ابھی وہ نور نہیں ملا ہم ان تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچا ئیں اور وہ خوشی سے اُچھلیں اور کہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود دکھلا ؤ اور جب ہم کہیں کہ وہ فوت ہو گئے تو وہ پوچھیں کہ اچھا ان کے شاگرد کہاں ہیں تو ہم انہیں کہیں کہ وہ بھی فوت ہو گئے تو وہ پوچھیں کہ اچھا ان کے شاگرد کہاں ہیں تو ہم انہیں کہیں کہ وہ بھی فوت ہو گئے ، احمدیوں کا یہ جواب سن کر وہ لوگ کیا کہیں گے.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اس کا یہ مطلب نہیں کہ کپڑوں میں برکت زیادہ ہوتی ہے بلکہ اس میں بتایا ہے کہ جب انسان نہ ملیں گے تو لوگ کپڑوں سے ہی برکت ڈھونڈیں گے ورنہ انسان کے مقابلہ میں کپڑے کی کیا حیثیت ہوتی ہے وہ کپڑا جو جسم کو لگا اس ہاتھ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھ سکتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں گیا اور وہیں پیوست ہو گیا ، آپ سے نور اور برکت لی اور آپ کے نور میں اتنا ڈوبا کہ خود نور بن گیا کبھی ممکن نہیں کہ ایسے ہاتھ کو چھونے سے تو برکت نہ ملے اور کپڑوں کو چھونے سے ملے.کپڑوں سے برکت ڈھونڈنے سے مراد یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب لوگ آپ سے ملنے والوں کو ڈھونڈیں گے اور جب کوئی نہ ملے گا تو کہیں گے اچھا کپڑے ہی سہی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ بادشاہ بھی آپ کے کپڑوں کے لئے ترسیں گے.پس براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھونے والے انسان ہمیشہ نہیں رہ سکتے..66 ( الفضل ۱۷ را پریل ۱۹۳۵ ، صفحہ ۷ ) یقیناً اصحاب صدق وصفا ، جماعت آخرین کے مصداق ہیں ، صدق سے بھری ہوئی روحیں نور اخلاص سے مزین، قربانی اور جانفشانی کا اعلیٰ نمونہ اسلام کا جگر اور دل“ کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں اور فی الواقع ایک صاحب فراست سمجھ لے گا کہ یہ خدا کا ایک معجزہ ہے جو ایسے اخلاص ان کے دل میں بھر دئیے.ان کے چہروں پر ان کی محبت کے نور چمک رہے ہیں.“ (روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۱۵)

Page 354

i آوا اشاریہ مرتبہ:مکرم عبدالمالک صاحب اسماء احمد جان، چوہدری 74 آتھم ،عبداللہ 251,213,201 احمد جان ، حضرت صوفی آرنلڈ.146 آصفہ بیگم 101,98,97,95,93,65,64,52, اسماعیل عبداللہ (HBL).283 اسماعیل عبد الماجد (284,283HBL اشفاق احمد ( ڈرائیور ).204 313,242,241,163,162,157,156,155,141 | اظہر احمد ، صاحبزادہ مرزا.34 اہلیہ ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مبشر احمد ).89 احمد حسن آمنه.200 اعجاز احمد یخ 260 ابن حضرت مولوی محمد احسن ) 172.58 اعجاز احمد بٹ 299 آمنه بیگم سیده ( بیگم مرزار فیق احمد ) 44 | احمد دین، حضرت حافظ.243.242 اعجاز السمیع، کیپٹن 192 آمنه بیگم احمد دین ، حضرت 308 اعظم بیگ، مرزا 137 بنت حضرت شیخ نبی بخش صاحب).126 احمد دین حضرت (چک کھاریاں ) 317 | افتخار احمد، حضرت پیر 1,163,157,64 آمنہ بیگم ( بنت میاں غلام محمد ).200 احمد دین، حلیم 116 ابراہیم ، حضرت میاں 246.245 احمد دین بٹ ابراہیم بیگ ، حضرت میرزا 198 افتخار احمد گوندل.107 افتخار علی قریشی 39 ابن حضرت میاں محمد دین ).316 افضال الرحمن.192 فضل.239 ابراہیم صالح محمد حاجی اللہ رکھا، حضرت احمد شاہ ،سید 256,61 سیٹھ.175.174 ابوالحمید 50 ابولعطاء جالندھری،145 احمد شفیع ( ابن حضرت میاں محمد شفیع) 283 افضل طاہر 22 احمد صادق ( ابن حضرت مفتی محمد صادق ).117 اکبر بیگ، حضرت مرزا 84 احمد طاہر مرزا.277,200,152,44 الف ثانی حضرت مجدد.98,38 ابوبکر صدیق ( امیر المومنین ).209.134 احمد عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا، حضرت سیٹھ اللہ بخش، حضرت منشی 202 ابوحنیفہ، امام.60 اجمل خان دہلوی حکیم.104 احسان اللہ ، ملک 67 احسان الحق بیٹھی.246 احسان الرحمن.192 احمد ،حضرت حاجی 107 177,176,175,174,173,172 | اله بخش ، حضرت میاں.240,239 احمد علی شاہ،سید.264,261 احمد عمران ڈاکٹر.153 احمد ناصرسید.123 احمد یار ، حاجی الہی بخش ( رئیس دیلی ).155 الہی بخش (مالیر کوٹلہ ).291 الہی بخش بابا.93 الہی بخش ، حافظ (والد حضرت میاں عالم دین ).282 والد حضرت حاجی منشی احمد جان ).155 احمد ( ابن حضرت حاجی میاں غلام احمد ).200 | اخلاق احمد قریشی 283 احمد شیخ ( ابن حضرت شیخ محمد مکی ).154 ارشاد علی حکیم احمد اللہ خاں ، حضرت حافظ حاجی مولوی.67 (ابن حضرت سید نیاز علی ).300 اسلام احمد ، حضرت مستری 322 احمد بی بی الہی بخش منشی 141 الہی بخش، مولوی 155 الہی بخش ، مولوی ( والد حضرت حکیم محمد حسین).298,296 اہلیہ حضرت سید احمد علی شاہ صاحب ).264 اسلام دین (حضرت اسلام احمد ).322 الہی بخش ، میاں 183,127 اسماعیل آدم ، حضرت سیٹھ.271,174 الہ دین، حضرت حافظ 300 احمد بیگ، میرزا والد حضرت میرزا نیاز بیگ) 220,84 اسماعیل بیگ، حضرت میاں 220 الطاف الرحمن، ڈاکٹر.192

Page 355

ii الطاف حسین.189 لعة الرحمن 320 اللہ بخش ( والد حضرت میاں عبد الصمد سنور ).189 اللہ الرحیم 320 اللہ بخش، حضرت منشی 202 انوار اللہ خان، مولوی 212 انوارا سمیع، چوہدری 192 اعۃ الرشید ( اہلیہ حضرت قاضی عبد اللہ ) 304 انوار حسین ، حضرت حکیم 304 اللہ بخش شیخ ( والد حضرت شیخ کرم الہی.195 لمۃ الرشید انور سلطانہ 308 اللہ جوائی ( بنت حضرت منشی عطا محمد ( 275 ) حضرت قاضی حبیب اللہ کی پوتی ).325 اوصاف علی خان، کرنل 34 اللہ دتا ، حافظ امة الرشيد.327 والد حضرت مولوی حبیب اللہ ).327,324 امة الرفيق.123 امۃ السلام،صاحبزادی.101 اہتمام علی،حضرت سید.295 ایاز محمود، کرنل.34 ایوب اللہ رکھا، سیٹھ 176 ایوب بیگ، حضرت مرزا لمة العلیم ، صاحبزادی.123 262,258,209,87,86,84.لمتہ القدوس ،سیدہ 122 اللہ داد، حضرت میاں 292 اللہ داد، حضرت منشی 291,290,289 امتها سمیع ، سیده.123 اللہ دت.106 اللہ دتہ، میاں.214 اللہ دتہ خان، حضرت میاں.236,230 لمة اللطیف بیگم، صاحبزادی.101 با وانا نک.123,86,85 الیاس پیووال.239 امام الدین ، حضرت منشی 253 امام الدین حضرت.258 امة الله.34 لمتہ اللہ بیگم سیده.122 امة المالك.245 امام الدین سیکھوانی ، حضرت.70,72,73 امتہ المجید بیگم امام الدین، مرزا.272,223 بخت با نو 239 بدرالدین، شیخ والد حضرت منشی حمید الدین ).95 بدیع الدین، خلیفہ 209 بنت حضرت مولوی فضل الہی ).191 بڑھا بیگ، مرزا 220 امام بی بی اہلیہ حضرت میاں محمد اکبر ).131 اللہ المومن امام بی بی ہمشیرہ حضرت خلیفہ اول.282 ( بنت حضرت مفتی محمد صادق ).117 بركات الرحمن نسیم ابن حضرت مولوی فضل الہی ).191 امام دین ( والد حضرت میاں محمد دین ).298 امتہ الوہاب ( بنت حضرت قاضی عبد الله ).304 برکت اللہ (ابن حضرت میاں مہر دین ).245 امامہ (اہلیہ حضرت مفتی فضل الرحمن ).279 لتہ الہادی، سیدہ، 123 امان اللہ ( امیر افغانستان ).284 امان خان امر سنگھ، راجہ 134 ام متین ،سیده.122,67 امیر بی بی والد حضرت منشی امانت خان ).221,222,302 | ام ناصر ، سیده.211,210 امان خان ، میاں 302 امانت خان، حضرت میاں 221,302 اہلیہ حضرت میاں خیر الدین سیکھوانی ).71 للہ الباسط (اہلیہ مولانا عبدالکریم شاہد ).195 امیر حسین ، حضرت قاضی 144 امة الحفیظ بیگم امیر علی شاہ،حضرت سید بنت حضرت میاں عبدالعزیز پٹواری ).74 المۃ الحفیظ بیگم، صاحبزادی 89 برکت اللہ خان ابن حضرت میاں محمد خان صاحب).33 برکت اللہ، با بو ( ابن حضرت ماسٹر قا در بخش ).201 برکت علی، حافظ.305 برہان الدین جہلمی ،حضرت مولوی 260,246,244,233.229,228,227,225,222,139,137.112,75.واہ بر ہانا ، ایہ نعمتاں کتھوں.138.261,180,133,132 | تبلیغ کیلئے چھ ماہ گھر سے غائب رہنا 234 امیر مینائی (شاعر) 190 امتہ الحفیظ بیگم ( بنت حضرت فضل الہی ).191 امین احمد سید.123 امتہ الحمید ( بنت حضرت میاں عبدالعزیز ).74 امین اللہ سالک.34 امین بیگ، حضرت مرزا.26 لله الحمید بیگم بشری آسان 319 بشیر احمد ابن حضرت میاں امام الدین سیکھوانی ).73 اہلیہ حضرت نواب محمد علی خان (89) امینہ بیگم (اہلیہ حضرت منشی عزیز الدین ).215 بشیر احمد ، چوہدری لعة الحمید بیگم، صاحبزادی.101 لعة الحئی ، سیده امینه راحت 67 انوار الدین: ڈاکٹر 22 بشیر احمد ، ( ابن حضرت عبد الکریم )281 ( ابن حضرت میاں نور محمد ).321 بشیر احمد ، سردار ( حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی ).55 انوار الرحمن.192 (ابن شیخ عبدالرحمن نومسلم ).286

