Ashab-eBadr Vol 5

Ashab-eBadr Vol 5

اصحابِ بدرؓ (جلد پنجم)

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ

جنگِ بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ کی سیرت و سوانح


Book Content

Page 1

وَلَقَدْ نَصَرَ كُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ اصحابے بدر جلد 5 سید نا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD اصحاب بدر جلد پنجم (The Guiding Stars of Badr - Vol.5) (Urdu) by Hazrat Mirza Masroor Ahmad, Khalifatul-Masih V (may Allah be his Helper) First published in the UK, 2024 © Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Limited Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU99PS For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-505-7

Page 3

فہرست مضامین صفحہ نمبر xi xiii 1 3 6 7 13 13 13 14 14 15 15 35 37 38 111 E: فہرست مضامین اصحاب بدر جلد 5 نمبر شمار مضمون i ii 164 165 166 167 168 169 170 171 172 173 174 175 176 177 پیش لفظ دیباچه حضرت شماس بن عثمان حضرت صالح شقران حضرت صفوان بن وہب بن ربیعہ (شہید) حضرت صہیب بن سنان حضرت ضحاک بن حارثہ حضرت ضحاک بن عبد عمرو حضرت ضمرہ بن عمر والجھنی حضرت طفیل بن حارث حضرت طفیل بن مالک بن خنساء حضرت طفیل بن نعمان حضرت طلحہ بن عبید اللہ صلی العلم حضرت طلیب بن عمیر حضرت ظہیر بن رافع حضرت عاصم بن ثابت

Page 4

فہرست مضامین 43 47 48 49 50 50 56 56 69 69 69 80 80 81 96 97 97 105 117 118 120 129 iv حاب بدر جلد 5 حضرت عاصم بن عدی حضرت عاصم بن قیس حضرت عاقل بن بکیر (شہید) حضرت عامر بن امیہ حضرت عامر بن بکیر رض حضرت عامر بن ربیعہ حضرت عامر بن سلمة / عمرو بن سلمہ حضرت عامر بن فہیرہ حضرت عامر بن مخلد حضرت عائذ بن ما عص حضرت عباد بن بشر حضرت عباد بن قیس حضرت عبادہ بن خشخاش حضرت عبادہ بن صامت حضرت عبد اللہ بن الربیع حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ حضرت عبد اللہ بن جبیر حضرت عبد اللہ بن جحش حضرت عبد اللہ بن جد حضرت عبد اللہ بن حمیر حضرت عبد اللہ بن رواحہ حضرت عبد اللہ بن سراقہ 178 179 180 181 182 183 184 185 186 187 188 189 190 191 192 193 194 195 196 197 198 199

Page 5

حاب بدر جلد 5 V فہرست مضامین 200 201 202 203 204 205 206 207 208 209 210 211 212 213 214 215 216 217 218 219 220 221 حضرت عبد اللہ بن سلمہ بن مالک حضرت عبد اللہ بن سہل حضرت عبد اللہ بن سہیل حضرت عبد اللہ بن طارق حضرت عبد اللہ بن عبد الاسد حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی بن سلول حضرت عبد اللہ بن عبد مناف حضرت عبد اللہ بن عبس حضرت عبد اللہ بن عرفطہ حضرت عبد اللہ بن عمیر 130 130 133 135 138 146 162 163 163 163 حضرت عبد اللہ بن قیس 164 حضرت عبد اللہ بن قیس بن صخر حضرت عبد اللہ بن کعب حضرت عبد اللہ بن مخرمہ حضرت عبد اللہ بن مطعون حضرت عبد اللہ بن نعمان بن بلد مه حضرت عبد ربه بن حق بن اوس حضرت عبد الرحمن بن عوف حضرت عبد اللہ بن زید بن ثعلیہ حضرت عبد اللہ بن عمرو حضرت عبد اللہ بن مسعود حضرت عبس بن عامر بن عدی 164 165 165 167 169 169 169 189 195 205 225

Page 6

فہرست مضامین 225 226 227 227 228 232 235 238 238 249 253 271 272 273 273 273 278 279 280 286 308 311 حاب بدر جلد 5 vi حضرت عبید بن ابو عبید انصاری حضرت عبید بن التيهان حضرت عبید بن اوس حضرت عبید بن زید حضرت عبیدہ بن الحارث (شہید) حضرت عتبان بن مالک حضرت عتبہ بن ربیعہ حضرت عقبہ بن عبد اللہ حضرت عتبہ بن غزوان حضرت عتبہ بن مسعود ہائی حضرت عثمان بن مظعون حضرت عدی بن ابی الزغباء حضرت عصمہ بن حصین حضرت عصیمہ انصاری حضرت عطية بن نويرة حضرت عقبہ بن عامر حضرت عقبہ بن عثمان بن خلده حضرت عقبہ بن وہب حضرت عکاشہ بن محصن حضرت عمار بن یاسر حضرت عمارة بن حزم حضرت عمرو بن ابی سرح 222 223 224 225 226 227 228 229 230 231 232 233 234 235 236 237 238 239 240 241 242 243

Page 7

حاب بدر جلد 5 vii حضرت عمرو بن ایاس حضرت عمرو بن ثعلبہ انصاری حضرت عمرو بن حارث 244 245 246 247 248 249 250 251 252 253 254 255 256 257 258 259 260 261 262 263 264 265 حضرت عمرو بن سراقہ بن المعتمر حضرت عمرو بن عوف / حضرت عمیر بن عوف حضرت عمرو بن معاذ بن نعمان حضرت عمرو بن معبد حضرت عمیر بن ابی وقاص (شہید) حضرت عمیر بن حمام (شہید) حضرت عمیر بن عامر حضرت عنترہ مولی سلیم حضرت عوف بن حارث بن رفاعہ انصاری (شہید) حضرت عویم بن ساعدة حضرت عیاض بن زہیر حضرت قتادہ بن نعمان انصاری حضرت قدامہ بن مظعون حضرت قطبہ بن عامر حضرت قیس بن ابی صعصعہ حضرت قیس بن السکن انصاری حضرت قیس بن محصن حضرت کعب بن زید حضرت مالک بن ابو خولی فہرست مضامین 311 312 312 313 314 315 316 316 318 319 320 320 321 324 324 334 336 338 340 341 341 342

Page 8

فہرست مضامین 342 347 348 348 348 349 350 352 353 359 379 380 381 382 394 395 395 396 410 412 436 442 vini حاب بدر جلد 5 حضرت مالک بن د خشم حضرت مالک بن عمرو حضرت مالک بن قدامہ حضرت مالک بن مسعودؓ حضرت مالک بن نمیلہ حضرت مبشر بن عبد المنذر (شہید) حضرت مجذر بن زیاد حضرت محرز بن عامر بن مالک حضرت محرز بن نضلہ حضرت محمد بن مسلمہ حضرت مدلج بن عمرو ( آپ کا ایک نام مدلاج بھی بیان ہوا ہے ) حضرت مرارہ بن ربیع انصاری حضرت مر د بن ابی مرند حضرت مسطح بن اثاثہ ( ان کا اصل نام عوف تھا) حضرت مسعود بن خلده حضرت مسعود بن ربیعہ بن عمرو حضرت مسعود بن سعد حضرت مصعب بن عمیر حضرت مظہر بن رافع حضرت معاذ بن جبل حضرت معاذ بن حارث بن رفاعہ حضرت معاذ بن ماعصّ 266 267 268 269 270 271 272 273 274 275 276 277 278 279 280 281 282 283 284 285 286 287

Page 9

فہرست مضامین 443 447 447 449 450 450 451 459 461 462 476 476 480 480 482 483 483 484 484 488 488 491 حاب بدر جلد 5 ix حضرت معاذ بن عمرو بن جموح حضرت معبد بن عباد حضرت معتب بن عبید حضرت معتب بن عوف حضرت معتب بن قشر حضرت معمر بن حارث رض حضرت معن بن عدی انصاری حضرت معوذ بن حارث بن رفاعه (شہید) حضرت معوذ بن عمرو بن جموح حضرت مقداد بن عمر و الکندی / حضرت مقداد بن اسود حضرت مليل بن وبرة حضرت منذر بن عمرو بن خنیس حضرت منذر بن قدامة حضرت منذر بن محمد حضرت مصبح ( حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ غلام) (شہید) حضرت نخاب بن ثعلبہ حضرت نصر بن حارث حضرت نعمان بن سنان حضرت نعمان بن عبد عمرو حضرت نعمان بن عصر حضرت نعمان بن مالک حضرت نعیمان بن عمرو 288 289 290 291 292 293 294 295 296 297 298 299 300 301 302 303 304 305 306 307 308 309

Page 10

صحاب بدر جلد 5 310 311 312 313 314 315 316 317 318 319 320 X حضرت نوفل بن عبد اللہ بن نضلہ فہرست مضامین 494 حضرت ہلال بن امیہ انصاری حضرت واقد بن عبد الله حضرت ودیعہ بن عمرو حضرت ورقہ بن ایاس حضرت وہب بن ابی سرح حضرت وہب بن سعد بن ابی سرح حضرت یزید بن ثابت حضرت یزید بن حارث (شہید) حضرت یزید بن رقیش حضرت یزید بن منذر 494 510 511 512 512 513 515 517 518 523

Page 11

اصحاب بدر جلد 5 xi پیش لفظ پیش لفظ جنگ بدر کو تاریخ اسلام میں ایک نمایاں اہمیت اور فضیلت حاصل ہے.قرآن کریم نے اس دن کو ”یوم الفرقان“ کہہ کر اس کی تاریخی فضیلت کو دوام بخشا اور اس فضیلت اور عظمت کا تاج اپنے وفاشعار جاں نثار بدری صحابہ کے سروں پر سجاتے ہوئے آنحضرت صلی الیم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ اور تمہیں یہ کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا کہ تم جو کچھ کرتے رہو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں.(بخاری) اس جنگ میں شامل ہونے والے 313 صحابہ خود بھی اپنے آخری سانسوں تک اس سعادت اور اعزاز پر خدا کا شکر بجالاتے ہوئے فخر کیا کرتے تھے.چنانچہ ایک مشہور مستشرق ولیم میور صاحب لکھتے ہیں: بدری صحابی اسلامی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین رکن سمجھے جاتے تھے.سعد بن ابی وقاص جب اتنی سال کی عمر میں فوت ہونے لگے تو انہوں نے کہا کہ مجھے وہ چوغہ لاکر دو جو میں نے بدر کے دن پہنا تھا اور جسے میں نے آج کے دن کے لئے سنبھال کر رکھا ہوا ہے.یہ وہی سعد تھے جو بدر کے زمانہ میں بالکل نوجوان تھے اور جن کے ہاتھ پر بعد میں ایران فتح ہوا اور جو کوفہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر ان کی نظر میں یہ تمام عزتیں اور فخر جنگ بدر میں شرکت کے عزت و فخر کے مقابلے میں بالکل پیچ تھیں اور جنگ بدر والے دن کے لباس کو وہ اپنے واسطے سب خلعتوں سے بڑھ کر خلعت سمجھتے تھے اور ان کی آخری خواہش یہی تھی کہ اسی لباس میں لپیٹ کر ان کو قبر میں اتارا جاوے.“ (بحوالہ سیرت خاتم النبیین صفحہ 373) یہ خوش نصیب صحابہ کون کون تھے ؟ رہتی دنیا تک آسمان پر چمکنے والے یہ چاند ستارے کون تھے ؟؟ ان کے نام، ان کے والدین کے نام ان کے سوانح کیا تھے اور ان کی سیرت کے نمایاں کام اور کارنامے کیا کیا تھے.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے

Page 12

اصحاب بدر جلد 5 xii پیش لفظ خطبات میں بڑی تفصیل سے ان کا ذکر فرمایا ہے.گویا کہ ان صحابہ کی سوانح اور سیرت کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے.سیرت صحابه کایه تاریخی بیان حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 4 مئی 2018ء کو شروع فرمایا اور پھر یہ تابناک علمی اور تحقیقی مواد خدا کے اس پیارے مقدس وجود کے لب مبارک سے ادا ہو تا رہا.آخری خطبہ 24 فروری 2023ء کو ارشاد فرماتے ہوئے کل 173 خطبات میں یہ ذکر مکمل ہوا.اور اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے آنحضرت صلی میں کمی کی سیرت پر خطبات دینے کا سلسلہ شروع فرمایا جو ابھی تک جاری و ساری ہے.سیرت النبی صلی الی یوم کے یہ تمام خطبات جلد اول میں پیش کئے جائیں گے، اس سے قبل جلد 2 اور 3 خلفائے راشدین اور جلد 4 میں بدری صحابہ کی سیرت و سوانح پیش کی جا چکی ہیں.اس جلد میں بھی حروف تہجی کے اعتبار سے بدری صحابہ نمبر 164 تا 320 کے حالات پیش خدمت ہیں.اس علمی و تحقیقی کام میں معاونت کرنے والے تمام افراد اور دفاتر خاص طور پر شکریہ کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزاء عطا فرمائے.فجزا ہم اللہ احسن الجزاء جولائی ۲۰۲۴ء منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنیف

Page 13

صحاب بدر جلد 4 xiii دیاچه بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ دیباچه تبرک تحریر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار صحابہ کے اخلاص وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " خدا تعالیٰ نے صحابہ کی تعریف میں کیا خوب فرمایا ہے مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب : 24) مومنوں میں سے ایسے مرد ہیں جنہوں نے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے خدا تعالی کے ساتھ کیا تھا.سواُن میں سے بعض اپنی جانیں دے چکے اور بعض جانیں دینے کو تیار بیٹھے ہیں." پھر آپ فرماتے ہیں کہ " صحابہ کی تعریف میں قرآن شریف سے آیات اکٹھی کی جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی اسوۂ حسنہ نہیں." (ملفوظات جلد 7 صفحہ 431 تا 433) اور ان آیات میں صحابہ کی نیکیوں کے اور قربانیوں کے جو نمونے بیان ہوئے ہیں وہ ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہیں.چند سال قبل جب میں نے صحابہ کے حالات بیان کرنے شروع کئے تو ان میں بدری صحابہ بھی تھے اور چند دوسرے صحابہ کا بھی ذکر ہوا.لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ پہلے صرف بدر کی جنگ میں شامل ہونے والے صحابہ کا ذکر کروں.کیونکہ ان کا ایک خاص مقام ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک سلسلہ وار خطبات میں مجھے ان پاک طینت عشاق رسول الله له السلام کا ذکر خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی.غزوہ بدر کے صحابہ وہ لوگ تھے جو غریب اور کمزور ہونے کے باوجود دین کی

Page 14

باب بدر جلد 4 xiv حفاظت کرنے والوں میں صف اول میں تھے.وہ کبھی دشمن کی طاقت سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ ان کا تمام تر توکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا اور محبت کا عہد کیا تو اس کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا.اپنے عہد وفا کو نبھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی جنت کی بشارت دی اور ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمایا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس غزوہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " یہی وہ جنگ ہے جس کا نام قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرقان رکھا ہے اور یہی وہ جنگ ہے جس میں عرب کے وہ سردار جو اس دعوی کے ساتھ گھر سے چلے تھے کہ اسلام کا نام ہمیشہ کے لئے مٹا دیں گے خود مٹ گئے اور ایسے مٹے کہ آج ان کا نام لیوا کوئی باقی نہیں." (سیرة النبی صلی ال ، انوار العلوم جلد 1 صفحہ 610) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب اور ملفوظات میں دو بدری ادوار کا ذکر فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں : اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہو رہی ہے جو بدر کے موقع پر ہو گئی تھی جس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ (آل عمران : 124).اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا." لیکچر لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 280) پھر آپ فرماتے ہیں " اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی اور وہ مدد اذلة کی مدد تھی جس وقت تین سو تیرہ آدمی صرف میدان میں آئے تھے اور کل تین لکڑی کی تلواریں تھیں اور ان تین سو تیرہ میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے.اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہوگی اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمعیت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا.اس وقت

Page 15

ب بدر جلد 4 XV دیباچه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر دعائى اللَّهُمَّ إِنْ أَهْلَكْتَ هُذِهِ الْعِصَابَةَ لَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا.یعنی اے اللہ ! اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا.سنو ! میں بھی یقیناً اس طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر والا معاملہ ہے.اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت تیار کر رہا ہے.وہی بدر اور اَذِلَّةُ کا لفظ موجود ہے." (ملفوظات جلد 2 صفحہ 190-191) غزوہ بدر تاریخ اسلام کا نہایت اہم واقعہ ہے.احباب جماعت کو چاہیئے کہ اس حوالہ سے میرے خطبات کے اس مجموعے کو ضرور پڑھیں تاکہ یہ ایمان افروز واقعات ہمیشہ آپ کے ذہنوں میں مستحضر رہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بھی ہے جو تذکرہ میں یوں درج ہے: "آج رات حضرت نے خواب بیان فرمایا کسی نے کہا کہ جنگ بدر کا قصہ مت بھولو.(تذکرہ ص 668) اللہ تعالیٰ ہم میں خاص طور پر بدر کی اہمیت کا ادراک پیدا فرمائے اور ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی آمد کو سمجھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کرے کہ مسلمان امت بھی اس واقعہ بدر کی حقیقت کو سمجھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئے ہوئے مسیح موعود کو پہچانے تاکہ مسلمان دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کرنے کے قابل بن جائیں.آمین مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس عالمگیر جماعت احمدیہ 25 اپریل2024ء

Page 16

Page 17

1 164 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت شماس بن عثمان " ย حضرت شماس بن عثمان - عثمان بن شرید ان کے والد تھے.غزوہ اُحد 3 ہجری میں ان کی وفات ہوئی.ان کا نام عثمان اور شماس لقب تھا اور اس لقب سے آپ مشہور ہوئے.بنو مخزوم میں سے تھے اور اسلام کے آغاز میں ہی مسلمان ہو گئے تھے.! وجہ تسمیہ ابن ہشام نے حضرت شماس بن عثمان کے نام خماس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شماس رضی اللہ عنہ کا نام عثمان ہے اور شماس کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں کا ایک مذہبی لیڈر جس کو شماس کہتے ہیں زمانہ جاہلیت میں مکہ آیا.وہ عیسائی لیڈر بہت خوبصورت تھا.اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر مکہ کے لوگ متعجب ہوئے.عتبہ بن ربیعہ جو عثمان کے ماموں تھے انہوں نے کہا کہ میں اس شماس سے زیادہ ایک حسین لڑکا تم کو دکھاتا ہوں اور پھر اپنے بھانجے عثمان کو لا کر دکھایا.اس وقت سے لوگ عثمان کو شماس کہنے لگے.حضرت شماس کا نام شماس ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ کا نام شماس آپ کے چہرے کی سرخ و سفید رنگت کی وجہ سے تھا گویا کہ آپ سورج کی مانند ہیں.پس اس وجہ سے شماس نام آپ کے اصل نام پر حاوی ہو گیا.2 حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت، مواخات حضرت شماس بن عثیمان اور آپ کی والدہ حضرت صفیہ بنت ربیعہ بن عبد شمس حبشہ کی طرف دوسری ہجرت میں شامل تھیں.حضرت شماس کی والدہ شیبہ اور عقبہ (سرداران مکہ جو غزوہ بدر میں مارے گئے تھے ) کی بہن تھیں.حضرت شماس بن عثمان نے حبشہ سے واپسی پر مدینہ کی طرف ہجرت کی.حضرت شماس بن عثمان نے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد حضرت مبشر بن عبد منذر کے ہاں قیام کیا.سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت شماس بن عثمان غزوہ اُحد میں شہید ہونے تک حضرت مبشر بن عبد المنذر کے ہاں مقیم رہے.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت شماس بن عثمان اور حضرت حنظلہ بن ابی عامر کے درمیان مواخات قائم کروائی.حضرت شماس کے بیٹے کا نام حضرت عبید اللہ تھا اور آپ کی اہلیہ اتم حبیب بنت سعید تھیں.ابتدائی ہجرت کرنے والی مسلمان خواتین میں سے تھیں.3

Page 18

اصحاب بدر جلد 5 2 جنگ احد میں رسول اللہ صلی ال کم کی بہادری سے حفاظت کرنے والے حضرت شماس بن عثمان غزوہ بدر اور اُحد میں شامل ہوئے.آپ غزوہ اُحد میں بہت جانفشانی سے لڑے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ میں نے شماس بن عثمان کو ڈھال کی مانند پایا ہے.رسول اللہ صلی الیکم دائیں یا بائیں جس طرف بھی نظر اٹھاتے شماس کو وہیں پاتے جو جنگ اُحد میں اپنی تلوار سے مدافعت کر رہے تھے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی علی کم پر غشی طاری ہو گئی جب آپ پر حملہ ہوا اور پتھر آکے لگا.حضرت شماس نے اپنے آپ کو آپ صلی میں کم کے سامنے ڈھال بنا لیا تھا یہاں تک کہ آپ شدید زخمی ہو گئے اور آپ کو اسی حالت میں مدینہ اٹھا کر لایا گیا.آپ میں ابھی کچھ جان باقی تھی.آپ کو حضرت عائشہ کے ہاں لے جایا گیا.حضرت اُم سلمہ نے کہا کہ کیا میرے چچازاد بھائی کو میرے سوا کسی اور کے ہاں لے جایا جائے گا؟ آپ صلی تعلیم نے فرمایا کہ انہیں حضرت ام سلمہ کے پاس اٹھا کر لے جاؤ.پس آپ کو وہیں لے جایا گیا اور آپ نے انہی کے گھر وفات پائی.وہاں اُحد سے زخمی ہو کے آئے تھے.پھر آپ صلی علیکم کے حکم سے حضرت شماس کو مقام اُحد میں لے جا کر انہی کپڑوں میں دفن کیا گیا.جب جنگ کے بعد آپ کو زخمی حالت میں اٹھا کر مدینہ لایا گیا تھا تو وہاں ایک دن اور ایک رات تک زندہ رہے تھے اور اس دوران کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کچھ کھایا پیا نہیں، انتہائی کمزوری کی حالت تھی بلکہ بیہوشی کی حالت تھی.حضرت شماس کی وفات 34 سال کی عمر میں ہوئی.4 آنحضرت علی الم سے مثالی محبت حضرت شماس بن عثمان کے بارے میں تاریخ نے ایسا واقعہ محفوظ کیا ہے جو ان کی آنحضرت صلی اللہ سے محبت کی ایک مثال بن گیا اور اسلام کی خاطر قربانی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے کی بھی مثال ہے.جنگ احد میں جہاں حضرت طلحہ کی عشق و محبت کی داستان کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنا ہاتھ آنحضرت صلی علیہم کے چہرہ مبارک کے سامنے رکھا کہ کوئی تیر آپ کو نہ لگے وہاں حضرت شماس نے بھی بڑا عظیم کردار ادا کیا ہے.حضرت شماس آنحضرت صلی علیکم کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ہر حملہ اپنے اوپر لیا.آنحضرت صلی الم نے حضرت شماس کے بارے میں فرمایا کہ شماس کو اگر میں کسی چیز سے تشبیہ دوں تو ڈھال سے تشبیہ دوں گا کہ وہ احد کے میدان میں میرے لئے ایک ڈھال ہی تو بن گیا تھا.وہ میرے آگے پیچھے دائیں اور بائیں حفاظت کرتے ہوئے آخر دم تک لڑتا رہا.آنحضرت صلی یہ یکم جس طرف نظر ڈالتے آپ فرماتے ہیں شماس انتہائی بہادری سے وہاں مجھے لڑتے ہوئے نظر آتا.جب دشمن آنحضرت صلی ا یم پر حملے میں کامیاب ہو گیا اور آپ کو غشی کی کیفیت طاری ہوئی.آپ گر گئے.تب بھی شماس ہی ڈھال بن کر آگے کھڑے رہے یہاں تک کہ خود شدید زخمی ہو گئے.اسی حالت میں انہیں مدینہ لایا گیا.حضرت ام سلمہ نے کہا کہ یہ میرے چچا کے بیٹے ہیں میں ان کی قریبی ہوں ، رشتہ دار ہوں اس لئے میرے گھر میں ان کی تیمار داری اور علاج وغیرہ ہونا چاہئے.لیکن زخموں کی شدت کی وجہ سے ڈیڑھ دو

Page 19

اصحاب بدر جلد 5 3 دن بعد ہی ان کی وفات ہو گئی.آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ شماس کو بھی اس کے کپڑوں میں ہی دفن کیا جائے جس طرح باقی شہداء کو کیا گیا ہے.؟ طرح کو کیا گیا ہے.165 حضرت صالح شقران آنحضرت علی ایم کے غسل و تدفین میں شمولیت کی سعادت پانے والے حضرت صالح شقران.ان کا نام صالح تھا اور لقب شقران تھا اور اسی سے آپ معروف تھے.حضرت صالح شقران حضرت عبد اللہ بن عوف کے حبشی نژاد غلام تھے.رسول اللہ صلی اللہ ہم نے ان کو اپنی خدمت گزاری کے لئے پسند فرمایا اور حضرت عبد الرحمن کو قیمت دے کر ان سے خرید لیا اور بعض روایات کے مطابق حضرت عبد الرحمن بن عوف نے ان کو بلا معاوضہ آنحضرت صلی اللی علم کی نذر کیا تھا.حضرت صالح شقران غزوہ بدر میں شریک تھے.چونکہ اس وقت مملوک تھے آزاد نہیں تھے اس لئے نبی کریم کی تعلیم نے ان کا حصہ مقرر نہ فرمایا تھا.نبی کریم صلی للی یکم نے حضرت صالح شقر ان کو قیدیوں کا نگران مقرر فرمایا.حضرت صالح شقران جن لوگوں کے قیدیوں کی نگرانی کرتے تھے وہ بدلہ میں خود معاوضہ دیتے تھے.چنانچہ ان کو مال غنیمت سے زیادہ مال حاصل ہوا.7 مال غنیمت میں تو حصہ نہیں ملا لیکن اس نگرانی کی وجہ سے مال غنیمت سے زیادہ مال ان کو ملا.غزوۂ بدر کے بعد نبی کریم صلی اللہ ہم نے ان کو آزاد فرما دیا تھا.8 حضرت جعفر بن محمد صادق کہتے ہیں کہ حضرت محقران اہل صفہ میں سے تھے.نبی پاک صلی ال نیم کے غسل اور تدفین میں شرکت کی سعادت 9 ان لوگوں میں سے تھے جو ہر وقت آنحضرت صلی علی ظلم کے در پر بیٹھے رہتے تھے.حضرت شقر ان کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ رسول اللہ صلی ال نیم کے غسل اور تدفین میں بھی شامل تھے.10 حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تم کو ان کی قمیص میں ہی غسل دیا گیا اور آپ کی قبر میں حضرت علی، حضرت فضل بن عباس، حضرت ققم بن عباس اور حضرت شقران اور حضرت اوس بن خولی داخل ہوئے.11 حضرت شقر ان اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ! میں نے ہی قبر میں رسول اللہ صلی یکم

Page 20

اصحاب بدر جلد 5 ملی چادر بچھائی تھی.12 4 کے بیجھو مسلم کی روایت کے مطابق وہ سرخ رنگ کی مخملی چادر تھی.13 یہ وہ چادر تھی کہ آنحضرت صلی علی نام اس کو استعمال فرمایا کرتے تھے.چنانچہ حضرت شقران بیان کرتے تھے کہ میں نے اس بات کو نا پسند کیا کہ رسول اللہ صلی الی و کم کے بعد کوئی دوسرا اس کو اوڑھے کیونکہ رسول اللہ صلی لی کم اس چادر کو اوڑھتے اور بچھایا بھی کرتے تھے.14 غزوہ مریسیع کے موقع پر نبی کریم صلی علیہ ہم نے حضرت شقر ان کو قیدیوں اور اہل مریسیع کے کیمپوں سے جو مال و متاع اور اسلحہ اور جانور وغیرہ ملے تھے ان پر نگران مقرر فرمایا تھا.15 اس لحاظ سے بڑے قابل اعتماد ، قابل اعتبار تھے.نگرانی کیا کرتے تھے.ان کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت شقر ان کے صاحبزادے عبد الرحمن بن شقران کو حضرت ابو موسیٰ اشعری کی طرف روانہ کیا اور لکھا کہ میں تمہاری طرف ایک صالح آدمی عبد الرحمن بن صالح شقران کو بھیج رہا ہوں جو رسول اللہ صلی اللی کیم کے آزاد کردہ غلام تھے.رسول اللہ صلی علیکم کے ہاں ان کے والد کے مقام کالحاظ رکھتے ہوئے اس سے سلوک کرنا.16 یہ وہ مقام تھا جو اسلام نے غلاموں کو بھی دیا کہ نہ صرف غلامی سے آزاد کیا بلکہ ان کی اولادیں بھی قابل احترام ٹھہریں.وفات ایک روایت ہے کہ حضرت شقران نے مدینہ میں رہائش اختیار کی تھی اور آپ کا ایک گھر بصرہ میں بھی تھا.حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں آپ کی وفات ہوئی.17 بعض کے نزدیک حضرت شقران اور حضرت ام ایمن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے والد کی طرف سے ورثہ میں ملے تھے.18 غلام تھے.غزوہ بدر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد فرما دیا تھا.19 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن اشخاص کو غسل دینے کی سعادت نصیب ہوئی ان میں حضرت صالح شقران بھی تھے نیز ان کے علاوہ آٹھ اہل بیت اور بھی تھے.20 مسند امام احمد بن حنبل کی روایت ہے کہ حضرت صالح کو ایک سعادت اور حاصل ہے.وہی جو غسل کے بارے میں ذکر ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب غسل دیا جار ہا تھا تو اس وقت جو اصحاب پانی انڈیل رہے تھے ان میں حضرت صالح شقران اور حضرت اسامہ بن زیڈ تھے.چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل

Page 21

اصحاب بدر جلد 5 5 دینے کے لیے اکٹھے ہوئے تو گھر میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ ہی تھے.آپ کے چچا حضرت عباس اور حضرت علی، حضرت فضل بن عباس، حضرت قشم بن عباس، حضرت اسامہ بن زید اور حضرت صالح شقران، آپ کے آزاد کردہ غلام.اسی دوران گھر کے دروازے پر کھڑے بنو عوف بن خزرج کے حضرت اوس بن خولی انصاری جو بدر میں شامل تھے انہوں نے حضرت علی ہو پکار کر کہا اے علی ! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہمارا حصہ بھی رکھنا.حضرت علی نے ان سے فرمایا: اندر آ جاؤ.چنانچہ وہ بھی داخل ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے کے موقع پر موجود تھے مگر انہوں نے غسل دینے میں شرکت نہیں کی.راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے سہارا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیض آپ پر ہی تھی اور حضرت عباس، فضل اور قشم حضرت علی کے ساتھ پہلو مبارک بدل رہے تھے اور حضرت اسامہ اور صالح شقران پانی ڈال رہے تھے اور حضرت علی آپ کو غسل دینے لگے.21 علامہ بلاذری نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت شقران کے صاحبزادے عبد الرحمن بن شقران کو حضرت ابو موسیٰ اشعری کی طرف روانہ کیا اور لکھا کہ میں تمہاری طرف ایک صالح آدمی عبد الرحمن بن صالح شقران، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے، کو بھیج رہا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ان کے والد کے مقام کالحاظ رکھتے ہوئے اس سے سلوک کرنا.22 ایک روایت ہے کہ علامہ بغوی کہتے ہیں کہ حضرت شقران نے مدینہ میں رہائش اختیار کی تھی اور آپ کا ایک گھر بصرہ میں بھی تھا.23 حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں آپ کی وفات ہوئی.24 ان کے خاندان کا آخری فرد ہارون الرشید کے عہد میں مدینہ میں فوت ہوا.اسی طرح بصرہ میں بھی ان کے خاندان کا ایک شخص رہتا تھا.مصعب کہتے ہیں کہ اس کی نسل آگے چلی یا نہیں اسکا مجھے علم نہیں.25 حضرت صالح شقران سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گدھے پر سوار خیبر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا.آپ اشارے سے نماز ادا فرمارہے تھے.26 یعنی سواری پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے.یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ سواری پر نماز ادا کی جاسکتی ہے کہ نہیں ؟27

Page 22

اصحاب بدر جلد 5 166 حضرت صفوان بن وهب بن ربیعہ ย نام و نسب و کنیت حضرت صفوان جن کے والد کا نام وهب بن ربیعہ تھا.حضرت صفوان کی کنیت ابو عمر و ہے اور آپ قبیلہ بنو حارث بن فھر سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے والد کا نام وهب بن ربیعہ تھا.ان کا نام ایک روایت میں اُهیب بھی آیا ہے.ان کی والدہ کا نام دغد بنت تحکم تھا جو کہ بیضاء کے نام سے مشہور تھیں.اسی وجہ سے حضرت صفوان کو ابن بَيْضَاء بھی کہا جاتا ہے.آپ حضرت سھل “ اور حضرت سهیل کے بھائی تھے.یہ دونوں بھائی ان سھل اور سھیل کے علاوہ ہیں جن سے نبی کریم صلی لی ہم نے مسجد نبوی کی زمین خریدی تھی.یہ وہ نہیں ہیں.رسول اللہ صلی نیلم نے حضرت صفوان کی مواخات حضرت رافع بن معلی سے کروائی.اور ایک روایت کے مطابق آپ کی مؤاخات حضرت رافع بن عجلان سے کروائی گئی.وفات رم ان کی وفات کے متعلق بھی مختلف رائے ہیں.بعض کہتے ہیں کہ حضرت صفوان کو غزوہ بدر میں طعیمہ بن عدی نے شہید کیا تھا اور ایک روایت کے مطابق آپ غزوہ بدر میں شہید نہیں ہوئے تھے بلکہ آپ نے غزوہ بدرسمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی ال نیم کے ہمراہ شرکت کی.حضرت صفوان کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ غزوہ بدر کے بعد واپس مکہ لوٹ گئے تھے اور کچھ عرصہ بعد دوبارہ ہجرت کر کے آگئے تھے.یہ بھی روایت ملتی ہے کہ آپ فتح مکہ تک وہیں رہے یعنی مکہ میں رہے.حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا ہم نے انہیں سَرِيَّه عبد الله بن بخش میں آہوا کی طرف شامل کر کے بھجوایا تھا.بعض روایات میں آپ کی وفات کا سال 18 ہجری اور 30 ہجری اور 38 ہجری بیان کیا گیا ہے.28 بہر حال یہ ہر جگہ ثابت ہے کہ آپ بدری صحابی تھے.29

Page 23

7 167 اصحاب بدر جلد 5 حضرت صہیب بن سنان اسلام لانے میں سبقت رکھنے والے چار مہیب روم میں سبقت رکھنے والا سائی نام و نسب حضرت صہیب بن سنان ہے.حضرت صہیب کے والد کا نام سنان بن مالک اور والدہ کا نام “ بنت فعید تھا.حضرت صہیب کا وطن موصل تھا.حضرت صہیب کے والد یا چا کسری کی طرف سے ابلہ کے عامل تھے.ابله وجلہ کے کنارے ایک شہر ہے جو بعد میں بصرہ کہلایا.رومیوں نے اس علاقے پر حملہ کیا تو انہوں نے حضرت صہیب کو قیدی بنا لیا جبکہ وہ ابھی کم عمر تھے.ابو القاسم مغربی کے مطابق حضرت صہیب کا نام عمیرہ تھا، رومیوں نے صہیب نام رکھ دیا.30 حضرت صهیب کارنگ نہایت سرخ تھا.قد نہ لمبا تھا اور نہ ہی چھوٹا اور سر پر گھنے بال تھے.31 حضرت صہیب نے رومیوں میں پرورش پائی.ان کی زبان میں لکنت تھی.گلب نے انہیں رومیوں سے خرید لیا ( یہ ایک اور شخص تھا) اور انہیں لے کر مکہ آگیا.پھر عبد اللہ بن جدعان نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا.حضرت صہیب عبد اللہ بن جدعان کی وفات تک اس کے ساتھ مکے میں رہے یہاں تک کہ نبی صلی علیکم کی بعثت ہو گئی.ایک روایت کے مطابق حضرت صہیب کی اولاد کہتی ہے کہ حضرت صهيب جب عقل و شعور کی عمر کو پہنچے تو روم سے بھاگ کر مکے آگئے اور عبد اللہ بن جدعان کے حلیف بن گئے اور ان کی وفات تک ان کے ساتھ رہے.قبولیت اسلام کے بعد تکالیف و مظالم سہنے والے حضرت مصلح موعود ان کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ”ایک غلام صهیب تھے جو روم سے پکڑے ہوئے آئے تھے.یہ عبد اللہ بن جدعان کے غلام تھے جنہوں نے ان کو آزاد کر دیا تھا.یہ بھی رسول کریم صلی علی کم پر ایمان لائے اور آپ کے لیے انہوں نے کئی قسم کی تکالیف اٹھائیں.حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بات اس ضمن میں بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں جو ہے کہ کفار کہتے ہیں کہ یہ قرآن آنحضور صلی الی ایم نے دوسروں یا غلاموں کی مدد سے بنالیا ہے تو اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ یہ غلام تو مسلمان ہونے کی وجہ سے مصائب اور ظلموں کا نشانہ بنے تو کیا انہوں نے یعنی ان غلاموں نے الله 32 3366

Page 24

8 اصحاب بدر جلد 5 ان تکلیفوں کو اپنے اوپر وارد کرنے کے لیے، سہیڑنے کے لیے آنحضرت صلی لیلی کیم کی مدد کی تھی اور پھر نہ صرف یہ کہ چھپ کے مدد کی یہ ظاہر بھی ہوا اور پھر نہایت ثابت قدمی سے مصائب اور ظلم بر داشت بھی کیسے تو اس بات کو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ یہ انتہائی بودا اعتراض ہے.یہ تو ان مومنین کا، ان لوگوں کا جو آنحضرت صلی علیہ کم پر ایمان لائے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان تھا جس نے انہیں ثابت قدم رکھا اور انہوں نے آنحضرت صلی الم سے اسلام سیکھا اور اللہ تعالیٰ کی وحی پر ایمان لائے تو بہر حال اس ضمن میں یہ بیان تھا.34 رض حضرت عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ میں ضعیب سے دارِ ارقم کے دروازے پر ملا تو رسول اللہ صلی الیم تشریف فرما تھے.میں نے پوچھا تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ صہیب نے مجھ سے کہا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ میں نے کہا میں یہ چاہتا ہوں کہ محمد صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کا کلام سنوں.حضرت صہیب نے کہا کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں.حضرت عمار کہتے ہیں کہ پھر ہم دونوں آنحضور صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے سامنے اسلام پیش کیا جس پر ہم نے اسلام قبول کر لیا.ہم سارا دن وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ ہم نے شام کی.پھر ہم وہاں سے چھپتے ہوئے نکلے.حضرت عمار اور حضرت مہیب نے تیس سے زائد افراد کے بعد اسلام قبول کیا تھا.؟ 35 36 اسلام لانے میں سبقت رکھنے والے چار...حضرت انس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی للی کرم نے فرمایا اسلام لانے میں سبقت رکھنے والے چار ہیں.آپ نے فرمایا کہ میں عرب میں سبقت رکھنے والا ہوں.صہیب روم میں سبقت رکھنے والا ہے.سلمان اہل فارس میں سبقت رکھنے والا ہے.اور بلال حبش میں سبقت رکھنے والا ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ سب سے پہلے جنہوں نے اپنے اسلام کا اعلان فرمایا وہ سات ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپؐ پر شریعت اتری تھی اور ابو بکر اور عمار اور ان کی والدہ سمیہ اور صہیب اور بلال اور مقداد.پس رسول اللہ صلی علی یم کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابو طالب کے ذریعہ محفوظ رکھا اور ابو بکر کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کے ذریعہ سے محفوظ رکھا.اس بارے میں گذشتہ خطبے میں میں وضاحت کر چکا ہوں کہ یہ راوی کا خیال ہے ورنہ آنحضرت صلی لی نام اور حضرت ابو بکر کو بھی ان ظلموں کا نشانہ بنا پڑا تھا.گو شروع میں کچھ بچت ہوئی لیکن پھر بنا پڑا.بہر حال راوی کہتا ہے کہ باقیوں کو مشرکوں نے پکڑ لیا اور لوہے کی زرہیں پہنائیں اور انہیں دھوپ میں جلاتے تھے.پس ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس نے ان کے ساتھ جس بات پر وہ چاہتے تھے موافقت نہ کرلی ہو سوائے بلال کے کیونکہ ان پر اپنا نفس اللہ کی خاطر بے حیثیت ہو گیا تھا اور وہ اپنی قوم کے لیے بھی بے حیثیت تھے.وہ ان کو پکڑتے اور لڑکوں کے سپر د کر دیتے اور انہیں مکے کی گھاٹیوں میں گھماتے پھرتے اور بلال احد، احد کہتے جاتے تھے.37

Page 25

اصحاب بدر جلد 5 بہر حال سختیاں تو ان سب نے برداشت کی تھیں جیسا کہ میں نے کہا اور ہر ایک نے اپنے ایمان پر ثابت قدمی کا اظہار کیا لیکن بہر حال حضرت بلال کے بارے میں جو روایت ہے وہ یہی ہے کہ آپ کو بہت زیادہ ظلموں کا نشانہ بنایا گیا.پھر بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت صہیب ان مومنین میں سے تھے جنہیں کمزور سمجھا جاتا تھا اور جنہیں مکے میں اللہ کی راہ میں اذیت دی جاتی تھی.38 تکلیفوں سے ان کو بھی بہت زیادہ گزرنا پڑا.ایک روایت کے مطابق حضرت عمار بن یاسر کو اتنی تکلیف دی جاتی کہ انہیں معلوم نہ ہو تا کہ وہ کیا کر رہے ہیں.یہی حالت حضرت صہیب ، حضرت ابو فائد، حضرت عامر بن فهيرہ " اور دیگر اصحاب کی تھی.ان اصحاب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمُ (الحل : 111) 39 پھر تیر ارب یقیناً ان لوگوں کو جنہوں نے ہجرت کی بعد اس کے کہ فتنہ میں مبتلا کیے گئے پھر انہوں نے جہاد کیا اور صبر کیا تو یقیناً تیر اب اس کے بعد بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا.لا ہے.مدینہ ہجرت کرنے والوں میں سے سب سے آخر پر...ایک روایت کے مطابق مدینے کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے جو سب سے آخر پر آئے وہ حضرت علیؓ اور حضرت صهيب بن سنان تھے.یہ نصف ربیع الاول کا واقعہ ہے.آنحضرت صلی علیہ کم تھا میں قیام پذیر تھے ابھی مدینہ کے لیے روانہ نہیں ہوئے تھے.40 ایک نفع مند سودا جس کا قرآن نے ذکر کیا ایک روایت میں ہے کہ حضرت صہیب جب ہجرت مدینہ کے لیے نکلے تو مشرکین کے ایک گروہ نے آپے کا تعاقب کیا تو اپنی سواری سے اترے اور ترکش میں جو کچھ تھاوہ نکال لیا اور کہا اے قریش کے گروہ ! تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ماہر تیر اندازوں میں سے ہوں.اللہ کی قسم ! تم مجھ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ جتنے تیر میرے پاس ہیں وہ سب تمہیں مار نہ لوں.پھر میں اپنی تلوار سے تمہیں ماروں گا یہاں تک کہ میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہ رہے.لہذا تم لوگ جو چاہو کرو اگر میر امال چاہتے ہو تو میں تمہیں اپنے مال کے بارے میں بتا دیتا ہوں کہ میر امال کہاں ہے اور تم میر اراستہ چھوڑ دو.ان لوگوں نے کہا ٹھیک ہے.چنانچہ حضرت صہیب نے بتا دیا اور جب وہ ، حضرت صہیب نبی کریم صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ اس سودے نے ابو یکی کو فائدہ پہنچایا.سودا نفع مند راوی کہتے ہیں کہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِكْ نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رءوف بِالْعِبَادِ (البقر :208) 4 اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کے لیے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت ہی مہربانی کرنے والا ہے.41

Page 26

اصحاب بدر جلد 5 10 ایک روایت میں ہے کہ حضرت صہیب مکہ سے ہجرت کر کے آنحضرت صلی ا کرم کی خدمت میں حاضر ہوئے.اس وقت آپ قبا میں تھے.آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ بھی تھے.یعنی اس وقت آنحضرت علی ایم کے پاس حضرت ابو بکر اور عمرؓ بھی تھے.اس وقت ان سب کے سامنے تازہ کھجوریں تھیں جو حضرت کلثوم بن ھذه لائے تھے.راستے میں حضرت صہیب مو آشوب چشم ہو گیا تھا، آنکھوں کی تکلیف ہو گئی تھی اور انہیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی.سفر کی وجہ سے تھکان بھی تھی.حضرت صہیب کھجوریں کھانے کے لیے لیکے تو حضرت عمرؓ نے کہا یارسول اللہ صہیب کی طرف دیکھیں اسے آشوب چشم ہے اور وہ کھجور میں کھا رہا ہے.آنحضرت صلی الی یکم نے مذاقا فرمایا کہ تم کھجور کھا رہے ہو جبکہ تمہیں اُشوب چشم ہے.آنکھیں سوجی ہوئی ہیں، بہ رہی ہیں.حضرت صہیب نے عرض کیا میں اپنی الله سة آنکھ کے اس حصہ سے کھا رہا ہوں جو ٹھیک ہے.اس پر رسول اللہ صلی علی کل مسکر دیے.پھر حضرت صہیب نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہجرت میں مجھے ساتھ لے کر جائیں گے مگر آپ چلے آئے اور مجھے چھوڑ دیا.پھر انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے مجھے ساتھ لے کر جانے کا وعدہ کیا تھا تا ہم آپ بھی تشریف لے آئے اور مجھے چھوڑ آئے.قریش نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے محبوس کر دیا اور میں نے اپنی جان اور اپنے گھر والوں کو اپنے مال کے عوض خریدا.رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا سودا نفع مند ہے.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِكْ نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَاللهُ رَسُوفَ بِالْعِبَادِ (البقرة :208) اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کے لیے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت مہربانی کرنے والا ہے.حضرت صہیب نے عرض کیا یار سول اللہ ! میں نے ایک مُد، تقریباً آدھا کلو آٹا زادِ راہ کے طور پر لیا تھا.اسے میں نے ابواء مقام پر گوندھا تھا یہاں تک کہ میں آپ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہو گیا.42 اتا میں اس سفر میں صرف اتنا کھایا.یہی خوراک تھی.حضرت مصلح موعود ان کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ صہیب ایک مالدار آدمی تھے.یہ تجارت کرتے تھے اور مکہ کے باحیثیت آدمیوں میں سمجھے جاتے تھے.مگر باوجود اس کے کہ وہ مالدار بھی تھے اور آزاد بھی ہو چکے تھے.“ اب تو غلام نہیں رہے تھے ” قریش ان کو مار مار کر بیہوش کر دیتے تھے.جب رسول اللہ صلی علیکم مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تو آپ کے بعد صہیب نے بھی چاہا کہ وہ بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں مگر مکہ کے لوگوں نے ان کو روکا اور کہا کہ جو دولت تم نے مکہ میں کمائی ہے تم اسے مکہ سے باہر کس طرح لے جاسکتے ہو ؟ ہم تمہیں مکہ سے جانے نہیں دیں گے.صہیب نے کہا اگر میں یہ سب کی سب دولت چھوڑ دوں تو کیا پھر تم مجھے جانے دو گے ؟ وہ اس بات پر رضامند ہو گئے اور آپ اپنی ساری دولت مکہ والوں کے سپر د کر کے خالی ہاتھ مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ صلی للی کم کی خدمت

Page 27

اصحاب بدر جلد 5 میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا نہیں ! تمہارا یہ سود اسب پہلے سودوں سے نفع مند رہا.یعنی پہلے اسباب کے مقابلہ میں تم روپیہ حاصل کیا کرتے تھے مگر اب روپیہ کے مقابلہ میں تم نے ایمان حاصل کر لیا.43 مواخات آنحضرت صلی اللہ کریم نے حضرت صہیب کے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ان کے اور حضرت حارث بن حیمہ کے درمیان مواخات قائم فرمائی.حضرت صہیب غزوہ بدر، احد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شریک ہوئے.4 اے ابو بکر شاید تم نے انہیں غصہ دلا دیا ہے! 44 رض حضرت عائذ بن عمرو سے روایت ہے کہ حضرت سلمان، حضرت صهیب اور حضرت بلال لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ابو سفیان بن حرب کا گزر ہوا.لوگوں نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی تلواریں ابھی اللہ کے دشمن کی گردن پر نہیں چلیں.اس پر حضرت ابو بکر نے کہا کیا تم قریش کے سر کردہ اور سردار کے بارے میں ایسا کہتے ہو ؟ یہ بات نبی کریم صلی علیم کو بتائی گئی تو آپ صلی علیکم نے فرمایا اے ابو بکر شاید تم نے انہیں غصہ دلا دیا ہے.اگر تم نے انہیں غصہ دلایا ہے تو تم نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو غصہ دلایا ہے.پس حضرت ابو بکران لوگوں کے پاس واپس گئے اور کہا کہ اے ہمارے بھائیو ! شاید تم ناراض ہو گئے ہو.انہوں نے کہا نہیں اے ابو بکر ! اللہ آپ سے مغفرت فرمائے.45 ہر غزوہ میں شامل حضرت صہیب بیان کرتے ہیں کہ جس معرکے میں رسول اللہ صلی علیکم شریک ہوئے میں اس میں موجود تھا.آپ صلی یکم نے جو بھی بیعت لی میں اس میں موجود تھا.آپ صلی علیکم نے جو بھی سر یہ روانہ فرمایا میں اس میں شامل تھا اور آپ جس غزوے کے لیے بھی روانہ ہوئے میں آپ صلی الی نام کے ساتھ شامل تھا.میں آپ کے دائیں طرف ہو تا یا بائیں طرف.لوگ جب سامنے سے خطرہ محسوس کرتے تو میں لوگوں کے آئے ہو تا.جب لوگ پیچھے سے خطرہ محسوس کرتے تو میں ان کے پیچھے ہو تا.اور میں نے کبھی رسول اللہ صلی الیکم کو دشمنوں کے اور اپنے درمیان نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی یعنی آپ صلی اللی کم کی وفات ہوئی.46 حضرت صہیب بڑھاپے میں لوگوں کو جمع کر کے نہایت لطف کے ساتھ اپنے جنگی کار ناموں کے دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے.47 حضرت عمر کی حضرت صہیب سے محبت حضرت صہیب کی زبان میں عجمیت تھی یعنی عربوں والی فصاحت نہیں تھی.زید بن اسلم ا.

Page 28

اصحاب بدر جلد 5 12 والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے ساتھ چلا یہاں تک کہ وہ حضرت صہیب کے ایک باغ میں داخل ہوئے جو عالیہ مقام میں تھا.حضرت صہیب نے جب حضرت عمر کو دیکھا تو کہا یاش یناش حضرت عمر کو لگا کہ الناس کہہ رہے ہیں تو حضرت عمرؓ نے کہا اسے کیا ہوا ہے ؟ یہ لوگوں کو کیوں بلا رہا ہے ؟ راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ وہ اپنے غلام کو بلا رہے ہیں جس کا نام محنش ہے.زبان میں گرہ کی وجہ سے وہ اسے ایسا کہہ رہے ہیں.اس کے بعد پھر وہاں باتیں ہوئیں تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ اے صہیب ! تین باتوں کے علاوہ میں تم میں کوئی عیب نہیں دیکھتا.اگر وہ تم میں نہ ہو تیں تو میں تم پر کسی کو فضیلت نہ دیتا.میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو عرب کی طرف منسوب کرتے ہو جبکہ تمہاری زبان عجمی ہے.اور تم اپنی کنیت ابو بی بتاتے ہو جو ایک نبی کا نام ہے.اور تم اپنا مال فضول خرچ کرتے ہو.حضرت صہیب نے جواب میں کہا جہاں تک میرے مال فضول خرچ کرنے کا تعلق ہے تو میں اسے وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں خرچ کرنے کا حق ہوتا ہے.فضول نہیں کرتا.جہاں تک میری کنیت کا تعلق ہے تو وہ آنحضور صلی علیم نے ابو بیٹی رکھی تھی اور میں اس کو ہر گز ترک نہیں کروں گا.اور جہاں تک میرے عرب کی طرف منسوب ہونے کا تعلق ہے تو رومیوں نے مجھے کم سنی میں قیدی بنالیا تھا اس لیے ہے میں نے ان کی زبان سیکھ لی.میں قبیلہ تمیز بن قاسط سے تعلق رکھتا ہوں.حضرت عمر زخمی ہوئے تو آپ نے وصیت کی کہ میری نماز جنازہ صہیب پڑھائیں حضرت عمر حضرت صہیب سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کے بارے میں اعلیٰ گمان رکھتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت عمر زخمی ہوئے تو آپ نے وصیت کی کہ میری نماز جنازہ صہیب پڑھائیں گے اور تین روز تک مسلمانوں کی امامت کروائیں گے یہاں تک کہ اہل شوریٰ اُس پر متفق ہو جائیں جس نے خلیفہ بننا ہے.وفات حضرت صہیب کی وفات ماہ شوال 138 ہجری میں ہوئی، بعض کے مطابق 139 ہجری میں وفات ہوئی.وفات کے وقت حضرت صہیب کی عمر تہتر برس تھی، بعض روایات کے مطابق ستر برس تھی.آپ مدینہ میں دفن ہوئے.48

Page 29

13 168 اصحاب بدر جلد 5 حضرت ضحاک بن حارثہ حضرت معاك انصار کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے والد کا نام حارثہ اور والدہ کا نام ھند بنت مالک تھا.حضرت ضحاك ستر انصار کے ساتھ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے.آپ نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی.آپ کے بیٹے کا نام یزید تھا جو کہ آپ کی اہلیہ امامہ بنت محرث کے بطن سے پیدا ہوئے.49 169 حضرت ضحاک بن عبد عمرو ان کا تعلق بنو دِینار بن نجار سے تھا.آپ کے والد کا نام عبد عمرو اور آپ کی والدہ کا نام سمیراء بنت قیس تھا.آپ اور آپ کے بھائی حضرت نعمان بن عبد عمر و غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.حضرت نعمان نے غزوہ احد میں شہادت پائی.آپ کے تیسرے بھائی مخطبہ بن عبد عمرو واقعہ بئر معونہ کے روز شہید ہوئے تھے.50 170 حضرت ضمرہ بن عمر وجهنی حضرت ضمرہ کے والد کا نام عمر و بن عدی تھا اور بعض آپ کے والد کا نام بشیر بھی بیان کرتے ہیں.آپ قبیلہ بنو طریف کے حلیف تھے جبکہ بعض کے نزدیک قبیلہ بنو ساعدہ کے حلیف تھے جو کہ سعد بن عبادہ کا قبیلہ تھا.حلیف یعنی ان کا آپس میں ایک معاہدہ تھا کہ جب بھی کسی کو ضرورت پڑے گی ایک دوسرے کی مدد کی تو ایک دوسرے کی مدد کریں گے.علامہ ابن اثیر اسد الغابہ میں تحریر کرتے ہیں کہ یہ کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ بنو ظریف بنو ساعِدہ کی ہی ایک شاخ ہے.حضرت ضمرہ غزوہ

Page 30

اصحاب بدر جلد 5 14 بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے.غزوہ احد میں آپؐ شہید ہوئے.51 171) حضرت طفیل بن حارث اپنے ایک بھائی کے ساتھ جنگ بدر میں شامل حضرت طفیل بن حارث کا تعلق قریش سے تھا اور آپ کی والدہ کانام سُخیلہ بنت خُزاعی تھا.ہجرت مدینہ کے بعد رسول الله صلى ال ولم نے حضرت طفیل بن حارث اور حضرت منذر بن محمد کے ساتھ یا بعض دیگر روایات کے مطابق حضرت سفیان بن نشر سے آپ کی مؤاخات قائم فرمائی تھی.حضرت طفیل بن حارث اپنے بھائی حضرت عبیدہ اور حصین کے ساتھ غزوہ بدر میں شامل ہوئے.اسی طرح آپ نے غزوہ احد اور غزوہ خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ شامل ہونے کی توفیق پائی.ان کی وفات بتیس ہجری میں ستر سال کی عمر میں ہوئی.52 172 حضرت طفیل بن مالک بن خنسات حضرت طفیل کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عبید بن عدی سے تھا.حضرت طفیل " کی والدہ کا نام استماء بنت القین تھا.حضرت طفیل " بیعت عقبہ اور غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شامل ہوئے.آپ کی شادی ادام بنت قُرط سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے عبد اللہ اور ربیع پیدا ہوئے.3 53

Page 31

15 173 اصحاب بدر جلد 5 حضرت طفیل بن نعمان حضرت طفیل کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا.آپ کی والدہ خنساء بنت رِئَاب تھیں جو کہ حضرت جابر بن عبد اللہ کی پھوپھی تھیں.حضرت طفیل کی ایک بیٹی تھیں جن کا نام ربیع تھا.آپ بیعت عقبہ اور غزوہ بدر میں شامل ہوئے.حضرت طفیل نے غزوہ احد میں بھی شرکت کی اور اس روز آپ کو تیرہ زخم آئے تھے.غزوہ خندق میں شہادت حضرت طفیل بن نعمان غزوہ خندق میں بھی شامل ہوئے اور اسی غزوہ میں شہادت کا رتبہ بھی حاصل کیا.وخشی بن حرب نے آپ کو شہید کیا تھا.بعد میں وحشی آنحضور صلی للی کم پر ایمان لے آیا تھا.وحشی کہا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حمزہ اور حضرت طفیل بن نعمان کو میرے ہاتھوں عزت بخشی لیکن مجھے ان کے ہاتھوں سے ذلیل نہیں کیا.یعنی میں کفر کی حالت میں قتل نہیں کیا گیا.54 174) حضرت طلحہ بن عبید اللہ نام و نسب و کنیت حضرت طلحہ کا تعلق قبیلہ بنو تیم بن مرہ سے تھا.ان کے والد کا نام عبید اللہ بن عثمان اور والدہ کا نام صغبَہ تھا جو عبد اللہ بن عماد حضرمی کی بیٹی اور حضرت علاء بن حضرمی کی بہن تھیں.حضرت طلحہ کی کنیت ابو محمد تھی.حضرت علاء بن حضرمی کے والد کا نام عبد اللہ بن عماد حضرمی تھا.حضرت علاء حضر موت سے تعلق رکھتے تھے اور حرب بن امیہ کے حلیف تھے.آنحضور صلی اللہ نیلم نے ان کو بحرین کا حاکم مقرر فرمایا.یہ تاوفات بحرین کے حاکم رہے.ان کی وفات

Page 32

اصحاب بدر جلد 5 16 14 ہجری میں حضرت عمر کے دورِ خلافت میں ہوئی.ان کا ایک بھائی عامر بن حضر می بدر کے دن کفر کی حالت میں مارا گیا اور دوسرا بھائی عمرو بن حضر می مشرکوں میں سے پہلا شخص تھا جس کو ایک مسلمان نے قتل کیا اور اس کا مال پہلا تھا جو بطور خمس کے اسلام میں آیا.55 ساتویں پشت میں حضرت طلحہ کا نسب نامہ مرہ بن کعب پر جا کر آنحضرت صلی علیم سے مل جاتا ہے اور چوتھی پشت میں حضرت ابو بکر کے ساتھ.ان کے والد عبید اللہ نے اسلام کا زمانہ نہیں پایا لیکن والدہ نے لمبی زندگی پائی اور آنحضرت صلی علی کلم پر ایمان لا کر صحابیہ ہونے کا شرف پایا.ہجرت سے قبل یہ اسلام لے آئی تھیں.56 جنگ بدر میں شامل نہیں ہوئے لیکن مال غنیمت میں سے حصہ دیا گیا حضرت طلحہ بن عبید اللہ غزوہ بدر میں شامل نہیں ہوئے مگر رسول اللہ صلی ا لیلی نے انہیں مال غنیمت میں سے حصہ دیا تھا.ان کی جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی الیکم نے قریش کے قافلے کی شام سے روانگی کا اندازہ فرمایا تو آپ کی یہ کلم نے اپنی روانگی سے دس روز پہلے حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت سعید بن زید کو قافلے کی خبر رسانی کے لیے بھیجا.دونوں روانہ ہو کر حوراء پہنچے تو وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ قافلہ ان کے پاس سے گزرا.حوراء بحیرہ احمر پر واقع ایک پڑاؤ ہے جہاں سے حجاز اور شام کے درمیان چلنے والے قافلے گزرتے تھے.بہر حال رسول اللہ صلی المی کم کو حضرت طلحہ اور حضرت سعید کے واپس آنے سے پہلے ہی یہ خبر معلوم ہو گئی.آپ نے اپنے صحابہ کو بلایا اور قریش کے قافلے کے قصد سے روانہ ہوئے مگر قافلہ ایک دوسرے راستے یعنی ساحل کے راستے سے تیزی سے نکل گیا.اس کا پہلے بھی ایک جگہ ذکر ہو چکا ہے.اور قافلہ والے تلاش کرنے والوں سے بچنے کے لیے دن رات چلتے رہے.یہ قافلہ کافروں کا، کتے والوں کا تھا.حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت سعید بن زید مدینے کے ارادے سے روانہ ہوئے تاکہ رسول اللہ صلی علیکم کو قافلے کی خبر دیں.ان دونوں کو آپ کی غزوہ بدر کے لیے روانگی کا علم نہیں تھا.وہ مدینہ اس دن پہنچے جس دن رسول اللہ صلی علیم نے بدر میں قریش کے لشکر سے جنگ کی.وہ دونوں رسول اللہ صلی ال یکم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مدینے سے روانہ ہوئے اور آپ کی بدر سے واپسی پر تربان میں ملے.تربان بھی مدینے سے انیس میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے جس میں کثرت سے میٹھے پانی کے کنویں ہیں.غزوہ بدر کے لیے جاتے ہوئے رسول اللہ صلی علیم نے یہاں قیام فرمایا تھا.حضرت طلحہ اور حضرت سعید جنگ میں شامل نہ ہوئے تھے مگر رسول اللہ صلی للی ایم نے بدر کے مال غنیمت میں سے ان کو حصہ عطا فرمایا جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے.پس وہ دونوں بدر میں شاملین ہی قرار دیے گئے.57 عشرہ مبشرہ میں سے ایک حضرت طلحہ غزوہ احد اور باقی دیگر غزوات میں شریک ہوئے.صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی

Page 33

اصحاب بدر جلد 5 17 موجود تھے.یہ ان دس اشخاص میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی لی ایم نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی.ان آٹھ لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور ان پانچ لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت ابو بکر کے ذریعہ سے اسلام قبول کیا تھا.یہ حضرت عمر کی قائم کردہ شوری کمیٹی کے چھ ممبران میں سے ایک تھے.یہ وہ احباب تھے جن سے رسول اللہ صلی غین کی وفات کے وقت راضی تھے.قبول اسلام کا واقعہ 58 یزید بن رومان روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عثمانؓ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ دونوں حضرت زبیر بن عوام کے پیچھے نکلے اور رسول اللہ صلی علی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی ہی ہم نے ان دونوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کیا اور ان دونوں کو قرآن پڑھ کر سنایا اور انہیں اسلام کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا اور ان دونوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے شرف کا وعدہ کیا.اس پر آپ دونوں یعنی حضرت عثمانؓ اور حضرت طلحہ ایمان لے آئے اور آپ صلی یکم کی تصدیق کی.پھر حضرت عثمان نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں حال ہی میں ملک شام سے واپس آیا ہوں جب واپسی پر معان، یہ بھی ایک جگہ کا نام ہے جو موتہ سے پہلے واقع ہے.غزوہ موتہ کے موقع پر اس جگہ پہنچ کر مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ رومیوں کا دولاکھ کا لشکر مسلمانوں کے لیے تیار ہے تو صحابہ یہاں دو دن ٹھہرے رہے.بہر حال یہ کہتے ہیں کہ میں جب واپسی پر معان اور زرقاء ، یہ بھی مقام معان کے ساتھ واقع ہے، کے درمیان پہنچا اور ہمارا وہاں پڑاؤ تھا.ہم سوئے ہوئے تھے کہ ایک منادی کرنے والے نے یہ اعلان کیا کہ اے سونے والو! جاگو کہ احمد کے میں ظاہر ہو چکا ہے.پھر ہم وہاں سے واپس پہنچے تو آپ کے بارے میں سنا.59 ملک شام کے ایک راہب کا کہنا کہ احمد علی یہ ظاہر ہو گیا ہے حضرت طلحہ بن عبید اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں بصری (جو ملک شام کا ایک عظیم شہر ہے.آنحضرت صلی یم اپنے چا کے ہمراہ تجارتی سفر کے دوران اس شہر میں قیام فرما ہوئے تھے تو کہتے ہیں کہ میں بھری) کے بازار میں موجود تھا کہ ایک راہب اپنے صَوْمَعَه یعنی یہودیوں کی عبادت گاہ میں یہ کہہ رہا تھا کہ قافلے والوں سے پوچھو کہ ان میں کوئی شخص اہل حرم میں سے بھی ہے ؟ میں نے کہا ہاں ! میں ہوں.اس نے پوچھا کیا احمد ظاہر ہو گیا ہے ؟ تو حضرت طلحہ نے کہا کہ کون احمد ؟ اس نے کہا عبد اللہ بن عبد المطلب کا بیٹا.یہی وہ مہینہ ہے جس میں وہ ظاہر ہو گا اور وہ آخری نبی ہو گا.ان کے ظاہر ہونے کی جگہ حرم ہے اور ان کی ہجرت گاہ کھجور کے باغ اور پتھریلی اور شور اور کلر والی زمین کی طرف ہو گی.تم انہیں چھوڑ نہ دینا.حضرت طلحہ کہتے ہیں کہ اس نے جو کچھ کہا وہ میرے دل میں بیٹھ گیا.میں تیزی کے ساتھ روانہ ہوا اور مکے آگیا.دریافت کیا کہ کوئی نئی بات ہوئی ہے.لوگوں نے کہا ہاں محمد بن عبد اللہ امین، مکہ

Page 34

اصحاب بدر جلد 5 18 والے آپ کو امین کہا کرتے تھے ، امین نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ابن ابی قحافہ ، حضرت ابو بکر کی کنیت تھی انہوں نے ان کی پیروی کی ہے.کہتے ہیں میں روانہ ہوا اور حضرت ابو بکر کے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا تم نے ان صاحب کی پیروی کی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں.تم بھی ان کے پاس چلو اور ان کی پیروی کرو کیونکہ وہ حق کی طرف بلاتے ہیں.حضرت طلحہ نے حضرت ابو بکر کو راہب کی گفتگو بیان کی.حضرت ابو بکر حضرت طلحہ کو ساتھ لے کر نکلے اور رسول اللہ صلی علی ایم کے پاس ان کو حاضر کیا.حضرت طلحہ نے اسلام قبول کیا اور جو کچھ راہب نے کہا تھا اس کی رسول اللہ صلی علی ایم کو خبر دی.رسول اللہ صلی املی کام اس سے خوش ہوئے.60 حضرت ابو بکر کے ساتھ ایک رسی سے باندھ دیا تاریخ کی ایک کتاب طبقات الکبریٰ میں اس کا ذکر ہے.جب حضرت طلحہ اسلام لائے تو نوفل بن خُوَيلد بن عَدَوِيَّہ نے انہیں اور حضرت ابو بکر کو ایک رسی سے باندھ دیا.اس لیے انہیں اور حضرت ابو بکر کو قَرِيدَتین یعنی دو ساتھی بھی کہتے تھے.نوفل قریش میں اپنی سختی کی وجہ سے مشہور تھا.ان کو باندھنے والوں میں ان کا بھائی یعنی حضرت طلحہ کا بھائی عثمان بن عبید اللہ بھی تھا.باندھا اس لیے تھا کہ یہ آنحضرت صلی کم کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکیں اور اسلام سے باز آجائیں.امام بیہقی نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ ہم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ !عَدَوِيَّه کے شر سے انہیں بچا.11) 61 حضرت مسعود بن خراش سے روایت ہے کہ ایک روز میں صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بہت سارے لوگ ایک نوجوان کا پیچھا کر رہے ہیں جس کا ہاتھ گردن سے بندھا ہوا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہے.لوگوں نے جواب دیا کہ طلحہ بن عبید اللہ بے دین ہو گیا ہے اور ان کی والدہ صغبه ان کے پیچھے پیچھے غصے میں ان کو گالیاں دیے جارہی تھی.62 مدینہ کی طرف ہجرت عبد اللہ بن سعد نے اپنے والد سے روایت کی کہ جب رسول اللہ صلی ال کی مدینے کی طرف ہجرت کرتے ہوئے خراز ، یہ بھی ایک وادی ہے جو حجاز کے قریب واقع ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مدینے کی وادیوں میں سے ایک وادی ہے.بہر حال جب یہ خراز مقام سے روانہ ہوئے تو صبح کے وقت حضرت طلحہ بن عبید اللہ ملے جو شام سے قافلے کے ہمراہ آئے تھے.انہوں نے رسول اللہ صلی ال یکم اور حضرت ابو بکر ھو شامی کپڑے پہنائے اور رسول اللہ صلی الی یم کو اطلاع دی کہ اہل مدینہ بہت دیر سے منتظر ہیں.رسول اللہ صلی علیکم نے چلنے میں تیزی اختیار فرمائی اور حضرت طلحہ کے چلے گئے.جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو بکرے کے گھر والوں کو اپنے ہمراہ لے کر مدینے پہنچ گئے.63 مکہ اور پھر مدینہ میں مواخات حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے مکے میں جب اسلام قبول کیا تور سول اللہ صلی لی ایم نے ہجرت سے قبل

Page 35

اصحاب بدر جلد 5 19 ان دونوں کے درمیان مواخات قائم فرمائی اور جب مسلمان ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو رسول اللہ نے حضرت طلحہ اور حضرت ابو ایوب انصاری کے درمیان مواخات قائم فرمائی.ایک دوسرے قول کے مطابق ایک روایت یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی العالم نے حضرت طلحہ اور حضرت سعید بن زید کے درمیان مواخات قائم فرمائی اور ایک تیسری روایت یہ ہے کہ حضرت طلحہ اور حضرت ابی بن کعب کے درمیان مواخات قائم فرمائی.جب حضرت طلحہ نے مدینے ہجرت کی تو وہ حضرت اسعد بن زرارہ کے مکان پر ٹھہرے.64 مالی قربانیاں اور نبی اکرم صلی الم کا انہیں فیاض قرار دینا الله سة حضرت طلحہ کی بعض مالی قربانیوں کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ میں نے انہیں فیاض قرار دیا تھا.بہت فیاض ہیں.چنانچہ غزوہ ذی قرد کے موقعے پر رسول اللہ صلی علیکم کا گزر ایک چشمے پر سے ہوا تو آنحضرت صلی الی یکم نے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ کو بتایا گیا کہ اس کنویں کا نام پنسان ہے اور یہ نمکین ہے.آپ نے فرمایا نہیں اس کا نام نُعمان ہے اور یہ میٹھا اور پاک ہے.حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اس کو خریدا اور وقف کر دیا.اس کا پانی میٹھا ہو گیا.جب حضرت طلحہ آنحضرت صلی علیم کے پاس آئے اور یہ واقعہ بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ ہم نے ان کو فرمایا طلحہ اتم تو بڑے فیاض ہو.پس ان کو طلحہ فیاض کے نام سے پکارا جانے لگا.موسیٰ بن طلحہ اپنے والد طلحہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے احد کے دن حضرت طلحہ کا نام طلحة الخير رکھا.غزوہ تبوک اور غزوہ ذی قرد کے موقعے پر طَلْحَةُ الفَيَّاض رکھا اور غزوہ حنین کے روز طلْحَةُ الجو در کھا.اس کا مطلب بھی فیاضی ہے ، سخاوت ہے.سائب بن یزید سے مروی ہے کہ میں سفر و حضر میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے ہمراہ رہا مگر مجھے 65 عام طور پر روپے اور کپڑے اور کھانے پر طلحہ سے زیادہ سخی کوئی نہیں نظر آیا.66 رسول اللہ صلی سلیم نے احد کے دن اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی.جب بظاہر مسلمانوں کی پسپائی ہوئی تھی تو وہ ثابت قدم رہے اور وہ اپنی جان پر کھیل کر آپ صلی الی نام کا دفاع کرنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ شہید ہو گئے.بیعت کرنے والے لوگوں میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت طلحہ ، حضرت سعد، حضرت سہل بن حنیف اور حضرت ابودجانہ شامل تھے.67 جنگ احد کے دن آنحضرت صلی اللہ ہم کو بچاتے ہوئے تیر اپنے ہاتھوں پر لینے والے حضرت طلحہ احد کے دن حضور صلی الی ایم کے ساتھ شریک ہوئے.وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اس روز رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ ثابت قدم رہے اور آپ سے موت پر بیعت کی.مالک بن زُھیر نے رسول اللہ صلی علیم کو تیر مارا تو حضرت طلحہ نے رسول اللہ صلی علی یم کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے بچایا.تیر ان کی چھوٹی انگلی میں لگا جس سے وہ بے کار ہو گئی.جس وقت انہیں تیر لگا، جو پہلا تیر لگا تو تکلیف سے ان کی

Page 36

اصحاب بدر جلد 5 20 20 دسی کی آواز نکلی.رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا کہ اگر وہ بسم اللہ کہتے تو اس طرح جنت میں داخل ہوتے کہ لوگ انہیں دیکھ رہے ہوتے.بہر حال اس روز، تاریخ کی ایک کتاب میں آگے لکھا ہے کہ جنگ احد کے اس روز حضرت طلحہ کے سر میں ایک مشرک نے دو دفعہ چوٹ پہنچائی.ایک مرتبہ جبکہ وہ اس کی طرف آرہے تھے.دوسری دفعہ جبکہ وہ اس سے رخ پھیر رہے تھے.اس سے کافی خون بہا.68 حضرت طلحہ کا ہاتھ جو رسول اللہ صلی علم کو تیروں سے بچاتے ہوئے شل ہو گیا تھا اسی واقعہ کی اور تفصیل سیرۃ الحلبیہ میں ایک روایت میں اس طرح بھی ہے کہ قیس بن ابو حازم کہتے ہیں کہ میں نے احد کے دن حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے ہاتھ کا حال دیکھا جو رسول اللہ صلی لینینم کو تیر وں سے بچاتے ہوئے شل ہو گیا تھا.ایک قول ہے کہ اس میں نیزہ لگا تھا اور اس سے اتناخون بہا کہ کمزوری سے بیہوش ہو گئے.حضرت ابو بکر نے ان پر پانی کے چھینٹے ڈالے یہاں تک کہ ان کو ہوش آیا.ہوش آنے پر انہوں نے فوراً پو چھا کہ رسول اللہ صلی المیہ یکم کا کیا حال ہے ؟ حضرت ابو بکر نے ان سے کہا وہ خیریت سے ہیں اور انہوں نے ہی مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے.حضرت طلحہ نے کہا الْحَمْدُ لِلهِ كُلُّ مُصِيبَةٍ بَعْدَهُ جلل کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں.ہر مصیبت آپ صلی ا کرم کے بعد چھوٹی ہے.اسی جنگ کے واقعے کی ایک روایت ایک تاریخ میں اس طرح ملتی ہے کہ حضرت زبیر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی یکم احد کے دن دوزر ہیں پہنے ہوئے تھے.آپ نے چٹان پر چڑھنا چاہا مگر زرہوں کے وزن کی وجہ سے اور سر اور چہرے پر چوٹ سے خون بہنے کی وجہ سے، آپ زخمی ہوئے تھے اس کے بعد کا یہ واقعہ ہے ) آپ صلی للہ ہم کو کمزوری ہو گئی تھی تو چٹان پر چڑھ نہ سکے.آپ صلی الم نے حضرت طلحہ مو نیچے بٹھایا اور ان کے اوپر پیر رکھ کر چٹان پر چڑھے.حضرت زبیر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ طلحہ نے اپنے اوپر جنت واجب کر لی.70 الله سة 69 اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ان کی لنگڑاہٹ دور ہو گئی پھر ایک روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت طلحہ کی ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی جس کی وجہ سے وہ صحیح چال کے ساتھ چل نہیں سکتے تھے.جب انہوں نے آنحضرت صلی علیم کو اٹھایا تو وہ بہت کوشش کر کے اپنی چال اور اپنے قدم ٹھیک رکھ رہے تھے تاکہ لنگڑاہٹ کی وجہ سے آنحضرت کو تکلیف نہ ہو.اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ان کی لنگڑاہٹ دور ہو گئی.71 عائشہ اور ام اسحاق جو حضرت طلحہ کی بیٹیاں تھیں، ان دونوں نے بیان کیا کہ احد کے دن ہمارے والد کو چو بیس زخم لگے جن میں سے ایک چوکور زخم سر میں تھا اور پاؤں کی رگ کٹ گئی تھی.انگلی شل ہو گئی تھی اور باقی زخم جسم پر تھے.ان پر غشی کا غلبہ تھا.رسول اللہ صلی للی یکیم کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے تھے آپ کا چہرہ بھی زخمی تھا.آپ پر بھی غشی کا غلبہ تھا.حضرت طلحہ آپ کو اٹھا کر ، اپنی پیٹھ پر اس طرح الٹے قدموں پیچھے ہٹے کہ جب کبھی مشرکین میں سے کوئی ملتا تو وہ اس سے لڑتے یہاں تک کہ م الله سة

Page 37

اصحاب بدر جلد 5 21 آپ کو گھاٹی میں لے گئے اور سہارے سے بٹھا دیا.یہ طبقات الکبریٰ کا حوالہ ہے.2 غزوہ احد اور جانباز اور وفادار صحابی...حضرت مصلح موعود کا بیان 72 غزوہ احد کے دن جب خالد بن ولید نے مسلمانوں پر اچانک حملہ کیا اور مسلمانوں میں انتشار پھیل گیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے جو تفصیل مختلف روایتوں سے لے کے بیان فرمائی ہے ، وہ جو پچھلے واقعات گزر چکے ہیں ان کی مزید تفصیل ہے.وہ حضرت طلحہ کی ثابت قدمی اور قربانی کے معیار کا ایک عجیب نظارہ پیش کرتی ہے.پہلے بھی اسی سے جو دیکھ چکے ہیں، سن چکے ہیں اسی سے یہ معیار نظر آرہا ہے لیکن بہر حال اس کی تفصیل کچھ اور اس طرح ہے جو آپ نے بیان فرمائی.فرماتے ہیں کہ " چند صحابہ دوڑ کر رسول اللہ صلی علی یلم کے گرد جمع ہو گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ تیں تھی.کفار نے شدت کے ساتھ اس مقام پر حملہ کیا جہاں رسول کریم صلی علیہ کم کھڑے تھے.یکے بعد دیگرے صحابہ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے.علاوہ شمشیر زنوں کے تیر انداز اونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی علیم کی طرف بے تحاشہ تیر مارتے تھے." یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن اس وقت بے تحاشا تیر مارتے تھے." اس وقت طلحہ نے جو قریش میں سے تھے اور مکہ کے مہاجرین میں شامل تھے ، یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ صلی ال نیم کے منہ کی طرف پھینک رہا ہے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی ال ولیم کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا.تیر کے بعد تیر جو نشانہ پر گرتا تھاوہ طلحہ کے ہاتھ پر گرتا تھا مگر جانباز اور وفادار صحابی اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتا تھا.اس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہ کا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بے کار ہو گیا اور صرف ایک ہی ہاتھ ان کا باقی رہ گیا.سالہا سال بعد اسلام کی چوتھی خلافت کے زمانہ میں جب مسلمانوں میں خانہ جنگی واقع ہوئی تو کسی دشمن نے طعنہ کے طور پر طلحہ ھو کہائنڈا.اس پر ایک دوسرے صحابی نے کہا ہاں منڈا ہی ہے مگر کیسا مبارک منڈا ہے.تمہیں معلوم ہے طلحہ عکا یہ ہاتھ رسول کریم ملی ایم کے منہ کی حفاظت میں ٹھنڈا ہوا تھا.احد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہ سے پوچھا کہ جب تیر آپ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اف نہیں نکلتی تھی ؟ طلحہ نے جواب دیا.درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میر اہا تھ ہل جائے اور تیر رسول اللہ کی کمی کے منہ پر آگرے." ستر زخم کھانے پر بھی آنحضرت صلی اللہ علم کے زخموں کا فکر 7311 غزوہ حمراء الاسد کے موقعے پر تعاقب میں روانہ ہوتے ہوئے آنحضرت صلی لی ایم کو حضرت طلحہ بن عبید اللہ ملے.آپ صلی علیہم نے ان سے فرمایا: طلحہ تمہارے ہتھیار کہاں ہیں ؟ حضرت طلحہ نے عرض کیا کہ قریب ہی ہیں.یہ کہہ کر وہ جلدی سے گئے اور اپنے ہتھیار اٹھا لائے حالانکہ اس وقت طلحہ کے صرف سینے پر ہی احد کی جنگ کے نو زخم تھے.ان کے جسم پر کل ملا کر ستر سے اوپر زخم تھے.حضرت طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے زخموں کی نسبت آنحضرت صلی علیم کے زخموں کے متعلق زیادہ فکر مند تھا.

Page 38

اصحاب بدر جلد 5 22 22 آنحضرت الیکم میرے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ تم نے دشمن کو کہاں دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ نشیبی علاقے میں.آپ نے فرمایا یہی میر انبھی خیال تھا جہاں تک ان کا یعنی قریش کا تعلق ہے تو آنحضرت علی ایم نے فرمایا کہ ان کو ہمارے ساتھ آئندہ کبھی اس طرح کا معاملہ کرنے کا موقع نہیں مل سکتا.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے کو ہمارے ہاتھوں سے فتح کر دے گا.74 ایک مہم پر بھیجا جانا غزوہ تبوک کے موقعے پر آنحضرت صلی اللہ ہم کو خبر ملی کہ بعض منافقین سویلم یہودی کے گھر جمع ہو رہے ہیں اور اس کا گھر جاسوم مقام کے قریب تھا.جاسوم کوہ پر جاہیم بھی کہتے ہیں.یہ شام کی سمت میں رائج کے نواح میں ابو هیشم بن تیمان کا کنواں تھا اور اس کا پانی بہت عمدہ تھا.رسول اللہ صلی علیم نے اس کا پانی پیا تھا.بہر حال وہ اس کے گھر جمع ہو رہے تھے اور وہ منافق ان لوگوں کو غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ جانے سے روک رہا تھا.رسول اللہ صلی للی نیلم نے حضرت طلحہ سمو بعض اصحاب کی معیت میں اس کی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ سویلم کے گھر کو آگ لگا دی جائے.حضرت طلحہ نے ایسا ہی کیا.ضحاك بن خلیفہ گھر کے عقب سے بھاگنے لگا.اس دوران اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور اس کے باقی اصحاب فرار ہو گئے.75 طلحہ اور زبیر جنت میں میرے دو ہمسائے 76 حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ میرے دونوں کانوں نے رسول اللہ صلی علیم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ طلحہ اور زبیر " جنت میں میرے دو ہمسائے ہوں گے.غزوہ تبوک میں پیچھے رہنے والوں میں سے ایک حضرت کعب بن مالک بھی تھے.ان کا بائیکاٹ ہوا.چالیس روز کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور معافی کا اعلان ہوا اور یہ مسجد میں آنحضرت صلی للی علم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت طلحہ نے آگے بڑھ کر حضرت کعب سے مصافحہ کیا.ان کو مبارک باد دی.سوائے حضرت طلحہ کے مجلس سے کوئی نہ اٹھا تھا.حضرت کعب کہتے ہیں کہ میں حضرت طلحہ کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا.77 حضرت سعید بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں نو لوگوں کے بارے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے بارے میں بھی یہی گواہی دوں تو گناہ گار نہیں ہوں گا.کہا گیا یہ کیسے ممکن ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ حراء پہاڑ پر تھے تو وہ ملنے لگا.اس پر آپ نے فرمایا کہ ٹھہرارہ اسے حراء ایقینا تجھ پر ایک نبی یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں.عرض کیا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ تو حضرت سعید نے کہار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد اور عبد الرحمن بن عوف ہیں.یہ نو لوگ تھے.پوچھا گیا دسویں کون ہیں ؟ تو انہوں نے تھوڑی دیر توقف کیا اور پھر حضرت سعید بن زید نے کہا کہ وہ میں ہوں.78

Page 39

اصحاب بدر جلد 5 23 حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علیؓ، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت عبد الرحمن اور حضرت سعید بن زید کا مقام ایسا تھا کہ میدانِ جنگ میں رسول اللہ صلی الیکم کے آگے آگے لڑتے تھے اور نماز میں آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے.79 رض رسول اللہ لا الم نے فرمایا جو کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ جو کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو وہ طلحہ بن عبید اللہ کو دیکھ لے.حضرت موسیٰ بن طلحہ اور حضرت عیسیٰ بن طلحہ اپنے والد حضرت طلحہ بن عبید الله سے روایت کرتے ہیں کہ اصحاب رسول صلی علیکم کہتے تھے کہ ایک اعرابی حضور صلی علیہ یکم کی خدمت میں یہ پوچھتا ہوا حاضر ہوا کہ مَنْ قَطى نَحْبَه یعنی وہ جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا، سے کون مراد ہے ؟ اعرابی نے جب آپ سے پوچھا تو آپ نے کچھ جواب نہ دیا.پھر اس نے پوچھا تو آپ نے جواب نہیں دیا.پھر اس نے پوچھا مگر پھر بھی ، تیسری دفعہ بھی آپ نے جواب نہیں دیا.پھر وہ یعنی حضرت طلحہ کہتے ہیں کہ پھر میں مسجد کے دروازے سے سامنے آیا.میں نے اس وقت سبز لباس پہنا ہو ا تھا.جب رسول اللہ صلی الم نے مجھے ، حضرت طلحہ کو دیکھا تو فرمایا کہ وہ سائل کہاں ہے جو پوچھتا تھا کہ مَنْ قَطى نَحْبَہ سے کون مراد ہے؟ اعرابی نے کہایا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں.حضرت طلحہ کہتے ہیں آپ نے میری طرف اشارہ کیا اور فرمایادیکھو یہ من قضی 80 محبة کا مصداق ہے.عبد الرحمن بن عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے ساتھ تھے.ہم لوگوں نے احرام باندھ رکھا تھا.کوئی شخص ہمارے پاس ایک پرندہ بطور ہدیہ کے لایا.حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت سو رہے تھے.ہم میں سے کچھ لوگوں نے اسے کھا لیا اور کچھ لوگوں نے اجتناب کیا.جب حضرت طلحہ بیدار ہوئے تو انہوں نے ان لوگوں سے موافقت اختیار کی جنہوں نے اسے کھالیا تھا اور فرمایا کہ ہم نے بھی حالتِ احرام میں دوسرے کا شکار نبی صلی علیم کی موجودگی میں کھالیا تھا.حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ غلام اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے جسم پر دو کپڑے دیکھے جو سرخ مٹی میں رنگے ہوئے تھے حالانکہ وہ احرام میں تھے.انہوں نے پوچھا کہ اے طلحہ ! ان دونوں کپڑوں کا کیا حال ہے یعنی یہ رنگے کیوں ہوئے ہیں ؟ انہوں نے کہا امیر المومنین ! میں نے تو انہیں مٹی میں رنگا ہے.حضرت عمرؓ نے کہا اے صحابہ کی جماعت ! تم امام ہو.لوگ تمہاری اقتدا کریں گے.اگر کوئی جاہل تمہارے جسم پر یہ دونوں کپڑے دیکھے گا تو کہے گا کہ طلحہ رنگین کپڑے پہنتے ہیں

Page 40

اصحاب بدر جلد 5 24 حالانکہ وہ حالت احرام میں ہیں.اعتراض کرے گا کہ سفید کی بجائے رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں چاہے جس چیز میں بھی تم نے مرضی رنگا ہے.ایک دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرما یا احرام باندھنے والے کے لیے سب سے اچھا لباس سفید ہے.اس لیے لوگوں کو شبہ میں نہ ڈالو.سات لاکھ درہم ایک رات میں خدا کی راہ میں تقسیم کر دئے حضرت حسنؓ سے مروی ہے کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اپنی ایک زمین حضرت عثمان بن عفان کو سات لاکھ درہم میں فروخت کی.حضرت عثمان نے یہ رقم ادا کر دی.جب حضرت طلحہ یہ رقم اپنے گھر لے آئے تو انہوں نے کہا کہ اگر کسی شخص کے پاس رات بھر اس قدر رقم پڑی رہے تو کیا معلوم اس شخص کے متعلق رات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا حکم نازل ہو جائے.زندگی موت کا کچھ پتا نہیں.چنانچہ حضرت طلحہ نے وہ رات اس طرح بسر کی کہ ان کے قاصد اس مال کو لے کر مستحقین کو دینے کے لیے مدینے کی گلیوں میں پھرتے رہے یہاں تک کہ جب صبح ہو گئی تو اس رقم میں سے ان کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا.81 ابن جریر روایت کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ حضرت عثمان سے اس وقت ملے جبکہ آپے مسجد سے باہر ہے تھے.حضرت طلحہ نے کہا کہ آپ کے پچاس ہزار درہم میرے پاس تھے وہ میں نے حاصل کر لیے ہیں.آپ انہیں وصول کرنے کے لئے کسی شخص کو میری طرف بھیج دیں.یعنی کسی وقت لیے تھے اب انتظام ہو گیا اب وہ وصول کر لیں.اس پر حضرت عثمان نے ان سے فرمایا کہ آپ کی مروت کی وجہ سے وہ ہم نے آپ کو ہبہ کر دیے ہیں.82 جنگ جمل میں شہادت حضرت طلحہ کی شہادت جنگ جمل میں ہوئی تھی.اس بارے میں روایت ہے.قیس بن ابو حازم سے مروی ہے کہ مروان بن حکم نے جنگ جمل کے دن حضرت طلحہ کے گھٹنے میں تیر مارا تو رگ میں سے خون بہنے لگا.جب اسے ہاتھ سے پکڑتے تھے تو خون رک جاتا اور جب چھوڑ دیتے تو بہنے لگتا.حضرت طلحہ نے کہا اللہ کی قسم ! اب تک ہمارے پاس ان لوگوں کے تیر نہیں آئے.پھر کہاز خم کو چھوڑ دو کیونکہ یہ تیر اللہ نے بھیجا ہے.حضرت طلحہ بن عبید اللہ جنگ جمل کے دن 10 جمادی الثانی 36 ہجری میں شہید کیے گئے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 64 سال تھی.ایک روایت کے مطابق 62 سال عمر تھی.حضرت طلحہ کی برائی کرنے والے کا عبرتناک انجام سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت علی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی برائی 83

Page 41

اصحاب بدر جلد 5 25 بیان کر رہا تھا.حضرت سعد بن مالک یعنی حضرت سعد بن ابی وقاص نے اسے منع کیا اور فرمایا کہ میرے بھائیوں کو برابھلانہ کہو.وہ نہ مانا.حضرت سعد اٹھے اور انہوں نے دور کعت نماز پڑھی.بعد اس کے دعا مانگی کہ اے اللہ ! اگر یہ باتیں جو یہ کہ رہا ہے تیری ناراضگی کا باعث ہیں تو اس پر میری آنکھوں کے سامنے کوئی بلا نازل فرما دے اور اس کو لوگوں کے لیے باعث عبرت بنادے.پس وہ شخص نکلا تو اس کا سامنا ایک ایسے اونٹ سے ہوا جو لوگوں کو چیرتا ہوا آ رہا تھا.اس اونٹ نے اس شخص کو ایک پتھر یلے میدان میں جا پکڑا اور اس شخص کو اپنے سینے اور زمین کے درمیان رکھا اور اسے پیس کر مار ڈالا.راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ حضرت سعد کے پیچھے یہ کہتے ہوئے جارہے تھے کہ اے ابو اسحاق ! آپ کو مبارک ہو.آپ کی دعا قبول ہو گئی.84 خواب میں آکر کہنا کہ میری قبر دوسری جگہ ہٹادو علی بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت طلحہ کو خواب میں دیکھا جو فرماتے ہیں کہ میری قبر دوسری جگہ ہٹا دو مجھے پانی بہت تکلیف دیتا ہے.اسی طرح پھر دوبارہ انہیں خواب میں دیکھا.غرض متواتر تین بار دیکھا تو وہ شخص حضرت ابن عباس کے پاس آیا اور ان سے اپنی خواب بیان کی.لوگوں نے جا کر انہیں دیکھا تو ان کا وہ حصہ جو زمین سے ملا ہوا تھا پانی کی تری سے سبز ہو گیا تھا.پس لوگوں نے حضرت طلحہ ھو اس قبر سے نکال کر دوسری جگہ دفن کر دیا.راوی کہتے تھے کہ گویا میں اب بھی اس کا فور کو دیکھ رہا ہوں جو ان کی دونوں آنکھوں میں لگا ہوا تھا.اس میں بالکل تغیر نہ آیا تھا.صرف ان کے بالوں میں کچھ فرق آگیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ گئے تھے.لوگوں نے حضرت ابوبکرہ کے گھر میں سے ایک گھر دس ہزار درہم پر خریدا اور اس میں حضرت طلحہ کو دفن کر دیا.85 حضرت طلحہ بن عبید اللہ کو عراق کی زمینوں سے چار اور پانچ لاکھ دینار مالیت کا غلہ ہو تا تھا.اور علاقہ سران جو جزیرہ نما عرب کے مغربی طرف شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا پہاڑی سلسلہ ہے اس کو جبل الشراء بھی کہتے ہیں وہاں سے کم از کم دس ہزار دینار کی مالیت کا غلبہ ہو تا تھا.ان کی دیگر ز مینوں سے بھی غلہ حاصل ہو تا تھا.بنو ٹیم کا کوئی مفلس ایسا نہ تھا کہ انہوں نے اس کی اور اس کے عیال کی حاجت روائی نہ کی ہو.ان کی بیواؤں کا نکاح نہ کرایا ہو.ان کے تنگ دستوں کو خادم نہ دیا ہو یعنی خدمت کرنے کے لیے تنگ دستوں کی بھی مدد کی.اور ان کے مقروضوں کا قرض نہ ادا کیا ہو ، سب کے قرض بھی ادا کیا کرتے تھے.نیز ہر سال جب انہیں غلے سے آمدنی آتی تو حضرت عائشہ کو دس ہزار درہم بھیجتے.86 حضرت معاویہ نے موسیٰ بن طلحہ سے پوچھا کہ ابو محمد یعنی حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے کتنا مال چھوڑا؟ انہوں نے کہا کہ بائیس لاکھ درہم اور دولاکھ دینار.ان کا سارا مال غلے سے حاصل ہو تا تھا جو کئی مختلف زمینوں سے آمد ہوتی تھی.87 ان کی شہادت جنگ جمل میں ہوئی.88

Page 42

اصحاب بدر جلد 5 ย 26 جنگ جمل اور اس ضمن میں بعض سوالات کا جواب حضرت عمر نے اپنی وفات سے قبل خلافت کی بابت ایک کمیٹی تشکیل دی تھی.اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ تفصیل لکھی گئی ہے کہ جب حضرت عمر کی وفات کا وقت قریب تھا تو لوگوں نے کہا امیر المومنین وصیت کر دیں.کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں.انہوں نے فرمایا میں اس خلافت کا حق دار ان چند لوگوں سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی امین یکم ایسی حالت میں فوت ہوئے کہ آپ ان سے راضی تھے اور انہوں نے یعنی حضرت عمرؓ نے پھر حضرت علی، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیر ، حضرت طلحہ، اور حضرت سعد اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کا نام لیا اور کہا کہ عبد اللہ بن عمر تمہارے ساتھ شریک رہے گا لیکن اس خلافت میں اس کا کوئی حق نہیں ہے.گویا یہ بات عبداللہ کو تسلی دینے کے لیے کہی ہے.اگر خلافت سعد کو مل گئی تو پھر وہی خلیفہ ہو.ورنہ جو بھی تم میں سے امیر بنایا جائے وہ سعد سے مد دلیتار ہے کیونکہ میں نے اس کو اس لیے معزول نہیں کیا کہ وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس لیے کہ کوئی خیانت کی تھی.نیز فرمایا میں اُس خلیفہ کو جو میرے بعد ہو گا پہلے مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق ان کے لیے ادا کریں اور ان کی عزت کا خیال رکھیں.اور میں انصار کے متعلق بھی عمدہ سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلے اپنے گھروں میں ایمان کو جگہ دی.جو ان میں سے کام کرنے والا ہو اسے قبول کیا جائے.اور میں سارے شہر کے باشندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے کی اس کو وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کے پشت پناہ ہیں اور مال کے محصل ہیں اور دشمن کے گڑھنے کا موجب ہیں.اور یہ کہ ان کی رضامندی سے ان سے وہی لیا جائے جو ان کی ضرورتوں سے بچ جائے.اور میں اس کو بد وی عربوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتاہوں کیونکہ وہ عربوں کی جڑ ہیں اور اسلام کا مادہ ہیں اور یہ کہ ان کے ایسے مالوں سے لیا جائے جو ان کے کام کے نہ ہوں.اور پھر انہی کے محتاجوں کو دے دیا جائے.اور میں اس کو اللہ کے ذمے اور اس کے رسول صلی علیم کے ذمے کرتاہوں.جن لوگوں سے عہد لیا گیا ہو ان کا عہد ان کے لیے پورا کیا جائے اور ان کی حفاظت کے لیے ان سے مدافعت کی جائے اور ان سے بھی اتنا ہی لیا جائے جتنا ان کی طاقت ہو.جب آپ فوت ہو گئے تو ہم ان کو لے کر نکلے اور پیدل چلنے لگے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے حضرت عائشہ کو السلام علیکم کہا اور کہا عمر بن خطاب اجازت مانگتے ہیں.انہوں نے کہا کہ ان کو اندر لے آؤ.چنانچہ ان کو اندر لے گئے اور وہاں ان کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھ دیے گئے.جب ان کی تدفین سے فراغت ہوئی تو وہ آدمی جمع ہوئے جن کا نام حضرت عمرؓ نے لیا تھا.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا اپنا معاملہ اپنے میں سے تین آدمیوں کے سپر د کر دو.حضرت زبیر نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عبد الرحمن بن عوف کو دیا.حضرت عبد الرحمن نے حضرت علیؓ اور حضرت عثمان سے کہا آپ دونوں میں سے جو بھی اس امر سے دستبردار ہو گا ہم اسی کے حوالے اس معاملے کو کر دیں گے اور اللہ اور اسلام اس کا نگران ہوں.اور وہ ان میں سے اسی کو تجویز کرے گا جو اس کے نزدیک افضل ہے یعنی اللہ تعالٰی کے

Page 43

اصحاب بدر جلد 5 89 27 27 نزدیک افضل ہے.اس بات نے دونوں بزرگوں کو خاموش کر دیا یعنی انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا.پھر حضرت عبد الرحمن نے کہا کیا آپ اس معاملے کو میرے سپرد کرتے ہیں اور اللہ میر انگران ہے کہ جو آپ میں سے افضل ہے اس کو تجویز کرنے کے متعلق کوئی بھی کمی نہیں کروں گا.ان دونوں نے کہا اچھا.پھر عبد الرحمن ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑ کے الگ لے گئے اور کہنے لگے آپ کا آنحضرت صلی علیہ کم سے رشتہ کا تعلق ہے اور اسلام میں بھی وہ مقام ہے جو آپ بھی جانتے ہیں.اللہ آپ کا نگران ہے.بتائیں اگر میں آپ کو امیر بناؤں تو کیا آپ ضرور انصاف کریں گے ؟ اور اگر میں عثمان کو امیر بناؤں تو آپ اس کی بات سنیں گے اور ان کا حکم مانیں گے ؟ پھر حضرت عبد الرحمن دوسرے کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی ویسے ہی کہا.جب انہوں نے پختہ عہد لے لیا تو کہنے لگے عثمان آپ اپنا ہاتھ اٹھائیں اور انہوں نے ان سے بیعت کی اور حضرت علی نے بھی ان سے بیعت کی اور گھر والے اندر آگئے اور انہوں نے بھی ان سے بیعت کی.یہ بخاری کی روایت ہے.حضرت مصلح موعود انتخاب خلافت حضرت عثمان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کا یوں ذکر فرماتے ہیں کہ : حضرت عمر جب زخمی ہوئے اور آپؐ نے محسوس کیا کہ اب آپ کا آخری وقت قریب ہے تو آپ نے چھ آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں گے.وہ چھ آدمی یہ تھے.حضرت عثمان.حضرت علیؓ حضرت عبد الرحمن بن عوف.حضرت سعد بن وقاص.حضرت زبیر اور حضرت طلحہ.اس کے ساتھ ہی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو بھی آپ نے اس مشورے میں شامل کرنے کے لیے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کے لیے صہیب کو امام الصلوۃ مقرر کیا اور مشورہ کی نگرانی مقداد بن اسوڈ کے سپر د کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازے پر پہرہ دیتے رہیں اور فرمایا کہ جس پر کثرتِ رائے سے اتفاق ہو سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبد اللہ بن عمران میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو.اگر اس فیصلے پر وہ راضی نہ ہوں تو جس طرف عبد الرحمن بن عوف ہوں وہ خلیفہ ہو.آخر پانچوں اصحاب نے مشورہ کیا.کیونکہ طلحہ اس وقت مدینہ میں نہ تھے مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا.بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ از: بولے.جب سب خاموش رہے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں.پھر حضرت عثمان نے کہا پھر باقی دونے.حضرت علی خاموش رہے.آخر انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے یعنی حضرت عبد الرحمن بن عوف فیصلے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے.انہوں نے عہد کیا اور سب کام حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سپر د ہو گیا.حضرت عبد الرحمن بن عوف تین دن مدینے کے گھر گھر گئے اور

Page 44

اصحاب بدر جلد 5 28 مر دوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کس شخص کی خلافت کے حق میں ہے ؟ سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمان کی خلافت منظور ہے.چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا اور وہ خلیفہ ہو گئے.90 یہ تاریخوں کے حوالے سے حضرت مصلح موعود کا بیان ہے.فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت طلحہ حضرت عمر کی وصیت کے وقت حاضر نہ تھے.یہ ممکن ہے کہ وہ اس وقت حاضر ہوئے جب حضرت عمرؓ کی وفات ہو چکی تھی.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت حاضر ہوئے جب مشاورت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی.ایک روایت کے مطابق جسے زیادہ درست قرار دیا گیا ہے.وہ حضرت عثمان کی بیعت کے بعد حاضر ہوئے تھے.91 رض بہر حال حضرت عثمان خلیفہ منتخب ہوئے اور پھر یہ نظام معمول پر آنے لگا.جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو تمام لوگ حضرت علی کی طرف دوڑتے ہوئے آئے جن میں صحابہ اور اس کے علاوہ تابعین بھی شامل تھے.وہ سب یہی کہہ رہے تھے کہ علی امیر المومنین ہیں یہاں تک کہ وہ آپ کے گھر حاضر ہو گئے.پھر انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں.پس آپ اپنا ہاتھ بڑھائیے کیونکہ آپ اس کے سب سے زیادہ حق دار ہیں.اس پر حضرت علی نے فرمایا یہ تمہارا کام نہیں ہے بلکہ یہ اصحاب بدر کا کام ہے جس کے بارے میں اصحاب بدر راضی ہوں تو وہ خلیفہ ہو گا.پس وہ سب اصحاب بدر حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے.پھر انہوں نے عرض کی ہم کسی کو آپ سے زیادہ اس کا حق دار نہیں دیکھتے.پس اپنا ہاتھ بڑھائیں کہ ہم آپ کی بیعت کریں.آپؐ نے فرمایا طلحہ اور زبیر کہاں ہیں ؟ سب سے پہلے آپ کی زبانی بیعت حضرت طلحہ نے کی اور دستی بیعت حضرت سعد نے کی.جب حضرت علی نے یہ دیکھا تو مسجد گئے اور منبر پر چڑھے.سب سے پہلا شخص جو آپ کے پاس او پر آیا اور انہوں نے بیعت کی وہ حضرت طلحہ تھے.سے کے پاس اوپر اور ط اس کے بعد حضرت زبیر اور باقی اصحاب نے حضرت علی کی بیعت کی.92 حضرت طلیحہ اور حضرت زبیر اور حضرت عائشہ وغیرہ نے حضرت علی کی بیعت کی تھی یا نہیں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں.یہ ذکر آپ اپنی ایک تقریر میں کر رہے ہیں جہاں خواجہ کمال الدین صاحب کے بعض اعتراضوں کے جواب میں آپ نے یہ ذکر فرمایا اور یہ ذکر بیان کرنا انتہائی ضروری ہے اس لیے میں بیان کر رہا ہوں.آپؐ ، حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ : طلحہ اور زبیر اور حضرت عائشہ کے بیعت نہ کرنے سے آپ حجت نہ پکڑیں." یعنی خواجہ صاحب کو کہہ رہے ہیں." ان کو انکارِ خلافت نہ تھا بلکہ حضرت عثمان کے قاتلوں کا سوال تھا.پھر میں آپ کو بتاؤں جس نے آپ سے کہا ہے کہ انہوں نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی وہ غلط کہتا ہے.حضرت عائشہ تو اپنی غلطی کا اقرار کر کے مدینہ جا بیٹھیں اور طلحہ اور زبیر نہیں فوت ہوئے جب تک بیعت نہ کر لی.چنانچہ چند حوالہ جات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں." خصائص کبریٰ کی جلد ثانی کا حوالہ ہے.حاکم نے روایت کی ہے.عربی حصہ ہے وہ میں چھوڑتا ہوں.ترجمہ پڑھ دیتا ہوں.

Page 45

اصحاب بدر جلد 5 29 20 " حاکم نے روایت کی ہے کہ ثور بن مجزاء نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں واقعہ جمل کے دن حضرت طلحہ کے پاس سے گزرا.اس وقت ان کی نزع کی حالت قریب تھی.مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم کون سے گروہ میں سے ہو ؟ میں نے کہا کہ حضرت امیر المومنین علی کی جماعت میں سے ہوں تو کہنے لگے اچھا اپنا ہاتھ بڑھاؤ تاکہ میں تمہارے ہاتھ پر بیعت کرلوں." چنانچہ انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی " اور پھر جان بحق تسلیم کر گئے.میں نے آکر حضرت علی سے تمام واقعہ عرض کر دیا.آپؐ سن کر کہنے لگے.اللہ اکبر !خدا کے رسول کی بات کیا سچی ثابت ہوئی.اللہ تعالیٰ نے یہی چاہا کہ طلحہ میری بیعت کے بغیر جنت میں نہ جائے.آپ عشرہ مبشرہ میں سے تھے.حضرت عائشہ کے پاس ایک دفعہ واقعہ جمل مذکور ہوا تو کہنے لگیں کیالوگ واقعہ جمل کا ذکر کرتے ہیں؟ کسی ایک نے کہا جی.اسی کا ذکر ہے.کہنے لگیں کہ کاش جس طرح اور لوگ اس روز بیٹھے رہے میں بھی بیٹھی رہتی.اس بات کی تمنا مجھے اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ میں آنحضرت صلی لی کام سے دس بچے جنتی جن میں سے ہر بچہ عبد الرحمن بن حارث بن ہشام جیسا ہو تا." پھر اگلی بات جو ہے وہ یہ ہے.اور طلحہ اور زبیر عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں جن کی بابت آنحضرت صلی الی ہم نے جنت کی بشارت دی ہوئی ہے اور آنحضرت صلی علیہ کم کی بشارت کا سچا ہونا یقینی ہے.پھر یہی نہیں بلکہ انہوں نے خروج سے رجوع اور توبہ کر لی."3" یہ حوالہ بھی حضرت مصلح موعود نے دیا.جنگ جمل دراصل مخالفین اور منافقین کی بھڑ کائی ہوئی آگ سے ہوئی حضرت عثمان کی شہادت، حضرت علی کی بیعت اور جنگ جمل کا تذکرہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ : " قاتلوں کے گروہ مختلف جہات میں پھیل گئے تھے اور اپنے آپ کو الزام سے بچانے کے لیے دوسروں پر الزام لگاتے تھے.جب ان کو معلوم ہوا کہ حضرت علی نے مسلمانوں سے بیعت لے لی ہے تو ان کو آپ پر الزام لگانے کا عمدہ موقعہ مل گیا اور یہ بات درست بھی تھی کہ آپؐ " یعنی حضرت علیؓ کے ارد گرد حضرت عثمان کے قاتلوں میں سے کچھ لوگ جمع بھی ہو گئے تھے.اس لیے ان " مخالفین کو منافقین " کو الزام لگانے کا عمدہ موقعہ حاصل تھا.چنانچہ ان میں سے جو جماعت مکہ کی طرف گئی تھی.اس نے حضرت عائشہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کا اعلان کریں.چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہ کو اپنی مدد کے لیے طلب کیا.حضرت طلحہ اور زبیر نے حضرت علی کی بیعت اس شرط پر کر لی تھی کہ وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے جلد سے جلد بدلہ لیں گے.انہوں نے " یعنی ان دونوں نے جلدی کے جو معنی سمجھے تھے.وہ حضرت علی کے نزدیک خلاف مصلحت تھے.ان کا خیال تھا کہ پہلے تمام صوبوں کا انتظام ہو جائے.پھر قاتلوں کو سزا دینے کی طرف توجہ کی جائے کیونکہ اول مقدیم اسلام کی حفاظت ہے.قاتلوں کے معاملہ میں دیر ہونے سے کوئی حرج نہیں.اسی طرح قاتلوں کی تعیین میں بھی اختلاف تھا.جو لوگ نہایت افسردہ شکلیں بنا کر سب سے پہلے حضرت علی کے پاس پہنچ گئے تھے اور اسلام میں تفرقہ ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کرتے تھے ان کی نسبت حضرت علی کو بالطبع شبہ نہ ہو تا تھا کہ یہ لوگ فساد کے بانی ہیں.ا

Page 46

اصحاب بدر جلد 5 30 دوسرے لوگ ان پر شبہ کرتے تھے.اس اختلاف کی وجہ سے طلحہ اور زبیر نے یہ سمجھا کہ حضرت علیؓ اپنے عہد سے پھرتے ہیں.چونکہ انہوں نے ایک شرط پر بیعت کی تھی اور وہ شرط ان کے خیال میں حضرت علی نے پوری نہ کی تھی اس لیے وہ شرعاً اپنے آپ کو بیعت سے آزاد خیال کرتے تھے.جب حضرت عائشہ کا اعلان ان کو پہنچا تو وہ بھی ان کے ساتھ جا ملے." یعنی حضرت عائشہ کے ساتھ " اور سب مل کر بصرہ کی طرف چلے گئے.بصرہ میں گورنر نے لوگوں کو آپ کے ساتھ ملنے سے باز رکھا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ طلحہ اور زبیر نے صرف اکراہ سے اور ایک شرط سے مقید کر کے حضرت علی کی بیعت کی ہے تو اکثر لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے.جب حضرت علی کو اس لشکر کا علم ہوا تو آپ نے بھی ایک لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے.بصرہ پہنچ کر آپ نے ایک آدمی کو حضرت عائشہ اور طلحہ اور زبیر کی طرف بھیجا.وہ آدمی پہلے حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ آپؐ کا ارادہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا ارادہ صرف اصلاح ہے اس کے بعد اس شخص نے طلحہ اور زبیر کو بھی بلوایا اور ان سے پوچھا کہ آپ بھی اسی لیے جنگ پر آمادہ ہوئے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں."جو وجہ بتائی تھی." اس شخص نے جواب دیا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح ہے تو اس کا یہ طریق نہیں جو آپ نے اختیار کیا ہے.اس کا نتیجہ تو فساد ہے.اس وقت ملک کی ایسی حالت ہے کہ اگر ایک شخص کو آپ قتل کریں گے تو ہزار اس کی تائید میں کھڑے ہو جائیں گے اور اس کا مقابلہ کریں گے تو اور بھی زیادہ لوگ ان کی مدد کے لیے کھڑے ہو جائیں گے.پس اصلاح یہ ہے کہ پہلے ملک کو اتحاد کی رسی میں باندھا جائے پھر شریروں کو سزا دی جائے ورنہ اس بدامنی میں کسی کو سزا دینا ملک میں اور فتنہ ڈلوانا ہے.حکومت پہلے قائم ہو جائے تو وہ سزا دے گی.یہ بات سن کر انہوں نے کہا کہ اگر حضرت علی کا یہی عندیہ ہے تو وہ آ جائیں ہم ان کے ساتھ ملنے کو تیار ہیں.اس پر اس شخص نے حضرت علی کو اطلاع دی اور طرفین کے قائمقام ایک دوسرے کو ملے اور فیصلہ ہو گیا کہ جنگ کرنا درست نہیں صلح ہونی چاہیے.جب یہ خبر سبائیوں کو ( یعنی جو عبد اللہ بن سبا کی جماعت کے لوگ اور قاتلین حضرت عثمان تھے) پہنچی تو ان کو سخت گھبراہٹ ہوئی.اور خفیہ خفیہ ان کی ایک جماعت مشورہ کے لیے اکٹھی ہوئی.انہوں نے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ مسلمانوں میں صلح ہو جانی ہمارے لیے سخت مضر ہو گی کیونکہ اسی وقت تک ہم حضرت عثمان کے قتل کی سزا سے بچ سکتے ہیں جب تک کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے.اگر صلح ہو گئی اور امن ہو گیا تو ہمارا ٹھکانہ کہیں نہیں.اس لیے جس طرح سے ہو صلح نہ ہونے دو.اتنے میں حضرت علی بھی پہنچ گئے اور آپ کے پہنچنے کے دوسرے دن آپؐ کی اور حضرت زبیر کی ملاقات ہوئی.وقت ملاقات حضرت علیؓ نے فرمایا کہ آپ نے میرے لڑنے کے لیے تو لشکر تیار کیا ہے مگر کیا خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لیے کوئی عذر بھی تیار کیا ہے ؟ آپ لوگ کیوں اپنے ہاتھوں سے اس اسلام کے تباہ کرنے کے درپے ہوئے ہیں جس کی خدمت سخت جانکاہیوں سے کی تھی.کیا میں آپ لوگوں کا بھائی نہیں ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ پہلے تو ایک دوسرے کا خون حرام سمجھا جاتا تھا لیکن اب حلال ہو گیا.اگر کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہوتی تو بھی بات تھی جب کوئی نئی بات پیدا نہیں ہوئی تو پھر یہ مقابلہ کیوں ہے ؟ اس پر رض

Page 47

اصحاب بدر جلد 5 31 حضرت طلحہ نے کہا وہ بھی حضرت زبیر کے ساتھ تھے." اس پر حضرت طلحہ نے کہا جو حضرت زبیر کے ساتھ تھے " کہ آپ نے حضرت عثمان کے قتل پر لوگوں کو اکسایا ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں حضرت عثمان کے قتل میں شریک ہونے والوں پر لعنت کرتا ہوں.پھر حضرت علی نے حضرت زبیر سے کہا کہ کیا تم کو یاد نہیں کہ رسول کریم علی ایم نے فرمایا تھا کہ خدا کی قسم تو علی سے جنگ کرے گا اور تو ظالم ہو گا.یہ سن کر حضرت زبیر اپنے لشکر کی طرف واپس لوٹے اور قسم کھائی کہ وہ حضرت علی سے ہر گز جنگ نہیں کریں گے اور اقرار کیا کہ انہوں نے اجتہاد میں غلطی کی.جب یہ خبر لشکر میں پھیلی تو سب کو اطمینان ہو گیا کہ اب جنگ نہ ہو گی بلکہ صلح ہو جائے گی لیکن مفسدوں کو سخت گھبراہٹ ہونے لگی اور جب رات ہوئی تو انہوں نے صلح کو روکنے کے لیے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علی کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ اور زبیر کے لشکر پر رات کے وقت شب خون مار دیا اور جو اُن کے لشکر میں تھے انہوں نے حضرت علی کے لشکر پر شب خون مار دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شور پڑ ہر دھو کا گیا اور ہر فریق نے خیال کیا کہ دوسرے فریق نے اس سے دھو کا کیا حالانکہ اصل میں یہ صرف سبائیوں کا ایک منصوبہ تھا.جب جنگ شروع ہو گئی تو حضرت علی نے آواز دی کہ کوئی شخص حضرت عائشہ کو اطلاع دے.شاید ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اس فتنہ کو دور کر دے.چنانچہ حضرت عائشہ کا اونٹ آگے کیا گیا لیکن نتیجہ اور بھی خطرناک نکلا.مفسدوں نے یہ دیکھ کر کہ ہماری تدبیر پھر الٹی پڑنے لگی.حضرت عائشہ کے اونٹ پر تیر مارنے شروع کیے.حضرت عائشہ نے زور زور سے پکار ناشروع کیا کہ اے لوگو ! جنگ کو ترک کرو.اور خدا اور یوم حساب کو یاد کرو لیکن مفسد باز نہ آئے اور برابر آپ کے اونٹ پر تیر مارتے چلے گئے.چونکہ اہل بصرہ اس لشکر کے ساتھ تھے جو حضرت عائشہؓ کے ارد گرد جمع ہو ا تھا.ان کو یہ بات دیکھ کر سخت طیش آیا اور ام المومنین کی یہ گستاخی دیکھ کر ان کے غصہ کی کوئی حد نہ رہی اور تلواریں کھینچ کر لشکر مخالف پر حملہ آور ہو گئے.اور اب یہ حال ہو گیا کہ حضرت عائشہ کا اونٹ جنگ کا مرکز بن گیا.صحابہ اور بڑے بڑے بہادر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک کے بعد ایک قتل ہو ناشر وع ہوالیکن اونٹ کی پاک انہوں نے نہ چھوڑی.حضرت زبیر تو جنگ میں شامل ہی نہ ہوئے اور ایک طرف نکل گئے مگر ایک شقی نے ان کے پیچھے سے جاکر اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے ان کو شہید کر دیا.حضرت طلحہ عین میدانِ جنگ میں ان مفسدوں کے ہاتھ سے مارے گئے.جب جنگ تیز ہو گئی تو یہ دیکھ کر کہ اس وقت تک جنگ ختم نہ ہو گی جب تک حضرت عائشہ کو درمیان سے ہٹایا نہ جائے بعض لوگوں نے آپ کے اونٹ کے پاؤں کاٹ دیے اور ہودج اتار کر زمین پر رکھ دیا.تب کہیں جا کر جنگ ختم ہوئی.اس واقعہ کو دیکھ کر حضرت علی کا چہرہ مارے رنج کے سرخ ہو گیا لیکن یہ جو کچھ ہوا اس سے چارہ بھی نہ تھا.جنگ کے ختم ہونے پر جب مقتولین میں حضرت طلحہ کی نعش ملی تو حضرت علی نے سخت افسوس کیا.ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس لڑائی میں صحابہ کا ہر گز کوئی دخل نہ تھا بلکہ یہ

Page 48

اصحاب بدر جلد 5 32 شرارت بھی قاتلان عثمان کی ہی تھی اور یہ کہ حضرت طلحہ اور زبیر حضرت علی کی بیعت ہی میں فوت ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے ارادہ سے رجوع کر لیا تھا اور حضرت علی کا ساتھ دینے کا اقرار کر لیا تھا لیکن بعض شریروں کے ہاتھوں سے مارے گئے.چنانچہ حضرت علی نے ان کے قاتلوں پر لعنت بھی کی.941 جنگ جمل اور حضرت طلحہ کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ : انبیاء جب دنیا میں آتے ہیں تو ان کے ابتدائی ایام میں جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہی بڑے سمجھے جاتے ہیں.ہر مسلمان جانتا ہے کہ رسول کریم صلی علیکم کے بعد حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت سعد اور حضرت سعید وہ لوگ تھے جو بڑے سمجھے جاتے تھے.مگر ان کے بڑے سمجھے جانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو آرام زیادہ میسر آتا تھا بلکہ ان کے بڑے سمجھے جانے کی وجہ یہ تھی کہ دین کی خاطر انہوں نے دوسروں سے زیادہ تکلیفیں برداشت کی تھیں.حضرت طلحہ رسول کریم صلی ایم کے بعد بھی زندہ رہے اور جب حضرت عثمان کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوا اور ایک گروہ نے کہا کہ حضرت عثمان کے مارنے والوں سے ہمیں بدلہ لینا چاہیے تو اس گروہ کے لیڈر حضرت طلحہ حضرت زبیر اور حضرت عائشہ تھے لیکن دوسرے گروہ نے کہا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑ چکا ہے.آدمی مرا ہی کرتے ہیں.سر دست ہمیں تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنا چاہیے تاکہ اسلام کی شوکت اور اس کی عظمت قائم ہو.بعد میں ہم ان لوگوں سے بدلے لے لیں گے.اس گروہ کے لیڈر حضرت علی تھے.یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ حضرت طلحہ ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ نے الزام لگایا کہ علی ان لوگوں کو پناہ دینا چاہتے ہیں جنہوں نے حضرت عثمان کو شہید کیا ہے اور حضرت علی نے الزام لگایا کہ ان لوگوں کو اپنی ذاتی غرضیں زیادہ مقدم ہیں.اسلام کا فائدہ ان کو مد نظر نہیں.گویا اختلاف اپنی انتہائی صورت تک پہنچ گیا اور پھر آپس میں جنگ بھی شروع ہوئی.ایسی جنگ جس میں حضرت عائشہ نے لشکر کی کمان کی.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی اس لڑائی میں شامل تھے.جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ شروع میں مخالفین میں شامل تھے.پھر حضرت زبیر تو حضرت علی کی بات سن کر علیحدہ ہو گئے تھے اور دوسرے بھی صلح کرنا چاہتے تھے لیکن پھر مخالفین جو تھے انہوں نے ، اور جو منافقین تھے یاجو فتنہ پرداز تھے انہوں نے جو اور جو پھر فتنہ ڈالا لیکن بہر حال دو گروہ تھے یہ اور لڑائی میں شامل تھے اور دونوں فریق میں جنگ جاری تھی تو ایک صحابی حضرت طلحہ کے پاس آئے اور ان سے کہا طلحہ تمہیں یاد ہے کہ فلاں موقع پر میں اور تم رسول کریم صلی ال نیم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کریم صلی الی یکم نے فرمایا تھا طلحہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم اور لشکر میں ہو گے اور علی اور لشکر میں ہو گا اور علی حق پر ہو گا اور تم غلطی پر ہو گے.حضرت طلحہ نے سنا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے کہا ہاں! مجھے یہ بات یاد آگئی ہے اور پھر اُسی وقت لشکر سے نکل کر چلے گئے.جب وہ لڑائی چھوڑ کر جارہے تھے تاکہ رسول کریم صلی علیکم کی بات پوری کی جائے تو ایک

Page 49

اصحاب بدر جلد 5 33 بد بخت انسان جو حضرت علی کے لشکر کا سپاہی تھا اس نے پیچھے سے جا کر آپ کو خنجر مار کر شہید کر دیا.حضرت علی اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے.وہ جو حضرت طلحہ کا قاتل تھا وہ اس خیال سے کہ مجھے بہت بڑا انعام ملے گا دوڑتا ہوا آیا اور اس نے حضرت علی کو کہا کہ اے امیر المومنین! آپ کو آپ کے دشمن کے مارے جانے کی خبر دیتا ہوں.حضرت علی نے کہا کون دشمن ؟ اس نے کہا اے امیر المومنین ! میں نے طلحہ کو مار دیا ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا اے شخص! میں بھی تجھے رسول کریم صلی الی یکم کی طرف سے بشارت دیتا ہوں کہ تو دوزخ میں ڈالا جائے گا کیونکہ رسول کریم صلی علیم نے ایک دفعہ فرمایا تھا جبکہ طلحہ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور میں بھی بیٹھا ہو ا تھا کہ اے طلحہ اتو ایک دفعہ حق و انصاف کی خاطر ذلت برداشت کرے گا اور تجھے ایک شخص مار ڈالے گا مگر خدا اس کو جہنم میں ڈالے گا.اس لڑائی میں جب حضرت علی اور حضرت طلحہ اور زبیر کے لشکر کی صفیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوئیں تو حضرت طلحہ اپنی تائید میں دلائل بیان کرنے لگے.یہ اس وقت سے پہلے کی بات ہے جب ایک صحابی نے انہیں حدیث یاد دلائی تھی اور وہ جنگ چھوڑ کر چلے گئے تھے.وہ دلائل بیان کر ہی رہے تھے کہ حضرت علی کے لشکر میں سے ایک شخص نے کہا اوٹنڈے چپ کر.حضرت طلحہ کا ایک ہاتھ بالکل نشل تھا وہ کام نہیں کرتا تھا.جب اس نے کہا اوٹنڈے چپ کر.تو حضرت طلحہ نے فرمایا کہ تم نے کہا تو یہ ہے کہ ٹنڈے چپ کر مگر تمہیں پتا بھی ہے کہ میں ٹنڈا کس طرح ہوا ہوں.اُحد کی جنگ میں جب مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور رسول کریم صلی علیم کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تو تین ہزار کافروں کے لشکر نے ہمیں گھیرے میں لے لیا اور انہوں نے اس خیال سے چاروں طرف سے رسول کریم ملی این ظلم پر تیر برسانے شروع کر دیے کہ اگر آپ مارے گئے تو تمام کام ختم ہو جائے گا.اس وقت کفار کے لشکر کے ہر سپاہی کی کمان محمد رسول اللہ صلی علیم کے منہ کی طرف تیر پھینکتی تھی.تب میں نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی املی کام کے منہ کے آگے کر دیا اور کفار کے لشکر کے سارے تیر میرے اس ہاتھ پر پڑتے رہے یہاں تک کہ میر اہاتھ بالکل بیکار ہو کر ٹنڈا ہو گیا مگر میں نے رسول کریم صلی علیم کے منہ کے آگے سے اپنا ہاتھ نہیں ہٹایا.5 جنگ جمل کے موقع پر ایک اور جگہ حضرت طلحہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں.کسی نے کہا کہ وہ ٹنڈ امار ا گیا.ایک صحابی نے جو اس بات کو سن رہے تھے کہا کمبخت تجھے معلوم ہے کہ وہ ٹنڈا کیسے ٹنڈا ہوا! جنگ احد کے موقع پر جب ایک غلط فہمی کی وجہ سے صحابہ کا لشکر میدان جنگ سے بھاگ گیا اور کفار کو یہ معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی علیکم صرف چند افراد کے ساتھ میدانِ جنگ میں رہ گئے ہیں تو قریباً تین ہزار کافروں کا لشکر آپ پر چاروں طرف سے امڈ آیا اور سینکڑوں تیر اندازوں نے کمانیں اٹھا لیں اور اپنے تیروں کا نشانہ رسول کریم صلی علیم کے منہ کو بنالیا تا کہ تیروں کی بوچھاڑ سے اس کو چھید ڈالیں.اس وقت وہ شخص جس نے رسول کریم صلی علی کرم کے چہرہ مبارک کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو کھڑا کیا وہ طلحہ تھا.طلحہ نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی علی یکم کے آگے کھڑا کر دیا اور ہر تیر جو گرتا تھا 95

Page 50

اصحاب بدر جلد 5 34 بجائے آپ کے چہرے پر پڑنے کے طلحہ کے ہاتھ پر پڑتا تھا.اس طرح تیر پڑتے گئے یہاں تک کہ زخم معمولی زخم نہ رہے اور زخموں کی کثرت کی وجہ سے طلحہ کے ہاتھ کے پٹھے مارے گئے اور ان کا ہاتھ مفلوج ہو گیا.تو جس کو تم حقارت کے ساتھ منڈا کہتے ہو اس کا ٹنڈا ہونا ایسی نعمت ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اس برکت کے لیے ترس رہا ہے.96 ربعی بن حِراش سے مروی ہے کہ میں حضرت علی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ عمران بن طلحہ آئے.انہوں نے حضرت علی کو سلام کیا.حضرت علی نے ان کو کہا مرحبا.عمران بن طلحہ مَرْحَبًا عمران بن طلحہ نے کہا اے امیر المومنین! آپ مجھے مرحبا کہتے ہیں حالانکہ آپ نے میرے والد کو قتل کیا اور میر امال لے لیا.حضرت علی نے کہا کہ تمہارا مال تو بیت المال میں الگ پڑا ہوا ہے.صبح کو اپنا مال لے جانا.ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں نے اسے اپنے تصرف میں اس لیے لے لیا تھا کہ لوگ اسے اُچک نہ لیں.لے نہ جائیں کہیں اور جہاں تک تمہارا یہ کہنا ہے کہ میں نے تمہارے والد کو قتل کر دیا تو میں امید کرتاہوں کہ میں اور تمہارے والد ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَ نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلَّ اِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ تَقْبِلِينَ (الجر 48) اور ہم ان کے دلوں سے جو بھی کینے ہیں نکال باہر کریں گے ، بھائی بھائی بنتے ہوئے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے.97 محمد انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جنگ جمل کے روز ایک شخص حضرت علی کے پاس آیا اور کہا طلحہ کے قاتل کو اندر آنے کی اجازت دیں.راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو کہتے سنا کہ اس قاتل کو دوزخ کی خبر سنادو.98 حضرت طلحہ کی شہادت پر حضرت علی ملکا اظہار افسوس و تعزیت حضرت طلحہ جب شہید ہوئے اور حضرت علی نے ان کو مقتول دیکھا تو ان کے ، حضرت طلحہ کے چہرے پر سے مٹی پونچھنے لگے اور فرمایا اے ابو محمد ! یہ بات مجھ پر بہت شاق ہے کہ میں تجھ کو آسمان کے تاروں کے نیچے خاک آلودہ دیکھوں.پھر حضرت علی نے یہ فرمایا کہ میں اللہ کے حضور اپنے عیوب اور دکھوں کی فریاد کرتا ہوں.پھر حضرت طلحہ کے لیے دعائے رحمت کی اور فرمایا کہ کاش میں اس دن سے ہیں سال پہلے مر گیا ہو تا.حضرت علی اور ان کے ساتھی بہت روئے.حضرت علی نے ایک مرتبہ ایک شخص کو یہ شعر پڑھتے سنا: فَتًى كَانَ يُدَنِيهِ الْغِنَى مِنْ صَدِيقِهِ إِذَا مَا هُوَ اسْتَغْنى وَيُبْعِدُهُ الْفَقْرُ وہ ایک ایسا نوجوان تھا جو دولت مندی اور غنی ہونے کی حالت میں دوستوں سے مل جل کر رہتا تھا اور محتاجی کے وقت ان سے کنارہ کشی کر تا تھا.حضرت علیؓ نے فرمایا اس شعر کے مصداق تو ابو محمد طلحہ بن عبید اللہ تھے.اللہ ان پر رحم کرے.99

Page 51

35 175 اصحاب بدر جلد 5 نام و کنیت حضرت طلیب بن عمیر ان کی کنیت ابو عیدی تھی.ان کی والدہ کا نام آڑوی تھا جو عبد المطلب کی بیٹی تھیں، جو آنحضور صلی الیم کی پھوپھی تھیں.آپ کی کنیت ابو عدی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا اور آپے ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھے.قبول اسلام اور والدہ کو بھی قبول اسلام کی کامیاب دعوت آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا جب رسول اللہ صلی این نمودار ار تم میں تھے.100 م الله ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ حضرت حلیب بن میر دارِ ارقم میں ایمان لائے تھے.پھر آپ وہاں سے نکل کر اپنی والدہ کے پاس گئے اور نہیں کہا کہ میں نے محمد صلی علیکم کی پیروی اختیار کرلی ہے اور اللہ رب العالمین پر ایمان لے آیا ہوں.آپ کی والدہ نے کہا کہ تمہاری مدد اور تعاون کے زیادہ حقدار تمہارے ماموں کے بیٹے ہی ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.انہوں نے تائید کی.بڑا اچھا کیا تم ایمان لے آئے.پھر کہنے لگیں کہ خدا کی قسم ! اگر ہم عورتوں میں بھی مردوں جیسی طاقت ہوتی تو ہم بھی ان کی پیروی ضرور کرتیں اور ان کی حمایت اور دفاع کرتیں.حضرت طالیب نے اپنی والدہ سے کہا پھر آپ اسلام قبول کر کے نبی صلی ایم کی اتباع کیوں نہیں کر لیتیں ؟ اب یہ جذبات ہیں آپ کے تو انہوں نے کہا کہ آپ کے بھائی حمزہ بھی تو مسلمان ہو چکے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں اپنی بہنوں کا رویہ دیکھ لوں پھر میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں گی.حضرت محلیب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے کہتا ہوں کہ آپ رسول اللہ صلی علیہ کم کی خدمت میں جائیں اور انہیں سلام کہیں اور ان کی تصدیق کریں اور گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدصلی اللی علم اللہ کے رسول ہیں.اس پر آپ کی والدہ کہنے لگیں کہ میں بھی گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی علیکم اللہ کے رسول ہیں.اس کے بعد وہ اپنی زبان کے ساتھ بھی آنحضور ملی تیر نیم کا دفاع کیا کرتی تھیں اور اپنے بیٹے کو بھی آپ کی مدد اور اطاعت کا کہا کرتی تھیں.101 اسلام میں سب سے پہلے جس نے کسی مشرک کو دین کی راہ میں زخمی کیا ان کے بارے میں آتا ہے کہ آپ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام میں سب سے پہلے کسی مشرک کو آنحضور صلی اللہ ظلم کی گستاخی کی وجہ سے زخمی کیا تھا.اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دفعہ عوف بن صبرة سهمی آنحضرت صلی الی یکم کو برا بھلا کہہ رہا تھا.حضرت حلیب نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھائی

Page 52

اصحاب بدر جلد 5 36 اور اسے مار کر زخمی کر دیا.کسی نے ان کے ماں اروی کو شکایت کی کہ آپ دیکھتی نہیں کہ آپ کے بیٹے نے کیا کیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ إِنَّ طَلَيْبًا نَصَرَ ابْنَ خَالِهِ وَاسَادُ فِي ذِى دَمِهِ وَمَالِه یعنی طیب نے اپنے ماموں کے بیٹے کی مدد کی ہے.اس نے اپنے خون اور اپنے مال کے ذریعہ اس کی غم خواری کی ہے.بعض کے مطابق آپ نے جس شخص کو مارا تھا اس کا نام ابو الاب بن عزیز دار ھی تھا اور بعض روایات کے مطابق وہ شخص جس کو حضرت حلیب نے زخمی کیا تھا وہ ابولہب یا ابو جہل تھا.ایک روایت کے مطابق جب آپ کے حملہ کرنے کے متعلق آپ کی والدہ سے شکایت کی گئی تو انہوں نے کہا کہ محلیب کی زندگی کا سب سے بہترین دن وہی ہے جس دن وہ اپنے ماموں کے بیٹے یعنی آنحضرت صلی کم کادفاع کرے جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کے ساتھ آیا ہے.102 حبشہ کی طرف ہجرت حضرت طليب حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں شامل تھے.لیکن جب حبشہ میں قریش کے مسلمان ہونے کی افواہ پہنچی تو کچھ مسلمان واپس مکہ تشریف لے آئے.حضرت طلیب بھی ان میں شامل تھے.103 ہجرت حبشہ ثانیہ جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے خیال میں تو بعض مورخین ہیں، سب نہیں ( جنہوں نے بیان کیا ہے) کہ ابھی ان مہاجرین کو حبشہ میں گئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اڑتی ہوئی افواہ پہنچی کہ تمام قریش مسلمان ہو گئے ہیں اور مکہ بالکل امن میں آگیا ہے.چنانچہ بعض لوگ سوچے سمجھے بغیر واپس آگئے اور پھر پتا لگا کہ خبر جھوٹی ہے.اس کی تفصیل میں چند ہفتوں پہلے خطبوں میں بیان کر چکا ہوں.بہر حال واپس آئے تو پتا لگا.جب حقیقت پتا لگی تو کچھ نے وہاں مکہ کے رئیسوں کی پناہ لی، سرداروں کی پناہ لی اور کچھ واپس چلے گئے کیونکہ وہ تو بالکل جھوٹ تھا اور کیوں یہ افواہ ہوئی تھی اس کا بیان میں پہلے بھی کر چکا ہوں اس لیے یہاں بیان کی ضرورت نہیں ہے.بہر حال جب وہ صحابہ اس وجہ سے واپس چلے گئے تھے کہ قریش کے ظلم اور ایذارسانی جو تھی وہ روز بروز بڑھ رہی تھی اور آنحضرت صلی علی کیم کے ارشاد پر اور مسلمان بھی خفیہ طور پر آہستہ آہستہ ہجرت کر رہے تھے.کہا جاتا ہے کہ مہاجرین حبشہ کی تعداد 101 تک پہنچ گئی تھی جن میں اٹھارہ خواتین بھی تھیں اور آنحضرت صلی علیم کے پاس بہت تھوڑے مسلمان رہ گئے تھے.اس واپس آنے کے بعد جو دوبارہ ہجرت کی اور اس کے بعد بھی جو مسلمان ہجرت کر کے گئے اسی ہجرت کو مورخین ہجرت حبشہ ثانیہ کہتے ہیں.104

Page 53

اصحاب بدر جلد 5 37 ہجرت مدینہ و مواخات حضرت محلیب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ نے حضرت عبد اللہ بن سلمہ عجلانی کے ہاں قیام کیا.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت حلیب اور حضرت منذر بن عمرو کے در میان عقد مواخات قائم فرمایا.حضرت حلیب نے غزوہ بدر میں شرکت کی اور آپ کا شمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے.شہادت آپ جنگ اجنادین میں شامل ہوئے جو جمادی الاولی 13 ہجری میں ہوئی اور اسی جنگ کے دوران 35 سال کی عمر میں جام شہادت جوش کیا.اجنادین شام میں واقع ایک علاقے کا نام ہے جہاں 13 ہجری میں مسلمانوں اور اہل روم کے درمیان جنگ ہوئی تھی.لیکن بعض کے مطابق آپ جنگ پر موک میں شہید ہوئے تھے.105 176 حضرت ظہیر بن رافع دو بھائی جو جنگ بدر میں شامل ہوئے ظہیر بن رافع پہلے صحابی حضرت مظہر کا جو ذکر آیا تھا، یہ ان کے بھائی تھے.حضرت ظهیر انصار 106 کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو حارثہ بن حارث سے تعلق رکھتے تھے.حضرت ظہیر بن رافع کے بیٹے کا نام اسید تھا جنہیں صحابی ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.حضرت ظهير ، رافع بن خدیج کے چچا تھے ، حضرت رافع کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں.حضرت ظهیر کی بیوی کا نام فاطمہ بنت بشر تھا جو بنو عدی بن غنم سے تھیں.حضرت مظهر بن رافع، حضرت ظهیر کے سگے بھائی تھے.دونوں بھائیوں کو غزوہ بدر میں شامل ہونے کی توفیق ملی.تھے.108 107 جو کہتے ہیں کہ نہیں یہاں یہ کہہ رہے ہیں اور اکثر تاریخیں یہ کہتی ہیں کہ دونوں بھائی شامل ہوئے بیعت عقبہ ثانیہ اور تمام غزوات میں شمولیت حضرت ظهیر بیعت عقبہ ثانیہ اور غزوہ بدر اور غزوہ احد اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آنحضرت صلی ال و نیم کے ہمراہ شریک ہوئے تھے.109

Page 54

اصحاب بدر جلد 5 زمین بٹائی پر دینے کی ممانعت 38 حضرت رافع بن خدیج اپنے چا حضرت ظهیر بن رافع سے روایت کرتے تھے کہ حضرت ظهیر نے کہا کہ رسول اللہ صلی علیم نے ہمیں ایک ایسی بات سے منع فرمایا جو ہمارے لیے فائدہ مند تھی.میں نے کہا جو رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا وہی بجا تھا.ظہیر نے کہا کہ رسول اللہ صلی الم نے مجھے بلایا.آپ نے پوچھا تم اپنے کھیتوں کو کیا کرتے ہو.میں نے کہا کہ ہم انہیں ٹھیکے پر دے دیتے ہیں.زمینیں ہیں جو ہم اس شرط پر ٹھیکے پر دے دیتے ہیں کہ جو نالیوں کے قریب پیداوار ہو وہ ہم لیں گے یعنی جو پانی کے قریب جگہ ہے وہاں اچھی فصل ہو گی وہ ہم لیں گے اور کھجور اور جو میں چند وسق کے حساب سے لیں گے.ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع اڑھائی کلو کے قریب ہوتا ہے.تو آنحضرت صلی اللہ ہم نے یہ سن کے فرمایا کہ ایسانہ کیا کرو.تم خود اس میں کاشت کرو یا ان میں کاشت کر اؤ یا انہیں خالی رہنے دو.حضرت رافع کہتے تھے کہ میں نے کہا میں نے سن لیا اور اب ایسا ہی ہو گا.110 اس کے بعد ہم خود کاشت کیا کرتے تھے یا ایسے طریقے سے لیتے تھے جہاں حق دار کو اس کا حق بھی مل جائے.111 177 حضرت عاصم بن ثابت آنحضرت علی ایم کے نامز د تیر اندازوں میں سے ایک حضرت عاصم بن ثابت آنحضرت صلی علیکم کے ایک صحابی تھے.ان کے والد تھے ثابت بن قیس اور ان کی والدہ کا نام شموس بنت ابو عامر تھا.رسول اللہ صلی علی یکم نے ان کے اور حضرت عبد اللہ بن بخش کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی.غزوہ اُحد کے موقع پر جب کفار کے اچانک شدید حملے کی وجہ سے مسلمانوں میں بھگدڑ مچی تو حضرت عاصم آنحضرت صلی علی یکم کے ساتھ ثابت قدم رہے.انہوں نے آپ صلی میڈم سے موت پر بیعت کی تھی.آنحضرت صلی اللہ ہلم کے نامز د تیر اندازوں میں یہ شامل تھے.ان کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا.جنگ بدر میں بھی شریک تھے.113 112 عاصم کے بتائے ہوئے طریق پر جنگ کرو آنحضرت صلی علیکم نے بدر والے دن صحابہ سے پوچھا کہ جب تم دشمن کے مد مقابل آؤ گے تو ان سے کیسے لڑو گے ؟ حضرت عاصم نے عرض کیا یا رسول اللہ جب کوئی قوم اتنی قریب آجائے گی کہ ان تیر پہنچ سکیں تو ان پر تیر برسائے جائیں گے.پھر جب وہ ہمارے اور قریب آجائیں کہ ان تک پتھر

Page 55

اصحاب بدر جلد 5 39 پہنچ سکیں تو ان پر پتھر پھینکتے جائیں گے.پھر آپ نے تین پتھر ایک ہاتھ میں اٹھائے اور دو دوسرے میں اور پھر کہا کہ جب وہ ہمارے اتنے قریب آجائیں کہ ہمارے نیزے ان تک پہنچ سکیں تو ان کے ساتھ نیزہ بازی کی جائے گی.پھر جب نیزے بھی ٹوٹ جائیں گے تو انہیں تلواروں کے ذریعہ قتل کیا جائے گا.اس پر رسول اللہ کی ٹیم نے فرمایا کہ اس طرح جنگ لڑی جاتی ہے.اور پھر آپ نے فرمایا کہ جو کوئی قال کرے جنگ کرے تو عاصم کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق جنگ کرے.114 آنحضرت ملا علم کی جنگوں کا دفاع ایک غیر مسلم مصنف کی زبان سے اس زمانے میں تو تیر اور نیزے اور تلواریں ہی تھیں جن سے جنگ کی جاتی تھی اور یہی جنگ کا طریق تھا بلکہ پتھر بھی استعمال کئے جاتے تھے.آجکل کی طرح نہیں کہ معصوم شہریوں پر بمباری کر کے معصوموں اور بچوں کو بھی مار دیا جائے.ایک غیر مسلم نے کتاب لکھی ہے.آنحضرت صلی اللہ وسلم کی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ تم محمد صلی یہ تم پر الزام لگاتے ہو کہ انہوں نے جنگیں کیں مگر ان کی جنگوں میں تو چند سو یا ہر ار لوگ مرے ہوں گے اور تم جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ اور انسانیت کے ہمدرد سمجھتے ہو تم نے صرف ایک جنگ میں (اس نے جنگ عظیم دوم کا حوالہ دیا کہ ) سات کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مار دیا جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی.لیکن آج بد قسمتی سے مسلمان بھی ان لوگوں سے ہی مدد لے رہے ہیں اور بلا امتیاز مسلمان مسلمانوں کا قتل کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ طریق کہ جب دشمن حملہ کرے اور دشمن قریب آئے تو اس سے جنگ کرنے کے جو مختلف طریقے ہیں.(اس پر عمل کریں) یہ خود حملہ کر رہے ہیں اور معصوموں کو مار رہے ہیں.عاصم بن ثابت نے بھی تلوار زنی میں کمال دکھایا ہے ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اُحد والے دن اپنی تلوار کے ساتھ واپس آئے جو کثرت قتال کی وجہ سے مڑ چکی تھی.حضرت علی نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ اس قابل ستائش تلوار کو رکھو.یہ میدان جنگ میں خوب کام آئی ہے.رسول اللہ صلی علیم نے ان کی یہ بات سنی.اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر تم نے آج کمال کی تلوار زنی کی ہے تو سہل بن حنیف اور ابو دجانہ اور عاصم بن ثابت اور حارث بن حمہ نے بھی تلوار زنی میں کمال دکھایا ہے.115 جنگ بدر کے ایک قیدی کو اس لئے چھوڑ دیا کہ اس نے اپنی بیٹیوں کا واسطہ دیا ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے بدر کے قیدیوں میں سے ابو عزّه عمر و بن عبد اللہ جو کہ ایک شاعر تھا، پر احسان کرتے ہوئے اسے آزاد کر دیا کیونکہ اس نے کہا تھا کہ اے محمد صلی علیکم میری پانچ بیٹیاں ہیں اور میرے علاوہ ان کا کوئی نہیں ہے.پس آپ مجھے ان کی وجہ سے بطور صدقہ آزاد کر دیں.تو رسول اللہ صلی علیم نے اسے آزاد کر دیا.اس پر ابو عزة نے کہا کہ میں آپ سے پختہ عہد کرتا ہوں کہ میں آئندہ نہ تو آپ سے جنگ کروں گا اور نہ ہی کسی کی جنگ کے لئے معاونت کروں گا.اس بات پر آپ نے

Page 56

اصحاب بدر جلد 5 40 40 اسے واپس بھجوا دیا اور بغیر کسی معاوضہ کے چھوڑ دیا.جب قریش اُحد کی طرف نکلنے لگے تو صفوان بن امیہ آیا اور اس نے اسے کہا کہ تم بھی ہمارے ساتھ نکلو.اس نے کہا کہ میں نے تو محمد صلی غلی کم سے پختہ عہد کیا ہے کہ میں کبھی بھی آپ سے جنگ نہیں کروں گا اور نہ ہی جنگ کے لئے معاونت کروں گا.انہوں نے صرف مجھ پر یہ احسان کیا ہے اور میرے علاوہ کسی پر یہ احسان نہیں کیا.تو صفوان نے اسے ضمانت دی کہ اگر وہ قتل کر دیا گیا تو اس کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں بنالے گا اور وہ زندہ رہا تو اسے مال کثیر دے گا جس سے صرف اس کا عیال ہی کھائے گا.(اسے لالچ دیا کہ تم فکر نہ کرو.جنگ میں ہمارا ساتھ دو.اگر جنگ میں قتل ہو گئے تو تمہاری بیٹیوں کو بھی بیٹیوں کی طرح رکھوں گا اور اگر بچ گئے تو بہت زیادہ مال دوں گا) اس پر ابو عزّة عرب کو بلانے اور اکٹھا کرنے نکلا.(یہی نہیں کہ خود شامل ہوا بلکہ دوسرے قبائل کو ، دوسرے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اکٹھا کرنے کے لئے نکلا) پھر قریش کے ساتھ جنگ احد کے لئے بھی نکلا اور دوبارہ پھر جنگ میں قید کیا گیا.اس کے علاوہ قریش میں سے کسی کو قید نہیں کیا گیا تھا.جب پکڑا گیا تو پوچھا گیا کہ تم نے تو عہد کیا تھا.اس نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں مجبوراً نکلا ہوں اور میری بیٹیاں ہیں.پس مجھ پر احسان کر.( دوبارہ وہی بات کی کہ میری بیٹیاں ہیں.مجھ پر احسان کرو.پہلے تو احسان کرتے ہوئے یہ چھوڑا گیا تھا اور پھر جنگ کے لئے نکلا تھا) اس پر رسول اللہ صلی امی نے فرمایا کہ تمہارا وہ عہد کہاں گیا جو تم نے میرے ساتھ کیا تھا.ہر گز نہیں.(اب یہ نہیں ہو سکتا) اللہ کی قسم ! اب تم مکہ میں یہ نہیں کہتے پھرو گے کہ میں نے دو دفعہ محمد کو ( نعوذ باللہ ) دھوکہ دیا اور بیوقوف بنایا.ایک اور روایت کے مطابق نبی کریم صلی علیم نے فرمایا یقیناً مومین ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا.پھر آپ نے حکم دیتے ہوئے عاصم بن ثابت کو کہا کہ اس کو قتل کر دو.پس عاصم آگے بڑھے اور اس کی گردن اڑا دی.116 اتنے ظلم کے بعد ، ایسی عہد شکنی کرنے کے بعد جب سزادی جاتی ہے تو پھر بھی آنحضرت صلی للی ام کی ذات پر اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے ظلم کیا.اب ہالینڈ کا سیاستدان ولڈر (Wilder) جو ہے آجکل آپ کی ذات پر بڑے بڑھ چڑھ کر حملے کر رہا ہے.اگر اس دنیا میں اپنے ملک میں بھی وہ ایسے معافی کے نمونے دکھائیں تو پھر سمجھ آئے گی کہ واقعی وہ کسی حد تک اعتراض میں جائز ہیں.لیکن ایسی مثالیں وہ کبھی پیش نہیں کر سکتے.واقعہ رجیع اور حضرت عاصم کا ذکر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرۃ خاتم النبیین صلی علیکم میں بھی کیا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ نحضرت صلی یہ کم نے ماہ صفر چار ہجری میں اپنے دس صحابیوں کی ایک پارٹی تیار کی اور ان پر عاصم بن ثابت کو امیر مقرر فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ خفیہ خفیہ مکہ کے قریب جا کر قریش کے حالات دریافت کریں اور ان کی کارروائیوں اور ارادوں سے آپ کو اطلاع دیں.لیکن ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عضل اور قارہ کے چند لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں.آپ چند آدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں جو ہمیں مسلمان بنائیں اور اسلام کی تعلیم دیں.آنحضرت صلی للی یکم ان کی یہ خواہش معلوم کر کے خوش ہوئے اور

Page 57

اصحاب بدر جلد 5 41 وہی پارٹی جو خبر رسانی کے لئے تیار کی گئی تھی ان کے ساتھ روانہ فرما دی.لیکن دراصل جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا یہ لوگ جھوٹے تھے اور بنو تختیان کی انگیخت پر مدینہ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانہ سے مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کر دیا جاوے اور بنو لحیان نے اس خدمت کے معاوضہ میں عضل اور قارہ کے لوگوں کے لئے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کئے تھے.جب عضل اور قارہ کے یہ غدار لوگ عشقان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنو لحیان کو خفیہ خفیہ اطلاع بھجوا دی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آرہے ہیں تم " ان کو قتل کرنے کے لئے " آجاؤ جس پر قبیلہ بنو لحیان کے دوسو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور مقام رجیع میں ان کو آدبایا." دس آدمی جو مسلمان تھے وہ " دو سو سپاہیوں کا کیا مقابلہ کر سکتے تھے لیکن مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کی تعلیم نہیں دی گئی تھی.فوراً یہ صحابی ایک قریب کے ٹیلہ پر چڑھ کر مقابلہ کے واسطے تیار ہو گئے.کفار نے جن کے نزدیک دھو کہ دینا کوئی معیوب فعل نہیں تھا ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پر سے نیچے اتر آؤ.ہم تم سے پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے.عاصم نے جواب دیا کہ ہمیں تمہارے عہد و پیمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے.ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اتر سکتے.اور پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا کہ اے اللہ ! تو ہماری حالت دیکھ رہا ہے.اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے.غرض عاصم اور اس کے ساتھیوں نے مقابلہ کیا.بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہوئے."117 عاصم بن ثابت کی نعش کی خدائی حفاظت آپ مزید یہ لکھتے ہیں کہ " اسی واقعہ رجیع کے ضمن میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ جب قریش مکہ کو یہ اطلاع ملی کہ جو لوگ بنو لحیان کے ہاتھ سے رجیع میں شہید ہوئے تھے ان میں عاصم بن ثابت بھی تھے تو چونکہ عاصم نے بدر کے موقعہ پر قریش کے ایک بڑے رئیس کو قتل کیا تھا اس لئے انہوں نے رجیع کی طرف خاص آدمی روانہ کئے اور ان آدمیوں کو تاکید کی کہ عاصم کا سر یا جسم کا کوئی عضو کاٹ کر اپنے ساتھ لائیں تاکہ انہیں تسلی ہو اور ان کا جذبہ انتقام تسکین پائے.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جس شخص کو عاصم نے قتل کیا تھا اس کی ماں " سلافہ بنت سعد" نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پیئے گی.لیکن خدائی تصرف ایسا ہوا کہ یہ لوگ وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ زنبوروں " بھڑوں " اور شہد کی مکھیوں کے جھنڈ عاصم کی لاش پر ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں اور کسی طرح سے وہاں سے اٹھنے میں نہیں آتے.ان لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ یہ زنبور اور مکھیاں وہاں سے اڑ جائیں مگر کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی.آخر مجبور ہو کر یہ لوگ خائب و خاسر واپس لوٹ گئے.اس کے بعد جلد ہی بارش کا ایک طوفان آیا اور عاصم کی لاش کو وہاں سے بہا کر کہیں کا کہیں لے گیا.لکھا ہے کہ عاصم نے مسلمان ہونے پر یہ عہد کیا تھا

Page 58

اصحاب بدر جلد 5 42 کہ آئندہ وہ ہر قسم کی مشرکانہ چیز سے قطعی پر ہیز کریں گے حتٰی کہ مشرک کے ساتھ چھوٹیں گے بھی نہیں.حضرت عمر کو جب ان کی شہادت اور اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو کہنے لگے کہ خدا بھی اپنے بندوں کے جذبات کی کتنی پاسداری فرماتا ہے.موت کے بعد بھی اس نے عاصم کے عہد کو پورا کروایا اور مشرکین کے مس سے انہیں محفوظ رکھا."118 آپ کو حیی الدبر بھی کہا جاتا ہے یعنی جسے بھڑوں یا شہد کی مکھیوں کے ذریعہ بچایا گیا.اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد بھی بھڑوں کے ذریعہ آپ کی حفاظت کی.حضرت عاصم اور ان کے اصحاب کی شہادت کے بعد رسول اللہ صلی الم نے مہینہ بھر نماز فجر میں قنوت فرمایا جس میں رعل ، ذکوان اور بنو تختیان پر لعنت کرتے رہے.119 ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت عاصم دشمن کے مقابلے میں تیر برساتے جاتے اور ساتھ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے کہ : الْمَوْتُ حَقٌّ وَالْحَيَوةُ بَاطِل وَكُلُّ مَا قَطَى الْإِلَهُ نَازِلُ بِالْمَرْءِ وَالْمَرْءُ إِلَيْهِ ايل یعنی موت برحق ہے اور زندگی بیکار ہے اور خدا کسی انسان کے بارے میں جو فیصلہ کرے وہی نازل ہونے والا ہے اور اس انسان کو بھی اس فیصلہ کو قبول کرنا ہو گا.جب حضرت عاصم کے تیر ختم ہو گئے تو وہ نیزے سے لڑنے لگے.نیزہ بھی ٹوٹ گیا تو تلوار نکال لی اور لڑتے لڑتے جان دے دی.120 قطعی حضرت عاصم کے ایک بیٹے محمد تھے جو کہ ہند بنت مالک کے بطن سے تھے.121 جنگ احد میں جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھے ان کے بارے میں ایک آیت کی تشریح میں حضرت خلیفہ رابع نے بھی بیان کیا ہے کہ حضرت امام رازی چودہ آدمیوں کے متعلق قو شہادت پیش کرتے ہیں کہ نام بنام وہ لوگ موجود تھے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ کسی حالت میں نہیں چھوڑا.ان کے ناموں میں جو نام درج ہیں ان میں مہاجرین میں سے حضرت ابو بکر حضرت علی شیعہ یہی کہتے ہیں صرف حضرت علی تھے لیکن حضرت ابو بکر، حضرت علیؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجرائح اور حضرت زبیر بن عوائم تھے.انصار میں سے خباب بن مندر، حضرت ابودجانہ، حضرت عاصم بن ثابت، حضرت حارث بن صمہ نہ ہیں شاید حضرت سہل بن حنیف اور اسی طرح اُسید بن حضیر بھی.حضرت سعد بن معاذ وغیرہ بھی تھے.یہ بھی ذکر آتا ہے کہ آٹھ وہ تھے جنہوں نے موت پر قسم کھائی تھی.تین مہاجرین میں سے تھے اور پانچ انصار میں سے تھے اور یہ عجیب بات ہے کہ اس وقت چونکہ رسول اللہ صلی علی یم کو اپنے خدام کی ضرورت تھی اس لئے آٹھ کے آٹھ جنہوں نے موت پر قسم کھائی تھی ان میں سے ایک بھی شہید نہیں ہوا.یہ اللہ تعالیٰ کی ان کی غیر معمولی طور پر حفاظت کا نظارہ تھا.122

Page 59

43 178 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب و کنیت حضرت عاصم بن عدی حضرت عاصم کے والد کا نام عدی تھا.ان کا تعلق قبیلہ بنو عجلان بن حارثہ سے تھا جو قبیلہ بنو زید بن 124 مالک کا حلیف تھا.حضرت عاصم بنو عجلان کے سردار اور حضرت معن بن عدی کے بھائی تھے.حضرت عاصم کی کنیت ابو بکر بیان کی جاتی ہے جبکہ بعض کے نزدیک ان کی کنیت ابو عبد اللہ ، ابو عمر اور ابو عمرو بھی تھی.حضرت عاصم میانہ قد کے تھے اور بالوں پہ مہندی لگایا کرتے تھے.حضرت عاصم کے بیٹے کا نام ابو البداح تھا.123 حضرت عاصم کی بیٹی کا نام سھلہ تھا جس کی شادی حضرت عبد الرحمن بن عوف کے ساتھ ہوئی اور ان کے اس شادی سے چار بچے تھے تین بیٹے : معن عمر ، زید اور ایک بیٹی امتہ الرحمن صغریٰ.مدینہ کے بالائی حصہ کا امیر مقرر ہونا اور اصحاب بدر میں شمار کیا جانا آنحضرت صلی ا م م ج ب بدر کی طرف روانہ ہونے لگے تو آپ صلی الم نے حضرت عاصم بن عدی کو قبا اور مدینہ کے بالائی حصہ "عالیہ" پر امیر مقرر فرمایا.ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ روحاء مقام سے رسول اللہ صلی علیم نے حضرت عاصم کو مدینہ کے بالائی حصے عالیہ پر امیر مقرر کرتے ہوئے واپس بھیج دیا.آنحضرت صلی الم نے حضرت عاصم کو واپس بھجوایا لیکن آپ کو اصحاب بدر میں شمار کیا اور ان کے لیے اموالِ غنیمت میں سے بھی حصہ مقرر فرمایا.125 سیرت خاتم النبیین میں اس واقعے کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے کہ " مدینہ سے نکلتے ہوئے آپ نے اپنے پیچھے عبد اللہ بن ام مکتوم کو مدینہ کا امیر مقرر کیا تھا.مگر جب آپ روحاء کے قریب پہنچے جو مدینہ سے 36 میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبد اللہ ایک نابینا آدمی ہیں اور لشکر قریش کی آمد آمد کی خبر کا تقاضا ہے کہ آپ کے پیچھے مدینہ کا انتظام مضبوط رہے آپ نے ابولبابہ بن منذر کو مدینہ کا امیر مقرر کر کے واپس بھجوادیا اور عبد اللہ بن ام مکتوم کے متعلق حکم دیا کہ وہ صرف امام الصلوۃ رہیں.مگر انتظامی کام ابولبابہ سر انجام دیں.مدینہ کی بالائی آبادی یعنی قباء کے لیے آپ نے عاصم بن عدی کو الگ امیر مقرر فرمایا."126

Page 60

اصحاب بدر جلد 5 44 تمام غزوات میں شرکت اور 120 سال کی عمر میں وفات حضرت عاصم غزوہ احد اور غزوہ خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ شریک ہوئے.حضرت عاصم نے 45 ہجری میں حضرت معاویہ کے دورِ حکومت میں مدینے میں وفات پائی.اس وقت ان کی عمر 115 سال تھی.بعض کے نزدیک انہوں نے 120 سال کی عمر میں وفات پائی.جب حضرت عاصم کی وفات کا وقت آیا تو ان کے گھر والوں نے رونا شروع کیا اس پر انہوں نے کہا کہ مجھے پر نہ روؤ کیونکہ میں نے تو اپنی عمر گزار لی.127 اور بہت لمبی عمر گزار لی.غزوہ تبوک کے موقعہ پر مالی قربانی رسول کریم صلی ا ہم نے جب صحابہ کرام کو غزوہ تبوک کی تیاری کے لیے حکم دیا تو آپ صلی ہی ہم نے امراء کو اللہ کی راہ میں مال اور سواری مہیا کرنے کی تحریک بھی فرمائی اور اس پر مختلف لوگوں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق قربانی پیش کی.اسی موقعے پر حضرت ابو بکر اپنے گھر کا سارا مال لے آئے جو کہ چار ہزار درہم تھے.رسول اللہ صلی العلیم نے حضرت ابو بکر سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے کہ نہیں ؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کار سول چھوڑ آیا ہوں.حضرت عمرؓ اپنے گھر کا آدھا مال لے کر آئے.آنحضرت صلی ا ہم نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ اپنے ر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑ کے آئے ہو ؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ نصف چھوڑ کے آیا ہوں.اس موقعے پر حضرت عبد الرحمن بن عوف نے ایک سو اوقیہ دیے.ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے.تو آپ صلی تعلیم نے فرمایا عثمان بن عفان اور عبد الرحمن بن عوف زمین پر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے خزانے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں.اس موقعے پر عورتوں نے بھی اپنے زیورات پیش کیے.اسی موقعے پر حضرت عاصم بن عدی، جن کا ذکر ہو رہا ہے انہوں نے ستر وسق کھجوریں پیش کیں.ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع تقریباً اڑھائی سیر کا ہوتا ہے، یا اڑھائی کلو کا تو اس طرح کھجوروں کا کل وزن 262 من بنتا ہے.128 ایک من تقریباً چالیس سیر کا پاکستان کا وزن ہے یا انتالیس کلو کا یا اڑ تیس کلو کا ہوتا ہے.بہر حال حضرت عاصم نے بھی اس موقعے پر جو ان کے پاس کھجوریں تھیں وہ پیش کیں اور بڑی مقدار میں پیش کیں.مسجد ضرار اور اس کو گرانے کا خدائی حکم حضرت عاصم بن عدی ان صحابہ میں سے تھے جنہیں آنحضرت علی ایم نے مسجد ضرار کرانے کا حکم دیا تھا.اس واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ بنو عمرو بن عوف نے مسجد قبا بنائی اور آنحضرت صلی اللہ کم کی

Page 61

اصحاب بدر جلد 5 45 طرف پیغام بھیجا کہ آپ صلی للی و کم تشریف لائیں اور اس میں نماز پڑھیں.جب بنو غنم بن عوف کے کچھ لوگوں نے اس مسجد کو دیکھا تو انہوں نے کہا کہ ہم بھی ایک مسجد بناتے ہیں جیسے بنو عمرو نے بنائی ہے تو ان کو ابو عامر و فاسق جو بڑا مخالف تھا.یہ فتنہ پیدا کرنے والا تھا.اس نے کہا کہ تم بھی ایک مسجد بناؤ اور حتی الوسع اس میں اسلحہ بھی جمع کرو.اس کی نیت یہ تھی کہ اس کو فتنے کا مرکز بنایا جائے.کہنے لگا کہ میں روم کے بادشاہ قیصر کے پاس جارہا ہوں اور وہاں سے ایک رومی لشکر لاؤں گا.پھر محمد علی لی نام اور اس کے ساتھیوں کو یہاں سے نکال دوں گا.جب مسجد مکمل ہو گئی تو ان کے لوگ آنحضرت صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم نے یہ مسجد بیماروں اور معذوروں کی آسانی کے لیے بنائی ہے کہ وہ زیادہ دور نماز پڑھنے نہیں جاسکتے اور ساتھ ہی آپ سے یہ بھی درخواست کی کہ اس مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائیں.آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ میں اس وقت سفر کی تیاری میں مصروف ہوں.سفر پہ جارہے تھے ، ان شاء اللہ جب ہم واپس آئیں گے تو میں نماز پڑھاؤں گا.یہ غزوہ تبوک کا سفر تھا.غزوہ تبوک سے واپسی پر نبی کریم صلی علیم نے مدینے سے تھوڑے فاصلے پر ایک جگہ ذی آوان، اس کے اور مدینہ کے درمیان ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے وہاں قیام فرمایا تو آپ کو مسجد ضرار کے بارے میں یہ وحی نازل ہوئی جس کا قرآن شریف میں سورہ تو بہ میں ذکر ہے کہ وَ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَ تَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ ارْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفْنَ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ (توبہ:107) اور وہ لوگ جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے شخص کو کمین گاہ مہیا کرنے کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے ہی لڑائی کر رہا ہے ایک مسجد بنائی ہے ضرور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم بھلائی کے سوا کچھ نہیں چاہتے تھے جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقینا جھوٹے ہیں.آپ صلی علی کرم نے اس کے بعد مالک بن دخشم اور معن بن عدی کو بلایا اور ان کو مسجد ضرار گرانے کا م دیا.کچھ روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عاصم بن عدی اور عمرو بن سکن اور وحشی، جس نے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا اور سوید بن عباس کو بھی آنحضرت صلی علی کریم نے اس مقصد کے لیے بھیجا.شرح زرقانی میں یہ بھی لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی سلیم نے پہلے دو افراد کو بھجوایا ہو پھر مزید چار افراد ان کی اعانت کے لیے بھجوائے ہوں.آپ صلی علیہ یکم نے انہیں مسجد ضرار کی طرف جانے کا ارشاد فرمایا کہ اسے گرا دیں اور آگ لگا دیں.یہ کہتے ہیں کہ یہ سب لوگ تیزی سے قبیلہ بنو سالم پہنچے جو کہ حضرت مالک بن دحشم کا قبیلہ تھا.حضرت مالک بن دخشم نے حضرت معن سے کہا کہ مجھے کچھ مہلت دو یہاں تک کہ میں گھر سے آگ لے آؤں.چنانچہ وہ گھر سے کھجور کی سوکھی ٹہنی کو آگ لگا کر لے آئے.پھر وہ مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد ضرار کے پاس پہنچے اور وہاں جا کر اسے آگ لگا دی اور اس کو زمین بوس کر دیا.یہ کچھ حصہ میں نے پہلے حضرت مالک بن دخشم کے ضمن میں بیان کیا تھا.بہر حال اس وقت اس مسجد کے بنانے والے وہاں موجود تھے لیکن آگ لگنے کے بعد وہ ادھر اُدھر بھاگ گئے.جب

Page 62

اصحاب بدر جلد 5 46 نبی کریم صلی علیکم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی غلی یم نے یہ مسجد والی جگہ عاصم بن عدی کو دینی چاہی کہ وہ اس جگہ کو اپنا گھر بنالیں (جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے ) لیکن عاصم بن عدی نے کہا کہ میں جگہ نہیں لوں گا.اس لیے معذرت کی کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو نازل کرنا تھا کر دیا یعنی کہ یہ تو ایسی جگہ بنی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اس کی عمارت وہاں پسند نہیں آئی تھی اس لیے میں نہیں چاہتا.آپ صلی للی یم نے اسے پھر ثابت بن اقرم کو دے دیا کیونکہ ان کے پاس کوئی گھر نہیں ہے.ہاں عاصم بن عدی نے کہا کہ میرے پاس گھر بھی ہے اور مجھے انقباض بھی ہو رہا ہے.معذرت چاہتا ہوں.بہتر یہ ہے کہ اسے ثابت بن اقرم کو دے دیں اور وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس گھر نہیں.وہ یہاں اپنا گھر بنا لیں گے.پس رسول کریم صل اللہ ہم نے وہ مسجد ، مسجد ضرار والی وہ جگہ جو کبھی ثابت بن اقرم کو دے دی.ابن اسحاق کے مطابق مسجد ضرار بنانے والے منافقین کے نام یہ ہیں.خذام بن خالد ، معتب بن قشير ، ابوحبيبة بن أزعر، عباد بن حنیف، جاریہ بن عامر اور اس کے دونوں بیٹے مجمع بن جاریہ اور زید بن جاریہ ، نفیل بن حرث ، تخرج بن عثمان ، ودیعہ.تو بہر حال یہ لوگ تھے جو ابو عامر رہب جس کا نام رسول اللہ صلی العلیم نے فاسق رکھا تھا اس کے ساتھ یہ سب ملے ہوئے تھے.9 ، 129 حضرت مسیح موعود اور جامع مسجد دہلی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک دفعہ دہلی کے سفر پر جب گئے تو دہلی کی جامع مسجد کو دیکھ کر فرمایا بڑی خوبصورت مسجد ہے لیکن فرمایا کہ "مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں." فرمایا کہ " ور نہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں." اس زمانے میں بہت ساری مساجد تھیں، ویران تھیں." رسول کریم ملی ایم کی مسجد چھوٹی سی تھی." آپ نے فرمایا " کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی " شروع میں " اور بارش کے وقت مسجد کی) چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا." فرمایا کہ " مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے.آنحضرت صلی علیہم کے وقت میں دنیا داروں نے ایک مسجد بنوائی تھی.وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرا دی گئی.اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا.یعنی ضرر رساں.اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی.مسجدوں کے واسطے حکم ہے." آپ نے فرمایا کہ مسجدوں کے واسطے یہ حکم ہے " کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں."130 پس یہ ہے مسجد کی اصل حقیقت.آج کل مسلمانوں کے ایک طبقے کا مسجدوں کی آبادی کی طرف بھی رجحان ہوا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ رجحان بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد ہوا ہے.اگر کچھ موقع پیدا ہوا، جرآت پیدا ہوئی یا عبادت کی طرف توجہ ہوئی یا ظاہری عبادت کی طرف توجہ ہوئی تو یہ بھی آپ کے دعوے کے بعد ہی ہے.لیکن اس کے باوجود بڑی توجہ سے مسجدیں بناتے ہیں اور مسجد میں بھی بڑی خوبصورت بناتے ہیں اور آج کل خاص طور پر پاکستان وغیرہ میں ان کی آبادی کی طرف بھی بعض لوگوں نے توجہ کی ہے لیکن یہ تقویٰ سے خالی مسجدیں ہیں.اللہ تعالیٰ نے مسجد

Page 63

اصحاب بدر جلد 5 47 ضرار کو گرانے کا جو حکم فرمایا تھا اس کے آگے آیات میں یہ بھی بڑا واضح فرمایا تھا کہ مسجد وہی حقیقی ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر ہو لیکن ان غیر احمدی علماء نے اپنی دانست میں تقویٰ صرف اسی بات کو سمجھ لیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف مسجدوں میں کھڑے ہو کے ہر زہ سرائی کی جائے.گندی اور غلیظ زبان آپ کے متعلق استعمال کی جائے، جماعت کو گالیاں دی جائیں اور پھر صرف یہی نہیں ہے بلکہ آئے دن یہ واقعات ہوتے ہیں کہ ان مسجدوں کی امامت اور فرقوں کے اختلاف کی وجہ سے آپس میں بھی ان کی گالم گلوچ رہتی ہے.اب تو اکثر واقعات وائرل ہوتے رہتے ہیں کہ مسجدوں میں دنگا فساد ہو رہا ہے یا ایک دوسرے کو گالیاں دی جارہی ہیں.پس یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ ان میں تقویٰ کی کمی ہے اور ان کی مساجد میں مسجد کا حقیقی جو حق ہے وہ ادا نہیں ہو رہا اور ان کے عمل جو ہیں ان سے ہم احمدیوں کو بھی سبق لینا چاہیے اور ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری مسجد میں تقویٰ کی بنیاد پر ہوں.پس ہم تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسجدوں کو آباد کرنے کے لیے آئیں.پس یہی اصل حقیقت ہے.اگر یہ قائم رہے گی اور جب تک قائم رہے گی اس وقت تک ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالی کے فضلوں کے بھی وارث بنتے رہیں گے.حضرت خلیفہ اول اس بارے میں فرماتے ہیں کہ لِمَنْ حَارَبَ اللہ اس کی تشریح فرماتے ہیں کہ : یہ ابو عامر کی طرف اشارہ ہے جو عیسائی تھا.اس کے مکروں سے ایک مکر یہ بھی تھا کہ رسول کریم اس مسجد میں نماز پڑھ لیں.پھر کچھ مسلمان ادھر بھی آجایا کریں اور اس طرح مسلمانوں کی جماعت کو توڑ لوں گا.اس ابو عامر نے اپنا ایک رویا بھی مشتہر کر رکھا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم وَحِیدًا طَرِيدًا شَرِیدا." کہ دھتکارے ہوئے (نعوذ باللہ ) تن تنہا فوت ہوں گے.نبی کریم صلی ا ہم نے " اس کی یہ بات سن کر فرمایا کہ خواب سچا ہے." یہ ٹھیک کہتا ہے.اصل میں بات یہ ہے کہ اس لیے سچا ہے کہ " اس نے اپنی حالت دیکھی ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا." آپ نے نام نہیں لیا اور اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ نام نہ لینے میں اصل میں یہ بلاغت ہے کہ آئندہ بھی اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کا انجام بھی یہی ہو گا." 131 اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی ایسے ہی دشمنوں کے انجام ہوتے چلے آرہے ہیں.2 179 حضرت عاصم بن قیس 132 حضرت عاصم بن قیس حضرت عاصم بن قیس کا تعلق انصار کے قبیلہ تغلبہ بن عمرو سے تھا.غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.3 133

Page 64

888 48 180 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت عاقل بن بکیر چار بھائی جنہوں نے اکٹھے اسلام قبول کیا، اکٹھے ہجرت کی اور چاروں بدر میں شامل حضرت عاقل کا تعلق قبیلہ بنو سعد بن لیث سے تھا.134 حضرت عاقل فضا پہلا نام تمایل تھا لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی نیلم نے ان کا نام عاقل رکھ دیا.آپ کے والد کا نام تاریخ وسیرت کی زیادہ تر کتب میں بگیر آیا ہے تاہم چند کتابوں میں ابوبگیر بھی لکھا ہے.آپ کے والد بیگیر زمانہ جاہلیت میں حضرت عمرؓ کے جد امجد نفیل بن عَبْدُ الْعُزَّى کے حلیف تھے.اسی طرح بگیر اور ان کے سارے بیٹے بنو نُفیل کے حلیف تھے.ابتدائی قبول اسلام حضرت عاقل، حضرت عامر، حضرت ایاس، اور حضرت خالد یہ چاروں بھائی بگیر کے بیٹے تھے.انہوں نے اکٹھے دارِ ارقم میں اسلام قبول کیا اور یہ سب دارِ ارقم میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے.سارا خاندان مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والا حضرت عاقل، حضرت خالد، حضرت عامر اور حضرت ایاس ہجرت کے لیے مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو انہوں نے اپنے تمام مردو زن کو اکٹھا کر کے ہجرت کی.سب عورتیں بچے وغیرہ سب نے اکٹھے ہجرت کی.یوں ان کے گھروں میں کوئی مکہ میں پیچھے باقی نہیں رہا، یہاں تک کہ ان کے دروازے بند کر دیے گئے.ان سب لوگوں نے حضرت رفاعہ بن عَبدُ الْمُنْذِر کے ہاں مدینہ میں قیام کیا.رسول اللہ صلی الم نے حضرت عاقل اور حضرت مُبشر بن عَبدُ الْمُنیر کے درمیان عقد مؤاخات قائم فرمائی، بھائی چارہ قائم فرمایا، بھائی بھائی بنایا.آپ دونوں غزوہ بدر میں شہید ہوئے تھے.ایک قول کے مطابق رسول اللہ صلی ا ولم نے حضرت عاقل اور حضرت مجدد بن زیاد کے درمیان عقد مؤاخات قائم فرمایا تھا.حضرت عاقل غزوہ بدر کے روز 34 سال کی عمر میں شہید ہوئے تھے.آپ کو مالک بن زُھیر جشمی نے شہید کیا تھا.135 چار بھائی جو جنگ بدر میں شامل ہوئے ون ابن اسحاق کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت ایاس اور ان کے بھائیوں حضرت عاقل، حضرت خالد اور

Page 65

اصحاب بدر جلد 5 49 حضرت عامر کے علاوہ کوئی بھی چار ایسے بھائی معلوم نہیں جو غزوہ بدر میں اکٹھے شریک ہوئے ہوں.حضرت بلال کی شادی.....136 زید بن اسلم سے مروی ہے کہ ابو بگیر کے لڑکے آنحضرت صلی یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ ! ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیجیے.آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ یعنی یہ جو چاروں بھائی تھے ان میں سے کچھ بھائی یا چاروں ہی آنحضرت مصلی یی کم کی خدمت میں اپنی بہن کے رشتے کے لیے حاضر ہوئے.آنحضرت صلی الی ایم نے حضرت بلال سے رشتہ کے متعلق ان سے پوچھا.تسلی نہیں تھی تو چلے گئے.وہ لوگ دوسری مرتبہ پھر آنحضرت صلی لیلی کیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ صلی یہ کم ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیں.آنحضرت صلی اللہ ہم نے پھر فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ اس بات پر وہ پھر چلے گئے.پھر وہ لوگ تیسری مرتبہ آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیجیے.آنحضرت صلی علیہ ہم نے فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ پھر مزید فرمایا کہ ایسے شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو اہل جنت میں سے ہے ؟ اس پر ان لوگوں نے حضرت بلال سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا.137 181 حضرت عامر بن امیہ ย حضرت عائشہ نے فرمایا: ” عامر کیا خوب شخص تھا.الله سة " ایک صحابی حضرت عامر بن امیہ ہیں.حضرت ہشام بن عامر کے والد تھے.بدر میں شامل تھے اور احد میں شہید ہوئے.قبیلہ بنو عدی بن نجار میں سے تھے.138 حضرت ہشام بن عامر سے روایت ہے کہ آنحضور صلی للی نام سے احد کے شہداء کو دفنانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وسیع قبر کھو دو اور دو یا تین کو ایک قبر میں اتار دو.فرمایا کہ جس کو قرآن زیادہ آتا ہو اس کو پہلے اتارو.حضرت ہشام بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد عامر بن امیہ کو دو آدمیوں سے پہلے قبر میں اتارا گیا.139 حضرت عامر کے بیٹے ہشام بن عامر ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے پاس گئے تو انہوں نے فرمایا کہ عامر کیا خوب شخص تھا.لیکن آپ کی پھر نسل نہیں چلی.140

Page 66

50 182 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عامر بن بکیر چار بھائی جو جنگ بدر میں شامل ہوئے پھر حضرت عامر بن بگیر تھے.حضرت عامر بن بگیر کا تعلق قبیلہ بنو سعد سے تھا.حضرت عامر غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور آپ کے ساتھ آپ کے بھائی حضرت ایاس بن بگیر ، حضرت عاقل بن بگیر اور حضرت خالد بن بگیر غزوہ بدر میں شامل ہوئے اور یہ سب بعد کے غزوات میں بھی شامل ہوئے.ان سب بھائیوں نے دارارقم میں اسلام قبول کیا تھا.حضرت عامر بن بگیر جنگ یمامہ والے دن شہید ہوئے.141 183 حضرت عامر بن ربیعہ ان کا خاندان حضرت عمر کے والد خطاب کا حلیف تھا جنہوں نے حضرت عامر کو متبنٰی بنایا ہوا تھا.یہی وجہ ہے کہ آپ پہلے عامر بن خطاب کے نام سے مشہور تھے لیکن جب قرآن کریم نے ہر ایک کو اپنے اصلی آباء کی طرف انتساب کا حکم دیا تو اس کے بعد عامر بن خطاب کے بجائے اپنے نسبی والد ربیعہ کی نسبت سے عامر بن ربیعہ پکارے جانے لگے.بچے adopt کرنے والوں کے لئے ایک رہنما اصول یہاں ان لوگوں کے لئے اس بات کی وضاحت ہو گئی ہے جو اپنے رشتہ داروں کے، عزیزوں کے بچے adopt کرتے ہیں اور بڑے ہونے تک ان کو یہی نہیں پتہ ہو تا کہ ان کا اصل والد کون ہے اور شناختی کارڈ وغیرہ سرکاری کاغذات وغیرہ پر بھی اصل والد کے نام کے بجائے اس والد کا نام ہو تا ہے جس نے ان کو adopt کیا ہوتا ہے.اور پھر بعد میں اس وجہ سے بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں.پھر لوگ خطوط لکھتے ہیں کہ اس طرح کر دیا جائے، اس طرح کر دیا جائے.اس لئے ہمیشہ قرآنی حکم کے مطابق عمل کرنا چاہئے سوائے ان بچوں کے جو اداروں کی طرف سے ملتے ہیں یا لئے جاتے ہیں adopt کئے جاتے ہیں اور ان کے والدین کے بارے میں بتایا نہیں جاتا.بہر حال اس وضاحت کے بعد آگے ان کے بارے میں بیان کر تاہوں.

Page 67

اصحاب بدر جلد 5 ابتدائی اسلام قبول کرنے والے 51 یہ جو بیان ہوا تھا کہ ان کے حلیف تھے اس حلیفانہ تعلق کے باعث حضرت عمر اور حضرت عامر میں آخر وقت تک دوستانہ تعلقات قائم رہے.یہ بالکل ابتداء میں ایمان لے آئے تھے.جب ایمان لائے اس وقت تک رسول کریم صلی ا ہم ابھی دارِ ارقم میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے.142 ان کی اہلیہ کو سب سے پہلے مدینہ ہجرت کرنے والی عورت کا اعزاز حاصل ہے حضرت عامر اپنی بیوی لیلی بنت ابی حقمہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے.پھر اس کے بعد مکہ لوٹ آئے.وہاں سے اپنی بیوی کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے.حضرت عامر بن ربیعہ کی اہلیہ کو سب سے پہلے مدینہ ہجرت کرنے والی عورت کا اعزاز حاصل ہے.تمام غزوات میں شامل آپ بدر اور تمام غزوات میں رسول کریم صلی علیکم کے ساتھ تھے.آپ کی وفات 32 ہجری میں ہوئی.آپ قبیلہ عنز سے تھے.حضرت عامر بیان کرتے ہیں کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص تم میں سے جنازہ کو دیکھے اور اس کے ساتھ جانانہ چاہے تو چاہئے کہ کھڑا ہو جائے یہاں تک کہ وہ جنازہ اسے پیچھے چھوڑ دے یار کھ دیا جائے.عبد اللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامر سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک رات نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے.یہ وہ زمانہ تھا کہ لوگ حضرت عثمان کی بابت اختلاف کر رہے تھے.اس وقت فتنہ کا آغاز ہو گیا تھا اور حضرت عثمان پر طعن کرتے تھے تو کہتے ہیں کہ نماز کے بعد وہ سو گئے تو خواب میں انہوں نے دیکھا کہ انہیں کہا گیا کہ اٹھ اور اللہ سے دعا مانگ کہ تجھے اس فتنہ سے نجات دے جس سے اس نے اپنے نیک بندوں کو نجات دی ہے.چنانچہ حضرت عامر بن ربیعہ اٹھے اور انہوں نے نماز پڑھی اور بعد اس کے اسی حوالے سے دعامانگی.چنانچہ اس کے بعد وہ بیمار ہو گئے اور پھر وہ خود گھر سے نہیں نکلے.ان کا جنازہ ہی نکلا.143 اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے فتنہ سے بچنے کی یہ صورت بنائی.حضرت عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ میں طواف کے دوران رسول کریم صلی الی ایم کے ساتھ تھا رسول کریم صلی اللی کم کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا.میں نے عرض کی یارسول اللہ مجھے دیں میں ٹھیک کر دیتا ہوں.144 رسول کریم صلی علیم نے فرمایایہ ترجیح دینا ہے اور میں ترجیح دیئے جانے کو پسند نہیں کرتا.اس حد تک آنحضرت صلی ام اس بات پر particular تھے کہ اپنے کام خود کرتے ہیں.

Page 68

اصحاب بدر جلد 5 52 52 خدا تعالیٰ کے خوف اور خشیت کی یہ حالت تھی ان چمکتے ہوئے ستاروں کی ایک شخص حضرت عامر بن ربیعہ کا مہمان بنا انہوں نے اس کی خوب خاطر تواضع کی اور اکرام کیا اور ان کے بارے میں حضور صلی ال کلم سے سفارش کی بات کی.وہ آدمی حضور صلی علیکم کے پاس سے حضرت عامر کے پاس آیا اور کہا میں نے حضور عملی ٹیم سے ایک ایسی وادی بطور جاگیر مانگی تھی کہ پورے عرب میں اس سے اچھی وادی نہیں ہے اور آنحضرت صلی للہ تم نے مجھے وہ عطا فرما دی ہے.اب میں چاہتا ہوں کہ اس وادی کا ایک ٹکڑہ آپ کو دے دوں جو آپ کی زندگی میں آپ کا ہو اور آپ کے بعد آپ کی اولاد کے لئے ہو.حضرت عامر نے کہا کہ مجھے تمہارے اس ٹکڑے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جس نے ہمیں دنیا ہی بھلا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ (الانبياء :2) 145 کہ لوگوں کے لئے ان کا حساب قریب آگیا ہے اور وہ باوجود اس کے غفلت کی حالت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ کے خوف اور خشیت کی یہ حالت تھی ان چپکتے ہوئے ستاروں کی.اور یہی وہ لوگ تھے جو حقیقی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے تھے.اگر تمہیں ان کا عہد نصیب ہو جائے تو میر اسلام پیش کرنا حضرت عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ زید بن عمرو نے کہا میں نے اپنی قوم کی مخالفت کی.ملت ابراہیمی کی اتباع کی.مجھے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک نبی کے ظہور کا انتظار تھا جن کا اسم گرامی احمد ہو گا.لیکن یوں لگتا ہے کہ میں انہیں پا نہ سکوں گا.میں ان پر ایمان لاتا ہوں ان کی تصدیق کرتا ہوں.میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ نبی ہیں.میں تمہیں ان کی ایسی علامات بتاتا ہوں کہ وہ تمہارے لئے مخفی نہیں رہیں گے.وہ نہ طویل قامت ہیں، نہ ہی پست قامت.ان کے بال نہ کثیر ہوں گے ، نہ قلیل.ان کی آنکھوں میں سرخی ہر وقت رہے گی.ان کے کندھوں کے مابین مہر نبوت ہو گی.ان کا نام احمد ہو گا.یہ شہر مکہ ان کی جائے ولادت اور بیعت کی جگہ ہو گی.پھر ان کی قوم انہیں یہاں سے نکال دے گی.وہ ان کے پیغام کو نا پسند کرے گی.پھر وہ یثرب کی طرف ہجرت کریں گے.پھر ان کا امر غالب آجائے گا.ان کی وجہ سے دھو کہ میں نہ پڑنا.میں نے دین ابراہیمی کی تلاش میں سارے شہر چھان مارے ہیں.میں نے یہودیوں، عیسائیوں اور آتش پرستوں سب سے پوچھا ہے.انہوں نے بتایا ہے کہ یہ دین تمہارے پیچھے ہے.انہوں نے مجھے وہی علامات بتائیں جو میں نے تمہیں بتائی ہیں.انہوں نے بتایا ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.حضرت عامر نے کہا جب رسول اکرم صلی یکم مبعوث ہوئے تو میں نے آپ صلی یی کم کو زید کے بارے میں بتایا.آپ صلی ایم نے فرمایا میں نے اسے جنت میں دیکھا ہے وہ اپنا دامن گھسیٹ رہا تھا.146

Page 69

اصحاب بدر جلد 5 53 یہ جو روایت ہے کہ نبی نہیں آئے گا.اس سے یہ بھی مراد نہیں ہے کہ آنحضرت علی نے انتی بی کی جو پیشگوئی کی تھی وہ غلط ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہی آخری شرعی نبی ہیں اور کوئی نئی شریعت نہیں آئے گی اور جو بھی آنے والا آئے گا آپ کی غلامی میں ہی آئے گا.یہی ہمیں احادیث سے اور قرآن کریم سے بھی پتہ لگتا ہے.رسول کریم صلی الم نے حضرت عامر کی حضرت یزید بن منذر سے مواخات قائم فرمائی تھی.147 حضرت عامر بن ربیعہ نے حضرت عثمان کی شہادت کے چند دن بعد وفات پائی.148 آپ کے والد کا نام ربیعہ بن کعب بن مالک بن ربیعہ تھا.آپؐ سے بعض روایات بھی ملتی ہیں.عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ اپنی والدہ حضرت ام عبد اللہ لیلیٰ بنت ابو حنتمہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم حبشہ کی طرف کوچ کرنے والے تھے اور عامر بن ربیعہ ہمارے کسی کام کے سلسلہ میں کہیں گئے ہوئے تھے کہ حضرت عمر جو کہ ابھی حالت شرک میں تھے وہاں آ نکلے اور میرے سامنے کھڑے ہو گئے اور ہمیں ان سے سخت تکلیف اور سختیاں پہنچی تھیں.حضرت عمرؓ نے مجھ سے کہا.اے ام عبد اللہ ! کیا روانگی ہے ؟ میں نے کہا ہاں اللہ کی قسم ! ہم اللہ کی زمین میں جاتے ہیں یہاں تک کہ اللہ ہمارے لیے کشادگی پیدا کر دے.تم لوگوں نے ہمیں بہت دکھ دیا ہے اور ہم پر بہت سختیاں کی ہیں.اس پر حضرت عمر نے ان سے کہا.اللہ تمہارا نگہبان ہو ! وہ کہتی ہیں کہ میں نے اس دن حضرت عمر کی آواز میں وہ رقت دیکھی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی.اس کے بعد حضرت عمر وہاں سے چلے گئے اور ان کو ہمارے کوچ کرنے نے غمگین کر دیا تھا.وہ کہتی ہیں کہ اتنے میں حضرت عامر اپنے کام سے فارغ ہو کر واپس آگئے تو میں نے ان سے کہا اے ابو عبد اللہ ! کیا آپ نے ابھی عمر اور ان کی رفت اور دکھ کو دیکھا.بتایا ہو گا انہوں نے.حضرت عامر نے جواب دیا کہ کیا تو اس کے مسلمان ہونے کی خواہشمند ہے ؟ وہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا ہاں.اس پر حضرت عامر نے کہا.خطاب کا گدھا مسلمان ہو سکتا ہے مگر وہ شخص جس کو تو نے ابھی دیکھا ہے یعنی حضرت عمرؓ وہ اسلام نہیں لا سکتا.حضرت لیلیٰ کہتی ہیں کہ حضرت عامر نے یہ بات اُس نا امیدی کی وجہ سے کہی تھی جو ان کو حضرت عمر کے اسلام کی مخالفت اور سختی کی وجہ سے پید اہو گئی تھی.140 رض حضرت عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سریہ نخلہ جس کا نام سر یہ عبد اللہ بن جحش بھی ہے، یہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے اس پر روانہ فرمایا اور ہمارے ساتھ حضرت عمرو بن سراقہ بھی تھے اور وہ ہلکے پیٹ والے اور لمبے قد والے تھے.راستے میں ان کو شدید بھوک لگی جس کی وجہ سے وہ دہرے ہو گئے اور ہمارے ساتھ چلنے کی استطاعت نہ رکھ سکے اور گر پڑے.بھوک کی یہ حالت تھی.ہم نے ایک پتھر کا

Page 70

54 اصحاب بدر جلد 5 ٹکڑا لے کر ان کے پیٹ پر رکھ کر ان کی کمر کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا.پھر وہ ہمارے ساتھ چل پڑے.ہم ایک عرب قبیلے کے پاس پہنچے جنہوں نے ہماری ضیافت کی.اس کے بعد آپ چل پڑے اور کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ انسان کی ٹانگیں اس کے پیٹ کو اٹھائے ہوئے ہوتی ہیں حالانکہ اصل میں انسان کا پیٹ اس کی ٹانگوں کو اٹھائے ہوئے ہوتا ہے.150 151 جب بھوک کی حالت ہو، فاقہ زدگی ہو، کمزوری ہو پھر انسان چل بھی نہیں سکتا.حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر حضرت عامر بن ربیعہ اور حضرت سہل بن حنیف کو جاسوسی کے لیے روانہ فرمایا.18 ہجری میں جنگ ذات السلاسل میں حضرت عامر بن ربیعہ بھی شامل تھے اور اس میں آپ کے بازو پر تیر لگا جس کی وجہ سے آپ زخمی ہو گئے.152 عبد اللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامر بن ربیعہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے تو آپ نے استفسار فرمایا کہ یہ کس کی قبر ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ فلاں عورت کی قبر ہے.آپ نے فرمایا: تم نے مجھے کیوں اطلاع نہیں دی ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ سورہے تھے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ آپ کو جگائیں.اس پر اوپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسانہ کرو.مجھے اپنے جنازوں کے لیے بلایا کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں صفیں بنوائیں اور اس کی نماز جنازہ ادا کی.153 وہیں قبر کے عبد اللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عامر بن ربیعہ نے بتایا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کسی سریہ میں روانہ فرماتے تھے تو ہمارے پاس زادِ راہ صرف کھجور کا ایک تھیلا ہو تا تھا.امیر لشکر ہمارے درمیان ایک مٹھی بھر کھجور تقسیم کر دیتے تھے اور آہستہ آہستہ ایک ایک کھجور کی نوبت آجاتی تھی پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہونے لگتی تھی تو سفر میں پھر ایک کھجور ایک آدمی کو ملا کرتی تھی.حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا.ابا جان ! ایک کھجور کیا کفایت کرتی ہو گی ؟ اس سے پیٹ کیا بھر تا ہو گا ؟ انہوں نے کہا پیارے بیٹے ! ایسانہ کہو کیونکہ اس کی اہمیت ہمیں اس وقت معلوم ہوتی جب ہمارے پاس وہ بھی نہ ہوتی تھی.154 یہ تو جو فاقے میں ہو اس سے پوچھو کہ ایک کھجور کی بھی کیا اہمیت ہے.جب حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں خیبر کے علاقے سے یہود کو نکال دیا تو وادی قری کی زمینیں آپؐ نے جن لوگوں میں تقسیم فرمائیں ان میں حضرت عامر بن ربیعہ بھی تھے.155 حضرت عمر جب جابیہ تشریف لے گئے ، یہ دمشق کے مضافات کی ایک بستی ہے ، تو حضرت عامر

Page 71

اصحاب بدر جلد 5 55 آپ کے ساتھ تھے.ایک روایت کے مطابق اس میں حضرت عمر کا جھنڈ ا حضرت عامر کے پاس تھا.اسی طرح حضرت عثمان جب حج پر تشریف لے گئے تو انہوں نے حضرت عامر گو مدینہ میں اپنا قائمقام مقرر فرمایا.156 امیر مقامی مقرر فرمایا.حضرت عامر بن ربیعہ کی وفات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے.بعض کے نزدیک آپ کی وفات حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں ہوئی اور بعض کے مطابق 132 ہجری میں ہوئی جبکہ بعض کے نزدیک 133 ہجری میں ہوئی.بعض کے نزدیک 136 ہجری میں اور بعض کے نزدیک 137 ہجری میں ہوئی.علامہ ابن عساکر کے نزدیک 132 ہجری والی روایت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے.157 آپ کی وفات کے بارے میں روایت میں یہ بھی بیان ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد آپ اپنے گھر میں رہا کرتے تھے یہاں تک کہ لوگوں کو آپ کے بارے میں کوئی خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ جب آپ کا جنازہ گھر سے نکلا.158 عبد اللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے بنو فزارہ کی ایک عورت سے دو جوتے حق مہر پر نکاح کر لیا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو جائز قرار دیا.یعنی یہ معمولی ساجو حق مہر تھاوہ مقرر کیا تو وہ بھی جائز ہے.59 عبد اللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے سفر میں اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر رات کو نفل پڑھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف منہ کیے ہوئے تھے جس طرف اونٹنی آپ کو لیے جارہی تھی.160 سفر میں جدھر بھی سواری کا منہ ہو اس طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز ہے حضرت عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اندھیری رات میں سفر میں تھا.ہم ایک مقام پر اترے تو ایک شخص نے پتھر اکٹھے کیے اور نماز کے لیے جگہ بنائی اور اس میں نماز پڑھی.صبح معلوم ہوا کہ ہمار ا رخ غیر قبلہ کی طرف تھا.قبلے سے الٹا تھا.ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! ہم نے رات کو قبلے سے ہٹ کر نماز پڑھی ہے.اس پر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی.وَلِلهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وجه الله (القر :116) کہ اور اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اور مغرب بھی.پس جس طرف بھی تم منہ پھیر دو ہیں خدا کا جلوہ پاؤ گے.161 یعنی اگر غلط فہمی سے ہو گیا تو کوئی ہرج نہیں ہے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھانے کے لیے ویسے پڑھ کر سنائی ہو.ضروری نہیں ہے کہ اس وقت نازل ہوئی ہو.بہر حال یہ روایت حلیۃ الاولیاء کی ہے.

Page 72

اصحاب بدر جلد 5 56 حضرت عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مجھ پر ایک مر تبہ درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجتا ہے.پس اب تمہاری مرضی ہے کہ مجھ پر کم درود بھیجو یازیادہ درود بھیجو.ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی بندہ مجھ پر سلامتی کی دعا کرتا ہے تو جب تک وہ اسی حالت میں ہوتا ہے فرشتے اس پر سلامتی کی دعا کرتے ہیں.پس بندے کے اختیار میں ہے چاہے تو زیادہ مرتبہ سلامتی کی دعا کرے اور چاہے تو کم.2 162 184 حضرت عامر بن سلمہ حضرت عمر و بن سلمہ حضرت عامر بن سلمہ کو عمرو بن سلمہ بھی کہا جاتا ہے.ان کا تعلق قبیلہ بلی سے تھا.بلی عرب کے ایک قدیم قبیلہ قضاعہ کی ایک شاخ ہے جو یمن کے علاقے میں واقع ہے.اسی نسبت سے انہیں عامر بن سلمہ بلوی " بھی کہا جاتا ہے.حضرت عامر انصار کے حلیف تھے.حضرت عامر بن سلمہ کو غزوہ بدر اور احد میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.13 163 185 حضرت عامر بن فهيرة ย ”اسلام کی تاریخ کے بعض اہم واقعات میں بھی ان کا کردار ہے“ آج میں حضرت عامر بن فهيدہ کا ذکر کروں گا اور ان کا کافی لمباذ کر تاریخ میں ملتا ہے.اسلام کی تاریخ کے بعض اہم واقعات میں بھی ان کا کردار ہے.انہیں ان کا حصہ بننے کی توفیق ملی.اور وہ واقعات ایسے ہیں جن کی تفصیل بیان کرنا بھی ضروری ہے.نام و نسب و کنیت ان کی کنیت ابو عمرو تھی اور قبیلہ آزد سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اخیافی بھائی تطفیل بن عبد اللہ بن سخبرہ کے غلام تھے.یہ بھی سیاہ فام غلام تھے.اخیافی بھائی وہ ہوتے ہیں جوماں کی طرف سے بھائی ہوں.باپ مختلف تھے.

Page 73

اصحاب بدر جلد 5 49 57 ابتدائی اسلام قبول کرنے اور اسلام کی خاطر تکالیف اٹھانے والے آپ اسلام لانے والے سابقین میں شامل تھے.پہلے اسلام لانے والوں میں شامل تھے.رسول اللہ صلی علی یم کے دار ارقم میں جانے سے قبل اسلام لا چکے تھے اور حضرت ابو بکر کی بکریاں چرایا کرتے تھے.اسلام لانے کے بعد کافروں کی طرف سے آپ کو بڑی تکالیف پہنچائی گئیں.پھر حضرت ابو بکر نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا.غار ثور میں قیام کے وقت یہ وہاں بکریاں چرایا کرتے ہجرت مدینہ کے وقت جب رسول اللہ صلی علی یکم اور حضرت ابو بکر غار ثور میں تھے تو آپ حضرت ابو بکر کی بکریاں چراتے تھے.حضرت ابو بکڑ نے انہیں حکم دیا تھا کہ بکریاں ہمارے پاس لے آیا کرنا.پس آپ سارا دن بکریاں چراتے تھے اور شام کو حضرت ابو بکر کی بکریاں غار ثور کے قریب لے جاتے تھے.تو آپ دونوں اصحاب خود بکریوں کا دودھ دوہ لیتے تھے یعنی آنحضرت صلی ا یم اور ابو بکر.جب عبد اللہ بن ابی بکر ان دونوں یعنی آنحضرت صلی علیہ ظلم اور حضرت ابو بکر کے پاس جاتے تھے تو حضرت عامر بن فهيره ان کے پیچھے پیچھے جاتے تھے تاکہ ان کے قدموں کے نشان مٹ جائیں.پتہ نہ لگے کہ حضرت ابو بکر کے بیٹے کہاں جارہے ہیں، کفار کو کسی قسم کا شک نہ پڑے.آنحضرت علی ایم کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت جب رسول اللہ صلی ا ولم اور حضرت ابو بکر غار ثور سے نکل کر مدینہ کو روانہ ہوئے تو اس وقت حضرت عامر بن فہیرہ نے بھی ان کے ساتھ ہجرت کی.حضرت ابو بکر نے ان کو اپنے پیچھے بٹھا لیا تھا.اس وقت ان کو راستہ دکھانے والا بنُو الدِّيْل کا ایک مشرک شخص تھا.4 مواخات اور شہادت تیل 164 رسول اللہ صلی الم نے ہجرت کے بعد حضرت عامر بن فہیرہ اور حضرت حارث بن اوس بن مُعاذ کے درمیان مواخات قائم کروائی تھی.حضرت عامر بن فهيدہ غزوہ بدر اور احد میں شریک تھے اور بئر معونہ کے موقع پر چالیس سال کی عمر میں ان کی شہادت ہوئی.165 حضرت ابو بکڑ نے ہجرت سے قبل سات ایسے غلاموں کو آزاد کروایا تھا جن کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف دی جاتی تھی جن میں سے ایک حضرت بلال تھے اور حضرت عامر بن فهيدہ بھی شامل تھے.166 ہجرت مدینہ اور حضرت عائشہ کی بیان کردہ کچھ تفصیل ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن ہم حضرت ابو بکر کے گھر ٹھیک دوپہر کے وقت بیٹھے ہوئے تھے، یعنی اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے.کسی کہنے والے نے

Page 74

اصحاب بدر جلد 5 58 حضرت ابو بکر سے کہا کہ رسول اللہ صلی علی یم اپنے سر پر کپڑا اوڑھے ہوئے آرہے ہیں.آپ ایسے وقت آئے کہ جس میں آپ ہمارے پاس نہیں آیا کرتے تھے.حضرت ابو بکر نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ! خدا کی قسم آپ جو اس وقت تشریف لائے ہیں تو ضرور کوئی بڑا کام ہے.کہتی تھیں اتنے میں رسول اللہ صلی علی یم پہنچ گئے اور جب آپ پہنچے تو اندر آنے کی اجازت مانگی.حضرت ابو بکر نے اجازت دی.آپ اندر آئے.نبی صلی العلیم نے حضرت ابو بکر سے کہا جو تمہارے پاس ہیں انہیں باہر بھیج دو.حضرت ابو بکر نے کہا یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان اگھر میں تو صرف آپ ہی کے گھر والے ہیں یعنی عائشہ اور ان کی والدہ ام رومان.تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کرنے کی اجازت مل گئی ہے.حضرت ابو بکر نے کہا یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلئے.تو رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا کہ ہاں تم بھی میرے ساتھ چلو.پھر حضرت ابو بکر نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ! ساتھ چلنا ہے تو پھر میری ان دو سواری کی اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیجئے.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ میں قیمتاًلوں گا.حضرت عائشہ کہتی تھیں چنانچہ ہم نے جلدی سے دونوں کا سامان تیار کر دیا اور ہم نے ان کے لئے توشہ تیار کر کے چمڑے کے تھیلے میں ڈال دیا.حضرت ابو بکر کی بیٹی حضرت اسماء نے اپنے کمر بند سے ایک ٹکڑہ کاٹ کر تھیلے کے منہ کو اس سے باندھا اس لئے ان کا نام ذات النطاق ہو گیا.کہتی تھیں کہ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی ال یکم اور حضرت ابو بکر ثور پہاڑ کے ایک غار میں جا پہنچے اور اس میں تین راتیں چھپے رہے.حضرت عبد اللہ بن ابو بکر ان دونوں کے پاس جا کر رات ٹھہرتے اور اس وقت وہ چالاک اور ہوشیار جوان تھے یعنی کہ اچھی ہوش و حواس میں تھے اور اندھیرے میں ہی ان کے پاس سے چلے آتے تھے.صبح صبح اند میرے منہ ہی واپس آ جاتے تھے اور مکہ میں قریش کے ساتھ ہی صبح کرتے تھے جیسے وہیں رات گزاری ہے.جو تدبیر بھی ان کے متعلق یعنی کفار کے متعلق سنتے وہ اس کو اچھی طرح سمجھ لیتے اور جب اندھیرا ہو جاتا تو غار میں پہنچ کر ان کو بتادیتے.مکہ میں جو سارا دن رہتے تھے تو کفار کے جو بھی منصوبے تھے وہ شام کو آپ کو بتایا کرتے تھے.حضرت ابو بکر کا غلام عامر بن فهيره بکریوں کے ریوڑ میں سے ایک دودھیل بکری ان کے پاس چرا تارہتا اور جب عشاء کے وقت سے کچھ گھڑی گزر جاتی تو وہ بکری ان کے پاس لے آتا اور وہ دونوں تازہ دودھ پی کر رات گزارتے.اور یہ دودھ ان دونوں کی دود ھیل بکری کا ہوتا.عامر بن فهيدہ رات کے پچھلے پہر گلے میں چلا جاتا اور بکریوں کو آواز دینا شروع کر دیتا.تین رات تک وہ ایسا ہی کرتا رہا.اور رسول اللہ صلی املی کم اور حضرت ابو بکر نے بنو دیل کے قبیلے کے ایک شخص کو راستہ بتانے کے لئے اجرت پر رکھ لیا تھا اور وہ بنو عبد بن عدی سے تھا.بہت ہی واقف کار راستہ بتانے کا ماہر تھا.اس شخص نے عاص بن وائل کے خاندان کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لئے اپنا ہاتھ ڈبویا تھا اور وہ کفار قریش ہی کے مذہب پر تھا.آنحضرت صلی علی کم اور حضرت ابو بکر دونوں نے اس پر اعتبار کیا.گوہ کافر تھا اور قریش کا ہی زیادہ پر وردہ بھی تھا لیکن بہر حال آپ نے اس پہ اعتبار کیا اور اپنی سواری کی

Page 75

اصحاب بدر جلد 5 59 59 اونٹنیاں اس کے سپرد کر دیں اور اس سے یہی وعدہ ٹھہرایا کہ وہ تین دن کے بعد صبح کے وقت ان کی اونٹنیاں لے کر غار ثور پر پہنچے گا.عامر بن فہیرہ اور رہبر ان دونوں کے ساتھ چلے.وہ رہبر ان تینوں کو سمندر کے کنارے کے راستے سے لے کر چلا گیا.یہ بخاری کی روایت ہے.17 ہجرت مدینہ اور سراقہ کا تعاقب 167 سراقہ بن مالک بن جعشم کہتے تھے کہ ہمارے پاس کفار قریش کے ایچی آئے جو رسول اللہ صلی الیکم اور حضرت ابو بکر ان دونوں میں سے ہر ایک کی دیت مقرر کرنے لگے اس شخص کے لئے جو ان کو قتل کرے یا قید کرے.اسی اثناء میں کہ میں اپنی قوم بنو منبج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہو ا تھا کہ ان میں سے ایک شخص سامنے سے آیا.یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ کس طرح پکڑا جائے یا قتل کیا جائے.آنحضرت صلی الیکم پر ، حضور پر کس طرح حملہ کیا جائے.کہتے ہیں یہ باتیں ہماری مجلس میں ہو رہی تھیں کہ ایک شخص آیا اور آکر ہمارے پاس کھڑ ا ہو گیا اور ہم بیٹھے تھے.کہنے لگا: سراقہ! میں نے ابھی سمندر کے کنارے کی طرف کچھ سائے دیکھے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہی محمد علی لیلی یم اور اس کے ساتھی ہیں.سراقہ کہتے تھے کہ میں نے شناخت کر لیا کہ وہی ہیں مگر میں نے اسے کہا کہ وہ ہر گز نہیں ہیں بلکہ تم نے فلاں فلاں کو دیکھا ہے جو ہمارے سامنے گئے تھے اور اس کی بات ٹال دی.پھر میں اس مجلس میں کچھ دیر ٹھہرا رہا.سراقہ کو اس وقت لالچ بھی تھا کہ کہیں یہ نہ پیچھے چلا جائے اور پھر یہ انعام کا حق دار ٹھہر جائے.تو کہتے ہیں بہر حال میں نے ٹال دیا اور کچھ دیر کے بعد اٹھا اور گھر گیا اور اپنی لونڈی سے کہا کہ میری گھوڑی نکالو.الله سة وہ ٹیلے کے پرے ہی رہے.یعنی پیچھے جو ایک چھوٹا سائیلا تھا اس کی طرف میری گھوڑی لے جاؤ، اور وہیں رکھو.وہاں اس کو میرے لئے تھامے رکھو.چنانچہ میں نے اپنا نیزہ لیا اور اس کو لے کر گھر کے پیچھے کی طرف سے نکلا.میں نے نیزے کے بھال کو زمین پر رکھا اور اس کے اوپر کے حصے کو نیچے جھکایا اور اس طرح اپنی گھوڑی کے پاس پہنچا اور اس پر سوار ہو گیا.یعنی گھوڑی پر سوار ہونے کے لئے اپنا واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ نیزہ کا سہارا لیا اور گھوڑی پر سوار ہو گیا.میں نے اس کو چمکا یا یعنی تھوڑی سی اس کو تھپکی دی اور اس کو دوڑایا اور وہ سرپٹ دوڑتی ہوئی مجھے لے گئی یہاں تک کہ جب ان کے قریب پہنچا یعنی آنحضرت صلی الیکم کے قریب پہنچا تو میری گھوڑی نے ایسی ٹھو کر کھائی کہ میں اس سے گر پڑا.میں اٹھ کھڑاہوا اور اپنے ترکش کی طرف ہاتھ جھکا کر میں نے اس سے تیر نکالا اور اس سے فال لی کہ آیا ان کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں یعنی جو میرا قتل کا یا پکڑنے کا ارادہ ہے وہ میں کر سکوں گا یا نہیں.کہتا ہے کہ پس وہی نکلا جسے میں ناپسند کرتا تھا.یعنی فال میرے خلاف نکلی.یہی کہ میں نہیں پکڑ سکتا.کہتا ہے میں پھر اپنی گھوڑی پر سوار ہو گیا اور پانسے کے خلاف عمل کیا یا جو بھی فال نکلی تھی اس کے

Page 76

60 اصحاب بدر جلد 5 خلاف عمل کیا.گھوڑی پھر سرپٹ دوڑتے ہوئے مجھے لئے جارہی تھی اور اتنا نز دیک ہو گیا کہ میں نے علیم نہ رسول اللہ صلی المی کم کو قرآن پڑھتے سن لیا.آپ صلی علیم ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے اور حضرت ابو بکر کثرت سے مڑ مڑ کر دیکھتے تھے.تھوڑی دیر بعد کیا ہوا، جب میں قریب پہنچا تو میری گھوڑی کی انگلی ٹانگیں زمین میں گھٹنوں تک دھنس گئیں اور میں گر پڑا.پھر میں نے گھوڑی کو ڈانٹا اور اٹھ کھڑ ا ہوا.وہ اپنی ٹانگیں زمین سے نکال نہ سکتی تھی.آخر جب وہ سیدھی کھڑی ہوئی اور بڑا زور لگا کر سیدھی کھڑی ہوئی تو اس کی دونوں ٹانگوں سے گرد اٹھ کر فضا میں دھوئیں کی طرح پھیل گئی.یعنی اتنی دھنسی ہوئی تھی کہ نکالتے ہوئے زور لگایا تو مٹی جو باہر نکلی وہ اتنی زیادہ تھی کہ لگتا تھا کہ غبار چھا گیا ہے.کہتا ہے اب میں نے دوبارہ تیروں سے فال لی تو وہی نکلا جسے میں ناپسند کرتا تھا یعنی وہ جو میں چاہتا تھا اس کے خلاف فال نکلی یعنی کہ میں آنحضرت صلی علی کم پر قابو نہیں پاسکتا.تب میں نے انہیں آواز دی کہ تم امن میں ہو.میں نے آنحضرت صلی علی یم کو آواز دے کر کہا کہ اب آپ امن میں ہیں اور پھر وہ ٹھہر گئے.یعنی اب میرا کوئی ارادہ نہیں ہے.میری بدنیت نہیں ہے.کہتے ہیں اب میں اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا.جب نیت ٹھیک ہو گئی تو گھوڑی بھی چل پڑی اور آنحضرت صلی علیہ علم کے پاس پہنچی یا وہ لوگ بھی کچھ دیر پیچھے آئے یا ٹھہر گئے.کہتا ہے کہ ان تک پہنچنے میں مجھے جو روکیں پیش آئیں ان کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ضرور رسول اللہ صلی علی یکم کا ہی بول بالا ہو گا.میں نے آنحضرت صلی علیہم سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق دیت مقرر کی ہے اور میں نے ان کو وہ سب چیزیں بتائیں جو کچھ کہ لوگ ان سے کرنے کا ارادہ رکھتے تھے.یعنی کفار کے جو بھی بد ارادے تھے اس کی ساری تفصیل بتادی.اور پھر میں نے ان کے سامنے زاد اور سامان پیش کیا.میں نے کہا کہ یہ سامان ہے.آپ سفر میں جارہے ہیں تو سفر کا کھانے پینے کا کچھ سامان پیش کیا مگر انہوں نے مجھ سے نہ لیا.آپ صلی میں کم نے انکار کر دیا کہ نہیں.انہیں ضرورت نہیں.اور نہ ہی مجھ سے کوئی اور فرمائش کی سوائے اس کے کہ آنحضرت صلی علی ایم نے یہ کہا کہ ہمارے سفر کے متعلق حال پوشیدہ رکھنا یعنی کسی کو بتانا نہ کہ کس راستے سے ہم جا رہے ہیں.کہتا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی علیکم سے درخواست کی اور اب وہ آنحضرت صلی اللی کام کے ساتھ سفر کر رہے تھے، کہ آپ میرے لئے امن کی ایک تحریر لکھ دیں.آپ صلی ہم نے عامر بن فُهَیدَہ، یہی جو حبشی غلام تھے اور آزاد تھے سے فرمایا کہ تحریر لکھ دو اور اس نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ دیا.اس کے بعد رسول اللہ صلی ا کم روانہ ہو گئے.الله حضرت زبیر کا سفید کپڑوں کا ہدیہ پیش کرنا ابن شہاب کی روایت ہے کہ عروہ بن زبیر نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی ال یکم راستہ میں حضرت زبیر سے ملے جو مسلمانوں کے ایک قافلے کے ساتھ شام سے تجارت کر کے واپس آرہے تھے.حضرت زبیر نے رسول اللہ صلی ال یکم اور حضرت ابو بکر کو سفید کپڑے پہنائے اور مدینہ میں مسلمانوں نے سن لیا کہ رسول اللہ صلی ال یکم مکہ سے نکل پڑے ہیں.اس لئے وہ ہر صبح حرة میدان تک جایا کرتے تھے اور وہاں آپ کا انتظار رض

Page 77

اصحاب بدر جلد 5 61 کرتے تھے یہاں تک کہ دو پہر کی گرمی انہیں لوٹا دیتی تھی.یعنی دو پہر تک انتظار کرتے تھے ، شدید سورج چڑھ جاتا تھا تو پھر گرمی کی وجہ سے واپس چلے جاتے تھے.وہ اس انتظار میں تھے کہ کب آنحضرت صلی ال یکم مدینہ پہنچیں.کہتے ہیں ایک دن ان کا بہت دیر انتظار کرنے کے بعد جو لوٹے اور اپنے گھروں پر جب پہنچے تو ایک یہودی شخص اپنے ایک محل پر کچھ دیکھنے کے لئے چڑھا تو اس نے رسول اللہ صلی علیکم اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھ لیا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے.سراب ان سے آہستہ آہستہ ہٹ رہا تھا.یعنی دور سے ایک ہیولہ نظر آتا تھا لیکن آہستہ آہستہ شکلیں واضح ہوتی گئیں.یہودی سے رہا نہ گیا اور بے اختیار بلند آواز سے بول اٹھا.اے عرب کے لو گو مدینہ والوں کو آواز دی کہ یہ تمہار اوہ سر دار ہے جس کا تم انتظار کر رہے ہو.پتہ تھا اس کو کہ مسلمان روزانہ ایک جگہ جاتے ہیں اور انتظار میں اکٹھے ہوتے ہیں.الله سة اہل مدینہ کا والہانہ پر جوش استقبال یہ سنتے ہی مسلمان اٹھ کر اپنے ہتھیاروں کی طرف لپکے اور حرة کے میدان میں رسول اللہ صلی للی کم کا استقبال کیا.آپ انہیں ساتھ لئے ہوئے اپنی داہنی طرف مڑے اور بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں ان کے ساتھ اترے اور یہ دوشنبہ یعنی سوموار کا دن تھا اور ربیع الاول کا مہینہ تھا.حضرت ابو بکر لوگوں سے ملنے کے لئے کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی علی یکم خاموش بیٹھے رہے.اور انصار میں سے وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی علیکم کو نہیں دیکھا تھا آئے اور حضرت ابو بکر کو سلام کرنے لگے یہاں تک کہ دھوپ رسول اللہ صلی للی نام پر پڑنے لگی.یعنی کافی دیر ہو گئی.دھوپ ذرا چڑھ گئی.جو ذرا سا یہ تھاوہ پرے ہٹ گیا تو حضرت ابو بکر آئے اور انہوں نے آنحضرت صلی علیہ تم پر اپنی چادر سے سایہ کیا.اس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی علیکم کو پہچانا اور رسول اللہ صلی علی یم بن عمرو بن عوف کے محلے میں دس سے کچھ اوپر راتیں ٹھہرے اور وہ مسجد بنائی گئی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی اور اس میں رسول اللہ صلی العلیم نے نماز پڑھی.پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور لوگ آپ کے ساتھ پیدل چلنے لگے اور وہ اونٹنی مدینہ میں وہاں جاکر بیٹھی جہاں اب مسجد نبوی ہے.ان دنوں وہاں چند مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے اور وہ سہیل اور سہل کے کھجوریں سکھانے کی جگہ تھی.ایک کھلا میدان تھا جہاں یہ دو لڑ کے اپنی فصل کی کھجوریں سکھایا کرتے تھے.جو دو یتیم بچے تھے.یہ بچے حضرت اسعد بن زرارة کی پرورش میں تھے.جب آپ کی اونٹنی نے آپ کو وہاں بٹھا دیا تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو یہیں ہماری قیامگاہ ہوگی.پھر رسول اللہ صلی علیم نے ان دو لڑکوں کو بلایا اور ان سے اس جگہ کی قیمت دریافت کی تا اسے مسجد بنائیں تو ان دونوں نے کہا نہیں یارسول اللہ ! ہم آپ کو یہ زمین مفت دیتے ہیں.رسول اللہ صلی علیم نے ان سے یہ زمین مفت لینے سے انکار کیا اور اسے ان سے خریدا اور پھر مسجد بنائی.اور رسول اللہ صلی علیکم اس مسجد کے بنانے کے لئے لوگوں کے ساتھ اینٹیں ڈھونے لگے اور جب اینٹیں ڈھو رہے تھے تو ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے: الله هذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَيْبَر هذَا ابَر رَبَّنَا وَأَظْهَر

Page 78

اصحاب بدر جلد 5 62 کہ یہ بوجھ خیبر کے بوجھ جیسا نہیں بلکہ اے ہمارے رب ! یہ بوجھ بہت بھلا اور پاکیزہ ہے.نیز فرماتے تھے: اللهُمَّ اِنَّ الْأَجْرَ اجْرُ الْآخِرَة فَارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَة کہ اے اللہ اصل ثواب تو آخرت کا ثواب ہے.اس لئے تو انصار اور مہاجرین پر رحم فرما.یہ بھی 168 بخاری کی روایت ہے.8 حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس واقعہ ہجرت کے بارے میں تحریر فرمایا ہے.آپ نے اسے اپنے مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے اس لئے تھوڑی سی یہ تفصیل بھی میں بیان کر دیتا ہوں.آپ لکھتے ہیں کہ : آخر مکہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا.صرف چند غلام خود در سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر اور حضرت علی مکہ میں رہ گئے.جب مکہ کے لوگوں نے دیکھا کہ اب شکار ہمارے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے تو رؤساء پھر جمع ہوئے اور مشورے کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب محمد رسول اللہ صلی علیم کو قتل کر دینا ہی مناسب ہے.خد اتعالیٰ کے خاص تصرف سے آپ کے قتل کی تاریخ آپ کی ہجرت کی تاریخ سے موافق پڑی.جب مکہ کے لوگ آپ کے گھر کے سامنے آپ کے قتل کے لئے جمع ہو رہے تھے تو آپ رات کی تاریکی میں ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر سے باہر نکل رہے تھے.ایک طرف کفار اکٹھے ہو رہے تھے.دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی رہنمائی فرمائی تو اسی وقت آپ باہر نکل رہے تھے.مکہ کے لوگ ضرور شبہ کرتے ہوں گے کہ ان کے ارادہ کی خبر محمد رسول اللہ صلی الی نام کو بھی مل چکی ہو گی مگر پھر بھی جب آپ ان کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی اور شخص ہے اور بجائے آپ پر حملہ کرنے کے سمٹ سمٹ کر آپ سے چھپنے لگ گئے (کہ یہ نہ ہو کہ یہ جو کوئی اور شخص تھا جا کے آنحضرت صلی اللہ علم کو خبر دے دے کہ ہم اکٹھے ہو رہے ہیں) تاکہ ان کے ارادوں کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم " کو خبر نہ ہو جائے." اس لئے سمٹ رہے تھے.آپ لکھتے ہیں کہ " اس رات سے پہلے دن ہی آپ کے ساتھ ہجرت کرنے کے لئے ابو بکر کو بھی اطلاع دے دی گئی تھی.پس وہ بھی آپ کو مل گئے اور دونوں مل کر تھوڑی دیر میں مکہ سے روانہ ہو گئے اور مکہ سے تین چار میل پر ثور نامی پہاڑی کے سرے پر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے.کھوجی کا کھوج: یاتو محمد ملی ام اس غار میں ہے یا آسمان پر چڑھ گیا ہے جب مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ میں مکہ سے چلے گئے ہیں تو انہوں نے ایک فوج جمع کی اور آپ کا تعاقب کیا.ایک کھوجی انہوں نے اپنے ساتھ لیا جو آپ کا کھوج لگاتے ہوئے ثور پہاڑ پر پہنچا.وہاں اس نے اس غار کے پاس پہنچ کر جہاں آپ ابو بکڑ کے ساتھ چھپے ہوئے تھے یقین کے ساتھ کہا کہ یا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم " اس غار میں ہے یا آسمان پر چڑھ گیا ہے.اس کے اس اعلان کو سن کر حضرت ابو بکر شکا دل بیٹھنے لگا اور انہوں نے آہستہ سے رسول کریم صلی العلیم سے کہا دشمن سر پر آپہنچا ہے اور اب کوئی دم میں " تھوڑی دیر میں " غار میں داخل ہونے والا ہے.آپ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ معنا ابو بکر ڈرو نہیں.خدا ہم دنوں کے ساتھ ہے.حضرت ابو بکر نے جواب میں کہا یارسول اللہ ! میں "

Page 79

اصحاب بدر جلد 5 63 اپنی جان کے لئے نہیں ڈرتا کیونکہ میں تو ایک معمولی انسان ہوں.مارا گیا تو ایک آدمی ہی مارا جائے گا.یارسول اللہ! مجھے تو صرف یہ خوف تھا کہ اگر آپ کی جان کو کوئی گزند پہنچا تو د نیا میں سے روحانیت اور دین کا نام مٹ جائے گا.آپ نے فرمایا کوئی پروا نہیں.یہاں ہم دو ہی نہیں ہیں تیسر ا خدا تعالیٰ بھی ہمارے پاس ہے.چونکہ اب وقت آپہنچا تھا کہ خدا تعالیٰ اسلام کو بڑھائے اور ترقی دے اور مکہ والوں کے لئے مہلت کا وقت ختم ہو چکا تھا.خدا تعالیٰ نے مکہ والوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور انہوں نے کھوجی سے استہزاء شروع کر دیا اور کہا کہ کیا انہوں نے اس کھلی جگہ پر پناہ لینی تھی؟ یہ کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے اور پھر اس جگہ کثرت سے سانپ بچھو رہتے ہیں.یہاں کوئی عقل مند پناہ نہیں لے سکتا اور بغیر اس کے کہ غار میں جھانک کر دیکھتے کھو جی سے ہنسی کرتے ہوئے وہ واپس لوٹ گئے.اے مکہ کی بستی اتو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر.الله دو دن اسی غار میں انتظار کرنے کے بعد پہلے سے کلے کی ہوئی تجویز کے مطابق رات کے وقت غار کے پاس سواریاں پہنچائی گئیں اور دو تیز رفتار اونٹنیوں پر محمد رسول اللہ صلی للی کم اور آپ کے ساتھی روانہ ہوئے.ایک اونٹنی پر محمد رسول اللہ صلی علی یکم اور رستہ دکھانے والا آدمی سوار ہوا اور دوسری اونٹنی پر حضرت ابو بکر اور ان کے ملازم عامر بن فهيری سوار ہوئے.مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے رسول کریم صلی علیم نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا.اُس مقدس شہر پر جس میں آپ پیدا ہوئے، جس میں آپ مبعوث ہوئے اور جس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانہ سے آپ کے آباؤ اجداد رہتے چلے آئے تھے آپ نے آخری نظر ڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.اے مکہ کی بستی اتو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے ؟ ے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے.اس وقت حضرت ابو بکر نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا.ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے.جب مکہ والے آپ کی تلاش میں ناکام رہے تو انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " یا ابو بکر کو زندہ یا مردہ واپس لے آئے گا اس کو سو "100" اونٹنی انعام دی جائے گی اور اس اعلان کی خبر مکہ کے ارد گرد کے قبائل کو بھجوادی گئی.سُراقہ ! تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسری کے کنگن ہوں گے چنانچہ سُراقہ بن مالک ایک بدوی رئیس اس انعام کے لالچ میں آپ کے پیچھے روانہ ہوا.تلاش کرتے کرتے اس نے مدینہ کی سڑک پر آپ کو جالیا.جب اس نے دو اونٹنیوں اور ان کے سواروں کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی علیکم اور ان کے ساتھی ہیں تو اس نے اپنا گھوڑا ان کے پیچھے دوڑا دیا مگر راستہ میں گھوڑے نے زور سے ٹھو کر کھائی اور سُراقہ گر گیا.سراقہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنا واقعہ خو داس طرح بیان کرتا ہے."169 اور پھر وہ ساری تفصیل جو عراقہ کے حوالے سے پہلے بیان ہو چکی ہے وہ آپ نے تحریر فرمائی ہے.پھر حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ جب عامر بن فہیرہ نے حضور کے ارشاد پر امن کا پروانہ لکھ دیا اور

Page 80

اصحاب بدر جلد 5 64 شراقہ کو امن کا پروانہ دیا تو اس وقت جب سُراقہ لوٹنے لگا تو معا اللہ تعالیٰ نے سُراقہ کے آئندہ حالات آپ صلی اللہ ہم پر غیب سے ظاہر فرمادے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی للی نام پر غیب کے ذریعہ ظاہر فرمایا کہ آئندہ سراقہ کے ساتھ کیا حالات ہوتے ہیں اور ان کے مطابق آپ نے اسے فرمایا.سراقہ ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسری کے کنگن ہوں گے.سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا، کسری بن هرمز شہنشاہ ایران کے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! سراقہ کے ہاتھ میں کسری کے سونے کے کنگن پہنائے گئے الله آپ کی یہ پیشگوئی کوئی سولہ سترہ سال کے بعد جا کر لفظ بہ لفظ پوری ہوئی.سراقہ مسلمان ہو کر مدینہ آگیا.رسول کریم صلی یی کم کی وفات کے بعد پہلے حضرت ابو بکر پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے.اسلام کی بڑھتی ہوئی شان کو دیکھ کر ایرانیوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دئے اور بجائے اسلام کو کچلنے کے خود اسلام کے مقابلے میں کچلے گئے."ایرانیوں نے حملے شروع کئے تھے.کسری کا دار الامارۃ اسلامی فوجوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوا اور ایران کے خزانے مسلمانوں کے قبضے میں آئے.جو مال اس ایرانی حکومت کا اسلامی فوجوں کے قبضے میں آیا اس میں وہ کڑے بھی تھے جو کسری ایرانی دستور کے مطابق تخت پر بیٹھتے وقت پہنا کرتا تھا.سراقہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے اس واقعہ کو جو رسول کریم صلی الی یکم کی ہجرت کے وقت اسے پیش آیا تھا مسلمانوں کو نہایت فخر کے ساتھ سنایا کرتا تھا اور مسلمان اس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ صلی الم نے اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ سُراقہ ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھ میں کسری کے کنگن ہوں گے.حضرت عمر کے سامنے جب اموال غنیمت لاکر رکھے گئے اور ان میں انہوں نے کسری کے کنگن دیکھے تو سب نقشہ حضرت عمرؓ کے سامنے، آپ کی آنکھوں کے سامنے آگیا.وہ کمزوری اور ضعف کا وقت جب خدا کے رسول کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا پڑا تھا، وہ سراقہ اور دوسرے آدمیوں کا آپ کے پیچھے اس لئے گھوڑے دوڑانا کہ آپ کو مار کر یا زندہ کسی صورت میں بھی مکہ والوں تک پہنچادیں تو وہ سو اونٹوں کے مالک ہو جائیں گے اور اس وقت آپ کا سراقہ سے کہنا کہ سراقہ ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسری کے کنگن ہوں گے.کتنی بڑی پیشگوئی تھی.کتنا مصفی غیب تھا.کتنی صاف غیب کی خبر تھی.حضرت عمرؓ نے اپنے سامنے کسری کے کنگن دیکھے تو خدا کی قدرت ان کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی.انہوں نے کہا سراقہ کو بلاؤ.سراقہ بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ کسری کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں.سراقہ نے کہا.اے خدا کے رسول کے خلیفہ !سونا پہنا تو مسلمانوں کے لئے منع ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا ہاں منع ہے.ٹھیک ہے مردوں کے لئے سونا پہننا منع ہے مگر ان موقعوں کے لئے نہیں.یہ وہ موقع نہیں ہے جہاں منع ہو.اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی علی یم کو تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دکھائے تھے.یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا میں تمہیں سزا دوں گا کیونکہ اب تو یہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے اور اس کا باقی حصہ بھی تمہیں پورا کرنا ہو گا.سراقہ کا اعتراض تو محض شریعت

Page 81

اصحاب بدر جلد 5 65 کے مسئلے کی وجہ سے تھاور نہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی علیہم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھنے کا خواہش مند تھا.سراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لئے اور مسلمانوں نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا.170 بعض کتب کے مطابق سُراقہ بن مالک کو کسریٰ کے کنگن پہنائے جانے والے الفاظ آپ نے ہجرت کے موقع پر نہیں فرمائے تھے بلکہ جس وقت نبی کریم صلی للی امام حسین اور طائف سے واپس تشریف لا رہے تھے تو جغرانہ کے مقام پر فرمائے.171 لیکن عموماً روایت یہی ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ہجرت کے موقع پر ہی کہا تھا جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے.بعض صحابہ نما بیمار ہونا اور مکہ کی یاد جب عامر بن فهيدہ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو وہاں آکر بیمار ہو گئے.رسول اللہ صلی الیم نے دعا کی تو آپ تندرست ہو گئے تھے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الی کم مدینہ ہجرت کر کے آئے تو آپ کے بعض صحابہ بیمار ہو گئے.حضرت ابو بکر، حضرت عامر بن فهيده ، حضرت بلال بھی بیمار ہو گئے.حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی العلیم سے ان کی عیادت کی اجازت مانگی تو آپ نے ان کو اجازت عطا فرما دی.حضرت عائشہ نے حضرت ابو بکر سے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے تو انہوں نے جواب میں یہ شعر پڑھا: كُلِّ امْرِءٍ مُصَبَحْ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ کہ ہر شخص جب اپنے گھر میں صبح کو اٹھتا ہے تو اسے صبح بخیر کہا جاتا ہے بحالیکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے بھی نزدیک تر ہوتی ہے.یعنی کہ جب وہ سو کر اٹھتا ہے تو ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ موت تو ایک دن آنی ہی آتی ہے.پھر آپ نے حضرت عامر بن فہیرہ سے ان کا حال دریافت کیا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ: إِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُهُ مِن فَوْقِهِ کہ یقینا میں نے موت کو اس کا ذائقہ چکھنے سے قبل ہی پالیا ہے یقینا بز دل کی موت اچانک آجاتی ہے یعنی بہادر موت کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور بزدل نے اس کے لئے تیاری نہیں کی ہوتی.پھر آپ نے حضرت بلال سے ان کا حال دریافت کیا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا: يَا لَيْتَ شِعْرِى هَل أَبِيْتَنَ لَيْلَةً إِنِّي وَجَدْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِهِ بِفَجْ وَحَوْلِي اذْخِرٌ وجَلِيلُ کاش مجھے معلوم ہو کہ آیا میں کوئی رات وادی مکہ میں بسر کروں گا اور میرے ارد گرد اذخر اور جلیل" مکہ کے گھاس " ہوں.

Page 82

اصحاب بدر جلد 5 66 اے اللہ ! مدینہ کو ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے جیا............پھر آپ نبی کریم صلی یکیم کے پاس آئیں اور آپ کو ان اصحاب کے قول بتائے.بتایا کہ حضرت ابو بکر نے یہ کہا، عامر بن فهيرہ نے یہ کہا، حضرت بلال نے یہ کہا تو آنحضرت صلی علیم نے آسمان کی طرف دیکھا اور یہ دعا فرمائی : اللَّهُمَّ حَبَّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَة كَمَا حَبَّبْتَ إِلَيْنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ اللَّهُمْ بَارِكَ لَنَا فِي صَاعِهَا وَفِي مُنِهَا وَانْقُلُ وَبَاءَهَا إِلَى مَهَيْعَةً.اے اللہ ! مدینہ کو ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے جیسا کہ تو نے مکہ کو ہمارے لئے محبوب بنایا تھا یا اس سے بھی بڑھ کر.اے اللہ ہمارے لئے اس کے صاع میں اور اس کے مد میں ( یہ دو وزن کے پیمانے ہیں) برکت ڈال دے اور مدینہ کو ہمارے لئے صحت مند مقام بنادے اور اس کی وباء کو مقنعه مقام کی طرف منتقل کر دے یعنی ہم سے دور لے جا.172 بئر معونہ میں شہادت حضرت عامر بن فهيرة بئر معونہ کے واقعہ میں شہید ہوئے تھے.جب وہ لوگ بئر معونہ میں قتل کئے گئے اور حضرت عمر و بن امیہ ضمری قید کئے گئے تو عامر بن طفیل نے ان سے پوچھا یہ کون ہے ؟ اور اس نے ایک مقتول کی طرف اشارہ کیا تو عمرو بن امیہ نے جواب دیا کہ یہ عامر بن فُهَيْرَہ ہے.عامر بن طفیل نے کہا کہ میں نے دیکھا یعنی عامر بن فہیرہ کو دیکھا کہ وہ قتل کئے جانے کے بعد آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں یہاں تک کہ میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ آسمان ان کے اور زمین کے درمیان ہے.پھر وہ زمین پر اتارے گئے.نبی کریم صلی علیہم کو ان کی خبر پہنچی اور آپ صلی علی یم نے ان کے قتل کئے جانے کی خبر صحابہ کو دی اور فرمایا تمہارے ساتھی شہید ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے رب سے دعا کی ہے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے متعلق ہمارے بھائیوں کو بتا کہ ہم تجھ سے خوش ہو گئے اور تو ہم سے خوش ہو گیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق بتادیا.3 بھی بخاری کی روایت ہے.غیر کو بھی اللہ تعا نے یہ نظارہ دکھا دیا جس طرح کہ آنحضرت علایم کو خبر ہوئی تھی.حضرت عامر بن فهيرہ کو کس نے شہید کیا اس کے بارے میں اختلاف ہے.بعض روایات میں ہے کہ آپ کو عامر بن طفیل نے شہید کیا، جس نے یہ بات بیان کی.عامر بن طفیل نے ہی پوچھا تھا نہ کہ کس نے شہید کیا تھا.یہ دشمنوں میں سے تھا.اور جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جبار بن سلمی نے شہید کیا تھا.بہر حال بئر معونہ کے وقت یہ شہید ہوئے تھے.175 واقعہ بئر معونہ 173 174 حضرت مصلح موعودؓ حضرت عامر بن فہیرہ کے شہادت کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

Page 83

اصحاب بدر جلد 5 67 چنانچہ دیکھ لو اسلام نے تلوار کے زور سے فتح نہیں پائی بلکہ اسلام نے اس اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ فتح پائی ہے جو دلوں میں اتر جاتی تھی اور اخلاق میں ایک اعلی درجہ کا تغیر پیدا کر دیتی تھی.ایک صحابی کہتے نہیں میرے مسلمان ہونے کی وجہ محض یہ ہوئی کہ میں اس قوم میں مہمان ٹھہرا ہوا تھا جس نے غداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے ستر قاری شہید کر دئے تھے.جب انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو کچھ تو اونچے ٹیلے پر چڑھ گئے اور کچھ ان کے مقابلے میں کھڑے رہے.چونکہ دشمن بہت بڑی تعداد میں تھا اور مسلمان بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی نہتے اور بے سروسامان.اس لئے انہوں نے ایک ایک کر کے تمام مسلمانوں کو شہید کر دیا.فُرْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ آخر میں صرف ایک صحابی رہ گئے جو ہجرت میں رسول کریم صلی للی نام کے ساتھ شریک تھے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے.ان کا نام عامر بن فہیرہ تھا.بہت سے لوگوں نے مل کر اُن کو پکڑ لیا اور ایک شخص نے زور سے نیزہ ان کے سینے میں مارا.نیزے کا لگنا تھا کہ ان کی زبان سے بے اختیار یہ فقرہ نکلا کہ فُزُتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ کعبہ کے رب کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.جب میں نے ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا." یعنی حملہ کرنے والوں کے ساتھیوں میں سے وہی صحابی وہی جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے.کہتے ہیں کہ "جب میں نے ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا تو میں حیران ہوا اور میں نے کہا یہ اپنے رشتہ داروں سے دور ، اپنے بیوی بچوں سے دور اتنی بڑی مصیبت میں مبتلا ہوا اور نیزہ اس کے سینہ میں مارا گیا مگر اس نے مرتے ہوئے اگر کچھ کہا تو صرف یہ کہ " کعبہ کے رب کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.کیا یہ شخص پاگل تو نہیں؟ چنانچہ میں نے بعض اور لوگوں سے پوچھا یہ کیا بات ہے اور اس کے منہ سے ایسا فقرہ کیوں نکلا؟ انہوں نے کہا کہ تم نہیں جانتے یہ مسلمان لوگ واقعہ میں پاگل ہیں.جب یہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور انہوں نے کامیابی حاصل کر لی." یہ کہتے ہیں کہ "میری طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں ان لوگوں کا مرکز جا کر دیکھوں گا اور خود ان لوگوں کے مذہب کا مطالعہ کروں گا.چنانچہ میں مدینہ پہنچا اور مسلمان ہو گیا.صحابہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کا کہ ایک شخص کے سینہ میں نیزہ مارا جاتا ہے اور وہ وطن سے کوسوں دور ہے.اس کا کوئی عزیز اور رشتہ دار اس کے پاس نہیں اور اس کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ فُرْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ " جب یہ شخص اس حملے کے بعد مسلمان ہو ا تھا تو اس کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ جب وہ یہ واقعہ سنایا کرتا اور فُرْتُ وَرَبَّ الْكَعْبَةِ کے الفاظ پر پہنچتا تو اس واقعہ کی ہیبت کی وجہ سے یکدم اس کا جسم کانپنے لگ جاتا اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تو حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ " اسلام اپنی خوبیوں کی وجہ سے پھیلا ہے زور سے نہیں."176 یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عامر بن فہیرہ کی شہادت کے وقت آپ کے منہ سے جو الفاظ نکلے

Page 84

68 اصحاب بدر جلد 5 ان میں فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ اور فُزَتُ وَاللهِ دونوں الفاظ ملتے ہیں.دونوں روایتیں ہیں اور یہ الفاظ اور صحابہ کے منہ سے کبھی نکلے تھے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے اور کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ " ہمیں تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ جنگوں میں اس طرح جاتے تھے کہ ان کو یوں معلوم ہو تا تھا کہ جنگ میں شہید ہونا ان کے لئے عین راحت اور خوشی کا موجب ہے.اگر ان کو لڑائی میں کوئی دکھ پہنچتا تھا تو وہ اس کو دکھ نہیں سمجھتے تھے بلکہ سکھ خیال کرتے تھے.چنانچہ صحابہ کے کثرت کے ساتھ اس قسم کے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں کہ انہوں نے خدا کی راہ میں مارے جانے کو ہی اپنے لئے عین راحت محسوس کیا.مثلاً وہ حفاظ جو رسول کریم صلی نی یکم نے وسط عرب کے ایک قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجے تھے ان میں حرام بن ملحان اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس عامر بن طفیل کے پاس گئے اور باقی صحابہ پیچھے رہے.شروع میں تو عامر بن طفیل اور ان کے ساتھیوں نے منافقانہ طور پر ان کی آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور تبلیغ کرنے لگے تو ان میں سے بعض شریروں نے ایک خبیث کو اشارہ کیا اور اس نے اشارہ پاتے ہی حرام بن ملحان پر پیچھے سے نیزے کا وار کیا اور وہ گر گئے.گرتے وقت ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ الله اكبر.فُرتُ وَرَبَّ الْكَعْبَةِ یعنی مجھے کعبہ کے رب کی قسم امیں نجات پا گیا.پھر ان شریروں نے باقی صحابہ کا محاصرہ کیا اور ان پر حملہ آور ہو گئے.اس موقع پر حضرت ابو بکر کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ جو ہجرت کے سفر میں رسول کریم صلی اہل علم کے ساتھ تھے ان کے متعلق ذکر آتا ہے بلکہ خود ان کا قاتل جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ ہی یہ بیان کرتا تھا کہ جب میں نے عامر بن فہیرہ کو شہید کیا تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا فُرتُ واللہ یعنی خدا کی قسم! میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں.یہ واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہ کیلئے موت بجائے رنج کے خوشی کا موجب ہوتی تھی.1771 پس بڑے خوش قسمت تھے وہ لوگ اور خاص طور پر عامر بن فهيرہ جن کو حضرت ابو بکر کی خدمت کا بھی موقع ملا.آنحضرت صلی علیہ کم کی خدمت کا موقع ملا اور آپ کے ساتھ ہجرت کا بھی موقع ملا اور پھر یہ کہ غار ثور میں آنحضرت صلی علی کیم کو کھانا وغیرہ خوراک مہیا کرنے یا اس زمانے میں خوراک تو بکری کا وہ دودھ تھا، دودھ پہنچانے کے لئے ان کو مقرر کیا گیا اور یہ با قاعدگی سے تین دن وہاں بکری لے جاتے رہے اور بکری کا دودھ وہاں پہنچاتے رہے.پھر ان کو یہ بھی موقع ملا کہ سُراقہ کو امن کی تحریر انہوں نے لکھ کر دی جو آنحضرت صلی ایم کے ارشاد پر تھی.اور پھر آنحضرت صلی علی نکم کو ان کی شہادت کی خبر بھی ان کی دعا سے دور بیٹھے ہوئے ملی.تو یہ وفا کے پتلے تھے جنہوں نے ہر موقع پر وفاد کھائی.178

Page 85

اصحاب بدر جلد 5 69 60 186 حضرت عامر بن مخلد حضرت عامر بن مخلد.ان کی والدہ کا نام عمارہ بنت خنساء تھا.ان کا تعلق خزرج کے قبیلے بنو مالک بن نجار سے تھا.غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے اور احد کے دن یہ شہید ہوئے.179 187 حضرت عائذ بن ما عض اپنے ایک اور بھائی کے ساتھ جنگ بدر میں شامل حضرت عائذ بن ماعص انصاری صحابی ہیں.ان کا نام عائذ بن ماعص تھا.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو زُریق سے تھا.رسول اللہ صلی علیم نے ان کی مواخات حضرت سُوَيْبط بن حرملہ سے کروائی.آپ اپنے بھائی حضرت معاذ بن ماعص کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے.رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ تمام غزوات میں شامل ہوئے.حضرت عائذ بن ماعص بئر معونہ اور غزوہ خندق میں شریک ہوئے اور رسول اللہ صلی الم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک تھے.حضرت ابو بکر کے دور خلافت میں 12 ہجری میں جنگ یمامہ میں شہید ہوئے.180 نام و کنیت 188 حضرت عباد بن بشرة جنگ یمامہ گیارہ ہجری میں ان کی وفات ہوئی تھی.حضرت عباد بن بشر کی کنیت ابو بشر اور ابور بیع ہے.ان کا تعلق قبیلہ بنو عبد الأشکل سے تھا.ان کی اولاد میں صرف ایک بیٹی تھی وہ بھی فوت ہو گئی.

