Ashab-eBadr Vol 4

Ashab-eBadr Vol 4

اصحابِ بدرؓ (جلد چہارم)

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ

جنگِ بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ کی سیرت و سوانح


Book Content

Page 1

وَلَقَدْ نَصَرَ كُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ اصحابے بدر جلد 4 سید نا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD اصحاب بدر جلد چهارم (The Guiding Stars of Badr - Vol.4) (Urdu) by Hazrat Mirza Masroor Ahmad, Khalifatul-Masih V (may Allah be his Helper) First published in the UK, 2024 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Limited Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU99PS For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-504-0

Page 3

صحاب بدر جلد 4 E: 111 فہرست مضامین فہرست مضامین صفحہ نمبر نمبر شمار مضمون i ii 5 6 7 پیش لفظ دیباچه حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ الساعدی حضرت ابو الاعور بن الحارث حضرت ابو الحمر الا مولیٰ حارث بن عفراء حضرت ابو الضیا بن ثابت بن نعمان حضرت ابو المنذر یزید بن عامر 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 حضرت ابو الہیثم بن التیهان حضرت ابو الیسر کعب بن عمرو حضرت ابو ایوب انصاری حضرت ابو بردہ بن نیاز حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ حضرت ابو حنہ مالک بن عمرو حضرت ابو خالد حارث بن قیس بن خالد بن مخلد حضرت ابو خزیمہ بن اوس حضرت ابو دجانہ انصاری سماک بن خرشه حضرت ابو سبرہ بن ابی رھم xi xiii 1 6 7 7 8 8 14 17 31 33 43 44 44 45 51

Page 4

فہرست مضامین 52 52 53 54 57 60 60 68 68 70 70 81 105 119 122 122 123 124 125 126 128 131 باب بدر جلد 4 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 iv حضرت ابو سلیط اسیرہ بن عمرو حضرت ابوسنان بن محصن حضرت ابو شیخ ابی بن ثابت حضرت ابو عبس بن جبر حضرت ابو عقیل بن عبد اللہ حضرت ابو کبشہ سلیم حضرت ابولبابہ بن المنذر حضرت ابو مخشی طائی حضرت ابو مرتد کنار بن الحصين الغنوی حضرت ابومليل بن الاز عرض حضرت ابو طلحہ انصاری حضرت ابو عبیدہ بن الجراح حضرت ابی بن کعب حضرت ارقم بن ابی ارقم حضرت اسعد بن یزید رض حضرت انس بن معاذ انصاری حضرت انسه حضرت انیس بن قتادہ بن ربیعہ حضرت اوس بن ثابت بن منذر حضرت اوس بن خولی حضرت اوس بن صامت حضرت ایاس بن بکیر

Page 5

تاب بدر جلد 4 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 حضرت بجیر بن ابی بجیر حضرت بسبس بن عمرو V حضرت بشر بن براء بن معرور حضرت بشیر بن سعد حضرت بلال بن رباش حضرت تمیم ( حضرت خراش کے آزاد کردہ غلام) حضرت تمیم بن یعار حضرت تمیم مولی بنو غنم حضرت ثابت بن اقرم بن ثعلبہ حضرت ثابت بن ثعلبہ حضرت ثابت بن خالد انصاری حضرت ثابت بن خنساء حضرت ثابت بن عمرو بن زید حضرت ثابت بن ہران حضرت ثعلبہ بن حاطب انصاری حضرت ثعلبہ بن زید ( ان کا لقب الجذع تھا) حضرت ثعلبہ بن عمر و انصاری حضرت ثعلبہ بن غنمره حضرت تقف بن عمرو حضرت جابر بن خالد حضرت جابر بن عبد اللہ بن رئاب حضرت جبار بن صخر فہرست مضامین 133 133 136 144 153 185 185 186 186 188 189 189 189 190 190 192 193 194 194 195 195 197

Page 6

حاب بدر جلد 4 67 65 64 65 66 حضرت جبر بن عتیک حضرت جبیر بن ایاس حضرت حارث بن الصمرية 68 80 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 vi حضرت حارث بن انس انصاری حضرت حارث بن اوس بن معاد حضرت حارث بن حاطب حضرت حارث بن خزمه حضرت حارث بن عرفجر حضرت حارث بن نعمان بن امیہ حضرت حارثہ بن سراقہ (شہید) حضرت حارثہ بن نعمان فہرست مضامین 202 202 203 205 205 211 212 213 ย 213 213 215 218 230 231 234 235 242 242 243 268 269 270 رض حضرت حاطب بن ابی بلتعہ حضرت حاطب بن عمر و بن عبد شمس حضرت حباب بن منذر بن الجموح حضرت حبیب بن اسود حضرت حرام بن ملحان حضرت حریث بن زید انصاری حضرت حصین بن حارث حضرت حمزہ بن عبد المطلب حضرت حمید انصاری حضرت خارجہ بن حمیر اشجعی حضرت خارجہ بن زید

Page 7

حاب بدر جلد 4 888 86 vii حضرت خالد بن بکیر حضرت خالد بن قیس حضرت خباب بن الارث حضرت خباب، مولیٰ عتبہ بن غزوان 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 حضرت خبیب بن اساف حضرت خبیب بن عدی انصاری حضرت خراش بن صمه حضرت خریم بن فاتک حضرت خلاد بن رافع حضرت خلاد بن سوید حضرت خلاد بن عمرو حضرت خلیدہ بن قیس حضرت خلیفہ بن عدی حضرت خنیس بن حذافہ حضرت خوات بن جبیر حضرت خولی بن ابی خولی حضرت ذکوان بن عبد قیس حضرت ذو الشمالين عمیر بن عبد عمر و (شہید) حضرت رافع بن المعلی (شہید) حضرت رافع بن حارث بن سواد حضرت رافع بن عنجدة حضرت رافع بن یزید فہرست مضامین 272 273 274 285 285 291 301 301 304 306 307 311 311 312 313 316 317 318 319 320 320 320

Page 8

فہرست مضامین 321 321 321 vili حضرت ربعی بن رافع حضرت ربیع بن ایاس حضرت ربیعہ بن ا کنم حضرت رخیلہ بن ثعلبہ انصاری حضرت رفاعہ بن رافع بن مالک بن عجلان 322 حضرت رفاعہ بن عمر و انصاری حضرت زاہر بن حرام اشجعی حضرت زبیر بن العوام حضرت زیاد بن عمرو حضرت زیاد بن لبید حضرت زید بن اسلم انصاری رض حضرت زید بن مزین حضرت زید بن حارثہ حضرت زید بن خطاب رض حضرت زید بن ودیعه حضرت سالم بن عمیر بن ثابت حضرت سالم مولی ابو حذیفہ حضرت سائب بن عثمان حضرت سائب بن مظعون حضرت سبرہ بن فاتتک حضرت سبیع بن قیس حضرت سراقہ بن عمرو بن عطیہ بن خنساء انصاری 322 329 329 331 353 354 356 356 357 397 400 シ 400 402 408 409 410 411 412 اب بدر جلد 4 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129

Page 9

فہرست مضامین 412 413 443 445 451 457 458 458 497 499 500 536 537 546 546 550 551 552 554 554 555 555 ix حضرت سراقہ بن کعب حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت سعد بن خوله حضرت سعد بن خیثمہ (شہید) حضرت سعد بن ربیع حضرت سعد بن زید حضرت سعد بن سہیل حضرت سعد بن عبادہ حضرت سعد بن عبید حضرت سعد بن عثمان بن خلده انصاری حضرت سعد بن معاذ حضرت سعد مولیٰ حاطب بن ابی بلتعہ حضرت سعید بن زید حضرت سفیان بن نسر حضرت سلمہ بن اسلم حضرت سلمہ بن ثابت حضرت سلمہ بن سلامه حضرت سلیطہ بن قیس حضرت سلیم بن حارث ، حضرت سلیم بن عمرو حضرت سلیم بن قیس حضرت سلیم بن ملحان اب بدر جلد 4 130 131 132 133 134 135 136 137 138 139 140 141 142 143 144 145 146 147 148 149 150 151

Page 10

فہرست مضامین 556 557 558 558 564 564 565 569 571 572 573 574 X حضرت سماک بن سعد حضرت سنان بن ابی سنان حضرت سنان بن صیفی حضرت سہل بن حنیف حضرت سہل بن عتیک حضرت سہل بن قیس حضرت سہیل بن رافع حضرت سہیل بن وہب رض حضرت سواد بن رزن حضرت سواد بن غزيه حضرت سوییط بن سعد ( آپ کا نام سوسبط بن حرملہ بھی ملتا ہے) حضرت شجاع بن وہب تاب بدر جلد 4 152 153 154 155 156 157 158 159 160 161 162 163

Page 11

صحاب بدر جلد 4 xi پیش لفظ پیش لفظ جنگ بدر کو تاریخ اسلام میں ایک نمایاں اہمیت اور فضیلت حاصل ہے.قرآن کریم نے اس دن کو ”یوم الفرقان“ کہہ کر اس کی تاریخی فضیلت کو دوام بخشا اور اس فضیلت اور عظمت کا تاج اپنے وفاشعار جاں نثار بدری صحابہ کے سروں پر سجاتے ہوئے آنحضرت صلی الیم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ اور تمہیں یہ کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا کہ تم جو کچھ کرتے رہو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں.(بخاری) اس جنگ میں شامل ہونے والے 313 صحابہ خود بھی اپنے آخری سانسوں تک اس سعادت اور اعزاز پر خدا کا شکر بجالاتے ہوئے فخر کیا کرتے تھے.چنانچہ ایک مشہور مستشرق ولیم میور صاحب لکھتے ہیں: بدری صحابی اسلامی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین رکن سمجھے جاتے تھے.سعد بن ابی وقاص جب اتنی سال کی عمر میں فوت ہونے لگے تو انہوں نے کہا کہ مجھے وہ چوغہ لاکر دو جو میں نے بدر کے دن پہنا تھا اور جسے میں نے آج کے دن کے لئے سنبھال کر رکھا ہوا ہے.یہ وہی سعد تھے جو بدر کے زمانہ میں بالکل نوجوان تھے اور جن کے ہاتھ پر بعد میں ایران فتح ہوا اور جو کوفہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر ان کی نظر میں یہ تمام عزتیں اور فخر جنگ بدر میں شرکت کے عزت و فخر کے مقابلے میں بالکل پیچ تھیں اور جنگ بدر والے دن کے لباس کو وہ اپنے واسطے سب خلعتوں سے بڑھ کر خلعت سمجھتے تھے اور ان کی آخری خواہش یہی تھی کہ اسی لباس میں لپیٹ کر ان کو قبر میں اتارا جاوے.“ (بحوالہ سیرت خاتم النبیین صفحہ 373) یہ خوش نصیب صحابہ کون کون تھے ؟ رہتی دنیا تک آسمان پر چمکنے والے یہ چاند ستارے کون تھے ؟؟ ان کے نام، ان کے والدین کے نام ان کے سوانح کیا تھے اور ان کی سیرت کے نمایاں کام اور کارنامے کیا کیا تھے.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے

Page 12

اصحاب بدر جلد 4 xii پیش لفظ خطبات میں بڑی تفصیل سے ان کا ذکر فرمایا ہے.گویا کہ ان صحابہ کی سوانح اور سیرت کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے.سیرت صحابہ کا یہ تاریخی بیان حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 4 مئی 2018ء کو شروع فرمایا اور پھر یہ تابناک علمی اور تحقیقی مواد خدا کے اس پیارے مقدس وجود کے لب مبارک سے ادا ہو تا رہا.آخری خطبہ 24 فروری 2023ء کو ارشاد فرماتے ہوئے کل 173 خطبات میں یہ ذکر مکمل ہوا.اور اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے آنحضرت صلی علیکم کی سیرت پر خطبات دینے کا سلسلہ شروع فرمایا جو ابھی تک جاری و ساری ہے.سیرت النبی صلی ال نیم کے یہ تمام خطبات جلد اول میں پیش کئے جائیں گے، اس سے قبل جلد 2 اور 3 خلفائے راشدین کی سیرت و سوانح پر مشتمل پیش کی جاچکی ہیں.اس جلد میں بدری صحابہ کے نام حروف تہجی کے اعتبار سے ہیں اور نمبر 5 تا 163 کے حالات پیش خدمت ہیں.اس علمی و تحقیقی کام میں معاونت کرنے والے تمام افراد اور دفاتر خاص طور پر شکریہ کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزاء عطا فرمائے.فجزاہم اللہ احسن الجزاء جولائی ۲۰۲۴ء منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف

Page 13

صحاب بدر جلد 4 XIII دیاچه بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ دیباچه تبرک تحریر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار صحابہ کے اخلاص وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " خدا تعالیٰ نے صحابہ کی تعریف میں کیا خوب فرمایا ہے مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب : 24) مومنوں میں سے ایسے مرد ہیں جنہوں نے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے خدا تعالی کے ساتھ کیا تھا.سواُن میں سے بعض اپنی جانیں دے چکے اور بعض جانیں دینے کو تیار بیٹھے ہیں." پھر آپ فرماتے ہیں کہ " صحابہ کی تعریف میں قرآن شریف سے آیات اکٹھی کی جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی اسوۂ حسنہ نہیں." (ملفوظات جلد 7 صفحہ 431 تا 433) اور ان آیات میں صحابہ کی نیکیوں کے اور قربانیوں کے جو نمونے بیان ہوئے ہیں وہ ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہیں.چند سال قبل جب میں نے صحابہ کے حالات بیان کرنے شروع کئے تو ان میں بدری صحابہ بھی تھے اور چند دوسرے صحابہ کا بھی ذکر ہوا.لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ پہلے صرف بدر کی جنگ میں شامل ہونے والے صحابہ کا ذکر کروں.کیونکہ ان کا ایک خاص مقام ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک سلسلہ وار خطبات میں مجھے ان پاک طینت عشاق رسول الله الله السلام کا ذکر خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی.غزوہ بدر کے صحابہ وہ لوگ تھے جو غریب اور کمزور ہونے کے باوجود دین کی

Page 14

باب بدر جلد 4 xiv حفاظت کرنے والوں میں صف اول میں تھے.وہ کبھی دشمن کی طاقت سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ ان کا تمام تر توکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا اور محبت کا عہد کیا تو اس کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا.اپنے عہد وفا کو نبھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی جنت کی بشارت دی اور ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمایا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس غزوہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " یہی وہ جنگ ہے جس کا نام قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرقان رکھا ہے اور یہی وہ جنگ ہے جس میں عرب کے وہ سردار جو اس دعویٰ کے ساتھ گھر سے چلے تھے کہ اسلام کا نام ہمیشہ کے لئے مٹا دیں گے خود مٹ گئے اور ایسے مٹے کہ آج ان کا نام لیوا کوئی باقی نہیں." (سیرة النبیصلیالم ، انوار العلوم جلد 1 صفحہ 610) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب اور ملفوظات میں دو بدری ادوار کا ذکر فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں: اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہو رہی ہے جو بدر کے موقع پر ہو گئی تھی جس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذلَّةٌ (آل عمران: 124).اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا." (لیکچرلدھیانہ،روحانی خزائن جلد 20 صفحه 280) پھر آپ فرماتے ہیں " اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی اور وہ مد داخلةٌ کی مدد تھی جس وقت تین سو تیرہ آدمی صرف میدان میں آئے تھے اور کل تین لکڑی کی تلواریں تھیں اور ان تین سو تیرہ میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے.اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہوگی اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمعیت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا.اس وقت

Page 15

ب بدر جلد 4 XV دیباچه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر دعائى اللَّهُمَّ إِنْ أَهْلَكْتَ هُذِهِ الْعِصَابَةَ لَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا.یعنی اے اللہ ! اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا.سنو ! میں بھی یقیناً اس طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر والا معاملہ ہے.اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت تیار کر رہا ہے.وہی بدر اور اَذِلَّةُ کا لفظ موجود ہے." ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 190-191) غزوہ بدر تاریخ اسلام کا نہایت اہم واقعہ ہے.احباب جماعت کو چاہیئے کہ اس حوالہ سے میرے خطبات کے اس مجموعے کو ضرور پڑھیں تاکہ یہ ایمان افروز واقعات ہمیشہ آپ کے ذہنوں میں مستحضر رہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بھی ہے جو تذکرہ میں یوں درج ہے: "آج رات حضرت نے خواب بیان فرمایا کسی نے کہا کہ جنگ بدر کا قصہ مت بھولو.(تذکرہ ص 668) اللہ تعالیٰ ہم میں خاص طور پر بدر کی اہمیت کا ادراک پیدا فرمائے اور ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی آمد کو سمجھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کرے کہ مسلمان امت بھی اس واقعہ بدر کی حقیقت کو سمجھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئے ہوئے مسیح موعود کو پہچانے تاکہ مسلمان دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کرنے کے قابل بن جائیں.آمین مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس عالمگیر جماعت احمدیہ 25 اپریل2024ء

Page 16

Page 17

1 5 صحاب بدر جلد 4 حضرت ابو أسيد مالك بن ربيعه الساعدي غزوہ بدر میں شامل ہونے والے انصار صحابہ میں سب سے آخر پر فوت ہونے والے نام و کنیت و حلیہ : حضرت مالک بن ربیعہ اپنی کنیت ابواسید سے مشہور ہیں.بعض نے آپ کا نام ہلال بن ربیعہ بھی بیان کیا ہے.آپ کا تعلق خزرج کی شاخ بنو ساعدہ سے تھا.1 حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ چھوٹے قد کے تھے.سر اور داڑھی کے بال سفید ہو گئے تھے.آپ کے بال گھنے تھے.بڑھاپے میں آپ بینائی سے محروم ہو گئے تھے.60 ہجری میں حضرت معاویہ کے دور میں 75 سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی اور غزوہ بدر میں شامل ہونے والے انصار صحابہ میں سے یہ سب سے آخر میں فوت ہوئے.2 فتح مکہ کے موقعہ پر ان کے ہاتھ میں جھنڈا حضرت ابو أسيد غزوہ بدر، احد، خندق اور اس کے بعد کی جنگوں میں نبی کریم صلی ایم کے ساتھ شریک رہے.فتح مکہ کے موقع پر ان کے پاس قبیلہ بنو ساعدہ کا جھنڈا تھا.3 شادی میں نبی اکرم صلی الم کی شرکت حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ حضرت ابو اسید ساعدی نے رسول اللہ صلی الیم کو اپنی شادی میں دعوت دی.اس دن ان کی بیوی آپ صلی للہ کم کی خدمت کر رہی تھی اور وہی دلہن بھی تھی.بڑی سیاد گی سے شادی ہو رہی تھی.شادی کی دعوت ہوئی اور دلہن ہی کھانا بھی پکار ہی تھی.serve بھی کر رہی تھی.حضرت سہل آگے سوال کر کے جواب دے رہے ہیں.یہ ان کا انداز ہے.کہتے ہیں کہ تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی علیکم کو انہوں نے کیا پلایا ؟ انہوں نے آپ کے لئے ایک برتن میں رات کو کھجوریں بھگو دیں.جب آپ نے کھانا کھا لیا تو انہوں نے آپ کو شربت پلایا.4 ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف نہیں دی جاسکتی رسول اللہ صلی للی کم کی خدمت میں ایک دفعہ چند قیدی آئے آپ نے ان میں سے ایک عورت کو روتے ہوئے دیکھا.آپ صلی علی یکم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز رلا رہی ہے ؟ اس نے کہا کہ اس نے

Page 18

تاب بدر جلد 4 2 میرے اور میرے بیٹے کے درمیان بنو عبس میں فروخت کر کے دوری ڈال دی ہے.آپ صلی یی یکم نے قیدی کے مالک کو بلایا.جب بلایا تو دیکھا کہ وہ ابو اسید ساعدی تھے.آپ نے پوچھا کیا تم نے اس کے اور اس کے بچے کے درمیان دوری ڈالی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ بچہ چلنے سے معذور تھا اور یہ اس کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتی تھیں.اس لئے میں نے اس کو بنو عبس میں فروخت کر دیا.رسول اللہ صلی ا ہم نے فرمایا کہ تم خود جا کر اسے لے کے آؤ.چنانچہ حضرت ابواسید جاکر اس بچے کو واپس لائے اور اسے اس کی ماں کو لوٹا دیا.آنحضرت سلیم نے فرمایا چاہے اس میں طاقت ہے یا نہیں، چاہے وہ قیدی ہو یا لونڈی ہو یا غلام ہو 5 لیکن ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف نہیں دی جاسکتی.گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ نبی کریم صلی اللہ تم نے ایک دفعہ گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ لگوائی.آپ کی اونٹنی جس پر حضرت بلال سو تھے سب اونٹوں سے آگے نکل گئی.اسی طرح آپ کا ایک گھوڑا تھا.گھوڑوں کی دوڑ لگوائی اور آپ ملی ایم کے گھوڑے پر ابواسید ساعدی سوار تھے اور اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا.6 ان کے بیٹے کو آمحضرت مصلی الم نے اپنی ران پر بٹھایا اور نام رکھا حضرت سہل بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو اسید کے ہاں ان کے بیٹے منذر بن ابی اسید پیدا ہوئے تو ان کو نبی کریم صلی علیکم کی خدمت میں لایا گیا.آپ نے اس بچے کو اپنی ران پر بٹھا لیا.اس وقت حضرت ابواسید بیٹھے ہوئے تھے.اتنے میں نبی کریم صلی اللہ کی کسی کام میں مشغول ہو گئے.حضرت ابواسید نے اشارہ کیا تو لوگ مندر کو آپ کی ران پر سے اٹھا کر لے گئے.جب آپ کو فراغت ہوئی تو پوچھا کہ بچہ کہاں گیا ؟ حضرت ابواسید نے عرض کیا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے اس کو گھر بھیج دیا ہے.آپ نے پوچھا اس کا نام کیا رکھا ہے ؟ ابواسید نے کوئی نام بتایا کہ فلاں نام رکھا ہے.آپ نے فرمایا نہیں.اس کا نام مخلد ہے.آپ نے اس دن اس کا نام منذر رکھا.شارحین نے نبی کریم صلی علیم کا اس بچے کا نام منذر رکھنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ حضرت ابواسید کے چازاد بھائی کا نام منذر بن عمر و تھا جو بئر معونہ میں شہید ہوئے تھے.پس یہ نام تفاؤل کی وجہ سے رکھا گیا تھا کہ وہ بھی ان کے اچھے جانشین ثابت ہوں.8 آخری عمر میں بینائی زائل ہو جانا حضرت سلیمان بن یسار سے مروی ہے کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت سے پہلے حضرت ابواسید الساعدی کی بینائی زائل ہو گئی.نظر آنا بند ہو گیا.آنکھیں خراب ہو گئیں تو اس بات پر آپ کہا کرتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے نبی کریم ملی ایل علم کی حیات مبارکہ میں بینائی سے نوازا اور وہ ساری برکات میں نے

Page 19

تاب بدر جلد 4 3 دیکھیں اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو آزمائش میں ڈالنا چاہا تو میری بینائی ختم کر دی.رض میری نظر ختم ہو گئی تاکہ میں ان بری حالتوں کو نہ دیکھ سکوں.حضرت عثمان بن عبید اللہ جو حضرت سعد بن ابی وقاص کے آزاد کردہ غلام تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ " میں نے حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابو ہریرۃ، حضرت ابو قتادہ اور حضرت ابواسید ساعدی کو دیکھا.یہ حضرات ہم پر سے گزرتے تھے اس حال میں کہ ہم مکتب میں ہوتے تھے تو ہم ان سے عبیر کی خوشبو محسوس کیا کرتے تھے." یہ خوشبو ہے جو زعفران اور کئی چیزوں سے ملا کر بنائی جاتی ہے.10 امانت و دیانت کے اعلیٰ معیار مروان بین الحکم حضرت ابو اسید ساعدی کو صدقے پر عامل بنایا کرتے تھے.یعنی اکٹھا کرنے کے لئے اور اس کی تقسیم کے لئے.حضرت ابواسید ساعدی جب دروازے پر آتے تو اونٹ بٹھاتے اور ان کو تمام چیزیں تقسیم کے لئے دیتے.آخری چیز جو ان کو دیتے وہ چابک ہو تا.اسے دیتے ہوئے یوں کہتے کہ یہ تمہارے مال میں سے ہے.حضرت ابواسید ایک مرتبہ زکوۃ کامال تقسیم کرنے آئے اور جو سامان تھا وہ کر کے چلے گئے.گھر میں جا کر جو سوئے تو خواب میں انہوں نے دیکھا کہ ایک سانپ ان کی گردن سے لپٹ گیا ہے.وہ گھبر اگر اٹھے اور پوچھا کہ اے فلاں ! (خادمہ سے یا بیوی سے پوچھا کہ ) کیا مال میں سے کوئی چیز رہ گئی ہے جو تقسیم کرنے کے لئے مجھے دی گئی تھی.وہ بولی کہ نہیں.حضرت ابواسید نے فرمایا کہ پھر کیا بات ہے کہ سانپ میری گردن میں لپٹ گیا تھا.دیکھو شاید کچھ رہ گیا ہو.جب انہوں نے دیکھا تو وہ بولی کہ ہاں اونٹ کو باندھنے والی ایک رسی ہے جس کے ساتھ ایک تھیلے کا منہ باندھ دیا گیا تھا.چنانچہ حضرت ابواسید نے وہ رستی بھی جاکر ان کو واپس کر دی.11 اللہ تعالیٰ ان صحابہ کو تقویٰ کے باریک ترین معیاروں پر رکھ کر امانت کی ادائیگی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کروانا چاہتا تھا اور اسی لئے پھر خوابوں میں بھی ان کی رہنمائی ہو جاتی تھی.انصار کے فضائل عماره بن غزيه اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں کہ کچھ جوانوں نے حضرت ابواسید سے انصار کے متعلق رسول اللہ صلی الم کے بیان کردہ فضائل کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی الیم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انصار کے تمام قبائل میں سب سے اچھے بنو نجار کے گھرانے ہیں.پھر بنو عبد الْاَشْهَل، پھر بنو حارث بن خزرج، پھر بنو ساعدہ اور انصار کے تمام گھرانوں میں خیر ہی خیر ہے.حضرت ابواسید اس پر فرماتے تھے کہ اگر میں حق کے سوا کسی چیز کو قبول کرنے والا ہوتا تو میں بنو ساعدہ کے کسی خاندان سے شروع کرتا.12 بنت الجون کا قصہ اور مخالفین کے ایک اعتراض کا جواب حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ تاریخ کے حوالے سے ذکر فرمایا ہے کہ جب عرب فتح ہوا اور

Page 20

اسلام : بدر جلد 4 4 پھیلنے لگا تو کندہ قبیلہ کی ایک عورت جس کا اسماء یا امیمہ نام تھا اور وہ جونیہ یابنتُ الجون بھی کہلاتی تھی.اس کا بھائی لقمان رسول کریم صلی علی یکم کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے بطور وفد حاضر ہوا اور اس موقع پر اس نے یہ بھی خواہش کی کہ اپنی ہمشیرہ کی شادی رسول کریم صلی علیم سے کر دے اور بالمشافہ رسول کریم صلی کم سے درخواست بھی کر دی کہ میری بہن جو پہلے ایک رشتہ دار سے بیاہی ہوئی تھی اب الله سة بیوہ ہے اور نہایت خوبصورت اور لائق بھی ہے آپ اس سے شادی کر لیں.رسول کریم صلی یکم کو چونکہ قبائل عرب کا اتحاد منظور تھا اس لئے آپ نے اس کی یہ دعوت منظور کر لی اور فرمایا کہ ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی پر نکاح پڑھ دیا جائے.اس نے کہا یا رسول اللہ ہم معزز لوگ ہیں.بڑے رئیس لوگ ہیں یہ مہر تھوڑا ہے.آپ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ میں نے اپنی کسی بیوی یا لڑکی کا مہر نہیں باندھا.جب اس نے رضامندی کا اظہار کر دیا اور اس نے کہا ٹھیک ہے تو نکاح پڑھا گیا اور اس نے رسول کریم صلی علیم سے درخواست کی کہ کسی آدمی کو بھیج کر اپنی بیوی منگوا لیجئے.آپ صلی اللہ ہم نے ابواسید کو اس کام پر مقرر کیا.وہ وہاں تشریف لے گئے.جونیہ نے ان کو اپنے گھر بلایا تو حضرت اُسید نے کہا کہ رسول کریم صلی الی کم کی بیویوں پر حجاب نازل ہو چکا ہے.اس پر اس نے دوسری ہدایات دریافت کیں جو آپ نے انہیں بتا دیں اور اونٹ پر بٹھا کر مدینہ لے آئے اور ایک مکان میں جس کے گرد کھجوروں کے درخت بھی تھے لا کر اتارا.اس عورت کے ساتھ جس کی شادی ہوئی تھی اس کی دایہ بھی اس کے رشتہ داروں نے روانہ کی تھی.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ جس طرح ہمارے ملکوں میں بھی ایک بے تکلف نو کر ساتھ جاتی ہے.بڑے لوگ، امیر لوگ بھیجا کرتے تھے اس زمانے میں.اب تو یہ رواج نہیں، پرانے زمانے میں ہو تا تھا تا کہ اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.چونکہ یہ عورت جو تھی جس سے آنحضرت صلی علیم کی شادی ہوئی تھی یا جس کے بھائی نے رشتہ پیش کیا تھا، شادی کی خواہش کی تھی اور پھر نکاح بھی ہو گیا تھا یہ عورت بڑی حسین مشہور تھی اور یوں بھی عورتوں کو دلہن دیکھنے کا شوق ہوتا ہے.محلے کی، قریب کی جو دوسری عور تیں ہوتی ہیں جب کوئی نو بیاہتا دلہن آئے تو انہیں اس کو دیکھنے کا شوق ہوتا ہے.مدینہ کی عورتیں بھی اس عورت کو دیکھنے گئیں.اس کی خوبصورتی بڑی مشہور تھی اور اس عورت کے بیان کے مطابق کسی عورت نے اس کو سکھا دیا کہ رعب پہلے دن ہی ڈالا جاتا ہے.جب رسول کریم صلی علی کرم تیرے پاس آئیں تو تو کہہ دیجیو کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں.اس پر وہ تیرے زیادہ گرویدہ ہو جائیں گے.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ اگر یہ بات اس عورت کی بنائی ہوئی نہیں تو کچھ تعجب نہیں کہ کسی منافق نے اپنی بیوی یا اور کسی رشتہ دار کے ذریعہ یہ شرارت کی ہو.غرض جب اس کی آمد کی اطلاع رسول اللہ صلی ایم کو ملی تو آپ اس گھر کی طرف تشریف لے گئے جو اس کے لئے مقرر کیا گیا تھا.احادیث میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی علیم اس کے پاس تشریف لائے تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تو اپنا نفس مجھے ہبہ کر دے.اس نے جواب دیا کہ کیا ملکہ تبھی اپنے آپ کو عام آدمیوں کے سپرد کیا کرتی ہے ؟ ابو اسید کہتے ہیں کہ اس پر رسول کریم صلی اللہ ہم نے اس خیال سے کہ اجنبیت کی وجہ سے گھبرارہی

Page 21

اصحاب بدر جلد 4 5 ہے اسے تسلی دینے کے لئے اس پر اپنا ہاتھ رکھا.آپ نے اپنا ہاتھ ابھی رکھا ہی تھا کہ اس نے یہ نہایت گندہ اور نا معقول فقرہ کہہ دیا کہ میں تجھ سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتی ہوں.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ چونکہ نبی خدا تعالیٰ کا نام سن کر ادب کی روح سے بھر جاتا ہے اور اس کی عظمت کا متوالا ہو جاتا ہے.اس کے اس فقرے پر آپ صلی الیکم نے فوراً فرمایا کہ تو نے ایک بڑی ہستی کا واسطہ دیا ہے اور اس کی پناہ مانگی ہے جو بڑا پناہ دینے والا ہے اس لئے میں تیری در خواست کو قبول کرتا ہوں.چنانچہ آپ صلی علی کم اسی وقت باہر تشریف لے آئے اور فرمایا کہ اے ابواسید اسے دو چادر میں دے دو اور اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو.چنانچہ اس کے بعد اسے مہر کے حصہ کے علاوہ بطور احسان دور از قی چادر میں دینے کا آپ نے حکم دیا تا کہ قرآن کریم کا حکم وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمُ پورا ہو.یعنی آپس میں احسان کا سلوک بھول نہ جایا کرو.اس کے مطابق آپ نے زائد دیا، احسان کیا.مصلح موعود لکھتے ہیں کہ جو ایسی عورتوں کے متعلق ہے جن کو بلا صحبت طلاق دے دی حضرت جائے اور آپ نے اسے رخصت کر دیا اور ابو اسید ہی اس کو اس کے گھر پہنچا آئے.اس کے قبیلے کے لوگوں پر یہ بات نہایت شاق گزری اور انہوں نے اس کو ملامت کی.مگر وہ یہی جواب دیتی رہی کہ یہ میری بد بختی ہے اور بعض دفعہ اس نے یہ بھی کہا کہ مجھے ورغلایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ جب رسول کریم صلی یکم تیرے پاس آئیں تو تم پرے ہٹ جانا اور نفرت کا اظہار کرنا.اس طرح ان پر تمہارا رعب قائم ہو جائے گا.معلوم نہیں یہی وجہ ہوئی یا کوئی اور.بہر حال اس نے نفرت کا اظہار کیا اور رسول کریم صلی علیم اس سے علیحدہ ہو گئے اور اسے رخصت کر دیا.3 آنحضرت علی پر جو بیویوں کا الزام لگاتے ہیں کہ خوبصورت عورتوں کے نعوذ باللہ دلدادہ تھے.یہ جو سارا واقعہ ہے ان کے لئے کافی جواب ہے.حضرت ابو اسید کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی علیم سے جب بھی کوئی چیز مانگی جاتی تو آپ نے کبھی انکار نہیں فرمایا.14 13 عثمان بن عبید اللہ سے مروی ہے کہ میں نے ابواسید کو دیکھا وہ اپنی داڑھی زر در نگتے تھے.15 ابن اسحاق کہتے ہیں کہ ابو أسيد مالك بن ربيعه غزوہ بدر میں شریک تھے جب ان کی اخیر عمر میں بینائی چلی گئی تو انہوں نے کہا کہ اگر آج میں بدر کے مقام پر ہوتا اور میری بینائی بھی ٹھیک ہوتی تو میں تم کو وہ گھائی دکھاتا جہاں سے فرشتے نکلے تھے.مجھے اس میں ذرا بھی شک اور و ہم نہیں ہو گا.16 ابو أسيد مالك بن ربیعه ساعدی سے روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران بنو سلمہ کا ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا یار سول اللہ ! میرے ماں باپ کے مرجانے کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی صورت ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں.ان کے لیے دعا کرنا اور ان کے لیے استغفار کرنا.ان کے بعد ان کے

Page 22

تاب بدر جلد 4 6 وعدوں کو پورا کرنا اور جو ان دونوں کے رشتہ دار ہیں ان سے صلہ رحمی کرنا، انہیں جوڑے رکھنا، ان کے دوستوں کی عزت کرنا.17 اس طرح ان کو بھی ثواب پہنچتا رہے گا.ان کی روح کو بھی ثواب پہنچتار ہے گا.ان کی مغفرت کے سامان ہوتے رہیں گے.مالك بن ربیعہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا: اے اللہ !سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما.تو ایک شخص نے کہا اور بال کتروانے والوں کی ؟ تو آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا اور بال کتروانے والوں کی بھی.میں بھی اس روز سر منڈائے ہوئے تھا مجھے اس سے جو مسرت ہوئی وہ مجھے سرخ اونٹ یا بہت زیادہ مال ملنے پر بھی نہ ہوتی.8 18 عثمان بن از قسم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا: تمہارے پاس جو مالِ غنیمت ہے اسے چھوڑ دو تو حضرت ابو اسید الساعدی نے عائذ المرزبان کی تلوار رکھ دی تو حضرت ارقم نے اسے اٹھا لیا.اور کہا یار سول اللہ ! یہ مجھے دے دیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تلوار ان کو عطا کر دی.19 حضرت ابو الأغور بن الحارث حضرت ابوالاغور بن حارث کے نام کے بارے میں اختلاف ہے.ابن اسحاق کہتے ہیں کہ ابو الاغور کا نام کعب ہے جبکہ ابن عمارہ کے نزدیک ان کا نام حارث بن ظالم ہے.آپ کے چاک نام کعب تھا.جو نسب کو نہیں جانتے انہوں نے ابو الاغور کو ان کے چچا کعب کے نام سے منسوب کیا ہے.ابن ہشام بھی یہی کہتے ہیں.حضرت ابوالاغور کی والدہ اتم نیار بنت ایاس بن عامر تھیں ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عدی بن نجار سے تھا.غزوہ بدر اور احد میں یہ شریک ہوئے.20

Page 23

صحاب بدر جلد 4 7 7 حضرت ابو الحمراء مولی حارث بن عفراء حضرت ابوالحمراء مولیٰ حضرت حارث بن عفراء یہ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.غزوہ بدر میں حضرت معاذ، حضرت عوف اور حضرت معوذ اور ان کے آزاد کردہ غلام ابوالحمراء کے پاس ایک اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے.21 نام و کنیت حضرت ابو الصياح بن ثابت بن نُعمان حضرت ابو الصياح بن ثابت بن نُعمان ہیں.ان کی وفات 7 ہجری میں ہوئی.ایک روایت میں آپ کا نام محميد بن ثابت بن نعمان بن أمية بن امْرَاءُ الْقَيْس اور دوسری روایت کے مطابق نعمان بن ثابت بن امراء القیس ہے.آپ اپنی کنیت سے مشہور ہیں جو ابو الضیاح ہے.غزوات میں شمولیت غزوہ بدر، احد، خندق اور حدیبیہ میں شریک ہوئے اور غزوہ خیبر 7 ہجری میں شہید ہوئے.بیان کیا جاتا ہے کہ ایک یہودی نے آپ کے سر پر وار کیا جس سے آپ کا سرکٹ گیا جس سے آپ کی شہادت ہو گئی.22 ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوالفشیاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدر کے لیے نکلے تھے لیکن پنڈلی پر پتھر کی نوک لگنے سے زخم آیا جس کی وجہ سے وہ واپس لوٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں اُن کا حصہ رکھا.23

Page 24

صحاب بدر جلد 4 8 حضرت ابو المدلید یزید بن عامر ابوالمینذیر یزید بن عامر.ان کا نام یزید بن عمر و بھی بیان ہوا ہے.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو سواد سے تھا.بیعت عقبہ اور غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے اور ان کی اولاد مدینہ اور بغداد میں بھی تھی.4 ان کی اولاد کافی پھیلی.25 24 10 حضرت ابُو الْهَيْقَم بن التيهان زمانہ جاہلیت میں بھی بتوں سے بیزار اور مکہ میں ابتدائی اسلام قبول کرنے والے انصاری بارہ نقیبوں میں سے ایک نام و نسب حضرت ابو الْهَيْقم بن اللبان انصاری کا اصل نام مالک تھا لیکن اپنی کنیت ابو الْهَيْقم سے مشہور ہوئے.آپ کی والدہ لیلی بنت عتيك قبیلہ بلی سے تھیں.اکثر محققین کے نزدیک آپ قبیلہ اوس کی شاخ بلی سے ہیں جو بَنُو عَبْدُ الْأَشْهَلْ کے حلیف تھے.6 اسلام قبول کرنے والے ابتدائی انصاری ย 26 محمد بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت ابو الْهَيْثَم جاہلیت کے زمانے میں بھی بتوں کی پرستش سے بیزار تھے اور انہیں برا بھلا کہتے تھے.حضرت اسعد بن زرارہ اور حضرت ابو الْهَيْئَم توحید کے قائل تھے.یہ دونوں ابتدائی انصاری ہیں جنہوں نے مکہ میں اسلام قبول کیا.27 بعض کے نزدیک بیعت عقبہ اولیٰ سے قبل جب حضرت اسعد بن زرارہ چھ آدمیوں کے ساتھ مکہ

Page 25

اصحاب بدر جلد 4 9 سے مسلمان ہو کر مدینہ آئے تو حضرت ابو الْهَيْقم کو اسلام کی دعوت دی.چونکہ آپ پہلے ہی دین فطرت کی تلاش میں تھے آپ نے فوراً اسلام قبول کر لیا.پھر بیعت عقبہ اولیٰ کے وقت جو بارہ آدمیوں کا وفد مکہ گیا تو اس وفد میں آپ شامل تھے.مکہ پہنچ کر آپ نے رسول اللہ صلی الی یوم کی بیعت کی.28 بیعت عقبہ اولیٰ سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس بارے میں تحریر کیا ہے کہ: آنحضرت علی کو لوگوں سے الگ ہو کر ایک گھائی میں ان سے ملے.انہوں نے یثرب کے حالات سے اطلاع دی اور اپ کی دفعہ سب نے باقاعدہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.یہ بیعت مدینہ میں سے کی نے کے ہاتھ پر اسلام کے قیام کا بنیادی پتھر تھی.چونکہ اب تک جہاد بالسیف فرض نہیں ہوا تھا اس لئے آنحضرت صلی الم نے ان سے صرف ان الفاظ میں بیعت لی جن میں آپ جہاد فرض ہونے کے بعد عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے.یعنی یہ کہ ہم خدا کو ایک جانیں گے.شرک نہیں کریں گے.چوری نہیں کریں گے.زنا کے مر تکب نہیں ہوں گے.قتل سے باز رہیں گے.کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے اور ہر نیک کام میں آپ کی اطاعت کریں گے.بیعت کے بعد آنحضرت صلی علی یکم نے فرمایا اگر تم صدق و ثبات کے ساتھ اس عہد پر قائم رہے تو تمہیں جنت نصیب ہو گی اور اگر کمزوری دکھائی تو پھر تمہارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ جس طرح چاہیے گا کرے گا.یہ بیعت تاریخ میں بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ وہ جگہ جہاں بیعت لی گئی تھی عقبہ کہلاتی ہے جو مکہ اور منی کے درمیان واقع ہے.عقبہ کے لفظی معنی لکھے ہیں کہ "بلند پہاڑی رستے کے ہیں."29 بارہ نقیبوں میں سے ایک حضرت ابوالهَيْقم ان چھ افراد میں شامل تھے جنہوں نے اپنی قوم میں سے سب سے پہلے مکہ جا کر اسلام قبول کیا اور پھر مدینہ واپس آکر اسلام کی اشاعت کی.ان کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ آپ سب سے پہلے انصاری ہیں جو مکہ جا کر آنحضرت صلی ایام سے ملے.آپ بیعت عقبہ اولیٰ میں شامل ہوئے اور تمام محققین کا اس پر اتفاق ہے کہ بیعت عقبہ ثانیہ میں جب رسول اللہ صلی علیم نے ستر انصار میں سے بارہ نقباء منتخب فرمائے تو آپ بھی ان نقباء میں سے ایک تھے.30 نقباء نقیب کی جمع ہے جس کا مطلب ہے کہ جو علم اور صلاحیت رکھنے والے لوگ تھے انہیں ان کا سردار یا لیڈر یا نگران مقرر کیا تھا.ایک حدیث میں روایت ہے کہ بیعت عقبہ کے دوران حضرت أبو الهَيْئَم نے عرض کیا یار سول اللہ صلی للی کم ہمارے اور بعض دیگر قبائل کے درمیان باہمی مدد کے کچھ معاہدے ہیں.جب ہم اسلام قبول کر لیں گے اور بیعت کر کے آپ ہی کے ہو جائیں گے تو ان معاہدوں

Page 26

اصحاب بدر جلد 4 10 کا معاملہ جیسے آپ ارشاد فرمائیں گے ویسا ہی ہو گا.(ابو الْهَیم اس موقع پر آنحضرت صلی علم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ) اس موقع پر میں آپ کی خدمت میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اے اللہ کے رسول ! اب ہمارا تعلق آپ سے قائم ہو رہا ہے جب اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے اور آپ کی قوم پر آپ کو غلبہ نصیب ہو تو اس وقت آپ ہمیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم میں نہ چلے جائیں اور ہمیں داغ مفارقت نہ دیں.آنحضرت ملا ل لم یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا اب تمہارا خون میر اخون ہو چکا ہے.اب میں تم میں سے ہوں اور تم مجھ میں سے ہو.جو تم سے جنگ کرے گا وہ مجھ سے جنگ کرے گا اور جو تم سے صلح کرے گا وہ مجھ سے صلح کرے گا.31 مواخات رسول اللہ صلی الم نے ہجرت مکہ کے بعد حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت ابو الْهَيْئَمُ انصاری کے درمیان مواخات قائم فرمائی.32 نبی اکرم صلی الم کی ضیافت حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ملی ایل میں ایک انصاری شخص کے پاس گئے اور آپ کے ساتھ آپ کے ایک ساتھی بھی تھے.نبی کریم صلی علی ایم نے ان سے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس پانی ہو یا آج رات مشک میں رہا ہو تو پلاؤ ورنہ ہم یہیں ہے منہ لگا کر پانی پی لیں گے.وہاں پانی بہہ رہا تھا.وہ شخص اپنے باغ میں پانی لگا رہا تھا.اس شخص نے کہا یا رسول اللہ ! میرے پاس رات کا پانی ہے آپ جھونپڑی کی طرف چلئے.وہ شخص یعنی حضرت ابو الْهَيْنم آپ اور آپ کے ساتھی دونوں کو لے گیا اور ایک پیالے میں پانی ڈالا.پھر اس پر گھر کی بکری کا دودھ دھویا.رسول اللہ صلی یکم نے یہ مشروب پیا پھر اس شخص نے بھی پیا جو آپ کے ساتھ تھا.یہ بخاری کی روایت ہے.33 اسی طرح ایک روایت ہے حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو الْهَيْقم بن الیمان نے نبی کریم صلی علیکم کے لئے کھانا تیار کیا اور نبی کریم صل علی کی اور آپ کے اصحاب کو دعوت دی.جب سب کھانا کھا چکے تو آپ صلی علیہم نے صحابہ سے فرمایا.اپنے بھائی کو بدلہ بھی دو.صحابہ نے کہا یار سول اللہ ! ہم اس کا کیا بدلہ دیں ؟ آپ صلی یکم نے فرمایا جب کوئی شخص کسی کے گھر میں جا کر کھانا کھائے اور پانی بیٹے تو اس کے لئے دعا کرے.یہ اس کے لئے اس کھانے کا بدلہ ہے.34 یہ ہیں اعلیٰ اخلاق جو ہر مسلمان کے لئے ضروری ہیں.حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ نبی کر یم ملی ایک ایسے وقت میں گھر سے باہر نکلے جب عام طور پر کوئی باہر نہیں نکلتا اور نہ کوئی کسی سے ملتا ہے.پھر آپ صلی علیہ کرم کے پاس حضرت ابو بکر آئے.آپ صلی علیہم نے دریافت فرمایا کہ اے ابو بکر تجھے کیا چیز لے آئی ؟ ( یعنی گھر سے باہر آئے ) تو انہوں نے عرض کیا کہ میں رسول اللہ صلی الی و کم سے ملاقات کے لئے

Page 27

بدر جلد 4 11 اور آپ صلی اللی کام کے چہرہ مبارک کو دیکھنے اور اس کو سلامتی بھیجنے کے لئے نکلا ہوں.تھوڑی دیر تک حضرت عمر بھی آگئے.آپ صلی اللہ ہم نے دریافت فرمایا کہ اے عمر تجھے کیا چیز لے آئی ؟ عمر نے عرض کیا یارسول اللہ صلی علیکم مجھے بھوک لے آئی ہے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہوئی ہے.پھر آپ سب لوگ حضرت ابو الهنقم انصاری کے گھر کی طرف چل پڑے.ان کے پاس کافی بکریاں اور کھجور کے درخت تھے.نبی کریم صلی للہ ہم نے ان کو گھر پر نہ پایا.آپ نے ابو الهیقم کی بیوی سے کہا کہ تیر اخاوند کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہیں.تھوڑی دیر بعد حضرت ابُو الْهَيْشَمُ بھی مشک اٹھائے ہوئے آگئے.انہوں نے مشک ایک طرف رکھ دی اور نبی کریم صلی الم سے لپٹ گئے اور اپنی جان ومال وارنے لگے.میرے ماں باپ آپ صلی تعلیم پر فدا ہوں.حضرت ابو الْهَيْشَم آپ تینوں کو لے کر اپنے باغ کی طرف گئے اور ایک چادر بچھا دی.پھر جلدی سے باغ کی طرف گئے اور کھجور کا پورا خوشہ ہی کاٹ کر لے آئے جس پر کچے پکے ڈو کے بھی تھے اور پکی ہوئی کھجوریں بھی تھیں.اس پر رسول کریم صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے ابو الهيفخر ! تم پکی ہوئی کھجوریں یا ڈو کے چن کر کیوں نہیں لائے بجائے جو سارا پورا bunch ہے وہ لے آئے ہو.تو عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے چاہا آپ اپنی پسند کے مطابق پکی کھجوریں یاڈو کے خود چن کر کھالیں.آپ صلی للی کم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے کھجوریں کھائیں اور پانی پیا.اس کے بعد رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا خدا کی قسم ! یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تم قیامت کے دن پوچھے جاؤ گے.یعنی ٹھنڈ اسامیہ اور ٹھنڈا پانی اور تازہ کھجوریں.پھر حضرت ابو الهنقم آپ کی تعلیم کے لئے کھانے کا انتظام کرنے اٹھے تو آپ صلی الی یکم نے فرمایا کہ دودھ دینے والی بکری کو ذبح نہ کرنا.اس پر انہوں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور اسے لے کر آپ صلی علی کرم کے پاس لائے اور سب نے اسے کھایا.آپ صلی علیم نے فرمایا کہ کیا تمہارا کوئی خادم بھی ہے ؟ تو حضرت ابوالْهَيْئَم نے عرض کیا کہ نہیں.آپ صلی للہ ﷺ نے فرمایا کہ جب ہمارے پاس کوئی جنگی قیدی آئے تو ہمارے پاس آنا.نبی اکرم صلی کم کا خادم عطا فرمانا اور بیوی کے مشورہ پر اس کو آزاد کر دینا جب نبی کریم صلی علیم کے پاس دو قیدی آئے تو حضرت ابُو الْهَيْشَم آپ صلی ایم کے پاس حاضر ہوئے.آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے ایک کو پسند کر لو.حضرت ابو الْهَيْئَم کہنے لگے.یا رسول اللہ ! آپ ہی میرے لئے انتخاب فرما دیں.نبی کریم صلی اللہ کریم نے فرمایا کہ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے.( یہ بات بھی خاص طور پہ ہر ایک کے لئے نوٹ کرنے والی ہے کہ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے اس لئے ہمیشہ اچھا مشورہ دینا چاہئے.پھر آپ نے فرمایا کہ یہ خادم لے لو کیونکہ میں نے اسے عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے.اور جو خوبی اس خادم کی بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ

Page 28

اصحاب بدر جلد 4 12 عبادت کرتا ہے.اللہ کو یاد کرنے والا ہے.اس کے دل میں نیکی ہے.اس کے ساتھ پھر فرمایا کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا.حضرت ابو الْهَيْتم اپنی بیوی کے پاس لوٹے اور اسے رسول اللہ صلی ال نیم کی نصیحت کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگیں کہ تم اس نصیحت کا حق پوری طرح ادا نہیں کر سکو گے جو تمہیں نبی کریم صلی للی یکم نے فرمائی ہے یہی کہ نیک سلوک کرنا.اب عورت ذات ہے اور پھر نوکر بھی کوئی نہیں.کام کرنے والا جو ملا ہے اس کے بارے میں یہ دیکھیں معیار، مومنانہ شان.ان کی اہلیہ ان کو یہ کہنے لگی کہ حق تو تبھی پورا ہو گا کہ تم اس کو آزاد کر دو.جو تمہیں ملازم ملا ہے اس کو آزاد کر دو.اس پر حضرت ابوالهَيْئَم نے اس کو آزاد کر دیا.35 یہ شان تھی ان صحابہ کی.تمام غزوات میں شمولیت حضرت ابوالهَيْئَم غزوہ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں بھی رسول اللہ صلی ال نیم کے ہمرکاب تھے.کھجوروں کے پھل کا اندازہ کرنے کے لئے مقرر کیا جانا 36 غزوہ موتہ میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی شہادت کے بعد نبی کریم صلی نیلم نے حضرت ابو الْهَيْئَمْ کو خیبر میں کھجوروں کے پھل کا اندازہ کرنے کے لئے بھی بھجوایا تھا.رسول اللہ صلی علی کم کی وفات کے بعد جب حضرت ابو بکر نے آپ کو کھجوروں کے اندازے کے لئے بھجوانا چاہا تو انہوں نے جانے سے معذرت کر دی.حضرت ابو بکر نے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی علیم کے لئے تو کھجوروں کے اندازے کے لئے جایا کرتے تھے.اس پر حضرت ابو الهی نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی ال نیلم کے لئے کھجوروں کا اندازہ کیا کرتا تھا جب میں اندازے کر کے واپس آتا تھا تو رسول اللہ صلی الیکم میرے لئے دعا فرماتے تھے.اس وقت ان کو وہ خیال آگیا کہ آنحضرت ملا لیلی کیم کی دعائیں لیتا تھا اور ایک جذباتی کیفیت تھی.یہ سن کر حضرت ابو بکر نے انہیں نہ بھجوایا.تو یہ ایک جذباتی کیفیت تھی جو انہوں نے بیان کی ورنہ یہ لوگ وہ تھے جو ہمیشہ اطاعت کرنے والے تھے.نافرمانی کرنے والے نہیں تھے.اگر حضرت ابو بکر پھر بھی حکم دیتے تو یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ تعمیل نہ کرتے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ کا آپ کو دوبارہ نہ کہنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت ابو بکر کو بھی ان کی اس جذباتی کیفیت کا خیال آگیا اور سمجھ گئے.اس لئے حکم نہیں دیا.پھر جب حضرت عمر نے خبیر کے یہود کو جلاوطن کیا تو حضرت عمرؓ نے ان کی طرف ایسے افراد کو بھیجا جو ان کی زمین کی قیمت لگائیں.حضرت عمرؓ نے ان کی طرف حضرت ابو الْهَيْقم اور حضرت فروہ بن عمرو اور حضرت زید بن ثابت کو بھیجا.انہوں نے اہل خیبر کی کھجوروں اور زمین کی قیمت لگائی.حضرت عمرؓ نے اہل خیبر کو ان کی نصف قیمت دے دی جو کہ پچاس ہزار درہم سے زیادہ بھی.37

Page 29

بدر جلد 4 13 یہاں اب دیکھیں کہ وہ اس جگہ چلے گئے.وہ جذباتی کیفیت نہیں تھی.اب عرصہ گزر گیا تھا اس لئے ان کو کوئی روک نہیں کوئی ایسا امر مانع نہیں تھا.سلام کرنے پر نیکیاں السلام علیکم کہنے کے متعلق بھی ایک روایت ان سے ملتی ہے.حضرت ابو الْهَيْمُ " سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی علیم نے فرمایا کہ جو السلام علیکم کہتا ہے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں.السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہنے والے کو میں نیکیاں ملتی ہیں.اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہنے والے کو تیس نیکیاں ملتی ہیں.38 وفات حضرت ابوالْهَيْقم کے زمانہ وفات کی بابت مختلف رائے پائی جاتی ہیں.بعض کے نزدیک آپ کی وفات حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہوئی تھی.بعض کے نزدیک آپ کی وفات ہیں یا اکیس ہجری میں ہوئی تھی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے جنگ صفین سینتیں ہجری میں حضرت علی کی طرف سے لڑتے ہوئے شہادت پائی.39 ان کے بھائی کا نام حضرت عبید بن عبيد يا حضرت عتيك بن الیمان تھا.جو غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے.40 ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوالہیثم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں سب سے پہلے بیعت کرنے والا ہوں.ہم کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اس بات پر بیعت کرو جس پر بنی اسرائیل نے موسیٰ کی بیعت کی.41 برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوالہیشم اور حضرت اُسید بن حضیر کو قبیلہ بنی عبد الاشہل پر نقیب مقرر فرمایا تھا.42 آپ جنگ میں دو تلوار میں لڑکا یا کرتے تھے اس وجہ سے آپ کو ذوالسیفین بھی کہا جاتا ہے.43 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ : "جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے ہو کر لڑے اور شہادت پائی.44 44<<

Page 30

11 14 صحاب بدر جلد 4 حضرت ابو اليسر كعب بن عمرو نام و نسب اور کنیت ان کی کنیت ابو الیسر تھی اور ابو الیسر کا تعلق قبیلہ بنو سلمہ سے تھا.والد ان کے عمرو بن عباد تھے.والدہ کا نام نسیبه بنتِ از هر تھا وہ قبیلہ سَلَمہ سے ہی تھیں.آپ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے اور غزوہ بدر میں بھی شرکت کی.غزوہ بدر کے روز آپ نے حضرت عباس کو گرفتار کیا تھا.آپ ہی وہ صحابی ہیں جنہوں نے غزوہ بدر میں مشرکین کا جھنڈا ابو عزیز بن عمیر کے ہاتھ سے چھین لیا تھا.آپ رسول اللہ صلی اللی نیلم کے ساتھ دیگر غزوات میں بھی شامل رہے.آنحضور صلی الی کمی کے بعد جنگ صفین میں بھی حضرت علی کے ساتھ شامل ہوئے.45 جنگ بدر میں حضرت عباس کو قیدی بنانے والے ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت عباس کو غزوہ بدر میں قیدی بنانے والے حضرت عبید بن اؤس تھے.46 بہر حال حضرت ابن عباس سے مروی ہے ، حضرت ابن عباس یہ کہتے ہیں کہ غزوہ بدر کے روز جس شخص نے حضرت عباس کو گر فتار کیا تھا اس کا نام ابو الیسر تھا.ابو اليسر اس وقت دبلے پتلے آدمی تھے.غزوہ بدر کے وقت آپ میں برس کے جواں سال تھے جبکہ حضرت عباس بھاری بھر کم جسم کے مالک تھے.آنحضور صلی الم نے حضرت ابو الیسر سے دریافت کیا کہ تم نے عباس کو کس طرح اسیر کر لیا، کس طرح قیدی بنالیا ؟ تم تو بالکل دبلے پتلے اور وہ بڑے لمبے چوڑے قد کے ہیں اور جسیم ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ یارسول اللہ صلی علیم ایک شخص نے میری مدد کی تھی جس کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی کبھی بعد میں دیکھا ہے اور اس کا حلیہ ایسا ایسا تھا.اس کا حلیہ بیان کیا جس پر رسول للہ صل الیم نے فرمایا کہ لَقَدْ آعَانَكَ عَلَيْهِ مَلَكَ كَرِيمٌ.یقینا اس میں تیری ایک معزز فرشتے نے مدد کی ہے.47 حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ بدر کے روز رسول اللہ صلی الی الم نے فرمایا کہ جس نے دشمن کو قتل کیا اس کے لئے فلاں فلاں کچھ ہو گا.پس مسلمانوں نے ستر مشرکین کو قتل کیا اور ستر مشرکین کو قید بھی کیا.حضرت ابو اليسر دو اسیروں کو لائے اور عرض کی یارسول اللہ صلی علیکم آپ نے ہم سے وعدہ کیا تھا

Page 31

اصحاب بدر جلد 4 15 کہ جو کوئی قتل کرے گا اس کے لئے فلاں فلاں کچھ ہو گا اور اسی طرح جو کوئی اسیر بنائے گا اس کے لئے فلاں فلاں ہو گا.میں دو قیدی لے کر آیا ہوں.48 ایک روایت کے مطابق غزوہ بدر میں ابو البختری کو قتل کرنے والے حضرت ابو الیسر تھے.49 حضرت سلامة بنت معقل بیان کرتی ہیں کہ میں حُباب بن عمرو کی غلامی میں تھی اور ان سے میرے ہاں ایک لڑکا بھی پیدا ہوا تھا.ان کی وفات پر ان کی بیوی نے مجھے بتایا کہ اب تمہیں محتاب کے قرضوں کے بدلے بیچ دیا جائے گا.تمہاری حیثیت لونڈی کی تھی اس لئے تم پیچ دی جاؤ گی.کہتی ہیں کہ میں نبی کریم صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ساری صور تحال بتائی.نبی کریم صلی الم نے لوگوں سے پوچھا کہ حُباب بن عمرو کے ترکے کا ذمہ دار کون ہے ؟ تو بتایا گیا کہ ان کے بھائی ابو الیسر ان کے ذمہ دار ہیں.آنحضور صلی ﷺ نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ اسے مت بیچنا.یہ لونڈی ہے.اسے مت بیچنا بلکہ اسے آزاد کر دو.اور جب تمہیں پتہ لگے کہ میرے پاس کوئی غلام آیا ہے تو تم میرے پاس آجانا.میں اس کے عوض میں تمہیں دوسر اغلام دے دوں گا.50 چنانچہ ایسا ہی ہوا.آنحضرت صلی علیم نے ان کو آزاد کر دیا اور اُن کو ایک غلام مہیا فرما دیا.غلام کے ساتھ حسن سلوک کی بہترین مثال حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرت خاتم النبیین میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ : عُبادہ بن ولید روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ آنحضرت صلی علم کے صحابی ابو الیسر کو ملے.اس وقت ان کے ساتھ ایک غلام بھی تھا اور ہم نے دیکھا کہ ایک دھاری دار چادر اور ایک یمنی چادر ان کے بدن پر تھی اور اسی طرح ایک دھاری دار چادر اور ایک یمنی چادر ان کے غلام کے بدن پر تھی.میں نے انہیں کہا کہ چا تم نے ایسا کیوں نہ کیا کہ اپنے غلام کی دھاری دار چادر خود لے لیتے اور اپنی چادر اسے دے دیتے یا اس کی یمنی چادر خود لے لیتے اور اپنی دھاری دار چادر اسے دے دیتے تا کہ تم دونوں کے بدن پر ایک ایک طرح کا جوڑا ہو جاتا.حضرت ابو الیسر نے میرے سر پر ، روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لئے دعا کی اور پھر مجھے کہنے لگے کہ بھیجے میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے اور میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میرے اس دل نے اسے اپنے اندر جگہ دی ہے کہ رسول اللہ صلی علی کرم فرماتے تھے کہ اپنے غلاموں کو وہی کھانا کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور وہی لباس پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو.پس میں اس بات کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں کہ میں دنیا کے اموال میں سے اپنے غلام کو برابر کا حصہ دے دوں بہ نسبت اس کے کہ قیامت کے دن میرے ثواب میں کوئی کمی آوے.تو یہ تھے وہ لوگ جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہو ا جو آنحضرت صلی لی ایم کے ارشاد کو اس باریکی سے دیکھتے 51

Page 32

بدر جلد 4 16 تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہر وقت بے چین رہتے تھے بلکہ اس کے بھوکے تھے.قرضدار کا قرض معاف کر دینا کہ حضرت ابو اليسر روایت کرتے ہیں کہ بنو حرام کے فلاں بن فلاں کے ذمہ میر امال تھا.میں نے کچھ پیسے اسے دئے تھے.اس نے مجھے قرض دینا تھا.اس کے ذمہ قرضہ تھا.میں اس کے ہاں گیا.میں نے سلام کیا اور پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ یہاں گھر میں ہے ؟ گھر سے جواب ملا کہ نہیں.کہتے ہیں کہ پھر اس کا بیٹا جو بلوغت کے قریب تھا.ابھی بالغ نہیں ہو اتھا.وہ بیٹا میرے پاس آیا.میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا باپ کہاں ہے ؟ اس نے کہا کہ اس نے آپ کی آواز سنی اور میری ماں کے چھپر کھٹ میں کھس گیا، وہ آپ کی آواز سن کر پلنگ کے پیچھے چھپ گیا.تو میں نے کہا میرے پاس باہر آؤ.پھر میں نے آواز دی کیونکہ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تو کہاں ہے، اس گھر والے مقروض کو کہا کہ باہر آجاؤ مجھے پتہ ہے تم کہاں ہو.ابو الیسر کہتے ہیں کہ چنانچہ وہ باہر آیا.میں نے کہا کہ تم کیوں مجھ سے چھپے تھے ؟ اس نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں تمہیں بتاتا ہوں اور تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا.اللہ کی قسم ! میں ڈرا کہ تمہیں بتاؤں اور تم سے جھوٹ بولوں اور تم سے وعدہ کروں اور پھر وعدہ خلافی کروں کہ پھر میں آؤں، جھوٹ بول کے کہوں کہ اچھا میں فلاں دن تمہاری یا فلاں وقت تمہاری رقم دے دوں گا لیکن وعدہ پورا نہ کر سکوں اور جھوٹ بولوں.پھر کہنے لگا کہ آپ تو رسول اللہ صلی علیم کے صحابی ہیں اور اللہ کی قسم میں محتاج ہوں.ابو الیسر کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم ؟ یعنی سوال کیا اس سے کہ تم اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتے ہو حقیقی طور پر ؟ اس نے کہا ہاں اللہ کی قسم.میں نے کہا اللہ کی قسم ؟ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ تم اللہ کی قسم کھا کر مجھے یہ بات کہہ رہے ہو کہ تم محتاج ہو ؟ اس نے کہا ہاں اللہ کی قسم.میں نے پھر کہا، تیسری دفعہ کہ اللہ کی قسم ؟ اس نے کہا ہاں اللہ کی قسم.کہتے ہیں کہ حضرت ابو الیسر اس وقت اپنی تحریر لے کر آئے اور اپنے ہاتھ سے اسے مٹادیا جو لکھی ہوئی تھی.قرضہ واپس دینے کی تحریر تھی اسے مٹادیا اور کہا کہ اگر تمہیں ادائیگی کی توفیق ملے تو مجھے ادا کر دیناور نہ تم آزاد ہو.کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں میری ان دو آنکھوں کی بصارت یعنی اپنی دونوں انگلیاں اپنی آنکھوں پر رکھیں اور میرے ان دوکانوں کی شنوائی اور میرے دل نے اس بات کو یاد رکھا ہے اور انہوں نے دل کی جگہ کی طرف اشارہ کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس وقت رسول اللہ صلی علیم کو دیکھ رہا ہوں، جب یہ تحریر مٹائی اور آزاد کیا تو کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں اپنی آنکھوں سے، اپنے کانوں سے ، اپنے دل سے کہ میں رسول للہ کی یکم کو دیکھ رہا ہوں اور آپ فرما رہے تھے کہ جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اس کا تمام مالی بوجھ اتار دیا اللہ تعالیٰ اسے اپنے سائے میں جگہ دے گا.52 تو میں نے تمہارا بوجھ اتار دیا کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ کے سائے کی تلاش ہے.یہ ایک اور مثال ہے اللہ

Page 33

صحاب بدر جلد 4 17 تعالیٰ کے خوف اور خشیت کی.خواہش تھی تو بس یہی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو نہ کہ دنیاوی منفعت.حدیث بیان کرنے میں احتیاط حضرت ابو اليسر كعب بن عمر و احادیث کے بیان کرنے میں نہایت احتیاط سے کام لیتے تھے.ایک مرتبہ عبادہ بن ولید سے دو حدیثیں بیان کیں اور حالت یہ تھی کہ آنکھ اور کان پر انگلی رکھ کر کہتے کہ ان آنکھوں نے یہ واقعہ دیکھا اور ان کانوں نے آنحضرت صلی یکم کو بیان فرماتے سنا.13 اولاد و وفات 53 حضرت ابو الیسر کے ایک بیٹے کا نام محمیر تھا جو اُمّم عمرو کے بطن سے تھے.حضرت اُمّم عمرو حضرت جابر بن عبد اللہ کی پھوپھی تھیں.آپ کے ایک بیٹے یزید بن ابی یسر تھے جو کہ لیا بہ بنت حارث کے بطن سے پیدا ہوئے.ایک بیٹے کا نام حبیب تھا جن کی والدہ ام ولد تھیں.ایک بیٹی عائشہ تھیں جین کی والدہ کا نام اٹھد الرباع تھا آپ غزوہ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے.اس وقت آپ کی عمر میں برس تھی.آپ کی وفات حضرت امیر معاویہ کے زمانے میں پچپن ہجری میں ہوئی.54 12 نام و نسب و کنیت : حضرت ابو ایوب انصاری میزبان رسول صلى الله وسلم حضرت ابو ایوب انصاری کا نام حضرت خالد اور ان کے والد کا نام زید بن حلیب تھا.55 آپ اپنے نام اور کنیت دونوں سے مشہور ہیں.حضرت ابو ایوب انصاری کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھا.حضرت ابو ایوب انصاری کو عقبہ ثانیہ کے موقعے پر ستر انصار کے ہمراہ بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت ابو ایوب انصاری کی والدہ کا نام ہند بنت سعید تھا جبکہ ایک قول کے مطابق ان کا نام زہر اء بنت سعد تھا.حضرت ابوایوب انصاری کی بیوی کا نام حضرت ام حسن بنت زید تھا.ان کے بطن سے ایک لڑکا عبد الرحمن پیدا ہوا.مواخات آنحضرت صلی علیم نے حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت مصعب بن عمیر کے درمیان مواخات

Page 34

ناب بدر جلد 4 قائم فرمائی.56 18 نبی صل الم کی مدینہ میں تشریف آوری اور ان کے گھر میں قیام جب رسول اللہ صلی لیہ کی ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ مسجد نبوی اور اپنے گھروں کی تعمیر تک حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر میں قیام فرمار ہے.57 سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آنحضرت صلی للی علم کے قیام کے واقعے کو یوں بیان کیا ہے کہ: بنو نجار میں پہنچ کر پھر یہ سوال در پیش تھا کہ آپ کس شخص کے ہاں مہمان ٹھہریں.قبیلہ کا ہر شخص خواہشمند تھا کہ اسی کو یہ فخر حاصل ہو، بلکہ بعض لوگ تو جوش محبت میں آپ کی اونٹنی کی باگوں پر ہاتھ ڈال دیتے تھے.اس حالت کو دیکھ کر آپ نے فرمایا.”میری اونٹنی کو چھوڑ دو کہ یہ اس وقت مامور ہے.“ یعنی جہاں خدا کا منشا ہو گا وہاں یہ خود بیٹھ جائے گی اور یہ کہتے ہوئے آپ نے بھی اس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں.اونٹنی آگے بڑھی اور تھوڑی دور خراماں خراماں چلتی ہوئی جب اس جگہ میں پہنچی جہاں بعد میں مسجد نبوئی اور آنحضرت صلیلی کیم کے حجرات تعمیر ہوئے اور جو اس وقت مدینہ کے دو بچوں کی افتادہ زمین تھی تو بیٹھ گئی ، لیکن فورا ہی پھر اٹھی اور آگے کی طرف چلنے لگی.مگر چند قدم چل کر پھر لوٹ آئی اور اسی جگہ جہاں پہلے بیٹھی تھی دوبارہ بیٹھ گئی.آنحضرت صلى لم نے فرمایا هَذَا إِنْ شَاءَ اللهُ الْمَنْزِلُ یعنی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی منشا میں یہی ہماری مقام گاہ ہے اور پھر خدا سے دعا مانگتے ہوئے اونٹنی سے نیچے اتر آئے اور دریافت فرمایا کہ اپنے آدمیوں میں سے یہاں سے قریب ترین گھر کس کا ہے.“ یعنی مسلمانوں میں سے.”ابو ایوب انصاری فور الپک کر آگے ہو گئے اور عرض کیا.یارسول اللہ ! میراگھر ہے اور یہ میرا دروازہ ہے.تشریف لے چلیے.آپ نے فرمایا: اچھا جاؤ اور ہمارے لیے کوئی ٹھہرنے کی جگہ تیار کرو.ابوایوب انصاری فوراً اپنے مکان کو ٹھیک ٹھاک کر کے آگئے اور آنحضرت صلی ا ہم ان کے ساتھ اندر تشریف لے گئے.یہ مکان دو منزلہ تھا.ابو ایوب چاہتے تھے کہ آپ اوپر کی منزل میں قیام فرمائیں لیکن آپ نے اس خیال سے کہ ملاقات کے لیے آنے جانے والے لوگوں کو آسانی رہے نچلی منزل کو پسند فرمایا اور وہاں فروکش ہو گئے.رات ہوئی تو ابو ایوب اور ان کی بیوی کو ساری رات اس خیال سے نیند نہیں آئی کہ رسول اللہ صلی علی یکم نیچے ہیں اور ہم آپ کے اوپر ہیں اور مزید اتفاق یہ ہو گیا کہ رات کو چھت پر ایک پانی کا برتن ٹوٹ گیا اور ابوایوب نے اس ڈر سے کہ پانی کا کوئی قطرہ نیچے نہ ٹپک جاوے جلدی سے اپنا لحاف پانی پر گرا کر اسے خشک کر دیا.صبح ہوئی تو وہ آنحضرت صلی اللی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بکمال اصرار آپ کی خدمت میں اوپر کی منزل میں تشریف لے چلنے کی درخواست کی.آپ نے پہلے تو تامل کیا، لیکن بالآخر ابو ایوب کے اصرار کو دیکھ کر رضامند ہو گئے.اس مکان میں آپ نے

Page 35

19 5866 اصحاب بدر جلد 4 سات ماہ تک یا ابن اسحاق کی روایت کی رو سے ماہ صفر سن 2 ہجری تک قیام فرمایا.گو یا جب تک مسجد نبوی اور اس کے ساتھ والے حجرے تیار نہیں ہو گئے آپ اسی جگہ یعنی حضرت ابو ایوب انصاری کے مقام میں مکان میں ہی مقیم رہے.ابوایوب آپ کی خدمت میں کھانا بھجواتے تھے اور پھر جو کھانا بچ کر آتا تھا وہ خود کھاتے تھے اور محبت و اخلاص کی وجہ سے اسی جگہ انگلیاں ڈالتے تھے جہاں سے آپ نے کھایا ہوتا تھا.دوسرے اصحاب بھی عموما آپ کی خدمت میں کھانا بھیجا کرتے تھے.اس واقعے کو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بیان فرمایا ہے.بعض فقرے، بعض باتیں نئی ہوتی ہیں اس لیے میں یہ بھی سارا پڑھ دیتا ہوں.عموما تو وہی واقعہ بیان ہوا ہے لیکن حضرت مصلح موعود کا اپنا ایک انداز ہے.آپ لکھتے ہیں کہ : ” جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپ اس میں یہ عموماتو ہوا شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپ اس کے گھر میں ٹھہریں.جس جس گلی میں سے آپ کی اونٹنی گزری تھی اس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی علیکم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے یار سول اللہ ! یہ ہمارا گھر ہے اور یہ ہمارا مال ہے اور یہ ہماری جانیں ہیں جو آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں.یارسول اللہ ! اور ہم آپ کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں.آپ ہمارے ہی پاس ٹھہریں.بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تاکہ آپ کو اپنے گھر میں اتروالیں مگر آپ ہر ایک شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے.یہ وہیں کھڑی ہو گی جہاں خدا تعالیٰ کا منشا ہو گا.آخر مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جاکر نٹنی ٹھہر گئی.آپ نے فرمایا خد اتعالیٰ کا یہی منشا معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہریں.: پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے؟ زمین کچھ یتیموں کی تھی.ان کا ولی آگے بڑھا اور اس نے کہا یار سول اللہ ! یہ فلاں فلاں یتیم کی زمین ہے اور آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے.آپ نے فرمایا: ہم کسی کا مال مفت نہیں لے سکتے.آخر اس کی قیمت مقرر کی گئی اور آپ نے اس جگہ پر مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا.اس کے بعد آپ نے فرمایا : سب سے قریب گھر کس کا ہے ؟ ابو ایوب انصاری آگے بڑھے اور کہا یا رسول اللہ ! میر اگھر سب سے قریب ہے اور آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے.آپ نے فرمایا: گھر جاؤ اور ہمارے لیے کوئی کمرہ تیار کرو.ابو ایوب کا مکان دو منزلہ تھا.انہوں نے رسول اللہ صلی ال نیم کے لیے اوپر کی منزل تجویز کی مگر آپ نے اس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہو گی نچلی منزل پسند فرمائی.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ انصار کو رسول اللہ صلی علی یم کی ذات سے جو شدید محبت پیدا ہو گئی تھی اس کا مظاہرہ اس موقع پر بھی ہوا.رسول اللہ صلی علی یلم کے اصرار پر حضرت ابوایوب مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول اللہ صلی الیکم ان کے نیچے سو رہے ہیں پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مر تکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں.“ یہ محبت کا ایک اظہار تھا.رات کو ایک برتن پانی کا گر گیا تو اس خیال سے کہ چھت کے نیچے

Page 36

ب بدر جلد 4 الله سة 20 پانی نہ ٹپک پڑے حضرت ابو ایوب نے دوڑ کر اپنا لحاف اس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا.صبح کے وقت پھر وہ رسول اللہ صلی عوام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کیے.جس پر رسول کریم ملی ایم نے اوپر جانا منظور فرما لیا.حضرت ابو ایوب روزانہ کھانا تیار کرتے اور آپ کے پاس بھجواتے.پھر جو آپ کا بچا ہوا کھانا آتا وہ سارا گھر کھاتا.کچھ دنوں کے بعد اصرار کے ساتھ باقی انصار نے بھی مہمان نوازی میں اپنا حصہ طلب کیا اور جب تک رسول اللہ صلی علیکم کے اپنے گھر کا انتظام نہ ہو گیا باری باری مدینہ کے مسلمان آپ کے گھر میں کھانا پہنچاتے رہے.“ یہ حضرت مصلح موعود کا دیباچے سے جو بیان تھا وہ ختم ہو ا.آگے یہ حدیث کی روایت ہے.5966 ا کھانے کا تبرک حضرت ابو ایوب روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ یکم ان کے ہاں اترے.نبی صلی ا ہم مچلی منزل میں اور حضرت ابوایوب اوپر والی منزل میں تھے.راوی کہتے ہیں کہ ایک رات حضرت ابوایوب بیدار ہوئے اور کہا ہم رسول اللہ صلی علیکم کے سر کے اوپر چلتے ہیں پس وہ ایک طرف ہٹ گئے اور ایک کونے میں رات گزاری.پھر انہوں نے نبی صلی للی کم کی خدمت میں عرض کیا تو نبی صلی علی کریم نے فرمایا: نچلے حصہ میں زیادہ سہولت ہے.انہوں نے کہا میں اس چھت پر نہیں رہ سکتا جس کے نیچے آپ ہوں.نبی صلی علیم اوپر منتقل ہو گئے اور حضرت ابو ایوب نیچے.وہ نبی صلی ایم کے لیے کھانا بناتے تھے اور جب وہ کھا نار سول اللہ صلی ال نیم کی طرف سے ان کے پاس واپس لایا جاتا تو وہ لانے والے سے پوچھتے کہ کس جگہ آپ کی انگلیاں لگی تھیں.پھر وہ آپ کی انگلیوں کی جگہ کا تتبع کرتے یعنی وہیں سے کھاتے جہاں آنحضرت صلی یا لیلی نے کھایا تھا.انہوں نے ایک دفعہ آر کے لیے کھانا تیار کیا جس میں لہسن تھا.جب وہ ان کی طرف واپس لایا گیا تو انہوں نے نبی صلی علیکم انگلیوں کی جگہ کے متعلق پوچھا اور ان سے کہا کہ کیا آپ نے نہیں کھایا؟ جب ان کو بتایا گیا کہ آپ علی ایم نے آج کھانا نہیں کھایا تو گھبر اگئے اور آپ صلی علی نام کی طرف اوپر گئے اور پوچھا کہ کیا یہ لہسن حرام ہے؟ نبی صلی اللہ ہم نے فرمایا نہیں لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں.اس پر ابو ایوب انصاری نے کہا جس کو آپ ناپسند کرتے ہیں میں اس کو نا پسند کرتا ہوں یا انہوں نے کہا کہ جس کو آپ نے ناپسند کیا میں نے بھی ناپسند کیا.راوی کہتے ہیں کہ نبی صلی لنی کیم کے پاس فرشتے آتے تھے.یہ روایت مسلم کی ہے.اسی طرح لکھی ہے یعنی وحی ہوتی تھی اور فرشتے آتے تھے اور اس وجہ سے آنحضرت صلی یکم بو والی چیز پسند نہیں کرتے تھے لیکن یہ حرام نہیں ہے.کھانے میں لہسن پیاز کی وجہ سے نہ کھایا مسلم میں یہ روایت یوں بھی درج ہے.حضرت ابوایوب انصاری سے روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ

Page 37

21 اصحاب بدر جلد 4 جب رسول اللہ صلی علیکم کے پاس کھانا پیش کیا جاتا آپ اس میں سے تناول فرماتے اور اپنا بچا ہوا کھانا میری طرف بھیج دیتے.ایک دن آپ نے بچا ہوا کھانا بھیجا جس میں سے آپ نے نہیں کھایا تھا کیونکہ اس میں لہسن تھا میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا یہ حرام ہے ؟ آپ صلی علیم نے فرمایا کہ نہیں لیکن میں اس کی بو کی وجہ سے اسے ناپسند کرتا ہوں تو ابو ایوب نے عرض کیا کہ میں بھی نا پسند کرتا ہوں جو آپ نا پسند فرماتے ہیں.60 ایک دوسری روایت میں جو مسند احمد بن حنبل کی ہے، یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے.ابوایوب انصاری سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی ہی کم ہمارے گھر کی نچلی منزل میں فروکش ہوئے اور میں بالا خانے میں تھا.ایک مرتبہ بالا خانے میں پانی گر گیا تو میں اور اُتم ایوب ایک چادر لے کر پانی خشک کرنے لگے اس ڈر سے کہ وہ پانی ٹپک کر نبی کریم صلی املی کام پر نہ گرنے لگے.پھر میں ڈر تا ڈرتا نبی کریم صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم آپ کے اوپر رہیں.سی لینک بالا خانے میں منتقل ہو جائیں.چنانچہ نبی کریم صلی علیم کے ارشاد پر آپ کا سامان بالا خانے میں منتقل کر دیا گیا اور آپ کا سامان بہت ہی مختصر تھا.پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !.آپ مجھے کھانا بھیجتے تو میں جائزہ لیتا اور جہاں آپ کی انگلیوں کے نشان دیکھتا میں اپنا ہاتھ وہیں رکھتا لیکن آج جو کھانا آپ نے مجھے بھیجا ہے اسے جب میں نے دیکھا تو مجھے آپ کی انگلیوں کے نشان اس میں نظر نہیں آئے.رسول اللہ صلی اللی کرم نے فرمایا یہ بات صحیح ہے.دراصل اس میں پیاز تھا.یہاں لہسن کی بجائے پیاز کا بیان ہوا ہے.میں نے نا پسند کیا کہ اسے کھاؤں اس فرشتے کی وجہ سے جو میرے پاس آتا ہے.البتہ تم لوگ اسے کھاؤ.61 تمام غزوات میں شمولیت حضرت ابوایوب انصاری کو رسول اللہ صلی الی ایم کے ساتھ غزوہ بدر ، غزوہ احد اور غزوہ خندق سمیت تمام غزوات میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.62 بدر کے روز صفیں بناتا حضرت ابوایوب انصاری بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بدر کے روز صفیں بنائیں تو ہم میں سے بعض لوگ صف سے آگے نکل گئے.رسول اللہ صلی اللہ ہم نے ان لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا: میرے ساتھ، میرے ساتھ.3 یعنی میرے پیچھے رہو.میرے سے آگے نہ نکلو.636 حضرت صفیه کار خصتانہ اور ساری رات باہر پہرہ دینا حضرت صفیہ کے رخصتانے کی رات کا ذکر ہے.گو یہ پہلے ایک ذکر میں مختصر بیان کر چکا ہوں لیکن دوبارہ بیان کر دیتا ہوں.جب حضرت صفیہ کا رخصتانہ ہوا تو اس رات حضرت ابوایوب انصاری

Page 38

اصحاب بدر جلد 4 22 22 آنحضرت کے خیمے کے باہر ننگی تلوار لیے تمام رات پہرہ دیتے رہے اور خیمے کے چاروں طرف گھومتے رہے.جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ابو ایوب کو خیمہ کے باہر دیکھا تو آپ صلی علیم نے ان سے فرمایا: اے ابو ایوب کیا بات ہے ؟ انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ! میں اس عورت سے آپ کے متعلق خوفزدہ ہوا کیونکہ اس کا باپ اور اس کا شوہر اور اس کی قوم کے لوگ قتل ہوئے ہیں اور یہ کفر سے نئی نئی نکلی ہے.اس لیے میں رات بھر آپ کی حفاظت کے خیال سے پہرہ دیتا رہا.اس پر آپ صلی المیہ یکم نے حضرت ابو ایوب انصاری کے حق میں دعا فرمائی کہ اللهم احفظ آبَا أَيُّوبَ كَمَا بَاتَ يَحْفَظْنِي کہ اے اللہ ! ابوایوب کی حفاظت فرما جس طرح اس نے پوری رات میری حفاظت کرتے ہوئے گزاری.امام سهیلی کہتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللی علم کی اس دعا کے مطابق حضرت ابوایوب کی حفاظت فرمائی یہاں تک کہ رومی آپ کی قبر کی حفاظت کرتے اور وہ آپ کے وسیلے سے پانی مانگتے تو بارش ہوتی.64 نبی صلی نام کا ایک صحابی کے گھر میں نماز پڑھانا حضرت محمود کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ صلی العلیم کے ساتھ جنگ بدر میں موجود تھے.کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بنو سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا اور میرے اور ان کے درمیان نالہ تھا.جب بارشیں ہو تیں تو ان کی مسجد کی طرف عبور کر کے جانا میرے لیے مشکل ہو تا.اس لیے میں رسول اللہ صلی ال یکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ سے عرض کیا کہ میں اپنی بینائی کمزور پاتا ہوں اور وہ نالہ جو میرے اور میری قوم کے درمیان ہے جب بارشیں آتی ہیں بہنے لگتا ہے اور وہ میرے لیے عبور کرنا مشکل ہو جاتا ہے.اس لیے میری خواہش ہے کہ آپ صلی علی ایم آئیں اور میرے گھر میں ایسی جگہ نماز پڑھیں جسے میں نماز کی جگہ بنالوں.رسول اللہ صلی ایم نے فرمایا کہ میں آؤں گا.پھر رسول اللہ صلی اللی کم اور حضرت ابو بکر دن چڑھے میرے پاس آئے اور رسول اللہ صلی علیم نے اندر آنے کی اجازت چاہی.میں نے اجازت دی.آپ بیٹھے نہیں اور آپ صلی علیہ ہم نے فرمایا کہ اپنے گھر میں سے آپ کون سی جگہ پسند کرتے ہیں کہ میں وہاں نماز پڑھوں ؟ آنحضرت صلی علیہ ہم نے ان سے پوچھا کہ تم نے نماز پڑھنے کے لیے بلایا تھا تو کونسی جگہ ہے جہاں تم چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ میں نے آپ صلی للہ ہم کو اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں میں چاہتا تھا کہ آپ نماز پڑھیں.رسول اللہ صلی المی کم کھڑے ہو گئے اور اللہ اکبر کہا اور ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھی.آپ نے دور کعتیں پڑھائیں.پھر سلام پھیرا اور جس وقت آپ نے سلام پھیرا ہم نے بھی سلام پھیرا اور میں نے آپ کو خَزیرہ یعنی گوشت اور آٹے کا ایک کھانا ہے وہ کھانے کے لیے روک لیا جو آپ کے لیے تیار ہو رہا تھا.محلے والوں نے سنا کہ رسول اللہ صلی علیکم میرے گھر میں ہیں تو ان میں سے کچھ لوگ بھاگے آئے یہاں تک کہ گھر میں بہت سے آدمی ہو گئے.ان میں سے ایک آدمی نے کہا مالک کہاں

Page 39

اصحاب بدر جلد 4 23 ہے میں اسے نہیں دیکھتا.تو کسی نے کہا وہ منافق ہے.ایک اور صحابی کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ وہ تو منافق ہے.اللہ اور اس کے رسول سے اس کو محبت نہیں ہے اس لیے وہ نہیں آیا.اس پر رسول اللہ صلی الکریم نے فرمایا ایسا مت کہو.کیا تمہیں علم نہیں کہ اس نے لا إِلهَ إِلَّا اللہ کا اقرار کیا ہے.وہ اس اقرار سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی چاہتا ہے.اس نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.ہم تو بخدا اس کی دوستی اور اس کی باتیں منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں.رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آگ اس شخص پر حرام کر دی ہے جس نے لا إلهَ إِلَّا اللہ کا اقرار کیا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی چاہتا ہو.حضرت محمود بن ربیع کہتے تھے کہ میں نے یہ بات کچھ اور لوگوں سے بیان کی جن میں رسول اللہ صلی اللی علم کے ساتھی حضرت ابو ایوب انصاری بھی تھے.وہ اس جنگ میں تھے جس میں وہ ملک روم میں فوت ہوئے اور یزید بن معاویہ ان کے سر دار تھے.تو حضرت ابو ایوب نے میری بات کا انکار کیا اور کہا کہ بخدا میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی علیم نے بھی ایسا کہا ہو جو تم نے بیان کیا ہے.یعنی کہ آگ اس پہ حرام ہوئی جو صرف لا اله الا اللہ کہے.بہر حال کہتے ہیں کہ یہ بات مجھ پر بہت گراں گزری.میں اس بات سے بڑا پریشان تھا.میں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے اوپر ایک منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے سلامت رکھا اور اس جنگ سے واپس لوٹا تو یہ بات میں حضرت عتبان بن مالک سے پوچھوں گا بشر طیکہ میں نے ان کی قوم کی مسجد میں ان کو زندہ پایا.چنانچہ میں لوٹا اور حج یا عمرہ کا احرام باندھا.پھر میں چل پڑا یہاں تک کہ مدینہ آیا اور بنو سالم کے محلے میں گیا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عتبان بوڑھے ہو گئے ہیں اور آپ کی بینائی جاتی رہی ہے.آپ اپنی قوم کو نماز پڑھا رہے تھے.جب نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے انہیں سلام کیا اور انہیں بتایا کہ میں کون ہوں.پھر میں نے ان سے وہ بات پوچھی تو انہوں نے اس کو اسی طرح بیان کیا جس طرح کہ پہلی دفعہ مجھ سے بیان کیا تھا.5 جس نے لا الہ الا اللہ پڑھا اس پر آگ حرام 65 کہ ہاں یہ ٹھیک ہے.میں نے خودر سول اللہ صلی علیم سے سنا ہے کہ جس نے لا إلهَ إِلَّا اللہ پڑھا اس پر آگ حرام ہو گئی لیکن حضرت ابو ایوب اس کو نہیں مانتے تھے.اس پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی اپنی رائے لکھی ہے کہ حدیث میں یہی آتا ہے کہ من قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يَبْتَغِي بِذلِكَ وَجْهَ الله - اس پوری حدیث کا ترجمہ پڑھ دیتا ہوں.اس میں یہ بھی وضاحت آجائے گی.یعنی محمود بن ربیع روایت کرتے ہیں کہ میں نے عتبان بن مالک سے یہ سنا کہ رسول اللہ العلیم لله لی لی یہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام کر دی ہوئی ہے جو سچی نیت سے خدا کی رضا کی خاطر لا اله الا اللہ کا اقرار کرتا ہے لیکن جب میں نے یہ روایت ایک ایسی مجلس میں بیان کی جس میں ابو ایوب انصاری صحابی بھی موجود تھے تو ابو ایوب نے اس روایت سے انکار کیا اور کہا خدا کی قسم ! میں ہر گز نہیں خیال کر سکتا کہ رسول اللہ صلی علی یم نے یہ بات فرمائی ہو.پھر آگے مرزا بشیر

Page 40

24 بدر جلد 4 66 احمد صاحب یہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں حضرت ابو ایوب انصاری نے ایک ایسی حدیث کو جو اصول روایت کے لحاظ سے صحیح تھی.جو حدیث بیان کرنے کے روایت کے اصول ہیں اس لحاظ سے صحیح تھی.لیکن حضرت ابو ایوب انصاری نے اپنی درایت کی بنیاد پر یعنی اپنی سمجھ اور اپنے لحاظ سے جس کو وہ صحیح سمجھتے تھے اس کو بنیاد رکھ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پھر میاں بشیر احمد صاحب یہ فرماتے ہیں کہ گویہ ممکن ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری کا استدلال درست نہ ہو مگر بہر حال یہ حدیث اس بات کو ثابت کرتی ہے.اب یہ بات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صحابہ یو نہی ہر حدیث کو، بات کو نہیں مان لیا کرتے تھے بلکہ وہ بھی غور کرتے تھے، تحقیق کرتے تھے.تو وہ لکھتے ہیں کہ ” بہر حال یہ حدیث اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ صحابہ یونہی کو رانہ طور پر ہر روایت کو قبول نہیں کر لیتے تھے بلکہ درایت وروایت ہر دو کے اصول کے ماتحت پوری تحقیق کر لینے کے بعد قبول کرتے تھے.بخاری کی اس حدیث کی شرح میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت محمود بن ربیچ سے جب انہوں نے یعنی ابو ایوب انصاری نے یہ روایت سنی تو انہوں نے انکار کیا.بعض کا خیال ہے کہ ان کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ خالی لا اله الا اللہ کا اقرار آگ سے محفوظ نہیں رکھ سکتا جب تک اعمال صالحہ اس کے ساتھ نہ ہوں.یہ ثابت شدہ اسلامی مسئلہ ہے.ٹھیک ہے.بالکل اسی طرح ہوتا ہے پھر آگے شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ مگر يبتغي بذلك وجه الله کا جملہ بتا رہا ہے کہ یہ اقرار توحید کس قسم کا ہے.یعنی جو دل سے چاہتے ہوئے خدا کی رضا کی خاطر کلمہ پڑھتا ہے لا اله الا اللہ کہتا ہے اس کے لیے آگ حرام ہے.تو پھر شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت محمود نے دوبارہ تحقیق اس خیال سے کی کہ شاید وہ بعض الفاظ ضبط نہ کر سکے ہوں اور پھر جو دوبارہ تحقیق کی تو دوبارہ یہی ثابت ہوا کہ وہ الفاظ درست تھے جو روایت تھی.پھر آگے لکھتے ہیں کہ کسی کے ایمان یا نفاق سے متعلق لوگوں کے سامنے اظہارِ رائے نامناسب ہے.کسی کو یہ کہہ دینا کہ منافق ہے یا اس کا ایمان کمزور ہے یہ غلط چیز ہے کیونکہ آنحضرت صلی الیم نے اس موقعے پر ابن دخشن کی نسبت نکتہ چینی ناپسند فرمائی تھی.آپ نے نا پسند فرمایا کہ اس طرح پبلک میں کہا جائے.اس قسم کی نکتہ چینی بجائے اصلاح کے فتنہ وفساد کا موجب ہو جاتی ہے.رسول اللہ صلى ال علوم کس طرح سر دھوتے تھے ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت مِسْوَر بن فَخَرَمَه نے أَبْوَاءُ مقام پر مسئلہ غسل میں اختلاف کیا.حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا محرم اپنا سر دھو سکتا ہے اور حضرت مسور نے کہا کہ محرم اپنا سر نہیں دھو سکتا.راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے مجھے حضرت ابو ایوب انصاری کے پاس بھیجا.میں نے انہیں دو لکڑیوں کے درمیان نہاتے ہوئے پایا.ان پر کپڑے سے پر وہ کیا گیا تھا.میں نے ان کو السلام علیکم کہا تو انہوں نے فرمایا کون ہے ؟ میں نے کہا عبد اللہ بن تین.حضرت عبد اللہ بن عباس نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں آپ سے پوچھوں کہ رسول پر 67

Page 41

ب بدر جلد 4 25 اللہ صلی علی نے اپنا سر کس طرح دھوتے تھے جبکہ آپ احرام کی حالت میں ہوتے تھے کیونکہ کہتے ہیں کہ احرام باندھا ہو تو سر نہیں دھونا چاہیے.تو حضرت ابوایوب نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا، اسے نیچے جھکایا یہاں تک کہ ان کا سر مجھے نظر آیا یعنی وہ سکرین جو بنائی ہوئی تھی جس کے آپ پیچھے تھے اس کو نیچے کر کے آپ نے مجھے اپناسر دکھایا.پھر انہوں نے ایک آدمی سے کہا جو اُن پر پانی ڈال رہا تھا کہ پانی ڈالو تو اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا.پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو ملا، ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے اور کہا کہ اس طرح میں نے آنحضرت صلی علیکم کو کرتے دیکھا ہے.68 ایک دفعہ آگے پھر پیچھے لے گئے سر دھوتے ہوئے.اے ابو ایوب تمہیں تکلیف نہ پہنچے حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابوایوب نے رسول کریم صلی ایم کی ریش مبارک میں کوئی چیز تنکا وغیرہ دیکھا تو انہوں نے اسے الگ کر دیا اور آپ صلی علیکم کو دکھایا.اس پر نبی کریم صلی نیلم نے فرمایا کہ ابو ایوب سے اللہ وہ چیز دور کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہے.ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اے ابو ایوب تمہیں تکلیف نہ پہنچے.حضرت علی ملکا اعتماد اور مدینہ کی گورنری 69 حضرت ابوایوب انصاری جنگ جمل اور جنگ صفین اور جنگ نہروان میں حضرت علی کے لشکر کے آگے والے حصہ میں شامل تھے.70 حضرت علی کو حضرت ابو ایوب انصاری کی ذات پر جو اعتماد تھا وہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت علیؓ نے کوفہ کو اپنا دارالخلافہ قرار دیا اور وہاں منتقل ہو گئے تو حضرت ابوایوب انصاری کو مدینہ کا گورنر بنا دیا اور وہ چالیس ہجری تک مدینہ کے گورنر رہے یہاں تک کہ بشر بن ابو ارطاۃ کی قیادت میں امیر معاویہ کی شامی فوج نے مدینہ پر حملہ کیا تو اس وقت حضرت ابوایوب انصاری مدینہ چھوڑ کر حضرت علی کے پاس کو فہ چلے گئے.آنحضرت صلی الیکم کے بعد صحابہ کرام کو دربارِ خلافت سے ماہانہ وظائف ملتے تھے.حضرت ابوایوب کا وظیفہ پہلے چار ہزار تھا.حضرت علی نے اپنے زمانہ خلافت میں نہیں ہزار کر دیا.پہلے آٹھ غلام ان کی زمین کی کاشت کے لیے مقرر تھے حضرت علی نے چالیس غلام کر دیے.71 حضرت ابن عباس کی عالی شان میزبانی حضرت حبیب بن ابو ثابت سے روایت ہے کہ حضرت ابوایوب امیر معاویہ کے پاس آئے اور ان سے اپنے اوپر قرض کی شکایت کی تو انہوں نے وہ نہ دیکھا جو وہ پسند کرتے تھے اور انہوں نے وہ دیکھا جسے وہ ناپسند کرتے تھے.یعنی حضرت ابوایوب کی بات کو نہیں دیکھا بلکہ ان کی ناپسندیدگی والی بات کو

Page 42

اصحاب بدر جلد 4 26 دیکھا.پسند والی بات کو نہیں دیکھا.اس پر حضرت ابو ایوب انصاری نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی الی یکم کو فرماتے سنا ہے کہ تم بعد میں ضرور ترجیح دیکھو گے یعنی تمہاری ترجیحات بدل جائیں گی.امیر معاویہ نے کہا تو آپ صلی یہ ہم نے تم لوگوں کو کس چیز کا ارشاد فرمایا تھا.جب رسول پاک نے یہ کہا تو پھر آپ نے کیا فرمایا تھا ؟ حضرت ابو ایوب نے کہا کہ آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تم لوگ صبر کرنا جب ایسی ترجیحات بدل جائیں جہاں تم لوگوں کی بات نہ مانی جائے.جو پسندیدہ بات نہ سنی جائے تو پھر صبر کرنا.اس پر امیر معاویہ نے کہا پھر تم لوگ صبر کرو.جب آنحضرت صلی ﷺ نے فرمایا کہ صبر کرنا تو پھر صبر کرو.حضرت ابوایوب نے کہا اللہ کی قسم ! میں تم سے کبھی کسی چیز کا سوال نہیں کروں گا.پھر حضرت ابو ایوب بصرہ چلے گئے اور حضرت ابن عباس کے ہاں قیام کیا.حضرت ابن عباس نے ان کے لیے اپنا گھر خالی کیا اور کہا میں آپ کے ساتھ ضرور ویسا ہی سلوک کروں گا جیسا آپ نے رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ کیا تھا.جب آپ نے رسول اللہ کی مہمان نوازی کی تھی ویسی مہمان نوازی میں آپ کی کروں گا.حضرت ابن عباس نے اپنے اہل خانہ کو حکم دیا تو وہ باہر چلے گئے اور حضرت ابن عباس نے کہا گھر میں جو کچھ ہے وہ سب آپ کا ہے اور انہوں نے حضرت ابو ایوب کو چالیس ہزار درہم اور ہمیں غلام دیے.انہوں نے اپنا اور انتظام کر لیا اور ان کو نہ صرف گھر دیابلکہ چالیس ہزار درہم بھی دیے اور میں غلام بھی دیے.72 ایک آیت کی تفسیر حضرت مصلح موعود وَ أَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَاحْسِنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِین کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ : اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں کو بڑی غلط فہمی ہوئی ہے.“ وَ انْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيِّدِ يَكُم إِلَى التَّهْلُكَةِ وَ أَحْسِنُوا ۚ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ” انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاں کوئی تکلیف پیش آتی ہے وہ فورا کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے.“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے وَلَا تُلْقُوا بِايْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو.”ہم اس میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں حالانکہ اس کے ہر گز یہ معنی نہیں کہ جہاں موت کا ڈر ہو وہاں سے مسلمان کو بھاگ جانا چاہیے اور اسے بزدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب دشمن سے لڑائیاں ہو رہی ہوں تو اس وقت اپنے مالوں کو خوب خرچ کرو.اگر تم اپنے اموال کو روک لو گے تو اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان پیدا کرو گے.چنانچہ احادیث میں حضرت ابو ایوب انصاری سے مروی ہے کہ انہوں نے اس وقت جبکہ وہ قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے کہا کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور پھر انہوں نے بتایا کہ پہلے تو ہم خدا تعالیٰ کے رستہ میں اپنے اموال خرچ کیا کرتے تھے لیکن جب خدا تعالیٰ نے اپنے دین کو تقویت اور عزت دی اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو ا تو قُلْنَا هَلْ نُقِيْمُ فِي أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحُهَا....