Page 356

iii E: بشیر احمد قاضی، بشیر احمد ،مخدوم.192 تقی الدین، کرنل 211 تصدیق حسین رانجھا 319 (ابن حضرت قاضی عبدالرحیم ).195 تفاصہ (یہودی عورت ).116 چراغ دین (رئیس لاہور ).183 چراغ دین ٹھیکیدار 276,27 چراغ دین ،مولوی بشیر احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا تنویر الاسلام 148,43 234,196,130,101,100.ثناء اللہ قاضی 155 بشیر احمد ، رائے.112 ج چ والد حضرت میاں محمد اسحاق ).257.( چراغ علی نمبر دار، حضرت شیخ 171 ح خ بشیر احمد خان جان محمد، حضرت میاں 151,150 حاجی وریام، حضرت میاں.291 ابن حضرت میاں محمد خان (34,33 جاوید احمد ( ڈینٹل سرجن ).121 بشیر احمد ( ابن حضرت مفتی فضل الرحمن).279 جگت سنگھ ، سردار 8080 بشیر الدین ، راجہ 253 بشیر اول،صاحبزاں 32 بشیر حیدر.159 بوڑے خان ،حضرت ڈاکٹر جلال الدین بلانوی، حضرت منشی حافظه بی بی بنت حضرت منشی میراں بخش) 241 حاکم علی، چوہدری 245.262,209,86,81,23,22,20,19 | حامد ، صوفی (ابن حضرت میاں غلام محمد ).200 261,260,160,159,147,44,42.جلال الدین، مولوی.46 حامد شاہ ، حضرت سید جلال الدین تمس ،حضرت مولانا 262,211,209,208,86,47.73,77,83,145,147,189, آپ کی کتب.43 بوز نیب بیگم بنت حضرت نواب محمد علی خان ).89 305,189,171,150,140,76.247,252,256,259,284,286,287,288,292, بومبر النساء بیگم 303,307,324.,205212217,219,221,233,242,243,245 | حامد علی، حافظ حامدہ بیگم ( بنت حضرت پیر منظور محمد صاحب).67 ( بنت حضرت نواب محمد علی خان ).89 جمال الدین، حضرت خواجہ 254 حبیب احمد ( ابن حضرت پیر افتخار احمد ( 65 جمال الدین ، حضرت مولوی 111,110 الرحمن، حضرت منشی.270,269 بهادر خان کیروی والد حضرت منشی میراں بخش).241 جمال الدین سیکھوانی ، حضرت.73,72,70 | حبیب الرحمن شاہ بہادر علی ، شیخ ( والد حضرت شیخ نوراحمد ).109 جمال الدین ،مولوی بہاؤالدین زکریا ملتانی 232 بہرام علی ،میاں مہدی کی علامت کا پورا ہونا.159 جمال الدین احمد، پیچ 60 والد حضرت مولوی عبد اللہ خان (207 جمیل احمد، خلیفہ.214 بہلول لودھی 88 يت ث چھتر سنگھ (والد حضرت پیر محمد سراج الحق نعمانی ).60 حبیب اللہ ، حضرت مولوی 324 حبیب اللہ والد حضرت مولوی رحیم اللہ ).182 جمیل الرحمن رفیق 318,317,316 حبیب شاہ، مولوی.106 جنت بی بی ( حضرت منشی پیر بخش کی بہو ).158 حبیب علی شیخ ( والد حضرت منشی عبدالرحمن (36 جو الا سنگھ، کرنل 39 حرمت بی بی ( سابقہ نام حضرت میاں عبدالعزیز ).113 جون تیمی النصر.115 پشاوری مل پلیڈ ر.308 پکتھال ،مسٹر.115 پیر بخش ،حضرت منشی 158 پیر بخش، حضرت میاں 161 ( حضرت اقدس کی حرم اول (220 جہان خان (ابن حضرت مولوی غلام حسن ).99 | حرمت علی، حضرت شیخ 231 حسام الدین، حضرت میر.43,42 جہانگیر خان افغان (ابن حضرت منشی گوہر علی ).45 جیون.106 تاج الدین ( ابن حضرت شیخ نبی بخش).126 جیون خان تاج الدین حضرت بابو.123 265,262,148,133,132,104.حسن احمد ، میاں.147 برادر حضرت مولوی فیض اللہ لنگیاں والی 147 والد حضرت میان شادی خان).134 حسن علی ، مولوی.177,68 تاج الدین منشی 250 تاج محمد خان، حضرت منشی 166 چومیاں 298,297 تبریز ( نمبردار ) 111 حسن علی بھاگلپوری ، حضرت مولوی 146 جیون علی،حضرت سید.294 تو ( حضرت میاں کرم الہی کے والد ).96 چراغ الدین، حضرت قاضی.235 الدین،حضرت قائض حسین بخش ( والد منشی سرفراز خان ).276

Page 357

iv حسین بی بی اہلیہ حضرت امام الدین سیکھوانی 72 خدا بخش جالندھری ، حضرت مولوی 285 رب نواز مجوکہ ملک.202 حسینی خان، حضرت 322 حشمت بی بی والدہ حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی).40 حضرت اللہ پاشا.123 حفیظ احمد ،صاحبزادہ مرزا.148 خصیات علی شاہ، حضرت سید 147,132,86,47.رجب دین، خلیفہ 169,168 رجب علی،حضرت.326 265,263,262,261,209 رجب علی ، پادری 109,108 خلیل احمد، پیر (ابن حضرت پیر افتخار ).65 | رحمن شاہ ، حضرت 150 خلیل الرحمن شیخ 269 حفیظ الرحمن ( ابن حضرت محمد امین ).318 خلیل الرحمن سیٹھی حلیمہ بیگم رحمت اللہ (حضرت میاں مہر دین کے بیٹے ).245 ( ابن حضرت میاں ابراہیم ).246 | رحمت اللہ، شیخ 124 ( بنت حضرت شیخ غلام راولپنڈی ).141 خلیل الرحمن فردوسی.318 حمید احمد ، میٹھی (ڈپٹی کمشنر ) 141 خواجہ علی ، حضرت قاضی 165 حمید احمد صوفی حضرت صوفی غلام محمد کے خورشید احمد کان مرحوم.102 خیر الدین سیکھوانی ، حضرت میاں بیٹے ) 200 حمیدالدین،حضرت منشی.95 حمید الدین خلیفہ 209 حمید اللہ ، ملک.245 حمید اللہ نصرت پاشا، سید 123 حمیدہ بیگم (ہیڈ مسٹریس).141 رحمت اللہ ( تاجر چرم ).253,144 رحمت اللہ سنوری ، مولوی 80 رحمت اللہ شاکر ابن حضرت حافظ نور محمد ).108.131,73,72,71,70 رحمت اللہ کیرانوی، مولوی داغ دہلوی (شاعر).190 دانش احمد خان 34 داؤ د احمد ، سید میر 66 حمیدہ بیگم (بنت حضرت شیخ نبی بخش ) 126 داؤد احمد طاہر.20 حمیدہ بیگم ( بنت حضرت مولوی فضل الہبی ) 191 دسوندھارام، سردار ( حضرت خلیفہ ایح اوّل کے استاد ).51 رحمت النساء (اہلیہ حضرت محمد رحیم الدین ).320 رحمت علی،ڈاکٹر.118 رحمت علی ، مولانا ( مربی انڈونیشیا ).74 رحیم اللہ مولوی 127 رحیم اللہ حضرت مولوی.297,182 حمیدہ خانم ( بنت حضرت میاں محمد خان).33 ( والد حضرت شیخ عبد الرحمن نو مسلم ).285 حضرت مسیح موعود کی آمد کے متعلق خواب.183 حیات محمد ( کانسٹیبل ).232 حیدر، ڈاکٹر سید میر 159 حیدر شاہ 222 حیدرشاہ، میر.237 دلپذیر، حضرت مولوی 318,284 رحیم بخش ، حضرت میاں 219 دلدار علی، حضرت سید.293 رحیم بخش پیچ 242 دل محمد ( والد حضرت میاں غلام محمد ).179 رحیم بخش بنشی 142 دوست محمد ، حضرت مولوی.287 رحیم بخش ،مولوی ( مولانا در دصاحب ).201 حیرت دہلوی، مرزا 133,104 دیانت خان ، حضرت منشی خاتم النساء درد.202 برا در حضرت منشی امانت خان ).222,221 رستم علی ، حضرت چوہدری رحیم بی بی ( بنت حضرت منشی گلاب دین ).76 رسول بخش ( والد حضرت منشی فیاض علی ).38 خادم حسین ، حضرت میاں 284 دیدار بخش ( حضرت عبدالرحمن پٹواری سنوری 264,263,199,143,130,450 خالد پرویز، 255 خالد محمود،ملک.108 خان ملک، حضرت مولوی 243,239,238,237,232,27.خدابخش، میرزا 251,87 خدا بخش،حضرت پیر جی.170,169 خدا بخش، شیخ کے والد )304 دین محمد حکیم ( ابن حضرت محمد عزیز الدین ).45 رشید احمد (ابن حضرت منشی دیانت خان ).221 دین محمد ، عرف بگا ابن حضرت میاں جان محمد ).151 رشید احمد ، صاحبزاده.101 رشید احمد قریشی (ابن حضرت منشی فیاض علی ).39 ڈی.ڈی.ڈکسن (برطانوی سیاح).128 رشید احمد طیب (مربی سلسلہ ).22 رشید احمد ، مرزا.220 رانجھا خان ( والد حضرت میاں رحیم بخش ).219 رشید الدین، خواجہ (یوکے).71 (حضرت منشی حمید الدین کے دادا ).95 رانی ( ہمشیرہ حضرت منشی گلاب دین) رشید الدین ، حضرت ڈاکٹر خلیفہ خدا بخش، حضرت شیخ 296 امام مہدی کے متعلق خواب 75 248,210,209,44.خدا بخش، حضرت میاں 268 آسمان پر چودھویں کا چاند طلوع ہونا 225 رشید الدین صاحب العلم، پیر.174

Page 358

V رشیدہ بانو ( بنت حضرت محمد رحیم الدین ).320 زین العابدین، مرزا ابن حضرت مولوی حافظ فضل دین ).22 رشیدہ بیگم (حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبه) (ماموں حضرت منشی جلال الدین بلانی ).19 سعد اللہ خان، حضرت.323 حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی).211,210 زین العابدین محمد ابراہیم.271,270 سعد اللہ لہ ہیانوی.163 زینب ( بنت حضرت حکیم محمد حسین ).297 سعید احمد اظہر، مولانا.20 زينب بي بي 143,41,40 رشیدہ بیگم فرحت جہاں.67 رضا شاہ ،سید.247 رضوان بشیر ، رائے.112 سعیدہ خانم 34 اہلیہ حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی ) سفیر احمد قریشی 37 رضی الدین، حضرت قاضی 323 زینب بی بی رضیه در د.202 سیکینہ بیگم (اہلیہ مولوی محمد دین صاحب ).74 اہلیہ حضرت میاں دین محمد بلانی ) 24 | سلطان احمد ،صاحبزادہ مرزا.89 ربیع احمد ، صاحبزادہ مرزا.123 زینب بی بی ( اہلیہ شیخ عبد الرحمن نو مسلم ).160 سلطان احمد ، مولوی رفیق احمد ، صاحبزادہ مرزا.44 رفیق احمد، سردار.286 زینب بی بی والد حضرت مولوی حافظ محمد ).288 بنت حضرت مولوی حبیب اللہ ).325 | سلطان محمد ، حضرت میاں.237 رفیق احمد (ابن حضرت مفتی فضل الرحمن ).279 زینب بیگم (اہلیہ حضرت غلام محی الدین).316 سلطان محمود انور ، مولانا.22 رفیق حیات (امیر جماعت یو کے ).71 زینت بیگم 245 سلمی جاوید سش اہلیہ ملک منور جاوید صاحب ).200 رقیه بقا پوری 257 رقیہ بیگم ( بنت حضرت میاں نور محمد ) 322 ساجدہ نیم ( بیگم ملک احسان اللہ.67 سلیم بیگ، مرزا 220 رکن الدین، شیخ ساگر، میاں ( والد حضرت میاں جان محمد ).150 سندر سنگھ، سردار ( سردار فضل حق ).81,20 حضرت خلیفہ اول کو حضرت اقدس کا تعارف سراج الحق، مولوی 110 کروانا.51 رمضان الحق ، مولوی 110 رمضان علی ،حضرت سید.294 رواح الدین خلیفہ.211 سراج الحق نعمانی، حضرت پیر 275,112,60,56,29,25,24.احمدی نام رکھنے کی تجویز.61 سنسار چند ، ڈپٹی (مجسٹریٹ ) 231 سود اگر مل (شیخ عبد القادر کا سابقہ نام ).251 سہیل احمد خان (ریٹائر ڈایڈمرل).102 سید احمد (حضرت مولوی غلام نبی کے حضرت میاں جان محمد کی نماز جنازہ 151 والد ).185 روڑ اخان ( والد حضرت مولوی محمد حسین ).187 سردار بی بی (اہلیہ حضرت میاں محمد شفیع) 283 سید احمد خان ، سر.40,27 سردار بی بی ( بنت حضرت میاں نجم الہدی).284 | سیف اللہ خان ، آغا 237 روشن بخت.192 روشن علی،حافظ.239,238,135 سراج الدین، حضرت منشی 179 شادی خان، حضرت منشی 200,134 روشن دین ،حضرت منشی.250,249 سراج الحق ، حضرت قاضی 235,194 شاہجہاں (مغل شہنشاہ).62 روم، مولانا.183 ریاض محمود با جوه.322 ز زاہد علی قریشی 38 زاہد محمود، میر 65 سراج الدین، ماسٹر.243 شاہد احمد چغتائی (PTV پوڈیوسر ).191 سردار محمد ( ابن حضرت با بوتاج الدین ) 124 | شاہد رضوان 102 سردار احمد ، رانا ( سیشن حج ).245 شاہد رضوان خان 34 شاہد مصطفی، چوہدری 192 سردار محمد ، حضرت.286 سرفراز احمد خان نمبر دار منشی 27 شاہدہ.74 زبیدہ بیگم ( بنت حضرت عبد المغنی ).235 سرفراز خان، چوہدری 276,277 شاہ دین ، حضرت منشی 248 زبیدہ خانم ( بنت حضرت میاں محمد خان ).33 سرور سلطانہ، سیده زبیر گل 270 زکر یا ہیٹھ.176 زیب النساء.192 شاہ محمد، سید بیگم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) 101 (برادر حضرت سید عبدالہادی ).207 سعادت بیگ، مرزا شاہ محمد بن محمود شاه برا در حضرت میرزا ابراہیم بیگ).198 والد حضرت مولوی غلام امام).148 زین العابدین،حضرت قاضی 97 سعد الدین.245 زین العابدین، سید.247 سعدالدین، چوہدری شاہد محمود خان ( متعلم جامعہ احمدیہ ).221 شاہنواز ،سید ( والد حضرت سید عبدالہادی).206