Page 86

اصحاب بدر جلد 5 قبول اسلام 70 انہوں نے مدینہ میں حضرت مصعب بن محمید کے ہاتھ پر حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اُسید بن حضیر سے پہلے اسلام قبول کیا.مؤاخات مدینہ کے وقت آنحضرت صلی الی یکم نے آپ کو حضرت ابو حذیفہ بن عُتبہ کا بھائی بنایا.تمام غزوات میں شرکت حضرت عباد بن بشر غزوہ بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں آنحضور صلی علیم کے ہمراہ شامل ہوئے.آپ ان اصحاب میں شامل تھے جن کو آنحضور صلی الی یم نے کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لئے بھیجا تھا.181 یہود کے ایک مفسد اور باقی سردار کعب بن اشرف کا قتل اور اس کے اسباب کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مختلف تواریخ سے لے کے سيرة خاتم النبیین میں بھی لکھا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ : بدر کی جنگ نے جس طرح مدینہ کے یہودیوں کی دلی عداوت کو ظاہر کر دیا تھا.بدر کی جنگ میں مدینہ کے یہودیوں کا خیال تھا کہ کفار جو ہیں یہ اب مسلمانوں کو ختم کر دیں گے.لیکن جنگ کا پانسا مسلمانوں کے حق میں پلٹا گیا.مسلمانوں کو فتح ہوئی اور اس وجہ سے یہودیوں کی عداوت بھی ظاہر ہوئی.مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ افسوس ہے کہ بنو قینقاع کی جلاوطنی بھی دوسرے یہودیوں کو اصلاح کی طرف مائل نہ کر سکی اور وہ اپنی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں میں ترقی کرتے گئے.چنانچہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے.کعب گومذہبا یہودی تھا لیکن دراصل یہو دی ال نہ تھا بلکہ عرب تھا.اس کا باپ اشرف بنو نبہان کا ایک ہوشیار اور چلتا پرزہ آدمی تھا جس نے مدینہ میں آ کر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا کئے.ان کا حلیف بن گیا اور بالآخر اس نے اتنا اقتدار اور رسوخ پیدا کر لیا کہ قبیلہ بنو نضیر کے رئیس اعظم ابو رافع بن ابو الحقیق نے اپنی لڑکی اسے رشتہ میں دے دی.اسی لڑکی کے بطن سے کعب پیدا ہوا جس نے بڑے ہو کر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا حتی کہ بالآخر اسے یہ حیثیت حاصل ہو گئی کہ تمام عرب کے یہودی اسے گویا اپنا سر دار سمجھنے لگ گئے.کعب ایک وجیہ اور شکیل شخص ہونے کے علاوہ ایک قادر الکلام شاعر اور نہایت دولتمند آدمی تھا.ہمیشہ اپنی قوم کے علماء اور دوسرے ذی اثر لوگوں کو اپنی مالی فیاضی سے اپنے ہاتھ کے نیچے رکھتا تھا.مگر اخلاقی نقطہ نظر سے وہ ایک نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا اور خفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں اسے کمال حاصل تھا.فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے اسے بڑا کمال حاصل تھا.جب آنحضرت صلی ال تیم مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو کعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدے میں شرکت اختیار کی جو آنحضرت صلی علیہ کم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اور امن و امان اور مشترکہ

Page 87

71 اصحاب بدر جلد 5 دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا.ظاہر تو یہ معاہدہ کیا مگر اندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض و عداوت کی آگ سلگنے لگ گئی اور اس نے خفیہ چالوں اور مخفی ساز باز سے اسلام اور بانی اسلام علیکم کی مخالفت شروع کر دی.چنانچہ لکھا ہے کہ کعب ہر سال یہودی علماء و مشائخ کو بہت سی خیرات کر دیا کرتا تھا.لیکن جب آنحضرت صلی نیلم کی ہجرت کے بعد یہ لوگ اپنے سالانہ وظائف لینے کے لئے اس کے پاس گئے تو اس نے باتوں باتوں میں ان کے پاس آنحضرت صلی علیکم کا ذکر شروع کر دیا اور ان سے آپ کے متعلق مذہبی کتب کی بناء پر رائے دریافت کی.تو انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا تھا.کعب اس جواب پر بہت بگڑا اور ان سب کو بڑا سخت ست کہا اور رخصت کر دیا اور جو خیرات انہیں دیا کرتا تھاوہ نہ دی.یہودی علماء کی جب روزی بند ہو گئی تو کچھ عرصہ کے بعد پھر کعب کے پاس گئے اور کہا کہ ہمیں علامات کے سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی.ہم نے دوبارہ غور کیا ہے.دراصل محمد صلی علیکم وہ نبی نہیں ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا.اس جواب سے پھر کعب کا مطلب حل ہو گیا اور اس نے خوش ہو کر ان کو سالانہ خیرات دے دی.ابیہ لکھتے ہیں کہ خیر یہ تو ایک مذہبی مخالفت تھی جو گونا گوار صورت میں اختیار کی گئی لیکن قابل اعتراض نہیں ہو سکتی تھی.لوگ مذہبی مخالفت کرتے ہیں یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے اور نہ اس بناء پر کعب کو زیر الزام سمجھا جا سکتا تھا.یہ اس کے قتل کا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ یہ تو کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ اس کو قتل کیا جائے لیکن وجہ کیا بنی.اس کے بعد کعب کی مخالفت زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئی اور بالاآخر جنگ بدر کے بعد تو اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے نہایت خطر ناک حالات پیدا ہو گئے.مة الله مکہ پہنچ کر اسلام کو مٹانے کی قسمیں کھا کر سازشی منصوب...دراصل بدر سے پہلے کعب یہ سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کا یہ جوش ایمان ایک عارضی چیز ہے اور آہستہ آہستہ یہ سب لوگ خود بخود منتشر ہو کر اپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ آئیں گے لیکن جب بدر کے موقع پر مسلمانوں کو غیر متوقع فتح نصیب ہوئی اور رؤوسائے قریش اکثر مارے گئے تو اس نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیادین یو نہی متا نظر نہیں آتا.چنانچہ بدر کے بعد اس نے اپنی پوری کوشش اسلام کے مٹانے اور تباہ و برباد کرنے میں صرف کر دینے کا تہیہ کر لیا.اس کے دلی بغض و حسد کا سب سے پہلا اظہار اس موقع پر ہوا جب بدر کی فتح کی خبر مدینہ پہنچی تو اس خبر کو سن کر کعب نے علی رؤوس الا شہاد یہ کہہ دیا کہ خبر بالکل جھوٹی معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ محمد صلی للی کم کو قریش کے ایسے بڑے لشکر پر فتح حاصل ہو اور مکہ کے اتنے نامور رنیں خاک میں مل جائیں.اور اگر یہ خبریج ہے تو پھر اس زندگی سے مرنا بہتر ہے.یہ کعب نے کہا.جب اس خبر کی تصدیق ہو گئی اور کعب کو یہ یقین ہو گیا کہ واقعی بدر کی فتح نے اسلام کو وہ استحکام دے دیا ہے جس کا اسے وہم و گمان بھی نہ تھا تو وہ غیظ و غضب سے بھر گیا اور فور سفر کی تیاری کر کے اس نے مکہ کی راہ لی.وہاں جا کر اپنی چرب زبانی اور شعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو شعلہ بار کر دیا.ان کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کر دی.ان کے

Page 88

اصحاب بدر جلد 5 72 12 سینے جذبات انتقام و عداوت سے بھر دیئے.اور جب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک انتہائی درجہ کی بجلی پیدا ہو گئی تو اس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جا کر اور کعبہ کے پر دے ان کے ہاتھوں میں دے دے کر ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانی اسلام کو صفحہ دنیا سے ملیا میٹ نہ کر دیں گے اس وقت تک چین نہ لیں گے.مکہ کے کافروں سے اس نے یہ عہد لیا.مکہ میں یہ آتش فشاں فضا پیدا کر کے اس بدبخت نے دوسرے قبائل عرب کا رخ کیا اور قوم بہ قوم پھر کر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا.پھر مدینہ میں واپس آکر مسلمان خواتین پر تشبیب کہی.یعنی اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اور فحش طریق پر مسلمان خواتین کا ذکر کیا حتی کہ خاندان نبوت کی مستورات کو بھی اپنے او باشانہ اشعار کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا اور ملک میں ان اشعار کا چرچا کر وایا.آنحضرت صلی ال ولم کو قتل کرنے کی سازش بالآخر اس نے آنحضرت صلی لی ایم کے قتل کی سازش کی اور آپ کو کسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پر بلا کر چند نوجوان یہودیوں سے آپ کو قتل کروانے کا منصوبہ باندھا.مگر خدا کے فضل سے اس کی وقت پر اطلاع ہو گئی اور اس کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی.جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور کعب کے خلاف عہد شکنی، بغاوت، تحریک جنگ، فتنہ پردازی، فحش گوئی اور سازش قتل کے الزامات پایہ ثبوت کو پہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ ہم نے جو اس بین الا قوامی معاہدے کی رو سے جو آپ صلی علیم کے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد اہالیان مدینہ سے ہوا تھا آپ مدینہ کی جمہوری سلطنت کے صدر اور حاکم اعلیٰ تھے.ریاست مدینہ کے سربراہ کی طرف سے قتل کا فیصلہ آپ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ کعب بن اشرف اپنی کارروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے اور اپنے بعض صحابیوں کو ارشاد فرمایا کہ اسے قتل کر دیا جاوے.لیکن چونکہ اس وقت کعب کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مدینہ کی فضا ایسی ہو رہی تھی کہ اگر اس کے خلاف باضابطہ طور پر اعلان کر کے اسے قتل کیا جاتا تو مدینہ میں ایک خطر ناک خانہ جنگی شروع ہو جانے کا احتمال تھا جس میں نامعلوم کتناکشت و خون ہونا تھا اور آنحضرت صلیم ہر مکن اور جائز قربانی کر کے بین الا قوامی کشت و خون کو روکنا چاہتے تھے.جنگ نہیں چاہتے تھے.آپ صلی للہ ہم نے یہ ہدایت فرمائی کہ کعب و بر ملاطور پر پورا سامنے لا کر قتل نہ کیا جاوے بلکہ چند لوگ خاموشی کے ساتھ کوئی مناسب موقع نکال کر اسے قتل کر دیں اور یہ ڈیوٹی آپ نے قبیلہ اوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مسلمہ کے سپرد فرمائی اور انہیں تاکید فرمائی کہ جو طریق بھی اختیار کریں قبیلہ اوس کے رئیس سعد بن معاذ کے مشورہ سے کریں.محمد بن مسلمہ نے عرض کیا یار سول اللہ خاموشی کے ساتھ قتل کرنے کے لئے تو کوئی بات کہنی ہو گی یعنی کوئی عذر وغیرہ بنانا پڑے گا جس کی مدد سے کعب کو اس کے گھر سے نکال کر کسی محفوظ جگہ میں قتل کیا جا سکے.آپ نے ان عظیم الشان اثرات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو اس موقع پر ایک خاموش سزا کے طریق کو چھوڑنے سے پید اہو سکتے تھے

Page 89

73 اصحاب بدر جلد 5 فرمایا کہ اچھا.چنانچہ محمد بن مسلمہ نے سعد بن معاذ کے مشورہ سے ابو نائلہ اور دو تین اور صحابیوں کو اپنے ساتھ لیا اور کعب کے مکان پر پہنچے اور کعب کو اس کے اندرون خانہ سے بلا کر کہا کہ ہمارے صاحب یعنی محمد رسول اللہ صلی علیکم ہم سے صدقہ مانگتے ہیں اور ہم تنگ حال ہیں.کیا تم مہربانی کر کے ہمیں کچھ قرض دے سکتے ہو.یہ بات سن کر کعب خوشی سے کود پڑا.کہنے لگا اللہ ابھی کیا ہے وہ دن دور نہیں جب تم اس شخص سے بیزار ہو کر اسے چھوڑ دو گے.اس پہ محمد نے جواب دیا خیر ہم تو محمد علی علی ایم کی اتباع اختیار کر چکے ہیں اور اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلہ کا انجام کیا ہوتا ہے مگر تم یہ بتاؤ کہ قرض دو گے یا نہیں.کعب نے کہا کہ ہاں مگر کوئی چیز رہن رکھو.محمد نے پوچھا کیا چیز ؟ اس بدبخت نے جواب دیا کہ اپنی عور تیں رہن رکھ دو.محمد نے غصہ کو دبا کر کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمہارے جیسے آدمی کے پاس ہم اپنی عورتیں رہن رکھ دیں تمہارا تو اعتبار کوئی نہیں.اس نے کہا اچھا تو پھر بیٹے سہی.محمد نے جواب دیا یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم اپنے بیٹے تمہارے پاس رکھوا دیں.ہم سارے عرب کا طعن اپنے سر پر نہیں لے البتہ اگر تم مہربانی کرو تو ہم اپنے ہتھیار رہن رکھ دیتے ہیں.کعب راضی ہو گیا اور محمد بن مسلمہ اور ان کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ دے کر واپس چلے آئے.جب رات ہوئی تو یہ پارٹی ہتھیار وغیرہ ساتھ لے کر کیونکہ اب وہ کھلے طور پر ہتھیار ساتھ لے جاسکتے تھے کعب کے مکان پر پہنچے اور اس کو گھر سے نکال کر باتیں کرتے کرتے ایک طرف لے آئے اور پھر تھوڑی دیر بعد چلتے چلتے اس کو قابو کر کے وہ صحابہ جو پہلے ہتھیار بند تھے انہوں نے تلوار چلائی اور اسے قتل کر دیا.بہر حال کعب قتل ہو کر گرا اور محمد بن مسلمہ اور ان کے ساتھی وہاں سے رخصت ہو کر آنحضرت صلی اللی علم کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور آپ کو اس قتل کی اطلاع دی ہے.یہود مدینہ کا اپنے سردار کے قتل کو درست تسلیم کرنا اور از سر نو معاہدہ جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اور یہودی لوگ سخت جوش میں آگئے اور دوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کا ایک وفد آنحضرت صلی یکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سر دار کعب بن اشرف اس طرح قتل کر دیا گیا ہے.آنحضرت صلی للہ ہم نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کہ کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مر تکب ہوا ہے.اور پھر آپ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہد شکنی، تحریک جنگ اور فتنہ انگیزی اور فحش گوئی اور سازش مقتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہو گئے.اس کے بعد آنحضرت صلی ا لم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ کم از کم آئندہ کے لئے ہی امن اور تعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اور فتنہ وفساد کے بیچ نہ بود.چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لئے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہنے اور فتنہ و فساد کے طریقوں سے بچنے کا از سر نو وعدہ کیا.182

Page 90

اصحاب بدر جلد 5 یہ قتل جائز تھا..جرم را 74 آپ صلی ای کم نے ان کی باتیں سن کر یہ نہیں فرمایا کہ مسلمانوں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اس کے م گنوائے اور اس کا جو ظاہری نتیجہ نکلنا چاہئے تھا وہ بتایا کہ ان حرکتوں کے بعد اُسے قتل تو ہو نا تھا اور یہود کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ آپ صحیح فرمارہے ہیں تبھی تو نیا معاہدہ کیا تا کہ اس قسم کے واقعات آئندہ نہ ہوں اور پھر پرامن فضا آئندہ کے لیئے قائم ہو جائے.یہ نہ ہو کہ اب یہودی بدلے لینے شروع کریں پھر مسلمان انہیں سزا دیں.اگر یہودی قتل کیا جانا غلط سمجھتے کہ نہیں اس طریقے سے غلط کیا گیا ہے تو خاموش نہ ہوتے بلکہ خون بہا کا مطالبہ کرتے.یہ مطالبہ تو انہوں نے نہیں کیا اور خاموشی دکھائی تو یہ تمام باتیں بتاتی ہیں کہ اس وقت کے قانون کے مطابق یہ قتل جائز تھا.کیونکہ جو فتنہ یہ پھیلا رہا تھا یہ قتل سے بھی بڑھ کر تھا اور یہی ایسے مجرم کی سزا تھی اور ہونی چاہئے تھی اور اس وقت کے رواج کے مطابق جب اس کو سیزا دی گئی تو جیسا کہ میں نے کہا اس طرح سزا دی جا سکتی تھی.اس رواج کے مطابق اگر سزادی جاسکتی تھی جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں اور یہودیوں کے رویے سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے تو پھر اعتراض کی بھی گنجائش نہیں.اگر نہ دی جا سکتی ہوتی تو یہودی یقیناً سوال اٹھاتے کہ مقدمہ چلا کر اور پھر ظاہر کھلے طور پر سزا کیوں نہیں دی گئی.پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اس کا یہ قتل بالکل جائز تھا اور یہ سزا تھی لیکن یہ بھی واضح ہوناچاہئے کہ آجکل کے شدت پسند گروہ ایسی باتوں سے غلط sense میں بات کرتے ہیں اور اسی طرح حکومتیں بھی اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا قتل کرنا جائز ہے.اول تو فتنہ اس طرح پھیلایا نہیں جارہا.جن کو قتل کیا جاتا ہے وہ فتنہ پھیلانے والوں میں نہیں ہیں.دوسرے صرف وہاں مجرم کو سزادی گئی تھی نہ اس کے خاندان کو نہ کسی اور کو.یہ لوگ جب قتل کرتے ہیں تو معصوموں کو قتل کر رہے ہیں.عورتوں کو قتل کر رہے ہیں.بچوں کو قتل کر رہے ہیں.کئی لوگوں کو اپانج کر رہے ہیں.بہر حال آجکل کے قاعدہ اور قانون کے مطابق یہ چیز جائز نہیں اور اُس وقت وہ سزا صحیح تھی اور واجب تھی اور حکومت نے اس کو دی تھی.صدقات وصول کرنے کا کام سپر د کرنا آنحضرت علی الم نے حضرت عباد بن بشر کو بنو سلیم اور مزینہ کے پاس صدقہ وصول کرنے کے لئے بھیجا.حضرت عباد بن بشر ان کے پاس دس دن مقیم رہے.وہاں سے واپسی پر بنو مصطلق سے صدقہ وصول کرنے گئے.وہاں بھی آپ کا قیام دس دن کا رہا.اس کے بعد آپ واپس مدینہ آگئے.اسی طرح یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ آنحضور صلی علیم نے حضرت عباد بن بشر کو غزوہ حنین کے مال غنیمت کا عامل مقرر فرمایا تھا اور غزوہ تبوک میں آپ کو اپنے پہرے کا نگران مقرر فرمایا تھا.183 انصار کے تین افضل ترین صحابہ آپ کا شمار فاضل صحابہ کرام میں ہو تا تھا.حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ انصار میں سے تین

Page 91

اصحاب بدر جلد 5 75 ایسے تھے کہ ان کے اوپر انصاری صحابہ میں سے کسی اور کو افضل شمار نہیں کیا جاسکتا اور وہ سب کے سب قبیلہ بنو عبد الاشھل میں سے تھے.وہ تین یہ تھے.حضرت سعد بن معاذ، حضرت اسید بن حضیر اور حضرت عباد بن بشر.حضرت عباد بن بشر سے روایت ہے کہ آنحضور صلی ا یکم نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے انصار کے گروہ تم لوگ میرے شعار ہو.( یعنی وہ کپڑا جو سب کپڑوں سے نیچے ہوتا ہے اور بدن سے ملا رہتا ہے ) اور باقی لوگ دینار ہیں.(یعنی وہ چادر جو اوپر اوڑھی جاتی ہے ) آنحضرت صلی علیہم نے فرمایا کہ مجھے اطمینان ہے کہ تمہاری طرف سے مجھے کوئی تکلیف دہ بات نہیں پہنچے گی.جنگ یمامہ میں شہادت حضرت عباد بن بشر جنگ یمامہ میں 45 سال کی عمر میں شہید ہوئے.اللہ عباد پر رحم کرے حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی علیکم میرے گھر میں تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں آپ نے عباد بن بشر کی آواز سنی جو مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے.آپ صلی الیم نے پوچھا عائشہ کیا یہ عباد کی آواز ہے ؟ میں نے کہا ہاں.آپ صلی علی ایم نے فرمایا کہ اے اللہ عباد پر رحم کر.روشنی کے دو چراغ اسی طرح حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی نیلم کے صحابہ میں سے دو شخص ایک تاریک رات میں نبی کریم صلی لیلی کیم کے پاس سے نکلے.ان میں سے ایک حضرت عباد بن بشر تھے اور دوسرے میں سمجھتاہوں کہ حضرت اُسید بن حضیر تھے اور ان کے ساتھ دو چراغ جیسے تھے جو ان کے سامنے روشنی کر رہے تھے.جب وہ دونوں جدا جدا ہوئے تو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ایک چراغ ہو گیا.(رات کو اندھیرے میں روشنی دکھانے کے لئے آخر وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ گئے.184 صلح حدیبیہ میں شمولیت صلح حدیبیہ کے سفر میں بھی یہ شامل تھے.اس سفر کی تفصیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی علی کی کچھ اوپر چودہ سو صحابیوں کی جمعیت کے ساتھ ذو قعدہ 6 ہجری کے شروع میں پیر کے دن بوقت صبح مدینہ سے روانہ ہوئے اور اس سفر میں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ آپ کے ہم رکاب تھیں.اور مدینہ کا امیر تحمیلہ بن عبد اللہ کو اور امام الصلوۃ عبد اللہ بن ام مکتوم کو جو آنکھوں سے معذور تھے مقرر کیا گیا تھا.جب آپ ذوالحلیفہ میں پہنچے جو مدینہ سے قریباً چھ میل کے فاصلے پر مکہ کے رستے پر واقع ہے تو آپ صلی الی یکم نے ٹھہرنے کا حکم دیا اور نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد قربانی کے

Page 92

اصحاب بدر جلد 5 76 اونٹوں کو جو تعداد میں ستّر تھے نشان لگائے جانے کا ارشاد فرمایا اور صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ حاجیوں کا مخصوص لباس یعنی جو احرام کہلاتا ہے وہ پہن لیں اور آپ نے خود بھی احرام باندھ لیا اور پھر قریش کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لئے کہ آیا وہ کسی شرارت کا ارادہ تو نہیں رکھتے ایک خبر رساں بُشر بن شفیان نامی کو جو قبیلہ خزاعہ سے تعلق رکھتا تھا جو مکہ کے قریب آباد تھے آگے بھجوا کر آہستہ آہستہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور مزید احتیاط کے طور پر مسلمانوں کی بڑی جمعیت کے آگے آگے رہنے کے لئے عباد بن بشر کی کمان میں ہیں سواروں کا ایک دستہ بھی متعین فرمایا.جب آپ چند روز کے سفر کے بعد عُسفان کے قریب پہنچے جو مکہ سے تقریباً دو منزل کے راستے پر واقع ہے تو آپ کے خبر رساں نے واپس آ کر آپ کی خدمت میں اطلاع دی کہ قریش مکہ بہت جوش میں ہیں اور آپ کو روکنے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہیں حتی کہ ان میں سے بعض نے اپنے جوش اور وحشت کے اظہار کے لئے چیتوں کی کھالیں بہن رکھی ہیں اور جنگ کا پختہ عزم کر کے بہر صورت مسلمانوں کو روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں.یہ بھی معلوم ہوا کہ قریش نے اپنے چند جانباز سواروں کا ایک دستہ خالد بن ولید کی کمان میں جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے آگے بھیجوا دیا ہے اور یہ کہ یہ دستہ اس وقت مسلمانوں کے قریب پہنچا ہوا ہے اور اس دستہ میں عکرمہ بن ابو جہل بھی شامل ہے.یہ خبریں آپ کو دی گئیں.آنحضرت صلی ا ہم نے یہ خبر سنی تو تصادم سے بچنے کی غرض سے صحابہ کو حکم دیا کہ مکہ کے معروف راستے کو چھوڑ کر دائیں جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھیں.چنانچہ مسلمان ایک دشوار گزار اور کٹھن راستے پر پڑ کر سمندر کی جانب سے ہوتے ہوئے آگے بڑھنا شروع ہوئے.185 اور وہاں پہنچے.آگے پھر صلح حدیبیہ کا سارا واقعہ ہے تو عباد بن بشر بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کو ایک دستہ کا سوار بنا کر معلومات لینے کے لئے بھیجا.بہت قابل اعتبار قابلِ اعتماد صحابی تھے جن پہ آنحضرت صلی الی یم کو بہت زیادہ اعتماد تھا.حضرت عباد بن بشر حدیبیہ کے موقع پر ہونے والی بیعت جس کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے اس میں شامل ہونے والے صحابہ کرام میں سے ہیں.تیروں کے زخم اور نماز میں محویت غزوہ ذات الرفاع کا ایک واقعہ ہے کہ آنحضور صلی علیم نے ایک رات ایک جگہ پر قیام فرمایا.ا وقت تیز ہوا چل رہی تھی آپ صلی علیہ کی ایک گھائی پر فروکش ہوئے تھے.آپ نے صحابہ سے پوچھا کہ کون ہے جو آج رات ہمارے لئے پہرہ دے گا.اس پر حضرت عباد بن بشر اور حضرت عمار بن یا سر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کا پہرہ دیں گے.اس کے بعد وہ دونوں گھاٹی کی چوٹی پر بیٹھ گئے.پھر حضرت عباد بن بشر نے حضرت عمار بن یاسر سے کہا کہ ابتدائی رات میں پہرہ دے لوں گا اور ان کو کہا کہ تم جا کر سو جاؤ.اور آخر رات میں تم پہرہ دے دینا تا کہ میں سو جاؤں.چنانچہ حضرت عمار بن یاسر تو سو گئے اور حضرت عباد بن بشر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے.

Page 93

اصحاب بدر جلد 5 77 77 ادھر نجد کے علاقے میں آنحضرت صلی اللہ ہم نے وہاں اُن کی زیادتیوں کی وجہ سے عورتوں کو جو پکڑا تھا تو ان میں سے ایک عورت کا شوہر اس وقت غائب تھا.اگر وہ ہو تا تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہوتی لیکن بہر حال جب وہ واپس آیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کی بیوی کو مسلمانوں نے قیدی بنالیا ہے.اس نے اسی وقت قسم کھائی کہ میں اس وقت تک چین سے نہ بیٹھوں گا جب تک محمد صلی یکم کو نقصان نہ پہنچالوں یا ان کے اصحاب کا خون نہ بہالوں.چنانچہ وہ پیچھا کرتا ہوا اس وادی کے قریب آیا جہاں آنحضرت صلی علیکم فروکش تھے.جب اس نے وادی کے درہ پر حضرت عباد بن بشر کا سایہ دیکھا تو بولا کہ یہ دشمن کا پہریدار ہے.اس نے تیر کمان پر چڑھا کر چلا دیا جو حضرت عباد بن بشر کے جسم میں پیوست ہو گیا.حضرت عباد بن بشر اس وقت نماز میں مصروف تھے.انہوں نے تیر نکال کر پھینک دیا اور نماز جاری رکھی اس نے دوسرا تیر مارا.وہ بھی انہیں لگا.انہوں نے اس کو بھی نکال کے پھینک دیا.پھر جب تیسر ا تیر مارا تو حضرت عباد بن بشر کا کافی خون بہہ نکلا.انہوں نے نماز مکمل کی اور حضرت عمار بن یاسر کو جگایا.جب حضرت عمار بن یاسر نے حضرت عباد بن بشر کو زخمی حالت میں دیکھا تو پوچھا کہ پہلے کیوں نہیں جگایا.تو کہنے لگے کہ میں نماز میں سورۃ کہف کی تلاوت کر رہا تھا.میر ادل نہیں چاہا کہ میں نماز کو توڑوں.86 یہ تھی ان لوگوں کی عبادتوں کی حالت.حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عباد بن بشر کو کہتے ہوئے سنا کہ اے ابو سعید ! میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ آسمان میرے لئے کھول دیا گیا.پھر ڈھانک دیا گیا.کہتے ہیں انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ مجھے شہادت نصیب ہو گی.میں نے کہا اللہ کی قسم تُو نے بھلائی د بھی ہے.حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں میں نے دیکھا کہ حضرت عباد بن بشر انصار کو پکار رہے تھے کہ تم لوگ تلواروں کے میان توڑ ڈالو.اور لوگوں سے جدا ہو گئے.انہوں نے انصار میں سے چار سو آدمی چھانٹ لئے جن میں کوئی اور شامل نہ تھا جن کے آگے حضرت عباد بن بشر ، حضرت ابو دجانہ اور حضرت براء بن مالك تھے.یہ لوگ باب الحدیقہ تک پہنچے اور سخت جنگ کی.حضرت عباد بن بشر شہید ہوئے.میں نے ان کے چہرے پر تلوار کے اس قدر نشان دیکھے کہ صرف جسم کی علامت سے پہچان سکا.187 غزوہ خندق کے موقع پر بھی حضرت عباد بن بشر کو بھر پور خدمت کی توفیق ملی.چنانچہ حضرت اتم سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں خندق میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور کسی جگہ بھی آپ سے الگ نہیں ہوئی.آپ خود بھی خندق کی نگرانی فرماتے تھے.ہم سخت سردی میں تھے میں آپ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ اٹھے اور جس قدر اللہ نے چاہا آپ نے اپنے خیمے میں نماز پڑھی.پھر آپ باہر نکلے اور دیکھا.کچھ دیر کے لیے نظر دوڑائی پھر میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا یہ تو مشرکوں

Page 94

اصحاب بدر جلد 5 78 کے گھڑ سوار ہیں جو خندق کا چکر لگا رہے ہیں.انہیں کون دیکھے گا ؟ پھر آپ نے آواز دی.اے عباد بن بشر ! حضرت عباد نے عرض کی میں حاضر ہوں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ہوں.ہم آپ کے خیمے کے ارد گرد ہیں.آپ نے فرمایا اپنے ساتھیوں کے ساتھ جاؤ اور خندق کا چکر لگاؤ.یہ ان مشرکین کے گھر سواروں میں سے کچھ گھڑ سوار ہیں جو تم پر چکر لگا رہے ہیں اور وہ خواہش رکھتے ہیں کہ تمہاری غفلت میں اچانک تم پر حملہ کر دیں.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ ! ہم سے ان کے شر کو دور کر دے اور ان کے خلاف ہماری مدد فرما اور ان کو مغلوب کر دے.تیرے علاوہ کوئی انہیں مغلوب نہیں کر سکتا.پھر حضرت عباد بن بشر اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکلے اور دیکھا کہ ابوسفیان مشرکین کے چند گھڑ سواروں کے ساتھ تھا اور وہ خندق کی تنگ جگہ کا چکر لگا رہا تھا اور مسلمان جو اس کنارے پر وہاں بیٹھے تھے، ان کے بارے میں آگاہ ہو چکے تھے.انہوں نے، مسلمانوں نے ان پر پتھر اور تیر برسائے.پھر ہم بھی ان کے ساتھ رک گئے اور ہم نے بھی ان پر تیر اندازی کی یہاں تک کہ ہم نے ان مشرکین کو تیر اندازی کرتے ہوئے اپنی جگہ سے ہٹنے پر مجبور کر دیا اور وہ اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ گئے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا اور میں نے آپ کو نماز کی حالت میں پایا.پھر میں نے آپ کو اس واقعہ کے بارے میں آگاہ کیا.حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کی سانس کی آواز سنی اور آپ اس وقت تک نہ اٹھے یہاں تک کہ میں نے حضرت بلال کو صبح کی اذان دیتے ہوئے سنا اور فجر کی سفیدی نظر آگئی.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور مسلمانوں کو نماز پڑھائی.حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھیں کہ اللہ تعالی عباد بن بشر پر رحم فرمائے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے سب سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کے ساتھ چھٹے رہے اور ہمیشہ اس کی حفاظت کرتے رہے.188 ”حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ انصار میں سے تین اشخاص اپنی افضلیت میں جواب نہیں رکھتے تھے یعنی “ حضرت اسید بن الحضير ، حضرت سعد بن معاذ اور حضرت ” عباد بن بشر.1894 تحویل قبلہ کے متعلق روایت ہے.اس میں حضرت عباد بن بشر کا نام بھی آتا ہے.چنانچہ حضرت تونیکہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم بنو حارثہ میں ظہر یا عصر کی نماز پڑھ رہے تھے اور دور کعت بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی تھیں کہ ایک آدمی آیا اور اس نے آکر ہمیں بتایا کہ قبلہ مسجد حرام کی طرف پھیر دیا گیا ہے.وہ بیان کرتی ہیں کہ پھر ہم نے جگہ تبدیل کر لی اور مرد عورتوں کی جگہ کی طرف منتقل ہو گئے اور عورتیں مردوں کی جگہ کی طرف.ایک روایت کے مطابق اس

Page 95

اصحاب بدر جلد 5 79 12 اطلاع دینے والے آدمی کا نام حضرت عباد بن بشر بن قیظی تھا جو کہ قبیلہ بنو حارثہ سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق یہ شخص عباد بن بشر بن وقش تھے جو بنو عبد الاشہل سے تعلق رکھتے تھے.190 صلح حدیبیہ کے موقع پر جب قریش مکہ کی طرف سے سہیل بن عمرو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بات چیت کی غرض سے آیا تو اس وقت بھی حضرت عباد بن بشر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوہے کی خُود پہنے کھڑے تھے اور آپ کے ساتھ ایک اور صحابی حضرت سلمہ بن اسلم بھی تھے.، سہیل کی آواز بلند ہوئی تو حضرت عباد بن بشر نے اسے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ دوران رور وسلم کے پاس اپنی آواز دھیمی رکھو.191 حضرت عباد بن بشر ہر غزوے کے موقع پر پیش پیش رہے چنانچہ جب عیینہ بن حصن فزاری، بنو غطفان کے چند سواروں کے ساتھ غابہ پر حملہ آور ہوا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ود ھیل اونٹنیاں چرا کرتی تھیں تو انہوں نے اونٹنیوں کی نگرانیوں پر متعین آدمی کو قتل کر دیا اور اس کی بیوی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو ساتھ لے گئے.جب مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو گھڑ سوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے لگے.روایت میں ذکر ہے کہ انصار میں سے حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے پہلے حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے.192 یہ مہم غزوہ ذی قرد کے نام سے مشہور ہے.اس کی تفصیل صحیح بخاری میں بھی آئی ہے.یزید بن ابی عبید سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے حضرت سلمہ بن اکوع سے سناوہ کہتے تھے کہ میں نماز فجر کی اذان سے پہلے مدینہ سے نکل کر غابہ کی طرف گیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھیل ونٹنیاں ذی قرد مقام پر چر رہی تھیں.کہتے تھے کہ عبد الرحمن بن عوف کا ایک لڑکا مجھے رستے میں ملا.کہنے لگار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں لے گئے ہیں.میں نے کہا کون لے گئے ہیں ؟ اس نے کہا غطفان کے لوگ.کہتے تھے کہ یہ سنتے ہی میں نے یا صباحاہ کی آواز تین بار بلند کی اور ان کو پہنچا دی جو مدینہ کے دو پتھر یلے میدانوں میں تھے.پھر اپنے سامنے بے تحاشا دوڑ پڑا یہاں تک کہ ان لٹیروں کو جا لیا اور وہ جانوروں کو پانی پلانے لگے تھے.میں نے انہیں تیروں کا نشانہ بنایا اور میں اچھا تیر انداز تھا اور یہ رجز کہتا جاتا تھا.میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کا دن وہ ہے جس میں معلوم ہو جائے گا کہ دودھ پلانے والیوں نے کسے دودھ پلایا ہے اور میں گرجتے ہوئے یہ رجزیہ شعر پڑھتا تھا یہاں تک کہ ان سے تمام دودھیل اونٹنیاں چھڑا لیں اور ان سے تیس چادریں بھی چھین لیں.کہتے تھے کہ میں اسی حال میں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں سمیت آپہنچے.میں نے کہا نبی اللہ ! میں نے ان لوگوں کو پانی نہیں پینے دیا اور وہ پیاسے تھے.آپ ان کی طرف اس وقت دستہ بھیجے.آپ نے فرمایا: اکوع کے بیٹے !تم نے ان پر قابو پالیا ہے اس لیے نرمی کرو.

Page 96

اصحاب بدر جلد 5 80 60 حضرت اکوع کہتے تھے پھر ہم لوٹ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے اپنی نا پر بٹھالیا اور ہم اسی حالت میں مدینہ میں داخل ہوئے.3 193 189 حضرت عبادبن قیس حضرت عباد بن قیس.ان کی وفات بھی 8 ہجری میں جنگ موتہ میں ہوئی.ان کے نام میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے.آپ کا نام عُبادہ بن قیس بن عیشہ بھی ملتا ہے.اسی طرح آپ کے دادا کا نام عبسہ بھی بیان کیا جاتا ہے.حضرت عباد حضرت ابو درداء کے چاتھے.حضرت عباد غزوہ بدر، احد، خندق اور خبیر میں آنحضور صلی الی یکم کے ہمرکاب تھے.صلح حدیبیہ میں بھی آپ شریک تھے اور جنگ موتہ میں آپ کی شہادت ہوئی.194 190 رض حضرت عبادہ بن خشخاش رض حضرت عبادہ بن خشخاش ہے.حضرت عبادہ بن خَشْخَاش کا نام واقدی نے عبده بن حَسْحَاش بیان کیا ہے جبکہ ابنِ مَنْدَہ نے آپ کا نام عُبادہ بن خَشْخَاشُ عَنْبَرِی بیان کیا ہے.بہر حال ان کا تعلق قبیلہ بلی سے تھا.حضرت محجر بن زیاد کے چازاد بھائی تھے اور ان کی والدہ کی طرف سے بھی بھائی تھے.آپ بَنُو سَالِھ کے حلیف تھے.195 حضرت عبادہ بن خشخاش غزوہ بدر میں شریک تھے.آپ نے قیس بن سائب کو غزوہ بدر میں قید کیا تھا.حضرت عُبادہ بن خَشخاش غزوۂ احد کے دن شہید ہوئے اور آپ کو حضرت نعمان بن مالک اور حضرت مُجنّد بن زیاد کے ساتھ ایک قبر میں دفن کیا گیا.رض 196

Page 97

81 191) اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت عبادہ بن صامت دو بھائی جو بدر میں شامل ہوئے یہ انصاری تھے.حضرت عبادہ کے والد کا نام صامت بن قیس اور والدہ کانام قرۃ العین بنت عُبادہ تھا.بیعت عقبه اولی اور ثانیہ میں یہ شریک تھے.قواقل انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو عوف بن خزرج کے سردار تھے جو قوا قلی کے نام سے مشہور تھے.قوقل نام کی جو وجہ ہے وہ یہ ہے کہ جب مدینے میں کسی سردار کے پاس کوئی شخص پناہ کا طلب گار ہوتا تو اس سے یہ کہا جاتا تھا کہ اس پہاڑ پر جیسے مرضی چڑھ.اب تو امن میں ہے یعنی تجھے کوئی مشکل نہیں.جہاں جس طرح مرضی رہ یعنی تو اس حالت میں کوٹ جا کہ تو فراخی محسوس کر اور اب کسی بھی چیز کا خوف نہ کھا.اور وہ لوگ جو پناہ دینے والے تھے وہ قواقلہ کے نام سے مشہور تھے.ابن ہشام کہتے ہیں کہ ایسے سردار جب کسی کو پناہ دیتے تو اسے ایک تیر دے کر کہتے کہ اس تیر کولے کر اب جہاں مرضی جاؤ.حضرت نعمان کے داد ا ثعلبہ بن دَعْد کو قوقل کہا جاتا تھا.اسی طرح خزرج کے سردار غنم بن عوف کو بھی قوقل کہا جاتا تھا.اسی طرح حضرت عبادہ بن صامت بھی قوقل کے لقب سے مشہور تھے.بنو سالم ، بنو غنم اور بنو عوف بن خزرج کو بھی قوا قلہ کہا جاتا تھا.بنو عوف کے سردار حضرت 197 عُبادہ بن صامت تھے.حضرت عبادہ کے ایک بیٹے کا نام ولید تھا جس کی والدہ کا نام جمیلہ بنت ابو صغصغہ تھا.دوسرے بیٹے کا نام محمد تھا جس کی والدہ کا نام حضرت اُمّ حَرَام بنت ملحان تھا.حضرت اوس بن صامت حضرت عبادہ کے بھائی تھے.حضرت اوس بھی بدری صحابی تھے.198 تمام غزوات میں شمولیت رض جب حضرت ابو مرثد غنوی ہجرت کر کے مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی الل ولم نے حضرت عبادہ کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم فرمائی.حضرت عبادہ غزوہ بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علی کریم کے ہمراہ شریک تھے.

Page 98

اصحاب بدر جلد 5 بیت المقدس میں وفات اور تدفین 82 62 حضرت عبادہ 34 ہجری میں رملہ فلسطین میں فوت ہوئے.بعض کے مطابق بیت المقدس میں فوت ہوئے اور وہیں تدفین ہوئی اور ان کی قبر آج بھی معروف ہے.ایک روایت کے مطابق حضرت عبادہ کی وفات قبرس میں ہوئی جبکہ وہ حضرت عمر کی طرف سے اس پر والی بنا کر بھیجے گئے تھے.وفات کے وقت ان کی عمر 72 سال تھی.ان کا قد لمبا جسم فربہ اور بہت خوبصورت تھا.بعض کے مطابق ان کی وفات پینتالیس ہجری میں امیر معاویہ کے دور میں ہوئی مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے جس میں ان کی وفات جو ہے وہ34 ہجری میں فلسطین میں ہوئی نہ کہ 45 ہجری.199 حضرت عبادہ بن صامت کی روایات کی تعداد ایک سو اکاسی 81 استک پہنچتی ہے.احادیث کی مختلف روایات ان سے ہیں جس کے روایت کرنے والے اکابر صحابہ اور تابعین ہیں.چنانچہ صحابہ کرام میں سے حضرت انس بن مالک، حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت مقدام بن مَعْدِی كَرِب وغیرہ ہیں.بیعت عقبہ کی بیعت 200 راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ جنگ بدر میں شامل ہوئے تھے اور عقبہ کی رات یہ بھی سرداروں میں سے ایک سردار تھے کہ حضرت عبادہ بن صامت نے بیان کیا ہے.یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی الیم نے جبکہ آپ صلی علیم کے ارد گرد آپ صلی لی ایم کے صحابہ کا ایک گروہ تھا فرمایا کہ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم کسی چیز کو بھی اللہ کا شریک نہیں ٹھہر آؤ گے.نہ ہی چوری کرو گے اور نہ ہی اولاد کو قتل کرو گے اور تم دیدہ و دانستہ بہتان نہیں باند ھو گے اور نہ معروف بات میں تم نا فرمانی کرو گے.پس جس نے بھی تم میں سے یہ عہد پورا کیا اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہو گا اور جس نے ان بدیوں میں سے کوئی بدی کی اور پھر دنیا میں اسے سزا مل گئی تو یہ سزا اس کے لیے کفارہ ہو گی اور جس نے ان بدیوں میں سے کوئی بدی کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اللہ کے سپر د ہے.اللہ چاہے تو اس سے در گزر کرے اور چاہے تو اسے سزا دے.سو ہم نے ان باتوں پر آپ صلی غلیظلم سے بیعت کی تھی.یہ بخاری کی روایت ہے.201 آنحضرت علی ایم کی میزبان کے لئے بے چین...عبادہ بن صامت! ہجرت مدینہ کے وقت نبی کریم صلی علیہم نے جب قبا میں نماز جمعہ ادا فرمائی تو نماز جمعہ پڑھنے کے بعد آنحضرت صلی للی کم مدینہ کی طرف جانے کے لیے اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے.آپ صلی میں ہم نے اس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی اور اس کو کوئی حرکت نہ دی.اونٹنی دائیں اور بائیں اس طرح دیکھنے لگی کہ جیسے وہ چلنے کے لیے کسی سمت اور کسی رخ کا فیصلہ کر رہی ہے کہ میں کدھر جاؤں.یہ کھڑی تھی، دائیں بائیں دیکھ رہی تھی اور آگے نہیں چل رہی تھی.یہ دیکھ کر بنو سالم کے لوگوں نے یعنی جن کے محلے میں آپ صلی یہ کلم نے

Page 99

اصحاب بدر جلد 5 83 جمعہ کی نماز پڑھی تھی انہوں نے آنحضرت صلی علیم سے سوال کیا.ان میں عتبان بن مالك اور ٹو فل بن عبد اللہ بن مالک اور عبادہ بن صامت بھی تھے.انہوں نے رسول اللہ صلی العلیم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم.ہمارے ہاں قیام فرمائیے.یہاں اس علاقے میں لوگوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اور عزت و حفاظت بھی پوری ہو گی.ہم پوری طرح عزت بھی کریں گے، آپ کی حفاظت بھی کریں گے اور یہاں ہیں بھی ہم زیادہ مسلمان.ایک روایت میں یہ لفظ بھی ہے کہ یہاں دولت اور ثروت بھی ہے.ہمارے لوگ بڑے کشائش والے ہیں.پیسے ہمارے پاس ہیں.ایک روایت میں یوں ہے کہ ہمارے قبیلے میں اتریے، ہم تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور ہمارے پاس ہتھیار بھی ہیں.نیز ہمارے پاس باغات اور زندگی کی ضروریات بھی ہیں.یعنی کہ حفاظت بھی ہم کر سکتے ہیں.مالی لحاظ سے بھی ہم بہتر ہیں.پھر انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم) جب کوئی خوف اور دہشت کا مارا ہو ا عرب اس علاقے میں آجاتا ہے تو وہ ہمارے ہاں ہی آکر پناہ ڈھونڈتا ہے.آپ صلی اللہ ہم نے ان کی ساری باتیں سن لیں.ان کے لیے خیر کے کلمات عطا فرمائے اور فرمایا تمہاری باتیں، تمہارا سب کچھ ٹھیک ہے.اور فرمایا کہ اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو کیونکہ آج یہ مامور ہے.اس نے جہاں بھی جاتا ہے ، رکنا ہے، بیٹھنا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی جائے گی.ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ مسی ندیم نے فرمایا یہ اونٹنی مامور ہے اس لیے اس کا رستہ چھوڑ دو.آپ مسکراتے ہوئے یہ فرمار ہے تھے کہ جو بھی تم نے پیشکش کی ہے اللہ تم پر اپنی برکت نازل فرمائے.پھر اونٹنی وہاں سے چل پڑی.2 عبادہ بن صامت ایک ہزار کے برابر رض 202 فتح مصر کے متعلق "سیر الصحابہ " کا مصنف جو ہے لکھتا ہے کہ خلافت فاروقی میں مصر کے فتح ہونے میں دیر ہوئی تو حضرت عمر و بن عاص نے حضرت عمرؓ کو مزید مدد کے لیے خط لکھا.حضرت عمر نے چار ہزار فوج روانہ کی جس میں سے ایک ہزار فوج کے افسر حضرت عبادہ تھے اور جواب میں لکھا کہ ان افسروں میں سے ہر شخص ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے.یہ مدد مصر پہنچی تو حضرت عمر و بن عاص نے تمام فوج کو یکجا کر کے ایک پر اثر تقریر کی اور حضرت عبادہ کو بلا کر کہا کہ اپنا نیزہ مجھ کو دیجیے اور خود انہوں نے ، عمرو بن عاص نے، اپنے سر سے اپنا عمامہ اتارا اور نیزے پر لگا کر ان کے حوالے کیا کہ یہ سپہ سالار کا علم ہے، سپہ سالار کا جھنڈا ہے اور آج آپ سپہ سالار ہیں.خدا کی شان کہ اس کے بعد پہلے ہی حملے میں شہر فتح ہو گیا.13 حضرت عبادہ اور مختلف علاقوں کی فتوحات 203 حضرت ابو عبیدہ بن جراح فتح دمشق کے بعد حمص آئے اور یہاں کے باشندوں نے ان سے صلح کر لی اس کے بعد انہوں نے حضرت عُبادہ بن صامت انصاری کو حمص پر نگران مقرر کیا اور خود محماة کی طرف بڑھے.حضرت عُبادہ بن صامت نے بعد میں لاذقیہ کی طرف کوچ کیا جو ملک شام میں ساحل سمندر

Page 100

84 +4 اصحاب بدر جلد 5 پر واقع ایک شہر ہے.اس کے باشندوں نے مسلمانوں سے جنگ کی.وہاں ایک بہت بڑا دروازہ تھاجو لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے بغیر نہیں کھلتا تھا.حضرت عبادہ لشکر کو شہر سے دور لے گئے اور اسے ایسے گڑھے کھودنے کا حکم دیا جس میں ایک آدمی اور اس کا گھوڑا اچھی طرح چھپ جائیں.لمبی خندق کھو دیں.مسلمانوں نے گڑھے کھودنے میں بڑی کوشش کی اور جب اس کام سے فارغ ہو چکے تو دن کی روشنی میں حمص کی جانب واپس جانا ظاہر کیا اور جب رات چھا گئی تو یہ لوگ اپنی چھاؤنی اور اپنی خندقوں کی طرف واپس آگئے جو کھودی تھیں.اھلِ لاذقیہ دھوکے میں یہ سمجھتے رہے کہ وہ ان کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں.جب دن چڑھا تو انہوں نے اپنا دروازہ کھولا اور اپنے مویشی لے کر نکلے.مسلمان دفعہ نمودار ہوئے جنہیں دیکھ کر وہ لوگ دہل گئے.مسلمانوں نے ان پر چڑھائی کر دی اور دروازے سے شہر میں داخل ہو گئے اور اس کو فتح کر لیا.حضرت عبادہ قلعے میں داخل ہوئے.اس کی دیوار پر چڑھے اور اسی پر سے تکبیر کہی.لاذقیہ کے نصاری میں سے ایک قوم یسید کی طرف بھاگ گئی.پھر ان لوگوں نے اس پر امان چاہی کہ انہیں ان کی زمین کی طرف واپس آنے دیا جائے.پہلے تو ڈر کے چلے گئے لیکن پھر انہوں نے کہا کہ ہمیں امان دیں اور ہم واپس آنا چاہتے ہیں.چنانچہ خراج کی ادائیگی پر زمین ان کے حوالے کر دی گئی کہ ایک حصہ آمد کا تم دوگے اور ان کو ان کی زمین واپس کر دی اور ان کی معبد گاہ ان کے لیے چھوڑ دی گئی.جہاں وہ عبادت کرتے تھے وہ بھی ان کو واپس کر دی گئی کہ ٹھیک ہے تم جس طرح چاہتے ہو اپنی عبادت کرو.مسلمانوں نے لاذقیہ میں حضرت عبادہ کے حکم سے ایک مسجد بنائی جو بعد میں وسیع کی گئی.حضرت عبادہ اور مسلمان سمندر کے کنارے پہنچے اور بلدة نام کا ایک شہر فتح کیا جو جبلہ قلعہ سے دو فرسخ یعنی چھ میل کے فاصلے پر تھا.حضرت عبادہ اور ان کے ساتھی مسلمانوں نے پھر کافی فتوحات کی ہیں.ان کے ذریعہ سے انظر طوس فتح ہوا جو ملک شام میں سمندر کے کنارے واقع ایک شہر ہے.اسی طرح پھر ملک شام کے علاقے لاذقيه ، جَبَله بَلْدَة انظر طوس حضرت عبادہ بن صامت کے ہاتھوں فتح ہوئے.ایک دفعہ نبی کریم صلی سلیم نے حضرت عبادہ کو بعض صدقات کا عامل بنایا اور انہیں نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا.کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم اونٹ کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہو اور وہ بلبلاتا ہو یا گائے کو لا دے ہوئے آؤ اور اس کی آواز نکل رہی ہو یا بکری کو لادے ہوئے آؤ اور وہ ممیاتی ہو یعنی کہیں خیانت نہ ہو جائے.ایسا نہ ہو کہ صدقات کی صحیح طرح حفاظت نہ کر سکو اور اس زمانے میں جو صدقات آتے تھے.زکوۃ میں یا صدقات میں اونٹ گائے بکریاں وغیرہ جو چیزیں آرہی ہیں یہ نہ ہو کہ ان کی تقسیم کا اور ان کی حفاظت کا تم صحیح طرح حق نہ ادا کر سکو اور پھر قیامت کے دن وہی چیزیں تمہارے پہ بوجھ بن جائیں گی.حضرت عبادہ بن صامت نے یہ سن کے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی الیہ ہم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں تو دو آدمیوں پر بھی عامل نہ بنوں گا.میری تو یہ حالت ہے کہ میں تو کسی کا کوئی بوجھ برداشت نہیں کر سکتا.اس لیے مجھے تو نہ ہی بنائیں تو ٹھیک ہے.204

Page 101

اصحاب بدر جلد 5 صاحب علم رض 85 نب کر یم علی یہ کلم کے زمانے میں انصار میں سے پانچ آدمیوں نے قرآن کو جمع کیا تھا جن کے نام پر ہیں.حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابی بن کعب، حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت ابو در دا.205 حضرت یزید بن سفیان نے فتح شام کے بعد حضرت عمررؓ کو لکھا کہ اہل شام کو ایسے معلم کی ضرورت ہے جو انہیں قرآن سکھائے اور دین کی سمجھ بوجھ دے تو حضرت عمر نے حضرت معاذ، حضرت عبادہ اور حضرت ابو درداء کو بھیجا.حضرت عبادہ نے جا کر فلسطین میں قیام کیا.جنادہ سے مروی ہے کہ میں جب حضرت عبادہ کے پاس حاضر ہوا تو میں نے انہیں اس حالت میں پایا کہ انہیں اللہ کے دین کی خوب سمجھ تھی.یعنی بڑے صاحب علم تھے.206 اللہ ایسی زمین کو خراب کر دے گا جس میں تمہارے جیسا کوئی اور نہ ہوا جب مسلمانوں نے ملک شام کو فتح کیا تو حضرت عمرؓ نے حضرت عبادہ اور ان کے ساتھ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو دردار کو شام بھجوایا تا کہ وہاں لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیں اور ان کو دین سکھائیں.حضرت عُبادہ نے حمص میں قیام کیا اور حضرت ابو دردائر نے دمشق میں قیام کیا اور حضرت معاذ فلسطین کی طرف چلے گئے پھر کچھ دیر بعد حضرت عبادہ بھی فلسطین چلے گئے.وہاں امیر معاویہ نے ایک معاملہ میں یعنی دین کے معاملے میں مخالفت کی جس کو حضرت عبادہ نا پسند کرتے تھے.کسی دینی مسئلے میں اختلاف تھا.امیر معاویہ نے ان سے اس پر سخت کلامی کی تو حضرت عبادہ نے کہا کہ میں ہر گز آپ کے ساتھ ایک سرزمین میں نہ رہوں گا.پھر وہ مدینے چلے گئے تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز ادھر لے آئی ہے.حضرت عبادہ نے حضرت عمر کو ساری بات بتائی کہ اس طرح اختلاف ہوا تھا اور پھر انہوں نے میرے ساتھ بڑی سخت کلامی کی ہے.بہر حال اختلاف کی وجہ سے وہ واپس آگئے.اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم اپنی جگہ واپس چلے جاؤ اور اللہ ایسی زمین کو خراب کر دے گا جس میں تم یا تمہارے جیسا کوئی اور نہ ہوا.یعنی صاحب علم لوگ، دین کا علم رکھنے والے آنحضرت علی علیم کے پرانے صحابہ میں سے لوگ ضرور ہونے چاہیں.نہیں تو یہ اس زمین کی بد قسمتی ہے.اس لیے تمہار اواپس جاناضروری ہے اور امیر معاویہ کو بھی یہ فرمان لکھ کر بھیجا کہ تمہیں ان یعنی حضرت عبادہ پر کوئی اختیار نہیں ہے.بعض مسائل ہیں اگر یہ بیان کرتے ہیں یا بعض باتیں کہتے ہیں تو ان کے لیے سنا کرو اور یہ جو کہتے ہیں وہ ٹھیک کہتے ہیں.8 208 خدا کی خاطر قبیلے سے الگ ہو گئے.207 تاریخ میں لکھا ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی کے کہنے پر اس کے حلیف قبیلہ بنو قینقاع نے

Page 102

اصحاب بدر جلد 5 86 مسلمانوں سے جنگ کی تو حضرت عبادہ بھی عبد اللہ بن ابی کی طرح ان کے حلیف تھے لیکن اس جنگ کی حالت کی وجہ سے یہ اس قبیلے سے الگ ہو گئے اور اللہ اور اس کے رسول صلی للی کم کی خاطر ان کے حلیف ہونے سے بری ہو گئے.تاریخ میں لکھا ہے کہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصْرَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُم اَولِيَاءَ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ (امام 52:0) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ پکڑو.وہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان سے دوستی کرے گاوہ انہی کا ہو رہے گا.یقیناً اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا.209 کفار کو دوست نہ رکھنے کا اصل مفہوم یہاں یہ واضح کر دوں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کبھی بھی کسی عیسائی یا یہودی کو فائدہ پہنچانے والی بات نہیں کرنی.اُن سے تعلقات نہیں رکھنے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ یہودی یا عیسائی جو تمہارے ساتھ جنگ کی حالت میں ہیں ان سے دوستیاں نہ کرو ورنہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اُن سے نیکی اور عدل سے نہیں روکتا جو تم سے جنگ نہیں کرتے یا جنہوں نے تمہیں گھروں سے نہیں نکالا چاہے وہ کافر ہیں یا یہود و نصاریٰ میں سے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَنْصُكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (المستند :) اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم ان سے نیکی کرو اور ان سے انصاف کے ساتھ پیش آؤ.یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے رتا ہے.پس یہاں جو واضح کیا گیا ہے، پہلی آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کمزوری اور خوف اور بزدلی کی وجہ سے غیر مسلموں سے تعلقات نہیں رکھنے.مقصد یہ ہے کہ تمہارا اللہ تعالیٰ پر تو گل ہونا چاہیے اور اپنی ایمانی حالت کو بہتر کرو گے تو خدا تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ہو گا لیکن ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ بد قسمتی سے مسلمان حکومتیں مدد کے لیے انہی غیر لوگوں کی گودوں میں گر رہی ہیں اور ان سے خوف زدہ بھی ہیں اور غیروں سے مدد لینے کی وجہ سے پھر نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہر ایک مسلمان ملک دوسرے مسلمان کے خلاف ہے.یہی لوگ پھر اسلام کی جڑیں کاٹنے والے بھی ہیں.بہر حال ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان مسلمان حکومتوں کو بھی عقل دے.بنو قینقاع کی بغاوت اور ان کی جلا وطنی بہر حال اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے کہ بنو قینقاع نے جب جنگ کی تو اس کے بعد ان کا گھیراؤ کیا گیا.جنگ ہوئی اور انہوں نے شکست کھائی.سیرت خاتم النبیین میں اس واقعہ کا مختلف تاریخوں سے لے کر جو ذکر کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ اس جنگ کے بعد جب بنو قینقاع کی شکست ہوئی تو ان کو جلا وطنی کا

Page 103

اصحاب بدر جلد 5 87 حکم دیا گیا.اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب جنگ بدر ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو باوجود ان کی قلت اور بے سر و سامانی کے قریش کے ایک بڑے جزار لشکر پر نمایاں فتح دی اور مکے کے بڑے بڑے عمائد خاک میں مل گئے تو مدینے کے یہودیوں کی مخفی آتش حسد جو تھی وہ بھڑک اٹھی.انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا نوک جھونک شروع کر دی.مجلسوں میں بر ملا طور پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ قریش کے لشکر کو شکست دینا کون سی بڑی بات تھی.ہمارے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مقابلہ ہو تو ہم بتادیں کس طرح لڑا کرتے ہیں.حتی کہ ایک مجلس میں انہوں نے خود آنحضرت صلی لی ایم کے منہ پر اسی قسم کے الفاظ کہے.چنانچہ روایت آتی ہے کہ جنگ بدر کے بعد جب آنحضرت صلی غیر تم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ایک دن یہودیوں کو جمع کرکے ان کو نصیحت فرمائی اور اپنا دعویٰ پیش کر کے اسلام کی طرف دعوت دی.آپ کی اس پر امن اور ہمدردانہ تقریر کار و سائے یہود نے ان الفاظ میں جواب دیا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم شاید چند قریش کو قتل کر کے مغرور ہو گئے ہو اور وہ لوگ لڑائی کے فن سے ناواقف تھے.اگر ہمارے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو تو تمہیں پتا لگ جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں.اور یہود نے صرف اس عام دھمکی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ لکھا ہے، ایسا معلوم ہو تا تھا کہ انہوں نے آنحضرت صلی ا یم کے قتل کے بھی منصوبے شروع کر دیے تھے.کیونکہ روایت آتی ہے کہ جب ان دنوں میں طلحہ بن براء جو ایک مخلص صحابی تھے فوت ہونے لگے تو انہوں نے وصیت کی کہ اگر میں رات کو مروں تو نماز جنازہ کے لیے آنحضرت صلی للی علم کو اطلاع نہ دی جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپ صلی للی کم پر یہود کی طرف سے کوئی حادثہ گزر جائے.یعنی آپ رات کے وقت جنازے کے لیے تشریف لائیں اور یہود کو آپ پر حملہ کرنے کا موقع ملے.بہر حال جنگ بدر کے بعد یہود نے کھلم کھلا شرارت شروع کر دی اور چونکہ مدینے کے یہود میں بنو قینقاع سب سے زیادہ طاقتور اور بہادر تھے اس لیے سب سے پہلے ان ہی کی طرف سے عہد شکنی ہوئی.چنانچہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ مدینے کے یہودیوں میں سب سے پہلے بنو قینقاع نے اس معاہدے کو توڑا جو ان کے اور آنحضرت علی ایم کے درمیان ہوا تھا اور بدر کے بعد انہوں نے بہت سرکشی شروع کر دی اور بر ملا طور پر بغض اور حسد کا اظہار کیا اور عہد و پیمان کو توڑ دیا.پھر بھی یہود کی دلداری...مگر باوجود اس قسم کی باتوں کے مسلمانوں نے اپنے آقا آنحضرت صلی علیم کی ہدایت کے ماتحت ہر طرح سے صبر سے کام لیا اور اپنی طرف سے کوئی پیش دستی نہیں ہونے دی بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ اس معاہدے کے بعد جو یہود کے ساتھ ہوا تھا آنحضرت صلی علیہ کا خاص طور پر یہود کی دلداری کا خیال رکھتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی میں کچھ اختلاف ہو گیا.یہودی نے حضرت موسیٰ کی تمام انبیاء پر فضیلت بیان کی.صحابی کو اس پر غصہ آیا اور اس نے یہودی کے ساتھ کچھ سختی کی اور آنحضرت صلی اللہ ہم کو افضل الرسل بیان کیا.جب آنحضرت صلی لی یکم کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو آپ

Page 104

اصحاب بدر جلد 5 88 ناراض ہوئے اور اس صحابی کو ملامت فرمائی، تنبیہ کی کہ تمہارا کیا کام ہے کہ تم خدا کے رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کرتے پھرو اور پھر آپ نے موسیٰ کی ایک جزوی فضیلت بیان کر کے یہودی کی دلداری فرمائی.یہود کی شرارتیں مگر باوجود اس دل دارانہ سلوک کے ، نرمی کے سلوک کے ، شفقت کے سلوک کے یہودی اپنی شرارت پر ترقی کرتے گئے اور بالآخر یہود کی طرف سے ہی جنگ کا باعث پیدا ہوا اور ان کی جو قلبی ، دلی عداوت تھی ان کے سینوں میں سمانہ سکی.وہیں نہ رہ سکی بلکہ باہر نکل آئی اور یہ اس طرح پر ہوا کہ ایک مسلمان خاتون بازار میں ایک یہودی کی دکان پر کچھ سودا خریدنے کے لیے گئی.بعض شریر یہودیوں نے جو اس وقت اس دکان پر بیٹھے ہوئے تھے اسے نہایت او باشانہ طریقے پر چھیڑا اور خود دکان دار نے یہ شرارت کی کہ عورت کے نہ بند کے کونے کو اس کی بے خبری میں کسی کانٹے وغیرہ سے اس کی پیٹھ کے کپڑے سے ٹانک دیا.کوئی چیز ، کوئی hook لگا ہوا ہو گا یا کانٹا ہو گا.کوئی چیز پڑی ہو گی اس سے اس کے کپڑے کو وہاں ٹانک دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ عورت ان کے اوباشانہ طریق کو دیکھ کر وہاں سے اٹھ کر لوٹنے لگی تو وہ ننگی ہو گئی، کپڑا اتر گیا.اس پر اس یہودی دکاندار اور اس کے ساتھیوں نے زور سے ایک قہقہہ لگایا اور ہنسنے لگ گئے.مسلمان خاتون نے شرم کے مارے ایک چیخ ماری اور مدد چاہی.اتفاق سے ایک مسلمان اس وقت قریب موجود تھا.وہ لپک کر موقعے پر پہنچا اور پھر وہاں آپس میں لڑائی شروع ہو گئی.یہودی دکاندار مارا گیا.جس پر چاروں طرف سے اس مسلمان پر تلواریں برس پڑیں.انہوں نے حملہ کر دیا اور وہ غیور مسلمان وہیں ڈھیر ہو گیا.وہیں قتل ہو گیا، شہید ہو گیا.مسلمانوں کو اس واقعے کا علم ہوا تو پھر ان کی بھی غیرت قومی بھڑ کی.ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور دوسری طرف یہودی جو اس واقعہ کو لڑائی کا بہانہ بنانا چاہتے تھے ہجوم کر کے اکٹھے ہو گئے اور ایک بلوے کی صورت پیدا ہو گئی.یہود کا اعلان جنگ آنحضرت صلی علی کرم کو اطلاع ہوئی تو آپ نے رؤسائے بنو قینقاع کو جمع کر کے کہا کہ یہ طریق اچھا نہیں.تم ان شرارتوں سے باز آجاؤ اور خد اسے ڈرو.انہوں نے بجائے اس کے کہ اظہارِ افسوس کرتے، ندامت کرتے، شرمندگی کا احساس کرتے اور معافی طلب کرتے، مانگنے والے بنتے انہوں نے سامنے سے نہایت ہی تکبر سے متمر دانہ جواب دیے اور پھر وہی دھمکی دہرائی کہ بدر کی فتح پر غرور نہ کرو.جب ہم سے مقابلہ ہو گا تو پتالگ جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں.بہر حال ناچار آپ صحابہ کی ایک جمعیت کو ساتھ لے کر بنو قینقاع کے قلعوں کی طرف روانہ ہو گئے.اب یہ آخری موقع تھا کہ وہ اپنے افعال پر پریشان ہوتے.جب آنحضرت صلی کم صحابہ کو لے کر گئے تو یہودیوں کو چاہیے تھا کہ جو کچھ انہوں نے زیادتی کی تھی، اس پر پریشان ہوتے اور صلح کی طرف

Page 105

اصحاب بدر جلد 5 89 قدم بڑھاتے مگر وہ سامنے سے جنگ پر آمادہ ہو گئے.بہر حال جنگ کا اعلان ہو گیا اور اسلام اور یہودیت کی طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل پر نکل آئیں.اس زمانہ کے دستور کے مطابق جنگ کا ایک طریق یہ بھی ہو تا تھا کہ اپنے قلعوں میں محفوظ ہو کر بیٹھ جاتے تھے اور فریق مخالف قلعوں کا محاصرہ کر لیتا تھا.جو حملہ آور ہو تا تھا قلعے کا محاصرہ کر لیتا تھا.اُسے گھیر لیتا تھا.موقعے موقعے پر گاہے گاہے ایک دوسرے کے خلاف حملے ہوتے رہتے تھے.حتی کہ یا تو محاصرہ کرنے والی فوج قلعے پر قبضہ کرنے سے مایوس ہو کر محاصرہ اٹھا لیتی تھی، جو گھیر او کیا ہو تا تھا وہ ختم کر دیتی تھی اور چلی جاتی تھی اور یہ پھر قلعے کے اندر کے جو لوگ ہوتے تھے ، محصورین جو تھے ان کی فتح سمجھی جاتی تھی کہ ان کو فتح ہو گئی اور یا پھر یہ ہو تا تھا کہ محصورین، جو قلعے کے اند ر تھے ، جو محصور ہوئے ہوئے تھے وہ مقابلے کی تاب نہ لا کر قلعے کا دروازہ کھول کر اپنے آپ کو فاتحین کے سپرد کر دیتے تھے.اس موقعے پر بھی بنو قینقاع نے یہی طریق اختیار کیا اور اپنے قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ گئے.یہود کی جلا وطنی.آنحضرت صلی اللی علم کی طرف سے ایک نرم سزا آنحضرت صلی الہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا، قلعے کو ارد گرد سے گھیر لیا اور پندرہ دن تک بر ابر محاصرہ جاری رہا.آخر جب بنو قینقاع کا سارا زور اور غرور ٹوٹ گیا تو انہوں نے اس شرط پر اپنے قلعوں کے دروازے کھول دیے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہو جائیں گے مگر ان کی جانوں اور ان کے اہل و عیال پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہو گا.آنحضرت صلی اللہ ہم نے اس شرط کو منظور فرمالیا کیونکہ گوموسوی شریعت کی رو سے یہ سب لوگ واجب القتل تھے.ایسی صورت میں تو تورات جو موسوی شریعت ہے یہی کہتی ہے کہ یہ لوگ قتل کر دیے جائیں اور معاہدے کی رو سے ان لوگوں پر موسوی شریعت کا فیصلہ ہی جاری ہونا چاہیے تھا مگر اس قوم کا یہ پہلا جرم تھا اور آنحضرت صلی علیکم کی رحیم و کریم طبیعت انتہائی سزا کی طرف جو ایک آخری علاج ہوتا ہے ابتدائی قدم پر مائل نہیں ہو سکتی تھی.ابتدا تھی لیکن دوسری طرف ایسے بد عہد اور معاند قبیلہ کا مدینہ میں رہنا بھی ایک مارِ آستین کے پالنے سے کم نہیں تھا یعنی بغل میں سانپ پالا ہوا ہے.آستین میں سانپ پالنے کے برابر تھا خصوصاجب اوس اور خزرج کا ایک منافق گروہ پہلے سے مدینہ میں موجود تھا اور بیرونی جانب سے بھی تمام عرب کی مخالفت نے مسلمانوں کے ناک میں م کر رکھا تھا.ایسے حالات میں آنحضرت صلی علی ظلم کا ہی فیصلہ ہو سکتا تھا کہ بنو قینقاع مدینے سے چلے جائیں.یہ سزا ان کے جرم کے مقابلے میں اور اس کے علاوہ اس زمانہ کے حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک بہت نرم سزا تھی اور دراصل اس میں صرف خود حفاظتی کا پہلو مڈ نظر تھا.مقصد یہ تھا کہ مدینے کے لوگوں کی، مدینے کے مسلمانوں کی حفاظت ہو جائے ورنہ عرب کی خانہ بدوش اقوام کے نزدیک، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب یہ لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک تو نقل مکانی کوئی بڑی بات نہیں تھی، پھرتے رہتے تھے، ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے تھے.

Page 106

اصحاب بدر جلد 5 90 عبادہ بن صامت کو نگران مقرر کیا جانا خصوصاجب کسی قبیلہ کی جائیدادیں زمینوں اور باغات کی صورت میں نہ ہوں جیسا کہ بنو قینقاع کی نہیں تھیں ، ان کی جائیدادیں تو نہیں تھیں اور پھر سارے کے سارے قبیلے کو بڑے امن وامان کے ساتھ ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر آباد ہونے کا موقع مل جائے.چنانچہ بنو قینقاع بڑے اطمینان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کر شام کی طرف چلے گئے.ان کی روانگی کے متعلق ضروری اہتمام اور نگرانی وغیرہ کا کام آنحضرت صلی علیم نے اپنے صحابی عبادہ بن صامت کے سپرد فرمایا، جو ان کے حلیفوں میں سے تھے جن کا ابھی ذکر ہو رہا ہے.چنانچہ عُبادہ بن صامت چند منزل تک بنو قینقاع کے ساتھ گئے اور پھر انہیں حفاظت کے ساتھ آگے روانہ کر کے واپس لوٹ آئے.مال غنیمت جو مسلمانوں کے ہاتھ آیا وہ صرف جنگی آلات تھے یا جو ان کا پیشہ تھا اس پر مشتمل آلات تھے اور اس کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو مسلمانوں نے غنیمت میں لی ہو.210 اس کے بارے میں سیرت الحلبیہ میں بھی کچھ تفصیل ہے.اس میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی ہم نے حکم دیا کہ ان یہود کو مدینے سے ہمیشہ کے لیے نکال کر جلاوطن کر دیا جائے.ان کو جلاوطن کرنے کی ذمہ داری آپ صلی علیم نے حضرت عبادہ بن صامت کے سپرد فرمائی اور یہودیوں کو مدینے سے نکل جانے کے لیے تین دن کی مہلت دی.چنانچہ یہودی تین دن بعد مدینے کو خیر باد کہہ کر چلے گئے.اس سے پہلے یہودیوں نے حضرت عُبادہ بن صامت سے درخواست کی تھی کہ ان کو تین دین کی جو مہلت دی گئی ہے اس میں کچھ اضافہ کر دیا جائے مگر حضرت عبادہ نے کہا کہ نہیں.ایک منٹ بھی تمہیں مہلت نہیں دی جاسکتی، بڑھائی نہیں جاسکتی.پھر حضرت عبادہ نے اپنی نگرانی میں ان کو جلاوطن کیا اور یہ لوگ ملک شام کی ایک بستی کے میدانوں میں جاہیے.211 عبادہ بن صامت کی روایات حضرت عبادہ بن صامت سے حدیثوں کی بہت ساری دوسری روایات بھی مروی ہیں.ایک روایت ان سے یہ ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں اس لیے مہاجرین میں سے کوئی آدمی جب رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہو تا تو رسول اللہ صلی املی کام اسے قرآن سکھانے کے لیے ہم میں سے کسی کے حوالے کر دیتے تھے کہ ان کو لے جاؤ اور قرآن سکھاؤ.دینی تعلیم بھی سکھاؤ.کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی علیم نے ایک آدمی کو میرے سپرد کیا.وہ میرے ساتھ گھر میں رہتا تھا اور میں اسے اپنے گھر والوں کے کھانے میں شریک کرتا تھا، اسے قرآن پڑھا تا تھا.جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانے لگا تو اس نے خیال کیا کہ اس پر میر ا حق بنتا ہے یعنی اس کے رہنے کی وجہ سے اور اتنی خدمت کی وجہ سے اور قرآن سکھانے کی وجہ سے اس کے اوپر میر اکچھ حق بن جاتا ہے.چنانچہ اس وجہ سے اس نے مجھے ایک کمان ہدیہ پیش کی.تیر کمان کی کمان تحفہ پیش کی اور کہتے ہیں کہ وہ ایسی اعلیٰ قسم کی

Page 107

اصحاب بدر جلد 5 91 کمان تھی کہ اس سے عمدہ لکڑی اور نرمی میں اس سے بہترین کمان میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی.کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے متعلق پوچھا کہ یارسول اللہ ! اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ اس طرح وہ مجھے کمان تحفہ دے کر گیا ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ تمہارے کندھوں کے درمیان ایک انگارہ ہے جو تم نے لٹکایا ہے.یعنی یہ تحفہ جو تم لے رہے ہو وہ یہ اس لیے دے کے گیا ہے کہ تم نے اسے قرآن پڑھایا ہے اور اس طرح یہ تم نے آگ لی ہے جو اپنے کندھوں میں لٹکا رہے ہو..212 قرآن پڑھانے کو ذریعہ آمد بنانا...ایک اور روایت بھی ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت نے بیان کیا کہ میں نے اہل صفہ میں سے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھایا اور لکھنا سکھایا تو ان میں سے ایک شخص نے میرے پاس ہدیہ میں کمان بھیجی.میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ کوئی مال تو ہے نہیں، کوئی ایسی نقد چیز تو ہے نہیں، سونا چاندی تو ہے نہیں ، نہ کوئی کرنسی ہے اور میں اس سے اللہ کی راہ میں تیر اندازی کروں گا.ایک کمان ہی ہے ناں ، میرے کام آئے گی.اگر کبھی جہاد کا موقع ملا تو تیر اندازی کے کام آئے گی.اللہ کے رستے میں استعمال ہونی ہے.بہر حال کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی العلیم سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم آگ کا طوق پہننا پسند کرتے ہو تو اسے قبول کر لو.213 یعنی اگر تم چاہتے ہو کہ آگ کا ایک طوق تمہارے گلے میں پہنایا جائے تو ٹھیک ہے لے لو.یہ دونوں روایتیں جو ہیں ایک ہی طرح کی ہیں، مختلف جگہوں سے آئی ہوئی ہیں.شارحین نے اس روایت سے یہ استدلال کیا ہے کہ گویا کمان قرآن پڑھانے کی اجرت کے طور پر تھی جسے حضور صلی للہ ہم نے نا پسند فرمایا.پس وہ لوگ جو انفرادی طور پر قرآن کریم پڑھانے کو ذریعہ آمد بنا لیتے ہیں ان کے لیے بھی اس میں رہنمائی ہے.آنحضرت ملا علم کی عیادت اور شہیدوں کی اقسام حضرت راشد بن محبّيش سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی الیکم حضرت عبادہ بن صامت کی عیادت کے لیے ان کے ہاں تشریف لائے جب کہ وہ بیمار تھے.رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ میری امت کے شہید کون لوگ ہیں ؟ تو لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے.رسول اللہ صلی علی کم عبادہ بن صامت کی عیادت کے لیے تشریف لائے تھے وہاں رسول اللہ صلی الی یوم نے فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ میری امت کے شہید کون لوگ ہیں ؟ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے.حضرت عبادہ نے ان سے کہا کہ مجھے سہارا دے کر بٹھا دو.چنانچہ لوگوں نے آپ کو بٹھایا تو حضرت عبادہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے سوال کیا ہے کہ شہید کون لوگ ہیں ؟ تو جو بہادری اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے والا اور ثواب کی نیت رکھنے والا ہو وہ شہید ہے.رسول

Page 108

92 اصحاب بدر جلد 5 اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اگر صرف اتنا ہی ہے تو اس طرح تو پھر میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے.پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ عز و جل کے راستے میں قتل ہو جانا شہادت ہے.طاعون کی وجہ سے مر جانا بھی شہادت ہے.ایک وباجو پھیلی ہے اس میں اگر مومن بھی کسی وجہ سے لپیٹ میں آجاتے ہیں اور وہ اچھے مومن ہیں تو وہ ایسی صورت میں شہادت ہے.پھر پانی میں غرق ہو جانا بھی شہادت ہے اور پیٹ کی بیماری کی وجہ سے مرنا بھی شہادت ہے اور آپ نے فرمایا کہ نفاس کی حالت میں مرنے والی عورت کو اس کا بچہ اپنے ہاتھ سے بھینچ کر جنت میں لے جائے گا.214 یعنی ایسی عورت جو بچے کی پیدائش کے وقت خون بہنے کی وجہ سے مر جاتی ہے یا نفاس کی حالت میں جو چالیس دن تک رہتی ہے اس عرصے میں بھی بچے کی پیدائش کی وجہ سے اور اسی حالت میں کمزوری کی وجہ سے فوت ہو جاتی ہے تو فرمایا کہ اسے بھی اس کا بچہ کھینچ کر جنت میں لے جائے گا.یعنی بچہ اس کو جنت میں لے جانے کا باعث بن جائے گا.جو روایت میں نے بیان کی ہے.اس سے ملتی جلتی صحیح بخاری میں درج ایک روایت ملتی ہے.حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ شہید پانچ ہیں : طاعون سے مرنے والاء پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، دب کر مرنے والا اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا.215 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو طاعون ایک نشان کی صورت میں بتایا گیا تھا.اس کے لیے اب یہ نشانی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو ماننے والے لوگ ہیں ، صحیح ایمان لانے والے ہیں ان کے اوپر اس کا حملہ نہیں ہو گا.اس لیے یہاں ایک بالکل اور صورت بن جاتی ہے لیکن عمومی طور پر اگر وبا پھیلی ہوئی ہے اور ایک مومن ہے اور کامل مومن ہے وہ اگر اس وجہ سے مر تا ہے تو آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ وہ شہید ہے.اسماعیل بن عبید انصاری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبادہ نے حضرت ابو ہریرہ سے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ! آپ اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھے جب ہم لوگوں نے رسول اللہ صلی یکم کی بیعت کی تھی.ہم نے آپ سے چستی اور سستی ہر حال میں بات سنے اور ماننے اور خوش حالی اور جنگی میں خرچ کرنے پر ، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر پر، اللہ تبارک و تعالیٰ کے متعلق صحیح بات کہنے اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرنے پر اور نبی کریم صلی علی یلم کی مدینہ منورہ تشریف آوری پر ان کی مدد کرنے اور اپنی جانوں اور اپنے بیوی بچوں کی طرح آپ کی حفاظت کرنے کی شرط پر بیعت کی تھی.یہ تمام، ساری باتیں ایسی تھیں جن پر ہم نے بیعت کی تھی جس کے عوض ہمارے لیے جنت کا وعدہ ہے.پس یہ ہے رسول اللہ صلی علیکم کی بیعت جس پر ہم نے بیعت کی.جو اسے توڑتا ہے وہ اپنا نقصان کرتا ہے.جو ان شرائط کو جس پر ہم نے رسول اللہ صلی الیکم کی بیعت کی پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس بیعت کی وجہ سے نبی صلی علیہم کے ذریعے کیا ہو اوعدہ پورا کرے گا.

Page 109

اصحاب بدر جلد 5 93 حضرت معاویہؓ نے ایک دفعہ حضرت عثمان غنی کو خط لکھا کہ حضرت عبادہ بن صامت کی وجہ سے شام اور اہل شام میرے خلاف شورش برپا کر رہے ہیں.اب یا تو آپ عُبادہ کو پاس بلا لیں یا پھر ان کے اور شام کے درمیان سے میں ہٹ جاتا ہوں یعنی میں یہاں سے چلا جاتا ہوں.حضرت عثمان نے لکھا کہ آپ حضرت عُبادہ کو سوار کروا کے مدینہ منورہ میں ان کے گھر کی طرف روانہ کر دیں.چنانچہ حضرت معاویہ نے انہیں روانہ کر دیا اور وہ مدینہ منورہ پہنچ گئے.حضرت عبادہ حضرت عثمان کے پاس ان کے گھر چلے گئے جہاں سوائے ایک آدمی کے اگلے پچھلوں میں سے کوئی نہ تھا یعنی کہ جس نے صحابہ کو پایا تھا.انہوں نے حضرت عثمان کو مکان کے کونے میں بیٹھے ہوئے پایا.پھر آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت عثمان نے فرمایا کہ اے عبادہ بن صامت ! آپ کا اور ہمارا کیا معاملہ ہے.تو حضرت عُبادہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی علی مہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعد ایسے لوگ تمہارے حکمران ہوں گے جو تمہیں ایسے کاموں کی پہچان کرائیں گے جنہیں تم نا پسند کرتے ہو گے اور ایسے کاموں کو ناپسند کروائیں گے جنہیں تم اچھا سمجھتے ہوگے.سو جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت نہیں.پس تم اپنے رب کی حدود سے تجاوز نہ کرنا.216 بعض مسائل ہیں جن میں اختلاف ہو سکتا ہے.حضرت امیر معاویہ اور عبادہ بن صامت میں بھی اس طرح کے بعض ایسے مسائل پر اختلاف رہتا تھا.گذشتہ خطبے میں بھی یہ ذکر ہوا تھا کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی ایک دفعہ یہ واقعہ ہوا اور کیونکہ حضرت عُبادہ بن صامت اولین صحابہ میں سے تھے اور آنحضرت صلی اللہ کم سے ہر اور راست انہوں نے یہ مسائل سنے ہوئے تھے اس لیے بڑے تحدی سے یہ ان کے اوپر عمل کرنے اور کروانے والے ہوتے تھے اور یہی کہا کرتے تھے کہ یہی صحیح ہیں.حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب امیر معاویہ سے یہ اختلاف ہوا تو حضرت عمرؓ نے امیر معاویہ کو کہہ دیا کہ ان سے تم نے کوئی پوچھ کچھ نہیں کرنی.جو مسائل یہ بیان کرتے ہیں ان کو کرنے دیا کرو اور جب یہ مدینہ آئے تھے تو ان کو واپس بھیج دیا.217 لیکن حضرت عثمان کے زمانے میں دوبارہ یہ بات ہوئی تو حضرت عثمان نے ان کو ان حالات کی وجہ سے واپس بلا لیا.بہر حال حضرت عبادہ کا ایک مقام تھا.وہ بعض باتوں کی تشریح کر سکتے تھے.انہوں نے سمجھی ہوئی تھیں.آنحضرت صلی اللی علم سے براہ راست سنی تھیں اور اس وجہ سے وہ اختلاف کرتے تھے اور بعض معاملات میں بتا بھی دیا کرتے تھے.مثلاً لین دین کا معاملہ ہے، بارٹر (barter) کا معاملہ ہے، تجارت کا معاملہ ہے.یہ وسیع مضمون ہے یہاں اس وقت بیان نہیں ہو سکتا، اس میں بھی ان کا اختلاف امیر معاویہ سے ہوا تھا.تو بہر حال ان کے پاس دلائل تھے اور انہوں نے اس کے مطابق اپنی تشریح کی.امیر معاویہ نے اپنی تشریح کی لیکن ہر ایک کا یہ کام نہیں ہے کہ اس طرح اختلاف کرتا پھرے جب تک قرآن اور حدیث کی واضح نص موجود نہ ہو.اور اس زمانے میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 110

اصحاب بدر جلد 5 94 والسلام نے جو بیان کیا ہے.اس میں بنیادی چیز جو ضروری ہے ، یاد رکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حدود جو ہیں ان سے تجاوز نہیں کرنا، ان کے اندر رہنا ہے.بس یہی ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور پھر اطاعت کے دائرے کے اندر رہنا چاہیے.عطاء بیان کرتے ہیں کہ میں ولید سے ملا جو حضرت عبادہ بن صامت صحابی رسول صلی ا یکم کے بیٹے تھے.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے والد یعنی حضرت عبادہ کی موت کے وقت وصیت کیا تھی تو انہوں نے بیان کیا کہ انہوں نے یعنی حضرت عبادہ نے مجھے بلایا اور کہا کہ اے میرے بیٹے ! اللہ تعالیٰ سے ڈر اور جان لے کہ تو ہر گز اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کر سکتا جب تک کہ تو اللہ پر ایمان نہ لائے.ایمان کامل ہونا چاہیے.اور ہر قسم کے خیر وشر کی تقدیر پر بھی ایمان نہ لائے.پس اگر تو اس کے علاوہ کسی اعتقاد پر مراتو تو آگ میں داخل ہو گا.218 حضرت ام حرام بنت ملحان اور نبی اکرم مالی ان کا ایک کشفی نظارہ اور اس کا پورا ہونا حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نام حضرت ام حرام بنت ملحان کے گھر تشریف لایا کرتے تھے جو حضرت عبادہ بن صامت کی بیوی تھیں.وہ آپ صلی علی کیم کو کھانا کھلاتیں.ایک بار رسول اللہ صلی علیکم حضرت ام حرام کے گھر تشریف لائے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کا سر دیکھنے لگیں، جھسنے لگیں.رسول اللہ صلی الی و کم سو گئے.اس کے بعد اسی حالت میں کہ سوئے ہوئے تھے آپ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے.حضرت ام حرام کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میری امت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلے ہوئے ہیں.وہ اس سمندر میں سوار ہیں گویا تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ہیں یا فرمایا کہ ان بادشاہوں کی طرح ہیں جو تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں.بیان کرنے والے نے شک کیا کہ کون سا لفظ فرمایا تھا.بہر حال کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ یارسول اللہ ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کرے.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ام حرام کے لیے دعا کی.پھر آپ صلی علیم نے اپنا سر رکھا اور سو گئے.پھر اس کے بعد آپ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے.کہتی ہیں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کس بات پر مسکرارہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا میری امت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلے ہوئے تھے.پھر آپ نے پہلی دفعہ والی جو بات تھی، جو پہلے بیان ہو چکی ہے وہ دہرائی.کہتی تھیں میں نے کہا یارسول اللہ ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے.آپ نے فرمایا کہ تو تو پہلے ہی ان لوگوں میں شریک ہو چکی ہے.چنانچہ حضرت ام حرائم معاویہ بن ابو سفیان کے زمانے میں سمندری سفر میں شامل ہوئیں اور جب سمندر سے باہر آئیں تو اپنی سواری سے گر کر فوت ہو گئیں.219

Page 111

اصحاب بدر جلد 5 95 آنحضرت علی ام ام حرام کے گھر اس لیے جاتے تھے کہ آپ کا ایک محرم رشتہ تھا.یہ نہیں کہ ان کی بیوی تھیں ان کے گھر چلے گئے.اس بارے میں لکھا ہے کہ ام حرام ملحان ابن خالد کی بیٹی ہیں.قبیلہ بنی نجار سے تعلق رکھتی تھیں.انس کی خالہ تھیں اور ان کی والدہ ام سلیم کی بہن ہیں یہ دونوں یعنی اتم حرام اور اتم سلیم دودھ کے رشتے سے یا کسی نسبتی قرابت سے آنحضرت صلی الہ وسلم کی خالہ تھیں.220 امام نووی نے لکھا ہے کہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ام حرام آنحضرت علی یم کی محرم تھیں.اس لیے آپ صلی اہم بے تکلفی کے ساتھ دوپہر کو بعض دفعہ ان کے ہاں جا کر آرام فرمایا کرتے تھے.لیکن کیفیت محرمیت جو ہے اس میں اختلاف ہے، محرم تو تھیں یہ تو سب مانتے ہیں لیکن کس قسم ، کسی رشتے داری کی وجہ سے محرم تھیں اس میں بعض نے اختلاف کیا ہے.221 بہر حال کسی نے کسی تعلق سے محرم کہا ہے اور کسی نے کسی تعلق سے.حضرت ام حرام جب اسلام لائیں اور آنحضرت صلی علی نام کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضرت عثمان ذوالنورین کے زمانے میں انہوں نے اپنے خاوند عبادہ بن صامت کے ساتھ جو انصار میں سے تھے اور بڑے جلیل القدر صحابی تھے جن کا ذکر ہو رہا ہے ان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں اور سر زمین روم میں پہنچ کر مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوئیں.آنحضرت صلی للی کم نے جو ایک خواب رویا دیکھی تھی اس کے مطابق پھر ان کی شہادت بھی ہوئی.بخاری کی شرح عمدۃ القاری اور بخاری کی ایک اور شرح ارشاد الساری میں لکھا ہے کہ حضرت ام حرام کی وفات 27 تا 28 ہجری میں ہوئی.بعض کے نزدیک ان کی وفات امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں ہوئی تھی.پہلا قول زیادہ مشہور ہے اور سیرت نگاروں نے اسی کو بیان کیا ہے کہ حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں یہ بحری جنگ ہوئی تھی جس میں حضرت ام حرام کی وفات ہوئی تھی.معاویہ کے زمانے سے مراد حضرت معاویہ کا زمانہ حکومت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ وقت ہے جب حضرت معاویہ نے روم کے خلاف ایک بحری جنگ لڑی تھی اور اس جنگ میں حضرت ام حرام بھی اپنے شوہر حضرت عبادہ بین صامت کے ساتھ شریک ہوئی تھیں اور اسی بحری جنگ سے واپسی پر حضرت ام حرام کی وفات ہوئی تھی اور یہ واقعہ حضرت عثمان کے دورِ خلافت کا ہے.222 جنادہ بن ابو امیہ سے مروی ہے کہ جب ہم حضرت عبادہ کے پاس گئے تو وہ بیمار تھے.ہم لوگوں نے کہا کہ اللہ آپ کو صحت دے.آپ کوئی حدیث بیان کریں جو آپ نے نبی کریم صلی علیم سے سنی ہو تا کہ اللہ آپ کو نفع پہنچائے.آپ نے کہا کہ نبی صلی علیہم نے ہمیں بلایا اور ہم نے آپ کی بیعت کی.آپ نے جن باتوں کی بیعت ہم سے لی وہ باتیں یہ تھیں کہ ہم بیعت کرتے ہیں اس بات پر کہ ہم اپنی خوشی اور اپنے غم اور اپنی تنگ دستی اور خوش حالی اور اپنے اوپر ترجیح دیے جانے کی صورت میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور حکومت کے لیے حاکموں سے جھگڑا نہیں کریں گے.حکومت کے لیے حاکموں سے جھگڑا نہیں

Page 112

اصحاب بدر جلد 5 96 کریں گے لیکن اعلامیہ کفر پر جس پر اللہ کی طرف سے دلیل ہو.3 223 سوائے اس کے کہ اعلانیہ کفر پر مجبور کیا جائے.واضح باتیں ہوں تو وہاں اور بات ہے.اور وہ بھی اگر اختیارات ملتے ہیں تب..اس پر آگ حرام ہے صنابھی روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبادہ بن صامت کے پاس گیا جبکہ وہ موت کے قریب تھے.میں رو پڑا تو انہوں نے کہا ٹھہرو کیوں رور ہے ہو ؟ خدا کی قسم! اگر مجھ سے گواہی طلب کی جائے تو میں تمہارے حق میں گواہی دوں گا اور اگر مجھے شفاعت کا حق دیا گیا تو میں تمہاری شفاعت کروں گا اور اگر مجھے طاقت ہوئی تو میں تجھے فائدہ پہنچاؤں گا.پھر انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہر حدیث جو میں نے رسول اللہ صلی الم سے سنی تھی جس میں تمہارے لیے بھلائی تھی وہ میں نے تمہارے سامنے بیان کر دی ہے سوائے ایک حدیث کے جو میں آج تمہیں بتاؤں گا جبکہ میں موت کی گرفت میں ہوں.کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدصلی اللی علم اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے اس پر آگ حرام کر دی یعنی وہ مسلمان ہے.224 اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرمائے جنہوں نے ہمیں بعض ایسی باتیں پہنچائیں جو ہمارے لیے روحانی علم کے علاوہ عملی زندگی گزارنے کے لیے بھی ضروری تھیں.225 192 حضرت عبد اللہ بن ربیع حضرت عبد اللہ بن الربیع انصاری کا ہے.حضرت عبد اللہ بن الربیع کا تعلق خزرج قبیلے کی شاخ بنو آنجز سے تھا اور آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت عمر و تھا.آپ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل تھے اور آپ کو غزوہ بدر اور احد اور جنگ موئنہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.جنگ موتہ میں آپ نے شہادت کار تبہ پایا.226

Page 113

97 193 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ حضرت عبد اللہ بن ثَعْلَبَه البلوتی.یہ بھی انصاری ہیں.ان کا نام حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ تھا.آپ نے غزوہ بدر اور احد میں شرکت کی.غزوہ بدر میں اپنے بھائی حضرت بحاث بن ثعلبہ کے ساتھ شامل ہوئے.227 194) حضرت عبد اللہ بن جبیر.حضرت عبد اللہ بن جبیر بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہونے والے آپ ان ستر انصار میں سے تھے جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے اور آپ غزوہ بدر اور اُحد میں شریک ہوئے اور غزوہ اُحد میں آپ کو شہادت نصیب ہوئی.228 229 آنحضرت صلی الل ولم کے داماد بدر کے قیدی حضرت ابو العاص جو آنحضرت صلی ی ی یکم کی بیٹی حضرت زینب کے شوہر تھے جنگ بدر میں مشرکین کی طرف سے شامل ہوئے تھے اور حضرت عبد اللہ بن جبیر نے انہیں قید کیا تھا.اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ لکھا ہے کہ: "آنحضرت کے داماد ابو العاص بھی اسیران بدر میں سے تھے ان کے فدیہ میں ان کی زوجہ یعنی نحضرت صلی ایم کی صاحبزادی زینب نے جو ابھی تک مکہ میں تھیں کچھ چیزیں بھیجیں.اُن میں اُن کا ایک بار بھی تھا.یہ ہار وہ تھا جو حضرت خدیجہ نے جہیز میں اپنی لڑکی زینب کو دیا تھا.آنحضرت صلی اللہ ہم نے اس بار کو دیکھا تو مر حومہ خدیجہ کی یاد دل میں تازہ ہو گئی اور آپ چشم پر آب ہو گئے اور صحابہ سے فرمایا اگر تم پسند کرو تو زینب کامال اسے واپس کر دو.صحابہ کو اشارہ کی دیر تھی زینب کامال فور واپس کر دیا گیا اور آنحضرت صلی علیم نے نقد فدیہ کے قائمقام ابو العاص کے ساتھ یہ شرط مقرر کی کہ وہ مکہ میں جاکر زینب کومدینہ بھجوادیں اور اس طرح ایک مؤمن روح دار کفر سے نجات پاگئی.کچھ عرصہ بعد ابو العاص

Page 114

اصحاب بدر جلد 5 98 بھی مسلمان ہو کر مدینہ میں ہجرت کر آئے اور اس طرح خاوند بیوی پھر اکٹھے ہو گئے.غزوہ احد میں تیر اندازوں کے دستہ کے سپہ سالار 23011 غزوہ اُحد میں آنحضرت صلی للی یکم نے حضرت عبد اللہ بن جبیر کو ان پچاس تیر اندازوں کے دستے کا سالار مقرر فرمایا جسے آپ نے مسلمانوں کے عقب میں واقع دڑے کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا.باقی تفصیل تو عبد اللہ بن محمیر کے واقعہ میں بیان ہو گئی ہے اور کچھ مزید یہ ہے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ہی لکھی ہے کہ : " آنحضرت صلی ام خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اُحد کے دامن میں ڈیرہ ڈال دیا ایسے طریق پر کہ اُحد کی پہاڑی مسلمانوں کے پیچھے کی طرف آگئی اور مدینہ گویا سامنے رہا اور اس طرح آپ نے لشکر کا عقب محفوظ کر لیا آپ نے یہ انتظام فرمایا کہ عبد اللہ بن جبیر کی سرداری میں پچاس تیر انداز صحابی وہاں متعین فرما دیئے اور ان کو تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہو جاوے وہ اس جگہ کو نہ چھوڑیں اور دشمن پر تیر برساتے جائیں."231......جیسا کہ پہلے بھی ذکر آچکا ہے کہ آنحضرت علی علیم کو اس درے کی حفاظت کا اس قدر خیال تھا کہ آپ صلی علیم نے عبد اللہ بن جبیر سے یہ تکرار سے فرمایا کہ دیکھو یہ درہ کسی صورت میں خالی نہ رہے اور اگر فتح بھی ہو جائے، دشمن پسپا ہو کر دوڑ جائے تب بھی تم نے جگہ نہیں چھوڑنی اور مسلمانوں کو اگر شکست ہو جائے اور دشمن ہم پہ غالب آجائیں تب بھی تم نے نہیں چھوڑنی.حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم نے جنگ اُحد کے دن پیادہ فوج پر حضرت عبد اللہ بن جبیر کو مقرر فرمایا اور یہ پچاس آدمی تھے اور ان سے فرمایا کہ اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا خواہ دیکھو کہ پرندے ہم پر جھپٹ رہے ہیں.اپنی جگہ پر رہنا تاوقتیکہ میں تمہیں نہ بلا بھیجوں اور اگر تم ہمیں اس حالت میں بھی دیکھو کہ لوگوں کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں ہم نے روند ڈالا ہے تب بھی یہاں سے نہ سر کنا جب تک کہ میں تمہیں نہ کہلا بھیجوں.چنانچہ مسلمانوں نے ان کو شکست دے کر بھگا دیا.حضرت براء کہتے تھے کہ بخدا میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ وہ بھاگ رہی تھیں اور وہ اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے تھیں.( اس زمانے میں فوجوں کے ساتھ عورتیں بھی ان کے جذبات ابھارنے کے لئے جایا کرتی تھیں) ان کی پازیبیں اور پنڈلیاں ننگی ہو رہی تھیں یہ حضرت عبد اللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے یہ دیکھ کر کہا کہ لو گو ! چلو غنیمت حاصل کریں.تمہارے ساتھی غالب ہو گئے تم کیا انتظار کر رہے ہو ؟ حضرت عبد اللہ بن جبیر نے کہا کیا تم وہ بات بھول گئے ہو جو رسول اللہ صلی للی کلم نے تم سے فرمائی تھی ؟ انہوں نے یعنی ان لوگوں نے جو جگہ چھوڑنا چاہتے تھے کہا کہ بخد ا ضرور ہم بھی ان لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور غنیمت کا مال لیں گے.یہ باقی وہاں غنیمت کا مال لے رہے ہیں تو ہم بھی جائیں گے.جب وہ وہاں پہنچے تو ان کے منہ پھیر دئے گئے اور شکست کھا کر بھاگتے ہوئے لوٹے یعنی پھر دشمن نے حملہ کیا اور یہ جو فتح ہے وہ

Page 115

اصحاب بدر جلد 5 99 99.حضرت براء لکھتے ہیں کہ یہی وہ واقعہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جبکہ رسول تمہاری سب سے پچھلی جماعت میں کھڑا تمہیں بلا ر ہا تھا.آل عمران کی آیت ہے.نبی صلی علیکم کے پاس بارہ آدمیوں کے سوا اور کوئی نہ رہا اور کافروں نے ہم میں سے ستر آدمی شہید کئے.اور نبی صلی علی کم اور آپ کے صحابہ نے جنگ بدر میں مشرکوں کے 140 آدمیوں کو نقصان پہنچایا تھا.ستر قیدی اور ستر مقتول.ابوسفیان کا کہنا یہ معرکہ بدر کے معرکہ کا بدلہ ہے ابوسفیان نے تین بار پکار کر کہا، یہ سارا واقعہ جنگ اُحد کا ہی بیان ہو رہا ہے ) کہ کیا ان لوگوں میں محمد ہے ؟ صلی اللہ علیہ وسلم نبی صلی علیم نے صحابہ کو اسے جواب دینے سے روک دیا.کافروں کی جو شکست تھی وہ جب فتح میں بدل گئی ہے اور انہوں نے دوبارہ حملہ کر کے درے سے مسلمانوں کو زیر کر لیا.تب اس نے کہا کہ کیا تم میں محمد ہے؟ نبی صلی علیہ تم نے صحابہ کو اسے جواب دینے سے روک دیا.پھر اس نے تین بار پکار کر پوچھا کیالوگوں میں ابو قحافہ کا بیٹا ہے یعنی حضرت ابو بکر ہیں ؟ پھر تین بار پوچھا کیا ان لوگوں میں ابن خطاب ہے یعنی حضرت عمر کے بارے میں پوچھا؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور آنحضرت صلی علیہ یکم نے ہر دفعہ پوچھنے پر یہی فرمایا تھا کہ جواب نہیں دینا.پھر کہتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور کہنے لگا کہ یہ جو تھے وہ تو مارے گئے.یہ تین ان کے لیڈر ہو سکتے تھے یہ تینوں تو مارے گئے.یہ سن کر حضرت عمر اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بولے اے اللہ کے دشمن ! بخدا تم نے جھوٹ کہا ہے.جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں.جو بات ناگوار ہے اس میں سے ابھی تیرے لئے بہت کچھ باقی ہے.ابوسفیان بولا یہ معرکہ بدر کے معرکے کا بدلہ ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہے کبھی اس کی فتح اور کبھی اس کی فتح.تم ان لوگوں میں سے کچھ ایسے مردے پاؤ گے جن کے ناک کان کاٹے گئے ہیں یعنی مثلہ کیا گیا ہے.اس نے کہا کہ میں نے اس کا حکم نہیں دیا اور میں نے اسے برا بھی نہیں سمجھا.پھر اس کے بعد وہ یہ رجزیہ فقرہ پڑھنے لگا.اُعْلُ هُبَل اُعْلُ هُبل قبل کی ہے ، ھبل کی ہے.نبی صلی علی کرم نے فرمایا کیا اب اسے جواب نہیں دو گے ؟ صحابہ نے کہا یار سول اللہ ہم کیا کہیں ؟ آپ نے فرمایا تم کہو اللهُ أَعْلَیٰ وَاَجَلُ اللہ ہی سب سے بلند اور بڑی شان والا ہے.پھر ابوسفیان نے کہا کہ عُری نامی بت ہمارا ہے اور تمہارا کوئی مزی نہیں.نبی صلی للہ ہم نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا تم اسے جواب نہیں دو گے.حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ صحابہ نے کہا یارسول اللہ ہم کیا کہیں ؟ آپ نے فرمایا کہو اللهُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَى لَكُمْ کہ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں.232 جنگ احد اور ابو سفیان کا نعر.....حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس واقعہ پر کافی تفصیلی بحث کی ہے.اور غزوۂ احد پر روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ وہ صحابہ جو رسول اللہ صلی علیکم کے گر د تھے اور جو کفار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے

Page 116

اصحاب بدر جلد 5 100 دھکیل دیئے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی وہ پھر رسول اللہ صلی علی ظلم کے گرد جمع ہو گئے.آپ کے جسم مبارک کو انہوں نے اٹھایا اور ایک صحابی عبیدہ بن الجراح نے اپنے دانتوں سے آپ کے سر میں ہوئی کیل کو زور سے نکالا جس سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے.تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی ایم کو ہوش آگیا اور صحابہ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں.بھاگا ہو الشکر پھر جمع ہو ناشروع ہوا اور رسول اللہ صلی علیم نہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے.جب دامن کوہ میں الله بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (صلی فیلم) کو مار دیا.رسول اللہ صلی علیم نے ابو سفیان کی بات کا جواب نہ دیا تا ایسا نہ ہو دشمن حقیقت حال سے واقف ہو کر حملہ کر دے."کیونکہ مسلمان ابھی کمزور حالت میں تھے " اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں.جب اسلامی لشکر سے اس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابوسفیان کو یقین ہو گیا کہ اُس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابو بکر کو بھی مار دیا.رسول اللہ صلی ا ہم نے ابو بکر کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں.پھر ابو سفیان نے آواز دی ہم نے عمر کو بھی مار دیا.تب عمر جو بہت جو شیلے آدمی تھے انہوں نے اُس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لئے تیار ہیں مگر رسول اللہ صلی علی یم نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو.اب کفار کو یقین ہو گیا کہ اسلام کے بانی کو بھی اور ان کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے.اس پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگا یا اُخْلُ هُبَل اُعْلُ هُبَل.ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اس نے آج اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے..." حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ " وہی رسول کریم صلی یہ کام جو اپنی موت کے اعلان پر ، ابو بکر کی موت کے اعلان پر اور عمر کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرمارہے تھے تا ایسانہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفار کا لشکر کوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں.اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں مارا گیا تو آپ کی روح بیتاب ہو گئی اور آپ نے نہایت جوش سے صحابہ کی طرف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! ہم کیا کہیں ؟ فرمایا کہواللہ أغلى وَاجَلُ الله أغلى وَاجَلُ تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہبل کی شان بلند ہوئی.اللہ وحدہ لاشریک ہی معزز ہے اور اس کی شان بالا ہے.اور اس طرح آپ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچادی." فرماتے ہیں کہ " اس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑا کہ باوجود اس کے کہ ان کی امیدیں اس جواب سے خاک میں مل گئیں اور باوجود اس کے کہ ان کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے ان کو مار دینا مادی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا لیکن اس نعرے کو سن کے ، یہ جوش دیکھ کر وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور جس قدر فتح ان کو نصیب ہوئی تھی اسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ کو واپس چلے گئے." 23311

Page 117

اصحاب بدر جلد 5 101 جنگ احد میں مسلمانوں پر ایک سخت گھڑی حضرت مصلح موعودؓ مزید فرماتے ہیں ایک آیت کی تشریح میں کہ : " فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ اَمْرِةٍ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ یعنی جو لوگ اس رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت نہ پہنچ جائے یا وہ کسی درد ناک عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں چنانچہ دیکھ لو" آپ فرماتے ہیں کہ دیکھ لو کہ " جنگ احد میں اس حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے اسلامی لشکر کو کتنا نقصان پہنچا.رسول کریم صلی للی کم نے ایک پہاڑی درہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقرر فرمائے تھے اور یہ درہ اتنا اہم تھا کہ آپ نے ان کے افسر عبد اللہ بن جبیر انصاری کو بلا کر فرمایا کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم نے اس دڑہ کو نہیں چھوڑنا.مگر جب کفار کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے اُن کا تعاقب شروع کر دیا تو اس دژہ پر جو سپاہی مقرر تھے انہوں نے اپنے افسر سے کہا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے.اب ہمارا یہاں ٹھہر نابے کار ہے.ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی جہاد میں شامل ہونے کا ثواب لے لیں.اُن کے افسر نے انہیں سمجھایا کہ دیکھو رسول کریم صلی الیم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرو.رسول کریم علی علیم نے فرمایا تھا کہ خواہ فتح ہو یا شکست تم نے اس دژہ کو نہیں چھوڑنا.اس لئے میں تمہیں جانے کی اجازت نہیں دے سکتا.انہوں نے کہا کہ رسول کریم " ان کے باقی ساتھیوں نے یہ کہا کہ "رسول کریم صلی للی کم کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ خواہ فتح ہو جائے پھر بھی تم نے نہیں ہلنا.آپ کا مقصد تو صرف تاکید کرنا تھا.اب جبکہ فتح ہو چکی ہے ہمارا یہاں کیا کام ہے.چنانچہ انہوں نے خدا کے رسول کے حکم پر " حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ "انہوں نے خدا کے رسول کے حکم پر اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہوئے اس دڑہ کو چھوڑ دیا.صرف اُن کا افسر اور چند سپاہی " یعنی عبد اللہ بن جبیر اور چند سپاہی " باقی رہ گئے.جب کفار کا لشکر مکہ کی طرف بھاگتا چلا جار ہا تھا تو اچانک خالد بن ولید نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا تو درہ کو خالی پایا.انہوں نے عمرو بن العاص کو آواز دی یہ دونوں ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے اور کہا دیکھو کیسا اچھا موقعہ ہے آؤ ہم مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کر دیں.چنانچہ دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دستوں کو سنبھالا اور اسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے.چند مسلمان جو وہاں موجود تھے اور جو دشمن کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ان کو انہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اسلامی لشکر پر پشت پر سے حملہ کر دیا.کفار کا یہ حملہ ایسا اچانک تھا کہ مسلمان جو فتح کی خوشی میں ادھر ادھر پھیل چکے تھے ان کے قدم جم نہ سکے.صرف چند صحابہ دوڑ کر رسول کریم صلی ال نیم کے گرد جمع ہو گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ نہیں تھی مگر یہ چند لوگ کب تک دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے.آخر کفار کے ایک ریلے کی وجہ سے مسلمان سپاہی بھی پیچھے کی طرف دھکیلے گئے.

Page 118

اصحاب بدر جلد 5 102 آنحضرت صلى الله ولم کا زخمی ہونا...اور رسول کریم صلی علی کرم میدان جنگ میں تن تنہا رہ گئے.اسی حالت میں آپ کے خود پر ایک پتھر لگا جس کی وجہ سے خود کے کیل آپ کے سر میں چھ گئے اور آپ بیہوش ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے " جو کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ پھر ایک صحابی نے وہ کیل نکالے اور ان کے دانت بھی ٹوٹ گئے." جو بعض شریروں نے اسلامی لشکر کو نقصان پہنچانے کے لئے کھود کر ڈھانپ رکھے تھے." ایک گڑھا بنایا ہوا تھا اور اس پر گھاس پھوس رکھا ہوا تھا.پتہ نہیں لگ رہا تھا یہ گڑھا ہے.اس میں آنحضرت صلی اللہ ہم گرے." اس کے بعد کچھ اور صحابہ شہید ہوئے اور ان کی لاشیں آپ کے جسم مبارک پر جاگریں اور لوگوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ رسول کریم صلی علی کرم شہید ہو گئے ہیں.مگر وہ صحابہ جو کفار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دئے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی پھر رسول کریم صلی علیم کے گرد جمع ہو گئے اور انہوں نے آپ کو گڑھے میں سے باہر نکالا.تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم صلی علیم کو ہوش آگیا اور آپ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑ دئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں اور آپ انہیں ساتھ لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے.جنگ احد میں مسلمانوں کو عارضی شکست کا چر کہ اور اس کی وجہ اسلامی لشکر کو کفار پر فتح حاصل کرنے کے بعد ایک عارضی شکست کا چر کہ اس لئے لگا کہ ان میں سے چند آدمیوں نے " اب یہ سنے والی بات ہے.آپ اب نتیجہ نکال رہے ہیں کہ اسلامی لشکر کو کفار پر فتح حاصل کرنے کے بعد ایک عارضی شکست کا چر کہ اس لئے لگا.اس لئے نقصان پہنچا کہ ان میں سے چند آدمیوں نے "رسول کریم صلی ال نیم کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی اور آپ کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اپنے اجتہاد سے کام لینا شروع کر دیا.اگر وہ لوگ محمد رسول اللہ صلی علی علم کے پیچھے اسی طرح چلتے جس طرح نبض حرکت قلب کے پیچھے چلتی ہے.اگر وہ سمجھتے کہ محمد رسول اللہ صلی الم کے ایک حکم کے نتیجہ میں اگر ساری دنیا کو بھی اپنی جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں تو وہ ایک بے حقیقت شے ہیں.اگر وہ ذاتی اجتہاد سے کام لے کر اس پہاڑی درہ کو نہ چھوڑتے جس پر رسول کریم صلی الی یکم نے انہیں اس ہدایت کے ساتھ کھڑا کیا تھا کہ خواہ ہم فتح حاصل کریں یا مارے جائیں تم نے اس مقام سے نہیں ملنا تو نہ دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کا موقع ملتا اور نہ محمد رسول اللہ صلی علیکم اور آپ کے صحابہ کو کوئی نقصان پہنچتا." آپ فرماتے ہیں کہ " اللہ تعالیٰ اس آیت میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی علیکم کے احکام کی پوری اطاعت نہیں بجالاتے اور ذاتی اجتہادات کو آپ کے احکام پر مقدم سمجھتے ہیں." اپنی ذاتی تو جیہیں نکالتے ہیں یا خود ہی تشریحیں کرنے لگ جاتے ہیں یا حکموں کی تاویلیں کرنے لگ جاتے ہیں." انہیں ڈرنا چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں کہیں اُن پر کوئی آفت نہ آجائے یاوہ کسی شدید عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں.گویا بتایا کہ اگر تم کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ تم

Page 119

اصحاب بدر جلد 5 103 ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھو اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جاؤ.جب تک یہ روح زندہ رہے گی مسلمان بھی زندہ رہیں گے اور جس دن یہ روح مٹ جائے گی اس دن اسلام تو پھر بھی زندہ رہے گا مگر خد اتعالیٰ کا ہاتھ ان لوگوں کا گلا گھونٹ کر رکھ دے گا جو محمد رسول اللہ صلی علیکم کی اطاعت سے انحراف کرنے والے ہوں گے.234 کامل اطاعت ہی کامیابیوں کی ضمانت ہے آج دیکھ لیں کہ یہی حال مسلمانوں کا ہے.اللہ تعالیٰ کی مدد ان سے اٹھ گئی ہے.آنحضرت صلی علیکم کے ارشاد کے مطابق کہ آنے والے مسیح و مہدی کو مان لینا، اسے میر اسلام پہنچانا اور اسے حکم اور عدل سمجھنا ان سب باتوں کی تاویلیں اب یہ لوگ کرنے لگ گئے ہیں اور اس کا نتیجہ بھی یہ دیکھ لیں.پس یہاں احمدیوں کے لئے بھی ایک سبق ہے، ایک تنبیہ ہے کہ مسیح موعود کو قبول کر کے پھر کامل اطاعت ہی کامیابیوں اور فتوحات کی ضمانت ہے.کپس ہر ایک کو اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک اس کے اطاعت کے معیار ہیں.یہاں پہلے بیان ہوا تھا کہ ابوسفیان کے ساتھ عکرمہ بن ابو جہل تھے.دوسرے ایک حوالے میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دوسرے صحابی عمرو بن عاص کا ذکر کیا کہ انہوں نے دریے پر حملہ کیا.بعض دوسری روایات میں دوسرے نام بھی ہیں.اس بارے میں ریسرچ سیل نے جو مزید تحقیق کی ہے وہاں بھی کتب سیرت میں خالد بن ولید کے ساتھ عکرمہ کے حملے کا ذکر ہی ملتا ہے.235 236 لیکن یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ مشرکین نے اپنے لشکر کے گھڑ سواروں کو جن کی قیادت میں دیا تھا ان میں سے ایک عمر و بن عاص بھی تھے.تو اس ضمن میں یہ کہتے ہیں کہ خالد بن ولید نے پہاڑ کے دڑے پر خالی جگہ دیکھ کر گھڑ سواروں کے ساتھ حملہ کیا اور عکرمہ بن ابو جہل ان کے پیچھے پیچھے آیا.یوں ان تینوں امور کو اگر ایک طرف سے دیکھا جائے تو پھر حضرت مصلح موعودؓ کے اس حوالے میں بھی اور باقی تاریخ کی کتابوں میں بھی اس طرح مطابقت پیدا کی جاسکتی ہے کہ چونکہ مشرکین کے گھڑ سواروں کے نگران حضرت عمرو بن عاص تھے اس لئے یہ بھی ساتھ ہوں گے.یعنی خالد بن ولید ، عکرمہ اور عمر ابن العاص تینوں ساتھ ہوں گے.اور اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو پھر روایت میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا.حضرت عبد اللہ بن جبیر کی درد ناک شہادت حضرت عبد اللہ بن جبیر کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ جب خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابو جہل حملہ آور ہوئے تو حضرت عبد اللہ بن جبیر نے تیر چلائے یہاں تک کہ آپ کے تیر ختم ہو گئے.پھر آپ نے نیزے سے مقابلہ کیا حتی کہ آپ کا نیزہ بھی ٹوٹ گیا.پھر آپ نے اپنی تلوار سے لڑائی کی یہاں تک کہ آپ شہید ہو کر گرے.آپ کو عکرمہ بن ابو جہل نے شہید کیا.جب آپ گر گئے تو دشمنوں نے آپ کو گھسیٹا اور آپ کی نعش کا بدترین مثلہ کیا.آپ کے جسم کو نیزے سے اتنا چیرا کہ آپ

Page 120

اصحاب بدر جلد 5 کی انتڑیاں بھی باہر نکل آئیں.104 حضرت خوات بن جُبیر کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن جبیر کی جب یہ حالت ہوئی تو اس وقت مسلمان وہاں گھوم کر پہنچ گئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا.کہتے ہیں کہ میں اس مقام پر ہنسا جہاں کوئی نہیں ہنستا ( اپنی حالت بیان کر رہے ہیں ) اور اس مقام پر اونگھا جہاں کوئی نہیں اونگھتا اور اس مقام پر میں نے بخل کیا جہاں کوئی بخل نہیں کرتا.یہ تینوں چیزیں ایسی حالت میں کسی انسان سے نہیں ہو سکتی.ان سے کہا گیا کہ یہ کیا کیفیت ہے ؟ آپ نے یہ کیوں کیا؟ حضرت خوات نے کہا کہ میں نے دونوں بازوؤں سے اور ابو حنہ نے دونوں پاؤں سے پکڑ کر حضرت عبد اللہ کو اٹھایا.میں نے اپنے عمامے سے ان کا زخم باندھ دیا.جس وقت ہم انہیں اٹھائے ہوئے تھے مشرکین ایک طرف تھے.میر ا عمامہ ان کے زخموں سے کھل کر نیچے گر پڑا اور حضرت عبد اللہ بن جبیر کی آنتیں باہر نکل پڑیں.میر اسا تھی گھبر ا گیا اور اس خیال سے کہ دشمن قریب ہے اپنے پیچھے دیکھنے لگا.اس پر میں ہنس پڑا کہ یہ اس وقت کیا کر رہا ہے ) پھر ایک شخص اپنا نیزہ لے کر آگے بڑھا اور وہ اسے میرے حلق کے سامنے لارہا تھا کہ مجھ پر نیند غالب آگئی اور نیزہ ہٹ گیا.( یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی ایک مدد ہوئی.کہتے ہیں اونگھ کیوں آئی ؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی اونگھ آ گئی.اس حالت میں میں کر تو کچھ سکتا نہیں تھا.نیزہ میرے بالکل گلے کے قریب تھا لیکن پھر وہ نیزہ ہٹ گیا) اور جب میں حضرت عبد اللہ بن جبیر کے لئے قبر کھودنے لگا تو اس وقت میرے پاس میری کمان تھی.چٹان ہمارے لئے سخت ہو گئی تو ہم اس کی نعش کو لے کر وادی میں اترے اور میں نے اپنی کمان کے کنارے کے ساتھ قبر کھو دی.کمان میں وتر بندھی ہوئی تھی.میں نے کہا کہ میں اپنی وتر کو خراب نہیں کروں گا.پھر میں نے اسے کھول دیا اور کمان کے کنارے سے قبر کھود کر حضرت عبد اللہ بن مجبیر کو وہاں دفن کر دیا.237 اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت عبد اللہ بن جبیر اور ان کے ساتھیوں کو وفا کے ساتھ اور حکم کی روح کو سمجھنے والا بنایا تھا ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے اسی طرح حکم کو سمجھنے والے اور کامل اطاعت کرنے والے ہوں اور اس طرح ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں.238

Page 121

105 195 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت عبد اللہ بن جحش آنحضرت صلی الل علم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن جحش.آپ کی والدہ امیمہ بنت عبد المطلب آنحضرت صلی علیکم کی رشتہ میں پھوپھی تھیں.اس طرح آپ حضور علی علی یم کے پھوپھی زاد بھائی تھے.آنحضرت صلی یی کم کے دارِ ار قم میں جانے سے قبل ہی انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا.239 دار ارقم وہ مکان ہے یا مرکز ہے جو ایک نو مسلم ارقم بن ارقم کا مکان تھا اور مکہ سے ذرا سا باہر تھا.وہاں مسلمان جمع ہوتے تھے اور دین سیکھنے اور عبادت وغیرہ کرنے کے لئے ایک مرکز تھا اور اسی شہرت کی وجہ سے اس کا نام دار الا سلام کے نام سے بھی مشہور ہوا اور یہ مکہ میں تین سال تک مرکز رہا.وہیں خاموشی سے عبادت کیا کرتے تھے.آنحضرت صلی ایم کی مجلسیں لگا کرتی تھیں اور پھر جب حضرت عمر نے اسلام قبول کیا تو پھر کھل کر باہر نکلنا شروع کیا.روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ اس مرکز میں اسلام لانے والے آخری شخص تھے.حبشہ کی طرف دو مر تبہ ہجرت 240 بہر حال یہ مرکز بننے سے پہلے ہی حضرت عبد اللہ بن جحش نے اسلام قبول کر لیا تھا اور پھر روایت میں آتا ہے کہ مشرکین قریش کے دست ظلم سے آپ کا خاندان بھی محفوظ نہیں تھا.آپ نے اپنے دونوں بھائیوں حضرت ابو احمد اور عبید اللہ اور اپنی بہنوں حضرت زینب بنت جحش، حضرت ام حبیبہ اور حمنہ بنت جحش کے ہمراہ دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی.ان کے بھائی عبید اللہ حبشہ جاکر عیسائی ہو گئے تھے اور وہیں عیسائی ہونے کی حالت میں ان کی وفات ہوئی جبکہ ان کی بیوی حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان ابھی حبشہ میں ہی تھیں کہ آنحضور صلی یہ نیلم نے ان سے اس وقت نکاح کر لیا.ہجرت مدینہ 241 حضرت عبد اللہ بن جحش مدینہ ہجرت سے قبل مکہ آئے اور یہاں سے اپنے قبیلہ بنو غنم میں دُؤدَان کے تمام افراد کو ( یہ سب کے سب دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے ) ساتھ لے کر مدینہ پہنچے.انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے مکہ کو اس طرح خالی کر دیا تھا کہ محلہ کا محلہ بے رونق ہو گیا اور بہت سے مکانات

Page 122

اصحاب بدر جلد 5 مقفل ہو گئے.242 106 یہی حالات آجکل پاکستان میں بھی بعض جگہ احمدیوں کے ساتھ ہیں.بعض گاؤں خالی ہو گئے ہیں.ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب بنو جحش بن رئاب نے مکہ سے ہجرت کی تو ابوسفیان بن حرب نے ان کے مکان کو عمرو بن علقمہ کے ہاتھ فروخت کر دیا.جب یہ خبر مدینہ میں حضرت عبد اللہ بن جحش کو پہنچی تو انہوں نے آنحضور صلی علی کرم سے یہ بات عرض کی.اس پر آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ اے عبد اللہ کیا تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ خدا اس کے بدلہ میں تجھ کو جنت میں محل عنایت کرے.حضرت عبد اللہ بن جحش نے عرض کیا کہ ہاں یار سول اللہ صلی علی کلم میں راضی ہوں.تو آپ نے فرمایا پس وہ محل تیرے واسطے ہیں.243 یعنی یہ مکانات جو تم نے چھوڑے ہیں ان کی جگہ تمہیں جنتوں میں جگہ ملے گی وہاں محل تیار ہوں گے.سریہ عبد اللہ بن جحش حضرت عبد اللہ بن جحش کو رسول کریم صلی علیم نے ایک سریہ میں وادی نخلہ کی طرف بھیجا جس کا ذکر کتب میں اس طرح ملتا ہے کہ آنحضور صلی یم نے ایک دن جب عشاء کی نماز ادا کر لی تو آپ صلی یکم نے حضرت عبد اللہ بن جحش کو فرمایا کہ صبح کو اپنے ہتھیاروں سے لیس ہو کر آنا تمہیں ایک جگہ بھیجنا ہے.چنانچہ جس وقت حضور صلی الی یک نماز فجر سے فارغ ہوئے تو آپ صلی علیہم نے حضرت عبد اللہ بن جحش کو اپنے تیر و ترکش، نیزہ اور ڈھال سمیت اپنے گھر کے دروازے پر انتظار کرتے ہوئے کھڑا پایا.آنحضور صلی یکم نے حضرت ابی بن کعب کو بلوایا اور انہیں ایک خط لکھنے کا حکم دیا جب وہ خط لکھا گیا تو حضرت عبد اللہ بن جحش کو بلا کر اس خط کو ان کے سپر د کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہیں اس جماعت کا نگران مقرر کرتا ہوں جو آپ کی قیادت میں بھیجا گیا تھا.تاریخ میں آتا ہے کہ اس سے پہلے آپ نے اس جماعت پر حضرت عبیدہ بن حارث کو مقرر کیا تھا لیکن روانگی سے پہلے جب وہ رخصت ہونے کے لئے اپنے گھر گئے تو ان کے بچے آنحضرت صلی علیکم کے پاس آکر رونے لگے تو آپ صلی علیم نے حضرت عبد اللہ بن جحش کو ان کی جگہ امیر بناکر بھیجا اور حضرت عبد اللہ بن جحش کو بھیجتے وقت آنحضور صلی ا ہم نے ان کا لقب امیر المومنین رکھا.سیرۃ الحلبیہ میں یہ لکھا ہوا ہے.اس طرح حضرت عبد اللہ بن جحش وہ پہلے خوش نصیب صحابی تھے جن کا دور اسلام میں امیر المومنین لقب رکھا گیا.عمرو بن حضرمی کا قتل اور مشرکین کا حرمت والے مہینوں کی بابت ایک اعتراض حضرت مصلح موعود آیت يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالِ فِیهِ (البقرة:218) کی تفسیر میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ : رسول کریم صلی علم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس کے بعد بھی مکہ والوں کے جوش غضب میں کوئی کمی نہ آئی بلکہ انہوں نے مدینہ والوں کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں 244

Page 123

107 اصحاب بدر جلد 5 کہ چونکہ تم نے ہمارے آدمیوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے.اس لئے اب تمہارے لئے ایک ہی راہ ہے کہ یا تو تم ان سب کو قتل کر دو یا د بینہ سے باہر نکال دوور نہ ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مدینہ پر حملہ کر دیں گے اور تم سب کو قتل کر کے تمہاری عورتوں پر قبضہ کر لیں گے.اور پھر انہوں نے صرف دھمکیوں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں.رسول کریم صلی علیم کی ان ایام میں یہ کیفیت تھی کہ بسا اوقات آپ ساری ساری رات جاگ کر بسر کرتے تھے.اسی طرح صحابہ رات کو ہتھیار باندھ کر سویا کرتے تھے تاکہ رات کی تاریکی میں دشمن کہیں اچانک حملہ نہ کر دے.ان حالات میں رسول کریم صلی الم نے ایک طرف تو مدینہ کے قریب، قرب وجوار میں بسنے والے قبائل سے معاہدات کرنے شروع کر دیئے کہ اگر ایسی صورت پیدا ہو تو وہ مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور دوسری طرف ان خبروں کی وجہ سے کہ قریش حملہ کی تیاری کر رہے ہیں آپ نے 2 ہجری میں حضرت عبد اللہ بن جحش کو بارہ آدمیوں کے ساتھ نخلہ بھجوایا اور انہیں ایک خط دے کر ارشاد فرمایا کہ اسے دو دن کے بعد کھولا جائے.حضرت عبد اللہ بن جحش نے دو دن کے بعد کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ تم نخلہ میں قیام کرو اور قریش کے حالات کا پتہ لگا کر ہمیں اطلاع دو.اتفاق ایسا ہوا کہ اس دوران میں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ جو شام سے تجارت کا مال لے کر واپس آرہا تھا وہاں سے گزرا.حضرت عبد اللہ بن جحش نے ذاتی اجتہاد سے کام لے کر ان پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں کفار میں سے ایک شخص عمرو بن الحضرمی مارا گیا اور دو گر فتار ہوئے اور مال غنیمت پر بھی مسلمانوں نے قبضہ کر لیا.جب انہوں نے مدینہ میں واپس آکر رسول کریم صلی علیکم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں لڑائی کی اجازت نہیں دی تھی اور مال غنیمت کو بھی قبول کرنے سے آپ صلی یم نے انکار کر دیا.ابن جریر نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن جحش اور ان کے ساتھیوں سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ ابھی رجب شروع نہیں ہوا حالانکہ رجب کا مہینہ شروع ہو چکا تھا.وہ خیال کرتے رہے کہ ابھی تھیں جمادی الثانی ہے.رجب کا آغاز نہیں ہوا.بہر حال عمر و بن الحضرمی کا مسلمانوں کے ہاتھوں مارا جانا تھا کہ مشرکین نے اس بات پر شور مچانا شروع کر دیا کہ اب مسلمانوں کو ان مقدس مہینوں کی حرمت کا بھی پاس نہیں رہا جن میں ہر قسم کی جنگ بند رہتی تھی.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ بیشک ان مہینوں میں لڑائی کرنا سخت ناپسندیدہ امر ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہے.لیکن اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے سے لوگوں کو روکا جائے اور خد اتعالیٰ کی توحید کا انکار کیا جائے اور مسجد حرام کی حرمت کو باطل کیا جائے اور اس کے باشندوں کو بغیر کسی جرم کے محض اس لئے کہ وہ خدائے واحد پر ایمان لائے تھے اپنے گھروں سے نکال دیا جائے.تمہیں ایک بات کا خیال تو آگیا مگر تم نے یہ نہ سوچا کہ تم خود کتنے بڑے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہو اور خدا اور اس کے رسول کا

Page 124

اصحاب بدر جلد 5 108 انکار کر کے اور مسجد حرام کی حرمت کو باطل کر کے اس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکال کر کتنے ناپسندیدہ افعال کے مرتکب ہوئے ہو.جب تم خود ان قبیح حرکات کے مرتکب ہو چکے ہو تو تم مسلمانوں کو کس منہ سے اعتراض کرتے ہو.ان سے تو صرف نادانستہ طور پر ایک غلطی ہوئی ہے.مگر تم تو جانتے بوجھتے ہوئے یہ سب کچھ کر رہے ہو.245 سریہ عبد اللہ بن جحش کے مثبت نتائج بخاری کی ایک حدیث کی شرح کرتے ہوئے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے سریہ عبد اللہ بن جحش کے مثبت نتائج کا ذکر کرتے ہوئے اس کی وضاحت میں لکھا کہ " واقعات بتاتے ہیں کہ اس وفد کو جس غرض کے لئے روانہ کیا گیا تھا اس میں ان کو پوری کامیابی ہوئی اور انہوں نے قیدیوں کے ذریعہ سے قریش مکہ کے منصوبہ اور ان کی نقل و حرکت سے متعلق یقینی اطلاعات حاصل کیں.حضرمی کے قافلے کا واقعہ ایک ضمنی اور اتفاقی حادثہ تھا اور بعض مورخین نے جو اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ اس مہم کے بعض افراد کو مہاجرین کے غصب شدہ اموال کی تلافی کا خیال پیدا ہوا تھا، یہ رائے صحیح نہیں.بلکہ اس مہم کا اصل مقصد صرف یہ تھا کہ حضرمی والے قافلے کے ذریعہ ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں جانے والے قافلے کی غرض و غایت اور قریش مکہ کے منصوبہ جنگ کے بارہ میں یقینی معلومات حاصل ہو جائیں اور یہی کام بصیغہ راز ان کے سپر د کیا گیا تھا.اس لئے انہوں نے اس مختصر قافلے کو اپنے قبضہ میں لانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا.یہ خیال بہت دُور کا ہے کہ وہ بھیجے تو گئے تھے قریش مکہ کی جنگی تیاریوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے لیکن انہوں نے قافلے کے کوٹنے پر قناعت کر کے آنحضرت صلی علیم کے پاس واپس ہونے کو کافی سمجھ لیا.حضرت عبد اللہ بن جحش بڑے پایہ کے صحابی تھے اور آنحضرت صلی یہ کرم کے پھوپھی زاد بھائی.آپ نے ایک قابل اعتمادر از دار کو اس مہم کے لئے منتخب فرمایا.جب آنحضرت صلی اللہ ہم کو قریش مکہ کی جنگی تیاریوں کے متعلق علم ہو گیا تو آپ نے بھی تیاری شروع کر دی اور اس تیاری میں پوری رازداری 24611 سے کام لیا." وہ لکھتے ہیں کہ بیشک مغازی میں ایسی روایتیں آتی ہیں یعنی جو جنگوں کی روایات ہیں ان میں یہ آتی ہیں کہ آنحضرت صلی لی ایم نے حضرت عبد اللہ بن جحش اور آپ کے ساتھیوں پر ناراضگی کا اظہار فرمایا.لیکن یہ ناراضگی اس لحاظ سے بجا تھی کہ ان کی مہم سے متعلق ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی جو فتنہ کا موجب بن سکتی تھی.مگر بسا اوقات بعض امور جو بظاہر غلطیاں معلوم ہوتے ہیں منشائے الہی کے تحت صادر ہوتی ہیں اور بعض معمولی واقعات عظیم الشان نتائج پر منتج ہو جاتے ہیں.پس عین ممکن تھا کہ حضرت عبد اللہ بن جحش کی مہم نہ بھیجی جاتی اور ان سے جو کچھ ہو اوہ نہ ہوتا اور ابو سفیان کی سر کردگی میں شام سے آنے والا قافلہ مگہ میں بلا خطر پہنچ جاتا تو قریش اس قافلے سے فائدہ اٹھا کر بہت بڑی تیاری کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور

Page 125

اصحاب بدر جلد 5 109 ہوتے جس کا مقابلہ کرنا قلیل التعداد بے سروسامان صحابہ کے لئے ناگوار صورت رکھتا.لیکن حضرت عبد اللہ بن جحش کے واقعہ سے مغرور سرداران قریش آگ بگولہ ہو گئے اور اس طیش اور غرور میں جلدی سے وہ ایک ہزار کے لگ بھگ مسلح افواج کے ساتھ اس زعم میں مقام بد ر پر پہنچ گئے کہ وہ اپنے قافلے کو بچائیں اور وہ نہیں جانتے تھے کہ وہیں ان کی موت مقدر ہے.اور دوسری طرف اس بات کا بھی امکان تھا کہ اگر صحابہ کرام کو یہ معلوم ہوتا کہ ایک مسلح فوج کے مقابلہ کے لئے انہیں لے جایا جارہا ہے تو ان میں سے بعض تردد میں پڑ جاتے.پس راز داری نے وہ کام کیا جو جنگ میں ایسے مورچے کام دیتے ہیں جنہیں آجکل جنگی اصطلاح میں آوٹ کہا جاتا ہے یا camouflage بھی کہا جاتا ہے.تاریخ میں لکھا ہے خدا اور رسول کی محبت نے ان کو تمام دنیا سے بے نیاز کر دیا تھا.انہیں اگر کوئی تمنا تھی تو صرف یہ کہ جان عزیز کسی طرح راہ خدا میں شمار ہو جائے.چنانچہ ان کی یہ آرزو پوری ہوئی اور الْمُجَدَّدعُ في الله ( خدا کی راہ میں کان کٹا ہوا) ان کے نام کا امتیازی نشان ہو گیا.18 شہادت سے قبل کی ایک مقبول دعا 247 248 حضرت عبد اللہ بن جحش کے بارے میں مزید تفصیل کہ آپ کی دعا کس طرح قبول ہوتی تھی.آپ کی شہادت سے قبل کی دعا کی قبولیت کا ایک واقعہ مشہور ہے.اسحاق بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن جحش نے میرے والد یعنی سعد سے غزوہ اُحد کے دن کہا کہ آؤ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں چنانچہ دونوں ایک جانب ہو گئے.پہلے حضرت سعد نے دعا کی کہ اے اللہ جس وقت میں کل دشمنوں سے ملوں تو میرا مقابلہ ایسے شخص سے ہو جو حملہ کرنے میں سخت ہو اور اس کا رعب غالب ہو.پس میں اس سے لڑوں اور اس کو تیری راہ میں قتل کر دوں اور اس کے ہتھیاروں کو لے لوں.اس پر عبد اللہ بن جحش نے آمین کہی.اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن جحش نے یہ دعا کی کہ اے اللہ ! کل میرے سامنے ایسا شخص آئے جو حملہ کرنے میں سخت ہو اور اس کار عب غالب ہو اس سے میں تیری خاطر قتال کروں اور وہ مجھ سے قتال کرے.وہ غالب آکر مجھے قتل کر دے اور مجھ کو پکڑ کر میری ناک کان کاٹ ڈالے.پس جس وقت میں تیرے حضور حاضر ہوں تو تو مجھ سے پوچھے کہ اے عبد اللہ ! کس کی راہ میں تیری ناک اور تیرے دونوں کان کاٹے گئے.میں عرض کروں کہ تیری اور تیرے رسول ملی کم کی راہ میں.جواب میں تو یہ کہے کہ تو نے سچ کہا.حضرت سعد کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن جحش کی دعا میری دعا سے بہتر تھی.اس لئے کہ اخیر دن میں میں نے ان کی ناک اور دونوں کانوں کو دیکھا کہ ایک دھاگے میں معلق تھے.249 یعنی کٹے ہوئے تھے اور انہیں پرویا ہوا تھا.یہ ظالمانہ فعل ہے جو وہ کافر کرتے تھے اور یہی آجکل بھی بعض دفعہ بعض شدت پسند مسلمان اسلام کے نام پر کر رہے ہیں.

Page 126

اصحاب بدر جلد 5 110 صحابہ کا بھی اللہ تعالیٰ سے پیار کا یہ عجیب انداز ہے حضرت مطلب بن عبد اللہ بن حنطب کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ال ولم جس روز اُحد کی جانب روانہ ہوئے تو آنحضرت صلی الی ایم نے راستہ میں مدینہ کے قریب ایک جگہ شیخین کے پاس رات قیام کیا جہاں حضرت ام سلمہ ایک بھنی ہوئی دستی لائیں جس میں سے آنحضور نے نوش فرمایا.اسی طرح نبیذ لائیں اور آپ صلی اللہ ہم نے نبیذ بھی پی.میرا خیال ہے کہ یہ ایک طرح ہریرہ ٹائپ کی کوئی چیز تھی.پھر شخص نے وہ نبیذ والا پیالہ لے لیا اور اس میں سے کچھ پیا.پھر وہ پیالہ حضرت عبد اللہ بن جحش نے لے لیا اور اس کو ختم کر دیا.ایک آدمی نے حضرت عبد اللہ بن جحش سے کہا کہ کچھ مجھے بھی دے دو.تمہیں معلوم ہے کہ کل صبح تم کہاں جاؤ گے ؟ تو حضرت عبد اللہ بن جحش نے کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے.مجھے اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملنا کہ میں سیراب ہوں.( یعنی اچھی طرح کھایا پیا ہو ) اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اس سے پیاسا ہونے کی حالت میں ملوں.250 صحابہ کا بھی اللہ تعالیٰ سے پیار کا یہ عجیب انداز ہے اور اس کے لئے ان کے تیاری کے بھی عجیب رنگ ہیں.حضرت عبد اللہ بن جحش اور حضرت حمزہ بن عبد المطلب کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا.حضرت حمزہ حضرت عبد اللہ بن جحش کے ماموں تھے اور شہادت کے وقت آپ کی عمر چالیس سال سے کچھ زائد تھی.رسول کریم صلی علی کرم آپ کے ترکہ کے ولی بنے اور آپ صلی الیکم نے ان کے بیٹے کو خیبر میں مال خرید کر دیا.251 حضرت عبد اللہ بن جحش کو صائب الرائے ہونے کی فضیلت بھی حاصل تھی.رسول کریم علی ای نیم نے بدر کے متعلق جن صحابہ سے مشورہ مانگا ان میں آپ بھی شامل تھے.252 حضرت عبد اللہ بن جحش کی ہمشیرہ کا ایک واقعہ حضرت مصلح موعود غزوہ اُحد سے آنحضرت صلی علی یم کی واپسی پر حضرت عبد اللہ بن جحش کی ہمشیرہ کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جو تاریخ میں اس طرح آیا ہے یا آپ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا کہ اس جنگ میں یعنی اُحد کی جنگ میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی علی کرم نے کس طرح بلند حوصلگی اور اپنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کیا اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور دلجوئی کی.اس جنگ کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ آپ اخلاق کے کتنے بلند ترین مقام پے کھڑے تھے اور اس جنگ میں صحابہ کی عدیم المثال قربانیوں کا بھی پتہ چلتا ہے.لکھتے ہیں کہ میں اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب آپ جنگ ختم ہونے پر مدینہ واپس تشریف لا رہے تھے.مدینہ کی عورتیں جو آپ کی شہادت کی خبر سن کر بیقرار تھیں.اب وہ آپ کی آمد کی خبر سن کر آپ کے استقبال کے لئے مدینہ سے باہر کچھ فاصلہ پر پہنچ گئی تھیں.ان میں آپ کی ایک سالی حمنہ بنت جحش بھی تھیں.ان کے تین نہایت قریبی رشتہ دار جنگ میں شہید ہو گئے تھے.رسول کریم صلی علیم نے جب انہیں دیکھا تو فرمایا کہ اپنے مردہ کا افسوس کرو.یہ عربی زبان کا ایک

Page 127

111 اصحاب بدر جلد 5 محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ تمہارا عزیز مارا گیا ہے.حمنہ بنت جحش نے عرض کیا کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کس مردہ کا افسوس کروں.آپ نے فرمایا تمہارا ماموں حمزہ شہید ہو گیا ہے.یہ سن کر حضرت حمنہ نے إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ پڑھا اور پھر کہا اللہ تعالیٰ ان کے مدارج بلند کرے وہ کیسی اچھی موت مرے ہیں.اس کے بعد آپ نے فرمایا اچھا اپنے ایک اور مرنے والے کا افسوس کر لو.حمنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی للی کم کس کا؟ آپ نے فرمایا تمہارا بھائی عبد اللہ بن جحش بھی شہید ہو گیا ہے.حمنہ نے پھر اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ پڑھا اور کہا الحمد للہ وہ تو بڑی اچھی موت مرے ہیں.آپ نے پھر فرمایا حمنہ ! اپنے ایک اور مردے کا بھی افسوس کرو.اس نے پوچھا یا رسول اللہ صلی علیکم کس کا؟ آپ نے فرمایا تیرا خاوند بھی شہید ہو گیا.یہ سن کر حمنہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور اس نے کہا ہائے افسوس.نیہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو عورت کو اپنے خاوند کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے.جب میں نے حمنہ کو اس کے ماموں کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے پڑھا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ جب میں نے اسے اس کے بھائی کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے پھر بھی اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ ہی پڑھا.لیکن جب میں نے اس کے خاوند کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے ایک آہ بھر کر کہا کہ ہائے افسوس اور وہ اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکی اور گھبر اگئی.پھر آپ صلی نمی یکم نے فرمایا عورت کو ایسے وقت میں اپنے عزیز ترین رشتہ دار اور خونی رشتہ دار بھول جاتے ہیں لیکن اسے محبت کرنے والا خاوند یاد رہتا ہے.اس کے بعد آپ نے حمنہ سے پوچھا تم نے اپنے خاوند کی وفات کی خبر سن کر ہائے افسوس کیوں کہا تھا ؟ حمنہ نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے اس کے بیٹے یاد آ گئے تھے کہ ان کی کون رکھوالی کرے گا.یہاں خاوند کی محبت اپنی جگہ.ایک محبت کرنے والا خاوند ہو تو بیوی یادر کھتی ہے.لیکن اس کے بچوں کی فکر تھی.اس کا اظہار انہوں نے کیا.محبت کرنے والے خاوند بنیں اور بچوں کی فکر کرنے والی مائیں بہنیں اور اس میں آجکل کے مردوں کے لئے بھی اور عورتوں کے لئے بھی سبق ہے کہ محبت کرنے والے خاوند بنیں اور بچوں کی فکر کرنے والی مائیں بہنیں.اور محبت کرنے والے خاوند بننے کے لئے بیوی اور بچوں کے حق ادا کر نے بھی ضروری ہیں جس کی آجکل بڑی شکایتیں ملتی ہیں کہ حق ادا نہیں ہو رہے.پھر صلی ای ایم نے بھی کیسا خوبصورت ارشاد فرمایا.آپ نے حمنہ کو فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی تمہارے خاوند سے بہتر خبر گیری کرنے والا کوئی شخص پیدا کرے.یعنی بچوں کی خبر گیری کرنے والا کوئی بہتر شخص پیدا ہو جائے.چنانچہ اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ حمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرت طلحہ کے ساتھ ہوئی اور ان کے ہاں محمد بن طلحہ پیدا ہوئے.مگر تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت طلحہ اپنے بیٹے محمد کے ساتھ اتنی محبت اور شفقت نہیں کرتے تھے جتنی کہ حمنہ کے پہلے بچوں کے ساتھ اور لوگ یہ کہتے تھے کہ کسی کے بچوں کو اتنی محبت سے پالنے والا طلحہ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں.اور یہ رسول اللہ صلی علی یم کی دعا کا نتیجہ تھا.253

Page 128

اصحاب بدر جلد 5 112 آپ کا تعلق قبیلہ بنو اسد سے تھا اور قبیلہ کے متعلق بعض کہتے ہیں کہ آپ بنی عبد شمس کے حلیف تھے جبکہ بعض کے نزدیک حرب بن امیہ کے حلیف تھے.254 حضرت عبد اللہ بن جحش کے قدوقامت کے بارے میں آتا ہے کہ نہ دراز قد تھے ، نہ ہی پست قد تھے.آپ کے سر کے بال نہایت گھنے تھے.255 ایک فہم کے موقع پر آپ کو امیر مقرر کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشاد فرمایاوہ آپ کی سخت جانی، مستقل مزاجی اور بے خوفی کا اظہار کرتا ہے.حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم پر ایک ایسے آدمی کو امیر مقرر کر کے بھیجوں گاجو اگر چہ تم سے زیادہ بہتر نہیں ہو گا لیکن بھوک اور پیاس کی برداشت میں تم سے زیادہ مضبوط ہو گا.پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عبد اللہ بن جحش کی امارت میں مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ کی طرف گئے.256 اس مہم میں کامیابی کے بعد جو مالِ غنیمت ملا اس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سریہ سے حاصل ہونے والے مال غنیمت کے متعلق بعض کا خیال ہے کہ یہ پہلا مالِ غنیمت ہے جس کو مسلمانوں نے حاصل کیا.حضرت عبد اللہ بن جحش نے اس مال غنیمت کو پانچ حصوں میں منقسم کر کے بقیہ چار حصوں کو تقسیم کر دیا اور ایک کو بیت المال کے لیے رکھ لیا.یہ پہلا حمس تھا جو اسلام میں اس دن مقرر ہوا.امام شعبی سے روایت ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جھنڈے کی ابتدا حضرت عبد اللہ بن جس نے کی.نیز سب سے پہلا مالِ غنیمت حضرت عبد اللہ بن جحش کا حاصل کیا ہوا تقسیم کیا گیا.258 257 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرت خاتم النبیین میں ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ گر زبن جابر یہ مکہ کا ایک رئیس تھا جس نے قریش کے ایک دستہ کے ساتھ کمال ہوشیاری سے مدینہ کی چراگاہ پر جو شہر سے صرف تین میل کے فاصلے پر تھی اچانک چھاپہ مارا.( یہ اور مہم ہے ) اور مسلمانوں کے اونٹ وغیرہ ہانک کر لے گیا.اس کے اچانک حملے نے طبعاً مسلمانوں کو بہت متوحش کر دیا اور چونکہ رؤسائے قریش کی یہ دھمکی پہلے سے موجود تھی کہ ہم مدینہ پر حملہ آور ہو کر مسلمانوں کو تباہ وبرباد کر دیں گے، مسلمان سخت فکر مند ہوئے اور انہی خطرات کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات وسکنات کا زیادہ قریب سے ہو کر علم حاصل کیا جاوے تاکہ اس کے متعلق ہر قسم کی ضروری اطلاع بر وقت میسر ہو جاوے اور مدینہ ہر قسم کے اچانک حملوں سے محفوظ رہے.(ہاں یہ جو پہلے ذکر ہو چکا ہے وہ اسی مہم کے بارے میں آپ فرمارہے ہیں) پھر کہتے ہیں چنانچہ اس غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی اور مصلحتاً اس پارٹی میں ایسے آدمیوں کو رکھا جو قریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے

Page 129

اصحاب بدر جلد 5 113 میں آسانی ہو اور اس پارٹی پر آپ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی عبد اللہ بن جحش کو مقرر فرمایا.اور اس خیال سے کہ اس پارٹی کی غرض وغایت عامتہ المسلمین سے بھی مخفی رہے آپ نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کو بھی یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اور کس غرض سے بھیجا جارہا ہے بلکہ چلتے ہوئے اُس کے ہاتھ میں ایک سر بمہر خط دے دیا اور فرمایا اس خط میں تمہارے لیے ہدایات درج ہیں.گو یہ حوالہ پہلے کچھ حد تک بیان ہو چکا ہے لیکن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے حوالے سے نہیں بیان ہوا تھا.بہر حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ جب تم مدینہ سے دو دن کا سفر طے کر لو تو پھر اس خط کو کھول کر اس کی ہدایات کے مطابق عمل درآمد کرنا.چنانچہ عبد اللہ اور ان کے ساتھی اپنے آقا کے حکم کے ماتحت روانہ ہو گئے اور جب دو دن کا سفر طے کر چکے تو عبد اللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے کہ تم مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں جاؤ اور وہاں جاکر قریش کے حالات کا علم لو اور پھر ہمیں اطلاع لا کر دو اور چونکہ مکہ سے اس قدر قریب ہو کر خبر رسانی کرنے کا کام بڑا نازک تھا.آپ نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھ دی کہ اس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگر تمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متامل ہو اور واپس چلا آنا چاہے تو اسے واپس آنے کی اجازت دے دو.عبد اللہ نے آپ کی یہ ہدایت اپنے ساتھیوں کو سنادی اور سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم بخوشی اس خدمت کے لیے حاضر ہیں.اس کے بعد یہ جماعت نخلہ کی طرف روانہ ہوئی.راستہ میں جب مقام بختران میں پہنچے تو سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان کا اونٹ کھو گیا اور وہ اس کی تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجود بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکے اور اب یہ پارٹی صرف چھ کس کی رہ گئی.سعد بن ابی وقاص کے ضمن میں اس کا کچھ حصہ بیان ہو ا تھا.259 پھر لکھتے ہیں کہ مسٹر مار گولیس اس موقع پر لکھتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عتبہ نے جان بوجھ کر اپنا اونٹ چھوڑ دیا اور اس بہانہ سے پیچھے رہ گئے.آپ لکھتے ہیں کہ ان جاں نثارانِ اسلام پر جن کی زندگی کا ایک ایک واقعہ ان کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے اور جن میں سے ایک غزوہ بئر معونہ میں کفار کے ہاتھوں شہید ہوا اور دوسرا کئی خطرناک معرکوں میں نمایاں حصہ لے کر بالآخر عراق کا فاتح بنا، اس قسم کا شبہ کرنا اور شبہ بھی محض اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر کرنا مسٹر مار گولیس ہی کا حصہ ہے.لکھتے ہیں کہ پھر لطف یہ ہے کہ مار گولیس صاحب اپنی کتاب میں دعوی یہ کرتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب اپنی ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو کر لکھی ہے.بہر حال یہ جملہ معترضہ تھا.لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت نخلہ پہنچی اور اپنے کام میں مصروف ہو گئی اور ان میں سے بعض نے اخفائے راز کے خیال سے اپنے سر کے بال منڈوا دیے تاکہ راہگیر وغیرہ ان کو عمرہ کے خیال سے آئے ہوئے لوگ سمجھ کر کسی قسم کا شبہ نہ کریں لیکن ابھی ان کو وہاں پہنچے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اچانک وہاں قریش کا ایک چھوٹاسا

Page 130

اصحاب بدر جلد 5 114 قافلہ بھی آن پہنچا جو طائف سے مکہ کی طرف جارہا تھا اور ہر دو جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہو گئیں.مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خفیہ خفیہ خبر رسانی کے لیے بھیجا تھا لیکن دوسری طرف قریش سے جنگ شروع ہو چکی تھی اور اب دونوں حریف ایک دوسرے کے سامنے تھے اور پھر طبعاً یہ اندیشہ بھی تھا کہ اب جو قریش کے ان قافلہ والوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا ہے تو اس خبر رسانی کا راز بھی مخفی نہ رہ سکے گا.ایک وقت یہ بھی تھی کہ بعض مسلمانوں کو خیال تھا کہ شاید یہ دن رجب یعنی شہر حرام کا آخری ہے جس میں عرب کے قدیم دستور کے مطابق لڑائی نہیں ہونی چاہیے اور بعض سمجھتے تھے کہ رجب گزر چکا ہے اور شعبان شروع ہے اور بعض روایات میں ہے کہ یہ سر یہ جمادی الآخر میں بھیجا گیا تھا اور شک یہ تھا کہ یہ دن جُمادَی کا ہے یار جب کا.لیکن دوسری طرف نخلہ کی وادی عین حرم کے علاقہ کی حد پر واقع تھی اور یہ ظاہر تھا کہ اگر آج ہی کوئی فیصلہ نہ ہوا تو کل کو یہ قافلہ حرم کے علاقہ میں داخل ہو جائے گا جس کی حرمت یقینی ہو گی.غرض ان سب باتوں کو سوچ کر مسلمانوں نے آخر یہی فیصلہ کیا کہ قافلہ پر حملہ کر کے یا تو قافلہ والوں کو قید کر لیا جاوے اور یا مار دیا جاوے.چنانچہ انہوں نے اللہ کا نام لے کر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں کفار کا ایک آدمی جس کا نام عمرو بن حضر می تھا مارا گیا اور دو آدمی قید ہو گئے لیکن بد قسمتی سے چوتھا آدمی بھاگ کر نکل گیا اور مسلمان اسے پکڑ نہ سکے اور اس طرح ان کی تجویز کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی.اس کے بعد مسلمانوں نے قافلہ کے سامان پر قبضہ کر لیا اور چونکہ قریش کا ایک آدمی بچ کر نکل گیا تھا اور یقین تھا کہ اس لڑائی کی خبر جلدی مکہ پہنچ جائے گی.عبد اللہ بن جحش اور اُن کے ساتھی سامان غنیمت لے کر جلدی جلدی مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے.لکھتے ہیں کہ مسٹر مار گولیس اس موقع پر لکھتے ہیں کہ دراصل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ دستہ دیدہ دانستہ اس نیت سے شہر حرام میں بھیجا تھا کہ چونکہ اس مہینہ میں قریش طبعاً غافل ہوں گے.مسلمانوں کو ان کے قافلوں کو لوٹنے کا آسان اور یقینی موقع مل جائے گا لیکن ہر عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایسی مختصر پارٹی کو اتنے دور دراز علاقہ میں کسی قافلہ کی غارت گری کے لیے نہیں بھیجا جا سکتا خصوصاً جبکہ دشمن کا ہیڈ کوارٹر اتنا قریب ہو اور پھر یہ بات تاریخ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ پارٹی محض خبر رسانی کی غرض سے بھیجی گئی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہ نے قافلہ پر حملہ کیا تھا تو آپ سخت ناراض ہوئے.چنانچہ روایت ہے کہ جب یہ جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو سارے ماجرا کی اطلاع ہوئی تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں شہر حرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی ہوئی.اور آپ نے مالِ غنیمت لینے سے انکار کر دیا.اس پر حضرت عبد اللہ اور ان کے ساتھی سخت نادم اور پشیمان ہوئے.اور انہوں نے خیال کیا کہ

Page 131

اصحاب بدر جلد 5 115 بس اب ہم خدا اور اس کے رسول کی ناراضگی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے.صحابہ نے بھی ان کو سخت ملامت کی اور کہا کہ تم نے وہ کام کیا جس کا تم کو حکم نہیں دیا گیا تھا اور تم نے شہر حرام میں لڑائی کی حالانکہ اس مہم میں تو تم کو مطلقا لڑائی کا حکم نہیں تھا.دوسری طرف قریش نے بھی شور مچایا کہ مسلمانوں نے شہر حرام کی حرمت کو توڑ دیا ہے اور چونکہ جو شخص مارا گیا تھا یعنی عمرو بن حضرمی وہ ایک رئیس آدمی تھا اور پھر وہ عتبہ بن ربیعہ رئیس مکہ کا حلیف بھی تھا اس لیے بھی اس واقعہ نے قریش کی آتش غضب کو بہت بھڑ کا دیا اور انہوں نے آگے سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی.چنانچہ جنگ بدر زیادہ تر قریش کی اسی تیاری اور جوش عداوت کا نتیجہ تھا.الغرض اس واقعہ پر مسلمانوں اور کفار ہر دو میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں اور بالآخر ذیل کی قرآنی وحی نازل ہو کر مسلمانوں کی تشفی کا موجب ہوئی.اور وہ یہ ہے کہ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالُ فِيْهِ كَبِيرٌ وَصَةٌ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَ كُفْرَ بِهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ إِخْرَاجُ اَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمُ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا (البقرہ:218) یعنی لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ شہر حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ تو ان کو جواب دے کہ بے شک شہر حرام میں لڑنا بہت بری بات ہے لیکن شہر حرام میں خدا کے دین سے لوگوں کو جبر ارو کنا بلکہ شہر حرام اور مسجد حرام دونوں کا کفر کرنا یعنی ان کی حرمت کو توڑنا اور پھر حرم کے علاقہ سے اس کے رہنے والوں کو بزور نکالنا جیسا کہ اے مشر کو تم لوگ کر رہے ہو یہ سب باتیں خدا کے نزدیک شہر حرام میں لڑنے کی نسبت بھی زیادہ بری ہیں اور یقیناً شہر حرام میں ملک کے اندر فتنہ پیدا کرنا اس قتل سے بدتر ہے جو فتنہ کو روکنے کے لیے کیا جاوے.اور اے مسلمانو ! کفار کا تو یہ حال ہے کہ وہ تمہاری عداوت میں اتنے اندھے ہو رہے ہیں کہ لہ کسی وقت اور کسی جگہ بھی وہ تمہارے ساتھ لڑنے سے باز نہیں آئیں گے اور وہ اپنی یہ لڑائی جاری رکھیں گے حتی کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں بشر طیکہ وہ اس کی طاقت پائیں.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسلام کے خلاف رؤسائے قریش اپنے خونی پر اپیگنڈا کو اشہر حرام میں بھی برابر جاری رکھتے تھے بلکہ اشہر حرم کے اجتماعوں اور سفروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ان مہینوں میں اپنی مفسدانہ کارروائیوں میں اور بھی زیادہ تیز ہو جاتے تھے اور پھر کمال بے حیائی سے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دینے کے لیے وہ عزت کے مہینوں کو اپنی جگہ سے ادھر ادھر منتقل بھی کر دیا کرتے تھے جسے وہ نیٹی کے نام سے پکارتے تھے اور پھر آگے چل کر تو انہوں نے غضب ہی کر دیا کہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں باوجود پختہ عہد و پیمان کے کفارِ مکہ اور ان کے ساتھیوں نے حرم کے علاقہ میں مسلمانوں کے ایک حلیف قبیلہ کے خلاف تلوار چلائی.پھر جب مسلمان اس قبیلہ کی حمایت میں نکلے تو ان کے خلاف بھی عین حرم میں تلوار استعمال کی.پس اس جواب سے مسلمانوں کی تو تسلی ہونی ہی تھی قریش بھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے اور اس دوران میں اُن کے آدمی بھی اپنے دو قیدیوں کو چھڑوانے کے لیے مدینہ پہنچ گئے لیکن چونکہ ابھی تک

Page 132

اصحاب بدر جلد 5 116 سعد بن ابی وقاص اور عقبہ واپس نہیں آئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے متعلق سخت خدشہ تھا کہ اگر وہ قریش کے ہاتھ پڑ گئے تو وہ قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے.اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی واپسی تک قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میرے آدمی بخیریت مدینہ پہنچ جائیں گے تو پھر میں تمہارے آدمیوں کو چھوڑ دوں گا.چنانچہ جب وہ دونوں واپس پہنچ گئے تو آپ مسی تنظیم نے فدیہ لے کر دونوں قیدیوں کو چھوڑ دیا لیکن ان قیدیوں میں سے ایک شخص پر مدینہ کے قیام کے دوران میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ اور اسلامی تعلیم کی صداقت کا اس قدر گہرا اثر ہو چکا تھا کہ اس نے آزاد ہو کر بھی واپس جانے سے انکار کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا اور بالآخر بئر معونہ میں شہید ہوا.اس کا نام حکم بن گئیان 260 261 حضرت عبد اللہ بن جحش کی تلوار غزوہ احد کے دن ٹوٹ گئی تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عرجون یعنی کھجور کی ایک شاخ مرحمت فرمائی.پس وہ آپ کے ہاتھ میں تلوار کی طرح ہو گئی.اسی دن سے آپے غمر جون کے لقب سے مشہور ہوئے.ابو نعیم کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن جحش اپنے رب کی قسم اٹھانے والے اور محبت الہی کو قلب میں جگہ دینے والے اور سب سے پہلے اسلامی جھنڈا قائم کرنے والے تھے.262 امام شعبی سے روایت ہے کہ میرے پاس بنی عامر اور بنی اسد کے دو آدمی آپس میں فخر و مباہات کا اظہار کرتے ہوئے آئے.بنی عامر کے شخص نے بنی اسد کے شخص کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا.اسدی کہہ رہا تھا کہ میرا ہاتھ چھوڑ دو جبکہ عامری کہہ رہا تھا کہ خدا کی قسم ! میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا تو امام شعبی کہتے ہیں کہ میں نے اسے کہا کہ اے بنی عامر کے بھائی ! اس کو چھوڑ دو اور اسدی سے کہا کہ تمہاری چھ خوبیاں ایسی ہیں جو پورے عرب میں کسی میں نہیں ہیں.وہ یہ ہیں.نمبر ایک : کہ تم میں سے ایک خاتون سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے کروا دیا اور ان دونوں کے درمیان سفیر حضرت جبرئیل تھے اور وہ خاتون حضرت زینب بنت جحش ہتھیں اور یہ تمہاری قوم کے لیے فخر کی بات ہے.نمبر دو: تم میں سے ایک شخص تھا جو کہ جنتی تھا مگر پھر بھی زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتا تھا اور وہ حضرت عکاشہ بن محصن تھے اور یہ تمہاری قوم کے لیے فخر کی بات ہے.نمبر تین: اور اسلام میں سب سے پہلا علم یعنی جھنڈا جو دیا گیا وہ بھی تم میں سے ایک شخص حضرت عبد اللہ بن جحش سود دیا گیا اور یہ تمہاری قوم کے لیے فخر کی بات ہے.نمبر چار سب سے پہلا مالِ غنیمت جو اسلام میں تقسیم ہو اوہ عبد اللہ بن جحش کا مالِ غنیمت ہے.نمبر پانچ اور بیعت رضوان میں جس شخص نے سب سے پہلے بیعت کی وہ تمہاری قوم کا تھا وہ

Page 133

اصحاب بدر جلد 5 117 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ کی بیعت کروں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کس بات پر میری بیعت کرو گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جو آپ کے دل میں ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا میرے دل میں کیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا فتح یا شہادت.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت ابو سنان نے بیعت کی.اس کے بعد لوگ آتے اور کہتے کہ حضرت ابوسنان والی بیعت پر ہم بھی بیعت کرتے ہیں اور یہ تمہاری قوم کے لیے فخر کی بات ہے.نمبر چھ : اور جنگ بدر کے دن سات مہاجرین تمہاری قوم کے تھے اور یہ تمہاری قوم کے لیے فخر کی بات ہے.63 پھر ایک روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن جحش جب اُحد کے دن شہید ہوئے تو حضرت زینب بنت خزیمہ آپ کے نکاح میں تھیں.ان کی شہادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت خزیمہ سے شادی کر لی.آپؐ آٹھ ماہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں رہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دو تین ماہ رہیں اور ماہ ربیع الآخر کے آخر میں آپ کی وفات ہو گئی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا جنازہ پڑھا اور جنت البقیع میں دفن کیا.264 196 نام و نسب و کنیت حضرت عبد اللہ بن جد حضرت عبد اللہ بن جد.ان کے والد کا نام جد بن قیس تھا.ان کی کنیت ابو وہب تھی.ان کا تعلق قبیلہ بنو سلمہ سے تھا جو انصار کا ایک قبیلہ تھا.حضرت معاذ بن جبل والدہ کی طرف سے آپ کے بھائی تھے.حضرت عبد اللہ بن جد غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے.5 265 بہادر اور غیرت مند بیٹا غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی علی ایم نے حضرت عبد اللہ بن جڑ کے والد ابو وہب سے کہا کہ ابو وہب کیا تم اس سال ہمارے ساتھ جنگ کے لئے نکلو گے ؟ ابو وہب نے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیں اور فتنہ میں مبتلا نہ کریں.میں نہیں جاسکتا.آنحضرت صلی علیہ نام کے سامنے جو اس نے بہانہ کیا، عجیب بہانہ ہے کہ میری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بہت دلدادہ ہوں.اگر میں بنو ا صفر یعنی رومیوں کی عورتوں کو دیکھوں گا تو اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکوں گا.رسول اللہ صلی سلیم نے اس سے اعراض کرتے ہوئے

Page 134

اصحاب بدر جلد 5 118 اسے اجازت دے دی.ٹھیک ہے، بہانہ بنارہے ہو ، چھٹی دے دی، نہ جاؤ.حضرت عبد اللہ بن جد کو یہ پتہ لگا تو اپنے والد کے پاس آئے، اور ان سے کہا کہ آپ نے رسول اللہ صلی الی یکم کی بات کا کیوں انکار کیا ہے ؟ اللہ کی قسم آپ تو بنو سلمہ میں سب سے زیادہ مالدار ہیں اور آج موقع ہے کہ اس میں حصہ لیں.نہ آپ خود غزوہ کے لئے نکلتے ہیں نہ ہی کسی کو سواری مہیا کرتے ہیں.انہوں نے کہا کہ اے میرے بیٹے ! اب یہاں بیٹے کے سامنے ایک اور بہانہ ہے اور وہی حقیقت ہے کہ میرے بیٹے میں کیوں اس گرمی اور تنگی کے موسم میں بنو اصفر کی طرف نکلوں.اللہ کی قسم میں تو خربی (جہاں بنو سلمہ کے گھر تھے) میں موجود اپنے گھر میں بھی ان کے خوف سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا.رومیوں کا بڑا خوف تھا، ڈر تھا.یہ بزدل آدمی تھے.تو کیا میں ان کے خلاف جاؤں اور ان کے خلاف جنگ میں شامل ہوں.اے بیٹے اللہ کی قسم ! میں تو گردش زمانہ سے خوب آگاہ ہوں.مجھے پتہ ہے حالات کیا ہوتے ہیں، آج کچھ ہیں کل کچھ ہیں.ان کی یہ باتیں سن کر حضرت عبد اللہ اپنے والد سے سختی سے پیش آئے اور کہا کہ اللہ کی قسم آپ میں تو نفاق پایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ضرور آپ کے متعلق رسول اللہ صلی علی کم پر قرآن میں نازل کرے گا جسے سب پڑھ لیں گے، اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے گا کہ آپ منافقین میں سے ہیں.حضرت عبد اللہ کے والد نے اس پر اپنا جو تا اتار کر ان کے منہ پر مارا.عبد اللہ وہاں سے چلے گئے اور اپنے والد سے بات نہیں کی.266 جد بن قیس جو حضرت عبد اللہ کے والد تھے، ایک جگہ اُسد الغابہ میں لکھا ہے کہ ان کے بارے میں نفاق کا گمان کیا گیا ہے.یہ حدیبیہ میں شریک تھے مگر جب لوگوں نے نبی کریم صلی ایم کی بیعت کی تو اس وقت یہ بیعت میں بھی شامل نہیں ہوئے.اور کہا جاتا ہے کہ بعد میں انہوں نے توبہ کر لی تھی اور ان کی وفات حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں ہوئی.267 197 حضرت عبد الله بن محمد اپنے ایک بھائی کے ساتھ جنگ بدر میں شریک حضرت عبد اللہ بن حمیر الْاَشْجَعِی.ان کا تعلق بنود همان سے ہے جو کہ انصار کے حلیف تھے آپ نے غزوہ بدر میں اپنے بھائی حضرت خارجہ کے ہمراہ شرکت کی اور آپ غزوہ احد میں بھی شامل ہوئے.268 ان کی زوجہ کا نام حضرت ام ثابت بنت حارثہ ہے جو آنحضور صلی علی کم پر ایمان لائیں.269

Page 135

اصحاب بدر جلد 5 119 جنگ احد میں دڑے پر ڈٹے رہنے والے جانباز حضرت عبد اللہ بن حمیر ان چند اصحاب میں سے تھے جو غزوہ احد میں حضرت عبد اللہ بن جبیر کے ساتھ دڑے پر ڈٹے رہے.جب باقی صحابہ فتح کا نظارہ دیکھنے کے بعد مسلمانوں کی باقی جماعت سے ملنے کے لئے نیچے جانے لگے تو حضرت عبد اللہ بن محمیر انہیں نصیحت کرنے کے لئے کھڑے ہوئے.آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور پھر اللہ اور رسول اللہ صلی علیہ سلم کی اطاعت کرنے کی نصیحت کی لیکن انہوں نے آپ کی بات نہ مانی اور چلے گئے یہاں تک کہ حضرت عبد اللہ بن جبیر کے ساتھ درے پر دس سے زیادہ صحابہ نہ بچے.اتنے میں خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابو جہل نے درہ خالی دیکھ کر جو اصحاب وہاں باقی رہ گئے تھے ان پر حملہ کر دیا.اس قلیل جماعت نے ان پر تیر برسائے یہاں تک کہ وہ ان تک پہنچ گئے اور آن کی آن میں ان سب کو شہید کر دیا.جنگ احد اور دڑے پر متعین ایک دستہ 270 احد کے اس واقعہ کی مزید تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں لکھی ہے.کہ " آنحضرت صلی لی نام خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور احد کے دامن میں ڈیرہ ڈال دیا.ایسے طریق پر کہ احد کی پہاڑی مسلمانوں کے پیچھے کی طرف آگئی اور مدینہ گویا سامنے رہا اور اس طرح آپ نے لشکر کا عقب محفوظ کر لیا.عقب کی پہاڑی میں ایک درہ تھا جہاں سے حملہ ہو سکتا تھا.اُس کی حفاظت کا آپ نے یہ انتظام فرمایا کہ عبد اللہ بن جبیر کی سرداری میں پچاس تیر اند از صحابی وہاں متعین فرما دیئے اور ان کو تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہو جاوے وہ اس جگہ کو نہ چھوڑیں اور دشمن پر تیر برساتے جائیں.آپ کو اس درہ کی حفاظت کا اس قدر خیال تھا کہ آپ نے عبد اللہ بن جبیر سے یہ تکرار فرمایا " یعنی بار بار فرمایا کہ دیکھو یہ درہ کسی صورت میں خالی نہ رہے.حتی کہ اگر تم دیکھو کہ ہمیں فتح ہو گئی ہے اور دشمن پسپا ہو کر بھاگ نکلا ہے، تو پھر بھی تم اس جگہ کو نہ چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ مسلمانوں کو شکست ہو گئی ہے اور دشمن ہم پر غالب آگیا ہے تو پھر بھی تم اس جگہ سے نہ ہٹنا حتی کہ ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ "اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں تو پھر بھی تم یہاں سے نہ ہٹنا حتی کہ تمہیں یہاں سے ہٹ آنے کا حکم جاوے." یعنی آپ کی طرف سے حکم جائے." اس طرح اپنے عقب کو پوری طرح مضبوط کر کے آپ نے لشکر اسلامی کی صف بندی کی اور مختلف دستوں کے جدا جدا امیر مقرر فرمائے...جب عبد اللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے تو انہوں نے اپنے امیر عبد اللہ سے کہا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے اور مسلمان غنیمت کا مال جمع کر رہے ہیں آپ ہم کو اجازت دیں کہ ہم بھی لشکر کے ساتھ جاکر شامل ہو جائیں.عبد اللہ نے انہیں روکا اور آنحضرت صلی اللی سیم کی تاکیدی ہدایت یاد دلائی مگر وہ فتح کی خوشی میں غافل ہو رہے تھے ، اس لئے وہ باز نہ آئے.اور یہ کہتے ہوئے نیچے اتر گئے کہ رسول اللہ صلی علی کم کا صرف یہ مطلب تھا کہ جب تک پورا اطمینان نہ ہولے درّہ خالی

Page 136

اصحاب بدر جلد 5 120 نہ چھوڑا جاوے اور اب چونکہ فتح ہو چکی ہے اس لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور سوائے عبد اللہ بن جبیر اور ان کے پانچ سات ساتھیوں کے درہ کی حفاظت کے لئے کوئی نہ رہا.خالد بن ولید کی تیز آنکھ نے دور سے درہ کی طرف دیکھا تو میدان صاف پایا جس پر اس نے اپنے سواروں کو جلدی جلدی جمع کر کے فور آدرہ کا رخ کیا اور اس کے پیچھے پیچھے عکرمہ بن ابو جہل بھی رہے سہے دستہ کو ساتھ لے کر تیزی کے ساتھ وہاں پہنچا اور یہ دونوں دستے عبد اللہ بن جبیر اور ان کے چند ساتھیوں کو ایک آن کی آن میں شہید کر کے اسلامی لشکر کے عقب میں اچانک حملہ آور ہو گئے."271 نام و نسب و کنیت 198 حضرت عبد اللہ بن رواحہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ.حضرت عبد اللہ کے والد کا نام رواحہ بن ثعلبہ تھا اور ان کی والدہ کا نام کبشہ بنت واقد بن عمر و تھا جو انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو حارث بن خزرج سے تھیں.حضرت عبد اللہ بن رواحہ بیعت عقبہ میں شریک تھے اور بنو حارث بن خزرج کے سردار تھے.ان کی کنیت ابو محمد تھی بعض نے ابو رواحہ اور ابو عمرو بھی بیان کی ہے.272 نبی صلی الل ولم کے کاتب انصار کے ایک شخص سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الم نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور حضرت مقداد میں مؤاخات قائم فرمائی تھی.ابن سعد کے مطابق آپ نبی صلی علیکم کے کا تب بھی تھے.273 تمام غزوات میں شامل حضرت عبد اللہ بن رواحہ غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ حدیبیہ ، غزوہ خیبر اور عمرۃ القضاء سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علی ایم کے ہمراہ شریک رہے.آپ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے.غزوہ مونہ کے سرداروں میں سے ایک سردار آپ بھی تھے.بیٹھ جانے کی آواز سن کر وہیں بیٹھ گئے ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ نبی صلی علیہ کم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ صلی علیکم اس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے.خطبے کے دوران آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ.یہ سنتے ہی آپ مسجد سے

Page 137

121 اصحاب بدر جلد 5 باہر جس جگہ کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے.جب نبی صلی علیہ کم خطبے سے فارغ ہوئے اور یہ خبر آپ کو پہنچی تو آپ نے ان سے فرمایا کہ زَادَكَ اللهُ حِرْصًا عَلَى طَوَاعِيَةِ اللهِ وَطَوَاعِيَةِ رَسُولِہ کہ اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کی خواہش میں اللہ تمہیں زیادہ بڑھائے.اسی طرح کا واقعہ کتب احادیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بارے میں بھی ملتا ہے اور یہ واقعہ ان کے حوالے سے میں ایک خطبہ میں بیان کر چکا ہوں.274 عبد اللہ بن مسعودؓ کے بارے میں بھی یہی روایت ہے.وہ بھی باہر بیٹھے تھے ، جب سنا تو دروازے میں بیٹھ گئے اور پھر اسی طرح بیٹھے بیٹھے اندر آئے.اللہ ابن رواحہ پر رحم فرمائے اسے ایسی مجالس سے محبت ہے جس پر فرشتے فخر کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن رواحہ جہاد میں سب سے پہلے گھر سے نکلتے اور سب کے بعد کوٹتے تھے.حضرت ابو دردائم فرماتے ہیں کہ میں اُس دن سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جس میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ کا ذکر نہ کروں.جب وہ سامنے سے آتے ہوئے مجھ سے ملتے تو میرے سینے پر ہاتھ رکھتے یعنی کہ ایسا تھا کہ ہر روز جب بھی وہ ملتے اور روزانہ ملتے تو تب بھی ان کی باتیں ایسی تھیں کہ ان کا ذکر ضروری ہے اور پھر آگے بیان کر رہے ہیں کہ جب بھی وہ سامنے سے آتے، مجھے ملنے کے لیے آتے یا مجھے ملتے تو عبد اللہ بن رواحہ میرے سینے پر ہاتھ رکھتے.حضرت ابو دردا کہتے ہیں اور جب وہ جاتے ہوئے مجھے ملتے تو میرے کندھوں کے درمیان میں ہاتھ رکھتے اور مجھ سے کہتے کہ يَا عُوَ نیمز راجْلِسُ فَلَنُؤْمِن سَاعَةً کہ اے عویمر !بیٹھو تھوڑی دیر ایمان تازہ کریں.پس ہم بیٹھتے اور اللہ کا ذکر کرتے جتنا اللہ چاہتا تھا.پھر حضرت عبد اللہ بن رواحہ کہتے کہ اے عویمر یہ ایمان کی مجالس ہیں.حضرت امام احمد کی کتاب کتاب الزہد میں بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ جب کسی ساتھی سے ملتے تو کہتے آؤ گھڑی بھر اپنے رب پر ایمان لانے کی یاد تازہ کر لیں.اسی میں ہے کہ نبی کریم ملی ایم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابن رواحہ پر رحم فرمائے.اسے ایسی مجالس سے محبت ہے جس پر فرشتے فخر کرتے ہیں.275 آنحضرت صلی اللہ علم کا عیادت کے لئے تشریف لے جانا حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی علیم نے فرمایا.نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ کتنے ہی اچھے آدمی ہیں.حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو فتح خیبر کے بعد پھلوں اور فصل و غیرہ کا اندازہ لگانے کے لیے آپ صلی الی یم نے بھیجا تھا.ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ اتنے بیمار ہوئے کہ بے ہوش ہو گئے.نبی کریم صلی الله علم ان کی عیادت کرنے کے لیے آئے.فرمایا اے اللہ ! اگر اس کی مقدر گھڑی، اس کی مقررہ گھڑی کا وقت ہو گیا ہے تو اس کے لیے آسانی پیدا کر دے.یعنی اگر اس کی وفات کا وقت ہے تو آسانی پیدا کر دے اور اگر اس کا وقت موعود نہیں ہوا تو اسے شفا عطا فرما.اس دعا کے بعد حضرت عبد اللہ کے بخار میں کچھ کمی ہوئی، انہوں نے کمی محسوس کی تو انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری والدہ کہہ رہی تھی کہ ہائے میرا پہاڑ.ہائے میر اسہارا.جب میں بیمار تھا تو

Page 138

اصحاب بدر جلد 5 122 میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ لوہے کا گر ز اٹھائے کھڑا یہ کہ رہا تھا کہ کیا تم واقعی ایسے ہو ؟ تو میں نے کہا ہاں.جس پر اس نے مجھے وہ گر زمارا.ایک اور روایت اس بارے میں اس طرح ہے اور یہ زیادہ صحیح لگتی ہے.کہتے ہیں کہ فرشتے نے لوہے کا ایک گرز اٹھایا ہوا تھا اور وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا تم ایسے ہو جس طرح تمہاری ماں کہہ رہی ہے.کہ تم پہاڑ ہو اور میرے سہارے ہو ؟ یہ تو شرک والی بات بنتی ہے.حضرت عبد اللہ بن رواحہ کہتے ہیں کہ اگر میں کہتا کہ ہاں میں ایسا ہوں تو وہ ضرور مجھے گر زمار دیتا.بلند مرتبه شاعر 276 آپ شاعر بھی تھے اور ان شاعروں میں سے تھے جو نبی کریم صلی ا کرم کی طرف سے مخالفین کی بیہودہ گوئیوں کا جواب دیا کرتے تھے.ان میں سے چند شعر یہ ہیں: إِنِّي تَفَرَّسْتُ فِيْكَ الْخَيْرَ أَعْرِفُه وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنْ مَا خَانَنِي الْبَصَرُ أَنْتَ النَّبِيُّ وَمَنْ يُحْرَمُ شَفَاعَتَهُ يَوْمَ الْحِسَابِ فَقَدْ أَزْرَى بِهِ الْقَدَرُ فَثَبَّتَ اللهُ مَا آتَاكَ مِنْ حَسَنِ تثْبِيْتَ مُوسَى وَنَصْرًا كَالَّذِي نُصِرُوا کہ میں نے آپ کی ذات مقدس میں یعنی آنحضرت صلی یم کی ذات میں بھلائی پہچان لی تھی اور اللہ جانتا ہے کہ میری نظر نے دھوکا نہیں کھایا.آپ نبی ہیں.قیامت کے دن جو شخص آپ کی شفاعت سے محروم کر دیا گیا بے شک قضاء و قد ر نے اس کو بے وقعت کر دیا.پس اللہ ان خوبیوں پر ثبات بخشے جو اس نے آپ کو دی ہیں جس طرح موسیٰ کو ثابت قدم رکھا اور آپ کی مدد کرے جیسا کہ ان نبیوں کی مدد کی.نبی کریم صلی ا ہم نے ان اشعار کو سن کر فرمایا کہ اے ابن رواحہ ! اللہ تم کو ثابت قدم رکھے.ہشام بن عروہ نے کہا ہے کہ اللہ نے ان کو اس دعا کی برکت سے خوب ثابت قدم رکھا حتی کہ آپ شہید ہوئے اور ان کے واسطے جنت کے دروازے کھول دیے گئے.اس میں شہید ہو کر داخل ہوئے.ابن سعد کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ والشُّعَرَاء يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوَنَ (الشراء:225) اور رہے شاعر تو محض بھٹکے ہوئے ہی ان کی پیروی کرتے ہیں تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں انہی میں سے ہوں.جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ رالا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ (الشعراء : 228) سوائے ان کے جو ان میں سے ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے.معجم الشعراء کے مصنف لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ زمانہ جاہلیت میں بھی بہت قدر و منزلت رکھتے تھے اور زمانہ اسلام میں بھی ان کو بہت بلند مقام اور مرتبہ حاصل تھا.حضور صلی الیہ کم کی شان میں ایک شعر حضرت عبد اللہ نے ایسا کہا ہے کہ اسے آپ کا بہترین شعر کہا جاسکتا ہے.وہ شعر آپ کی دلی کیفیت کو خوب بیان کرتا ہے جس

Page 139

اصحاب بدر جلد 5 123 میں حضرت عبد اللہ نے آنحضرت صلی اللی علم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: لَوْ لَمْ تَكُنْ فِيْهِ آيَاتٌ مُبَيِّنَةٌ كَانَتْ بَدِيهَتُهُ تُنْبِيْكَ بِالْخَبَرِ کہ اگر حضرت محمد مصطفی صلی علیم کی ذات کے بارے میں کھلے کھلے نشانات اور روشن معجزات نہ الله بھی ہوتے تو آپ صلی علی یم کی ذات ہی حقیقت حال کی آگاہی کے لیے کافی ہے.277 حضرت عبد اللہ بن رواحہ جاہلیت کے زمانہ میں لکھنا پڑھنا جانتے تھے حالانکہ اس زمانے میں عرب میں کتابت بہت کم تھی.غزوہ بدر کے اختتام پر نبی کریم صلی علیم نے حضرت زید بن حارثہ کو مدینے کی طرف اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو عوالی کی جانب فتح کی نوید سنانے کے لیے بدر کے میدان سے روانہ فرمایا.عوالی مدینہ کے بالائی جانب وہ علاقہ ہے جو چار میل سے لے کر آٹھ میل کے درمیان ہے.اس میں قباء کی بستی اور چند دیگر قبائل رہتے ہیں، اسے کہتے ہیں.حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علی یکم مسجد حرام میں اونٹ پر داخل ہوئے.آپ عصا سے حجر اسود کو بوسہ دے رہے تھے.آپ کے ہمراہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ بھی تھے جو آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑے ہوئے تھے اور یہ اشعار کہہ رہے تھے کہ خَلُوا بَنِي الْكُفَّارِ عَن سَبِيْلِة نَحْنُ ضَرَبْنَاكُمْ عَلَى تَأْوِيْلِة ضَرْبَا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيْلِهْ کہ اے کفار ! آپ کے راستے سے ہٹ جاؤ ہم نے آپ صلی علی ایم کے رجوع کرنے پر تمہیں ایسی مار ماری جو سروں کو مقام استراحت سے ہٹا دے.حضرت قیس بن ابو حازم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ سے فرمایا کہ اترو اور ہمارے اونٹوں کو حرکت دو یعنی کچھ شعر کہہ کر اونٹوں کو تیز کرو جسے حدی کہتے ہیں.عرض کی کہ یارسول اللہ ؟ میں نے یہ کلام ترک کر دیا ہے.حضرت عمرؓ نے کہا سنو اور اطاعت کرو.اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ یہ اشعار کہتے ہوئے اپنے اونٹ سے اترے کہ يَا رَبِّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقُبًا وَلَا صَلَّيْنَا فَأَنْزِلَن سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبَتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَا قَيْنَا إِنَّ الْكُفَّارَ قَدْ بَغَوُا عَلَيْنَا کہ اے پروردگار ! اگر تو نہ ہو تا تو ہم لوگ ہدایت نہ پاتے.نہ تو صدقہ و خیرات کرتے.نہ نماز پڑھتے.ہم پر سکون و اطمینان نازل فرما اور جب ہم دشمن کا مقابلہ کریں تو ہمارے قدم ثابت رکھ کیونکہ کفار ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں.وکیع نے کہا کہ دوسرے راوی نے اتنا اور اضافہ کیا تھا کہ وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا کہ اگر وہ فتنہ وفساد بر پا کرناچاہیں تو ہم انکار کرتے ہیں.یعنی اس فتنہ اور فساد کا سد باب کرتے ہیں

Page 140

اصحاب بدر جلد 5 124 اور اسے برپا نہیں ہونے دیتے.راوی نے کہا کہ نبی کریم صلی علی کریم نے فرمایا اے اللہ ! ان پر رحمت کر.اس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ واجب ہو گئی.آنحضرت صلی للی کم کی دعا ہی سے یہ رحمت تو واجب ہو گئی.حضرت عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیم جب حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو آپ کے لیے اپنے بستر سے نہ اٹھ سکے.آپ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میری امت کے شہداء کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کی.مسلمان کا قتل ہونا شہادت ہے.فرمایا تب تو میری امت کے شہداء کم ہیں.آنحضرت صلی للی یکم نے فرمایا کہ مسلمان کا قتل ہونا شہادت ہے اور پیٹ کی بیماری سے فوت ہو ناشہادت ہے اور پانی میں ڈوب کر فوت ہونا شہادت ہے اور وہ عورت جس کی زچگی میں وفات ہو جاتی ہے یہ سب شہادت کی اقسام ہیں.278 جنگ موتہ میں سپہ سالار لشکر...ج حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے غزوہ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ کو سردار لشکر بنایا اور فرمایا کہ اگر یہ شہید ہو جائیں تو حضرت جعفر بن ابو طالب ان کی جگہ پر ہوں.پھر اگر حضرت جعفر" بھی شہید ہو جائیں تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ سردار بنیں.اگر عبد اللہ بھی شہید ہوں تو مسلمان جس کو پسند کریں اس کو اپنا سر دار بنا لیں.پس جب لشکر تیار ہو گیا اور اہل لشکر کوچ کرنے لگے تو لوگوں نے رسول اللہ صلی ایم کے سرداروں کو رخصت کیا اور ان کو سلامتی کی دعا دی.جب لوگوں نے رسول اللہ صلی علیم کے سرداروں کو اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو رخصت کیا تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ رونے لگے.لوگوں نے رونے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ بخدا مجھے دنیا کی محبت اور اس کی شدید خواہش اور شوق نہیں ہے بلکہ میں نے رسول اللہ صلی علیہ کم کو یہ آیت پڑھتے سنا ہے کہ وَ اِن مِنْكُمْ الا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْنا مَقْضِيَّا (مریم:72) کہ اور تم میں سے کوئی نہیں مگر وہ ضرور اس میں جانے والا ہے یعنی دوزخ ہیں.یہ تیرے رب پر ایک طے شدہ فیصلے کے طور پر فرض ہے.پس میں نہیں جانتا کہ پل صراط چڑھنے اور پار اترنے میں میرا کیا حال ہو گا.اس سے پہلے کی آیت میں دوزخ کا ذکر ہے.اس لیے ان کو خوف پیدا ہوا تھا ورنہ دوسری آیات میں صاف ظاہر ہے کہ مومن اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے بارے میں یہ ذکر نہیں ہے.بہر حال مسلمانوں نے کہا کہ اللہ تمہارے ہمراہ ہے.وہی تم کو ہم تک خیر و خوبی سے واپس لائے گا.تفسیر صغیر کے حاشیے میں لکھا ہے اور تفسیر کبیر میں دونوں طرح ہے کہ ایک تو یہ مومنوں کے لیے نہیں ہے کافروں کے لیے ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور احادیث سے اس بارے میں تشریح بھی فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے جو تفسیر صغیر کے حاشیے میں بھی لکھا ہے کہ " قرآن مجیوں سے معلوم ہو تا ہے کہ دوز خیں دو ہیں.ایک اس دنیا کی، ایک اگلے جہان کی.یہ جو فرمایا ہے کہ ہر ایک دوزخ میں جائے گا اس سے یہ مراد نہیں کہ مومن بھی دوزخ میں جائیں گے.بلکہ یہ مراد ہے کہ مومن دوزخ کا حصہ اسی دنیا میں پالیتے ہیں.یعنی کفار انہیں قسم قسم کی تکالیف دیتے ہیں.ورنہ مومن قرآن

Page 141

125 اصحاب بدر جلد 5 مجید کی رو سے اگلے جہان میں دوزخ میں کبھی نہیں جائیں گے.کیونکہ قرآن مجید مومنوں کے متعلق فرماتا ہے کہ لَا يَسْمَعُونَ حَسَهَا یعنی مومن دوزخ سے اتنے دور رہیں گے کہ وہ اس کی آواز بھی نہیں سن سکیں گے.پس مومنوں کے دوزخ میں جانے سے مراد ان کا دنیا میں تکالیف اٹھانا ہے.رسول کریم صلی علیکم نے بخار کو بھی ایک قسم کا دوزخ قرار دیا ہے.فرمایا تخمی حظ كُلّ مُؤْمِنٍ مِنَ النَّارِ یعنی بخار دوزخ کی آگ کا مومن کے لیے ایک حصہ ہے." بہر حال یہ اس کی تھوڑی سی وضاحت ہے اور جور خصت کیا مسلمانوں نے، مومنوں نے انہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دشمنوں کے شر سے بچائے.حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے اس وقت یہ اشعار پڑھے کہ : لَكِنَّنِي أَسْأَلُ الرَّحْمَانَ مَغْفِرَةً ووَضَرْبَةٌ ذَاتَ فَرْغَ يَقْذِفُ الزَّبَدَا اوَطَعْنَةٌ بِيَدَيْ حَزَانَ مُجْهِزَةٌ بِحَرْبَةٍ تُنْفِزُ الْأَحْشَاءَ وَالْكَبِدَا 279 11 حَتَّى يَقُولُوا إِذَا مَرُّوا عَلَى جَدَتِي يَا أَرْشَدَ اللهُ مِنْ غَازِ وَقَدْ رَشَدًا لیکن میں خدائے رحمن سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تلواروں کا ایساوار کرنے کی توفیق مانگتا ہوں جو کشادہ گھاؤ والا ہو اور تازہ خون نکالنے والا ہو جس میں جھاگ اٹھ رہی ہو اور نیزے کا ایسا حملہ جو پوری تیاری سے خون کے شدید پیاسے کے ہاتھوں سے کیا گیا ہو جو انتڑیوں اور جگر کے پار ہو جائے یہاں تک کہ جب لوگ میری قبر کے پاس سے گزریں تو کہیں کہ اے جنگ میں شامل ہونے والے ! اللہ تیرا بھلا کرے اور اس خدا نے بھلا کر دیا ہو.پھر عبد اللہ بن رواحہ رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ صلی ا ہم نے ان کو رخصت کیا.لشکر نے کوچ کیا یہاں تک کہ معان مقام پر پڑاؤ کیا.معان ملک شام میں حجاز کی جانب بلقاء کے نواح میں ایک شہر ہے.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ہر قل ایک لاکھ رومی اور ایک لاکھ عربی فوج کے ساتھ ماب مقام پر موجود ہے.ماب بھی ملک شام میں بلقاء کے نواح میں ایک شہر ہے.مسلمانوں نے دو دن معان میں قیام کیا اور آپس میں کہا کہ رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس کسی کو بھیج کر اپنے دشمن کی کثرت سے خبر دیں.یعنی کہ دشمن بہت بڑی تعداد میں ہے یا تو آپ ہماری مدد کریں گے یا کچھ اور حکم دیں گے.مگر حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے مسلمانوں کو جوش دلایا.چنانچہ وہ لوگ باوجودیکہ تین ہزار تھے آگے بڑھے اور رومیوں سے بلقاء کی ایک بستی مشارف کے قریب جاملے.مشارف ، ملک شام میں اس نام کی کئی بستیاں تھیں جس میں ایک خوران شہر کے پاس ہے، ایک دمشق کے قریب، ایک بلقاء کے قریب ہے.پھر مسلمان وہاں سے موتہ کی طرف ہٹ آئے.280 پھر عبد اللہ بن رواحہ بھی شہید ہوئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی ال کلم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ کے شہید ہو جانے کی خبر لوگوں کو سنائی.قبل اس کے کہ ان تک اس کی کوئی خبر نہیں آئی تھی.

Page 142

126 281 اصحاب بدر جلد 5 آپ نے پہلے بتا دیا.آپ نے فرمایا زیڈ نے جھنڈ الیا اور وہ شہید ہوئے.پھر جعفر نے لیا اور وہ بھی شہید ہوئے.پھر عبد اللہ بن رواحہ نے لیا وہ بھی شہید ہوئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.فرمایا پھر جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لیا.آخر اللہ نے اس کے ذریعہ سے فتح دی.جب رسول اللہ صلی ال م ت حضرت زید بن حارثہ ، حضرت جعفر اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو نبی کریم صلی علی تیم ان کا حال بیان کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور حضرت زید کے ذکر سے آغاز فرمایا.آپ نے فرمایا: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِزِّي، اللهُمَّ اغْفِرْ لِزَيْبِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِزَيْبِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ جَعْفَرٍ وَلِعَبْدِ اللهِ ابْنِ رَوَاحَةَ.کہ اے اللہ ازید کی مغفرت فرما.اے اللہ ازید کی مغفرت فرما.اے اللہ ! زید کی مغفرت فرما.اے اللہ ! جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ کی مغفرت فرما.282 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب حضرت زید بن حارثہ ، حضرت جعفر اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ شہید ہو گئے تو رسول اللہ صلی علیکم مسجد میں بیٹھ گئے.آپ کے چہرے سے غم و حزن کا اظہار ہو رہا تھا.283 جنگ موتہ اور حضرت مصلح موعود کا بیان حضرت مصلح موعودؓ نے غزوہ موتہ کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح فرمایا ہے.یہ پہلے حضرت زید کے ضمن میں بھی ذکر ہو چکا ہے 281 لیکن بہر حال تھوڑا سا حصہ دوبارہ پیش کرتا ہوں.آپ لکھتے ہیں کہ: " اس کا افسر آنحضرت صلی علیم نے انہیں زید کو مقرر کیا تھا مگر ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت زید کو لشکر کا سردار بناتا ہوں.اگر زید لڑائی میں مارے جائیں تو ان کی جگہ جعفر لشکر کی کمان کریں.اگر وہ بھی مارے جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ کمان کریں.اگر وہ بھی مارے جائیں تو پھر جس پر مسلمان متفق ہوں وہ فوج کی کمان کرے.جس وقت آپ نے یہ ارشاد فرمایا اس وقت ایک یہودی بھی آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا.اس نے کہا کہ میں آپ کو نبی تو نہیں مانتا لیکن اگر آپ سچے بھی ہوں تو ان تینوں میں سے کوئی بھی زندہ بچ کر نہیں آئے گا کیونکہ نبی کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ پوری ہو کر رہتی ہے.وہ یہودی حضرت زید کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ اگر تمہارار سول سچا ہے تو تم زندہ واپس نہیں آؤ گے.حضرت زید نے فرمایا میں زندہ آؤں گا یا نہیں آؤں گا اس کو تو اللہ ہی جانے مگر ہمارا رسول صلی علیکم ضرور سچا ہے." یعنی نہ مانتے ہوئے بھی یہودی اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ آپ کی بات پوری ہو گی لیکن پھر بھی جنہوں نے نہیں ماننا ان لوگوں کی ہٹ دھرمی ہوتی ہے.آپ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ یہ واقعہ بالکل اسی طرح پورا ہوا.پہلے حضرت زید شہید ہوئے.ان کے بعد حضرت جعفر نے لشکر کی کمان سنبھالی وہ بھی شہید ہو گئے اور ان کے بعد حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے لشکر کی کمان سنبھالی لیکن وہ بھی مارے گئے اور قریب تھا کہ لشکر میں انتشار الله س

Page 143

اصحاب بدر جلد 5 127 پیدا ہو جاتا کہ حضرت خالد بن ولید نے بعض مسلمانوں کے کہنے سے جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا.اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ مسلمانوں کو فتح دی اور وہ خیریت سے لشکر کو واپس لے آئے.285 حضرت عبد اللہ بن رواحہ کا اخلاص ووفا یہ واقعہ جو میں اب بیان کرنے لگا ہوں، یہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے لیکن اس میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ کے اخلاص و وفا اور آنحضرت صلی علیم سے محبت کا اظہار اور اسلام سے محبت کا اظہار ہوتا ہے.اس لیے یہ یہاں بیان کرناضروری ہے.حضرت عروہ سے روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید نے انہیں بتایا کہ نبی صلی علیکم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان تھا اور اس کے پیچھے فدک کے علاقے کی چادر تھی.آپ نے اپنے پیچھے اسامہ کو بٹھایا ہوا تھا.آپ حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کے لیے بنو حارث بن خزرج قبیلہ میں تشریف لے گئے.یہ بدر کے واقعے سے پہلے کی بات ہے.آپ صلی علی یکم ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اور مشرکین اور یہود ملے جلے بیٹھے تھے.ان میں عبد اللہ بن ابی بھی تھا اور اس مجلس میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ بھی تھے.جب مجلس میں سواری کی گرد پہنچی تو عبد اللہ بن ابی نے اپنی ناک اپنی چادر سے ڈھانک لی.پھر کہنے لگا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ.نبی صلی علیم نے انہیں السلام علیکم کہا پھر ٹھہرے اور سواری سے اترے اور انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ان پر قرآن پڑھا.عبد اللہ بن ابی کہنے لگا کہ اے ں! یہ اچھی بات نہیں.جو تم کہتے ہو اگر وہ سچ ہے تو ہماری مجالس میں ہمیں تکلیف نہ دو اور اپنے ڈیرے کی طرف لوٹ جاؤ اور جو تمہارے پاس آئے اس کے پاس بیان کرو.حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے فورا عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں.ہم یہ پسند کرتے ہیں.اور اس وقت انہوں نے کوئی خوف نہیں کھایا اور کسی کی کوئی پروا نہیں کی.بعد میں وہاں جھگڑا بھی ہوا لیکن بہر حال ان کا اپنا ایک کردار تھا.286 مہم کی نماز جمعہ سے زیادہ اہمیت ہے حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی علی کریم نے ایک مہم میں اصحاب کو بھیجا جس میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ بھی شامل تھے.جمعے کا دن تھا.مہم میں شامل باقی اصحاب تو روانہ ہو گئے انہوں نے کہا، عبد اللہ بن رواحہ نے کہا کہ پیچھے رہ کر جمعے کی نماز رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ ادا کر کے میں ان سے جا ملوں گا.پھر جب وہ رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا تجھے کس چیز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہونے سے روک دیا؟ انہوں نے عرض کی کہ میری خواہش تھی کہ میں آپ کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کروں پھر ان سے جاملوں.حضور نے فرمایا کہ زمین میں جو کچھ ہے اگر تم وہ سب خرچ کر ڈالو توجو لوگ مہم پر روانہ ہو گئے ہیں تم ان کے فضل کو نہیں پاسکتے.87 اس لیے فرمایا کہ جو مہم میں نے روانہ کی ہے اس کی اس وقت نماز جمعہ سے زیادہ اہمیت ہے.

Page 144

اصحاب بدر جلد 5 128 راستے میں تم لوگ پڑھ سکتے تھے.حضرت ابو دردا بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آنحضرت صلی علیم کے ساتھ رمضان کے مہینے میں شدید گرمی میں نکلے اور گرمی اتنی شدید تھی کہ ہم میں سے ہر کوئی سروں کو گرمی سے بچانے کے لیے ہاتھوں سے ڈھانپتا تھا اور ہم میں کوئی روزہ دار نہیں تھا سوائے رسول اللہ لی ایم کے اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ کے 288 مسجد نبوی کی تعمیر اور عبد اللہ بن رواحہ کے اشعار حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ : مدینہ کے قیام کا سب سے پہلا کام مسجد نبوی کی تعمیر کا تھا.جس جگہ آپ کی اونٹنی آکر بیٹھی تھی وہ مدینہ کے دو مسلمان بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت تھی جو حضرت اسعد بن زرارہ کی نگرانی میں رہتے تھے.یہ ایک افتادہ جگہ تھی جس کے ایک حصہ میں کہیں کہیں کھجوروں کے درخت تھے اور دوسرے حصے میں کچھ کھنڈرات وغیرہ تھے.آنحضرت صلی اللی کرم نے اسے مسجد اور اپنے حجرات کی تعمیر کے لیے پسند فرمایا اور دس دینار یعنی قریب توے روپے میں یہ زمین خرید لی گئی اور جگہ کو ہموار کر کے اور درختوں کو کاٹ کر مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہو گئی.آنحضرت صلی علیم نے خود دعامانگتے ہوئے سنگ بنیاد رکھا اور جیسا کہ قباء کی مسجد میں ہوا تھا صحابہ نے معماروں اور مزدوروں کا کام کیا جس میں کبھی کبھی اتحضرت علی ام خود بھی شرکت فرماتے تھے.بعض اوقات اینٹیں اٹھاتے ہوئے صحابہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ انصاری کا یہ شعر پڑھتے تھے: الله سة هَذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَيْبَرَ هذَا ابَر رَبَّنَا وَأَظْهَرْ یعنی یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں ہے جو جانوروں پر لا کر آیا کرتا ہے بلکہ اے ہمارے بوجھ تقویٰ اور بوجھ اور کبھی کبھی کرتے ہوئے عبد اللہ بن رواحہ کا یہ شعر پڑھتے تھے: مولی ای جان جو ہم تیری رضا کے لیے اٹھاتے ہیں کام اللَّهُمَّ اِنَّ الْأَجْرَ أَجْرُ الْآخِرَةُ فَارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهُ یعنی اے ہمارے اللہ ! اصل اجر تو صرف آخرت کا اجر ہے.پس تو اپنے فضل سے انصار و مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما.جب صحابہ یہ اشعار پڑھتے تھے تو بعض اوقات آنحضرت صلی للی کم بھی ان کی آواز کے ساتھ آواز ملا دیتے تھے اور اس طرح ایک لمبے عرصے کی محنت کے بعد یہ مسجد مکمل ہوئی."289

Page 145

129 199 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت عبد اللہ بن سراقہ جنگ بدر میں شامل ہونے والے دو بھائی رض حضرت عبد اللہ بن سُراقہ ہے.حضرت عبد اللہ بن سراقہ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو عدی سے تھا جو حضرت عمر بن خطاب کا قبیلہ تھا.حضرت عبد اللہ بن شعر اقہ کا شجرہ نسب پانچویں پشت پر ریاح نامی شخص پر جا کر حضرت عمرؓ سے اور دسویں پشت پر کعب نامی شخص پر جا کر نبی کریم صلی علیم کے ساتھ اکٹھا ہو جاتا ہے.حضرت عبد اللہ بن سراقہ کے والد کا نام سُراقہ بن مُعْتَیر اور ان کی والدہ کا نام امه بنت عبد اللہ تھا.ان کی بہن کا نام زینب اور بھائی عمرو بن سراقہ تھے.حضرت عبد اللہ بن شعراقہ کی بیوی کا نام امیمہ بنت حارث تھا.ان سے ان کا بیٹا عبد اللہ پید اہوا.سیرت نگاروں کی اکثریت نے ان کو جنگ بدر میں شریک ہونا بیان کیا ہے لیکن چند ایک نے کہا ہے کہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے اور غزوہ احد اور بعد کے معرکوں میں شامل ہوئے تھے.بہر حال اکثریت کی رائے کے مطابق حضرت عبد اللہ اور ان کے بھائی عمر و بن سراقہ کو غزوہ بدر میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت عبد اللہ کی نسل میں سے عمر و یا عثمان بن عبد اللہ ، زید اور ایوب بن عبد الرحمن کا ذکر ملتا ہے.290 ہجرت مدینہ عبد اللہ بن ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن سراقہ نے اپنے بھائی عمرو کے ہمراہ سکے سے مدینہ ہجرت کی اور دونوں نے حضرت رفاعہ بن عبد المندر کے ہاں قیام کیا.291 حضرت عبد اللہ بن سراقہ نے حضرت عثمان کے دور خلافت میں 35 ہجری میں وفات پائی.292 حضرت عبد اللہ بن سراقہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی علیم نے فرمایا نَسَخَرُوا وَلَوْ بِالْمَاءِ.کہ سحری کیا کرو خواہ پانی ہی کیوں نہ ہو یعنی سحری کرنالازمی قرار دیا.293

Page 146

130 200 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عبد اللہ بن سلمہ بن مالک پھر حضرت عبد اللہ بن سلمہ بن مالک انصاری ہیں.آپ انصار کے قبیلہ بلی سے تعلق رکھتے تھے.غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے.حضرت عبد اللہ بن سلمہ جب الله شہید ہوئے تو ان کو اور حضرت مجذر بن زیاد کو ایک ہی چادر میں لپیٹ کر اونٹ پر مدینہ لایا گیا.حضرت عبد اللہ بن سلمہ کی والدہ رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آئیں اور عرض کی یارسول اللہ ! میرا بیٹا غزوہ بدر میں شریک ہوا تھا اور غزوہ احد میں شہید ہو گیا ہے.میں چاہتی ہوں کہ اسے اپنے پاس لے آؤں، یعنی اس کی تدفین مدینہ میں ہو جائے، تا میں اس کی قربت سے مانوس ہو سکوں.اس پر رسول اللہ صلی اللی ایم نے اجازت عنایت فرمائی.حضرت عبد اللہ بن سلمہ جسیم اور بھاری وزن کے تھے اور حضرت مجذر بن زیاد دبلے پتلے تھے تاہم روایتوں میں یہ لکھا ہے کہ اونٹ پر دونوں کا وزن برابر رہا.اس پر آ لوگوں نے تعجب کیا تو رسول اللہ صلی علی ایم نے فرمایا کہ ان دونوں کے اعمال نے انہیں برابر کر دیا ہے.294 201 نام و نسب حضرت عبد اللہ بن سہل حضرت عبد اللہ بن سہل حضرت عبداللہ بن سہل کا تعلق قبیلہ بنی زَعُورَاء سے تھا جو کہ بنو عبد الاشہل کے حلیف تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ عنسانی تھے.حضرت عبد اللہ کے دادا کا نام بعض نے زید اور بعض نے رافع بھی بیان کیا ہے.حضرت عبد اللہ کی والدہ کا نام صَعْبَه بنت نيهان تھا جو حضرت ابو الهيثم بن تیہان کی بہن تھیں.آپ حضرت رافع بن سہل کے بھائی تھے.حضرت عبد اللہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے.آپ کے بھائی حضرت رافع آپ کے ہمراہ غزوہ احد اور خندق میں شریک ہوئے.حضرت عبد اللہ غزوہ خندق میں شہید ہوئے.بنو عُویف کے ایک شخص نے آپ کو تیر مار کر شہید کیا تھا.295

Page 147

اصحاب بدر جلد 5 بد ر اور بیعت عقبہ میں شامل 131 مغیرہ بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ سے پوچھا کہ کیا آپ غزوہ بدر میں شریک تھے ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اور میں بیعت عقبہ میں بھی شامل تھا.غزوہ حمراء الاسد میں شرکت 296 دوزخمی بھائی جو ایک دوسرے کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر اس میں شامل ہوئے سة حضرت عبد اللہ کے غزوہ حمراء الاسد ، جو مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے.297 اس میں شامل ہونے کا ذکر بھی سیرت النبی صلی الم کی کتاب سبل الھدی میں یوں ملتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سہل اور حضرت رافع بن سہل دونوں بھائی جو قبیلہ بنو عبد الاشہل میں سے تھے جب وہ دونوں غزوۂ احد سے واپس آئے تو وہ شدید زخمی تھے.جنگ میں زخمی ہو گئے اور حضرت عبد اللہ زیادہ زخمی تھے.جب ان دونوں بھائیوں نے رسول اللہ صلی الم کے حمراء الاسد کی طرف جانے اور اس میں شمولیت کی بابت آپ کے حکم کے بارے میں سنا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا.بخدا اگر ہم رسول اللہ صلی علی کیم کے ہمراہ غزوہ میں شرکت نہ کر سکے تو یہ ایک بہت بڑی محرومی ہو گی.زخمی حالت میں تھے لیکن اس کے باوجود بھی ایک جذبہ تھا.ایمان میں پختگی تھی.پھر کہنے لگے بخدا ہمارے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے جس پر ہم سوار ہوں اور نہ ہی ہم جانتے ہیں کہ ہم کس طرح یہ کام کریں.حضرت عبد اللہ نے کہا کہ آؤ میرے ساتھ ہم پیدل چلتے ہیں.حضرت رافع نے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھے تو زخموں کی وجہ سے چلنے کی سکت بھی نہیں ہے.آپ کے بھائی نے کہا کہ آؤ ہم آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور رسول اللہ صلی علیم کی طرف جاتے ہیں.چنانچہ وہ دونوں گرتے پڑتے چلنے لگے.حضرت رافع نے کبھی کمزوری محسوس کی تو حضرت عبد اللہ نے حضرت رافع کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا.کبھی وہ پیدل چلنے لگے.ایسی حالت تھی کہ دونوں ہی زخمی تھے لیکن جو بہتر تھے وہ زیادہ زخمی کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتے تھے لیکن آنحضرت صلی علی کم کی طرف چلتے رہے.کمزوری کی وجہ سے بعض دفعہ ایسی حالت ہوتی تھی کہ وہ حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے.یہاں تک کہ عشاء کے وقت وہ دونوں رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں حاضر ہو گئے.صحابہ کرام اس وقت آگ جلا رہے تھے.ایک ڈیرہ ڈال لیا تھا.رات کا وقت تھا تو آپ دونوں کو رسول اللہ صلی ایم کی خدمت میں پیش کیا گیا.اس رات آنحضرت صلی ال کلم کے پہرے پر حضرت عباد بن بشر متعین تھے.جب یہ پہنچے وہاں تو آنحضرت صلی علیہ ہم نے ان سے، دونوں سے پوچھا کہ کس چیز نے تمہیں روکے رکھا تو ان دونوں نے اس کا سبب بتایا کہ کیا وجہ ہو گئی.اس پر آپ نے ان دونوں کو دعائے خیر دیتے ہوئے فرمایا اگر تم دونوں کو لمبی عمر نصیب ہوئی تو تم دیکھو گے کہ تم لوگوں کو گھوڑے اور خچر اور اونٹ بطور سواریوں کے نصیب ہوں گے.ابھی تو تم گرتے پڑتے پیدل آئے ہو لیکن لمبی زندگی پاؤ گے تو یہ دیکھو گے کہ یہ سب سواریاں تمہیں میسر آجائیں گی لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ لیکن وہ تمہارے لیے

Page 148

اصحاب بدر جلد 5 132 298 تم دونوں کے اس سفر سے بہتر نہیں ہوں گی جو تم نے پیدل گرتے پڑتے کیا ہے.جو اس کا ثواب ہے اور جو اس کا اجر ملے گا اور جو اس کی برکات ہیں وہ بہت زیادہ ہیں.غزوه حمراء الاسد کی تفصیل کہ یہ کیا تھا جس کے لیے یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ نام کے پیچھے گئے تھے اس کے بارے میں کچھ تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے.نبی کریم اور آپ کے اصحاب کی غزوۂ احد سے واپسی اور غزوہ حمراء الاسد کی تفصیل اس طرح ہے کہ احد کی جنگ کے بعد مدینہ میں جو رات تھی ایک سخت خوف کی رات تھی کیونکہ باوجو داس کے کہ بظاہر لشکر قریش نے مکہ کی راہ لے لی تھی یہ اندیشہ تھا کہ یہ فعل مسلمانوں کو غافل کرنے کی نیت سے نہ ہو.بظاہر تو احد کی جنگ میں وہ جیتے ہوئے تھے اور مکہ واپس لوٹ رہے تھے لیکن مسلمانوں کو یہ فکر تھی کہ کہیں یہ نہ ہو کہ یہ بھی کوئی چال ہو اور مدینے پر حملہ کرنے کے لیے پھر واپس لوٹ آئیں اور اچانک لوٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں.لہذا اس رات کو مدینے میں اسی احتیاط کی وجہ سے ، شک کی وجہ سے پہرے کا انتظام کیا گیا اور آنحضرت صلی علی نیم کے مکان کا خصوصیت سے تمام رات صحابہ نے پہرہ دیا.صبح ہوئی تو پتا لگا کہ یہ اندیشہ محض خیالی نہیں تھا کیونکہ فجر کی نماز سے قبل آنحضرت صلی للہ ہم کو یہ اطلاع پہنچی کہ قریش کا لشکر مدینے سے چند میل کے فاصلے پر ٹھہر گیا ہے اور رؤسائے قریش میں یہ سرگرم بحث جاری ہے کہ اس فتح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوں نہ مدینے پر حملہ کر دیا جائے اور بعض قریش ایک دوسرے کو طعنہ دے رہے تھے کہ نہ تو تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کیا اور نہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان کے مال و متاع پر قابض ہوئے، قبضہ کیا بلکہ جب تم ان پر غالب آئے اور تمہیں یہ موقع ملا کہ تم ان کو ملیا میٹ کر دیتے تو تم انہیں یونہی چھوڑ کر واپس چلے آئے ہو تا کہ وہ پھر زور پکڑ جائیں.پس اب بھی موقع ہے کہ واپس چلو اور مدینے پر حملہ کر کے مسلمانوں کی جڑ کاٹ دو.اس کے مقابل بعض دوسرے یہ بھی کہتے تھے کہ تمہیں ایک فتح حاصل ہوئی ہے.اسے غنیمت سمجھو اور مکہ واپس لوٹ چلو.ایسا نہ ہو کہ یہ شہرت بھی کھو بیٹھو جو تمہیں حاصل ہوئی ہے اور یہ فتح جو ہے وہ شکست کی صورت میں بدل جائے کیونکہ اب اگر تم لوگ واپس کوٹے اور مدینے پر حملہ آور ہوئے تو یقیناً مسلمان جان توڑ کر لڑیں گے اور جو لوگ احد میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ بھی میدان میں نکل آئیں گے.مگر بالآخر جو شیلے لوگوں کی رائے غالب آئی اور قریش مدینہ کی طرف واپس لوٹنے کے لیے تیار ہو گئے.آنحضرت صلی علی کم کو جب ان واقعات کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فوراً اعلان فرمایا کہ مسلمان تیار ہو جائیں مگر ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ سوائے ان لوگوں کے جو احد میں شریک ہوئے تھے اور کوئی شخص ہمارے ساتھ نہ نکلے.چنانچہ احد کے مجاہدین جن میں سے اکثر زخمی تھے (اور دوزخمیوں کا ذکر تو میں نے کر ہی دیا) اپنے زخموں کو باندھ کر اپنے آقا کے ساتھ ہو لیے اور لکھا ہے کہ اس موقعے پر مسلمان ایسی خوشی اور جوش کے ساتھ نکلے کہ جیسے کوئی فاتح لشکر فتح کے بعد دشمن کے تعاقب میں نکلتا ہے.آٹھ میل کا فاصلہ طے کر کے آپ صلی امید کم حمراء الاسد میں پہنچے جہاں دو مسلمانوں کی نعشیں، لاشیں ان کو میدان میں پڑی ہوئی ملی تھیں.تحقیقات

Page 149

اصحاب بدر جلد 5 133 پر معلوم ہوا کہ یہ وہ جاسوس تھے جو آنحضرت صلی علیہ ہم نے قریش کے پیچھے روانہ کیے تھے مگر جنہیں قریش نے موقع پا کر قتل کر دیا تھا.آنحضرت صلی علی ایم نے ان شہداء کو ایک قبر کھدوا کر اس میں اکٹھا دفن کروا دیا اور اب چونکہ شام ہو چکی تھی آپ نے وہیں ڈیر اڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میدان میں مختلف مقامات پر آگ روشن کر دی جائے.وسیع جگہ پر آب آگئیں جلا دی جائیں.چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حمراء الاسد کے میدان میں پانچ سو آگئیں شعلہ زن ہو گئیں جو ہر دور سے دیکھنے والے کے دل کو مرعوب کرتی تھیں.بڑا رعب پڑنے لگ گیا.مختلف لوگ سمجھیں کہ یہ آبادی ہے اور بڑے بڑے مختلف کیمپ بنے ہوئے ہیں.غالباً اسی موقع پر قبیلہ خزاعہ کا ایک مشرک رئیس مَعْبَد نامی آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے احد کے مقتولین کے متعلق اظہارِ ہمدردی کی اور پھر اپنے راستے پر روانہ ہو گیا.دوسرے دن جب وہ مقام روحاء ( یہ بھی ایک مقام ہے ، جگہ ہے جو مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر ہے.وہاں ) پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ قریش کا لشکر وہاں ڈیرا ڈالے پڑا ہے (جو بحث کر کے واپس مدینہ میں آرہے تھے ) اور مدینہ کی طرف واپس چلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں.معبد فوراً ابو سفیان کے پاس گیا اور اسے جا کر کہنے لگا کہ تم کیا کرنے لگے ہو.اللہ کی قسم میں نے تو ابھی محمد علی علیم کے لشکر کو جراء الاسد میں چھوڑا ہے.میں انہیں وہاں چھوڑ کر آیا ہوں اور ایسا بارعب لشکر ہے جو میں نے کبھی نہیں دیکھا.اور احد کی ہزیمت کی ندامت، (جو جنگ ہاری ہے اس کی ندامت) میں ان کو اتنا جوش ہے کہ تمہیں دیکھتے ہی وہ بھسم کر دیں گے ، کھا جائیں گے، ختم کر دیں گے.ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں پر معبد کی ان باتوں سے ایسا رعب پڑا کہ وہ مدینے کی طرف لوٹنے کا ارادہ ترک کر کے فوراً ستے کی طرف روانہ ہو گئے.آنحضرت صلی علیکم کو لشکرِ قریش کے اس طرح بھاگ نکلنے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپ نے خدا کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ یہ خدا کا رعب ہے جو اس نے کفار کے دلوں پر مسلط کر دیا ہے.اس کے بعد آپ نے حمراء الاسد میں دو تین دن اور قیام فرمایا اور پھر پانچ دن کی غیر حاضری کے بعد مدینے میں واپس تشریف لے آئے.299 202 نام و نسب حضرت عبد اللہ بن سہیل حضرت عبد اللہ کے والد کا نام سُهَيْل بن عمرو اور والدہ کا نام فاختہ بنتِ عامر تھا.ان کے بھائی کا نام ابو جنیل تھا.حضرت عبد اللہ اپنے بھائی ابو جندل سے عمر میں بڑے تھے.حضرت عبد اللہ کی کنیت ابو سھیل تھی.حضرت عبد اللہ بن سھیل کا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بنو عامر بن لوی سے تھا.

Page 150

اصحاب بدر جلد 5 134 ہجرت حبشہ اور........تاریخ کی جو کتاب ہے اس میں ابن اسحاق نے مہاجرین حبشہ ثانیہ میں ان کا ذکر کیا ہے.جب حضرت عبد اللہ بن سہیل حبشہ سے لوٹے تو ان کے والد نے انہیں پکڑ کر ان کے دین سے ہٹا دیا یعنی زبر دستی کی ان پہ.حضرت عبد اللہ بن سُھیل نے رجوع کا اظہار کیا اور آپ مشرکین کے ہمراہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بدر کی طرف روانہ ہوئے یعنی انہوں نے باپ کو کہا کہ ٹھیک ہے میں اس دین سے واپس آتا ہوں، اسلام سے توبہ کرتاہوں.کہہ تو یہ دیا لیکن دل میں تسلی نہیں تھی.بہر حال مشرکین کے ساتھ بدر کی جنگ کے لیے آگئے.حضرت عبد اللہ اپنے والد سہیل بن عمرو کے ساتھ ان کے نفقہ اور انہی کی سواری میں سوار تھے.ان کے والد کو کسی قسم کا شک نہ تھا کہ اس نے اپنے دین کی طرف رجوع کر لیا ہے یعنی اسلام چھوڑ کے واپس آگیا ہے.جب بدر کے مقام پر مسلمان اور مشرکین مقابلہ کے لیے آمنے سامنے ہوئے اور دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو حضرت عبد اللہ بن سهیل مسلمانوں کی طرف پلٹ آئے اور لڑائی سے پہلے رسول اللہ صلی علیہ علم کی خدمت میں حاضر ہو گئے.یوں آپ بحالت اسلام غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے.اس وقت ان کی عمر 27 سال تھی.حضرت عبد اللہ کے ایسا کرنے کی وجہ سے ان کے والد سہیل بن عمرو کو شدید غصہ آیا.حضرت عبد الله بن سهيل بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ہمراہ شریک ہوئے.فتح مکہ کے روز ان کے والد کو معافی اور امان دیا جانا حضرت عبد اللہ نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی علیہ کم سے اپنے والد کے واسطے امان لی یعنی کہ ان کو معاف کر دیں.پناہ میں لے لیں.انہوں نے رسول اللہ صلی ال کم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ میرے والد کو امان دیں گے.آپ نے جواب دیا کہ وہ اللہ کی امان کی وجہ سے امن میں ہے.ٹھیک ہے اسے چاہیے کہ وہ باہر آ جائے.پھر رسول اللہ صلی یکی نے اپنے ارد ہیم گرد احباب سے فرمایا جو شخص سھیل بن عمرو کو دیکھے تو اسے حقارت کی نظر سے نہ دیکھے.میری زندگی کی قسم ہے کہ یقیناسُهَيْل عقل مند اور شریف آدمی ہے اور سُہیل جیسا شخص اسلام سے ناواقف نہیں ا رہ سکتا.حضرت عبد اللہ بن سُھیل اٹھ کر اپنے والد کے پاس گئے اور ان کو رسول اللہ صلی ال کم کی گفتگو سے آگاہ کیا.سُھیل نے کہا کہ اللہ کی قسم ! وہ بڑھاپے اور بچپن میں نیکو کار تھے.یوں حضرت عبد اللہ کے والد سھیل نے اس موقعے پر اسلام قبول کر لیا.حضرت سهیل امان والے واقعہ کے بعد کہتے تھے کہ اللہ نے اسلام میں میرے بیٹے کے لیے بہت زیادہ بھلائی رکھ دی ہے.حضرت عبد اللہ جنگ یمامہ میں بھی شریک ہوئے تھے اور اسی جنگ میں بارہ ہجری میں دورِ خلافت حضرت ابو بکر صدیق میں شہید ہوئے.اس وقت ان کی عمر 38 سال تھی.حضرت ابو بکر صدیق جب اپنے دور خلافت میں حج کے لیے مکہ تشریف لائے تو حضرت عبد اللہ بن

Page 151

اصحاب بدر جلد 5 135 سُھیل کے والد حضرت سهيل بن عمر و مکہ میں حضرت ابو بکر سے ملنے آئے تب حضرت ابو بکر نے ان سے ان کے بیٹے عبد اللہ کی تعزیت کی.اس پر حضرت سھیل نے کہا کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللی کم نے فرمایا کہ شہید اپنے اہل میں سے ستر افراد کی شفاعت کرے گا تو میں یہ امید رکھتا ہوں کہ میرا بیٹا مجھ سے قبل کسی اور سے آغاز نہ کرے گا یعنی میں جب مروں تو وہ میری بخشش کی سفارش کرے.اسی طرح دوسری رائے کے مطابق حضرت عبد اللہ بحرین کے علاقہ جواناء میں 88 سال کی عمر میں شہید ہوئے تھے.جواناء بحرین میں عبد القیس کا قلعہ ہے جس کو علاء بن حضرمی نے حضرت ابو بکر صدیق کے دورِ خلافت میں 12 ہجری میں فتح کیا تھا.300 بہر حال یہ دور وایتیں ہیں.301 203 نام و نسب حضرت عبد اللہ بن طارق جنگ بدر میں شامل ہونے والے دو بھائی حضرت عبد اللہ بن طارق.علامہ زہری کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن طارق ظفری غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے.عروہ نے ان کا نام عبد اللہ بن طارق بدوی لکھا ہے جو انصار کے حلیف تھے.بعض نے کہا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن طارق بلوی انصار کے قبیلہ بنو ظفر کے حلیف تھے.ابن ہشام کے مطابق آپ قبیلہ بلی میں سے تھے اور قبیلہ بنو عبد بن رزاخ کے حلیف تھے.حضرت معیب بن عبید حضرت عبداللہ بن طارق کے اخیافی بھائی تھے یعنی والدہ کی طرف سے حقیقی بھائی تھے.حضرت عبد اللہ بن طارق کی والدہ بنو عُذرہ کی شاخ بنو گاھل سے تھیں.واقعہ کر جمیع اور ان کی شہادت حضرت عبد اللہ بن طارق اور حضرت معیب بن عبید غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شامل ہوئے اور واقعہ رجیع کے دن دونوں بھائیوں کو شہادت نصیب ہوئی.حضرت عبد اللہ بن طارق ان چھ صحابہ ، یا بعض روایات کے مطابق جس میں بخاری کی روایت بھی شامل ہے ان کی تعداد دس بتائی جاتی ہے، ان میں شامل تھے جنہیں رسول اللہ صلی ا ہم نے 3 ہجری کے آخر میں قبیلہ عَضَل اور قارہ کے چند آدمیوں کے پاس بھیجا تھا تا کہ وہ انہیں دین کے بارے میں کچھ سمجھ بوجھ دیں اور انہیں قرآن کریم اور اسلامی شریعت کی تعلیم دیں.

Page 152

اصحاب بدر جلد 5 136 جب یہ لوگ مقام رجیع تک پہنچے ، جو حجاز میں ایک چشمہ ہے ، جو قبیلہ ھذیل کی ملکیت تھا تو اس پر قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے سرکشی اختیار کرتے ہوئے ان صحابہ کا محاصرہ کیا اور بغاوت کرتے ہوئے ان سے قتال کیا، جنگ کی.ان میں سے سات صحابہ کے نام یہ ہیں: حضرت عاصم بن ثابت، حضرت مرثد بن أبُو مَرد، حضرت حبیب بن عَدِى " حضرت خالد بن بگیر ، حضرت زید بن دينه ، حضرت عبد اللہ بن طارق اور حضرت مُعیب بن عبید.ان میں حضرت مرند، حضرت خالد اور حضرت عاصم اور حضرت مُعب عُبيد " تو وہیں شہید ہو گئے تھے.حضرت حبیب اور حضرت عبد اللہ بن طارق اور حضرت زید نے ہتھیار ڈال دیے تو کافروں نے انہیں قید کر لیا اور ان کو مکہ کی طرف لے کر چلنے لگے.جب وہ مقام ظهران ( ظہران مکہ سے پانچ میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے ، وہاں پہنچے تو حضرت عبد اللہ بن طارق نے رسی سے اپنا ہاتھ چھڑالیا اور اپنی تلوار ہاتھ میں لے لی.یہ کیفیت دیکھ کر مشرکین ان سے پیچھے ہٹ گئے اور آپ کو پتھروں سے مارنا شروع کر دیا یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے.اور آپ کی قبر ظهران میں ہے.واقعہ کر جیع ہجرت کے بعد 36 ویں مہینے میں، جو صفر کا مہینہ ہے اس میں ہوا.302 حضرت حسان اپنے اشعار میں ان اصحاب کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ : وَابْنُ اللَّيْنَةِ وَابْنُ طَارِقٍ مِنْهُمْ وَافَاهُ ثَمَّ حِمَامُهُ الْمَكْتُوبُ پھر یہ جو نظم ہے اس کا پہلا شعر ہے: صَلَّى الْإِلهُ عَلَى الَّذِينَ تَتَابَعُوا يَوْمَ الرَّجِيْعِ فَأُكْرِمُوْا وَأَثِيْبُوا پہلے شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت ابن دینہ اور حضرت ابن طارق ان میں سے تھے وہیں موت ان سے جاملی جہاں وہ ان کے لیے مقدر تھی.اور پھر جو پہلا شعر ان کی نظم کا تھا اس میں وہ کہتے ہیں کہ خدائے معبود نے ان پر رحمت نازل کی جو غزوہ کر جمیع کے دن پے در پے شہید ہوئے.پس انہیں اعزاز بخشا گیا اور انہیں ثواب دیا گیا.واقعہ کر جمیع کا مختصر بیان 303 واقعہ کر جمیع کے بارے میں کچھ صحابہ کے واقعات میں پہلے بھی میں بیان کر چکا ہوں.204 کچھ تو یہاں بھی یہ بیان ہو گیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو تفصیل لکھی ہے اس کا مزید خلاصہ بیان کرتا ہوں کہ آنحضرت صلی للی کم کو چاروں طرف سے کفار کے حملوں کی، ان کے منصوبوں کی بڑی خوفناک خبریں آرہی تھیں اور جنگ احد کی وجہ سے کفار جو تھے وہ بڑے دلیر بھی ہو رہے تھے ، شوخ بھی ہو رہے تھے اور ان کی طرف سے خطرہ بہت زیادہ محسوس ہو رہا تھا.اس بات پر آنحضرت علی سلیم نے چار ہجری میں صفر کا جو اسلامی مہینہ ہے اس میں اپنے دس صحابیوں کی پارٹی تیار کی اور ان پر عاصم بن ثابت ہو امیر مقرر فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ خفیہ خفیہ مکہ کے قریب جاکر قریش کے حالات دریافت کریں، دیکھیں کہ ان کے کیا ارادے ہیں اور ان کی کارروائیوں اور ارادوں سے پھر آپ کو اطلاع دیں.لیکن

Page 153

اصحاب بدر جلد 5 137 ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عَضَل اور قارہ کے چند لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں.اور ہمارے ساتھ آپ چند آدمی روانہ کریں جو ہمیں اسلام کے بارے میں بتائیں اور اسلام کی تعلیم دیں تاکہ ہم مسلمان ہوں.آنحضرت صلی اللہ ہم نے ان کی یہ خواہش معلوم کر کے وہی خبر رساں پارٹی جو مکہ کی طرف بھیجنے کے لیے تیار کی گئی تھی وہ وہاں کی بجائے ان کے ساتھ روانہ کر دی.لیکن جیسا کہ ثابت ہوا کہ یہ لوگ جھوٹے تھے اور بنو لحیان کے بھڑکانے پر مدینہ آئے تھے ، ان کے کہنے پر مدینہ آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانے سے کچھ مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کر دیا جائے اور بنو لختیان نے اس خدمت کے معاوضے میں عَضَل اور قارہ کے لوگوں کے لیے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کیے تھے.جب عضل اور قارہ کے یہ غدار لوگ عُسفان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنو لحیان کو خفیہ خفیہ اطلاع بھجوا دی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آرہے ہیں.تم بدلہ لینے کے لیے آجاؤ.جس پر قبیلہ بنو یخیان کے دو سو نوجوان، جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے ، مسلمانوں کے تعاقب میں نکلے.یعنی ان کے بلانے پے وہاں آگئے اور مقام رجیع میں ان کا آمنے سامنے مقابلہ ہو گیا.دس مسلمان آدمی تھے بعض روایات میں سات ہے تو یہ لوگ پوری طرح ہتھیاروں سے لیس لوگوں کا، دو سو سپاہیوں کا، دو سو کفار کا، مقابلہ کیا کر سکتے تھے ؟ لیکن مسلمان ! اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان مسلمانوں میں ایمانی جوش تھا اور ہتھیار ڈالنا تو ان کی سرشت میں نہیں تھا.انہوں نے فوری طور پر، یہ حکمت عملی اختیار کی کہ ایک قریبی ٹیلے پر چڑھ گئے تا کہ مقابلے کے لیے تیار ہو جائیں.کفار نے ، جن کے نزدیک دھوکا دینا کوئی ایسی معیوب بات نہیں تھی، ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پر سے نیچے اتر آؤ ہم تم سے بڑا پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے.عاصم نے جواب دیا کہ ہمیں تمہارے یہ جو عہد و پیمان ہیں ان پے کوئی اعتبار نہیں ہے.ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اتر سکتے اور پھر حضرت عاصم نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا کہ اے خدا ! تو ہماری حالت کو دیکھ رہا ہے.اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے.بہر حال عاصم اور اس کے ساتھیوں نے مقابلہ کیا اور بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے.جب سات صحابہ مارے گئے اور صرف خُبيب بن عدی اور زید بن دثنہ اور عبد اللہ بن طارق باقی رہ گئے تو کفار نے ، جن کی اصل خواہش یہ تھی کہ ان لوگوں کو زندہ پکڑ لیں ، پھر آواز دی کہ بھی نیچے اتر آؤ اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں کوئی تکلیف نہیں دیں گے.اس دفعہ ان لوگوں نے ان کے وعدے پے یقین کر لیا اور ان کے اس جال میں آکے نیچے اتر آئے مگر نیچے اترتے ہی کفار نے انہیں اپنی تیر کمانوں کی تندیوں سے باندھ دیا.اس پر حبیب اور زید اور عبد اللہ بن طارق، سے صبر نہ پر ہو سکا.انہوں نے پکار کے کہا یہ تمہاری بد عہدی ہے اور اب دوبارہ تم نے ہمارے ساتھ کی ہے اور آگے چل کے نامعلوم کیا کرو گے ، ہمیں نہیں پتا.عبد اللہ نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا جس پر کفار

Page 154

اصحاب بدر جلد 5 138 تھوڑی دیر تک تو عبد اللہ کو گھسیٹتے ہوئے اور زدو کوب کرتے ہوئے لے گئے اور پھر انہیں قتل کر کے وہیں پھینک دیا.(عبد اللہ سے مراد عبد اللہ بن طارق ہیں) اس روایت میں یہ درج ہے کہ اس طرح ان کو لے گئے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ چھڑا لیے اور لڑائی کے لیے تیار ہو گئے.اس پر انہوں نے پتھر مار کے شہید کر دیا.لیکن جو بھی تھا ان کو بہر حال یہاں شہید کر دیا گیا اور وہیں پھینک دیا.اب چونکہ ان کا انتقام پورا ہو چکا تھا، قریش کو خوش کرنے کے لیے اور روپے کے لالچ سے خبیب اور زید کو ساتھ لے کر یہ لوگ مکہ کی طرف روانہ ہو گئے.وہاں پہنچ کر انہیں قریش کے ہاتھ فروخت کر دیا.چنانچہ حبیب کو تو حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خرید لیا کیونکہ حبیب نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا اور زید کو صفوان بن امیہ نے خرید لیا.یہ حضرت خبیب ہی ہیں جن کے بارے میں یہ بھی روایت ہے کہ جب یہ قید میں تھے تو جس گھر میں یہ تھے ان کافروں کا ایک بچہ کھیلتا ہوا ان کے پاس آگیا اور خبیب نے اس کو اپنی گود میں بٹھا لیا.اس پر اس کی ماں بڑی پریشان تھی تو حضرت خبیب نے اسے کہا کہ پریشان نہ ہو.اس کو میں کچھ نہیں کہوں گا حالانکہ اس وقت ان کے ہاتھ میں اُستر ا تھا.اس استرے کی وجہ سے وہ ڈر گئی تھی وہاں.تو بہر حال یہ حضرت عبد اللہ بن طارق رجیع کے واقعہ میں اس طرح شہید ہوئے تھے کہ انہوں نے کافروں کے ساتھ آگے جانے سے انکار کر دیا تھا اور وہیں لڑے.305 204 نام و نسب و کنیت 306 حضرت عبد اللہ بن عبد الاسد آنحضرت صلى ال عالم کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی حضرت عبد اللہ بن عبد الاسد.ان کا نام عبد اللہ تھا اور کنیت ابو سلمہ.آپ کی والدہ بڑہ بنت عبد المطلب تھیں اور آپ نبی کریم صلی علیم کے پھوپھی زاد بھائی اور نبی صلی میں کم اور حضرت حمزہ کے رضاعی بھائی بھی تھے.انہوں نے ابو لہب کی لونڈی ثویبہ کا دودھ پیا تھا.حضرت ام المومنین ام سلمہ پہلے آپ کے نکاح میں تھیں.اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ " ابو سلمہ بن عبد الاسد تھے جو آنحضرت صلی علی ایم کے رضاعی بھائی تھے اور بنو مخزوم سے تعلق رکھتے تھے.ان کی وفات پر ان کی بیوہ اتم سلمہ کے ساتھ آنحضرت صلی ا یلم کی شادی ہوئی."307

Page 155

اصحاب بدر جلد 5 ابتدائی اسلام قبول کرنے والے 139 حضرت عبد اللہ بن عبد الاسد اسلام میں سبقت کرنے والے لوگوں میں سے ہیں.ابن اسحاق کے مطابق دس آدمیوں کے بعد آپ اسلام لائے.یعنی ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے.308 ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن حارث، حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد ، حضرت ار قم بن ابو ار تم اور حضرت عثمان بن مظعون حضور اکرم صلی یک کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی علیکم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید پڑھ کر سنایا جس پر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور یہ شہادت دی کہ آپ صلی یہ کم ہدایت اور راستی پر ہیں.ہجرت حبشہ و مدینہ الرس حضرت عبد اللہ بن عبد الاسد اپنی بیوی حضرت ام سلمہ کے ہمراہ پہلی ہجرت حبشہ میں شامل ہوئے.حبشہ سے واپس مکہ آنے کے بعد مدینہ ہجرت کی.309 ایتھوپیا کی سعادت و خوش بختی سیرت خاتم النبیین میں ان کی ہجرت حبشہ کا ذکر ملتا ہے کہ "جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی اور قریش اپنی ایذارسانی میں ترقی کرتے گئے تو آنحضرت صلی اللہ کریم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے.اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہو تا.حبشہ کا ملک جسے انگریزی میں ایتھو پیایا ابے سینیا کہتے ہیں براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقعہ ہے اور جائے وقوع کے لحاظ سے جنوبی عرب کے بالکل مقابل پر ہے اور درمیان میں بحر احمر کے سوا کوئی اور ملک حائل نہیں.اس زمانے میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا بلکہ اب تک بھی وہاں کا حکمران اسی نام سے پکارا جاتا ہے.حبشہ کے ساتھ عرب کے تجارتی تعلقات تھے." حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ " ان ایام میں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں حبشہ کا دار السلطنت اکسوم (AXSUN) تھا جو موجودہ شہر عدوا (ADOWA) کے قریب واقع ہے اور اب تک ایک مقدس شہر کی صورت میں آباد چلا آتا ہے.اکسوم ان دنوں میں ایک بڑی طاقتور حکومت کا مرکز تھا اور اس وقت کے نجاشی کا ذاتی نام اصحمہ تھا جو ایک عادل اور بیدار مغز اور مضبوط بادشاہ تھا.بہر حال جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی تو آنحضرت صلی ییم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ جن جن سے ممکن ہو حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں.چنانچہ آنحضرت صلی علیہلم کے فرمانے پر ماہ رجب 5 نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.ان میں سے زیادہ معروف کے نام یہ ہیں حضرت عثمان بن عفان اور ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عبد الرحمن بن عوف، زبیر بن العوام، ابو حذیفہ بن عتبہ ، عثمان بن مظعون، مصعب بن عمیر ، ابو سلمہ بن عبد الاسد اور ان کی زوجہ حضرت ام سلمہ.یہ

Page 156

اصحاب بدر جلد 5 140 ایک عجیب بات ہے کہ ان ابتدائی مہاجرین میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقتور قبائل تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے.الله اول یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہ تھے.دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام وغیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی بھی طاقت نہ رکھتے تھے.جب یہ مہاجرین جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے شعیبہ پہنچے جو اس زمانے میں عرب کا ایک بندرگاہ تھا تو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان کو ایک تجارتی جہاز مل گیا جو حبشہ کی طرف روانہ ہونے کو بالکل تیار تھا.چنانچہ یہ سب امن سے اس میں سوار ہو گئے اور جہاز روانہ ہو گیا.قریش مکہ کو ان کی ہجرت کا علم ہوا تو سخت برہم ہوئے کہ یہ شکار مفت میں ہاتھ سے نکل گیا.( ان کا پیچھا کر رہے تھے کہ جانے نہیں دینا لیکن وہ چلے گئے) چنانچہ انہوں نے ان مہاجرین کا پیچھا کیا مگر جب ان کے آدمی ساحل پر پہنچے تو جہاز روانہ ہو چکا تھا اس لئے خائب و خاسر واپس لوٹے.حبشہ میں پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکار املا.310 ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب حضرت ابو سلمہ نے (حبشہ سے واپس آنے کے بعد ) حضرت ابوطالب سے پناہ طلب کی تو بنو مخزوم میں سے چند اشخاص ابو طالب کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ تم نے اپنے بھتیجے محمدعلی ایم کو تو اپنی پناہ میں رکھا ہی ہوا ہے مگر ہمارے بھائی ابو سلمہ کو تم نے کیوں پناہ دی ہے ؟ ابو طالب نے کہا اس نے مجھ سے پناہ طلب کی اور وہ میر ابھانجا بھی ہے اور اگر اپنے بھتیجے کو پناہ نہ دیتا تو بھانجے کو بھی پناہ نہ دیتا.ابولہب نے بنو مخزوم کے لوگوں سے کہا کہ تم ہمیشہ ہمارے بزرگ ابو طالب کو آکر ستاتے ہو اور طرح طرح کی باتیں کرتے ہو بخدایا تو تم اس سے باز آ جاؤ ورنہ ہم ہر ایک کام میں ان کے ساتھ شریک ہوں گے یہانتک کہ وہ اپنے ارادے کی تعمیل کر لے.اس پر ان لوگوں نے ( ابو لہب کو مخاطب کرتے ہوئے) کہا کہ اے ابو عتبہ جس چیز کو تو نا پسند کرتا ہے ہم بھی اس سے پیچھے ہٹتے ہیں.ابولہب کیونکہ آنحضرت صلی علی ظلم کے خلاف بنو مخزوم کا دوست تھا اور مدد گار بھی تھا اس لئے وہ لوگ اس بات سے باز آگئے کہ ان کو ابوسلمہ کے بارے میں کچھ زور دیں یا زیادتی کریں.ابو طالب کو ابو لہب سے موافقت کی بات سن کر جب انہوں نے موافقت کی بات سنی کہ وہ میرے موافق بات کر رہا ہے اور دوسرے قبیلہ کو روک دیا ہے) امید بندھی کہ یہ بھی ہماری امداد پر آمادہ ہو جائے گا.چنانچہ انہوں نے چند اشعار کہے جن میں ابو لہب کی تعریف کی اور رسول اللہ صلی الی یوم کی امداد پر اسے ترغیب دلائی.311 شوہر کی جدائی میں ایک سال گزارنے کے بعد چھوٹے بچے کے ساتھ تنہا ہجرت کے لئے سفر لیکن بہر حال اس کا اثر کوئی نہیں ہوا اور مخالفت میں بڑھتا چلا گیا.ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اُتم المومنین حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ جب میرے خاوند حضرت ابو سلمہ نے مدینہ جانے کا قصد کیا تو اپنے اونٹ کو تیار کیا اور مجھے اور بیٹے سلمہ کو جو میری گود میں تھا اس پر سوار کر وایا اور پھر چل پڑے.