Page 43

بدر جلد 4 27 ہم نے کہا کہ اگر اب ہم اپنے مالوں کی حفاظت کریں اور اسے جمع کریں تو یہ اچھا ہو گا.اس وقت یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ کے رستہ میں اپنے اموال خرچ کرنے سے دریغ نہ کرو کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہو.پس اپنے مالوں کو جمع نہ کرو بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خوب خرچ کرو ورنہ تمہاری جانیں ضائع چلی جائیں گی.دشمن تم پر چڑھ آئیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم ہلاک ہو جاؤ گے.73 مصر کا سفر حضرت علی کے بعد امیر معاویہ کی حکومت کا زمانہ آیا.عُقبہ بن عامر جُهَنِی ان کی طرف سے مصر کے گورنر تھے.حضرت عقبہ کے عہد امارت میں حضرت ابو ایوب کو دو مر تبہ سفر مصر کا اتفاق ہوا.پہلا سفر طلب حدیث کے لیے تھا، انہیں معلوم ہو ا تھا کہ حضرت عقبہ کسی خاص حدیث کی روایت کرتے ہیں.صرف ایک حدیث کے لیے حضرت ابو ایوب نے بڑھاپے میں سفر کی زحمت گوارا کی.دوسری مرتبہ غزوہ روم میں شرکت کے ارادے سے مصر تشریف لے گئے.الله 74 نبی صلی الله ولم سے اظہار عشق مروان جب مدینہ کا گورنر تھا.وہ ایک روز آیا تو اس نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنا چہرہ نبی کریم ملی کم کی قبر پر لگایا ہوا تھا.مروان نے کہا کیا تم جانتے ہو کہ تم کیا کر رہے ہو ؟ یہ شرک ہے.جھکے ہوئے سجدہ کر رہے ہو.پھر مروان اس شخص کے پاس آیا تو کیا دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! میں رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس آیا ہوں.ان پتھروں کے پاس نہیں آیا.75 یہاں مطلب یہ تھا کہ میں اس محبت و عشق کی وجہ سے جھکا ہوا ہوں.پتھروں کو سجدہ نہیں کر رہا.نہ میں کوئی شرک کر رہا ہوں بلکہ یہ محبت کا اظہار ہے اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میرے دل میں ہے.شرک نہیں ہے.جس نے ماں اور اس کے بیٹے کے درمیان جدائی ڈالی تو...ابو عبد الرحمن خیلی سے مروی ہے کہ ہم سمندر میں تھے اور ہم پر عبد اللہ بن قیس فزاری امیر تھا اور ہمارے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاری بھی تھے.وہ اموالِ غنیمت تقسیم کرنے والے کے پاس سے گزرے جو قیدیوں کی نگرانی کر رہا تھا.حضرت ابوایوب انصاری کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت رو رہی ہے.انہوں نے پوچھا اس عورت کو کیا ہوا؟ لوگوں نے بتایا کہ اس عورت کو اور اس کے بیٹے کو الگ کر دیا گیا ہے.راوی کہتے ہیں اس پر انہوں نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اسے اس کی ماں کے ہاتھ میں دے دیا.اس کے بعد اموال غنیمت تقسیم کرنے والا عبد اللہ بن قیس کے پاس گیا اور انہیں یہ سب بتایا تو انہوں نے حضرت ابو ایوب کو بلا بھیجا اور پوچھا آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی علی یکم کو

Page 44

اصحاب بدر جلد 4 28 فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ماں اور اس کے بیٹے کے درمیان جدائی ڈالی تو اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے پیاروں کے درمیان قیامت کے دن جدائی ڈال دے گا.76 پس یہ جو بعض لوگ ماؤں سے بچے چھین لیتے ہیں ان کے لیے بھی اس میں سبق ہے.پھر یہ اسلام پر اعتراض کرنے والے دیکھیں کہ وہ خود کیا کرتے ہیں.اسلام تو اس حد تک خیال رکھتا ہے.اب گذشتہ دنوں امریکہ کی ہی خبریں تھیں کہ وہاں بھی جو امیگر سینٹس (immigrants) آئے ہوئے تھے ان مہاجرین کو علیحدہ علیحدہ انہوں نے رکھ دیا.ماؤں کو علیحدہ، بچوں کو علیحدہ کیا اور بعض بچے کچھ عرصے کے بعد ماؤں کو پہچان بھی نہیں سکے.بہر حال اسلام اس حد تک تلقین کرتا ہے کہ ماؤں کو بچوں سے جدا نہ کرو.ایک دوسرے کو اس وجہ سے تکلیف نہ دو.نماز مغرب میں تاخیر نہ کرنے کی نصیحت حضرت مرقد بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو ایوب انصاری ہمارے پاس جہاد کی غرض سے آئے تو ان دنوں حضرت عقبہ بن عامر مصر کے والی تھے.انہوں نے مغرب کی نماز میں تاخیر کی.حضرت ابوایوب ان کے پاس گئے اور کہا اے عقبہ یہ کیسی نماز ہے ؟ حضرت عقبہ نے جواب دیا ہم مصروف تھے.حضرت ابو ایوب نے کہا اللہ کی قسم امیری صرف یہ غرض ہے کہ لوگ یہ نہ گمان کریں کہ تم نے رسول اللہ صلی ا ہم کو ایسے کرتے ہوئے دیکھا تھا.کیا تم نے رسول اللہ صلی علی یم کو فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ میری امت اس وقت تک خیر پر باقی رہے گی یا یہ فرمایا کہ فطرت پر قائم رہے گی جب تک وہ مغرب میں تاخیر نہ کریں یہاں تک کہ ستارے چمکنے لگیں.77 یعنی پہلے وقت میں مغرب کی نماز پڑھنی چاہیے.ناخن تراشنے کی تلقین ابو واصل سے مروی ہے کہ میں حضرت ابو ایوب انصاری سے ملا.انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور دیکھا کہ میرے ناخن بہت لمبے ہیں تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تم میں سے کوئی آسمان کی خبروں کے متعلق سوال کرتا ہے اور وہ اپنے ناخن اس طرح لمبے رکھتا ہے جیسے پرندوں کے ناخن ہوتے ہیں.ان میں جنابت اور گندگی اور میل کچیل اکٹھی ہو جاتی ہے.یعنی با تیں تو تم لوگ بڑی اونچی اونچی پوچھتے ہو ، معرفت کی کرتے ہو لیکن تمہاری اپنی حالت یہ ہے کہ ناخن تمہارے لمبے ہیں اور ان میں گند اکٹھا ہو جاتا ہے اس لیے ناخن کاٹ کے رکھا کرو.مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث ہے.78

Page 45

ب بدر جلد 4 فضل و کمال 29 حضرت ابوایوب کا فضل و کمال اس قدر مسلم تھا کہ خود صحابہ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے.حضرت ابن عباس، ابن عمر، براء بن عازب، انس بن مالک، ابو أمامه، زید بن خالد جُهَنِي مِقْدَامُ بن مَعْدِی گرب، جابر بن سمرہ، عبد اللہ بن یزید خظمی وغیرہ جو آنحضرت صلی علیم کے تربیت یافتہ تھے.حضرت ابو ایوب کے فیض سے بے نیاز نہیں تھے.تابعین میں سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر ، سالم بن عبد الله، عطاء بن یسار، عطاء بن يزيد ليني، أبو سَلَمه، عبد الرحمن بن ابی لیلی بڑے پائے کے لوگ ہیں تاہم وہ حضرت ابو ایوب کے ارادت مندوں میں داخل تھے.79 ایک حدیث جو اپنے آخری وقت میں بیان کی حضرت ابوایوب انصاری سے مروی ہے کہ وہ معاویہ کے زمانے میں جہاد کے لیے نکلے.وہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہو گیا.مرض میں شدت ہو گئی تو اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا لینا اور جب تم لوگ دشمن کے مقابلے میں صف بستہ ہو جاؤ تو مجھے اپنے قدموں کے پاس دفن کر دینا.میں تم سے ایک حدیث بیان کروں گا جو میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سنی ہے.اگر میری وفات قریب نہ ہوتی تو میں اسے بیان نہ کرتا.میں نے رسول اللہ صلی الی ایم کو فرماتے سنا کہ جو اس حالت میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گیا.ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب حضرت ابو ایوب انصاری کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا میں نے تم لوگوں سے ایک ایسی چیز چھپائی ہوئی تھی جو میں نے رسول اللہ صلی الی الم سے سنی تھی.آپ نے فرمایا اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی قوم کو پیدا کر تا جو گناہ کرتی اور پھر اللہ اسے بخش دیتا.یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمانیت اور بخشش کی صفت کا اس حد تک پاس کرتا ہے.شوق جہاد اور دشمن کے علاقہ میں تدفین کی وصیت راوی محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوایوب انصاری غزوہ بدر میں شریک ہوئے.آپ مسلمانوں کی کسی لڑائی میں پیچھے نہیں رہے سوائے اس کے کہ آپ کسی دوسری لڑائی میں شامل ہوتے.یعنی اگر ایک وقت میں دو مختلف جنگ ہو رہی ہو تیں تو کسی نہ کسی جنگ میں لازمی شامل ہوتے تھے.صرف ایک سال وہ لڑائی میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ لشکر پر ایک نوجوان سپہ سالار بنا دیا گیا تھا وہ اس سال بیٹھے رہے.اس سال کے بعد وہ افسوس کرتے اور کہتے کہ مجھے اس بات سے کیا غرض کہ مجھ پر کون عامل مقرر کیا گیا.مجھے اس بات سے کیا غرض کہ مجھ پر کون عامل مقرر کیا گیا.مجھے اس بات سے کیا غرض کہ مجھ پر کون عامل مقرر کیا گیا.تین دفعہ انہوں نے یہ بات کہی.بیان کیا جاتا ہے کہ جس جوان کی امارت کا اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے وہ عبد الملک بن مروان تھا.راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت

Page 46

اصحاب بدر جلد 4 30 ابو ایوب بیمار ہو گئے.لشکر پر یزید بن معاویہ امیر تھا.وہ ان کے پاس ان کی عیادت کو آیا اور پوچھا کہ آپ کی کوئی ضرورت ہو تو بیان کریں.انہوں نے کہا کہ میری ضرورت یہ ہے کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے سوار کرنا.پھر جہاں تک گنجائش ملے دشمن کے ملک میں لے جانا.پھر جب گنجائش نہ پاؤ تو وہیں دفن کر دینا اور واپس آ جانا.جب حضرت ابو ایوب کی وفات ہو گئی تو اس نے انہیں سوار کیا اور جہاں تک گنجائش ملی وہ دشمن کے ملک میں لے گیا اور انہیں دفن کیا.پھر واپس آگیا.راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنْفِرُوا خِفَافًا وَ ثِقَالًا (اتوبة: 41) یعنی نکل کھڑے ہو ہلکے بھی اور بھاری بھی.انْفِرُوا خِفَافًا وَ ثِقَالًا اور میں اپنے آپ کو ہلکا بھی پاتا ہوں اور بھاری بھی.ایک روایت میں مذکور ہے کہ اہل مکہ میں سے کسی شخص سے مروی ہے کہ یزید بن معاویہ جس وقت حضرت ابو ایوب انصاری کے پاس آیا تو انہوں نے اس سے کہا کہ لوگوں سے میر اسلام کہنا.وہ مجھے لے کر چلیں اور جتنا دور وہ مجھے لے جاسکتے ہیں لے جائیں تو یزید نے لوگوں کو وہ سب بتایا جو حضرت ابو ایوب نے ان سے کہا تھا.لوگوں نے مانا اور ان کے جنازے کو جس حد تک وہ لے جاسکتے تھے لے گئے.حضرت ابوایوب انصاری نبی کریم ملی الیکم کے بعد اپنی وفات تک جہاد سے چمٹے رہے یہاں تک کہ ان کی وفات قسطنطنیہ میں ہوئی.ایک روایت میں مذکور ہے کہ باون ہجری میں یزید بن معاویہ نے اپنے والد امیر معاویہ کی خلافت میں قسطنطنیہ کی جنگ لڑی.اسی سال حضرت ابوایوب انصاری کی وفات ہوئی.یزید بن معاویہ نے ان کا نماز جنازہ پڑھایا.ان کی قبر روم میں قلعہ قسطنطنیہ کے پاس ہے.راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا کہ اہل روم ان کی قبر کی حفاظت اور مرمت کرتے ہیں اور قحط کے ایام میں وہ آپ کے ذریعے پانی طلب کرتے ہیں.مزار مبارک 80 ایک روایت کے مطابق حضرت ابوایوب انصاری نے امیر معاویہ کے عہد میں یزید کی کمان میں رومی حکومت کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور قسطنطنیہ کے شہر کے پاس پچاس یا اکاون ہجری میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے.ایک روایت کے مطابق یزید نے گھڑ سواروں کو حکم دیا جو حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر پر آگے پیچھے دوڑتے رہے یہاں تک کہ ان کی قبر کا نشان مٹ گیا.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جس رات حضرت ابوایوب کو دفن کیا گیا اس کی صبح رومیوں نے مسلمانوں سے پوچھا تم لوگ رات کو کیا کرتے رہے.مسلمانوں نے بتایا کہ یہ حضرت ابو ایوب انصاری ہمارے نبی صلی علیکم کے کبار صحابہ میں سے تھے اور اسلام قبول کرنے کے لحاظ سے ان سب سے قدیم تھے.ہم نے انہیں دفن کیا جیسا کہ تم دیکھ چکے ہو اور اللہ کی قسم! اگر قبر کھودی گئی تو جب تک ہمارے پاس حکومت ہے، عرب کی سر زمین میں تمہارا یہ ناقوس نہیں بجے گا.مجاہد کہتے ہیں کہ جب ان کے ہاں قحط پڑتا تو ان کی قبر سے

Page 47

ب بدر جلد 4 31 تھوڑی سی مٹی ہٹاتے تو بارش ہو جاتی.81 یہ وہاں اب بھی ایک روایت قائم ہے.کہاں تک صحیح ہے اللہ بہتر جانتا ہے.حضرت ابوایوب انصاری پچاس یا اکاون ہجری یا باون ہجری میں غزوہ قسطنطنیہ میں فوت ہوئے.آخری قول اکثر لوگوں کا ہے یعنی باون ہجری کا.82 حضرت ابو ایوب انصاری کا مزار ترکی کے شہر استنبول میں ہے.مزار ایک چبوترے میں ہے جسے پیتل کے جالی دار دروازے سے بند کیا ہوا ہے.ترکی کے اکثر لوگ سکون قلب کے لیے یہاں حاضر ہوتے ہیں.اب بدری صحابہ کا یہ ذکر تو ختم ہو گیا لیکن چاروں خلفاء کا ذکر ان شاء اللہ بیان کروں گا.پہلے بعض کا مختصر بیان ہو ا تھا.اب تفصیلی بیان کروں گا.اسی طرح شروع میں بعض صحابہ کا مختصر ذکر ہوا تھا اگر ان کے بارے میں کچھ اور مواد میسر آیا تو وہ بھی بیان کر دوں گا.جب یہ سب لکھا جائے گا تو وہ ان صحابہ کی سیرت میں ان کے اس حصے میں چلا جائے گا اور وہ لوگ چند ایک ہی ہوں گے.83 13 نام و نسب و کنیت حضرت ابو بردہ بن نیار ย حضرت ابو بزدہ بن نیار.کنیت ان کی ابو بزدہ تھی.ابو بُزدہ اپنی کنیت سے مشہور تھے.ان کا نام ہانی تھا.ایک روایت میں آپ کا نام حارث اور ایک دوسری روایت میں مالک بھی بیان ہوا ہے.ان کا تعلق قبیلہ بنو قُضَاعَہ کے خاندان بیلی سے تھا.حضرت ابو بردہ حضرت براء بن عازب کے ماموں تھے.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو بردہ حضرت براء بن عازب کے چچا تھے.بیعت عقبہ اور تمام غزوات میں شمولیت 84 بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے.اس کے علاوہ غزوہ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول کریم صلی ایم کے ساتھ شامل ہوئے.فتح مکہ کے دن بنو حارثہ کا جھنڈ احضرت ابو بردہ کے پاس تھا.4 حضرت ابو عبس اور حضرت ابو بردہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس وقت دونوں نے قبیلہ بنو حارثہ کے بتوں کو توڑا.85 یعنی اپنے قبیلے کے وہ جو بت تھے ، اُن کو ( توڑا تھا).

Page 48

اصحاب بدر جلد 4 32 جنگ بدر میں شمولیت کا جوش و جذبہ حضرت ابو امامہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی ال کلیم نے غزوہ بدر کے لئے بدر کی طرف کوچ کا ارادہ کیا تو حضرت ابو امامہ بھی آپ سی ایم کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئے.اس پر ان کے ماموں حضرت ابوبز ده بن نیار نے کہا کہ تم اپنی ماں کی خدمت گزاری کے لئے رک جاؤ.ماں بیمار تھی ان سے کہا تم رک جاؤ.حضرت ابو امامہ نے کہا، ان میں بھی جوش تھا کہ اسلام کے خلاف حملہ ہو رہا ہے تو میں بھی جاؤں.انہوں نے کہا کہ وہ آپ کی بھی بہن ہیں.مجھے جو کہہ رہے ہیں تو آپ رک جائیں.جب یہ معاملہ حضور صلی ایم کے سامنے پیش ہوا تو آنحضرت صلی علیہ یکم نے حضرت ابو امامہ کو رکنے کا حکم دیا یعنی بیٹے کو اور حضرت ابو بُزدہ لشکر کے ساتھ گئے.جب رسول اللہ صلی می کنم غزوہ سے واپس آئے تو حضرت ابو امامہ کی والدہ فوت ہو چکی تھیں.رسول اللہ صلی علیم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی.86 مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے ایک حضرت ابوبردہ کا غزوۂ احد کے دن مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے تھے.ایک گھوڑار سول کریم صلی نیم کے پاس تھا 87 جس کا نام الشعب تھا اور اور دوسرا گھوڑا حضرت ابوبردہ کے پاس تھا جس کا نام ملا وخ ، تھا.حضرت ابو بردہ بن نیار بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی علیکم کچھ قبائل کے پاس تشریف لے گئے.اُن کے حق میں دعا کی لیکن ایک قبیلے کو آپ نے چھوڑ دیا اور ان کے پاس تشریف نہیں لے کے گئے.اس پر یہ بات اس قبیلے والوں کو بڑی گراں گزری کہ کیا وجہ ہے؟ اس پر انہوں نے اپنے ایک ساتھی کے مال کی تلاشی لی تو اس کی چادر میں سے ایک ہار نکلا جو اس نے خیانت کرتے ہوئے لے لیا تھا.پھر ان لوگوں نے وہ ہار واپس کیا تو آپ صلی علیکم ان کے پاس بھی تشریف لے گئے اور ان لوگوں کے حق میں بھی دعا کی.88 وفات حضرت ابو بزدہ حضرت علی کے ساتھ تمام جنگوں میں شامل رہے.آپ کی وفات حضرت معاویہؓ کے ابتدائی دور میں ہوئی.ان کی وفات کے سال کے بارہ میں مختلف روایات ہیں.ایک روایت کے مطابق آپ کی وفات 41 ہجری میں ہوئی جبکہ دوسری روایات میں 42 ہجری اور 45 ہجری کا ذکر بھی ملتا ہے.89 عید الاضحیہ اور قربانی حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی یوم عید الاضحیہ کے دن نماز کے بعد ہم سے مخاطب ہوئے اور فرمایا جس نے ہماری نماز جیسی نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی تو اس نے ٹھیک قربانی کی اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کر لی تو وہ بکری گوشت ہی کے لئے ہوئی.یعنی یہ قربانی نہیں ہے.

Page 49

اصحاب بدر جلد 4 33 بلکہ عید کی نماز سے پہلے قربانی کرناوہ تو اس طرح ہی ہے جس طرح گوشت کھانے کے لئے بکری ذبیح کرلی.اس پر حضرت ابو بزدہ بن بیار اٹھے (جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے ) اور انہیں کہا یار سول اللہ ! میں نے تو نماز کے نکلنے سے پہلے ہی قربانی کرلی ہے اور میں یہ سمجھا تھا کہ آج کا دن کھانے پینے کا ہے.اس لئے میں نے جلدی کی، خود بھی کھایا اور اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں کو بھی کھلایا.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا: یہ بکری تو گوشت ہی کے لئے ہوئی.یہ تمہاری قربانی نہیں ہے.اس پر حضرت ابو بردہ نے کہا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیاں یعنی بکری کے مادہ بچے ہیں اور وہ گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہیں یعنی کہ اچھی پلی ہوئی ہیں اور گو ایک سال کی ہیں لیکن دو بکریوں کی نسبت سے زیادہ بہتر ہیں، موٹی تازی ہیں.اگر میں یہ قربانی کر دوں تو کیا میری طرف سے کافی ہو گا؟ آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ ہاں کر دو لیکن تمہارے بعد کسی کو کافی نہیں ہو گا.90 تمہیں تو یہ اجازت ہے لیکن تمہارے بعد اور کسی کو اجازت نہیں.قربانی کے لئے بکرے کی عمر کتنی ہونی چاہیے دوسری احادیث بھی یہی بتاتی ہیں کہ ایک تو یہ کہ عید کے بعد قربانی کی جائے اور دوسرے بکری کی قربانی کی ایک عمر ہوتی ہے وہ ہونی چاہئے.بہر حال یہ جو آپ نے فرمایا کہ تمہارے بعد کسی کو کافی نہیں ہے.اس بارے میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں سوال ہوا کہ قربانی کے بکرے کی عمر کیا ہونی چاہئے تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حضرت مولانا نورالدین وہاں بیٹھے ہوئے تھے ان کو فرمایا کہ آپ جواب دیں.تو انہوں نے عرض کیا کہ اہل حدیث کے نزدیک دو سال کا ہونا ضروری ہے.91 یا ہمارے ملکوں میں یہ رواج ہے کہ وہ کہتے ہیں دوند ا ہو نا ضروری ہے.سامنے کے دو بڑے دانت نکلے ہونے چاہئیں.تو بہر حال اس وقت آنحضرت صلی یہ کم نے حضرت ابو بزدہ کو جو فرمایا کہ تمہاری قربانی تو میں اس ایک سال کے پٹھے کی قبول کرتا ہوں لیکن آئندہ کے لئے اور کسی کے لئے نہیں ہے.بلکہ جوان بکری یا بکر اہونا چاہئے اور یہی طریق جماعت میں رائج ہے یا ہمارے فتوے میں ہے جیسا کہ میں نے کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.92 14 نام و نسب و کنیت حضرت ابو حذيفه بن عتبه حضرت ابوحذیفه بن عُتبہ ان کی کنیت ابوحذیفہ تھی.ان کا نام هُشَیم یا هَاشِم یا قَيْش، چشل، عسل اور مقسّم بیان کیا جاتا ہے.آپ کی والدہ اُمّد صفوان تھیں.ان کا نام فاطمہ بنت صَفْوَان

Page 50

تاب بدر جلد 4 34 تھا.آپ بڑے دراز قد اور خوبصورت چہرے کے مالک تھے.ابتدائی ایمان لانے والے آنحضرت صلیم کے دارِ ارقم میں داخل ہونے سے قبل اسلام میں شامل ہو چکے تھے.93 ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے تھے.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ: ابو حذيفه بن عُتبہ تھے جو بنی امیہ میں سے تھے.اُن کے باپ کا نام عُتبہ بن ربیعہ تھا جو سرداران قریش میں سے تھا.ابو حذیفه جنگ یمامہ میں شہید ہوئے جو حضرت ابو بکر کے زمانہ خلافت میں مسیلمہ کذاب کے ساتھ ہوئی تھی.ہجرت حبشہ میں شامل 94 حضرت ابوحذیفہ حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں میں شامل ہوئے تھے اور آپ کی بیوی حضرت سهله بنت سهيل نے بھی آپ کے ساتھ ہجرت کی تھی.15 ہجرت حبشہ کس طرح ہوئی اور کیوں ہوئی 95 ہجرت حبشہ کے بارے میں پہلے بھی صحابہ کے ذکر میں ذکر ہو چکا ہے کہ کس طرح ہوئی اور کیوں ہوئی ؟ یہاں بھی مختصر ذکر کر دیتا ہوں.مختلف تاریخی کتب سے اور حدیثوں سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو اخذ کیا ہے اس کو مزید مختصر کر کے یا اس میں سے چند باتیں لے کے بیان کروں گا.آپ لکھتے ہیں کہ : جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی اور قریش اپنی ایذا رسانی میں ترقی کرتے گئے تو آنحضرت صلی علیم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہو تا.اس زمانے میں حبشہ ایک مضبوط عیسائی حکومت تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا.حبشہ کے ساتھ عرب کے تجارتی تعلقات تھے.جب یہ ہجرت کر کے گئے ہیں تو اس وقت کے نجاشی بادشاہ کا جو اپنا نام تھاوہ اصحبَہ تھا جو ایک عادل، بیدار مغز اور مضبوط بادشاہ تھا.بہر حال جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی تو آنحضرت صلی ا ہم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ جن جن سے ممکن ہو حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں.چنانچہ آنحضرت صلی للی علم کے فرمانے پر رجب پانچ نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.ان میں سے زیادہ معروف کے نام یہ ہیں: حضرت عثمان بن عفان اور ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول صلی الم ، عبد الرحمن بن عوف ، زبیر بن العوام ، ابوحذيفه بن عُتبہ.جن کا ذکر ہو رہا ہے یہ بھی اس پہلے گروپ میں تھے.عثمان بن مظعون، مُصْعَب بن عُمیر ، ابو سلمہ بن عبد الاسد اور ان کی زوجہ اُمِ سلمہ.حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ان ابتدائی مہاجرین میں

Page 51

اصحاب بدر جلد 4 35 سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقتور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے.اول یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہیں تھے اور دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام وغیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی طاقت بھی نہیں رکھتے تھے.جب یہ مہاجرین جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے شعیبہ پہنچے جو اس زمانے میں عرب کا ایک بندر گاہ تھا تو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان کو ایک تجارتی جہاز مل گیا جو حبشہ کی طرف روانہ ہونے کو بالکل تیار تھا.چنانچہ یہ اس میں سوار ہو گئے.حبشہ پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکارا ملا.لیکن جیسا کہ بعض مورخین نے بیان کیا ہے ابھی ان مہاجرین کو حبشہ میں گئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک اُڑتی ہوئی افواہ ان تک پہنچی کہ تمام قریش مسلمان ہو گئے ہیں اور مکہ میں اب بالکل امن ہو گیا ہے.اس خبر کا یہ نتیجہ ہوا کہ اکثر مہاجرین بغیر سوچے سمجھے واپس آگئے.حبشہ سے مہاجرین کی واپسی کا قصہ بے بنیاد ہے اس افواہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کچھ روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح پھیلی اور کیوں ؟ اس افواہ کی کیا وجہ تھی ؟ مختلف تاریخوں سے اخذ کر کے وہ لکھتے ہیں کہ گو حقیقتا یہ افواہ بالکل جھوٹی اور بے بنیاد تھی جو مہاجرین حبشہ کو واپس لانے اور ان کو تکلیف میں ڈالنے کی غرض سے قریش نے مشہور کر دی ہو گی.بلکہ زیادہ غور سے دیکھا جائے تو اس افواہ اور مہاجرین کی واپسی کا قصہ ہی بے بنیاد نظر آتا ہے لیکن (انہوں نے لکھا ہے ) اگر اس کو صحیح سمجھا جائے تو ممکن ہے کہ اس کی تہہ میں وہ واقعہ ہو جو بعض احادیث میں بیان ہوا ہے اور جیسا کہ بخاری میں بھی یہ واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی الی یکم نے صحن کعبہ میں سورت نجم کی آیات تلاوت فرمائیں.اس وقت وہاں کفار کے کئی رؤساء جو تھے وہ بھی موجود تھے، بعض مسلمان بھی تھے.جب آپ صلی للہ ہم نے سورت ختم کی تو سورہ نجم پڑھنے کے بعد آپ نے سجدہ کیا.اور آپ کے ساتھ ہی تمام مسلمان اور کافر بھی سجدے میں گر گئے.کفار کے سجدے کی وجہ حدیث میں بیان نہیں ہوئی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی علیہم نے نہایت پر اثر آواز میں آیات الہی کی تلاوت فرمائی اور وہ آیات بھی ایسی تھیں جن میں خصوصیت کے ساتھ خدا کی وحدانیت اور اس کی قدرت اور جبروت کا نہایت فصیح و بلیغ رنگ میں نقشہ کھینچا گیا تھا اور اس کے احسانات یاد دلائے گئے ہیں اور پھر ایک نہایت پر رعب اور پر جلال کلام میں قریش کو ڈرایا گیا تھا کہ اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان کا وہی حال ہو گا جو ان سے پہلی قوموں کا ہوا جنہوں نے خدا کے رسولوں کی تکذیب کی اور پھر آخر میں ان آیات میں ہی حکم دیا گیا تھا کہ آؤ اور اللہ کے سامنے سجدے میں گر جاؤ.اور ان آیات کی تلاوت کے بعد آنحضرت صلی علی کرم اور سب مسلمان یکلخت سجدے میں گر گئے تو اس کلام اور اس نظارے کا ایسا ساحرانہ اثر قریش پر ہوا، ان پر بھی بڑا اچھا، بڑا عجیب اثر ہوا کہ وہ بھی بے اختیار ہو کر

Page 52

تاب بدر جلد 4 36 مسلمانوں کے ساتھ سجدے میں گر گئے.حضرت میاں بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ ایسے موقعوں پر ایسے حالات کے ماتحت جو بیان ہوئے ہیں بسا اوقات انسان کا قلب مرعوب ہو جاتا ہے اور وہ بے اختیار ہو کر ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو دراصل اس کے اصول اور مذہب کے خلاف ہوتی ہے.چنانچہ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات ایک سخت اور ناگہانی آفت کے وقت ایک دہر یہ بھی اللہ اللہ یا رام رام پکار اٹھتا ہے اور قریش تو دہر یہ نہ تھے بلکہ بہر حال خدا کی ہستی کے قائل تھے گو بتوں کو شریک ٹھہراتے تھے.آجکل بھی ہم دیکھتے ہیں، کئی دہریوں سے بات ہوتی ہے.جب ان سے پوچھو گے کہ اگر تمہیں کوئی مسئلہ پیش آجائے تو ایک دم خدا کا نام تمہارے ذہن دماغ میں آتا ہے یا منہ سے آتا ہے تو تسلیم کرتے ہیں کہ آتا ہے.بہر حال یہ اس سورت کے پڑھنے کا، سورت کے الفاظ کا اور مسلمانوں کے عمل کا ایک اثر تھا کہ کفار کے رؤساء جو تھے وہ بھی ساتھ ہی سجدے میں گر گئے.بہر حال مسلمانوں کی جماعت یکلخت سجدے میں گر گئی تو اس کا ایسا ساحرانہ اثر ہوا کہ ان کے ساتھ قریش بھی بے اختیار ہو کر سجدے میں گر گئے.لیکن ایسا اثر عموماً وقتی ہوتا ہے اور انسان پھر جلد ہی اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے.چنانچہ کفار بھی اسی طرح واپس لوٹ گئے.ان کا وہی حال ہو گیا.بہر حال یہ ایک واقعہ ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے.بخاری میں بھی درج ہے.پس اگر مہاجرین حبشہ کی واپسی کی خبر صحیح ہے ، درست ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد قریش نے جو مہاجرین حبشہ کے واپس لانے کے لئے بے تاب ہو رہے تھے کہ یہ لوگ ہجرت کر کے کیوں چلے گئے، ہمارے ہاتھوں سے نکل گئے.اپنے اس فعل کو آڑ بنا کر خود ہی یہ افواہ مشہور کر دی ہو گی کہ قریش مکہ مسلمان ہو گئے ہیں اور یہ کہ اب مکہ میں مسلمانوں کے لئے بالکل امن ہے.اور جب یہ افواہ مہاجرین حبشہ تک پہنچی تو وہ طبعاً اسے سن کر بہت خوش ہوئے اور سنتے ہی خوشی کے جوش میں بغیر سوچے سمجھے واپس آگئے.لیکن جب وہ مکہ کے پاس پہنچے تو حقیقت پتہ چلی اور حقیقت امر سے آگاہی ہوئی جس پر بعض تو چھپ چھپ کر اور بعض کسی طاقتور صاحب اثر رئیس قریش کی حفاظت میں ہو کر مکہ میں آگئے اور بعض واپس چلے گئے.پس اگر قریش کے مسلمان ہو جانے کی افواہ میں کوئی حقیقت تھی تو وہ صرف اس قدر تھی جو سورت نجم کی تلاوت پر سجدہ کرنے والے واقعہ میں بیان ہوئی ہے.بہر حال اللہ بہتر جانتا ہے.بہر حال اگر مہاجرین حبشہ واپس آئے بھی تھے تو ان میں سے اکثر پھر واپس چلے گئے اور چونکہ قریش دن بدن اپنی ایذاء رسانی میں ترقی کرتے جاتے تھے اور ان کے مظالم روز بروز بڑھ رہے تھے اس لئے آنحضرت صلی لی ایم کے ارشاد پر دوسرے مسلمانوں نے بھی خفیہ خفیہ ہجرت کی تیاری شروع کر دی اور موقع پا کر آہستہ آہستہ نکلتے گئے.یہ ہجرت کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ بالآخر ان مہاجرین حبشہ کی تعداد ایک سو ایک تک پہنچ گئی جن میں اٹھارہ عور تیں بھی تھیں.اور مکہ میں آنحضرت علی علیم کے پاس بہت ہی تھوڑے لوگ مسلمان رہ گئے.

Page 53

تاب بدر جلد 4 37 96 اس ہجرت کو بعض مورخین ہجرت حبشہ ثانیہ کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں.مدینہ کی طرف ہجرت ایک پہلی ہجرت تھی اور پھر بعد میں جو دوسرے لوگ گئے.اسی طرح بعد میں جب ہجرت مدینہ کی اجازت ہوئی ہے تو ابو محذیفہ اور حضرت سالم جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے دونوں مدینہ ہجرت کر گئے.پہلی ہجرت تو انہوں نے حبشہ میں کی تھی.اس زمانے میں واپس بھی آگئے.پھر دوسری ہجرت ها الرس انہوں نے مدینہ کی جہاں آپ دونوں حضرت عباد بن بشر کے ہاں قیام پذیر ہوئے.رسول اللہ صلی علیکم نے حضرت ابوحذیفہ اور حضرت عباد بن بشر کے درمیان عقد مؤاخات قائم فرمایا.آپس میں بھائی چارہ قائم فرمایا.97 سریہ عبد اللہ بن جحش حضرت ابو محذیفه سر یہ حضرت عبد اللہ بن بخش میں بھی شامل تھے.8 98 یہ سر یہ جو عبد اللہ بن جحش کا تھا اس کی تفصیل اور پس منظر کی کچھ تفصیل جو سیرت خاتم النبیین میں ہے پیش کرتا ہوں.مکہ کے ایک رئیس گرز بن جابر فھری نے قریش کے ایک دستہ کے ساتھ کمال ہوشیاری سے مدینہ کی چراگاہ پر اچانک حملہ کیا جو شہر سے صرف تین میل پر تھی اور مسلمانوں کے اونٹ وغیرہ لوٹ کرلے گیا.آنحضرت صلی علیہ ہم کو یہ اطلاع ہوئی تو آپ فور ازید بن حارثہ کو اپنے پیچھے امیر مقرر کر کے اور مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر اس کے تعاقب میں نکلے اور سَفَوَان تک جو بدر کے پاس ایک جگہ ہے اس کا پیچھا کیا مگر وہ بیچ کر نکل گیا.اس غزوہ کو غزوہ بدر الاولی بھی کہتے ہیں.پھر لکھا ہے گرز بن جابر کا یہ حملہ ایک معمولی بدویانہ غارت گری نہیں تھی یعنی یہ نہیں تھا کہ کسی بدو نے آکر حملہ کر دیا اور جہالت میں صرف چوری اور ڈاکہ کے لئے حملہ کیا بلکہ یقیناً وہ قریش کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف خاص ارادے سے آیا تھا بلکہ بالکل ممکن ہے کہ اس کی نیت خاص آنحضرت صلی اینیم کی ذات کو نقصان پہنچانے کی ہو.مگر مسلمانوں کو ہوشیار پا کر ان کے اونٹوں پر ہاتھ صاف کر تا ہو انکل گیا.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریش مکہ نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ مدینہ پر چھاپے مار مار کر مسلمانوں کو تباہ و برباد کیا جائے.گرز بن جابر کے اچانک حملے نے طبعاً مسلمانوں کو بہت زیادہ خوفزدہ کر دیا، متوحش کر دیا اور چونکہ رؤسائے قریش کی یہ دھمکی پہلے سے موجود تھی کہ ہم مدینہ پر حملہ آور ہوں گے اور حملہ کر کے مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دیں گے مسلمان سخت فکر مند ہوئے اور انہی خطرات کو دیکھ کر آنحضرت صلی الیم نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات و سکنات کا قریب سے ہو کر علم حاصل کیا جائے.دیکھا جائے کہ ان کے کیا منصوبے ہیں اور کیا ان کے ارادے ہیں.اور اس کو دیکھنے کے لئے کوئی ایسی تدبیر کی جائے کہ قریب

Page 54

اصحاب بدر جلد 4 38 سے ان کی معلومات ملتی رہیں تا کہ بروقت اطلاع ہو جائے اور مدینہ پر ہر قسم کے حملہ کا جو خطرہ ہے اس ے محفوظ رکھا جائے.چنانچہ اس غرض کے لئے آپ ملکی تعلیم نے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی اور مصلحیا اس پارٹی میں ایسے آدمیوں کو رکھا جو قریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے میں آسانی ہو اور پارٹی پر آپ نے اپنے پھو پھی زاد بھائی عبد اللہ بن جخش کو امیر مقرر فرمایا.اس میں یہ ابو محذیفہ بن عُتبہ بھی شامل تھے.اور اس خیال سے کہ اس پارٹی کی غرض و غایت عامۃ المسلمین سے بھی مخفی رہے، کسی کو پتہ نہ چلے آپ نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کو بھی یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اور کس غرض سے بھیجا جارہا ہے بلکہ چلتے ہوئے ان کے ہاتھ میں ایک سر بمہر خط دے دیا، سیل (seal) کر کے ایک خط دے دیا اور فرمایا کہ اس خط میں تمہارے لئے ہدایات درج ہیں.جب تم مدینہ سے ، سمت بتادی، اس طرف دو دن کا سفر طے کر لو تو پھر اس خط کو کھول کر اس کی ہدایت کے مطابق، جو خط میں ہدایات ہیں ان کے مطابق عمل درآمد کرنا.چنانچہ عبد اللہ اور ان کے ساتھی اپنے آقا کے حکم کے ماتحت روانہ ہو گئے اور جب دو دن کا سفر طے کر چکے تو عبد اللہ نے آنحضرت صلی علیم کے فرمان کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے کہ تم مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں جاؤ اور وہاں جا کر قریش کے حالات کا علم لو اور پھر ہمیں اطلاع کر دو.اور چونکہ مکہ سے اس قدر قریب ہو کر خبر رسانی کرنے کا کام بڑا نازک تھا آپ نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھی تھی کہ اس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگر تمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متامل ہو ، اس کو کسی قسم کا کوئی تامل ہو ، روک ہو تو اگر وہ واپس چلا آنا چاہے تو اسے واپس آنے کی اجازت ہے.عبد اللہ نے آپ کی ہدایت اپنے ساتھیوں کو سنادی اور سب نے یک زبان ہو کر بخوشی اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا اور کہا کہ ہم حاضر ہیں.اونٹ گم ہو گیا....اس کے بعد یہ جماعت نخلہ کی طرف روانہ ہوئی.راستہ میں سعد بن ابی وقاص اور عُتبہ بن غزوان کا اونٹ گم گیا اور وہ اس کی تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجود بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکے اور اب یہ پارٹی صرف چھ آدمیوں پر رہ گئی.چھ کس کی رہ گئی تو یہ چھ آدمی اپنے مشن کے لئے آگے چل پڑے.مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت نخلہ پہنچی اور اپنے کام میں یعنی خبر لینے کے کام میں مصروف ہو گئی کہ کفار مکہ کے کیا ارادے ہیں ؟ مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ تو نہیں ؟ یا اب ان کے کیا منصوبے بن رہے ہیں ؟ ان میں سے بعض نے اخفائے راز کے خیال سے اپنے سر کے بال بھی مینڈ وادئے تاکہ راہ گیر وغیرہ، جو گزرنے والے ہیں ان کو عمرے کے خیال سے آئے ہوئے لوگ سمجھ کر کسی قسم کا شبہ نہ کریں.یہی سمجھیں کہ شاید یہ لوگ بھی عمرے کے لئے جار ہے ہیں.انہوں نے اپنے بال منڈوا دئے ہیں.کہتے ہیں لیکن ابھی ان کو وہاں پہنچے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اچانک وہاں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ بھی آگیا جو طائف سے مکہ کی طرف جارہا تھا اور ہر دو جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہو گئیں.گند

Page 55

ناب بدر جلد 4 39 ان کو پتہ لگ گیا کہ یہ مسلمان ہیں.انہوں نے ان سے جنگ کرنے کی ٹھان لی، دونوں آمنے سامنے ہو گئے.مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے کیونکہ آنحضرت صلی علیم نے ان کو خفیہ خفیہ خبر رسانی کے لئے بھیجا تھا لیکن دوسری طرف قریش سے جنگ شروع ہو چکی تھی اور اب دونوں حریف ایک دوسرے کے سامنے تھے.اور پھر طبعاً یہ اندیشہ بھی تھا کہ اب جو قریش کے اس قافلے والوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا ہے تو اس خبر رسانی کا راز بھی مخفی نہ رہ سکے گا.اور ایک دِقت یہ بھی تھی کہ بعض مسلمانوں کو خیال تھا کہ شاید یہ دن رجب یعنی شہر حرام کا آخری ہے.( حرمت والے مہینے کا آخری دن ہے) جس میں عرب کے قدیم دستور کے مطابق لڑائی نہیں ہونی چاہیے تھی.اور بعض سمجھتے تھے کہ رجب گزر چکا ہے اور شعبان شروع ہے.اور بعض روایات میں یہ ہے کہ یہ سر یہ جمادی الآخر میں بھیجا گیا تھا اور شک یہ تھا کہ یہ دن جمادی کا ہے یا رجب کا؟ لیکن دوسری طرف نکلے کی وادی بھی عین حرم کے علاقے کی حد پر واقع تھی.اور یہ ظاہر تھا کہ اگر آج ہی کوئی فیصلہ نہ ہوا تو کل کو یہ قافلہ حرم کے علاقے میں داخل ہو جائے گا جس کی حرمت یقینی ہو گی.عمرو بن الحضرمی کا مارا جانا غرض ان سب باتوں کو سوچ کر ان چھ مسلمانوں نے یہی فیصلہ کیا کہ قافلے پر حملہ کر کے یا تو قافلے والوں کو قید کر لیا جائے یا مار دیا جائے.چنانچہ انہوں نے اللہ کا نام لے کر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں کفار کا ایک آدمی جس کا نام عمر و بن الحضرمی تھا مارا گیا اور دو آدمی قید ہو گئے.لیکن چوتھا آدمی بھاگ نکلا اور مسلمان اسے پکڑ نہ سکے اور اس طرح ان کی تجویز جو تھی کہ ان کو پکڑ لیا جائے یا مار دیا جائے وہ کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی.اس کے بعد مسلمانوں نے قافلے کے سامان پر قبضہ کر لیا اور چونکہ قریش کا ایک آدمی بیچ کر نکل گیا تھا اور یقین تھا کہ اس لڑائی کی خبر جلدی مکہ پہنچ جائے گی.عبد اللہ بن جحش اور اس کے ساتھی سامان غنیمت لے کر جلدی جلدی مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے.مستشرقین بھی اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ دیکھو یہ جان کر بھیجا گیا تھا.قافلے پر حملہ کروایا گیا، جو قطعأغلط ہے.بہر حال حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی علی نظم کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہ نے قافلے پر حملہ کیا تھا تو آپ سخت ناراض ہوئے.چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جب یہ جماعت آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو سارے ماجرے کی اطلاع ہوئی تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں شہر حرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی.اور پھر آپ نے مال غنیمت لینے سے انکار کر دیا کہ اس میں سے میں کچھ بھی نہیں لوں گا.اس پر عبد اللہ اور ان کے ساتھی سخت نادم اور پشیمان ہوئے اور انہوں نے خیال کیا کہ بس اب ہم خدا اور اس کے رسول کی ناراضگی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے.ان میں بڑا خوف پید اہوا.صحابہ نے بھی ان کو سخت ملامت کی.مدینہ میں جو صحابہ تھے انہوں نے بھی کہا کہ تم نے وہ کام کیا جس کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا تھا اور تم نے شہر حرام میں لڑائی کی.حرمت والے مہینے میں لڑائی کی حالانکہ

Page 56

اصحاب بدر جلد 4 40 اس مہم میں تو تم کو بالکل مطلق الڑائی کا حکم نہیں تھا.حرمت والے مہینہ کی حرمت توڑنے کا الزام اور اس کا جواب دوسری طرف قریش نے بھی شور مچایا کہ مسلمانوں نے شہر حرام کی حرمت کو توڑ دیا ہے اور چونکہ جو شخص مارا گیا تھا یعنی عمرو بن الحضرمی وہ ایک رئیس آدمی تھا اور پھر وہ عُتبہ بن ربیعہ رئیس مکہ کا حلیف بھی تھا اس لئے بھی اس وقت اس واقعہ نے قریش کی آتش غضب کو بہت بھڑ کا دیا اور انہوں نے آگے سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ مدینہ پر حملہ کی تیاری شروع کر دی.بہر حال اس واقعہ پر مسلمان اور کفار ہر دو میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں.یہ باتیں ہونے لگیں کہ دیکھو حرمت کے مہینے میں انہوں نے حملہ کیا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرت خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ بالآخر ذیل کی قرآنی وحی نازل ہو کر مسلمانوں کی تشفی کا موجب بنی کہ : يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالِ فِيْهِ قُلْ قِتَالُ فِيهِ كَبِيرُ ۖ وَصَةٌ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَ كُفْرًا بِهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ إِخْرَاجُ اَهْلِهِ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللهِ ، وَ الْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُم حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا اب 2181 یعنی لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ شہر حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ تو ان کو جواب دے کہ بیشک شہر حرام میں لڑنا بہت بُری بات ہے لیکن شہر حرام میں خدا کے دین سے لوگوں کو جبر ارو کنابلکہ شہر حرام اور مسجد حرام دونوں کا کفر کرنا یعنی ان کی حرمت کو توڑنا اور پھر حرم کے علاقے سے ان کے رہنے والوں کو بزور نکالنا جیسا کہ اسے مشر کو ! تم لوگ کر رہے ہو، مسلمانوں کو نکال رہے ہو.یہ سب باتیں خدا کے نزدیک شہر حرام میں لڑنے کی نسبت بھی بہت زیادہ بری ہیں.اور زیادہ بُری بات ہے اور یقیناً شہر حرام میں ملک کے اندر فتنہ پیدا کرنا اس قتل سے بدتر ہے جو فتنہ کو روکنے کے لئے کیا جاوے.اور اے مسلمانو ! کفار کا تو یہ حال ہے کہ وہ تمہاری عداوت میں اتنے اندھے ہو رہے ہیں کہ کسی وقت اور کسی جگہ بھی وہ تمہارے ساتھ لڑنے سے باز نہیں آئیں گے اور وہ اپنی یہ لڑائی جاری رکھیں گے حتی کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں بشر طیکہ وہ اس کی طاقت پائیں.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسلام کے خلاف رؤسائے قریش اپنے خونی پراپیگنڈے کو اَشْهرُ الْحُرُم میں بھی برابر جاری رکھتے تھے.یہ حرمت والے جتنے مہینے تھے ان میں جاری رکھتے تھے بلکہ ان مہینوں میں حرمت والے مہینوں کے اجتماعوں اور سفروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ان مہینوں میں اپنی مفسدانہ کارروائیوں میں اور بھی زیادہ تیز ہو جاتے تھے اور پھر کمال بے حیائی سے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے وہ عزت کے مہینوں کو اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر منتقل کر دیتے تھے جسے وہ نینی کے نام سے پکارتے تھے.مسلمانوں کے ساتھ تو انہوں نے فتح مکہ تک یہی سلوک رکھا ہے بلکہ انتہا کر دی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ انہوں نے تو غضب ہی کر دیا تھا کہ صلح حدیبیہ کے زمانے میں باوجو د پختہ عہد و پیمان کے کفار مکہ اور ان کے ساتھیوں نے حرم کے علاقے میں مسلمانوں

Page 57

اصحاب بدر جلد 4 41 کے ایک حلیف قبیلے کے خلاف تلوار چلائی اور پھر جب مسلمان اس قبیلے کی حمایت میں نکلے تو ان کے خلاف بھی عین حرم میں تلوار استعمال کی.پس اس جواب سے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں نازل فرمایا مسلمانوں کی تسلی تو ہونی ہی تھی، قریش بھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے.اور اس دوران میں ان کے آدمی بھی اپنے دو قیدیوں کو چھڑوانے کے لئے مدینہ پہنچ گئے.جو دو قیدی وہ لے کے آئے تھے یہ گئے ہوئے مسلمان تھے ، جو پکڑ لئے تھے نا.لیکن چونکہ ابھی تک سعد بن ابی وقاص اور خشبہ واپس نہیں آئے تھے.جن کی اونٹنی گم ہو گئی تھی وہ واپس نہیں پہنچے تھے.ان سے مل بھی نہیں سکے اور آنحضرت صلی علی کم کو ان کے متعلق سخت خدشہ تھا کہ اگر وہ قریش کے ہاتھ پڑ گئے تو قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے.اس لئے آپ صلی الی یکم نے ان کی واپسی تک قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا.جب کا فرقیدیوں کو لینے آئے تو آپ نے کہا جب تک یہ دونوں واپس نہیں آجاتے تمہارے قیدی نہیں چھوڑوں گا اس لئے آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میرے آدمی بخیریت مدینہ پہنچ جائیں گے تو پھر میں تمہارے آدمیوں کو چھوڑ دوں گا.چنانچہ جب وہ دونوں پہنچ گئے تو آپ نے فدیہ لے کر دونوں قیدیوں کو چھوڑ دیا لیکن ان قیدیوں میں سے ایک شخص پر مدینہ کے قیام کے دوران میں آنحضرت صلی علی نیم کے اخلاق فاضلہ اور اسلامی تعلیم کی صداقت کا اس قدر گہرا اثر ہو چکا تھا کہ اس نے آزاد ہو کر بھی واپس جانے سے انکار کر دیا اور آنحضرت صلی ای کم کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا اور بالآخر بئر معونہ میں شہید ہوا.اس کا نام حکم بن کیسان تھا.99 الله اگر ظلم اور زبر دستی سے مسلمان بنائے جاتے تو اس طرح اسلام قبول نہ ہوتا.باپ، چا، بھائی اور بھتیجامارا گیا اور صبر کا مظاہرہ ابو حذیفہ کے بارے میں یہ بھی آتا ہے کہ غزوہ بدر کے دن آپ اپنے والد سے مقابلے کے لئے آگے بڑھے کیونکہ والد اُن کے مسلمان نہیں تھے.کافروں کے ساتھ آئے تھے تو نبی صلی اللہ ہم نے انہیں اس سے روک دیا اور فرمایا کہ اسے چھوڑ دو.کوئی اور اسے قتل کر دیے گا.کسی اور کو ان سے لڑنے دو چنانچہ آپ کے والد ، چا، بھائی اور بھتیجے کو قتل کیا گیا.اس بدر میں وہ سب قتل ہوئے اور حضرت ابوحذیفہ نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا اور اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اس نصرت پر شکر بجالائے جو اس نے رسول اللہ صلی علیم کے حق میں ظاہر کی تھی یعنی فتح عطا فرمائی تھی.100 جنگ بدر میں حضرت عباس کو قتل نہ کرنے کا ارشاد اور...اس واقعہ کے بارے میں ایک اور روایت یہ بھی ملتی ہے کہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن آنحضرت صلیم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کا مقابلہ عباس سے ہو وہ اسے قتل نہ کرے کیونکہ وہ مجبوری میں نکلے ہیں.قیدی بنالینا، قتل نہ کرنا.جب ان کے پاس یہ بات پہنچی، کسی نے ان سے کہی تو اس پر حضرت ابوحذیفہ نے آنحضرت صلی علیم کے منہ پر تو نہیں کہا بلکہ کہیں کسی ساتھی سے کہا کہ

Page 58

ب بدر جلد 4 42 اپنے باپوں، بھائیوں اور رشتہ داروں کو تو قتل کریں لیکن عباس کو چھوڑ دیں.یہ کیا ہوا؟ خدا کی اگر میرے سامنے آئے تو میں ضرور ان پر تلوار چلاؤں گا.حضرت عمر کو پہلی بار ”ابو حفص “ کی کنیت عطا ہونا آنحضرت صلی ا یکم تک جب یہ بات پہنچی تو آپ نے حضرت عمرؓ کو فرمایا کہ یا ابا فص! اے ابو حفص ! رسول خدا کے چاکے چہرے پر تلوار سے وار کیا جائے گا ! حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ رسول اللہ صلی علی یکم نے مجھے ابو حفص کنیت عطا کی.حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں کہ میں تلوار سے ان کی گردن اڑا دوں.خدا کی قسم ! اس میں نفاق پایا جاتا ہے جس نے یہ بات کی ہے.حضرت ابوحذیفہ کہا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی علیم نے تو منع کر دیا کہ نہیں یہ نہیں ہو گا لیکن حضرت ابو محذیفہ بیان کیا کرتے تھے کہ میں اس بات کے شر سے جو اس دن میں نے کہی، (اُن کو احساس ہو گیا کہ میں نے بڑی غلط بات کہہ دی ہے، امن میں نہیں رہ سکتا.ایسی بات میں نے کہہ دی ہے جس کی وجہ سے میں امن میں نہیں رہ سکتا.میں ہمیشہ اس سے خوفزدہ رہوں گا سوائے اس کے کہ شہادت کی موت اس کے شر سے مجھے ٹال دے کہ میں اسلام کی خاطر شہید ہوں تبھی میں سمجھوں گا کہ اس کے شر سے میں محفوظ ہو گیا ہوں جو بات میں نے کہی ہے.راوی بیان کرتے ہیں کہ پس آپ کو جنگ یمامہ کے روز شہادت نصیب ہوئی.101 ایک بات جوش سے منہ سے نکل گئی لیکن پھر خوف بھی پیدا ہوا اور تمام زندگی یہ خوف رہا حتی کہ آپ کی شہادت ہوئی.مقتولین بدر سے رسول اللہ صلی الم کا خطاب حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الم نے مشرکین کے مقتولین کو ایک گڑھے میں، کنوئیں میں پھینکنے کا حکم دیا.پس انہیں اس میں پھینک دیا گیا تو رسول اللہ صلی علیم نے ان کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے کنوئیں والو! کیا تم نے اس وعدے کو سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا؟ یعنی کہ بتوں نے.میں نے تو کو سچا نے مجھ سے کیا تھا.اور اگر لی جائے تو وہ وہی تھی کہ تمہیں سزا یا ہے جو میرے کا الملک اللہ تعالی سے مراد بہر حال نے فرمایا تو اس وعدے کو سچا پا یا جو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کیا تھا کہ میں ان کو سزا دوں گا اور تیرے پر غالب نہیں آسکیں گے.اس ر آپ صلی الم کے صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا آپ ان لوگوں سے مخاطب ہیں جو مر چکے ہیں ؟ آپ نے فرمایا یقینا یہ جان چکے ہیں کہ تمہارے رب نے تم سے جو وعدہ کیا تھاوہ سچا تھا.حضرت ابو حذیفہ کے صبر ورضا کا ایک اور مرحلہ اور نبی صلی السلام کی دعا جب آنحضرت صلی علیم کے ارشاد کے مطابق انہیں کنوئیں میں پھینکا گیا تو حضرت ابوحذیفہ کے چہرے سے ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے کیونکہ ان کے والد کو بھی کنوئیں میں پھینکا جار ہا تھا.آپ نے ان سے فرمایا کہ اے ابو حذیفہ ! خدا کی قسم !! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تمہیں اپنے والد سے ہونے والا

Page 59

ناب بدر جلد 4 43 سلوک بر الگ رہا ہے.آنحضرت صلی الم نے حضرت ابوحذیفہ سے یہ سوال کیا تو حضرت ابوحذیفہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم !! مجھے اللہ اور رسول صلی الی یکم سے متعلق کوئی شبہ نہیں لیکن میر اوالد بردبار، سچا اور صائب الرائے شخص تھا.وہ اپنے خیال میں جو سمجھتا تھا وہ اس کو صحیح سمجھتا تھا لیکن اس میں بد نیتی نہیں تھی اور میں چاہتا تھا کہ اللہ اس کی موت سے پہلے اسے اسلام کی طرف ہدایت دے دے.لیکن جب میں نے دیکھا کہ ایسا ہونا اب ممکن نہیں رہا اور اس کا وہ انجام ہو ا جو اس کا انجام ہوا تو اس بات نے مجھے دکھی کر دیا.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ابوحذیفہ کے حق میں بھلائی کی دعا فرمائی.102 وفات حضرت ابوحذیفہ نے تمام غزوات میں آنحضرت صلی علیکم کے ساتھ شرکت کی توفیق پائی اور حضرت ابو بکر صدیق کے دور خلافت میں جنگ یمامہ میں 53 یا54 سال کی عمر میں شہید ہوئے.103 15 حضرت ابو حَقَّهُ مالک بن عمرو حضرت ابو حَنَّهُ مالك بن عمرو " أبو حَنَّہ ان کی کنیت تھی.مالك بن عمرو ان کا نام تھا.محمد بن عمر واقدی نے آپ کو شرکائے بدر میں شمار کیا ہے.آپ کے نام کے بارے میں اختلاف ہے.بعض روایات کے مطابق آپ کا نام عامر اور ثابت بن نُعمان بھی بیان ہوا ہے.آپ کی کنیت ابو حبہ اور ابوحیہ بھی بیان کی جاتی ہے لیکن محمد بن عمر واقدی کہتے ہیں کہ ابو حَبَّهُ کنیت کے دو اشخاص کا ذکر ملتا ہے.ایک ابو حبة بن غزيه بن عمرو اور ایک دوسرے ابو حبة بن عَبدِ عمرٍو الْمَازِنِي.یہ دونوں غزوہ ر بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے.شاملین بدر میں کسی کی کنیت ابو حبہ نہ تھی بلکہ غزوہ بدر میں جو شامل ہوئے ہیں ان کی کنیت ابوحنہ تھی.اس لحاظ سے وہ اپنی بات پر زور دیتے ہیں کہ ابو حنہ ہی ان کی کنیت تھی.104

Page 60

44 16 صحاب بدر جلد 4 حضرت ابو خالد حارث بن قیس بن خالد بن مخلد حضرت ابو خالد حارث بن قیس بن خالد بن مخلد.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو زریق سے تھا.آپ اپنی کنیت سے زیادہ مشہور ہیں.آپ بیعت عقبہ اور غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ شریک ہوئے.حضرت خالد بن ولید کے ہمراہ جنگ یمامہ میں شامل ہوئے اور زخمی ہو گئے.زخم مندمل ہو گیا لیکن حضرت عمرؓ کے دور میں دوبارہ زخم پھٹ پڑا جس سے آپ کی وفات ہو گئی.اس لئے آپ کو جنگ یمامہ کے شہداء میں شامل کیا جاتا ہے.15 105 17 حضرت ابو خُزيمه بن اوس دو بھائی جو جنگ بدر میں شامل ہوئے حضرت ابوخز يمه بن اوس.ان کی والدہ کا نام عمرہ بنت مسعود تھا.حضرت مسعود بن اوس کے بھائی ہیں.حضرت مسعود بن اوس بھی جنگ بدر میں شامل ہوئے.انہوں نے غزوہ بدر میں، احد میں اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی یم کے ہمراہ شرکت کی.ان کی وفات حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں ہوئی.106

Page 61

45 18 صحاب بدر جلد 4 حضرت ابو دجانہ انصاری سماك بن خرشه رسول الله صلى الل علم کی تلوار لے کر اس کا حق ادا کرنے والے صحابی نام و نسب و کنیت ابود جانہ حضرت سماک بن خرشہ.حضرت ابودجانہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو ساعدہ سے ہے.حضرت ابودجانہ کے والد کا نام خرشہ تھا.بعض کہتے ہیں کہ اوس تھا اور ان کے دادا کا نام خرشہ تھا.حضرت ابودجانہ کی والدہ کا نام حَزْمَہ بنت حرملہ تھا.آپ اپنے نام کی نسبت اپنی کنیت ابودجانہ سے زیادہ مشہور تھے.حضرت ابودجانہ کا ایک بیٹا تھا جس کا نام خالد تھا اور اس کی والدہ کا نام آمنہ بنت عمر د تھا.مواخات 107 108 حضرت عتبہ بن غزوان مکے سے ہجرت کر کے جب مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی علیم نے ان کے اور حضرت ابو دجانہ کے درمیان مواخات قائم فرمائی.8 تمام غزوات میں شمولیت 109 حضرت ابودجانہ غزوہ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ رہے.9 حضرت ابودجانہ کا شمار انصار کے کبار صحابہ میں ہوتا تھا اور انہیں رسول اللہ صلی این نیم کے غزوات میں نمایاں حیثیت حاصل تھی.110 سرخ رومال باندھ کر جنگ میں بہادری کے جوہر دکھانے والے جب جنگ ہوتی تو حضرت ابودجانہ بہت شجاعت کا اظہار کرتے اور وہ کمال کے گھوڑ سوار تھے.ان کے پاس سرخ رنگ کا ایک رومال تھا جسے وہ صرف جنگ کے وقت سر پر باندھتے تھے.جب وہ سرخ رومان سر پر باندھتے تو لوگوں کو علم ہو جاتا کہ اب وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں.حضرت ابودجانہ کا شمار دلیر اور بہادر لوگوں میں ہو تا تھا.111 محمد بن ابراہیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو دجانہ جنگوں میں اپنے سرخ عمامے کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے اور غزوہ بدر میں بھی یہ ان کے سر پر تھا اور محمد بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت ابودجانہ غزوہ احد میں بھی اسی طرح شامل ہوئے اور رسول اللہ صلی المینیوم کے ساتھ ثابت قدم رہے اور

Page 62

اصحاب بدر جلد 4 موت پر آپ سے بیعت کی.112 46 غزوہ احد کے دن حضرت ابودجانہ اور حضرت مصعب بن عمیر نے رسول اللہ صلی اللہ نیم کا بھر پور دفاع کیا.حضرت ابودجانہ شدید زخمی ہو گئے تھے اور حضرت مصعب بن عمیر اس دن شہید ہوئے.113 رسول اللہ صلی الم کی تلوار لے کر اس کا حق ادا کرنے والے صحابی حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے احد کے دن ایک تلوار پکڑی اور فرمایا.من يَأْخُذُ مِتَّى هَذَا ؟ اسے مجھ سے کون لے گا ؟ سب نے اپنے ہاتھ بڑھائے اور ان میں سے ہر ایک نے کہا.میں.میں.آپ نے پھر فرمایا: فَمَن يَأْخُذُ بحقه.کون اس کو اس کے حق کے ساتھ لے گا ؟ حضرت انس کہتے ہیں اس پر لوگ رک گئے تو حضرت سماك بن خرشه ابودجانہ نے کہا کہ میں اس کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں.حضرت انس کہتے ہیں کہ انہوں نے تلوار لی اور مشرکوں کے سر پھاڑ دیے.یہ مسلم کی حدیث ہے.114 ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابودجانہ نے پوچھا اس کا حق کیا ہے ؟ آپ صلی علی کرم نے فرمایا: اس سے کسی مسلمان کو قتل نہ کرنا اور اس کے ہوتے ہوئے کسی کافر کے مقابل پر نہ بھاگنا یعنی ڈٹ کر مقابلہ کرنا.اس پر حضرت ابودجانہ نے عرض کیا میں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں.جب نبی صلی الم نے حضرت ابودجانہ کو تلوار دی تو انہوں نے اس سے مشرکین کے سر پھاڑ دیے.انہوں نے اس موقعے پر یہ اشعار پڑھے: أَنَا الَّذِي عَاهَدَ نِي خَلِيْلِي وَنَحْنُ بِالسَّفْحِ لَدَى النَّخِيْلِ أَنْ لَّا أَقَوْمَ الدَّهْرَ فِي الْكَيُولِ أَضْرِبْ بِسَيْفِ اللهِ وَالرَّسُولِ میں وہ ہوں جس سے میرے دوست نے وعدہ لیا ہے جبکہ ہم سفح مقام پر کھجور کے درختوں کے پاس تھے اور وہ وعدہ یہ ہے کہ میں لشکر کی پچھلی صفوں میں نہ کھڑا ہوں اور اللہ اور رسول کی تلوار سے دشمنوں سے لڑائی کروں.حضرت ابو دجانہ تفاخرانہ چال چلتے ہوئے لشکر کی صفوں کے درمیان چلنے لگے تو رسول اللہ صلی الم نے فرما یا زاإِنَّ هَذِهِ مِشْيَةٌ يُبْغِضُهَا اللهُ عَزَوَجَلَّ إِلَّا فِي هَذَا الْمُقَامِ کہ یہ ایسی چال ہے جو اللہ عزوجل کو نا پسند ہے سوائے اس مقام کے یعنی جنگ کے موقعے پر.115 حضرت زبیر بن عوام کا مشاہدہ حضرت زبیر بن عوام بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کریم نے احد کے دن ایک تلوار پیش کی اور فرمايا: مَنْ يَأْخُذُ هَذَا السَّيْفَ بِحَقہ کہ کون ہے جو اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لے گا ؟ حضرت زبیر کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ ہم میں.آپ صلی اللہ ہم نے مجھ سے اعراض فرمایا.رسول اللہ صلی العلیم نے پھر فرمایا کون ہے جو اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ میں نے پھر عرض الرس

Page 63

ب بدر جلد 4 47 کیا یارسول اللہ میں.آپ نے پھر مجھ سے اعراض فرمایا.رسول اللہ صلی علیکم نے پھر فرمایا کون ہے جو اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لے گا ؟ حضرت ابودجانہ سماك بن خرشہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! میں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں اور اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اس سے کسی مسلمان کو قتل نہ کرنا اور اس کے ہوتے ہوئے کسی کا فر سے نہ بھاگنا، ڈٹ کر مقابلہ کرنا.حضرت زبیر کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی الیم نے تلوار ابو دجانہ کو عطا فرمائی اور ابو دجانہ کی یہ عادت تھی کہ جب جنگ کا ارادہ کرتے تو سرخ رومال سر پر باندھ لیتے تھے.حضرت زبیر کہتے ہیں کہ میں نے کہا آج میں دیکھوں گا کہ یہ کس طرح اس تلوار کا حق ادا کرتا ہے.حضرت زبیر کہتے ہیں کہ ابو دجانہ کے سامنے جو بھی آیا وہ اس کو ہلاک کرتے اور کاٹتے ہوئے آگے بڑھنے لگے یہاں تک کہ وہ لشکر سے گزر کر ان کی عورتوں کے سروں پر جا پہنچے جو پہاڑ کے دامن میں دف بجارہی تھیں اور ان میں سے ایک عورت یہ کہہ رہی تھی.یہ شعر پڑھ رہی تھی.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم طارق صبح کے ستارے کی بیٹیاں ہیں جو بادلوں پر چلتی ہیں.اگر تم آگے بڑھو گے تو ہم معانقہ کریں گی اور بیٹھنے کے لیے تکیے لگائیں گی اور اگر تم پیٹھ پھیر گئے تو ہم تم سے جدا ہو جائیں گی.یہ ایسی جدائی ہو گی کہ پھر تم میں اور ہم میں محبت کا کوئی تعلق باقی نہ رہے گا.حضرت زبیر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ابودجانہ نے ایک عورت پر تلوار چلانے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا اور پھر روک لیا.جب جنگ ختم ہوئی تو میں نے ان سے کہا میں نے تمہاری ساری لڑائی دیکھی ہے.تم نے ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا اور پھر نیچے کر لیا.اس کی کیا وجہ تھی ؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! میں نے رسول اللہ صلی الہیم کی تلوار کی تکریم کی کہ اس کے ذریعے کسی عورت کو قتل کروں.یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ میں کسی عورت کے قتل کے لیے رسول کریم صلی ایم کی تلوار استعمال کروں اس لیے میں رک گیا.ایک اور روایت میں ہے کہ یہ عورت ہند زوجہ ابو سفیان تھی جو دیگر عورتوں کے ساتھ مل کر گانے گا رہی تھی.جب اس پر حضرت ابودجانہ نے اپنی تلوار بلند کی تو اس نے مدد کے لیے بلند آواز سے کہا اے صخر ! الیکن کوئی مدد کو نہ آیا.حضرت ابودجانہ نے اپنی تلوار نیچے کر لی اور واپس چلے گئے.حضرت زبیر کے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ میں نے ناپسند کیا کہ رسول اللہ صلی الم کی تلوار سے کسی عورت کو ماروں جس کا کوئی مددگار نہیں تھا.6 116 رسول اللہ صلی الم نے تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کون ہے جو اس کا حق ادا کرے؟ حضرت ابودجانہ کے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اسے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ مبارزت میں جب کفار قریش کو ہزیمت اٹھانی پڑی تو کفار نے یہ نظارہ دیکھا تو غضب میں آکر عام دھاوا بول دیا.مسلمان بھی تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور دونوں فوجیں آپس میں گھتم گتھا ہو گئیں.غالباً اسی موقع پر آنحضرت صلی للہ ہم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا.کون ہے جو اسے لے کر اس کا حق ادا کرے؟ بہت سے صحابہ نے اس فخر کی خواہش میں اپنے

Page 64

تاب بدر جلد 4 48 ہاتھ پھیلائے.جن میں حضرت عمرؓ اور زبیر بلکہ بعض روایات کی رو سے حضرت ابو بکر اور حضرت علی بھی شامل تھے.مگر آپ صلی علیہ یکم نے اپنا ہاتھ روکے رکھا اور یہی فرماتے رہے کہ کوئی ہے جو اس کا حق ادا کرے؟ آخر ابو دجانہ انصاری نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور عرض کیا.یارسول اللہ مجھے عنایت فرمائیے.آپ نے یہ تلوار انہیں دے دی اور ابو دجانہ اسے ہاتھ میں لے کر تبختر کی چال سے یعنی بڑے فخر سے اور اکڑتے ہوئے کفار کی طرف آگے بڑھے.آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا خدا کو یہ چال نا پسند ہے مگر ایسے موقع پر نا پسند نہیں.زبیر جو آنحضرت صلی للی کم کی تلوار لینے کے سب سے زیادہ خواہش مند تھے اور قرب رشتہ کی وجہ سے اپنا حق بھی زیادہ سمجھتے تھے ، دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ آنحضرت صلی علیکم نے مجھے یہ تلوار نہیں دی اور ابو دجانہ کو دے دی اور اپنی اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے انہوں نے دل میں عہد کیا کہ میں اس میدان میں ابو دجانہ کے ساتھ ساتھ رہوں گا اور دیکھوں گا کہ وہ اس تلوار کے ساتھ کیا کرتا ہے.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ابو دجانہ نے اپنے سر پر ایک سرخ کپڑا باندھا اور اس تلوار کو لے کر حمد کے گیت گنگناتا ہوا مشرکین کی صفوں میں گھس گیا اور میں نے دیکھا کہ جدھر جاتا تھا گویا موت بکھیر تا جاتا تھا اور میں نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا جو اس کے سامنے آیا ہو اور پھر وہ بچا ہو.حتی کہ وہ لشکر قریش میں سے اپناراستہ کا تاہو الشکر کے دوسرے کنارے نکل گیا جہاں قریش کی عورتیں کھڑی تھیں.ہند زوجہ ابوسفیان جو بڑے زور شور سے اپنے مردوں کو جوش دلا رہی تھی اس کے سامنے آئی اور ابو دجانہ نے اپنی تلوار اس کے اوپر اٹھائی جس پر ہند نے بڑے زور سے چیخ ماری اور اپنے مردوں کو امداد کے لیے بلایا مگر کوئی شخص اس کی مدد کو نہ آیا.زبیر کہتے ہیں کہ لیکن میں نے دیکھا کہ ابودجانہ نے خود بخود ہی اپنی تلوار نیچی کر لی اور وہاں سے ہٹ آیا.زبیر روایت کرتے ہیں کہ اس موقع پر میں نے ابودجانہ سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ پہلے تم نے تلوار اٹھائی پھر نیچے کر لی.اس نے کہا کہ میرا دل اس بات پر تیار نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی میڈیم کی تلوار ایک عورت پر چلاؤں اور عورت بھی وہ جس کے ساتھ اس وقت کوئی مرد محافظ نہیں.زبیر کہتے ہیں میں نے اس وقت سمجھا کہ واقعی جو حق رسول اللہ صلی علیم کی تلوار کا ابودجانہ نے ادا کیا ہے وہ شاید میں نہ کر سکتا اور میرے دل کی خلش دور ہو گئی.17 میرے دل نے برداشت نہ کیا رسول کریم ملی علیم کی دی ہوئی تلوار ایک کمزور عورت پر چلاؤں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے.فرماتے ہیں کہ احد کی جنگ میں رسول کریم ملی این نکم نے ایک تلوار پیش کی اور فرمایا یہ تلوار میں اس شخص کو دوں گا جو اس کا حق ادا کرنے کا وعدہ کرے.بہت سے لوگ اس تلوار کو لینے کے لیے کھڑے ہوئے.آپ نے ابودجانہ انصاری کو وہ تلوار دی.لڑائی میں ایک جگہ مکہ والوں کے کچھ سپاہی ابودجانہ پر حملہ آور ہوئے.جب آپ ان سے لڑ رہے تھے تب آپ نے دیکھا کہ ایک سپاہی سب سے زیادہ جوش کے ساتھ لڑائی میں حصہ لے رہا ہے.آپ نے تلوار اٹھائی اور اس کی طرف لپکے لیکن پھر اس کو چھوڑ کر واپس آگئے یعنی حضرت دُجانہ نے تلوار اٹھائی، اس کی طرف لپکے لیکن پھر چھوڑ کے واپس آگئے.آپ کے کسی دوست نے پوچھا کہ آپ

Page 65

تاب بدر جلد 4 49 نے اسے کیوں چھوڑ دیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جب اس کے پاس گیا تو اس کے منہ سے ایک ایسا فقرہ نکلا جس سے مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ مرد نہیں عورت ہے.ان کے ساتھی نے کہا.بہر حال وہ سپاہیوں کی طرح فوج میں لڑرہی تھی پھر آپ نے اسے چھوڑا کیوں ؟ ابودجانہ نے کہا میرے دل نے برداشت نہ کیا کہ میں رسول کریم صلی الی نیکی کی دی ہوئی تلوار کو ایک کمزور عورت پر چلاؤں.حضرت مصلح موعودؓ پھر فرماتے ہیں کہ غرض آپ میلی لی کام عورتوں کے ادب اور احترام کی ہمیشہ تعلیم دیتے تھے جس کی وجہ سے کفار کی عورتیں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں مگر پھر بھی مسلمان ان باتوں کو برداشت کرتے چلے جاتے تھے.مشہور مستشرق سر ولیم میور لکھتے ہیں 118 119 ابودجانہ کے متعلق مشہور مستشرق سرولیم میور لکھتے ہیں کہ جنگ کی ابتدا میں محمد صلی للہ ہم نے اپنی تلوار لی اور فرمایا کون یہ تلوار اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ عمر، زبیر اور بہت سے صحابہ نے لینے کی خواہش کی لیکن رسول اللہ صلی ال ہم نے منع کر دیا.آخر میں ابو دجانہ نے عرض کیا تو محمدصلی علیم نے ان کو دے دی اور انہوں نے اس کے ساتھ کافروں کے سر تن سے جدا کرنے شروع کرد دیئے.پھر وہ لکھتے ہیں کہ ”مسلمانوں کے خطرناک حملوں کے سامنے مکی لشکر کے پاؤں اکھڑنے لگ گئے.قریش کے رسالے نے کئی دفعہ یہ کوشش کی کہ اسلامی فوج کے بائیں طرف عقب سے ہو کر حملہ کریں مگر ہر دفعہ ان کو ان پچاس تیر اندازوں کے تیر کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہاں خاص طور پر متعین کیے ہوئے تھے.مسلمانوں کی طرف سے احد کے میدان میں بھی وہی شجاعت و مردانگی اور موت و خطر سے وہی بے پروائی دکھائی گئی جو بدر کے موقعہ پر انہوں نے دکھائی تھی.مکہ کے لشکر کی صفیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں جب اپنی خود کے ساتھ سرخ رویال باند ھے ابو جانہ ان پر حملہ کرتا تھا اور اس تلوار کے ساتھ جو اسے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دی تھی چاروں طرف گویا موت بکھیر تا جاتا تھا.حمزہ اپنے سر پر شتر مرغ کے پروں کی تلفی لہراتا ہوا ہر جگہ نمایاں نظر آتا تھا.علی اپنے لمبے اور سفید پھریرے کے ساتھ اور زبیر اپنی شوخ رنگ کی چمکتی ہوئی زرد پگڑی کے ساتھ بہادر ان الیڈ کی طرح جہاں بھی جاتے تھے دشمن کے واسطے موت و پریشانی کا پیغام اپنے ساتھ لے جاتے تھے.یہ وہ نظارے ہیں جہاں بعد کی اسلامی فتوحات کے ہیر و تربیت پذیر ہوئے.یہ سارا بیان جو پہلے میں نے پڑھا ہے یہ سیرت خاتم النبیین میں ہے.120❝ لڑنے کا حق ادا کیا ہے حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الی یکم احد سے لوٹے تو اپنی بیٹی فاطمہ کو اپنی تلوار دی اور فرمایا اے بیٹی ! اس سے خون کو دھو دو.حضرت علی نے بھی اپنی تلوار ان کو دی اور کہا اس سے بھی خون دھو دو.اللہ کی قسم ! آج اس نے میر ا خوب ساتھ دیا ہے.اس پر رسول اللہ صلی یکم نے فرمایا