Page 359

vi شرف الدین بنشی صالح محمد حاجی اللہ رکھا، حضرت سیٹھ حرم حضرت خلیفۃ اسیح الثالث).34 176,174,173.والد حضرت منشی گلاب دین ).74 شرف الدین،حضرت چوہدری.218 صباح الدین، خلیفہ 211 شریف احمد ، خواجہ 237 صبغت اللہ ( ایڈووکیٹ ).108 شریف احمد ، صاحبزادہ مرزا.221,90,89 | صدر الدین، پیچ طلح محمود خان (مربی سلسلہ ) 221 طیبہ صدیقہ ، سیدہ 122 ظفر احمد، حضرت منشی 319,270,204,45,38,36.( حضرت نواب محمد علی خان کے مورث اعلیٰ ).88 حضرت اقدس کی کتاب کی اشاعت کیلئے بیوی کا شمس الدین ( چا حضرت منشی حمید الدین ).95 | صدیق حسن خان نواب.56 زیور بیچنا.30 شفیق احمد مرحوم، حافظ 320 شمس الدین، شیخ.275 شوکت سلطانہ، سیده صغریٰ بی بی (اہلیہ حضرت سید محمودشاہ ).148 | آپ اور ہم کوئی دو ہیں.35 صغری بیگم ظفر اقبال 106 (حضرت میر ناصر نواب کی بھانجی ).63 اہلیہ حضرت خلیفہ مسیح الاول 157,55,52 ظفر اقبال خان 187 صغری بیگم ( بنت حضرت ماسٹر قا در بخش ) 202 ظفر اللہ خان، چوہدری سر.297 شوگن چندر، سوامی 20 شہاب الدین، حضرت: 306,305 صغری خانم ظهورشاہ، مولوی.308 شہاب الدین،حضرت شیخ 93,92 ( بنت حضرت مولوی محمود حسن خان ).319 ظهور علی ، مولوی 50 شہاب الدین، چوہدری سر 212 صفدر حسین ، حضرت مولوی 212 ظہیر احمد خان (مربی سلسله ).221 شہاب الدین غزنوی ، حضرت مولوی 188 صفی الدین خواجه.71 ظہیر الدین بابر سردار 126 شہاب خان والد حضرت منشی رستم علی ) 263 صفیہ بانو ( بنت حضرت محمد رحیم الدین ).320 ظہیر الدین، قاضی 76 صلاح الدین.283 شہامت خان، حضرت میاں بر اور حضرت منشی امانت خان ).302,221 صلاح الدین، پیر.122 ع عبدالباسط،خلیفہ 214 عبدالجبار، راجہ، 127 اہلیہ حضرت شیخ غلام نبی ).141 ( ابن حضرت خلیفہ رشید الدین).211 | عبدالجلیل شاہ ،سید شہزادی بیگم شیر علی ، حضرت مولانا شیر محمد ابن حضرت سید حامد شاہ ).44 صلاح الدین، خلیفہ صلاح الدین، ملک صلاح الدین شمس ، ڈاکٹر.73 عبدالحق، چوہدری والد حضرت میاں قطب الدین خان).49 ضیاء الدین، پیر.123 ( ابن منشی سرفراز خان ).277,276 319,257,256,192,191,35.( مؤلف اصحاب احمد ).136,103,90 عبدالحق،حضرت مولوی.324 شیر محمد خان،حضرت 118 شیر محمد دامن ، حضرت مولوی ضیاءالدین،حضرت قاضی 303,270,250,237,236, 235,218,193,76.256,192,110.اولاد کو نصیحت.77 صاحب داد.306 صاحب دین، حضرت 306 ضیاء الدین، ڈاکٹر 22 طيظ صاحب دین، شیخ 242,241 طاہر احمد، چوہدری.237 صادق حسین ، حضرت منشی 190 صادق علی بیگ، مرزا 50 صالحہ بیگم طاہر احمد ،خلیفہ 214 طاہر عمران.102 عبد الحق بیٹھی (ابن حضرت میاں ابراہیم ).246 عبد الحق بنش.141 عبدالحق، مولوی 110 عبدالحق، مرزا 325 عبدالحق کرانچی والہ ، حضرت منشی.143 عبد الحکیم ، حکیم ( ابن حضرت میاں اللہ دتا ).237 عبدالحکیم، ڈاکٹر.208,84 عبد الحکیم ، مولانا 95 طاہر احمد،سید (ناظر MTA).123 عبدالحکیم، حضرت مولوی.303 عبد العلیم خان 102 عبدالحمید ، ( ابن حضرت میاں مہر دین ).245 عبد الحمید (وکیل منٹگمری).136 عبدالحمید ، چوہدری ( بنت حضرت صاحبزادہ منظور محمد ).66 طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ 192 صالحه درد.202 صالح محمد 237 طاہرہ جبین 22 طاہرہ صدیقہ نا صر صاحبہ

Page 360

vii ابن حضرت میاں نور محمد ).322 عبدالحمید، راجہ عبدالرحمن ، مولوی (ابن حضرت خان ملک ).239 (ابن حضرت شیخ نبی بخش آف لاہور ).126 | عبدالرحمن ، نواب ابن حضرت سید انوار حسین صاحب).103,102 عبدالستارخان (مربی سلسله ).293,292 عبدالستارخان، مولوی.188 عبدالحمید ایوب ،حضرت سیٹھ.175 ابن حضرت نواب محمد علی خان ).89 عبد السلام (ابن حضرت مفتی محمد صادق ).117 عبد الحئی، شیخ.308 عبد الحئی عرب 235 عبد الخالق، مرزا عبد الرحمن پٹواری سنوری حضرت 304.عبد السلام، حضرت میر سنوری،حضرت.304 عبدالسلام،حضرت عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا ، حضرت 69,68 ( ابن حضرت سید حامد شاہ ).44,43 عبدالرحمن خان بنگالی 67 عبد السلام ، ڈاکٹر ابن حضرت مولوی حبیب اللہ ).325 عبد الرحمن عرف شعبان ، حضرت شیخ 168 (ابن حضرت شیخ عبداللہ دیوان چند ).252 عبدالرحمن جٹ ، حضرت مولوی 305 عبدالسلام ، راجہ عبدالخالق، مہتہ ابن حضرت شیخ عبدالرحمن نومسلم ).160 عبدالرحمن کہیوال، حضرت مولوی ابن حضرت شیخ نبی بخش آف لاہور ).126.243,138 | عبدالسلام، قاضی عبد الخالق ، مولوی ابن حضرت حافظ مولوی احمد دین ).243 عبد الرحمن مدراسی ، حضرت سیٹھ عبد الخالق رفوگر ، حضرت میاں.48 عبد الرحمن ابن حضرت منشی مفتح محمد بزدار ).153 عبدالرحمن (فیصل آباد ).65 عبدالرحمن ، ڈاکٹر 320,177,174,172 عبد الرحمن نو مسلم ، حضرت شیخ 158,114,113,103,21,20, 285,268,213,160, ابن حضرت قاضی ضیاء الدین ).195,77 عبد السلام مبة.160 عبدالسلام، میر 148 عبدالسلام خان 102 عبدالسلام عمر ،میاں 55 عبدالرحیم ، حضرت قاضی, 223,194,77 عبدالسمیع ( والد حضرت منشی عبد الحق کرانچی).143 عبدالسمیع بشی (ابن حضرت منشی عبدالرحمن ).37 (ابن حضرت شیخ عبد الرحیم دفعدار ) 82 عبدالرحیم ، حضرت شیخ 81,80,20 عبدالسمیع خان.292 عبدالرحمن (امیر افغانستان).188,167 عبدالرحیم 292 عبدالرحمن ( کارکن روزنامه الفضل).134 عبد الرحیم ( ابن حضرت مستری عبدالکریم ) 281 عبدالشکور، حضرت ڈاکٹر 300 عبد الرحیم ( ابن حضرت صاحب دین تبال ).306 عبد الصمد سنور، حضرت میاں 259,225 عبدالرحمن ، چوہدری ابن حضرت حافظ مولوی فضل دین) 22 عبدالرحیم ، خلیفہ 214 عبدالرحیم، کیپٹین ڈاکٹر 252 عبد الصمد ( ابن حضرت شیخ نبی بخش ).125 عبدالصمد،صاحبزادہ مرزا.123 عبدالرحمن ، حضرت حاجی 164 عبدالرحمن ، حضرت شیخ 125,124 عبدالرحیم خان ،نواب.202,201,89 عبدالعزيز منشی 316 عبدالرحمن، حضرت منشی 38,37,36,35 عبدالرحیم درد ، مولانا.223 عبد العزيز عبدالرحمن حکیم عبدالرحیم شرما ، شیخ 95 ( ابن حضرت حافظ غلام محی الدین ).316 ابن حضرت میاں اللہ دتا ).237 عبدالرحیم فاضل ، مولانا 95 عبدالعزیز سیالکوٹی، چوہدری.180 عبدالرشید برلاس، مرزا.247 عبدالرحمن ،خلیفہ عبد العزیز پٹواری ، حضرت منشی 74.73 ابن حضرت خلیفہ نوردین جمونی).214 عبدالرشید خان ( تحصیلدار ) 292 عبدالعزیز عرف عزیز الدین ناسنگ،.314 حضرت مسیح موعود کی قبر کی حفاظت کرنا.195 عبدالرشید یحیی ، مولوی (مربی سلسلہ ).243 عبدالعزیز لد بیانوی، مولوی 94 عبدالرحمن سیٹھ 146 عبدالرحمن ،سید 304 عبدالرحمن ، قریشی عبدالرؤف،ماسٹر عبدالعزیز نو مسلم ، حضرت میاں ابن حضرت مستری غلام الہی ).281 114,113,104.عبدالرزاق.125 عبدالعزیز پٹواری ، حضرت منشی 268 عبدالعزیز بابو.267 ابن حضرت مولوی دوست محمد ).287 عبد الرزاق گجراتی.307 عبدالرحمن ، ملک ( ابن حضرت برکت علی ).305 عبدالرحمن منشی.254,253 عبدالسبحان ،حضرت میاں.301 عبد العزیز ، حضرت میاں.267,266 عبدالستار، چوہدری 74 عبد الستارخان عبد العزيز حضرت چوہدری نبی بخش آف بٹالہ ).130