Page 157

اصحاب بدر جلد 5 141 آگے جا کر بنو مخزوم کے چند لوگوں نے گھیر لیا اور کہا کہ اتم سلمہ ہماری لڑکی ہے ہم اس کو تمہارے ساتھ نہیں جانے دیں گے کہ تم اسے لے کر شہر بہ شہر پھرتے رہو.حضرت ام سلمہ کہتی ہیں غرض یہ کہ ان لوگوں نے میرے خاوند کو مجھ سے چھین لیا.حضرت ابو سلمہ کے قبیلہ بنو عبد الاسد کے لوگ اس بات پر بہت خفا ہوئے اور انہوں نے کہا کہ یہ لڑکا ابو سلمہ کا ہے اس کو ہم تمہارے پاس نہیں چھوڑیں گے چنانچہ وہ میرے بچے کو لے گئے.(لڑکی کو اس کے قبیلے نے رکھ لیا اور جو بچہ تھا وہ مرد کے قبیلے والے نے نے لیا) اور کہتی ہیں کہ میں بالکل تنہا رہ گئی.میں ایک سال تک اسی مصیبت میں گرفتار رہی کہ ہر روز ابطح مقام پر جا کر میں روتی رہی.ایک روز میرے چچا کے بیٹوں میں سے ایک شخص نے مجھے وہاں روتے دیکھا تو اس کو مجھ پر رحم آیا اور اس نے میری قوم بنو مُغیرۃ سے جا کر کہا کہ تم اس مسکین عورت کو کیوں ستاتے ہو.تم نے اس کو اس کے خاوند اور بچے سے جدا کر دیا ہے اس کو چھوڑ دو.اس پر انہوں نے مجھے کہہ دیا کہ اپنے خاوند کے پاس چلی جاؤ.حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد میرے بیٹے کو بنی عبد الاسد نے واپس کر دیا.پھر میں نے اپنے اونٹ کو تیار کیا اور اپنے بچے کو ساتھ لے کر اس پر سوار ہوئی.جب میں مدینہ کو روانہ ہوئی تو کوئی بھی مددگار میرے ساتھ نہ تھا.جب مقام تنعیم میں پہنچی تو وہاں پر مجھے حضرت عثمان بن طلحہ بن ابو طلحہ ، ( یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے.انہوں نے سن 6 ہجری میں اسلام قبول کیا تھا) ملے اور مجھے کہنے لگے کہ اے ام سلمہ کدھر جارہی ہیں ؟ میں نے کہا کہ میں اپنے خاوند کے پاس مدینہ جارہی ہوں.حضرت عثمان نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے ساتھ کوئی ہے ؟ میں نے کہا کہ خدا کی قسم ! کوئی بھی نہیں.صرف میرا یہ بیٹا اور خدا میرے ساتھ ہے.عثمان نے کہا کہ اللہ کی ! اس طرح تن تنہا میں تمہیں ہر گز نہیں جانے دوں گا.میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں.پھر انہوں نے میرے اونٹ کی مہار پکڑ لی.حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کی قسم ! میں نے عرب کے آدمیوں میں سے اتنا معزز شخص کوئی نہیں دیکھا.جب منزل پر پہنچتے تو اونٹ کو بٹھا کر الگ ہو جاتے.(مختلف جگہوں پر پڑاؤ ڈالتے ہوئے جاتے تھے.جب ایک منزل پر پہنچتے تو اونٹ کو بٹھاتے اور الگ ہو جاتے) میں جس وقت اونٹ سے اترتی تو وہ اونٹ پر سے اس کا کجاوہ اتار کر اسے درخت سے باندھ دیتے اور علیحدہ درخت کے سائے میں جا کر سو جاتے.جب چلنے کا وقت ہوتا تو وہ اونٹ کو تیار کر دیتے اور پھر میں اس پر سوار ہو جاتی اور وہ تکمیل پکڑ کر چل پڑتے یہاں تک کہ ہم اسی طرح مدینہ پہنچ گئے.حضرت عثمان بن ابو طلحہ نے جب قبا میں بنو عمرو بن عوف کے گاؤں کو دیکھا تو مجھ سے کہا کہ اے ام سلمہ ! تمہارے خاوند ابو سلمہ یہیں پر ٹھہرے ہوئے ہیں.تم خدا کی برکت کے ساتھ اس جگہ میں داخل ہو جاؤ اور پھر عثمان واپس مکہ کو چلے گئے.312 مدینہ کا امیر مقرر ہونا ہجرت کے دوسرے سال جب رسول الله صلى اللهم غزوہ عشیرہ کے لئے نکلے تو ابو سلمہ کو مدینہ میں امیر مقرر فرمایا.313

Page 158

اصحاب بدر جلد 5 142 غزوہ عشیرہ اور تحریری معاہدہ صلح و امن غزوہ عشیرہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ " جمادی الاولیٰ میں پھر قریش مکہ کی طرف سے کوئی خبر پا کر آپ مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور اپنے پیچھے اپنے رضاعی بھائی ابو سلمہ بن عبد الاسد کو امیر مقرر فرمایا.اس غزوہ میں آپ کئی چکر کاٹتے ہوئے بالآخر ساحل سمندر کے قریب ینبع کے مقام عشیرہ تک پہنچے.اور گو قریش کا مقابلہ نہیں ہوا مگر اس میں آپ نے قبیلہ بنو مدلج کے ساتھ انہی شرائط پر جو بنو ضمرہ کے ساتھ قرار پائی تھیں ایک معاہدہ طے فرمایا اور پھر واپس تشریف لے آئے.314 بنو ضمرہ کے ساتھ یہ شرائط طے پائی تھیں کہ بنو ضمرہ مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کریں گے اور جب آنحضرت صلی علیکم ان کو مسلمانوں کی مدد کے لئے بلائیں گے تو وہ فوراً آ جائیں گے.دوسری طرف آپ صلی یم نے مسلمانوں کی طرف سے یہ عہد کیا کہ مسلمان قبیلہ بنو ضمرہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور بوقت ضرورت ان کی مدد کریں گے.یہ معاہدہ با قاعدہ لکھا گیا اور فریقین کے اس پر دستخط ہوئے.ایک مہم کی سر براہی اور وفات 315 پھر سیرۃ خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ " جنگ اُحد میں جو ہزیمت مسلمانوں کو پہنچی اس نے قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف سر اٹھانے پر آگے سے بھی زیادہ دلیر کر دیا.چنانچہ ابھی جنگ اُحد پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور صحابہ ابھی اپنے زخموں کے علاج سے بھی پوری طرح فارغ نہیں ہوئے تھے کہ محرم 4 ہجری میں اچانک آنحضرت صلی علیہ کم کو مدینہ میں یہ اطلاع پہنچی کہ قبیلہ اسد کار کیس طلیحہ بن خویلد اور اس کا بھائی سلمہ بن خویلد اپنے علاقہ کے لوگوں کو آنحضرت صلی علیم کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ کر رہے ہیں.اس خبر کے ملتے ہی آنحضرت صلی علیم نے جو اپنے ملک کے حالات کے ماتحت اس قسم کی خبروں کے خطرات کو خوب سمجھتے تھے فوراڈیڑھ سو صحابیوں کا ایک تیز رو دستہ تیار کر کے اس پر ابو سلمہ بن عبد الاسد کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں تاکید کی کہ یلغار کرتے ہوئے پہنچیں اور پیشتر اس کے کہ بنو اسد اپنی عداوت کو عملی جامہ پہنا سکیں انہیں منتشر کر دیں.چنانچہ ابوسلمہ نے تیزی مگر خاموشی کے ساتھ بڑھتے ہوئے وسط عرب کے مقام قطن میں بنو اسد ایک پہنچ گئے اور انہیں جالیا.لیکن کوئی لڑائی نہیں ہوئی بلکہ بنو اسد کے لوگ مسلمانوں کو دیکھتے ہی ادھر اُدھر منتشر ہو گئے.اور ابو سلمہ چند دن کی غیر حاضری کے بعد مدینہ میں واپس پہنچ گئے.اس سفر کی غیر معمولی مشقت سے ابو سلمہ کا وہ زخم جو انہیں اُحد میں آیا تھا اور اب بظاہر مندمل ہو چکا تھا پھر خراب ہو گیا اور باوجود علاج معالجہ کے بگڑتا ہی گیا اور بالآخر اسی بیماری میں اس مخلص اور پرانے صحابی نے جو آنحضرت صلی لیلی کیم کے رضاعی بھائی بھی تھے وفات پائی.316

Page 159

اصحاب بدر جلد 5 143 انہیں اليسيرة کنوئیں کے پانی سے غسل دیا گیا جو عالیہ مقام پر بنو امیہ بن زید کی ملکیت میں تھا.اس کنوئیں کا نام جاہلیت میں العبیر تھا جس کو رسول اللہ صلی عملی کم نے بدل کر اليسيرة رکھ دیا تھا.اور حضرت ابو سلمہ کو مدینہ میں دفن کیا گیا.317 حضرت ام سلمہ کی ایک مقبول دعا حضرت ابوسلمہ کی جب وفات ہوئی تو آنحضرت صلی للی یکم نے آپ کی کھلی آنکھوں کو بند کیا اور ان کی وفات کے بعد یہ دعا کی کہ اے اللہ ! ابوسلمہ سے مغفرت کا سلوک فرما اور اس کے درجات ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند کر دے اور پیچھے رہ جانے والے اس کے پسماندگان میں خود اس کا قائمقام ہو جا.اسے تمام جہانوں کے رب! اسے بخش دے اور ہمیں بھی.ایک روایت میں یہ ہے کہ جب حضرت ابو سلمہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے یہ دعا کی کہ اے خدا میرے اہل پر میر اجانشین بہترین شخص کو بنانا.چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور آنحضرت صلی علی کرم نے حضرت ام سلمہ سے نکاح کر لیا.318 حضرت ام سلمہ کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو سلمہ حضرت ام سلمہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللی کم سے حدیث سنی ہے جو مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ عزیز ہے.آپ علی سلیم نے فرمایا تھا کہ جس شخص کو جو بھی مصیبت پہنچے اس پر وہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ کہہ کر یہ کہے کہ اے اللہ ! میں اپنی اس مصیبت کا آپ کے ہاں سے ثواب طلب کرتا ہوں.اے اللہ ! مجھے اس کا بدل عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اسے عطا کر دیتا ہے.حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ جب ابو سلمہ شہید ہوئے تو میں نے یہ دعا مانگی جبکہ میرا دل پسند نہیں کر رہا تھا کہ میں دعا مانگوں کہ اے اللہ ! مجھے ان یعنی حضرت ابو سلمہ کا بدل عطا فرما.پھر میں نے کہا ابو سلمہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے ؟ کیا وہ ایسے نہ تھے ؟ کیا وہ ویسے نہ تھے ؟ یعنی ایسی ایسی خوبیوں اور صفات حسنہ کے مالک تھے.پھر بھی میں یہ دعا پڑھتی رہی.جب حضرت اتم سلمہ کی عدت پوری ہوئی تو رسول کریم صلی یی کم کی طرف سے پیغام نکاح آیا اور آنحضرت صلی علیم نے ان کے ساتھ شادی کر لی.319 آنحضرت علی ایم کی حضرت ام سلمہ سے شادی شادی کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں لکھا کہ اسی سال ( 4 ہجری) ماہ شوال میں آنحضرت صلی علی یم نے ام سلمہ سے شادی فرمائی.ام سلمہ قریش کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور اس سے پہلے ابو سلمہ بن عبد الاسد کے عقد میں تھیں جو ایک نہایت مخلص اور پرانے صحابی تھے اور اسی سال فوت ہوئے تھے.جب اتم سلمہ کی عدت (یعنی وہ میعاد جو اسلامی شریعت کی رو سے ایک بیوہ یا مطلقہ عورت پر گزرنی ضروری ہوتی ہے اور اس سے پہلے وہ نکاح نہیں کر سکتی وہ گزرگئی تو چونکہ ام سلمہ ایک نہایت سمجھدار اور باسلیقہ اور قابل خاتون تھیں اس

Page 160

اصحاب بدر جلد 5 144 لئے حضرت ابو بکر کو ان کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش پیدا ہوئی.مگر ام سلمہ نے انکار کیا.آخر آنحضرت صلی للی کم کو خود اپنے لئے ان کا خیال آیا جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اتم سلمہ کی ذاتی خوبیوں کے علاوہ جن کی وجہ سے وہ ایک شارع نبی کی بیوی بننے کی اہل تھیں وہ ایک بہت بڑے پائے کے قدیم صحابی کی بیوہ تھیں اور پھر صاحب اولاد بھی تھیں جس کی وجہ سے ان کا کوئی خاص انتظام ہو ناضروری تھا.علاوہ ازیں چونکہ ابوسلمہ بن عبد الاسد آنحضرت صلی الی ایم کے رضاعی بھائی بھی تھے اس لئے آنحضرت صلی الله علم کو ان کے پسماندگان کا خاص خیال تھا.بہر حال آنحضرت صلی علیم نے ام سلمہ کو اپنی طرف سے شادی کا پیغام بھیجا.پہلے تو اتم سلمہ نے اپنی بعض معذوریوں کی وجہ سے کچھ تامل کیا اور یہ عذر بھی پیش کیا کہ میری عمر اب بہت زیادہ ہو گئی ہے اور میں اولاد کے قابل نہیں رہی.لیکن چونکہ آنحضرت صلی علی نام کی غرض اور تھی اس لئے بالآخر وہ رضامند ہو گئیں اور ان کی طرف سے ان کے لڑکے نے ماں کا ولی ہو کر آنحضرت صلی اللی علم کے ساتھ ان کی شادی کر دی.جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے ام سلمہ ایک خاص پائے کی خاتون تھیں اور نہایت فہیم اور ذکی ہونے کے علاوہ اخلاص و ایمان میں بھی ایک اعلیٰ مرتبہ رکھتی تھیں اور ان لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی علیم کے حکم سے ابتداء حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی.مدینہ کی ہجرت میں بھی وہ سب مستورات سے اول نمبر پر تھیں.حضرت ام سلمہ پڑھنا بھی جانتی تھیں اور مسلمان مستورات کی تعلیم و تربیت میں انہوں نے خاص حصہ لیا.چنانچہ کتب حدیث میں بہت سی روایات اور احادیث ان سے مروی ہیں اور اس جہت سے ان کا درجہ ازواج النبی میں دوسرے نمبر پر اور گل صحابہ (مردوزن) میں بار ہویں نمبر پر ہے.20 ایک روایت میں ہے کہ محمد بن عمارہ کہتے ہیں کہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنے والوں میں سب سے پہلے ہمارے پاس حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد تشریف لائے.وہ دس محرم کو مدینہ آئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول کو مدینہ میں تشریف لائے.وہ مہاجرین جو سب سے پہلے آئے 320 اور بنو عمرو بن عوف میں ٹھہرے اور جو مہاجرین آخر پر آئے ان کے در میان دو مہینوں کا فرق ہے.حضرت ام سی مسلمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو سلمہ نے جب مدینہ ہجرت کی تو قبا میں حضرت بکشیر بن عبد المنذر کے ہاں ٹھہرے.ہجرت کی تو وہ قبا میں حضرت بشر بن عبد المنذر کے ہاں ٹھہرے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد اور حضرت سعد بن خیثمہ کے درمیان مواخات قائم فرمائی.321 جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو قبیلہ بنو طے کے ایک شخص نے جو کہ اپنی بھتیجی سے ملنے کے لیے مدینہ آیا تھا یہ خبر دی کہ خُویلد کے بیٹے طلیحہ اور سلمہ اپنی قوم اور اپنے حلیفوں میں گھوم رہے ہیں اور اپنی قوم اور ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑ کا کر جنگ پر آمادہ کر رہے ہیں تو

Page 161

اصحاب بدر جلد 5 145 صلى الله ولم نے حضرت ابو سلمہ یعنی حضرت عبد اللہ بن عبد الاسد کو بلا کر بنوائد کی سرکوبی کے لیے ڈیڑھ سو مہاجرین اور انصار کی سر کردگی میں بھیجا اور ان کو لو او یعنی ایک پر چم تیار کر کے دیا اور جس شخص نے بنو اسد کے متعلق یہ اطلاع دی تھی اس کو بطور رہبر ساتھ بھیجا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سلمہ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ تم آگے بڑھتے رہو یہاں تک کہ بنو اسد کے علاقے میں جا کر پڑاؤ ڈالو اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ تمہاراسامناکریں تم ان پر حملہ کر دو.چنانچہ اس حکم پر حضرت ابو سلمہ نہایت تیزی کے ساتھ رات دن سفر کرتے ہوئے عام راستوں سے ہٹ کر چلے تاکہ بنو اسد کو ان کی پیش قدمی کی خبر ہونے سے پہلے وہ ان کے سر پر اچانک پہنچ جائیں.آخر چلتے چلتے وہ بنو اسد کے ایک چشمے پر پہنچ گئے اور انہوں نے مویشیوں کے باڑے پر حملہ کر دیا اور ان کے تین چرواہوں کو پکڑ لیا.باقی تمام لوگ جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے.حضرت ابو سلمہ نے اپنے دیتے کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور ایک حصہ اپنے پاس رکھ کر باقی دو کو ادھر اُدھر روانہ کر دیا.یہ لوگ کچھ اور اونٹ اور بکریاں پکڑ لائے مگر کسی آدمی کو نہ پکڑ سکے.اس کے بعد حضرت ابوسلمہ واپس مدینہ لوٹ آئے.یہ سیرت الحلبیہ کا حوالہ ہے.عمرو بن ابو سلمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو سمری غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے اور ابو اسامہ بخشیمی نے غزوہ احد میں انہیں زخمی کیا.اس نے حضرت ابو سلمہ کے بازو پر برچھی سے وار کیا.حضرت ابو ایک ماہ تک اس زخم کا علاج کرتے رہے جو بظاہر اچھا بھی ہو گیا.زخم مندمل ہو گیا جس کی خرابی کو کوئی نہ پہچانتا تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے پینتیسویں مہینے محرم میں انہیں ایک سریہ میں طن میں بنو اسد کی طرف بھیجا.قطن کے متعلق کہتے ہیں یہ عتیزہ (نجد) اور خیبر کے وسط میں ایک پہاڑی ہے جس کے شمال میں بنو اسد بن خزیمہ آباد تھے.بہر حال وہ دس سے زائد راتیں مدینہ سے باہر رہنے کے بعد واپس لوٹے تو ان کا زخم خراب ہو گیا اور وہ بیمار ہو گئے اور تین جمادی الآخر چار ہجری کو وفات پا گئے.323 ابو قلابہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد کے پاس عیادت کے لیے تشریف لائے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے ساتھ ہی ان کی 322 بو سالمين راوی کہتے ہیں کہ اس پر وہاں عورتوں نے کچھ کہا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رُک جاؤ.اپنی جانوں کے لیے خیر کے سوا اور کوئی دعانہ کیا کرو کیونکہ فرشتے میت کے پاس یا فرمایا میت کے اہل کے پاس حاضر ہوتے ہیں.وہ ان کی دعا پر آمین کہتے ہیں.لہذا اپنے لیے سوائے خیر کے اور کوئی دعا نہ کرو.یہ رونا پیٹنا جو ہے ناں جس کو ہمارے ہاں سیاپے کرنا بھی کہتے ہیں وہ نہیں ہونا چاہیے.پھر فرمایا: اے اللہ ! ان کے لیے ان کی قبر کو کشادہ کر دے اور ان کے لیے اس میں روشنی کر دے.ان کے نور کو بڑھا دے اور ان کے گناہ کو معاف کر دے.اے اللہ ! ان کا درجہ ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند کر.اور ان

Page 162

اصحاب بدر جلد 5 146 کے پسماندگان میں تو ان کا قائمقام ہو جا.ہمیں اور ان کو بخش دے.اے رب العالمین !پھر فرمایا: جب روح نکلتی ہے تو نظر اس کے پیچھے ہوتی ہے.کیا تم اس کی آنکھیں کھلی نہیں دیکھتے.324 205 حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی بن سلول حضرت عبد اللہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عوف سے تھا.یہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے تھے اور نہایت ہی مخلص اور جانثار اور فدائی صحابی رسول صلی اللی کم تھے.حضرت عبد الله کی والدہ کا نام خولہ بنت منذر تھا.325 آنحضرت صلی اللہ کا نام تبدیل فرمانا حضرت عبد اللہ کا نام جاہلیت کے زمانے میں حباب تھا.رسول اللہ صلی علیم نے آپ کا نام بدل کر عبد اللہ رکھ دیا اور فرمایا حباب شیطان کا نام ہے.سلول عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کی دادی کا نام تھا جس کا قبیلہ خزاعہ سے تعلق تھا.ابی اپنی ماں کی نسبت سے مشہور تھا.اس لیے عبد اللہ بن ابی بن سلول کہلا تا تھا.ابو عامر راہب.........ایک فاسق عبد اللہ بن اُبی بن سلول ابو عامر راہب کی خالہ کا بیٹا تھا.ابو عامر ان لوگوں میں سے تھا جو نبی کریم صلی ال نیم کی بعثت کا لوگوں میں ذکر کیا کرتا تھا کہ ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے اور اس نبی پر ایمان لانے کا اظہار کرتا تھا اور آپ کے ظہور کالوگوں سے وعدہ کیا کرتا تھا کہ ظہور ہونے والا ہے.ابو عامر نے جاہلیت میں ٹاٹ پہن لیا تھا، بڑے موٹے کپڑے پہنتا تھا اور رہبانیت اختیار کر لی تھی.جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی کام کو مبعوث کر دیا تو پھر بجائے اس کے کہ جو تلقین کیا کرتا تھا اس کے الٹ ہو گیا اور حسد میں مبتلا ہو گیا، حسد کرنے لگا اور اس نے بغاوت کی اور اپنے کفر پر قائم رہا.مشرکین کے ساتھ بدر میں رسول اللہ صلی علی الم سے جنگ کے لیے نکلا تور سول اللہ صلی الم نے اس کا نام فاسق رکھا.326 حضرت عبد اللہ کی اولاد میں عبادہ، جلیحہ ، خیثمہ اور خولی اور امامہ کا ذکر ملتا ہے.حضرت عبد اللہ اسلام لائے اور ان کا اسلام بہت اچھا تھا.یہ جلیل القدر صحابہ میں شامل تھے.الله سة تمام غزوات میں شامل حضرت عبد اللہ رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ غزوہ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں شامل ہوئے.

Page 163

اصحاب بدر جلد 5 147 حضرت عبد اللہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے.حضرت عائشہ نے حضرت عبد اللہ سے احادیث روایت کی ہیں.حضرت عبد اللہ کو کاتب وحی ہونے کا بھی شرف حاصل تھا.327 سونے کے دانت لگوانے کا ارشاد 328 ایک روایت میں آتا ہے کہ غزوہ احد میں حضرت عبد اللہ کا ناک کٹ گیا جس پر رسول اللہ صل اللی کم نے انہیں سونے کا ناک لگوانے کا ارشاد فرمایا جبکہ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ غزوہ احد کے موقعے پر حضرت عبد اللہ کے دو دانت ٹوٹ گئے تھے جس پر رسول اللہ صلی الم نے انہیں سونے کے دانت لگوانے کا ارشاد فرمایا تھا.راوی کہتے ہیں کہ دانت والی روایت زیادہ مشہور ہے اور درست ہے.اور یہی درست لگتی ہے.بعض دفعہ بعض بیان کرنے والے مبالغہ کر لیتے ہیں یا بعض دفعہ صحیح پیغام آگے نہیں سمجھ سکتے تو ناک کی بات تو نہیں دانتوں کی بات ہی صحیح لگتی ہے کہ دانت ٹوٹ گئے.آنحضرت صلی للی یکم نے فرمایا کہ سونے کے دانت لگوا لو اور وہی لگوایا کرتے تھے، اس زمانے میں بھی کراون (crown) چڑھایا کرتے تھے.غزوہ بدرالموعد اور مدینہ کے امیر کا تقرر غزوہ احد میں ابو سفیان نے مسلمانوں کو چیلنج دیا تھا کہ اگلے سال ہم دوبارہ بدر کے میدان میں ملیں گے.اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مختلف تواریخ سے لے کے جو نتیجہ نکالا ہے وہ ہے کہ غزوۂ احد کے بعد میدان سے لوٹتے ہوئے ابو سفیان نے مسلمانوں کو یہ چیلنج دیا تھا کہ آئندہ سال بدر کے مقام پر ہماری تمہاری جنگ ہو گی اور آنحضرت صلی علیکم نے اس چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان فرمایا تھا.اس لیے دوسرے سال یعنی 4 ہجری میں جب شوال کے مہینے کا آخر آیا تو آنحضرت صلی علیہ کم ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمعیت کو ساتھ لے کر مدینے سے نکلے اور آپ نے اپنے پیچھے عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی بن سلول کو امیر مقرر فرمایا.حضرت عبد اللہ کو مدینے کا امیر مقرر فرمایا جب آپ لشکر لے کر نکلے.دوسری طرف ابوسفیان بن حرب بھی دوہزار قریش کے لشکر کے ساتھ مکے سے نکلا مگر باوجود احد کی فتح اور اتنی بڑی جمعیت کے ساتھ ہونے کے اس کا دل خائف تھا اور اسلام کی تباہی کے درپے ہونے کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ جب تک بہت زیادہ جمعیت کا انتظام نہ ہو جائے وہ مسلمانوں کے سامنے نہ ہو.چنانچہ ابھی وہ مکہ میں ہی تھا کہ اس نے نعیم نامی ایک کو جو ایک غیر جانب دار قبیلے سے تعلق رکھتا تھا مدینہ کی طرف روانہ کر دیا اور اسے تاکید کی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کو ڈرادھمکا کر اور جھوٹ سچ باتیں بنا کر جنگ سے نکلنے سے باز رکھو.چنانچہ یہ شخص مدینہ میں آیا اور قریش کی تیاری اور طاقت اور ان کے جوش و خروش کے جھوٹے قصے سنا کر اس نے مدینہ میں شخص

Page 164

148 اصحاب بدر جلد 5 ایک بے چینی کی حالت پیدا کر دی حتی کہ بعض کم زور طبیعت لوگ اس غزوے میں شامل ہونے سے خائف ہونے لگے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ ہم نے نکلنے کی تحریک فرمائی اور آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم نے کفار کے چیلنج کو قبول کر کے اس موقع پر نکلنے کا وعدہ کیا ہے اس لیے ہم اس سے تخلف نہیں کر سکتے ، اس کے خلاف نہیں چلیں گے خواہ مجھے اکیلا جانا پڑے، تم لوگ ڈر رہے ہو، اکیلا بھی جانا پڑے تو میں جاؤں گا اور دشمن کے مقابل پر اکیلا سینہ سپر ہوں گا.لوگوں کا خوف یہ باتیں سن کر جاتا رہا اور وہ بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ آپ صلی علیہ نام کے ساتھ نکلنے کو تیار ہو گئے.آنحضرت عمال الم کا ابوسفیان کے مقابلہ کے لئے روانہ ہونا بہر حال آنحضرت صلی للی و کم ڈیڑھ ہزار صحابہ کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے اور دوسری طرف ابوسفیان اپنے دوہزار سپاہیوں کے ہمراہ ملے سے نکلا لیکن خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ مسلمان تو بدر میں اپنے وعدے پر پہنچ گئے مگر قریش کا لشکر تھوڑی دور آگے جا کر پھر مکہ لوٹ گیا اور اس کا قصہ یوں ہوا، کس طرح وہ لوٹا کہ جب ابوسفیان کو نعیم کی ناکامی کا علم ہوا، مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے جو آدمی بھیجا تھا جب یہ پتا لگ گیا کہ مسلمان تو نہیں ڈرے، وہ تو باہر آگئے ہیں تو وہ دل میں خائف ہوا اور اپنے لئے لشکر کو یہ تلقین کرتا ہوا راستے سے لوٹا کر واپس لے گیا کہ اس سال قحط بہت زیادہ ہے اور لوگوں کو تنگی ہے اس لیے اس وقت لڑنا ٹھیک نہیں ہے.جب کشائش ہو گی، حالات ٹھیک ہوں گے تو زیادہ تیاری کے ساتھ مدینے پر حملہ کریں گے.بہر حال اسلامی لشکر آٹھ دن تک بدر میں ٹھہرا اور چونکہ وہاں اس جگہ ، اس میدان میں ماہ ذو قعدہ کے شروع میں ہر سال میلے لگا کرتا تھا تو ان دنوں میں بہت سے صحابیوں نے اس میلہ میں تجارت کر کے نفع کمایا.کہا جاتا ہے کہ یہاں تک کہ انہوں نے اس آٹھ روزہ تجارت میں اپنے راس المال کو دو گنا کر لیا.جو ان کا اپناسر مایا تھا اس تجارت کی وجہ سے وہ دو گنا ہو گیا جب میلے کا اختتام ہو گیا اور لشکر قریش نہ آیا تو آنحضرت صلی علی یکم بدر سے کوچ کر کے مدینے واپس تشریف لے آئے اور قریش نے مکے میں واپس پہنچ کر دوبارہ مدینے پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں.یہ جو غزوہ ہے یہ غزوہ بدرالموعد کہلاتا ہے جس کے لیے یہ لشکر نکالا تھا.329 جنگ یمامہ میں شہادت حضرت عبد اللہ 12 ہجری میں حضرت ابو بکر کی خلافت میں جنگ یمامہ میں شہید ہوئے تھے.10 330 عبد اللہ بن ابی بن سلول کی بے ادبی صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ کے والد عبد اللہ بن اُبی بن سلول کے بارے میں ایک روایت ہے.یہ روایتیں بھی میں بعض اس لیے بیان کر دیتا ہوں تا کہ تاریخ کا بھی پتا لگتا ہے جو براہ راست

Page 165

اصحاب بدر جلد 5 149 تعلق نہ بھی ہو.حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کی بنی ہوئی چادر ڈالی ہوئی تھی اور آپ نے حضرت اسامہ بن زید کو اپنے پیچھے بٹھا لیا.آپ حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کو جارہے تھے جو بنو حارث بن خزرج کے محلے میں رہتے تھے.یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے.حضرت اسامہ کہتے تھے کہ چلتے چلتے آپ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ عبد اللہ بن ابی ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا، جو منافقانہ اسلام لایا تھا وہ بھی ابھی نہیں تھا.اس مجلس میں کچھ مشرک بھی بیٹھے تھے اور کچھ یہودی بھی تھے ، کچھ مسلمان بیٹھے ہوئے تھے.سب ملے جلے لوگ تھے.مجلس میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ بھی تھے.جب اس جانور کی گرد مجلس پر پڑی تو عبد اللہ بن اُبی نے اپنی چادر سے اپنی ناک ڈھانکی اور کہنے لگا غالباً حضور صلی یکم کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ.رسول اللہ صلی لی نام سلام کہنے کے بعد ٹھہرے اور جانور سے اترے.آپ نے انہیں اللہ کی طرف بلایا اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا.عبد اللہ بن ابی بن سلول نے کہا اے شخص جو بات تم کہتے ہو اس سے اچھی کوئی اور بات نہیں.ٹھیک ہے تم کہتے ہو یا یہ مطلب تھا کہ تمہارے نزدیک اس سے اچھی کوئی اور بات نہیں یا کوئی اور اچھی بات نہیں تم کہہ سکتے ؟ کئی مطلب اس کے ہو سکتے ہیں.بہر حال ترجمہ کرنے میں کس طرح کیا گیا ہے یہ تو اصل حوالے سے پتا لگ سکتا ہے.بہر حال اس نے یہ کہا اگر یہ سچ ہے کہ تمہاری اس بات سے کوئی اچھی بات نہیں تو ہماری مجلس میں آکر اس سے تکلیف نہ دیا کرو، اپنے ٹھکانے پر ہی واپس جاؤ اور پھر جو تمہارے پاس آئے اس سے بیان کیا کرو.حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے یہ سن کر کہا کہ نہیں یار سول اللہ ! ہماری ان مجلسوں ہی میں آپ آکر ہمیں پڑھ کر سنایا کریں.ہمیں تو یہ بات پسند ہے.اس پر مسلمان اور مشرک اور یہودی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے.قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کرتے مگر نبی کریم صلی اللہ ہم نے ان کا جوش دبایا، دباتے رہے اور سمجھاتے رہے.آخر وہ رک گئے.پھر اس کے بعد نبی کریم صلی الی تم اپنے جانور پر سوار ہو کر چلے گئے یہاں تک کہ حضرت سعد بن عبادہ کے پاس آئے.نبی صلی علیم نے ان سے کہا کہ اے سعد ! کیا تم نے نہیں سنا جو ابو حباب نے آج مجھے کہا ہے ؟ آپ کی مراد عبد اللہ بن ابی سے تھی.آپ نے فرمایا اس نے مجھے یوں یوں کہا ہے، ساری بات بتائی.حضرت سعد بن عبادہ نے کہا یارسول اللہ ! آپ اس کو معاف کر دیں اور اس سے در گزر کیجیے.اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی ہے اللہ تعالیٰ اب وہ حق یہاں لے آیا ہے جس کو اس نے آپ پر نازل کیا ہے.اس بستی والوں نے تو یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس یعنی عبد اللہ بن اُبی کو سرداری کا تاج پہنا کر عمامہ اس کے سر پر باند ھیں.جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے یہ منظور نہ کیا تو وہ حسد کی آگ میں جل گیا.اس لیے اس نے وہ کچھ کہا جو آپ نے دیکھا.یہ سن کر نبی صلی ا ہم نے اس سے در گزر

Page 166

اصحاب بدر جلد 5 150 کیا اور نبی صلی یہ کم اور آپ کے صحابہ مشرکوں اور اہل کتاب سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا در گزر کیا کرتے تھے اور ان کی ایذاد ہی پر، تکلیفوں پر صبر کیا کرتے تھے.اللہ عزوجل نے فرمایا ہے کہ : وَ لَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ( آل عمران: 187) اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان سے جنہوں نے شرک کیا بہت تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا کہ : وَذَكَثِيرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتَبِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كفَارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمُ (البتر :110) اہل کتاب میں سے بہت سے ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ کاش تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد ایک دفعہ پھر کفار بنادیں بوجہ اُس حسد کے جو ان کے اپنے دلوں سے پیدا ہوتا ہے.پس تم اس وقت تک کہ اللہ اپنے حکم کو نازل فرمائے انہیں معاف کرو اور ان سے در گزر کر و اور اللہ یقیناً ہر ایک امر پر پورا پورا قادر ہے.اور نبی کریم صلی یکم عفو کو ہی مناسب سمجھتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا تھا.آخر اللہ تعالیٰ نے ان کو اجازت دے دی.بدر کی فتح اور عبد اللہ بن ابی بن سلول کا اسلام قبول کرنا جب رسول اللہ صلی اللہ کریم نے بدر کے مقام پر اُن کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی میں کفار قریش کے بڑے بڑے سر گرم مار ڈالے تو عبد اللہ بن اُبی بن سلول اور جو اس کے ساتھ مشرک اور بت پرست تھے کہنے لگے اب تو یہ سلسلہ شان دار ہو گیا ہے.انہوں نے رسول اللہ صلی علیم سے اسلام پر قائم رہنے کی بیعت کر لی اور مسلمان ہو گئے.331 اسلام بھی ان کا اسی طرح تھا کہ جب دیکھا کہ جنگ بدر میں کامیاب ہو گئے ہیں تو خوف پید اہو ا اور اسلام لے آئے.تو بہر حال یہ روایتیں جیسا کہ میں نے کہا ان کا براہِ راست تعلق نہیں بھی ہے تو بیان کرتاہوں تاکہ اس حوالے سے تاریخ کا بھی پتا لگتا چلا جائے.غزوہ احد کی تیاری اور نبی اکرم صلی اللہ کا اصحاب سے مشورہ پھر اس عبد اللہ بن ابی بن سلول کے کردار کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بیان کی ہے.غزوہ احد کے موقعے پر رسول اللہ صلی ا یکی نے مسلمانوں کو جمع کر کے ان سے قریش کے اس حملے کے متعلق مشورہ مانگا کہ آیا مدینے میں ہی ٹھہر ا جاوے یا باہر نکل کر مقابلہ کیا جاوے.اس مشورے پر عبد اللہ بن ابی بن سلول بھی شریک تھا جو دراصل تو منافق تھا مگر بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہو چکا تھا اور یہ پہلا موقع تھا کہ آنحضرت صلی ایم نے اسے مشورے میں شرکت کی دعوت دی.نبی اکرم صلی الم کا خواب مشورے سے قبل آنحضرت صلی اہل علم نے قریش کے حملے اور ان کے خونی ارادوں کا ذکر فرمایا

Page 167

151 اصحاب بدر جلد 5 اور فرمایا کہ آج رات کو میں نے خواب میں ایک گائے دیکھی ہے نیز میں نے دیکھا کہ میری تلوار کاسر ٹوٹ گیا ہے اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ گائے ذبح کی جارہی ہے اور میں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط زرہ کے اندر ڈالا ہے.اور ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک مینڈھا ہے جس کی پیٹھ پر میں سوار ہوں.صحابہ نے دریافت کیا یارسول اللہ صلی الیم آپ نے اس خواب کی کیا تعبیر فرمائی ہے ؟ آپ صلی نیلم نے فرمایا کہ گائے کے ذبح ہونے سے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہ میں سے بعض کا شہید ہونا مراد ہے اور میری تلوار کے کنارے کے ٹوٹنے سے میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے یا شاید خود مجھے اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حملے کے مقابلے کے لیے ہمارا مدینے کے اندر ٹھہر نا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پر سوار ہونے والے خواب کی آپ نے یہ تاویل فرمائی کہ اس سے کفار کے لشکر کا سردار یعنی علم بردار مراد ہے، جھنڈا اٹھانے والا جو ان شاء اللہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے گا.اس کے بعد آپ صلی امیریم نے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا کہ موجودہ صورت میں کیا کرنا چاہیے.بعض بڑے صحابہ نے حالات کے اونچ پنچ کی وجہ سے اور سوچ کر اور شاید کسی قدر آنحضرت صلی ایم کی خواب سے متاثر ہو کر یہ رائے دی کہ مدینے میں ہی ٹھہر کر مقابلہ کرنا مناسب ہے.یہی رائے عبد اللہ بن أبي بن سلول جو رئیس المنافقین تھا اس نے بھی دی اور آنحضرت صلی علیم نے بھی اسی رائے کو پسند فرمایا اور کہا کہ بہتر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم مدینے کے اندر رہ کر مقابلہ کریں لیکن اکثر صحابہ نے اور خصوصاً ان نوجوانوں نے جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اور اپنی شہادت سے خدمتِ دین کا موقع حاصل کرنا چاہتے تھے اور بڑے بے تاب ہو رہے تھے اس کے لیے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے.ان لوگوں نے اس قدر اصرار کیا اور اپنی رائے کو پیش کیا کہ آنحضرت صلی ای ایم نے ان کے جوش کو دیکھ کر ان کی بات مان لی اور فیصلہ فرمایا کہ ہم کھلے میدان میں نکل کر کفار کا مقابلہ کریں گے اور پھر جمعہ کی نماز کے بعد آپ نے مسلمانوں میں عام تحریک فرمائی کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے اس غزوے میں شامل ہو کر ثواب حاصل کریں.خدا کے نبی کی شان نہیں ہے کہ ہتھیار لگائے اور پھر انہیں اتار دے اس کے بعد آپ اندرون خانہ تشریف لے گئے ، گھر چلے گئے جہاں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی مدد سے آپ نے عمامہ باندھا اور جنگی لباس پہنا اور پھر ہتھیار لگا کر اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہوئے باہر تشریف لے آئے لیکن اتنے عرصے میں حضرت سعد بن معاذ رئیس قبیلہ اوس اور دوسرے اکابر صحابہ کے سمجھانے سے نوجوان لوگوں کو اپنی غلطی محسوس ہونے لگی کہ رسول اللہ صلی ال کلم کی رائے کے مقابلے

Page 168

اصحاب بدر جلد 5 152 میں اپنی رائے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے اور اکثر ان میں سے پشیمانی کی طرف مائل تھے.جب ان لوگوں نے آنحضرت صلی علی کم کو ہتھیار لگائے اور دہری زرہ اور خود وغیرہ پہنے ہوئے دیکھا کہ آپ تشریف لائے ہیں تو ان کو اور بھی زیادہ ندامت ہو گئی اور زیادہ پریشان ہو گئے.اور انہوں نے قریباً ایک زبان ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے آپ کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے پر اصرار کیا.آپ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں اسی طرح کارروائی فرمائیں.ان شاء اللہ اسی میں برکت ہو گی.آپ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ خدا کے نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگا کر پھر اسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے.اب یہ تو نہیں ہو سکتا.یہ خدا کے نبی کی شان نہیں ہے کہ ہتھیار لگائے اور پھر انہیں اتار دے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو.پس اب اللہ کا نام لے کر چلو اور اگر تم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہو گی.غزوہ احد کے لئے روانگی اس کے بعد آنحضرت صلی الل ولم نے لشکر اسلامی کے لیے تین جھنڈے تیار کروائے.قبیلہ اوس کا جھنڈا اُسید بن حضیر کے سپرد کیا گیا اور قبیلہ خزرج کا جھنڈا حباب بن منذر کے ہاتھ میں دیا گیا اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی کو دیا گیا اور پھر مدینے میں عبد اللہ بن ام مکتوم کو امام الصلوۃ مقرر کر کے آپ صحابہ کی بڑی جماعت کے ہم راہ نمازِ عصر کے بعد مدینے سے نکلے.قبیلہ اوس اور خزرج کے رؤساء سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ آپ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے اور باقی صحابہ آپ کے دائیں اور بائیں اور پیچھے چل رہے تھے.احد کا پہاڑ مدینے کے شمال کی طرف قریباً تین میل کے فاصلے پر واقع ہے.کم عمر نوجوانوں کی واپسی اور رافع اور سمرہ رضی اللہ عنہما کی کشتی اس کے نصف میں پہنچ کر، آدھا سفر کلے کر کے اس مقام پر جسے شیخین کہتے ہیں، یہ مدینے کے قریب ایک مقام کا نام ہے وہاں آپ نے قیام فرمایا اور لشکر اسلام کا جائزہ لیے جانے کا حکم دیا.کم عمر بچے جو جہاد کے شوق میں ساتھ آگئے تھے وہ واپس کیے گئے چنانچہ عبد اللہ بن عمر، اسامہ بن زید، ابوسعید خدری وغیرہ سب واپس کیے گئے.رافع بن خدیج انہیں بچوں کے ہم عمر تھے مگر تیر اندازی میں اچھی مہارت رکھتے تھے.ان کی اس خوبی کی وجہ سے ان کے والد نے آنحضرت صلی للی نیم کی خدمت میں ان کی سفارش کی کہ ان کو شریک جہاد ہونے کی اجازت دی جائے.آنحضرت صلی علیم نے رافع کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ سپاہیوں کی طرح خوب تن کر کھڑے ہو گئے تاکہ چست اور لمبے نظر آئیں چنانچہ ان کا یہ داؤ چل گیا اور آنحضرت صلی علیم نے ان کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت دے دی.اس پر ایک اور بچہ سمرہ بن جندب جسے واپسی کا حکم مل چکا تھا اپنے باپ کے پاس گیا اور کہا کہ اگر رافع کو لیا گیا ہے تو مجھے بھی اجازت ملنی چاہیے کیونکہ میں رافع سے مضبوط ہوں اور

Page 169

اصحاب بدر جلد 5 153 گشتی میں اسے گرا لیتا ہوں.باپ کو بیٹے کے اس اخلاص پر بڑی خوشی ہوئی.اسے ساتھ لے کر وہ آنحضرت صلی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے بیٹے کی خواہش بیان کی.آنحضرت صلی علی کلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا اچھا یہ بات ہے تو پھر رافع اور سمرہ کی کشتی کروا دیتے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ کون زیادہ مضبوط ہے.چنانچہ مقابلہ ہوا اور واقعہ میں سمرہ نے تھوڑی دیر میں ہی رافع کو اٹھا کر دے مارا، پچھاڑ دیا جس پر انحضرت صلی ا لم نے سمرہ کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس معصوم بچے کا دل خوش ہو گیا.عبد اللہ بن اُبی بن سلول رئیس المنافقین نے غداری کی اب چونکہ شام ہو چکی تھی اس لیے بلال نے اذان کہی اور صحابہ نے آنحضرت صلی الم کی اقتدا میں نماز ادا کی.پھر رات کے واسطے مسلمانوں نے یہیں ڈیرے ڈال دیے اور آنحضرت صلی ال کلم نے رات کے پہرے کے لیے محمد بن مسلمہ کو منتظم مقرر فرمایا جنہوں نے پچاس صحابہ کی جماعت کے ساتھ رات بھر لشکر اسلامی کے ارد گرد چکر لگاتے ہوئے پہرہ دیا.دوسرے دن یعنی 15 شوال 3 ہجری جو 31 مارچ 624 عیسوی بنتی ہے ہفتے کے دن سحری کے وقت یہ اسلامی لشکر آگے بڑھا اور راستے میں نماز ادا کرتے ہوئے صبح ہوتے ہی احد کے دامن میں پہنچ گیا.اس موقعے پر عبد اللہ بن ابی بن سلول رئیس المنافقین نے غداری کی اور اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ مسلمانوں کے لشکر سے ہٹ کر یہ کہتا ہو ا مدینے کی طرف واپس لوٹ گیا کہ محمد صلی علیم نے میری بات نہیں مانی اور ناتجربہ کار نوجوانوں کے کہنے میں آکر باہر نکل آئے ہیں اس لیے میں ان کے ساتھ ہو کر نہیں لڑ سکتا.بعض لوگوں نے بطور خود اُسے سمجھایا کہ یہ غداری ٹھیک نہیں ہے مگر اس نے ایک نہیں سنی اور یہی کہتا گیا کہ یہ کوئی لڑائی ہوتی ہے.اگر لڑائی ہوتی تو میں شامل ہو تا مگر یہ لڑائی نہیں ہے بلکہ خود کو ہلاکت کے منہ میں ڈالنا ہے.اب مسلمانوں کی طاقت صرف سات سو لوگوں پر مشتمل تھی جو کفار کے تین ہزار سپاہیوں کے مقابلے میں چوتھائی حصے سے بھی کم تھی.332 بہر حال جنگ ہوئی.333 جب آنحضرت صلی ا لم نے نوجوانوں کی بات مان کر مدینے سے باہر جاکر دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو عبد اللہ بن ابی پہلے تو اپنے ساتھیوں سمیت ساتھ چل پڑا لیکن احد کے دامن میں پہنچ کر اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر غداری دکھاتے ہوئے مدینے کی طرف یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ محمد رسول اللہ صلی ال ولم نے میری بات نہیں مانی اور مدینے میں رہ کر دشمن کا دفاع نہیں کیا جو ہم چاہتے تھے اور یہ بھی کہا کہ یہ بھی کوئی لڑائی ہے.یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے اور وہ کہنے لگا کہ میں اس ہلاکت میں اپنے آپ کو نہیں ڈالتا.

Page 170

اصحاب بدر جلد 5 154 بہر حال اس کے دل میں شروع سے ہی نفاق تھا، منافقت تھی اور منافق بزدل ہو تا ہے اور یہ بزدلی یہاں آکے ظاہر بھی ہو گئی.بہر حال اس کے اپنے سا پنے ساتھیوں سمیت جانے کے بعد مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو رہ گئی تھی.4 334 جنگ احد کے بعد عبد اللہ بن ابی بن سلول کا تمسخرانہ رویہ اس کے باوجو د جب جنگ ہوئی ہے تو اس میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا.تقریباً فتح ہو گئی تھی لیکن آخر پر آنحضرت صلی لی کر کے حکم پر پوری طرح عمل نہ کرنے کی وجہ سے اور دڑہ چھوڑنے کی وجہ سے مسلمانوں کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا.اس صورتِ حال کے بعد عبد اللہ بن ابی بن سلول کا جو رویہ تھا کس طرح کا تھا اور کس کس طرح اس نے آنحضرت صلی للی کم اور مسلمانوں کے بارے میں تکلیف دہ اور استہزا کی باتیں کرنی شروع کر دیں.اس کی کچھ تفصیل اب میں بیان کروں گا.اس میں حضرت عبد اللہ کی اسلام اور آنحضرت صلی علیکم سے محبت بھی ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے لیے اپنے باپ کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے میں کوئی امر مانع نہ تھا اگر وہ اسلام کی عزت اور آنحضرت صلی یہ کم کی عزت پر حملے کرتا..اس بارے میں سیرت خاتم النبیین میں شروع کا جو ذکر ہے کہ کس طرح ان لوگوں نے تمسخر اڑانا شروع کیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ غزوہ احد کے بعد مدینے کے یہود اور منافقین جو جنگ بدر کے نتیجے میں کچھ مرعوب ہو گئے تھے اب کچھ دلیر ہو گئے بلکہ عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے تو کھلم کھلا تمسخر اڑانا اور طعنے دینا شروع کر دیے.سة 335 عبد اللہ بن ابی بن سلول کی دریدہ دہنی اور بیٹے کی محبت و فدائیت کا اظہار لیکن آپ صلی اللہ لکم ان لوگوں سے صرفِ نظر ہی فرماتے رہے اور بجائے اس کے کہ اس نرمی کے سلوک سے ان کو کچھ شرمندگی ہوتی یہ لوگ ڈھٹائی میں اور دریدہ دہنی میں بڑھتے چلے گئے.رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی کی دریدہ دہنی اور اس کے بیٹے حضرت عبد اللہ کی آنحضرت صلی اللی علم سے محبت اور فدائیت کا اظہار اس ایک واقعے سے ہو جاتا ہے کہ 5 ہجری میں غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر آنحضرت صلی علیم نے چند دن مریسیع میں قیام فرمایا.یہ بنو مصطلق کے پانی کے ایک چشمے کا نام ہے.مگر اس قیام کے دوران منافقین کی طرف سے ایک ایسا نا گوار واقعہ پیش آیا جس سے قریب تھا کہ کمزور مسلمانوں میں خانہ جنگی تک نوبت پہنچ جاتی مگر آنحضرت صلی یکم کی موقع شناسی اور آپ کے مقناطیسی اثر نے اس فتنے کے خطرناک نتائج سے مسلمانوں کو بچالیا.واقعہ یوں ہوا کہ حضرت عمر کا ایک نو کر جھجاڈ نامی تھاوہ مریسیع کے مقامی چشمے پر پانی لینے کے لیے گیا.اتفاقا اس وقت ایک دوسرا شخص سنان نامی بھی پانی لینے کے لیے وہاں پہنچا جو انصار کے خلیفوں میں سے تھا.یہ دونوں شخص جاہل تھے اور بالکل عامی لوگوں میں سے تھے.چشمے پر یہ دونوں شخص آپس میں جھگڑ پڑے اور جھجان نے سنان کو ایک ضرب لگائی، اس کو مارا.بس پھر سنان نے زور زور سے شور مچانا شروع

Page 171

155 اصحاب بدر جلد 5 کر دیا، چلانا شروع کر دیا کہ اے انصار کے گروہ ! میری مدد کو پہنچو کہ میں پٹ گیا اور مجھ پر حملہ ہو گیا.جب جَهْجَان نے دیکھا کہ سنان نے اپنی قوم کو بلایا ہے تو وہ بھی جاہل آدمی تھا، اس نے بھی اپنی قوم کے لوگوں کو پکار ناشروع کر دیا کہ اے مہاجرین ابھا گو دوڑو.انصار اور مہاجرین کے کانوں میں یہ آوازیں پہنچیں تو وہ اپنی تلواریں لے کر بے تحاشا اس چشمے کی طرف لپکے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک اچھا خاصا مجمع جمع ہو گیا اور قریب تھا کہ بعض جاہل نوجوان ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جاتے لیکن اتنے میں بعض سمجھ دار اور مخلص مہاجرین وانصار بھی موقعے پر پہنچ گئے اور انہوں نے فور لوگوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے صلح صفائی کروادی.عزت والا شخص.آنحضرت صلی للی کم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ یہ ایک جاہلیت کا مظاہرہ ہے اور اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور بہر حال اس طرح معاملہ بہر حال رفع دفع ہو گیا لیکن جب منافقین کے سردار عبد اللہ بن اُبی بن سلول کو جو اس غزوے میں شامل تھا جو بنو مصطلق میں تھا، جس میں آپ گئے تھے اس میں شامل تھا اس واقعے کی اطلاع پہنچی تو اس بدبخت نے اس فتنے کو پھر جگانا چاہا اور اپنے ساتھیوں کو آنحضرت صلی ال یکم اور مسلمانوں کے خلاف بہت کچھ اکسایا اور یہ کہا کہ یہ سب تمہارا قصور ہے کہ تم نے ان بے خانماں، بے سہارا مسلمانوں کو پناہ دے کر ان کو سر پر چڑھا لیا ہے.اب بھی تمہیں چاہیے کہ ان کی مدد سے ان کی اعانت سے دست بردار ہو جاؤ.پھر یہ خود بخود مدینے کو چھوڑ چھاڑ کر چلے جائیں گے اور بالآخر اس بدبخت نے یہاں تک کہہ دیا کہ لَبِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَدُّ مِنْهَا الْأَذَلَ - (المنافقون: 9) که قرآن شریف میں، سورۃ المنافقون میں ہے کہ یعنی دیکھو تو اب مدینے میں جاکر عزت والا شخص یا گر وہ جو ہے وہ ذلیل شخص یا گروہ کو اپنے شہر سے باہر نکال دیتا ہے کہ نہیں؟ اس وقت ایک مخلص مسلمان بچہ زید بن ارقم بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا اس نے عبد اللہ کے منہ سے آنحضرت صلی اللی کام کے متعلق یہ الفاظ سنے تو بے تاب ہو گیا اور فوراً اپنے چچا کے ذریعے آنحضرت صلی یہ کام کو اس واقعے کی اطلاع دی.اب یہ دیکھیں کہ بچے بھی کسی حد تک اخلاص اور وفار کھتے تھے اور بڑے ہوشیار رہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ کیا بات غلط ہے اور کیا صحیح.بہر حال اس نے اپنے چچا کو اطلاع دی.اس وقت آنحضرت صلی ال نیم کے پاس حضرت عمرؓ بھی بیٹھے تھے.وہ یہ الفاظ سن کر غصے اور غیرت سے بھر گئے اور آنحضرت صلی اللہ ہم سے عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق فتنہ پرداز کی گردن اڑا دوں.آپ نے فرما یا عمر ! جانے دو.کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ لوگوں میں یہ چر چاہو کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا پھرتا ہے.پھر آپ نے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلوایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ یہ بات میں نے سنی ہے.وہ سب قسمیں کھا گئے کہ ہم نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی.بعض انصار نے بھی بطریق سفارش، سفارش کے طور پر یہ عرض کیا کہ زید بن ارقم کو غلطی لگی ہوگی یہ اس طرح بات نہیں کر سکتا.آپ نے اس وقت عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے بیان کو قبول فرمالیا اور زید کی بات رڈ کر دی جس سے زید کو سخت تکلیف پہنچی اور صدمہ ہوا مگر بعد میں قرآنی وحی نے

Page 172

اصحاب بدر جلد 5 156 جو آیت میں نے پڑھی ہے زید کی بات کی تصدیق فرمائی اور منافقین کو جھوٹا قرار دیا.ادھر تو آنحضرت صلی علی کریم نے عبد اللہ بن اُبی وغیرہ کو بلا کر اس بات کی تصدیق شروع فرما دی اور اُدھر آپ صلی علیم نے حضرت عمرؓ سے ارشاد فرمایا کہ اسی وقت لوگوں کو کوچ کا حکم دو.یہ وقت دوپہر کا تھا جبکہ آنحضرت ملی لیکن عموما دو پہر کو کوچ نہیں فرمایا کرتے تھے ،سفر نہیں شروع کیا کرتے تھے کیونکہ عرب کے موسم کے لحاظ سے یہ وقت سخت گرمی کا وقت ہوتا ہے اور اس میں سفر کرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے مگر آپ صلی علیہم نے اس وقت کے حالات کے مطابق یہی مناسب خیال فرمایا کہ ابھی یہاں سے روانہ ہو جایا جائے.چنانچہ آپ کے حکم کے ماتحت فوراً اسلامی لشکر واپسی کے لیے تیار ہو گیا.غالباً اسی موقعے پر اُسید بن حضیر انصاری جو قبیلہ اوس کے نہایت نامور رئیس تھے آنحضرت صلی علی کیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! آپ تو عموماً ایسے وقت میں سفر نہیں فرمایا کرتے آج کیا معاملہ ہے کہ اس وقت دو پہر کو سفر شروع کرنے لگے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اُسید! کیا تم نے نہیں سنا کہ عبد اللہ بن ابی نے کیا الفاظ کہے ہیں؟ وہ کہتا ہے کہ ہم مدینہ چل لیں وہاں پہنچ کر عزت والا شخص ذلیل شخص کو باہر نکال دے گا.اُسید نے بے ساختہ عرض کیا کہ ہاں یار سول اللہ اٹھیک ہے.یہ بات تو ہے لیکن آپ چاہیں تو بے شک عبد اللہ کو مدینے سے باہر نکال سکتے ہیں کیونکہ واللہ اعزت والے آپ ہیں وہ نہیں اور وہی ذلیل ہے.پھر اُسید بن حضیر نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ جانتے ہیں کہ آپ کے تشریف لانے سے پہلے عبد اللہ بن ابی اپنی قوم میں بہت معزز تھا اور اس کی قوم اس کو اپنا بادشاہ بنانے کی تجویز میں تھی.صلی املی کام کے تشریف لانے سے اس کی کوششیں جو خاک میں مل گئیں.پس اس وجہ سے اس کے دل میں آپ کے متعلق حسد بیٹھ گیا ہے.اس لیے آپ اس کی اس بکو اس کی کچھ پروانہ کریں اور اس سے در گزر فرمائیں.میں ابھی اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لاڈالتا ہوں تھوڑی دیر میں عبد اللہ بن ابی کالڑکا جس کا نام حباب تھا مگر آنحضرت صلی علی کلم نے اسے بدل کر عبد اللہ کر دیا تھا یعنی یہی حضرت عبد اللہ جن کا ذکر ہو رہا ہے.وہ ایک نہایت مخلص صحابی تھے ، گھبر ائے ہوئے آنحضرت علی ای کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے.یارسول اللہ ! میں نے سنا ہے کہ آپ میرے باپ کی گستاخی اور فتنہ انگیزی کی وجہ سے اس کے قتل کا حکم دینا چاہتے ہیں.اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو آپ مجھے حکم فرمائیں میں ابھی اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لا ڈالتا ہوں مگر آپ کسی اور کو ایسا ارشاد نہ فرمائیں کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ جاہلیت کی کوئی رگ کسی وقت میرے بدن میں جوش مارے اور میں اپنے باپ کے قاتل کو کوئی نقصان پہنچا بیٹھوں اور خدا کی رضا چاہتا ہوا بھی جہنم میں جاگروں.چاہتا تو میں یہ ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کروں لیکن ایک مسلمان کو قتل کر کے میں جہنم میں چلا جاؤں.آپ نے انہیں تسلی دی اور فرمایا کہ ہمارا ہر گز یہ ارادہ نہیں ہے بلکہ ہم بہر حال تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے.

Page 173

اصحاب بدر جلد 5 336 157 مگر عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی کو اپنے باپ کے خلاف اتنا جوش تھا کہ جب لشکرِ اسلامی مدینے کی طرف لوٹا تو عبد اللہ اپنے باپ کا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ خدا کی قسم ! میں تمہیں واپس نہیں جانے دوں گا جب تک تم اپنے منہ سے یہ اقرار نہ کرو کہ رسول ا ل ل ل لا ل ل ل ا ل عزیز ہیں اور تم ذلیل ہو اور عبد اللہ نے اس اصرار سے اپنے باپ پر زور ڈالا کہ آخر اس نے مجبور ہو کر یہ الفاظ کہہ دیے جس پر عبد اللہ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا.16 میری عمر کی قسم ! ہم اس سے اچھا برتاؤ کریں گے جب تک یہ ہمارے درمیان زندہ ہے ابن سعد نے ان الفاظ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ ہم نے صحابہ کو کوچ کا حکم دیا تو عبد اللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبد اللہ نے اپنے والد کا راستہ روک لیا اور اونٹ سے نیچے اتر آئے اور اپنے والد سے کہنے لگے کہ جب تک تم یہ اقرار نہیں کرتے کہ تو ذلیل ترین اور محمد (صلی این عزیز ترین ہیں تب تک میں تجھے نہیں چھوڑوں گا.جب رسول اللہ صلی علی کم پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا اسے چھوڑ دو.رسول اللہ صلی علیم نے بھی دیکھ لیا.فرمایا اسے چھوڑ دو.آپ نے فرمایا کہ میری عمر کی قسم اہم اس سے ضرور اچھا برتاؤ کریں گے جب تک یہ ہمارے درمیان زندہ ہے.یہ طبقات الکبریٰ میں درج ہے اور اس کے علاوہ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ حضرت عبد اللہ کے والد عبد اللہ بن ابی نے یہ کہا کہ لِيُخْرِجَنَ الْاَعَةُ مِنْهَا الْأَذَلَ یعنی عزت والا شخص یا گر وہ ذلیل شخص یا گروہ کو اپنے شہر سے باہر نکال دے گا تو حضرت عبد اللہ نے رسول اللہ صلی علی کریم سے عرض کیا کہ یار سول اللہ !وہی ذلیل ہے اور آپ ہی عزیز ہیں.خود بیٹے نے اپنے باپ کے بارے میں کہا.337 338 واقعہ افک اور اس تہمت کا بانی عبد اللہ بن ابی بن سلول پھر ایک ناپاک تہمت جو منافقین کی طرف سے لگائی گئی، واقعہ افک سے اس کا تعلق ہے جس کا بانی مبانی عبد اللہ بن اُبی بن سلول تھا.غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر افک کا واقعہ پیش آیا جس میں حضرت عائشہ کی ذات پر گندے الزامات لگائے گئے تھے اور اس تہمت کا بانی عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا.واقعہ افک کے متعلق گذشتہ سال کے آخر میں ایک خطبے میں تفصیل بیان کر چکا ہوں.339 لیکن اس حوالے سے بھی یہاں کچھ بیان کر دیتا ہوں.حضرت عائشہ کی روایت بھی یہی ہے.وہ پوری روایت تو نہیں اس کا کچھ حصہ بیان کروں گا.آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ یکم جب کسی سفر میں نکلنے کا ارادہ فرماتے تو آپ اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے.پھر جس کا قرعہ نکلتا آپ اس کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے.چنانچہ اس سفر میں ہمارے درمیان قرعہ ڈالا گیا تو میرا قرعہ نکلا.میں آپ کے ساتھ گئی.اس وقت حجاب کا حکم اتر چکا تھا.پردے کا حکم آگیا تھا.میں ہو دج میں بٹھائی جاتی اور ہو دج سمیت اتاری جاتی رہی.ایک بند کرسی تھی،

Page 174

اصحاب بدر جلد 5 158 پردے لٹکے ہوتے تھے ، اس میں بٹھایا جاتا اور وہ اونٹ پر رکھ دیا جاتا تھا.کہتی ہیں ہم اسی طرح سفر میں رہے جب رسول اللہ صلی علی کی اس مہم سے فارغ ہوئے اور واپس آئے اور ہم مدینے کے قریب ہی تھے کہ ایک رات آپ نے کوچ کا حکم دیا.جب لوگوں نے کوچ کا اعلان کیا تو میں بھی چل پڑی اور فوج سے آگے نکل گئی.حاجت کی ضرورت تھی، جب میں اپنی حاجت سے فارغ ہوئی تو اپنے ہو رج کی طرف آئی اور میں نے اپنے سینے کو ہاتھ لگایا تو کیا دیکھتی ہوں کہ کالے نگینوں کا ایک ہار تھا وہ ٹوٹ کر میرے گلے سے گر گیا ہے.میں واپس لوٹی.اپنا ہار ڈھونڈنے لگی.اتنے میں وہ لوگ جو میرے اونٹ کو تیار کرتے تھے ، آئے اور انہوں نے میر اہو دج اٹھا لیا اور وہ ہو دج میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوا کرتی تھی.وہ سمجھے کہ میں اسی میں بیٹھی ہوئی ہوں.بہر حال انہوں نے اونٹ کو اٹھا کر چلا دیا اور خود بھی چل پڑے.جب سارا لشکر گزر چکا تو اس کے بعد میں نے اپنا گما ہو اہار جو تھا اس کو پالیا.دیکھ لیا اٹھا لیا.مجھے مل گیا.پھر میں اپنے اس ڈیرے کی طرف گئی، اس جگہ گئی جس میں میں تھی اور میں نے خیال کیا کہ وہ مجھے نہ پائیں گے اور میرے پاس لوٹ آئیں گے.کہتی ہیں میں ڈیرے پر گئی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا تو پھر میں نے بہر حال یہی خیال کیا کہ مجھے جب ہودج میں نہیں دیکھیں گے تو واپس میری طرف آئیں گے.کہتی ہیں میں بیٹھی ہوئی تھی تو اسی اثنا میں آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی.صفوان بن معطل سلمی ذکوانی فوج کے پیچھے یہ دیکھنے کے لیے رہا کرتے تھے کہ کوئی چیز پیچھے تو نہیں رہ گئی.کہتے ہیں وہ صبح ڈیرے پر آئے جہاں ہمارا پڑاؤ تھا اور انہوں نے ایک سوئے ہوئے انسان کا وجو د دیکھا اور میرے پاس آئے اور حجاب کے حکم سے پہلے کیونکہ وہ مجھے دیکھا کرتے تھے تو انہوں نے جب دیکھا کہ میں ہوں تو انہوں نے انا للہ پڑھا.ان کے انا للہ پڑھنے پر میں جاگ گئی.بہر حال اس کے بعد انہوں نے اپنی اونٹنی بٹھائی اور میں اس پر سوار ہو گئی.وہ اونٹنی کی نکیل پکڑ کر چل پڑے یہاں تک کہ ہم اس وقت فوج میں پہنچے جب لوگ ٹھیک دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لیے ڈیروں میں تھے.جس کو ہلاک ہو نا تھا وہ ہلاک ہو گیا پھر کہتی ہیں کہ جس کو ہلاک ہو نا تھا وہ ہلاک ہو گیا.یعنی الزام لگا کر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا اور اس تہمت کا بانی عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا.بہر حال کہتی ہیں ہم مدینے پہنچے.میں وہاں ایک ماہ تک بیمار رہی.کسی وجہ سے بیمار ہو گئی تھی.میری اس بیماری کے اثنا میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کالوگ چرچا کرتے رہے اور جو بات ان کو نہیں پتالگا کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس اثنا میں کہتی ہیں جو بات مجھے شک میں ڈالتی تھی وہ یہ تھی کہ میں نبی کریم صلی علیم سے وہ مہربانی نہ دیکھتی تھی جو میں آپ سے اپنی بیماری میں دیکھا کرتی تھی.آپ صرف اندر آتے اور السلام علیکم کہتے.پھر پوچھتے اب وہ کیسی ہے ؟ کہتی ہیں مجھے اس تہمت کا کچھ بھی علم نہیں تھا.کہتی ہیں ایک دن ام مسطح کے ساتھ میں باہر گئی.رفع حاجت کے لیے باہر جایا کرتے تھے.تب اس نے مجھے تہمت لگانے والوں کی بات سنائی.جب میں اپنے گھر لوٹی تو رسول اللہ صلی الیکم میرے پاس آئے اور آپ نے السلام علیکم کہا اور آپ نے پوچھا اب تم کیسی ہو ؟ میں

Page 175

اصحاب بدر جلد 5 159 نے اس پر عرض کیا کہ مجھے اپنے والدین کے پاس جانے دیں.آپ نے مجھے اجازت دے دی.میں اپنے والدین کے پاس آئی تو میں نے اپنی ماں سے پوچھا لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں.انہوں نے کہا بیٹی اس بات سے اپنی جان کو جنجال میں نہ ڈالو.اطمینان سے رہو.لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں.میں نے کہا سبحان اللہ !لوگ ایسی بات کا چرچا کر رہے ہیں.کہتی تھیں کہ جب مجھے یہ پتا لگا کہ میرے پہ یہ تہمت لگی ہے تو میں نے وہ رات اس طرح کائی کہ صبح تک نہ میرے آنسو تھے اور نہ مجھے نیند آئی.بہر حال اس تہمت کی باتیں ہوتی رہیں بعض صحابہ سے بھی آنحضرت صلی ٹیم نے مشورہ کیا اور کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی الیم نے بریرہ کو جو ذاتی خدمت کے لیے حضرت عائشہ کی خادمہ تھیں ان کو بلایا اور آپ نے کہا کہ بریرہ کیا تم نے اس میں یعنی حضرت عائشہ میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تمہیں شبہ میں ڈالے ؟ بریرہ نے کہا کہ ہر گز نہیں.کوئی ایسی بات میں نے نہیں دیکھی اور کہنے لگی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے حضرت عائشہ میں اس سے زیادہ کوئی اور بات نہیں دیکھی جس کو میں ان کے لیے معیوب سمجھوں یعنی سب سے بڑی کمزوری جو میں نے دیکھی ہے وہ یہی ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں.لڑکپن ہے اور نیند زیادہ آتی ہے اور آٹا چھوڑ کر بعض دفعہ سو جاتی ہیں اور گھر میں بکری آتی ہے اور وہ کھا جاتی ہے یعنی کہ بس بے احتیاطی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں یا ان کو نیند زیادہ آتی ہے.ایسے شخص کو کون سنبھالے جس نے میری بیوی کے بارے مجھے دکھ دیا ہے یہ سن کر اسی دن رسول اللہ صلی علیم نے صحابہ کو مخاطب فرمایا اور عبد اللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی اور رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا ایسے شخص کو کون سنبھالے جس نے میری بیوی کے بارے میں مجھے دکھ دیا ہے.اور آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اپنی بیوی میں سوائے بھلائی کے اور کوئی بات مجھے معلوم نہیں اور ان لوگوں نے جس پر الزام لگایا تھا اس کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ایسے شخص کا ذکر کیا ہے جس کی بابت بھی مجھے بھلائی کے سوا کوئی علم نہیں اور میرے گھر والوں کے پاس جب بھی وہ آیا کرتے ہیں تو میرے ساتھ ہی آتے تھے کبھی اکیلے نہیں آئے.اللہ جانتا ہے کہ میں فی الواقعہ بری ہوں بہر حال مختصر یہ کہ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ کریم نے مجھ سے بھی براہِ راست اس بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ بخدا مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ آپ لوگوں نے وہ بات سنی ہے جس کا لوگ آپس میں تذکرہ کرتے ہیں.باتیں کر رہے ہیں.مجھ پر الزام لگارہے ہیں.اگر میں آپ ، یہ کہوں کہ میں بری ہوں میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی اور اللہ جانتا ہے کہ میں فی الواقعہ بری ہوں.آپ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے اور اگر میں آپ کے پاس کسی بات کا اقرار کر لوں حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بڑی ہوں.میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی مگر آپ اس اقرار میں مجھے سچا سمجھ لیں گے کیونکہ لوگوں میں یہ اتنا مشہور ہو چکا ہے.ہر ایک قائل ہو چکا ہے.بعض صحابہ جو ہیں وہ بھی ایسی باتیں

Page 176

اصحاب بدر جلد 5 160 کر رہے ہیں.پھر کہتی ہیں میں نے کہا اللہ کی قسم ! میں اپنی اور آپ کی کوئی مثال نہیں پاتی سوائے یوسف کے باپ کی.انہوں نے کہا تھا کہ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ.کہ صبر کرنا ہی اچھا ہے اور اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہیے اس بات میں جو تم لوگ بیان کر رہے ہو.یہ سیورہ یوسف میں ہے.اس کے بعد کہتی ہیں میں ایک طرف ہٹ کر اپنے بستر پر آگئی اور میں امید کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضرور بری کرے گا.آنحضرت صلی کم کو بتائے گا کہ میں اس الزام سے بری ہوں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد، جب میں نے یہ بات کہی اس کے بعد اللہ کی قسم ! آپ ابھی بیٹھنے کی جگہ سے الگ نہیں ہوئے تھے جب آپ نے آنحضرت صلی علیم سے یہ بات کہی ہے.تو اس وقت حضرت ابو بکر بھی تھے اور عائشہ کی والدہ بھی تھیں، دونوں تھے.کہتی ہیں کہ آپ، نہ گھر والے بھی کوئی اور نہ اہل بیت میں سے کوئی باہر گیا تھا، سب گھر والے وہیں تھے.عالیہ ! اللہ کا شکر بجالاؤ کیونکہ اللہ نے تمہاری بریت کر دی ہے اتنے میں آپ صلی للی کم پر وحی نازل ہوئی اور سخت تکلیف آپ کو ہوا کرتی تھی جب وحی ہوتی تھی.وہ آپ کو ہونے لگی.جسم پسینے سے شرابور ہو جاتا تھا.کہتی ہیں جب رسول اللہ صلی العلیم سے وحی کی حالت جاتی رہی تو آپ مسکرا رہے تھے اور پہلی بات جو آپ نے فرمائی یہ تھی کہ عائشہ ! اللہ کا شکر بجالاؤ کیونکہ اللہ نے تمہاری بریت کر دی ہے.میری ماں نے مجھ سے کہا کہ اٹھو رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس جاؤ.میں نے کہا اللہ کی قسم ہر گز نہیں.ان کا شکریہ ادا نہیں کروں گی.میں ان کے پاس اٹھ کر تمہیں جاؤں گی اور اللہ کے سوا کسی کا شکریہ ادا نہیں کروں گی.اللہ تعالیٰ نے یہ وحی کی تھی کہ اِنَّ الَّذِيْنَ جَاءُ وَ بِالْافَكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ کہ وہ لوگ جنہوں نے بہتان باندھا ہے وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہے.ان سب باتوں کے باوجود بہر حال یہ بریت ہو گئی.آنحضرت صلی علیم نے اعلان کر دیا.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرما دی بلکہ حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے خیال تھا کہ اللہ تعالی آنحضرت صلی علی یم کو رو یا یا کسی اور رنگ میں بتادے گا.یہ مجھے امید نہیں تھی کہ قرآن کریم کی آیت اس بارے میں اتر آئے گی.340 رئیس المنافقین کے ساتھ آنحضرت علی رحمة للعالمین کا سلوک تو یہ معاملہ ختم ہوا اور یہ الزامات لگتے رہے اور مختلف حرکتیں ہوتی رہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود اس رئیس المنافقین کے ساتھ آنحضرت صلی الی رحمة للعالمین کا جو سلوک تھا وہ کیا تھا؟ حضرت عبد اللہ کے والد کی جو وفات ہوئی یعنی عبد اللہ بن ابی کی تو انہوں نے آنحضرت صلیالی کم کی خدمت میں اپنے والد کی نماز جنازہ کے لیے درخواست کی.اسی طرح انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ آپ اپنی قمیض عنایت فرمائیں تا کہ وہ بطور کفن اپنے والد کے لیے استعمال کر سکے اور اس طرح شاید میرے والد تخفیف ہو سکے تو آنحضور صلی ا لم نے اسے کر تہ عنایت فرمایا.

Page 177

اصحاب بدر جلد 5 161 ایک دوسری روایت میں یہ بھی الفاظ ملتے ہیں کہ جب حضرت عبد اللہ کا والد یعنی عبد اللہ بن ابی بن سلول فوت ہوا تو وہ آنحضرت علی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اپنی قمیض دیں تا کہ میں اپنے والد کو اس کے ذریعے کفن دوں اور اس پر نماز جنازہ پڑھیں اور اس کے لیے استغفار کر دیں تو آنحضرت ملا لیلی یکم نے اسے اپنی قمیض عطا کی اور فرمایا کہ جب تم لوگ تجہیز و تکفین کے معاملات سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے بلا لینا.جب آنحضرت صلی علیہ کی نماز جنازہ پڑھنے لگے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ سے منع کیا ہے.پھر رسول اللہ صلی اللی کم نے فرمایا مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ میں ان کے لیے استغفار کروں یا نہ کروں.پس رسول اللہ صلی علیم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی پھر جب اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کی کلیۂ ممانعت فرما دی تو پھر آنحضرت صلی علیم نے منافقین کی نماز جنازہ پڑھانی بند کر دی.341 یہ بھی روایت ہے کہ جب آپ پہنچے تو اس کو قبر میں رکھا جا چکا تھا.آپ نے باہر نکلوایا.اپنی ٹانگوں پر اس کا سر رکھا اور پھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور پھر دعا کی اور قمیض کرتہ اتار کے دیا.342 ایک روایت یہ بھی ہے حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب بدر کی جنگ ہوئی تو کافروں کے قیدی لائے گئے اور عباس بھی لائے گئے ان پر کوئی کپڑا نہ تھا.نبی کریم صلی علیہم نے ان کے لیے کر تہ تلاش کیا لوگوں نے عبد اللہ بن ابی کا کرتہ ان کے لیے ٹھیک پایا.نبی صلی میں ہم نے وہی ان کو پہنا دیا اور اس وجہ سے نبی صلی علیم نے عبد اللہ بن ابی کے لیے اس کے مرنے کے بعد اپنا کر نہ اتار کر اسے دے دیا کہ اسے پہنایا جائے.ابن عیینہ کہتے ہیں کہ نبی صلی علیم سے اس نے نیک سلوک کیا تھا تونبی صلی علیکم نے چاہا کہ اس سے نیک سلوک فرمائیں.343 ایسی روایت گو کہ صحیح بخاری کے حوالے سے بھی ہے لیکن یہ اتنی authentic صحیح بھی نہیں لگتی.آنحضرت صلی العلم رحمۃ للعالمین تھے.صرف اسی سلوک کی وجہ سے یہ بات یا صرف یہی بات نہیں ہو سکتی.ایک تو یہ ہے کہ بعضوں کے نزدیک اس وقت بدر کی جنگ میں یہ مسلمان بھی نہیں تھا اور اگر بالفرض قمیض اتار کے دی بھی تھی تو اس دوران میں آنحضرت صلی اسلام نے اس پر بے شمار احسانات کیے تھے.بہر حال یہ شفقت کا سلوک تھا جو میرے خیال میں تو حضرت عبد اللہ کی وجہ سے آنحضرت صلی علی یم نے کیا تھا کہ بیٹے نے جو ہر معاملے میں اسلام کی غیرت رکھی، آنحضرت صلی لیلی کیم کی غیرت رکھی اور اپنے ایمان کو بچایا اور اپنے باپ پر سختی بھی کی تو اس لیے بچے کی دل داری کے لیے، بیٹے کی دل داری کے لیے یا اس کی خواہش کی وجہ سے آپ نے یہ قمیض اتار کے دی تھی.حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن ابی بن سلول مر گیا تو رسول اللہ صلی الم سے درخواست کی گئی ( یہ روایت حضرت عمر نے براہ راست بھی بیان فرمائی ہے ) کہ آپ اس کی نماز جنازہ

Page 178

اصحاب بدر جلد 5 162 پڑھائیں.جب رسول اللہ صلی للی کم کھڑے ہوئے تو میں آپ کی طرف لپکا اور میں نے کہا کہ یارسول اللہ ! کیا آپ ابن ابی کا نماز جنازہ پڑھتے ہیں اور اس نے تو فلاں دن یہ بات کہی تھی اور فلاں دن یہ بات کہی تھی.میں نے باتیں گنوانی شروع کر دیں.میں اس کے خلاف اس کی باتیں گننے لگا.رسول اللہ صلی علی کل مسکر ائے اور فرمایا عمر ہٹ جاؤ.جب میں نے آپ سے بہت اصرار کیا تو آپ نے فرمایا مجھے تو اختیار دیا گیا ہے سو میں نے اختیار کر لیا ہے اور اگر میں یہ جانوں اور مجھے یہ پتا ہو کہ میں ستر بار سے زیادہ اس کے لیے دعائے مغفرت کروں اور وہ بخشا جائے گا تو میں ضرور اس سے بھی زیادہ کروں.حضرت عمر کہتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی علیہم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی.پھر آپ لوٹ آئے اور تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سورہ براء یعنی سورہ توبہ کی یہ دو آیتیں نازل ہوئیں کہ وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَكَ اوَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَا تُوا وَ هُمْ فَسِقُونَ (التوبة: 84) یعنی تو ان میں سے کسی کی بھی جو مر جائے کبھی نماز جنازہ نہ پڑھ اور تو اس کی قبر پر کھڑا نہ ہو کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور وہ ایسی حالت میں مر گئے کہ وہ بد عہد تھے.حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ اس کے بعد میں نے اپنی جسارت پر تعجب کیا کہ میں نے آنحضرت کے سامنے بولنے کی یہ جرات کس طرح کر لی جو میں نے اس دن رسول اللہ صلی ال نیلم کے سامنے دکھائی تھی اور اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.344 206 حضرت عبد اللہ بن عبد مناف پھر حضرت عبد اللہ بن عبد مناف ہیں ان کا تعلق قبیلہ بنو نعمان سے تھا.5 345 ابو یحی ان کی کنیت تھی ان کی والدہ محمیمہ بنت عبید تھیں.ان کی ایک بیٹی تھیں ان کا نام بھی مُحمیمہ تھا جن کی والدہ ربیع بنت طفیل تھیں.آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے تھے.346

Page 179

163 207 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عبد اللہ بن عبس پھر حضرت عبد اللہ بن عبس انصاری ہیں.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عدی سے تھا.بعض نے ان کا نام عبد اللہ بن عبیس بیان کیا ہے.یہ رسول اللہ صلی المی ریم کے ساتھ غزوہ بدر اور اس کے بعد ہونے والے تمام غزوات میں شامل ہوئے.347 الله سة 208 حضرت عبد اللہ بن عرفطه پھر حضرت عبد اللہ بن عرفطہ ہیں.آپ حضرت جعفر بن ابی طالب کے ہمراہ ہجرت حبشہ میں شامل ہوئے تھے اور ایک روایت جو حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے ہمیں نجاشی کی طرف بھیجا تھا اور ہم لوگ اتنی کے قریب تھے.348 حضرت عبد اللہ بن عرفطہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے.349 209 نام و نسب حضرت عبد اللہ بن عمیر حضرت عبد اللہ بن عمیر حضرت عبد اللہ بن عمیر کا تعلق قبیلہ بَنُو جِدَارَہ سے تھا.آپ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے.ایک قول کے مطابق آپ کے والد کا نام عمیر کے بجائے عبید بھی بیان ہوا ہے.اسی طرح بعض نے آپ کے دادا کا نام عدی بیان کیا ہے جبکہ بعض نے حارثہ بیان کیا ہے ابن ہشام نے آپ کا قبیلہ بنو جِدَارہ بیان کیا ہے جبکہ ابن اسحاق نے بنو حارثہ بیان کیا ہے.350 دونوں ہی تاریخ لکھنے والے ہیں.351

Page 180

164 210 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عبد اللہ بن قیس حضرت عبد اللہ بن قیس حضرت عبد اللہ بن قیس قبیلہ بنو نجار سے تھے.آپ کے دادا کا نام سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں زیادہ تر خالد بیان ہوا ہے تاہم طبقات الکبریٰ میں ان کا نام خَلَّدہ لکھا ہے.حضرت عبد اللہ بن قیس کے بیٹے کا نام عبد الرحمن اور بیٹی کا نام محمیرہ تھا.ان دونوں کی والدہ کا نام سعاد بنت قیس تھا.ان کے علاوہ آپ کی ایک اور بیٹی بھی تھیں جن کا نام اقد عون تھا.حضرت عبد اللہ بن قیس غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے.عبد اللہ بن محمد بن محمارہ انصاری کے مطابق آپ غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے جبکہ دوسرے قول کے مطابق آپ غزوہ احد میں شہید نہیں ہوئے بلکہ آپ زندہ رہے اور آنحضرت صلی علیہم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور آپ نے حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں وفات پائی.12 تاریخ کی مختلف کتب میں بعض جگہ اختلاف ہو جاتا ہے اس لیے میں بیان کر دیتا ہوں.353 352 211 حضرت عبد اللہ بن قیس بن صخر پھر عبد اللہ بن قیس بن صخر انصاری ہیں.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو سلمہ سے تھا.آپ اپنے بھائی معبد بن قیس کے ساتھ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شامل ہوئے تھے.354

Page 181

165 212 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عبد اللہ بن کعب اموال غنیمت کے نگران حضرت عبد اللہ بن کعب.حضرت عبد اللہ بن کعب قبیلہ بنو مازن سے تھے.آپ کے والد کا نام کعب بن عمرو اور آپ کی والدہ کا نام رباب بنت عبد اللہ تھا.آپ حضرت ابولیلی مازنیہ کے بھائی تھے.حضرت عبد اللہ بن کعب کے ایک بیٹے کا نام حارث تھا جو غیبہ بنتِ آؤس سے پیدا ہوئے تھے.حضرت عبد اللہ بن کعب غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے.آپ کو آنحضرت صلی اسلام نے غزوہ بدر کے روز اموال غنیمت پر نگران مقرر فرمایا تھا.اس کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی آپ کو نبی کریم صلی ال نیم کے اموال محمس پر نگر ان بننے کی سعادت نصیب ہوئی.تمام غزوات میں شمولیت حضرت عبد اللہ بن كعب غزوہ احد، غزوہ خندق اور اس کے علاوہ تمام دیگر غزوات میں آنحضرت صلی علیم کے ساتھ شریک ہوئے.حضرت عبد اللہ بن کعب کی وفات مدینے میں حضرت عثمان کے دور خلافت میں 33 ہجری میں ہوئی اور آپ کی نماز جنازہ حضرت عثمان نے پڑھائی.آپ کی کنیت ابو حارث کے علاوہ ابو بیٹی بھی بیان کی جاتی ہے.5 355 213 نام و نسب و کنیت حضرت عبد اللہ بن مخرمہ حضرت عبد الله بن مخرمہ.ان کا نام عبد اللہ بن مخرمہ تھا اور کنیت ابو محمد تھی.ان کا تعلق قبیلہ بنو عامر بن لومی سے تھا.انہیں عبد اللہ اکبر بھی کہا جاتا تھا.یہ ابتدائی اسلام لانے والے صحابہ میں سے تھے.ان کے والد کا نام مخرمہ بن عبد العزی اور والدہ کا نام برهنانه بنت صفوان تھا.حضرت عبد اللہ بن مخرمہ کی اولاد میں ایک بیٹے مساحق کا ذکر ملتا ہے جو ان کی بیوی زینب بنت سراقہ سے تھے.

Page 182

اصحاب بدر جلد 5 166 اوائل میں اسلام قبول کرنے اور دو ہجر تیں کرنے والے حضرت عبد اللہ بن مخرمہ اوائل میں اسلام لانے والوں میں شامل تھے.حضرت عبد اللہ بن مخرمه و دو ہجرتیں کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، ایک حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ کی طرف.ابن اسحاق نے حضرت عبد اللہ بن مخرمہ کا ذکر ان صحابہ میں کیا ہے جنہوں نے حضرت جعفر کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی.یونس بن بگیر، سلمہ اور بکائی نے ابن اسحاق کا یہ قول بیان کیا ہے جس میں انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مخرمہ کی حبشہ کی طرف ہجرت کا ذکر کیا ہے.حضرت عبد اللہ بن مخرمه جب مدینہ ہجرت کر کے پہنچے تو انہوں نے حضرت کلثوم بن ھدھم کے گھر قیام کیا.رسول اللہ صلی العلیم نے حضرت عبد اللہ بن مخرمہ کی مواخات حضرت فروہ بن عمر و انصاری سے کروائی.حضرت عبد اللہ بن مخرمہ غزوہ بدر اور بعد کے باقی تمام غزوات میں شامل ہوئے.حضرت عبد الله بن مخرمه جب جنگ بدر میں شامل ہوئے تو اس وقت ان کی عمر تیس سال تھی.حضرت ابو بکر صدیق کے دورِ خلافت میں جب یہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے تو اس وقت ان کی عمر اکتالیس سال تھی.356 رض الله س رض جذبہ شہادت حضرت عبد اللہ بن مخرمہ کا جذبہ شہادت انتہائی حد تک بڑھا ہوا تھا.چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتے تھے کہ مجھے اس وقت تک وفات نہ دینا جب تک میں اپنے جسم کے ہر جوڑ پر خدا کی راہ میں لگا زخم نہ دیکھ لوں.چنانچہ جنگ یمامہ کے روز ان کے جوڑوں پر زخم پہنچے جن کی وجہ سے یہ شہید ہو گئے.357 عبادت گزار...جنہوں نے روزہ کی حالت میں شہادت پائی حضرت عبد الله بن مخرمه "بہت زیادہ عبادت گزار تھے.جوانی میں بھی بڑی عبادت کیا کرتے تھے.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے سال میں حضرت عبد اللہ بن مخرمہ اور حضرت ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالم ایک ساتھ تھے.ہم تینوں باری باری بکریاں چرایا کرتے تھے.لشکر کے لیے کچھ مال بھی تھا، اس کی حفاظت کرنی ہوتی تھی.چنانچہ جس دن لڑائی شروع ہوئی وہ دن میرا بکریاں چرانے کا تھا.پس میں بکریاں چرا کر آیا تو میں نے حضرت عبد اللہ بن مخرمه و میدانِ جنگ میں زخمی حالت میں گرا ہوا پایا تو میں ان کے پاس ٹھہر گیا.انہوں نے کہا اے عبد اللہ بن عمر ! کیا روزہ دار نے افطاری کرلی ہے ؟ شام کا وقت ہو گیا تھا، میں نے کہا ہاں.تو انہوں نے کہا کہ اس ڈھال میں کچھ پانی دے دو کہ میں اس سے افطار کر لوں.وہ جنگ میں بھی روزے کی حالت میں تھے.حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں پانی لینے چلا گیا مگر جب میں واپس آیا تو وہ وفات پاچکے تھے.58

Page 183

167 214 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عبد اللہ بن مظعون چار بھائی جو جنگ بدر میں شریک ہوئے نام و نسب ان کا نام عبد اللہ بن مظعون ہے.حضرت عبد اللہ بن مظعون کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو مجیغ سے تھا.ان کی والدہ کا نام شخیلہ بنتِ عَنْبَس تھا.یہ حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت قدامہ بن مطعون اور حضرت سائب بن مطعون کے بھائی تھے اور یہ سب رشتے میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے ماموں تھے.کیونکہ حضرت عمرؓ نے ان کی ہمشیرہ زینب بنت مطعون سے شادی کی تھی.ابتدائی اسلام قبول کرنے والے یزید بن رومان سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مظعونؓ اور حضرت قدامہ بن مظعون نے رسول اللہ صلی الم کے دارارقم میں جانے اور اس میں دعوتِ اسلام دینے سے قبل ہی اسلام قبول کر لیا 359 ہجرت حبشہ میں شامل تکلیفیں حضرت عبد اللہ بن مظعون اور ان کے تینوں بھائی حضرت قدامہ بن مظعونؓ اور حضرت عثمان بن مطعون اور حضرت سائب بن مظعون حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے اور حبشہ میں قیام کے دوران جب انہیں خبر ملی کہ قریش ایمان لے آئے ہیں تب یہ لوگ واپس آگئے.360 میں بعض صحابہ کے ذکر میں پہلے بھی حبشہ کی ہجرت کا یہ ذکر کر چکا ہوں کہ مسلمانوں کی تک جب انتہا کو پہنچ گئیں تو آنحضرت صلی علیکم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے.اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہو تا.اُس زمانے میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلا تا تھا.بہر حال آنحضرت صلی علیم کے فرمانے پر رجب پانچ نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور جب انہوں نے ہجرت کی تو یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ جب وہ مکے سے نکلے ہیں اور جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے جب یہ شعیبہ مقام پر پہنچے جو اس زمانے میں عرب کی ایک بندرگاہ تھی تو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان کو ایک تجارتی جہاز مل گیا جو حبشہ کی طرف روانہ ہونے کو

Page 184

اصحاب بدر جلد 5 168 بالکل تیار تھا.چنانچہ یہ سب امن سے اس میں سوار ہو گئے اور جہاز روانہ ہو گیا.حبشہ پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکار املا لیکن جیسا کہ بعض مؤرخین نے بیان کیا ہے اور ان کے ضمن میں پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ خبر سن کے واپس آگئے تھے.مہاجرین کو حبشہ میں گئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک افواہ اڑتی ہوئی ان کو پہنچی کہ تمام قریش مسلمان ہو گئے ہیں اور مکے میں بالکل امن ہو گیا ہے.اس خبر کا یہ نتیجہ ہوا کہ اکثر مہاجرین بلا سوچے سمجھے واپس آگئے.جب یہ لوگ مکے کے پاس پہنچے تو پتا لگا کہ یہ خبر تو غلط تھی اور مہاجرین کو حبشہ سے واپس لانے کی کافروں کی ایک کوشش تھی.اب ان سب کو بڑی مشکل کا سامنا تھا.بہر حال کوئی اور رستہ نہیں تھا.بعض تو رستہ میں سے واپس چلے گئے اور بعض نے مکے میں آکے کسی صاحب اثر کی پناہ لے لی لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتی تھی.قریش کے جو مظالم تھے وہ بڑھتے چلے گئے اور مسلمانوں کے لیے مکے میں کوئی امن کی جگہ نہیں تھی تو اس پر پھر آنحضرت صلی ا ہم نے ارشاد فرمایا کہ ہجرت کرو اور پھر دوسرے مسلمانوں نے بھی خفیہ خفیہ ہجرت کی تیاری شروع کر دی اور موقع پا کر آہستہ آہستہ نکلتے گئے.اور ہجرت کا یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ بالآخر حبشہ میں مہاجرین کی جو تعداد تھی وہ ایک سو تک پہنچ گئی جن میں اٹھارہ عورتیں تھیں باقی مرد تھے.تو اس طرح یہ دوسری ہجرت ہوئی.بہر حال حضرت عبد اللہ بن مظعون کے متعلق یہی ہے کہ وہ پہلی ہجرت میں واپس آئے تھے لیکن دوبارہ واپس گئے یہ نہیں پتہ.یا پھر یہاں سے انہوں نے مدینہ ہجرت کی.61 ہجرت مدینہ بہر حال حضرت عبد اللہ بن مظعون جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آنحضرت صلی علیہ ہم نے ان کے اور سہل بن عبید اللہ انصاری کے درمیان مواخات قائم فرمائی.362 ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مظعون کی حضرت قطبه بن عامر کے ساتھ آنحضرت صلی ہم نے مواخات قائم فرمائی تھی.اپنے تینوں بھائیوں کے ساتھ بدر میں شامل 363 حضرت عبد اللہ بن مظعون اپنے تینوں بھائیوں حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت قدامہ بن مطعون اور حضرت سائب بن مظعون کے ہمراہ غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللی کام کے ساتھ شریک ہوئے تھے.حضرت عبد اللہ بن مظعون غزوہ بدر کے علاوہ غزوہ احد اور خندق اور دیگر غزوات میں رسول اللہ صلی ال نیم کے ساتھ شریک ہوئے تھے.حضرت عبد اللہ بن مظعون نے حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں 30 ہجری میں بعمر ساٹھ سال وفات پائی تھی.164

Page 185

169 215 اصحاب بدر جلد 5 ย حضرت عبد اللہ بن نعمان بن بلد مہ حضرت عبد اللہ کے دادا کا نام بلدمه یا بَلنَمہ بھی بیان کیا جاتا ہے.حضرت عبد اللہ بن نعمان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو مخنّاس سے تھا.5 365 حضرت عبد اللہ بن نعمان حضرت ابو قتادہ کے چچازاد بھائی تھے.حضرت عبد اللہ بن نعمان کو غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شامل ہونے کی سعادت ملی.366 216) حضرت عبدربہ بن حق بن اوس حضرت عبدُ رَبِّهِ بن حق بن اوس ایک صحابی تھے.ان کے بارے میں ایک سے زائد آراء ہیں.بعض نے عبد ربه اور بعض نے عبد اللہ لکھا ہے.ابن اسحاق کے نزدیک ان کا نام عبد اللہ بن حق جبکہ ابن عمارہ کے مطابق عبد رب بن حق ہے ان کا تعلق بنو خزرج کے خاندان بنو ساعدہ سے تھا اور آپ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے.367 217 نام و نسب وو حضرت عبد الرحمن بن عوف دعشرہ مبشرہ میں سے ” وہ مسلمانوں کے سرداروں کے سردار ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ عبد الرحمن آسمان میں بھی امین ہے اور زمین میں بھی امین ہے.“ حضرت عبد الرحمن بن عوف کا ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف کا نام زمانہ جاہلیت میں عبدِ عمر و تھا اور دوسری روایت کے مطابق عبد الكَعْبَہ تھا.اسلام لانے کے بعد آنحضرت صلی المیہ یکم نے یہ نام

Page 186

اصحاب بدر جلد 5 170 368 بدل کر عبد الرحمن رکھ دیا.ان کا تعلق قبیلہ بنو زہرہ بن کلاب سے تھا.سهله بنت عاصم بیان کرتی ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف سفید ، خوبصورت آنکھوں والے، لمبی پلکوں، لمبے ناک والے تھے.سامنے کے اوپر والے دانت میں سے کچلی والے دانت لمبے تھے.کانوں کے نیچے تک بال تھے.گردن لمبی، ہتھیلیاں مضبوط اور انگلیاں موٹی تھیں.369 ابراہیم بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن دراز قد ، سفید رنگ جس میں سرخی کی آمیزش تھی، خوبرو، نرم جلد والے تھے.خضاب نہیں لگاتے تھے.ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاؤں سے لنگڑے تھے.آپ کی یہ لنگڑاہٹ اُحد کے بعد ہوئی کیونکہ اُحد کے میدان میں راہ حق میں زخمی ہوئے تھے.عشرہ مبشرہ میں سے 370 حضرت عبد الرحمن بن عوف ان دس اصحاب میں شامل تھے جن کو ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت مل گئی تھی.آپ ان اصحاب شوری کے چھ افراد میں سے ایک ہیں جن کو حضرت عمر نے خلافت کے انتخاب کے لیے مقرر فرمایا اور ان افراد کے بارے میں حضرت عمر نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی علی کی اپنی وفات کے وقت ان سب سے راضی تھے.371 شراب کو اپنے اوپر حرام کرنے والے حضرت عبد الرحمن بن عوف عام الفیل کے دس سال بعد پیدا ہوئے.حضرت عبد الرحمن بن عوف ان قلیل افراد میں سے تھے جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں بھی شراب کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا.حضرت عبد الرحمن بن عوف ابتدائی آٹھ اسلام لانے والوں میں سے ہیں.جب حضور صلی اغلی ہم نے دار ارقم کو تبلیغی مرکز بنایا تو آپ اس سے بھی پہلے حضرت ابو بکر کی تبلیغ سے اسلام قبول کر چکے تھے.حضرت عبد الرحمن بن عوف حبشہ کی طرف جانے والی دونوں ہجرتوں میں شامل تھے.373 372 ہجرت مدینہ ، مؤاخات اور اخوت و ایثار کا ایک قابل رشک جذبہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں جب ہم مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی الم نے مجھے اور سعد بن ربیع کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا.تو سعد بن ربیع نے کہا کہ میں انصار میں سے زیادہ مالدار ہوں.یہ روایت سعد بن ربیع کے ذکر میں بھی آچکی ہے.3 لیکن بہر حال یہاں بھی ذکر کرتا ہوں سو میں تقسیم کر کے نصف مال آپ کو دے دیتا ہوں اور میری دو بیویوں میں سے جو آپ پسند کریں میں آپ کے لیے اس سے دستبردار ہو جاؤں گا.جب اس کی عدت گزر جائے تو اس سے آپ نکاح کر لیں.یہ سن کر حضرت عبد الرحمن نے حضرت سعد سے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اہل اور مال میں آپ کے لیے برکت رکھ دے.مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں.کیا

Page 187

171 اصحاب بدر جلد 5 یہاں کوئی بازار ہے جس میں تجارت ہوتی ہو.حضرت سعد نے بتایا کہ قینقاع کا بازار ہے.حضرت عبد الرحمن یہ معلوم کر کے صبح سویرے وہاں گئے.وہاں کاروبار کیا اور انہوں نے وہاں پنیر اور گھی منافع کے طور پر بچایا اور اسے لے کر حضرت سعد کے گھر والوں کے پاس واپس پہنچے.پھر اسی طرح ہر صبح آپ وہاں بازار میں جاتے اور کاروبار کرتے رہے اور منافع کماتے رہے.ابھی کچھ عرصہ گزرا تھا کہ حضرت عبد الرحمن آئے اور ان پر زعفران کا نشان تھا تو رسول اللہ صلی علی رام نے پوچھا کہ کیا تم نے شادی کر لی ہے ؟ عرض کیا: جی ہاں.آپ نے فرمایا کس سے ؟ انہوں نے کہا کہ انصار کی ایک عورت سے.فرمایا کتنا مہر دیا ہے ؟ عرض کیا ایک گٹھلی کے برابر سونا یا کہا سونے کی گٹھلی.نبی علی الم نے فرمایا کہ ولیمہ بھی کرو خواہ ایک بکری کا ہی سہی.174 حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں بھی دیکھا کہ اگر میں کوئی پتھر بھی اٹھاتا تو امید کرتا کہ نیچے سونا یا چاندی ملے گی.یعنی اللہ تعالیٰ نے تجارت میں اتنی 375 برکت رکھ دی تھی.تمام غزوات میں شمولیت حضرت عبد الرحمن بن عوف غزوۂ بدر، أحد سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی علیکم کے ساتھ شریک رہے.376 جنگ بدر اور ایک آرزو......جنگ بدر کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا تھا کہ میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو انصاری لڑکے ہیں.ان کی عمریں چھوٹی ہیں.میں نے آرزو کی کہ کاش میں ایسے لوگوں کے درمیان ہو تا جو ان سے زیادہ جوان اور تنو مند ہوتے.اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ سے دبا کر پوچھا کہ چا کیا ابو جہل کو پہچانتے ہو ؟ میں نے کہا ہاں بھیجے ! تمہیں اس سے کیا کام ہے ؟ اس نے کہا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی امریکہ کو گالیاں دیتا ہے اور اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ پاؤں تو میری آنکھ سے اس کی آنکھ جدانہ ہو گی جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جس کی مدت پہلے مقدر ہے.مجھے اس سے بڑا تعجب ہوا.حضرت عبد الرحمن کہتے ہیں پھر دوسرے نے مجھے ہاتھ سے دبایا اس نے بھی مجھے اسی طرح پوچھا.ابھی تھوڑا عرصہ گذرا ہو گا کہ میں نے ابو جہل کو لوگوں میں چکر لگاتے دیکھا.میں نے کہا دیکھو یہ ہے تمہار اوہ ساتھی جس کے متعلق تم نے مجھ سے دریافت کیا تھا.یہ سنتے ہی وہ دونوں جلدی سے اپنی تلواریں لیے اس کی طرف لیکے اور اسے اتنا مارا کہ اس کو جان سے مار ڈالا اور پھر لوٹ کر رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آئے اور آپ کو خبر دی.آپ صلی علیہم نے پوچھا تم میں سے کس

Page 188

اصحاب بدر جلد 5 172 نے اس کو مارا ہے.دونوں نے کہا میں نے اس کو مارا ہے.آپ نے پوچھا کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھ کر صاف کر لی ہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں.آپ نے تلواروں کو دیکھا.آپ صلی نیلم نے فرمایا تم دونوں نے ہی اس کو مارا ہے.اس کا سامانِ غنیمت مُعاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا اور ان دونوں کا نام مُعاذ تھا.مُعاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموح.یہ بخاری کی روایت ہے.ابو جہل کو قتل کرنے والے 377 ابو جہل کے قتل کے سلسلہ میں یہ وضاحت پہلے بھی ہو چکی ہے.دوبارہ بیان کر دیتا ہوں کہ بعض روایات میں ہے کہ عفراء کے دو بیٹوں معوذ اور مُعاذ نے ابو جہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا اور بعد میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا.امام ابنِ حجر نے اس احتمال کا اظہار کیا ہے کہ مُعاذ بن عمر و اور معاذ بن عَفْراء کے بعد مُعَوَّذ بن عَفْراء نے بھی اس پر وار کیا ہو گا.یہ بھی شرح بخاری فتح الباری میں لکھا ہے.7 جنگ بدر اور عبد الرحمن بن عوف.......اس واقعے کو حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ابو جہل جو مکہ کے تمام گھرانوں کا سردار اور کفار کی فوج کا کمانڈر تھا جب بدر کی جنگ کے موقعے پر وہ فوج کی ترتیب کر رہا تھا حضرت عبد الرحمن بن عوف جیسا تجربہ کار جرنیل کہتا ہے کہ میں نے اپنے دائیں بائیں دو انصاری لڑکوں کو دیکھا جو پندرہ پندرہ سال کی عمر کے تھے.میں نے ان کو دیکھ کر کہا آج دل کی حسرتیں نکالنے کا موقع نہیں.بد قسمتی سے میرے ارد گرد نا تجربہ کار بچے اور وہ بھی انصاری بچے کھڑے ہیں جن کو جنگ سے کوئی مناسبت ہی نہیں.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں اسی ادھیٹر بن میں تھا کہ دائیں طرف سے میرے پہلو میں کہنی لگی.میں نے سمجھا کہ دائیں طرف کا بچہ کچھ کہنا چاہتا ہے اور میں نے اس کی طرف اپنا منہ موڑا.اس نے کہا چچا ذرا جھک کر بات سنو.میں آپ کے کان میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں تا کہ میر اسا تھی اس بات کو سن نہ لے.وہ کہتے ہیں جب میں نے اپنا کان اس کی طرف جھکایا تو اس نے کہا چا وہ ابو جہل کون سا ہے جو رسول کریم صلی علیکم کو اس قدر دکھ دیا کرتا تھا.چا میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس کو ماروں.وہ کہتے ہیں کہ ابھی اس کی یہ بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ میرے بائیں پہلو نہیں کہنی لگی اور میں اپنے بائیں طرف کے بچہ کی طرف جھک گیا اور اس بائیں طرف والے بچہ نے بھی یہی کہا کہ چاوہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم صلی علیکم کو اتنا دکھ دیا کرتا تھا؟ میرا دل چاہتا ہے کہ میں آج اس کو ماروں.حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں باوجود تجربہ کار سپاہی ہونے کے میرے دل میں یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ ابو جہل جو فوج کا کمانڈر تھا، جو تجربہ کار سپاہیوں کے حلقہ میں کھڑا تھا اس کو میں مار سکتا ہوں.میں نے انگلی اٹھائی اور ایک ہی وقت میں ان دونوں لڑکوں کو بتایا کہ وہ سامنے جو شخص خود

Page 189

اصحاب بدر جلد 5 173 پہنے زرہ میں چھپا ہوا کھڑا ہے جس کے سامنے مضبوط اور بہادر جرنیل جنگی تلوار میں اپنے ہاتھوں میں لیے کھڑے ہیں وہ ابو جہل ہے.میرا مطلب یہ تھا کہ میں ان کو بتاؤں کہ تمہارے جیسے ناتجربہ کار بچوں کے اختیار سے یہ بات باہر ہے مگر وہ، (عبد الرحمن کہتے ہیں کہ ) میری وہ انگلی جو اشارہ کر رہی تھی ابھی نیچے نہیں جھکی تھی کہ جیسے باز چڑیا پر حملہ کرتا ہے اسی طرح وہ دونوں انصاری بچے کفار کی صفوں کو چیرتے ہوئے ابو جہل کی طرف دوڑنا شروع ہوئے.ابو جہل کے آگے عکرمہ اس کا بیٹا کھڑا تھا جو بڑا بہادر اور تجربہ کار جرنیل تھا مگر یہ انصاری بچے اس تیزی سے گئے کہ کسی کو وہم و گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ کس مقصد کے لیے یہ آگے بڑھے ہیں اور دیکھتے دیکھتے ابو جہل پر حملہ کرنے کے لیے کفار کی صفوں کو چیرتے ہوئے عین پہرہ داروں تک جا پہنچے.ننگی تلوار میں اپنے ہاتھ میں لیے جو پہرے دار کھڑے تھے وہ وقت پر اپنی تلواریں بھی نیچے نہ لا سکے.صرف ایک پہرے دار کی تلوار نیچے جھک سکی اور ایک انصاری لڑکے کا بازو کٹ گیا مگر جن کو جان دینا آسان معلوم ہو تا تھا ان کے لیے بازو کا کٹنا کیا روک بن سکتا تھا.جس طرح پہاڑ پر سے پتھر گرتا ہے اسی طرح وہ دونوں لڑکے پہرہ داروں پر دباؤ ڈالتے ہوئے ابو جہل پر جا گرے اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی کفار کے کمانڈر کو جاگر ایا.ابو جہل کے آخری سانس اور ایک اور ناکام حسرت حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں جنگ کے آخری وقت میں وہاں پہنچا جہاں ابو جہل جان کندنی کی حالت میں پڑا ہوا تھا.میں نے کہا سناؤ کیا حال ہے ؟ اس نے کہا مر رہا ہوں.پر حسرت سے مر رہا ہوں کیونکہ مرنا تو کوئی بڑی بات نہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ دل کی حسرت نکالنے سے پہلے انصار کے دو چھوکروں نے مجھے مار گرایا.مکہ کے لوگ انصار کو بہت حقیر سمجھا کرتے تھے.اس لیے اس نے افسوس کے ساتھ اس کا ذکر کیا اور کہا یہی حسرت ہے جو اپنے دل میں لیے مر رہا ہوں کہ انصار کے دو چھو کروں نے مجھے مار ڈالا.پھر وہ ان سے کہنے لگا میں اس قدر شدید تکلیف میں ہوں.عبد اللہ بن مسعود کو ابو جہل نے کہا کہ میں بڑی شدید تکلیف میں ہوں.کیا تم مجھ پر، میرے پر ایک احسان کرو گے.اگر تلوار کے ایک وار سے میرا خاتمہ کر دو مگر دیکھنا میری گردن ذرا لمبی کاٹنا کہ جرنیل کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کی گردن لمبی کائی جاتی ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کی یہ بات تو مان لی کہ مجھے قتل کر دو اور اس دکھ سے بچالو مگر انہوں نے ٹھوڑی کے پاس سے اس کی گردن کو کاٹا.گویا مرتے وقت اس کی یہ حسرت بھی پوری نہ ہوئی کہ اس کی گردن لمبی کائی جائے.378 حضرت مصلح موعودؓ نے قربانیوں کے ضمن میں یہ ذکر، یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ کس طرح بچوں میں بھی آنحضرت صلی للی کام سے عشق اور محبت تھی اور کس طرح آپ کے دشمن سے وہ بدلہ لینا چاہتے تھے.یہ واقعہ پہلے بھی ایک دو دفعہ بیان ہو چکا ہے 379 لیکن بہر حال یہ قربانیاں تھیں، یہ محبت تھی اور ان سب کا آنحضرت صلی علیہ ہم سے یہ عشق تھا جس کی وجہ سے ان کو اپنی جانوں کی پروا نہیں تھی.380

Page 190

اصحاب بدر جلد 5 جنگ بدر میں امیہ بن خلف کا قتل 174 حضرت عبد الرحمن بن عوف کے اُمیہ بن خلف کے ساتھ پرانے دوستانہ تعلقات تھے.اس کی بابت ایک تفصیلی واقعہ صحیح بخاری میں بیان ہوا ہے جس میں حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں نے امیہ بن خلف کو خط لکھا کہ وہ مکے میں میرے مال اور جائیداد کی حفاظت کرے اور میں اس کے مال و اسباب کی مدینہ میں حفاظت کروں گا.جب میں نے اپنا نام عبد الرحمن لکھا تو امیہ نے کہا کہ میں عبد الرحمن کو نہیں جانتا.تم مجھے اپنا وہ نام بتاؤ، وہ نام لکھو جو جاہلیت میں تھا.کہتے ہیں کہ اس پر میں نے اپنا نام عبد عمر و لکھا.جب وہ بدر کی جنگ میں تھا تو میں ایک پہاڑی کی طرف نکل گیا جبکہ لوگ سوچکے تھے تا میں اس کی حفاظت کروں تو بلال نے اسے کہیں دیکھ لیا چنانچہ حضرت بلال گئے اور انصار کی ایک مجلس میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ امیہ بن خلف ہے.اگر یہ بیچ نکلا تو میری خیر نہیں.اس پر حضرت بلال کے کچھ لوگ ہمارے یعنی حضرت عبد الرحمن بن عوف اور امیہ بن خلف کے تعاقب میں نکلے کیونکہ یہ اس کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پناہ میں لینے کے لیے نکلے تھے.کہتے ہیں کہ میں ڈرا کہ وہ ہمیں پالیں گے.ہمیں پکڑ لیں گے اس لیے میں نے اس کے بیٹے کو اس کی خاطر پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ اس کے ساتھ لڑائی میں مشغول ہو جائیں یعنی بیٹے کے ساتھ وہ مسلمان لوگ جو پیچھے آرہے تھے لڑائی میں مشغول ہو جائیں اور ہم ذرا آگے نکل جائیں.میں ان کو محفوظ جگہ پر لے جاؤں.چنانچہ انہوں نے اس کو مار ڈالا.اس کے بیٹے کو ان لوگوں نے مار ڈالا.پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے میرا داؤ کار گر نہ ہونے دیا اور ہمارا پیچھا کیا.امیہ چونکہ بھاری بھر کم آدمی تھا اس لیے جلدی ادھر ادھر نہ ہو سکا.آخر جب انہوں نے ہمیں پالیا تو میں نے اسے کہا بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا.میں نے اپنے آپ کو اس پر ڈال دیا کہ اسے بچاؤں تو انہوں نے میرے نیچے سے اس کے بدن میں تلوار میں گھونپیں یہاں تک کہ اسے مار ڈالا.ان میں سے ایک کی تلوار سے میرے پاؤں پر بھی زخم آگیا.تاریخ طبری میں اس کی مزید تفصیل یوں بیان ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ سکتے میں امیہ بن خلف میرا دوست تھا.اس وقت میرا نام عبد عمر و تھا.مکہ ہی میں جب میں اسلام لایا تو میر انام عبد الرحمن رکھا گیا.اس کے بعد وہیں جب بھی وہ مجھ سے ملتا تو کہتا اے عبد عمرو! کیا تم اپنے باپ کے رکھے ہوئے نام سے اعراض کرتے ہو ؟ میں کہتا ہاں.اس پر وہ کہتا مگر میں رحمن کو نہیں جانتا.مناسب یہ ہے کہ کوئی اور نام تجویز کرو اس سے میں تمہیں مخاطب کروں گا کیونکہ اپنے سابق نام پر تم مجھے جواب نہیں دیتے اور جس بات سے میں ناواقف ہوں اس کے نام کے ساتھ میں تمہیں نہیں پکاروں گا.حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ جب وہ مجھے اے عبد عمرو! کہ کر پکار تا تو میں اسے جواب نہیں دیتا تھا.میں نے کہا کہ اے ابو علی! اس کے متعلق تم جو چاہو مقرر کر دو.یہ جو ہے یہ پر انا نام ہے تو میں اس کا جواب نہیں دوں گا.اس نے کہا اچھا تمہارا نام عبدالہ بہتر ہو گا.میں نے کہا اچھا.چنانچہ اس کے بعد جب میں اور وہ ملتے تو وہ مجھے عبد اللہ کے نام سے پکار تا.میں اسے جواب دیتا 381

Page 191

اصحاب بدر جلد 5 175 اور اس سے باتیں کرتا یہاں تک کہ بدر کا دن آگیا.میں امیہ کے پاس سے گزرا.وہ اپنے بیٹے علی بن امیہ کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا.میرے پاس کئی زرہیں تھیں جنہیں میں نے حاصل کیا تھا.میں ان کو لیے جا رہا تھا.اس نے مجھے دیکھ کر آواز دی کہ اے عبد عمر و ! میں نے کوئی جواب نہیں دیا.تب اس نے کہا اے عبد الہ ! میں نے کہا ہاں کیا کہتے ہو.اس نے کہا کیا میں تمہارے لیے ان زرہوں سے جن کو تم لیے جا رہے ہو زیادہ بہتر نہیں ہوں ؟ میں نے کہا اگر ایسا ہی ہے تو آجاؤ.میں نے زر ہیں وہاں پھینک دیں یعنی اسے پناہ دینے کے لیے اور اس کا اور اس کے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا آج کے جیسا دن میرے دیکھنے میں نہیں آیا.جیسا کہ آج دن گزرا ہے میں نے کبھی نہیں دیکھا.بہر حال وہ کہتے ہیں کہ میں ان دونوں کو ساتھ لے کر چل دیا.میں باپ بیٹے کے بیچ میں ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے چلا جار ہا تھا.امیہ نے مجھ سے پوچھا کہ اے عبدالہ اتم میں وہ کون ہے جس کے سینے پر شتر مرغ کا پر بطور نشان آویزاں تھا.میں نے کہا وہ حمزہ بن عبد المطلب ہے.اس نے کہا ہماری یہ حالت اسی کی بدولت ہے.یہ جو ہمارا بر احال ہوا ہے اس کی بدولت ہے.بہر حال کہتے ہیں میں ان کو لیے چلا جار ہا تھا کہ بلال نے اسے میرے ہمراہ دیکھ لیا.یہ امیہ مکے میں حضرت بلال کو اذیتیں دیتا تھا تا کہ وہ اسلام ترک کر دیں.وہ ان کو مکے کی صاف چٹان پر جب وہ دھوپ سے خوب تپ جاتی لے جاتا اور اس پر ان کو پیٹھ کے بل لٹا دیتا.پھر ایک بڑے پتھر کے متعلق حکم دیتا جس پر وہ پتھر ان کے سینے پر رکھ دیا جاتا اور پھر کہتا کہ جب تک تو محمد کے دین کو ترک نہیں کرے گا تجھے سزا ملتی رہے گی مگر باوجود اس عذاب کے بلال یہی کہتے احد ، احد.یعنی وہ ایک ہے ، وہ ایک ہے.اس لیے اب جب اس کی نظر اس پر پڑی یعنی حضرت بلال کی امیہ پر جب نظر پڑی تو کہنے لگے کہ امیہ بن خلف کفر کا سرغنہ ہے.میں نجات نہ پاؤں اگر یہ بچ جائے.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا اے بلال ! یہ دونوں میرے قیدی ہیں.بلال نے پھر کہا میں نجات نہ پاؤں اگر یہ بچ جائے.حضرت عبد الرحمن نے حضرت بلال سے کہا اے ابن سوداء ! تم سنتے ہو.بلال نے پھر کہا میں نجات نہ پاؤں اگر یہ بچ جائے.پھر حضرت بلال نے نہایت زور سے چلا کر کہا اے اللہ کے انصار ! یہ کفار کا سرغنہ امیہ بن خلف ہے.میں ہلاک ہو جاؤں اگر یہ بچ جائے.ان کی اس آواز پر لوگوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیر لیا اور قید سا کر لیا.میں اسے بچانے لگا.ایک شخص نے اس کے بیٹے پر تلوار ماری اور وہ گر پڑا.اس وقت امیہ نے اس زور سے چیخ ماری کہ میں نے اس جیسی کبھی نہیں سنی.میں نے کہا بھاگ جاؤ مگر بھاگ نہیں سکتے.اللہ کی قسم ! میں تیرے کسی کام نہیں آسکتا.اتنے میں حملہ آوروں نے ان دونوں پر اپنی تلواروں سے حملہ کیا یہاں تک کہ ان دونوں کا کام تمام کر دیا.حضرت عبدالرحمن بن عوف کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ بلال پر رحم کرے.میری زرہیں بھی گئیں اور قیدی کو انہوں نے زبر دستی مجھ سے چھین لیا.382 غزوہ احد میں ثابت قدمی دکھانے والے حضرت عبد الرحمن بن عوف جنگ اُحد میں بھی شامل ہوئے.غزوہ احد کے دن جب لوگوں کے

Page 192

اصحاب بدر جلد 5 176 383 پاؤں اکھڑ گئے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رسول اللہ صلی الیکم کے ساتھ ثابت قدم رہے.غزوۂ احد کے دن حضرت عبد الرحمن بن عوف کو اکیس زخم آئے اور پاؤں میں ایساز خم آیا کہ آپ لنگڑا کر چلتے تھے اور سامنے کے دو دانت بھی شہید ہوئے.384 سَرِيَّهِ دُوْمَةُ الْجَندل حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ شعبان چھ ہجری میں رسول اللہ صلی نیلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کی قیادت میں سات سو آدمیوں کو دُومۃ الجندل کی طرف بھیجا.اپنے دست مبارک سے حضور ملی ایم نے سیاہ رنگ کا عمامہ ان کے سر پر باندھا جس کا شملہ ان کے کندھوں کے درمیان رکھا.پھر آپ نے فرمایا ابو محمد امجھے دومۃ الجندل کی طرف سے تشویش ناک خبریں آرہی ہیں.وہاں مدینے پر حملہ کرنے کے لیے لشکر جمع ہو رہا ہے.تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے ادھر روانہ ہو جاؤ.سات سو مجاہد تمہارے ساتھ جائیں گے.دُوْمَةُ الجندل پہنچ کر وہاں کے سردار اور اس کے قبیلہ کلب کو پہلے اسلام کی دعوت دینا لیکن اگر لڑائی کی نوبت آئے تو دیکھنا کسی کو دھوکا نہ دینا.خیانت اور بد عہدی نہ کرنا.بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا اور خدا کے باغیوں سے دنیا کو پاک کر دینا.ان احتیاطوں کے ساتھ پھر جنگ کی اجازت ہے.چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے دُومہ پہنچ کر ان کو تین دن تک اسلام کی دعوت دی.وہ تین دن تک انکار کرتے رہے.پھر أَصْبَغُ بن عَمرُو كَلِّہی جو عیسائی تھا اور ان کا سردار تھا اس نے اسلام قبول کیا.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے رسول اللہ صلی ای کمر کو سارا حال لکھا.آپ نے فرمایا کہ اس سردار کی بیٹی تماضر سے شادی کر لو.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اس سے شادی کی اور اس کے ہمراہ مدینہ واپس آئے.تماضر بعد میں اُمّ أَبُو سَلَمَہ کہلائیں.حضرت عمر کا جنگ کے لئے نکلنا اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کا یہ کہہ کر روکنے کی التجا کہ اگر 385 آپ قتل ہو گئے تو مجھے اندیشہ ہے کہ پھر مسلمان کبھی تکبیر نہیں پڑھ سکیں گے عمر بن عبد العزیز بیان کرتے ہیں کہ چودہ ہجری میں جنگ جشر کے موقعے پر حضرت عمررؓ کو جب حضرت ابو عبید بن مسعودؓ کی شہادت کی اطلاع ملی.یہ جو جنگ جسر ہے پہلے بھی یہ بیان ہو چکا ہے.فارسیوں کے ایک ہاتھی نے ان کو کچل دیا تھا.بہر حال جب اطلاع ملی اور معلوم ہوا کہ اہل فارس نے آلِ کسری میں سے ایک شخص کو تلاش کر کے اپنا بادشاہ بنایا ہے تو آپ نے مہاجرین اور انصار کو دعوتِ جہاد دی اور مدینہ سے روانہ ہو کر حیراز مقام پر قیام کیا.صرار مدینہ کے ایک پہاڑ کا نام ہے.یہ مدینے سے تین میل کے فاصلے پر عراق کے راستے پر واقع ایک جگہ ہے.بہر حال وہاں آپ نے قیام کیا اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ کو آگے روانہ کیا تا کہ وہ آغوض پہنچ جائیں.آپ نے میمنہ یعنی فوج کا جو دایاں

Page 193

اصحاب بدر جلد 5 177 بازو تھا اس پر حضرت عبد الرحمن بن عوف کو اور میسرہ جو فوج کا بایاں بازو تھا اس پر زبیر بن عوام کو مقرر فرمایا اور حضرت علی کو مدینہ میں اپنا قائمقام مقرر کر آئے تھے.حضرت عمرؓ نے لوگوں سے مشورہ.سب نے آپ کو فارس جانے کا مشورہ دیا.یہ قافلہ جب روانہ ہوا تھا تو صر ار آنے تک حضرت عمررؓ نے کسی سے مشورہ نہیں کیا تھا.یہاں پہنچ کر آپ نے مشورہ کیا.حضرت طلحہ واپس آئے تو وہ بھی ان لوگوں کے ہم خیال تھے.پہلے حضرت طلحہ وہاں نہیں تھے.جب واپس آئے تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے آگے جانا چاہیے.مگر حضرت عبد الرحمن ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ کو جانے سے روکا اور روکنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ آج سے پہلے میں نے نبی کریم صلی الی یوم کے سوا کسی پر اپنے ماں باپ کو قربان نہیں کیا اور نہ اس کے بعد کبھی ایسا کروں گا مگر آج کہتا ہوں کہ اے وہ کہ جس پر میرے ماں باپ فدا ہوں اس معاملے کا آخری فیصلہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں.حضرت عمر جو اس وقت خلیفہ تھے آپ نے ان کو یہ جواب دیا.آپ وہاں یعنی مزار کے مقام پر رک جائیں اور ایک بڑے لشکر کو روانہ فرما دیں.شروع سے لے کر اب تک آپ دیکھ چکے ہیں کہ آپ کے لشکروں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا فیصلہ رہا ہے.اگر آپ کی فوج نے شکست کھائی تو وہ آپ کی شکست کی مانند نہ ہو گی.انہوں نے کہا، جواز پیش کیا کہ اگر ابتدا میں آپ قتل ہو گئے یا شکست کھا گئے تو مجھے اندیشہ ہے کہ پھر مسلمان کبھی تکبیر نہیں پڑھ سکیں گے اور نہ ہی لا الہ الا اللہ کی شہادت دے سکیں گے.اس وقت جب یہ ساری باتیں ہو رہی تھیں تو حضرت عمرہ کسی شخص کی تلاش میں تھے جس کو فوج کا کمانڈر بنا کر بھیجا جائے.اسی دوران ان کی خدمت میں، حضرت عمر کی خدمت میں حضرت سعد کا خط آیا.حضرت سعد اس وقت نجد کے صدقات پر مامور تھے.حضرت عمرؓ نے عبد الرحمن بن عوف کی باتیں سن کے فرمایا اچھا پھر مجھے کوئی آدمی بتلاؤ کس کو بنایا جائے ؟ کس کے سپرد کیا جائے ؟ حضرت عبد الرحمن نے کہا کہ آدمی تو آپ کو مل گیا.حضرت عمرؓ نے پوچھا وہ کون ہے ؟ حضرت عبد الرحمن نے کہا کچھار کا شیر سعد بن مالک یعنی یہ بہت بہادر انسان ہے.بڑا اچھا کمانڈر ہے.اس کو کمانڈر بنا کے بھیجیں.باقی لوگوں نے بھی اس مشورے کی تائید کی.یہ بھی تاریخ طبری کا حوالہ ہے.آنحضرت صلی یکی از مین اور جاگیر عطا فرمانا 386 آنحضرت صلی علیم نے مدینے میں مختلف قبیلوں اور صحابہ کو رہائش کے لیے جگہ عطا کی.حضرت عبد الرحمن بن عوف کے قبیلے کو مسجد نبوی کے عقب میں کھجوروں کے ایک جھنڈ میں رہائش کے لیے زمین عطا کی.پھر حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت عمر کو بطور جاگیر بھی زمین عطا فرمائی.آلِ عمر سے یہ جاگیر پھر حضرت زبیر نے خرید لی.حضرت عمر کی اولاد سے پھر یہ جاگیر حضرت زبیر نے خرید لی.حضور صلی یم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے وعدہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب مسلمانوں کے ہاتھ پر رض

Page 194

اصحاب بدر جلد 5 178 شام فتح کرے گا تو تمہارے لیے فلاں حصہ زمین ہو گا.چنانچہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب ملک شام میں اسلام کو فتوحات ملیں تو حضرت عبد الرحمن بن عوف کو ان کی زمین دی گئی.اس علاقے کا نام سلیل تھا جہاں انہیں زمین دینے کا وعدہ دیا گیا تھا.7 ایک بہت بڑا اعزاز اور سعادت 387 الله حضرت عبد الرحمن بن عوف کو یہ سعادت بھی ملی کہ آنحضرت علی ایم نے ان کے پیچھے نماز پڑھی.چنانچہ حضرت مغیرہ نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی تعلیم کے ساتھ غزوہ تبوک میں شریک ہوئے.حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال یا قضائے حاجت کے لیے فجر کی نماز سے پہلے تشریف لے گئے.میں نے آپ کے ساتھ پانی کا مشکیزہ اٹھایا.جب رسول اللہ صلی علیکم میری طرف واپس آئے جہاں میں فاصلے پر کھڑا تھا تو میں مشکیزے سے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنے لگا اور آپ نے دونوں ہاتھ تین مرتبہ دھوئے.پھر آپ نے اپنا چہرہ مبارک دھویا.پھر آپ اپنے بازوؤں کو اپنے جسے سے باہر نکالنے لگے لیکن جبہ کی آستینیں تنگ تھیں اس لیے اپنے ہاتھ جبے کے اندر داخل کیے اور اپنے بازوؤں کو جے کے نیچے سے نکال کر کہنیوں تک دھوئے.پھر آپ نے اپنے موزوں پر مسح کر کے ان کو صاف کیا.پھر آگے چل پڑے.مغیرہ کہتے ہیں میں بھی آپ کے ساتھ آگے چلا یہاں تک کہ ہم نے لوگوں کو پایا کہ وہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کو آگے کر چکے تھے اور وہ ان کو نماز پڑھا رہے تھے.تو رسول اللہ صلی علیکم نے دو میں سے ایک رکعت پائی یعنی اس وقت تک فجر کی نماز کی ایک رکعت ہو چکی تھی.دوسری رکعت تھی صف میں کھڑے ہو گئے اور آپ نے دوسری رکعت لوگوں کے ساتھ پڑھی.جب عبد الرحمن بن عوف نے سلام پھیرا اور رسول اللہ صلی علی یکم اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوئے.دوسری رکعت جو رہ گئی تھی پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو اس بات نے مسلمانوں میں گھبراہٹ پید ا کر دی اور بکثرت تسبیح کرنے لگے.جب نبی صلی علیم نے اپنی نماز ختم کر لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم نے ٹھیک کیا یا یہ کہا کہ اچھا کیا.آپ صلی علیہم نے نماز اپنے وقت پر ادا کرنے کی وجہ سے ان پر رشک کا اظہار کیا کہ بہت اچھا کیا.حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ جب ہم پہنچے تھے تو اس وقت میں نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت عبد الرحمن کو پیچھے کر دوں مگر نبی کریم صلی الی ایم نے فرما یار ہنے دو.ان کو نماز پڑھانے دو.نماز کے بعد حضور صلی الم نے فرمایا کہ ہر نبی اپنی زندگی میں امت کے کسی نیک آدمی کے پیچھے نماز ضرور پڑھتا ہے.388 ایک اور بڑا اعزاز آنحضرت صلی ا ہم نے آپ کو بخشا.نہ صرف یہ کہا کہ بڑا اچھا ہے، نماز پڑھائی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ نبی کا، میر ا تمہارے پیچھے نماز پڑھنا اس بات کی بھی تصدیق ہے کہ تم نیک آدمی ہو.ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ظہر سے پہلے لمبی نماز پڑھا کرتے تھے یعنی نفل پڑھا کرتے تھے.جب اذان سنتے تو فوراًنماز کے لیے تشریف لے آتے.89

Page 195

اصحاب بدر جلد 5 179 ایک راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا عبد الرحمن خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور یہ دعا کر رہے ہیں کہ اللہ ! مجھے نفس کے بخل سے بچائیو.390 امیر الحجاج مقرر ہونا حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے کہ جس سال حضرت عمر خلیفہ منتخب ہوئے اس سال آپ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کو امیر حج مقرر کیا تھا.391 ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے روایت ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رسول اللہ صلی علیکم کے پاس جوؤں کی کثرت کی شکایت لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! کیا آپ مجھے اجازت فرمائیں گے کہ میں ریشمی لباس پہن لوں.اس وقت کسی وجہ سے جو میں پیدا ہو گئیں.سر میں شاید پیدا ہو گئی ہوں گی.عام جو سادہ کاٹن کا لباس ہے اس میں ختم نہیں ہو رہی تھیں تو اس وقت آپ نے اجازت لی کہ ریشمی لباس پہن لوں.اس سے ذرا بچت ہو جاتی ہے.آنحضرت صلی اللہ ہم نے ان کو اجازت عطا فرما دی کہ ٹھیک ہے پہن لیا کرو.جب آنحضرت صلی یم اور حضرت ابو بکر وفات پاگئے اور حضرت عمر خلافت پر متمکن ہوئے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف اپنے بیٹے ابو سلمہ کے ساتھ حضرت عمر کے پاس حاضر ہوئے.ابو سلمہ نے ریشمی قمیض پہن رکھی تھی.حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ کیا پہن رکھا ہے؟ پھر انہوں نے یعنی حضرت عمرؓ نے ابو سلمہ کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر قمیض پھاڑ دی.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عمرؓ سے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے مجھے اجازت عنایت فرمائی تھی.تو حضرت عمر نے فرمایا آنحضرت صلی ا ہم نے آپ کو اس لیے اجازت عطا فرمائی تھی کہ آپ نے ان کے حضور جوؤں کی شکایت کی تھی.یہ اجازت آپ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے.392 سعد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ایک چادر پہنا کرتے تھے یا کسی وقت ایک چادر پہنی ہوئی تھی جس کی قیمت چار یا پانچ سو درہم تھی.393 یعنی ایسے حالات تھے کہ انتہائی قیمتی لباس بھی پہنتے تھے.یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل دیکھیں کہ جب ہجرت کی تو کچھ بھی پاس نہیں تھا لیکن اس کے بعد قیمتی ترین لباس بھی پہنا اور بے شمار جائیداد بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پیدا کر دی.حضرت ابو بکر ضیا عبد الرحمن بن عوف سے مشورہ کرنا حضرت ابو بکر نے اپنے مرض الموت کے وقت حضرت عمر کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیا تھا.جب آپ نے اس کا ارادہ کیا تھا اس وقت حضرت عبد الرحمن بن عوف کو بلایا اور ان سے کہا کہ بتاؤ عمرؓ کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا اے خلیفہ کر سول !وہ آوروں کی بنسبت آپ کی رائے سے بھی افضل ہیں مگر ان کے مزاج میں ذراشرت ہے.حضرت ابو بکڑ نے کہا کہ یہ شدت

Page 196

اصحاب بدر جلد 5 180 اس وجہ سے تھی کہ وہ مجھ کو نرم دیکھتے تھے.میں بہت نرم تھا اس لیے وہ ذرا شرت دکھاتے تھے تاکہ معاملہ balanced رہے.پھر حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ جب معاملہ ان کے سپر د ہو گا تو اس قسم کی اکثر باتیں وہ چھوڑ دیں گے.پھر اس میں شدت نہیں دیکھو گے.پھر فرمایا اے ابو محمد ! میں نے ان کو بغور دیکھا ہے کہ جس وقت کسی شخص پر کسی معاملے میں میں غضبناک ہو تا تھا یعنی حضرت ابو بکر فرما رہے ہیں جب مجھے کسی بات پر غصہ آتا تھا تو عمر مجھ کو اس پر راضی ہونے کا مشورہ دیتے تھے.اس وقت حضرت عمرکا مشورہ نرمی کا ہو تا تھا.اور جب کبھی میں کسی پر نرم ہو تا تھاتو مجھے کو اس پر سختی کرنے کا مشورہ دیتے تھے.پھر حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ اے ابو محمد ایہ باتیں جو میں نے تم سے کہی ہیں تم ان کا کسی اور سے ذکر نہ کرنا.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا اچھا.394 ان ابتدائی صحابہ کی قربانیاں بہت زیادہ تھیں ان کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا فتح مکہ کے بعد جب حضور صلی المینیوم نے مختلف اطراف میں کچھ وفود بھیجے تو حضرت خالد بن ولید کو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا.بنو جذیمہ نے جاہلیت میں حضرت عبد الرحمن بن عوف کے والد عوف اور حضرت خالد کے چچا فا کہ بن مغیرہ کا قتل کیا تھا.حضرت خالد سے وہاں غلطی سے اس قبیلے کے ایک می کا قتل ہو گیا.حضور صلی علیکم کو اس امر کا علم ہوا تو آپ نے نا پسند کیا.آپ نے اس کی دیت بھی ادا کی اور جو کچھ حضرت خالد نے ان سے لیا تھا اس کی قیمت ادا کر دی.عبد الرحمن بن عوف کو حضرت خالد کے اس فعل کا علم ہوا تو حضرت عبد الرحمن نے حضرت خالد کو کہا کہ تم نے اس کو اس لیے قتل کیا کہ انہوں نے تمہارے چچا کو قتل کیا تھا؟ حضرت خالد نے جواب میں سختی سے کہا کہ انہوں نے تمہارے باپ کو بھی قتل کیا تھا.حضرت خالد نے مزید کہا تم جو ہم سے پہلے ایمان لے آئے تو تم ان دنوں کو بہت لمبا کرنا چاہتے ہو یعنی ان سے تم بڑا فائدہ اٹھانا چاہتے ہو.یعنی کہ تم ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے ہو اس لیے بڑا اعزاز سمجھتے ہو.اس وجہ سے مجھے یہ بات کہہ رہے ہو.یہ بات نبی اکرم صلی للی کم کو پہنچی کیونکہ حضرت خالد نے ذراغصے اور ناراضگی کا اظہار کیا تھا.آنحضرت صلی علی کیم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا میرے اصحاب کو چھوڑ دو.قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے تو ان کے معمولی خرچ کو بھی نہیں پہنچ سکتا.ان لوگوں کا یہ بہت بڑا مقام ہے.ان ابتدائی صحابہ کی قربانیاں بہت زیادہ تھیں ان کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا.آنحضرت صلی اللہ ہم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کے متعلق فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے سرداروں کے سردار ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ عبد الرحمن آسمان میں بھی امین ہے اور زمین میں بھی امین ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف ایک دفعہ اتنے سخت بیمار ہوئے کہ غشی طاری ہو گئی.ان کی اہلیہ کے منہ سے چیخ نکل گئی یعنی کافی بُری حالت ہو گئی تو اس غم کی حالت میں ان کی چیخ نکلی.بہر حال جب ان کو اس کے بعد صحت میں بہتری بھی آگئی.طبیعت میں جب ان کو افاقہ ہوا تو کہنے لگے کہ مجھے جب غشی 396 395

Page 197

اصحاب بدر جلد 5 181 طاری ہوئی تھی تو میرے پاس دو شخص آئے.اس وقت جو نظارہ میں نے دیکھا کہ اس حالت میں دو آئے اور انہوں نے کہا چلو غالب امین ذات کے سامنے تمہارا فیصلہ کراتے ہیں.تو ان دونوں کو ایک شخص اور ملا، ایک تیسرا شخص ملا اور کہنے لگا اسے مت لے جاؤ کیونکہ یہ ماں کے پیٹ سے ہی سعادت مند ہے.یہ نظارہ حضرت عبد الرحمن نے اپنے بارے میں دیکھا.397 نعمتوں کے زمانہ میں صحابہ اور نبی صلی اللہ علم کی یاد میں آنکھیں اشکبار ہو جانا الله 398 الله سة نوفل بن ایاس هالی کہتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ہماری مجلس میں بیٹھا کرتے تھے.وہ بہترین ساتھی تھے.ایک دن وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے.غسل کر کے باہر آئے اور ہمارے پاس ایک بر تن لائے جس میں روٹی اور گوشت تھا.پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ رونے لگے.ہم نے پوچھا ابو محمد ! آپ کیوں رور ہے ہیں.کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی علی یکم اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ صلی علی کم اور آپ کے اہل خانہ جو کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے یعنی جو کی روٹی بھی پوری طرح نہیں ملتی تھی.پھر فرمایا کہ میں نہیں سمجھتا کہ جس چیز کے لیے ہمیں تاخیر ملی وہ ہمارے لیے بہتر ہو.18 یعنی ہمیں جو اتنا عرصہ زندہ رہنے کا موقع ملا ہے یہ ہمارے لیے بہتر ہے یا کوئی ابتلا یا امتحان ہے.یہ تھے صحابہ کے جذبات.ایک تو اللہ تعالیٰ کا خوف اور آنحضرت صلی یکم اور آپ کے گھر والوں کے لیے جذبات کا اظہار.انہی جذبات کا صرف آنحضرت صلی علی کم اور آپ کے خاندان سے تعلق نہیں تھا بلکہ صحابہ کے لیے بھی اس مثالی محبت کا یہ اظہار ہوتا تھا جو آپس میں صحابہ کو ایک دوسرے سے تھی.اسی ضمن میں ایک واقعہ آتا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کے پاس ایک روز افطاری کے وقت کھانا لایا گیا.انواع و اقسام کے کھانے جب دستر خوان کی زینت بنے تو حضرت عبد الرحمن نے ایک لقمہ اٹھایا.مختلف قسم کے کھانے آئے اور ایک لقمہ اس میں سے آپ نے کھانے کے لیے اٹھایا.جب لقمہ منہ میں ڈالا تو رقت طاری ہو گئی اور یہ کہہ کر کھانے سے ہاتھ اٹھا لیے کہ مصعب بن عمیر احد میں شہید ہوئے.وہ ہم سے بہتر تھے.ان کی چادر کا ہی کفن پہنایا گیا.یعنی کفن کے لیے کپڑا نہیں تھا تو جو چادر انہوں نے اوڑھی ہوئی تھی اسی کا کفن پہنایا گیا اور اس کفن کی کیا حالت تھی ؟ اگر پاؤں ڈھانکتے تو سر ننگا ہو جاتا تھا، سر ڈھانکتے تھے تو پاؤں ننگے ہو جاتے تھے.پھر حضرت عبدالرحمن کہنے لگے کہ حمزہ شہید ہوئے.وہ بھی مجھ سے بہتر تھے لیکن ہمیں مالی فراخی اور دنیاوی آسائش عطا کی گئی اور ہمیں اس سے حصہ وافر ملا.مجھے ڈر ہے کہ ہماری نیکیوں کا اجر ہمیں جلد اس دنیا میں مل گیا.اس کے بعد وہ رونے لگے اور کھانا چھوڑ دیا.یہ خوف تھا.یہ اللہ تعالیٰ کی خشیت تھی.399 اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت کا عالم اتم المومنین حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس حضرت عبد الرحمن بن عوف آئے اور کہا کہ اے میری ماں! مجھے اندیشہ ہے کہ مال کی کثرت مجھے ہلاک نہ کر دے کیونکہ میں قریش میں

Page 198

اصحاب بدر جلد 5 182 سب سے زیادہ مالدار ہوں.انہوں نے جواب دیا بیٹا خرچ کرو یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو تو کوئی ہلاکت کا سوال نہیں.کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی علیہم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہوں گے کہ میری ان سے جدائی کے بعد وہ دوبارہ مجھے کبھی نہیں دیکھ سکیں گے یعنی بعض لوگ ایسے ہوں گے کہ اس مقام پر نہیں پہنچ سکیں گے.حضرت عبد الرحمن بن عوف جب باہر نکلے تو راستے میں حضرت عمرؓ سے ملاقات ہو گئی.انہوں نے حضرت عمر کو یہ بات بتائی تو حضرت عمر خود حضرت ام سلمہ کے پاس آئے اور کہا کہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ مجھے بتائیے کہ کیا میں ان میں سے ہوں؟ یہ جو آپ نے بتایا تھا کہ آنحضرت صلی ا کرم نے فرمایا کہ مجھ سے نہیں ملیں گے.جو آنحضرت علی ایم کو دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گے میں ان میں سے ہوں ؟ حضرت ام سلمہ نے فرمایا نہیں حضرت عمر کو فرمایا کہ نہیں آپ ان میں سے نہیں ہیں لیکن آپ کے بعد میں کسی کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ ہم کو دیکھ سکیں گے یا نہیں.400 المرسال یعنی کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ آپ کو ضرور دیکھیں گے لیکن یہ بھی واضح ہو جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف تو ان لوگوں میں سے ہیں جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے جن کو جنت کی بشارت بھی آنحضرت صلی اللہ ہم نے دی تھی لیکن پھر بھی ان لوگوں میں خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت اتنی تھی کہ ہر وقت فکر میں رہتے تھے اور حضرت ام سلمہ کی یہ بات سن کے بھی آپ نے فوراً بہت زیادہ صدقہ و خیرات کی.طاعون عمواس اور حضرت عمر کی مشاورت ایک روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر شام کی طرف نکلے یہاں تک کہ وہ سرغ مقام پر پہنچے.سنی غ جو ہے وہ شام اور حجاز کے سرحدی علاقے میں واقع وادی تبوک کی ایک بستی کا نام ہے جو مدینے سے تیرہ راتوں کی مسافت پر ہے.یعنی اس وقت جو سواریوں کا انتظام تھا ان کے ساتھ تیرہ راتیں مسلسل چلتے رہیں تو اس کی اتنی مسافت تھی.وہاں پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے کمانڈر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی.یہ واقعہ اٹھارہ ہجری میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں شام کی فتوحات کے بعد کا ہے.ان لوگوں نے حضرت عمر کو بتایا کہ شام کے ملک میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے.حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے پاس مشورے کے لیے اولین مہاجرین کو بلاؤ.شروع کے جو مہاجرین ہیں ان کو بلاؤ.وہ کیا مشورہ دیتے ہیں.حضرت عمرؓ نے ان سے مشورہ کیا مگر مہاجرین میں اختلاف رائے ہو گئی.بعض کا کہنا تھا کہ اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے یعنی سفر جاری رکھنا چاہیے جبکہ بعض نے کہا کہ اس لشکر میں رسول اللہ صلی الم کے صحابہ کرام شامل ہیں اور ان کو اس وبا میں ڈالنا مناسب نہیں.بہتر یہ ہے کہ واپس چلا جائے.حضرت عمرؓ نے مہاجرین کو بھجوا دیا اور پھر انصار کو مشورے کے لیے بلایا.ان سے مشورہ لیا مگر

Page 199

اصحاب بدر جلد 5 183 انصار کی رائے میں بھی مہاجرین کی طرح اختلاف ہو گیا.کچھ نے کہا واپس چلے جائیں اور کچھ نے کہا آگے چلیں.حضرت عمرؓ نے انصار کو بھجوایا اور پھر فرمایا: قریش کے بوڑھے لوگوں کو بلاؤ.قریش کے اُن بوڑھے لوگوں کو بلاؤ جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے.ان کو بلایا گیا انہوں نے یک زبان ہو کر مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں.کوئی ضرورت نہیں.وہاں وبا پھوٹی ہوئی ہے وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور وبائی علاقے میں لوگوں کو نہ لے کر جائیں.حضرت عمرؓ نے ان کا مشورہ مان کے لوگوں میں واپسی کا اعلان کروا دیا.رض کیا اللہ کی تقدیر سے فرار ممکن ہے.....حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے اس موقعے پر سوال کیا کیا اللہ کی تقدیر سے فرار ممکن ہے ؟ آپ اس وبا کے ڈر سے واپس جارہے ہیں تو یہ تو اللہ کی تقدیر ہے، بیماری پھیلی ہوئی ہے کیا آپ اس سے فرار ہو سکتے ہیں.حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہ سے فرمایا کہ اے ابو عبیدہ ! کاش تمہارے علاوہ کسی اور نے یہ بات کہی ہوتی.ہاں ہم اللہ کی ایک تقدیر سے فرار ہوتے ہوئے اللہ ہی کی ایک دوسری تقدیر کی طرف جاتے ہیں.پھر حضرت عمرؓ نے آگے ان کو اس کی مثال دی کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کیا ہے.مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ان کو لے کر ایسی وادی میں اترو جس کے دو کنارے ہوں.ایک سرسبز ہو اور دوسرا خشک تو کیا ایسا نہیں کہ اگر تم اپنے اونٹوں کو سر سبز جگہ پر چراؤ تو وہ اللہ کی تقدیر سے ہے اور اگر تم ان کو خشک جگہ پر چر اؤ تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہے.اب اللہ کی تقدیر نے تمہارے اوپر دو آپشن دے دیے ہیں ایک سبز چراگاہ ہے ایک جہاں بالکل خشک جگہ ہے ، بنجر ہے، اکا دکا جھاڑیاں ہیں یا تھوڑا بہت گھاس ہے.اب تم کہہ دو کہ یہ سبزہ اپنی تقدیر سے اگا ہے اور یہ جو ہے وہ کسی اور تقدیر سے ہے.یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی تقدیریں ہیں.اب تم نے فیصلہ کرنا ہے.کون سی بہتر آپشن لینی ہے.ظاہر ہے تم سر سبز جگہ پر چراؤ گے.راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ان کو یہ باتیں کہیں.اس کے بعد کہتے ہیں کہ اتنے میں حضرت عبد الرحمن بن عوف بھی آگئے جو پہلے اپنی کسی بعد مصروفیت کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے تھے.انہوں نے عرض کی کہ میرے پاس اس مسئلے کا علم ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا آپ لوگوں سے مشورہ لے رہے ہیں میں بتاتا ہوں مجھے اس کا علم ہے.میں نے رسول اللہ صلی علیم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں کوئی وبا پھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر کوئی مرض کسی ایسی جگہ پر پھوٹ پڑے جہاں تم رہتے ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے باہر مت نکلو.جہاں وبا پھوٹ پڑی ہے وہاں جانا نہیں اور جس علاقے میں رہتے ہو وہاں وہا ہے تو پھر وہاں سے اس وقت باہر نہ نکلو اور اپنے آپ کو وہیں رکھو تا کہ وہ مرض اور وباجو ہے وہ باہر دوسرے لوگوں میں نہ پھیلے.آج کل لاک ڈاؤن میں دنیا اس پر جو عمل کر رہی ہے جنہوں نے وقت پر کیا وہاں کافی حد تک اس کو محدود کر لیا.بیماری کو contain کر لیا.جہاں نہیں کر سکے اور لا پروائی کی وہاں یہ پھیلتی جارہی ہے.

Page 200

اصحاب بدر جلد 5 184 بہر حال یہ بنیادی نکتہ آنحضرت صلی کام نے شروع میں اپنے صحابہ کو بتا دیا.اس پر حضرت عمرؓ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی اور واپس لوٹ گئے.11 خلافت کے لئے کمیٹی کا تقرر 401 حضرت مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب جب صحیح حالت میں تھے تو آپ سے درخواست کی جاتی کہ آپ کسی کو خلیفہ مقرر فرما دیں لیکن آپ انکار فرماتے.پھر ایک روز آپ منبر پر تشریف لائے اور چند باتیں کہیں اور فرمایا: اگر میں مر جاؤں تو تمہارا معاملہ ان چھ افراد کے ذمے ہو گا جنہوں نے رسول اللہ صلی علیکم کو اس حالت میں چھوڑا ہے جبکہ آپ ان سب سے راضی تھے.حضرت علی بن ابوطالب اور آپ کے نظیر حضرت زبیر بن العوام ، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور آپ کے نظیر حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور آپ کے نظیر حضرت سعد بن مالک.فرمایا خبر دار ! میں تم سب کو فیصلہ کرنے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور تقسیم میں انصاف اختیار کرنے کا حکم دیتا ہوں.ابو جعفر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے شوری کے اراکین سے کہا کہ اپنے معاملے میں آپس میں مشورہ کرو پھر اگر دو دو ہوں تو پھر دوبارہ مشورہ کرو اور اگر چار اور دو ہوں تو اکثریت کی تعداد کو اختیار کرو.زید بن اسلم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر تین اور تین کی رائے متفق ہو جائے تو جس طرف حضرت عبد الرحمن بن عوف ہوں گے اس طرف کے لوگوں کی سنو اور اطاعت کرو.عبد الرحمن بن سعید بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر زخمی ہوئے تو آپ نے فرمایا: صہیب تم لوگوں کو نماز پڑھائیں گے یعنی حضرت صہیب کو امام الصلوۃ مقرر کیا اور یہ بات آپ نے تین مرتبہ کہی.اپنے اس معاملے میں مشاورت کرو اور یہ معاملہ ان چھ افراد کے سپر د ہے.جو شخص تمہارے حکم میں تر قد کرے یعنی جو تمہاری مخالفت کرے تو اس کی گردن اڑا دو.اگلا حکم جو ہے جب ضرورت پڑے، جب انتخاب خلافت ہو تو ان چھ افراد پر ہو گا.اس وقت تک حضرت صہیب جو ہیں وہ امامت کرواتے رہیں گے.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے کچھ گھڑی قبل حضرت ابو طلحہ کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا اے ابو طلحہ ! تم اپنی قوم انصار میں سے پچاس افراد کو لے کر ان اصحاب شوری کے پاس چلے جاؤ اور انہیں تین دن تک نہ چھوڑنا یہاں تک کہ وہ اپنے میں سے کسی کو امیر نہ منتخب کر لیں.اے اللہ تو ان پر میرا خلیفہ ہے.انتخاب خلافت حضرت عثمان اسحاق بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کچھ دیر حضرت عمر کی قبر پر رکے.پھر اس کے بعد اصحاب شوری کے ساتھ رہے.پھر جب ان اصحاب شوری نے اپنا معاملہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سپر د کر دیا کہ وہ اختیار رکھتے ہیں کہ جس کو بھی امیر مقرر کر دیں تو

Page 201

اصحاب بدر جلد 5 185 حضرت ابو طلحہ اپنے ساتھیوں سمیت اس وقت تک حضرت عبد الرحمن بن عوف کے گھر کے دروازے پر رہے جب تک کہ حضرت عثمان کی بیعت نہ کی گئی.حضرت سلمہ بن ابو سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عثمان کی بیعت کی.پھر اس کے بعد حضرت علیؓ نے.حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ غلام عمر بن عمیرہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت علی نے حضرت عثمان کی بیعت کی.پھر اس کے بعد سب لوگوں نے بیعت کی.402 بخاری کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عمرؓ نماز کے شروع میں ہی جب آپ نے اللہ اکبر کہا اور پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے قاتلانہ حملہ ہوا تو اس وقت زخمی حالت میں حضرت عمرؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر امامت کے لیے آگے کر دیا ، وہ قریب تھے اور اس وقت حضرت عبد الرحمن بن عوف نے مختصر نماز پڑھائی.403 حضرت مصلح موعود حضرت عثمان کی خلافت کے انتخاب کے موقع پر حضرت عبد الرحمن بن عوف کا کردار بیان کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں.پہلے دور وایتیں آئی ہیں.ان میں سے ایک جگہ صرف یہ اختلاف ہے.باقی تو وہی باتیں ہیں.بہر حال حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت عمر جب زخمی ہوئے اور آپ نے محسوس کیا کہ اب آپ کا آخری وقت قریب ہے تو آپ نے چھ آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں.وہ چھ آدمی یہ تھے.حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن وقاص، حضرت زبیر اور حضرت طلحہ.اس کے ساتھ ہی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو بھی آپ نے اس مشورے میں شریک کرنے کے لیے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کے لیے حضرت صہیب کو امام الصلوۃ مقرر کیا اور مشورہ کی نگرانی مقداد بن اسود کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازے پر پہرہ دیتے رہیں.پچھلی روایتوں میں حضرت طلحہ محاذ کر آرہا ہے لیکن آپ نے مختلف جگہ سے اپنا جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ مقداد بن اسود کے سپر د پہرہ کیا گیا تھا جب تک انتخاب خلافت ہو رہا ہے اور فرمایا کہ جس پر کثرت رائے سے اتفاق ہو سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبد اللہ بن عمر ان میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو.اگر اس فیصلے پر راضی نہ ہوں تو جس طرف حضرت عبد الرحمن بن عوف ہوں وہ خلیفہ ہو.حضرت مصلح موعود کے مطابق حضرت طلحہ اس وقت مدینہ میں نہیں تھے.اس لیے پانچ افراد تھے.پانچوں اصحاب نے مشورہ کیا مگر کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوا.آپؐ فرماتے ہیں کہ آخر پانچ افراد نے مشورہ کیا.حضرت طلحہ کے علاوہ جو باقی پانچ افراد تھے انہوں نے مشورہ کیا.کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا.بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبد الرحمن

Page 202

اصحاب بدر جلد 5 186 بن عوف نے کہا اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ بولے.جب سب خاموش رہے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں.پھر حضرت عثمان نے کہا.پھر باقی رونے.حضرت علیؓ خاموش رہے.آخر انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے.انہوں نے عہد کیا اور سب کام ان کے سپر د ہو گیا.یعنی حضرت عبد الرحمن بن عوف جو بھی فیصلہ کریں گے.کوئی رعایت نہیں ، طرف داری نہیں ہو گی.جب عہد ہو گیا تو سارا کام حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سپر د ہو گیا.حضرت عبد الرحمن بن عوف تین دن مدینے کے ہر گھر گئے اور مر دوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کس شخص کی خلافت کے حق میں ہے.سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمان کی خلافت منظور ہے چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا اور وہ خلیفہ ہو گئے.خدا کی راہ میں خرچ اور سخاوت 404 405 حضرت عبد الرحمن بن عوف کی سخاوت بھی مشہور تھی اور مالی قربانیاں بھی انہوں نے بہت کیں.اس حوالہ سے آج اکثر حوالے ہیں.ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے وصیت کی تھی کہ جنگ بدر میں شریک ہونے والے ہر ایک کو چار سو دینار ان کے ترکہ میں سے دیے جائیں.چنانچہ اس پر عمل کیا گیا اس وقت ان اصحاب کی تعداد سو تھی.رسول کریم صلی اللی کلم نے جب صحابہ کرام کو غزوہ تبوک کی تیاری کے لیے حکم دیا تو آپ صلی اللہ ہم نے امراء کو اللہ کی راہ میں مال اور سواری مہیا کرنے کی تحریک بھی فرمائی.اس پر سب سے پہلے حضرت ابو بکر آئے اور اپنے گھر کا سارا مال لے آئے جو کہ چار ہزار درہم تھے.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ابو بکر سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں.حضرت عمرؓ اپنے گھر کا آدھا مال لے کر آئے.آنحضرت صلی الم نے حضرت عمرؓ سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے تو انہوں نے عرض کیا نصف چھوڑ کر آیا ہوں.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے ایک سو اوقیہ دیے.ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے.یعنی تقریباً چار ہزار در ہم.آپ ملی ایم نے فرمایا کہ عثمان بن عفان اور عبد الرحمن بن عوف زمین پر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے دو خزانے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ 406 کرتے ہیں.حضرت ام بکر بنت میسور روایت کرتی ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عثمان سے ایک زمین چالیس ہزار دینار کے عوض خریدی اور بنو زھرہ کے غرباء اور ضرورت مندوں اور امہات المومنین میں تقسیم فرما دی.مسور بن مخرمہ کہتے ہیں کہ جب میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو

Page 203

اصحاب بدر جلد 5 187 اس زمین میں سے ان کا حصہ دیا تو حضرت عائشہ نے دریافت فرمایا کہ یہ کس نے بھیجا ہے ؟ میں نے کہا عبد الرحمن بن عوف نے.تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد تم سے حسن سلوک وہی کرے گا جو نہایت درجہ صبر کرنے والا ہو گا.پھر آپ نے دعا دی کہ اے اللہ ! عبد الرحمن بن عوف کو جنت کے چشمہ سلسبیل کا مشروب پلا - 7 407 ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا میرے بعد میرے اہل خانہ کی خبر گیری کرنے والا شخص سچا اور نیکو کار ہی ہو گا.چنانچہ عبد الرحمن بن عوف امہات المومنین ہو ان کی سواریوں سمیت لے کر نکلتے.انہیں حج کراتے اور ان کے کجاووں پر پر دے ڈالتے اور پڑاؤ کے لیے ایسی گھاٹیاں منتخب کرتے جن میں گزر گاہ نہ ہوتی تاکہ بے پردگی نہ ہو اور آزادی سے وہ پڑاؤ کر سکیں.408 سات سو اونٹوں پر مشتمل اناج اور غلہ کا قافلہ خدا کی راہ میں ایک بار مدینے میں اجناس خوردنی کا قحط تھا.اسی اثنا میں شام سے سات سو اونٹوں پر مشتمل گندم، آٹا اور خوردنی اشیاء کا قافلہ مدینہ آیا جس سے مدینے میں ہر طرف شور مچ گیا.حضرت عائشہ نے پوچھا یہ شور کیسا ہے؟ عرض کیا کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کا سات سو اونٹوں کا قافلہ آیا ہے جس پر گندم آٹا اور کھانے کی اشیاء لدی ہوئی ہیں.ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی علیم سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے کہ عبد الرحمن "جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہو گا.ام المومنین حضرت عائشہ کی یہ روایت جب حضرت عبد الرحمن بن عوف کو پہنچی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے ماں ! میں آپ کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ یہ سارا غلہ اور خوردنی اشیاء اور یہ سب بار دانہ اور اونٹوں کے پالان تک میں نے راہ خدا میں دے دیے تاکہ میں چل کر جنت میں جاؤں.409 410 حضرت عبد الرحمن بن عوف کے انفاق فی سبیل اللہ کے بیشتر واقعات صحابہ کے حالات مدوّن کرنے والوں نے جمع کیے ہیں.اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ عبد الرحمن بن عوف خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے تھے.ایک بار انہوں نے ایک دن میں تیس غلام آزاد.ایک مرتبہ حضرت عمر کو کچھ روپے کی ضرورت تھی.انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے قرض مانگا.انہوں نے کہا اے امیر المومنین! آپ مجھ سے ہی کیوں مانگتے ہیں.آپ بیت المال سے بھی قرض لے سکتے ہیں اور عثمان یا کسی اور صاحب استطاعت سے بھی.حضرت عمرؓ نے فرمایا ایسا اس لیے کر تاہوں کہ شاید بیت المال کو رقم واپس کرنا بھول جاؤں اور کسی دوسرے سے لوں تو شاید وہ لحاظ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے رقم کی واپسی کا مطالبہ نہ کرے اور میں بھول جاؤں لیکن تم اپنی رقم مجھ سے مانگ کر بھی ضرور واپس لے لو گے.411 آپس میں بے تکلفی کی یہ حالت تھی اور جب ان کو ضرورت ہوتی تو وہ لے بھی لیا کرتے تھے، لے سکتے تھے.

Page 204

اصحاب بدر جلد 5 188 حضرت عبد الرحمن بن عوف کے بیٹے ابراہیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا اے ابن عوف ! تم جنت میں رینگتے ہوئے داخل ہو گے کیونکہ مالدار ہو.پس راہ خدا میں خرچ کرو تا کہ اپنے قدموں پر چل کر جنت میں داخل ہو سکو.یہ جو حضرت عائشہ والی پہلی روایت ہے اس سے بھی یہ ملتی جلتی روایت ہے.تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! راہ خدا میں کیا خرچ کروں ؟ فرمایا جو موجود ہے خرچ کرو.عرض کیا یارسول اللہ کیا سارا ؟ فرمایا ہاں.حضرت عبد الرحمن سیہ ارادہ کر کے نکلے کہ سارا مال راہ خدا میں دے دوں گا.تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی الیم نے انہیں بلوا بھیجا اور فرمایا کہ تمہارے جانے کے بعد جبرئیل آئے.انہوں نے کہا کہ عبد الرحمن کو کہو کہ مہمان نوازی کرے.مسکین کو کھانا کھلائے.سوالی کو دے اور دوسروں کی نسبت رشتہ داروں پر پہلے خرچ کرے.جب وہ ایسا کرے گا تو اس کا مال پاک ہو جائے گا.412 اور پاک مال، اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایسا خرچ کیا ہو امال جو ہے اس سے پھر گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ آپ نے فرمایا کہ پاؤں پر کھڑے ہو کے جنت میں جاؤ گے.نتیجہ آگے یہی نکلتا ہے.ایک بار اپنا آدھا مال جو چار ہزار درہم تھا راہ خدا میں دے دیا.پھر ایک مرتبہ چالیس ہزار درہم.پھر ایک بار چالیس ہزار دینار راہ خدا میں صدقہ دیا.ایک دفعہ پانچ صد گھوڑے راہ خدا میں وقف کیے.پھر دوسری دفعہ پانچ سو 413 اونٹ راہ خدا میں دیے.حضرت عبد الرحمن بن عوف کے بیٹے ابو سلمہ روایت کرتے ہیں کہ ہمارے ابا نے امہات المومنین کے حق میں ایک باغیچے کی وصیت فرمائی.اس باغیچے کی قیمت چار لاکھ درہم تھی.114 ترکے میں اتنا سونا چھوڑا جو کلہاڑیوں سے کاٹا گیا حضرت عبد الرحمن بن عوف نے راہ خدا میں دینے کے لیے پچاس ہزار دینار کی وصیت کی تھی.ترکے میں ایک ہزار اونٹ، تین ہزار بکریاں، سو گھوڑے تھے جو بقیع میں چرتے تھے.مجرف جو مدینے سے تین میل شمال کی جانب ایک جگہ ہے جہاں حضرت عمرؓ کی کچھ جائیداد تھی.اس مقام پر بیس پانی کھینچنے والے اونٹوں سے آپ زراعت کرتے تھے اور اسی سے گھر والوں کے لیے سال بھر کا غلہ مل جاتا تھا.ایک روایت میں ہے کہ ترکے میں اتنا سونا چھوڑا جو کلہاڑیوں سے کاٹا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ہاتھوں میں اس سے چھالے پڑ گئے.415 وفات اور جنت البقیع میں تدفین حضرت عبد الرحمن بن عوف کا انتقال اکتیس ہجری میں ہوا.بعض کے نزدیک بتیس ہجری میں ہوا.بہتر 72 72 برس زندہ رہے.بعض کے نزدیک اٹھہتر برس اور جنت البقیع میں دفن ہوئے.حضرت عثمان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی.ایک قول کے مطابق حضرت زبیر بن العوام نے جنازہ پڑھایا.416

Page 205

اصحاب بدر جلد 5 189 حضرت عبد الرحمن بن عوف کی وفات پر چار پائی کے پاس کھڑے ہو کر حضرت سعد بن مالک نے کہا.وَا جَبَلاہ.کہ ہائے افسوس پہاڑ جیسی شخصیت اٹھ گئی.حضرت علیؓ نے فرمایا ابن عوف اس جہان سے رخصت ہو گئے.انہوں نے دنیا کے چشمے سے صاف پانی پیا اور گدلا چھوڑ دیا.یا یوں کہہ لیجئے کہ ابنِ عوف نے اچھا زمانہ پایا اور برے وقت سے پہلے چلے گئے.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اپنے پسماندگان میں تین بیویاں چھوڑیں.ہر ایک بیوی کو اس کے آٹھویں حصے میں سے اتنی اتنی ہزار درہم دیے گئے جبکہ ایک دوسری روایت میں آپ کی چار بیویاں تھیں اور ہر ایک کے حصے میں اتنی ہزار درہم آئے.418 417 218 حضرت عبد اللہ بن زید بن ثعلبہ وہ صحابی ہیں جن کو خواب میں اذان کے الفاظ بتائے گئے نام و نسب و کنیت حضرت عبد اللہ بن زید بن ثعلبہ آپ کو عبد اللہ بن زید انصاری کہا جاتا ہے.آپ کی کنیت ابو محمد تھی.والد کا نام حضرت زید بن ثعلبہ تھا اور یہ بھی صحابی تھے.ان کا تعلق قبیلہ انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو جُشم سے تھا.بیعت عقبہ میں شامل آپ بیعت عقبہ میں ستر انصار کے ساتھ شامل ہوئے اور غزوہ بدر اور احد اور خندق اور دیگر غزوات میں آنحضور صلی یہ نام کے ساتھ شرکت کی.فتح مکہ کے وقت بنو حارث بن خزرج کا جھنڈا آپ کے پاس تھا.حضرت عبد اللہ بن زید اسلام لانے سے قبل عربی لکھنا جانتے تھے جبکہ اس زمانے میں عرب میں کتابت بہت کم تھی.بہت کم لوگ ہوتے تھے جو لکھنا جانتے ہوں.حضرت عبد اللہ بن زید کی اولاد مدینہ میں قیام پذیر رہی.آپ کے ایک بیٹے کا نام محمد تھا جو آپ کی بیوی سَعْدَة بنتِ گلیب سے پیدا ہوئے اور ایک بیٹی اور حمید تھیں جن کی والدہ اہل یمن سے تھیں.آپ کے بھائی حریث بن زید تھے جو بدری صحابی تھے.419 اور آپؐ کی ایک بہن کا نام قریبہ بنت زید تھا وہ بھی صحابیہ تھیں.120

Page 206

اصحاب بدر جلد 5 190 اذان کے الفاظ خواب میں بتائے گئے حضرت عبد اللہ بن زید وہ صحابی ہیں جن کو خواب میں اذان کے الفاظ بتائے گئے اور آنحضور صلی الیکم کو اس کے متعلق آگاہ کیا جس پر آپ صلی اللہ ہم نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ ان الفاظ میں اذان دیں جو حضرت عبد اللہ نے خواب میں دیکھے تھے.یہ واقعہ حضور صلی اللی کام کے مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد سنہ ایک ہجری کا ہے.421 اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت ابو محمیر بن انس انصاری (انصار میں سے تھے ) اپنے چوں سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی علیکم نے سوچا کہ نماز کے لیے لوگوں کو کیسے جمع کیا جائے ؟ آپ کو عرض کیا گیا کہ نماز کے وقت ایک جھنڈا نصب کر دیا جائے.جب لوگ اسے دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو اطلاع کر دیں گے مگر آپ صلی علی نام کو یہ تجویز پسند نہیں آئی.راوی کہتے ہیں کہ آپ سے نرسنگا کا ذکر کیا گیا یعنی یہود کے بلانے کے طریق سے جو بلند آواز سے blow کیا جاتا ہے.آپ نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ یہ یہود کا طریق ہے.راوی کہتے ہیں پھر آپ سے ناقوس کا ذکر کیا گیا.آپ نے فرمایا کہ وہ نصاریٰ کا طریق ہے.حضرت عبد اللہ بن زید واپس گئے اور رسول اللہ صلی للی کم کی فکر کی وجہ سے فکر مند تھے.دعا کی تو کہتے ہیں ان کو خواب میں اذان دکھائی گئی.حضرت عبد اللہ بن زید ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ناقوس تھا.میں نے اس سے پوچھا اے بندہ خدا! تو اس ناقوس کو نیچے گا.اس نے کہا تو اس سے کیا کرے گا؟ میں نے کہا کہ ہم اس کے ذریعہ سے نماز کے لیے بلائیں گے.اس نے کہا تو کیا میں تمہیں وہ بات بتادوں جو اس سے بہتر ہے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ؟ حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ اس نے کہا پھر کہو اور اذان کے الفاظ دہرائے کہ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ اکبر اللهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ - اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ حَى عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَى عَلَى الْفَلَاحِ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اس کا ترجمہ بھی بچوں کے لیے اور نو مسلموں کے لیے پڑھ دیتا ہوں، فائدہ مند ہو تا ہے.اذان ہم روز سنتے ہیں لیکن پھر بھی بعضوں کو میں نے دیکھا ہے ترجمہ نہیں آتا.اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے.یہ چار دفعہ کہنا ہے.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.یہ دو دفعہ کہنا ہے.پھر میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللی علم اللہ کے رسول ہیں.یہ بھی دو دفعہ ہے.پھر نماز کی طرف آؤ، حَى عَلَى الصَّلَاةِ.نماز کی طرف آؤ.حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ.اللہ سب سے بڑا ہے.یہ پھر دو دفعہ کہنا ہے.لا الهَ إِلَّا الله اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.پھر کہتے ہیں کہ یہ الفاظ دوہرانے کے بعد وہ شخص مجھ سے تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور پھر کہا کہ جب تم نماز

Page 207

اصحاب بدر جلد 5 191 کھڑی کرو تو یہ کہا کرو.پھر تکبیر کے الفاظ دوہرائے کہ الله أكبر الله أكبرُ.اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ.الله اكبر الله اكبر لا إلهَ إِلَّا اللهُ.اس میں دو ہی الفاظ اذان سے زائد ہیں.قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ ہے کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے.نماز کھڑی ہو گئی ہے.اور پھر وہی اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.پھر کہتے ہیں جب صبح ہوئی تو میں آپ صلی اللہ علم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو میں نے دیکھا تھا بیان کر دیا.آپ صلی علیکم نے فرمایا کہ یقینا اللہ چاہے تو یہ سچی خواب ہے.تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور جو تم نے دیکھا تھا وہ بتاتے جاؤ.وہ ان الفاظ کے ساتھ اذان دے دے چونکہ اس کی آواز تم سے زیادہ بلند ہے.پس میں بلال کے ساتھ کھڑا ہو گیا میں ان کو بتاتا جاتا تھا اور وہ اس کے مطابق اذان دیتے تھے.راوی کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ اذان سنی تو وہ اپنے گھر میں تھے.وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہہ رہے تھے کہ اس کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ یار سول اللہ بھیجا ہے ! میں نے وہی دیکھا جو اس نے دیکھا ہے.یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے.422 ایک دوسری روایت میں اس جگہ یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اس پر آنحضرت صلی الیکم نے فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے سب تعریف ہے پس یہی بات پختہ ہے.423 اذان کی ابتداء اس کی تفصیل میں سیرت خاتم النبیین میں، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مختلف تاریخوں سے لے کے بعض باتیں زائد بیان فرمائی ہیں.وہ بیان کرتے ہیں کہ : ابھی تک نماز کے لیے اعلان یا اذان وغیرہ کا انتظام نہیں تھا تو صحابہ عموماً وقت کا اندازہ کر کے خود نماز کے لیے جمع ہو جاتے تھے.لیکن یہ صورت کوئی قابل اطمینان نہیں تھی.مسجد نبوی کے تیار ہو جانے پر یہ سوال زیادہ محسوس طور پر پیدا ہوا کہ کس طرح مسلمانوں کو وقت پر جمع کیا جائے.کسی صحابی نے نصاری کی طرح ناقوس کی رائے دی.کسی نے یہود کی مثال میں بوق کی تجویز پیش کی.کسی نے کچھ کہا.مگر حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ کسی آدمی کو مقرر کر دیا جائے کہ وہ نماز کے وقت یہ اعلان کر دیا کرے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ ہم نے اس رائے کو پسند فرمایا اذان سے پہلے حضرت عمر کی ایک یہ رائے تھی) حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ اس فرض کو ادا کیا کریں.چنانچہ اس کے بعد جب نماز کا وقت آتا تھا بلال بلند آواز سے الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ کہہ کر پکارا کرتے تھے اور لوگ جمع ہو جاتے تھے.بلکہ اگر نماز کے علاوہ بھی کسی غرض کے لیے مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرنا ہوتا تو یہی آواز دی جاتی، یہی اعلان کیا جاتا.اس کے کچھ عرصے کے بعد ، ( پھر آگے ان کا وہی قصہ ہے کہ) ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن زید انصاری کو خواب میں موجود اذان کے الفاظ سکھائے گئے اور انہوں نے آنحضرت صلی ال ایم کی

Page 208

اصحاب بدر جلد 5 192 خدمت میں حاضر ہو کر اپنی اس خواب کا ذکر کیا اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں ایک شخص کو اذان کے طور پر یہ الفاظ پکارتے سنا ہے.آپ صلی علیہ ہم نے فرمایا یہ خواب خدا کی طرف سے ہے اور عبد اللہ کو حکم دیا کہ بلال کو یہ الفاظ سکھا دیں.لکھتے ہیں کہ عجیب اتفاق یہ ہوا کہ جب بلال نے ان الفاظ میں پہلی دفعہ اذان دی تو حضرت عمرؓ اسے سن کر جلدی جلدی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آج جن الفاظ میں بلال نے اذان دی ہے بعینہ یہی الفاظ میں نے بھی خواب میں دیکھے ہیں اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے اذان کے الفاظ سنے تو فرمایا کہ اسی کے مطابق وحی بھی ہو چکی ہے.424 سارا مال صدقہ کر دیا بشیر بن محمد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن زید جنہیں اذان رویا میں دکھائی گئی تھی انہوں نے اپنا وہ مال صدقہ کیا جس کے علاوہ کے پاس کچھ اور نہیں تھا.سارا مال صدقہ کر دیا.آپ اور آپ کا بیٹا اس کے ذریعہ زندگی بسر کر رہے تھے.وہی ان کا ذریعہ معاش تھا.پس جو بھی جائیداد تھی آپ نے اسے رسول اللہ صلی علیکم کے سپرد کر دیا.جب انہوں نے یہ مال سپر د کر دیا تو اس پر ان کے والد رسول اللہ صلی علی ایم کے پاس آئے اور عرض کی کہ یارسول اللہ ! عبد اللہ بن زید نے اپنا مال صدقہ کیا ہے اور وہ اس کے ذریعہ زندگی بسر کر رہے تھے.اس پر رسول اللہ صلی العلیم نے حضرت عبد اللہ بن زید کو بلا کر فرمایا کہ یقیناً اللہ نے تجھ سے تیر اصدقہ قبول کر لیا جو تو نے دیا.جو اللہ کے لیے چھوڑ دیا وہ اللہ نے قبول کر لیا.البتہ اس کو میراث کے طور پر اپنے والدین کو لوٹا دے.اب یہ میراث کے طور پر والدین کو واپس کر دے.تو بشیر کہتے ہیں کہ پھر ہم نے اس کو وراثت میں پایا یعنی آگے پھر ان کے بچوں نے اس 425 طرح اس میں سے حصہ لیا.اپنے ناخن تبرک کے طور پر عطا فرمائے ایک موقع پر رسول اللہ صلی علیم نے حضرت عبد اللہ بن زید کو اپنے ناخن تبرک کے طور پر عطا فرمائے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زید کے بیٹے محمد نے بیان کیا کہ ان کے والد بی صلی علیکم کے پاس حجتہ الوداع کے موقع پر منی کے میدان میں منحر یعنی قربان گاہ میں قربانی کے گوشت کے وقت حاضر تھے اور آپ کے ہمراہ انصار میں سے ایک اور شخص بھی تھا.رسول الله صلى العلم نے قربانیاں تقسیم کیں تو حضرت عبد اللہ بن زید اور ان کے انصاری ساتھی کو کچھ نہ ملا.پھر رسول اللہ صلی علیم نے ایک کپڑے میں اپنے بال اتروائے اور انہیں لوگوں میں تقسیم کر دیا.پھر آپ نے اپنے ناخن کٹوائے اور وہ حضرت عبد اللہ بن زید اور ان کے انصاری ساتھی کو عطا کر دیے.426

Page 209

اصحاب بدر جلد 5 193 آنحضرت علی الم سے محبت کا نرالا انداز حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی نیم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !خدا کی قسم ایقیناً آپ مجھے میری ذات سے زیادہ محبوب ہیں اور یقیناً آپ مجھے میرے اہل سے زیادہ محبوب ہیں اور یقینا آپ مجھے میری اولاد سے زیادہ محبوب ہیں.میں گھر میں تھا اور آپ کو یاد کر رہا تھا کہ مجھ سے صبر نہ ہوا یہاں تک کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اب میں آپ کو دیکھ رہا ہوں.جب مجھے اپنے اور آپ کی موت یاد آئی تو میں نے جان لیا کہ جب آپ جنت میں داخل ہوں گے تو دیگر انبیاء کے ساتھ آپ کا رفع ہو گا اور میں ڈرا کہ جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو آپ کو وہاں نہ پاؤں گا.اس پر نبی کریم صلی علی کلم نے اس شخص کو کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ جبریل اس آیت کے ساتھ نازل ہوئے وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِينَ وَ الصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًا (النساء: 70) کہ اور جو کوئی بھی اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن اللہ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں میں سے ، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے.427 آنحضرت علی کم کی پیروی میں نبوت کا مقام اس آیت کو ہم اس دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الم کی پیروی سے غیر تشریعی نبوت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے اور آپ کی پیروی میں ایک شخص صالحیت کے مقام سے ترقی کر کے نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے.بہر حال نبوت کا مقام چاہے وہ غیر تشریعی نبوت ہی ہو اور وہ آنحضرت صلی علیم کی غلامی میں بھی ہے تو ایک بہت اعلیٰ مقام ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے دیتا ہے اور آنے والے مسیح موعود کے بارے میں خود آنحضرت صلی علیم نے نبی اللہ " کے الفاظ استعمال کیے ہیں.428 اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم آنحضرت صلی یک کم کی غلامی میں تشریعی نبی مانتے ہیں اور اس سے آنحضرت صلی الیکم کے مقام ختم نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ آپ کا مقام بڑھتا ہے کہ اب نبوت بھی صرف آپ کی غلامی میں مل سکتی ہے اور یہ معنی صرف ہم ہی نہیں کرتے بلکہ پرانے بزرگوں نے بھی کیے ہیں.چنانچہ امام راغب نے بھی اس کے یہی معنے کیے ہیں کہ آنحضرت صلی ال نیم کے بعد غیر شرعی نبی آپ کی پیروی میں آسکتے ہیں.429 بہر حال اس آیت کے ضمن میں یہ ذکر میں نے کر دیا تا کہ وضاحت بھی ہو جائے.علامہ زرقانی لکھتے ہیں کہ مختلف کتب تفسیر میں یہ واقعہ آنحضور صلی الی نام کے غلام حضرت ثوبان کے متعلق ملتا ہے جبکہ تفسیر يَنْبُوعُ الْحَيَاة میں مقاتل بن سلیمان کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حضرت

Page 210

اصحاب بدر جلد 5 194 عبد اللہ بن زید انصاری تھے جنہوں نے رویا میں اذان دیکھی تھی.علامہ زرقانی لکھتے ہیں کہ اگر یہ بات درست ہے تو ممکن ہے کہ دونوں نے نبی صلی الی یکم سے ایسی بات کا ذکر کیا ہو اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہو اور یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ ایسی بات نبی کریم صلی ا لنی کیم کے کئی ساتھیوں نے کی تھی.430 آنحضرت صلی الم سے دوری میں زیادہ صبر نہیں کر سکتے تھے پہلے بیان کردہ واقعات کے علاوہ تفاسیر میں حضرت ثوبان کا واقعہ اور الفاظ میں بھی بیان ہوا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ثوبان کو رسول اللہ صلی علیم سے شدید محبت تھی اور آپ سے دوری میں زیادہ صبر نہیں کر سکتے تھے.ایک روز جب وہ آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کا رنگ بدلا ہوا تھا اور ان کے چہرے سے حزن کے آثار ظاہر ہو رہے تھے.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے پوچھا کہ کس چیز کے باعث تمہارا رنگ بدلا ہوا ہے ؟ حضرت ثوبان نے عرض کی کہ یارسول اللہ !نہ تو مجھے کوئی مرض ہے اور نہ ہی کوئی بیماری ہے ماسوائے اس کے کہ میں آپ کو دیکھ نہ سکا.یعنی کچھ عرصے سے دیکھا نہیں تھا.اس لیے مجھ پر شدید وحشت طاری ہو گئی جب تک کہ آپ سے ملاقات نہ ہو گئی.اسی طرح جب مجھے آخرت کی یاد آئی تو مجھ پر خوف طاری ہوا کہ میں آپ کو نہ دیکھ سکوں گا کیونکہ آپ کا تو انبیاء کے ساتھ رفع کیا جائے گا اور اگر میں جنت میں چلا بھی گیا تو میرا مقام وہاں آپ کے مقام سے بہت اونی ہو گا اور اگر میں جنت میں نہ داخل ہو سکا تو پھر میں کبھی بھی آپ کو نہ دیکھ سکوں گا.431 نبی صلی ایم کی وفات پر کہنا کہ خدایا میری آنکھیں لے جا علامہ زرقانی لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن زید اپنے باغ میں کام کر رہے تھے.عبد اللہ بن زید کا پھر دوبارہ ذکر شروع ہوتا ہے.پھر یہ ہے کہ آپ کا بیٹا آپ کے پاس آیا اور آپ کو خبر دی کہ نبی صلی علیہ کم وفات پاگئے ہیں.اس پر آپ نے کہا کہ اللهُمَّ أَذْهِبْ بَصَرِي حَتَّى لَا أَرَى بَعْدَ حَبِيْنِي مُحَمَّدًا أَحَدًا - که اے اللہ ! تو میری نظر کو لے جایہاں تک کہ میں اپنے محبوب محمد صلی علی ایم کے بعد کسی کو نہ دیکھ پاؤں.اس کے بعد ، شرح زرقانی میں لکھا ہے کہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ کی نظر جاتی رہی اور آپ نابینا ہو گئے.432 ان کی وفات کے بارے میں لکھا ہے کہ عبد اللہ بن زید کی وفات کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے.بعض نے غزوہ احد کے وفات کا ذکر کیا ہے لیکن اکثر یہ بیان ہوا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زید کی وفات کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے.بعض نے غزوہ احد کے بعد وفات کا ذکر کیا ہے لیکن اکثر یہ بیان ہوا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زید تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ شریک ہوئے تھے اور آپ کی وفات حضرت عثمان کی خلافت کے آخری دور میں 32 ہجری میں مدینہ میں ہوئی تھی اور وہ جو نظر والا واقعہ ہے اس سے بھی اگر اس کو صحیح مانا جائے تو یہی لگتا ہے کہ حضرت عثمان کے دور میں ہوئی تھی جبکہ

Page 211

433 195 اصحاب بدر جلد 5 اس وقت ان کی عمر 64 سال تھی.آپ کی نماز جنازہ حضرت عثمان نے پڑھائی.219 نام و نسب و کنیت حضرت عبد اللہ بن عمرو حضرت عبد اللہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تھا.آپ کے والد کا نام عمر و بن حرام اور والدہ کا نام رباب بنت قیس تھا.434 حضرت عبد اللہ بن عمر و ہجرت نبوی سے تقریباً چالیس سال قبل پید اہوئے.435 یعنی ہجرت کے وقت ان کی عمر چالیس سال تھی.حضرت عبد اللہ بن عمرو ایک مشہور صحابی حضرت جابر بن عبد اللہ کے والد تھے.436 حضرت عبد اللہ بن عمر و حضرت عمر و بن بجموح کے برادر نسبتی تھے.437 بیعت عقبہ ثانیہ اور بارہ نقیبوں میں سے ایک حضرت عبد اللہ بن عمر و بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل تھے اور رسول اللہ صلی ال نیم کے مقرر کردہ بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے.آپ غزوہ بدر میں شامل ہوئے اور غزوہ اُحد میں شہید ہوئے.بعض کے نزدیک حضرت عبد اللہ بن عمر و غزوہ اُحد میں مسلمانوں کی طرف سے سب سے پہلے شہید تھے.438 قبول اسلام ان کے ایمان لانے کا واقعہ اس طرح بیان ہوتا ہے کہ حضرت کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی علیم سے ایام تشریق یعنی ایام حج کے آخری تین دن جو گیارہ سے تیرہ ذوالحجہ تک ہے اس کے درمیانی دن عقبہ میں ملنے کا وعدہ کیا.عقبہ مکہ اور منی کے درمیان واقع ہے پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.جب ہم حج سے فارغ ہوئے اور وہ رات آگئی جس کا ہم نے رسول اللہ صلی علیم سے وعدہ کیا تھا تو ہمارے ساتھ عبد اللہ بن عمرو بھی تھے جو ہمارے سرداروں میں سے ایک سر دار تھے اور ہمارے شرفاء میں سے تھے.ہم نے انہیں اپنے ساتھ لیا.ہم نے اپنے لوگوں میں سے مشرکین سے اپنا معاملہ چھپایا ہوا

Page 212

196 اصحاب بدر جلد 5 تھا.ہم نے ان سے کہا اے ابو جابر ! آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک ہیں اور ہمارے شرفاء میں سے ہیں.ان کی کنیت ابو جابر تھی اس لیے ان کو ابو جابر بھی کہتے تھے.تو کہتے ہیں ہم نے ان سے کہا کہ اے ابو جابر ! آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک ہیں اور ہمارے شرفاء میں سے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ آپ جہنم کا ایندھن بنیں.پس ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور رسول اللہ صلی علیکم کے پاس عقبہ مقام میں جانے کی خبر دی.وہ کہتے ہیں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور بیعت عقبہ میں شامل ہوئے اور نقیب مقرر ہوئے.439 حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے والد اور میرے دوماموں اصحاب عقبہ میں سے ہیں.ابن عیینہ ایک راوی ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک حضرت براء بن مَغْرُور ہیں.440 بیعت عقبہ ثانیه عقبہ ثانیہ کے بارے میں سیرت خاتم النبیین سے میں ایک صحابی کے ذکر میں بلکہ دو کے ذکر ں پہلے ایک تفصیل بیان کر چکا ہوں.441 یہاں تھوڑا سا حصہ دوبارہ بیان کرتا ہوں.بیعت عقبہ ثانیہ کے بارے میں حسیرت خاتم النبیین میں جو لکھا گیا ہے اس میں جو حضرت عبد اللہ بن عمرو سے متعلقہ حصہ ہے ، بیان کرتا ہوں.تیرہ نبوی کا جو مہینہ ہے ذی الحجہ ، اس میں حج کے موقعے پر اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکے میں آئے.ان میں ستر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے اور یا اب مسلمان ہو نا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللی کام سے ملنے کے لیے مکے آئے تھے.اس موقعے پر ایک اجتماعی اور خلوت کی ملاقات کی ضرورت تھی اس لیے مراسم حج کے بعد ماہ ذی الحجہ کی وسطی تاریخ مقرر کی گئی.کہ اس دن نصف شب کے قریب یہ سب لوگ گذشتہ سال والی گھائی میں آپ صلی علیکم کو آکر ملیں.یہ مقرر کیا گیا تا کہ اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ علیحد گی میں بات چیت ہو سکے.اور آپ نے انصار کو تاکید فرمائی کہ اکٹھے نہ آئیں بلکہ ایک ایک دو دو کر کے وقت مقررہ پر گھائی میں پہنچ جائیں اور سوتے کو نہ جگائیں اور نہ غیر حاضر کا انتظار کریں.چنانچہ جب مقررہ تاریخ آئی تو رات کے وقت جبکہ ایک تہائی رات جا چکی تھی آنحضرت صلی اللہ علم اکیلے گھر سے نکلے اور راستہ میں اپنے چاعباس کو ساتھ لیا جو ابھی تک مشرک تھے مگر آپ سے محبت رکھتے تھے اور خاندان ہاشم کے رئیس تھے اور پھر دونوں مل کر اس گھائی میں پہنچے.ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ انصار بھی ایک ایک دو دو کر کے آپہنچے.یہ ستر اشخاص تھے اور اوس اور خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے.سب سے پہلے عباس نے گفتگو شروع کی اور کہا کہ اے خزرج کے گروہ ! محمد صلی ال کی اپنے خاندان میں معزز و محبوب ہے اور وہ خاندان آج تک اس کی حفاظت کا ضامن رہا ہے اور ہر خطرہ کے وقت میں

Page 213

اصحاب بدر جلد 5 197 اس کے لیے سینہ سپر ہوا ہے.مگر اب محمدکا ارادہ اپنا وطن چھوڑ کر تمہارے پاس چلے آنے کا ہے.سواگر تم اسے اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں اس کی ہر طرح حفاظت کرنی ہو گی اور ہر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونا پڑے گا.اگر تم اس کے لیے تیار ہو تو بہتر ورنہ ابھی سے صاف صاف جواب دے دو کیونکہ صاف صاف بات اچھی ہوتی ہے.بَراء بن مَغرُور جو انصار کے قبیلے کے ایک معمر اور با اثر بزرگ تھے انہوں نے کہا عباس ! ہم نے تمہاری بات سن لی ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم خود اپنی زبانِ مبارک سے کچھ فرما دیں اور جو ذمہ داری ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ بیان فرما دیں.اس پر آنحضرت صلی الم نے قرآن شریف کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور پھر ایک مختصر سی تقریر فرمائی جس میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ معاملہ کرو.جب آپ تقریر ختم کر چکے تو براء بن مغرور نے عرب کے دستور کے مطابق آ صلی علیہم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا یارسول اللہ ! ہمیں اس خدا کی قسم ہے جس نے آپ کو حق و صداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ ہم اپنی جانوں کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے.ان میں سے ایک شخص کے کہنے پر کہ یہ تو ہم عہد کرتے ہیں کہ کریں گے لیکن یہ بتائیں، آنحضرت صلی علیہ کم سے پوچھا کہ جب آپ کو غلبہ ملے گا تو ہمیں چھوڑ تو نہیں جائیں گے ؟ تو آپ صلی ہیں ہم نے اس پر ہنس کر فرمایا کہ تمہارا خون میر اخون ہو گا.تمہارے دوست میرے دوست ہوں گے.تمہارے دشمن میرے دشمن ہوں گے.اس پر عباس بن عبادہ انصاری نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈال کر کہا کہ لو گو ! کیا تم سمجھتے ہو کہ اس عہد اور پیمان کے کیا معنے ہیں ؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ اب تمہیں ہر اسود و احمر، ہر کالے گورے، سرخ سفید کے ساتھ مقابلہ کے لیے تیار ہو جانا چاہیے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہنا چاہیے.لوگوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں.مگر یا رسول اللہ ! اس کے بدلہ میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا تمہیں خدا کی جنت ملے گی جو اس کے سارے انعاموں میں سے بڑا انعام ہے.سب نے کہا ہمیں یہ سودا منظور ہے.یا رسول اللہ ! اپنا ہاتھ آگے کریں.آپ صلی علیہم نے اپنا دست مبارک آگے بڑھا دیا اور یہ ستر جاں نثاروں کی جماعت ایک دفاعی معاہدہ میں آپ کے ہاتھ پر بک گئی.اس بیعت کا نام بیعت عقبہ ثانیہ ہے.موسیٰ کی طرح بارہ نقیب جب بیعت ہو چکی تو آپ صلی اللہ ہم نے ان سے فرمایا کہ موسیٰ نے اپنی قوم میں سے بارہ نقیب چنے تھے جو موسیٰ کی طرف سے ان کے نگران اور محافظ تھے.میں بھی تم میں سے بارہ نقیب مقرر کرنا چاہتا ہوں جو تمہارے نگران اور محافظ ہوں گے اور وہ میرے لیے عیسی کے حواریوں کی طرح ہوں گے اور میرے سامنے اپنی قوم کے متعلق جوابدہ ہوں گے.پس تم مناسب لوگوں کے نام تجویز کر کے میرے سامنے

Page 214

اصحاب بدر جلد 5 198 پیش کرو.چنانچہ بارہ آدمی تجویز کیے گئے جنہیں آپ نے منظور فرمایا اور انہیں ایک ایک قبیلہ کا نگران مقرر کر کے ان کے فرائض سمجھا دیے اور بعض قبائل کے لیے آپ نے دو دو نقیب مقرر فرمائے.بہر حال ان بارہ نقیبوں میں عبد اللہ بن عمرو کا نام بھی شامل تھا اور ان کو بھی آپ نے نقیب مقرر فرمایا.442 443 ایک روایت میں آتا ہے کہ غزوہ اُحد کے موقع پر جب عبد اللہ بن ابی بن سلول نے جو منافقین مدینہ کا سردار تھا غداری کی تو حضرت عبد اللہ بن عمرو نے ان لوگوں کو نصیحت کرنے کی کوشش کی.13 حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد حضرت عبد اللہ بن عمر و اور ماموں غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے تو میری والدہ جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ پھوپھی جو حضرت عمرو بن جموح کی اہلیہ تھیں ان دونوں کو اونٹنی پر رکھ کر مدینہ لا رہی تھیں کہ رسول اللہ صلی علیم کے اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ اپنے مقتولوں کو ان کے لڑنے کی جگہ پر دفناؤ.اس پر ان دونوں کو واپس لے جایا گیا اور ان کے لڑنے کی جگہ پر ہی دفنا دیا گیا.444 رسول الله علی ایم کی محبت میں سر اپار نگین ایک بہادر عورت صلى ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ غزوہ اُحد کے موقعے پر اہل مدینہ میں خبر پھیل گئی کہ رسول اللہ صلی ال یکم شہید ہو گئے ہیں.یہ خبر سن کر مدینے میں آہ و بکا ہونے لگی اس پر انصار کی ایک عورت بھی اُحد کی طرف نکلی تو راستے میں اس نے اپنے والد ، بیٹے، خاوند اور بھائی کی نعشوں کو دیکھا.راوی کہتے ہیں کہ یہ معلوم نہیں سب سے پہلے اس نے کسے دیکھا.جب وہ ان میں سے کسی کے پاس سے گزرتی تو وہ کہتی یہ کون ہے ؟ لوگ کہتے تمہار اوالد ہے، تمہارا بھائی ہے ، تمہارا خاوند ہے، تمہارا بیٹا ہے.وہ کہتی رسول اللہ صلی یی کم کا کیا حال ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ آنحضور صلی لی کہ تمہارے سامنے ہیں یہاں تک کہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کے کپڑے کا دامن پکڑ کر عرض کرنے لگی یا رسول اللہ صلی علیکم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں جب آپ صحیح سلامت ہیں تو مجھے کسی کی موت کی کوئی پروا نہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع خلافت سے دو تین سال پہلے کی بات ہے جلسہ سالانہ میں آنحضرت صلی ا سیم کی سیرت اور غزوات پر تقریر کیا کرتے تھے وہاں حضرت عبد اللہ بن عمرو کے بارے میں جو ایک بیان کیا وہ بھی میں یہاں پڑھ دیتا ہوں.فرمایا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو کی بہن یعنی حضرت عمرو بن جموح کی اہلیہ بھی اپنے بھائی ہی کی طرح رسول اللہ صلی لیلی کام کی محبت میں سرا پار نگین تھیں.خاوند اس جنگ میں شہید ہوا.بھائی اس جنگ میں شہید ہوا.بیٹا اس جنگ میں شہید ہوا لیکن آنحضور صلی اللی کم کی سلامتی کی خوشی ان سب غموں پر غالب آگئی.حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ میں میدانِ جنگ کی طرف حالات معلوم کرنے جارہی تھی کہ راستے میں مجھے عمرو بن جموح کی بیوی ہند ایک اونٹ کی مہار 445

Page 215

اصحاب بدر جلد 5 199 پکڑے مدینہ کی طرف جاتی ہوئی ملی.میں نے اس سے پوچھا میدانِ جنگ کی کیا خبر ہے ؟ اس نے جواب دیا الحمد للہ سب خیریت ہے.حضرت محمد مصطفی صلی علیہ کی خیریت سے ہیں.اتنے میں میری نظر اونٹ پر پڑی جس پر کچھ لدا ہوا تھا.میں نے پوچھا یہ اونٹ پر کیا لد ا ہوا ہے ؟ کہنے لگی میرے خاوند عمرو بن جموح کی نعش ہے، میرے بھائی عبد اللہ بن عمرو کی نعش ہے، میرے بیٹے خلاد کی نعش ہے.یہ کہہ کر وہ مدینہ کی طرف جانے لگی مگر اونٹ بیٹھ گیا اور کسی طرح اٹھنے میں نہ آتا تھا.آخر جب وہ اٹھا تو مدینہ کی طرف جانے سے انکار کر دیا تب اس نے یعنی اس خاتون نے اس کی مہار پھر اُحد کے میدان کی طرف موڑ دی تو وہ خوشی خوشی چلنے لگا.پھر لکھتے ہیں کہ ادھر تو عورت کا یہ ماجرا گزر رہا تھا کہ آنحضرت صلی ایم کے عشق و محبت کی یہ داستان تھی اور ادھر آنحضور صلی ام صحابہ سے یہ فرما رہے تھے کہ جاؤ عمر و بن جموح اور عبد اللہ بن عمرو کی نعشیں تلاش کرو کہ انہیں اکٹھا دفن کیا جائے گا کیونکہ وہ اس دنیا میں بھی ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے.آنحضرت مالی اسلم کو بھی ان دونوں کا بڑا خیال تھا.ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن عمرو نے غزوہ اُحد کے لیے نکلنے کا ارادہ کیا تو اپنے بیٹے حضرت جابر کو بلایا اور ان سے کہا اے میرے بیٹے ! میں دیکھتا ہوں کہ میں اولین شہداء میں سے ہوں گا اور اللہ کی قسم! میں اپنے پیچھے رسول اللہ صلی ال نیم کی ذات کے بعد تمہارے علاوہ کسی کو نہیں چھوڑ کے جارہا جو مجھے زیادہ عزیز ہو.میرے ذمہ کچھ قرض ہے میر اوہ قرض میری طرف سے ادا کر دینا اور میں تمہیں تمہاری بہنوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کر تاہوں.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ اگلی صبح میرے والد صاحب سب سے پہلے شہید ہوئے 446 اور دشمنوں نے ان کی ناک اور کان کاٹ ڈالے تھے.447 ان کو ان کے زخموں سمیت ہی کفن دے دو ہے.حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی علی سلیم احد کے شہداء کو دفن کرنے کے لیے تشریف لائے تو آپ نے فرمایا کہ ان کو ان کے زخموں سمیت ہی کفن دے دو کیونکہ میں ان پر یر گواه ہوں اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ کی راہ میں زخمی کیا جائے مگر وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا خون بہ رہا ہو گا اور اس کارنگ زعفران کا ہو گا اور اس کی خوشبو کستوری کی ہو گی.یعنی کہ یہ پسندیدہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے.انہیں نہلانے اور کفنانے کی کوئی ضرورت نہیں.انہی کالباس ان کا کفن ہے.حضرت جابر کہتے ہیں کہ میرے والد کو ایک چادر کا کفن دیا گیا اور آپ صلی علیہ کم فرمارہے تھے کہ ان میں سے کون زیادہ قرآن جانے والا ہے ؟ جب یہ شہداء دفن کیے جارہے تھے تو آنحضرت صلی للی یکم فرماتے تھے کہ کون زیادہ قرآن جاننے والا ہے ؟ جب کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو آپ فرماتے کہ اس کو قبر میں اس کے ساتھیوں سے پہلے اتارو یعنی جو قرآن جاننے والے لوگ تھے ان کو آپ پہلے دفن

Page 216

اصحاب بدر جلد 5 200 کرواتے جاتے تھے اور لوگ کہتے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر و اُحد کے روز سب سے پہلے شہید ہوئے.اس وقت یہ بھی لوگوں میں باتیں ہو رہی تھیں کہ سب سے پہلے جو شہید تھے عبد اللہ بن عمر و تھے.سفیان بن عبد شمس نے آپ کو شہید کیا تھا.پس آنحضرت صلی علیم نے ہزیمت سے قبل آپ کی نماز جنازہ ادا کی.دوبارہ جو حملہ ہوا ہے اس سے پہلے ہی آپ کی نماز جنازہ ادا کر دی تھی اور فرمایا کہ عبد اللہ بن عمرو اور عمر و بن جموح کو ایک ہی قبر میں دفن کرو کیونکہ ان کے درمیان اخلاص اور محبت تھی.نیز آپ صلی ا ہم نے فرمایا کہ ان دونوں کو جو دنیا میں باہم محبت کرنے والے تھے ایک ہی قبر میں دفن کرو.وہ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر و سرخ رنگ کے تھے اور آپ کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ تھے اور قد زیادہ لمبانہ تھا جبکہ حضرت عمرو بن جموع لمبے قد والے تھے اس لیے دونوں پہچان لیے گئے اور دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کر دیا گیا.448 حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن میرے والد کو نبی کریم صلی ا ولم کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ آپ کا مثلہ کیا گیا تھا یعنی جسم کے اعضاء کاٹ دیے گئے تھے خاص طور پر کان اور ناک.آپ کی میت رسول اللہ صلی علیم کے سامنے رکھی گئی تو کہتے ہیں کہ میں ان کے چہرے سے کپڑا اٹھانے لگا تو لوگوں نے مجھے منع کیا.پھر لوگوں نے ایک عورت کی چیخنے کی آواز سنی تو کسی نے کہا کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عمرو کی بیٹی ہیں.ان کا نام حضرت فاطمہ بنت عمرو تھا یا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو کی بہن تھیں.اس پر رسول اللہ صلی علی یم نے فرمایا مت رو کیونکہ فرشتے مسلسل اس پر پروں سے سایہ کیے ہوئے ہیں.449 ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کو جب احد کے روز لایا گیا تو میری پھوپھی ان پر رونے لگی تو میں بھی رونے لگا.لوگ مجھے منع کرنے لگے مگر رسول اللہ صلی ال ولم نے مجھے منع نہیں فرمایا.پھر رسول اللہ صلی لی ایم نے فرمایا تم لوگ اس پر روانہ رو،اللہ کی قسم! فرشتے اس پر مسلسل اپنے پروں سے سایہ کیے ہوئے تھے یہاں تک کہ تم نے اسے دفن کر دیا.450 غزوہ احد کے شہداء کی نماز جنازہ غزوہ احد کے شہداء کی نماز جنازہ کے بارے میں مختلف آراء ہیں.کافی اختلاف پایا جاتا ہے.بخاری کی روایت میں حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الی کم غزوہ احد کے شہداء میں سے دو دو آدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں اکٹھا رکھتے اور پھر پوچھتے کہ ان میں سے کون قرآن زیادہ جاننے والا تھا.جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو آپ صلی ا یہ کام اس کو لحد میں پہلے رکھتے یعنی قبر میں پہلے اتارتے اور فرماتے: میں قیامت کے دن ان لوگوں کا گواہ ہوں اور ان کو ان کے خونوں میں ہی ل الرس

Page 217

اصحاب بدر جلد 5 201 451 دفن کرنے کا حکم دیتے.نہ ان کو نہلایا گیا اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی.صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت یہ بھی بخاری کی روایت ہے جو میں نے پڑھی تھی) میں حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی یکم ایک دن تشریف لائے اور آپ صلی علیم نے غزوہ احد کے شہداء کا جنازہ پڑھا.بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی علیم نے شہدائے احد کا جنازہ غزوہ احد کے آٹھ سال بعد پڑھا.452 سنن ابن ماجہ میں بیان ہے کہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ غزوہ احد کے شہداء کو رسول اللہ صل اللی کرم کی خدمت میں لایا جاتا اور آپ صلی ال یکم دس دس شہداء کا جنازہ پڑھتے اور حضرت حمزہ کی میت آپ صلی ایم کے پاس ہی موجود رہتی جبکہ باقی شہداء کو لے جایا جاتا.453 455 سنن ابو داؤد میں بیان ہے کہ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ غزوہ احد کے شہداء کو غسل نہیں دیا گیا اور ان کو ان کے خون یعنی زخموں سمیت دفنا دیا گیا اور ان میں سے کسی کی بھی نماز جنازہ نہیں ادا کی گئی.454 سنن ابو داؤد ہی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے سوائے حضرت حمزہ کے اور کسی شہید کا جنازہ نہیں پڑھا.5 سنن ترمذی کی روایت میں حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے غزوہ احد کے شہداء کا جنازہ نہیں پڑھا.456 سیرت ابن ہشام اور سیرت حلبیہ میں لکھا ہے کہ آنحضور صلی الیم نے احد کے شہداء کا جنازہ اس طرح ادا کیا کہ سب سے پہلے حضرت حمزہ کی نماز جنازہ ادا کی.آپ نے نماز جنازہ میں سات تکبیرات کہیں.سیرت حلبیہ کے مطابق چار تکبیریں کہیں.اس کے بعد باقی شہداء کو ایک ایک کر کے لایا جاتا اور حضرت حمزہ کی میت کے ساتھ رکھا جاتا اور آپ ان دونوں کی نماز جنازہ ادا فرماتے اور اس طرح تمام شہداء کی نماز جنازہ ایک بار اور حضرت حمزہ کی نماز جنازہ بہتر بار اور بعض کے نزدیک بانوے بار ادا کی گئی.457 458 سیرت کی ایک کتاب دلائل النبوہ میں لکھا ہے کہ حضرت حمزہ کی میت کے پاس نو شہداء کو اکٹھالایا جاتا اور ان کی نماز جنازہ ادا کی جاتی.پھر ان نو کو لے جایا جاتا اور مزید نوشہداء کو لایا جاتا اور اس طرح ان تمام شہداء کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور آپ نے ہر دفعہ نماز جنازہ میں سات تکبیرات کہیں.سیرت حلبیہ اور دلائل النبوۃ میں غزوہ احد کے شہداء کی نماز جنازہ کی احادیث کے بارے میں بحث کی گئی ہے اور ان دونوں کتب میں حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت کہ ”نبی کریم صلی یم نے غزوہ احد کے شہداء کو ان کے خونوں کے ساتھ ہی دفن کرنے کا حکم دیا، نہ ان کو نہلایا گیا اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی کو زیادہ مضبوط قرار دیا ہے.459

Page 218

اصحاب بدر جلد 5 202 حضرت امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ متواتر روایات سے یہ بات پختہ طور پر معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی الی الم نے غزوہ احد کے شہداء کا جنازہ نہیں پڑھا اور جن روایات میں ذکر آیا ہے کہ آپ صلی علیم نے ان شہداء کا جنازہ پڑھا تھا اور حضرت حمزہ پر ستر تکبیرات کہی تھیں یہ بات درست نہیں ہے اور جہاں تک حضرت عقبہ بن عامر کی روایت کا تعلق ہے کہ حضور صلی نیلم نے آٹھ سال کے بعد ان شہداء کا جنازہ پڑھا تو اس روایت میں اس بات کا ذکر ہوا ہے کہ یہ آٹھ سال بعد کا واقعہ ہے.160 461 م المدرسة جیسا کہ میں نے کہا اس پر بڑی بخشیں ہوئی ہیں.کچھ اور بھی بیان کر دیتا ہوں.امام بخاری نے اپنی کتاب میں باب الصلواۃ علی الشہید یعنی شہیدوں کی نماز جنازہ کے عنوان سے باب باندھا ہے اور اس کے نیچے صرف دو حدیثیں لائے ہیں.پہلی حدیث جو کہ حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے اور اس میں واضح طور پر ذکر ہے کہ غزوۂ احد کے شہداء کو نہ غسل دیا گیا اور نہ ہی ان پر نماز جنازہ پڑھی گئی جبکہ دوسری حدیث میں حضرت عقبہ بن عامر سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ أن النبي ﷺ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ایک دن نبی کریم صلی للی کم نکلے اور احد کے شہداء پر نماز جنازہ کی طرز پر نماز پڑھی اور یہی حدیث بخاری میں ہی دوسری جگہ غزوہ احد کے باب میں بھی آئی ہے وہاں یہی صحابی روایت کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ صَلَّى رَسُولُ اللهِ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِي سِنِينَ كَالْمُوَدِعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ کہ رسول اللہ صلی الم نے احد کے شہداء پر آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی جیسے زندوں یا وفات پانے والوں کو الوداع کہا جاتا ہے.اسی طرح علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ امام شافعی کی اس سے یہ مراد ہے کہ کسی کی وفات پر لبی مدت گزر جانے کے بعد اس کی قبر پر جنازہ نہیں پڑھا جاتا.امام شافعی کے نزدیک جب رسول اللہ صلی الی یکم کو معلوم ہوا کہ آپ کے وصال کا وقت قریب ہے تو آپ نے ان شہداء کی قبروں پر جا کر انہیں الوداع کہتے ہوئے ان کے لیے دعا فرمائی اور ان کے لیے مغفرت طلب کی.462 شہدائے احد کی تکلفین اور تدفین کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب یہ لکھتے ہیں کہ نعشوں کی دیکھ بھال کے بعد متکین کا کام شروع ہوا.آنحضرت صلی علیکم نے ارشاد فرمایا کہ جو کپڑے شہداء کے بدن پر ہیں وہ اسی طرح رہنے دیئے جائیں اور شہداء کو غسل نہ دیا جاوے.البتہ کسی کے پاس کفن کے لیے زائد کپڑا ہو تو وہ پہنے ہوئے کپڑوں کے اوپر لپیٹ دیا جاوے.نماز جنازہ بھی اس وقت ادا نہیں کی گئی.چنانچہ بغیر غسل دیئے اور بغیر نماز جنازہ ادا کئے شہداء کو دفنا دیا گیا.اور عموماً ایک ایک کپڑے میں دو دو صحابیوں کو اکٹھا کفنا کر ایک ہی قبر میں اکٹھا دفن کر دیا گیا.جس صحابی کو قرآن شریف زیادہ آتا تھا اسے آنحضرت صلی علیہ نیم کے ارشاد کے ماتحت لحد میں اتارتے ہوئے مقدم رکھا جاتا.“ اور پھر لکھتے ہیں کہ گو اس وقت نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی لیکن بعد میں زمانہ وفات کے قریب آنحضرت صلی اللہ الم نے خاص طور پر شہداء احد پر جنازہ کی نماز ادا کی.“ یہ آپ نے مختلف تاریخوں

Page 219

اصحاب بدر جلد 5 203 سے استنباط کیا ہے.یا نماز پڑھی گئی یا دعا کی گئی بھی ہو سکتا ہے لیکن بہر حال بڑے درد سے ان کے لیے نماز جنازہ ادا کی ” اور بڑے دردِ دل سے ان کے لیے دعا فرمائی.46366 وسکتا ہے کہ دعا کی ہو.جس طرح پہلے ذکر ہو چکا ہے.ہر ایک کی قبر پہ جاکے دعا کی ہو اور بڑے درد سے ان کے لیے دعا فرمائی.حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کے لیے غزوۂ احد کے چھ ماہ بعد قبر بنائی اور انہیں اس میں دفن کیا تو میں نے ان کے جسم میں کوئی تغیر نہیں دیکھا سوائے ان کی داڑھی کے چند بالوں کے جو زمین کے ساتھ لگے ہوئے تھے.464 ایک دوسری جگہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ احد کے موقعے پر ایک قبر میں دولوگوں کو دفن کیا گیا اور میرے والد کے ساتھ بھی ایک صحابی کو دفن کیا گیا.چھ ماہ گزر گئے پھر میرے دل نے چاہا کہ میں انہیں الگ قبر میں اکیلا دفن کروں.چنانچہ میں نے انہیں قبر سے نکالا تو میں نے دیکھا کہ زمین نے ان کے جسم میں کچھ بھی تغیر نہیں کیا تھا سوائے ان کے کان کے گوشت میں سے تھوڑا سا.465 غزوہ احد کے چھیالیس سال بعد حضرت امیر معاویہ نے اپنے دور حکومت میں نہر جاری کی جس کا پانی غزوۂ احد کے شہداء کی قبروں میں داخل ہو گیا.حضرت عبد اللہ بن عمرو اور حضرت عمرو بن جموح کی قبر میں بھی پانی داخل ہو گیا.جب ان کی قبر کھودی گئی تو ان پر دو چادریں پڑی ہوئی تھیں اور یہ روایت بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کے چہرے پر زخم تھا اور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا اور پھر آگے جو روایت ہے وہ بہر حال محل نظر ہے.بیان تو میں کر رہا ہوں لیکن ضروری نہیں ہے کہ اس پر تسلی بھی ہو.یہ کیونکہ بعض تاریخی کتابوں میں لکھا ہے اور پڑھنے والے بعض پڑھتے بھی ہیں اس لیے یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ مبالغہ بھی کیا گیا ہو.بہر حال وہ کہتے ہیں زخم سے جب ہاتھ ہٹایا گیا تو زخم سے خون جاری ہو گیا ( جو ناممکن ہے).ان کا ہاتھ واپس زخم پر رکھ دیا گیا تو پھر خون رک گیا.اس قسم کی روایتیں بھی بعض بیچ میں آجاتی ہیں جو محل نظر ہوتی ہیں.جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے قبر میں اپنے والد کو دیکھا تو ایسا معلوم ہوا گویا وہ سورہے ہیں.466 حالانکہ چھ مہینے کے بعد جب انہوں نے نکالا تھا اس وقت بھی وہ کہتے ہیں گوشت پر کچھ اثر تھا تو چھیالیس سال بعد تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نہ اثر ہوا ہو اور ہڈیاں نہ رہ گئی ہوں اور یہ قانون قدرت ہے.اس طرح نہیں ہو سکتا کہ جسم میں کوئی تغیر نہیں تھا.اللہ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور پھر ان سے آمنے سامنے ہو کر کلام کیا..........حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی علیم ملے تو آپ نے فرمایا اے جابر ! کیا بات ہے میں تمہیں غمگین دیکھ رہا ہوں ؟ میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی علیکم میرے والد غزوۂ احد

Page 220

204 اصحاب بدر جلد 5 میں شہید ہو گئے اور وہ قرض اور اولاد چھوڑ گئے ہیں.آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ دوں جس سے اللہ نے تمہارے والد سے ملاقات کی ہے ؟ میں نے عرض کی جی یارسول اللہ صلی علیکم.آپ نے فرمایا اللہ نے کسی سے کلام نہیں کیا مگر پردے کے پیچھے سے، جس سے بھی اللہ تعالیٰ نے کلام کیا پردے کے پیچھے سے کیا لیکن اللہ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور پھر ان سے آمنے سامنے ہو کر کلام کیا اور فرمایا اے میرے بندے ! مجھ سے مانگ کہ میں تجھے دوں.انہوں نے عرض کی کہ اے میرے رب ! مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں.ایک روایت میں ہے کہ اس موقعے پر حضرت عبد اللہ نے عرض کی کہ اے میرے رب ! میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا.میری تمنا ہے کہ تو مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج تاکہ میں تیرے نبی صلی للہ کرم کے ساتھ ہو کر تیری راہ میں لڑوں اور تیری راہ میں دوبارہ مارا جاؤں.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ جو ایک بار مر جائیں وہ دنیا میں دوبارہ نہیں لوٹائے جائیں گے.حضرت عبد اللہ بن عمرو نے اللہ سے عرض کی کہ اے میرے رب ! میرے پیچھے رہنے والوں تک یہ بات پہنچا دے.اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ اَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءِ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (آل عمران : 170) یعنی جو اللہ کی راہ میں مارے گئے تم انہیں ہر گز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں.انہیں ان کے رب کے ہاں رزق 467 عطا کیا جارہا ہے.حضرت جابر بن عبد اللہ کے ضمن میں پہلے بھی یہ آیت میں بیان کر چکا ہوں.اللہ تعالیٰ کے حضرت عبد اللہ بن عمرو سے مکالمہ والے واقعے کی تفصیل حضرت خلیفۃ المسیح الرائع نے اپنی ایک تقریر میں جو خلافت سے پہلے تھی اس طرح بیان کی ہے کہ ” اس واقعہ میں طرح طرح کا حسن کوٹ کوٹ کر بھر اہو اہے اور جس کروٹ سے اسے دیکھیں یہ ایک نئی رعنائی دکھاتا ہے.منجملہ اور امور کے اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مسلسل آنحضور کا رابطہ اپنے رب سے قائم تھا.بندوں پر بھی نظر شفقت فرمارہے تھے اور رب سے بھی دل ملا ر کھا تھا.ایک پہلو اپنے صحابہ پر جھکا ہوا تھا تو دوسرا پہلو رفیق اعلیٰ سے پیہم وابستہ اور پیوستہ تھا.وہ وجو د جو امن کی حالت میں ثم دنا فتدلی (انجم: 1) کے افق اعلیٰ پر فائز رہا، جنگ کی حالت میں بھی ایک لمحہ اس سے الگ نہ ہوا.ایک نگاہ میدان حرب کی نگران تھی تو دوسری جمالِ یار کے نظارے میں مصروف تھی.ایک کان رحمت سے صحابہ کی طرف جھکا ہوا تھا تو دوسر املاء اعلیٰ سے اپنے رب کا شیریں کلام سننے میں مصروف.دست با کار تھا تو دل بایار.آپ صحابہ کی دلداری فرماتے تھے تو خدا آپ کی دلداری فرمارہا تھا.عبد اللہ بن عمرو کی قلبی کیفیت کی خبر دے کر دراصل اللہ تعالیٰ آپ کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ اے سب سے بڑھ کر مجھ سے محبت کرنے والے ! دیکھ ! تیرا ابھی کیسا عشق ہم نے اپنے عارف بندوں کے دل میں بھر دیا ہے کہ عالم گزراں سے گزر جانے کے بعد بھی تیر اخیال انہیں ستاتا ہے اور تجھے میدان جنگ میں تنہا چھوڑ

Page 221

اصحاب بدر جلد 5 205 کے چلے جانے پر کس درجہ کبیدہ خاطر ہیں.تیرے مقابل پر انہیں جنت کی بھی حرص نہیں رہی.ان کی جنت تو بس یہی ہے کہ تیز تلواروں سے بار بار کاٹے جائیں مگر تیرے ساتھ رہیں، پھر تیرے ساتھ رہیں، پھر تیرے ساتھ رہیں.468 آنحضرت صلی اللہ وسلم کی برکت سے کھجوروں میں برکت حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر و جب فوت ہوئے تو ان پر قرض تھا.میں نے نبی صلی اللہ کم سے مدد طلب کی.آپ ان کے قرض خواہوں کو سمجھائیں کہ وہ ان کے قرض میں سے کچھ کمی کر دیں تو نبی صلی اللہ ہم نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا مگر انہوں نے کمی نہ کی.تب نبی صلی علیم نے مجھے فرمایا کہ جاؤ اور اپنی کھجوروں کی ہر ایک قسم کو الگ الگ کرو.عجوہ کھجور کی کو علیحدہ رکھنا اور عذق بن زید کھجور کی قسم کو علیحدہ.پھر مجھے پیغام بھیجنا.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور رسول الله عالم کو کہلا بھیجا.آپ تشریف لائے تو آپ کھجوروں کے ڈھیر پر یا ان کے درمیان بیٹھ گئے.پھر آپ نے فرمایا ان لوگوں کو ماپ کر دو.چنانچہ میں نے ان کو ماپ کر دیا یہاں تک کہ جو اُن کا حق تھا میں نے ان کو پور دے دیا.پھر بھی میری کھجوریں بچ گئیں.ایسا معلوم ہو تا تھا کہ ان میں کچھ کمی نہیں ہوئی.469 حضرت عبد اللہ بن عمرو اپنے پسماندگان میں اپنے بیٹے حضرت جابر بن عبد اللہ کے علاوہ چھ بیٹیاں چھوڑ کے گئے.صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ہو نے پسماندگان میں سات یا نو بیٹیاں چھوڑی تھیں.470 220 نام و نسب و کنیت حضرت عبد اللہ بن مسعود رسول اللہ صلی الم کے رازدار حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ.ان کی کنیت ابو عبد الرحمن ہے.ان کا تعلق بنو ھذیل قبیلہ سے تھا اور ان کی والدہ کا نام ای عبد ہے.ان کی وفات 32 ہجری میں ہوئی.ان کے والد کا نام مسعود بن غافل تھا.حضرت عبد اللہ بن مسعود کا شمار ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے ہوتا ہے.حضرت عمر کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ بنت خطاب اور ان کے شوہر حضرت سعید بن زید نے جب اسلام قبول کیا تو آپ بھی

Page 222

اصحاب بدر جلد 5 206 اسی وقت مسلمان ہوئے تھے.471 اور آنحضور صلی ایم کے دارار تم میں داخل ہونے سے قبل ہی ایمان لے آئے تھے.72 قبول اسلام کی تفصیل وہ جگہ جو مکہ میں مسلمانوں کے اکٹھے ہونے کے لئے بنائی گئی تھی.حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں اسلام قبول کرنے والا چھٹا شخص تھا.اس وقت روئے زمین پر ہم چھ اشخاص کے علاوہ الله سة کوئی مسلمان نہیں تھا.اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں سن تمیز کو جب پہنچ گیا، ایسی عمر کو جب پہنچ گیا جب صحیح پہچان بھی ہوتی ہے، اچھے برے کا فرق پتہ لگ جاتا ہے ، بلوغت کی عمر ہوتی ہے.ایک دن عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرارہا تھا.آنحضرت صلی علیہ کم تشریف لائے اور حضرت ابو بکر بھی آپ کے ساتھ تھے.آپ صلی الی یکم نے مجھ سے فرمایا کہ اے لڑکے تیرے پاس کچھ دودھ ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ہے مگر میں امین ہوں دے نہیں سکتا.بچپن سے ہی ان میں بڑی نیکی تھی.آنحضور صلی یم نے فرمایا کہ کوئی بکری لے آؤ جو گا بھن نہ ہو، ایسی بکری جو گا بھن نہیں ہے، دودھ نہیں دے رہی اسے لے آؤ.کہتے ہیں میں ایک جوان بکری آپ کے پاس لے گیا تو رسول خداصلی ایم نے اس کے پاؤں باندھ دیئے، اس کے تھن پر ہاتھ پھیر ناشروع کیا اور دعا کی یہاں تک کہ اس کا دودھ اتر آیا.پھر حضرت ابو بکر ایک برتن لے آئے اور حضور صلی علیم نے اس برتن میں اس کا دودھ دھویا اور حضرت ابو بکر سے فرمایا کہ پیو.حضرت ابو بکر نے دودھ پیا.بعد میں حضور صلی لینی ہم نے پیا اور پھر آپ نے تھنوں پہ اپنا ہاتھ پھیرا اور کہا کہ سکڑ جاؤ اور وہ سکڑ گئے اور پہلے جیسے ہو گئے.میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ مجھے بھی اس کلام میں سے کچھ سکھا دیں جو آپ نے پڑھا ہے.اس پر آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا تم سیکھے سکھائے نوجوان ہو.آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ صلی علیم سے بلا واسطہ قرآن کریم کی ستر سورتیں یاد کی ہیں ، بر او ر است آنحضرت صلی الله یم سے آپ نے یاد کی تھیں.473 دینی علم میں فضیلت ان کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی سیر ہ خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ "عبد اللہ بن مسعود جو غیر قریشی تھے اور قبیلہ ہذیل سے تعلق رکھتے تھے ایک بہت غریب آدمی تھے اور عقبہ بن ابی معیط رئیس قریش کی بکریاں چرایا کرتے تھے.اسلام لانے کے بعد یہ آنحضرت صلی للی کم کی خدمت میں آگئے اور آپ کی صحبت سے بالآخر نہایت عالم و فاضل بن گئے.فقہ حنفی کی بنیاد زیادہ تر انہی کے اقوال و

Page 223

207 474" اصحاب بدر جلد 5 اجتہادات پر مبنی ہے.ان کے دینی علم کی فضیلت کے بارے میں یہ روایت ہے : حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ لوگ جانتے ہیں کہ میں ان سب میں سے کتاب اللہ کا خوب عالم ہوں.قرآن مجید میں کوئی سورۃ یا آیت نہیں مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کب اتری اور کہاں اتری.ابو وائل راوی کہتے ہیں کہ اس بیان کا کسی نے انکار نہیں کیا.475 آنحضور صلی الم نے ان سے قرآن سیکھنے کی نصیحت فرمائی جب حضرت عبد اللہ بن مسعود نے یہ بات کہی.آنحضور صلی الم نے جن چار صحابہ سے قرآن کریم پڑھنے اور سیکھنے کی نصیحت فرمائی ان میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا نام سر فہرست ہے.476 دیباچہ تفسیر القرآن میں اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ چونکہ لوگوں میں حفظ قرآن کریم کا اشتیاق بہت تیز ہو گیا تھا.رسول اللہ صلی المی کریم نے قرآن کریم پڑھانے والے استادوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی جو سارا قرآن رسول اللہ صلی علی یکم سے حفظ کر کے آگے لوگوں کو پڑھاتے تھے.یہ چار چوٹی کے استاد تھے جن کا کام یہ تھا کہ رسول اللہ صلی علیہ کمی سے قرآن شریف پڑھیں اور لوگوں کو قرآن پڑھائیں.پھر ان کے ماتحت اور بہت سے صحابہ ایسے تھے جو لوگوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے.ان چار بڑے استادوں کے نام یہ ہیں: عبد اللہ بن مسعود، سالم مولی ابی حذیفہ، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب.ان میں سے پہلے دو مہاجر ہیں اور دوسرے دو انصاری.کاموں کے لحاظ سے عبد اللہ بن مسعود ایک مزدور تھے ، سالم ایک آزاد شدہ غلام تھے ، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب مدینہ کے رؤسا میں سے تھے.گویا ہر گروہ میں سے رسول اللہ صلی علیم نے تمام گروہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قاری مقرر کر دیئے تھے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تھا کہ خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُود وَ سَالِمٍ وَمَعَاذِ ابْنِ جَبَل وَأُبَى بن كَعْبٍ جن لوگوں نے قرآن پڑھنا ہو وہ ان چار سے قرآن پڑھیں.عبد اللہ بن مسعود، سالم، معاذ بن جبل اور اُبی بن کعب.حضرت مصلح موعودؓ بعد میں لکھتے ہیں کہ یہ چار تو وہ تھے جنہوں نے سارا قرآن رسول اللہ صلی علیل ہم سے سیکھایا آپ کو سنا کر اس کی تصحیح کر الی لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے صحابہ رسول اللہ صلی للی تم سے براہ راست بھی کچھ نہ کچھ قرآن سیکھتے رہتے تھے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ عبد اللہ بن مسعود نے ایک لفظ کو اور طرح پڑھا تو حضرت عمر نے ان کو روکا اور کہا کہ اس طرح نہیں اس طرح پڑھنا چاہیئے.اس پر عبد اللہ بن مسعود نے کہا کہ نہیں مجھے رسول اللہ صلیالی ہم نے اسی طرح سکھایا ہے.حضرت عمر اُن کو پکڑ کر رسول اللہ صلی علیکم کے پاس لے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کہا کہ یہ قرآن غلط پڑھتے ہیں.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا.عبد اللہ بن مسعود پڑھ کر سناؤ.جب انہوں نے پڑھ کر سنایا تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ یہ تو ٹھیک ہے.حضرت عمر نے کہا یارسول اللہ !مجھے تو آپ سة

Page 224

208 اصحاب بدر جلد 5 نے یہ لفظ اور رنگ میں سکھایا تھا.آپ نے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے جس طرح تم پڑھ رہے ہو.تو حضرت مصلح موعودؓ نے نتیجہ نکالا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی چار صحابہ رسول اللہ صلی علیم سے قرآن نہیں پڑھتے تھے بلکہ دوسرے لوگ بھی پڑھتے تھے.چنانچہ حضرت عمر کا یہ سوال کہ مجھے آپ نے اس طرح پڑھایا ہے بتاتا ہے کہ حضرت عمر بھی رسول کریم صلی علیم سے پڑھتے تھے.7 477 خص رسول اللہ صلی علیم کے بعد سب سے پہلے قرآن کو علی الاعلان پڑھنے والے ایک روایت میں ہے کہ مکہ میں رسول اللہ صلی الی یکم کے بعد سب سے پہلے قرآن کو علی الاعلان پڑھنے والے حضرت عبد اللہ بن مسعود ہی تھے.چنانچہ یہ واقعہ اس طرح ملتا ہے کہ ایک دن صحابہ جمع تھے اور آپس میں کہہ رہے تھے کہ قریش نے قرآن کی بلند آواز تلاوت کبھی نہیں سنی.کیا کوئی ان کو سنا سکتا ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے کہا کہ میں سنا سکتا ہوں.لوگوں نے کہا کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں کفار تمہیں تکلیف نہ پہنچائیں.تم تو مز دور آدمی ہو تمہارے بجائے کوئی اور با اثر شخص ہو کہ کفار اگر اسے مارنا بھی چاہیں گے تو اس کا قبیلہ اسے بچالے گا.حضرت عبد اللہ بن مسعود کہنے لگے کہ اس کی فکر نہ کرو مجھے اللہ بچائے گا.عجیب جوش تھا ان صحابہ میں.دوسرے دن چاشت کے وقت صبح کو آپ نے مقام ابراہیم پہنچ کر بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الرَّحْمٰنُ عَلَمَ الْقُرآن پڑھنا شروع کر دیا.قریش جو کہ اپنی مجالس میں بیٹھے تھے آپ کے اس عمل سے حیران ہوئے.بعض نے کہا یہ تو انہی عبارتوں میں سے پڑھ رہا ہے جو محمد صلی علی کم بیان کرتے ہیں.یہ سن کر سب اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے منہ پر مار ناشروع کر دیا مگر آپ پڑھتے رہے اور جتنا پڑھنے کا ارادہ کیا تھا پڑھا.بعد میں جب حضرت عبد اللہ بن مسعود اصحاب کے پاس واپس گئے تو آپ کے منہ پر طمانچوں کے نشان دیکھ کر صحابہ کہنے لگے کہ ہمیں اس بات کا خطرہ تھا کہ تمہیں مار پڑے گی.اس پر حضرت عبد اللہ بن مسعود نے کہا کہ یہ خدا کے دشمن میری نظر میں اتنے بے حقیقت کبھی نہ تھے جتنے اس وقت تھے جب وہ مجھے مار رہے تھے.اگر تم چاہو تو میں کل بھی ایسا ہی کرنے کو تیار ہوں.صحابہ نے کہا نہیں اتنا ہی کافی ہے تم نے انہیں وہ چیز سنادی ہے جسے وہ سننا ہی نہیں چاہتے تھے.478 نبی اکرم علی نام سے قربت کا مقام حضرت عبد اللہ بن مسعود کے اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضور صلی للی یکم نے انہیں اپنے پاس رکھ لیا.آپ حضور صلی علیکم کی خدمت کیا کرتے تھے.نبی کریم صلی علیہم نے آپ سے فرما دیا تھا کہ جب تم میری آواز سن لیا کرو اور گھر میں پردہ نہ پڑا ہو توبلا اجازت اندر آجایا کرو.گھر میں اگر پر دہ گرا ہوا ہے تو پھر بغیر پوچھے نہیں آنا اور اگر پردہ اٹھا ہوا ہے، دروازہ کھلا ہے میری آواز سن لی ہے تم نے تو آجایا کرو تمہیں اجازت ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کوئی اس وقت، کوئی خواتین وغیرہ نہیں ہیں.

Page 225

اصحاب بدر جلد 5 209 آپ آنحضور صلی علیہ کم کا ہر کام کرتے تھے.آپ کو جوتی پہناتے.کہیں ساتھ جانے کی ضرورت ہوتی تو ساتھ جاتے.جب آنحضور صلی علیکم غسل فرماتے تو آپ پر وہ لے کر کھڑے رہتے.صحابہ میں آپ صاحب السواک کے لقب سے مشہور تھے.ایک اور روایت کے مطابق آپ کو صاحب السواک، صاحب الوساد اور صاحب النعلین بھی کہا جاتا ہے.479 عبد اللہ بن مسعود رسول اللہ صلی ایم کے رازدار، آپ کا بستر بچھانے والے، آپ کی مسواک اور نعلین وغیرہ رکھنے والے تھے.یہ جو عربی کے لفظ بولے گئے ہیں وہ یہ تھے کہ آپ کا بستر بچھانے والے تھے، مسواک کرواتے تھے ، وضو کرواتے تھے ، آنحضرت صلی لی ایم کے لئے نہانے کا انتظام کرتے تھے ، آپ کا بستر بچھاتے تھے.بستر بچھانے والے کو صاحب السواد کہتے ہیں.اور آپ کی نعلین مبارک، جو تیاں رکھنے اور ٹھیک کرنے کا کام بھی کرتے تھے اس لئے صاحب النعلین بھی آپ کو کہا جاتا ہے.وضو کا پانی رکھنے والے تھے.آنحضرت صلی علیہ کم جب بھی سفر میں ہوتے تو آپ ہی یہ کام کرتے.ابو ملیح سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی ا یکم جب غسل فرماتے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود پر دہ کرتے تھے اور جب آپ سوتے تو آپ کو بیدار کرتے تھے.آپ کے ہمراہ سفر میں مسلح ہو کر جاتے تھے.480 حضرت ابو موسیٰ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم یمن سے نئے نئے پہلی دفعہ آئے تو یہی سمجھتے تھے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود آنحضرت صلی علیم کے اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ ان کی اور ان کی والدہ کی آمد ورفت آنحضور صلی ا م کے ہاں بہت زیادہ تھی.31 481 گھر میں آنا جانا بہت زیادہ تھا.جتنا کام کرتے تھے اور والدہ بھی آتی جاتی تھیں تو اس سے یہ کہتے ہیں کہ ہم جب نئے نئے مدینہ میں آئے تو ہم سمجھے کہ یہ بھی آنحضرت صلی لی ایم کے اہل بیت میں سے ہیں.دونوں ہجرتوں میں شامل اور جنت کی بشارت حضرت عبد اللہ بن مسعود دونوں ہجرتوں میں شامل تھے ہجرت حبشہ میں بھی اور ہجرت مدینہ میں بھی.غزوہ بدر، احد، خندق اور بیعت رضوان وغیرہ میں آنحضور صلی ا ولم کے ساتھ شامل تھے.آنحضور صلی ایام کے بعد جنگ یرموک میں بھی شامل ہوئے.آپ ان صحابہ میں بھی شامل تھے جنہیں حضور نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی تھی.ابو جہل کو انجام تک پہنچانے میں ان کا حصہ 482 غزوہ بدر میں ابو جہل کو انجام تک پہنچانے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا بھی حصہ ہے.حضرت انس سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے اختتام پر آنحضور صلی علی یم نے فرمایا کہ کیا کوئی ہے جو ابو جہل کے بارے میں درست خبر لائے.عبد اللہ بن مسعود گئے اور دیکھا کہ ابو جہل جنگ کے میدان میں شدید

Page 226

اصحاب بدر جلد 5 210 زخمی ہے اور جان کنی کی حالت میں پڑا ہے.اسے عفراء کے بیٹوں نے اس حالت میں پہنچایا تھا.حضرت ابن مسعود نے اس کی داڑھی سے پکڑ کر کہا کہ کیا تم ہی ابو جہل ہو ؟ اس نے اس حالت میں بھی بڑے غرور سے جواب دیا.کیا کبھی مجھ سے بڑا سردار بھی تم نے مارا ہے.483 پہلی روایت تو بخاری کی تھی اس کے بارے میں صحیح مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے اس کی داڑھی کو پکڑ کر کہا کہ کیا تو ابو جہل ہے ؟ اس پر ابو جہل نے کہا کیا تم نے آج سے پہلے میرے جیسا بڑا آدمی قتل کیا ہے ؟ راوی کہتے ہیں ابو جہل نے کہا اے کاش کہ میں ایک کسان کے ہاتھوں سے قتل نہ ہوتا.484 مدینہ کے دولڑ کے تھے جنہوں نے قتل کیا تھا.اس کو اس حالت میں پہنچایا تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی تفسیر کبیر میں اس کی تفصیل لکھی ہے کہ کس طرح دشمن حسد کی آگ میں ساری عمر جلتے رہے اور پھر مرتے ہوئے بھی اسی آگ میں جل رہے تھے.آپ لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد میں نے دیکھا کہ ابو جہل ایک جگہ زخموں کی شدت کی وجہ سے کراہ رہا ہے.میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا سناؤ کیا حال ہے ؟ اس نے کہا مجھے اپنی موت کا کوئی غم نہیں، سپاہی آخر مراہی کرتے ہیں.مجھے تو یہ غم ہے کہ مدینہ کے دو انصاری لڑکوں کے ہاتھوں سے میں مارا گیا.مر تو میں رہا ہوں تم صرف اتنا احسان کرو میرے پہ کہ تلوار سے میری گردن کاٹ دو تا کہ میری یہ تکلیف ختم ہو جائے.مگر دیکھنا میری گردن ذرا لمبی کاٹنا کیونکہ جرنیلوں کی گردن ہمیشہ لمبی کائی جاتی ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعود نے کہا کہ میں تیری اس آخری حسرت کو بھی کبھی پورا نہیں ہونے دوں گا اور ٹھوڑی کے قریب سے تیری گردن کاٹوں گا.چنانچہ انہوں نے ٹھوڑی کے قریب تلوار رکھ کر اس کا سر تن سے جد ا کر دیا.حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ دیکھو یہ کتنی بڑی آگ تھی جو ابو جہل کو جلا کر راکھ کر رہی تھی کہ ساری عمر اس بات پر جلتا رہا کہ آنحضرت صلی علیہم کو جو نقصان ہم پہنچانا چاہتے ہیں وہ پہنچا نہیں سکے.پھر مرنے لگا، موت کی جو حالت آئی تو اس وقت اس آگ میں جل رہا تھا کہ مدینہ کے دو نا تجربہ کار نو عمر لڑکوں کے ہاتھوں مارا جارہا ہے.اور پھر مرتے وقت اس نے جو آخری خواہش کی تھی وہ بھی پوری نہیں ہوئی اور ٹھوڑی کے پاس سے اس کی گردن کاٹی گئی.؟ غرضیکہ ہر قسم کی آگوں میں جلتا ہوا ہی وہ دنیا سے چلا گیا.مکہ اور مدینہ میں مواخات 485 جب حضرت عبد اللہ بن مسعود ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو حضرت معاذ بن جبل کے ہاں آپ کا قیام تھا.بعض کے مطابق آپ حضرت سعد بن خیثمہ کے ہاں ٹھہرے تھے.مکہ میں آپ کی مواخات حضرت زبیر بن العوام سے ہوئی تھی جبکہ مدینہ میں آنحضور صلی ﷺ نے معاذ بن جبل کو آپ کا

Page 227

486 211 اصحاب بدر جلد 5 دینی بھائی بنایا.مدینہ کے ابتدائی ایام میں آپ کے مالی حالات اچھے نہیں تھے چنانچہ حضور صلی ہی ہم نے جب مہاجرین کے لئے مسجد نبوی کے قریب رہائش کا کچھ انتظام کیا تو بنو زہرہ کے بعض لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود کو اپنے ساتھ رکھنے میں کچھ ہچکچاہٹ ظاہر کی کہ یہ مزدور آدمی ہے، غریب آدمی ہے، ہم لوگ بڑے آدمی ہیں.آنحضور صلی میں کم کو جب علم ہوا تو آپ نے اپنے اس غریب اور کمزور خادم کے لئے غیرت دکھاتے ہوئے فرمایا کہ کیا خدا نے مجھے اس لئے مبعوث فرمایا ہے کہ تم لوگ یہ فرق رکھو.یادر کھو خدا تعالیٰ اس قوم کو کبھی برکت عطا نہیں کرتا جس میں کمزور کو اس کا حق نہیں دیا جاتا اور پھر حضور صلی علیم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود کو مسجد کے قریب جگہ دی جبکہ بنو زہرہ کو مسجد کے پیچھے ایک کونے میں جگہ دی.حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں، خود ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللی کرم نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے سورۃ نساء پڑھ کر سناؤ.عبد اللہ بن مسعود اپنا خود واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی یکم نے فرمایا مجھے سورۃ نساء پڑھ کر سناؤ.میں نے عرض کی کہ میں بھلا کیا آپ کو سناؤں یہ آپ ہی پر تو نازل ہوئی ہے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ مجھے پسند ہے کہ کوئی دوسرا شخص تلاوت کرے اور میں سنوں.بیان کرتے ہیں کہ میں نے پڑھنا شروع کیا اور جب اس آیت پر پہنچا کہ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَ جِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاء شھیدا (النساء: 412) پس کیا حال ہو گا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے تو آنحضور صلی الیکم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے.روایات میں آتا ہے کہ آپ نے کہا بس کرو.487 ایک دفعہ حضرت عمر فاروق عرفات کے مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ اے امیر المومنین !( ان کی خلافت کے بعد کی بات ہے) میں کوفہ سے آیا ہوں.وہاں میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص بنا دیکھے قرآن کی آیات کی املاء کر تا ہے.اس پر آپ نے غصہ کی حالت میں کہا کہ تیر ابر اہو ( عربوں کا انداز ہے ) کون ہے وہ شخص ؟ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ عبد اللہ بن مسعود.یہ سن کر حضرت عمر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا یہاں تک کہ پہلی حالت میں واپس آگئے.پھر فرمانے لگے کہ میں اس کام کا عبد اللہ بن مسعود سے زیادہ کسی اور کو حقدار نہیں سمجھتا.488 وہ عبد اللہ بن مسعودؓ سے قرآن پڑھے وہ بغیر دیکھے قرآن کریم لکھ سکتے ہیں.حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت حضرت ابو بکر اور میں آنحضور صلی العلیم کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پاس سے گزرے.وہ نوافل ادا کر رہے تھے اور ان میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے.قیام میں کھڑے تھے ، تلاوت ہو رہی تھی.نبی کریم صلی علی کم کھڑے ہو کر آپ کی تلاوت سننے لگے.پھر حضرت عبد اللہ بن مسعود رکوع میں گئے پھر سجدہ کیا.آنحضور صلی الیم نے فرمایا کہ اے عبد اللہ اب جو مانگو گے وہ تمہیں عطا کیا جائے گا.