Page 66

تاب بدر جلد 4 50 اگر تم نے لڑنے کا حق ادا کر دیا ہے تو یقیناً سهل بن حنیف اور ابودجانہ نے بھی لڑنے کا حق ادا کیا ہے.ایک روایت میں سہل بن حنیف کی بجائے حارث بن حلیمہ کا نام بھی آتا ہے.121 چہرے کی چمک کا راز زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابودجانہ کے پاس لوگ آئے جبکہ آپ بیمار تھے لیکن آپ کا چہرہ بہت چمک رہا تھا.کسی نے پوچھا کہ آپؐ کا چہرہ کیوں چمک رہا ہے ؟ تو حضرت ابودجانہ نے کہا میرے اعمال میں سے میرے دو کام ایسے ہیں جو میرے نزدیک بہت زیادہ وزنی اور پختہ ہیں: پہلا یہ کہ میں کبھی ایسی بات نہیں کرتا جس کا مجھ سے تعلق نہ ہو.دوسرا یہ کہ میر ادل مسلمانوں کے لیے ہمیشہ صاف رہتا ہے.22 شہادت کا واقعہ 122 حضرت ابو دجانہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے.مسیلمہ کذاب نے رسول اللہ صلی ایم کی وفات کے بعد جھوٹی نبوت کا دعوی کر کے مدینہ پر لشکر کشی کا ارادہ کیا تو حضرت ابو بکر نے اس کی سرکوبی کے لیے 12 ہجری میں لشکر روانہ کیا.حضرت ابودجانہ بھی اس لشکر کا حصہ تھے.حضرت ابودجانہ نے جنگ یمامہ میں سخت لڑائی کی اور شہادت کار تنبہ حاصل کیا.بنو حنیفه (قدیم عرب قبیلہ جس کے ایک بڑے حصے نے مسیلمہ کذاب کے زیر قیادت مدینہ کے خلاف بغاوت کی تھی) کا یمامہ میں باغ تھا جس میں محصور ہو کر وہ لڑ رہے تھے اور مسلمانوں کو اندر جانے کا موقع نہیں مل رہا تھا.حضرت ابودجانہ نے مسلمانوں سے کہا کہ مجھے باغ کے اندر پھینک دو.مسلمانوں نے ایسا ہی کیا لیکن ان کے دوسری طرف گرنے سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی لیکن پھر بھی وہ باغ کے دروازے پر لڑتے رہے اور مشرکین کو وہاں سے ہٹا دیا اور مسلمان اندر داخل ہو گئے.حضرت ابودجانہ ، مسیلمہ کذاب کے قتل میں عبد اللہ بن زید اور وحشی بن حرب کے ساتھ شامل تھے اور یمامہ کے دن آپ نے شہادت پائی.123 ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو دجانہ نے جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے لڑتے ہوئے وفات پائی تھی لیکن یہ روایت کمزور ہے.پہلی روایت زیادہ صحیح اور بکثرت مذکور ہے.124 غیبت نہیں کرتا اور میرے دل میں کینہ نہیں میں پہلے بھی یہ بیان کر چکا ہوں.یہاں پہ کچھ حصہ بیان کر دیتا ہوں جس کا حضرت ابودجانہ سے تعلق ہے.ابودجانہ انصاری تھے.آنحضرت صلی علیم کی مدینہ ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا تھا.مدینہ کے رہنے والے تھے.ان کو بھی یہ اعزاز حاصل تھا کہ آنحضرت صلی ایم کے ساتھ جنگ بدر میں شامل

Page 67

51 اصحاب بدر جلد 4 ہوئے اور انتہائی بہادری کے جوہر دکھائے.اسی طرح احد کی جنگ میں بھی انہیں شمولیت کی توفیق ملی اور جنگ کا رخ پلٹنے کے بعد یعنی جب مسلمان پہلے جیت رہے تھے پھر رخ پلٹا اور ایک جگہ چھوڑنے کی وجہ سے کافروں نے دوبارہ حملہ کیا اور جنگ کا پانسہ مسلمانوں کے خلاف ہو گیا تو جو صحابہ اس وقت آنحضرت صلی الم کے قریب رہ گئے تھے ان میں حضرت ابودجانہ بھی شامل تھے اور آنحضرت صلی علی یکم کے دفاع میں یہ انتہائی زخمی بھی ہوئے لیکن ان زخموں کے باوجود یہ پیچھے نہیں ہے.ایک دفعہ بیماری میں اپنے ساتھی کو کہنے لگے کہ شاید میرے دو عمل اللہ تعالیٰ قبول کرنے ایک یہ کہ میں کوئی لغو بات نہیں کرتا.غیبت نہیں کرتا.لوگوں کے پیچھے ان کی باتیں نہیں کرتا.دوسرے یہ کہ کسی مسلمان کے لیے میرے دل میں کینہ اور بغض نہیں.125 19 نام و نسب و کنیت حضرت ابو سجدہ بن ابی رُهم " آنحضرت صلی ال نیم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابوس برہ بن ابی دُھم.ابو سبرہ ان کی کنیت تھی.اس کنیت نے اتنی شہرت پائی کہ آپ کا اصل نام لوگوں کو بھول گیا.ان کی والدہ کا نام بڑہ بنت عبد المطلب ہے جو ر سول اللہ صلی علیکم کی پھو پھی تھیں.اس طرح حضرت ابو سبرہ آنحضرت صلی یی نیم کے پھوپھی زاد بھائی ہوئے.حبشہ کی طرف دو مر تبہ ہجرت کرنے والے حضرت ابوس برہ نے حبشہ کی طرف دونوں دفعہ ہجرت کی.دوسری ہجرت حبشہ میں ان کی بیوی ام کلثوم بنت سہیل بن عمر د بھی شامل تھیں.ان کے تین بیٹے تھے جن کے نام محمد ، عبد اللہ اور سعد تھے.ہجرت مدینہ اور مواخات حضرت ابو سبرہ جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر کے آئے تو انہوں نے منذر بن محمد کے پاس قیام کیا.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ابو سبرہ اور سلمہ بن سلامہ کے در میان مواخات قائم فرمائی.تمام غزوات میں شمولیت اور وفات حضرت ابو سبرہ غزوہ بدر، احد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی ال نیم کے ساتھ

Page 68

تاب بدر جلد 4 52 ہمرکاب رہے.آپ آنحضرت صلی یکم کی وفات کے بعد مدینہ سے چلے گئے اور مکہ جاکر آباد ہو گئے تھے.حضرت ابوس برہ نے حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں وفات پائی.126 20 حضرت ابوسليط أسيره بن عمرو حضرت ابوسليط أسيره بن عمرو.اُسیرہ بن عمرو ان کا نام تھا اور کنیت ابوسلیط تھی اور ابوسلیط کے نام سے زیادہ مشہور ہیں.ان کے والد عمر و بھی ابو خارجہ کنیت سے معروف ہیں.بدر اور دیگر غزوات میں نبی کریم صلی العلیم کے ساتھ ساتھ رہے.127 آپ خزرج کی شاخ عدی بن نجار سے تعلق رکھتے تھے.ان کے والد ابو خارجہ عمرو بن قیس بھی صحابی تھے.128 جنگ بدر میں شریک ہوئے.آپ کے بیٹے عبد اللہ نے آپ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم علی الیم نے گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا اور اس وقت دیگیں چڑھی ہوئی تھیں جن میں گدھے کا گوشت پک رہا تھا تو ہم لوگوں نے ان دیگوں کو الٹ دیا.129 21 نام و نسب و کنیت حضرت ابو سنان بن محصن ย جنگ بدر میں شامل ہونے والے دو بھائی حضرت ابو سنان بن محصن.ان کے والد محصن بن حُزنان تھے.ان کی کنیت ابوسنان تھی.ان کا نام وهب بن عبد اللہ تھا اور عبد اللہ بن وہب بھی بیان کیا جاتا ہے اور کنیت تھی ابو سنان.جبکہ صحیح ترین قول کے مطابق جو تاریخ میں ملتا ہے آپ کا نام وهب بن مِحْصَن تھا.حضرت ابوسنان بن محصن حضرت عُکاشہ بن محصن کے بھائی تھے.10 130

Page 69

ناب بدر جلد 4 53 آپ حضرت عُکاشہ بن محصن سے بڑے تھے.اس کے بارے میں بھی یہ روایت ہے کہ حضرت عُکاشہ سے تقریباً دو سال بڑے تھے اور مختلف روایتیں بھی ہیں.بعض نے دس سال کہا.بعض نے ہیں سال کہا.131 ان کے بیٹے کا نام سنان بن ابو سنان تھا.غزوہ بدر اور غزوہ احد اور غزوہ خندق میں شریک تھے.یہ بعض روایات میں ملتا ہے کہ بیعت رضوان میں سب سے پہلے بیعت کرنے والے حضرت ابو سنان بن مخصن اسدی تھے مگر یہ درست نہیں کیونکہ حضرت ابوسنان محاصرہ بنو قریظہ کے وقت 5 ہجری کو بعمر 40 سال وفات پاچکے تھے اور بیعت رضوان کے موقع پر بیعت کرنے والے ان کے بیٹے حضرت سینان بن ابوسنان تھے.وفات حضرت ابوسنان بن مخصن کی وفات اس وقت ہوئی جب حضور اکرم صلی علیم نے بنو قریظہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا.آنحضور صلی علی یم نے ان کو قریظہ کے قبرستان میں دفن کر دیا.132 22 22 نام و نسب و کنیت حضرت ابو شيخ أبي بن ثابت حضرت حسان بن ثابت کے بھائی حضرت ابو شيخ أبي بن ثابت.حضرت ابی بن ثابت کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عدی سے تھا.ان کی کنیت ابو شیخ تھی.ایک قول کے مطابق یہ کنیت آپ کے بیٹے کی تھی.ان کی والدہ کا نام شخطی بنتِ حَارِثہ تھا.حضرت ابی بن ثابت حضرت حسان بن ثابت اور حضرت اوس بن ثابت کے بھائی تھے.آپ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے اور ان کی وفات واقعہ بئر معونہ کے روز ہوئی.بدر میں شامل ہوئے تھے یا نہیں...اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ حضرت ابی بن ثابت غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے یا نہیں.تاریخ کی مختلف کتابیں ہیں.ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت ابی بن ثابت زمانہ جاہلیت میں فوت ہو گئے تھے اور غزوہ بدر اور غزوہ احد میں جو شریک تھے وہ ان کے بیٹے ابو شيخ بن أبي بن ثابت تھے.جبکہ

Page 70

اصحاب بدر جلد 4 54 علامہ ابن ہشام نے بدر کے شاملین میں حضرت ابو شيخ أبي بن ثابت کو شمار کیا ہے.وفات حضرت ابی بن ثابت کی وفات کے متعلق روایات میں ملتا ہے کہ آپ واقعہ بئر معونہ کے روز فوت ہوئے جبکہ بعض روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ ان کی وفات غزوۂ احد کے روز ہوئی.بہر حال یہ بھی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جو صحابی غزوہ احد کے روز شہید ہوئے وہ آپ نہیں تھے بلکہ آپ کے بھائی حضرت اوس بن ثابت تھے.133 23 23 نام و نسب و کنیت حضرت ابو عبس بن جبر حضرت ابو عبس بن جبر.ان کے والد کا نام جبر بن عمر و تھا.ان کی وفات 34 ہجری میں ستر سال کی عمر میں ہوئی.ان کا اصل نام عبد الرحمن تھا اور کنیت ابو عبس تھی.آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو حارثہ سے تھا.نبی کریم ملی ایم نے نام بدل دیا زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبد العزیٰ تھا.نبی کریم صلی علیم نے اس کو بدل کر عبد الرحمن کر دیا تھا.عد ملی ان کے بت کا نام تھا اس لئے بدلا اور عبد الرحمن کر دیا.آپ نبی کریم صلی علیم کے ساتھ غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک رہے.کعب بن اشرف یہودی کو جن اصحاب نے قتل کیا یہ بھی ان میں شامل تھے.مواخات وفات رسول اللہ صلی اہل علم نے حضرت ابو عبس اور حضرت خنیس کے درمیان مواخات قائم فرمائی.چونیتیس ہجری میں ستر برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی.مکہ میں آپ کی کثیر اولاد موجود تھی.حضرت عثمان نے جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں ان کی تدفین ہوئی.134

Page 71

اصحاب بدر جلد 4 اسلام کی بعثت سے پہلے لکھنا جانتے تھے 55 حضرت ابو عبس بن جبر کے بارے میں مروی ہے کہ اسلام کی بعثت سے پہلے بھی آپ عربی لکھنا جانتے تھے حالانکہ اس وقت عرب میں لکھنے کا رواج بہت کم تھا.حضرت ابو عبس اور حضرت ابوبردہ بن نیار نے جب اسلام قبول کیا اس وقت دونوں نے بنو حارثہ کے بتوں کو توڑ دیا تھا.حضرت عمر اور حضرت عثمان انہیں لوگوں سے صدقہ وصول کرنے کے لئے بھیجا کرتے تھے یعنی کہ مال کا شعبہ بھی ان کے پاس تھا.135 رسول اللہ صلی الم کا ایک عصاد بینا جو ان کے آگے روشنی کیا کرتا تھا زمانہ نبوی میں حضرت ابو عبس کی آنکھ کی بینائی چلی گئی تو رسول اللہ صلی ال کلیم نے آپ کو ایک عصا دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے روشنی حاصل کرو.چنانچہ وہ عصا آپ کے آگے روشنی کیا کرتا تھا.136 ایک تو یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سوئی تمہارے ہاتھ میں ہو گی اور جس طرح نابینا اپنی سوٹی استعمال کرتے ہیں ، چلتے ہوئے مدد دے گی.لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے روشنی بھی نکلتی ہو اور بعض دفعہ رات کے وقت میں کم نظر آتا ہو تو اس سے روشنی نکلتی ہو کیونکہ بعض اور صحابہ کے بارے میں بھی یہ روایت ملتی ہے کہ بعض دفعہ اندھیرے میں وہ سفر کر رہے ہوتے تھے تو ان کے عصا سے روشنی نکلتی تھی.137 بلکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین صحابہ سفر کر رہے تھے اور رات اندھیری تھی تو ان کو بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھایا کہ روشنی ان کے آگے آگے چلتی رہی.حضرت ابو عبس کے ایک بیٹے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو عبس رسول اللہ صلی علیکم کے پیچھے نماز ادا کیا کرتے تھے اور پھر اپنے قبیلہ بنو حارثہ کی طرف چلے جایا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک اندھیرنی رات میں جب بارش بھی ہو رہی تھی آپ اپنے گھر کی طرف جارہے تھے تو آپ کے عصا سے روشنی نکلنا شروع ہو گئی جس نے آپ کے لئے راستے میں روشنی کر دی.138 ذمہ داری اور ایمانداری کا اعلیٰ معیار حضرت عثمان آپ کی بیماری کے دوران ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو یہ بیہوشی کی حالت میں تھے.جب افاقہ ہوا تو حضرت عثمان نے کہا کہ آپ اپنے آپ کو کس حالت میں پاتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حالت اچھی دیکھتے ہیں سوائے ایک اونٹ کا گھٹا باندھنے والی رستی کے جو ہم سے اور عمال سے غلطی سے کھو گئی تھی.ابھی تک ہم اس سے خلاصی نہیں پاسکے.139 یہ شمال میں سے تھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ مال صدقہ وغیرہ چندہ وغیرہ جمع کرنے کے لئے ان کو

Page 72

اصحاب بدر جلد 4 56 بھیجا جاتا تھا.ذمہ داری اور ایمانداری کا یہ معیار تھا کہ اونٹ باندھنے والی ایک رسی غلطی سے گم گئی اور اسی وجہ سے زندگی کے آخر تک بے چین رہے.مرض الموت میں بھی خیال آیا تو یہی کہ یہ رتی جو ہے اگلے جہان میں کہیں ہمارے لئے ابتلانہ بن جائے.تو یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کے خوف اور ایمانداری کے ایسے معیار رکھتے تھے.تیز چلنے کا معیار اور آنحضرت ملا ایم کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے فاصلہ طے کر کے آنا حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی للی کم سے زیادہ جلدی نماز عصر پڑھنے والا کوئی نہ تھا یعنی وقت کے لحاظ سے پہلے وقت میں نماز عصر پڑھ لیا کرتے تھے.انصار میں سے دو آدمی ایسے تھے جن کا گھر مسجد نبوی سے سب سے زیادہ دور تھا.ایک حضرت ابولبابہ بن عبد المندر تھے جن کا تعلق بنی عمرو بن عوف سے تھا اور دوسرے حضرت ابو عبس بن جبر تھے جن کا تعلق بنو حارثہ سے تھا.ابولبابہ کا گھر قبا میں تھا اور حضرت ابو عبس کا گھر بنو حارثہ میں تھا.اور کافی فاصلے پر دو اڑھائی میل دور تھا.یہ دونوں اصحاب رسول اللہ صلی العلیم کے ساتھ نماز پڑھتے اور جب اپنی قوم میں واپس پہنچتے تو انہوں نے تب تک وہاں نماز عصر نہ پڑھی ہوتی تھی.140 تو یہ ان لوگوں کا تیز چلنے کا معیار بھی ہے اور یہ بھی کہ فاصلہ طے کر کے آنحضرت صلی ایم کے پیچھے نماز پڑھنے آیا کرتے تھے.نماز اور دعوت الی اللہ کے لئے سفر کرنے والے پر آگ حرام حضرت عبد اللہ بن ابو عبس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی یم نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے قدم اللہ تعالیٰ کی راہ میں گرد آلود کئے اللہ تعالیٰ نے اس پر آگ حرام کر دی.141 یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے، اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنے والے، اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے والے لوگ اس میں شامل ہیں.اور اسی طرح دعوت الی اللہ کے لئے سفر کرنے والے بھی اور وہ لوگ بھی جو ایک لمبے فاصلے سے مسجد میں نماز باجماعت کے لئے آتے ہیں یہ سب لوگ ان لوگوں میں شامل ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں پر آگ حرام کی گئی ہے.142

Page 73

57 24 صحاب بدر جلد 4 نام و نسب و کنیت حضرت ابو عقیل بن عبد اللہ انصاری صاحب الصاع، مسیلمہ کذاب پر آخری وار کرنے والے حضرت ابو عقیل بن عبد اللہ انصاری.عبد اللہ بن ثعلبہ ان کے والد کا نام تھا.ان کی وفات 12 ہجری میں جنگ یمامہ میں ہوئی.ان کا نام عبد الرحمن اراشی بن عبد اللہ تھا.ان کا پر ان نام عبد العزّی تھا.اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ صلی علیکم نے ان کا نام عبد الرحمن رکھا.آپ کا تعلق قبیلہ بلی کی ایک شاخ بنو انسیف سے تھا اور آپ انصار کے خاندان بنو بحجبا بن گلفہ کے حلیف تھے.آپ کی کنیت ابو عقیل ہے اور آپ اسی سے مشہور ہیں.تمام غزوات میں شرکت غزوہ بدر، احد، خندق غرض تمام غزوات میں آنحضرت صلی علیم کے ہمراہ تھے.جنگ یمامہ میں بارہ ہجری میں حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت میں شہید ہوئے.13 143 الله سة قبول اسلام اور نام تبدیل کرنے کا واقعہ ان کے قبولیت اسلام کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلیالی کی مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو ایک دن ایک نوجوان آپ صلی علی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے.قبول ایمان کے ساتھ آپ صلی للی کم کی بیعت کا شرف حاصل کیا اور بتوں سے سخت نفرت کا اظہار کیا.اس موقع پر حضور اکرم صلی علیکم نے ان سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ عبدالعزی.حضور اکرم صلی الم نے فرمایا نہیں بلکہ آج سے تمہارا نام عبد الرحمن ہے.انہوں نے ارشاد نبوی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور سب لوگوں سے کہہ دیا کہ میں اب عبدالعزی نہیں بلکہ عبد الرحمن ہوں.آپ کے اجداد میں ایک شخص اراشہ بن عامر تھا اس کی نسبت سے انہیں اراشی بھی کہا جاتا ہے.صدقہ کرنے کے لئے ساری رات مزدوری کرنے والے آپ ان صحابہ کرام میں سے تھے کہ جب آنحضرت صلی للی یکم صدقہ کرنے کا حکم فرماتے تو ساری رات یہ کام کرتے اور جو کچھ ملتا وہ صدقہ کر دیتے.چنانچہ بخاری میں آپ کے متعلق آتا ہے کہ حضرت ابو مسعود بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں صدقہ کا حکم ہوا تو ہم اس وقت مزدوری پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے.حضرت 144

Page 74

58 صحاب بدر جلد 4 ابو عقیل آدھا صاع کھجور مزدوری کے پیسوں میں سے لے کر آئے.ایک اور شخص ان سے زیادہ لایا تو اس پر منافق کہنے لگے کہ اللہ تو اس شخص کے صدقے سے بے نیاز ہے اور اس دوسرے شخص نے جو صدقہ کیا وہ محض دکھاوے کے لئے ہے.تب یہ آیت نازل ہوئی الَّذِینَ يَلْمِزُونَ الْمُطَوَعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَاقْتِ وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهَدَاهُمُ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ الیہ (351 - 79) یہ منافق ہیں جو مومنوں میں سے خوشی سے بڑھ بڑھ کر صدقے دینے والوں پر طنز کرتے ہیں اور ان پر بھی جو سوائے اپنی محنت کی کمائی کے کوئی طاقت نہیں رکھتے.سو باوجود اس قربانی کے منافق ان پر ہنسی کرتے ہیں اور اللہ ان میں سے اشد مخالفوں کو ہنسی کی سزا دے گا اور ان کو درد ناک عذاب پہنچے گا.145 اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ان کے عجیب عجیب نظارے ہیں.کس طرح یہ کوشش کرتے تھے اور ان لوگوں کے انہی نمونوں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں آنے والوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین فرمائی.صاحب الصاع اس واقعہ کی تفصیل علامہ ابن حجر عسقلانی یوں بیان فرماتے ہیں کہ انہیں صاحب الصاع بھی کہتے ہیں یعنی حضرت ابو عقیل کو صاحب الصاع بھی کہا جاتا ہے.واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف اپنا آدھا مال لے کر آئے.انصار کے غریب مسلمانوں میں سے ایک شخص ابو عقیل آگے بڑھے اور کہنے لگے یار سول اللہ میں کھجور کے دو صاع کے عوض رات بھر کنوئیں سے ڈول کھینچتارہا اور ایک صاع میں نے اپنے گھر والوں کے لئے رکھ دیا ہے اور دوسر اصاع یہ ہے.بعض روایتوں میں ایک صاع میں سے نصف صاع دینے کا ذکر ہے.یعنی آدھا میں نے گھر رکھ لیا اور آدھا لے کر آیا ہوں.تو منافقوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی العلم ابو عقیل کے صاع سے غنی ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهَدَ هُمُ (التوبه (7) یعنی یہ منافق ہیں جو مومنوں میں سے خوشی سے بڑھ بڑھ کر صدقہ دینے والوں پر طنز کرتے ہیں اور ان پر بھی جو کہ سوائے اپنی محنت کی کمائی کے کوئی طاقت نہیں رکھتے.مسیلمہ کذاب پر آخری وار کرنے والے آپ ہی وہ انصاری صحابی تھے جنہوں نے مسیلمہ کذاب پر آخری وار کیا تھا.چنانچہ ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے دن مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت ابو عقیل انیفی زخمی ہوئے.ان کو کندھوں اور دل کے درمیان تیر لگا تھا جو لگ کر ٹیڑھا ہو گیا تھا جس سے وہ شہید نہ ہوئے.پھر وہ تیر نکالا گیا.ان کی بائیں جانب اس تیر کے لگنے کی وجہ سے کمزوری ہو گئی تھی.یہ شروع دن کی بات ہے.پھر انہیں اٹھا کر ان کے خیمہ میں لایا گیا.جب لڑا ئی گھمسان کی ہونے لگی اور مسلمانوں کو شکست ہوئی یہاں تک کہ مسلمان پیچھے ہٹتے ہٹتے اپنی قیام گاہوں سے بھی پیچھے چلے گئے.

Page 75

اصحاب بدر جلد 4 59 اس وقت حضرت ابو عقیل زخمی تھے.انہوں نے حضرت مغن بن عدی کی آواز سنی وہ انصار کو بلند آواز سے لڑنے کے لئے ابھار رہے تھے کہ اللہ پر بھروسہ کرو.اللہ پر بھروسہ کرو اور اپنے دشمن پر دوبارہ حملہ کرو.اور حضرت معن لوگوں کے آگے آگے تیزی سے چل رہے تھے.یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ انصار کہہ رہے تھے کہ ہم انصار کو دوسروں سے الگ کر دو.ہم انصار کو دوسروں سے الگ کر دو.چنانچہ ایک ایک کر کے انصار ایک طرف جمع ہو گئے اور مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ جم کر لڑیں گے اور بہادری سے آگے بڑھیں گے اور دشمن پر حملہ کریں گے اس سے تمام مسلمانوں کے قدم جم جائیں گے اور حوصلے بڑھ جائیں گے.حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ پھر حضرت ابو عقیل انصار کے پاس جانے کے لئے کھڑے ہو گئے.زخمی حالت میں تھے ، بہت کمزوری تھی لیکن کھڑے ہو گئے.میں نے کہا کہ اے ابو عقیل آپ کیا چاہتے ہیں آپ میں لڑنے کی طاقت تو ہے نہیں.انہوں نے کہا کہ اس منادی نے میر انام لے کر آواز لگائی ہے.میں نے کہا کہ وہ تو انصار کو بلا رہا ہے نہ کہ زخمیوں کو.وہ تو ان لوگوں کو بلا رہا ہے جو لڑنے کے قابل ہوں.حضرت ابو عقیل نے کہا کہ انہوں نے انصار کو بلایا ہے اور میں چاہے زخمی ہوں لیکن میں بھی انصار میں سے ہوں اس لئے میں ان کی پکار پر ضرور جاؤں گا چاہے مجھے گھٹنوں کے بل جانا پڑے.حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عقیل نے اپنی کمر باندھی اور اپنے دائیں ہاتھ میں ننگی تلوار لی اور پھر یہ اعلان کرنے لگے کہ اے انصار جنگ حنین کی طرح دشمن پر دوبارہ حملہ کرو.چنانچہ انصار جمع ہو گئے.اللہ ان پر رحم فرمائے.اور مسلمان بڑی بہادری کے ساتھ دشمن کی طرف بڑھے یہاں تک کہ دشمن کو میدان جنگ چھوڑ کر باغ میں گھس جانے پر مجبور کر دیا.مسلمان اور دشمن ایک دوسرے میں گھس گئے اور ہمارے درمیان اور ان کے درمیان تلواریں چلنے لگیں.نبی کریم ملی ایم کے بہترین صحابہ میں سے حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو عقیل کو دیکھا ان کا زخمی ہاتھ کندھے سے کٹ کر زمین پر گرا ہوا تھا اور ان کے جسم پر چودہ زخم تھے جن میں سے ہر زخم جان لیوا تھا اور اللہ کا دشمن مسیلمہ قتل ہو گیا تھا وہ بھی ساتھ ہی پڑا تھا.حضرت ابو عقیل زمین پر زخمی پڑے ہوئے تھے اور ان کے آخری سانس تھے.میں نے جھک کر ان سے کہا اے ابو عقیل ! انہوں نے کہا لبیک حاضر ہوں اور لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے پوچھا کہ فتح کس کو ہوئی ہے ؟ میں نے کہا آپ کو خوشخبری ہو کہ مسلمانوں کو فتح ہوئی ہے اور میں نے بلند آواز سے کہا کہ اللہ کا دشمن مسیلمہ کذاب قتل ہو چکا ہے.اس پر انہوں نے اللہ کی حمد بیان کرتے ہوئے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور انتقال فرما گئے.اللہ ان پر رحم فرمائے.حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ مدینہ واپس آنے کے بعد میں نے حضرت عمر کو ان کی ساری کار گزاری سنائی تو

Page 76

ناب بدر جلد 4 60 حضرت عمر نے فرمایا اللہ ان پر رحم فرمائے وہ ہمیشہ شہادت مانگا کرتے تھے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ ہمارے نبی کریم صلی للی نام کے بہترین صحابہ میں سے تھے اور شروع میں اسلام لائے تھے.یہ حضرت عمر کے الفاظ ہیں.146 25 حضرت ابو کبشه سُلیم پھر حضرت ابو کبشہ سُلیم ہیں.کنیت ان کی ابو کبشہ ہے.ان کی وفات دورِ خلافت حضرت عمر میں ہوئی.بعض کے نزدیک آپ کا نام سلمہ تھا.آپ رسول اللہ صلی علیم کے آزاد کردہ فارسی غلام تھے.آپ بدری صحابی ہیں.آپ کی پیدائش آؤس کی زمین پر ہوئی.آپ کے وطن اور نسب کے بارے میں مختلف روایات ہیں.بعض فارسی، بعض دوسی اور بعض مکی بتاتے ہیں.آپ دعوت اسلام کے قریب تر زمانے میں اسلام سے مشرف ہوئے اور ہجرت کی اجازت ملنے پر مدینہ چلے گئے اور بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی ال نیم کے ہمر اور ہے.147 جب حضرت ابو کبشہ نے مدینہ جانے کے لئے ہجرت کی تو آپ حضرت کلثوم بن الهدمہ کے ہاں ٹھہرے اور ایک روایت کے مطابق آپ حضرت سغدین خَیمہ کے پاس ٹھہرے.حضرت عمرؓ کے خلیفہ مقرر ہونے کے پہلے روز حضرت ابو کبشہ کی وفات ہوئی.یہ 22 جمادی الثانی 13 ہجری کی بات ہے.148 26 26 نام و نسب حضرت ابولبابہ بن عبد المندر حضرت ابولبابہ کے نام کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان کا نام بعض بشیر بتاتے ہیں.اور ابن اسحاق کے نزدیک ان کا نام رفاعہ ہے.علامہ زمخشری کے نزدیک ان کا نام مروان ہے.بہر حال یہ انصار کے قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور بارہ نقیبوں میں سے تھے اور بیت عقبہ میں شامل ہوئے.149

Page 77

اصحاب بدر جلد 4 61 بدر کے موقعہ پر امیر مدینہ غزوہ بدر کے موقع پر مدینہ سے نکلتے ہوئے آنحضرت صلی علیم نے اپنے پیچھے حضرت عبد اللہ بن اُتم مکتوم کو مدینہ کا امیر مقرر کیا لیکن جب آپ روحاء مقام کے قریب پہنچے جو مدینہ سے 36 میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبد اللہ ایک نابینا آدمی ہے اور لشکر قریش کی آمد کی خبر کا تقاضا ہے کہ آپ کے پیچھے مدینہ کا انتظام بھی مضبوط رہے آپ نے حضرت ابولبابہ بن منذر کو مدینہ کا امیر مقرر کر کے واپس بھجوا دیا اور حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم کے متعلق حکم دیا کہ وہ صرف امام الصلوۃ رہیں مگر انتظامی کام حضرت ابو لبابہ سر انجام دیں.50 بہر حال اس طرح یہ آدھے راستے سے واپس چلے گئے.ابن اسحاق کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی علیم نے غنیمت میں ان کا حصہ مقرر کیا.151 152 نبی اکرم صلی الم کے اونٹ پر سوار غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی یی کم حضرت علی اور حضرت ابولبابہ تینوں باری باری اونٹ پر سوار ہوتے تھے.حضرت علی اور حضرت ابولبابہ نے بڑے اصرار سے عرض کیا کہ ہم پیدل چلتے ہیں اور حضور سوار رہیں.مگر آپ صلی علیم نے نہ مانا اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ تم دونوں چلنے میں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں اور نہ ہی میں تم دونوں سے اجر کے بارے میں زیادہ بے نیاز ہوں.بدر کی ناقابل یقین فتح کی خوشخبری مدینہ میں غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ صلی علیم نے حضرت زید بن حارثہ کو اہل مدینہ کو خوشخبری پہنچانے کے لئے روانہ کیا.حضرت زید رسول اللہ صلی علیکم کی اونٹنی پر آئے تھے.جب وہ مصلی (نماز کی جو جگہ تھی) پہنچے تو آپ نے اپنی سواری سے بلند آواز سے کہا کہ ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ ، حجاج کے بیٹے، ابو جہل اور ابو البختری، زمعہ بن الاسود، امیہ بن خلف یہ سب مارے گئے ہیں اور سہیل بن عمر و اور بہت سارے قیدی بنالئے گئے ہیں.لوگ زید بن حارثہ کی بات پر یقین نہیں کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ زید شکست کھا کر لوٹے ہیں اور اس بات نے مسلمانوں کو غصہ میں مبتلا کر دیا ہے.( منافقین اور مخالفین جو تھے وہ یہ کہا کرتے تھے) اور وہ خود خوفزدہ بھی ہو گئے ہیں (اس لئے یہ باتیں کر رہے ہیں ) منافقین میں وہ کچھ سے ایک شخص نے حضرت اسامہ بن زید سے کہا کہ تمہارے آقا اور ان کے ساتھ جو گئے تھے وہ سب مارے جاچکے ہیں.ایک شخص نے حضرت ابو لبابہ سے کہا کہ تمہارے ساتھی اب اس طرح بکھر چکے ہیں کہ دوبارہ کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے اور محمد صلی علی کل خود اور آپ کے چوٹی کے اصحاب شہید ہو چکے ہیں اور یہ آپ کی اونٹنی ہے اور ہم اسے جانتے ہیں.مخالفین کہنے لگے کہ زید کو تورعب کی وجہ سے خود ہی پتہ نہیں کہ یہ کیا کہ رہا ہے اور شکست کھا کے

Page 78

اصحاب بدر جلد 4 62 لوٹا ہے.حضرت ابولبابہ نے کہا اللہ تعالیٰ تمہاری بات کو جھٹلائے گا.یہود بھی یہی کہتے تھے کہ زید ناکام و نامراد اور شکست کھا کر لوٹا ہے.حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے علیحدگی میں دریافت کیا کہ اے ابا آپ جو کہتے ہیں کیا وہ سچ ہے.حضرت زید نے کہا اے میرے بیٹے اللہ کی قسم جو میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے.حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ اس سے میر اول مضبوط ہو گیا.153 بنو قریظہ کی بد عہدی.ابولبابہ کی سادگی اور فدائیت رسول کا واقعہ حضرت ابولبابہ کی سادگی اور فدائیت رسول کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ 5 ہجری میں جب آنحضرت صلی ل م غزوہ خندق سے فارغ ہو کر شہر میں واپس تشریف لائے تو ابھی آپ بمشکل ہتھیار وغیرہ اتار کر نہانے دھونے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کشفی رنگ میں یہ بتایا گیا کہ جب تک بنو قریظہ کی غداری اور بغاوت کا فیصلہ نہیں ہو جاتا آپ کو ہتھیار نہیں اتارنے چاہئیں.آپ نے صحابہ میں اعلان کر دیا کہ سب لوگ بنو قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہو جائیں اور نماز عصر وہیں پہنچ کر ادا کی جائے گی.شروع شروع میں تو یہودی لوگ سخت غرور اور تمرد ظاہر کرتے رہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کو محاصرہ کی سختی اور اپنی بے بسی کا احساس ہو نا شروع ہوا ( کہ مسلمانوں نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا تھا) اور بالآخر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے.(بہر حال) انہوں نے یہ تجویز کی کہ کسی ایسے مسلمان کو جو اُن سے تعلقات رکھتا ہو اور اپنی سادگی کی وجہ سے ان کے داؤ میں آسکتا ہو اپنے قلعہ میں بلائیں اور اس سے یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں کہ آنحضرت صلی علیکم کا ان کے متعلق کیا ارادہ ہے تاکہ وہ اس کی روشنی میں آئندہ طریق عمل تجویز کر سکیں.چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں ایک اینچی روانہ کر کے یہ درخواست کی کہ و لبا به بن منذر انصاری کو ان کے قلعہ میں بھجوایا جاوے تا کہ وہ اس سے مشورہ کر سکیں.آپ نے ابو لبابہ کو اجازت دی اور وہ ان کے قلعہ میں چلے گئے.رض اب رؤسائے بنو قریظہ نے یہ تجویز کی ہوئی تھی کہ جو نہی ابولبابہ قلعہ کے اندر داخل ہو سب یہودی عورتیں اور بچے روتے چلاتے ان کے گرد جمع ہو جائیں اور اپنی مصیبت اور تکلیف کا ان کے دل پر پورا پورا اثر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.چنانچہ ابو لبابہ پر یہ داؤ چل گیا اور بنو قریظہ کے سوال پر کہ اے ابولبابہ ! تو ہمارا کیا حال دیکھ رہا ہے؟ کیا ہم محمد صلی علی کیم کے فیصلہ پر اپنے قلعوں سے اتر آویں ؟ ابولبابہ نے بے ساختہ جواب دیا ہاں اتر آؤ.مگر ساتھ ہی اپنے گلے پر ہاتھ پھیر کر اشارہ کیا کہ آنحضرت صلی علیکم تمہارے قتل کا حکم دیں گے.مسجد کے ستون سے باندھ لیا حضرت ابولبابہ کہتے ہیں کہ جب یہ خیال آیا کہ میں نے خدا اور اس کے رسول کی خیانت کی ہے (یا جو اشارہ کیا ہے تو غلط طریقہ سے کر دیا ہے) تو میرے پیر لڑ کھڑانے لگے.آپ وہاں سے مسجد نبوی میں

Page 79

بدر جلد 4 63 آئے ( ابولبابہ مسجد نبوی میں آئے) اور مسجد کے ایک ستون سے اپنے آپ کو باندھ دیا کہ یہ میری سزا ہے ) اور کہا کہ جب تک خدا تعالیٰ میری توبہ قبول نہ کرے گا اسی طرح بندھا رہوں گا.حضرت ابولبابہ کہتے ہیں کہ میرے بنو قریظہ جانے اور جو کچھ میں نے وہاں کیا اس کی خبر رسول اللہ صلیالی کم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اس کے بارے میں جو چاہے گا فرمائے گا.اگر وہ میرے پاس آتا تو میں اس کے لئے بخشش طلب کرتا.جب وہ میرے پاس نہیں آیا اور چلا گیا ہے تو اسے جانے دو.حضرت ابو لبابہ کہتے ہیں کہ میں پندرہ دن اس ابتلا میں رہا.آپ کہتے ہیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا تھا اور میں اسے یاد کرتا تھا.میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم نے بنو قریظہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور گویا میں ایک بد بودار کیچڑ میں ہوں.میں اس سے نکل نہیں سکتا اور قریب تھا کہ میں اس کی بدبو سے ہلاک ہو جاتا.پھر میں نے ایک نہر دیکھی جو بہہ رہی تھی.پھر میں نے دیکھا کہ میں اس میں غسل کر رہا ہوں یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ کو پاک صاف کیا اور تب مجھے خوشبو آرہی تھی.آپ حضرت ابو بکڑ کے پاس اس کی تعبیر پوچھنے کے لئے گئے تھے تو حضرت ابو بکر نے اس کی تعبیر یہ کی کہ تمہیں ایسا معاملہ پیش آئے گا جس کی وجہ سے تمہیں غم پہنچے گا پھر تمہیں اس سے نجات دی جائے گی.حضرت ابولبابہ کہتے ہیں کہ میں بندھا ہوا حضرت ابو بکر کی بات کو یاد کرتا تھا اور امید رکھتا تھا کہ میری توبہ قبول کی جائے گی.ا حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ ابو لبابہ کے توبہ کی قبولیت کی خبر میرے گھر میں نازل ہوئی.آنحضرت صلی علی کم پر یہ وحی اس وقت ہوئی).کہتی ہیں کہ میں نے سحر کے وقت رسول اللہ صلی ا ہم کو ہنستے دیکھا.میں نے عرض کیا اللہ آپ کو ہمیشہ مسکر اتار لکھے آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی علی کلم نے فرمایا کہ ابو لبابہ کی توبہ قبول ہو گئی.میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں ان کو آگاہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتی ہو تو کر دو.حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے حجرہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا ( یہ پردے کے احکام نازل ہونے سے قبل کی بات ہے) کہ اے ابو لبابہ خوش ہو جاؤ.اللہ نے آپ پر فضل کرتے ہوئے آپ کی توبہ قبول کر لی ہے.لوگ دوڑ کر حضرت ابولبابہ کو کھولنے لگے.لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں رسول اللہ صلی لی یہ ہی مجھے کھو لیں گے.نبی کریم علی لیا کہ فجر کی نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے تو اپنے دست مبارک سے ان کو کھولا.حضرت ابو لبابہ نے رسول اللہ صلی کی کمی سے عرض کی کہ میں اپنے آبائی گھر کو جہاں مجھ سے یہ گناہ سر زد ہوا ہے چھوڑتاہوں.یہ بہت بڑی غلط بات مجھ سے ہو گئی اس لئے میں اپنا گھر بار چھوڑتا ہوں اور میں اپنے مال کو اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ صرف ایک تہائی مال کا صدقہ کرو.حضرت ابولبابہ نے ایک تہائی مال صدقہ کیا اور آپ نے اپنا آبائی گھر چھوڑ دیا.154

Page 80

ب بدر جلد 4 64 بنو قریظہ کی بد عہدی.....حضرت مصلح موعود کی بیان کردہ تفصیل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس تفصیل کے علاوہ بھی اس واقعہ کی تفصیل بیان فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ بنو قریظہ کا معاملہ طے ہونے والا تھا.ان کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظر انداز کی جاتی.رسول کریم صلی اللہ ہم نے واپس آتے ہی اپنے صحابہ سے فرمایا کہ گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ جاؤ اور پھر آپ نے حضرت علی کو بنو قریظہ کے پاس بھجوایا کہ وہ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی ہے.بیچ میں چھوڑ کے چلے گئے تھے.بجائے اس کے کہ بنو قریظہ شر مندہ ہوتے یا معافی مانگتے یا کوئی معذرت کرتے انہوں نے حضرت علی اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور رسول اللہ صلی علی یم اور آپ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہا ہم نہیں جانتے کہ محمد صلی علیہ تم کیا چیز ہیں.ہمارا ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں.حضرت علی ان کا یہ جواب لے کر واپس لوٹے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللیل کم صحابہ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جارہے تھے.چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلی للی کم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق ناپاک کلمات بول رہے تھے.حضرت علی نے اس خیال سے کہ آپ کو ان خیالات سے تکلیف ہو گی عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں.ہم لوگ اس لڑائی کے لئے کافی ہیں.آپ واپس تشریف لے جائیں.رسول صلی علیم نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں.حضرت علی نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! بات تو یہی ہے.رسول اللہ صلی سلیم نے فرمایا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں.موسیٰ نبی تو ان کا اپنا تھا ان کو اس سے بھی زیادہ انہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں.یہ کہتے ہوئے آپ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے مگر یہود دروازے بند کر کے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی حتی کہ ان کی عورتیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں.چنانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اوپر سے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کو مار دیا.لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہود نے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے.تب ان کے سرداروں نے رسول اللہ صلی علیم سے خواہش کی کہ وہ ابو لبابہ انصاری کو جو اُن کے دوست اوس قبیلہ کے سردار تھے ان کے پاس بھجوائیں تا کہ وہ ان سے مشورہ کر سکیں.آپ نے ابو لبابہ کو بھجوا دیا.ان سے یہود نے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی علی ایم کے اس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار پھینک دو.ہم یہ مان لیں ؟ ابو لبابہ نے منہ سے تو کہا ہاں لیکن اپنے گلے پر اس طرح ہاتھ پھیر اجس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے.رسول اللہ صلی علیم نے اس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابو لبابہ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کے جرم کی سزا سوائے قتل کے اور کیا ہو گی بغیر سوچے سمجھے اشارے کے ساتھ ان سے ایک بات کہہ دی جو آخر ان کی تباہی کا موجب ہوئی.

Page 81

اصحاب بدر جلد 4 65 یہود کا آپس میں اختلاف چنانچہ یہود نے آنحضرت صلی علیم سے صلح کرنے سے انکار کر دیا.اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ کا فیصلہ مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح ان کو زیادہ سے زیادہ یہی سزا دی جاتی کہ ان کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا جاتا مگر ان کی بد قسمتی تھی کہ انہوں نے کہا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی علیم کا فیصلہ ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ ہم اپنے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کا فیصلہ مانیں گے.جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا.لیکن اس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا.یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویے سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے.وہ لوگ اپنا مذہب ترک کر کے اسلام میں داخل ہو گئے.ایک شخص عمرو بن سعدی نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ توڑا ہے.اب یا تو مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ پر راضی ہو جاؤ.یہود نے کہا نہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے.پھر ان سے اس نے کہا کہ میں تم سے بری ہو تا ہوں اور یہ کہہ کر قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا.جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مسلمہ تھے اسے دیکھ لیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے ؟ اس نے بتایا کہ میں فلاں ہوں.اس پر محمد بن مسلمہ نے فرمایا کہ اللهُم لَا تَحْرِمْنِي إِقَالَةَ عَثَرَاتِ الْكِرَامِ یعنی اپنی سلامتی سے چلے جائیے اور پھر اللہ سے دعا کی کہ الہی مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیو.یعنی یہ شخص چونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے تو ہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اسے معاف کر دیں اس لئے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا.خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشتا رہے.جب رسول اللہ صلی علی یم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہ کو سرزنش نہیں کی کہ کیوں اس یہودی کو چھوڑ دیا بلکہ اس کے فعل کو سراہا.155 یہود اپنی تباہی کے خود ذمہ دار تھے آنحضرت علی ایم کے بارے میں بھی جو کہا جاتا ہے کہ آپ نے زیادتیاں کیں اور ظلم کئے اور یہودی قبائل کو قتل کیا تو یہ تو خود اپنی تباہی کے ذمہ وار تھے.آنحضرت صلی علیم سے فیصلہ کروانے کے بجائے انہوں نے اپنے ایک سردار سے، دوسرے قبیلہ کے سردار سے جو مسلمان ہو چکے تھے ان سے فیصلہ کر وایا اور پھر ان کی کتاب کے مطابق یہ فیصلہ ہوا.بہر حال آنحضرت صلی علی کم پر کوئی الزام نہیں.نہ صحابہ پر ہے کہ انہوں نے کوئی ظلم کیا.مدینہ میں پھر نیابت کا اعزاز علامہ ابن سعد نے لکھا ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ غزوہ قینقاع اور غزوہ سویق میں بھی

Page 82

اصحاب بدر جلد 4 66 حضرت ابولبابہ کو مدینہ منورہ میں حضور صلی یکم کی نیابت کا شرف حاصل ہوا ہے.فتح مکہ کے موقعہ پر ایک جھنڈا ان کے ہاتھ 156 حضرت ابولبابہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی علیکم کے ہمرکاب تھے.انصار کے قبیلہ عمرو بن عوف کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا.حضرت ابو لبابہ نبی کریم صلی للی امام کے ساتھ جنگوں میں شریک رہے.7 وفات 157 ان کی وفات کے بارے میں بعض کے نزدیک حضرت ابو لبابہ حضرت علی کے زمانہ خلافت میں فوت ہوئے.بعض کہتے ہیں کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد وفات پائی.ایک رائے یہ بھی ہے کہ 158 50 ہجری کے بعد تک زندہ رہے.8 نبی اکرم کلام کی بارش کے لئے دعا و...سعید بن مسیب روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی یم نے جمعہ کے دن بارش کی دعا کی اور فرمایا اللهُمَّ اسْقِنَا اللهُمَّ اسْقِنَا اللَّهُمَّ اسْقِنَا.کہ اے اللہ ہم پر بارش برسا اے اللہ ! ہم پر بارش برسا اے اللہ ! ہم پر بارش برسا.ابولبابہ کھڑے ہوئے اور کہا یارسول اللہ پھل باغوں میں ہے.راوی کہتے ہیں کہ آسمان میں ہمیں کوئی بادل نظر نہیں آرہا تھا.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ اے اللہ ! ہم پر بارش برسا یہاں تک کہ ابولبابہ ننگے بدن اپنے کھلیان میں پانی کا سوراخ اپنے کپڑے سے بند کرے.کہتے ہیں کہ دعا کے بعد آسمان سے پانی برسنا شروع ہو گیا.بادل آئے.بارش شروع ہو گئی تو رسول اللہ صلی علیم نے نماز پڑھائی.راوی کہتے ہیں کہ انصار حضرت ابولبابہ کے پاس آکر کہنے لگے کہ اے ابو لبابہ ! اللہ کی قسم یہ بارش اس وقت تک نہیں رکے گی جب تک تم رسول اللہ صلی علی یلم کے فرمان کے مطابق ننگے بدن اپنے کپڑے کے ذریعہ اپنے کھلیان سے پانی کے نکاس کا راستہ نہیں روکو گے.چنانچہ حضرت ابو لبابہ اپنے کپڑے کے ذریعہ نکاس کا راستہ بند کرنے کھڑے ہو گئے اور اس کے بعد بارش رک گئی.159 ابولبابہ مکانواسہ نبی اکرم صلی الم کی گود میں حضرت ابولبابہ اپنے نواسے عبد الرحمن بن زید ( جو حضرت عمرؓ کے بھتیجے تھے) کو ایک کھجور کی چھال میں لپیٹ کر رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ صلی الم نے دریافت فرمایا کہ اے ابولبابہ تمہارے پاس کیا ہے ؟ حضرت ابولبابہ نے کہا کہ یارسول اللہ میر انواسہ ہے.میں نے اس جیسا کمزور نو مولود کبھی نہیں دیکھا.رسول اللہ صلی اہل علم نے اس نو مولود کو اٹھایا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی.اس دعا کی برکت سے جب عبد الرحمن بن زید لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑے ہوتے تو قد میں سب سے لمبے نظر آتے تھے.حضرت عمر نے ان کی شادی اپنی بیٹی فاطمہ سے جو حضرت ام کلثوم کے بطن سے تھیں اور حضرت ام کلثوم حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی بیٹی تھیں، کروائی تھی.160

Page 83

اصحاب بدر جلد 4 67 سب سے زیادہ دور گھر لیکن عصر کی نماز نبی اکرم صلی نام کے ساتھ حضرت انس بن مالک نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللی نیلم کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کے گھر سے سے زیادہ دور تھے.ایک حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر کا.ان کا گھر قبا میں تھا اور حضرت ابو عبس بن جبر.یہ قبیلہ بنو حارثہ میں رہتے تھے.وہ دونوں عصر کی نماز رسول اللہ صلی العلیم کے ساتھ پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے.161 علامہ ابن عبد البر اپنی تصنیف الاستیعاب میں لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید کی آیت وَأَخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَ أَخَرَ سَيْئًا (سو رات بہ :102) کہ ” اور کچھ التوب دوسرے ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا انہوں نے اچھے اعمال اور دوسرے بد اعمال ملا جلا لیے میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت ابو لبابہ اور ان کے ساتھ سات آٹھ یا نو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی.یہ حضرات غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے.بعد میں شرمسار ہوئے اور خدا کے حضور توبہ کی اور اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ باندھ لیا.ان کا اچھا عمل تو بہ اور ان کا بر اعمل جہاد سے پیچھے رہنا تھا.162 مجمع بن جاریہ سے روایت ہے کہ حضرت خنساء بنت خدام حضرت انیس بن قتادہ کی زوجیت میں تھیں جب آپ غزوہ احد کے دن شہید ہوئے.پھر حضرت خنساء بنت خدام کے والد نے آپ کی شادی مزینہ قبیلہ کے ایک آدمی سے کی جسے آپ نا پسند کرتی تھیں.حضرت خنساء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح فسح کر دیا تو حضرت خنساء سے حضرت ابو لبابہ نے شادی کی جس سے حضرت سَائِب بن ابو لبابہ پیدا ہوئے.عبد الجبار بن وزد سے روایت ہے کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ عبد اللہ بن ابی یزید کا کہنا ہے کہ حضرت ابو لبابہ ہمارے پاس سے گزرے ہم ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں گئے ان کے ساتھ ہم بھی گھر میں داخل ہوئے.ہم نے دیکھا کہ ایک شخص پھٹے پرانے کپڑے میں بیٹھا ہے.میں نے اُس سے سنا وہ کہتا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قرآن کو خوش آواز سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے.164 163

Page 84

68 27 صحاب بدر جلد 4 حضرت ابو مخشی الطائی یہ اپنی کنیت ابو مخشی سے ہی مشہور تھے.ان کا نام سوئیں بن بخشی ہے.ابو مخشی الطائی بنو اسد کے حلیف تھے.اولین مہاجرین میں سے تھے.غزوہ بدر میں شامل ہوئے.15 165 28 کنیت اور مواخات حضرت ابو مَرْقَد كَنَّارُ بن الْحُصَيْن عنوى حضرت ابومرتد كَنَّارُ بن الحصين غنوی.ان کی وفات 12 ہجری میں ہوئی.بعض لوگوں کے نزدیک ان کی کنیت ابو حضن تھی.آپ شام کے رہائشی تھے.انہوں نے آغاز دعوتِ اسلام میں ہی اسلام قبول کیا اور ہجرت کی اجازت کے بعد مدینہ آگئے.آنحضرت صلی لی کر نے آپ کی حضرت عبادہ بن صامت سے مواخات فرما دی.166 تمام غزوات میں شرکت جب حضرت ابو مرتد اور ان کے بیٹے مرشد نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو دونوں حضرت کلثوم بن الھزم کے پاس ٹھہرے.بعض کے نزدیک آپ دونوں حضرت سعد بن خَیمہ کے پاس ٹھہرے.حضرت ابو مر محمد تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ہمراہ حاضر ہوئے.7 الله سة حضرت ابو مرقد کو تاریخ میں یہ مقام حاصل ہے 167 حضرت ابو مرشد کو تاریخ میں یہ مقام حاصل ہے کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے فتح مکہ سے قبل اپنے بال بچوں کی حفاظت کے خیال سے مکہ والوں کو خفیہ طور پر ایک خط کے ذریعہ اطلاع دینی چاہی.آنحضرت صلی اینم کو علم ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا.چنانچہ آپ صلی علیہم نے تین سواروں کو اس عورت کی طرف بھیجا جو خط لے کر جارہی تھی.ان سواروں نے وہ خط بر آمد کروالیا.ان میں سے ایک سوار حضرت ابومر قد تھے.حضرت علی سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے مجھے اور ابومرقد عنوی

Page 85

اصحاب بدر جلد 4 69 اور زبیر کو بھیجا اور ہم گھڑ سوار تھے.آپ صلی علیہ ہم نے فرمایا تم روانہ ہو جاؤ یہاں تک کہ جب تم روضہ خان تک پہنچو.یہ ایک مقام ہے تو وہاں تمہیں مشرکوں میں سے ایک عورت ملے گی جس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکوں کے نام ایک خط ہے.یہ بخاری کی روایت ہے.168 آپ نے نبی کریم صلی علیم سے ایک حدیث روایت کی ہے مسلم اور بغوی وغیرہ میں ان کی یہ حدیث ہے.فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علم کو فرماتے سنا کہ قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھو.160 ان کی وفات پھر حضرت ابو بکر صدیق کے عہد خلافت میں 12 ہجری میں 66 سال کی عمر میں ہوئی.0 ان کا نام گناز تھا.ولدیت حصین بن یز بوع.آپ کے نام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض کے نزدیک آپ کا نام گناز بن حصین جبکہ بعض کے نزدیک حصین بن گناز تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام ایمن تھا مگر زیادہ مشہور گناز بن حصین ہی تھے.171 170 حضرت ابو مرید حضرت حمزہ کے ہم عمر اور ان کے حلیف تھے.آپ لمبے قد کے مالک تھے اور آپ کے سر کے بال گھنے تھے.172 حضرت ابومر مد اور ان کے بیٹے حضرت مرشد رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کو غزوہ بدر میں شرکت کی توفیق ملی.آپ کے بیٹے حضرت مر تمد واقعہ کر جبیع میں شہید ہوئے.173 پہلے بیان ہو چکا ہے.حضرت ابومر نند کے ایک پوتے حضرت انہیں بن مریمہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے.وہ فتح مکہ اور غزوہ حنین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے.174 بیان ہو ا ہے کہ ربیع الاول دو ہجری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس شتر سوار مہاجرین کا ایک دستہ اپنے چا حضرت حمزہ بن عبد المطلب کی قیادت میں مدینہ سے مشرق کی جانب سیف البحر علاقہ عبیص کی طرف روانہ فرمایا.حضرت حمزہ اور ان کے ساتھی جلدی جلدی وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کا رئیس اعظم ابو جہل تین سو سواروں کا ایک لشکر لیے ان کے استقبال کو موجود ہے.دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرائی کرنے لگ گئیں اور لڑائی شروع ہونے والی ہی تھی کہ اس علاقے کے رئیس مجدی بن عمر و الجہنی نے جو دونوں فریقوں کے ساتھ تعلق رکھتا تھا در میان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کر وایا اور لڑائی ہوتے ہوتے رک گئی.یہ مہم سریہ حمزہ بن عبد المطلب کے نام سے مشہور ہے.75 175 حضرت ابو مرید بھی اس سر یہ میں شامل تھے.روایت میں ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا لواء، جھنڈا حضرت حمزہ کو باندھا تھا اور اس سر یہ میں حضرت حمزہ کا یہ جھنڈ ا حضرت ابو مر مد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھائے ہوئے تھے.176

Page 86

70 70 29 20 صحاب بدر جلد 4 حضرت ابو مُلَيْل بن الازعر جنگ بدر میں شامل ہونے والے دو بھائی حضرت ابو مليل بن الازعر.ان کی والدہ کا نام اقد عمر و بنت اشرف تھا اور ان کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا.ان کو غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.177 ایک روایت کے مطابق ان کے بھائی حضرت ابو حبیب بن اذعر بھی غزوہ بدر اور دیگر غزوات میں شامل ہوئے تھے.178 30 30 حضرت ابو طلحہ انصاری جنگ احد میں تین کمانیں توڑنے والے، اپنا سینہ نبی اکرم صلی لی ایم کے سینہ کے آگے کر کے حفاظت کرنے والے، جس کی مہمان نوازی پر خدا بھی ہنس پڑا اور جس کو نبی اکرم صلی الم کی قبر تیار کرنے کی سعادت ملی نام و نسب و کنیت حضرت ابو طلحہ انصاری کا اصل نام زید تھا.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا اور یہ قبیلے کے نقیب تھے.آپ اپنی کنیت ابو طلحہ کے نام سے زیادہ مشہور تھے.حضرت ابوطلحہ کے والد کا نام سہل بن اسود اور والدہ کا نام عبادہ بنت مالک تھا.

Page 87

اصحاب بدر جلد 4 71 بیعت عقبہ ثانیه 180 حضرت ابو طلحہ نے بیعت عقبہ ثانیہ میں آنحضرت صلی علیکم کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی.آپ غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں بھی آنحضرت صلی علیہ کم کے ہمراہ شریک ہوئے.جب حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ ہم نے ان کی حضرت ابو طلحہ کے ساتھ مواخات قائم فرمائی.حضرت ابوطلحہ کا رنگ گندمی اور قد متوسط تھا، در میانہ تھا.آپ نے کبھی سر اور داڑھی کے بالوں پر خضاب نہیں لگایا.179 جس طرح بال تھے ویسے ہی رکھے.حضرت انس حضرت ابو طلحہ کے ربیب یعنی بیوی کے پہلے خاوند سے بیٹے تھے.حضرت اُمید سلیم کے پہلے خاوند مالک بن نضر تھے.ان کے فوت ہونے کے بعد حضرت ابوطلحہ سے ان کی شادی ہوئی جن سے ان کے ہاں عبد اللہ اور ابو عمیر کی ولادت ہوئی.اسلام میں آج تک کسی عورت کے بارے میں نہیں سنا کہ اس کا مہر ایسا قابل عزت ہو حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ابو طلحہ نے اُمِ سلیم کو نکاح کا پیغام بھجوایا.اُمِ سلیم نے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھے آپ جیسے آدمی سے نکاح کا انکار نہ ہو تا لیکن آپ مشرک ہیں اور میں مسلمان.یہ سنن نسائی کی روایت ہے اور میں مسلمان عورت ہوں.میرے لیے جائز نہیں ہے کہ میں آپ - نکاح کروں.اگر آپ اسلام قبول کر لیں تو یہی میر امہر ہو گا اور میں اس کے سوا کچھ نہیں مانگوں گی.حضرت ابو طلحہ نے اسلام قبول کر لیا اور یہی ان کا مہر مقرر ہوا.حضرت ثابت کہا کرتے تھے کہ میں نے اسلام میں آج تک کسی عورت کے بارے میں نہیں سنا کہ اس کا مہر ایسا قابل عزت ہو جیسا کہ اُم سُلیم کا مہر تھا.181 سے مقتولین بدر کو ایک کنویں میں پھینکا جاتا اور نبی اکرم صلی کم کا ان سے خطاب حضرت ابوطلحہ غزوہ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علم کے ساتھ شامل تھے.حضرت ابو طلحہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے جنگ بدر کے دن سردارانِ قریش میں سے چوبیس آدمیوں کی نسبت حکم دیا اور انہیں بدر کے کنووں میں سے ایک نا پاک کنویں میں ڈال دیا گیا اور آپ جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان میں تین راتیں قیام فرماتے.جب آپ بدر میں ٹھہرے اور تیسرا دن ہوا تو آپ نے اپنی اونٹنی پر کجاوہ باندھنے کا حکم دیا اور چنانچہ اس پر کجاوہ باندھا گیا.پھر آپ صلی علیہم چلے اور آپ کے صحابہ بھی آپ کے ساتھ چلے اور کہنے لگے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کسی غرض کے لیے چلے تھے.آپ اسی کنویں کی منڈیر پر پہنچ کر کھڑے ہو گئے جہاں ان چو بیس آدمیوں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں.بند کنواں تھا.آپ ان کے اور ان کے باپوں کے نام لے کر پکارنے لگے کہ اے فلاں فلاں کے بیٹے ! اے فلاں فلاں کے بیٹے ! کیا اب تم کو اس بات سے

Page 88

ب بدر جلد 4 72 خوشی ہوگی کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کی ہوتی کیونکہ ہم نے تو سچ سچ پا لیا جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا تھا.آیا تم نے بھی واقعی وہ پا لیا ہے جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟ ابو طلحہ کہتے تھے کہ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ ان لاشوں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں جان نہیں ہے ؟ رسول اللہ صلی علی یم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! کہ تم ان سے زیادہ ان باتوں کو نہیں سن رہے جو میں کہہ رہا ہوں یعنی یہ باتیں اب اللہ تعالیٰ آگے ان تک پہنچا بھی رہا ہے کہ کیا تمہارا بد انجام ہوا.182 جنگ احد میں تین کمانیں توڑنے والا بہادر جان شار رسول صلى الله وسلم حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ جب احد کی جنگ ہوئی تو لوگ شکست کھا کر نبی کریم صلی ا ظلم سے جد اہو گئے اور حضرت ابو طلحہ نبی صلی علیکم کے سامنے آپ کو اپنی ڈھال سے آڑ میں لیے کھڑے رہے.اور حضرت ابو طلحہ ایسے تیر انداز تھے کہ زور سے کمان کھینچا کرتے تھے.انہوں نے اس دن دو یا تین کمانیں توڑیں.یعنی اتنی زور سے کھینچتے تھے کہ کمان ٹوٹ جاتی تھی اور جو کوئی آدمی تیروں کا ترکش اپنے ساتھ لیے گزرتا تو آنحضرت صلی للی کم اسے فرماتے کہ ابو طلحہ کے لیے پھینک دو یعنی کہ دوسروں کو بھی نصیحت کرتے کہ یہ بہت تیر انداز ہیں.اپنے تیر بھی انہی کو دے دو.یہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ نام کے سامنے کھڑے تھے.حضرت انس کہتے تھے کہ نبی صلی می کنم سر اٹھا کر لوگوں کو دیکھتے تو حضرت ابو طلحہ کہتے: بِأَبِي أَنْتَ وَأُتِي يَا رَسُولَ اللهِ لَا يُصِيبُكَ سَهُمْ، نَحْرِى دُونَ نَخَرِك میرے ماں باپ آپ پر قربان ! سر اٹھا کر نہ دیکھیں.مبادا ان لوگوں کے تیروں میں سے کوئی تیر آپ کو لگے.میرا سینہ آپ کے سینے 183 کے سامنے ہے.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ ایک ہی ڈھال سے نبی صلی للی کم کی حفاظت کرتے تھے اور حضرت ابو طلحہ اچھے تیر انداز تھے.جب وہ تیر چلاتے تو نبی صلی علیکم جھانکتے اور ان کے تیر پڑنے کی جگہ کو دیکھتے.یہ بخاری کی روایت ہے.پہلی بھی بخاری کی تھی.181 غزوہ احد میں حضرت ابو طلحہ کے اس شعر کے پڑھنے کا بھی ذکر آتا ہے کہ وَجْهِي لِوَجْهِكَ الْوِقَاء وَنَفْسِي لِنَفْسِكَ الْفِدَاء میرا چہرا آپ کے چہرے کو بچانے کے لیے ہے اور میری جان آپ کی جان پر قربان ہے.حضرت انس خادم رسول صل الله ولم 185 حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی لی ہم نے حضرت ابوطلحہ سے فرمایا کہ اپنے لڑکوں میں سے میرے لیے کوئی لڑکا تلاش کرو جو میری خدمت کرے تا میں خیبر کا سفر کروں.حضرت ابوطلحہ

Page 89

ناب بدر جلد 4 73 سواری پر مجھے یعنی حضرت انس کو پیچھے بٹھا کر لے گئے.حضرت انس کہتے ہیں میں اس وقت لڑکا تھا اور بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا.میں رسول اللہ صلی علی یم کی خدمت کیا کرتا تھا.جب آپ اترتے میں اکثر آپ کو یہ دعاما نگتے سنا کر تا تھا کہ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْهَةِ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدِّيْنِ وَغَلَبَةِ الرجال کہ اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں غم واندوہ سے درماندگی اور سستی سے اور بخل اور بزدلی سے اور قرض داری کے بوجھ سے اور لوگوں کی سختی سے.186 ایک دوسری روایت میں اس طرح بھی آیا ہے.یہ حضرت انس کی روایت ہے.پہلی بھی بخاری کی تھی اور یہ بھی بخاری کی ہی ہے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کی مدینہ میں آئے.آپ کا کوئی خادم نہ تھا.حضرت ابوطلحہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس گئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! انس سمجھ دار لڑکا ہے.یہ آپ کی خدمت کرے گا.حضرت انس کہتے تھے چنانچہ میں نے سفر میں بھی آپ کی خدمت کی اور حضر میں بھی.جو کام بھی میں کرتا آپ مجھے کبھی نہ فرماتے تو نے یہ کام اس طرح کیوں کیا اور جو کام میں نے نہ کیا ہوتا اس کی نسبت آپ مجھے بھی نہ فرماتے کہ تم نے اس کو اس طرح کیوں نہیں کیا یعنی کبھی کوئی روک ٹوک نہیں کی.87 187 پہلے عورت کی خبر لو حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی علیم کے ساتھ تھے جب آپ عسفان (عسفان مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے ) وہاں سے لوٹے اور رسول اللہ صلی علی کرم اس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور آپ نے حضرت صفیہ بنت حیی کو پیچھے بٹھایا ہوا تھا.آپ کی اونٹنی نے ٹھو کر کھائی اور دونوں گر پڑے.حضرت ابو طلحہ یہ دیکھ کر فوراً اونٹ سے گودے اور بولے یار سول اللہ ! میں آپ پر قربان.آپ نے فرمایا پہلے عورت کی خبر لو.حضرت ابو طلحہ نے اپنے منہ پر کپڑا ڈال لیا اور حضرت صفیہ کے پاس آئے اور وہ کپڑا ان پر ڈالا یعنی ان کو پردے کا اتنا لحاظ تھا اور ان دونوں کی سواری درست کی جس پر وہ سوار ہو گئے اور ہم نے رسول اللہ صلی علیکم کے گرد حلقہ بنالیا.جب ہم مدینے کی بلندی پر پہنچے تو آپ صلی سلیم نے فرمایا کہ آئِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُوْنَ لِرَبَّنَا حَامِدُونَ ہم لوٹ کر آنے والے ہیں.ہم اپنے رب کے حضور توبہ کرنے والے ہیں.اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی ستائش کرنے والے ہیں.آپ اس وقت تک کہ مدینے میں داخل ہوئے یہی کلمات فرماتے رہے.188 حضرت مصلح موعود اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ایک دفعہ جبکہ آپ غزوہ خیبر سے واپس تشریف لا رہے تھے اور آپ کی بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے ساتھ تھیں تو راستے میں اونٹ برک گیا اور آپ اور حضرت صفیہ دونوں گر

Page 90

تاب بدر جلد 4 74 گئے.حضرت ابو طلحہ انصاری کا اونٹ آپ کے پیچھے ہی تھا.وہ فوراً اپنے اونٹ سے کود کر آپ کی طرف گئے اور کہنے لگے یار سول اللہ ! میری جان آپ پر قربان آپ کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی ؟ جب ابو طلحہ آپ کے پاس پہنچے تو رسول کریم صلی علیم نے فرمایا ابو طلحہ ! پہلے عورت کی طرف، پہلے عورت کی طرف." دود فعہ فرمایا " وہ تو رسول کریم ملی ای ایم کے عاشق تھے." حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ تو رسول کریم صلی علیم کے عاشق تھے ” جب آپ کی جان کا سوال ہو تو اس وقت انہیں کوئی اور کیسے نظر آسکتا تھا مگر رسول کریم صلی لی ہم نے فرمایا جاؤ اور پہلے عورت کو اٹھاؤ."189 یہ واقعہ آپ نے اس وقت بیان فرمایا جب آپ عورت کے حقوق کے بارے میں بیان فرمارہے تھے.غزوہ خیبر حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے خیبر پر حملہ کیا اور ہم نے اس کے قریب جا کر صبح کی نماز پڑھی جبکہ ابھی اندھیرا ہی تھا.پھر نبی کریم صلی للی کم سوار ہوئے اور حضرت ابو طلحہ بھی سوار ہوئے اور میں حضرت ابو طلحہ کے ساتھ پیچھے سوار تھا.نبی صلی علیم نے خیبر کی گلی میں گھوڑا دوڑایا اور میرا گھٹنانی ملی یک کم کی ران کے ساتھ چھو رہا تھا.دونوں اتنے قریب قریب تھے اور پھر آپ نے گرمی کی وجہ سے یا ویسے آرام کی وجہ سے اپنی ران سے اپناتہ بند ہٹایا یعنی ٹانگ سے، گھٹنے سے ذرا اوپر کیا تو کہتے ہیں یہاں تک کہ میں نے نبی صلی للی کم کی ان کی سفیدی دیکھی.ران سے مراد یہاں گھٹنے سے اوپر کا حصہ ہے.جب آپ گاؤں میں داخل ہوئے اور فرمایا: اللهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ المُنْذَرِينَ اللہ ہی سب سے بڑا ہے.خیبر ویران ہو گیا ہم جب کسی قوم کے آنگن میں ڈیرہ ڈالتے ہیں تو پھر ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جن کو قبل از وقت عذاب الہی سے ڈرایا گیا ہو.یہ آپ نے تین بار فرمایا.حضرت انس کہتے تھے کہ لوگ اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے تو انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور عبد العزیز کہتے تھے کہ ہمارے بعض ساتھیوں نے محمد کے ساتھ خمیس کا لفظ بھی کہا تھا یعنی فوج.حضرت صفیہ کا ام المؤمنین بننا حضرت انس کہتے تھے کہ ہم نے اسے لڑ کر فتح کیا اور قیدیوں کو اکٹھا کیا گیا تو حضرت دحیہ کلبھی آئے اور کہا اے اللہ کے نبی ! مجھے ان قیدیوں میں سے ایک لونڈی دیجیے.آپ نے فرمایا جاؤ اور ایک لڑکی لے لو.انہوں نے میتی کی بیٹی صفیہ لی.اس پر ایک شخص نبی صلی ایلام کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے نبی! آپ نے دحیہ کو قریظہ اور نفیر کی سردار صفیہ بنت حیی دی ہے.وہ تو صرف آپ ہی کے لائق ہے.آپ نے فرمایا اسے مع صفیہ بلا لاؤ.وہ صفیہ کو لے آئے اور حضرت دحیہ بھی ساتھ تھے.آپ نے حضرت دحیہ کو فرمایا کہ ان قیدیوں میں سے کوئی اور تم لے لو.حضرت انس کہتے تھے کہ نبی صلی علیم نے حضرت صفیہ کو آزاد کر دیا اور پھر ان سے شادی کی.اس پر حضرت ثابت نے حضرت انس سے پوچھا کہ ابو حمزہ ! آنحضرت صلی یکم نے

Page 91

تاب بدر جلد 4 75 اسے کیا مہر دیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے ان کو آزاد کر دیا تھا اور ان سے شادی کر لی اور ان کی آزادی ہی ان کا مہر تھا.آخر جب آپ ابھی راستے میں ہی تھے تو حضرت ام سلیم نے حضرت صفیہ کو آپ کی خاطر آراستہ کیا اور پھر وہاں شادی ہوئی.وہاں آپ کے پاس بھیج دیا اور پھر اس کے بعد کہتے ہیں اگلے دن آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ جس کے پاس کوئی چیز ہو وہ اسے لے آئے اور آپ نے چمڑے کا دستر خوان بچھا دیا.کوئی شخص کھجوریں لانے لگا، کوئی تھی.عبد العزیز نے کہا کہ میراخیال ہے کہ انہوں نے ستو کا بھی ذکر کیا تھا.کہتے تھے پھر انہوں نے ان سب کو آپس میں ملا کر گوندھ دیا اور یہی رسول اللہ صلی الی ظلم کے ویسے کی دعوت تھی.190 ایک دوسری روایت میں اس طرح بھی آتا ہے کہ قلعہ کی فتح کے بعد حضرت صفیہ وحید کے.میں آئیں.صحابہ کرام نے ، بہت سارے صحابی، ایک صحابی نہیں کافی لوگوں نے رسول اللہ صلی علیم کے پاس آکر ان کی تعریف و توصیف کرنی شروع کی اور یہ بھی کہا کہ مقام و مرتبہ کے اعتبار سے حضرت صفیہ کے لیے یہ زیادہ مناسب ہے کہ آپ اپنے لیے انہیں منتخب فرما لیں.آپ ان سے شادی کریں.چنانچہ رسول صلی تعلیم نے حضرت دحیہ کے پاس پیغام بھیجا اور آپ صلی اللہ ہم نے سات غلاموں کے عوض حضرت صفیہ کو خرید کر انہیں ام سلیم کے حوالے کیا تا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ رکھیں.پھر جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ آپ نے پھر ان سے شادی کر لی.191 جنگ حنین میں ہیں کافروں کو قتل کرنے والے حصہ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے اس دن یعنی حسنین کے دن فرمایا کہ شخص کسی کافر کو قتل کرے گا تو اس کا فر کا مال و اسباب اسی شخص کو ملے گا.اس دن حضرت ابوطلحہ نے ہیں کافروں کو قتل کیا اور ان کا سامان بھی لیا.ام سلیم کی بہادری اور حضرت ابو طلحہ نے حضرت اُم سُلیم کو دیکھا کہ ان کے پاس ایک خنجر ہے.انہوں نے پوچھا اے ام سلیم ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر کوئی کافر میرے قریب آئے تو میں اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ دوں.حضرت ابو طلحہ نے رسول اللہ صلی علیکم کو یہ بات بتائی.یہ سنن ابو داؤد کی روایت ہے.192 جہیر الصوت حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الی ایم نے فرمایا کہ لشکر میں تنہا ابوطلحہ کی آواز ایک جماعت پر بھاری ہوتی ہے.بعض دوسری روایات میں ایک جماعت کی بجائے مِأَةً رَجُل یعنی ایک سو آدمیوں اور ألف رجل یعنی ایک ہزار آدمی کا بھی ذکر ملتا ہے کہ ان کی اتنی بلند آواز تھی.193

Page 92

ناب بدر جلد 4 وفات 76 حضرت ابو طلحہ 34 ہجری میں مدینے میں فوت ہوئے اور حضرت عثمان نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.اس وقت آپ کی عمر ستر سال تھی جبکہ اہل بصرہ کے نزدیک آپ کی وفات ایک سمندری سفر کے دوران ہوئی اور ایک جزیرے میں آپ کو دفن کیا گیا.194 شوق جہاد میں نفلی روزہ نہ رکھنا اور بی میلی لیلی کی وفات کے بعد پھر کبھی بے روزہ نہ رہے حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ نبی صلی علیم کے زمانے میں جہاد کی وجہ سے نفلی روزہ نہیں رکھا کرتے تھے تا کہ طاقت کم نہ ہو جائے اور حضرت انس مزید فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی للی کم کی وفات ہوئی تو میں نے سوائے عید الفطر یا عید الاضحی کے دن کے کبھی ان کو بے روزہ نہیں دیکھا.اس کے بعد پھر باقاعدگی سے روزے رکھنے لگ گئے.195 مہمان نوازی جس پر خدا بھی ہنس پڑا حضرت ابو طلحہ کی مہمان نوازی کا ایک واقعہ یوں ملتا ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی ال نیم کے پاس آیا.آپ نے اپنی ازواج کی طرف کسی کو بھیجا.انہوں نے جواب دیا ہمارے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں ہے.رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا اس مہمان کو کون اپنے ساتھ رکھے گا یا فرمایا اسے کون مہمان ٹھہرائے گا؟ انصار میں سے ایک شخص بولا میں.چنانچہ وہ اسے اپنے ساتھ لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور کہار سول اللہ صلی علیم کے مہمان کی نہایت اچھی خاطر تواضع کرو.وہ بولی ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں مگر اتنا ہی کھانا ہے جو میرے بچوں کے لیے مشکل سے کافی ہو.اس نے کہا اپنے اس کھانے کو تیار کر لو اور چراغ بھی جلاؤ اور اپنے بچوں کو جب وہ شام کا کھانا مانگیں سلا دینا.چنانچہ اس نے اپنا کھانا تیار کیا اور چراغ کو جلایا.پھر اپنے بچوں کو سلا دیا.اس کے بعد وہ اٹھی جیسے چراغ درست کرتے ہیں تو اس نے اس کو بجھا دیا.وہ دونوں اس مہمان پر یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویاوہ بھی کھا رہے ہیں مگر ان دونوں نے خالی پیٹ رات گزاری.جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی علیکم کے پاس گیا.آپ نے فرمایا آج رات اللہ ہنس پڑا یا فرمایا تمہارے دونوں کے کام سے بہت خوش ہوا اور اللہ نے یہ وحی نازل کی کہ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر: 10) اور وہ خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں خود سنگی در پیش تھی.پس جو کوئی بھی نفس کی خساست سے بچایا جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.نبی اکرم علیا روم کے بالوں کا تبرک لینے والے پہلے حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی ایم نے ایک مرتبہ جب بال اتروائے تو حضرت 196

Page 93

ابو بدر جلد 4 77 تھے جنہوں نے آپ کے بالوں میں سے کچھ بال لیے.7 197 نبی اکرم صلی ایم کی ایک بابرکت دعوت.چند روٹیاں اسی افراد کے لئے کافی حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ حضرت ابو طلحہ نے حضرت ام سلیم سے کہا.میں نے رسول اللہ صلی یی کم کی آواز کمزور سنی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو بھوک ہے.کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کی چیز ہے ؟ حضرت اُمِ سلیم نے کہا ہاں.یہ کہہ کر جو کی کچھ روٹیاں نکال لائیں.پھر انہوں نے اپنی ایک اوڑھنی نکالی.انہوں نے روٹیوں کو اس کے ایک کنارے میں لپیٹ دیا اور وہ میرے ہاتھ میں دے دیں اور اوڑھنی کا کچھ حصہ میرے بدن پر لپیٹ دیا.پھر انہوں نے رسول اللہ صلی علیکم کی طرف مجھے بھیجا.حضرت انس کہتے تھے کہ میں وہ لے کر چلا گیا تو رسول اللہ صلی علی یکم کو مسجد میں پایا.آپ کے ساتھ کچھ لوگ تھے.میں پاس کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی علیکم نے مجھے فرمایا کیا ابوطلحہ نے تجھے بھیجا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں.آپ نے فرمایا کہ کھانا دے کر بھیجا ہے ؟ میں نے کہا جی.رسول اللہ صلی ال یکم نے ان لوگوں سے کہا جو آپ کے پاس تھے کہ چلو اٹھو.بجائے وہ کھانا لینے کے آپ نے ان کو بھی ساتھ لیا.وہ کھانا لے کر ہی آپ چل پڑے اور میں آپ کے آگے ہی چل پڑا اور حضرت ابوطلحہ کے پاس پہنچا اور ان کو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ کی تو ادھر ہی آ رہے ہیں.حضرت ابو طلحہ کہنے لگے کہ اُمِ سلیم ! رسول اللہ صلى الالم لوگوں کو لے آئے ہیں اور ہمارے پاس اتنا کھانا نہیں جو اُن کو کھلائیں.چند روٹیاں تھیں وہ تو بھیج دی تھیں.وہی واپس آرہی ہیں.وہ بولیں اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.حضرت ابو طلحہ گئے اور جاکر رسول اللہ صلی علیم سے ملے.پھر آپ جلدی جلدی گھر سے گئے.حضرت انس پہلے پہنچ گئے تھے.رسول اللہ صلی ایم آئے.حضرت ابو طلحہ آپ کے ساتھ تھے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ای سلیم جو تمہارے پاس ہے وہ لے آؤ.وہ روٹیاں لے آئیں تو رسول اللہ صلی الی یکم نے ان کے متعلق فرمایا توڑو ان کو.وہ توڑی گئیں.حضرت اُمِ سلیم نے گھی کی ایک کپی نچوڑی اور اس کو بطور سالن ان کے سامنے پیش کیا.پھر رسول اللہ صلی علی یم نے ان روٹیوں پر دعا کی جو دعا اللہ نے چاہی کہ کریں.پھر آپ نے فرمایا کہ دس آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دو.ان کو اجازت دی اور لوگوں نے اتنا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے اور پھر باہر چلے گئے.پھر آپ نے فرما یا دس اور آدمیوں کو اجازت دو.ان کو اجازت دی اور لوگوں نے اتنا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے اور باہر چلے گئے.پھر آپ نے فرما یا دس اور آدمیوں کو اجازت دو.ان کو اجازت دی اور انہوں نے اتنا کھایا کہ ان کے پیٹ بھر گئے.وہ باہر چلے گئے.پھر آپ نے فرمایا دس اور آدمیوں کو اجازت دو.ان کو اجازت دی اور لوگوں نے اتنا کھانا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے اور باہر چلے گئے.غرض ان سب لوگوں نے کھایا اور پیٹ بھر کر کھایا اور وہ لوگ ستر یا اسی آدمی تھے.آنحضرت صلی للی نام کی دعا کی برکات کا بھی یہاں ذکر ملتا ہے.یہی وہ روایت ہے.198

Page 94

اصحاب بدر جلد 4 78 سب سے زیادہ محبوب خدا کی راہ میں قربان حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ابو طلحہ مدینے میں تمام انصاریوں سے کھجوروں کے زیادہ باغ رکھتے تھے اور ان کو سب سے زیادہ پیاری جائیداد بیر حاء کا باغ تھا جو مسجد کے سامنے تھا اور نبی صلی اللہ تم اس میں آیا کرتے تھے اور وہاں کا صاف ستھرا پانی پیا کرتے تھے.حضرت انس کہتے تھے کہ جب یہ آیت اتری کہ : لَن تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران: 33) تم ہر گز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو.حضرت ابوطلحہ کھڑے ہو گئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَا تُحِبُّونَ تم ہر گز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو اور میری جائیداد میں سے مجھے سب سے پیارا باغ بیر حاء ہے اور وہ اللہ کے لیے صدقہ ہے.اب میں اللہ کے لیے صدقہ دیتا ہوں.میں امید کرتا ہوں کہ اللہ کے ہاں مقبول نیکی ہو گی اور بطور ذخیرے کے ہو گی.اس لیے جہاں اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھائے وہاں اسے خرچ کریں.آپ نے فرما یا شاباش یہ فائدہ دینے والا مال ہے یا فرمایا ہمیشہ رہنے والا مال ہے.آپ نے فرمایا کہ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا ہے.میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے قریبیوں میں ہی بانٹ دو.ابو طلحہ نے کہا یارسول اللہ ! حضور کے ارشاد کی تعمیل میں ایسے ہی کیے دیتا ہوں.چنانچہ ابوطلحہ نے اس باغ کو اپنے قریبیوں اور اپنے چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا 199 ایک اور اعزاز اور سعادت حضرت ابو طلحہ کو یہ اعزاز اور سعادت بھی حاصل ہے کہ وہ آنحضور صلی لی یم کی ایک بیٹی کی وفات پر آپ صلی علیم کے ارشاد پر اس کی قبر میں اترے اور حضور کی صاحبزادی کی نعش مبارک کو قبر میں اتارا.200 ہم نے تمہارے گھوڑے کو دریا پایا حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک بار مدینہ والے یکا یک گھبر اگئے.نبی صلی علیکم حضرت ابو طلحہ کے گھوڑے پر سوار ہوئے جو آہستہ چلتا تھا یا یہ کہا کہ جس کی رفتار ست تھی.جب آپ کوٹے تو آپ نے حضرت ابو طلحہ کو فرمایا کہ ہم نے تو تمہارے گھوڑے کو ایک دریا پایا ہے.بہت تیز چلتا ہے.اس کے بعد اس گھوڑے کا چلنے میں کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا.201 دلجوئی اور مزاح حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کی ہم سے مل جل جاتے تھے.میرے چھوٹے بھائی

Page 95

ناب بدر جلد 4 79 سے مزاحاً فرماتے کہ اے ابو عمیر الغیر نے کیا کیا؟ ابو عمیر نے ایک چڑیا پالی ہوئی تھی.تغیر چڑیا کو کہتے ہیں.وہ مرگئی تو ان کو اس کا بڑا صدمہ تھا.وہ یا اڑگئی یا مر گئی.تو بہر حال مذاقاً اسے یہ فرماتے تھے.اس کی وجہ سے اس بچے کو چھیڑتے تھے.اکثر ایسا ہو تا کہ نماز کا وقت ہو جاتا اور نبی صلی ہی کم ہمارے گھر میں ہوتے تو آپ اس بستر کو بچھانے کا حکم فرماتے جس پر آپ تشریف فرما ہوتے.چنانچہ ہم اس کو بچھاتے اور صاف کرتے.پھر آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے اور ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے.12 اپنے مونہہ میں چبائی ہوئی کھجور کی گھٹی اور نام رکھنا 202 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن ابو طلحہ انصاری کی ولادت ہوئی.ان کے بھائی کی، ابو طلحہ کے بیٹے کی جو ان کی ماں کی طرف سے بھائی تھے تو میں اسے لے کر رسول اللہ صلی یی کم کی خدمت میں حاضر ہوا.رسول اللہ صلی علی یکم اپنی عباء اوڑھے ہوئے تھے اور اپنے اونٹ کو تار کول لگا رہے تھے.آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس کھجور ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں.میں نے چند کھجور میں آپ کی خدمت میں پیش کیں جنہیں آپ نے منہ میں ڈالا اور پھر انہیں اچھی طرح چبایا.پھر بچے کا منہ کھولا اور اسے بچے کے منہ میں ڈالا تو وہ بچہ اسے چوسنے لگا.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ انصار کی کھجور سے محبت.یعنی بچے کو بھی یہ پسند آئی اور آپ نے اس بچے کا نام عبد اللہ رکھا.13 بہادر ماں کا قابل رشک صبر ورضا حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ کا ایک بیٹا بیمار تھا.حضرت ابو طلحہ باہر گئے تو بچے کی وفات ہو گئی.جب حضرت ابو طلحہ واپس لوٹے تو انہوں نے بیوی سے پوچھا: بیٹے کا کیا حال ہے ؟ حضرت اُم سلیم نے کہا کہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے.پھر انہوں نے رات کا کھانا پیش کیا.انہوں نے کھایا.رات گزاری اور پھر بتایا کہ بچے کی وفات ہو گئی ہے اس کو جا کے دفتا آؤ.چنانچہ صبح حضرت ابوطلحہ نے یہ بات آنحضرت صلی للی کم کی خدمت میں عرض کی.آنحضرت صلی للہ ہم نے انہیں اولاد کی دعادی اور اس کے بعد پھر ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا.204 حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعے کا یوں تذکرہ فرمایا ہے کہ مومن کے لیے جان کی قربانی پیش کرنا در حقیقت چیز ہی کوئی نہیں ہے.پھر آپؐ فرماتے ہیں کہ غالب کے متعلق لوگ بخشیں کرتے ہیں کہ وہ شراب پیا کرتا تھا یا نہیں پیا کرتا تھا مگر آپ فرماتے ہیں میر ا تو وہ رشتے دار ہے اور میں نے اپنی نانیوں اور پھوپھیوں سے سنا ہوا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا.تو ایسا شخص جو شراب کا عادی تھاوہ بھی کہتا ہے کہ: جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا یعنی اگر ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتے ہیں تو کیا ہوا.یہ جان بھی تو اسی کی دی ہوئی تھی.پس خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اگر کوئی شخص جان بھی دے دیتا ہے تو وہ کوئی بڑی قربانی نہیں کرتا کیونکہ

Page 96

اصحاب بدر جلد 4 80 وہ جان بھی اسی کی چیز ہے اور کسی کی امانت کو واپس کر دینا بڑی قربانی نہیں ہو تا.آپ فرماتے ہیں کہ احادیث میں ایک صحابیہ ام سلیم کا ہی یہ قصہ آتا ہے کہ رسول کریم صلی الم نے اس کے شوہر ابو طلحہ کو کسی اسلامی خدمت کے سلسلہ میں باہر بھیجا.ان کا بچہ بیمار تھا اور ان کو اپنے بچے کی بیماری کا قدرتی طور پر فکر تھا.وہ صحابی جب واپس آئے تو ان کی غیر حاضری میں ان کا بچہ فوت ہو چکا تھا.ماں نے اپنے مردہ بچے پر کپڑا ڈال دیا.وہ نہائی، دھوئی اور خوشبو لگائی اور بڑے حوصلے کے ساتھ اس نے اپنے خاوند کا استقبال کیا.وہ صحابی جب گھر آئے تو انہوں نے آتے ہی سوال کیا کہ بچے کا کیا حال ہے ؟ اس صحابیہ نے جواب دیا بالکل آرام سے ہے.انہوں نے کھانا کھایا.پھر تسلی کے ساتھ آرام سے لیٹ گئے اور تعلقات زوجیت بھی پورے کیے.جب وہ اپنی بیوی سے مل چکے تو بیوی نے کہا کہ میں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتی ہوں.خاوند نے جواب دیا کیا؟ بیوی نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھ جائے اور کچھ عرصہ کے بعد وہ چیز واپس لینا چاہے تو کیا وہ چیز اسے واپس کی جائے یانہ کی جائے؟ انہوں نے جواب دیا وہ کون بیوقوف ہو گا جو کسی کی امانت کو واپس نہیں کرے گا.بیوی نے کہا آخر اسے افسوس تو ہو گا کہ میں امانت واپس کر رہا ہوں.انہوں نے جواب دیا افسوس کس بات کا ؟ وہ چیز اس کی اپنی نہیں تھی.اگر وہ اسے واپس کر دے تو اسے کیا افسوس ہو سکتا ہے.بیوی نے کہا اچھا اگر یہ بات ہے تو ہمارا بچہ جو خدا تعالیٰ کی ایک امانت تھی اسے خدا تعالیٰ نے ہم سے واپس لے لیا.اور یہ حوصلہ تھا جو اس وقت کی عورتوں میں پایا جاتا تھا.پس جان کا دینا تو کوئی چیز ہی نہیں خصوصاً مومن کے لیے تو یہ ایک معمولی بات ہوتی ہے.15 ولڑ کے اور سب قرآن کے قاری 205 پھر جو حدیث پہلے بیان ہو چکی ہے اس کے مطابق آنحضرت صلی للی یکم نے ان کو یہ دعادی بعد میں ان کے بچے پیدا ہوئے.فوری طور پر کچھ عرصے بعد ان کا بیٹا پید اہوا اور پھر اتنا نوازا اللہ تعالیٰ نے کہ انصار میں سے ایک شخص نے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابو طلحہ کے نو بچے دیکھے اور وہ سب نو لڑکے قرآن کے قاری تھے.206 نبی اکرم علی ایم کا ایک پیالہ عاصم احول بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم کی تعلیم کا پیالہ حضرت انس کے پاس دیکھا.اس میں دراڑ پڑ گئی تھی.حضرت انس نے اسے چاندی سے جوڑ دیا تھا.وہ ایک خوبصورت چوڑا اور عمدہ لکڑی کا بناہو اپیالہ تھا.حضرت انس نے بتایا کہ میں نے اس پیالے میں نبی کریم صلی لیلی کیم کو بار باپانی پلایا ہے.ابن سیرین کہتے ہیں کہ وہ پیالہ لوہے کی تار سے جڑا ہوا تھا.حضرت انس نے ارادہ کیا کہ اس کی جگہ سونے یا چاندی سے جڑوا دیں لیکن حضرت ابو طلحہ نے ان سے کہا کہ جسے رسول اللہ صلی علیم نے بنایا ہے اس میں ہر گز کوئی تبدیلی نہ کرو.چنانچہ انہوں نے ارادہ چھوڑ دیا.207