Page 361

viii عبد العزیز (ابن چراغ دین رئیس لاہور ).183 - عبد الکریم خان، حضرت حافظ.106 عائشہ بیگم ( بنت حضرت شیخ غلام نبی ) 141 عبد الکریم ( ابن حضرت غلام محی الدین ).266 عائشہ بیگم (اہلیہ حضرت منشی عزیز الدین).215 عبدالعزیز،خلیفہ.214 عبدالعزیز، راجہ ابن حضرت شیخ نبی بخش ).126 عبد الکریم ( ابن حضرت میاں علی محمد ) 229 | عباس خان ، حضرت میاں 229 عبداللطیف (سرگودھا).322 عبداللطیف خان 304,102 عبدالکریم منشی 247 عائشہ بیگم ( بنت حضرت میاں کرم داد ).223 عباس علی، میر.142,27 عبد اللہ ( ابن حضرت منشی محمد افضل ).119 عبداللہ، شیخ ( والد حضرت مفتی فضل الرحمن).279 عبد اللہ انتقم ، دیکھئے آٹھم عبد اللہ احراری، میاں.223.1283,256,191,118 عبد اللطیف ( ابن قاضی زین العابدین).99 عبد اللہ (شیخ رحمت اللہ کے بیٹے ).125 عبدالعزیز، مولوی 142 عبدالعلی ، حضرت حافظ عبد الغفار خان 102 عبدالغفار کشمیری 301 عبدالغفور.309 عبدالغنی.301 عبد الغنی مجد دری ،شاہ، عبد الغنی ، مولوی عبداللطیف، ڈاکٹر ابن حضرت شیخ عبداللہ دیوان چند.252 عبد اللہ ، حافظ ( والد حضرت مولوی فضل دین ).21 عبداللطیف،صاحبزاده.188 عبدالمالک ابن حضرت حافظ مولوی احمد دین).243 عبد اللہ خان، حضرت مولوی 207 حضرت خلیفۃ اصبح الاول کے استاد 51 عبدالمالک، چوہدری.192 عبدالمجید، حضرت شہزادہ.93 عبد اللہ ، مولوی ( والد حضرت مولوی نور محمد ).205 عبد اللہ، حضرت قاضی 303 عبد اللہ ٹھٹھہ شیر کا، حضرت میاں.111,110 عبداللہ خان (حضرت منشی فتح محمد نمبردار کے ( حضرت مولوی غلام نبی خوشابی).185 عبدالمجید خان آف ویرووال 34,33,32 عبداللہ پیٹالوی ، مولوی.208 عبدالقادر، شیخ ( سابق سوداگرمل ).51 عبدالمجید حضرت منشی 268 عبد القادر مہة 160 عبد القادر، مولوی.27 عبدالغنی ، مولوی 235,234,233139,75.عبدالمنان عمر ، میاں 55 عبد القادر ، حضرت مولوی 181 عبد القدوس.258 عبدالقدیر، چوہدری عبد المومن رضوی، سید 278 عبدالمومن ( کمانڈر ).117 ابن حضرت میاں نور محمد ) 322,321 عبدالواسع عابد (مربی سلسلہ ) 217 عبدالقدیر ، صوفی عبد الوحید قریشی 320 ابن حضرت عبداللہ سنوری) 202,79 عبدالوکیل خلیفه 214 عبد القدیر ، راجہ 126 عبدالکریم.92 عبدالوہاب،حضرت.312 عبدالوہاب ، مولوی.279 عبدالکریم سیالکوٹی، حضرت مولوی عبدالوہاب عمر ، میاں 55 بیٹے ).153 عبداللہ خان ، میاں 136 عبد اللہ دیوان چند،حضرت شیخ.251 عبد اللہ سنوری ، حضرت میاں 258,234,204,202,189,80,79,78, 321,304,272,259, عبد اللہ عرف میاں موج دین والد حضرت خلیفہ نوردین ).213 عبداللہ غزنوی ، مولوی 219,183,141,137,76.,291,274,271,260,249,227 | عبدالہادی ، حضرت سید.206 ,216200,160,139,135,125,112,105,85 | عالم دین ،حضرت میاں 282 عالم شاه.256 آپ کا کشف 77 عبداللہ فخری کاندھلوی 88 عبداللہ قرآنی، حضرت 309 82,81,77,65,64,54,42,40, عبدالکریم ، حضرت (چمارو) 311 عائشہ بی بی ( بنت حضرت مولوی قطب دین ).28 عبد اللہ کشمیری ، میاں.131 عائشہ بی بی عثمان عرب،حضرت.311 اہلیہ حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی ).135 عزیز احمد ( ٹیچر بشیر آباد سندھ ).22 عبد الکریم حضرت مستری 281 عبدالکریم،حافظ.292 عبدالکریم خان عائشہ بیگم (ابن حضرت سید محمد انوار ).102 عبدالکریم ( والدہ قریشی افتخار علی ).39 عائشہ بیگم.229 عزیز احمد ، ملک.316,315 عزیز احمد شاہ سید.247 عزیز الدین، حضرت 68 ابن حضرت میاں کریم الدین ) 121 عائشہ بیگم (اہلیہ مولانا رحمت علی 74 عزیز الدین ، حضرت مستی.215

Page 362

عزیز الرحمن سیٹھی علیم الدین، خلیفہ ix حضرت خلیفہ اول کے متعلق ارشاد.53 (ابن حضرت میاں ابراہیم ).246 (ابن حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین).211 یہ شخص ہزار عبد الکریم کے برابر ہے.54 عزیز محمد سعید ( متعلم جامعہ احمدیہ ) 325 علم دین ( والد حضرت میاں کرم داد ).223 حضرت نواب محمد علی خان کے متعلق ارشاد.90 عسکری بیگم (اہلیہ حضرت حاجی محمد امیر خان) 164 عمادالدین، پادری 49 عصمت اللہ ، حضرت حاجی 161 عصمت بیگم، صاحبزادی 125 عطاء الرحمن چغتائی 191 عطا الہی، حضرت 204 عمر بخش والد حضرت میاں ابراہیم پنڈوری.245 بیت اللہ شریف میں آپ کی دعائیں پڑھنا.98 پنجاب میں آفتاب 101 جموں میں آمد.213 عمراں بی بی ( بنت حضرت میاں وریام).292 جہلم میں آمد.246 عمر بیویٹ،سر.115 عطاء اللہ (ابن حضرت منشی عزیز الدین ).215 عمر حیات ، حاجی 275 عطا الله.245 عطا اللہ، رانا.267 عطا اللہ ، ڈاکٹر 267 عمر دین، میاں.127 عمر فاروق ( امیر المومنین ).51 عنایت الدین.283 عطا محمد ( حضرت شیخ چراغ علی نمبر دار کے عنایت اللہ شاہ سید والد ).171 ابن حضرت سید فضل شاہ ).273 عطا محمد،حضرت منشی (چنیوٹ ).275 عنایت اللہ قریشی ، مفتی دہلی آمد.104 لد ہیانہ میں آمد.189,151 ضيف اکرام.143,106 حضرت مفتی محمد صادق کے بارہ میں ارشاد.116 حضرت سیٹھ احمد عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا کے نام مکتوب.173 حضرت مرزا محمد عظیم اور حضرت مرزا محمد یوسف بیگ کے متعلق ارشاد.197 عطا محمد، حضرت منشی (سیالکوٹ).260 والد حضرت مفتی محمد صادق).115 میاں نظام دین کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا.204 عنایت الله مدرس، حضرت مولوی.240 حضرت سید عبدالہادی کے بارہ میں ارشاد.206 عطا محمد خان، ڈاکٹر 304 عطا الکریم شاہد،مولانا.195,77 عنایت علی شاہ، میر 150,142 عیسی علیہ السلام ، حضرت عطا الواحد رضوی،سید.278 عطر سنگھ ( زینب بی بی کے جد امجد ).41 عطر یاب ( عطر سنگھ کا اسلامی نام ).41 241,224,213,177,154,151,83,32,28.غ اپنے چند ا حباب کا ذکر 209 زردہ چاولوں میں برکت والی روایت.234 قرآن کو جاننے اور سمجھنے والے 241 حضرت مولوی محمد رضوی صاحب کیلئے ساتھ اکٹھے عظمت علی ( والد حضرت ماسٹر قادر بخش 201 غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ اسلام، حضرت مرزا سالن کا کہنا 278 312,249,139,77,52,51,50,20 | غلام احمد ( مینیجر سندھ سٹیٹس).243 غلام احمد عظیم اللہ، مرزا والد حضرت مولوی حبیب اللہ.324 آپ کے اخلاق عالیہ.85 عظیم اللہ ، میاں آپ کی برکات.280 (ابن حضرت شیخ فضل الہی ).103 آپ کی زبان’ پنجابی“.100 ( حضرت مولوی دوست محمد کے والد ).287 غلام احمد قاضی ( حضرت قاضی ضیاء الدین کے والد ).76 غلام احمد قریشی 192 عظیم بیگ حضرت میرزا 197,196 تقویٰ کی تعریف 322 علاؤ الدین ( حضرت سیدامیر علی ).132 قبولیت دعا.25 علی کرم اللہ وجہ (حضرت امیر المومنین ( 74 کپورتھلہ کے دوستوں سے محبت.33 غلام احمد قریشی علی اکبر.192 علی بخش.75 علی شاہ، امام.155 على الطالع ، سید.154 کپورتھلہ کے دوستوں کے متعلق ارشاد 35 (حضرت میاں محمد شفیع کے بیٹے ).283 سفر دہلی.38 صداقت.105,39 غلام احمد ارشاد، مولوی.191 غلام احمد بدوملہی ،مولانا.277 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے غلام الہی، حضرت مستری 281 علی محمد ( حضرت محمد عبد الصمد سنوری).259 متعلق ارشاد.40 علیم الدین غلام احمد باجوہ.136 علی محمد بی اے بی ٹی ، چوہدری 192 حضرت سید حامد شاہ صاحب کے متعلق ارشاد 43 غلام امام ، حضرت مولوی.149,148 حضرت مولوی وزیر الدین صاحب کو چائے پلانا 44 غلام باری سیف ،مولانا 64 ابن حضرت منشی عزیز الدین ).215 حضرت مولوی گوہر علی صاحب کو پیسے دینا.46 غلام جیلانی ، حضرت مولوی 221

Page 363

✗ غلام حسن ، حضرت مولوی غلام قادر، صاحبزادہ مرزا.101 فاطمہ بیگم 192 307,99,75,67.< غلام قادر ، مرزا آپ کی تلاوت 100 فاطمہ بیگم (اہلیہ حضرت میاں غلام محمد ).200 والد حضرت منشی جلال الدین بلانی).19 فاطمہ بیگم ( اہلیہ حضرت میاں کرم الہی ).97 غلام حسین ، حضرت ( مجسم وصیت ) 184 غلام قادر صحیح سیالکوٹی 174,146,132 فاطمه عمر دراز (اہلیہ حضرت پیر افتخار احمد ).65 غلام.م حسین ، حضرت میاں.225 غلام حسین ، بابو غلام محمد با بو.119 صیح الدین خان.106 غلام محمد خان ( والد حضرت نواب محمد علی خان).88 بیچ دین.292 ابن حضرت منشی فخر الدین) 163,162 غلام محمد، حضرت صوفی غلام حسین خان فتح محمد ( والد حضرت عطا الہی صاحب).204 ابن حضرت میاں محمد دین بلانی 135,24 فتح محمد ، حضرت منشی 152 والد حضرت قاضی زین العابدین ) 97 غلام محمد بشی.109 غلام حسین رہتاسی حضرت.47 غلام حسین شاہ ،سید.75 غلام حسین، مولوی غلام، حضرت میاں 198 غلام محمد ، حضرت ماسٹر.265 فتح محمد سیال چوہدری 202,55 فضل احمد ، حافظ.144 فضل احمد مولوی (استاد حضرت اقدس ).82 غلام محی الدین، حضرت میاں 266 فضل احمد مجوکہ (مربی سلسلہ ).106 والد حضرت مولوی قطب الدین ).27 غلام محی الدین،حضرت.315 فضل الدین ( والد حضرت ماسٹر غلام محمد ).265 غلام محی الدین، حضرت حافظ.318,227 فضل الدین، ( حضرت حافظ ).59,58 فضل الدین، حافظ غلام حفصہ.192 غلام حیدرخان 277 غلام محی الدین خان 211 غلام حیدر، با بو( تحصیلدار ).228 غلام محی الدین قصوری 212,208 والد حضرت مولوی حافظ احمد دین ).342 فضل الدین، حضرت مولوی 135 غلام مرتضی ، مرزا غلام دستگیر ، حضرت منشی 179 غلام رسول (حضرت میاں کریم بخش کے (حضرت اقدس کے والد ).151 فضل الدین،حضرت میاں.235 والد ).313,312 مرتضی ، حضرت قاضی.180,46 غلام مری غلام رسول حضرت بابو.285 غلام مرتضی ایڈووکیٹ 24 غلام رسول، حافظ غلام مریم ،سیده.247 والد حضرت خلیفہ اول کے والد ).51 غزالہ مریم ،سیده.200 فضل الدین ، مولوی.244 فضل الدین، حضرت قاضی.194 فضل الدین بھیروی ، حضرت حکیم 227,192,121,82.غلام رسول را جیلی، حضرت 234,135.غلام مسعود ( والد حضرت مولوی شیرمحمد ہو جن ).256 فضل الہی (ابن حضرت شیخ غلام نبی ).141 غلام رسول و زیر آبادی، حافظ.228 غلام مصطفی، ڈاکٹر 24 فضل الہی ،حضرت مولوی غلام رسول قلعہ والے، حافظ.183 غلام نبی ،حضرت مولوی.186,185 حضرت مولوی فضل حسین ).191,190 غلام علی ڈپٹی ، حضرت مولوی.46 غلام نبی حضرت شیخ 141,140 فضل الہی ، چوہدری.22 غلام علی رہتاس ، مولوی.262,208 غلام نبی مسگر ، حضرت مرزا 50,49 فضل الہی، حضرت حکیم 251,250 غلام بیبین ( سابق مربی امریکہ ).24 فضل الہی ، قاضی.240 غلام عیسی 87 غلام غوث ( والد حضرت شیخ نور احمد ).275 غضنفر علی ، مولوی 50 فضل الہی ،حضرت شیخ.103 غلام فاطمه غفارا، میاں ( یکه بان).151 فضل الہی (ابن حضرت کرم الہی کمپازیٹر ).310 فضل الرحمن ( ابن حضرت مولوی فضل الہی ).191 ( بنت حضرت مولوی حافظ فضل دین ).22 غفور بیگم غلام فاطمہ (اہلیہ حضرت شیخ نبی بخش ).126 ( بنت حضرت حاجی منشی احمد جان ).157 فضل الرحمن، حضرت مفتی.279 فضل الرحمن ،سعيد.318 غلام فاطمه غوث علی 221 والدہ حضرت منشی فتح محمد بزدار) 152 غوث محمد ( والد حضرت شیخ گلاب).296 فضل الرحمن، ماسٹر 20 فضل حسین ، حضرت مولوی شیخ.190 غلام فاطمہ (اہلیہ حضرت میاں اللہ بخش ).240 غلام فاطمه ( بنت خلیفه نور دین جمونی).285 غلام قادر ( ٹیچر ) 301 فضل حق ، مولوی فاطمہ (اہلیہ حضرت مولوی فضل الدین ).58 ( والد حضرت مولوی عبدالحق ).324