Page 228

اصحاب بدر جلد 5 212 پھر نبی کریم صلی ال کی وہاں سے رخصت ہو گئے اور فرمایا کہ جس شخص کی خوشی اس بات میں ہو کہ وہ قرآن کریم کو اس طرح تازگی سے پڑھے جس طرح وہ نازل کیا گیا تو اسے عبد اللہ بن مسعود سے قرآن شریف پڑھنا چاہئے.مسند احمد بن مقبل میں یہ روایت ہے.489 سنت رسول صلی یم پر عمل کرنے کے شوق و جذبہ حضرت عبدالرحمن بن یزید یہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت حذیفہ کے پاس گئے اور کہا کہ ہمیں ایسے شخص کا پتہ بتا دیں جو رسول اللہ صلی علی یم کی روش سے زیادہ قریب ہو، اس طریق پر چلنے والا ہو اور وہی کام کرنے والا ہو یا قریب ترین ہو جو آنحضرت صلی علی کم کیا کرتے تھے تا کہ ہم اس سے علم حاصل کریں اور حدیثیں سنیں.تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی ال کم کی روش سے سب سے زیادہ قریب عبد اللہ 490 492 491 بن مسعود ہیں.ان کا سنت رسول صلی علیم پر عمل کرنے کے شوق و جذبہ کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ صلی ال کمی کی وفات کے بعد صحابہ سے جب یہ سوال کیا جاتا کہ نبی کریم صلی نمیریم سے عادات و خصائل اور سیرت و شمائل کے لحاظ سے آپ کے صحابہ میں سے قریب ترین کون ہے جس کا طریق ہم بھی اختیار کریں تو حضرت حذیفہ بیان فرماتے تھے کہ میرے علم کے مطابق چال ڈھال، گفتگو اور اخلاق و اطوار کے لحاظ سے عبد اللہ بن مسعود نبی کریم صلی الم کے سب سے زیادہ قریب ہیں.شاید یہی وجہ ہے کہ نبی کریم فرماتے تھے کہ مجھے اپنی امت کے لئے وہی باتیں پسند ہیں جو عبد اللہ بن مسعود کو مرغوب ہیں.یہ بخاری کی حدیث ہے.حضرت علقمہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کو ان کے طریق، ان کے حسن سیرت اور ان کی میانہ روی میں رسول اللہ صلی علی ایم سے تشبیہ دی جاتی تھی.2 حضرت عبد اللہ بن مسعود کے بیٹے عبید اللہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی عادت تھی کہ جب رات کو لوگ سو جاتے تو وہ تہجد کے لئے اٹھتے.ایک رات میں نے انہیں صبح تک گنگناتے ہوئے سنا جیسے شہد کی مکھی گنگناتی ہے.493 یعنی دعا میں ملکی ہلکی گنگناہٹ کے ساتھ دعائیں کر رہے تھے یا تلاوت کر رہے تھے.حضرت علی سے روایت ہے کہ آنحضور صلی ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں بغیر مشورے کے کسی کو امیر بناتا تو عبد اللہ بن مسعود کو بناتا.494 پھر ایک جگہ حضرت علی کی یہی بات اس طرح بیان ہوئی ہے، الطبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ حضرت علی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الی یم نے مجھ سے فرمایا اگر میں مسلمانوں کی مجلس شوری کے علاوہ کسی اور کو امیر بناتا تو عبد اللہ بن مسعود کو امیر بناتا.حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں اسلام قبول کرنے کے بعد کبھی بھی چاشت کے وقت نہیں سویا.495

Page 229

اصحاب بدر جلد 5 213 تعویذ گنڈوں پر حضرت عبد اللہ کا سخت رد عمل الله سة عبد اللہ بن مسعود اپنے بیوی بچوں سے محبت رکھتے تھے.گھر میں داخل ہوتے تو کھنکھارتے اور بلند آواز سے کچھ بولتے تاکہ گھر کے لوگ باخبر ہو جائیں.آپ کی اہلیہ حضرت زینب بیان کرتی ہیں کہ ایک روز عبد اللہ گھر داخل ہوئے اس وقت ایک بوڑھی عورت مجھے تعویذ پہنا رہی تھی.عورتوں کو عادت ہوتی ہے بعض دفعہ کہ تعویذ گنڈا بھی کر لیں شاید برکت حاصل کرنے کے لئے تو ان کو پتہ تھا کہ عبد اللہ بن مسعود کو یہ چیز پسند نہیں ہے.کہتی ہیں میں نے ان کے ڈر سے اسے اپنے پلنگ کے نیچے چھپا دیا، جہاں بیٹھ کر کر رہی تھی.آپ میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور میرے گلے کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ یہ دھاگہ کیسا ہے جو تم نے گلے میں ڈالا ہوا ہے ؟ میں نے کہا تعویذ ہے.انہوں نے اس کو توڑ کے اسی وقت پھینک دیا اور کہا کہ عبد اللہ کا خاندان شرک سے بری ہے.پھر عبد اللہ بن مسعود نے کہا کہ رسول اللہ صلی علیکم سے میں نے سنا ہے کہ تعویذ گنڈے شرک میں داخل ہیں.میں نے کہا یہ آپ کیا فرماتے ہیں ؟ میری آنکھیں جوش کر آتی تھیں تو میں فلاں یہودی سے تعویذ لینے جایا کرتی تھی.بعض دفعہ میری آنکھوں میں تکلیف ہوا کرتی تھی، آنکھیں پھول جاتی تھیں ، پانی نکلتا تھا تو میں تو یہودی سے اس کا تعویذ لیتی تھی اور اس کے تعویذ سے مجھے سکون ہو جاتا تھا.تو عبد اللہ بن مسعود بولے کہ یہ سب شیطانی عمل ہے.تمہارے لئے رسول اللہ صلی علیم کی یہ دعا ہی کافی ہے اور وہ دعا یہ ہے کہ أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبِّ النَّاسِ اِشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءكَ شِفَاءَ لَا يُغَادِرُ سَقَمًا.اے لوگوں کے پروردگار میری تکلیف کو دور فرما تو شفادے صرف تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے سوا کوئی شفا کار گر نہیں.ایسی شفا جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے.496 اب وہ لوگ جو پیروں فقیروں کے دروں پہ جاتے ہیں وہ لوگ جو سارا دن بھنگ اور چرس پی رہے ہوتے ہیں، کبھی نمازیں بھی نہیں پڑھتے اور ان سے تعویذ گنڈا کر ا کے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم صحتیاب ہو گئے یا ہم پہ بڑا فضل ہو گیا اور ہمیں اولاد مل گئی اور فلاں ہو گیا.یہ سب باتیں ان لوگوں کا جواب ہے.عبد اللہ بن مسعود ایک دفعہ اپنے ایک دوست ابو عمیر سے ملنے گئے.اتفاق سے وہ موجود نہیں تھے تو انہوں نے ان کی بیوی کو سلام بھیجا اور پینے کے لئے پانی مانگا.گھر میں پینے کا پانی موجود نہیں تھا.انہوں نے ایک لونڈی کو کسی ہمسائے کے پاس بھیجا.اس سے پانی لینے گئی اور دیر تک واپس نہیں آئی.ابو عمیر کی بیوی نے اس کام کرنے والی لونڈی کو اس بات پر سخت ست کہا اور اس پر لعنت بھیجی.حضرت عبد اللہ یہ سن کر پیاسے ہی واپس پلٹ گئے.دوسرے دن ابو عمیر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اتنی جلدی واپس چلے جانے کی وجہ پوچھی کہ تم پانی پئے بغیر ہی چلے گئے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری بیوی نے جب خادمہ پر لعنت بھیجی تھی تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ ہم کی بات یاد آگئی کہ جس پر لعنت بھیجی جاتی ہے اگر وہ بے قصور ہو تو لعنت بھیجنے والے پر واپس آجاتی ہے.تو میں نے سوچا کہ خادمہ اگر بے قصور

Page 230

اصحاب بدر جلد 5 214 ہوئی تو میں بے وجہ اس لعنت کے واپس آنے کا باعث بنوں گا.27 497 اس لئے بہتر ہے کہ میں چلا جاؤں اور پانی نہ پہیوں.تو خدا تعالیٰ کے خوف کا یہ حال تھا کہ کہیں شائبہ بھی ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہو سکتی ہے کسی وجہ سے تو یہ لوگ اس سے بچتے تھے.حضرت عبد اللہ بن مسعود د بلے جسم پتلے قد اور گندم گوں رنگ کے مالک تھے لیکن لباس بڑا اچھا پہنتے تھے.سفید کپڑا پہنتے خوشبو لگاتے تھے.حضرت طلحہ سے مروی ہے کہ آپ اپنی خوشبو سے پہچانے جاتے تھے.498 حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی علی یکم نے کسی کام کے لئے عبد اللہ بن مسعود کو ایک درخت پر چڑھنے کا حکم دیا.صحابہ آپ کی دبلی اور بظاہر کمزور پنڈلیوں کو دیکھ کر ہنسی مذاق کرنے لگے ، بڑی کمزور سی دبلی پتلی ٹانگیں تھیں، ہنسی مذاق کرنے لگے.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ کیوں بنتے ہو ؟ عبد اللہ کی نیکیوں کا پلڑا قیامت کے دن احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہو گا.499 حضرت عبد اللہ بن مسعود کے بال ایسے تھے جن کو وہ اپنے کانوں تک اٹھاتے تھے.ایک روایت میں ہے کہ آپ کے بال گردن تک پہنچتے تھے.جب آپ نماز پڑھتے تو انہیں کانوں کے پیچھے کر لیتے 500 علم و فضل میں مقام و مر تبہ زید بن وہب بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت عمر کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود آئے.چونکہ وہ پست قد کے تھے اس لئے اور لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے ان میں چھپنے کے قریب ہو گئے.ان کا قد چھوٹا تھا.دوسرے لوگ بہت لمبے لمبے قد کے بیٹھے ہوئے تھے یا اس طرح بیٹھے ہوں گے کہ بیٹھنے کی وجہ سے چھپ گئے.قریب چھپنے والے تھے یا صحیح نظر نہیں آرہے تھے.حضرت عمر نے جب ان کو دیکھا تو مسکرانے لگے.پھر حضرت عمر نے آپ سے ہی باتیں کیں اور ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگے.اس دوران حضرت عبد اللہ کھڑے رہے، جب باتیں کر رہے تھے حضرت عمر سے تو حضرت عبد اللہ کھڑے ہو گئے تاکہ چھپیں نہ اور باتیں کرتے رہیں.باتیں کرنے کے بعد جب حضرت عبد اللہ وہاں سے چلے گئے تو حضرت عمر نے آپ کو جاتے ہوئے دیکھا اور پیچھے سے دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے.پھر حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ شخص علم سے بھرا ہوا ایک بڑا برتن ہے.501 حضرت ابن مسعود کے علمی مقام یعنی عبد اللہ بن مسعود کے علمی مقام اور مرتبہ کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت معاذ بن جبل کی وفات کا وقت آیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ ہمیں کوئی نصیحت کریں تو انہوں نے فرمایا کہ علم اور ایمان کا ایک مقام ہے جو بھی اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے کامیاب ہوتا ہے.پھر علم اور ایمان سیکھنے کے لئے حضرت معاذ بن جبل نے جن چار عالم

Page 231

اصحاب بدر جلد 5 215 502 با عمل بزرگوں کے نام لئے ان میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا نام بھی تھا.آنحضور صلی الم کے بعد حضرت عمر نے آپ کو اہل کوفہ کی تعلیم و تربیت کے لئے بطور مربی بھیجا جبکہ حضرت عمار بن یاسر کو حاکم بنا کر بھیجا.ساتھ ہی اہل کوفہ کو یہ بھی لکھا کہ یہ دونوں رسول اللہ صلی الی یم کے اصحاب میں سے چنیدہ لوگ ہیں ، بڑے خاص لوگ ہیں، اہل بدر میں سے ہیں تم لوگ ان کی پیروی کرو، ان کے احکام کی اطاعت کرو اور ان کی باتیں سنو، میں نے عبد اللہ بن مسعود کے متعلق اپنی ذات پر تمہیں ترجیح دی ہے.13 503 یہ تھا تو کل علی اللہ اور قناعت کی حالت ان چمکتے ستاروں کی حضرت عثمان جب عبد اللہ بن مسعود کی آخری بیماری تھی آپ کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی شکایت ہے ؟ تو انہوں نے عرض کیا شکایت پوچھتے ہیں میرے سے تو پھر شکایت مجھے اپنے گناہوں کی ہے کہ میں نے اتنے گناہ کئے ہیں.پھر حضرت عثمان نے پوچھا کہ کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ پروردگار کی رحمت چاہتا ہوں.حضرت عثمان نے کہا کہ آپ کے لئے کوئی طبیب تجویز کر دوں، کوئی ڈاکٹر تجویز کر دوں جو آپ کا علاج وغیر ہ کرے.انہوں نے پھر عرض کی طبیب نے ہی تو مجھے بیمار بنایا ہے.یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پہ میں راضی ہوں جو ہو رہا ہے.پھر حضرت عثمان نے کہا کہ کیا آپ کا وظیفہ مقرر کر دوں ؟ تو کہنے لگے مجھے اس کی ضرورت نہیں.حضرت عثمان نے کہا کہ آپ کی لڑکیوں کے کام آئے گا.کہنے لگے کیا آپ کو میری لڑکیوں کے محتاج ہو جانے کا خدشہ ہے جو یہ بات کی ہے.پھر انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو حکم دے رکھا ہے کہ ہر شب سورۃ واقعہ پڑھ لیا کرو.میں نے رسول اللہ صلی علیم سے یہ سنا ہے کہ جو بھی ہر روز رات کو سورۃ واقعہ پڑھ لیا کرے اسے کبھی فاقے کی مصیبت پیش نہ آئے گی.504 یہ تھا تو کل علی اللہ اور قناعت کی حالت ان چمکتے ستاروں کی.الله سة خلیفہ وقت کی اطاعت اور وفات سلمی بن تمام کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے ملاقات کی اور اپنی ایک خواب بیان کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں نے رات آپ کو خواب میں دیکھا ہے اور یہ کہ آنحضور صلی علیکم ایک اونچے منبر پر بیٹھے ہیں اور آپ اس منبر کے نیچے ہیں.آنحضور صلی علیکم یہ فرمارہے ہیں کہ اے ابن مسعود میرے پاس آجاؤ تم نے میرے بعد بڑی بے رغبتی اختیار کر لی ہے.عبد اللہ بن مسعود نے پوچھا کہ خدا کی قسم کیا تو نے یہ خواب دیکھا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں.پھر اس پر آپ نے فرمایا کہ کیا تو مدینہ سے میری نماز جنازہ پڑھنے آیا ہے ؟ پھر اس کا مطلب ہے اب تو میر اوقت قریب ہی ہے.اس کے کچھ

Page 232

اصحاب بدر جلد 5 216 عرصہ بعد ہی ان کی وفات ہو گئی.505 لیکن وفات سے قبل حضرت عثمان کو جب ان کی بیماری کا علم ہوا تو آپ کو کوفہ سے مدینہ بلوالیا.کوفہ کے لوگوں نے آپ کو کوفہ ہی میں رکنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ ہم آپ کی حفاظت کریں گے.شاید بیماری نہ تھی لیکن ویسے ہی حضرت عثمان نے ان کو بلا لیا تھا.بہر حال وہ تو صحت کی حالت میں لگ رہا تھا کہ جب اس شخص نے خواب سنائی.اس کے بعد پھر یہ واقعہ ہوا کہ حضرت عثمان نے ان کو کوفہ سے بلوالیا باوجود اس کے کہ کوفہ کے لوگ یہی چاہتے تھے کہ آپ وہیں رکے رہیں اور یہ کہا کہ ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن آپ نے فرمایا کہ خلیفہ وقت کا حکم اور ان کی اطاعت میرے لئے ضروری ہے.پھر آپ نے یہ بھی کہا کہ عنقریب کچھ فتنے ہوں گے اور میں نہیں چاہتا کہ فتنوں کا شروع کرنے والا میں ہوں.یہ کہہ کر خلیفہ وقت کے پاس چلے آئے.آپ کی وفات 32 ہجری میں مدینہ میں ہوئی.حضرت عثمان نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے.وفات کے وقت آپ کی عمر 60 سال سے کچھ زیادہ تھی.506 507 ایک اور روایت کے مطابق وفات کے وقت آپ کی عمر 70 برس سے کچھ زائد تھی.حضرت عبد اللہ بن مسعود کی وفات پر حضرت ابو موسیٰ نے حضرت ابو مسعود سے کہا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے اپنے بعد ایسی خوبیوں والا اور کوئی شخص پیچھے چھوڑا ہے؟ حضرت ابو مسعود کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی لیے کم کے ہاں جب ہمیں جانے کی اجازت نہ ہوتی اس وقت حضرت عبد اللہ بن مسعود کو داخل ہونے کی اجازت ملتی تھی.اور جب ہم آپ کی مجلس سے غائب ہوتے اس وقت حضرت عبد اللہ بن مسعود خدمت کی توفیق پاتے اور آپ کی صحبتوں سے فیضیاب ہوتے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی اور شخص ان کی خوبیوں والا ہو.508 حضرت عبد اللہ بن مسعود سنت نبوی پر خوب کار بند تھے.ایک دفعہ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول کریم صلی علیم کے دو صحابہ میں سے ایک صحابی روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتا ہے یعنی غروب آفتاب کے ساتھ ہی افطار کرتے ہیں اور نماز بھی غروب آفتاب کے فوراً بعد جلدی ادا کرتے ہیں جبکہ دوسرے صحابی یہ دونوں کام نسبتا دیر سے کرتے ہیں.حضرت عائشہ نے پوچھا کہ جلدی کون کرتا ہے تو انہیں بتایا گیا کہ عبد اللہ بن مسعود ایسا کرتے ہیں تو حضرت عائشہ نے اس پر فرمایا کہ نبی کریم صلی علیم کا بھی یہی دستور تھا جو عبد اللہ بن مسعود کرتے ہیں ، آنحضرت صلی اللہ وسلم کا بھی یہی عمل تھا.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بارے میں بزرگ صحابہ کہا کرتے تھے کہ عبد اللہ بن مسعود اللہ تعالیٰ سے قرب اور تعلق میں غیر معمولی مقام رکھتے تھے اور نبی کریم صلی علیہ ہم اپنے جن صحابہ کے نمونے کو مشعل راہ بنانے کے لئے بطور خاص ہدایت فرماتے تھے ان میں حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ 509

Page 233

اصحاب بدر جلد 5 217 کے علاوہ عبد اللہ بن مسعود کا نام بھی شامل ہے.آنحضرت صلی یی کم فرماتے کہ عبد اللہ بن مسعود کا طریق مضبوطی سے پکڑو.510 آنحضرت صلی اللہ نام کی ذات سے ایک غیر معمولی عشق الله سة ایک روایت ہے.آنحضرت صلی علیم کو ایک خاص اعتماد تھا آپ پر اور عبد اللہ بن مسعودؓ کو بھی آنحضرت صلی الم کی ذات سے ایک غیر معمولی عشق تھا.ان کے بعض واقعات میں نے بیان بھی کئے تھے.اور بھی واقعات ہیں، بعض دفعہ ملتے جلتے واقعات ہیں لیکن مختلف زاویوں سے بیان کئے گئے ہیں.ان کے بارے میں لکھا ہے کہ باطنی لحاظ سے نبی کریم صلی لی امی کی صحبت نے حضرت ابن مسعود یعنی عبد اللہ بن مسعود کو ایک متقی، پرہیز گار اور عبادت گزار انسان بنادیا تھا.عبادت اور نوافل سے ایسی رغبت تھی کہ فرض نمازوں اور تہجد کے علاوہ چاشت کے وقت کی نماز کا بھی اہتمام فرماتے تھے.اسی طرح ہر سوموار اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھتے تھے اور پھر بھی یہ احساس غالب رہتا تھا کہ وہ کم روزے رکھتے تھے.حضرت عبد اللہ بن مسعود فرمایا کرتے تھے کہ تہجد وغیرہ کی ادائیگی کے لئے بدن میں کمزوری محسوس ہونے لگتی ہے.تہجد بھی بڑی لمبی اور غیر معمولی پڑھنے والے تھے اور اگر حقیقت میں حق ادا کرتے ہوئے نوافل اور تہجد ادا کی جائے تو انسان بڑی کمزوری محسوس کرتا ہے.اس لئے فرماتے تھے کہ نماز کو روزے پر ترجیح دیتے ہوئے نسبتا کم نفلی روزوں کا اہتمام کرتا ہوں.511 ایک دفعہ رسول کریم صلی علیم نے مختصر خطاب کے بعد حضرت ابو بکر سے فرمایا کہ اب وہ لوگوں سے وعظ کریں ، یعنی حضرت ابو بکر وعظ کریں.حضرت ابو بکر نے مختصر وعظ کیا پھر حضرت عمر سے فرمایا.انہوں نے حضرت ابو بکر سے بھی مختصر وعظ کیا.پھر کسی اور شخص سے فرمایا تو اس نے لمبی تقریر شروع کر دی.رسول اللہ صلی علیکم نے اسے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ یا فرمایا خاموش ہو جاؤ.پھر آنحضرت صلی علیکم نے عبد اللہ بن مسعودؓ سے تقریر کے لئے فرمایا.انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی اس کے بعد صرف یہ کہا کہ اے لوگو! اللہ ہمارا رب ہے، قرآن ہمارا ر ہنما ہے ، بیت اللہ ہمارا قبلہ ہے اور محمد صلی علیہ کم ہمارے نبی ہیں.اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہیں اور مجھے تمہارے لئے وہ پسند ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے.نبی کریم صلی الیکم نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود نے درست کہا اور مجھے بھی اپنی امت کے لئے وہ پسند ہے جو ابن مسعود نے پسند کیا.512 حضرت علی جب کوفہ میں تشریف لے گئے تو آپ کی مجلس میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا کچھ تذکرہ ہوا.یہ وہاں پہلے رہ چکے تھے.لوگوں نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اے امیر المؤمنین ! ہم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے بڑھ کر اعلیٰ اخلاق والا اور نرمی سے تعلیم دینے والا اور بہترین صحبت اور مجلس کرنے والا اور انتہائی خدا ترس اور کوئی نہیں دیکھا.حضرت علی نے بغرض

Page 234

اصحاب بدر جلد 5 218 آزمائش ان سب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ سچ سچ بتاؤ کہ عبد اللہ بن مسعود کے متعلق یہ گواہی صدق دل سے دیتے ہو.سب نے کہا ہاں.اس پر حضرت علی نے فرمایا کہ اے اللہ ! گواہ رہنا.اے اللہ ! میں بھی عبد اللہ بن مسعود کے بارے میں یہی رائے رکھتا ہوں جو ان لوگوں کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر رائے رکھتا ہوں.513 او پر حضرت عبد اللہ بن مسعود نے اپنے دینی بھائی حضرت زبیر بن العوام کے ساتھ نبی کریم ملی ایم کے قائم فرمودہ مواخات کا حق بھی خوب ادا کیا.ان پر کامل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ وصیت فرمائی کہ میرے جملہ مالی امور کی نگرانی اور سپر دداری، یعنی تمام کام جو ہیں ان کو سنبھالنا جو میری جائیداد پیچھے رہ جائے گی، حضرت زبیر بن العوام اور ان کے صاحبزادے عبد اللہ بن زبیر کے ذمہ ہو گی اور خاندانی معاملات میں ان کے فیصلے قطعی اور نافذ العمل ہوں گے.514 ابو وائل سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے ایک شخص کی تہہ بند ٹخنوں سے نیچے دیکھی تو اسے ٹخنوں سے اوپر کرنے کا کہا.اس پر اس شخص نے جو ابا آپ سے کہا کہ آپ بھی اپنی تہہ بند شمخنوں سے پر کریں.آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں.میری پنڈلیاں باریک ہیں اور میں دبلا بھی ہوں.حضرت عمرؓ کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس شخص کو حضرت ابن مسعود سے اس طرح مخاطب ہونے اور جواب دینے کے سبب سزا بھی دی.515 یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شخص میں تکبر ہو اور اس زمانے میں تکبر کی وجہ ہے کپڑے لمبے رکھنے کا رواج تھا تو اس پر انہوں نے اس کو سمجھایا ہو اور اس نے بغیر دیکھے کہ یہ کتنے عاجز شخص ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر کتنا عمل کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کس قدر خشیت ہے آگے سے یہ جواب دیا اور حضرت عمر کو جب پتہ لگا تو آپ نے اس کی سرزنش کی.حضرت عبد اللہ بن مسعود کی اطاعت رسول کے بارے میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ حدیثوں میں ایک واقعہ آتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ اُن میں کس قدر فرمانبرداری کی روح پائی جاتی تھی.بظاہر وہ ایک ایسی بات ہے جسے سن کر کوئی انسان کہہ سکتا ہے یہ کیسی بیوقوفی کی بات ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ( حضرت خلیفہ ثانی کہتے ہیں ) کہ ان کی ترقی کار از اسی میں مضمر تھا کہ وہ رسول کریم صلی علیم کی زبان سے جب کوئی حکم سنتے تو اسی وقت اس پر عمل کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اس کو بیان کر رہے ہیں کہ احادیث میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ایک دفعہ رسول کریم ملی یی کم کی مجلس کی طرف آرہے تھے تو آپ ابھی گلی میں ہی تھے کہ آپ کے کانوں میں رسول کریم صلی علیم کی یہ آواز آئی کہ بیٹھ جاؤ.معلوم ہوتا ہے کہ ہجوم زیادہ ہو گا اور کچھ لوگ کناروں پر کھڑے ہوں گے تو رسول کریم صلی اللہ ہم نے انہیں فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جو ابھی مجلس میں نہیں پہنچے تھے اور گلی میں انہوں نے رسول کریم صلی یم کی یہ آواز سنی تو وہیں بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے جیسے بچے چلتے ہیں گھسٹ گھسٹ کر مسجد میں پہنچے.کسی شخص نے جو اس

Page 235

219 اصحاب بدر جلد 5 راز کو نہیں سمجھتا تھا کہ اطاعت اور فرمانبرداری کی روح ہی دنیا میں قوموں کو کس طرح کامیاب کرتی ہے جب حضرت عبد اللہ بن مسعود کو اس طرح چلتے دیکھا تو اس نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ کیسی بیوقوفی کی بات ہے.وہ اس کو بیوقوفی سمجھ رہا تھا.اس کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ قوموں کی ترقی کے لئے اصل چیز اطاعت ہے.بہر حال اس نے اس کو کہا کہ رسول کریم صلی علیکم کا مطلب تو یہ تھا کہ مسجد میں جو لوگ کناروں پر کھڑے ہیں وہ بیٹھ جائیں مگر آپ گلی میں ہی بیٹھ گئے ہیں اور گھسٹتے ہوئے مسجد میں آئے ہیں.آپ کو چاہئے تھا کہ جب مسجد پہنچتے تو اس وقت بیٹھتے، گلی میں بیٹھ جانے کا کیا فائدہ تھا.حضرت عبد اللہ بن مسعود نے جواب دیا ہاں ہو تو سکتا تھا لیکن اگر مسجد پہنچنے سے پہلے ہی میں مر جاتا تو رسول کریم صلی یکم کا یہ حکم میرے عمل میں نہ آتا اور کم سے کم ایک بات ایسی ضرور رہ جاتی جس پر میں نے عمل نہ کیا ہوتا.اب یہ شوق تھا ان لوگوں کا کہ کوئی بات جو آنحضرت علی ایم کے منہ سے نکلے یہ نہ ہو کہ ہم اس پر عمل نہ کریں.اس پر انہوں نے کہا میں نے یہ بات سنی اور مجھے یہ فکر پید اہوئی کہ اگر میں اس دوران مر جاتا تو پھر میرے نامہ اعمال میں کہیں یہ نہ لکھا جائے کہ یہ ایک آخری بات تھی جس پر تم نے سننے کے باوجو د عمل نہیں کیا.تو بہر حال انہوں نے اس سے کہا کہ اس لئے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ میں چلتا ہوا آؤں اور پھر مسجد میں آکر بیٹھوں.میں نے خیال کیا کہ زندگی کا کیا اعتبار ہے شاید میں مسجد میں پہنچوں یا نہ پہنچوں اس لئے ابھی بیٹھ جانا چاہئے تاکہ اس حکم پر بھی عمل ہو جائے.یہ لوگ اتنی باریکی سے چیزوں کو دیکھنے والے تھے.حضرت مصلح موعود مزید لکھتے ہیں کہ انہی عبد اللہ بن مسعود کا واقعہ ہے کہ حضرت عثمان نے اپنے زمانہ خلافت میں ایک دفعہ حج کے ایام میں مکہ مکرمہ میں چار رکعتیں پڑھیں.حج پر گئے ہوئے تھے ، قیام تھوڑا تھا، وہاں چار رکعتیں پڑھیں.رسول کریم صلی علی یکم جب حج کے لئے تشریف لائے تھے تو آپ نے وہاں دور رکعتیں پڑھی تھیں کیونکہ مسافر کو دور کعت نماز پڑھنے کا ہی حکم ہے.پھر حضرت ابو بکر اپنے زمانہ خلافت میں تشریف لائے تو آپ نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں.حضرت عمر رضی اللہ تعالی حج کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے بھی دو ہی پڑھیں یعنی قصر نماز کا جہاں حکم ہے وہاں قصر کی مگر حضرت عثمان نے چار رکعتیں پڑھا دیں.اس پر لوگوں میں ایک شور برپا ہو گیا، بڑا شور مچایا لوگوں نے اور انہوں نے کہا کہ حضرت عثمان نے رسول کریم صلی علیم کی سنت کو بدل دیا ہے.چنانچہ حضرت عثمان کے پاس لوگ آئے اور انہوں نے دریافت کیا کہ آپ نے چار رکعتیں کیوں پڑھی ہیں ؟ حضرت عثمان نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ میں نے ایک اجتہاد کیا اور وہ یہ اجتہاد تھا کہ اب دور دور کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں.بہت سے لوگ دور دور سے حج کے لئے بھی آنے لگ گئے ہیں اور ان میں سے اکثر کو اب اسلامی مسائل اتنے معلوم نہیں جتنے پہلے لوگوں کو معلوم ہوا کرتے تھے.اب وہ صرف ہمارے افعال کو دیکھتے ہیں.وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ہم پرانے مسلمان کیا کر رہے ہیں ، اور جس رنگ میں وہ ہمیں

Page 236

اصحاب بدر جلد 5 220 کوئی کام کرتا دیکھتے ہیں اس رنگ میں خود کرنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی اسلام کا حکم ہے.یہ لوگ چونکہ مدینہ میں بہت کم آتے ہیں اور انہیں وہاں رہ کر ہماری نمازیں دیکھنے کا موقع نہیں ملتا تو اس لئے میں نے یہی خیال کیا کہ اب حج کے موقع پر انہوں نے مجھے دور کعت نماز پڑھتے دیکھا، قصر کرتے دیکھا تو اپنے علاقے میں جاتے ہی کہنے لگ جائیں گے کہ خلیفہ کو ہم نے دور کعت نماز پڑھاتے دیکھا ہے اس لئے اسلام کا اصل حکم یہی ہے کہ دور کعت نماز پڑھی جائے.حضرت عثمان نے کہا کہ جب یہ اپنے علاقے میں جا کے بتائیں گے تو لوگ چونکہ اس بات سے ناواقف ہوں گے کہ دور کعت نماز سفر کی وجہ سے پڑھی گئی ہے اس لئے اسلام میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور لوگوں کو ٹھو کر لگے گی.یہ حضرت عثمان نے اجتہاد کیا.تو حضرت عثمان نے کہا پس میں نے مناسب سمجھا کہ چار رکعت نماز پڑھا دوں تا کہ نماز کی چار رکعت انہیں نہ بھولیں.باقی رہا یہ کہ میرے لئے چار رکعت پڑھنا جائز کس طرح ہو گیا.اس کا بھی حضرت عثمان نے جواب دیا کہ میں نے کیوں چار رکعت پڑھیں اور کیوں میرے لئے یہ جائز ہے.آپ نے اس کا جواب دیا کہ میں نے یہاں شادی کی ہوئی ہے ، مکہ میں میری شادی ہوئی ہوتی ہے اور بیوی کا سارا خاندان وہاں تھا ، سسرال وہیں تھا.چونکہ بیوی کا وطن بھی اپنا ہی وطن ہوتا ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مسافر نہیں ہوں اور مجھے پوری نماز پڑھنی چاہیئے.اپنے اجتہاد کی یہ ایک اور دلیل انہوں نے دی.غرض حضرت عثمان نے چار رکعت نماز پڑھانے کی یہ وجہ بیان فرمائی اور اس توجیہہ کا مقصد آپ نے یہ بتایا کہ باہر کے لوگوں کو دھو کہ نہ لگے اور وہ اسلام کی صحیح تعلیم کو سمجھنے میں ٹھو کر نہ کھائیں.ان کی یہ بات بھی بڑی لطیف تھی، بڑی باریک گہری بات تھی اور جب صحابہ نے سنی تو اکثر لوگ سمجھ گئے اور بعض نہ سمجھے مگر خاموش رہے.مگر دوسرے لوگوں نے جو فتنہ پیدا کرنے والے تھے انہوں نے شور مچا دیا اور کہنا شروع کر دیا کہ حضرت عثمان نے رسول کریم صلی للی نام کی سنت کے خلاف عمل کیا ہے.چنانچہ جو لوگ شور مچانے والے تھے ، فتنہ پر داز تھے انہی میں سے کچھ لوگ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پاس بھی پہنچے اور کہنے لگے آپ نے دیکھا کہ آج کیا ہوا.رسول کریم صلی علی کم کیا کیا کرتے تھے اور عثمان نے آج کیا کیا.ان لوگوں نے عبد اللہ بن مسعودؓ کو کہا کہ رسول کریم صلی اللہ ہم تو حج کے دنوں میں مکہ آکر صرف دور کعتیں پڑھایا کرتے تھے مگر حضرت عثمان نے چار رکعتیں پڑھائیں.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے یہ سن کر کہا کہ دیکھو ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم فتنہ اٹھائیں کیونکہ خلیفہ وقت نے کسی حکمت کے ماتحت ہی ایسا کام کیا ہو گا، کوئی حکمت ہو گی جو ہمیں سمجھ نہیں آئی.پس تم فتنہ نہ اٹھاؤ.حضرت عبد اللہ بن مسعود نے کہا کہ میں نے بھی ان کی اقتداء میں چار رکعتیں ہی پڑھی ہیں.میں بھی نماز پڑھنے والوں میں شامل تھا اور میں نے بھی چار رکعتیں ہی پڑھی ہیں مگر نماز کے بعد میں نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لی کہ خدایا تو ان چار رکعتوں میں سے میری وہی دور کعتیں قبول فرمانا جو رسول کریم صلی اللی کام کے ساتھ ہم پڑھا کرتے تھے اور باقی دور کعتوں کو میری نماز

Page 237

اصحاب بدر جلد 5 221 الله نہ سمجھنا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں یہ کیسا عشق کا رنگ ہے جو حضرت عبد اللہ بن مسعود میں پایا جاتا تھا کہ انہوں نے چار رکعتیں پڑھ تو لیں مگر انہیں وہ ثواب بھی پسند نہ آیا جو محمد رسول اللہ صلی للی نیم کی پڑھی ہوئی دور کعتوں سے زیادہ تھا اور دعامانگی کہ الہی دور کعتیں ہی قبول فرمانا چار نہ قبول کرنا.اب جو مقتدی تھے انہوں نے تو خلیفہ وقت کے پیچھے چار رکعتیں پڑھیں اور اطاعت میں پڑھ لیں.نماز کا بھی ثواب ہے، اطاعت کا بھی ثواب ہے لیکن عبد اللہ بن مسعود کا اپنا ایک نظریہ تھا.انہوں نے کہا کہ اطاعت میں نے کر لی لیکن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ اس سے زیادہ ثواب لوں جتنا کہ آنحضرت صلی علیکم نے ہمارے سامنے نمازیں پڑھ کے، ہمیں حاصل کرنے والا بنایا اور اس لئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ دور کعتوں کو قبول کرنا.اور پھر حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ پھر خلافت کی اطاعت کا بھی اس میں کیسا عمدہ نمونہ پایا جاتا ہے.ان کو معلوم نہ تھا کہ حضرت عثمان نے کس وجہ سے دو کی بجائے چار رکعتیں پڑھی ہیں حالانکہ وجہ ایسی ہے جسے بہت سے لوگ صحیح قرار دیتے ہیں.وہ بیوی کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے، بیٹے کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے، ماں باپ کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے پس یہ مسئلہ ٹھیک تھا.اور پھر حضرت عثمان کی یہ احتیاط کہ باہر کے لوگوں کو دھو کہ نہ لگے اور اسلام میں کوئی رخنہ نہ پڑ جائے ان کے اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کا ثبوت تھا.حضرت عثمان کا بھی یہ بڑا اعلیٰ درجہ کا تقویٰ تھا، نیت تھی کہ ٹھوکر نہ لگے مگر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو اس وقت تک اس حکمت کا علم نہیں تھا کہ کیا وجہ تھی حضرت عثمان کی چار رکعتیں پڑھنے کی لیکن انہوں نے یہ نہیں کیا کہ نماز چھوڑ دی ہو.بلکہ انہوں نے نماز بھی پڑھ لی اور خلافت کی اطاعت بھی کر لی اور بعد میں خدا تعالیٰ کے حضور عرض کر دیا کہ یا اللہ !میری دور کعتیں ہی قبول ہوں چار نہ ہوں.یہ کیسی فرمانبر داری اور رسول کریم ملی می ریم کے قدم بہ قدم چلنے کی روح تھی جو ان میں پائی جاتی تھی.یہی وجہ تھی کہ باوجود اس بات کے کہ صحابہ بالکل ان پڑھ تھے، سارے مکہ میں کہا جاتا ہے کل سات آدمی پڑھے لکھے تھے لیکن ساری دنیا پہ یہ لوگ چھا گئے.516 یہ خاص نکتہ ہمیشہ یادر کھنا چاہیے پس یہ اطاعت تھی جس سے وہ مقام ان کو حاصل ہوا اور فتحیاب ہوئے.پس یہ خاص نکتہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے.حضرت عبد اللہ بن مسعود کے اس عمل سے خلیفہ وقت کی اطاعت کا بھی اظہار ہو گیا اور عشق رسول صلی علی کر کے اعلیٰ مقام کا بھی اظہار ہو گیا.اسی لئے آنحضرت صلی یکم نے مختلف مواقع پر حضرت عبد اللہ بن مسعود کے طریق کی ہمیشہ تعریف فرمائی اور یہی حقیقی طریقہ ہے فتنوں سے بچنے کا.پس یہ وہ اسوہ ہے جو ہر احمدی کے لئے مشعل راہ ہے.ایک دفعہ حضرت عمررات کے وقت ایک قافلہ سے ملے.اندھیرے کی وجہ سے اہل قافلہ کو دیکھنا

Page 238

222 اصحاب بدر جلد 5 ممکن نہ تھا.اس قافلہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود بھی موجود تھے.حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کو قافلہ والوں سے پوچھنے کے لئے بھیجا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں ؟ اس آدمی کے استفسار پر حضرت عبد اللہ بن مسعود نے جواب دیا.فج العميق.یعنی دور کے راستے سے.پھر پوچھا کہاں جارہے ہو تو جواب انہوں نے دیا کہ بیت العتيق.یعنی خانہ کعبہ جارہے ہیں.حضرت عمر نے پوچھا کہ ان لوگوں میں کوئی عالم ہے ؟ پھر ایک آدمی کو حکم دیا کہ ان کو آواز دیگر پوچھو کہ قرآن کریم کی سب سے عظیم آیت کون سی ہے.اس قافلے میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ تھے انہوں نے ہی اس شخص کو جو اب دیا، حضرت عمرؓ کے پوچھوانے پر کہ کونسی آیت عظیم آیت ہے کہ اللهُ لا إلهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نوم (القر 2565).(آیت الکرسی).پھر پوچھا کہ قرآن کریم کی محکم ترین آیت کون سی ہے.تو یہ روایت میں آتا ہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَاتِي ذِي الْقُرْبَى (الحل:91) حضرت عمرؓ نے اس آدمی سے یہ پوچھنے کا کہا کہ قرآن کی جامع ترین آیت کون سی ہے ؟ اس پر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے یہ جواب دیا.فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شرا يرة ( الزلزال :8-9) پھر پوچھو کہ قرآن کریم کی خوفناک ترین آیت کون سی ہے.اس پر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے یہ آیت بتائی کہ لَيْسَ بِمَانِيَّكُمْ وَلَا آمَانِي أَهْلِ الْكِتَبِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدُ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (النساء:124) حضرت عمر فاروق نے کہا کہ ان سے پوچھو کہ قرآن کریم کی سب سے امید افزا آیت کون سی ہے ؟ جس پر عبد اللہ بن مسعود نے جواب دیا کہ قُلْ يُعِبَادِی الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۖ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ (الزمر:54) یہ ساری باتیں سننے کے بعد حضرت عمررؓ نے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ کیا تمہارے درمیان عبد اللہ بن مسعودؓ ہیں؟ قافلہ کے لوگوں نے کہا کیوں نہیں! اللہ کی قسم ہمارے درمیان موجود ہیں.حضرت عمر کو اس بات کا علم تھا کہ آپ علم فقہ سے لبریز ہیں.517 اور یہ سارے جواب سن کے حضرت عمرؓ کو یقیناً پتہ لگ گیا ہو گا کہ عبد اللہ بن مسعودؓ ہی ایسے عالمانہ جواب دے سکتے ہیں.حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن آنحضور صلی الیم نے صحابہ سے پوچھا کہ تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا یار سول اللہ صلی یہ تم یہ لوگ آپ کی قوم اور آپ کے خاندان سے ہیں.ان کو معاف فرما کر نرمی کا معاملہ فرمائیں شاید اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے.پھر حضرت عمرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی الله علم ان لوگوں نے آپ کو جھٹلایا اور تنگ کیا ہے آپ ان کی گردنیں اڑا دیں.پھر حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے رائے پیش کی یارسول اللہ صلی علیکم آپ گھنے درختوں والا جنگل تلاش کریں اور ان کو اس میں داخل کر کے آگ لگا دیں.آنحضور صلی ا ولم نے سب کی رائے سنی مگر کوئی فیصلہ نہ فرمایا اور اپنے خیمے میں تشریف لے گئے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ b سة

Page 239

اصحاب بدر جلد 5 223 کہتے ہیں کہ لوگ آپس میں باتیں کرنے لگ گئے کہ اب دیکھیں کس کی رائے پر عمل ہوتا ہے.تھوڑی دیر بعد آنحضور صلی علی کی خیمہ سے باہر تشریف لائے اور فرمانے لگے اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے دلوں کو اتنا نرم فرما دیتا ہے کہ وہ دودھ سے بھی زیادہ نرم ہو جاتے ہیں اور بعض لوگوں کے دلوں کو اتنا سخت کر دیتا ہے کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں اور اے ابو بکر !تمہاری مثال حضرت ابراہیم جیسی ہے انہوں نے فرمایا تھا کہ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِى وَ مَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِیم (ابراہیم:37) کہ پس جس نے میری پیروی کی تو وہ یقیناً مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو یقینا تو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پھر یہ بھی فرمایا کہ ابو بکر تمہاری مثال حضرت عیسی جیسی ہے انہوں نے فرمایا تھا کہ ران تُعَذِّبُهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَ إِنْ تَغْفِرُ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (المائدة:1193) کہ اگر تو انہیں عذاب دے تو آخر یہ تیرے بندے ہیں، اگر تو انہیں معاف کر دے تو یقینا تو کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے.اور حضرت عمر کو کہا کہ تمہاری مثال حضرت نوح علیہ السلام جیسی ہے جیسے انہوں نے فرمایا تھا رب لا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَیا را (نوح:27) کہ اے میرے رب ! کافروں میں سے کسی کو زمین میں بستا ہوا نہ رکھ اور پھر حضرت عمر کو یہ بھی فرمایا کہ تمہاری حضرت موسی جیسی مثال ہے جنہوں نے فرمایا تھا کہ رَبَّنَا اطْمِسُ عَلَى اَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (یونس :(89) کم اے ہمارے رب ان کے اموال برباد کر دے اور ان کے دلوں پر سختی کر پس وہ ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھ لیں.پھر حضور صلی یہ تم نے فرمایا کہ چونکہ تم ضرورت مند ہو اس وجہ سے قیدیوں میں سے ہر قیدی یا تو فدیہ دے گا یا پھر اس کی گردن اڑا دی جائے گی.حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی علی کم اس حکم کی تعمیل سے سہل بن بیضاء کو مستثنیٰ قرار دیا جائے کیونکہ میں نے ان کو اسلام کا بھلائی کے ساتھ تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے.یہ سن کر آپ صلی علیہ کی خاموش رہے.حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس دن جتنا مجھے اپنے اوپر آسمان سے پتھروں کے برسنے کا ڈر لگا اتنا مجھے کبھی نہیں لگا.آخر حضور صلی ا ہم نے فرما ہی دیا کہ اس کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے.518 آنحضور صلی الم کا خاموش رہنا انہوں نے آپ صلی یکم کی ناراضگی پر محمول کیا اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے خوف سے اور اللہ تعالیٰ کی سزا کے ڈر سے ان کی حالت غیر ہو گئی.عجیب مقام تھا ان کا خشیت اللہ کا.سنت رسول صلی الم کے مطابق حضرت ابن مسعود صرف جمعرات کے روز وعظ فرمایا کرتے تھے جو بہت ہی مختصر اور جامع ہو تا تھا اور ان کا بیان ایسا دلچسپ اور شیریں ہو تا تھا کہ حضرت عبد اللہ بن مرد اس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ جب تقریر ختم کرتے تھے تو ہماری خواہش ہوتی تھی کہ کاش ابھی وہ کچھ اور بیان کرتے.شام کے وقت اس وعظ میں بالعموم آپ نبی کریم صلی علیم کی احادیث میں سے صرف ایک حدیث سنایا کرتے تھے اور حدیث بیان کرتے وقت آپ کے جذب و شوق اور عشق رسول کا منظر دیدنی ہو تا تھا.آپ کے شاگرد مسروق کہتے ہیں کہ ایک روز آپ نے ہمیں نبی کریم صلی علی ایم کی ایک

Page 240

اصحاب بدر جلد 5 224 حدیث سنائی اور جب ان الفاظ پر پہنچے کہ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ...کہ میں نے خدا کے رسول سے سنا تو مارے خوف اور خشیت سے آپ کے بدن پر ایک لرزہ طاری ہو گیا.یہانتک کہ آپ کے لباس سے بھی جنبش محسوس ہونے لگی.اس کے بعد احتیاط کی خاطر یہ بھی فرمایا کہ شاید حضور صلی میڈم نے یہ الفاظ فرمائے تھے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ.حدیث بیان کرتے وقت آپ کمال درجہ احتیاط برتتے تھے.یہ اس وعید اور گرفت کی وجہ سے معلوم ہوتی ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی علیم نے فرمایا ہے کہ غلط احادیث بیان 519 ایک اور روایت سے بھی اس احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے.عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سال تک حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس آتا جاتا رہا.وہ حدیث بیان کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیتے.ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ قَالَ رَسُولُ الله صلی علیہ علم یعنی اللہ کے رسول نے فرمایا کے الفاظ کہہ کر آپ پر ایک عجیب کرب کی کیفیت طاری ہو گئی اور پیشانی سے پسینہ گرنے لگا پھر فرمانے لگے کہ اسی قسم کے الفاظ اور اس سے ملتے جلتے الفاظ حضور صلی الم نے فرمائے تھے.9 آپ کی خدا خوفی کا یہ عالم تھا کہ فرمایا کرتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ مرنے کے بعد اٹھایا نہ جاؤں اور حساب کتاب سے بچ جاؤں.حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن مسعود بیمار ہوئے تو سخت خوفزدہ ہو گئے.ہم نے پوچھا کہ آپ کو کبھی کسی بیماری میں اتنا پریشان نہیں دیکھا جتنا اس میں ہیں.فرمانے لگے یہ بیماری مجھے اچانک آلگی ہے.میں ابھی خود کو آخرت کے سفر کے لئے تیار نہیں پاتا اس لئے پریشان ہوں.آپ نے اپنی موت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ دن میرے لئے آسان نہیں ہو گا.میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو اٹھایا نہ جاؤں.ابن مسعود سے مروی ہے کہ آپ نے یہ وصیت کی اور اس وصیت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا.20 اب بسم الله الرحمن الرحیم آجکل ہر ایک لکھتا ہے تو یہ خاص طور پر جو اس کا یہاں ذکر ہوا اس لئے کہ ان کو حقیقی ادراک تھا، اللہ تعالیٰ کے رحمن اور رحیم ہونے کا ادراک تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کی صفات کا واسطہ دے کر یہ بات شروع کی، اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کی تاکہ اس وصیت میں کوئی بھی ایسی بات ہو جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آسکتی ہو تو رحمان اور رحیم خدا اس سے بچائے.حضرت عبد اللہ بن مسعود کے مالی حالات خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنے اچھے ہو گئے تھے کہ آخری عمر میں آپ نے اپنا وظیفہ لینا چھوڑ دیا تھا.521 اس فارغ البالی کی حالت میں جبکہ توے ہزار درہم آپ کا ترکہ تھا.522 نے کفن کے بارے میں یہی وصیت کی کہ وہ سادہ چادروں کا ہو اور دوسو در ہم کا ہو اور وفات کے بعد حضرت عثمان بن مظعون کی قبر کے ساتھ دفن کیا جائے.جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے حضرت عثمان نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی.آپ کو رات کو دفن کیا گیا.ایک اپنے

Page 241

اصحاب بدر جلد 5 225 روایت یہ بھی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی تدفین کے بعد صبح ان کی قبر پر سے ایک راوی گزرے تو دیکھا کہ اس پر پانی چھڑ کا ہو ا تھا.523 عقیدت کا یہ حال تھا کہ لوگوں نے رات کو ہی اس قبر کی مضبوطی کے لئے پانی چھڑ کا ہو گا.ابوالأحوص بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی وفات کے بعد میں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت ابو مسعود کے پاس حاضر ہوا.ان دونوں میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ کیا ابن مسعود نے اپنے بعد کوئی مثل چھوڑا ہے، ان جیسا ہے کوئی اور؟ تو انہوں نے کہا کہ ایسا ہمارے جانے کے بعد تو شاید ممکن ہو ، اس وقت ہمیں ایسا کوئی دکھائی نہیں دیتا.ابھی ہمارے درمیان اس وقت کوئی نہیں، شاید بعد میں کوئی پیدا ہو جائے.524 حضرت تمیم بن حرام بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضور صلی لی ایم کے کئی صحابہ کی مجالس میں بیٹھا ہوں مگر حضرت عبد اللہ بن مسعود سے زیادہ دنیا سے بے رغبت اور آخرت سے رغبت رکھنے والا کسی اور کو نہیں پایا.525 221 حضرت عبس بن عامر بن عدی حضرت عبس بن عامر بن عدی.ابن اسحاق نے آپ کا نام عبس بیان کیا ہے اور موسیٰ بن عقبہ نے آپ کا نام عبسی بیان کیا ہے.ان کی والدہ کا نام ام البنين بنت زهیر بن ثعلبہ تھا.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو سلمہ سے تھا.حضرت عبس ان ستر انصار صحابہ میں شامل تھے جو بیعت عقبہ میں حاضر تھے اور آپ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے.526 222 حضرت عبید بن ابو عبید انصاری حضرت عبید.ان کا پورا نام حضرت عبید بن ابو عبید انصاری آؤسی “ تھا.ابن ہشام کے مطابق آپ قبیلہ اوس کے خاندان بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے.حضرت عبید رسول اللہ صلی ال نیم کے ہمراہ غزوہ بدر، غزوہ احد اور غزوہ خندق میں شامل ہوئے تھے.527

Page 242

226 223 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت عُبيد بن تيمان اپنے ایک بھائی کے ساتھ جنگ بدر میں شامل حضرت عُبيد بن تيجان كا نام عتيك بن تیمان بھی بیان کیا جاتا ہے.ان کی والدہ کا نام لیلی بنت عَتِيك تھا.آپ ابو الْهَيْقم بن تیمان کے بھائی تھے اور آپ بنو عبد الأشکل کے حلیفوں میں سے تھے.بیعت عقبہ میں شمولیت حضرت عُبيد ستر انصار کے ساتھ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے.رسول اللہ صلی علیم نے آپ کے اور حضرت مسعود بن ربیع کے مابین مواخات قائم فرمائی.آپ اپنے بھائی حضرت ابو الْهَيْقم کے ساتھ غزوہ بدر میں شامل ہوئے اور آپ نے غزوہ احد میں شہادت پائی.آپ کو عِكْرِمہ بن ابو جہل نے شہید کیا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے.اس پہ ذرا اختلاف ہے لیکن بہر حال دونوں روایتوں میں ایک مشترک بات ہے کہ آپ شہید ہوئے.آپ کا بیٹا بھی جنگ بدر میں شامل آپ کی اولاد میں دو بیٹوں حضرت عبید اللہ اور حضرت عباد کا ذکر ملتا ہے.シ طبری کے قول کے مطابق حضرت عباد نے بھی غزوہ بدر میں شرکت کی سعادت پائی جبکہ حضرت عبید اللہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے.528

Page 243

227 224 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عبید بن اوس حضرت عبید بن اوس انصاری ولدیت اوس بن مالك حضرت عباس سمیت تین افراد کو بدر میں قید کرنا 529 حضرت عبید بن اوس نے غزوہ بدر میں شرکت کی اور آپ نے غزوہ بدر میں حضرت عقیل بن ابو طالب کو قیدی بنایا.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آپ نے حضرت عباس اور حضرت کو فل کو بھی قیدی بنایا.جب آپ ان تینوں کو رسی سے باندھے ہوئے رسول اللہ صلی للی نیلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ لَقَدْ أَعَانَكَ عَلَيْهِمْ مَلَكَ كَرِيمٌ کہ یقیناً اس معاملہ میں ایک معزز فرشتے نے تمہاری مدد کی ہے.اسی بنا پر آنحضرت صلی الیہ ہم نے آپ کو مقرن کا لقب عطا فرمایا یعنی زنجیر میں جکڑنے والا.9 ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عباس کو غزوہ بدر میں قیدی بنانے والے حضرت أبو الْيَسَر كَعب بن عَمرُو تھے.80 حضرت عبید بن اوس نے حضرت أُمَيْمَه بنتِ النُّعْمَانِ سے شادی کی.حضرت امیمہ بھی آنحضرت صلی اللہ تم پر ایمان لائیں اور آپ کی بیعت سے فیضیاب ہوئیں.530 531 225 حضرت عبید بن زید حضرت عبید بن زید انصاری.ان کا تعلق قبیلہ بنو عملان سے تھا اور غزوہ بدر اور احد میں انہوں نے شرکت کی.2 532 نبی اکرم علی ایم کے متبرک پانی اور دعا کی برکت سے اونٹ تیز رفتار ہو گیا حضرت معاذ بن رفاعہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں اپنے بھائی حضرت تخلاد بن رافع کے ہمراہ رسول اللہ صلی المی ریم کے ساتھ ایک لاغر سے اونٹ پر سوار ہو کر بدر کی طرف نکلا.ہمارے ساتھ عبید بن زید بھی تھے.یہاں تک کہ ہم برید مقام پر پہنچے جو روحاء کے مقام سے پیچھے ہے تو ہمارا اونٹ

Page 244

اصحاب بدر جلد 5 228 بیٹھ گیا.پہلے بھی یہ کچھ واقعہ اس دوسرے صحابی کے واقعہ میں بیان ہو چکا ہے.تو کہتے ہیں ہمارا اونٹ بیٹھ گیا.میں نے دعا کی کہ اے اللہ تیری خاطر نذر مانتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ پہنچ جائیں تو ہم اس کو قربان کر دیں گے.کہتے ہیں ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی للی کم کا گزر ہمارے پاس سے ہوا.آپ نے ہم سے پوچھا کہ تم دونوں کو کیا ہوا ہے ؟ ہم نے ساری بات بتائی.پھر رسول اللہ صلی علیم ہمارے پاس رکے.آپ نے وضو فرمایا اور پس خوردہ پانی میں لعاب دہن ڈالا.پھر آپ کے حکم سے ہم نے اونٹ کا منہ کھول دیا.آپ نے اونٹ کے منہ میں کچھ پانی ڈالا پھر اس کے سر پر، اس کی گردن پر ، اس کے شانے پر ، اس کی کو ہان پر ، اس کی پیٹھ پر اور کچھ پانی اس کی دم پر ڈالا.پھر آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! رافع اور خلاد کو اس پر سوار کر کے لے جا.پھر یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی می کنم تو تشریف لے گئے.ہم بھی چلنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور چل پڑے یہاں تک کہ ہم نے رسول اللہ صلی علیکم کو منصف کے مقام کے شروع میں پالیا.وہاں پہنچ گئے اور اُن سے مل گئے.ہمارا اونٹ قافلے میں سب سے آگے تھا.رسول اللہ صلی اللی سلیم نے ہمیں دیکھا تو مسکرا دیئے.ہم چلتے رہے یہاں تک کہ بدر کے مقام پر پہنچ گئے اور بدر سے واپسی پر بھی کہتے ہیں کہ جب ہم مُصلی کے مقام پر پہنچے تو ہمارا اونٹ بیٹھ گیا اور پھر میرے بھائی نے اس کو ذبح کر دیا اور اس کا گوشت صدقہ کر دیا.تو اس میں ان کے ساتھ حضرت عبید بن زید بھی شامل تھے.533 226 نام و نسب و کنیت حضرت عبیدہ بن الحارث تین بھائی جنگ بدر میں شامل حضرت عبیدہ بن حارث.حضرت عبیدہ بن الحارث جو بنو مطلب میں سے تھے آنحضرت صلی علیکم کے قریبی رشتہ دار تھے.534 ان کا تعلق قبیلہ بنو مطلب سے تھا.ان کی کنیت ابو حارث جبکہ بعض کے نزدیک ابو معاویہ تھی.والدہ کا نام سُخیلہ بنت خُزاعی تھا.حضرت عبیدہ عمر میں رسول اللہ صلی اللی کم سے دس سال بڑے تھے.یہ ابتدائی ایمان لانے والوں میں شامل تھے.آنحضرت صلی علی یلم کے دار ار قم میں داخل ہونے سے پہلے آپ ایمان لے آئے تھے.حضرت ابو عبیدہ حضرت ابو سلمہ بن عبد اللہ اسدی، حضرت عبد اللہ بن ارقم مخزومی اور حضرت عثمان بن مظعون ایک ہی وقت میں ایمان لائے تھے.

Page 245

اصحاب بدر جلد 5 229 حضرت عبیدہ آنحضور صلی ایم کے نزدیک خاص قدر و منزلت رکھتے تھے.حضرت عبیدہ بن حارث نے ابتدا میں اسلام قبول کیا اور آپ بنو عبد مناف کے سرداروں میں سے تھے.535 ہجرت مدینہ اور مواخات حضرت عبیدہ بن حارث نے اپنے دو بھائیوں حضرت طفیل بن حارث اور حضرت محصین بن حارث کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ حضرت مسطح بن اثاثہ بھی تھے.سفر سے پہلے کے پایا کہ یہ لوگ وادی ناج میں اکٹھے ہوں گے لیکن حضرت مسطح بن أثاثہ پیچھے رہ گئے کیونکہ ان کو سانپ نے ڈس لیا تھا.اگلے دن ان کو حضرت مسطح کے ڈسے جانے کی اطلاع ملی لہذا یہ لوگ واپس گئے اور انہیں ساتھ لے کر مدینہ آگئے.مدینہ میں یہ لوگ حضرت عبد الرحمن بن سلمہ کے ہاں ٹھہرے.536 آنحضرت صلی ا لم نے حضرت عبیدہ بن حارث اور حضرت عمیر بن الحمام کے درمیان مواخات قائم فرمائی.حضرت عبیدہ بن الحارث اور حضرت عمیر بن الحمام دونوں غزوہ بدر میں شہید ہوئے.537 ان کے دو بھائی حضرت طفیل بن حارث اور حضرت محصین بن حارث بھی غزوہ بدر میں آپ کے ساتھ شریک تھے.538 آنحضرت علی علم کی سیاسی بصیرت اور جنگی دور بینی نبی کریم صلی ا یکم نے مدینہ آکر کفار کے شر سے بچنے کے لئے اور مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کچھ تدابیر اختیار فرمائیں جو آپ صلی علی ایم کی اعلیٰ سیاسی قابلیت اور جنگی دور بینی کی ایک بین دلیل ہے.اسی کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح تحریر کیا ہے کہ : " تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا دستہ ہی جو آنحضرت صلی الم نے عبیدہ بن الحارث کی سرداری میں روانہ فرمایا تھا اور جس کا عکرمہ بن ابو جہل کے ایک گروہ سے سامنا ہو گیا تھا اس میں مکہ کے دو کمزور مسلمان جو قریش کے ساتھ ملے ملائے آگئے تھے ، قریش کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آملے تھے چنانچہ روایت آتی ہے کہ...اس مہم میں جب مسلمانوں کی پارٹی لشکر قریش کے سامنے آئی تو دو شخص مقداد بن عمرو اور عقبہ بن غزوان جو بنو زہرہ اور بنو نوفل کے حلیف تھے مشرکین میں سے بھاگ کر مسلمانوں میں آملے اور یہ دونوں شخص مسلمان تھے اور صرف کفار کی آڑ لے کر مسلمانوں میں آملنے کے لئے نکلے تھے.پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک غرض آنحضرت صلی اللہ علم کی یہ بھی تھی کہ تا ایسے لوگوں کو ظالم قریش سے چھٹکارا پانے اور مسلمانوں میں آملنے کا موقعہ ملتا رہے." ہجرت کے آٹھ مہینے کے بعد رسول اللہ صلی علی یم نے حضرت عبیدہ بن حارث کو ساٹھ یا اسی سواروں کے ساتھ روانہ کیا.رسول اللہ صلی علی ایم نے حضرت عبیدہ بن حارث کے لئے ایک سفید رنگ کا پرچم باندھا 53911

Page 246

اصحاب بدر جلد 5 230 جسے حضرت مسطح بن اثاثہ نے اٹھایا.اس سریہ کا مقصد یہ تھا یعنی کہ جو بھیجا گیا تھا لشکر یا سواروں کا ایک گروپ، کہ قریش کے ایک تجارتی قافلے کو راہ میں روک لیا جائے.قریش کے قافلے کا امیر ابوسفیان تھا.بعض کے مطابق عکرمہ بن ابو جہل اور بعض کے مطابق محرز بن حفص تھا.اس قافلے میں دوسو آدمی تھے یعنی کافروں کے قافلے میں جو تجارتی مال لے کر جارہے تھے.صحابہ کی اس جماعت نے رابغ وادی پر اس قافلے کو جالیا.اس مقام کو وڈان بھی کہا جاتا ہے.دونوں فریقوں کے درمیان تیر اندازی کے علاوہ کوئی مقابلہ نہ ہوا اور لڑائی کے لئے باقاعدہ صف بندی نہ ہوئی.وہ صحابی جنہوں نے مسلمانوں کی طرف سے پہلا تیر چلا یا وہ حضرت سعد بن ابی وقاص تھے اور یہ وہ پہلا تیر تھا جو اسلام کی طرف سے چلایا گیا.اس موقع پر حضرت مقداد بن اسود اور حضرت عیینہ بن غزوان ( ابن ہشام اور تاریخ طبری میں عتبہ بن غزوان بھی ہے ) لکھا ہے مشرکوں کی جماعت سے نکل کر مسلمانوں سے آملے کیونکہ ان دونوں نے اسلام قبول کیا ہوا تھا اور وہ مسلمانوں کی طرف جانا چاہتے تھے.حضرت عبیدہ بن حارث کی سرکردگی میں یہ اسلام کا دوسراسر یہ تھا.تیر اندازی کے بعد دونوں فریق پیچھے ہٹ گئے کیونکہ مشرکین پر مسلمانوں کا اس قدر رعب پڑا کہ انہوں نے سمجھا کہ مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر ہے اور انکو مدد پہنچ رہی ہے لہذا وہ لوگ خوفزدہ ہو کر پسپا ہو گئے اور مسلمانوں نے بھی ان کا پیچھا نہیں کیا.540 گئے تو تھے لیکن یہ نہیں کہ کوئی پیچھے گئے ہوں اور باقاعدہ جنگ کی ہو.دونوں طرف سے حملہ ہوا.اُنہوں نے بھی حملہ کیا انہوں نے بھی تیر چلائے اُنہوں نے بھی تیر چلائے اور آخر جب وہ کفار پیچھے ہٹ گئے تو مسلمان واپس آگئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت کی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ: "غزوہ و دان سے واپس آنے پر ماہ ربیع الاول کے شروع میں آپ نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار عبیدہ بن الحارث مطلبی کی امارت میں ساٹھ شتر سوار مہاجرین کا ایک دستہ روانہ فرمایا.اس مہم کی غرض بھی قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی." غرض بیان کر دی ہے کہ قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی." چنانچہ جب عبیدہ بن الحارث اور ان کے ساتھی کچھ مسافت طے کر کے ثنیۃ المڑہ کے پاس پہنچے تو ناگاہ کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے دو سو مسلح نوجوان عکرمہ بن ابو جہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں.فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کچھ تیر اندازی بھی ہوئی لیکن پھر مشرکین کا گروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی ہو گی."کچھ اور ہو سکتا ہے، لوگ آرہے ہوں، کوئی لشکر ہو.ان کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا.البتہ مشرکین کے لشکر میں سے دو شخص مقداد بن عمر و اور عتبہ بن غزوان عکرمہ بن ابو جہل کی کمان سے خود بخود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقعہ پا کر مسلمانوں میں آملیں کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے

Page 247

اصحاب بدر جلد 5 231 ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کر سکتے تھے اور ممکن ہے کہ اسی واقعہ نے قریش کو بد دل کر دیا ہو اور انہوں نے اسے بد فال سمجھ کر پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہو.تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہے کہ قریش کا یہ لشکر جو یقیناً کوئی تجارتی قافلہ نہیں تھا." تجارت کی آڑ میں یہ لوگ با قاعدہ لشکر بنا کر نکلے تھے، مسلح تھے." اور جس کے متعلق ابن اسحاق نے جمع عظیم " یعنی ایک بڑا لشکر" کے الفاظ استعمال کئے ہیں کسی خاص ارادہ سے اس طرف آیا تھا، لیکن یہ یقینی ہے کہ ان کی نیت بخیر نہیں تھی."نیک نیت سے بہر حال وہ نہیں آئے تھے، حملہ کرنے آئے تھے اور اس لئے مسلمانوں نے بھی تیر اندازی کی.اور یقینا اس سے یہ لگتا ہے کہ پہلی تیراندازی بھی کافروں کی طرف سے ہوئی تھی." اور یہ خدا کا فضل تھا کہ مسلمانوں کو چوکس پا کر اور اپنے آدمیوں میں سے بعض کو مسلمانوں کی طرف جاتا دیکھ کر ان کو ہمت نہیں ہوئی اور وہ واپس لوٹ گئے اور صحابہ کو اس مہم کا یہ عملی فائدہ ہو گیا کہ دو مسلمان روحیں قریش کے ظلم سے نجات پا گئیں." ་་ جنگ بدر کے دن مبارزت میں سامنے آنے والے 541" آپ نے غزوہ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے ولید بن عتبہ سے مبارزت کی.احادیث میں آتا ہے کہ قرآن کریم کی ایک آیت بھی اس واقعہ کے متعلق اتری ہے.چنانچہ حضرت علی سے روایت ہے کہ آیت ھذنِ خَصمِنِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمُ ( ج:20) ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جنہوں نے بدر والے دن مبارزت کی یعنی حضرت حمزہ بن عبد المطلب، حضرت علی بن طالب اور حضرت عبیدہ بن حارث اور عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ.542 آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ دو جھگڑالو ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا.پوری آیت اس طرح یہ ہے کہ : ھذنِ خَصْمَنِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارِ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ (الحج: 20) یہ دو جھگڑالو ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا.پس وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا ان کے لئے آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے.ان کے سروں کے اوپر سے سخت گرم پانی انڈیلا جائے گا.دو بہر حال اس مبارزت کی مزید تفصیل سنن ابو داؤد میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ عقبہ بن ربیعہ اور اس کے پیچھے اس کا بیٹا اور بھائی بھی نکلے اور پکار کر کہا کہ کون ہمارے مقابلے کے لئے آتا ہے ؟ تو انصار کے کئی نوجوانوں نے اس کا جواب دیا.عتبہ نے پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے بتادیا کہ ہم انصار ہیں.عتبہ نے کہا کہ ہمیں تم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے.ہم تو صرف اپنے چچا کے بیٹوں سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں.اس پر آپ صلی علیم نے فرمایا کہ اے حمزہ! اٹھو.اے علی ! کھڑے ہو.اے عبیدہ بن حارث ! آگے بڑھو.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الم کی آواز سنتے ہی حضرت حمزہ عتبہ کی طرف بڑھے اور میں شیبہ کی طرف بڑھا اور عبیدہ بن حارث اور ولید کے درمیان

Page 248

اصحاب بدر جلد 5 232 جھڑپ ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کو سخت زخمی کیا.پھر ہم ولید کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کو مار ڈالا اور عبیدہ کو ہم میدان جنگ سے اٹھا کے لے آئے.543 مبارزت کے دوران عتبہ نے حضرت عبیدہ بن حارث کی پنڈلی پر کاری ضرب لگائی تھی جس سے ان کی پنڈلی کٹ گئی تھی.پھر آپ کو رسول اللہ صلی الی یکم نے اٹھوایا اور جنگ بدر ختم ہونے کے بعد مقام صفرا، جو بدر کے نزدیک ایک مقام ہے وہاں آپ کا انتقال ہو گیا اور وہیں ان کو دفن کر دیا گیا.54 ایک روایت کے مطابق جب عبیدہ کی پنڈلی کٹ چکی تھی اور اس سے گودا بہہ رہا تھا.تب صحابہ حضرت عبیدہ کو آنحضرت صلی علیکم کے پاس لائے تو انہوں نے عرض کیا کہ یار سول اللہ ! کیا میں شہید نہیں ہوں ؟ جنگ میں زخمی ہوئے تھے.اس وقت فوری طور پر شہید نہیں ہوئے تھے.آپ صلی الی یکم نے فرمایا کہ کیوں نہیں، تم شہید ہو.ایک روایت کے مطابق جب حضرت عبیدہ بن حارث کو رسول اللہ صلی عوام کی خدمت میں لایا گیا تو رسول اللہ صلی الم نے اپنے زانوں پر ان کا سر رکھا پھر حضرت عبیدہ نے کہا کاش کہ ابو طالب آج زندہ ہوتے تو جان لیتے کہ جو وہ اکثر کہا کرتے تھے اس کا ان سے زیادہ میں حق دار ہوں.اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ : وَنُسْلِمُهُ حَتَّى نُصْرَعَ حَوْلَهُ وَنَذْهَلَ عَنْ أَبْنَاءَنَا وَ الْحَلَائِل کہ یہ جھوٹ ہے کہ ہم محمد کو تمہارے سپر د کر دیں گے.ایسا تبھی ممکن ہے کہ جبکہ ہم آپ کے ارد گرد سے پچھاڑ دیئے جائیں اور ہم اپنے بیوی بچوں سے بھی غافل ہو جائیں.یہ جذبات تھے ان لوگوں کے.شہادت کے وقت حضرت عبیدہ بن حارث کی عمر 63 سال 227 545 رض حضرت عتبان بن مالک حضرت عتبان بن مالك حضرت عتبان بن مالك کا تعلق خزرج کی ایک شاخ بنو سالم بن عوف سے تھا.رسول اللہ صلی علیم نے آپ کے اور حضرت عمرؓ کے درمیان مواخات قائم فرمائی.آپ غزوہ بدر ، اُحد اور خندق میں شامل ہوئے.رسول اللہ صلی علیم کی حیات مبارکہ میں آپ کی بینائی جاتی رہی تھی.آپ کی وفات حضرت معاویہؓ کے دور حکومت میں ہوئی.6 546

Page 249

اصحاب بدر جلد 5 233 رسول اکرم علی ایم کی خدمت میں میزبانی کی دعوت جب رسول اللہ صلی علیم نے مدینہ میں نزول فرمایا تو حضرت عتبان بن مالک نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھ کر آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ ان کے یہاں قیام کریں لیکن رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو کہ یہ اس وقت مامور ہے یعنی جہاں خدا کا منشاء ہو گا وہاں یہ خود بیٹھ جائے گی.547 آنحضرت ملی ایم کا ایک ماہ کے لئے ازواج اور صحابہ سے الگ ہونا حضرت عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں اور انصار میں سے میرا ایک پڑوسی بنو أمية بن زيد، (بنو اميه بن زید بستی کا نام ہے) میں رہتے تھے.اور یہ مدینہ کے ان گاؤں میں سے ہے جو آس پاس اونچی جگہ پر واقع تھے.اور ہم باری باری رسول اللہ صلی علیم کے پاس جاتے تھے.ایک دن وہ جاتا تھا اور ایک دن میں جاتا تھا.اور جب میں جاتا تھا تو میں اس دن کی وحی وغیرہ کی خبریں اس کے پاس لا تا تھا اور جب وہ جاتا تھا تو وہ ایسے ہی کرتا تھا.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے دن گیا اور آکر میرے دروازے کو زور سے کھٹکھٹایا اور میرے میں پوچھا کیا وہ یہیں ہیں ؟ اس پر میں گھبرایا اور باہر نکلا تو اس نے کہا بہت ہی بڑا حادثہ ہوا ہے.حضرت عمر نے کہا.یہ سن کر میں حفصہ کے پاس گیا تو دیکھتا ہوں کہ وہ رورہی ہیں.میں نے پوچھار سول اللہ صلی علیم نے تمہیں طلاق دے دی ہے ؟ کہنے لگیں کہ میں نہیں جانتی.پھر میں نبی صلی یکم کے پاس گیا اور میں نے کھڑے کھڑے پوچھا کیا آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ فرمایا نہیں.اس پر میں نے کہا اللہ اکبر.548 روایات کے مطابق بعض جگہ تفصیل بھی ملتی ہے.لمبا واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک مہینے کے.آنحضرت علی اکرم نے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا تھا اور نہ صرف بیویوں سے بلکہ صحابہ سے بھی علیحدہ ہو گئے تھے.اس وجہ سے یہ تاثر پیدا ہو گیا کہ طلاق دے دی ہے.کسی وجہ سے ناراضکی ہے.بہر حال جو بھی وجو ہات تھیں وہ اور تھیں لیکن یہ وجہ نہیں تھی.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے بخاری کی حدیث کی شرح میں اس بات سے کہ حضرت عمرؓ نے بیان فرمایا کہ ایک دن میں جاتا تھا اور ایک دن میرے دوسرے ساتھ جاتے تھے لکھا ہے کہ "اگر کسی کو علم سیکھنے کے لیے پوری فراغت نہ ملتی ہو تو وہ کسی کے ساتھ باری مقرر کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر نے حضرت عتبان بن مالک انصاری کے ساتھ باری مقرر کی تھی.صحابہ کے شوق کا اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ کام کاج چھوڑ کر تین چار میل سے آکر سارا دن اسی کام میں صرف کر دیتے."549 لیکن علامہ عینی بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں تحریر کرتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ پڑوسی حضرت

Page 250

اصحاب بدر جلد 5 234 عتبان بن مالك " تھے لیکن صحیح یہ ہے کہ حضرت عمر کے پڑوسی اوس بن خولی تھے.بہر حال حضرت عمرؓ نے تو اس کی روایت میں جو بیان فرمایا وہی بیان ہوتا ہے.نابینائی کی وجہ سے گھر میں نماز با جماعت کا اہتمام کرنے کی اجازت 550 ایک روایت میں ہے کہ حضرت عتبان بن مالک نے جب ان کی بینائی چلی گئی تو نبی کریم صلی الیم سے نماز با جماعت سے تخلف کی اجازت چاہی کہ آنہیں سکتا، مسجد میں نہیں آسکتا مجھے اجازت دی جائے.آپ نے فرمایا کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو ؟ حضرت عتبان نے کہا جی.اس پر رسول اللہ صلی العلیم نے آپ کو اس کی اجازت نہیں دی.یہ مشہور حدیث ہے اکثر پیش کی جاتی ہے.لیکن اس کی کچھ تفصیل بھی ہے.صحیح بخاری کی روایت سے پتا چلتا ہے کہ بعد میں نبی کریم صلی علیم نے حضرت عتبان ہو گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی.شروع میں منع کیا پھر اجازت دے دی.چنانچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عتبان بن مالک اپنی قوم کی امامت کیا کرتے تھے اور وہ نابینا تھے اور یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی العلیم سے کہا کہ یارسول اللہ ! اندھیرا اور سیلاب ہوتا ہے.بارش زیادہ ہو جاتی ہے.اندھیرا ہوتا ہے.نیچے وادی میں پانی بہ رہا ہو تا ہے.میں نابینا ہوں.اس لیے یارسول اللہ ! میرے گھر میں نماز پڑھیے جسے میں نماز گاہ بناؤں.ایک دن حاضر ہوئے اور یہ کہا میرا یہاں آنا مشکل ہو جاتا ہے آپ میرے گھر آئیں اور میرے گھر میں میں نے ایک جگہ بنائی ہے وہاں نماز پڑھ لیں.اس پر رسول اللہ صلی علیکم ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا تم کہاں پسند کرتے ہو کہ میں نماز پڑھوں ؟ انہوں نے گھر میں ایک طرف اشارہ کیا اور رسول اللہ صلی علیم نے اس جگہ نماز پڑھی.551 گھروں میں نماز سنٹر بنانے کا ارشاد پس اگر خاص حالات میں گھر میں نماز کی اجازت دی تو وہاں بھی باقی روایتوں سے ثابت ہو تا ہے کہ آپ لوگوں کو جمع کر کے وہاں نماز پڑھایا کرتے تھے کیونکہ موسم کی سختی کی وجہ سے، راستے کی روک کی وجہ سے لوگ مسجد میں جا نہیں سکتے تھے.تو عذر کوئی نہیں.اگر بعد میں اجازت دی بھی تھی تو اس لیے کہ وہاں ان کے گھر کے ایک حصہ میں باجماعت نماز ہو.چنانچہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب صحیح بخاری کی کتاب الاذان کے بَاب الرَّحْصَةُ فِي الْمَطْرِ وَالْعِلَّةِ أَنْ يُصَلِّي فِي دخله یعنی بارش یا کسی اور سبب سے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھنے کی اجازت کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں که امام موصوف ( یعنی امام بخاری) معذوری کے وہ حالات پیش کر رہے ہیں جن میں باجماعت نماز پڑھنے مستثنی کیا جانا چاہیے تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی گھر میں تنہا پڑھنے کی اجازت نہیں دی، یہ اذن نہیں دیا کہ گھر میں اکیلے پڑھ لیا کرو) حالا نکہ آپ صلی ہی تم ہمیشہ حتی الامکان احکام کے نفاذ میں سہولت مد نظر رکھتے تھے.یہی ہوتا تھا کہ دین کے معاملے میں جہاں آسانی پید ا ہو سکتی

Page 251

اصحاب بدر جلد 5 235 تھی وہاں آسانی پیدا کی جائے لیکن آپ نے ان کو علیحدہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی.اجازت دی بھی تو اس صورت میں کہ باجماعت پڑھنی ہے.پھر لکھتے ہیں کہ حضرت عثبان نابینا تھے.راستے میں نالہ بہتا تھا اور بعض روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگی تو آپ نے انہیں اجازت دی مگر باجماعت نماز پڑھنے کی صورت میں.یہ فرمایا کہ باجماعت نماز پڑھو گے تو اجازت ہے.پھر آپ لکھتے ہیں کہ اگر نماز فریضہ تنہا پڑھی جاسکتی تھی تو آپ حضرت عثبان " کو معذور سمجھ کر گھر میں تنہا نماز پڑھنے کی ضرور اجازت دیتے.552 پس ہمیشہ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں بھی اگر فاصلے زیادہ ہیں، سواری نہیں ہے، وقت نہیں ہوتا تو جس طرح کہ کئی دفعہ کہہ چکا ہوں احمدیوں کو بھی چاہیے کہ اپنے گھروں میں نماز سینٹر بنائیں اور ہمسائے اکٹھے ہو کر وہاں باجماعت نماز پڑھا کریں.553 228 نام و نسب حضرت عقبہ بن ربیعہ حضرت عتبه بن ربیعہ ہے.حضرت عتبہ کا تعلق کس قبیلے سے تھا اس کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے.ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عُتبہ بن ربیعہ قبیلہ بنولوذان کے حلیف تھے اور ان کا تعلق قبیلہ بہراء سے تھا.بعض کے نزدیک آپ قبیلہ اوس کے حلیف تھے.بہر حال آپ کو غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شامل ہونے کی سعادت ملی.علامہ ابن حجر عسقلانی بیان کرتے ہیں کہ جنگ پر موک میں شامل ہونے والے امراء میں سے ایک کا نام عتبہ بن ربیعہ ملتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہی وہ صحابی ہیں.554 جنگ پر موک، ایک دستے کے نگران عتبہ بن ربیعہ جنگ یرموک کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ 12 ہجری میں حضرت ابو بکر جب حج کی ادائیگی.واپس مدینہ تشریف لائے تو آپ نے 13 ہجری کے آغاز میں مسلمانوں کی فوجوں کو ملک شام کی طرف روانہ کیا.چنانچہ حضرت عمرو بن عاص کو فلسطین کی طرف، یزید بن ابوسفیان، حضرت ابوعبیده بن الجراح اور حضرت شرحبيل بن حَسَنَہ کو حکم دیا کہ شام کے بالائی علاقے بلقاء پر سے ہوتے ہوئے

Page 252

اصحاب بدر جلد 5 236 تبوکیہ چلے جائیں.حضرت ابو بکڑ نے پہلے خالد بن سعید کو امیر مقرر کیا تاہم بعد میں ان کی جگہ یزید بن سفیان کو امیر بنالیا.یہ لوگ سات ہزار مجاہدین کے ہمراہ ملک شام کی طرف روانہ ہوئے.اسلامی لشکر کے امراء اپنی فوجوں کو لے کر شام پہنچے.ہر قل خود چل کر حمص آیا اور رومیوں کا بہت بڑا لشکر تیار کیا.اس نے مسلمان امراء کے مقابلے کے لیے الگ الگ امیر مقرر کیے.دشمن کی تیاری دیکھ کر مسلمانوں پر اور بعض ان میں سے اتنے ایمان والے بھی نہیں تھے، ہیبت طاری ہو گئی کیونکہ مسلمانوں کی تعداد اس وقت ستائیس ہزار تھی.اس صورت حال میں حضرت عمرو بن عاص نے ہدایت دی کہ تم سب ایک جگہ جمع ہو جاؤ کیونکہ جمع ہونے کی صورت میں قلت تعداد کے باوجود تمہیں مغلوب کرنا آسان نہیں ہو گا.تھوڑے ہو اس لشکر کے مقابلے پر لیکن اگر اکٹھے ہو جاؤ گے تو آسانی سے تمہارے پر فتح نہیں پائی جائے گی.اگر علیحدہ علیحدہ رہے ہر لیڈر کے اندر تو یاد رکھو تم میں سے ایک بھی ایسا باقی نہیں رہے گا جو کسی آگے والے کے کام آسکے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک پر بڑی بڑی فوجیں مسلط کر دی گئی ہیں.چنانچہ طے یہ ہوا کہ یرموک کے مقام پر سب مسلمان فوجیں اکٹھی ہو جائیں.یہی مشورہ حضرت ابو بکر نے تبھی مسلمانوں کو بھجوایا اور فرمایا کہ جمع ہو کر ایک لشکر بن جاؤ اور اپنی فوجوں کو مشرکین کی فوجوں سے بھڑ ادو.تم اللہ کے مدد گار ہو.اللہ اس کا مددگار ہے جو اللہ کا مددگار ہے اور وہ اس کو رسوا کرنے والا ہے جس نے اس کا انکار کیا.تم جیسے لوگ قلت تعداد کی وجہ سے کبھی مغلوب نہیں ہو سکتے.حضرت ابو بکر نے پیغام بھجوایا کہ بیشک تم تھوڑے ہو لیکن اگر ایمان ہے اور اکٹھے ہو کر لڑو گے تو کبھی مغلوب نہیں ہو سکتے کیونکہ تم خدا تعالیٰ کی خاطر لڑ رہے ہو.فرمایا کہ دس ہزار بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اگر گناہوں کے طرف دار بن کر اٹھیں گے تو وہ دس ہزار سے ضرور مغلوب ہو جائیں گے.تعداد کی فکر نہ کرو کیونکہ اگر تم دس ہزار ہو یا اس سے بھی زیادہ ہو لیکن اگر وہ گناہ کرنے والے ہیں اور غلط کام کرنے والے ہیں تو پھر ضرور مغلوب ہوں گے لہذا تم گناہوں سے بچو.اپنے آپ کو پاک بھی کرو اور ایک ہو جاؤ.اکائی پیدا کر و اور یرموک میں مل کر کام کرنے کے لیے جمع ہو جاؤ.تم میں سے ہر ایک امیر اپنی فوج کے ساتھ نماز ادا کرے.صفر 13 ہجری سے لے کر ربیع الثانی تک مسلمانوں نے رومی لشکر کا محاصرہ کیا تاہم مسلمانوں کو اس دوران کامیابی نہیں ملی.اس دوران حضرت ابو بکر نے حضرت خالد بن ولید کو بطور کمک کے عراق سے پر موک پہنچنے کا حکم دیا.حضرت خالد بن ولید اس وقت عراق کے گورنر تھے.حضرت خالد کے پہنچنے سے قبل تمام امراء الگ الگ اپنی فوج کو لے کر لڑ رہے تھے تاہم حضرت خالد نے وہاں پہنچ کر تمام مسلمانوں کو ایک امیر مقرر کرنے کی نصیحت کی جس پر سب نے حضرت خالد بن ولید کو امیر مقرر کر لیا.رومیوں کے لشکر کی تعد اد دو لاکھ یا دولاکھ چالیس ہزار کے قریب بیان کی جاتی ہے اور اس کے مقابل پر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد سینتیس ہزار سے لے کر چھیالیس ہزار تک بیان کی جاتی ہے، تقریب پانچواں حصہ تھی.رومی لشکر کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ اتنی ہزار کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں اور چالیس ہزار آدمی زنجیروں میں بندھے

Page 253

237 اصحاب بدر جلد 5 ہوئے تھے تا کہ جان دینے کے سوا بھاگنے کا ان کو خیال بھی نہ آئے.ایک لاکھ بیس ہزار آدمی ایسا تھا جن کو اس لیے باندھا گیا تھا کہ صرف انہوں نے لڑنا ہے اور مرنا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں اور چالیس ہزار آدمیوں نے خود کو اپنی پگڑیوں کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور اسی ہزار سوار اور اسی ہزار پیدل تھے.بے شمار پادری لشکر کو جوش دلانے کے لیے رومی لشکر کے ساتھ تھے.اسی جنگ کے دوران حضرت ابو بکر جمادی الاولی میں بیمار ہوئے اور جمادی الاخریٰ میں وفات پائی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ ایک ہزار صحابہ شامل تھے جن میں سے ایک سو بدری تھے حضرت خالد نے اس جنگ میں مسلمانوں کے لشکر کو بہت سارے دستوں میں تقسیم کر دیا جن کی تقسیم چھتیس سے لے کر چالیس تک بیان کی جاتی ہے لیکن ایک ہی امیر کے تحت لڑ رہے تھے.ان دستوں میں سے ایک دستے کے نگران حضرت عقبہ بن ربیعہ تھے.حضرت خالد نے کہا کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ہماری اس ترتیب کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر دشمن کو بظاہر زیادہ نظر آئے گا.اسلامی لشکر کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تقریباً ایک ہزار ایسے بزرگ اس لشکر میں تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ نام کا چہرہ مبارک دیکھا ہوا تھا.سو ایسے صحابہ تھے جو غزوہ بدر میں رسول اللہ علی الم کے ہمراہ شریک ہو چکے تھے.فریقین میں بڑی خونریز جنگ کا آغاز ہوا.اسی دوران مدینہ سے ایک قاصد خبر لے کر آیا کوئی خبر لے کر آیا.سواروں نے اسے روکا تو اس نے بتایا کہ سب خیریت ہے مگر اصل واقعہ یہ تھا کہ وہ حضرت ابو بکر کی وفات کی خبر لایا تھا.لوگوں نے قاصد کو حضرت خالد کے پاس پہنچایا اور اس نے چپکے سے حضرت ابو بکر کی وفات کی خبر دی اور فوج کے لوگوں سے جو کچھ کہا وہ بھی بتادیا کہ میں نے ان کو کچھ نہیں بتایا.حضرت خالد بن ولید نے اس سے خط لے کر اپنے ترکش میں تیر رکھنے کی جگہ میں ڈال لیا، کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ اگر یہ خبر لشکر کو معلوم ہو گئی تو پھر ابتری پھیلنے کا خدشہ ہے.مسلمان شاید اس طرح نہ لڑیں.بہر حال مسلمان ثابت قدم رہے اور شام تک خوب لڑائی ہوئی تاہم رومی لشکر نے پھر بھاگنا شروع کر دیا.اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد رومی فوجی ہلاک ہوئے اور کل تین ہزار مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے.ان شہداء میں حضرت عکرمہ بن ابو جہل بھی تھے.قیصر کو جب اس ہزیمت کی خبر ملی تو وہ اس وقت حمص میں مقیم تھا وہ فور وہاں سے نکل کے بھاگ گیا.فتح یرموک کے بعد اسلامی فوجیں پورے ملک شام میں پھیل گئیں اور قنشرين، انطاکیه، جُوْمه،سرمين، تيزين، قُوْرُسُ، تَل عَزَاز ، دُلُوك، رغبَان وغیرہ مقامات پر نہایت آسانی سے فتح حاصل کی.555

Page 254

238 229 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عقبہ بن عبد الله پھر حضرت عقبہ بن عبد اللہ ہیں.ان کی والدہ کا نام بُسرہ بنت زید تھا.بیعت عقبہ اور غزوہ بدر اور احد میں یہ شریک ہوئے تھے.556 230 نام و نسب و کنیت حضرت عتبہ بن غزوان حضرت عُتبہ بن غزوان.ان کی کنیت ابو عبد اللہ اور ابو غزوان تھی.حضرت عتبه قبیلہ بنو نوفل بن عَبْدِ مَنَاف کے حلیف تھے.حضرت عُتبہ کے والد کا نام غزوان بن جابر تھا.حضرت عُشبہ کی کنیت ابو عبد اللہ کے علاوہ ابو غزوان بھی بیان کی جاتی ہے جیسا کہ بیان ہوا.حضرت عُتبہ نے اردہ بنت حارث سے شادی کی تھی.رض ابتدائی قبول اسلام کرنے ، حبشہ و مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے رض حضرت عتبه خود بیان کرتے ہیں کہ میں ان افراد میں سے ساتواں تھا جو سب سے پہلے اسلام قبول کر کے آنحضرت صلی علیم کے ساتھ ہوئے تھے.ابن اثیر کے مطابق حضرت عتبہ نے جب حبشہ کی طرف ہجرت کی تو اس وقت ان کی عمر چالیس سال تھی جبکہ ابن سعد کے مطابق ہجرت مدینہ کے وقت وہ چالیس سال کے تھے.بہر حال وہ حبشہ سے مکہ واپس آئے جبکہ آنحضرت صلی اللہ کی بھی مکے میں ہی مقیم تھے.حضرت عتبہ آنحضرت صلی علیکم کے ساتھ مقیم رہے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت مقداد کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کی اور یہ دونوں ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے.557 مدینہ کی طرف ہجرت کی تفصیل حضرت عُتبہ بن غزوان اور حضرت مقداد بن اسود دونوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کا واقعہ اس طرح ہے کہ مکے سے وہ دونوں مشرکین قریش کے لشکر کے ساتھ نکلے تاکہ مسلمانوں کے ساتھ شامل

Page 255

239 اصحاب بدر جلد 5 ہو سکیں.رسول اللہ صلی الم نے حضرت عبیدہ بن حارث کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک لشکر ثَنِيَّةُ الْمَرَةُ، یہ رابغ شہر کے شمال مشرق میں تقریباً 55 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور مدینہ منورہ سے اس کا فاصلہ تقریباًدو سوکلو میٹر ہے.یہ اس کی طرف روانہ ہوئے.آنحضرت صلی الم نے یہ لشکر روانہ فرمایا.قریش کے لشکر کی قیادت عکرمہ بن ابو جہل کر رہا تھا.ان دونوں گروہوں کے درمیان لڑائی نہ ہوئی سوائے ایک تیر کے جو حضرت سعد بن ابی وقاص نے چلایا تھا اور وہ خدا کی راہ میں پہلا تیر تھا جو رض 558 چلایا گیا.اس روز عُتبہ بن غزوان اور حضرت مقداد بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ جاملے.یہ اس قافلے میں آئے تو کافروں کے ساتھ تھے لیکن جیسا کہ پہلے حضرت مقداد کے بارے میں ذکر ہو چکا ہے یہ ادھر آگئے.آنحضرت صلی ا لم کی مدافعانہ کارروائیاں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں تاریخی کتب سے لے کے جہاد بالسیف کا آغاز اور آنحضرت صلی علی یم کی مدافعانہ کارروائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جہاد بالسیف کی اجازت میں پہلی قرآنی آیت بارہ صفر 2 ہجری کو نازل ہوئی.یعنی دفاعی جنگ کے اعلان کا جو خدائی اشارہ ہجرت میں کیا گیا تھا اس کا باضابطہ اعلان صفر 2 ہجری کو کیا گیا جبکہ آنحضرت صلی کم قیام مدینہ کی ابتدائی کارروائیوں سے فارغ ہو چکے تھے اور اس طرح جہاد کا آغاز ہو گیا.تاریخ سے پتا لگتا ہے کہ کفار کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے آنحضرت صلی علی یم نے ابتداء چار تدابیر اختیار کی تھیں جو آپ کی اعلیٰ سیاسی قابلیت اور جنگی دور بینی کی ایک دلیل ہے، بڑی کھلی دلیل ہے اور وہ تدابیر یہ تھیں: پہلی یہ کہ آپ نے خود سفر کر کے آس پاس کے قبائل کے ساتھ باہمی امن وامان کے معاہدے کرنے شروع کیے تا کہ مدینے کے ارد گرد کا علاقہ خطرے سے محفوظ ہو جائے.اس امر میں آپ نے خصوصیت کے ساتھ ان قبائل کو مد نظر رکھا جو قریش کے شامی رستے کے قرب وجوار میں آباد تھے کیونکہ جیسا کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے یہی وہ قبائل تھے جن سے قریش مکہ مسلمانوں کے خلاف زیادہ مدد لے سکتے تھے اور جن کی دشمنی مسلمانوں کے واسطے سخت خطرات پیدا کر سکتی تھی.دوم: دوسرا قدم آپ نے یہ اٹھایا کہ آپ نے چھوٹی چھوٹی خبر رساں پارٹیاں مدینے کے مختلف جہات میں روانہ کرنی شروع فرمائیں تا کہ آپ کو قریش اور ان کے حلیفوں کی حرکات و سکنات کا علم ہو تا رہے اور قریش کو بھی یہ خیال رہے کہ مسلمان بے خبر نہیں ہیں اور اس طرح مدینہ اچانک حملوں کے خطرات سے محفوظ ہو جائے.مدینہ پہنچنے کے بعد تیسر اقدم آنحضرت علی تم نے اس وقت یہ اٹھایا کہ ان پارٹیوں کے بھجوانے میں آپ کی ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ اس کے ذریعہ سے مکہ اور اس کے گردونواح کے کمزور اور غریب

Page 256

240 اصحاب بدر جلد 5 مسلمانوں کو مدینہ کے مسلمانوں میں آملنے کا موقع مل جائے کیونکہ ابھی تک مکے کے علاقے میں کئی لوگ ایسے موجود تھے جو دل سے مسلمان تھے مگر قریش کے مظالم کی وجہ سے اپنے اسلام کا بر ملا اظہار نہیں کر سکتے تھے اور نہ اپنی غربت اور کمزوری کی وجہ سے ان میں ہجرت کی طاقت تھی کیونکہ قریش ایسے لوگوں کو ہجرت سے جبراً روکتے تھے.چنانچہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجُنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا ۚ وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا (النساء: 76) یعنی اے مومنو کوئی وجہ نہیں کہ تم لڑائی نہ کرو اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے اور ان مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر جو کمزوری کی حالت میں پڑے ہیں اور دعائیں کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ! نکال ہم کو اس شہر سے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہم ناتوانوں کے لیے اپنی طرف سے کوئی دوست اور مددگار عطا فرما.پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ تا ایسے لوگوں کو ظالم قوم سے چھٹکارا پانے کا موقع مل جاوے.یعنی ایسے لوگ قریش کے قافلوں کے ساتھ ملے ملائے مدینہ کے قریب پہنچ جائیں اور پھر مسلمانوں کے دستے کی طرف بھاگ کر مسلمانوں میں آملیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا دستہ ہی جو آنحضرت صلی امام نے عبیدہ بن الحارث کی سرداری میں روانہ فرمایا تھا اور جس کا عکرمہ بن ابو جہل کے ایک گروہ سے سامنا ہو گیا تھا اس میں مکے کے دو کمزور مسلمان جو قریش کے ساتھ ملے ملائے آگئے تھے قریش کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آملے.چنانچہ روایت آتی ہے کہ اس مہم میں جب مسلمانوں کی پارٹی لشکرِ قریش کے سامنے آئی تو دو خص مقداد بن عمرو اور عُتبہ بن غزوان جو بنوزھرہ اور بنو نوفل کے حلیف تھے مشرکین میں سے بھاگ کر مسلمانوں میں آملے اور یہ دونوں شخص مسلمان تھے اور صرف کفار کی آڑ لے کر مسلمانوں میں آملنے کے لیے نکلے تھے.پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک غرض آنحضرت صلی للہ نام کی یہ بھی تھی کہ تا ایسے لوگوں کو ظالم قریش سے چھٹکارا پانے اور مسلمانوں میں آملنے کا موقع ملتار ہے.چوتھی جو تدبیر تھی وہ آپ نے یہ اختیار فرمائی کہ آپ نے قریش کے ان تجارتی قافلوں کی روک تھام شروع فرما دی جو کمکے سے شام کی طرف آتے جاتے ہوئے مدینے کے پاس سے گزرتے تھے.کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ یہ قافلے جہاں جہاں سے گزرتے تھے مسلمانوں کے خلاف عداوت کی آگ لگاتے جاتے تھے اور ظاہر ہے کہ مدینے کے گردو نواح میں اسلام کی عداوت کا تنم بو یا جانا مسلمانوں کے لیے نہایت خطر ناک تھا.دوسرے یہ کہ یہ قافلے ہمیشہ مسلح ہوتے تھے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کے قافلوں کا مدینے سے اس قدر قریب ہو کر گزرنا ہر گز خطرے سے خالی نہیں تھا.اور تیسری بات یہ کہ قریش کا

Page 257

اصحاب بدر جلد 5 241 گزارہ زیادہ تر تجارت پر تھا اور ان حالات میں قریش کو زیر کرنے اور ان کو ان کی ظالمانہ کارروائیوں سے روکنے اور صلح پر مجبور کرنے کا یہ سب سے زیادہ یقینی اور سریع الاثر ذریعہ تھا کہ ان کی تجارت کا راستہ بند کر دیا جاوے.چنانچہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جن باتوں نے بالآخر قریش کو صلح کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا ان میں ان کے تجارتی قافلوں کی روک تھام کا بہت بڑا دخل تھا.پس یہ ایک نہایت دانشمندانہ تدبیر تھی جو اپنے وقت پر کامیابی کا پھل لائی.پھر یہ بھی کہ قریش کے ان قافلوں کا نفع بسا اوقات اسلام کو مٹانے کی کوشش میں صرف ہو تا تھا بلکہ بعض قافلے تو خصوصیت کے ساتھ اسی غرض سے بھیجے جاتے تھے کہ ان کا سارا نفع مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا.اس صورت میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان قافلوں کی روک تھام خود اپنی ذات میں بھی ایک بالکل جائز مقصود تھی.559 رض 560 سريه عبيدة بن حارث جس میں حضرت عُتبہ قریش کے لشکر سے نکل کر مسلمان سے جاملے تھے اس کا مزید ذکر اس طرح ہے.کچھ حصہ تو میں گذشتہ کسی خطبے میں بیان کر چکا ہوں.بہر حال مختصر یہاں بیان کر دیتا ہوں کہ ماہ ربیع الاول دو ہجری کے شروع میں آپ صلی یہ ہم نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار عبیدہ بن الحارث مطلبی کی امارت میں ساٹھ شتر سوار مہاجرین کا ایک دستہ روانہ فرمایا.اس مہم کی غرض بھی قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی.میں سیرت خاتم النبیین کا ہی یہ حوالہ دے رہا ہوں چنانچہ جب عبیدہ بن الحارث اور ان کے ساتھی کچھ مسافت طے کر کے ثَنِيَّةُ الْمَرَہ کے پاس پہنچے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے دوسو مسلح نوجوان عکرمہ بن ابو جہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں.فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کچھ تیراندازی بھی ہوئی لیکن پھر مشرکین کا گروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی ہو گی ان کے مقابلے سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا.البتہ مشرکین کے لشکر میں سے دو ص مقداد بن عمرو اور عُتبہ بن غزوان، عکرمہ بن ابو جہل کی کمان سے خود بخود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقع پا کر مسلمانوں میں آملیں کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کر سکتے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے تجزیہ کیا ہے کہ اور ممکن ہے کہ اسی واقعہ نے قریش کو بد دل کر دیا ہو اور انہوں نے اسے بد فال سمجھ کر پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہو.تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہے کہ قریش کا یہ لشکر جو یقینا کوئی تجارتی قافلہ نہیں تھا اور جس کے متعلق ابن اسحاق نے جمع عظیم یعنی ایک بہت بڑا لشکر کے الفاظ استعمال کیے ہیں، کسی خاص ارادے سے اس طرف آیا تھا لیکن یہ یقینی ہے کہ ان کی نیت بخیر نہیں تھی اور یہ خدا کا فضل تھا کہ مسلمانوں کو چوکس پا کر اور اپنے آدمیوں میں سے بعض کو مسلمانوں کی طرف جاتا دیکھ کر ان کو ہمت نہیں ہوئی اور وہ واپس لوٹ گئے اور صحابہ کو اس مہم کا یہ عملی

Page 258

اصحاب بدر جلد 5 242 فائدہ ہو گیا کہ دو مسلمان روحیں قریش کے ظلم سے نجات پاگئیں 561 مدینہ میں مواخات حضرت عتبه بن غزوان اور ان کے آزاد کردہ غلام حباب نے جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو قبا ( یہ بھی ایک روایت آتی ہے الطبقات الکبریٰ میں) کے مقام پر انہوں نے حضرت عبد اللہ بن سلمہ عجلانی کے ہاں قیام کیا اور جب حضرت عتبہ مدینہ پہنچے تو انہوں نے حضرت عباد بن بشر کے ہاں قیام کیا.رسول اللہ صلی العلیم نے حضرت عُتبہ بن غزوان اور حضرت ابودجانہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی.562 الله سة نخلہ کی طرف سریہ آنحضرت صلی الی ایم نے سن 2 ہجری میں اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن جحش کی قیادت میں ایک سر یہ نخلہ کی طرف بھیجا.حضرت عُتبہ بھی اس سر یہ میں شامل تھے.اس سریہ کا ذکر پہلے بھی کچھ حد تک ایک صحابی کے ذکر میں بیان ہو چکا ہے.بہر حال اب کچھ مختصر بھی بیان کر دیتا ہوں.سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ لکھا ہے کہ: آنحضرت صلی الی یکم نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات وسکنات کا زیادہ قریب سے ہو کر علم حاصل کیا جاوے تاکہ اس کے متعلق ہر قسم کی ضروری اطلاع بر وقت میسر ہو جائے اور مدینہ ہر قسم کے اچانک حملوں سے محفوظ رہے.چنانچہ اس غرض سے آپ مکئی ملی ہم نے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی اور مصلحتاً اس پارٹی میں ایسے آدمیوں کو رکھا جو قریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے میں آسانی ہو اور اس پارٹی پر آپ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی عبد اللہ بن جحش کو امیر مقرر فرمایا.آپ صلی علیم نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کو یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اور کس غرض سے بھیجا جارہا ہے.چلتے ہوئے ان کے ہاتھ میں ایک بند ، سر بمہر خط دے دیا اور فرمایا کہ اس خط میں تمہارے لیے ہدایات درج ہیں.آپ صلی علی کرم نے فرمایا کہ جب مدینہ سے دو دن کا سفر طے کر لو تو پھر اس خط کو کھول کر اس کی ہدایات کے مطابق عمل درآمد کرنا.جب دو دن کا سفر طے کر چکے تو عبد اللہ نے آنحضرت صلی علیم کے فرمان کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے کہ تم مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں جاؤ اور وہاں جاکر قریش کے حالات کا علم لو اور پھر ہمیں اطلاع لا کر دو.آپ صلی علی کی نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھی تھی کہ اس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگر تمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متامل ہو اور واپس چلے آنا چاہے یعنی جب یہ خط دیکھ لو اور پڑھ لو اور اس گروہ کا یا یہ سر یہ جو بھیجا گیا ہے اس کا کیا مقصد ہے تو ان میں جو رض

Page 259

اصحاب بدر جلد 5 243 شامل افراد ہیں اگر ان میں سے کسی کو کچھ تامل ہو ، اعتراض ہو ، متامل ہوں اور اگر واپس آنا چاہے تو واپس آسکتے ہیں کوئی پابندی نہیں ہے.بہر حال آپ نے فرمایا اسے واپس آنے کی اجازت دے دینا.عبد اللہ نے آپ کی یہ ہدایت اپنے ساتھیوں کو سنادی اور سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم بخوشی اس خدمت کے لیے حاضر ہیں.اس کے بعد یہ جماعت نخلہ کی طرف روانہ ہوئی.راستہ میں سعد بن ابی وقاص اور عُتبہ بن غزوان کا اونٹ کھو گیا اور وہ اس کی تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجو د بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکے یعنی اپنے ساتھیوں کو نہ مل سکے اور اب یہ پارٹی جو گئی تھی یہ صرف چھ کس کی رہ گئی.اس میں صرف چھ افراد رہ گئے.ایک مستشرق مارگولیس کا ایک ناحق اعتراض اور اس کا جواب رم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک مستشرق ہے مار گولیس اس کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے اس موقع پر یہ لکھا کہ سعد بن ابی وقاص اور عتبہ نے جان بوجھ کر اپنا اونٹ چھوڑ دیا تھا اور اس بہانہ سے پیچھے رہ گئے تھے.آپ لکھتے ہیں کہ ان جاں نثارانِ اسلام پر جن کی زندگی کا ایک ایک واقعہ ان کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے اور جن میں سے ایک غزوہ بئر معونہ میں کفار کے ہاتھوں شہید بھی ہوا اور دوسرا کئی خطر ناک معرکوں میں نمایاں حصہ لے کر بالآخر عراق کا فاتح بنا، ان کے بارے میں اس قسم کا شبہ محض اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر کرنا مٹر مار گولیس ہی کا حصہ ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ مارگولیس اپنی کتاب میں یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے یہ کتاب ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو کر لکھی ہے.بہر حال یہ تو ان لوگوں کا طریق ہے جہاں بھی اسلام اور مسلمانوں پر اعتراض کا موقع ملے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے.اب اصل واقعہ جو سریہ کا تھا اس کی طرف آتا ہوں.حرمت والا مہینہ اور جنگ؟ یہ مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت تھی، جب نخلہ پہنچی اور اپنے کام یعنی انفار میشن لینے ، اطلاعات لینے میں مصروف ہو گئی کہ کفار مکہ کی موومنٹس (movements) کیا ہیں.ان کے ارادے کیا ہیں.مسلمانوں کے بارے میں کوئی حملے کا منصوبہ تو نہیں؟ تو یہ معلومات لینے میں، اپنے کام میں وہ مصروف ہو گئی اور ان میں سے بعض نے اخفائے راز کے خیال سے اپنے سر کے بال بھی منڈوا دیے تا کہ راہ گیر وغیرہ ان کو عمرے کے خیال سے آئے ہوئے لوگ سمجھ کر کسی قسم کا شبہ نہ کریں لیکن ایک دن اچانک وہاں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ بھی آپہنچا جو طائف سے مکہ کی طرف جارہا تھا اور ہر دو جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہو گئیں.مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے.آنحضرت صلی علیم نے ان کو خفیہ خفیہ خبر رسانی کے لیے بھیجا تھا، کوئی باقاعدہ حملے کے لیے نہیں بھیجا تھا لیکن دوسری طرف قریش سے جنگ شروع ہو چکی تھی یعنی آمنے سامنے ہو گئے تھے اور دونوں حریف ایک دوسرے کے سامنے تھے اور

Page 260

اصحاب بدر جلد 5 244 پھر طبعاً یہ بھی اندیشہ تھا کہ اب جو قریش کے ان قافلہ والوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا ہے تو اس خبر رسانی جس کے لیے بھیجے گئے تھے اس کار از مخفی نہیں رہ سکتا.ایک وقت یہ بھی تھی کہ بعض مسلمانوں کو خیال تھا کہ شاید یہ دن رجب یعنی شہرِ حرام کا آخری ہے جس میں عرب کے قدیم دستور کے مطابق لڑائی نہیں ہونی چاہیے اور بعض سمجھتے تھے کہ رجب گزر چکا ہے اور شعبان شروع ہے اور بعض روایات میں ہے کہ یہ سر یہ جمادی الآخر میں بھیجا گیا تھا اور شک یہ تھا کہ یہ دن جمادی کا دن ہے یار جب کا لیکن دوسری طرف نخلہ کی وادی عین حرم کے علاقہ کی حد پر واقع تھی اور یہ ظاہر تھا کہ اگر آج ہی کوئی فیصلہ نہ ہوا تو کل کو یہ قافلہ حرم کے علاقہ میں داخل ہو جائے گا جس کی حرمت یقینی ہو گی.غرض ان سب باتوں کو سوچ کر مسلمانوں نے آخر یہی فیصلہ کیا کہ قافلہ پر حملہ کر کے یا تو قافلہ والوں کو قید کر لیا جائے اور یا مار دیا جائے.بہر حال انہوں نے حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں کفار کا ایک آدمی مارا گیا اور دو آدمی قید ہو گئے.چوتھا آدمی بھاگ کر نکل گیا اور مسلمان اسے پکڑ نہ سکے اور اس طرح ان کی تجویز کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی.اس کے بعد مسلمانوں نے قافلہ کے سامان پر قبضہ کر لیا اور چونکہ قریش کا ایک آدمی بچ کر نکل گیا تھا اور یقین تھا کہ اس لڑائی کی خبر جلدی مکہ پہنچ جائے گی تو عبد اللہ بن جحش اور ان کے ساتھی سامانِ غنیمت لے کر جلد جلد مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے.اس موقع پر مار گولیس صاحب لکھتے ہیں کہ دراصل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ دستہ دیدہ دانستہ اس نیت سے شہر حرام میں بھیجا تھا کہ چونکہ اس مہینہ میں قریش طبعاً غافل ہوں گے ، مسلمانوں کو ان کے قافلہ کے لوٹنے کا آسان اور یقینی موقع مل جائے گا لیکن ہر عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایسی مختصر پارٹی کو اتنے دور دراز علاقہ میں کسی قافلہ کی غارت گری کے لیے نہیں بھیجا جاسکتا خصوصا جبکہ دشمن کا ہیڈ کوارٹر اتنا قریب ہو اور پھر یہ بات تاریخ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ پارٹی محض خبر رسانی کی غرض سے بھیجی گئی تھی اور آنحضرت صلی علیم کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہ نے قافلہ پر حملہ کیا تو آپ سخت ناراض کو ہوئے اور جب یہ جماعت آنحضرت صلی علی کم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو سارے حالات سنائے اور ماجرے کی اطلاع دی تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں شہر حرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی ہوئی اور آپ نے مالِ غنیمت بھی لینے سے انکار کر دیا.اس پر عبد اللہ اور ان کے ساتھی سخت نادم اور پشیمان ہوئے.اور انہوں نے خیال کیا کہ بس اب ہم خدا اور اس کے رسول کی ناراضگی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے.صحابہ نے بھی ان کو سخت ملامت کی کہ تم نے کیا کیا.شہر حرام میں لڑنا بہت بری بات ہے لیکن...!! دوسری طرف قریش نے بھی شور مچایا کہ مسلمانوں نے شہر حرام کی حرمت کو توڑ دیا ہے اور چونکہ جو شخص مارا گیا تھا یعنی عمر و بن الحضرمی وہ ایک رئیس آدمی تھا اور پھر وہ عُتبہ بن ربیعہ رئیس مکہ کا حلیف

Page 261

245 اصحاب بدر جلد 5 بھی تھا اس لیے بھی اس واقعہ نے قریش کی آتش غضب کو بہت بھڑ کا دیا اور انہوں نے آگے سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں.الغرض اس واقعہ پر مسلمانوں اور کفار ہر دو میں بہت چھر میگوئیاں ہوئیں اور بالآخر قرآن کریم کی یہ آیت وحی ہوئی، نازل ہوئی.اور اس کی وجہ سے پھر مسلمانوں کی تسلی اور تشفی بھی ہوئی کہ : يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالِ فِيْهِ قُلْ قِتَالُ فِيْهِ بِيرُ ۖ وَصَةٌ عَنْ سَبِيلِ اللهِ وَ كُفْرَ بِهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَ الْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا (البقرة:218) یعنی لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ شہر حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ تو ان کو جواب دے کہ بے شک شہر حرام میں لڑنا بہت بری بات ہے لیکن شہر حرام میں خدا کے دین سے لوگوں کو جبر ارو کنابلکہ شہر حرام اور مسجد حرام دونوں کا کفر کرنا یعنی ان کی حرمت کو توڑنا اور پھر حرم کے علاقہ سے اس کے رہنے والوں کو بزور نکالنا جیسا کہ اے مشرکو ا تم لوگ کر رہے ہو یہ سب باتیں خدا کے نزدیک شہر حرام میں لڑنے کی نسبت بھی زیادہ بری ہیں اور یقینا شہر حرام میں ملک کے اندر فتنہ پیدا کرنا اس قتل سے بدتر ہے جو فتنہ کو روکنے کے لیے کیا جاوے اور اے مسلمانو ! کفار کا تو یہ حال ہے کہ وہ تمہاری عداوت میں اتنے اندھے ہو رہے ہیں کہ کسی وقت اور کسی جگہ بھی وہ تمہارے ساتھ لڑنے سے باز نہیں آئیں گے اور وہ اپنی یہ لڑائی جاری رکھیں گے حتی کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں بشر طیکہ وہ اس کی طاقت پائیں.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسلام کے خلاف رؤسائے قریش اپنے خونی پراپیگنڈے کو اَشْهُرِ محرم میں بھی برابر جاری رکھتے تھے بلکہ اشهر محرم کے اجتماعوں اور سفروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ان مہینوں میں اپنی مفسدانہ کارروائیوں میں اور بھی زیادہ تیز ہو جاتے تھے اور پھر کمال بے حیائی سے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دینے کے لیے وہ عزت کے مہینوں کو اپنی جگہ سے ادھر اُدھر منتقل بھی کر دیا کرتے تھے جسے وہ نیٹی کے نام سے پکارتے تھے اور پھر آگے چل کر تو انہوں نے غضب ہی کر دیا کہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں باوجود پختہ عہد و پیمان کے کفار مکہ اور ان کے ساتھیوں نے حرم کے علاقہ میں مسلمانوں کے ایک حلیف قبیلہ کے خلاف تلوار چلائی اور پھر جب مسلمان اس قبیلہ کی حمایت میں نکلے تو ان کے خلاف بھی عین حرم میں تلوار استعمال کی.پس اللہ تعالیٰ کے اس جواب سے یعنی جو قرآن کریم کی آیت ہے اس سے مسلمانوں کی تو تسلی ہوئی ہی تھی قریش بھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے اور اس دوران میں ان کے آدمی بھی اپنے دو قیدیوں کو چھڑانے کے لیے مدینہ پہنچ گئے لیکن چونکہ ابھی تک سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان واپس نہیں آئے تھے تو آنحضرت صلی نیلم کو ان کے متعلق خدشہ تھا کہ اگر وہ قریش کے ہاتھ پڑ گئے تو قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے.اس لیے آپ صلی الی یکم نے ان کی واپسی تک قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میرے

Page 262

اصحاب بدر جلد 5 246 آدمی بخیریت مدینہ پہنچ جائیں گے تو پھر میں تمہارے آدمیوں کو چھوڑ دوں گا.الله چنانچہ جب وہ دونوں واپس پہنچ گئے تو آپ نے فدیہ لے کر دونوں قیدیوں کو چھوڑ دیا لیکن ان قیدیوں میں سے ایک شخص پر مدینہ کے قیام کے دوران آنحضرت صلیم کے اخلاق فاضلہ اور اسلامی تعلیم کی صداقت کا اس قدر گہرا اثر ہو چکا تھا کہ اس نے آزاد ہو کر بھی واپس جانے سے انکار کر دیا اور آنحضرت صلی ال نیم کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر آپ صلی علیکم کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا.اسلام لے آیا اور بالآخر بئر معونہ میں شہید ہوا.563 پس مار گولیس جو معترض ہے اس کے اعتراض کا جواب دینے کے لیے ان کا اسلام لانا اور پھر اسلام کی خاطر قربانی دینا یہی کافی ہے لیکن بہر حال ان چیزوں کو یہ لوگ نظر انداز کر جاتے ہیں.حضرت عقبہ کی تمام غزوات میں شمولیت حضرت عتبه بن غزوان کو غزوہ بدر اور بعد کے تمام غزوات میں رسول اللہ صلی ال نیم کے ہمراہ 564 شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.54 حضرت عُتبہ بن غزوان کے دو آزاد کردہ غلاموں خباب اور سعد کو بھی ان کے ساتھ جنگ بدر میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.5 حضرت عُتبہ بن غزوان رسول الله صلى ال علوم کے ماہر تیر اندازوں میں سے تھے.بصرہ کی سرزمین کی طرف روانہ کرنا 565 566 حضرت عمر نے حضرت عُتبہ کو ارضِ بصرہ کی سرزمین کی طرف روانہ فرمایا تاکہ وہ ابلۂ مقام کے لوگوں سے لڑیں جو فارس سے ہیں.روانہ کرتے ہوئے حضرت عمرؓ نے انہیں فرمایا کہ تم اور تمہارے ساتھی چلتے جاؤ یہاں تک کہ سلطنتِ عرب کی انتہا اور مملکت عجم کی ابتدا تک پہنچ جاؤ.پس تم اللہ کی برکت اور بھلائی کے ساتھ چلو.جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہنا اور جان لو کہ تم سخت دشمنوں کے پاس جارہے ہو.پھر آپؐ نے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا.حضرت عمرؓ نے فرمایا اور میں نے حضرت علاء بن حضر می کو لکھ دیا ہے کہ عَرفَجة بن هَر ثَمَهُ کے ذریعہ تمہاری مدد کرے کیونکہ وہ دشمن سے لڑنے میں بڑا تجربہ کار اور فن حرب سے خوب واقف ہے.پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا پس تم اس سے مشورہ لینا اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا.جو شخص تمہاری بات مان لے اس کا اسلام قبول کرنا اور جو شخص نہ مانے اس پر جزیہ مقرر کرنا جس کو وہ خود اپنے ہاتھ سے عاجزی کے ساتھ ادا کرے اور جو اس کو بھی نہ مانے تو تلوار سے کام لینا یعنی اپنے مذہب میں رہ کر وہاں رہنا.چاہے پھر وہ جزیہ دینے کو بھی نہ تیار ہو، مسلمان بھی نہ ہو اور لڑائی پر بھی آمادہ ہو، تو پھر آپ نے فرمایا کہ پھر تلوار سے کام لینا.پھر تمہارا بھی کام ہے کہ تلوار سے کام لو.عربوں میں سے جن کے

Page 263

اصحاب بدر جلد 5 247 پاس سے گزرو انہیں جہاد کی ترغیب دینا اور دشمن کے ساتھ ہوشیاری سے برتاؤ کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہنا جو تمہارا رب ہے.پہلے شخص جنہوں نے بصرہ کو آباد کیا رض حضرت عمر نے حضرت مشبہ کو بصرہ کی طرف آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا تھا.بعد میں مزید مدد بھی پہنچائی.حضرت عُتبہ نے ابلہ مقام کو فتح کیا اور اس جگہ بصرہ شہر کی حد بندی کی.آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بصرہ کو شہر بنایا اور اسے آباد کیا.حضرت عمر بن خطاب نے جب حضرت عُتبہ بن غزوان کو بصرہ پر والی مقرر فرمایا تو خریبہ مقام پر وہ ٹھہرے تھے.تحریبہ فارس کا ایک پرانا شہر تھا جسے فارسی میں وَهْشَتَابَاذْ اُردشیر کہتے تھے.عربوں نے اسے خَرِیبہ کا نام دیا.اس کے پاس جنگ جمل بھی ہوئی تھی.حضرت عتبہ نے حضرت عمررؓ کے نام خط میں لکھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسی جگہ ناگزیر ہے جہاں وہ سردیوں کا موسم گزار سکیں اور جنگوں سے واپسی پر ٹھہر سکیں.حضرت عمرؓ نے انہیں لکھا کہ انہیں ایک ایسی جگہ جمع کرو جہاں پانی اور چراگاہ قریب ہو.اگر یہ منصوبہ ہے تو جگہ ایسی ہونی چاہیے جہاں پانی بھی موجود ہو اور جانوروں کے لیے چراگاہ بھی ہو.اس پر حضرت عتبہ نے انہیں بصرہ میں جا ٹھہرایا.مسلمانوں نے وہاں بانس سے مکان تعمیر کیے.حضرت عتبہ نے بانس سے مسجد تعمیر کروائی.یہ 14 ہجری کا واقعہ ہے.حضرت عُتبہ نے مسجد کے قریب ہی کھلی جگہ پر امیر کا گھر بنوایا.لوگ جب جنگ کے لیے نکلتے تو ان بانس سے بنے گھروں کو اکھاڑتے اور باندھ کر رکھ جاتے اور جب واپس آتے تو اسی طرح دوبارہ گھر بناتے.بعد میں لوگوں نے وہاں پکے مکان بنانے شروع کیے.حضرت عُتبہ نے منجن بن آذرغ کو حکم دیا جس نے بصرہ کی جامع مسجد کی بنیاد ڈالی اور اسے بانسوں سے تیار کیا.اس کے بعد حضرت عُتبہ حج کرنے کے لیے نکلے اور مُجاشع بن مسعود کو جانشین بنایا، اپنا قائم مقام بنایا اور اسے فرات کی طرف کوچ کا حکم دیا اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کو حکم دیا کہ وہ نماز کی امامت کیا کریں.جب حضرت عُشبہ حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے تو انہوں نے بصرہ کی ولایت سے استعفیٰ دینا چاہا.رض کہہ دیا کہ اب میرے لیے بڑا مشکل ہے کسی اور کو وہاں کا امیر مقرر کر دیں.تاہم حضرت عمر نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا.روایت میں آتا ہے کہ اس پر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! مجھے اب اس شہر کی طرف دوبارہ نہ لوٹانا.چنانچہ وہ اپنی سواری سے گر پڑے اور 17 ہجری میں ان کا انتقال ہو گیا.یہ اُس وقت ہوا جبکہ حضرت عُتبہ مکہ سے بصرہ کی طرف جارہے تھے اور اس مقام پر پہنچ گئے تھے جس کو لوگ معین بنی سُلیم کہتے ہیں.ایک دوسرے قول کے مطابق 17 ہجری میں ربذہ مقام پر ان کا انتقال ہوا تھا اور ایک تیسرا قول بھی ہے.ان کی وفات کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں کہ 17 ہجری میں ستاون سال کی عمر پا کر بصرہ میں حضرت عتبہ نے وفات پائی تھی.انہیں پیٹ کی بیماری تھی اور بعض نے ان کی وفات کا سال 15 ہجری بھی بیان کیا ہے.حضرت عُتبہ کی

Page 264

اصحاب بدر جلد 5 248 567 وفات کے بعد ان کا غلام شوید حضرت عُتبہ کا سامان اور ترکہ حضرت عمرؓ کے پاس لایا.حضرت عُتبہ نے ستاون برس کی عمر پائی.وہ دراز قد اور خوب صورت تھے.ہم درختوں کے پتے کھایا کرتے تھے...صحابہ کی ابتدائی حالت کسمپرسی خالد بن محمیر عدوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عُتبہ بن غزوان نے ہمیں خطاب کیا.انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کی.پھر کہا آقا بعد دنیا نے اپنے ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور اس نے تیزی سے پیٹھ پھیر لی ہے یعنی دنیا اب قیامت کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس میں کچھ بھی باقی نہ رہا سوائے اس کے کہ جتنا برتن میں کچھ مشروب بیچ رہتا ہے جسے اس کا پینے والا چھوڑ دیتا ہے.تم یہاں سے ایک لازوال گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو یعنی یہ زندگی عارضی ہے.پس جو تمہارے پاس ہے اس سے بہتر میں منتقل ہو جاؤ کیونکہ ہمارے پاس ذکر کیا گیا ہے کہ ایک پتھر جہنم کے کنارے سے پھینکا جائے گا پھر وہ ستر برس تک اس میں گرتا جائے گا اور اس کی تہ تک نہ پہنچ پائے گا اور اللہ کی قسم ! اس دوزخ کو ضرور بھر ا جائے گا.یعنی کہ گناہ گاروں کو ایسی جہنم میں پھینکا جائے گا.اس لیے موقع ہے اس زندگی سے فائدہ اٹھاؤ اور نیکیوں کی طرف توجہ دو.یہ مقصد تھا آپ کا.پھر فرمایا کیا تم تعجب کرتے ہو؟ اور تمہیں بتایا گیا کہ جنت کے دو کواڑوں میں سے ایک کواڑ سے دوسرے کو اڑ تک چالیس برس کا فاصلہ ہے اور ضرور اس پر ایک ایسا دن آئے گا کہ وہ لوگوں کی کثرت سے بھر جائے گی.میں نے اپنے تئیں دیکھا ہے کہ میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ سات میں سے ایک تھا اور کبھی درختوں کے پتوں کے سوا ہمارا کوئی کھانا نہیں تھا یعنی وہ زمانہ ہم پر آیا تھا کہ جب ہماری بہت بری حالت تھی.درختوں کے پتے ہم کھایا کرتے تھے.یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں.پھر آپ کہتے ہیں اپنا واقعہ سنا رہے ہیں کہ مجھے ایک چادر ملی اور اسے پھاڑ کر اپنے اور سعد بن مالک کے لیے دو ٹکڑے کر لیے.یہ حالت تھی ہماری کہ پوری طرح ڈھانکنے کے لیے چادر بھی نہیں تھی.آدھے کا میں نے اپنے جسم کو لپیٹنے کے لیے ازار بنالیا اور آدھے کا سعد نے.آپ نے فرمایا لیکن آج ہم میں سے کوئی صبح کرتا ہے تو کس شہر کا امیر ہوتا ہے اور میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اپنے نفس میں بڑا مجھوں اور اللہ کے نزدیک بہت چھوٹا ہوں.اس لیے آپ نے فرمایا کہ میری تو عاجزی کی یہ حالت ہے کہ میں اپنے آپ کو بہت چھوٹا سمجھتا ہوں.حالات اب تبدیل ہو گئے ہیں.کشاکش پید ا ہو گئی ہے اور اب تم لوگوں کو بہت زیادہ فکر کرنی چاہیے.پھر فرمایا کوئی نبوت ماضی میں ایسی نہیں ہوئی جس کا اثر زائل نہ ہوا ہو حتی کہ اس کا انجام بادشاہت نہ ہو اور تم حقیقت حال جان لو گے اور حکام کا تمہیں ہمارے بعد تجربہ ہو جائے گا.568 آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں بھی ایسے حالات آجائیں گے کہ دنیا داری پیدا ہو جائے گی.اس وقت تم دیکھ لینا کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ صحیح ہے لیکن تم لوگ ہمیشہ خداتعالی کی طرف توجہ رکھنا، دین کی طرف توجہ رکھنا، روحانیت کی طرف توجہ رکھنا اور اسی سے جنت میں جانے کے سامان پید اہو سکتے ہیں.569

Page 265

249 231 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت عتبہ بن مسعود ھذلی حضرت عتبه بن مسعود هذلي - حضرت عتبه بن مسعود هذتی کی کنیت ابو عبد اللہ تھی.آپ قبیلہ بنو ھذیل سے تھے.570 حضرت عُتبہ بن مسعود قبیلہ بنو زھرہ کے حلیف تھے.آپ کے والد کا نام مسعود بن غافل تھا اور آپ کی والدہ کا نام ام عبد بنت عبدود تھا.ابتدائی اسلام لانے والے اور حبشہ کی طرف ہجرت 571 حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ آپ کے حقیقی بھائی تھے.آپ کے میں ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے.حبشہ کی طرف دوسری مرتبہ ہجرت کرنے والوں میں آپ شامل تھے.حضرت عُتبہ بن مسعود اصحاب صفہ میں سے تھے.572 اصحاب صفہ.صفہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مختلف تواریخ سے تفصیل لے کر لکھا ہے.لکھتے ہیں کہ مسجد کے ایک گوشے میں ایک چھت دار چبوترہ بنایا گیا تھا جسے صفہ کہتے تھے.یہ ان غریب مہاجرین کے لیے تھا جو بے گھر بار تھے.ان کا کوئی گھر نہیں تھا.یہ لوگ یہیں رہتے تھے اور اصحاب الصفہ کہلاتے تھے.ان کا کام گویا دن رات آنحضرت صلی علیہ یکم کی صحبت میں رہنا، عبادت کرنا اور قرآن شریف کی تلاوت کرنا تھا.ان لوگوں کا کوئی مستقل ذریعہ معاش نہ تھا.آنحضرت صلی ال یکم خود ان کی خبر گیری فرماتے تھے اور جب کبھی آپ صلی علیکم کے پاس کوئی ہدیہ وغیرہ آتا تھا یاگھر میں کچھ ہو تا تھا تو ان کا حصہ ضرور نکالتے تھے.بلکہ بعض اوقات آپ خود فاقہ کرتے تھے اور جو کچھ گھر میں ہو تا تھا وہ اصحاب الصفہ کو بھجوا دیتے تھے.انصار بھی ان کی مہمانی میں حتی المقدور مصروف رہتے تھے اور ان کے لیے کھجوروں کے خوشے لالا کر مسجد میں لٹکا دیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی حالت تنگ رہتی تھی اور بسا اوقات فاقے تک نوبت پہنچ جاتی تھی اور یہ حالت کئی سال تک جاری رہی حتی کہ کچھ تو مدینے کی آبادی کی وسعت کے نتیجے میں ان لوگوں کے لیے کام نکل آیا اور کچھ نہ کچھ مزدوری مل جاتی تھی اور کچھ قومی بیت المال سے ان کی امداد کی صورت پیدا ہو گئی.573

Page 266

اصحاب بدر جلد 5 250 بہر حال ان لوگوں کے بارے میں دوسری جگہ مزید تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ یہ لوگ دن کو بارگاہِ نبوت میں حاضر رہتے اور حدیثیں سنتے.رات کو ایک چبوترے پر پڑے رہتے.عربی زبان میں چبوترے کو صفہ کہتے ہیں اور اسی بنا پر ان بزرگوں کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے.ان میں سے کسی کے پاس چادر اور نہ بند دونوں چیزیں کبھی ایک ساتھ جمع نہ ہو سکیں.چادر کو گلے سے اس طرح باندھ لیتے تھے کہ رانوں تک لٹک آتی تھی، کپڑے پورے نہیں ہوتے تھے.حضرت ابوہریرہ انہی بزرگوں میں سے تھے.ان کا بیان ہے کہ میں نے اہل صفہ میں سے ستر اشخاص کو دیکھا کہ ان کے کپڑے ان کی رانوں تک بھی نہیں پہنچتے تھے ، جسم پر کپڑا لپیٹتے تھے تو وہ گھٹنوں سے اوپر مشکل سے پہنچتا تھا.پھر کہتے ہیں کہ معاش کا طریقہ یہ تھا کہ ان میں ایک ٹولی دن کو جنگل سے لکڑیاں چن کر لاتی اور بیچ کر اپنے بھائیوں کے لیے کچھ کھانا مہیا کرتی.اکثر انصار کھجور کی شاخیں توڑ کر لاتے اور مسجد کی چھت میں لٹکا دیتے.باہر کے لوگ آتے اور ان کو دیکھتے تو سمجھتے کہ یہ دیوانے ہیں.بے وقوف لوگ ہیں.بلاوجہ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.یا یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ یہ آنحضرت صلی اللی علم کے ایسے دیوانے ہیں کہ آپ کا در چھوڑنا نہیں چاہتے.بہر حال آنحضرت صلی یکم کے پاس کہیں سے صدقہ آتا تو آپ کئی ملی کام ان کے پاس بھیج دیتے اور جب دعوت کا کھانا آتا تو ان کو بلا لیتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے.اکثر ایسا ہوتا کہ راتوں کو آنحضرت صلی علم ان کو مہاجرین و انصار پر تقسیم کر دیتے یعنی اپنے مقدور کے موافق ہر شخص ایک ایک دو دو اپنے ساتھ لے جائے اور رات کو ان کو کھانا کھلائے.بعض دفعہ ایسے موقعے بھی ہوتے تھے کہ کسی کو بعض مہاجرین کے سپر د کر کسی کو انصار کے سپر د کر دیا کہ رات کا کھانا ان کو دینا ہے.حضرت سعد بن عبادہ ایک صحابی تھے جو نہایت فیاض اور دولت مند تھے وہ کبھی کبھی اتنی اتنی مہمانوں کو اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے.اسٹی مہمانوں تک ساتھ لے جاتے.رات کو ان کو کھانا کھلاتے تھے.ان کی کشائش تھی.مختلف روایتوں کے مطابق یا بعض روایتوں کے مطابق اہل صفہ کی تعداد مختلف وقتوں میں مختلف رہی تھی.کم سے کم بارہ افراد اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہاں تک کہ تین سو افراد ایک وقت مقام صفہ میں مقیم رہے تھے بلکہ ایک روایت میں ان کی کل تعداد چھ سو صحابہ کرام بتائی گئی ہے.آنحضرت صلی ایم کو ان کے ساتھ نہایت اُنس تھا.ان کے ساتھ مسجد میں بیٹھتے.ان کے ساتھ کھانا کھاتے اور لوگوں کو ان کی تعظیم و تکریم پر آمادہ کرتے.یعنی یہ نہیں کہ یہ بیٹھے ہوئے ہیں، فارغ ہیں تو ان کی عزت نہ کی جائے، ان کا احترام نہ کیا جائے بلکہ آنحضرت صلی للی یکم فرمایا کرتے تھے کہ یہ لوگ ہیں جو میرے لیے، میری باتیں سننے کے لیے بیٹھتے ہیں اس لیے ہر ایک کو ان کی صحیح طرح تعظیم بھی کرنی چاہیے ، عزت بھی کرنی چاہیے.ایک بار اہل صفہ کی ایک جماعت نے بارگاہ نبوی صلی اللہ یلم میں شکایت کی کہ کھجوروں نے ہمارے پیٹ کو جلا دیا ہے.صرف کھجوریں ہی کھانے کو ملتی ہیں اور تو کچھ ملتا نہیں.رسول اللہ صلی ال کلیم نے ان کی شکایت سنی تو ان کی دل دہی کے لیے ایک تقریر کی جس میں فرمایا: یہ کیا ہے دیا.

Page 267

اصحاب بدر جلد 5 251 کہ تم لوگ کہتے ہو کہ ہمارے پیٹوں کو کھجوروں نے جلا دیا ہے.کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کھجور ہی اہل مدینہ کی غذا ہے لیکن لوگ اسی کے ذریعہ سے ہماری مدد بھی کرتے ہیں اور ہم بھی انہی کے ذریعہ سے تمہاری مدد کرتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! ایک یا دو مہینے سے اللہ کے رسول کے گھر میں دھواں نہیں اٹھا.یعنی میں نے بھی اور میرے گھر والوں نے بھی صرف پانی اور کھجور پر بسر اوقات کی ہے.بہر حال یہ اصحاب صفہ عجیب فدائی لوگ تھے.کھجور کے کھانے کا ذکر تو کیا، شکوہ تو کیا کہ اس نے پیٹ کو جلا دیا ہے لیکن جگہ نہیں چھوڑی.وہ کامل وفا کے ساتھ وہیں بیٹھے رہتے تھے اور اسی چیز ، فاقوں پر یا پھر کھجوروں پر یا جو بھی مل جاتا تھا اس پر گزارا کرتے تھے.پھر لکھا ہے کہ ان بزرگوں کا مشغلہ یہ تھا کہ راتوں کو عموماً عبادت کرتے تھے اور قرآن مجید پڑھتے رہتے.ان کے لیے ایک معلم مقرر تھا جس کے پاس رات کو جا کر یہ پڑھتے تھے.جن کو پڑھنا نہیں آتا تھا یا قرآن کریم صحیح طرح پڑھ نہیں سکتے تھے یا یاد کرنا چاہتے ہوں گے تو معلم ان کو رات کو پڑھاتا تھا.اس بنا پر ان میں سے اکثر قاری کہلاتے تھے اور اشاعت اسلام کے لیے کہیں بھیجنا ہو تا تو یہی لوگ بھیجے جاتے تھے.جب یہ پڑھ لکھ گئے تو پھر یہ قاری بھی کہلانے لگ گئے اور پھر دوسروں کو تعلیم دینے کے لیے بھی ان کو بھیجا جاتا تھا.اصحاب صفہ جو بعد میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے بعد میں انہی اصحاب میں سے بہت سے بڑے بڑے عہدوں پر بھی فائز ہوئے یعنی اصحاب صفہ جو تھے یہ نہیں کہ بعد میں وہیں بیٹھے رہے بلکہ عہدوں پر، بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بحرین کے گورنر رہے تھے.پھر حضرت معاویہ کے دور میں مدینہ کے گورنر رہے.حضرت سعد بن ابی وقاص بصرہ کے گورنر رہے اور کوفہ شہر کی بنیاد آپ نے ڈالی.حضرت سلمان فارسی مدائن کے گورنر رہے.حضرت عمار بن یاسر کوفہ کے گورنر رہے.یہ سب اصحاب صفہ میں شامل تھے.حضرت عبادہ بن جراح فلسطین کے گورنر رہے.حضرت انس بن مالک حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں مدینے کے گورنر رہے.انہی میں سے ایک سپہ سالار بھی تھے جنہوں نے فتوحاتِ اسلامیہ میں ایک نمایاں کردار ادا کیا.حضرت زید بن ثابت نہ صرف سپہ سالار تھے بلکہ حضرت عمرؓ کے دور میں قاضی القضاۃ کے عہدے پر بھی متعین رہے.رسول کریم ملی ایم نے فرمایا میں بھی تم میں سے ہی ہوں 574 حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ میں غریب مہاجرین کی جماعت میں جابیٹھا یعنی انہی اصحاب صفہ کی جماعت میں جو نیم برہنگی کے باعث ایک دوسرے سے ستر چھپارہے تھے یا تقریباً آدھا جسم ان کا نگا تھا اور اس حد تک تھا کہ مشکل سے اپنی ستر چھپا رہے تھے.پھر کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک قاری قرآن کی تلاوت کر رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللی علم تشریف لے آئے.جب رسول اللہ صلی علی کم کھڑے ہو گئے تو

Page 268

اصحاب بدر جلد 5 252 قاری خاموش ہو گئے.پھر آپ صلی یہ ہم نے سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ تم کیا کر رہے ہو ؟ ہم نے عرض کیا کہ قاری ہمیں تلاوت سنا رہا تھا اور ہم کتاب اللہ کو سن رہے تھے.پھر رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ بھی شامل فرمائے جن کے ساتھ صبر کرنے کا حکم مجھے بھی دیا گیا ہے کہ جس طرح یہ صبر کر رہے ہیں تمہیں بھی صبر کا حکم ہے.راوی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم اپنی ذات اقدس کو ہم میں شمار کرنے کے لیے ہمارے درمیان بیٹھ گئے.آپ نے دست مبارک سے حلقہ بنا کر اشارہ کیا یعنی میں بھی تم میں سے ہی ہوں.ایک دائرہ بنایا اور بیچ میں بیٹھ گئے، چنانچہ سب کا رخ آپ کی طرف ہو گیا.راوی کا بیان ہے کہ میرے خیال میں رسول اللہ صلی علیم نے ان میں میرے سوا کسی کو نہیں پہچانا.بیان کرنے والے نے کہا کہ اتنے زیادہ لوگ تھے کہ میرے سوا کسی کو نہیں پہچانا.پس رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا کہ اسے تنگ دست مہاجرین کے گروہ تمہیں بشارت ہو.قیامت کے روز تم نور کامل کے ساتھ امیر لوگوں سے نصف دن پہلے جنت میں داخل ہو گے اور یہ نصف دن جو ہے وہ پانچ سو برس کا دن ہے.575 اصحاب صفہ اور حضرت مسیح موعود کا ایک الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی الہام ہو ا تھا جس میں اصحاب صفہ کا ذکر ہے.عربی الہام تھا کہ "اصحاب الصُّفَةِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا أَصْحَابُ الصُّفَةِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ 576 الرَّمْحِ يُصَلُّونَ عَلَيْكَ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيَا يُنَادِى لِلْإِيْمَانِ وَدَاعِيَّا إِلَى اللَّهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا صفہ کے رہنے والے اور تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صفہ کے رہنے والے.تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے.وہ تیرے پر درود بھیجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا! ہم نے ایک منادی کرنے والے کی آواز سنی ہے جو ایمان کی طرف بلاتا ہے." یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے بعض ساتھیوں کے بارے میں ہوا تھا کہ مجھے بھی ایسے ہی ملیں گے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ یہ جو اصحاب صفہ آنحضرت صلی لیں کم کے زمانے میں جو گزرے ہیں، بڑی شان والے لوگ تھے اور بڑے مضبوط ایمان والے لوگ تھے اور انہوں نے جو اخلاص و وفا کا نمونہ دکھایا ہے وہ ایک مثال ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی فرمایا ہے کہ تمہیں بھی میں بعض ایسے لوگ عطا کروں گا.صحیح بخاری میں حضرت عقبہ بن مسعود کا ذکر ان صحابہ کرام کی فہرست میں کیا گیا ہے جو غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے تاہم صحابہ کے حالات پر مشتمل جو بعض اور کتب ہیں اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ، الاصابہ فی تمییز الصحابہ اور الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب اور الطبقات الکبرای وغیرہ میں ان کے غزوہ احد کے اور اس کے بعد والے غزوات میں شامل ہونے کا ذکر ملتا ہے.لیکن غزوہ بدر میں نہیں لیکن بخاری نے حضرت عتبہ بن مسعود کا ذکر بدری صحابہ میں کیا ہے.577

Page 269

اصحاب بدر جلد 5 578 253 حضرت عُتبہ بن مسعودؓ کی حضرت عمر بن خطاب کے دورِ خلافت میں 23 ہجری میں مدینے میں وفات ہوئی اور حضرت عمرؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی.قاسم بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت عقبہ بن مسعودؓ کی نماز جنازہ میں ان کی والدہ حضرت ام عبد کا انتظار کیا کہ وہ بھی شامل ہو جائیں.امام زہری سے منقول ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ صحبت اور ہجرت کے لحاظ سے اپنے بھائی حضرت عُتبہ سے زیادہ قدیم نہ تھے.یعنی حضرت عُتبہ بن مسعودؓ زیادہ پرانے صحابی تھے.عبد اللہ بن عُتبہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عُتبہ بن مسعودؓ کا انتقال ہوا تو آپ کے بھائی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے.بعض لوگوں نے آپ سے کہا کہ کیا آپ روتے ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ میرے بھائی تھے اور رسول اللہ صلی علیم کے ہاں میرے ساتھی تھے اور حضرت عمر بن خطاب کے علاوہ سب لوگوں سے زیادہ مجھ کو محبوب تھے.ایک اور روایت میں ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس ان کے بھائی حضرت عتبہ بن مسعودؓ کی وفات کی خبر پہنچی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا کہ : إِنَّ هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللهُ لَا يَمْلِكُهَا ابْنُ آدَم کہ یقینا یہ رحمت ہے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اور ابنِ آدم اس کو قابو کرنے پر قادر نہیں.یعنی یہ موت برحق ہے اور نیک لوگوں کے لیے تو پھر رحمت بن جاتی ہے.ایک روایت کے مطابق حضرت عمر بن خطاب حضرت عُتبہ بن مسعودؓ کو امیر مقامی بھی بنایا کرتے تھے.581 580 579 232 نام و نسب و کنیت حضرت عثمان بن مظعون حضرت عثمان بن مظعون.ان کی کنیت ابو سائب تھی.حضرت عثمان کی والدہ کا نام شخیلہ بنت عنبس تھا.حضرت عثمان اور آپ کے بھائی حضرت قدامہ حلیے میں باہم مشابہت رکھتے تھے.آپؐ کا تعلق قریش کے خاندان بنو مجمیع سے تھا.قبول اسلام 582 حضرت عثمان بن مظعون کے قبول اسلام کا واقعہ اس طرح ملتا ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی علیہ کی مکہ میں اپنے گھر کے صحن میں تشریف فرما تھے.

Page 270

اصحاب بدر جلد 5 254 وہاں سے عثمان بن مظعون کا گزر ہوا.وہ رسول اللہ صلی ال نیم کو دیکھ کر مسکرائے.رسول اللہ صلی ا لم نے ان سے فرمایا کیا تم بیٹھو گے نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں.چنانچہ وہ آپ کے سامنے آکے بیٹھ گئے.آنحضرت صلی اللہ علم ان سے بات کر رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی الی یکم نے اپنی نگاہیں اوپر کو اٹھائیں اور آپ صلی الیم نے ایک لمحے کے لیے آسمان کی طرف دیکھا.پھر آہستہ آہستہ اپنی نگاہیں نیچی کرنے لگے یہاں تک کہ آپ نے زمین پر اپنے دائیں طرف دیکھنا شروع کر دیا اور اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے عثمان سے منہ پھیر کر دوسری طرف متوجہ ہو گئے اور اپنا سر جھکا لیا.آپ صلی المیہ یکم اس دوران میں اپنے سر کو یوں ہلاتے رہے گو یا کسی بات کو سمجھ رہے ہیں.عثمان بن مظعون پاس بیٹھے ہوئے تھے ، یہ سب دیکھ رہے تھے.تھوڑی دیر بعد جب رسول اللہ صلی علیم اس کام سے فارغ ہوئے یا جو بھی اس وقت صورت حال تھی اس سے فارغ ہوئے اور جو کچھ آپ سے کہا جارہا تھا، جو بظاہر لگ رہا تھا کہ کچھ کہا جارہا ہے، حضرت عثمان کو تو نہیں پتا تھا لیکن بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ سے کہا جا رہا تھا وہ آپ نے سمجھ لیا تو پھر آپ کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھیں جیسے پہلی مرتبہ ہوا تھا.آپ کی نگاہیں کسی چیز کا پیچھا کرتی رہیں یہاں تک کہ وہ چیز آسمان میں غائب ہو گئی.اس کے بعد آپ صلی علیہ کم پہلے کی طرح عثمان بن مظعون کی طرف متوجہ ہوئے تو عثمان کہنے لگے کہ میں کس مقصد کی خاطر آپ کے پاس آؤں اور بیٹھوں ؟ حضرت عثمان نے کہا، آنحضرت صلی الیم یہ سوال کیا کہ آج آپ نے جو کچھ کیا ہے اس سے پہلے میں نے آپ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا.سن علی یم نے پوچھا کہ تم نے مجھے کیا کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ عثمان بن مظعون کہنے لگے کہ میں نے دیکھا.آپ کی نظریں آسمان کی طرف اٹھ گئیں.پھر آپ نے دائیں جانب اپنی نظریں جما دیں.آپ مجھے چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہو گئے.آپ نے اپنا سر ہلانا شروع کر دیا گویا جو کچھ آپ سے کہا جارہا ہے اسے آپ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے.آپ نے فرمایا کیا واقعی تم نے ایسا محسوس کیا ہے ؟ عثمان بن مظعونؓ کہنے لگے جی.تو رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا ابھی ابھی میرے پاس اللہ کا قاصد آیا تھا، پیغام لے کے آیا تھا جب تم میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے.عثمان بن مظعون نے کہا کہ اللہ کا قاصد ؟ سوال کیا.آپ صلی علیکم نے فرمایا ہاں.عثمان نے پوچھا پھر اس نے کیا کہا؟ آپ نے فرمایا اس نے کہا یہ تھا کہ اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَاى ذِي الْقُرْبى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُم تذكرون (النحل: 191 یعنی یقین اللہ عدل اور احسان کا اور اقربا پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نا پسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے.وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو.عثمان بن مظعون کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب میرے دل میں ایمان نے اپنی جگہ پکی کر لی اور مجھے محمد صلی للی نام سے محبت ہو گئی.حضرت مصلح موعود آنحضرت صلی الله نام کے اعلان نبوت کے بعد ابتدائی دور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک قریب زمانہ میں یعنی اس زمانے کے ابتدا میں طلحہ اور زبیر اور عمر اور حمزہ اور عثمان بن مطعون اس قسم کے ساتھی آپ کو مل گئے جن میں سے ہر شخص آپ کا فدائی تھا.ہر شخص آپ کے پسینے کی جگہ اپنا خون بہانے کے لیے تیار تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تیرہ سال تک مصائب بھی آئے، 583

Page 271

اصحاب بدر جلد 5 255 مشکلات بھی آئیں، تکالیف بھی آپ کو برداشت کرنی پڑیں مگر آپ صلی لین کم کو اطمینان تھا کہ ان مکہ والوں میں سے عقل والے، سمجھ والے، رتبے والے، تقویٰ والے، طہارت والے مجھے مان چکے ہیں اور اب مسلمان ایک طاقت سمجھے جاتے ہیں.جب کوئی شخص رسول کریم صلی ا ظلم کے متعلق کہتا کہ نعوذ باللہ وہ پاگل ہیں تو اس کے دوسرے ساتھی ہی اسے کہتے کہ اگر وہ پاگل ہے تو فلاں شخص جو بڑا سمجھ دار اور عقل مند ہے اسے کیوں مانتا ہے.یہ ایک ایسا جواب تھا جس کے جواب میں کوئی شخص بولنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا.صداقت انبیاء کی ایک بہت بڑی دلیل یورپین مصنف رسول کریم صلی علیکم کے خلاف اپنے تمام زور بیان صرف کر دیتے ہیں، بہت خلاف بولتے ہیں اور بسا اوقات آپ پر گند اچھالنے سے بھی دریغ نہیں کرتے.اب بھی یہی کچھ ہو تا ہے.مگر جہاں ابو بکر کا نام آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ابو بکر بڑا بے نفس تھا.اس پر بعض دوسرے یورپین مصنف لکھتے ہیں کہ جس شخص کو ابو بکر نے مان لیا وہ جھوٹا کس طرح ہو گیا ؟ اگر تم ابو بکر کی تعریف کر رہے ہو تو جس کو ابو بکڑ نے ماناوہ بھی یقیناً قابل تعریف ہے.اگر وہ بے نفس تھا، ابو بکر اگر بے نفس تھا تو اس نے ایسے لالچی کو کیوں مانا اور اگر وہ واقعی میں بے نفس تھا تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کا آقا بھی بے نفس تھا.یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے جس کو رڈ کرنا آسان نہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں بھی پھر اس کو اس سے جوڑا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ آپ کو جاہل کہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کو رد کرنے کے لیے ایسے سامان کر دیے کہ حضرت خلیفہ اول شروع میں ہی آپ پر ایمان لے آئے.مولوی محمد حسین بٹالوی بھی دعوی سے پہلے آپ کی تعریف کرنے والے تھے.پھر جب آپ نے دنیا میں اپنی ماموریت کا اعلان کیا تو اس کے بعد تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک جماعت اللہ تعالیٰ نے ایسی کھڑی کر دی جو فوراً آپ پر ایمان لے آئی.یہ تعلیم یافتہ لوگ علماء میں سے بھی تھے، امراء میں سے بھی تھے ، انگریزی دان طبقے میں سے بھی تھے.تو آپ اس کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں.رعب اور دبدبہ تین چیزوں سے ہی ہو تا ہے یا تو ایمان سے ہوتا ہے یا علم سے ہوتا ہے یا روپے سے ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے تینوں چیزیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں بھی پیدا کر دیں.584 اور آپ کو بھی ایسے ساتھی شروع میں مہیا کر دیے جن کی دوسری دنیا تعریف کرتی تھی بلکہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کی حکمت کا لوہا آج تک مانا جاتا ہے.غیر احمدی حکماء بھی آپ کے نسخے استعمال کرتے ہیں اور اس بارے میں لکھتے ہیں تو بہر حال آنحضرت ملا لی ایم کو ماننے والے ایسے لوگ اس وقت عطا ہوئے جو ہر طبقے کے لوگ تھے اور بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ تھے.

Page 272

اصحاب بدر جلد 5 کفار مکہ کا حسد اور حسرتیں 256 ایک اور جگہ کفار مکہ کی حسرتوں اور حسد کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ " اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے سامان پیدا کیے کہ کفار کے دل ہر وقت جل کر خاکستر ہوتے رہتے تھے اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اس آگ کو بجھانے کا ہم کیا انتظام کریں.کوئی خاندان ایسا نہیں تھا جس کے افراد رسول کریم صلی الی یکم کی غلامی میں نہ آچکے ہوں.حضرت زبیر ایک بڑے خاندان میں سے تھے.حضرت عثمان بن مظعون ایک بڑے خاندان میں سے تھے.اسی طرح حضرت عمر و بن العاص اور خالد بن ولید " (جو بعد میں مسلمان ہوئے) مکہ کے چوٹی کے خاندانوں میں سے تھے.عاص مخالف تھے مگر " ( یعنی عمرو کے والد) "عمر و مسلمان ہو گئے.ولید مخالف تھے مگر خالد مسلمان ہو گئے." آپ لکھتے ہیں کہ غرض ہزاروں لوگ ایسے تھے جو اسلام کے شدید دشمن تھے مگر ان کی اولادوں نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی علیم کے قدموں میں ڈال دیا اور میدان جنگ میں اپنے باپوں اور رشتہ داروں کے خلاف 5851 تلواریں چلائیں." ہجرت حبشہ اور واپسی حضرت عثمان بن مظعون کی ہجرت حبشہ اور وہاں سے مکہ واپسی کا بھی ذکر آتا ہے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھے.ابن اسحاق کے نزدیک آپ نے تیرہ آدمیوں کے بعد اسلام قبول کیا.آپ نے اور آپ کے بیٹے سائب نے مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ حبشہ کی طرف پہلی ہجرت بھی کی تھی.حبشہ قیام کے دوران ہی جب انہیں خبر ملی کہ قریش ایمان لے آئے ہیں.تب آپ واپس مکہ آگئے تھے.ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جب مہاجرین حبشہ کو آنحضور صلی علیم کے ساتھ اہل مکہ کے سجدہ کرنے کی خبر پہنچی تو یہ لوگ وہاں سے چل پڑے.اس کی تفصیل میں پہلے پچھلے خطبات میں بیان کر چکا ہوں اور ان کے ساتھ اور لوگ بھی تھے کہ سجدہ کی وجہ کیا ہوتی تھی؟ ان کا یہ خیال تھا کہ سب کفار نے آنحضور صلی علیکم کی پیروی کر لی ہے.جب یہ مکہ کے قریب پہنچے اور اصل واقعے کا پتا لگا تو اس وقت انہیں واپس حبشہ جانا مشکل لگ رہا تھا.بعض دوسری روایات کے مطابق بعض لوگ وہیں سے واپس حبشہ چلے گئے تھے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اور جو مکے میں بھی بغیر کسی کی پناہ میں آنے کے داخل ہونے سے ڈر رہے تھے وہ چلے گئے تھے.بہر حال جو وہاں آگئے تھے یہ کچھ دیر وہیں رکے رہے یہاں تک کہ ان میں سے ہر ایک اہل مکہ میں سے کسی نہ کسی کی امان میں داخل ہوا.انہوں نے کسی نہ کسی کی امان لے لی یا راستے میں کچھ دیر رکے رہے جب تک امان نہ گئی.حضرت عثمان بن مظعون ولید بن مغیرہ کی امان میں آئے.ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان نے دیکھا کہ آنحضرت صلی علیہ یکم کے صحابہ کو تکالیف پہنچ رہی ہیں، لوگ ان کو مار رہے ہیں، ان پر ظلم کر رہے ہیں اور وہ ولید بن مغیرہ کی امان میں رات دن سکون سے گزار رہے ہیں.ولید وہاں کفار

Page 273

257 اصحاب بدر جلد 5 یکہ کے رئیسوں کا ایک رئیس تھا جو غیر مسلم تھا اس کی امان میں آگئے تھے.تو عثمان کہنے لگے کہ خدا کی قسم ! میری صبح شام ایک مشرک کی امان میں امن کے ساتھ گزر رہی ہے جبکہ میرے دوستوں اور گھر والوں کو اللہ کی راہ میں تکالیف اور اذیتیں پہنچ رہی ہیں.یقیناً مجھ میں کوئی خرابی ہے.انہوں نے اپنے آپ سے یہ کہا.پس آپ ولید بن مغیرہ کے پاس گئے اور کہا کہ اے ابو عبد شمس ! ( یہ ولید بن مغیرہ کا لقب تھا) تمہارا ذمہ پورا ہو گیا.میں تمہاری امان میں تھا.اب میں چاہتا ہوں کہ اس امان سے نکل کر رسول اللہ صلی علیکم کے پاس جاؤں کیونکہ میرے لیے آپ صلی علیم اور آپ کے صحابہ میں اسوہ ہے.ولید نے کہا کہ اے میرے بھتیجے !ولید ان کے والد کے بڑے قریبی دوست تھے.انہوں نے کہا اے میرے بھتیجے !شاید تمہیں میرے اس امان کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو یا بے عزتی ہوئی ہے ؟ تو آپ کہنے لگے کہ نہیں لیکن میں اللہ امان سے راضی ہوں.تمہاری امان سے نکلتا ہوں اور اللہ کی امان پر راضی ہوں اور میں اس کے علاوہ کسی اور کی پناہ کا طلب گار نہیں ہوں.ولید نے کہا کہ خانہ کعبہ کے پاس چلو اور وہیں میری امان علی الاعلان واپس کر دو جیسا کہ میں نے تمہیں علی الاعلان پناہ دی تھی.حضرت عثمان نے کہا چلیں.پھر وہ دونوں خانہ کعبہ کے پاس گئے.ولید نے کہا یہ عثمان ہے جو مجھے میری امان واپس کرنے آیا ہے، لوگوں کے سامنے یہ اعلان کیا.عثمان نے کہا یہ سچ کہہ رہا ہے.یقیناً میں نے اسے یعنی اس امان دینے والے ولید کو وعدے کا سچا اور امان کے لحاظ سے معزز پایا ہے مگر اب میں اللہ کے سوا کسی اور کی امان میں نہیں رہنا چاہتا.اس لیے نہیں نے ولید کی امان کو اسے واپس کر دیا ہے.اس کے بعد حضرت عثمان لوٹ گئے.586 ہجرت حبشہ کی کچھ تفصیل اس ہجرت حبشہ کا ذکر پہلے بھی مختلف صحابہ کے ذکر میں ہو تا رہا ہے.587 مختصر بیان کر دیتا ہوں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی اس کو تاریخ کے مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ جب مسلمانوں کی تکالیف انتہا کو پہنچ گئیں اور قریش اپنی ایذارسانی میں ترقی کرتے گئے تو آنحضرت ملا ہم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے.اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہو تا.حبشہ کا ملک جو ایتھوپیا یا اب سینیا کہلا تا ہے براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور جائے وقوع کے لحاظ سے جنوبی عرب کے بالکل بالمقابل ہے اور درمیان میں بحیرہ احمر کے سوا کوئی اور ملک حائل نہیں.اس زمانہ میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا بلکہ اب تک بھی وہاں کا حکمران اسی نام سے پکارا جاتا ہے.(جب انہوں نے یہ لکھا تھا) حبشہ کے ساتھ عرب کے تجارتی تعلقات تھے.اس وقت کے نجاشی کا ذاتی نام اصحمہ تھا جو ایک عادل، بڑا نصاف کرنے والا، بیدار مغز اور مضبوط بادشاہ تھا.بہر حال جب مسلمانوں کی تکالیف انتہا کو پہنچ گئیں تو آنحضرت صلی لی کر کے فرمانے پر ماہ رجب پانچ نبوی میں نبوت کے دعوے کے پانچ سال کے بعد گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.ان میں سے زیادہ معروف نام یہ ہیں.

Page 274

اصحاب بدر جلد 5 رض 258 حضرت عثمان بن عفان اور ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، عبد الرحمن بن عوف، زبیر ابن العوام، ابو حذیفہ بن عتبہ، عثمان بن مظعون، مصعب بن عمیر اور ابو سلمہ بن عبد الاسد اور ان کی زوجہ امِ سلمہ.اب یہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ان ابتدائی مہاجرین میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقت ور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جن سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے کہ اول یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہیں تھے.دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام وغیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی بھی طاقت نہیں رکھتے تھے.588 ہجرت کرنے والوں کو دیکھ کر غم کی وجہ سے حضرت عمرہ پر رقت طاری ہونا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے انداز میں اس واقعے کو اس طرح بیان فرمایا ہے.آپ حضرت عثمان بن مطعون کی مکہ میں پناہ اور پھر لبید بن ربیعہ والے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.یہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ آپ نے ولید کی امان واپس کر دی تھی.اب لکھتے ہیں کہ جب مکہ والوں کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا تو محمد رسول اللہ صلی الم نے ایک دن اپنے ساتھیوں کو بلوایا اور فرمایا.مغرب کی طرف سمندر پار ایک زمین ہے جہاں خدا کی عبادت کی وجہ سے ظلم نہیں کیا جاتا.مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے لوگوں کو قتل نہیں کیا جاتا.وہاں ایک منصف بادشاہ ہے.تم لوگ ہجرت کر کے وہاں چلے جاؤ شاید تمہارے لیے آسانی کی راہ پیدا ہو جائے.کچھ مسلمان مرد اور عور تیں اور بچے آپ کے اس ارشاد پر ایسے سینیا کی طرف چلے گئے.ان لوگوں کا مکے سے نکلنا کوئی معمولی بات نہیں تھی.یہاں یہ بڑا جذباتی پہلو ہے کہ اپنے ملک کو چھوڑنا یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی.مکے کے لوگ اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا متولی سمجھتے تھے اور مکہ سے باہر چلے جانا ان کے لیے ایک نا قابل برداشت صدمہ تھا.وہی شخص یہ بات کہہ سکتا تھا جس کے لیے دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ باقی نہ رہے کہ مکہ سے نکل جاؤں.پس ان لوگوں کا نکلنا ایک نہایت ہی دردناک واقعہ تھا اور پھر نکلنا بھی ان لو گوں کو چوری چوری پڑا.چھپ کے نکلنا پڑا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مکہ والوں کو معلوم ہو گیا تو وہ ہمیں نکلنے نہیں دیں گے اور اس وجہ سے وہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی آخری ملاقات سے بھی محروم جارہے تھے.ان کو یہ بھی موقع نہیں ملا کہ وہ عزیزوں اور پیاروں سے ملاقات کر کے جائیں، چھپ کے نکلے تھے.ان کے دلوں کی جو حالت تھی سو تھی.ان کے دیکھنے والے بھی ان کی تکلیف سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے.وہ غیر جن کو پتا لگا کہ اس طرح ہجرت کر رہے ہیں وہ بھی ان کی اس حالت سے متاثر ہو رہے تھے.چنانچہ جس وقت یہ قافلہ نکل رہا تھا حضرت عمرؓ جو اس وقت تک کافر اور اسلام کے شدید دشمن تھے اور مسلمانوں کو تکلیف دینے والوں میں چوٹی کے آدمی تھے اتفاقاً اس قافلے کے افراد کو مل گئے.ان میں ایک صحابیہ اتم عبد اللہ نامی بھی تھیں.بندھے ہوئے سامان اور تیار سواریوں کو جب آپ

Page 275

اصحاب بدر جلد 5 259 نے ، حضرت عمرؓ نے دیکھا تو آپ سمجھ گئے کہ یہ لوگ مکہ چھوڑ کر جارہے ہیں.آپ نے کہ اتم عبد اللہ ایہ تو ہجرت کے سامان نظر آرہے ہیں.ام عبد اللہ کہتی ہیں میں نے جواب میں کہا ہاں خدا کی قسم ! ہم کسی اور ملک میں چلے جائیں گے کیونکہ تم نے ہم کو بہت دکھ دیے ہیں اور ہم پر بہت ظلم کیے ہیں.ہم اس وقت اپنے ملک میں نہیں لوٹیں گے جب تک خدا تعالیٰ ہمارے لیے کوئی آسانی اور آرام کی صورت پیدا نہ کر دے.ام عبد اللہ بیان کرتی ہیں کہ عمرؓ نے جواب میں کہا کہ اچھا.خدا تمہارے ساتھ ہو.اور کہتی ہیں کہ میں نے ان کی آواز میں رقت محسوس کی حالانکہ اس وقت مسلمانوں کے مخالف تھے لیکن یہ ہجرت دیکھ کر جذباتی ہو گئے.خدا تمہارے ساتھ ہو کہا تو اس آواز میں ایک رقت تھی جو اس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی.پھر وہ یعنی حضرت عمر جلدی سے منہ پھیر کے وہاں سے چلے گئے اور میں نے محسوس کیا کہ اس واقعہ سے ان کی طبیعت نہایت ہی عمگین ہو گئی ہے.حبشہ کی طرف جانے والوں کا تعاقب بہر حال جب ان لوگوں کے ہجرت کرنے کی مکہ والوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے ان کا تعاقب کیا اور سمندر تک ان کے پیچھے گئے مگر یہ قافلہ ان لوگوں کے سمندر تک پہنچنے سے پہلے ہی حبشہ کی طرف روانہ ہو چکا تھا.مکہ والوں کو یہ معلوم ہو ا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک وفد بادشاہ حبشہ کے پاس بھیجا جائے جو اسے مسلمانوں کے خلاف بھڑکائے اور اسے تحریک کرے کہ وہ مسلمانوں کو مکہ والوں کے سپرد کر دے.بہر حال یہ وفد حبشہ گیا اور بادشاہ سے ملا.امرائے دربار کو بھی ان لوگوں نے خوب اکسایا.لیکن اللہ تعالیٰ نے بادشاہ حبش کے دل کو مضبوط کر دیا تھا اور اسو نے باوجود ان لوگوں کے اصرار کے اور باوجود درباریوں کے اصرار کے، درباری جو تھے وہ مکہ والوں کی باتوں میں آگئے تھے انہوں نے بھی بادشاہ کو بڑا کہا کہ ان کو مکہ والوں کے، کافروں کے سپر د کر دو.اس نے مسلمانوں کو کفار کے سپر د کرنے سے انکار کرد ر دیا.جب یہ وفد ناکام واپس آیا تب مکہ والوں نے ان مسلمانوں کو بلانے کے لیے ایک اور تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ حبشہ جانے والے بعض قافلوں میں یہ خبر مشہور کر دی کہ مکہ کے سب لوگ مسلمان ہو گئے ہیں.جب یہ خبر حبشہ پہنچی تو اکثر مسلمان خوشی سے مکہ کی طرف واپس لوٹے مگر مکہ پہنچ کر ان کو معلوم ہوا کہ یہ خبر محض شرار نامشہور کی گئی ہے.اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے.حضرت عثمان بن مظعون اور مشہور شاعر لبید بن ربیعہ اس پر کچھ لوگ تو واپس حبشہ چلے گئے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اور کچھ مکہ میں ٹھہر گئے.ان ٹھہر نے والوں میں سے حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ عثمان بن مظعون بھی تھے جو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس کے بیٹے تھے.اس دفعہ ان کے باپ کے ایک دوست ولید بن مغیرہ نے ان کو پناہ دی اور وہ امن سے مکہ میں رہنے لگے مگر اس عرصے میں انہوں نے دیکھا کہ بعض دوسرے مسلمانوں کو دکھ دیے جاتے

Page 276

اصحاب بدر جلد 5 260 ہیں اور انہیں سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں.چونکہ وہ غیرت مند نوجوان تھے.ولید کے پاس گئے اور اسے کہہ دیا کہ میں آپ کی پناہ کو واپس کرتا ہوں کیونکہ مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دوسرے مسلمان دکھ اٹھائیں اور میں آرام سے رہوں.چنانچہ ولید نے اعلان کر دیا کہ عثمان اب میری پناہ میں نہیں.اس کے بعد ایک دن لبید، عرب کا ایک مشہور شاعر تھا مکہ کے رؤساء میں بیٹھا اپنے شعر سنا رہا تھا کہ اس نے ایک مصرع پڑھا: وَكُلُّ نَعِيمٍ لَا فَحَالَةَ زَائِلٌ جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر نعمت آخر مٹ جانے والی ہے.عثمان بن مظعونؓ نے کہا کہ یہ غلط ہے جنت کی نعمتیں ہمیشہ قائم رہیں گی.لبید ایک بہت بڑا آدمی تھا.یہ جواب سن کر جوش میں آگیا اور اس نے کہا کہ اے قریش کے لوگو! تمہارے مہمان کو تو پہلے اس طرح ذلیل نہیں کیا جاتا تھا اب یہ نیا راج کب سے شروع ہوا ہے ؟ اس پر ایک شخص نے کہا یہ ایک بیوقوف آدمی ہے اس کی بات کی پروا نہیں کریں.حضرت عثمان نے اپنی بات پر اصرار کیا اور کہا کہ بیوقوفی کی کیا بات ہے جو بات میں نے کہی ہے وہ سچ ہے.اس پر ایک شخص نے اٹھ کر زور سے آپ کے منہ پر گھونسا مارا، مکا مارا جس سے آپ کی ایک آنکھ نکل گئی یا سوج گئی.ولید اس وقت اس مجلس میں بیٹھا ہو ا تھا جس نے آپ کو پناہ دی تھی.ان کے والد کا دوست، عثمان کے باپ کے ساتھ اس کی بڑی گہری دوستی تھی.عثمان کے والد فوت ہو گئے تھے تو اپنے مردہ دوست کے بیٹے کی یہ حالت اس سے دیکھی نہ گئی مگر مکہ کے رواج کے مطابق جب عثمان اس کی پناہ میں نہیں تھے تو وہ ان کی حمایت بھی نہیں کر سکتا تھا اس لیے اور تو کچھ نہ کر سکا نہایت ہی دکھ کے ساتھ عثمان ہی کو مخاطب کر کے بولا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے خدا کی قسم تیری یہ آنکھ اس صدمہ سے بیچ سکتی تھی جبکہ تو ایک زبر دست حفاظت میں تھا ( یعنی میری پناہ ولید کی پناہ میں تھا) لیکن تو نے خود ہی اپنی پناہ کو چھوڑ دیا اور یہ دن دیکھا.عثمان نے جواب دیا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے میں خود اس کا خواہش مند تھا.تم میری پھوٹی ہوئی آنکھ پر ماتم کر رہے ہو حالانکہ میری تندرست آنکھ اس بات کے لیے تڑپ رہی ہے کہ جو میری بہن کے ساتھ ہوا ہے وہی میرے ساتھ کیوں نہیں ہو تا.لکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا، عثمان نے ولید کو یہ جواب دیا کہ محمد رسول اللہ صلی علیم کا نمونہ میرے لیے بس ہے.بہت کافی ہے.اگر وہ تکلیفیں اٹھارہے ہیں تو میں کیوں نہ اٹھاؤں.میرے لیے خدا کی حمایت کافی ہے.89 عثمان بن مظعون اور لبید بن ربیعہ کا یہ جو واقعہ ہے جو عرب کا مشہور شاعر تھا اس کا اس طرح بھی تاریخوں میں ذکر ملتا ہے.حضرت عثمان بھی اس کے پاس بیٹھ گئے لبید نے پہلے اس کا یہ ایک مصرع پڑھا کہ : 589 أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللهُ بَاطِلٌ خبر دار ! اللہ کے سوا سب کچھ باطل ہے.

Page 277

اصحاب بدر جلد 5 261 اس پر حضرت عثمان کہنے لگے کہ تو نے سچ کہا ہے.پھر لبید نے کہا: وَكُلُّ نَعِيمٍ لَا فَحَالَةَ زَائِلٌ 590 کہ بیشک ہر نعمت زوال پذیر ہے.حضرت عثمان نے کہا تو نے جھوٹ کہا.لوگوں نے آپ کی طرف دیکھا اور لبید سے کہا کہ دوبارہ پڑھو جس پر لبید نے دوبارہ پڑھا.حضرت عثمان نے اسی طرح ایک دفعہ تصدیق اور ایک دفعہ جھٹلا دیا کہ جنت کی نعمتوں کو زوال نہیں ہے.لبید یہ جو شاعر تھے کہنے لگے کہ اے گر وہ قریش ! تمہاری محفلیں ایسی تو نہ تھیں.ان میں سے ایک احمق کھڑا ہوا اور اس نے حضرت عثمانؓ کی آنکھ پر تھپڑ مار دیا یا مکا ماردیا جس سے آپ کی آنکھ نیلی ہوگئی یا سوج گئی.آپ کے گرد موجو د لو گوں نے کہا عثمان ! خدا کی قسم ! تم ایک مضبوط پناہ میں تھے اور تمہاری آنکھ اس طرح تکلیف سے محفوظ تھی جو تمہیں ابھی پہنچی ہے.اس پر عثمان نے کہا کہ اللہ کی امان زیادہ محفوظ ہے اور زیادہ معزز ہے اور میری دوسری آنکھ بھی اسی طرح کی مصیبت کی آرزومند ہے جو اس آنکھ کو پہنچی ہے.مجھے رسول اللہ صلی علیم اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کی پیروی لازم ہے.ولید نے کہا کہ میری امان میں تمہیں کیا نقصان تھا؟ اس پر حضرت عثمان نے کہا کہ مجھے اللہ کی امان کے سوا کسی کی امان کی حاجت نہیں.یہ تھی ان لوگوں کے ایمان کی کیفیت اور یہ تھا ایک درد اپنے ساتھیوں کے لیے بھی کہ اگر وہ تکلیف میں ہیں تو ہم کیوں (بچے) رہیں بلکہ آنحضرت صلی علی یکم کے ساتھ جو تعلق تھاوہ تو تھا ہی محبت کا کہ وہ تکلیف میں ہیں تو میں کیوں بچوں.صحابہ کے نمونے دیکھ کے بھی ان کو بڑی تکلیف پہنچتی تھی.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ عثمان بن مظعون کا اس طرح جواب دینا اس لیے تھا کہ انہوں نے قرآن کریم سنا ہوا تھا، اسلامی تعلیم سنی ہوئی تھی، قرآن کریم پڑھا ہوا تھا اور اب ان کے نزدیک شعروں کی کچھ حقیقت ہی نہیں تھی بلکہ خود بعد میں لبید بھی مسلمان ہو گیا تو آپ لکھتے ہیں کہ خود لبید نے مسلمان ہونے پر یہی طریق اختیار کیا تھا.چنانچہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنے گورنر کو کہلا بھیجا کہ مجھے مشہور شعراء کا تازہ کلام بھیجو.جب لبید جو اس وقت مسلمان ہو گئے تھے ان سے خواہش کا اظہار کیا گیا تو انہوں نے قرآن کریم کی چند آیات لکھ کر بھیج دیں.آنحضرت صلی الم سے پیار کا تعلق سة حضرت عثمان سے آنحضرت صلی لی ایم کا اور آپ کا جو رسول اللہ لی لی ایم سے تعلق اور پیار تھا اس کا اظہار اس واقعہ سے ہوتا ہے.روایت میں آتا ہے کہ ان کے فوت ہونے پر رسول کریم صلی اللہ ہم نے انہیں بوسہ دیا اور آپ صلی للہ کم کی آنکھوں سے اس وقت آنسو جاری تھے.جب رسول کریم ملی ای کم کا صاحبزادہ ابراہیم فوت ہوا تو آپ نے اس وقت بھی اس کی نعش پر فرمایا.الْحَقِّ بِسَلَفِنَا الصَّالِحِ عُثْمَانَ ابْنَ مَطْعُوْنَ یعنی ہمارے صالح عزیز عثمان بن مظعون کی صحبت میں جا.591

Page 278

اصحاب بدر جلد 5 262 مدینہ کی طرف ہجرت اور مواخات حضرت عثمان بن مظعون کی مدینہ ہجرت کا واقعہ اس طرح ملتا ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت قدامہ بن مظعونؓ اور حضرت عبد اللہ بن مظعونؓ اور حضرت سائب بن عثمان نے ہجرت مدینہ کے وقت حضرت عبد اللہ بن سلمہ عجلانی کے گھر قیام کیا تھا.ایک دوسرے قول کے مطابق یہ سب لوگ حضرت حِزام بن وَدِيعه کے ہاں قیام پذیر تھے.محمد بن عمر واقدی بیان کرتے ہیں کہ آل مطعون ان لوگوں میں سے تھے جن کے مرد اور عورتیں سب کے سب جمع ہو کر ہجرت کے لیے روانہ ہوتے تھے اور ان میں سے کوئی مکہ میں باقی نہیں رہا.حضرت ام علاء بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی لیلی کام اور مہاجرین مدینہ میں آئے تو انصار کی خواہش تھی کہ ان کے گھروں میں رکیں.اس پر ان کے لیے قرعہ ڈالا گیا تو حضرت عثمان بن مظعون ہمارے حصے میں آئے.آنحضور صلی ا ولم نے حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت ابو ھیثم بن تیهان کے درمیان مواخات کارشتہ قائم فرمایا.592 زہد و عبادت 593 حضرت عثمان نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور غزوہ بدر میں شامل ہوئے.آپ تمام لوگوں سے زیادہ جوش کے ساتھ عبادات بجالاتے تھے.دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات کو عبادت کیا کرتے تھے.خواہشات سے بچ کر رہتے تھے اور عورتوں سے دور رہنے کی کوشش کرتے.آپ نے رسول اللہ صلی علیکم سے دنیا ترک کرنے اور خود کو خصّی کرنے کی اجازت مانگی مگر رسول اللہ صلی الم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا.یہ تاریخ کی کتاب اسد الغابہ میں لکھا ہے.13 پھر یہ روایت ہے کہ ایک دن حضرت عثمان بن مظعون کی اہلیہ ازواج مطہرات کے پاس آئیں.ازواج مطہرات نے انہیں پراگندہ حالت میں، میلے کپڑے، بال بکھرے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ تم نے ایسی حالت کیوں بنا رکھی ہے ؟ اپنے آپ کو سنوار کر رکھا کرو.تمہارے شوہر سے زیادہ دولت مند تو قریش میں کوئی نہیں ہے.یہ نہیں ہے کہ تم afford نہیں کر سکتی.تمہارا شوہر بڑا امیر آدمی ہے اپنی حالت تو ٹھیک رکھو.تو آپ کی ، حضرت عثمان کی بیوی ازواج مطہرات کو کہنے لگیں جو ساری اکٹھی بیٹھی ہوئی تھیں کہ ہمارے لیے ان میں سے کچھ نہیں ہے.یعنی جو کچھ آپ کہتی ہیں نہ عثمان کے پاس دولت یا وہ کچھ نہیں.کیوں ؟ کیونکہ وہ اس کے جذبات ہمارے لیے کچھ نہیں ہیں.وہ رات کو بھی عبادت کرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں.ہماری طرف توجہ نہیں دیتے.دن کو روزے رکھتے ہیں.نبی کریم صلی یکم تشریف لائے تو ازواج نے آپ کو بتایا.عثمان کی بیوی کی یہ بات سن کر آنحضرت صلی علی یم حضرت عثمان سے ملے اور فرمایا کیا تمہارے لیے میری ذات میں اسوہ نہیں ہے ؟ وہ عرض کرنے لگے کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں.کیا بات ہوگئی ؟ حضرت عثمان نے کہا کہ میں تو کوشش کرتا ہوں کہ

Page 279

اصحاب بدر جلد 5 263 بالکل آپ کے مطابق چلوں.تو اس پر آپ نے ، آنحضرت صلی علی کرم نے فرمایا کہ تم دن بھر روزے رکھتے ہو اور رات بھر عبادت کرتے ہو.انہوں نے عرض کی جی ہاں میں ایسا ہی کرتا ہوں.آپ صلی للی کم نے فرمایا کہ ایسا مت کرو.تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے.تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے اہل کا بھی تم پر حق ہے.تمہارے بیوی بچوں کا تم پر حق ہے.پس نماز پڑھو اور سو بھی.سونا بھی ضروری ہے.نفل پڑھو، راتوں کو جاگو لیکن سونا بھی ضروری ہے.روزہ رکھو اور چھوڑو بھی.اگر نفلی روزے رکھنے ہیں تو بیشک رکھو لیکن کچھ دن نافعے بھی ہونے چاہئیں.یہ بات آنحضرت صلی للی یکم نے حضرت عثمان سے فرمائی تو کچھ عرصہ کے بعد ان کی بیوی ازواج مطہرات کے پاس دوبارہ آئیں تو انہوں نے خوشبو لگائی ہوئی تھی گویا کہ وہ دلہن ہوں.انہوں نے کہا کیا بات ہے آج بڑی سبھی بنی ہو.اس پر وہ کہنے لگیں کہ ہمیں بھی چیز حاصل ہو گئی ہے جو لوگوں کو میسر ہے یعنی اب خاوند توجہ دیتا ہے.594 حضرت عائشہ سے اس بارہ میں روایت ہے.آپؐ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی للی کلم نے عثمان بن مطعون کو بلایا اور فرمایا کیا تو میرے طریقے کو نا پسند کرتا ہے ؟ وہ بولے یا رسول اللہ ! نہیں میں آپ ہی کے طریقے کو تلاش کرتا ہوں.تو آپ صلی الم نے فرمایا کہ میں سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں.روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہیں بھی رکھتا.اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں.اے عثمان ! تو اللہ سے ڈر تجھ پر تیری بیوی کا حق ہے.تیرے مہمان کا حق ہے اور خود تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے.پس کبھی کبھی روزہ بھی رکھو اور کبھی نہ رکھو.نماز بھی پڑھو اور سویا بھی کرو.595 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بخاری کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ "سعد بن ابی وقاص روایت کرتے ہیں کہ عثمان بن مظعون نے آنحضرت صلی اللہ کم سے عورتوں سے بالکل ہی علیحدہ ہو جانے کی اجازت چاہی مگر آپ نے اس کی اجازت نہیں دی.اور اگر آپ اجازت دے دیتے تو ہم تیار تھے کہ اپنے آپ کو گو یا بالکل خفی ہی کر لیتے." 59611 ان جذبات کو بالکل ختم کرنے کے لیے اپنی کوشش کرتے.بخاری کی جو حدیث ہے اس کا ترجمہ بتادیتا ہوں.وہ اس طرح ہے حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ نے تقبل کی اجازت آنحضرت صلی اللی علم سے طلب کی تھی اور رسول اللہ صلی علیم نے اس سے انکار کر دیا تھا.اور صحیح بخاری کی کتاب النکاح کی یہ حدیث ہے اور پھر یہاں بھی اسی طرح لکھا ہے، جو بیان ہو چکا ہے کہ اگر آپ اس کی اجازت دے دیتے تو ہم سب شاید تارک 597 الدنیا ہو جاتے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب پھر مزید لکھتے ہیں کہ " عثمان بن مظعون تھے جو بنو مجھیخ میں سے تھے.نہایت صوفی مزاج آدمی تھے.انہوں نے زمانہ جاہلیت میں ہی شراب ترک کر رکھی تھی." اسلام لانے سے پہلے بھی کبھی شراب نہیں پیتے تھے ، اور اسلام میں بھی تارک دنیا ہو نا چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی علیہ کم نے یہ فرماتے ہوئے کہ اسلام میں رہبانیت جائز نہیں ہے اس کی اجازت نہیں دی.5981

Page 280

اصحاب بدر جلد 5 264 اسلام کہتا ہے کہ اس دنیا میں رہو.اس دنیا کی جو نعمتیں ہیں.اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں پیدا کی ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ لیکن اللہ تعالیٰ کو نہ بھولو.وہ ہمیشہ تمہارے سامنے رہنا چاہیے.فتنوں کی راہ میں ایک روک حضرت عمر.........حضرت قدامہ بن مظعون سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت عثمان بن مظعون کو پایا.وہ اپنی سواری کے اوپر تھے.اور حضرت عثمان اپنی سواری کے اوپر تھے.آقائیہ نامی گھاٹی پر ان دونوں کی ملاقات ہوئی.آثایه، ذُو الحلیفہ کے بعد محفہ کے راستے میں مدینہ ستر 77 میل فاصلے پر ہے.اس کی لوکیشن (location) بتائی گئی ہے.بہر حال حضرت عمرؓ کی اونٹنی نے حضرت عثمان کی اونٹنی کو بھینچ دیا، ذرا دبایا.زیادہ قریب ہو گئے تو اونٹنی نے دبا دیا.رسول اکرم صلی لی کیم کی سوار قافلے کے کافی آگے تھے.حضرت عثمان بن مظعون نے کہایا غَلَقَ الْفِتْنَةِ ! آپ نے مجھے تکلیف دی ہے.جب سواریاں رکیں تو حضرت عمر بن خطاب قریب آئے اور کہا اے ابو سائب ! یعنی عثمان بن مظعون کو کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت کرے وہ کون سا نام تھا جس کے ساتھ تم نے مجھے پکارا تھا.یہ کہہ کر پکارا تھا خلق الْفِتْنَةِ، تو انہوں نے کہا نہیں اللہ کی قسم آپ کا وہ نام میں نے نہیں رکھا.جس نام سے میں نے پکارا تھا وہ میں نے نہیں کہا تھا بلکہ رسول اللہ صلی نیلم نے آپ کا وہ نام رکھا تھا.پھر کہنے لگے کہ حضور صلی لی کم قافلے کے آگے ہیں اور اس وقت حضور صلی الی یکم آگے چل رہے تھے.اس کے بعد حضرت عثمان بن مظعونؓ نے انہیں بتایا کہ آگے ہیں آپ بھی پوچھ سکتے ہیں.پھر بیان کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ ہمارے پاس سے گزرے یعنی حضرت عمر ہمارے پاس سے گزرے جبکہ ہم رسول اکرم صلی علیکم کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور حضور علی لی ہم نے فرمایا یہ شخص غَلَقُ الْفِتْنَةِ ہے.یعنی فتنے کی راہ میں روک ہے.یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ تمہارے اور فتنے کے درمیان ایک دروازہ ہو گا جو بہت زیادہ سختی سے بند رہے گا جب تک یہ شخص تمہارے درمیان زندہ رہے گا.19 یعنی جب تک حضرت عمر کی زندگی ہے کوئی فتنہ اسلام میں نہیں آئے گا اور تاریخ بھی یہی بتاتی الله س 599 ہے.اس کے بعد ہی زیادہ فتنے شروع ہوئے.اس جگہ جو حضرت عثمان بن مظعون نے حضرت عمر بن خطاب کے متعلق خَلْقُ الْفِتْنَةِ کے یہ الفاظ بیان کیے ہیں اس کی تفصیل بیان کرتا ہوں.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمرؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا کہ تم میں سے کون فتنے سے متعلق رسول اللہ صلی علیکم کی بات یا درکھتا ہے تو میں نے کہا کہ میں.ویسے ہی جیسے کہ آپ نے فرمایا تھا.اسی طرح یا درکھتا ہوں جس طرح آنحضرت صلی ی یکم نے فرمایا تھا.تو حضرت عمرؓ نے کہا تم آنحضرت صلی علی کم پر یا کہا روایت کرنے پر بہت ہی دلیر ہو.یعنی بڑ یقین ہے تمہیں اور تم بڑی جرآت سے کام لے رہے ہو.میں نے کہا کہ آدمی کو ابتلا اس کی بیوی اور اس کے مال اور اس کی اولاد اور اس کے

Page 281

اصحاب بدر جلد 5 265 پڑوسی کی وجہ سے آتا ہے.یہ بھی فتنے ہیں.نماز، روزہ، صدقہ اور نیکیوں کا حکم اور بدیوں سے روکنا اس ابتلا کو دور کر دیتے ہیں.حضرت عمرؓ نے کہا میری مراد اس سے نہیں ہے.یہ اولاد، دولت کی ساری چیزیں ہیں، فتنے ہیں جن کو تم نمازیں پڑھ کے ، روزہ رکھ کے، صدقہ دے کر اور کئی نیکیاں کر کے دور کر سکتے ہو.حضرت عمرؓ نے کہا میری مراد یہ نہیں ہے بلکہ اس فتنے سے ہے جو اس طرح موجیں لے گا جس طرح سمندر.بہت شدید قسم کا فتنہ ہے.وہ جو شدید قسم کا فتنہ ہے جو امت میں آئے گا.حضرت حذیفہ نے کہا کہ امیر المؤمنین! آپ کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے.وہ جو فتنہ پیدا ہونا ہے اس سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں.آپ کی زندگی تک کوئی نہیں ہے کیونکہ آپ کے اور اس کے درمیان ایک بند کیا ہوا دروازہ ہے.حضرت عمرؓ نے کہا کہ کیا وہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ انہوں نے وہی بیان کیا، عرض کیا جو آنحضرت صلی الم نے فرمایا تھا کہ ان کے درمیان ایک بند دروازہ ہے تو حضرت عمرؓ نے اس پر ان سے پوچھا کیا وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا.تو انہوں نے کہا کہ توڑا جائے گا.ایسا دروازہ ہے جو توڑا جائے گا.تو حضرت عمر نے کہا تب تو کبھی بھی بند نہیں ہو گا.اگر دروازہ کھولا جائے تو بند کرنے کے امکان ہوتے ہیں لیکن اگر توڑا جائے تو پھر اس کو بند کرنا بہت مشکل ہے.حضرت عمر نے اس بات پہ کہا پھر تو یہ کبھی بند نہیں ہو گا.یعنی جو فتنے ہیں وہ چلتے چلے جائیں گے اگر ایک دفعہ شروع ہوئے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ فتنے مسلمان امت میں بڑھتے چلے گئے.ایک کے بعد دوسر فتنہ پیدا ہو تا چلا گیا.حضرت عثمان کے زمانے میں، حضرت علی کے زمانے میں، پھر بعد میں زمانوں میں اور اب تک یہی فتنے ہیں جو ا مسلمانوں میں جاری ہیں.ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور اس دیوار کے پیچھے یہ آنا نہیں چاہتے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اس دروازے کو بند کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ قائم فرمائی ہے.اس لیے یہ فتنے بڑھتے چلے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی محفوظ رکھے کہ ہم احمدی اس ڈھال کے پیچھے رہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں مہیا فرمانی ہے اور اس دیوار کے پیچھے رہیں.تو بہر حال یہ باتیں ہو رہی تھیں.حضرت عمر نے کہا یہ فتنہ تو پھر بھی بند نہیں ہو گا.تو ہم نے ان سے کہا، ان لوگوں نے جو ساتھ بیٹھے ہوئے تھے روایت کرنے والے سے ، حضرت حذیفہ سے پوچھا.کیا حضرت عمرؓ اس دروازے کو جانتے تھے ؟ حضرت حذیفہ نے کہاں ہاں.وہ اسے ایسے ہی جانتے تھے جیسے کہ کل سے پہلے رات ہے یعنی بالکل یقینی بات تھی.حضرت عمر کو پتا تھا کہ میرے بعد پھر فتنے پیدا ہو جائیں گے.10 600 مدینہ میں وفات پانے والے پہلے مہاجر حضرت عثمان بن مظعون پہلے مہاجر تھے جنہوں نے مدینے میں وفات پائی.آپ دو ہجری میں

Page 282

اصحاب بدر جلد 5 266 فوت ہوئے.بعض کے نزدیک آپ کی وفات غزوہ بدر کے بائیس ماہ کے بعد ہوئی اور آپ جنت البقیع میں دفن ہونے والے پہلے شخص تھے.جنت البقیع میں پہلے مدفون 601 آپ جنت البقیع میں مدفون ہونے والے پہلے 602 جنت البقیع کی ابتدا کے بارے میں جو تفصیل ملی ہے وہ اس طرح کہ آنحضرت صلی علیم کے مدینہ میں ورود کے بعد وہاں بہت سے قبرستان تھے.یہودیوں کے اپنے قبرستان ہوا کرتے تھے جبکہ عربوں کے مختلف قبائل کے اپنے اپنے قبرستان تھے.مدینہ طبیہ چونکہ اس وقت مختلف علاقوں میں بٹا ہوا تھا.اس لیے ہر قبیلہ اپنے ہی علاقے میں کھلی جگہ پر اپنی میتوں کو دفنادیتا تھا.قبا کا الگ قبرستان تھا جو زیادہ مشہور تھا گو کہ وہاں چھوٹے چھوٹے کئی اور قبرستان بھی تھے.قبیلہ بنو ظفر کا اپنا قبرستان بھی تھا اور بنو سلمہ کا اپنا الگ قبرستان تھا.دیگر قبرستانوں میں بنو ساعدہ کا قبرستان تھا جس کی جگہ بعد میں سوق النبی قائم ہوا.جس جگہ پر مسجد نبوی تعمیر ہوئی وہاں بھی کھجوروں کے جھنڈ میں چند مشرکین کی قبریں تھیں.ان تمام قبرستانوں میں بَقِيعُ الْغَرْ قد سب سے پرانا اور مشہور قبرستان تھا.اور پھر جب رسول اللہ صلی علیکم نے اسے مسلمانوں کے قبرستان کے لیے منتخب کر لیا تو اس کے بعد سے آج تک اسے ایک منفرد اور ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے جو ہمیشہ رہے گی.الله حضرت عبد اللہ بن ابی رافع سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الی یا کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جہاں صرف مسلمانوں کی قبریں ہوں اور اس غرض سے آنحضرت صلی ای ایم نے مختلف جگہوں کو ملاحظہ بھی فرمایا.جاکے دیکھا.یہ فخر بقیع الغرقد کے حصے میں لکھا تھا.رسالت مآب صلی الم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس جگہ کو یعنی بقیع الغرقد کو منتخب کرلوں.اسے اس دور میں بَقیعُ الْخَبخَبَہ کہا جاتا تھا.اس میں بے شمار غرقد کے درخت اور خود رو جھاڑیاں ہوا کرتی تھیں.مچھروں اور دیگر حشرات الارض کی اس جگہ پہ بھر مار تھی اور مچھر جب اس جگہ گند کی وجہ سے یا جنگل کی وجہ سے اڑتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ دھوئیں کے بادل چھا گئے ہوں.وہاں سب سے پہلے جن کو دفن کیا گیا اور جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے وہ حضرت عثمان بن مظعون تھے.رسول اللہ صلی علیم نے ان کی قبر کے سرھانے ایک پتھر نشانی کے طور پر رکھ دیا اور فرمایا یہ ہمارے پیش رو ہیں.ان کے بعد جب بھی کسی کی فوتیدگی ہوتی تو آنحضرت صلی للی کم سے پوچھتے کہ انہیں کہاں دفن کیا جائے تو آپ صلی یکم فرماتے کہ ہمارے پیش رو عثمان بن مظعون کے قریب.بقیع عربی میں ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں درختوں کی بہتات ہو ، بہت زیادہ درخت ہوں.مدینہ طیبہ میں اس مقام کو بَقِيعُ الْغَرَقَد کے نام سے جانا جانے لگا کیونکہ وہاں غرقد کے درختوں کی بہتات تھی.اس کے علاوہ وہاں دیگر خودرو

Page 283

اصحاب بدر جلد 5 267 603 صحرائی جھاڑیاں بھی بہت زیادہ تعداد میں تھیں.اسے جنت البقیع بھی کہا جاتا ہے.جنت کے لفظ کا عربی میں ایک مطلب ہے باغ یا فردوس.اس لیے یہ جگہ زیادہ تر عجمی زائرین میں جنت البقیع کے نام سے جانی جاتی ہے.عبد الحمید قادری صاحب ہیں انہوں نے یہ تفصیل لکھی ہے.پھر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عرب عموماً اپنے مقابر اور قبرستانوں کو جنت ہی کہہ کر پکارتے ہیں.اس کا ایک نام مقابر البقیع بھی ہے جو اعرابیوں میں زیادہ مشہور ہے.3 جو صحرا کے رہنے والے تھے ان میں یہ زیادہ مشہور ہے.حضرت سالم بن عبد اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی فوت ہو جاتا تو رسول اللہ صلی للی کرم فرماتے اس کو آگے گئے ہوئے بندوں کے پاس بھیج دو.عثمان بن مظعون میری امت کا کیا ہی اچھا پیش رو تھا.حضرت عثمان بن مظعون کی وفات پر انہیں بوسہ دینا 604 حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی ال یکم ان کی نعش کے پاس آئے.آپ ان پر تین بار جھکے اور سر اٹھایا اور بلند آواز سے فرمایا اے ابو سائب! اللہ تم سے درگزر کرے.تم دنیا سے اس حال میں گئے کہ دنیا کی کسی چیز سے آلودہ نہیں ہوئے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی الم نے حضرت عثمان بن مظعون کی نعش کو بوسہ دیا جبکہ آپ رو رہے تھے.اس وقت رسول اللہ صلی علیکم دور ہے تھے اور آپ کی دونوں آنکھیں اشکبار تھیں.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور نے حضرت عثمان کی وفات کے بعد آپ کو بوسہ دیا.کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی علیکم کے آنسو حضرت عثمان کے رخسار پہ یہ رہے تھے، اتنے زیادہ تھے کہ پھر وہ آنسو پہ کر حضرت عثمان کے رخساروں پر بھی گرنے لگے.جب رسول اللہ صلی اللی علم کے بیٹے ابراہیم نے وفات پائی تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا.الحق بِالسَّلْفِ الصَّالِحِ عُثْمَانَ بْنَ مَطْعُون یعنی سلف صالح عثمان بن مظعون سے جاکر مل جاؤ.15 نماز جنازہ پر زائد تکبیرات 605 حضرت عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی یہی ہم نے حضرت عثمان بن مظعون کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس پر چار تکبیرات کہیں.606 بعض لوگ کہتے ہیں کہ تین سے زیادہ نہیں ہو سکتیں.چار تکبیرات بھی ہو سکتی ہیں.نبی اکرم صلی اللہ ان کا خود پتھر اٹھا کر قبر کے سرہانے رکھنا مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن مظعون کی وفات ہوئی.ان کا جنازہ نکالا گیا پھر ان کو دفن کیا گیا تو نبی کریم صلی ا لی ایم نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ ایک پتھر لائے.وہ پتھر نہ اٹھا سکا، بڑا بھاری پتھر تھا تو رسول اللہصلی الل علم اس کی طرف کھڑے ہوئے، ادھر گئے.آپ نے اپنے دونوں ہاتھ ،

Page 284

اصحاب بدر جلد 5 268 دونوں بازوؤں سے کپڑا اوپر کیا، اپنے بازو کی آستینیں چڑھائیں، قمیض کی آستینیں چڑھائیں.مطلب نے کہا، جس نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی یی کم سے روایت کیا ہے اس نے کہا کہ گویا میں اب بھی رسول اللہ صلی علیم کے دونوں بازوؤں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں.ابھی بھی مجھے وہ واقعہ بڑی اچھی طرح یاد ہے اور آنحضور صلی ایم کے بازو خو بصورت تھے.ان کی سفیدی مجھے نظر آرہی ہے.جب آپ نے ان سے کپڑا ہٹایا تھا، آستینیں چڑھائی تھیں.پھر آپ نے وہ پتھر اٹھایا اور اسے حضرت عثمان بن مظعون کے سرھانے رکھ دیا اور فرمایا میں اس نشانی کے ذریعہ اپنے بھائی کی قبر پہچان لوں گا اور میرے اہل میں سے جو وفات پائے گا اسے میں اس کے پاس دفن کروں گا.سنن ابی داؤد کا یہ حوالہ ہے.607 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت عثمان بن مظعون کی وفات سے متعلق جو تفصیل بیان کی ہے اس میں سے چند باتیں پیش کرتا ہوں.آپ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب 2 ہجری کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " اسی سال کے آخر میں آنحضرت صلی یہ کلم نے اپنے صحابہ کے لیے مدینے میں ایک مقبرہ تجویز فرمایا جسے جنت البقیع کہتے تھے.اس کے بعد صحابہ عموماً اس مقبرے میں دفن ہوتے تھے.سب سے پہلے صحابی جو اس مقبرے میں دفن ہوئے وہ عثمان بن مظعون تھے.عثمان بہت ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے اور نہایت نیک اور عابد اور صوفی منش آدمی تھے.مسلمان ہونے کے بعد ایک دفعہ انہوں نے آنحضور صلی الم سے عرض کیا کہ حضور مجھے اجازت مرحمت فرمائیں تو میں چاہتا ہوں کہ بالکل تارک الدنیا ہو کر اور بیوی بچوں سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی زندگی خالصتا عبادت الہی کے لیے وقف کر دوں مگر آپ نے اس کی اجازت نہیں دی." اس کی تفصیل بھی میں گذشتہ خطبے میں بیان کر چکا ہوں.بہر حال پھر یہ مرزا بشیر احمد صاحب ہی آگے لکھتے ہیں کہ :.عثمان بن مظعون کی وفات کا آنحضرت صلی لیلی کیم کو بہت صدمہ ہوا اور روایت آتی ہے کہ وفات کے بعد آپ نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اس وقت آپ کی آنکھیں پر نم تھیں.ان کے دفنائے جانے کے بعد آپ صلی الی ایم نے ان کی قبر کے سرھانے ایک پتھر بطور علامت کے نصب کروا دیا اور پھر آپ کبھی کبھی جنت البقیع میں جاکر ان کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے.عثمان پہلے مہاجر تھے جو مدینہ میں فوت ہوئے.6081 آپ کی بیوی کا مرثیہ حضرت عثمان بن مظعون کی وفات پر آپ کی بیوی نے مرثیہ لکھا اور وہ یہ تھا کہ : يَا عَيْنُ جُوْدِيَ بِدَمْعِ غَيْرِ مَمْنُونِ على أَمْرِی بَاتَ فِي رِضْوَانِ خَالِقِهِ طَابَ الْبَقِيعُ لَهُ سُكْنَى وَغَرْقَدُهُ عَلَى رَزِيَّةِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونِ طوبى لَهُ مِنْ فَقِيْدِ الشَّخْصِ مَدْفُونِ وَأَشْرَقَتْ أَرْضُهُ مِنْ بَعْدِ تَعْيِيْنِ

Page 285

اصحاب بدر جلد 5 269 وَأَوْرَثَ الْقَلْبَ حُزُنًالًا انْقِطَاعَ لَهُ حَتَّى الْمَمَاتِ فَمَا تَرْقُىٰ لَهُ شُوْنٍ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اے آنکھ ! عثمان کے سانحے پر تو نہ رکنے والے آنسو بہا.اس شخص کے سانحے پر جو اپنے خالق کی رضامندی میں شب بسر کرتا تھا.اس کے لیے خوشخبری ہو کہ ایک فقید المثال شخص مدفون ہو چکا ہے.بقیع اور غرقد اپنے اس مکین سے پاکیزہ ہو گیا او اس کی زمین آپ کی تدفین کے بعد روشن ہو گئی.آپ کی وفات سے دل کو ایسا صدمہ پہنچا ہے جو موت تک کبھی ختم نہ ہونے والا ہے اور میری یہ حالت نہ بدلنے والی ہے.609 یہ ان کی اہلیہ نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے.میزبان صحابیہ کا نیک جذبات کا اظہار اور آنحضرت صلی الم کی رہنما اصلاح حضرت ام علاء جو انصاری عورتوں میں سے ایک خاتون تھیں.نبی کریم صلی ا کم سے بیعت کر چکی تھیں.انہوں نے بتایا کہ جب انصار نے مہاجرین کے رہنے کے لیے قرعے ڈالے تو حضرت عثمان بن مطعون کا قرعہ سکونت یعنی ٹھہرنے کی جگہ ہمارے نام نکلا کہ ہم اپنے گھر ٹھہرائیں.حضرت ام علاء کہتی تھیں کہ حضرت عثمان بن مظعون ہمارے پاس رہے.وہ بیمار ہوئے تو ہم نے ان کی خدمت کی اور جب وہ فوت ہو گئے اور ہم نے انہیں ان کے کپڑوں میں ہی کفنایا.نبی صلی ہی کم ہمارے پاس آئے.میں نے کہا یعنی حضرت ام علاء کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ اللہ کی رحمت ہو تم پر ابو سائب! یہ ان کی، حضرت عثمان بن مطعون کی کنیت تھی.آنحضرت صلی للی کم کے سامنے انہوں نے ، حضرت اقد علاء نے یہ الفاظ دہرائے کہ اللہ کی رحمت ہو تم پر ابو سائب امیری شہادت تو تمہارے متعلق یہی ہے کہ اللہ نے تجھے ضرور عزت بخشی ہے.یہ الفاظ انہوں نے آنحضرت صلی علیکم کے سامنے دہرائے کہ میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ نے تمہیں ضرور عزت بخشی ہے.نبی کریم ملی ای کم نے جب یہ بات سنی تو ان سے پوچھا، کہتی ہیں آنحضرت صلی اللہ ہم نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ضرور عزت بخشی ہے.تو کہتی ہیں میں نے کہا یار سول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان.میں نہیں جانتی، مجھے یہ تو نہیں تالیکن بہر حال میرے جذبات تھے میں نے اظہار کر دیا.تو رسول اللہ کی ٹیم نے فرمایا جہاں تک عثمان کا تعلق ہے تو وہ اب فوت ہو گئے اور میں ان کے لیے بہتری کی ہی امید رکھتا ہوں.یہی امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کو عزت بخشے گا لیکن اللہ کی قسم ! آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ کی قسم ! میں بھی نہیں جانتا کہ عثمان کے ساتھ کیا ہو گا.دعا تو ضرور ہے لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہیں ضرور عزت بخشی ہے حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں.یہ سن کر حضرت اُم علاء نے کہا بخدا اس کے بعد میں کسی کو بھی یوں پاک نہیں ٹھہراؤں گی.اس طرح کے الفاظ نہیں دہراؤں گی کہ ضرور بخشا گیا اور مجھے اس بات نے کر دیا.کہتی تھیں کہ میں سو گئی.اسی غم میں میں سوگئی، ایک خاص تعلق تھا.جذبات بھی تھے.تو بہر حال کہتی ہیں جب میں رات کو سوئی تو مجھے خواب میں حضرت عثمان کا ایک چشمہ دکھایا گیا جو بہ رہا تھا.همگین

Page 286

اصحاب بدر جلد 5 270 پانی کا ایک چشمہ تھا وہ بہ رہا تھا اور یہ دکھایا گیا کہ یہ حضرت عثمان کا چشمہ ہے.اس خواب کے دیکھنے کے بعد کہتی ہیں میں پھر رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آئی اور میں نے آپ کو یہ تایا کہ میں نے اس طرح خواب دیکھی ہے تو آپ نے فرمایا یہ اس کے عمل ہیں.610 یہ جو چشمہ بہ رہا تھا تو اب اللہ تعالیٰ نے تمہیں دکھا دیا کہ وہ جنت میں ہیں اور یہ س کے عمل ہیں جس کے چشمے اب وہاں یہ رہے ہیں.پس یہ بھی آنحضرت صلی علیکم کی تربیت کا ایک طریق تھا کہ یوں ہی اتنے وثوق سے اللہ تعالیٰ کی بخشش کے بارے میں شہادت نہ دے دیا کرو.ہاں جب خواب میں حضرت عثمان بن مظعون کے اعلیٰ اعمال ایک چشمے کی صورت میں حضرت اقد علاء کو دکھائے گئے تو آنحضرت صلی علیم نے اس کی تصدیق فرمائی.ورنہ آنحضرت صلی للی کم کی دعائیں اور آپ کے متعلق جو آنحضرت صلی علی یم نے اپنے جذبات کا اظہار فرمایا وہ واضح کرتا ہے کہ آپ کو ان کے بارے میں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ وہ دعائیں سنے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے لیکن پھر بھی آپ نے کہا تم کسی کے بارے میں شہادت نہیں دے سکتے.مسند احمد بن حنبل میں یہ مضمون کچھ اس طرح بیان ہے کہ خَارِجہ بن زید اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عثمان بن مظعون کی جب وفات ہوئی تو خارجہ بن زید کی والدہ نے کہا ابو سائب ! تم پاک ہو.تمہارے اچھے دن بہت اچھے تھے.نبی صلی علیم نے اس کو سن لیا اور فرمایا یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا میں.رسول اللہ صلی علی یکم نے فرمایا تمہیں کیا چیز بتاتی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عثمان یعنی ان کے عمل اور ان کی عبادتیں ایسی تھیں.یہی چیزیں مجھے ظاہر کرتی ہیں کہ ضرور اللہ تعالیٰ نے ان سے مغفرت کا سلوک کر دیا، بخش دیا.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ہم نے عثمان بن مطعون میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا.یقیناً عثمان بن مظعون ایسا شخص تھا کہ بھلائی کے سوا میں نے اس میں کچھ نہیں دیکھا لیکن ساتھ ہی آپ نے فرمایا کہ اور یہ بھی یادرکھو کہ میں اللہ کار سول ہوں لیکن بخدا میں بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا.111 آنحضرت صلی میں کم سے بڑھ کر تو خدا تعالیٰ کا کوئی محبوب نہیں.آپ حبیب خدا ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی بے نیازی اور اس کے خوف اور خشیت کا یہ عالم ہے کہ اپنے بارے میں بھی فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں پتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا.پس ہمارے لیے کس قدر خوف کا مقام ہے اور کس قدر ہمیں فکر ہونی چاہیے کہ نیک اعمال کریں.خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ کریں اور اس کے باوجود اس بات پر فخر نہیں بلکہ عاجزی میں بڑھتے چلے جائیں اور اس سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کار حم اور اس کے فضل کی بھیک مانگتے رہیں کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں بخش دے.مسند احمد بن حنبل کی ایک اور روایت درج ہے کہ حضرت اقد علاء کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں عثمان بن مظعون بیمار ہو گئے.ہم نے ان کی تیاداری کی یہاں تک کہ جب فوت ہو گئے تو ہم نے ان کو ان کے

Page 287

اصحاب بدر جلد 5 271 کپڑوں میں لپیٹ دیا.نبی صلی اللہ کی ہمارے ہاں تشریف لائے.میں نے کہا اے ابو سائب ! اللہ کی رحمت آپ پر ہو.یہ میری آپ پر گواہی ہے کہ اللہ نے آپ کا اکرام کیا ہے، بہت عزت احترام کیا ہے تو رسول للہ صلی علیم نے فرمایا تمہیں کیا پتا کہ اللہ تعالی نے اس کا اکرام کیا ہے ؟ کہتی ہیں مجھے نہیں پتا میرے ماں باپ آپ پر قربان.رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایاں جہاں تک اس کا تعلق ہے اس کو وہ یقینی بلاوا یعنی موت اس کے رب کی طرف سے آگیا ہے اور میں اس کے لیے خیر کی امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ خیر کا معاملہ کرے گا لیکن اللہ کی قسم! میں بھی نہیں جانتا، میں اللہ کار سول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا.وہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا میں اس کے بعد کسی کو پاک قرار نہیں دوں گی لیکن اس کے بعد اس بات نے مجھے غمگین کیا پھر اسی خواب کا ذکر کیا.پھر آنحضرت صلی الیم کو خواب سنائی.612 تو پہلی دو مختلف کتابوں میں، حدیثوں میں اس واقعے کو لکھا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کے درجات تو بلند کیے ہی ہیں آنحضرت صلیلی کیم کی دعائیں بھی تھیں اور ہمیشہ بلند فرماتا چلا جائے اور وہ نیک نمونے ہم لوگ بھی اپنے اندر قائم کرنے والے ہوں.13 233 نام و نسب حضرت عدی بن ابی الزغباء حضرت عدی بن آبی رغباء انصاری.ان کی ولدیت سینان بن سبیع تھی.آپ نے حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں وفات پائی.حضرت علی کے والد ابی زغباء کا نام سنان بن سُبَيع بن تغلبہ تھا.آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ جھینہ سے تھا.غزوہ بدر اور احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے.614 غزوہ بدر کے موقعہ پر معلومات لانے والے رسول اللہ صلی الم نے آپ کو حضرت بشبش بن عمرو کے ساتھ معلومات لانے کی غرض سے غزوہ بدر کے موقع پر ابوسفیان کے قافلے کی طرف بھیجا تھا.یہ خبر لینے گئے یہاں تک چلتے گئے کہ سمندر کے ساحل کے قریب پہنچ گئے.حضرت بشبش بن عمرو اور حضرت عدی بن ابی زَغْبَاء نے بدر کے مقام پر ایک ٹیلے کے پاس اپنے اونٹ بٹھائے جو ایک گھاٹ کے قریب تھا.پھر انہوں نے اپنی مشکیں

Page 288

اصحاب بدر جلد 5 272 لیں اور گھاٹ پر پانی لینے آئے.ایک شخص مَجدِی بن عمر و جُھنی گھاٹ کے پاس کھڑ ا تھا.ان دونوں اصحاب نے دو عورتوں سے سنا کہ ایک عورت نے دوسری سے کہا کہ کل یا پرسوں قافلہ آئے گا تو میں ان کی مزدوری کر کے تیرا قرض اتار دوں گی.اب یہ باتیں دو عور تیں کر رہی ہیں لیکن اس میں معلومات تھیں.مجدی نے کہا تو ٹھیک کہتی ہے.پھر وہ ان دو عورتوں کے پاس سے چلا گیا، وہاں سے ہٹ کے چلا گیا.حضرت عَدِي اور حضرت بشبش نے یہ باتیں سنیں.یہ دونوں جب گئے تو ان دونوں نے عورتوں کی یہ باتیں سن لی تھیں انہوں نے آکے رسول اللہ صل اللی علم کو خبر دی.615 یعنی کہ یہ بات ہم نے سنی ہے کہ دو عورتیں باتیں کر رہی تھیں کہ ایک قافلہ آئے گا اور یہ کفار کے قافلے کی خبر تھی تو اس طرح یہ لوگ معلومات پہنچایا کرتے تھے.بظاہر دیکھنے میں تو دو عور تیں ہی باتیں کر رہی ہیں لیکن اس کی اہمیت کا ان کو اندازہ نہ تھا اور یہ بڑی اہم خبر تھی، قافلے کی آمد کی اطلاع مل رہی تھی.وفات حضرت علیای بن ابی زنجباء نے حضرت عمر کے دور خلافت میں وفات پائی.616 234 نام و نسب حضرت عصمہ بن حصین حضرت عصمہ بن حصین ایک صحابی تھے جو قبیلہ بنو عوف بن خزرج سے تھے.ان کے بھائی ھبیل بن وبرہ اپنے داد او برہ کی طرف منسوب ہیں.یہ اور ان کے بھائی بدر میں شامل ہوئے تھے.بعض نے آپ کے بدر میں شامل ہونے سے اختلاف کیا ہے.لیکن بہر حال بعض نے لکھا ہے کہ شامل ہوئے.؟ 617 618

Page 289

273 235 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عُصیمه انصاری حضرت عُصیمہ انصاری ایک صحابی تھے.حضرت عُصیمہ کا تعلق قبیلہ بنو شمع سے تھا.بنو غنم بن مالک بن نجار کے حلیف تھے.غزوہ بدر اور احد اور خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ شریک رہے.آپ نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کے دور میں وفات پائی.619 236 ย حضرت عَطِيَّه بن نويرة " حضرت عَطِيَّه بن نویرہ.یہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور ان کے متعلق بس اتنی ہی معلومات ہیں کہ آپ غزوہ بدر میں شامل ہوئے.10 620 237 نام و نسب حضرت عقبہ بن عامر حضرت عقبہ بن عامر.ان کی والدہ کا نام فریمہ بنت سکن تھا اور والد عامر بن ناہی تھے.ان کی والدہ بھی آنحضرت صلی علیہ کم پر ایمان لائیں اور آپ کی بیعت سے مشرف ہوئیں.مکہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والے اور بیعت عقبہ اولیٰ میں شریک حضرت عقبہ بن عامر ان چھ انصار میں سے تھے جو سب سے پہلے مکہ میں ایمان لائے اور بعد میں آپ بیعت عقبہ اولیٰ میں بھی شامل ہوئے.521

Page 290

اصحاب بدر جلد 5 بیعت عقبہ اولیٰ 274 اس کی کچھ تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیر و خاتم النبیین میں لکھی ہے کہ کس طرح آنحضرت صلی ای کم کی کوششوں سے مدینہ میں اسلام کا پیغام پہنچاتھا.فرماتے ہیں: اس کے بعد آنحضرت صلی الی یوم حسب دستور مکہ میں اشهر حُرُمہ کے اند ر قبائل کا دورہ کر رہے تھے کہ آپ کو معلوم ہوا کہ یثرب کا ایک مشہور شخص سوئید بن صامت مکہ میں آیا ہوا ہے.شوید مدینہ کا ایک مشہور شخص تھا اور اپنی بہادری اور نجابت اور دوسری خوبیوں کی وجہ سے کامل کہلا تا تھا اور شاعر بھی تھا.آنحضرت صلی للی یکم اس کا پتہ لیتے ہوئے اس کے ڈیرے پر پہنچے اور اسے اسلام کی دعوت دی.اس نے کہا کہ میرے پاس بھی ایک خاص کلام ہے جس کا نام مجله لقمان ہے.آپ صلی الیم نے کہا کہ جو کلام تمہارے پاس ہے مجھے بھی اس کا کوئی حصہ سناؤ.جس پر شوید نے اس صحیفہ کا ایک حصہ آپ کو سنایا.آپ نے اس کی تعریف فرمائی یعنی جو کچھ سنایا گیا تھا کہ اس میں اچھی باتیں ہیں.مگر فرمایا کہ میرے پاس جو کلام ہے وہ بہت بالا اور ارفع ہے، بہت اونچے مقام کا ہے.چنانچہ پھر آپ نے اسے قرآن شریف کا ایک حصہ سنایا.جب آپ ختم کر چکے تو اس نے کہاہاں واقعی یہ بہت اچھا کلام ہے.اور گو وہ مسلمان نہیں ہوا مگر اس نے فی الجملہ آپ صلی علیم کی تصدیق کی اور آپ کو جھٹلایا نہیں.لیکن افسوس ہے کہ مدینہ میں واپس جا کر اسے زیادہ مہلت نہیں ملی اور وہ جلد ہی کسی ہنگامہ میں قتل ہو گیا.یہ جنگ بعاث سے پہلے کی بات ہے.اس کے بعد اسی زمانہ کے قریب یعنی جنگ بعاث سے قبل آپ صلی للہ ہم پھر ایک دفعہ حج کے موقع پر قبائل کا دورہ کر رہے تھے کہ اچانک آپ کی نظر چندا اجنبی آدمیوں پر پڑی.یہ قبیلہ اوس کے تھے اور اپنے بت پرست رقیبوں یعنی خزرج کے خلاف قریش سے مدد طلب کرنے آئے تھے.یہ بھی جنگ بعاث سے پہلے کا واقعہ ہے.گویا یہ طلب مدد اسی جنگ کی تیاری کا ایک حصہ تھی.آنحضرت صلی یہ کام ان کے پاس تشریف لے گئے اور اسلام کی دعوت دی.آپ صلی علیہم کی تقریر سن کر ایک نوجوان شخص جس کا نام ایائش تھابے اختیار بول اٹھا کہ خدا کی قسم ! جس طرف یہ شخص یعنی محمدعلی ای کم ہم کو بلاتا ہے وہ اس سے بہتر ہے جس کے لئے ہم یہاں آئے ہیں.یعنی جنگ کے لئے مدد طلب کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہمارار جوع ہو.مگر اس گروہ کے سردار نے ایک کنکروں کی مٹھی اٹھا کر اس کے منہ پر ماری اور کہا چپ رہو.ہم اس کام کے لئے یہاں نہیں آئے اور اس طرح اس وقت یہ معاملہ یوں ہی دب کر رہ گیا.مگر لکھا ہے کہ ایاس جب وطن واپس گیا، جب فوت ہونے لگا تو اس کی زبان پر کلمہ توحید جاری تھا.اس کے کچھ عرصہ بعد جب جنگ بعاث ہو چکی تو 11 نبوی کے ماہ رجب میں آنحضرت صلی الی یکم کی مکہ میں بیشترب والوں سے پھر ملاقات ہوئی.یہ نبوت کے گیارھویں سال کی بات ہے.آپ نے حسب و نسب پوچھا تو معلوم ہوا کہ قبیلہ خزرج کے لوگ ہیں اور یثرب سے آئے ہیں.آنحضرت صلی ا ہم نے

Page 291

275 اصحاب بدر جلد 5 نہایت محبت کے لہجہ میں کہا کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں ؟" انہوں نے کہا ہاں ! آپ کے کہتے ہیں ؟" آپ بیٹھ گئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن شریف کی چند آیات سنا کر اپنے مشن سے آگاہ کیا.ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا یہ موقع ہے.ایسا نہ ہو کہ یہود ہم سے سبقت لے جائیں.یہ کہہ کر سب مسلمان ہو گئے.یہ چھ اشخاص تھے جن کے نام یہ ہیں: 1.ابو امامہ اسعد بن زرارہ جو بنو نجار سے تھے اور تصدیق کرنے میں سب سے اوّل تھے.2.عوف بن حارث یہ بھی بنو نجار سے تھے جو آنحضرت صلی ا یلم کے دادا عبد المطلب کے نتھیال کے قبیلہ سے تھے.3.رافع بن مالك جو بنو زُریق سے تھے.اب تک جو قرآن شریف نازل ہو چکا تھا وہ اس موقع پر آنحضرت صلی می کنم نے ان کو عطا فرمایا.4.قطبه بن عامر جو بنی سلمہ سے تھے.5.عُقبہ بن عامر جو بنی حرام سے تھے، ( یہ انہیں کا ذکر ہو رہا ہے.اس سارے واقعہ میں ، یہ عقبہ بن عامر بدری صحابی تھے.اور 6.جابر بن عبد اللہ بن رئاب جو بنی عبید سے تھے.اس کے بعد یہ لوگ آنحضرت صلی علی یکم سے رخصت ہوئے اور جاتے ہوئے عرض کیا کہ ہمیں خانہ جنگیوں نے بہت کمزور کر رکھا ہے.ہم میں آپس میں بہت نا اتفاقیاں ہیں.ہم یثرب میں جا کر اپنے بھائیوں میں اسلام کی تبلیغ کریں گے.کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے ہم کو پھر جمع کر دے.پھر ہم ہر طرح آپ کی مدد کے لئے تیار ہوں گے.چنانچہ یہ لوگ گئے اور ان کی وجہ سے یثرب میں اسلام کا چر چاہونے لگا.یہ سال آنحضرت صلی الم نے مکہ میں یثرب والوں کی طرف سے ظاہری اسباب کے لحاظ سے ایک بیم و رجا کی حالت میں گزارا.آپ اکثر یہ خیال کیا کرتے تھے کہ دیکھیں ان کا کیا انجام ہو تا ہے اور آیا یثرب میں کامیابی کی کوئی امید بندھتی ہے یا نہیں.مسلمانوں کے لئے بھی یہ زمانہ ظاہری حالات کے لحاظ سے ایک بیم و رجا کا زمانہ تھا.کبھی امید کی کرن ہوتی تھی.کبھی مایوسی ہوتی تھی.وہ دیکھتے تھے کہ سرداران مکہ اور رؤسائے طائف آنحضرت صلی علیم کے مشن کو سختی کے ساتھ رڈ کر چکے ہیں.دیگر قبائل بھی ایک ایک کر کے اپنے انکار پر مہر لگا چکے تھے.مدینہ میں امید کی ایک کرن پید اہوئی تھی مگر کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کرن مصائب و آلام کے طوفان اور شدائد کی آندھیوں میں قائم رہ سکے گی.دوسری طرف مکہ والوں کے مظالم دن بدن زیادہ ہو رہے تھے اور انہوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اسلام کو مٹانے کا بس یہی وقت ہے مگر اس نازک وقت میں بھی جس سے زیادہ نازک وقت اسلام پر کبھی نہیں آیا آنحضرت صلی اللہ کم اور آپ کے مخلص صحابی ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم تھے اور آپ کا یہ عزم و استقلال بعض اوقات آپ کے مخالفین کو بھی حیرت میں ڈال دیتا تھا یہ شخص کس قلبی طاقت کا مالک ہے کہ کوئی چیز اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی.بلکہ اس زمانہ میں صلی علیم کے الفاظ میں خاص طور پر ایک رعب اور جلال کی کیفیت پائی جاتی تھی.آنحضرت صلی ال لم جب بھی بات کرتے تھے تو آپ کی باتوں میں بڑار عب اور جلال ہو تا تھا اور جدة نحضرت ا

Page 292

اصحاب بدر جلد 5 276 مصائب کے ان تند طوفانوں میں آپ کا سر اور بھی بلند ہوتا جاتا تھا.یہ نظارہ اگر ایک طرف قریش مکہ کو حیران کر تا تھا تو دوسری طرف ان کے دلوں پر کبھی کبھی لرزہ بھی ڈال دیتا تھا.ان ایام کے متعلق سرولیم میور نے بھی لکھا ہے کہ: ان ایام میں محمد صلی علی کم اپنی قوم کے سامنے اس طرح سینہ سپر تھا کہ انہیں بعض اوقات حرکت کی تاب نہیں ہوتی تھی.اپنی بالآخر فتح کے یقین سے معمور مگر بظاہر بے بس اور بے یار و مددگار وہ اور اس کا چھوٹا سا گروہ یعنی آنحضرت صلی ا ظلم اور آپ کا چھوٹا سا گروہ چند مسلمان اس زمانہ میں گویا ایک شیر کے منہ میں تھے.مگر اس خدا کی نصرت کے وعدوں پر کامل اعتماد رکھتے ہوئے جس نے اسے رسول بنا کر بھیجا تھا محمد صلی علیہ کی ایک ایسے عزم کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑا تھا، ولیم میور لکھتا ہے، کہ جسے کوئی چیز اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی تھی.یہ نظارہ ایک ایسا شاندار منظر پیش کرتا ہے جس کی مثال سوائے اسرائیل کی اس حالت کے اور کہیں نظر نہیں آتی کہ جب اس نے مصائب و آلام میں گھر کر خدا کے سامنے یہ الفاظ کہے تھے کہ اے میرے آقا ! اب تو میں ہاں صرف میں ہی اکیلا رہ گیا ہوں.پھر لکھتا ہے کہ نہیں بلکہ محمد صلی این کم کا یہ نظارہ اسرائیلی نبیوں سے بھی ایک رنگ میں بڑھ کر تھا.محمد صلی علیم کے یہ الفاظ اسی موقعہ پر کہے گئے تھے کہ اے میری قوم کے صنادید ! تم نے جو کچھ کرنا ہے کر لو.میں بھی کسی امید پر کھڑ ا ہوں.مدینہ میں امید کی کرن بہر حال اسلام کے لئے یہ ایک بہت نازک موقع تھا.مکہ والوں کی طرف سے تو مکمل طور پر ایک ناامیدی ہو چکی تھی مگر مدینہ میں یہ جو بیعت کر کے گئے تھے ان کی وجہ سے بھی امید کی کرن پیدا ہو رہی تھی.اور آنحضرت صلی اللہ کی بڑی توجہ کے ساتھ اس طرف نظر ، نگاہ لگائے ہوئے تھے کہ آیا مدینہ بھی مکہ اور طائف کی طرح آپ کو رڈ کرتا ہے یا اس کی قسمت دوسرے رنگ میں لکھی ہے.چنانچہ جب حج کا موقع آیا تو آپ بڑے شوق کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے اور منی کی جانب عقبہ کے پاس پہنچ کر ادھر ادھر نظر دوڑائی تو آپ کی نظر اچانک اہل یثرب کی ایک چھوٹی سی جماعت پر پڑی جنہوں نے آپ کو دیکھ کر فورا پہچان لیا اور نہایت محبت اور اخلاص سے آگے بڑھ کر آپ کو ملے.اس دفعہ یہ بارہ اشخاص تھے جن میں سے پانچ تو وہی گزشتہ سال کے مصدقین تھے اور سات نئے تھے اور اوس اور خزرج دونوں قبیلوں میں سے تھے.ان کے نام یہ ہیں: 1 - أبو أمامه اسعد بن زراره - 2.عوف بن حارث.3.رافع بن مالک.4.قطبه بن عامر - 5 - عُقبہ بن عامر - عُقبہ بن عامر جن کی سیرت بیان ہو رہی ہے یہ اس دفعہ بھی دوبارہ حج کے لئے آئے.6.معاذ بن حارث.یہ قبیلہ بنی نجار سے تھے اور 7.ذکوان بن عَبدِ قَيْس قبیلہ بنو زُریق سے تھے.8.ابو عبد الرحمن یزید بن ثَعْلَبه از بَنِی بَلی اور 9.عُبادہ بن صامت از بني عوف.وہ خزرج قبیلہ کے بینی بلی سے تھے اور یہ بني عوف سے تھے.10.عباس بن عُبادہ بن نَضْلہ.یہ بنی سالم میں سے تھے.11.ابو الْهَيْثَم بن تیہان یہ بنی عبدِ الْأَشْهَلْ کے تھے اور

Page 293

اصحاب بدر جلد 5 277 12 - غُوَيْم بن سَاعِدہ یہ اوس قبیلے کے بنی عمر و بن عوف سے تھے.آنحضرت صل لم لو گوں سے الگ ہو کر ایک گھائی میں ان بارہ افراد سے ملے تھے.انہوں نے یثرب کے حالات سے اطلاع دی اور اب کی دفعہ سب نے با قاعدہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.یہ بیعت مدینہ میں اسلام کے قیام کی بنیاد، قیام کا بنیادی پتھر ہے.اس سے بنیاد پڑی.چونکہ اب تک جہاد بالسیف فرض نہیں ہو ا تھا اس لئے آنحضرت صلی علیم نے ان سے صرف ان الفاظ میں بیعت لی تھی جن میں آپ جہاد فرض ہونے کے بعد عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے یعنی یہ کہ ہم خدا کو ایک جانیں گے.شرک نہیں کریں گے.چوری نہیں کریں گے.زنا کے مر تکب نہیں ہوں گے.قتل سے باز رہیں گے.کسی بہتان نہیں باندھیں گے اور ہر نیک کام میں آپ کی اطاعت کریں گے.بیعت کے بعد آنحضرت صل اللی علم نے فرمایا کہ اگر تم صدق و ثبات کے ساتھ اس عہد پر قائم رہے تو تمہیں جنت نصیب ہو گی اور اگر کمزوری دکھائی تو پھر تمہارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ جس طرح چاہیے گا کرے گا.یہ بیعت تاریخ میں بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ وہ جگہ جہاں بیعت لی گئی تھی عقبہ کہلاتی ہے جو مکہ اور منی کے درمیان واقع ہے.عقبہ کے لفظی معنی بلند پہاڑی رستے کے ہیں.مکہ سے رخصت ہوتے ہوئے ان بارہ کو مسلمین نے درخواست کی کہ کوئی اسلامی معلم ہمارے ساتھ بھیجا جائے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور ہمارے مشرک بھائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرے.آپ نے مُصعب بن محمیر کو جو قبیلہ عبد الدار کے ایک نہایت مخلص نوجوان تھے ان کے ساتھ روانہ کر دیا.اسلامی مبلغ ان دنوں میں قاری یا مقری کہلاتے تھے کیونکہ ان کا کام زیادہ تر قرآن شریف سنانا تھا کیونکہ یہی تبلیغ کا ایک بہترین ذریعہ تھا.چنانچہ مصعب بھی یثرب گئے تو یثرب میں مقری کے نام سے مشہور ہو گئے.بیعت عقبہ ثانیہ جو تھی یہ 13 نبوی میں ہوئی تھی اور اس میں ستر انصار نے بیعت کی تھی.تمام غزوات میں شرکت حضرت عقبہ بن عامر نے غزوہ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی علی نام کے ہمراہ شرکت کی.آپ غزوہ اُحد کے دن خود میں سبز رنگ کے کپڑے کی وجہ سے پہچانے جارہے تھے.آپ حضرت ابو بکر کے دور خلافت میں بارہ ہجری میں جنگ یمامہ میں شہید ہوئے.3 آنحضرت صلی الہ وسلم کی سکھائی ہوئی ایک دعا 623 622 حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو لے کر رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ ابھی وہ نو عمر لڑکا تھا.میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے بیٹے کو دعائیں سکھائیں جن کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرے اور اس پر شفقت فرمائیں.آپ نے فرمایا اسے لڑکے ! کہو کہ اللهم إني اسئلك صحةً فِي ايْمَانٍ وَايْمَانًا فِي حُسْنٍ خُلُقٍ وَصَلَاحًا

Page 294

اصحاب بدر جلد 5 يَتْبَعُه يتبع نجاح 624 278 کہ اے اللہ ! میں تجھ سے حالت ایمان میں صحت طلب کرتا ہوں اور ایمان کے ساتھ حسن خلق کی دعا کرتا ہوں اور صلاح کے بعد کامیابی چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.625 238 نام و نسب حضرت عقبہ بن عثمان بن خلده جنگ بدر میں شامل ہونے والے دو بھائی حضرت عقبہ بن عثمان.حضرت عقبہ بن عثمان کی والدہ کا نام ام جميل بنت قطبہ تھا.626 حضرت عقبہ انصار کے قبیلہ بنُوزُریق میں سے تھے.حضرت عقبہ اور آپ کے بھائی حضرت سعد بن عثمان کو غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تھی.مختلف تاریخی کتب میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ غزوہ احد کے موقعے پر جو چند لوگ حملے کی شدت سے وقتی طور پر بھاگ اٹھے تھے ان میں سے دو شخص حضرت عقبہ بن عثمان اور حضرت سعد بن عثمان بھی تھے.یہاں تک کہ وہ اغوض کے بالمقابل ایک پہاڑ جلعب پر پہنچ گئے اور تین روز تک وہاں قیام کیا.آغوص مدینے سے چند میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے.پھر جب وہ دونوں واپس رسول کریم صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے اس بات کا ذکر کیا تو رسول اللہ صلی الی ایم نے فرمایا.لَقَدْ ذَهَبْتُمْ فِيهَا عَرِيضَةً.یعنی تم اس طرف چل دیے جس میں کشادگی تھی.627 الله بہر حال آنحضرت ملا لی ایم نے ان کی چشم پوشی فرمائی اور ان کی غلطی سے درگزر فرمایا.کوئی باز پرس نہیں کی.528

Page 295

279 239 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت عقبہ بن وهب حضرت عقبہ بن وہب کو ابن ابی وہب بھی کہا جاتا ہے.یہ قبیلہ بنو عبد شمس بن عبد مناف کے حلیف تھے.غزوہ بدر اور احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں آنحضور صلی الی کمی کے ساتھ شامل تھے.629 اے گروہ یہود ا تم خود ہمارے سامنے اس رسول کا تذکرہ کیا کرتے تھے b مدینہ میں یہود کا ایک وفد آپ صلی للی کم سے ملنے کے لئے آیا تو آنحضرت صلی ا ہم نے انہیں تبلیغ کی جس کا انہوں نے کھلے طور پر انکار کیا.اس پر جن صحابہ نے انہیں اس کھلے انکار پر ملامت کی ان میں حضرت عقبہ بن وہب بھی شامل تھے.چنانچہ یہ واقعہ اس طرح ملتا ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی علیکم کے پاس نعمان بن أضاء بحری بن عمرو اور شائس بن عدی آئے.آپ صلی علیہم نے ان سے بات چیت کی اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا، اسلام کی دعوت دی.اور اس کے عذاب سے انہیں ڈرایا جس پر انہوں نے کہا کہ اے محمد ( صلی علیہ ) ہمیں آپ کس بات سے ڈراتے ہیں؟ ہم تو اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں.جس طرح نصاری نے کہا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی وَ قَالَتِ اليَهُودُ وَالنَّصْرِى نَحْنُ ابْنَةُ اللهِ وَاحِباؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرَ مِمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ (المائدة: 19) اور یہود اور نصاریٰ نے کہا کہ ہم اللہ کی اولاد ہیں اور اس کے محبوب ہیں.تو کہہ دے پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی وجہ سے عذاب کیوں دیتا ہے.نہیں بلکہ تم ان میں سے ہو جن کو اس نے پیدا کیا محض بشر ہو.وہ جسے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے.اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور اس کی بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اور آخر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے.ابن اسحاق کے مطابق رسول اللہ صلی علی ایم نے جب یہود کے گروہ کو قبول اسلام کی دعوت دی اور انہیں اس کی طرف ترغیب دلائی اور غیر اللہ کے معاملہ میں اللہ کی سزا کے متعلق انہیں ڈرایا تو انہوں نے نہ صرف آپ صلی اللہ ان کا بلکہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم کا انکار کیا.اس پر حضرت معاذ بن جبل، حضرت سعد بن عبادۃ اور حضرت عقبہ بن وہب نے انہیں کہا اے گروہ یہود اللہ تعالیٰ سے ڈرو.اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ وہ رسول اللہ ہیں.تم خود ہمارے سامنے ان کی بعثت سے پہلے اس کا تذکرہ کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے ان کی صفات بیان کیا کرتے تھے اس پر رافع بن محتر یملہ اور وہب بن یہوزا نے کہا کہ ہم

Page 296

اصحاب بدر جلد 5 280 نے تو تمہیں یہ نہیں کہا.اور نہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی کتاب نازل کی ہے نہ کرنی ہے.اور نہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے بعد کوئی بشارت دینے والا اور نہ ہی کوئی ڈرانے والا بھیجا ہے نہ بھیجنا ہے.630 گویا کہ وہ لوگ صاف مکر گئے حالانکہ توریت میں یہ پیشگوئیاں موجود ہیں.یہی حال آجکل کے بعض مسلمان علماء کا ہے جو مسیح موعود کو ماننے سے انکاری ہیں.پہلے آنے کا شور مچاتے تھے اب کہتے ہیں کسی نے نہیں آنا.631 240 نام و نسب جنت میں بغیر حساب کے جانے والے حضرت عکاشہ بن محصن عرب کا بہترین شہسوار رسول الله علی ای ایم نے لکڑی دی جو لوہے کی تلوار بن گئی آنحضرت علی الم کے ایک صحابی حضرت عکاشہ بن محصن تھے.حضرت عکاشہ بن محصن کا شمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے.آپ بدر کے موقع پر گھوڑے پر سوار ہو کر شامل ہوئے.اس دن آپ کی تلوار ٹوٹ گئی.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے آپ کو ایک لکڑی دی تو وہ آپ کے ہاتھ میں گویا نہایت تیز اور صاف لوہے کی تلوار بن گئی اور آپ اسی سے لڑے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے فتح عطا فرمائی.پھر اسی تلوار کے ساتھ رسول اللہ صلی الی یکم کے ہمراہ تمام غزوات میں شامل ہوئے اور یہ لکڑی کی تلوار وفات تک آپ کے پاس ہی تھی.اس تلوار کا نام عون تھا.رسول اللہ لی ایم نے ان کو بشارت دی تھی کہ تم جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو گے.غزوہ بدر کے موقع پر رسول اکرم صلی علیم نے صحابہ سے فرمایا کہ عرب کا بہترین شہسوار ہمارے ساتھ شامل ہے.صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ وہ کون شخص ہے ؟ فرمایا عکاشہ بن محصن عکاشہ تم پر سبقت لے گیا 632 633 حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سنا آپ نے فرمایا کہ میری امت سے ایک گروہ جنت میں داخل ہو گا.وہ ستر ہزار ہوں گے اور ان کے چہرے چودہویں رات

Page 297

اصحاب بدر جلد 5 281 کے چاند کی طرح روشن ہوں گے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عکاشہ بن محصن اپنی چادر اٹھاتے ہوئے کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنادے.تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اے اللہ ! اسے بھی ان میں شامل کر دے.پھر انصار میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کی یارسول اللہ صلی علیکم اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے.تو رسول اللہ صلی امام نے فرمایا کہ سَبَقَكَ بِهَا عُکاشہ کہ عکاشہ اس بارے میں تجھ پر سبقت لے گیا ہے.634 اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اپنی سیرت کی کتاب میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی علیم کی مجلس میں ذکر ہوا کہ میری اُمت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے.یعنی وہ ایسے روحانی مرتبہ پر فائز ہوں گے کہ ان کے لئے خدائی فضل و کرم اس قدر جوش میں ہو گا کہ ان کے حساب کتاب کی ضرورت نہیں ہو گی.اور آپ مئی الی یکم نے یہ بھی فرمایا کہ ان لوگوں کے چہرے قیامت کے دن اس طرح چمکتے ہوں گے جس طرح چودہویں رات کا چاند آسمان پر چمکتا ہے.اس پر حضرت عکاشہ نے عرض کیا کہ میرے لئے بھی دعا کریں اور آپ نے دعا کی کہ ان کو بھی ان میں شامل کر دے.اس پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بڑے خوبصورت رنگ میں اس کی تفسیر بیان کی ہے اور تجزیہ کیا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ آنحضرت علی ایم کی مجلس کا یہ ایک بظاہر چھوٹا سا واقعہ اپنے اندر بہت سے معارف کا خزانہ رکھتا ہے.کیونکہ اول تو اس سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ اُمت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا اس فضل و کرم ہے اور آنحضرت صلی علیکم کا روحانی فیض اس کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ آپ کی اُمت میں سے ستر ہزار آدمی ایسا ہو گا جو اپنے نمایاں روحانی مقام اور خدا کے خاص فضل و کرم کی وجہ سے گویا قیامت کے دن حساب و کتاب کی پریشانی سے بالا سمجھا جائے گا.ستر ہزار سے یہ بھی مراد لی جاتی ہے کہ ایک بڑی تعداد ہو گی.دوسرے اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آنحضرت صلی علیہ ہم کواللہ تعالیٰ کے دربار میں ایسا قرب حاصل ہے کہ آپ کی روحانی توجہ پر خدا تعالیٰ نے فور ابذریعہ کشف یا القاء آپ کو یہ علم دے دیا کہ عکاشہ بھی اس ستر ہزار کے گروہ میں شامل ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ عکاشہ پہلے اس گروہ میں شامل نہ ہو مگر آپ کی دعا کے نتیجہ میں خدا نے اسے یہ شرف عطا کر دیا ہو.تیسرے اس واقعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آنحضرت صلی علیہ کو اللہ تعالی کا اس درجہ ادب ملحوظ تھا اور آپ اپنی امت میں جدو جہد کے عمل کو اس درجہ ترقی دینا چاہتے تھے کہ جب عُکاشہ کے بعد ایک دوسرے شخص نے آپ سے اسی قسم کی دعا کی درخواست کی تو آپ نے اس اخص روحانی مقام کے پیش نظر جو اس پاک گروہ کو حاصل ہے مزید انفرادی دعا سے انکار کر دیا اور مسلمانوں کو تقویٰ اور ایمان اور درجه

Page 298

اصحاب بدر جلد 5 282 عمل صالح میں ترقی کرنے کی طرف توجہ دلائی.اور یہ بتایا کہ اگر اس طرف توجہ رہے گی تو تمہیں مقام مل سکتا ہے.چوتھے اس سے آپ کے اعلیٰ اخلاق پر یعنی آنحضرت صلی علی نام کے اعلیٰ اخلاق پر بھی غیر معمولی روشنی پڑتی ہے.کیونکہ آپ صلی اللہ ہم نے انکار ایسے رنگ میں نہیں کیا جس سے سوال کرنے والے انصاری کی دل شکنی ہو بلکہ ایک نہایت لطیف رنگ میں اس بات کو ٹال دیا.635 مختلف سر ایا میں امیر بنایا جانا حضرت نبی کریم صلی ال نیلم نے حضرت عُکاشہ کو مختلف سرایا میں ، جنگوں میں جو فوجیں بھیجی جاتی تھیں ان میں امیر بنا کر بھیجا.رسول اللہ صلی علی ایم نے ربیع الاول چھ ہجری میں حضرت عُکاشہ کو چالیس مسلمانوں کا افسر بنا کر قبیلہ بنی اسد کے مقابلے پر روانہ فرمایا.یہ قبیلہ ایک چشمہ کے قریب ڈیرہ ڈالے پڑا تھا جس کا نام غمر تھا جو مدینہ سے مکہ کی سمت میں چند دن کے فاصلے پر تھا.شکلشہ کی پارٹی جلدی جلدی سفر کر کے قریب پہنچی تا کہ انہیں شرارت سے روکا جائے تو معلوم ہوا کہ قبیلے کے لوگ مسلمانوں کی خبر پا کر ادھر اُدھر منتشر ہو گئے تھے.اس پر خکلشہ اور ان کے ساتھی مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی.یعنی جو الزام لگایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کو یا مسلمانوں کو جنگوں کا خاص شوق تھا.لیکن ان لوگوں نے ان سے بلاوجہ کی جنگ ہونے کی بھی کوشش نہیں کی.636 عکاشہ کار سول اللہ صلی کم سے بدلہ لینے کے لئے کھڑا ہونا.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی الم پر سورۃ النصر نازل ہوئی تو آپ مکئی ایم نے حضرت بلال کو اذان دینے کا حکم دیا.نماز کے بعد آپ صلی علیم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جسے سن کر لوگ بہت روئے.پھر آپ صلی سلیم نے پوچھا: اے لوگو میں کیسا نبی ہوں ؟ اس پر ان لوگوں نے کہا اللہ آپ کو جزا دے.آپ سب سے بہترین نبی ہیں.آپ ہمارے لئے رحیم باپ کی طرح اور شفیق اور نصیحت کرنے والے بھائی کی طرح ہیں.آپ نے ہم تک اللہ کے پیغام پہنچائے اور اس کی وحی پہنچائی اور حکمت اور اچھی نصیحت سے ہمیں اپنے رب کے راستے کی طرف بلایا.پس اللہ آپ کو بہترین جزا دے جو وہ اپنے انبیاء کو دیتا ہے.پھر آپ صلی علیکم نے فرمایا: اے مسلمانوں کے گروہ ! میں تمہیں اللہ کی اور تم پر اپنے حق کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر کسی پر میری طرف سے کوئی ظلم یازیادتی ہوئی ہو تو وہ کھڑا ہو اور میرے سے بدلہ لے.مگر کوئی کھڑا نہ ہوا.آپ صلی علیم نے دوسری بار قسم دے کر کہا مگر کوئی کھڑا نہ ہوا.آپ نے تیسری بار پھر فرمایا کہ اے مسلمانوں کے گروہ !میں تمہیں اللہ اور تم پر اپنے حق کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر کسی پر میری طرف سے کوئی ظلم یا زیادتی ہوئی ہو تو وہ اٹھے اور قیامت کے

Page 299

اصحاب بدر جلد 5 283 دن کے بدلہ سے پہلے میرے سے بدلہ لے.اس پر لوگوں میں سے ایک بوڑھے شخص کھڑے ہوئے جن کا نام عُکاشہ تھا.آپ مسلمانوں میں سے ہوتے ہوئے آگے آئے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی الی یکم کے روبرو کھڑے ہو گئے اور عرض کی.یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان.اگر آپ نے بار بار قسم نہ دی ہوتی تو میں ہر گز کھڑا نہ ہوتا.حضرت عکاشہ کہنے لگے.میں آپ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا جس سے واپسی پر میری اونٹنی آپ کی اونٹنی کے قریب آگئی تو میں اپنی سواری سے اتر کر آپ کے قریب آیا تا کہ آپ کے پاؤں کو بوسہ دوں.مگر آپ نے اپنی چھڑی ماری جو میرے پہلو میں لگی.مجھے نہیں معلوم کہ وہ چھڑی آپ نے اونٹنی کو ماری تھی یا مجھے.اس پر آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا اللہ کے جلال کی قسم کہ خد ا کار سول جان بوجھ کر تجھے نہیں مار سکتا.پھر آپ نے حضرت بلال کو مخاطب کر کے فرمایا اے بلال! فاطمہ کی طرف جاؤ.حضرت فاطمہ کے گھر میں اور اس سے وہ چھڑی لے آؤ.حضرت بلال گئے اور حضرت فاطمہ سے عرض کی کہ اے رسول اللہ صلی الیکم کی صاحبزادی! مجھے چھڑی دے دیں.اس پر حضرت فاطمہ نے کہا اے بلال! میرے والد اس چھڑی کے ساتھ کیا کریں گے ؟ کیا یہ جنگ کے دن کی بجائے حج کا دن نہیں.اس پر حضرت بلال نے کہا کہ اے فاطمہ آپ اپنے باپ رسول اللہ صلی اللہ کم سے کتنی بے خبر ہیں.رسول اللہ صلی للی یکم لوگوں کو الوداع کہہ رہے ہیں اور دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور اپنا بدلہ دے رہے ہیں.اس پر حضرت فاطمہ نے حیرانگی سے پوچھا اے بلال! کس کا دل کرے گا کہ وہ رسول اللہ صلی علیم سے بدلہ لے.پھر حضرت فاطمہ نے کہا کہ اے بلال حسن اور حسین سے کہو کہ وہ اس شخص کے سامنے کھڑے ہو جائیں کہ وہ ان دونوں سے بدلہ لے لے اور وہ اس کو رسول اللہ صلی علی ظلم سے بدلہ نہ لینے دیں.پس حضرت بلال مسجد آئے اور رسول اللہ صلی علیکم کو چھڑی پکڑا دی اور آپ نے وہ چھڑی عُکاشہ کو پکڑائی.جب حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ نے یہ منظر دیکھا تو وہ دونوں کھڑے ہو گئے اور کہا اے عکاشہ !ہم تمہارے سامنے کھڑے ہیں.ہم سے بدلہ لے لو اور رسول اللہ صلی ال کم کو کچھ نہ کہو.رسول اللہ صلی العلیم نے ان دونوں سے فرمایا: اے ابو بکر اور عمر رک جاؤ.اللہ تم دونوں کے مقام کو جانتا ہے.اس کے بعد حضرت علی کھڑے ہوئے اور کہا اے عکاشہ ! میں نے اپنی ساری زندگی رسول اللہ صلی اللی کم کے ساتھ گزاری ہے اور میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ تم رسول اللہ صلی علیکم کو مارو.پس یہ میرا جسم ہے میرے سے بدلہ لے لو اور بیشک مجھے سو بار مارو مگر رسول اللہ صلی للی یکم سے بدلہ نہ لو.اس پر رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا اے علی بیٹھ جاؤ.اللہ تمہاری نیست اور مقام کو جانتا ہے.اس کے بعد حضرت حسن اور حسین کھڑے ہوئے اور کہا اے عکاشہ !ہم رسول اللہ صلی علیم کے نواسے ہیں اور ہم سے بدلہ لینار سول اللہ صلی اللی کم سے بدلہ لینے کے جیسا ہی ہے.آپ نے ان دونوں سے فرمایا: اے میرے پیار و! بیٹھ جاؤ.اس کے بعد آپ نے فرمایا اے عکاشہ مارو.