Page 97

ب بدر جلد 4 شراب کے مٹکے توڑ دیئے 81 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو طلحہ انصاریؒ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور حضرت ابی بن کعب کو کھجور کی شراب پلا رہا تھا کہ اتنے میں ایک آنے والے شخص نے آکر خبر دی کہ شراب حرام کر دی گئی ہے.حضرت ابو طلحہ نے اس شخص کی خبر سنتے ہی کہا کہ اے انس ! ان مٹکوں کو توڑ دو.حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے مٹکوں کے نچلے حصوں پر ایک پتھر سے مار کے انہیں توڑ دیا.208 نبی اکرم علی رام کی قبر تیار کرنے کی سعادت پانے والے حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی علیم کی وفات ہوئی تو مدینے میں ایک شخص تھا جو لحد بناتا تھا اور ایک اور تھا جو سیدھی قبر بناتا تھا.صحابہ نے کہا کہ ہم اپنے رب سے استخارہ کرتے ہیں اور دونوں کو بلا بھیجتے ہیں.دونوں میں سے جو بعد میں آئے گا اس کو ہم چھوڑ دیں گے.یعنی جو پہلے آئے گا اس سے کام کروالیں گے.چنانچہ دونوں کی طرف پیغام بھیجا گیا تو لحد والا پہلے آیا اس پر صحابہ نے نبی کریم صلی الم کی لحد بنائی.اس کی شرح میں علامہ بوصیری نے لکھا ہے کہ لحد والی قبر بنانے والے حضرت ابو طلحہ تھے اور سیدھی قبر بنانے والے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح تھے.209 31 نام و نسب و کنیت امین الامت کامیاب بہادر سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اسلام میں ابو عبیدہ جیسے پیدا کیے.حضرت عمرؓ حضرت ابو عبیدہ بن جراح کا نام عامر بن عبد اللہ تھا اور ان کے والد کا نام عبد اللہ بن جراح تھا.حضرت ابو عبیدہ اپنی کنیت کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں جبکہ آپ کے نسب کو آپ کے دادا جراح سے جوڑا جاتا ہے.آپ کی والدہ کا نام اُمیمہ بنتِ غَنم تھا اور آپ کا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بَنُو حَارِث بن فھر سے تھا.210

Page 98

تاب بدر جلد 4 82 حضرت ابوعبیدہ کا یہ حلیہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا قد لمبا تھا، جسم نحیف تھا، دبلے پتلے تھے اور چہرے پر کم گوشت تھا.سامنے کے دو دانت غزوۂ احد کے موقعے پر رسول اللہ صلی علم کے رخسار میں پھنسے ہوئے خود کے حلقوں کو نکالتے ہوئے ٹوٹ گئے تھے.آپ کی داڑھی زیادہ گھنی نہ تھی اور آپ خضاب کا استعمال کیا کرتے تھے.211 شادی اور اولاد حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے متعد د شادیاں کی تھیں مگر ان میں صرف دو بیویوں سے اولاد ہوئی.آپ کے دو بیٹے تھے ایک کا نام یزید اور دوسرے کا نام تخمیر تھا.212 عشرہ مبشرہ میں سے ایک حضرت ابو عبیدہ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی الیم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی، جن کو عشرہ مبشرہ کہتے ہیں.213 حضرت ابو عبیدہ کا شمار قریش کے باوقار ، با اخلاق اور باحیالوگوں میں ہوتا تھا.قبول اسلام 214 حضرت ابو عبیدہ نے حضرت ابو بکر کی تبلیغ سے اسلام قبول کیا.اس وقت مسلمان ابھی دارِ ارقم میں پناہ گزیں نہیں ہوئے تھے اس سے پہلے کی بات ہے.حضرت ابو عبیدہ بن جراح کا اسلام لانے میں نواں نمبر ہے.215 میری امت کا امین حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا: ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور میری امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح نہیں.216 صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کے مطابق نجران کے لوگ جبکہ صحیح مسلم کی ایک اور روایت کے مطابق یمن کے لوگ آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے ساتھ کسی ایسے شخص کو بھیجیں جو ہمیں دین سکھائے.ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ شخص کو بھیجیں.اس پر آنحضرت صلی الم نے فرمایا: میں ضرور تمہارے ساتھ ایک ایسے امین کسی امین ں کو بھیجوں گا جو اس کا حق ادا کرنے والا ہے.اس پر آپ صلی علیکم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا هذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ.یہ اس امت کا امین ہے.217

Page 99

اصحاب بدر جلد 4 بلند مقام و مرتبه 83 218 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ ابو بکر، عمر، ابو عبیدہ بن جراح، اُسید بن حضیر، ثابت بن قیس بن شماس ، معاذ بن جبل اور مُعاذ بن عمرو بن جموح کتنے اچھے انسان ہیں.یعنی آپ نے ایک مرتبہ ان کی تعریف فرمائی.ایک مجلس میں ان کا ذکر ہوا ہو گا جس کی مثال حضرت ابوہریرہ بیان کر رہے ہیں.ایک مرتبہ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ اگر رسول اللہ صلی علیہ ہم اپنے بعد کسی کو جانشین بناتے تو کسے بناتے ؟ اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا حضرت ابو بکر ھو.لوگوں نے پوچھا اور حضرت ابو بکر کے بعد کیسے ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا حضرت عمر کو.لوگوں نے پوچھا حضرت عمرؓ کے بعد کسے ؟ تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو.یہ صحیح مسلم کی روایت ہے.219 ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن شقیق نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی علیکم کو اپنے صحابہ میں سب سے زیادہ محبوب کون تھا ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا حضرت ابو بکر.اس نے پوچھا کہ حضرت ابو بکر کے بعد کون ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا حضرت عمرؓ.اس نے پوچھا کہ حضرت عمرؓ کے بعد کون؟ حضرت عائشہ نے فرمایا حضرت ابو عبیدہ بن جراح.پھر اس نے پوچھا اس کے بعد کون ؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت عائشہ خاموش رہیں.220 اگر آج ابو عبیدہ زندہ ہوتے تو انہیں خلیفہ نامزد کرتا 221" سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ : ”حضرت عائشہ کی نظر میں ابو عبیدہ کی اتنی قدر و منزلت تھی کہ وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر حضرت عمرؓ کی وفات پر ابو عبیدہ زندہ ہوتے تو وہی خلیفہ ہوتے.“ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا کہ اگر آج حضرت ابو عبیدہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلیفہ نامزد کرتا اور اگر میر ارب مجھ سے اس بارے میں پوچھتا کہ تم نے اسے کیوں نامزد کیا ہے تو میں عرض کرتا کہ میں نے تیرے نبی صلی علیم سے سنا ہے کہ ابو عبیدہ اس امت کا امین ہے.اس لیے اسے جانشین بنایا ہے.222 ایمان لانے پر تکالیف اور ہجرت جب حضرت ابو عبیدہ ایمان لائے تو ان کے والد نے ان کو بہت تکالیف پہنچائیں.آپ ہجرت حبشہ میں بھی شریک تھے.حضرت ابو عبیدہ مدینہ ہجرت کر کے آئے تو آنحضور صلی علی پیر کا چہرہ انہیں دیکھ کر تمتما اٹھا.حضرت عمرؓ نے آگے بڑھ کر معانقہ کیا اور آپ نے حضرت کلثوم بن ہرم کے گھر قیام کیا.ام کلثوم نہیں بلکہ حضرت کلثوم بن ھذہ کے گھر قیام کیا.223

Page 100

تاب بدر جلد 4 مواخات 84 حضرت ابو عبیدہ کی مواخات کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں.بعض کے مطابق رسول اللہ صلی ال نیلم نے حضرت ابو عبیدہ کی مواخات حضرت ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالم کے ساتھ فرمائی.بعض کے نزدیک آنحضور صلی علیم نے آپ کی مواخات حضرت محمد بن مسلمہ کے ساتھ قائم فرمائی اور بعض کے نزدیک آپ کی مؤاخات حضرت سعد بن معاذ کے ساتھ قائم فرمائی.224 تمام غزوات میں شرکت حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے غزوہ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی ال نیم کے ساتھ شرکت کی.225 غزوہ بدر کے وقت حضرت ابو عبیدہ بن جراح کی عمر 41 سال تھی.جذبہ توحید نسبی تعلق پر غالب آیا اور بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا 226 غزوہ بدر کے روز حضرت ابو عبیدہ بن جراح مسلمانوں کی طرف سے میدانِ جنگ میں آئے اور آپ کا باپ عبد اللہ کفار کی طرف سے میدان میں آیا.باپ بیٹا آمنے سامنے ہوئے.باپ نے جنگ کے دوران بیٹے کو نشانہ بنانا چاہا مگر حضرت ابو عبیدہ پطرح دیتے رہے، ایک طرف نکلتے رہے ، بچتے رہے مگر باپ نے پیچھانہ چھوڑا.باپ کی کوشش تھی کہ آپ کو کسی طرح مار دے.آپ کو بھی موقع تھا، آپ بھی یہ کر سکتے تھے لیکن آپ یہی کوشش کرتے رہے کہ باپ سے بچتے رہیں.نہ اس کو ماریں اور خود بھی بچے ر ہیں.جب حضرت ابو عبیدہ نے دیکھا کہ باپ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا تو جذ بہ توحید نسبی تعلق پر غالب آیا.پھر رشتہ داری کوئی چیز نہیں رہی.جب آپ نے دیکھا کہ اب تو یہ پکا ارادہ کیے بیٹھا ہے کہ مجھے مارنا ہے اور صرف اس لیے مارنا ہے کہ میں توحید پر ایمان لے آیا ہوں اور لکھا ہے کہ جذبہ توحید نسبی تعلق پر غالب آیا اور جب یہ ہو گیا، جب دیکھا کہ پیچھا نہیں چھوڑ رہا تو پھر عبد اللہ جو اُن کا باپ تھا اپنے ہی بیٹے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے ہاتھوں قتل ہوا.آخر اُس کو پھر مجبوراً ان کو مارنا پڑا.227 نبی اکرم صلی ا م کو زخمی کرنے والا بد عا کا شکار ہو گیا غزوہ احد کے دن عبد اللہ بن قمیہ نے آنحضور صلی علیکم کو زور سے پتھر مارا جس سے آپ صلی لیلی کم چہرہ مبارک زخمی ہو گیا اور آپ صلی علی کرم کے دندانِ مبارک شہید ہو گئے.اس پر اس نے نعرہ مارا کہ یہ لو کہ میں ابن قمیہ ہوں.رسول اللہ صلی علیم نے اپنے چہرہ مبارک سے خون صاف کرتے ہوئے فرمایا اللہ تجھے رسوا کرے.راوی کہتے ہیں کہ پھر ایسا ہوا کہ اللہ نے اس پر ایک پہاڑی بکر امسلط کر دیا جس نے اسے مسلسل سینگ مارے یہاں تک کہ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.228

Page 101

85 اصحاب بدر جلد 4 رسول کریم صلی ا یوم کے چہرہ مبارک سے کڑیاں نکالتے ہوئے دو دانت ٹوٹ گئے اس واقعے کے بارے میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضرت ابو بکر بیان فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن جب رسول اللہ صلی علیم کے چہرے پر پتھر مارا گیا تو وہ اتنے زور سے لگا کہ آپ کے خود کے دو حلقے ٹوٹ کر ، اس کی کڑیاں جو تھیں وہ ٹوٹ کر آپ کے چہرہ مبارک میں پیوست ہو گئیں.اس پر شخص حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ میں دوڑتا ہوا رسول اللہ صلی میں کمی کی طرف گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک اتنی تیزی سے آپ صلی للی کم کی طرف بڑھ رہا تھا گویا کہ اُڑ کر آرہا ہو.اس پر میں نے دعا کی کہ اے اللہ ! اس شخص کو خوشی کا موجب بنا.یعنی یہ جو دوڑا جا رہا ہے یہ آنحضرت صلی علیم کے لیے بھی، ہمارے لیے بھی خوشی کا موجب بنے.جب ہم رسول اللہ صلی علیکم کے پاس پہنچے تو میں نے دیکھا کہ وہ ابو عبیدہ بن جرائح تھے جو مجھ سے سبقت لے گئے.انہوں نے مجھ سے کہا : اے ابو بکر ! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے رسول اللہ صلی نیلم کے رخسار مبارک سے ان حلقوں کو نکالنے دیں یعنی وہ جو خود کے اندر جبڑے میں چبھ گئے تھے ان کو نکالنے دیں.حضرت ابو بکر فرماتے ہیں کہ میں نے انہیں ایسا کرنے دیا.پس حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے خود کے ان دو حلقوں میں سے ایک کو اپنے دانت سے پکڑا اور اتنے زور سے کھینچا.اتنے مضبوطی سے وہ اندر گڑھ گئے تھے کہ جب کھینچ کر نکالا تو آپ کمر کے بل زمین پر گر گئے اور آپ کا سامنے کا ایک دانت ٹوٹ گیا.پھر آپ نے دوسرے حلقے کو بھی دانتوں سے پکڑ کر زور سے کھینچ کر باہر نکالا کہ آپ کا سامنے کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا.غزوہ احد کے موقعے پر جب لوگ منتشر ہو گئے تھے تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ صلی علی نیم کے پاس ثابت قدم موجود رہے.صلح نامہ حدیبیہ پر بطور گواہ دستخط 229 ذوالقعدہ چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب صلح نامہ لکھا گیا تو اس معاہدے کی دو نقلیں تیار کی گئیں اور بطور گواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پر اپنے دستخط کیے.مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں سے حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح تھے.230 سریہ ذوالقصہ رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو کئی سرایا، سریہ کی جمع سر ایا مطلب ہے جنگوں میں بھجوایا تھا.جو expeditions ہوتی ہیں ان میں بھجوایا تھا.ذوالقصّہ کی طرف سریہ : یہ سریہ ربیع الآخر چھ ہجری میں بھجوایا گیا تھا.اس کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اپنی تصنیف سیرت خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ : ربیع الآخر کے مہینہ میں آنحضرت صلی الی رام نے حضرت محمد بن مسلمہ انصاری کو ذوالقصہ کی طرف روانہ فرمایا

Page 102

86 اصحاب بدر جلد 4 جو مدینہ سے چوبیس میل کے فاصلہ پر تھا جہاں ان ایام میں بنو ثعلبہ آباد تھے.حضرت محمد بن مسلمہ اور ان کے دس ساتھی رات کے وقت وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس قبیلہ کے سو نوجوان جنگ کے لیے تیار بیٹھے ہیں.صحابہ کی جماعت سے یہ پارٹی تعداد میں دس گنا زیادہ تھی.حضرت محمد بن مسلمہ نے فوراً اس لشکر کے سامنے صف آرائی کر لی.اگر جنگ کی نیت سے گئے ہوتے تو اتنی تھوڑی تعداد میں نہ ہوتے.اور فریقین کے درمیان رات کی تاریکی میں خوب تیر اندازی ہوئی.اس کے بعد کفار نے صحابہ کی مٹھی بھر جماعت پر دھاوا بول دیا اور چونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی ایک آن کی آن میں یہ دس فدائیان اسلام خاک پر تھے.یعنی شہید ہو گئے.حضرت محمد بن مسلمہ کے ساتھی تو سب شہید ہو گئے مگر خود حضرت محمد بن مسلمہ بچ گئے کیونکہ کفار نے انہیں دوسروں کی طرح مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا اور ان کے کپڑے وغیرہ اتار کرلے گئے.غالباً حضرت محمد بن مسلمہ بھی وہاں پڑے پڑے فوت ہو جاتے مگر حسن اتفاق سے ایک اور مسلمان کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے حضرت محمد بن مسلمہ کو پہچان کر انہیں اُٹھا کر مدینہ پہنچادیا.آنحضرت صلی الله علم کو جب ان حالات کا علم ہوا تو آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو جو قریش میں سے تھے اور کبار صحابہ میں شمار ہوتے تھے حضرت محمد بن مسلمہ کے انتقام کے لیے ذوالقصہ کی طرف روانہ فرمایا اور چونکہ اس عرصہ میں یہ بھی اطلاع موصول ہو چکی تھی کہ قبیلہ بنو ثعلبہ کے لوگ مدینہ کے مضافات پر حملہ کا ارادہ رکھتے ہیں اس لیے آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن جزاح کی کمان میں چالیس مستعد صحابہ کی جماعت بھجوائی اور حکم دیا کہ راتوں رات سفر کر کے صبح کے وقت وہاں پہنچ جائیں.حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے تعمیل ارشاد میں یلغار کر کے عین صبح کی نماز کے وقت انہیں جاد بایا اور وہ اس اچانک حملہ سے گھبر ا کر تھوڑے سے مقابلہ کے بعد بھاگ نکلے اور قریب کی پہاڑیوں میں غائب ہو گئے.حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے مالِ غنیمت پر قبضہ کیا اور مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے.231 یہ حملہ ظلم کا بدلہ لینے کے لیے یا سزا دینے کے لیے کیا گیا تھا.سریہ ذات السلاسل دوسری جو ایک جنگ تھی اس کا نام ذات السلاسل تھا.اس سریہ کو ذات السلاسل کہنے کی وجہ یہ ہے کہ دشمنوں نے اس خوف سے آپس میں ایک دوسرے کو زنجیروں سے باندھ لیا تھا کہ وہ اکٹھے ہو کر لڑ سکیں اور کوئی بھاگ نہ سکے.ایک صف بنا کر لڑ سکیں یا جس طرح بھی صفیں بنی تھیں اکٹھے اکٹھے رہیں.اس کی ایک اور وجہ بھی ملتی ہے کہ اس جگہ پر ایک چشمہ تھا جس کا نام السّلسَل تھا.بعض کے نزدیک آٹھ ہجری اور بعض کے نزدیک سات ہجری میں رسول اللہ صلی اللی کم کو خبر ملی کہ قبیلہ بنو قضاعہ کے لوگ ینے پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنارہے ہیں.آپ صلی اللہ ہم نے حضرت عمرو بن عاص کو تین سو مہاجرین اور انصار کے ساتھ اس کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایا جن کے ہمراہ تیس گھوڑے تھے.یہ جگہ مدینے سے دس دن کی مسافت پر تھی.حضرت عمرو

Page 103

ب بدر جلد 4 87 بن عاص نے بنو قضاعہ کے علاقے میں پہنچ کر وہاں سے حضور صلی لی ہم کو پیغام بھیجا کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے کمک بھیجی جائے، مزید فوج بھیجیں.آپ صلی تعلیم نے پیغام ملتے ہی دو سو مہاجرین اور آپ انصار کی جماعت حضرت ابو عبیدہ بن جراح کی قیادت میں مدد کے لیے روانہ فرما دی اور ہدایت فرمائی کہ عمرو کے ساتھ جاکر ملیں اور اختلاف نہ کریں.یعنی جو بھی فیصلہ کرنا ہے ایک ہو کے کیا جائے.جب یہ فوج حضرت عمرو بن عاص کی فوج سے مل گئی تو تمام لشکر کی امارت کا سوال پیدا ہوا.حضرت ابو عبید ہا اگر چہ اپنے مرتبہ کے لحاظ سے امارت کے مستحق تھے مگر جب حضرت عمرو بن عاص نے اصرار کیا کہ میں ہی ساری فوج کی قیادت کروں گا تو حضرت ابو عبیدہ نے خوش دلی سے ان کی قیادت قبول کر لی کیونکہ آنحضرت صلی علیکم کا حکم بھی تھا کہ اختلاف نہیں کرنا اور ان کی زیر امارت نہایت بہادری سے دشمنوں کے خلاف لڑائی لڑے یہاں تک کہ دشمن کو شکست ہو گئی.جب کامیابی کے بعد مدینہ واپس آئے تو آپ صلی علی یکم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کی اطاعت کی کیفیت سنی تو فرمایا رحمه الله ابا عُبَيْدَہ کہ ابو عبیدہ پر اللہ کی رحمت ہو کہ اس نے یہ اطاعت کا معیار قائم کیا.12 232 سریہ سیف البحر پھر ہے سریہ سیف البخر.یہ وہ ساری جنگیں ہیں جن کی فوجوں میں آنحضرت صلی اللہ ہم شامل نہیں ہوتے تھے.یہ سر یہ ہیں.یہ سر یہ آٹھ ہجری میں ساحل سمندر کی طرف روانہ ہو ا جہاں بنو جهینه کا ایک قبیلہ آباد تھا.اس سریہ کو جیش الخبط بھی کہا جاتا ہے.اس نام کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ خوراک کی کمی کے باعث صحابہ ایسے درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے جنہیں خَبظ کہا جاتا تھا.خَبَط کے ایک معنی پتے جھاڑنے کے بھی ہے.اس سریہ کا ذکر صحیح بخاری میں ہے اور وہ اس طرح بیان ہوا ہے.حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال یکم نے ہمیں بھیجا.ہم تین سو سوار تھے.ہمارے امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح تھے.قریش کے تجارتی قافلے کی نگرانی میں بیٹھ گئے.یہاں کوئی جنگ کا ارادہ نہیں تھا.قریش کے قافلے کی نگرانی کرنی تھی.سمندر کے کنارے ہم آدھا مہینہ ٹھہرے رہے اور ہمیں سخت بھوک لگی.یہاں تک کہ ہم نے پتے بھی کھائے.بعض مواقع پر جب سریہ میں جاتے تھے تو ان میں جنگوں کی نیت سے نہیں جاتے تھے بلکہ اور مقصد ہوتے تھے اور بعض دفعہ پھر جنگوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا اس لیے دونوں لحاظ سے یہ سر یہ ایسی مہم کہلاتے ہیں جس میں آنحضرت صلی الی یکم شریک نہیں تھے.بہر حال کہتے ہیں یہاں تک کہ ہم نے پتے بھی کھائے.اس لیے اس فوج کا نام جیش اسمندر الخبط رکھا گیا.اس اثنا میں سمندر نے ہمارے لیے ایک جانور جس کو عنبر کہتے ہیں پھینک دیا یعنی سے ایک جانور مر کے باہر آیا یا ویسے ہی باہر آیا اور خشکی میں آکر وہ پانی کے بغیر رہ نہیں سکا تو مر گیا.بہر حال کہتے ہیں سمندر سے ایک جانور آیا.وہ مچھلی ہی تھی، بہت بڑی مچھلی.ہم اس کا گوشت آدھا مہینہ کھاتے رہے اور اس کی چربی بدن پر ملا کرتے تھے یہاں تک کہ ہمارے جسم پھر ویسے کے ویسے تازہ ہو گئے جیسے پہلے تھے.حضرت ابو عبیدہ نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پہلی لی اور اس کو کھڑا کیا اور سب

Page 104

تاب بدر جلد 4 88 سے لمبا شخص جو اُن کے ساتھ تھا اس کو لیا اور سفیان بن عیینہ نے اپنی روایت میں یوں کہا کہ ایک بار انہوں نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پہلی لی، اس کو کھڑا کیا پھر ایک آدمی جمع اونٹ کے لیا جو اس کے نیچے سے گزر گیا.حضرت جابر نے یہ بھی کہا کہ لشکر میں ایک شخص تھا جس نے لوگوں کے کھانے کے لیے تین دن تین تین اونٹ ذبح کیے.پھر حضرت ابو عبیدہ نے اس کو روک دیا.اور عمرو بن دینار کہتے تھے کہ ابو صالح ذکوان نے ہمیں بتایا کہ قیس بن سعد نے اپنے باپ سے کہا میں بھی اسی فوج میں تھا اور ان کو بھوک لگی تو حضرت ابو عبیدہ نے کہا اونٹ ذبح کر لو.میں نے اونٹ ذبح کر لیا.کہتے تھے پھر ان کو بھوک لگی.حضرت ابو عبید ہا نے کہا اونٹ ذبح کر لو.میں نے اونٹ ذبح کر لیا.کہتے پھر ان کو بھوک لگی.حضرت ابو عبیدہ نے کہا اونٹ ذبح کر لو.سواریوں والے جو اونٹ تھے اور ساتھ لے کے گئے تھے.ان پر سامان بھی کچھ ہو گا اب ایسے حالات آگئے کہ انہی کو ذبح کر کے کھا رہے تھے.کہتے ہیں میں نے اونٹ ذبح کر لیا.قیس کہتے تھے پھر ان کو بھوک لگی.حضرت ابو عبیدہ نے کہا کہ اونٹ ذبح کر لو.کہتے تھے اس کے بعد پھر مجھے روک دیا گیا کہ اب اونٹ نہیں ذبح کرنے.وہیل مچھلی جس کا گوشت نبی اکرم صلی الم نے بھی کھایا اکرم ہم دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ جَيْشُ الْخَبَط کے ساتھ حملے میں ہم نکلے اور حضرت ابو عبیدہ کو امیر بنایا گیا تھا.ہمیں سخت بھوک لگی اور سمندر نے ایک مردہ مچھلی پھینک دی.زندہ نہیں آئی تھی بلکہ مردہ ہی آئی تھی اور ہم نے ایسی مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی.بڑی مچھلی تھی.جس طرح اس کا حلیہ بیان کیا جاتا ہے یہ وہیل مچھلی ہو گی.اسے عنبر کہتے ہیں.ہم اس کا گوشت آدھا مہینہ کھاتے رہے.پھر حضرت ابو عبیدہ نے اس کی ہڈیوں میں سے ایک ہڈی لی اور سوار اس کے نیچے سے گزر گیا.ابن مجریج نے کہا: ابو زبیر نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے حضرت جابر سے سنا ہے.کہتے تھے کہ حضرت ابو عبیدہ نے کہا کھاؤ.مچھلی کو کھاؤ.بے شک یہ مردہ ہے لیکن کھاؤ کوئی ہرج نہیں.جب ہم مدینہ آئے تو نبی صلی علیم سے ہم نے اس کا ذکر کیا کہ اس طرح ایک مردہ مچھلی آئی تھی اور ہم اس کو کھاتے رہے، ضرورت تھی.آپ نے فرمایا کہ جو رزق اللہ تعالیٰ نے نکالا ہو اسے تم کھاؤ.اللہ تعالیٰ نے تمہاری حالت دیکھ کر تمہیں بھیجا تھا.اسے تم نے کھایا تو کوئی ہرج نہیں.اور اگر کچھ ہے، اگر اپنے ساتھ کچھ لائے ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ.ان میں سے کسی نے آپ کو ایک حصہ دیا اور آپ صلی ال ولم نے اس کو کھایا.233 واپسی پر اس کا بچا ہوا گوشت کچھ لے بھی آئے تھے ، وہ پھر آپ صلی یہ کم نے بھی نوش فرمایا.کفار کی حفاظت کے لئے ایک مہم حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اس سریہ سیف البحر کے ضمن میں اپنی شرح میں لکھتے ہیں سیف البحر یعنی وہی جس کو خبط بھی کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا غزوہ ان غزوات میں سے ہے جن

Page 105

اب بدر جلد 4 89 میں کسی سے جنگ کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ اس غزوہ میں شامل لوگ قافلہ تجارت کی حفاظت کی غرض سے بھیجے گئے تھے.یہ مہم بقول ابن سعد تین سو مہاجر و انصار پر مشتمل تھی.حضرت ابو عبیدہ بن جراح اس کے امیر تھے اور غزوہ سیف البحر کے نام سے مشہور ہے.یہاں بحیرہ قلزم کے قریب کاروان چلتے تھے تو کاروانی راستہ کے قریب بحیرہ قلزم کے کنارے حفاظتی چوکی قائم کی گئی تھی.قافلوں کا جو رستہ چلتا تھا ان کے قریب بحیرہ قلزم کے کنارے ایک حفاظتی چوکی قائم کی گئی تھی اس لیے غزوہ سیف البحر سے موسوم ہے.یہ فوج بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہاں ایک چوکی قائم کی جائے جو حفاظت کی غرض سے ہو اور آگے پتہ لگے گا کہ حفاظت کس کی کرنی تھی.سیف کے معنی ساحل کے ہیں.ابنِ سعد نے سریۃ الحبط کے عنوان سے اس کا مختصر ذکر کیا ہے.خبط کے معنی ہیں درخت کے پتے.زادِ راہ ختم ہونے کی وجہ سے مجاہدین کو پتے کھانے پڑے تھے.ابن سعد نے تاریخ وقوع رجب آٹھ ہجری بتائی ہے اور یہ زمانہ ھد نہ یعنی صلح حدیبیہ کا تھا.آنحضرت صلی علیم نے دور اندیشی سے کام لیا اور بطور احتیاط مذکورہ بالا حفاظتی دستہ علاقہ سیف البحر میں بھیجا تھا.جو چو کی قائم کروائی گئی تھی وہاں حفاظتی دستہ کے طور پہ بھیجا تا شام سے آنے والے قریشی قافلے سے تعرض نہ ہو، شام سے جو قریش کا تجارتی قافلہ آرہا تھا اس سے کوئی چھیٹر چھاڑ نہ ہو اور قریش کے ہاتھ میں نقض معاہدہ کا کوئی بہانہ نہ مل جائے.صلح حدیبیہ ہو چکی تھی.اب یہ تھا کہ یہ نہ ہو وہاں کوئی ان کو چھیڑ دے اور قریش بہانہ بنا دیں کہ دیکھو مسلمانوں نے ہم پر حملہ کیا اس لیے حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہو گیا.تو اس لیے آپ نے وہ بھیجا تھا.وہاں چوکی قائم کر دی تاکہ قریش کے اس قافلے کی حفاظت کرے اور کوئی بہانہ نہ ملے.پھر لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا جگہ بقول ابن سعد مدینہ سے پانچ دن کی مسافت پر ہے.234 پس یہ جنگ کے لیے نہیں تھا بلکہ کافروں کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا تھا جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا اور یہ ہے امن کے قیام کی کوشش کہ جب وہاں معاہدہ ہو گیا تو دشمن کی حفاظت کے بھی سامان کیسے جائیں تاکہ معاہدہ توڑنے کا کسی قسم کا بہانہ کفار کے ہاتھ نہ آئے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے کام کرنا تھا.معاہدہ اگر ٹوٹا تو کفار کی طرف سے توڑا گیا اور پھر وہ فتح مکہ پر منتج ہوا.فتح مکہ اور ابو عبیدہ پیادہ لوگوں کے سردار حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صل ال تیم تشریف لائے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہو گئے.حضرت زبیر کو لشکر کے ایک پہلو پر اور حضرت خالد بن ولید کو لشکر کے دوسرے پہلو پر مقرر فرمایا اور حضرت ابو عبیدہ کو پیادہ لوگوں اور وادی کے نشیب کا سر دار بنادیا.235 بحرین کا جزیہ لانے والے رسول اللہ صلی ال لیلی نے بحرین والوں سے جزیہ کی شرط پر صلح کی تھی اور ان پر حضرت علاء بن حضر می گو امیر مقرر فرمایا تھا.آپ صلی علیم نے حضرت ابو عبیدہ کو وہاں جزیہ لینے کے لیے بھیجا.جب

Page 106

اصحاب بدر جلد 4 الله سة 90 حضرت ابو عبیدہ جزیہ لے کر واپس آئے اور لوگوں کو ان کی واپسی کا علم ہوا تو صبح فجر کی نماز سب لوگوں نے رسول اللہ صلی علیکم کے پیچھے ادا کی.آپ صلی الیکم نے نماز پڑھا کر جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کو دیکھ کر آپ صلی یکم مسکرائے اور فرمایا کہ لگتا ہے تمہیں معلوم ہو گیا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لائے ہیں.لوگوں نے عرض کیا: جی یارسول اللہ ! آپ صلی الی یکم نے فرمایا پس خوش ہو جاؤ اور اس کی امید رکھو جو تمہارے لیے بہتر ہے.میں تمہارے بارے میں محتاجی سے نہیں ڈر تابلکہ میں اس بات سے ڈر تاہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے اور پھر تم بڑھ چڑھ کر حرص کرنے لگ جاؤ.236 جوں جوں دنیاداری میں پڑو گے ، دنیاوی آسائشیں تمہیں مہیا ہوں گی میسر آئیں گی تو حرص میں پڑ جاؤ گے اور وہ تمہیں ہلاک کر دے.یہ خوف ہے مجھے.بھوکے رہنے کا خوف کم ہے.یہ خوف ہے کہ دنیا داری میں پڑ کے ، حرص کر کے تم کہیں اپنے آپ کو ہلاک نہ کر لو.پس یہ تنبیہ ہے جو ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنی چاہیے اور اس کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت جن کے پاس پیسہ آتا جن میں ہمارے لیڈر بھی شامل ہیں وہ اس لالچ میں پیش پیش ہیں.ان کی دنیا کی لالچ بے شمار بڑھ چکی ہے.خدا کا نام تو لیتے ہیں لیکن فوقیت دنیاوی مال و حشمت کو ہے.پس ہمیں اس لحاظ سے اپنی حالتوں کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ آنحضرت صلی علیکم کی پیشگوئی کے مطابق مال تو آئیں گے لیکن ہمیں اس مال کی وجہ سے اپنے دین کو نہیں بھول جانا چاہیے.دس ہجری میں حجۃ الوداع کے موقعے پر حضرت ابو عبیدہ نے رسول اللہ صلی الی ایم کے ساتھ حج کیا.237 جب رسول اللہ صلی علیم کی وفات ہوئی تو لوگوں میں بحث ہوئی کہ آپ صلی الم کی قبر لحد والی ہونی چاہیے یا لحد کے بغیر.چنانچہ حضرت عباس نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت ابو طلحہ کی طرف ایک ایک آدمی بھجوایا اور فیصلہ ہوا کہ ان میں سے جو آدمی پہلے آئے گا جو وہ بتائے گا ویسی قبر تیار کی جائے گی.حضرت ابو عبیدہ اہل مکہ کی طرز کے مطابق لحد کے بغیر قبر تیار کرتے تھے جبکہ حضرت ابو طلحہ اہل مدینہ کی طرز کے مطابق لحد والی قبر تیار کرتے تھے.چنانچہ حضرت ابو طلحہ کی طرف بھیجے ہوئے آدمی کو حضرت ابو طلحہ مل گئے جبکہ حضرت ابو عبیدہ کی طرف بھیجے ہوئے آدمی کو حضرت ابو عبیدہ نہ ملے.چنانچہ حضرت ابو طلحہ آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی املی کام کے لیے لحد والی قبر تیار کی.238 خلافت کا انتخاب اور حضرت ابو عبیدہ کا کردار رسول اللہ صلی ایم کی وفات کے فوراًبعد خلافت کے لیے انصار اور مہاجرین کے درمیان جو اختلاف ہوا اس کے بارے میں صحیح بخاری میں بیان ہے.یہ پہلے بھی میں ایک صحابی کے ذکر میں بیان کر چکا ہوں لیکن یہاں حضرت ابو عبیدہ کے ذکر میں بھی بیان ہو جائے تو بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی علی کرم کی وفات کے بعد انصار حضرت سعد بن عبادہ کے گھر میں جمع ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے اور ایک

Page 107

ناب بدر جلد 4 91 امیر تم یعنی مہاجرین میں سے ہو گا.ان کی طرف حضرت ابو بکر اور حضرت عمررؓ اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح گئے.حضرت عمرؓ کچھ کہنے لگے مگر حضرت ابو بکڑ نے انہیں خاموش کروا دیا.حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت صرف اس لیے بولنا چاہتا تھا کیونکہ میں نے ایک تقریر تیار کی تھی جو مجھے بہت پسند تھی اور مجھے ڈر تھا کہ حضرت ابو بکر ویسی بات نہ کہہ سکیں گے لیکن جب حضرت ابو بکر نے تقریر کی تو ایسی شاندار اور فصیح تقریر کی جو تمام تقاریر سے بڑھ کر تھی.اسی تقریر میں حضرت ابو بکڑنے یہ فرمایا کہ ہم یعنی مہاجرین امیر ہیں اور تم یعنی انصار وزیر ہو.اس پر حضرت محباب بن منذر نے کہا ہر گز نہیں.بخد اہم ایسا ہر گز نہیں کریں گے.ایک امیر تم میں سے ہو گا اور ایک امیر ہم میں سے ہو گا.حضرت ابو بکر نے فرمایا: نہیں ہم امیر ہیں اور تم وزیر ہو کیونکہ قریش حسب نسب کے لحاظ سے تم عربوں سے اعلیٰ اور قدیمی ہیں.پس حضرت ابو بکر نے دو نام پیش کیے کہ عمر یا ابو عبیدہ بن جراح میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو، خلیفہ بنالو.اس پر حضرت عمرؓ نے کہا نہیں ہم تو آپ کی بیعت کریں گے.ابو بکر کو کہا کہ ہم تو آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سے سب سے بہتر ہیں اور ہم میں سے رسول اللہ صلی علیکم کے سب سے زیادہ محبوب ہیں.یہ کہہ کر حضرت عمر نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کی بیعت کی اور اس کے بعد لوگوں نے بھی حضرت ابو بکر کی بیعت کی.239 بہر حال حضرت ابو بکر کی نظر میں حضرت ابو عبیدہ کا یہ مقام تھا کہ آپ کا نام خلافت کے لیے تجویز فرمایا.اسی طرح جس طرح پہلے حضرت عمرؓ کے حوالے سے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت عمر نے یہ فرمایا کہ اگر ابو عبیدہ زندہ ہوتے تو میں انہیں اگلے خلیفہ کے لیے نامزد کرتا کیونکہ وہ آنحضرت صلی لی ایم کی امت کے آنحضرت صلی علیم کے فرمان کے مطابق امین تھے.جب خلافت کے بارے میں بحث ہوئی تو حضرت ابو عبیدہ نے انصار سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے انصار کے گروہ اتم تو وہ لوگ ہو جنہوں نے سب سے پہلے مدد کی تھی.کہیں ایسا نہ ہو کہ اب تم ہی سب سے پہلے اختلاف پیدا کرنے والے ہو جاؤ.240 خالد بن ولید کی جگہ سپہ سالار مقرر کیا جانا اور فتوحات حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو انہوں نے بیت المال کا کام حضرت ابو عبیدہ کے ذمے لگایا.13 ہجری میں حضرت ابو بکر نے آپ کو شام کی طرف امیر لشکر بنا کر بھیجا.حضرت عمرؓ نے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت خالد بن ولید کو بطور سپہ سالار معزول فرما کر حضرت ابو عبیدہ کو سپہ سالار مقرر فرمایا.241 فتح شام کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ 13 / ہجری میں رومیوں میں کئی اطراف سے لشکر کشی کی گئی.ایک دستہ کے قائد حضرت یزید بن ابو سفیان تھے.ابوسفیان کے ایک بیٹے کا نام بھی یزید تھا، یہ پہلے فوت ہو گئے تھے ، جو اردن کے مشرق کی طرف سے حملہ آور ہوئے.دوسرے کے حضرت شر خبیل

Page 108

92 صحاب بدر جلد 4 بن حسنہ تھے جو بلقاء کی طرف سے آگے بڑھے.تیسرے کے قائد حضرت عمر و بن عاص تھے جو فلسطین کی طرف سے شام میں داخل ہوئے.چوتھے دستے کے قائد حضرت ابو عبیدہ بن جراح " تھے جو حمص کی طرف بڑھے.حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ جب یہ سب ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح سپہ سالار ہوں گے.ہر لشکر چار ہزار پر مشتمل تھا جبکہ حضرت ابو عبیدہ کا لشکر آٹھ ہزار کا تھا.جب لشکر روانہ ہونے لگے تو حضرت ابو بکر نے قائدین لشکر کو فرمایا دیکھو! نہ اپنے پر تنگی وارد کرنا نہ اپنے ساتھیوں پر.اپنی قوم اور ساتھیوں پر ناراضگی کا اظہار نہ کرنا.ان سے مشورے کرنا اور انصاف سے کام لینا.ظلم وجور سے دور رہنا کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتا اور کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھتا.اور جب تمہاری دشمن سے مڈھ بھیڑ ہو جائے تو دشمن کو پیٹھ نہیں دکھانا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو اس دن پیٹھ پھیرے گا اس پر خدا کا غضب ٹوٹے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا سوائے اس کے کہ جو لڑائی کے لیے جگہ بدلتا ہے یا اپنے ساتھیوں سے رابطہ قائم کرنا چاہتا ہے.قرآن کریم میں سورہ انفال میں آیت سترہ میں یہ لکھا ہوا ہے.پھر فرمایا کہ دیکھو اجب تم دشمن پر غلبہ پاؤ تو کسی بچے، بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا، کسی جانور کو ہلاک نہ کرنا، عہد شکنی نہ کرنا، معاہدہ کر کے اسے خود نہ توڑنا.رض حضرت ابو عبید گانے سب سے پہلے شام کے شہر مآب کو فتح کیا.وہاں کے باشندوں نے جزیہ کی شرط پر صلح کر لی.اس کے بعد آپ نے جابیہ کا رخ کیا.وہاں پہنچے تو دیکھا کہ رومیوں کا بڑا لشکر مقابلے کے لیے تیار ہے.اس پر حضرت ابو عبیدہ نے حضرت ابو بکر کی خدمت میں مزید مدد کے لیے درخواست کی.حضرت ابو بکر نے حضرت خالد بن ولید جو اس وقت عراق کی مہم پر مامور تھے ان سے فرمایا کہ نصف لشکر حضرت مثنی بن حارث کی قیادت میں چھوڑ کر تم حضرت ابو عبیدہ کی مدد کو پہنچ جاؤ اور حضرت ابو بکر نے حضرت ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ میں نے خالد کو امیر مقرر کیا ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ تم اس سے بہتر اور افضل ہو.پورے خط کا متن یہ ہے کہ اللہ کے بندے عتیق بن ابو قحافہ.عتیق حضرت ابو بکر کا اصل نام تھا اور ابو قحافہ ان کے والد کا نام تھا.اللہ کے بندے عقیق بن ابو قحافہ کا خط ابو عبیدہ بن جراح کے نام.تجھ پر خدا کی سلامتی ہو.میں نے شام کی فوجوں کی کمان خالد کے سپرد کی ہے.آپ اس کی مخالفت نہ کرنا اور سنا اور اطاعت کرنا.میں نے تمہیں اس پر والی مقرر کیا ہے.میں جانتا ہوں کہ تم اس سے افضل ہو لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں، خالد بن ولید ھیں ، فن حرب کی صلاحیت یعنی جنگی معاملات کی صلاحیت تمہاری نسبت بہت زیادہ ہے.اللہ مجھے اور تمہیں صحیح راہ پر گامزن رکھے.حضرت ابو بکر نے یہ لکھا.حضرت خالد بن ولید نے حیرہ، عراق میں ایک شہر کا نام ہے وہاں سے حضرت ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ اللہ کی آپ پر سلامتی ہو.مجھے حضرت ابو بکر نے شام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا ہے اور فوجوں کی قیادت میرے سپر دفرمائی ہے.خدا کی قسم !میں نے اس کا کبھی مطالبہ نہیں کیا اور نہ میری خواہش تھی.

Page 109

اصحاب بدر جلد 4 93 آپ کی وہی حیثیت ہو گی جو پہلے ہے.ہم آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے اور نہ آپ کو نظر انداز کر کے کوئی فیصلہ کریں گے.آپ مسلمانوں کے سردار ہیں.آپؐ کی فضیلت کا ہم انکار نہیں کرتے اور نہ آپ کے مشورے سے مستغنی ہو سکتے ہیں.242 یہ دیکھیں یہ ہے مومنانہ شان.دونوں طرف سے کس طرح عاجزانہ طور پر اطاعت کا اظہار کیا گیا ہے.جنگ اجنادین.جمادی الاول تیرہ ہجری میں اجنادین فلسطین کے نواحی علاقے میں سے ایک بستی کا نام ہے.اس مقام پر ایک لاکھ رومی فوج سے مسلمانوں کا یہ مقابلہ ہوا.روایات میں آتا ہے کہ اجنادین فوج کا سپہ سالار قیصر روم ہر قل کا بھائی تھیوڈور (Theodore) تھا.پینتیس ہزار کے قریب مسلمانوں نے ایک لاکھ کی فوج کو شکست دے کر اجنادین کو فتح کر لیا.3 243 فتح دمشق اجنادین کی فتح کے بعد مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کر لیا اور پھر اس کی تفصیل اس طرح ہے.یہ شام کا دارالحکومت ہے اور دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے.دمشق کا مسلمانوں نے محاصرہ محرم 114 ہجری میں کیا اور یہ محاصرہ چھ ماہ تک جاری رہا.دوسری پارٹی، جو مخالفین تھے ، دوسری طرف کی فوج وہ قلعہ بند ہو گئے.اپنے علاقے میں تھے اس لیے اپنے قلعے بند کر لیے.مسلمانوں کے پانچوں سالار اپنی فوجوں سمیت اس شہر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے.حضرت ابو عبیدہ اپنی فوج کے ساتھ مشرقی دروازے پر تھے.حضرت خالد بن ولید ان کے بالمقابل مغربی دروازے پر تھے اور باقی تین سالار بھی، کمانڈر جو تھے مختلف دروازوں پر متعین تھے.رومی گاہے بگاہے نکل کر جنگ کرتے مگر پھر واپس چلے جاتے اور قلعہ بند ہو جاتے تھے.انہیں امید تھی کہ قیصر روم کمک بھیجے گا مگر اسلامی افواج کی چوکسی نے ان کی امیدیں خاک میں ملادی تھیں.ایک رات جبکہ شہر میں کوئی جشن ہو رہا تھا اور فصیل کے پہرے دار بھی اس جشن کی خوشی میں پہرے داری سے غافل تھے تو حضرت خالد بن ولید اپنے کچھ ساتھیوں سمیت شہر کی فصیل پھلانگ کر شہر میں داخل ہو گئے اور دروازہ کھول دیا.اس طرح ان کی فوج شہر میں داخل ہو گئی.یہ دیکھ کر شہر والوں نے حضرت ابو عبیدہ سے صلح کرلی جو کہ شہر کے دوسری طرف تھے مگر حضرت خالد کو یہ خبر نہیں ہوئی اور مسلسل جنگ کر رہے تھے.حضرت ابو عبیدہ کے پاس لوگ گئے اور ان سے التجا کی کہ ہمیں خالد سے بچائیے.شہر کے درمیان میں ان دونوں سرداروں کا آمنا سامنا ہوا اور پھر جب خالد بن ولید اور حضرت ابو عبیدہ شہر کے درمیان میں آکے شہر والوں کے ساتھ ملے تو پھر شہر والوں کے ساتھ صلح کر لی گئی کیونکہ معاہدہ حضرت ابو عبیدہ کر چکے تھے.244 معرکہ فخل یہ شام کا ایک شہر ہے.دمشق فتح کرنے کے بعد مسلمان آگے بڑھے تو معلوم ہوا کہ رومی بیسان

Page 110

تاب بدر جلد 4 94 مقام میں جمع ہو کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں.مسلمان ان کے بالمقابل محل مقام میں خیمہ زن ہوئے.رومی فوج کے سپہ سالار نے صلح کی پیشکش کی خاطر اپنے سفیر کو حضرت ابو عبیدہ کی طرف بھیجا.وہ جب اسلامی لشکر میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں ایک ہی طرح ادنی اور اعلی، افسر وماتحت، سپہ سالار اور سپاہی بیٹھے ہیں اور کوئی امتیاز اور فرق دکھائی نہیں دیا.آخر اس نے مجبور ہو کر کسی سے پوچھا کہ آپ کا سپہ سالار کون ہے.لوگوں نے ایک سیدھے سادھے شخص کی طرف اشارہ کیا جو زمین پر بیٹھا ہوا تھا.سفیر نے قریب جا کر کہا کہ آپ ہی اس کے سپہ سالار ہیں ؟ حضرت ابو عبیدہ نے کہا کہ ہاں.سفیر نے پیشکش کی کہ اپنی فوج کو یہاں سے واپس لے جائیں اور اس کے بدلے میں آپ کے ہر سپاہی کو فی کس دو اشرفیاں سونے کی ملیں گی.سپہ سالار کو ایک ہزار دینار ملیں گے اور تمہارے خلیفہ کو دو ہزار دینار دیے جائیں گے.حضرت ابو عبیدہ نے انکار کر دیا.انہوں نے کہا ہم پیسے لینے نہیں آئے.مال و دولت کی غرض سے نہیں آئے.ہم اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے نکلے ہیں.سفیر ان کو دھمکیاں دیتا ہو اوہاں سے واپس چلا گیا.اس کے یہ تیور دیکھ کر حضرت ابو عبیدہ نے فوج کو تیاری کا حکم دیا اور اگلی صبح دونوں فوجوں میں جنگ ہوئی.حضرت ابو عبیدہ خود فوج کے قلب یعنی درمیان میں تھے اور بڑی حکمت سے فوج کو لڑا رہے تھے یہاں تک کہ مسلمانوں نے باوجود قلیل تعداد ہونے کے رومیوں کو شکست دے دی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردن کا تمام علاقہ مسلمانوں کے پاس آگیا.245 فتح حمص فحل کی فتح کے بعد حضرت ابو عبیدہ نے حمص کی طرف پیش قدمی کی جو شام کا ایک مشہور شہر تھا اور جنگی اور سیاسی اہمیت رکھتا تھا.راستے میں بعلبك شہر ، جو لبنان کا ایک قدیم شہر ہے، دمشق سے تین راتوں کی مسافت پر ہے.وہاں سے گزر ہو ا جو ایک قدیم شہر تھا اور یہ بعل بت کی پرستش کا بہت بڑا مرکز رہ چکا تھا.وہاں کے رہائشیوں نے حضرت ابو عبیدہ کا مقابلہ کرنے کی بجائے صلح کی درخواست کی جو جزیہ کی شرط کے ساتھ منظور کر لی گئی.ان سے کوئی لڑائی، جنگ نہیں ہوئی.اور قبول ہو گیا کہ وہ جزیہ دیں اور بے شک اپنے مذہب پر قائم رہیں.حضرت ابو عبیدہ نے حمص کا رخ کیا اور اس کا محاصرہ کر لیا.حضرت خالد بن ولید بھی آپ کے ساتھ تھے.شہر والوں کو قیصر سے فوجی امداد کی امید تھی.اس لیے وہ مقابلہ کے لیے تیار ہو گئے.مگر جب وہ امداد سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور صلح کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی.صلح کے ساتھ انہیں جان ومال کی امان دی گئی اور ان کے عبادت خانے اور مکانات محفوظ قرار دیے گئے.مکان بھی محفوظ، عبادت خانے بھی محفوظ اور جو اپنے مذہب پر قائم رہے ان پر جز سیم اور خراج عائد کیا گیا.یعنی اپنے مذہب پر بے شک قائم رہو لیکن جزنیہ اور خراج دینا پڑے گا جو ایک

Page 111

تاب بدر جلد 4 فتح لاذقيه 95 اس کے بعد اسلامی لشکر نے لاذقیہ جو شام کا ایک شہر ہے اور ساحل سمندر پر واقع ہے.حمص کے نواحی علاقوں میں اس کو شمار کیا جاتا ہے.بہر حال اس کا محاصرہ کر لیا.حفاظتی انتظامات کے لحاظ سے لاذقیہ بہت مستحکم تھا.شہر والوں کے پاس رسد کے ذخائر کثرت کے ساتھ موجود تھے جن کی وجہ سے ان کو محاصرہ کی کوئی پروا نہیں تھی.حضرت ابو عبیدہ نے اس کو فتح کرنے کی ایک نئی تدبیر نکالی.آپ نے ایک رات میدان میں بہت سے گڑھے کھدوائے اور انہیں گھاس سے ڈھانک دیا اور صبح محاصرہ اٹھا کر حمص کی طرف روانہ ہو گئے.ظاہر یہ کیا کہ ہم واپس جارہے ہیں.گڑھے کھودنے کے بعد گھاس سے ڈھانکنے کے بعد محاصرہ اٹھالیا اور ساری فوج واپس ہو گئی.شہر والوں نے اور شہر میں موجود فوجوں نے محاصرہ اٹھتے دیکھا تو خوش ہوئے اور اطمینان سے شہر کے دروازے کھول دیے.دوسری طرف حضرت ابو عبیدہ راتوں رات اپنی فوج سمیت واپس آگئے.رات کو ہی واپس آگئے اور ان غار نما گڑھوں میں چھپ گئے.جو غاریں بنائی تھیں.tunnels بنائی تھیں.یا ٹرینچز (Trenches) بنائی تھیں ان میں چھپ گئے اور صبح جب شہر کے دروازے کھلے تو آپ نے ایک دفعہ حملہ کر دیا اور شہر میں داخل ہو کر شہر کو فتح کر لیا.246 جنگ یرموک جنگ پر موک جو جنگ تھی وہ پر موک جو شام کے نواحی علاقے میں ایک وادی کا نام ہے اس کے نام کی وجہ سے یہ یرموک تھی.15 / ہجری میں شام میں سب سے بڑا معرکہ پر موک کی وادی میں دریائے یرموک کے کنارے ہوا.رومی لوگ باھان کی قیادت میں اڑھائی لاکھ کے قریب جنگجو میدان میں لائے جبکہ مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار کے قریب تھی جن میں ایک ہزار صحابہ رسول صلی علی کم تھے اور ان میں ایک سو کے قریب بدری صحابہ تھے.مشورے کے بعد مسلمانوں نے عارضی طور پر حمص میں سے اپنی فوجوں کو واپس بلایا اور وہاں کے عیسائیوں سے کہا کہ چونکہ ہم عارضی طور پر تمہاری حفاظت سے دست کش ہو رہے ہیں لہذا تمہارا جزیہ تمہیں واپس کیا جاتا ہے.جو ٹیکس ان سے لیا جاتا تھا واپس کیا جاتا ہے کیونکہ جس مقصد کے لیے یہ جزیہ لیا جارہا ہے وہ تمہارے کام ہم نہیں کر سکتے.چنانچہ حمص والوں کو ان کا جزیہ واپس کیا گیا.یہ رقم کئی لاکھ کی تھی.جب یہ رقم انہیں واپس کی گئی تو عیسائی مسلمانوں کی حقیقت پسندی اور انصاف کی وجہ سے روتے تھے اور گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر دعائیں کرتے تھے کہ اے رحم دل مسلمان حکمر انو اخدا تمہیں پھر واپس لائے.مسلمانوں کے حمص سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے رومیوں کی ہمت اور بھی بڑھ گئی اور وہ ایک کے ساتھ پر موک پہنچ کر مسلمانوں کے مقابلے پر خیمہ زن ہوئے لیکن دل میں وہ مسلمانوں کے جوش

Page 112

اصحاب بدر جلد 4 ط 96 b ایمانی سے خائف بھی تھے اس لیے صلح کے بھی متمنی تھے ، کوشش کر رہے تھے کہ صلح بھی ہو جائے.رومیوں کے سپہ سالار باھان نے جارج نامی رومی قاصد کو اسلامی لشکر کی طرف بھیجا.جب وہ اسلامی لشکر میں پہنچا تو مسلمان مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے.اس نے مسلمانوں کو خشوع و خضوع اور خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوتے دیکھا تو بہت متاثر ہوا.اس نے حضرت ابو عبیدہ سے چند سوالات کیے جن میں سے ایک یہ تھا کہ حضرت عیسی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے.حضرت ابو عبیدہ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی کہ يَاهْلَ الْكِتَبِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللهِ إِلَّا الْحَقِّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللهِ وَكَلِمَتُهُ الْقُهَا إلى مَرْيَمَ وَرُوحُ مِنْهُ فَامِنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَلَا تَقُولُوا ثَلَثَةٌ ۖ إِنْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ إِنَّمَا اللهُ الهُ وَاحِدٌ سُبُحْنَةَ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَكَفَى بِاللهِ وكيلا (النسا: 172) کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو.اللہ کے متعلق حق کے سوا کچھ نہ کہو.یقیناً مسیح عیسی ابن مریم محض اللہ کا رسول ہے اور اس کا کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف اتارا اور اس کی طرف سے ایک روح ہے.پس اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور تین مت کہو.باز آؤ کہ اس میں تمہاری بھلائی ہے.یقینا اللہ ہی واحد معبود ہے.وہ پاک ہے اس سے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو.اسی کا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور بحیثیت کار ساز اللہ بہت کافی ہے.پھر اس کے بعد اگلی آیت پڑھی لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ اَنْ يَكُونَ عَبْدًا لِلَّهِ وَلَا الْمَلَبِكَةُ المُقربون (النساء: 173) مسیح ہر گز اس امر کو برا نہیں منائے گا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ متصور ہو اور نہ ہی مقرب فرشتے اسے بر امنائیں گے.جارج نے جب قرآن کریم کی اس تعلیم کو سناتو پکار اٹھا کہ بے شک مسیح کے یہی اوصاف ہیں اور کہا کہ تمہارا پیغمبر سچا ہے اور مسلمان ہو گیا.جو نمائندہ بن کے آیا تھا اب وہ اپنے لشکر میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا لیکن حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ رومیوں کو بد عہدی کا گمان ہو گا اس لیے تم واپس جاؤ اور فرمایا کہ کل جو سفیر یہاں سے جائے گا اس کے ساتھ آجانا.عیسائی لشکر کو حضرت ابو عبیدہ نے اسلام کی دعوت دی اور اسلامی مساوات ، اخوت اور اسلامی اخلاق کو ان کے سامنے پیش کیا.اگلے دن حضرت خالد ان کی طرف گئے مگر نتیجہ لا حاصل رہا اور جنگ کی تیاری شروع ہو گئی.مسلمان عورتوں کی بہادری کے پیچھے مسلمان خواتین تھیں جو جنگ میں لشکریوں کو پانی پلاتیں، زخمیوں کی دیکھ بھال کر تیں اور غازیوں کو جوش دلاتی تھیں.ان عورتوں میں حضرت اسماء بنت ابو بکر حضرت ہند بنت عتبہ یہ آپ ، ہی حضرت ابوسفیان کی بیوی تھیں اور فتح مکہ کے موقعے پر مسلمان ہوئی تھیں، حضرت امیر آبان وغیرہ تھیں.حضرت ابو عبیدہ نے جنگ سے پہلے مسلمان خواتین کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے مجاہدات اخیموں کی چومیں اکھاڑ کر ہاتھوں میں لے لو.پتھروں سے اپنی جھولیاں بھر لو اور مسلمانوں کو قتال کی ترغیب دو.ان کو کہو

Page 113

اصحاب بدر جلد 4 97 آج تمہارا مقابلہ ہے اور تم نے پیٹھ نہیں دکھانی.اگر کامیاب ہو تاد دیکھو تو اپنی جگہ پر ہی بیٹھی رہنا.اگر دیکھو کہ مسلمان پیچھے ہٹ رہے ہیں تو ان کے مونہوں پر چوبیں مارنا اور پتھر برسا کر انہیں میدان جنگ میں واپس بھیجا اور اپنے بچے اوپر اٹھانا اور ان سے کہنا کہ جاؤ اور اپنے اہل و عیال اور اسلام کی خاطر جانیں دو.اس کے بعد آپنے مردوں سے یوں مخاطب ہوئے.اللہ کے بندو! خدا کی مدد کے لیے آگے بڑھو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرے گا.اے اللہ کے بندو! صبر کرو کہ صبر ہی کفر سے نجات کا ذریعہ ، خدا کو راضی کرنے کا سبب اور عار کو دھونے والا ہے.اپنی صفوں کو مت توڑنا، لڑائی کی ابتدا تم نہ کرنا، نیزوں کو تان لو، ڈھالوں کو سنبھال لو اور زبانوں کو خدا کے ذکر سے تر رکھو تا خدا اپنی منشا کو پورا کرے.لڑائی کی ابتدا نہیں کرنی لیکن جب جنگ، حملہ ہو جائے تو پھر پیٹھ نہیں دکھانی.دشمنوں کے لشکر کے آگے اس وقت سونے کی صلیب تھی اور ان کے اسلحے کی چمک آنکھوں میں چکا چوند پیدا کر رہی تھی.دوسرے وہ سر سے لے کے پیر تک لوہے میں ڈوبے ہوئے تھے یعنی زرہیں پہنی ہوئی تھیں.انہوں نے اس دن اپنے پیروں میں بیڑیاں بھی پہن لی تھیں کہ ہم میدانِ جنگ سے بھاگیں گے نہیں.یا مار دیں گے یا مر جائیں گے.پادری انجیل کے اقتباسات پڑھ کر انہیں جوش دلا رہے تھے.لشکر کفار سمندر کی لہروں کی طرح آگے بڑھا.دو اڑھائی لاکھ کی فوج تھی.یہ صرف تیس ہزار تھے.اور جنگ شروع ہوئی.ابتدا میں رومیوں کا پلڑا بھاری رہا اور انہوں نے مسلمانوں کو دھکیلنا شروع کیا.خصوصاً صحابہ کو نشانہ بنانے کی سازش عیسائیوں نے مخفی طور پر یہ پتہ کر لیا تھا کہ مسلمانوں میں صحابی کون کون سے ہیں اور پھر انہوں نے اپنے کچھ تیر انداز ایک ٹیلے پر بٹھا دیے اور انہیں ہدایت کر دی کہ وہ اپنے تیروں سے خصوصیت کے ساتھ صحابہ کو نشانہ بنائیں.وہ جانتے تھے کہ جب بڑے بڑے لوگ مارے گئے تو باقی فوج کے دل خود بخود ٹوٹ جائیں گے اور وہ میدان سے بھاگ جائیں گے.نتیجہ یہ ہوا کہ کئی صحابہ مارے بھی گئے اور کئی کی آنکھیں بھی ضائع ہو گئیں.عکرمہ بن ابو جہل کی جانفشانی یہ حالت دیکھی تو عکرمہ، ابو جہل کے بیٹے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہو گئے تھے، جنہوں نے فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللی کام سے یہ عرض کی تھی کہ دعا کیجئے کہ اللہ مجھے تلافی کافات یعنی پہلے گزرے ہوئے واقعات کی تلافی کی توفیق عطا فرمائے.وہ اپنے کچھ ساتھیوں کو ساتھ لے کر حضرت ابو عبیدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کی کہ صحابہ بہت بڑی خدمات کر چکے ہیں.اب ہم جو بعد میں آئے ہیں ہمیں ثواب حاصل کرنے کا موقع دیا جائے.ہم لشکر کے قلب میں یعنی در میان والے حصہ میں حملہ کریں گے اور عیسائی جرنیلوں کو مار ڈالیں گے.حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ یہ بڑے خطرے کی بات ہے.اس طرح تو جتنے نوجوان جائیں گے وہ سب مارے جائیں گے.عکرمہ نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے مگر

Page 114

اصحاب بدر جلد 4 98 اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے.کیا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ ہم نوجوان بچ جائیں اور صحابہ مارے چائیں.اب مسلمان ہوئے تو ایک ایمانی جوش تھا.اللہ تعالی کی خاطر جان قربان کرنے کی ایک تڑپ تھی.عکرمہ نے بار بار یہ اجازت چاہی کہ وہ چار سو سپاہیوں کے ساتھ دشمن کے لشکر کے مرکزی حصہ پر حملہ کریں.آخر حضرت ابو عبیدہ نے ان کے اصرار پر انہیں اجازت دے دی.اس پر انہوں نے لشکر کے مرکزی حصے پر حملہ کیا اور اسے شکست دے دی لیکن اس لڑائی میں ان میں سے اکثر نوجوان شہید ہو گئے اور مسلمان رومیوں کو ان کی خندقوں کی طرف دھکیلتے ہوئے لے گئے جو ان رومیوں نے اپنے پیچھے بنائی ہوئی تھیں.چونکہ انہوں نے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھا بھی ہو ا تھا تا کہ کوئی دوڑ نہ سکے اس لیے وہ پے در پے ان خندقوں میں گرتے گئے.ایک گرتا تھا تو دس اور بھی لے کے ساتھ ہی گرتا تھا.اسی ہزار کفار پیچھے ہٹتے ہوئے دریائے یرموک میں ڈوب کر مر گئے.ایک لاکھ رومیوں کو مسلمانوں نے میدانِ جنگ میں قتل کیا.مسلمان تین ہزار کے قریب شہید ہوئے.یہ تھی جنگ پر موک.7 حضرت مصلح موعود کا عکرمہ کو خراج تحسین 247 حضرت مصلح موعود خاص طور پر اس کے خاتمے کے وقت کے بارے میں کچھ بیان فرماتے ہیں کہ جب جنگ ختم ہوئی تو مسلمانوں نے خاص طور پر عکرمہ اور ان کے ساتھیوں کو تلاش کیا تو کیا دیکھا کہ ان آدمیوں میں سے بارہ شدید زخمی ہیں.ان میں ایک عکرمہ بھی تھے.ایک مسلمان سپاہی ان کے پاس آیا اور عکرمہ کی حالت دیکھی ، بڑی خراب تھی.اس نے کہا اے عکرمہ امیرے پاس پانی کی چھاگل ہے تم کچھ پانی پی لو.عکرمہ نے منہ پھیر کر دیکھا تو پاس ہی حضرت عباس کے بیٹے حضرت فضل زخمی حالت میں پڑے ہوئے تھے.عکرمہ نے اس مسلمان سے کہا کہ میری غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ جن لوگوں نے رسول اللہ صلی الی یوم کی اس وقت مدد کی جب میں آپ کا شدید مخالف تھا وہ اور ان کی اولاد تو پیاس کی وجہ سے مر جائے اور میں پانی پی کر زندہ رہوں.ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا ایک نیا جذبہ پیدا تھا.اس لیے پہلے انہیں یعنی حضرت فضل بن عباس کو پانی پلالو.اگر کچھ بچ جائے تو پھر میرے پاس لے آنا.وہ مسلمان حضرت فضل کے پاس گیا.انہوں نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ پہلے اسے پانی پلاؤ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے.وہ اس زخمی کے پاس گیا تو اس نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے پہلے اسے پلاؤ پانی.اس طرح وہ جس سپاہی کے پاس جاتا وہ اسے دوسرے کے پاس بھیج دیتا اور کوئی نہ پیتا جب وہ آخری زخمی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا.وہ واپس دوسرے کی طرف آیا یہاں تک کہ عکرمہ تک پہنچا مگر وہ سب فوت ہو چکے تھے.18 حضرت ابو عبیدہ کا حسن اانتظام شام کے لوگ مختلف مذاہب کے پیرو تھے.زبانوں کا اختلاف تھا.ان کی نسلیں مختلف تھیں.حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے ان میں عدل و مساوات قائم کیا.داخلی امن وسکون بحال کیا.ہر ایک کو 248

Page 115

تاب بدر جلد 4 99 مذہبی آزادی دی اور اس اسلامی روح کو جاری کیا کہ تمام لوگ حضرت آدم کی اولاد ہیں اور سب بھائی بھائی ہیں اور ان میں انسان ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں یعنی بعض دفعہ یہ بھی غلط الزام لگایا جاتا ہے کہ زبر دستی مسلمان بنایا.آپ نے ان رومیوں کو مذہبی آزادی دی.قبیلوں کی پہچان کروائی.امن سکون قائم فرمایا.مذہبی آزادی قائم فرمائی.حضرت ابو عبیدہ ہی کی کوششوں سے جو عرب لوگ شام میں آباد تھے اور عیسائی مذہب کے پیرو تھے اسلام کی آغوش میں آگئے.تبلیغ سے آئے، طاقت سے نہیں آئے.یا اس کے علاوہ مسلمانوں کا نمونہ دیکھ کے آئے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے.اس کے علاوہ رومی اور عیسائی بھی آپ کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام لے آئے.یرموک کی فتح سے چند روز قبل حضرت ، ابو بکر کا وصال ہو گیا، آپ کی وفات ہو گئی اور حضرت عمر خلیفہ منتخب ہوئے.حضرت عمر نے شام کی نگرانی اور فوجوں کی قیادت حضرت ابو عبیدہ کے سپرد کی.جب حضرت ابو عبیدہ کو حضرت عمر کی اس تقریر کا خط پہنچا تو اس وقت جنگ پورے زوروں پر تھی اس لیے حضرت ابو عبیدہ نے اس کا اظہار نہ کیا اور حضرت خالد بن ولید کو جب اس کا علم ہوا کیونکہ حضرت خالد بن ولید اس وقت کمانڈر تھے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ نے اس کو کیوں چھپائے رکھا.حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا اس لیے کہ ہم دشمن کے بالمقابل تھے اور میں کسی طرح آپ کی دل شکنی نہیں چاہتا تھا.جب مسلمانوں کو فتح ہوئی تو حضرت خالد کا لشکر عراق واپس جانے لگا تو حضرت ابو عبیدہ نے حضرت خالد کو کچھ دیر اپنے پاس روکے رکھا.جب حضرت خالد روانہ ہونے لگے تو انہوں نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ اس امت کے امین تمہارے والی ہیں یعنی حضرت ابو عبیدہ.اس پر ابو عبیدہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سنا ہے کہ خالد بن ولید خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے.غرض اس طرح محبت اور احترام کی فضا میں دونوں قائد ایک دوسرے سے جدا ہوئے.249 ہر عہدیدار اور احمدی کے لئے نمونہ یہ ہے مومن کا تقویٰ کہ نہ نام کی خواہش، نہ نمود کی خواہش، نہ کسی افسری اور عہدے کی خواہش.مقصد ہے تو صرف ایک کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم کی جائے.پس یہ لوگ جو ہیں یہ ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہیں.اور ہر عہدے دار کو بلکہ ہر احمدی کو ان باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے.فتح بیت المقدس اور خلیفہ کر سول ملی ایم حضرت عمر کی تشریف آوری فتح بیت المقدس کا واقعہ بیان ہو تا ہے.اس کا بھی تعلق حضرت ابو عبیدہ کے ساتھ ہے.حضرہ عمرو بن عاص کی قیادت میں اسلامی لشکر فلسطین کی طرف بڑھا.انہوں نے جب فلسطین کے شہروں کو فتح کر کے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا تو حضرت ابو عبیدہ کا لشکر بھی ان سے آن ملا.عیسائیوں نے قلعہ بندی

Page 116

ناب بدر جلد 4 100 سے تنگ آکر صلح کی پیشکش کی لیکن شرط یہ رکھی کہ خود حضرت عمر آکر صلح کا معاہدہ کریں.حضرت ابو عبیدہ نے عیسائیوں کی اس پیشکش کو حضرت عمر تک پہنچایا، حضرت عمر کو اس کی اطلاع دی.حضرت عمرؓ حضرت علی ہو اپنے پیچھے امیر مقرر فرما کر ربیع الاول 16/ ہجری کو مدینے سے روانہ ہو کر جابیہ مقام پر جو دمشق کے مضافات میں ایک بستی ہے وہاں پہنچے جہاں قائدین نے آپ کا استقبال کیا، وہاں قائدین موجود تھے.آپ نے فرمایا کہ میر ابھائی کہاں ہے ؟ لوگوں نے پوچھا یا امیر المومنین! آپ کی مراد کون ہے ؟ آپ نے فرمایا ابو عبیدہ عرض کیا گیا کہ ابھی آتے ہیں.اتنے میں حضرت ابو عبیدہ اونٹنی پر سوار ہو کر آئے اور سلام عرض کر کے خیریت دریافت کی.حضرت عمرؓ نے باقی سب لو گوں کو جانے کے لیے کہا اور خود حضرت ابو عبیدہ کے ساتھ ان کی قیام گاہ پر تشریف لائے.گھر پہنچ کر دیکھا کہ وہاں صرف ایک تلوار ، ڈھال، چٹائی اور ایک پیالے کے سوا کچھ نہ تھا.حضرت عمرؓ نے فرمایا ابو عبیدہ کچھ سامان بھی مہیا کر لیتے.گھر میں کچھ تو سامان رکھنا چاہیے.حضرت ابو عبیدہ نے عرض کی یا امیر المومنین ! یہ ہمیں آسائش کی طرف مائل کر دے گا.اگر چہ میں سامان تو مہیا کر سکتا ہوں لیکن پھر آسائشوں اور سہولتوں کو دیکھ کر انہی چیزوں میں پڑ جاؤں گا.اس لیے میں نہیں چاہتا کہ ایسی چیزیں رکھوں.مدت بعد ایک بار پھر بلال کا اذان دینا اس موقع پر حضرت بلال کی اذان کا ایک روح پرور واقعہ بھی پیش آیا.پہلے بھی بیان ہو چکا ہے.حضرت بلال رسول اللہ صلی ال یکم کی وفات کے بعد اذان نہ دیتے تھے.اس موقعے پر ایک دفعہ نماز کا وقت ہو اتو لوگوں نے حضرت عمرؓ سے اصرار کیا کہ وہ حضرت بلال کو اذان دینے کا حکم دیں.حضرت عمرؓ کے حکم پر حضرت بلال نے جب اذان دی تو سب آنکھیں اشکبار ہو گئیں.لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور لوگوں میں سب سے زیادہ حضرت عمر روئے کیونکہ اس اذان نے انہیں رسول اللہ صلی الی یکم کا زمانہ یاد کرادیا.250 مفتوحہ علاقے لینے کی رومیوں کی آخری کوشش رومیوں کی آخری کوشش کے بارے میں لکھا ہے کہ 17 / ہجری میں رومیوں نے مسلمانوں سے شام واپس لینے کے لیے ایک آخری کوشش کی اور شمالی شام، الجزیرہ، شمالی عراق اور آرمینیا کے کر دوں، بدوؤں، عیسائیوں اور ایرانیوں نے ہر قل سے اپیل کی کہ مسلمانوں کے خلاف ان کی مدد کی جائے.انہوں نے اپنی طرف سے تیس ہزار کے لشکر کی پیشکش کی.گو کہ اس وقت تک الجزیرہ کا اکثر حصہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے فتح کر لیا تھا مگر تاہم وہاں کے بدوؤں پر ابھی تک ان کا قبضہ نہیں ہوا تھا اور قیصر روم کی بحری طاقت ابھی برقرار تھی.اس نے موقعے کو غنیمت جانا اور ایک بڑی بحری فوج کے ساتھ حملہ کر دیا جبکہ بدوی قبائل کے ایک عظیم لشکر نے حمص کا محاصرہ کر لیا اور شمالی شام کے کچھ

Page 117

101 اصحاب بدر جلد 4 شہروں نے بغاوت کر دی.حضرت ابو عبیدہ نے حضرت عمر کو امدادی کمک کے لیے لکھا.حضرت عمرؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو فوراً کوفہ سے امدادی فوج بھیجنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ حضرت سعد نے قعقاع بن عمرو کی زیر سر کر دگی ایک فوج کو فہ سے روانہ کی مگر اس کے باوجو د رومی لشکر اور مسلمانوں کے لشکر کی تعداد میں بہت زیادہ فرق تھا.حضرت ابو عبیدہ نے لشکر کے سپاہیوں سے ایک جوشیلا خطاب کیا اور فرمایا کہ مسلمانو ! آج جو ثابت قدم رہ گیا اور اگر زندہ بچا تو ملک و مال اس کو ملے گا اور اگر مارا گیا تو شہادت کی دولت ملے گی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ کریم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ مشرک نہ ہو تو وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا.دونوں گروہوں میں جنگ ہوئی تو مسلمانوں کے مقابلے میں تھوڑی ہی دیر میں رومیوں کے پیر اکھڑ گئے اور وہ مرجُ الدِّيباج جو شام کے سرحدی علاقے پر ایک شہر مصیصہ ہے اس سے دس میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی وادی کا نام ہے وہاں تک بھاگتے چلے گئے اور اس کے بعد کبھی قیصر کو شام کی طرف پیش قدمی کرنے کا حوصلہ نہ ہوا.251 تباہ کن طاعون عمواس طاعون عمواس: یہ بھی ایک جگہ ہے جو رملہ سے بیت المقدس کے راستے پر چھ میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے.کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ اسے طاعون عمواس اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں سے اس مرض کا آغاز ہوا تھا.اس مرض سے شام میں لا تعداد اموات ہوئیں.بعض کے نزدیک اس سے چھپیں ہزار کے قریب اموات ہوئیں.اس کی تفصیل بخاری کی ایک روایت میں ملتی ہے.حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر ر غ مقام یعنی سرغ وہ ہے جو شام اور حجاز کے سرحدی علاقے میں وادی تبوک کی ایک بستی ہے جو مدینے سے تیرہ راتوں کی مسافت پر ہے.پرانی تاریخوں میں اس طرح ہی لکھا ہو تا تھا.اس کا مطلب کوئی ہزار میل کے قریب ہو گا، وہاں پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراء حضرت ابو عبیدہ اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی.ان لوگوں نے حضرت عمررؓ کو بتایا کہ شام کے ملک میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے.حضرت عمرؓ نے اپنے پاس مشورے کے لیے اولین مہاجرین کو بلایا.حضرت عمرؓ نے ان سے مشورہ کیا مگر مہاجرین میں اختلاف رائے ہو گئی.بعض کا کہنا تھا کہ یہاں سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے جبکہ بعض نے کہا کہ اس لشکر میں رسول اللہ صلی نیلم کے صحابہ کرام شامل ہیں اور ان کو اس وبا میں ڈالنا مناسب نہیں.حضرت عمرؓ نے مہاجرین کو واپس بھجوا دیا اور انصار کو بلایا اور ان سے مشورہ لیا مگر انصار کی رائے میں بھی مہاجرین کی طرح اختلاف ہو گیا.حضرت عمرؓ نے انصار کو بھیجوایا اور پھر فرمایا کہ قریش کے بوڑھے لوگوں کو بلاؤ جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے.ان کو بلایا گیا.انہوں نے ایک زبان ہو کر مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اور وبائی علاقے میں لوگوں کو نہ لے کے جائیں.حضرت عمرؓ نے ان لوگوں میں واپسی کا اعلان کروا دیا.

Page 118

اصحاب بدر جلد 4 102 حضرت ابو عبیدہ نے اس موقع پر سوال کیا کہ اللہ کی تقدیر سے فرار ممکن ہے ؟ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہ سے فرمایا اے ابو عبیدہ اکاش تمہارے علاوہ کسی اور نے یہ بات کہی ہوتی.ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار ہوتے ہوئے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف جاتے ہیں.کیونکہ ایک تقدیر سے دور جارہے ہیں لیکن دوسری تقدیر بھی اللہ کی ہے اس طرف جارہے ہیں.فرمایا کہ اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ان کو لے کر ایسی وادی میں اترو جس کے دو کنارے ہوں.ایک سر سبز ہو اور دو سر اخشک ہو تو کیا ایسا نہیں ہے کہ اگر تم اپنے اونٹوں کو سر سبز جگہ پر چراؤ تو وہ اللہ کی تقدیر سے ہے اور اگر تم ان کو خشک جگہ پر چر اؤ تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہے.راوی کہتے ہیں کہ اتنے میں حضرت عبد الرحمن بن عوف بھی آگئے جو پہلے اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے تھے.انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس اس مسئلے کا علم ہے.میں نے رسول اللہ صلی علی کم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ، حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا میں نے آنحضرت صلی علیم سے یہ سنا ہے کہ جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں کوئی وبا پھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر کوئی مرض کسی ایسی جگہ پر پھوٹ پڑے جہاں تم رہتے ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے باہر بھی مت نکلو.اس پر حضرت عمر نے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس لوٹ گئے.252 طاعون عمواس کے بارے میں حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ جب شام تشریف لے گئے اور وہاں طاعون پڑ گئی جو طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہے اور حضرت ابو عبیدہ اور اسلامی لشکر نے آپ کا استقبال کیا تو اس وقت صحابہ نے مشورہ دیا کہ چونکہ اس وقت علاقہ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس لیے آپ کو واپس تشریف لے جانا چاہیے.حضرت عمرؓ نے ان کے مشورہ کو قبول کر کے فیصلہ کر لیا کہ آپ واپس لوٹ جائیں گے.حضرت ابو عبیدہ ظاہر پر بڑا اصرار کرنے والے تھے.انہیں جب اس فیصلہ کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ أَتَفِرُّ مِنَ القضاء کیا آپ قضائے الہی سے بھاگ رہے ہیں ؟ حضرت عمر نے کہا أَفِرُ مِنْ قَضَاءِ اللهِ إِلى قَدَرِ اللهِ میں اللہ تعالیٰ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگ رہا ہوں.یعنی اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فیصلہ ہے اور ایک عام فیصلہ.یہ دونوں فیصلے اسی کے ہیں.کسی اور کے نہیں.پس میں اس کے فیصلہ سے بھاگ نہیں رہا بلکہ اس کے ایک فیصلہ سے اس کے دوسرے فیصلہ کی طرف جا رہا ہوں.تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضرت عمر کو جب طاعون کی خبر ملی اور آپ نے مشورہ کے لیے لوگوں کو اکٹھا کیا تو آپ نے دریافت فرمایا کہ شام میں تو پہلے بھی طاعون پڑا کرتی ہے.پھر لوگ ایسے موقعے پر کیا کیا کرتے ہیں.انہوں نے بتایا کہ جب طاعون پھیلتی ہے تو لوگ بھاگ کر ادھر اُدھر چلے جاتے ہیں اور طاعون کا زور ٹوٹ جاتا ہے“ یعنی بجائے شہر میں رہنے کے ارد گرد کے علاقوں میں باہر کھلی جگہوں پر چلے جاتے ہیں.”اسی مشورہ کی طرف آپ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ایک عام قانون بھی بنایا ہوا ہے کہ جو شخص طاعون کے مقام سے بھاگ کر ادھر اُدھر کھلی ہوا میں چلا جائے وہ بچ جاتا ہے.پس جبکہ یہ قانون بھی خدا.

Page 119

اصحاب بدر جلد 4 103 تعالیٰ کا ہی بنایا ہوا ہے تو میں اس کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کر رہا بلکہ اس کی قضا سے قدر کی طرف لوٹ رہا ہوں.یعنی خدا تعالیٰ کے خاص قانون کے مقابلہ میں اس کے عام قانون کی طرف جارہا ہوں.پس تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں بھاگ رہا ہوں.میں صرف ایک قانون سے اس کے دوسرے قانون کی طرف جارہا ہوں.“ 25366 حضرت عمرؓ نے خط پڑھا اور روپڑے حضرت عمر مدینہ واپس آگئے مگر آپ کو طاعون کے پھیلنے کی وجہ سے بہت گھبراہٹ اور پریشانی تھی.ایک دن حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہ کو خط بھجوایا کہ مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے اس لیے جب تمہیں یہ خط پہنچے تو فوراً مدینے کے لیے روانہ ہو جانا.اگر خط رات کو پہنچے تو صبح ہونے کا انتظار نہ کرنا اور اگر خط صبح پہنچے تو رات ہونے کا انتظار نہ کرنا.حضرت ابو عبیدہ نے جب وہ خط پڑھا تو کہنے لگے کہ میں امیر المومنین کی ضرورت کو جانتا ہوں.اللہ حضرت عمرؓ پر رحم کرے کہ وہ اسے باقی رکھنا چاہتے ہیں جو باقی رہنے والا نہیں ہے.سمجھ گئے کہ کیا گھبر اہٹ ہے؟ کس وجہ سے ہے ؟ پھر اس خط کا جواب دیا کہ یا امیر المومنین ! میں آپ کی منشا کو سمجھ گیا ہوں.مجھے نہ بلائیے.یہیں رہنے دیجئے.میں مسلمان سپاہیوں میں سے ایک ہوں.جو مقدر ہے وہ ہو کر رہے گا.میں ان سے کیسے منہ موڑ سکتا ہوں ؟ حضرت عمرؓ نے جب وہ خط پڑھا تو آپ رو پڑے.مہاجرین میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے پوچھایا امیر المومنین ! کیا حضرت ابو عبیدہ فوت ہو گئے.آپؐ نے فرمایا نہیں لیکن شاید ہو جائیں.254 ابو عبیدہ کا شوق شہادت پھر حضرت عمررؓ نے حضرت ابو عبیدہ کو لکھا کہ مسلمانوں کو اس خطے سے نکال کر کسی صحت افزا مقام پر لے جاؤ.جب بھی کوئی مسلمان سپاہی طاعون سے شہید ہوتا تو حضرت ابوعبیدہ روپڑتے اور اللہ سے شہادت طلب کرتے.ایک روایت میں ہے کہ اس وقت آپ یہ دعا پڑھتے کہ اے اللہ ! کیا ابو عبیدہ کی آل کا اس میں یعنی شہادت میں حصہ نہیں.ایک دن حضرت ابو عبیدہ کی انگلی پر ایک چھوٹی سی پھنسی نمودار ہوئی.اس کو دیکھ کر آپ نے کہا امید ہے کہ اللہ اس تھوڑے میں برکت ڈالے گا اور جب تھوڑے میں برکت ہو تو وہ بہت ہو جاتا ہے.عرباض بن ساریہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو عبیدہ طاعون سے بیمار ہوئے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت ابو عبیدہ نے میرے سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللی کمی سے سنا ہے کہ جو طاعون سے مرے وہ شہید ہے.جو پیٹ کی بیماری سے مرے وہ شہید ہے.جو ڈوب کر مرے وہ شہید ہے اور جو چھت کے گرنے سے دب کر مر جائے وہ شہید ہے.

Page 120

اصحاب بدر جلد 4 104 آخری وقت اور وصیت جب حضرت ابو عبیدہ انکا آخری وقت آیا تو لوگوں سے فرمایا کہ لوگو ! میں تمہیں ایک وصیت کرتا ہوں اگر قبول کرو گے تو فائدے میں رہو گے.نصیحت یہ ہے کہ نماز کو قائم کرنا.زکوۃ ادا کرنا.رمضان کے روزے رکھنا.صدقہ دیتے رہنا.حج کرنا.عمرہ کرنا.ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی تاکید کرنا.اپنے امراء سے خیر خواہی کرنا.انہیں دھوکا نہ دینا.دیکھو تمہیں عورتیں تمہارے فرائض سے غافل نہ کر دیں.اگر آدمی ہزار سال بھی زندہ رہے تب بھی ایک دن اسے اس دنیا سے رخصت ہونا ہے جیسا میں رخصت ہوا چاہتا ہوں.اللہ نے بنی آدم کے لیے موت مقدر کر رکھی ہے.ہر شخص مرے گا.عقلمند وہ ہے جو موت کے لیے تیار رہتا ہے اور اس دن کے لیے تیاری کرتا ہے.امیر المومنین کو میر اسلام پہنچادینا اور عرض کرنا کہ میں نے تمام امانتیں ادا کر دی ہیں.پھر حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ مجھے میرے فیصلہ کے مطابق یہیں دفن کر دینا.چنانچہ اردن کی زمین میں وادی بیسان میں آپ کی قبر ہے.بعض روایات کے مطابق حضرت ابو عبیدہ بن جراح جابیہ سے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کے لیے جارہے تھے تو راستہ میں آپ کی وفات کا وقت آگیا اور دوسری روایت کے مطابق آپ کی وفات شام کے علاقہ فحل میں ہوئی اور آپ کی قبر بیسان مقام کے پاس ہے.حضرت ابو عبیدہ نے مرض الموت میں حضرت معاذ بن جبل کو اپنا قائمقام مقرر فرمایا.جب حضرت ابو عبیدہ کی وفات ہوئی تو حضرت معاذ نے لوگوں سے کہا لو گو ! آج ہم میں سے وہ شخص جد ا ہو ا ہے جس سے زیادہ صاف دل، بے کینہ ، لوگوں سے محبت کرنے والا اور ان کا خیر خواہ میں نے نہیں دیکھا.دعا کرو کہ اللہ اس پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے.5 حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے 18 ہجری میں وفات پائی.اس وقت آپ کی عمر 58 سال تھی.56 اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اسلام میں ابو عبیدہ جیسے پیدا کیے 255 ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہ کو چار ہزار درہم اور چار سو دینار بھجوائے اور اپنے قاصد سے فرمایا کہ دیکھناوہ اس مال کا کیا کرتے ہیں.چنانچہ جب وہ قاصد یہ مال لے کر حضرت ابو عبیدہ کے پاس پہنچا تو حضرت ابو عبیدہ نے ساری رقم لوگوں میں تقسیم کر دی.قاصد نے یہ تمام واقعہ حضرت عمرؓ سے بیان کیا جس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اسلام میں ابو عبیدہ جیسے پیدا کیے.حضرت عمر کی ایک خواہش.....حضرت عمر نے ایک دفعہ اپنے ساتھیوں سے کہا کسی چیز کی خواہش کرو.کسی نے کہا میری خواہش ہے کہ یہ گھر سونے سے بھر جائے اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں اور صدقہ کر دوں.ایک شخص نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ یہ مکان ہیرے جواہرات سے بھر جائے اور میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کروں اور صدقہ کر دوں.پھر حضرت عمرؓ نے کہا اور خواہش کرو.انہوں نے کہا اے امیر المومنین !