Page 364

xi فضل حق ، سردار ( سابق سردار سندر سنگھ ).81,20 فضل حق صو بیدار نبیرہ حضرت مولوی غلام نبی ).187 ق کرم بی بی، استانی ( بنت حضرت منشی گلاب دین ).76 قادر بخش، حضرت مولوی شیخ 288 کرم داد، حضرت میاں.223 قادر بخش، حضرت ماسٹر.201,79 کرم داد.307,306 کرم داد، سردار.67 قادر بخش ( والد حضرت حافظ نور احمد ).223 کرم دین 1987 قادر بخش، میاں 127 فضل حق سیٹھی ابن حضرت میاں ابراہیم ).246 قادر علی ، حضرت منشی 178 قاری محمد ، حضرت.222 320,231,228,72,231,72.فخر الحق شمس 320 فخر الدین ، مولوی.82 فخر الدین کرم دین ،میاں قدرت اللہ سنوری ، مولوی 311 ابن حضرت مولوی فضل الہی ).191 قطب دین، حضرت مستری 280 کرم دین (بھیں ).135 ( سر حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی ).41 قطب الدین ، حضرت مولوی.276 کریم اللہ ، حضرت مولوی.205 فخر الدین ( چا حضرت منشی حمید الدین ).95 قطب الدین، حضرت میاں.276 کریم اللہ حضرت میاں 327,324 فخر الدین، راجہ (تحصیلدار ).253 قطب الدین بدوملہی ، حضرت مولوی 26 کریم اللہ میاں 103 قطب الدین خان، حضرت میاں.49 کریم بخش ، حضرت میاں 313,312 فرحت الطاف.192 فرخ شاه سید.247 قطب الدین، حضرت ( کوٹلہ فقیر ) 229 کریم ، ڈاکٹر ایم.ڈی 301 کریم الدین ، حضرت میاں 121 کریم الدین، ڈاکٹر فرزند علی ، مولوی (سابق ناظر مال آمد.82 قطب الدین، حضرت 236 فرزند علی، حضرت سید.285,284 قطب الدین سگر 240 فرقان الرحمن ( حضرت پیر سراج الحق نعمانی قلندر شاہ 302 کا بیٹا ).61 قمرالدین،حضرت منشی 163 ابن حضرت مولوی حافظ فضل حسین ).22 کریم بخش ( والد حضرت مولوی محمد یوسف ).258 فریح ایل (وزیر اعظم کپورتھلہ ).29 ( ابن حضرت منشی محمد ابراہیم ).162 کریم بخش پہلوان.119 قمرجان (اہلیہ حضرت منشی احمد جان ).157 کریم بخش، شیخ 242 قمر الدین ،مولوی 71 کریم بخش ، میاں.202 فضل دین، حضرت مولوی حافظ.21 قمر الدین، شیخ ( برادر حضرت میاں محمد ) 227 کلثوم بانو ( اہلیہ حضرت قاضی عبداللہ ).304 فرید طاہر.22 فضل داد خان، راجہ.34 فضل دین، مولوی.256 فضل دین،حضرت میاں.291 فضل دین، شیخ فضل شاہ ،سید فلاح الدین شمس.73 فلاح الدین خلیفہ 211 قیصرہ خانم سعید 34 کلثوم بیگم ( بنت حضرت ماسٹر قا در بخش ).202 کمال الدین ، خواجہ فضل دین، حضرت مولوی 292 کامل دین ، قریشی 282 کرامت الله.245,235 114,115,254,278,298.کمال الدین.67 والد حضرت شیخ غلام نبی روالپنڈی).139 کرم الدین ( والد حضرت محمد امین ).317 کمال الدین ، مرزا 21 کرم الہی کمپازیٹر ، حضرت.310 کنہیا لال ماسٹر 211 گ.277,274,273,272,234,224,116 کرم الہی ، حضرت میاں 97,96 کرم الہی ، حضرت میاں (لاہور) گلاب،حضرت شیخ.296 224,225.فیاض علی ، حضرت منشی 39,38,37 کرم الہی سیٹھی گلاب دین، حضرت منشی 75.74 گلاب دین، حضرت میاں 225 گلاب شاہ، سائیں.181.312,313 گل محمد پینشنر.309,308 فیروزہ بیگم (اہلیہ حضرت سید حامد شاہ ).43 (ابن حضرت شیخ غلام نبی 141,140 گلاب سنگھ، (رائے بہادر منشی 44 فیض احمد لنگیاں والی 147 فیض بخش.95 کرم الہی ، حضرت شیخ 195 کرم الہی ثانی 204 فیض علی، حضرت ڈاکٹر.216 کرم بخش ( والد حضرت میاں عبداللہ سنوری) 78 گوہر بی بی (والدہ حضرت میاں عبدا اعلی ).192 کرم بی بی اہلیہ حضرت میاں ابراہیم ).246 گوہر علی ، حضرت منشی.45

Page 365

xii گھر کے برتن بیچ کے دعوت کرنا.46 مجیب الرحمن درد.202 ل لطیف احمد جھمٹ 24 لطیف احمد خان 221 لطیف احمد قریشی، ڈاکٹر.39 مجید احمد ، صاحبزادہ مرزا 101 مجید احمد، کرنل.245 مجید الدین، سردار.126 مجید شاہ (معاند احمدیت).106 لکھا، چوہدری ( والد حضرت میاں نور محمد ).321 مچل ،مسٹر 148.لوئیس (ڈسٹرکٹ حج ) 201 لیپل گریفن ، سر 84 لیکھرام پیشاوری، پنڈت ماجد احمد چغتائی 191 محبوب عالم خالد شیخ 74 مختار احمد قریشی 39 محمد ، حضرت مولوی حافظ.288.315,287,255,251,241,136,15,75,55 محمد ، حضرت میاں.227 ماجھی خان، چوہدری 314 مارٹن کلارک 109 مامون خان محمد الحق ابن حضرت مولوی قطب الدین بد و ملهوی).28 محمد اسحاق، چوہدری.82 محمد اسحاق ، یخ (ابن حضرت منشی مولا بخش ).255 محمد الحق ،میر 145,66,63,54 محمد اسد اللہ کا شمیری.298 محمد اسماعیل (ابن حضرت میاں محمد اکبر ).131 محمد اسماعیل نقشہ نویس،حضرت 316 محمد اسماعیل ،حضرت ڈاکٹر میر محمد ، صوفی ( ابن حضرت میاں غلام احمد ).200 | 123,122,113,63 محمد اسماعیل ، ڈاکٹر محمد آسان دہلوی 319 محمد آفندی ،حضرت سید.310 ابن حضرت مولوی قطب دین ).28 محمد ابراہیم (ابن حضرت میاں قطب الدین ).50 محمد اسماعیل بیٹھی محمد ابراہیم (ابن حضرت میاں محمد اکبر ) 131 ( ابن حضرت میاں ابراہیم ) : 246 والد حضرت مولوی عبد القادر خان) 181 محمد ابراہیم ( ابن حضرت منشی پیر بخش ) 158 محمد اسماعیل سیالکوٹی ، حضرت منشی 41 ماوا ( والد کرم الہی ثانی) 204 مبارک 111 مبارک احمد، چوہدری 204 مبارک احمد ، حافظ 239-237 محمد ابراہیم ، چوہدری محمد اسماعیل ترگڑی، مولوی 241 داماد حضرت حافظ مولوی فضا ی فضل دین 22 محمد اسماعیل خالد، چوہدری 22 محمد ابراہیم بنشی ( والد حضرت میاں محمد اکبر ) 131 محمد اسماعیل خان ، حضرت ڈاکٹر.165 محمد ابراہیم، ماسٹر.277,276 محمد اسماعیل سرساوی، حضرت 113,112 محمد ابراہیم ، مولوی الحاج ( سابق مبلغ اٹلی) 24 محمد اسماعیل قریشی مبارک احمد ، شیخ.287 مبارک احمد ، قاضی.195 محمد ابراہیم، حضرت منشی مبارک احمد ، ملک، 245 مبارک احمد ، مرزا ( ابن حضرت حکیم محمدحسین ).297 والد حضرت منشی قمر الدین ).163,162 محمد اسماعیل قندھاری ، مرزا محمد ابراہیم بقا پوری، مولانا.182,165 120,119,118.ابن حضرت میرزا اکبر بیگ).258 محمد ابراہیم بیگ،حضرت مرزا.92,91 محمد اسماعیل غلام کبریا.172,171,58 محمد ابراہیم خان محمد اسماعیل نیر (مربی سلسلہ ).277 مبارک اسماعیل ، شیخ ابن حضرت منشی مولا بخش کلرک ).255 ابن حضرت میاں محمد خان ).34,33 محمد اشرف ، ڈاکٹر.202 مبارک علی ، مولوی 138,83,82 محمد احمد.203 محمد اشرف، مرزا محمد احمد خان، نواب.102,101,89 این حضرت منشی جلال الدین بلانی ).20 محمد اشرف ناصر مربی سلسلہ ).22 محمد افضل ، مرزا مبارک مصلح الدین.24 مبارکہ بیگم حضرت سیدہ نواب 89 محمد احمد ، سید 122,101 مبارکہ بیگم محمد احمد مظهر، شیخ 270,269,36 ( حضرت سید محمود شاہ کی نواسی ).247 محمد احسن، مولوی 244 مبارکه بیگم 192 مبشر احمد، چوہدری 192 محمد احسن ، حضرت مولوی سید 319,171,126,56.ابن حضرت منشی جلال الدین بلانی ).20 محمد افضل ، حضرت منشی 119,118,116 محمد افضل حضرت مولوی 219 محمد اکبر،حضرت میاں.131 مبشر احمد ، سید (مربی سلسلہ ) آپ کے متعلق حضرت اقدس کا ارشاد.57 محمد اقبال،علامہ.260,212,43,42 نواسہ حضرت پیر سراج الحق نعمانی) 61 محمد اور لیس 24 مبشر احمد ،صاحبزادہ مرزا.101,89 محمد اروڑا، حضرت منشی.35,31,29,28 محمد اکبر راتھر 266

Page 366

xiii محمد اکرم ( ابن حضرت مولوی محمد افضل).219 محمد حسین سبز پگڑی والے ، حضرت مولوی.131 محمد رفیع، صوفی 253 محمد حسین 196 محمد حسین ،حضرت.270 محمد رمضان، میاں والد حضرت پیر جی خدا بخش).169 محمد امیر ،مولانا.149 محمد امیر خان، حضرت حاجی.163 محمد امین حضرت (کتب فروش).316,117 محمد حسین ، حضرت حکیم 298,297,296 محمد روشن دین، قاضی محمد انور حسین ،حضرت.102,101 محمد حسین ، حضرت شیخ محمد انور طاہر 22 محمد ایوب، مخدوم ( والد حضرت قاضی غلام مرتضی ).180 (حضرت اقدس کی کتب کے پہلے کا تب).255 محمد زکریا ورک 24 محمد حسین ،حضرت مولوی.187 محمد سردار ابن حضرت مخدوم محمد صدیق).233 محمد حسین بلوچ (برادر حضرت فتح محمد بزدار ) 152) (حضرت میاں عبداللہ ٹھٹھہ شیر کا ).111 محمد بخش ( والد حضرت چوہدری نبی بخش بٹالہ ).130 محمد حسین ، ڈاکٹر سید.280 محمد بخش (میاں محمد جان کے والد ).133 محمد حسین شیخ 109 محمد سرور شاہ، مولوی سید.318,179 محمد سعید ، حضرت حافظ.279 محمد بخش، حضرت بابو ( انبالہ ).141 محمد حسین ، ملک (ابن حضرت میاں غلام حسین ).226 محمد سعید، حضرت حکیم.178 محمد سعید عرب.105 محمد بخش سیالکوٹی، چوہدری (حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کے.214,208,206,203,120.95,77,62 محمد سعید،ڈاکٹر.192 چچا).139 محمد حسین بٹالوی مولوی عدالت میں کرسی نہ ملنا.49 محمد بخش ، مولوی (حضرت حکیم محمد حسین کے محمد حسین قریشی ، حکیم 239 دادا).297,296 محمد سعید، مولوی میر.212 محمد سعید خان.33 محمد حیات ، حافظ ( والد حضرت منشی عطا محمد ).275 محمد سعید خان، حافظ محمد بخش، میاں ( والد حضرت میاں اللہ بخش ).239 محمد حیات ( والد حضرت احمد دین ).308 والد حضرت مولوی محمد یعقوب خان ).170 محمد بخش، میاں (عرف مہندا).223 محمد حیات حضرت.230 محمد بخش ، میاں (سیف الملوک والے).318 محمد بخش، حضرت حافظ.218 محمد خان، حضرت میاں محمد سعید شامی، حضرت مولوی 170,105,104..102,35,34,33,32 | محمد سلطان، چوہدری محمد خان بزدار ( والد حضرت منشی فتح محمد ) 152 ( والد حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی).40 محمد بشیر چغتائی ، میاں محمد دین 301 (ابن حضرت منشی روشن دین ).250 محمد دین، حضرت حکیم 266 محمد تفضل حسین ، حضرت مولوی 189 محمد دین، حضرت منشی 267 محمد جان ، میاں، 133 محمد جمال (انسپکٹرمال).131 محمد جو، حضرت.247 محمد دین، حضرت میاں 298,24 محمد سلطان، میاں.127 محمد سلیم ، چوہدری 191 محمد سلیم ، ملک والد جمیل الرحمن رفيق ).318,317 محمد الدین حکیم ( نائب ناظم وقف جدید ) محمد شاہ سید ابن حضرت منشی عزیز الدین ).215 ( والد حضرت سید فضل شاہ).272,247 محمد جیون ( والد حضرت منشی محمد اروڑا ) 28 محمد دین شیخ محمد چٹو بابا.240,239 محمد حبیب.318 محمد حسن ،حضرت میاں.299 محمد حسن ، خلیفہ 207 محمد حسن ، مولوی.203 محمد شریف، راجہ (خسر حضرت عبد الرحمن نو مسلم ).160 ( ابن حضرت شیخ نبی بخش ).126 محمد دین، نواب (سابق ناظر اعلی ).123,74 محمد شریف ،مولانا.45 محمد دین مولوی (ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر ).135 محمد شریف، میاں (ریٹائر ڈالی اے سی ).184 محمد دین پٹواری بلانی ، حضرت میاں 22, 23 محمد شریف خان محمد راتھر ، حاجی ابن حضرت مولوی عبد القادر ).182 محمد شفیع اشرف، مولانا.202 محمد حسن، مولوی (رئیس لدھیانہ ).313 والد حضرت غلام محی الدین ).266 محمد شفیع ، حضرت میاں.283,282 محمد حسن تاج ( ابن حضرت غشی تاج محمد خان ).166 محمد رحیم الدین، حضرت 320 محمد حسن رہتا سی ( ابن حضرت منشی گلاب دین ).76 محمد رضا بل 300 محمد شفیع، چوہدری محمد حسین ( والد حضرت مولوی عنایت مدرس) 240 محمد رضوی، حضرت سید.278,115 ابن حضرت میاں عبدالعزیز پٹواری.74