Page 300

اصحاب بدر جلد 5 284 حضرت عکاشہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی ال مہ جب آپ نے مجھے مارا تھا تو اس وقت میرے پیٹ پر کپڑا نہیں تھا.اس پر آپ صلی للی یکم نے اپنے پیٹ پر سے کپڑا اٹھایا.اس پر مسلمان دیوانہ وار رونے لگ گئے اور کہنے لگے کیا عکاشہ واقعی رسول اللہ صلی علی ایم کو مارے گا ؟ مگر جب حضرت عُکاشہ نے آپ صلی ا یکم کے بدن کی سفیدی دیکھی تو دیوانہ وار لپک کر آگے بڑھے اور آپ کے بدن کو چومنے لگے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس کا دل گوارا کر سکتا ہے کہ وہ آپ سے بدلہ لے.اس پر آپ صلی علی کرم نے فرمایا: یا بدلہ لینا ہے یا معاف کرنا ہے.اس پر حضرت عُکاشہ نے عرض کی یارسول اللہ ! میں نے معاف کیا اس امید پر کہ اللہ قیامت کے دن مجھے معاف فرمادے.اس صلى الل ولم نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جو جنت میں میر اساتھی دیکھنا چاہتا ہے وہ اس بوڑھے می گو دیکھ لے.پس مسلمان اٹھے اور حضرت عُکاشہ کا ماتھا چومنے لگے اور ان کو مبارکباد دینے لگے کہ تو نے بہت بلند مقام اور نبی صلی علیکم کی رفاقت کو پالیا.7 یہ تھے حضرت عکاشہ کہ انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کہ آنحضرت صلی اللہ ہم تو اپنی واپسی کی خبریں سنا رہے ہیں اور اب پتہ نہیں کبھی موقع ملتا ہے کہ نہیں ملتا.انہوں نے کہا کہ زندگی میں یہ موقع ہے کہ آپ کے جسم کو نہ صرف چوموں بلکہ بوسہ دوں.637 حضرت عکاشہ کی شہادت حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ کی خلافت میں حضرت خالد بن ولید کے ساتھ حضرت عُکاشه مرتدین کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوئے.عیسیٰ بن عمیلہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید لوگوں کے مقابلے پر روانہ ہوتے وقت اگر اذان سنتے تو حملہ نہ کرتے اور اگر اذان نہ سنتے تو حملہ کر دیتے.جب آپ رضی اللہ عنہ اس قوم کی طرف پہنچے جو برائہ مقام پر تھی تو آپ نے حضرت عُکاشہ بن محصن اور حضرت ثابت بن اقرم کو مخبر بنا کر بھیجا کہ دشمن کی خبر لائیں.وہ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے.حضرت عکاشہ کے گھوڑے کا نام الرزام تھا اور حضرت ثابت کے گھوڑے کا نام المحبر.ان دونوں کا سامنا طلیحہ اور اس کے بھائی سلمہ سے ہوا جو مسلمانوں کی مخبری کرنے کے لئے لشکر سے آگے آئے ہوئے تھے.طلیحہ کا سامنا حضرت عکاشہ سے ہوا اور سلمہ کا سامنا حضرت ثابت سے ہوا اور ان دونوں بھائیوں نے ان دونوں اصحاب کو شہید کر دیا.ابو واقد اللیثی بیان کرتے ہیں کہ ہم دو سو سوار ار لشکر کے آگے آگے چلنے والے تھے ہم ان مقتولوں، حضرت ثابت اور حضرت عکاشہ کے پاس کھڑے رہے یہانتک کہ حضرت خالد آئے اور ان کے حکم سے ہم نے حضرت ثابت اور حضرت عکاشہ کو ان کے خون آلود کپڑوں میں ہی دفن کر دیا.یہ واقعہ 12 ہجری کا ہے.اس طرح ان کی شہادت ہوئی.638 ان کا نام عکاشہ تھا.مخصن بن حرثمان ولدیت تھی.ابو محصن ان کی کنیت تھی.حضرت ابو بکر

Page 301

اصحاب بدر جلد 5 285 رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بارہ ہجری میں ان کی شہادت ہوئی.640 639 امام شعبی نے عکاشہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ ایک شخص تھا جو کہ جنتی تھا مگر پھر بھی زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتا تھا اور وہ عکاشہ بن محصن تھے.دو ہجری میں غزوہ بدر کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن جحش کو ایک مہم پر روانہ فرمایا.اس سر یہ میں حضرت عکاشہ بن محصن بھی شامل تھے.641 سیرت حلبیہ میں ہے کہ غزوۂ احد کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اپنے کمان سے تیر اندازی فرماتے رہے جس کا نام گنوم تھا کیونکہ اس سے تیر اندازی کے وقت کوئی آواز نہیں پیدا ہوتی تھی.آخر مسلسل تیر اندازی کی وجہ سے اس کمان کا ایک حصہ ٹوٹ گیا.ایک روایت میں یوں ہے کہ تیر یہاں تک کہ آپ کی اس کمان کا ایک سر اٹوٹ گیا جس میں تانت باندھی جاتی ہے.غرض مسلسل تیر چلانے سے وہ کمان ٹوٹ گئی.آپ کے ہاتھ میں کمان کی بالشت بھر ڈوری باقی رہ گئی.حضرت عکاشہ بن محصن نے کمان کی ڈوری باندھنے کے لیے وہ آپ سے لی مگر وہ ڈور چھوٹی پڑ گئی اور انہوں نے آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ ڈور چھوٹی پڑ گئی ہے.آپ نے فرمایا اسے کھینچو پوری ہو جائے گی.حضرت عکاشہ کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم ! جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے میں نے ڈور کھینچی تو وہ کھینچ کر اتنی لمبی ہو گئی کہ میں نے اس سے کمان کے سر پر دو تین بل بھی دیے اور اطمینان سے اس کو باندھ دیا.642 ایک روایت ہے کہ چھ ہجری میں عیبہ بن حضن نے غطفان کے گھڑ سواروں کے ساتھ غائبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ دینے والی اونٹنیوں پر حملہ کیا.یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ چرا کرتے تھے.چراگاہ تھی.غابہ میں بنو غفار کا ایک مرد اور ایک عورت بھی رہتے تھے.دشمنوں نے حملہ کر کے مرد کو قتل کر دیا اور عورت کو اونٹنیوں کے ساتھ لے گئے.اس واقعہ سے سب سے پہلے باخبر ہونے والے حضرت سلمہ بن اکو منع تھے.وہ صبح کے وقت غابہ کے لیے نکلے اور ان کے ساتھ حضرت طلحہ بن عبید اللہ کا غلام اور اس کے ساتھ گھوڑا تھا.جب وہ ثنية الوداع مقام پر چڑھے تو انہوں نے حملہ آوروں کے بعض گھوڑے دیکھے تو سلع پہاڑ کی ایک جانب سے اوپر چڑھے اور پیچھے اپنے لوگوں کو مدد کے لیے پکارا.پھر حملہ آور جماعت کے تعاقب میں یہ شکاری جانور کی مانند تیزی سے نکلے یہاں تک کہ ان لوگوں کو جالیا اور ان پر تیر برسانے شروع کر دیے.جب بھی گھڑ سوار اُن کی طرف متوجہ ہوتے تو حضرت سلمہ بھاگ جاتے اور واپس لوٹتے اور جب موقع ملتا تو وہ تیر برساتے.جب اس واقعہ کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے بھی مدینہ میں اعلان کیا کہ خطرہ ہے.گھڑ سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے لگے.ان گھڑ سواروں میں حضرت عکاشہ بن محصن اور دیگر صحابہ شامل تھے.اس معرکہ میں حضرت عکاشہ بن محصن نے اوبار اور اس کے

Page 302

اصحاب بدر جلد 5 286 بیٹے عمر و بن اوبار کو جالیا.وہ دونوں ایک اونٹ پر سوار تھے.حضرت عکاشہ نے ان کو ایک نیزے میں ہی پر ودیا اور دونوں کو قتل کر دیا اور چھینی ہوئی بعض اونٹنیاں واپس لے آئے.643 241 ایک ابتدائی اور جانثار صحابی حضرت عمار بن یاسر آنحضرت صلی علیکم کے ایک ابتدائی اور جانثار صحابی حضرت عمار بن یاسر تھے.ان کے والد حضرت یاسر قحطانی نسل کے تھے.یمن ان کا اصل وطن تھا.اپنے دو بھائیوں حارث اور مالک کے ساتھ مکہ میں اپنے ایک بھائی کی تلاش میں آئے تھے.حارث اور مالک یمن واپس چلے گئے مگر حضرت یا سر مکہ میں ہی رہائش پذیر ہو گئے اور ابو حذیفہ مخزومی سے حلیفانہ تعلق قائم کیا.ابو حذیفہ نے اپنی لونڈی حضرت سمیہ سے ان کی شادی کروادی جن سے حضرت عمار پیدا ہوئے.الله سة ابو حذیفہ کی وفات تک حضرت عمار اور حضرت یاسر ان کے ساتھ رہے.جب اسلام آیا تو حضرت یاسر، حضرت سمیہ اور حضرت عمار اور ان کے بھائی حضرت عبد اللہ بن یاسر ایمان لے آئے.حضرت عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ میں حضرت صہیب بن سنان سے دارِ ار قم کے دروازے پر ملا.رسول اللہ صلی علیکم دارِ ارقم میں تھے.میں نے صہیب سے پوچھا تم کس ارادے سے آئے ہو ؟ تو صہیب نے کہا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ میں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ محمد صلی علیہ نیم کے پاس جا کر ان کا کلام سنوں.صہیب نے کہا میرا بھی یہی ارادہ ہے.حضرت عمار کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے ہمیں اسلام کے بارے میں بتایا.ہم نے اسلام قبول کر لیا.ہم شام تک وہاں رہے.پھر ہم چھپتے ہوئے دارار تم سے باہر آئے.حضرت عمار اور حضرت صہیب نے جس وقت اسلام قبول کیا تھا اس وقت تھیں سے زائد افراد اسلام قبول کر چکے تھے.644 صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت عمار بن یاسر نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی للی کم کو اس وقت دیکھا تھا جب آپ کے ساتھ صرف پانچ غلام اور دو عور تیں اور حضرت ابو بکر صدیق تھے.15- حضرت مصلح موعود ان صحابہ کے بارے میں ایک جگہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : مکہ کے چوٹی کے خاندانوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے کئی لوگوں کو خدمت کی توفیق دی اور غرباء 645

Page 303

اصحاب بدر جلد 5 287 میں سے بھی کئی لوگوں نے اسلام کی شاندار خدمات سر انجام دیں.چنانچہ دیکھ لو حضرت علی چوٹی کے خاندان میں سے تھے.حضرت حمزہ چوٹی کے خاندان میں سے تھے.حضرت عمرؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے.حضرت عثمان چوٹی کے خاندان میں سے تھے.اس کے بالمقابل حضرت زید اور حضرت بلال اور سمرۃ اور خباب ، صہیب اور عامر اور عمارا بوفگیکہ یہ چھوٹے سمجھے جانے والوں میں سے تھے.گویا بڑے لوگوں میں سے بھی قرآن کریم کے خادم چنے گئے اور چھوٹے لوگوں میں سے بھی قرآن کریم کے خادم چنے گئے.16 جانثار ماں بیٹا جنہیں خدا کی راہ میں بہت تکالیف دی گئیں 646 64711 648 آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ : " حضرت سمیہ ایک لونڈی تھیں.ابو جہل ان کو سخت دکھ دیا کرتا تھا تاکہ وہ ایمان چھوڑ دیں لیکن جب ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ ہوئی " ان کے ایمان کو کوئی ہلانہ سکا تو ایک دن ناراض ہو کر ابو جہل نے ان کی شرمگاہ میں نیزہ مارا اور انہیں شہید کر دیا.حضرت عمار جو شمیہ کے بیٹے تھے انہیں بھی تپتی ریت پر لٹایا جاتا اور انہیں سخت دکھ دیا جاتا." عروہ بن زبیر یہ روایت کرتے ہیں تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت عمار بن یاسر مکہ میں ان کمزور لوگوں میں سے تھے جنہیں اس لئے تکلیف دی جاتی تھی کہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں.محمد بن عمر کہتے ہیں کہ مُسْتَضْعَفِین یعنی کمزور لوگ جو تھے ، قرآن کریم میں جن کمزوروں اور بے بس لوگوں کا ذکر آیا ہے، یہ وہ لوگ تھے جن کے مکہ میں قبائل نہ تھے اور نہ ان کا کوئی محافظ تھا نہ انہیں کوئی قوت تھی.قریش ان لوگوں پر دو پہر کی تیز گرمی میں تشدد کرتے تھے تاکہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں.48 اسی طرح عمر بن الحکم کہتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر ، حضرت صہیب، حضرت ابوفکیه " پر اتنا ظلم کیا جاتا تھا کہ ان کی زبان سے وہ باتیں جاری ہو جاتی تھیں جن کو وہ حق نہیں سمجھتے تھے لیکن دشمن ظلم کر کے ان کے منہ سے وہ باتیں نکلوا لیتے تھے.9 اسی طرح روایت میں ہے محمد بن کعب قرظی بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک شخص نے بتایا کہ اس نے حضرت عمار بن یاسر کو ایک پاجامہ پہنے ہوئے دیکھا تھا.اس نے کہا کہ میں نے حضرت عمار کی پشت پر ورم اور زخموں کے نشان دیکھے.میں نے کہا یہ کیا ہے ؟ تو حضرت عمار نے بتایا کہ یہ اس ایڈا کے نشان ہیں جو قریش مکہ دو پہر کی سخت دھوپ میں مجھے دیتے تھے.650 عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ مشرکین نے حضرت عمار کو آگ سے جلایا.رسول اللہ صلی الی یوم حضرت عمار کے پاس سے گزرے تو ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا يُنَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَمًا عَلَى عمار كَمَا كُنْتِ عَلَى إِبْرَاهِيم - اے آگ تو ابراہیم کی طرح عمار پر بھی ٹھنڈک اور سلامتی والی ہو جا.651 اے آل عمار ! خوش ہو جاؤ یقینا تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے 649 پھر روایت میں آتا ہے حضرت عثمان بن عفان بیان کرتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی ال ولیم مکہ کی

Page 304

288 اصحاب بدر جلد 5 وادی میں جارہے تھے.رسول اللہ صلی علیکم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا.ہم ابو عمار ، عمار اور ان کی والدہ کے پاس آئے.ان کو تکالیف دی جارہی تھیں.حضرت یا سر نے کہا کیا ہمیشہ اسی طرح ہو تا رہے گا؟ آپ نے حضرت یا سر سے فرمایا صبر کرو.اور پھر آپ نے یہ دعا بھی کی کہ اے اللہ ! آل یاسر کی مغفرت فرما اور یقینا تُو نے ایسا کر دیا ہے.652 یعنی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی ا م کو بتا دیا تھا کہ ان کی مغفرت ہو گئی جس شدت کے تنگ حالات سے یہ گزر رہے تھے.ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی الی یوم آل عمار کے پاس سے گزرے ان کو تکلیف دی جارہی تھی آپ نے فرمایا اے آل عمار !خوش ہو جاؤ یقینا تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے.53 ایک روایت میں ہے آل یا سر کے پاس سے گزرے.654 سب سے پہلے اسلام کا اظہار کرنے والے سات افراد 653 حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ سب سے پہلے اسلام کا اظہار کرنے والے سات افراد تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر اور حضرت عمار اور ان کی والدہ حضرت سمیہ ، حضرت صہیب ، حضرت بلال اور حضرت مقداد.رسول اللہ صلی علیم کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے ان کے چچا ابو طالب کے ذریعہ سے کروائی اور حضرت ابو بکر کی ان کی قوم کے ذریعہ سے.یہ جو روایتوں میں تعداد کے لحاظ سے آتا ہے اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ پہلے آیا ہے کہ تھیں آدمی اس وقت تک اسلام قبول کر چکے تھے جب حضرت عمار نے بیعت کی لیکن بہر حال ان کی روایت یہ ہے کہ یہ لوگ تھے یا یہ ایسے لوگ تھے جو سامنے زیادہ تھے اور جن کو تکلیفیں زیادہ دی جاتی تھیں.بہر حال یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کی ان کی قوم کے ذریعہ سے حفاظت ہوئی اور جو باقی بچے انہیں مشرکین نے پکڑ لیا.وہ انہیں لوہے کی زرہیں پہناتے اور دھوپ میں تپنے کے لئے چھوڑ دیتے.ان میں سوائے بلال کے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اُن کی خواہش کے مطابق نہ چلا ہو.بلال نے تو اپنی ذات کو اللہ کے لئے فنا کر دیا تھا.انہیں ان کی قوم کی وجہ سے ذلیل کیا جاتا تھا.قریش انہیں بچوں کے حوالے کر دیتے اور وہ انہیں مکہ کی گلیوں میں لئے پھرتے اور وہ احد احد کہتے جاتے تھے.655 رسول الله على علم حضرت عمار کی آنکھوں سے آنسو پونچھنے لگے حضرت عمار کو مشرکین پانی میں غوطے دے کر تکلیف دیا کرتے تھے.یعنی سرپانی میں ڈالتے تھے، مارتے تھے.باقی تکلیفیں تو تھیں ہی.وہی ٹارچر جو آجکل بھی دنیا میں اپنے مخالفین کو دیا جاتا ہے یا بعض حکومتیں بھی اپنے ملزمان کو دیتی ہیں.لیکن بہر حال اس سے بڑا ٹارچر ان کو دیا جاتا تھا.ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم حضرت عمار کو ملے.اس وقت حضرت عمار رورہے تھے.رسول اللہ صلی علیکم حضرت عمار کی آنکھوں سے آنسو پونچھنے لگے اور کہنے لگے تمہیں کفار نے پکڑ لیا تھا.پھر پانی

Page 305

اصحاب بدر جلد 5 289 میں غوطے دیتے تھے اور تم نے فلاں فلاں بات کہی تھی.اگر وہ دوبارہ تمہیں کریں تو تم ان سے وہی بات کہنا.656 اے آل یاسر صبر کا دامن نہ چھوڑنا ہ...اس کی تفصیل سیرت خاتم النبیین میں اور روایتوں کے حوالے سے بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ عمار اور ان کے والد یا سر اور ان کی والدہ سمیہ کو بنی مخزوم جن کی غلامی میں سمیہ کسی وقت رہ چکی تھیں اتنی تکالیف دیتے تھے کہ ان کا حال پڑھ کر بدن میں لرزہ پڑنے لگتا ہے.ایک دفعہ جب ان فدایانِ اسلام کی جماعت کسی جسمانی عذاب میں مبتلا تھی اتفاقاً آنحضرت صلی علی یم بھی اس طرف آنکلے.آپ نے ان کی طرف دیکھا اور درد مند لہجے میں فرمایا.صبرًا أَلَ يَاسِرِ فَإِنَّ مَوْعِدَ كُمُ الْجَنَّةِ.اے آل یاسر (صبر کر ) صبر کا دامن نہ چھوڑنا کہ خدا نے تمہاری انہی تکلیفوں کے بدلہ میں تمہارے لئے جنت تیار کر رکھی ہے.آخر یا سر تو اسی عذاب کی حالت میں جاں بحق ہو گئے اور بوڑھی سمیہ کی ران میں ظالم ابو جہل نے اس بے دردی سے نیزہ مارا کہ وہ ان کے جسم کو کاٹتا ہوا ان کی شرمگاہ تک جا نکلا اور اس بے گناہ خاتون نے اسی جگہ تڑپتے ہوئے جان دے دی.اب صرف باقی عمار رہ گئے تھے.ان کو بھی ان لوگوں نے انتہائی عذاب اور دکھ میں مبتلا کیا اور ان سے کہا کہ جب تک محمد صلی علیم کا کفر نہ کرو گے اسی طرح عذاب دیتے رہیں گے.چنانچہ آخر عمار نے سخت تنگ آکر کوئی نازیبا الفاظ منہ سے کہہ دیئے جس پر کفار نے انہیں چھوڑ دیا.لیکن اس کے بعد عمار فوراً آنحضرت صلی ای کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور زار زار رونے لگے.آپ نے پوچھا کیوں عمار کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا یارسول اللہ میں ہلاک ہو گیا.مجھے ظالموں نے اتنا دکھ دیا کہ میں نے آپ کے متعلق کچھ ایسے الفاظ منہ سے کہہ دیئے جو غلط تھے.آپ نے فرمایا تم اپنے دل کا کیسا حال پاتے ہو ؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میرا دل تو اسی طرح مومن ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں اسی طرح سرشار ہے.آپ نے فرمایا تو پھر خیر ہے خدا تمہاری اس لغزش کو معاف کرے.657 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب " چشمہ معرفت " میں ایک ہندو پر کاش دیوجی کی کتاب سے ، جو انہوں نے "سوانح عمری حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم" کے نام سے لکھی تھی، چند عبارتیں تحریر فرمائی ہیں.ایک تو آپ نے جماعت کو اس وقت نصیحت کی تھی کہ یہ کتاب خرید و اور پڑھو ایک غیر مسلم کی لکھی ہوئی ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ " وہ عبارتیں برہمو صاحب کی کتاب کی خلاصہ کے طور پر یہاں لکھی جاتی ہیں 658 اور وہ یہ ہیں.یہ تحریر فرمایا کہ: "حضرت کے اوپر " یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم "جو ظلم ہو تا تھا اسے جس طرح بن پڑتا تھا وہ

Page 306

اصحاب بدر جلد 5 290 برداشت کرتے تھے مگر اپنے رفیقوں کی مصیبت دیکھ کر ان کا دل ہاتھ سے نکل جاتا تھا." اپنے ظلم تو آنحضرت صلی للی کم برداشت کر لیتے تھے لیکن اپنے ساتھیوں کا ظلم آپ کو بڑا تکلیف دیتا تھا " اور بیتاب ہو جاتا تھا.ان غریب مومنوں پر ظلم و ستم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا.لوگ ان غریبوں کو پکڑ کر جنگل میں لے جاتے اور برہنہ کر کے جلتی تپتی ریت میں لٹا دیتے اور ان کی چھاتیوں پر پتھر کی سلیں رکھ دیتے.وہ گرمی کی آگ سے تڑپتے.مارے بوجھ کے زبان باہر نکل پڑتی.بہتیروں کی جانیں اس عذاب سے نکل گئیں.انہی مظلوموں میں سے ایک شخص عمارؓ تھا جسے اس حوصلہ اور صبر کی وجہ سے جو اس نے ظلموں کی برداشت میں ظاہر کیا." پھر آپ لکھتے ہیں کہ " حضرت عمار کہنا چاہئے.ان کی مشکیں باندھ کر اسی پتھر یلی تپتی زمین پر لٹاتے تھے اور ان کی چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ محمد کو گالیاں دو اور یہی حال ان کے بڑھے باپ کا کیا گیا.ان کی مظلوم بی بی سے جس کا نام سمیہ تھا یہ ظلم نہ دیکھا گیا اور وہ عاجزانہ فریاد زبان پر لائی.اس پر وہ بے گناہ ایماندار عورت جس کی آنکھوں کے روبرو اس کے شوہر اور جوان بچے پر ظلم کیا جاتا تھا برہنہ کی گئی اور اسے سخت بے حیائی سے ایسی تکلیف دی گئی جس کا بیان کرنا بھی داخل شرم ہے.آخر اس عذاب شدید میں تڑپ تڑپ کر اس ایماندار بی بی کی جان نکل گئی.تو یہ خلاصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ہندو کی کتاب میں سے بیان کیا جو اس نے آنحضرت صلی علم کی سیرت کے بارے میں اور آپ کے صحابہ کے بارے میں لکھی تھی.سفیان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمار وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنے گھر میں عبادت کے لئے مسجد بنائی تھی.مدینہ ہجرت اور مواخات 660 65911 661 حضرت عمار بن یاسر مدینہ ہجرت کر کے آئے تو حضرت مبشر بن عبد المنذر کے ہاں قیام کیا.آنحضرت صلی علیہم نے حضرت حذیفہ بن الیمان اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ کی مؤاخات قائم فرمائی اور رسول اللہ صلی علی کلم نے حضرت عمار کی سکونت کے لئے ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا.11 عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں ابو سلمہ اور ام سلمہ نے ہجرت کی اور حضرت عمار بن یاسر چونکہ ان کے حلیف تھے اس لئے وہ بھی ان کے ہمراہ چلے گئے.حضرت عمار بن یاسر حضرت ام سلمہ کے رضاعی بھائی بھی تھے.662 نبی سلیم نے عمار کے سر سے غبار پونچھا اور فرمایا کہ افسوس! باغی گروہ انہیں مار ڈالے گا عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے ان سے اور اپنے بیٹے علی بن عبد اللہ سے کہا کہ حضرت ابوسعید خدری کے پاس جاؤ اور ان کی بات سنو.ہم ان کے پاس آئے اور وہ اور ان کا بھائی اپنے

Page 307

اصحاب بدر جلد 5 291 ایک باغ میں تھے جسے وہ پانی دے رہے تھے.جب انہوں نے ہمیں دیکھا تو وہ آئے اور گوٹھ مار کر بیٹھ گئے.(چوکڑی مار کے بیٹھ گئے ) اور انہوں نے کہا ہم مسجد نبوی بنتے وقت اینٹیں ایک ایک کر کے لاتے تھے اور عمار بن یاسر دو دو اینٹیں اٹھا کر لاتے تھے.نبی صلی علی کرم ان کے پاس سے گزرے اور آپ صلی اہلیہ کلم نے ان کے سر سے یعنی عمار کے سر سے غبار پونچھا اور فرمایا کہ افسوس ! باغی گروہ انہیں مار ڈالے گا.عمار ان کو اللہ کی طرف بلا رہا ہو گا اور وہ اس کو آگ کی طرف بلا رہے ہوں گے.663 الله سة حضرت عمار یہ دعا کیا کرتے تھے کہ میں فتنوں سے اللہ تعالی کی پناہ میں آتا ہوں.664 عبد الله بن ابی ھکیل سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی الیکم نے اپنی مسجد بنائی تو ساری قوم اینٹ پتھر ڈھور ہی تھی اور نبی کریم صلی الی یوم اور حضرت عمار بھی ڈھو رہے تھے.حضرت عمار یہ رجز پڑھ رہے تھے که نَحْنُ الْمُسْلِمُونَ نَبْتَنِي الْمَسَاجِدَا - کہ ہم مسلمان ہیں جو مسجدیں بناتے ہیں.رسول اللہ صلی علیہ کم بھی فرماتے تھے.المَسَاجِدا یعنی ساتھ آپ بھی دہرایا کرتے تھے.حضرت عمار اس سے قبل بیمار بھی تھے.بعض لوگوں نے کہا کہ آج عمار ضرور مر جائیں گے کیونکہ کام بہت زیادہ کر رہے ہیں اور بیماری سے اٹھے ہیں کمزوری بھی بہت ہے.رسول اللہ صلی علیم نے یہ سن کر حضرت عمار کے ہاتھ سے اینٹیں گرا دیں.665 اور آپ نے ان سے کہا تم آرام کرو.تو انتہائی کمزوری کی حالت میں بھی خدمت سے یہ لوگ محروم نہیں رہنا چاہتے تھے.حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا.666 بیعت رضوان اور تمام غزوات میں شامل 667 حضرت عمار بن یاسر غزوہ بدر اور اُحد اور خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ رہے.آپ بیعت رضوان میں بھی شریک تھے.بیعت رضوان وہ بیعت ہے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر ہوئی جب آنحضرت صلی ا ہم نے حضرت عثمان کو بطور سفیر کے بات کرنے کے لئے مکہ میں بھیجا تو اس وقت انہوں نے، کفار نے ، ان کو روک لیا اور مسلمانوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے.اس پر آنحضرت صلی علیکم نے مسلمانوں کو ایک کیکر کے نیچے اکٹھا کیا، جمع کیا اور آپ نے فرمایا کہ آج میں تم سب سے ایک عہد لینا چاہتا ہوں کہ کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا لیکن یہاں سے نہیں ہٹے گا.یہ جگہ نہیں چھوڑے گا.اس اعلان پر کہا جاتا ہے کہ صحابہ بیعت یا عہد کے لئے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے.جب بیعت ہو رہی تھی تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ کریم نے اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر رکھا اور فرمایا یہ ہاتھ عثمان کا ہاتھ ہے کیونکہ اگر وہ ہوتے تو پیچھے نہ رہتے.بہر حال بعد میں یہ خبر غلط نکلی.حضرت عثمان آگئے.لیکن مسلمانوں نے اس وقت یہ بیعت کی تھی، عہد کیا تھا کہ ہم اپنی جان پر کھیل جائیں گے لیکن اس کا بدلہ ضرور لیں گے کہ ایک سفیر کو، حضرت 668

Page 308

اصحاب بدر جلد 5 292 عثمان کو ، جو سفیر کے طور پر گئے تھے ان کو انہوں نے شہید کیا ہے یا قتل کیا ہے.مسجد قباء سب سے پہلی مسجد جو بنائی گئی ایک روایت میں ہے حضرت حکم بن عتیبہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی یکم جب مدینہ تشریف لائے تو چاشت کے وقت وہاں پہنچے تھے.حضرت عمار نے کہا کہ رسول اللہ صلی علیم کے لئے کوئی ایسی جگہ بنانی چاہئے جہاں آپ چھاؤں میں بیٹھ سکیں.آرام کر سکیں اور نماز پڑھیں.چنانچہ حضرت عمار نے چند پتھر جمع کئے اور مسجد قبا کی بنیاد ڈالی.یہ سب سے پہلی مسجد ہے جو بنائی گئی اور حضرت عمار نے اس 669 کو بنایا.حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے جنگ یمامہ میں حضرت عمار کو دیکھا کہ وہ ایک بلند چٹان پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو پکار رہے تھے.بڑے بہادر تھے کہ اے مسلمانوں کے گروہ! کیا تم جنت سے بھاگ رہے ہو.میں عمار بن یاسر ہوں.آؤ میرے پاس آؤ.حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ ان کا ایک کان کٹ پر کا تھا اور ہل رہا تھا لیکن آپ لڑائی میں مصروف تھے.670 طارق بن شہاب کہتے ہیں اسی کٹے ہوئے کان کے حوالے سے بنو تمیم کے ایک شخص نے عمار کو اجدع یعنی کان کٹا ہوا ہونے کا طعنہ دیا.حضرت عمار نے اسے کہا کہ تو نے میرے بہترین کان کو برا بھلا کہا ہے.671 یعنی وہ کان جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرتے ہوئے قربان ہو ا تم اس کو برا کہہ رہے ہو اس کا طعنہ مجھے دے رہے ہو یہ تو میرا بہترین کان ہے.رسول اللہ صل الم نے فرمایا جو عمار سے دشمنی رکھے گا اللہ اس سے دشمنی رکھے گا حضرت خالد بن ولید بیان کرتے ہیں کہ میرے اور حضرت عمار کے درمیان کچھ گفتگو ہوئی اور میں نے ان کو کوئی سخت بات کہہ دی.حضرت عمار بن یاسر میری شکایت کرنے کے لئے نبی کریم صلی علیکم کے پاس گئے.میں بھی وہاں پہنچ گیا.اس وقت وہ نبی کریم صلی علیکم کو میری ہی شکایت کر رہے تھے.وہاں بھی میں سختی سے پیش آیا.نبی کریم صلی للی کم خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور کوئی بات نہیں فرمارہے تھے.حضرت عمار رونے لگے اور عرض کی یارسول اللہ صلی ال یکم آپ خالد کی حالت نہیں دیکھتے.رسول اللہ صلی اللہ کریم نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا جو عمار سے دشمنی رکھے گا اللہ اس سے دشمنی رکھے گا اور جو شخص عمار سے بغض رکھتا ہے اللہ اس سے بغض رکھے گا.حضرت خالد بن ولید بیان کرتے ہیں کہ اس وقت مجھے دنیا میں اس بات سے زیادہ کوئی بات محبوب نہ تھی کہ کسی طرح حضرت عمار مجھ سے راضی ہو جائیں.حضرت خالد کہتے ہیں کہ میں حضرت عمار سے ملا اور ان سے معافی مانگی.پس وہ راضی ہو گئے.اس کی تفصیل ایک جگہ اس طرح بیان ہوئی ہے.آشتر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت خالد بن ولید کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی العلیم نے مجھے ایک سریہ پر بھیجا.(ایک جنگ میں ایک فوج بھیجی 672

Page 309

293 اصحاب بدر جلد 5 تھی) میرے ہمراہ حضرت عمار بن یاسر بھی تھے.اس مہم کے دوران ہم ایسے لوگوں کے پاس پہنچے جن میں ایک گھرانے نے اسلام کا ذکر کیا.حضرت عمار نے کہا یہ لوگ توحید کے ماننے والے ہیں.لیکن میں نے ان کی بات کی جانب کوئی توجہ نہ دی اور ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو دوسرے لوگوں کے ساتھ کیا.حضرت عمار مجھے ڈراتے رہے کہ میں رسول اللہ صلی علیکم سے ملاقات میں یہ بات عرض کروں گا.پھر حضرت عمار رسول اللہ صلی الی یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری بات بتائی.پھر جب حضرت عمار نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی الله علم ان کی مدد نہیں کر رہے یعنی خاموش تھے تو اس حالت میں واپس لوٹ گئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.حضرت خالد کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یم نے مجھے بلوا کر فرمایا کہ اے خالد ! عمار کو برابھلا مت کہو کیونکہ جو عمار کو برا بھلا کہتا ہے اللہ اس کو برا بھلا کہنے کا بدلہ دیتا ہے اور جو عمار سے بغض رکھتا ہے اللہ اس سے بغض رکھتا ہے اور جو عمار کو بیوقوف کہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بیوقوف کہتا ہے.673 حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی علیم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت عمار بن یاسر نے 675 آنے کی اجازت مانگی.نبی صلی الی یکم نے اجازت دی اور فرمایا پاک اور پاکیزہ شخص خوش آمدید.674 یہ اعزاز تھا جو آنحضرت صلی ا م نے آپ کو بخشا.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا کہ عمار کو جب بھی دو باتوں میں سے کسی ایک کو کرنے کا اختیار دیا جاتا تو اسی بات کو اختیار کرتا ہے جس میں رشد اور ہدایت زیادہ ہو.15 حضرت عمر و بن بیشتر خینیل بیان کرتے ہیں کہ رسل اللہ صلی علیم نے فرمایا عمار بن یاسر کے رگ وپا میں ایمان سرایت کئے ہوئے ہے.676 یعنی مکمل طور پر ایمان میں ڈوبے ہوئے ہیں.حضرت عمار بن یاسر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پناہ دی ہوئی ہے.ابراہیم نے علقمہ سے روایت کی.انہوں نے کہا کہ میں شام میں آیا.لوگوں نے کہا حضرت ابو در دائر کہتے تھے کہ کیا تم میں سے وہ شخص تھا جس کو اللہ نے شیطان سے بچائے رکھا جس طرح اس کے نبی صلی ا یکم نے اپنی زبان سے فرمایا ہے یعنی حضرت عمار کے بارے میں.حاطب بن بلتعہ کا خفیہ خط اور......677 آنحضرت صلی اللہ ہم نے جب مکہ پر چڑھائی کرنے کی تیاری فرمائی تو اس مہم کو پوشیدہ رکھا اور باوجود اس کے کہ صحابہ اس مہم کی تیاری کر رہے تھے لیکن یہ عام نہیں تھا کہ مکہ پر چڑھائی کی جارہی ہے.اس موقع پر ایک بدری صحابی حاطب بن ابی بلتعہ نے اپنی سادگی اور نادانی میں مکہ سے آئی ہوئی ایک عورت کے ہاتھ ایک خفیہ خط مکہ روانہ کر دیا جس میں مکہ پر حملہ کرنے کی ساری تیاریوں کا ذکر کر دیا.وہ عورت خط لے کر چلی گئی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ ہم کو اس کی خبر دے دی.چنانچہ آپ صلی ایم نے حضرت علی مودو تین افراد کے ساتھ جن میں حضرت عمار بن یاسر بھی شامل تھے اس عورت کا پیچھا کرنے اور وہ خط لینے کے

Page 310

اصحاب بدر جلد 5 294 الله سة لئے روانہ فرمایا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرماتے ہیں کہ "سارہ نام ایک عورت جو کہ مکہ میں رہتی تھی اور خاندان بنی ہاشم کے زیر سایہ پرورش پایا کرتی تھی ان ایام میں جبکہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے فتح مکہ کے واسطے کوچ کی تیاری کی آپ صلی علی ایم کے پاس مدینہ میں آئی.آنحضرت صلی علیہ کم نے اس سے پوچھا کہ کیا تو مسلمان ہو کر مکہ سے بھاگ آئی ہے.اس نے جواب دیا کہ نہیں میں مسلمان ہو کر نہیں آئی بلکہ بات یہ ہے کہ میں اس وقت محتاج ہوں اور آپ صلی علیم کا خاندان ہمیشہ میری پرورش کیا کرتا ہے اس واسطے میں آپ کے پاس آئی ہوں تا کہ مجھے کچھ مالی امداد مل جائے.اس پر آنحضرت صلی علیکم نے بعض لوگوں کو فرمایا اور انہوں نے اس کو کچھ کپڑا اور روپیہ وغیرہ دیا جس کے بعد وہ واپس اپنے وطن کو روانہ ہو گئی.جب روانہ ہونے لگی تو حاطب نے جو کہ اصحاب میں سے تھا اس کو دس درہم دیئے اور کہا کہ میں تجھے ایک خط دیتا ہوں.یہ خط اہل مکہ کو دے دینا.اس بات کو اس نے قبول کیا اور وہ خط بھی لے گئی.اس خط میں حاطب نے اہل مکہ کو خبر کی تھی کہ آنحضرت صلی اہلیہ کلم نے مکہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا ہے تم ہو شیار ہو جاؤ.وہ عورت ہنوز مدینہ سے روانہ ہی ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اہل علم کو بذریعہ وحی الہی خبر مل گئی کہ وہ ایک خط لے کر گئی ہے.چنانچہ آپ نے اسی وقت حضرت علی کو بمعہ عمار اور ایک جماعت کے روانہ کر دیا کہ اس کو پکڑ کر اس سے خط لے لیں اور اگر نہ دے تو اسے ماریں.چنانچہ اس جماعت نے اس کو راہ میں جا پکڑا.اس نے انکار کیا اور قسم کھائی کہ میرے پاس کوئی خط نہیں جس پر حضرت علی نے تلوار کھینچ لی اور کہا کہ ہم کو جھوٹ نہیں کہا گیا.بذریعہ وحی الہی کے یہ خبر ملی ہے.خط ضرور تیرے پاس ہے.تلوار کے ڈر سے اس نے خط اپنے سر کے بالوں میں سے نکال دیا.جب خط آگیا اور معلوم ہوا کہ وہ حاطب کی طرف سے ہے تو حاطب بلایا گیا.آنحضرت صلی علیکم نے اس سے پوچھا کہ یہ تونے کیا کیا؟ اس نے کہا مجھے خدا کی قسم ہے جب سے میں ایمان لایا ہوں کبھی کافر نہیں ہوا.بات صرف اتنی ہے کہ مکہ میں میرے قبائل کا کوئی حافی اور خبر گیر نہیں.میں نے اس خط سے صرف یہ فائدہ حاصل کرنا چاہا تھا کہ کفار میرے قبائل کو دکھ نہ دیں.حضرت عمرؓ نے چاہا کہ حاطب کو قتل کر دیں مگر آنحضرت صلی اللہ تم نے منع کیا اور فرمایا اللہ تعالی نے حاب بدر پر خوشنودی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کر وجو بھی ہو میں نے تمہیں بخش دیا.تو یہ غلطی ان کی نادانستگی میں تھی.نیت مسلمانوں کو نقصان پہنچانا نہیں تھا.حضرت عمار بن یاسر کوفہ کے حاکم 67811 حضرت عمرؓ نے حضرت عمار بن یاسر کو ایک دفعہ کوفے کا والی بنایا اور اہل کوفہ کے نام حسب ذیل فرمان جاری فرمایا کہ: اما بعد میں عمار بن یا سر کو امیر اور ابن مسعودؓ کو معلم اور وزیر مقرر کر کے بھیجتا ہوں.بیت المال کا انتظام بھی ابن مسعودؓ کے سپر د کیا ہے.یہ دونوں حضرت محمد صلی علیم کے ان معزز اصحاب میں سے ہیں جو غزوہ بدر میں شریک تھے.اس لئے ان دونوں کی فرمانبرداری اور اطاعت اور پیروی کرو.میں نے ابن ام عبد (حضرت عبد اللہ بن مسعود ) کے بارے میں تمہیں اپنے اوپر ترجیح دی ہے.میں نے عثمان بن محنّیف کو السواد ( عراق کا علاقہ جس کو بیان کیا گیا ہے کہ اس کی سرسبزی اور

Page 311

اصحاب بدر جلد 5 295 679 شادابی کی وجہ سے سواد کہا جاتا ہے) پر مامور کر کے بھیجا ہے.پھر اہل کوفہ کی شکایت کی وجہ سے حضرت عمرؓ نے حضرت عمار بن یاسر کو معزول کر دیا.ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے بعد میں ان سے پوچھا کہ کیا ہمارا تمہیں معزول کرنا نا گوار تو نہیں گزرا تھا ؟ حضرت عمار نے کہا کہ آپ نے کہا ہے، پوچھ لیا ہے تو مجھے تو اس وقت بھی ناگوار معلوم ہو ا تھا.اچھا نہیں لگا تھا جب آپ نے مجھے عامل بنایا تھا لیکن بنا دیا تھا.اطاعت تھی اس لئے میں بن گیا.اور اس وقت بھی ناگوار گزرا ہے جب مجھے معزول کیا گیا.0 ناگوار بیشک گزرا لیکن بولے نہیں اور ہٹنے پر بھی کامل اطاعت کی یہاں تک کہ جب حضرت عمر 680 نے خود پوچھا ہے تو پھر جو دل میں تھا جو سچائی تھی وہ بیان کر دیا.حضرت عثمان کے خلاف فتنہ اور حضرت عمار بن یاسر حضرت عثمان کے خلاف فتنہ پھیلانے والے منافقین اور باغیوں نے جب مدینہ میں شورش برپا کی تو بد قسمتی سے اپنی سادگی کی وجہ سے حضرت عمار بن یاسر بھی ان کے جھانسے میں آگئے، دھو کہ میں آگئے گو کہ عملی طور پر انہوں نے کسی بھی قسم کا ان کا ساتھ نہیں دیا تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اس بارے میں فرماتے ہیں کہ "صرف تین شخص مدینہ کے باشندے ان لوگوں کے ساتھ تھے.ایک تو محمد بن ابی بکر جو حضرت ابو بکر کے لڑکے تھے اور مورخین کا خیال ہے کہ وہ بوجہ اس کے کہ لوگ ان کے باپ کے سبب ان کا ادب کرتے تھے ان کو خیال پیدا ہو گیا تھا کہ میں بھی کوئی حیثیت رکھتا ہوں ورنہ نہ ان کو دنیا میں کوئی سبقت حاصل تھی، نہ رسول کریم صلی علیم کی صحبت حاصل تھی، نہ بعد میں ہی خاص طور پر دینی تعلیم حاصل کی.حجۃ الوداع کے ایام میں پیدا ہوئے اور رسول کریم صلی علی کم کی وفات کے وقت ابھی دودھ پیتے بچے تھے.چوتھے سال ہی میں تھے کہ حضرت ابو بکر فوت ہو گئے اور اس بے نظیر انسان کی تربیت سے بھی فائدہ اٹھانے کا ان کو موقع نہیں ملا.دوسرا شخص محمد بن ابی حذیفہ تھا.یہ بھی صحابہ میں سے نہ تھا.اس کے والد یمامہ کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے اور حضرت عثمان نے اس کی تربیت اپنے ذمہ لے لی تھی اور بچپن سے آپ نے اسے پالا تھا.جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو اس نے آپ سے کوئی عہدہ طلب کیا.آپ نے انکار کیا.اس پر اس نے اجازت چاہی کہ میں کہیں باہر جا کر کوئی کام کروں.آپ نے اجازت دے دتی اور یہ مصر چلا گیا.وہاں جا کر عبد اللہ بن سبا کے ساتھیوں سے مل کر حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کو بھڑ کا نا شروع کیا.جب اہل مصر مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو یہ ان کے ساتھ ہی آیا مگر کچھ دور تک آکر واپس چلا گیا اور اس فتنہ کے وقت مدینہ میں نہیں تھا.تیسرے شخص عمار بن یاسر تھے.یہ صحابہ میں سے تھے اور اور فتنہ مد ان کے دھوکہ کھانے کی وجہ یہ تھی " حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے " کہ یہ سیاست یہ سے باخبر نہ تھے "سیاست بالکل نہیں آتی تھی " جب حضرت عثمان نے ان کو مصر بھیجا کہ وہاں کے والی کے انتظام کے متعلق رپورٹ کریں تو عبد اللہ بن سبانے ان کا استقبال کر کے ان کے خیالات کو مصر کے گورنر

Page 312

296 اصحاب بدر جلد 5 کے خلاف کر دیا اور چونکہ وہ گورنر ایسے لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ایام کفر میں رسول کریم صلی یی کم کی سخت مخالفت کی تھی اور فتح مکہ کے بعد اسلام لایا تھا اس لئے آپ بہت جلد ان لوگوں کے قبضے میں آگئے " یعنی یہ گورنر کیونکہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ کم کی مخالفت کر چکا تھا اور آنحضرت صلی علیہ ظلم سے جو محبت تھی اس کی وجہ سے ان لوگوں نے، مخالفین نے ، حضرت عثمان کے اور گورنر کے خلاف جو باتیں کیں تو آپ ان لوگوں کی باتوں میں آگئے اور سمجھا کہ یہ پہلے ہی مخالفت کر چکا ہے تو اب بھی شاید اس کے دل نے صحیح طرح اسلام قبول نہیں کیا اور یہ ایسی حرکتیں کرتا ہو گا.بہر حال "والی کے خلاف بد ظنی پیدا کرنے کے بعد آہستہ آہستہ حضرت عثمان پر بھی انہوں نے ان کو بد ظن کر دیا مگر انہوں نے عملاً فساد میں کوئی حصہ نہیں لیا کیونکہ باوجود اس کے کہ مدینہ پر حملہ کے وقت یہ مدینہ میں موجود تھے سوائے اس کے کہ اپنے گھر میں خاموش بیٹھے رہے ہوں اور ان مفسدوں کا مقابلہ کرنے میں انہوں نے کوئی حصہ نہ لیا ہو عملی طور پر انہوں نے فساد میں کوئی حصہ نہیں لیا." یہ ہے ان کی کمزوری کہ مدینہ میں ہونے کے باوجود مفسدوں کے خلاف کوئی حصہ نہیں لیا.ان کو روکا نہیں.لیکن عملاً انہوں نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا " اور ان مفسدوں کی بد اعمالیوں سے ان کا دامن " اس لحاظ سے بالکل پاک ہے."" " 681 حضرت علی کے زمانہ خلافت میں حضرت عمار بن یاسر حضرت علی کے زمانہ خلافت میں حضرت عمار بن یاسر حضرت علی کے ہمراہ رہے اور ان کے ساتھ جنگ جمل اور جنگ صفین میں شریک ہوئے.ابو عبد الرحمن السلمی کہتے ہیں کہ جنگ صفین میں ہم حضرت علی کے ساتھ تھے.میں نے حضرت عمار بن یاسر کو دیکھا کہ وہ جس طرف بھی جاتے یا جس طرف بھی رُخ کرتے نبی کریم صلی علیہ یکم کے اصحاب ان کے پیچھے جاتے گویا وہ ان کے لئے ایک جھنڈے 682 کے طور پر تھے.عبد اللہ بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ صفین میں میں نے حضرت عمار بن یاسر کو دیکھا.( یہ وہ جنگ ہے جو حضرت علی اور امیر معاویہ، جو شام کا گورنر تھا، ان کے درمیان ہوئی تھی.کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا) آپ بوڑھے ہو چکے تھے.عبد اللہ بن سلمہ بیان کرتے ہیں.طویل القامت تھے.آپ کا رنگ گندم گوں تھا.حضرت عمار کے ہاتھ میں نیزہ تھا آپ کا ہاتھ کانپ رہا تھا.حضرت عمار نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں نے اس نیزے کے ہمراہ رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ تین جنگیں لڑی ہیں.یہ چوتھی جنگ ہے.اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر یہ لوگ ہمیں مار مار کر ھجر کی کھجور کی شاخوں تک پسپا کر دیں تب بھی میں یہی سمجھوں گا کہ ہم حق پر ہیں اور یہ لوگ غلطی پر ہیں.683 ابوالبختری کہتے ہیں کہ جنگ صفین کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر نے کہا کہ میرے پینے کے لئے دودھ لاؤ کیونکہ رسول اللہ صلی الی یکم نے مجھے فرمایا تھا کہ تم دنیا میں جو آخری مشروب پیو گے وہ دودھ ہو گا.چنانچہ دودھ لایا گیا.حضرت عمار نے دودھ پیا اور پھر آگے بڑھ کر لڑتے ہوئے شہید ہو گئے.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت عمار کے پاس دودھ لایا گیا تو حضرت عمار بنسے اور کہا کہ 684

Page 313

اصحاب بدر جلد 5 297 مجھ سے رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا تھا کہ سب سے آخری مشروب جو تم پیو گے وہ دودھ ہو گا.(خوشی تھی کہ آج میں اس حالت میں شہید ہو رہا ہوں ) 685 حضرت عمار بن یاسر نے جنگ صفین کے موقع پر فرمایا.جنت تلواروں کی چمک کے نیچے ہے اور پیاسا چشمہ پر پہنچ جائے گا.آج میں اپنے پیاروں سے ملوں گا.آج میں محمد صلی علی کم اور آپ کے گروہ سے ملوں گا.686 عبد الرحمن بن أبزی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر نے صفین کی طرف جاتے ہوئے دریائے فرات کے کنارے یہ کہا کہ اے اللہ! اگر مجھے معلوم ہو تا کہ تجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں اپنے آپ کو اس پہاڑ سے نیچے پھینک دوں تو میں ایسا کر گزرتا اور اگر مجھے یہ معلوم ہو تا کہ تیری خوشنودی اس میں ہے کہ میں یہاں بہت بڑی آگ جلا کر اس میں اپنے آپ کو گرادوں تو میں ایسا ہی کرتا.اے اللہ ! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تیری خوشنودی اس میں ہے کہ میں اپنے آپ کو پانی میں گرادوں اور اس میں اپنے آپ کو غرق کر دوں تو میں یہی کرتا.میں صرف تیری رضا کی خاطر یہ جنگ کر رہاہوں.میں چاہتا ہوں کہ تو مجھے ناکام نہ کرنا اور میں صرف تیری رضا ہی چاہتا ہوں." 687 حضرت عمار کی شہادت حضرت عمار بن یاسر کو ابو غادِیه مزنی نے شہید کیا تھا اس نے انہیں ایک نیزہ مارا جس سے وہ گر پڑے.پھر ایک اور شخص نے حضرت عمار پر حملہ کر کے ان کا سر کاٹ لیا اور پھر یہ دونوں جھگڑتے ہوئے معاویہ کے پاس آئے.ہر شخص کہتا تھا کہ میں نے انہیں قتل کیا ہے.حضرت عمرو بن عاص نے کہا ( یہ اس وقت معاویہ کے ساتھ تھے ، صحابی تھے لیکن اس وقت یہ بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے بہر حال معاویہ کے پاس تھے لیکن نیکی تھی جو اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے) حضرت عمرو بن العاص نے کہا کہ اللہ کی قسم دونوں صرف آگ کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں.(یعنی انہوں نے حضرت عمار کو جو شہید کیا ہے اور ہر ایک جو کہتا ہے دعویٰ کر رہا ہے کہ میں نے شہید کیا ہے تو تم دونوں صرف آپ کے بارے میں جھگڑ رہے ہو ) حضرت معاویہؓ نے حضرت عمر و بن عاص کی یہ بات سن لی.جب دونوں شخص واپس چلے گئے تو معاویہ نے حضرت عمر و بن عاص سے کہا کہ جیسا تم نے کہا ہے میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا.لوگوں نے ہمارے لئے اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں اور تم ان دونوں سے یہ بات کر رہے ہو کہ تم آگ کے بارے میں جھگڑ رہے ہو.حضرت عمر نے کہا کہ اللہ کی قسم !بات تو ایسی ہی ہے اللہ کی قسم اتم بھی اسے جانتے ہو اور مجھے تو یہ پسند ہے کہ میں اس سے ہمیں سال پہلے ہی مر گیا ہوتا اور یہ موقع نہ آتا کہ جب ہم اس طرح لڑیں.688 حضرت عمار کی وفات حضرت علی کے عہد خلافت میں یعنی جنگ صفین میں صفر 37 ہجری میں 94

Page 314

اصحاب بدر جلد 5 298 سال کی عمر میں ہوئی.بعضوں کے نزدیک 93 سال یا 91 سال عمر ہے.حضرت عمار بن یاسر کی تدفین صفین میں ہی ہوئی.689 يحيى بن عابس بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمار بن یا سر کو شہید کیا گیا اس وقت انہوں نے کہا کہ مجھے میرے کپڑوں میں دفن کرنا کیونکہ میں داد خواہ ہوں گا.حضرت علی نے حضرت عمار کو ان کے کپڑوں میں ہی دفن کیا.690 ابو اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت علی نے حضرت عمار بن یاسر اور ہاشم بن عقبہ کی نماز جنازہ پڑھائی.حضرت عمار کو آپ نے اپنے قریب رکھا اور ہاشم کو ان کے آگے اور دونوں پر ایک ہی مرتبہ پانچ یا چھ یا سات تکبیریں کہیں.691 تو یہ تھے وہ صحابہ جنہوں نے حق کے لئے لڑائی کی اور حق کے لئے جان دی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.692 عمار بن یاسر وہ شخص تھے جن سے آنحضرت ملا ہم نے ہمیشہ محبت کی حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت عمرو بن عاص نے کہا کہ رسول اللہ صلی امینی کیم جس شخص سے اپنی وفات کے دن تک محبت کرتے رہے ہوں مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اسے دوزخ میں ڈال دے گا.لوگوں نے کہا کہ ہم دیکھتے تھے کہ آنحضرت صلی یی کم تم سے محبت کرتے تھے اور تم کو عامل ل بناتے تھے.حضرت عمر و بن عاص نے کہا کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ صلی علی کرم مجھ سے محبت کرتے تھے یا میری تالیف قلب فرماتے تھے.لیکن ہم آپ کو ایک شخص سے محبت کرتے دیکھتے تھے.لوگوں نے کہا کہ وہ کون شخص ہے ؟ حضرت عمر و بن عاص نے کہا کہ عمار بن یاسر وہ شخص تھے جن سے آنحضرت صلی اللہ ہم نے ہمیشہ محبت کی.لوگوں نے اس بات کو سن کے کہا کہ جنگ صفین میں تم لوگوں نے ہی تو انہیں شہید کیا تھا.حضرت عمرو بن عاص اس وقت امیر معاویہ کی طرفداری میں تھے.تو حضرت عمرو بن عاص نے کہا کہ اللہ کی قسم !ہم نے ہی انہیں قتل کیا ہے.ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ میں دو آدمیوں کے متعلق گواہ ہوں کہ رسول اللہ صلی یکم اپنی وفات تک ان سے محبت کرتے تھے وہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور حضرت عمار بن یاسر تھے.693 ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمار بن یاسر کو شہید کر دیا گیا تو عمرو بن حزم حضرت عمرو بن عاص کے پاس آئے اور کہا کہ عمار کو شہید کر دیا گیا ہے اور میں نے رسول اللہ صلی علیم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس کو باغی گروہ شہید کرے گا.تو حضرت عمرو گھبر اگر اٹھے اور حضرت معاویہ کے پاس گئے.حضرت معاویہ نے پوچھا کہ خیریت تو ہے ؟ انہوں نے کہا

Page 315

اصحاب بدر جلد 5 299 کہ حضرت عمار بن یاسر" کو شہید کر دیا گیا ہے.حضرت معاویہ نے پوچھا کہ عمارڑ کو شہید کر دیا گیا ہے تو پھر کیا ہوا ؟ حضرت عمرو نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی یم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس کو باغی گروہ قتل کرے گا اور معاویہ نے کہا کہ کیا ہم نے اس کو شہید کیا ہے ؟ ان کو تو حضرت علیؓ نے اور ان کے ساتھیوں نے مروایا ہے جنہوں نے ان کو لا کر ہمارے نیزوں کے سامنے یا ہماری تلواروں کے سامنے 694 ڈال دیا ہے.بہر حال حضرت عمرو بن عاص میں ایک تو نیکی تھی جو اُن کو فکر پیدا ہوئی لیکن امیر معاویہ نے اس کو اتنی اہمیت نہیں دی.بہر حال صحابہ کو بڑی فکر ہوا کرتی تھی جب ان کو کوئی روایت پہنچتی تھی یا خود انہوں نے کبھی سنا ہو کہ آنحضرت صلی علی یکم نے کسی بارے میں انذار فرمایا ہے یا کوئی خوشخبری دی.حضرت عائشہ نے حضرت عمار کے متعلق فرمایا کہ "وہ ایڑھیوں سے لے کر اپنے سر کی چوٹی تک ایمان سے بھرے ہوئے تھے."695 حضرت خباب حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ قریب ہو جاؤ.اس مجلس کا آپ سے زیادہ کوئی حقدار نہیں سوائے عمار کے.پھر حضرت خباب حضرت عمرؓ کو اپنی کمر کے زخموں کے نشان دکھانے لگے جو انہیں مشرکین نے پہنچائے تھے.696 حضرت عمران کی عزت افزائی فرما رہے تھے کیونکہ انہوں نے ابتدائی زمانے میں بہت تکلیفیں اٹھائیں اور ساتھ ہی حضرت عمار کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے بھی بہت زیادہ تکلیفیں اٹھائیں.ایک روایت حضرت عمارہ کی حضرت علی کی شہادت کے بارے میں بھی ہے جو آنحضرت صلی ایم کی پیشگوئی سے متعلق ہے.حضرت عمار بن یاسر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ غزوہ ذات العشیرہ میں میں اور حضرت علی رفیق سفر تھے.جب رسول اللہ صلی علی یم نے ایک مقام پر اپنا پڑاؤ ڈالا.ہم نے بنو مد ینج کے کچھ لوگوں کو دیکھا جو اپنے باغات کے چشموں میں کام کر رہے تھے.حضرت علی مجھ سے کہنے لگے کہ آؤ ان لوگوں کے پاس چل کر دیکھتے ہیں کہ یہ کسی طرح کام کرتے ہیں.چنانچہ ہم ان کے قریب چلے گئے.تھوڑی دیر تک ہم نے ان کے کام کو دیکھا پھر ہمیں نیند آگئی.چنانچہ میں اور حضرت علی واپس آگئے اور ایک باغ میں مٹی کے اوپر ہی لیٹ گئے.اللہ کی قسم ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی علی کرم نے ہی آکر اٹھا یایا جگایا.آپ ہمیں پاؤں سے ہلا رہے تھے اور ہم مٹی سے لت پت ہو چکے تھے.اس دن رسول اللہ صلی علیہ یکم نے حضرت علی سے فرمایا کہ اے ابو تراب! اس مٹی کی وجہ سے جو اُن پر نظر آرہی تھی آپ نے ان کو ابو تراب کہا.آپ صلی للہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ان دو آدمیوں کے متعلق نہ بتاؤں جو لوگوں میں سب سے زیادہ بد بخت ہیں.ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا ایک تو قوم محمود کا وہ سرخ و سفید آدمی جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں اور دوسر اوہ آدمی اے علی جو تمہارے سر پر وار کرے گا اور تمہاری داڑھی کو خون سے تر کر دے گا.697

Page 316

اصحاب بدر جلد 5 رسول اللہ ایم کی ایک دعا 300 ابو مجلز کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمار بن یاسر نے مختصر سی نماز پڑھی.ان سے کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو حضرت عمار نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی الی ایم کی نماز میں سر مو بھی فرق نہیں کیا 698 اس روایت کی ایک تفصیل اس طرح بھی ملتی ہے.ابو مجلز کے حوالے سے ہی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمار بن یاسر نے ہمیں بہت مختصر نماز پڑھائی.لوگوں کو اس پر تعجب ہوا.حضرت عمار نے کہا کہ کیا میں نے رکوع اور سجود مکمل نہیں کئے ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں.حضرت عمار نے کہا کہ میں نے اس میں ایک دعا کی ہے جو رسول اللہ صلی لی کم مانگا کرتے تھے اور وہ دعا یہ ہے کہ اللهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِى أَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وَكَلِمَةَ الْحَقِّ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا وَالْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ وَ الْغِلَى وَلَنَّةُ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ وَمِن فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ.اللَّهُمَّ زَيَّنَّا بِزِينَةِ الْإِيْمَانِ وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مَهْدِيين کہ اے اللہ ! غیب کا علم تجھے ہی ہے اور تمام مخلوق پر تیری قدرت ہی حاوی ہے.تو مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک تیرے علم میں میری زندگی میرے لئے بہتر ہے اور مجھے اس وقت وفات دے جب موت میرے لئے بہتر ہو.اے اللہ ! میں غیب اور حاضر میں تجھ سے تیری خشیت کا طلبگار ہوں اور غضب اور رضا کی حالت میں کلمہ حق کہنے کی طاقت مانگتا ہوں اور تنگدستی اور فراخی میں میانہ روی اختیار کرنے اور تیرے چہرے پر پڑنے والی لذت والی نظر اور تیری لقا کا شوق تجھ سے مانگتا ہوں اور میں کسی تکلیف دہ امر اور گمراہ کر دینے والے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں.اے اللہ ! ہمیں ایمان کی خوبصورتی کے ساتھ مزین کر دے اور ہمیں ہدایت پانے والے لوگوں کے لئے رہنما بنادے.699 یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمار بن یاسر ہر جمعہ کو منبر پر سورۃ یسین کی تلاوت کرتے 700 701 حارث بن سوید کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت عمر کے پاس حضرت عمار کی چغلی کھائی، شکایت کی.حضرت عمار تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور کہا اے اللہ ! اگر اس شخص نے مجھ پر جھوٹا افترا کیا ہے تو اس کو دنیا میں کشائش عطا کر اور اس کی آخرت لپیٹ دے.ابو نوفل بن ابی عقرب کہتے ہیں کہ حضرت عمار بن یا سر سب سے زیادہ سکوت کرنے والے اور سب سے کم کلام کرنے والے تھے.وہ کہا کرتے تھے کہ میں فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں.میں فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں.702 خَيْثَمه بن ابی سبرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے کسی نیک آدمی کی

Page 317

اصحاب بدر جلد 5 301 صحبت میسر فرما.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت ابو ہریرۃ کی صحبت میسر فرمائی.حضرت ابوہریرۃ نے مجھ سے پوچھا کہ تم کن لوگوں میں سے ہو ؟ میں نے کہا میرا تعلق سر زمین کوفہ سے ہے.میں علم اور بھلائی لینے کے لئے حاضر ہوا ہوں.حضرت ابوہریرۃ نے کہا کہ کیا تمہارے ہاں مُجاب الدعوة (جس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں) حضرت سعد بن ابی وقاص، رسول اللہ صلی علیکم کا پانی اور نعلین اٹھانے والے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، رسول اللہ صلی علیم کے رازدان حضرت حذیفہ بن یمان، اور عمار بن یاسر جن کے بارے میں رسول اللہ صلی علیم کی زبان مبارک سے یہ فرمان جاری ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شیطان سے پناہ دے رکھی ہے ، اور دو کتابوں انجیل اور قرآن کا علم رکھنے والے حضرت سلمان موجود نہیں ہیں ؟ 703 آپ نے یہ بات بیان فرمائی کہ جب یہ لوگ ہیں تو تم نے ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا.محمد بن علی بن حنفیه بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رسول اللہ صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے.اس وقت آپ صلی علیہ کم بیمار تھے.رسول اللہ صلی العلیم نے حضرت عمار سے فرمایا کیا میں تمہیں وہ دم سکھاؤں جو جبرئیل نے مجھ پر کیا ہے ؟ حضرت عمار کہتے ہیں کہ میں نے کہا جی یار سول اللہ ! کہتے ہیں کہ تب رسول اللہ صلی علیم نے ان کو یہ دم سکھایا کہ بِسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ وَاللهُ يَشْفِيْكَ مِنْ كُلِّ دَاءٍ تؤذيك کہ میں اللہ کے نام سے شروع کر کے تمہیں دم کرتا ہوں اور اللہ تمہیں ہر اس بیماری سے شفادے جو تمہیں تکلیف دے.تم اسے پکڑ لو اور خوش ہو جاؤ.704 حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جنت حضرت علی اور حضرت عمار اور حضرت سلمان اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مشتاق ہے.705 حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی علی کیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں تمہارے درمیان کتنی دیر رہوں گا.نپس تم میرے بعد ان لوگوں کی اقتدا کرنا.آپ نے ابو بکر اور عمر کی جانب اشارہ فرمایا.اور عمار کے طریق کو اپنانا.اور جو تمہیں ابن مسعودؓ بیان کریں ان کی تصدیق کرنا.706 قرآن کریم اور دین کا علم سیکھو.مرکز سے ہمیشہ رابطہ رکھو حضرت عمار کے تعلق سے ہی گزشتہ ہفتہ میں ذکر ہوا تھا کہ حضرت عمار مفسدین کے دھو کہ میں آ گئے تھے.جب حضرت عثمان نے انہیں گورنر کی تحقیق کرنے کے لئے بھیجا تھا تو آپ مفسدین کے گروہ کے پاس چلے گئے اور پوری طرح تحقیق نہیں ہوئی.تو اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ حضرت عثمان کے خلاف جو فساد پیدا ہوا اور خلافت کے خلاف جو ساری باتیں پیدا ہوئیں تو یہ اس وجہ سے پیدا ہوئیں کہ ان لوگوں کی تربیت صحیح نہیں تھی اور

Page 318

اصحاب بدر جلد 5 302 بہت کم مرکز میں آیا کرتے تھے.ان کو قرآن کریم کا علم بہت کم تھا.دین کا علم بہت کم تھا.اس لئے آپ نے جماعت کو اس وقت تلقین کی کہ اس چیز سے تم لوگوں کو عبرت اور نصیحت پکڑنی چاہئے.اس لئے ایک تو یہ کہ قرآن کریم کا علم سیکھو.مرکز سے ہمیشہ رابطہ رکھو اور دین کا علم سیکھو تا کہ اگر آئندہ بھی کسی بھی قسم کا کوئی فتنہ جماعت میں اٹھتا ہے تو تم لوگ ہمیشہ اس سے بیچ سکو.707 پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے.ہر کوئی نہ تو مرکز میں آسکتا ہے اور اس طرح خلافت کے ساتھ ذاتی تعلق قائم نہیں ہو سکتا.لیکن ایک بات بہر حال ہے کہ دین کا علم سیکھنا، قرآن کریم کا علم سیکھنا یہ تو ہر ایک کے لئے اب میسر اور مہیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہمیں ایک ایسا ذریعہ عطا فرما دیا ہے جس کے ذریعہ سے ہم اگر چاہیں تو دینی علم سیکھ سکتے ہیں.قرآن کریم کے درس اس میں ہوتے ہیں.حدیث کے درس ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے درس ہوتے ہیں.خطبات ہیں.دوسرے خطابات ہیں ، جلسے ہیں، تو کم از کم اس لحاظ سے اگر ہم اپنے آپ کو بھی اور اپنی نسلوں کو بھی اس ذریعہ سے جوڑ لیں تو یہ تربیت کا ایک بہت اچھا ذریعہ ہے.خلافت سے تعلق قائم ہوتا ہے.اور ہر قسم کے فتنہ اور فساد سے بچانے والا بھی ہے.اور دینی علم بڑھانے والا بھی ہے.اس لئے اس طرف افراد جماعت کو بہت توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ایم ٹی اے کا ذریعہ مہیا کیا ہے اس سے اپنے آپ کو جوڑیں.108 صحابہ کے باہم اختلافات اور خلیفہ وقت کی ایک اصولی رہنمائی ایک واقعہ کی مزید وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے حضرت عمار کے بارے میں بیان کیا تھا کہ حضرت عمر و بن عاص نے ان کی وفات پر بڑے افسوس اور فکر کا اظہار کیا تھا کہ انہوں نے آنحضرت صلی الیم کو کہتے سنا تھا کہ عمار بن یاسر کو باغی گروہ قتل کرے گا اور حضرت عمرو بن عاص کو فکر اس لئے تھی کہ وہ امیر معاویہ کی طرف تھے اور حضرت عمار کو شہید کرنے والے حضرت امیر معاویہ کے فوجی تھے.بہر حال اس بات پر بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب یہ باغی گروپ میں تھے تو پھر ان کا نام 709 اتنی عزت سے کیوں لیا جاتا ہے اور حضرت امیر معاویہ کو بھی جماعت کے لٹریچر میں ایک مقام ہے.پہلی بات تو یہ کہ صحابہ کا جو مقام ہے ہمارا کام نہیں کہ ہم کہیں کہ یہ بخشا جائے گا اور یہ نہیں بخشا جائے گا.جس بھی غلط فہمی یا غلطی کی وجہ سے یہ افسوسناک واقعہ ہوا اس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.اس کا خمیازہ مسلمانوں نے بھگتا بھی.یہ سوال ان لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتے تھے جو اس زمانے میں تھے اور پھر وہ اپنی بے چینی کو دور کرنے کے لئے دعا بھی کرتے ہوں گے کہ یہ کیا ہو گیا کہ یہ بھی صحابی اور وہ بھی صحابی اور ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے رہنمائی بھی مانگتے ہوں

Page 319

303 اصحاب بدر جلد 5 گے اور اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی بھی فرماتا تھا.چنانچہ ایک روایت ہے ابو ضحیٰ سے مروی ہے کہ عمرو بنِ شرخبيل ابو میسرہ نے (جو حضرت عبد اللہ بن مسعود کے فاضل شاگردوں میں سے تھے )خواب میں دیکھا کہ ایک سرسبز باغ ہے جس میں چند خیمے نصب تھے.ان میں حضرت عمار بن یاسر بھی تھے اور چند اور خیمے تھے جن میں ذُو الكَلاع تھے.تو ابو میسرہ نے پوچھا یہ کیسے ہو گیا کہ ان لوگوں نے تو باہم قتال کیا تھا، جنگ کی تھی.جواب ملا کہ ان لوگوں نے پروردگار کو واسِعُ الْمَغْفِرَةِ یعنی بہت بڑا بخشش والا پایا ہے اس لئے اب وہاں اکٹھے ہو گئے.710 پس یہ معاملات اب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہیں.ان معاملات اور اختلافات کو ہمارا کام نہیں کہ اپنے دلوں میں جگہ دیں.ان معاملات کو دلوں میں رکھنے کی وجہ سے اور جنگوں کی وجہ سے ہی مسلمانوں کے دلوں میں دوری بڑھتی چلی گئی اور مسلمانوں میں اور تفرقہ پیدا ہوتا چلا گیا اور اس کا نتیجہ ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں.یہ باتیں ہمارے لئے بھی سبق ہیں کہ ان باتوں کو دلوں میں لانے کی بجائے وحدت پر قائم ہوں.حضرت امیر معاویہ کا نام عزت سے کیوں جب ایک دفعہ میں نے حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے امیر معاویہ کا کوئی واقعہ بیان کیا تھا تو کسی نے مجھے عرب ملکوں میں سے یہ لکھا کہ وہ تو باغی اور قاتل گروہ تھا اور اس کا سر دار تھا.اس کا نام آپ اتنی عزت سے کیوں لیتے ہیں تو ان کے لئے بھی یہ جو خواب کی روایت ہے یہ کافی جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت وسیع ہے.ہمیں اپنے معاملات سنبھالنے چاہئیں اور ان لوگوں کے بارے میں اب بجائے کچھ سوچنے کے کہنے کے اپنی اصلاح کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بعض جگہ حضرت امیر معاویہ کے حوالے سے تعریفی بات کی ہے.711 حضرت علی کے جھنڈے کے نیچے لڑنے والا سب سے پہلا جرنیل میں ہوں گا پس ہمیں بھی ان بزرگوں کی غلطیوں پر کچھ کہنے کی بجائے ان سے سبق لینا چاہئے.حضرت امیر معاویہ کے بارے میں ایک جگہ یہ بھی آتا ہے کہ جب حضرت علی اور ان کی جنگ ہو رہی تھی اور اختلافات بڑے وسیع ہو رہے تھے تو اس وقت کے عیسائی بادشاہ نے کہا کہ مسلمانوں کی حالت اب کمزور ہے تو حملہ کرنا چاہا.حضرت امیر معاویہ کو جب یہ پتہ لگا تو انہوں نے کہا کہ تمہاری اگر یہ سوچ ہے تو یاد رکھو کہ اگر تم نے حملہ کیا تو حضرت علی کے جھنڈے کے نیچے لڑنے والا سب سے پہلا جرنیل میں ہوں گا جو اُن کے جھنڈے کے نیچے ان کی طرف سے تمہارے خلاف لڑوں گا.712 پس ہوش سے کام لو.تو بہر حال ان لوگوں کا یہ مقام بھی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ ایک رہیں اور وحدت پر قائم رہیں اور نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں.713

Page 320

اصحاب بدر جلد 5 ان کی کنیت ابو یقطان تھی.304 714 ان کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے تاریخ کی کتابوں سے اخذ کر کے لکھا ہے کہ “ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمار نامی غلام کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ سسکیاں لے رہے تھے اور آنکھیں پونچھ رہے تھے.آپ نے پوچھا عمار! کیا معاملہ ہے ؟ عمار نے کہا اے اللہ کے رسول ! بہت ہی بُرا.وہ مجھے مارتے گئے یعنی دشمن مارتے گئے اور دکھ دیتے گئے اور اُس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میرے منہ سے آپ کے خلاف اور دیوتاؤں کی تائید میں کلمات نہیں نکلوالئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لیکن تم اپنے دل میں کیا محسوس کرتے تھے ؟ عمار نے کہا دل میں تو ایک غیر متزلزل ایمان محسوس کرتا تھا.گو منہ سے میں نے آپ کے خلاف کہہ دیا لیکن دل میں میرے ایمان تھا.“ آپ نے فرمایا اگر دل ایمان پر مطمئن تھا تو خدا تعالیٰ تمہاری کمزوری کو معاف کر دے گا.715 حضرت عمار بن یاسر کی ہجرت حبشہ کے بارے میں اختلاف ہے.بعض کا خیال ہے کہ آپ ہجرت حبشہ ثانیہ میں شریک تھے.716 حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں ہونے والی شورش کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ ثانی بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ شورش حد سے بڑھنے لگی اور صحابہ کرام کو بھی ایسے خطوط ملنے لگے جن میں گورنروں کی شکایات درج ہوتی تھیں تو انہوں نے مل کر حضرت عثمان سے عرض کیا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ جو رپورٹیں مجھے آتی ہیں وہ تو خیر و عافیت ہی ظاہر کرتی ہیں.صحابہ نے جواب دیا کہ ہمارے پاس اس اس مضمون کے خطوط باہر سے آتے ہیں اس کی تحقیق ہونی چاہئے.حضرت عثمان نے اس پر ان سے مشورہ طلب کیا کہ تحقیق کس طرح کی جاوے اور ان کے مشورہ کے مطابق اسامہ بن زید کو بصرہ کی طرف، محمد بن مسلمہ کو کوفہ کی طرف، عبد اللہ بن عمر کو شام کی طرف، عمار بن یاسر کو مصر کی طرف بھیجا کہ وہاں کے حالات کی تحقیق کر کے رپورٹ کریں کہ آیا واقع میں امر اور عیت پر ظلم کرتے ہیں اور تعدی سے کام لیتے ہیں اور لوگوں کے حقوق مار لیتے ہیں اور ان چاروں کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی متفرق بلاد کی طرف بھیجے تا کہ وہاں کے حالات سے اطلاع دیں.لوگ گئے اور تحقیق کے بعد واپس آکر ان سب نے رپورٹ کی کہ سب جگہ امن ہے اور مسلمان بالکل آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کے حقوق کو کوئی تلف نہیں کرتا اور حکام عدل و انصاف سے کام لے رہے ہیں.مگر عمار بن یاسر نے دیر کی اور ان کی کوئی خبر نہ آئی.ان کی طرف سے خبر آنے میں اس قدر دیر ہوئی کہ اہل مدینہ نے خیال کیا کہ کہیں مارے گئے ہیں مگر اصل بات یہ تھی کہ وہ اپنی سادگی اور سیاست سے ناواقفیت کی وجہ سے اُن مفسدوں کے پنجہ میں پھنس گئے تھے جو عبد اللہ بن سبا کے شاگر دتھے.717

Page 321

اصحاب بدر جلد 5 305 مصر میں چونکہ خود عبد اللہ بن سبا موجود تھا اور وہ اس بات سے غافل نہ تھا کہ اگر اس تحقیقاتی وفد نے تمام ملک میں امن و امان کا فیصلہ دیا تو تمام لوگ ہمارے مخالف ہو جاویں گے.اس وفد کے بھیجے جانے کا فیصلہ ایسا اچانک ہوا تھا کہ دوسرے علاقوں میں وہ کوئی انتظام نہیں کر سکا تھا مگر مصر کا انتظام اس کے لئے آسان تھا.جو نہی عمار بن یاسر مصر میں داخل ہوئے اس نے ان کا استقبال کیا اور والی مصر ” عمرو بن عاص کی برائیاں اور مظالم بیان کرنے شروع کئے.وہ اس کے لسانی سحر کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکے.”ایسی باتیں کیں کہ ان پر اس کی باتوں کا جادو چل گیا.بڑا بولنے والا تھا“ اور بجائے اس کے کہ ایک عام بے لوث تحقیق کرتے.والی مصر کے پاس گئے ہی نہیں اور نہ عام تحقیق کی بلکہ اسی مفسد گروہ کے ساتھ چلے گئے اور انہی کے ساتھ مل کر اعتراض کرنے شروع کر دیئے.صحابہ میں سے اگر کوئی شخص اس مفسد گروہ کے پھندے میں پھنسا ہوا یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے تو وہ صرف عمار بن یاسر ہیں.ان کے سوا کوئی معروف صحابی اس حرکت میں شامل نہیں ہوا اور اگر کسی کی شمولیت بیان کی گئی ہے تو دوسری روایات سے اس کار د بھی ہو گیا ہے.عمار بن یاسر کا ان لوگوں کے دھوکے میں آجانا ایک خاص وجہ سے تھا.یہ نہیں تھا کہ خدانخواستہ ان میں منافقت تھی بلکہ وجہ اور تھی اور وہ یہ کہ جب وہ مصر پہنچے تو وہاں پہنچتے ہی بظاہر ثقہ نظر آنے والے اور نہایت طرار والنسان لوگوں کی ایک جماعت ان کو ملی جس نے نہایت عمدگی سے ان کے پاس والی مصر کی شکایات بیان کرنی شروع کیں.اتفاقاً والی مصر ایک ایسا شخص تھا جو کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا سخت مخالف رہ چکا تھا اور اس کی نسبت آپ نے فتح مکہ کے وقت حکم دیا تھا کہ خواہ خانہ کعبہ ہی میں کیوں نہ ملے اسے قتل کر دیا جائے اور گو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا مگر اس کی پہلی مخالفت کا بعض صحابہ کے دل پر جن میں عمار بھی شامل تھے اثر باقی تھا.پس ایسے شخص کے خلاف باتیں سن کر عمار بہت جلد متاثر ہو گئے اور ان الزامات کو جو اس پر لگائے جاتے تھے صحیح تسلیم کر لیا اور احساس طبعی سے فائدہ اٹھا کر سبائی یعنی عبد اللہ بن سبا کے ساتھی اس کے خلاف اس بات پر خاص زور دیتے تھے.718" ان کے ساتھ یہ بھی مل گئے لیکن یہ بھی لکھا ہے کہ جنگ صفین کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہنے والے اور مال اور اولاد کی طرف لوٹنے کی خواہش نہ رکھنے والے کہاں ہیں ؟ تو آپ کے پاس لوگوں کی ایک جماعت آگئی.حضرت عمار نے اُن سے مخاطب ہو کر کہا.اے لوگو! ہمارے ساتھ ان لوگوں کی طرف چلو جو حضرت عثمان بن عفان کے خون کا مطالبہ کر رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عثمان مظلوم قتل کئے گئے ہیں.اللہ کی قسم ! وہ حضرت عثمان کے قتل کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان لوگوں نے دنیا کا مزہ چکھ لیا ہے

Page 322

اصحاب بدر جلد 5 306 یہاں اب ان کو سمجھ آگئی تھی کہ فتنہ والے کتن فتنہ پیدا کر رہے ہیں اور پھر کہا کہ اب اس سے یعنی دنیا سے یہ لوگ محبت رکھتے ہیں اور اسی کے پیچھے لگ گئے ہیں.انہوں نے جان لیا ہے کہ حق ان کے ساتھ چمٹ گیا ہے تو وہ حق ان کے اور ان کے دنیاوی امور کے درمیان حائل ہو جائے گا اور ان لوگوں کو اسلام میں کوئی سبقت حاصل نہیں جس کے باعث یہ لوگ لوگوں کی اطاعت اور امارت کے حقدار ہوں.ان لوگوں کو تو کوئی سبقت حاصل نہیں ہے کہ ان کو امیر بنایا جائے صرف فتنہ پیدا کر رہے ہیں.ان لوگوں نے اپنے متبعین کو یہ کہہ کر دھوکا دیا کہ ہمارے امام مظلوم قتل کر دیئے گئے ہیں تاکہ یہ جابر بادشاہ بن جائیں اور یہ ایسی چال ہے جس کے ذریعہ وہ اس حد تک پہنچ گئے ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو.اگر یہ لوگ 719 حضرت عثمان کے قصاص کا مطالبہ نہ کرتے تو لو گوں میں سے دوافراد بھی ان کی اتباع نہیں کرتے.پھر آپ نے کہا کہ اے اللہ ! اگر تو ہماری مدد فرمائے جیسا کہ تو کئی مرتبہ مدد فرما چکا ہے اور اگر تُو ان کو ان کے مقصد میں کامیاب کرے تو ان کے لیے اس وجہ سے کہ انہوں نے تیرے بندوں میں نئی باتیں پیدا کر دی ہیں ایک درد ناک عذاب جمع رکھ.محمد بن عمرو وغیرہ سے مروی ہے کہ جنگ صفین میں خوب زوروں کی جنگ ہو رہی تھی اور قریب تھا کہ دونوں فریق فنا ہو جائیں.معاویہ نے کہا یہ وہ دن ہے کہ جس میں عرب فنا ہو جائیں گے سوائے اس کے کہ انہیں اس غلام یعنی عمار بن یاسر کی کمزوری پہنچے.یعنی حضرت عمار شہید کر دیے جائیں.تین دن اور رات شدید جنگ رہی.تیسرا دن ہوا تو حضرت عمار نے ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص سے کہا جن کے پاس اس روز جھنڈا تھا کہ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں مجھے ساتھ لے چلو.ہاشم نے کہا اے عمار ! آپ پر خدا کی رحمت ہو.آپ ایسے آدمی ہیں کہ جنگ آپ کو ہلکا اور خفیف سمجھتی ہے.میں تو جھنڈا اس امید پر لے کر چلوں گا کہ اس کے ذریعہ سے میں اپنی مراد کو پہنچ جاؤں.اگر میں کمزوری دکھاؤں گا تو پھر بھی موت سے امن میں نہیں ہوں.وہ برابر ان کے ساتھ رہے یہاں تک کہ انہوں نے سوار کیا.اپنے ساتھ سوار کر لیا.پھر حضرت عمار اپنے لشکر میں کھڑے ہوئے.ڈو الکلاع اپنے لشکر کے ساتھ ان کے مقابلے پر کھڑا ہوا.ان دونوں نے آپس میں جنگ کی اور قتل ہوئے.دونوں لشکر برباد ہو گئے.حضرت عمار پر حوی السکسکی اور ابو غادیہ مزنی نے حملہ کیا اور ان دونوں نے آپ کو شہید کر دیا ابو العادیہ سے پوچھا گیا کہ انہوں نے قتل کیسے کیا؟ تو اس نے کہا کہ جب وہ اپنے لشکر کے ساتھ ہمارے قریب ہوئے اور ہم ان کے قریب ہوئے تو انہوں نے پکارا کہ کوئی مقابلہ کرنے والا ہے.سکاسک یمن کے ایک قبیلہ کا نام ہے اس میں سے ایک شخص نکل کر آیا.دونوں نے ایک دوسرے پر تلوار چلائی.پھر حضرت عمار نے سکسکی کو قتل کر دیا.پھر انہوں نے پکارا کہ اب کون مقابلہ کرنا چاہتا ہے ؟ حمیر یمن کے ایک قبیلہ کا نام، اس میں سے بھی ایک شخص مقابلے کے لیے گیا.دونوں نے ایک دوسرے پر تلوار چلائی.عمار نے حمیری کو قتل کر دیا.حمیری نے ان کو زخمی کر دیا تھا.پھر انہوں نے

Page 323

اصحاب بدر جلد 5 307 پکارا کہ اور کون مقابلہ کرنا چاہتا ہے ؟ میں ان کی طرف نکلا.یعنی کہتا ہے غلام اور ہم دونوں نے ایک دوسرے پر تلوار چلائی.ان کا ہاتھ کمزور ہو چکا تھا.میں نے ان پر خوب زور سے دوسر اوار کیا جس سے وہ گر پڑے.پھر میں نے ان پر تلوار سے ایسی ضرب لگائی کہ وہ ٹھنڈے ہو گئے.راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمار کو شہید کیا گیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں سے جو حضرت عمار بن یاسر کی شہادت کو غیر معمولی خیال نہیں کرتا اور اسے اس سے رنج نہیں وہ ضرور شخص 720 غیر ہدایت یافتہ ہے.عمار پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو جس دن وہ اسلام لائے اور اللہ عمار پر رحم کرے جب چار اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تھا تو یہ چوتھے ہوتے تھے اور پانچ کے ذکر میں یہ پانچویں ہوتے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدیم اصحاب میں سے تھے.کسی ایک یا دو کو بھی اس میں شک نہ تھا کہ عمار کے لیے بہت سے موقعوں پر جنت واجب ہوئی.پس عمار کو جنت مبارک ہو اور ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عمار حق کے ساتھ اور حق عمار کے ساتھ ہے.عمار جہاں کہیں بھی جائیں گے حق کے ساتھ ہی جائیں گے اور عمار کا قاتل آگ میں ہے.سعید بن عبد الرحمن اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر بن خطاب کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ بجنبی ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا.تو حضرت عمار بن یاسر نے حضرت عمر بن خطاب سے کہا.کیا آپ کو یاد نہیں کہ ہم یعنی میں اور آپ ایک سفر میں تھے.آپ نے تو نماز نہ پڑھی اور میں تو مٹی میں جانوروں کی طرح لوٹا اور نماز پڑھ لی.گویا پانی نہ ہونے کی وجہ سے تمیم کیا.میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کو صرف اس طرح کافی تھا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے.پھر ان پر پھونکا اور اپنے منہ اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا.721 ابووائل کہتے ہیں کہ حضرت عمار نے ہمیں خطبہ دیا اور مختصر دیا اور بلیغ کلام کیا.جب وہ منبر سے نیچے اترے تو ہم نے کہا اے ابو يقظان ! آپ نے بہت بلیغ کلام کیا ہے لیکن مختصر کیا ہے.آپ نے اسے لمبا کیوں نہ کیا تو انہوں نے کہا کہ 722 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آدمی کی لیبی نماز اور مختصر خطبہ اس کی عقلمندی کی نشانی ہے.پس نماز لمبی کرو اور خطبہ مختصر کرو اور یقینا بعض بیان تو جادو ہوتے ہیں.حسّان بن بلال کہتے ہیں کہ میں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنی داڑھی میں خلال کیا.یعنی انگلیاں داڑھی پہ پھیریں.اُن سے کہا گیا یا راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا: کیا آپ اپنی داڑھی کا خلال کر رہے ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں داڑھی کا خلال کیوں نہ کروں جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو داڑھی کا خلال کرتے دیکھا ہے.723

Page 324

اصحاب بدر جلد 5 308 عمرو بن غالب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے پاس عائشہ رضی اللہ عنہا کی عیب جوئی کی تو انہوں نے کہا.دُور ہٹ مر دود بد تر.کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب بیوی کو اذیت پہنچارہا ہے.724 242 حضرت عمارة بن حزیم بیعت عقبہ اور تمام غزوات میں شریک حضرت عمارہ بن حزم.حضرت عمارہ ان ستر صحابہ میں شامل ہیں جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تھے.ان کے بھائی حضرت عمر و بن حزم اور حضرت مُعمر بن حزم بھی صحابی تھے.غزوہ بدر ، غزوۂ احد سمیت دیگر تمام غزوات میں رسول کریم صلی الی ریم کے ساتھ شامل ہوئے.فتح مکہ کے دن بنو مالک بن نجار کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا.رسول کریم صلی علیم نے عمارہ کی مواخات حضرت محرز بن نضلہ سے کروائی، ہجرت کے بعد ان کا بھائی بنایا.آنحضرت صلی الی ایم کی وفات کے بعد جو مرتدین کا فتنہ اٹھا اور انہوں نے جنگ شروع کی مسلمانوں کے ساتھ ان کے خلاف لڑائی میں بھی حضرت خالد بن ولید کے ساتھ یہ شامل ہوئے اور جنگ یمامہ میں ان کی شہادت ہوئی.725 ان کی والدہ کا نام خالدہ بنت انس تھا.726 رسول کریم صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں حضرت عمارہ بن حزم کے پاس لے جاؤ تا کہ وہ دم کریں ابو بکر بن محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن سہل کو سانپ نے کاٹ لیا تو رسول کریم صلی علیکم نے فرمایا کہ انہیں حضرت عمارہ بن حزم کے پاس لے جاؤ تاکہ وہ دم کریں.انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ تو مرنے کے قریب ہیں.رسول کریم صلی علیم نے فرمایا کہ تم عمارہ کے پاس لے جاؤ وہ دم کر دیں گے تو اللہ تعالیٰ شفا دے گا.727 یقینا آنحضرت صلی علی کرم نے ہی آپ کو یہ دم سکھایا تھا اور دعا سکھائی ہو گی.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللهم نعوذ باللہ حضرت عمارہ کے دم کے محتاج تھے یا آپ نہیں کر سکتے تھے.لوگوں کو خاص طور پر بعض کاموں کے لئے مقرر کیا ہوا تھا اور اس کے پیچھے بہر حال قوت قدسی اور برکات آنحضرت صلی الم کی ہی تھیں.

Page 325

اصحاب بدر جلد 5 309 الله منافقین کو مسجد نبوی سے نکال دیا گیا سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ مسجد نبوی میں منافقین آیا کرتے تھے اور مسلمانوں کی باتیں سن کر بعد میں ان کا تمسخر اڑاتے تھے، ان کے دین کا استہزاء کیا کرتے تھے.بعض دفعہ سامنے بھی ایسی باتیں کر لیا کرتے تھے.ایک دن منافقین میں سے کچھ لوگ مسجد نبوی میں جمع ہوئے تو رسول کریم صلی ا ہم نے انہیں آپس میں سر گوشیاں کرتے دیکھا.رسول کریم صلی الی تم نے ان کے متعلق حکم دیا کہ ان کو مسجد سے نکال دو.پس وہ مسجد سے نکال دیئے گئے.حضرت ابو ایوب، عمر بن قیس کی طرف گئے جو بنو غنم بن مالک بن نجار میں سے تھا اور وہ جاہلیت کے زمانے میں ان کے بتوں کا نگران بھی تھا.انہوں نے اسے ٹانگ سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے مسجد سے باہر نکال دیا.وہ کہتا جار ہا تھا کہ اے ابو ایوب ! کیا تو مجھے بنو ثعلبہ کی مجلس سے نکالے گا؟ پھر آپ رافع بن ودیعہ کی طرف گئے اور وہ بھی بنو نجار میں سے تھا.اسے بھی اپنی چادر میں لپیٹا اور زور سے کھینچا اور ایک تھپڑ مار کے اس کو مسجد سے باہر نکال دیا.ابو ایوب کہہ رہے تھے کہ اے خبیث منافق تجھ پر لعنت ہو! رسول کریم صلی کم کی مسجد سے دور چلا جا.حضرت عمارہ بن حزم، زید بن عمرو کی طرف گئے اور اس کی داڑھی سے اسے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور مسجد سے باہر نکال دیا.پھر حضرت عمارہ نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر اتنے زور سے مارے کہ وہ گر گیا.اس نے کہا اے عمارہ ! تو نے مجھے زخمی کر دیا ہے.اس پر حضرت عمارہ نے کہا کہ اے منافق ! اللہ تجھے ہلاک کرے.جو عذاب اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے تیار کیا ہے وہ اس سے زیادہ شدید ہے.پس آئندہ رسول اللہ صلی علیم کی مسجد کے قریب نہ آنا.728 غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول کریم صلی یکم تبوک کی طرف تشریف لے جارہے تھے راستے میں ایک جگہ آپ صلی علی کم کی اونٹنی قصوی گم ہو گئی.صحابہ رسول صلی الی یوم اسے ڈھونڈھنے کے لئے نکلے.رسول کریم صلی علیکم کے پاس حضرت عمارہ بن حزم بھی تھے جو کہ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے تھے اور بدری صحابی تھے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، اور حضرت عمرو بن حزم کے بھائی تھے.بیان کرنے والے پھر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمارہ کے ہو دج میں زید بن صلت تھا، یعنی وہ ان لوگوں میں شامل تھا جو ان کی سواریوں وغیرہ پہ مقرر تھا، جو اونٹ کی سواری تھی اس پہ ہو دج رکھنے والا تھا.وہ قبیلہ بنو قینقاع سے تعلق رکھتا تھا اور یہودی تھا.اونٹ کی سواری کے لئے بیٹھنے کی جو سیٹ ہوتی ہے اس کو رکھنے والے بعض لوگ مقرر تھے.یہودی تھا پھر مسلمان ہوا اور اس نے نفاق ظاہر کیا.زید جو مسلمان ہوا تھا لیکن دل میں منافقت تھی بڑا معصوم بن کے پوچھنے لگا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ نبی ہیں اور ہ تمہیں آسمان کی خبروں سے آگاہ کرتے ہیں جبکہ وہ خود نہیں جانتے کہ ان کی اونٹنی کہاں گئی ہے.اس وقت حضرت عمارہ رسول کریم صلی الیکم کے پاس تھے.یہ بات آپ تک بھی کسی طرح پہنچی یا اللہ تعالیٰ نے خبر دے دی تو آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ یقینا ایک شخص نے کہا ہےکہ محمد صلی الی یکم تم لوگوں کو تو بتاتا ہے کہ وہ نبی ہے اور گمان کرتا ہے کہ وہ تم لوگوں کو آسمان کی خبروں سے آگاہ کرتا ہے جبکہ وہ خود نہیں جانتا کہ اس

Page 326

اصحاب بدر جلد 5 310 کی اونٹنی کہاں ہے.اس پہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نہیں جانتا ماسوائے اس کے جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے علم دیا ہے.غیب کا علم تو میں نہیں جانتا، ہاں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے تو میں بتاتا ہوں.اور پھر آپ نے اس منافق کا منہ بند کرنے کے لئے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے خبر بھی دے دی پھر کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹنی کے متعلق بتایا ہے کہ وہ فلاں فلاں گھاٹی میں ہے اور ایک گھائی کی طرف اشارہ کیا.اس کی مہار ایک درخت سے اٹک گئی ہے پس جاؤ اور اسے میرے پاس لے آؤ.پس صحابہ گئے اور اسے لے آئے.پھر اللہ تعالیٰ نے اس منافق کا منہ بند کرنے کے لئے یہ بھی آپ کو نظارہ دکھادیا کہ اونٹنی کہاں ہے اور کس جگہ کھڑی ہے.بیہقی اور ابونعیم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمارہ اپنے ہو دن کی طرف گئے اور کہا اللہ کی قسم آج ایک عجیب بات ہوئی ہے.ابھی رسول کریم صلی اللہ ہم نے ہمیں ایک شخص کی بات کے متعلق بتایا جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی علیم کو آگاہ فرمایا تھا.یہ واضح ہو گیا کہ جو منافق کی بات تھی اس کے بارے میں بھی اللہ تعالی نے ہی آپ کو آگاہ فرمایا تھا اور وہ زید بن صلت کی بات تھی.حضرت عمارہ کے ہو دج میں سے ایک شخص نے بتایا کہ اللہ کی قسم زید نے آپ کے آنے سے پہلے وہ بات کی ہے جو آپ نے ابھی بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی علیہ نکم کو بتایا.تو زید نے آپ کے آنے سے پہلے بالکل یہی بات تھی.اس پر حضرت عمارہ نے زید کو گردن سے دبوچ لیا اور اپنے ساتھیوں کو کہنے لگے کہ اے اللہ کے بندو ! میرے ہودج میں ایک سانپ تھا اور میں اس کو اپنے ہو رج سے باہر نکالنے سے بے خبر تھا اور زید کو مخاطب کر کے کہا کہ آئندہ میرا تم سے کوئی تعلق نہیں.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زید نے بعد میں تو بہ کر لی اور بعض کا خیال ہے کہ اسی طرح شرارتوں میں ملوث رہا حتی کہ مر گیا.9 حضرت زیاد بن نعیم حضرت عمارہ بن حزم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی ا ہم نے فرمایا کہ چار باتیں ایسی ہیں کہ جس نے ان پر عمل کیا وہ مسلمانوں میں سے ہو گیا اور جس نے ان میں سے ایک بھی چھوڑی تو باقی تین اسے کچھ فائدہ نہیں دیں گی.حضرت زیاد بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمارہ 729 730 سے پوچھا کہ وہ چار باتیں کون سی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ نماز ہے، زکوۃ ہے، روزہ ہے اور حج ہے.ان چاروں باتوں پہ ایمان لانا اور عمل کرنا ضروری ہے.نماز بھی فرض ہے.زکوۃ بھی جن پر فرض ہے ان پر ضروری ہے.روزہ بھی صحت کی حالت میں رکھنا ضروری ہے.اور حج بھی جن پر فرض ہے ضروری ہے، جو ادا کر سکتے ہیں یہ فریضہ ان کو ادا کرناضروری ہے.بہر حال ان چاروں باتوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اور ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.اب یہ باتیں اسد الغابہ میں لکھی ہوئی ہیں.یہی کتابیں ہیں، مسلمان خود ہی اپنے مسلمان ہونے کی تعریف بیان کرتے ہیں اور خود ہی ایسے بھی علماء پیدا ہو گئے ہیں جو کفر کے فتوے لگاتے ہیں اور انہوں نے مسلمان ہونے کی اپنی اپنی تعریف بنائی ہوئی ہے.731

Page 327

311 243 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عمرو بن ابی سرح جنگ بدر میں شریک ہونے والے دو بھائی حضرت عمرو بن ابی سرح ایک صحابی تھے اور واقدی نے ان کا نام معمر بن ابی سرح بیان کیا ہے.قبیلہ بنو حارث بن فہر میں سے تھے.ابوسعید ان کی کنیت تھی.تیس ہجری کو مدینہ منورہ میں حضرت عثمان کے دور میں ان کی وفات ہوئی.ان کے بھائی حضرت وہب بن ابی سرح مہاجرین حبشہ میں سے تھے.دونوں بھائی غزوہ بدر میں شامل ہوئے.غزوہ احد اور غزوہ خندق اور دیگر مشاہد میں بھی آنحضور صلی ایم کے ہمراہ شریک ہوئے.ان کی نسل کوئی نہیں چلی.732 مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو حضرت کلثوم بن ہرم کے مکان پر آکر قیام کیا.733 244 رض حضرت عمرو بن ایاس حضرت عمر و بن ایاس.حضرت عمر و یمن سے تعلق رکھتے تھے اور انصار کے قبیلہ بنو لو ذان کے حلیف تھے.ان کے والد کا نام ایالس بن عمر و تھا.دونوں ایک اور قول، روایت یہ بھی ہے کہ ان کے دادا کا نام زید تھا.حضرت عمر و غزوہ بدر اور اُحد میں آنحضرت صلی ایلی کیم کے ساتھ شامل ہوئے.حضرت عمر و حضرت ربیع بن ایاس اور حضرت ورقه بن ایاس کے بھائی تھے اور ان تینوں بھائیوں کو غزوہ بدر میں شامل ہونے کی توفیق ملی 734

Page 328

312 245 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عمرو بن ثعلبہ انصاری حضرت عمرو بن ثعلبہ انصاری صحابی ہیں.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو عدی سے تھا.اپنی کنیت سے زیادہ مشہور تھے.آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.حضرت عمرو بن ثعلبہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی المی نام سے سیالہ مقام پر ملا اور یہاں پر اسلام قبول کیا اور آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا.وضاح بن سلمہ ایک صحابی ہیں وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سو سال کی عمر میں بھی حضرت عمرو بن ثعلبہ کے سر پر جس جگہ رسول کریم صلی اللہ ہم نے ہاتھ پھیرا تھا وہاں بال سفید نہ ہوئے 246 735 حضرت عمرو بن حارث حضرت عمر و بن حارث.حضرت عمر وسکا تعلق قبیلہ بنو حارث سے تھا.بعض نے آپ کا نام عمرو بیان کیا ہے جبکہ دیگر آپ کا نام عامر بھی بیان کرتے ہیں.بیان کانام عامر بھی بیان آپ کی کنیت ابو نافع تھی.حضرت عمر و نے شروع میں ہی مکہ میں اسلام قبول کر لیا تھا.آپ ہجرت حبشہ ثانیہ میں شامل تھے.آپ کو غزوہ بدر میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی.136

Page 329

313 247 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عمرو بن سراقہ بن المُعتمر ย نام و نسب حضرت عمرو بن سراقہ بن المُعتمر.ان کا پورا نام حضرت عمرو بن سراقہ بن مغتیر جیسا کہ میں نے کہا ہے.حضرت عثمان کے دور خلافت میں ان کی وفات ہوئی تھی.ان کی والدہ کا نام قدامہ بنت عبد اللہ بن عمر تھا.بعض کے نزدیک ان کی والدہ کا نام آمنہ بنت عبد اللہ بن عمیر بن اُهیب تھا.حضرت عمرو بن سراقہ کا تعلق قبیلہ بنو عدی سے تھا اور حضرت عبد اللہ بن سراقہ آپ کے بھائی تھے.ہجرت مدینہ و مواخات 737 حضرت عمرو بن سراقہ اپنے بھائی حضرت عبد اللہ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو حضرت رفاعہ بن عبد المنذر انصاری نے آپ کو اپنے ہاں ٹھہرایا.آنحضور صلی نیلم نے حضرت عمر و بن سراقہ کی حضرت سعد بن زید کے ساتھ مواخات قائم فرمائی.738 تمام غزوات میں شرکت حضرت عمرو بن سراقہ نے غزوہ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں شرکت کی.حضرت عامر بن ربیعہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیم نے ہمیں سر یہ نخلہ پر بھیجا اور ہمارے ساتھ حضرت عمرو بن سراقہ بھی تھے.آپ کا جسم دبلا اور قد لمبا تھا.دوران سفر حضرت عمرو بن سراقہ پیٹ پکڑ کر بیٹھ گئے، کیونکہ کھانے پینے کا وہاں کچھ نہیں تھا، بھوک کی شدت کی وجہ سے چل نہیں سکتے تھے.کہتے ہیں ہم نے ایک پتھر لے کر آپ کے پیٹ کے ساتھ کس کر باندھ دیا پھر آپ ہمارے ساتھ چلنے لگے.پھر ہم عرب کے ایک قبیلہ میں پہنچے تو قبیلہ والوں نے ہماری ضیافت کی.اس کے بعد پھر آپ چل پڑے.حس مزاح بھی تھی صحابہ میں تو وہاں سے کھانا کھانے کے بعد جب چل پڑے تو حضرت عمر و بن سراقہ کہنے لگے کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ انسان کی دونوں ٹانگیں اس کے پیٹ کو اٹھاتی ہیں لیکن آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ اصل میں پیٹ ٹانگوں کو اٹھاتا ہے.خالی پیٹ ہو تو آدمی چل نہیں سکتا.حضرت عمر نے آپ کو خیبر کی زمین کا ایک حصہ عطا فرمایا تھا.حضرت عمر و بن سراقہ کی وفات جیسا کہ میں نے کہا حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی.739

Page 330

314 248 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب و کنیت حضرت عمرو بن عوف / عمير بن عوف ان کا نام حضرت عمر و بن عوف ہے.حضرت عمرو کا نام عمیر بھی ملتا ہے اور والد کا نام عوف تھا.حضرت 741 عمرو کی کنیت ابو عمر و تھی.ان کی ولادت مکے میں ہوئی اور ابن سعد کے مطابق یہ یمن سے تھے.740 یعنی یمن کے رہنے والے تھے.مؤرخین نے اور سیرت نگاروں نے اور محدثین نے ان صحابی کے نام کے بارے میں مختلف رائے دی ہیں اور ان کے بارے میں بہت زیادہ اشتباہ پایا جاتا ہے.چنانچہ امام بخاری، ابن اسحاق، ابن سعد، علامہ ابن عبدالبر، علامہ ابن اثیر جزری وغیرہ نے ان کا نام عمر و بیان کیا ہے جبکہ ابن ہشام، موسیٰ بن عقبہ، ابو معشر محمد بن عمر واقدی و غیرہ نے ان کا نام عمیر بیان کیا ہے.علامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن حجر عسقلانی یہ دونوں صحیح بخاری کے شارح بھی ہیں.ان کی تشریح لکھی ہے ان کے مطابق عمرو بن عوف اور عمیر بن عوف دونوں ہی ایک شخص کے نام ہیں.11 امام بخاری کے مطابق حضرت عمرو بن عوف انصاری قریش کے قبیلہ بنو عامر بن لوئی کے حلیف تھے جبکہ ابنِ ہشام اور ابنِ سعد نے انہیں قریش کے خاندان بنو عامر بن لوئی سے قرار دیا ہے.علامہ بدرالدین عینی جو بخاری کے شارح ہیں انہوں نے اس کی تطبیق کی ہے.اس کو (دونوں مختلف بیانوں کو) اس طرح اس کے ساتھ آپس میں ملایا ہے کہ کہتے ہیں کہ حقیقت میں حضرت عمرو بن عوف انصار کے قبیلہ اوس یا خزرج میں سے تھے اور انہوں نے مکے جا کر قیام کیا تھا اور وہاں بعض لوگوں کے حلیف ہوئے تھے اور اس اعتبار سے وہ انصاری بھی ہوئے اور مہاجر بھی ہوئے.42 حضرت عمرو بن عوف قدیمی اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے.143 حضرت عمرو بن عوف نے مکے سے ہجرت مدینہ کے وقت قبائیں حضرت کلثوم بن الہدم کے ہاں قیام حضرت عمرو بن عوف غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق اور اس کے علاوہ دیگر تمام غزوات میں آنحضرت صلی علیہ نام کے ساتھ شریک ہوئے.744 حضرت عمر و بن عوف کی وفات حضرت عمر کے دورِ خلافت میں ہوئی اور ان کی نماز جنازہ حضرت عمر نے پڑھائی.745

Page 331

315 249 اصحاب بدر جلد 5 حضرت عمرو بن معاذ بن نعمان اپنے بھائی کے ساتھ جنگ بدر میں شامل نام و نسب و کنیت حضرت عمرو بن معاذ بن نُعمان اوسی ایک صحابی تھے.حضرت عمرو کے والد کا نام معاذ بن نُعمان اور ان کی والدہ کا نام گیشه بنتِ رَافِع تھا.حضرت عمر و بن مُعاذ انصاری اَشْهَلی قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ کے بھائی ہیں.انصار کے قبیلہ بنو عبد الاشھل سے تعلق رکھنے والوں کو آشکیلی بھی کہا جاتا تھا.اس قبیلے سے ایک کثیر جماعت نے اسلام قبول کیا تھا.رض حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے انصار کے حضرت عمر و بن معاذ اور مکے سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچنے والے حضرت عمیر بن ابو و قاص کے در میان عقد مواخات قائم فرمایا.عمیر بن ابو وقاص، حضرت سعد بن ابو و قاص کے بھائی تھے.حضرت عمرو بن معاذ اپنے بھائی حضرت سعد کے ہمراہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے.جنگ احد میں شہادت حضرت عمرو بن معاذ غزوہ احد میں شہید ہوئے.انہیں ضرار بن خطاب نے شہید کیا.ضرار بن خطاب نے جب حضرت عمرو بن معاذ کو نیزہ گھونپا جو ان کے جسم کے آر پار ہو گیا تو ان سے بطور استہزاء کہا کہ دیکھنا تم سے وہ شخص نہ چھوٹنے پائے جو محور عین سے تمہاری شادی کرائے.اس وقت ضرار نے بڑا طنز یہ لفظ استعمال کیا.ضرار مسلمان نہیں ہوئے تھے اور فتح مکہ کے دن انہوں نے اسلام قبول کیا تھا.حضرت عمرو بن معاذ کی عمر شہادت کے وقت 32 سال تھی.ضرار بن خطاب بن مرد اس کے والد خطاب اپنے زمانے میں بنو فقر کے رئیس تھے.اپنی قوم کے لیے ایک مسافر خانہ بنایا ہوا تھا.فیرار جنگ فجار کے دن بنو محارب بن فہر کے سردار تھے.قریش کے شہ سواروں ، بہادروں او میں سے تھے.میر چار نے خندق پار ہوں اور شیر میں کلام شاعروں میں سے تھے.یہ ان چار آدمیوں میں سے تھے جنہوں نے خندق پار کی تھی.ابن عساکر دمشقی نے تاریخ دمشق میں ان کا نام بطور صحابی کے ان کا ذکر کیا ہے.ضرار حضرت ابو عبیدہ کے ہمراہ فتوحاتِ شام میں شریک تھے اور فتح مکہ کے دن انہوں نے اسلام قبول کیا تھا.ان کا اسلام لا نا مشہور ہے اور ان کی نظم و نثر ان کے اسلام پر دلالت کرتی ہے.16 746

Page 332

316 250 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب رض حضرت عمرو بن معبد حضرت عمر و بن مَعْبَد.حضرت عمر و بن مَعْبَد کا نام عمیر بن معبد بھی بیان کیا جاتا ہے.ان کے والد کا نام معبد بن ازعر تھا.حضرت عمرو بن معبد کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کی شاخ بنو ضبیعہ سے تھا.747 تمام غزوات میں شامل 748 حضرت عمرو بن معبد "غزوۂ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی ال نیم کے ساتھ شریک ہوئے.حضرت عمر و بن مَعْبَد غزوہ حنین کے روز ان سو بہادری کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے صحابہ میں سے تھے جن کے رزق کا تعیل اللہ تعالیٰ ہو گیا تھا.جو آنحضرت صلی علیکم کے ساتھ کھڑے رہے.ایک روایت میں یہ بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن ہماری صورت حال یہ تھی کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں پیٹھ پھیرے ہوئے تھیں اور رسول اللہ صلی الی تعلیم کے ساتھ سو آدمی بھی نہیں تھے.غزوہ حنین کے موقعے پر رسول اللہ صلی علیم کے ہم راہ ثابت قدم رہنے والے صحابہ کی تعداد کے متعلق مختلف آرا ہیں.ان کے مطابق ایسے صحابہ کی تعد اداسی اور سو کے درمیان تھی.بعض کہتے ہیں سو تھی، بہر حال یہ تعداد میں بہت تھوڑے تھے.751 749 750 251 نام و نسب حضرت عمیر بن ابی وقاص حضرت عمیر بن ابی وقاص ایک بدری صحابی تھے جن کی ولدیت ابو و قاص مالک بن اُھیب تھی.ان کی شہادت غزوہ بدر 2 ہجری میں ہوئی.حضرت عمیر حضرت سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی تھے

Page 333

اصحاب بدر جلد 5 317 اور ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے.آپ کی والدہ کا نام حمنہ بنت سفیان تھا.آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنوزھرہ سے تھا اور جیسا کہ ذکر ہو ابدر کی جنگ میں انہوں نے شرکت کی اور وہیں ان کی شہادت ہوئی.آنحضور صلی الی یکم نے حضرت عمیر اور عمرو بن معاذ کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی.752 بعض کا خیال ہے کہ حضرت عمیر بن ابی وقاص اور حضرت خبیب بن عدی کے در میان مواخات قائم فرمائی تھی.753 جنگ بدر میں شہادت ان کی شہادت کے واقعہ کا اور جنگ بدر میں شامل ہونے کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ : مدینہ سے تھوڑی دور نکل کر آنحضرت صلی علی کی نے ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیا اور فوج کا جائزہ لیا.کم عمر بچے جو آنحضرت صلی علیم کی ہمرکابی کے شوق میں ساتھ چلے آئے تھے ان کو واپس بھیجا گیا.سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی عمیر بھی چھوٹی عمر کے تھے.کمسن تھے.انہوں نے جب بچوں کی واپسی کا حکم سنا تو لشکر میں اِدھر اُدھر چھپ گئے لیکن آخر ان کی باری آئی اور آنحضرت صلی ا لم نے ان کی واپسی کا حکم دیا.یہ حکم سن کر عمیر رونے لگ گئے اور آنحضرت علی ایم نے پھر ان کے غیر معمولی شوق کو دیکھ کر انہیں بدر میں شامل ہونے کی اجازت دی.154 جنگ میں شریک ہونے کا جوش و جذبہ تاریخ کی ایک اور کتاب میں ان کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ : عامر بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قبل اس کے کہ رسول اللہ صلی ا لم بدر کی جانب روانہ ہونے کے لئے ہمارا معائنہ فرماتے میں نے اپنے بھائی عمیر بن ابی وقاص کو دیکھا کہ وہ چھپتے پھر رہے تھے.اس پر میں نے ان سے پوچھا اے بھائی تمہیں کیا ہوا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں ڈرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علم مجھے دیکھ لیں گے تو بچہ سمجھ کر واپس بھیج دیں گے.میں جنگ کے لئے جانا چاہتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرما دے.پس جب یہ رسول اللہ صلی علی ریم کے سامنے پیش ہوئے تو آپ صلی ال کلیم نے انہیں چھوٹا سمجھ کر واپس جانے کا ارشاد فرمایا تو عمیر رونے لگ گئے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ کریم نے انہیں شامل ہونے کی اجازت دے دی.755 ان کی تلوار بڑی تھی.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی یکم نے اپنے دست مبارک سے ان کی تلوار کی نیام باندھی.756 حضرت عمیر بن ابی وقاص غزوہ بدر میں جب شہید ہوئے اس وقت آپ سولہ سال کے تھے.757

Page 334

اصحاب بدر جلد 5 318 سولہ سال کی عمر بھی ایسی تھی جس میں قد کاٹھ بیشک چھوٹا ہو گا اور آنحضرت صلی ا یکم نے عموماً بچوں کو جنگ کی اجازت نہیں دی.758 ایک روایت میں ہے کہ حضرت تمیر بن ابی وقاص کو عمرو بن عبد وڈ نے شہید کیا تھا.759 ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عمیر بن ابی وقاص کو عاص بن سعید نے شہید کیا تھا.760 252 نام و نسب حضرت عمیر بن حمام حضرت محمير بن محمام حضرت محمید بن محمام کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو سلمه کے خاندان بنو حَرَام بن کعب سے تھا.761 حضرت عمیر کے والد کا نام محمام بن جموح اور والدہ کا نام نُوَاز بِنتِ عَامِر تھا.بدر کی جنگ میں شہادت 762 رسول اللہ صلی الم نے حضرت محمير بن محمام ، حضرت عُبيدة بن حَارِث مطلبی کے درمیان مواخات قائم فرمائی جنہوں نے مکے سے مدینہ ہجرت کی.یہ دونوں بدر کے دن شہید ہونے والوں میں شامل تھے.763 کھجوریں پھینک دیں اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے غزوہ بدر کے موقعے پر جب مشرک قریب آگئے تو رسول اللہ صلی الم نے فرمایا اس جنت کے لیے آگے بڑھو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے.راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمیر بن محمام نے عرض کیا یارسول اللہ ! وہ جنت جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے.کیا آپ یہ فرمار ہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس پر انہوں نے کہا بیچ بیچے ا یعنی واہ واہ ! تو رسول اللہ صلی المی یم نے فرمایا کہ تم بیچ بیچ کیوں کہہ رہے ہو، کس وجہ سے کہہ رہے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! خدا کی قسم میں صرف اس خواہش کی وجہ سے کہہ رہاہوں کہ میں جنت کے باشندوں میں سے ہو جاؤں.آپ صلی للی یکم نے فرمایا تم اس کے باشندوں میں سے ہو.

Page 335

اصحاب بدر جلد 5 319 حضرت محمید بن محمام نے اپنی ترکش سے کھجوریں نکالیں اور انہیں کھانے لگے.پھر آپ نے فرما یا اگر میں اپنی یہ کھجوریں کھانے تک زندہ رہوں تو یہ بڑی لمبی زندگی ہے.راوی کہتے ہیں پھر آپ نے وہ کھجوریں جو آپ کے پاس تھیں پھینک دیں اور کفار سے یہاں تک لڑے کہ شہید ہو گئے.غزوہ بدر کے موقع پر حضرت عمید بن محمّام یہ رجزیہ شعر پڑھ رہے تھے کہ : رَكضًا إِلَى اللهِ بِغَيْرِ زَادِ وَالصَّبْرَ فِي اللهِ عَلَى الْجِهَادِ إِلَّا التَّقَى وَعَمَلَ الْمَعَادِ إِنَّ التَّقَى مِنْ أَعْظَمِ السَّدَادِ وَخَيْرُ مَا قَادَ إِلَى الرَّشَادِ وَكُلُّ حَيْ فَإِلَى نَفَادِ 764 کہ اللہ کی طرف سوائے تقویٰ اور آخرت کے اور کچھ زادِ راہ نہیں لے جاتا اور اللہ کی راہ میں جہاد پر ثابت قدم رہتا ہوں.بے شک تقویٰ عمدہ چیز ہے اور سب سے بہتر ہدایت کی طرف رہنما ہے اور 765 سب زندہ فنا ہونے والے ہیں.5 اسلام میں انصار کی طرف سے سب سے پہلے شہید حضرت محمید بن محمام نہیں.انہیں خالد بن اعلم نے شہید کیا یا بعض کے نزدیک سب سے پہلے انصاری شہید حضرت حارثہ بن قیس تھے.دو روایتیں ہیں.بہر حال یہ دو بدر کے شہید تھے.766 253 نام و نسب و کنیت حضرت عمیر بن عامر حضرت محمير بن عامر انصاری ہے.ان کی کنیت ابو داؤد تھی اور ان کے والد عامر بن مالک تھے.حضرت عمیر کے والد کا نام عامر بن مالک تھا.آپ کی والدہ کا نام نائلہ بنت ابی عاصم تھا.حضرت حمید کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا.حضرت محمید اپنی کنیت ابو داؤد سے زیادہ مشہور ہیں.غزوہ بدر اور غزوہ احد میں رسول اللہ صلی اللی علم کے ساتھ شامل تھے.767 بیعت عقبہ کے لئے جانا حضرت ام عمارہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو داؤد مازنی یعنی حضرت عمیر اور حضرت سلیط بن عمر و دونوں بیعت عقبہ میں حاضر ہونے کے لئے نکلے تو انہیں معلوم ہوا کہ لوگ بیعت کر چکے ہیں.اس پر انہوں نے بعد میں حضرت اسعد بن ضُرَارة کے ذریعہ سے بیعت کی جو عقبہ کی رات نقباء میں سے

Page 336

320 اصحاب بدر جلد 5 تھے.768 ایک نقیب مقرر کئے گئے تھے.سردار مقرر کئے گئے تھے.ان کے ذریعہ سے پھر انہوں نے بیعت کی.ایک روایت کے مطابق غزوہ بدر میں ابو البختری کو قتل کرنے والے حضرت محمیر بن عامر 254 769 نام و نسب رض حضرت عنترہ مولی سلیم حضرت عنترہ مولی شلیم حضرت عنترة حضرت سلیم بن عمرو کے آزاد کردہ غلام تھے.یہ حضرت عنترہ سُلمی ذکوانی تھے اور وہ قبیلہ بنو سواد بن تحکم کے حلیف تھے جو انصار کی ایک شاخ تھی.حضرت عنترہ " غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شامل ہوئے.غزوہ احد کے روز شہید ہوئے.انہیں نوفل بن مُعَاوِیه دیلی نے شہید کیا.ایک قول کے مطابق حضرت عنترہ کی وفات جنگ صفین میں حضرت علی کے دورِ خلافت میں 37 ہجری میں ہوئی.770 255 نام و نسب و کنیت حضرت عوف بن حارث بن رفاعہ انصاری حضرت عوف بن حارث بن رفاعه انصاری.روایات میں آپ کا نام عوف بن حارث اور عوف بن عفراء بیان ہوا ہے.عفراء آپ کی والدہ کا نام تھا.آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو نجار سے تھا.حضرت معاذ اور حضرت معوذ حضرت عوف کے بھائی تھے.سب سے پہلے مکہ آکر بیعت کرنے والوں میں سے حضرت عوف انصار کے ان چھ افراد میں شامل تھے جنہوں نے سب سے پہلے مکہ آکر بیعت کی.آپ بیعت عقبہ میں بھی شامل تھے.

Page 337

اصحاب بدر جلد 5 321 رض جب آپ نے اسلام قبول کیا تو حضرت اسعد بن زرارہ اور حضرت عمارہ بن حزم کے ساتھ مل کر بنو مالک بن نجار کے بت توڑے.زرہ اتار کر بے جگری سے لڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے غزوہ بدر کے دن جب جنگ جاری تھی تو حضرت عوف بن عفراڈ نے رسول اللہ صلی للی نمی سے پوچھا.یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کس بات سے زیادہ خوش ہو تا ہے.تو رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا اس بات سے کہ اس کا ہا تھ جنگ میں مصروف ہو اور زرہ کے بغیر بے خوف لڑ رہا ہو.یعنی اگر جنگ کے میدان میں ہے تو پھر بے خوف ہونا چاہیے.اس پر حضرت عوف بن عفر الہ نے اپنی زرہ اتار دی اور آگے بڑھ کر لڑنا شروع کر دیا یہاں تک کہ شہید ہو گئے.غزوہ بدر میں ابو جہل نے عوف بن حارث اور آپ کے بھائی حضرت معوذ کو شہید کیا تھا.حدیث اور سیرت کی کتب میں غزوہ بدر میں ابو جہل پر حملہ کرنے والے صحابہ کے مختلف نام ملتے ہیں ان میں حضرت عوف بن عفراء کا نام بھی آتا ہے.یہ پہلے بھی ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں.771 سنن ابی داؤد میں ہے کہ ان کا نام عوف بن حارث تھا.72 عام طور پہ یہ دونوں نام ان کے بولے جاتے ہیں.بہر حال یہ ابو جہل کے قتل میں بھی شریک تھے اور ان کی شہادت بدر میں ہوئی.773 256 نام و نسب حضرت عویم بن ساعدہ حضرت غويم بن ساعده - حضرت غويم بن ساعدہ کا تعلق قبیلہ اوس کی شاخ بنو عمر و بن عوف سے تھا.بیعت عقبہ اولیٰ و ثانیہ میں شامل حضرت عویم بیعت عقبہ اولی اور ثانیہ دونوں میں شریک ہوئے.سیرت خاتم النبیین میں جو حوالہ ہے اس کے مطابق بیعت عقبہ اولیٰ سے قبل مدینہ کے انصار کا ایک گروہ نبی کریم صلی علی کم پر ایمان لایا تھا جن کی تعداد چھ تھی اور بعض روایات میں آٹھ افراد کا بھی ذکر ملتا

Page 338

اصحاب بدر جلد 5 322 ہے.ان میں حضرت عویم بن ساعدہ بھی شامل تھے.طبقات الکبری کے مطابق ہجرت مدینہ کے موقع پر رسول اللہ صلی للی نیلم نے حضرت عویم بن ساعدہ سے حضرت عمرؓ کی اور ایک دوسری روایت کے عظم مطابق حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی مواخات قائم فرمائی تھی.اہل جنت میں سے...حضرت عبد اللہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی العلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ عويم بن ساعدہ اللہ کے بندوں میں سے کیا ہی اچھا بندہ ہے اور وہ اہل جنت میں سے ہے.ایک روایت کے مطابق جب یہ آیت نازل ہوئی کہ فِيْهِ رِجَالُ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ المُظهِرِينَ (ات : 108) تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ عویم بن ساعدہ کیا ہی اچھا بندہ ہے.وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے.اس آیت فِيْهِ رِجَالُ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَرُوا وَاللهُ يُحِبُّ الْمُطَّهرین کا ترجمہ یہ ہے کہ اس میں آنے والے ایسے لوگ بھی ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ بالکل پاک ہو جائیں اور اللہ کامل پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو 774 پسند کرتا ہے.تمام غزوات میں شامل رض رض حضرت غويم بن ساعدہ غزوہ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی الی یم کے ساتھ شریک ہوئے.عاصم بن سوید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عویم بن ساعدہ کی بیٹی عبیدہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت عمر بن خطاب جب حضرت عویم بن ساعدہ " کی قبر پر کھڑے تھے تو انہوں نے فرمایا دنیا میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس صاحب قبر سے بہتر ہے.رسول اللہ صلی ال نیلم کے لیے جو بھی جھنڈا گاڑا گیا عویم اس کے سائے تلے ہوتے تھے.775 ایک روایت ایک روایت میں آتا ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں حارث کے باپ سوید نے حضرت مُجَنَّار کے باپ زیاد کو قتل کر دیا.اس کے بعد ایک دن مقتول کے بیٹے حضرت مُجنَّر نے سوید پر قابو پالیا اور انہوں نے اپنے باپ کے قاتل کو مار ڈالا.یہ دونوں واقعات اسلام سے پہلے کے ہیں اور یہی واقعہ جنگ بعاث جو اوس اور خزرج کے درمیان جنگ تھی اس کا سبب بنا تھا.اس کے بعد جب رسول اللہ صلی علی نام مدینہ تشریف لے آئے تو دونوں مقتولوں کے بیٹوں نے ، یعنی حارث بن سوید اور حضرت مجدد بن زیاد ، اسلام قبول کر لیا، مسلمان ہو گئے ، اور دونوں ہی غزوہ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے.اس روایت کی تصدیق کہاں تک ہے ؟ بہر حال یہ روایت ہے کہ اسلام لانے کے بعد بھی حارث بن سوید موقع کی تلاش میں رہا کرتے تھے کہ اپنے والد کے بدلے میں حضرت مجند کو قتل کریں لیکن اسے ایسا موقع نہ میسر آسکا.غزوۂ احد

Page 339

اصحاب بدر جلد 5 323 میں جب قریش نے مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کیا تو حارث بن سوید نے پیچھے سے حضرت مُجنَّد کی گردن پر وار کر کے انہیں شہید کر دیا اور ایک قول کے مطابق یہ بھی ہے کہ حارث بن سوید نے حضرت قیس بن زید کو بھی شہید کیا تھا.غزوہ حمراء الاسد سے واپسی پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی یہ کم کے پاس آکر آپ کو بتایا کہ حارث بن سوید اس وقت قبا میں موجود ہے.حارث بن سوید نے حضرت مجدد بن زیاد کو دھوکے سے عمل کر دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ ﷺ کو کہا کہ آپ حارث بن سوید کو حضرت مجدد بن زیاد کے بدلے میں قتل کریں.رسول کریم صلی لیے ہم یہ بات سن کے فور اقتبا تشریف لے گئے اور عام طور پر اس وقت آپ تشریف نہیں لے جاتے تھے.اس وقت قبامیں سخت گرمی تھی.آپ وہاں پہنچے تو قبا میں مقیم انصاری مسلمان آپ کے پاس آکر جمع ہو گئے جن میں حارث بن سوید بھی تھا جو ایک یا دو زر در نگ کی چادریں لیٹے ہوئے تھا.حضرت غو يمر بن ساعدہ نے آنحضرت صلی علیم کے ارشاد پر مسجد قبا کے دروازے پر حارث بن سوید کو قتل کیا.سیرۃ الحلبیہ میں ان صحابی کا نام جن کا ذکر ہو رہا ہے غویم کے بجائے عویمر بھی لکھا ہوا ہے جبکہ طبقات ابن سعد اور باقی جگہوں میں آپ کا نام عویم بن ساعدة ہی ہے.بہر حال ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی ا ہم نے عویم بن شوید کو قتل کرنے کا، مارنے کا نہیں فرمایا تھا جس نے مسلمان کو دھوکے سے شہید کیا تھا.دونوں ہی مسلمان تھے.قتل کا بدلہ قتل لیا گیا.دوسری روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی علی کرم نے حضرت عثمان کو حکم دیا تھا.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حارث نے کہا کہ خدا کی قسم میں نے مُجلد کو قتل کیا ہے مگر اس وجہ سے نہیں کہ میں اسلام سے پھر گیا ہوں ، نہ اس لیے کہ مجھے اسلام کی سچائی میں کوئی شبہ ہے بلکہ اس لیے کہ شیطان نے مجھے غیرت اور عار دلائی تھی اور اب میں اپنے اس فعل سے خدا اور اس کے رسول کے سامنے توبہ کرتا ہوں اور مقتول کا خون بہا دینے کے لیے تیار ہوں اور مسلسل دو مہینے روزے رکھوں گا اور ایک غلام کو آزاد کروں گا مگر رسول اللہ صلی الین نے حارث کی اس معافی کو قبول نہیں کیا اور اسے قتل کی سزادی گئی.76 روایت سیرۃ الحلبیہ کی ہے.ابو عمر کہتے ہیں کہ حضرت عویم رسول اللہ صلی علیم کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے.یہ روایت ابو عمر کی ہے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؐ کی وفات حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں 65 یا 66 سال کی عمر میں ہوئی تھی.777

Page 340

324 257 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب و کنیت حضرت عياض بن زُهير حضرت عیاض بن زهیر ان کی کنیت ابو سعد تھی.حضرت عیاض کی والدہ کا نام سلّمی بنتِ عامر تھا.آپ کا تعلق فھر قبیلہ سے تھا.ہجرت حبشہ اور مدینہ میں شامل آپ حبشہ کی طرف دوسری ہجرت میں شامل ہوئے.وہاں سے واپس آکر مدینہ ہجرت کی اور حضرت كُلفوم بن الهدم " کے ہاں قیام کیا.آپ غزوہ بدر، غزوہ احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں شرکت کی.حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں تیس ہجری میں مدینہ میں آپ نے وفات پائی اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کی وفات شام میں ہوئی.78 258 نام و نسب و کنیت حضرت قتادہ بن نعمان انصاری حضرت قتادہ بن نعمان انصاری کا.حضرت قتادہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو ظفر سے تھا.ان کے والد کا نام نعمان بن زید اور والدہ کا نام انیسہ بنت قیس تھا.حضرت قتادہ کی کنیت ابو عمر کے علاوہ ابو عمرو اور ابو عبد اللہ بھی بیان کی جاتی ہے.حضرت قتادہ حضرت ابو سعید خدرٹی کے اخیافی بھائی تھے یعنی والدہ کی طرف سے بھائی تھے.بیعت عقبہ اولیٰ میں شامل حضرت قتادہ کو ستر انصاری صحابہ کے ہمراہ بیعت عقبہ میں شمولیت کی توفیق ملی.البتہ دوسری روایت جو علامہ ابن اسحاق کی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ عقبہ میں شامل ہونے والے انصاری صحابہ میں یہ نہیں تھے یا انہوں نے ان کا تذکرہ نہیں کیا.

Page 341

اصحاب بدر جلد 5 325 رسول اللہ صل اللہ عوام کے تیر اندازوں میں سے حضرت قتادہ رسول اللہ صلی اللی علم کے مقرر کردہ تیر اندازوں میں سے تھے اور غزوہ بدر، احد، غزوہ خندق اور بعد کے دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ شمولیت کی توفیق ملی.رسول اللہ صلی ا ہم نے اس ڈیلے کو اپنے ہاتھ سے واپس رکھ دیا اور بینائی لوٹ آئی غزوہ احد کے روز حضرت قتادہ کی آنکھ پر تیر لگا جس سے ان کی آنکھ کا ڈیلا بہ کر باہر آگیا.وہ رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! یہ تیر لگا ہے تو میر اڈیلا باہر آگیا ہے اور بات یہ ہے کہ میں اپنی بیوی سے بڑی محبت کرتا ہوں.اگر اس نے میری آنکھ کو اس طرح دیکھا تو مجھے ڈر ہے کہ تمہیں وہ مجھ سے نفرت نہ کرنے لگے.وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال یکم نے اس ڈیلے کو اپنے اتھ سے واپس رکھ دیا ور میں جگہ پر قائم ہو گیا اور بنائی لوٹ آئی.اور بڑھا پے میں بھی دونوں آکھوں میں سے یہ والی آنکھ زیادہ قوی اور زیادہ صحیح تھی.ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلیا ہم نے جس آنکھ میں اپنا لعاب لگایا تھا اس کے نتیجے میں وہ دونوں میں سے حسین تر ہو گئی.779 جب بھی کوئی تیر رسول الله صلى ال علم کی طرف آتا تو میں اپنا سر اس کے آگے کر دیتا حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں، یہ خود انہوں نے اس واقعہ کی اپنی تفصیل بیان کی ہے کہ رسول الله صلى العلوم کو ایک کمان بطور ہدیہ دی گئی تو وہ غزوہ احد کے روز آپ صلی علی یم نے مجھے عطا فرمائی.میں اس کے ذریعہ رسول اللہ صلی علیکم کے سامنے تیر چلاتا رہا یہاں تک کہ اس کاؤ تر یعنی کمان کی جو ڈور ہوتی ہے وہ ٹوٹ گئی.میں اس کے باوجو د رسول اللہ صلی علیم کے چہرہ مبارک کے سامنے رہا.عموماً حضرت طلحہ کا ذکر ہوتا ہے.ان کا بھی ذکر ہے.کہتے ہیں میں سامنے کھڑا رہا.جب بھی کوئی تیر رسول اللہ صلی الی یم کی طرف آتا تو میں اپنا سر اس کے آگے کر دیتا تا کہ میں رسول اللہ صلی علیم کے چہرہ مبارک کے لیے ڈھال بن سکوں.اس وقت میرے پاس کوئی تیر نہیں تھا جسے میں چلا سکتا.اسی دوران ایک تیر میری آنکھ پر لگا جس سے میری آنکھ کاڈیلا نکل کر میری گال پر آگیا اور جتھہ منتشر ہو گیا.اس عرصے میں جب یہ جتھہ جو حملہ آور تھا منتشر بھی ہو گیا تو اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے ڈیلے کو پکڑا اور اسے اپنے ہاتھ پر رکھ کر رسول اللہ صلی علی کیم کی خدمت میں حاضر ہوا.قریب ہی تھا تو وہیں لے گیا.پس جب رسول اللہ صلی الم نے اسے میرے ہاتھ میں دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا اے اللہ اقتادہ نے اپنے چہرے کے ذریعے تیرے نبی کے چہرے کو بچایا ہے.پس تو اس کی اس آنکھ کو دونوں آنکھوں میں سے زیادہ خوبصورت اور زیادہ نظر والی بنا دے.چنانچہ وہ آنکھ دونوں میں سے زیادہ خوبصورت اور دونوں میں سے نظر کے اعتبار سے زیادہ تیز تھی.انہوں نے خود جو بیان کیا ہے وہاں بیوی کی محبت کا کوئی نہیں لکھا کہ اس لیے وہ مجھ سے نفرت 780

Page 342

اصحاب بدر جلد 5 326 کرے گی.تاریخ دانوں نے وہ واقعہ لکھا ہے جو پہلے میں نے بیان کیا تھا.واقعہ میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے یا ویسے ہی.بہر حال یہ جو روایت ہے اس میں بیوی کا یہ حوالہ کوئی بھی نہیں آتا لیکن بہر حال جنگ کے دوران آنکھ باہر آگئی.آنحضرت صلی علیم نے اس کو واپس اس جگہ پر رکھ دیا اور ان کی نظر وہیں دوبارہ بحال بھی ہو گئی اور بڑی اچھی ہو گئی اور اسی وجہ سے بعد میں حضرت قتادہ ”زوالعین “ یعنی آنکھ والے کے لقب سے بھی مشہور ہو گئے.تمام غزوات میں شامل 781 حضرت قتادہ غزوہ خندق اور دیگر تمام غزوات میں آنحضرت صلی علیم کے ہمراہ شریک ہوئے.فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ بنو ظفر کا جھنڈا حضرت قتادہ کے ہاتھ میں تھا.وفات حضرت قتادہ نے 65 سال کی عمر میں 23 ہجری میں وفات پائی.حضرت عمر نے مدینے میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی.قبر میں ان کے اخیافی بھائی حضرت ابو سعید خدری اور محمد بن مسلمہ اور حارث بن خُزمه اترے اور ایک روایت کے مطابق حضرت عمر بھی قبر میں اترنے والوں میں شامل تھے.حضرت قتادہ کے ایک پوتے کا نام عاصم بن عمر تھا جو علم الانساب کا ماہر تھا یعنی قبیلوں کے خاندانوں اور نسلوں کا جو علم ہو تا ہے اور اس سے علامہ ابن اسحاق نے بکثرت روایات بیان کی ہیں.ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی العلیم کے پاس ایک کمان تھی جس کا نام کیوھ تھا اور وہ نَبَع ایک درخت ہے جس سے تیر بنائے جاتے ہیں، اس سے بنی ہوئی تھی اور یہ وہ کمان تھی جو غزوۂ احد کے روز حضرت قتادہ کے ہاتھ سے کثرتِ استعمال کی وجہ سے ٹوٹی تھی.783 782 وم ایک چوری کا واقعہ حضرت قتادہ بن نعمان کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک خاندان ایسا تھا جنہیں بَنُو ابیرق کہا جاتا تھا.ان میں تین بھائی تھے بشر، بشیر اور مبشر.بشیر منافق تھا.شعر کہتا تھا اور اشعار کے ذریعہ رسول اللہ صلی یم کے صحابہ کی ہجو کرتا تھا.بظاہر یہ مسلمان تھا لیکن بعض عمل اس کے ایسے نہیں تھے.پھر ان کو بعض عرب کی طرف سے منسوب کر کے کہتا تھا کہ فلاں نے ایسا ایسا کہا ہے.جب رسول اللہ صلی علیکم کے صحابہ نے یہ شعر سناجو وہ شعر کہتا تھا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! یہ شعر اسی بد باطن شخص نے کہا ہوا ہے اور انہوں نے یعنی صحابہ نے کہا کہ یہ اشعار ابن اب ترقی کے کہے ہوئے ہیں.وہ لوگ زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں ہی میں محتاج اور فاقہ زدہ لوگ تھے.کوئی ان میں تبدیلی نہیں پیدا ہوئی.کام نہیں کرتے تھے یا محنت نہیں کرتے تھے.اس وجہ سے بہر حال بہت زیادہ غریب تھے.پھر کہتے ہیں کہ مدینے میں لوگوں کا کھانا کھجور اور جو ہی ہو تا تھا.جب کوئی شخص مال دار ہو جاتا اور کوئی غلوں کا تاجر شام سے سفید آٹا لے کر

Page 343

اصحاب بدر جلد 5 327 آتا، پیساہوا ابار یک آنا تو وہ مال دار شخص اس میں سے کچھ خرید لیتا اور اسے اپنے کھانے کے لیے مخصوص کر لیتا.لیکن اس کے بال بچے جو تھے وہ کھجور اور جو ہی کھاتے رہتے تھے.کہتے ہیں ایک بار ایسا ہوا کہ جب ایک غلے کا تاجر شام سے آیا تو میرے چار فاعہ بن زید نے میدے کی، سفید آٹے کی ایک بوری خریدی اور اسے اپنے گودام میں رکھ دیا.اس گودام میں ہتھیار اور زرہ اور تلوار بھی رکھی ہوئی تھی، اسلحہ بھی رکھا ہوا تھا.کہتے ہیں ان پر ظلم یہ ہوا کہ اس گودام میں نقب لگائی گئی اور دیوار توڑ کے اندر چور آگئے اور راشن اور ہتھیار سب کا سب چرالیا گیا.صبح کے وقت میرے چار فاعہ میرے پاس آئے اور کہا کہ میرے بھتیجے! آج کی رات تو میرے پر بڑا ظلم کیا گیا ہے.ہمارے گودام میں نقب لگائی گئی ہے.ہمار اراشن اور ہمارے ہتھیار سب کچھ چرا لیے گئے ہیں.ہم نے محلے میں پتا لگانے کی کوشش کی ہے اور لوگوں سے پوچھ گچھ کی ہے تو ہم سے کہا گیا کہ ہم نے بنو ابیرق کو آج رات دیکھا ہے، انہوں نے آگ جلار کبھی تھی اور ہمارا خیال ہے کہ تمہارے ہی کھانے پر وہ جشن منارہے ہوں گے یعنی چوری کا مال پکا کر کھا رہے ہوں گے.جب ہم محلے میں پوچھ کچھ کر رہے تھے تو بنو بیرق نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہمیںتو تمہارا چور لبید بن سہل ہی لگتا ہے، کسی اور کا نام لگا دیا.کہتے ہیں کہ لبید ہم میں سے ایک صالح مرد اور مسلمان شخص تھے.جب لبید نے یہ سنا کہ بنو ابیرق اس پہ چوری کا الزام لگا رہے ہیں تو انہوں نے اپنی تلوار سونت لی اور کہا کہ میں چور ہوں؟ اللہ کی امیری یہ تلوار تمہارے بیچ رہے گی یا پھر تم اس چوری کا پتا لگا کر دو گے.بڑے غصے میں کہا کہ اب یہ فیصلہ ہو گا.لوگوں نے کہا کہ جناب آپ اپنی تلوار دور رکھیں.آپ چور نہیں ہیں.ہمیں یقین ہے کہ بڑے نیک آدمی ہیں.ہم نے محلے میں مزید پوچھ گچھ کی تو ہمیں اس میں شک نہیں رہ گیا کہ وہی بنوا بیر ق چور ہیں.میرے چچا نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! اگر تم رسول اللہ صلی علی کیم کے پاس جاتے اور آپ سے اس حادثے کا ذکر کرتے تو ہو سکتا ہے میر امال مجھے مل جاتا.حضرت قتادہ بن نعمان کہتے ہیں کہ میں یہ بات سن کر رسول اللہ صلی علیکم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہمارے ہی لوگوں میں سے ایک گھر والے نے ظلم و زیادتی کی ہے.انہوں نے میرے چار فاعہ بن زید کے گھر کا رخ کیا ہے اور ان کے گودام میں نقب لگا کر ان کے ہتھیار اور ان کا راشن چرالیا ہے.ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہتھیار ہمیں واپس دے دیں.جہاں تک راشن یا غلے کا تعلق ہے تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں.نبی اکرم صلی الیم نے فرمایا کہ میں اس بارے میں مشورے کے بعد کوئی فیصلہ دوں گا.جب یہ بات بنو ابیرق نے سنی تو اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس آئے.اس شخص کو آسیمیر بن عروہ کہا جاتا تھا.انہوں نے اس سے اس معاملے میں بات کی اور محلے کے مچھ لوگ بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ ایک رائے ہو گئے اور ان سب نے رسول اللہ صلی لیلی کیم کے پاس پہنچ کر کہا کہ اے اللہ کے رسول ! قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا دونوں ہمیں لوگوں میں سے ایک گھر والوں پر جو مسلمان ہیں اور اچھے لوگ ہیں بغیر کسی گواہ اور بغیر کسی ثبوت کے چوری کا الزام لگاتے ہیں.قتادہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آیا، آپ سے بات چیت کی.آپ صلی علیم نے فرمایا تم نے ایک ایسے گھر والوں پر چوری کرنے کا الزام عائد کیا ہے جن کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور بھلے لوگ ہیں اور تمہارے پاس کوئی گواہ اور ثبوت بھی نہیں ہے.قتادہ کہتے ہیں میں آپ کے پاس سے واپس آ

Page 344

اصحاب بدر جلد 5 328 گیا.نیک فطرت تھے ، بڑے نیک تھے، کہتے ہیں میں واپس آگیا اور میرا جی چاہا کہ میں اپنے کچھ مال سے محروم ہو گیا ہوتا تو مجھے گوارا ہو تا لیکن اس معاملے میں رسول اللہ صلی علیم سے میں نے بات نہ کی ہوتی.آنحضرت صلی للی کم کی یہ بات سن کر مجھے خیال آیا کہ میں نے یوں ہی آنحضرت صلی علیہ کم کو تکلیف پہنچائی.اگر میر امال چلا بھی جاتا تو کوئی حرج نہیں تھا لیکن میں یہ بات نہ کرتا.کہتے ہیں پھر میرے چچانے میرے پاس آ کر کہا کہ بھتیجے تم نے اس معاملے میں اب تک کیا کیا ہے ؟ رسول اللہ صلی علیم نے مجھے جو جواب دیا تھا میں نے انہیں وہ بتا دیا.وہی جو اب انہیں دے دیا.اس پر انہوں نے کہا کہ اللہ ہی ہمارا مددگار ہے.ہماری اس بات چیت کو ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں کہ اِنَّا اَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بالْحَقِّ لِتَحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَيكَ اللهُ وَلَا تَكُنْ لِلْخَابِنِيْنَ خَصِيمًا ( الماء :106) یعنی ہم نے یقینا تیری طرف کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ تُو لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ نے تجھے سمجھایا ہے اور خیانت کرنے والوں کے حق میں بحث کرنے والانہ بن.خائنین سے مراد یہاں لکھا ہے کہ بنو ابیر ق ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ واسْتَغْفِرِ اللہ کہ اللہ سے مغفرت چاہو.اِنَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء:107) یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بڑار حیم ہے، مہربان ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ وَلَا تُجَادِلُ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَانًا أَثِيمًا - يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لَا يَرْضَى مِنَ الْقَوْلِ وَكَانَ اللهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا - هَاَنْتُمْ هَؤُلَاءِ جَدَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فَمَنْ يُجَادِلُ اللهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ اَم مَنْ يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكَيْلًا - وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا - ( النساء: 108-111) اور ان لوگوں کی طرف سے بحث نہ کر جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں یقینا اللہ سخت خیانت کرنے والے گناہ گار کو پسند نہیں کرتا.وہ لوگوں سے تو چھپ جاتے ہیں جبکہ اللہ سے نہیں چھپ سکتے اور وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ راتیں ایسی باتیں کرتے ہوئے گزارتے ہیں جو وہ پسند نہیں کرتا اور اللہ اسے گھیرے ہوئے ہے جو وہ کرتے ہیں.دیکھو تم وہ لوگ ہو کہ تم دنیا کی زندگی میں تو ان کے حق میں بخشیں کرتے ہو.پس قیامت کے دن ان کے حق میں اللہ سے کون بحث کرے گا یا کون ہے جو ان کا حمایتی ہو گا اور جو بھی کوئی بر افعل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا پائے گا.پھر آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يَكْسِبُ اثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ وَ كَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا - وَمَنْ يَكْسِبُ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا.(النساء :112-113) یعنی جو کوئی گناہ کماتا ہے تو یقینا وہ اسے اپنے ہی خلاف کماتا ہے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا اور حکمت والا ہے اور جو کسی خطا کا مر تکب ہو یا گناہ کرے پھر کسی معصوم پر اس کی تہمت لگا دے تو اس نے بہت بڑا بہتان اور کھلا کھلا گناہ کا بوجھ اٹھایا ہے.کہتے ہیں کہ اس سے اشارہ بنو ابیرق کی اس بات کی طرف ہے جس میں

Page 345

اصحاب بدر جلد 5 329 b انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ چوری لبید بن سہل نے کی ہے اور پھر آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولولا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ وَ رَحْمَتُهُ لَهَمَّتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ اَنْ يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِنْ شَيْءٍ وَ اَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَ كَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجُوبُهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاح بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا - (انسان 114-115) اور اگر تجھ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتے تو ان میں سے ایک گروہ نے تو ارادہ کر رکھا تھا کہ وہ ضرور تجھے گمراہ کر دیں گے لیکن وہ اپنے سوا کسی کو گمراہ نہیں کر سکتے اور وہ تجھے ہر گز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتارے ہیں اور تجھے وہ کچھ سکھایا ہے جو تو نہیں جانتا تھا اور تجھ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے.ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی کی بات نہیں سوائے اس کے کہ کوئی صدقہ یا معروف کی یالوگوں کے درمیان اصلاح کی تلقین کرے.اور جو بھی اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش میں ایسا کرتا ہے تو ضرور ہم اسے ایک بڑا اجر عطا کرتے ہیں.بہر حال ان آیات کے اور بھی بڑے مطالب ہیں لیکن اگر اس کے بارے میں بھی لیا جائے تو کچھ عرصے بعد ان کو یہی خیال ہوا کہ ہمارے اس معاملے میں یہ ساری آیات نازل ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی علی علم پر حقیقت کھول دی اور پھر اس کا اثر یہ بھی ہوا کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو بنو ابیر ق، جن پہ چوری کا شبہ تھا انہوں نے سمجھا کہ یہ ہمارے بارے میں ہی ہے تو انہوں نے اپنی وہ چوری تسلیم کر لی اور ہتھیار رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس لے آئے اور پھر آپ صلی الم نے وہ ہتھیار رفاعہ کو جو مالک تھے ان کو لوٹا دیے.حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میرے چچا بوڑھے تھے اور اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ان کی نگاہیں کمزور ہو چکی تھیں اور میں سمجھتا تھا کہ ان کے ایمان میں کچھ خلل ہے.یہ سمجھتا تھا کہ ایمان تو یہ لے آئے ہیں، مسلمان ہو گئے ہیں لیکن ایمان مضبوط نہیں ہے.لیکن جب یہ ہتھیار ان لوگوں کی طرف سے واپس ہوئے جنہوں نے یہ چرائے تھے اور جب میں ہتھیار لے کے اپنے چچا کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ میں دیتا ہوں تو اس وقت مجھے پتالگ گیا اور میں نے یقین کر لیا کہ چچا کا اسلام پختہ اور درست تھا اور مجھے یوں ہی ان پہ شک تھا کہ ان کا ایمان مضبوط نہیں.جب قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں تو بشیر جو ان میں سے ایک بھائی تھا جس کے بارے میں انہوں نے پہلے کہا کہ اس پر ان کو منافقت کا شک تھا وہ جا کے مشرکوں میں شامل ہو گیا اور سُلافہ بنتِ سعد کے پاس جا ٹھہرا.اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی : وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلِّلًا بَعِيدًا (النساء: 117،116)

Page 346

اصحاب بدر جلد 5 330 کہ جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر روشن ہو چکی ہو اور مومنوں کے طریق کے سوا کوئی اور طریق اختیار کرے تو ہم اسے اسی جانب پھیر دیں گے جس جانب وہ مڑ گیا ہے اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت بر اٹھکانہ ہے.یقینا اللہ معاف نہیں کرتا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے اور جو اس کے سوا ہے معاف کر دیتا ہے جس کے لیے چاہے اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو وہ یقینا دور کی گمراہی میں بہک گیا.جب یہ اس مشرک شلاقہ کے پاس جاکر ٹھہرا اور اسلام سے ہٹ گیا تو حضرت حسان بن ثابت نے اپنے چند اشعار کے ذریعہ اس کی ہجو کی.یہ سن کر وہ یعنی سُلافہ بنت سعد جو تھی اس کا سامان اپنے سر پر رکھ کر گھر سے نکلی اور میدان میں پھینک آئی اور پھر اس نے کہا کہ تم نے ہمیں حسان کے شعر کا تحفہ دیا ہے یعنی اس نے یہ ہجو لکھی ہے اور تمہاری وجہ سے لکھی گئی ہے ہم بھی اس میں شامل ہو گئے.تم سے مجھے کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں.784 اس لیے میں تمہار ا سامان نہیں رکھوں گی.تو یہ منافق کا یا پھر مشرک کا انجام ہوا.ساری رات سورت اخلاص پڑھتے رہے پھر حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ حضرت قتادہ بن نعمان نے ایک مر تبہ سورۂ اخلاص ہی پر ساری رات گزار دی.ساری رات سورت اخلاص پڑھتے رہے.نبی کریم صلی اللی کم کے سامنے جب اس کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی للی کم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم !جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! سورۃ اخلاص نصف یا تہائی قرآن کے برابر ہے.785 جو آگے یہ کہتے ہیں وہ یہی بات کی تھی یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت جو ہے وہی تو حقیقی قرآن ہے اور قرآن کریم میں اسی کی تعلیم ملتی ہے.جمعے کے دن قبولیت دعا کی ایک گھڑی ابوسلمہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ہم سے رسول اللہ صلی نیلم کی حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جمعے کے دن ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اگر وہ کسی مسلمان کو اس حال میں میسر آجائے کہ وہ نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ سے خیر کا سوال کر رہا ہو تو اللہ اسے وہ چیز ضرور عطا فرما دیتا ہے.اور حضرت ابو ہریرہ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اس ساعت کا مختصر حال بیان فرمایا کہ بہت چھوٹی سی ہے.جب حضرت ابو ہریرہ کی وفات ہوئی تو کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ بخدا اگر میں حضرت ابو سعید خدری کے پاس گیا تو ان سے اس گھڑی کے متعلق ضرور پوچھوں گا.ہو سکتا ہے انہیں اس کا علم ہو.چنانچہ ایک مرتبہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا وہ چھڑیاں سیدھی کر رہے تھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ اے ابو سعید ا یہ کیسی چھڑیاں ہیں جو آپ سیدھی کر رہے ہیں ؟ جو سوئیاں تھیں وہ میں آپ کو سیدھی کرتے دیکھ رہا ہوں.انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ چھڑیاں ہیں جن میں اللہ

Page 347

331 اصحاب بدر جلد 5 تعالیٰ نے ہمارے لیے برکت رکھی ہے.رسول اللہ صلی علیکم انہیں پسند فرماتے تھے اور انہیں ہاتھ میں پکڑ چلا کرتے تھے.ہم انہیں سیدھا کر کے نبی کریم صلی علیم کے پاس لاتے تھے.کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی عوام نے مسجد میں قبلہ رخ تھوک لگا ہوا دیکھا.کسی نے تھوک پھینکا تو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ان میں سے ہی ایک چھڑی تھی.آپ نے اس چھڑی سے اسے صاف کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہو تو سامنے مت تھو کے کیونکہ سامنے اس کا رب ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو رہے ہو تو سامنے کی طرف نہ تھو کا کرو اور اس وقت میرا خیال ہے ابھی پوری طرح احکامات بھی نہیں تھے.اس لیے اس روایت میں یہ ہے کہ بائیں جانب یا پاؤں کے نیچے تھو کو اور یہ روایت بخاری میں بھی ہے.اس وقت بیچی جگہ ہوتی تھی اور بعد میں مٹی ڈال کر یا مٹی سے صاف کر دیتے ہوں گے اس لیے نیچے تھوکنے کا کہا لیکن اصل جو ایک اور روایت ہے اور بعد میں جب صحیح تربیت بھی ہو گئی اور احکامات بھی آگئے تو اس میں یہی ہے کہ تمہارا جو چادر کا پتو ہے اس میں صاف کیا کرو.ناک ہے یا تھوک ہے اُسے صاف کرنے کی اگر کوئی حاجت پڑ جائے تو کیونکہ اب تو رومال ہیں، ٹشو ہیں اور مسجدوں میں ویسے بھی قالین ہوتے ہیں اس لیے اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیچے تھوکنا جائز ہے بلکہ ان حالات میں ایک وقتی اجازت تھی اور اس کے بعد پھر آپ نے با قاعدہ وضاحت سے بیان فرمایا کہ اگر ایساناک صاف کرنے کی یا تھوکنے کی کوئی حاجت پڑ جائے تو چادر کے ایک کونے سے لو اور اسے لپیٹ دو اور باہر جاکے صاف کر دو.روشنی دینے والی چھڑی...تو راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر اسی رات خوب زور دار بارش ہوئی اور جب نماز عشاء کے لیے نبی کریم صلی یکم وہاں تشریف لائے تو ایک دم بجلی چمکی تو آپ کی نظر حضرت قتادہ بن نعمان پر پڑی.آپ نے فرمایا اے قتادہ ! رات کے اس وقت تم یہ کیا کر رہے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی علیکم مجھے معلوم تھا کہ آج نماز کے لیے بہت تھوڑے لوگ آئیں گے.بارش بہت ہو رہی ہے، بجلی چمک رہی ہے تو میں نے سوچا کہ میں نماز میں شریک ہو جاؤں اور میں پہلے آگیا.نبی کریم صلی العلیم نے فرمایا جب تم نماز پڑھ چکو تو رک جانا یہاں تک کہ میں تمہارے پاس سے گزرنے لگوں.چنانچہ نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم ملی الم نے حضرت قتادہ کو ایک چھڑی دی اور فرمایا یہ لے لو.یہ تمہارے دس قدم آگے اور دس قدم پیچھے روشنی دے گی پھر جب تم اپنے گھر میں داخل ہو اور وہاں کسی کونے میں کسی انسان کا سایہ نظر آئے تو اس کے بولنے سے پہلے اسے اس چھڑی سے مار دینا کہ وہ شیطان ہو گا.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو یہ ابو سعید کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم ان چھڑیوں کو پسند کرتے ہیں.یہ چھڑیاں ہمیں آنحضرت صلی اہل علم نے دی ہوئی ہیں اور ہم خاص طور پر بنا کے دیا کرتے تھے اور آپ استعمال کیا کرتے تھے.پھر واپس بھی کر دیتے تھے یا تحفے کے طور پر دے دیتے تھے اور ان چھڑیوں میں یہ بہت ساری برکات ہیں اس لیے میں ان کو جوڑ رہا ہوں.

Page 348

اصحاب بدر جلد 5 332 پھر یہ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے ابو سعید ! حضرت ابو ہریرہ نے ہمیں ایک ایسی گھڑی کے متعلق حدیث سنائی ہے جو کہ جمعے کے دن آتی ہے.وہ سوال تو وہ پوچھنے گیا تھا لیکن پھر وہاں ان کو یہ دیکھتے ہوئے کہ سوٹیوں کو اکٹھے کر رہے ہیں، arrange کر رہے ہیں تو اس کا ضمنا ذکر آگیا اور اس کی تفصیل بیان ہو گئی.اب دوبارہ وہ اپنے سوال کی طرف لوٹتے ہیں اور کہتے ہیں.یہ ابو ہر برٹا سے یہ روایت ہے کہ جمعے کے دن ایسی گھڑی آتی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے، کیا آپ کو اس ساعت کا علم ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی علیم سے اس ساعت کے متعلق دریافت کیا تھا تو نبی کریم ملی الم نے فرمایا کہ مجھے پہلے تو وہ گھڑی بتائی گئی تھی لیکن پھر شب قدر کی طرح بھلادی گئی.ابو سلمہ کہتے ہیں کہ پھر میں وہاں سے نکل کر حضرت عبد اللہ بن سلام کے پاس چلا گیا.مسند احمد بن حنبل کی جو یہ روایت بیان ہوئی ہے اس میں جمعے کے روز جس گھڑی کا ذکر ہے اس گھڑی کے بارے میں مختلف روایات ہیں.ان روایات سے تین مختلف اوقات کا یا باتوں کا پتا لگتا ہے.پہلا تو یہ کہ یہ گھڑی جمعے کے دوران آتی ہے.دوسر اجو مختلف روایتیں بیان ہوئی ہیں ان سے یہ کہ دن کے آخری 787 786 حصے میں آتی ہے.اور تیسری یہ کہ نماز عصر کے بعد آتی ہے.چنانچہ یہ روایات یہاں بیان کر دیتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے جمعے کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا اس میں ایک گھڑی ہے جو مسلمان بندہ اس گھڑی کو ایسی حالت میں پائے گا کہ وہ اس میں کھڑ انماز پڑھ رہا ہو گا تو وہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے گاوہ ضرور اس کو دے گا اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ گھڑی بہت تھوڑی سی ہے.وہ بہت تھوڑا وقت ہے.پھر ایک صحیح مسلم کی روایت ہے ابو بردہ بن ابو موسی اشعری سے روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے مجھ سے کہا کیا تم نے اپنے والد سے جمعے کی گھڑی کی کیفیت کے بارے میں رسول اللہ صلی علیم سے حدیث بیان کرتے سنا ہے ؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہاں میں نے سنا ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی نیلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ گھڑی امام کے بیٹھنے سے نماز کے ختم ہونے کے سة درمیان ہوتی ہے.788 پھر ایک اور روایت ہے.حضرت عبد اللہ بن سلام نے بیان کیا کہ میں نے ایک مرتبہ جبکہ رسول اللہ صلی الله علم تشریف فرما تھے عرض کیا کہ ہم اللہ کی کتاب میں جمعے کے دن ایک ایسی گھڑی کا ذکر پاتے ہیں کہ مومن بندہ جو نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ سے کچھ مانگ رہا ہو وہ اس گھڑی کو نہیں پاتا مگر اللہ اس کی وہ حاجت پوری کر دیتا ہے.حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا " یا گھڑی کا کچھ حصہ یا ایک تھوڑا سا وقت ہے." میں نے عرض کیا کہ جی یا گھڑی کا کچھ حصہ." پھر میں نے عرض کیا کہ وہ کون سی گھڑی ہے ؟ تو آپ صلی علیم نے فرمایا کہ وہ دن کی آخری گھڑیوں میں سے ہے.یعنی دن ڈھلنے کے قریب ہے.میں نے کہا وہ نماز کی گھڑی نہیں ہے ؟ آپ نے

Page 349

اصحاب بدر جلد 5 333 فرمایا کیوں نہیں.مومن بندہ جب نماز پڑھ لے اور بیٹھ جائے اور صرف نماز ہی اسے روکے ہوئے ہو تو وہ نماز میں ہی ہے.789 نماز کے بعد پھر بھی اگر ذکر الہی کر رہا ہے تو وہ نماز کی حالت ہی ہے اور دعا کی کیفیت ہی اس میں پیدا ہوتی ہے.پھر ایک اور روایت حضرت ابو ہریرہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی الی ایم نے فرمایا کہ جمعے کے دن ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو اس حال میں میسر آجائے کہ وہ اللہ سے خیر کا سوال کر رہا ہو تو اللہ اسے وہ چیز ضرور عطا فرما دیتا ہے اور وہ عصر کے بعد کی گھڑی ہے.190 یہاں جمعے کا دن ہے لیکن عصر کے بعد کی روایت مسند احمد بن حنبل کی آتی ہے.پھر ایک روایت میں ذکر ہے کہ حضرت ابو سلمہ نے اس گھڑی کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ آخِرُ ساعات النهار یعنی یہ گھڑی دن کی آخری گھڑیوں میں سے ہے.791 اس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے ایک جگہ تفسیر میں بیان فرمایا ہے کہ جمعہ اور رمضان کو آپس میں ایک مشابہت حاصل ہے اور وہ یہ کہ جمعہ بھی قبولیت دعا کا دن ہے اور رمضان بھی قبولیتِ دعا کا مہینہ ہے.جمعے کے متعلق رسول کریم صلی ا یکم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نماز کے لیے مسجد میں آجائے اور خاموش بیٹھ کر ذکر الہی میں لگا ر ہے ، امام کا انتظار کرے اور بعد میں اطمینان کے ساتھ خطبہ سنے اور نماز باجماعت میں شامل ہو تو اس کے لیے خاص طور پر خدا تعالیٰ کی برکات نازل ہوتی ہیں اور پھر ایک گھڑی جمعے کے دن ایسی بھی آتی ہے کہ جس میں انسان جو دعا بھی کرے قبول ہو جاتی ہے.حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی علی یکم نے جمعے کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا: اس میں ایک گھڑی ہے جو مسلمان بندہ اس گھڑی کو ایسی حالت میں پائے گا کہ وہ اس میں کھٹر انماز پڑھ رہا ہو گا تو وہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے گا وہ اس کو ضرور دے گا اور آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ گھڑی تھوڑی سی ہے.یہ بخاری کی حدیث ہے جس کا پہلے ذکر تھا.یہ بھی ابو ہریرہ سے روایت ہے.آپنے لکھتے ہیں کہ قانونِ الہی کے ماتحت اس حدیث کی ایک تعبیر تو ضرور کرنی پڑے گی کہ وہی دعائیں قبول ہوتی ہیں جو سنت اللہ اور قانونِ الہی کے مطابق ہوں.غلط قسم کی دعائیں تو بہر حال قبول نہیں ہوں گی.دعائیں وہی قبول ہوں گی جو اللہ کی سنت کے مطابق ہیں.جو جائز دعائیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ہیں لیکن جہاں یہ بہت بڑی نعمت ہے وہاں یہ آسان امر بھی نہیں ہے.جمعے کا وقت قریباً دوسری اذان یا اس سے کچھ دیر پہلے سے شروع ہو کر نماز کے بعد سلام پھیر نے تک ہوتا ہے.اگر یہ دونوں وقت ملا لیے جائیں اور خطبہ جمعہ چھوٹا بھی ہو تو یہ وقت بھی آدھ گھنٹہ ہو جاتا ہے اور اگر خطبہ لمبا ہو جائے تو یہ وقت گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بھی ہو سکتا ہے.اس ایک گھنٹے یا ڈیڑھ گھنٹے میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جب انسان کوئی دعا کرے تو وہ قبول ہو جاتی ہے لیکن اس توے منٹ کے عرصے میں انسان کو یہ علم نہیں ہو تا کہ آیا پہلا منٹ قبولیت دعا کا ہے، دوسرامنٹ قبولیت دعا کا ہے یا تیسرا

Page 350

اصحاب بدر جلد 5 334 منٹ قبولیتِ دعا کا ہے.یہاں تک کہ توے منٹ کے آخر تک انسان کسی منٹ کے متعلق بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ قبولیت دعا کا وقت ہے.گویا وہ گھڑی جس میں ہر دعا قبول ہوتی ہے توے منٹ میں تلاش کرنی پڑے گی اور وہی شخص قبولیت دعا کا موقع تلاش کرنے میں کامیاب ہو سکے گا جو برابر توے منٹ تک دعا کرتار ہے اور توہے منٹ تک برابر دعا میں لگے رہنا اور توجہ کو قائم رکھنا یہ ہر ایک کا کام نہیں، بڑا مشکل کام ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ تو پانچ منٹ بھی اپنی توجہ قائم نہیں رکھ سکتے.کہتے ہیں کہ میں اس وقت مثلاً نماز کے لیے آیا ہوں.انسان اِدھر اُدھر نظر مارتا ہی ہے.میں نے خطبہ سے پہلے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ سنتیں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور یک دم ان کی آنکھ ادھر ادھر جاپڑتی تھی.سنتوں پر ڈیڑھ دو منٹ لگتے ہیں مگر اس تھوڑے سے وقت میں بھی وہ کبھی دائیں دیکھتے تھے، کبھی بائیں دیکھتے تھے، کبھی زمین کی طرف دیکھتے تھے، کبھی آسمان کی طرف دیکھتے تھے.جب ڈیڑھ دومنٹ تک توجہ کو قائم رکھنا مشکل ہے تو تو ے منٹ تک دعا کرتے رہنا، ذکر الہی میں لگے رہنا اور توجہ کو ایک ہی طرف قائم رکھنا کوئی آسان بات نہیں.پس یہ گھڑی کا ذکر بھی ہے تو اس میں مسلسل توجہ کی بھی ضرورت ہے اور یہ بڑی محنت طلب چیز ہے اور اس کے لیے بڑا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے.یہ آسان چیز نہیں ہے.یہ نہیں کہ ہم نے دعا کی تو اس منٹ میں قبول ہو گئی.انسان کو نہیں پتا کون سامنٹ ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ اس عرصے میں انسان بغیر توجہ ہٹائے مسلسل دعا میں لگا رہے اور یہ لگا رہنا ضروری ہے اور جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ہے.میں نے ذکر کیا کہ یہ آسان کام نہیں ہے.جمعے کی برکات کو حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہے.793 792 259 نام و نسب حضرت قدامہ بن مظعون 794 حضرت قدامہ بن مظعون.حضرت قدامہ بن مظعون حضرت عثمان بن مظعون کے بھائی ہیں اور حضرت عمر کی بہن حضرت صفیہ آپ کے عقد میں تھیں.حضرت قدامہ بن مظعون کی ایک سے زائد شادیاں تھیں.ایک اہلیہ ہند بنت ولید تھیں جن سے عمر اور فاطمہ پیدا ہوئے.ایک بیوی فاطمہ بنت ابو سفیان تھیں جن سے آپ کی بیٹی عائشہ پید اہوئیں.اسی طرح اتم ولد کے بطن سے حفصہ اور حضرت صفیہ بن خطاب کے بطن سے حضرت رملہ پیدا ہو ئیں.795

Page 351

اصحاب بدر جلد 5 335 قبول اسلام اور سارا خاندان مدینہ ہجرت کر گیا قبول اسلام کے وقت ان کی عمر انیس برس کی تھی، گویا عین جوانی میں ہی انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ہجرت مدینہ کے وقت آپ کا سارا خاندان مکہ میں اپنے مکانوں کو بالکل خالی چھوڑ کر مدینہ چلا گیا.مدینہ میں حضرت عبد اللہ بن سلمہ عجلانی نے اس خاندان کو اپنا مہمان بنایا.آنحضور صلی اللہ ہم جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ نے حضرت قدامہ اور ان کے بھائیوں کو مستقل رہائش کے لئے قطعات زمین مرحمت فرمائے.796 دونوں ہجر تیں کرنے والے اور تمام غزوات میں شامل حضرت قدامہ ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے تھے.دونوں ہجر توں یعنی ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ میں شامل ہوئے.ان کو غزوہ بدر اور احد سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی علیم کے ہمراہ شامل ہونے کی توفیق ملی.797 عورت کی آزادی رائے جب حضرت عثمان بن مظعون کی وفات ہوئی تو آپ نے اپنے پیچھے ایک بیٹی چھوڑی جس کے متعلق آپ نے اپنے بھائی حضرت قدامہ کو تاکیدی نصیحت فرمائی.اس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت قدامہ دونوں میرے ماموں تھے.پس میں حضرت قدامہ کے پاس گیا اور ان سے درخواست کی کہ حضرت عثمان بن مظعون کی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دیں تو آپ نے مجھ سے بات پکی کر دی، رشتہ ہو گیا.مغیرہ بن شعبہ اس لڑکی کی والدہ کے پاس گئے اور انہیں مالی لحاظ سے رغبت دلائی اور لڑکی کی رائے بھی اپنی والدہ کے حق میں تھی، ایک اور رشتہ آیا اور لڑکی کی والدہ اور لڑکی کی رغبت یار شتہ کرنے کارجحان دوسری طرف تھا.یہ معاملہ آنحضرت صلی علیہ کم کی خدمت میں پہنچا.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت قدامہ کو بلا بھیجا اور اس رشتہ کے بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ ! یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے.میں اس کے لئے رشتہ چننے میں کوئی کو تاہی نہیں کروں گا.میرے بھائی کی بیٹی ہے اور وہ فوت ہو گیا ہے ، میں اس کے رشتے کے لئے جو بہترین ہو گا وہی کروں گا چنانچہ میں نے جو پہلے ہاں کر دی ہے اس کو بہتر سمجھ کے کی ہے.اس پر آپ صلی علی کرم نے فرمایا کہ یہ یتیم بچی ہے اس کی شادی اس کی مرضی سے ہو گی.اس کا باپ نہیں ہے ، ٹھیک ہے تم نے بہترین کیا ہو گا لیکن اس بچی کی مرضی بھی پوچھو.دونوں رشتوں میں سے جہاں بچی کہے گی وہاں شادی ہو گی.پس آپ صلی ایم نے اس کے بعد یہ فیصلہ کیا.یہ راوی جنہوں نے پہلے خود پیغام بھیجا تھا، رشتہ دار تھے ، بھانجے تھے بیان کرتے ہیں کہ میرے بجائے اس کا نکاح مغیرہ سے کر دیا.798 دوسرا رشتہ جو پسند تھا اس کی ماں کو اور لڑکی کو اس سے رشتہ ہو گیا.تو یہ عورت کی آزادی رائے

Page 352

اصحاب بدر جلد 5 336 تھی جس کو آنحضرت صلی الم نے قائم فرمایا اور جو یتیم ہے اس کا خاص طور پر خیال رکھنے کو کہا کہ باپ کا سامیہ اس پر نہیں ہے تو زیادتی نہ ہو جائے اس لئے لڑکی کی مرضی بہر حال دیکھی جانی چاہئے.حضرت قدامہ نے 36 ہجری میں 68 سال کی عمر میں وفات پائی.799 اللہ تعالیٰ یہ دین کا فہم و ادراک اور اطاعت و وفا کے حقیقی نمونے اور عشق رسول کے اعلیٰ معیار ان صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیں بھی حاصل کرنے، اپنانے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کے فتنوں کا حصہ بننے سے ہمیں ہمیشہ بچائے.800 260 نام و نسب حضرت قطبہ بن عامر حضرت قطبہ بن عامر.یہ انصاری تھے.عامر بن حدیدة کے بیٹے تھے.ان کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی.ان کی والدہ کا نام زینب بنت عمرو ہے.آپ کی اہلیہ کا نام حضرت ام عمرو ہے جن سے ایک بیٹی حضرت ام جمیل ہیں.بیعت عقبہ اولیٰ و ثانیہ میں شامل بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں ہی شامل ہوئے اور آپ اُن چھ انصار صحابہ میں سے ہیں جو مکہ میں آنحضرت صلی علی کم پر ایمان لائے.ان سے قبل انصار میں سے کوئی مسلمان نہ ہوا تھا.801 قبول اسلام کا واقعہ ان کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ سیرت خاتم النبیین “ میں اس طرح لکھا ہے کہ گیارہ نبوی کے ماہ رجب میں آنحضرت علی کی کمی کی مکہ میں یثرب والوں سے یعنی مدینہ والوں سے پھر ملاقات ہو گئی.آپ صلی علیہم نے حسب و نسب پوچھا تو معلوم ہوا کہ قبیلہ خزرج کے لوگ ہیں اور میثرب سے آئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ ہم نے نہایت محبت کے لہجے میں کہا کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں.انہوں نے کہا ہاں.آپ کیا کہتے ہیں.آپ صلی علیہ کر بیٹھ گئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن شریف کی چند آیات سنا کر اپنے مشن سے آگاہ کیا.ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ موقع ہے ایسا نہ ہو کہ یہود ہم سے سبقت لے جائیں اور یہ کہہ کر سب مسلمان ہو گئے.یہ چھ اشخاص تھے جن کے نام یہ ہیں.ابو امامہ اسعد بن زرارہ جو بنو نجار سے تھے اور تصدیق کرنے میں سب سے اول تھے.عوف

Page 353

اصحاب بدر جلد 5 337 بن حارث یہ بھی بنو نجار سے تھے جو آنحضرت صلی علم کے دادا عبد المطلب کے ننھیال کا قبیلہ تھا.رافع بن مالک جو بنو زریق سے تھے.جو قرآن شریف نازل ہو چکا تھا وہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ ہم نے ان کو عطا فرمایا.قطبہ بن عامر جو بنی سلمہ سے تھے اور عقبہ بن عامر جو بنی حرام سے تھے اور جابر بن عبد اللہ بن رثاب جو بنی عبید سے تھے.اس کے بعد یہ لوگ آنحضرت صلی علی یکم سے رخصت ہوئے اور جاتے ہوئے عرض کیا کہ ہمیں خانہ جنگیوں نے بہت کمزور کر رکھا ہے اور ہم میں آپس میں بہت نا اتفاقیاں ہیں.ہم میٹر ب میں جا کر اپنے بھائیوں میں اسلام کی تبلیغ کریں گے.کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی علیم کے ذریعہ ہم کو پھر جمع کر دے.پھر ہم ہر طرح آپ کی مدد کے لئے تیار ہوں گے.چنانچہ یہ لوگ گئے اور ان کی وجہ سے یثرب میں اسلام کا چرچا ہونے لگا.کہتے ہیں جی اسلام نے آکر پھوٹ ڈال دی! اسلام کی وجہ سے آپس کی پھوٹ اور فساد جو تھے اس کے ختم ہونے کا اظہار ان لوگوں نے کیا اور پھر یہ ہو بھی گیا اور وہی لوگ جو آپس کے دشمن تھے بھائی بھائی بن گئے.گزشتہ خطبہ میں بھی ایک میں نے ذکر کیا تھا کہ ان لوگوں کا آپس میں بھائی بھائی ہو نا دشمن کی آنکھوں میں بڑا کھٹکتا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی لیکن پھر آنحضرت صلی اللی کم 802 کے سمجھانے سے اور آپ کی قوت قدسی سے ایک بھائی چارے کی فضا دوبارہ پید اہوئی.اصحاب رسول صلی ال ایام میں حضرت قطبہ کا شمار ماہر تیر اندازوں میں ہوتا ہے.آپ غزوہ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شامل ہوئے.غزوہ اُحد میں آپ جو انمردی سے لڑے.اس روز آپ کو نو از خم آئے.فتح مکہ کے موقع پر بنو سلمہ کا جھنڈا آپ ہی کے ہاتھ میں تھا.جنگ بدر میں بہادری کا ایک انداز غزوہ بدر میں حضرت قطبہ کی ثابت قدمی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے دو صفوں کے درمیان ایک پتھر رکھا اور کہا کہ میں اس وقت تک نہیں بھاگوں گا جب تک یہ پتھر نہ بھاگے یعنی شرط لگادی کہ میری جان جائے تو جائے میدان چھوڑ کر میں نے نہیں بھاگنا.ان کے بھائی یزید بن عامر تھے جو ستر انصار کے ساتھ عقبہ میں شامل ہوئے تھے.حضرت یزید بدر اور اُحد میں بھی شریک ہوئے اور ان کی اولا د مدینہ اور بغداد میں بھی تھی.وفات 803 ابو حاتم سے مروی ہے کہ حضرت قطبہ بن عامر نے حضرت عمر کے دور خلافت میں وفات پائی.جبکہ ابن حبان کے نزدیک انہوں نے حضرت عثمان کے دور خلافت میں وفات پائی.804 ایک روایت یہ ہے کہ صفر 19 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیس آدمیوں کے

Page 354

اصحاب بدر جلد 5 338 ہمراہ قبیلہ ختم کی ایک شاخ کی طرف بھیجاجو تبالہ کے نواح میں تھے.آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ایک دم سے ان پر حملہ کریں.یہ اصحاب دس اونٹوں پر سوار ہو کر روانہ ہوئے جنہیں باری باری استعمال کرتے تھے.انہوں نے ایک آدمی کو پکڑ کر اس سے پوچھ گچھ کی تو وہ ان کے سامنے گونگا بن گیا اور پھر موقع پا کر چیخ چیچ کر اپنے قبیلہ والوں کو متنبہ کرنے لگا.اس پر انہوں نے اس کو قتل کر دیا.پھر حضرت قطبہ اور آپ کے ساتھیوں نے انتظار کیا اور جب وہ لوگ، قبیلہ والے سو گئے تو ان پر بھر پور حملہ کیا.شدید لڑائی ہوئی.دونوں فریقوں میں سے کئی افراد زخمی ہو گئے.حضرت قطبہ نے کئی لوگوں کو قتل کیا.پھر ان کے چوپائے، بکریاں اور عور تیں مدینہ لے آئے.خمس نکالنے کے بعد ہر ایک کے حصہ میں چار چار اونٹ آئے اور تب ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر ہو تا تھا.805 امام بغوی کہتے ہیں کہ حضرت قطبہ بن عامر سے کوئی حدیث مروی نہیں ہے.06 261 حضرت قیس بن ابي صعصعة نام و نسب و کنیت حضرت قیس بن ابی صعصعہ.یہ انصاری تھے.حضرت قیس کے والد کا نام عمرو بن زید تھا لیکن وہ اپنی کنیت ابو صعصعہ سے مشہور تھے.حضرت قیس کی والدہ کا نام بقمیبہ بنت عاصم تھا.بیعت عقبہ میں شامل اور حضرت قیس ستر انصار کے ساتھ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے تھے اور غزوہ بدر اور احد میں شامل ہونے کا بھی ان کو شرف حاصل ہوا.07 شاملین بدر کی گنتی جو 313 ہوئی غزوہ بدر کے لئے روانہ ہوتے ہوئے نبی کریم صلی للی کم نے اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ سے باہر بیوت الشقیا کے پاس قیام کیا اور کم عمر بچے جو آنحضرت صلی للی کم کی ہمر کانی کے شوق میں ساتھ چلے آئے تھے وہاں سے واپس کئے گئے.پھر حضور صلی نیلم نے صحابہ کو ارشاد فرمایا کہ چاہ سُقیا سے پانی لائیں.آپ نے اس کا پانی پیا پھر آپ نے سُقیا کے گھروں کے پاس نماز ادا کی.سقیا سے روانگی کے وقت آنحضور صلی ا یم نے حضرت قیس بن ابی صعصعہ کو مسلمانوں کی گنتی کرنے کا حکم دیا.اس موقع پر ان کو پانی پر نگران بھی مقرر کیا گیا تھا.اس کے بعد آنحضرت صلی علیم نے خود بر ابی عنبہ جو مسجد نبوی سے تقریباً ڈھائی کلو میٹر الله سة

Page 355

اصحاب بدر جلد 5 339 کے فاصلے پر تھی اس کے پاس قیام کیا.جب آنحضرت علی ایم نے فرمایا کہ گنتی کرو کتنے ہیں تو حضرت قیس نے گنتی کر کے رسول اللہ صلی اہل علم سے عرض کیا کہ ان کی تعداد 313 ہے.حضور صلی این امر یہ سن کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ طالوت کے ساتھیوں کی بھی اتنی ہی تعداد تھی.شقيا سُقیا کے متعلق یہ نوٹ لکھا ہے کہ مسجد نبوی سے اس کا فاصلہ دو کلو میٹر کے قریب تھا اور اس کا پر انا نام محسّیکہ تھا.حضرت خلاد بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی الی یکم نے محسّیکہ کا نام بدل کر سُقیا رکھ دیا تھا.وہ کہتے ہیں کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں سقیا کو خرید لوں لیکن مجھ سے پہلے ہی حضرت سعد بن ابی وقاص نے اسے دو اونٹوں کے عوض خرید لیا اور بعض کے مطابق سات اوقیہ یعنی دو سواستی در ہم کے عوض خرید ا گیا.جب آنحضور صلی علیہ یکم کے پاس اس بات کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس کا سودا بہت ہی نفع مند ہے.8 ایک دستے کی کمان ان کے سپرد 808 اسی طرح غزوہ بدر کے دن رسول اللہ صلی علی کرم نے ساقہ کی کمان آپ کے سپرد فرمائی تھی.ساقہ لشکر کاوہ دستہ ہوتا ہے جو پیچھے حفاظت کی غرض سے چلتا ہے.ایک دفعہ انہوں نے آنحضرت صلی للی کم کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میں کتنی دیر میں قرآن کریم کا دور کیا کروں.آپ صلی یکم نے فرمایا کہ پندرہ راتوں میں.حضرت قیس نے عرض کیا کہ میں اپنے آپ میں اس سے زیادہ کی توفیق پاتا ہوں.اس پر آپ صلی للی کم نے فرمایا کہ ایک جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک کر لیا کرو.انہوں نے عرض کیا کہ میں اپنے آپ میں اس سے بھی زیادہ کی توفیق پاتا ہوں.پھر انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کی یہانتک کہ جب آپ بوڑھے ہو گئے اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے لگے تو آپ نے پندرہ راتوں میں دور مکمل کرنا شروع کر دیا.تب یہ کہا کرتے تھے کہ کاش میں نے نبی صلی لی ایم کی رخصت کو قبول کر لیا ہوتا.809 حضرت قیس کے دو بچے الفاكة اور اتم حارث تھے.ان دونوں کی والدہ امامہ بنت معاذ تھیں.حضرت قیس کی نسل آگے نہ چل سکی.حضرت قیس کے تین بھائی تھے جنہیں رسول اللہ صلی لیلی کم کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا لیکن وہ بدر میں شامل نہ تھے.ان میں سے حضرت حارث جنگ یمامہ میں شہید ہوئے اور حضرت ابوکلابے اور حضرت جابر بن ابی صعصعہ نے غزوہ موتہ میں جام شہادت نوش کیا.810

Page 356

340 262 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب و کنیت حضرت قیس بن السکن انصاری 812 811 حضرت قيس بن السکن اَنْصَارِی ان کی کنیت ابوزید تھی.حضرت قیس کے والد کا نام سکن بن زَعُورَاء تھا.آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عدی بن نجار سے تھا.حضرت قیس اپنی کنیت ابو زید سے زیادہ مشہور تھے.آپ غزوہ بدر اور غزوۂ احد اور غزوہ خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شامل ہوئے.آپ کا شمار ان صحابہ میں ہوتا ہے جنہوں نے آنحضور صلی علی نیلم کے زمانے میں قرآن مجید جمع کیا.حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ آنحضور صلی علم کے زمانے میں انصار میں سے چار اصحاب نے قرآن کریم جمع کیا اور وہ چار اصحاب زید بن ثابت ، معاذ بن جبل، أبي بن كعب اور ابو زید تھے یعنی قيس بن سکن اور ابوزید کے متعلق حضرت انس کہتے ہیں کہ یہ میرے چچا تھے.8 ہجری میں آنحضور صلی علیم نے ابوزید انصاری اور حضرت عمر و بن عاص الشهيی کو جلندى کے دو بیٹوں عبید اور جیفر کے پاس ایک خط دے کر روانہ کیا جس میں ان کو اسلام کی دعوت دی تھی اور دونوں سے فرمایا کہ اگر وہ لوگ حق کی گواہی دیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں تو عمروان کے امیر ہوں گے اور ابوزید اُن کے امام الصلوۃ ہوں گے.یعنی کہ ان کی دینی حالت آنحضرت صلی علیم کی نظر میں زیادہ اچھی ہو گی یا قرآن کریم کا علم زیادہ تھا.فرمایا وہ امام الصلوۃ ہوں گے اور ان میں اسلام کی اشاعت کریں گے اور انہیں قرآن اور سنن کی تعلیم دیں گے.یہ دونوں عمان گئے اور عبید اور جنفر سے سمندر کے کنارے معاز میں ملے.ان کو آنحضور صلی للی کم کا خط دیا انہوں نے اسلام قبول کیا، دونوں نے اسلام قبول کر لیا پھر انہوں نے وہاں کے عربوں کو اسلام کی دعوت دی وہ بھی اسلام لے آئے.اب یہ تبلیغ کے ذریعہ سے اسلام پھیل رہا ہے.وہاں کوئی جنگ، قتل وغارت اور تلوار تو نہیں گئی تھی اور بہر حال ان عربوں نے بھی اسلام کو قبول کیا.عمرو اور ابوزید عمان ہی میں رہے یہاں تک کہ آنحضور صلی للی کم کا انتقال ہو گیا.بعض کے نزدیک ابوزید اس سے پہلے مدینہ آگئے تھے.شہادت 814 813 حضرت قیس کی شہادت یوم جشر کے موقع پر ہوئی.4 حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں دریائے فرات پر جو پل تیار کیا گیا تھا

Page 357

اصحاب بدر جلد 5 341 815 اسی مناسبت سے اس معرکے کو یوم حشر کہا جاتا ہے.263 حضرت قیس بن محسن حضرت قيس بن محصن انصاری صحابی تھے.بعض روایات میں ان کا نام قیس بن حضن بھی بیان ہوا ہے.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو زریق سے تھا.ان کی والدہ کا نام انیسہ بنت قیس تھا اور والد مخصن بن خالد تھے.آپؐ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.آپ کی ایک بیٹی ام سعد بنت قیس تھیں.جب آپ فوت ہوئے تو آپ کی اولاد مدینہ میں تھی.816 264) حضرت کعب بن زید حضرت کعب بن زید کا ہے جو صحابی ہیں.آپ کا نام کعب بن زید بن قیس بن مالک ہے.قبیلہ بنو نجار سے آپ کا تعلق تھا.حضرت کعب غزوہ بدر میں حاضر ہوئے اور غزوہ خندق میں شہید ہوئے.کہا جاتا ہے کہ آپ کو امیہ بن ربیعہ بن صخر کا تیر لگا تھا.آپ بئر معونہ کے اصحاب میں سے ہیں جہاں ان کے سب ساتھی شہید ہو گئے تھے.صرف آپ ہی زندہ بچے تھے.817 بئر معونہ جو ہے وہ جگہ وہ ہے جہاں آنحضرت صلی علیم نے جب ایک قبیلے کے کہنے پر اپنے ستر صحابہ کو بھیجا جن میں سے بہت سارے حافظ قرآن اور قاری تھے اور ان لوگوں نے دھوکہ سے ان سب کو شہید کر دیا سوائے حضرت کعب کے اور آپ بھی بئر معونہ کے واقعہ میں اس لئے زندہ بچے کہ آپ اس وقت پہاڑی پر چڑھ گئے تھے اور بعض روایات کے مطابق کفار نے حملہ کر کے آپ کو بھی بڑا شدید زخمی کر دیا تھا اور کافر آپ کو مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے.لیکن اس وقت آپ میں جان تھی اور اس کے بعد پھر کچھ دنوں میں وہ مدینہ پہنچے اور پھر ان کو زندگی بہر حال مل گئی اور ٹھیک ہو گئے.818

Page 358

342 265 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب و کنیت حضرت مالک بن ابو جھولی اپنے دو بھائیوں کے ساتھ جنگ بدر میں شامل حضرت مالک بن ابو خولی کا تعلق قبیلہ بنو عجل سے تھا جو قریش کے قبیلہ بنو عدی بن کعب کے حلیف تھے.ابو خولی ان کے والد کی کنیت تھی جبکہ ان کا نام عمر و بن زُھیر تھا.حضرت مالک کا نام ہلال بھی بیان کیا جاتا ہے.819 ہجرت مدینہ حضرت عمرؓ نے جب مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی تو اس وقت حضرت عمرؓ کے خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ حضرت مالک اور ان کے بھائی حضرت خولی بھی شامل تھے.10 820 حضرت مالک اپنے بھائی خولی کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور ایک قول کے مطابق غزوہ بدر میں حضرت خولی اپنے دو بھائیوں حضرت ہلال یعنی حضرت مالک اور حضرت عبد اللہ کے ہمراہ شریک ہوئے تھے.821 وفات حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں حضرت مالک بن ابو خولی کی وفات ہوئی تھی.266 حضرت مالک بن د ختم 822 حضرت مالک بن دخشم.ان کا تعلق قبیلہ خزرج کے خاندان بنو غنم بن عوف سے تھا.آپ کی ایک بیٹی تھیں جن کا نام فریعہ تھا.823 تمام غزوات میں شامل علماء اس بارے میں اختلاف کرتے ہیں کہ آیا حضرت مالک بن دخشم بیعت عقبہ میں شریک ہوئے تھے یا نہیں.ابن اسحاق اور موسی بن عقبہ کے نزدیک آپ بیعت عقبہ میں شریک ہوئے تھے.بہر حال

Page 359

اصحاب بدر جلد 5 343 824 یہ علماء کی بحث چلتی ہی رہتی ہے.حضرت مالک بن دخشم غزوہ بدر، احد، خندق اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں رسول اللہ صلی ایم کے ساتھ ہمرکاب رہے.سہیل بن عمرو قریش کے بڑے اور باعزت سرداروں میں سے ایک تھے.وہ جنگ بدر میں مشرکین کی طرف سے شامل ہوئے اور ان کو حضرت مالک بن د ختم نے قیدی بنایا.بدر کے قیدی کی جان بخشی روایت میں آتا ہے کہ عامر بن سعد اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے غزوہ بدر کے دن سہیل بن عمرو کو تیر مارا جس سے ان کی رگِ کٹ گئی تھی.میں بہتے ہوئے خون کے دھبوں کے پیچھے چلتا گیا.میں نے دیکھا کہ حضرت مالک بن دخشم نے اس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑا ہوا تھا.میں نے کہا یہ میرا قیدی ہے.میں نے اسے تیر مارا تھا.لیکن حضرت مالک نے کہا کہ یہ میرا قیدی ہے میں نے اسے پکڑا ہے.پھر وہ دونوں سہیل کو لے کر رسول اللہ صلی ال نیم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی تعلیم نے سہیل کو ان دونوں سے لے لیا اور روحاء کے مقام پر سہیل حضرت مالک بن دحشم کے ہاتھ سے نکل گیا.حضرت مالک نے لوگوں میں بلند آواز سے صدالگائی اور اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے.نبی کریم صلی علی یم نے اس موقع پر فرمایا کہ جس کو بھی وہ ملے اسے قتل کر دیا جائے.جنگ کے لئے آئے تھے.مسلمانوں سے لڑائی کی تھی.قیدی بنے تو وہاں سے نکل گئے.دوبارہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ بہر حال وہ جنگی قیدی تھا.اس کے لئے حکم ہوا.لیکن اس کی زندگی بچنی تھی.سہیل بن عمرو بجائے کسی اور کو ملتا نبی کریم صلی اللہ ہم کو ہی ملا.لیکن جب ملا تو نبی کریم صلی اللہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا.اگر کیسی اور صحابی کے ہاتھ چڑھ جاتا تو وہ قتل کر دیتے.لیکن چونکہ وہ آنحضرت صلی یکم کو ملا اس لئے آپ نے قتل نہیں کیا.یہ اُسوہ ہے اور آپ کا یہ اُسوہ ان ظالموں کو جواب ہے جو آنحضرت ملی تم پہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ نے ظلم کیا اور قتل و غارت کی کہ قتل کا جو سزاوار تھا جس کے لئے فیصلہ بھی ہو چکا تھا وہ بھی جب کو نظر آیا تو آپ نے اسے قتل نہیں کیا.ایک روایت کے مطابق سہیل نبی کریم صلی علم کو کیکر کے درختوں کے جھنڈ میں ملا تھا.جس پر آپ نے حکم دیا کہ اس کو پکڑلو.اس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ باندھ دیئے گئے.یعنی قید کر لیا گیا.825 فرمایا یہ مت کہو کیا تم اسے نہیں دیکھتے کہ اس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا ہے صحیح بخاری میں یہ روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک جو کہ رسول اللہ صلی علیم کے ان انصاری صحابہ میں سے تھے جو بدر میں شریک ہوئے تھے ، رسول اللہ صلی علیم کے پاس آئے اور کہا یار سول اللہ ! میری بینائی کمزور ہو گئی ہے.میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں.جب بارشیں ہوتی ہیں تو اس نالے میں جو میرے اور ان کے درمیان ہے سیلاب آجاتا ہے اور میں ان کی مسجد میں آکر انہیں نماز نہیں پڑھا سکتا.

Page 360

344 الله سة اصحاب بدر جلد 5 یارسول اللہ میری خواہش ہے کہ آپ میرے پاس آئیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں اور میں اسے مسجد بنالوں.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ ان شاء اللہ میں آؤں گا.وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی علیہ یکم اور حضرت ابو بکر ایک دن صبح جس وقت دن چڑھا تو میرے ہاں آئے اور رسول اللہ صلی علیم نے اجازت مانگی.میں نے آپ کو اجازت دی.جب آپ صلی للی کم گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے نہیں بلکہ فرمایا کہ تم اپنے گھر میں کہاں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں.وہ کہتے ہیں میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کر کے آپ کو بتایا کہ یہاں میں چاہتا ہوں.رسول اللہ صلی للی کم نماز کے لئے وہاں کھڑے ہو گئے.وہاں نماز پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور ہم بھی کھڑے ہو گئے اور صف باندھ لی.آپ نے دور کعت نماز پڑھی.پھر سلام پھیر ا.راوی کہتے ہیں ہم نے آپ کو خَزیرہ گوشت اور آئے یا روٹی سے تیار کردہ جو کھانا ہوتا ہے.وہ پیش کرنے کے لئے روک لیا جو ہم نے آپ کے لئے تیار کیا ہوا تھا.راوی کہتے ہیں کہ گھر میں محلے کے کچھ اور آدمی ادھر اُدھر سے آگئے.جب وہ اکٹھے ہو گئے تو ان میں سے کسی کہنے والے نے کہا کہ مالک بن دخشم کہاں ہے ؟ تو ان میں سے کسی نے کہا کہ وہ تو منافق ہے.اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا.شاید نہ آنے کی وجہ سے کہا.اس علاقے میں رہتے تھے.رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا یہ مت کہو کیا تم اسے نہیں دیکھتے کہ اس نے لا إلهَ إِلَّا اللہ کا اقرار کیا ہے.اور اس سے وہ اللہ کی رضامندی ہی چاہتا ہے.اس کہنے والے نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.پھر اس نے کہا کہ ہم تو اس کی توجہ اور اس کی خیر خواہی منافقین کے لئے ہی دیکھتے ہیں.شاید دل کی نرمی کی وجہ سے وہ چاہتے ہوں گے کہ منافقین کو بھی تبلیغ کریں اور ان کو اسلام کے قریب لائیں.اس لئے ہمدردی بھی رکھتے ہوں گے اور اس کی وجہ سے صحابہ میں غلط فہمی پید ا ہو گئی تو رسول اللہ صلی علیہ یکم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یقیناً اس شخص پر آ یر آگ حرام کر دی ہے جس نے لا اله الا اللہ کا اقرار کیا بشر طیکہ وہ اس اقرار سے اللہ کی رضامندی چاہتا ہو.826 تو یہ جواب ہے ان نام نہاد علماء کو بھی جو کفر کے فتوے لگانے والے ہیں اور خاص طور پر احمدیوں پر اس حوالے سے ظلم کرنے والے ہیں.یہ نام نہاد علماء کے اپنے فتووں نے ہی مسلمان ملکوں کے امن و سکون کو برباد کیا ہوا ہے.پاکستان میں آجکل لبيك يا رسول اللہ تنظیم چلی ہوتی ہے.وہ نعرے تو لگاتے ہیں.لبيك يَا رَسُول اللہ لیکن رسول اللہ صلی علی کم کا یہ ارشاد ہے کہ جو لا الهَ اِلَّا اللہ کہتا ہے اس کو بھی تم یہ نہ کہو کہ مسلمان نہیں ہے.اگر وہ اللہ کی رضا چاہتے ہوئے یہ بات کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر آگ حرام کر دی ہے.اور یہ کہتے ہیں نہیں تم لوگ اللہ کی رضا چاہتے ہوئے نہیں کہتے.دلوں کا حال یہ رسول اللہ صلی علی یکم سے زیادہ جاننے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے قوم کو بچا کے رکھے.ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عتبان بن مالک نے رسول اللہ صلی للی کام سے عرض کی کہ حضرت مالک بن د خشم منافق ہیں جس پر رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت نہیں دیتا.عتبان نے جواب دیا کیوں نہیں مگر اس کی گواہی کوئی نہیں ہے.رسول اللہ صلی العلیم نے پوچھا کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں.وَلَا صلوۃ لہ لیکن اس کی نماز کوئی نماز نہیں ہے.(شاید ان

Page 361

اصحاب بدر جلد 5 345 لوگوں میں سے بھی بعض لوگوں میں آجکل کے بعض مولویوں کی طرح یہ سختی تھی) آپ صلی علی کریم نے فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی طرف سے کسی قسم کی رائے قائم کرنے سے 827 منع فرمایا ہے.دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے.آنحضرت صلی اللہ ہم کو تو اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا لیکن ان علماء اور خاص طور پر پاکستانی علماء کے بقول ان کے پاس یہ سند ہے، لائسنس ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جو چاہیں ظلم کرتے رہیں.828 حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی لی ایم کے سامنے حضرت مالک بن ڈ ختم کو برا بھلا کہا گیا تو آنحضرت صلی علیم نے فرما یالا تَسُبُّوا اَصْحابی کہ تم میرے ساتھیوں کو برا بھلا مت کہو.مسجد ضرار کے متعلق الہی حکم نبی کریم صلی علیم نے غزوہ تبوک سے واپسی پر مدینہ سے تھوڑے فاصلے پر ایک جگہ ذی آوان میں قیام فرمایا تو آپ کو مسجد ضرار کے بارے میں وحی نازل ہوئی.829 آپ صلی الم نے حضرت مالک بن دُخُشُم اور حضرت معن بن عدی کو بلا بھیجا اور مسجد ضرار کی طرف جانے کا ارشاد فرمایا.حضرت مالک بن دُختم اور حضرت معن بن عدی تیزی سے قبیلہ بنو سالم پہنچے جو کہ حضرت مالک بن دُخُشُم کا قبیلہ تھا.حضرت مالک بن دُخُشُم نے حضرت معن سے کہا کہ مجھے کچھ مہلت دو یہاں تک کہ میں گھر سے آگ لے آؤں.چنانچہ وہ گھر سے کھجور کی سوکھی ٹہنی کو آگ لگا کر لے آئے.پھر وہ دونوں مسجد ضرار گئے اور ایک روایت کے مطابق مغرب اور عشاء کے درمیان وہاں پہنچے اور وہاں جاکر اس کو آگ لگا دی اور اس کو زمین بوس کر دیا.تو کسی غلط فہمی کی وجہ سے ہم صحابہ پر بدظنی نہیں کر سکتے.جن کے بارے میں بعض لوگوں کا یہ تاثر تھا کہ شاید یہ غلط راستہ پر چلے ہوئے ہیں یہاں تک کہ انہیں منافق بھی کہہ دیا لیکن بعد میں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے منافقین کے مرکز کی تباہی کرنے والے بنے اور اس کو ختم کرنے والے بنے.اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ہمیں بھی اپنے جائزے لینے کی توفیق عطا فرمائے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں اور کس حد تک ہم ان کو پورا کرنے والے ہیں.0 ان کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت مالک بن ششم کا نام مالک بن ڈھیشن اور ابن ڈخشن بھی بیان ہوا ہے.831 830 آپ کے والد کا نام وخشم بن مر نہ تھاجبکہ انکا نام دوختم بن مالک بن الحکم بن مرہ بھی بیان ہوا ہے.آپ کی والدہ کا نام عمیرہ بنت سعد تھا.832

Page 362

اصحاب بدر جلد 5 346 حضرت مالک کی شادی جمیلہ بنت اُبی بن سکول سے ہوئی جو رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کی ہمشیرہ تھیں.33 833 سہیل بن عمرو کو قیدی بنانے کے موقع پر حضرت مالک نے یہ اشعار کہے تھے أَسَرْتُ سُهَيْلًا فَلَا ابْتَغِيَ أَسِيرًا بِهِ مِنْ جَمِيعِ الْأُمَمُ وَخِنَدَفُ تَعْلَمُ أَنَّ الْفَتَى فَتَاهَا سُهَيْلٌ إِذَا يُظْلَمُ ضَرَبَتْ بِذِي الشَّفْرِ حَتَّى انْثَى وَأَكْرَهُتُ نَفْسِي عَلَى ذِي الْعَلَمُ 834 کہ میں نے سہیل کو قیدی بنایا اور اس کے بدلہ میں تمام اقوام سے کسی کو بھی قیدی نہیں بنانا چاہتا.بنو خندف جانتے ہیں کہ سہیل ہی اپنے قبیلہ کا جوانمرد ہے جب ان پر ظلم کیا جائے.میں نے جھنڈے والے پر وار کیا یہاں تک کہ وہ جھک گیا اور میں نے کٹے ہوئے ہونٹ والے سے، مراد سہیل بن عمر و سے تھا، جنگ کرنے پر اپنے آپ کو مجبور کیا.غزوہ بدر کے قیدیوں کے حوالے سے اسد الغابہ میں ایک روایت ہے کہ ابو صالح حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ ابوئیسر مالک بن دخشم عوفی اور طارق بن عبید انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو اس جنگ میں کسی کو قتل کرے گا اسے اتنا ملے گا اور جو کسی کو قید کرے گا اسے اتنا ملے گا اور ہم نے ستر لوگوں کو قتل کیا اور ستر کو قید کیا.835 اس پر حضرت سعد بن معاذ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم بھی ان لوگوں کی طرح کر سکتے تھے مگر ہم نے صرف اس وجہ سے نہیں کیا کیونکہ ہم مسلمانوں کی پیچھے کی طرف سے حفاظت کر رہے تھے.عنیمتیں تھوڑی ہیں اور لوگ بہت ہیں.اگر آپ ان لوگوں کو اتنادیں گے جس قدر آپ نے وعدہ کیا ہے تو بعض لوگوں کے حصہ میں کچھ بھی نہیں آئے گا.پس یہ لوگ باتیں کرتے رہے کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ (الانفال:2) کہ اے رسول ! لوگ تجھ سے اموال غنیمت کے متعلق سوال کرتے ہیں.تو ان سے کہہ دے کہ اموالِ غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے ہیں.غزوۂ احد کے دن حضرت مالک بن دختم حضرت خارجہ بن زید کے پاس سے گزرے.حضرت خارجہ زخموں سے چور بیٹھے ہوئے تھے.ان کو تیرہ کے قریب مہلک زخم آئے تھے.حضرت مالک نے ان سے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے ہیں.حضرت خارجہ نے کہا اگر آپ کو شہید کر دیا گیا ہے تو یقینا اللہ زندہ ہے اور وہ نہیں مرے گا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام پہنچا دیا ہے.فَقَاتِلُ عَن دِينِكَ اس لیے تم بھی اپنے دین کے لیے قتال کرو.836 ایک دوسری روایت میں اس واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 363

347 اصحاب بدر جلد 5 شہید ہونے کی افواہ پھیلی تو حضرت مالک بن دخشم حضرت خارجہ بن زید کے پاس سے گزرے جبکہ وہ اس وقت بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے سینے پر تیرہ مہلک زخم آئے تھے.حضرت مالک نے ان سے کہا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے ہیں.حضرت خارجہ نے جواب دیا اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو یقینا اللہ زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا.یقینا انہوں نے پیغام یعنی اسلام کا پیغام پہنچا دیا ہے.پس اپنے دین کی خاطر لڑو.راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت مالک حضرت سعد بن ربیع کے پاس سے گزرے اور ان کو بارہ مہلک زخم آئے تھے.حضرت مالک نے حضرت سعد سے کہا.کیا تمہیں معلوم ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.حضرت سعد نے جواب دیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے پیغام کو پہنچادیا ہے.پس اپنے دین کی خاطر لڑو کیونکہ اللہ زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا.837 ایک روایت میں بیان ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ یعنی حضرت مالک بن دختم منافقین کی پناہ گاہ ہیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟ تم کہتے ہو منافق ہے تو وہ نماز نہیں پڑھتا؟ لوگوں نے عرض کیا جی.یار سول اللہ نماز تو پڑھتا ہے مگر وہ ایسی نماز ہے جس میں کوئی خیر نہیں ہے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا مجھے نماز پڑھنے والوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے.38 یہ آج کل کے مسلمانوں کے لیے بھی سبق ہے.ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن دُختم کے ساتھ حضرت معن بن عدی کے بھائی حضرت عاصم بن عدی کو مسجد ضرار کے منہدم کرنے کے لیے روانہ فرمایا تھا.839 حضرت مالک کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی نسل نہیں چلی.267 حضرت مالک بن عمرو 840 حضرت مالک بن عمرو صحابی ہیں.حضرت مالک بن عمرو کا تعلق قبیلہ بنو سلیم کے خاندان بنوتجر سے تھا اور یہ بنو عبد شمس کے حلیف تھے.ان کے والد کا نام عمر و بن سُمیط تھا.シ حضرت مالک اپنے دو بھائیوں حضرت ثَقف بن عمرو اور حضرت مُدلج بن عمرو کے ہمراہ 841 جنگ بدر میں شریک ہوئے.حضرت مالک غزوہ احد اور دیگر غزوات میں آنحضرت صلی علیم کے ساتھ شامل رہے اور 12 ہجری

Page 364

348 268 اصحاب بدر جلد 5 میں جنگ یمامہ میں یہ شہید ہوئے.2 842 حضرت مالک بن قدامہ حضرت مالك بن قدامہ کے والد کا نام قدامه "بن عرفجہ تھا جبکہ ایک روایت کے مطابق ان کے دادا کا نام حارث بھی بیان ہوا ہے.حضرت مالک یعنی عرفجہ کے بجائے حارث بھی کہا جاتا ہے.حضرت مالک کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو غنم سے تھا.حضرت مالک اپنے ایک بھائی حضرت مُنذر بن قدامہ کے ہمراہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے.اس کے علاوہ حضرت مالک غزوہ احد میں بھی شریک ہوئے.843 269 حضرت مالک بن مسعود حضرت مالک بن مسعود انصاری.ان کا نام مالک بن مسعود تھا.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو ساعدہ سے تھا.آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.4 844 270 حضرت مالک بن تميلة حضرت مالک بن نمیلہ.ان کی والدہ کا نام تحمیلہ تھا.ان کو ابن تمیلہ کہا جاتا تھا.ان کا تعلق قبیلہ مزینہ سے تھا جو قبیلہ اوس کی شاخ بنی معاویہ کے حلیف تھے.غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے اور غزوہ احد میں ان کی شہادت ہوئی.845

Page 365

349 271 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت مبشر بن عبد المنذر حضرت مبشر بن عبدالمنذر ہیں.حضرت مبشر کے والد کا نام عبد المنذر اور آپ کی والدہ کا نام نسیبہ بنت زید تھا.آپ اس کے قبیلے بنو عمرو بن عوف سے تھے.رسول اللہ صلی ا ہم نے حضرت مُبشر بن عبد المنذر اور حضرت عاقیل بن ابوبگیر کے درمیان عقد مؤاخات قائم فرمایا تھا.بعض کہتے ہیں کہ آپ صلی علیہم نے حضرت عاقل بن ابوبگیر اور حضرت مُجنَّارُ بن زیاد کے درمیان عقدِ مؤاخات قائم فرمایا تھا.بہر حال آپ غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور اسی جنگ میں آپ شہید بھی ہوئے.حضرت سائب بن ابو لبابہ جو حضرت مبشر کے بھائی حضرت ابو لبابہ کے بیٹے تھے ان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے حضرت مُبشر بن عبد المنند کامال غنیمت میں حصہ مقرر فرمایا اور معن بن عدی ”ہمارے پاس ان کا حصہ لے کر آئے.16 ان کے بھائی، ان کے بھتیجوں کو بھی حصہ ملا.ہجرت مدینہ کے وقت مہاجرین میں سے حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد اور حضرت عامر بن ربیعہ اور حضرت عبد اللہ بن بخش اور ان کے بھائی حضرت ابو احمد بن بخش نے قبا کے مقام پر حضرت مُبشر بن عبدالمنذر کے ہاں قیام کیا.پھر مہاجرین پے در پے وہاں آنے لگے.847 رض 846 حضرت مُبشر بن عبد المنذر اپنے دو بھائیوں حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر اور حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے.حضرت رفاعہ ستر انصار کے ساتھ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے تھے.اسی طرح غزوہ بدر اور غزوہ احد میں بھی شریک ہوئے تھے.غزوہ احد کے دن آپ شہید ہوئے.جب رسول اللہ صلی الی لیکن غزوہ بدر کی جانب روانہ ہوئے تو آپ صلی ال کلم نے حضرت ابو لبابہ و مدینے کا عامل بنا کر روحاء کے مقام سے واپس روانہ کیا جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ روحاء ایک مقام کا نام ہے.مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر ہے.لیکن آنحضرت صلی نیلم نے آپ کے لیے مال غنیمت اور ثواب میں حصہ مقرر فرمایا.علامہ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت مُبشر بن عبد المنذر بنو عمرو بن عوف سے تھے.آپ ان انصاری صحابہ میں سے تھے جو بدر میں شہید ہوئے.8 حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام بیان کرتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد سے پہلے خواب دیکھا کہ گویا حضرت مُبشر بن عبد المنذر مجھے کہہ رہے ہیں کہ تم چند روز میں ہمارے پاس آجاؤ گے.میں نے 848

Page 366

اصحاب بدر جلد 5 350 پوچھا کہ آپ کہاں ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں جنت میں ہوں.ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں کھاتے پیتے ہیں.میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ بدر میں شہید نہیں ہو گئے تھے ؟ آپ نے بتایا ہاں کیوں نہیں.لیکن مجھے پھر زندہ کر دیا گیا تھا.اس صحابی نے یہ خواب رسول اللہ صلی علیہ ہم کو سنایا تور سول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اے ابو جابر !شہادت یہی ہوتی ہے.شہید جو ہے وہ پھر اللہ تعالیٰ کے پاس جاتا ہے اور وہاں آزاد پھر تا ہے.8496 علامہ زرقانی غزوہ بدر کے موقع پر شہید ہونے والے صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دو صحابہ قبیلہ اوس میں سے تھے جن میں سے ایک حضرت سعد بن خَيْقمه " تھے.بعض کہتے ہیں کہ طعيمه بن عدی نے انہیں شہید کیا جبکہ بعض کہتے ہیں کہ عمرو بن عَبدِ وُڈ نے انہیں شہید کیا تھا.سمهودی نے اپنی کتاب 'وفا' میں لگا ہے کہ اھل سیر کے کلام سے ظاہر ہے یعنی جو سیرت لکھتے ہیں کہ غزوہ بدر کے موقع پر شہید ہونے والے صحابہ ماسوائے حضرت عبیدہ کے بدر میں مدفون ہیں.حضرت عبیدہ کی وفات کچھ دیر بعد ہوئی تھی اور وہ صفراء یار وحاء کے مقام پر مدفون ہیں.طبرانی نے ثقہ راویوں سے روایت کی ہے کہ حضرت ابنِ مسعود روایت کرتے ہیں کہ یقینا رسول اللہ صلی ال نیلم کے وہ اصحاب جو بدر کے دن شہید کیے گئے اللہ ان کی روحوں کو جنت میں سبز پرندوں میں رکھے گا جو جنت میں کھائیں پئیں گے.وہ اسی حال میں ہوں گے کہ ان کا رب اچانک ان پر مطلع ہو گا، ظاہر ہو گا اور کہے گا اے میرے بندو! تم کیا چاہتے ہو ؟ پس وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! کیا اس سے اوپر بھی کوئی چیز ہے.جنت میں ہم آئے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ پھر پوچھے گا تم کیا چاہتے ہو ؟ چنانچہ چوتھی مرتبہ صحابہ کہیں گے کہ تو ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں واپس لوٹا دے تاکہ ہم پھر سے ویسے ہی شہید کیے جائیں جیسے ہم پہلے شہید کیے گئے تھے.850 272 حضرت مُجدد بن زياد " حضرت مجدد بن زیاد.غزوہ اُحد میں ان کی شہادت ہوئی.مُجند آپ کا لقب تھا اس کا مطلب موٹے جسم والا.رسول کریم صلی علیم نے حضرت مُجنَّد اور عاقل بن بکیر کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی.دوسری جگہ یہ آیا ہے کہ رسول کریم صلی علیم نے حضرت مُجَنَّد اور حضرت عُکاشہ بن محصن کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی.حضرت مُجَلد غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک ہوئے.851 ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی ا ہم نے ابو بختری کو قتل کرنے سے منع فرمایا تھا کیونکہ

Page 367

اصحاب بدر جلد 5 351 مکہ میں اس نے لوگوں کو رسول کریم صلی اللی کام کو تکلیف پہنچانے سے روکا تھا.( اس کے عوض آنحضرت صلی ا لی مریم نے فرمایا کہ اس کو قتل نہیں کرنا) اور وہ خود بھی آنحضرت صلی الللم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچا تا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اس معاہدے کے خلاف کھڑے ہوئے تھے جو قریش نے بنو ہاشم اور بنی مطلب کے خلاف کیا تھا.حضرت مُجَنَّد ابو بجگری سے ملے اور کہا کہ رسول اللہ صلی علیم نے ہمیں تمہارے قتل سے روکا ہے.ابو بیٹری کے ساتھ اس کا ایک ساتھی بھی تھا جو اس کے ساتھ مکہ سے نکلا تھا.اس کا نام جنادة بن مدیحہ تھا جو بنو لیث سے تھا.ابو بختری کا نام عاص تھا.اس نے کہا کہ میرے اس ساتھی کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ حضرت مُجنَّڈ نے کہا کہ نہیں.اللہ کی قسم ! ہم تمہارے ساتھی کو نہیں چھوڑیں گے.رسول اللہ صلی علی رام نے ہمیں صرف تمہارے اکیلے کے متعلق حکم دیا ہے.اس نے کہا کہ اگر مریں گے تو پھر ہم دونوں اکٹھے مریں گے.میں یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ مکہ کی عور تیں یہ بیان کرتی پھریں کہ میں نے اپنی زندگی کی خاطر اپنے ساتھی کو چھوڑ دیا.پھر وہ دونوں ان سے (حضرت مجذر سے) لڑائی کے لئے تیار ہو گئے اور لڑائی میں حضرت مُجَنَّز نے اسے قتل کر دیا.حضرت مجدد رسول کریم صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا میں نے اس کو بہت اصرار کے ساتھ کہا کہ وہ اسیر ہو جائے اور اسے میں آپ کے پاس لے آتا مگر وہ اس پر رضامند نہ ہوا اور آخر اس نے مجھ سے لڑائی کی اور میں نے اسے قتل کر دیا.852 حضرت مجدد کی اولا د مدینہ اور بغداد میں موجود تھی.ابی و جزہ سے مروی ہے کہ شہدائے اُحد کے جو تین آدمی ایک قبر میں دفن کئے گئے تھے وہ مُجلّد بن زیاد ، نُعْمان بن مالك اور عبده بن حَسْحَاس 853 لیکن ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت انیسہ بنت عدی آنحضرت صلی ال یکم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی علیکم میرا بیٹا عبد اللہ جو بدری ہے غزوہ اُحد میں شہید ہو گیا ہے.میری خواہش ہے کہ میں اپنے بیٹے کو اپنے مکان کے قریب دفن کروں تا کہ مجھے اس کا قرب حاصل رہے.حضور علی ای ایم نے اجازت عطا فرمائی اور یہ فیصلہ بھی ہوا کہ حضرت عبد اللہ کے ساتھ ان کے دوست حضرت مُجنَّڈ کو بھی ایک ہی قبر میں دفن کیا جائے.چنانچہ دونوں دوستوں کو ایک ہی کمبل میں لپیٹ کر اونٹ پر رکھ کر مدینہ بھیجا گیا ان میں سے عبد اللہ ذراد بلے پتلے تھے اور ٹھنڈ کیم اور جسیم تھے.کہتے ہیں روایت میں آتا ہے کہ اونٹ پر دونوں برابر اترے یعنی وزن ایک جیسا تھا.اتارنے والوں نے دیکھا تو لوگوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا تو آنحضرت صلی اللہ نیلم نے فرمایا کہ دونوں کے اعمال نے ان کے درمیان برابری کر دی.854 موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ہے کہ لوگوں کا خیال ہے کہ ابوئیسر نے ابو بھری کو قتل کیا اور بہت سے

Page 368

اصحاب بدر جلد 5 352 لوگوں نے کہا ہے کہ مجد ر نے اسے قتل کیا تھا.حضرت مجد نے جاہلیت میں سوید بن صامت کو قتل کر دیا تھا اور اس قتل نے جنگ بعاث کو برانگیختہ کیا تھا.بعد میں حضرت مجد اور حضرت حارث بن سوید بن صامت نے اسلام قبول کر لیا لیکن حارث بن سوید موقع کی تلاش میں رہے کہ اپنے والد کے بدلہ میں انہیں قتل کریں.غزوہ احد میں جب قریش نے مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کیا تو حارث بن سوید نے پیچھے سے ان کی گردن پر وار کر کے انہیں شہید کر دیا.غزوہ حمراء الاسد سے واپسی پر حضرت جبرئیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو بتایا کہ حارث بن سوید نے مجدد بن زیاد کو دھوکے سے قتل کر دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ حارث بن سوید کو مُجدر بن زیاد کے بدلے میں کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے دن تشریف لے گئے جب قبا میں سخت گرمی تھی.حضرت غویم بن ساعدہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر مسجد قبا کے دروازے پر حارث بن سوید کو قتل کیا تھا.طبقات الکبریٰ کی یہ روایت ہے غالباً.855 273 حضرت محرز بن عامر بن مالک حضرت محرز بن عامر بن مالک.ان کی وفات غزوہ احد کے لئے نکلنے والی صبح کے وقت ہوئی.ان کا پورا نام محرز بن عامر تھا.ان کا تعلق بنو عدی بن نجار سے تھا.ان کی والدہ کا نام شغلی بنت خیثمہ بن حارث تھا اور ان کا تعلق اوس قبیلہ سے تھا.ان کی والدہ حضرت سعد بن خیثمہ کی ہمشیرہ تھیں.ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ام سہل بنت ابی خارجہ سے آپ کی اولاد اسماء اور گلشہر تھیں.آپ نے غزوہ بدر میں شرکت کی.جس دن حضور صلی علیکم نے غزوہ احد کے لئے نکلنا تھا اس دن صبح کے وقت ان کی وفات ہو گئی تھی.ان کا شمار ان لوگوں میں کیا گیا ہے جو غزوہ احد میں شامل ہوئے تھے.کیونکہ شامل ہونے کی نیت تھی اس لئے آنحضرت صلی لی ہم نے ان کو شامل ہونے والوں میں شمار فرمایا.857 856

Page 369

353 274 اصحاب بدر جلد 5 حضرت محرز بن نضلہ نام و نسب و کنیت ان کی ولدیت نضلة بن عبد اللہ ہے جبکہ دوسرے قول کے مطابق آپ کے والد کا نام وھب تھا.آپ کی کنیت ابونضلة تھی.آپ گورے اور خوبصورت چہرہ والے تھے.آپ کا لقب فُهَيرة تھا.آپ الخرم کے نام سے بھی جانے جاتے تھے.آپ بنو عبد شمس کے حلیف تھے.جبکہ بنو عبد الاشهل انہیں اپنا حلیف بتاتے ہیں.مُخرِز یا آخرم دونوں نام آپ کے ہیں.حضرت محرز کا تعلق مکہ کے قبیلہ بنو غنم بن دُوْدَان سے تھا.یہ قبیلہ مسلمان ہو گیا تھا.مدینہ کی طرف ہجرت ย اس قبیلے کے مردوں اور عورتوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کی توفیق ملی.ان مہاجرین میں حضرت مُخرِزُ بن نَضْله بھی شامل تھے.واقدی کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم بن اسماعیل کو سناوہ کہتے تھے کہ يَوْمُ الشَّرح، یہ غزوہ ذی قرد اور غَزْوَةُ الْغَابَہ کا نام ہے جو 6 ہجری میں ہوا تھا، میں سوائے حضرت مُحرِزُ بن نَضْلَه ” کے بنو عبدالا شھل کے گھر سے کوئی اور نہیں نکالا.وہ حضرت محمد بن مسلمہ کے گھوڑے پر سوار تھے جس کا نام دو اللہ تھا.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت مُحرِ بن نَضْله اور حضرت عمارہ بن حزم کے درمیان عقد مؤاخات قائم فرمایا تھا.واقدی کے نزدیک آپ غزوہ بدر، غزوہ احد اور غزوہ خندق میں شریک ہوئے تھے.صالح بن کیسان سے مروی ہے کہ حضرت مُحرِزُ بن نَضلہ نے بتایا کہ میں نے خواب میں ور لے آسمان کو دیکھا کہ وہ میرے لیے کھول دیا گیا ہے یہاں تک کہ میں اس میں داخل ہو گیا اور ساتویں آسمان تک پہنچ گیا.پھر سِدرَةُ المُنعطی تک چلا گیا.مجھ سے کہا گیا یہ تمہاری منزل ہے.حضرت مخرز کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکر صدیق کے سامنے یہ خواب بیان کیا جو فن تعبیر کے ماہر تھے تو آپ نے فرمایا کہ شہادت کی خوشخبری ہو! پھر ایک روز آپ شہید کر دیئے گئے.آپ رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ یوم الشرح میں غَزْوَةُ الْغَابہ کے لیے روانہ ہوئے، یہ غزوہ ذی قرد بھی کہلاتا تھا جو 6 ہجری میں ہوا.عمر و بن عثمان بخشی اپنے آباء سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت محرز بن نَضلہ جب غزوہ بدر میں شال ہوئے تو آپ 31 تا 32 سال کے تھے اور جب آپ شہید ہوئے تو 37 یا 38 سال کے قریب تھے.58 858

Page 370

اصحاب بدر جلد 5 354 حضرت محرز کی شہادت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے.حضرت آياس بن سلمه غزوہ ذی قرد کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ سے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ واقعہ کے بعد ہم مدینہ کی طرف واپس جانے کے لیے نکلے.پھر ہم ایک جگہ اترے.ہمارے اور بنو یخیان کے درمیان ایک پہاڑ تھا.وہ مشرک تھے.پھر رسول اللہ صلی اللہ ہم نے اس شخص کے لیے دعا کی جو اس پہاڑ پر رات کو چڑھے گویا وہ نبی صلی علیکم اور صحابہ کے لیے حالات پر نظر رکھنے اور حفاظت کی غرض سے جاسوس کا کام دے یعنی نگرانی کے لیے، حفاظت کے لیے اوپر چڑھے.دیکھے کہ کوئی دشمن وغیرہ حملہ آور نہ ہو جائے.حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں میں اس رات دو یا تین مرتبہ چڑھا.پھر ہم مدینہ پہنچے.پھر کہتے ہیں کہ رسول الله صلى الم نے رباح نامی آدمی کے ہاتھ اپنے اونٹ بھیجے جو رسول اللہ صلی علیکم کا غلام تھا اور میں حضرت طلحہ کے گھوڑے کے ساتھ اس پر سوار ہو کر نکلا اور میں اس کو اونٹوں کے ساتھ پانی پلانے کے لیے جارہا تھا.جب صبح ہوئی تو عبد الرحمن فزاری نے رسول اللہ صلی علیم کے اونٹوں پر حملہ کیا.ساتھ ایک قبیلہ تھا جو دشمن تھا اور سب کو ہانک کر لے گیا اور ان کے چرواہے کو قتل کر دیا.راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے رباح ! یہ گھوڑا پکڑو اور اسے طلحہ بن عبید اللہ کو پہنچادو اور رسول اللہ صلی ایم کو خبر دو کہ مشرکوں نے آپ کے جانور لوٹ لیے ہیں.پھر میں ایک ٹیلے پر مدینے کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوا اور تین دفعہ پکارا يَا صَبَاحَاهُ : يَا صَبَاحَاهُ ! یہ کلمہ اہل عرب اس وقت کہا کرتے تھے جب کوئی دشمن لوٹنے والا غارت کرنے والا صبح کو آپہنچتا تھا تو اس کے ساتھ یہ نعرہ مارتے تھے گویا بلند آواز سے فریاد مانگی جارہی ہے اور امداد کے لیے اعلان کیا جارہا ہے تاکہ حمایتی جو ہیں وہ فوراً جائیں اور دشمن کا مقابلہ کریں اور اس کو دوڑا دیں.بعض نے کہا ہے کہ لڑنے والوں کا قاعدہ ہو تا تھا کہ رات ہوتے ہی جنگ بند کر دیتے تھے.اپنے ٹھکانوں پر چلے جاتے تھے.صباحاہ کے متعلق دوسری روایت یہ بھی ہے.اور پھر صباحاہ کہہ کر دوسرے روز لڑنے والوں کو آگاہ کیا جاتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے اب جنگ کے لیے پھر تیار ہو جاؤ.لغات الحدیث میں یہ وضاحت لکھی گئی ہے.بہر حال کہتے ہیں کہ پھر میں ان لوگوں کے پیچھے تلاش کرتا ہوا اور انہیں تیر مار تا ہو انکلا اور میں رجزیہ اشعار پڑھ رہا تھا اور میں کہہ رہا تھا کہ : أَنَا ابْنُ الْأَنْوَع وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّطَّعِ کہ میں آگوع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے.پس میں ان میں سے جس شخص سے بھی ملتا تو اس کے کجاوے میں تیر مارتا یہاں تک کہ تیر کا پھل نکل کر اس کے کندھے تک جا پہنچتا.میں کہتا یہ لو، انا ابْنُ الْآنُوعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ التَّضْعِ کہ میں انوع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے.کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! میں ان کو تیر مار تا رہا اور انہیں زخمی کر تا رہا اور جب میری طرف کوئی گھڑ سوار آتا تو میں کسی درخت کی طرف آتا اور اس کے نیچے بیٹھ جاتا یعنی درخت کے پیچھے چھپ جاتا اور میں اسے تیر

Page 371

355 اصحاب بدر جلد 5 مار کر زخمی کر دیتا یہاں تک کہ جب پہاڑ کا راستہ تنگ ہو گیا اور وہ اس تنگ راستے میں داخل ہوئے تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور انہیں پتھر مارنے لگا.یہ لوگ جو آنحضرت صلی علی نام کے جانور لوٹ کر لے جارہے تھے ان پر انہوں نے حملہ کیا.اکیلے تھے.پہلے تیر مارتے رہے پھر کہتے ہیں کہ دڑے پر پہنچا وہاں سے پتھر مارنے شروع کیے اور اسی طرح میں ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی علیم کے اونٹوں میں سے کوئی اونٹ ایسا پیدا نہیں کیا جسے میں نے اپنے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو یعنی کہ دڑے کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے اور وہ لوگ آگے دوڑ گئے اور انہوں نے ان کو میرے اور اپنے درمیان چھوڑ دیا.پھر میں تیر اندازی کر تارہا یہاں تک کہ انہوں نے تیس سے زیادہ چادریں اور تیس نیزے یعنی اپنا وزن ہلکاہونے کے لیے پھینک دیے.وہ لوگ دوڑ رہے تھے تو اونٹ چھوڑ دیے.پھر اپنا سامان بھی پیچھے پھینکنا شروع کر دیا تا کہ آسانی سے دوڑ سکیں.کہتے ہیں جو چیز بھی وہ پھینکتے جاتے تھے میں ان پر نشان کے طور پر پتھر رکھ دیتا تھا تا کہ رسول للہ صلی اللیل اور آپ کے صحابہ پہنچان لیں یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے جہاں انہیں بدر فزاری کا کوئی بیٹا ملا.وہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگے اور میں ایک چوٹی پر بیٹھا تھا.فزاری نے کہا یہ کون شخص ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں ؟ انہوں نے کہا اس شخص نے تو ہمیں تنگ کر رکھا ہے.اللہ کی قسم! یہ صبح سے ہم پر مسلسل تیراندازی کر رہا ہے یہاں تک کہ اس نے ہم سے سب کچھ چھین لیا ہے.اس نے کہا چاہیے کہ تم میں سے چار آدمی اس کی طرف جائیں.حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ ان میں سے چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے.جب وہ میرے اتنے قریب آئے کہ میں ان سے بات کر سکا تو میں نے کہا کہ تم مجھے جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا نہیں.تم کون ہو؟ میں نے کہا میں سلمہ بن اکوع ہوں.پھر انہوں نے آگے کافروں کو کہا کہ اس کی قسم جس نے محمدعلی تعلیم کے چہرے کو عزت عطا کی ہے کہ میں تم میں سے جس شخص کو پکڑنا چاہوں اسے پکڑ سکتا ہوں لیکن تم میں سے کوئی شخص مجھے پکڑنا تو نہیں پکڑ سکتا.چار آدمی جو آئے تھے ان میں سے ایک ذرا ڈر گیا.اس نے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے اور وہ چاروں واپس چلے گئے اور میں اپنی جگہ پر بیٹھا رہا یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ صلی ال نیم کے گھوڑے درختوں کے درمیان آتے ہوئے دیکھے.ان میں سے سب سے پہلے اخرم اسدی تھے اور ان کے پیچھے ابو قتادہ انصاری تھے اور ان کے پیچھے مقداد بن اسود کندی تھے.میں نے اخرم یعنی حضرت محرز کے گھوڑے کی لگام پکڑی تو وہ چاروں طرف پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے.یہ ذرا سا confusion ہے میرا خیال ہے.وہ جو دوسرے لوگ وہاں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ اور قریب آگئے ہیں تو وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے.کہتے ہیں میں نے کہا اے اخرم یعنی حضرت محرز کو کہا کہ تو ان سے بچ، تاکہ وہ تجھے ہلاک نہ کر دیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی الیکم اور آپ کے صحابہ نہ پہنچ جائیں.اس نے کہا اے سلمہ ! اگر تو اللہ اور یوم آخرت پر

Page 372

356 اصحاب بدر جلد 5 ایمان رکھتا ہے اور تو جانتا ہے کہ جنت حق ہے اور آگ حق ہے یعنی جہنم حق ہے.پس تو میرے اور شہادت کے درمیان حائل نہ ہو.میں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ یعنی اخر ثم اور عبد الرحمن باہم بر سر پیکار ہوئے اور انہوں نے عبد الرحمن سمیت اس کے گھوڑے کو زخمی کر دیا.اور عبد الرحمن نے ان کو یعنی اخرم کو، حضرت مخرز کو نیزہ مار کر شہید کر دیا اور ان کے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے لوگوں میں جانے کے لیے واپس مڑا تو پھر جو آنحضرت صلی نیم کے ساتھ لوگ آرہے تھے ان میں سے ابو قتادہ، عبد الرحمن کے پیچھے گئے اور اس کو پکڑ لیا اور نیزہ مار کر اسے قتل کر دیا جو حضرت محرز کو شہید کر کے گیا تھا.تو یہ کہتے ہیں کہ پس اس کی قسم جس نے محمد کے چہرے کو عزت عطا کی ! میں نے دوڑتے ہوئے ان کا تعاقب جاری رکھا.میں پھر بھی ان کے پیچھے جاتا رہا یہاں تکہ کہ میں نے محمد صلی الم کے صحابہ میں سے کسی کو اور نہ ان کے غبار کو اپنے پیچھے پایا یعنی بہت آگے نکل گیا یہاں تک کہ وہ سورج غروب ہونے سے پہلے ایک گھائی میں پہنچے جہاں پانی تھا.اسے ذی قرد کہتے تھے.وہ لوگ جو مال لوٹ کے لے جانے والے چور تھے وہ اس سے پانی پینا چاہتے تھے اور وہ پیاسے تھے.پھر انہوں نے مجھے اپنے پیچھے دوڑتے ہوئے دیکھا.میں نے ان کو وہاں سے ہٹا دیا اور وہ اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکے.وہ وہاں سے نکلے اور ایک گھائی کی طرف تیزی سے بڑھے.میں بھی دوڑا.میں ان میں سے جس شخص کو پیچھے پاتا یعنی چھپ چھپ کے پیچھے دوڑ تا رہا اور جو پیچھے رہ جاتا اس کے کندھے کی ہڈی میں تیر مارتا.میں یہ کہا لو انا ابن الأكوع وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضّع کہ میں انوع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے.کہتے ہیں کہ اس نے کہا کہ آسوع کو اس کی ماں کھوئے.کیا صبح والا آکوع؟ یہ جو لو گوں کو زخمی کر رہے تھے تو ان میں سے ایک نے یہ کہا کہ صبح والا آكوع، جو صبح سے ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے ؟ میں نے کہا ہاں.اے اپنی جان کے دشمن تیر اصبح والا آنوع.انہوں نے دو گھوڑے گھاٹی میں پیچھے چھوڑ دیے.میں ان دونوں کو ہانکتے ہوئے رسول اللہ صلی علی کرم کے پاس چل پڑا.مجھے عامر ایک چھاگل میں تھوڑے سے دودھ میں ملا ہو اپانی اور ایک چھاگل میں پانی لاتے ہوئے ملے.پھر میں نے وضو کیا اور پیا.پھر میں رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آیا اور آپ صلی علیہ کی اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے ان لوگوں کو، ان لٹیروں کو صبح بھگایا تھا.وہاں آنحضرت صلی علیہ کی اس پانی کے قریب پہنچ چکے تھے.میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی للی یکی نے وہ اونٹ اور وہ سب چیزیں جو میں نے مشرکوں سے چھڑائی تھیں لے لیں اور حضرت بلال نے ان اونٹوں میں سے جو میں نے ان سے چھینے تھے ایک اونٹنی ذبح کی.وہ رسول اللہ صلی علیم کے لیے کیجی اور کوہان کے گوشت سے بھون رہے تھے.میں نے کہا یارسول اللہ ! آپ کے ساتھ جو لوگ آئے ہیں مجھے اس لشکر میں سے سو آدمی منتخب کرنے کی اجازت فرمائیں.تو میں ان لوگوں کا پیچھا کر کے ان سب کو قتل کر دوں.کوئی ان کے قبیلے کو خبر دینے والا بھی نہ بچے جو یہ سامان لوٹ کر لوٹے تھے، لوٹ کر لے جانے لگے تھے.رسول اللہ صلی ال نیم کھلا کر ہنسے یہاں تک کہ آگے کی روشنی میں آپ کے دانت مبارک دکھائی دینے سة صا التربة

Page 373

اصحاب بدر جلد 5 357 لگے.آپ نے فرمایا اے سلمہ ! کیا تم سمجھتے ہو کہ تم یہ کر سکتے ہو کہ ان کے گھروں میں پہنچنے سے پہلے ان سب کو مار دو ؟ میں نے کہا ہاں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت عطا کی ہے ! آپ نے فرمایا اب وہ غطفان کی سر حد پر پہنچ گئے ہیں.ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس جگہ یہ الفاظ بیان ہوئے ہیں کہ جب حضرت سلمه بن انوع نے آنحضرت صلی للی نام سے مشرکین کا دوبارہ پیچھا کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی ہی ہم نے فرمایا يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَاشيخ : اے ابن آنوع ! تم نے جب غلبہ پالیا ہے تو پھر جانے دو اور در گرز سے کام لو.اب پیچھے جانے کا ان کو قتل کرنے کا کیا فائدہ؟ تو یہ جو اسوہ ہے اس میں اک تو یہ ہے کہ یہ اکیلے جنگ کرتے رہے حضرت مخرز آئے تو ان پر انہوں نے چھپ کے حملہ کیا یا ان کو کسی طرح شہید کر دیا.پہلی دفعہ تو ان کے گھوڑے کو پکڑ کے انہوں نے پلٹا دیا اور بچ گئے لیکن پھر حملہ ہوا اور وہ شہید ہو گئے.ایک تو یہ حضرت مخرز کی شہادت کا واقعہ ہے.دوسرا ان کی بہادری بھی ہے اور ان کو جنگ کے طریقے کا بھی پتا ہے.آسوع نے ان لٹیروں سے سب مال چھینا اور پھر اہم بات یہ کہ جب مال واپس لے لیا اور پھر بھی کہا کہ میں ان کا پیچھا کر کے ان سب کو قتل کر دوں تو آپ صلی یم نے فرمایا کہ ان کو جانے دو.جب مال واپس آگیا ہے تو چھوڑو.تو یہ اسوہ ہے آنحضرت صلی علیم کا کیونکہ آپ کو قتل و غارت سے غرض نہیں تھی.یہ مقصد نہیں تھا.لٹیروں اور حملہ آوروں سے جب آپ نے واپس مال لے لیا اور سب لوگ چھوڑ کر فرار ہو گئے ، ان میں سے کچھ زخمی بھی ہو گئے تو آپ نے بھی پھر وہاں کسی قسم کی جنگ اور قتل و غارت گری نہیں کی.ย بہر حال یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیہ کہ جب ان سے یہ باتیں کر رہے تھے کہ ان کو چھوڑو.وہ چلے گئے ہیں تو اب جانے دو.اس دوران میں بنی غطفان کا ایک شخص آیا اور اس نے کہا فلاں شخص نے ان کے لیے اونٹ ذبح کیا ہے.جب وہ ان کی جلد اتار رہے تھے تو انہوں نے ایک غبار دیکھا.انہوں نے کہا وہ لوگ آگئے.وہ وہاں سے بھی بھاگ گئے.جب صبح ہوئی تو آپ صلی ایم نے فرمایا آج ہمارے بہترین شاہ سوار ابوقتادہ ہیں پیادوں میں بہترین پیادہ یعنی پیدل چلنے والوں میں، جنگ کرنے والوں میں سلمہ " ہیں.سلمہ “ نے ان لوگوں کو مشکل میں ڈال دیا تھا.وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے مجھے دو حصے دیے ایک سوار کا اور ایک پیدل کا.پھر رسول اللہ صلی علیم نے مدینہ لوٹے ہوئے مجھے عضباء اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھالیا.تو کہتے ہیں کہ جب ہم جارہے تھے تو انصار کے ایک شخص نے جس سے دوڑ میں کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا تھا اس نے کہنا شروع کر دیا کہ کوئی مدینہ تک دوڑ لگانے والا ہے.دوڑ کا مقابلہ اب جنگوں اور دشمنوں کے تنگ کرنے کے باوجود صحابہ اپنی تفریح کے سامان بھی کرتے رہتے تھے.ایک دوسرے کو ہلکے پھلکے چینج بھی دیتے تھے تا کہ وقت بھی گزر جائے اور دشمنوں کا جو مستقل

Page 374

اصحاب بدر جلد 5 358 ذہنی دباؤ بھی جو ہے وہ بھی کچھ کم ہو.بہر حال انہوں نے کہا کہ کوئی ہے جو مجھ سے دوڑ لگائے ؟ کیا کوئی دوڑنے والا ہے ؟ کہتے ہیں انہوں نے کئی دفعہ یہ بار بار دہرایا تو میں نے جب یہ بات سنی تو میں نے دوسرے صحابی کو چھیڑ کے کہا اسے کہ تم کسی معزز کی عزت نہیں کرتے ؟ کسی بزرگ سے نہیں ڈرتے ؟ اس نے کہا نہیں سوائے اس کے کہ رسول اللہ صلی ال یکم ہوں.آنحضرت صلی الی ایم کے علاوہ مجھے کسی کا خوف نہیں.تو میں نے کہا یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں.مجھے اس آدمی سے دوڑ لگانے دیں.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے اگر تم چاہتے ہو تو لگاؤ.میں نے اس شخص سے کہا کہ چلو.پھر کہتے ہیں میں نے اپنے پاؤں موڑے اور چھلانگ ماری اور دوڑ پڑا اور میں ایک یا دو گھاٹیاں اس کے پیچھے دوڑا پھر میں اپنی طاقت بچاتا رہا تھا پھر میں آہستگی ہے اس کے پیچھے دوڑا پھر میں تیز ہوا، اسے جالیا.یہ دوڑ لگتی رہی.وہ مدینہ کا سب سے تیز دوڑنے والا شخص تھا.کہتے ہیں اور تیز ہو کے میں نے اسے جاکے پکڑ لیا.میں نے اسے کندھے کے درمیان مکا مارا.میں نے کہا اللہ کی قسم ! تو پیچھے رہ گیا.ایک راوی کہتے ہیں کہ میراخیال ہے انہوں نے کہا کہ میں مدینہ تک اس سے آگے رہا اور پھر ہم صرف تین راتیں ٹھہرے یہاں تک کہ اس کے بعد پھر رسول صلی علیم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے.1859 وہاں پر ٹھہرے.پھر خیبر کی طرف چلے گئے.تاریخ طبری میں اس غزوہ کی بابت کچھ تفصیلات یوں درج ہیں.حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ غزوہ ذی قرد میں دشمن کے پاس سب سے پہلا گھوڑا حضرت مُحرز بن نضله کا پہنچا جو بنو اسد بن خزیمہ میں سے تھے.حضرت مُخرِز بن نضله و آخرم بھی کہا جاتا تھا.اسی طرح آپ کو قمت تیر بھی کہا جاتا تھا.اور جب دشمن کی طرف سے لوٹ مار اور خطرے کے لیے اجتماع کا اعلان ہوا تو حضرت محمود بن مسلمہ کے گھوڑے نے جو ان کے باغ میں بندھا ہوا تھا جب اور گھوڑوں کی ہنہناہٹ کی آواز سنی تو اپنی جگہ اچھل کود کرنے لگا.یہ ایک عمدہ اور سدھایا ہوا گھوڑا تھا.تب بَنُو عَبْدِ الْأَشْهَل کی عورتوں میں سے بعض عورتوں نے بندھے ہوئے گھوڑے کو اس طرح اچھلتے کودتے دیکھا تو حضرت مخرز بن نضله سے کہا اے میر ! کیا آپ طاقت رکھتے ہیں کہ اپنے اس گھوڑے پر سوار ہوں اور یہ گھوڑا جیسا ہے وہ آپ اسے دیکھ ہی رہے ہیں.پھر آپؐ مسلمانوں اور رسول اللہ صلی علیم سے جاملیں.آپ نے کہا ہاں ! میں تیار ہوں.پھر عورتوں نے وہ گھوڑا آپ کو دیا.آپؐ ، حضرت مخرز “، اس پر سوار ہو کر چل دیے.انہوں نے اس گھوڑے کی باگ ڈھیلی چھوڑ دی یہاں تک کہ آپ نے اس جماعت کو پالیا جو آنحضرت صلی اللہ نام کے ساتھ جارہی تھی اور ان کے آگے آپ کھڑے ہو گئے.پھر حضرت مُخرز بن نضلہ نے کہا اے تھوڑی سی جماعت ! ٹھہر وہ یہاں تک کہ دوسرے مہاجر اور انصار جو تمہارے پیچھے ہیں وہ بھی تم سے آملیں.راوی کہتے ہیں کہ دشمن کے ایک شخص نے آپ پر حملہ کیا اور آپ کو شہید کر دیا.پھر وہ گھوڑا بے قابو ہو کر بھاگا اور کوئی اس پر قابو نہ پاسکا یہاں تک کہ وہ بَنُو عَبدِ الْأَشْهَل کے محلے میں آکر اسی رسی کے پاس ٹھہر گیا جس سے وہ بندھا ہو ا تھا.پس مسلمانوں میں اس دن آپ کے

Page 375

اصحاب بدر جلد 5 359 علاوہ اور کوئی شہید نہیں ہوا تھا اور حضرت محمود (طبقات ابن سعد کے مطابق ان صحابی کا نام حضرت محمد بن مسلمہ تھا ان کے گھوڑے کا نام ذُو الللہ تھا.ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت محرز بن نَضْله حضرت على شه بن مخصن کے گھوڑے پر شہادت کے وقت سوار تھے.اس گھوڑے کو جناح عُکاشہ کہا جاتا تھا اور بعض جانور دشمن کے ہاتھ سے چھڑا لیے تھے.رسول اللہ صلی ال کی اپنے مقام سے روانہ ہوئے ا اپنے اور غزوہ ذی قرد کے پہاڑ پر پہنچ کر ٹھہرے اور وہیں اور صحابہ آپصلی الم کی خدمت میں آگئے اور آپ صلی علیکم ایک دن اور ایک رات وہاں مقیم رہے.سلمہ بن اکوع نے آپ صلی نام سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر آپ سو آدمی میرے ساتھ بھیج دیں تو میں بقیہ جانور بھی دشمن سے چھڑالا تا ہوں اور ان کی گردن جاد با تا ہوں.رسول اللہ صلی للی کم نے فرمایا کہاں جاؤ گے ؟ اس وقت تو وہ غطفان کی شراب پی رہے ہیں.رسول اللہ صلی علیم نے اپنے صحابہ کو سو سو میں تقسیم کرتے ہوئے ان میں کھانے کے لیے اونٹ تقسیم کیے جنہیں صحابہ نے بطور کھانے کے استعمال کیا.پھر رسول اللہ صلی ال کی مدینہ واپس تشریف لے آئے.860 اور ان لوگوں سے کوئی تعرض نہیں کیا.ان کو چھوڑ دیا.ان لوگوں کو جانے دیا اور یہی حضرت محرز وہاں صرف ایک شہید ہوئے.ایک روایت کے مطابق گھڑ سواروں میں سب سے پ اور یہی پہلی روایت میں بھی ہے.861 تھے 275 نام و نسب و کنیت حضرت محمد بن مسلمہ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری.حضرت محمد کے والد کا نام مسلمہ بن سلمہ تھا.ان کے دادا کا نام سلمہ کے علاوہ خالد بھی بیان کیا گیا ہے اور ان کی والدہ اتم سہم تھیں جن کا نام خلیدۃ بنت ابو عبیدہ تھا.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا اور قبیلہ عبد استھل کے حلیف تھے.حضرت محمد بن مسلمہ کی کنیت ابو عبد اللہ یا ابو عبد الرحمن اور ابوسعید بھی بیان کی جاتی ہے.علامہ ابن حجر کے نزدیک ابو عبد اللہ زیادہ صحیح ہے.ایک قول کے مطابق آپ بعثت نبوی سے بائیس سال پہلے پیدا ہوئے اور ان لوگوں میں سے تھے جن کا نام جاہلیت میں محمد رکھا گیا.862........."❝ اہل عرب کا اپنے بچوں کا نام محمد رکھنا مدینے کے یہود اس نبی کے منتظر تھے جس کی بشارت حضرت موسی نے دی تھی.انہوں نے بتایا کہ