Page 121

تاب بدر جلد 4 105 257 ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کیا خواہش کریں.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میری یہ خواہش ہے کہ یہ گھر حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت معاذ بن جبل اور سالم مولیٰ ابو حذیفہ اور حضرت حذیفہ بن یمان جیسے لوگوں سے بھرا ہوا ہو یعنی ایسے وہ لوگ ہوں.7 پس کیا خوش قسمت ہیں یہ لوگ جو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے تھے اور اگلے جہان میں بھی اس کی رضا حاصل کرنے والے ہیں.258 32 حضرت ابی بن کعب مسلمانوں کے سردار ، کاتب وحی، امت کے قاری، جن کا نام خدا نے لیا کہ قرآن سنایا جائے نام و نسب و کنیت حضرت ابی بن کعب حضرت ابی انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو معاویہ سے تھے.حضرت ابی کے والد کا نام گغب بن قیس اور والدہ کا نام صُهَيْله بنت اسود تھا.حضرت ابی بن کعب کی دو کنیتیں تھیں ایک ابو منذر جو کہ آنحضرت صلی علیم نے رکھی اور دوسری ابوطفیل جو حضرت عمر نے ان کے بیٹے طفیل کی وجہ سے رکھی تھی.259 حليه حضرت ابی متوسط قامت تھے یعنی درمیانے قد کے تھے.حضرت ابی کے سر اور داڑھی کا رنگ سفید تھا.خضاب کے ذریعے سے اپنا بڑھاپا تبدیل نہیں کرتے تھے.260 یعنی بالوں کو یا داڑھی کو رنگ نہیں لگاتے تھے.بیعت عقبہ میں شامل اور کاتب وحی حضرت ابی بن کعب ستر افراد کے ہمراہ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل تھے.حضرت ابی اسلام سے پہلے بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور اسلام کے بعد حضرت اُبی کو آنحضرت صلی اللہ تم پر نازل ہونے والی وحی لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی.آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے حضرت ابی اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی

Page 122

تاب بدر جلد 4 106 جبکہ دوسری روایت کے مطابق آنحضرت صلی اہل علم نے حضرت ابی اور حضرت سعید بن زید کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی.61 261 میری امت کے سب سے بڑے قاری حضرت ابی بن کعب کے متعلق آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی للی نمک کو حکم دیا کہ وہ ابی کو قرآن پڑھ کر سنائیں اور رسول اللہ صلی علی یکم نے فرمایا میری امت کے سب سے بڑے قاری ابی نہیں.262 اور اسی وجہ سے ان کے بارے میں یہی آتا ہے کہ ان کو قرآن کا بہت علم تھا اور آگے اور بھی اس بارے میں روایتیں آئیں گی.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ : حضرت ابی بن کعب ان چار آدمیوں میں سے تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی الی یکم نے فرمایا تھا کہ یہ فرائے امت ہیں یعنی اگر کسی نے قرآن سیکھنا ہو تو ان سے سیکھے.263 کاتبین وحی پھر حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ”رسول کریم صلی الم جن کا تبوں کو قرآن کریم لکھواتے تھے ان میں سے مندرجہ ذیل پندرہ نام تاریخ سے ثابت ہیں.زید بن ثابت، ابی بن کعب، عبد اللہ بن سعد بن ابی سرخ، زبیر بن العوام، خالد بن سعید بن العاص، ابان بن سعید العاص، حنظلہ بن الربيعَ الْأَسَدِى ، مُعَيْقِيب بن ابی فاطمہ ، عبد اللہ بن ارقم الزهرى شرخبيل بن حَسَنَه ، عبد الله بن رواحہ، حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت علی.جب رسول کریم صلی یہ تم پر قرآن شریف نازل ہو تا تو آپ ان لوگوں میں سے کسی کو بلا کر وحی لکھوا دیتے تھے.264 قرآن پڑھانے کے لئے چوٹی کے چار استاد حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ فرمایا کہ "رسول اللہ صلی الی یکم نے قرآن پڑھانے والے استادوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی تھی جو سارا قرآن رسول اللہ صلی علی کم سے حفظ کر کے آگے لوگوں کو پڑھاتے تھے.یہ چار چوٹی کے استاد تھے جن کا کام یہ تھا کہ رسول اللہ صلی علیم سے قرآن شریف پڑھیں اور لوگوں کو قرآن پڑھائیں.پھر ان کے ماتحت اور بہت سے صحابہ ایسے تھے جو لو گوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے.ان چار بڑے استادوں کے نام یہ ہیں: 1.عبد اللہ بن مسعودؓ ، 2.سالم مولی ابی حذیفہ ، 3.معاذ بن جبل، 4.ابی بن کعب ان میں سے پہلے دو مہاجر ہیں اور دوسرے دو انصاری.کاموں کے لحاظ سے عبد اللہ بن مسعود ایک مزدور تھے ، سالم ایک آزاد شدہ غلام تھے ، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب مدینہ کے رؤسا میں سے تھے.گو یار سول اللہ صلی علیم نے تمام گروہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر گروہ میں سے قاری مقرر کر دیے

Page 123

تاب بدر جلد 4 107 تھے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم فرمایا کرتے تھے خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ (مِنْ) عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَ سَالِمٍ وَ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَ أبي بن كعب.جن لوگوں نے قرآن پڑھنا ہو وہ ان چار سے قرآن پڑھیں.عبد اللہ بن مسعودؓ ، سالم، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب.یہ چار تو وہ ہیں جنہوں نے سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ ہم سے سیکھا یا آپ کو سنا کر اس کی تصحیح کرالی لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے صحابہ رسول اللہ صلی الم سے بر اور است بھی کچھ نہ کچھ قرآن سیکھتے رہتے تھے.265" کیا اللہ نے میر انام لیا تھا؟ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یکم نے حضرت ابی کو فرمایا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں سورۃ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتب پڑھ کر سناؤں.حضرت اُبی نے پوچھا کیا میرا الله سة نام لیا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں.حضرت ابی یہ سن کر رو پڑے.یہ بخاری کی روایت ہے.266 جبکہ ایک دوسری روایت میں ذکر ہے کہ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی المینیوم نے حضرت ابی بن کعب سے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں.حضرت اُبی نے پوچھا کیا اللہ نے آپؐ سے میرا نام لیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں.حضرت اُبی نے عرض کیا: دونوں جہانوں کے پالنے والے کے ہاں میر اذکر ہوا ہے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ہاں.اس پر حضرت ابی کی آنکھوں میں آنسو آگئے.267 اس واقعے کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اپنے الفاظ میں اس طرح بیان فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ابو حَيَّة بدری سے روایت ہے کہ جب سورة لغد يكن سب کی سب نازل ہوئی ہے ( یعنی یہ اکٹھی نازل ہوئی ہے) تو جبریل نے رسول کریم صلی علیم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ یہ سورۃ ابی بن کعب کو یاد کرا دیں.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب سے کہا کہ جبریل نے مجھے حکم دیا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا یہ حکم مجھے پہنچایا ہے کہ میں یہ سورۃ تم کو یاد کر ا دوں.ابی بن کعب نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرا بھی خدا تعالیٰ کے حضور میں ذکر آیا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس پر ابی بن کعب خوشی کے مارے رو پڑے.“ سة 26866 حفاظ قرآن رسول الله صلى ال ملک کے بعد حضرت عمر فاروق نے اس جملے کی یاد کو کئی مرتبہ تازہ کیا.ایک مرتبہ مسجد نبوی کے منبر پر کہا کہ سب سے بڑے قاری اُبی نہیں.شام کے مشہور سفر میں مقام جابیہ ، یہ جابیہ دمشق کے علاقے کی ایک بستی کا نام ہے ، وہاں اس کے خطبہ میں فرمایا کہ مَنْ أَرَادَ الْقُرْآنَ فَلْيَأْتِ أَبَيًّا یعنی جس کو قرآن کا ذوق ہو وہ اُئی کے پاس آئے.269 حضرت انس سے روایت ہے کہ چار شخصوں نے نبی صلی علی یلم کے زمانے میں قرآن سارے کا سارا

Page 124

اصحاب بدر جلد 4 108 حفظ کیا تھا.یہ سب انصاری تھے.حضرت ابی بن کعب، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوزید اور حضرت زید بن ثابت.یہ بخاری کی حدیث ہے.70 حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : انصار میں سے جو مشہور حفاظ تھے ان کے نام یہ ہیں.عبادہ بن صامت، معاذ ، مجمع بن حارِثه ، فَضَاله بن عُبيد ، مَسْلَمَه بن مخلد ، ابو در داله، ابوزید ، زید بن ثابت، ابی بن کعب، سعد بن عبادہ اور 271❝ ام ورقہ میری امت میں..272 آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ میری امت پر سب سے زیادہ مہربان حضرت ابو بکر نہیں اور خدا کے دین کی بابت سب سے زیادہ سخت حضرت عمر نہیں، یعنی ان میں اصولوں کی بڑی سختی ہے اور حیا میں سب سے زیادہ کامل حضرت عثمان ہیں.حیا کے اعلیٰ معیار پر پہنچے ہوئے حضرت عثمان ہیں اور حلال و حرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے حضرت معاذ بن جبل نہیں اور فرائض کے سب سے زیادہ جاننے والے حضرت زید بن ثابت ہیں اور قراءت کے سب سے زیادہ جاننے والے حضرت ابی بن کعب نہیں اور ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین حضرت ابو عبیدہ بن جراح ہیں.جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے حضرت ابو عبیدہ کا.کاتب کا نام لکھنے کی ابتداء کرنے والے آنحضرت صلی الم کی مدینہ تشریف آوری پر سب سے پہلے آپ صلی یہ کم کی وحی لکھنے والے حضرت ابی بن کعب ہی تھے.اس زمانے میں کتاب یا قرآن کے اخیر میں کاتب کا نام لکھنے کا دستور نہیں تھا.سب سے پہلے حضرت اُبی نے اس کی ابتدا کی.بعد میں اور بزرگوں نے بھی اس کی تقلید کی.یعنی لکھنے والے کا نام نہیں لکھاجاتا تھا صرف کتابت کی جاتی تھی.حضرت اُبی نے اس کام کو شروع کیا کہ لکھنے کے بعد آخر میں اپنانام لکھ دیا کہ یہ میں نے لکھا ہے اس کے بعد پھر یہ طریق با قاعدہ رائج ہو گیا.حضرت ابی نے قرآن کا ایک ایک حرف رسول اللہ صلی علی ایم کے دہن مبارک سے سن کر یاد کر لیا 273 تھا.آنحضرت صلی اللہ کی بھی ان کے شوق کو دیکھ کر ان کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرماتے تھے.نبوت کا رعب بڑے بڑے صحابہ کو سوال کرنے سے مانع ہو تا تھا، روکتا تھا لیکن حضرت اُئی ہے جھجک جو چاہتے تھے سوال کرتے تھے.یعنی یہ نہیں کہ بے تکے سوال کرتے تھے.ایک جو نبوت کار عب ہے اس کے اور مقام کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جس طرح سوال کرنا چاہیے اس طرح سوال کرتے تھے لیکن جھجک نہیں تھی.ان کے شوق کو دیکھ کر بعض اوقات آنحضرت صلی علی یم خو د ابتدا فرماتے تھے اور بغیر پوچھے بھی بتا دیتے تھے.274

Page 125

اصحاب بدر جلد 4 109 ایک مرتبہ آنحضرت صلی علیم نے نماز فجر پڑھائی.اس میں ایک آیت پڑھنا بھول گئے.حضرت ابی نماز میں شروع سے شریک نہیں ہوئے تھے بلکہ درمیان میں شریک ہوئے تھے.نماز ختم کر کے آنحضرت صلی علی یکم نے لوگوں سے پوچھا کہ کسی نے میری قراءت پر خیال کیا تھا؟ تمام لوگ خاموش رہے.پھر پوچھا ابی بن کعب ہیں ؟ حضرت ابی اس وقت تک نماز ختم کر چکے تھے.غالباً دوسری رکعت پڑھی ہو گی جو یہ غلطی ہوئی ہوگی یا سہو ہوا ہو گا یا آیت کو بھولے ہوں گے جس کو حضرت ابی بن کعب نے بعد میں شامل ہونے کے بعد بہر حال سن لیا تھا.ابی نماز ختم کر چکے تھے مگر بولے کہ آپ نے فلاں آیت نہیں پڑھی.انہوں نے عرض کیا یار سول اللہ ٹھیک ہے آپ نے تلاوت میں فلاں آیت نہیں پڑھی.کیا یہ منسوخ ہو گئی ہے یا آپ پڑھنا بھول گئے تھے ؟ آنحضرت صلی الم نے فرمایا نہیں، میں پڑھنا بھول گیا تھا.اس کے بعد فرمایا کہ میں جانتا تھا.حضرت اُبی کو مخاطب کر کے آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ میں جانتا تھا کہ تمہارے سوا اور کسی کو ادھر خیال نہیں ہو ا ہو گا.275 رسول الله صلى الله لم کی مقبول دعائیں حضرت ابی بن کعب بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا.ایک آدمی اندر آیا اور نماز پڑھنے لگا.پھر اس نے ایسی قراءت کی جو مجھے اوپری لگی.پھر ایک اور آدمی اندر آیا اس نے اپنے ساتھی کی قراءت سے مختلف قراءت کی.پھر جب ہم نماز پڑھ چکے تو ہم سب رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے.میں نے عرض کیا کہ اس شخص نے ایسی قراءت میں قرآن پڑھا ہے جو مجھے اوپری لگی.پھر دوسرا شخص آیا اس نے اپنے ساتھی کی قراءت سے مختلف قراءت کی.رسول اللہ صلی للہ ہم نے ان دونوں کو ارشاد فرمایا کہ اچھا.کہا اب مجھے پڑھ کے سناؤ.ان دونوں نے قراءت کی.قرآن کریم پڑھ کے سنایا.رسول اللہ صلی علیم نے ان کے پڑھنے کو ٹھیک قرار دیا.دونوں کو کہا کہ تم دونوں ٹھیک ہو.اپنی رائے کی تردید پر حضرت ابی کہتے ہیں کہ میں نے جو رائے قائم کی تھی کہ اس نے غلط پڑھا ہے اس کی جب آنحضرت علی الم نے تردید کر دی اور دونوں کو صحیح قرار دے دیا تو میں انتہائی شرمندہ ہوا جو جاہلیت میں بھی نہ ہوا تھا جب مجھے کچھ بھی نہیں پتہ تھا.ایسی شرمندگی اس وقت مجھے ہوئی کہ کبھی زندگی میں نہیں ہوئی.جب رسول اللہ صلی علیم نے اس حالت کو دیکھا جو مجھ پر طاری ہوئی تھی، شرمندگی کی کیفیت چہرے سے ظاہر ہو گئی ہو گی، تو آپ صلی علی کم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا.میں پسینے میں شرابور تھا گویا کہ میں ڈر کی حالت میں اللہ عز و جل کو دیکھ رہا تھا تب رسول اللہ صلی للی تم نے مجھ سے فرمایا کہ اے آئی ! مجھے پیغام بھجوایا گیا کہ میں قرآن کو ایک قراءت میں پڑھوں.میں نے اس کا جواب دیا کہ میری امت کے لیے آسانی پیدا کر دے.چنانچہ اس نے مجھے دوسری مرتبہ یہ جواب دیا کہ میں اسے یعنی قرآن کو دو قراءتوں میں پڑھوں.پھر میں نے عرض کیا کہ میری امت کے لیے آسانی فرما دے.پھر اس نے

Page 126

110 اصحاب بدر جلد 4 تیسری مرتبہ مجھے جواب دیا کہ اسے سات قراء توں پر پڑھ لو.پس ہر سوال کے بدلے جس کا میں نے تجھے جواب دیا ہے ایک دعا کا تجھے حق دیا گیا ہے یعنی اس فرشتے نے کہا.جبرئیل نے کہا اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام ہے کہ ہر قراءت کے بدلے دعا کا حق دیا گیا ہے.جو تُو مجھ سے مانگ سکتا ہے تب میں نے عرض کیا، آنحضرت صلی علیکم فرمارہے ہیں کہ تب میں نے عرض کیا کہ اے اللہ !میری امت کو بخش دے.اے اللہ ! میری امت کو بخش دے.اور تیسری دعائیں نے اس دن کے لیے چھوڑ رکھی ہے جس دن ساری مخلوق میری طرف رغبت کرے گی یہاں تک کہ ابراہیم بھی.276 جبرئیل نے کہا تھا کہ ابی کو قرآن سناد بیجیے حضرت ابی بن کعب کو فن قراءت میں جو کمال حاصل تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ خود آنحضرت صلی للہ نام ان سے قرآن کا دور کرواتے تھے.چنانچہ جس سال آپ نے وفات پائی حضرت آئی " کو قرآن سنایا اور فرمایا مجھ سے جبرئیل نے کہا تھا کہ ابی کو قرآن سنا دیجیے.277 آنحضرت صلی اللی الم نے حضرت ابی کو قرآن سنایا.آنحضرت صلی الم کے زمانہ مبارک میں حضرت اُئی ایک ایرانی کو قرآن پڑھاتے تھے.جب اس کو یہ آیت پڑھائی اِنَّ شَجَرَتَ الرَّقُومِ طَعَامُ الْآثِيْمِ تو اس سے آٹیم ادانہ ہو تا تھا.ایرانی کا تلفظ تھا.وہ ث کے لفظ کو صحیح طرح ادا نہیں کر سکتا تھا.ہر دفعہ جب یہ اشیم کہتے تو وہ یتیم کہہ دیتا تھا.حضرت اُئی نہایت پریشان تھے کہ کس طرح اس کو سکھاؤں.آنحضرت صلی للی کم کا وہاں سے گزر ہوا اور ان کی پریشانی دیکھ کر ٹھہر گئے اور جب یہ بات سنی تو ایرانی زبان میں فرمایا اسے یہ کہو کہ طَعَامُ الظَّائِم یہ ظ سے.اس نے جب اس طرح اس کو کہا تو اس نے صاف طور پر ادا کر دیا اور اشیم کہہ دیا.انہوں نے ظائِم کہا تھا تو اس نے اشیم کہہ دیا اور صحیح تلفظ ادا کر دیا.اس پر آپ نے حضرت ابی سے فرمایا کہ اس کی زبان درست کرو.جس طرح اس کی زبان ہے اس زبان میں اس کو بتاؤ تا کہ وہ صحیح تلفظ سے قرآن کریم پڑھ سکے اور اس سے حرف نکلواؤ، خدا تمہیں اس کا اجر دے گا.278 خطبہ میں نہیں بولنا چاہیے تھا ایک مرتبہ آنحضرت صلی علی یکم جمعے کے دن خطبہ دے رہے تھے اور سورہ براءت تلاوت فرمائی.یہ سورہ حضرت ابو درداء اور ابو ذر کو معلوم نہ تھی.اثنائے خطبہ میں حضرت ابی سے اشارہ سے پوچھا کہ یہ سورۃ کب نازل ہوئی ہے ؟ میں نے تو اب تک نہیں سنی تھی.حضرت اُبی نے اشارے سے کہا خاموش رہو.نماز کے بعد جب اپنے گھر جانے کے لیے اٹھے تو دونوں بزرگوں نے حضرت اُبی سے کہا کہ تم نے ہمارے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا تھا ؟ جواب میں اُبی نے کہا آج تمہاری نماز بیکار ہو گئی ہے اور وہ بھی محض ایک لغو حرکت کی وجہ سے.یہ سن کر وہ لوگ آنحضرت صلی علیم کے پاس پہنچے اور بیان کیا کہ ابی ایسا کہتے ہیں.رض

Page 127

ب بدر جلد 4 111 صلی اللی کرم نے فرمایا کہ ”سچ کہتے ہیں“.یعنی خطبے میں تمہیں بولنا نہیں چاہیے تھا.279 سے عظیم آیت حضرت ابی بن کعب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اے ابو منذر ! کیا تمہیں پتہ ہے کہ اللہ کی کتاب میں جو تمہارے پاس ہے سب سے عظیم آیت کون سی ہے ؟ حضرت ابی کہتے ہیں میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.آپ نے دوبارہ پوچھا اور فرمایا اے ابو منذر ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی کتاب میں جو تمہارے پاس ہے سب سے عظیم آیت کون سی ہے ؟ وہ کہتے ہیں جب دوبارہ پوچھا تو اس پر پھر میں نے عرض کیا کہ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وہ کہتے ہیں حضور صلی ا ہم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا بخدا اے ابو منذرا علم تمہیں مبارک ہو.280 آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.اس بات کو ، جواب کو پسند کیا.قرآن پڑھانے کے عوض کوئی ہدیہ نہیں لیتا آنحضرت صلیم کے عہد مقدس میں حضرت اُبی نے حضرت طفیل بن عمرو دوسی کو قرآن پڑھایا تھا.انہوں نے ایک کمان بدیہ پیش کی.حضرت ابی اس کو لگا کر رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ صلی علیہم نے پوچھا کہ یہ کہاں سے لائے ہو ؟ حضرت اُبی نے کہا کہ ایک شاگرد کا ہدیہ ہے.آپ صلی لیلی یم نے فرمایا اس کو واپس کر دو.آئندہ ایسے ہدیے سے پر ہیز کرنا.اسی طرح ایک شاگر دنے کپڑ ا ہدیہ میں پیش کیا اس میں بھی یہی صورت پیش آئی.اس لیے بعد میں ان باتوں سے بکلی اجتناب کر لیا یعنی قرآن پڑھانے کے عوض میں کوئی ہد یہ نہیں لینا.ملک شام کے لوگ جب آپ سے قرآن مجید پڑھتے اور مدینہ کے کاتبوں سے لکھواتے بھی تھے اور کتابت کا معاوضہ اس طرح ادا ہو تا تھا کہ شامی اپنے ساتھ کاتبوں کو کھانے میں شریک کر لیا کرتے تھے.معاوضہ یہ ہو تا تھا کہ اپنے ساتھ کھانا کھلا دیا لیکن حضرت ابی ایک وقت بھی ان کی دعوت منظور نہ کرتے تھے.حضرت عمرؓ نے ایک دن ان سے دریافت کیا کہ ملک شام کا کھانا کیسا ہوتا ہے ؟ حضرت اُبی نے کہا میں ان کے ہاں کھانا نہیں کھاتا میں تو اپنا ہی کھاتا ہوں.' تمام غزوات میں شمولیت رہے.281 حضرت ابی غزوہ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں آنحضرت صلی علیم کے ساتھ شریک 282 غزوہ احد میں ایک تیر آپ کی رگ پر لگا، ایسی مین (main) رگ جس کو medium vein کہتے ہیں جو سر ، سینے ، پشت اور ہاتھ پاؤں وغیرہ تک خون پہنچاتی ہے.اس پہ لگا تو آنحضرت صلی علیم نے ایک طبیب بھیجا، علاج کرنے والے کو بھیجا جس نے رگ کاٹ دی.پھر اس رگ کو اپنے ہاتھ سے داغ دیا.283

Page 128

اصحاب بدر جلد 4 112 ایک جاں نثار کا مرتے ہوئے آخری پیغام دینا کہ اس امانت کی حفاظت تمہارے سپرد غزوہ احد کا ایک واقعہ جو پہلے بھی بیان ہو چکا ہے، مختصر بیان یہاں بھی کر دیتا ہوں.جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ ہم نے حضرت ابی بن کعب کو فرمایا کہ جاؤ اور زخمیوں کو دیکھو.وہ دیکھتے ہوئے حضرت سعد بن ربیع کے پاس پہنچے جو سخت زخمی تھے اور آخری سانس لے رہے تھے.انہوں نے ان سے کہا کہ اپنے متعلقین اور اعزاء کو اگر کوئی پیغام دینا ہو تو مجھے دے دیں.حضرت سعد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں منتظر ہی تھا کہ کوئی مسلمان ادھر آئے تو پیغام دوں.284 پھر کہنے لگے کہ میرے ہاتھ میں ہاتھ دو اور وعدہ کرو کہ میرا پیغام ضرور پہنچا دو گے.اور پیغام کیا تھا.وہ یہ تھا کہ میرے بھائی ! مسلمانوں کو میر اسلام پہنچا دینا اور میری قوم اور میرے رشتہ داروں سے کہنا کہ رسول کریم صلی الیہ کم ہمارے پاس خدا تعالیٰ کی ایک بہترین امانت ہیں اور ہم اپنی جانوں سے اس امانت کی حفاظت کرتے رہے ہیں.اب ہم جاتے ہیں اور اس امانت کی حفاظت تمہارے سپر د کرتے ہیں.ایسا نہ ہو کہ تم اس کی حفاظت میں کمزوری دکھاؤ.ور ہجری میں جب زکوۃ فرض ہوئی اور آنحضرت صلی الله یمن نے تحصیل صدقات کے لیے عرب کے صوبہ جات میں عمال روانہ فرمائے تو حضرت ابی قبیلہ بنوبتی بنو عذر اور بنو سعد میں صدقہ کے عامل مقرر ہو کر گئے.ایک دفعہ حضرت ابی ایک گاؤں میں گئے تو ایک شخص نے تمام جانور لا کر سامنے کھڑے کر دیے کہ ان میں سے زکوۃ کے طور پر جس کو چاہیں انتخاب کر لیں.حضرت اُبی نے اونٹوں میں سے دو برس کا ایک بچہ چنا.صدقہ دینے والے نے کہا کہ اس کے لینے سے کیا فائدہ؟ نہ تو یہ دودھ دے سکتا ہے نہ سواری کے قابل ہے.اگر آپ لینا چاہتے ہیں تو یہ اونٹنی حاضر ہے.موٹی تازی بھی ہے اور جو ان بھی ہے.حضرت ابی نے کہا کہ یہ کبھی نہیں ہو گا.رسول اللہ صلی للی علم کی ہدایت کے خلاف میں نہیں کر سکتا.اس سے یہ بہتر ہے کہ تم میرے ساتھ چلو.مدینہ یہاں سے کچھ دُور نہیں ہے آنحضرت صلی اللی کم کے پاس جاتے ہیں آپ جو ارشاد فرمائیں گے اس کی تعمیل کرنا.وہ اس پر راضی ہو گیا اور حضرت اُئی کے ساتھ اونٹنی لے کر مدینے آیا اور آنحضرت صلی الیکم کے سامنے تمام قصہ دہر ایا.آپ سی میں ہم نے فرمایا کہ اگر تمہاری مرضی یہی ہے تم بڑی اونٹنی دینا چاہتے ہو تو تم اونٹنی دے دو قبول کر لی جائے گی اور خدا تم کو اس کا اجر دے گا.وہ اونٹنی آنحضرت علی سلم کی خدمت میں پیش کر کے واپس چلا گیا.ترتیب و تدوین قرآن حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں قرآن مجید کی ترتیب اور تدوین کا کام شروع ہوا.صحابہ کی جو جماعت اس خدمت پر مامور کی گئی حضرت ابی اس کے نگران تھے.وہ قرآن کے الفاظ بولتے تھے اور لوگ ان

Page 129

اصحاب بدر جلد 4 113 کو لکھتے جاتے تھے.یہ جماعت چونکہ ارباب علم پر مشتمل تھی اس لیے کسی کسی آیت پر مذاکرہ اور مباحثہ بھی ہوتارہتا تھا.چنانچہ جب سورۂ توبہ کی آیت کہ ثُمَّ انْصَرَفُوا صَرَفَ اللهُ قُلُوبَهُمْ بِأَنَّهُمْ قَوْمُ لَا يَفْقَهُونَ لَکھی گئی تو لوگوں نے کہا کہ یہ سب سے آخر میں نازل ہوئی تھی.حضرت اُبی نے کہا نہیں.اس کے بعد دو آیتیں مجھے رسول کریم صلی علی کرم نے پڑھائی تھیں.یہ آخری نہیں بلکہ یہ آخری دو آیتوں سے پہلے ہے.285 مجلس شوری کا قیام حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں سینکڑوں مفید باتوں کا اضافہ فرمایا جس میں ایک مجلس شوریٰ کا قیام بھی تھا.اسلام میں مجلس شوری کا قیام حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوا.یہ مجلس انصار اور مہاجرین کے مقتدر اصحاب پر مشتمل تھی جن میں قبیلہ خزرج کی طرف سے حضرت ابی بن کعب بھی ممبر تھے.286 مسلمانوں کے سردار ایک شخص جن کا نام جابر یا جو سبر تھا بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں اپنے کسی کام کے لیے آپ کے پاس حاضر ہوا.حضرت عمرؓ کے پہلو میں ایک شخص کھڑا تھا جس کے بال اور کپڑے سفید تھے.اس نے کہا یقیناً اس دنیا میں ہمارے لیے مقصود تک پہنچنے کے ذرائع اور آخرت کے لیے زادِ راہ موجود ہے اور اسی میں ہمارے وہ اعمال ہیں جن کا بدلہ ہمیں آخرت میں ملے گا.جابر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا اے امیر المومنین ! یہ کون ہیں ؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ یہ مسلمانوں کے سردار ابی بن کعب نہیں.287 عبد الرحمن بن عبد قاری سے روایت ہے کہ میں رمضان کی ایک رات حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگ الگ الگ گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں.کوئی شخص اپنے طور پر اکیلے نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی شخص ایسے طور پر نماز پڑھ رہا ہے کہ اس کی اقتدا میں چند ایک لوگ نماز پڑھ رہے ہیں تو حضرت عمرؓ نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان کو ایک ہی قاری کی اقتدا میں اکٹھا کر دو تو یہ بہتر ہو گا.پھر انہوں نے پختہ ارادہ کر لیا اور حضرت ابی بن کعب کی اقتدا میں انہیں اکٹھا کیا.8 یعنی اس وقت وہ رات کو نوافل پڑھ رہے ہوں گے.288 علم حدیث سے استفادہ حضرت ابی ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی الیہ کمی سے احادیث کا بہت بڑا حصہ سنا تھا.یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحابہ درسِ حدیث میں آپ کی شاگردی اختیار کر چکے تھے.چنانچہ ان کے حلقہ تابعین سے زیادہ صحابہ کا مجمع ہوتا تھا.صحابہ بھی آپ سے حدیثیں سنا کرتے تھے.حضرت عمر بن

Page 130

اصحاب بدر جلد 4 114 289 خطاب، حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت انس بن مالک، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت سہل بن سعد، حضرت سلیمان بن صر ڈ یہ سب بھی حضرت ابی سے علم حدیث میں استفادہ کرتے تھے.حضرت قیس بن عبادہ مدینے میں صحابہ سے ملنے آئے.ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابی بن کعب سے بڑھ کر کسی کو نہ پایا.نماز کا وقت تھا.لوگ جمع تھے اور حضرت عمررؓ بھی تشریف رکھتے تھے.کسی چیز کی تعلیم دینے کی ضرورت تھی.نماز ختم ہوئی تو حضرت ابی اٹھے اور رسول اللہ صلی علیم کی حدیث لوگوں تک پہنچائی.ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ تمام لوگ ہمہ تن گوش تھے.قیس پر حضرت ابی کی اس شان عظمت کا بڑا اثر ہوا.290 قرآن سے فقہی مسائل کا حل...حاملہ کی عدت حضرت عمرؓ کے پاس ایک عورت آئی.اس نے کہا کہ میرا شوہر مر گیا ہے.میں حاملہ ہوں.قرآن کریم کی رو سے استنباط اور فقہی مسائل بھی یہ حل کیا کرتے تھے تو بہر حال حاملہ عورت آئی.اس نے کہا کہ میر اخاوند مر گیا ہے.اب حمل وضع ہوا ہے.جب فوت ہو حاملہ تھی اب وضع حمل ہو گیا ہے لیکن عدت کے ایام ابھی پورے نہیں ہوئے جو خاوند کے فوت شدہ ہونے کے لیے چار مہینے دس دن کی عدت ہے وہ پوری نہیں ہوئی لیکن میں حمل میں تھی اور اس سے پہلے میر اوہ حمل ہو گیا ہے.اس صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ کیا میں عدت ابھی پوری کروں یا یہ کافی ہے ؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ معین میعاد تک رکی رہو.یعنی ایک بیوہ عورت کے لیے عدت کی جو معین میعاد ہے اس کو پورا کر و.وہ حضرت عمرؓ کے پاس سے حضرت ابی کے پاس آئی اور ان سے مسئلہ پوچھا.حضرت عمر سے فتویٰ پوچھنے کا حال بیان کیا اور جو حضرت عمر کا جواب تھا وہ حضرت اُبی کو بتایا.حضرت اُبی نے کہا کہ جاؤ اور حضرت عمرؓ سے کہنا کہ اُبی کہتا ہے کہ عورت حلال ہو گئی یعنی اب عدت کی ضرورت نہیں ہے.اگر وہ میرے بارے میں پوچھیں تو میں یہیں بیٹھا ہوا ہوں آ کر بلا لینا.وہ عورت حضرت عمرؓ کے پاس گئی.حضرت عمرؓ نے کہا کہ حضرت ابی کو بلا کے لاؤ.حضرت ابی آئے.حضرت عمرؓ نے پوچھا آپ نے یہ کہاں سے کہا ہے ؟ آئی نے جواب دیا قرآن سے اور یہ آیت پڑھی وَأَوْلَاتُ الْأَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ اور جہاں تک حمل والیوں کا تعلق ہے ان کی عدت وضع حمل ہے.اس کے بعد کہا جو حاملہ بیوہ ہو گئی ہو وہ بھی اس میں داخل ہے اور میں نے رسول کریم صلی علی نام سے اس کے متعلق حدیث سنی ہے.حضرت عمرؓ نے عورت سے کہا کہ جو یہ کہہ رہے ہیں اس کو سنو یعنی یہ ٹھیک ہے.جس طرح حضرت ابی کہتے ہیں اس پر عمل کرو.مسجد نبوی کی توسیع اور ابی بن کعب کا حضرت عمر اور حضرت عباس کے معاملہ میں حکم بننا رسول اللہ صلی علیم کے چا حضرت عباس کا گھر مسجد نبوی سے متصل تھا.حضرت عمرؓ نے مسجد کو

Page 131

اصحاب بدر جلد 4 115 سیع کرنا چاہا تو حضرت عباس سے کہا کہ اپنا مکان فروخت کر دیں میں اس کو مسجد میں شامل کروں گا.حضرت عباس نے کہا یہ نہیں ہو گا.حضرت عمرؓ نے فرمایا اچھا تو ہبہ کر دو.عباس نے اس سے بھی انکار کر دیا.وہ اپنی مرضی کے بڑے مالک تھے.حضرت عمرؓ نے فرمایا اچھا آپ خود مسجد کو وسیع کر دیں.چلیں اپنی طرف سے یہ کر دیں.آپ کی طرف سے بڑا اچھاgesture ہو جائے گا.اور امت کے لیے مسجد وسیع ہو گی اپنا مکان اس میں داخل کر دیں.اس پر بھی حضرت عباس نے کہا یہ بھی نہیں ہو گا.اس پہ بھی وہ راضی نہیں ہوئے.حضرت عمرؓ نے کہا ان تین باتوں میں سے کوئی ایک بات آپ کو ماننی ہو گی.حضرت عباس نے کہا میں ایک بھی نہیں مانوں گا.آخر دونوں نے حضرت ابی بن کعب ضو اپنا حکم بنالیا.حکم تک بات پہنچی.حضرت ابی نے حضرت عمر کو کہا: بلا رضامندی آپ کو ان کی چیز لینے کا کیا حق ہے.حضرت ابی نے کہا کہ نہیں.آپؐ نہیں لے سکتے.حضرت عمر نے اُبی سے پوچھا اس کے متعلق قرآن مجید کی رو سے نکالا ہے یا حدیث سے.حضرت اُبی نے کہا کہ حدیث سے اور وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے جب بیت المقدس کی عمارت بنوائی تو اس کی ایک دیوار جو کسی دوسرے کی زمین پر بنوائی تھی گر پڑی.حضرت سلیمان کے پاس وحی آئی کہ اس سے اجازت لے کر بنائیں.بات سنی تو حضرت عمررؓ اس پر خاموش ہو گئے لیکن بہر حال حضرت عباس کا اخلاص و وفاتو تھا.بہر حال خلافت کے لیے عہد بیعت بھی تھا تو وہ خیال بھی اپنی طبیعت پر غالب آگیا اور ایک دفعہ انکار تو کر چکے تھے لیکن بہر حال اب نیکی اور تقویٰ تو تھا ہی ناں اور دین کی غیرت بھی تھی اور خلافت کا احترام بھی تھا.بہر حال پھر ظاہر ہو گیا.جب حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے تو پھر انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اچھا میں اس کو ، اپنے مکان کو مسجد میں شامل کر تا ہوں.' حضرت عمر نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ حج تمتع سے لوگوں کو روک دیں.تین قسم کے حج ہوتے ہیں.بعض نوجوانوں کو بھی شاید نہیں پتہ ہو.حج تمتع وہ ہوتا ہے کہ عمرہ کا احرام باندھ کے مکے پہنچتے ہیں اور پہلے عمرہ کرتے ہیں پھر احرام کھول دیتے ہیں پھر آٹھویں ذوالحجہ کو نیا احرام باندھتے ہیں پھر حج کرتے ہیں یہ حج تمتع ہے.اور عام جو حج ہے وہ حج مفرد ہے جو عموما ہو تا ہے اور قران جو ہے وہ یہی ہے کہ عمرہ اور حج ایک ہی احرام میں ہو جاتا ہے.بہر حال حضرت عمر نے حج تمتع سے روکا.حضرت اُبی نے کہا کہ اس کو روکنے کا آپ کو کوئی اختیار نہیں ہے.حضرت عمر کو روک دیا کہ یہ نہیں ہو سکتا.یہ غلط ہے.بہر حال پھر حضرت عمرؓ نے نہیں کیا.پھر ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ حیرہ کوفہ سے تین میل کے فاصلہ پر نجف کے علاقے میں ایک شہر ہے وہاں کے خلے پہننے سے منع کریں.حضرت عمر نے ارادہ کیا کیونکہ اس رنگ میں پیشاب کی آمیزش ہوتی ہے یا ہو سکتا ہے وہ رنگ کاٹنے کے لیے کسی جانور کا پیشاب شامل کیا جاتا ہو تو بہر حال حضرت اُبی نے کہا اس کے بھی آپ مجاز نہیں ہیں.کہتے ہیں کیونکہ خود رسول اللہ صلی علیم نے اس رنگ کے کپڑے کو پہنا ہے اور وہاں کے حلے کو پہنا ہے اور ہم لوگوں نے بھی آنحضرت صلی الم کے زمانے میں پہنا ہے اور کبھی اعتراض نہیں ہوا اس لیے اس پر حضرت عمرؓ خاموش ہو 291

Page 132

تاب بدر جلد 4 116 292 گئے.انہوں نے کہا ٹھیک ہے.آپ ٹھیک کہتے ہیں.ایک مرتبہ حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں حضرت عمررؓ اور حضرت اُبی میں ایک باغ کی بابت اختلاف ہو گیا.حضرت ابی رونے لگے اور کہا کہ آپ کے عہد میں یہ باتیں ؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا میری نیت یہ نہیں تھی.آپ کا جس مسلمان سے جی چاہے فیصلہ کروالیں.میرے اور آپ کے درمیان اختلاف تو ہے میں حکم نہیں دے رہا.فیصلہ کروالیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میری رائے ٹھیک ہے تو ائی نے زید بن ثابت کا نام لیا کہ ان سے فیصلہ کراتے ہیں.حضرت عمر راضی ہو گئے اور حضرت زید کے سامنے مقدمہ پیش ہوا.گو حضرت عمرؓ خلیفہ اسلام تھے تاہم ایک فریق کی حیثیت سے حضرت زید بن ثابت کے اجلاس میں حاضر ہوئے.حضرت عمر کو اُبی کے دعویٰ سے انکار تھا.حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ آپ بھولتے ہیں.سوچ کے یاد کریں.حضرت ابی کچھ دیر سوچتے رہے پھر کہا مجھے کچھ یاد نہیں آتا تو خود حضرت عمرؓ نے واقعہ کی صورت بیان کی اور ساری تفصیل بیان کی کہ اس طرح اس طرح ہوا تھا.حضرت زید نے حضرت ابی سے پوچھا کہ آپ جو اپنا مطالبہ کر رہے ہیں اس کے لیے آپ کے پاس ثبوت کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کچھ نہیں.بولے ثبوت کوئی نہیں ہے.انہوں نے صرف یہ کہا کہ ثبوت تو کوئی نہیں.اس وقت آپ امیر المومنین سے قسم نہ لیجیے.کچھ نہیں ثبوت تو کوئی نہیں ہے لیکن بولے آپ امیر المومنین سے قسم نہ لیجیے.حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر مجھ پر قسم ضروری ہے تو مجھے اس میں بھی کوئی تامل نہیں ہے لینی ہے یا نہیں لینی.تو بہر حال اس کے بعد وہ فیصلہ ہو گیا جو بھی تھا.293 294 جمع قرآن بورڈ کے صدر حضرت عثمان بن عفان نے قرآن جمع کرنے میں قریش اور انصار کے بارہ آدمیوں کو منتخب کیا جن میں حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت بھی شامل تھے.حضرت عثمان کے زمانے میں قرآن مجید میں لب و لہجے کا اختلاف تمام ملک میں عام ہو چکا تھا.اس بنا پر آپ نے اس اختلاف کو مٹانا چاہا اور خود اصحاب قراءت کو طلب فرما کر ہر شخص سے جداجدا قراءت سنی.حضرت ابی بن کعب، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت معاذ بن جبل سب کے لہجے میں اختلاف نظر آیا.یہ دیکھ کر حضرت عثمان نے فرمایا کہ میں تمام مسلمانوں کو ایک تلفظ کے قرآن پر جمع کرنا چاہتا ہوں.قریش اور انصار میں بارہ اشخاص تھے جن کو قرآن پر پورا عبور تھا.حضرت عثمانؓ نے ان لوگوں کو یہ اہم کام تفویض فرمایا اور حضرت ابی بن کعب کو اس مجلس کا رئیس مقرر کیا.آپ یعنی حضرت اُبی قرآن کے الفاظ بولتے جاتے اور حضرت زید لکھتے جاتے تھے.آج قرآن مجید کے جس قدر نسخ موجود ہیں وہ حضرت ابی بن کعب کی قراءت کے مطابق ہیں.295

Page 133

اصحاب بدر جلد 4 117 عتى بن ضمرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب سے کہا کہ آپ لوگوں کو جو ر سول اللہ صلی ال نیم کے صحابہ ہیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم دور دراز سے آپ کے پاس آتے ہیں تاکہ آپ ہمیں کچھ کوئی خبریں اور واقعات سنائیں.کوئی باتیں بتائیں اور ہمیں کچھ سکھائیں مگر جب ہم آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ لوگ ہماری بات کو معمولی گردانتے ہیں گویا کہ ہماری آپ کے نزدیک کوئی وقعت ہی نہیں ہے، کوئی حیثیت نہیں ہے.اس پر ابی بن کعب نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اگر میں اگلے جمعے تک زندہ رہا تو اس دن ایک ایسی بات بتاؤں گا کہ پھر مجھے پروا نہیں کہ خواہ تم مجھے اس کی وجہ سے زندہ رہنے دو یا قتل کر دو.جب جمعہ آیا تو کہتے ہیں کہ میں مدینے گیا اور کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ گلیوں میں موج در موج چل رہے ہیں.میں نے کہا کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ کیا تم اس شہر سے نہیں ہو ؟ میں نے کہا نہیں.اس نے کہا کہ آج مسلمانوں کے سردار ابی بن کعب فوت ہو گئے ہیں.اس پر یہ کہنے لگا کہ میں نے پھر کہا کہ واللہ !میں نے کبھی ایسا دن نہیں دیکھا جس میں اس طرح کسی شخص کی ستاری ہوئی ہو.296 جیسے اس شخص یعنی ابی بن کعب کی ستاری ہوئی ہے.انہوں نے کہا تھا کہ میں ایسی بات بتاؤں گا کہ پتہ نہیں تم میرے ساتھ کیا کرو اس سے لگتا تو شاید یہی ہے ، راوی کی یہی مراد لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابی کو اس بات کے اظہار سے بچا لیا جس کو وہ دلی خوشی سے بیان نہیں کرنا چاہتے تھے.باقی اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس فقرے سے کیا مراد ہے.بہر حال اس نے ان کی وفات کا سن کر یہ فقرہ بولا کہ میں نے کبھی ایسا دن نہیں دیکھا جس میں اس طرح کسی شخص کی ستاری ہوئی ہو جیسے اس شخص یعنی ابی بن کعب گی ستاری ہوئی ہے.حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ میں آٹھ راتوں میں قرآن کریم کا دور مکمل کر لیتا ہوں.297 محبت رسول صلی.درخت کا تنا اپنے پاس رکھ لیا حضرت ابی کی محبت رسول کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ صلی علی نام مسجد نبوی کے ستونوں میں سے کھجور کے ایک تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے.پھر جب آپ کے لیے منبر بنایا گیا اور آپ جمعے کے دن اس پر بیٹھ کر خطبہ دینے لگے تو اس ستون میں سے چلانے کی آواز آئی جسے تمام اہل مسجد نے سنا.رسول اللہ صلی العلیم اس ستون کے پاس آئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھا.پھر اسے اپنے سینے سے لگایا تو وہ تنا اس معصوم بچہ کی طرح رونے لگا جسے چپ کرایا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے قرار آگیا اور آواز آنا بند ہو گئی.پھر جب مسجد گرائی گئی اور اس میں تبدیلی کر دی گئی تو حضرت ابی بن کعب نے وہ تنالے لیا.وہ ان کے پاس تھا صرف اس وجہ سے کہ آنحضرت صلی ای ام اس کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے تو وہ تنالے لیا.اس کو اپنے گھر لے گئے یہاں تک کہ بوسیدہ ہو گیا.دیمک نے اس کو کھا لیا.ریزہ ریزہ ہو گیا.لیکن انہوں نے اس کو اس محبت کی وجہ سے اپنے پاس رکھا.یہ مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے اور کچھ حصہ اس میں صحیح بخاری کا بھی ہے.298

Page 134

تاب بدر جلد 4 قاضی 118 299 رسول اللہ صلی علیکم کے اصحاب میں چھ قاضی تھے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت ابی بن کعب سمرة بن جندب بڑے رتبے کے صحابی تھے.وہ نماز میں تکبیر کہنے اور سورت پڑھنے کے بعد ذرا توقف کیا کرتے تھے.اللہ اکبر کہہ کے کچھ دیر خاموش رہتے تھے پھر سورہ فاتحہ پڑھتے تھے.لوگوں نے ان پر اعتراض کیا.انہوں نے حضرت اُبی کی خدمت میں لکھ کر بھیجا کہ اس کے متعلق تحریر فرمائیے کہ حقیقت کیا ہے.حضرت ابی نے نہایت مختصر جواب تحریر کیا اور لکھا کہ آپ کا طریق عمل شریعت کے مطابق ہے.یہ جو وقفہ آپ دیتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں.یہ شریعت کے مطابق ہے اور جو معترضین ہیں، اعتراض کرنے والے ہیں وہ غلطی پر ہیں.گری پڑی چیز امانت ہے اور دو سال تک اس کا اعلان 300 حضرت سويد بن غفله، زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ہمراہ کسی غزوہ میں گئے تھے.مقام عُذیب میں کوڑا پڑا ہوا تھا.عذیب بنو تمیم کی ایک وادی ہے اور قادسیہ اور مغیقہ کے درمیان پانی کی ایک جگہ ہے جو قادسیہ سے چار میل کے فاصلے پر ہے.بہر حال سوید نے اسے اٹھا لیا.کوڑا پڑا تھا.ان لوگوں نے کہا کہ اسے پھینک دو، شاید کسی مسلمان کا ہو.انہوں نے کہا میں ہر گز نہیں پھینکوں گا.پڑا رہے گا تو بھیڑیئے اس کو کھالیں گے.ان کی غذا بن جائے گا.اس سے بہتر ہے کہ میں اسے کام میں لاؤں.اس سے کچھ دنوں بعد سوید حج کے ارادہ سے روانہ ہوئے.راستے میں مدینہ پڑتا تھا.حضرت اُبی کے پاس گئے اور کوڑے والا واقعہ بیان کیا.حضرت اُبی نے کہا کہ اس قسم کا واقعہ مجھ کو بھی پیش آچکا ہے.میں نے آنحضرت صلی علیکم کے عہد میں سو دینار پائے تھے.اب چاہے وہ گوڑا ہے یا سو دینار ہیں ہر ایک کی اپنے اپنے لحاظ سے ایک ویلیو (value) ہے وہ امانت ہی ہے.اب آگے جو آنحضرت صلی علیہ ہم نے فرمایا وہ سنیں.حضرت ابی کہنے لگے کہ آنحضرت صلی علیم نے حکم دیا تھا کہ سال بھر تک لوگوں کو خبر کرتے رہو.بتاتے رہو.اعلان کر دو.سال گزرنے کے بعد فرمایا روپے کی تعداد کا نشان و غیرہ یاد رکھنا اور ایک سال اور انتظار کرنا.اگر کوئی نشان کے موافق طلب کرے تو اس کے حوالے کرنا ورنہ وہ تمہارا ہو چکا.301 یعنی پورے دو سال.کوئی بھی چیز ملے تو ایک سال اعلان کرو، ایک سال تک اس کی نشانیاں یاد رکھو اور اگر کوئی مطالبہ کرے تو دے دو.آداب مسجد ایک شخص مسجد میں کسی گمشدہ چیز پر شور کر رہا تھا، اعلان کر رہا تھا میری فلاں چیز گم گئی ہے.حضرت ابی

Page 135

صحاب بدر جلد 4 119 نے دیکھا تو غصے ہوئے.اس نے کہا کہ میں نے مسجد میں کوئی فحش بات تو نہیں کی.انہوں نے کہا یہ ٹھیک ہے مگر یہ بات بھی مسجد کے ادب کے خلاف ہے کہ یہاں کسی دنیاوی چیز کا اعلان کیا جائے.وفات اور اولاد 302 حضرت ابی کی وفات کے سال میں مختلف روایات ملتی ہیں.ایک روایت کے مطابق حضرت ابی کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بائیس ہجری میں ہوئی جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں تیس ہجری میں ہوئی اور یہی زیادہ درست قول ہے کیونکہ حضرت عثمان نے حضرت ابی کے ذمہ جمع قرآن کا کام سپر د کیا تھا.303 حضرت ابی کی اولاد میں طفیل اور محمد تھے اور ان بچوں کی والدہ کا نام ام طفیل بنت طفیل تھا.وہ قبیلہ دوس سے تعلق رکھتی تھیں.حضرت اُبی کی ایک بیٹی کا نام اقد عمر و بیان ہوا ہے.304 33 نام و نسب و کنیت حضرت ارقم بن ابی ارقم بنت حضرت ارقم بن ابی ارقم.ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی.حضرت ارقم کی والدہ کا نام امنيمه به حارث تھا.بعض روایت میں ان کا نام تما خير بنتِ حُذَيْم اور صفیہ بنت حارث بھی بیان ہوا ہے.حضرت ارقم کا تعلق قبیلہ بنو خزوم سے تھا.قبول اسلام آپ اسلام لانے والے اولین صحابہ میں سے تھے.بعض کے نزدیک جب آپ ایمان لائے تو آپ سے قبل گیارہ افراد اسلام قبول کر چکے تھے.بعض کہتے ہیں کہ آپ نے ساتویں نمبر پر اسلام قبول کیا.حضرت عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت ارقم، حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت عثمان بن مظعون اکٹھے ایک ہی وقت میں ایمان لائے.دارار تم اہمیت و فضیلت حضرت ارقم کا ایک گھر مکہ سے باہر کوہ صفا کے پاس تھاجو تاریخ میں دار ار تم کے نام سے مشہور ہے.دار ارقم ان کا گھر تھا.اس گھر میں رسول اللہ صلی علیہ کم اور اسلام قبول کرنے والے افراد عبادت کیا ا ا

Page 136

بدر جلد 4 120 کرتے تھے.یہیں پر حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تھا.ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد یعنی حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کی تعداد 40 ہو گئی تھی اور وہ اس گھر سے باہر نکلے تھے.یہ گھر حضرت ارقم کی ملکیت میں رہا.پھر آپ کے پوتوں نے یہ گھر ابو جعفر منصور کو فروخت کر دیا.اس کے بارے میں سیرت خاتم النبیین میں جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے تو 305 تفصیل یہ ہے کہ اسلام کے پہلے تبلیغی مرکز یعنی دارِ ارقم کے بارے میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ : آنحضرت صلی یہ کام کو یہ خیال پیدا ہوا کہ مکہ میں ایک تبلیغی مرکز قائم کیا جاوے جہاں مسلمان نماز وغیرہ کے لئے بے روک ٹوک جمع ہو سکیں اور امن و اطمینان اور خاموشی کے ساتھ باقاعدہ اسلام کی تبلیغ کی جاسکے.اس غرض کے لئے ایک ایسے مکان کی ضرورت تھی جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو.چنانچہ آپ نے ایک ٹو مسلم ارقم بن ابی ارقم کا مکان پسند فرمایا جو کوہ صفا کے دامن میں واقع تھا.اس کے بعد تمام مسلمان یہیں جمع ہوتے، یہیں نماز پڑھتے، یہیں متلاشیان حق آتے.یعنی جن کو دین کی تلاش تھی اور اسلام کا پیغام سنتے تھے وہ سننے کے لئے اور سمجھنے کے لئے آتے تھے یا آنحضرت صلی الی یم کی صحبت سے فیضیاب ہونے کے لئے آتے تھے " اور آنحضرت صلی للی یکم ان کو اسلام کی تبلیغ فرماتے.اسی وجہ سے یہ مکان تاریخ میں خاص شہرت رکھتا ہے اور دایر الاسلام کے نام سے مشہور ہے.آنحضرت صلی این کلم نے قریباً تین سال تک دارِ ارقم میں کام کیا یعنی بعثت کے چوتھے سال آپ نے اسے اپنا مرکز بنایا اور چھٹے سال کے آخر تک آپ نے اس میں اپنا کام کیا.اپنے اس مشن کو جاری رکھا اور "مور خین لکھتے ہیں کہ دارِ ارقم میں اسلام لانے والوں میں آخری شخص حضرت عمرؓ تھے جن کے 30611 اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور وہ دارِ ارقم سے نکل کر بر ملا تبلیغ کرنے لگ گئے.ہجرت مدینہ اور مواخات مدینہ ہجرت کے بعد رسول کریم صلی اللہ ﷺ نے حضرت ارقم کی مواخات حضرت ابو طلحہ زید بن سفل کے ساتھ قائم فرمائی.307 بدر کے اموال سے ایک تلوار عطا ہونا حضرت از قم غزوہ بدر میں رسول کریم صلی علیم کے ساتھ شامل ہوئے اور آپ صلی للہ ہم نے بدر کے مال غنیمت میں سے ایک تلوار انہیں دی تھی.حضرت ارقم غزوہ بدر، احد سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے اور نبی کریم صلی علیکم نے آپنے کو مدینہ میں ایک گھر بھی دیا تھا.ایک دفعہ رسول کریم صلی الی یکم نے انہیں صدقات کی وصولی کے لئے بھی مقرر کر کے بھجوایا 308

Page 137

اصحاب بدر جلد 4 121 معاہدہ حلف الفضول میں شمولیت 309 تاریخ میں یہ بھی ہے کہ حضرت ارقم معاہدہ حلف الفضول میں بھی شامل ہوئے تھے.9 وہ معاہدہ جو غریبوں کی مدد کرنے کے لئے اسلام سے پہلے مکہ کے رہنے والے بڑے لوگوں نے کیا تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ کی بھی شامل تھے.وفات حضرت ارقم کے بیٹے عثمان بن از قم روایت کرتے ہیں کہ میرے والد کی وفات 53 ہجری میں ہوئی.اس وقت آپ کی عمر 83 سال تھی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کی 55 ہجری میں وفات ہوئی.عمر کے بارے میں اختلاف ہے کہ اسی سال تھی یا اس سے کچھ اوپر تھی.حضرت ارقم نے وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ حضرت سعد بن ابی وقاص پڑھائیں جو صحابی تھے.ان کی وفات کے بعد حضرت سعد عقیق مقام میں تھے اور وہاں سے دور تھے.مروان نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی علی ایم کا صحابی کسی غیر حاضر شخص کی وجہ سے دفن نہ کیا جائے.موجود نہیں ہیں اس لئے صحابی کی نعش کو اس وقت تک رکھا جائے جب تک وہ آنہ جائیں اور چاہا کہ ان کی نماز جنازہ خود پڑھا دیں مگر عبید اللہ بن ارقم نے مروان کی بات نہ مانی اور سعد بن ابی وقاص کے آنے پر حضرت ارقم کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے.310 میری مسجد میں ایک نماز اور مسجدوں کی ہزاروں نمازوں سے بہتر ان کے متعلق ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ حضرت ارقم نے بیت المقدس جانے کے لئے رخت سفر باندھا، تیاری کی، جانا چاہتے تھے اور رسول کریم صلی علیم کے پاس سفر پر جانے کے لئے اجازت چاہی تو آپ صلی یکم نے دریافت فرمایا کہ کیا تم وہاں بیت المقدس میں کسی ضرورت کے لئے یا تجارت کی غرض سے جار ہے ہو ؟ حضرت ارقم نے جواب دیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں.کوئی کام نہیں ہے اور نہ تجارت کی غرض سے جانا ہے بلکہ بیت المقدس میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں.تو اس پر رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں ایک نماز اور مسجدوں کی ہزاروں نمازوں سے بہتر ہے یعنی یہاں مدینے میں سوائے کعبہ کے جس پر حضرت ارقم نے اپنا ارادہ بدل لیا.311

Page 138

122 34 صحاب بدر جلد 4 حضرت اسعد بن یزید حضرت آسعد بن یزید.حضرت اسعد کے والد کا نام یزید بن الفا کہ تھا اور ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو زریق سے تھا.آپ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شامل تھے.علامہ ابن اسحاق نے اسعد کی بجائے سعد بن یزید کا نام اصحاب بدر میں لکھا ہے.حضرت اسعد بن یزید کے نام کے بارے میں مختلف آراء ہیں.بعض نے آپ کا نام سعد بن زید، سعید بن الفاکہ اور سعد بن یزید بیان کیا ہے.312 35 حضرت انس بن معاذ انصاری حضرت انس بن معاذ انصاری.بعض روایات میں آپ کا نام انیس بھی بیان ہوا ہے.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھا.آپ کی والدہ کا نام اقر اناس بنت خالد تھا.آپ غزوہ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شامل ہوئے.غزوہ احد میں آپؐ کے بھائی حضرت ابی بن معاذ بھی آپ کے ساتھ شامل ہوئے.ان کی وفات کے بارے میں اختلاف ہے.ایک روایت میں ہے کہ ان کی وفات حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں ہوئی.جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت انس بن معاذ اور ان کے بھائی حضرت أبي بن معاذ بيرِ مَعُونَہ میں شہید ہوئے تھے.313

Page 139

123 36 صحاب بدر جلد 4 آنحضرت علی ایم کے آزاد کردہ حبشی غلام حضرت انسه ย اس درجہ فرمانبردار کہ جب بیٹھتے تو بھی آنحضرت مصلی نام سے اجازت لے کر بیٹھتے حضرت انسہ کی وفات غزوہ بدر میں ہوئی.لیکن اسمیں اختلاف ہے.کچھ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کی خلافت تک یہ زندہ تھے.بہر حال آپ رسول اللہ صلی علی نام کے آزاد کردہ حبشی غلام تھے.آپ کا نام آنسہ تھا اور ابو انسہ بھی آتا ہے.اسی طرح بعض کے نزدیک آپ کی کنیت ابو مشروح تھی.حضرت انسه دعوت اسلام کے آغاز میں ہی مشرف باسلام ہوئے اور ہجرت کے زمانہ میں مدینہ گئے اور حضرت سعد بن خَيْثَمَہ کے مہمان ہوئے اور جب تک زندہ رہے آنحضرت صلی علیم کی خدمت گزاری آپ کا مرغوب مشغلہ تھا.آپ اس درجہ فرمانبردار تھے کہ ان کے بارے میں آتا ہے کہ جب بیٹھتے تھے تو تب بھی آنحضرت علی الم سے اجازت لے کر بیٹھتے تھے.آنحضرت صلی علیم کے ساتھ جنگ بدر میں شریک ہوئے.314 حضرت اسی کی کنیت ابو مسروح اور بعض کے نزدیک ابو منرخ بیان ہوئی ہے.315 حضرت اللہ راہ میں پیدا ہوئے تھے.سراة یمن اور حبشہ کے قریب ایک جگہ ہے.16 ان کی ہجرت کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ حضرت کلثوم بن ھدم کے ہاں ٹھہرے جبکہ بعض روایات کے مطابق آپ حضرت سعد بن خیثمہ کے ہاں ٹھہر.317 امام زہر گی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے بعد ملاقات کرنے والوں کو ملنے کی اجازت دے دیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں کے لیے حضرت ائسہ اجازت لیا کرتے تھے.318 اندر گھر ملاقاتیوں کی اطلاع دینی آپ کا کام تھا.319

Page 140

124 37 صحاب بدر جلد 4 حضرت أنيس بن قادة حضرت أنيس بن قتادة بن ربیعہ.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا.ان کی غزوہ اُحد کے موقع پر وفات ہوئی.بعض لوگوں کا بیان ہے کہ ان کا نام انس ہے.بہر حال جو صحیح نام ہے وہ انہیں ہے.محمد بن اسحاق اور محمد بن عمر نے انہیں ہی لکھا ہے.بدر میں رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ شریک تھے اور جنگ اُحد میں یہ شہید ہوئے.آپ کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی.اور ایک روایت ہے کہ خَنْساء بنت خدام حضرت اُنیس بن قتادة کے نکاح میں تھیں جب وہ اُحد کے دن شہید ہوئے.0 ابو الحکم بن اخنس بن شریق نے ان کو شہید کیا تھا.عورت کی آزادی کی مثال 320 حضرت خنساء بنت خذام حضرت اُنیس بن قتادہ کے نکاح میں تھیں.جب وہ احد کے دن شہید ہوئے تو حضرت خنساء کے والد نے ان کا نکاح قبیلہ مزینہ کے ایک شخص سے کر دیا مگر یہ اسے ناپسند کرتی تھیں.پھر یہ رسول اللہ صلی ایم کے پاس آئیں.آپ کی تعلیم نے حضرت خنساء کا نکاح فسخ کر دیا.باپ نے نکاح کیا تھا.رسول کریم علی ایم نے کہا اگر لڑکی کو یہ نا پسند ہے تو نکاح صبح کر دیا.اس کے بعد حضرت خنساء نے حضرت ابولبابہ سے شادی کر لی اور اس نکاح سے پھر حضرت سائب بن ابی لبابہ پیدا ہوئے.321 یہ ہے مثال عورت کی آزادی کی.رشتوں کے معاملے میں بعض لوگ جو اپنی لڑکیوں پر زبر دستی کرتے ہیں ان کو سوچنا چاہئے.322

Page 141

125 38 صحاب بدر جلد 4 حضرت حسان بن ثابت کے بھائی نام و نسب کنیت حضرت اوس بن ثابت بن مُنْذِد ย حضرت اوس بن ثابت بن منذر.یہ بھی انصاری تھے.ان کی کنیت ابو شداد تھی.حضرت اوس کے والد کا نام ثابت تھا.آپ کی والدہ کا نام شخصی بنتِ حَارِثَہ تھا.آپ مشہور صحابی حضرت شداد بن اؤس کے والد تھے.آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو عمرو بن مالك بن نجار سے تھا.بیعت عقبہ ثانیہ میں شرکت یہ عقبہ ثانیہ میں شامل تھے نیز ایمان لائے.غزوہ بدر اور غزوہ احد میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شامل ہوئے.حضرت حسّان بن ثابت ( جو مشہور شاعر تھے ) اور حضرت ابی بن ثابت آپ کے بھائی تھے.حضرت عثمان بن عفان کے ساتھ مواخات حضرت عثمان بن عفان جب مدینہ ہجرت کر کے آئے تو ان کے ہاں ان کا قیام ہوا اور آنحضرت صلی علیم نے حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت اوس بن ثابت کے درمیان مواخات قائم فرمائی.غزوہ احد میں شہادت ان کی وفات کے بارے میں عبد اللہ بن محمد بن عمارہ انصاری کہتے ہیں کہ ان کی وفات، ان کی شہادت غزوہ احد میں ہوئی تھی.بعض دوسرے اس سے اختلاف بھی کرتے ہیں لیکن جو اختلاف کرنے والے ہیں وہ کمزور راوی ہیں.3 323

Page 142

126 39 صحاب بدر جلد 4 حضرت اوس بن خولی انصاری رسول اکرم علی ایم کی تجہیز و تدفین میں شمولیت کا اعزاز پانے والے نام و نسب و کنیت حضرت آؤس بن خولی انصاری ان کی کنیت ابولیلی تھی.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو سالم بن غنم بن عوف سے تھا.آپ کی والدہ کا نام جمیلہ بنت ابی تھا جو عبد اللہ بن ابی بن سلول کی بہن تھیں.آپ کی ایک بیٹی تھیں جن کا نام فسخم تھا.تمام غزوات میں شمولیت آپ غزوہ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ شریک ہوئے.رسول اللہ صلی علیم نے آپ کی مواخات حضرت شجاع بن وهب الاسدی سے کروائی.کاملین میں شمار حضرت اوس بن خولی کا شمار کاملین میں ہوتا تھا.جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں کامل اس شخص کو کہا جاتا تھا جو عربی لکھنا جانتا ہو.تیراندازی کرنا اچھی طرح جانتا ہو اور تیرا کی جانتا ہو.اچھی طرح تیر نا جانتا ہو.یہ تین باتیں اس میں ہوں تو اس کو کامل کہتے تھے اور یہ سب باتیں حضرت اوس بن خولی میں موجود تھیں.324 خشک کنواں پانی سے بھر گیا حضرت ناجيه بن انجم روایت کرتے ہیں کہ جب حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی نیم کی خدمت میں پانی کی قلت کی شکایت کی گئی تو انہوں نے مجھے بلایا اور اپنی ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور مجھے دیا.پھر کنویں کا پانی ایک ڈول میں منگوایا.میں اس کو لے کر آیا.آپ نے وضو فرمایا اور کلی کر کے ڈول میں انڈیل دیا جبکہ لوگ سخت گرمی کی حالت میں تھے.مسلمانوں کے پاس اک ہی کنواں تھا کیونکہ مشرکین بلدح کے مقام پر جلدی پہنچ کر اس کے پانی کے ذخیروں پر قبضہ کر چکے تھے.پھر آپ نے مجھے فرمایا کہ اس ڈول کو کنویں میں انڈیل دو جس کا پانی خشک ہو گیا ہے.اور اس کے پانی میں تیر گاڑ دو تو میں نے ایسا ہی کیا.پس قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بہت مشکل سے باہر

Page 143

ناب بدر جلد 4 رض 127 ย نکلا یعنی فوری طور پر وہاں پانی ابلنے لگ گیا، پھوٹنے لگ گیا.مجھے پانی نے ہر طرف سے گھیر لیا تھا اور پانی ایسے اہل رہا تھا جیسے دیچی ابلتی ہے یہاں تک کہ پانی بلند ہوا اور کناروں تک برابر ہو گیا.لوگ اس کے کنارے سے پانی بھرتے تھے یہاں تک کہ ان میں سے آخری شخص نے بھی پیاس بجھالی.اس دن منافقوں کا ایک گروہ وہاں پانی پر تھا جن میں عبد اللہ بن ابی بھی تھا جو حضرت اوس بن خولی کاماموں تھا.حضرت آؤس بن خولی نے اسے کہا کہ اے ابو الحباب ! ہلاکت ہو تجھ پر.اب تو تو اس معجزے کو مان لے جس پر تو خود موجود ہے.آنحضرت صلی علیم کی سچائی کو مان لے.کیا اس کے بعد کوئی گنجائش رہ گئی ہے ؟ تو اس نے جواب دیا میں اس جیسی بہت سی چیزیں دیکھ چکا ہوں تو اس کو حضرت آؤس بن خولی نے کہا اللہ تیر ابر اکرے اور تیری رائے کو برا ثابت کر دے.عبد اللہ بن ابی رسول اللہ صلی الیکم کے پاس آیا تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اے ابو الحباب ! آج جو تو نے دیکھا ہے اس جیسا پہلے کب دیکھا تھا ؟ آنحضرت صلی یم کو بھی خبر پہنچی تو آپ نے پوچھا.اس نے کہا کہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا.رسول للہ علی الم نے فرمایا پھر وہ بات تم نے کیوں کہی یعنی جو اپنے بھانجے کو کہی تھی.عبداللہ بن اُبی نے کہا استغفر الله - عبد اللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجئے.چنانچہ رسول اللہ صلی الیم نے مغفرت کی دعا کی.325 حضرت علی بن عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ال کلم نے جب عمرہ کے لیے مکہ جانے کا ارادہ فرما یا تو آپ نے آؤس بن خولی اور ابورافع کو حضرت عباس کی طرف پیغام دے کر بھیجا کہ وہ حضرت میمونہ کی شادی آپ سے کروا دیں.راستے میں ان دونوں کے اونٹ کھو گئے.وہ کچھ دن بطن رابغ یعنی رابغ جو مخفہ سے دس میل کے فاصلے پر واقع ہے وہاں رکے رہے.یہاں تک کہ نبی کریم صلی علیکم تشریف لے آئے.پھر ان دونوں کو ان کے اونٹ مل گئے.پھر وہ نبی کریم صلی علیم کے ساتھ ہی مکہ گئے.آپ نے حضرت عباس نے نبی کریم صلی علیہ کم سے حضرت میمونہ کی شادی کرادی.16 آنحضرت علی السلام کی تجہیز و تکفین میں شمولیت کی سعادت 326 جب رسول اللہ صلی علی کم کی وفات ہوئی تو حضرت آؤس بن خولی نے حضرت علی بن ابی طالب سے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ ہمیں بھی رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں شریک کرلیں.چنانچہ حضرت علی نے آپ کو اجازت دی.اس کی ایک دوسری روایت اس طرح ملتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی علیکم کی وفات ہوئی اور آپ کو غسل دینے کا ارادہ کیا گیا تو انصار آئے اور انہوں نے یہ کہا کہ اللہ اللہ ! ہم لوگ آپ کے ننھیالی ہیں.انصار سے کہا گیا کہ تم لوگ اپنے میں سے کسی ایک شخص پر اتفاق کر لو.کوئی ایک شخص مقرر دو.تو انہوں نے حضرت آؤس بن خولی پر اتفاق کیا.وہ اندر آئے اور آپ کے غنسل اور تدفین میں شریک رہے یعنی آنحضرت صلی علیم کے غسل اور تدفین میں شریک رہے.حضرت اوس مضبوط آدمی تھے اس

Page 144

تاب بدر جلد 4 128 لیے پانی کا گھڑا اپنے ہاتھ میں اٹھا کر لاتے تھے اور اس طرح پانی مہیا کرتے رہے.نبی اکرم صل ال یکم کی قبر میں اترنے کا اعزاز پانے والے 327 حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت علی، حضرت فضل بن عباس، ان کے بھائی ققم، رسول اللہ صلی علیم کے آزاد کردہ غلام شقران اور حضرت آؤس بن خَوْلِی رسول اللہ صلی للی کم کی قبر میں اترے تھے.328 یعنی نعش لحد کے اندر رکھنے کے لیے.حضرت اوس بن خولی سے مروی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی الی یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا اسے اوس ! جو اللہ تعالیٰ کے لیے عاجزی انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بڑھاتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرتا ہے.29 وفات 329 پس یہ بہت ضروری سبق ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے.آپؐ کی وفات مدینہ میں حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی.330 40 حضرت اوس بن صامت پھر حضرت اوس بن الصَّامِت بدر کے ایک صحابی تھے جنہوں نے بدر میں حصہ لیا ہے.حضرت اوس بن صامت حضرت عبادہ بن صامت کے بھائی تھے.تمام غزوات میں شمولیت حضرت اوس غزوہ بدر اور احد اور دوسرے تمام غزوات میں حضور صلی الم کے ساتھ شریک ہوئے.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت اوس بن صامت اور حضرت مَرْشَد بن ابي مَرْشَدَ الْغَنَوِی کے در میان عقد مواخات کیا.روایات میں آتا ہے کہ حضرت اوس نے اپنی اہلیہ خُوَيْله بنتِ مالک سے ظھار کیا تھا.331 ظہار کرنے والے ظهار کہتے ہیں جو عربوں میں یہ رواج تھا کہ اپنی بیوی کو ماں کہہ دیا یا بہن کہہ دیا اس طرح کہنے کے بعد اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے یعنی کہ تم میری ماں ہو اس لئے حرام ہو گئی ہو.اسلام نے اس رسم کو مٹا دیا اور حکم دیا کہ اس کلمہ کے کہنے سے طلاق نہیں ہوتی.ماں بہن کہہ دیا تو طلاق نہیں ہو جاتی.ہاں یہ

Page 145

اصحاب بدر جلد 4 129 بیہودہ بات ہے جس کی سزا میں اسلام نے کفارہ مقرر کیا ہے.حضرت اوس نے کفارہ نہیں ادا کیا، کفارہ دینے سے پہلے اپنی اہلیہ سے تعلق قائم کیا تو رسول اللہ صلی الیم نے انہیں حکم دیا کہ یہ غلط ہے.پندرہ صاع جو ساٹھ مسکینوں کو کھلائیں.یعنی کفارہ یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو تم کھانا کھلاؤ.ظھار کے متعلق قرآن کریم میں بھی حکم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وو، الَّذِينَ يُظْهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَابِهِمْ مَا هُنَّ أُمَّهُتِهِمْ إِنْ أَمَّهْتُهُمْ إِلَّا الَّىٰ وَلَدُنَهُمْ وَ إِنَّهُمُ لَيَقُولُونَ مُنَكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَزُورًا وَإِنَّ اللهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ وَالَّذِينَ يُظْهِرُونَ مِنْ نِسَا بِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَّتَمَاشَا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاشَاء فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينَا ۖ ذَلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللهِ وَلِلْكَفِرِينَ عَذَابٌ اليه (الجاد : 33) تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ہو سکتیں.ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا اور یقیناوہ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں.اور اللہ یقیناً بہت در گزر کرنے والا اور بہت بخشنے والا ہے.اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیتے ہیں پھر جو کہتے ہیں اس سے رجوع کر لیتے ہیں.یعنی پہلے ماں کہہ دیا.پھر کہہ دیا اوہو غلطی ہوگئی تو پیشتر اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں، ایک گردن کا آزاد کرنا ہے یعنی اس زمانے میں تو غلام ہوتے تھے ایک غلام کو آزاد کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ وہ ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.پس جو اس کی استطاعت نہ پاتے ہوں.(اگر یہ استطاعت نہیں ہے کہ غلام ہے اس کو آزاد کرنا ہے ) تو مسلسل دو مہینے کے روزے رکھنا ہے پیشتر اس کے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں.پس جو اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے.یہ اس لئے ہے کہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے طمانیت نصیب ہو.یہ اللہ کی حدود ہیں اور کافروں کے لئے بہت ہی درد ناک عذاب مقدر ہے.اس کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ : "جو شخص اپنی عورت کو ماں کہہ بیٹھے تو وہ حقیقت میں اس کی ماں نہیں ہو سکتی.ان کی مائیں وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہوئے.سو یہ ان کی بات نامعقول اور سراسر جھوٹ ہے اور خد ا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اور جو لوگ ماں کہہ بیٹھیں اور پھر رجوع کریں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے ایک گردن آزاد کر دیں.یہی خدائے خبیر کی طرف سے نصیحت ہے اور اگر گردن آزاد نہ کر سکیں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے دو مہینہ کے روزے رکھیں اور اگر روزے نہ رکھ سکیں تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دیں."332 ان کی بیوی حضرت خُوَيْله بنت مالك بن ثعلبہ سے روایت ہے، کہ میرے شوہر اوس بن صامت نے مجھ سے ظھار کیا تو میں رسول اللہ صلی علیکم کے پاس شکایت لے کر گئی اور رسول اللہ صلی ا لیکن اس کے بارے

Page 146

تاب بدر جلد 4 130 میں مجھے فرمار ہے تھے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کر.وہ تیرا چازاد بھائی بھی ہے.مجھے اپنی بات پر اصرار رہا یہاں تک کہ قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی.انہوں نے کہا ماں کس طرح ہو سکتی ہے.وہ تمہارا چازاد بھائی بھی ہے اور تم اس کی بیوی ہو.کہتی ہیں میں نے بہر حال اس بات پر اصرار کیا یہاں تک کہ قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ قَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّتِى تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا الجاد : 2) کہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی.333 آپ مصلی تعلیم نے فرمایاوہ یعنی تیر اخاوند ایک غلام آزاد کرے.اب اس کی سزا یہ ہے جو آیت میں بیان ہوئی جس طرح قرآن شریف کا حکم ہے.اس کے بعد ساری تفصیل ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے کہ ایک غلام کو آزاد کرو.کہتی ہیں میں نے اس پہ عرض کیا کہ اس میں اس کی طاقت نہیں.کہاں سے لے ؟ وہ تو غریب آدمی ہے.آپ نے فرمایا پھر دو مہینے کے لگاتار روزے رکھے.میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! اس کی عمر ایسی ہے کہ وہ لگاتار روزے بھی نہیں رکھ سکتا.اس کی اس میں سکت نہیں ہے.تو آپ نے فرمایا.پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے.اس پر میں نے عرض کیا کہ اس کے پاس تو مال بھی کوئی نہیں ہے.اس کے پاس کچھ نہیں ہے جس سے وہ صدقہ دے.حویلہ کہتی ہیں میں بیٹھی ہوئی تھی کہ تبھی اس وقت کھجور کا ایک تھیلا آیا، آنحضرت صلی ال کم کی خدمت میں کسی نے پیش کیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں کھجوروں کے دوسرے تھیلے کے ساتھ اس کی مدد کروں گی یعنی اگر یہ مجھے مل جائے تو ایک اور تھیلے کا انتظام ہو سکتا ہے.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.جا اس کو لے جا.یہ تھیلا لے جاؤ اور اس میں سے اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ اور پھر اپنے چچا کے بیٹے کے پاس جاؤ.3 یعنی اپنے خاوند کے پاس جاؤ.تم اس کے کہنے سے کوئی ماں واں نہیں بنی.ان صحابہ کی سیرت بیان ہوتی ہے تو بعض مسائل بھی ساتھ ساتھ حل ہو جاتے ہیں.حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ سب سے پہلا ظہار جو اسلام میں ہوا.یعنی بیوی کو ماں کہنے کا وہ یہی حضرت اوس بن صامت کا تھا.ان کے نکاح میں ان کے چا کی بیٹی تھی ان سے انہوں نے ظہار کیا تھا.334 بہر حال اللہ تعالیٰ نے یہ حدود قائم کی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ معاملہ پیش ہوا.آپ نے فرمایا کہ اس کی یہی سزا ہے.خلیفہ ثانی کے زمانہ میں اسی طرح ایک معاملہ پیش ہوا آپ نے فرمایا یہی سزا ہے.اور سوائے اس کے کہ کوئی بہت ہی غریب ہے اور طاقت نہیں ہے تو پھر وہ استغفار کرے اور جس حد تک سکت ہے ، پہنچ ہے وہ اس کی سزا میں دے.تو بہر حال اللہ تعالیٰ نے بیوی کو ماں یا بہن کہنے کے لئے حدود قائم کی ہیں.بعضوں کو عادت ہوتی ہے ہر ذرا سی بات پر لا رلڑائیاں ہوئیں تو کہہ دیا کہ میرے پہ حرام ہو گئی یا یہ ہو گیا تو تم میری ماں کی طرح ہو تم فلاں ہو یا قسم کھالی.تو یہ سب قسمیں ہیں اور ان پر حدود قائم ہوتی ہیں.اگر کوئی یہ کہتا ہے تو اس کو یہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ غلام کو آزاد کرو یاروزے رکھو یا مسکینوں کو کھانا کھلاؤ.

Page 147

تاب بدر جلد 4 وفات 131 حضرت اوس بن صامت شاعر بھی تھے.حضرت اوس بن صامت اور شداد بن اوس انصاری نے بیت المقدس میں رہائش رکھی.ان کی وفات سر زمین فلسطین کے مقام رنکہ میں 34 ہجری میں ہوئی.اس وقت حضرت اوس کی عمر 72 سال تھی.335 41 قبول اسلام حضرت ایاس بن بکیره جنگ بدر میں شامل ہونے والے چار بھائیوں میں سے ایک پھر حضرت ایاس بن بگیر ہیں، ان کو ابن ابی بج گئیر بھی کہا جاتا تھا.آپ قبیلہ بنو سعد بن لیث سے تھے جو بنو عدی کے حلیف تھے.حضرت عاقل، حضرت عامر ، حضرت ایاس اور حضرت خالد نے اکٹھے دار ارقم میں اسلام قبول کیا تھا.حضرت ایاس اور ان کے بھائیوں حضرت عاقل اور حضرت خالد اور حضرت عامر نے اکٹھی ہجرت کی اور مدینہ میں رفاعہ بن عبد المندر کے ہاں قیام کیا.ان کی والدہ کی طرف سے تین بھائی اور بھی تھے یہ سب کے سب غزوہ بدر میں شامل ہوئے.ابن یونس نے کہا ہے کہ ایاس فتح مصر میں بھی شریک تھے اور 34 ہجری میں وفات پائی جبکہ ایک روایت کے مطابق حضرت ایاس نے جنگ یمامہ میں شہادت پائی.ان کے بھائی حضرت معاذ اور حضرت معوذ اور عاقل غزوہ بدر میں جبکہ حضرت خالد واقعہ رجیع میں اور حضرت عامر جنگ یمامہ میں شہید ہوئے.حضرت عامر کے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ آپ نے بئر معونہ میں شہادت پائی.تمام غزوات میں شامل اور ابتدائی ہجرت کرنے والے حضرت ایاس بن بگیر غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق اور باقی تمام غزوات میں نبی کریم صلی ال نیم کے ہمراہ رہے.آپ سابقین اسلام میں سے تھے اور ابتدائی ہجرت کرنے والوں میں سے تھے.آپ محمد بن ایاس بن بگیر کے والد تھے.رسول کریم صلی العلیم نے حضرت ایاس بن بگیر اور حضرت حارث بن خزمہ کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی.یہ شاعر بھی تھے.336

Page 148

اصحاب بدر جلد 4 132 حضرت بلال کے رشتہ کی پیشکش اور...زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ابو البکیر کے لڑکے یعنی یہ آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیا جائے.آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے.بلال اس سے بہتر ہے اس کے متعلق سوچو.وہ لوگ چلے گئے.الله دوسری مرتبہ پھر آئے اور آنحضرت صلی علی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر عرض کیا کہ : یارسول اللہ صلی ال کم ہماری بہن کا فلاح شخص کے ساتھ نکاح کر دیجئے.آنحضرت صلی لی ایم نے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے.وہ لوگ سوچنے کے لئے پھر چلے گئے.پھر وہ لوگ تیسری مرتبہ آنحضرت صلی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر یہی عرض کی کہ ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیجئے.آنحضرت صلی علیم نے پھر یہی فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ اور پھر فرمایا کہ ایسے شخص کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جو اہل جنت میں سے ہے.پھر ان لوگوں نے آنحضرت صلی علیکم عرض کیا کہ ٹھیک ہے اور بلال سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا.7 337 حضرت بلال کا مقام تو حضرت بلال کا یہ مقام تھا.اور کس طرح رشتے طے ہوتے تھے اس زمانے میں.ٹھیک ہے ایک دو دفعہ انکار کیا لیکن تیسری دفعہ پھر انہیں جو حکم ہو اوہ مان لیا.بہر حال ہر ایک کا اپنا اپنا مقام تھا.بعض لوگ پہلی دفعہ ہی عرض کر دیتے تھے کہ ٹھیک ہے جو آپ فرمائیں، بعض سوچنے لگ جاتے تھے لیکن بہر حال حضرت بلال کے مقام کا اس سے بھی پتہ لگتا ہے.18 338

Page 149

339 133 42 صحاب بدر جلد 4 حضرت بجير بن ابي بجير ย پھر حضرت مجیر بن ابی بجیر ہیں.حضرت مُجیر بن ابی نُجیر غزوہ بدر اور احد میں شریک تھے.43 نام و نسب حضرت بسبس بن عمرو " ان کا نام حضرت بشبش بن عمرو ہے.ایک روایت میں آپ کا نام بنبش بن بشر بھی آیا ہے.حضرت بشبش جهنی انصاری کا تعلق قبیلہ بنو سَاعِدة بن كعب بن خزرج سے تھا جبکہ عروہ بن زبیر کے مطابق آپ کا تعلق بنو ظریف بن خزرج سے ہے.آپ نے غزوہ بدر میں شرکت کی تھی.آپ کا شمار 340 انصار صحابہ میں ہوتا ہے.آپ کو بُسَيْسَہ اور بُسَیس اور بسبسہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے.غزوہ بدر کے علاوہ آپ نے غزوہ احد میں بھی شرکت کی تھی.12 جنگ بدر کے موقعہ پر مدینہ میں امام الصلوۃ اور امیر کا تعین 342 341 غزوہ بدر کے لئے مدینہ سے نکلنے کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ لکھا ہے کہ: مدینہ سے نکلتے ہوئے آپ نے اپنے پیچھے عبد اللہ بن ام مکتوم کو مدینہ کا امیر مقرر کیا تھا.مگر جب آپ روحاء کے قریب پہنچے جو مدینہ سے 36 میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبد اللہ ایک نابینا آدمی ہیں اور لشکر قریش کی آمد آمد کی خبر کا تقاضا ہے کہ آپ کے پیچھے مدینہ کا انتظام مضبوط رہے.آپ نے ابو لبابہ بن مُنذر کو مدینہ کا امیر مقرر کر کے واپس بھجوا دیا اور عبد اللہ بن ام مکتوم کے علق حکم دیا کہ وہ صرف امام الصلوۃ رہیں مگر انتظامی کام ابو لبابہ سر انجام دیں.یہ لکھتے ہیں کہ " مدینہ کی بالائی آبادی یعنی قباء کے لئے آپ نے عاصم بن عدی کو الگ امیر مقرر فرمایا." آپ نے جو امراء بھیجے

Page 150

ناب بدر جلد 4 134 تھے ، مقرر فرمائے یا تبدیلیاں کیں وہ یہاں سے " دشمن کی حرکات و سکنات کی معلومات کے لئے بدر کی طرف دو آدمیوں کو بھیجنا اسی مقام سے آپ نے بسيس ( یعنی بشبس) اور عدی نامی دو صحابیوں کو دشمن کی حرکات و سکنات کا علم حاصل کرنے کے لئے بدر کی طرف روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ وہ بہت جلد خبر لے کر واپس 34311 دو ہفتے پہلے خطبہ میں حضرت عدی بن آبی زغباء کے ذکر میں اس واقعہ کا ذکر ہو چکا ہے.جن کو بھیجا گیا تھا ان میں حضرت بسبس اور حضرت عدی بن ابی زغباء دونوں شامل تھے.جب یہ بدر کے مقام پر خبر لینے کے لئے پہنچے تو وہاں حضرت بسبس بن عمر و اور عدی بن ابی زغباء نے کنوئیں کے قریب ایک ٹیلے کے پاس اپنے اونٹ بٹھا کر اپنی مشکیں لیں اور کنوئیں سے پانی بھرا اور وہاں پیا بھی.اس دوران انہوں نے وہاں دو عورتوں کو باتیں کرتے سنا جو کسی قافلے کے آنے کے بارے میں باتیں کر رہی تھیں.344 ابو سفیان کا بدر کے مقام پر پہنچنا سے قانہ رہ - اور وہاں ایک شخص بھی کھڑا تھا.بہر حال یہ دونوں واپس آئے اور آنحضرت صلی ا ہم کو ان عورتوں کی باتوں کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک قافلے کیے آنے کے بارے میں اس طرح باتیں کر رہی تھیں.وہ شخص جو وہاں کھڑا تھا اس کا نام تجدی تھا.( یہ تفصیل میں پہلے بیان کر چکا ہوں) تو مورخ لکھتے ہیں کہ اگلی صبح ابو سفیان وہاں پہنچا جبکہ قافلہ بھی وہاں آیا ہوا تھا.اس نے قندی سے پوچھا کہ اسے مجدی! کیا تو نے ایسے کسی شخص کو دیکھا ہے جو یہاں جاسوسی کے لئے آیا ہو ؟ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر تو ہم سے دشمن کا حال چھپائے گا تو قریش میں سے کبھی کوئی بھی شخص تجھ سے صلح نہیں کرے گا.مسجدی نے کہا یعنی وہ شخص جو کھڑ ا تھا بخدا میں نے یہاں کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس کو میں نہ پہچانتا ہوں.یہاں سے تیرے اور میثرب کے درمیان کوئی دشمن نہیں ہے اور اگر کوئی ہو تا تو وہ مجھ اور نہ ہی میں تجھ سے اس کو چھپاتا.وہ کہتا ہے مگر ہاں یہ ہے کہ میں نے دو سواروں کو دیکھا تھا.وہ اس جگہ ر کے تھے اور اُس جگہ اشارہ کیا جہاں حضرت بسبس اور حضرت عدی رکے تھے اور انہوں نے اپنے اونٹ بٹھائے تھے.کہنے لگا کہ انہوں نے یہاں اپنے اونٹ بٹھائے تھے ، پانی پیا تھا اور پھر یہاں سے چلے گئے.ابو سفیان اس جگہ پر آیا جہاں دونوں صحابہ نے اونٹ بٹھائے تھے اور ان دونوں کے اونٹوں کی مینگنیاں اٹھا کر توڑنے لگا.اس لیے کہ تجسس تھا.تو پہچان کے لئے یہ بھی توڑنے لگا.جب اس نے توڑی تو اونٹ کی مینگنیوں میں سے کھجور کی گٹھلی نکلی تو ابوسفیان بولا بخد !!! اہل یثرب کے اونٹوں کا یہی چارا ہے.یہ تو وہاں سے آئے ہیں.یہ دونوں محمد صلی للی کم اور اصحاب محمد کے جاسوس تھے.یعنی دونوں جو شخص آئے تھے یہ تو مدینے سے آئے ہیں اور یہ جاسوس ہیں.اونٹ کی مینگنیوں سے مجھے یہ اندازہ لگ گیا ہے کہ کیوں

Page 151

تاب بدر جلد 4 135 یہاں آئے تھے.کہنے لگا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ بہت قریب ہیں.اس کے بعد وہ وہاں سے جلدی جلدی اپنے قافلے کو لے کر روانہ ہو گیا.345 ان عربوں کو اس زمانے میں بھی جاسوسی کے اندازے لگانے کا بڑا ملکہ تھا اور یہ بھی جاسوسی کے ہی انداز تھے.نبی اکرم ملیالم کا بدر کے میدان کی طرف بڑھنا اس کے ذکر میں، بدر کی جنگ کے ذکر میں سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ لکھا ہے کہ جب آپ صلی علیہ کم بدر کے قریب پہنچے تو کسی خیال کے ماتحت جس کا ذکر روایات میں نہیں ہے آپ حضرت ابو بکر صدیق کو اپنے پیچھے سوار کر کے اسلامی لشکر سے کچھ آگے نکل گئے.اس وقت آپ کو ایک بوڑھا بدوی ملا جس سے آپ کو باتوں باتوں میں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت قریش کا لشکر بدر کے بالکل پاس پہنچا ہوا ہے.آپ یہ خبر سن کر واپس تشریف لے آئے اور حضرت علی اور زبیر بن العوام اور سعد بن وقاص و غیرہ کو دریافت حال کے لئے آگے روانہ فرمایا اور ایک روایت کے مطابق بھیجے جانے والوں میں حضرت بسبس بھی شامل تھے.پہلے تو یہ لوگ گئے تھے قافلے کی خبر لینے کے لئے.اب جو پتہ لگا کہ لشکر آ رہا ہے تو اس لشکر کی خبر لینے کے لئے جن لوگوں کو بھیجا ان میں یہ شامل تھے.جب یہ لوگ بدر کی وادی میں گئے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کے چند لوگ ایک چشمہ سے پانی بھر رہے تھے.ان صحابیوں نے ان پر ، جماعت پر حملہ کر کے ان میں سے ایک حبشی غلام کو پکڑ لیا اور اسے آنحضرت صلی الم کے پاس لے آئے.جب وہ لے کر آئے اس وقت آنحضرت صلی اللہ کی نماز میں مصروف تھے.صحابہ نے یہ دیکھ کر کہ آنحضرت صلی علم تو نماز میں مصروف ہیں خود اس غلام سے پوچھنا شروع کیا کہ ابو سفیان کا قافلہ کہاں ہے ؟ یہ حبشی غلام چونکہ لشکر کے ہمراہ آیا تھا.وہ تو اس لشکر کے ہمراہ آیا تھا جو بدر کی جنگ کے لئے آ رہا تھا.اس کو تو قافلے کا علم نہیں تھا اور وہ قافلے سے بے خبر تھا اس نے جواب میں کہا کہ ابوسفیان کا تو مجھے علم نہیں ہے البتہ ابوالحکم یعنی ابوجھل اور عُتبہ اور شیبہ اور اُمیہ وغیرہ اس وادی کے دوسرے کنارے ڈیرے ڈالے پڑے ہیں.صحابہ نے جن کو تو صرف قافلے کا پتہ تھانا، یہی اندازہ تھا اور یہی انہوں نے دماغ میں بٹھایا ہو ا تھا تو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور دیدہ دانستہ قافلے کی خبر کو چھپانا چاہتا ہے جس پر بعض لوگوں نے اسے کچھ مارا پیٹا بھی، زدو کوب کیا.لیکن جب وہ اسے مارتے تھے وہ ڈر کے مارے کہہ دیتا تھا کہ اچھا میں بتاتا ہوں اور جب اسے چھوڑ دیتے تو وہ پھر وہی پہلا جواب دیتا تھا کہ مجھے ابوسفیان کا، اس کے قافلے کا علم نہیں ہے.ہاں البتہ ابو جہل ایک لشکر لے کے آرہا ہے اور وہ پاس ہی موجود ہے.آنحضرت صلی الی یکم نے یہ باتیں سنیں تو آپ نے جلدی سے نماز سے فارغ ہو کر صحابہ کو مارنے سے روکا اور فرمایا جب وہ سچی

Page 152

اصحاب بدر جلد 4 136 بات بتاتا ہے تم اسے مارتے ہو اور جھوٹ کہنے لگتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو.پھر آپ نے خود نرمی کے ساتھ اس سے دریافت فرمایا کہ لشکر اس وقت کہاں ہے ؟ اس نے جواب دیا اس وقت سامنے والے ٹیلے کے پیچھے ہے.آپ نے پوچھا کہ لشکر میں کتنے آدمی ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ بہت ہیں مگر پوری تعداد مجھے معلوم نہیں ہے.آپ نے فرمایا اچھا یہ بتاؤ کہ ان کے لئے کھانا کھانے کے لئے ہر روز کتنے اونٹ ذبح ہوتے ہیں؟ اس نے کہا کہ دس ہوتے ہیں.دس اونٹ اس قافلے کے لئے ذبح ہوتے ہیں.سلمان کے علاوہ کھانے پینے کا بھی اتنا سامان لے کے آئے تھے.تو آپ صلی للی نیم نے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ دس اونٹ ذبح ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ایک ہزار آدمی ان کے ساتھ آئے ہیں اور حقیقتاً وہ اتنے ہی لوگ تھے.346 44 نام و نسب حضرت بشر بن براء بن معرور رض ان کا نام حضرت بشر بن براء بن مَغْرُور ہے.حضرت بشر کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو عبید بن عدی سے تھا اور دوسرے قول کے مطابق بنو سلمہ سے تھا.347 دو مختلف روایتیں بیان کی جاتی ہیں.حضرت بشر کے والد کا نام حضرت براء بن مغرور اور والدہ کا نام خُلَيْدَہ بنت قیس تھا.348 حضرت بشر کے والد حضرت براء بن مَغرُور ان بارہ (12) نقیبوں میں سے تھے جو مقرر کیے گئے تھے اور قبیلہ بنو سلمہ کے نقیب تھے.حضرت براء ہجرت سے ایک ماہ قبل حالت سفر میں فوت ہو گئے تھے.جب رسول اللہ صلی الیم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ان کی قبر پر تشریف لے جاکر چار تکبیرات ادا فرمائیں.19 بیعت عقبہ ثانیہ میں شمولیت 349 حضرت بشر اپنے والد کے ساتھ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے اور حضرت بشر بن بر اور سول اللہ صلی الم کے ماہر تیر انداز صحابہ میں سے تھے.رسول اللہ صلی الم نے حضرت بشر اور حضرت واقد بن عبد اللہ جنہوں نے مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی تھی، ان کے در میان عقد مؤاخات قائم فرمایا.