Page 367

xiv محمد شفیع سیٹھی ، شیخ 228,227 محمد صادق بھیروی ، حضرت مفتی 115,105,94,67.آپ کی تصانیف 117 بطور ایڈیٹر البدر" تقرر.119 محمد صدیق سیکھوانی ، حضرت محمد عیسی ، رائے.112 محمد عیسی درد.202 محمد فضل چنگا 200 201 محمد قاری ، مولوی 138 محمد تیم ، مرزا محمد یعقوب ، حکیم ابن حضرت میاں اللہ دتا ).237 محمد یعقوب ؛ مرزا تحریک جدید کے پہلے واقف زندگی).20 (ابن حضرت منشی جلال الدین بلانی).22,20 سیکھوانی برادران کے والد ).72,71,70 | محمد ماہ ، سید محمد یعقوب امجد.225 محمد یعقوب خان ،حضرت مولوی 170,169 محمد صدیق ، حضرت مخدوم مولوی 233 والد حضرت سید محمد عسکری خان ).90 محمدی بیگم (اہلیہ حضرت پیر منظور محمد ).157 محمد محسن شاہ ،سید.207 محمد صالح ( برادراحمدعبد الرحمن حاجی اللہ رکھا ) 174 محمد مکی، حضرت شیخ 154 محمد صدیق ، چوہدری.215,45 محمد ضیاء الحق ، حضرت سید.167 محمد ظہور الدین ، میاں 99 محمد عالم رسید.300 محمد ناصر عندلیب ، خواجہ امام مہدی کے متعلق کشف ).62 محمد نسیم ، چوہدری (امیر جماعت لکھنو).99 محمد عبد اللہ ، حضرت قاضی.102,77 محمد نصیر نقشبندی، خواجہ 62 محمد عبد الله 74 محمد عبد الله محمود، صوفی ابن حضرت میاں غلام محمد ).200 محموداحمد، حضرت مرزا بشیر الدین (خلیفہ اسیح الثانی).210 145,81,80,57,55,43,36,35.محمد نواب خان ، میاں (تحصیلدار ).135 حضرت منشی ظفر احمد کا ذکر خیر.30 محمد ولی اللہ ، حاجی.269 حضرت میاں عبداللہ سنوری کی نماز جنازہ.79 خواجہ کمال الدین کی نماز جنازہ پڑھانا.115 ابن حضرت حافظ مولوی احمد دین ).243 محمد باشم دکاندار محمد عبد اللہ ، میاں ( ابن حضرت میاں اللہ دتا ) 237 ( والد حضرت میاں نظام الدین ).226 حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل گوڑیانی کے متعلق رؤیا.120 محمد عبد اللہ خان ، حضرت مولوی.208,89 محمد یا مین ( تاجر کتب ) 320,114 حضرت میاں جان محمد کے متعلق ارشاد 150 محمد عبد الرحمن ( ابن حضرت محمد حیات ).232 محمد یحیی خان حضرت مولوی عبد القادر کے متعلق ارشاد.182 محمد عبد الرحمن عرف شعبان ، حضرت شیخ.167 ( ابن حضرت سید حمد انوار حسین ) 102 حضرت مولوی غلام حسین کے متعلق ارشاد.184 آم کے پرانے درخت پر پھل لگنا! 249 حضرت میاں شہامت خان کا جنازہ پڑھانا.302 محمود احمد ، شیخ 47 محمد عبد اللطیف شہید، حضرت سید 168 محمد یحی خضر ، سید.256 محمد عثمان ، مخدوم 232 محمد عثمان خان.103,102 محمد عزیز الدین محمد یوسف ، حضرت میرزا 198,197,196,91.محمد یوسف.320 محموداحمد اشرف.202 (ابن حضرت مولوی وزیر الدین ).45 محمد یوسف ( ابن حضرت مولوی قطب دین ).28 محمود احمد افغانی ،سید.168 محمد عسکری خان ، حضرت سید 90 محمد علی ، حضرت منشی 252 محمد علی ، مولوی 290,115 محمد علی خاں، حضرت نواب 171,105,90,88,83.محمد علی شاہ ،سید.261 محمد عمر محمد یوسف ، قاضی 100 محمد یوسف ،حضرت قاضی.193 محمود احمد ناصر ،سید میر.66 محمد یوسف،حضرت مولوی.259,258 محمود حسن خان ،حضرت مولوی 319,57 محمد یوسف ، ڈاکٹر سید.256 محمد یوسف، مولوی محمودخان، ملک.248 محمودشاہ،حضرت سید.148,147 ( ماموں حضرت میاں عبد اللہ سنوری ).78 محمودشاہ،حضرت سید.247 محمد یوسف بغدادی، سید 297 محمود مجیب اصغر،انجینئر 286 (ابن حضرت میاں عبد اللہ ٹھٹھہ شیر کا ).112 محمد یوسف حاجی اللہ رکھا ، حضرت سیٹھ 176 محمود ناصر ثاقب (مربی سلسلہ ).243 محمد عمر ، حکیم ( ابن حضرت مولوی عبد القادر ).182 محمد یوسف خان (پرائیویٹ سیکرٹری ).222 محمد عنایت اللہ خان، سردار محمد یعقوب (ابن حضرت میاں محمد اکبر ).131 محی الدین ( حضرت منشی مفتح محمد بزدار کے پوتے ).153 محمد یعقوب،حافظ.104 والد حضرت مولوی صفدر حسین ).212

Page 368

XV محمودہ بیگم سیده.211,210 محمودہ بیگم، صاحبزادی ابن حضرت میاں محمد شفیع) 283 ( حرم حضرت خلیفہ امسیح الثالث ).89 مشتاق احمد ایم.اے (لیفٹیننٹ).281 منصورہ ڈاہری.34 منظور الحق اہلیہ ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد ).133 مشتاق احمد بھٹہ.111,110 محمودہ بیگم ( اہلیہ حضرت سید امیر علی شاہ ).89 مشتاق احمد شیخ (عرف محمد ابراہیم ) ابن حضرت قاضی زین العابدین ).99 والد حضرت منشی ظفر احمد.34 محمودہ بیگم، صاحبزادی ( حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی).210 مصطفی خان ، مولانا محمودہ ناہید ابن حضرت مولوی محمد عبد اللہ ).207 ( بنت حضرت پیر سراج الحق نعمانی ) 61 مصلح الدین سعدی ابن حضرت ماسٹر قا در بخش) 202 مطلوب خان ، ڈاکٹر ابن حضرت میاں شہامت خان ).302 مدثر احمد ، سید ( معاون ناظر دارالضیافت ).123 مددخان، راجه.164 مراد بخش میرزا ( والد میرزا خدا بخش ).87 مطیع الرحمن ، چوہدری 192 منظور احمد، قاضی ( ابن حضرت قاضی زین العابدین ).99 منظور احمد بھیروی ابن حضرت مفتی محمد صادق ).117 منظور احمد قریشی ، 39 منظور محمد ، حضرت پیر 157,67,66,65 منگتو.23 منور احمد چوہدری 327,325 مظفر احمد ،صاحبزادہ مرزا.101,100 منور احمد احسان، ملک.327 منور احمد جاوید، ملک مراد خاتون، حضرت اہلیہ حضرت ڈاکٹرخلیفہ رشیدالدین ) 211 | منظفر الدین مراد علی، شیخ.107 ابن حضرت با بوتاج الدین ).124 مردان سید ( والد حضرت مولوی محمد احسن ).56 مظفر الدین بنگالی سید.67 مظفر شاہ، پیر.238 مردان علی ، مولوی میر 50 مریم بی بی نائب ناظر دارالضیافت).200 منور اقبال بلوچ.153 منور همیم خالد، پروفیسر 74 مظہر الحق (ابن حضرت پیر افتخار احمد ).65 منور احمد عارف می 309 اہلیہ حضرت مولوی حاجی فضل الدین ).58 مظہر قیوم ( ابن حضرت پیر افتخار احمد ).65 منیر احمد، چوہدری.22 مریم بیگم (اہلیہ مولانا عبد الرحیم درد ).80 معراج الدین حضرت منشی 127 منیر احمد،صاحبزادہ مرزا 101 مریم بیگم (اہلیہ حضرت میاں اللہ دتا ).214 معراج الدین عمر ، میاں.250 مریم صدیقہ، سیده.122 مسرور احمد ، حضرت مرزا معین الدین ، حافظ منیر احمد ایڈووکیٹ، چوہدری 204 منیر احمد خان.102 حضرت اقدس کے پرانے خادم).220 منیرالدین ،خلیفہ (ستارہ جرات) (حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ).90 مقبول احمد ، میٹھی.246 ابن حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین 211.مسرور احمد طاہر 67 مقصود احمد انجینئر 121 منیر الدین ، سردار 126 مسعود احمد ، میر 66 مقصود الرحمن.192 منیر الدین تمس ( مربی سلسلہ ).73 مسعود احمد خان، نواب ملا وامل،لالہ.150,142 منیر الرحمن باجوہ 192 ( ابن حضرت نواب محمد علی خان ).122,89 ملکہ جان منیر عمر ، میاں مسعود احمد انجینئر ، شیخ اہلیہ حضرت پیر افتخار احمد ).157,65,64 حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے پوتے 55 مسعوداحمد خان دہلوی.319 مسعود احمد طاہر 200 منصب علی ، ڈاکٹر سید 326 منصور احمد ، قاضی منصور احمد خان نواب ابن حضرت منشی مولا بخش کلرک ).255 ممتاز احمد فاروقی 277 مسعوداحمد عاطف، پروفیسر.202 ( ابن حضرت قاضی عبدالرحیم ).195 مولا بخش، شیخ.250 مسعود بیگ، مرزا 258 مسیح اللہ شاہجہانپوری ،حضرت شیخ (وكيل التبشير ).123,102,89 مولا بخش ( کلرک)،حضرت منشی ).255 مود و د احمد خان نواب (امیر جماعت احمدیہ کراچی ).89 مولا بخش ( ڈنگہ ) ، حضرت شیخ 132 مولا بخش ، شیخ (سیالکوٹ).260 220,129,128.مشتاق احمد قریشی منصور احمد قمر ( مربی سلسلہ ).67 مولابخش، ملک.48 منصورہ بیگم، صاحبزادی مولود احمد خان ( مبلغ انگلستان).319