Page 376

360 اصحاب بدر جلد 5 اس مبعوث ہونے والے نبی کا نام محمد ہو گا.جب اہل عرب نے یہ بات سنی تو انہوں نے اپنے بچوں کے نام محمد رکھنا شروع کر دیے.سیرت النبی پر مشتمل کتب میں جن افراد کا نام زمانہ جاہلیت میں بطور تفاؤل کے محمد رکھا گیا ان کی تعداد تین سے لے کر پندرہ تک بیان کی گئی ہے.علامہ شھیلی جو سیرت ابن ہشام کے شارح ہیں انہوں نے تین افراد کے اسماء لکھے ہیں جن کا نام محمد تھا.علامہ ابن اثیر نے چھ افراد کے نام لکھے ہیں جبکہ عبد الوہاب شعرانی نے ان کی تعداد چودہ درج کی ہے.معلومات کے لیے یہ پندرہ نام یا چند نام جو ہیں یہ بتا بھی دیتا ہوں.ان میں ہیں محمد بن سفیان، محمد بن أحَيْحَه، محمد بن محمران، محمد بن خُزاعی، محمد بن عدی، محمد بن اسامہ، محمد بن براء، محمد بن حارث، محمد بن حِرمَازَ ، محمد بن خولی، محمد بن يحمدی ، محمد بن زید، محمد بن اسیدی اور محمد فقیمی اور حضرت محمد بن مسلمہ (شامل ہیں.قدیم اسلام لانے والے 863 حضرت محمد بن مسلمہ قدیم اسلام لانے والوں میں سے تھے.آپ حضرت مصعب بن محمیر کے ہاتھ پر حضرت سعد بن معاذ سے پہلے اسلام لائے.جب حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ ہم نے ان کی آپ کے ساتھ مؤاخات قائم فرمائی.آپؐ ان صحابہ میں شامل تھے جنہوں نے کعب بن اشرف اور ابو رافع سلام بن ابو محقیق کو قتل کیا تھا.یہ دونوں وہ فتنہ پرداز تھے جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے اور اسی کوشش میں ہوتے تھے بلکہ مسلمانوں پر حملہ بھی کروانے کی کوشش کی.آنحضرت صلی اللی علم پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی تو آنحضور صلی الم نے ان کو پھر ان کے قتل پر مقرر کیا تھا.آنحضور ملی ایم نے بعض غزوات کے موقعے پر ان کو مدینہ پر نگران بھی مقرر فرمایا.حضرت محمد بن مسلمہ کے بیٹے جعفر ، عبد اللہ ، سعد ، عبد الرحمن اور عمر نبی کریم صلی الم کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں.حضرت محمد بن مسلمہ غزوہ بدر، غزوہ احد اور اس کے بعد سوائے غزوہ تبوک کے تمام غزوات میں شریک ہوئے کیونکہ غزوہ تبوک میں وہ نبی کریم صلی علیم کی اجازت سے مدینے میں ٹھہرنے کے لیے پیچھے رہ گئے تھے.864 دوفتنہ پرداز اور اسلام کے مخالفین کا قتل 865 جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ دوفتنہ پرداز اور اسلام کے مخالفین کے قتل میں حضرت محمد بن مسلمہ شامل تھے.اس کی کچھ تفصیل تو ڈیڑھ سال پہلے حضرت عباد بن بشر کے حوالے سے بیان کر چکا ہوں.تاہم کچھ باتیں مختصر بیان کرتا ہوں.اس کے علاوہ کچھ اور تفصیل بھی ہے.سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کعب بن اشرف کے قتل کے ضمن میں یہ لکھا ہے کہ : بدر کی جنگ نے جس طرح مدینے کے یہودیوں کی دلی عداوت کو ظاہر کر دیا تھا اور وہ مخالفت میں

Page 377

اصحاب بدر جلد 5 361 بڑھ گئے تھے.اپنی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں میں ترقی کرتے گئے.چنانچہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ اسی کی ایک کڑی ہے.کعب گومذہبا یہودی تھا لیکن دراصل یہودی النسل نہ تھا بلکہ عرب تھا.اس کا باپ اشرف بنو نبہان کا ایک ہوشیار اور چلتا پرزہ آدمی تھا.مدینہ میں آکر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا عظ کیے اور ان کا حلیف بن گیا.بالآخر اس نے اتنا اقتدار اور رسوخ پیدا کر لیا کہ قبیلہ بنو نضیر کے رئیس ا ابو رافع بن ابی الحقیق نے اپنی لڑکی اسے رشتہ میں دے دی اور اس کے بطن سے کعب پیدا ہوا جس نے بڑے ہو کر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا.حتی کہ بالآخر اسے یہ حیثیت حاصل ہو گئی کہ تمام عرب کے یہودی اسے گویا اپنا سردار سمجھنے لگے.اخلاقی نقطہ نگاہ سے وہ ایک نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا اور خفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں اسے بڑا کمال حاصل تھا.نیکی تو اس کے پاس بھی نہیں پھٹکی تھی.پس کمال تھا اس کا برائیوں میں ، بدیوں میں، لڑانے میں فساد پیدا کرنے میں، فتنہ پیدا کرنے میں.بہر حال جب آنحضرت صلی للی کم مدینے میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو کعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدے میں شرکت اختیار کی جو آنحضرت صلی اللہ کم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اور امن و امان اور مشترکہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا مگر اندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض و عداوت کی آگ سلگنے لگ گئی اور اس نے خفیہ چالوں اور خفیہ ساز باز سے اسلام اور بانی اسلام کی مخالفت شروع کر دی.کعب کی مخالفت زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئی.اپنی مخالفت اور فتنہ پردازیوں میں بڑھتا ہی چلا گیا اور بالآخر جنگ بدر کے بعد تو اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا اور جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے نہایت خطر ناک حالات پیدا ہو گئے.جب بدر کے موقعے پر مسلمانوں کو ایک غیر معمولی فتح نصیب ہوئی اور رؤسائے قریش اکثر مارے گئے تو اس نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیا دین یو نہی مٹتا نظر نہیں آتا.پہلے تو خیال تھا یہ نیا دین ہے ختم ہو جائے گا.خود ہی اپنی موت مر جائے گا لیکن جب اسلام کی ترقی دیکھی، بدر کے جنگ کے نتائج دیکھے تو پھر اس کو خیال پیدا ہوا کہ یہ اس طرح نہیں مٹے گا.چنانچہ بدر کے بعد اس نے اپنی پوری کوشش اسلام کے مٹانے اور تباہ و برباد کرنے میں صرف کر دینے کا تہیہ کر لیا.جب کعب کو یہ یقین ہو گیا کہ واقعی بدر کی فتح نے اسلام کو وہ استحکام دے دیا ہے جس کا اسے وہم و گمان بھی نہ تھا تو وہ غیض و غضب سے بھر گیا اور فور سفر کی تیاری کر کے اس نے مکے کی راہ لی اور وہاں جاکر اپنی چرب زبانی اور شعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو اور شعلہ بار کر دیا، بھڑ کا دیا اور ان کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کر دی اور ان کے سینے جذبات انتقام و عداوت سے بھر دیے.اور جب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک اتنہائی درجے کی بجلی پیدا ہو گئی تو اس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جا کر اور کعبہ کے پر دے ان کے ہاتھوں میں دے دے کر ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانی اسلام کو صفحہ دنیا سے ملیا میٹ نہ

Page 378

اصحاب بدر جلد 5 362 کر دیں گے اس وقت تک چین نہیں لیں گے.اس کے بعد اس بد بخت نے دوسرے عرب قبائل کا رخ کیا اور قوم بقوم پھر کر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑ کا یا.اور پھر مدینے میں واپس آکر مسلمان خواتین پر تشبیب کہی.یعنی اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اور مخش طریق پر مسلمان خواتین کا ذکر کیا.حتی کہ خاندانِ نبوت کی عورتوں کو بھی اپنے ان او باشانہ اشعار کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا اور ملک میں ان اشعار کا چر چا کروایا.بہر حال آخر پھر اس نے یہ کوشش بھی کی کہ آنحضرت ملا لی ایم کے قتل کی سازش کی اور آپ کو کسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پر بلا کر چند نوجوان یہودیوں سے آپ کو قتل کروانے کا منصوبہ باندھا مگر خدا کے فضل سے وقت پر اطلاع ہو گئی اور اس کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی.جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور کعب کے خلاف عہد شکنی، بغاوت، تحریک جنگ، فتنہ پردازی، فحش گوئی اور سازش قتل کے الزامات پایہ ثبوت کو پہنچ گئے تو آنحضرت علی سلیم نے جو اس بین الا قوامی معاہدے کی رو سے جو آپ کے مدینے میں تشریف لانے کے بعد اہالیانِ مدینہ سے ہو اتھا مدینے کی جمہوری سلطنت کے صدر اور حاکم اعلیٰ تھے تو آپ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ کعب بن اشرف اپنی کارروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے.چونکہ اس وقت کعب کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مدینے کی فضا ایسی ہو رہی تھی کہ اگر اس کے خلاف باضابطہ طور پر اعلان کر کے اسے قتل کیا جاتا تو مدینے میں ایک خطرناک خانہ جنگی شروع ہو جانے کا احتمال تھا جس میں نہ معلوم کتنا کشت و خون ہو تا اور آنحضرت صلی لی نظم ہر ممکن اور جائز قربانی کر کے بین الا قوامی کشت و خون کو روکنا چاہتے تھے.آپ نے یہ ہدایت فرمائی کہ کعب کو بر ملا طور ، کھلے طور پر قتل نہ کیا جاوے بلکہ چند لوگ خاموشی کے ساتھ کوئی مناسب موقع نکال کر اسے قتل کر دیں اور یہ ڈیوٹی آپ نے قبیلہ اوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مسلمہ کے سپرد فرمائی اور انہیں تاکید فرمائی کہ جو طریق بھی اختیار کریں قبیلہ اوس کے رئیس سعد بن معاذ کے مشورے سے کریں.محمد بن مسلمہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! خاموشی کے ساتھ قتل کرنے کے لیے تو کوئی بات کہنی ہو گی یعنی کوئی عذر وغیرہ بنانا پڑے گا جس کی مدد سے کعب کو اس کے گھر سے نکال کر کسی محفوظ جگہ میں قتل کیا جاسکے.آپ نے ان عظیم الشان اثرات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو اس موقعے پر ایک خاموش سزا کے طریق کو چھوڑنے سے پید اہو سکتے تھے فرمایا کہ اچھا.چنانچہ محمد بن مسلمہ نے سعد بن معاذ کے مشورے سے ابو نائیلہ اور دو تین اور صحابیوں کو اپنے ساتھ لیا اور کعب کے مکان پر پہنچے اور کعب کو اس کے اندرونِ خانہ سے بلا کر کہا کہ ہمارے صاحب یعنی محمد رسول اللہ صلی علی کم ہم سے صدقہ مانگتے ہیں اور ہم تنگ حال ہیں.کیا تم مہربانی کر کے ہمیں کچھ قرض دے سکتے ہو ؟ یہ بات سن کر کعب خوشی سے کود پڑا اور کہنے لگا کہ واللہ ! ابھی کیا ہے.وہ دن نہیں جب تم اس شخص سے بیزار ہو کر اسے چھوڑ دو گے.محمد بن مسلمہ نے جواب دیا.خیر ہم تو محمد صلی علیکم کی اتباع اختیار کر چکے ہیں جس کام کے لیے تمہارے پاس آئے ہیں تم یہ بتاؤ کہ قرض دو گے یا دور

Page 379

اصحاب بدر جلد 5 363 نہیں ؟ کعب نے کہا ہاں مگر کوئی چیز رہن رکھو.محمد نے پوچھا کیا چیز ؟ اس بد بخت نے جواب دیا کہ اپنی عورتیں رہن رکھ دو.محمد نے غصے کو دبا کر کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمہارے جیسے آدمی کے پاس ہم اپنی عورتیں رہن رکھ دیں.اس نے کہا اچھا تو پھر بیٹے سہی.محمد بن مسلمہ نے جواب دیا کہ یہ بھی ناممکن ہے.ہم سارے عرب کا طعن اپنے سر پر نہیں لے سکتے.البتہ اگر تم مہربانی کرو تو ہم اپنے ہتھیار رہن رکھ دیتے ہیں.کعب راضی ہو گیا اور محمد بن مسلمہ اور ان کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ دے کر واپس چلے آئے اور جب رات ہوئی تو یہ پارٹی ہتھیار وغیرہ ساتھ لے کر کعب کے مکان پر پہنچے کیونکہ اس وقت کھلے طور پر ہتھیار لا سکتے تھے جو معاہدے کے مطابق دینا تھا اور اسے گھر سے نکال کر باتیں کرتے کرتے ایک طرف کو لے گئے اور تھوڑی دیر بعد چلتے چلتے محمد بن مسلمہ یا ان کے کسی ساتھی نے کسی بہانے سے کعب کے سر پر ہاتھ ڈالا اور نہایت پھرتی کے ساتھ اس کے بالوں کو مضبوطی سے قابو کر کے اپنے ساتھیوں کو آواز دی کہ مارو.صحابہ نے جو پہلے سے تیار تھے.ہتھیار بند تھے، فوراً تلواریں چلا دیں اور بالآخر کعب قتل ہو کر گرا.محمد بن مسلمہ اور ان کے ساتھی وہاں سے رخصت ہو کر جلدی جلدی آنحضرت صلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور آپ کو اس قتل کی اطلاع دی.جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اور یہودی لوگ سخت جوش میں آگئے اور دوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کا ایک وفد آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سر دار کعب بن اشرف اس طرح قتل کر دیا گیا ہے.آنحضرت صلی ا ہم نے ان کی بات سن کر فرمایا کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا ہے ؟ اور پھر آپ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہد شکنی اور تحریک جنگ اور فتنہ انگیزی اور فحش گوئی اور سازش قتل و غیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہو گئے.انہوں نے مزید شور نہیں مچایا.اس کے بعد آنحضرت صلی علی کرم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہیے کہ کم از کم آئندہ کے لیے ہی امن اور تعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اور فتنہ وفساد کا بیج نہ بوؤ.چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لیے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہنے اور فتنہ وفساد کے طریقوں سے بچنے کا از سر نو وعدہ کیا.اگر کعب مجرم نہ ہوتا تو یہودی کبھی اتنی آسانی سے نیا معاہدہ نہ کرتے اور اس کے قتل پر خاموش بھی نہ رہتے.بہر حال یہ نیا معاہدہ انہوں نے کیا کہ آئندہ ہم امن سے رہیں گے.تاریخ میں کسی جگہ بھی مذکور نہیں کہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کر کے مسلمانوں پر الزام عائد کیا ہو کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے.کعب بن اشرف کے قتل پر بعض مغربی مورخین نے بہت کچھ لکھا ہے اور اس قتل کو آنحضرت صلی للی کم کے دامن پر ایک بد نما دھبے کے طور پر ظاہر کر کے اعتراضات جمائے ہیں.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اول تو یہ کہ آیا یہ عمل فی ذاتہ ایک جائز فعل تھا یا نہیں؟ دوسرے آیا جو طریق اس کے قتل کے واسطے اختیار کیا

Page 380

اصحاب بدر جلد 5 گیا وہ جائز تھا یا نہیں ؟ 364 امر اول کے متعلق تو یہ یادر کھنا چاہیے کہ کعب بن اشرف آنحضرت صلی علی نام کے ساتھ باقاعدہ امن و امان کا معاہدہ کر چکا تھا اور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنا تو در کنار رہا اس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ ہر بیرونی دشمن کے خلاف مسلمانوں کی امداد کرے گا اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا.اس نے اس معاہدے کی رو سے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ جو رنگ مدینے میں جمہوری سلطنت کا قائم کیا گیا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ کا صدر ہوں گے اور ہر قسم کے تنازعات وغیرہ میں آپ کا فیصلہ سب کے لیے واجب القبول ہو گا.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسی معاہدے کے ماتحت یہودی لوگ اپنے مقدمات وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علم کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور آپ ان میں احکام جاری فرماتے تھے.اگر ان حالات کے ہوتے ہوئے کعب نے تمام عہد و پیمان کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں سے بلکہ حق یہ ہے کہ حکومت وقت سے غداری کی اور مدینے میں فتنہ وفساد کا بیج بویا اور ملک میں جنگ کی آگ مشتعل کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب کو خطرناک طور پر ابھارا اور آنحضرت صلی ایم کے قتل کے منصوبے کیسے تو ان حالات میں کعب کا جرم بلکہ بہت سے جرموں کا مجموعہ ایسانہ تھا کہ اس کے خلاف کوئی تعزیری قدم نہ اٹھایا جاتا؟ کیا یہ قتل سے کم کوئی اور سزا تھی جو یہود کی اس فتنہ پردازی کے سلسلے کو روک سکتی ؟ کیا آج کل مہذب کہلانے والے ممالک میں بغاوت اور عہد شکنی اور اشتعال جنگ اور سازش قتل کے جرموں میں مجرموں کو قتل کی سزا نہیں دی جاتی؟ مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ اب جو سوال اٹھتا ہے وہ قتل کے طریق سے تعلق رکھتا ہے.سوال یہ اٹھتا ہے قتل کا طریق کیا تھا؟ جائز تھا کہ نہیں ؟ یعنی سوال یہ ہے کہ قتل کا طریق کیسا تھا ؟ اس سے تعلق رکھنے والا سوال ہے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ عرب میں اس وقت کوئی باقاعدہ سلطنت نہ تھی بلکہ ہر شخص اور ہر قبیلہ آزاد اور خود مختار تھا.ایسی صورت میں وہ کون سی عدالت تھی جہاں کعب کے خلاف مقدمہ دائر کر کے با قاعدہ قتل کا حکم حاصل کیا جاتا؟ کیا یہود کے پاس اس کی شکایت کی جاتی جن کا وہ سر دار تھا اور جو خود مسلمانوں کے خلاف غداری کر چکے تھے اور آئے دن فتنے کھڑے کرتے رہتے تھے ؟ کیا مکے کے قریش کے سامنے مقدمہ پیش کیا جاتا جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے ؟ کیا قبائل سُلیم وغطفان سے دادرسی چاہی جاتی جو گذشتہ چند ماہ میں تین چار دفعہ مدینے پر چھاپہ مارنے کی تیاری کر چکے تھے ؟ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ پھر سوچو کہ مسلمانوں کے لیے سوائے اس کے وہ کون سا راستہ کھلا تھا کہ جب ایک شخص کی اشتعال انگیزی اور تحریک جنگ اور فتنہ پردازی اور سازش قتل کی وجہ سے اس کی زندگی کو اپنے لیے اور ملک کے امن کے لیے خطرناک پاتے تو خود حفاظتی کے خیال سے موقع پا کر اسے خود قتل کر دیتے کیونکہ یہ بہت بہتر ہے کہ ایک شریر اور مفسد آدمی قتل ہو جائے بجائے

Page 381

اصحاب بدر جلد 5 365 اس کے کہ بہت سے پر امن شہریوں کی جان خطرے میں پڑے اور ملک کا امن برباد ہو.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس معاہدے کی رو سے جو ہجرت کے بعد مسلمانوں اور یہود کے درمیان ہوا تھا آنحضرت صلی علیم کو ایک معمولی شہری کی حیثیت حاصل نہ تھی بلکہ آپ اس جمہوری سلطنت کے صدر قرار پائے تھے جو مدینے میں قائم ہوئی تھی اور آپ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ جملہ تنازعات اور امور سیاسی میں جو فیصلہ مناسب خیال کریں صادر فرمائیں.نہیں آپ نے ملک کے امن کے مفاد میں کعب کی فتنہ پردازی کی وجہ سے اسے واجب القتل قرار دیا.600 پس اس فیصلہ قتل پر کوئی اعتراض کی گنجائش نہیں ہے.پھر تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ خود یہود نے کعب کی اس سزا کو اس کے جرموں کی روشنی میں واجبی سمجھ کر خاموشی اختیار کی اور اس پر اعتراض نہیں کیا اور اگر یہ اعتراض کیا جاوے کہ ایسا کیوں نہیں کیا گیا کہ قتل کا حکم دینے سے پہلے یہود کو بلا کر ان کو کعب کے جرم سنائے جاتے اور حجت پوری کرنے کے بعد اس کے قتل کا باقاعدہ اور برملا طور پر حکم دیا جاتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت حالات ایسے نازک ہو رہے تھے کہ ایسا طریق اختیار کرنے سے بین الا قوامی پیچیدگیوں کے بڑھنے کا سخت خطرہ تھا اور کوئی تعجب نہ تھا کہ مدینے میں ایک خطر ناک سلسلہ کشت و خون اور خانہ جنگی کا شروع ہو جاتا.پس ان کاموں کی طرح جو جلد اور خاموشی کے ساتھ ہی کر گزرنے سے فائدہ مند ہوتے ہیں آنحضرت صلی علی کرم نے امن عامہ کے خیال سے یہی مناسب سمجھا کہ خاموشی کے ساتھ کعب کی سزا کا حکم جاری کر دیا جائے مگر اس میں قطعاً کسی قسم کے دھوکے کا دخل نہ تھا اور نہ آنحضرت صلی اللی کم کا یہ منشا تھا کہ یہ سزا ہمیشہ کے لیے بصیغہ راز رہے کیونکہ جو نہی یہود کا وفد دوسرے دن صبح آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ صلی للی کرم نے فوراً بلا توقف انہیں ساری سرگزشت سنادی اور اس فعل کی پوری پوری ذمہ داری اپنے اوپر لے کر یہ ثابت کر دیا کہ اس میں کوئی دھو کے وغیرہ کا سوال نہیں ہے اور یہودیوں کو یہ بات واضح طور پر بتادی کہ فلاں فلاں خطرناک جرموں کی بنا پر کعب کے متعلق یہ سزا تجویز کی گئی تھی جو میرے حکم سے جاری کی گئی ہے.باقی رہا یہ اعتراض کہ اس موقعے پر آنحضرت علی ال یکم نے اپنے اصحاب کو جھوٹ اور فریب کی اجازت دی.سو یہ بالکل غلط ہے اور صحیح روایات اس کی مکذب ہیں.آنحضرت صلی لی ہم نے قطعاً جھوٹ اور غلط بیانی کی اجازت نہیں دی بلکہ بخاری کی روایت کے بموجب جب محمد بن مسلمہ نے آپ سے یہ دریافت کیا کہ کعب کو خاموشی کے ساتھ قتل کرنے کے لیے تو کوئی بات کہنی پڑے گی تو آپ نے ان عظیم الشان فوائد کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو خاموش سزا کے محرک تھے جواب میں صرف اس قدر فرمایا کہ ہاں اور اس سے زیادہ اس موقعے پر آپ کی طرف سے یا محمد بن مسلمہ کی طرف سے قطعا کوئی تشریح یا توضیح نہیں ہوئی.آنحضرت صلی الی کم کا صرف یہ مطلب تھا کہ محمد بن مسلمہ اور ان کے ساتھی جو کعب کے مکان پر جا کر اسے باہر نکال کر لائیں گے تو اس موقعے پر انہیں لازما کوئی ایسی بات کہنی ہو گی جس کے نتیجے

Page 382

366 اصحاب بدر جلد 5 میں کعب رضامندی اور خاموشی کے ساتھ گھر سے نکل کر ان کے ساتھ آجاوے اور اس میں ہر گز کوئی قباحت نہیں ہے.آخر جنگ کے دوران میں جاسوس وغیرہ جو اپنے فرائض ادا کرتے ہیں ان کو بھی تو اسی قسم کی باتیں کہنی پڑتی ہیں جس پر کبھی کسی عقل مند کو اعتراض نہیں ہوا.پس آنحضرت صلی للی کمر کا دامن تو بہر حال پاک ہے.باقی رہا محمد بن مسلمہ وغیرہ کا معاملہ جنہوں نے وہاں جاکر عملاً اس قسم کی باتیں کیں.سوان کی گفتگو میں بھی در حقیقت کوئی بات خلاف اخلاق نہیں ہے.انہوں نے حقیقتاً کوئی غلط بیانی نہیں کی البتہ اپنے مشن کی غرض وغایت کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ذو معنیین الفاظ ضرور استعمال کیے.مختلف معنی نکلنے والے الفاظ استعمال کیے مگر ان کے بغیر چارہ نہیں تھا اور حالات جنگ میں ایک اچھی اور نیک غرض کے ماتحت سادہ اور صاف گوئی کے طریق سے اس قدر خفی انحراف ہر گز کسی عقل مند دیانت دار شخص کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہو سکتا.کیا جنگ میں جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا جائز ہے؟ اب یہ سوال بھی بعضوں نے اٹھایا کہ کیا جنگ میں جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا جائز ہے ؟ بعض روایتوں میں یہ مذکور ہوا ہے کہ آنحضرت میام فرمایا کرتے تھے کہ الحرب محدعَةٌ یعنی جنگ تو ایک دھوکا ہے اور اس سے نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی یکی کی طرف سے جنگ میں دھو کے کی اجازت تھی.حالانکہ اول تو الحرب خدعة کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جنگ میں دھو کا کرنا جائز ہے بلکہ اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ جنگ خود ایک دھوکا ہے.یعنی جنگ کے نتیجے کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا ہو گا.یعنی جنگ کے نتیجے پر اتنی مختلف باتیں اثر ڈالتی ہیں کہ خواہ کیسے ہی حالات ہوں نہیں کہا جا سکتا کہ نتیجہ کیا ہو گا اور ان معنوں کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ حدیث میں یہ روایت دو طرح سے مروی ہے.ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی ملی یکم نے فرمایا کہ الحزب خُدَعَةٌ یعنی جنگ ایک دھوکا ہے.اور دوسری روایت میں یہ ہے کہ سکمی الْحَرب خُدعَةً یعنی آنحضرت صلی المیہ تم نے جنگ کا نام دھوکار کھا تھا.سلمى الحرب خدعت.اور دونوں کے ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کا منشا یہ نہیں تھا کہ جنگ میں دھو کا کرنا جائز ہے بلکہ یہ تھا کہ جنگ خود ایک دھوکا دینے والی چیز ہے لیکن اگر ضرور اس کے یہی معنے کیے جائیں کہ جنگ میں دھو کا جائز ہے تو پھر بھی یقیناً اس جگہ دھو کے سے جنکی تدبیر اور حیلہ مراد ہے.جھوٹ اور فریب ہر گز مراد نہیں ہے کیونکہ اس جگہ خُدعة کے معنے داؤ پیچ اور تدبیر جنگ کے ہیں ، جھوٹ اور فریب کے نہیں ہیں.پس مطلب یہ ہے کہ جنگ میں اپنے دشمن کو کسی حیلے اور تدبیر سے غافل کر کے قابو میں لے آنا یا مغلوب کر لینا منع نہیں ہے.اب داؤ پیچ کی بھی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں.مثلاً صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی علی یم جب کسی مہم میں نکلتے تو عموماً اپنا منزلِ مقصود ظاہر نہیں فرماتے تھے اور بعض اوقات ایسا بھی کرتے تھے کہ جانا تو جنوب کی طرف ہو تا تھا مگر شروع شروع میں شمال کی طرف رخ کر کے روانہ ہو جاتے تھے

Page 383

اصحاب بدر جلد 5 367 اور پھر چکر کاٹ کر جنوب کی طرف گھوم جاتے تھے یا کبھی کوئی شخص پوچھتا تھا کہ کدھر سے آئے ہو تو بجائے مدینے کا نام لینے کے قریب یا دور کے پڑاؤ کا نام لے دیتے تھے یا اسی قسم کی کوئی اور جائز جنگی تدبیر اختیار فرماتے تھے یا جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ کیا گیا ہے کہ صحابہ بعض اوقات ایسا کرتے تھے کہ دشمن کو غافل کرنے کے لیے میدان جنگ سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیتے تھے اور جب دشمن غافل ہو جا تا تھا اور اس کی صفوں میں ابتری پیدا ہو جاتی تھی تو پھر اچانک حملہ کر دیتے تھے اور یہ ساری صورتیں اس خُدعة کی ہیں جسے حالات جنگ میں جائز قرار دیا گیا ہے اور اب بھی جائز سمجھا جاتا ہے لیکن یہ کہ جھوٹ اور غداری وغیرہ سے کام لیا جاوے اس سے اسلام نہایت سختی کے ساتھ منع کرتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی للہ ہم عموماً فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں خدا کے ساتھ شرک کرنے اور والدین کے حقوق تلف کرنے کے بعد تیسرے نمبر پر جھوٹ بولنے کا گناہ سب سے بڑا ہے.نیز فرماتے تھے کہ ایمان اور بزدلی ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں مگر ایمان اور جھوٹ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اور دھو کے اور غداری کے متعلق فرماتے تھے کہ جو شخص غداری کرتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے سخت عتاب کے نیچے ہو گا.الغرض جنگ میں جس قسم کے خُدعة کی اجازت دی گئی ہے وہ حقیقی دھوکا یا جھوٹ نہیں ہے بلکہ اس سے وہ جنگی تدابیر مراد ہیں جو جنگ میں دشمن کو غافل کرنے یا اسے مغلوب کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہیں اور جو بعض صورتوں میں ظاہری طور پر جھوٹ اور دھو کے کے مشابہ تو سمجھی جاسکتی ہیں مگر وہ حقیقتا جھوٹ نہیں ہو تیں.چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے خیال میں مندرجہ ذیل حدیث اس کی مصدق ہے.اور وہ حدیث یہ ہے کہ: ام کلثوم بنت عقبہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الی یکم کو صرف تین موقعوں کے لیے ایسی باتوں کی اجازت دیتے سنا جو حقیقت تو جھوٹ نہیں ہوتیں مگر عام لوگ انہیں غلطی سے جھوٹ سمجھ سکتے ہیں.پہلی یہ کہ جنگ.دوم یہ کہ لڑے ہوئے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا موقع اور سوم جبکہ مرد اپنی عورت سے یا عورت اپنے مرد سے کوئی ایسی بات کرے جس میں ایک دوسرے کو راضی اور خوش کرنا مقصود ہو.نیک نیت ، ہر صورت میں نیت نیک ہونی چاہیے یا نیک مقاصد حاصل ہونے چاہئیں.یہ حدیث اس بات میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ جس قسم کے مخدعة کی جنگ میں اجازت دی گئی ہے جھوٹ اور دھو کا مراد نہیں ہے بلکہ وہ باتیں مراد ہیں جو بعض اوقات جنگی تدابیر کے طور پر اختیار کرناضروری ہوتی ہیں اور جو ہر قوم اور ہر مذہب میں جائز سمجھی گئی ہیں.کعب بن اشرف کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد ابن ہشام نے یہ روایت نقل کی ہے کہ کعب کے قتل کے بعد آنحضرت علی ایم نے صحابہ سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اب جس یہودی پر تم قابو پاؤ سے قتل کر دو.نانچہ ایک صحابی محیصہ نامی نے ایک یہودی پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا تھا اور یہی روایت ابو داؤد نے ہے اور دونوں روایتوں کا منبع ابن اسحاق ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ علم روایت کی رو سے یہ روایت کمزور اور نا قابل اعتماد ہے.آنحضرت صلی یہ ہم نے یہ بالکل نہیں کہا کیونکہ ابنِ

Page 384

اصحاب بدر جلد 5 368 ہشام نے تو اسے بغیر کسی قسم کی سند کے لکھا ہے، کوئی سند ہے ہی نہیں اور ابو داؤد نے جو سند دی ہے وہ کمزور اور ناقص ہے.اس سند میں ابن اسحاق یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ زید بن ثابت کے ایک آزاد کردہ غلام سے سنا تھا اور اس نامعلوم الاسم غلام نے ، پتا ہی نہیں یہ کون ہے اس کا نام Known بھی نہیں ہے، محیصہ کی ایک نامعلوم الاسم لڑکی سے سناتھا.وہ بھی ایک لڑکی کی روایت دے رہا ہے جس کا نام پتا ہی نہیں.روایتوں میں کہیں نہیں پتا لگتا کون ہے اور اس لڑکی نے اپنے باپ سے سنا تھا.اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کی روایت جس کے دور اوی بالکل نامعلوم الاسم ہوں، جن کے ناموں کا بھی پتا ہی نہ ہو اور مجہول الحال ہوں ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتی اور درایت کے لحاظ سے بھی غور کیا جاوے تو یہ قصہ درست ثابت نہیں ہوتا کیونکہ آنحضرت صلی علی کم کا عام طریق عمل اس بات کو قطعی طور پر جھٹلاتا ہے کہ آپ نے اس قسم کا عام حکم دیا ہو.علاوہ ازیں اگر کوئی عام حکم ہو تا تو یقینا اس کے نتیجے میں کئی قتل واقع ہو جاتے مگر روایت میں صرف ایک قتل کا ذکر ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی عام حکم نہیں تھا اور پھر جب صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ دوسرے دن ہی یہود کے ساتھ نیا معاہدہ ہو گیا تھا تو اس صورت میں یہ ہر گز قبول نہیں کیا جاسکتا کہ اس معاہدے کے ہوتے ہوئے اس قسم کا حکم دیا گیا ہو اور اگر س قسم کا کوئی واقعہ ہوتا تو یہودی لوگ اس کے متعلق ضرور واویلا کرتے، شور مچاتے مگر کسی تاریخی روایت سے ظاہر نہیں ہوتا کہ یہود کی طرف سے کبھی کوئی اس قسم کی شکایت کی گئی ہو.پس روایت اور درایت دونوں طرح سے یہ قصہ غلط ثابت ہوتا ہے اور اگر اس میں کچھ حقیقت سمجھی جاسکتی ہے تو صرف اس قدر کہ جب کعب بن اشرف کے قتل کے بعد مدینے میں ایک شور پیدا ہوا اور یہودی لوگ جوش میں آگئے تو اس وقت آنحضرت صلی لیلی کلم نے یہودیوں کی طرف سے خطرہ محسوس کر کے صحابہ سے یہ فرمایا ہو گا، یہ امکان ہے.کوئی قطعی ثبوت اس کا بھی نہیں ہے کہ جس یہودی کی طرف سے تمہیں خطرہ ہو اور تم پر حملہ کرے تم اسے دفاع میں قتل کر سکتے ہو.مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حالت صرف چند گھنٹے رہی.اگر یہ امکان لیا بھی جائے تو یہ امکان صرف چند گھنٹے تھا کیونکہ اس کے بعد تو معاہدہ ہو گیا تھا.کیونکہ دوسرے دن ہی یہود کے ساتھ از سر نو معاہدہ ہو کر امن وامان کی صورت پیدا ہو گئی تھی.پھر آپے لکھتے ہیں کہ کعب بن اشرف کے قتل کی تاریخ کے متعلق کسی قدر اختلاف ہے.ابن سعد نے اسے ربیع الاوّل تین ہجری میں بیان کیا ہے لیکن ابن ہشام نے اسے سر یہ زید بن حارثہ کے بعد رکھا ہے جو مسلم طور پر جمادی الآخرہ میں واقع ہوا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ میں نے اس جگہ ابن ہشام کی 866 ترتیب ملحوظ ر کھی ہے.16 ایک حدیث کی غلط تشریح کعب بن اشرف کے قتل کے ضمن میں یہ بیان ہوا تھا کہ حضرت محمد بن مسلمہ نے اسے بہانے

Page 385

اصحاب بدر جلد 5 369 گھر سے دور لے جا کر قتل کیا تو کیا یہ جھوٹ نہیں ہے؟ نیز یہ بھی بیان ہوا تھا کہ ایک حدیث کے حوالے سے بعض علماء کے نزدیک تین موقعوں پر جھوٹ کی اجازت ہے، لیکن حقیقت میں یہ غلط تصور ہے یا حدیث کی غلط تشریح ہے جو کہ تین موقعوں پر غلط بیان کو یا جھوٹ کو جائز قرار دیتی ہے.بہر حال میں نے اُس وقت اس کی وضاحت کر دی تھی جو سیرت خاتم النبیین میں بیان ہوئی ہے لیکن اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی کتاب نور القرآن میں وضاحت سے روشنی ڈالی ہے جو ایک عیسائی کے اعتراض کے جواب میں آپ نے بیان فرمائی ہے.اس کا کچھ حصہ، اس میں سے بعض حصے میں ابھی بیان کروں گا جس سے اس بات کی بالکل وضاحت ہو جاتی ہے کہ اسلام جھوٹ بولنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا.اسلام جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام عیسائی کے اعتراض کے جواب کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک یہ اعتراض ہے کہ : آنحضرت صلی اللہ ہم نے تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے اور اپنے دین کو چھپالینے کے واسطے قرآن میں صاف حکم دے دیا ہے مگر انجیل نے ایمان کو پوشیدہ رکھنے کی اجازت نہیں دی.یہ اعتراض ہے.اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ واضح ہو کہ جس قدر راستی کے التزام کے لیے قرآن شریف میں تاکید ہے میں ہر گز باور نہیں کر سکتا کہ انجیل میں اس کا عشر عشیر بھی تاکید ہو.پھر آپ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف نے دروغ گوئی کو بت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَولَ النُّورِ - یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پر ہیز کرو.پھر ایک جگہ فرماتا ہے: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَ لَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ یعنی اے ایمان والو! انصاف اور راستی پر قائم ہو جاؤ اور سچی گواہیوں کو للہ ادا کرو اگرچہ تمہاری جانوں پر ان کا ضرر پہنچے یا تمہارے ماں باپ اور تمہارے اقارب ان گواہیوں سے نقصان اٹھاویں.آپ اس معترض کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ اب اے ناخدا ترس ذرا اکھیل کو کھول اور ہمیں بتلا کہ راست گوئی کے لیے ایسی تاکید انجیل میں کہاں ہے ؟ پھر اسی عیسائی کو جس کا نام فتح مسیح تھا مخاطب کر کے پھر آپ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی للہ ہم نے تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے مگر یہ آپ کو اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی لگی ہے اور اصل بات یہی ہے کہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی ہر گز اجازت نہیں بلکہ حدیث میں تو یہ لفظ ہیں کران قُتِلْتَ وَأُخْرِقْتَ یعنی سچ کو مت چھوڑ اگر چہ تو قتل کیا جائے اور جلایا جائے.پھر جس حالت میں قرآن کہتا ہے کہ تم انصاف اور سچ مت چھوڑو اگرچہ تمہاری جانیں بھی اس سے ضائع ہوں اور حدیث کہتی ہے کہ اگر چہ تم جلائے جاؤ

Page 386

اصحاب بدر جلد 5 370 ر قتل کیے جاؤ مگر سچ ہی بولو تو پھر اگر فرض کے طور پر کوئی حدیث قرآن اور احادیث صحیحہ کے مخالف ہو تو وہ قابل سماعت نہیں ہوگی کیونکہ ہم لوگ اسی حدیث کو قبول کرتے ہیں جو احادیث صحیحہ اور قرآن کریم کے مخالف نہ ہو.آپ فرماتے ہیں کہ ہاں بعض احادیث میں توریہ کے جواز کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.یعنی مصلحت کے تحت بعض ذو معنی الفاظ بیان کر دیے.اور اسی کو نفرت دلانے کی غرض سے کذب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.اور جب ذو معنی بات ہوتی ہے تو اسی بات کو مخالفین نفرت دلانے کے لیے جھوٹ کے نام سے موسوم کر رہے ہیں اور فرمایا کہ اور ایک جاہل اور احمق جب ایسا لفظ کسی حدیث میں بطور تسامح کے لکھا ہوا پاوے یعنی کسی کو سمجھانے کے لیے جب کوئی لفظ اس کو آسان کر کے استعمال کیا جاتا ہے.اس کو تسامح کے پاوے تو شاید اس کو حقیقی کذب ہی سمجھ لے کیونکہ وہ اس قطعی فیصلے سے بے خبر ہے کہ حقیقی کذب اسلام میں پلید اور حرام اور شرک کے برابر ہے مگر توریہ جو در حقیقت کذب نہیں گو کذب کے رنگ میں ہی اضطرار کے وقت عوام کے واسطے اس کا جو از حدیث سے پایا جاتا ہے مگر پھر بھی لکھا ہے کہ افضل وہی لوگ ہیں جو توریہ سے بھی پر ہیز کریں اور توریہ اسلامی اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں کہ فتنہ کے خوف سے ایک بات کو چھپانے کے لیے یا کسی اور مصلحت پر ایک راز کی بات مخفی رکھنے کی غرض سے ایسی مثالوں اور پیرایوں میں اس کو بیان کیا جائے کہ عقلمند تو اس بات کو سمجھ جائے اور نادان کی سمجھ میں نہ آئے اور اس کا خیال دوسری طرف چلا جائے جو متکلم کا مقصود نہیں اور غور کرنے کے بعد معلوم ہو کہ جو کچھ متکلم نے کہاوہ جھوٹ نہیں بلکہ حق محض ہے اور کچھ بھی کذب کی اس میں آمیزش نہ ہو اور نہ دل نے ایک ذرہ بھی کذب کی طرف میل کیا ہو.آپ فرماتے ہیں کہ جیسا کہ بعض احادیث میں دو مسلمانوں میں صلح کرانے کے لیے یا اپنی بیوی کو کسی فتنہ اور خانگی ناراضگی اور جھگڑے سے بچانے کے لیے یا جنگ میں اپنے مصالح دشمن سے مخفی رکھنے کی غرض سے اور دشمن کو اور طرف جھکا دینے کی نیت سے تو ریہ کا جواز پایا جاتا ہے مگر باوصف اس کے بہت سی حدیثیں دوسری بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ توریہ اعلی درجہ کے تقویٰ کے بر خلاف ہے اور بہر حال کھلی کھلی سچائی بہتر ہے اگر اس کی وجہ سے قتل کیا جائے اور جلایا جائے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی الم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم کیا ہے تا مفہوم کلام کا اپنی ظاہری صورت میں بھی کذب سے مشابہ نہ ہو.پھر آپ فرماتے ہیں کہ جب میں دیکھتا ہوں کہ جناب سید المرسلین صلی ال کی جنگ احد میں اکیلے ہونے کی حالت میں برہنہ تلواروں کے سامنے کہہ رہے تھے کہ میں محمد ہوں، میں نبی اللہ ہوں، میں ابن عبد المطلب ہوں.یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ جب کتاب چھپی تھی تو اسی کتاب کے حاشیے میں لکھا ہے کہ یہ سہو سے لکھا گیا ہے.یہ واقعہ غزوہ حنین کا ہے.جنگ احد کا نہیں.حالانکہ اب مجھے ہمارے ریسرچ سیل نے ہی سیرة رة الحلبیہ کا حوالہ نکال کر بھجوایا ہے جس میں لکھا ہے کہ یہ الفاظ آنحضرت صلی ملی یکم نے حنین اور احد دونوں جنگوں میں فرمائے تھے.اس لیے اب اشاعت کا جو شعبہ ہے ، نظارت اشاعت بھی ہے ان کو بھی

Page 387

اصحاب بدر جلد 5 اس حاشیے کو آئندہ نکال دینا چاہیے.371 اکثر میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ جلد بازی سے کام لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو الفاظ ہیں ان کا مطلب نکالنے کے لیے یا آسانی پیدا کرنے کے لیے حاشیے میں لکھ دیا جاتا ہے یہ غلطی تھی یا سہو ہو گیا.حالانکہ بہت ساری ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے، توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس لیے بہر حال اب یہ حوالہ تو میرے سامنے آگیا تھا اور بڑا واضح لکھا ہوا ہے کہ یہ الفاظ حسین اور اُحد دونوں مواقع پر آنحضرت صلی علیم نے فرمائے تھے.بہر حال یہ وضاحت اس بارے میں بھی ہو گئی.اب آگے پھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر کسی حدیث میں توریہ کو بطور تسامح کذب کے لفظ سے بیان بھی کیا گیا ہو تو یہ سخت جہالت ہے.یعنی الفاظ کو آسان کرنے کے لیے، سمجھانے کے لیے اگر کہیں کذب کا لفظ لکھ بھی دیا ہے تو فرمایا کہ یہ سخت جہالت ہے کہ کوئی شخص اس کو حقیقی کذب پر محمول کرے جبکہ قرآن اور احادیث صحیحہ بالا تفاق کذب حقیقی کو سخت حرام اور پلید ٹھہراتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی حدیثیں توریہ کے مسئلہ کو کھول کر بیان کر رہی ہیں تو پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ کسی حدیث میں بجائے تو ریہ کے کذب کا لفظ آگیا ہو تو نعوذ باللہ اس سے مراد حقیقی کذب کیونکر ہو سکتا ہے بلکہ اس کے قائل کے نہایت بار یک تقویٰ کا یہ نشان ہو گا جس نے توریہ کو کذب کی صورت میں سمجھ کر بطور تسامح کذب کا لفظ استعمال کیا ہو.ہمیں قرآن اور احادیث صحیحہ کی پیروی کرنا ضروری ہے.اگر کوئی امر اس کے مخالف ہو گا تو ہم اس کے وہ معنے ہر گز قبول نہیں کریں گے جو مخالف ہوں.پھر آپ فرماتے ہیں قرآن نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور نیز فرمایا ہے کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں اور جھوٹے بے ایمان ہوتے ہیں اور جھوٹوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ مت بولو بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی چھوڑ دو اور ان کو اپنا یار دوست مت بناؤ اور خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو اور ایک جگہ فرماتا ہے کہ جب تو کوئی کلام کرے تو تیری کلام محض صدق ہو.ٹھٹھے کے طور پر جنسی کے طور پر بھی اس میں جھوٹ نہ ہو.867 یہ تو اس کے حوالے سے بیان ہو رہا تھا جو پہلے بیان ہو ا تھا.وضاحت ہو گئی.نبی صلی الم کے قتل کی سازش اب میں حضرت محمد بن مسلمہ کے باقی زندگی کے حوالے سے آگے چلتا ہوں.جب بنو نضیر نے دھو کے سے آنحضور ملی لی کم پر چکی کا پاٹ گرا کر قتل کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس کی خبر آنحضور علی ایم کو کر دی تھی اس پر رسول اللہ صلی ا یکم تیزی سے اٹھے گویا آپ صلی لی ہم کسی ضرورت کے لیے اٹھے ہیں اور آپ صلی علی کم مدینہ تشریف لائے.رسول اللہ صلی علیم کے جانے کے بعد آپ صلی الیکم کے صحابہ کرام بھی کچھ دیر انتظار کے بعد آپ کے پیچھے مدینہ آگئے.جب صحابہ کرام مدینہ پہنچے تو انہیں

Page 388

اصحاب بدر جلد 5 372 معلوم ہوا کہ آپ صلی علیہم نے حضرت محمد بن مسلمہ کو بلایا ہے.حضرت ابو بکر نے عرض کی یارسول اللہ ! آپ اٹھ کر چلے آئے اور ہمیں علم نہ ہوا.آپؐ نے فرمایا کہ یہودی میرے ساتھ دھو کا کرنا چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتادیا تو میں اٹھ کر چلا آیا.اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی کہ : يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْهَمَّ قَوْمٌ أَنْ يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَقَ ايْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ ۖ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (المائدة:11) کہ اے ایمان دار و ! تم اللہ کی اپنے اوپر نعمت یاد کرو جو اس وقت ہوئی تھی جب ایک قوم نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کرے تب اس نے اس قوم کے ہاتھ تم سے روک دیے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور مومنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے.یہود بنو نضیر کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ بہر حال حضرت محمد بن مسلمہ کو آنحضرت صلی علیم نے یہود کے پاس بھجوایا اور اس کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ جب حضرت محمد بن مسلمہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی علیہم نے فرمایا کہ بنو نضیر کے یہودیوں کے پاس جاؤ.انہیں کہو مجھے رسول اللہ صلی علیم نے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ تم میرے شہر سے نکل جاؤ.وہ یہودیوں کے پاس گئے کیونکہ انہوں نے یہ سازش کی تھی اور اپنے عہد کا پاس نہیں کیا تھا، اس کو توڑا تھا اس لیے ان کی سزا یہ تھی کہ شہر سے نکل جائیں.وہ یہودیوں کے پاس گئے.انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی علیم نے مجھے تمہارے پاس ایک پیغام دے کر بھیجا ہے لیکن میں اس کا تذکرہ تب تک نہیں کروں گا جب تک میں تمہیں ایک ایسی بات نہ یاد کرادوں جسے تم اپنی مجالس میں یاد کیا کرتے تھے.ایک پرانی بات کا ذکر کیا کہ وہ میں تمہیں یاد کرانا چاہتا ہوں.پھر یہود نے پوچھا کہ وہ کیا امر ہے ؟ حضرت محمد بن مسلمہ نے کہا کہ میں تمہیں اس تورات کی قسم دیتا ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پر نازل کیا.کیا تم جانتے ہو کہ حضرت محمد مصطفی صلی میں کم کی بعثت سے قبل میں تمہارے پاس آیا تھا تم نے اپنے سامنے تو رات کھول رکھی تھی تم نے مجھے اس محفل میں کہا تھا کہ اسے ابن مسلمہ ! اگر تم چاہتے ہو کہ ہم تمہیں کھانا پیش کریں تو ہم تمہیں کھانا پیش کرتے ہیں.اگر تم چاہتے ہو کہ ہم تمہیں یہودی بنائیں تو ہم تمہیں یہودی بنا دیتے ہیں.حضرت محمد بن مسلمہ " کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت کہا تھا کہ مجھے کھانا کھلاؤ، مجھے یہودی نہ بناؤ.بخدا میں کبھی بھی یہودی نہیں بنوں گا.پھر واقعہ ہوا کہ تم نے مجھے ایک طشت میں کھانا دیا اور تم لوگوں نے مجھے کہا تھا کہ تم یہ دین صرف اس لیے قبول نہیں کرتے کیونکہ یہ یہودیوں کا مذہب ہے.یعنی یہودیوں نے محمد بن مسلمہ کو کہا کہ تم اس لیے قبول نہیں کرتے کہ یہ یہودیوں کا مذہب ہے.گویا تم وہ حنیفیت چاہتے ہو جس کے بارے میں تم نے سن رکھا ہے.ابو عامر راہب تو اس کا مصداق نہیں ہے.یعنی جو سن رکھا ہے کہ نبی آنے والا ہے.اور ابو عامر راہب جو ہے وہ اس کا مصداق نہیں بن سکتا.پھر انہوں نے کہا کہ اب تمہارے پاس وہ ہستی آئے گی جو مسکرانے والی ہے ، جو جنگ کرنے والی ہے.اس کی آنکھوں میں سرخی ہے.وہ یمن کی طرف سے آئیں گے.وہ اونٹ پر سواری کریں گے.وہ

Page 389

اصحاب بدر جلد 5 373 چادر اوڑھیں گے.وہ تھوڑے پر قناعت کریں گے.ان کی تلوار ان کے کندھے پر ہو گی.وہ حکمت کے ساتھ گفتگو کریں گے گویاوہ تمہارے قرابت دار ہیں.اللہ کی قسم !تمہاری اس بستی میں اب چھینا جھپٹی ہو گی اور قتل ہو گا اور مثلہ ہو گا.یہ سن کر یہود نے کہا کہ ہم اسی طرح کہا کرتے تھے.یہ ساری باتیں ان کو یاد کرائیں کہ تم اس طرح کہا کرتے تھے لیکن یہ وہ نبی نہیں ہے یعنی انحضرت صلی العلم وہ نبی نہیں ہیں.حضرت محمد مسلمہ نے کہا کہ میں اپنے پیغام سے اب فارغ ہو چکا جو میں تمہیں یاد کرانا چاہتا تھا.پھر آپ نے اگلی بات شروع کی کہ مجھے رسول اللہ صلی علیم نے بھیجا ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ تم نے وہ معاہدہ توڑ دیا ہے جسے میں نے تمہارے لیے قائم کیا تھا کیونکہ تم نے مجھے دھوکا دینے کی کوشش کی ہے.حضرت محمد بن مسلمہ نے یہود کو ان کے اس ارادے کی خبر دی جو انہوں نے آپ صلی لنی کیم کے بارے میں کیا تھا اور یہ کہ عمرو بن جحاش کیسے چھت پر چڑھا تا کہ وہ آپ پر پتھر گرا دے.اس پر انہوں نے چپ سادھ لی اور وہ ایک حرف تک نہ بول سکے.پھر حضرت محمد بن مسلمہ نے انہیں کہا کہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا ہے تم میرے اس شہر سے نکل جاؤ.میں تمہیں دس دن کی مہلت دیتا ہوں اس کے بعد جو ادھر نظر آیا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا.یہود نے کہا اے ابن مسلمہ !ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ پیغام اوس قبیلے کا کوئی شخص لے کر آئے گا.حضرت محمد بن مسلمہ نے فرمایا اب دل تبدیل ہو چکے ہیں.چند دن یہود تیاری کرتے رہے.ان کی سواریاں ذوجد ر مقام پر تھیں وہ لائی گئیں.ذو جدر قبا کی جانب مدینے سے چھ میل کے فاصلے پر ایک چراگاہ ہے وہاں ان کے جانور چرا کرتے تھے.وہی سواریاں تھیں وہ لائی گئیں وہاں سے.انہوں نے بنوا شجمع قبیلے سے کرائے پر اونٹ لیے اور روانگی کی تیاری مکمل کی.یہ تاریخ کی کتاب کا حوالہ ہے.168 یہود کا بے باکانہ اور باغیانہ رویہ یہودیوں کے رویے کی کہ ان کا رویہ کس طرح ہوتا تھا ؟ ایک جگہ اس کا بیان کرتے ہوئے جس میں بنو قریظہ کی غداری کا واقعہ ہے گو یہ پہلے حضرت عمار بن یاسر کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے لیکن تاریخی لحاظ سے یہاں بھی بیان کر دینا ضروری ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی لکھتے ہیں کہ : " بنو قریظہ کا معاملہ طے ہونے والا تھا.ان کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظر انداز کی جاتی.رسول کریم صلی الم نے " غزوہ خندق سے واپس آتے ہی اپنے صحابہ سے فرمایا: گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ جاؤ اور پھر آپ نے حضرت علی کو بنو قریظہ کے پاس بھیجوایا کہ وہ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی ؟ بجائے اس کے کہ بنو قریظہ شر مندہ ہوتے یا معافی مانگتے یا کوئی معذرت کرتے انہوں نے حضرت علی اور ان کے ساتھیوں کو برابھلا کہنا شروع

Page 390

اصحاب بدر جلد 5 374 کر دیا اور رسول اللہ صلی ا لی ہے اور آپ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہا ہم نہیں جانتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا چیز ہیں ؟ ہمارا ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے.حضرت علی ان کا یہ جواب لے کر واپس لوٹے تو اتنے میں رسول اللہ صلی الی یوم صحابہ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جارہے تھے چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلیالی کم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق بھی ناپاک کلمات بول رہے تھے تو حضرت علی نے اس خیال سے کہ آپ کو ان کلمات کے سننے سے تکلیف ہو گی عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں! ہم لوگ اس لڑائی کے لیے کافی ہیں.آپ واپس تشریف لے جائیں.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں.حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ ہاں یار سول اللہ آبات تو یہی ہے.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں.موسیٰ نبی تو ان کا اپنا تھا اس کو اس سے بھی زیادہ انہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں.یہ کہتے ہوئے آپ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے مگر یہود دروازے بند کر کے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی حتی کہ ان کی عورتیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں.چنانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اوپر سے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کو مار دیا لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہود نے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے.تب ان کے سرداروں نے رسول اللہ صلی علیم سے خواہش کی کہ وہ ابولبابہ انصاری کو جو ان کے دوست اور اوس قبیلہ کے سردار تھے ان کے پاس بھجوائیں تاکہ وہ ان سے مشورہ کر سکیں.آپ نے ابولبابہ کو بھجوا دیا.ان سے یہود نے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی الم کے اس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار پھینک دو، ہم یہ مان لیں ؟ ابولبابہ نے منہ سے تو کہا ہاں! لیکن اپنے گلے پر اس طرح ہاتھ پھیر اجس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے.رسول اللہ صلی الیم نے اس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابولبابہ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کے اس جرم کی سزا یعنی جو مخالفین تھے، معاہدہ توڑنے والے یہودی تھے ان کے اس جرم کی سزا سوائے قتل کے اور کیا ہو گی.بغیر سوچے سمجھے اشارہ کے ساتھ ان سے ایک بات کہہ دی جو آخر ان کی تباہی کا موجب ہوئی.چنانچہ یہود نے کہ دیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی علی یم کا فیصلہ مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح ان کو زیادہ سے زیادہ یہی سزا دی جاتی کہ ان کو مدینہ سے جلاوطن کر دیا جاتا مگر ان کی بد قسمتی تھی."یہود نے فیصلہ نہیں مانا اور یہ کہا کہ اگر وہ مان لیتے تو یہی ہوتا کہ ان کو جلا وطنی کی سزا ہو جاتی مگر ان کی بد قسمتی تھی کہ " انہوں نے کہا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی علیم کا فیصلہ ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ ہم اپنے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کا فیصلہ مانیں گے.جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا لیکن اس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا.یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویے سے ثابت ہو تا ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے وہ لوگ اپنا مذ ہب ترک کر کے اسلام میں داخل ہو گئے.ایک شخص عمرو بن سعدی

Page 391

اصحاب بدر جلد 5 375 نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ توڑا ہے اب یا مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ پر راضی ہو جاؤ.یہود نے کہا نہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے.ان میں سے اکثریت یہی تھی " کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے.پھر اس شخص نے ان سے کہا میں تم سے بری ہو تا ہوں.اور یہ کہہ کر وہ قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا.جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مسلمہ تھے اسے دیکھ لیا اور اسے پوچھا کہ وہ کون ہے.اس نے بتایا کہ میں فلاں ہوں.اس پر محمد بن مسلمہ نے فرمایا: اللهُمَّ لَا تَحْرِ مُنِي اِقَالَةَ عَكْرَاتِ الْكِرَامِ یعنی آپ سلامتی سے چلے جائیں اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی الہی! مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیو.یعنی یہ شخص کیونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے تو ہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اسے معاف کر دیں.اس لیے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا ہے.خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشتار ہے.جب رسول اللہ صلی علی یم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہ کو سرزنش نہیں کی " کچھ نہیں پوچھا کہ کیوں اس یہودی کو چھوڑ دیا بلکہ اس کے فعل کو سراہا" یا 869 تعریف کی.پس مسلمانوں نے آنحضرت میا علیم کی تعلیم اور تربیت کے مطابق ہمیشہ انصاف کا سلوک کیا ہے.ابو رافع کی خون آشام کارروائیاں اور اس کا قتل اہل خیبر کی جب شرارت ہوئی تو پھر اس کی وجہ سے ابورافع یہودی کا قتل ہوا اس کا واقعہ اس طرح ہے.اور قتل کرنے کے لیے جو صحابہ کی جماعت بھیجی گئی تھی اس میں بھی حضرت محمد بن مسلمہ شامل تھے جنہوں نے ابو رافع یہودی کو قتل کیا تھا.قتل تو ایک شخص نے کیا تھا لیکن بہر حال وہ جماعت جو وہاں گئی تھی ان میں یہ شامل تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس واقعہ کی تفصیل تواریخ سے لے کے اس طرح بیان کی ہے کہ : جن یہودی رؤسا کی مفسدانہ انگیخت اور اشتعال انگیزی سے 5 ہجری کے آخر میں مسلمانوں کے خلاف جنگ احزاب کا خطرناک فتنہ برپا ہوا تھا اس میں سے حیی بن اخطب تو بنو قریظہ کے ساتھ اپنے کیفر کردار کو پہنچ چکا تھا لیکن سلام بن ابی الحقیق جس کی کنیت ابو رافع تھی ابھی تک خیبر کے علاقہ میں اسی طرح آزادانہ اور اپنی فتنہ انگیزی میں مصروف تھا بلکہ احزاب کی ذلت بھری ناکامی اور پھر بنو قریظہ کے ہولناک انجام نے اس کی عداوت کو اور بھی زیادہ کر دیا تھا اور چونکہ قبائل غطفان کا مسکن خیبر کے قریب تھا اور خیبر کے یہودی اور نجد کے قبائل آپس میں گویا ہمسائے تھے اس لیے اب ابورافع نے جو ایک بہت بڑا تاجر اور امیر کبیر انسان تھا دستور بنالیا تھا کہ نجد کے وحشی اور جنگجو قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا رہتا تھا اور رسول اللہ صلی علیکم کی عداوت میں وہ کعب بن اشرف کا پورا پورا مثیل تھا.چنانچہ اس زمانہ میں جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس نے غطفانیوں کو آنحضرت صلی ا ظلم کے خلاف حملہ آور ہونے کے لیے

Page 392

376 اصحاب بدر جلد 5 اموال کثیر سے امداد دی اور تاریخ سے ثابت ہے کہ ماہ شعبان میں بنو سعد کی طرف سے جو خطرہ مسلمانوں کو پیدا ہوا تھا اور اس کے سدباب کے لیے حضرت علی کی کمان میں ایک فوجی دستہ مدینہ سے روانہ کیا گیا تھا اس کی تہ میں بھی خیبر کے یہودیوں کا ہاتھ تھا جو ابورافع کی قیادت میں یہ سب شرارتیں کر رہے تھے.مگر ابو رافع نے اسی پر بس نہیں کی.اس کی عداوت کی آگ مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھی اور آنحضرت صلی السلام کا وجود اس کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکتا تھا.چنانچہ بالآخر اس نے یہ تدبیر اختیار کی کہ جنگ احزاب کی طرح مسجد کے قبائل غطفان اور دوسرے قبیلوں کا پھر ایک دورہ کرنا شروع کیا اور انہیں مسلمانوں کے تباہ کرنے کے لیے ایک لشکرِ عظیم کی صورت میں جمع کرنا شروع کر دیا.جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے پھر وہی احزاب والے منظر پھرنے لگے تو آنحضرت صلی یکم کی خدمت میں قبیلہ خزرج کے بعض انصاری حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اب اس فتنہ کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کسی طرح اس فتنہ کے بانی مبانی ابورافع کا خاتمہ کر دیا جائے.آنحضرت علی الم نے اس بات کو سوچتے ہوئے کہ ملک میں وسیع کشت و خون کی بجائے ایک مفسد اور فتنہ انگیز آدمی کا مارا جانا بہت بہتر ہے ان صحابیوں کو اجازت مرحمت فرمائی اور عبد اللہ بن عتیک انصاری کی سرداری میں چار خزرجی صحابیوں کو ابورافع کی طرف روانہ فرمایا مگر چلتے ہوئے تاکید فرمائی کہ دیکھنا کسی عورت یا بچے کو ہر گز قتل نہ کرنا.چنانچہ 6 ہجری کے ماہ رمضان میں یہ پارٹی روانہ ہوئی اور نہایت ہوشیاری کے ساتھ اپنا کام کر کے واپس آگئی اور اس طرح اس مصیبت کے بادل مدینہ کی فضا سے ٹل گئے.اس واقعہ کی تفصیل بخاری میں ہے جس کی روایت اس معاملہ میں صحیح ترین روایت ہے.اس میں اس طرح درج ہے کہ براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیہم نے اپنے صحابہ کی ایک پارٹی ابو رافع یہودی کی طرف روانہ فرمائی اور ان پر عبد اللہ بن عتیک انصاری کو امیر مقرر فرمایا.ابورافع کا قصہ یہ تھا کہ وہ آنحضرت صلی للی کم کو سخت دکھ دیا کرتا تھا اور آپ کے خلاف لوگوں کو ابھارتا تھا اور ان کی مدد کیا کرتا تھا.جب عبد اللہ بن عتیک اور ان کے ساتھی ابورافع کے قلعہ کے قریب پہنچے اور سورج غروب ہو گیا تو عبد اللہ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑا اور خود قلعہ کے دروازے کے پاس پہنچے اور اس کے قریب اس طرح چادر لپیٹ کر بیٹھ گئے جیسے کوئی شخص کسی حاجت کے لیے بیٹھا ہو.جب قلعہ کا دروازہ بند کرنے والا شخص دروازہ پر آیا تو اس نے عبد اللہ کی طرف دیکھ کر آواز دی کہ اے شخص! میں قلعے کا دروازہ بند کرنے لگا ہوں.تم نے اندر آنا ہو تو جلد آ جاؤ.عبد اللہ چادر میں لیٹے لپٹائے جلدی سے دروازہ کے اندر داخل ہو کر ایک طرف کو چھپ گئے اور دروازہ بند کرنے والا شخص دروازہ بند کر کے اور اس کی کنجی ایک قریب کی کھونٹی سے لٹکا کر چلا گیا.اس کے بعد عبد اللہ بن عتیک کا اپنا بیان ہے کہ میں اپنی جگہ سے نکلا اور سب سے پہلے میں نے قلعہ کے دروازے کا قفل کھول دیا تا کہ ضرورت کے وقت جلدی اور آسانی کے ساتھ باہر نکلا جاسکے.اس وقت ابورافع ایک چوبارے میں تھا اور اس کے پاس بہت سے لوگ مجلس جمائے بیٹھے تھے اور آپس میں باتیں کر رہے تھے.جب یہ لوگ اٹھ کر چلے گئے اور خاموشی ہو گئی تو میں ابورافع کے مکان کی سیڑھیاں چڑھ کر

Page 393

اصحاب بدر جلد 5 377 اوپر چلا گیا اور میں نے یہ احتیاط کی کہ جو دروازہ میرے راستہ میں آتا تھا اسے میں آگے گزر کر اندر سے بند کر لیتا تھا.جب میں ابو رافع کے کمرے میں پہنچا تو اس وقت وہ چراغ بجھا کر سونے کی تیاری میں تھا اور کمرہ بالکل تاریک تھا.میں نے آواز دے کر ابورافع کو پکارا.جس کے جواب میں اس نے کہا.کون ہے ؟ بس میں اس آواز کی سمت کا اندازہ کر کے اس کی طرف لپکا اور تلوار کا ایک زور دار وار کیا مگر اندھیرا بہت تھا اور میں اس وقت گھبرایا ہوا تھا اس لیے تلوار کا وار غلط پڑا اور ابورافع چیخ مار کر چلایا جس پر میں کمرے سے باہر نکل گیا.تھوڑی دیر بعد میں نے پھر کمرہ کے اندر جاکر اپنی آواز کو بدلتے ہوئے پوچھا.ابورافع یہ شور کیسا ہوا تھا؟ اس نے میری بدلی ہوئی آواز کو نہ پہچانا اور کہا کہ تیری ماں تجھے کھوئے مجھ پر ابھی ابھی کسی شخص نے تلوار کا وار کیا ہے.میں یہ آواز سن کر پھر اس کی طرف لپکا اور تلوار کا وار کیا.اس دفعہ وار کاری پڑا مگر وہ مر ا پھر بھی نہیں جس پر میں نے اس پر ایک تیسر اوار کر کے اسے قتل کر دیا.اس کے بعد میں جلدی جلدی دروازے کھولتا ہو امکان سے باہر نکل آیا لیکن جب میں سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا تو ابھی چند قدم ہی باقی تھے کہ میں سمجھا کہ میں سب قدم اتر آیا ہوں جس پر میں اندھیرے میں گر گیا اور میری پنڈلی ٹوٹ گئی اور ایک روایت میں یوں ہے کہ پنڈلی کا جوڑ اتر گیا مگر میں اسے اپنی پگڑی سے باندھ کر گھستا ہوا باہر نکل گیا لیکن میں نے اپنے جی میں کہا کہ جب تک ابو رافع کے مرنے کا اطمینان نہ ہو جائے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا.چنانچہ میں قلعے کے پاس ہی ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گیا.جب صبح ہوئی تو قلعہ کے اندر سے کسی کی آواز میرے کان میں آئی کہ ابو رافع تاجر حجاز وفات پا گیا ہے.اس کے بعد میں اٹھا اور آہستہ آہستہ اپنے ساتھیوں میں آملا اور پھر ہم نے مدینہ میں آکر آنحضرت علی ایم کو ابو رافع کے قتل کی اطلاع دی.آپ نے سارا واقعہ سن کر مجھے ارشاد فرمایا کہ اپنا پاؤں آگے کرو.میں نے اپنا پاؤں آگے کیا تو آپ نے دعامانگتے ہوئے اس پر اپنا دست مبارک پھیر ا جس کے بعد میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا مجھے کوئی تکلیف پہنچی ہی نہیں تھی.ایک دوسری روایت میں ذکر آتا ہے کہ جب عبد اللہ بن عتیک نے ابورافع پر حملہ کیا تو اس کی بیوی نے نہایت زور سے چلانا شروع کیا جس پر مجھے فکر ہوا کہ اس کی چیخ و پکار سن کر کہیں دوسرے لوگ نہ ہوشیار ہو جائیں اس پر میں نے اس کی بیوی پر تلوار اٹھائی مگر پھر یہ یاد کر کے کہ آنحضرت صلی ہم نے عورتوں کے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے میں اس ارادے سے باز آگیا.پھر سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ ابورافع کے قتل کے جواز کے متعلق ہمیں اس جگہ کسی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں.ابو رافع کی خون آشام کارروائیاں تاریخ کا ایک کھلا ہو اور ق ہیں اور اس سے ایک ملتے جلتے واقعہ میں ایک تفصیلی بحث کعب بن اشرف کے قتل کے ضمن میں بیان ہو چکی ہے.اس وقت مسلمان نہایت کمزوری کی حالت میں چاروں طرف سے مصیبت میں مبتلا تھے سارا ملک مسلمانوں کو مٹانے کے لیے متحد ہورہا تھا.ایسے نازک وقت میں ابورافع عرب کے مختلف قبائل کو اسلام کے خلاف ابھار رہا تھا.( یہ میں خلاصہ بیان کر رہا ہوں پوری تاریخ نہیں بیان کر رہا کہ کیوں اس کا قتل

Page 394

870 378 اصحاب بدر جلد 5 جائز تھا؟ اس کا اور اس بات کی تیاری کر رہا تھا کہ غزوہ احزاب کی طرف عرب کے وحشی قبائل پھر متحد ہو کر مدینے پر دھاوا بول دیں.عرب میں اس وقت کوئی حکومت نہیں تھی کہ جس کے ذریعہ دادرسی چاہی جاتی بلکہ ہر قبیلہ اپنی جگہ آزاد اور خود مختار تھا.پس سوائے اس کے کہ اپنی حفاظت کے لیے خود کوئی تدبیر کی جاتی اور کوئی صورت نہیں تھی.پچھلے خطبے میں اس کی یہ تفصیل بھی بیان ہو چکی ہے کہ کیوں کیا وجوہات تھیں ؟ حکومت کے ضمن میں، کوئی حکومت نہیں تھی اور جو حکومت تھی وہ آنحضرت علیل لی ایم کی اپنی تھی.بہر حال ان حالات میں صحابہ نے جو کچھ کیا وہ بالکل درست اور بجا تھا اور حالتِ جنگ میں جب کہ ایک قوم موت و حیات کے ماحول میں سے گزر رہی ہو اس قسم کی تدابیر بالکل جائز سمجھی جاتی ہیں.حضرت عمر کا اعتماد حضرت عمرؓ نے حضرت محمد بن مسلمہ کو اپنے دورِ خلافت میں جھینہ قبیلہ سے وصولی زکوۃ کے لیے مقرر کیا تھا.جب کبھی کسی عامل کے خلاف دربار خلافت میں شکایات موصول ہو تیں تو حضرت عمر تحقیق کے لیے انہیں روانہ کیا کرتے تھے.اسی طرح حضرت عمرؓ کو ان پر اعتماد تھا اس لیے سرکاری محاصل کی وصولی کے لیے بھی ان ہی کو ، حضرت محمد بن مسلمہ کو بھیجا جاتا تھا.وہ حضرت عمرؓ کے ہاں مختلف علاقوں کے مشکل معاملات کو سلجھانے کے لیے مقرر تھے.کوفہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص نے محل تعمیر کیا تو اس کی چھان بین کے لیے حضرت عمرؓ کے نمائندے تھے.اس کے متعلق روایت کچھ یوں ملتی ہے کہ حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایک محل بنایا ہے اور اس کا دروازہ رکھا ہے جس کی وجہ سے آواز سنائی نہیں دیتی.چنانچہ آپ نے حضرت محمد بن مسلمہ کو روانہ کیا اور حضرت عمر کی یہ عادت تھی کہ جب وہ حسب منشا کوئی کام کرنا چاہتے تو ان ہی کو یعنی محمد بن مسلمہ کو روانہ کیا کرتے تھے.حضرت عمر نے ان سے فرمایا سعد کے پاس پہنچ کر اس کا دروازہ جلا دینا.چنانچہ وہ کوفہ پہنچے ، دروازے پر پہنچے تو چقماق نکالی، آگ سلگائی پھر دروازے کو جلا دیا.حضرت سعد کو معلوم ہو ا تو وہ باہر تشریف لائے اور حضرت محمد بن مسلمہ نے انہیں ساری بات بتائی کہ میں نے کیوں جلایا ہے.71 گوشہ نشینی اختیار کرنا حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت محمد بن مسلمہ کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور لکڑی کی تلوار بنوالی.کہتے تھے کہ مجھے حضور صلی علیم نے یہی حکم دیا تھا.حضرت محمد بن مسلمہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے مجھے ایک تلوار تحفہ میں دی اور فرمایا کہ اس سے مشرکین سے جہاد کرنا جب تک وہ تم سے قتال کرتے رہیں اور جب تُو مسلمانوں کو دیکھے کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں تو اسے یعنی تلوار کو کسی چٹان کے

Page 395

اصحاب بدر جلد 5 872 379 پاس لا کر مار نا یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جائے.پھر اپنے گھر میں بیٹھ جانا یہاں تک کہ تمہارے پاس کسی خطا کار کا ہاتھ پہنچے یا تمہیں موت آئے.پس آپ نے ایسا ہی کیا.آپ فتنوں سے الگ رہے اور جنگ جمل اور صفین میں شامل نہیں ہوئے.2 ضُبَيْعَة بن حصين ثَعْلَبی بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت حذیفہ " کے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بتایا کہ میں ایک ایسے آدمی کو جانتا ہوں جسے فتنہ کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا.ہم نے کہا وہ کون ہے.حضرت حذیفہ نے کہا کہ وہ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری ہیں.پھر جب حضرت حذیفہ فوت ہو گئے اور فتنہ ظاہر ہو گیا تو میں ان لوگوں کے ساتھ نکلا جو مدینہ سے نکل رہے تھے.پھر میں پانی کے ایک مقام پر پہنچا.وہاں پانی available تھا.میں نے وہاں ایک ٹوٹا ہوا خیمہ دیکھا جو ایک طرف کو جھکا ہوا تھا اور ہوا کے تھپیڑے اسے لگ رہے تھے.میں نے پوچھا کہ یہ خیمہ کس کا ہے.لوگوں نے بتایا کہ یہ محمد بن مسلمہ کا خیمہ ہے.میں ان کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ ایک عمر رسیدہ انسان ہیں.میں نے ان سے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے.میں دیکھتا ہوں کہ آپؐ مسلمانوں کے بہترین لوگوں میں سے ہیں.آپ نے اپنا شہر اور اپنا گھر اور اپنے اہل و عیال اور اپنے پڑوسی چھوڑ دیے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سب کچھ شر سے کراہت کی وجہ سے چھوڑا ہے.373 ان کی وفات کے متعلق اختلاف ہے کہ کب ہوئی ؟ مختلف روایات کے مطابق تینتالیس، چھیالیس یا سینتالیس ہجری میں مدینے میں آپ کی وفات ہوئی اور اس وقت آپ کی عمر 77 سال تھی.آپؐ کی نماز جنازہ مروان بن حکم نے پڑھائی جو اس وقت مدینے کے امیر تھے.بعض روایات میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ کسی نے انہیں شہید کر دیا تھا.874 276) نام و نسب حضرت مدلج بن عمرو اپنے دو بھائیوں کے ساتھ جنگ بدر میں شرکت حضرت مدلج بن عمرو کا نام مدلاج بھی بیان ہوا ہے.ان کا تعلق قبیلہ بنو سُلیم کے خاندان بَنُوحَجر سے تھا.یہ بنو کبیر بن غنم بن دُودَان کے حلیف تھے جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق بنو عمر و بن دُودان کے حلیف تھے جو پھر آگے بنو عبد شمس کے حلیف تھے.875

Page 396

380 اصحاب بدر جلد 5 تمام غزوات میں شرکت حضرت مدبلج غزوہ بدر میں اپنے دو بھائیوں حضرت نقف بن عمر و “ اور حضرت مالك بن عمرو کے ہمراہ شامل ہوئے تھے.حضرت منذ نلج بن عمر ور سول اللہ صلی علی ایم کے ہمراہ بدر، احد اور بعد کے تمام غزوات میں شامل ہوئے.876 حضرت مدبلج بن عمرو کی وفات پچاس ہجری میں حضرت امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں ہوئی رض 277 877 نام و نسب حضرت مرارہ بن ربیع انصاری حضرت مرارہ کے والد کا نام ربیع بن عدی تھا.ان کے والد کا نام ربعی اور ربیعہ بھی بیان کیا جاتا ہے.حضرت مرارہ بن ربیع عمری کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو عمر و بن عوف سے تھا جبکہ ایک روایت کے مطابق ان کا تعلق بنو عمرو بن عوف کے اتحادی قبیلہ قُضَاعَہ سے تھا.قُضَاعَه عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے جو مدینے سے دس منزل پر وادی القریٰ سے آگے واقع ہے اور مدائن صالح 878 کے مغرب میں آباد ہے.حضرت مداره و غزوہ بدر میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.امام بخاری اور صحابہ کے مشتمل کتب میں ان کے غزوہ بدر میں شامل ہونے کا تذکرہ ملتا ہے جبکہ ابن ہشام نے بدری حالات پر صحابہ کی فہرست میں ان کا نام درج نہیں کیا.غزوہ تبوک میں شامل نہ ہونے والے یہ ان تین انصار صحابہ میں سے تھے جو غزوہ تبوک میں شامل نہ ہو سکے تھے جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے اور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یہ آیت بھی نازل فرمائی تھی کہ : وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِيْنَ خُلِفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحْبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَا مِنَ اللهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (التوبه 118) اور ان تینوں پر بھی اللہ توبہ قبول کرتے ہوئے جھکا جو پیچھے چھوڑ دیے گئے یہاں تک کہ جب زمین ان پر باوجود فراخی کے تنگ ہو گئی اور ان کی جانیں تنگی محسوس کرنے لگیں اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ

Page 397

اصحاب بدر جلد 5 381 سے پناہ کی کوئی جگہ نہیں مگر اسی کی طرف پھر وہ ان پر قبولیت کی طرف مائل ہوتے ہوئے جھک گیا تا کہ وہ توبہ کر سکیں.یقینا اللہ ہی بار بار توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.879 جیسا کہ پہلے یہ ذکر ہو چکا ہے کہ یہ تینوں پیچھے رہ جانے والے صحابہ حضرت کعب بن مالک، حضرت مراره بن ربیع اور حضرت هلال بن امیہ تھے اور یہ تینوں انصار سے تھے.9 اس حوالے سے حضرت مدارہ شما علیحدہ کوئی بیان نہیں ہے حضرت کعب بن مالک کا ہی تفصیلی بیان ہے جو حضرت هلال بن امیہ کے تعلق میں گذشتہ خطبے میں بیان کر چکا ہوں 880 اس لیے دوبارہ یہاں بیان کی ضرورت نہیں ہے.881 278 حضرت مرثد بن ابي مرقد * باپ بیٹا جنگ بدر میں شامل حضرت مرشد بن ابی مرشد.ان کی وفات صفر تین ہجری میں مقام رجیع میں ہوئی.آپ بدری صحابی تھے.آپ حضرت حمزہ بن عبد المطلب کے حلیف تھے.آپ اپنے والد کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے ابتدائی قبول اسلام اور ہجرت مدینہ آپ اسلام کے شروع میں مشرف باسلام ہوئے اور بدر سے قبل ہجرت کر کے مدینہ آگئے.آنحضرت صلی ا ولم نے ان کی مواخات حضرت اوس بن صامت سے فرما دی.بدر کے روز یہ گھوڑے پر حاضر ہوئے جس کا نام سبل تھا.ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ حضرت 882 مرند اس فوجی دستہ کے سالار تھے جسے آنحضرت صلی الہ وسلم نے رجیع کی طرف روانہ فرمایا تھا.یہ واقعہ ماہ صفر تین ہجری میں پیش آیا اور بعض کا خیال ہے کہ اس دستہ کی کمان حضرت عاصم بن ثابت کے پاس تھی.32 ان کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ بنو عَضَل اور قارہ نے اسلام لانے کا دکھاوا کر کے آنحضرت صلی الزام سے مذہبی تعلیم کے لئے چند معلم بھجوانے کی درخواست کی جس پر آپ صلی ا ہم نے (اس کے بارے میں روایتوں میں اختلاف ہے) حضرت مرتد یا حضرت عاصم کی زیر امارت ایک جماعت بھیجی.یہ لوگ ابھی مقام رجیع پر پہنچے تھے کہ بنو هلیل ننگی تلواریں لے کر آگئے اور کہا کہ ہمارا مقصد

Page 398

اصحاب بدر جلد 5 382 883 تمہیں قتل کرنا نہیں بلکہ تمہارے بدلہ میں ہم اہل مکہ سے مال حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ہم تمہاری حفاظت جان کا عہد کرتے ہیں.اس پر حضرت مرتد اور خالد رضی اللہ عنہ اور عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں تم لوگوں کے عہد پر بھروسہ نہیں اور اس طرح لڑتے ہوئے تینوں نے جان دے دی.عمران بن مناح کہتے ہیں کہ جب ابو مرتیہ اور ان کے بیٹے مرید بن ابی مرید نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اس وقت آپ دونوں حضرت کلثوم بن ھد ثم کے ہاں ٹھہرے.محمد بن عمر کہتے ہیں کہ آپ غزوہ احد میں بھی شریک ہوئے اور سر یہ رجیع والے دن آپ کی شہادت ہوئی.حضرت مر محمد کے ایک بیٹے انہیں بن ابی مرید الغنوی کا ذکر ملتا ہے.آپ کو انس بھی کہا جاتا ہے مگر ائیں اکثر ملتا ہے.آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فتح مکہ اور غزوہ حنین میں شامل تھے.185 ابن حجر نے حضرت مرید کی شہادت صفر چار ہجری بیان کی ہے.نام و نسب 279 حضرت مسطح بن أثاثه 886 ย 884 حضرت مسطح بن أثاثہ.ان کا نام عوف اور لقب مشطخ تھا ان کی والدہ حضرت ام مسطح سلمی بنت صخر تھیں جو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی کی خالہ ریطہ بنت صخر کی بیٹی تھیں.مکہ سے ہجرت 887 حضرت مسطح بن اثاثہ نے حضرت عبیدہ بن حارث اور ان کے دو بھائیوں حضرت طفیل بن حارث حضرت حصین بن حارث کے ساتھ مکہ سے ہجرت کی.سفر سے پہلے طے پایا کہ یہ لوگ وادی تاریخ میں اکٹھے ہوں گے لیکن حضرت مسطح بن اثاثہ پیچھے رہ گئے کیونکہ ان کو سفر کے دوران سانپ نے ڈس لیا تھا.اگلے دن ان لوگوں کو جو پہلے چلے گئے حضرت مسطح کے سانپ کے ڈسے جانے کی اطلاع ملی پھر یہ لوگ واپس گئے اور انہیں ساتھ لے کر مدینہ آ گئے.مدینہ میں سب لوگ حضرت عبد الرحمن بن سلمہ کے ہاں ٹھہرے.888 تمام غزوات میں شرکت آنحضرت صلی اللہ ہم نے حضرت مسطح بن اثاثہ اور زید بن مزین کے درمیان مواخات کارشتہ قائم

Page 399

اصحاب بدر جلد 5 383 889 کیا تھا.حضرت مسطح غزوہ بدرسمیت دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی لی ایم کے ساتھ شامل ہوئے.19 ہجرت کے آٹھ مہینے کے بعد رسول اللہ صلی الم نے حضرت عبیدہ بن حارث کو ساٹھ یا ایک روایت کے مطابق اسی سواروں کے ساتھ روانہ کیا.رسول اللہ صلی علیہم نے حضرت عبیدہ بن حارث کے لئے ایک سفید رنگ کا پرچم باندھا، ایک جھنڈ ابنایا جسے مِسطح بن اثاثہ نے اٹھایا.اس سیریہ کا مطلب یہ تھا کہ قریش کے تجارتی قافلے کو راہ میں روک لیا جائے.قریش کے قافلے کا امیر ابوسفیان تھا، بعض کے مطابق عِكْرِمہ بن ابو جہل اور بعض کے مطابق مِكْرَز بن حفص تھا.اس قافلے میں 200 آدمی تھے جو مال لے کر جارہے تھے.صحابہ کی اس جماعت نے رابغ وادی پر اس قافلے کو جالیا، اس مقام کو وڈان بھی کہا جاتا ہے.یہ قافلہ صرف تجارتی قافلہ نہیں تھا بلکہ جنگی سامان سے لیس بھی تھا اور اس قافلے کی جو آمد ہوئی تھی وہ بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں استعمال ہوئی تھی کیونکہ واقعات سے پتہ لگتا ہے کہ وہ پوری طرح سے تیار تھے.بہر حال یہ لوگ جب گئے تو دونوں فریق کے درمیان تیر اندازی کے علاوہ کوئی مقابلہ نہیں ہوا اور لڑائی کے لئے باقاعدہ صف بندی بھی نہیں ہوئی.سب سے پہلا تیر جو اسلام کی طرف سے چلایا گیا پہلے بھی اس کا ایک اور صحابی کے ذکر میں ایک دفعہ ذکر ہو چکا ہے.وہ صحابی جنہوں نے مسلمانوں کی جانب سے پہلا تیر چلایا وہ حضرت سعد بن ابی وقاص تھے اور یہ وہ پہلا تیر تھا جو اسلام کی طرف سے چلایا گیا.اس موقع پر حضرت مقداد بن اسود اور حضرت عيينه بن غزوان، (سیرت ابن ہشام اور تاریخ طبری میں عُتبہ بن غزوان ہے) مشرکوں کی جماعت سے نکل کر مسلمانوں میں آملے کیونکہ ان دونوں نے اسلام قبول کیا ہوا تھا اور وہ مسلمانوں کی طرف جانا چاہتے تھے.حضرت عبیدہ بن حارث کی سر کردگی میں یہ اسلام کا دوسرا سریہ تھا.تیر اندازی کے بعد دونوں فریق پیچھے ہٹ گئے.پہلے بھی کسی خطبہ میں ایک دفعہ ذکر ہو چکا ہے.اور مشرکین پر مسلمانوں کا اس قدر رعب پڑا کہ انہوں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر ہے جو ان کی مدد کر سکتا ہے.لہذا وہ خوفزدہ ہو کر واپس چلے گئے اور مسلمانوں نے بھی ان کا پیچھا نہیں 891 890 کیونکہ مقصد جنگ نہیں تھا صرف ان کو روکنا تھا اور یہ سبق دینا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف اگر وہ تیاری کریں گے تو مسلمان بھی تیار ہیں.آنحضور صلی نیلم نے خیبر کے موقع پر حضرت مسطح اور ابن الیاس کو پچاس وسق غلہ عطا فرمایا ( اس زمانے میں مال غنیمت میں یہ دیا جاتا تھا طبقات الکبریٰ میں یہ باتیں لکھی ہیں).وفات ان کی وفات 56 برس کی عمر میں 34 ہجری میں حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں ہوئی اور یہ بھی کہا

Page 400

اصحاب بدر جلد 5 384 جاتا ہے کہ آپ حضرت علی کے دورِ خلافت تک زندہ رہے اور حضرت علی کے ساتھ جنگ صفین میں شامل ہوئے اور اسی سال 37 ہجری میں وفات پائی.892 حضرت مسطح وہی شخص ہیں جن کے نان و نفقہ کا بندوبست حضرت ابو بکر کیا کرتے تھے، ان کے ذمہ تھا.لیکن جب حضرت عائشہ پر تہمت لگائی گئی.الزام لگایا گیا تو ان لگانے والوں میں مسطح بھی شامل ہو گئے اور حضرت ابو بکڑ نے اس وقت قسم کھائی کہ آئندہ ان کی کفالت نہیں کریں گے جس پر یہ آیت نازل ہوئی که وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبى وَالْمَسْكِينَ وَالْمُهجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَليَعْفُوا وَ ليَصْفَحُوا اَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - (النور : 23) اور تم میں سے صاحب فضیلت اور صاحب توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں.پس چاہئے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں.کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.بہر حال یہ آیت نازل ہوئی.اس پر حضرت ابو بکر نے دوبارہ ان کا نان و نفقہ جاری فرما دیا اور جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کی بریت نازل فرما دی تو پھر بہتان لگانے والوں کو سزا بھی دی گئی.بعض روایات کے مطابق آنحضرت صلی علیہم نے حضرت عائشہ پر الزام لگانے والے جن اصحاب کو کوڑے لگوائے تھے ان میں حضرت مسطح بھی شامل تھے.یہ افک کا الزام لگانے کا جو واقعہ ہے یہ کیونکہ ایک بڑا تاریخی، ایک اہم واقعہ ہے.تاریخی تو نہیں ایک اہم واقعہ ہے اور مسلمانوں کے لئے اس میں سبق بھی ہے اس لئے اس کی تفصیل بھی بڑی کا لکھی گئی ہے.اور اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں قرآن کریم میں آیات بھی نازل فرمائیں.بہر حال اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : 893 "خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ و استغفار اور دعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں." حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعہ کا ذکر کر کے وعدہ اور وعید کے فرق کو ظاہر فرمایا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ "جیسا کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہو گئے تھے." ان کا مقصد فتنہ نہیں تھا.سادہ لوحی میں شامل ہو گئے." ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے دو وقتہ روٹی کھاتے تھے.حضرت ابو بکر نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا.اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی : وَلْيَعُفُوا وَ ليَصْفَحُوا اَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (النور:23) تب حضرت ابو بکڑ نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگا دی.اسی بنا پر اسلامی اخلاق میں یہ

Page 401

اصحاب بدر جلد 5 385 داخل ہے کہ " یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مسئلہ حل کیا کہ "اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑ نا حسن اخلاق میں داخل ہے." و عید کیا ہے ؟ فرمایا کہ "مثلاً اگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اور تضرع پر معاف کرنا سنت اسلام ہے تا متحلق باخلاق اللہ ہو جائے.مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں.ترک وعدہ پر باز پرس ہو گی مگر ترک و عید پر نہیں." 89411 وعدہ ایک ایسا عہد ہے جو تمام منفی اور مثبت پہلو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے اور اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے.اس کو توڑنا، پھر اس کی پوچھ کچھ بھی ہو گی یا پھر کچھ جرمانہ بھی ہو گا.واقعہ افک اور اس کی تفصیلات صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ واقعہ افک کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں.اس کی تفصیل کی کیونکہ اہمیت ہے.اس لئے میں بھی اب بیان کر رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی علی یکم جب کسی سفر میں نکلنے کا ارادہ فرماتے تو آپ اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے.پھر جس کا قرعہ نکلتا آپ اس کو اپنے ساتھ لے جاتے.چنانچہ آپ نے ایک حملے کے وقت جو آپ نے کیا ہمارے درمیان قرعہ ڈالا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرا قرعہ نکلا.میں آپ کے ساتھ گئی.اس وقت حجاب کا حکم اتر چکا تھا، پردے کا حکم آگیا تھا.میں ہودج میں بٹھائی جاتی ( ہودج جو اونٹ کے اوپر سواری کی جگہ بنائی جاتی ہے.covered ہوتی ہے ) اور ہو دج سمیت اتاری جاتی.کہتی ہیں کہ ہم اسی طرح سفر میں رہے.جب رسول اللہ صلی المینیوم اپنے اس حملے سے فارغ ہوئے اور واپس آئے اور ہم مدینہ کے قریب ہی تھے کہ ایک رات آپ نے کوچ کا حکم دیا.جب لوگوں نے کوچ کرنے کا اعلان کیا تو میں بھی چل پڑی اور فوج سے آگے نکل گئی.کہتی ہیں میں پیدل ہی چل پڑی.کیونکہ رفع حاجت کے لئے جانا تھا تو ایک طرف ہو کے چلی گئیں جب میں اپنی حاجت سے فارغ ہوئی، تو اپنے ہو رج کی طرف آئی اور میں نے اپنے سینے کو ہاتھ لگایا تو کیا دیکھتی ہوں کہ ظفار کے کالے نگینوں کا میرا بار گر گیا ہے.ایک ہار پہنا ہوا تھا وہ گر گیا ہے.کہتی ہیں میں اپنا ہار ڈھونڈنے کے لئے واپس لوٹی اور اس کی تلاش نے مجھے روکے رکھا تو کچھ وقت لگ گیا.اتنے میں وہ لوگ جو میرے اونٹ کو تیار کرتے تھے ، آئے اور انہوں نے میر اہو دج اٹھا لیا اور وہ ہو دج میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوا کرتی تھی.وہ خالی تھا.لیکن وہ سمجھے کہ میں اسی میں ہوں.کہتی ہیں کہ عور تیں ان دنوں میں ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں.بھاری بھر کم نہ تھیں.ان کے بدن پر زیادہ گوشت نہ ہو تا تھا.وہ تھوڑا سا تو کھانا کھایا کرتی تھیں.لوگوں نے جب ہو دج کو اٹھایا تو اس کے بوجھ کو غیر معمولی نہ یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ ہلکا ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ انہوں نے اس کو اٹھالیا اور میں کم عمر لڑکی تھی.انہوں نے اونٹ کو بھی اٹھا کر چلا دیا اور خود بھی چل پڑے.جب سارا لشکر گزر چکا اور اس کے بعد میں نے اپناہار بھی ڈھونڈ لیا تو میں ڈیرے پر واپس آئی.وہاں کوئی بھی نہیں تھا.پھر میں اپنے اس ڈیرے کی طرف گئی جس میں میں تھی اور میں نے خیال کیا کہ وہ مجھے نہ پائیں گے تو یہیں واپس لوٹ

Page 402

386 اصحاب بدر جلد 5 آئیں گے.کہتی ہیں میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اسی اثناء میں میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی.صَفَوان بن معطل سُلمي ذكواني فوج کے پیچھے رہا کرتے تھے.ایک آدمی پیچھے ہو تا تھا تا کہ دیکھ لے کہ قافلہ چلا گیا ہے تو کوئی چیز پیچھے تو نہیں رہ گئی.کہتی ہیں وہ صبح میرے ڈیرے پر آئے اور انہوں نے ایک سوئے ہوئے انسان کا وجود دیکھا اور میرے پاس آئے.اور حجاب کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا.واپس آئے تو انہوں نے انا لہ پڑھا.ان کے انا للہ پڑھنے پر میں جاگ اٹھی.اس کے بعد پہلے اونٹنی قریب لے آئے، اور جب انہوں نے اپنی اونٹنی بٹھائی تو میں اس پر سوار ہو گئی اور وہ اونٹنی کی تکمیل پکڑ کر چل پڑے.کہتی ہیں: یہاں تک کہ ہم فوج میں اس وقت پہنچے جب لوگ ٹھیک دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لئے ڈیروں میں تھے.پھر جس کو ہلاک ہو نا تھا ہلاک ہو گیا.یعنی اس بات پر بعض لوگوں نے الزام لگانے شروع کر دئے.غلط قسم کی باتیں حضرت عائشہ کی طرف منسوب کر دیں.فرماتی ہیں اس تہمت کا بانی عبداللہ بن اُبی بن سلول تھا.ہم مدینہ پہنچے.میں وہاں ایک ماہ تک بیمار رہی.تہمت لگانے والوں کی باتوں کا لوگ چرچا کرتے رہے اور میری اس بیماری کے اثناء میں جو بات مجھے شک میں ڈالتی تھی وہ یہ تھی کہ میں نبی صلی علیم سے وہ مہربانی نہیں دیکھتی تھی جو میں آپ سے اپنی بیماری میں دیکھا کرتی تھی.بڑا چرچا ہو گیا.تہمت لگائی.مشہوری ہو گئی.آنحضرت صلی میں کم تک بھی باتیں پہنچیں.کہتی ہیں آنحضرت صلی علیہ کم کا بیماری میں جو سلوک میرے ساتھ پہلے ہوا کر تا تھاوہ مجھے نظر نہیں آتا تھا.آپ صرف اندر آتے اور السلام علیکم کہتے.پھر پوچھتے کہ اب وہ کیسی ہے.اور وہ بھی ان کے والدین سے پوچھ لیتے.کہتی ہیں کہ مجھے اس تہمت کا کچھ بھی علم نہ تھا یہاں تک کہ جب میں نے بیماری سے شفا پائی.اور نقاہت کی حالت میں تھی کہ میں اور اتم مسطح مناصع کی طرف گئیں جو قضائے حاجت کی جگہ تھی.ہم رات کو ہی نکلا کرتے تھے اور یہ اس وقت سے پہلے کی بات ہے جب ہم نے اپنے گھروں میں، گھروں کے قریب بیوت الخلاء بنائے تھے.اس زمانے میں رفع حاجت کے لئے لوگ باہر جایا کرتے تھے اور عور تیں رات کو جب اندھیرا پھیل جائے نکلا کرتی تھیں.کہتی ہیں اس سے قبل ہماری حالت پہلے عربوں کی سی تھی کہ جنگل میں یا باہر جا کر قضائے حاجت کیا کرتے تھے.میں اور اہم مسطح بنت ابی رھم دونوں جارہی تھیں کہ اتنے میں وہ اپنی اوڑھنی سے اٹکی اور ٹھو کر کھائی.تب بولی کہ مسطح بد نصیب ہو.میں نے اس سے کہا کہ کیا بری بات کی ہے تم نے.کیا تو ایسے شخص کو برا کہہ رہی ہے جو جنگ بدر میں موجو د تھا.اس نے کہا کہ اری بھولی بھالی لڑکی ! کیا تم نے نہیں سنا جو لوگوں نے افترا کیا ہے ؟ تب اس نے مجھے تہمت لگانے والوں کی بات سنائی کہ یہ الزام تمہارے پر لگایا گیا ہے.کہتی ہیں میں بیماری سے ابھی اٹھی تھی، نقاہت تو تھی ہی.یہ بات سن کے میری بیماری بڑھ گئی.جب اپنے گھر لوٹی تو رسول اللہ صلی علیکم میرے پاس آئے.آپ نے السلام علیکم کہا اور آپ نے پوچھا اب تم کیسی ہو ؟ میں نے کہا: مجھے اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں.کہتی تھیں کہ میں اُس

Page 403

اصحاب بدر جلد 5 387 وقت یہ چاہتی تھی کہ میں ان کے پاس جا کر اس کی نسبت معلوم کروں یعنی یہ الزام جو لگا ہے.آپ صلی این یکم نے مجھے اجازت دے دی.میں اپنے والدین کے پاس آئی تو میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں ! میری ماں نے کہا کہ بیٹی اس بات سے اپنی جان کو جنجال میں نہ ڈالو.ہلکان نہ کرو.اطمینان سے رہو.اللہ کی قسم ! کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کبھی کسی شخص کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہو ، اس کی بیوی ہو جس سے وہ محبت بھی رکھے اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر لوگ اس کے بر خلاف باتیں نہ کریں.حضرت عائشہ کہتی ہیں.میں نے اس پر کہا کہ سبحان اللہ.لوگ ایسی بات کا چرچا کر رہے ہیں.پھر کہتی ہیں کہ میں نے وہ رات اس طرح کائی کہ صبح تک میرے آنسو نہیں تھے.اتنا بڑا الزام مجھ پر لگایا ہے.ساری رات مجھے نیند نہیں آئی اور میں روتی رہی.جب صبح اٹھی تو رسول اللہ صلی علیم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو بلایا.اس وقت جب وحی کے آنے میں دیر ہوئی تا ان دونوں سے اپنی بیوی کو چھوڑنے کے بارے میں مشورہ کریں.یعنی یہ فیصلہ کہ اس طرح جو الزام لگایا ہے اس کے بعد آیا ان کو رکھوں نہ رکھوں ؟ اسامہ نے تو آپ کو اس محبت کی بنا پر مشورہ دیا جو ان کو آپ صلی تعلیم کی بیویوں سے تھی.اسامہ نے کہا کہ یارسول اللہ ! آپ کی بیوی ہیں اور ہم اللہ کی قسم اسوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں جانتے.ہم نے تو کوئی عیب نہیں دیکھا.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ لیکن علی بن ابی طالب نے کہا کہ یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کچھ الله سة تنگی نہیں رکھی.حضرت علی ذرا تیز طبیعت کے تھے.اس لئے انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ آپ پر بھی نہیں رکھی اور اس کے سوا اور عورتیں بھی بہت ہیں.پھر حضرت علی نے یہ کہا کہ اس خادمہ سے پوچھئے.جو حضرت عائشہ کی خادمہ تھیں.ان سے پوچھیں کہ کیسی ہیں.(وہ) آپ سے سچ سچ کہہ دے گی.اس پر رسول اللہ صلی للہ ہم نے بریرہ کو بلایا.وہ خادمہ تھیں اور آپ نے کہا بریرہ! کیا تم نے اس میں یعنی حضرت عائشہ میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تمہیں شبہ میں ڈالے ؟ بریرہ نے کہا کہ ہر گز نہیں.اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ میں نے حضرت عائشہ میں اس سے زیادہ کوئی اور بات نہیں دیکھی جس کو میں ان کے لئے معیوب سمجھوں کہ وہ کم عمر لڑکی ہے.یعنی آنا چھوڑ کر سو جاتی ہے.ذرا بے پرواہی ہے اور اتنی گہری نیند اُن کو آتی ہے کہ گھر کی بکری آتی ہے اور وہ اسے کھا جاتی ہے.ان کی یہ ایک مثال دے کے بتایا کہ کوئی برائی تو نہیں ہے لیکن یہ کمزوری ہے.نیند غالب آجاتی ہے.ایسے شخص کو کون سنبھالے جس نے میری بیوی کے بارے میں مجھے دکھ دیا ہے یہ سن کر اسی دن رسول اللہ صلی علی یم نے صحابہ کو مخاطب فرمایا اور عبد اللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی کیونکہ اسی نے مشہور کیا تھا.رسول اللہ صلی اللی کرم نے فرمایا ایسے شخص کو کون سنبھالے جس نے میری بیوی کے بارے میں مجھے دکھ دیا ہے.میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اپنی بیوی میں سوائے بھلائی کے اور کوئی بات مجھے معلوم نہیں اور ان لوگوں نے ایسے شخص کا ذکر کیا ہے جس کی بابت بھی مجھے بھلائی

Page 404

اصحاب بدر جلد 5 388 کے سوا کوئی علم نہیں.یعنی کہ حضرت عائشہ کے بارے میں جس پر الزام لگایا ہے اور میرے گھر والوں کے پاس جب بھی وہ آیا کرتے میرے ساتھ ہی آتے.اس پر حضرت سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! بخدا میں اس سے آپ کا بدلہ لوں گا جس نے یہ الزام لگایا ہے.اگر وہ اوس کا ہوا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا.اگر وہ ہمارے بھائیوں خزرج سے ہوا تو جو بھی آپ ہمیں حکم دیں گے ہم آپ کا حکم بجالائیں گے.اس پر سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے اور وہ خزرج قبیلہ کے سردار تھے اور اس سے پہلے وہ اچھے آدمی تھے لیکن قومی عزت نے انہیں بھڑ کا یا اور انہوں نے کہا تم نے غلط کہا.اللہ کی قسم ! نہیں مارو گے اور نہ ایسا کر سکو گے.بحث شروع ہو گئی.اس پر اُسید بن حضیر کھڑے ہو گئے.تیسرا شخص بھی کھڑا ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ تم نے غلط کہا ہے.اللہ کی قسم ! اللہ کی قسم !اہم اسے ضرور مارڈالیں گے جس نے بھی الزام لگایا ہے.اور پھر یہاں تک کہ دیا کہ تو تو منافق ہے جو منافقوں کی طرف جھگڑتا ہے.اس پر دونوں قبیلے اوس اور خزرج بھڑک اٹھے.آپس میں غصہ میں آگئے ، طیش میں آگئے.یہاں تک کہ لڑائی شروع ہو گئی.شروع تو نہیں ہوئی لیکن لڑنے کے قریب تھے ، کہتے ہیں لڑنے پر آمادہ ہو گئے.رسول اللہ صلی علیکم منبر پر کھڑے تھے آپ اترے اور ان کو ٹھنڈا کیا یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی علیہ کم بھی خاموش ہو رہے.حضرت عائشہ کہتی ہیں، یہ روایت چل رہی ہے.بخاری کی لمبی روایت ہے کہ میں سارا دن روتی رہی.نہ میرے آنسو تھمتے اور نہ مجھے نیند آتی.میرے ماں باپ میرے پاس آگئے.میں دورا نہیں اور ایک دن اتنا روئی کہ میں سمجھی کہ یہ رونا میرے جگر کو شق کر دے گا.میں ختم ہو جاؤں گی.کہتی تھیں کہ اسی اثناء میں کہ وہ دونوں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے یعنی ماں باپ بیٹھے ہوئے تھے اور میں رورہی تھی کہ اتنے میں ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت چاہی.میں نے اسے اجازت دے دی.وہ بھی بیٹھ کر میرے ساتھ رونے لگی.ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ میں حضرت ابو بکر کے گھر میں اندر آئے اور بیٹھ گئے.اور اس سے پہلے جس دن سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے.دور سے حال پوچھ کر چلے جایا کرتے تھے یا ملازمہ سے حال پوچھ کے چلے جایا کرتے تھے اور جب گھر آگئی ہیں تو وہاں پوچھتے تھے.بہر حال اُس دن آئے اور کہتی ہیں میرے پاس بیٹھے اور آپ ایک مہینہ منتظر رہے.مگر میرے متعلق آپ کو کوئی وحی نہ ہوئی.جس دن سے یہ الزام لگا تھا مہینہ گزر گیا تقریباً اور آپ میرے پاس بیٹھے نہیں تھے لیکن اس دن آکر بیٹھے اور آنحضرت صلی اللہ علم اس انتظار میں تھے کہ اللہ تعالیٰ کچھ بتادے گا.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آپ نے تشہد پڑھا پھر آپ نے مجھے فرمایا کہ عائشہ ! مجھے تمہارے متعلق یہ بات پہنچی ہے.پہلی دفعہ یہ بات آنحضرت صلی علیہ ہم نے حضرت عائشہ سے کی.سو اگر تم بڑی ہو تو ضرور اللہ تعالیٰ تمہیں بری فرمائے گا اور اگر تم سے کوئی کمزوری ہو گئی ہے تو اللہ سے مغفرت مانگو اور اس کے حضور توبہ کرو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے اور اس کے بعد تو بہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم کرتا ہے.کہتی ہیں جب رسول اللہ صلی علیم نے بات ختم کر لی تو پہلے چونکہ میں بہت دور ہی تھی

Page 405

اصحاب بدر جلد 5 389 میرے آنسو خشک ہو گئے.یہاں تک کہ آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہوا.میں نے اپنے باپ سے کہا.اس وقت حضرت عائشہ نے حضرت ابو بکر کو کہا کہ رسول اللہ صلی یکم کو میری طرف سے جواب دیجئے.انہوں نے کہا بخدا میں نہیں جانتا کہ میں رسول اللہ سے کیا کہوں.کیا بات کروں.کیا جواب دوں.یہی چاہتی ہوں گی ناں کہ میری بریت کا جواب دیں.پھر میں نے اپنی ماں سے کہا.آپ ہی رسول اللہ صلی علیکم کو جو آپ نے فرمایا ہے اس کا میری طرف سے جواب دیں.انہوں نے کہا بخدا میں نہیں جانتی کہ میں رسول اللہ صلی الل ظلم سے کیا کہوں.حضرت عائشہ کہتی تھیں کہ میں کم عمر لڑکی تھی.قرآن مجید کا اس وقت مجھے زیادہ علم نہیں تھا.بہر حال میں نے اس کے باوجو د اس وقت کہا کہ بخدا مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ آپ لوگوں نے وہ بات سنی ہے جس کا لوگ آپس میں تذکرہ کرتے ہیں.یعنی یہ جو چکا مجھ پر بڑا گندا الزام لگایا گیا ہے ، وہ بات آپ کے دلوں میں بیٹھ گئی ہے.اور آپ نے اسے درست سمجھ لیا ہے.بلکہ یہ کہتی ہیں میں نے کہا کہ آپ نے شاید سمجھ لیا ہے کہ یہ درست ہے.اور اگر میں آپ سے کہوں کہ میں بری ہوں.میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اللہ جانتا ہے کہ میں فی الواقعہ بری ہوں تو آپ مجھے اس میں سچا نہیں سمجھیں گے کیونکہ اتنا مشہور ہو چکا ہے اور لوگ اتنی زیادہ باتیں کر رہے ہیں کہ شاید یہ ہو جائے کہ میں سچی نہیں ہوں.اور اگر میں آپ کے پاس کسی بات کا اقرار کر لوں حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں اور میں نے ایسی کوئی غلط حرکت نہیں کی تو آپ اس اقرار پر مجھے سچا سمجھ لیں گے.اگر اقرار کرلوں تو آپ سچا سمجھ لیں کہ ہاں شاید بات ٹھیک ہی ہو گی.کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں اپنی اور آپ صلی علیم کی کوئی مثال نہیں پاتی سوائے یوسف کے باپ کی.انہوں نے کہا تھا کہ صبر کرنا ہی اچھا ہے اور اللہ ہی سے مددمانگنی چاہئے.حضرت یعقوب نے یوسف کے بھائیوں کو جو کہا تھا کہ اللہ ہی سے اس بات میں مدد مانگنی چاہئے جو تم لوگ بیان کر رہے ہو.کہتی ہیں میں نے یہ آیت پڑھ دی.اس کے بعد میں ایک طرف ہٹ کر اپنے بستر پر آگئی اور میں امید کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے بری کرے گا.وہ جانتی تھیں میں بے گناہ ہوں اللہ تعالیٰ بری کرے گا لیکن کہتی ہیں کہ بخدا مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ میرے متعلق بھی کوئی وحی نازل ہو گی.یہ تو خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ بری کر دے گا لیکن یہ خیال نہیں تھا کہ اس حد تک، یہاں تک ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ میری بریت کے بارہ میں وحی نازل کرے بلکہ میں اپنے خیال میں اس سے بہت اونی تھی کہ میری نسبت قرآن کریم میں بیان کیا جائے.میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں میرے بارے میں کوئی وحی کرے لیکن مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہ صلی علیکم نیند میں کوئی ایسی خواب دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بری قرار دیتا ہے.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم ! آپ ابھی بیٹھنے کی جگہ سے الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ اہل بیت میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ اتنے میں آپ پر وحی نازل ہوئی اور وحی کے دوران جو سخت تکلیف آپ کو ہوا کرتی تھی وہ آپ کو ہونے لگی.آپ کو اتنا پسینہ آتا تھا کہ سردی کے دن میں بھی آپ سے پسینہ موتیوں کی طرح ٹپکتا تھا.الله سة

Page 406

اصحاب بدر جلد 5 سة 390 جب رسول اللہ صلی اللی کم سے وحی کی حالت جاتی رہی تو آپ مسکرارہے تھے اور پہلی بات جو آپ نے فرمائی یہ تھی کہ عائشہ ! اللہ کا شکر بجالاؤ کیونکہ اللہ نے تمہاری بریت کر دی ہے.کہتی ہیں اس پر میری ماں نے مجھ سے کہا اٹھو رسول اللہ صلی علیکم کے پاس جاؤ.میں نے کہا اللہ کی قسم ! ہر گز نہیں.میں ان کے پاس اٹھ کر نہیں جاؤں گی اور اللہ کے سوا کسی کا شکریہ ادا نہیں کروں گی.اللہ تعالیٰ نے یہ وحی کی تھی.وہ لوگ یعنی کہ جنہوں نے بہتان باندھا ہے وہ تم ہی میں سے ایک جتھا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے میری بریت میں یہ وحی نازل کی تو حضرت ابو بکر نے کہا اور وہ مسطح بن اثاثہ کو بوجہ اس کے قریبی ہونے کے خرچ دیا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم !جو مسطح نے عائشہ پر افتراء کیا ہے میں اس کے بعد اب اس کو کوئی خرچ نہیں دوں گا.مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا یعنی سورہ نور کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ آیت میں نے پڑھ دی ہے اور اس کا ترجمہ بھی پڑھ دیا ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم میں سے صاحب فضیلت اور صاحب توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں.پس چاہئے کہ وہ معاف کر دیں اور در گزر کریں.کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.حضرت ابو بکر کہنے لگے کہ کیوں نہیں.اللہ کی قسم میں ضرور چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے مجھے بخش دے.مسطح کو جو خوراک وہ دیا کرتے تھے پھر ملنے لگی.اور رسول اللہ صلی الی یوم حضرت زینب بنت جحش سے بھی میرے معاملے کے بارے میں پوچھا کرتے تھے.آپ صلی علیہم نے فرما یا زینب ! تم کیا جھتی ہو جو تم نے دیکھا ہے.وہ کہتیں یا رسول اللہ میں اپنی شنوائی اور بینائی محفوظ رکھوں گی.میں تو عائشہ کو ، (یعنی کہ میں کبھی یہ نہیں کہہ سکتی) پاکدامن ہی سمجھا ہے.اپنے کانوں کو اور آنکھوں کو میں محفوظ سمجھتی ہوں اور ہمیشہ محفوظ رکھوں گی.میں غلط باتیں نہیں کہہ سکتی.کہتی ہیں میں نے تو عائشہ کو پاکدامن ہی دیکھا ہے اور پاکدامن ہی سمجھتی بھی ہوں.حضرت عائشہ کہتی تھیں کہ یہی زینب وہ تھیں جو آنحضرت صلی اللہ ﷺ کی ازواج میں سے میری برابری کیا کرتی تھیں.اللہ نے انہیں پر ہیز گاری کی وجہ سے بچائے رکھا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش اُن کی طرفداری کر رہی تھی اور ہلاک ہو گئی یعنی جن لوگوں نے الزام لگایا تھا اُن کی طرفداری کر رہی تھی اور ان لوگوں کے ساتھ تھی جو ہلاک ہوئے.895 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں یہ واقعہ بیان فرمایا ہے جو میں پہلے بخاری کے حوالے سے بیان کر چکا ہوں.زائد بات جو انہوں نے اس میں لکھی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جب کہتی ہیں کہ ان صحابی نے إِنَّا لِلَّهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رجِعُونَ پڑھا تو میں جاگ اٹھی تو میں نے اس وقت دیکھتے ہی جھٹ اپنا منہ اپنی اوڑھنی سے ڈھانک لیا کیونکہ پردے کا حکم جاری ہو چکا تھا اور خدا کی قسم ! اس نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی.انہوں نے بات بھی کوئی نہیں کی اور نہ میں نے اس کلمہ کے سوا ان کے منہ سے کوئی

Page 407

اصحاب بدر جلد 5 391 اور الفاظ سنے یعنی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ کے سوا.اس کے بعد وہ اپنے اونٹ کو آگے لایا اور میرے قریب اسے بٹھا دیا اور اس نے اونٹ کے دونوں گھٹنوں پر اپنا پاؤں رکھ دیا تا کہ وہ اچانک نہ اٹھ سکے.چنانچہ میں اونٹ کے اوپر سوار ہو گئی.896 وہاں بخاری میں یہ تھا کہ ہاتھ پہ پاؤں رکھ کے چڑھیں یہاں یہ ہے کہ انہوں نے اونٹ کے آگے گھٹنوں پر پاؤں بھی رکھ دیا تا کہ اونٹ ایک دم نہ اٹھ جائے.جیسا کہ حضرت عائشہ نے بیان فرمایا ہے کہ میرے بارے میں خدا تعالیٰ کی وحی کی میرے لئے بڑی اہمیت تھی.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میرے لئے تو اس وحی کی بڑی اہمیت تھی کیونکہ مجھے اس کی توقع نہیں تھی.بہر حال یہ ایک اہم واقعہ تھا اور آنحضرت صلی علیہ نام کے اہل پر ایک بہت بڑا الزام لگایا گیا تھا.حضرت عائشہ کا ایک خاص مقام تھا اور یہ مقام اس وجہ سے بھی تھا کہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ وحی بھی مجھے سب سے زیادہ عائشہ کے حجرے میں ہی ہوتی ہے.897 ایسے الزام لگانے والوں کے بارہ میں مومن کا رد عمل کیا ہونا چاہیے.اور سورہ نور میں ان الزام لگانے والوں کے بارے میں مومنوں کا جو رد عمل ہونا چاہئے اس کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کیا ہونا چاہئے.اس بارے میں مکمل دس گیارہ آیتیں ہیں.بہر حال حضرت عائشہ نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کے علاوہ جو حدیث کے حوالے سے میں بیان کر چکا ہوں حضرت مصلح موعودؓ نے جو زائد باتیں بیان فرمائی ہیں وہ بیان کرتا ہوں.اول پہلے تو آیت پڑھ دوں.آیت یہ ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ جَاءُو بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا تَكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ لِكُلِ امْرِ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِي تَوَلَّى كَبُرَة مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمُ (انور (12) یعنی یقینا وہ لوگ جو جھوٹ گھڑ لائے انہی میں سے ایک گروہ ہے.اس معاملہ کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے.ان میں سے ہر شخص کے لئے ہے جو اس شَرَاءُ b نے گناہ کما یا جبکہ ان میں سے وہ اس کے بیشتر کے ذمہ دار ہیں اس کے لئے بہت بڑا عذاب مقدر ہے.اس کے آگے پھر مزید آیتیں بھی ہیں.بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے.بہر حال اس آیت کی تفسیر میں جو سارا واقعہ بیان کیا ہے اور پھر آپ نے یہ لکھا کہ جب مدینہ پہنچے تو عبد اللہ بن اُبی بن سلول اور اس کے ساتھیوں نے مشہور کر دیا کہ حضرت عائشہ نعوذ باللہ جان بوجھ کر پیچھے رہی تھیں اور ان کو صفوان سے تعلق تھا، جو بعد میں اونٹ لے کے آئے تھے.لکھتے ہیں کہ یہ شور اتنا بڑھا کہ بعض صحابہ بھی نادانی سے ان کے ساتھ مل گئے جن میں سے ایک حسان بن ثابت ہیں اور دوسرے مِسطح بن اثاثہ.اسی طرح ایک صحابیہ حمنہ بنت جحش بھی تھیں جو رسول اللہ صلی علیم کی سالی تھیں.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چونکہ اس حادثے سے صدمہ سخت ہوا تھا اور وہ چھوٹی عمر میں ایک ایسے جنگل میں تن تنہارہ گئی تھیں جہاں ہو کا عالم تھا اور مدینہ پہنچ کر اس صدمہ سے بیمار ہو گئیں.تنہائی کا جو ایک خوف تھا، ایک ڈر تھا حضرت مصلح ط

Page 408

اصحاب بدر جلد 5 392 موعودؓ نے لکھا ہے کہ یہ بھی بیماری کی وجہ ہے.ادھر ان کے متعلق منافقین میں کھچڑی پکتی رہی.آخر رسول اللہ علیم کو یہ باتیں پہنچ گئیں.آپ حضرت عائشہ کی بیماری کو دیکھ کر ان سے دریافت نہیں فرما سکتے تھے.پوچھا بھی نہیں کہ منافقین کیا باتیں کر رہے ہیں ؟ ادھر دن بدن باتیں زیادہ بڑھتی جاتی تھیں.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں یہ دیکھ کر حیران ہوتی کہ رسول کریم صلی غیر کم گھر میں تشریف لاتے تو آپ کا چہرہ اترا ہوا ہو تا تھا اور مجھ سے بات نہیں کرتے تھے.کہتی ہیں بڑا پریشان چہرہ ہو تا تھا اور دوسروں سے میر احال پوچھ کے چلے جاتے تھے.کہتی ہیں میں آپ کی اجازت سے ایک دن اپنے والدین کے ہاں چلی گئی اور پھر وہی قضائے حاجت والا واقعہ ہوا.جو رشتہ دار تھیں ان کے ساتھ باہر جاتی تھیں اُس نے اپنے بیٹے مسطح کا نام لے کر کہا کہ اس کا برا ہو.حضرت عائشہ نے اس پر کہا کہ ایسا کیوں کہتی ہو ؟ اس نے کہا کہ ایسا کیوں نہ کہوں.تمہیں پتہ نہیں کہ وہ تو اس قسم کی باتیں کرتا ہے.تو حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے وہ عورت کوئی موقع نکالنا چاہتی تھی کہ بات کہے.حضرت عائشہ کو بات بتائے کہ آپ پر کیا الزام لگ رہے ہیں کیونکہ ان کو پتہ نہیں تھا.جب حضرت عائشہ نے یہ بات سنی تو انہیں بڑا سخت صدمہ ہوا.واپس آ گئیں اور جیسا کہ پہلے انہوں نے ذکر کیا ہے کہ مجھے بڑی نقاہت تھی.جوں توں کر کے گھر تک پہنچیں مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیماری پھر زور پکڑ گئی.بہر حال پھر آپ آگے واقعہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی ا ولم نے حضرت عمرؓ، حضرت علی اور اسامہ بن زید کو بلا کر مشورہ لیا کہ کیا کرنا چاہئے.حضرت عمرؓ اور اسامہ بن زید دونوں نے کہا کہ یہ منافقوں کی پھیلائی ہوئی بات ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں لیکن حضرت علی کی طبیعت تیز تھی.انہوں نے کہا کہ بات کوئی ہو یا نہ ہو.آپ کو ایسی عورت سے جس پر اتہام لگ چکا ہے تعلق رکھنے کی کیا ضرورت ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ آپ اُن کی لونڈی سے پوچھ لیں.اگر کوئی بات ہوئی تو وہ بتادے گی.رسول کریم صلی ال کلم نے حضرت عائشہ کی لونڈی بریرہ سے پوچھا کیا تجھے عائشہ کا کوئی عیب معلوم ہے ؟ اُس نے کہا عائشہ کا سوائے اس کے اور کوئی عیب نہیں کہ کم سنی کی وجہ سے وہ سو جاتی ہیں.جلدی نیند کا غلبہ آجاتا ہے اور پھر گہری نیند آتی ہے اور وہی واقعہ بیان کیا.بہر حال کہتے ہیں پھر رسول کریم صلی علی ظلم باہر تشریف لائے.صحابہ کو جمع کیا اور پھر فرمایا کہ کوئی ہے جو مجھے اس شخص سے بچائے جس نے مجھے دکھ دیا ہے.اس سے مراد آپ کی عبد اللہ بن اُبی بن سلول سے تھی کہ اس نے دکھ دیا ہے.حضرت سعد بن معاذ جو اوس قبیلہ کے سر دار تھے کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ ! اگر وہ شخص ہم میں سے ہے تو ہم اس کو مارنے کے لئے تیار ہیں.اور اگر وہ خزرج سے ہے تب بھی اس کو مارنے کے لئے تیار ہیں.حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ شیطان تو ہر وقت فتنہ ڈلوانے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتا ہے اس موقع پر بھی شیطان نہیں چونکا.خزرج کو یہ خیال نہ آیا کہ رسول کریم علی ای کم کو اس بات الله

Page 409

اصحاب بدر جلد 5 393 سے کتنا صدمہ پہنچا ہے.جب سعد بن معاذ نے یہ بات کی تو دوسرے قبیلہ کو غصہ آگیا.چنانچہ سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سعد بن معاذ سے کہا کہ تم ہمارے آدمی کو نہیں مار سکتے اور نہ تمہاری طاقت ہے کہ ایسا کر سکو.اس مکالمے میں دوسرے صحابی بھی اٹھے اور انہوں نے کہا کہ ہم اسے مار ڈالیں گے اور دیکھیں گے کون اسے بچاتا ہے.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ اب بجائے اس کے کہ یہ مقابلہ باتوں تک ہی رہتا اوس اور خزرج نے میانوں سے تلواریں نکالنی شروع کر دیں کہ با قاعدہ جنگ ہونے لگی تھی.رسول کریم صلی کلیم نے بڑی مشکل سے ان کو ٹھنڈا کیا.اوس کہتے تھے کہ جس شخص نے رسول کریم صلی علیکم کو دکھ دیا ہے اس کو ہم مار ڈالیں گے اور خزرج کہتے تھے کہ تم یہ بات اخلاص سے نہیں کرتے.چونکہ تم جانتے ہو کہ وہ ہم میں سے ہے اس لئے یہ بات کہتے ہو.بہر حال یہ بات بھی ثابت ہے کہ ان دونوں کو رسول کریم صلی اللی کم سے محبت بھی تھی مگر شیطان نے ان میں فتنہ پیدا کر دیا.حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ اس وقت کی حالت کے متعلق ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کیسی دردناک حالت ہو گی.ادھر رسول کریم صلی کم کو اتنی ایذاء پہنچ رہی تھی اور ادھر مسلمانوں میں تلوار چلنے تک نوبت پہنچی ہوئی تھی.تو شیطان بعض دفعہ نیکوں میں بھی یہ حالت کر دیتا ہے.بہر حال پھر آگے حضرت مصلح موعود وہی واقعہ بیان کرتے ہیں جو حضرت عائشہ نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت عائشہ سے یہ سارا واقعہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں مانوں گی تو جھوٹ کہوں گی.اگر اپنے آپ کو بری ثابت کروں گی تو آپ لوگ یقین نہیں کریں گے.اس وقت میں وہی کہتی ہوں جو حضرت یوسف کے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا تھا کہ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ (ف: 19) کہ اچھی طرح صبر کرنا ہی میرے لئے مناسب ہے اور اس بات کے لئے اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے اور مانگی جاتی ہے.بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے یہ کہا کہ وہاں سے اٹھ کر میں اپنے بستر پہ آگئی.اس پر پھر یہ آیت نازل ہوئی جو میں نے ابھی پہلے پڑھی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے خطر ناک جھوٹ بولا ہے وہ تمہی میں سے ایک گروہ ہے مگر تم اس کے اس الزام کو اپنے لئے کسی خرابی کا موجب نہ سمجھو بلکہ خیر کا موجب سمجھو کیونکہ اس الزام کی وجہ سے جھوٹا الزام لگانے والوں کی سزاؤں کا جلدی ذکر ہو گیا اور تمہیں ایک پر حکمت تعلیم مل گئی.اور یقینا اس میں سے ہر شخص اپنے اپنے گناہ کے مطابق سزا پائے گا اور جو شخص اس گناہ کے بڑے حصہ کا ذمہ دار ہے اس کو بہت بڑا عذاب ملے گا.بہر حال اس وحی کے بعد آنحضرت صلی علیکم کا چہرہ روشن ہوا اور اس وقت حضرت عائشہ کہتی ہیں میری والدہ نے کہا کہ آنحضرت صلی للی کم کا شکر کرو تو میں نے یہی کہا کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں گی.98 898 واقعہ افک میں شامل ہونے والوں کی سزا الله بہر حال جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ایک جگہ ایک خطبہ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ حضرت عائشہ پر الزام لگانے کی وجہ سے تین اشخاص کو کوڑے لگے تھے جن میں سے

Page 410

اصحاب بدر جلد 5 394 ایک حسان بن ثابت تھے جو آنحضرت صلی اللی علم کے شاعر اعظم تھے.ایک مسطح تھا جو حضرت عائشہ کے چچازاد اور حضرت ابو بکر کے خالہ زاد بھائی تھے اور وہ اس قدر غریب آدمی تھا کہ حضرت ابو بکر کے گھر میں ہی رہتا تھا.وہیں کھانا کھاتا تھا.آپ ہی ان کے لئے کپڑے بنواتے تھے اور ایک عورت تھیں.ان تینوں کو سزا ہوئی.899 اور سنن ابی داؤد میں بھی اس سزا کا ذکر ہے.900 بہر حال بعض کے نزدیک یہ سزا ہوئی، بعض کے نزدیک نہیں ہوئی.201 لیکن یہ جو صحابہ تھے انہیں سزا ہوئی یا نہیں ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا.جو دنیاوی سزا تھی وہ ملنی تھی وہ مل گئی اور بعد کے غزوات میں بھی جیسا کہ میں نے بتایا یہ شامل ہوئے اور یہ مسطح ایک بدری صحابی تھے.ان کا ایک بڑا مقام تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کا انجام بخیر کیا اور اس مقام کو قائم رکھا اور قائم فرمایا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.2 902 280 حضرت مسعود بن خلده ان کا نام مسعود بن خلدہ تھا اور بعض روایات میں مسعود بن خالد بیان ہوا ہے.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو زُریق سے تھا.غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے اور بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ واقعہ بئر معونہ میں شہید ہوئے جبکہ بعض دیگر روایات میں ہے کہ آپ غزوہ خیبر میں شہید ہوئے.903

Page 411

395 281 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب و کنیت حضرت مسعود بن ربیعہ بن عمرو حضرت مسعود بن ربیعہ بن عمرو حضرت مسعود بن ربیعہ کا تعلق قبیلہ قارہ سے تھا اور آپ قبیلہ بنو زہرہ کے حلیف تھے.حضرت مسعودؓ کی کنیت ابو عمیر تھی.حضرت مسعود کے والد کا نام ربیع کے علاوہ ربیعہ اور عامر بھی بیان کیا گیا ہے.دارار تم میں قبول اسلام اور ہجرت - حضرت مسعود کے ایک بیٹے کا نام عبد اللہ بھی ملتا ہے.حضرت مسعودؓ کے خاندان کو مدینہ میں بنوقاری کہا جاتا تھا.حضرت مسعود بن ربیعہ رسول اللہ صلی علیم کے دارِ ارقم میں داخل ہونے سے پہلے ایمان لے آئے تھے.حضرت مسعود بن ربیعہ نے جب مدینے کی طرف ہجرت کی تو آنحضرت صلی یم نے ان کی اور حضرت عبید بن نیہان کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم فرمایا.حضرت مسعود بن ربیعہ غزوہ بدر، غزوہ أحد، غزوہ خندق اور اس کے علاوہ تمام دیگر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علم کے ساتھ شریک ہوئے.وفات آپ کی وفات تیس ہجری میں ہوئی اور اس وقت آپ کی عمر 60 سال سے زیادہ تھی.24 904 282 ย حضرت مسعود بن سعد حضرت مسعود کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو زریق سے تھا.غزوہ بدر اور احد میں آپ شریک ہوئے اور بعض کے نزدیک حضرت مسعود بن سعد واقعہ بئر معونہ میں شہید ہوئے جبکہ عبد اللہ بن محمد بن عمارہ اور ابو نعیم کے نزدیک آپ غزوہ خیبر میں شہید ہوئے.905

Page 412

396 283 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب و کنیت حضرت مصعب بن عمیر حضرت مصعب بن عمیر کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو عبد الدار سے تھا.حضرت مصعب بن عمیر کی کنیت ابو عبد اللہ تھی.اس کے علاوہ ان کی کنیت ابو محمد بھی بیان کی جاتی ہے.حضرت مصعب کے والد کا نام عمیر بن ہاشم اور ان کی والدہ کا نام خناس یا حناس بنت مالک تھا جو مکہ کی ایک مال دار خاتون تھیں.ناز و نعمت میں پرورش پانے والے حضرت مصعب بن عمیر کے والدین ان سے بہت محبت کرتے تھے.حضرت مصعب بن عمیر کی والدہ نے ان کی پرورش بڑے ناز و نعمت سے کی.وہ انہیں بہترین پوشاک اور اعلیٰ لباس پہناتی تھیں اور ناز ے کی.وہ اعلی اور حضرت مصعب ملنے کی اعلیٰ درجے کی خوشبو استعمال کرتے اور حضر می جو تاجو حضر موت کے علاقے کا بنا ہوا جو تا تھا، امیر لوگوں کے لیے مخصوص تھا، وہاں سے منگوا کے پہنا کرتے تھے.حضر موت عدن سے مشرق کی طرف سمندر کے قریب ایک وسیع علاقہ ہے.بہر حال اعلیٰ لباس، اعلیٰ خوشبو اور جو تا تک وہ باہر سے منگوایا کرتے تھے.حضرت مصعب بن عمیر کی بیوی کا نام حمنہ بنت جحش تھا جو رسول اللہ صلی علیکم کی زوجہ مطہرہ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کی بہن تھیں.حمنہ بنت جحش سے ایک بیٹی زینب پیدا ہوئیں.رسول اللہ صل الل علم حضرت مصعب بن عمیر کو یاد کرتے تو فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مصعب سے زیادہ حسین و جمیل اور ناز و نعمت اور آسائش میں پروردہ کوئی شخص نہیں دیکھا.06 حضرت مصعب بن عمیرہ جلیل القدر صحابہ میں سے تھے اور ابتدا میں ہی اسلام قبول کرنے والے سابقین میں شامل تھے.رسول اللہ صلی علی یکم جب دارِ ارقم میں تبلیغ کیا کرتے تھے اس وقت آپ نے اسلام رار قبول کیا لیکن اپنی والدہ اور قوم کی مخالفت کے اندیشے سے اسے مخفی رکھا.حضرت مصعب منچھپ کر نبی کریم صلی کمی کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے.ایک دفعہ عثمان بن طلحہ نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور ان کے گھر والوں اور والدہ کو خبر کر دی.والدین نے ان کو قید کر دیا.906

Page 413

اصحاب بدر جلد 5 حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے 397 آپ قید میں ہی رہے یہاں تک کہ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے.ان کو موقع ملا، باہر آئے اور پھر ہجرت کر گئے.کچھ عرصے بعد بعض مہاجرین حبشہ سے مکہ واپس آئے تو حضرت مصعب بن عمیر بھی ان میں شامل تھے.آپ کی والدہ نے جب آپؐ کی حالت زار دیکھی تو آئندہ سے مخالفت ترک کر دی اور بیٹے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا.حضرت مصعب بن عمیر کو دو ہجرتیں کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ نے پہلے حبشہ اور بعد میں مدینے کی طرف ہجرت کی.اسلام کی خاطر اتنے دکھ جھیلے کہ...907 حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصعب بن عمیر کو میں نے آسائش کے زمانے میں بھی دیکھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی.اسلام کی خاطر انہوں نے اتنے دکھ جھیلے کہ میں نے دیکھا کہ ان کے جسم سے جلد اس طرح اترنے لگی تھی جیسے سانپ کی کینچلی اترتی ہے اور نئی جلد آتی یہ قربانی کے ایسے ایسے معیار تھے جو حیرت انگیز ہیں.ہے.رسول اللہ صلی الم نے حضرت مصعب بن عمیر کو دیکھاتو رونے لگے 908 ایک روز مصعب بن عمیر رسول اللہ صلی علی یکم کے پاس تشریف لائے جبکہ آپ صلی علیہ کم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے.اس وقت حضرت مصعب کے پیوند شدہ کپڑوں میں چمڑے کی ٹاکیاں لگی ہوئی تھیں.کہاں تو وہ کہ اعلیٰ درجے کالباس اور کہاں مسلمان ہونے کے بعد یہ حالت کہ چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے.صحابہ نے حضرت مصعب کو دیکھا تو سر جھکا لیے کہ وہ بھی حضرت مصعب بن عمیر کی تبدیلی حالت میں کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے.حضرت مصعب بن عمیر نے آکر سلام کیا.آنحضرت صلی اللہ ہم نے اس کا جواب دیا اور اس کی احسن رنگ میں ثنا بیان فرمائی.پھر فرمایا کہ الحمد للہ دنیا داروں کو ان کی دنیا نصیب ہو.میں نے مصعب کو اُس زمانے میں دیکھا ہے جب شہر مکہ میں اس سے بڑھ کر صاحب ثروت و نعمت کوئی نہ تھا.یہ ماں باپ کی عزیز ترین اولاد تھی مگر خدا اور اس کے رسول کی محبت نے اسے آج اس حال تک پہنچایا ہے اور اس نے وہ سب کچھ خدا اور اس کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا ہے.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا ہم نے حضرت مصعب بن عمیر صو دیکھا تو ان کی نازو نعمت والی حالت کو یاد کر کے رونے لگے جس میں وہ رہا کرتے تھے.جو ان کی پہلی حالت تھی آنحضرت صلی الله علم کو یاد آئی کہ کس طرح اب قربانی کر رہے ہو.حضرت علی سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت مصعب بن عمیر آئے.ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی.جب رسول اللہ صلی الیکم نے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز و نعمت کو یاد کر کے رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں وہ

Page 414

اصحاب بدر جلد 5 398 اب تھے.پھر رسول اللہ صلی اللہ کریم نے فرمایا کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جبکہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تو دوسرے جوڑے میں شام کرے گا یعنی اتنی فراخی پیدا ہو جائے گی کہ صبح شام تم کپڑے بدلا کرو گے اور پھر آپ نے فرمایا کہ اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا یعنی کھانا بھی قسم قسم کا ہو گا اور مختلف کورسز (courses) سامنے آتے جائیں گے جس طرح آج رواج ہے.اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پر دے ڈالو گے جیسا کہ کیسے پر پردہ ڈالا جاتا ہے.بڑے قیمتی قسم کے پر دے استعمال کیے جائیں گے.یہ بالکل آج کل کے نظارے یا اس کشائش کے نظارے ہیں.مسلمانوں کو بعد میں وہ کشائش ملی.صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے ایسی فراخی ہو گی، ایسے حالات ہوں گے تو پھر عبادت کے لیے بالکل فارغ ہوں گے اور محنت اور مشقت سے بچ جائیں گے ؟ تو رسول اللہ صلی المینیم نے فرمایا نہیں بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو.909 تمہاری حالت، تمہاری عبادتیں، تمہارے معیار اس سے بہت بلند ہیں جو بعد میں آنے والوں کے کشائش کی صورت میں ہوں گے.ہجرت حبشہ کی تفصیل سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ہجرت حبشہ کے بارے میں لکھا ہے اس میں سے کچھ میں پہلے دوسرے صحابہ کے ذکر میں بیان کر چکا ہوں.910 مختصر یہاں ذکر کر دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی للہ یلم کے فرمانے پر ماہ رجب پانچ نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.ان میں حضرت مصعب بن عمیر بھی تھے.آپ لکھتے ہیں کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ان ابتدائی مہاجرین میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقتور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے.اول یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہ تھے.دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام و غیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی بھی طاقت نہ رکھتے تھے.بہر حال قریش مکہ کو ان لوگوں کی ہجرت کا جب علم ہوا تو وہ سخت برہم ہوئے کہ یہ شکار مفت میں ہمارے ہاتھ سے نکل گیا.چنانچہ انہوں نے ان مہاجرین کا پیچھا کیا مگر جب ان کے آدمی ساحل پر پہنچے تو جہاز روانہ ہو چکا تھا اور یہ لوگ ناکام واپس لوٹے.حبشہ میں پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکار املا.911 مدینہ کے پہلے مبلغ و مربی کے طور پر تقرر بیعت عقبہ اولی کے موقعے پر مدینہ سے آئے ہوئے بارہ افراد نے رسول اللہ صلی یکم کے ہاتھ پر بیعت کی.جب یہ لوگ واپس مدینہ جانے لگے تو نبی کریم صلی الی یکم نے حضرت مصعب بن عمیر ہو ان کے ساتھ بھجوایا تا کہ وہ انہیں قرآن پڑھائیں اور اسلام کی تعلیم دیں.مدینہ میں آپ قاری اور مقری، استاد

Page 415

اصحاب بدر جلد 5 کے نام سے مشہور ہو گئے.912 399 مقری یعنی استاد اس کے نام سے مشہور ہو گئے.ایک دوسری روایت کے مطابق اوس اور خزرج کے انصار نے رسول اللہ صلی الی یکم کی خدمت میں عرض کی کہ کوئی شخص ہمیں قرآن پڑھانے کے لیے بھیجیں تو رسول اللہ صلی ال کلم نے حضرت مصعب بن عمیر کو بھیجا.مدینے میں حضرت مصعب نے حضرت اسعد بن زرارہ کے گھر قیام کیا.آپ نمازوں میں امامت 913 کے فرائض بھی انجام دیتے تھے.914 حضرت مصعب ایک عرصے تک حضرت اسعد بن زرارہ کے گھر قیام پذیر رہے لیکن بعد میں حضرت سعد بن معاذ کے گھر منتقل ہو گئے.915 916 حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی علی ایم کے مہاجر صحابہ میں سب سے پہلے ہمارے پاس مدینہ تشریف لانے والے مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم تھے.مدینے پہنچ کر ان دونوں صحابہ نے ہمیں قرآن مجید پڑھانا شروع کر دیا.پھر عمار، بلال اور سعد آئے اور حضرت عمر بن خطاب بھی صحابہ کو ساتھ لے کر آئے.اس کے بعد نبی کریم صلی کم تشریف لائے.کہتے ہیں کہ میں نے کبھی مدینہ والوں کو اتنا خوش ہونے والا نہیں دیکھا تھا جتنا وہ نبی کریم صلی للی کم کی آمد پر خوش ہوئے تھے.بچیاں اور بچے بھی کہنے لگے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں.سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مصعب بن عمیر کے بارے میں مزید بیان کرتے ہیں کہ "دار ار قم میں جو اشخاص ایمان لائے وہ بھی سابقین میں شمار ہوتے ہیں.ان میں سے زیادہ مشہور یہ ہیں.اوّل مصعب بن عمیر '' جو بنو عبد الدار میں سے تھے اور بہت شکیل اور حسین تھے اور اپنے خاندان میں نہایت عزیز و محبوب سمجھے جاتے تھے.یہ وہی نوجوان بزرگ ہیں جو ہجرت سے قبل میثرب میں پہلے اسلامی مبلغ بنا کر بھیجے گئے اور جن کے ذریعہ مدینے میں اسلام پھیلا."917 مدینہ میں سب سے پہلا جمعہ پھر ایک سیرت کی کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر مدینہ میں پہلے شخص تھے جنہوں نے ہجرت سے قبل جمعہ پڑھایا.حضرت مصعب نے بیعت عقبہ ثانیہ سے قبل رسول اللہ صلی اغلی یم کی خدمت میں مدینے میں نماز جمعہ کے لیے اجازت طلب کی.حضور صلی اسلیم نے اجازت دی.حضرت مصعب بن عمیر نے مدینے میں حضرت سعد بن خیثمہ کے گھر پہلا جمعہ پڑھایا.اس میں مدینے کے بارہ افراد شامل ہوئے.اس موقعے پر انہوں نے ایک بکری ذبح کی.حضرت مصعب بن عمیر اسلام میں پہلے شخص تھے جنہوں نے جمعے کی نماز پڑھائی.لیکن ایک روایت دوسری بھی ہے جس کے مطابق حضرت ابو امامه اسعد بن زرارہ تھے جنہوں نے مدینہ میں پہلا جمعہ پڑھایا.18

Page 416

اصحاب بدر جلد 5 400 حضرت مصعب کی تبلیغی مساعی بہر حال حضرت مصعب پہلے مبلغ تھے.حضرت مصعب " حضرت اسعد بن زرارہ کو ساتھ لے کر انصار کے مختلف محلوں میں تبلیغ کی غرض سے جاتے تھے.حضرت مصعب کی تبلیغ سے بہت سے صحابہ مسلمان ہوئے جن میں کبار صحابہ مثلاً حضرت سعد بن معاذ، حضرت عباد بن بشر ، حضرت محمد بن مسلمه ، حضرت أسيد بن محضیر وغیرہ شامل تھے.919 حضرت مصعب کی تبلیغی مساعی اور کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں بیان فرمایا ہے کہ: مکہ سے رخصت ہوتے ہوئے ان بارہ کو مسلمین نے درخواست کی کہ کوئی اسلامی معلم ہمارے ساتھ بھیجا جاوے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور ہمارے مشرک بھائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرے.آپ صلی تعلیم نے مصعب بن عمیر کو جو قبیلہ عبدالدار کے ایک نہایت مخلص نوجوان تھے ان کے ساتھ روانہ کر دیا.اسلامی مبلغ ان دنوں میں قاری یا مقر می کہلاتے تھے کیونکہ ان کا کام زیادہ تر قرآن شریف سنانا تھا کیونکہ یہی تبلیغ اسلام کا بہترین ذریعہ تھا.چنانچہ مصعب بھی یثرب میں مقری کے نام سے مشہور ہو گئے.مصعب نے مدینہ پہنچ کر اسعد بن زرارہ کے مکان پر قیام کیا جو مدینے میں سب سے پہلے مسلمان تھے اور ویسے بھی ایک نہایت مخلص اور با اثر بزرگ تھے اور اسی مکان کو اپنا تبلیغی مرکز بنایا اور ا.فرائض کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہو گئے اور چونکہ مدینہ میں مسلمانوں کو اجتماعی زندگی نصیب اور تھی بھی نسبتاً امن کی زندگی، اس لیے اسعد بن زرارہ کی تجویز پر آنحضرت صلی لی ہم نے مصعب بن عمیر کو جمعہ کی نماز کی ہدایت فرمائی.اس طرح مسلمانوں کی اشتراکی زندگی کا آغاز ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ میں گھر گھر اسلام کا چرچا ہونے لگا اور اوس و خزرج بڑی سرعت کے ساتھ مسلمان ہونے شروع ہو گئے.بعض صورتوں میں تو ایک قبیلے کا قبیلہ ایک دن میں ہی سب کا سب مسلمان ہو گیا.چنانچہ بنو عبد الْأَشْهَل کا قبیلہ بھی اسی طرح ایک ہی وقت میں اکٹھا مسلمان ہوا تھا.یہ قبیلہ انصار کے مشہور قبیلہ اوس کا ایک ممتاز حصہ تھا اور اس کے رئیس کا نام سعد بن معاذ تھا جو صرف قبیلہ بنو عبد الاشہل کے ہی رئیس اعظم نہ تھے بلکہ تمام قبیلہ اوس کے سردار تھے.جب مدینہ میں اسلام کا چر چاہو تو سعد بن معاذ کو یہ برا معلوم ہوا اور انہوں نے اسے روکنا چاہا." اسلام لانے سے پہلے یہ سعد بن معاذ بڑے مخالف تھے." مگر اسعد بن زرارہ سے ان کی بہت قریب کی رشتہ داری تھی یعنی وہ ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی تھے اور اسعد مسلمان ہو چکے تھے.اس لیے سعد بن معاذ خود براہ راست دخل دیتے ہوئے رکتے تھے کہ کوئی بد مزگی پیدا نہ ہو جائے.لہذا انہوں نے اپنے ایک دوسرے رشتہ دار اُسید بن الحضیر سے کہا کہ اسعد بن زرارہ کی وجہ سے مجھے تو کچھ حجاب ہے." مسلمان ہو گیا ہے اور اس کے ہاں تبلیغ کا ساتھ بھی دے رہا ہے." مگر تم جاکر مصعب کو روک دو." بجائے اسعد بن زرارہ کو

Page 417

اصحاب بدر جلد 5 401 روکنے کے حضرت مصعب کو روک دو کہ ہمارے لوگوں میں یہ بے دینی نہ پھیلائیں اور اسعد سے بھی کہہ دو کہ یہ طریق اچھا نہیں ہے.اُسید قبیلہ عبد الاشہل کے ممتاز رؤساء میں سے تھے.حتی کہ ان کا والد جنگ بعاث میں تمام اوس کا سر دار رہ چکا تھا اور سعد بن معاذ کے بعد اسید بن الحضیر کا بھی اپنے قبیلہ پر بہت اثر تھا.چنانچہ سعد کے کہنے پر وہ مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ کے پاس گئے اور مصعب سے مخاطب ہو کر غصہ کے لہجے میں کہا.تم کیوں ہمارے آدمیوں کو بے دین کرتے پھرتے ہو ؟ اس سے باز آجاؤ ورنہ اچھا نہ ہو گا.پیشتر اس کے کہ مصعب کچھ جواب دیتے اسعد نے آہستگی سے مصعب سے کہا کہ یہ اپنے قبیلہ کے ایک با اثر رکیں ہیں.ان سے بہت نرمی اور محبت سے بات کرنا.چنانچہ مصعب نے ڑے ادب اور محبت کے رنگ میں اسید سے کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں بلکہ مہربانی فرما کر تھوڑی دیر تشریف رکھیں اور ٹھنڈے دل سے ہماری بات سن لیں اور اس کے بعد کوئی رائے قائم کریں.اُسید اس بات کو معقول سمجھ کر بیٹھ گئے."سعید فطرت تھے ، " اور مصعب نے انہیں قرآن شریف سنایا اور بڑی محبت کے پیرایہ میں اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا.اُسید پر اتنا اثر ہوا کہ وہیں مسلمان ہو گئے اور پھر کہنے لگے کہ میرے پیچھے ایک ایسا شخص ہے کہ جو اگر ایمان لے آیا تو ہمارا سارا قبیلہ مسلمان ہو جائے گا.تم ٹھہرو میں اسے ابھی یہاں بھیجتا ہوں.سعد بن معاذ کا قبول اسلام یہ کہہ کر اسید اٹھ کر چلے گئے اور کسی بہانہ سے سعد بن معاذ کو مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ کی طرف بھجوا دیا.سعد بن معاذ آئے اور بڑے غضبناک ہو کر اسعد بن زرارہ سے کہنے لگے کہ دیکھو اسعد تم اپنی قرابت داری کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہو اور یہ ٹھیک نہیں ہے." ابھی میں رشتہ داری کی وجہ سے چپ ہوں لیکن ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ." اس پر مصعب نے اسی طرح نرمی اور محبت کے ساتھ ان کو ٹھنڈا کیا." جیسے پہلے کو کیا تھا اور کہا کہ آپ ذرا تھوڑی دیر تشریف رکھ کر میری بات سن لیں اور پھر اگر اس میں کوئی چیز قابل اعتراض ہو تو (بے شک ) رد کر دیں.سعد نے کہا.ہاں یہ مطالبہ تو معقول ہے اور اپنا نیزہ ٹیک کر بیٹھ گئے اور مصعب نے اسی طرح پہلے قرآن شریف کی تلاوت کی اور پھر اپنے دلکش ، رنگ میں اسلامی اصول کی تشریح کی.ابھی زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یہ بت بھی رام تھا." یعنی سعد بن معاذ جو تھے وہ بھی یہ باتیں سن کے رام ہو گئے." چنانچہ سعد نے مسنون طریق پر غسل کر کے کلمہ شہادت پڑھ دیا اور پھر اس کے بعد سعد بن معاذ اور اسید بن الحضیر دونوں مل کر اپنے قبیلہ والوں کی طرف گئے اور سعد نے ان سے مخصوص عربی انداز میں پوچھا کہ اے بنی عبد الاشہل ! تم مجھے کیسا جانتے ہو ؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ ہمارے سردار اور سردار ابن سر دار ہیں اور آپ کی بات پر ہمیں کامل اعتماد ہے.سعد نے کہا تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں جب تک تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لاؤ.اس کے بعد سعد نے انہیں اسلام کے اصول سمجھائے اور ابھی اس دن پر شام نہیں آئی تھی

Page 418

رض رض 402 اصحاب بدر جلد 5 کہ تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا اور سعد اور اسید نے خود اپنے ہاتھ سے اپنی قوم کے بت نکال کر توڑے.سعد بن معاذ اور اسید بن الحضیر جو اس دن مسلمان ہوئے دونوں چوٹی کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اور انصار میں تو " حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ " انصار میں تو لاریب ان کا بہت ہی بلند پایہ تھا." کوئی شک نہیں اس میں، بہت بلند تھے."بالخصوص سعد بن معاذ کو تو انصار مدینہ میں وہ پوزیشن حاصل ہوئی جو مہاجرین مکہ میں حضرت ابو بکر کو حاصل تھی.یہ نوجوان نہایت درجه مخلص، نهایت درجه وفادار اور اسلام اور بانی اسلام کا ایک نہایت جاں نثار عاشق نکلا اور چونکہ وہ اپنے قبیلہ کارئیس اعظم بھی تھا اور نہایت ذہین تھا اسلام میں اسے وہ پوزیشن حاصل ہوئی جو صرف خاص بلکہ آخض صحابہ کو حاصل تھی اور " حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ " اور لاریب.اس کی جوانی کی موت پر آنحضرت صلیم کا یہ ارشاد کہ سعد کی موت پر تو رحمن کا عرش بھی حرکت میں آگیا ہے.ایک گہری صداقت پر مبنی تھا.غرض اس طرح سرعت کے ساتھ اوس و خزرج میں اسلام پھیلتا گیا.یہود خوف بھری آنکھوں کے ساتھ یہ نظارے دیکھتے تھے اور دل ہی دل میں یہ کہتے تھے کہ خدا جانے کیا ہونے والا ہے."920 رض حضرت مصعب کی تبلیغ سے بہت سے افراد مسلمان ہوئے.آپ سن تیرہ نبوی میں حج کے موقعے پر مدینے سے ستر انصار کا وفد لے کر مکہ روانہ ہوئے.اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں، مختلف روایتوں سے لے کر ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ : " اگلے سال یعنی تیرہ نبوی کے ماہ ذی الحجہ میں حج کے موقعہ پر اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکہ میں آئے.ان میں ستر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے اور یا اب مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللی کام سے ملنے کے لیے مکہ آئے تھے.مصعب بن عمیر بھی ان کے ساتھ تھے.مصعب کی ماں زندہ تھی اور گو مشرکہ تھی مگر ان سے بہت محبت کرتی تھی.جب اسے ان کے آنے کی خبر ملی تو اس نے ان کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ سے آکر مل جاؤ پھر کہیں دوسری جگہ جانا.مصعب نے جواب دیا کہ میں ابھی تک رسول اللہ صلی الی یم سے نہیں ملا.آپ سے مل کر پھر تمہارے پاس آؤں گا.چنانچہ وہ آنحضرت صلی علیم کے پاس حاضر ہوئے.آپ سے مل کر اور ضروری حالات عرض کر کے پھر اپنی ماں کے پاس گئے." یہ بات سن کے ، یہ دیکھ کر کہ پہلے مجھے ملنے نہیں آئے " وہ بہت جلی بھی بیٹھی تھی.ان کو دیکھ کر بہت روئی اور بڑا شکوہ کیا.مصعب نے کہا ماں! میں تم سے ایک بڑی اچھی بات کہتا ہوں جو تمہارے واسطے بہت ہی مفید ہے اور سارے جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے.اس نے کہا وہ کیا ہے ؟ مصعب نے آہستہ سے جواب دیا.بس یہی کہ بت پرستی ترک کر کے مسلمان ہو جاؤ اور آنحضرت صلی علی ایم پر ایمان لے آؤ.وہ پکی مشرکہ تھی سنتے ہی شور مچادیا کہ مجھے ستاروں کی قسم ہے میں تمہارے دین میں کبھی داخل نہ ہوں گی اور اپنے رشتہ داروں کو اشارہ کیا کہ مُصعب کو پکڑ کر قید کر لیں مگر وہ بھاگ کر نکل گئے.92111

Page 419

اصحاب بدر جلد 5 مدینہ میں حضرت مصعب کی خدمات 403 حضرت مصعب بن عمیر کے متعلق حضرت مصلح موعود نے یہ ذکر کرتے ہوئے کہ مدینے کے مبلغ کے طور پر ان کو بھیجا گیا تھا اور ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ "رسول اللہ صلی الم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بار بار خبر دی جارہی تھی کہ تمہارے لیے ہجرت کا وقت آ رہا ہے اور آپ پر یہ بھی کھل چکا تھا کہ آپ کی ہجرت کا مقام ایک ایسا شہر ہے جس میں کنویں بھی ہیں اور کھجوروں کے باغ بھی پائے جاتے ہیں.پہلے آپ نے یمامہ کی نسبت خیال کیا کہ شاید وہ ہجرت کا مقام ہو گا مگر جلد ہی یہ خیال آپ کے دل سے نکال دیا گیا اور آپ اس انتظار میں لگ گئے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق جو شہر بھی مقدر ہے وہ اپنے آپ کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے لیے پیش کرے گا.اسی دوران میں حج کا زمانہ آگیا.عرب کے چاروں طرف سے لوگ مکہ میں حج کے لیے جمع ہونے شروع ہوئے.محمد رسول اللہ صلی للی یکم اپنی عادت کے مطابق جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے تھے ان کے پاس جا کر انہیں توحید کا وعظ سنانے لگ جاتے تھے اور خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دیتے تھے اور ظلم اور بدکاری اور فساد اور شرارت سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے.بعض لوگ آپ کی بات سنتے اور حیرت کا اظہار کر کے جد ا ہو جاتے.بعض باتیں سن رہے ہوتے تو مکہ والے آکر ان کو وہاں سے ہٹا دیتے تھے.بعض جو پہلے سے مکہ والوں کی باتیں سن چکے ہوتے وہ ہنسی اڑا کر آپ سے جدا ہو جاتے.اسی حالت میں آپ منی کی وادی میں پھر رہے تھے کہ چھ سات آدمی جو مدینہ کے باشندے تھے آپ کی نظر پڑے.آپ نے ان سے کہا کہ آپ لوگ کس قبیلہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ خزرج قبیلہ کے ساتھ.آپ نے کہا کہ وہی قبیلہ جو یہودیوں کا حلیف ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا کیا آپ لوگ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری باتیں سنیں گے ؟ ان لوگوں نے چونکہ آپ کا ذکر سنا ہوا تھا اور دل میں آپ کے دعویٰ سے کچھ دلچسپی تھی، انہوں نے آپ کی بات مان لی اور آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی باتیں سننے لگ گئے.آپ نے انہیں بتایا کہ خدا کی بادشاہت قریب آرہی ہے.بت اب دنیا سے مٹادیے جائیں گے.توحید کو دنیا میں قائم کر دیا جائے گا.نیکی اور تقویٰ پھر ایک دفعہ دنیا میں قائم ہو جائیں گے.کیا مدینہ کے لوگ اس عظیم الشان نعمت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا انہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور متاثر ہوئے اور کہا آپ کی تعلیم کو تو ہم قبول کرتے ہیں.باقی رہا یہ کہ مدینہ اسلام کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں اس کے لیے ہم اپنے وطن جا کر اپنی قوم سے بات کریں گے پھر ہم دوسرے سال اپنی قوم کا فیصلہ آپ کو بتائیں گے.یہ لوگ واپس گئے اور انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں آپ کی تعلیم کا ذکر کرناشروع کیا.اس وقت مدینہ میں دو عرب قبائل اوس اور خزرج بستے تھے اور تین یہودی قبائل یعنی بنو قریظہ اور بنو نضیر اور بنو قینقاع.اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی تھی.بنو قریظہ اور بنو نضیر اوس کے ساتھ اور بنو قینقاع خزرج کے ساتھ ملے ہوئے تھے.مدتوں کی لڑائی کے بعد ان میں یہ احساس پید اہورہا تھا کہ ہمیں

Page 420

اصحاب بدر جلد 5 404 آپس میں صلح کر لینی چاہیے.آخر با ہمی مشورے سے یہ قرار پایا کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول جو خزرج کا سردار تھا اسے سارا مدینہ اپنا بادشاہ تسلیم کرلے.یہودیوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اوس اور خزرج بائبل کی پیشگوئیاں سنتے رہتے تھے.جب یہودی اپنی مصیبتوں اور تکلیفوں کا حال بیان کرتے تو اس کے آخر میں یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ ایک نبی جو موسیٰ کا مثیل ہو گا ظاہر ہونے والا ہے.اس کا وقت قریب آرہا ہے.جب وہ آئے گا ہم پھر ایک دفعہ دنیا پر غالب ہو جائیں گے.یہود کے دشمن تباہ کر دیے جائیں گے.جب ان حاجیوں سے مدینہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی علیم کے دعوی کو سنا آپ کی سچائی ان کے دلوں میں گھر کر گئی اور انہوں نے کہا یہ تو وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کی یہودی ہمیں خبر دیا کرتے تھے.پس بہت سے نوجوان" یہ سن کر " محمد رسول اللہ صلی علیکم کی تعلیم کی سچائی سے متاثر ہوئے اور یہودیوں سے سنی ہوئی پیشگوئیاں ان کے ایمان لانے میں مؤید ہوئیں." مددگار ہو گئیں.چنانچہ اگلے سال حج کے موقع پر پھر مدینہ کے لوگ آئے.بارہ آدمی اس دفعہ مدینہ سے یہ ارادہ کر کے چلے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی علیم کے دین میں داخل ہو جائیں گے.ان میں سے دس خزرج قبیلہ کے تھے اور دو اوس کے.منی میں وہ آپ سے ملے اور انہوں نے آپ کے ہاتھ پر اس بات کا اقرار کیا کہ وہ وہ.سوائے خدا کے اور کسی کی پرستش نہیں کریں گے.وہ چوری نہیں کریں گے.وہ بدکاری نہیں کریں گے.وہ اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے.وہ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام نہیں لگائیں گے.نہ وہ خدا کے نبی کی دوسری نیک تعلیمات میں نافرمانی کریں گے.یہ لوگ واپس گئے تو انہوں نے اپنی قوم میں اور بھی زیادہ زور سے تبلیغ شروع کر دی.مدینہ کے گھروں میں سے بت نکال کر باہر پھینکے جانے لگے.بتوں کے آگے سر جھکانے والے لوگ اب گر د نیں اٹھا کر چلنے لگے.خدا کے سوا اب لوگوں کے ماتھے کسی کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہ تھے.یہودی حیران تھے کہ صدیوں کی دوستی اور صدیوں کی تبلیغ سے جو تبدیلی وہ نہ پیدا کر سکے اسلام نے وہ تبدیلی چند دنوں میں پیدا کر دی.توحید کا وعظ مدینہ والوں کے دلوں میں گھر کر تا جا تا تھا.یکے بعد دیگرے لوگ آتے اور مسلمانوں سے کہتے ہمیں اپنا دین سیکھاؤ لیکن مدینہ کے نو مسلم نہ تو خود اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف تھے اور نہ ان کی تعداد اتنی تھی کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کو اسلام کے متعلق تفصیل سے بتا سکیں.اس لیے انہوں نے مکہ میں ایک آدمی بھجوایا اور مبلغ کی درخواست کی اور رسول اللہ صلی علی نکم نے مُصْعَب نامی ایک صحابی کو جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے مدینہ میں تبلیغ اسلام کے لیے بھجوایا.مُصْعَب تمہ سے باہر پہلا اسلامی مبلغ تھا."922 ایک اور جگہ اس امر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ: "جب مدینہ والوں کو اسلام کی خبر ہوئی اور ایک حج کے موقعہ پر کچھ اہل مدینہ رسول کریم صلی الی کلیم سے ملے اور آپ کی صداقت کے قائل ہو گئے تو انہوں نے واپس جا کر اپنی قوم سے ذکر کیا کہ جس رسول کی آمد کا

Page 421

405 اصحاب بدر جلد 5 مدینہ میں رہنے والے یہودی ذکر کیا کرتے تھے وہ مکہ میں پیدا ہو گیا ہے اس پر ان کے دلوں میں رسول کریم کی طرف رغبت پیدا ہو گئی اور انہوں نے دوسرے حج پر ایک وفد بنا کر آپ کی طرف بھجوایا اس وفد نے جب آپ سے تبادلہ خیالات کیا تو آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی بیعت کرلی.چونکہ اس وقت مکہ میں آپ کی شدید مخالفت تھی یہ ملاقات ایک وادی میں مکہ والوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوئی اور وہیں بیعت بھی ہوئی.اس لیے اسے بیعت عقبہ کہتے ہیں." عقبہ کا مطلب ہے کہ دشوار گزار گھائی یا پہاڑی، دشوار گزار پہاڑی راستہ.تو رسول کریم صلی علیم نے ان لوگوں کو مدینہ کے مومنوں کی تنظیم کے لیے افسر مقرر کیا اور اسلام کی اشاعت کی تاکید کی اور ان کی امداد کے لیے اپنے ایک نوجوان صحابی مُضعَب ابن عمیر کو بھجوایا تا کہ وہ وہاں کے مسلمانوں کو دین سکھائیں.یہ لوگ جاتے ہوئے آنحضرت صلی الیکم کو یہ دعوت بھی دے گئے کہ اگر مکہ چھوڑنا پڑے تو آپ مدینہ تشریف لے چلیں.جب یہ لوگ واپس گئے تو تھوڑے ہی عرصہ میں مدینے کے لوگوں میں اسلام پھیل گیا اور رسول کریم ملی لی ہم نے کچھ اور صحابہ کو مدینہ بھجوا دیا جن میں حضرت عمررؓ بھی تھے.اس کے بعد ہجرت کا حکم ملنے پر آپ خود وہاں تشریف لے گئے اور آپ کے جاتے ہی بہت تھوڑے عرصہ میں وہ سب اہل مدینہ جو مشرک تھے مسلمان ہو گئے.' 923 ہجرت مدینہ کے بعد رسول اللہ صلی ال ولم نے حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت ابو ایوب انصاری کے درمیان مواخات قائم فرمائی.924 غزوہ احد میں مسلمانوں کے علمبر دار حضرت مصعب بن عمیر غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے.غزوہ بدر اور احد میں مہاجرین کا بڑا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر کے پاس تھا.غزوہ بدر میں مہاجرین کا بڑا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر کے پاس تھا جو رسول اللہ صلی علیہم نے آپ کو دیا تھا.925 پھر دوسری روایت اس طرح ہے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں لکھی ہے کہ غزوہ احد میں بھی مہاجرین کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر کے پاس تھا." آپ نے لشکر اسلامی کی "، رسول کریم صلی الیم نے لشکر اسلامی کی صف بندی کی اور مختلف دستوں کے جداجدا امیر مقرر فرمائے.اس موقعہ پر آپ کو ایہ اطلاع دی گئی کہ لشکر قریش کا جھنڈ اطلحہ کے ہاتھ میں ہو.طلحہ اس خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو قریش کے مورث اعلیٰ قصیٰ بن کلاب کے قائم کردہ انتظام کے ماتحت جنگوں میں قریش کی علمبر داری کا حق رکھتا تھا.یہ معلوم کر کے " جب یہ پتا لگا تو " آپ نے فرمایا.ہم قومی وفاداری دکھانے کے زیادہ حق دار ہیں.چنانچہ آپ نے حضرت علی سے مہاجرین کا جھنڈا لے کر مصعب بن عمیر کے سپر د فرما دیا جو اسی خاندان کے ایک فرد تھے جس سے طلحہ تعلق رکھتا تھا." حضرت مصعب بن عمیر غزوہ احد میں شہید ہوئے.غزوۂ احد کے روز حضرت مصعب بن عمیر 92611

Page 422

اصحاب بدر جلد 5 406 رسول اللہ صلی علیکم کے آگے لڑ رہے تھے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے.آپ کو ابن قمیقہ نے شہید کیا.جھنڈے کی حفاظت کا حق خوب ادا کیا 927 تاریخ میں آتا ہے کہ غزوہ احد کے علمبر دار حضرت مصعب بن عمیر نے جھنڈے کی حفاظت کا حق خوب ادا کیا.غزوۂ احد کے روز حضرت مصعب جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے کہ ابن قیمہ نے جو گھوڑے پر سوار تھا حملہ آور ہو کر حضرت مصعب کے دائیں بازو پر جس سے آپ نے جھنڈا تھام رکھا تھا تلوار سے وار کیا اور اسے کاٹ دیا.اس پر حضرت مُصْعَب " یہ آیت تلاوت کرنے لگے کہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ.اور جھنڈا بائیں ہاتھ سے تھام لیا.ابن قیمہ نے بائیں ہاتھ پر وار کر کے اسے بھی کاٹ ڈالا تو آپ نے دونوں بازوؤں سے اسلامی جھنڈے کو اپنے سینے سے لگالیا.اس کے بعد ابن قميقة نے تیسری مرتبہ نیزے سے حملہ کیا اور حضرت مصعب کے سینے میں گاڑ دیا.نیزہ ٹوٹ گیا.حضرت مُصْعَب گر پڑے.اس پر بنو عبد الدار میں سے دو آدمی سُوَيبط بن سعد بن حَرُمَله اور ابو ر وم بن عمیر آگے بڑھے اور جھنڈے کو ابو رُوم بن عمیر نے تھام لیا اور وہ انہی کے ہاتھ میں رہا یہاں تک کہ مسلمان واپس ہوئے اور مدینہ میں داخل ہو گئے.شہادت کے وقت حضرت مصعب کی عمر چالیس سال یا اس سے کچھ زائد تھی.928 929 رض جھنڈے کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں اس طرح لکھا ہے کہ : " قریش کے لشکر نے قریباً چاروں طرف گھیر اڈال رکھا تھا اور اپنے پے در پے حملوں سے ہر آن دباتا چلا آتا تھا اس پر بھی مسلمان شاید تھوڑی دیر بعد سنبھل جاتے مگر غضب یہ ہوا کہ قریش کے ایک بہادر سپاہی عبد اللہ بن قينة نے مسلمانوں کے علمبر دار مصعب بن عمیر پر حملہ کیا اور اپنی تلوار کے وار سے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ گرایا.مُصْعَب نے فور دوسرے ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا اور ابن قمیئہ کے مقابلہ کے لیے آگے بڑھے مگر اس نے دوسرے وار میں ان کا دوسرا ہاتھ بھی قلم کر دیا.اس پر مُصعب نے اپنے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں کو جوڑ کر گرتے ہوئے اسلامی جھنڈے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اسے چھاتی سے چمٹا لیا.جس پر ابن قمیئہ نے ان پر تیسر اوار کیا اور اب کی دفعہ مُضعَب شہید ہو کر گر گئے.جھنڈ ا تو کسی دوسرے مسلمان نے فوراً آگے بڑھ کر تھام لیا مگر چونکہ مُصْعَب ماڈیل ڈول آنحضرت صلی للی کنم سے ملتا تھا ابن قمیہ نے سمجھا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار لیا ہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی طرف سے یہ تجویز محض شرارت اور دھوکا دہی کے خیال سے ہو.بہر حال اس نے مصعب کے شہید ہو کر گرنے پر شور مچادیا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار لیا ہے.اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے اور ان کی جمعیت بالکل منتشر ہو گئی.930

Page 423

اصحاب بدر جلد 5 407 ان کی زیارت کر لو اور ان پر سلام جنگ احد میں مسلمانوں کا جو حوصلہ تھا اس کے پست ہونے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہوئی تھی لیکن بہر حال بعد میں اکٹھے بھی ہو گئے.رسول اللہ صلی علی کل جب حضرت مصعب کی نعش کے پاس پہنچے تو ان کی نعش چہرے کے بل پڑی تھی.نبی کریم صلی للہ ہم نے اس کے پاس کھڑے ہو کر یہ آیت تلاوت فرمائی کہ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا - (الاحزاب :24) کہ مومنوں میں سے ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا.پس ان میں سے وہ بھی ہے جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہے جو ابھی انتظار کر رہا ہے اور انہوں نے ہر گز اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی.اس کے بعد نبی کریم صلی تعلیم نے فرمایا.إِنَّ رَسُولَ اللهِ يَشْهَدُ أَنَّكُمُ الشُّهَدَاء عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ- کہ خدا کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بھی اللہ کے ہاں شہداء ہو.پھر آپ صلی علیہم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ان کی زیارت کر لو اور ان پر سلام بھیجو.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روز قیامت تک جو بھی ان پر سلام کرے گا یہ اس کے سلام کا جواب دیں گے.حضرت مصعب کے بھائی حضرت ابورُوم بن محمیر حضرت سُوَیبط بن سعد اور حضرت عامر بن ربیعہ نے حضرت مُصْعَب لو قبر میں اتارا.931 شہید ہوئے تو ان کے پاس اتنا کپڑا بھی نہیں تھا کہ...الله سة سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ : " احد کے شہداء میں ایک صاحب مصعب بن عمیر تھے.یہ وہ سب سے پہلے مہاجر تھے جو مدینہ میں اسلام کے مبلغ بن کر آئے تھے.زمانہ جاہلیت میں مُصْعَب " مکہ کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ خوش پوش اور بانکے سمجھے جاتے تھے اور بڑے ناز و نعمت میں رہتے تھے.اسلام لانے کے بعد ان کی حالت بالکل بدل گئی.چنانچہ روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی علیہم نے ایک دفعہ ان کے بدن پر ایک کپڑا دیکھا جس پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے.آپ کو ان کا وہ پہلا زمانہ یاد آ گیا تو آپ چشم پر آب ہو گئے.احد میں جب مُصْعَب شہید ہوئے تو ان کے پاس اتنا کپڑا بھی نہیں تھا کہ جس سے ان کے بدن کو چھپایا جا سکتا.پاؤں ڈھانکتے تھے تو سر ننگا ہو جاتا تھا اور سر ڈھانکتے تھے تو پاؤں کھل جاتے تھے.چنانچہ آنحضرت صلی علیم کے حکم سے سر کو کپڑے سے ڈھانک کر پاؤں کو گھاس سے چھپا دیا گیا." پھر وہ رونے لگے یہاں تک کہ کھانا چھوڑ دیا صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سامنے افطار کے وقت کھانالا یا گیا اور وہ روزے سے تھے.کہنے لگے کہ مصعب بن عمیر شہید ہوئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے.وہ ایک ہی 93211 رض

Page 424

اصحاب بدر جلد 5 408 چادر میں کفنائے گئے.اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تو ان کے پاؤں کھل جاتے.اگر پاؤں ڈھانپے جاتے تو ان کا سر کھل جاتا.راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ بھی کہا کہ حمزہ شہید ہوئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے.پھر ان کے بعد وہ کہنے لگے ہمیں دنیا کی وہ کشائش ہوئی جو ہوئی یا یوں کہا کہ ہمیں دنیا سے وہ کچھ دیا گیا جو دیا گیا اور ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ جلدی ہی نہ مل گیا ہو.پھر وہ رونے لگے یہاں تک کہ کھانا چھوڑ دیا.933 اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اور اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کا سلوک ان کے سامنے آگیا جس کی وجہ سے وہ جذباتی ہو گئے کہ ایسی کشائش ہمیں مل گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہیں بدلہ نہ دے دیا ہو یہ نہ ہو کہ وہاں جا کے ہمیں کچھ نہ ملے.حضرت خباب بن ارت روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی علیم کے ساتھ وطن چھوڑا.اللہ تعالیٰ ہی کی رضامندی ہم چاہتے تھے اور ہمارا بد لہ اللہ کے ذمہ ہو گیا.ہم میں سے ایسے بھی ہیں جو مر گئے اور انہوں نے اپنے بدلے سے کچھ نہیں کھایا.انہی میں سے حضرت مصعب بن عمیر بھی ہیں اور ہم میں ایسے بھی ہیں جن کا میوہ پک گیا اور وہ اس میوے کو چن رہے ہیں.حضرت مصعب احد کے دن شہید ہوئے اور ہمیں صرف ایک ہی چادر ملی جس سے ہم ان کو کفناتے.جب ہم اس سے ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور اگر ان کے پاؤں ڈھانپتے تو ان کا سر کھل جاتا تو نبی صلی یکم نے ہمیں فرمایا.ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں.14 934 نبی صلی الل روم کے نقباء میں سے ایک ترمذی کی ایک روایت ہے حضرت علی بن ابو طالب روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلیا ہم نے فرمایا.ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے سات نجیب رفیق عنایت فرمائے ہیں یا فرمایا کہ نقباء عنایت فرمائے ہیں اور مجھے چودہ عطا کیے گئے ہیں تو ہم نے عرض کیا وہ کون سے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں اور میرے دونوں بیٹے، 935 جعفر اور حمزہ، ابو بکر، عمر، مصعب بن عمیر ، بلال، سلمان، مقداد، ابوذر، عمار اور عبد اللہ بن مسعود 5 حضرت عامر بن ربیعہ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ حضرت مصعب بن عمیر جب ایمان لائے اس وقت سے غزوہ احد میں شہید ہونے تک میرے دوست اور ساتھی رہے.وہ ہمارے ساتھ دونوں ہجرتوں میں حبشہ گئے.مہاجرین میں وہ میرے رفیق تھے.میں نے ایسا آدمی سکبھی نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ خوش اخلاق ہو اور ان سے کم جس سے اختلاف ہو.6 رسول الله صلى ال م جب غزوہ احد کے بعد مدینہ لوٹے تو آپ کو حضرت مصعب بن عمیر کی بیوی حضرت حمنہ بنت بخش ملیں.لوگوں نے انہیں ان کے بھائی حضرت عبد اللہ بن جحش کی شہادت کی خبر دی.اس پر انہوں نے اِنَّا لِلَّهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رجِعُونَ پڑھا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی.پھر لوگوں نے 936

Page 425

اصحاب بدر جلد 5 937 409 انہیں ان کے ماموں حضرت حمزہ کی شہادت کی خبر دی.اس پر انہوں نے اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ پڑھا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی.پھر لوگوں نے انہیں ان کے خاوند حضرت مصعب بن عمیر کی شہادت کی اطلاع دی.اس پر وہ رونے لگیں اور بے چین ہو گئیں.اس پر رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا کہ عورت کے لیے اس کے خاوند کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہوتا ہے.ایک دوسری روایت میں حضرت حمنہ بنت جحش کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ تمہارا بھائی شہید کر دیا گیا ہے تو انہوں نے کہا اللہ اس پر رحم کرے اور کہا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ لوگوں نے کہا تمہارے خاوند بھی شہید کر دیے گئے ہیں وہ کہنے لگیں ہائے افسوس ! اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ عورت کو خاوند سے ایسا تعلق ہے جو کسی اور سے نہیں.938 یہ واقعہ ایک خطاب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اپنے انداز میں بھی بیان فرمایا ہے جس میں حضرت مصعب بن عمیر کی شہادت کا واقعہ اور ان کی شہادت پر ان کی بیوی کے جو جذبات تھے ان کا ذکر فرمایا ہے.اس طرح آپ فرماتے ہیں کہ وہ صحابہ یا صحابیات جن کے اقرباء کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ان کو ٹھہر ٹھہر کر اس انداز میں خبر دیتے کہ صدمہ یکلخت دل کو مغلوب نہ کر لے.چنانچہ جس وقت حضور کی خدمت میں حضرت عبد اللہ کی بہن حمنہ بنت جحش حاضر ہوئیں تو آپ نے فرمایا اے حمنہ !تو صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ.انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کس کے ثواب کی؟ آپ نے فرمایا اپنے ماموں حمزہ کی.تب حضرت حمنہ نے کہا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ غَفَرَ لَهُ وَرَحِمَهُ هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةَ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اے حمنہ ! صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ.اس نے عرض کی کہ یہ کس کے ثواب کی.آپ نے فرمایا اپنے بھائی عبد اللہ کی.اس پر حمنہ نے پھر یہی کہا کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ غَفَرَ لَهُ وَرَحِمَهُ هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةَ پھر آپ نے فرمایا اے حمنہ ! صبر کر اور خد ا سے ثواب کی امید رکھ.انہوں نے عرض کیا حضور یہ کس کے لیے؟ فرمایا مصعب بن عمیر کے لیے.اس پر حمنہ نے کہا ہائے افسوس ! یہ سن کر حضور صلی علی یم نے فرمایا کہ واقعی شوہر کا بیوی پر بڑا حق ہے کہ کسی اور کا نہیں.اس سے پوچھا مگر تو نے ایسا کلمہ کیوں کہا.اس پر انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! مجھے اس کے بچوں کی یتیمی یاد آگئی تھی جس سے میں پریشان ہو گئی اور پریشانی کی حالت میں یہ کلمہ میرے منہ سے نکل گیا.یہ سن کر حضور صلی الیکم نے مصعب کی اولاد کے حق میں یہ دعا کی کہ اے اللہ ! ان کے سر پرست اور بزرگ ان پر شفقت اور مہربانی کریں اور ان کے ساتھ سلوک سے پیش آویں.9 اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ یہ اچھا سلوک رکھا.آنحضرت صلی علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی.940 939

Page 426

410 284 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب رض حضرت مظهر بن رافع اپنے بھائی کے ہمراہ بدر میں شریک 941 حضرت مظهر بن رافع.حضرت مظہر کے والد کا نام رافع بن عدی تھا.حضرت مظہر کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو حارثہ بن حارث سے تھا.حضرت مُظهر اور حضرت ظهير “ دونوں سگے بھائی تھے.یہ دونوں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ کے چچا تھے.حضرت رافع جو کمر عمری کی وجہ سے بدر میں شامل نہ کئے گئے یعنی حضرت رافع بن حدِ نج کا بھی ذکر آتا ہے جو بدری صحابی تو نہیں تھے لیکن ان کا بھی تاریخ میں ایک مقام ہے، ان کے یہ چچا تھے یعنی بھتیجے کا نام بھی رافع تھا اور باپ کا نام بھی.حضرت رافع کے بارے میں مختصر یہ بتادوں کہ یہ وہ صحابی تھے جنہوں نے غزوہ بدر میں جانے کے لیے خود کو پیش کیا لیکن رسول اللہ صلی الم نے کم عمری کی وجہ سے واپس بھیج دیا تھا اور اُحد کے دن ان کو شامل ہونے کی اجازت دے دی تھی.الله قیامت کے دن میں تمہارے لئے شہادت دوں گا حضرت رافع غزوہ احد اور خندق اور دیگر غزوات میں شریک ہوئے تھے.احد کے دن ایک تیر ان کی ہنسلی کی ہڈی میں لگا تھا.تیر تو نکال لیا گیا تھا لیکن اس کا اگلا حصہ ان کی وفات تک جسم کے اندر ہی رہا اور رسول اللہ صلی علیم نے حضرت رافع سے فرمایا کہ قیامت کے دن میں تمہارے لیے شہادت دوں گا.ان کی وفات عبد الملک بن مروان کے دورِ حکومت میں 74 ہجری میں 86 سال کی عمر میں ہوئی تھی.942 یہ تو ان کے بھتیجے کا ذکر تھا.اپنے بھائی کے ساتھ بدر میں شریک حضرت ظهیر کے بارے میں بتاتا ہوں.امام بخاری نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ حضرت ظهیر اپنے بھائی کے ہمراہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے اور اس بھائی کا نام انہوں نے اپنی کتاب میں درج نہیں کیا.بخاری کے شارحین نے لکھا ہے کہ حضرت ظهیر کے بھائی کا نام مظہر تھا.اسی طرح سیرت ظلم پر مشتمل کتاب سبل الھدی والرشاد میں حضرت ظھیر بن رافع کے ضمن میں لکھا ہے کہ صا الله سة

Page 427

اصحاب بدر جلد 5 411 بخاری کے مطابق ان کے بھائی حضرت مظہر بھی غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے.حضرت ظھیر میں نے کہا تھا.حضرت مظہر کا ذکر ہو رہا ہے.یہ ان کے بارے میں بتارہا ہوں.صحابہ کے حالات پر مشتمل کتابیں جیسے اُسد الغابہ، الاصابۃ، الاستیعاب وغیرہ جو ہیں ان میں حضرت مظہر کے حالات کے ضمن میں ان کے غزوہ بدر میں شامل ہونے کا تذکرہ نہیں ملتا.ان تینوں کتابوں میں حضرت مظہر کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ غزوہ اُحد اور بعد کے تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ شریک ہوئے تھے.حضرت مظهر حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں فوت ہوئے.3 لیکن جو کتابیں ہیں وہ حضرت مظہر کو ثابت کرتی ہیں کہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے ، اسی پر زیادہ تر اعتماد کیا جاتا ہے.حضرت عمر کا یہود کو ان کی شرارتوں کی وجہ سے خیبر سے نکال دینا 943 يخى بن سهل بن ابو حَثْمَه بیان کرتے ہیں کہ حضرت مُظهر بن رافع حَارِثی میرے والد کے پاس ملک شام سے چند طاقتور مزدور اپنے ساتھ لے کر آئے تاکہ وہ ان کی زمینوں میں کام کر سکیں.جب یہ خیبر میں پہنچے تو وہاں تین دن قیام کیا.وہاں یہود نے ان مزدوروں کو حضرت مظہر کے قتل پر اکسانا شروع کر دیا اور دو یا تین چھریاں مخفی طور پر انہیں دے دیں.جب حضرت مظهر خیبر سے باہر نکلے اور تبار نامی جگہ پر پہنچے جو خیبر سے 6 میل کے فاصلے پر واقع ہے تو ان لوگوں نے حضرت مظہر پر حملہ کر دیا اور پیٹ چاک کر کے انہیں شہید کر دیا.پھر وہ لوگ خیبر واپس چلے گئے جس پر یہود نے انہیں زادِ راہ اور خوراک دے کر روانہ کر دیا.یہاں تک کہ وہ ملک شام واپس پہنچ گئے.جب حضرت عمر بن خطاب کو یہ خبر ملی تو فرمایا کہ میں خیبر کی طرف نکلنے والا ہوں اور وہاں موجود اموال کو تقسیم کرنے والا ہوں اور اس کی حدود کو واضح کرنے والا ہوں اور زمینوں میں حدِ فاصل لگانے والا ہوں یعنی اس کا بدلہ لیا جائے گا اور یہود کو وہاں سے جلاوطن کرنے والا ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی علیم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ میں تمہیں اس وقت تک ٹھکانہ دوں گا جب تک اللہ نے تمہیں ٹھکانہ دیا اور اللہ نے انہیں جلاوطن کرنے کی اجازت دے دی ہے.چنانچہ حضرت عمرؓ نے پھر ایسا ہی کیا.944 شہادت حضرت مظہر کی شہادت کا واقعہ 20 ہجری میں پیش آیا تھا.؟ 945

Page 428

412 285 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب و کنیت حضرت معاذ بن جبل حضرت معاذ بن جبل ".آپؐ کا نام معاذ تھا.آپ کے والد کا نام جبل بن عمر و اور والدہ کا نام ہند بنت سھل تھا جو جھینہ قبیلے کی شاخ بنو ربعة سے تھیں.حضرت معاذ بن جبل کی کنیت عبد الرحمن تھی.آپ کا تعلق خزرج قبیلے کی شاخ ادمی بن سعد بن علی سے تھا.سیر الصحابہ کے مصنف لکھتے ہیں کہ سعد بن علی کے دو بیٹے تھے سلمہ اور أُدَى سَلِمَہ کی نسل سے بنو سلمہ ہیں.اسلام کے زمانے میں اُدمی بن سعد کے خاندان میں سے صرف دو شخص باقی تھے.ایک حضرت مُعاد اور دوسرے ان کے صاحبزادے عبد الرحمن.بنو ادمی کے مکانات بنو سلمہ کے پڑوس میں واقع تھے.حضرت معاذ بن جبل "انتہائی سفید ، خوبصورت چہرے والے، چمکدار دانتوں والے ، سرمگا مگیں آنکھوں والے تھے.آپ اپنی قوم کے نوجوانوں میں سے زیادہ خوبصورت نوجوان اور زیادہ سخی تھے.أبو نعیم بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل انصار کے نوجوانوں میں سے بردباری، حیا اور سخاوت میں بہتر تھے.بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل رض حضرت معاذ بن جبل " بیعت عقبہ ثانیہ میں ستر انصار کے ہمراہ شریک ہوئے اور قبولِ اسلام کے وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال تھی.تمام غزوات میں شرکت حضرت معاذ بن جبل غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق اور بعد کے تمام غزوات میں آنحضرت صلی یکم کے ساتھ شریک ہوئے.آپؐ غزوہ بدر میں اس وقت شامل ہوئے جب آپ کی عمر میں یا اکیس سال تھی.ان کے اختیا فی بھائی یعنی ایسے بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں، حضرت عبد اللہ بن جد بھی غزوہ بدر میں شریک تھے.اُسد الغابہ کے مطابق آپ کے اخیافی بھائی کا نام سھل بن محمد بن جدّ ہے اور سہل بنو سلمہ سے تھے.اسی وجہ سے بنو سلمہ ان کو بھی اپنے قبیلے میں سے شمار کرتے تھے.جب مہاجرین مکہ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو آنحضرت صلی ا یہ کلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی مواخات حضرت معاذ بن جبل سے کروائی.

Page 429

اصحاب بدر جلد 5 413 تاریخ کی مختلف کتابوں میں بس یہی حوالہ درج ہے.اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاذ بن جبل نے بنو سلمہ کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر بنو سلمہ کے بت توڑے تھے.946 اپنے خاندان کے بت توڑنا پہلے ایک صحابی کے ذکر میں یہ واقعہ بیان ہو چکا ہے کہ وہ کس طرح اپنے خاندان کے ، گھر والوں کے بت توڑتے تھے 947 اور یہاں بھی بیان کر دیتا ہوں.حضرت عمرو بن جموح نے اپنے گھر میں ہی لکڑی کا ایک بت بنا کر اسے منات کا نام دے رکھا تھا اور اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے.بیعت عقبہ ثانیہ کے موقعے پر بنو سلیمہ کے بعض نوجوانوں نے بیعت کی.ان میں حضرت معاذ بن جبل بھی تھے.خود عمرو کے بیٹے مُعاذ نے بھی بیعت کر لی تھی اور یہ واقعہ جو میں کہہ رہاہوں یہ پہلے معاذ بن عمرو کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے.تو کہتے ہیں انہوں نے اپنے والد عمرو کو اسلام کی طرف بلانے کے لیے تدبیر کی کہ حضرت عمر و کاوہ بت جسے انہوں نے اپنے گھر میں سجار کھا تھا، رات کو اسے اٹھا کے کوڑے کا جو گڑھا تھا، ڈھیر تھاوہاں پھینک آتے تھے اور جن لڑکوں کی مدد لیا کرتے تھے ان میں حضرت معاذ بن جبل بھی شامل تھے.بہر حال ایک دن اس کوڑے میں انہوں نے اٹھا کے پھینک دیا.عمر و اسے تلاش کر کے اپنے گھر لے آئے اور کہا کہ اگر مجھے اس شخص کا پتہ چل جائے جو میرے بت کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے تو میں اسے عبرتناک سزا دوں گا.اگلے دن پھر ان نوجوانوں نے اس بت کے ساتھ وہی سلوک کیا.وہ پھر گڑھے میں الٹا پڑا تھا.وہ پھر اسے اٹھا کے لے آئے.تیسرے دن پھر اس بت کو صاف ستھرا کر کے سجا کے رکھا اور ساتھ اپنی تلوار ٹانگ دی اور بت کو مخاطب کر کے کہا کہ خدا کی قسم ! مجھے نہیں پتہ کہ کون تمہارے ساتھ یہ حرکتیں کرتا ہے لیکن اب میں تلوار بھی تمہارے ساتھ چھوڑ کے جارہا ہوں اپنی حفاظت اب خود کر لینا، تلوار اب تمہارے پاس ہے.اگلے دن پھر حضرت عمرو نے دیکھا کہ بت اپنی جگہ موجود نہیں ہے اور پھر محلے کے اسی گڑھے کے اندر ایک مُردہ کتے کے گلے میں وہ بندھا ہوا پڑامل گیا.یہ دیکھ کے وہ بہت سٹپٹائے اور سخت پریشان ہو کر سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ بت جسے میں نے خدا بنا کر رکھا ہوا ہے اس میں تو اتنی قدرت اور طاقت بھی نہیں ہے کہ تلوار پاس ہوتے ہوئے اپنے آپ کو بچا سکے ، اس نے میری کیا حفاظت کرنی ہے اور پھر اس پر مزید یہ کہ ایک مردہ کتا اس کے گلے میں پڑا ہوا ہے.پھر یہ خدا کیسے ہو سکتا ہے.بہر حال یہ بات پھر ان کو اسلام کی طرف مائل کرنے والی بنی اور اسلام قبول کرنے کا موجب بن گئی.48 آنحضرت صلی الم سے محبت و اخلاص حضرت معاذ بن جبل " کے آنحضرت صلی علیم سے محبت و اخلاص کا اس بات سے بھی اندازہ ہوتا

Page 430

اصحاب بدر جلد 5 414 رض رم ہے کہ غزوہ احد کے بعد جب نبی کریم صلی علی یکم مدینہ واپس تشریف لائے تو گریہ وزاری کی آواز گلیوں سے آرہی تھی.آپ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ انصار کی خواتین ہیں جو اپنے شہد اپر رورہی ہیں.آپ نے فرمایا حمزہ کے لیے کوئی رونے والا نہیں ہے ؟ آپ صلی یی کم نے حضرت حمزہ کے لیے بخشش کی دعا کی.جب حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت معاذ بن جبل اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے یہ سنا تو وہ اپنے اپنے محلوں میں گئے اور مدینے کی رونے والیوں اور نوحہ کرنے والیوں کو اکٹھا کر کے لائے.انہوں نے کہا کہ اب کوئی انصار کے شہدا پر نہیں روئے گا جب تک نبی صلی الم کے چا پر نہ رولو کیونکہ آپ نے فرمایا کہ مدینے میں حمزہ کے لیے رونے والا کوئی نہیں.یہ عشق تھا آنحضرت صلی علیم سے.آپ کی وجہ سے کہ آپ کو حضرت حمزہ کی تکلیف پہنچی.949 گو کہ رونا اور نوحہ کرنا منع ہے لیکن یہاں آنحضرت صلی اللہ کریم نے کچھ وقت کے لیے اجازت دی یا لوگوں کے جذبات کو دیکھ کے خود اظہار کیا کہ کاش کہ حمزہ کے لیے بھی جذبات کا اظہار ہو تا لیکن بہر حال یہ نوحہ کرنا عمومی طور پر اسلام میں منع ہے.خود آنحضرت صلی میم نے منع فرمایا ہے.فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی علی یوم حسین کی طرف تشریف لے گئے.حنین جو ہے وہ مکے کے شمال مشرق میں طائف کے قریب ایک وادی ہے تو آپ نے حضرت معاذ بن جبل کو مکے میں پیچھے چھوڑا تا کہ وہ اہل مکہ کو دین سکھائیں اور انہیں قرآن پڑھائیں.غزوہ تبوک میں شرکت 950 حضرت معاذ بن جبل نے غزوہ تبوک میں بھر پور طریقے سے حصہ لیا.الله نبی کریم صلی علیم نے جب حضرت کعب بن مالک کے بارے میں پوچھا جو اس وقت مدینہ میں ہی رہ گئے تھے تو بنو سلمہ کے ایک شخص نے آنحضرت صلی ایم کے سامنے حضرت کعب بن مالک کی برائی کی تو حضرت معاذ بن جبل نے اس شخص کو ڈانٹا اور کہا یار سول اللہ ! ہم نے تو ان میں بھلائی ہی دیکھی ہے.کوئی برائی نہیں دیکھی.951 یہ تھے اعلیٰ اخلاق کہ پیچھے کسی کی برائی نہیں کرنی.رض قرآن جمع کرنے والوں میں سے ایک قتادہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی علیم کے زمانے میں چار آدمیوں نے قرآن جمع کیا وہ سب انصار میں سے ہیں.حضرت معاذ بن جبل "، حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابوزید حضرت ابوزید حضرت انس کے چچا تھے.حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی ا ہم کو فرماتے ہوئے سنا کہ چار شخصوں سے قرآن سیکھو ابن مسعود اور ابو حذیفہ کے غلام سالم اور اُبی بن کعب رض اور معاذ بن جبل سے.953 952

Page 431

اصحاب بدر جلد 5 415 قرآن پڑھانے والے استادوں کی ایک جماعت الله سة یہ بخاری کی روایت ہے جو میں نے پہلے پڑھی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی بیان فرماتے ہیں.حضرت کعب کے ذکر میں پہلے بھی کچھ وضاحت ہوئی تھی کہ رسول اللہ صلی علیم نے قرآن پڑھانے والے استادوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی تھی جو سارا قرآن رسول اللہ صلی علیم سے حفظ کر کے آگے لوگوں کو پڑھاتے تھے.یہ چار چوٹی کے استاد تھے جن کا کام یہ تھا کہ رسول اللہ لی ایم سے قرآن پڑھیں اور لوگوں کو قرآن شریف پڑھائیں.پھر ان کے ماتحت اور بہت سے صحابہ ایسے تھے جو لو گوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے.ان چار بڑے استادوں کے نام یہ ہیں.عبد اللہ بن مسعودؓ، سالم مولی ابی حذیفہ مُعَاذ بن جبل ، أبي بن كعب.ان میں سے پہلے دو مہاجر ہیں اور دوسرے دو انصاری.کاموں کے لحاظ سے عبد اللہ بن مسعود ایک مزدور تھے ، سالم ایک آزاد شدہ غلام تھے ، مُعاذ بن جبل اور ابی بن کعب مدینے کے رؤساء میں سے تھے.گویا ہر گروہ میں سے رسول اللہ صلی الیم نے تمام گروہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قاری مقرر کر دیے تھے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی ا یکم فرمایا کرتے تھے کہ خُذُوا الْقُرآن مِنْ أَرْبَعَةٍ (مِنْ) عَبْدِ اللهِ بن مَسْعُودٍ وَ سَالِمٍ وَمُعَاذِينَ جَبَلٍ وَ أَبي بن كَعْبٍ.جن لوگوں نے قرآن پڑھنا سة ہو وہ ان چار سے قرآن پڑھیں.عبد اللہ بن مسعودؓ ، سالم ، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب سے.یہ چار تو وہ تھے جنہوں نے سارا قرآن رسول اللہ صلی علیم سے سیکھایا آپ کو سنا کر اس کی تصحیح کرالی لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے صحابہ رسول اللہ صلی علیہ کم سے براہ راست بھی کچھ نہ کچھ قرآن سیکھتے رہتے تھے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ایک لفظ کو اور طرح پڑھا تو حضرت عمر نے ان کو روکا اور کہا کہ اس طرح نہیں، اس طرح پڑھنا چاہیے.اس پر عبد اللہ بن مسعودؓ نے کہا نہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ تم نے اسی طرح سکھایا ہے.حضرت عمر ان کو پکڑ کر رسول اللہ صلی علی ایم کے پاس لے گئے اور رسول اللہ صلی علیم سے کہا کہ یہ قرآن غلط پڑھتے ہیں.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا عبد اللہ بن مسعودؓ پڑھ کے سناؤ.جب انہوں نے پڑھ کر سنایا تو رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے.حضرت عمرؓ نے کہایا رسول اللہ ! مجھے تو آپ نے یہ لفظ اور رنگ میں سکھایا ہے آپ نے فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی چار صحابہ رسول اللہ صلی العلیم سے قرآن نہیں پڑھتے تھے بلکہ دوسرے لوگ بھی پڑھتے تھے چنانچہ حضرت عمر کا یہ سوال کہ مجھے آپ نے اس طرح پڑھایا ہے بتاتا ہے کہ حضرت عمرؓ بھی رسول کریم صلی علیہ کم سے پڑھتے تھے.954 الله اور ان میں سب سے زیادہ حلال و حرام کو جاننے والے مُعاذ بن جبل نہیں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا: میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابو بکر ہیں.(میری امت میں سے میری امت پر سب سے

Page 432

اصحاب بدر جلد 5 416 زیادہ رحم کرنے والے ابو بکر ہیں) اور اللہ کے دین میں ان سب سے زیادہ مضبوط عمر نہیں اور ان میں سب سے زیادہ حیا والے عثمان ہیں اور ان میں سب سے زیادہ عمدہ فیصلہ کرنے والے علی بن ابی طالب نہیں اور ان میں سب سے زیادہ اللہ کی کتاب قرآن کو جاننے والے ابی بن کعب نہیں اور ان میں سب سے زیادہ حلال و حرام کو جاننے والے مُعاذ بن جبل نہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ فرائض کو جاننے والے زید بن ثابت ہیں.آپ نے فرمایا.سنو ! ہر امت کے لیے ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں.رض ย 955 رض 956 یہ روایت پہلے بھی کم و بیش اسی طرح بیان ہو چکی ہے.حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی ا ولم نے فرمایا کہ کیا ہی اچھے آدمی ہیں ابو بکر.کیا ہی اچھے آدمی ہیں عمر.کیا ہی اچھے آدمی ہیں ابو عبيدة بن الجراح ".کیا ہی اچھے آدمی ہیں اُسید بن حضیر “.اور کیا ہی اچھے آدمی ہیں ثابت بن قیس بن شماس.اور کیا ہی اچھے آدمی ہیں مُعاذ بن جبل.اور کیا ہی اچھے آدمی ہیں مُعاذ بن عمرو بن جموع.مسند احمد بن حنبل کی یہ روایت ہے.نبی کریم صلی ا ہم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اے معاذ ! میں تم سے محبت کرتا ہوں پھر حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی للی کرم نے ایک روز ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اے معاذ! میں یقینا تم سے محبت کرتا ہوں.حضرت معاذ نے آپ سے عرض کیا یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں بھی آپؐ سے محبت کرتا ہوں.آپ نے فرمایا اے معاذ! میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ ذکر کرنا اور یہ ہر گز نہ چھوڑنا کہ تم کہو کہ اللهُمَّ أَعِنِى عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ کہ اے میرے اللہ ! میری مدد فرما اپنے ذکر کے لیے اور اپنے شکر کے لیے اور اپنی عبادت کی خوبصورتی کے لیے.957 حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ نبی کریم صل وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے کے بارے میں نہ بتاؤں تو حضرت مُعاذ نے عرض کیا: کیوں نہیں، تو صلى الم نے فرمایا کہ لا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ پڑھ لیا کرو.حضرت معاذ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی لی نام سے افضل ایمان کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا.افضل ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کے لیے محبت کرو اور اللہ ہی کے لیے تم نفرت کرو در تم اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں لگائے رکھو.حضرت مُعاذ نے عرض کیا یارسول اللہ ! اور کیا ہے ؟ حضور ملی ایم نے فرمایا اور تم لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو.( تم لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو) اور ان کے لیے اس چیز کو نا پسند کرو جو تم اپنے لیے نا پسند کرتے ہو.959 رض 958 حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ حضرت معاذ نبی صلی للی نام کے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر وہ

Page 433

اصحاب بدر جلد 5 اپنے لوگوں کے پاس آتے اور انہیں نماز پڑھاتے.0 لیسی نماز پڑھانے پر ناراضنگی 417 960 پہلے مسجد نبوی میں آکے نماز پڑھتے.پھر اپنے محلے میں چلے جاتے.وہاں جا کے اپنے لوگوں کو نماز پڑھاتے.یہ بخاری کی روایت ہے.حضرت جابر سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذ نبی صلی الیکم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے.پھر آکر اپنے لوگوں کی امامت کرتے تھے.ایک رات انہوں نے نبی صلی علیم کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی پھر اپنے لوگوں کے پاس آکر ان کی امامت کی تو اس میں سورۃ بقرہ شروع کر دی.اس پر ایک آدمی الگ ہو گیا اور سلام پھیرا اور اکیلے نماز پڑھی اور جانے لگا.دیکھا کہ لمبی سورت پڑھ رہے ہیں تو سلام پھیر کے الگ ہو گیا اور آکے علیحدہ نماز پڑھ لی.اس پر لوگوں نے اسے کہا کہ اے فلاں ! کیا تو منافق ہو گیا ہے ؟ اسے برا بھلا کہا.اسے کہا تم منافق ہو گئے ہو تم نے باجماعت نماز چھوڑی ہے اور علیحدہ نماز پڑھ رہے ہو.اس پر اس نے جواب دیا.نہیں، خدا کی قسم ! میں منافق نہیں ہوں اور میں رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں جاؤں گا اور ضرور آپ کو یہ بتاؤں گا کہ میں نے یہ کیا تھا.منافقت ہوتی تو چھپ جاتا.میں تو یہ بات جا کے رسول اللہ صلی علیہ یکم کو بتاؤں گا.چنانچہ وہ شخص رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ اہم پانی لانے والے اونٹ رکھتے ہیں یعنی اونٹوں پر پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کے جاتے ہیں اور لوگوں کے گھروں میں پانی پہنچاتے ہیں تو دن بھر کام کرتے ہیں اور حضرت معاذ نے آپ کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی پھر آکر سورہ بقرہ شروع کر دی.آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر ہمارے پاس ہمارے محلے میں آئے اور نماز شروع کر دی.چنانچہ رسول اللہ صلی علیکم حضرت معاذ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اے معاذ! کیا تم آزمائش میں ڈالنے والے ہو ؟ لوگوں کو کیوں مشکل میں ڈالتے ہو ؟ یہ پڑھا کرو.اور پھر آپ نے بتایا کہ سورتوں میں کیا پڑھنا ہے.یہ پڑھا کرو.دو دفعہ کہا یہ پڑھا کرو.یہ پڑھا کرو.حضرت جابر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا وَالشَّمْسِ وَضُحَهَا اور وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشی اور سبح اسم ربك الأغلی کی تلاوت کیا کرو.یہ چار مثال کے طور پر آپ نے ان کو بیان فرمائیں.یہ صحیح مسلم کی روایت ہے.961 ع بخاری میں ایک روایت اس طرح بھی بیان ہوئی ہے.حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے تھے کہ سامنے سے ایک آدمی پانی اٹھانے والے دو اونٹ لیے آرہا تھا.رات ہو چکی تھی اور اس نے اتفاق سے حضرت معاذ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا.مسجد میں نماز ہو رہی تھی.وہ امامت کرا رہے تھے تو اس نے اپنے اونٹ بٹھا دیے اور حضرت معاذ کی طرف چلا آیا.حضرت معاذ نے سورہ بقرہ یا سورہ نساء پڑھی تو وہ نماز چھوڑ کر چلا گیا.اسے خبر پہنچی کہ حضرت معاذ نے اس بات کا بُرا منایا ہے تو وہ آدمی جو اونٹوں والا تھا وہ نبی صلی الیکم کے پاس آیا اور آپ کی تعلیم کے پاس حضرت معاذ کی شکایت کی.تو نبی علی ایم نے تین بار فرمایا اے معاذ! تم تو بہت ہی ابتلا میں ڈالنے والے ہو.کیوں لوگوں کو ابتلا میں ڈالتے ہو ؟ اتنی لمبی لمبی سورتیں پڑھ کے ابتلا میں ڈالنے والے ہو.کیوں نہ تم نے سَبْحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَالشَّمْسِ وَضُهَا وَاللَّيْلِ إِذَا

Page 434

اصحاب بدر جلد 5 962 418 يَغْشی پڑھی کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے اور کمزور اور حاجت مند بھی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں.یہ بخاری کی روایت ہے جیسا کہ میں نے کہا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نماز میں چھوٹی سورتیں پڑھنے کے متعلق آنحضرت صلی علیہ کم کی حضرت معاذ بن جبل کو نصیحت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول كريم صلى الميريم سورة الاعلى، سورة الغاشیہ ، سورۃ الفجر اور اسی قسم کی بعض اور سورتوں کو عام طور پر فرض نمازوں میں پڑھنا زیادہ پسند فرمایا کرتے تھے.نسائی نے جابر سے روایت کی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک آدمی ان کے ساتھ پیچھے سے آکر شامل ہوا.حضرت معاذ نے نماز لمبی شروع کر دی.بعض روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے سورہ آل عمران یا سورہ نساء کی تلاوت شروع کر دی تھی.جب نماز لمبی ہو گئی تو اس نے اپنی نماز توڑ کر ایک دوسرے کونے میں جا کر علیحدہ نماز شروع کر دی اور فارغ ہو کر چلا گیا.نماز کے بعد کسی شخص نے حضرت معاذ سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور کہا کہ آپ نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے آپ کے ساتھ نماز شروع کی مگر جب آپ نے نماز میں دیر لگادی تو وہ نماز توڑ کر علیحدہ ہو گیا اور ایک کونے میں نماز پڑھ کر چلا گیا.حضرت معاذ نے کہا وہ منافق ہو گا.پھر انہوں نے رسول کریم صلی علیم سے بھی اس واقعے کا ذکر کیا.یہاں آپ یہ بیان فرما رہے ہیں کہ حضرت معاذ نے خود ذکر کیا اور کہا یار سول اللہ ! میں نماز پڑھا رہا تھا کہ پیچھے فلاں شخص آکر شامل ہوا مگر جب نماز لمبی ہو گئی تو وہ نماز توڑ کر الگ ہو گیا اور علیحدہ نماز پڑھ کر چلا گیا.جب اس شخص کو معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی علیکم کے پاس میری شکایت کی گئی ہے تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا یارسول اللہ ! میں آیا تو یہ نماز پڑھا رہے تھے.میں ان کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا مگر انہوں نے نماز لمبی کر دی.آخر ہم کام کرنے والے آدمی ہیں.میری اونٹنی بغیر چارے کے کھڑی تھی.میں نے نماز توڑ کر مسجد کے ایک کونے میں اپنی نماز ختم کرلی اور پھر گھر جا کر اپنی اونٹنی کو چارہ ڈالا.رسول کریم صلی علیہ کی یہ سن کر حضرت معاذ پر ناراض ہوئے اور ان سے فرما یا معاذ کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو ؟ تمہیں سبح اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَالشَّمْسِ وَضُهَا وَالْفَجْرِ اور وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشی کے پڑھنے میں کیا تکلیف ہوتی تھی ؟ تم نے یہ سورتیں کیوں نہ پڑھیں اور لمبی سورتیں کیوں پڑھنا شروع کر دیں ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی ال ولیم نے ان سورتوں کو اوسط سورتوں میں قرار دیا ہے.خاص اوقات میں انسان بے شک لمبی سورتیں پڑھ لے یا تکلیف اور بیماری کی صورت میں چھوٹی سورتیں پڑھ لے لیکن اوسط سورتیں یہی ہیں جن کو عام طور پر بالجہر نمازوں میں پڑھنا چاہیے.بہر حال یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ضروری نہیں کہ یہی سورتیں پڑھی جائیں.صرف اصولی ہدایت یہ ہے کہ جب باجماعت نماز ادا ہو رہی ہو تو زیادہ لمبی سورتیں نہیں پڑھنی.لیکن اپنے حالات کے مطابق اور بعض لوگوں کو جس جس طرح سورتیں حفظ ہوتی ہیں، بعض کو چھوٹی سورتیں حفظ ہیں.امامت کے لیے اور کوئی بھی نہیں ملتا اور اسی کو نماز پڑھانی پڑتی ہے تو وہ بھی پڑھائی جاسکتی ہیں.اصولی ہدایت یہ ہے کہ باجماعت نماز میں لمبی سورتیں نہیں پڑھانی کیونکہ مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں.963

Page 435

اصحاب بدر جلد 5 419 بوڑھے بھی ہوتے ہیں، بیمار بھی ہوتے ہیں، کام کرنے والے بھی ہوتے ہیں.فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟ حضرت معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ میں سواری پر نبی کریم صلی نیلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا.میرے اور آپ کے درمیان کجاوہ کا پچھلا حصہ تھا.آپؐ نے فرمایا اے معاذ بن جبل ! میں نے کہا میں حاضر ہوں یارسول اللہ ! اور یہ میری سعادت ہے.پھر آپ تھوڑی دیر چلے اور فرمایا اے مُعاذ بن جبل ! میں نے پھر عرض کیا لبیک یارسول اللہ ! میری سعادت ہے.پھر آپ تھوڑی دیر چلے اور فرمایا اے معاذ بن جبل ! میں نے عرض کیا لبیک یارسول اللہ ! میری سعادت ہے.فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.فرمایا اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں.یعنی بندے اللہ کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں.پھر آپ کچھ دیر چلے اور فرمایا اے معاذ بن جبل ! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ ! میری سعادت ہے.فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟ پہلے تو اللہ کا حق ہے جو بندوں نے ادا کرنا ہے.اب بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے.جب وہ ایسا کریں، جب وہ بات مان لیں بندے اپنا حق ادا کر دیں تو پھر بندوں کا اللہ پر کیا حق بن جاتا ہے تو میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.آپ صلی علیہم نے فرمایا کہ وہ انہیں عذاب نہ دے.جو اس طرح اللہ تعالیٰ کی بات ماننے والے ہیں پھر یہ بندوں کا حق بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہ دے.یہ صحیح مسلم کی روایت ہے.964 حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی کریم صلی اللی کم کے ساتھ تھا.ایک دن میں آپ کے قریب ہوا اور ہم چل رہے تھے تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ مالی تم مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور مجھے آگ سے دور کر دے.اس پر آپ صلی علیم نے فرمایا: تم نے تو ایک بڑی بات پوچھی ہے.بہت بڑی بات ہے یہ.ہاں یہ بات اس کے لیے آسان ہے جس پر اللہ تعالیٰ آسان کر دے.پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو.پھر فرمایا کیا میں خیر کے دروازوں کے متعلق نہ بتاؤں.یہ بات بیان کر کے پھر آپ نے فرمایا کہ خیر کے دروازوں کے متعلق بتاتا ہوں.فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو ایسے بجھاتا ہے جیسے پانی آگ کو اور رات کے درمیان آدمی کا نماز پڑھنا یعنی تہجد پڑھنا.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: تتجافى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ - فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أَخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَةٍ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.یعنی کہ ان کے پہلو بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں جبکہ وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کی حالت میں پکار رہے ہوتے ہیں.تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَ طَمَعًا.اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں.پس کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی

Page 436

اصحاب بدر جلد 5 420 ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی جزا کے طور پر جو وہ کیا کرتے تھے.پھر فرمایا کیا میں تم کو ان سب کی بلند چوٹی اور اس کا ستون اور اس کی بلندی کا اوپر کا حصہ نہ بتاؤں.فرمایاوہ جہاد ہے.پھر فرمایا کیا میں تم کو ایسی بات نہ بتاؤں جس پر اس سب کا مدار ہے یعنی بنیاد ہے.اس کے گرد ساری چیزیں گھومتی ہیں.میں نے عرض کیا ضرور یار سول اللہ ! اس پر آپ صلی ا ہم نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا کہ اس کو روک رکھو.زبان کو پکڑ کے فرمایا اس کو روک رکھو.میں نے عرض کیا اے نبی لله علی کم کیا ہمارا مواخذہ اس پر ہو گا جو ہم اس کے ذریعے کہتے ہیں.آپ صلی میں ہم نے فرمایا تیر ابھلا ہواے مُعاذ ! لوگوں کو اوندھے منہ آگ میں نہیں گراتی مگر ان کی زبانوں کی کائی ہوئی فصلیں.965 فتاوی دینے والے صحابہ یعنی جو تم زبان سے باتیں کرتے ہو، تیز باتیں کرتے ہو.زبان سے دیے گئے زخم ایسے ہیں جو جذباتی تکلیفیں بھی پہنچاتے ہیں.جو فتنہ پیدا کرتے ہیں اور بہت ساری برائیاں جن سے پید اہوتی ہیں تو یہ چیزیں، زبان سے کہی ہوئی باتیں جب زبان بیان کر رہی ہو ، برائیاں بیان کر رہی ہو یا برائی کا ذریعہ بن رہی ہو تو پھر آپ نے فرمایا کہ وہ ان کو اوندھے منہ آگ پر گرانے والی ہوتی ہیں.اس لیے زبان کو سنبھال کے استعمال کرو اور اس سے اچھی اچھی باتیں ادا کی جائیں.حضرت کعب بن مالک کہتے تھے کہ حضرت معاذ بن جبل رسول اللہ صلی علیکم کی حیات میں اور حضرت ابو بکر کے زمانے میں مدینے میں فتویٰ دیا کرتے تھے.966 محمد بن سهل بن أَبو خَيْثَمَہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم کے زمانے میں مهاجرین کے تین آدمی اور انصار میں سے تین آدمی فتویٰ دیا کرتے تھے وہ حضرت عمر، حضرت عثمان، رض حضرت علی، حضرت ابی بن کعب، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت زید بن ثابت تھے.967 عبد الرحمن بن قاسم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق کو جب کوئی ایسا امر پیش آتا جس میں وہ اہل الرائے اور اہل فقہ کا مشورہ لینا چاہتے تو آپنے مہاجرین و انصار کے آدمیوں کو بلاتے.حضرت عمر، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت کو بلاتے.یہ سارے حضرت ابو بکر کے زمانہ خلافت میں فتویٰ دیا کرتے تھے.968 یعنی کہ افتاء کمیٹی کے یہ ممبر تھے یا ان کو آپ نے اختیار دیا تھا کہ فتوے دے دیا کرو اپنے اس علم کی بنا پر جو انہوں نے آنحضرت صلی علی نام سے سیکھا تھا.حضرت معاذ بن جبل حضرت ابو بکر کے دور میں شام چلے گئے اور وہاں بو دوباش اختیار کر لی.جس وقت حضرت معاذ بن جبل "شام روانہ ہو گئے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ان کی روانگی نے مدینہ اور

Page 437

اصحاب بدر جلد 5 421 اہل مدینہ کو فقہ میں اور جن امور میں وہ ان کو فتویٰ دیا کرتے تھے محتاج بنا دیا ہے.حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر سے عرض کیا کہ لوگوں کو ان کی ضرورت ہے، انہیں روک لیں.مگر حضرت ابو بکڑ نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ جس شخص نے ارادہ کر لیا ہو اور وہ شہادت چاہتا ہو میں اس کو نہیں روک سکتا.969 حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے کہا بخدا آدمی کو اس کے بستر پر بھی شہادت عطا کر دی جاتی ہے.خوف اور خشیت کا ایک مقام ثور بن یزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل جب رات کو نماز تہجد ادا کرتے تھے تو یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ ! آنکھیں سوئی ہوئی ہیں اور ستارے ٹمٹمار ہے ہیں.تو حتی وقیوم ہے.اے اللہ ! جنت کے لیے میری طلب ست ہے اور آگ سے میر ابھا گنا کمزور اور ضعیف ہے.اے اللہ میرے لیے اپنے ہاں ہدایت رکھ دے جسے قیامت کے روز تُو مجھے لوٹا دے.یقینا تو وعدے کے خلاف نہیں کرتا.970 کیا خوف اور خشیت کا مقام ہے.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الی یکم نے جبکہ حضرت معاذ پالان پر آپ کے پیچھے سوار تھے فرمایا اے مُعاذ بن جبل ! انہوں نے کہا یارسول اللہ ! حاضر ہوں، حضور کی خدمت میں ہوں.آپ نے فرمایا اے معاذ! انہوں نے کہا حاضر ہوں یا رسول اللہ ! آپ کی خدمت میں ہوں.فرمایا مُعاذ! انہوں نے کہا حاضر ہوں یارسول اللہ ! آپ کی خدمت میں ہوں.تین بار آپ نے پکارا.پھر فرمایا جو کوئی بھی اپنے دل کی سچائی سے یہ گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے اور محمدعلی یکم اللہ کے رسول ہیں تو اللہ ضرور اس کو آگ پر حرام کر دے گا.انہوں نے کہا یار سول اللہ کیا میں لوگوں کو اس کے متعلق خبر نہ دوں ؟ وہ خوش ہو جائیں گے.یہ باتیں لوگوں کو جا کے بتاؤں ؟ آپ نے فرمایا تب تو وہ بھروسا کر لیں گے کہ اتنی بات کہہ لی ہے اور باقی نیکیاں نہیں کریں گے، اس لیے لوگوں کو نہیں بتانا.حضرت معاذ نے مرتے وقت یہ بات بتلائی تھی کہ وہ گناہ سے بچ جائیں.یعنی کہ آنحضرت صلی للی نیم کی بتائی ہوئی بات کو آگے نہیں بتایا.971 یہ ان کا خیال تھا کہ شاید یہ بات مجھے مرتے ہوئے آگے صاحب علم لوگوں کو پہنچادینی چاہیے.پھر آپ نے بتائی لیکن اپنی زندگی یا صحت کی حالت میں نہیں بتائی.حضرت ولی اللہ شاہ صاحب نے بعض حدیثیں جو اس سے متعلقہ ہیں ان کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ پھر اس کو بھی یہاں بیان کیا ہے کہ یہاں یہ بات جو کی گئی ہے کہ کسی علمی بات کو خاص لوگوں میں محدود کرنا.کیونکہ یہ علمی بات ہے اس لیے اس کو خاص لوگوں میں محدود کرنا ہے کیونکہ عام لوگ اس کے صحیح مطلب تک نہ پہنچنے کی وجہ سے نقصان اٹھائیں گے.صرف اتنا کہہ دینا اور باقی کوئی عمل نہ کرنا.یہ نہ ہو

Page 438

اصحاب بدر جلد 5 ایسے : 422 ، بات پہنچ جائے کہ لَا اِلهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہہ دیا اور کسی عمل کی ضرورت نہیں.اب دیکھیں کہ اس کے باوجو د عملاً مسلمانوں کا یہی حال ہے کہ صرف نام کے مسلمان ہیں.کلمہ پڑھ کے سمجھتے ہیں کسی عمل کی ضرورت نہیں.پھر حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں.وہ مختلف احادیث بیان کر رہے تھے اور یہ بھی اس میں شامل تھی کہ اس حدیث نے اس قسم کی باتوں کی نوعیت واضح کر دی ہے.پھر لکھتے ہیں کہ مسلم نے بھی حضرت ابن مسعودؓ کی ایک روایت صحیح سند سے بیان کی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا لَا يَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ إِلَّا كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةٌ- ان ارشادات نبویہ کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کو ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق مخاطب کرنا چاہیے کیونکہ بعض باتیں فتنے میں مبتلا کر دیتی ہیں.بہر حال وہ پھر آگے لکھتے ہیں کہ ہم اب بھی دیکھتے ہیں کہ مومن ساز لوگوں نے کس طرح لا الہ الا اللہ کے محض زبانی اقرار کو اپنے لیے آڑ بنارکھا ہے اور شریعت کی تکلیفوں سے بنی نوع انسان کو آزاد کر کے ان کو ایمان کا سر ٹیفکیٹ دے دینا چاہتے ہیں اور صِدِّقًا مِّن قَلْبِہ یعنی اس کے ضروری لوازمات کا کچھ خیال نہیں کرتے.ہر مولوی، ہر منبر کا خطبہ دینے والا وہ سمجھتا ہے کہ جو میرے پیچھے نمازیں پڑھ رہا ہے اس نے وہی کلمہ پڑھ لیا تو سرٹیفکیٹ مل گیا.باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں.پھر آپ لکھتے ہیں کہ زبان سے اقرار کرنے والے انہی مومنوں کے ہوتے ہوئے آنحضرت صلی علیم نے فرمایا تھا کہ ایمان اس وقت نہ دلوں میں ہو گا نہ زبان پر بلکہ ثریا پر ہو گا.یہ آخری زمانے کے بارے میں ہے.جبکہ وہ لوگ موجود تھے اور یہ کلمہ پڑھنے والی بات بھی آپ نے کہی تھی.پھر آپ لکھتے ہیں کہ من لقی الله لا يُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا.یعنی جو شخص موت تک ہر قسم کے شرک سے بچتا رہے گا وہ جنت میں داخل ہو گا.آنحضرت صلی اللی کم کا حضرت معاذ کو دو تین دفعہ مخاطب کر کے خاموش ہو جانا اور پھر یہ بات بتلانا یہ اسی اصل کے مطابق ہے کہ آپ نے جستجو کے متعلق احساس اور خواہش کو ابھارا ہے.دو تین دفعہ جب انہوں نے کہا حاضر ہوں، حاضر ہوں، لبیک تو توجہ پیدا ہوئی، شوق پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی ا ظلم کیا فرمانا چاہتے ہیں.جب جوش اور ایک خالص توجہ پیدا ہو گئی تو پھر آپ نے ان کو بتایا.پھر شاہ صاحب یہ لکھتے ہیں کہ تا آپ کی بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے اور اس کا اثر نفس پر قائم رہے.یہ بات ذہن کرانے کے لیے آپ نے تین دفعہ ان کو توجہ دلائی تھی.حضرت معاذ نے بھی آنحضرت صلی علیم کے ارشاد کا پورا ادب کیا اور مرتے وقت وہ بتلایا کہ مبادا ایک نہایت ضروری بات کے نہ بتانے سے ان سے مؤاخذہ نہ ہو.972 یہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کہے کہ تمہارے علم میں ایک بات آئی اور تم نے آگے نہیں بتائی یعنی علمی بات کم از کم علم رکھنے والے لوگوں تک پہنچ جانی چاہیے.آجکل کے مسلمانوں کی حالت ویسے تو آج کل مسلمان ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، کلمہ پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ شرک سے پاک ہو گئے ہیں لیکن دل شرک سے بھرے ہوئے ہیں.انحصار دنیاوی چیزوں پر ہے.بڑے بڑے خطیب بھی

Page 439

اصحاب بدر جلد 5 423 دنیاوی چیزوں پہ انحصار کرتے ہیں.ان کی اگر اصلی حالت، حقیقت جانی جائے تو یہ جو حدیث پہلے بیان ہوئی ہے، کلمہ پڑھنے والوں پر آگ حرام ہونے کا جو ذکر ہوا ہے اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ جزا اللہ تعالیٰ نے دینی ہے اور کسی انسان کا کام نہیں ہے کہ کسی کلمہ گو، کسی مسلمان پر فتویٰ لگائے کہ کس کو ہم نے مسلمان کہنا ہے اور کس کو غیر مسلم بنانا ہے.یہ خود ساختہ فتوے قرآن کی تعلیم کے بھی خلاف ہیں.پس آج کل جو مسلمان ربیع الاول کے حوالے سے میلاد النبی سبھی منا رہے ہیں تو اصل تو یہ ہے کہ آپ معا لم کی تعلیم اور اسوے کو ہم اپنائیں.اپنے علم کے زعم میں صرف اپنے آپ کو مسلمان نہ سمجھیں بلکہ کلمہ گو کے معاملے کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑیں.یہ باتیں ہیں جو آنحضرت صلی علیم کی روح کو خوش کرنے والی ہوں گی.ان کی امت کی طرف سے خوشی پہنچانے والی ہوں گی.آپ پر درود بھیجنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر کرے کہ اس نے آنحضرت صلی ا یوم کے دین کو لاوارث نہیں چھوڑا بلکہ وعدے کے مطابق اور آپ کی پیشگوئی کے مطابق احیائے دین کے لیے مسیح موعود کو بھیجا ہے جو اس کلمہ اور شریعت کے احکام پر عمل کی حقیقت ہمیں بتانے والا ہے تاکہ حقیقت میں جہنم کی آگ ہم پر حرام ہو.اور اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کرنے والوں کو بھی عقل دے کہ اس بات کو سمجھیں.اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اسلام کی حقیقی تعلیم اور کلمہ کی حقیقت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے.تبوک کے سفر میں نبی صلی ال یکم کے بچے ہوئے پانی کی برکت حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ غزوہ تبوک کے سال نکلے.آپ نمازیں جمع کرتے تھے.آپ ظہر عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی ادا فرماتے.ایک روز آپ نے نماز میں کچھ تاخیر فرمائی.آپ باہر تشریف لائے اور ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کیں.پھر اندر تشریف لے گئے.اس کے بعد باہر تشریف لائے اور مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی ادا کیں.پھر حضور نے فرمایا کہ کل تم ان شاء اللہ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے.یہ مطلب نہیں تھا کہ چاروں نمازیں اکٹھی پڑھتے تھے.جب تک وقفہ تھوڑا ہو تا تھا تو ہو سکتا ہے کہ ظہر عصر کی نمازیں عصر کے ساتھ آخری وقت میں جمع کر لی جاتی ہوں اور مغرب عشاء کی مغرب کے پہلے وقت میں.بہر حال فرمایا کہ کل تم ان شاء اللہ تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور جب تک خوب دن نہ نکل آئے تم اس تک نہیں پہنچو گے.یعنی اندازہ لگا کے آپ نے بتایا کہ تم لوگ دن کے وقت پہنچو گے.پس تم میں سے جو اس کے پاس پہنچے اس کے پانی کو بالکل نہ چھوٹے جب تک کہ میں نہ آ جاؤں.وہاں پہنچ کے پانی نہ پینے لگ جانا.نہ چھیڑ نا اس کو جب تک میں اس پہ نہ آ جاؤں.راوی کہتے ہیں پھر ہم اس چشمہ پر پہنچے لیکن دو آدمی وہاں ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے اور چشمہ تسمہ کی طرح تھا جس سے تھوڑا تھوڑا پانی بہ رہا تھا، بڑی باریک دھار بن رہی تھی.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہم نے دونوں سے پوچھا کیا تم نے اس کے پانی کو چھوا ہے ؟ پانی کو چھیڑا تو

Page 440

424 اصحاب بدر جلد 5 نہیں ؟ ان دونوں نے کہا جی ہاں ہم نے اس میں سے پانی نکالا تھا، پیا ہے.پھر نبی کریم صلی علیہ ہم نے ان دونوں کو تنبیہ فرمائی کہ میں نے تمہیں روکا تھا تو کیوں تم نے اس کو چھوا اور جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ نے ان کو کہا.راوی کہتے ہیں پھر لوگوں نے اس چشمے سے اپنے ہاتھ کے ذریعہ سے تھوڑا تھوڑا کر کے پانی نکالا یہاں تک کہ ایک برتن میں کچھ پانی جمع ہو گیا.بالکل باریک سی دھار پانی کی آرہی تھی.راوی کہتے ہیں پھر رسول کریم صلی یکلم نے اس میں اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور چہرہ دھویا.پھر اس پانی کو اس چشمے میں واپس ڈال دیا یعنی وہیں چشمے کے اوپر بیٹھ کے دھویا.چہرہ بھی دھویا اور پانی وہیں چشمے میں گرتا جاتا تھا تو چشمہ تیزی سے بہنے لگا جب آپ نے منہ ہاتھ دھویا اور وہیں پانی ڈال دیا تو چشمہ جس کی پہلے باریک دھار بن رہی تھی تیزی سے بہنے لگا یہاں تک کہ لوگ خوب سیراب ہو گئے.پھر حضور نے فرمایا اے معاذ! اگر تیری عمر لمبی ہوئی تو تو دیکھ لے گا کہ یہ جگہ باغوں سے بھر گئی ہے.کتب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ اس وقت ہوا جبکہ نبی کریم صلی لا لم تبوک کے مقام پر ابھی پہنچے ہی تھے.سیرت ابن ہشام میں ہے کہ یہ واقعہ تبوک کے مقام سے واپسی پر ایک وادی میں ہوا 974 973 جس کا نام مشققی ہے.نبی صلی اہل علم کی برکت کے طفیل ایک وادی چشموں اور باغات سے بھر گئی یہ واقعہ حضرت امام مالک نے اپنی کتاب موطا میں بھی بیان کیا ہے.محمد بن عبد الباقی زرقانی نے اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ ابو ولید باجی کہتے ہیں کہ یہ غیب کی خبر ہے جو واقع ہو چکی ہے اور حضرت معاذ کا خاص طور پر تذکرہ آنحضرت صلی علیہ یکم نے اس لیے فرمایا کیونکہ ملک شام منتقل ہو گئے تھے اور وہاں ان کی وفات ہوئی تھی.آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہوا کہ حضرت معاذ یہ جگہ دیکھیں 975 گے اور وہ وادی آپ کی برکت کے طفیل درختوں اور باغات کا مجموعہ بن جائے گی.علامہ ابن عبد البر کہتے ہیں کہ ابنِ وَضاح کہتے ہیں کہ میں نے اس چشمہ کے ارد گرد وہ ساری جگہ دیکھی ہے.درختوں کی سرسبزی اور شادابی اس قدر تھی کہ شاید یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے اور ایسی ہی آپ کی پیشگوئی تھی.اٹلس سیرت النبوی صلی یہ کام میں لکھا ہے کہ تبوک کے محکمہ شریعہ کے رئیس نے بتایا کہ یہ چشمہ دو سال پہلے تک پونے چودہ سو سال سے مسلیل ابلتار ہا.بعد میں نشیبی علاقوں میں ٹیوب ویل کھودے گئے تو اس چشمہ کا پانی ان ٹیوب ویلز کی طرف منتقل ہو گیا، تقریباً پچیس ٹیوب ویلز میں تقسیم ہو جانے کے بعد اب یہ چشمہ خشک ہو گیا ہے.اس کے بعد وہ ہمیں ایک ٹیوب ویل کی طرف بھی لے گئے جہاں ہم نے دیکھا کہ چار انچ کا ایک پائپ لگا ہوا ہے اور کسی مشین کے بغیر اس سے پانی پورے زور سے نکل رہا ہے.قریب قریب یہی کیفیت دوسرے ٹیوب ویلز کی بھی ہمیں بتائی گئی.یہ نبی صلی اللی علم کے معجزہ ہی کی برکت ہے کہ آج تبوک میں اس کثرت سے پانی موجود ہے کہ مدینہ اور خیبر کے سوا ہمیں کہیں اتنا پانی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تبوک کا پانی ان دونوں جگہوں سے بھی زیادہ ہے.اس پانی سے فائدہ

Page 441

اصحاب بدر جلد 5 425 اٹھا کر اب تبوک میں ہر طرف باغ لگائے جارہے ہیں اور نبی صلی المینی یم کی پیشگوئی کے مطابق تبوک کا علاقہ باغوں سے بھر اہوا اور دن بدن بھر تا جا رہا ہے.حضرت معاذ کی فیاضی سة 976 حضرت معاذ بہت فیاض تھے اور خوب خرچ کرنے والے تھے جس کی وجہ سے اکثر انہیں قرض بھی لینا پڑتا تھا.جب قرض خواہوں نے زیادہ تنگ کیا تو کچھ دن گھر میں چھپ کر بیٹھے رہے تو وہ لوگ آنحضرت صلی اللی علم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت معاذ سے قرض دلوانے کی گزارش کی.صلی اللہ نیلم نے حضرت معاذ کو آدمی بھیج کر بلوایا.جب حضرت معاذ کی جائیداد سے قرض زیادہ ہو گیا تو آپ صلی لی ہم نے فرمایا کہ جو شخص اپنا حصہ نہ لے گا خدا اس پر رحم کرے گا.چنانچہ کچھ لوگوں نے اپنا نے کہ جو قرض معاف کر دیا لیکن پھر بھی کچھ لوگ قرض کا مطالبہ کرتے رہے تو آپ صلی علیم نے ساری جائیداد کو ان لوگوں میں تقسیم کر دیا لیکن ابھی بھی قرض مکمل ادانہ ہوا بلکہ یہ ہوا کہ ہر ایک کو قرض کا کچھ حصہ مل گیا.قرض خواہوں نے مزید کا تقاضا کیا کہ بقایا بھی ہمیں دیا جائے تو آنحضرت صلی ایم نے فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو.ابھی اس سے زیادہ نہیں مل سکتا.اسی مال کو لے جاؤ.جب حضرت معاذ کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہا تو رسول اللہ صلی ال یکم نے انہیں یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا نقصان پورا کرے اور تمہارا قرض ادا کرا دے.7 اس موقعے پر آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کو یہ بھی فرمایا کہ اے معاذ ! تم پر قرض بہت ہے.اگر کوئی ہدیہ لائے تو اسے قبول کر لینا.میں تمہیں اس کی اجازت دیتا ہوں.(بحوالہ میر اصحابہ جلد 5 صفحہ 146) آپ نے فرمایا: تحفے قبول کرنے کی تمہیں اجازت ہے.یعنی تحفہ قبول کرنا تو ویسے کوئی حرج نہیں.یہی کہا جاتا ہے کہ محبت بڑھتی ہے.ایک دوسرے کو تحفے دینے چاہئیں لیکن یہ کیونکہ وہاں آنحضرت صلی علیم کے نمائندہ بنا کے بھیجے گئے تھے اس لیے آپ نے خاص طور پر فرمایا کہ اس نمائندگی کی وجہ سے اگر تمہیں لوگ تحفہ دیں تو تمہیں اختیار ہے کہ وہ تحفہ تم اپنے پر خرچ کر سکتے ہو کیونکہ وہ عموماً بیت المال کے لیے یا آنحضرت صلی علی کیم کے لیے دیا جاتا تھا.977 حضرت معاذ کو یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجنا حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللی کلیم نے انہیں یمن کی طرف بھیجا تو رسول اللہ صلی علیم انہیں نصیحت کرنے کے لیے ان کے ساتھ باہر تشریف لے گئے.حضرت معاذ سواری پر بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی علیکم ان کی سواری کے ساتھ پیدل چل رہے تھے.جب آپ صلی علی یم بات مکمل کر چکے تو فرمایا اے معاذ! ممکن ہے کہ آئندہ سال تمہاری مجھ سے ملاقات نہ ہو اور یہ تبھی ممکن ہے کہ تم میری مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو.حضرت معاذ ر سول اللہ صلی علیم سے جدائی کی وجہ

Page 442

اصحاب بدر جلد 5 426 سے یہ سن کے زارو قطار رونے لگے.پھر آپ صلی للی کرم نے اپنا رخ تبدیل کیا اور مدینے کی طرف منہ 978 مبارک کر کے فرمایا: لوگوں میں سے میرے نزدیک وہ ہیں جو متقی ہیں چاہے وہ کوئی ہوں اور کہیں بھی ہوں.ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی علیم نے حضرت معاذ کو اس موقعے پر فرمایا تم عنقریب ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو اہل کتاب ہیں.جب تم ان کے پاس پہنچو تو انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں.اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو پھر انہیں یہ بتاؤ کہ اللہ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں مقرر کی ہیں اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر انہیں یہ بتاؤ کہ اللہ نے ان پر صدقہ مقرر کیا ہے جو ان کے دولتمندوں سے لیا جائے اور ان کے محتاجوں کو لوٹا دیا جائے.پھر اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو خبر دار ان کے عمدہ عمدہ مال صدقے میں نہ لینا بلکہ درمیانے درجے کا لینا اور مظلوم کی پکار سے بچنا اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں ہوتی.979 مظلوم کی آہ سے بچنے کی خاص طور پر نصیحت فرمائی کیونکہ اس کی آہ اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں ہوتی.حضرت معاذ بن جبل کو رسول اللہ صلی علیم نے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا.آپ ان لوگوں کو قرآن اور دین سکھاتے تھے.ان کے درمیان فیصلے کرتے تھے.یمن کے عاملین جو ز کوۃ اکٹھی کرتے تھے وہ حضرت معاذ بن جبل کے پاس بھجواتے تھے.رسول اللہ صلی علیم نے یمن کا انتظام پانچ صحابہ حضرت خالد بن سعید، حضرت مہاجر بن اميّه ، حضرت زیاد بن لبيد ، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری میں تقسیم فرمایا ہوا تھا.980 981 یعنی انتظامات ان پانچ کے سپر د تھے.یہ ایک روایت ہے.حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی علیم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو ارشاد فرمایا کہ ہر تئیس گائے میں زکوۃ کے طور پر ایک سالہ گائے لینا اور ہر چالیس گائے پر دو سالہ یعنی زکوۃ کی شرح بیان فرمارہے ہیں، نصاب بیان فرمارہے ہیں اور ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کی قیمت کے برابر معافیر یعنی ایک سیمنی کپڑا ہوتا ہے وہ وصول کرنا.معافیر ایک قبیلے کا نام تھا جو یہ کپڑا بناتے تھے.انہی کے نام پر اس کا نام بھی ہو گیا.یہ مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے.1) علامہ ابن سعد کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل کے پاؤں میں لنگڑاہٹ تھی.جب وہ یمن گئے تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور اپنا پاؤں پھیلا دیا یعنی ٹانگ آگے کر لی یا دائیں طرف پھیلا دی ہو گی جس طرح بھی ان کی صورت تھی تو جو بھی پاؤں خراب تھا لوگوں نے بھی اسی طرح اس طرف اپنے پاؤں پھیلا دیے.حضرت معاذ نے جب نماز پڑھالی تو کہا تم لوگوں نے اچھا کیا کہ جس طرح میں کر رہا تھا تم نے کیا

Page 443

اصحاب بدر جلد 5 983 427 982 لیکن آئندہ ایسانہ کرنا کیونکہ مجھے تکلیف ہے اس لیے میں نے نماز میں اپنا پاؤں پھیلایا تھا.مطلب یہ تھا کہ مجھے دیکھ کے تم نے اطاعت کا جو نمونہ دکھا یا وہ ہر لحاظ سے ہی قابل تعریف ہے.اطاعت اسی طرح ہونی چاہیے کہ امام کے پیچھے مکمل طور پر اس کی پیروی کی جائے لیکن میری یہ مجبوری ہے.یہ سنت نہیں ہے اور جس کو مجبوری نہیں وہ صحیح طرح نماز پڑھے.اسی طرح جس طرح حکم ہے، جس طرح سنت ہے، جس طرح ہمارے سامنے آنحضرت صلی علیہ نیم کا تعامل رہا ہے.حضرت معاذ نے یمن میں بیت المال کے پیسوں سے تجارت کی اور اس سے جو منافع ہوا اس سے اپنا قرض ادا کیا.آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے مال سے تجارت کی اور رسول اللہ صلی علیکم کی اجازت سے ہدیہ بھی قبول کرتے رہے اور یہاں تک کہ آپ کے پاس تیس راس بھیڑ بکریاں ہو گئیں.یہ اجازت جو آنحضرت صلی اللہ ہم نے انہیں دی تھی یقینا قرض کی ادائیگی کے لیے تھی اور تجارت اس حد تک تھی کہ جو منافع ہو تا تھا اس مال میں سے کچھ قرض اتارتے جاتے تھے یا منافع اگر نہیں بھی لیتے تھے تو یہ بھی ممکن ہے کہ تجارت پر جو منافع تھا اس میں اپنے کام کی اجرت کے طور پر لیتے ہوں کہ یہ میں نے اس طرح خرچ کیا.جو میرا مشورہ تھا اور جو محنت تھی اس کی یہ اجرت ہے اور اس کی اجازت آنحضرت صلی ا لم نے عطا فرمائی تھی اس لیے پھر انہوں نے یہ لے لی تا کہ قرض ادا ہو اور یہی بات قابل قبول لگتی ہے کہ منافع کی شرح میں سے اجرت لیتے ہوں یا کچھ حد تک منافع لیتے ہوں لیکن بہر حال جو بھی تھا وہ آنحضرت صلی الم کی اجازت سے تھا.آنحضرت صلی علیہ ظلم کی وفات کے بعد جب حضرت معاذ حج کرنے آئے تو وہ حضرت عمرؓ سے ملے جنہیں حضرت ابو بکر نے حج پر عامل بنایا تھا.حضرت عمررؓ اور حضرت معاذ کی يَوْمُ التروية کو ملاقات ہوئی.دونوں نے آپس میں معانقہ کیا اور ایک دوسرے سے رسول اللہ صلی اللی کم کی تعزیت کی.پھر دونوں زمین پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے.984 بیت المال کے اموال سے تجارت اور......الاستیعاب میں لکھا ہے، یہ بھی تاریخ کی ایک کتاب ہے، کہ حضرت معاذ بہت سخی تھے اور اسی سخاوت اور فیاضی کی وجہ سے یہ نوبت آگئی کہ ان کا سارا مال قرضے کی زد میں آگیا.وہ نبی کریم صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے درخواست کی کہ آپ صلی علی وام قرض خواہوں سے کہیں کہ وہ ان کا قرض معاف کر دیں.پہلے بھی یہ بیان ہوا ہے.یہ مختلف حوالے سے دوسری یا وہی بات بیان ہو رہی ہے.آپ نے ان کے قرض خواہوں سے کہا لیکن انہوں نے قرض معاف کرنے سے انکار کر دیا.پھر آگے اس نے یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی کسی کی خاطر کسی کا قرض معاف کر تا تو وہ لوگ رسول اللہ صلی علیم کی خاطر حضرت معاذ بن جبل شما قرض معاف کر دیتے.سب سے بڑا تو آنحضرت علی یی کم کا مقام تھا آپ کی خاطر ہی کوئی

Page 444

حصہ 428 اصحاب بدر جلد 5 اپنے قرض کو معاف کر سکتا تھا یامالی قربانی دے سکتا تھا.لیکن اس میں سے بھی بہت سارا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے بعض لوگوں نے معاف نہیں کیا اور یہی عرض کیا کہ یارسول اللہ ! ہم تو قرض واپس لیں گے.بہر حال رسول اللہ صلی علیم نے پھر قرض کی ادائیگی کے لیے حضرت معاذ بن جبل کی جائیداد وغیرہ سب پیچ دی اور حضرت معاذ بن جبل خالی ہاتھ رہ گئے.پھر جس سال مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی علی یم نے حضرت معاذ کو یمن کے ایک حصے کا امیر بنا کر بھیجا.یہاں بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ امیر بنا کے بھیجا تھا.اس لیے ہدیہ وغیرہ جو تھا، جو بطور امیر اُن کو ملتا تھا وہ یہی خیال کیا جاتا ہے کہ بیت المال کا ہو گا.وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کے مال میں، بیت المال کے مال میں تجارت کی.وہ وہاں رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللی علم کی وفات ہو گئی اور وہ خوشحال ہو گئے.اس عرصے میں تجارت میں ان کو فائدہ ہو تارہا اور وہ جتنا لیتے تھے ، لیتے رہے تو خو شحالی ہو گئی.پھر جب وہ واپس آئے تو حضرت عمر نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ اس شخص کو یعنی حضرت معاذ کو بلوائیں اور اس کے پاس اس کی ضرورت کا سامان چھوڑ کر اس سے وصول کر لیں.آنحضرت صلی یکم نے قرض کی ادائیگی کی اجازت دی تھی.اب قرض کی ادائیگی ہو گئی اور جو ضرورت کے لیے ایک انسان کو چیزیں چاہئیں وہ بھی ان کے پاس رہنی چاہئیں لیکن یہ جو خوشحالی ہوئی ہے یہ حضرت عمر کے خیال میں نہیں ہونی چاہیے تھی.اس لیے یہ مال چھوڑ کے باقی جو ہے وصول کر لیں.اب حضرت ابو بکر کے پاس یہ معاملہ آیا.حضرت ابو بکر کو جو آنحضرت صلی علیم سے عشق تھا ان کو یہ برداشت نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے کسی چیز کی اجازت دی ہو اور میں اس میں اس کے خلاف کوئی فیصلہ کروں تو بہر حال حضرت ابو بکر نے کہا کہ اس کو رسول اللہ صلی علی کریم نے بھیجا تھا اور میں اس سے کچھ نہیں لوں گا اور یہ کہہ کے بھیجا تھا کہ تم تجارت کر سکتے ہو اور کچھ حصہ لے سکتے ہو یہاں تک کہ وہ خود مجھے دے دیں.میں نے تو نہیں مانگنا.رسول اللہ صلی علیم کے ارشاد پہ گئے تھے اور یہ اجازت سے جو بھی ہدیہ اور باقی چیزیں لیتے تھے تو سوائے اس کے کہ مجھے خود دے دیں میں نے نہیں کہنا.حضرت عمر پھر حضرت معاذ کے پاس گئے.حضرت عمررؓ بھی بعض اصولوں کے بڑے پکے تھے.وہ حضرت معاذ کے پاس گئے اور حضرت معاذ سے ذکر کیا.حضرت معاذ نے کہا رسول اللہ صلی اللی کرم نے مجھے اس کی طرف اس لیے بھیجا تھا تا کہ میری ضرورت پوری ہو اور میں تو کچھ بھی نہیں دوں گا.اور یہ روایات سے بھی اور ان کی زندگی کے سارے عرصہ اور سیرت سے بھی ثابت ہے کہ اگر تو ان کے پاس خوشحالی بھی تھی تو چند دن کے لیے ہوتی ہو گی کیونکہ اکثر وہ لوگوں میں بانٹ دیا کرتے تھے.بعض ایسی روایات آگے آئیں گی جن سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح وہ بانٹا کرتے تھے.پھر اس کے بعد حضرت معاذ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ میں آپ کی بات مانتا ہوں.پہلے تو حضرت عمر کو کہہ دیا میں کچھ نہیں دوں گا اور پھر کچھ عرصے کے بعد یا کچھ وقفے کے حضرت عمررؓ کے پاس گئے اور کہا اچھا میں آپ کی بات مانتا ہوں اور میں وہی کروں گا جس کا آپ نے کہا ہے کیونکہ میں نے خواب دیکھی ہے ، (کچھ عرصہ کے بعد ہی گئے ہوں گے کیونکہ یہاں خواب کا ذکر ہے)

Page 445

اصحاب بدر جلد 5 985 429 کہتے ہیں میں نے خواب دیکھی ہے کہ پانی میں ڈوب رہا ہوں اور آپ نے یعنی حضرت عمر نے مجھے بچایا ہے.اس کے بعد حضرت معاذ حضرت ابو بکر کی خدمت میں آئے اور ساری بات ان سے بیان کی اور قسم کھا کر کہا کہ میں آپ سے کسی چیز کو بھی نہیں چھپاؤں گا جو میں نے لیا جس طرح لیا سب کچھ میرے سامنے ہے.حضرت ابو بکر نے کہا کہ میں آپ سے کچھ بھی نہیں لوں گا.ٹھیک ہے آپ نے اپنا سارا کچھ حساب کتاب مجھے بتادیا لیکن میں کچھ نہیں لوں گا.میں نے تمہیں وہ سب ہدیہ دیا.تحفہ کے طور پر تمہیں دے دیا ہے.حضرت عمرؓ نے کہا یہ بہترین حل ہے.35 حضرت عمررؓ بھی ساتھ تھے.جب یہ بات ان کو پتہ لگی کہ جو کچھ ہے وہ خود حضرت معاذ کو دے رہے ہیں تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے اب کیونکہ خلیفہ وقت نے فیصلہ کر دیا ہے تو کامل ا اطاعت کے ساتھ اس کو قبول کر لیا.ان کو اس سے غرض نہیں تھی کہ کیوں لیا جارہا ہے.ان کو یہ تھا کہ آنحضرت صلی علی یکم کی وفات کے بعد اب یہ خلیفہ وقت کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ یہ خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکتے یا اپنے پاس مال رکھ سکتے ہیں یا نہیں رکھ سکتے.پہلے حضرت عمر زور دیتے رہے کہ لینا چاہیے لیکن جب حضرت ابو بکر نے فیصلہ کر دیا کہ میں نہیں لوں گا اور میں تحفہ کے طور پر دے رہا ہوں تو پھر حضرت عمرؓ کے پاس کوئی عذر نہیں تھا.خاموشی سے کہا بالکل ٹھیک ہے.یہ فیصلہ اس سارے معاملے کا بہترین حل ہے.یہاں مزید وضاحت ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس وقت تک انہیں اس طرف متوجہ نہیں کیا جب تک حضرت معاذ کی ضرورت پوری نہیں ہو گئی اور جب آنحضرت صلی للی کم کی وفات بھی ہو گئی اور ان کی ضرورت بھی پوری ہو گئی، کشائش بھی پیدا ہو گئی، قرضے بھی اتر گئے تو خواب کے ذریعے خود ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت معاذ کو اس طرف توجہ دلا دی کہ اب نہیں.اب اپنی جائیداد پہ ہی گزارا کر و.اب نہ وہ ہدیہ بحیثیت امیر کے تم لے سکتے ہو نہ بیت المال میں سے خرچ کر سکتے ہو اور اس کے بعد وہ زیادہ عرصہ وہاں رہے بھی نہیں.بہر حال یہ اس کی مختصر وضاحت ہے.حضرت معاذ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا جب تمہیں کوئی معاملہ در پیش ہو گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا.آپ صلی للہ کریم نے فرمایا اگر اللہ کی کتاب میں اس کا حکم نہ ملا تو ؟ انہوں نے عرض کیا.پھر اللہ کے رسول صلی علیم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا.آپ صلی علی ایم نے فرمایا اگر اللہ کے رسول کی سنت میں بھی اس کا حکم نہ ملاتو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں پھر اجتہاد سے اپنی رائے قائم کروں گا اور میں اس میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا.معاذ نے بیان کیا کہ یہ باتیں سن کے رسول اللہ صلی ا ہم نے پھر میرے سینے پر ہاتھ مارا.پھر فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو ایسی بات کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کی خوشنودی کا باعث ہوئی.حضرت معاذ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی نیلم نے جب انہیں یمن بھیجا تو آپ نے فرمایا: 986

Page 446

اصحاب بدر جلد 5 430 ناز و نعم والی زندگی اختیار کرنے سے بچو کیونکہ اللہ کے بندے ناز و نعم والی زندگی اختیار نہیں کرتے.987 اس سے اس بات کی بھی مزید وضاحت ہو گئی کہ جو ہدیے اور تجارت کا مال تھا وہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے تھا اور آنحضرت صلی للی کم کو پتہ تھا کہ ان کا ہاتھ کھلا ہے.غریبوں کی مدد کرنے والے ہیں اسی پر خرچ کریں گے لیکن پھر بھی یہ نصیحت کر دی کہ یہ سب کچھ اجازتیں میں تمہیں دے رہاہوں اس لیے نہیں کہ نازو نعم کی زندگی گزارو بلکہ اس لیے کہ تمہاری ضروریات پوری ہوں.اس سے بچنے کی تاکید فرمائی.حضرت معاذ بیان کرتے ہیں کہ یمن کی طرف روانہ ہونے کے لیے جب میں نے رکاب میں اپنا پاؤں رکھا تو رسول اللہ صلی علیم نے مجھے آخری نصیحت یہ فرمائی کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا.لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا.آج کل کے مسلمانوں کا حال دیکھیں کہ کیا وہ اسی طرح پیش آتے ہیں اور منارہے ہیں سیرت النبی کی میلاد النبی.میلاد النبی منانے کی اصل چیز تو یہ ہے کہ آپ صلی الم کے اسوہ اور آپ کی نصائح پر 988 عمل کیا جائے.جب حضرت معاذ کو آنحضرت صلی علیم نے یمن پر حاکم بنا کر بھیجا تو ان کے رتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ إِنِّي بَعَثْتُ لَكُمْ خَيْرٌ أَهْلِی کہ میں اپنے لوگوں میں سے بہترین کو تمہارے لیے بھیجتا ہوا 989 ابن ابو نجیح روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے حضرت معاذ کو اہل یمن کی طرف حاکم بنا کر بھیجا اور اہل یمن کو تحریر فرمایا کہ یقینا میں نے تم پر اپنے لوگوں میں سے بہترین صاحب علم اور صاحب دین شخص کو حاکم بنایا ہے.0 990 نبی صلی ال کمی کی دس باتوں کی نصیحت ایک حدیث میں آتا ہے ، یہ روایت مسند احمد بن حنبل کی ہے.حضرت معاذ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے مجھے دس باتوں کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا.پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہر انا خواہ تم قتل کر دیے جاؤ یا جلا دیے جاؤ.دوسری بات یہ کہ والدین کی نافرمانی نہ کرو خواہ وہ تمہیں گھر بار اور مال سے بے دخل کر دیں.والدین کی نافرمانی نہیں کرنی چاہے کچھ بھی ہو جائے کچھ بھی ان سے نہ ملے.پھر تیسری بات یہ فرمائی کہ فرض نماز جان بوجھ کر نہ چھوڑو کیونکہ جان بوجھ کر فرض نماز چھوڑنے والا اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری اور حفاظت سے باہر نکل جاتا ہے.پھر فرمایا شراب نہ پیو کیونکہ شراب ہر بے حیائی کی جڑ ہے.پھر فرمایا گناہ اور نافرمانی سے بچو کیونکہ گناہ کی وجہ سے خدا کی ناراضگی نازل ہوتی ہے.پھر فرمایا دشمن سے مڈھ بھیڑ کے وقت فرار اختیار نہ کرو.اگر دشمن سے آمنا

Page 447

اصحاب بدر جلد 5 431 سامنا ہو جائے تو پھر ڈر کے دوڑ نہیں جانا خواہ لوگ ہلاک ہو جائیں.پھر فرمایا اگر لوگ طاعون جیسی و با کا شکار ہو جائیں اور تم ان کے درمیان ہو تو اپنی جگہ پر ہی رہو.طاعون کی بیماری اگر پھیلتی ہے، کوئی بھی ایسی وبا پھیلتی ہے جو وسیع طور پر پھیلنے والی ہے تو پھر اگر تم بیماری کے علاقے میں ہو تو جہاں ہو وہیں رہو.پھر فرمایا کہ اپنے اہل و عیال پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرو.جتنی طاقت ہے اتنا ان پہ خرچ کرو، ان کے حق ادا کرو اور ان کی تادیب و تربیت میں کوتاہی نہ کرو.پھر ان کی تربیت صحیح طرح کرو اور کہیں تھوڑی بہت سختی بھی کرنی پڑے تو وہ بھی کرو تاکہ ان کی صحیح تربیت ہو اور انہیں خدا کا خوف یاد دلاتے رہو.یہ دس باتیں ہیں جو آپ نے ان کو فرمائیں.991 حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی ا ولم نے حضرت معاذ سے فرمایا اے معاذ! میں تمہیں مشفق بھائی کی نصیحت جیسی نصیحت کرتا ہوں.یہ روایت ابن عمرؓ سے ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے یہ فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں.مریض کی عیادت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں.بیواؤں اور ضعیفوں کی ضروریات پوری کرنے کی نصیحت کر تا ہوں.ضرورت مندوں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھنے اور لوگوں کو اپنی طرف سے انصاف فراہم کرنے اور حق بات کہنے اور اس بات کی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت تمہارے آڑے نہ آئے.992 حضرت عمر نے ایک دفعہ اپنے ساتھیوں سے کہا: کسی چیز کی خواہش کرو.کسی نے کہا میری خواہش ہے کہ یہ گھر سونے سے بھر جائے اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں اور صدقہ کر دوں.ایک شخص نے کہا میری خواہش ہے کہ یہ مکان ہیرے جواہرات سے بھر جائے اور میں اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کروں اور صدقہ کر دوں.صحابہ کی کیسی عجیب اور عظیم خواہشیں تھیں.پھر حضرت عمرؓ نے کہا اور خواہش کرو.انہوں نے کہا اے امیر المومنین! ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کیا خواہش کریں.حضرت عمرؓ نے فرمایا میری یہ خواہش ہے کہ یہ گھر حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت معاذ بن جبل “ اور سالم مولیٰ ابو حذیفہ اور حضرت حذیفہ بن یمان جیسے لوگوں سے بھرا ہوا ہو.993 پچھلی دفعہ بھی یہ واقعہ بیان کیا تھا.اس دفعہ حضرت معاذ بن جبل کے ذکر میں بھی یہ روایت آگئی.حضرت معاذ 9 ہجری سے 11 / ہجری تک دو سال یمن میں رہے.رض حضرت عمر کا چار سو دینار حضرت معاذ کی طرف بھیجا اور......994 ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نے چار سو دینار ایک تھیلی میں ڈالے اور غلام سے کہا حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے پاس لے جاؤ.(یہ گذشتہ خطبے میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے ذکر میں بھی بیان ہوا تھا لیکن اس کی بقایا تفصیل رہ گئی تھی تو اس لیے پوری تفصیل اب بیان کر دیتا ہوں) اور گھر میں ان کے پاس تھوڑی دیر ٹھہر و.دیکھو کہ وہ اس مال کے ساتھ کیا کریں گے.چنانچہ غلام تھیلی لے کر ان کے پاس گیا اور کہا

Page 448

اصحاب بدر جلد 5 432 امیر المومنین نے آپ کے لیے کہا ہے کہ اس مال کو اپنی ضروریات کے لیے استعمال کریں.انہوں نے کہا کہ اللہ ان پر رحم کرے.پھر انہوں نے اپنی لونڈی کو بلایا اور کہا یہ سات دینار فلاں کے پاس لے جاؤ اور یہ پانچ فلاں کے پاس لے جاؤ اور یہ پانچ فلاں کے پاس لے جاؤ یہاں تک کہ وہ سب ختم کر دیے.اپنی ملازمہ کو بلا کے مختلف گھروں میں بھجوانے کے لیے دیے کہ جا کے فلاں فلاں گھروں میں یہ دے آؤ.غریب گھر ہوں گے.پھر وہ غلام جو تھا حضرت عمرؓ کے پاس واپس آیا اور ساری بات بتائی.حضرت عمرؓ نے اتنے ہی دینار حضرت معاذ کے لیے بھی تیار رکھے ہوئے تھے.جتنے ابو عبیدہ کو بھیجے تھے اتنے ہی حضرت معاذ کے لیے تیار رکھے تھے.دوسری تھیلی تیار کی ہوئی تھی.انہوں نے غلام سے کہا کہ اس کو حضرت معاذ کے پاس لے جاؤ اور ان کے پاس گھر میں تھوڑی دیر رکنا اور دیکھنا کہ وہ ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں.چنانچہ وہ غلام تھیلی لے کر حضرت معاذ کے پاس گیا.ان سے کہا کہ امیر المومنین نے کہا ہے کہ اس کو اپنی ضروریات کے لیے استعمال کریں.حضرت معاذ نے کہا اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.پھر انہوں نے لونڈی کو بلایا اور کہا اتنے دینار فلاں گھر لے جاؤ اور اتنے فلاں گھر میں لے جاؤ.اتنے میں حضرت معاذ کی اہلیہ بھی آگئیں اور انہوں نے کہا بخدا ہم بھی مساکین ہیں یعنی گھر میں بھی کچھ نہیں ہے.کچھ گھر کے لیے بھی تو رکھ لو.منافع کمانے کی، ہدیہ لینے کی وہ باتیں جو پہلے آئی تھیں وہ بھی یہاں مزید clear ہوتی ہیں، واضح ہو جاتی ہیں.ہمارے گھر میں بھی کچھ نہیں ہے.ہم بھی مسکینوں میں شامل ہیں.ہمیں بھی دیں.تھیلی میں صرف اس وقت دو دینار بچے تھے.سارے آپ بانٹ چکے تھے.حضرت معاذ نے وہ دونوں دینار جو تھے اپنی اہلیہ کی طرف اچھال دیے اور غلام حضرت عمر کے پاس آیا اور ان کو ساری بات سے آگاہ کیا.حضرت عمررؓ اس سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا یقینا یہ دونوں حضرت عبیدہ اور حضرت معاذ اسی طرح خرچ کرنے میں آپس میں بھائی بھائی ہیں.995 جس طرح یہ خرچ کرتے ہیں ان کی یہ صفت ایک ہے.طاعون عمواس اور حضرت عمر فکا فیصلہ شريح بن عبید اور راشد بن سعد وغیرہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جب سرغ مقام پر پہنچے، سرغ وادی تبوک کی ایک بستی کا نام ہے.تو آپ کو بتایا گیا کہ شام میں سخت وبا پھیلی ہوئی ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ شام میں شدید وبا پھیلی ہوئی ہے.میری رائے یہ ہے کہ اگر میری وفات کا وقت آجائے اور ابو عبیدہ بن جراح زندہ ہوں تو میں انہیں اپنا خلیفہ نامزد کر دوں گا اور اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ان کے متعلق سوال کیا کہ تم نے اسے امت محمدیہ پر خلیفہ کیوں مقرر کیا تو میں یہ عرض کروں گا کہ میں نے تیرے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہر نبی کا ایک امین ہوتا ہے اور میرا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے.یہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے.لوگوں کو یہ بات اچھی نہ لگی وہ کہنے لگے کہ قریش کے بڑے لوگوں یعنی بنو فقر کا کیا بنے گا؟ پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میری وفات کا وقت آ

Page 449

اصحاب بدر جلد 5 433 جائے اور ابو عبیدہ بن جراح " بھی فوت ہو چکے ہوں تو معاذ بن جبل کو اپنا خلیفہ مقرر کر دوں گا اور اگر میرے رب عز و جل نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں خلیفہ مقرر کیا تو میں کہوں گا کہ میں نے تیرے رسول صلی ای کم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ وہ قیامت کے دن علماء کے آگے آگے لائے جائیں گے.996 997 علم میں ان کا بہت مقام ہو گا.حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح “ نے جنگ یرموک 15 ہجری کے موقعے پر میمنہ ، وہ حصہ جو لڑائی کے وقت فوج کا جو کمانڈر ہوتا ہے اس کے دائیں طرف کھڑ ا ہوتا ہے اس کے ایک حصے کا افسر مقرر کیا.عیسائیوں کا حملہ اس قدر سخت ہوا کہ مسلمانوں کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے الگ ہو گیا لوگ بکھر گئے.جب حضرت معاذ نے یہ حالت دیکھی تو نہایت شجاعت اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور گھوڑے سے نیچے اتر گئے اور کہا کہ میں اب پیادہ پالڑوں گا.اگر کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کر سکتا ہے تو گھوڑا اس کے لیے حاضر ہے.ان کے بیٹے بھی میدانِ جنگ میں موجود تھے انہوں نے کہا میں اس کا حق ادا کروں گا کیونکہ میں سوار ہو کر اچھالڑ سکتا ہوں.غرض دونوں باپ بینا رومی فوج کو چیر کر اندر گھس گئے اور اس دلیری سے لڑے کہ مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے.اور جو خوف کی حالت تھی وہ پھر انہوں نے دوبارہ ان کو شکست دے کے مسلمانوں کو فتح دلوادی.ابوادر میں خولانی بیان کرتے ہیں کہ میں شام میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا تو وہاں چپکتے دانتوں والا نوجوان موجود تھا اور اس کے گرد لوگ جمع تھے.جب لوگوں کا کسی بات پر اختلاف ہو تا تو وہ معاملہ اس کے پاس لے جاتے اور اس کی رائے کو فوقیت دیتے تو میں نے ان کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ حضرت معاذ بن جبل ہیں.اگلے روز میں دوپہر کے وقت گیا تو دیکھا کہ وہ میرے سے پہلے دو پہر کے وقت وہاں موجود تھے.میں نے دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں.میں نے ان کا انتظار کیا.جب انہوں نے نماز ادا کر لی تو میں ان کے سامنے گیا اور انہیں سلام کیا.میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھے اللہ کی خاطر آپ سے محبت ہے.حضرت معاذ نے کہا اللہ کی قسم !میں نے کہا اللہ کی قسم !حضرت معاذ نے پھر کہا، پھر سوال کیا اللہ کی قسم! میں نے کہا اللہ کی قسم.پھر انہوں نے میری چادر کا کنارہ پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا اور کہا کہ خوش ہو جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الایام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ عز و جل نے یہ فرمایا ہے کہ میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں کے لیے میری محبت لازم ہو گئی.یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت لازم ہو گئی.28 ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل کی دو بیویاں تھیں جب باری کے مطابق ایک کے پاس ہوتے تو دوسری کے پاس پانی تک بھی نہیں پیتے تھے.اتنا انصاف تھا.998

Page 450

اصحاب بدر جلد 5 999 434 ایک اور روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل کی دو بیویاں تھیں.جس دن ایک کی باری ہوتی دوسری کے گھر میں وضو تک نہیں کرتے تھے.پھر دونوں ملک شام میں وبائی بیماری میں فوت ہو گئیں.ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا.دفن کرتے وقت حضرت معاذ نے قرعہ ڈالا کہ پہلے کس کو قبر میں داخل کریں.یہ ان کا انصاف تھا.ایک اور روایت ہے سیر الصحابہ کی کہ حضرت معاذ کی دو بیویاں تھیں.اور وہ دونوں طاعون عمو اس سے وفات پاگئی تھیں.جبکہ ایک بیٹے کا پتا چلتا ہے جس کا نام عبد الرحمن بیان ہوا ہے اور وہ جنگ یر موک میں حضرت معاذ کے ساتھ شامل تھے ان کی وفات بھی طاعون عمواس سے ہوئی.( یعنی طاعون کی وہ و باجو اس زمانے میں پھیلی تھی ) 1000 وفات 1002 جب حضرت ابو عبیدہ کی طاعون عمواس سے وفات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے حضرت معاذ کو شام پر عامل مقرر فرمایا.عمو اس یہ ایک بستی کا نام ہے.میں اس کی تفصیل پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ یہ رملہ سے سات میل کے فاصلے پر ہے اور بیت المقدس کے راستے پر واقع ہے.حضرت معاذ کی بھی اسی سال اسی طاعون سے وفات ہوئی.1001 کثیر بن مرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذ نے اپنی بیماری میں ہمیں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے ایک بات سنی تھی جسے میں نے تم سے چھپا کر رکھا تھا.میں نے رسول اللہ صلی لی کام کو سنا.آپ نے فرمایا جس کا آخری کلام لا اله الا اللہ ہو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی.ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت معاذ نے فرمایا کہ تمہیں یہ حدیث بتانے میں صرف یہ نے بات مانع تھی کہ کہیں تم اس پر ہی بھروسانہ کر لو اور باقی عمل چھوڑ دو.1003 جب شام میں طاعون پھیلی اور حضرت معاذ بن جبل کو بھی طاعون ہو گئی تو اس کی وجہ سے ان پر غشی طاری ہو گئی.جب ذرا سنبھلے تو کہا: ے اللہ اب اپنا مجھ پرمسلط کر دے.تیری عزت کی قسم ابو جانتا ہے کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں.پھر ان پر غشی طاری ہو گئی.پھر جب ذرا سنبھلے تو دوبارہ ایسا ہی کہا.جب حضرت معاذ بن جبل کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو فرمایا دیکھو صبح ہو گئی ہے ؟ کہا گیا کہ ابھی صبح نہیں ہوئی.یہاں تک کہ جب صبح ہوئی تو کہا گیا کہ صبح ہو گئی ہے.حضرت معاذ نے کہا کہ میں اس رات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جس کی صبح جہنم کی طرف لے جائے.میں موت کو خوش آمدید کہتا ہوں.میں اپنے محبوب سے ملنے والے کو خوش آمدید کہتا ہوں جو ایک مدت کے بعد آ رہا ہے.اسے اللہ اتو جانتا ہے کہ میں تجھ سے ڈرتا ہوں لیکن آج کے دن میں پُر امید ہوں.میں دنیا اور لمبی زندگی سے اس لیے

Page 451

اصحاب بدر جلد 5 435 محبت نہیں کرتا کہ اس میں نہریں کھو دوں یا اس میں درخت لگاؤں بلکہ اس لیے کہ دو پہر کی پیاس اور حالات کی تکالیف برداشت کروں اور ان علماء کے ساتھ بیٹھوں جہاں تیرا ذکر کیا جائے.پھر ایک اور روایت میں ہے کہ جب حضرت معاذ کی وفات کا وقت قریب آیا تو وہ رونے لگے.ان سے کہا گیا کہ آپ کیوں روتے ہیں ؟ آپ تو رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھی ہیں.تو انہوں نے کہا کہ میں مرنے کے غم کی وجہ سے نہیں رور ہا اور نہ اس لیے کہ دنیا پیچھے چھوڑے جارہا ہوں بلکہ میں تو صرف اس لیے رورہا ہوں کہ دو گروہ ہوں گے اور میں نہیں جانتا کہ میں کس گروہ میں اٹھایا جاؤں گا.1004 1005 ایک جنتی ہے اور ایک دوزخی اور مجھے تو صرف اللہ کا خوف ہے اس لیے رورہاہوں.مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے کہ حضرت معاذ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی للی نام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب تم شام کی طرف ہجرت کرو گے اور وہ تمہارے ہاتھوں فتح ہو جائے گا لیکن وہاں تم لوگوں میں ایک بیماری ظاہر ہو گی جو پھوڑے پھنسیوں یا سخت کاٹنے والی چیز کی طرح ہو گی.وہ انسان کی ناف کے نچلے حصے میں ظاہر ہو گی.اللہ اس کے ذریعے انہیں شہادت عطا فرمائے گا اور ان کے اعمال کا تزکیہ فرمائے گا.اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ معاذ بن جبل نے نبی کریم صلی علیم سے یہ حدیث سنی ہے تو اسے اور اس کے اہل خانہ کو اس کا وافر حصہ عطا فرما.یہ آپ ہی فرمارہے ہیں.چنانچہ وہ سب اس طاعون میں مبتلا ہو گئے اور ان میں سے ایک بھی زندہ باقی نہیں رہا.جب حضرت معاذ کی شہادت والی انگلی میں طاعون کی گلٹی نمودار ہوئی تو آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ ملنا بھی پسند نہیں ہیں.میں اسی بات پر خوش ہوں.تاریخ طبری میں ہے کہ آپ کی ہتھیلی میں پھوڑا نکلا.آپ اپنی ہتھیلی کو دیکھتے اور اس ہاتھ کی پشت کو بوسہ دیتے اور کہتے مجھے یہ پسند نہیں کہ تیرے بدلے میں دنیا کی کوئی چیز ملے.حضرت معاذ بن جبل نے 18 ہجری میں وفات پائی.آپ کی عمر کے متعلق مختلف آراء ہیں ان کے مطابق تینتیس چونیتس اور اڑتیس سال عمر بیان کی گئی ہے.1007 حضرت معاذ کی روایات کی تعداد جو حدیثوں میں ہے 157 ہے جس میں سے دو حد بیٹوں پر بخاری اور مسلم کا اتفاق ہے.دونوں میں یہ درج ہیں.سب سے پہلے تو میں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں.دو خطبے پہلے حضرت معاذ بن جبل کے بارے میں جو بیان ہوا تھا اس میں مسند احمد بن حنبل کی ایک روایت تھی جس میں طاعون کے بارے میں کہا گیا تھا کہ رسول پاک صلی اللہ یکم نے فرمایا تھا کہ عنقریب تم شام کی طرف ہجرت کرو گے ، اور وہ تمہارے ہاتھوں فتح ہو جائے گا لیکن وہاں پھوڑے پھنسیوں کی ایک بیماری تم پر مسلط ہو جائے گی جو آدمی کو سیڑھی کے پائے سے پکڑلے گی.یہ ترجمے میں غلطی تھی صحیح طرح ترجمہ بیان نہیں ہو سکا تھا، اور اس سے بات واضح تبھی نہیں ہوتی تو اس بارے میں صحیح ترجمے کے ساتھ جو روایت ہے وہ دوبارہ بیان کرتاہوں.اسماعیل بن 1008 1006

Page 452

436 اصحاب بدر جلد 5 عبید اللہ سے روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی علیکم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم لوگ شام کی طرف ہجرت کرو گے.وہ تمہارے لیے فتح کیا جائے گا.وہاں تم لوگوں میں ایک بیماری ظاہر ہو گی جو پھوڑے یا سخت کاٹنے والی ایک چیز کی طرح ہو گی.وہ انسان کی ناف کے نچلے حصے میں ظاہر ہو گی.اب جو یہ ہے کہ سیڑھی کے پائے سے پکڑے گی یہ ترجمہ جو مختلف الفاظ کا ہوتا ہے پہلے غلط کیا گیا تھا.اصل ترجمہ یہ ہے کہ وہ انسان کی ناف کے نچلے حصہ میں ظاہر ہو گی.جس طرح ناف کے نچلے حصے میں ٹانگ کے اوپر اور درمیان جسم کے ایک پھوڑا نکلتا ہے.فرمایا کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو شہادت عطا کرے گا اور اس کے ذریعہ ان کے اعمال کو پاک کرے گا.پھر حضرت معاذ نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ معاذ بن جبل نے یہ بات رسول اللہ صلی ی کمی سے سنی ہے تو اسے اور اس کے گھر والوں کو اس سے وافر حصہ دے.اس پر ان سب کو طاعون ہو گئی حتی کہ ان میں ایک بھی نہ بچا.آپ کی شہادت کی انگلی پر طاعون کا دانہ نکلا تو آپ نے کہا کہ میں ہر گز خوش نہ ہوں گا کہ مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ ملیں.تو یہ درستی تھی.ترجمہ جو پرنٹ ہو رہا ہے اور الفضل میں بھی چھپتا ہے اس میں تو کر دی گئی ہے.میں نے کہا کہ آپ کے سامنے بھی پیش کر دوں.1009 1010 286 نام و نسب حضرت معاذ بن حارث بن رفاعہ تین بھائی جنگ بدر میں شریک حضرت معاذ بن حارث.حضرت معاذ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو مالک بن نجار سے تھا.حضرت معاذ کے والد کا نام حارث بن رفاعہ تھا.ان کی والدہ کا نام عفراء بنت عُبَيْد تھا.حضرت معودؓ اور حضرت عوف ان کے بھائی تھے.یہ تینوں بھائی اپنے والد کے علاوہ اپنی والدہ کی طرف بھی منسوب ہوتے تھے اور ان تینوں کو بنو عفراء بھی کہا جاتا تھا.حضرت معاذ اور ان کے دو بھائی حضرت عوف اور حضرت معوذ غزوہ بدر میں شامل ہوئے.حضرت عوف اور حضرت معوذ دونوں غزوہ بدر میں شہید ہو گئے مگر حضرت معاذ بعد کے تمام غزوات میں بھی رسول اللہ صلی ال ولیم کے ہمراہ شریک رہے.