Page 153

350 تاب بدر جلد 4 137 حضرت بشر غزوہ بدر، احد، خندق، حدیبیہ اور خیبر میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شریک ہوئے.قبیلہ کا سردار مقرر کیا جانا عبد الرحمن بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی نیلم نے فرمایا کہ اے بَنُونَضَلَه ! ( بعض روایت میں بنو سلمہ لکھا ہے کہ) تمہارا سر دار کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جد بن قیس.آپ نے فرمایا کہ سے کس وجہ سے سر دار مانتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ وہ ہم سے زیادہ مال دار ہے.بڑا امیر آدمی ہے.بڑا آدمی ہے اس لیے ہم نے اس کو سردار بنالیا ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم محض بخل کی وجہ سے اسے معیوب سمجھتے ہیں.وہ بڑا بخیل ہے ، کنجوس ہے اور اس کی یہ بات ہمیں پسند نہیں ہے.آپ مصلی الم نے فرمایا کہ بخل سے زیادہ بڑی بیماری کون سی ہے ؟ یہ بخیل ہو ناتو بہت بڑی بیماری ہے.وہ تمہارا سر دار نہیں ہے اور اس وجہ سے وہ تمہارا سر دار نہیں ہو سکتا.انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! پھر ہمارا سر دار کون ہے آپ ہی بتادیں ؟ آپ نے فرمایا کہ بشر بن براء بن مَغرُور تمہارا سر دار ہے جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے.ان کے بارے میں فرمایا کہ یہی تمہارا سر دار ہے اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارا سر دار سفید رنگ والا، گھنگھریالے بالوں والا بشر بن براء بن معرور ہے.شادی اور اولاد 351 حضرت بشر بن بر او نے حضرت قُبَيْسَه بنت صیفی سے شادی کی جس سے ان کے ہاں ایک بیٹی پید اہوئی جس کا نام عالیہ تھا.حضرت قبیسہ نے اسلام قبول کیا اور رسول اللہ صلی الغی کمی کی بیعت بھی کی.352 یہود کا ”محمد“ نام کے نبی کا انتظار حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہود اوس اور خزرج کے مقابلے میں رسول اللہ صلی ایم کے مبعوث ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی العلیم کے واسطے سے فتح کی دعا مانگا کرتے تھے.آپس میں لڑتے تھے تو یہ دعامانگا کرتے تھے.یہ نبی جس کی پیش گوئی ہے مبعوث ہونے والا ہے اس کے نام پہ ہمیں فتح عطا کر.اللہ تعالیٰ سے مانگتے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی علیہ کام کو عرب میں سے مبعوث فرمایا تو انہی لوگوں نے آپ کا انکار کیا اور جو بات وہ کہا کرتے تھے اس سے انکاری ہو گئے.یہی طریقہ ہے ہمیشہ سے انکار کرنے والوں کا.حضرت معاذ بن جبل اور حضرت بشر بن بر او اور داؤد بن سلمہ نے ان سے ایک دن کہا کہ اے یہود کے گروہ ! اللہ سے ڈرو اور اسلام قبول کر لو.پہلے تو تم ہم پر محمد نام کے نبی کے ظہور کے ذریعہ فتح مانگتے تھے.یہ کہا کرتے تھے کہ یہ نبی مبعوث ہو گا جس کا نام محمد ہو گا اور اس کی وجہ سے فتح کی دعا کیا کرتے

Page 154

138 ناب بدر جلد 4 تھے اور ہم شرک کرنے والے تھے.حضرت بشر بن بر انو نے کہا کہ ہم تو ان لوگوں میں شامل تھے جو شرک کرتے تھے اور تم ہمیں یہ باتیں بتا یا کرتے تھے اور تم ہمیں یہ بتاتے تھے کہ وہ نبی مبعوث ہونے والا ہے.اب وقت آگیا ہے کہ وہ مبعوث ہو گا اور ہمیں اس کی علامات بتایا کرتے تھے کہ یہ یہ علامتیں ہوں گی.اب مبعوث ہو گیا ہے تو اب اس نبی پر ایمان کیوں نہیں لاتے.سلّام بن مشکم یہودی نے جو قبیلہ بنو نضیر میں سے تھا ( سلام بن مشکم یہود کے قبیلہ بنو نضیر کا سردار اور ان کے خزانے کا نگران بھی ہوتا تھا.یہ اس عورت زینب بنت حارث کا خاوند تھا جس نے غزوہ خیبر میں آنحضور صلی کم کو زہر آلود گوشت دیا تھا.بہر حال) اس نے جواب دیا کہ وہ نبی ہمارے پاس وہ نہیں لے کر آیا جسے ہم پہچانتے ہیں اور نہ آپ وہ نبی ہیں جن کا ہم نے تم سے ذکر کیا تھا.ساری علامتیں پوری ہو گئیں جو یہ کہتے تھے.کہتے نہیں ہم پر وہ لے کر نہیں آیا جو ہم پہچانتے ہیں.ساری علامتیں پوری نہیں ہوئیں اس لیے ہم نہیں مانیں گے.تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَبُ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقُ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَفِرِينَ ( القر : 90) یعنی اور جب اللہ کی طرف سے ان کے پاس ایک ایسی کتاب آئی جو اس ( تعلیم ) کی جو ان کے پاس تھی تصدیق کر رہی تھی جبکہ حال یہ تھا کہ اس سے پہلے وہ ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے کفر کیا (اللہ سے مدد مانگا کرتے تھے.پس جب وہ ان کے پاس آ گیا جسے انہوں نے پہچان لیا تو ( پھر بھی) اُس کا انکار کر دیا.پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو.353 جنگ احد کے موقعہ پر نیند اور غنودگی طاری ہونا حضرت زبیر بن عوام بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ احد کا رخ پلٹا تو میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلیالم کے قریب پایا.جب ہم سب بد حواس اور خوف زدہ تھے اور ہم پر نیند نازل کر دی گئی.ایسی حالت تھی کہ لگتا تھا کہ اونگھ کی حالت ہم پر طاری ہو گئی ہے.چنانچہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کی ٹھوڑی اس کے سینے پر نہ ہو.یعنی نیند اور غنودگی کی حالت میں سر نیچے ڈھلک گئے تھے.کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے مُعيَّب بن قشیر کی آواز خواب میں سنائی دے رہی ہے.وہ کہہ رہا تھا کہ اگر ہمیں فیصلے کا اختیار ہو تا تو ہم کبھی یہاں اس طرح قتل نہ کیے جاتے.مُعتب بن فقیر انصاری صحابی تھے اور بیعت عقبہ ، غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے تھے.میں نے ان کے اس جملے کو یاد کر لیا جب اس طرح خواب کی حالت میں دیکھا تھا.اس موقع کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَةِ آمَنَةً نُعَاسًا يَغْشَى طَائِفَةً مِنْكُمْ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ (آل عمران : 155) کہ پھر اس نے تم پر غم کے بعد تسکین بخشنے کی خاطر اونگھ اُتاری جو تم میں سے ایک گروہ کو ڈھانپ رہی تھی.جبکہ ایک وہ گروہ تھا کہ جنہیں ان کی جانوں نے فکر مند کر رکھا تھا وہ اللہ کے بارے میں

Page 155

اصحاب بدر جلد 4 139 جاہلیت کے گمانوں کی طرح ناحق گمان کر رہے تھے.وہ کہہ رہے تھے کہ کیا اہم فیصلوں میں ہمارا بھی کوئی عمل دخل ہے ؟ تو کہہ دے کہ یقینا فیصلے کا اختیار کلیۂ اللہ ہی کو ہے.حضرت کعب بن عمر و انصاری نے بیان کیا ہے کہ غزوہ احد کے دن ایک موقع پر میں اپنی قوم کے 14 آدمیوں کے ساتھ آنحضرت صلی علی ایم کے پاس تھا اس پر ہم پر اونگھ طاری تھی.جو بطور امن کے تھی یعنی بڑی سکون والی اونگھ تھی.جنگی حالت تھی لیکن وہ ایسی اونگھ تھی جو ہمیں سکون دے رہی تھی.کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے سینے سے دھونکنی کی طرح خراٹوں کی آواز نہ نکل رہی ہو.بعض دفعہ ایسی گہری حالت بھی ہو گئی تھی.کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ بشر بن براء بن معرور جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی اور انہیں تلوار کے گرنے کا احساس بھی نہ ہو ا حالانکہ مشرکین ہم پر چڑھے آرہے تھے.354 حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی تفسیر بہر حال ہو سکتا ہے کہ یہ ان کو محسوس ہوا ہو کہ گر گئی کیونکہ اس وقت ایسی حالت میں نیند تو تھی.لیکن ان کے ہاتھوں میں جو ہتھیار تھے مضبوطی سے قائم ہوتے تھے یا گرنے لگتے تھے تو جھٹکا لگتا تھا.بہر حال یہاں لفظ نعاس استعمال ہوا ہے اس کی جو وضاحت، تشریح، ہے وہ اپنے ایک درس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے بڑی تفصیل سے فرمائی تھی کہ آمَنَةً نُّعَاسًا مختلف پہلوؤں سے اس کے جو تراجم ہیں ان کا خلاصہ یہ معنی بنے گا کہ غم کے بعد تم پر ایسا سکون نازل فرمایا جسے نیند کہہ سکتے ہیں یا ایسی اونگھ عطا کی جو امن کی حامل تھی یا وہ امن دیا جو نیند کا سا اثر رکھتا تھا یا نیند میں شامل تھا.یہ آمَنَةً نُعَاسًا کا یہ مطلب ہے.اونگھ وقتی طور پر یوں سر جھکا کر غوطہ کھا جانے کو بھی کہتے ہیں لیکن یہاں نعاس کا معنی اس قسم کی اونگھ نہیں ہے بلکہ وہ کیفیت ہے جو بیداری اور نیند کے درمیان کی کیفیت ہوتی ہے.سونے سے پہلے ایک بیچ کی ایسی منزل آتی ہے جہاں تمام اعصاب کو ایک سکون مل جاتا ہے اور وہی گہر اسکون ہے اگر وہ سکون اسی طرح جاری رہے تو پھر نیند میں تبدیل ہو جاتا ہے.ایسی حالت میں انسان اگر چل رہا ہے تو گرے گا نہیں.گرنے سے پہلے اسے جھٹکا لگ جاتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ میں کس کیفیت میں تھا.لیکن اگر نیند آجائے تو پھر اپنے اعصاب پر ، اپنے اعضا پر کوئی اختیار نہیں رہتا.بہر حال ہو سکتا ہے بشر بن براء کو اس حالت میں اس طرح کی گہری نیند بھی آگئی ہو.لیکن باوجود جنگ کی حالت کے وہ تھی سکون کی کیفیت اور انسان گر جاتا ہے اور اگر اس کو صحیح بھی مانا جائے تو اسی وجہ سے ان کے ہاتھ ذراڈ ھیلے ہوئے تو تلوار گر گئی.بہر حال یہ حالت ایسی ہوتی ہے جس میں فوری احساس بھی ہو جاتا ہے کہ میں گہری نیند میں جارہا ہوں اور پھر انسان جھٹکے سے جاگ جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ایسی سکون کی حالت عطا کی جو نیند سے مشابہ تھی مگر نیند کی طرح اتنی گہری نہیں تھی کہ تمہیں اپنے اوپر اپنے اعضاء پر کوئی اختیار نہیں رہے.وہ سکینت تو بخش رہی تھی مگر تمہیں بے کار نہیں کر رہی تھی.

Page 156

اصحاب بدر جلد 4 140 حضرت ابو طلحہ کہتے ہیں اور یہ بخاری کی حدیث میں ہے کہ اُحد کے دن عین جنگ میں ہم کو اونگھ نے آدبایا اور یہ وہ اونگھ ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.حضرت طلحہ کہتے ہیں کہ تلوار میرے ہاتھ سے گرنے کو ہوتی تھی.میں تھام لیتا تھا.پس یہ حدیث بتارہی ہے کہ ایسی نیند کی کیفیت نہیں تھی کہ ہاتھوں سے چیزیں نیچے جا پڑیں یا چلتے چلتے ہم گر جائیں.تسکین تھی، سکینت تھی مگر پھر بھی ایک حد تک ہمیں اپنے اعضا پر اختیار حاصل تھا.پھر گرنے کو ہوتی تھی تو پھر تھام لیتے تھے.یعنی یہ اونگھ کا ایک حصہ کوئی اچانک یوں ہی نہیں آیا بلکہ یہ ایک کیفیت تھی جو ان لوگوں پر کچھ عرصہ چلتی رہی.ترمذی ابواب التفسیر میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن میں سر اٹھا کر دیکھنے لگا تو ہر آدمی اونگھتے اونگھتے اپنی ڈھال کے نیچے جھک رہا تھا.جاگنے کی وجہ سے یا تھکاوٹ کی وجہ سے ان صحابہ کی بہت بری حالت ہو گئی تھی اور ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سکون کی کیفیت مل رہی تھی.کہتے ہیں یعنی ایسا ہی نظارہ ہوا کہ جو عام تھا.کوئی اتفاقاً ایک تھکے ہوئے مجاہد کے اوپر اطلاق پانے والی کیفیت نہیں تھی.بلکہ حضرت خلیفہ رابح نے لکھا ہے کہ تمام مجاہدین جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ جنگ میں دشمن کے خلاف بر سر پیکار تھے ان سب پر اچانک گویا آسمان سے ایک چیز اتری ہے اور اس حالت نے اس کو ڈھانپ لیا.اس وقت ان کو اس چیز کی سکون کی اپنے اعصاب کو ریفریش (Refiesh) کرنے کی، ان کو تازہ دم کرنے کی شدید ضرورت تھی اور سونے کا وقت کوئی نہیں تھا اور جب ایسی حالت ہو جب ایسی تھکاوٹ کی حالت ہو تو ایسی حالت انسانوں پر طاری ہو جاتی ہے.بہر حال ساری قوم بیک وقت ایک ایسی نیند کی حالت میں چلی جائے جبکہ لڑائی ہو رہی ہو اور دشمن سے سخت خطرہ بھی در پیش ہو یہ اعجاز ہے.ایک معجزہ ہے.یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے.بعض لوگوں کے ساتھ ہو جاتا ہے یہ لیکن یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ایک معجزہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص سکون کی کیفیت ان کو اس وقت عطا کی گئی تھی.155 ایک یہودیہ کی طرف سے زہر ملے گوشت کے ذریعہ نبی اکرم علی تم کو قتل کرنے کی سازش حضرت بشر نے غزوہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللی کم کے ہمراہ اس زہر آلود بکری کا گوشت کھا یا جو ایک یہودی عورت نے تحفہ آنحضرت صلی علی کم کو پیش کیا تھا.جب حضرت بشر نے اپنا لقمہ نگلا تو اس جگہ سے ابھی ہٹے بھی نہ تھے کہ ان کا رنگ تبدیل ہو کر طیلسان ، یہ کپڑا ہے جس میں سیاہ رنگ زیادہ غالب ہوتا ہے ، اس کی طرح ہو گیا.درد سے ایک سال تک یہ حالت رہی کہ بغیر سہارے کے کروٹ تک نہ بدل سکتے تھے.پھر اسی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹے بھی نہیں تھے ، زہر اتنا زیادہ تھا کہ وہیں کھانے کے تھوڑی دیر بعد ہی ان کی وفات ہو گئی.356

Page 157

اصحاب بدر جلد 4 بشر بن براء کی والدہ کا اظہار افسوس 141 حضرت بشر بن بر اثر نے جب وفات پائی تو ان کی والدہ کو شدید دکھ ہوا.انہوں نے آنحضرت صلی علیم کے پاس آکر کہا کہ یارسول اللہ صلی علیکم ! بشر کی وفات بنو سلمہ کو ہلاک کر دے گی اور بنو سلمہ میں سے مرنے والے تو مرتے ہی رہیں گے.کیا مردے ایک دوسرے کو پہچان لیں گے.انہوں نے جو یہ حرکت کی ہے تو یہ حرکت کرنے والے تو ہلاک ہوں گے ، لیکن کیا مردے ایک دوسرے کو پہچان لیں گے ؟ کیا پشر کی طرف سلام پہنچایا جاسکتا ہے ؟ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا ہاں اسے اہم بشر ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جیسے پرندے درختوں پر ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں ویسے ہی جنتی بھی ایک دوسرے کو پہچان لیں گے.357 مطلب یہ تھا کہ ان کو پہچان لیں گے تو جو فوت ہونے والے ہیں ان کے ہاتھوں میں سلام بھیج سکتی ہوں.ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ قبیلہ بنو سلمہ کا کوئی بھی شخص جب وفات پانے والا ہوتا تو آنحضرت علی علیم کی اس بات کو سننے کے بعد حضرت بشر کی والدہ اس کے پاس جا کر کہتیں کہ اے فلاں ! تجھ پر سلام تو وہ جواب میں کہتا تجھ پر بھی.پھر وہ کہتیں کہ بشر کو میر اسلام کہنا.358 کوئی بھی بنو سلمہ کا فوت ہونے والا شخص ہو تا تو آپ ان کے پاس جا کر کہتیں، ان کو سلام پہنچانا.بنو سلمہ میں سے تھے.پہلے شاید میں نے دشمن کی بات کی.دشمنوں والی بات نہیں ہے.وہ ان کا کہنے کا انداز ہے کہ بشر کی وفات بنو سلمہ کو ہلاک کر دے گی.کیا مردے ایک دوسرے کو پہچان لیں گے.یعنی بہت صدمہ ہے ہمارے لیے.کیا بشر کی طرف سلام پہنچایا جاسکتا ہے ؟ اور جب آنحضرت صلی لی ہم نے فرمایا کہ ہاں.پھر آپ ہر فوت ہونے والے کے ذریعہ یہ پیغام دیتیں کہ وہاں جنت میں جاؤ گے تو سلام پہنچانا.ایک روایت کے مطابق حضرت بشر کی بہن رسول اللہ صلی نیلم کی مرض الموت میں آپ کے پاس آئی تو آنحضرت صلی ا ہم نے اسے فرمایا تمہارے بھائی کے ساتھ میں نے خیبر میں جو لقمہ کھایا تھا اس کی وجہ سے میں اپنی رگوں کو کتنا محسوس کرتا ہوں.زہریلے گوشت سے نبی اکرم صلی ا ہم کو قتل کرنے کی سازش اور حضرت مصلح موعود کا بیان اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے تفصیل بیان فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ : یہودی عورت نے صحابہ سے پوچھا کہ رسول کریم صلی علیکم کو جانور کے کس حصے کا گوشت زیادہ پسند ہے ؟ صحابہ نے بتایا کہ آپ کو دستی کا گوشت زیادہ پسند ہے.اس پر اس نے بکر اذبح کیا اور پتھروں پر اس کے کباب بنائے اور پھر اس گوشت میں زہر ملا دیا خصوصاً بازوؤں میں جس کے متعلق اسے بتایا گیا تھا کہ رسول کریم صلی للہ ہم اس کا گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں اور پھر سورج ڈوبنے کے بعد جب رسول کریم صلی علی کل شام کی نماز پڑھ کر اپنے ڈیرے کی طرف واپس آرہے تھے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے خیمے کے پاس ایک عورت 359 الله

Page 158

بدر جلد 4 142 بیٹھی ہے.آپ صلی العلیم نے اس سے پوچھا کہ بی بی تمہارا کیا کام ہے ؟ اس نے کہا کہ اے ابو القاسم ! میں آپ کے لیے ایک تحفہ لائی ہوں.رسول کریم صلی علی یم نے کسی ساتھی صحابی سے فرمایا کہ جو چیز یہ دیتی ہے اس سے لے لو.اس کے بعد آپ کھانے کے لیے بیٹھے تو کھانے پر وہ بھنا ہوا گوشت بھی رکھا گیا.رسول کریم صلی العلیم نے اس میں سے ایک لقمہ کھایا اور آپ کے ایک صحابی بشیر بن براء بن معرور نے بھی ایک لقمہ المدرسة کھایا.بہر حال تاریخ کی کتابوں میں حضرت بشر بن براء کا نام بعض جگہ بشیر بن براء بھی لکھا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے بشیر بن براء یہاں لکھا ہے مراد بشر بن براء ہی ہیں.اتنے میں باقی صحابہ نے بھی گوشت کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ صلی علیم نے فرمایا مت کھاؤ کیونکہ اس ہاتھ نے مجھے خبر دی ہے کہ گوشت میں زہر ملا ہوا ہے.یعنی اس کے معنی یہ نہیں کہ آپ کو الہام ہو ا تھا بلکہ یہ عرب کا محاورہ ہے.معنی یہ ہیں کہ اس گوشت کو چکھ کر مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے.پس اس جگہ یہ مراد نہیں ہے.اس محاورے کے تحت ہی بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا آپ کا ہاتھ بولا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کا گوشت چکھنے پر مجھے معلوم ہوا ہے.چنانچہ اگلا فقرہ ان معنوں کی وضاحت کر دیتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ ہی اس کی تفصیل میں فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک دیوار کے متعلق آتا ہے کہ وہ گرنا چاہتی تھی جس کے محض یہ معنی ہیں کہ اس میں گرنے کے آثار پیدا ہو چکے تھے.پس اس جگہ بھی یہی مراد ہے.یہ محاورہ بولا گیا ہے.پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ اس پر بشیر نے کہا یعنی بشر بن بر او نے کہ جس خدا نے آپ کو عزت دی ہے اس کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں کہ مجھے بھی اس لقے میں زہر معلوم ہوا ہے.میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس کو پھینک دوں لیکن میں نے سمجھا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو شاید آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے اور آپ کا کھانا خراب نہ ہو جائے.تسلی مجھے نہیں تھی لیکن مجھے لگ رہا تھا کہ کچھ ہے اور جب آپ نے وہ لقمہ نگلا تو میں نے بھی آپ کی تنقیع میں نگل لیا.گو میر اول یہ کہہ رہا تھا کہ چونکہ مجھے شبہ ہے کہ اس میں زہر ہے اس لیے کاش رسول اللہ صلی الی یم یہ لقمہ نہ نکلیں.اس کے تھوڑی دیر بعد بشیر کی طبیعت خراب ہو گئی اور بعض روایتوں میں تو یہ ہے کہ وہ وہیں خیبر میں فوت ہو گئے اور بعض میں یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ عرصہ بیمار رہے اور اس کے بعد فوت ہو گئے.اس پر رسول کریم صلی للہ ہم نے کچھ گوشت اس کا ایک کتے کے آگے ڈلوایا جس کے کھانے سے وہ کتا مر گیا.تب رسول اللہ صل اللی ایم نے اس عورت کو بلایا اور فرمایا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے.اس نے کہا کہ آپ کو یہ کس نے بتایا ہے.آپ کے ہاتھ میں اس وقت بکری کا دست تھا.آپ نے فرمایا اس ہاتھ نے مجھے بتایا ہے.اس پر اس عورت نے سمجھ لیا کہ آپ پر یہ راز کھل گیا ہے اور اس نے اقرار کیا کہ اس نے زہر ملا پا ہے.اس پر آپ نے اس سے پوچھا کہ اس نا پسندیدہ فعل پر تم کو کس بات نے آمادہ کیا.اس نے جواب دیا کہ میری قوم سے آپ کی لڑائی ہوئی تھی اور میرے رشتے دار اس لڑائی میں مارے گئے تھے.میرے

Page 159

143 اصحاب بدر جلد 4 دل میں یہ خیال آیا کہ میں اُن کو زہر دے دوں.اگر ان کا کاروبار انسانی کاروبار ہو گا تو ہمیں ان سے نجات حاصل ہو جائے گی اور اگر یہ واقعی میں نبی ہوں گے تو خدا تعالیٰ ان کو خود بچالے گا.رسول کریم صلی ہی ہم نے اس کی یہ بات سن کر اسے معاف فرما دیا اور اس کی سزا جو یقیناً قتل تھی اسے نہ دی.یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی علیم کس طرح اپنے مارنے والوں اور اپنے دوستوں کے مارنے والوں کو بخش دیا کرتے تھے اور در حقیقت اسی وقت آپ سزا دیا کرتے تھے جب کسی شخص کا زندہ رہنا آئندہ بہت سے فتنوں کا موجب ہو سکتا تھا.360 کیا نبی اکرم منی ایم کی وفات اسی زہر سے ہوئی ؟ بہر حال یہ ایک عام تاثر ہے.بعض دشمن یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی علیکم کی وفات اس زہر سے ہوئی تھی اور تاریخ وسیرت کی بعض کتب نے بھی یہ بحث اٹھائی ہے اور بعض سیرت نگار اس وجہ سے آنحضرت صلی للہ علم کو شہادت کا مقام دینے کے لیے ان روایات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ اس زہر کی وجہ سے آپ صلی علیم نے وفات پائی تھی جبکہ حقیقت میں یہ بات درست نہیں ہے.اس پر ہمارے ریسرچ سیل نے بھی ایک نوٹ مجھے بھیجا تھا.وہ بھی ایسا ہے کہ میں یہاں سنا دیتا ہوں.اس کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ تاریخ اور سیرت کی کتب ہوں یا حدیث کی، ایک بات مسلم ہے کہ آنحضرت صلی یہ کم کی وفات ہر گز اس زہر کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی.جو کوئی ایسا کہتا ہے اول تو وہ ان تمام تر روایات کا علم نہیں رکھتا یا وہ غلطی خوردہ ہے.واضح رہے کہ زہر دیے جانے کا واقعہ غزوہ خیبر کے موقع پر ہوا جو کہ چھے ہجری کے آخری یاسات ہجری کے آخری یا سات ہجری کے اوائل کا واقعہ ہے.اور اس کے تقریباً چار سال بعد تک آپ صلی علیہ ہم زندہ رہے.بھر پور زندگی گزاری.اسی طرح جس طرح اس سے پہلے جنگوں میں بھی جاتے رہے.عبادات اور دیگر معمولات میں بھی رتی بھر فرق نہیں آیا.تقریباً چار سال بعد بخار اور سر درد کی کیفیت طاری ہونا اور اس الله سة کے بعد وفات پا جانا اس کو کوئی عقل مند یہ نہیں کہہ سکتا کہ زہر کی وجہ سے چار سال بعد اثر ہوا ہے.اصل میں بخاری اور بعض دوسری کتب احادیث میں ایک حدیث ہے جس کے ترجمے کو درست نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ مفہوم نکالا جاتا ہے کہ گویا اسی زہر کی وجہ سے وفات ہوئی تھی حالا نکہ یہ درست نہیں ہے.بخاری کی وہ حدیث یہ ہے، اس کا ترجمہ بیان کر دیتا ہوں کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ کم مرض الموت میں یوں فرماتے تھے کہ عائشہ ! اس کھانے کی تکلیف جو میں نے خیبر میں کھایا تھا مجھے ہمیشہ محسوس ہوتی رہی اور اب بھی اس زہر سے میں اپنی رگیں کٹتی ہوئی محسوس کر رہا ہوں.361 یہ وہ حدیث ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ بعض مسلمان مفسرین بھی اور محدثین بھی یہی کہتے ہیں کہ گویا اسی تکلیف کی وجہ سے آنحضرت صلی یم کی وفات ہوئی تھی.اور پھر اسی کو سامنے رکھتے

Page 160

تاب بدر جلد 4 144 ہوئے یہ بھی تشریح کرتے ہیں کہ آپ صلی علی یکم کو اس وجہ سے شہید بھی قرار دیا جا سکتا ہے یا بعض کے نزدیک دیا جاتا ہے.جبکہ یہ روایت اس بات کی تائید نہیں کرتی.اس میں صرف ایک تکلیف کا اظہار ہے جو آنحضرت صلی لی ہم نے اس وقت فرمایا اور ہر کوئی جانتا ہے کہ بعض اوقات کوئی جسمانی تکلیف یا زخم یا بیماری کبھی کبھی خاص خاص موقعوں پر کسی سبب سے باہر آجاتی ہے.خیبر کے موقعے پر جو زہر اور گوشت آپ نے کھایا اس کے متعلق روایات کی تفصیل میں جائیں تو یہ بھی ملتا ہے کہ زہر ملا ہوا یہ گوشت آپ نے منہ میں ڈال لیا تھا لیکن نگلا نہیں تھا.لیکن اگر نگلا بھی تھا تو آپ کی بھر پور زندگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وفات کی وجہ بہر حال یہ نہیں تھی.ہاں اس زہر کی وجہ سے معدے کو یا انتڑیوں کو جو نقصان پہنچا تھا وہ بیماری میں زیادہ ہو گیا اور یہ قدرتی بات ہے بعض دفعہ اس طرح ہو جاتا ہے اور منہ میں جانے کی وجہ سے آپ کے حلق یا کوے پر زخم آگیا تھا اور کبھی کبھی کھانے کے دوران اس میں تکلیف محسوس فرماتے تھے.احادیث میں یہ واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ آنحضرت صلی الیکم کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس میں زہر ہے اور آپ صلی تعلیم نے اپنے صحابہ کو کھانے سے روک دیا تھا اور زہر ملانے والی عورت کو بلا کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہم نے اس لیے زہر ملایا تھا کہ اگر آپ خدا کی طرف سے سچے رسول ہیں تو آپ بچ جائیں گے ورنہ ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی.یہودی تو اس کو دیکھنے کے بعد آپ کے بچنے کا اعلان کر رہے ہیں اور اس عورت کا تو یہ تھا کہ اتنا خطرناک زہر تھا پھر بھی آپ بچ گئے تو آپ کے بچ جانے کی وجہ سے بعض روایات میں تو اس عورت کے اسلام قبول کر لینے کا بھی ذکر ملتا ہے.جو بھی ہو وہ یہودی تو اس زہر سے نہ مرنے کا اقرار کر رہے ہیں اور اس کو معجزہ قرار دے رہے ہیں.اس لیے یہ کہنا کہ اس زہر کی وجہ سے آپ کی کمی کی وفات ہوئی یہ ہر گز درست نہیں ہے.362 45 نام و نسب حضرت بشیر بن سعد 363 حضرت بشیر بن سعد.ان کی کنیت ابو نعمان تھی.سعد بن ثعلبہ ان کے والد تھے.حضرت سماك بن سعد کے بھائی تھے.قبیلہ خزرج سے ان کا تعلق تھا.ان کی والدہ کا نام انیسہ بنتِ خَلِیفَہ تھا اور آپ کی زوجہ کا نام عمرہ بنتِ رَوَاحَہ تھا.

Page 161

تاب بدر جلد 4 145 حضرت بشير بن سعد زمانہ جاہلیت میں لکھنا جانتے تھے.یہ وہ زمانہ تھا جب عرب میں بہت کم لوگ لکھنا جانتے تھے.بیعت عقبہ ثانیہ اور تمام غزوات میں شمولیت آپ بیعت عقبہ ثانیہ میں ستر انصار کے ساتھ شامل ہوئے تھے.آپ غزوہ بدر اور احد اور غزوہ خندق اور باقی کے تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ ظلم کے شامل ہوئے تھے.سریه فدک رسول اللہ صلی اللہ ہم نے شعبان 7 ہجری میں حضرت بشیر بن سعد کی نگرانی میں تیس آدمیوں پر مشتمل ایک سر یہ فدک میں بینی مرہ کی جانب بھیجا تھا.ان لوگوں میں شدید لڑائی بھی ہوئی تھی.حضرت بشیر نہایت جوانمردی سے لڑے اور لڑتے ہوئے آپ کے ٹخنے پر تلوار لگی اور سمجھا گیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.دشمنوں نے ان کو چھوڑ دیا کہ شاید بیہوش ہو کے گرے ہوں گے یا شہید ہو گئے ہیں.چھوڑ کے آگئے.لیکن جب شام کو آپ کو ہوش آئی تو آپ وہاں سے فدک آگئے.فدک میں آپ نے ایک یہودی کے گھر چند روز قیام کیا اور پھر مدینہ واپس تشریف لے آئے.اسی طرح شوال 7 ہجری میں رسول اللہ صلی علیکم نے آپ کو تین سو آدمیوں کے ہمراہ یمن اور جہاز کی طرف روانہ فرمایا جو کہ فدک اور وادی القری کے درمیان واقع ہے.یہاں غطفان کے کچھ لوگ عُيَيْنَه بن حِصْنِ الْفَزَارِی کے ساتھ اکٹھے ہو گئے تھے.یہ اسلام کے خلاف منصوبہ بندیاں کرتے تھے.حضرت بشیر نے ان سے مقابلہ کر کے انہیں منتشر کر دیا.مسلمانوں نے بعض کو قتل بھی کیا اور بعض کو قیدی بنایا اور مال غنیمت کے ساتھ لوٹے 364 جنگ اور نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوا کرتے تھے.اس لئے ان کے خلاف مسلمانوں کے تحفظ کے لئے یہ کارروائی کی جاتی تھی.مال لوٹنا یا قتل کرنا مقصد نہیں تھا.جیسا کہ گذشتہ خطبہ میں بھی میں نے بیان کیا تھا کہ ایک غلط حملے پر جس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا آنحضرت صلی علی کریم نے صحابہ سے بڑی سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ کیوں تم نے جنگ لڑی؟ کیا تم نے اپنے سارے بیٹوں کو اسی طرح دیا ہے؟ بشیر بن سعد کے بارے میں ایک روایت ہے جو ان کے بیٹے حضرت نُعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں.نعمان بن بشیر ان کا نام تھا کہ ان کے والد انہیں رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس لائے اور عرض کی کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام دیا ہے اس پر رسول اللہ صلی علیہم نے فرمایا کہ تم نے اپنے سارے بیٹوں کو اسی طرح دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں.اس پر رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا پھر اس سے واپس لے لو.365 ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر " کہتے ہیں کہ میرے والد نے اپنا کچھ مال مجھے عطا

Page 162

146 تاب بدر جلد 4 کیا.(وہ بھی بخاری کی روایت ہے اور یہ بھی) اس پر میری والدہ عمرہ بنتِ رَوَاحَہ نے کہا میں راضی نہ ہوں گی جب تک تم رسول اللہ صلی علی یم کو گواہ نہ ٹھہراؤ.میرے والد نبی صلی یکم کے پاس گئے تا کہ وہ آپ کو میرے عطیہ پر گواہ بنائیں جو مجھے دیا تھا.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ تم نے اپنے سب بچوں کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے.ہر ایک کو اتنا ہی مال دیا ہے یا جو بھی وہ چیز تھی ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں.آپ نے فرمایا کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی اولاد سے عدل کا سلوک کرو.میرے والد واپس آئے اور وہ عطیہ واپس لے لیا.366 صحیح مسلم کی روایت میں یہ ہے کہ آنحضور صلی علی کرم نے فرمایا کہ مجھے گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم پر گواہی نہیں دیتا.367 ہیہ کے مسئلہ پر حضرت مصلح موعودؓ کی ایک عمدہ وضاحت اس کی اس مسئلے کی یا اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے، تشریح کرتے ہوئے یا اس طرح کے ہبہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے بڑی عمدہ وضاحت فرمائی ہے جو بڑی اچھی رہنمائی ہے.آپؐ فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ رسول کریم ملی ییلی کم کا یہ ارشاد اہم اشیاء کے متعلق ہے.چھوٹی موٹی چیزوں کے متعلق نہیں ہے.مثلاً اگر ہم کیلا کھا رہے ہوں تو ہو سکتا ہے کہ بچہ جو سامنے موجود ہو اسے ہم دے دیں اور دوسرا محروم رہے.حدیثوں میں گھوڑے کی مثال آتی ہے یا مال کی مثال آتی ہے یا غلام کی کوئی ایسی قیمتی چیز ہے کہ رسول کریم صلی علیم نے ایک شخص سے فرمایا کہ یا تو وہ اپنے سب بیٹوں کو ایک گھوڑا دے یا کسی کو بھی نہ دے مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ عربوں میں گھوڑے کی قیمت بہت ہوتی تھی یا غلام ہے تو غلام بھی ایک جائیداد سمجھا جاتا تھا یا کسی بھی قسم کا مال، جو قیمتی چیز ہے.تو اس لئے اس کے لئے منع کیا گیا ہے.اور گھوڑا بھی عربوں میں بڑی قیمتی چیز تھی) پس یہ حکم ان چیزوں سے متعلق ہے جس میں ایک دوسرے سے بغض پیدا ہونے کا امکان ہو.ایک بچے کو دے دیا دوسرے کو نہ دیا تو ایک دوسرے کے خلاف دل میں آپس میں رنجشیں پیدا ہو سکتی ہیں.آپ لکھتے ہیں کہ معمولی چیزوں کے متعلق نہیں ہے مثلاً فرض کرو کہ بازار گئے ہیں ایک بچہ ہمارے ساتھ چلا جاتا ہے اور ہم اسے دوکان سے کوٹ کا کپڑا خرید دیتے ہیں تو یہ بالکل جائز ہو گا اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ جب تک ساروں کے لیے ہم کوٹ خرید کر نہ لائیں ایک بچے کو بھی کوٹ کا کپڑا خرید کر نہیں دیا جاسکتا.آپ لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں بعض دفعہ کوئی تحفہ آتا ہے تو ایک بچہ جو ہمارے سامنے ہوتا ہے وہ کہتا ہے یہ مجھے دے دیا جائے اور ہم وہ تحفہ اسے دے دیتے ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ ہم دوسرے کو محروم رکھتے ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی اور تحفہ آیا تو پھر دوسرے کی باری آجائے گی.پس یہ حکم چھوٹی چھوٹی چیزوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ بڑی بڑی چیزوں کے متعلق ہے جن میں امتیازی سلوک کرنے سے آپس میں بغض اور عناد پیدا ہونے کا امکان ہو سکتا ہے.آپؐ فرماتے ہیں کہ میرا تو یہ طریق ہے کہ جب

Page 163

اصحاب بدر جلد 4 147 میرا کوئی بچہ جوان ہوتا ہے تو میں اسے کچھ زمین دے دیتا ہوں تاکہ وہ اس میں سے وصیت کر سکے.جائیداد ہو جائے گی.کوئی وصیت ہو گی اس کا اب چندہ ادا کرے) اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ میں دوسروں کو ان کے حق سے محروم رکھتا ہوں بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ جب وہ بالغ ہوں گے تو انہیں بھی یہ حصہ مل جائے گا مگر بہر حال جائیداد ایسی ہونی چاہیے جو خاص اہمیت نہ رکھتی ہو اور اگر کوئی شخص ایسا ہبہ کرے جس سے دوسروں میں بغض پیدا ہونے کا امکان ہو تو قرآن کریم کا حکم ہے کہ وہ اسے واپس لے لے اور رشتہ داروں کا بھی فرض ہے کہ اسے اس گناہ سے بچائیں.368 جائداد کی تقسیم اور ہبہ اور وصیت...ایک اصولی رہنمائی پھر ایک موقع پر اسی طرح کے ہبہ کا ایک معاملہ پیش ہوا.حضرت مفتی صاحب نے پیش کیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے اس پے فرمایا کہ ہمیں اس کے متعلق قرآن کریم کا حکم دیکھنا پڑے گا جو اس نے جائیداد کی تقسیم کے متعلق دیا ہے.قرآن کریم نے اس قسم کے ہبہ کو بیان نہیں کیا بلکہ ورثہ کو بیان کیا ہے جس میں سب مستحقین کے حقوق کی تعیین کر دی گئی ہے.بعض دفعہ لوگ اپنی جائیدادوں کی " کرتے ہیں، ان چیزوں کا خیال نہیں رکھتے اور پھر مقدمے چلتے ہیں، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں.اور پھر آپ فرماتے ہیں کہ اب قرآن کریم کے مقرر کردہ حصص کو بدلا نہیں جاسکتا.اب دیکھنا یہ ہے کہ ان احکام کے مقرر کرنے میں کیا حکمت ہے.وراثت کی رو سے کیوں سب لڑکوں کو برابر ملنا چاہیے اور ایک لڑکے کی شکایت پر کیوں رسول اللہ صلی علی کرم نے اس کے باپ کو ارشاد فرمایا کہ یا تو تم اس کو بھی گھوڑالے دو یا پھر دوسرے سے بھی لے لو.اس میں حکمت یہ ہے کہ جس طرح اولاد پر والدین کی اطاعت فرض ہے اسی طرح والدین کے لئے بھی اولاد سے مساویانہ سلوک اور یکساں محبت کرنا فرض ہے لیکن اگر والدین اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنبه داری سے کام لیتے ہیں، ایک طرف جھکاؤ ہو جاتا ہے تو ممکن ہے کہ اولاد شاید اپنے فرائض سے تو منہ نہ موڑے.اولاد تو شاید والدین کا حق ادا کرتی رہے گی لیکن ان فرائض کی ادائیگی یعنی والدین کی خدمت کرنے میں کوئی شادمانی اور مسرت محسوس نہیں کرے گی.اولاد پھر بلکہ اسے چٹی سمجھ کر ادا کرے گی.ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے خدمت کرو.ہم خدمت کر رہے ہیں.خوشی سے نہیں کر رہے ہوں گے.بعض لوگ لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کا اس قسم کا رویہ اولاد کے لئے مضر اور محبت کو تباہ کرنے والا ہوتا ہے جو اولاد اور ماں باپ میں ہوتی ہے.اس لئے اسلام نے اس سے منع کیا ہے لیکن وصیت اور ہبہ جو کہ اپنی اولاد کے لئے نہیں ہو تا بلکہ دین کے لئے ہوتا ہے جائز ہے.اولاد کے علاوہ، جائز وارث جو ہیں ان کے علاوہ آپ ہبہ اور وصیت کر سکتے ہیں کیونکہ وہ شخص اس سے خود بھی محروم رہتا ہے.صرف اولاد ہی کو نقصان نہیں پہنچا تا بلکہ اس کی ذات کو بھی پہنچتا ہے چونکہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ ہوتا ہے.اس لئے اولاد بھی اس سے ملول خاطر نہیں ہوتی، اس کو غم نہیں ہو تا لیکن اگر ہبہ یا وصیت کسی خاص اولاد

Page 164

تاب بدر جلد 4 148 کے نام ہو تو پھر نا جائز ہو گا.اس میں ایک بات سمجھنے والی پر ہے کہ ایک وقتی ذمہ داری ہوتی ہے جسے ادا کرناضروری ہوتا ہے.اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک شخص کے چار لڑکے ہیں اور اس نے سب سے بڑے لڑکے کو ایم.اے کی تعلیم دلا دی اور دوسرے چھوٹی جماعتوں میں پڑھ رہے تھے کہ اس کی نوکری ہٹ گئی یا آمد کم ہو گئی اور چھوٹے بچوں کی تعلیم رک گئی.اب یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اس نے بڑے لڑکے سے امتیاز روا رکھا ہے بلکہ یہ تو اتفاقی بات ہے.اس کی تو کوشش تھی کہ میں پہلے بڑے لڑکے کو پڑھاتا ہوں پھر دوسروں کو باری باری ایم.اے تک پڑھاؤں گا یا جہاں تک پڑھ سکتے ہیں پڑھاؤں گا یعنی وقتی ضروریات کے ماتحت اس نے ذمہ داری کو تقسیم کیا.( نیت نیک تھی) اس وقت یہ کام کر لیتا ہوں جب دوسرے کا وقت آئے گا تو وہ کرلوں گا مگر پھر حالات بدل گئے اور وہ اپنی خواہشات پوری نہ کر سکا.لیکن اس کے برعکس اگر ایک والد اپنے بڑے لڑکے کو جو عیال دار ہو گیا ہو دو ہزار روپیہ دے کر الگ کر دے کہ تم تجارت کرو مگر جب دوسرے لڑکے بھی صاحب اولاد ہو جائیں تو انہیں کچھ نہ دے تو یہ ناجائز ہے اور امتیازی سلوک ہو گا.بہر حال ہبہ کے بارے میں یا خاص جائیداد کے بارے میں یہ فقہی مسئلہ ہے جسے ہر ایک کو اپنے سامنے جائیداد کی تقسیم کے وقت یا ہبہ کرتے وقت، وصیت کرتے وقت رکھنا چاہیے.369 تھوڑی سی کھجوریں جو تمام خندق کھودنے والوں نے کھائیں غزوہ خندق کے موقع پر یہ روایت ہے کہ حضرت بشیر بن سعد ( جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے ان ) کی بیٹی بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عمرہ بنت رواحہ نے میرے کپڑوں میں تھوڑی سی کھجور میں دے کر کہا کہ بیٹی یہ اپنے باپ اور ماموں کو دے آؤ اور کہنا کہ یہ تمہارا صبح کا کھاتا ہے.آپ کی بیٹی کہتی ہیں میں ان کھجوروں کو لے کر چلی اور اپنے والد اور ماموں کو ڈھونڈھتی ہوئی رسول اللہ صلی علیم کے پاس سے گزری تو رسول اللہ صلی ال یکم نے فرمایا کہ اسے لڑکی ! یہ تیری پاس کیا چیز ہے؟ میں نے عرض کیا یار سول اللہ ! یہ کھجوریں ہیں.میری ماں نے میرے والد بشیر بن سعد اور میرے ماموں عبد اللہ بن رواحہ کے لئے بھیجی ہیں.رسول اللہ صلی علی یم نے فرمایا یہ لاؤ مجھے دے دو.میں نے وہ کھجوریں آپ کے دونوں ہاتھوں میں رکھ دیں.آنحضرت صلی علیم نے ان کھجوروں کو ایک کپڑے پر ڈال دیا اور پھر ان کو ایک اور کپڑے سے ڈھانپ دیا اور ایک شخص سے فرمایا کہ لوگوں کو کھانے کے لئے بلا لو.چنانچہ تمام خندق کے کھودنے والے جمع ہو گئے اور ان کھجوروں کو کھانے لگے اور وہ کھجوریں زیادہ ہوتی گئیں یہاں تک کہ جب اہل خندق کھا چکے تو کھجور میں کپڑے کے کنارے پر سے نیچے گر رہی تھیں.ایسی برکت پڑی ان میں.370

Page 165

اصحاب بدر جلد 4 عمرہ قضاء اور ہتھیاروں کے نگران 149 371 رسول اللہ صلی علیہ کم جب عمرہ قضاء کے لئے ذی القعدہ 7 ہجری میں روانہ ہوئے تو آپ نے ہتھیار آگے بھیج دیئے تھے اور ان پر حضرت بشیر بن سعد کو نگران مقرر فرمایا.1 عمرہ قضاء کی تفصیل یہ ہے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ کی وجہ سے وہاں عمرہ تو نہیں ہو سکا تھا اور ایک اس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ آئندہ سال آنحضور صلی علی کم کہ آکر عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ میں ٹھہریں گے.372 اس دفعہ کے مطابق، اس شق کے مطابق ماہ ذوالقعدہ 7 ہجری میں آپ صلی یم نے عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ روانہ ہونے کا عزم فرمایا اور اعلان کر دیا کہ جو لوگ گذشتہ سال حدیبیہ میں شریک تھے وہ سب میرے ساتھ چلیں گے.چنانچہ بجز ان لوگوں کے جو جنگ خیبر میں شہید یا وفات پاچکے تھے سب نے یہ سعادت حاصل کی اور کچھ کو ہتھیاروں کے ساتھ آگے بھیج دیا.اب یہ ہے کہ عمرہ پہ جانے کے لئے ہتھیاروں کی کیا ضرورت تھی ؟ اس بارے میں جو تفصیل ملتی ہے وہ یہ ہے کہ حضور صلی یم کو چونکہ کفار مکہ پر بھروسہ نہیں تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں گے اس لئے آپ صلی علیم نے جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ ، اپنے جو ہتھیار لے جاسکتے تھے وہ لے کر گئے اور بوقت روانگی ایک صحابی کو آپ مسلی ہی ہم نے ابور ھم غفاری کو مدینہ پر حاکم بنادیا اور دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ جن میں ایک سو گھوڑوں پر سوار تھے صلی اسلم مکہ کے لئے روانہ ہوئے.ساٹھ اونٹ قربانی کے لئے ساتھ تھے.جب کفار مکہ کو خبر ملی کہ حضور صلی اللہ کم ہتھیاروں اور سامان جنگ کے ساتھ مکہ آرہے ہیں تو وہ بہت گھبر ائے اور انہوں نے چند آدمیوں کو صورتحال کی تحقیقات کے لئے مز الظهران تک بھیجا.محمد بن مسلمہ جو اسپ سواروں کے افسر تھے قریش کے قاصدوں نے ان سے ملاقات کی.انہوں نے اطمینان دلایا کہ نبی کریم صلیالی کی صلح نامہ کی شرط کے مطابق بغیر ہتھیار کے مکہ میں داخل ہوں گے.یہ سن کر کفار جو تھے مطمئن ہو گئے.چنانچہ حضور صلی الم جب مقام يَأْجج میں پہنچے جو مکہ سے آٹھ میل دور ہے تو تمام ہتھیاروں کو اس جگہ رکھ دیا اور بشیر بن سعد کی ماتحتی میں چند صحابہ کرام کو ان ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے متعین فرما دیا اور اپنے ساتھ ایک تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں رکھا اور صحابہ کرام کے مجمع کے ساتھ لبیک پڑھتے ہوئے حرم کی طرف بڑھے.کہا جاتا ہے کہ جب رسول کریم صلی یک خاص حرم میں، کعبہ میں داخل ہوئے تو کچھ کفار جو تھے قریش کے مارے جلن کے اس منظر کو دیکھ نہ سکے اور پہاڑوں پر چلے گئے کہ ہم نہیں دیکھ سکتے مسلمان اس طرح طواف کر رہے ہوں.مگر کچھ کفار اپنے دار الندوۃ جو ان کے مشورے کا ایک کمیٹی گھر تھا اس میں جمع ہو گئے ، وہاں کھڑے ہو کے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے توحید ورسالت کے نشے سے مست یہ جو مسلمان لوگ تھے ان کے طواف کا نظارہ کرنے لگے اور آپس میں کہنے لگے کہ یہ مسلمان بھلا کیا طواف کریں گے.ان کو تو بھوک اور مدینہ کے بخار نے کچل کر رکھ دیا ہے.بہت کمزور قسم کے یہ لوگ ہیں.حضور صلی علیم نے مسجد حرام میں پہنچ کر اضطباع کر لیا یعنی چادر کو اس طرح اوڑھ لیا کہ آپ کا داہنا شانہ اور صا التربية

Page 166

اصحاب بدر جلد 4 150 بازو کھل گئے اور آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا خدا اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو ان کفار کے سامنے اپنی قوت کا اظہار کرے.یعنی کفار تو یہ باتیں کر رہے ہیں انہوں نے جو کہا وہ باتیں آپ تک پہنچیں لیکن تم اپنی قوت کا اظہار کرو.اس طرح قوت کا اظہار کہ تمہارے یہ کمزور جسم نہ نظر آئیں بلکہ مضبوط جسم نظر آئیں یا چوڑے شانے نظر آئیں پھر آپ صلی علی یم نے اپنے اصحاب کے ساتھ شروع کے تین پھیروں میں شانوں کو ہلا ہلا کر خوب اکڑتے ہوئے چل کر طواف کیا.اس کو عربی زبان میں در مل کہتے ہیں.چنانچہ یہ سنت آج تک باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی کہ ہر طواف کعبہ کرنے والا شروع طواف کے تین پھیروں میں رمل کرتا ہے.تو یہ ہے وجہ اس طرح پہلے چلنے کی.373 نبی اکرم صلی ا ولم نے کتنے عمرے کئے؟ آنحضرت صلی الم نے کتنے عمرے کئے ؟ اس کے بارے میں جو بخاری کی حدیث ہے، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے پوچھا کہ نبی صلی یہ ہم نے کتنے عمرے کئے تھے تو انہوں نے کہا کہ چار.عمرہ حدیبیہ جو ذوالقعدہ میں کیا، گویا عمرہ تو نہیں ہو سکتا تھا لیکن اس کو عمرہ اس لیے گنا جاتا ہے کہ وہاں قربانی وغیرہ کرلی تھی.سر منڈھ لئے تھے اور اس لحاظ سے اس کو بعض لوگوں نے شمار کر لیا.پھر کہتے ہیں دوسرا جب مشرکوں نے آپ کو روکا تھا صلح حدیبیہ میں تو یہ ایک عمرہ ہو گیا.وہ عمرہ دوسرے سال ذی القعدہ میں ہو ا یعنی جو دوسر اعمرہ تھا.پہلے سال تو حدیبیہ کا اصل میں نہیں ہو سکا.سوائے قربانی وغیرہ کے اور دوسر اعمرہ ذی القعدہ میں دوسرے سال ہو ا جب آپ نے ان سے صلح کی اور پھر آگے لکھا ہے کہ عمرہ جغرانہ جب آپ نے مال غنیمت تقسیم کیا.یہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ جنگ حنین کی غنیمت تھی، اس وقت بھی عمرہ کیا تو میں نے کہا آپ نے کتنے حج کئے ؟ راوی نے پوچھا.انہوں نے کہا حج ایک ہی کیا تھا اور حج کے موقع پر بھی عمرہ ادا کیا تھا اس طرح بعض لوگ چار عمرے گنتے ہیں بعض دو گنتے ہیں.374 حضرت ابو بکر کی بیعت کرنے والے پہلے انصاری حضرت بشير بن سعد انصار کے پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت ابو بکر صدیق کے ہاتھ پر سقیفہ بنو ساعدہ کے دن بیعت کی تھی.سقیفہ بنو ساعده 375 لله 376 سقیفہ بن ساعدہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ مدینہ میں یہ بنو خزرج کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی تھی.بہر حال یہ کمرہ تھا یا اس زمانے کے لحاظ سے شیڈ (shade) ڈالا ہو اتھا.نبی کریم صلی ا لنی کیم کی وفات کے بعد یہاں پر سقیفہ بنی ساعدہ میں بنو خزرج کا نبی کریم صلی اللہ ہی کی جانشینی کے حوالے سے ایک اجلاس جاری تھا.اس اجلاس کی خبر حضرت عمر کو دی گئی اور ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ ہو سکتا ہے کہ منافقین اور انصار کے باعث کوئی فتنہ نہ پھیل جائے.اس پر حضرت عمر فاروقی حضرت ابو بکر کو لے کر سقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے.

Page 167

اصحاب بدر جلد 4 151 بیعت خلافت راشدہ اور ابتدائی تفصیلات یہاں جا کر معلوم ہوا کہ بنو خزرج جانشینی کے دعویدار ہیں اور بنو اوس اس کی مخالفت کر رہے ہیں.آپس میں یہ مدینہ کے انصار کے دونوں قبیلے تھے.ایسے موقع پر ایک انصاری صحابی نے نبی کریم کی تعلیم کا یہ قول یاد کرایا کہ حکمران تو قریش میں سے ہی ہوں گے جو اس وقت اس بحث کے دوران لوگوں کی اکثریت کے دلوں میں اتر گیا.انصار اپنے دعوے سے دستبردار ہو گئے اور سب نے فوراً ہی ابو بکر کی خلافت پر بیعت کر لی مگر اس کے باوجود حضرت ابو بکر صدیق تین دن تک یہ اعلان کراتے رہے کہ آپ سقیفہ بنی ساعدہ کی بیعت سے آزاد ہیں.اگر کسی کو اعتراض ہے تو بتا دے مگر کسی کو اعتراض نہیں ہوا یہ تو ایک ماخذ ہے.ڈاکٹر حمید اللہ کی کتاب سے ایک جگہ مختصر یا یہ ذکر کیا گیا ہے.377 لیکن اس کی ایک تفصیل جو ہے وہ مزید اس طرح ہے کہ : جب یہ سارا کچھ واقعہ ہوا آپس میں میٹنگیں ہو رہی تھیں.منافقین انصار کو ابھارنے کی کوشش کر رہے تھے تو حضرت عمرؓ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق وہاں پہنچے پر انصار نے آپ کے سامنے پھر اپنی رائے کا اظہار کیا.حضرت ابو بکر صدیق نے بھی اپنی رائے ظاہر فرمائی.اس تمام کارروائی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انصار و مہاجرین سب اسلام کے مفاد میں ہی سوچتے تھے.منافقین تو سوچ رہے ہوں گے کہ ہم فتنہ پیدا کریں لیکن انصار میں سے بھی جو مومنین تھے وہ تو مفاد میں سوچ رہے تھے کہ خلافت کا یا امامت کا قیام ضروری ہے خواہ وہ انصار میں سے ہو یا مہاجرین میں سے اور آنحضرت صلی اللہ عیہ وسلم کے بعد خلافت کو چاہتے تھے اور اسی کی ان کو خواہش تھی اور وہ ایک دن بھی بغیر جماعت اور امیر کے نہیں گزارنا چاہتے تھے.چنانچہ ایک رائے یہ تھی کہ انصار میں سے امیر ہو.دوسری رائے یہ تھی کہ مہاجرین میں سے امیر ہو کیونکہ ان کے بغیر عرب کسی کی سربراہی قبول نہیں کرے گا.اس کے علاوہ تیسری رائے یہ بھی تھی کہ دو امیر ہوں.ایک انصار میں سے اور ایک قریش میں سے.یہاں مہاجرین نے انصار کو یہ بھی بتایا کہ اس وقت قریش میں سے ہی امیر ہونا ضروری ہے.چنانچہ انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں آنحضرت صلی للی کمر کے بعد قریش میں امامت کے قیام سے متعلق آپ کی یہ پیشگوئی بھی پیش کی جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ الائمة من قریش کہ امام قریش میں سے ہوں گے.378 حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے انصار کو مخاطب کر کے کہا کہ اے انصار مدینہ ! تم وہ ہو جنہوں نے سب سے بڑھ کر خود کو اس دین کی خدمت کے لئے پیش کیا تھا اور اب اس وقت تم سب سے پہلے اسے بدلنے اور بگاڑنے والے نہ بنو.یہ نہ کہو کہ انصار میں سے امیر ہو یا دونوں میں سے امیر ہو.اس حقیقت سے بھرے ہوئے پیغام سے انصار نے اثر لیا اور ان میں سے حضرت بشیر بن سعد اٹھے جن صحابی

Page 168

تاب بدر جلد 4 152 کا ذکر ہو رہا ہے اور انصار سے یوں مخاطب ہوئے کہ اے انصار ! اللہ کی قسم !! گو ہمیں مشرکوں سے جہاد کرنے میں دین میں سبقت کے لحاظ سے مہاجرین پر فضیلت ہے.یہ ہم نے محض رضائے الہی، اطاعت، رسول اور اپنے نفسوں کی اصلاح کے لیے کیا تھا.ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم اب فخر و مباح سے کام لیں اور دینی خدمات کے بدلے میں ایسے اجر کے طالب ہوں جس میں دنیا طلبی کی بو آتی ہو.ہماری جزا اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہی ہمارے لیے کافی ہے.رسول اللہ صلی للی نیم قریش میں سے تھے اور وہی لوگ اس خلافت کے حقدار ہیں.اللہ نہ کرے کہ ہم ان سے جھگڑے میں مبتلا ہوں.اے انصار ! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور مہاجرین سے اختلاف نہ کرو.ان سب باتوں کے بعد پھر حضرت حباب بن مُنْذِر نے انصار کی اہمیت کا ذکر کر نا شروع کر دیا لیکن حضرت عمرؓ نے پھر صور تحال کو سنبھالا.میں مختصر قصہ بیان کر رہا ہوں اور حضرت ابو بکر کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ ہماری بیعت لیں اور ساتھ ہی حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر کی بیعت کرلی اور عرض کی کہ اے ابو بکر ! آپ کو رسول اللہ صلی علیم نے حکم دیا تھا کہ آپ نماز پڑھایا کریں.پس آپ ہی خلیفة اللہ ہیں.ہم آپ کی بیعت اس لیے کرتے ہیں کہ آپ رسول اللہ صلی علیہم کے ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں.حضرت عمرؓ کے بعد حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے بیعت کی اور پھر انصار میں سے حضرت بشیر بن سعد نے فوراً بیعت کر لی.اس کے بعد حضرت زید بن ثابت انصاری نے بیعت کی اور حضرت ابو بکر کا ہاتھ تھام کر انصار سے مخاطب ہوئے اور انہیں بھی حضرت ابو بکر کی بیعت کرنے کی ترغیب دی.چنانچہ انصار نے بھی حضرت ابو بکر کی بیعت کی.وفات یہ بیعت اسلامی لٹریچر میں بیعت سقیفہ اور بیعت خاصہ کے نام سے بھی مشہور ہے.381 380 379 حضرت ابو بکر صدیق کے زمانہ خلافت میں 12 ہجری میں حضرت بشیر حضرت خالد بن ولید کے معرکہ عین القمر میں شریک ہوئے اور آپ کو شہادت نصیب ہوئی.عَيْنُ الشمر کوفہ کے قریب ایک جگہ ہے.مسلمانوں نے 12 ہجری میں حضرت ابو بکر کے عہد خلافت میں اس علاقے کو فتح کیا تھا.382 ہم کس طرح آپ پر درود بھیجیں...حضرت ابو مسعود انصاری بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سعد بن عبادہ کی مجلس میں تھے کہ رسول الله علی کم ہمارے پاس تشریف لائے.حضرت بشیر بن سعد نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ پر درود بھیجیں تو ہم کس طرح آپ پر درود بھیجیں.راوی کہتے ہیں اس سوال پر رسول اللہ صلی للی یکم خاموش رہے.لمبا عرصہ خاموش رہے.یہاں تک کہ ہم نے خواہش کی کہ کاش وہ آپ سے سوال نہ کرتا.

Page 169

اصحاب بدر جلد 4 153 پھر رسول اللہ صلی ایم نے فرمایا کہ یہ کہا کرو کہ : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ فَجِيْدٌ.اور سلام اس طرح جیسا کہ تم جانتے ہو کس طرح سلام کرنا ہے.3 383 اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِك وَسَلّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ فَجِيلٌ - 384 46 سابق الحبشہ ، نبی کریم کے خزانچی ، موذن رسول، نقیب رسول صلی ا ونم سیدنا حضرت بلال بن رباح ”اے کاش! میں بلال کی ماں کے بطن سے پید اہو تا.“حضرت ابو بکر نام و نسب و کنیت حضرت بلال بن رباح.حضرت بلال کے والد کا نام رباح تھا اور والدہ کا نام حمامہ.حضرت بلال اُمیہ بن خلف کے غلام تھے.حضرت بلال کی کنیت ابو عبد اللہ تھی جبکہ بعض روایات میں ابو عبد الرحمن اور ابو عبد الکریم اور ابو عمرو بھی مذکور ہے.حضرت بلال کی والدہ حبشہ کی رہنے والی تھیں لیکن والد سر زمین عرب سے ہی تعلق رکھتے تھے.محققین نے لکھا ہے کہ وہ حبشی سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے یعنی قدیم زمانے میں سامی یا بعض عربی قبیلے افریقہ میں جا کر آباد ہو گئے تھے جس کے باعث ان کی نسلوں کے رنگ تو افریقہ کی دوسری اقوام کی طرح ہو گئے لیکن وہاں کی خاص علامات اور عادات ان میں ظاہر نہ ہوئیں.بعد میں ان میں سے بعض لوگ غلام بن کر عرب واپس لوٹ گئے.چونکہ ان کا رنگ سیاہ تھا اس لیے عرب انہیں حبشی یعنی حبشہ کے رہنے والے ہی سمجھتے تھے.ایک روایت کے مطابق حضرت بلال مکہ میں پیدا ہوئے اور مُوَلَّدین میں سے تھے.مُوَلَّدین ان لوگوں کو کہتے تھے جو خالص عرب نہ ہوں.ایک دوسری روایت کے مطابق آپ سُتراۃ میں پید اہوئے اور شتراق یمن اور حبشہ کے قریب ہے جہاں مخلوط نسل کثرت سے پائی جاتی ہے.385 حضرت بلال کا رنگ گندم گوں سیاہی مائل تھا.دبلا پتلا جسم تھا.سر کے بال گھنے تھے اور رخساروں

Page 170

اصحاب بدر جلد 4 پر گوشت بہت کم تھا.86 آپ کی شادیاں 154 حضرت بلال نے متعدد شادیاں کیں.ان کی بعض بیویاں عرب کے نہایت شریف اور معزز گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں.آپ کی ایک بیوی کا نام ہالہ بنت عوف تھا جو حضرت عبد الرحمن بن عوف کی ہمشیرہ تھیں.ایک زوجہ کا نام ہند خولانیہ تھا.بنو ابو بکیر کے خاندان میں بھی رسول اللہ صلی الی یم نے حضرت بلال کا نکاح کروایا.حضرت ابو درداء کے خاندان میں بھی حضرت بلال کا رشتہ مُصاہرت قائم ہوا تھا.البتہ کسی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.87 حضرت بلال کے ایک بھائی تھے جن کا نام خالد تھا اور ایک بہن تھیں جن کا نام غفیرہ تھا.388 اسلام میں سبقت لے جانے والے رسول اللہ صلی الم نے فرمایا بلال سابق الْحَبَشَة ہیں.یعنی اہل حبشہ میں سے سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں.389 حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اسلام لانے میں سبقت لے جانے والے اشخاص چار ہیں.أَنَا سَابِقُ الْعَرَبِ یعنی میں عربوں میں سے سبقت لے جانے والا ہوں.سَلْمَانُ سَابِقُ الْفُرْسِ.سلمان اہل فارس میں سے سبقت لے جانے والے ہیں اور بلال سابق الحَبَشَة - بلال اہل حبشہ میں سے سبقت لے جانے والے ہیں اور صُهَيْبٌ سَابِقُ الرُّومِ اور صہیب رومیوں میں سے سبقت لے جانے والے ہیں.390 اسلام کی راہ میں ظلم اور مصائب برداشت کرنے والے عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ حضرت بلال بن رباح ان لوگوں میں سے تھے جو کمزور سمجھے جاتے تھے.جب وہ اسلام لائے تو ان کو عذاب دیا جاتا تھا تا کہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں مگر انہوں نے ان لوگوں کے سامنے کبھی وہ کلمہ ادا نہ کیا جو وہ چاہتے تھے یعنی اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا.انہیں اُمیہ بن خَلَف عذاب دیا کرتا تھا.391 حضرت بلال جب رسول اللہ صلی اللی کم پر ایمان لائے تو ان کو طرح طرح کا عذاب دیا جاتا تھا.جب لوگ حضرت بلال کے عذاب دینے میں سختی کرتے تو حضرت بلال أحد ، احد کہتے.وہ لوگ کہتے اس طرح کہو جس طرح ہم کہتے ہیں تو حضرت بلال جو ابا کہتے کہ میری زبان اسے اچھی طرح ادا نہیں کر سکتی جو تم کہہ رہے ہو.ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت بلال کو جب ایذا پہنچائی جاتی اور مشرکین یہ ارادہ کرتے کہ ان کو اپنی طرف مائل کر لیں تو حضرت بلال کہتے اللہ ، اللہ.392

Page 171

اصحاب بدر جلد 4 155 حضرت ابو بکر کا خرید کر آزاد کروانا ن الله ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت بلال ایمان لائے تو حضرت بلال کو ان کے مالکوں نے پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور ان پر سنگریزے اور گائے کی کھال ڈال دی اور کہنے لگے تمہارا رب لات اور مذی ہے مگر آپ احد احد ہی کہتے تھے.ان کے مالکوں کے پاس حضرت ابو بکر آئے اور کہا کہ کب تک تم اس شخص کو تکلیف دیتے رہو گے.حضرت ابو بکر نے حضرت بلال کو سات اوقیہ میں خرید کر انہیں آزاد کر دیا.اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے یعنی دو سو اسی درہم میں.پھر حضرت ابو بکر نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی ال نیم کی خدمت میں بیان کیا تو آپ صلی علی رام نے فرمایا اے ابو بکر امجھے بھی اس میں شریک کر لو.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے اسے آزاد کر دیا.393 حضرت ابو بکر نے حضرت بلال کو خرید کر اللہ کی راہ میں آزاد کیا تھا اور خرید کے متعلق جیسا کہ پہلے ذکر کیا ہے دو سو اسی درہم.بعض روایات کے مطابق حضرت ابو بکر نے انہیں پانچ اوقیہ یعنی دو سو درہم میں ، بعض کے مطابق سات اوقیہ دو سو اسی درہم اور بعض کے مطابق نو اوقیہ تین سو ساٹھ درہم میں خریدا تھا.394 ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ابو بکر نے حضرت بلال کو خریدا تو وہ پتھروں میں دبے ہوئے تھے.حضرت ابو بکر نے سونے کے پانچ اوقیہ کے بدلے ان کو خریدا.لوگوں نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ اگر آپ صرف ایک اوقیہ دینے پر بھی راضی ہوتے یعنی چالیس درہم تو ہم ایک اوقیہ میں بھی اس کو بیچ دیتے.اس پر حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا اگر تم اس کو سو اوقیہ یعنی چار ہزار درہم میں بھی بیچنے کو تیار ہوتے تو میں سو اوقیہ میں بھی اس کو خرید لیتا.395 حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر نے سات ایسے غلاموں کو آزاد کروایا جنہیں تکالیف دی جاتی تھیں.ان میں حضرت بلال اور حضرت عامر بن فهيرة "شامل تھے.396 حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ ابو بکر ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا.397 حضرت مصلح موعود کی بیان کردہ تفصیل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت بلال کو دی جانے والی تکالیف اور حضرت ابو بکر کا آپ کو آزاد کرانے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یہ غلام جو رسول کریم صلی علی کم پر ایمان لائے مختلف اقوام کے تھے.ان میں حبشی بھی تھے جیسے بلال.رومی بھی تھے جیسے صہیب.پھر ان میں عیسائی بھی تھے جیسے جبیر اور صہیب اور مشرکین بھی تھے جیسے بلال اور عمار بلال کو ان کے مالک تپتی ریت پر لٹا کر اوپر یا تو پتھر رکھ دیتے یا نوجوانوں کو سینے پر

Page 172

بدر جلد 4 156 کودنے کے لیے مقرر کر دیتے.حبشی النسل بلال امیہ بن خلف نامی ایک مکی رئیس کے غلام تھے.امیہ انہیں دو پہر کے وقت گرمی کے موسم میں مکہ سے باہر لے جا کر تپتی ریت پر ننگا کر کے لٹا دیتا تھا اور بڑے بڑے گرم پتھر ان کے سینہ پر رکھ کر کہتا تھا کہ لات اور غذمی کی الوہیت کو تسلیم کر اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے علیحدگی کا اظہار کر.بلال اس کے جواب میں کہتے اَحَدٌ اَحَدٌ.یعنی اللہ ایک ہی ہے.اللہ ایک ہی ہے.بار بار آپ کا یہ جواب سن کر امیہ کو اور غصہ آجاتا اور وہ آپ کے گلے میں رسہ ڈال کر شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور کہتا کہ ان کو مکہ کی گلیوں میں پتھروں کے اوپر گھسیٹتے ہوئے لے جائیں.جس کی وجہ سے ان کا بدن خون سے تر بتر ہو جاتا مگر وہ پھر بھی احد احد کہتے چلے جاتے.یعنی خدا ایک، خدا ایک عرصہ کے بعد جب خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ میں امن دیا، جب وہ آزادی سے عبادت کرنے کے قابل ہو گئے تو رسول کریم صلی للی کم نے بلال کو اذان دینے کے لیے مقرر کیا.یہ حبشی غلام جب اذان میں اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کی بجائے اَشهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کہتا تو مدینہ کے لوگ جو اس کے حالات سے ناواقف تھے ہنسنے لگ جاتے.ایک دفعہ رسول کریم صلی علیم نے ان لوگوں کو بلال کی اذان پر ہنتے ہوئے پایا تو آپ لوگوں کی طرف مڑے اور کہا تم بلال کی اذان پر بنتے ہو مگر خداتعالی عرش پر اس کی اذان سن کر خوش ہوتا ہے.آپ کا اشارہ اسی طرف تھا کہ تمہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ یہ ”ش“ نہیں بول سکتا مگر ”ش“ اور ”س“ میں کیا رکھا ہے.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ جب تپتی ریت پر سنگی پیٹھ کے ساتھ اس کو لٹا دیا جاتا تھا اور اس کے سینہ پر ظالم اپنی جوتیوں سمیت کو دا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ کیا اب بھی سبق آیا ہے یا نہیں؟ تو یہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں احد احد کہہ کر خدا تعالیٰ کی توحید کا اعلان کرتارہتا تھا اور اپنی وفاداری، اپنے توحید کے عقیدہ اور اپنے دل کی مضبوطی کا ثبوت دیتا تھا.پس اس کا اسهَدُ بہت سے لوگوں کے اشہد سے زیادہ قیمتی تھا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب ان پر یہ ظلم دیکھے تو ان کے مالک کو ان کی قیمت ادا کر کے انہیں آزاد کروا دیا.اسی طرح اور بہت سے غلاموں کو حضرت ابو بکڑ نے اپنے مال سے آزاد کرایا.3 سابقون الاولون 39866 حضرت بلال کا شمار السَّابِقُونَ الْأَوَّلُون میں ہوتا ہے.آپ نے اس وقت اسلام کا اعلان کیا جب صرف سات آدمیوں کو اس کے اعلان کی توفیق ہوئی تھی.399 الله حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ سب سے پہلے جنہوں نے اسلام کا اعلان فرمایا وہ سات ہیں.رسول اللہ صلی علیم اور ابو بکر اور عمار اور ان کی والدہ سمیہ اور صہیب اور بلال اور مقداد.پس رسول اللہ صلی علیم کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابو طالب کے ذریعے سے محفوظ رکھا اور ابو بکر کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کے ذریعے سے سے محفوظ رکھا.جیسا کہ میں گذشتہ ایک خطبے میں بیان کر چکا ہوں کہ نہ ہی آنحضرت ملا له م دشمنوں کی اذیتوں سے محفوظ رہے اور نہ قوم حضرت ابو بکر کو ظلموں سے بچا سکی.آپ

Page 173

اصحاب بدر جلد 4 157 دونوں پر بھی ظلموں کی انتہا ہوئی تھی.شروع میں کچھ عرصہ نرمی ہوئی لیکن بعد میں تو بڑی سختیاں ہوتی رہیں لیکن بہر حال یہ راوی کا بیان ہے.بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کا تو کوئی نہ کوئی سپورٹ کرنے والا تھا.کوئی بات کہہ دیتا تھا، آواز اٹھا دیتا تھا لیکن باقیوں کو مشرکوں نے پکڑ لیا جو کمزور تھے یا غلام تھے اور لوہے کی زرہیں پہنائیں اور انہیں دھوپ میں جلاتے تھے.پس ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس نے ان کے ساتھ جس میں وہ چاہتے تھے موافقت نہ کر لی ہو سوائے بلال کے کیونکہ ان پر اپنا نفس اللہ کی خاطر بے حیثیت ہو گیا تھا.حضرت بلال تھے جو ہمیشہ ثابت قدم رہے اور وہ اپنی قوم کے لیے بھی ہے حیثیت تھے.وہ ان کو پکڑتے اور لڑکوں کے سپر د کر دیتے اور وہ انہیں مکہ کی گھاٹیوں میں گھماتے پھرتے اور بلال احد احد کہتے جاتے.یہ ابن ماجہ کی روایت ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی حضرت بلال کے اول زمانے میں ایمان لانے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت خَبَّاب جو السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ صحابہ میں سے تھے اور جن کے متعلق یہ اختلاف ہے کہ انہوں نے پہلے بیعت کی یا بلال نے.کیونکہ رسول کریم صلی علیم نے ایک دفعہ فرمایا کہ ایک غلام اور ایک محر نے مجھے سب سے پہلے قبول کیا تھا.بعض لوگ اس سے حضرت بلال اور حضرت ابو بکر مراد لیتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت ابو بکر اور حضرت خباب ہیں.400 401❝ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا حضرت بلال کی تکالیف کا ذکر کرنا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں حضرت بلال کی تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے جو بیان فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ : بلال بن رباح، امیہ بن خلف کے ایک حبشی غلام تھے.امیہ ان کو دو پہر کے وقت جبکہ اوپر سے آگ برستی تھی اور مکہ کا پتھر یلا میدان بھٹی کی طرح تپتا تھا باہر لے جاتا اور ننگا کر کے زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے گرم پتھر ان کے سینے پر رکھ کر کہتا لات اور عزیٰ کی پرستش کر اور محمد سے علیحدہ ہو جا، ورنہ اسی طرح عذاب دے کر مار دوں گا.بلال زیادہ عربی نہ جانتے تھے.بس صرف اتنا کہتے أحد أحد یعنی اللہ ایک ہی ہے.اللہ ایک ہی ہے.اور یہ جواب سن کر امیہ اور تیز ہو جاتا اور ان کے گلے میں رسہ ڈال کر انہیں شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور وہ ان کو مکہ کے پتھر یلے گلی کوچوں میں گھسیٹتے پھرتے جس سے ان کا بدن خون سے تر بتر ہو جاتا مگر ان کی زبان پر سوائے أحد احد کے اور کوئی لفظ نہ آتا.حضرت ابو بکر نے ان پر یہ جو روستم دیکھا تو ایک بڑی قیمت پر خرید کر انہیں آزاد کر دیا.102 ہجرت مدینہ اور مواخات قیام کیا.402< حضرت بلال جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ نے حضرت سعد بن خَيْثَمَہ کے گھر رسول اللہ صلی الم نے حضرت بلال کی مواخات حضرت عبیدہ بن حارث سے کروائی جبکہ ایک

Page 174

اصحاب بدر جلد 4 158 دوسری روایت کے مطابق آپ نے حضرت بلال کی مؤاخات حضرت ابورُ وَيْحَہ خَشْعَمِی سے کروائی.403 بخار اور مکہ کی یاد جب رسول اللہ صلی اللی کم مدینہ پہنچے تو صحابہ وہاں بیمار ہونے لگے جن میں حضرت ابو بکر، حضرت بلال اور حضرت عامر بن فهيره بھی شامل تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی ال یکم مدینہ آئے.حضرت ابو بکر اور حضرت بلال کو بخار ہو گیا.حضرت ابو بکر کو جب بخار ہو تا تو یہ شعر پڑھتے.عربی شعر تھا اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر شخص جب وہ اپنے گھر میں صبح کو اٹھتا ہے تو اسے صباح الخیر کہا جاتا ہے بحالیکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے نزدیک تر ہوتی ہے اور حضرت بلال جب ان کا بخار اتر جاتا تو بلند آواز سے رو کر یہ شعر پڑھتے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ کاش مجھے معلوم ہو آیا میں کوئی رات وادی مکہ میں بسر کروں گا اور میرے ارد گر داذْخَر اور جلیل گھاس پات ہوں اور کیا میں کسی دن حجتہ میں پہنچ کر اس کا پانی پیوں گا.مجتہ بھی مکے سے چند میل پر مَر الظَّهْرَان کے قریب ایک جگہ ہے.زمانہ جاہلیت میں عرب کا ایک مشہور میلہ مَرُّ الظُّهْرَان میں عُکاظ کے بعد لگتا تھا اور عرب کے لوگ عُکاظ کے بعد مجنہ منتقل ہو جاتے اور میں روز قیام کرتے تھے.بہر حال وہ کہتے ہیں کہ وہاں میں پانی پیوں گا اور کیا شامہ اور طفیل پہاڑ میرے سامنے ہوں گے.شعر میں عرض کر رہے ہیں، بیان کر رہے ہیں.طفیل بھی مکہ سے تقریباً دس میل پر ایک پہاڑ ہے اور اس کے قریب ایک اور پہاڑ تھا جس کو شامہ کہتے تھے.پھر حضرت بلال کہتے کہ اے اللہ !شيبه بن ربيعه، عُتبہ بن ربیعہ اور اُمیہ بن خلف پر لعنت ہو کیونکہ انہوں نے ہماری سرزمین سے ہمیں وبا والی زمین کی طرف نکال دیا ہے.اس کے بعد رسول اللہ صلی علیم نے دعا کی کہ اے اللہ ! مدینہ کو ہمیں ایسا ہی پیارا بنادے.جب حضرت ابو بکر کی بھی اور حضرت بلال کی بھی یہ باتیں سنیں تو آپ نے فرمایا اے اللہ ! مدینہ کو ہمیں ایسا ہی پیارا بنادے جیسا کہ ہمیں مکہ پیارا ہے یا اس سے بڑھ کر.اے اللہ !ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت دے.یہ صاع اور مڈ بھی مشہور پیمانوں کے نام ہیں.وزن کرنے کے لیے ( استعمال) کیسے جاتے ہیں اور مدینہ کو ہمارے لیے صحت بخش مقام بنا اور اس کے بخار کو مخفہ کی طرف منتقل کر دے.بخفہ بھی ایک دوسر اشہر ہے مکے کی جانب.حضرت عائشہ کہتی تھیں کہ ہم مدینہ آئے اور وہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وبا زدہ مقام تھا.انہوں نے کہا بطحان نالے میں تھوڑا سا پانی بہتا تھا وہ پانی بھی بد مزہ بودار تھا.بطحان بھی مدینے کی ایک وادی کا نام ہے.یہ بخاری میں روایت ہے.404 قادیان سے ہجرت کرنے والوں کو ایک نصیحت جب قادیان سے ہجرت ہوئی ہے تو اس وقت احمدیوں کو خاص طور پر ہجرت مدینہ کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے کہ ہمیں اس ہجرت سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، حضرت مصلح موعودؓ نے

Page 175

اصحاب بدر جلد 4 صا الله 159 405 حضرت بلال کے اس واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے اور اس پر آنحضرت صلی الی ایم کے ارشاد کا ذکر کرتے ہوئے اس وقت جماعت کو یہ کہتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں اوروں کو تو نہیں جانتا، اوروں کو تو نہیں کہہ سکتا جو دوسرے لوگ غیر احمدی مسلمان ہجرت کر کے آئے ہیں لیکن احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ یہ خیال چھوڑ دو کہ تم لٹے ہوئے ہو.تم نے ہجرت کی ہے اور لٹ پٹ کے آئے ہو.رسول کریم صلی یکم ان مہاجرین پر افسوس کیا کرتے تھے جو وطن اور جائیدادوں کے چھوٹ جانے پر افسوس کرتے تھے.رسول کریم صلی علم جب مدینے تشریف لائے اس وقت مدینہ کا نام یثرب ہوا کرتا تھا اور وہاں ملیریا بخار بھی کثرت سے ہو تا تھا.ملیر یا پھیلنا شروع ہوا تو مہاجرین کو بخار چڑھے.ادھر وطن کی جدائی کا صدمہ تھا.ان میں سے بعض نے رونا اور چلانا شروع کر دیا کہ ہائے مکہ ! ہائے مکہ ! ایک دن حضرت بلال کو بھی بخار ہو گیا انہوں نے شعر بنابنا کر شور مچانا شروع کر دیا.رسول کریم صلی علیم نے دیکھا تو آپ خفا ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم ایسے کام کے لیے یہاں آئے ہو ؟ ہجرت کی ہے تو شور مچانا کیسا؟ حضرت مصلح موعود احمدیوں کو جو اس وقت ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان آئے تھے ، نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں بھی تمہیں یہ کہتا ہوں کہ خوش رہو.تم یہ نہ دیکھو کہ ہم نے کیا کھویا ہے.تم دیکھو کہ ہم نے کس کے لیے کھویا ہے.اگر تم نے جو کھو یاوہ خدا تعالیٰ کے لیے اور اسلام کی ترقی کے لیے کھویا ہے تو تم خوش رہو اور کسی موقع پر بھی اپنی کمریں خم نہ ہونے دو.تمہارے چہرے افسردہ نہ ہوں بلکہ ان پر خوشی کے آثار پائے جائیں.تو ہم احمدی تو اس سوچ کے رکھنے والے تھے اور یہ ہمیں اس وقت کے خلیفہ نے نصیحت کی تھی کہ ہماری ہجرت اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اسلام کی خدمت کے لیے ہے.وہ لوگ جو پاکستان کی تعمیر کے خلاف تھے ، پاکستان کی اساس اور بنیاد کے دعویدار بن کر اپنے جھوٹ اور فریب سے آج احمدیوں کو اس ملک کے بنیادی شہری حقوق سے محروم کر رہے ہیں جس کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں احمدیوں نے دیں.جس دین کی برتری اور خدمت کے لیے ہم نے ہجرت کی پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر اس دین کا نام لینے پر بھی ہم پر پابندی لگا دی.ہمیں بہر حال ان کی کسی سند کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمیں افسوس اس بات پر ضرور ہوتا ہے کہ ان نام نہاد ملک کے ٹھیکید اروں نے احمدیوں پر یہ ظلم کر کے صرف احمدیوں پر ظلم نہیں کیا بلکہ پاکستان پر ظلم کیا ہے اور کر رہے ہیں اور دنیا میں ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں.اس کی ترقی میں روک بن رہے ہیں.اگر یہ لوگ نہ ہوں جو ملک کو کھا رہے ہیں، دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں تو ملک اس وقت ترقی کر کے کہیں کا نہیں پہنچ چکا ہو لیکن اس کے باوجود ہم پاکستانی احمدیوں کا یہ کام ہے، خاص طور پر جو پاکستان میں رہنے والے ہیں، کہ ملک کی ترقی کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کرتے رہیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے اس ملک کو پاک کرے.