Page 369

xvi مہتاب بیگم ( بنت حضرت منشی نبی بخش ).126 (برادر حضرت میاں عالم دین ).283,282 | نعیمہ 200 میته گوراند تیل نجم الدین (والد حضرت منشی تاج محمد خان ).166 نعیمہ بیگم ( بنت حضرت میاں غلام محمد ).200 نعیمه درد.202 والد حضرت بھائی عبدالرحمن نومسلم ).158 نجف علی، حضرت حاجی.295 مهدی حسین، حضرت سید.217,216 نذیر احمد ( ابن حضرت نواب دین).308 | نعیمه فردوس.191 نواب خان تحصیلدار.136 مهدی حسین ، میر 311 نذیر احمد، چوہدری 192 مهدی عربی بغدادی، حضرت.176,175 نذیر احمد ، ڈپٹی.168 مهردین ، حضرت میاں 244 میر سنگھ نذیر احمد، سردار ڈاکٹر نواب دین،حضرت.308,307 نواب امیر ابوطالب ابن حضرت شیخ عبدالرحمن نو مسلم ).286 ( والد حضرت سید محمد رضوی).278 ( حضرت بھائی عبد الرحمن نو مسلم ).285,214 نذیر احمد قریشی ( ڈرائیور ).37 نوراحمد ، شیخ 145,50,49,47 مہر علی شاہ گولڑوی 310,250,248,61 نذیر احمد، میاں ( اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل) نوراحمد ، حضرت شیخ 109,108 میاں جیون ( والد حضرت میاں حاجی وریام 291 ( حضرت منشی سراج الدین کے بیٹے ).128 نور احمد ، حضرت شیخ ( جالندھر ).275 میاں سنگھ ڈوگرہ ( تھانیدار ).228 نذیر حسین ، مولوی 137,32 نور احمد ، حضرت حافظ (الدھیانہ ).223 میراں بخش، حضرت منشی.241 حضرت اقدس کا اعلان نکاح کرنا.62 نور احمد، کرنل.273 میرحسین سید (استاد علامہ اقبال).43.42 نسیم سیفی ، مولانا.45 میر درد، خواجه.62 نوراحمد ، میاں 144 نسیم بیگم ( بنت حضرت میاں غلام محمد 200 نور الحق مولانا ابوالمنیر.102,34 میر فیض ( حضرت سید حامد شاہ کے دادا ).42 - نصرت جہاں بیگم ، حضرت سیدہ اماں جان ) نورالدین بھیروی، حضرت مولانا میر محمد ، حضرت قاضی.236 ن ناصر احمد ، حضرت مرزا (حضرت خلیفہ اسیح الثالث).89 ناصر احمد 54,62,63,64 (حضرت خلیفۃ اصبح الاول ) نصیر احمد ایڈووکیٹ، چوہدری.121 نصیر احمد خان، پروفیسر 34 نصر اللہ خان ، حضرت چوہدری 14083 نصر اللہ خان، راجہ.34 ابن حضرت مولوی فیض احمد لنگیاں والی ).147 نصیر الدین، حضرت منشی 193 نصیر الدین ہمایوں ، سردار 126 ناصر احمد.243 ناصر احمد بھٹی ( معلم وقف جدید ).112 نظام الدین ( رنگپور ).226 ناصرالدین ،سردار.126 32,51,54,58,59,66,80,85,107,123,130.133,139,140,141,145,168,169,170,180.184,192,213,233,244,245,249,267,282.285,286,288,291,301,315,317,322.آپ کا اخلاص 52 حضرت مفتی محمد صادق کے عزیز : 116 حضرت سید تفضل حسین کے متعلق ارشاد.189 نظام الدین ، حضرت حاجی ملا.226,203 | نورالدین، ملک.316 حضرت اقدس کا آپ کی دلداری کرنا 204 نورالدین، مولوی ناصر امیر، میر 62 ناصر شاہ ، حضرت سید.274,272,224 نظام الدین ، حضرت میاں.226 نظام الدین، قاضی ناصر نواب ، حضرت میر ابن حضرت مولوی جمال الدین).110 نورالدین، میاں.277,122,113,63,62 (برادر حضرت قاضی زین العابدین ).98 ( والد حضرت میاں محمد دین بلانی ).22 نظام الدین سیالکوٹی، مستری 138 نور بخت نمی بخش، حضرت شیخ 49 نبی بخش، حضرت شیخ (لاہور) 125 126 نظام الدین ( والد حضرت میاں عبدالعلی ) 191 (والدہ حضرت خلیفہ مسیح الاول ).51 نبی بخش، حضرت منشی چوہدری ( بثالہ ).130 نعمت اللہ 245 نمی بخش، شیخ 260 نبی بخش حوالدار، چوہدری 121 نعمت اللہ ولی.56 نعمت خان ،ڈاکٹر.302 نبی بخش رفوگر ، حضرت میاں 48,47 نعیم احمد خان، ڈاکٹر.302 نثار احمد قریشی ( ابن حضرت منشی فیاض علی).39 نعیم الدین 283 نجم الدین، حضرت نعیم الرحمن.192 نور حسین ( والد حضرت قاری محمد ).222 نوردین جمونی ، حضرت خلیفہ 285,214,212.مہا راجہ کا آپ کو خلیفہ کا لقب دینا.213 نوردین، ملک 315 نور محمد.204

Page 370

xvii نور محمد ، حضرت حافظ.107 و دود احمد.243 اقتداء میں حضرت اقدس کا نماز پڑھنا.108 وزیر الدین، حضرت مولوی نور محمد ، حضرت مولوی.205 نور محمد ، حافظ.238 ہدایت علی شاہ والد حضرت سید احمد علی شاہ ).264 والد حضرت منشی عزیز الدین ).215,44 ہری سنگھ ، سردار ( رئیس اعظم جہلم).231 وزیر خان.126 ہریش چندر موہیال نور محمد شیخ ) والد حضرت منشی عطا محمد ( 260 وزیر احمد ، صاحبزادہ مرزا 122 ( حضرت شیخ عبد الرحمن نومسلم ).158 نور محمد موکل، حضرت مولوی حکیم 217 وسیمہ ( بنت حضرت میاں غلام محمد ).200 | ہمایوں ( مغل بادشاہ ).75 وقار الامراء، نواب سر.50 نور محمد ولد ہوشناک.321 نیاز بیگ، حضرت میرزا 258,128,84 و قار مصطفی ، چوہدری 192 نیاز علی،حضرت سید.299 نیاز محمد ، ملک قیع الزمان، بریگیڈئیر.101 ولی الرحمن بیٹھی.246 والد ملک صلاح الدین ایم اے).136 ولی اللہ ، حاجی 34,32,28 نوید السلام.111,110 و وارث علی حکیم ماجرہ بیگم 22 ہادی بیگ، مرزا 220 ہنری مارٹن کلاک ، ڈاکٹر.49 ہوشناک.204 ہیڑے، لارڈ.115 ہیرا سنگھ، راجہ ، 313 یین ، مولوی والد حضرت مولوی برہان الدین ).137 یعقوب بیگ، میرزا 258,86,84 والد حضرت منشی صادق حسین).190 ہدایت اللہ لاہوری ( مجسم وصیت ).184 یعقوب علی عرفانی ، حضرت شیخ والٹر مسٹر ہدایت علی شاہ (سیکرٹری آل انڈیا YMCA).31,30 والد حضرت سید فصیلت علی شاہ).261,132 47,51,93,117.315,313,284,255,220,131 یوانگ، پادری ڈاکٹر.114 یوسف علی نعمانی ، حضرت قاضی.24

Page 371

آوا آسام 149,148 xviii مقامات او جله.268,74,73 اوڑی.274 آسٹریلیا 200 اگر 210.99 اتر پردیش 320,269,128,99 اٹاوہ 190,189 اٹک 298,286,237 الی 24 اجمیر 27 احمد آباد 288,191,116 احمد پور سیال 180 ایران.243,94 ایلور 278 بارہ مولا.272 باغپت.34 بانڈی پورہ 266 249,169,160,131,130,76,31,28,27.J بجنور 320,169 314,307,302,268,257.اور حمہ 283,191 ارکاٹ 312 اڈیالہ 230 اڑیسہ 116 اسلام آباد 246,20 اسماعیلہ 22 افریقہ 225,199,126,119,118,77,61,24,22 243,254,257,280,287,298.افغانستان 245,188,97,32,19 اکبر آباد 323 الہ آباد 326,323,322,321,296,295,294,90 امرتسر 107,84,76,67,62,49,48,47,31,27 بخارا.107,62 بدایوں.299 بدوملی.277,276,27,26 برتھ کا کہموضع 170 بشیر آباد 22 بغداد.312,215 بكهر 118 بکٹ سنج.248 بلاسپور.312 بلانی موضع.22,20,19 بلند شهر.36 114,141,145,247,259,261,201,205,219.امروہہ 172,57,56 220,239,240,269.امریکہ.246,237,117,116,102,73,67,24 انبالہ.316,221,167,141,88,27 اندرکوٹ 91 انڈونیشیا 74,24 انڈیمان (جزائر ).286 بلوچستان 214 بلهور.294,293 بلیلی.206 303,278,270,209,199,107,27.بنگال.139,116 بنگلور.174,19 بنوں.100,99 بوتالہ.236 بوڑھا نہ.35

Page 372

xix بوریا نوالی.137 بہار.146 بھارت.149,103 بھاگلپور 146 بھا گورائے.187 بہالو جی 25 بھکر 283 بھلوال.95 بھوپال.90,56,51 بھوکڑی.166 پھگواڑہ 285 پیرکوٹ ثانی.46 ترکی 310 ترگڑی.241 ترمل کھیڑی 179 تشام 25,24 ت ٹ ث تلونڈی عنایت خان 135 تنواں 258 تبال 306 تهران 94 144,140,135,116,115,107,95,58,51.239,237,233,232,231,227,214,192,191,145, 243,244,257,258,279,280,281,282,283, 284,285,286,287,288,289,301,315,316, 317,318,322.بھیں.231,135,72 یاٹلی.155 پاکستان.191,179,160,126,123,81,80,36 225,215.تھر یار کر نگر 121 تھ غلام علی.171 تھ غلام نبی.305 ٹھٹھہ شیر کا.111 ثابت شاہ موضع 80 ثمر قد 220 ج جاپان 202,173,79,24 جار جیا 24 پٹیالہ 161,155,98,97,92,91,82,78,63,57 جالندھر.242,241,221,158,130,120,46,34 163,195,196,198,204,207,208,216,221, 258,259,304,311,319,321,324.پٹنہ 146 پسرور.264,261,132,121 305,285,275,269.304,279,246,243,237,127,102.جلال آباد.213,88 جلال پور جٹاں 252 پشاور 124,99,67 پکتیا.167 پلول.294 پنجاب.19, 146,122,109,107,105,101,84,29 318,302,267,245,238,233,191,174,169.پنج گرائیں موضع.121 پنڈ دانخان 308,230 پنڈوری.245 پنڈی بھٹیاں.80 ہونا 233 پونچھے.166 پھالیہ.95 جلال پور شریف.238,237 جمال پور.313,312,202,181,148 214,213,195,147,134,113,66,51,42.².299,298,288,287,273,272,266,254.حضرت اقدس کا پہلا اشتہار.52 جونپور، 296 جھاسی.19 جھاوریاں 301,300 120,119.135,81,75,74,72,71,46,34,27,21.226,225,222,218,191,190,158,147,137, 237,236,233,232,231,230,229,228,227,

Page 373

299,298,288,287,249,248,246,245,243, 327,325,324,318,317,316,315.حضرت مولوی برہان الدین صاحب کی تدفین.139 جھنڈا سنگھ 236 جھنگ 277,276,180 جهولسی 326 جے پور.25 جیکب آباد 121 جیند.92,25,24 XX خانیار 213 خانیوال 160 خوشاب.293,292,291,187,185,106,95 خیر پور 253 د.ڈر دادری 25 در گئی.248 وكن 50,27 دھامانوالہ 170,169 چ ح خ دهاوار 303 دھرم کوٹ بگه.81 چاره.191 چانڈ پور 294 چانده.150 چبہ سندھواں.240 چدھڑ.26 چرغی.25 چک جانی 230 چلراته.209 چک ساہی.155 چک سکندر.243,242,137 چک نمبر 9 پنیار.245 چک نمبر 38322,204 چک نمبر.276237,326 چک نمبر 278 گب.112,111 132,104,100,95,81,78,62,61,38,37,32., 285,228,191,188,163,162,155,143,137,133.دھوریہ.242 دینا نگر، 307 دینہ 248 دیوبند.101 ڈاک پتھر 320 ڈ چکوٹ.46 ڈسکہ.248,245 ڈلوال.34 ڈلہوزی.35 ڈنڈوت.249 261,219,132.چکوال 239,238,237,230,141,139,138,34 ڈنمارک.66 چنگا بنگیال.200 چنکن موضع.181 چینوٹ.277,276,275 چوچک.111 چوہڑ کا نہ.41 حافظ آباد.228,80,46 حبیب والہ.320 حصار.24 هتموضع 22 311,309,308,244.ڈولی کہار 99 ڈومیلی.285,245 ڈھینگ.223 ڈیرہ اسماعیل خان 152 ڈیرہ بابا نانک.86,85 ڈیرہ دون 320,170,169,104 ڈیرہ غازی خان 153 راجپوره.195 راج گڑھ.46 راجستھان 125 حیدر آباد.278,258,212,193,115,107,51,50,27 رام پور.300,299,51 خانپور 98,97 راولپنڈی 246,245,200,140,139,127,74,61,28