Page 453

اصحاب بدر جلد 5 437 مکہ میں اسلام قبول کرنے والے اولین انصار میں سے ایک روایت کے مطابق حضرت معاذ بن حارث اور حضرت رافع بن مالک زرق ان اولین انصار میں سے ہیں جو حضور اکرم پر لگے میں ایمان لائے تھے اور حضرت معاذ ان آٹھ انصار میں شامل ہیں جو آنحضرت صلی علیم پر بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر مکے میں ایمان لائے.اسی طرح بیعت عقبہ ثانیہ میں بھی حضرت معاذ حاضر تھے.حضرت مغمر بن حارث جب مکے سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو نبی کریم صلی ا ہم نے ان کے اور حضرت معاذ بن حارث کے درمیان مواخات قائم فرمائی.1011 1012 ابو جہل کو قتل کرنے والوں میں سے ابو جہل کے قتل کی تفصیل گو پہلے گذشتہ سال کے ایک خطبے میں کچھ حد تک بیان ہو چکی ہے لیکن یہاں بھی یہ بیان کرتا ہوں.یہ بھی ضروری ہے کیونکہ حضرت معاذ سے بھی اس کا تعلق ہے اور یہ بخاری کی روایات ہیں جو بیان کروں گا اور خلاصہ تو ان کا بیان نہیں ہو سکتا، بخاری کی پوری روایت ہی ڑھنی ہو گی.صالح بن ابراہیم اپنے دادا حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ میں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا تھا کہ میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو انصاری لڑکے ہیں.ان کی عمریں چھوٹی ہیں.میں نے آرزو کی کہ کاش میں ایسے لوگوں کے درمیان ہو تا جو ان سے زیادہ جو ان اور تنومند ہوتے.اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ سے دبا کر پوچھا کہ چا کیا آپ ابو جہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں بھیجے.تمہیں اس سے کیا کام ہے ؟ اس نے کہا مجھے بتلایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی علیکم کو گالیاں دیتا ہے اور اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ پاؤں تو میری آنکھ اس کی آنکھ سے جدا نہ ہو گی جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جس کی مدت پہلے مقدر ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ مجھے اس سے بڑا تعجب ہوا.پھر دوسرے نے مجھے ہاتھ سے دبایا.دوسری طرف جو کھڑا تھا اور اس نے بھی مجھے اسی طرح پوچھا.ابھی تھوڑا عرصہ گزرا ہو گا کہ میں نے ابو جہل کو لوگوں میں چکر لگاتے دیکھا.میں نے کہا دیکھو یہ ہے وہ تمہار ا سا تھی جس کے متعلق تم نے مجھ سے دریافت کیا تھا.یہ سنتے ہی وہ دونوں جلدی سے اپنی تلواریں لیے اس کی طرف لیکے اور اسے اتنا مارا کہ اس کو جان سے مار ڈالا اور پھر لوٹ کر رسول اللہ صلی لیلی کیم کے پاس آئے اور آپ کو خبر دی.آپ نے پوچھا تم میں سے کس نے اس کو مارا ہے.دونوں نے کہا میں نے اس کو مارا ہے.آپ نے پوچھا کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھ کر صاف کرلی ہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں.آپ نے تلواروں کو دیکھا.آپ صلی الیم نے فرمایا کہ تم دونوں نے ہی اس کو مارا ہے.پھر فرمایا کہ اس کا مال معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا اور ان دونوں کا نام معاذ تھا.معاذ بن عفراء اور مُعاذ بن عمرو بن جموح یہ صحیح بخاری کی روایت ہے.3 1013

Page 454

اصحاب بدر جلد 5 کون دیکھے گا کہ ابو جہل کا کیا حال ہوا ہے؟ 438 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی علیم نے جنگ بدر کے دن فرمایا کون دیکھے گا کہ ابو جہل کا کیا حال ہوا ہے ؟ حضرت ابن مسعودؓ گئے اور جا کر دیکھا کہ اس کو عفراء کے دونوں بیٹوں حضرت معاذ اور حضرت معوذ نے تلواروں سے اتنامارا ہے کہ وہ مرنے کے قریب ہو گیا ہے.حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا کیا تم ابو جہل ہو ؟ حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے ابو جہل کی داڑھی پکڑی.ابو جہل کہنے لگا کیا اُس سے بڑھ کر بھی کوئی شخص ہے جس کو تم نے مارا ہے یا یہ کہا کہ اُس شخص سے بڑھ کر کوئی ہے جس کو اس کی قوم نے مارا ہو.احمد بن یونس نے اپنی روایت میں یوں کہا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے یہ الفاظ کہے کہ تم ہی ابو جہل ہو ؟ یہ بھی بخاری کی حدیث ہے.1014 بخاری کی جو روایت ہے اس حدیث کی شرح میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب درج کرتے ہیں کہ بعض روایات میں ہے کہ عفراء کے دو بیٹوں معوذ اور معاذ نے ابو جہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا.بعد ازاں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا.بخاری کتاب المغازی میں یہ ہے.علامہ ابن حجر عسقلانی نے اس احتمال کا اظہار کیا ہے کہ معاذ بن عمرو اور معاذ بن عفراء کے بعد معوذ بن عفراء نے بھی اس پر وار کیا ہو گا.غزوہ بدر کے موقعے پر ابو جہل کے قتل میں کون کون شریک تھا.اس کے بارے میں ایک جگہ 1015 تفصیل یوں ملتی ہے.ابن ہشام نے علامہ ابن اسحاق سے روایت کی ہے کہ مُعاذ بن عمرو بن جموح نے ابو جہل کی ٹانگ کائی تھی جس کے نتیجے میں وہ گر گیا اور عکرمہ بن ابو جہل نے حضرت معاذ کے ہاتھ پر تلوار ماری جس کے نتیجے میں وہ ہاتھ یا باز و الگ ہو گیا.پھر معوذ بن عفرار نے ابو جہل پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں وہ نیچے گر گیا اور اس میں زندگی کی کچھ رمق ابھی باقی تھی کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا جب رسول اللہ صلی اللہ ہم نے انہیں مقتولین میں ابو جہل کو تلاش کرنے کا حکم دیا تھا.یعنی جب آنحضرت صلی علیہ یکم نے ان کو حکم دیا تھا کہ ابو جہل کو مقتولین میں تلاش کریں تو اس وقت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا.صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق عفراء کے دو بیٹوں نے ابو جہل پر حملہ کیا تھا یہاں تک کہ وہ مر گیا.اسی طرح بخاری میں باب قتل اپی جہل میں بھی ایسا ہی ذکر ہے.امام قرطبی کے نزدیک یہ وہم ہے کہ عفراء کے دو بیٹوں نے ابو جہل کو قتل کیا تھا.وہ کہتے ہیں کہ بعض راویوں پر معاذ بن عمرو بن جموح مشتبہ ہو گئے یعنی معاذ بن عفراء کی بجائے وہ معاذ بن عمرو بن جموح تھے جنہیں لوگ سمجھے کہ معاذ بن عفر ا ہیں.کہتے ہیں معاذ بن عمرو بن جموع معاذ بن عفراء کے ساتھ مشتبہ ہو گئے ہیں.علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں کہ معاذ بن جموح، عفراء کی اولاد میں سے نہیں اور معاذ بن عفرا ابو جہل کو قتل کرنے والوں میں شامل تھا.شاید معاذ بن عفراء کا کوئی بھائی یا چچا اس وقت موجود ہو یا

Page 455

439 اصحاب بدر جلد 5 روایت میں عفراء کے ایک بیٹے کا ذکر ہو اور راوی نے غلطی سے دو بیٹوں کا کہہ دیا ہو.بہر حال ابو عمر کہتے ہیں کہ اس روایت کی نسبت حضرت انس بن مالک کی حدیث زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ ابن عفراء نے ابو جہل کو قتل کیا تھا یعنی عفراء کا ایک بیٹا تھا.ابن تین کہتے ہیں کہ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ دونوں معاذ یعنی معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفر الا ماں کی طرف سے بھائی ہوں یا دونوں رضاعی بھائی ہوں.علامہ داؤدی نے عفراء کے دونوں بیٹوں سے مراد سہل اور سہیل لیے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں معوذ اور معاذ ہیں.1016 بہر حال یہ روایتیں آتی ہیں کہ تین نے قتل کیا.بعض میں دونے اور ان میں حضرت معاذ بن حارث کا بھی ذکر ملتا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے غزوہ بدر کے جو حالات لکھے ہیں اور جس میں ابو جہل کے قتل کا واقعہ لکھا ہے اس کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ”میدان کارزار میں کشت و خون کا میدان گرم تھا.مسلمانوں کے سامنے ان سے سہ چند جماعت تھی.“ تین گنا جماعت تھی جو ہر قسم کے سامانِ حرب سے آراستہ ہو کر اس عزم کے ساتھ میدان میں نکلی تھی کہ اسلام کا نام و نشان مٹادیا جاوے اور مسلمان بیچارے تعداد میں تھوڑے، سامان میں تھوڑے، غربت اور بے وطنی کے صدمات کے مارے ہوئے ظاہری اسباب کے لحاظ سے اہل مکہ کے سامنے چند منٹوں کا شکار تھے مگر توحید اور رسالت کی محبت نے انہیں متوالا بنارکھا تھا اور اس چیز نے جس سے زیادہ طاقتور دنیا میں کوئی چیز نہیں یعنی زندہ ایمان نے ان کے اندر ایک فوق العادت طاقت بھر دی تھی.وہ اس وقت میدانِ جنگ میں خدمت دین کا وہ نمونہ دکھا رہے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی.ہر اک شخص دوسرے سے بڑھ کر قدم مارتا تھا اور خدا کی راہ میں جان دینے کے لیے بے قرار نظر آتا تھا.حمزہ اور علی اور زبیر نے دشمن کی صفوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دیں.انصار کے جوش اخلاص کا یہ عالم تھا کہ عبد الرحمن بن عوف روایت کرتے ہیں کہ جب عام جنگ شروع ہوئی تو میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی مگر کیا دیکھتا ہوں کہ انصار کے دو نوجوان لڑکے میرے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں.انہیں دیکھ کر میرا دل کچھ بیٹھ سا گیا کیونکہ ایسے جنگوں میں دائیں بائیں کے ساتھیوں پر لڑائی کا بہت انحصار ہو تا تھا اور وہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو محفوظ ہوں.مگر عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں اس خیال میں ہی تھا کہ ان لڑکوں میں سے ایک نے مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ گویاوہ دوسرے سے اپنی یہ بات مخفی رکھنا چاہتا ہے.“ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے کو پتا نہ لگے جو دوسری طرف کھڑا ہے کہ چاوہ ابو جہل کہاں ہے جو مکہ میں آنحضرت صلی علیہم کو دکھ دیا کرتا تھا.میں نے خدا سے عہد کیا ہوا ہے کہ میں اسے قتل کروں گا یا قتل کرنے کی کوشش میں مارا جاؤں گا.میں نے ابھی اس کا جواب نہیں دیا تھا.“عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ابھی جواب نہیں دیا تھا.کہ دوسری طرف سے دوسرے نے بھی اسی طرح آہستہ

Page 456

اصحاب بدر جلد 5 440 سے یہی سوال کیا.میں ان کی یہ جرآت دیکھ کر حیران سارہ گیا کیونکہ ابو جہل گویا سر دار لشکر تھا اور اس کے چاروں طرف آزمودہ کار سپاہی جمع تھے.میں نے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ وہ ابو جہل ہے.عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ وہ دونوں بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے ایک آن کی آن میں وہاں پہنچ گئے اور اس تیزی سے وار کیا کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اور ابو جہل خاک پر تھا.عکرمہ بن ابو جہل بھی اپنے باپ کے ساتھ تھا وہ اپنے باپ کو تو بچانہ سکا مگر اس نے پیچھے سے معاذ پر ایساوار کیا کہ اس کا بایاں بازو کٹ کر لٹکنے لگا.معاذ نے عکرمہ کا پیچھا کیا مگر وہ بیچ کر نکل گیا چونکہ کٹا ہوا باز ولڑنے میں مزاہم ہو تا تھا.معاذ نے اسے زور سے کھینچ کر اپنے جسم سے الگ کر دیا اور پھر لڑنے لگ گئے.1017 حضرت خلیفة المسیح الثانی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ”ابو جہل جس کی پیدائش پر ہفتوں اونٹ ذبح کر کے لوگوں میں گوشت تقسیم کیا گیا تھا.جس کی پیدائش پر دفوں کی آواز سے مکہ کی فضا گونج اٹھی تھی.“ بڑے ڈھول دھمکے بجائے جارہے تھے اور بڑے باجے بجائے جارہے تھے ، دف بجائے جا رہے تھے اور اس کی پیدائش پر بڑی خوشی منائی جارہی تھی کہ مکہ کی فضا بھی گونج اٹھی تھی.پھر لکھتے ہیں کہ ”بدر کی لڑائی میں جب مارا جاتا ہے تو پندرہ پندرہ سال کے دو انصاری چھو کرے تھے جنہوں نے اسے زخمی کیا تھا.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کے بعد لوگ واپس جارہے تھے تو میں میدان میں زخمیوں کو دیکھنے کے لیے چلا گیا.آپ بھی مکہ کے ہی تھے اس لیے ابو جہل آپ کو اچھی طرح جانتا تھا.آپؐ فرماتے ہیں کہ میں میدان جنگ میں پھر ہی رہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ابو جہل زخمی پڑا کراہ رہا ہے.جب میں اس کے پاس پہنچا تو اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اب بچتا نظر نہیں آتا.تکلیف زیادہ بڑھ گئی ہے.تم بھی مکہ والے ہو.میں یہ خواہش کرتا ہوں کہ تم مجھے مار دو تا میری تکلیف دور ہو جائے لیکن تم جانتے ہو کہ میں عرب کا سردار ہوں اور عرب میں یہ رواج ہے کہ سرداروں کی گردنیں لمبی کر کے کائی جاتی ہیں اور یہ مقتول کی سرداری کی علامت ہوتی ہے.میری یہ خواہش ہے کہ تم میری گردن لمبی کر کے کاٹنا.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کی گردن ٹھوڑی سے کاٹ دی.“ ٹھوڑی کے قریب سے کائی ” اور کہا تیری یہ آخری حسرت بھی پوری نہیں کی جائے گی.اب انجام کے لحاظ سے دیکھو تو ابو جہل کی موت کتنی ذلت کی موت تھی.جس کی گردن اپنی زندگی میں ہمیشہ اونچی رہا کرتی تھی وفات کے وقت اس کی گردن ٹھوڑی سے کاٹی گئی اور اس کی یہ آخری حسرت بھی پوری نہ ہوئی.حضرت ربیع بنت معوذ " سے مروی ہے کہ میرے چچا حضرت معاذ بن عفر او نے مجھے کچھ تر و تازہ کھجوریں دے کر حضور اکرم صلی علیکم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی علیکم نے مجھے زیور عطا فرمایا جو بحرین کے حاکم نے آپ کو بطور ہدیہ بھیجا تھا.ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ربیع بنت معوذ سے روایت 1018❝

Page 457

اصحاب بدر جلد 5 441 ہے کہ میرے چا حضرت معاذ نے میرے ہاتھ ایک ہدیہ نبی کریم صلی علیکم کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے اسے زیور عطا فرمایا جو بحرین کے حاکم کی طرف سے آپ کو ملا تھا.علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ بحرین کے حاکم اور دیگر بادشاہوں نے آنحضرت صلی للی کم کی خدمت میں تب تحائف وغیرہ بھیجے تھے جب اسلام وسعت اختیار کر چکا تھا اور آپ نے بادشاہوں کے نام خطوط لکھے تھے اور انہیں تحائف ارسال فرمائے تھے.تو انہوں نے بھی آپ کی خدمت میں خطوط لکھے اور اپنے تحائف ارسال کیے.9 1019 شادی اور اولاد حضرت معاذ بن حارث نے چار شادیاں کی تھیں جن کی تفصیل پر ہے.حبیبہ بنت قیس.ان سے ایک بیٹا محبین اللہ پیدا ہوا.دوسری شادی اتم حارث بنت سترہ سے تھی ان سے حارث، عوف، سلمی، اقم عبد اللہ اور رملہ پیدا ہوئے.ایم عبد اللہ بن عمیر تیسری بیوی تھیں.ان سے ابراہیم اور عائشہ پیدا ہوئے.ام ثابت رملہ بنت حارث چو تھی تھیں ان سے سارہ پید اہو ئیں.20 وفات 1020 علامہ ابن اثیر نے اپنی تصنیف اُسد الغابہ میں حضرت معاذ کی وفات کے متعلق مختلف اقوال درج کیے ہیں.ایک قول کے مطابق حضرت معاذ غزوہ بدر میں زخمی ہوئے اور مدینہ واپس آنے کے بعد ان زخموں کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی.ایک قول کے مطابق وہ حضرت عثمان کے دورِ خلافت تک زندہ رہے.1021 ایک قول کے مطابق وہ حضرت علی کے دورِ خلافت تک زندہ رہے.ان کی وفات حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان جنگ صفین کے دوران ہوئی.جنگ صفین چھتیں اور سینتیس ہجری میں ہوئی تھی اور حضرت معاذ نے حضرت علی کی طرف سے جنگ میں شرکت کی تھی.بہر حال ان کی وفات کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں بعض باتیں جو ہیں ان سے یہی پتا لگتا ہے اور اگر یہ وہی ہیں تو ان کی اولاد اور بیویوں کو اگر دیکھا جائے تو انہوں نے لمبی زندگی پائی تھی.1022

Page 458

442 288 اصحاب بدر جلد 5 حديدة حضرت معاذ بن ماعض اپنے بھائی کے ساتھ جنگ بدر میں شریک 1023 حضرت معاذ بن ماعص کی واقعہ بئر معونہ میں شہادت ہوئی.ان کے والد کا نام ناعص بھی بیان ہو تا ہے.ان کا تعلق خزرج قبیلہ زرقی سے تھا.بعض روایت کے مطابق آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک تھے اور بئر معونہ کے موقعہ پر شہید ہوئے.ایک روایت کے مطابق آپ غزوہ بدر میں زخمی ہو گئے تھے اور کچھ عرصہ بعد اسی زخم کی وجہ سے وفات پاگئے تھے.آپ کے ساتھ آپ کے بھائی عائذ بن ماعص بھی غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے.1024 صلح حد کے بعد جب عيينه بن حصن نے غطفان قبیلہ کے ساتھ جنگل میں چرنے والی آنحضور صلی علم کی اونٹنیوں پر حملہ کیا اور حفاظت پر مامور ایک شخص کو قتل کر کے اونٹنیوں کو ہانک کر لے گیا اور شہید ہونے والے شخص کی بیوی کو بھی اٹھا کر لے گیا تب آنحضور صلی لی نام کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے آٹھ سواروں کو دشمن کے تعاقب میں بھیجا.ان آٹھ سواروں میں حضرت معاذ بن ماعص بھی شامل تھے.اس موقع پر ایک روایت یہ بھی ہے کہ ان آٹھ سواروں میں حضرت ابو عیاش بھی شامل تھے.بھیجنے سے پہلے آپ نے حضرت ابو عیاش سے فرمایا کہ تم اپنا گھوڑا کسی اور کو دے دو جو تم سے اچھا شہسوار ہے.ابو عیاش نے عرض کی کہ یارسول اللہ میں ان سب سے بہتر شہسوار ہوں.کہتے ہیں یہ کہہ کرا بھی میں پچاس گز ہی چلا تھا کہ گھوڑے نے گرا دیا.ابو عیاش کہتے ہیں کہ اس پر میں بہت زیادہ فکر مند ہوا کیونکہ رسول اللہ صلی العلم فرمارہے تھے اگر تم اپنا گھوڑا کسی اور کو دے دو تو بہتر ہے جبکہ میں کہہ رہا تھا کہ میں ان سب سے بہتر ہوں.پھر بنو زریق کے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد حضرت رسول اللہ صلی الیوم نے حضرت عیاش کے گھوڑے پر معاذ بن ماعص یا عائذ بن ما عض کو سوار کر دیا.1025

Page 459

443 289 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت معاذ بن عمرو بن جموح ย حضرت معاذ بن عمرو بن جموح - حضرت معاذ بن عمرو کا تعلق بنو خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تھا.آپ بیعت عقبہ ثانیہ اور غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے تھے.آپ کے والد حضرت عمروبن بجموح صحابی رسول اللہ صلی علی کم تھے جو غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے.آپ کی والدہ کا نام ھند بنت عمر و تھا.موسیٰ بن عُقْبَہ، ابو معشر اور محمد بن واقدی کے نزدیک آپ کے بھائی مُعَوِذِّ بن عمرو بھی غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے.اور آپ کی بیوی کا نام ثبیتہ بنت عمر و تھا جو بنو خزرج کی شاخ بنو ساعدہ سے تھیں.ان سے آپ کا ایک بیٹا عبد اللہ اور ایک بیٹی امامہ پید اہوئیں.1026 حضرت معاذ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تھے لیکن ان کے والد عمر وبن بجموح اپنے ย مشرکانہ عقائد پر بہت سختی سے قائم تھے.حضرت معاذ کے والد کا قبول اسلام سیرت ابن ہشام میں حضرت معاذ کے والد کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ درج ہے.کوئی سال ہوا ہے میں نے ان کے واقعہ میں تھوڑا سا بیان کیا تھا کہ جب یہ لوگ، بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہونے والے جو لوگ تھے مدینہ واپس آئے تو انہوں نے اسلام کی خوب اشاعت کی اور ان کی قوم میں کچھ بزرگ ابھی تک اپنے شرکیہ دین پر قائم تھے ان میں سے ایک عمرو بن جموح بھی تھے.آپ کے بیٹے مُعاذ بن عمرو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تھے اور اس موقع پر انہوں نے رسول اللہ صلی للی کم کی بیعت کر لی تھی.عمرو بن جموح بنو سلمہ کے سرداروں میں سے تھے اور ان کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ تھے.انہوں نے اپنے گھر میں لکڑی کا ایک بت بنا کر رکھا ہوا تھا جیسا کہ اس وقت کے بڑے لوگ بنا کر رکھتے تھے.اسے مناة کہا جاتا تھا.اس کو معبود بنا کر اس کی تزئین و تطہیر کرتے تھے.جب بنو سلمہ کے کچھ نوجوان اسلام لے آئے جن میں حضرت معاذ بن جبل اور عمرو بن جموح کے بیٹے حضرت مُعاذ بن عمرو بن جموح تھے.یہ ان نوجوانوں میں سے تھے جو اسلام لائے اور عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تو یہ لوگ رات کو عمرو بن جموح کے بت کدہ میں داخل ہو کر اس بت کو اٹھا کر لے آتے اور اسے بنو سلمہ کے کوڑا کرکٹ میں پھینکنے کے لیے بنائے جانے والے گڑھے میں اوندھالٹا دیتے، پھینک دیتے رض

Page 460

اصحاب بدر جلد 5 444 جب صبح عمر و اٹھتے تو کہتے تمہارا برا ہو.کس نے رات ہمارے معبودوں سے دشمنی کی.پھر اس کو ، ڈھونڈنے نکل پڑتے یہاں تک کہ جب اسے پالیتے تو اسے دھوتے اور صاف کرتے.پھر کہتے خدا کی قسم ! اگر میں یہ جان لوں کہ کس نے تیرے ساتھ ایسا کیا تو ضرور میں اسے رسوا کروں گا.پھر جب رات ہوتی اور عمر و سو جاتے تو دوبارہ ان کے بیٹے وہی حرکت کرتے.پھر عمرو بن جموح نے بت کو وہاں سے باہر نکالا جہاں اسے پھینکا گیا تھا پھر اسے دھویا اور صاف کیا.پھر وہ اپنی تلوار لائے اور اس کے گلے میں لٹکا دی اور کہا کہ اللہ کی قسم ایقینا مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ تیرے ساتھ ایسا کون کرتا ہے پس اگر تجھ میں کوئی طاقت ہے تو اس کو روک لے اور یہ تلوار تیرے پاس پڑی ہے.بت کے پاس تلوار رکھ دی.جب شام ہوئی اور عمر و سو گئے تو ان نوجوانوں نے جن میں ان کا اپنا بیٹا شامل تھا اس بہت سے دوبارہ وہی سلوک کیا.اس کے گلے سے وہ تلوار لی اور ایک مردہ کتے کو لے کر اس بت کو رسی کے ساتھ اس سے باندھ دیا اور بنو سلمہ کے پرانے کنویں میں پھینک دیا جس میں کوڑا کرکٹ وغیرہ پھینکا جاتا تھا.پس وہ اسے ڈھونڈتے رہے یہاں تک کہ اس کنویں میں اوندھے منہ مردہ کتے کے ساتھ بندھا پایا.جب انہوں نے یہ نظارہ دیکھا تو ان پر حقیقت کھل گئی اور ان کی قوم کے مسلمان لوگوں نے بھی انہیں اسلام کی تعلیم دی تو آپ خدا کی رحمت سے اسلام لے آئے.1027 ابن ہشام کی سیرت میں یہ واقعہ اس طرح لکھا ہے کہ بت تو تلوار کے ساتھ بھی کچھ نہیں کر سکا تو ایسے خدا کو پوجنے کا کیا فائدہ ! حضرت معاذ بن عمرو بن جموح ابو جہل کو قتل کرنے والوں میں بھی شامل تھے.چنانچہ بخاری کی روایت میں درج ہے کہ صالح بن ابراہیم اپنے دادا حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ میں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا تھا کہ میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو انصاری لڑکے ہیں.ان کی عمریں چھوٹی ہیں.میں نے آرزو کی کہ کاش میں ایسے لوگوں کے درمیان ہو تا جو ان سے زیادہ جوان، تنومند ہوتے.اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ سے دبا کر پوچھا کہ چچا کیا آپ ابو جہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں بھیجے.تمہیں اس سے کیا کام ہے ؟ اس نے کہا مجھے بتلایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی علیہم کو گالیاں دیتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ پاؤں تو میری آنکھ اس کی آنکھ سے جدا نہ ہو گی جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مرجائے جس کی مدت پہلے مقدر ہے.میں اس پر بڑا حیران ہوا.پھر دوسرے نے مجھے ہاتھ سے دبایا اور اس نے بھی مجھے اسی طرح پوچھا.ابھی تھوڑا عرصہ گزرا ہو گا کہ میں نے ابو جہل کو لوگوں میں چکر لگاتے دیکھا.میں نے کہا دیکھو وہ ہے تمہارا سا تھی جس کے متعلق تم نے مجھے سے دریافت کیا تھا.یہ سنتے ہی وہ دونوں جلدی سے اپنی تلواریں لیے اس کی طرف لپکے اور اس پر حملہ کر کے دونوں نے اسے قتل کر ڈالا.پھر وہ دونوں لوٹ کر رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آئے اور آپ کو خبر دی.آپ نے پوچھا تم میں سے کس نے اس کو مارا ہے.دونوں نے کہا میں نے اس کو مارا ہے.آپ نے

Page 461

اصحاب بدر جلد 5 445 پوچھا کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھ کر صاف کر لی ہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں.آپ نے تلواروں کو دیکھ کر فرمایا کہ تم دونوں نے ہی اس کو مارا ہے اس کا سامان غنیمت معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا اور ان دونوں کا نام معاذ تھا.مُعاذ بن عفراء اور مُعَاذ بن عمرو بن جموح 28 رم 1028P ابو جہل کو قتل کرنے والے کون کون تھے پہلے بھی شروع میں ایک دفعہ معاذ اور مُعوّذ کے واقعات کو بیان کر چکا ہوں اور یہاں پھر ابہام پید اہو سکتا ہے.اس لیے اس قتل کا واقعہ جو متفرق کتب حدیث میں سیرت میں بھی بیان ہوا ہے اور یہ جو بخاری سے بھی روایت بیان ہوئی ہے اس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت معاذ بن عمرو بن جموح “ اور حضرت معاذ بن عفراء نے ابو جہل پر حملہ کر کے اسے قتل کیا تھا اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ابو جہل کا سر قلم کیا تھا.دوسری جگہ معاذ اور معوّذ کا ذکر ملتا ہے.بہر حال اس کے علاوہ بخاری میں ہی ایسی روایات بھی ہیں جب میں یہ ذکر ہے کہ ابو جہل کو عفراء کے دو بیٹوں معاذ اور معوذ نے قتل کیا تھا اور بعد میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے جاکر اس کا کام تمام کیا.چنانچہ بخاری کی ایک روایت میں اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے: حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی علیم نے جنگ بدر کے دن فرمایا کون دیکھے گا کہ ابو جہل کا کیا حال ہوا ہے ؟ حضرت ابن مسعودؓ گئے اور جاکر دیکھا کہ اس کو عفراء کے دونوں بیٹوں معاذ اور معوذ نے تلواروں سے مارا ہے کہ وہ مرنے کے قریب ہو گیا ہے.حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا کیا تم ابو جہل ہو ؟ حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں انہوں نے ابو جہل کی داڑھی پکڑی.ابو جہل کہنے لگا کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی شخص ہے جس کو تم نے مارا یا یہ کہا کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ہے جس کو اس کی قوم نے مارا ہو ؟ 1029 یہ دونوں روایتیں بخاری میں ہی ملتی ہیں.دو نام معاذ آتے ہیں اور ایک جگہ معاذ اور مُعوّذ کے نام آتے ہیں.ایک جگہ دونوں کی ولدیت مختلف ہے.ایک جگہ ایک ہی باپ کے دونوں بیٹے کہلاتے ہیں.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ابو جہل کے قاتلین کی کہ کس طرح اس کی تطبیق کی جائے، کس طرح اس کی وضاحت ہو ؟ اس کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " بعض روایات میں ہے کہ عفراء کے دو بیٹوں (معوذ اور معاف) نے ابو جہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا.بعد ازاں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جد ا کیا تھا.امام ابن حجر نے اس احتمال کا اظہار کیا ہے کہ معاذ بن عمرو اور معاذ بن عفراء کے بعد معوذ بن عفراء نے بھی اس پر وار کیا ہو گا."1030 اس لیے پہلی دو روایتوں میں ان دنوں بھائیوں کا بھی ذکر ملتا ہے.دوسری روایت میں دو مختلف لوگوں کا ذکر ملتا ہے اور جو شرح فتح الباری ہے اس میں لکھا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ تینوں ہی ہوں.علامہ بدرالدین عینی ابو جہل کے قاتلین کی تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابو جہل کو معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے قتل کیا تھا.حضرت عبد اللہ نے

Page 462

اصحاب بدر جلد 5 446 رض 1031 1032 اس کا سر قلم کیا اور نبی صلی لی کمی کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے.علامہ بدرالدین عینی مزید لکھتے ہیں کہ صحیح مسلم میں ہے کہ جن دونوں نے ابو جہل کو قتل کیا تھا وہ معاذ بن عمرو بن جموح اور مُعَاذ بن عَفْرَاء ہیں.مُعَاذ بن عَفْراء کے والد کا نام حارث بن رفاعہ تھا اور عفراء ان کی ماں تھیں جو عبید بن ثَعْلَبه نجاریہ کی بیٹی تھیں.اسی طرح بخاری کتاب الجہاد میں باب مَنْ لَّمْ يُخَمسِ الْأَسْلَابَ میں ذکر آچکا ہے کہ حضرت معاذ بن عمرو " تھے جنہوں نے ابو جہل کی ٹانگ کائی اور گرادیا تھا.پھر معوذ بن عفراء نے اس کو مارا یہاں تک کہ اس نے اس کو زمین پر گرادیا.پھر اس کو چھوڑ دیا جبکہ اس میں ابھی کچھ رمق باقی تھی، جان تھی.پھر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس پر کاری ضرب لگائی اور اس کا سر جدا کر دیا.پھر یہ لکھتے ہیں کہ اگر تو کہے کہ ان تمام باتوں کو یوں اکٹھا بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ شاید ابو جہل کا قتل ان سب کا کام تھا اس لیے اکٹھا کیا ہے.2 زرقانی کی ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے جب ابو جہل کو دیکھا تو اس کو اس حال میں پایا کہ آخری سانس لے رہا تھا.اس پر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اپنی ٹانگ ابو جہل کی گردن پر رکھ کر کہا کہ اے اللہ کے دشمن ! اللہ نے تجھے رسوا کر دیا ہے.اس پر ابو جہل نے متکبرانہ انداز میں کہا میں تو کوئی رسوا نہیں ہوا.اور کیا تم نے مجھ سے بھی معزز کسی اور شخص کو قتل کیا ہے ؟ یعنی مجھے تو اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہا.پھر ابو جہل نے پوچھا کہ مجھے بتاؤ کہ میدان کس کے ہاتھ میں رہا.فتح اور کامیابی کس کے ہاتھ میں رہی ؟ تو حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا کہ اللہ اور رسول کی فتح ہوئی.ابو جہل....اس امت کا فرعون ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ابو جہل نے کہا اس یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی الل علم سے یہ بات بھی کہنا کہ میں ساری زندگی اس شخص کا دشمن رہا اور آج اس وقت بھی میں اس کی دشمنی اور عداوت میں انتہا تک ہوں.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ابو جہل کا سر قلم کیا اور اس کا سر لے کر جب آنحضرت ملا لی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی علیم نے فرمایا کہ جس طرح میں اللہ کے نزدیک تمام نبیوں سے زیادہ معزز اور مکرم ہوں اور میری امت اللہ کے نزدیک باقی تمام امتوں سے زیادہ معزز اور مکرم ہے اسی طرح اس امت کا فرعون باقی تمام امتوں کے فراعین سے زیادہ سخت اور متشد د ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حتّی اِذَا اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ أَمَنْتُ اَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي أَمَنَتْ بِهِ بَنْوا اسراءیل (یونس: 91) قرآن شریف میں سورہ یونس میں آیا ہے کہ جب اسے غرقابی نے آلیا تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر وہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے.جبکہ اس امت کا فرعون دشمنی اور کفر میں بہت بڑھ کر ہے.جس طرح کہ مرتے ہوئے ابو جہل کی باتوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے.اس کے علاوہ روایات میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ ابو جہل کی ہلاکت کی خبر ملنے پر آنحضرت صلی ا ہم نے ابو جہل کا سر دیکھنے پر فرمایا کہ اللہ الذی لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ کہ اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.

Page 463

اصحاب بدر جلد 5 447 اسی طرح آپ صلی للی کم نے تین مرتبہ فرمایا الحمد لله الذي اعزّ الْإِسْلَامَ وَ أَهْلَہ کہ ہر قسم کی تعریف کا مستحق اللہ ہے جس نے اسلام اور اس کے ماننے والوں کو عزت دی.اسی طرح یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ یقیناً ہر امت کا ایک فرعون ہوتا ہے اور اس امت کا فرعون ابو جہل تھا جسے اللہ تعالیٰ نے بہت ہی برے انداز میں قتل کروایا.وفات 1033 1034 حضرت معاذ بن عمرو بن جموح کی وفات حضرت عثمان کے دور میں ہوئی.24 خلیفہ بن خیاط بیان کرتے ہیں کہ مُعاذ بن عمرو بن جموح مو بدر کے دن ایک زخم لگا تھا.آپ اس کے بعد حضرت عثمان کے زمانہ تک علیل رہے.پھر مدینہ میں وفات پائی.حضرت عثمان نے آپ کا جنازہ پڑھا اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہوئے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل الم نے فرمایا کہ معاذ بن عمرو بن جموح کیا ہی اچھا شخص ہے.اللہ تعالیٰ ہزاروں ہزار رحمتیں نازل فرمائے ان لوگوں پر جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کی محبت ڈوب کر ان کی رضا کو حاصل کرنے والے بنے.1036 1035 289 حضرت معبد بن عباد حضرت معبد بن عباد ایک صحابی تھے جن کی کنیت ابو محمیضہ تھی.والد تھے عباد بن قُشَیر.حضرت معبد بن عباد کا نام معبد بن عُبَادَة اور معبد بن عمارہ بھی بیان کیا گیا ہے.ان کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو سالم بن غنم بن عوف سے تھا ان کی کنیت ابو محمیضہ ہے.بعض کے نزدیک آپ کی کنیت ابو خميصہ اور ابو عُصَيْمه بھی بیان کی گئی ہے.غزوہ بدر اور غزوہ احد میں یہ شریک ہوئے تھے.290 1037 حضرت مُعيّب بن عُبيد " ย آنحضرت ملی الم کے ایک صحابی حضرت معیب بن عبید تھے.آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی آپ کے بھتیجے اسیر بن عُروۃ آپ کے وارث ہوئے.حضرت معیب بن عُبيد غزوہ بدر اور اُحد میں

Page 464

اصحاب بدر جلد 5 448 1038 شریک ہوئے اور انہوں نے یوم الرجیع میں شہادت پائی.رجیع کا جو واقعہ ہے کہ اس میں دس مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا.اس واقعہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی لکھا ہے کہ " یہ دن مسلمانوں کے لئے سخت خطرے کے دن تھے اور آنحضرت صلی علیم کو چاروں طرف سے متوشش خبریں آرہی تھیں.لیکن سب سے زیادہ خطرہ آپ کو قریش مکہ کی طرف سے تھا جو جنگ اُحد کی وجہ سے بہت دلیر اور شوخ ہو رہے تھے.اس خطرے کو محسوس کر کے آنحضرت صلی ای کم نے ماہ صفر چار ہجری میں اپنے دس صحابیوں کی ایک پارٹی تیار کی اور ان پر عاصم بن ثابت کو امیر مقرر فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ خفیہ خفیہ ملکہ کے قریب جا کر قریش کے حالات دریافت کریں اور ان کی کارروائیوں اور ارادوں سے آپ کو اطلاع دیں لیکن ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عضل اور قارہ کے چند لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں.آپ چند آدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں جو ہمیں مسلمان بنائیں اور اسلام کی تعلیم دیں.آنحضرت صلی اللہ ہم نے ان کی یہ خواہش معلوم کر کے وہی پارٹی....جو خبر رسانی کے لئے تیار کی گئی تھی ان کے ساتھ روانہ فرما دی.لیکن دراصل جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ لوگ جھوٹے تھے اور بنو لختیان کی انگیخت پر مدینہ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانے سے مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کر دیا جائے اور بنو لحیان نے اس خدمت کے معاوضہ میں عضل اور قارہ کے لوگوں کے لئے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کئے تھے.جب عضل اور قارہ کے یہ غدار لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنو یخیان کو خفیہ خفیہ اطلاع بھجوادی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آرہے ہیں تم آجاؤ.جس پر قبیلہ بنو یخیان کے دو سو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور مقام رجیع میں (رجیع ایک جگہ ہے) ان کو دبایا.دس آدمی دو سو سپاہیوں کا کیا مقابلہ کر سکتے تھے.لیکن مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کی تعلیم نہیں دی گئی تھی." اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں جو تمہیں گھیر لیا جائے تو پھر یہی حکم ہے کہ جنگ کرو." فورا یہ صحابی ایک قریب کے ٹیلے پر چڑھ کر مقابلے کے واسطے تیار ہو گئے.کفار نے جن کے نزدیک دھو کہ دینا کوئی معیوب فعل نہیں تھا ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پر سے نیچے اتر آؤ ہم تم سے پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے.عاصم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہمیں تمہارے عہد و پیمان پر کوئی اعتبار نہیں ہے.ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اتر سکتے اور پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا کہ اے خدا تو ہماری حالت دیکھ رہا ہے.اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے.غرض عاصم اور ان کے ساتھیوں نے مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے.جب سات صحابہ مارے گئے اور صرف خُبيب بن عدی اور زید بن دینہ اور ایک اور صحابی باقی رہ گئے تو کفار نے جن کی اصل خواہش ان لوگوں کو زندہ پکڑنے کی تھی پھر

Page 465

449 اصحاب بدر جلد 5 آواز دے کر کہا کہ اب بھی نیچے اتر آؤ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں تکلیف نہیں پہنچائیں گے.اب کی دفعہ یہ سادہ لوح مسلمان ان کے پھندے میں آکر نیچے اتر آئے مگر نیچے اترتے ہی کفار نے ان کو اپنی تیر کمانوں کی تندیوں سے جکڑ کر باندھ لیا اور اس پر حبیب اور زید کے ساتھی سے جن کا نام تاریخ میں عبد اللہ بن طارق مذکور ہوا ہے صبر نہ ہو سکا اور انہوں نے پکار کر کہا کہ یہ تمہاری پہلی بد عہدی ہے اور نامعلوم تم آگے چل کر کیا کروگے.عبد اللہ نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا جس پر کفار تھوڑی دور تک عبد اللہ کو گھسیٹتے ہوئے، زدو کوب کرتے ہوئے لے گئے اور پھر انہیں قتل کر کے وہیں پھینک دیا اور چونکہ ان کا انتقام پورا ہو چکا تھا وہ قریش کو خوش کرنے کے لئے نیز روپے کی لالچ میں خُبیب اور زید کو ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے اور وہاں پہنچ کر انہیں قریش کے ہاتھ فروخت کر دیا.چنانچہ حبیب کو تو حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خرید لیا کیونکہ حبیب نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا اور زید کو صفوان بن امیہ نے خرید لیا." اور یہ بھی پھر آخر میں شہید کر دیئے گئے تھے.1039 291 حضرت معتب بن عوف حضرت معیب بن عوف صحابی تھے.حضرت معیب بن عوف کا تعلق قبیلہ بنو خزاعہ سے ہے.یہ بنو مخزوم کے حلیف تھے.آپ کو معیب بن الحمراء بھی کہا جاتا ہے.آپ کی کنیت ابو عوف ہے.حضرت معيّب بن عوف دوسری ہجرت حبشہ میں شامل تھے.جب حضرت معیب بن عوف نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو آپ حضرت مبشر بن عبد المنذر کے ہاں ٹھہرے.مواخات مدینہ کے وقت آنحضور صلی علیم نے حضرت ثعلبہ بن حاطب انصاری کے ساتھ آپ کی مواخات کروائی تھی.حضرت معیب بن عوف غزوہ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں آنحضور صلی علیم کے ہمراہ شامل ہوئے.حضرت معیب بن عوف کی وفات 57 ہجری میں بعمر 78 سال ہوئی.1040

Page 466

450 292 اصحاب بدر جلد 5 حضرت معتب بن قشیر حضرت معيّب بن قشیر انصاری.بعض روایات میں آپ کا نام معیب بن بشیر بھی بیان ہوا ہے.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کی شاخ بنو ضُبیعۃ سے تھا.حضرت معیب بن قشیر بیعت عقبہ میں شامل تھے.آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.1041 293 نام و نسب رض حضرت معمر بن حارث حضرت معمر بن حارث - حضرت معمر بن حارث یا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بنو مجمع سے تھا.ان کے والد کا نام حارث بن مَعْمَر تھا اور والدہ کا نام فتیلہ بنت مَظْعُون تھا جو حضرت عثمان بن مطعون کی بہن تھیں.یوں حضرت عثمان بن مظعون حضرت معبر “ کے ماموں تھے.حضرت معمر کے دو اور بھائی تھے جن کے نام حَاطِب اور خطاب تھے.یہ تینوں رسول اللہ صلی علیم کے دارِ ارقم میں داخل ہونے سے قبل اسلام قبول کر چکے تھے.حضرت معمر کاشمار السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ میں ہوتا ہے.1042 مدینہ کی طرف ہجرت.رض حضرت عائشہؓ بنت قدامہ سے روایت ہے کہ بنو مظعون میں سے حضرت عثمان، حضرت قدامه حضرت عبد اللہ اور حضرت سائب بن عثمان بن مظعون اور حضرت معمر بن حارث مکہ رم سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو حضرت عبد اللہ بن سلمہ عجلانی کے گھر ٹھہرے تھے.1043 رسول اللہ صلی الم نے حضرت معمرؓ کی مواخات حضرت معاذ بن عفراء کے ساتھ کروائی تھی.حضرت مغمر بن حارث غزوۂ بدر، أحد ، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی الم کے ساتھ شریک ہوئے تھے.

Page 467

اصحاب بدر جلد 5 وفات 451 حضرت معمر بن حارث کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں 23 ہجری میں ہوئی تھی.294 1044 حضرت معن بن عدی انصاری حضرت معن بن عدی.حضرت معن انصار کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے حلیف تھے.1045 بیعت عقبہ میں شامل حضرت معن حضرت عاصم بن عدی کے بھائی تھے.پہلے ان کا ذکر ہو چکا ہے اس حوالے سے.حضرت معن ستر انصار کے ساتھ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے.حضرت معن اسلام قبول کرنے سے پہلے عربی میں کتابت جانتے تھے.جبکہ اس وقت عرب میں کتابت بہت کم تھی.لکھنا جانتے تھے.تمام غزوات میں شامل حضرت معن غزوہ بدر احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شامل ہوئے.حضرت زید بن خطاب نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو اس کے بعد آنحضرت صلی ا لم نے حضرت معن بن عدی اور زید بن خطاب کے درمیان عقد مؤاخات قائم فرمایا.1046 حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی لی کے فوت ہوئے تو میں نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ آپ ہمارے بھائی انصار کے پاس ہمارے ساتھ چلیں چنانچہ ہم گئے اور ان میں سے دو نیک آدمی ہمیں ملے جو بدر میں شریک ہوئے تھے میں نے عروہ بن زبیر سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ حضرت عویم بن ساعدہ اور حضرت معن بن عدی ہی تھے.1047 راوی نے آگے جو لکھا ہے.حضرت عمر کی جو روایت ابھی بیان ہوئی ہے اس کی مزید تفصیلات بخاری کی ایک اور روایت میں بھی درج ہیں جس کا کچھ حصہ میں پیش کرتا ہوں.خلافت ابو بکر کے متعلق حضرت عمر کا ایک اہم خطاب حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں مہاجرین میں سے کئی افراد کو قرآن پڑھایا کرتا تھا.ان

Page 468

اصحاب بدر جلد 5 452 میں سے عبد الرحمن بن عوف بھی تھے.ایک بار میں ان کے اس گھر میں تھا جو منی میں ہے اور وہ عمر بن خطاب کے پاس گئے ہوئے تھے.یہ واقعہ اس آخری حج کا ہے جو حضرت عمر نے کیا تھا.جب عبد الرحمن میرے پاس واپس لوٹ کر آئے عبد الرحمن بن عوف.واپس لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کاش تم بھی اس شخص کو دیکھتے جو آج امیر المؤمنین کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ امیر المؤمنین ! کیا آپ کو فلاں حکم کے متعلق علم ہوا کہ جو کہتا ہے کہ اگر عمر گئے تو میں فلاں کی بیعت کروں گا یعنی پہلے ہی بتا رہا ہے حضرت عمر کے خلافت کے وقت میں کہ آپ کے بعد پھر میں فلاں کی بیعت کروں گا اور پھر اس نے کہا کہ اللہ کی ابو بکر کی بیعت تو یوں ہی افرا تفری میں ہو گئی تھی.پھر یہ ہی نہیں کہ انگلی کا اظہار کر دیا بلکہ یہ بھی اظہار کر دیا کہ حضرت ابو بکر کی بیعت نعوذ باللہ افرا تفری میں غلطی سے ہو گئی تھی اور اس طرح وہ ان کی خلافت کا مقام ان کو ملا.یہ سن کر حضرت عمر رنجیدہ ہوئے پھر انہوں نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو میں آج شام لوگوں میں کھڑا ہوں گا اور انہیں ان لوگوں سے چوکس کروں گا جو ان کے معاملات کو زبر دستی اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں.عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ امیر المؤمنین ایسانہ کریں کیونکہ حج میں عامی لوگ اور او باش بھی اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں تو جب آپ لوگوں میں کھڑے ہوں گے تو یہی لوگ زبر دستی آپ کے قریب ہو جائیں گے اکٹھے ہو جائیں گے اور میں ڈرتا ہوں کہیں آپ کھڑے ہو کر ایسی بات نہ کہہ دیں کہ ہر بات اڑانے والا آپ کے متعلق کچھ اور کا اور نہ اڑادے اپنی طرف سے باتیں لگا کے کچھ اور ہی مشہور نہ کر دے اور لوگ اسے نہ سمجھیں اور نہ ہی مناسب محل پر اسے چسپاں کریں.سمجھ بھی نہ آئے اور پھر صحیح موقع پر اس کو چسپاں بھی نہ کریں اس کی وضاحت بھی نہ ہو سکے.پھر انہوں نے مشورہ دیا حضرت عمر کو کہ آپ اس وقت تک انتظار کریں کہ مدینہ میں پہنچیں.حج کے دن تھے.مدینہ پہنچیں گے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے وہاں کیا ہو گا کہ سمجھدار اور شریف لوگوں کو الگ تھلگ لے کر جو آپ نے کہنا ہو انہیں اطمینان سے کہیں.اور کہا کہ میں نے کہا کہ اہل علم آپ کی بات سمجھیں گے اور مناسب محل پر اسے چسپاں بھی کریں گے.اپنی اپنی تشریحیں نہیں کرنی لگ جائیں گے.پھر حضرت عمر نے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے اللہ کی قسم ان شاء اللہ پہلی بار جو مدینہ میں خطبہ کے لئے کھڑا ہوں گا تو یہ بات بیان کروں گا پھر میں وہاں جاتے ہی.ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم مدینہ ذوالحجہ کے اخیر میں پہنچے اور جب جمعہ کا دن ہو ا تو جو نہی سورج ڈھلا ہم جلدی مسجد میں آگئے جمعہ کا وقت ہوا.وہاں پہنچ کر میں نے سعید بن زید کو منبر کے پاس بیٹھے ہوئے پایا تو میں بھی انکے پاس بیٹھ گیا.میر ا گھٹنا اسکے گھٹنے سے لگ رہا تھا.اب یہ پوری تفصیل بیان کر رہے ہیں.ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ حضرت عمر بن خطاب نکلے.جب میں نے انہیں سامنے سے آتے دیکھا تو میں نے سعید بن زید سے کہا کہ آج وہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے جب سے کہ وہ خلیفہ ہوئے نہیں کہی.انہوں نے میری بات کو عجیب سمجھا جو ان کے پاس بیٹھا تھا صحابی انہوں نے عجیب سمجھا.کہنے لگے

Page 469

اصحاب بدر جلد 5 453 امید نہیں کہ وہ ایسی بات کہیں جو انہوں نے اس سے پہلے نہیں کہی.حضرت عمر منبر پر بیٹھ گئے جب اذان دینے والا خاموش ہو گیا وہ کھڑے ہوئے اور اللہ کی وہ تعریف کی جس کا وہ اہل ہے پھر کہا کہ اما بعد میں تم سے ایک ایسی بات کہنے لگا ہوں کہ میرے لئے مقرر تھا کہ میں وہ کہوں میں نہیں جانتا کہ شاید یہ بات میری موت کے قریب کی ہو اس لئے جس نے اس بات کو سمجھا اور اچھی طرح یادر کھا تو جہاں بھی اس کی اونٹنی اس کو پہنچا دے وہ اس کو بیان کرے یعنی اس کو جہاں تک تم پہنچا سکتے ہو ان باتوں کو دوسروں تک صحیح رنگ میں ان کو پہنچانا اور جس کو یہ خدشہ ہو کہ اس نے اس کو نہیں سمجھا تو میں کسی کے لئے جائز نہیں رکھتا کہ میرے متعلق جھوٹ کہے.غلط بات نہ پہنچانا.پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ نے محمد صلی علیکم کو سچائی کے ساتھ بھیجا اور آپ پر احکام شریعت نازل کئے.پھر بعض احکام کا بھی ذکر کیا ایک لمبی تفصیل ہے حدیث ہے یہ اس کو میں چھوڑتا ہوں پھر آپ نے فرمایا کہ سنو پھر رسول اللہ صلی علیکم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ بڑھا چڑھا کر میری تعریف نہ کرو جیسا کہ عیسی بن مریم کی تعریف میں مبالغہ کیا گیا اور تم یہ کہو کہ وہ اللہ کا بندہ فرمایا آنحضرت صلی علی کریم نے فرمایا تھا یہ کہا کرو میرے متعلق کہ وہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے.پھر حضرت عمرنے کہا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم میں سے کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے اس بات کو بیان کیا کہ حضرت ابو بکر کو خلافت تو یونہی مل گئی.آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم.اگر عمر مر گیا تم نے یہ کہا ہے کہ اس شخص نے ابو بکر کے متعلق بھی کہا ہے اور پھر میرے متعلق بھی کہا ہے کہ اللہ کی قسم اگر عمر مر گیا تو میں فلاں کی بیعت کروں گا آپ نے فرمایا اس لئے کوئی شخص دھو کہ میں رہ کر یہ نہ کہے پھر آپ نے بات کو پہلے حضرت عمر کی طرف لے گئے آئندہ آنے والی تو بعد کی بات ہے نہ حضرت ابو بکر کی طرف لے گئے اس بارے میں وضاحت کر دوں آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص دھوکے میں رہ کر یہ نہ کہے کہ ابو بکر کی بیعت یونہی افرا تفری میں غلطی سے ہو گئی تھی اور وہ سر انجام پاگئی اور اس طرح آپ خلیفہ بن گئے.سنو یہ درست ہے کہ وہ بیعت اسی طرح ہوئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس افرا تفری کی بیعت کے شر سے بچائے رکھا وہ افرا تفری میں بھی تھی ٹھیک ہے ایسا موقع آیا تھا لیکن اس کے شر سے اللہ تعالی نے بچایا اور تم میں ابو بکر جیسا کوئی نہیں کہ جس کے پاس اونٹوں پر سوار ہو کر لوگ آئیں.یعنی کہ ایسا عالم یہ عمل اور مخلص اور تقویٰ کے معیار پر پہنچا ہوا اور کوئی شخص نہیں تھا.پھر آگے کچھ تفصیل.اس کی بیان ہوئی باقی باتوں کی.پھر آپ نے فرمایا کہ جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کی تو اس کی بیعت نہ کی جائے یعنی کہ جو بیعت ہوئی تھی وہ بڑے مشورے سے ہوئی تھی اور یہ بھی یادر کھو کہ جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر بیعت کی کسی شخص کی تو اس کی بیعت نہ کی جائے اور نہ اس شخص کی جس نے اس کی بیعت کی.اس لئے کہ کہیں وہ اپنے آپ کو مروانہ ڈالے اور اصل میں ہمارا واقعہ یوں ہوا تھا پھر حضرت عمر نے بیان فرمایا کہ جب اللہ نے نبی کریم صلی یکم کو وفات دی تو انصار ہمارے مخالف ہو گئے اور ہم سب ثقیفہ بنو ساعدہ میں اکٹھے ہو کر اور علی اور زبیر اور جو ان دونوں کے

Page 470

اصحاب بدر جلد 5 454 ساتھ تھے ہمارے مخالف تھے اور مہاجر اکٹھے ہو کر ابو بکر کے پاس آئے میں نے ابو بکر سے کہا کہ ابو بکر آؤ ہم اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس چلیں ہم انہیں کا قصہ بیان کرتے ہوئے چلے وہی باتیں کرتے ہوئے چلے جارہے تھے کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہیں.جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ان میں سے دو نیک مرد ہمیں ملے اور پہلی روایت جو میں نے بیان کی تھی اس کے مطابق وہ جو دو نیک مرد تھے ان میں سے ایک حضرت معن بن عدی تھے.1048 بہر حال آپ فرماتے ہیں اور جس مشورے پر وہ لوگ یعنی انصار جو تھے بالا تفاق آمادہ تھے ان دونوں نے جو ملے ہمیں رستہ میں ان کا ذکر کیا اور انہوں نے کہا کہ اے مہاجرین کی جماعت تم کہاں جانا چاہتے ہو.ہم نے کہا کہ ہم ان انصاری بھائیوں کو ملنا چاہتے ہیں تو ان دونوں نے کہا یہ جو ملے تھے راستے میں جن میں حضرت معن بن عدی بھی تھے کہ ہر گز نہ وہاں جانا تمہیں یہی مناسب ہے کہ ان کے پاس نہ جاؤ.جو تم نے مشورہ کرنا ہے وہ خود ہی کر لو.حضرت عمر کہتے ہیں میں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم ضرور ان کے پاس جائیں گے اور ہم یہ کہہ کر چل پڑے اور بنو ساعدہ کے شامیانے میں ان کے پاس پہنچے.8 وہاں انصار کی حضرت ابو بکر کی اور حضرت عمر کی ایک لمبی بحث ہوئی اور جو گفتگو تھی وہ خلافت کے انتخاب کے بارے میں تھی اور اس کی پھر ایک آگے لمبی تفصیل ہے.اس کی کچھ حد تک تفصیل جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمائی ہے وہ میں بیان کر دیتا ہوں.اس ثقیفہ بنو ساعد ہ والے یہاں انصار کی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی علیکم کی وفات پر صحابہ کے تین گروہ بن گئے تھے.ایک گروہ نے یہ خیال کیا کہ رسول کریم صلی علیکم کے بعد ایک ایسا شخص ضرور ہونا چاہئے جو نظام اسلامی کو قائم کرے مگر چونکہ نبی کے منشاء کو اس کے اہل وعیال ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس لئے نبی کریم علی ایم کے اہل میں سے ہی کوئی شخص مقرر ہونا چاہیئے.ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ آپ کی اولاد میں سے کوئی شخص ہونا چاہئے.کسی اور خاندان میں سے کوئی اور شخص نہیں ہونا چاہئے.اس گروہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر کسی اور خاندان میں سے کوئی شخص خلیفہ مقرر ہو گیا تو لوگ اس کی باتیں مانیں گے نہیں اور اس طرح نظام میں خلل واقع ہو گا.سے مراد ہے اولاد یا ان کے قریبی داماد وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں تو بہر حال اور اس طرح نظام میں خلل واقع ہو گا.حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں لیکن اگر آپ کے خاندان میں سے ہی کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو چونکہ لوگوں کو اس خاندان کی اطاعت کی عادت ہے اس لئے وہ خوشی سے اس کی اطاعت قبول کر لیں گے.جیسے ایک بادشاہ کی بات ماننے کے لوگ عادی ہو چکے ہوتے ہیں جب وفات پا جاتا ہے تو اس کا بیٹا جانشین بنتا ہے تو اس کی اطاعت بھی شوق سے کرنے لگ جاتے ہیں.مگر دوسرا فریق جو تھا اس نے سوچا کہ اس کے لئے رسول کریم صلی علیم کے اہل میں سے ہونے کی شرط ضروری نہیں ہے.مقصد تو یہ ہے کہ رسول کریم کا ایک جانشین ہو.پس جو سب سے زیادہ اس کا

Page 471

اصحاب بدر جلد 5 455 اہل ہو اس کے سپر د یہ کام ہونا چاہئے.اس دوسرے گروہ کے پھر آگے دو حصے ہو گئے اور گو وہ دونوں اس بات پر متحد تھے کہ رسول کریم صلی اللہ کمر کا کوئی جانشین ہونا چاہئے مگر ان میں سے اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ رسول کریم کا جانشین کن لوگوں میں سے ہو.ایک گروہ کا خیال تھا کہ جو لوگ سب سے زیادہ عرصے تک آپ کے زیر تعلیم رہے ہیں وہ اس کے مستحق ہیں یعنی مہاجر اور ان میں سے بھی قریش جن کی بات ماننے کے لئے عرب تیار ہو سکتے ہیں اور بعض نے یہ خیال کیا کہ چونکہ رسول کریم صلی للی نیم کی وفات مدینہ میں ہوئی ہے اور مدینہ میں انصار کا زور ہے اس لئے وہی اس کام کو اچھی طرح چلا سکتے ہیں.بہر حال اس پر انصار اور مہاجرین میں اختلاف بھی ہوا غرض اب انصار اور مہاجرین میں اختلاف ہو گیا انصار کا یہ خیال تھا کہ چونکہ رسول کریم صلی ال یکم نے اصل زندگی جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ہمارے اندر گزاری ہے انصار یہ کہتے تھے مدینہ میں گزاری ہے اور مکہ میں کوئی نظام نہیں تھا اس لئے نظام حکومت ہم ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور خلافت کے متعلق ہمارا ہی حق ہے کسی اور کا حق نہیں ہے.دوسری دلیل وہ یہ دیتے تھے کہ یہ علاقہ ہمارا ہے اور طبعاً ہماری بات کا ہی لوگوں پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے مہاجرین کا اثر نہیں ہو سکتا پس رسول کریم صلی اللی کام کا جانشین ہم میں سے ہونا چاہئے مہاجرین میں سے نہیں اس کے مقابلے میں مہاجرین یہ کہتے تھے کہ رسول کریم صلی للی کم کی جتنی لمبی صحبت ہم نے اٹھائی ہے اتنی لمبی صحبت انصار نے نہیں اٹھائی اتنا عرصہ ان کے ساتھ نہیں رہے اس لئے دین کو سمجھنے کی جو قابلیت ہمارے اندر ہے وہ انصار کے اندر نہیں ہے.اس اختلاف پر آپ لکھتے ہیں کہ اس اختلاف پر ابھی دوسرے لوگ غور ہی کر رہے تھے اور وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے تھے کہ اس آخری گروہ نے جو انصار کے حق میں تھا بنی ساعدہ کے ایک برآمدہ میں جمع ہو کر اس بارہ میں مشورہ شروع کر دیا اور سعد بن عبادۃ جو خزرج کے سر دار تھے اور نقباء میں سے تھے ان کے بارے میں طبائع کا اس طرف رجحان ہو گیا کہ انہیں خلیفہ مقرر کیا جائے چنانچہ انصار نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک ہمارا ہے زمینیں ہماری ہیں جائیدادیں ہماری ہیں اور اسلام کا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو فیصلہ کیا اس بات پر کہ اس منصب کے لئے سعد بن عبادۃ سے بہتر اور کوئی شخص نہیں.یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ بعض نے کہا کہ اگر مہاجرین اس کا انکار کریں گے تو کیا ہو گا.سوال اٹھا.اس پر کسی نے کہا کہ پھر ہم کہیں گے کہ منا آمیز وَمِنكُمْ آمیر یعنی ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے.سعد جو بہت دانا آدمی تھے انہوں نے کہا کہ یہ تو پہلی کمزوری ہے.جن کو امیر بنانا چاہتے تھے خلیفہ انصار انہوں نے کہا کہ یہ تو پہلی کمزوری ہے یعنی یا تو ہم میں سے خلیفہ ہونا چاہئے یا ان میں سے.مِنَّا آمِیرٌ وَمِنكُمْ آمیز کہنا تو گویا خلافت کے مفہوم کو نہ سمجھنا ہے اور اس سے اسلام میں رخنہ پڑے گا اور یہ رخنہ ڈالنا ہے.اس مشورے کے بعد جب مہاجرین کو اطلاع ہوئی تو وہ جلدی سے وہیں آگئے جیسا کہ حضرت عمر نے بیان فرمایا جو پہلے ذکر ہو چکا کہ آپ حضرت ابو بکر اور کچھ اور لوگ گئے وہاں.کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر مہاجرین میں سے کوئی خلیفہ نہ

Page 472

456 اصحاب بدر جلد 5 ہوا تو عرب اس کی اطاعت نہیں کریں گے صرف مدینہ کی بات نہیں بلکہ پورے عرب کی بات ہے.مدینہ میں بیشک انصار کا زور تھا مگر تمام عرب مکہ والوں کی عظمت اور ان کے شرف کا قائل تھا.پس مہاجرین نے سمجھا کہ اگر اس وقت انصار میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو اہل عرب کے لئے سخت مشکل پیش آئے گی اور ممکن ہے کہ ان میں سے اکثر اس ابتلا میں پورے نہ اتریں چنانچہ جب مہاجرین سب مہاجرین وہیں آئے ان میں حضرت ابو بکر حضرت عمر حضرت ابو عبیدہ بھی شامل تھے.حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر بیان کرنے کے لئے ایک بہت بڑا مضمون سوچا ہوا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ میں جاتے ہی ایک ایسی تقریر کروں گا جس سے تمام انصار میرے دلائل کے قائل ہو جائیں گے اور وہ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ انصار کے بجائے مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کریں مگر جب ہم وہاں پہنچے تو حضرت ابو بکر تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے.میں نے اپنے دل میں کہا کہ انہوں نے بھلا کیا بیان کرنا ہے مگر خدا کی قسم جتنی باتیں میں نے سوچی ہوئی تھیں وہ سب انہوں نے بیان کر دیں حضرت ابو بکر نے بلکہ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے پاس سے بھی بہت سے دلائل دیئے تب میں نے سمجھا کہ میں ابو بکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا.غرض مہاجرین نے انہیں بتایا کہ اس وقت قریش میں سے ہی امیر ہونا ضروری ہے اور رسول کریم صلی ا لنی کیم کی یہ حدیث بھی پیش کی کہ الائمةُ مِن قریش.کہ قریش میں سے تمہارے امام ہونا اور ان کی سبقت دین اور ان کی قربانیوں کا ذکر کیا جو وہ دین کے لئے کرتے چلے آئے تھے.اس پر حباب بن منذر خزرجی نے مخالفت کی اور کہا کہ ہم اس بات کو نہیں مان سکتے کہ مہاجرین میں سے خلیفہ ہو نا چاہئے.ہاں اگر آپ لوگ کسی طرح نہیں مانتے اور آپ کو اس پر بہت اصرار ہے تو پھر یہی ہے کہ ایک امیر آپ میں سے ہو جائے ایک ہمارے میں سے.اس پر عمل کیا جائے.ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک آپ لوگوں میں سے.حضرت عمر نے فرمایا کہ سوچ سمجھ کر بات کرو.تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم صلی الم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت میں دو امیروں کا ہونا جائز نہیں ہے اس سے معلوم ہو تا ہے حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیثیں تو ایسی موجود تھیں جن میں رسول کریم ملی ایم نے نظام خلافت کی تشریح کی ہوئی تھی مگر آپ کی زندگی میں صحابہ کا ذ ہن ادھر منتقل نہیں ہوا اور اس کی وجہ وہی خدائی حکمت تھی جس کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے اس جو بیان کرائے ہیں اس کے پہلے سیاق میں کر چکے ہیں.بہر حال کہتے ہیں کہ پس تمہارا یہ مطالبہ حضرت عمر نے کہا کہ تمہارا یہ مطالبہ کہ ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے عقلاً اور شرعاً کسی طرح جائز نہیں.پھر حضرت ابو بکر کا انتخاب کس طرح ہوا کچھ بحث مباحثہ کے بعد حضرت ابو عبیدہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے انصار کو توجہ دلائی کہ تم پہلی قوم ہو جو مکہ کے باہر ایمان لائی اب رسول کریم صلی یی کمی کی وفات کے بعد تم پہلی قوم نہ بنو جنہوں نے دین کے منشا کو بدل دیا اور کہتے ہیں کہ اس کا طبائع پر ایسا اثر ہوا کہ بشیر بن سعد خزر جی کھڑے ہوئے اور انہوں نے

Page 473

اصحاب بدر جلد 5 457 اپنی قوم سے کہا کہ یہ لوگ سچ کہتے ہیں ہم نے محمد رسول اللہ صلی علی ایم کی جو خدمت کی اور آپ کی نصرت و تائید کی وہ دنیاوی اغراض سے نہیں کی تھی اور نہ اس لئے کی تھی کہ ہمیں آپ کے بعد حکومت ملے بلکہ ہم نے خدا تعالیٰ کے لئے کی تھی.پس حق کا سوال نہیں ہے کہ ہمارا حق ہے امیر بنے یا ہم میں سے خلیفہ بنے بلکہ سوال اسلام کی ضرورت کا ہے اور اس لحاظ سے مہاجرین میں سے ہی امیر مقرر ہونا چاہئے کیونکہ انہوں نے رسول کریم صلی علیم کی لمبی صحبت پائی ہے.اس پر کچھ دیر تک اور بحث ہوتی رہی مگر آخر آدھ پون گھنٹے کے بعد لوگوں کی رائے اسی طرف ہوتی چلی گئی کہ مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ مقرر کرنا چاہئے چنانچہ حضرت ابو بکر نے حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ کو اس منصب کے لئے پیش کیا.حضرت ابو بکر نے خود پیش کیا پھر کہ یا حضرت عمر ہیں یا حضرت ابو عبیدہ نہیں ان دونوں میں سے کسی کی بیعت کر لینی چاہئے مگر دونوں نے انکار کیا اور کہا کہ جسے رسول کریم صلی علی ایم نے اپنے بیماری کے دنوں میں نماز کا امام بنا یا تھا اور جو سب مہاجرین میں سے بہتر ہے ہم تو اس کی بیعت کریں گے.جب حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کا اور حضرت ابو عبیدہ کا نام خلافت کے لئے پیش کیا تو اس پہ حضرت عمر نے خود جو بیان کیا ہے جو پچھلا تسلسل چل رہا تھا تو حضرت عمر کہتے ہیں کہ اس بات کے سواجیسا کہ انہوں نے کہا نہ یہ بڑی اعلیٰ تقریر کی حضرت ابو بکر نے اس میں یہ باتیں بھی ہوئیں.حضرت عمر کہتے ہیں کہ ساری باتیں بڑی اعلیٰ تھیں لیکن اس بات کے سوا میں نے اور کوئی بات نا پسند نہیں کی جو انہوں نے کہی یعنی کہ حضرت عمر کا نام پیش کیا یا حضرت ابو عبیدہ کا نام پیش کیا.آپ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ حال تھا جب میرا نام حضرت ابو بکر نے پیش کیا کہ اگر مجھے آگے بڑھا کر میری گردن اڑا دی جاتی تاکہ یہ موت مجھے کسی گناہ کے قریب نہ پھٹکنے دے تو مجھے یہ بات زیادہ پسند تھی اس سے کہ میں ایسی قوم کا امیر بنوں جس میں ابو بکر ہوں یعنی ان کا مقام ایسا ہے کس طرح ہو سکتا ہے اس وقت مجھے حضرت ابو بکر کی موجودگی میں امیر بنا دیا جائے تو ابو بکر دیا میں نے اس کو ناپسند کیا باقی تقریر بہت اعلیٰ تھی.بہر حال حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں حضرت عمر نے جب کہا کہ جو مہاجرین میں سے سب سے بہتر ہے ہم اس کی بیعت کریں گے تو مطلب یہ تھا کہ اس منصب کے لئے حضرت ابو بکر سے بڑھ کر اور کوئی شخص نہیں چنانچہ اس پر حضرت ابو بکر کی بیعت شروع ہو گئی پہلے حضرت عمر نے بیعت کی پھر حضرت ابو عبیدہ نے بیعت کی پھر بشیر بن سعد خزرجی نے بیعت کی اور پھر اوس اور پھر خزرج کے دوسرے لوگوں نے اور اس قدر جوش پیدا ہوا اس وقت کہ سعد جو بیمار تھے اور اٹھ نہ سکتے تھے ان کی قوم ان کو روندتی ہوئی آگے بڑھ کر بیعت کرتی تھی چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں سعد اور حضرت علی کے سواسب نے بیعت کر لی.حتی کہ سعد کے اپنے بیٹے نے بھی بیعت کر لی.حضرت علی نے کچھ دنوں بعد بیعت کی چنانچہ بعض روایات میں تین دن آتے ہیں اور بعض روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ آپ نے چھ ماہ کے بعد بیعت کی تھی.چھ ماہ والی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ کی تیمار داری میں مصروفیت کی وجہ

Page 474

اصحاب بدر جلد 5 458 سے آپ حضرت ابو بکر کی بیعت نہ کر سکے اور جب آپ بیعت کرنے کے لئے آئے تو آپ نے یہ معذر بھی کی کہ چونکہ فاطمہ بیمار تھیں اس لئے میں بیعت میں مجھے دیر ہو گئی ہے.19 الله 1049 بہر حال اس وقت سب نے بیعت کی.حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی ایم کو وفات دی تو لوگ آپ صلی للہ تم پر روئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم یہ چاہتے تھے کہ آپ صلی الی تم سے پہلے مر جاتے ہمیں اندیشہ تھا کہ آپ صلی ال کلم کے بعد فتنہ میں نہ پڑ جائیں.حضرت معن جن کا ذکر ہو رہا ہے صحابی کا انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نہیں چاہتا تھا.لوگ تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم پہلے مر جاتے حضرت معن نے کہا نہیں.میں نہیں یہ چاہتا تھا کہ میں آپ صلی اللہ کم سے پہلے مر جاتا.کیوں.اس لئے کہ جب تک میں آپ صلی علیم کی وفات کے بعد بھی آپ صلی علیم کی اسی طرح تصدیق نہ کر لوں جیسا کہ آپ مسی لی ایم کی حیات میں آپ صلی علیم کی تصدیق کی تھی میں نے.جس طرح میں نے آپ کو مانا تھا نبی اسی طرح اس بات کی تصدیق بھی نہ کر لوں وفات کے بعد کہ وہی نظام جس کی پیشگوئی آپ نے فرمائی تھی خلافت راشدہ کا وہ جاری ہو چکا ہے اور اسی کو جاری رکھنا ہے اور منافقین اور مرتدین کے جال میں نہیں آنا.پس یہی وہ ایمان کا معیار ہے جسے ہر احمدی کو بھی اپنے اندر قائم کرنا چاہئے.ایک روایت کے مطابق حضرت معن حضرت خالد بن ولید کے ہمراہ نبی کریم صلی علیکم کے بعد مرتدین اور باغیوں کی سرکوبی میں شامل تھے اور حضرت خالد بن ولید نے دو سو گھڑ سواروں کے ہمراہ حضرت معن کو یمامہ کی طرف بطور ہر اول دستے کے بھیجا تھا.شہادت 1051 1050 آنحضرت صلی الم نے حضرت معن کا حضرت زید بن خطاب کے ساتھ عقد مؤاخات قائم فرمایا تھا.ان دونوں اصحاب نے حضرت ابو بکر صدیق کے دورِ خلافت میں جنگ یمامہ میں 12 ہجری میں شہادت پائی تھی.1052 اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو بھی نبوت کے مقام کو بھی پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور خلافت کے ساتھ وفا اور اخلاص کا تعلق پیدا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.1053

Page 475

459 295 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت معوذ بن حارث بن رفاعہ اپنے دو بھائیوں کے ساتھ جنگ بدر میں شامل حضرت معوذ بن حارث.حضرت معوذ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا.حضرت معوذ کے والد کا نام حارث بن رفاعہ تھا.ان کی والدہ کا نام عفراء بنت عبید تھا.حضرت معاذ اور حضرت عوف ان کے بھائی تھے.یہ تینوں اپنے والد کے ساتھ ساتھ اپنی والدہ کی طرف بھی منسوب تھے اور ان تینوں کو بنو عفراء بھی کہا جاتا تھا.1054 بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل صرف ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت معوذ ستر انصار کے ساتھ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل تھے.حضرت معوذ نے اُمّم یزید بنت قیس سے شادی کی.اس شادی سے ان کے ہاں دو بیٹیاں پید اہوئیں جن کے نام حضرت ربیع بنت معوذ اور حضرت محميره بنت معوذ " تھا.1055 حضرت معوذ کو اپنے دونوں بھائیوں حضرت معاذ اور حضرت عوف کے ساتھ غزوہ بدر میں شامل 1056 رض ہونے کی توفیق ملی 16 غزوہ بدر میں حضرت معاذ، حضرت عوف اور حضرت معوذ جو بنو عفراء کہلاتے تھے وہ اور ان کے آزاد کردہ غلام ابو حمراء کے پاس ایک ہی اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے.ابو جہل کے قتل میں شامل 1058 1057 روایت حضرت معاذ کے ضمن میں پہلے بیان کر چکا ہوں.لیکن یہاں حضرت معوذ کے ضمن میں بھی اس کا آنا ضروری ہے اس لیے بیان کرتا ہوں.حضرہ انس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے جنگ بدر کے دن فرمایا کہ کون دیکھے گا کہ ابو جہل کا کیا حال ہوا ہے ؟ حضرت ابن مسعودؓ گئے اور جا کر دیکھا کہ اس کو عفراء کے دو بیٹوں نے تلواروں سے اتنامارا ہے کہ وہ مرنے کے قریب ہو گیا ہے.حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا کیا تم ابو جہل ہو ؟ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ابو جہل کی داڑھی پکڑی.ابو جہل کہنے لگا کیا تم نے اس سے بڑے کسی آدمی کو قتل کیا ہے یا یہ کہا کہ اس کو اس کی قوم نے

Page 476

اصحاب بدر جلد 5 1060 460 قتل کیا ہو ؟ اس جیسے بڑے آدمی کو کبھی ان کی قوم نے قتل کیا ہو ؟1059 یہ بخاری کی روایت ہے.اس کی شرح میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ بعض روایات میں ہے کہ عفراء کے دو بیٹوں معوذ اور معاذ نے ابو جہل کو موت کے قریب پہنچادیا تھا.بعد میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا.امام ابنِ حجر نے اس احتمال کا اظہار کیا ہے کہ حضرت معاذ بن عمرو اور حضرت معاذ بن عفر الہ کے بعد حضرت معوذ بن عفر الا نے بھی اس پر وار کیا ہو گا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ابو جہل کے قتل کے واقعے کو بیان کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ انسان بڑی خوشیاں کرتا ہے اور اپنے لیے ایک چیز کو مفید خیال کرتا ہے لیکن وہی اس کے لیے تباہی اور بربادی کا باعث ہو جاتی ہے.بدر کے موقعے پر کفارِ مکہ جب آئے تو انہوں نے سمجھا کہ بس ہم نے مسلمانوں کو مار لیا اور ابو جہل نے کہا ہم عید منائیں گے اور خوب شرا میں اڑائیں گے اور سمجھا کہ بس اب مسلمانوں کو مار کر ہی پیچھے ہٹیں گے لیکن اسی ابو جہل کو مدینے کے دولڑکوں نے قتل کر دیا.کفارِ مکہ مدینہ والوں کو بڑا ذلیل خیال کرتے تھے اور اسے یعنی ابو جہل کو ایسی حسرت دیکھنی نصیب ہوئی کہ اس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہو سکی.عرب میں رواج تھا کہ جو سردار ہوتا وہ اگر لڑائی میں مارا جاتا تو اس کی گردن لمبی کر کے کاٹتے تا کہ پہچانا جاوے کہ یہ کوئی سردار تھا.عبد اللہ بن مسعودؓ نے اسے دیکھا جب یہ بے حس و حرکت اور زخمی پڑا ہوا تھا اور پوچھا کہ تمہاری کیا حالت ہے ؟ اس نے کہا مجھے اور تو کوئی افسوس نہیں، صرف یہ ہے کہ مجھے مدینہ کے دو ارائیں بچوں نے مار دیا یعنی ایسے بچوں نے جو سبزیاں اگانے والوں کی، کھیتی باڑی کرنے والوں کی اولاد ہیں اور مکہ والوں کی نظر میں یہ کام کم درجے کا سمجھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ مدینہ کے لوگوں کو جنگ و جدل اور جنگ و قتال کا کیا پتہ ؟ لیکن مارا بھی اور اس کے اس تکبر کو توڑا بھی تو کس نے ؟ انہی لوگوں نے نہ صرف ان لوگوں نے بلکہ ان کے بچوں نے یا لڑکوں نے جو اتنے تجربہ کار نہیں تھے.عبد اللہ نے دریافت کیا کہ تمہاری کوئی خواہش ہے ؟ اس نے کہا میری یہ خواہش ہے کہ میری گردن ذرا لمبی کر کے کاٹ دو.انہوں نے کہا میں تیری یہ خواہش بھی پوری نہیں ہونے دوں گا اور اس کی گردن کو ٹھوڑی کے پاس سے سختی سے کاٹ دیا اور وہ جو عید منانی چاہتا تھا وہی اس کے لیے ماتم ہو گیا اور وہ شراب جو اس نے پی تھی اسے ہضم ہونی بھی نصیب نہ ہوئی.غزوہ بدر کے موقعے پر حضرت معوذ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے.آپ کو ابو مُسَافِع نے شہید کیا تھا.1061 1062

Page 477

461 296 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت معوذ بن عمرو بن جموح حضرت معوذ بن عمرو بن جموح - حضرت معوذ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو جسم سے تھا.3 1063 رض حضرت معوذ کے والد کا نام عمرو بن جموح اور ان کی والدہ کا نام ہند بنت عمرو تھا.حضرت معوذ بن عمرو بن جموح اپنے دو بھائیوں حضرت معاذ اور حضرت خلاد کے ساتھ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے اس کے علاوہ یہ غزوہ احد میں بھی شامل ہوئے تھے.جہاد اور شہادت کا شوق اور جذبہ 1064 حضرت معوذ بن عمرو " کے والد وہی عمرو بن جموح ہیں جن کو ان کے بیٹوں نے ان کی لنگڑاہٹ کی وجہ سے پاؤں کی تکلیف کی وجہ سے بدر میں شامل نہیں ہونے دیا تھا.اس کا ذکر میں پہلے بھی ایک دفعہ خطبے میں کر چکا ہوں.مختصر آبتادوں کہ جب احد کا موقع آیا تو حضرت عمرو بن جموح نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ بدر کے موقعے پر تم نے مجھے جنگ پر جانے نہیں دیا تھا لیکن اب میں ضرور جاؤں گا.احد کی جنگ میں تم مجھے روک نہیں سکتے.ان کے بیٹوں نے بہتیرا کہا کہ آپ کی ٹانگ خراب ہے.آپ پہ تو جنگ ضروری بھی نہیں ہے.ایسے حالات میں فرض نہیں ہے لیکن حضرت عمرو بن جموح نہیں مانے.رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یارسول اللہ ! میرے بیٹے میرے پاؤں کی تکلیف کی وجہ سے جنگ میں مجھے شامل ہونے سے روک رہے ہیں لیکن میں آپ کے ساتھ جہاد میں شامل ہونا چاہتا ہوں.رسول اللہ صلی للی یکم نے بھی یہی فرمایا کہ جہاں تک تمہارا تعلق ہے تمہیں اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے اور تم پر اس وجہ سے جہاد فرض نہیں ہے لیکن پھر آپ نے انہیں ان کا وہ جوش دیکھ کے، شوق دیکھ کے اجازت بھی دے دی.حضرت عمرو بن جموح نے اپنا جنگ کا سازوسامان لیا اور یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ اے اللہ ! مجھے شہادت عطا فرما اور مجھے ناکام و نامراد اپنے اہل وعیال کی طرف نہ لوٹانا اور پھر حقیقتا ان کی یہ خواہش پوری ہوئی اور وہ میدان احد میں شہید ہوئے.ان کی شہادت کے بعد ان کی بیوی حضرت ہند نے انہیں اور اپنے بھائی عبد اللہ بن عمرو کو بھی ایک سواری پر رکھا اور ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اس ذات کی

Page 478

اصحاب بدر جلد 5 462 قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں نے عمرو کو جنت میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھا ہے.1065 297 نام و نسب حضرت مقداد بن عمر و الکندی / مقداد بن اسود 1066 بدری صحابہ کے ذکر میں آج میں حضرت مقداد بن اسود یا مقداد بن عمرو کا ذکر کروں گا.ان کا اصل نام مقداد بن عمرو ہے حضرت مقداد کے والد کا نام عمرو بن ثعلبہ تھا جو بنی بہراء سے تھے.البتہ حضرت مقداد کو اسود بن یغوث کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے انہیں بچپن میں اپنا متبنیٰ بنا لیا تھا.اس لیے مقداد بن اسوڈ کے نام سے معروف ہو گئے.حضرت مقداد کے والد عمرو بن ثعلبہ قبیلہ بہراء سے تعلق رکھتے تھے جو یمن کے علاقے میں قضاعہ کا ایک قبیلہ تھا.زمانہ جاہلیت میں ان کے والد عمرو کے ہاتھوں کسی کا قتل ہو گیا جس وجہ سے وہ بھاگ کر حضر مؤت، جو سمندر کے کنارے عدن کے شرقی جانب یمن میں ایک علاقہ ہے وہاں چلے گئے اور وہاں کیندہ قبیلے کے حلیف بن گئے جس بنا پر کندی کہلائے جانے لگے.وہاں ایک خاتون سے عمرو نے شادی کر لی جس سے حضرت مقداد پیدا ہوئے.جب مقداد بڑے ہوئے تو ان کا ابو شمر بن حجر کندی سے جھگڑا ہو گیا.انہوں نے شمر کی ٹانگ تلوار سے کاٹ دی اور پھر مکہ بھاگ آئے اور آسود بن عَبْدِيَغُوث کے حلیف بن گئے.مقد اڈ نے اپنے والد کو خط لکھا تو وہ بھی پھر مکہ آگئے.اسود نے مقداد کو اپنا متبنیٰ بنالیا تھا جس وجہ سے ان کو مقداد بن اسود بھی کہا جانے لگا اور عموماً اسی نام سے مشہور ہو گئے لیکن جب آيت أدعُوهُمُ لا با هم (1 حزب ) یعنی ان کو ، بچوں کو ، لے پالکوں کو بھی ان کے باپوں کے نام سے پکارو تو انہیں مقداد بن عمرو کہا جانے لگالیکن شہرت مقداد بن اسود کے نام سے تھی.بہر حال اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ اُدعُوهُمْ لا باپ کہ لے پالکوں کو بھی اور جو کسی کے ساتھ منسوب ہیں، اصل نسب جو ہے وہ باپ کا ہے اس لیے باپ سے پکارا جانا چاہیے.حضرت مقداد کی کنیت ابو معبد کے علاوہ ابو اسود، ابو عمر اور ابو سعید بھی بیان کی جاتی ہے.شادی اور اولاد ایک دفعہ حضرت مقداد اور حضرت عبد الرحمن بن عوف بیٹھے ہوئے تھے.حضرت عبد الرحمن

Page 479

اصحاب بدر جلد 5 463 نے پوچھا کہ تم شادی کیوں نہیں کرتے ؟ حضرت مقداد نے کہا کہ آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں تو پھر اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دیں.اس پر حضرت عبد الرحمن شخصے میں آگئے اور انہیں ڈانٹ دیا.حضرت مقداد نے نبی کریم صلی علی کل سے اس امر کی شکایت کی تو آپ مصلی تم نے فرمایا کہ میں تمہاری شادی کرواتا ہوں.اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ ہم نے اپنے چچا حضرت زبیر بن عبد المطلب کی بیٹی ضباعۃ سے ان کی شادی کروادی.1067 حضرت ضُباعه حضرت زبیر اور عاتکہ بنت ابی وہب کی بیٹی تھیں اور حضور صلی اللہ ہم نے ان کی شادی حضرت مقداد سے جب کروائی تو ان کے ہاں اولاد ہوئی.ان کے دو بچے پیدا ہوئے کریمہ اور عبد اللہ.عبد اللہ جنگ جمل میں حضرت عائشہ کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے.آنحضرت صلی یکم نے ضباعہ کو خیبر میں سے چالیس وسق کھجور میں عطا کی تھیں.اور یہ تقریب ڈیڑھ سو من یا کہہ لیں کہ چھ ہزار کلو کے قریب بنتا ہے.حضرت مقداد کے ایک بیٹے کا نام معبد بھی تھا.1070 1069 1068 حضرت مقداد کی بیٹی کریمہ آپ کا حلیہ بیان کرتی ہیں کہ ان کا قد لمبا اور رنگ گندمی تھا.پیٹ بڑا اور سر میں کثرت سے بال تھے.وہ اپنی داڑھی کو زردرنگ لگایا کرتے تھے جو خوب صورت تھی.نہ بڑی تھی اور نہ چھوٹی تھی.آنکھیں سیاہ تھیں اور ابر و باریک اور لمبے تھے.1071 قبول اسلام کا واقعہ حضرت مقداد کے قبولِ اسلام کا واقعہ اس طرح ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مقداد ان سات صحابہ میں سے تھے جنہوں نے مکے میں اپنے اسلام کا سب سے پہلے اظہار کیا تھا 1072 حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت اس کی تفصیل پہلے میں حضرت عمار بن یاسر کے ضمن میں بیان کر چکا ہوں.حضرت مقداد کی مدینہ کی طرف ہجرت کے بارے میں آتا ہے کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں حضرت مقداد بھی شامل تھے.کچھ عرصے بعد مکہ واپس آگئے.جب رسول الله صلى ال کم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو اس وقت حضرت مقداد ہجرت نہ کر سکے.پھر وہ ملے میں اس وقت تک رہے جب تک کہ آنحضرت صلی الم نے حضرت عبیدہ بن حارث کی سر کردگی میں ایک سریہ بھیجا.حضرت مقداد اور حضرت عُتبہ بن غزوان عکرمہ بن ابو جہل کی کمان میں اس غرض سے لشکر میں شامل ہوئے تھے کہ وہ دونوں موقع پا کر مسلمانوں سے جا

Page 480

اصحاب بدر جلد 5 ملیں گے.1073 464 اس کی تفصیل بھی میں پہلے بیان کر چکا ہوں.تھوڑی سی مختصر جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں لکھی ہے وہ کچھ بیان کر دیتا ہوں.وہ اس طرح ہے کہ: "غزوہ وَ ان سے واپس آنے پر ماہ ربیع الاول کے شروع میں آپ نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار عُبَيْدَہ بن الْحَارِثُ مُطلبی کی امارت میں ساٹھ شتر سوار مہاجرین کا ایک دستہ روانہ فرمایا.اس مہم کی غرض بھی قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی." ان کو روکنا تھا " چنانچہ جب عُبيدة بن الحارث اور ان کے ساتھی کچھ مسافت طے کر کے ثَنِيَّةُ الْمَرَّة کے پاس پہنچے تو نا گاہ کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے دوسو مسلح نوجوان عکرمہ بن ابو جہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں.فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کے مقابلے میں کچھ تیراندازی بھی ہوئی لیکن پھر مشرکین کا گروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی ہو گی." کچھ کمک چھپی ہوئی ہو گی " ان کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا.البتہ مشرکین کے لشکر میں سے دو شخص مقداد بن عمر و اور عُتبہ بن غزوان عِكْرِمَہ بن ابو جہل کی کمان سے خود بخود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقعہ پاکر مسلمانوں میں آملیں کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کر سکتے تھے اور ممکن ہے کہ اسی واقعہ نے قریش کو بد دل کر دیا ہو اور انہوں نے اسے بدفال سمجھ کر پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہو.تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہے کہ قریش کا یہ لشکر جو یقینا کوئی تجارتی قافلہ نہیں تھا اور جس کے متعلق ابن اسحاق نے جَميع عَظِیمٌ (یعنی ایک بڑا لشکر) کے الفاظ استعمال کیے ہیں کسی خاص ارادہ سے اس طرف آیا تھا لیکن یہ یقینی ہے کہ ان کی نیت بخیر نہیں تھی اور یہ خدا کا فضل تھا کہ مسلمانوں کو چوکس پا کر اور اپنے آدمیوں میں سے بعض کو مسلمانوں کی طرف جاتا دیکھ کر ان کو ہمت نہیں ہوئی اور وہ واپس لوٹ گئے اور صحابہ کو اس مہم کا یہ عملی فائدہ ہو گیا کہ دو مسلمان روحیں قریش کے ظلم سے نجات پا گئیں.مدینہ ہجرت کے وقت حضرت مقداد بن اسود حضرت کلثوم بن ہرم کے گھر ٹھہرے.آنحضرت صلی الله یم نے حضرت مقداد اور حضرت جبار بن صخر کے مابین مواخات قائم کی.آنحضرت صلی کم نے حضرت مقداد کو بنو عدیلہ انصار کے قبیلہ خزرج کی ایک شاخ ہے ان کے محلے میں رہائش کے لیے جگہ عطا فرمائی تھی.حضرت اُئی بن گفت نے انہیں اس محلے میں رہنے کی دعوت دی تھی.آنحضرت ملا علم کے حصہ کار کھا ہوا دودھ پی لیتا 1074" 1075 حدیثوں میں رات کو بکری کا دودھ پینے کا جو ایک واقعہ بیان ہوتا ہے اور آنحضرت صلی علیم کے لیے تین شخص جو دودھ رکھتے تھے اس کا تعلق حضرت مقداد سے ہی ہے.وہ دودھ بھی ایک صحابی پی گئے.حضرت مقداد یہ روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے دو ساتھی مدینہ ہجرت کر کے آئے

Page 481

465 اصحاب بدر جلد 5 اور ہمارے کان اور آنکھیں مشقت کی وجہ سے متاثر ہو گئی تھیں.ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی علیم کے صحابہ پر پیش کرنے لگے کہ کسی کے ساتھ ٹھہر جائیں مگر کسی نے ہمیں قبول نہ کیا تو ہم رسول اللہ صلی الی یوم کے پاس آئے.آپ ہمیں اپنے گھر لے گئے تو وہاں تین بکریاں تھیں.نبی صلی یکم نے فرمایا ان کا دودھ ہم سب کے لیے دوہ لیا کرو.وہ کہتے ہیں کہ ہم دودھ دوہتے اور ہم میں سے ہر شخص اپنا حصہ پی لیتا اور ہم نبی کریم صلی علیم کے لیے آپ کا حصہ رکھ دیتے.وہ کہتے ہیں کہ رات آپ تشریف لاتے اور اتنی آواز میں السلام علیکم کہتے کہ سونے والا بیدار نہ ہو اور جو جاگ رہا ہو وہ سن لے.کہتے ہیں کہ پھر آپ مسجد تشریف لے جاتے اور نماز پڑھتے.پھر اپنے حصے کا دودھ لیتے اور نوش فرماتے.کہتے ہیں کہ ایک رات میرے پاس شیطان آیا جبکہ میں اپنا حصہ پی چکا تھا یعنی شیطانی خیال میرے دل میں آیا.اس نے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی یکم انصار کے پاس جاتے ہیں اور انصار آپ کو تحفہ پیش کرتے ہیں.آپ کو اس گھونٹ کی یعنی تھوڑے سے دودھ کی جو آپ کے حصے کا رکھا ہوا تھا کوئی ضرورت نہیں ہے.چنانچہ کہتے ہیں میں نے وہ حصہ جو آنحضرت صلی علیم کے لیے رکھا ہوا تھا وہ لے کر پی لیا.جب وہ میرے پیٹ میں چلا گیا، عربوں کا بیان کرنے کا اپنا ایک طریقہ ہے.کہتے ہیں میرے پیٹ میں چلا گیا، میں جان گیا کہ اب اس کے حصول کی کوئی راہ نہیں.بس یہ اب واپس نہیں آسکتا تو کہتے ہیں کہ شیطان نے مجھے نادم کیا اور کہا کہ تیر ابر اہو یہ تو نے کیا کیا ! تو نے محمد کے حصے کا دودھ پی لیا ہے.وہ تشریف لائیں گے اور اسے نہ پائیں گے تو وہ تیرے خلاف دعا کریں گے اور تو ہلاک ہو جائے گا اور تیری دنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی.شیطان نے ندامت کیوں کی ؟ حضرت مقداڈ نے یہ فقرہ کیوں بولا ؟ اس لیے کہ شیطان نے یہ وسوسہ آپ کے دل میں ڈالا کہ آنحضرت صلی ا یکم آپ کے لیے بد دعا کریں گے حالانکہ آنحضرت صلی کم تو رحمتہ للعالمین ہیں.اس چھوٹی سی بات پر انہوں نے کیوں دعا کرنی تھی.تو یہ خیال بھی شیطانی تھا کہ آنحضرت صلی للہ ہم تمہارے لیے بد دعا کریں گے.بہر حال کہتے ہیں یہ خیال میرے دل میں آیا کہ دعا کریں گے تو میں ہلاک ہو جاؤں گا اور دنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی.کہتے ہیں کہ میرے اوپر ایک چادر تھی جب میں اسے اپنے پاؤں پر ڈالتا تو میر اسر باہر رہ جاتا اور جب سر پر ڈالتا تو میرے پاؤں باہر نکل جاتے اور مجھے نیند نہ آتی تھی.میرے دونوں ساتھی تو سو گئے تھے.انہوں نے وہ نہیں کیا تھا جو میں نے کیا تھا یعنی وہ دودھ پی لیا تھا.کہتے ہیں کہ پھر نبی کریم صلی علی کرم تشریف لائے.آپ نے السلام علیکم کہا جیسے کہا کرتے تھے.پھر مسجد گئے اور نماز پڑھی یعنی نفل پڑھے.پھر اپنے مشروب کی طرف آئے.دودھ کا جو گلاس رکھا ہوا تھا اس کی طرف آئے.اس کا ڈھکنا اٹھایا تو اس میں کچھ بھی نہیں تھا.آپ صلی علی ایم نے آسمان کی طرف سر اٹھایا.کہتے ہیں میں جاگ رہا تھا.سب کچھ دیکھ رہا تھا.مجھے خیال آیا کہ اب آپ میرے خلاف دعا کریں گے.یعنی مجھے بد دعا دیں گے اور میں ہلاک ہو جاؤں گا.لیکن آپ نے فرمایا کہ اللَّهُمَّ أَطْعِمُ مَنْ أَطْعَمَنِي وَأَسْقِ مَنْ اسقاني یعنی اے اللہ ! جو مجھے کھلائے اس کو تو کھلا اور جو مجھے پلائے تو اس کو پلا.کہتے ہیں کہ یہ سن کر

Page 482

اصحاب بدر جلد 5 466 میں نے اپنی چادر لی.اپنے اوپر مضبوطی سے اسے باندھا.جاگ تو میں رہا تھا اور چھری لے کر باہر گیا کہ یہ جو باہر بکریاں کھڑی ہیں ان میں سے جو سب سے اچھی، موٹی، صحت مند بکری ہے اس کی طرف چل پڑا کہ اسے رسول اللہ صلی علیم کے لیے ذبح کروں.کہتے ہیں جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس کے ضن دودھ سے بھرے ہوئے ہیں بلکہ ان سب کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے یعنی ساری بکریوں کے.پھر میں حضور صلی ال نیم کے گھر والوں کا ایک برتن لایا.ان کو خیال بھی نہ ہوتا تھا کہ اس میں دودھ دوہ کر اس کو بھریں گے.کہتے ہیں کہ میں نے اس میں دودھ دوہا یہاں تک کہ اس کے اوپر تک جھاگ آ گئی، برتن پورا بھر گیا.میں رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے فرمایا کیا تم لوگوں نے آج رات اپنے حصے کا دودھ پی لیا تھا ؟ وہ کہتے ہیں میں نے کہا یار سول اللہ ! یہ نہ پوچھیں آپ.آپ یہ دودھ پئیں.آپ نے پیا پھر مجھے دے دیا.میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! اور پئیں.آپ نے پھر پیا.پھر مجھے دے دیا.جب مجھے محسوس ہوا کہ نبی کریم علی علیکم سیر ہو گئے ہیں، آپ کا پیٹ بھر گیا ہے.جتنی آپ کی خوراک تھی اتنا دودھ آپ نے پی لیا ہے اور یہ بھی مجھے خیال آیا کہ میں نے اب آنحضرت صلی لی ایم کی دعا بھی لے لی ہے.یہی دعا کی تھی ناں کہ اللہ جو مجھے پلائے اس کو پلا اور جو مجھے کھلائے اس کو کھلا.کہتے ہیں اب دودھ بھی پلا دیا تھا اور میں نے دعا بھی لے لی تو میں ہنس پڑا اور میں اتنا ہنسا کہ بے اختیار زمین پر جا رہا.یعنی یہاں تک کہ جنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا.کہتے ہیں کہ جب آپ نے مجھے ہنستے دیکھا تو اس پر نبی کریم صلی للی ایم نے فرمایا.اے مقداد ! تیری کوئی شرارت ہے.آپ نے فرمایا مجھے لگتا ہے تم نے کوئی شرارت کی ہے.میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میرے ساتھ یوں ہوا ہے ، اور میں نے یہ کیا تھا سارا قصہ سنا دیا.نبی کریم صلی علیم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہے.یہ بات تو نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی تاکہ ہم اپنے دونوں ساتھیوں کو جگا لیتے وہ بھی اس سے پیتے.رحمت سے حصہ پاتے.کہتے ہیں میں نے کہا اس کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے جب آپ نے وہ رحمت پالی اور آپ کے ساتھ میں نے بھی وہ رحمت پالی تو اب مجھے کوئی پروا نہیں کہ لوگوں میں سے کون اسے حاصل کرتا ہے.مجھے تو اپنی فکر تھی کیونکہ میں نے ہی وہ جرم کیا تھا.تمام غزوات میں شرکت 1076 1077 حضرت مقد اڈ نے غزوات بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ شرکت کی تھی.حضرت مقد ادرسول اللہ علی تعلیم کے تیر اندازوں میں سے بیان کیے جاتے ہیں.7 حضرت مقداد کا والہانہ پر جوش خطاب حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ غزوہ بدر کے موقع پر میں نے مقداد بن اسوڈ کی بات کا ایک ایسا منظر دیکھا کہ اگر مجھ کو حاصل ہو جاتا تو مجھے وہ ان تمام نیکیوں سے عزیز تر ہو تا جو ثواب میں اس ایک

Page 483

اصحاب بدر جلد 5 467 منظر کے برابر ہو.کہتے ہیں ہوایوں کہ مقداد نبی کریم صلی علیم کے پاس آئے جبکہ آپ مشرکوں کے خلاف دعا کر رہے تھے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! ہم اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح موسیٰ کی قوم نے کہا تھا کہ فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا وَلَكِنَّا نُقَاتِلُ عَنْ يَمِينِكَ وَعَنْ شِمَالِكَ وَبَيَنْ يَدَيْكَ وَخَلْفَكَ یعنی جاتو اور تیر ارب دونوں جا کر لڑو.نہیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بھی لڑیں گے بائیں بھی اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی.میں نے نبی ملی یم کو دیکھا کہ آپ کا چہرہ چمکنے لگا اور مقداد کی اس بات نے آپ کو خوش کر دیا.1078 ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے سیرت خاتم النبیین میں جنگ بدر کے حوالے سے اس کی کچھ تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے کہ دشمن کی خبر پا کر جب آنحضرت صلی الی یکم ان کے ارادے جاننے کے لیے اور اگر وہ حملہ کرتے ہیں تو ان کے حملے کو روکنے کے لیے بدر کی طرف روانہ ہوئے تو روحاء کے قریب پہنچ کر آپ نے بیسیس اور عدی نامی دو صحابیوں کو دشمن کی حرکات و سکنات کا علم حاصل کرنے کے لیے بدر کی طرف روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ وہ بہت جلد خبر لے کر واپس آئیں.روحاء سے آگے روانہ ہو کر جب مسلمان وادی صفرا کے ایک پہلو سے گزرتے ہوئے زَفران میں پہنچے ، یہ بھی ایک جگہ کا نام ہے جو بدر سے صرف ایک منزل ورے ہے تو اطلاع موصول ہوئی کہ قافلے کی حفاظت کے لیے قریش کا ایک بڑا جرار لشکر مکہ سے آرہا ہے.تو آنحضرت صلی اہل علم نے اس پر تمام صحابہ کو جمع کر کے انہیں اس خبر سے اطلاع دی اور پھر ان سے مشورہ پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہیے.بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! ظاہری اسباب کا خیال کرتے ہوئے تو یہی بہتر ہے کہ قافلہ سے سامنا ہو.ہم دیکھیں کہ جو تجارتی قافلہ جارہا ہے ان کی نیت کیا ہے یاوہ کیا چاہتے ہیں ؟ کیونکہ وہ لشکر اگر جنگ کے لیے آرہا ہے تو اس کے مقابلے کے لیے ہم ابھی پوری طرح تیار نہیں ہیں.مگر آپ نے اس رائے کو پسند نہیں فرمایا.مدینہ سے چلتے ہوئے آنحضرت علی علیم کے اکثر صحابہ کو جو آپ کے ساتھ چلے تھے علم نہیں تھا کہ ہم جنگ کے لیے جارہے ہیں کیونکہ جنگ کی بھی صورت پیدا ہو سکتی ہے.بلکہ ان کو یہ تھا کہ ایک قافلہ ہے اس کو دیکھتے ہیں کہ ان کی نیت کیا ہے ؟ اور پھر اگر انہوں نے کوئی حملہ کیا تو چھوٹا قافلہ ہو گا اس سے لڑلیں گے لیکن لشکر کا اور باقاعدہ جنگ کا تو مدینہ سے نکلتے ہوئے صحابہ کو خیال بھی نہیں تھا لیکن بہر حال جب آپ نے پوچھا تو بعض نے کہا کہ لشکر کا مقابلہ تو ہم کر نہیں سکتے اس لیے ہمیں نہیں کرنا چاہیے.آپ نے اس رائے کو پسند نہیں فرمایا.دوسری طرف اکابر صحابہ نے یہ مشورہ سنا تو اٹھ اٹھ کر جاں نثارانہ تقریریں کیں اور عرض کیا کہ ہمارے جان و مال سب خدا کے ہیں.ہم ہر میدان میں ہر خدمت کے لیے حاضر ہیں.چنانچہ مقداد بن اسودؓ نے جن کا دوسرا نام مقداد بن عمرو بھی تھا جو اصل نام ہے.کہا یارسول اللہ ! ہم موسیٰ کے اصحاب کی

Page 484

اصحاب بدر جلد 5 468 طرح نہیں ہیں کہ آپ کو یہ جواب دیں کہ جاتو اور تیر اخدا جا کر لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ جہاں بھی چاہتے ہیں چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں.ہم آپ کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے ہو کر لڑیں گے.آپ نے یہ تقریر سنی تو آپ کا چہرہ مبارک خوشی سے تمتمانے لگا مگر اس موقع پر بھی آپ انصار کے جواب کے منتظر تھے اور چاہتے تھے کہ وہ بھی کچھ بولیں کیونکہ آپ کو یہ خیال تھا کہ شاید انصاریہ سمجھتے ہوں کہ بیعت عقبہ کے ماتحت ہمارا فرض صرف اس قدر ہے کہ اگر عین مدینہ پر کوئی حملہ ہو تو اس کا دفاع کریں.چنانچہ باوجود اس قسم کی جاں نثارانہ تقریروں کے جو مہاجر صحابہ نے کیں آپ یہی فرماتے گئے کہ اچھا پھر مجھے مشورہ دو کہ کیا کیا جاوے.سعد بن معاذ جو اوس قبیلے کے رئیس تھے انہوں نے آپ کے منشا کو سمجھا اور انصار کی طرف سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! شاید آپ ہماری رائے پوچھتے ہیں.خدا کی قسم اجب ہم آپ کو سچا سمجھ کر آپ پر ایمان لے آئے ہیں تو ہم نے اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا ہے تو پھر اب آپ جہاں چاہیں چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر آپ ہمیں سمندر میں کو د جانے کو کہیں تو ہم کو دجائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا اور آپ ان شاء اللہ ہم کو لڑائی میں صابر پائیں گے اور ہم سے وہ بات دیکھیں گے جو آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے گی.آپ صلی الی یکم نے یہ تقریر سنی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا.سِيرُوا وَابْشِرُوا فَإِنَّ اللهَ قَد وَعَدَنِي إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ وَاللهِ لَكَانِ أَنْظُرُ إِلَى مَصَارِعِ الْقَوْمِ یعنی تو پھر اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو اور خوش ہو کیونکہ اللہ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ کفار کے ان دو گروہوں یعنی لشکر یا قافلہ جو ہے ان میں سے کسی ایک گروہ پر وہ ہم کو ضرور غلبہ دے گا اور خدا کی قسم ! میں گویا اس وقت وہ جگہیں دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہو ہو کر گریں گے.1079 جنگ بدر میں کتنے گھوڑے تھے پھر حضرت مقداد کے بارے میں ایک یہ بھی آتا ہے کہ غزوہ بدر میں اللہ کی راہ میں قتال کرنے والے پہلے گھڑ سوار ہونے کا شرف آپ کو حاصل ہوا.ان کے گھوڑے کا نام سبحہ تھا.ایک روایت کے مطابق غزوہ بدر میں مسلمانوں کے دو گھوڑوں کا ذکر ملتا ہے.حضرت علی کہتے ہیں کہ بدر کے دن ہمارے پاس دو گھوڑے تھے ایک حضرت زبیر بن عوام کا تھا اور دوسر ا حضرت مقداد بن اسود گا.ابن ہشام کے مطابق غزوہ بدر کے دن مسلمانوں کے پاس تین گھوڑے تھے.حضرت مرشد بن ابومر نڈ کے پاس گھوڑا تھا جس کا نام سبل تھا.حضرت مقداد بن عمرو کے پاس گھوڑا تھا جس کا نام بَغزَجه تھا یا سبحہ تھا اور حضرت زبیر بن عوام کے پاس گھوڑا تھا جس کا نام یعسوب تھا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مختلف تاریخوں سے سیرت خاتم النبیین میں جو لکھا ہے اس 1080

Page 485

اصحاب بدر جلد 5 469 1081 کے مطابق غزوہ بدر میں مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے تھے.بعض کتابوں میں جیسا کہ میں نے کہا ہے تین کا ذکر ملتا ہے.بعض میں پانچ کا ذکر بھی ملتا ہے.81 بہر حال یہ گھوڑے دو تھے یا تین تھے یا پانچ تھے لیکن یہ ثابت ہے کہ مسلمانوں کے جنگی سامان اور کافروں کے جنگی سامان میں کوئی نسبت ہی نہیں تھی اور کافروں کے سازوسامان کے مقابلے میں مسلمان نہتے ہی کہلا سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود دشمن کے مقابلے کے لیے جب کھڑے ہوئے تو جیسا کہ مہاجرین نے بھی اور انصار نے بھی آپ سے جو عہد کیا تھا اس کو پورا کر کے دکھایا.الله سة کلمہ پڑھنے والے کا مقام حضرت مقداد بن عمر و کندی قبیلہ بنو زُھرہ کے حلیف تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ صلی اللی کلم کے ساتھ بدر میں شریک تھے.انہوں نے رسول اللہ صلی علی یکم سے پوچھا یار سول اللہ ! بتائیں اگر کفار میں سے کسی شخص سے میرا امقابلہ ہو جائے اور ہم دونوں لڑ پڑیں اور وہ میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ ڈالے اور پھر مجھ سے ایک درخت کی پناہ لے کر یہ کہے.پھر دوڑ جائے اور ایک درخت کے پیچھے چھپ جائے اور یہ کہے کہ میں اللہ کی خاطر مسلمان ہو گیا.یارسول اللہ ! کیا اب میں اسے مار ڈالوں جب کہ اس نے ایسی بات کہی ہے.رسول الله صل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اسے قتل نہ کرو.حضرت مقداد نے کہا یارسول اللہ ! اس نے میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالا ہے اور پھر اس کے بعد ایسا کہا ہے رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کرو کیونکہ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ تمہارے اُس درجے پر ہو جائے گا جو تم کو اُس کے قتل کرنے سے پہلے حاصل تھا یعنی ایمان کا درجہ اور تم اس کے درجے پر ہو جاؤ گے جو اس کو اس کے کلمہ کے کہنے سے پہلے حاصل تھا یعنی کافر ہونے کی حالت میں جس کو اس نے کہا تھا.1082 تو یہ قیاسی بات آنحضرت صلی للی کم کے سامنے پیش کی کہ اس طرح ہو کہ اس نے میرا ہاتھ بھی کاٹ دیا ہو پھر درخت کے پیچھے چھپ کے وہ کلمہ پڑھ لے اور اللہ کی خاطر کہے میں مسلمان ہو گیا ہوں تو کیا میں بدلہ لوں ؟ آپ نے کہا نہیں.اگر لو گے تو وہ کافر مومن ہو گا اور تم ایمان کے باوجود اس کافر کی جگہ الله سة کھڑے ہوگے.یہ ہے کلمہ پڑھنے والے کا مقام جو آنحضرت صلی علیم نے قائم فرمایا اور آج کل کے علماء کہلانے والے اور اسلامی حکومتیں ان کے یہ عمل دیکھیں.کاش یہ خود دیکھیں کہ اس حدیث کے مطابق وہ کس کھڑے ہیں.مومن کے مقام پر یا کافر کے مقام پر ؟ آنحضرت علی الم کے اونٹ قبیلہ بنو غفار کے ایک چرواہے کی نگرانی میں مدینے سے باہر چر رہے تھے اور اس چرواہے کی بیوی بھی ساتھ تھی.بنو فَزَارَہ کے عیینه بن حصن نے بنو غطفان کے کچھ گھڑ سواروں کے ساتھ مل کر حملہ کیا اور چرواہے کو مار ڈالا اور اس کی بیوی اور اونٹوں کو ساتھ لے گئے.مقام :

Page 486

اصحاب بدر جلد 5 470 حضرت سلمہ بن اکوع کو سب سے پہلے ان لوگوں کا علم ہوا.ان کے ساتھ حضرت طلحہ بن عبید اللہ کا غلام گھوڑا لے کر نکلا.جب حضرت سلمہ ثَنِيَّةُ الْوَدَاع، اس وادی کے نام کے بارے میں مختلف رائے ہیں.بعض کے نزدیک یہ مدینے سے باہر وہ مقام تھا جہاں مکہ کی طرف جانے والے لوگوں کو وداع کیا جاتا تھا جبکہ دوسرے قول کے مطابق یہ ملک شام کی جانب مدینہ سے باہر ایک مقام ہے اور غزوہ تبوک سے واپسی پر اہل مدینہ نے آنحضرت صلی علیہ یکم کا یہاں استقبال کیا تھا اور آنحضرت صلی علیم نے اس جگہ سے بعض سر ایا کو وداع فرمایا تھا.بہر حال یہ جب وہاں پہنچے تو انہوں نے عیینہ اور اس کے ساتھی کو دیکھ لیا اور مدینہ کے قریب سلع پہاڑی پر چڑھ کر مدد کے لیے پکارا جانے والا کلمہ بلند آواز سے کہا، لوگوں کو آواز دی اور کہا کہ یا صباحاة !پھر حضرت سلمہ تیر برساتے ہوئے ان کے پیچھے دوڑ پڑے اور ان کے رخ موڑ دیے.حضرت سلمہ کی مدد کی پکار سن کر رسول اللہ صلی للی تم نے مدینے میں اعلان کروایا کہ دشمن کے مقابلے کے لیے نکلو تو فورا گھڑ سوار آنحضرت صلی ا کرم کی خدمت میں آنے شروع ہو گئے اور ان میں سب سے پہلے جو لبیک کہتے ہوئے آئے وہ حضرت مقداد تھے.1083 مکہ کی طرف ایک خفیہ خط اور........آنحضرت علی ای ایم نے جب کے پر چڑھائی کرنے کی تیاری فرمائی تو اس مہم کو بہت پوشیدہ رکھا گیا اور باوجود اس کے کہ صحابہ اس مہم کی تیاری کر رہے تھے لیکن یہ عام نہیں تھا کہ مکے کی طرف جانا ہے.اس موقعے پر ایک بدری صحابی حضرت حاطب بن بلتعہ نے اپنی سادگی اور نادانی میں مکہ سے آئی ہوئی ایک عورت کے ہاتھ ایک خفیہ خط مکہ روانہ کر دیا جس میں مکہ پر حملہ کرنے کی ساری تیاریوں کا ذکر کر دیا.وہ عورت خط لے کر چلی گئی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی علیم کو اس کی خبر دے دی.چنانچہ آپ صلی تعلیم نے حضرت علی کو دو تین افراد کے ساتھ جن میں حضرت مقداد بھی شامل تھے اس عورت کا پیچھا کرنے اور وہ خط لینے کے لیے روانہ فرمایا.چنانچہ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الم نے مجھے، زبیر اور مقداد کو بھیجا اور فرمایا کہ روضَة خَاخ جاؤ.وہاں ایک شتر سوار عورت ہے.اس کے پاس ایک خط ہے.اس سے وہ لے لو.چنانچہ ہم چل پڑے.ہمارے گھوڑے ہمیں لے کر سرپٹ دوڑے.ہم اس عورت کے پاس پہنچے تو ہم نے کہا کہ خط نکالو.اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں.ہم نے کہا کہ تم ضرور خط نکالو گی یا تمہیں اپنے کپڑے اتارنے پڑیں گے.اس نے وہ اپنے بالوں کے جوڑے سے نکالا تو ہم اس خط کو لے کر رسول اللہ صلی عوام کی خدمت میں حاضر ہوئے جو ان صحابی نے کافروں کے نام لکھا تھا.لکھا تو اپنی معصومیت کی وجہ سے تھا لیکن بہر حال یہ معاملہ کیونکہ کچھ خفیہ تھا تو اس پہ یہ سب کچھ راز فاش ہو جانا تھا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے خبر دی اور یہ خط واپس آنحضرت صلی اللہ تم کو پہنچ گیا.1084

Page 487

471 اصحاب بدر جلد 5 موسیٰ بن یعقوب اپنی پھوپھی سے اور وہ اپنی والدہ سے روایت کرتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی ا ہم نے حضرت مقداد کو خیبر کی پیداوار میں سے پندرہ وسق جو سالانہ عطا فرمایا تھا جو اند از آسوا چھپن من جو سالانہ بنتا ہے وہ ہم نے معاویہ بن ابو سفیان کے ہاتھ ایک لاکھ درہم میں فروخت کیا تھا.یہ سالانہ مستقل آمد تھی اور ہو سکتا ہے کہ چند سالوں کی پیداوار یا مستقل پیداوار فروخت کی ہو 1085 کیونکہ صرف چھپن من کی تو اتنی زیادہ قیمت نہیں ہو سکتی.جنگ یرموک میں بھی حضرت مقداد نے شرکت کی تھی اور اس جنگ میں قاری حضرت مقداد تھے.رسول اللہ صلی ایم نے غزوہ بدر کے بعد یہ سنت جاری فرمائی تھی کہ جنگ کے وقت سورہ انفال کی تلاوت کی جاتی تھی.آنحضرت صلی للی کم کی وفات کے بعد بھی لوگ اس بات پر عمل کرتے رہے.6 ہمارے سب افسروں کو بھی ہمیشہ یہ یادرکھنا چاہیے 1086 رسول اللہ صلی الیکم نے ایک سر پہ بھیجا تھا اس پر حضرت مقداد کو امیر بنایا تھا.جب وہ واپس آیا تو آپ صلی یم نے پوچھا کہ اے ابو معبد !تو نے امارت کے منصب کو کیسا پایا تو انہوں نے عرض کیا یارسول 1087 اللہ ! میں جب نکلا تو میری یہ حالت ہوئی کہ میں دوسرے لوگوں کو اپنا غلام تصور کر رہا تھا.اس پر آپ نے فرمایا کہ اے ابو معبد ! امارت اسی طرح ہے سوائے اس کے کہ جسے اللہ تعالیٰ اس کے شر سے محفوظ رکھے.مقداد نے عرض کیا کوئی شک نہیں.اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے !میں دو آدمیوں پر بھی نگران بنا پسند نہ کروں گا.7 مجھے یہ ایک تجربہ ہوا اور اس میں میں نے دیکھا کہ مجھے یوں لگا کہ سب میرے غلام ہیں تو میں اس کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھے تو یہ پسند ہی نہیں کہ کبھی کسی دو آدمیوں کا بھی نگران بنوں.یہ تقویٰ کا معیار تھا ان لوگوں کا کہ افسر بننے سے تکبر پیدا ہو سکتا ہے.اس لیے میں پسند نہیں کرتا کہ دو آدمی بھی میرے ماتحت ہوں.پس ہمارے سب افسروں کو بھی ہمیشہ یہ یادرکھنا چاہیے کہ اول تو خواہش نہیں کرنی اور جب افسر بنایا جائے، عہدہ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ سے اس عہدے کے شر سے بچنے کی دعا بھی مانگنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کبھی تکبر پیدا نہ کرے اور اس کا فضل مانگنا چاہیے.حضرت مقد اور حمص کے محاصرے میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے ساتھ تھے.1088 حضرت مقداد نے مصر کی فتح میں بھی حصہ لیا.189 ایک افسر دشمن کے ایک ہزار سپاہیوں کے برابر 1089 20 ہجری میں جب مصر پر فوج کشی ہوئی اور حضرت عمرو بن عاص امیر عسکر نے دربارِ خلافت سے مزید کمک طلب کی تو حضرت عمرؓ نے دس ہزار سپاہی اور چار افسر جن میں سے ایک حضرت مقداد بھی

Page 488

اصحاب بدر جلد 5 472 1090 تھے ان کی مدد کے لیے روانہ فرمائے اور لکھا کہ ان افسروں میں سے ہر ایک دشمن کے ایک ہزار سپاہیوں کے برابر ہے.چنانچہ در حقیقت اس ملک کے پہنچتے ہی جنگ کی حالت بدل گئی اور نہایت قلیل عرصے میں تمام سر زمین جو فرعون کی زمین تھی توحید کا ورثہ بن گئی.0 جبير بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت مقداد بن اسودڈ ہمارے پاس کسی کام سے تشریف لائے تو ہم نے کہا.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی سے رکھے.آپ تشریف رکھیں یہاں تک کہ ہم آپ کا کام کر دیں.انہوں نے کہا کہ قوم کی حالت پر تعجب آتا ہے.ابھی جب آئے تو کہا میں ان لوگوں کے پاس سے گزرا، کچھ لوگوں کے پاس گزرا تو وہ فتنے کی تمنا کر رہے تھے.وہ گمان کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ضرور ویسے ہی آزمائے گا جیسے اس نے اپنے رسول صلی علیہ کم اور اس کے صحابہ کو آزمایا تھا.وہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ! میں نے رسول اللہ صلی علی ایم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خوش بخت وہ ہے جو فتنوں سے بچایا گیا.یہ بات آنحضرت صلی ا یکم نے تین مرتبہ دہرائی اور آپ نے فرمایا کہ اگر ابتلا آجائے تو پھر صبر ہے.1091 کہ فتنوں کی یعنی کسی آزمائش کی اور سختی کی دعا نہیں کرنی چاہیے ، نہ خواہش کرنی چاہیے لیکن اگر ابتلا آجائے، امتحان آجائے تو پھر اس پہ صبر دکھانا چاہیے اور پھر ثابت قدمی دکھانی چاہیے نہ یہ کہ پھر بزدلی 1092 دکھائی جائے.حضرت مقداد کا جسم بھاری بھر کم تھا لیکن اس کے باوجود جہاد کے لیے نکلتے تھے.ایک دفعہ کسی سنار کے صندوق کے پاس بیٹھے تھے تو حضرت مقداد صندوق سے بھی بڑے نظر آ رہے تھے.کسی نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جہاد سے معذور فرمایا ہے.کافی جسیم ہیں اور جیسا کہ ان کی بیٹی نے بتایا ہے کہ پیٹ بڑا تھا.حضرت مقداد نے جواب دیا کہ مجھ پر سورہ بھوٹ.( بحوث سورہ تو بہ کا بھی دوسرا نام ہے کیونکہ اس سورت میں منافقین اور ان کے رازوں کو کھولا گیا ہے) کہتے ہیں مجھے اس سورت نے لازم قرار دیا ہے کہ انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا (ا تو بہ (41) کہ جہاد کے لیے نکلو خواہ ہلکے ہو یا بھاری ہو.2 حضرت مصلح موعود نے خفافًا وَثِقَالا کی وضاحت یوں بیان فرمائی ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں اور کسی قسم کی مشکل ان کے رستے میں نہیں آنی چاہیے.خِفَافًا وَثِقَالًا کے کئی معنی ہیں تم بوڑھے ہو یا جو ان ہو فرد، افراد یا گروہوں میں سے ہو.پیدل ہو یا سوار ہو.تمہارے پاس ہتھیار کافی ہیں یا نہیں ہیں.خوراک کافی ہے یا نہیں ہے.093 حضرت مقد اڈ نے اس آیت سے کیونکہ کئی معنی ہیں اس کے جسم کا ہلکا ہونا اور بھاری ہو نامر ادلے کر اپنے شوق جہاد کا بھی اظہار کیا.

Page 489

اصحاب بدر جلد 5 وفات 473 1094 حضرت مقداد کا پیٹ بہت زیادہ بڑھا ہوا تھا.ان کا ایک رومی غلام تھا وہ ان سے کہنے لگا کہ میں آپ کے پیٹ کو کاٹ کر چربی نکال دوں گا ( اس زمانے میں جو بھی آپریشن کا طریقہ تھا) اس سے وہ ہلکا ہو جائے گا.آج کل بھی لوگ کرتے ہیں.چنانچہ اس نے حضرت مقداد کا پیٹ چاک کیا اور چربی نکال کر دوبارہ سی دیا.لیکن اس وجہ سے حضرت مقداد کی وفات ہو گئی.کوئی انفیکشن وغیر ہ ہو گیا.ٹھیک نہیں ہو سکے.بہر حال وہ غلام یہ دیکھ کے پھر وہاں سے بھاگ گیا.لیکن ایک اور روایت بھی ہے اس کے مطابق حضرت مقداد کی وفات دُهْنُ الْخروغ یعنی کیسٹر آئل پینے کی وجہ سے ہوئی تھی.یہ ابو فائد نے روایت کیا ہے.حضرت مقداد کی بیٹی کریمہ کہتی ہیں کہ حضرت مقد اڈ کی وفات مدینے سے تین میل کے فاصلے پر مجرف مقام پر ہوئی.وہاں سے ان کی نعش کو لوگوں کے کندھوں پر اٹھا کر مدینے لایا گیا.حضرت عثمان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں انہیں دفن کیا گیا.تینتیس ہجری میں حضرت مقداد کی وفات ہوئی تھی.وفات کے وقت ان کی عمر ستر سال یا اس کے قریب تھی.1095 اللہ نے مجھے چار سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے ابن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا اللہ نے مجھے چار سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے.سوال کیا گیا کہ یارسول اللہ ! وہ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا ( ابن ماجہ کی روایت ہے).مختلف وقتوں میں مختلف ہے.بہر حال یہ روایت یہی ہے.کہتے ہیں آپ نے فرمایا کہ علی اُن میں سے ہیں، یہ آپ نے تین بار فرمایا اور پھر ابوذر ، پھر سلمان اور مقداد ہیں.1096 حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ملی ایم نے فرمایا ہر نبی کو سات سات نجیب رفقاء دیے گئے ہیں.راوی کہتے ہیں کہ یا آپ نے رفقاء کے بجائے نگر ان کا لفظ استعمال فرمایا تھا لیکن مجھے چودہ عطا کیے گئے ہیں ہم نے عرض کیا کہ وہ کون ہیں تو حضرت علی کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ایک تو میں ہوں یعنی حضرت علی میرے دو بیٹے حسن اور حسین، جعفر، حمزہ، ابو بکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال، سلمان، عمار، مقداد، حذیفہ ، ابو ذر اور عبد اللہ بن مسعودؓ.یہ سنن ترمذی کی روایت ہے.7 قرآن کریم کی سورہ انعام کی آیت ہے کہ وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدُوةِ وَالْعَشِي يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَ مَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِّنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ 1097 فَتَكُونَ مِنَ الظَّلِمين (انعام: 53) اور تو ان لوگوں کو نہ دھتکار جو اپنے رب کو اس کی رضا چاہتے ہوئے صبح بھی پکارتے ہیں اور شام کو بھی.تیرے ذمہ ان کا کچھ بھی حساب نہیں اور نہ ہی تیر اکچھ حساب ان کے ذمہ ہے.پس اگر پھر بھی تو انہیں دھتکار دے گا تو تو ظالموں میں سے ہو جائے گا.

Page 490

اصحاب بدر جلد 5 474 حضرت سعد اس آیت کے بارے میں بیان کرتے ہیں.یہ بھی ابن ماجہ کی روایت ہے کہ یہ آیت چھ اشخاص کے بارے میں نازل ہوئی کہ میں خود یعنی حضرت سعد، ابن مسعود، صہیب، عمار، مقد ار اور بلال.حضرت سعد نے کہا کہ قریش نے رسول اللہ صلی علیم سے کہا کہ ہم اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ ان لوگوں کے تابع ہوں.پس تو انہیں اپنے پاس سے دھتکار دے.راوی کہتے ہیں کہ اس بنا پر رسول اللہ صلی علیکم کے دل میں وہ بات داخل ہوئی جو اللہ نے چاہا کہ داخل ہو تو اللہ عز و جل نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی: وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدُوةِ وَالْعَشِي يُرِيدُونَ وَجْهَهُ (الانعام 53) اور تُو ان لوگوں کو 1098 نہ دھتکار جو اپنے رب کو اس کی رضا چاہتے ہوئے صبح بھی پکارتے ہیں اور شام کو بھی.28 بہر حال اس آیت کی وجہ جو بھی تھی لیکن یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی الی یکم نے یہی جواب دیا.ایک روایت کے مطابق حضرت مقداد پہلے صحابی تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں گھوڑے پر لڑائی میں حصہ لیا.1099 یہ بھی تھوڑا سا پہلے بیان ہو چکا ہے.حضرت مقداد سے روایت ہے کہ وہ ایک روز قضائے حاجت کے لیے بقیع کی طرف گئے جو قبرستان ہے.لوگ اس وقت دو تین روز بعد قضائے حاجت کے لیے جایا کرتے تھے اور وہ قضائے حاجت کے لیے ایک ویرانے میں داخل ہوئے اور اس دوران میں کیونکہ کھانا بہت کم ہو تا تھا اور کہتے ہیں کہ پاخانہ بھی اونٹ کی مینگنیوں کی طرح ہو تا تھا اور اس دوران میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے ایک چوہا دیکھا جس نے ہل میں سے ایک دینار نکالا.پھر اندر گیا اور ایک اور دینار نکالا حتی کہ اس نے سترہ دینار نکالے.اس کے بعد ایک سرخ رنگ کا کپڑا نکالا.حضرت مقداد کہتے ہیں کہ میں نے اس کپڑے کو کھینچا تو اس میں ایک دینار پایا اس طرح اٹھارہ دینار ہو گئے.پھر میں ان کو لے کر نکلا اور انہیں لے کر رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو ساری بات بتائی اور عرض کیا یارسول اللہ ! اس کا صدقہ لے لیجیے.آپ نے فرمایا اس کا کوئی صدقہ نہیں ہے.انہیں لے جاؤ.اللہ تعالیٰ ان میں تمہارے لیے برکت ڈال دے.پھر آپ نے فرمایا شاید تم نے اس سوراخ میں ہاتھ ڈالا ہو گا.میں نے عرض کیا کہ نہیں اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ذریعہ عزت بخشی ہے! کہ میں نے ہاتھ نہیں ڈالا تھا بلکہ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے میرے لیے انتظام کر دیا.100 جبير بن نفير روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ہم حضرت مقداد کے ساتھ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی گزرا اور اس نے کہا کیا ہی مبارک آنکھیں ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ ﷺ کا دیدار کیا ہے.اللہ کی قسم ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم بھی دیکھتے جو آپ نے دیکھا ہے.صحابہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ جو آپ لوگوں نے دیکھا ہے اور ہم بھی اس کا مشاہدہ کرتے جس کا آپ نے مشاہدہ کیا ہے.یہ سن کر حضرت مقد ار غصہ میں آگئے.راوی کہتے ہیں کہ میں نے بڑے تعجب سے پوچھا کہ اس شخص نے تو محض خیر کی بات کی ہے.حضرت مقداد نے اس شخص کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا کہ اس شخص کو

Page 491

475 اصحاب بدر جلد 5 کون سی چیز اس زمانے میں حاضر ہونے کی تمنا پر مجبور کر رہی ہے جس سے اللہ نے اسے غائب رکھا.پھر کہنے لگے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اگر یہ اس وقت ہوتا تو کس مقام پر ہو تا.پھر انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! رسول الله صلى ا م کا زمانہ تو ایسے لوگوں نے بھی پایا جنہیں اللہ نے اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیا کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی ا لینک کو نہ مانا اور نہ ہی آپ کی تصدیق کی.اب یہ جو کہہ رہا ہے کہ کیا پتا اس وقت اس کی قسمت میں کیا تھا.اگر تصدیق نہ کرتا تو پھر دوزخ میں جاتا.پھر آگے کہنے لگے کہ تم اللہ کی حمد کیوں نہیں کرتے کہ اس نے تمہیں ایسے وقت میں پیدا کیا جس میں تم صرف اپنے رب کو پہچاننے والے ہو.کسی قسم کا شرک نہیں کرتے.اپنے رب کو پہچانتے ہو.رسول پر ایمان لاتے ہو اور اپنے نبی کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق کرنے والے ہو اور اللہ نے دوسروں کے ذریعہ تمہیں آزمائشوں سے بچالیا.پہلے لوگ تھے یا اس زمانے کے دوسرے لوگ تھے آزمائشوں میں سے گزرے.تمہیں اللہ نے ان آزمائشوں سے بچالیا ہے.تم اس پر خدا کا شکر ادا کرو.پھر کہنے لگے کہ خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی للی کم کو جاہلیت کے زمانے میں بھیجا اور فترة وحی کے زمانے میں جو کسی بھی نبی کی بعثت کے زمانے سے سب سے زیادہ سخت زمانہ تھا یعنی وہ زمانہ جب ایک لمبا عرصہ کے بعد نزول ہو ا.ایک نبی کے بعد دوسرے نبی کے درمیان جو وقفہ ہے اس میں وحی نہیں ہوتی یا اس سے ایک لمبا عرصہ تھا جو ایک نبی اور دوسرے نبی کے درمیان کا ہوتا ہے اور اس میں انبیاء کی وحی نہیں ہوتی.اس لفظ کو فترة کہتے ہیں.تو کہتے ہیں جو لمبا عرصہ تھا جس میں وحی نہیں ہوئی یا آنحضرت صلی ا یکم مبعوث نہیں ہوئے وہ زمانہ بڑا لمبا تھا جس میں شرک بھی پھیل گیا.پھر آپ نے کہا کہ یہ بڑا سخت زمانہ تھا.لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور اس سے افضل کسی کو نہیں مانتے تھے.پھر رسول اللہ صلی للی علم فرقان کے ساتھ مبعوث ہوئے جس نے حق و باطل میں فرق کر دیا اور والد اور بیٹے کے درمیان فرق کر دیا حتی کہ ایک آدمی اپنے والد، بیٹے یا بھائی کو کافر سمجھتا تھا جبکہ اللہ نے اس کے دل کا تالا ایمان کے لیے کھول دیا تھا.پھر کہتے ہیں کہ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ کفر کی حالت میں مر گیا تو دوزخ میں جائے گا.اس کی آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوتی تھیں جب اسے معلوم ہو تا تھا کہ اس کا محبوب جہنم میں رہے گا.یہی وجہ ہے کہ جب اسلام جو انہوں نے قبول کر لیا اور آنحضرت صلی اللی کم کو مان لیا تو وہ اپنے رشتہ داروں کے بارے میں فکر مند رہتے تھے اور پتا تھا کہ قبول نہیں کریں گے.اگر مخالفت کریں گے تو جہنم میں جائیں گے اور اس کے لیے پھر کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَةَ أَعْيُنٍ ( الفرقان: 75) کہ اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر.1101 تو پس یہ دعا ہے جو ہمیشہ کرنی چاہیے تاکہ نسلوں میں بھی دین قائم رہے.اور اللہ کا جو فضل ہوا ہے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے.

Page 492

اصحاب بدر جلد 5 476 حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی ا ہم نے ایک آدمی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی جو اونچی آواز میں تلاوت کر رہا تھا تو آپ صلی الم نے فرمایا یہ خشیت الہی رکھنے والا انسان ہے.وہ حضرت مقداد بن عمرو 1102 اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسلام کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.آنحضرت صلی اللہ علم کی امت میں ہونے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے اندر خشیت بھی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.1103 298 حضرت ملیل بن وبرة حضرت مُلیل بن وبرة.ان کے نام کے بارے میں بھی مختلف روایتیں ہیں.ابن اسحاق اور ابو نعیم نے ان کا نام مليل بن وبرة بن عبد الکریم بن خالد بن عجلان بیان کیا ہے.جبکہ ابو عمر اور کلبی نے ملیل بن وبرة بن خالد بن عجلان بیان کیا ہے.عبد الکریم بیچ میں سے نکل گیا.آپ کا تعلق خزرج کی شاخ بنو عجلان سے تھا.غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں یہ شریک ہوئے.4 آپ کی اولاد میں زید اور حبیبہ تھیں جن کی والدہ اتم زید بنت نضلہ بن مالک تھیں.حضرت ملیل کی اولاد آگے نہیں چلی.1105 آپ کو ابنِ خالد بن عجلان کہا جاتا تھا.1106 1104 ایک روایت میں لکھا گیا ہے کہ آپ غزوہ بدر اور باقی تمام غزوات میں آنحضرت صلی للی کیم کے ساتھ شریک ہوئے.1107 299 نام و نسب حضرت منذر بن عمرو بن خنیس حضرت مُنذر بن عمر و بن خُنَيْس - ان کا لقب تھا مُعْنِقُ لِيَمُوتَ يَا مُعْنِقُ لِلْمَوتِ یعنی آگے بڑھ کر موت کو گلے لگانے والا.ان کا نام مُنْذِر اور والد کا نام عمر و تھا.انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو ساعدہ سے تھے.بیعت عقبہ میں شریک ہوئے تھے.آنحضرت صلی الم نے حضرت مُنذر بن عمرو کو

Page 493

اصحاب بدر جلد 5 477 اور حضرت سعد بن عبادۃ کو ان کے قبیلہ بنو ساعدہ کا نقیب مقرر فرمایا تھا یعنی سردار مقرر کیا تھا یا نگران مقرر کیا تھا.زمانہ جاہلیت میں بھی حضرت مُنذر پڑھنا لکھنا جانتے تھے.ہجرت مدینہ کے بعد آنحضور صلی الم نے حضرت مُنذر اور حضرت حلیب بن محمید کے درمیان مواخات قائم فرمائی.آپ غزوہ بدر میں یعنی حضرت مُنذر غزوہ بدر میں اور احد میں بھی شریک ہوئے.حضرت منذر بن عمرو کے بارے میں سیرت خاتم النبیین میں مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ: "قبیلہ خزرج کے خاندان بنو ساعدہ سے تھے اور ایک صوفی مزاج آدمی تھے.بئر معونہ میں شہید ہوئے.1109" 1108 بئر معونہ کی تفصیل پہلے صحابہ کے ذکر میں بھی آچکی ہے.کچھ حصہ حضرت مُنذر بن عمرو کے حوالے سے بھی خلاصہ یہاں بیان کر دیتا ہوں جو سیرت خاتم النبیین میں سے ہی ہے.قبائل سُلیم اور غطفان یہ قبائل عرب کے وسط میں سطح مرتفع مجد پر آباد تھے اور مسلمانوں کے خلاف قریش مکہ کے ساتھ ساز باز رکھتے تھے.آپس میں ان کی مکہ کے قریش کے ساتھ ساز باز تھی کہ کس طرح اسلام کو ختم کیا جائے اور آہستہ آہستہ ان شریر قبائل کی شرارت بڑھتی جاتی تھی اور سارا سطح رتفع مسجد اسلام کی عداوت کے زہر کی لپیٹ میں آتا چلا جارہا تھا اور اس کا اثر ہو رہا تھا.چنانچہ ان ایام میں ایک حص ابو براء عامِرِی جو وسط عرب کے قبائل بنو عامر کا ایک رئیس تھا آنحضرت صلی ایم کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا، پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے.بڑی نرمی سے آپ نے اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی.اس نے بھی بظاہر بڑے شوق سے تبلیغ سنی مگر مسلمان نہیں ہو ا.پھر جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اس نے آنحضرت صلی عوام کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے ساتھ آپ چند اصحاب مسجد کی طرف روانہ کریں جو وہاں جا کر اہل مسجد میں اسلام کی تبلیغ کریں اور پھر ساتھ یہ بھی کہنے لگا کہ مجھے امید ہے کہ نجدی لوگ آپ کی دعوت کو رد نہیں کریں گے.لیکن آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ مجھے تو اہل مسجد پر اعتماد نہیں ہے.ابو براء کہنے لگا کہ آپ ہر گز فکر نہ کریں.جو لوگ میرے ساتھ جائیں گے میں ان کی حفاظت کا ضامن ہوں.چونکہ ابو براء ایک قبیلے کا رئیس اور صاحب اثر آدمی تھا آپ نے اس کے اطمینان دلانے پر یقین کر لیا اور صحابہ کی ایک جماعت مسجد کی طرف روانہ فرما دی.حضرت میاں بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ یہ تاریخ کی روایت ہے لیکن بخاری کی روایت میں آتا ہے کہ قبائل رغل اور ذکوان وغیرہ جو مشہور قبیلہ بنو سلیم کی شاخ تھے ان کے چند لوگ آنحضرت صلی اللی علم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا اظہار کر کے درخواست کی کہ ہماری قوم میں سے جو لوگ اسلام کے دشمن ہیں ان کے خلاف ہماری امداد کریں.یہ تشریح نہیں تھی کہ کس قسم کی امداد ہے آیا فوجی ہے یا تبلیغ کرنا چاہتے ہیں.بہر حال انہوں نے درخواست کی کہ چند آدمی اس کے لئے روانہ کئے جائیں جس پر آپ صلی علیکم نے یہ دستہ روانہ فرمایا جس کا ذکر ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ بد قسمتی سے بئر معونہ کی تفصیلات میں بخاری کی روایات میں نبھی کچھ خلط واقع ہو گیا.دو واقعات کی کچھ روایتیں آپس الله صا المدرسة

Page 494

اصحاب بدر جلد 5 478 میں اکٹھی مل گئی ہیں.اس لئے تاریخ سے اور بخاری کی روایات سے صحیح طرح پتہ نہیں لگتا کہ حقیقت کیا ہے ؟ جس کی وجہ سے حقیقت پوری طرح متعین نہیں ہو سکتی؟ لیکن بہر حال انہوں نے اس کا حل بھی نکالا ہے فرماتے ہیں کہ بہر حال اس قدر یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر قبائل رغل اور ذکوان وغیرہ کے لوگ بھی آنحضرت صلی علیہ کم کی خدمت میں آئے تھے اور انہوں نے یہ درخواست کی تھی کہ چند صحابہ ان کے ساتھ بھجوائے جائیں.آپ نے یہ لکھا ہے کہ اگر ایک دور روایتیں مختلف ہیں اور اگر ان کی آپس میں مطابقت کرنی ہے کہ ایک دوسرے سے ان کا کیا تعلق ہے یا کس طرح اس کی تطبیق کی جاسکتی ہے تو فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں کی مطابقت کی یہ صورت اس طرح ہو سکتی ہے کہ رعل اور ذکوان کے لوگوں کے ساتھ ابو براء عامری رئیس قبیلہ عامر بھی آیا ہو.اس نے ان کی طرف سے آنحضرت صلی ال نیم کے ساتھ بات کی ہو.چنانچہ تاریخی روایت کے مطابق آنحضرت صلی علیہ کم کایہ فرمانا کہ مجھے اہل نجد کی طرف سے اطمینان نہیں ہے اور پھر اس کا یہ جواب دینا کہ آپ کوئی فکر نہ کریں.میں اس کا ضامن ہو تا ہوں کہ آپ کے صحابہ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی.اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ابو براء کے ساتھ عل اور ذکوان کے لوگ بھی آئے تھے جن کی وجہ سے آنحضرت صلی علیکم فکر مند تھے.بہر حال آنحضرت صلی یہ تم نے صفر 4 ہجری میں مُنذر بن عمر و انصاری کی امارت میں صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی.یہ لوگ عموماً انصار میں سے تھے، تعداد میں ستر تھے.قریباً سارے کے سارے قاری اور قرآن خواں تھے.جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جو ایک کنوئیں کی وجہ سے بئر معونہ کے نام سے مشہور تھا تو ان میں سے ایک شخص حرام بن ملحان " جو انس بن مالک کے ماموں تھے آنحضرت صلی نی نیم کی طرف سے دعوت اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس اور ابو براء عامری جس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کے بھتیجے عامر بن طفیل کے پاس گئے اور باقی صحابہ پیچھے رہے.جب حرام بن ملحان آنحضرت صلی علیکم کے اینچی کے طور پر عامر بن طفیل اور اس کے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طور پر آؤ بھگت کی لیکن پھر جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور اسلام کی تبلیغ کرنے لگ گئے تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے بعض شریروں نے کسی آدمی کو اشارہ کیا اور اس نے پیچھے سے حملہ کر کے ان کو نیزہ مار کر وہیں شہید کر دیا.اس وقت حرام بن ملحان کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ : اللهُ أَكْبَرُ ! فُزْتُ وَرَبِّ الكَعْبَةِ- یعنی اللہ اکبر ! کعبہ کے رب کی قسم میں تو اپنی مراد کو پہنچا.عامر بن طفیل نے آنحضرت صلی علی کرم کے ایلچی کے قتل پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بعد اپنے قبیلہ بنو عامر کے لوگوں کو اکسایا کہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر حملہ آور ہو جائیں مگر انہوں نے جیسا کہ ذکر ہوا اس کا انکار کیالیکن جو زائد بات ہے اور یہاں ہوئی ہے.انہوں نے یہ کہا کہ ہم ابو براء کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے مسلمانوں پر حملہ نہیں کریں گے.کیونکہ ابو براء نے آنحضرت صلیا سلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں ان کا ضامن ہوں.تو اس قبیلے نے کہا کہ جب وہ ضامن ہو گیا تو ہم حملہ نہیں کریں گے.

Page 495

اصحاب بدر جلد 5 479 اس پر عامر نے سُلیم میں سے بنورِ غل اور ذکوان اور خصیہ وغیرہ کو جو دوسر ا قبیلہ تھا اور جو بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللی کام کے پاس وفد بن کر آئے تھے، اپنے ساتھ لیا اور یہ سب لوگ مسلمانوں کی اس قلیل اور بے بس جماعت پر حملہ آور ہو گئے.مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ان سے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی تعرض نہیں.ہم لڑنے تو آئے نہیں ہم تو رسول اللہ صلی علیم کی طرف سے ایک کام کے لئے آئے ہیں اور تم سے بالکل لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور سب کو شہید کر دیا.1110 تاریخ میں آتا ہے کہ جب جبرئیل علیہ السلام نے بئر معونہ کے شہداء کے بارے میں خبر دی تو آپ کی میڈم نے مُنذر بن عمرو کے بارے میں فرمایا جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے کہ اَعْتَقَ لِيَمُوت.یعنی حضرت مُنذر بن عمرو نے یہ جانتے ہوئے کہ اب شہادت ہی مقدر ہے اپنے ساتھیوں کی طرح اسی جگہ لڑتے ہوئے شہادت کو قبول کر لیا اس وجہ سے آپ مُعْنِق لِيَمُوتَ یا مُعْنِقُ لِلْمَوْتِ کے لقب سے مشہور 1111 حضرت منذر بن عمرو سے ان لوگوں نے کہا تھا کہ اگر تم چاہو تو ہم تمہیں امن دے دیں گے لیکن حضرت منذر نے ان کی امان لینے سے انکار کر دیا.1112 حضرت سہل بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو اسید کے ہاں ان کے بیٹے مُنْذِرِ بن ابی اسید پیدا ہوئے تو ان کو نبی کریم صلی علیم کی خدمت میں لایا گیا.آپ صلی العلیم نے اس بچے کو اپنی ران پر بٹھا لیا.اس وقت حضرت ابو اسید بیٹھے ہوئے تھے.اتنے میں نبی کریم صلی یہ کام کسی کام میں مشغول ہو گئے.حضرت ابو اسید نے اشارہ کیا تو لوگ منیر کو آپ صلی یہ کم کی ران پر سے اٹھا کر لے گئے.جب آپ صلی علیکم کو کام سے فراغت ہوئی تو دریافت فرمایا کہ بچہ کہاں گیا ؟ حضرت ابو اسید نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم نے اس کو گھر بھیج دیا ہے.آپ صلی یکم نے پوچھا اس کا نام کیا رکھا ہے ؟ ابو اسید نے عرض کیا کہ فلاں نام رکھا ہے.آپ نے فرمایا نہیں.اس کا نام منذر ہے.آپ صلی ٹیم نے اس دن اس بچے کا نام منید رکھا.یہ وہ منذر نہیں ہے جن کا ذکر ہو رہا ہے.صدا الله سة شار حسین نے نبی کریم صلی للی کم کا اس بچے کا نام منذر رکھنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ حضرت ابو اسید کے چا کا نام مُنذر بن عمر و تھا، وہی صحابی جن کا ذکر ہو ا جو بئر معونہ میں شہید ہوئے.ابو اسید کے چچا کا نام تھا منذر بن عمرو.یہ ابو اسید کے چاتھے جو بئر معونہ میں شہید ہوئے تھے.پس یہ نام تفاؤل کی وجہ سے رکھا گیا تھا کہ یہ بھی ان کے اچھے جانشین ثابت ہوں.1113 یہ بھی وجہ ہو گی لیکن آنحضرت صلی للی کم یقینا اپنے پیاروں کے ناموں کو زندہ رکھنے کے لئے بھی ان کے قریبیوں کے نام ان کے نام پر رکھتے ہوں گے.1114

Page 496

480 300 اصحاب بدر جلد 5 حضرت منذر بن قدامہ پھر حضرت منذر بن قدامہ ایک صحابی تھے.حضرت منذر بن قدامہ کا تعلق قبیلہ بنو غنم سے تھا.انہوں نے غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شرکت کی.علامہ واقدی کے مطابق ان کو بنو قینقاع کے قیدیوں پر مقرر کیا گیا تھا.15 1115 301 حضرت منذر بن محمد حضرت منذر بن محمد انصاری.حضرت منذر بن محمد کا تعلق قبیلہ بنو بحجبا سے تھا.مدینہ تشریف لانے کے بعد آنحضرت صلی علیم نے حضرت منذر بن محمد اور طفیل بن حارث کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی.1116 جب حضرت زبیر بن عوام حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اور حضرت ابو سبرها بن آبی رھم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو انہوں نے حضرت منذر بن محمد کے گھر قیام کیا.1117 شہادت 1118 حضرت منذر نے غزوہ بدر اور اُحد میں شرکت کی اور بئر معونہ کے واقعہ میں شہید ہوئے.8 بئر معونہ کا پہلے بھی ایک دو جگہ صحابہ کے واقعات میں ذکر ہو چکا ہے.دوبارہ اس حوالے سے مختصر ذکر کر دیتا ہوں.حضرت منذر کی شہادت کی جو تفصیل "سیرت خاتم النبیین" میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی علی یکم نے صفر 4 ہجری میں منذر بن عمرو انصاری کی امارت میں صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی.یہ لوگ عموماً انصار میں سے تھے.ان کی تعد ادستر تھی.سارے کے سارے قاری تھے.یعنی قرآن خواں تھے.جو دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں جمع کرتے ، لکڑیاں بیچتے اور پھر اپنا پیٹ پالتے.رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزارتے تھے.جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جو ایک کنوئیں کی وجہ سے بئر معونہ کے نام سے مشہور تھا تو ان میں سے ایک شخص حرام بن ملحان جو انس بن مالک کے ماموں تھے آنحضرت صلی علیکم کی طرف سے دعوت اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس اور ابو براء عامر کے بھتیجے عامر بن طفیل کے پاس آگے گئے.باقی صحابہ پیچھے

Page 497

اصحاب بدر جلد 5 481 رہے.جب حرام بن ملحمان آنحضرت صلی علیم کے اینچی کے طور پر عامر بن طفیل اور ان کے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طور پر بڑی آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور اسلام کا پیغام پہنچانے اور اسلام کی تبلیغ کرنے لگے تو ان میں سے بعض شریروں نے کسی آدمی کو اشارہ کیا اور اس نے اس بے گناہ ایچی کو پیچھے کی طرف سے نیزے کا وار کر کے وہیں ڈھیر کر دیا.اس وقت جب حرام بن ملحان زخمی ہوئے تو ان کی زبان پر الفاظ تھے کہ اللہ اکبر فُرْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ.كم الله اكبر رب کعبہ کی قسم ! کہ میں اپنی مراد کو پہنچ گیا.عامر بن طفیل نے آنحضرت صلی اللہ علم کے اینچی کے قتل پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بعد اپنے قبیلہ بنو عامر کے لوگوں کو اکسایا کہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر حملہ کریں مگر انہوں نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ ہم ابو براء کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے مسلمانوں پر حملہ نہیں کریں گے اس پر عامر نے قبیلہ بنو سُلیم میں سے بَنُورِ غل اور ذکوان اور خصیہ وغیرہ کو (یعنی وہی لوگ جو بخاری کی حدیث کے مطابق آنحضرت صلی تعلیم کے پاس وفد بن کر آئے تھے کہ ہمیں کچھ لوگ بھیجیں جو ہمیں تبلیغ کریں) اپنے ساتھ لیا اور یہ سب لوگ مسلمانوں کی اس قلیل اور بے بس جماعت پر حملہ آور ہو گئے.مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ان سے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی تعرض نہیں ہے.ہم کوئی لڑائی کرنے نہیں آئے.ہم تو رسول اللہ صلی اللی کم کی طرف سے ایک کام کے لئے آئے ہیں اور ہم تم سے لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے.مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور سب کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا.ان صحابیوں میں سے جو اس وقت موجود تھے صرف ایک شخص بچا جو پاؤں سے لنگڑاتھا اور پہاڑی کے اوپر چڑھ گیا ہوا تھا.ان صحابی کا نام کعب بن زید تھا.( ان کا ذکر ہو چکا ہے) بعض اور روایات سے پتہ لگتا ہے کہ کفار نے اس پر بھی حملہ کیا تھا جس سے وہ زخمی ہوئے تھے اور کفار انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے مگر اصل میں ان میں جان باقی تھی اور وہ بعد میں بچ گئے.صحابہ کی اس جماعت میں سے دو شخص یعنی عمر و بن امیه شهری اور مُنذر بن محمد اس وقت اونٹوں وغیرہ کے چرانے کے لئے اپنی جماعت سے الگ ہو کر ادھر اُدھر گئے ہوئے تھے.انہوں نے ڈور سے اپنے ڈیرے کی طرف نظر ڈالی تو انہوں نے دیکھا کہ پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ ہوا میں اڑتے پھر رہے ہیں.وہ اس صحرائی اشارے کو خوب سمجھتے تھے.(جب ریت میں پرندے اس طرح جھنڈ کے جھنڈ پھر رہے ہوں تو مطلب ہوتا ہے کہ نیچے ان کے لئے کھانے کا کوئی انتظام ہے ) وہ فوراً سمجھ گئے کہ کوئی لڑائی ہوئی ہے.واپس آئے اور دیکھا تو ظالم کفار کے کشت و خون کا کارنامہ آنکھوں کے سامنے تھا.دور سے ہی یہ نظارہ دیکھ کر انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے.ایک نے کہا کہ ہمیں یہاں سے فوراً نکل جانا چاہئے اور مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی علیہ ہم کو اطلاع دینی چاہئے.مگر دوسرے نے اس رائے کو قبول نہ کیا اور کہا کہ میں تو اس جگہ سے بھاگ کر نہیں جاؤں گا.جہاں ہمارا امیر منذر بن عمر و شہید ہوا ہے وہیں ہم لڑیں گے.چنانچہ وہ بھی آگے بڑھے اور لڑ کر شہید ہوئے.1119 یعنی منذر بن محمد جو اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے جب وہ آئے تو انہوں نے بھی دشمنوں کا مقابلہ

Page 498

1120 482 اصحاب بدر جلد 5 کیا اور وہیں شہید ہوئے.اس طرح ان کی شہادت 4 ہجری میں ہوئی.302 حضرت مهجع غزوہ بدر کے سب سے پہلے شہید حضرت مهجع جو حضرت عمرؓ کے غلام تھے.ان کے والد کا نام صالح تھا.غزوہ بدر میں یہ سب سے پہلے شہید تھے.ان کا تعلق یمن سے تھا.شروع میں قیدی ہونے کی حالت میں یہ حضرت عمرؓ کے پاس لائے گئے.اس وقت حضرت عمرؓ نے احسان کرتے ہوئے ان کو آزاد کر دیا.آپ اول المہاجرین میں سے تھے.غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ آپ اسلامی لشکر کے سب سے پہلے شہید تھے.دو صفوں کے درمیان تھے کہ اچانک ایک تیر آپ کو لگا جس سے آپ شہید ہو گئے.عامر بن حضرمی نے آپ کو شہید کیا تھا، اس کا تیر لگا تھا.حضرت سعید بن مسیب کی روایت ہے کہ حضرت مهجع شہید ہوئے تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے.انا مهجع والی ربی ارجع.کہ میں مهجع ہوں اور اپنے پروردگار کی طرف لوٹنے والا ہوں.حضرت مهجع ان لوگوں میں شامل تھے جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدُوةِ وَ الْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وجهَهُ ( انعام 53) اور تو ان لوگوں کو نہ دھتکار جو اپنے رب کو اس کی رضا چاہتے ہوئے صبح بھی پکارتے ہیں اور شام کو بھی پکارتے ہیں.ان کے علاوہ اس میں مندرجہ ذیل اصحاب بھی شامل تھے.حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار ، حضرت خباب ، حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت اوس بن خولی، حضرت عامر بن فهيرة _ 1121 اس کا مطلب یہ نہیں ہے نعوذ باللہ کہ یہ جو آیت نازل ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی ا یکم غریبوں کو دھتکارتے تھے.آپ کا پیار اور عزت اور احترام اور شفقت غریبوں کے لئے بے مثال اور غیر معمولی تھی جس کا ہمیں حدیثوں سے بھی، ان غرباء کے اپنے حوالوں سے بھی پتہ لگتا ہے.اس آیت میں اصل میں تو ان امیر لوگوں اور بڑے لوگوں کو جواب ہے جو یہ چاہتے تھے کہ ہمیں زیادہ عزت اور احترام دیا جائے اس یہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ میں نے تو رسول کو یہ کہا ہوا ہے اور یہ حکم ہے کہ غریب لوگ جو ذکر اور عبادت میں بڑھے ہوئے ہیں ان کی عزت اور احترام اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری دولت اور خاندانی عزت سے زیادہ ہے اور اللہ کا رسول تو وہی کرتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ اسے حکم دیتا ہے.پس اس آیت سے اصل میں تو ان امیروں کو یہ جواب دیا گیا جن کے خیال میں یہ تھا کہ ان کا مقام زیادہ بلند ہے کہ اللہ کے رسول کو

Page 499

483 اصحاب بدر جلد 5 تمہاری عزت اور تمہاری دولت کی کوئی پروا نہیں ہے.اس کو تو یہی لوگ پیارے ہیں.303 حضرت نتخاب بن ثعلبہ 1122 حضرت نعحاب بن ثعلبہ انصاری.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بلی سے تھا.ان کے دو بھائی حضرت عبد اللہ اور حضرت یزید تھے.ان کے بھائی حضرت یزید بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شامل تھے.حضرت نتخاب بن ثعلبہ اپنے بھائی حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ کے ساتھ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.حضرت نتخاب بن ثعلبہ کا نام بحاث بن ثعلبہ بھی بیان ہوا ہے.23 1123 304) نام و نسب و کنیت حضرت نصر بن حارث حضرت نصر بن حارث ".حضرت نضر بن حارث انصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنوعبد بن رزاخ میں سے تھے.ان کا نام میر بن حارث بھی بیان کیا جاتا ہے.ان کی کنیت ابو حارث تھی.ان کے والد کا نام حارث بن عبد اور والدہ کا نام سودہ بنت سُؤَاد تھا.24 شہادت 1124 حضرت نصر بن حارث کو غزوہ بدر میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.ان کے والد حارث کو بھی آنحضور صلی علیم کے صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا.حضرت نصر جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے.5 1125 قادسیه ایران، موجودہ عراق میں ایک مقام ہے جو کو فہ سے پینتالیس میل کے فاصلے پر واقع ہے اور 14 ہجری میں حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان قادسیہ کے مقام پر ایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی تھی جس کے نتیجے میں پھر ایرانی سلطنت مسلمانوں کے قبضہ میں آگئی تھی.1126

Page 500

484 305 اصحاب بدر جلد 5 حضرت نعمان بن سنان حضرت نُعمان بن سنان ہے.حضرت نُعمان بن سنان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو نُعمان سے تھا.ابن ہشام نے لکھا ہے کہ حضرت نعمان بنو نُعمان کے آزاد کردہ غلام تھے جبکہ ابن سعد نے انہیں بنو عبید بن عدی کا آزاد کردہ غلام لکھا ہے.حضرت نعمان بن سنان و غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شامل ہونے کی توفیق ملی.7 1127 306 نام و نسب حضرت نعمان بن عبد عمرو حضرت نعمان بن عبد عمرو.حضرت نعمان بن عبد عمرو کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو دینار بن نجار سے تھا.ان کے والد کا نام عبد عمر و بن مسعود تھا اور والدہ کا نام سمیرا ء بنتِ قیس تھا.حضرت نعمان بن عبد عمر و غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.جنگ بدر میں ان کے بھائی ضحاك بن عبد عمر و بھی ان کے ساتھ شریک ہوئے.شہادت الله حضرت نعمان بن عبد عمرو کو غزوہ احد میں شہادت کا رتبہ نصیب ہوا.حضرت نعمان اور حضرت ضحاک کا ایک تیسر ابھائی بھی تھا جن کا نام قطبہ تھا، انہیں بھی آنحضور صلی للی کیم کے صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا.واقعہ بئر معونہ میں حضرت قطبہ کی شہادت ہوئی تھی.1128 نبی صلی الله ولم سے محبت سے سرشارماں سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیالی نمک بن دینار کی ایک عورت کے پاس سے گزرے جس کا خاوند ، بھائی اور باپ رسول اللہ صلی الیکم کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے اور وہ سب شہید ابنو

Page 501

اصحاب بدر جلد 5 485 ہو گئے تھے.جب ان کی تعزیت اس عورت سے کی گئی تو اس نے پوچھار سول اللہ صلی علی ظلم کا کیا حال ہے ؟ تو لوگوں نے کہا کہ اے ایم فلاں ! آپ ٹھیک ہیں اور الحمد للہ ایسے ہی ہیں جیسے کہ تو پسند کرتی ہے ، تو اس عورت نے جواب دیا کہ مجھے دکھاؤ میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں.تو پھر اس عورت کو رسول اللہ صلی علیکم کی طرف اشارہ کر کے دکھایا گیا.جب اس نے آنحضرت صلی ای کم کو دیکھا تو کہنے لگی کہ ہر مصیبت آپ کے بعد معمولی ہے.1129 ایک اور روایت میں اس عورت کے بیٹے کے شہید ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے موقعے پر جب اہل مدینہ بہت گھبراہٹ کا شکار ہو گئے تھے کیونکہ یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی الیوم کو شہید کر دیا گیا ہے حتی کہ مدینے کے گلی کوچوں میں چیخ پکار مچ گئی تھی تو ایک انصاری خاتون پریشان ہو کر گھر سے نکلی تو اس نے آگے اپنے بھائی، بیٹے اور شوہر کی لاش دیکھی.راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ پہلے اس نے کیسے دیکھا تھا مگر جب وہ آخری کے پاس سے گزری تو اس نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ تیر ابھائی، تیرا شوہر، تیرا بیٹا ہے.اس نے پوچھار سول اللہ صلی علیکم کا کیا حال ہے ؟ لوگوں نے کہاوہ آگے ہیں.وہ عورت چلتی ہوئی رسول اللہ صلی للی تم تک پہنچی اور اس نے رسول اللہ صلی میں نیم کا دامن تھام لیا اور پھر کہا کہ یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان اجب آپ سلامت ہیں تو مجھے کسی نقصان کی کوئی پروا نہیں.1130 ایک قول کے مطابق اس عورت کا نام سمیراء بنت قیس تھا جو نُعمان بن عبد عمرو کی والدہ 1131 میر اول چاہتا ہے کہ میں اس مقدس عورت کے دامن کو چھوؤں اور پھر اپنے ہاتھ آنکھوں سے لگاؤں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقعے پر اس واقعہ کا ذکر کیا ہے.آپؐ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام میں اس بہادری کی مثالیں بہت کثرت سے ملتی ہیں.دنیوی لوگوں میں تو کروڑوں لوگوں اور سینکڑوں ملکوں میں سے ایک آدھ مثال ایسی مل سکے گی مگر صحابہ میں، چند ہزار صحابہ میں سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں.کیسی اعلیٰ درجہ کی یہ مثال ہے جو ایک عورت سے تعلق رکھتی ہے اور حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں کئی دفعہ اسے بیان کر چکا ہوں.( یہ مثال میں بھی یہاں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں) اور جو اس قابل ہے کہ ہر مجلس میں سنائی جائے اور اس کی یاد کو تازہ رکھا جائے.بعض واقعات ایسے شاندار ہوتے ہیں کہ بار بار سنائے جانے کے باوجو د پرانے نہیں ہوتے.ایسا ہی واقعہ اس عورت کا ہے جس نے جنگ احد کے موقعے پر مدینے میں یہ خبر سنی کہ آنحضرت صلی علی کرم شہید ہو گئے ہیں.وہ مدینے کی دوسری عورتوں کے ساتھ گھبر اکر باہر نکلی اور جب پہلا سوار احد سے واپس آتے ہوئے اسے نظر آیا تو اس نے اس سے دریافت کیا کہ آنحضرت صلی غیر کم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ تمہارا خاوند مارا گیا ہے.اس نے کہا میں نے تم سے رسول کریم صلی علیم کے متعلق سوال کیا ہے اور تم میرے خاوند کی خبر سنارہے ہو.اس نے پھر کہا کہ تمہارا باپ بھی مارا گیا ہے.مگر اس عورت نے کہا میں تمہیں رسول کریم صلی ایم کے متعلق پوچھتی ہوں اور تم

Page 502

اصحاب بدر جلد 5 486 باپ کا حال بتارہے ہو.اس سوار نے کہا کہ تمہارے دونوں بھائی بھی مارے گئے.مگر اس عورت نے پھر یہی کہا کہ تم میرے سوال کا جواب جلد دو.میں رشتے داروں کے متعلق نہیں پوچھتی.میں تو آنحضرت صلی علیکم کے متعلق پوچھتی ہوں.اس صحابی کا دل چونکہ مطمئن تھا اور جانتا تھا کہ آپ بخیریت ہیں.اس لیے اس کے نزدیک اس عورت کے لیے سب سے اہم سوال یہی تھا کہ اس کے متعلقین کی موت سے اسے آگاہ کیا جائے مگر اس عورت کے نزدیک سب سے پیاری چیز آنحضرت صلی علیکم کی ذات تھی.اس لیے اس نے جھڑک کر کہا کہ تم میرے سوال کا جواب دو.اس پر اس نے کہا کہ رسول کریم صلی علی کی تو خیریت سے ہیں.یہ سن کر اس عورت نے کہا کہ جب آپ زندہ ہیں تو پھر مجھے کوئی غم نہیں خواہ کوئی مارا جائے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اور ظاہر ہے کہ اس مثال کے سامنے اس بڑھیا کی مثال کی کوئی حقیقت نہیں جس کے متعلق خود نامہ نگار کو اعتراف ہے، کسی واقعہ کے بارے میں ذکر کر رہے ہیں کہ اس کا دل مغموم) غم کے بوجھ سے دبا ہوا معلوم ہو تا تھا اور آپے بیان کرتے ہیں وہ دل میں رو رہی تھی.کسی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ دل مغموم تھا اور دل میں رور ہی تھی لیکن اظہار نہیں کیا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں مگر صحابیہ کا واقعہ یہ نہیں ہے.یہ نہیں ہے کہ اس نے ضبط کیا ہو ا تھا اور دل میں رورہی تھی اور ظاہر نہیں کر رہی تھی بلکہ یہ صحابیہ تو دل میں بھی خوش تھی کہ رسول کریم ملی ای دلم زندہ ہیں.اس عورت کے دل پر صدمہ ضرور تھا گو وہ اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی.جس عورت کا بھی اپنے اس بیان میں ذکر فرمارہے ہیں یا اخباروں نے اس زمانے میں اس کو لکھا تھا جب آپ نے یہ بیان فرمایا مگر اس صحابیہ کے دل پر تو کوئی صدمہ بھی نہیں تھا اور یہ ایسی شاندار مثال ہے کہ دنیا کی تاریخ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتی اور بتاؤ اگر ایسے لوگوں کے متعلق یہ نہ فرمایا جاتا کہ مِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَه تو دنیا میں اور کون سی قوم تھی جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جاتے ؟ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں میں جب اس عورت کا واقعہ پڑھتا ہوں تو میر ادل اس کے متعلق ادب اور احترام سے بھر جاتا ہے اور میر ادل چاہتا ہے کہ میں اس مقدس عورت کے دامن کو چھوؤں اور پھر اپنے ہاتھ آنکھوں سے لگاؤں کہ اس نے میرے محبوب کے لیے اپنی محبت کی ایک بے مثل یاد گار چھوڑی.پھر اسی عشق و محبت کا ذکر بیان کرتے ہوئے ایک اور جگہ آپ نے اس طرح بیان فرمایا کہ " دیکھو اس عورت کو رسول کریم صلی علیم سے کس قدر عشق تھا.لوگ اسے یکے بعد دیگرے باپ بھائی اور خاوند کی وفات کی خبر دیتے چلے گئے لیکن وہ جواب میں ہر دفعہ یہی کہتی چلی گئی کہ مجھے بتاؤ کہ رسول کریم صلی علی سم کا کیا حال ہے ؟ غرض یہ بھی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی علیم سے اس قدر عشق کا مظاہرہ کیا." 1133 1132 پھر ایک دوسری جگہ آپ اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ ذرا اس حالت کا نقشہ اپنے ذہنوں میں اب کھینچو.تم میں سے ہر ایک نے مرنے والے کو دیکھا ہو گا.کوئی نہ کوئی قریبی مرتا ہے.کہ کسی نے اپنی ماں کو ، کسی نے باپ کو ، کسی نے بھائی کو ، بہن کو مرتے دیکھا ہو گا.ذرا وہ نظارہ تو یاد کرو کہ کس طرح

Page 503

اصحاب بدر جلد 5 487 اپنے عزیزوں کے ہاتھوں میں اور گھروں میں اچھے سے اچھے کھانے پکوا کر اور کھا کر ، علاج کروا کر اور خدمت کر ا کر مرنے والوں کی حالت کیا ہوتی ہے اور کس طرح گھر میں قیامت برپا ہوتی ہے اور مرنے اپنے والوں کو سوائے اپنی موت کے کسی دوسری چیز کا خیال تک بھی نہیں ہوتا مگر آنحضرت کا صحابہ کے دلوں میں ایسا عشق پیدا کر دیا تھا کہ انہیں آپ کے مقابلے میں کسی اور چیز کی پرواہی نہ تھی مگر یہ عشق صرف اس وجہ سے تھا کہ آپ خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں.آنحضرت صلی علیم سے اگر عشق تھا تو اس وجہ سے تھا کہ آپ صلی می نام خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں.آپ کے محمد کہونے کی وجہ سے عشق نہیں تھا بلکہ آپ کے رسول اللہ ہونے کی وجہ سے یہ تھا.پھر آپؐ فرماتے ہیں کہ وہ لوگ دراصل خدا تعالیٰ کے عاشق تھے اور چونکہ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی المیم سے پیار کرتا تھا اس لیے آپ کے صحابہ آپ سے پیار کرتے تھے اور صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتوں کو بھی دیکھ لو ان کے دلوں میں بھی آپ کی ذات کے ساتھ کیا محبت اور کیا عشق تھا.پھر آپ نے اس عورت کا یہ واقعہ بھی بیان فرمایا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ یہ محبت تھی جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی ایم کے متعلق ان لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی تھی مگر باوجود اس کے وہ خدا تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے اور یہی توحید تھی جس نے ان کو دنیا میں ہر جگہ غالب کر دیا تھا.خدا تعالیٰ کے مقابلے میں وہ نہ ماں باپ کی پروا کرتے تھے اور نہ بہن بھائیوں کی اور نہ بیویوں کی اور خاوندوں کی.ان کے سامنے ایک ہی چیز تھی اور وہ یہ کہ ان کا خدا ان سے راضی ہو جائے.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رضی اللہ عنہم فرما دیا.انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو مقدم کیا مگر آپ فرماتے ہیں کہ بعد میں مسلمانوں کی یہ حالت نہ رہی اور اب اگر ان کو اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو محض دماغی ہے.دماغ میں ضرور ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں.توحید کے قائل ہیں.دل میں یہ نہیں ہے.رسول کریم صلی اللہ کا ذکر اگر ان کے سامنے کیا جائے تو ان کے دلوں میں محبت کی تاریں ہلنے لگتی ہیں.رسول کریم صلی علیکم کے عزیزوں کے ذکر پہ بھی تاریں ملتی ہیں.4 شیعہ سنی سب آنحضرت صلی الی یکم اور آپ کی اولاد کے ذکر پر جوش میں آجاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے ذکر پر مسلمانوں کے دلوں کی تاریں نہیں ہلتیں حالانکہ آنحضرت صلی ا تم جیسی نعمت ہمیں خدا تعالیٰ نے ہی دی تھی.پس اللہ تعالیٰ کی محبت اور نام سے بھی ایک ایسا ہیجان ہمارے دلوں میں پید اہونا چاہیے کیونکہ حقیقی ترقی اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہی حاصل ہو گی.توحید پہ قائم رہنے سے ہی حاصل ہو گی.پس یہ ہے بنیادی اصول جسے ہمیں، ہر ایک کو یادرکھنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اندر اللہ اور رسول کی حقیقی محبت اور اس کا صحیح ادراک پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.1135 1134

Page 504

488 307 اصحاب بدر جلد 5 رض حضرت نعمان بن عصر حضرت نعمان بن عصر حضرت نعمان کا تعلق انصار کے قبیلہ بلی سے تھا اور قبیلہ بنو مُعاویہ کے حلیف تھے.انہیں لقیط بن عصر بھی کہا جاتا تھا.اسی طرح انہیں نُعمان بلوی کے نام سے بھی ذکر کیا جاتا ہے.بیعت عقبہ میں شامل حضرت نعمان بن عصر بیعت عقبہ اور غزوہ بدر اور اسی طرح باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی الی یوم کے ساتھ شریک ہوئے تھے.شہادت ان کی شہادت جنگ یمامہ میں ہوئی اور بعض کے نزدیک حضرت نعمان وہ شخص تھے جنہیں آنحضرت صلی ا یکم کی وفات کے بعد مرتدین سے جنگ میں طلیحہ نے شہید کیا تھا.1136 308 حضرت نعمان بن مالک حضرت نعمان بن مالک.حضرت نعمان بن مالک کا نام نعمان بن قوقل بھی بیان کیا جاتا ہے.امام بخاری نے ان کا نام ابن قوقل بیان کیا ہے.علامہ بدرالدین عینی جو ایک عالم تھے وہ بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ابن قوقل کا مکمل نام نعمان بن مالک بن ثعلبہ بن اصرم تھا اور ثعلبہ یا آخرم کالقب قوقل تھا اور نعمان اپنے دادا کی طرف منسوب ہوتے تھے اس لیے انہیں نعمان بن قوقل کہا جاتا تھا.7 حضرت نعمان بن مالک کی چال میں ذرا لنگڑا اپن پایا جاتا تھا.38 1138 1137 نام و نسب حضرت نعمان بن مالک کے والد کا نام مالک بن ثعلبہ اور والدہ کا نام عمرہ بنت ذیاد تھا اور وہ حضرت مُجدّد بن زیاد کی ہمشیرہ تھیں.

Page 505

اصحاب بدر جلد 5 489 حضرت نعمان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو غنم سے تھا.یہ قبیلہ قوقل کے نام سے مشہور تھا.ابن ہشام کے نزدیک حضرت نعمان بن مالک نعمان قوقل کے نام سے بھی مشہور تھے اور ابن ہشام نے ان کا قبیلہ بنو دغد بھی بیان کیا ہے.قوقل نام کی وجہ تسمیہ قوقل کیوں کہلاتے تھے پچھلی دفعہ بھی ایک خطبے میں بیان کر چکا ہوں 1139 کہ جب مدینے میں کسی سردار کے پاس کوئی شخص پناہ کا طلب گار ہوتا تو اسے یہ کہا جاتا تھا کہ اس پہاڑ پر جیسے مرضی چڑھ.یعنی اب تو امن میں ہے ، جس طرح مرضی رہ اور تو اس حالت میں لوٹ جا کہ تو فراضی محسوس کر، کوئی تنگی نہیں اب تجھے اور کسی چیز کا خوف نہ کھا اور وہ لوگ جو پناہ دینے والے تھے وہ قواقلہ کے نام سے مشہور تھے.تاریخ لکھنے والے ابن ہشام یہ کہتے ہیں کہ ایسے سردار جب کسی کو پناہ دیتے تو اسے ایک تیر دے کر کہتے اس تیر کو لے کر اب جہاں مرضی جا.حضرت نعمان کے داد ا ثعلبہ بن دعد کو قوقل کہا جاتا تھا.پناہ دینے والوں میں سے تھے.اسی طرح خزرج کے سردار غنم بن عوف کو بھی قوقل کہا جاتا تھا.اسی طرح حضرت عبادہ بن صامت بھی قوقل کے لقب سے مشہور تھے.بنو سالم، بنو غنم اور بنو عوف بن خزرج کو بھی قواقلہ کہا جاتا تھا.بنو عوف کے سردار حضرت عبادہ بن صامت تھے.جنگ احد میں شہادت حضرت نعمان بن مالک غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے.انہیں صفوان بن امیہ نے شہید کیا تھا.ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت نعمان بن مالک کو ابان بن سعید نے شہید کیا تھا.حضرت نعمان بن مالک حضرت مُجنَّد بن زیاد اور حضرت عبادہ بن حِسحاس کو غزوہ احد کے موقع پر ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا.1140 حضرت نعمان بن مالک نے رسول اللہ صلی للی کم سے غزوہ احد کے لیے نکلتے اور آپ صلی الی ظلم کے عبد اللہ بن ابی بن سلول سے مشورہ کے وقت عرض کیا کہ یارسول اللہ ! بخدا میں جنت میں ضرور داخل ہوں گا.آپ صلی یکم نے فرمایا وہ کیسے ؟ تو حضرت نعمان نے عرض کیا اس وجہ سے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ صلی علیکم اللہ کے رسول ہیں اور میں لڑائی سے ہر گز نہ بھاگوں گا.اس پر رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا تم نے سچ کہا.چنانچہ وہ اسی روز شہید ہو گئے.1141 خالد بن ابو مالک جعدی روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کی کتاب میں یہ روایت پائی کہ حضرت نعمان بن قوقل انصاری نے دعا کی تھی کہ مجھے تیری قسم اے میرے رب ! ابھی سورج غروب نہیں ہو گا کہ میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت کی سرسبزی میں چل رہا ہوں گا.چنانچہ وہ اسی روز

Page 506

اصحاب بدر جلد 5 490 شہید ہو گئے.رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کر لی کیونکہ میں نے اسے دیکھا، یہ کشفی رنگ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت لیلی کیم کو بتایا آپ نے فرمایا کہ میں نے اس کو دیکھا کہ وہ جنت میں چل رہا تھا اور اس میں کسی قسم کا لنگڑ اپن یالڑ کھڑاہٹ نہیں تھی.1142 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی للی علم کے پاس آیا اور آپ صلی الی یکم خیبر میں تھے جبکہ صحابہ اسے فتح کر چکے تھے.میں نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے بھی حصہ دیں.سعید بن عاص کے ایک بیٹے نے کہا کہ یارسول اللہ ! اسے حصہ نہ دیں.حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ یہ نعمان بن قوقل کا قاتل ہے.ابن سعید بن عاص نے کہا کہ اس پر تعجب ہے ہم پر اکڑتا ہے.ابھی ضان پہاڑی، جو تہامہ کے علاقہ میں ہے اور حضرت ابوہریرہ کے قبیلے دوس کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے کہتے ہیں اس کی چوٹی پر سے بکریاں چراتا ہمارے پاس آگیا ہے اور مجھ پر عیب لگاتا ہے کہ میں نے ایک مسلمان مرد کو قتل کر دیا تھا.پھر وہ کہنے لگا کہ جس کو اللہ نے میرے ہاتھ سے عزت دی اور مجھے اس کے ہاتھوں رسوا نہیں کیا.بڑا ہو شیاری سے بیان دیا.سفیان کہتے تھے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ صلی یہ یکم نے ان کو حصہ دیا یا نہیں.1143 حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضرت نعمان بن قوقل رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس آئے اور انہوں نے پوچھا یار سول اللہ ! اگر میں فرض نمازیں ادا کروں اور رمضان کے روزے رکھوں اور حرام چیزوں کو حرام قرار دوں اور حلال چیزوں کو حلال قرار دوں اور اس پر کچھ بھی زیادہ نہ کروں تو کیا میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا ؟ تو آپ صلی علیکم نے فرمایا ہاں.اس پر انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم انہیں اس پر کچھ بھی زیادہ نہ کروں گا.1144 جمعہ کے وقت خطبہ شروع ہو گیا ہو تو دو سنتیں پڑھ لے حضرت جابر سے روایت ہے کہ نعمان بن قوقل مسجد میں داخل ہوئے تو رسول اللہ صلی یکم جمعہ کے روز خطبہ ارشاد فرمارہے تھے.نبی کریم صلی اللہ ہم نے ان سے کہا اے نعمان ! دور کعتیں ادا کرو.یہ جمعہ کی جو سنتیں ہیں ان کا بھی مسئلہ اس میں بیان کیا گیا ہے.آنحضرت صلی علی کم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، آپ نے انہیں کہا کہ دو رکعتیں ادا کر و اور ان میں اختصار سے کام لو.مختصر طور پر جمعہ کی سنتیں پہلے پڑھ لو.خطبہ شروع ہو گیا ہے دور کعت ادا کرو اور مختصر پڑھو.پھر آپ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دور کعت نماز پڑھے اور وہ دونوں رکعتیں ہلکی ہوں.1145

Page 507

491 309 اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت نعیمان بن عمرو حضرت نعيمان بن عمرو.حضرت نعمان کا نام نعمان بھی ملتا ہے اور نعیمان بھی.اور ان کے والد کا نام عمر و بن رفاعہ اور والدہ کا نام فاطمہ بنت عمر و تھا.حضرت نعمان کی اولاد میں محمد ، عامر ، سبرة، لبابه، كبشه، مریم اور اُمّ حبیب آمَةُ اللہ اور حکیمہ کا ذکر ملتا ہے.ابنِ اسحاق کے نزدیک حضرت نعیمان بیعت عقبہ ثانیہ میں ستر انصار کے ہمراہ شامل ہوئے تھے.تمام غزوات میں شرکت رہے.حضرت نعمان غزوہ بدر، احد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ شریک رسول اللہ صلی الم نے فرما یان عیمان کے لیے سوائے خیر کے کچھ نہ کہو ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرما یا نعیمان کے لیے سوائے خیر کے کچھ نہ کہو کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے.حضرت نُعمان کی وفات حضرت امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں 60 ہجری میں ہوئی تھی.146 ایک دلچسپ مزاحیہ واقعہ جس پر نبی صلی کم خوب محظوظ ہوئے الله حضرت اقد سلمہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر نبی کریم صلی ایم کی وفات سے ایک سال قبل بضري جو ملک شام کا ایک قدیم اور مشہور شہر ہے اور نبی کریم صلی علیہم نے اپنے چا کے ہمراہ شام کے تجارتی سفر کے دوران اسی شہر میں قیام کیا تھا اور اسی طرح جب حضرت خدیجہ کا سامان شام کی طرف لے کر گئے تھے تو اس وقت بھی اسی جگہ پر قیام کیا تھا اور اس سفر میں آنحضرت صلی علیم کے ساتھ حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی تھا.بہر حال حضرت ابو بکر جب وفات سے ایک سال قبل تجارت کے لیے اس طرف گئے تو ان کے ساتھ نعیمان اور سُوَيْبط بن حرملہ نے بھی سفر کیا اور یہ دونوں جنگ بدر میں بھی موجود تھے.حضرت ابو بکر کے ساتھ اس سفر میں نعیمان زادِ راہ پر متعین تھے اور اسی سفر کا واقعہ ہے جب ان کے ساتھی نے حضرت نعیمان کو ایک قوم کے پاس مذاق مذاق میں فروخت کر دیا تھا.یہ واقعہ میں حضرت سُوَيْبط " کے ضمن میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.1147 بہر حال کچھ مختصر بیان کر دیتا

Page 508

اصحاب بدر جلد 5 492 ہوں.سُوَيْبظ جو ان کے ساتھی تھے ان کی طبیعت میں مزاح تھا بلکہ بعض روایات سے پتا لگتا ہے کہ دونوں ہی، حضرت نعمان بھی اور حضرت سُوَيْبظ بھی آپس میں بڑے بے تکلف تھے ، مذاق کیا کرتے تھے اور ان کی طبیعت میں مزاح تھا.تو انہوں نے سفر کے دوران نعمان سے کہا کہ مجھے کھانا کھلاؤ.انہوں نے جواب دیا کہ جب تک حضرت ابو بکر نہیں آئیں گے ، جو کہیں باہر گئے ہوئے تھے ، کھانا نہیں دوں گا.سُوئبظ نے اس پر کہا کہ اگر تم نے مجھے کھانا نہ دیا تو پھر میں ایسی باتیں کروں گا جس پر تمہیں غصہ آئے.راوی نے کہا کہ ان کا اس دوران ایک قوم کے پاس سے گزر ہوا تو سویبظ نے ان سے کہا کہ کیا تم مجھ سے میرا ایک غلام خریدو گے.بہر حال کچھ وقفے کے بعد چند دنوں کے بعد یا کچھ سفر میں چلتے چلتے ہی اس وقت یہ ذکر ہو گا.تو اس قوم کو حضرت سُوئبظ نے کہا کہ میرے سے غلام خریدو گے.قوم نے کہا ہاں خریدیں گے تو سویبط نے اس پر ان کو کہا کہ وہ بڑا بولنے والا ہے اور یہی کہتا رہے گا کہ میں آزاد ہوں اور جب وہ تمہیں یہ بات کہے کہ تم اس کو چھوڑ دو تو پھر یہ نہ ہو کہ تم میرے غلام کو خراب کرنا.انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ ہم اسے تجھ سے خریدنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اسے دس اونٹنیوں کے عوض خرید لیا.پھر وہ لوگ نعیمان کے پاس آئے اور ان کے گلے میں پگڑی یارسی ڈالی تاکہ غلام بنا کے لے جائیں.نعیمان ان سے بولے کہ یہ شخص تم سے مذاق کر رہا ہے میں تو آزاد ہوں.غلام نہیں ہوں.انہوں نے جواب دیا کہ اس نے تمہارے بارے میں پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا.بہر حال وہ زبر دستی انہیں ساتھ لے گئے.جب حضرت ابو بکر صدیق آئے اور لوگوں نے اس کے متعلق بتایا تو پھر آپ ان لوگوں کے پیچھے گئے، اس قوم کے پیچھے گئے اور ان کو اونٹنیاں واپس دیں اور نعمان کو واپس لے آئے.راوی نے بتایا کہ جب یہ لوگ واپس نبی کریم صلی علیہ کم کے پاس آئے اور آپ کو بتایا تو راوی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی ایام اور آپ کے صحابہ اس سے بہت محظوظ ہوئے.بڑا ہنسے اور ایک سال تک ان میں یہ لطیفہ بنا رہا.1148 بعض جگہ بعض کتابوں میں اس فرق کے ساتھ یہ واقعہ ملتا ہے کہ فروخت کرنے والے حضرت سویبط نہیں تھے بلکہ حضرت نعمان تھے.1149 بہر حال دونوں کے بارے میں ہی یہ روایت آتی ہے.حضرت نعمان کے بارے میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ ان کی طبیعت میں بھی مزاح پایا جاتا تھا.چنانچہ نبی کریم صلی للی کم ان کی باتیں سن کر محظوظ ہوا کرتے تھے.ربيعه بن عثمان سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی علیکم کے پاس ایک بند و آیا اور مسجد میں داخل ہو کر اس نے اپنے اونٹ کو صحن میں بٹھا دیا.اس پر بعض صحابہ نے حضرت نعمان سے کہا کہ اگر تم اس اونٹ کو ذبح کر دو تو ہم اسے کھائیں گے کیونکہ ہمیں گوشت کھانے کا بڑا دل کر رہا ہے.اور بہر حال یہ بدو کا اونٹ ہے تو رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس جب شکایت ہو گی تو پھر رسول اللہ صل ال علم اس کا تاوان ادا کر دیں

Page 509

493 اصحاب بدر جلد 5 گے.راوی کہتے ہیں کہ حضرت نعمان نے ان کی باتوں میں آکے اونٹ ذبح کر دیا اور جب بد و باہر نکلا اور اپنی سواری کو اس حالت میں دیکھا تو شور مچانے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا اونٹ ذبح ہو گیا ہے.نبی کریم صلی علیکم باہر تشریف لائے اور فرمایا یہ کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا نعمان نے.یہ کرنے کے بعد نعمان وہاں سے چلے گئے.کہیں جا کے چھپ گئے تو آپ ان کی تلاش میں نکلے.بہر حال نبی کریم صلی للی نام ان کی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ انہیں حضرت ضُباعه بنت زبیر بن عبد المطلب کے ہاں چھپا ہوا پایا.جہاں وہ چھپے ہوئے تھے وہاں ایک شخص نے اپنی انگلی سے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کہیں نظر نہیں آرہا.بہر حال آپ صلی لی ہم نے اسے وہاں سے نکالا اور فرمایا کہ یہ حرکت تم نے کیوں کی ہے ؟ تو نعمان نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !جن لوگوں نے آپ کو میرے بارے میں خبر دی ہے کہ میں نے یہ ذبح کیا، انہوں نے ہی مجھے اس پہ اکسایا تھا.انہوں نے ہی مجھے کہا تھا اور یہ بھی کہ رسول اللہ صلی علیہ کمی بعد میں اس کا تاوان دے دیں گے ، قیمت ادا کر دیں گے.تو رسول اللہ صلی علی رام نے یہ بات سن کے نعمان کے چہرے کو چھوا، اپنا ہاتھ لگایا اور مسکرانے لگے اور آپ نے اس بدو کو اس اونٹ کی قیمت ادا کر دی.10 1150 محبت کا ایک منفر د دلچسپ انداز زبير بن بكار اپنی کتاب الفكاهة والمزاح میں حضرت نعمان کے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مدینے میں جب بھی کوئی پھیری والا داخل ہوتا، باہر سے کوئی تاجر کوئی چیز لے کر آتا تو حضرت نعمان اس سے رسول اللہ صلی علیم کے لیے کوئی چیز خرید لیتے اور وہ لے کر آپ صلی للہ یکم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور یہ عرض کرتے کہ آپ کے لیے میری طرف سے تحفہ ہے.جب اس چیز کا مالک حضرت نعمان سے اس کی قیمت لینے کے لیے آتا.وہاں پھر رہے ہوتے تھے.بتادیتے تھے کہ میں وہاں رہتا ہوں.بعد میں قیمت بھی لے لیتے تھے.واقف ہوتے تھے.بہر حال جب وہ قیمت لینے آتا تو وہ اسے نبی کریم صلی ال نیم کے پاس لے آتے اور عرض کرتے کہ اسے اس کے مال کی قیمت ادا کر دیں.یہ چیز جو میں نے خریدی تھی اور آپ کو دی تھی اس کی قیمت ادا کر دیں.اس پر آپ صلی ال ام فرماتے کہ کیا تم نے یہ چیز مجھے بطور تحفہ نہیں دی تھی تو وہ کہتے یار سول اللہ ! اللہ کی قسم ! میرے پاس اس چیز کی ادائیگی کے لیے کوئی رقم نہیں تھی تاہم میر اشوق تھا کہ اگر وہ کھانے کی چیز ہے تو آپ اسے کھائیں.رکھنے کی چیز ہے تو آپ اسے رکھیں.اس پر آپ صلی ال یکم مسکرانے لگتے اور اس چیز کے مالک کو اس کی قیمت ادا کرنے کا حکم فرماتے.1151 تھیں.تو یہ عجیب پیار اور محبت اور مزاح کی مجلسیں ہوا کرتی تھیں.یہ صرف خشک مجلسیں نہیں ہوتی 1152

Page 510

494 310 اصحاب بدر جلد 5 حضرت نوفل بن عبد اللہ بن نضلہ حضرت نوفل بن عبد الله بن نضلہ ہیں.ان کی وفات غزوہ اُحد میں ہوئی.بعض نے آپ کا نام نوفل بن ثَعْلَبَه بن عبد الله بن نَضّله بن مالک بن عجلان بیان کیا ہے.آپ غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک ہوئے اور غزوہ اُحد میں آپ شہید ہوئے.آپ کی نسل 311 1153 آگے نہیں چلی.نام و نسب حضرت بلال بن امیہ انصاری حضرت هلال " حضرت هلال بن امیہ واقعی ان کا پورا نام ہے.یہ انصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو واقف سے تعلق رکھتے تھے.ان کے والد کا نام امیہ بن عامر اور والدہ کا نام انیسہ بنت هدم تھا جو حضرت كلثوم بن هدم " کی بہن تھیں.کلثوم بن ھم وہی صحابی ہیں جن کے ہاں رسول اللہ صلی الم نے ہجرت مدینہ کے موقعے پر قبا میں قیام فرمایا تھا.1154 شادی حضرت هلال بن امیہ کی دو شادیوں کا ذکر ملتا ہے ایک فُرَيْعَةً بنت مَالِكِ بن دُخُشُم سے جبکہ دوسرى مليكة بنت عبد اللہ کے ساتھ.حضرت ھیلال کی دونوں بیویوں کو اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور رسول اللہ صلی علیکم کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کی.قدیمی اسلام قبول کرنے والے 1155 حضرت هلال بن امیه قدیمی اسلام قبول کرنے والے تھے اور انہوں نے قبیلہ بنو واقف کے بت توڑے تھے اور فتح مکہ کے دن ان کی قوم کا جھنڈا ان کے پاس تھا.1156 حضرت هلال بن اميه " کو غزوۂ بدر، غزوہ احد اور اسی طرح بعد کے غزوات میں رسول اللہ علی ایم کے ہم راہ شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تھی تاہم غزوہ تبوک میں یہ شامل نہ ہو سکے

Page 511

اصحاب بدر جلد 5 495 تھے.ابن ہشام نے بدری صحابہ کی جو فہرست اپنی کتاب میں درج کی ہے اس میں حضرت ھلال کا نام شامل نہیں ہے تاہم بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں انہیں بدری صحابہ میں شمار کیا ہے.7 ان تین صحابہ میں سے جو غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے 1157 حضرت هلال بن امیه ان تین انصار صحابہ میں سے تھے جو غزوہ تبوک میں بغیر کسی عذر کے شامل نہ ہو سکے تھے.دوسرے دو صحابہ کعب بن مالک اور مرارة بن ربیع ” تھے.ان کے بارے میں قرآن کریم میں یہ آیت بھی نازل ہوئی تھی کہ وَ عَلَى الثَّلَثَةِ الَّذِينَ خُلِفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحْبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَاَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللهَ هُوَ التَّوَابُ الرَّحِيمُ (التوبة: 118) اور ان تینوں پر بھی اللہ توبہ قبول کرتے ہوئے جھکا جو پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے یہاں تک کہ جب زمین ان پر باوجود فراخی کے تنگ ہو گئی اور ان کی جانیں تنگی محسوس کرنے لگیں اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ نہیں مگر اسی کی طرف.پھر وہ ان پر قبولیت کی طرف مائل ہوتے ہوئے جھک گیا تا کہ وہ تو بہ کر سکیں اور یقینا اللہ ہی بار بار تو بہ قبول کرنے والا 1158 اور بار بار رحم کرنے والا ہے.58 جنگ تبوک اور پیچھے رہ جانے والے غزوہ تبوک 9 ہجری میں ہو اتھا اور صحیح بخاری میں اس کے بارے میں ایک تفصیلی روایت بھی ہے جس میں ان تینوں صحابہ کے پیچھے رہ جانے کا تذکرہ بیان ہوا ہے.حضرت کعب بن مالک کے پوتے عبد الرحمن اپنے والد عبد اللہ بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت کعب جب نابینا ہو گئے تو وہ انہیں پکڑ کر لے جایا کرتے تھے.انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت کعب بن مالک کو وہ واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے.یہ جو لمبی روایت ہے یہ حضرت کعب کے حوالے سے ہے.حضرت هلال بن امیه جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے ان کا ذکر بیچ میں آجاتا ہے لیکن یہ ایک روایت ملتی ہے.بہر حال وہ کہتے ہیں کہ حضرت کعب بن مالک کو وہ واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا جبکہ وہ پیچھے رہ گئے تھے یعنی تبوک کا واقعہ.حضرت کعب نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللیل کم سے کسی غزوے میں بھی پیچھے نہیں رہا جو آپ نے کیا ہو سوائے غزوہ تبوک کے.ہاں غزوہ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا اور آپ صلی ہیں ہم نے کسی پر بھی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تھا جو اس جنگ سے پیچھے رہ گیا تھا.رسول اللہ صلی ا یکم صرف قریش کے قافلے کو روکنے کے ارادے سے نکلے تھے مگر نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بغیر اس کے کہ جنگ کی ٹھانی ہو ان کو دشمن سے ٹکر ا دیا اور میں رسول اللہ صلی اللی ایم کے ساتھ عقبہ کی رات میں بھی موجود تھا.بدر کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ بدر میں بھی شامل نہیں ہوا تھا لیکن اس میں نہ شامل ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی لی یم نے کوئی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا تھا.

Page 512

اصحاب بدر جلد 5 496 بہر حال کہتے ہیں جب ہم نے عقبہ میں اسلام پر قائم رہنے کا پختہ عہد و پیمان کیا تھا اور میں نہیں چاہتا کہ اس رات کے عوض مجھے بدر میں شریک ہونے کا موقع ملتا اگر چہ بدر لوگوں میں اس سے زیادہ مشہور ہے اور میری یہ حالت تھی کہ میں کبھی بھی اتنا تنو مند اور خوش حال نہیں تھا جتنا کہ اس وقت جبکہ میں آپ سے اس غزوہ میں پیچھے رہ گیا تھا یعنی تبوک کے.کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! اس سے پہلے کبھی بھی میرے پاس سواری کے اونٹ اکٹھے نہیں ہوئے تھے اور اس غزوے کے اثنامیں سواری کے دو اونٹ اکٹھے کر لیے تھے اور رسول اللہ صلی علیہ کام جس غزوے کا بھی ارادہ کرتے تھے تو آپ اس کو مخفی رکھ کر کسی اور طرف جانے کا اظہار کرتے تھے.عمومی طور پر یہ ہو تا تھا کہ جو جنگی strategy ہے اس کی وجہ سے آنحضرت صلی یکم ایک تو مخفی رکھا کرتے تھے دوسرے سفر بھی لمبا کیا کرتے تھے یار استہ بدلتے تھے.بہر حال کہتے ہیں کہ جب وہ غزوہ ہوا تو نبی صلی ام اس غزوے میں سخت گرمی کے وقت نکلے یعنی غزوہ تبوک میں اور آپ کے سامنے دور دراز کا سفر اور غیر آباد بیابان اور جو دشمن تھا بہت بڑی تعداد میں تھا.آپ نے مسلمانوں کو ان کی حالت کھول کر بیان کر دی تاکہ وہ اپنے حملے کے لیے جو تیاری کرنے کا حق ہے تیاری کریں.اس غزوے میں آنحضرت صلی ہیں ہم نے کوئی چیز مخفی نہیں رکھی بلکہ بتادیا کہ فلاں جگہ ہم نے جاتا ہے اور فلاں دشمن ہے اس لیے تیاری اچھی طرح کر لو.کہتے ہیں کہ آپ صلی ا ہم نے ان کو اس طرف کا بھی بتادیا جس طرف آپ جانا چاہتے تھے اور مسلمان رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ بکثرت تھے.حضرت کعب کہتے تھے اور کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جو غیر حاضر رہنا چاہتا ہو مگر وہ خیال کرتا کہ اس کا غیر حاضر رہنا آپ سے پوشیدہ رہے گا جب تک کہ اس سے متعلق اللہ کی وحی نازل نہ ہو اور رسول اللہ صلی الیم نے یہ غزوہ اس وقت کیا کہ جب پھل پک چکے تھے اور سائے اچھے لگتے تھے یعنی موسم بھی گرم تھا.آپ صلی الم کے ساتھ مسلمانوں نے بھی سفر کی تیاری شروع کر دی.کہتے ہیں کہ میں صبح کو جاتا تا میں بھی ان کے ساتھ سامان کی تیاری کروں، سفر کی تیاری کروں.میں واپس لوٹنا اور کچھ بھی نہ کیا ہوتا.لوٹتا ارادے سے تو نکلتا تھا لیکن شام کو واپس آجاتا اور تیاری نہیں ہوتی تھی.میں اپنے دل میں کہتا کہ میں تیاری کر سکتا ہوں.سامان میرے پاس موجود ہے.بہر حال کہتے ہیں یہ خیال مجھے لیت و لعل میں رکھتا رہا یہاں تک کہ لوگوں نے تیاری کرلی اور رسول اللہ صلی علیکم ایک صبح روانہ ہو گئے اور مسلمان بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوئے اور میں نے اپنے سفر کی تیاری میں سے کچھ بھی نہ کیا تھا.میں نے سوچا کہ آپ کے جانے کے ایک دن یا دو دن بعد تیاری کرلوں گا اور پھر ان سے جاملوں گا کیونکہ سفر کی سواری تو میرے پاس موجود تھی اور میں آسانی سے کر سکتا تھا.بہر حال کہتے ہیں ان کے چلے جانے کے بعد دوسری صبح گیا کہ سامان تیار کر لوں مگر پھر واپس آگیا اور کچھ بھی نہ کیا.پھر میں اگلے دن یعنی تیسرے دن گیا اور واپس لوٹ آیا اور کچھ بھی فیصلہ نہ کر سکا اور یہی حال رہا یہاں تک کہ لشکر تیزی سے سفر کرتے ہوئے بہت آگے نکل گیا.میں نے بھی ارادہ کر لیا کہ کوچ کروں اور ان کو پالوں اور کاش کہ میں ایسا کرتا مگر مجھے اس کی طاقت نصیب نہ ہوئی، میں کر نہیں سکا.

Page 513

اصحاب بدر جلد 5 497 رسول اللہ صلی علی ملک کے جانے کے بعد جب بھی میں ان لوگوں میں نکلتا اور ان میں چکر لگاتا تو مجھے بہ بات غمگین کر دیتی کیونکہ جو پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے اکثر میں ایسے ہی شخص کو دیکھتا جنہیں بوجہ نفاق کے حقارت سے دیکھا جاتا تھا.کہتے ہیں جب میں مدینہ کی گلیوں میں نکلتا تو انہی لوگوں کو دیکھتا جن کے بارے میں عام طور پر یہ تاثر تھا کہ ان میں نفاق پایا جاتا ہے یا کمزوروں میں سے ایسا شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے معذور ٹھہرایا تھا یا معذور تھے یا ایسے لوگ جو بزدل تھے اور جن کے دل میں نفاق تھا.بہر حال کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے تبوک پہنچنے سے قبل مجھے یاد نہ کیا، میرے بارے میں نہ پوچھا اور آپ صلی الله یم تبوک میں لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے جب آپ نے پوچھا کہ کعب کہاں ہے ؟ بنو سلمہ میں سے ایک شخص نے کہا یار سول اللہ ! اس کو اس کی دو چادروں نے اور اس کی اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھنے نے روک رکھا تھا یعنی ایک تو شاید پیسہ آگیا ہے یا کوئی تکبر پیدا ہو گیا ہے اس لیے نہیں آسکا.حضرت معاذ بن جبل نے یہ سن کر کہا کیا بُری بات ہے جو تم نے کہی ہے.انہوں نے کہا نہیں، ایسی بات نہیں ہے.پھر انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اس کے متعلق ہمیں اچھا ہی تجربہ ہے.کعب کے بارے میں اب تک تو ہمارا تجربہ اچھا ہے.نہ اس میں کوئی فخر ہے ، نہ تکبر ہے، نہ منافقت ہے.تو رسول اللہ صلی کم یہ سن کر خاموش ہو گئے.حضرت کعب بن مالک کہتے تھے کہ جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ آپ جو اس سفر پہ نکلے تھے واپس آرہے ہیں تو مجھے فکر ہوئی اور میں جھوٹی باتیں سوچنے لگا کہ کس بات سے کل آپ کی ناراضگی سے بچ جاؤں.کوئی بہانہ کروں اور اپنے گھر والوں میں سے ہر ایک اہل رائے سے میں نے اس بارے میں مشورہ لیا، لوگوں سے بھی پوچھا کہ کیا بہانہ ہو سکتا ہے.جب یہ کہا گیا کہ رسول اللہ صلی الی یوم آن پہنچے تو میرے دل سے سارے جھوٹے خیالات کا فور ہو گئے.سب بہانے نکل گئے.سب جھوٹ نکل گئے اور میں نے سمجھ لیا کہ میں کبھی بھی آپ کے غصے سے ایسی بات سے بچنے والا نہیں جس میں جھوٹ ہو.اس لیے میں نے آپ سے سچ سچ بیان کرنے کی ٹھان لی اور رسول اللہ صلی الی یکم تشریف لے آئے.جب آپ صلی لی ہم کسی سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور اس میں دور کعتیں نفل پڑھتے.پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھ جاتے.جب آپ نے یہ کیا تو پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ کے پاس آگئے.جو نہیں گئے تھے وہ آگئے اور آپ صلی سلیم سے غذر بیان کرنے لگے.ہر ایک بہانے کرنے لگ گیا کہ اس کے نہ جانے کی کیا کیا وجہ تھی اور قسمیں کھانے لگے اور ایسے لوگ اتنی 80 سے کچھ اوپر تھے جو اس قسم کی قسمیں کھا کر ، غلط بیانیاں کر کے بہانے کر رہے تھے.انہوں نے اپنے عذر بیان کیے.رسول اللہ صلی الیم نے ان سے ان کے ظاہری عذرمان لیے اور ان سے بیعت لی اور ان کے لیے استغفار کیا اور ان کا اندرونہ اللہ کے سپر د کیا.انہوں نے کہا ٹھیک ہے بظاہر تم یہ کہتے ہو تو مان لیتا ہوں.اللہ تعالیٰ تمہاری بخشش کے سامان کرے.باقی یہ معاملہ میں اللہ کے سپر د کر تا ہوں.پھر کہتے ہیں کہ میں آپ صلی للی کمر کے پاس آیا جب میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ صلی للہ کی ناراض

Page 514

اصحاب بدر جلد 5 498 شخص کی طرح مسکرائے.میری طرف دیکھا مسکرائے لیکن اس طرح دیکھنا تھا جس طرح کہ ناراضگی ہوتی ہے.پھر آپ صلی ٹیم نے فرمایا آگے آؤ.میں آیا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا.آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کس بات نے تمہیں پیچھے رکھا ہے ؟ ہمارے ساتھ کیوں نہیں سفر کیا ؟ کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی ؟ میں نے کہا ہاں اللہ کی قسم! میں ایسا ہوں کہ اگر آپ کے سواد نیا کے لوگوں میں سے کسی اور کے پاس بیٹھا ہو تا تو میں سمجھتا ہوں کہ میں ضرور ہی اس کی ناراضگی سے عذر کر کے بیچ جاتا کیونکہ مجھے قوت بیان دی گئی ہے.مجھے بڑے اچھے بہانے بنانے آتے ہیں میں بچ سکتا تھا مگر اللہ کی قسم !میں جانتا تھا کہ اگر میں نے آج آپ سے کوئی ایسی جھوٹی بات بیان کی جس سے آپ مجھ پر راضی ہو گئے تو عنقریب اللہ آپ کو مجھ پر ناراض کر دے گا.میں بیان کر کے ناراضگی سے بچ تو سکتا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کسی نہ کسی وقت ظاہر ہو جائے گی اور وہ آپ کو بھی پتا لگ جائے گی.پھر کہتے ہیں کہ اگر میں آپ سے سچی بات بیان کروں گا جس کی وجہ سے آپ مجھ پر ناراض ہوں تو میں اس میں اللہ کے عفو کی امید رکھتا ہوں.آپ سچی بات سے ناراض ہو جائیں گے لیکن میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے عفو کا سلوک کرے گا.پھر حضرت کعب نے عرض کیا کہ نہیں اللہ کی قسم ! میرے لیے کوئی عذر نہیں تھا کہ عذر بیان کروں.اللہ کی قسم ! کوئی عذر نہیں تھا میں کبھی بھی ایسا تنومند اور آسودہ حال نہیں ہو ا جتنا کہ اس وقت تھا جب آپ سے پیچھے رہ گیا.رسول اللہ صلی علیکم نے یہ سن کر فرمایا: اس نے بیچ بیان کیا ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ اٹھو یہاں تک کہ اللہ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ کرے.یہاں میرے سامنے سے چلے جاؤ.میں اٹھ کر چلا گیا اور بنو سلمہ میں سے بعض لوگ بھی اٹھ کر میرے پیچھے ہو لیے.انہوں نے مجھے کہا کہ اللہ کی قسم ! ہمیں علم نہیں کہ تم نے اس سے پہلے کوئی قصور کیا ہو اور تم یہ بھی نہ کر سکے کہ رسول اللہ صل علیم کے پاس کوئی بہانہ ہی بناتے جبکہ ان کے پیچھے رہنے والوں نے، بہت سارے لوگوں نے جو آسٹی لوگ تھے، آپ کے سامنے بہانے بنائے تھے.جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے.رسول اللہ صلی العلیم کا تمہارے لیے استغفار کر دینا ہی تمہارے اس گناہ بخشا نے کے لیے کافی تھا.کعب کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! یہ لوگ مجھے ملامت ہی کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے بھی ارادہ کر لیا کہ لوٹ جاؤں اور اپنے آپ کو جھٹلا دوں.دوبارہ آنحضرت صلی اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس جاؤں اور عرض کروں کہ میں نے جو پہلے بات کی تھی وہ غلط تھی اور کوئی نہ کوئی عذر پیش کر دوں لیکن کہتے ہیں پھر میں نے ان لوگوں سے پوچھا، جو مجھے کہہ رہے تھے کہ تم نے غلط کیا کہ سچی بات بتادی، واپس جاؤ.کہتے ہیں میں نے ان سے، ان لوگوں سے پوچھا جو مجھے بھڑ کانے والے تھے یا غلط کام کی طرف ابھارنے والے تھے کہ کیا میرے ساتھ کوئی اور بھی ہے جس نے آپ صلی علی کرم سے اس قسم کا اقرار کیا ہو جیسی باتیں میں نے کی ہیں، سچ سچ بیان کر دیا ہو.انہوں نے کہا کہ ہاں.دو اور شخص ہیں انہوں نے بھی وہی کہا ہے جو تم نے کہا ہے اور ان کو بھی وہی جواب ملا ہے جو تمہیں دیا گیا ہے.میں نے کہا وہ کون ہیں.

Page 515

اصحاب بدر جلد 5 499 کہنے لگے کہ ایک تو مرارہ بن ربیع عمری ہیں اور دوسرے ھلال بن امیہ واقعی ہیں.حضرت کعب کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھ سے ایسے دو نیک آدمیوں کا ذکر کیا جو بدر میں شریک ہو چکے تھے.ان دونوں میں میرے لیے نمونہ تھا.جب لوگوں نے ان دونوں کا مجھ سے ذکر کیا تو میں ان کے پاس سے چل پڑا اور رسول اللہ کی لیکم نے مسلمانوں کو ہم سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا.جب یہ ذکر ہو گیا کہ ہاں دو شخص اور ہیں تب مجھے خیال آیا کہ یہ دونوں حقیقی نیک لوگ ہیں، بدر میں بھی شامل ہو چکے ہیں.اس لیے میں اب انھی کے ساتھ شامل ہوں گا.کوئی غلط بہانہ نہیں کروں گا.کہتے ہیں میں چلا گیا اور اس دوران میں آنحضرت صلی للی یکم نے مسلمانوں کو ہم سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا یعنی ایک طرح کا مقاطعہ ہو گیا.لوگ ان سے کترانے لگے جو ان لوگوں میں سے تھے جو آپ سے پیچھے رہ گئے تھے.گویا کہ ہم سے بالکل نا آشنا ہیں.اس بات پہ جب منع کر دیا گیا تو ہمارے سامنے نہیں آتے تھے ، ہم سے بچتے تھے جس طرح ہمیں جانتے ہی نہ ہوں یہاں تک کہ یہ زمین بھی مجھے اوپری نظر آنے لگی.وہ نہ تھی جس کو میں جانتا تھا.مدینے کی گلیاں یہ شہر یہ زمین میرے لیے بالکل اوپری ہو گئی.یہ مجھے وہ چیز نہیں لگ رہی تھی جس کو میں پہلے جانتا تھا.لگتا تھا میں ایک نئی جگہ پر آگیا ہوں کیونکہ لوگ میرے سے کترارہے تھے.بہر حال کہتے ہیں کہ اس حالت پر پچاس راتیں رہے.اور جو میرے دوسرے دو ساتھی تھے حضرت هلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع انہوں نے شدید شرمندگی محسوس کی اور ان کا تو یہ حال تھا کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر رونے لگے.وہ ھلال وغیرہ تو گھروں سے باہر ہی نہیں نکلے.حضرت ھلال تو گھر میں رہے.مستقل گھر میں رہتے تھے اور روتے تھے اور حضرت کعب کہتے ہیں کہ میں تو ان لوگوں میں زیادہ جوان تھا اور ان لوگوں سے مصیبت کو زیادہ برداشت کرنے والا تھا.میں باہر بھی نکلتا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ نمازوں میں شرکت کرتا تھا.میں گھر میں بیٹھ کر روتا نہیں رہا.ان کی طرح استغفار نہیں کرتا رہا.استغفار کرتا تھا لیکن ساتھ ہی میں باہر بھی نکلتا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ نمازوں میں بھی شریک ہو تا تھا.مسجد بھی آتا تھا.بازاروں میں بھی پھرتا تھا مگر مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا تھا اور میں رسول اللہ صلیالم کے پاس بھی جاتا تھا.مسجد میں مجلس لگی ہوتی تھی تو وہاں بھی جاتا تھا.آپ کو سلام کرتا تھا جبکہ آپ نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھے ہوتے اور اپنے دل میں کہتا کہ کیا آپ صلی الیکم نے مجھے سلام کا جواب دینے میں اپنے ہونٹ ہلائے ہیں یا نہیں اور آپ کے قریب ہو کر نماز پڑھتا اور نظر چرا کر آپ کو دیکھتا اور جب نماز پڑھنے لگتا تو آپ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ کی طرف توجہ کرتا تو آپ مجھ سے منہ پھیر لیتے.جب لوگوں کی یہ درشتی مجھ پر طول پکڑ گئی تو میں چلا اور میں نے حضرت ابو قتادہ کے باغ کی دیوار کو پھلا نگا.یہ میرے چچا کے بیٹے تھے اور مجھے تمام لوگوں سے زیادہ پیارے تھے.کہتے ہیں میں نے ان کو

Page 516

اصحاب بدر جلد 5 500 السلام علیکم کہا.پھر کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! انہوں نے مجھے سلام کا جواب تک نہ دیا.میں نے کہا ابو قتادہ میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں ؟ وہ خاموش رہے.پھر ان سے پوچھا اور ان کو قسم دی تو وہ پھر خاموش رہے.پھر تیسری دفعہ ان سے پوچھا اور انہیں قسم دی مگر انہوں نے پھر کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں کہ محبت رکھتے ہو یا نہیں رکھتے.یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.میں وہاں سے دیوار پھلانگ کر پھر چلا آیا.غسان کے بادشاہ کا خط جو تنور میں پھینک دیا پھر حضرت کعب کہتے تھے کہ اس اثنا میں کہ میں مدینے کے بازار میں چلا جار ہا تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اہل شام کے نبطیوں میں سے جو مدینہ میں غلہ لے کر بیچنے کے لیے آئے ہوئے تھے ایک نبطی کہہ رہا تھا کہ کعب بن مالک کا کون بتائے گا؟ یہ سن کر لوگ اس کو اشارے سے بتانے لگے.جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے عثمان کے بادشاہ کی طرف سے ایک خط مجھے دیا.اس میں یہ مضمون تھا کہ اما بعد مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تمہارے ساتھ سختی کا معاملہ کر کے تمہیں الگ تھلگ چھوڑ دیا ہے اور تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے گھر میں پیدا نہیں کیا جہاں ذلّت ہو اور تمہیں ضائع کر دیا جائے.تم ہم سے آکر ملو.ہم تمہاری خاطر مدارات کریں گے.کہتے ہیں جب میں نے یہ خط پڑھا تو میں نے کہا یہ بھی ایک آزمائش ہے.میں وہ خط لے کر تنور کی طرف گیا اور اس میں اس کو ڈال دیا.جب پچاس راتوں میں سے چالیس راتیں گزریں تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی علی کم کا پیغام لانے والا میرے پاس آرہا ہے.اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی لی تم تم سے فرماتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے الگ ہو جاؤ.میں نے پوچھا کیا میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں ؟ اس نے کہا کہ اس سے الگ رہو اور اس کے قریب نہ جاؤ.آپ صلی الی یکم نے میرے دونوں ساتھیوں کو بھی، دوسرے جو دو ساتھی تھے، ( حضرت ھلال اور مُراره) ان کو بھی ایسا ہی کہلا بھیجا.کہتے ہیں میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور اس وقت تک انھیں کے پاس رہنا کہ اللہ اس معاملے میں کوئی فیصلہ کرے.حضرت کعب کہتے تھے کہ پھر هلال بن امیه کی بیوی رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آئی.جن صحابی کا میں یہ ذکر بیان کر رہا ہوں ان کی بیوی آئیں اور کہنے لگیں یار سول الله هلال بن امیہ بہت بوڑھا ہے.اس کا کوئی ملازم نہیں ہے.اگر میں اس کی خدمت کروں تو آپ ناپسند تو نہیں فرمائیں گے.آپ صلی الیم نے فرمایا نہیں ٹھیک ہے خدمت کرتی رہو.کھانا پکانا، گھر کا کام کرنا وہ کرتی رہو لیکن وہ تمہارے قریب نہ آئے.کہنے لگی کہ اللہ کی قسم! اس کو تو کسی بات کی تحریک ہی نہیں ہوتی.اللہ کی قسم ! وہ اس دن سے آج تک رورہا ہے.اس نے کیا کہنا ہے.جب سے اس کو سزا ملی ہے ، مقاطعہ ہوا ہے، جب سے اس کے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہے وہ تو اس دن سے بیٹھا رو رہا ہے.حضرت کعب کہتے ہیں کہ میرے بعض رشتے داروں نے مجھ سے کہا کہ تم بھی رسول اللہ صلی علیم سے اپنی بیوی کے متعلق ایسی ہی اجازت رض

Page 517

اصحاب بدر جلد 5 501 تین کو جیسے حضرت هلال بن امیہ کی بیوی کو اس کی خدمت کرنے کی اجازت دی ہے.اس کو مل گئی تو تمہیں بھی مل جائے گی.میں نے کہا اللہ کی قسم ! میں تورسول اللہ صلی اللہ کم سے کبھی اس بارے میں اجازت نہ لوں اور مجھے کیا معلوم رسول اللہ صلی یکم مجھے اس کے بارے میں کیا جواب دیں.حضرت ھلال تو بوڑھے آدمی ہیں اور میں جوان آدمی ہوں.اس کے بعد کہتے ہیں میں دس راتیں اور ٹھہر ارہا یہاں تک کہ ہمارے لیے پچاس را تیں اس وقت سے پوری ہو ئیں کہ جب رسول اللہ صلی علیم نے ہمارے ساتھ بات چیت کرنے سے منع کیا تھا.اے کعب بن مالک ! تمہیں بشارت ہو ! جب پچاسویں رات کی صبح کو نماز فجر پڑھ چکا اور میں اس وقت اپنے گھروں میں سے ایک گھر کی چھت پر تھا اور اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے یعنی میری جان مجھ پر تنگ ہو چکی فی اور زمین بھی باوجو د کشادہ ہونے کے مجھ پر تنگ ہو گئی تھی تو اس اثنا میں میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو سلع پہاڑ پر ، جو مدینہ کے شمالی جانب ایک پہاڑ کا نام ہے ، وہاں چڑھ کر بلند آواز سے پکار رہا تھا کہ اے کعب بن مالک ! تمہیں بشارت ہو ا کہتے ہیں میں یہ سن کر سجدے میں گر پڑا اور سمجھ گیا کہ مصیبت دور ہو گئی ہے.اگر اس نے جو مجھے پکارا ہے ، بشارت دی ہے تو یقینا میری بریت کا کوئی سامان ہو گیا ہے، مصیبت دور ہو گئی ہے اور رسول اللہ صلی علیکم جب فجر کی نماز پڑھ چکے تو آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ اللہ نے مہربانی کر کے ہماری غلطی کو معاف کر دیا ہے.یہ سن کر لوگ ہمیں خوش خبری دینے لگے اور میرے دونوں ساتھیوں کی طرف بھی خوش خبری دینے والے گئے یعنی حضرت ھلال اور دوسرے ساتھی کی طرف اور ایک شخص میرے پاس گھوڑا دوڑاتے ہوئے آیا.اسلم قبیلے کا ایک شخص دوڑا آیا اور پہاڑ پر چڑھ گیا اور اس کی آواز گھوڑے سے زیادہ جلدی پہنچنے والی تھی.جب وہ شخص میرے پاس بشارت دینے آیا جس کی آواز میں نے سنی تھی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتارے اور اس کو پہنائے اس لیے کہ اس نے مجھے بشارت دی تھی.اور اللہ کی قسم ! اس وقت اس کے سوا میرے پاس اور کچھ تھا نہیں.جو میرے پاس اس وقت تھاوہ دو کپڑے تھے اور میں نے دو اور کپڑے عاریتا لیے.کسی سے مانگے پھر اور انہیں پہنا اور رسول اللہ صلی علیم کے پاس چلا گیا اور لوگ مجھے فوج در فوج ملتے اور توبہ کی قبولیت کی وجہ سے مجھے مبارک باد دیتے.کہتے تھے کہ تمہیں مبارک ہو جو اللہ نے تم پر رحم کر کے توبہ قبول کی ہے.حضرت کعب کہتے تھے کہ آخر میں مسجد پہنچا.کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ کی ملی یکم بیٹھے ہیں اور آپ کے ارد گرد لوگ ہیں.حضرت طلحہ بن عبید اللہ مجھے دیکھ کر میرے پاس دوڑے آئے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی.مہاجرین میں سے ان کے سوا بخدا کوئی شخص بھی میرے پاس اٹھ کر نہیں آیا اور طلحہ کی یہ بات

Page 518

اصحاب بدر جلد 5 502 میں کبھی بھی نہیں بھولوں گا.اور حضرت کعب کہتے تھے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی ا یکم کو السلام علیکم کہا تو رسول اللہ صلی یم نے فرمایا اور آپ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا.پھر آپ نے فرمایا تمہیں بشارت ہو نہایت ہی اچھے دن کی، ان دنوں میں سے جب سے تمہاری ماں نے تمہیں جنا ہے جو تم پر گزرے ہیں.کہتے تھے کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا یہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ آپ صلی ایم نے فرمایا نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہے.رسول اللہ صلی تمیز کم جب خوش ہوتے تھے تو آپ کا چہرہ ایساروشن ہو جاتا کہ گویاوہ چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم اس سے آپ کی خوشی پہچان لیا کرتے تھے.شکرانے میں اپنی ساری جائداد سے دستبردار ہوتا ہوں کہتے ہیں کہ جب میں آپ صلی امید یکم کے سامنے بیٹھ گیا تو میں نے کہا یارسول اللہ ! میں اس تو بہ کے قبول ہونے کے عوض اپنی جائیداد سے دست بردار ہو تا ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کی خاطر صدقہ ہو گی.رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا اپنی جائیداد میں سے کچھ اپنے لیے بھی رکھو کیونکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے.میں نے کہا اپنا وہ حصہ رکھ لیتا ہوں جو خیبر میں ہے.میں نے کہا یار سول اللہ ! اللہ نے مجھے صدق کی وجہ سے نجات دی اور میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں ہمیشہ ہی سچ بولا کروں گا جب تک کہ میں زندہ رہوں گا کیونکہ میں اللہ کی قسم ! مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں جانتا کہ اللہ نے اس کو سچی بات کہنے کی وجہ سے اس خوبی کے ساتھ آزمایا ہو جس خوبی سے میری آزمائش کی ہے.اس وقت سے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللی کام سے اصل واقعہ بیان کیا میں نے آج تک عمد اجھوٹ نہیں بولا اور پھر یہ کہتے ہیں کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ آئندہ بھی جب تک زندہ ہوں مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے گا.پھر کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول صلی علی کم پر یہ وحی نازل کی اور اللہ نبی پر اور مہاجرین اور انصار پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھکا جنہوں نے تنگی کے وقت اس کی پیروی کی تھی، بعد اس کے کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک فریق کے دل ٹیڑھے ہو جاتے.پھر بھی اس نے ان کی توبہ قبول کی یقیناوہ ان کے لیے بہت ہی مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے.بہر حال کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اس کے بعد کہ اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دی، کبھی بھی اس نے کوئی انعام میرے نزدیک اس سے بڑھ کر نہیں کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللی نیم سے سچ سچ بیان کر دیا.کہتے ہیں کہ شکر ہے کہ میں نے آپ صلی یہ کم سے جھوٹ نہیں بولاور نہ میں ہلاک ہو جاتا جیسا کہ وہ لوگ ہلاک ہو گئے جنہوں نے جھوٹ بولا تھا.پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ بولنے والوں کے بارے میں نہایت ہی نفرت آمیز الفاظ استعمال کیسے ہیں جو اس نے کسی کے لیے استعمال کیے ہوں.اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا جب تم ان کی طرف لوٹو گے وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے.اللہ ان بد عہد لوگوں سے کبھی خوش نہیں ہو گا.