Page 176

اصحاب بدر جلد 4 160 تمام غزوات میں شرکت بہر حال یہ واقعہ آیا تو اس ضمن میں ذکر ہو گیا.اب میں دوبارہ حضرت بلال کی طرف کے واقعات، روایات بیان کرتا ہوں.طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے حضرت بلال بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی الل نام کے ساتھ شامل ہوئے.406 حضرت بلال کے ظالم آقا امیہ بن خلف کا قتل غزوہ بدر میں حضرت بلال نے امیہ بن خلف کو قتل کیا جو اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا اور حضرت 407 بلال کو اسلام لانے پر دکھ دیا کرتا تھا.17 امیہ بن خلف کے قتل کا واقعہ صحیح بخاری میں بیان ہوا ہے جس کی تفصیل حبیب بن اساف کے ذکر میں میں پہلے بیان کر چکا ہوں.تاہم یہاں بھی کچھ بیان کر دیتا ہوں کیونکہ اس کا براہ راست تعلق حضرت بلال کے ساتھ بھی ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امیہ بن خلف کو خط لکھا کہ وہ کتنے میں، جو اس وقت دار الحرب تھا، میرے مال اور بال بچوں کی حفاظت کرے اور میں اس کے مال و اسباب کی مدینے میں حفاظت کروں گا.حضرت عبد الرحمن بن عوف کا اس سے پرانا تعلق تھا.امیہ بن خَلَف بدر کی جنگ میں بھی شامل ہوا.کافروں کی فوج میں کافروں کے ساتھ آیا تھا اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کو اس کے بدر میں شامل ہونے کا علم ہو گیا تھا.اس پرانے تعلق کی وجہ سے وہ اس پر احسان کر کے جنگ کے بعد رات کو اس کو بچانا بھی چاہتے تھے.چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ بدر کی جنگ میں تھا تو جب لوگ سو چکے تھے میں ایک پہاڑ کی طرف نکل گیا تا میں اس کی حفاظت کروں کیونکہ پتہ تھا کہ اس طرف کہیں گیا ہوا ہے تو میں بھی گیا تا کہ اس کو حفاظت کر کے بچالوں.حضرت بلال نے اس وقت اسے کہیں دیکھ لیا.چنانچہ حضرت بلال گئے اور انصار کی ایک مجلس میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ امیہ بن خلف ہے اگر بچ نکلا تو میری خیر نہیں.اس پر بلال کے ساتھ کچھ لوگ ہمارے تعاقب میں نکلے.میں ڈرا کہ وہ ہمیں پالیں گے، پکڑلیں گے.اس لیے میں نے اس کے بیٹے کو اس کی خاطر پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ اس کے ساتھ لڑائی میں مشغول ہو جائیں اور ہم ذرا آگے نکل جائیں.کہتے ہیں چنانچہ انہوں نے اس بیٹے کو تو لڑائی میں مار دیا.میرا یہ داؤ جو تھا وہ کار گر نہیں ہوا اور اس کو مار کے پھر انہوں نے ہمارا پیچھا شروع کر دیا اور امیہ چونکہ بھاری بھر کم آدمی تھا اس لیے جلدی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا تھا.آخر جب انہوں نے ہمیں پکڑ لیا، قریب پہنچ گئے تو میں نے اسے کہا کہ بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا اور میں نے اپنے آپ کو اس پر ڈال دیا کہ اسے بچاؤں تو انہوں نے جو پیچھا کر رہے تھے میرے نیچے سے اس کے بدن میں تلواریں گھونپیں یہاں تک کہ اسے مار ڈالا.ان میں سے ایک نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں پر زخم بھی کر دیا.408

Page 177

اصحاب بدر جلد 4 161 ایک دوسری روایت میں یہ واقعہ یوں درج ہے.اس کا کچھ حصہ بیان کر دیتا ہوں.حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں ان دونوں یعنی امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے کو لے کر چل رہا تھا کہ اچانک حضرت بلال نے امیہ کو میرے ساتھ دیکھ لیا.سکتے میں امیہ حضرت بلال کو اسلام سے پھیر نے کے لیے بڑا عذاب دیا کرتا تھا.حضرت بلال امیہ کو دیکھتے ہی بولے.کافروں کا سر دار امیہ بن خلف یہاں ہے.اگر یہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا.حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا تم میرے قیدیوں کے بارے میں ایسا کہہ رہے ہو ؟ حضرت بلال نے بار بار یہی کہا اور میں بھی ہر بار یہی کہتا رہا کہ یہ میرے قیدی ہیں.حضرت بلال بلند آواز سے چلائے.انہوں نے شور مچا کے آواز دی کہ اے اللہ کے انصار ! یہ کافروں کا سردار امیہ بن خلف ہے.اگر یہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا اور بار بار ایسا کہا.حضرت عبد الرحمن کہتے ہیں کہ یہ سن کر انصاری دوڑ پڑے اور انہوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا.پھر حضرت بلال نے تلوار سونت کرامیہ کے بیٹے پر حملہ کیا جس کے نتیجہ میں وہ نیچے گر گیا.امیہ نے اس پر خوف کی وجہ سے ایسی بھیانک چیخ ماری کہ ایسی چیچ میں نے کبھی نہیں سنی تھی.اس کے بعد انصاریوں نے ان دونوں کو تلواروں کے وار سے کاٹ ڈالا.19 409 رسول کریم صلی ایم کے خزانچی ایک روایت میں یہ آتا ہے کہ حضرت بلال رسول اللہ صلی الل ظلم کے سیکر ٹری یا خزانچی بھی تھے.410 نبی اکرم صلی کم کا عورتوں کو صدقہ کی نصیحت اور ان کی والہانہ قربانی حضرت ابن عباس سے ایک شخص نے پوچھا کیا آپ بھی رسول اللہ صل اللہ نام کے ساتھ کسی سفر میں شریک ہوئے ہیں.انہوں نے کہا اگر میرا آپ صلی یہ کم سے تعلق نہ ہو تا تو میں شریک نہ ہو تا.اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں یہ موقع ملا.رشتہ داری تھی اس لیے سفر میں شریک ہوئے تھے.پھر کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی ا ہم اس نشان کے قریب آئے جو کہ حضرت کثیر بن صلت کے گھر کے قریب تھا اور صحابہ کو خطاب فرمایا.پھر آپ عورتوں کے پاس آئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی.اور انہیں صدقہ دینے کے لیے فرمایا تو عور تیں اپنے ہاتھوں کو جھکا جھکا کر اپنی انگوٹھیاں اتار تیں اور حضرت بلال کے کپڑے میں ڈالتی جاتی تھیں.حضرت بلال ساتھ تھے.جو چادر تھی اس میں وہ ڈالتی جاتی تھیں.یہ روایت حضرت ابن عباس نے بیان کی ہے.اس کے بعد آپ اور حضرت بلال گھر آئے.411 مجھ پر تیسری رات آجاتی کہ میرے اور بلال کے پاس کوئی ایسا کھانا نہ ہوتا حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی خاطر اتنی

Page 178

اصحاب بدر جلد 4 162 اذیت دی گئی جتنی کسی کو نہیں دی جاسکتی.مجھے اللہ کی خاطر اتناڈرایا گیا ہے جتنا کسی کو نہیں ڈرایا جا سکتا.اور مجھ پر تیسری رات آجاتی کہ میرے اور بلال کے پاس کوئی ایسا کھانا نہ ہوتا جسے کوئی جاندار کھا سکے مگر اتنا جسے بلال کی بغل چھپا سکتی.بہت تھوڑا معمولی کھانا ہو تا تھا.412 سب سے پہلا موذن حضرت بلال کو سب سے پہلا مؤذن ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا.حضرت بلال رسول اللہ صلی علی تیم کی ساری زندگی میں ان کے لیے سفر و حضر میں مؤذن رہے اور آپ اسلام میں پہلے شخص تھے جنہوں نے 413 اذان دی.اذان کی ابتداء محمد بن عبد اللہ بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں.انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الیم نے نماز کے بلانے کے لیے بنگل کا سوچا.پھر ناقوس کا ارشاد فرمایا.پس وہ بنایا گیا.یہ بخاری کی حدیث ہے اور اس کے مطابق بوق اور ناقوس کے استعمال کا مشورہ صحابہ نے دیا تھا.پھر حضرت عبد اللہ بن زید کو خواب دکھائی گئی.انہوں نے بتایا کہ میں نے خواب میں ایک آدمی دیکھا جس پر دوسبز کپڑے تھے اور وہ آدمی ناقوس اٹھائے ہوئے تھا.میں نے اس کو خواب میں ہی کہا اے اللہ کے بندے اتم یہ ناقوس فروخت کرو گے ؟ اس نے کہا تم اس سے کیا کرو گے ؟ میں نے کہا میں اس کے ذریعے نماز کے لیے بلایا کروں گا.اس نے کہا کیا میں تجھے اس سے بہتر نہ بتاؤں.میں نے کہا وہ کیا ہے؟ اس نے پھر وہ اذان کے الفاظ سنائے اللهُ أَكْبَرُ اللهُ اکبر اور پوری اذان أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنَّ محمَّدًا رَسُولُ اللهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ لَا إِلهَ إِلَّا الله - راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن زید نکلے اور وہ رسول اللہ صلی علی کریم کے پاس آئے اور حضور صلی للی کم کو اپنی رؤیا بتائی.انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں نے خواب میں ایک آدمی دیکھا.اس پر دو سبز کپڑے تھے.وہ ناقوس اٹھائے ہوئے تھا.پھر ساری بات آپ کے سامنے بیان کی.رسول اللہ صلی ایم نے صحابہ سے فرمایا.تمہارے دوست نے رؤیا دیکھی ہے.پھر عبد اللہ بن زید کو ارشاد فرمایا تم بلال کے ساتھ مسجد جاؤ اور اسے یہ کلمات بتاتے جاؤ اور وہ ان کو بلند آواز سے پکاریں کیونکہ تمہاری نسبت وہ زیادہ بلند آواز والے ہیں.حضرت عبد اللہ بن زید نے کہا کہ میں بلال کے ساتھ مسجد کی طرف گیا اور میں انہیں یہ کلمات بتاتا جاتا اور وہ بلند آواز کے ساتھ پکارتے جاتے.حضرت عمر بن خطاب نے آواز سنی.وہ باہر تشریف لائے اور انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !خدا کی قسم میں نے بھی خواب میں وہی دیکھا جو انہوں نے دیکھا.414 اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ: ”ابھی تک نماز کے لیے

Page 179

اصحاب بدر جلد 4 163 اعلان یا اذان و غیرہ کا انتظام نہیں تھا.صحابہ عموماً وقت کا اندازہ کر کے خود نماز کے لیے جمع ہو جاتے تھے لیکن یہ صورت کوئی قابل اطمینان نہیں تھی.اب مسجد نبوی کے تیار ہو جانے پر یہ سوال زیادہ محسوس طور پر پیدا ہوا کہ کس طرح مسلمانوں کو وقت پر جمع کیا جاوے.کسی صحابی نے نصاریٰ کی طرح ناقوس کی رائے دی.کسی نے یہود کی مثال میں بوق کی تجویز پیش کی.کسی نے کچھ کہا مگر حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ کسی آدمی کو مقرر کر دیا جاوے کہ وہ نماز کے وقت یہ اعلان کر دیا کرے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے.آنحضرت صلی ا ہم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ اس فرض کو ادا کیا کریں.چنانچہ اس کے بعد جب نماز کا وقت آتا تھا بلال بلند آواز سے الصَّلوةُ جَامِعَةٌ کہہ کر پکارا کرتے تھے اور لوگ جمع ہو جاتے تھے بلکہ اگر نماز کے علاوہ بھی کسی غرض کے لیے مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرنا مقصود ہو تا تھا تو یہی ندادی جاتی تھی.اس کے کچھ عرصہ کے بعد ایک صحابی عبد اللہ بن زید انصاری کو خواب میں موجودہ اذان کے الفاظ سکھائے گئے اور انہوں نے آنحضرت صلی علی یکم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے اس خواب کا ذکر کیا اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں ایک شخص کو اذان کے طریق پر یہ یہ الفاظ پکارتے سنا ہے.آپ نے فرمایا یہ خواب خدا کی طرف سے ہے اور عبد اللہ کو حکم دیا کہ بلال کو یہ الفاظ سکھا دیں.عجیب اتفاق یہ ہوا کہ جب بلال نے الفاظ میں پہلی دفعہ اذان دی تو حضرت عمرؓ سے سن کر جلدی جلدی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! آج جن الفاظ میں بلال نے اذان دی ہے بعینہ یہی الفاظ میں نے بھی خواب میں دیکھے ہیں.اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی علیم نے اذان کے الفاظ سنے تو فرمایا کہ اسی کے مطابق وحی بھی ہو چکی ہے.الغرض اس طرح موجودہ اذان کا طریق جاری ہو گیا اور جو طریق اس طرح جاری ہو اوہ ایسا مبارک اور دلکش ہے کہ کوئی دوسرا طریق اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.گویا ہر روز پانچ وقت اسلامی دنیا کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں ہر مسجد سے خدا کی توحید اور محمد رسول اللہ کی رسالت کی آواز بلند ہوتی ہے اور اسلامی تعلیمات کا خلاصہ نہایت خوبصورت اور جامع الفاظ میں لوگوں تک پہنچا دیا جاتا ہے.موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلال اذان دے کر فارغ ہو کر نبی کریم ملی کم کو اطلاع دینا چاہتے تو آپ کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے اور کہتے حَتى عَلَى الصَّلوة حَتَّى عَلَى الْفَلَاحِ الصَّلَوةُ يَا رَسُولَ اللهِ یعنی نماز کے لیے آئیے ، فلاح و کامیابی کے لیے آئیے.نماز، یارسول اللہ.جب رسول اللہ صلی اللی کم نماز کے لیے نکلتے اور حضرت بلال دیکھ لیتے تو اقامت شروع کر دیتے.416 یہ واضح نہیں ہے.اقامت تو اسی وقت ہو گی جب امام محراب میں آجائے.بہر حال جو بھی ہے.روایت کا صحیح ترجمہ نہیں ہے یا یہ بیان صحیح نہیں ہے لیکن اصل طریق وہی ہے جو محراب میں امام آجائے تو پھر اقامت ہو.سة 415❝

Page 180

اصحاب بدر جلد 4 164 الصَّلوةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ سنن ابن ماجہ میں حضرت بلال سے روایت ہے کہ وہ نماز فجر کی اطلاع دینے کے لیے نبی صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے.ان سے کہا گیا کہ آپ سوئے ہوئے ہیں تو حضرت بلال نے کہا الصَّلوةُ خَيْرٌ مِن النَّوْمِ الصَّلوةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ پھر فجر کی اذان میں ان کلمات کا اضافہ کر دیا گیا اور یہی طریق قائم ہو گیا.117 ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا اے بلال ! یہ کتنے عمدہ کلمات ہیں.تم انہیں اپنی فجر کی اذان میں شامل کر لو.418 رسول اللہ صلی ال نیم کے تین موذن تھے.حضرت بلال ، ابو مَحْذُورَه ، عمرو بن أُمِّ مَكْتُوم ایک سفر میں بلال کا فجر کی نماز پر بیدار نہ ہونا الله 419- حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی علی یکم غزوہ خیبر سے واپس لوٹ رہے تھے تو رات بھر چلتے رہے.پھر جب آپ کو نیند آئی تو آرام کے لیے پڑاؤ کیا اور بلال سے فرمایا کہ ”آج رات ہماری نماز کے وقت کی حفاظت تم کرو.پھر حضرت بلال نے یہ فرمایا تھا کہ ”ہماری نماز کی حفاظت کرو“ کا مطلب یہ تھا کہ نماز کے وقت کی حفاظت کرو اور فجر کے وقت تم جگا دینا.جب آپ نے یہ فرمایا تو پھر حضرت بلال نے جتنی ان کے لیے مقدر تھی نماز پڑھی.رات نفل پڑھتے رہے اور رسول اللہ صلی للی کم اور آپ کے صحابہ سو گئے.جب فجر کا وقت قریب آیا تو بلال نے صبح کی سمت رخ کرتے ہوئے یعنی سورج جہاں سے نکلتا ہے اس طرف رخ کرتے ہوئے اپنی سواری کا سہارا لیا اور بیٹھ گئے تو بلال پر بھی نیند غالب آگئی جبکہ وہ اپنی اونٹنی سے ٹیک لگائے ہوئے تھے.پس نہ تو بلال بیدار ہوئے اور نہ ہی آپ کے اصحاب میں سے کوئی اور یہاں تک کہ دھوپ ان پر پڑی.رسول اللہ صلی علیکم ان میں سب سے پہلے جاگے.رسول اللہ صلی ا یکم فکر مند ہوئے اور فرمایا اے بلال! اے بلال !.بلال نے عرض کیا: یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.میری روح کو بھی اسی ذات نے روکے رکھا جس نے آپ کو روکے رکھا یعنی نیند کا غلبہ مجھ پر بھی آگیا.آپ نے فرمایا کہ روانہ ہو.چنانچہ انہوں نے اپنی سواریوں کو تھوڑا سا چلایا.پھر رسول اللہ صلی علیم نے روکا.پھر وضو فرمایا اور تھوڑی دیر بعد بلال کو ارشاد فرمایا.انہوں نے نماز کی اقامت کہی.پھر آپ نے ان سب کو سورج نکلنے کے بعد صبح کی نماز پڑھائی.جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا کہ جو نماز بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے اسے پڑھ لے کیونکہ اللہ عز و جل نے فرمایا ہے کہ نماز کو میرے ذکر کے لیے قائم کرو.420 خانہ کعبہ کے اندر رسول کریم صلی ال ولیم کا حضرت بلال کو لے کر جانا فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی الی ظلم جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو آپ کے ساتھ حضرت بلال بھی

Page 181

بدر جلد 4 165 تھے.حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علم فتح مکہ کے روز مکہ میں آئے اور حضرت عثمان بن طلحہ کو بلایا.انہوں نے دروازہ کھولا تو نبی صلی للی کم اور حضرت بلال اور حضرت اسامہ بن زید اور ) حضرت عثمان بن طلحہ اندر گئے اور پھر دروازہ بند کر دیا اور آپ اس میں کچھ دیر ٹھہرے.پھر نکلے.حضرت ابن عمرؓ کہتے تھے کہ میں جلدی سے آگے بڑھا اور حضرت بلال سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے.یعنی رسول کریم صلی للی تم نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے.میں نے کہا کس جگہ ؟ کہا ان ستونوں کے درمیان.حضرت ابن عمرؓ کہتے تھے مجھ سے رہ گیا کہ میں ان سے پوچھوں کہ آپ نے کتنی رکعتیں نماز پڑھی ہے.421 الله حضرت بلال لوگوں کو بعد میں بتایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی علیم نے خانہ کعبہ کے اندر کس جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھی تھی.حضرت ابنِ ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی علیم نے حضرت بلال کو کعبے کی چھت پر اذان دینے کا حکم دیا.اس پر حضرت بلال نے کعبے کی چھت پر اذان دی.422 فتح مکہ اور حضرت بلال کا جھنڈا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فتح مکہ کے موقع پر حضرت بلال کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عباس ابوسفیان کو لے کر رسول کریم صلی علیہ نیم کی مجلس میں حاضر ہوئے.رسول کریم صلی ہی ہم نے ابوسفیان کو دیکھا اور فرمایا: تیر ابراحال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ خدا ایک ہے ؟ ابوسفیان نے کہا یقین کیوں نہیں آیا اگر کوئی دوسر اخد ا ہو تا تو ہماری مدد نہ کرتا !.آپ نے فرمایا: تیر ابر احال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ محمد اللہ کا رسول ہے؟ کہنے لگا ابھی اس کے متعلق یقین نہیں ہوا.حضرت عباس نے ابوسفیان کو کہا کمبخت ! بیعت کر لو.اس وقت تیری اور تیری قوم کی جان بچتی ہے.کہنے لگا اچھا.کر لیتا ہوں.وہاں تو اس نے یونہی بیعت کر لی.ان کے کہنے پر بیعت کر لی.کوئی دل سے بیعت نہیں تھی لیکن بعد میں جا کر سچا مسلمان ہو گیا.خیر بیعت کر لی تو عباس کہنے لگے.اب مانگ اپنی قوم کے لیے ورنہ تیری قوم ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جائے گی.مہاجرین کا دل اس وقت ڈر رہا تھا.وہ تو مکہ کے رہنے والے تھے اور سمجھتے تھے کہ ایک دفعہ مکہ کی عزت ختم ہوئی تو پھر مکہ کی عزت باقی نہیں رہے گی.وہ باوجود اس کے کہ انہوں نے بڑے بڑے مظالم برداشت کیے تھے.پھر بھی وہ دعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح صلح ہو جائے.لیکن انصار ان کے مقابلے میں بڑے جوش میں تھے.محمد رسول اللہ صلی للی یم نے کہا کہ مانگو.کہنے لگا یارسول اللہ ! کیا آپ اپنی قوم پر رحم نہیں کریں گے.آپ صلی علیہ کی تو بڑے رحیم و کریم ہیں اور پھر میں آپ کارشتہ دار ہوں.بھائی ہوں.میرا بھی کوئی اعزاز ہونا چاہیے.میں مسلمان ہوا ہوں.آپ نے فرمایا اچھا جاؤ اور مکہ میں اعلان کر دو کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں گھسے گا اسے پناہ دی جائے گی.کہنے لگا یار سول اللہ امیر اگھر ہے کتنا اور اس میں کتنے آدمی آسکتے ہیں؟ اتنابڑا شہر ہے، اس کا میرے گھر میں کہاں ٹھکانہ ہو

Page 182

ب بدر جلد 4 166 سکتا ہے.آپ صلی الی یکم نے فرمایا کہ اچھا جو شخص خانہ کعبہ میں چلا جائے گا اسے امان دی جائے گی.ابوسفیان نے کہا یارسول اللہ ! پھر بھی لوگ بیچ رہیں گے.آپ نے فرمایا اچھا جو ہتھیار پھینک دے گا اسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا.کہنے لگا یا رسول اللہ ! پھر بھی لوگ رہ جائیں گے.آپ نے فرمایا اچھا جو اپنے گھر کے دروازے بند کرلے گا اسے بھی پناہ دی جائے گی.اس نے کہا یار سول اللہ ! گلیوں والے جو ہیں وہ تو بیچارے مارے جائیں گے.آپ نے فرمایا بہت اچھا لاؤ.ایک جھنڈا بلال کا تیار کرو.ابی رُونیحہ ایک صحابی تھے.آپ نے جب مدینہ میں مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنایا تھا تو ابی رونیکہ کو بلال کا بھائی بنایا تھا.شاید اس وقت بلال تھے نہیں یا کوئی اور مصلحت تھی.بہر حال آپ نے بلال کا جھنڈ بنایا اور آپی رونیچہ کو دیا اور فرمایا کہ یہ بلال کا جھنڈا ہے.یہ اسے لے کر چوک میں کھڑا ہو جائے اور اعلان کر دے کہ جو شخص بلال کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا اس کو نجات دی جائے گی.ابو سفیان کہنے لگا بس اب کافی ہو گیا اب مکہ بچ جائے گا.کہنے لگا اب مجھے اجازت دیجئے کہ میں جاؤں.آپ نے فرما یا جا.اب سردار خود ہی ہتھیار پھینک چکا تھا، خبر پہنچنے یانہ پہنچنے کا سوال ہی نہیں تھا.ابو سفیان گھبرایا ہوا مکہ میں داخل ہوا اور یہ کہتا جاتا تھا کہ لو گو! اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لو.لوگو! اپنے ہتھیار پھینک دو.لو گو !خانہ کعبہ میں چلے جاؤ.بلال کا جھنڈا کھڑا ہوا ہے اس کے نیچے کھڑے ہو جانا.اتنے میں لوگوں نے دروازے بند کرنے شروع کر دیے.بعض نے خانہ کعبہ میں گھسنا شروع کر دیا.لوگوں نے ہتھیار باہر لالا کر پھینکنے شروع کیے.اتنے میں اسلامی لشکر شہر میں داخل ہوا اور لوگ بلال کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے.حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ میں جو سب سے زیادہ عظیم الشان بات ہے وہ بلال کا جھنڈا ہے.رسول کریم صلی علی کم بلال کا جھنڈ ا بناتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جو شخص بلال کے جھنڈے کے نیچے کھڑ ا ہو جائے گا اس کو پناہ دی جائے گی حالانکہ سردار تو محمد رسول اللہ صلی علیم تھے مگر محمد رسول اللہ صلی علی یم کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا.آپ کے بعد قربانی کرنے والے ابو بکر تھے مگر ابو بکر کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا.ان کے بعد مسلمان ہونے والے رئیس عمر تھے مگر عمر کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا.ان کے بعد عثمان مقبول تھے اور آپ کے داماد تھے مگر عثمان کا بھی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا.ان کے بعد علی تھے جو آپ کے بھائی بھی تھے اور آپ کے داماد بھی تھے مگر علی کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا.پھر عبد الرحمن بن عوف وہ شخص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ یکم فرماتے ہیں کہ آپ وہ شخص ہیں کہ جب تک آپ زندہ ہیں مسلمان قوم میں اختلاف نہیں ہو گا لیکن عبد الرحمن بطحا کوئی جھنڈا نہیں بنایا جاتا.پھر عباس آپ کے چاتھے اور بعض دفعہ وہ گستاخی بھی کر لیتے تھے.آنحضرت صلی علیکم کے سامنے بول لیا کرتے تھے تو آپ خفا نہ ہوتے مگر رسول کریم صلی اللی نے ان کا بھی کوئی جھنڈا نہیں بنایا.پھر سارے رؤساء اور چوٹی کے آدمی موجود تھے.خالد بن ولید جو ایک سردار کا بیٹا، خود بڑا نامور انسان تھا، موجود تھا.عمر و بن عاص ایک سردار کا بیٹا تھا.اسی طرح اور بڑے بڑے سرداروں کے بیٹے تھے مگر ان میں سے کسی ایک کا جھنڈ انہیں بنایا جاتا.جھنڈ بنایا جاتا ہے

Page 183

اصحاب بدر جلد 4 167 تو بلال کا بنایا جاتا ہے.کیوں؟ اس کی کیا وجہ تھی ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ پر جب حملہ ہونے لگا تھا تو ابو بکر دیکھ رہا تھا کہ جن کو مارا جانے والا ہے وہ اس کے بھائی بند ہیں اور اس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ یا رسول اللہ ! کیا وہ اپنے بھائیوں کو ماریں گے ؟ وہ ظلموں کو بھول چکا تھا اور جانتا تھا کہ یہ میرے بھائی ہیں.عمر بھی کہتے تو یہی تھے کہ یارسول اللہ! ان کافروں کو ماریے مگر پھر بھی جب آپ ان کو معاف کرنے پر آئے تو وہ اپنے دل میں یہی کہتے ہوں گے کہ اچھا ہو ا ہمارے بھائی بخشے گئے.عثمان اور علی بھی کہتے ہوں گے کہ ہمارے بھائی بخشے گئے.انہوں نے ہمارے ساتھ سختیاں کر لیں تو کیا ہوا.خود رسول کریم صلی للی کم بھی ان کو معاف کرتے وقت یہی سمجھتے ہوں گے کہ ان میں میرے چچا بھی تھے، بھائی بھی تھے.ان میں میرے داماد، عزیز اور رشتہ دار بھی تھے.اگر میں نے ان کو معاف کر دیا تو اچھا ہی ہوا.میرے اپنے رشتے دار بیچ گئے.صرف ایک شخص تھا جس کی مکہ میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی.جس کی مکہ میں کوئی طاقت نہیں تھی.جس کا مکہ میں کوئی ساتھی نہیں تھا اور اس کی بے کسی کی حالت میں اس پر وہ ظلم کیا جاتا جونہ ابو بکر پہ ہوا، نہ علی پر ہوا نہ عثمان پر ہوا، نہ عمر پر ہوا بلکہ رسول کریم صلی ا تم پر بھی نہیں ہوا.پچھلی ایک روایت جو میں نے گذشتہ ہفتے بیان کی تھی اس میں بھی یہ بیان ہوا تھا کہ حضرت ابو بکر بھی اور آنحضرت صلی للی کم پر بھی ظلم ہوئے لیکن یہ رشتہ داریوں کی وجہ سے بچے رہے تھے لیکن میں نے وضاحت کی تھی کہ آپ صلی للی کم پر بھی ظلم ہوئے اور حضرت ابو بکر پر بھی ظلم ہوئے.اور صرف بھی ابو بلال پر ایسے ظلم ہوئے تھے جو کسی پر نہیں ہوئے.یہاں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے یہ انکار نہیں کیا کہ آپ لوگوں پر ظلم نہیں ہوئے بلکہ فرمایا کہ وہ ظلم جو بلال پر ہو اوہ کسی اور پر نہیں ہوا.حضرت بلال پر ہونے والے مظالم اور ان کا حسین انتقام پھر آپ نے اس کی تفصیل بیان کی وہ کیا ظلم تھا.وہ ظلم یہ تھا کہ جلتی اور تپتی ہوئی ریت پر بلال کو نگالٹا دیا جاتا تھا.تم دیکھو ننگے پاؤں میں مئی اور جون میں نہیں چل سکتے.اس کو ننگا کر کے تپتی ریت پر لٹا دیا جا تا تھا.پھر کیلوں والے جوتے پہن کر نوجوان اس کے سینے پر ناچتے تھے اور کہتے تھے کہ کہو خدا کے سوا اور معبود ہیں.کہو محمد رسول اللہ جھوٹا ہے اور بلال آگے سے اپنی حبشی زبان میں جب وہ بہت مارتے تھے کہتے تھے اسهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا اللهُ أَسْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله کہ وہ شخص آگے سے یہی جواب دیتا تھا کہ تم مجھ پر کتنا بھی ظلم کرو میں نے جب دیکھ لیا ہے کہ خدا ایک ہے تو دو کس طرح کہہ دوں اور جب مجھے پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی علی نام خدا کے سچے رسول ہیں تو میں انہیں جھوٹا کس طرح کہہ دوں ؟ اس پر وہ اور مار ناشروع کر دیتے تھے.گرمیوں کے مہینوں کے موسم میں، ان مہینوں میں جب گرمیاں ہوتی ہیں اس موسم میں اس کے ساتھ یہی حال ہو تا تھا.اسی طرح سردیوں میں وہ یہ کرتے تھے کہ ان کے پیروں میں رسی ڈال کر انہیں مکہ کی پتھروں والی گلیوں میں گھسیٹتے تھے.ان کا چمڑ از خمی ہو جاتا تھا یعنی کھال زخمی ہو جاتی تھی.وہ گھسیٹتے تھے اور کہتے تھے کہو جھوٹا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم.کہو خدا کے سوا اور معبود ہیں تو

Page 184

اصحاب بدر جلد 4 168 وہ کہتے اَشهَدُ أَن لَّا إِلهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اب جبکہ اسلامی لشکر دس ہزار کی تعداد میں داخل ہونے کے لیے آیا تو بلال کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ آج ان بوٹوں کا بدلہ لیا جائے گا جو میرے سینے پر ناچتے تھے.آج ان ماروں کا معاوضہ بھی مجھے ملے گا جس طرح مجھے ظالمانہ طور پر مارا گیا تھا لیکن جب رسول اللہ کی ایم نے فرمایا کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو گیا وہ معاف.جو خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا وہ معاف.جس نے اپنے ہتھیار پھینک دیے وہ معاف.جس نے اپنے گھر کے دروازے بند کر لیے وہ معاف تو بلال کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ یہ تو اپنے سارے بھائیوں کو معاف کر رہے ہیں اور اچھا کر رہے ہیں لیکن میر ابدلہ تو رہ گیا.رسول کریم صلی الم نے دیکھا کہ آج صرف ایک شخص ہے جس کو میرے معاف کرنے سے تکلیف پہنچ سکتی ہے اور وہ بلال ہے کہ جن کو میں معاف کر رہا ہوں وہ اس کے بھائی نہیں.جو اس کو دکھ دیا گیا ہے وہ اور کسی کو نہیں دیا گیا.آپؐ نے فرمایا میں اس کا بدلہ لوں گا اور اس طرح لوں گا کہ میری نبوت کی بھی شان باقی رہے اور بلال کا دل بھی خوش ہو جائے.آپ نے فرمایا بلال کا جھنڈ ا کھڑا کرو اور ان مکہ کے سرداروں کو جو جو تیاں لے کر اس کے سینے پر ناچا کرتے تھے ، جو اس کے پاؤں میں رسی ڈال کر گھسیٹا کرتے تھے ، جو اسے تپتی ریتوں پر لٹایا کرتے تھے کہہ دو کہ اگر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچانی ہے تو بلال کے جھنڈے کے نیچے آ جاؤ.میں سمجھتا ہوں جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے، جب سے انسان کو طاقت حاصل ہوئی ہے اور جب سے کوئی انسان دوسرے انسان سے اپنے خون کا بدلہ لینے پر تیار ہوا ہے اور اس کو طاقت ملی ہے اس قسم کا عظیم الشان بدلہ کسی انسان نے نہیں لیا.جب بلال کا جھنڈ ا خانہ کعبہ کے سامنے میدان میں گاڑا گیا ہو گا.جب عرب کے رؤساء، وہ رؤساء جو اس کو پیروں سے مسلا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ بولتا ہے کہ نہیں کہ محمد رسول اللہ جھوٹا ہے.اور اب جب نظارہ بدلا، جب حالات بدلے تو اب وہ دوڑ دوڑ کر اپنے بیوی بچوں کے ہاتھ پکڑ پکڑ کر اور لالا کر بلال کے جھنڈے کے نیچے لاتے ہوں گے کہ ہماری جان بچ جائے.تو اس وقت بلال کا دل اور اس کی جان کس طرح محمد رسول اللہ صلی علی کم پر نچھاور ہو رہی ہو گی.وہ کہتا ہو گا میں نے تو خبر نہیں ان کفار سے بدلہ لینا تھا یا نہیں یا لے سکتا تھا کہ نہیں اب وہ بدلہ لے لیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کی جوتیاں میرے سینے پر پڑتی تھیں اس کے سر کو میری جوتی پر جھکا دیا گیا ہے.یہ وہ بدلہ ہے کہ وہ جو تیاں جو سینے پر ناچا کرتی تھیں آج ان کو پہنے والے سر بلال کی جوتی پر جھکا دیے گئے ہیں.یہ وہ بدلہ تھا جو یوسف کے بدلہ سے بھی زیادہ شاندار تھا.اس لیے کہ یوسف نے اپنے باپ کی خاطر اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا.جس کی خاطر کیا وہ اس کا باپ تھا اور جن کو کیا وہ اس کے بھائی تھے اور محمد رسول اللہ صلی علیم نے اپنے چوں اور بھائیوں کو ایک غلام کی جوتیوں کے طفیل معاف کیا.بھلا یوسف کا بدلہ اس کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے.3 پہلا جو حوالہ تھا سیر روحانی کا تھا.اسی واقعہ کو دیباچہ تفسیر القرآن میں بھی اختصار کے ساتھ بیان 423

Page 185

تاب بدر جلد 4 169 فرمایا ہے اور یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بعض لوگ لکھ دیتے ہیں کہ فلاں جگہ تو یوں فرمایا تھا.دونوں بیانوں میں تفصیل اور اختصار کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے.بعض لوگ بڑے نکتے نکال کر فرق بھی بتانے شروع کر دیتے ہیں.واقعاتی طور پر بھی اور نتیجے کے طور پر بھی ایک ہی چیز ہے.بہر حال یہاں جو بیان ہے وہ اس طرح ہے کہ ”ابو سفیان نے کہا یارسول اللہ ! اگر مکہ کے لوگ تلوار نہ اٹھائیں تو کیا وہ امن میں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے اسے امن دیا جائے گا.حضرت عباس نے کہا یار سول اللہ ! ابو سفیان فخر پسند آدمی ہے اس کا مطلب ہے کہ میری عزت کا بھی کوئی سامان کیا جائے.“ یہ حضرت عباس کے حوالے سے زائد چیز ہے.” آپ نے فرمایا بہت اچھا، جو شخص ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا.جو مسجد کعبہ میں گھس جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا.جو اپنے ہتھیار پھینک دے اس کو بھی امن دیا جائے گا.جو اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے گا اس کو بھی امن دیا جائے گا.جو حکیم بن حزام کے گھر میں چلا جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا.اس کے بعد آئی ڈونیہ جن کو آپ نے بلال حبشی غلام کا بھائی بنایا ہوا تھا ان کے متعلق آپ نے فرمایا ہم اس وقت آپی دونیچے کو اپنا جھنڈا دیتے ہیں جو شخص ابی رویحہ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا ہم اس کو کبھی کچھ نہ کہیں گے اور بلال سے کہا تم ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے جاؤ کہ جو شخص ابی رویحہ کے جھنڈے کے نیچے آجائے گا اس کو امن دیا جائے گا.یہ چیز یہاں زائد ہے کہ بلال ساتھ اعلان کرتے جائیں.” اس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی.مکہ کے لوگ بلال کے پیروں میں رسی ڈال کر اس کو گلیوں میں کھینچا کرتے تھے ، مکہ کی گلیاں، مکہ کے میدان بلال کے لیے امن کی جگہ نہیں تھے بلکہ عذاب اور تذلیل اور تضحیک کی جگہ تھے.رسول اللہ صلی علی یم نے خیال فرمایا کہ بلال کا دل آج انتظام کی طرف بار بار مائل ہو تا ہو گا.اس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی نہایت ضروری ہے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا انتقام اسلام کی شان کے مطابق ہو.پس آپ نے بلال کا انتقام اس طرح نہ لیا کہ تلوار کے ساتھ اس کے دشمنوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں بلکہ اس کے بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑا جھنڈ ادے کر کھڑا کر دیا اور بلال کو اس غرض کے لیے مقرر کر دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ جو کوئی میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے آکر کھڑا ہو گا اسے امن دیا جائے گا.کیسا شاندار یہ انتظام تھا، کیسا حسین یہ انتظام تھا.جب بلال بلند آواز سے یہ اعلان کرتا ہو گا کہ اے مکہ والو ! آؤ میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو جاؤ تمہیں امن دیا جائے گا تو اس کا دل خود ہی انتقام کے جذبات سے خالی ہو تا جاتا ہو گا اور اس نے محسوس کر لیا ہو گا کہ جو انتقام محمد رسول اللہ صلی علیم نے میرے لیے تجویز کیا اس سے زیادہ شاندار اور اس سے زیادہ حسین انتقام میرے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتا.424 پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حضرت بلال کے صبر اور فتح مکہ کے وقت ان کی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا ہے کہ ”یہ تکالیف تھیں جو بلال کو پہنچائی گئیں.مکے میں جو تکالیف ہوتی تھیں ان کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے.مگر جانتے ہو جب مکہ فتح ہوا تو وہ بلال حبشی غلام جس کے سینے پر مکہ کے بڑے بڑے افسر نا چا کرتے تھے اس کو رسول کریم صلی علیہم نے کیا عزت دی؟ اور کس طرح اس کا کفار

Page 186

170 اصحاب بدر جلد 4 سے انتقام لیا ؟ جب مکہ فتح ہوا تورسول کریم صلی العلیم نے بلال کے ہاتھ میں ایک جھنڈ ادے دیا اور اعلان کر دیا کہ اے مکہ کے سردارو! اگر اب تم اپنی جانیں بچانا چاہتے ہو تو بلال کے جھنڈے کے نیچے آکر کھڑے ہو جاؤ.گویا وہ بلال جس کے سینے پر مکہ کے بڑے بڑے سردار ناچا کرتے تھے اس کے متعلق رسول کریم صلی الم نے مکہ والوں کو بتایا کہ آج تمہاری جانیں اگر بچ سکتی ہیں تو اس کی یہی صورت ہے کہ تم بلال کی غلامی میں آجاؤ حالا نکہ بلال غلام تھا اور وہ چوہدری تھے.پس ہر جگہ یہی نتیجہ ہے.چاہے جھنڈا ان کے بھائی کے سپرد کیا تب بھی بلال کو ساتھ کیا.بلال کے نام پر جھنڈا کیا تب بھی اور بلال کے ہاتھ میں دیا تو نتیجہ وہی ہے.تھوڑے سے فرق کے ساتھ واقعاتی طور پر ایک ہی بات بیان ہو رہی ہے اور نتیجہ بھی وہی نکالا جا رہا ہے.4256 عید کے دن رسول اللہ صلی الم کے آگے آگے چلنے والے بلال رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ عید کے دن رسول اللہ صلی ا یکم کے آگے آگے نیزے کو لے کر چلا جاتا تھا.عید والے دن ایک شخص آگے چلتا تھا اس کے ہاتھ میں نیزہ ہو تا تھا اور جس کو عموماً حضرت بلال اٹھائے ہوئے ہوتے تھے.محمد بن عمر بیان کرتے ہیں کہ حضرت بلال اسے آنحضرت صلی ایم کے سامنے گاڑ دیتے تھے.اس زمانے میں عید گاہ میدان ہو تا تھا.کھلا میدان تھا وہی عید گاہ تھی نجاشی کے بھیجے ہوئے تین نیزے 426 ایک روایت ہے کہ نجاشی حبشہ نے رسول اللہ صلی اللی کم کو تین نیزے تحفے میں بھیجے تھے.ایک نبی کریم صلی الی یکم نے رکھ لیا.ایک حضرت علی بن ابو طالب کو دیا اور ایک حضرت عمر بن خطاب کو دیا.حضرت بلال اس نیزے کو جو رسول اللہ صلی علیم نے اپنے لیے رکھا تھا عیدین میں آپ کے آگے آگے لے کر چلتے تھے یہاں تک کہ اسے آپ کے آگے گاڑ دیتے اور آپ اسی کی طرف نماز پڑھتے.رسول اللہ صلی للی نیم کی وفات کے بعد حضرت بلال اسی طرح اس نیزے کو حضرت ابو بکر کے آگے لے کر چلا کرتے تھے.427 میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرے پاس ٹھہر جاؤ آنحضرت علی علیکم کی وفات کے بعد روایات میں یہی آتا ہے کہ حضرت بلال جہاد میں شامل ہونے کے لیے شام کی طرف چلے گئے تھے.رسول اللہ صلی علی یم کی وفات کے بعد اس طرح بیان ہوا ہے کہ حضرت بلال حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور کہا کہ اے خلیفہ رسول ! میں نے رسول اللہ صلی ا ہم کو فرماتے سنا ہے کہ مومن کا سب سے افضل عمل اللہ کی راہ میں جہاد ہے.حضرت ابو بکر نے کہا بلال تم کیا چاہتے ہو ؟ حضرت بلال نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے اللہ کے رستہ میں جہاد کے لیے بھیج دیا جائے یہاں تک کہ میں مارا جاؤں.حضرت ابو بکر نے کہا کہ بلال میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں اور اپنی حرمت اور حق یاد دلاتا ہوں کہ میں بوڑھا اور ضعیف ہو گیا ہوں.میری موت کا وقت قریب آگیا ہے

Page 187

اصحاب بدر جلد 4 171 اس وجہ سے میرے پاس ٹھہر جاؤ.اس پر حضرت بلال حضرت ابو بکر کی وفات تک ان کے پاس ہی رہے.حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت بلال حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور ان سے بھی وہی بات کہی جو حضرت ابو بکر کو کہی تھی.حضرت عمرؓ نے بھی انہیں ویسا ہی جواب دیا جیسا حضرت ابو بکر نے دیا تھا مگر حضرت بلال نہ مانے.حضرت بلال جہاد پر جانے پر مصر تھے اور انہوں نے حضرت عمرؓ کے سامنے اسی بات کا اصرار کیا.حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے بعد اذان دینے کی ذمے داری کس کے سپر د کروں گا ؟ حضرت بلال نے عرض کی کہ حضرت سعد کے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی علیم کے زمانے میں اذان دی ہوئی ہے.پس حضرت عمرؓ نے حضرت سعد اور ان کے بعد ان کی اولاد کے سپرد اذان کی ذمہ داری لگائی اور حضرت بلال کو ان کے اصرار کی وجہ سے جہاد پر بھیج دیا.یہ ایک روایت ہے اور ایک روایت میں حضرت بلال اور حضرت ابو بکر کے اذان دینے کے حوالے سے جو مکالمہ ہوا اس کا بھی یوں ذکر ملتا ہے کہ موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ایم کی وفات ہوئی تو حضرت بلال نے اس روز اس وقت اذان دی کہ ابھی رسول اللہ صلی للی کم کی تدفین نہ ہوئی تھی.جب انہوں نے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ کے الفاظ اپنی زبان میں 428 کہے.آسھد کہتے تھے.تو مسجد میں لوگوں کے رونے کی وجہ سے ہچکیاں بندھ گئیں.جب رسول اللہ صلی علیکم کی تدفین ہو گئی تو حضرت ابو بکر نے حضرت بلال کو اذان دینے کا کہا.حضرت بلال نے جو ابا کہا اگر تو آپ نے مجھے اس لیے آزاد کیا ہے کہ میں آپ کے ساتھ رہوں تو اس کا راستہ تو یہی ہے جس طرح آپ کہہ رہے ہیں لیکن اگر آپ نے مجھے اللہ کے لیے آزاد کیا ہے تو مجھے اس کے لیے چھوڑ دیجئے جس کے لیے مجھے آزاد کیا ہے.حضرت ابو بکر نے کہا کہ میں نے تمہیں اللہ کی خاطر آزاد کیا ہے.اس پر حضرت بلال نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی لی ایم کی وفات کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا.حضرت ابو بکر نے کہا یہ آپ کی مرضی ہے.اس کے بعد حضرت بلال مدینے میں ہی مقیم رہے یہاں تک کہ حضرت عمررؓ کے دورِ خلافت میں شام کے لیے لشکر روانہ ہوئے تو حضرت بلال بھی ان لشکروں کے ساتھ شام چلے گئے.129 الله سة حضرت بلال کا جہاد میں شامل ہونے کے لئے شام کی طرف چلے جانا اسد الغابہ کی ایک روایت کے مطابق حضرت بلال نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ اگر آپ نے مجھے اپنے لیے آزاد کیا ہے تو مجھے اپنے پاس روک لیں لیکن اگر آپ نے مجھے اللہ کی راہ میں آزاد کیا ہے تو مجھے اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے جانے دیں.اس پر حضرت ابو بکر نے حضرت بلال سے فرمایا جاؤ.اس پر حضرت بلال شام چلے گئے اور وفات تک وہیں رہے جو اکثر روایتیں ہیں وہ یہی ہیں کہ حضرت ابو بکڑ کے زمانے میں نہیں گئے تھے بلکہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں گئے تھے اور ایک قول کے مطابق حضرت بلال

Page 188

ب بدر جلد 4 172 رسول اللہ صل السلام کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر کے دورِ خلافت میں بھی اذان دیتے رہے ہیں.یہ بھی 430 روایت ہے.مدتوں بعد بلال کی اذان اور رسول اللہ صلی الم کی یاد میں اہل مدینہ کی حالت زار ایک روایت یوں بیان کی گئی ہے کہ ایک دفعہ حضرت بلال نے نبی کریم صلی لی کام کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرماتے ہیں اے بلال ! یہ کیسی سنگ دلی ہے.کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم ہماری زیارت کے لیے آؤ.حضرت بلال نہایت رنج کی حالت میں بیدار ہوئے ، شام میں ہوتے تھے اور سوار ہو کر مدینے کی طرف چل دیے اور نبی کریم صلی للی کام کے روضہ مبارک پر حاضر ہو کر زار و قطار رونے لگے اور تڑپنے لگے.اتنے میں حضرت حسن اور حسین بھی آگئے.حضرت بلال نے انہیں بوسہ دیا اور انہیں گلے لگایا تو حضرت حسن اور حضرت حسین نے حضرت بلال سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صبح کی اذان آپ دیں تو آپ مسجد کی چھت پر چڑھ گئے.جب حضرت بلال نے الله اكبر الله اکبر کے الفاظ کہے تو راوی کہتے ہیں کہ مدینہ لرز اٹھا.پھر جب انہوں نے أَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله کے الفاظ کہے تو اور زیادہ جنبش ہوئی.لوگوں میں ایک دم بیداری پیدا ہوئی.پھر جب انہوں نے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّد الرَّسُوْلُ اللہ کے الفاظ کہے تو عور تیں اپنے کمروں سے باہر آئیں.راوی کہتے ہیں کہ اس دن سے زیادہ رونے والے مرد اور رونے والی عورتیں نہیں دیکھی گئی تھیں.31 آنحضرت علیل علم کا زمانہ اور یہ اذان یاد آگئی اور لوگ بے چین ہو گئے.431 حضرت عمررؓ کے دورِ خلافت میں جب حضرت بلال نے جہاد کے لیے جانے کی اجازت طلب کی تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ آپ کو کیا چیز اذان دینے سے مانع ہے.اس پر حضرت بلال نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم کے حکم سے اذان دی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی.پھر میں نے حضرت ابو بکر کے حکم سے اذان دی کیونکہ وہ میری نعمت کے نگران تھے یہاں تک کہ ان کی بھی وفات ہو گئی.میں نے رسول اللہ صلی علی یم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے بلال ! کوئی عبادت جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر نہیں ہے ، چنانچہ حضرت بلال شام چلے گئے.جب حضرت عمر شام تشریف لے گئے تو حضرت عمرؓ کے کہنے پر حضرت بلال نے اذان دی.راوی کہتے ہیں کہ ہم نے اس دن سے قبل آپ کو اتنا روتے ہوئے نہیں دیکھا.432 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت بلال کے آخری زمانے کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت بلال آخری عمر میں شام چلے گئے تھے.یہاں یہ ذکر بھی ہے کہ ان کو لوگ رشتہ نہیں دیتے تھے لیکن پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ان کی کئی شادیاں تھیں اور رشتے ہوئے تھے.ہو سکتا ہے کہ بعض شام جانے کے لیے رشتہ نہیں دیتے یا شام جا کر رشتہ نہیں ملتا ہو گا.بہر حال آنحضرت صلی علیہ یکم کے زمانے میں آپ کی کئی شادیوں کی روایت ملتی ہے تو حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ انہوں نے شام میں ایک جگہ رشتے کے

Page 189

اصحاب بدر جلد 4 173 متعلق درخواست کی اور کہا کہ میں حبشی ہوں اگر چاہو تو رشتہ نہ دو اور اگر رسول کریم صلی یکم کا صحابی سمجھ کر مجھے رشتہ دے دو تو بڑی مہربانی ہو گی.انہوں نے رشتہ دے دیا اور وہ شام میں ہی ٹھہر گئے.بہر حال پہلے بھی ان کی شادیاں تھیں.ہو سکتا ہے پہلی بیویاں فوت ہو گئی تھیں یا ساتھ جانے والی کوئی نہیں تھی یا شام میں شادی کرنا چاہتے تھے.لیکن بہر حال یہ تھوڑی وضاحت یہاں ہو جائے کہ شادیاں ان کی پہلے تھیں.گو کہ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ لکھا ہے.باقی روایتیں بھی یہی کہتی ہیں کہ ان کو کوئی رشتہ نہیں دیتا تھا.کس سیاق وسباق کے تحت لکھا اللہ بہتر جانتا ہے.بہر حال وہاں انہوں نے رشتہ مانگا.وہاں ان کی شادی ہو گئی اور وہ شام میں ٹھہر گئے.جو اصل چیز ہے وہ یہی ہے جو آگے رو یا کا ذکر ہے.شادی تو ایک ضمنی بات آگئی.اے بلال تم ہم کو بھول گئے....! حضرت مصلح موعودؓ نے یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی یک رویا میں ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا بلال ! تم ہم کو بھول ہی گئے.کبھی ہماری قبر کی زیارت کرنے کے لیے نہیں آئے.وہ اسی وقت اٹھے اور سفر کا سامان تیار کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور رسول کریم صلی علیم کی قبر پر رو رو کر دعا کی.اس وقت ان کو اتنی رقت پیدا ہوئی کہ لوگوں میں عام طور پر مشہور ہو گیا کہ بلال آئے ہیں.حضرت حسن اور حسین جو اس وقت بڑے ہو چکے تھے دوڑے ہوئے آئے اور کہنے لگے آپ رسول کریم صلی الم کے زمانے میں اذان دیا کرتے تھے.انہوں نے کہا ہاں.تو کہنے لگے ہمیں بھی اپنی اذان سنائیں.چنانچہ انہوں نے اذان دی اور لوگوں نے سنی.3 حضرت عمر نے جب اپنے دورِ خلافت میں شام میں وظیفے کے لیے دفتر مرتب کروائے یعنی اکاؤنٹ کے رجسٹر وغیرہ بنوائے، کھاتے وغیرہ بنوائے اور سارا ریکارڈ مکمل کروایا تو حضرت بلال شام چلے گئے اور وہیں مجاہدین کے ساتھ مقیم ہو گئے.حضرت عمر نے حضرت بلال سے پوچھا کہ اے بلال ! تم اپنے وظیفے کا دفتر کس کے پاس رکھو گے.یعنی اپنے حساب کتاب کی نمائندگی کس کے سپر د کرنا چاہتے ہو.کون ہو گا تمہارا نمائندہ یہاں ؟ تو انہوں نے جواب دیا ابور و نیچے کے پاس جن کو میں اس اخوت کی وجہ سے کبھی نہ چھوڑوں گاجور سول اللہ صلی العلیم نے میرے اور ان کے درمیان قائم فرمائی تھی.134 433 آپ کی صاف گوئی حضرت بلال کی صاف گوئی کا واقعہ ایک روایت میں یوں ملتا ہے.عمرو بن میمون اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلال کے ایک بھائی خود کو عرب کی طرف منسوب کرتے تھے اور وہ خیال کرتے تھے کہ وہ انہی میں سے ہیں.انہوں نے عرب کی ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اگر حضرت بلال آئیں تو ہم تم سے نکاح کر دیں گے.حضرت بلال آئے اور تشہد پڑھا.پھر کہا کہ میں بلال بن رباح ہوں اور یہ میر ابھائی ہے اور یہ اخلاق اور دین کے لحاظ سے اچھا آدمی نہیں ہے اگر تم اس

Page 190

تاب بدر جلد 4 174 سے نکاح کرنا چاہو تو کر دو اور اگر ترک کرنا چاہو تو ترک کر دو.انہوں نے کہا کہ جس کے آپ بھائی ہیں اس سے ہم نکاح کر دیں گے.پس انہوں نے آپ کے بھائی سے نکاح کر دیا.435 بلال کا مقام و مر تبہ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ بنو آبو بگیر رسول کریم ملی نیم کے پاس آئے کہ فلاں شخص سے ہماری بہن کا نکاح کر دیں.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ بلال کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ لوگ دوسری مرتبہ آئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! ہماری بہن کا فلاں شخص سے نکاح کر دیں.آپ نے فرمایا تم لوگوں کا بلال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ لوگ انکار کر کے چلے گئے.پھر تیسری مرتبہ آئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! ہماری بہن کا فلاں شخص سے نکاح کر دیں.آپ نے فرمایا تم لوگوں کا بلال کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ تم لوگوں کا ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اہل جنت میں سے ہے ؟ راوی کہتے ہیں اس پر ان لوگوں نے حضرت بلال سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا.حوالہ جو پہلے میں نے کہا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ شادیاں نہیں ہوئی تھیں.وہ بات شاید کسی اور سیاق و سباق کے تحت ہو.شادیاں پہلے ہوئی تھیں.اور یہ بھی ایک حوالہ ہے.436 غلاموں کا دربار خلافت میں رئیسان مکہ سے پہلے ملاقات کے لئے جانا و...حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ ” ایک دفعہ حضرت عمررؓ کے عہد خلافت میں وہ (یعنی سہیل بن عمرو ) اور ابوسفیان اور بعض دوسرے رؤسائے مکہ جو فتح کے وقت مسلمان ہوئے تھے حضرت عمر کو ملنے کے لیے گئے.حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں ابو سفیان اور بعض دوسرے رؤسائے مکہ جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے حضرت عمرؓ کو ملنے کے لیے گئے.اتفاق سے اسی وقت بلال اور عمار اور صہیب وغیرہ بھی حضرت عمرؓ سے ملنے کے لیے آگئے.یہ وہ لوگ تھے جو غلام رہ چکے تھے اور بہت غریب تھے مگر ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتدا میں اسلام قبول کیا تھا.حضرت عمر کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے بلال وغیرہ کو پہلے ملاقات کے لیے بلایا.ابو سفیان نے جس کے اندر غالباً ابھی تک کسی قدر جاہلیت کی رگ باقی تھی یہ نظارہ دیکھا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی.چنانچہ کہنے لگا یہ ذلت بھی ہمیں دیکھنی تھی کہ ہم انتظار کریں اور ان غلاموں کو شرف ملاقات بخشا جاوے.سہیل نے فوراً سامنے سے جواب دیا کہ پھر یہ کس کا قصور ہے ؟ محمد علی ای کم نے ہم سب کو خدا کی طرف بلایا لیکن انہوں نے فورامان لیا اور ہم نے دیر کی.پھر ان کو ہم پر فضیلت حاصل ہو یا نہ ہو ؟437 حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کا ذکر اس طرح کیا ہے اور حضرت بلال کے مقام و مرتبہ کا ذکر فرماتے ہوئے کہ حضرت عمر اپنی خلافت کے زمانے میں ایک دفعہ مکہ میں آئے تو وہی غلام جن کو سر کے بالوں سے پکڑ کر لوگ گھسیٹا کرتے تھے ایک ایک کر کے حضرت عمر کی ملاقات کے لیے آنا شروع ہوئے.وہ عید کا دن تھا اور ان غلاموں کے آنے سے پہلے مکہ کے بڑے بڑے رؤساء کے بیٹے آپ کو

Page 191

ناب بدر جلد 4 175 سلام کرنے کے لیے حاضر ہو چکے تھے.ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ بلال آئے.وہی بلال جو غلام رہ چکے تھے ، جن کو لوگ مارا پیٹا کرتے تھے، جن کو کھردرے اور نوکیلے پتھروں پر ننگے جسم سے گھسیٹا کرتے تھے ، جن کے سینے پر بڑے بڑے وزنی پتھر رکھ کر کہا کرتے تھے کہ کہو میں لات اور عزیٰ کی پرستش کروں گا مگر وہ یہی کہتے تھے کہ اَشْهَدُ اَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللہ.حضرت عمرؓ نے جب بلال کو دیکھا تو ان رؤساء سے فرمایا: ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور بلال کو بیٹھنے کی جگہ دو.ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ ایک اور غلام صحابی آگئے.حضرت عمر نے پھر ان رؤساء سے فرمایا: ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کو بیٹھنے دو.تھوڑی دیر گزری تھی تو ایک اور غلام صحابی آگئے.حضرت عمرؓ نے حسب معمول ان رؤساء سے پھر فرمایا کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کو بیٹھنے کی جگہ دو.اتفاق کی بات ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل کرنا تھا اس لیے یکے بعد دیگرے آٹھ دس غلام آگئے اور ہر دفعہ حضرت عمران رؤساء سے یہی کہتے چلے گئے کہ پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کو بیٹھنے کی جگہ دو.ان دنوں بڑے بڑے ہال نہیں بنائے جاتے تھے بلکہ معمولی کو ٹھڑیاں ہوتی تھیں جن میں زیادہ آدمی نہیں بیٹھ سکتے تھے.جب تمام غلام صحابہ کمرے میں بھر گئے تو مجبوراً ان رؤساء کو جو تیوں والی جگہ میں بیٹھنا پڑا.یہ ذلت ان کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی.وہ اسی وقت اٹھے اور باہر آکر ایک دوسرے سے کہنے لگے.دیکھا ! آج ہمیں کیسا ذلیل کیا گیا ہے.یہ غلام جو ہماری خد متیں کیا کرتے تھے ان کو تو اوپر بٹھایا گیا ہے مگر ہمیں پیچھے بٹنے پر مجبور کیا گیا ہے یہاں تک کہ ہٹتے ہٹتے ہم جو تیوں والی جگہ پر جا پہنچے اور سب لوگوں کی نگاہ میں ذلیل اور رسوا ہوئے.ایک شخص جو ان میں سے زیادہ سمجھدار تھا جب اس نے یہ باتیں سنیں تو کہا یہ ٹھیک ہے کہ ہماری رسوائی ہوئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کس کی کرتوتوں سے ہوا.ہمارے باپ بھائی جب محمد رسول اللہ صلی علیہ یکم اور ان کے ساتھیوں کو مارا پیٹا کرتے تھے اس وقت یہ غلام آپ پر اپنی جانیں فدا کیا کرتے تھے.آج چونکہ محمد رسول اللہ صلی علیکم کی حکومت ہے اس لیے تم خود ہی فیصلہ کر لو کہ ان کو ماننے والے کن لوگوں کو عزت دیں گے.آیا تم کو جو مارا کرتے تھے یا ان غلاموں کو جو اپنی جانیں اسلام کے لیے قربان کیا کرتے تھے.اگر انہی کو عزت ملنی چاہیے تو پھر تمہیں آج کے سلوک پر شکوہ کیوں پیدا ہوا؟ تمہارے اپنے باپ دادا کے اعمال کا یہ نتیجہ ہے کہ تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو رہا جو غلاموں کے ساتھ ہو رہا ہے.یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں آگئی.جب ایک عظمند شخص نے یہ بات کہی تو کہنے لگے ہم حقیقت کو سمجھ گئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس رسوائی کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں.بیشک ہمارے باپ دادا سے بڑا قصور ہوا ہے مگر آخر اس قصور کا کوئی علاج بھی ہونا چاہیے جس سے یہ ذلت کا داغ ہماری پیشانی سے دھل سکے.اس پر سب نے فیصلہ کیا کہ ہماری سمجھ میں تو کوئی بات نہیں آتی.چلو حضرت عمرؓ سے ہی پوچھیں کہ اس رسوائی کا کیا علاج ہے.جب وہ دوبارہ حضرت عمر کے پاس گئے.اس وقت تک مجلس برخاست ہو چکی تھی اور صحابہ سب جاچکے تھے.انہوں نے حضرت عمر سے کہا کہ آج ہمیں اس مجلس میں آکر جو دکھ پہنچا ہے اس کے متعلق ہم آپ سے مشورہ

Page 192

تاب بدر جلد 4 176 کرنے آئے ہیں.حضرت عمرؓ نے کہا دیکھو برا نہ منانا.یہ لوگ رسول کریم صلی الم کے صحابہ تھے اور رسول کریم صلی اللہ کم کی مجلس میں ہمیشہ آگے بیٹھا کرتے تھے.اس لیے میں بھی مجبور تھا کہ انہیں آگے بٹھاتا.بیشک تمہیں میرے اس فعل سے تکلیف ہوئی ہو گی مگر میں مجبور تھا.انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی اس مجبوری کو سمجھتے ہیں.ہم صرف یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا اس ذلت کا کوئی علاج بھی ہے اور کیا کوئی پانی ایسا ہے جس سے یہ داغ دھویا جاسکے.حضرت عمر جو اُن نوجوانوں کے باپ دادا کی شان و شوکت اور ان کے رعب اور دبدبے کو دیکھ چکے تھے جب انہوں نے ان نوجوانوں کی یہ بات سنی تو آپ کی آنکھوں میں آنسوڈ بڈبا آئے کہ یہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے کہاں سے کہاں آگرے ہیں اور آپ پر رفت اس قدر غالب آئی کہ آپ ان کی بات کا جواب تک نہ دے سکے.صرف ہاتھ اٹھا کر شام کی طرف جہاں ان دنوں قیصر کی فوجوں سے لڑائی ہو رہی تھی اشارہ کر دیا.مطلب یہ تھا کہ اب ذلت کا یہ داغ اسی طرح دھل سکتا ہے کہ اس لڑائی میں شامل ہو کر اپنی جان دے دو.چنانچہ وہ اسی وقت باہر نکلے اپنے اونٹوں پر سوار ہوئے اور شام کی طرف روانہ ہو گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں سے ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا.اس طرح انہوں نے اپنے خون کے ساتھ اس ذلت کے داغ کو مٹایا جو ان کی پیشانی پر اپنے باپ دادا کے افعال کی وجہ سے لگ گیا تھا.8 شروع میں وفاد کھانے والے کا مقام اونچا ہے 438 پس ایک تو یہ ہے کہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں تبھی مقام ملتا ہے اور اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم ہے کہ جو قربانیاں کرنے والے ہیں، جو شروع سے ہی وفاد کھانے والے ہیں ان کا مقام بہر حال اونچا ہے چاہے وہ حبشی غلام ہو یا کسی نسل کا غلام ہو.اور یہ وہ مقام ہے جو اسلام نے حق پر رکھا ہے، جو اپنے میرٹ پر رکھا ہے اور ہر ایک کو ملتا ہے.یہ نہیں کہ کون امیر ہے کون غریب ہے.قربانیاں کرنے والے ہوں گے، وفا کرنے والے ہوں گے، اپنی جانیں نثار کرنے والے ہوں گے، ہر چیز قربان کرنے والے ہوں گے تو ان کو مقام ملے گا.439 رسول اللہ صل الم کا فرمانا اے بلال کیا وجہ ہے تم جنت میں مجھ سے آگے رہتے ہو عبد اللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک صبح کو رسول اللہ صلی علیم نے حضرت بلال کو بلایا اور پوچھا.اے بلال! کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں مجھ سے آگے رہتے ہو.جب کل شام میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے.حضرت بلال نے عرض کیا کہ میں جب بھی اذان دیتا ہوں تو دورکعت نفل نماز پڑھتا ہوں اور جب بھی میر اوضو ٹوٹ جاتا ہے تو میں وضو کر لیتا ہوں اور میں خیال کرتا ہوں کہ اللہ کی طرف سے مجھ پر دور کعت ادا کرنا واجب ہے.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا پھر یہی وجہ ہے.440

Page 193

اصحاب بدر جلد 4 177 ایک دوسری روایت میں یوں مذکور ہے کہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی ا ہم نے حضرت بلال سے صبح کی نماز کے وقت فرمایا: بلال مجھے بتاؤ جو سب سے زیادہ امید والا عمل تم نے اسلام میں کیا ہو کیونکہ میں نے بہشت میں اپنے آگے تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے.حضرت بلال نے کہا اپنے نزدیک تو میں نے اس سے زیادہ امید والا عمل اور کوئی نہیں کیا کہ جب بھی میں نے رات کو یا دن کو کسی وقت وضو کیا تو میں نے اس وضو کے ساتھ نماز ضرور پڑھی ہے جتنی بھی میرے لیے پڑھنا مقدر تھی.یہ بخاری کی روایت ہے.441 اس کا یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت صلی لی نام سے بڑھ کر آپ ہو گئے بلکہ صرف یہ کہ پاکیزگی اور مخفی عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ مقام دیا کہ وہ جنت میں بھی اسی طرح آنحضرت صلی علیم کے ساتھ ہیں جس طرح دنیا میں تھے جیسا کہ گذشتہ ایک روایت میں بھی ذکر ہوا تھا کہ عید کے روز حضرت بلال نیزہ پکڑ کر آنحضرت صلی الی یکم کے آگے چلتے تھے اور پھر قبلہ رخ نیزہ گاڑتے تھے اور آنحضرت صلی لیکن وہاں عید پڑھاتے تھے تو بہر حال ان کا یہ اعزاز ان کی پاکیزگی اور عبادت کی وجہ سے جنت میں بھی اللہ تعالی نے قائم رکھا اور آنحضرت صلی تعلیم نے ان کو اپنے ساتھ ایک نظارے میں دیکھا.اے کاش! میں بلال کی ماں کے بطن سے پیدا ہوتا ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جب مجھے جنت کی طرف رات کو لے جایا گیا تو میں نے قدموں کی چاپ سنی.میں نے کہا اے جبرئیل امیہ قدموں کی چاپ کیسی ہے ؟ جبرئیل نے کہا یہ ابو پیدا بلال ہیں.حضرت ابو بکر نے کہا کہ اے کاش! میں بلال کی ماں کے بطن سے پید اہو تا.اے کاش ! بلال کا باپ میر اباپ ہوتا اور میں بلال کی طرح ہوتا.442 کیا اعلیٰ مقام ہے اس بلال کا جسے ایک وقت میں حقیر سمجھ کر پتھروں پر گھسیٹا جاتا تھا.حضرت ابو بکر خواہش کر رہے ہیں کہ کاش میں بلال ہو تا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ابتدائی صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ اس طرح تحریر فرمایا ہے کہ ”بلال بن رباح جو امیہ بن خلف کے حبشی غلام تھے.ہجرت کے بعد مدینہ میں اذان دینے کا کام انہی کے سپر د تھا مگر آنحضرت صلی علیم کے بعد انہوں نے اذان کہنا چھوڑ دیا تھا لیکن جب حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں شام فتح ہوا تو ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے اصرار پر انہوں نے پھر اذان کہی جس پر سب کو آنحضرت علی علیہ یم کا زمانہ یاد آگیا چنانچہ وہ خود اور حضرت عمرؓ اور دوسرے اصحاب جو اس وقت موجود تھے اتنے روئے کہ ہچکی بندھ گئی.حضرت عمر کو بلال سے اتنی محبت تھی کہ جب وہ فوت ہوئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا آج مسلمانوں کا سردار گذر گیا.یہ ایک غریب حبشی غلام کے متعلق بادشاہ وقت کا قول تھا.“ 443<<

Page 194

اصحاب بدر جلد 4 178 ایک موقعے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے احمدی مستورات سے خطاب فرماتے ہوئے یہ جو آیتِ قرآنی ہے کہ الْمَالُ وَ الْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَالْبقِيتُ الصَّلِحْتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَ خَيْرٌ املاً یہ بیان فرمائی اور اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت بلال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ” ایک ہی چیز ہے جو باقی رہنے والی ہے اور وہ ہے و البقيتُ الصلحت وہ کام جو خدا کے لیے کرو گی باقی رہے گا.“ پھر آپ نے فرمایا کہ ”آج ابو ہریرہ کی اولاد کہاں ہے ، مکان کہاں ہیں ؟ کوئی جائیداد نہیں، اولاد نہیں.ہم نہیں جانتے اولاد کہاں ہے کہ نہیں ہے.لیکن ہم جنہوں نے نہ ان کی اولاد د یکھی، نہ مکان دیکھے ، نہ جائید اور یھی ہم جب ان کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ.“ آپ فرماتے ہیں کہ چند دن ہوئے ایک عرب آیا اس نے کہا کہ میں بلال کی اولاد میں سے ہوں.اس نے معلوم نہیں سچ کہا یا جھوٹ مگر میرا دل اس وقت چاہتا تھا کہ میں اس سے چمٹ جاؤں کہ یہ اس شخص کی اولاد میں سے ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی علیکم کی مسجد میں اذان دی تھی.آج بلال کی اولاد کہاں ہے ؟“ ہم نہیں جانتے کوئی اولاد ہے بھی کہ نہیں اور ہے تو کہاں ہے.”اس کے مکان کہاں ہیں ؟ کوئی جائیدادیں ہمیں نظر نہیں آتیں.اس کی جائیداد کہاں ہے ؟ مگر وہ جو اس نے محمد رسول اللہ صلی للی نیم کی مسجد میں اذان دی تھی وہ اب تک باقی ہے اور باقی رہے گی.4446 اور یہ وہ نیکیاں ہیں جو باقی رہنے والی نیکیاں ہیں.حضرت بلال سے چوالیس احادیث مروی ہیں.صحیحین میں چار روایات آئی ہیں.445 جنت تین لوگوں سے ملنے کی مشتاق ہے ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جنت تین لوگوں سے ملنے کی بہت مشتاق ہے.علی، عمار اور بلال 446 ایک دفعہ حضرت عمررؓ حضرت ابو بکر کے فضائل بیان کر رہے تھے.آپ نے حضرت ابو بکر کے فضائل بیان کرتے ہوئے حضرت بلال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ بلال جو ہیں ہمارے سردار ہیں.حضرت ابو بکر کے فضائل بیان کر رہے ہیں اور وہاں حضرت بلال بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے ان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ بلال جو ہیں ہمارے سردار ہیں اور حضرت ابو بکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہیں.447 کیونکہ حضرت ابو بکر نے حضرت بلال کو خرید کر غلامی سے آزاد کروایا تھا.عائذ بن عمر و سے روایت ہے کہ حضرت سلمان، حضرت صہیب اور حضرت بلال کے پاس جو ایک مجمع میں تھے ابوسفیان آئے تو اس پر ان لوگوں نے کہا اللہ کی قسم ! اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن پر اپنی جگہ پر نہ پڑیں.راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے کہا کیا تم قریش کے معزز اور ان کے سردار کے بارے میں ایسا کہتے ہو ؟ حضرت ابو بکر نے جب ان کو یہ باتیں کرتے سنا کہ صحیح طرح ہم نے ان سے بدلہ نہیں لیا تو حضرت ابو بکر کو یہ بات اچھی نہیں لگی.آپؐ نے فرمایا کہ تم قریش کے سردار کے بارے میں

Page 195

179 ناب بدر جلد 4 ایسی بات کہتے ہو ؟ اور اس کے بعد پھر وہ نبی کریم صلی ا کرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ ہم کو بات بتائی.اس پر آپ صلی علی کرم نے فرمایا اے ابو بکر شاید تم نے انہیں ناراض کر دیا ہے.اگر تم نے انہیں ناراض کیا تو یقینا تم نے اپنے رب کو ناراض کیا.اس پر حضرت ابو بکر ان کے پاس آئے اور کہا اے پیارے بھائیو! میں نے تمہیں ناراض کر دیا؟ حضرت ابو بکر تو یہ بات لے کر گئے تھے کہ آنحضرت صلی علی کم اس پر ان کو کچھ روکیں گے ، ٹوکیں گے لیکن الٹا آنحضرت صلی الی تم نے فرمایا کہ تم نے ان لوگوں کو ناراض کر دیا اور حضرت ابو بکر کا بھی دیکھیں کیا مقام تھا فوری طور پر ان غریب لوگوں کے پاس واپس گئے اور انہیں کہا پیارے بھائیو ! میں نے تمہیں ناراض کر دیا ہے ؟ انہوں نے کہا: نہیں نہیں اے بھائی ! اللہ آپ کی مغفرت فرمائے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے.آپ نے ہمیں ناراض نہیں کیا.48 رسول کریم ملی ان کا اپنا بچا ہو اپانی ایک بشارت کے ساتھ عطا فرمانا حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی علیکم کے پاس تھا جبکہ آپ جعرانہ میں قیام فرما تھے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے.حضرت بلال آپ کے ساتھ تھے.ایک اعرابی شخص رسول اللہ صلى ال علم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا آپ مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا نہ فرمائیں گے ؟ رسول اللہ صلی علیم نے اسے فرمایا تمہیں خوشخبری ہو.اس پر بدوی کہنے لگا کہ مجھے ابشر یعنی تمہیں خوشخبری ہو آپ بڑی دفعہ کہہ چکے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی علیکم حضرت ابو موسی اور حضرت بلال کی طرف متوجہ ہوئے جیسے کوئی ناراض ہو.پھر اس بدوی کی طرف نہیں دیکھا.ان دونوں کی طرف متوجہ ہو گئے اور فرمایا کہ اس نے بشارت کو رد کر دیا.میں اس کو خوشخبری دے رہا ہوں.اس نے خوشخبری کورڈ کیا ہے.پس تم دونوں یہ بشارت قبول کر لو.ان دونوں نے عرض کیا کہ یار سول اللہ ! ہم نے قبول کیا.پھر رسول اللہ صلی علیہم نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا.اس پانی سے اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ دھویا اور اس سے کلی کی.پھر فرمایا تم دونوں اس میں سے پی لو اور دونوں اپنے چہروں اور سینوں پر انڈیل لو اور خوش ہو جاؤ.چنانچہ ان دونوں نے وہ پیالہ لیا اور ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ صل العالم نے انہیں کرنے کا حکم فرمایا تھا تو پردے کے پیچھے سے حضرت ام سلمہ نے انہیں پکارا کہ جو تم دونوں کے برتن میں ہے اس میں سے کچھ اپنی ماں کے لیے یعنی حضرت ام سلمہ ، ام المومنین کے لیے بھی بچاؤ تو ان دونوں نے ان کے لیے اس میں سے کچھ بچا دیا.449 نبی کریم صلی الم کے چودہ نقیب حضرت علی بن ابو طالب روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی علیم نے فرمایا ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے سات نقیب عنایت فرمائے ہیں اور مجھے چودہ یعنی دو گنے نقیب عطا ہوئے ہیں.ہم نے عرض کیا وہ کون ہیں ؟ حضرت علی نے کہا.میں ، میرے دونوں بیٹے اور جعفر اور حمزہ اور ابو بکر اور عمرؓ اور مصعب بن عمیر اور بلال اور سلمان اور مقد اڈ اور ابو ذر اور عمار اور عبد اللہ بن مسعودؓ 450

Page 196

اصحاب بدر جلد 4 موذنوں کا سردار 180 451 حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی یہ ہیم نے فرمایا بلال کیا ہی اچھا انسان ہے.وہ تمام مؤذنوں کا سردار ہے.اس کی پیروی کرنے والے صرف مؤذن ہی ہوں گے اور قیامت کے دن سب سے لمبی گردنوں والے موذن ہی ہوں گے.حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی یکم نے فرمایا: بلال کتنا ہی اچھا انسان ہے کہ شہداء اور موذنوں کا سردار ہے اور قیامت والے دن سب سے لمبی گردن والے حضرت بلال ہوں گے یعنی بڑی عزت کا مقام ان کو ملے گا.452 ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرما یا بلال کو جنت کی اونٹنیوں میں سے ایک اونٹی دی جائے گی اور وہ اس پر سوار ہوں گے.بلال سے کبھی ناراض نہ ہونا 453 حضرت بلال کی اہلیہ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی علیہ کی میرے پاس آئے اور سلام کیا.فرمایا کیا بلال یہاں ہیں ؟ میں نے جواب دیا کہ گھر نہیں آئے.آنحضرت صلی الم نے فرمایا: لگتا ہے تم بلال سے ناراض ہو.میں نے کہا وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور وہ ہر بات پر یہی کہتے ہیں کہ یہ بات رسول اللہ صلی ایم نے فرمائی ہے.یہ بات رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمائی ہے.پس رسول کریم صلی علی کلم نے حضرت بلال کی بیوی کو فرمایا کہ بلال مجھ سے جو بات تم تک پہنچائیں وہ یقینا سچی ہو گی اور بلال تم سے غلط بات نہیں کرے گا.پس تم بلال پر کبھی ناراض نہ ہوناور نہ اس وقت تک تمہارا کوئی عمل قبول نہ ہو گا جب تک تم نے بلال کو ناراض رکھا.454 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت علی سلیم نے فرمایا کہ بلال کی مثال تو شہد کی مکھی جیسی ہے جو میٹھے پھلوں اور کڑوی بوٹیوں سے بھی رس چوستی ہے مگر جب شہد بنتا ہے تو سارے کا سارا شیریں گا بنتا 455 ہو جاتا ہے.سب میٹھا ہو جاتا ہے.حضرت بلال کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت بلال جب بستر پر لیٹتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ اللهُم تَجَاوَزْ عَن سَيِّئَاتِ وَاعْنُدْنِي بِعِلاتي - اے اللہ ! تو میری خطاؤں سے در گذر فرما اور میری کو تاہیوں کے بارے میں مجھے معذور سمجھ.456 حضرت بلال سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم نے مجھ سے فرمایا: اے بلال ! غریبی میں مرنا اور امیری میں نہ مرنا.میں نے عرض کیا کہ وہ کیسے ؟ یہ کس طرح ہو کہ میں غریبی میں مروں اور امیری میں نہ مروں.اس کی سمجھ نہیں آئی تو رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا: جو رزق تمہیں عطا کیا جائے اسے سنبھال کر نہ رکھنا اور جو چیز تم سے مانگی جائے اس سے منع نہ کرنا.میں نے عرض کی یارسول اللہ ! اگر

Page 197

ب بدر جلد 4 181 457 میں ایسا نہ کر سکا تو کیا ہو گا؟ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا: ایسا ہی کرنا ہو گا ورنہ آگ ٹھکانہ ہو گی.7 یعنی کسی سائل کو دھتکار نا نہیں اور یہ نہیں کہ صرف جوڑتے رہو اور خرچ نہ کرو.خرچ کرنا بھی ضروری ہے.وفات و تدفین حضرت بلال کی وفات حضرت عمر کے دورِ خلافت میں ہیں ہجری میں دمشق شام میں ہوئی.بعض کے نزدیک آپ کی وفات حلب میں ہوئی.اس وقت حضرت بلال کی عمر ساٹھ سال سے زائد تھی.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت بلال کی وفات اٹھارہ ہجری میں ہوئی.آپ کی تدفین دمشق کے قبرستان میں باب الصغیر کے پاس ہوئی.158 حضرت خلیفتہ المسیح الثانی حضرت بلال کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اس حوالے میں سے بعض باتیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں لیکن بات کا جو تسلسل ہے اس کی وجہ سے شاید یہاں دوبارہ شروع کی ایک دو باتیں آجائیں.حضرت بلال حبشی تھے عربی زبان نہیں جانتے تھے اور عربی بولتے ہوئے وہ بہت سی غلطیاں کر جاتے تھے مثلاً حبشہ کے لوگ شین کو سین کہتے تھے.چنانچہ بلال جب اذان دیتے ہوئے اَشْهَدُ کو استھد کہتے تو عرب لوگ ہنستے تھے کیونکہ ان کے اندر قومی برتری کا خیال پایا جاتا تھا حالانکہ دوسری زبانوں کے بعض الفاظ خود عرب بھی نہیں ادا کر سکتے.مثلاً وہ روٹی کو ، عرب جو ہیں روٹی کو روٹی نہیں کہہ سکتے ، روتی کہیں گے.ت بولیں گےٹ کی بجائے اور چوری کو بجوری کہیں گے چ نہیں بول سکتے ج بولیں گے.فرمایا کہ جس طرح غیر عرب عربی کے بعض الفاظ ادا نہیں کر سکتے اسی طرح عرب بھی غیر زبانوں کے بعض الفاظ نہیں ادا کر سکتے لیکن ان میں قومی برتری کا جو نشہ ہے تو وہ یہ بات سوچتے نہیں کہ ہم بھی تو دوسری زبانوں کے بعض الفاظ نہیں استعمال کر سکتے.رسول کریم صلی علیکم نے بلال کے اشهَدُ پر دوسرے لوگوں کو ہنستے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا تم بلال کی اذان پر ہنستے ہو حالا نکہ جب وہ اذان دیتا ہے تو اللہ تعالی عرش پر خوش ہوتا ہے اور تمہارے اَشْهَدُ سے اس کا اَشهَدُ کہنا خدا تعالیٰ کو زیادہ پیارا لگتا ہے.بلال حبشی تھے اور حبشی اس زمانے میں غلام بنائے جاتے تھے بلکہ گذشتہ صدیوں میں بھی، قریب کی صدیوں میں بھی غلام بنائے گئے بلکہ آج تک بنائے جارہے ہیں لیکن رسول کریم صلی ام ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے نزدیک کوئی غیر قوم مقہور و ذلیل ہوتی ہے.آپ کے نزدیک سب قو میں یکساں طور پر خدا تعالیٰ کی مخلوق تھیں.آپ کو یونانیوں اور حبشیوں سے بھی ویسا ہی پیار تھا جیسے عربوں سے.کوئی فرق نہیں تھا.عرب بھی ویسے تھے ، اسی طرح پیارے تھے.آپ کو افریقی بھی اسی طرح پیارے تھے جیسے عرب پیارے تھے، جیسے یونانی پیارے تھے.یہی محبت تھی جس نے ان غیر قوموں کے دلوں میں آپ کا وہ عشق پیدا کر دیا تھا جس کو عرب کے بھی بہت سے لوگ نہیں سمجھ سکتے تھے.آپ کی اسی محبت کی وجہ سے ان

Page 198

182 ب بدر جلد 4 نہیں.لوگوں کے دلوں میں بھی آپ صلی علیہ کم سے ایک عشق پیدا ہو گیا تھا جس کی ان لوگوں کو جن کو فراست تھی، جن کو اس محبت کا ادراک نہیں تھا، جن کو وفا اور محبت کے اسرار ورموز کا پتہ نہیں تھا ان کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کس طرح ہو رہا ہے.رسول کریم صلی علیہ کی مکہ میں پیدا ہوئے پھر عرب قوم میں پیدا ہوئے اور عربوں سے بھی قریش کے قبیلہ میں پیدا ہوئے جو دوسری عرب قوموں کو بھی حقیر اور ذلیل سمجھتا تھا.سب سے اچھا قبیلہ آپ کا تھا.آپ کو حبشیوں سے کیا جوڑ تھا.اگر آپ صلی ٹیم سے کسی قوم یا قبیلے کو محبت ہونی چاہئے تھی تو بو باشم کو ہونی چاہئے تھی.آپ سے کسی کو محبت ہونی چاہئے تھی تو قریش کو ہونی چاہئے تھی یا پھر عرب کے لوگوں کو ہونی چاہئے تھی کہ وہ آپ کے ہم قوم تھے اس لیے ان لوگوں کو بھی آپ سے محبت ہونی چاہئے تھی.غیر قوموں کے دلوں میں جن کی حکومتوں کو آپ کے لشکروں نے پامال کر دیا تھا جن کی قومی سرداری کو اسلامی سلطنت نے تباہ کر کے رکھ دیا تھا محبت ہو ہی کیسے سکتی تھی.غیر قوموں سے جنگیں ہوئیں، ان کو شکست ہوئی اور ان کی حکومتیں ختم ہو گئیں لیکن اس کے باوجود ان میں آنحضرت صلی للی نیم کے لیے ایک محبت پیدا ہو گئی.وہ کس طرح پیدا ہو سکتی تھی ؟ انہیں تو آپ سے دشمنی ہونی چاہئے تھی.لیکن واقعات کیا ہیں.اس کے لیے ہم پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کی قوم کی اس محبت کا جائزہ لیتے ہیں جو اسے اپنے آقا کے ساتھ تھی.جب آپ پکڑے گئے یعنی حضرت مسیح علیہ السلام جب پکڑے گئے اور آپ کے خاص حواری پطرس کو جسے آپ نے اپنے بعد خلیفہ بھی مقرر کیا تھا، پولیس نے کہا کہ تم اس کے پیچھے پیچھے کیوں آرہے ہو ؟ معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ ہو.پولیس کو شک گزرا کہ تم اس کے پیچھے آرہے ہو.تم بھی اس کے ساتھ ہو تو ڈر گیا.اس نے فوراً کہا کہ میں اس کا مرید نہیں ہوں.میں تو لعنت بھیجتا ہوں.نہ صرف انکار کر دیا بلکہ لعنت بھی بھیج دی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ علیہ السلام کے حواری آپ سے محبت ضرور کرتے تھے.حضرت عیسی کے جو حواری تھے وہ تھے ایسے اور آپ سے محبت بھی کرتے تھے.بعد میں پطرس بھی روما میں صلیب پر لٹکایا گیا اور اس نے بڑی دلیری کے ساتھ موت کو قبول کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی محبت اور اطاعت سے انکار نہیں کیا لیکن جب حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا تو اس وقت اس کا ایمان پختہ نہیں تھا.اس وقت وہ دو چار تھپڑوں سے ڈر گیا مگر بعد میں اس نے صلیب کو بھی نہایت خوشی سے قبول کیا.بہر حال یہ ایک نظارہ تھا اس محبت کا جو مسیح علیہ السلام سے آپ کی قوم کو تھی.اس پر اب آپ کی قوم کے مقابلے میں ہم ان غلاموں کو دیکھتے ہیں جو رسول کریم ملی اعلام پر ایمان لائے اور پھر وہیں کے ہو کے رہ گئے.بلال جو حبشی غلام تھے اس سے رسول کریم صلی ال نیم کو جو محبت بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا بلال پر کیا اثر تھا.بعض لوگوں کو ظاہری طور پر اپنے محبوب سے گہری محبت ہوتی ہے لیکن حقیقتاً ان کی محبت ایک دائرے کے اندر محدود ہوتی ہے.ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ رسول

Page 199

اب بدر جلد 4 183 کریم صلی الم نے بلال سے ، جس کے حبشی غلام ہونے کی وجہ سے قریش ہی نہیں بلکہ سارے عرب نفرت کا اظہار کرتے تھے ، جس محبت کا اظہار کیا آیا وہ ایک عام رواداری کی روح کی وجہ سے تھا.یہ رواداری تھی کہ محبت کرنی ہے، اس کا دل رکھنا ہے یہ اس لیے تھا یا حقیقی محبت کا مظاہرہ تھا.دکھاوے کی محبت تھی یا حقیقی محبت تھی.اس کا جائزہ بلال ہی لے سکتے ہیں ہم نہیں لے سکتے.اگر جائزہ لینا ہے تو پھر حضرت بلال کے پاس جانا پڑے گا کیونکہ وہی صحیح جائزہ لے سکتے ہیں.اس واقعہ پر تیرہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے.ہم اس کا جائزہ کیا لے سکتے ہیں.دیکھنا یہ ہے کہ بلال نے آپ کی محبت کے اظہار کو کیا سمجھا.آنحضرت صلی علیہ ہم کو بلال سے جو حقیقی محبت تھی انہوں نے اسے کیا سمجھا ؟ یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ میں نے کیا سمجھا.یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ ہم سے پہلی صدی کے لوگوں نے کیا سمجھا.یہاں یہ سوال نہیں کہ اس سے پہلی صدی کے لوگوں نے کیا سمجھا.یہاں یہ سوال بھی نہیں کہ خود صحابہ نے کیا سمجھا.ان باتوں کو چھوڑو کہ دوسروں نے کیا سمجھا بلکہ سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی علیم کے زمانے کے لوگوں نے، صحابہ نے بھی کیا سمجھا بلکہ دیکھنا ہم نے یہ ہے کہ بلال نے کیا سمجھا اور اس کو دیکھنے کے لیے ایک چھوٹا سا یہ فقرہ ہے جو آنحضرت صلی علی یم نے فرمایا جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ تم اسهَدُ کہنے پر مہنتے ہو.آپ نے لوگوں کو کہا حالانکہ اس کی اذان سن کر خدا تعالیٰ بھی عرش پر خوش ہو تا ہے.وہ تمہارے اَشْهَدُ سے اس کے آسھد کی زیادہ قدر کرتا ہے.یہ صرف دلجوئی اور دفع الوقتی کے لیے تھا یا گہری محبت کی بنا پر تھا یا وقتی طور پر اس بات کو ٹالنے کے لیے آپ نے کوئی بات کی تھی یا یہ گہری محبت کی بنا پر بات کی تھی.یہی چھوٹا سا فقرہ جو آپ نے کہا تھا کہ اشہد سے زیادہ اللہ کو اشھد پسند ہے.دیکھنا یہ ہے کہ اس فقرے سے بلال نے کیا سمجھا.بلال نے اس فقرے سے یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کے دل میں خواہ میں غیر قوم کا ہوں اور ایسی قوم کا ہوں جو انسانیت کے دائرے سے باہر سمجھی جاتی ہے اور غلام بنائی جاتی ہے محبت اور عشق ہے.بلال نے یہ سمجھا کہ غیر قوم کا ہونے کے باوجود اور ایسی قوم کا ہونے کے باوجود جس کو غلام بنایا جاتا ہے مجھ سے آپ صلی المیہ ہم نے محبت کی اور عشق کیا.ہم اس واقعہ سے کچھ عرصہ پیچھے جاتے ہیں یہی شخص جو کہتا ہے کہ مَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی علیم کے بارے میں فرمایا مَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعلمین میری موت بھی اللہ کے لیے ہے جو رب العالمین ہے ، فوت ہو جاتا ہے.آپ صلی للی یکم کی وفات ہو گئی.نئی حکومتیں بن جاتی ہیں.نئے افراد آجاتے ہیں اور نئے تغیرات پیدا ہو جاتے ہیں.زمانہ گزر گیا.نئی حکومتیں بھی آگئیں.بہت ساری تبدیلیاں پید اہو گئیں.بعض صحابہ عرب سے سینکڑوں میل باہر نکل جاتے ہیں، انہی صحابہ میں بلال بھی تھے.آنحضرت صلی للی کم کی وفات کے بعد یہ سب تبدیلیاں جو آئیں تو وہ شام چلے جاتے ہیں اور دمشق جا پہنچتے ہیں.ایک دن کچھ لوگ اکٹھے ہوئے.حضرت بلال دمشق میں تھے.وہاں لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ نام کے وقت میں بلال اذان دیا کرتا تھا ہم چاہتے ہیں کہ بلال پھر اذان