Page 374

راہواں.305 رائے پور.313 67,66,65,47,44,39,37,34,31,28,24,22.0% 120,117,109,106,105,103,101,82,80,71, 157,155,141,139,135,126,124,123,121, 204,201,196,195,192,191,187,170,160, 259,250,248,247,246,235,215,214,207, 292,287,286,283,278,275,270,266,265, xxi سمندری.283 سندھ 245,243,23,22 سنگروز.25 سنور 304,259,207 سولن شمله.206 سوم سیکیسر.75 سولی پت.95 327,325,318,317,316,309,305,304, حضرت میاں غلام محمد صاحب کی تدفین 200 ر چھتر 156,155 رڈ کی.27 روپڑ.221,167 روڈڑہ.150 روزبل.199 روس.159 رہتاس.225,208,75,74,46 رہتک.120,119,25 ساگر.95 سالموضع.243 سامانه 324,197,196,92,91 سا ہو والہ.248 ساہیوال.111,110,103 سپین.293 ستھان 250 سراوه.269,38,37,36,34 سرائے عالمگیر.234,233,229 سرساوه.112,60 سرسه.300 سہارن پور.170,164,163,144,60,27 سوہاوہ.245 سیالکوٹ.95,83,82,80,43,42,41,40,28,27,26 138,137,135,134,133,132,121,108,104, 245,229,214,174,159,148,147,146,141, 298,277,267,266,265,264,260,249,248, سید واله.111,110 سیر بانڈی 166 سیکھواں 268,73,72,71,70 سیلون آئی لینڈ.199 سیوہارہ.320 ش شام.154,107,105,104 شاه آباد.103,102 شاہ پور.191,185,118,116,115,95,58,51,22 سرگودھا245,209,202,192,118,116,107,95 سرہند 204,98,97,82,78 سری گوبند پور 320 سری نگر.266,213 283,253.سمرالہ.207,206 322,321,289,283.شاہجہاں آباد.102 شاہجہان پور.148,128 شاہدرہ.112 شعب بنی عامر.154 شکر گڑھ.158 شیخوپوره.252,199 طارق آباد.252 طائف.311 طرابلس.105,104 عبدالرحمن موضع 191 عثمان پور 92 طع.غ عرب 154,107,105,97,38 290,289,286,256, علی گڑھ 267,256,199,192,189,118,88

Page 375

xxii غوث گڑھ.321,204,82,78 فاروق آباد 41 ح پور 247 فرخ آباد.189 فرینکفورٹ.127 فورٹ عباس.192 فیروز پور.82,63,27 فیروز والہ.82 فق 319,285,269,239,187,164,102,98.کپورتھلہ 57,45,38,37,36,34,32,30,29,28 حضرت مسیح موعود کا ساتھ.35,33 کراچی 144,143,121,117,104,103,102,39 260,253,237,200,192,163,162,160,157, کراری 321 کرنال 104 کڑا 90 319,310,308,300,283,278,269.کڑہ محلہ.296,295 فیصل آباد (لائل پور )159,157,111,67,65,46,36 کڑیانوالہ.262,119 283,270,252,251,245,237,236.فیض اللہ چیک.238,107,103 قادیان کشتوار 125 کشمیر.266,254,229,214,213,166,150,66,41 304,299,298,288,274,272.19-31,35,36-51,55,59-76,78,80,81,82 ,85,86,87,92,93,94,96,97,100-131-147,149,153, 158,160,162-,170,172,177,178,182-234, 237,238,239,240,243,244,245, 247,248,250,251,253,256,257,258,259, 263,264,267,268,269,273,274,277,279- 292,297,298,301-305,307,308,310,312-318,320, حضرت منشی احمد جان صاحب کی غائبانہ نماز جنازہ 156 قادیان میں مہدی کا پیدا ہونا 302 قاضی کوٹ.194,193 قریه دین پور.180 قریه کندر خیل.167 قصور.320,217,208 قلعہ سوبھا سنگھ 121 قندھار.19 قہر والی 244 کابل.168,156 کالا باغ 283 کا لگا.316 کامونکی 228 گ کانپور.294,293,95 کاندھلہ 207 کا ٹکڑہ.302,263,222,221,215,122,44 کلانور 258,95 کلکته.184.139.48.27 کمرمشانی 258 کمله.219 کنجر وڑ دتاں.158 کنگسٹن 24 کنگھڑ.153 کوٹ پوتلی.26 کوٹ قاضی.303,235,218 کوٹ قاضی جان محمد.96 کوٹ کھلیان.236 کوٹلہ فقیر 276,236,229,218 کو تھیاں موضع 139 کولمبو.199 کوه سلیمان.153 کوئٹہ.214,206 کھاریاں 19, 316,306,263,256,242,225,22,21 کھر الموضع 304 کہمانوں 204 کہو بار 229 کھیتری 26 کمیوال.243,237,27 200.

Page 376

کینیا.199,118 کینیڈا 320,273,246,214,24 لحجرات 19, 137,135,132,119,95,27,22,21 252,247,243,242,229,223,213,160,144, گلگت.274 307,306,263,262,256,255,253.xxiii 143,147,155,156,161,162,163,164,165, 166,181,182,185,186,201,202,203,205, 206,216,223,224,255,269,299,312,313,319, حضرت اقدس کی آمد.189 لکھنو.300,99,95,51 للمياني.137 گوجرانوالہ.194,193,147,137,78,76,46,27 لندن (انگلستان.برطانیہ (55,73,77,106,115,116 270,253,250,242,241,240,237,236,235, گوجر خان.200 گردیز 167 گورداسپور 103,95,77,74,73,72,71,70,51 249,240,211,210,171,158,156,155, 307,279,268,263,258.گوالیار 241 گوکھوال.236 گوگھیاٹ 239 گولیکی 306 گہڑ ونواں 221 126,146,148,160,187,202,211,221,246, 278,279,280,292,293,303.لنگیاں والی.270,147 لنگے منڈی.297 لودیانی.95 لون میانی.287,286 لیہ.153,152 ماچھی واڑہ 206 ماریشس.200,199,198,135 مالا کنڈ 248 گیا.300 ل مالو ہے.264,261 مالیر کوٹلہ.105,95,88,34 لالہ موسیٰ.244 مانانوالہ 253,240 مانک.255 مانگٹ پٹیالہ 205 20,22,27,39,44,46,51,55,60,63,74 76,80,84,85,86,88,95,112,114,115,116, متعال موضع 327 مٹھی.121 مچھر الہ 199.198 محمدی پور 247 117,118,119,128,136,141,144,159,160, 127,126,125,124,123, 122, 121, 168,169,180,182,183,184,191,192,198, 202,207,208,209,210,211,212,215,217, مدراس.176,175,174,173,170,146,107,68 221,224,225,241,242,245,246,248,251, 177,178,179,278.252,253,254,255,256,257,258,272,273, مدینه منوره.245 ڈرا نجھا.95 حضرت میاں غلام محمد صاحب کی قبرستان میانی صاحب میں مڈغاسکر 199 275,276,277,279,280,287,296,297,298, 301,305,309,310,316,318,319.تدفين 200 حضرت خلیفہ حمید الدین صاحب کی تدفین 210 انجمن فرقانیه.250 لدھیانہ 27,28,32,35,36,37,39,52,56,60,62 76,78,91,92,94, 95, 96, 97,100,102,142, مرادآباد.109,108,56 مردان.248.63 مرید کے.228 مظفر گڑھ.180,46 مظفر نگر.207,35

Page 377

xxiv 154,107,105,51.مکیریاں.215,45,44 ملايا.233 ملکانه.304 ملتان.318,128,121,114 ممباسه.275,257,126,119,118 منٹگمری.199,136,111,110 منارہ.موضع.309,308 منڈی بہاؤالدین.245,243 منصوراں.313,312 منی پور 149,148 موچھ پورہ: 223 موسیٰ خیل.99 موکل 217 موہر ونڈا.295 میانوالی 283,258,100,99,95 میانی 239 میدک 212 میرٹھ.269,95,38,37,36,34 میسور 215 میلا پور.179,178,177 نگر پارکر 121 نلی.185 نمل ڈیم.283 ننکانہ 111,110 نواب شاه.245 نواں پینڈ.27 نوشہرہ: 248 نوهون.221 نهنگ.223 نیروبی.287,225,199,195 نیوجرسی.237 وزیر آباد 318,228,135,133,76 وہرہ موضع.95 ویرووال 34 ہاپوڑ.38,36 ہالس.25 نجن.256 ہردوئی.102,101 ہریانہ 135 ہریہ 243 نابھہ.313 نا دون.302,222,221 نارووال.225,158 ناگپور 150 نت کلاں.236 نجیب آباد.169 نصيبين.71,28 ہندوستان.120,107,95,88,62,56,48,38,21 238,209,188,169,126.ہوشیار پور 137,136,135,120,78,75,45,44 یوپی.179,169,102,101 یورپ.297,160,95 یوگنڈا 118 304,263,215,138.

Page 378

XXV کتابیات لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ قرآن کریم و احادیث مبارکہ (In the Company of قرآن کریم آسمانی فیصلہ روحانی جلد ۲۱ Promised Messiah) تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود صحیح بخاری صحیح مسلم حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۱ سیرت سیدہ نصرت جہاں بیگم ضمیمہ براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد ۲۱ حیات نور براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۳ مرقاة الیقین فی حیات نورالدین سنن ابوداؤد تبلیغ رسالت جلد ۱۳:۱۰ فتح الباری جلدے ملفوظات تمام جلدیں حیات ناصر سیرت حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی مسند احمد بن حنبل در شین اردو جواہر الاسرار درشین فارسی مستند رک جلد ۲ مجموعہ اشتہارات جلد سوم دلائل النبوة جلد۳ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمد یہ روحانی خزائن جلدا نورالدین بجواب ترک الدین ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد۳ کلام امیر فتح اسلام روحانی خزائن جلد۳ کتب حضرت خلیفہ اسیح الثانی سیرت احمد از مولوی قدرت اللہ سنوری مکتوبات احمد یہ جلد۱،۴/ ۵/۶،۵/۳/۵/۲۰۵ سیرت و سوانح حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب حجم الہدی ، سوانح مولوی شیر علی صاحب کتب حضرت خلیفۃ المسیح اول حیات قدی از محترمه رقیه بقاپوری حیات حسن دو بھائی از مولانا غلام باری سیف آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ تحفہ بغداد روحانی خزائن جلدے انوار العلوم سیر روحانی حمامة البشری روحانی خزائن جلدے مجاہد کبیر آئینہ صدق وصفا یا درفتگاں خطبات نکاح نور القرآن روحانی خزائن جلد ۸ خطبات محمود اصحاب احمد جلد ۱۳،۱۱،۱۰،۹،۶،۵،۴،۲،۱ من الرحمن روحانی خزائن جلد ۹ دو ماہی رسالہ اصحاب احمد.نومبر ۱۹۵۵ء سیرت و سوانح آریہ دھرم روحانی خزائن جلد ۱۰ سیرت ابن ہشام انجام آنقم روحانی خزائن جلد سیرت حضرت مسیح موعود جلد اول سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۳ حیات احمد جلد چہارم کتاب البر سی روحانی خزائن جلد ۱۳ ذکر حبیب کشف الغطاء روحانی خزائن جلد ۱۴ سیرت المہدی تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ تذكرة المهدی رجسٹر بیعت آپ بیتی لطائف صادق تاریخ سلسلہ احمدیہ تاریخ احمدیت از مولانا دوست محمد صاحب شاہد تحفہ گولڑ و یه روحانی خزائن جلد۱۷ جلد ۴،۳،۲،۱، ۷، ۸، ۱۰،۹ رجسٹر روایات مکمل نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ مجد واعظم تذکرة الشهادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ لاہور تاریخ احمدیت کراچی تاریخ احمدیت

Page 379

xxvi بھیرہ کی تاریخ احمدیت راولپنڈی تاریخ احمدیت تاریخ احمد یہ سرحد افتخا رالحق یا انعامات خداوند کریم عسل مصفی الحکم قادیان مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل جلد دوئم البدر قادیان الفضل تاریخ احمدیت جموں و کشمیر تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول عالمگیر برکات مامور زمانه کیفیات زندگی انصار الله خالد تاریخ احمد بیت افغانستان - مسودہ قلمی بزبان رپورٹ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۱ء تشحيز الاذہان پشتو از سید محمود احمد افغانی قادیان گائیڈ احمدی جنتری ۱۹۵۴ء کلام حسن رہتاسی دیگر کتب صد ساله سوو نیئر جماعت احمدیہ کراچی مظلوم اقبال ریویو آف ریچنز اردو ۱۹۰۳ ء ، اپریل ۱۹۰۵ء اپنا گریبان چاک کتب درسائل سلسلہ احمدیہ اپریل ۱۹۴۷ء ، تمبر ۱۹۴۷ء تاریخ لاہور از ڈاکٹر کنہیالال رسالہ سچائی کا اظہار رساله تائید حق رسال تعلیم الاسلام.دسمبر ۱۹۰۶ء المصلح کرا چی.دسمبر ۱۹۵۳ء رساله نور احمد رساله درود شریف ہفت روزہ لاہور ستمبر ۲۰۰۰ء

Page 379