Page 519

اصحاب بدر جلد 5 503 وَعَلَى الثَّلَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا...سے مراد حضرت کعب کہتے تھے کہ ہم تینوں کا فیصلہ ان لوگوں کے فیصلے سے زیادہ مؤخر رکھا گیا جن سے رسول اللہ صلی الم نے عذر قبول کیا تھا.جب انہوں نے آپ کے سامنے قسمیں کھائیں اور آپ نے ان سے بیعت لی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی تھی اور رسول اللہ صلی علیم نے ہمارے فیصلے کو ملتوی کر دیا یہاں تک کہ اللہ نے اس کے متعلق فیصلہ فرمایا.سو وہ یہی بات ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ وَعَلَى الثَّلَثَةِ الَّذِينَ خُلِفُوا (او : 118) کہتے ہیں کہ یہ غزوہ سے ہمارا پیچھے رہنا نہیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ تین جو پیچھے رہ گئے تھے.اس سے مراد ہمارا غزوے سے پیچھے رہنا نہیں تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ کے فیصلے سے ہمیں ان لوگوں سے پیچھے رکھا گیا تھا.اس سے یہ مراد ہے جنہوں نے آنحضرت صلی کم کے پاس قسمیں کھائی تھیں یعنی ہم ان قسمیں کھانے والوں سے اور جھوٹ بولنے والوں سے علیحدہ تھے.یہ اس کا مطلب ہے نہ یہ کہ جنگ سے پیچھے رہ گئے.بہر حال کہتے ہیں کہ یہ غزوہ سے ہمارا پیچھے رہنا نہیں تھا بلکہ اللہ کے فیصلے سے ہمیں ان لوگوں سے پیچھے رکھنا مراد ہے کہ جنہوں نے آنحضرت صلی علیم کے پاس قسمیں کھائی تھیں اور آپ کے پاس معذرتیں کی تھیں اور آپ نے ان کی معذرت قبول کر لی تھی.وفات حضرت هلال بن امیه امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں فوت ہوئے تھے.غزوہ تبوک 1161 1160 1159 غزوہ تبوک کے بارہ میں ایک اور مختصر نوٹ بھی ہے وہ بھی پڑھ دیتا ہوں.پہلے بتا بھی چکا ہوں ایک دفعہ مزید مختصر دوبارہ بیان کر دیتا ہوں کہ تبوک مدینے سے شام کی اس شاہ راہ پر واقع ہے جو تجارتی قافلوں کی عام گزر گاہ تھی اور یہ وادی القریٰ اور شام کے درمیان ایک شہر ہے.اسے اَصْحَابُ الْآئكة کا شہر بھی کہا گیا ہے جن کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے.حضرت شعیب علیہ السلام مدین کے رہنے والے تھے اور آپ مدین کے ساتھ اَصْحَاب الْآئیگہ کی طرف بھی مبعوث ہوئے اور مدینے سے اس کا فاصلہ کم و بیش پونے چار سو میل ہے.غزوہ تبوک کے اور نام بھی ہیں اس کو غَزَوَةُ الْعُسْرَة يَا جَيْشُ الْعُشرة بھی کہتے ہیں یعنی تنگی والا غزوہ اور تنگی والا لشکر.غَزَوَةُ الْفَاضِحَةُ بھی کہتے ہیں وہ جنگ جو منافقین کو ذلیل و رسوا کرنے والی تھی.62 آنحضرت صلی ا ہم نے صلح حدیبیہ کے بعد سب سے پہلا تبلیغی خط قیصر روما کو لکھا اور اس کو لکھ کر اس وقت بضری کا جو عیسائی گورنر حارث بن ابو شمر عسانی تھا، کو یہ خط بھجوایا.چنانچہ جب اسے آنحضرت ملا یہ کم کا پیغام پہنچا تو اس نے عداوت کا اظہار کیا اور مدینے پر حملہ کی دھمکی دی جس کی وجہ سے مدینے کے لوگوں کو ایک عرصے تک یہ توقع رہی کہ وہ کسی وقت مدینے پر حملہ کرے گا.1163 1162

Page 520

اصحاب بدر جلد 5 504 اس جنگ کی تیاری کا سبب یہ امر بنا کہ شام کے نبطی قبیلہ کے لوگ جو تیل کی تجارت کے لیے مدینہ سفر کرتے تھے ان کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ ہم کو یہ خبر ملی کہ قیصر روم کا ایک لشکر قیصر کے ساتھ ملک شام میں اکٹھا ہوا ہے اور ایک دوسری روایت کے مطابق عرب کے عیسائیوں نے قیصر کی طرف لکھا کہ یہ شخص جو مدعی نبوت ہے یہ ہلاک ہو گیا ہے (نعوذباللہ تو مسلمانوں کو قحط نے آلیا ہے جس کے نتیجے میں یہ تو ان کے جانور ہلاک ہو گئے ہیں.اس پر قیصر نے ایک عظیم سپہ سالار کی قیادت میں کئی قبائل، کے جنگجوؤں پر مشتمل چالیس ہزار سپاہیوں کا ایک لشکر جرار تیار کیا جو بلقاء (جو ملک شام کا ایک شہر ہے) کے مقام پر جمع ہوا.خبر میں تھی چوتھی وہ اس خبر میں بہر حال کسی قسم کی صداقت نہیں تھی لیکن یہ خبر جو تھی وہ جنگ کی تیاری کا سبب بن گئی.نبی کریم صلی علی ملک کو جب یہ خبر ملی اس وقت لوگوں میں طاقت نہیں تھی تاہم آپ صلی علیم نے لوگوں میں کوچ کا اعلان کروایا اور انہیں اس جگہ کے بارے میں آگاہ کر دیا جس طرف سفر کرنا تھا تا کہ وہ اس کے لیے تیاری کر سکیں.یہ شرح علامہ زرقانی میں لکھا ہے.صحابہ کا ایثار اور منافقوں کی سازشیں 1164 صحابہ کا ایثار اور منافقوں کی سازشیں بھی اس میں ظاہر ہوئیں.آنحضرت صلی اللہ ہم نے اس غزوے کے لیے تیاری کا اعلان فرمایا ہی تھا کہ مدینے میں ایک گہما گہمی شروع ہو گئی.جو صحابہ وسائل رکھتے تھے وہ اپنی استطاعت کی انتہائی حدوں تک قربانیاں پیش کر رہے تھے.جو مجبور تھے ان کا جوش و جذبہ اس قدر عروج پر تھا کہ سینکڑوں میل کے سفر کے لیے پا پیادہ چلنے پر آمادہ تھے اور تیار تھے.اس مہم میں وسائل پیش کرنے کے لیے کوئی گھر کی طرف بھاگ رہا تھا تو کوئی اپنے اثاثے اکٹھے کر رہا تھا اور اپنے آقا کے حضور زیادہ سے زیادہ دینے کے لیے کوشش کر رہا تھا.بہر حال کوئی اپنے مکانوں کی تلاشی لے رہا تھا کہ کچھ ملے تو میں اس کے ذریعہ سے غزوے میں شامل ہوں اور پیدل چلنے کے لیے بھی لوگ تیار تھے بلکہ بعض لوگوں کے پاس تو جو تیاں نہیں تھیں.ایسے لوگ جو تھے آنحضرت صلی الم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں پیدل چلنے کے لیے جو تیاں ہی مل جائیں تو ہم پیدل چلنے کو بھی تیار ہیں.اگر ہمارے ننگے پیر ہیں تو ہمیں بالکل نہیں کہ ہمارے پیر زخمی ہو جائیں گے اور ہم پہنچ نہیں سکیں گے.اس وقت وہ حالت تھی کہ ان کو وہ بھی مہیا نہیں ہو سکتی تھیں.بہر حال ہر ایک اپنی اپنی جگہ اپنی جان کے نذرانے پیش کرنے کے لیے تیار تھا.حضرت عمر کو خیال تھا کہ آپ کے گھر میں کافی مال ہے.چنانچہ انہوں نے سوچا کہ حضرت ابو بکر سے سبقت لے جانے کا آج موقع ہے تو آپ نے اپنا آدھا مال لا کر آنحضرت صلی للہ علم کی خدمت میں رکھ دیا.آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو.حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ آدھا مال لایا ہوں اور آدھا چھوڑ آیا ہوں.

Page 521

اصحاب بدر جلد 5 505 حضرت ابو بکر نے اپنا سارا سامان آنحضرت علی الم کے حضور پیش کر دیا.آپ صلی علی کرم نے جب پوچھا کہ اپنے گھر کے لیے کیا چھوڑ کے آئے ہو تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں.حضرت عمرؓ نے اس وقت حضرت ابو بکر پر رشک کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں حضرت ابو بکر سے کسی شے میں کبھی سبقت نہیں لے جا سکتا.1165 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس واقعہ کا تذکرہ بیان کیا ہے.آپ فرماتے ہیں که 11661 ایک دفعہ ہمارے نبی کریم صلی علیم نے روپیہ کی ضرورت بتلائی تو حضرت ابو بکر گھر کا کل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے.آپ نے پوچھا ابو بکر !گھر میں کیا چھوڑ آئے تو جواب میں کہا " اللہ اور اس کا رسول اللہ اور رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں.حضرت عمر نصف لے آئے.آپ صلی علیہم نے پوچھا عمر !اگھر میں کیا چھوڑ آئے ؟ تو جواب دیا کہ نصف.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اس پر "رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا کہ ابو بکر و عمر کے فعلوں میں جو فرق ہے وہی ان کے مراتب میں فرق ہے." حضرت ابو بکر نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنا جو کل مال آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں پیش کیا تھا اس کی مالیت اس موقع پر چار ہزار درہم تھی.1167 حضرت عثمان نے بھی اونٹوں اور گھوڑوں اور نقد کی قربانی پیش کی تھی.اس قربانی کی وجہ سے آنحضرت صلی علیم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا کہ اس عمل کے بعد اب عثمان کے کسی عمل پر کوئی مؤاخذہ نہیں.ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرت صلی ال کلم نے فرمایا آج کے دن کے بعد عثمان جو بھی عمل کرے گاوہ اسے ضرر نہیں پہنچائے گا.یہ بات آپ نے دو مر تبہ فرمائی.ایک رات مزدوری کر کے خدا کی راہ میں پیش کرنا 1168 حضرت ابو عقیل “ ایک صحابی تھے ان کے پاس غزوہ میں دینے کے لیے کچھ نہیں تھا تو انہوں نے یہ ترکیب سوچی کہ ایک جگہ رات کو اجرت پہ کام کر کے ، مزدوری یہ کام کر کے کھیت کو پانی لگانے کا معاملہ ایک شخص سے طے کیا اور ساری رات رسی کھینچ کھینچ کر کنویں سے پانی نکالتے رہے اور کھیت کو سیر اب کرتے رہے.اس کے بدلے میں ان کو دو صاع یعنی تقریباً چار پانچ کلو کھجوریں ملیں.انہوں نے آدھی اس میں سے اپنے بیوی بچوں کے لیے دے دیں اور آدھی لے کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے کے لیے آنحضرت صلی علی کرم کی خدمت میں حاضر ہو گئے.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اس موقع پر اپنا نصف مال آنحضرت صلی یم کی خدمت میں پیش کیا جس کی مالیت چار ہزار چار سو درہم تھی.جب حضرت عاصم بن عدی نے سو وسق، (ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع اڑھائی کلو کا، کچھ کم اڑھائی سیر کا ہوتا ہے ) کھجوریں پیش کیں تو منافقوں نے یہ الزام لگایا کہ یہ ریاکاری ہے.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی.اس بارے

Page 522

اصحاب بدر جلد 5 506 میں یہ بھی بتادوں کہ تقریباً یہ کھجوریں جو حضرت عاصم نے پیش کیں چودہ ہزار کلو یا چودہ ٹن بنتی ہیں تو اسی پہ منافقوں نے کہا کہ دکھاوا ہے.یہاں یہ بھی وضاحت کر دوں گذشتہ خطبے میں میں نے غلطی.ایک calculation میں چھے سو کلو کھجور کا کہا تھاوہ چھے سو نہیں چھے ہزار کلو تھی.بہر حال جب منافقوں نے یہ الزام لگایا کہ یہ ریا کاری ہے تو اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں یہ آیت نازل فرمائی الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَوَعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقْتِ وَ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جهدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيمُ (اتوب : 79) کہ وہ لوگ جو مومنوں میں سے دلی شوق سے نیکی کرنے والوں پر صدقات کے بارے میں تہمت لگاتے ہیں اور ان لوگوں پر بھی جو اپنی محنت کے سوا اپنے پاس کچھ نہیں پاتے.پس وہ ان سے تمسخر کرتے ہیں اللہ ان کے تمسخر کا جواب دے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب مقدر ہے.یہ ان منافقوں کے لیے یا ان لوگوں کے لیے ہے جو ایسے الزام لگانے والے ہیں.گذشتہ خطبے میں میں حضرت هلال بن امیہ کا ذکر کر رہا تھا اور اس ذکر میں غزوہ تبوک کا بھی ذکر آگیا.حضرت هلال ان تین پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھے جو اس غزوے میں شامل نہیں ہوئے تھے.آنحضرت صلی اللہ کریم نے غزوے سے واپسی پر ان لوگوں سے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کچھ سزادی جس پر یہ تینوں بڑے بے چین تھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے استغفار اور تو بہ کرتے رہے یہاں تک کہ ان تین صحابہ کی گریہ وزاری جن میں حضرت هلال بھی شامل تھے اللہ تعالیٰ کے حضور قبول ہوئی اور ان کی معافی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی.1169 1170 بہر حال اس بارے میں یہ بھی بیان ہوا تھا کہ صحابہ نے اس غزوے کی تیاری کے لیے کس قدر قربانیاں دی تھیں اور یہ بھی ذکر تھا کہ بعض اور لوگ جن کے دلوں میں نفاق تھا اس میں شامل نہیں ہوئے اور آنحضرت صلی الم کی خدمت میں جھوٹے عذر پیش کیے.بعض نے شروع میں جانے سے انکار کیا اور آپ نے ایسے منافقوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑا.اس تسلسل میں کچھ اور باتیں ہیں جو میں اس وقت پیش کروں گا.وہ لوگ جو آنحضرت علی ایم کے ساتھ نہ جانے کو ترجیح دے رہے تھے ان میں ایک شخص جذ بن قیس تھا.آپ صلی اللہ کریم نے اس سے فرمایا کہ تم رومیوں سے جنگ کے لیے ہمارے ساتھ نہیں چلو گے ؟ اس نے یہ بہانہ بنایا کہ وہ عورتوں کی وجہ سے فتنے میں پڑ سکتا ہے اس لیے اسے آزمائش میں نہ ڈالا جائے.چنانچہ آپ صلی علیہ یکم نے اس سے اعراض کیا اور اسے اجازت دے دی.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی کہ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ الذَنَ لِي وَلَا تَفْتِى أَلَّا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌ بِالْكَافِرِينَ (اتو ب : 419) اور ان میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے رخصت دے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈال.خبر دار وہ فتنہ میں پڑچکے ہیں اور یقینا جہنم کا فروں کو ہر طرف سے گھیر لینے والی ہے.

Page 523

اصحاب بدر جلد 5 منافقین کا گڑھ 507 مدینے کے ایک یہودی کا نام سویلم تھا.وہ مدینہ کے علاقے جاسُوم میں مقیم تھا جس کو بہتر جاسم بھی کہتے ہیں.یہ مدینے میں شام کی سمت ابو الْهَيْشم بن تیمان کا کنواں تھا.اس کا پانی بہت عمدہ تھا.آنحضرت صلی اللہ ہم نے بھی اس پانی کو پیا اور پسند فرمایا.اس یہودی کا گھر منافقوں کا گڑھ تھا.نبی کریم صلی ا یم کو خبر ملی کہ منافقین وہاں اکٹھے ہو رہے ہیں اور وہ لوگوں کو غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ جانے سے روک رہے ہیں.آنحضرت صلی علیہ الم نے حضرت عمار بن یاسر کو فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے جاکر ان باتوں کے بارے میں پوچھو جو انہوں نے کہی ہیں.اگر وہ ان سے انکار کریں تو انہیں بتا دینا کہ مجھے خبر ہے تم نے یہ یہ کہا ہے.جب حضرت عمار وہاں پہنچے اور انہوں نے وہ سب کہا تو وہ لوگ آپ صلی الم کی خدمت میں آکر معذر تیں کرنے لگے.1171 ان کی اس حالت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ يَحْذَرُ الْمُنْفِقُونَ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ سُوْرَةٌ تُنَبِّئُهُمْ مَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِءُوا إِنَّ اللهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ.وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ بِاللهِ وَايْتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةٌ بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (التو به 4 6 66) کہ منافق ڈرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی سورت نازل نہ کر دی جائے جو ان کو اس سے مطلع کر دے جو ان کے دلوں میں ہے.تو کہہ دے کہ بے شک تمسخر کرتے رہو.یہ ڈرنے کا ذکر بھی تمسخرانہ انداز میں کرتے ہیں.اللہ تو یقین ظاہر کر کے رہے گا جس کا تمہیں خوف ہے اور اگر تو ان سے پوچھے تو ضرور کہیں گے کہ ہم تو محض گپ شپ میں محو تھے اور کھیلیں کھیل رہے تھے.تو پوچھ کیا اللہ اور اس کے نشانات اور اس کے رسول سے تم استہزا کر رہے تھے ؟ کوئی عذر پیش نہ کرو یقینا تم اپنے ایمان لانے کے بعد کا فر ہو چکے ہو.اگر ہم تم میں سے کسی ایک گروہ سے در گزر کریں تو کسی دوسرے گروہ کو عذاب بھی دے سکتے ہیں.اس لیے کہ وہ یقینا مجرم ہیں.بہر حال اس وقت یہ حالات تھے.کچھ جانے سے پہلے منصوبے بن رہے تھے کہ نہ جایا جائے.منافقین ان میں شامل تھے یہودی ان کو ابھار رہے تھے.کچھ ویسے بہانے بناتے رہے اور بعد میں واپسی پر آنحضرت صلی ا کرم کی خدمت میں بہانے بنائے.بہر حال آپ نے ان کا معاملہ اللہ پہ چھوڑا.جب آنحضرت صلی نام غزوہ تبوک سے واپس لوٹے اور مدینے کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا مدینے میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ ہر سفر اور ہر وادی میں تمہارے ساتھ تھے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! جبکہ وہ مدینے میں ہیں تو پھر کس طرح ساتھ ہو گئے ؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ مدینہ میں ہی ہیں مگر انہیں کسی عذر نے یا کسی مرض نے روک لیا تھا.1172

Page 524

اصحاب بدر جلد 5 508 یہ لوگ ایسے تھے جن کا عذر بھی جائز تھا اور ان کا مرض تھا یا کوئی وجہ بن گئی جس کی وجہ سے باوجو د خواہش کے وہ نہیں جا سکے.اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ساتھ ہی رکھا.مدینہ اور انصار سے محبت کا اظہار تبوک سے واپسی کے سفر میں ایک موقعے پر رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا کہ میں جلدی جارہا ہوں.پس تم میں سے جو چاہے میرے ساتھ جلدی چلے اور جو چاہے ٹھہر جائے یعنی آرام سے پیچھے آتا رہے.راوی کہتے ہیں پھر ہم روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہمیں مدینہ دکھائی دیا تو حضور صلی الم نے فرمایا یہ طائبہ ہے یعنی پاکیزہ اور خوشگوار اور یہ احد ہے یہ ایسا پہاڑ ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں.پھر آپ صلی لیلی کلم نے فرمایا کہ انصار کے گھروں میں بہترین گھر بنو نجاز کا گھر ہے.پھر بنو عبد الاشھل کا گھر ہے پھر بنو عبد الحارث بن خزرج کا گھر ہے.پھر بنو سَاعِدہ کا گھر اور آپ نے انصار کے سب گھروں کو اچھا قرار دیا.حضرت سعد بن عبادہ ہم سے آملے.راوی بیان کر رہے ہیں تو ابو اسید نے کہا کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم نے انصار کے گھروں کی فضیلت بیان کی ہے اور ہمیں آخر پر رکھا ہے.حضرت سعد رسول اللہ صلی علیم کے پاس گئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ نے انصار کے گھروں کی فضیلت بیان کی ہے اور ہمیں آخر پر رکھا ہے.اس پر حضور صلی الی یکم نے فرمایا کیا تمہارے لیے کافی نہیں کہ تم خیر والوں میں سے ہو ؟ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے.1173 جنگ تبوک سے واپسی پر اہل مدینہ کا والہانہ استقبال واپسی پر آنحضرت صلی الی یوم کے استقبال کے لیے مدینہ کے لوگ کیا مرد اور کیا عور تیں اور کیا بچے مدینے سے باہر ثَنِيَّةُ الْوَدَاع کے پاس آئے، وہاں پہنچے ہوئے تھے.ثَنِيَّةُ الْوَدَاع مدینہ کے قریب ایک مقام ہے اور مدینہ سے مکہ جانے والوں کو اس مقام تک آکر الوداع کہا جاتا تھا.اس لیے اس کو ثنيّةُ الوداع کہتے تھے.مؤرخین، سیرت نگاروں کے نزدیک جب آنحضرت صلی الم نے مکے سے ہجرت کر کے جب آپ قبا کی طرف سے مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے اس جانب بھی ثَنِيَّةُ الْوَدَاع تھی.حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق وہاں مدینہ کے بچوں نے آپ کا استقبال کیا اور لڑکیاں یہ گار ہی تھیں کہ: طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِن ثَنِيَّاتِ الْوَدَاع وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَى لِلهِ دَاع کہ چودھویں کی رات کا چاند ہم پر ثنیہ الوداع کی جانب سے طلوع ہوا.ہم پر اللہ کا شکر واجب ہو گیا ہے جب تک کہ اللہ کا کوئی نہ کوئی پکارنے والا ر ہے گا.کچھ شارحین حدیث جیسے علامہ ابن حجر عسقلانی شارح بخاری ہیں.بخاری کی شرح لکھی ہے.ان کا

Page 525

اصحاب بدر جلد 5 509 خیال ہے کہ عین ممکن ہے کہ جن اشعار کا ذکر حضرت عائشہ سے بیان کردہ روایت میں ہے ، جو میں نے پڑھی ہے.ان کا تعلق آنحضرت صلی علیکم کے غزوہ تبوک سے واپسی کے وقت سے ہو کیونکہ اس وقت ثَنِيَّةُ الْوَدَاع مقام پر لوگوں اور بچوں نے آنحضرت صلی یی کم کا استقبال کیا تھا کیو نکہ ملک شام کی جانب سے آنے والوں کا استقبال اسی جگہ سے کیا جاتا تھا.جب اہل مدینہ کو نبی کریم ملی ایم کی غزوہ تبوک سے واپسی کا علم ہوا تو وہ خوشی سے نبی کریم صلی یی کم کا استقبال کرنے کے لیے مدینے سے باہر اس مقام پر نکلے جیسا کہ حضرت سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ میں بھی دوسرے بچوں کے ساتھ اس وقت آنحضور صلی علیہ علم کا استقبال کرنے ثَنِيَّةُ الْوَدَاع گیا تھا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے.امام بیہقی نے بھی یہ بیان کیا ہے کہ بچوں نے نبی کریم صلی علیکم کا ان اشعار کے ذریعہ استقبال کیا تھا جب نبی کریم صلی علیکم غزوہ تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تھے.1174 بہر حال مؤرخین اور سیرت نگاروں کی دونوں قسم کی آرا موجود ہیں یعنی بعض کے نزدیک یہ نبی کریم صلی الہ یکم کی ہجرت مدینہ کے وقت اور بعض کے نزدیک غزوہ تبوک سے واپسی پر یہ اشعار پڑھے گئے تھے.آنحضرت مصل الم کی سنت تھی کہ جب کسی سفر سے مدینہ واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں پہنچ کر دور کعت نماز ادا کرتے.چنانچہ جب آپ تبوک سے واپس تشریف لائے تو مدینہ میں چاشت کے وقت داخل ہوئے اور پہلے مسجد میں دور کعت نماز ادا کی.1175 نماز کے بعد آپ لوگوں کے لیے مسجد میں تشریف فرما ہوئے اس کے بعد دو نفل پڑھنے کے بعد وہیں بیٹھ گئے اور اس وقت وہ لوگ بھی آپ سے ملنے کے لیے آئے جو عمد ا پیچھے رہ گئے تھے.وہ جو بغیر کسی عذر کے جان بوجھ کے پیچھے رہنے والے تھے وہ آپ کے سامنے اپنا کوئی نہ کوئی عذر پیش کرتے.ایسے لوگوں کی تعداد جو تھی اتنی کے قریب تھی.آپ صلی للی یکم ان کے عذروں کی حقیقت جانتے ہوئے بھی یہ جانتے تھے کہ یہ غلط عذر کر رہے ہیں اس کے باوجود ان کے ظاہری بیانات کو قبول فرماتے اور ان سے در گذر فرماتے رہے اور ان کی بیعت بھی لیتے رہے اور ان کے لیے استغفار بھی کرتے رہے.1176 لیکن جیسا کہ پہلے تفصیلی ذکر ہو چکا ہے حضرت هلال بن امیہ حضرت مرارہ بن ربیع “ اور حضرت کعب بن مالک نے کوئی جھوٹا عذر نہیں کیا اور اس کی وجہ سے کچھ عرصہ آنحضرت صلی للی کم کی ناراضگی کو برداشت کیا.بڑے روتے رہے، گڑ گڑاتے رہے، اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے ہوئے جھکے رہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی توبہ قبول کرنے کا اعلان بھی فرما دیا.177

Page 526

510 312 اصحاب بدر جلد 5 حضرت واقد بن عبد اللہ 1178 حضرت واقد پہلے مسلمان تھے جنہوں نے کسی مشرک کو کسی جنگ میں قتل کیا ہو حضرت واقد بن عبد اللہ.حضرت واقد کے والد کا نام عبد اللہ بن عبد مناف تھا.ان کا تعلق قبیلہ بنو تمیم سے تھا.حضرت واقد خطاب بن نفیل کے حلیف تھے.اور ایک قول کے مطابق وہ قریش کے قبیلہ بنو عدی بن کعب کے حلیف تھے.ابتدائی قبول اسلام حضرت ابو بکر کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں جن افراد کے اسلام قبول کرنے کا ذکر تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے ان میں حضرت واقد بھی شامل ہیں.حضرت واقد نے نبی کریم صلی اللہ علم کے دارِ ارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا.1180 دارارقم کا تعارف 1179 دار ارقم کے بارے میں کچھ عرصہ ہوا میں بیان کر چکا ہوں کہ یہ کیا تھا.مختصر طور پر بیان کر دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی الم کو جب یہ خیال پیدا ہوا کہ کتے میں ایک تبلیغی مرکز قائم کیا جائے جہاں مسلمان جمع ہوں ، نماز وغیرہ کے لیے آئیں اور بے روک ٹوک اور اطمینان سے اپنے تربیتی امور کے بارے میں بھی آنحضرت صلی علیہ کم سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں.اسی طرح اسلام کی تبلیغ بھی وہاں کی جا سکے تو اس غرض کے لیے ایک مکان کی ضرورت تھی جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو.چنانچہ آپ کئی ملی ہم نے ایک نو مسلم ارقم بن ابی ارقم کا مکان پسند فرمایا جو کوہ صفا کے دامن میں تھا.اس کے بعد مسلمان یہیں جمع ہوتے تھے، یہیں نمازیں پڑھتے تھے اور وہ لوگ جنہیں حق کی تلاش تھی آنحضرت صلی یکم کے پاس جب آتے تھے تو آپ ان کو یہیں اسلام کی تبلیغ فرماتے تھے.اسی وجہ سے یہ مکان تاریخ میں خاص شہرت حاصل کر گیا اور دار الاسلام کے نام سے بھی مشہور ہے.آنحضرت صلی للہ ہم نے قریباً تین سال تک دار ارقم میں کام کیا.یعنی بعثت کے چوتھے سال آپ نے اسے اپنا مرکز بنایا اور چھٹے سال کے آخر تک آپ نے اس میں یہ تبلیغی سرگرمیاں اور تربیتی سرگرمیاں جاری رکھیں.مؤرخین لکھتے ہیں کہ دارِ ارقم میں اسلام لانے والوں میں آخری شخص حضرت عمرؓ تھے جن کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور وہ دارِ ارقم سے نکل کر کھلے طور پر تبلیغ کرنے لگ گئے.1181

Page 527

اصحاب بدر جلد 5 مکہ سے ہجرت 511 حضرت عمر نے جب مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی تو اس وقت حضرت عمرؓ کے خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ حضرت واقد بھی ان کے ہمراہ تھے.حضرت واقد نے ملنے سے مدینہ ہجرت کے وقت حضرت رفاعه بن عبد المنذر " کے ہاں قیام کیا پھر آنحضور صلی ا لم نے حضرت واقد اور حضرت بشر بن براء " کے درمیان عقد مؤاخات قائم فرمایا.1182 تمام غزوات میں شرکت ہوئے.حضرت واقد غزوہ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شامل 1183 آنحضرت صلی علیکم نے جب حضرت عبداللہ بن جحش کی قیادت میں ایک سریہ بھجوایا تو اس میں حضرت واقد بھی شامل تھے.1184 اسلام میں پہلا مشرک جو قتل ہوا اس سریے میں کفار کے ایک شخص عمرو بن عطر ھی قتل ہوا اسے حضرت واقد نے قتل کیا تھا.اسلام میں یہ پہلا مشرک تھا جو قتل ہوا اور حضرت واقد پہلے مسلمان تھے جنہوں نے کسی مشرک کو کسی جنگ میں قتل کیا ہو.1185 اس سریہ کی تفصیل حضرت عبد اللہ بن جحش کے ضمن میں میں پہلے بیان کر چکا ہوں.6 حضرت واقد نے حضرت عمر کی خلافت کے آغاز میں وفات پائی.1187 1186 313 حضرت وديعه بن عمر و پھر ایک صحابی حضرت وَدِيعه بن عمر و ہیں.ابن کلبی نے ان کا نام وَدِيعه بن عمر و بن يسار بن عوف بیان کیا ہے.اور ابو معشر نے ان کا نام رفاعہ بن عمر و بن جراد بیان کیا ہے.آپ کا تعلق بنو جھینہ سے تھا جو بنو نجار کے حلیف تھے.آپ غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک ہوئے.حضرت ربیعہ بن عمرو آپ کے بھائی تھے.188 پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت رفاعہ بن عمر و الْجُهَنِي “.ان کا نام وَدِيعَه بن عمرو

Page 528

اصحاب بدر جلد 5 512 بھی بیان کیا جاتا ہے.حضرت رفاعہ غزوہ بدر اور اُحد میں شریک ہوئے.آپ انصار کے قبیلہ بنو نجار کے حلیف تھے.1189 314 حضرت ورقہ بن ایاس حضرت ورقه بن إياس " حضرت ورقہ کے نام میں اختلاف پایا جاتا ہے.آپ کا نام وَرقہ کے علاوہ وَذَفَہ اور وَذَقَہ بھی بیان ہوا ہے.حضرت ورقہ کے والد کا نام ایاس بن عمر و تھا.آپ انصار کے قبیلے خزرج کی شاخ بنو لوذان بن غنم سے تعلق رکھتے تھے.علامہ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت ورقه و غزوہ بدر کے علاوہ غزوہ احد، غزوہ خندق اور نبی کریم صلی علیم کے ہمراہ دیگر تمام غزوات میں شرکت کی توفیق ملی.آپ کی شہادت جنگ یمامہ کے روز حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت میں 11 ہجری میں ہوئی.1190 315 حضرت وہب بن ابی سرح حضرت وہب بن ابی سرح.موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے بھائی عمرو کے ساتھ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے.ھیثم بن عدی نے ان کا ذکر مہاجرین حبشہ میں کیا ہے لیکن بلاذری نے کہا ہے کہ یہ بات ثابت نہیں ہے.صرف بدر میں شریک ہوئے تھے ہجرت حبشہ کا ذکر نہیں ملتا.! 1191

Page 529

513 316) اصحاب بدر جلد 5 نام و نسب حضرت وهب بن سعد بن ابی سرح حضرت وهب بن سعد بن ابی سرح ".حضرت وہب کے والد کا نام سعد تھا.ان کا تعلق قبیلہ بنو عامر بن لؤی سے تھا.آپ عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کے بھائی تھے.آپ کی والدہ کا نام مھانہ بنت جابر تھا جو اشعری قبیلہ سے تھیں.1192 عبد اللہ بن ابی سرح کا ارتداد اور پھر اسلام لانا تھا.حضرت وہب کا بھائی عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح وہی کاتب وحی تھا جس نے ارتداد اختیار کر لیا الله سة ان کے بھائی کے بارے میں اس واقعے کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان کی ہے کہ رسول کریم صلی این کیک کا ایک کاتب وحی تھا جس کا نام عبد اللہ بن ابی سرح تھا اور سیرۃ الحلبیہ میں لکھا ہے کہ یہ حضرت عثمان بن عفان کا رضاعی بھائی تھا.بہر حال پھر آپ لکھتے ہیں کہ آپ پر جب کوئی وحی نازل ہوتی تو اسے بلوا کر لکھوا دیتے تھے.ایک دن آپ سورۃ المومنون کی آیت 14 اور 15 لکھوار ہے تھے.جب آپ یہاں پہنچے کہ ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ تو یہ جو کاتب وحی تھا اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ سورۃ المومنون کی آیت 15 میں اس کا ذکر ہے.رسول اللہ صلی علی یکم نے فرمایا کہ یہی وحی ہے اس کو لکھ لو.اس بدبخت کو یہ خیال نہ آیا کہ پچھلی آیتوں کے نتیجے میں یہ آیت طبعی طور پر آپ ہی بن جاتی ہے.اس نے سمجھا کہ جس طرح میرے منہ سے یہ آیت نکلی اور رسول اللہ صلی علیکم نے اسے وحی قرار دے دیا ہے اسی طرح آپ نعوذ باللہ خود سارا قرآن بنارہے ہیں.چنانچہ وہ مرتد ہو گیا اور سکے چلا گیا.فتح مکہ کے موقع پر جن لوگوں کو قتل کرنے کا رسول کریم علی ایم نے حکم دیا تھا ان میں ایک عبد اللہ بن ابی سرح بھی تھا مگر حضرت عثمان نے اسے پناہ دے دی.اور اس پناہ کی تفصیل یہ ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جب عبد اللہ بن ابی سرح کو معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی علیم نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے تو یہ اپنے رضاعی بھائی حضرت عثمان بن عفان کے پاس ان کی پناہ لینے چلا گیا اور ان سے کہنے لگا کہ اے بھائی اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ میری گردن ماریں مجھے ان سے امان دلوا دو.سیرۃ الحلمية میں لکھا ہے.بہر حال حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ وہ آپ کے گھر میں تین چار دن چھپارہا.ایک دن جبکہ رسول کریم صلی علیکم مکے کے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے تو حضرت عثمان عبد اللہ بن ابی سرح کو

Page 530

اصحاب بدر جلد 5 514 بھی آپ کی خدمت میں لے گئے اور اس کی بیعت قبول کرنے کی درخواست کی.رسول کریم صلی علیم نے پہلے تو کچھ دیر تامل فرمایا مگر پھر آپ نے اس کی بیعت لے لی اور اس طرح دوبارہ اس نے اسلام قبول کر لیا.1193 اور بھی بہت ساری باتیں تھیں جس کی وجہ سے، فتنہ اور فساد کی وجہ سے اور بھڑ کانے کی وجہ سے بھی یہ حکم دیا گیا تھا.صرف ایک ہی وجہ نہیں تھی کہ یہ مرتد ہو گیا تھا اس لیے قتل کا حکم دے دیا.مکہ سے ہجرت رض عاصم بن عمر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت وہب نے مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی تو آپ نے حضرت کلثوم بن ھدم کے ہاں قیام کیا.حضرت رسول اللہ صلی علیم نے حضرت وہب اور حضرت سويد بن عمرو کے درمیان عقد مؤاخات قائم فرمایا یعنی یہ دونوں بھائی بنے تھے.شہادت آپ دونوں جنگ موتہ کے دن شہید ہوئے.حضرت وَهُب غزوہ بدر، احد ، خندق اور حدیبیہ اور خیبر میں شریک ہوئے اور آپ جمادی الاولی 8 ہجری میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے.شہادت کے روز آپ کی عمر 40 سال تھی.1194 جنگ موتہ کیا تھی یا اس کے اسباب کیا تھے ؟ اس کا طبقات الکبریٰ میں کچھ ذکر ہے.یہ جنگ جمادی الاولی سنہ 8 ہجری میں ہوئی.رسول اللہ صلی الی یکم نے حضرت حارث بن عمیر کو قاصد بنا کر شاہ بضری کے پاس خط دے کر بھیجا.جب وہ موتہ کے مقام پر اترے تو انہیں شرخبيل بن عمر و غشاني، (شرحبیل جو تھا وہ سیرۃ الحلبیہ کے مطابق قیصر کے شام پر مقرر کر دہ امراء میں سے ایک تھا، اس) نے روکا اور ان کو شہید کر دیا.حضرت حارث بن عمیر کے علاوہ رسول اللہ صلی اللی نیم کا اور کوئی قاصد شہید نہیں کیا گیا.جب آنحضرت صلی علی کلم نے فرمایا کہ ان سب کے امیر حضرت زید بن حارثہ ہیں اور ایک سفید جھنڈ ا تیار کر کے حضرت زید کو دیتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ حضرت حارث بن عمیر جہاں شہید کیے گئے ہیں وہاں پہنچ کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں اگر وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ہے.نہیں تو ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مد دما نگیں اور ان سے جنگ کریں.حضرت وهب بھی اس جنگ میں شامل تھے.اس جنگ کی تفصیل مزید بیان کر دیتا ہوں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم نے سر یہ موتہ کے لیے حضرت زید بن حارثہ کو امیر مقرر فرمایا.پھر رسول اللہ صلیم نے فرمایا کہ اگر زید شہید ہو جائیں تو جعفر امیر ہوں گے اور اگر جعفر" بھی شہید ہو جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ تمہارے امیر 1195 ہوں گے.اس لشکر کو جیش امراء بھی کہتے ہیں.1196

Page 531

اصحاب بدر جلد 5 515 اس کی تفصیل میں حضرت مصلح موعودؓ نے اتنا ہی لکھا ہے کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس وقت وہاں قریب ہی ایک یہودی بھی بیٹھا تھا.اس نے جب آنحضرت صلی لی ایم کی بات سنی تو حضرت زید کے پاس آیا اور آکر کہا کہ اگر محمد صلی الی یکم سچے ہیں تو تم تینوں میں سے کوئی بھی زندہ بچ کے واپس نہیں آئے گا.اس پر حضرت زید نے کہا کہ میں زندہ بچ کے آؤں یا نہ آؤں لیکن یہ بہر حال سچ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی علیم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول اور نبی ہیں.1197 اس جنگ کے حالات کی، شہدا کی آنحضرت صلی علی نام کو خبر اللہ کی طرف سے ہوئی.اس بارے میں ایک روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی یکم نے فرمایا کہ زید نے جھنڈا لیا اور وہ شہید ہوئے.پھر جعفر نے اسے پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے.پھر عبد اللہ بن رواحہ نے جھنڈے کو پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے.یہ خبر دیتے ہوئے آنحضور صلی علیکم کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے.پھر آپ نے فرمایا کہ پھر جھنڈے کو خالد بن ولید نے بغیر سر دار ہونے کے پکڑا اور انہیں فتح حاصل ہوئی.1198 اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.19 1199 317) حضرت یزید بن ثابت حضرت یزید بن ثابت ایک بدری صحابی تھے ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو مالك بن نجار سے تھا.حضرت یزید کے والد کا نام ثابت بن ضحاك اور والدہ کا نام نوار بنت مالک تھا.حضرت یزید حضرت زید بن ثابت کے بڑے بھائی تھے.1200 اور حضرت یزید بن ثابت نے دبيّة بنت ثابت سے شادی کی تھی.اور یہ بھی ان کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت یزید بن ثابت غزوہ بدر اور احد دونوں میں شامل ہوئے تھے.شہادت 1201 حضرت یزید بن ثابت کی شہادت 12 ہجری میں حضرت ابو بکر کے دورِ خلافت میں جنگ یمامہ کے روز ہوئی جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق جنگ یمامہ کے روز انہیں ایک تیر لگا تھا اور واپسی پر راستے میں ان کی وفات ہوئی تھی.1202

Page 532

اصحاب بدر جلد 5 ایک جنازے کا احترام 516 حضرت یزید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ وہ لوگ نبی اکرم صلی الی نام کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ ظاہر ہوا.اس پر رسول اللہ صلی لی کم کھڑے ہو گئے اور جو آپ صلی علیم کے ساتھ تھے وہ بھی کھڑے ہو گئے.وہ سب کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ جنازہ گزر گیا.3 یہی واقعہ ایک اور روایت میں تفصیل کے ساتھ اس طرح بیان ہوا ہے.1203 حضرت یزید بن ثابت سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی علیکم کے پاس صحابہ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ ظاہر ہوا.جب رسول اللہ صلی علیم نے اسے دیکھا تو آپ جلدی سے کھڑے ہوئے اور آپ کے صحابہ بھی تیزی سے کھڑے ہو گئے.وہ تب تک کھڑے رہے جب تک جنازہ گزر نہ گیا.حضرت یزید کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ آپ کسی تکلیف یا جگہ کی تنگی کی وجہ سے کھڑے ہوئے تھے اور میر اخیال ہے کہ وہ کسی یہودی مرد یا عورت کا جنازہ تھا اور ہم نے آپ سے آپ کے کھڑے ہونے کی وجہ بھی دریافت نہ کی.1204 جب تک میں تمہارے درمیان ہوں جو بھی تم میں سے فوت ہو اس کی خبر مجھے ضرور دو پھر حضرت یزید بن ثابت سے ایک اور روایت ہے کہ وہ لوگ ایک دن رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ نکلے.یہ سنن نسائی کی ہے.حضرت یزید بن ثابت کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی نام کے ساتھ نکلے.آپ نے ایک نئی قبر دیکھی ( یہ ایک اور واقعہ ہے.ایک دوسرا واقعہ بیان ہو رہا ہے) کہتے ہیں ہم رت صلی ال نام کے ساتھ نکلے.آپ نے ایک نئی قبر د یکھی تو فرمایا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ فلاں قبیلے کی لونڈی کی قبر ہے تو رسول اللہ صلی علیم نے اسے پہچان لیا.صحابہ نے عرض کی کہ وہ دو پہر کے وقت فوت ہوئی تھی اور آپ اُس وقت قیلولہ فرمارہے تھے.ہم نے آپ کو اس وجہ سے اٹھانا پسند نہیں کیا کہ آپ آرام کر رہے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی علی کم کھڑے ہوئے اور اپنے پیچھے لوگوں کی صف بندی کی اور آپ نے اس پر چار تکبیریں کہیں یعنی اس قبر کے اوپر ہی آپ نے صفیں بنوا کے جنازہ پڑھا.پھر فرمایا کہ جب تک میں تمہارے درمیان ہوں جو بھی تم میں سے فوت ہو اس کی خبر مجھے ضرور دو کیونکہ میری دعا 1205 اس کے لیے رحمت ہے.اسی طرح یہ روایت مسلم اور سنن ابو داؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے.ابن ماجہ میں اس طرح تفصیلاً بیان ہوا ہے کہ حضرت یزید بن ثابت نے بیان کیا اور وہ زید سے بڑے تھے کہ ہم نبی کریم صلی الم کے ساتھ نکلے.جب آپ جنت البقیع میں پہنچے تو وہاں ایک نئی قبر تھی.آپ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا.انہوں نے عرض کیا کہ یہ فلاں عورت ہے.راوی کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو پہچان لیا اور فرمایا تم نے مجھے اس کے متعلق کیوں خبر نہ دی.انہوں نے عرض کیا کہ آپ دو پہر کو آرام فرمارہے تھے.آپ روزے سے بھی تھے.ہم نے پسند نہ کیا کہ آپ کو تکلیف دیں.اس پر آپ صلی تنظیم نے فرمایا کہ ایسا فعل

Page 533

اصحاب بدر جلد 5 517 نہ کر وجو میں نہیں جانتا.یعنی میں نے تو کبھی نہیں ایسا کہا.تم میں سے جو کوئی بھی فوت ہو جب تک میں تمہارے درمیان ہوں مجھے اس کے بارے میں ضرور اطلاع کیا کرو کیونکہ اس پر میری دعا اس کے لیے باعث رحمت ہے.پھر آپ صلی علیہم اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور آپ نے اس پر چار تکبیریں پڑھیں.1206 مسجد نبوی میں جھاڑو دینے والی ایک سیاہ فام خاتون کی قبر پر تشریف لے جانا صحیح بخاری کی ایک روایت ہے جو حضرت ابوہریرہ سے ہے کہ ایک سیاہ فام خاتون کے متعلق روایت مروی ہے.یہ قبر پہ جنازہ پڑھنے کے بارے میں ہے جس میں یہ بیان ہے کہ وہ مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی.خاتون مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی وہ فوت ہو گئی.نبی کریم صلی الم نے جب اسے چند روز نہ دیکھا تو آپ نے اس خاتون کے متعلق پوچھا.لوگوں نے بتایا کہ وہ فوت ہو گئی ہے.آپ مصلی تعلیم نے فرمایا پھر کیا تم نے مجھے اس کی اطلاع نہیں دینی تھی.اس عورت کی قبر کا پتا بتاؤ.چنانچہ آپ اس عورت کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کا جنازہ پڑھا.207 سنن ابن ماجہ کی شرح انجاز الحاجہ کا مصنف لکھتا ہے کہ یہ ایک سیاہ فام خاتون تھی جس کا نام امام بیہقی نے ایم محجن بیان کیا ہے اور ابن مندہ نے اس کا نام خرقاء بیان کیا ہے اور صحابیات میں سے اس کو شمار کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ خرقاء اس خاتون کا نام ہو اور اقر محجن اس کی کنیت ہو.یعنی دونوں نام صحیح ہیں.1208 318 نام و نسب حضرت یزید بن حارث حضرت يزيد بن حارث.حضرت یزید بن حارث کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو اخمر بن حارثہ سے تھا.حضرت یزید کے والد کا نام حارث بن قیس اور والدہ کا نام فسخم تھا جو قبیلہ قین بن بشر سے تعلق رکھتی تھیں.قین یمن میں قُضَاعَہ کا ایک قبیلہ تھا.حضرت یزید اپنی والدہ کی نسبت سے یزید فُسحم اور یزید بن فُسحم کے نام سے بھی پکارے جاتے تھے.حضرت یزید بن حارث کے ایک بھائی عبد اللہ بن فُسحم بھی تھے.ان کا نام ذوالشمالین، بھی تھا.حضرت محمیر بن عبدا عمرو ذوالشمالین کے بارے میں ابن ہشام بیان کرتے ہیں کہ انہیں 1209

Page 534

اصحاب بدر جلد 5 518 ذوالشمالین اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ یہ بائیں ہاتھ سے زیادہ کام کرتے تھے.ذوالیدین کے لقب سے بھی یہ مشہور تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے ہاتھ بہت لمبے تھے.اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ دونوں ہاتھوں سے کام لیتے تھے اس لیے انہیں ذوالیدین بھی کہا جاتا تھا.ان کا نام محمیر بن عَبدِ عمر و خُزاعی تھا.جب وہ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی علی کلم نے ان کے اور حضرت یزید بن حارث کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی.عمیر بن عبد عمرو کا یہ ذکر یاذ والشمالین کا یہ ذکر اس لیے ہوا کہ ان کی مؤاخات یزید بن حارث کے ساتھ ہوئی تھی.حضرت یزید اور حضرت ذوالشمالین دونوں کو غزوہ بدر میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی اور دونوں نے ہی اسی جنگ میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا.نوفل بن معاویه دیلی نے حضرت یزید کو شہید کیا تھا اور ایک دوسرے قول کے مطابق قاتل کا نام طعيمه بن عَدِمی تھا.کھجوریں پھینک کر لڑتے ہوئے شہید ہو گئے 1210 حضرت يزيد بن حارث نے جنگ بدر کے روز اپنے ہاتھ میں کھجوریں پکڑی ہوئی تھیں.انہوں نے وہ پھینک کر لڑائی شروع کی اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے.1211 319 نام و نسب و کنیت ย حضرت یزید بن رقيش " حضرت یزید بن رقیش " حضرت یزید کا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بنو اسد بن خزیمہ سے تھا اور حضرت یزید بنو عبد شمس کے حلیف تھے.1212 بعض نے ان کا نام آریہ بھی بیان کیا ہے لیکن یہ درست نہیں.3 1213 حضرت یزید کے والد کا نام رقیش بن رئاب تھا اور ان کی کنیت ابو خالد تھی.تمام غزوات میں شامل حضرت یزید غزوہ بدر، احد اور خندق سمیت تمام دیگر غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ شریک ہوئے.حضرت یزید نے غزوہ بدر میں کلی قبیلے کے ایک شخص عمرو بن سفیان کو قتل کیا تھا.4 1214

Page 535

اصحاب بدر جلد 5 519 1215 حضرت یزید کے ایک بھائی کا نام حضرت سعید بن رقیش تھا جنہوں نے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی، جن کا شمار اولین مہاجرین میں ہوتا ہے.حضرت یزید کے ایک بھائی کا نام حضرت عبد الرحمن بن رقیش تھا جو غزوہ احد میں شریک ہوئے تھے.1216 حضرت یزید کی ایک بہن کا نام حضرت آمنہ بنت رُقیش تھا جنہوں نے شروع میں ہی ملے میں اسلام قبول کر لیا تھا اور انہوں نے بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینے کی طرف ہجرت کی تھی.7 شہادت حضرت یزید جنگ یمامہ کے روز 12 ہجری میں شہید ہوئے تھے.1218 جنگ یمامہ 1217 رض اس جنگ کی کچھ تفصیل اس طرح سے ہے، ایک دفعہ پہلے بھی کچھ میں تھوڑا سا مختصر بیان کر چکا ہوں.جنگ یمامہ حضرت ابو بکر کے دورِ خلافت میں 11 ہجری میں ہوئی تھی.بعض مورخین نے مطابق 12 ہجری میں ہوئی تھی.یہ جنگ مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے مقام پر لڑی گئی تھی.حضرت ابو بکر نے حضرت عکرمہ بن ابو جہل کی سرکردگی میں ایک لشکر مسیلمہ کے مقابلے کے لیے بھیجا.ان کے پیچھے ان کی مدد کے لیے حضرت شتر خبیل بن حسنہ کی سرکردگی میں ایک لشکر روانہ کیا.حضرت عکرمہ نے حضرت شتر خبیل کے پہنچنے سے پہلے ہی مسیلمہ سے لڑائی شروع کر دی تا کہ کامیابی کا سہرا ان کے سر ہو لیکن مسیلمہ سے انہیں شکست ہوئی.اس واقعے کی اطلاع جب حضرت شتر خبیل کو ملی تو وہ راستے میں رک گئے.حضرت عکرمہ نے اپنی سرگذشت حضرت ابو بکر کو لکھی تو حضرت ابو بکر نے انہیں لکھا کہ نہ تم مجھے اس حالت میں ملو اور نہ میں تمہیں دیکھوں اور نہ مدینے واپس آؤ جس سے لوگوں میں بزدلی پیدا ہو بلکہ اپنے لشکر کو لے کر اہل عمان اور مھرہ کے باغیوں کے ساتھ جا کر لڑائی کرو.اس کے بعد یمن اور حضر موت میں باغیوں کے ساتھ جاکر لڑو.حضرت ابو بکر نے حضرت شتر خبیل کو لکھا کہ تم حضرت خالد بن ولید کے آنے تک اپنی جگہ ٹھہرے رہو.حضرت ابو بکر نے حضرت خالد مو مسیلمہ کذاب کے مقابلے کے لیے روانہ کیا اور ان کے ساتھ مہاجرین اور انصار کی ایک بڑی جماعت روانہ فرمائی.انصار کی جماعت کے سردار حضرت ثابت بن قیس اور مہاجرین کے سردار حضرت ابو حذیفہ اور حضرت زید بن خطاب تھے.حضرت شرحبیل نے حضرت خالد کے آنے سے پہلے مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ شروع کر دی اور پسپا ہو گئے.حضرت ابو بکر نے حضرت خالد کے لیے حضرت سلیط کی قیادت میں مزید کمک روانہ کر دی تاکہ پیچھے سے کوئی ان پر حملہ نہ کر سکے.حضرت ابو بکر فرمایا کرتے تھے کہ میں نہیں چاہتا کہ میں بدری صحابہ کو استعمال کروں.میں انہیں اس حال میں چھوڑ نا پسند کرتا ہوں کہ وہ اپنے صالح اعمال کے ساتھ اللہ سے ملاقات کریں.اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے اور نیک لوگوں کی رض

Page 536

اصحاب بدر جلد 5 520 برکت سے اس سے زیادہ افضل طور پر مصائب کو رفع کر دیتا ہے بجائے اس کے کہ ان سے عملی طور پر مدد لی جائے لیکن بہر حال مجبوریوں کی وجہ سے شامل بھی ہوئے تھے لیکن حضرت عمر کی رائے اس کے برعکس تھی وہ بدری صحابہ مولشکر وغیرہ میں استعمال فرمالیا کرتے تھے.بہر حال اس جنگ میں مسلمانوں کے لشکر کی تعداد تیرہ ہزار تھی جبکہ مسیلمہ کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار بیان کی جاتی ہے.مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک شخص نَهَارُ الرِّجَالِ بِن عُنْفُوَذْ تھا جو رسول اللہ صلی کم کی خدمت میں حاضر ہوا، وہاں قرآن کریم اور دین کے مسائل سیکھے.رسول اللہ صلی علیم نے اسے اہل یمامہ کی طرف معلم بنا کر بھیجا تا کہ وہ مسیلمہ کذاب کے دعوئی نبوت کی تردید کرے.وہاں جا کر مرتد ہو گیا اور اس بات کی شہادت دی کہ میں نے رسول اللہ صلی للی کم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، جھوٹی گواہی ایک دے دی کہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا ہے کہ مسیلمہ کو میرے ساتھ نبوت میں نعوذ باللہ شریک کر دیا گیا ہے.بہر حال جب یہ مرتد ہوتے ہیں پہلے بھی اور آج بھی اسی طرح غلط الزام اور جھوٹی باتیں منسوب کرنا ایسے لوگوں کا کام ہوتا ہے.بہر حال مسیلمہ کے قبیلہ بنو حنیفہ پر اس شخص کے ارتداد کا مسیلمہ کے دعوی کی نسبت سے کہیں زیادہ برا اثر پڑا کیونکہ یہ تربیت کے لیے بھیجا گیا تھا اور اس کے زیر اثر بھی لوگ تھے.جب اس نے یہ باتیں کہیں، مسیلمہ کے دعوئی نبوت کا تو اتنا اثر نہیں تھا لیکن اس کی باتوں سے لوگوں نے اثر لینا شروع کر دیا.اس کی گواہی کو سب نے تسلیم کیا اور نتیجہ مسیلمہ کی اطاعت کرلی اور اس سے کہا کہ تم نبی صلی الی نظم کو خط لکھو.اگر وہ تمہاری بات نہ مانیں تو ہم پھر اس کے مقابلے میں تمہاری مدد کریں گے.ان کی طرف سے یہ بغاوت کا اعلان ہی دراصل جنگ کی اصل وجہ تھی.جب مسیلمہ کو معلوم ہوا کہ حضرت خالد قریب آگئے ہیں، اس جنگ کا جو واقعہ بیان کیا جارہا ہے، حضرت خالد کو بھیجنے کا ، حضرت ابو بکر نے جو بھیجا تھا تو اب آگے یوں ذکر ملتا ہے کہ حضرت خالد کے متعلق جب معلوم ہوا کہ قریب آگئے ہیں تو اس نے عُقر با مقام پر اپنا پڑاؤ ڈالا اور لوگوں کو اپنی مدد کے لیے بلایا.لوگ بہت بڑی تعداد میں اس کی طرف آنے لگے.اسی دوران مجاعه بن مُرارہ ایک گروہ کے ساتھ باہر نکلا تو مسلمانوں نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ لیا.حضرت خالد نے اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیا اور مُجاعہ کو زندہ رکھا.یہ جنگ کے لیے نکلے تھے کیونکہ قبیلہ بنو حنیفہ میں اس کی بہت عزت ہوتی تھی.ان کے لیڈر کو نہیں مارا، قیدی بنالیا.مسیلمہ کے بیٹے شتر خبیل نے بنو حنیفہ کو انگیخت کرتے ہوئے کہا کہ آج حمیت دکھانے کا دن ہے.جب اس کو پکڑا گیا تو مسیلمہ کے بیٹے نے ان کے اس قبیلے کو انگیخت کرائی کہ اگر آج تم نے شکست کھائی تو تمہاری عور تیں لونڈیاں بنالی جائیں گی اور بغیر نکاح کے ان سے نفع اٹھایا جائے گا لہذا آج تم اپنی عزت اور آبرو کی حفاظت کے لیے پوری جواں مردی دکھاؤ اور اپنی عورتوں کی حفاظت کرو.بہر حال جنگ شروع ہوئی.مہاجرین کا جھنڈ ا حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہ کے پاس تھا جبکہ اس سے قبل وہ عبد اللہ بن حفص

Page 537

اصحاب بدر جلد 5 521 کے پاس تھا لیکن وہ شہید ہو گئے تھے اور انصار کا جھنڈا حضرت ثابت بن قیس کے پاس تھا.گھمسان کی جنگ ہوئی اور وہ جنگ ایسی تھی کہ مسلمانوں کو اس سے پہلے ایسی جنگ کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا.اس جنگ میں مسلمان پسپا ہو گئے اور بنو حنیفہ کے لوگ مُتجاعہ کو چھڑانے کے لیے آگے بڑھے، جس کو حضرت خالد نے قیدی بنایا تھا اور حضرت خالد بن ولید کے خیمہ کا قصد کیا، وہاں گئے اس طرف بڑھے.اس وقت حضرت خالد کی بیوی خیمے میں تھی.ان لوگوں نے حضرت خالد کی بیوی کو قتل کرنا چاہا تو مجاعه نے کہا کہ میں نے اسے پناہ دی ہے، انہیں قتل کرنے سے روک دیا.مُجاعہ نے انہیں مردوں پر حملہ کرنے کا کہا اس پر وہ خیمے کو کاٹ کر چلے گئے.جنگ پھر سخت ہو گئی اور قبائل بنو حنیفہ سب مل کر سخت حملہ کرنے لگے.اس روز کبھی مسلمانوں کا پلڑا بھاری ہوتا کبھی کافروں کا.اس جنگ میں حضرت سالم، حضرت ابو حذیفہ ، حضرت زید بن خطاب جیسے معزز صحابہ کرام شہید ہوئے.مسیلمہ کذاب کا قتل حضرت خالد نے جب مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے ہر قبیلے کو الگ الگ ہونے کا حکم دیا تاکہ مصائب کا اندازہ لگایا جاسکے اور معلوم ہو سکے کہ کہاں سے مسلمانوں پر حملہ کیا جا رہا ہے.اسی طرح جنگ میں صفوں کو الگ الگ درست کیا تو مسلمان ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ آج کے دن ہم کو فرار کرنے میں شرم محسوس ہو رہی ہے یعنی بڑی قابل شرم بات ہے جو ہمارا حال ہو رہا ہے.مسلمانوں کے لیے اس سے زیادہ کوئی مصیبت کا دن نہ تھا.مسیلمہ ابھی تک اپنی جگہ پر قائم تھا اور کفار کی طرف سے جنگ کا مرکز تھا.حضرت خالد نے یہ پتا کر لیا یہ ان کو احساس ہو گیا کہ جب تک اسے قتل نہیں کیا جائے گا تب تک جنگ بند نہیں ہو گی.اس پر حضرت خالد آگے نکلے اور انہوں نے مبارزت طلب کی اور جنگی شعار کا نعرہ لگایا جو اس وقت یا محمد الہ تھا.جو بھی میدان میں آیا تو وہ قتل ہوا.اس پر مسلمان حرکت میں آئے.پھر حضرت خالد نے مسیلمہ کو پکارا.وہ سامنے نہیں آیا اور بھاگ گیا اور اپنے ساتھیوں سمیت ہی اپنے باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا اور باغ کا دروازہ بند کر دیا.مسلمانوں نے اس باغ کا محاصرہ کر لیا.حضرت براء بن مالک نے کہا کہ اے مسلمانو! تم مجھے دیوار پر چڑھا کر اندر اتار دو.بڑے جرات مند، بہادر شخص تھے.مسلمانوں نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے مگر حضرت بر الٹا نہیں مانے اور اصرار کیا کہ آپ لوگ مجھے کسی طرح اس باغ کے اندر ڈال دیں.چنانچہ مسلمانوں نے انہیں باغ کی دیوار پر چڑھایا اور وہاں سے وہ دشمنوں میں کود پڑے اور باغ کے اندر چلے گئے.اندر جاکے انہوں نے دروازہ کھول دیا.مسلمان باغ کے اندر داخل ہوئے.پھر گھمسان کی جنگ ہوئی.وحشی نے مسیلمہ کو قتل کیا ہو.حشی وہی ہے جس نے آنحضرت صلی علیہ یکم کے چا حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا.بہر حال ایک روایت کے مطابق وحشی اور ایک انصاری نے مشترکہ طور پر مسیلمہ کو قتل کیا تھا.وحشی نے اپنا بھالا مسیلمہ کی طرف پھینکا اور انصاری نے اپنی تلوار سے اس پر وار کیا.دونوں نے ایک ہی وقت میں وار کیا تھا اس لیے بعد میں وحشی کہا کرتے تھے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم میں سے کس کے وار نے اس کا کام شخص و

Page 538

اصحاب بدر جلد 5 522 تمام کیا.حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بیچ کر یہ اعلان کیا کہ مسیلمہ کو سیاہ غلام نے قتل کر دیا ہے.اس لیے یہ بھی زیادہ امکان ہے کہ وحشی نے قتل کیا.حضرت خالد نے مُجماعہ کے ذریعے مسیلمہ کی لاش کا پتا معلوم کروایا.متجاعہ نے حضرت خالد سے کہا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں آنے والے لوگ جلد باز اور ناتجربہ کار تھے.تمام قلعے جو ہیں وہ بڑے تجربہ کار فوجیوں سے بھرے ہوئے ہیں.ان کی طرف سے میرے سے صلح کر لیں اگر اب جنگ کی تو مسلمانوں کا اور زیادہ نقصان ہو گا.بڑی چال چلی اس نے.حضرت خالد نے متجاعہ سے اس شرط پر صلح کر لی کہ صرف جانیں معاف کر دی جائیں گی، تمہیں چھوڑ دیا جائے گا، کچھ نہیں کہا جائے گا، قیدی نہیں بنایا جائے گا.اس کے علاوہ ہر شے پر مسلمان قبضہ کر لیں گے.متقاعہ ہو شیار آدمی تھا اس نے کہا کہ میں قلعے والوں کے پاس جاتا ہوں اور ان سے مل کر مشورہ کر کے آتا ہوں.مسیلمہ تو قتل ہو چکا تھا اس لیے طاقت تو ان کی ٹوٹ چکی تھی لیکن اس کی ہوشیاری پھر ان کافروں کے کام آئی.مُجاعہ قلعے میں آیا تو وہاں سوائے عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کے اور کمزوروں کے اور کوئی بھی نہیں تھا.اس نے یہ چال چلی کہ عورتوں کو زرہیں پہنائیں اور ان سے کہا کہ میری واپسی تک تم قلعے کی فصیل پر جا کر اوپر کھڑی ہو جاؤ اوپر اور جنگ کا شعار جو ہے برابر بلند کرتی رہو.حضرت خالد کے پاس آکر اس نے کہا کہ جس شرط پر میں نے تم سے صلح کی تھی قلعے والے اسے نہیں مانتے، یعنی جانوں کی آزادی اور باقی سب مال مسلمانوں کا.اور ان میں سے بعض اپنے انکار کے اظہار کے لیے فصیلوں پر نمودار ہیں اور میں ان کی ذمہ داری نہیں لے سکتا، وہ میرے قابو سے باہر ہیں.حضرت خالد نے قلعوں کی طرف دیکھا تو وہاں دیکھا کہ وہ سپاہیوں سے بھرے ہوئے تھے ، عورتوں نے وہ لباس پہنے ہوئے تھے اس کی چال کی وجہ سے وہاں کھڑی تھیں.اس شدید لڑائی میں خود مسلمانوں کو نقصان پہنچا تھا، لڑائی بہت طویل ہو گئی تھی مسلمان چاہتے تھے کہ فتح حاصل کر کے جلد واپس چلے جائیں چنانچہ حضرت خالد نے مجاعہ سے اس شرط پر صلح کر لی کہ تمام سونا چاندی مویشی اور نصف لونڈی و غلام حضرت خالد کے قبضہ میں دے دیے جائیں گے اور ایک قول کے مطابق چوتھائی قیدیوں پر صلح کر لی.اس جنگ میں مسلمانوں کی جانب سے مدینے کے مہاجرین و انصار میں سے تین سو ساٹھ اور مدینے کے علاوہ تین سو مہاجرین شہید ہوئے جبکہ بنو حنیفہ میں سے عقربا کے میدان میں سات ہزار اور باغ میں سات ہزار اور فرار ہونے والوں کا تعاقب کرتے ہوئے بھی سات ہزار کفار کو قتل کیا گیا.جب یہ لشکر مدینہ واپس پہنچا تو حضرت عمر نے اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ سے فرمایا کہ تو زید سے قبل کیوں نہ شہید ہوا.زید شہید ہو گیا جبکہ تو ابھی بھی زندہ ہے، کیوں نہ تم نے مجھ سے اپنا چہرہ چھپالیا.اس پر حضرت عبد اللہ نے عرض کیا کہ حضرت زید نے اللہ تعالیٰ سے شہادت مانگی اور اللہ نے انہیں وہ عطا کر دی اور میں نے اس کی کوشش کی کہ میری طرف بھی لائی جائے مگر مجھے وہ حاصل نہ ہو سکی.بہر حال اسی سال جنگ

Page 539

اصحاب بدر جلد 5 523 یمامہ میں صحابہ کرام کی بکثرت شہادتوں کے بعد حضرت ابو بکر نے تدوین قرآن کا حکم دیا تا کہ کہیں قرآن کریم ضائع نہ ہو جائے.اس کو جمع کیا گیا.یہ یمامہ کی تفصیل تھی.19 1219 320 حضرت یزید بن منذر حضرت يزيد بن منذر بن سرح بن خُنّاس.آپ کا تعلق قبیلہ بنو خزرج سے تھا اور بیعت عقبہ میں شامل ہوئے.رسول کریم صلی علی کرم نے حضرت یزید بن منذر اور عامر بن ربیعہ کے درمیان مواخات قائم فرمائی.آپ غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک ہوئے.جب آپ کی وفات ہوئی تو ان کی کوئی اولاد نہ تھی.آپ کے بھائی مَعْقِلُ بن مُنْذِر بھی بیعت عقبہ ، غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک تھے.1220

Page 540

اصحاب بدر جلد 5 1 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 393-394 524 حوالہ جات 2 سیرت ابن ہشام صفحہ 462 ، المنتظم فی تاریخ الملوک والامم جلد 3 صفحہ 187 3 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 394، سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 324 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 130 طبقات الکبری جلد 3 صفحه 131 (خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اگست 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 415t414) طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 131 (خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 جنوری 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحه 18 تا 19) 6 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 392 سیرت ابن کثیر صفحہ 750 7 8 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 392 حلیۃ الاولیاء جلد اوّل صفحہ 348 الاصابہ جلد 3 صفحہ 284 10 11 سنن الكبرى للبيهقي جلد 4 صفحہ 84 حدیث 7143 12 سنن الترمذی حدیث 1047 13 صحیح مسلم حدیث 2241 14 المنهاج بشرح صحیح مسلم صفحہ 749 حدیث 967 15 امتاع الاسماع جلد 6 صفحہ 316 16 الاصابہ جلد 5 صفحہ 31 17 الاصابہ جلد 3 صفحہ 285، امتاع الاسماع جلد 6 صفحہ 16 3 (خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 216 تا217) 18 الاصابہ جزء 3 صفحہ 284 19 اسد الغابہ جزء 2 صفحہ 636 20 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 36-37 21 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 682-683 حدیث نمبر 2357 22 الاصابہ جزء5 صفحہ 31 23 الاصابہ جزء 3 صفحہ 285 24 امتاع الاسماع جلد 6 صفحہ 316 25 26 27 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 636 مسند احمد بن ن حنبل جلد 5 صفحہ 505-506 حدیث 16137 2 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 13 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل مورخہ 3 فروری 2023ء صفحہ 5 تا 11 جلد 30 شماره 10 28 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 33، الاصابہ جلد 3 صفحہ 358-359، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 318 29 خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اپریل 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 191 تا 192 30 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 169-170 ، الاصابہ جلد 4 صفحہ 33-34، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 99 31 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 41

Page 541

اصحاب بدر جلد 5 32 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 170 33 تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 39 35 34 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 38 تا40 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 171 36 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 39 37 سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 150 38 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 171 39 الاصابہ جلد 3 صفحہ 34 41 40 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 172 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 171-172 42 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 172 43 44 525 دیباچه اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 39 45 مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 885 چه تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 194-195 46 47 49 50 الاصابہ جلد 3 صفحہ 35 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 268 48 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 41 (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 5 جون 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحه 257 تا 262) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 433، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 46 (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 118) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 394 (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 118) 51 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 60-61 (خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مارچ 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 135) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 74 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 38 (خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 41) 52 53 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 430-431، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 79 (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 117) 54 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 431، اسد الغابہ جلد 3 صفحه 79-80 (خطبه جمعه فرموده یکم مارچ 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 118،117) 55 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 160 ، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 71 56 ماخوذ از روشن ستارے جلد دوم صفحہ 128 57 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 162، سيرة نبوية فى ضوء القرآن والسنتہ جلد 2 صفحہ 123 ، فرہنگ سیرت صفحہ 75 58 الاستيعاب جزء 2 صفحہ 317، الاصابہ جلد 3 صفحہ 430 59 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 40، فرہنگ سیرت صفحہ 279، معجم البلد ان جلد 3 صفحہ 173 60 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 161 61 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 129-130 2 تاريخ الصغیر لامام بخاری جلد 1 صفحہ 113

Page 542

اصحاب بدر جلد 5 63 526 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 161، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 400 64 اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 85، الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 162 سيرة حلبیہ جلد 3 صفحہ 478، اسد الغابہ جزء3 صفحہ 85 65 66 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 167 67 الاصابہ جزء3 صفحہ 431 68 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 162-163 69 70 71 72 73 74 75 سيرة حلبيه جلد 2 صفحہ 324 7 اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 85، سیر و طلبیہ جلد 2 صفحہ 321 سيرة حلبیہ جلد 2 صفحہ 322 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 163 دیباچہ تفسیر القر آن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 250 سيرة حلبيه جلد 2 صفحہ 350-351 سيرة نبوية لابن ہشام جلد 2 صفحہ 517، فرہنگ سیرت صفحہ 84 76 اسد الغابہ جزء3 صفحہ 86 77 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 145 78 سنن ترمذی حدیث 3757 79 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 478 80 اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 86 81 الطبقات الکبری جزء 3 صفحہ 164-165 82 البداية والنهاية جلد 4 جزء 7 صفحہ 208 83 الطبقات الکبری جزء 3 صفحہ 167-168 84 اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 88 85 86 اسد الغابہ جزء3 صفحہ 88 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 166 ، فرہنگ سیرت صفحہ 147 87 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 166 88 89 خطبه جمعه بیان فرمودہ 13 مارچ 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 128 تا 138 صحیح البخاری حدیث 3700 90 ماخوذ از خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 488-489 91 فتح الباری جلد 7 صفحہ 69 حدیث 3700 92 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 107 93 انوار العلوم جلد 2 صفحہ 318-319 94 انوار خلافت، انوار العلوم جلد 3 صفحہ 198 تا 201 95 ماخوذ از آئندہ وہی قومیں عزت پائیں گی جومالی و جانی...انوار العلوم جلد 21 صفحہ 149تا151 96 ماخوذ از خطبات محمود جلد 26 صفحه 386

Page 543

اصحاب بدر جلد 5 97 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 169 98 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 169 99 100 527 اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 87 (خطبہ جمعہ 3 اپریل 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 153 تا162) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 93 101 المستدرک جلد 3 صفحہ 266 حدیث 5047 102 103 الاصابہ جلد 3 صفحہ 439 ، المستدرک جلد 4 صفحہ 57 حدیث 6868 سیرت ابن ہشام صفحہ 169 104 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين 149،147 105 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 91، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 94، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 129 (خطبہ جمعہ فرمودہ 29 مارچ 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 164 تا166) 106 سیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 209 107 أسد الغابہ جلد 1 صفحہ 243-244 و جلد 3 صفحہ 103 ، الطبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ 273 108 أسد الغابہ جلد 5 صفحہ 185، صحیح البخاری کتاب المغازی باب تسمیة من سمى من اهل بدر....109 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 103 110 صحیح بخاری جلد 4 حدیث 2339 مترجم اردو صفحہ 334، لغات الحدیث جلد چہارم صفحہ 1 5 و جلد دوم صفحہ 113 111 خطبه جمعه فرمودہ 26 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 391تا392 112 113 الطبقات الكبرى جز 3 صفحه 243 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 5 114 مجم الكبير جلد 5 صفحہ 34 حدیث نمبر 5413 115 المستدرک جلد 5 صفحہ 1623 حدیث 4309 116 کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 110-111 بدر القتال 117 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 513-514 118 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 516 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 352 119 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 6، سنن الکبری جلد 2 صفحہ 347 حدیث 3322 122 سيرة الحلمة جلد 3 صفحہ 234( خطبه جمعه فرمودہ 24 اگست 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحه 395تا399) 121 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 352 ماخوذ از درس القرآن حضرت خلیفة المسیح الرابع 20 فروری 1994 ء زیر آیت انما استزلهم الشيطان(خطبہ جمعہ 24 فروری 2023ء روز نامہ الفضل انٹر نیشنل مورخہ 23 مارچ 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مسیح موعود بعنوان براہین احمدیہ صفحہ 5 تا 10 جلد 30 شماره 24) 123 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 354-355، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 111 124 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 94 125 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 355، الاصابہ جلد 3 صفحہ 463 126 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 354 127 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 355، الاصابہ جلد 3 صفحہ 464

Page 544

اصحاب بدر جلد 5 128 528 سيرة الحلبیہ جلد 3 صفحہ 183-184 ، لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 82 اوقیہ جلد 2 صفحہ 648 صاع جلد 4 صفحہ 487 وسق 129 سبل الهدی والرشاد جلد 5 صفحہ 470 تا 472 شرح زرقانی جزء 4 صفحہ 97-98 131 130 ملفوظات جلد 8 صفحہ 16،15 حقائق الفرقان جلد 2 صفحہ 310 زیر آیت وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا صِرَارًا 13 خطبه جمعه فرمودہ 23 اگست 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 442438 133 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 112-113 (خطبہ جمعہ فرموده کیم مارچ 2019 ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 117) سیرت ابن ہشام صفحہ 462-463 134 135 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 208، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 113 ، الاصابہ جلد 3 صفحہ 466 136 الاصابہ جلد 1 صفحہ 310 137 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 126 (خطبہ جمعہ فرمودہ 7 جون 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 295 296) 138 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 389 139 سنن الترمذی حدیث 1713 140 141 142 143 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 12 (خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 575) الاستیعاب جلد 2 صفحہ 788 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 488) سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 333 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 118-119 144 شرح زرقانی جلد 6 صفحہ 49 145 حياة الصحابه جلد 2 صفحہ 523 سبل الهدی والرشاد جلد اوّل صفحہ 116 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 296 146 148 149 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 119 (خطبہ جمعہ فرموده 17 اگست 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 382 تا384) اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 118 ، فضائل الصحابة جزء 1 صفحه 279 ، السيرة النبوية لابن ہشام جزء 1 صفحہ 370 150 معرفة الصحابة جزء 1 صفحہ 2004-2005، سیرت خاتم النبيين "صفحه 330 ماخوذ از کنز العمال جزء4 صفحہ 470 حدیث 11399 151 152 سیر اعلام النبلاء سیرت النبی جزء 2 صفحہ 149 153 مسند احمد بن حنبل جلد 24 صفحہ 443 حدیث 15673 154 ماخوذ از حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء جزء 1 صفحہ 179 155 اخبار المدينة النبوية جلد 1 صفحہ 181 156 اصابہ جلد 3 صفحہ 469، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 91، سیر اعلام النبلاء جلد 2 صفحہ 334 157 تاریخ دمشق الكبير جزء 27 صفحہ 229 158 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 296 159 160 مسند احمد بن حنبل جلد 24 صفحہ 445 روایت 15676 بخاری حدیث 1104 161 حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء جلد 1 صفحہ 179-180

Page 545

اصحاب بدر جلد 5 529 162 حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء جلد 1 صفحہ 180 (خطبہ جمعہ 24 فروری 2023ء روزنامه الفضل انٹر نیشنل مورخہ 23 مارچ 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مسیح موعود بعنوان براہین احمدیہ) صفحہ 5 تا 10 جلد 30 شماره 24) سيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 468، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 280، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 121 (خطبه جمعه فرموده 19 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 370) 163 164 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 134 165 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 174 166 167 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 319 صحیح البخاری حدیث 3905 168 صحیح البخاری حدیث 3906 169 170 171 172 دیباچہ تفسیر القرآن ، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 222 تا 224 ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 226-222 بخاری بشرح الکرمانی جزء 14 صفحہ 178 حدیث 3384 مسند احمد بن حنبل جلد 10 صفحہ 101-102 حدیث 25092 مسند عائشہ 173 صحیح البخاری حدیث 4093 174 175 الاستیعاب جلد 2 صفحہ 796 الاستيعاب جلد 1 صفحہ 229-230 176 ماخوذ از سیر روحانی، انوار العلوم جلد 22 صفحہ 250-251 177 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 612-613 178 خطبه جمعه فرمودہ 18 جنوری 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 29 تا 40 179 الطبقات الكبری جلد 3 صفحہ 375-376(خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 562) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 43، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 301 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور 180 جلد 16 صفحہ 485) 181 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 336 182 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 466 تا 470 183 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 336 184 بخاری حدیث 465 / حدیث 2655 ، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 149-150 185 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 749-750 186 سيرة الحلمية جلد 2 صفحہ 368-369 187 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 336-337 (خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جولائی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 338 تا345) 188 کتاب المغازي للواقدی جزء 1 صفحہ 396-397 189 190 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 229 اسد الغابہ جزء3 صفحہ 148-149، سیر اعلام النبلاء جزء 1 صفحہ 339 191 سبل الهدی والرشاد جزء 5 صفحہ 52 192 السيرة النبوية لابن ہشام جزء 3-4 صفحہ 174-175

Page 546

اصحاب بدر جلد 5 530 193 بخاری روایت 4194 (خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 فروری 2023ء(خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود ) صفحه 5 تا10 جلد 30 شماره 14-15) 194 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 403، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 154 (خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جولائی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 308) 195 196 اسد الغابہ جلد نمبر 3 صفحہ 53 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 157 و 13 5 (خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 594) 197 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 158-159، الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 414، سیرت ابن ہشام صفحہ 309 ، تاج العروس زیر مادہ قتل 198 الطبقات الکبرای جزء 3 صفحه 280-281 199 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 55-56 ، الاستیعاب جلد 2 صفحہ 355، شرح مسند الشافعی جزء 2 صفحہ 165 200 201 202 سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 405 صحیح البخاری حدیث 18 سيرة الحلمه جزء 2 صفحہ 83 203 بحوالہ سیر الصحابہ جلد 3 حصہ 2 صفحہ 402 204 فتوح البلدان صفحہ 83 تا 85، معجم البلد ان جلد 4 صفحہ 169 اللاذقیہ جلد 1 صفحہ 320 انظر طوس 205 206 207 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 55 الاصابہ جلد 3 صفحہ 507 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 55 208 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اگست 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحه 455 تا460 209 210 الاصابہ جلد 3 صفحہ 506 21 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 458 تا 460 211 212 سيرة الحلمية جزء 2 صفحہ 287 مسند احمد جلد 7 صفحہ 563 حدیث 23146 213 سنن ابن ماجہ حدیث 2157 214 مسند احمد جلد 5 صفحہ 492 215 صحیح البخاری حدیث 2829 216 مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 564-565 حدیث 23149-150 23 217 سنن ابن ماجہ حدیث 18 218 سنن الترمذی حدیث 2155 219 صحیح البخاری حدیث 2788-2789 220 الاستيعاب جلد 4 صفحہ 1931 221 المنهاج بشرح صحیح مسلم حدیث 1912 222 عمدة القاری جلد 14 صفحہ 128 ، ارشاد الساری جلد 5 صفحہ 230 223 صحیح البخاری حدیث 7055-7056 224 صحیح مسلم کتاب حدیث 29

Page 547

اصحاب بدر جلد 5 531 225 خطبه جمعه فرمودہ 6 ستمبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 464 تا474 226 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحه 407، تاریخ مدینہ دمشق جلد 2 صفحہ 11 (خطبہ جمعہ فرمودہ 28 دسمبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 625) 227 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 85، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 418 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 487) 228 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 362 230 231 229 المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 262 حدیث 7 503 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 368 سیرت خاتم النبيين صفحه 487 232 صحیح البخاری حدیث نمبر 3039 233 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 252-253 234 تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 626 تا 628 235 شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 412 236 تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 191 غزوہ احد 237 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 362-363 238 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 دسمبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 628 تا 635 239 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 89 240 اخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 129 241 242 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 89 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 49 243 سیرت ابن ہشام صفحہ 352 244 السيرة الحلمية جلد 3 صفحہ 217 245 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 301،300 صحیح البخاری مترجم اردو جلد 8 صفحہ 15 247 ماخوذ از صحیح بخاری مترجم اردو جلد 8 صفحہ 17 246 248 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 90 249 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 90 250 251 252 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 50 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 90 الاستیعاب جلد 3 صفحہ 16 253 254 ماخوذ از انوار العلوم جلد 19 صفحہ 56-57 (خطبہ جمعہ فرمودہ 11 مئی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 209 تا215) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 195 255 طبقات الكبرى جزء 3 صفحه 67 256 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 481-482 حديث 1539، السيرة النبوية لابن کثیر جزء2 صفحہ 365-366

Page 548

اصحاب بدر جلد 5 257 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 195 258 حلیۃ الأولیاء و طبقات الأصفیاء جلد 1 صفحہ 108 259 خطبہ جمعہ 24 جولائی 2020ء 200 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين مصفحہ 330 تا334 261 262 263 264 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 196 حلیۃ الاولیاء و طبقات الأصفیاء جلد 1 صفحہ 108 حلية الأولياء وطبقات الاصفیاء جلد 4 صفحہ 315-316 532 امتاع الأسماع جلد 6 صفحه 52 (خطبه جمعه بیان فرمودہ 13 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 3 فروری 2023ء صفحہ 5 تا 11 جلد 30 شماره 10) 265 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 430، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 196 266 کتاب المغازی الواقدی جلد دوم صفحہ 381 غزوۂ تبوک، وفاء الوفاء جلد 4 صفحہ 67 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 521(خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 594 تا 595) 267 268 269 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 218-219 الاصابہ جلد 8 صفحہ 366 270 امتاع الاسماع جلد 9 صفحہ 229 271 272 273 سیرت خاتم النبیین صفحہ 487-488و1 49(خطبہ جمعہ فرمودہ 28 دسمبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 626 تا 627) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 235 الاصابہ جلد 4 صفحہ 73 274 خطبہ جمعہ 5 اکتوبر 2018ء 275 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 235-236، الاستیعاب جلد 3 صفحہ 34، سنن ابی داؤد حدیث 1091 276 277 278 الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 417 الاصابہ جلد 4 صفحہ 72 تا 75 ، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 236 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 401 الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 13 و جلد 3 صفحہ 398 تا 400، معجم البلد ان جلد 4 صفحہ 187 279 تفسیر صغیر زیر آیت سورۃ مریم :72 280 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 237، تفسیر صغیر صفحہ 390، اسد الغابہ مترجم حصہ 5 صفحہ 247، معجم البلد ان جلد 5 صفحہ 37، 179.154.153 281 صحیح بخاری حدیث 4262 282 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 34 283 سنن ابی داؤد حدیث 3122 284 285 286 خطبہ جمعہ 28 جون 2019ء فریضہ تبلیغ اور احمدی خواتین ، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 405-406 صحیح مسلم حدیث 1798 287 سنن الترمذی حدیث 527 صحیح مسلم حدیث 1122 288

Page 549

اصحاب بدر جلد 5 289 290 291 533 سیرت خاتم النبيين تصفحہ 269 تا270(خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جنوری 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 42 تا50) سیرت ابن ہشام صفحہ 462 ، اصابہ جلد 4 صفحہ 91-92، اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 121، جلد 3 صفحہ 256، جلد 4 صفحہ 137 الطبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ 389 292 البداية والنهایة جلد 4 جزء 7 صفحہ 212 293 294 295 296 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 256 ( خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 370 تا 371) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 160-161 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 485تا486) سیرت ابن ہشام صفحہ 464، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 236، اسد الغابہ جلد 3، صفحہ 269 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جلد 6 صفحہ 108 حدیث 10044 معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 181 297 مج 298 سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 310 299 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 504-505، لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 149 زیر لفظ روحاء (خطبہ جمعہ فرموده 3 مئی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 236 تا 239) 300 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 216-217، الاصابہ جلد 4 صفحہ 107 ، اسد الغابہ جزء2 صفحہ 285 و جلد 3 صفحہ 272، منجم البلدان جلد 2 صفحہ 84 301 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 393تا394 302 برت ابن ہشام صفحہ 464، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 284-285، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 347، صحیح البخاری حدیث 3045، معجم البلدان جلد 4 صفحہ 247 303 الاستیعاب جلد 3 صفحہ 928-929 304 خطبہ جمعہ 24 اگست 2018 حضرت عاصم بن ثابت کے تذکرہ میں 305 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 513 تا515(خطبہ جمعہ فرمودہ 7 جون 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 292 تا 295) 306 307 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 295 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 124 308 الاستيعاب جلد 3 صفحہ 71 اسدا د الغابہ جلد 5 صفحہ 153 309 310 311 سیرت خاتم النبيين صفحه 146-147 السيرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ 269-270 312 سیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 333 313 الاستیعاب جلد 3 صفحہ 71 314 سیرت خاتم النبيين "صفحہ 329 315 الطبقات الکبریٰ جلد 1 صفحه 133 316 سیرت خاتم النبيين صفحه 511 317 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 128 318 اسد الغابہ جز 3 صفحہ 296-297 319 الاصابہ جلد 4 صفحہ 132

Page 550

اصحاب بدر جلد 5 534 320 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 530-531 (خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جولائی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 325 تا331) 321 طبقات الکبری جز 3 صفحہ 181 322 سيرة الحلمه جزء 3 صفحه 231 32 طبقات الکبری جز 3 صفحہ 182 ، فرہنگ سیرت صفحہ 237 324 طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 183 (خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 فروری 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحہ 5 تا 10 جلد 30 شماره 14-15) 325 سیرت ابن ہشام صفحہ 468، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 408 326 الطبقات الکبری جزء 3 صفحہ 408-409 327 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 409، سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 425 328 اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 298 329 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 529-530 330 الاستيعاب جزء 3 صفحه 72 331 صحیح بخاری حدیث 4566 332 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 484 تا 487، معجم البلدان جلد 3 صفحہ 168 333 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 540 تا 546 334 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 487 335 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 506 336 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين تصفحہ 559،557 تا561 337 الطبقات الكبرى جزء 2 صفحہ 50 338 339 الاستیعاب جزء 3 صفحہ 941 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2018ء 340 صحیح بخاری حدیث 2661 341 الاستيعاب جزء 3 صفحہ 941 342 صحیح بخاری حدیث 1350 343 344 بخاری حدیث 3008 بخاری حدیث 1366 (خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحه 590تا598) 345 السيرة النبوية لابن هشام جزء 2 صفحه 410 346 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 292 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 485) 347 الاستیعاب جلد 3 صفحہ 75 ( خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 488) 348 مسند احمد جلد 2 صفحہ 201 حدیث 4400 الاستیعاب جلد 3 صفحہ 949(خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 578) 350 سیرۃ ابن ہشام صفحہ 467، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 277، الاصابہ جزء4 صفحہ 172 349 351 مخطبہ جمعہ فرمودہ 3 مئی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 230تا231

Page 551

اصحاب بدر جلد 5 352 353 354 355 535 سیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ 474،الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 258 خطبه جمعه فرمودہ 3 مئی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 331 تا332 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 366، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 437 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 487) سیرۃ ابن ہشام صفحہ 475 ، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 268، الاستیعاب جلد 3 صفحہ 105 ،اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 370 (خطبہ جمعہ فرمودہ 3 مئی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 231) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 308-309 ، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 377-378 356 357 358 الاصابہ جلد 4 صفحہ 193 اسد الغابہ جلد 3 صفحه 377 ، ماخوذ از سیر الصحابه جلد 2 صفحہ 570 (خطبه جمعه فرموده 20 ستمبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 494 تا 495) 359 سیرۃ ابن ہشام صفحہ 463 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 201 و214، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 399 و جلد 3 صفحہ 391 300 سیرۃ ابن ہشام صفحہ 267،241، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 399 361 ماخوذ از سیرت حضرت خاتم النبیین صفحہ 146 تا 149 362 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 214 363 عیون الاثر جلد 1 صفحہ 232 364 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 399، الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 214،212(خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اگست 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 435 تا 437) 365 366 367 سیرت ابن ہشام صفحہ 471، الاصابه جزء 4 صفحہ 213 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 293 (خطبہ جمعہ فرمودہ 3 مئی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 230) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 317-318 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 484) الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 92 369 370 371 الاستیعاب جلد 2 صفحہ 847 الاصابہ جلد 4 صفحہ 292 الاصابہ جلد 4 صفحہ 290 372 ماخوذ از روشن ستارے صفحہ 103-104 ، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 92 373 خط خطبہ جمعہ 5 جون 2020ء 374 صحیح البخاری حدیث 2048-2049 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 93 375 376 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 95 377 صحیح بخاری حدیث 3141، حدیث 3961-3962، فتح الباری شرح صحیح بخاری جزء7 صفحہ 295-296 378 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 11 صفحه 147 تا 149 379 خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2018ء 380 خطبه جمعه بیان فرموده 12 جون 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 279 تا 283 381 صحیح البخاری کتاب الوکالۃ باب از او كل المسلم حربیانی دار الحرب حدیث 2301 382 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 35

Page 552

اصحاب بدر جلد 5 383 384 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 95 اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 476 536 385 روشن ستارے جلد دوم صفحہ 106 ، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 96، عشره مبشره از بشیر ساجد صفحه 875 386 تاريخ الطبری جزء 3 صفحہ 381-382، الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 287 سنة 13، فرہنگ سیرت صفحہ 172 387 روشن ستارے جلد دوم صفحه 105-106 حیح مسلم حدیث 274، الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 95 388 389 روشن ستارے جلد دوم صفحه 107 390 روشن ستارے جلد دوم صفحہ 110 391 تتاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 379-380 392 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 96 393 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 97 394 تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 352 395 روشن ستارے جلد دوم صفحہ 108-109 ،اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 479 396 الاستيعاب جزء 2 صفحہ 846 398 الاصابہ جزء 4 صفحہ 291 الاصابہ جزء 4 صفحہ 291 399 روشن ستارے جلد دوم صفحہ 111-112 الاستیعاب جزء 2 صفحہ 849،848 صحیح بخاری حدیث 5729 400 401 402 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 44 تا 46 403 صحیح البخاری حدیث 3700 404 ماخوذ از خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 484-485 (خطبہ جمعہ 19 جون 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 284تا295) 405 الاصابه جزء 4 صفحہ 293 406 سيرة طلبيه جلد 3 صفحہ 184 ، لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 527 407 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 98، روشن ستارے جلد 2 صفحہ 119 408 الاصابہ جزء4 صفحہ 292 409 اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 478، روشن ستارے جلد 2 صفحہ 110-111 410 روشن ستارے جلد دوم صفحہ 110 411 عشره مبشره از بشیر ساجد صفحه 882 412 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 97، روشن ستارے صفحہ 112 413 اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 478، روشن ستارے جلد دوم صفحہ 111 414 روشن ستارے جلد 2 صفحہ 119 415 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 100-101 ، روشن ستارے جلد دوم صفحہ 118 ، فرہنگ سیرت صفحہ 87

Page 553

اصحاب بدر جلد 5 416 537 الاصابہ جزء4 صفحہ 293، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 100 417 روشن ستارے جلد دوم صفحہ 117 418 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 101 ( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 26 جون 2020 ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 296 تا299) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 248 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 405-406 419 420 421 الطبقات الكبرى جلد 8 صفحہ 271-272 الاستیعاب جلد 3 صفحہ 913 422 سنن ابی داؤد حدیث 499،498 423 جامع الترمذی حدیث 189 424 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين مصفحہ 271-272 425 معرفۃ الصحابة جلد 3 صفحہ 149 426 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 406 427 تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 311 النساء: 69 صحیح مسلم حدیث 2937 428 429 تفسیر البحر المحيط جزء 3 صفحه 299 النساء: 69 430 شرح زرقانی جزء 12 صفحہ 417-418 خاتمة 431 تفسیر البغوى جزء 1 صفحہ 450 النساء: 69 432 شرح زرقانی علی المواهب اللدنية جزء 9 صفحہ 84-85 433 المستدرک جلد 5 صفحہ 266 ، حدیث 8187، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 406 (خطبہ جمعہ فرمودہ 5 اپریل 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 178 تا 183) 434 الطبقات الكبرى جز 3 صفحہ 423 435 صحابہ کرام انسائیکلو پیڈ یا صفحہ 486 الاصابه جزء 4 صفحہ 162 436 438 439 440 441 442 443 خطابات طاہر ( تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت)، تقریر جلسہ سالانہ 1979ء ، صفحہ 349 الاستيعاب جزء 3 صفحہ 84 سیرت ابن ہشام جز1 صفحہ 236، اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 6 صفحہ 413 صحیح بخاری حدیث نمبر 3890-3891 خطبہ جمعہ 15 مارچ 2019ء حضرت سعد بن خیثمہ اور خطبہ جمعہ 20 دسمبر 2019 ء حضرت سعد بن عبادہ کے تذکرہ میں ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 227 تا 231 غزوہ اُحد صفحہ 215 444 الطبقات الكبرى جز 3 صفحہ 423، الاصابہ جلد 2 صفحہ 287 445 مجمع الزوائد جز 6 صفحہ 120 446 ماخوذ از خطابات طاہر ( تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت) تقریر جلسہ سالانہ 1979ء، صفحہ 350-351 447 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 344 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 424 (خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 565 تا569) 448

Page 554

اصحاب بدر جلد 5 449 الاستيعاب جز 3 صفحہ 954-955 الاستيعاب جزء 3 صفحہ 956 450 451 حیح بخاری حدیث 1343 452 صحیح بخاری حدیث 4042،1344 سنن ابن ماجہ حدیث 1513 453 سم 454 سنن ابو داؤد حدیث 3135 455 سنن ابو داؤد حدیث نمبر 3137 سنن ترمذی حدیث 1016 456 457 538 سیرت ابن ہشام صفحہ 395-396، السيرة الحلمية جلد 2 صفحہ 337 458 دلائل النبوہ جزء3 صفحہ 287 159 السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 338، دلائل النبوة جزء 3 صفحہ 287 288، صحیح بخاری حدیث 1343 288-287373381181459 400 فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 249 461 صحیح بخاری حدیث 1343-1344، حدیث 4042 462 فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 249 463 سیرت خاتم النبیین صفحہ 502،501 464 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 344 الطبقات ال ات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 425 465 466 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 424، کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 267 467 سنن الترمذی حدیث 3010، دلائل النبوة جزء 3 صفحہ 298 ، الاستیعاب جزء 3 صفحہ 956،955 468 خطابات طاہر ( تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت تقریر جلسہ سالانہ 1979ء، صفحہ 350،349 469 صحیح بخاری حدیث 2127 470 سنن نسائی حدیث 3666 ، بخاری کتاب حدیث 5367 ( خطبه جمعه بیان فرموده 13 نومبر 2020ء خطبات مسرور 471 جلد 18 صفحہ 588 تا 593) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 382،381 472 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 112 473 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 382 474 سیرت خاتم النبيين "صفحہ 124 1475 اصحاب بدر صفحه 107 476 صحیح البخاری حدیث 3760 477 ماخوذ از دیباچه تفسیر القرآن ، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 427-428 478 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 383 479 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 113 480 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 113 481 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 384

Page 555

اصحاب بدر جلد 5 483 484 482 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 383 صحیح البخاری حدیث 3962 صحیح مسلم حدیث 4662 485 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9 صفحه 62 539 186 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 112 - 113 ، سیرت صحابہ رسول اللہ صلی العلم صفحہ 275 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 384، صحیح البخاری حدیث 5050 487 488 489 490 مسند احمد جلد 1 صفحہ 128 حدیث 175 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 156-157 حدیث 265 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 385 191 صحیح بخاری حدیث 3762، المستدرک جلد 3 صفحہ 359 حدیث 5387 492 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 114 493 494 495 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 386 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 385 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 114 496 مأخوذ از سیر الصحابه جلد 2 صفحہ 225 497 مأخوذ از سیر الصحابه جلد 2 صفحه 223 498 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 116-117 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 385 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 117 499 500 501 502 503 504 505 506 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 386 مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 75 3 حدیث 22455 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 385 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 386-387 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 386 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 387 507 مأخوذاز الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 230 508 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 119 509 510 مسند احمد جلد 8 صفحہ 51 حدیث 24716(خطبہ جمعہ فرمودہ 28 ستمبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 458 تا469) جامع الترمذی حدیث 3805 511 ماخوذ از سیرت صحابہ رسول صلی فیلم صفحہ 283 512 ماخوذاز سیرت صحابہ رسول صلی اللی علم صفحہ 284-285 513 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 115 514 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 118 515 الاصابہ جلد 4 صفحہ 201

Page 556

اصحاب بدر جلد 5 516 ماخوذ از خطبات محمود جلد 22 صفحہ 106 تا 109 517 ماخوذ از نقوش صحابہ صفحہ 68-69 ماخوذ از چار عبد اللہ صفحہ 34 تا 36 518 بد الله سة 519 سیرت صحابہ رسول صلی فیلم صفحہ 283-284 540 520 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 117 و من حلفاء بنی زهره بن کلاب 521 522 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 387 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 119 523 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 118 524 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 119 و من حلفاء بنی زهره بن کلاب 525 527 الاصابہ جلد 4 صفحہ 201(خطبہ جمعہ فرمودہ 5 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 470 تا 478) 526 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 294، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 415 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 491) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 538-539، سیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ 465 ، الطبقات الکبرای جزء 3 صفحه 243 (خطبه جمعه فرمودہ 3 مئی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 230) 528 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 342-343 ، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 153 و 529,521 (خطبہ جمعہ فرمودہ 5 اپریل 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحه 177) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 528-529 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 326-327 529 530 531 الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحه 257 (خطبہ جمعہ فرمودہ 28 دسمبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 627 تا 628) 532 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 448 533 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 181، امتاع الاسماع جلد 1 صفحہ 93 ، کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 39 (خطبه جمعه فرموده 7 دسمبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 590) 534 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 123-124 535 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 547، الاصابہ جلد 4 صفحہ 353 536 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 37 537 استیعاب جلد 3 صفحہ 1214 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 38-39 538 539 سیرت خاتم النبيين صفحه 324 سیرة الحلبية جلد 3 صفحہ 215-216، سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 592، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 12 541 سیرت خاتم النبیین صفحہ 328-329 542 المستدرک جلد 2 صفحہ 419 حدیث 3456 543 سنن ابو داؤد کتاب الجہاد باب في المبارزة حديث 2665 544 المستدرک جلد 3 صفحہ 207-208 حدیث 4862، لغات الحدیث صفحہ 67 545 المستدرک جلد 3 صفحہ 208 حدیث 4863، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 547 (خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 580 تا583)

Page 557

اصحاب بدر جلد 5 546 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 415-416 547 548 541 سیرت ابن ہشام صفحہ 228-229، ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 267-268 حیح بخاری حدیث 89 حیح بخاری حدیث 89 مترجم اردو جلد 1 صفحہ 165 550 ماخوذ از عمدة القاری جلد 20 صفحہ 256 حدیث 5191 551 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 415، صحیح بخاری حدیث 667 552 ماخوذ از صحیح بخاری مترجم اردو جلد 2 صفحہ 66 554 553 خطبه جمعه فرمودہ 29 مارچ 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 172 تا 174 سیرت ابن ہشام صفحه 469، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 284، الاصابہ جلد 4 صفحہ 360 555 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 4 صفحہ 53 تا 63، خلفائے راشدین صفحہ 126 ، الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 326 (خطبہ جمعہ فرمودہ 3 مئی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 239 تا 241) 556 557 استیعاب جلد 3 صفحہ 1026 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 430 (خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 578) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 558-559، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 72 ، امتاع الاسماع جزء 6 صفحہ 331 558 اٹلس سیرت نبوی صفحہ 196 ، الاستیعاب جلد 4 صفحہ 1480-1481 559 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين مصفحہ 323-324 560 خطبہ جمعہ 30 نومبر 2018ء 561 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين مصفحہ 328-329 562 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 73 ، سیرت ابن ہشام صفحہ 220 (خطبہ جمعہ فرموده 13 دسمبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 647 تا 651) 563 564 565 566 567 568 569 570 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 330 تا 334 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 559 الاستيعاب جلد 2 صفحہ 612,439 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 72 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 559 560 کتاب جمل من انساب الاشراف جزء 13 صفحہ 298 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 73 حدیث 2967 خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 655 تا661 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 563 571 الطبقات الكبرى جلد 4 صفحہ 381 572 المستدرک جلد 5 صفحہ 1615 573 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 270 574 ماخوذ از سیر الصحابه جلد 5 صفحہ 548 تا 550، ماخوز از جستجوئے مدینہ صفحہ 681،672 575 سن سنن ابو داؤد حدیث 3666 576 حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 78 577 صحیح بخاری کتاب المغازی باب تسمیة من سمی من اهل بدر، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 563، الاصابہ جزء 4 صفحہ 366، الاستیعاب جلد 3 صفحہ 1030 ، الطبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ 381

Page 558

اصحاب بدر جلد 5 542 578 الطبقات الکبریٰ جزء 4 صفحہ 238 ، البدایۃ والنہایۃ جلد 4 جزء7 صفحہ 138 579 580 581 582 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 563 الطبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ 381-382 الاصابہ جلد 4 صفحہ 366 (خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اگست 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 451 تا455) الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 305-306 583 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 807 مسند عبد اللہ بن عباس حدیث نمبر 2921 584 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 13 صفحه 204 585 تفسیر کبیر جلد 14 صفحہ 276،275 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 589-590 586 خطبہ جمعہ 01 فروری 2019ء حضرت ابو حذیفہ بن عقبہ کے تذکرہ میں 588 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 146-147 589 ماخوذ از دیباچه تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 202 تا 205 590 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 590 591 ماخوذ از فضائل القرآن نمبر 4، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 456 592 593 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 302-303 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 590 594 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 302 سنن ابی داؤد حدیث 1369 ت خاتم النبيين صفحه 418 595 596 597 صحیح البخاری حدیث 5073 598 سیرت خاتم النبيين صفحه 124 599 معجم الکبیر جلد 9 صفحہ 38-39 حدیث 8321، فرہنگ سیرت صفحہ 29 600 صحیح البخاری حدیث 525 601 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 591 (خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اپریل 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 204 تا215) 602 603 604 605 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 591 ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 598 معجم الكبير جلد 12 صفحہ 228 حدیث نمبر 13160 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 591، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 303 606 سنن ابن ماجہ حدیث 1502 607 سنه سنن ابی داؤد حدیث 3206 سیرت خاتم النبیین صفحه 462-463 608 609 610 سد الغابہ جلد 3 صفحہ 591 حیح البخاری حدیث 2687 611 مسند احمد جلد 8 صفحہ 872 حدیث نمبر 28006

Page 559

اصحاب بدر جلد 5 543 612 مسند احمد جلد 8 صفحہ 871-872 حدیث 28004 613 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 216 تا 221 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 11 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 377 614 615 کتاب المغازی جلد اوّل صفحہ 40 باب بدر القتال 616 617 618 اصابہ جلد 4 صفحہ 391-392(خطبه جمعه فرمودہ 25 جنوری 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 48 تا 49) اصحاب بدر صفحه 177 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 575 619 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 377 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 566) 620 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 45 (خطبہ جمعہ فرمودہ 28 دسمبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 625) 621 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 428 و جلد 8 صفحہ 301 622 623 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 221 تا 227،225 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 428 624 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 52 625 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جنوری 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 19 تا 23 626 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 300 627 628 629 630 اسد الغابہ جزء4 صفحہ 54-55، جامع البیان جزء 4 صفحہ 183-184، معجم البلدان جزء 1 صفحہ 180 زیر لفظ اعوص خطبہ جمعہ فرمودہ 3 مئی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 236 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 59 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 70 سیرت ابن ہشام صفحہ 265-266 باب مانزل في المنافقين 631 خطبہ جمعہ 23 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 565 632 633 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 64-65 رت ابن ہشام صفحہ 435 634 صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدليل على دخول طوائف من المسلمين الجنة حديث 369 635 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 667 تا 668 636 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 666 637 مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 429 تا 431 کتاب علامات النبوة حديث 14253 638 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 245 (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 247 تا 251) 639 640 641 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 64-65 حلیۃ الأولیاء و طبقات الأصفیاء جلد 4 صفحہ 315-316 سيرة الحلبية جز 3 صفحه 219 64 سيرة الحلبية جز 2 صفحہ 311 643 سیر اعلام النبلاء جزء 2 صفحہ 5 تا 7 (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 13 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 3 فروری 2023ء صفحہ 5 تا 11 جلد 30 شماره 10) 644 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 186-187

Page 560

اصحاب بدر جلد 5 645 544 صحیح البخاری کتاب المناقب باب اسلام ابی بکر الصدیق حدیث 3857 646 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 261،260 647 تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 39 643 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 187 649 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188 650 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188 651 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188 652 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188 653 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188 654 استیعاب جلد 4 صفحہ 1589 655 مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 76 حدیث 3832 656 الطبقات الكبرئی جلد 3 صفحہ 188-189 657 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 141 658 ماخوذ از چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 255 سوانح عمری حضرت محمد صلی اللہ ہم بحوالہ چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 258 659 660 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 189 661 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 189-190 662 المستدرک جلد 3 صفحہ 471 حدیث 5720، مسند احمد جلد 8 صفحہ 591 حدیث 27064 663 صحیح البخاری حدیث 2812 664 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 194 665 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 190 666 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 191 667 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 124 668 اخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 761-762 669 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 126 670 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 192 671 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 192 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 125 672 673 المستدرک جلد 3 صفحہ 477 حدیث 5737 674 سنن ابن ماجہ حدیث 146 675 سنن ابن ماجہ حدیث 148 676 سنن النسائی حدیث 5010 677 صحیح البخاری حدیث 3287 678 حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 28-529

Page 561

اصحاب بدر جلد 5 679 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 193 680 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 194 681 682 545 اسلام میں اختلافات کا آغاز ، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 314-315 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 126 683 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 194 ، مستدرک جلد 3 صفحہ 480 حدیث 5745 684 685 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 195 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 195 686 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 195 687 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 195 688 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 196 689 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 200، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 127 690 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 198، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 127 691 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 198 692 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جون 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 280 تا 292 693 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 199 694 المستدرک جلد 3 صفحہ 474 حدیث 5726 695 فضائل صحابه صفحه 520 696 سنن ابن ماجہ حدیث 153 697 698 مسند احمد جلد 6 صفحہ 261 حدیث 18511 مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 262 حدیث 18514 699 مسند احمد جلد 6 صفحہ 262 حدیث 18515 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 193 700 201 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 194 702 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 194 703 المستدرک جلد 3 صفحہ 481 حدیث 5746 المستدرک جلد 3 صفحہ 481-482 حدیث 5748 704 705 الاستيعاب جلد 3 صفحہ 1138 706 سنن الترمذی حدیث 3799 707 ماخوذ از انوار خلافت، انوار العلوم جلد 3 صفحہ 171-170 708 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحه 293 تا 297 709 المستدرک جلد 3 صفحہ 474 حدیث 5726 710 سنن الکبری للبیہقی جلد 8 صفحہ 302 حدیث 16720 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 200 711 ماخوذ از ملائکتہ اللہ ، انوار العلوم جلد 5 صفحہ 552 712 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 493

Page 562

اصحاب بدر جلد 5 546 713 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جولائی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 19 3 تا320 714 طبقات الکبری جزء 3 صفحه 187 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 195 715 716 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 189 717 71 طبری جلد نمبر 6 صفحہ 2943 مطبوعہ بیروت 718 719 انوار العلوم جلد 4 صفحہ 280 تا281و 283 تا284 تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 98 720 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 198،197 721 722 723 بخاری حدیث 338 صحیح مسلم حدیث 2009 7 ترمذی حدیث 29 724 ترمذی حدیث 3888 (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 13 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل مورخہ 3 فروری 2023ء صفحہ 5 تا 11 جلد 30 شماره 10) اصحاب بدر صفحه 182 725 726 سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 455 727 سبل الہدی والرشاد جلد 10 صفحہ 771 728 سیرت ابن ہشام صفحہ 246 باب من اسلم من احبار یہو د نفاقا 729 تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 18 غزوہ تبوک 730 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 129 731 732 733 734 خطبه جمعه فرمودہ 28 ستمبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 456 تا 458 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 724-725 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 318 (خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 575) سیرت ابن ہشام صفحہ 469، اسد الغابہ جزء4 صفحہ 186(خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 392) 735 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 700 ، الاستیعاب جلد 3 صفحہ 253(خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 486 تا 487) 736 سیرت ابن ہشام صفحہ 463، الاستیعاب جلد 3 صفحہ 255، اسد الغابہ جلد 4، صفحہ 197 (خطبہ جمعہ فرموده 3 مئی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 231) 737 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 295، الاصابہ جلد 4 صفحہ 523 738 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 436 139 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 723، الاصابہ جلد 4 صفحہ 523 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 488تا489) 740 الاصابہ جلد 4 صفحہ 552،553، الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 254 741 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 310 ، جلد 4 صفحہ 269 ، الاستیعاب جلد 3 صفحہ 274 ، عمدۃ القاری جزء 15 صفحہ 121، الاصابہ جلد 4 صفحہ 552-553 ، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 246، ابن ہشام صفحہ 463

Page 563

اصحاب بدر جلد 5 547 742 صحیح بخاری حدیث 3158، عمدۃ القاری جزء 15 صفحہ 121، ابن ہشام صفحہ 463، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 310 743 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 254 744 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 217، الاصابہ جلد 3 صفحہ 46 745 746 الاصابہ جلد 4 صفحہ 553 (خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اگست 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 442 تا 443) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 447،448 و جلد 4 صفحہ 260، الاصابہ جلد 4 صفحہ 567، الاستیعاب جزء 3 صفحہ 279،الطبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 359، الانساب جزء 1 صفحہ 284 283 (خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 397) 747 748 749 سیرت ابن ہشام صفحہ 465 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 353 7 سنن الترمذی حدیث 1689 750 سبل الهدی والرشاد جلد 05 صفحہ 484 751 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 495 تا 496 752 الاستيعاب جلد 3 صفحہ 294، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 79 753 عیون الاثر جلد اوّل صفحہ 232 754 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 353 755 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 79 الاصابہ جلد 4 صفحہ 603 756 757 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 79 758 خطبه جمعه فرموده 1 3 اگست 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 408 تا 409 759 760 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 110-111 البدایہ والنھایہ جزء 5 صفحہ 252 ( خطبہ جمعہ 24 فروری 2023ء روزنامہ الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 23 مارچ 2023 ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مسیح موعود بعنوان براہین احمدیہ ) صفحہ 5 تا10 جلد 30 شماره 24) 761 سیرت ابن ہشام صفحہ 476 762 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 426 763 764 765 اسد الغابہ جزء4 صفحہ 278 صحیح مسلم مترجم اردو جلد 10 صفحہ 102 تا104 حدیث 3506 اسد الغابہ جزء4 صفحہ 278 766 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 426 ، سيرة الحلمه جلد 2 صفحہ 222 (خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 395تا396) 767 768 769 770 771 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 393، الاصابہ جلد 4 صفحہ 598 الاصابہ جلد 7 صفحہ 99 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 92(خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 49) الاستیعاب جلد 3 صفحہ 1246 (خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد صفحہ 376) خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2018ء 772 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 370، 373 تا 375 ، الاصابہ جلد 04 صفحہ 614-615،الاستیعاب جلد 3 صفحہ 1225- 1 صحیح بخاری حدیث 3988،3963،3141، سنن ابی داؤد حدیث 2680.1226

Page 564

اصحاب بدر جلد 5 548 773 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 604 774 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحه 349 تا 351، ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 222 775 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 304 776 سيرة الحلمه جزء 2 صفحہ 353-354، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 349 777 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 304(خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 374 تا 376) 778 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 318-319، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 311 (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 114) 779 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 239 ، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 370-371 780 معجم الكبير للطبرانی جلد 19 صفحہ 8 781 الاصابہ جلد 2 صفحہ 345 782 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 239، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 372، سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 474 783 تاریخ دمشق جلد 4 صفحہ 148 ، لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 293 784 سنن الترمذی حدیث 3036 785 786 مسند احمد جلد 4 صفحہ 42 حدیث 11131 مسند احمد جلد 4 صفحہ 165 حدیث 11647، صحیح بخاری حدیث 408-409 787 صحیح بخاری حدیث 935 صحیح مسلم حدیث 853 788 789 سنن ابن ماجہ حدیث 1139 790 791 792 793 مسند احمد جلد 13 صفحہ 117 حدیث 7688 مسند احمد جلد 7 صفحہ 847-848 حدیث 24189 ماخوذ از خطبات محمود جلد 33 صفحه 161-162 ، صحیح بخاری حدیث 935 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اگست 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 426 تا 435 794 الاصابہ جلد 5 صفحہ 322-323 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 306 795 796 ستر ستارے از طالب الہاشمی صفحہ 66-68 797 الاصابہ جلد 5 صفحہ 322، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 306 798 799 الاصابہ جلد 5 صفحہ 323 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 376 800 خطبہ جمعہ فرمودہ 5 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 478 تا480 801 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 294 802 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 221-222 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 294 804 الاصابہ جلد 5 صفحہ 338(خطبہ جمعہ فرموده 31 اگست 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 409 تا410) 805 طبقات الکبری جلد 2 صفحہ 122-123

Page 565

اصحاب بدر جلد 5 806 549 معجم الصحابہ جلد 5 صفحہ 66 (خطبہ جمعہ 24 فروری 2023ء روز نامہ الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 23 مارچ 2023ء خصوصی اشاعت برائے یوم مسیح موعود بعنوان براہین احمدیہ ) صفحہ 5 تا10 جلد 30 شمارہ 24) 807 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 392 808 سيرة النبوية على ضوء القرآن والسنہ جلد 2 صفحہ 124، سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 23، 25، يوم الفرقان صفحه 124 ، امتاع الاسماع جلد 8 صفحہ 341، کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 37-38 809 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 408، تاج العروس سوق 810 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 392(خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 578 تا580) 11 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 389، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 406، اصابہ جلد 5 صفحہ 362 812 صحیح بخاری حدیث 3810 813 فتوح البلدان صفحه 53 814 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 389 816 815 معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 162-163 (خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 50 تا51) اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 422، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 443(خطبہ جمعہ فرمودہ 8 مارچ 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 122) 817 الاستيعاب جلد 3 صفحہ 376 818 819 820 821 81 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 518 تا 519(خطبہ جمعہ فرمودہ 11 مئی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 215 تا216) سیرت ابن ہشام صفحہ 462،الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 209 823 824 825 سیرت ابن ہشام صفحہ 338 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 209 الاصابہ جلد 5 صفحہ 533 ( خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 2019 ، خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 371) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 282 الاستیعاب جلد 3 صفحہ 405-406 تاریخ دمشق جلد 12 جزء24 صفحہ 333 826 صحیح بخاری حدیث 425 827 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 230 828 الاستيعاب جلد 3 صفحہ 406 829 شرح زرقانی جلد 4 صفحہ 97-98 830 خطبه جمعه فرمودہ 11 مئی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 217 تا220 831 صحیح بخاری حدیث نمبر 425 ، مطالع الانوار علی صحاح الآثار جلد 3 صفحہ 62 832 طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 414 ، سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 336 833 اسد الغابہ جزء 7 صفحہ 52-53 سیرت ابن ہشام جزء 2 صفحہ 290-291 834 835 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 69-70 836 کتاب المغازى للواقدی جلد 1 صفحہ 280 837 امتاع الاسماع جلد 1 صفحہ 165

Page 566

اصحاب بدر جلد 5 838 مع 839 840 الكبير جزء 18 صفحہ 26 روایت نمبر 44 المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم جلد 5 صفحہ 216 550 طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 415 (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 13 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل مورخہ 3 فروری 2023ء صفحہ 5 تا 11 جلد 30 شماره 10) 841 سیرت ابن ہشام صفحہ 326 ، سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 116 842 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 72 (خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 373) 843 سیرت ابن ہشام صفحہ 466 ، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 367( خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 387) 844 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 255(خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 487) 845 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 358، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 258( خطبه جمعه فرموده 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 493) 847 846 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 247-248 سیرت ابن ہشام صفحہ 335 848 اسد الغابہ جزء 5 صفحہ 53 ، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 241، لغات الحدیث جلد دوم صفحہ 149 849 متدرک جلد 5 صفحہ 1841،1840 850 شرح العلامہ الزرقانی جزء2 صفحہ 327( خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اپریل 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 192 تا194) 851 الاصابہ جلد 5 صفحہ 573 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 417، عیون الاثر جلد 1 صفحہ 232-233 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 59-60 ، عیون الاثر جلد 1 صفحہ 301 852 853 855 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 417 854 اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 31(خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جولائی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 11 3 تا 312) طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 283 ، اصابہ جزء5 صفحہ 572-573 ، امتاع الاسماع جلد 10 صفحہ 10 (خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 فروری 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحه 5 تا 10 جلد 30 شماره 14-15) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 388 856 857 خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 485 858 الطبقات الکبرای جزء 3 صفحہ 52، اسد الغابہ جزء 5 صفحہ 68 859 ماخوذ از صحیح مسلم مترجم اردو جلد 9 صفحہ 228 تا 238 حدیث 3358، صحیح البخاری حدیث 4194 800 تاریخ الطبری جزء 3 صفحہ 115،116 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 70 861 خطبه جمعه فرمودہ 12 اپریل 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 194 تا200 862 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 338 ، الاصابہ جلد 6 صفحہ 28، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 106 863 محمد رسول اللہ والذین معہ جلد 2 صفحہ 111 112 ، روض الانف جلد 1 صفحہ 280، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 72، کشف الغمة عن جميع الامة جزء 1 صفحہ 283-284،الاصابہ جلد 6 صفحہ 28 864 الاصابہ جلد 6 صفحہ 28، 29، شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 511 865 خطبہ جمعہ 20 جولائی 2018ء 866 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 466 تا 477(خطبہ جمعہ فرمودہ 7 فروری2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 67 تا76)

Page 567

اصحاب بدر جلد 5 551 867 ماخوذ از نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 402 تا 408، سیرة الحلبية جلد 2 صفحہ 310 868 سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 317 تا 320 ، سبل الهدی والرشاد مترجم جلد 4 صفحہ 754، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 132 دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 282 تا284 869 870 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين "صفحه 721 تا 724 871 الاصابہ جلد 6 صفحہ 28 872 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 319، الاصابہ جلد 6 صفحہ 29 873 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 339 874 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 107 ، الاستیعاب جلد 3 صفحہ 433 (خطبہ جمعہ فرموده 14 فروری 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 77 تا 87) 875 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 53 ، سیرت ابن ہشام صفحہ 460، الاصابہ جزء 6 صفحہ 49 876 الاستیعاب جزء 4 صفحہ 31-32، اسد الغابہ جزء5 صفحہ 127 878 877 الطبقات الکبری جزء 3 صفحہ 53 (خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحه 392 تا 393) اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 129 ، الاصابہ جلد 6 صفحہ 52 ، فرہنگ سیرت صفحہ 237 879 صحیح بخاری حدیث 4418، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 129 880 881 خطبہ جمعہ 1396 دسمبر 2019ء خطبہ جمعہ فرمودہ 13 دسمبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 646 تا 647 882 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 35، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 133، سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 554 883 سیر الصحابہ جلد 2 حصہ 2 صفحه 555 (خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جولائی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 309 تا310) 884 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 35 885 886 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 306 تہذیب التہذیب جلد 6 صفحہ 642 (خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023 ء ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا23 فروری 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحه 5 تا10 جلد 30 شماره 14-15) الاصابہ جلد 6 صفحہ 74 ، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 150 ، استیعاب جلد 4 صفحہ 1472 887 888 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 37 889 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 39 890 خطبہ جمعہ 30 نومبر 2018ء حضرت عبیدہ بن الحارث کے تذکرہ میں 891 سيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 215-216، سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 592، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 12 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 39 ، الاصابہ جلد 6 صفحہ 74 892 893 الاصابہ جلد 6 صفحہ 74 894 ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 181 895 ماخوذاز صحیح البخاری جلد 4 صفحہ 721 تا 731 حدیث 2661 و جلد 8 صفحہ 325 حدیث 4141 896 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 563 897 صحیح البخاری حدیث 3775 898 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 450ت452

Page 568

اصحاب بدر جلد 5 899 ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحہ 279-280 900 سد 552 سنن ابو داؤد کتاب الحدو د باب حد القازف حدیث 4474-4475 901 تفسیر القرطبی جزء 15 صفحہ 169 902 903 904 905 خطبہ جمعہ فرموده 14 دسمبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 602 تا 613 الاستیعاب جلد 3 صفحہ 448 ، الاصابہ جلد 6 صفحہ 281(خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 486) سیرت ابن ہشام صفحہ 460-461، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 89-90، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 154–155، الاصابہ جلد 6 صفحه 77 ( خطبه جمعه فرمودہ 26 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 398) اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 369-370 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 486) 906 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 85-86، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 175 و جلد 7 صفحہ 71 ، سير الصحابہ جلد 2 صفحہ 270، 275، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 157 907 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 86، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 175 908 سیرت ابن اسحاق صفحہ 230 909 سنن ترمذی حدیث 2476 910 خطبہ جمعہ 13 جولائی 2018ء حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد کے تذکرہ میں 911 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين مصفحه 146-147 912 913 914 915 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 175-176 ، استیعاب جلد 4 صفحہ 37 ، سیرت ابن ہشام صفحہ 199 الطبقات الكبرى جزء 1 صفحہ 171 اسیرت ابن ہشام صفحہ 199 سیر الصحابہ جلد 2 مہاجرین حصہ اوّل صفحہ 272 916 صحیح بخاری حدیث 4941 917 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 129 918 الطبقات الكبرى جزء 1 صفحہ 171 و جزء 3 صفحه 87-88 919 سیرت ابن ہشام صفحہ 200 ، الطبقات الکبری جزء 3 صفحہ 338،326،321 920 سیرت خاتم النبيين صفحه 224 تا 227 921 سیرت خاتم النبیین صفحہ 227( خطبہ جمعہ فرمودہ 28 فروری 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 103 تا 110) 922 دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 214تا216 923 تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 252، فرہنگ سیرت صفحہ 203 924 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 88 925 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 89 927 926 سیرت خاتم النبيين تصفحہ 488 سیرت ابن ہشام صفحہ 383 928 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 89 929 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 176 930 سیرت خاتم النبيين "صفحہ 493

Page 569

اصحاب بدر جلد 5 931 932 933 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 89-90 سیرت خاتم النبیین صفحه 501 یح بخاری حدیث 1275 934 صحیح بخاری حدیث 1276 935 سنن ترمذی حدیث 3785 936 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 87 سیرت ابن ہشام صفحہ 396 937 938 سنن ابن ماجہ حدیث 1590 939 ماخوذ از خطابات طاہر قبل از خلافت صفحه 363 553 940 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 مارچ 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحه 115 تا122 941 سیرت ابن ہشام صفحہ 324 942 اسد الغلہ جلد 2 صفحہ 232-233 943 صحیح البخاری کتاب المغازی باب تسمية من سمی من اهل بدر، ارشاد الساری شرح صحیح البخاری جلد 7 صفحہ 195 ، سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 106 ، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 185 ، الاصابہ جزء 6 صفحہ 106 ، الاستیعاب جلد 4 صفحہ 39 944 کنز العمال جلد 4 صفحہ 509 حدیث 11505، الاستیعاب جلد 4 صفحہ 39-40، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 6 945 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 410 (خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 386 تا 387) اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 187 ، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 437-438، الاصابہ جلد 6 صفحه 107-108، سیر الصحابه 946 جلد سوم صفحہ 497 947 خطبہ جمعہ 8 فروری 2019ء حضرت ثعلبہ بن غنمیہ کے تذکرہ میں 948 ماخوذ از اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 195 949 ماخوذاز السيرة النبوية لابن کثیر جلد 3 صفحہ 95-96 950 الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 265، فرہنگ سیرت صفحہ 109 951 ماخوذ از صحیح بخاری حدیث 4418 صحیح مسلم حدیث 2465 952 953 صحیح بخاری حدیث 3806 954 ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 427-428 957 958 955 سنن ابن ماجہ حدیث 154 956 مسند جلد 3 صفحہ 502 حدیث 9421 مسند احمد جلد 7 صفحہ 380 حدیث 22470 مسند احمد جلد 7 صفحہ 374 حدیث 22450 959 مسند احمد جلد 7 صفحہ 385 حدیث 22481 960 صحیح بخاری حدیث 711 صحیح مسلم حدیث 465 962 صحیح البخاری حدیث 705 961

Page 570

اصحاب بدر جلد 5 963 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 12 صفحہ 151 964 صحیح مسلم حدیث 30 965 سنن ابن ماجہ حدیث 3973 966 الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 265 967 الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 267 968 الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 267 969 الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 265 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 188 970 971 صحیح بخاری حدیث 128 972 ماخوذ از صحیح البخاری متر جم جلد 1 صفحہ 212،211 973 صحیح مسلم کتاب حدیث 706 974 ابن ہشام صفحہ 821-822 975 شرح الزرقانی علی المؤطا جزء 1 صفحہ 436 الله سة 554 1976 اٹلس سیرت نبوی صلی علیم ، صفحہ 431 (خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 2020 ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 538 تا550) 977 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 502 ، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ ، الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 440،441 978 ماخوذ از مسند احمد جلد 7 صفحہ 359 حدیث 22402 979 صحیح البخاری حدیث 4347 الاستیعاب جلد 3 صفحہ 460 980 981 مسند احمد جلد 7 صفحہ 48 3 حدیث 22363، لغات الحدیث جلد 3 صفحہ 142 982 983 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 439 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ ، الاستیعاب جلد 3 صفحہ 1404 984 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 441 985 ماخوذ از الاستیعاب جلد 3 صفحہ 461 مسند احمد جلد 7 صفحہ 347 حدیث 22357 986 987 مسند احمد جلد 7 صفحہ 375 حدیث 22456 988 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 439 989 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 502 990 الطبقات الکبری جزء 3 صفحہ 438-439 991 مسند احمد جلد 7 صفحہ 366 992 کنز العمال جلد 15 صفحہ 903حدیث 43555 993 المستدرک جلد 3 صفحہ 252 حدیث 5005 994 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 505 995 مجمع الزوائد جلد 3 صفحہ 234 مسند احمد جلد 1 صفحہ 109 حدیث 108 ، ، معجم البلدان جلد 3 صفحہ 239 996

Page 571

اصحاب بدر جلد 5 997 555 9 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 508، فیروز اللغات صفحہ 1332 مسند احمد مسند معاذ بن جبل جلد 7 صفحہ 353-354 حدیث 22380 حلیۃ الاولیاء جلد اول حصہ اول صفحہ 204 مترجم 998 999 1000 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 510-511 1001 الاستیعاب جلد 3 صفحہ ، معجم البلدان 4 صفحہ 177-178 1002 1003 1004 1005 1006 1007 مسند احمد جلد 7 صفحہ 355 حدیث 22383 مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 361 حدیث 22410 ماخوذ از اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 189 مسند احمد جلد 7 صفحہ 371 حدیث 22439 تاریخ الطبری جزء 4 صفحہ 238 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 190 1008 1009 1010 1011 1012 سیر الصحابه جلد سوم، حصہ پنجم صفحه 156 (خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 2020 خطبات مسرور جلد صفحہ 565554) مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 371 حدیث 22439 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 587 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 190-191 ، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 374 خطبہ جمعہ 05 اپریل 2019ء 1013 صحیح بخاری حدیث 3141 1014 صحیح بخاری حدیث 3962 1015 ماخوذ از صحیح البخاری مترجم اردو جلد 5 صفحہ 491 حاشیہ 1016 1017 عمدة القاری جلد 15 صفحہ 100-101 سیرت خاتم النبیین صفحه 362 1018 تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 361 1019 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 192 1020 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 373-374 1021 1022 1023 1024 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 191 ، الاستیعاب جزء3 صفحہ 1409-1410 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 اپریل 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 173 تا 178 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 196 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 147 1025 تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 113 ، 115 ، سیرت ابن ہشام صفحہ 486 (خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 576) 1026 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 426-427، سیرت ابن کثیر صفحہ 197 1027 1028 پیرت ابن ہشام صفحہ 207-208 حیح البخاری حدیث 3141 1029 صحیح البخاری حدیث 3962

Page 572

اصحاب بدر جلد 5 1030 صحیح بخاری جلد 5 صفحہ 491 حاشیہ اردو ترجمہ 1031 1032 1033 1034 عمدة القاری جلد 17 صفحہ 120 556 عمدة القاری جلد 17 صفحہ 121-122 حدیث 3962 شرح الزرقانی جلد 2 صفحہ 297-298 الاصابہ جلد 6 صفحہ 114 1035 المستدرک جلد 4 صفحہ 140-141 حدیث 5895-5897 1036 1037 خطبہ جمعہ فرمودہ 5 اپریل 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 183 تا 187 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 211-212، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 411،408 (خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 48) 1038 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 240 1039 سیرت خاتم النبین صفحہ 513-514( خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 253 تا254) 1040 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 141 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 488) اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 432 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 488) 1041 1042 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 226، سیر اعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 144 1043 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 302 1044 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 307 ، البدایۃ والنھایۃ جلد 7 صفحہ 139 (خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 390 تا391) 1045 سیرت ابن ہشام صفحہ 29 1046 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 244-245 1047 صحیح البخاری حدیث 4021 1048 صحیح بخاری حدیث 6830 1049 1050 1051 ماخوذ از خلافت را شدہ صفحہ 39 تا 42، انوار العلوم جلد 15 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 244-245 الاصابہ جلد 6 صفحہ 151 1052 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 244 1053 1054 1055 1056 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اگست 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 443 تا450 اسد الغابہ جزء 5 صفحہ 231 ، الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 374 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 374 د الغابہ جزء 5 صفحہ 231 1057 المغازی جزء 1 صفحہ 38 1058 خطبہ جمعہ 17 اپریل 2020 ء 1059 صحیح بخاری حدیث 3962 39621059 1000 ماخوذ از صحیح بخاری حدیث 3141 جلد 5 صفحہ 491 حاشیہ 1061 ماخوذ از خطبات محمود جلد 1 صفحہ 11

Page 573

اصحاب بدر جلد 5 557 1062 الاستیعاب جزء 4 صفحه 1442 (خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اکتوبر 2020ء خطبات مسرور جلد 18 صفحہ 523 تا 524) 1063 سیرت ابن ہشام صفحہ 470 1064 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 426-427 1065 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 195-196 (خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 619 تا 620) 1066 سنن الترمذی حدیث 2393، سیرت ابن ہشام صفحہ 151 * 1067 شرح الزرقانی جلد 5 صفحہ 213، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 311، سیرت ابن ہشام صفحہ 151 ،الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 85، الاصابہ جلد 6 صفحہ 160 1068 الطبقات الكبرى جزء 8 صفحہ 38 1069 لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 648 صاع و جلد 4 صفحہ 487 وسق 1070 الاصابہ جلد 6 صفحہ 207 1071 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 87 1072 1073 1074 1076 1077 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 243 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 242 سیرت خاتم النبیین صفحہ 328-329 1075 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 86 صحیح مسلم حدیث 2055 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 86 1078 صحیح بخاری حدیث 3952 1079 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 354-355 1080 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 86، دلائل النبوۃ جلد 3 صفحہ 39، سیرت ابن ہشام صفحہ 452 1081 1082 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 353، شرح الزرقانی جلد 2 صفحہ 260، سیرة الحلبية جلد 2 صفحہ 205 حیح بخاری باب 12 حدیث 4019 1083 شرح الزرقانی جلد 2 صفحہ 166 تا 169 ، سیرت ابن ہشام جزء 3 صفحہ 175 174، الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 63 1084 صحیح مسلم حدیث 2494 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 86 1085 1086 تاریخ الطبری جلد 4 صفحہ 59 1087 1088 1089 1090 1091 1092 الاصابہ جلد 6 صفحہ 207-208 تاریخ الطبری جلد 4 صفحہ 185 استیعاب جلد 4 صفحہ 43 الصحابہ جلد 2 صفحہ 286 الكبير جلد 20 صفحہ 252-253 احکام القران جلد 2 صفحہ 444 ، الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 87 1093 ماخوذ از دروس حضرت مصلح موعود غیر مطبوعہ ، رجسٹر نمبر 36 صفحہ 1006 1094 الاصابہ جلد 6 صفحہ 161

Page 574

اصحاب بدر جلد 5 1095 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 87 1096 سنن ابن ماجہ حدیث 149 1097 سنن الترمذی حدیث 3785 1098 سنن ابن ماجہ حدیث 4128 1099 الاصابہ جلد 6 صفحہ 160 1100 سنن ابن ماجہ کتاب حدیث 2508 مسند احمد جلد 7 صفحہ 890 حدیث نمبر 11 243 1101 1102 الاستيعاب جلد 4 صفحہ 44 1103 1104 558 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 نومبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 603 تا616 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 251 1105 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 416 1106 الاحاد والمثانی جلد 3 صفحہ 403 حدیث 1824 1107 الأسمال في رفع الارتیاب جلد 7 صفحہ 222 ( خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جولائی 2018 ، خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 306 تا 307) 1108 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 258 1109 سیرت خاتم النبيين صفحه 232 1110 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 517 تا 519 1111 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 258، طبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 40 1112 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 259،258 1113 صحیح البخاری حدیث 6191 ، فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد 7 صفحہ 452 1114 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 45 تا48 1115 الاصابہ جلد 6 صفحہ 172 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 367 (خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 564) 1116 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 248 1117 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 55 1118 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 248 1119 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 518-519 1120 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جولائی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 347 تا348 1121 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 299-300 ، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 268، کنز العمال جلد 10 صفحہ 408-409 حدیث 29985 1122 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 562 1123 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 230 ، الاستیعاب جلد 1 صفحہ 267 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 487) 1124 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 346، سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 405 1125 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 299 1126 تاریخ الطبری جلد 4 صفحہ 111، فرهنگ سیرت صفحہ 229 ( خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 373) 1127 سیرت ابن ہشام صفحہ 471، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 293، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 315(خطبه جمعه فرموده 19 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 376)

Page 575

اصحاب بدر جلد 5 559 1128 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 394، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 316 1129 سیرت ابن ہشام صفحہ 545 1130 مع معجم الاوسط جلد 5 صفحہ 329-330 حدیث 7499 131 اکتاب المغازی جلد 1 صفحہ 251-252 1132 ماخوذ از خطبات محمود جلد 20 صفحہ 542-543 1133 قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ.انوار العلوم جلد نمبر 25 صفحہ 439-440 ماخوذ از خطبات محمود جلد 23 صفحہ 46-47 1134 1135 خطبه جمعه فرمودہ 19 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 376 تا 379 1136 سیرت ابن ہشام صفحہ 467 466 ، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 318، الاصابہ جلد 5 صفحہ 510 (خطبہ جمعہ فرموده 19 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 373 تا374) 1137 صحیح البخاری حدیث 2827، عمدة القاری جلد 14 صفحہ 182-183 1138 1139 معرفۃ الصحابۃ جلد 4 صفحہ 317 خطبہ جمعہ 30 اگست 2019ء حضرت عبادہ بن صامت کے تذکرہ میں 1140 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 414، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 158-159 ، سیرت ابن ہشام صفحہ 468، عمدۃ القاری جلد 14 صفحہ 182 1141 1142 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 322 معرفۃ الصحابة جلد 4 صفحہ 317 1143 صحیح بخاری حدیث 2827، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 223 1144 1145 مسند احمد بن حنبل جلد 23 صفحہ 78 11 معرفۃ الصحابۃ جلد 4 صفحہ 317(خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 496تا498) 1146 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 257، الکامل فی التاریخ جلد 3 صفحہ 405 1147 خطبه جمعه بیان فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2019ء 1148 سنن ابن ماجہ حدیث 3719، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 348، فرہنگ سیرت صفحہ 58 1149 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 354 1150 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 332، الفكاهة والمزاح صفحہ 24-25 1151 ماخوذ از الفكاهة والمزاح صفحہ 27 1152 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ستمبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحه 477 تا480 1153 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 346-347، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 415 (خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جولائی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 307) 1154 أسد الغابہ جلد 5 صفحہ 380-381، معرفۃ الصحابہ جلد 4 صفحہ 383 حدیث 2995 1155 الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 285,282 1156 اُسد الغابہ جلد 5 صفحہ 381 1157 الاصابه جزء 6 صفحہ 428، أسد الغابہ جلد 5 صفحہ 381، صحیح البخاری کتاب المغازی باب تسمية من سمى من اهل بدر 1158 أسد الغابہ جلد 5 صفحہ 381

Page 576

اصحاب بدر جلد 5 1159 صحیح بخاری حدیث 4418، فرہنگ سیرت صفحہ 153 1160 الاصابہ جزء6 صفحہ 428 1161 معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 17 1162 شرح علامہ زرقانی جلد 4 صفحہ 66 560 1163 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 802 ،ماخوذ از صحیح بخاری حدیث 4913 1164 شرح علامہ زرقانی جلد 4 صفحہ 67-68، لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 174 1165 سنن الترمذی حدیث 3675 1166 ملفوظات جلد اوّل صفحہ 498 1167 شرح علامہ زرقانی جلد 4 صفحہ 69 1168 سنن الترمذی حدیث 3700-3701، شرح علامہ زرقانی جلد 4 صفحہ 68-69 1169 أسد الغابہ جلد 6 صفحہ 215، لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 648 صاع و جلد 4 صفحہ 487 و سق 1170 خطبه جمعه فرمودہ 6 دسمبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 630 تا641 1171 1172 سیرت ابن ہشام صفحہ 597، سیرت حلبیہ جلد 3 صفحہ 186 ، طبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 390، فرہنگ سیرت صفحہ 84 مسند احمد جلد 4 صفحہ 263 حدیث 12032 و جلد 5 صفحہ 132 حدیث 1 1473 1173 صحیح مسلم حدیث 1392 1174 معجم البلدان جزء 2 صفحہ 100 ،ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 403-404، ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 267 1175 مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 414 حدیث 15865 1176 ماخوذ از حیح البخاری حدیث 4418 1177 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 دسمبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 643 تا646 1178 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 298، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 403 1179 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 170 1180 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 298 1181 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 129 1182 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 298 1183 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 299 1184 1185 1186 1188 1189 1190 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 403 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 404 خطبہ جمعہ 11 مئی 2018ء 1187 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 299(خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 371 تا 373) الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 377، الاصابہ جلد 2 صفحہ 392 (خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جولائی 2018، خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 307) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 287(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 01 مارچ 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 113) سیرت ابن ہشام صفحہ 469 ، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 412-413، الاصابہ جلد 6 صفحہ 471(خطبہ جمعہ فرموده 12 اپریل 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 194) 1191 الاصابہ جلد 6 صفحہ 489 (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 490)

Page 577

اصحاب بدر جلد 5 1192 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 217 561 1193 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 285، سيرة الحلبیہ جلد 3 صفحہ 130 1194 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 217 1195 الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 314، سیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 96 صحیح بخاری حدیث 4261، مسند احمد جلد 7 صفحہ 505 حدیث 22918 1196 1197 ماخوذ از انوار العلوم جلد 18 صفحہ 405-406 1198 صحیح البخاری کتاب الجنائز باب الرجل ینعی الی اھل الميت بنفسہ حدیث 1246 1199 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 221 تا 223 1200 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 137 و جلد 4 صفحه 677 1201 1202 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 254 الاستیعاب جلد 4 صفحہ 132 ، کتاب الثقات جلد 1 صفحہ 468 1203 سنن النسائی حدیث 1920 1204 مصنف لابن ابی شیبہ مترجم جلد 3 صفحہ 732 حدیث 12030 1205 سنن النسائی حدیث 2022 سنن ابن ماجہ حدیث 1528 1206 1207 صحیح البخاری حدیث 458 و حدیث 460 1208 انجاز الحاجة شرح سنن ابن ماجہ جلد 4 صفحہ 332 کتاب الجنائز باب ما جاء فى الصلاة على القبر حدیث 1527 (خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 617 تا619) 1209 سیرت ابن ہشام صفحہ 467 ، الطبقات الکبریٰ جز 3 صفحہ 275، الانساب جلد 10 صفحہ 545 1210 الطبقات الکبریٰ جز 3 صفحہ 124 و صفحه 275 ، الاصابہ جزء 6 صفحہ 511، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 448-449، سیرت ابن ہشام صفحہ 461، الروض الانف جلد 5 صفحہ 299 1211 1212 الاصابہ جزء 6 صفحہ 511(خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 394 تا 395) سیرت ابن ہشام صفحہ 460 1213 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 452 1215 1216 الطبقات الکبری جزء 3 صفحہ 50 ، سیرت ابن ہشام صفحہ 480 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 475 الطبقات الكبرى جزء 4 صفحہ 370 1217 الطبقات الکبریٰ جزء8 صفحہ 371 1218 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 50 1219 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 218 تا 223 ماخوذ از تاریخ طبری جلد 3 صفحه 300-310 ، ماخوذ از تاریخ ابن خلدون جلد 3 حصہ 1 صفحہ 231(خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 2019ء خطبات مسرور جلد 17 صفحه 490 تا494) 1220 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 432، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 473 (خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جولائی 2018ء خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 307)

Page 578

Page 579

اصحاب بدر جلد 5 آیات قرآنید.احادیث نبویة.مضامین.اسماء........مقامات کتابیات ببلیوگرافی انڈیکس انڈیکس 3.....5......7.…............13.……...........31.............35..............36.................

Page 580

Page 581

اصحاب بدر جلد 5 3 البقره آیات يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا (52) وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتُب (110) 150 إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ (119) 55 وَلِلهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ (116) إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ (157) 409.408.390-143.111 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ (208) 9 الأنعام وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ (53) الانفال آیات 86 223 482.473 يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ (218) 115،106 ،245 يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ (2) اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (256) آل عمران وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ (145) وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا (170) 222 التوبه لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا (40) 406 انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا (40) 346 62 472 204 وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلَا تَفْتِي (49) 506 وَلَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتب (150187 يَحْذَرُ الْمُنْفِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُوْرَةٌ (6664) النساء فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ (42) 211 الَّذِينَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَوَعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (79) 193 وَمَنْ يُطِعِ الله وَالرَّسُولَ (70) وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ (76) 240 وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُمْ (84) إنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّي (106) انَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا (107) 507 506 162 328 وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا صِرَارًا وَ كُفْرًا (45107 328 فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا ( 108 ) 322 وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَختَانُونَ (108) 328111 وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلَّفُوا (118) وَمَن يَكْسِبُ اثْمَا فَانّما يَكْسِبُهُ (113،112) 328 وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ (115،114) 329 وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُوْلَ (117،116) لَيْسَ بِأَمَانِيَّكُمْ (124) المائدة یونس 329 رَبَّنَا اطْمِسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ (89) 222 حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ (91) یوسف 503.495.380 223 446 كُونُوا قَوَّامِينَ لِلهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ (9) 369 فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ (19) 393،160 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ (11) 372 ابراہیم وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى (19) 279 | فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي (37) 223

Page 582

اصحاب بدر جلد 5 الحجر 4 الزمر آیات وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ (48) 34 قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا (54) النحل إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (91) 254 ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى (9) تم ان ربك لِلَّذِينَ هَاجَرُوا (111) مریم وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ( 72 ) الانبياء اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمُ (2) لا يَسْمَعُونَ حَسِيْسَهَا (103) امج 9 124 52 النجم الرحمن الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ (1-3) المتحف 222 204 208 لا يَنكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْ كُمْ (9) 86 المنافقون 125 لَبِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ (9) 155 نوح هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبَّهِمْ (20) 231 رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارً ا (27) فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ (31) النور 369 الاعلى إِنَّ الَّذِينَ جَاءَ وَبِالْإِفْكِ (12) 160، 391 - سَبِّحِ اسْمَ رَبَّكَ الْأَغلى (2) 223 418.417 ولا ياتل اولو الفضل منكم والسعة (23) 384 الفجر وليعفوا وليصفحوا الاتحبون (23) فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِة (64) 101 384 وَالْفَجْرِ (2) الشمس الفرقان وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا (2) وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا (75) الليل 475 وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى (2) 418 418.417 الشعراء والشُّعَرَاهُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوَنَ (225) 122 إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ (228) 122 وَالضُّحى (2) السجدة تتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (17) فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ (18) الضحى الزلزال 418.417 418 419 فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (8-9) 222 419 الاحزاب ادعوهم لابائهم (6) مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا (24) 462 407

Page 583

اصحاب بدر جلد 5 5 احادیث اللَّهُمَّ حَيْبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَة كَمَا حَبَّبْتَ..66 | انی بعثت لكم خیر اهلی تَسَخَرُوا وَلَوْا بِالْمَاء الحمّى حظ كُلّ مؤمن من النار زادك الله حرصًا على طَوَاعِية الله اعلی و اجل اللهم اغفر لزيد نعم الرجل عبد الله 129 | الله الذي لا اله الا هو 125 | الحمد لله الذى اعز الاسلام واهله 121 100 126 121 الائمة من قريش احادیث بالمعنی احادیث 430 446 447 456 اسلام میں سبقت رکھنے والے چار ہیں، میں عرب میں سبقت رکھنے والا ہوں.صہیب روم میں ، سلمان اہل فارس صَلَّى رَسُولُ اللهِ عَلَى قَتْلِ أُحُدٍ بَعْدَ ثَماني سنين 202 میں اور بلال حبش میں سبقت رکھنے والا ہے خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ اذْهَب الباس رب الناس لَقَد أَعَانَكَ عَلَيْهِمْ مَلَكَ كَرِيمٌ 415،207 زمین ٹھیکے پر دینے سے منع فرمانا اور خود کاشت کا فرمانا 38 8 213 جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس مرتبہ 56 227 اے اللہ ہم سے ان (مشرکین) کے شر کو دور کر دے 78 التحق بسلفنا الصالح عثمان ابن مظعون 267,261 طاعون ، پیٹ کی بیماری، ڈوب کر ، دب کر اور اللہ کی راہ میں اللهم انی اسئلك صحة في ايمان 277 278 | شہید ہونے والے پانچوں شہید ہیں لقد ذهبتم فيها عريضة سبقك بها عكاشه ینار کونی بردًا وسلمًا على عمار صبرا ال ياسر فان موعد كم الجنة 92 278 جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق 96 281 نہیں اور محمد رسول ہیں اس پر آگ حرام کر دی ایک صحابی کا قرآن کے لفظ کو اور طرح پڑھا تو ا ان کے بارہ 287 289 میں یہ کہنا کہ یہ قرآن غلط پڑھتے ہیں 207 اللهُم بِعِلْمِكَ الْغَيْبِ وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ 300 بِسْمِ اللهِ ارْقِيكَ وَاللهُ يَشْفِيكَ مِن كُلِّ دَاءٍ يُؤْذِيكَ 301 آواز سنی کہ بیٹھ جاؤ تو وہیں بیٹھ گئے حضرت عبد اللہ بن مسعود آرہے تھے کہ آنحضور صلی ایم کی لا تَسُبُّوا أَصْحَابي الحرب خدعة سمى الحرب خدعة ان قتلت و احرقت لا حول ولا قوة الا بالله ان رسول الله يشهد انكم الشهداء اللهم اعنى على ذكرك وشكرك و ما انت بمحدث قوما حديثا 345 218 حضرت عتبان بن مالک کی بینائی چلی گئی تو آنحضور صلی ا یم سے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت چاہی، تو رسول اللہ صلی ا یم 366 نے اجازت نہیں دی 369 407 416 416 422 حضرت عمار کو باغی گروہ شہید کرے گا 234 299.298 حضرت عمرؓ نے فرمایا اے خباب اس مجلس کا آپ سے زیادہ حقدار کوئی نہیں سوائے عمار کے 299 حضرت عمار بن یاسر نے مختصر نماز پڑھائی اور لوگوں کو تعجب ہوا آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی الم کی نماز

Page 584

اصحاب بدر جلد 5 سے سر مو فرق نہیں کیا.احادیث 300 تین موقعوں کیلئے رسول اللہ صلی ا یکم کا ایسی باتوں کی اجازت سب سے زیادہ بد بخت قوم ثمود کا وہ آدمی جس نے اونٹنی کی دینا جو جھوٹ نہ ہوں مگر عام لوگ غلطی سے انہیں جھوٹ کونچیں کاٹی اور دوسر اوہ جو حضرت علی کے سر پہ وار کرے سمجھ سکتے ہوں گا ور دوسر اور 300.299 جنت حضرت علی، حضرت عمار، حضرت سلمان اور حضرت بلال رضی اللہ عنہم کی مشتاق ہے.301 رسول اللہ صلی ا لم نے فرمایا میرے بعد ابو بکر اور عمر کی اقتدا کرنا عمار کے طریق کو اپنانا اور ابن مسعود کے بیان کی تصدیق کرنا عمار کو باغی گروہ شہید کرنے گا 301 302 آپ صلی الم نے حضرت عمار کو تیم کاطریق سکھایا 307 حضرت عمار نے آنحضرت صلی اہل علم کو داڑھی میں خلال کرتے ہوئے دیکھا اور پھر وہی طریق اپنایا 307 حضرت عبد اللہ بن سہل کو سانپ نے کاٹا اور آنحضرت کے کہنے پر حضرت عمارہ نے دم کیا تو اللہ نے شفادے دی 308 حضرت قتادہ کی آنکھ میں تیر لگا اور ڈیلا باہر آگیا اور آنحضور نے واپس رکھا اور وہ صحیح جگہ پر قائم ہو گیا اور بینائی بھی لوٹ آئی.326-325 جمعے کے روز ایک گھڑی ایسی بھی ہے جس میں کوئی نماز پڑھ رہا ہوں اور وہ اللہ سے خیر طلب کرے تو اللہ اسے وہ چیز ضرور عطا کرتا ہے 334-333-332-331-330 رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ یہ یتیم بچی ہے اس کی شادی اس کی مرضی سے کر دو 335 شاملین بدر کے متعلق رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ گنتی کر کے بتاؤ عرض کیا گیا کہ 313 ہیں آپ خوش ہوئے اور فرمایا کہ طالوت کے ساتھیوں کی تعداد بھی اتنی ہی تھی 339 حضرت مالک بن و خشم کے متعلق بعض لوگوں نے کہا کہ وہ منافق ہیں تو آنحضرت صلی الم نے فرمایا ایسا مت کہو کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے 344 367

Page 585

اصحاب بدر جلد 5 7 مضامین مضامین اخوت اخوت و ایثار کا قابل رشک جذبہ اذان اذان کی ابتدا الفاظ خواب میں بتائے گئے ازواج النبي صلى اليوم 170 190 بحری جنگ حضرت عثمان کے دور خلافت میں بدظنی 95 فہمی کی بناء پر صحابہ پر بد ظنی نہیں کرنی چاہیئے 345 برکت آنحضرت کا ایک ماہ کے لئے ازواج سے الگ ہونا 233 آنحضور کے متبرک پانی کی برکت اسلام 423 آنحضرت کی برکت سے کھجوروں میں برکت 205 اسلام جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا اسلام کی طرف سے سب سے پہلا تیر چلانے والے 383 بغاوت اصحاب صفہ اصلاح ایک صحابیہ کا نیک جذبات کا اظہار اور حضور صلی الم کی بنو نضیر اصلاح اطاعت 227 86 369 متبرک پانی اور دعاسے اونٹ تیز رفتار ہو گیا 249 بنو قینقاع کی بغاوت اور جلا وطنی حضرت عثمان کے زمانہ میں برپا ہونے والی شورش 304 269 بنو نضیر کو جلاوطن کرنے کا فیصلہ بھوک 94 بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا 120 بیت المال کے اموال سے تجارت اطاعت کا اعلیٰ معیار جس کو مد نظر رکھنا چاہیئے اطاعت کا ایک خاص نکتہ...ہر احمدی کو یا د رکھنا چاہیئے 221 بیت المال صحابی کا بیٹھ جانے کی آواز سن کر وہیں بیٹھ جانا خلافت کی اطاعت کا نتیجہ کہ ساری دنیا پر چھاگئے 221 بیعت رضوان اعتراض بیعت عقبہ اولی حرمت والا مہینہ اور جنگ اعتراض اور جواب 243 بیعت عقبہ ثانیہ حرمت والے مہینہ میں لڑائی پر آنحضرت کا ناراض ہونا اور بیعت اعتراض کا جواب امت......372 54.313 427 291 274 196 114 کیا حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ نے حضرت علی کی بیعت کی تھی؟ امت میں پید اہونے والے فتنے اور اس کا سد باب 265 بئر معونہ انفاق فی سبیل اللہ تجارت خدا کی راہ میں سات لاکھ ایک رات میں خرچ کرنا 24 بیت المال کے اموال سے تجارت خدا کی راہ میں مالی قربانی اور آپ کا ان کو فیاض کا لقب 19 تعویذ گنڈے ایم ٹی اے ایم ٹی اے کی اہمیت و افادیت 302 تعویذ گنڈے اور ایک صحابی کا سخت رد عمل توحید بچے adopt کرنے والوں کے لئے رہنما اصول 50 توحید ایک بنیادی سبق 28 477.66 427 213 487

Page 586

جہاد بالسیف 76 آنحضرت پر قتل و غارت کا الزام اور جواب مضامین 345 اسلام کی طرف سے سب سے پہلا تیر چلانے والے 383 آنحضرت کی جنگوں کا دفاع اور ایک غیر مسلم مصنف 39 اصحاب بدر جلد 5 تیر تیروں کے زخم اور نماز میں محویت سے سب سے پہ جلا وطن بنو قینقاع کی بغاوت اور جلاوطنی بنو نضیر کو جلاوطن کرنے کا فیصلہ جمعۃ المبارک جھنڈا / پرچم 86 جنگ احد میں جھنڈے کی حفاظت کا حق ادا کرنا 406 372 جھوٹ کیا جنگ میں جھوٹ بولنا جائز ہے جمعہ کا خطبہ شروع ہو جائے تو دو سنتیں پڑھ لے 490 اسلام جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا جمعہ کے دن قبولیت دعا کی ایک گھڑی جنازه 330 چنده 366 369 خدا کی راہ میں سات لاکھ ایک رات میں خرچ کرنا 24 آنحضرت کا فرمانا کہ مجھے اپنے جنازوں کے لئے بلایا کر و 54 خدا کی راہ میں مالی قربانی اور آپ کا ان کو فیاض کا لقب 19 آنحضرت کا حضرت عثمان بن مظعون کی نعش کو بوسہ دینا، چوری کا ایک واقعہ...زائد تکبیرات اور قبر کے سرہانے پر پتھر رکھنا 267 حدیث 326 جنت البقيع 266 ایک حدیث اور اس کی غلط تشریح 368 جنگ / غزوه حرمت والا مہینہ اور جنگ...اعتراض اور جواب 243 جنگ بدر مبارزت کی تفصیل 231 حرمت والے مہینہ میں لڑائی پر آنحضرت کا ناراض ہونا اور جنگ بدر میں کتنے گھوڑے 468 اعتراض کا جواب 114 جنگ احد 150 خط جنگ احد کے شہداء کا جنازہ 293 200 حاطب بن بلتعہ کا خفیہ خط جنگ احد میں جھنڈے کی حفاظت کا حق ادا کرنا 406 خلافت آنحضرت سے والہانہ محبت اور جنگ احد میں آپ کی حضرت عمر کا خلافت کمیٹی تشکیل دینا حفاظت کرنے والے صحابی جنگ احد زخموں سمیت کفن جنگ احد مسلمانوں پر سختی جنگ حمراء الاسد واقعہ رجیع واقعہ رجیع اور حضرت عاصم 2 199 101 184.26 27.185 خلافت عثمان کے انتخاب کی تفصیل خلافت راشدہ کی ابتداء اور خلافت ابو بکر حضرت عمرؓ کا خطاب 132 انتخاب خلافت عثمان کی تفصیل 448،136 | خلیفہ وقت کی اطاعت....ایک خواب 451 27 215 40 اطاعت خلافت کا ایک خاص نمونہ وہ روح تھی کہ جنگ تبوک اور اس سے پیچھے رہ جانے والے 507،495 پھر ساری دنیا پر چھاگئے جنگ موتہ اسباب اور تفصیل جنگ یمامہ 514 حضرت عثمان کے عہد خلافت میں شورش 221 304 519 حضرت عمر کا اس بات کا جواب دینا کہ حضرت ابو بکر 453 جنگ جمل اور بعض وضاحت طلب امور 26 کو خلافت یو نہی مل گئی کیا جنگ میں جھوٹ یا دھو کہ دینا جائز ہے؟ 366 حضرت عثمان کے دور خلافت میں جو فساد ہوئے وہ لوگوں حضرت عثمان کے دور خلافت میں بحری جنگ 95 کی عدم تربیت اور مرکز میں نہ آنے کی وجہ سے تھے 301

Page 587

اصحاب بدر جلد 5 9 مضامین خلافت سے تعلق کی اہمیت وضرورت اور اس کا طریق 302 دو صحابہ جن کو رات کے اندھیرے میں معجزانہ روشنی دی خواب گئی خواب میں آکر کہنا کہ میری قبر دوسری جگہ ہٹا دو 25 زہد و عبادت، عثمان بن مظعون کا نبی صلی الم کا خواب گائے ذبح ہونا الله 150 سازش ابو عامر منافق کا خواب اور نبی صلی علیم کی تعبیر کہ یہ اس آنحضرت کو قتل کرنے کی سازش پر الٹ کر پڑے گی اور اس کا انجام ایسا ہو گا 47 سبق حضرت عثمان کے عہد خلافت میں ایک صحابی کو خواب آنا آج کل کے مردوں اور عورتوں کے لئے سبق 75 262 371.72 111 کہ اٹھو اور اس فتنہ سے نجات کی دعا مانگو ایک صحابی کا خواب کہ آسمان کھولا گیا ہے...خواب میں اذان کے الفاظ بتا یا جانا...ابن مسعودؓ کی بابت ایک خواب 51 77 190 215 سفر سنت تھی کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو مسجد میں دور کعت 509 سنت حضرت ام علاء کا ایک خواب حضرت عثمان بن مظعون کی سنت تھی کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو مسجد میں بابت 270 دور کعت صحابہ کے باہمی اختلافات اور ایک خواب 303 سنت رسول پر عمل کرنے کا شوق و جذبہ سنت کے مطابق صرف جمعرات کو وعظ دانت سونے کے دانت لگوانے کا ارشاد / ناک دار ار قم آنحضرت پر سلامتی کی دعا کا اجر درود 147 510.105 56 سونے کے دانت سونے کے دانت لگوانے کا ارشاد / ناک شراب 509 212 223 147 جاہلیت میں شراب کو اپنے اوپر حرام کرنے والے 170 شهید 23 دعا جمعہ کے دن قبولیت دعا کی ایک گھڑی 330 جو کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو وم شورش فرمانا کہ فلاں صحابی کے پاس جاؤ وہ دم کریں 308 حضرت عثمان کے زمانہ میں برپا ہونے والی شورش 304 تعویذ گنڈے اور ایک صحابی کا سخت رد عمل 213 شوری دودھ حضرت عمر کی قائم کر دہ شوری کمیٹی آنحضور صلی ال ولیم کے حصہ کا دودھ پی جانا اور 465،464 صحابی / صحابہ دوڑ دوڑ کا مقابلہ کروانا دھوکہ 17 آنحضرت کا حضرت عمار کی آنکھوں سے آنسو پونچھنا288 357 آنحضرت کی آنکھوں میں آنسو...حضرت عبد اللہ بن رواحہ...شہادت کیا جنگ میں جھوٹ یا دھو کہ دینا جائز ہے؟ 366 آنحضرت کے دفاع میں ہاتھ شل ہو گیا رحمت و شفقت رکھیں المنافقین سے رحمت للعالمین کا سلوک 160 روشنی 125 20 آنحضرت کا ایک صحابی کو فرمانا کہ قیامت والے دن میں تمہارے بارے میں شہادت دوں گا 410

Page 588

اصحاب بدر جلد 5 10 مضامین آنحضرت کا حضرت عثمان بن مظعون کی نعش کو بوسہ دینا، قرآن پڑھانے والے اساتذہ کی جماعت زائد تکبیرات اور قبر کے سرہانے پر پتھر رکھنا 267 عورت آنحضرت کا فرمانا کہ فلاں صحابی کے پاس جاؤ وہ دم کریں عورت کی آزادی رائے رشتہ کی پسند صحابہ کی ابتدائی حالت کسمپرسی کی اور پھر...415 335 308 محبت کرنے والے خاوند اور بچوں کی فکر کرنے والی مائیں 248 بنیں 111 صحابہ کے باہم اختلافات اور خلیفہ وقت کی اصولی رہنمائی میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس مقدس عورت کے دامن کو 302 چھوؤں اور اپنے ہاتھ آنکھوں سے لگاؤں صحابی کا بیٹھ جانے کی آواز سن کر وہیں بیٹھ جانا 120 485 آنحضور سے محبت میں رنگین ایک بہادر عورت 198 ایک صحابی کی برائی کرنے والے کا عبرتناک انجام 24 مسجد میں جھاڑو دینے والی ایک سیاہ فام خاتون کی قبر پر ایک صحابی کی چھ خوبیاں تعویذ گنڈے اور ایک صحابی کا سخت رد عمل 116 213 تشریف لے جانا عیادت دو صحابہ جن کو رات کے اندھیرے میں معجزانہ روشنی دی آنحضرت کا عیادت کے لئے تشریف لے جانا گئی 75 آنحضرت کی عیادت اور شہیدوں کی اقسام نعمتوں کے زمانہ میں صحابہ اور نبی کریم صلی یم کی یاد میں فتاوی آنکھیں اشکبار 181 فتاوی دینے والے افتاء کمیٹی کے ممبر 207 517 121 91 420 وہ صحابہ جن سے قرآن پڑھنے کی تلقین کی وہ صحابی جن کے پیچھے آنحضرت نے نماز پڑھی 178 امت میں پید اہونے والے فتنے اور اس کا سد باب 265 غلط فہمی کی بناء پر صحابہ پر بد ظنی نہیں کرنی چاہیئے 345 قبر صداقت انبیاء صداقت انبیاء کی ایک بڑی دلیل طاعون طاعون عمو اس اور حضرت عمر فکا فیصلہ خواب میں آکر کہنا کہ میری قبر دوسری جگہ ہٹا دو 25 255 آنحضرت کا حضرت عثمان بن مظعون کی قبر کے سرہانے پر پتھر رکھنا 432 جہاد بالسیف طاعون حضرت مسیح موعود کے نشان کی صورت میں 92 آنحضرت پر قتل و غارت کا الزام اور جواب طاعون...تقدیر اور عائلی زندگی 182 267 345 آنحضرت کی جنگوں کا دفاع اور ایک غیر مسلم مصنف 39 قتل محبت کرنے والے خاوند اور بچوں کی فکر کرنے والی مائیں آنحضرت کو قتل کرنے کی سازش 111 قرآن کریم بنیں 371.72 عزم و ہمت زخموں کے باوجود مہم میں شمولیت علم 131 قرآن اور دین کا علم سیکھو اور مرکز سے ہمیشہ رابطہ رکھو قرآن پڑھانے کو ذریعہ آمد بنانا قرآن اور دین کا علم سیکھو اور مرکز سے ہمیشہ رابطہ رکھو قرآن پڑھانے والے اساتذہ کی جماعت 301 وہ صحابہ جن سے قرآن پڑھنے کی تلقین کی قرآن پڑھانے کو ذریعہ آمد بنانا 91 قیدی 301 91 415 207

Page 589

اصحاب بدر جلد 5 11 مضامین بیٹیوں کا واسطہ دینے والے جنگی قیدی کو چھوڑ دینا 39 39 مطالعہ کتب کعب بن اشرف کعب بن اشرف کا قتل اور اسباب کفار حضرت مسیح موعود کا ایک ہندو کی کتاب خرید کر پڑھنے کی 70 نصیحت مظلوم کفار کو دوست نہ رکھنے کا اصل مفہوم 86 مظلوم کی آہ سے بچنے کی نصیحت کلمه معجزه 289 426 ا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیا توپھر کسی کا حق نہیں کہ 344 دو صحابہ جن کو رات کے اندھیرے میں معجزانہ روشنی دی کلمہ پڑھنے والے کا مقام کھجور 469 وشنی دینے والی چھڑی 75 331 آنحضرت کی برکت سے کھجوروں میں برکت 205 لنگڑے صحابی.آنحضور کو اٹھانے کی برکت سے لنگڑاہٹ لاک ڈاؤن لاک ڈاؤن محبت رسول جاتی رہی 183 متبرک پانی اور دعا سے اونٹ تیز رفتار ہو گیا منافقین حضرت معاذ کا نبی صلی یکم کا ہاتھ پکڑ کر فرمانا میں آپ سے منافقین کا گڑھ محبت کرتا ہوں 416 منافقین کو مسجد نبوی سے نکال دینا آنحضور سے محبت میں رنگین ایک بہادر عورت 198 مہم رسول اللہ صلی علیم سے محبت 20 227 507 309 109 مہم پر جانے کی فضیلت نماز جمعہ سے بھی زیادہ 127 194 سونے کے دانت لگوانے کا ارشاد / ناک نبی صلی ایم کی وفات پر کہنا خدایا میری آنکھیں لے جا ناک مرکز نام رکھنا قرآن اور دین کا علم سیکھو اور مرکز سے ہمیشہ رابطہ رکھو اہل عرب کا اپنے بچوں کا نام ” محمد “ رکھنا مسجد قباء کی تعمیر 301 نبی / انبياء آنحضرت کی اتباع میں نبوت کا مقام 147 359 193 292 یہود کا ایک نبی کا انتظار لیکن یہی آجکل کے مسلمان علماء 309 کا حال منافقین کو مسجد نبوی سے نکال دینا مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں نمازیوں نصیحت کے ساتھ ہے مسجد میں جھاڑو دینے والی ایک سیاہ فام خاتون کی قبر پر نعمت تشریف لے جانا مسجد ضرار اور اس کو گرایا جانا ضرار 280 430 46 دس باتوں کی نصیحت 517 نعمتوں کے زمانہ میں صحابہ اور نبی کریم صلی ا لم کی یاد میں 44 345 آنکھیں اشکبار 181 نماز مشرکین سفر میں سفر میں سواری کا جدھر منہ ہو نماز پڑھنا 55 مشرکین کا حرمت والے مہینوں کی بابت اعتراض 106 وہ صحابی جن کے پیچھے آنحضرت نے نماز پڑھی 178

Page 590

اصحاب بدر جلد 5 تیروں کے زخم اور نماز میں محویت نماز با جماعت نابینائی کی وجہ سے نماز باجماعت کا اہتمام 12 76 234 یاد متبرک پانی اور دعا سے اونٹ تیز رفتار ہو گیا مضامین 227 نماز پڑھنے والوں کے قتل سے منع کیا گیا.آج کل کے یہود کا ایک نبی کا انتظار لیکن یہی آجکل کے مسلمان علماء مسلمانوں کے لئے ایک سبق لمبی نماز پڑھانے پر ناراضگی نماز جمعہ 347 کا حال......280 417 یہود کو ان کی شرارتوں کی بناء پر خیبر سے نکال دینا 411 مہم پر جانے کی فضیلت نماز جمعہ سے بھی زیادہ 127 نماز سنٹر گھروں میں نماز سنٹر بنانے کا ارشاد اور اہمیت واقعہ 234 ایک صحابی کا دلچسپ واقعہ اور واقعہ افک واقعہ افک اور واقعہ افک میں شامل ہونے والوں کو سزا وعظ سنت کے مطابق صرف جمعرات کو وعظ وفات وفات شدگان کی مجھے خبر دیا کرو 491 385.157 393 نبی صلی ایم کی وفات پر کہنا خدایا میری آنکھیں لے جا 223 516 آنحضرت کے انتظار میں فوت ہو جانے والے 52 194 و قار عمل اپنے ہاتھ سے کام کرنا، اہمیت ہجرت حبشہ ہجرت حبشہ ہجرت مدینہ ہجرت مدینہ اور سراقہ کا تعاقب 51 398.257 59 ہجرت مدینہ کے بعد آنحضرت کی مدافعانہ کارروائیاں ہجرت مدینہ کی تفصیل 239 57 ہجرت مدینہ کے وقت سارا مال لے لیا کہ یہ ہمارا ہے 9 ہجرت مدینہ اہل مدینہ کا والہانہ استقبال 61

Page 591

اسماء 189.188 13 اسماء 446،223 | ابن عوف اصحاب بدر جلد 5 ابراہیم ابراہیم (ابن رسول اللہ صلی فیلم) ابان بن سعید ابراہیم ( بن عبد الرحمن بن عوف) ابراہیم بن سعد ابن ابو بیچ ابن ابی قحافہ ، ابو بکر کی کنیت ابن ابي وہب ابن ابیرق 267-261 489 188 170 430 18 279 326 ابن عیینہ ابن قمه ابن کلبی ابن مسعود ابن منده 196.161 406 511 445-438-422-414-350-301-294 517.80 ابن ہشام 367،314،225،201،163،135،81،1، 517.495.489-484-468-444-438-380-368 ابن وضاح ابن اثیر، علامہ 441،360،314،238،13 | علامہ ابن عساکر ابن اسحاق 134،106،48،46، 140،139 ، ابو اسامه جسمی 163، 166، 169، 225، 231، 235 ، 241، 256، ابو اسحاق 279، 314 ، 324، 326، 343، 349، 351 ، 367 ، ابو اسود 512.491.476-464-459-438.381.368 ابواسید 383 | ابو البختری 399 | ابو القاسم مغربی 424 315.55 145 25 462 508.479 320-296 7 507-262-226-22 276.275.54 405.85.19 478.477 332 ابن الیاس ابن ام مکتوم ابن بریده ابن تین ابن جرير ابن حبان 473 ابوالہیثم بن تیان 439 ย ابوامامہ 107،24 | ابوایوب انصاری 337 ابو براء عامری علامہ ابن حجر عسقلانی 172 ، 202، 235 ، ابو بردہ بن ابو موسیٰ اشعری 508-460-445-438-382-359.314 ابو بکر بن محمد ابن سعد 484،426،368،238،157،122،120 | حضرت ابو بکر صدیق 298 11 10 8 134 100.99.68-6657-44-42-32-23-22-2016 186 180 179 170 166.160.151.148.144.135.255.237 236 235 223 222 217 216.211.206 490 60 +382-372.353.344.295-288-286-284-283-277 346-282-267-201.182.127.44<25.6<4 ابن سعید بن عاص ابن شہاب حضرت ابن عباس ابن عبد البر ابن عفراء ابن عماره ابن عمر 431،292،176،166 | ابوتراب +420 416 415 408 394 390.389 388 385.384 <458 457 456 455 453 452.451.429.428.421 523-520-519-515-512-510-505-504-492-491 299 424-314 439 169

Page 592

اصحاب بدر جلد 5 ابو جعفر 184 14 ابو طلحہ اسماء 185.184 ابو جہل 36، 76، 119، 171 تا 173 ، 210، 269 | ابو عامر راہب 463.460.459.4470444.440437.321.289.287 ابو حاتم ابو حارث ابو حبيبة بن از عر ابو حذیفہ بن عتبہ ابوعبد الرحمن السلمی 337 ابو عبد الرحمن یزید بن ثعلیہ 483.228.165 372.146 296 276 396-359-324-259-238-53.43 139 ابو عبد الله 46 ابو عبیدہ بن حارث 257،139،70 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح.182.100.42 ابو حذیفہ مخزومی حضرت ابو حذیفہ 521.520.431.414-286-258-257 ابو حمراء ابو حمیضہ ابوح ابو خالد حضرت ابو دجانہ حضرت ابو در دا ابور بیع، عباد بن بشر کی کنیت ابوروم بن عمیر 457.434 431.416-315-235.228.183 286 140 447 505 174 288 166،139،70 ، ابو عتبہ ابو عصیمہ 459 447 104 حضرت ابو عقیل ابو علی ابو عمار 43 518 ابو عمر ، عاصم بن عدی کی کنیت 242.77.42.39.19 ابو عمرو 293،128،121،85،80 | ابو عمیر بن انس انصاری 69 ابو عوف ابوزر ابوزید ย 406 407 | ابو عیاش 408، 473 | ابو غادِيه مُزَنِي 414 ابو غزوان ابو سائب 270،269،267،264،253 271 | ابو فائد حضرت ابو سعید خدری 462-332330-326-324-314.290 ابوسفیان 383-271-230-148 147.113.108.106 ابو سلمہ بن عبد الاسد 251،154،77، ابوفكيهه ابو قتادة 100،99،94،78،11، | ابو قلابه ابو کلاب ابو لہب 324-314-120-56.45.43.6 213.190 449 442 306.297 238 473 398،349،145،144،143،142،139 | ابولیلی مازنیہ حضرت ابو سلمہ بن عبد اللہ اسدی 290،143،141،140 | ابو مجلز ابوسنان ابو سہیل ابو شمر بن حجر کندی و صحی حضرت ابو طالب 287 500-499-357-356-355.169 145 339 140 165 300 284 34.25.15 228 471.462 511.443.314 117 ابو 133 ابو محمد ، حضرت طلحہ کی کنیت ابو معاویہ 462 303 288.232.140.8 ابو معبد ابو معشر

Page 593

اسماء 120 147.108.106 35 480.386 35 6 39 45 43 43 382.81 362.73 356 209 15 ابور واحد 513،426،232،5،4 | ابوسفیان بن حرب 312 ابو سلمہ بن عبد الرحمن 476،412،395،310،116 | ابوسیرہ بن ابی رهم اصحاب بدر جلد 5 ابو طیح ابو موسیٰ اشعری ابو نافع ابونعیم ابو نوفل بن ابی عقرب حضرت ابو ہریرہ 517-490-447-416-333-332-330-301 ابو واقد الليثى ابووائل 300 ابو عدی، طلیب بن عمیر کی کنیت 92، 121، 250، 251 ، ابو عزه عمر و بن عبد اللہ ابو عمر و فاسق 284 ابو عمرو، صفوان بن وھب کی کنیت 307،218،207 ابو عمرو، عاصم بن عدی کی کنیت ابولبابہ بن منذر ابومر ند غنوی ابونائلہ ابولیس 424 117 165.12 346 307،304 | ابی بن کعب 464-420-416-415-414-340-207-106-85.19 272.271 351 71 292 4 الى زغباء 349 298.25 225 ابی و جزه ابو ولید باجی ابو وهب ابو یکی ابو یسر مالک بن دحشم ابو يقظان ابو احمد بن جحش ابو اسحاق ابوالأحوص ابو البختری 351،320،296 352 | ابيه 43 اجدع ابو البداح، عاصم بن عدی کا ایک نام ابو العاص 97 | احمد، امام احمد بن حنبل ابو الهيقم بن تيمان 226،22، 507،262 | اخرم اسدی ابو امامہ اسعد بن زراره ابو اہاب بن عزیز دار می 337، 399 | ادام بنت قرط 358-356-355.353 14 36 ادی بن سعد بن علی ابو بشر ، عباد بن بشر کی کنیت ابو بکر بن محمد 69 308.298 اربد ار ده بنت حارث ابو بكرة 25 حضرت ارقم بن ابوار قم ابوبکیر، عاقل کے والد 50،49 | أروى بنت عبد المطلب ابو جندل ابو حذیفہ بن عتبہ 133 141 ازد 412 518 238 510.139.105 35 56 ย اسامہ بن زید 127،5،4 ، 392،387،304،152،149 ابودجانہ ย ابوذر عمار 86،81،78،43،40،19 | اسحاق بن سعد بن ابی وقاص 413 اسحاق بن عبد اللہ 109 184 ابورافع سلام بن ابو حقیق 382،381،379،365،364،71 اسعد بن زرارہ 19، 400،399،362،321،276 ابو رافع 377 اسلم ، عمر کے آزاد کردہ غلام 23

Page 594

اصحاب بدر جلد 5 اسماعیل اسماعیل بن عبید انصاری اسماعیل بن عبید اللہ اسمان 16 63،52 أم عبد بنت عبدود 92 ام عبد الله بنت نمیر 435 436 | ام عبد الله 352،58،14 | أُمِّ عَلاء اسماء بنت القين اسود بن یغوث أسيد بن ظهير أسيد بن حُضّير اسیر بن عروہ آشتر اشرف 14 | ام عمارہ 462 اتم عون 37 ام کلثوم بنت عقبہ ام من نجح سلمی بنت مصفر مسطح 447،327 | ام 416.4020400-388-156.152.78.75.70.42 292 ام یزید بنت قیس اصبغ بن عمر و کلبی اصحمہ 361،70 | امام ابن حجر 176 امام احمد 257،139 | امام بخاری اسماء 249 441 441.259 271 270-269.262 319 164 367 517 386.382 158 459 460.445.172 121 امرم اکوع أنتم ابو سلمہ اتم اسحاق بنت طلحہ ام ایمن ام بکر بنت مسور ام جمیل بنت قطبه ام حارث بنت سبره ائم حبیب بنت سعید ย حضرت ام حبیبہ ام حرام بنت ملحان ام حمید اتم رومان 488 امام راغب شعبی 176 356،79 | امام امام مالک 20 امامہ بنت محرث 4 186 امامہ بنت معاذ امامه 278، 336 | امتہ اللہ 441،339 اللہ بنت عبد اللہ 488.410-380-314-234-202 491،1 امة الرحمن صغر کی بنت عاصم 105 95.81 189 193 285.116.112 424 13 339 443.146 491 129 43 503.441 303-302-299.298.203.93.85.82 حضرت امیر معاویہ أمَيْمَه بنت النُّعْمَانِ 58 | امیمہ بنت حارث 341 امیمہ بنت عبد المطلب امیہ بن خلف 2، 138،110،77،75تا290،181،144، 291، 491 | امیہ بن ربیعہ بن صخر 95 | امیہ بن عامر 352 حضرت انس بن مالک ام سعد بنت قیس حضرت ام المؤمنین ام سلمہ ام سلیم ام سہل بنت ابی خارجہ ام سہم 359 227 129 105 175.174 341 494 201 198 184 <94 <82 515.485.480.478.439.421.415.340-251

Page 595

اصحاب بدر جلد 5 انسیس بن ابی مرثد الغنوی انیسہ بنت عدی انیسہ بنت هدم انیسه 17 اسماء 382 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی و مصلح 351 494 324 381.81 236.5.3 رض موعود <64.62.33.32.29.28 27.21.10.8.7 110 107 106.103 101.100.99 68.67.66.65 221 219 218-210-208 207 185-173 172.126 303 301 295 286 261259.258.256.255.254 415.404 403 394 393 392 391 334 333 304 515-513-486-485-472-460-457-456-454.418 227 50 بشیر بن محمد 354 بشیر بن سعد خزرجی 192 457.456 512،311 | حضرت بلال 8، 9، 11، 57،49، 78،65، 175،174،153، 482-474-473-356-288-287-283-282.192 191 190 129 517.509 310.18 519 امام بیہقی 289 313 پر کاش دیوجی 225 483،97 حضرت تمیم بن حرام 284.46 515 279 ثابت بن اقرم 46 ثابت بن ضحاک 521.519.416.38 488،446،445،314 ثابت بن قیس بن شماس اوس بن صامت اوس بن خولی انصاری أوس بن مالک ایاس بن بکیر ایاس بن سلمہ ایاس بن عمرو ایوب بن عبد الرحمن حضرت آمنہ بنت رقیش آمنہ بنت عبد اللہ بن عمیر بن اہیب بحاث بن ثعلبہ بحری بن عمرو بحرج بن عثمان بدرالدین مینی 118 443 ثابت بنت حارثہ ثبیتہ بنت عمرو 399.376.99.98 521.77 449 197،196 ثعلبہ بن حاطب انصاری 489.81 138 413 380.347 194.193 421 138 339 براء بن عازب حضرت براء بن مالک براء بن معرور برہ بنت عبد المطلب حضرت بشمس بن عمرو بسر بن سفیان بسرہ بنت زید حضرت بشر بن بر او بشر ، عمرو بن عدی کا ایک نام ثعلبہ بن دعد 271 272 | ثعلبہ بن غنمه 76 | ثقف بن عمرو 238 حضرت ثوبان 511 | ثور بن یزید 13 | ثویبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے جابر بن ابی صعصہ 40،36، 113،112،98،97،89،75،70،43، 128،119، حضرت جابر بن عبد اللہ 417.416.205198-196-195.161.82.23 191.154.150.147.143.142.139.138.136.132 202، 206، 229، 230، 239، 240، 241، 242، 243، 249 ، جابر بن عبد اللہ بن رئاب 257، 263، 268، 274، 281، 289، 360317، 364، 367 ، جاریہ بن عامر 390،375، 398، 399، 400، 402، 405، 406، 407، 439، جبار بن سلمی 480،477،468،464،448 | جبار بن صخر 337.275 46 66 464

Page 596

اسماء 262 307 394.391.330 283 14 382.229 483 108 334-233 18 اصحاب بدر جلد 5 حضرت جبرئیل 479،352،323،301،188،116 | حِزام بن وديعه جبير بن نفير جد بن قیس حضرت جعفر بن ابو طالب جمیلہ بنت ابو صعصعہ جمیلہ بنت ابی بن سلول 474،472 | حسان بن بلال 506،118،117 حضرت حسان بن ثابت حضرت حسین ر حُصَيْن 515،514،408،166،163،126،125،124 | حضرت جنادة بن ملیحہ جنادہ بن ابو امیہ جیفر حارث بن ابو شمر عنسانی 81 حضرت حصین بن حارث 346 حضرت نصر بن حارث 351 حضرمی 95،85 | حضرت حفصہ 340 حکم بن کیسان 116 503 | حمام بن جموح حارث بن اوس بن معاذ حارث بن خزمه 326 حارث بن رفاعه 459.446.436 حارث بن سوید 57 حضرت حمزہ بن عبد المطلب 352،323،322،300 | حضرت حمنہ بنت جحش 318 <45.35.5 231 202 201 181.175.138.111.110 521.439.414.409-408.381.287.254 حارث بن صمته 42.39.11 409.408-396-392-390.111.110.105 حارث بن عامر بن نوفل 138، 449 | حمنہ بنت سفیان حارث بن عبد 483 محميمه ( بیٹی حضرت عبد اللہ بن عبد مناف) حضرت حارث بن عمیر 514 | حناس بنت مالک حارث بن قیس 517 حنظلہ بن ابی عامر حارث بن معمر حارث ( عمار بن یاسر کے بھائی) حارثہ ، حضرت ضحاک کے والد حارثہ (عبد اللہ بن جبیر کے دادا کا نام) 450 286 13 163 حوی السکسکی حیی بن اخطب خَارِجَه بن زید خالد بن ابو مالک جعدی ย حضرت حاطب بن ابی بلتعہ 480،470،322،294،293 خالد بن اعلم حباب بن منذر حباب ( بن عبد اللہ بن ابی) حبیبہ بنت قیس حضرت حذیفہ بن الیمان حرام بن ملحان حرب بن امیه 456،152 | حضرت خالد بن بکیر 156 خالد بن سعید 441 | خالد بن عمیر عدوى حضرت خالد بن ولید 317 164 396 1 306 375 347-346-270.118 489 319 136.50 426-236 248 حریث بن زید 481.480.478.68 112.15 189 237 180 127 120 119.103-101.76.21 431-379-301-290-265-264-212 522 519-515-458-308-293-292-284-256 خالدہ بنت انس خباب بن ارت 308 408

Page 597

اصحاب بدر جلد 5 خباب بن مندر حضرت خباب حضرت حبیب بن عدی ختم حضرت خدیجہ خدام بن خالد 19 42 رافع بن معلی 246،242 رافع بن ودیعه رافع ( دادا عبد اللہ بن سہل ) 448،317،138،137،136 449 رباب بنت عبد اللہ 338 رباب بنت قیس 491.97 ریطہ بنت صخر 46 ربیع بن ایاس خطاب، حضرت عمر کے والد 50 ربیع بن عدی خطاب بن نفیل 510 ربيع بنت طفیل لاد بن رافع 227 228 ربیع بنت معوذ خليدة بنت ابو عبيده 359 ربیع ( والدہ حضرت عبد اللہ بن عبد مناف) خلیفہ بن خیاط خناس بنت مالک 447 396 ربیعہ بن عثمان ربیعہ بن عمرو اسماء 6 309 130 165 195 382 311 380 162 459.440 162 492 511.395 53 34 329.327 خنساء بنت رتاب خوات بن جبیر خواجہ کمال الدین خولہ بنت منذر تحویلد خیثمہ بن ابی سبرہ 15 ربیعہ بن کعب بن مالک بن ربیعہ 104 ربیعی بن حراش 28 رفاعہ بن زید 146 رفاعہ بن عبد المندر 48، 512،511،349،313،129 144،142 | حضرت رفاعہ بن عمر و الجہنی 301 رقیش بن رئاب دہیہ بنت ثابت 515 رقیہ بنت رسول اللہ صلی ا ولم د ختم بن مرضحه دعد بنت جحدم..ذکوان بن عبد قیس امام رازی راشد بن حبیش راشد بن سعد رافع بن محد يمله 345 6 276 42 91 432 رملہ بنت حارث رواحہ بن ثعلبہ زبیر بن بکار حضرت زبیر بن عوام 279 | علامہ زرقانی حضرت رافع بن خدیج 410،152،38،37 زعیبہ بنت اوس رافع بن سہل 130 ،131 امام زہری رافع بن عجلان 6 زیاد بن نعیم رافع بن عدی 410 زید بن ارقم رافع بن مالک زرق 437 زید بن اسلم 512.511 518 258.139 441 120 493 33 22.20.18.17 218.210.188.185.184.177.139.60.42 480-470-468-453-439-258-256-254 446.350.193 165 253.135 310 155 11 رافع بن مالک 437،337،276،275 | حضرت زید بن ثابت 420،416،414،368،340،251

Page 598

اصحاب بدر جلد 5 زید بن جاریہ 20 46 حضرت زید بن حارثہؓ 514،368،126،124،123 حضرت زید بن خطاب حضرت زید بن دشتہ زید بن صلت زید بن عاصم زید بن عمرو زیاد بن لبيد زید بن مزین زید بن وہب زید ( دادا عبد اللہ بن سہل) زینب بنت خزیمہ 519.458.451 اسماء 185 116 113 112.109 42.32 <28 <27 315 301 263 251 245 243 <239 230 485.397.383-378-343-339.317.316 448،137،136 | حضرت سعد بن خیثمہ 399،350،210،196،144 309 310 | سعد بن ربیع 43 314.312.309 426 383 214 130 117 347.170 313 ย 152.149.127.13 508-477-455-414-393-388-279-250-196 278.72.70.42 374-362-360-346-315.152.78.75.73 سعد بن زید حضرت سعد بن عبادة حضرت سعد بن عثمان ย حضرت سعد بن معاذ 468.414-402400-399-393.392.388 حضرت زینب بنت جحش 396،390،116،105 | سعده بنت کلیب 189 زینب بنت سراقہ 165 سعد کی بنت خیثمہ بن حارث زینب بنت عمر و زینب بنت مطعون 336 | سعید بن جبیر 167 حضرت سعید بن رقیش زینب (بہن عبد اللہ بن سراقہ ) 129 حضرت زینب 213 | سعید بن عاص حضرت سالم بن عبد الله حضرت سالم مولی ابو حذیفہ حضرت سعید بن زید 267 سعید بن عبد الرحمن سعيد بن مسيب 352 123.23 519 452.205.23.22.19.16 521،520،431،415،414،207،166 | سفیان بن خالد سائب بن ابولبابہ 349 سکن بن زعوراء حضرت سائب بن عثمان 450-262-256 سلافہ بنت سعد 490 307 482.24.1 448.137.41 340 330.329.41 سائب بن مظعون 167، 168 سلام بن ابی الحقیق 375.360 حضرت سائب بن یزید سخیلہ بنت خزاعی 14، 228 سلمہ بن اسلم شخیلہ بنت عنبس 509،19 حضرت سلمان فارسی 473،408،301،251،11،8 79 553،167 | سلمہ بن اکوع 470،359،357،355،354،285،79 سراقہ بن مالک بن جشعم 65.63.59 سراقہ بن معتمر 313.129 سلمہ بن خویلد سلمی بن تمام سُعاد بنت قیس 164 | سلمی بن قعيد سعد بن مالک 248،189،184،177،24 | سلمى بنت عامر سعد بن ابراہیم 179 سلیط بن عمرو حضرت سعد بن ابی وقاص 22، 23، 24، 25، 26، حضرت سلیط 142 215 7 324 319 519

Page 599

اصحاب بدر جلد 5 سلیم بن عمرو حضرت سمرة سمرہ بن جندب سمیر اء بنت قیس 21 320 صالح بن کیسان 287 صالح شقران 152 153 صامت بن قیس 485،484،13 صعبه، طلحہ بن عبید اللہ کی والدہ حضرت سمیه 289،288،287،286،8 290 | صعبه بنت تیھان سنان بن سُبَيْع بن ثَعْلَبَه سنان بن مالک سہل بن حنیف سہلہ بنت عاصم سہل بن عبید اللہ انصاری 271 7 54.42.39.19 170.43 صفوان بن امیه صفوان بن م ن معطل سلی صفوان بن وهب بن ربیعہ صفیہ بنت خطاب 168 صفیہ بنت ربیعہ بن عبد شمس اسماء 353 5.4.3 81 18.15 130 489.449.138.40 386-158 6 334 1 سہیل بن عمرو 346،343،135،134،133،79 صہیب بن سنان 7، 8، 286،12،11،10،9تا288 علامہ سہیلی سودہ بنت سواد سوسبط بن حرمله شوید بن سامت سوید بن عباس حضرت سوید بن عمرو سويد سوسط بن سعد 360 ضباعه بنت زبیر بن عبد المطلب ضبيعة بن حصین تعلی 483 491.69 ضحاک بن حارثة 274 ضحاک بن خلیفہ 45 ضحاک بن عبد عمرو 514 ضرار بن خطاب 248 ضمرہ بن عمر و جھنی 406 407 | جُبير بن نفير 493 379 13 22 484.13 315 13 474.472 292 279 طارق بن عبید انصاری 346 339 حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع 204198،43، 409 امام شافعی 202 طارق بن شہاب شائس بن عدی شریح بن عبید شرحبیل (مسیلمہ کا بیٹا) 432 520 طالوت حضرت شرحبیل بن حسنہ 519،235 | علامہ طبری شرحبيل بن عمر و عنسانی امام شعبی 514 طعیمہ بن عدی حضرت شعیب شماس بن عثمان شموس بنت ابو عامر شیبہ بن ربیعہ شیبہ بنت عاصم 285،116 حضرت طفیل بن حارث 503 طفیل بن عبد اللہ بن سخبره طفیل بن مالک بن خنساء 2.1 38 طفیل بن نعمان 231.1 338 حضرت طلحہ طلحہ بن براء 226 518.350.6 480-382-229.14 56 14 15 340*16.2 87 صاحب السواک صالح بن ابراہیم 209 حضرت طلحہ بن عبید اللہ 444.437 501-470-354-285-184-176.42.34*15

Page 600

اصحاب بدر جلد 5 طليب بن عمیر طلیحہ بن خویلد اسماء <267 263 216.198.193.188186.160 22 37 509-508-463-394384-308-299-293 477.35 ظهير بن رافع عاتکہ بنت ابی وہب عاص بن سعید عاص بن وائل عاص،(عمرو کے والد ) 142 عباد بن بشر بن قیفی 79 38،37 حضرت عباد بن بشر 74،70،69تا400،360،242،131،79 463 عباد بن حنیف 318 عباد بن قشیر 58 عباد بن قیس 256 حضرت عباد عاصم بن ثابت 448،381،136،42،41،40،39،38 حضرت عبادہ بن جراح عاصم بن سوید 322 عبادہ بن حسحاس عاصم بن عدی 44،43، 45، 46، 505،451،347 | عبادہ بن خشخاش عاصم بن عمر بن قتاده 514،358،326،315 | حضرت عبادہ بن صامت عاصم بن قیس عامر بن بکیر رض عامر بن امیه عامر بن حدیده 47 46 447 80 226 251 489 80 489-276-124.9690.85*81 50 عبادہ بن قیس بن عیشہ ، عباد بن قیس کا ایک نام عیشہ، قمیہ 49 عباس 80 227.197.196.5 276-197 حضرت عامر بن ربیعہ عامر بن سعد عامر بن سلمہ 56 عامر بن حضر می عامر بن خطاب، عامر بن ربیعہ کا پہلا نام 336 482.16 عباس بن عبادہ عبد اللہ بن زبیر 50 عبد اللہ بن سلام 322 332 عبد اللہ بن سلمہ عجلانی 450،335،262،242،37 50تا523،408،407،349،313،56 | عبد اللہ بن سہل 130 166 152 27 ‹26 522-514-335-332-316-313.304.185.167 343،317 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ عامر بن طفیل 481،478،68،66 | حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ 121،8، 172،163، 205 تا عامر بن فہیرہ عامر بن مالک <415 412 408 303 301 298 294 288 225 6863.6056.9 352-319 466-463-460-459-446-445-440-438 عامر بن مخلد 69 عبد اللہ سبا عامر بن نابی 273 | عبد المطلب حضرت عامر 287 حضرت عبد ربه بن حق بن اوس عائذ بن عمرو عائذ بن ما عض عائشہ بنت قدامه حضرت عائشہ 11 442.69 450 عبد عمر و بن مسعود عبد عمرو عبد الملک بن مروان 2، 25، 26، 28 تا 32، 49 ، عبد الحمید قادری 56 تا 58، 74،65، 157،147،126،78،75، 159، عبد الدار ، قبیلہ 305.304.295.30 337.275.35 169 484 518.174.169 410 267 277

Page 601

اصحاب بدر جلد 5 عبد الرحمن عبد الرحمن بن أبزی عبد الرحمن بن حارث بن ہشام حضرت عبد الرحمن بن رقیش عبد الرحمن بن سعید 23 اسماء 23،3 | حضرت عبد اللہ بن حفص 297 عبد اللہ بن حق 29 | عبد اللہ بن حمیر 520 169 119.118.98 519 184 حضرت عبد اللہ بن رواحہ 515-514.414.222.149.128120 حضرت عبد الرحمن بن سلمہ 382،229 حضرت عبد اللہ بن زبیر عبد الرحمن بن شقران عبد الرحمن بن صالح شقران ย عبد الرحمن بن عثمان حضرت عبد الرحمن بن عوف 5<4 5<4 23 حضرت عبد اللہ بن زید عبد اللہ بن سراقہ عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح 3 ، 22، عبد اللہ بن سعد 26، 27، 32، 42 تا 44، 79، 139، 169 تا 189، 258، حضرت عبد اللہ بن طارق 322.218 194 189 129 513 18 449.138135 505-462-452-444-439-437.420.407 حضرت عبد الرحمن بن یزید عبد الرحمن فزاری عبد الرحمن ( ابن عبد اللہ بن قیس) حضرت عبد اللہ بن عبس عبد اللہ اکبر ย عبد اللہ بن عامر 212 | عبد اللہ بن عباس 354 164 163 عبد اللہ بن عبد مناف حضرت عبد اللہ بن عبد مناف عبد اللہ بن عبد الاسد 165 عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی بن سلول 55.54.53.51 290-182 515 510.162 145.139.138 عبد الله بن ام مکتوم عبد اللہ بن ابو بکر عبد اللہ بن ابی بن سلول 399.152.75.43 129.58.147.146 161.160.157.156.149*146 عبد اللہ بن عینس عبد اللہ بن عتیک انصاری 148، 149، 150، 151، 153، 154، 155، 15،8 حضرت عبد اللہ بن عرفطه 404،392،391،387،386،346،198،161،159 | عبد اللہ بن عماد حضرمی حضرت عبد اللہ بن ابی رافع عبد الله بن ابى هذيل حضرت عبد اللہ بن ارقم مخزومی عبد اللہ بن الربیع انصاری عبد اللہ بن ثعلبہ البلومی حضرت عبد اللہ بن جبیر 266 291 163 376 163 15 حضرت عبد اللہ بن عمر 179،167،166،152،27،26، 522-514-349-335-332-316-313.304.185 228 عبد اللہ بن عمرو بن حرام 96 | عبد اللہ بن عمرو 97 | حضرت عبد اللہ بن عمرو 349 466.419 461 414.205203-200 195 313.163 120،119،104،103،101،98،97 | حضرت عبد اللہ بن عمیر 6، 38، 53، عبد اللہ بن عوف حضرت عبد اللہ بن جحش 511.406-349-285-242-117105 حضرت عبد اللہ بن جدعان عبد اللہ بن سحم 7 حضرت عبد اللہ بن قیس حضرت عبد اللہ بن جد 412،118،117 | حضرت عبد اللہ بن قیس بن صخر 3 517 164 164

Page 602

اصحاب بدر جلد 5 عبد اللہ بن قمئہ حضرت عبد اللہ بن کعب عبد اللہ بن محمد بن عماره حضرت عبد اللہ بن مخرمہ حضرت عبد اللہ بن مر داس حضرت عبد اللہ بن مظعون حضرت عبد اللہ بن نعمان بن بلد مه حضرت عبد اللہ بن یاسر عبد الله (عبد ربه) 24 406 | عثمان بن عبید اللہ اسماء 18 495،165 | حضرت عثمان بن عفان ،17 ، 22 تا26،24تا44،32، 53،51، 395.164 184.168.165.164.141.139.129.118.95.93.55 <254.224.221 219-216-215.195.194.188.186 <295 292 291 290 287 270 265 260 258.256 337 336-324 323 313 311 306304-301 296 513-505-473-447-441-420-416-384-378.342 166.165 223 262.168.167 169 286 169 450-335-334-268-266-264258-256-254-253 عبد الوہاب شعرانی حضرت عثمان بن مظعون 228،224،168،167،139، 360 حضرت عدی بن ابی الزغباء انصاری عبده بن حسحاس ، عبادہ بن خشخاش کا ایک نام 351،80 حضرت عیس بن عامر بن عدی حضرت عبید بن ابو عبید انصاری اویسی حضرت عبید بن اوس انصاری حضرت عُبيد بن تيجان " حضرت عبید بن زید انصاری عبید اللہ بن ثعلبہ حضرت عبید اللہ عبیدہ بن الجراح عبیدہ بن الحارث مطلبی حضرت عبیدہ بن حارث عدی ( دادا عبد اللہ بن جبیر ) 225 عذق بن زید 225 عرجون 227 | عرفجہ بن ہر شمہ 395،226 | عروہ بن زبیر 227 446 عروه عربی 441،226،212،105 | حضرت عصمہ بن ن حصین 100.14 حضرت عصیمہ انصاری 664.241.230 عطاء بن ابی رباح حضرت عطیہ بن نویرہ 271 163 205 116 246 451.287 135.127 99 272 273 290 273 459.436 228تا239،230تا464،463،383،241 | عفراء بنت عبيد عتبان بن مالک انصاری 232،83 تا234، 343 344 | عفراء 446-445-439.320.210.172 عتبہ بن ربیعہ 244237،235،232،231،116،115،1 عقبہ بن ابی معیط حضرت عقبہ بن غزوان رض 206 113، 229، 230، حضرت عقبہ بن عامر 275،273،202،201تا337،277 464-463-383-248245-243238 ย حضرت عقبہ بن عثمان بن خلده حضرت عتبہ بن مسعود هذلي " 252،249 253 حضرت عقبہ بن وهب 226 | عقیل بن ابو طالب حضرت علیک بن تیهان 278 279 227 عثمان بن حنیف عثمان بن شهرید عثمان بن طلحہ بن ابو طلحہ عثمان بن طلحه عثمان بن عبد الله 294 1 141 396 حضرت عکاشہ بن محصن 280،116تا359،350،286 حضرت عکرمہ بن ابو جہل 226،173،120،119،103،76، 519.464-463-440-438-383-241239-237-230-229 علامہ ابن اثیر 129 علامہ ابن الجوزی 441-360-314-238-13 438

Page 603

اسماء 251.176 185 309 315 34 382 488 145 311 244.107 481.66 286 اصحاب بدر جلد 5 علامه ابن سعد علامہ ابن عبد البر 25 426 حضرت عمر بن عبد العزیز 424،314 | عمر بن عمیرہ علامہ بدر الدین مینی 488،446،445،314،233 | عمر بن قیس عمرو بن معاذ بن نعمان عمران بن طلحہ عمران بن مناح عمرہ بنت زیاد عمر و بن ابو سلمہ عمرو بن ابی سرح عمرو بن حضرمی عمرو بن امیہ ضمری عمر و بن اوبار 338.5 5 194 253.135 علامہ بغوی علامہ بلاذری علامہ زرقانی علامہ زہری علامہ واقدی 480،443،353،314،311،262،80 246.135.15 293.212 <62.42.39 34 26 24 22 9.5.3 علاء بن حضرمی حضرت علقمہ حضرت علی 152، 185، 188، 189، 226، 231، 265، 283، 287، 293، عمرو بن ایاس 299،298،296،294، 384،376،374،373،320،307،303، عمر و بن ثعلبہ 473 470-468-441-439-420-405-397.392.387 175 311 462.312 حضرت عمرو بن جموح 200،199،198،172، 413،203، 461.447.446-445-444-443-439-438-437-416 312 349.195 309.308.298 25 | عمرو بن حارث 290 | عمرو بن حرام 408 عمرو بن حزم علی بن امیہ علی بن زید علی بن عبد الله عامر بن ربیعہ 251،215،77،76،9،8، | عمرو بن حضرمی 511،244،115،114،107،106،16 حضرت عمار بن یاسر 342 338 313 129.53 374 518 45 56 347 303.293 340 <235.103.83 عمر و بن زہیر ، ابو خولی عمر و بن زید، ابو صعصہ عمر و بن سراقہ بن المعتر عمر و بن سراقه ย عمرو بن سعدی عمر و بن سفیان عمر و بن سکن عمر و بن سلمہ ، عامر بن سلمہ کا ایک نام عمر و بن سميط عمرو بن شهر صبیل، ابو میسره عمر و بن عاص سہمی حضرت عمر و بن عاص 471-340-305-302-299-297-236 350.318 353 13 عمرو بن عبدود عمرو بن عثمان جحشی عمر و بن عدی 507-463-373-308301-299-292*286 353-321-3100308 69 عماره بن حزم عمارہ بنت خنساء حضرت عمر بن خطاب 16 12 10.5 <4 83.82.64.5553-48-44 42 2826-2422.19.17 156154 151.129.124 123.105 100.99.93.85 188186 184182.177.170.167 166.162.161 246-234232 223 221218-216-211.192.191 <271 265 264 261 259.258.254.253 251 248 322 314 301 300 299 295 294 287 283 <272 415 411 405 392 378 342 341 334.326.323 <472 <451 <434 432 431 429 427 421 <420.416 520-511-510-505-504-483-482 287 491 عمر بن الحکم عمر و بن رفاعه

Page 604

اصحاب بدر جلد 5 عمر و بن علقمه عمر و بن عوف 106 314.61.44 اسماء <280 265.255.252.193 124 103 93 92.47.46 505-423-385-384-371-369-303-302-290-289 26 عمر و بن غالب عمرو بن معاذ 308 غنم بن عوف 317،315 فاختہ بنت عامر عمرو بن معبد 316 فاطمہ بنت ابوسفیان عمر و بن میمون 224، 287 فاطمہ بنت بشر عمر و بن جحاش عمیر بن ابو و قاص حضرت عمیر بن حمام عمیر بن عامر ، ابو داؤد عمیر بن عبد عمر و خزاعی عمیر بن عوف عمیر بن معبد عمیر ( والد عبد اللہ بن جبیر ) عمیر بن ہاشم عمیرہ بنت سعد عمیر و بنت معوذ 373 حضرت فاطمہ بنت خطاب 318،317 | فاطمہ بنت عمرو 229 | حضرت فاطمہ 319 320 | فاکہ بن مغیرہ 518 | فتح مسیح 314 | فرعون 316 فریعہ بنت مالک بن د خشم 163 | فزاری 396 346 فضل بن عباس 459 فكيبة بنت سكن 164 | فهیره 81 133 334 37 205 491.200.96 458.457.334.283.39 180 369 472.447.446 494 355 517 5.3 273 353 253 عمیر و ( بنت عبد اللہ بن قیس) عمیرہ، صہیب بن سنان کا ایک نام عنترہ مولی سلیم عوف بن حارث بن رفاعہ انصاری عوف بن صبرة سہمی عوف بن عفراء عون 7 320 قاسم بن عبد الرحمن قتادہ بن نعمان انصاری 331،330،327،326،324 قتیلہ بنت مطعون 320،276،275 ، 337،321 قسم بن عباس 35 قدامہ بن عرفجه 321-320 حضرت قدامہ بن مظعون 280 قدامہ بنت عبد اللہ بن عمر عویم بن ساعده 321،277 322 323 ، 451،352 قرة العین بنت عبادہ حضرت عیسی عیینہ بن حصن فزاری حضرت عیینہ بن غزوان عویمر بن ساعده 121، 323 | تریبہ بنت زید عیاض بن زہیر ، ابوسعد 324 | قصویٰ عیسی بن طلحہ 23 قصی بن کلاب عیسی بن عمیله 284 قطبه بن عامر 223،197، 453 قطبہ بن عبد عمرو 450 5.3 348 334.168.167 313 81 189 309 405 338-276-275.168 13 470.469.442.285.79 358 383،230 قیس بن ابو حازم غافل ، عاقل بن بکیر کا پہلا نام غزوان بین جابر 48 قیس بن ابی صعصہ 238 | قیس بن السکن، ابوزید حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود قیس بن حصن 123.24.20 338 340 341

Page 605

اصحاب بدر جلد 5 قیس بن زید قیس بن سائب قیس بن محصن 27 323 اسماء حضرت مبشر بن عبد المنذر 449،349،290،144،48،1 80 مجاشع بن مسعود 341 مجاعه بن مراره قیصر روم 514،504،503،237،45 | مجدی بن عمر و جہنی 247 522.521.520 272 کبشہ بن واقد بن عمرو کیشه بنت رافع کثیر بن مره 120 315 434 مجذر بن ذیاد مجله لقمان گر ز بن جابر کریمہ کسری کعب بن اشرف 112 مجمع بن جاریہ 7، 63 تا 176،65 محجن بن ادرع 360،73،72،70تا377،375،368،367،364 محرز بن نضله 473.463 489.488.352349-323-322-130.80.48 276 46 287 249 محذر بن نضله کعب بن عمر و کعب بن عمرو، ابو اليسر ربیعہ بن کعب بن مالک بن ربیعہ 165 محزر بن عامر بن مالک 227 | محصن بن محرمان 53 محصن بن خالد 3630357 312 356 287 345 حضرت کعب بن مالک 22، 53، 195، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 509.501-500-497-495-420-414.381 حضرت کلثوم بن ہدم 83.81 55.53 51 49 31 29 27 26-2314.1201 138132 130111.109 106.10492-9088.86 219188-186177.175173 171 144 142 140 514-494-464-382-324-314.311.166.10 لبید بن ربیعہ لبيد بن سهل لقیط بن عصر لیلی بنت ابی حتمہ ، ام عبد اللہ لیلی بنت ٹھیک 351 328 263 260-258 250 248 239 236221 426-423 422 413 411 409 405 402 386.383 260-258 329.327 488 53.51 226 <457.456.452.451.447445-443-441435431.429 487 483 480-477-475470-469-468-462-460.459 525-523519-517-515501492.491.489 مار گولیس 114،113 ، 243 ، 244، 246 | محمد بن عبد اللہ بن زید بن ثعلبہ ) مالک بن ابو خولی 342 محمد انصاری مالک بن اہیب، ابود قاص 316 محمد بن ابی بکر مالک بن ثعلبہ 488 محمد بن ابی حذیفہ مالک بن دحته 342،45 تا 494،347 | محمد بن احیحہ مالک بن زھیر جشمی 48 محمد بن اسامه مالک بن زهیره 19 محمد بن اسیدی مالک بن عمرو 380،347 | محمد بن براء مالک بن قدامه مالک بن مسعود مالک بن نمیده مالک، ( عمار بن یاسر کے بھائی) 348 348 348 286 محمد بن حارث محمد بن حرماز محمد بن حمران محمد بن خزاعی 194.191 34 298 298 364 364 364 364 364 364 364 364

Page 606

اصحاب بدر جلد 5 محمد بن خولی محمد بن زید 28 364 364 اسماء مسعود بن خلده حضرت مسعود بن ربیع 399 228 محمد بن سفیان محمد بن سہل بن ابو خیثمہ محمد بن طلحہ محمد بن عاصم محمد بن عبادہ 364 مسعود بن ربیعہ بن عمرو 425 | مسعود بن سعد 113،112 | مسعود بن غافل 43 مسلمہ بن سلمہ 82 مسور بن مخرمه ย 399 400 251.207 363 محمد بن عبد الباقی زرقانی 429 مسیلمہ کذاب محمد بن عدی 364 مصعب بن عمیر 186 5270.524 280 260.183.141.71 محمد بن علی بن حنفیہ محمد بن عماره محمد بن عمر واقدی، ابو معشر محمد بن عمر محمد بن عمر و محمد بن کعب قرظی 304 146 317.290.264 386 309 290 478.414409.407-4050401.400.364 مطلب بن عبد اللہ بن حنطب مظهر بن رافع حضرت معاذ بن جبل معاذ بن حارث بن رفاعه محمد بن مسلمہ 74،73، 155، 308 ، | معاذ بن رفاعه 111 416-415-414.38.37 216 212 <209 118.86 448-441-439429-427422-4200416-282-217 446 444-442-441.279 229 329، 357، 363، 364، 366، 367 ،369 370 ، معاذ بن عائض 404-383-382-379-3770375.373 447.446 معاذ بن عفراء 174 ،442 تا 465،455،450،449،445 ย 447 | معاذ بن عمرو بن جموح 442،420،174تا447،444تا451 محمد بن واقدی محمد بن محمدی حسین بٹالوی محمدتقیمی محمود بن مسلمة مخرمہ بن عبد العزیٰ مدلاج مدیح بن عمرو 364 257 364 معاذ بن ماعص معاذ بن نعمان حضرت معاذ 362 363 حضرت معاذ بن جبل 372،371 | حضرت معاویہ 167 384 352 ، 384 | معبد بن عباد مراره بن ربیع عمری 514،505،504،500،385،384 | معبد بن عبادہ حضرت مر تذ بن ابومر شد 473،386،385،137 | معبد بن عماره 16 معبد بن قیس مره بن که مروان بن مسٹر مار گولیس مسروق 70 318 465.464.324.174 502 476-384-308301-9694.86.83.44.25 319 معبد بن از عر 451 452 452 166 454 383،24 | معتب بن الحمراء 452.137 454 معتب بن عوف 115،114 حضرت معتب بن عبید 225 مسطح بن اثاثہ 387،232،231تا396،394391،389تا399 | معتب بن قشیر مسعود بن خالد مسعود بن خراش 399 معدن بنی سلیم 18 حضرت معقل بن منذر 454.46 249 528

Page 607

اصحاب بدر جلد 5 معمر بن ابی سرح معمر بن حارث معمر بن حزم معن بن عاصم 29 314 | نائص 455،442 نائلہ بنت ابی عاصم 311 نبطی، قبیلہ ย معن بن عدی انصاری 43، 463،459،456،353،351،46 نجاب بن ثعلبہ معنق للموت معنق ليموت معوذ بن حارث بن رفاعه معوذ بن عمرو بن جموع 43 | نبع 481 | نجاشی 481 | نسیبہ بنت زید 464 نضلہ بن عبد اللہ 466،465،447 | نعمان بن أضا حضرت معوذ 464،449،443،441،324،174 تا 466 | نعمان بن زید حضرت مغیرہ مقاتل بن سلیمان حضرت مقداد بن اسود 240،232،187،122،80،27،8، نعمان بن عصر 339،180 | نعمان بن سنان 195 نعمان بن عبد عمرو 477.473.471.469-467-388-359-291.243.241 نعمان بن قوقل مقداد بن عمرو مقدار بن الکندی مقدار بن عمرو مقدام بن معد یکر مکر زبن حفص 232،231، 242 | نعمان بن مالک 474.467 نعمان بن مالک ملحان بن خالد ملیکہ بنت عبد اللہ ملیل بن وبرة منذر بن ابی اسید منذر بن عمر و انصاری ย 481،473،469،467 | نعیمان بن عمرو 83 نفیل بن حرث 387،232 نفیل بن عبد العربی 96 نمر بن قاسط 499 نمبر بن حارث 481 نمبیله بن عبد اللہ 484 نہار الرجال بن عنفوه اسماء 446 323 509.505 330 488 260.169.165.141 353 357 282 328 489 489.13 488 4900488 488 490488-351.80 496 46 48 12 488 76 483 نوار بنت عامر منذر بن عمرو بن خنیس 486،484،482،481 | حضرت نوح منذر بن قدامه منذر بن محمد منذر بن قدامه 524 520.321 225 485 حضرت حکیم مولانا نور الدین ( خلیفة المسیح الاوّل) 4870485 297-258-257.47 352 نوف بن ثعلبہ بن عبد اللہ بن نضلہ بن مالک بن عجلان 499 مهاجرین بن امیه مہانہ بنت جابر موسیٰ بن طلحہ 431 نوفل بن ایاس هذلي 18 نوفل بن خویلد بن عدوية 23،19، 25 نوفل بن عبد اللہ بن مالک 476 نوفل بن معاویہ دیلی موسی بن عقبہ 517،447،356،347،317 نوفل بن عبد اللہ بن نضلہ موسیٰ بن یعقوب حضرت موسی 123 ، 199 ، 225، 282، 378،363 حضرت نوفل میره میج 496 امام نووی 487 ہارون الرشید 183 18 83 494 523.324 227 96 5

Page 608

اصحاب بدر جلد 5 ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص باشم بن عقبہ هبل، بت مبیل بن وبره ہذیل 30 310،309 یحیی بن سہل بن ابو حثمه 301 یحیی بن عابس 101،100 یزید بن ابو سفیان حضرت یزید بن ثابت 275 138،137 | حضرت یزید بن حارث 127، 238 | حضرت یزید بن رقیش ہر ہشام بن عامر 50 یزید بن رومان ہشام بن عروہ 124 یزید بن سفیان بلال بن امید 494،381 تا 509 | یزید بن ضحاک ہند بنت عمرو 466،447 | یزید بن عامر ہند بنت مالک ہند بنت ولید 338 ہیم بن عدی 517 حضرت واقد بن عبد الله وبره وحشی بن حرب 43،13 | حضرت یزید بن منذر یسید 516،515 | حضرت یعقوب 275 | حضرت یوسف 527،526،46،15 | یونس بن بکیر حضرت و دفه حضرت ورقہ حضرت ودیعہ بن عمرو حضرت ورقہ بن ایاس وضاح بن سلمہ و کیع ولڈر (Wilder) ولی اللہ شاہ صاحب ( زین العابدین) 517 517 516 517.315 315 125 40 465.450.443-427-426-236-235.109 ولید بن عبادہ ولید بن عتبہ ولید بن مغیرہ ولید، (خالد کے والد) ولیم میور ، سر حضرت وہب بن ابی سرح وہب بن ابی سرح وهب بن ربیعہ حضرت وہب بن سعد بن ابی سرح وہب بن یہوزا حضرت یاسر 95.82 234-233 262-260-259 258 278 517 314 6 519.518 282 292*289 اسماء 415 301 238.237 521.520 5240522 523 169.17 86 13 341 528.53 85 473 398.394 398.394 168

Page 609

اصحاب بدر جلد 5 ابع 31 مقامات 141 بیت المقدس مقامات 434.82.78 339 ابلة 247،246،7 | بئر ابی عنبہ ابواء 6، 10 بئر جاسم ابی سینیا، ایسے سینیا آثايه اجنادین 257 264 37 بئر معونہ 507.22 246.243.116.69.66.13 484.480.479.478.447 442.394.341 ہنسان، ایک کنواں احد 116،110،98،2،1، 119، بيوت السقيا 202199.181-180-153 152.134.133 پاکستان اعوص 278،176 | تبالہ افریقہ، بر اعظم 257،139 | تبوک اکسوم 139 تبوکیه انطاکیه 237 تربان، مدینے سے انیس میل دور ایک وادی ایتھوپیا / ایسے سینیا 257،239 تَل عَزَازُ ایران 483.65 باب الحدیقہ 77 تہامہ نجران 113 تیزین 19 338 344.106.46.44 338 503.497.432.426.425.182 236 16 237 141 490 237 بحرین بحیرہ احمر بدر 441،440،251،135،15 | ثنية المره 257،139،16 | ثَنِيَّةُ الوَدَاع 109، 118، 123 ، ثور، پہاڑ 464-241-230 509-508-470-285 467.317.272-232-228.150.134.127 جابیه، دمشق کے مضافات میں ایک بستی برید بزاخه بصری بغداد بَقِيعُ الخَبخَبَه بَقِيعُ الْغَرْقَدُ بلدة انظر للوس بلقاء 227 جاسوم / بئر جاسم 284 جامع مسجد دیلی 304-251-247-246-31-30-7.5<4 514.503.491.17 جبلہ 351،337 مُحفَهُ 266 جرف 269-267-266 جسم 84 | جعرانہ 125، 235 | جلعب بقیع بنو امیہ بن زید 188 233 جنت البقیع 62.58 54 507.22 46 25 84 264 473.188 176 65 278 216.188 117 516.474.473.447-268-267-266-224

Page 610

اصحاب بدر جلد 5 جو اثاء جُومَه جبشه 32 135 | دہلی 237 دومة الجندل 51،36،1، 53، ذوالحلیفہ 105، 134، 139، 140، 144، 163، 166 تا 168، 170، ذو جدر 209، 238 ، 249، 256 تا 259 ، 304، 311، 312، 324، ذی قرد 512-463-449-408-404-398-397.335 رابغ وادی حجاز 377،182،136،125،18،16 | ربده حديدية 118،115،16 رجیع حراء پہاڑ 22 رعبان حرم حره، میدان حسیکہ حضر موت حماة حمراء الاسد حمص حمیر حنين حوران شهر حوراء 115،114،17 رمله، فلسطین 61.60 روحاء 339 | روضہ خاخ 519.462.396.15 روم 83 ریسرچ سیل مقامات 46 176 264.75 373 359.356.79 383-230 247 448 382 381.137.136.41 237 82 467-350-349-343-227-133.43 133.132.131 زرقاء 83تا471،237،236،85 سراة ، ایک جزیرہ نما پہاڑی.306 | سرغ 414.65 125 16 سرمين سقيا سیکاسک خانہ کعبہ 361،305،258،257،222،179،72 | سلع پہاڑ خرار، حجاز کے قریب ایک وادی 18 | سلیل خربی 118 سواد 247 سوق النبي 110،62،54،5، 358،313،145،128،121، سیالہ 470 95.45.37.8.7 370.103 17 25 432.182 237 339.338 306 285 178 295.294 266 312 83.60.57.37.22.18.17.16 شام 502.490.471.463-424-411.383.376.375 187 182 178.125.108.107.93.90.85.84 167.105.57.51.50.48.35.8 31530-4-296-293-257-240-237-236-235 <434 433 432 424 420.411.327 326 324 514-509-507-504-503.491.470.436.435 167.140 340 177.176 510.450-399-396-395-286-228-206-170 510.105 7 341،297 | شعیبه 237 433.125.85-83.54 صحار مرار دارار تم دار الاسلام دجله دریائے فرات دلوك دمشق

Page 611

اصحاب بدر جلد 5 صفا صفراء صفہ صفين طائف ظهران عالیہ عدن 33 18 قاره 350،232 | قبا 250.249.91 مقامات 40 144.141.82.43.10.9 508.494.373.352.349.323.314.266 297 298 | قبرس 112،65 تا414،276،243،242،114 | قطن 136 143.43.12 462.396 139 قِنَّسْرِين قُورُش 82 145.142 237 237 کوفہ 483،378،304،301،294،251،217،216،211 510 84.83 125 380 251 503 <28.27.18.16.14.129.5‹4‹2‹1 کوه صفا 504.477.460.456.451.440.403.380 عدوا عراق عرب 483،294،243،236،176،113،25 | لاذقیہ 8، 12، 40،25، 61،56،54،52، ماب 70،68، 116،114،89،83،73، 139،123، 140 تا | مدائن صالح 260،257،246،244،197،189،167،156،142، مدائن 280، 303، 313 ، 326 ، 361 تا 364، 377، 378 ، مدین عسفان ، مکہ کے قریب ایک جگہ عشیره عقبہ عقرباء 277 276.196.195 522-520 519.340 434.432 145 مدینہ **63.6159.57.55.51.48.46.45.43.41.37 448.137.76.41 $98.97.93.92.90.89.87-82079.75070-67 128 123 119.116112.110.107105.168.166 156 147 145 139.137.133 189 187 185.183.177 176.174.170 216.215 211 209 207.199.198.194 <242 2400237 235 233 229 <228 <220 268 266 264 262 251 <246 244 294 292 290 285 282 279.2770274 318 317 315 313 311.304.301 296 345 342 340 338335 324 322.321 <374 371 362 357 354 353 351.349 391 388 385 382 381.379.377.376 <421 420.414 4080403 400 395 392 <456.455 <4520447 443 441 <437 ‹424 480.477 470 468 467 464 463 460 504 501 500 497 494 485 481 18 522.518.511.509507 مروه 142 123 285.79 68.59.57 500 359.357-285.79 282 247-246.177.8 149.127 247 251.235.85.82 483 عمان عمواس عیزه (نجد) عوالی غابه غار ثور غسان غطفان فارس فدک فرات فلسطین قادسیه

Page 612

مقامات 34 اصحاب بدر جلد 5 مریسیع 154 هجر مسجد حرام مسجد ضرار 74 وادی القریٰ 123،115،108،107،78 | وادی صفرا 44تا347،345،46 | وادی نخله 244243،242،114،113،112،107،106 296 380 467 مسجد نبوی 6، 61، 128، 177، 190، وَدَّان 517.417-339-309-291-266.211.191 وَهُشَتَابَاذَا رُشِير 383.230 247 مشارف 125 يثرب 400،399،337،336،277،275،274،52 مصر 305،295،83 | یرموک 237-236 معان مَقَابِر البقيع 125.17 267 المسيرة 143 یمامه 514.458.403 مقام ، جاسوم 22 یمن 286.209.56.428 427 426 425 ‹372 ‹314.311.306 142 11.10.7.6.1 519.517.482.462.431.430.429 58.52.5148.41.40.37.36.29.21.18.17 ،62،60 تا 101،100،97،79،76،75،72،71،66، يتبع 142134.132.114112.108.106.105 183 180 174 173 172.148.147.144 221 220 219 210 208 206.195.189 254 247 244 243 242 239 238 229 +277 273 262 260.259.258.256.255 308 305 296 291 288-287-286282 337 336 335 326 320315.312.311.405 402.400.397.396.382 353 351 451 448 440 439 437 428 414 <407 <477 <470 <467 463 462 <460 <456.455 514-513-511-508.494.480 452.404.403.277.195 514.126.17 7 382.229 منی مونه موصل ناجح ، وادی نخله نعمان، ایک کنواں ہالینڈ 478-477-376-375-177.145.77 53 19 40

Page 613

اصحاب بدر جلد 5 ابن اسحاق 35 کتابیات <106.46 الصحابة کتابیات 434.83 134، 139، 140، 166،163، 169، 225، 231، 235 ، سیرت ابن ہشام 201 163 135.2.1 <383 380 368 367 360-314-309-230-225 350 349 342-326-324-314-279-256.241 517.495.489-484-468-444-443.438.424 512.491.476-464-459-438-381-368-367 اٹلس سیرت نبوی صلی الیم الله ست ارشاد الساری الاستيعاب اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ 424 | سیرت خاتم النبيين صلى العلم 95 427.411.252 411 346-310-252.187.118 147.143.139.138.119.112 97.86 43 <289.242.241.239.229.202.196.191.154 399-398-390-377-369-360-336-321.317 480-477-468-467-464-407-406.405.402 الاصابہ فی تمییز الصحابہ انجاز الحاجه بخاری 411،252 | سيرة الحلبيه 370-323-285-201.145.90.20 424 517 شرح الزرقانی علی الموطا 26 تا 28، 80،79،66،62،59 ، شرح بخاری از زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب 421 185،174،172،170،161،148،135،108،95،92،82، شرح زرقانی 200تا202، 205، 233، 252،234، 331،314،286،263، طبقات الکبریٰ 504-446.350.194.193.45 <157.21.18 514-383-352-322-252-242-212.164 | 407 391.390.388.385-380-376-365 <343 <333 410، 418،417،415،411، 421، 444،438،437،435 تا | عمدۃ القاری 477،460،451،446تا517،508،495،488،481،479 فتح الباری شرح صحیح البخاری تاریخ دمشق الكبير 315 الفكاهة و المزاح تاریخ طبری 435،383،230،226،177،174 کتاب الزہد تفسیر صغير تفسیر کبیر چشمه معرفت دلائل النبوة دیباچه تفسیر القرآن سبل الهدی والرشاد سنن ابن ماجه 124 210-124 289 201 207 410.131 517-201 233 445.172.28 493 121 354 417.332.210<4 لغات الحديث صحیح مسلم 516.508-446-438-435-422.419 مسند احمد بن حنبل معجم الشعراء نور القرآن 435.430-426-416-333-332-270-212 122 369 193 سنن ابی داؤد 516،394،321،268،231،201 | ينبوع الحياة، تفسیر سنن ترمذی سنن نسائی سوانح عمری حضرت محمد صلی الیم 473.408-201 516 289

Page 614

اصحاب بدر جلد 5 36 ببلیوگرافی ببلیوگرافی 1 اٹلس سیرت نبوی از ڈاکٹر شوقی ابوخلیل ترجمہ حافظ محمد امین مطبوعہ دار السلام الریاض 1424ھ 2 الاحاد والمثانی از ابو بکر بن ابی عاصم و ھو احمد بن عمرو بن ضحاک بن مخلد شیبانی مطبوعہ دار الرایت ریاض 1991ء 3 احکام القرآن از ابی بکر محمد بن عبد الله المعروف بابن العربی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 2003 ء 4 اردو دائرہ معارف اسلامیہ زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب لاہور مطبوعہ عالمین پبلیکیشنز پر میں ہجویری پارک لاہور 2002ء 5 ارشاد الساری شرح بخاری از ابو العباس شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی، دار الفکر بیروت 2010ء الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب از ابو عمر يوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر قرطبی، مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992 ء / دار الكتب العلمیة بیروت 2002 / 2010ء 7 اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ از عز الدین بن الاثیر ابو الحسن علی بن محمد جزری، دارالفکر بیروت، 2003ء / دارالکتب العلمية بیروت، 2003 / 2008ء /2016ء / مترجم اردو شائع کردہ المیزان اردو بازار لاہور 8 الاصابۃ فی تمییز الصحابة از شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی، مطبوعہ دارالفکر بیروت 2001ء / دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء/03 $2005/2003/ 9 اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان منصور پوری مکتبہ اسلامیہ لاہور 2015ء 10 امتاع الاسماع از تقی الدین احمد بن علی بن عبد القادر بن محمد المقریزی مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 1996ء/1999ء 11 انجاز الحاجة شرح سنن ابن ماجه از محمد علی جانباز مطبوعہ دار النور اسلام آباد 2011ء 12 الانساب از ابو سعد عبد الکریم بن محمد بن منصور التمیمی السمعانى الطبعة الثانية مكتبة ابن تيمية 2009 ء 13 انوار العلوم، از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی و المصلح الموعود ، شائع کردہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ، رقیم پریس، اسلام آباد ٹلفورڈیو کے 14 بخاری بشرح الکرمانی (الکواکب الدراری) مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1981ء 15 البدایة و النهایه از حافظ عماد الدین ابی الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی الدمشقی، مطبوعہ دار ہجر بیروت 1999ء / دار الكتب العلمية بيروت لبنان 2001ء 16 تاج العروس من جواہر القاموس از محب الدین ابی فیض محمد مرتضی حسینی، دار الفکر بیروت 1994ء 17 تاریخ ابن خلدون (السمی کتاب العبر و ديوان المبتد أو الخبر في ايام العرب والعجم والبربر) از عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون، دار الکتب العلمیة بیروت 2016ء / مترجم اردو دار الاشاعت کراچی 2003 ء 18 تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس از حسین بن محمد بن الحسن دیار بکری، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2009ء 19 تاریخ الطبری ( تاریخ الامم و الملوک) از ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، دار الکتب العلمية بيروت 1987ء / 2012 / دار الفکر بیروت 2002ء / مترجم اردو از عبد الله العمادی، دار الاشاعت کراچی 2003 ء 20 تاریخ دمشق الکبیر از ابو عبد الله علی عاشور الجنوبي ( ابن عساکر) مطبوعہ دار الفکر بیروت 1995ء / دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء 21 تاریخ مدینته دمشق از حافظ ابی القاسم علی بن الحسن بن هبة الله بن عبد اللہ الشافعی المعروف بابن عساکر مطبوعہ دار الفکر بیروت 1995ء

Page 615

37 ببلیوگرافی اصحاب بدر جلد 5 22 تفسیر القرآن العظیم از عماد الدین ابی الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 1998ء 23 تفسیر البحر المحیط از محمد بن یوسف (ابو حیان اندلسی) مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2010ء 24 تفسير البغوی اردو ( معالم التنزیل) از ابو محمد حسین بن مسعود الفر آبغوی شافعی شائع کرده اداره تالیفات اشرفیہ ملتان پاکستان 1436ھ 25 تفسیر القرطبی ( الجامع لاحکام القرآن) از علامہ ابو عبد الله محمد بن احمد انصاری قرطبی مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2004ء 26 تفسیر صغیر، از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانی و المصلح الموعود، شائع کردہ ادارۃ المصنفین ربوہ ضلع جھنگ 27 تفسیر کبیر از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ المسح الثاني والمصلح الموعود ، شائع کر وہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لندن 2023ء 28 جامع البیان ( تفسیر الطبری) مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 2001ء 29 جستجوئے مدینہ از عبد الحمید قادری مطبوعہ اور مینٹل پبلی کیشنز لاہور پاکستان 2007ء 30 چار عبد الله از علامہ مفتی محمد فیاض چشتی شائع کردہ شاکر پبلیکیشنزار دو بازار لاہور 2017 ء 31 حقائق الفرقان، از حضرت مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفہ المسیح الاول مطبع ضیاء الاسلام پر میں ربوہ پاکستان 32 حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء از حافظ ابو نعیم احمد بن عبد اللہ اصفہانی، مکتبۃ الایمان المنصورہ 2007ء 33 خطابات طاہر ( تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت از حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ پاکستان 34 خطبات محمود، از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانی و المصلح الموعود ، شائع کر دہ فضل عمر فاؤنڈیشن مطبوعہ ضیاء الاسلام پر میں ربوہ پاکستان 35 خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم از شاہ معین الدین احمد ند وی شائع کردہ مکتبہ رحمانیہ لاہور پاکستان 36 دلائل النبوة از ابی بکر احمد بن حسین بیہقی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2002ء 37 روحانی خزائن از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود، شائع کردہ نظارت اشاعت، مطبوعہ ضیاء الاسلام پر پیس ربوہ 38 الروض الانف فی تفسیر السيرة النبوية لابن ہشام از ابی القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن احمد بن ابی الحسن مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت طبع اوّل / مکتبہ ابن تیمیہ 1990ء 39 سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد از محمد بن یوسف صالحی الشامی، مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت لبنان 1993ء / مطبوعہ دار احیاء التراث القاہرہ 1992ء / 1995ء / زاویہ پبلشر زلاہور 2013 ء 40 ستر ستارے از طالب الہاشمی شائع کردہ البدر پبلی کیشنز لاہور ختمی سهیلی، 41 سنن ابن ماجہ از ابو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجه قزوینی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 2009ء 42 سنن ابو داؤد از ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 2009ء 43 سنن الترمذی الجامع صحیح از ابو عیسی محمد بن عیسی بن سورۃ، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت لبنان، 2002ء 44 السنن الکبری از ابی بکر احمد بن حسین خراسانی بہیقی، مطبوعہ مکتبة الرشد ناشرون 2004ء / دار الكتب العلمیہ بیروت 2003ء 45 سنن النسائی از ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب ابن علی بن سنان النسائی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 2009ء 46 سیر اعلام النبلاء از شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذہبی، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت لبنان، 1996ء / الرسالة العالمية دمشق 2014ء

Page 616

38 ببلیوگرافی اصحاب بدر جلد 5 47 سیر الصحابه از معین الدین ندوی، مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء / اسلامی کتب خانہ / ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور 48 السيرة الحلبيه (انسان العيون في سيرة الامين والمأمون) از ابی الفرج نور الدین علی بن ابراہیم بن احمد حلبی الشافعی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2002ء / 2008ء / اردو ترجمہ از محمد اسلم قاسمی، دار الاشاعت کراچی 1999ء 49 السيرة النبوية على ضوء القرآن والسنته از محمد بن محمد بن سویلم مطبوعہ دار القلم دمشق 50 السيرة النبویة لابن اسحاق از محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی المدنی مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2004 ء 51 السيرة النبوية لابن كثير از ابی الفداء اسماعيل بن عمر ابن کثیر الدمشقی مطبوعہ دار المعرفہ بیروت لبنان 1986ء / دار الكتب العلمية بيروت 2005ء 52 السيرة النبوية لابن ہشام از ابی محمد عبد الملک بن ہشام بن ایوب حمیری معافری مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2001ء / دار ابن حزم بیروت لبنان 2009 ء 53 سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ اسلام آباد ٹلفورڈ یو کے 1996ء 54 سیرت صحابہ رسول صل الله علم از حافظ مظفر احمد شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 2009ء 55 شرح العلامة الزرقانی علی المواهب اللدنية بالمخ المحمدیۃ از علامہ قسطلانی، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت 1996ء 56 شرح الزرقانی علی الموطا امام مالک از محمد بن عبد الباقی بن یوسف الزرقانی المصری الازہری مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1997ء 57 شرح مسند الشافعی از عبد الکریم بن محمد قزوینی مطبوعہ ادارۃ السومون الاسلامیہ قطر 2007ء 58 صحابہ کرام کا انسائیکلو پیڈیا از ڈاکٹر ذوالفقار کا ظم شائع کر وہ بیت العلوم پرانی انار کلی لاہور 59 صحیح البخاری از ابو عبد الله محمد بن اسماعیل بخاری جعفی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 1999ء / مترجم اردو شائع کر دہ نظارت اشاعت ربوہ پاکستان 60 صحیح مسلم از ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری، ناشر دار السلام ،ریاض، 2000ء / مترجم اردو ، شائع کردہ نور فاؤنڈیشن ربوہ پاکستان 61 الطبقات الکبری از محمد بن سعد بن منيع الہاشمی النصری المعروف بابن سعد مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت 1990ء/ 2012ء /2017ء / دار احياء التراث العربی بیروت 1996ء / مترجم اردو از عبد العمادی نفیس اکیڈمی کراچی 62 عشره مبشره از بشیر ساجد ناشر البدر پبلیکیشنزلاہور پاکستان 2000ء 63 عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری از بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد العینی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء / دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان 2003 ء 64 عیون الاثر في فنون المغازی والشمائل والسیر از حافظ فتح الدین ابو الفتح محمد بن سید الناس الشافعی مطبوعہ دارالقلم بیروت لبنان 1993ء 65 غزوه احد از علامہ محمد احمد با شمیل شائع کردہ نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی 1989ء 66 فتح الباری شرح صحیح البخاری از احمد بن علی بن حجر عسقلانی، مطبوعہ دار الريان للتراث قاہرۃ 1986ء / قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی 67 فتوح البلدان از احمد بن یحیی بن جابر ابلاذری، مطبوعہ مؤستة المعارف بیروت 1987ء / دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2000ء

Page 617

اصحاب بدر جلد 5 39 ببلیوگرافی 68 فرهنگ سیرت از سید فضل الرحمن ناشر زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، کراچی 2003ء 69 فضائل صحابہ از ابو عبد اللہ احمد بن حنبل مترجم اردو از نوید احمد بشار مطبوعه بک کارنر پر نٹر ز پبلشرز جہلم پاکستان 2016ء 70 فیروز اللغات اردو از مولوی فیروز الدین، نظر ثانی، اداره تصنیف و تالیف فیروز سنز مطبوعہ فیروز سنز لاہور پانچویں اشاعت 2012ء 71 الکامل فی التاریخ از عز الدین ابی الحسن علی بن محمد ابن اثیر جزری مطبوعہ دار الكتاب العربي بيروت 1997ء / دار الكتب العلمية بيروت 2006/2003ء 72 کتاب الثقات از حافظ ابی حاتم محمد بن حبان بن احمد التمیمی مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 1998ء 73 كتاب المغازی از ابو عبد الله محمد بن عمر بن واقد الواقدی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2004ء/2013ء 74 کشف الغمة عن جميع الامۃ از ابی المواہب عبد الوہاب بن احمد بن علی الشعرانی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1998ء 75 کنز العمال فی سنن الا قوال و الافعال از علاء الدین علی بن حسام الدین الہندی، مطبوعہ مؤسسة الرسالة 1985ء / دار الكتب العلمية بيروت 2004 ء 76 لغات الحدیث از وحید الزمان مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء / علی آصف پر نٹر ز لاہور 2005ء / پیر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی 77 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد از نور الدین علی بن ابی بکر بن سلیمان البیشمی المصری مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء 78 محمد رسول اللہ والذین معہ از عبد الحميد جودة السحار مطبوعه مكتبة مصر 79 المستدرک علی الصحیحین از ابو عبد الله محمد بن عبد اللہ الحاکم نیشاپوری، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت 1990ء / مکتبہ نزار مصطفى الباز الرياض 2000ء 80 مسند الامام احمد بن حنبل) از امام احمد بن حنبل، مطبوعہ عالم الكتب 1998ء/ دارالحدیث قاہرہ 2012ء 81 المصنف لابن ابی شیبته از ابی بکر عبد بن محمد بن ابراہیم ابی شیبہ العبی، الفاروق الحدیثہ قاہرہ 2008ء / مترجم محمد اولیس سرور مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور 2014ء 82 المعجم الاوسط از حافظ ابی القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی مطبوعہ دار الفکر عمان اردن، 1999ء 83 معجم البلدان از شہاب الدین ابی عبد اللہ یا قوت بن عبد الله الحموی الرومی البغدادی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2001ء / دار صادر بیروت 1977 ء / المكتبة العصرية بيروت لبنان 2014ء 84 المعجم الکبیر از ابی القاسم سلیمان بن احمد طبرانی، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی 2002ء 85 معرفۃ الصحابہ از ابی نعیم احمد بن عبد اللہ بن احمد بن اسحاق بن مہران اصبہانی دارالکتب العلمیة بیروت 2002ء 86 ملفوظات از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود، شائع کر وہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لندن 2022ء 87 المنتظم فی تاریخ الملوک والا هم از ابی الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد ابن الجوزی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2012ء 88 المنهاج بشرح صحیح مسلم بن حجاج از محی الدین بن یحیی بن شرف النووی، مطبوعہ دار ابن حزم بیروت لبنان 2002ء 89 نقوش صحابه از خالد محمد خالد ترجمه و تهذیب ارشاد الرحمن مطبع عرفان افضل پر میں بند روڈ لاہور 90 وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی از علامہ نور الدین علی بن احمد السمہودی، مطبوعہ مکتبۃ الحقانیة پشاور پاکستان 91 یوم الفرقان اسرار غزوة بدر از دکتور مصطفی حسن البدوی مطبوعہ دار المنهاج بیروت 2015 ء

Page 617