Page 200

ناب بدر جلد 4 184 دے.انہوں نے بلال سے کہا.حضرت بلال نے انکار کر دیا کہ نہیں میں اب اذان نہیں دے سکتا.بلال نے کہا کہ رسول کریم ملی ایم کے بعد میں اذان نہیں دوں گا کیونکہ جب بھی میں اذان دینے کا ارادہ کرتا ہوں تو رسول کریم صلی الم کا زمانہ مبارک میرے سامنے آجاتا ہے، میری جذباتی کیفیت ہو جاتی ہے اس لیے میں اذان نہیں دے سکتا.میری برداشت سے یہ بات باہر ہو جاتی ہے.حضرت عمررؓ بھی ان دنوں دمشق میں آئے ہوئے تھے اتفاق سے ان کا بھی دورہ تھا.لوگوں نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ آپ بلال سے کہیے کہ اذان دے.ہم میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی علیکم کو دیکھا ہے اور ہمارے کان ترس رہے ہیں کہ ہم بلال کی اذان سنیں.رسول کریم صلی علیکم کا وہ زمانہ ہمارے سامنے آتا ہے.ہمارے تصورات میں حضرت بلال کی اذانیں آتی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ حقیقت میں بھی ایک دفعہ بلال کی اذان سنیں اور وہ زمانہ ہمارے سامنے ذرا اچھی طرح گھوم جائے.ہم میں وہ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ لہر کا زمانہ نہیں دیکھا صرف باتیں سنی ہیں.ایسے لوگ بھی وہاں موجود تھے ان کے دل خواہش رکھتے ہیں کہ اس شخص کی اذان سن لیں جس کی اذان رسول کریم صلی الم سنا کرتے تھے اور آپ کو پسند بھی تھی.حضرت عمر نے بلال کو بلایا اور فرمایا لوگوں کی خواہش ہے کہ آپ اذان دیں.آپؐ نے فرمایا آپ خلیفہ وقت ہیں آپ کی خواہش ہے تو میں اذان دے دیتا ہوں لیکن یہ بتادوں میں کہ میرا دل برداشت نہیں کر سکتا.حضرت بلال کھڑے ہو جاتے ہیں اور بلند آواز سے اسی رنگ میں اذان دیتے ہیں جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی علیم کے زمانہ میں اذان دیا کرتے تھے.رسول کریم صلی علی نام کے زمانہ کو یاد کر کے آپ کے صحابہ جو عرب کے باشندے تھے یہ اذان سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور بعض کی چیخیں بھی نکل گئیں.حضرت بلال اذان دیتے چلے جاتے ہیں اور سننے والوں کے دلوں پر رسول کریم صلی علیم کے زمانے کو یاد کر کے رقت طاری ہو جاتی ہے لیکن حضرت بلال جو حبشی تھے ، جن سے عربوں نے خدمتیں لیں، جنہیں عربوں سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اور نہ بھائی چارے کا تعلق تھا ہم نے دیکھنا ہے کہ خود ان کے دل پر کیا اثر ہوا.یہ تو اثر ہوا ناں ان عربوں کا جو آنحضرت صلی علیم کے زمانے کے تھے، ان کو زمانہ یاد آگیا.جو اس زمانے کے عرب نہیں تھے ان کو بھی وہ باتیں یاد آگئیں، رقت طاری ہو گئی یا ایک دوسرے کو دیکھ کے رقت طاری ہوئی لیکن حضرت بلال تو جو عرب بھی نہیں تھے غلام بھی تھے ان کو اس اذان کا کیا اثر ہوا.کہتے ہیں کہ حضرت بلال جب اذان ختم کرتے ہیں تو بیہوش ہو جاتے ہیں.یہ اثر ہوتا ہے اور چند منٹ بعد فوت ہو جاتے ہیں.یہ گواہی تھی غیر قوموں کی رسول کریم صلی الم کے اس دعویٰ پر کہ میرے نزدیک عرب اور غیر عرب میں کوئی فرق نہیں ہے.یہ محبت اور یہ عشق سب سے بڑی گواہی ہے جو غیر عرب قوموں نے آپ کے لیے دکھایا.یہ ہے وہ سچی گواہی، عملی گواہی کہ آنحضرت صلی الم نے جو فرمایا کہ عرب اور غیر عرب میں کوئی فرق نہیں تو یہ ہے اس کا اظہار.یہ گواہی الله

Page 201

ب بدر جلد 4 185 تھی غیر قوموں کی جنہوں نے آپ کی محبت بھری آواز کو سنا اور اس کا اثر جو انہوں نے دیکھا اس نے اسے یقین کروا دیا کہ ان کی اپنی قوم ان سے وہ محبت نہیں کر سکتی جو محبت رسول کریم صلی لیکر ان سے کرتے تھے.459 ہر تھے ہمارے سید نابلال جنہوں نے اپنے آقاو مطاع سے عشق و وفا کے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنے دل میں بٹھانے اور پھر اس کے عملی اظہار کے وہ نمونے قائم کیسے جو ہمارے لیے اسوہ ہیں، ہمارے لیے پاک نمونہ ہیں.اور پھر آنحضرت صلی علیہ کم کی بھی اپنے اس غلام سے محبت و شفقت کی وہ داستانیں ہیں جن کی نظیر ہمیں دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آسکتی اور یہی وہ چیز ہے جو آج بھی محبت اور پیار کی فضاؤں کو پیدا کر سکتی ہے ، بھائی چارے کو پیدا کر سکتی ہے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکتی ہے.پس آج بھی ہماری نجات اسی میں ہے کہ توحید کے قیام اور عشق رسولِ عربی کے ان ضمونوں پر قائم ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے.460 47 حضرت تمیم مولی خراش حضرت تمیم مولی خراش.حضرت تمیم حضرت خراش کے آزاد کردہ غلام تھے.آنحضرت صلی علیکم نے آپ کے اور حضرت خباب جو عتبہ بن غزوان کے آزاد کردہ غلام تھے ان کے درمیان مواخات قائم فرمائی.غزوہ بدر، احد میں انہوں نے شرکت کی.461 48 حضرت تمیم بن يعار انصاری ایک بدری صحابی حضرت تمیم بن یعار انصاری تھے.حضرت تمیم کے والد کا نام یعار تھا.آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو جدارة بن عوف بن الحارث سے تھا.آپ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شامل ہوئے تھے.حضرت تمیم کی نا ہوتا ہے.حضرت قسم کی اولاد میں بیٹار بھی اور بیٹی جمیلہ تھیں.ان کی والدہ قبیلہ بنو عمر و سے تھیں.462

Page 202

186 49 صحاب بدر جلد 4 حضرت تمیم مولی بنو هنم انصاری حضرت تمیم مولی بنو غنم انصاری.حضرت تمیم بنو غنم بن التسلم کے آزاد کردہ غلام تھے.آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.3 463 50 حضرت ثابت بن اقرم بن ثعلبہ 464 ان کا نام حضرت ثابت بن اقرم بن ثعلبہ بن عدی بن عجلان تھا.انصاری قبیلہ بنو عمر و بن عوف کے حلیف تھے.آپ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ شریک رہے.جب رسول اللہ صلی علی تم مدینہ تشریف لائے تو عاصم بن عدی کو مسجد دی کہ وہ اس میں اپنا گھر بنائیں مگر عاصم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں اس مسجد کو گھر نہیں بناؤں گا جس میں اللہ تعالیٰ نے جو اتار نا تھا اس کو اتارا ہے.البتہ آپ اس کو ثابت بن اقرم کو دے دیں کیونکہ اس کے پاس کوئی گھر نہیں ہے تو آپ نے حضرت ثابت بن اقرم کو یہ جگہ عطا فرما دی.ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی.55 غالباً یہ جگہ جو دی تھی وہ مسجد کا حصہ ہو گی یا اس کے قریب ترین جگہ ہو گی اور کسی وقت میں وہاں نمازیں بھی پڑھی جاتی ہوں گی بہر حال ترجمہ کرنے والوں نے جو ترجمہ کیا ہے میرے خیال میں ٹھیک نہیں ہے.بعض باتوں کی وضاحت ہوتی ہے اس لئے ریسرچ سیل والے جو یہ نوٹس بھجواتے ہیں اس کو ذرا تحقیق کر کے صحیح طرح بھیجا کریں.صرف سکول کے بچوں کی طرح ترجمے نہ کر دیا کریں.جنگ موتہ میں علمبردار 465 پھر جنگ موتہ میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی شہادت کے بعد اسلامی جھنڈ ا حضرت ثابت بن اقرم نے اٹھایا اور کہا کہ اے مسلمانوں کے گروہ! اپنے میں سے کسی ایک شخص کو اپنا سر دار مقرر کرو.لوگوں نے کہا ہم آپ کو مقرر کرنا چاہتے ہیں.آپ نے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا.اس پر لوگوں نے حضرت خالد بن ولید کو اپنا سر دار مقرر کر لیا.ابن ہشام کی سیرۃ النبی میں اس کا ذکر ہے.466

Page 203

تاب بدر جلد 4 187 تاریخ میں آتا ہے کہ جنگ موتہ کے موقع پر جب مسلمانوں نے دشمن کا لشکر دیکھا تو اس کی تعد اد اور ساز و سامان کو دیکھ کر انہوں نے گمان کیا کہ اس لشکر کا کوئی مقابلہ نہیں.تو حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جنگ موتہ میں شرکت کی.جب دشمن ہمارے قریب آیا تو ہم نے دیکھا کہ تعداد، اسلحہ ، گھوڑوں اور سونے اور ریشم وغیرہ میں اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے.یہ دیکھ کر میری آنکھیں چندھیا گئیں.اس پر حضرت ثابت بن اقرم نے مجھ سے کہا کہ اے ابو ہریرہ ! تیری حالت ایسی لگتی ہے جیسے تو نے کوئی بہت بڑا لشکر دیکھ لیا ہے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں میں نے کہا ہاں.اس پر حضرت ثابت نے کہا کہ تم ہمارے ساتھ بدر میں شامل نہیں ہوئے.ہمیں وہاں بھی کثرت تعداد کے ذریعہ فتح نہیں ملی تھی.7 بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملی تھی اور یہاں بھی یہی ہو گا.467 واقعہ شہادت حضرت ابو بکر کی خلافت میں حضرت خالد بن ولید کے ساتھ آپ مرتدین کی طرف روانہ ہوئے.حضرت خالد بن ولید لوگوں کے مقابلہ پر روانہ ہوتے وقت اگر اذان سنتے تو حملہ نہ کرتے اور اگر اذان نہ سنتے تو حملہ کر دیتے.جب آپ اس قوم کی طرف پہنچے جو بزاخہ مقام میں تھی تو آپ نے حضرت عکاشہ بن محصن اور حضرت ثابت بن اقرم کو مخبر بنا کر بھیجا کہ دشمن کی خبر لائیں اور وہ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے.حضرت عکاشہ کے گھوڑے کا نام الزرام تھا اور حضرت ثابت کے گھوڑے کا نام الحبر تھا.بہر حال ان دونوں کا سامنا طلیحہ اور اس کے بھائی سلمہ سے ہوا.یہ انہی کی طرح مخبری کرنے کے لئے آگے آئے ہوئے تھے ، اپنے لشکر سے آگے آئے ہوئے تھے.طلیحہ کا سامنا حضرت عکاشہ سے ہوا اور سلمہ کا حضرت ثابت سے.اور یہ جو بھائی تھے ان دونوں نے ان دونوں صحابہ کو شہید کر دیا.ابو واقد کیفی سے ایک روایت ہے کہ ہم دو سو سوار کن رلشکر کے آگے آگے چلنے والے تھے اور زید بن خطاب ہمارے امیر تھے اور ثابت اور عکاشہ ہمارے آگے تھے.جب ہم لوگ ان کے پاس سے گزرے تو ہمیں یہ منظر شدید ناگوار گزرا.( ان کی شہادت کے بعد جب پیچھے سے یہ لشکر گزرا.) حضرت خالد اور باقی مسلمان ہمارے پیچھے تھے.ہم ان مقتولوں کے پاس کھڑے رہے، یہ جو شہید ہوئے تھے یہاں تک کہ حضرت خالد آئے اور ان کے حکم سے ہم نے ثابت اور عکاشہ کو ان کے خون آلود کپڑوں میں وہیں دفن کر دیا.468 حضرت عمرؓ کے دکھ کا اظہار روایت میں آتا ہے کہ جب طلیحہ مسلمان ہوئے تو حضرت امیر المومنین عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ میں تم سے محبت نہیں کروں گا تم دو مسلمان حضرت عکاشہ اور حضرت ثابت بن اقرم کے شہید ہونے کی وجہ ہو.یہ شہید کرنے والے جو تھے بعد میں مسلمان بھی ہو گئے تو ان کو حضرت عمرؓ نے یہ جواب دیا کہ تمہارے سے محبت نہیں مجھ کو ہو سکتی کیونکہ تم دو مسلمانوں کو شہید کرنے والے ہو.اس پر طلیحہ نے کہا کہ یا امیر

Page 204

تاب بدر جلد 4 188 469 المومنین ! ان کو تو اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں سے عزت عطا فرمائی ہے.9 ان کی کوئی اولاد نہیں تھی.محمد بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت ثابت کو طلیحہ نے بارہ ہجری میں بُزاخہ کے مقام پر شہید کیا.470 51 نام و نسب حضرت ثابت بن ثعلبہ باپ بیٹا جو جنگ بدر میں شامل ہوئے پھر ایک صحابی حضرت ثابت بن ثعلبہ تھے.ان کا نام حضرت ثابت بن ثعلبہ تھا اور ان کی والدہ کا نام اتم أناس بنت سغد تھا جن کا تعلق قبیلہ بنو عذرہ سے تھا.آپ کے والد شغلبہ بن زید کو الجذع کہا جاتا تھا.ان کا یہ نام ان کی بہادری اور مضبوط عزم و ہمت ہونے کی وجہ سے رکھا گیا تھا.اسی مناسبت سے حضرت ثابت کو ابن الجذع کہا جاتا ہے.حضرت ثابت اپنے والد حضرت ثعلبہ کے ہمراہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے.471 بیعت عقبہ ثانیہ میں شمولیت حضرت ثابت سنتر انصار صحابہ کے ہمراہ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے.غزوہ بدر اور غزوہ احد اور غزوہ خندق اور صلح حدیبیہ اور غزوہ خیبر اور فتح مکہ اور غزوہ طائف میں بھی شامل تھے.اولاد حضرت ثابت بن تغلبہ کی اولاد میں عبد اللہ اور حارث شامل ہیں.ان سب کی والدہ امامہ بنت عثمان تھیں.شہادت آپ نے غزوہ طائف کے روز ہی جام شہادت نوش کیا.472

Page 205

189 52 52 صحاب بدر جلد 4 حضرت ثابت بن خالد انصاری حضرت ثابت بن خالد انصاری.یہ قبیلہ بنو مالک بن نجار میں سے تھے.غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے اور جنگ یمامہ میں بھی شامل ہوئے اور اسی جنگ میں یہ شہید ہوئے.بعض کے نزدیک بئر معونہ کے واقعہ میں موقع پر شہید ہوئے.473 53 حضرت ثابت بن خنساء حضرت ثابت بن خفاء.ان کا تعلق قبیلہ بنو عم بن عدی بن نجار سے تھا اور غزوہ بدر میں شامل ہونے کی سعادت ان کو نصیب ہوئی.474 54 حضرت ثابت بن عمر و بن زید حضرت ثابت بن عمرو بن زید.ابن اسحاق اور زہری جو تاریخ کے لکھنے والے ہیں انہوں نے حضرت ثابت بن عمرو کا سلسلہ نسب بنو نجار سے بیان کیا ہے اور ابن مندہ نے ان کا سلسلہ نسب قبیلہ بنوا مجمع سے قرار دیا ہے جو انصار کے حلیف تھے.غزوہ بدر میں یہ شامل ہوئے تھے اور غزوہ احد میں شہادت پائی.475

Page 206

190 55 55 صحاب بدر جلد 4 น حضرت ثابت بن هزال " حضرت ثابت بن ھزال.ان کا تعلق خزرج کی شاخ بنو عمر و بن عوف سے تھا.غزوہ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی علیم کے ساتھ شریک ہوئے.12 ہجری کو حضرت ابو بکر کے دور خلافت میں ہونے والی جنگ یمامہ میں شہید ہوئے.76 476 56 حضرت ثعلبہ بن حاطب حضرت ثعلبہ بن حاطب انصاری ایک صحابی تھے.ان کا تعلق بنو عمر و بن عوف سے تھا.غزوۂ بدر اور احد میں یہ شریک ہوئے.477 جیسا کہ بتایا قبیلہ اوس کی شاخ بنو عمر و بن عوف سے تعلق تھا.غزوہ بدر اور بعض دوسرے غزوات میں بھی ان کی شرکت کی روایات ملتی ہیں.478 مال و دولت کی فراوانی کی دعا اور اس کی قبولیت اور ایک غلط فہمی کا ازالہ حضرت امامہ باصلی بیان کرتے ہیں کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس آکر یہ عرض کی کہ اے اللہ کے رسول اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مال عطا کرے.آپ نے اس پر فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ بہت تھوڑے ہیں جو شکر کرتے ہیں اور مال کو سنبھالنے کی طاقت نہیں رکھتے.دعا نہیں کی کچھ دیر کے بعد پھر وہ آئے اور عرض کی کہ دعا کریں مجھے مال عطا ہو جائے.پھر آپ صلی للی یکم نے فرمایا کہ کیا تیرے لئے میرا اسوہ حسنہ کافی نہیں ہے جو مال کی خواہش کر رہے ہو ؟ آپ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر میں پہاڑ کو کہوں کہ وہ میرے لئے سونے اور چاندی کا بن جائے تو ایسا ہی ہو جائے لیکن آپ نے کہا میں ایسا نہیں کرتا.مال سے زیادہ رغبت نہیں رکھنی چاہئے.پھر تیسری دفعہ رسول کریم صلی المینیوم کے پاس آئے اور پھر اسی طرح عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے دعا کریں کہ مجھے مال عطا ہو.اس پر آنحضرت صلی علیم نے دعا کی کہ ثعلبہ کو مال عطا کر دے.راوی بیان کرتے ہیں کہ ان کی چند بکریاں تھیں اور اس کے بعد اس میں اتنی

Page 207

191 اصحاب بدر جلد 4 برکت پڑی اور اس طرح وہ بڑھیں جس طرح کیڑے مکوڑے بڑھتے ہیں.اور پھر یہ ہوا کہ ان کو سنبھالنے کے لئے انہوں نے ظہر عصر کی نمازوں پر بھی مسجد میں آنا چھوڑ دیا اور وہیں پھر پڑھنے لگے.اور زیادہ بڑھ گئیں تو جمعہ پہ بھی نہیں آتے تھے.جمعہ پہ آنحضرت صلی الیہ کو لوگوں کا احوال پوچھا کرتے تھے تو ایک دفعہ آنحضرت صلی علیہ کم نے تعلیہ کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ اس کے پاس بکریوں کا اتنا بڑا ریوڑ ہے کہ پوری وادی بھری ہوئی ہے اس لئے ان کو سنبھالنے میں وقت لگ جاتا ہے ، وہ نہیں آتے.بہر حال آنحضرت علی علیم نے اس پر بڑے افسوس کا اظہار کیا.تین دفعہ افسوس کا اظہار کیا.پھر جب زکوۃ کی آیات نازل ہوئیں تو آپ نے زکوۃ لینے کے لئے دو آدمیوں کو بھیجا.یہ لوگ جب ثعلبہ کے پاس گئے تو انہوں نے کچھ بہانہ بنایا اور زکوۃ نہیں دی.انہوں نے کہا اچھا میں سوچتا ہوں.تم لوگ باقی جگہوں پہ زکوۃ لینے جارہے ہو ، وہاں سے ہو کے واپس آؤ.یہ لوگ اور جگہوں پر گئے اور دوسری جگہ جہاں گئے تھے ایک شخص نے اپنے بہترین اونٹوں میں سے زکوۃ دی.انہوں نے کہا کہ ہم نے بہترین تو نہیں مانگا تھا انہوں نے کہا نہیں ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں.بہر حال یہ ایک لمبا قصہ ہے اور انہوں نے زکوۃ نہیں دی اور زکوۃ اکٹھی کرنے والے جو لینے کے لئے گئے تھے انہوں نے آنحضرت صلی علیم کو آکر جب یہ رپورٹ دی تو آنحضرت صلی علی کم پر اس وقت یہ آیات اتریں کہ وَمِنْهُم منْ عَهَدَ اللهَ لَين اثنَا مِن فَضْلِهِ اور پھر یہ وَ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (الم ب 750-77) تک سورۃ توبہ کی پچھتر سے ستر تک آیات ہیں.تو رسول اللہ صلی علیکم کے پاس اس وقت ثعلبہ کا ایک عزیز بیٹھا ہوا تھا.یہ بات سن کر وہ ثعلبہ کے پاس گیا اور کہا اے ثعلبہ تجھ پر افسوس ہے.اللہ تعالیٰ نے تیرے بارے میں فلاں فلاں آیت نازل کی ہے.تعلبہ رسول اللہ صلی علیکم کو جاکر عرض کرنے لگا کہ مجھ سے زکوۃ قبول کی جائے.آپ نے فرمایا کہ اب تجھ سے وصول کرنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے منع کر دیا ہے.چنانچہ واپس ناکام و نامراد گیا.پھر حضرت ابو بکر کے زمانے میں وہ زکوۃ لے کے آئے حضرت ابو بکر نے بھی قبول نہیں کی.حضرت عمر کے زمانے میں آئے انہوں نے بھی قبول نہیں کی کہ جس بات کو آنحضرت صلی اللہ ہم نے قبول نہیں کیا میں کس طرح قبول کر سکتا ہوں.پھر حضرت عثمان جب خلیفہ بنے تو ان کے پاس آکر کہنے لگے میری زکوۃ قبول کریں تو یہ قبول نہیں کی گئی اور حضرت عثمان کے زمانے میں ہی ان کی وفات ہو گئی.479 اب یہ واقعہ جو ہے یہ ساتھ ایک طرف بدری صحابہ کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں جانے والے ہیں.دوسری طرف زکوۃ قبول نہ کرنے کے بارے میں یہ ایک لمبی روایت چل رہی ہے.میرے دل میں بھی خیال پیدا ہوا تھا اس کو سن کے ، پڑھ کے، آپ لوگوں کے دلوں میں بھی ہوا ہو گا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے ؟ لگتا ہے کہ یہ روایت غلط ہے، کسی اور کے بارے میں ہو گی.چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے.انہوں نے بھی اس کو اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر یہ صحیح ثابت ہو جائے کہ کسی صحابی سے زکوۃ لینے کا اور نہ لینے کا یہ واقعہ اس طرح ہی ہوا تھا، تو پھر اس قصہ والی شخصیت کے بارے میں میرے خیال میں اسے حضرت ثعلبہ کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہو گا

Page 208

تاب بدر جلد 4 192 کیونکہ آپ بدری صحابی تھے اور بدری صحابہ کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے کھلا بخشش کا اعلان فرمایا ہوا ہے اور ان میں منافقت اور کسی قسم کی کمزوری نہیں ہو سکتی تھی.علامہ ابن حجر عسقلانی یہ لکھتے ہیں کہ ابن قلبی کے قول سے اس بات میں فرق یقینی ہو جاتا ہے کہ بدری صحابی احد میں شہید ہو گئے جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابن مردویہ نے عطیہ کی سند سے بحوالہ ابن عباس مذکورہ آیت کے متعلق اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے جو فرماتے ہیں کہ ایک شخص تھا جسے ثعلبہ بن ابی حاطب کہا جاتا تھا وہ انصار میں سے تھا ان کی ایک مجلس میں آکر کہنے لگا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے نوازے پھر، یہ سارا طویل قصہ جو بیان ہے بیان کیا.یہ ثعلبہ بن ابی حاطب ہے اور بدری صحابی کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ وہ ثعلبہ بن حاطب ہیں اور یہ روایت پایہ ثبوت تک پہنچی کہ آپ صلی ال کلم نے فرمایا تھا کہ جو لوگ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھے ان میں سے کوئی مسلمان بھی جہنم میں نہیں جائے گا.نیز وہ ایک حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر سے فرمایا جو چاہے کرو، میں نے تمہاری مغفرت کر دی.تو یہ لکھتے ہیں کہ جس کا یہ مرتبہ ہو اسے اللہ تعالیٰ دل میں نفاق کا بدلہ کیسے دے گا ؟ دل میں اگر نفاق ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ جنت میں جانے کا بدلہ ملے.پھر لکھتے ہیں کہ اور جو کچھ نازل ہوا اس کے متعلق کیسے نازل ہو سکتا ہے جس کے دل میں نفاق ہو ! لہذا یہ بات ظاہر ہو گئی کہ وہ اس شخصیت کے علاوہ ہیں.0 یعنی حضرت ثعلبہ جو تھے وہ نہیں تھے یہ اور تھے.یہ پہلے شہید ہو گئے تھے.اور جس کا ذکر ہے وہ ثعلبہ بن ابی حاطب ہے.اپ نام ملتے جلتے ہیں اس لئے یہ غلط فہمی ہوئی.اس لئے ثعلبہ بن حاطب اور ثعلبہ بن ابی حاطب دو مختلف شخصیتیں ہیں.پس یہ غلط فہمی کسی بدری صحابی کے بارے میں کبھی نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے کوئی ایسی حرکت کی ہو گی.اللہ جزا دے علامہ ابن حجر عسقلانی کو کہ انہوں نے بھی اس مسئلہ کو بڑا کھول کے بیان کر دیا اور اس بدری صحابی پہ جو الزام لگ رہا تھا ان کی اس تاریخی روایت سے ہی ان کی بریت ثابت ہو گئی.181 480 57 حضرت ثعلبہ بن زید باپ بیٹا جو جنگ بدر میں شامل ہوئے حضرت ثعلبہ بن زید.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو خزرج سے ہے.غزوہ بدر میں یہ شامل ہوئے تھے.حضرت ثابت بن الجذع کے والد تھے.حضرت ثعلبہ بن زید کا لقب الجذع ہے.الجذع آپ کی مضبوطی قلب اور مضبوط عزم و ہمت کی وجہ سے کہا جاتا ہے یعنی جو مضبوط تنا، درخت کا تنا ہو اس کو بھی

Page 209

ناب بدر جلد 4 193 جذع کہا جاتا ہے اور چھت کا شہتیر اور بیم جو ہے اس کو بھی کہا جاتا ہے.بہر حال بڑے مضبوط دل کے مالک تھے اور مضبوط عزم و ہمت کے مالک تھے اس لئے ان کا لقب الجذع پڑ گیا.حضرت ثعلبہ بن زید کے متعلق اس کے علاوہ کوئی روایت محفوظ نہیں ہے.482 58 نام و نسب حضرت تعلبه بن عمر و انصاری حضرت ثعلبہ بن عمر و حضرت تغلبہ کا تعلق قبیلہ بنو نجار سے تھا.آپ کی والدہ کا نام گنیشہ تھا جو کہ مشہور شاعر حضرت حسان بن ثابت کی بہن تھیں.تمام غزوات میں شمولیت حضرت تغلبہ غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی کم کے ہمراہ شریک ہوئے.آپ ان اصحاب میں بھی شامل تھے جنہوں نے بنو سلمہ کے بت توڑے تھے.وفات آپ کی وفات حضرت عمررؓ کے دورِ خلافت میں جنگ جسر یعنی پل والی جنگ میں ہوئی تھی.جنگ جسر جنگ جسر ایرانیوں کے ساتھ 14 ہجری میں ہوئی یا طبری میں 13 ہجری کا درج ہے کہ یہ جنگ ہوئی تھی.اس جنگ میں دونوں فریق یعنی حضرت ابو عبیڈ کی نگرانی میں مسلمانوں کا لشکر اور برہمن جَازَوَیہ کی نگرانی میں ایرانی فوج دریائے فرات پر آمنے سامنے تھیں.دریا کو عبور کر کے جنگ کرنے کے لئے ایک جسر یعنی پل بنایا گیا تھا.اسی مناسبت سے اسے جنگ جسر کہا جاتا ہے.بعض کے نزدیک ان کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں مدینہ میں ہوئی تھی.483

Page 210

194 59 صحاب بدر جلد 4 حضرت ثَعْلَبَه بن غنمه حضرت ثَعْلَبَه بن غنمه.حضرت ثعلبہ کا نام ایک روایت میں ثَعْلَبَه بن عِنَبَہ بھی بیان ہوا ہے.حضرت ثعلبہ کی والدہ کا نام جھیڑ ہ بنت قین تھا.آپ کا تعلق انصار کے قبیلے بنو سلمہ سے تھا.بیعت عقبہ ثانیہ میں شمولیت حضرت ثعلبہ اُن ستر اصحاب میں شامل تھے جنہوں نے بیعت عقبہ ثانیہ میں حضور صلی للی کم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.حضرت ثعلبہ جب ایمان لائے تو آپ نے ، حضرت معاذ بن جبل اور عبد الله بن أنيس نے مل کر بنو سلمہ کے یعنی اپنے قبیلے کے ہی بت توڑے.آپ غزوہ بدر، احد اور خندق میں شریک ہوئے اور غزوہ خندق میں هُبَيرها بن أَبِي وَهَب نے حضرت ثعلبہ کو شہید کیا.ایک روایت کے مطابق حضرت ثعلبہ غزوہ خیبر کے موقع پر شہید ہوئے تھے.484 60 حضرت ثقف بن عمرو حضرت ثقف بن عمر و.حضرت تقف بن عمرو کے قبیلہ کے بارے میں مختلف آراء ہیں.بعض نے بنو اسلم، بعض کے نزدیک بنو اسد تھا، جبکہ بعض آپ کا تعلق قبیلہ بنو سلم سے بتاتے ہیں.آپ بنو اسد کے حلیف تھے لیکن بعض کے نزدیک آپ بنو عبد شمس کے حلیف تھے.یہ اپنے دو بھائیوں کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے جن کے نام حضرت مالک بن عمرو اور مدلاج بن عمر و ہیں.حضرت ثقف بن عمر و اولین مہاجرین میں سے تھے.شہادت غزوہ بدر، احد، خندق، حدیبیہ اور خیبر میں شامل ہوئے اور غزوہ خیبر میں آپ کی شہادت ہوئی.485

Page 211

195 61 صحاب بدر جلد 4 حضرت جابر بن خالد حضرت جابر بن خالد.حضرت جابر بن خالد کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو دینار سے تھا.حضرت جابر بن خالد غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے تھے.486 62 حضرت جابر بن عبد اللہ بن رئاب انصار میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے ایک حضرت جابر بن عبد اللہ بن رئاب.حضرت جابر کو ان چھ آدمیوں میں بیان کیا جاتا ہے جو انصار 600 487 میں سب سے پہلے مکہ میں اسلام لائے.حضرت جابر بدر اور احد اور خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی ال نیم کے ہمرکاب تھے ، ساتھ شامل ہوئے.انہوں نے رسول اللہ صلی اللی کم سے حدیثیں بھی بیان کی ہیں.7 بیعت عقبہ اولیٰ میں انصار میں سب سے پہلے جو اسلام لائے وہ یہی ہیں.انصار کے چند لوگوں کی رسول اللہ صلی علیم کی عقبہ اولیٰ کی رات جب ملاقات ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ تم کس قبیلہ سے ہو اس کے بعد انہوں نے پوری تفصیل اپنی بیان کی اور یہ قبیلہ بنو نجار کے چھ آدمی تھے.اسعد بن زرارہ اور عوف بن حارث بن رفاعہ بن عفراء اور رافع بن مالک بن عجلان اور قطبہ بن عامر بن حدیدۃ اور عقبہ بن عامر بن نابی بن زید اور جابر بن عبد اللہ بن رئاب.یہ سب لوگ مسلمان ہو گئے تھے.جب یہ لوگ مدینہ آئے تو انہوں نے مدینہ والوں سے رسول اللہ صلی علی رام کا ذکر کیا اور پھر وہاں تبلیغ کی.بیعت عقبہ 488 اس کا تفصیلی ذکر پہلے عقبہ بن عامر نابی کے ذکر میں ہو چکا ہے.مختصر ذکر میں یہاں کر دیتا ہوں.یہ لوگ جب آنحضرت صلی اللی کام سے رخصت ہوئے تو جاتے ہوئے عرض کیا کہ ہمیں خانہ جنگیوں نے بہت کمزور کر دیا ہے.ہمارے اندر آپس میں بہت نا اتفاقیاں ہیں اور ہم میثرب میں جا کر اپنے بھائیوں کو

Page 212

اصحاب بدر جلد 4 196 اسلام کی تبلیغ کریں گے اور کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے پیغام کے ذریعہ سے ، ہماری تبلیغ کے ذریعہ سے ہمیں پھر جمع کر دے اور ہم جب اکٹھے ہو جائیں گے تو پھر ہر طرح آپ کی مدد کے لئے تیار ہوں گے.چنانچہ یہ لوگ گئے اور ان کی وجہ سے یثرب میں اسلام کا چر چاہونے لگا.یہ سال آنحضرت صلی علیم نے مکہ میں یثرب والوں کی طرف سے ظاہری حالات اور اسباب کے لحاظ سے اس طرح گزارا جس میں خوف بھی تھا اور امید بھی تھی کہ دیکھیں یہ چھ مصدقین جو گئے ہیں، جنہوں نے بیعت کی ہے ان کا کیا انجام ہوتا ہے.آیا میٹر ب میں بھی کوئی کامیابی ملتی ہے، کوئی امید بنتی ہے یا نہیں.کیونکہ باقی جگہ تو آنحضرت صلی الیکم کا نہ صرف بڑا انکار تھا بلکہ مخالفت بھی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی.مکہ اور رؤسائے طائف آنحضرت صلی اللہ یلم کے مشن کو سختی سے رد کر چکے تھے اور دیگر قبائل بھی ان کے زیر اثر ایک ایک کر کے رڈ کر رہے تھے.تو ان کی بیعت کی وجہ سے مدینہ میں ایک امید کی کرن پید ا ہوئی تھی لیکن اس کی بھی کوئی تسلی نہیں تھی.کون کہ سکتا تھا کہ یہ چھ ماننے والے جن سے امید کی کرن پید اہوئی ہے اگر ان کے خلاف بھی دشمن کھڑ ا ہوا تو یہ مصیبتوں اور مشکلات کا مقابلہ کر سکیں گے.بہر حال یہ گئے ، انہوں نے تبلیغ کی، لیکن اس دوران میں مکہ والوں کی طرف سے بھی دشمنی اور مخالفت روز بروز بڑھ رہی تھی اور وہ لوگ اس بات پہ پر یقین تھے کہ اسلام کو مٹانے کا اب یہی وقت ہے کیونکہ اگر مکہ سے باہر نکلنا شروع ہو گیا اور پھیلنا شروع ہو گیا تو پھر اسلام کو مٹانا مشکل ہو گا.اس لئے مکہ والوں نے بھی مخالفت اپنے پورے زوروں پر کی ہوئی تھی.لیکن اس کے باوجود آنحضرت صلی لی ایم اور آپ کے مخلص صحابہ جو تھے جنہوں نے بیعت کی تھی، مسلمان ہوئے تھے ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی بات پر قائم تھے.کوئی بات ان کو اسلام کی تعلیم سے اور اسلام سے ہٹا نہیں سکتی تھی، توحید سے ہٹا نہیں سکتی تھی.بہر حال اسلام کے لئے ایک بہت نازک وقت تھا اور امید بھی تھی، خوف بھی تھا کہ مدینہ میں یہ لوگ گئے ہیں تو دیکھیں ان کے نتائج کیا نکلتے ہیں.پھر اگلے سال مدینہ سے ایک وفد پھر حج کے موقع پر آیا تو آنحضرت صلی للی کم بڑے شوق کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے اور منی کی جانب عقبہ کے پاس پہنچ کر ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو اچانک آپ کی نظر یثرب کی ایک چھوٹی سی جماعت پر پڑی جنہوں نے آپ کو دیکھ کر فوراً پہچان لیا اور نہایت محبت اور اخلاص سے آگے بڑھ کر آپ کو ملے.ان میں سے پانچ تو وہی تھے جو پہلے بیعت کر کے گئے تھے اور سات نئے تھے اور یہ لوگ اوس اور خزرج دونوں قبیلوں میں سے تھے.آنحضرت صلی ای ام اس موقع پر لوگوں سے الگ ہو کر ایک گھائی میں، ایک وادی میں ان کو ایک طرف لے گئے اور وہاں سے جو یہ بارہ افراد کا وفد آیا تھا انہوں نے آنحضرت صلی الم کو یثرب کے حالات کی اطلاع دی اور ان سب نے با قاعدہ آنحضرت صلی ال نیم کے ہاتھ پر بیعت کی اور یہی بیعت جو تھی یثرب میں اسلام کے قیام کا بنیادی پتھر تھا.آنحضرت صلی علی ایم نے ان سے جن الفاظ میں بیعت لی وہ یہ تھے کہ ہم خدا کو ایک جانیں گے.شرک نہیں کریں گے.چوری نہیں کریں گے.زنا کے مرتکب نہیں ہوں گے.قتل سے باز رہیں گے.

Page 213

بدر جلد 4 197 پر بہتان نہیں باندھیں گے اور ہر نیک کام میں آپ کی اطاعت کریں گے.بیعت کے بعد آنحضرت صلی اللہ رام نے انہیں فرمایا کہ دیکھو اگر تم صدق وثبات کے ساتھ ، سچائی کے ساتھ ، مضبوطی کے ساتھ اس عہد پر قائم رہے تو تمہیں جنت نصیب ہو گی اور اگر کمزوری دکھائی تو پھر تمہارا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.وہ جس طرح چاہے گا پھر تمہارے سے سلوک کرے گا.489 بہر حال پھر ان لوگوں نے اپنے عہد بیعت کو ثابت کر کے دکھایا.نہ صرف ثابت کر کے دکھایا بلکہ اعلیٰ ترین معیار تک پہنچایا اور پھر ہم بعد کے حالات دیکھتے ہیں کہ کس طرح پھر مدینہ میں اسلام 63 490 حضرت جبار بن صخر حضرت جبار بن صخر - صخر بن أُمَيَّه کے بیٹے تھے.بیعت عقبہ ثانیہ میں شمولیت ย حضرت جبار ستر انصار کے ساتھ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے.آپ صلی لی ہم نے حضرت جبار اور حضرت مقداد بن عمرو کے در میان مواخات قائم کی.غزوہ بدر کے وقت ان کی عمر 32 سال تھی.خارص کے فرائض سر انجام دینے والے رسول اللہ صلی العلم انہیں خارِص ( یعنی کھجوروں کی پیداوار کا اندازہ کرنے والا) بنا کر خیبر وغیرہ بھیجا کرتے تھے.ان کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں تیس ہجری میں مدینہ میں ہوئی.وفات کے وقت آپ کی عمر 62 سال تھی.تمام غزوات میں شمولیت حضرت جبار غزوہ بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی الی یکم ہمرکاب تھے.نبی اکرم علی ایم کے ساتھ نفل پڑھنے کی سعادت 491 حضرت جبار بن صخر سے روایت ہے کہ آپ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الم نے فرمایا جبکہ آپ مکہ کی طرف جارہے تھے کہ کون ہم سے پہلے آنا یہ مقام پر جائے اور ہمارے پہنچنے تک اس کے حوض کے سوراخوں کو مٹی سے درست کر کے اور اسے فراخ کر کے اس میں پانی بھر دے گا.ابواوئیس ایک راوی کہتے ہیں کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں رسول اللہ صلی علیم نے ہمیں روانہ فرمایا تھا.راوی کہتے ہیں کہ

Page 214

ناب بدر جلد 4 الله سة 198 حضرت جبار نے بیان کیا کہ اس پر میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ میں یہ خدمت سر انجام دوں گا.آپ نے فرمایا جاؤ.پس میں آثایہ پہنچا اس کے حوض کو مرمت کر کے اسے کھلا کیا اور اسے بھر دیا.پھر مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گیا اور مجھے نہیں جگایا مگر اس شخص نے جس کی اونٹنی اس سے چھوٹی جارہی تھی.( یعنی کہ بہت تیز وہاں پر پہنچی) اور وہ اسے حوض پر جانے سے روک رہا تھا.(اونٹنی پانی کی طرف جا رہی تھی) اس شخص نے مجھے کہا اے حوض والے ! اپنے حوض پر پہنچو تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ رسول اللہ صلی امید کم ہیں.میں نے عرض کیا جی.یہ بیان کرتے ہیں کہ پھر حضور نے اپنی سواری کو گھاٹ پر اتارا.پھر آپ مڑے اور سواری کو بٹھایا.پھر آپ نے فرمایا برتن لے کر میرے ساتھ آؤ.میں برتن لے کر آپ کے پیچھے پیچھے گیا.آپ صلی للی کم نے اچھی طرح وضو فرمایا.میں نے بھی آپ کے ساتھ وضو کیا پھر آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے.میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا.وہاں پہنچنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا کام یہ فرمایا کہ وضو کیا اور نفل ادا کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے.کہتے ہیں کہ میں بائیں طرف کھڑا ہوا تو آنحضرت صلی علی کریم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے دائیں طرف کھڑا کیا.یعنی آنحضرت کے نفل پڑھتے ہوئے انہیں یہ خیال آیا کہ آنحضرت صلی اللہ نام کے ساتھ نفل پڑھنے چاہئیں تو یہ بائیں طرف کھڑے ہو گئے.لیکن آنحضرت صلی اللہ ہم نے فورا ہاتھ پکڑ کے دائیں طرف کر دیا کہ جب باجماعت نماز ہو رہی ہو اور دو شخص ہوں تو دوسرے کو امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے.کہتے ہیں پس ہم نے نماز پڑھی اور ابھی ہم نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ باقی لوگ بھی آگئے.غزوہ بدر کے روز آنحضرت صلی اسلام نے دعا فرمائی کہ اللهُمَّ اكْفِنِي نَوْفَلَ ابْنِ خُوَيْلِدٍ.کہ اے اللہ ! نوفل بن خویلد جو کہ قریش مکہ کے مشرکین کا ایک سردار تھا، کے مقابل میرے لئے کافی ہو جا.حضرت جبار بن صفر نے اسے قیدی بنایا ہوا تھا اور حضرت علی اس کے پاس آئے اور اسے قتل کر دیا.پھر آپ صلی علیہم نے دریافت فرمایا کہ کسی کو نوفل کی کچھ خبر ہے ؟ حضرت علی نے عرض کیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے اور اس پر آپ نے یہ دعا کی کہ تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنی جناب سے میری دعا قبول فرمائی.یہ بڑا شدید دشمن تھا.اس کے لئے آپ نے اللہ تعالیٰ کو کہا تھا میرے لئے کافی ہو جا.اللہ تعالیٰ نے پھر اس کے قتل کے سامان پیدا کئے.493 492 نبی اکرم صلی الم کی مدینہ تشریف آوری اور اہل مدینہ کا میزبانی کے لئے جوش و جذبہ پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی ا ہم نے مدینہ ہجرت فرمائی تو ہر شخص کو خواہش تھی کہ آپ صلی علی کم اس کے گھر قیام کریں.اس کے بارے میں بہت سارے حوالے آتے ہیں.لیکن آپ صلی علیم نے فرمایا کہ جہاں میری اونٹنی بیٹھے گی وہیں میرا قیام ہو گا.جب اونٹنی مدینہ کی گلیوں سے گزری تو ہر شخص نے آپ صلی اللہ ہم سے عرض کیا کہ یار سول اللہ صلی علیکم! ہماری طرف قیام کریں.لیکن آپ

Page 215

تاب بدر جلد 4 الله سة 199 یہی فرماتے تھے کہ اس کا راستہ چھوڑ دو اس کو حکم دیا گیا ہے.یعنی اللہ کی مرضی سے یہ خود ہی بیٹھے گی.یہاں تک کہ آپ کی اونٹنی چلتے چلتے جہاں اب مسجد نبوی کا دروازہ ہے اس جگہ پہنچی اور مسجد کے دروازے والی جگہ پر بیٹھ گئی.جب اونٹنی بیٹھ چکی تو آپ صلی علی کم پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی.آپ ابھی اونٹنی پر ہی تشریف فرما تھے کہ پھر وہ اونٹنی اٹھی اور تھوڑا آگے گئی.آپ صلی ای ندیم نے اس کی نکیل چھوڑی ہوئی تھی.پھر وہ اونٹنی دوبارہ وہیں آکر بیٹھ گئی اور اپنی گردن زمین پر رکھ دی.اس موقع پر حضرت جبار بن حظر اس امید پر کہ اونٹنی بنو سلمہ کے محلے میں جاکر ٹھہرے اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگے لیکن وہ نہ اٹھی اور رسول اللہ صلی للی کم نیچے اترے اور فرمایا کہ انشاء اللہ یہاں ہمارا قیام ہو گا اور آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی وَقُل رَّبِّ اَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَرَكَا وَ اَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ (المؤمنون: 30) کہ اے میرے رب ! تو مجھے ایک مبارک اترنے کی جگہ پر اتار اور تو اتار نے والوں میں سے سب سے بہتر ہے.پھر رسول اللہ صلی علی یم نے فرمایا کہ کون سب سے قریب ہے.حضرت ابو ایوب انصاری نے عرض کیا کہ میں یارسول اللہ ! یہ میر اکھر ہے.یہ میر ادروازہ ہے اور ہم نے آپ کا کجاوہ اندر رکھ دیا ہے.آپ نے فرمایا کہ چلو اور ہمارے آرام کرنے کی جگہ تیار کرو.پس وہ گئے اور آپ کے آرام کرنے کی جگہ تیار کی.494 ایک حاسد کا بہکاوا اور ندامت کے آنسو شناس بن قیس ایک عمر رسیدہ شخص تھا اور سخت کافر تھا.مسلمانوں سے سخت شدید کینہ اور بغض رکھتا تھا.اس کا گزر مسلمانوں کی ایک جماعت پر ہوا جو مجلس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے.جب اس نے ان کی باہمی الفت، اتحاد اور آپس کی صلح کاری دیکھی کہ یہ بیٹھے ہوئے ہیں اور جنسی خوشی پیار اور محبت سے باتیں کر رہے ہیں.صلح کی جو یہ فضا تھی یہ جاہلیت کی دشمنی کے بعد اسلام کی بدولت انہیں حاصل ہوئی تھی.اس سے پہلے ان لوگوں کی دشمنیاں تھیں.لیکن اسلام کی بدولت انہیں یہ صلح کی ، باہمی الفت اور پیار اور محبت کے سلوک کی توفیق ملی تو کہتے ہیں وہ ایسی بات کو دیکھ کے غضبناک ہو گیا کیونکہ جب وہ مسلمان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ملا دیا.شاس بن قیس نے کہا کہ بنو قیلہ کے سردار اس علاقے میں بیٹھے ہیں.جب تک ان کے سردار آپس میں اکٹھے ہیں ہمیں قرار نصیب نہیں ہو سکتا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ جو دشمنیاں ہیں وہ دوستیوں میں بدل جائیں بلکہ محبت اور پیار میں بدل جائیں.اس نے ایک یہودی جو ان کو جو اس کے ساتھ تھا اس کام پر لگایا کہ ان کے پاس جاکر ان کے ساتھ بیٹھے اور جنگ بعاث اور اس سے پہلے کے حالات کا ذکر چھیڑے اور انہیں وہ شعر سنائے جو یہی لوگ اور دو مختلف قبیلے ایک دوسرے کے خلاف کہا کرتے تھے.پس اس نے ایسا ہی کیا اور ایک قبیلے نے جنگ میں جو دوسرے قبیلے کے خلاف اشعار کہے تھے ان میں سے بعض پڑھے.اس بات نے گویا ان کے سینوں میں آگ بھڑ کا دی.دوبارہ وہی جاہلیت کا شعر سن کر جاہلیت کا زمانہ ان پر عود کر آیا.اس پر دوسرے قبیلے

Page 216

200 تاب بدر جلد 4 والوں نے کہا کہ ہمارے شاعر نے اس دن ایسے ایسے کہا تھا اس نے بھی وہی جاہلانہ شعر پڑھ دیئے.پھر پہلے قبیلے والوں نے کہا کہ ہمارے شاعر نے اس دن ایسے ایسے کہا تھا.پس وہ سب آپس میں ایک وقت تھا کہ محبت اور پیار سے بیٹھے باتیں کر رہے تھے لیکن اس فتنہ کی وجہ سے آپس میں تلخ کلامی کرنے لگے، جھگڑنے لگے اور تفاخر کرنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے دو افراد حضرت اوس بن قیظی اور حضرت جبار بن صخر باہم الجھ پڑے.ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر تم چاہو تو ہم ابھی جنگ کا آغاز کر دیتے ہیں.یہاں تک نوبت آگئی کہ دونوں فریق غصہ میں آکر لڑائی کی جگہ مقرر کرنے لگے اور زمانہ جاہلیت کے دعوے کرنے لگے.رسول اللہ صلی الی ریتم تک اس کی خبر پہنچی تو آپ اوس اور خزرج کے پاس آئے.آپ کے ساتھ مہاجرین صحابہ کرام تھے.آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا اے مسلمانوں کے گروہ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.کیا تم اب بھی جاہلیت والے دعوے کرتے ہو جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور اللہ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہے اور اس کے ذریعہ تمہیں عزت بخشی اور تم سے جاہلیت کا معاملہ ختم کر دیا.تمہیں کفر سے بچا لیا ہے اور تم میں باہم الفت ڈال دی ہے.کیا تم پہلے کی طرح کفر میں لوٹنے لگے ہو.صحابہ کرام کو پتہ چل گیا کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے اور ان کے دشمن کی چال ہے.پس انہوں نے اپنے ہتھیار پھینکے اور رونے لگ گئے اور اوس اور خزرج کے افراد آپس میں گلے ملنے لگے اور رسول اللہ صلی الی یوم کے ساتھ سر تسلیم خم کئے اطاعت کا دم بھرتے واپس آگئے.اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن شاس بن قیس کی لگائی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کر دیا تھا.اس پر یہ آیت بھی اتری که قُلْ يَاهْلَ الكِتب لِمَ تَكْفُرُونَ بِأَيْتِ اللَّهِ وَاللَّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا تَعْمَلُونَ قُلْ يَاهْلَ الْكِتَبِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَ أَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَ مَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (آل عمران :10،99) کہ ان سے کہہ دے اے اہل کتاب ! کیوں تم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو جبکہ اللہ اس پر گواہ ہے جو تم کرتے ہو.اور کہہ دے اے اہل کتاب ! تم اسے جو ایمان لایا ہے اللہ کی راہ سے کیوں روکتے ہو یہ چاہتے ہوئے کہ اس راہ میں کبھی پیدا کر وجب کہ تم حقیقت پر گواہ ہو اور اللہ اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو.حضرت اوس بن قیظی اور حضرت جبار بن صخر اور جو اُن کے ساتھی تھے جنہوں نے شاس کے بہکاوے میں آکر جاہلیت کے زمانے کی طرح کا مظاہرہ کیا تھا ایسے لوگوں کے بارے میں بھی پھر یہ حکم نازل ہوا کہ يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا فَرِيقًا مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ يَرُدُّوكُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَفِرِينَ وَ كَيْفَ تَكْفُرُونَ وَ اَنْتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُمْ أَيْتُ اللهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ ۖ وَمَنْ يَعْتَصِمُ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدى إلى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (آل عمران: 102.101) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم نے ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی کسی گروہ کی اطاعت کی تو وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد ایک دفعہ پھر کا فر بنا دیں گے اور تم کیسے انکار کر سکتے ہو جبکہ تم پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کار سول موجود ہے اور جو مضبوطی سے اللہ کو پکڑلے تو یقینا وہ صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیا گیا ہے.495

Page 217

اصحاب بدر جلد 4 201 بہر حال یہ حالت تھی ان صحابہ کی.ایک وقت میں شیطان کے دھو کہ میں تو آگئے لیکن جب احساس دلایا گیا، جب آنحضرت صلی اللہ ہم نے ان کو بتایا کہ کیوں جہالت میں واپس جارہے تھے تو فوراً ندامت پیدا ہوئی اور صلح کی طرف قدم بڑھایا بلکہ محبت اور بھائی چارے کا اظہار کیا.تو یہ ان کے نمونے جھوٹی انا کو ختم کرنا چاہیے اب جو لوگ ذرا ذراسی بات پر جھوٹی غیر توں اور اناؤں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان کے لئے بھی یہ ایک عظیم اسوہ ہے.اگر وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے جنگیں کرنے والے بھائی بھائی بن گئے تو اب ایک کلمہ پڑھنے والے بلکہ ایک جماعت میں پیدا ہونے والے لوگ کیوں اپنی اناؤں کو ختم نہیں کر سکتے.بہت سارے معاملات ایسے آتے ہیں کہ جھوٹی اناؤں کی وجہ سے رنجشیں چلتی ہیں، مہینوں سالوں چلتی ہیں.بعض نوجوان لکھتے ہیں کہ اب جو نئی نسل ہے وہ ایک دوسرے سے رشتے قائم کرنا چاہتی ہے تو رشتے کرنا ہمارے خاندانوں کی رنجشوں کی وجہ سے، اپنے بزرگوں کی وجہ سے، اپنے بڑوں کی وجہ سے، بزرگ تو نہیں کہنا چاہئے، بڑوں کی وجہ سے وہ رشتے قائم نہیں ہوتے.ان لوگوں کو عقل کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تعلیم دی ہے یہی محبت اور پیار کی تعلیم دی ہے.اکائی کی تعلیم دی ہے اور ایک قوم بنایا ہے، ہمیں ایک قوم بن کے رہنا چاہئے اور جھوٹی اناؤں میں دوبارہ ڈو بنا نہیں چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو عقل دے.ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے یہود کو خیبر سے نکالا تو خود انصار و مہاجرین کو ساتھ لے کر جن میں حضرت جبار بن صخر اور حضرت یزید بن ثابت بھی تھے خیبر کے لئے روانہ ہوئے.یہ دونوں حضرات خیبر کی پیداوار کا تخمینہ لگانے جایا کرتے تھے اور ان دونوں آدمیوں نے اسی تقسیم کے مطابق جو پہلے سے تھی ہر ایک کا حصہ علیحدہ کر دیا.وادی قری کی تقسیم میں حضرت عمر نے جہاں دیگر اصحاب کو حصہ دیا وہاں ایک حصہ حضرت جبار بن صخر کو بھی دیا گیا.سر یہ حضرت علی بطرف بنو کی جو ربیع الآخر نو ہجری میں ہوا تھا، اس کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو ڈیڑھ سو افراد کے ہمراہ بنوطی کے بت فلس کو گرانے کے لیے روانہ فرمایا.بنو کی کا علاقہ مدینہ کے شمال مشرق میں واقع تھا.آپ نے اس سریے کے لیے حضرت علی کو ایک کالے رنگ کا بڑا جھنڈا دیا اور سفید رنگ کا چھوٹا پرچم عطا فرمایا.حضرت علی صبح کے وقت آلِ حاتم پر حملہ آور ہوئے اور ان کے بت فلس کو منہدم کر دیا.حضرت علی “بوطی سے بہت سارا مال غنیمت اور قیدی لے کر مدینہ واپس آئے.27 اس سریے میں لواء حضرت جبار بن صخر کے پاس تھا.اس سریے میں حضرت علی نے اپنے ساتھیوں سے رائے مانگی تو حضرت جبار بن صخر نے کہا کہ رات ہم اپنی سواریوں پر سفر کرتے ہوئے 497 496 گزاریں اور صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کر دیں.حضرت علی کو آپ کی یہ بات پسند آئی.498

Page 218

اصحاب بدر جلد 4 202 حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکڑ کے اپنے دائیں جانب کھڑا کر دیا.پھر حضرت جبار بن صحر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کو اپنے پیچھے کھڑا کر دیا.499 ان کو عمر و بن عبد وڈ نے شہید کیا.500 64 حضرت جبر بن عتیک حضرت جبر بن عتیک.غزوہ بدر اور تمام غزوات میں رسول کریم صلی علیکم کے ہمراہ یہ شریک تھے.مدینہ میں آنحضرت صلی یہ کرم کی وفات تک وہیں رہے.حضرت جبر بن عتیک کی کنیت عبد اللہ تھی.اولاد میں دو بیٹے عتیک اور عبد اللہ اور ایک بیٹی اتم ثابت تھی.رسول اللہ صلی علیکم نے حضرت جبر بن عتیک اور خباب بن الارت کے درمیان مواخات قائم فرمائی.فتح مکہ کے موقع پر بنو معاویہ بن مالک کا جھنڈا آپ کے پاس تھا.حضرت جبر بن عتیک کی وفات 61 ہجری میں یزید بن معاویہ کی خلافت میں اکہتر سال کی عمر میں ہوئی، دور میں کہنا چاہئے خلافت نہیں تھی.11 501 65 حضرت جبیر بن إياس ย 502 حضرت جبیر بن ایاسایاس بن خَالِد ان کے والد کا نام تھا.یہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے.ان کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو زُریق سے تھا.حضرت عبد اللہ بن محمد نے کہا کہ آپ کا نام جبیر بن الیاس تھا اور ایک دوسری روایت میں آپ کا نام جبر بن ایاس بھی بیان ہوا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی للی کم پر نعوذ باللہ کسی یہودی نے جادو کر دیا تھا جس کا آپ صلی علیہ کم پر اثر ہو گیا تھا اور روایات میں آتا ہے کہ کنگھی اور بالوں پر وہ جادو کر کے ذروان کنویں میں ڈال دیا تھا اور بال جبیر بن ایاس نے ذروان کنویں سے نکالے تھے اور ایک اور روایت کے مطابق حضرت قیس بن محصن نے نکالے تھے.503

Page 219

203 66 صحاب بدر جلد 4 حضرت حارث بن حمه ย حضرت حارث بن حلمہ.حضرت حارث بن حلیمہ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو نجار سے تھا اور 504 بئر معونہ کے روز یہ شہید ہوئے تھے.آنحضور صلی لی ایم نے حارث اور حضرت صہیب بن سنان کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی.505 جنگ میں شامل نہ ہو سکے لیکن رسول اکرم صلی ال یونین نے اموال غنیمت میں حصہ مقرر فرمایا حضرت حارث بن صمہ غزوہ بدر کے لئے رسول اللہ صلی اللی ایم کے ساتھ روانہ ہوئے.جب الروحاء کے مقام پر پہنچے تو آپ میں مزید سفر کی طاقت نہ رہی.رسول اللہ صلی ال ہم نے آپ کو مدینہ واپس بھیج دیا لیکن اموال غنیمت میں آپ کا حصہ بدر میں شامل ہونے والوں کی طرح مقرر فرمایا.یعنی عملاً شامل نہیں ہوئے تھے لیکن ایک جذبہ کے تحت نکلے تھے لیکن صحت نے اجازت نہیں دی یا اس وقت زیادہ بیمار ہو گئے ہوں گے اس لئے واپس بھیجوا دئے گئے لیکن آپ کی نیت اور جذبے کو دیکھ کے آنحضرت صلی الم نے ان کو بدر میں شامل ہونے والے صحابہ میں شمار فرمایا.غزوہ احد میں شمولیت اور شجاعت کا مظاہرہ، عثمان بن عبد اللہ جیسے خطرناک دشمن کو قتل کرنا آپ غزوہ احد میں شریک تھے.اُس دن جب لوگ منتشر ہو گئے تو اس وقت حضرت حارث ثابت قدم رہے.حضرت حارث نے آپ صلی علیہم سے موت پر بیعت کی.آپ نے عثمان بن عبد اللہ بن مغیرہ مخزومی کو قتل کیا یعنی حضرت حارث نے اور سلب لے لیا یعنی جو اس کا جنگی لباس اور سامان تھا وہ لے لیا جس میں اس کی زرہ اور خود اور تلوار تھی.رسول اللہ صلی للہ ہم نے وہ سامان آپ کو ہی عطا کیا.رسول اللہ صلی ای کمر کو جب عثمان بن عبد اللہ کی ہلاکت کی خبر ہوئی تو فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اسے ہلاک کیا.عثمان بن عبد اللہ بڑا خطرناک دشمن تھا.یہ ایک مشرک تھا اور غزوہ احد کے دن نبی کریم صلی کم کو نقصان پہنچانے کی غرض سے پورے ہتھیاروں سے لیس ہو کر آیا تھا.غزوہ احد کے روز رسول اللہ صلی لینینم نے دریافت فرمایا کہ میرے چا حمزہ کے ساتھ کیا ہوا ؟ حضرت حارث ان کی تلاش میں نکلے.جب آپ کو دیر ہو گئی تو حضرت علی روانہ ہوئے اور حارث کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت حمزہ شہید ہو چکے ہیں.دونوں صحابہ نے واپس آکر نبی کریم صلی للی نام کو اس شہادت کی خبر دی.506

Page 220

اصحاب بدر جلد 4 204 عبد الرحمن بن عوف اور فرشتوں کا ساتھ حضرت حارث بیان کرتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن رسول اللہ صلی علی یکم نے مجھ سے جبکہ آپ صلی علیکم ایک گھاٹی میں تھے فرمایا کہ کیا تم نے عبد الرحمن بن عوف کو دیکھا ہے ؟ میں نے عرض کی.جی ہاں میں نے انہیں دیکھا ہے.وہ پہاڑی کے پہلو میں تھے اور ان پر مشرکین کا لشکر حملہ آور تھا.میں نے ان کی طرف رخ کیا تا کہ ان کو بچاؤں مگر پھر میری نظر آپؐ پر پڑی اور میں آپ کے پاس آگیا اور آپ صلی علیکم نے فرمایا کہ فرشتے اس کی حفاظت کر رہے ہیں یعنی عبد الرحمن بن عوف کی فرشتے حفاظت کر رہے ہیں.ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی علیم نے فرمایا کہ فرشتے اس کی معیت میں لڑ رہے ہیں.حضرت حارث کہتے ہیں کہ میں عبد الرحمن بن عوف کے پاس گیا.پھر واپس ہو کے گیا.جب جنگ خاتمے کو پہنچی تو میں نے دیکھا ان کے سامنے سات آدمی قتل ہوئے پڑے ہیں.میں نے کہا کہ کیا آپ نے ان سب کو قتل کیا ہے ؟ اس پر عبد الرحمن نے کہا کہ ان تین کو تو میں نے قتل کیا ہے مگر باقیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ ان کو کس نے قتل کیا ہے.اس پر میں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا.یعنی کہ فرشتے اس کا ساتھ دے رہے ہیں.بئر معونہ میں شہادت 507 حضرت حارث واقعہ بئر معونہ میں شریک ہوئے.جس وقت یہ واقعہ ہوا اور صحابہ کو شہید کیا گیا اُس وقت حضرت حارث اور عمرو بن امیہ اونٹوں کو چرانے گئے ہوئے تھے.سیرت ابن ہشام میں دو اصحاب عمرو بن امیہ اور حضرت مُنذر بن محمد کا درج ہے.بہر حال بعض کتابوں کی روایت میں یہ تھے جو اونٹوں کو چرانے والے تھے.بہر حال اس روایت کے مطابق جو یہ کہتی ہے کہ یہ تھے ، جب واپسی پر یہ اپنے پڑاؤ کی جگہ پر پہنچے تو دیکھا کہ پرندے وہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو انہوں نے سمجھ لیا کہ ان کے ساتھی شہید ہو چکے ہیں.حضرت حارث نے حضرت عمرو سے کہا کہ آپ کی کیا رائے ہے ؟ عمرو نے کہا کہ میرا خیال تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم کے پاس چلا جائے اور واپس جا کے خبر کی جائے.حضرت حارث نے کہا کہ میں اس جگہ سے پیچھے نہیں رہوں گا جہاں مُنذر کو قتل کیا گیا ہے.چنانچہ آپ آگے بڑھے اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے.508 حضرت عبد اللہ بن ابی بکر کہتے ہیں کہ حارث کی شہادت دشمنوں کی طرف سے مسلسل پھینکے جانے والے نیزوں کی وجہ سے ہوئی تھی جو ان کے جسم میں پیوست ہو گئے تھے اور آپ شہید ہو گئے تھے.19 509

Page 221

205 67 صحاب بدر جلد 4 حضرت حارث بن انس انصاری حضرت حارث بن انس انصاری.ان کی والدہ کا نام حضرت ام شریک تھا اور والد انس بن رافع تھے.آپ کی والدہ نے بھی اسلام قبول کیا اور رسول اللہ کی بیعت سے مشرف ہوئی تھیں.حضرت حارث کا تعلق قبیلہ اوس کی شاخ بنو عبد الا شکل سے تھا.غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے تھے اور غزوۂ احد میں آپ کو شہادت نصیب ہوئی.حضرت حارث ان چند اصحاب میں سے تھے جو غزوہ احد میں حضرت عبد اللہ بن جبیر کے ساتھ درّے پر ڈٹے رہے اور جام شہادت نوش کیا.110 68 حضرت حارث بن اوس بن معاذ حضرت حارث بن اوس بن معاذ.آپ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ کے بھتیجے تھے.غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اٹھائیس سال کی عمر میں غزوہ احد میں شہید ہوئے لیکن بعض دوسری روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ غزوہ احد میں شہید نہیں ہوئے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں غزوہ خندق کے موقع پر لوگوں کے قدموں کی پیروی کرتے ہوئے نکلی.میں نے اپنے پیچھے سے زمین کی آہٹ سنی.پلٹ کر دیکھا تو حضرت سعد بن معاذ تھے اور آپ کا بھتیجا حارث بن اوس بھی ہمراہ تھا جو اپنی ڈھال اٹھائے ہوئے تھا.یہ روایت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ احد کے بعد بھی زندہ رہے.511 حضرت حارث کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کیا تھا اور اس حملے کے دوران آپ کے پاؤں پر زخم لگا اور خون بہنے لگا.صحابہ آپ کو اٹھا کر رسول اللہ صلی علی نام کے پاس لے آئے تھے.12 یہودی سردار کعب بن اشرف کا قتل اور اس کے اسباب کعب بن اشرف وہ شخص تھا جو مدینہ کے سرداروں میں سے تھا اور آنحضرت صلی علیم کے معاہدے

Page 222

ب بدر جلد 4 206 513 میں شامل تھا لیکن معاہدہ کر کے بعد میں اس نے فتنہ پھیلانے کی کوشش کی اور اس کے قتل کا حکم آنحضرت صلی اللہ ہم نے دیا.بہر حال اس موقع پر ان کے زخمی ہونے کا جو واقعہ ہے اس کی شرح عمدۃ القاری میں مزید تفصیل یہ ہے کہ محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب کعب بن اشرف پر حملہ کیا اور اس کو قتل کر دیا تو ان کے ایک ساتھی حضرت حارث بن اوس کو تلوار کی نوک لگی اور وہ زخمی ہو گئے ، اپنے ساتھیوں کی تلوار کی نوک سے زخمی ہوئے تھے.چنانچہ آپ کے ساتھی انہیں اٹھا کر تیزی سے مدینہ پہنچے اور آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوئے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ ہم نے حضرت حارث بن اوس کے زخم پر اپنا لعاب لگایا اور اس کے بعد انہیں تکلیف نہیں ہوئی.3 کعب بن اشرف کا قتل کیوں کیا گیا، اس کی تھوڑی سی تفصیل ایک موقع پر پہلے بھی میں نے بیان کی تھی.مزید تفصیل جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے وہ بیان کرتا ہوں.بعض باتیں وہی ہیں کہ کعب گو مذہبا یہودی تھا، لیکن دراصل یہودی النسل نہ تھا، بلکہ عرب تھا.اس کا باپ اشرف بنو ںبھان کا ایک ہوشیار اور چلتا پرزہ آدمی تھا جس نے مدینہ میں آکر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا کئے پھر ان کا حلیف بن گیا.آخر اس نے اتنا اقتدار اور رسوخ پیدا کر لیا کہ قبیلہ بنو نضیر کے بڑے رئیس ابو رافع بن ابی الحقیق نے اپنی لڑکی اس کو رشتہ میں دے دی.اسی لڑکی کے بطن سے کعب پید اہوا جس نے بڑے ہو کر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا حتی کہ بالآخر اسے یہ حیثیت حاصل ہو گئی کہ تمام عرب کے یہودی اسے اپنا سر دار سمجھنے لگ گئے.کعب ایک وجیہہ اور شکیل شخص ہونے کے علاوہ قادر الکلام بھی تھا.بہت اچھی تقریر کر لیا کرتا تھا، بہت اچھا بولتا تھا.اور شاعر بھی تھا اور انتہائی دولت مند آدمی بھی تھا اور اپنی قوم کے علماء اور دوسرے ذی اثر لو گوں کو اپنی مالی فیاضی سے اپنے ہاتھ کے نیچے رکھتا تھا.مگر اخلاقی نقطہ نگاہ سے وہ ایک نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا.خفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں اسے کمال حاصل تھا.آنحضرت صلی الله ولم نے جب مدینہ میں ہجرت کی تو کعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدے میں شرکت اختیار کی.یہ لمبی تفصیل انہوں نے لکھی ہوئی ہے.میں بعض جگہ سے کچھ مختصر بیان کروں گا.بہر حال اس معاہدے میں شرکت کی جو آنحضرت صلی علی کم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اور امن اور امان اور مشتر کہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا.مگر اندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض اور عداوت کی آگ سلگنے لگی.معاہدے میں شامل تو وہ ہو گیالیکن دل میں اس کے فتور تھا، نفاق تھا اور دشمنی تھی، کینہ اور بغض تھا اور اس کی وجہ سے اس کی آگ میں وہ جل رہا تھا اور اس بغض اور کینہ کی وجہ سے اس نے خفیہ چالوں اور مخفی ساز باز سے اسلام اور آنحضرت صلی این نام کی مخالفت شروع کر دی.چنانچہ لکھا ہے کہ کعب ہر سال یہودی علماء و مشائخ کو بہت سی خیرات دیا کرتا تھا لیکن جب آنحضرت صلی علیہ سلم کی ہجرت کے بعد یہ لوگ اپنے سالانہ وظائف لینے کے لئے اس کے پاس گئے تو اس

Page 223

تاب بدر جلد 4 207 نے باتوں باتوں میں آنحضرت صلی علی کم کا ذکر کیا اور ان سے کہا کہ اپنی مذہبی کتابوں کی بنا پر تمہاری کیا رائے ہے کہ یہ شخص سچا ہے کہ نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا ہے.اس جواب پر کعب جو بغض اور کینہ رکھتا تھا بگڑ گیا اور ان کو بڑا سخت برا بھلا کہا اور جو خیرات انہیں دیا کرتا تھا، جو وظیفہ لگایا ہوا تھا وہ نہ دیا.یہودی علماء کی جب روزی بند ہو گئی تو پھر یہ کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ کعب کے پاس گئے اور کہا کہ ہمیں علامات کے سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی.ہم نے غور کیا ہے، اصل میں محمد صلی اللی علم وہ نبی نہیں ہیں جن کا وعدہ دیا گیا تھا.بہر حال اس جواب سے کعب کا مطلب تو حل ہو گیا اور اس نے خوش ہو کر ان کو خیرات کر دی، اُن کا بھی مطلب حل ہو گیا.تو بہر حال یہ تو ایک مذہبی مخالفت تھی، حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے صحیح لکھا ہے کہ مذہبی مخالفت تھی اور یہ مذہبی مخالفت کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں ہے کہ جس پر کوئی انتہائی قدم اٹھایا جائے یا کعب کو زیر الزام سمجھا جائے.اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد کعب کی مخالفت زیادہ خطر ناک صورت اختیار کر گئی اور آخر جنگ بدر کے بعد تو اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا اور مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک حالات پیدا ہو گئے تھے.پہلے تو کعب یہ سمجھتا تھا کہ مسلمان کا ایمان کا جوش یہ عارضی چیز ہے اور ختم ہو جائے گا اور وہ واپس اپنے مذہب کی طرف آجائیں گے لیکن جب جنگ بدر میں غیر معمولی فتح نصیب ہوئی اور قریش کے اکثر سر دار مارے گئے تو پھر اس کو فکر پیدا ہوئی اور پھر اس نے اپنی پوری کوشش اسلام کے مٹانے اور تباہ و برباد کرنے میں صرف کرنے کا تہیہ کیا.اس کے دلی بغض و حسد کا سب سے پہلا اظہار بدر کے موقع پر ہی ہوا جب لوگوں نے آکر کہا کہ مکہ کے کفار پر ہماری فتح ہوئی ہے تو اس نے بڑا کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور یہ غلط خبر ہے.لیکن بہر حال جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ یہ خبر سچی ثابت ہونے کے بعد اس کا غیض و غضب اور زیادہ بھڑک اٹھا.اس کے بعد جب جنگ بدر کی فتح کے بعد مسلمان واپس آگئے تو اس نے مکہ کا سفر کیا اور وہاں جا کر مکہ والوں کو اپنی چرب زبانی، اپنی باتوں اور اپنی تقریروں اور شعروں کے ذریعہ سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ جو مسلمانوں کے خلاف تھی اس کو اور تیز کیا اور بھڑ کانے کی کوشش کی اور ان کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کر دی.اور ان کے سینے جذبات اور انتقام سے سخت بھر دیئے.جب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک انتہائی درجہ کی تیزی پیدا ہو گئی، بجلی پیدا ہو گئی تو اس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جا کر کعبہ کے پر دے ان کے ہاتھ میں دے دیئے اور ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانی اسلام آنحضرت صلی اللہ ہم کو دنیا سے ملیا میٹ نہ کر دیں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے.کہتے ہیں کہ اس کی ان باتوں سے مکہ میں آتش فشاں کی سی کیفیت پید اہو گئی.پھر اس نے دوسرے قبائل کا رخ کیا اور ہر قوم میں جا کے مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکا یا اور مسلمان خواتین پر بھی تشبیب کی یعنی اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اور مخش طریق پر مسلمان خواتین کا ذکر

Page 224

تاب بدر جلد 4 208 کیا حتی کہ خاندان نبوت کی مستورات کو بھی ان اوباشانہ اشعار کا نشانہ بنایا اور اپنے شعروں کا بڑا چرچا کروایا.آخر اس نے انتہایہ کی کہ آنحضرت صلی لی ایم کے قتل کی سازش کی اور آپ کو کسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پر بلا کر چند نوجوان یہودیوں سے آپ کو قتل کروانے کا منصوبہ بنایا.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے وقت پر اطلاع ہو گئی اور یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی.جب نوبت یہاں تک آگئی اور کعب کے خلاف عہد شکنی، بغاوت، تحریک جنگ، فتنہ پردازی، مخش گوئی اور سازش قتل کے الزامات پایہ ثبوت کو پہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ ہم نے جو اس بین الا قوام معاہدہ کی رو سے جو آپ کے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد مدینہ کے لوگوں میں ہوا تھا، مدینہ کی جمہوری سلطنت قائم ہوئی تھی اور آپ اس کے صدر اور حاکم اعلیٰ بنے تھے.آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ کعب بن اشرف اپنی کارروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے اور اپنے صحابیوں کو ارشاد فرمایا کہ ایسے قتل کر دیا جائے.لیکن چونکہ اس وقت کعب کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مدینہ کی فضا ایسی ہو رہی تھی کہ اگر اس کے خلاف باضابطہ طور پر اعلان کر کے اسے قتل کیا جاتا تو خطرہ تھا کہ مدینہ میں خانہ جنگی نہ شروع ہو جائے اور پھر پتہ نہیں کتنا کشت و خون ہو اور اس وجہ سے آنحضرت صلی علیم نے اس جنگ اور فتنے اور فساد اور کشت وخون کو روکنے کے لئے یہ فیصلہ کیا کہ خاموش طریقے سے اس کا قتل کیا جائے اور اس کے لئے آپ نے یہ ڈیوٹی قبیلہ اوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مسلمہ کے سپر د فرمائی اور انہیں یہ بھی تاکید فرمائی کہ جو بھی طریق اختیار کریں قبیلہ اوس کے رئیس سعد بن معاذ کے مشورہ سے اس پر عمل کریں.تو محمد بن مسلمہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ خاموشی سے قتل کرنے کے لئے تو کوئی بات عذر وغیرہ بنانا پڑے گا جس کی مدد سے کعب کو اس کے گھر سے نکال کر قتل کیا جاسکے تو آپ نے فرمایا اچھا، (ٹھیک ہے.جو بھی تم نے طریق اختیار کرنا ہے کرو.چنانچہ محمد بن مسلمہ نے سعد بن معاذ کے مشورہ سے ابونائلہ اور دو تین اور صحابیوں کو اپنے ساتھ لیا اور کعب کے مکان پر پہنچے اور ان سے کہا کہ ہمارے صاحب یعنی آنحضرت صلی علیم نے ہم سے صدقہ مانگا ہے.آجکل ہم تنگ حال ہیں تم ہمیں کچھ قرض دے سکتے ہو ؟ یہ سن کے وہ بڑا خوش ہوا اور کہنے لگا کہ وہ دن دور نہیں کہ جب تم اس شخص سے بیزار ہو جاؤ گے اور اسے چھوڑ دو گے.تو محمد نے جواب دیا کہ خیر ہم تو محمد رسول اللہ صلی علیم کی اتباع اختیار کر چکے ہیں، اور اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلہ کا انجام کیا ہوتا ہے.مگر تم بتاؤ کہ قرض دو گے کہ نہیں؟ کعب نے کہاہاں میں دے دوں گا مگر کچھ چیز رہن رکھو.انہوں نے کہا کیا چیز ؟ تو اس بدبخت نے پہلی بات یہ کہی کہ اپنی عور تیں میرے پاس رہن رکھ دو.ان کو غصہ تو بہت آیا کہ تمہارے جیسے آدمی کے پاس ہم اپنی عورتیں رکھ دیں.اس نے کہا اچھا پھر بیٹے دے دو.انہوں نے کہا یہ بھی ممکن نہیں ہے.ہم سارے عرب کا طعن اپنے سر پر نہیں لے سکتے.اگر تم مہربانی کرو تو اپنے ہتھیار تمہارے پاس رہن رکھ دیتے ہیں.تو کعب اس پر راضی ہو گیا.محمد بن مسلمہ اور اس کے

Page 225

ناب بدر جلد 4 209 ساتھی رات کو آنے کا وعدہ دے کر واپس چلے گئے اور جب رات ہوئی تو یہ لوگ کھلے طور پر اپنے ہتھیار لے کر آئے.اس کو بلایا، گھر سے باہر لے کر آئے، اس پر قابو پالیا اور پھر انہوں نے اس کو قتل کر دیا.جب قتل کیا تو اس وقت حضرت حارث کا جو ذکر آرہا ہے وہ زخمی ہو گئے تھے ، ان کو اپنے لوگوں کی تلوار لگ گئی تھی.اور پھر جب اس کو قتل کر دیا تو آنحضرت صلی ال کم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس قتل کی اطلاع دی.است اپنے سردار کے قتل کی وجوہات سن کر یہود کا خاموش ہو جانا جب صبح اس کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں بڑی سنسنی پھیل گئی.سب یہودی جوش میں آگئے.دوسرے دن یعنی اگلے دن صبح یہودیوں کا ایک وفد آنحضرت صلی الی یکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سر دار کعب بن اشرف اس طرح قتل کر دیا گیا ہے تو آنحضرت صلی الی یکم نے سن کر فرمایا، انکار نہیں کیا نہ یہ کہا کہ اچھا مجھے نہیں پتہ، کوئی ایسی بات نہیں ہوئی.آپ نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا ہے.پھر آپ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہد شکنی، تحریک جنگ، فتنہ انگیزی، فحش گوئی، سازش قتل و غیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہو گئے.تب ان کا جوش ٹھنڈا ہو گیا.ان کو پتہ لگ گیا کہ ہاں بات تو حقیقت ہے اور یہی اس کی سزا ہونی چاہئے تھی.یہود کے ساتھ نیا معاہدہ پھر آنحضرت صلی اللہ کریم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ کم از کم آئندہ کے لئے امن اور تعاون کا معاہدہ کرو اور عداوت اور فتنہ و فساد کا بیج نہ بوؤ.چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لئے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہنے اور فتنہ و فساد کے طریقوں سے بچنے کا از سر نو وعدہ کیا اور یہ عہد نامہ حضرت علی کی سپر د گی میں دے دیا گیا.تاریخ میں کسی بھی جگہ مذکور نہیں کہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کر کے مسلمانوں پر الزام عائد کیا ہو کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے.بعض مغربی مورخین کا اعتراض اور جواب الله سة حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ مغربی مورخین بعد میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیم نے ایک ناجائز قتل کروایا اور یہ غلط چیز تھی.تو وہ لکھتے ہیں کہ یہ ناجائز قتل نہیں تھا.کیونکہ کعب بن اشرف آنحضرت صلی علیم کے ساتھ باقاعدہ امن کا معاہدہ کر چکا تھا اور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنا تو در کنار رہا اس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ ہر بیرونی دشمن کے خلاف مسلمانوں کی مدد کرے گا اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا.اس نے اس معاہدے کی رو سے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ جو رنگ مدینہ میں جمہوری سلطنت کا قائم کیا گیا ہے اس میں آنحضرت صلی لی کا صدر ہوں گے اور ہر قسم کے تنازعات وغیرہ میں آپ کا فیصلہ سب کے لئے واجب القبول ہو گا.

Page 226

اصحاب بدر جلد 4 210 چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسی معاہدے کے ماتحت یہودی لوگ اپنے مقدمات وغیرہ آنحضرت صلی کم کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور آپ ان میں احکام جاری فرماتے تھے.اب ان حالات کے ہوتے ہوئے کعب نے تمام عہد و پیمان کو بالائے طاق رکھا، پیچھے کر دیا، چھوڑ دیا.مسلمانوں سے بلکہ حق یہ ہے کہ حکومت وقت سے غداری کی.یہاں مسلمانوں سے غداری کا سوال نہیں اس نے حکومت وقت سے غداری کی کیونکہ آنحضرت صلی یکی سر براہ حکومت تھے اور مدینہ میں فتنہ و فساد کا بیج بویا اور ملک میں جنگ کی آگ مشتعل کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب کو خطرناک طور پر ابھارا اور مسلمانوں کی عورتوں پر اپنے جوش دلانے والے اشعار میں تشبیب بھی کہی.پھر آنحضرت صلی اللہ ایم کے قتل کے منصوبے کئے.یہ سب کچھ ایسی حالت میں کیا کہ مسلمان پہلے سے ہی جو چاروں طرف سے مصائب میں گرفتار تھے ان کے لئے سخت مشکل حالات پیدا کر دیئے اور ان حالات میں کعب کا جرم بلکہ بہت سے جرموں کا مجموعہ ایسا نہ تھا کہ اس کے خلاف کوئی تعزیری قدم نہ اٹھایا جائے.چنانچہ یہ قدم اٹھایا گیا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ آجکل مہذب کہلانے والے ممالک میں بغاوت اور عہد شکنی اور اشتعال جنگ اور سازش قتل کے جرموں میں مجرموں کو قتل کی سزادی جاتی ہے پھر اعتراض کس چیز کا.اور پھر دوسراسوال قتل کے طریق کا ہے کہ اس کو خاموشی سے کیوں رات کو مارا گیا؟ تو اس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یادر کھنا چاہئے کہ عرب میں اس وقت کوئی باقاعدہ سلطنت نہیں تھی.ایک سربراہ تو مقرر کر لیا تھا، لیکن صرف اسی کا فیصلہ نہیں ہو تا تھا بلکہ اگر اپنے اپنے فیصلے کرنا چاہے تو ہر شخص اور ہر قبیلہ آزاد اور خود مختار بھی تھا.مجموعی طور پر مشترکہ فیصلے ہوتے تو آنحضرت صلی علیم کے پاس آتے تھے اور اگر اپنے طور پر قبیلوں نے کرنے ہوتے تو وہ بھی ہوتے تھے.تو ایسی صورت میں وہ کون سی عدالت تھی جہاں کعب کے خلاف مقدمہ دائر کر کے باقاعدہ قتل کا حکم حاصل کیا جاتا.کیا یہود کے پاس شکایت کی جاتی جن کا وہ سردار تھا اور جو خود مسلمانوں سے غداری کر چکے تھے، آئے دن فتنے کھڑے کرتے رہتے تھے ؟ اس لئے یہ سوال ہی نہیں پید ا ہو تا کہ یہود کے پاس جایا جاتا.قبائل سکیم اور غطفان سے دادرسی چاہی جاتی جو گزشتہ چند ماہ میں تین چار دفعہ مدینہ پر چھاپہ مارنے کی تیاری کر چکے تھے ؟ وہ بھی ان کے قبیلے تھے تو ظاہر ہے کہ ان سے بھی کوئی انصاف نہیں ملنا تھا.پھر آپ لکھتے ہیں کہ اس وقت کی حالت پر غور کرو اور پھر سوچو کہ مسلمانوں کے لئے سوائے اس کے وہ کون ساراستہ کھلا تھا کہ جب ایک شخص کی اشتعال انگیزی اور تحریک جنگ اور فتنہ پردازی اور سازش قتل کی وجہ سے اس کی زندگی کو اپنے لئے اور ملک کے امن کے لئے خطرہ پاتے ہوئے خود حفاظتی کے خیال سے موقع پا کر اسے قتل کر دیتے کیونکہ یہ بہت بہتر ہے کہ ایک شریر اور مفسد آدمی قتل ہو جاوے بجائے اس

Page 227

تاب بدر جلد 4 211 کے کہ بہت سے پر امن شہریوں کی جان خطرے میں پڑے اور ملک کا امن برباد ہو.اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتا ہے کہ فتنہ جو ہے وہ قتل سے بڑا ہے.بہر حال اس معاہدے کی رو سے جو ہجرت کے بعد مسلمانوں اور یہود کے درمیان ہوا تھا آنحضرت علی ای کم کو ایک معمولی شہری کی حیثیت حاصل نہیں تھی بلکہ آپ اس جمہوری سلطنت کے صدر قرار پائے تھے جو مدینہ میں قائم ہوئی تھی اور آپ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ جملہ تنازعات اور امور سیاسی میں جو فیصلہ مناسب خیال کریں صادر فرمائیں.پس اگر آپ نے ملک کے امن کے مفاد میں کعب کی فتنہ پردازی کی وجہ سے اسے واجب القتل قرار دیا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی اس لئے تیرہ سو سال کے بعد اسلام پر اعتراض کرنے والوں کا یہ اعتراض جو ہے بالکل بودا ہے کیونکہ اس وقت تو یہودیوں نے آپ کی بات سن کے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور کبھی بھی اعتراض نہیں کیا.تو یہ تھی اس کی حالت اور بہر حال پر ذکر ہوا تھا حضرت حارث بن اوس بن معاذ کا کہ یہ بھی اس قتل میں شامل تھے ، اس ٹیم میں جو اس کے قتل کے لئے بھیجی گئی تھی اور جو آنحضرت علی کم پر یا اسلام پر شدت پسندی کے الزامات لگتے ہیں وہ سب الزامات بھی غلط تھے.وہ اس بات کا حق دار تھا کہ اس کو سزا دی جاتی اور آنحضرت صلی علیم نے سربراہ حکومت کی حیثیت سے اسے سزا دی.515 514 69 نام و نسب و کنیت حضرت حارث بن حاطب ย حضرت حارث بن حاطب.ان کی کنیت ابو عبد اللہ ہے.آپ کی والدہ کا نام امامہ بنت صامت تھا.آپ کا تعلق انصار قبیلہ اوس سے تھا.حضرت ثعلبہ بن حاطب کے بھائی تھے.جنگ میں شامل نہیں ہوئے لیکن آنحضرت علی ایم نے انہیں بدر میں شمار فرمایا حضرت حارث بن حاطب اور حضرت ابولبابہ بن عبد المندر حضور صلی علیم کے ہمراہ غزوہ بدر کے لئے جارہے تھے کہ روحاء کے مقام پر آنحضرت صلی علیم نے حضرت ابولبابہ بن عبد المنذر کو مدینہ کا حاکم جبکہ حضرت حارث بن حاطب کو قبیلہ بنو عمرو بن عوف کا امیر بنا کر مدینہ واپس بھجوادیا.لیکن ان دونوں کو اصحاب بدر میں شامل فرماتے ہوئے مال غنیمت میں سے بھی حصہ دیا.

Page 228

اصحاب بدر جلد 4 212 بیعت رضوان میں شامل ہونے کا شرف حضرت حارث بن حاطب کو غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت بیعت رضوان میں بھی آنحضور صلی ایم کے ہمراہ شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا.کیونکہ یہ تیار ہو کے جارہے تھے اور ان کی پوری نیت تھی کہ بدر میں شامل ہوں گے اس لئے آنحضرت صلی لی ایم نے باوجود اس کے کہ ان کو امیر مقرر کر کے واپس بھجوایا تھا لیکن ان کا شمار بدر میں شامل ہونے والوں میں کیا.شہادت غزوہ خیبر میں جنگ کے دوران ایک یہودی نے قلعہ کے اوپر سے تیر مارا جو کہ حضرت حارث بن حاطب کے سر پر لگا جس سے آپ شہید ہو گئے.516 70 نام و نسب و کنیت حضرت حَارِث بن خَزمه ย حضرت حارث بن خَزَمہ.انصاری تھے.ان کی کنیت ابو بشر تھی.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا.بنو عَبْدُ الْأَشْهَل کے حلیف تھے.تمام غزوات میں شمولیت حضرت حارث بن خَزَمَه غزوہ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی الی یکیم کے ساتھ شامل ہوئے تھے.رسول اللہ صلی علی عالم نے حضرت حارث بن خَزَمہ اور حضرت ایاس بن بگیر کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی.غزوہ تبوک کے موقعہ پر آنحضرت مصلی امی کی گمشدہ اونٹنی کو لانے والے تاریخ میں یہ ذکر آتا ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب آنحضور صلی اللہ ﷺ کی اونٹنی گم ہو گئی تو منافقوں نے آپ صلی علیہ تم پر یہ اعتراض کیا کہ آپ کو اپنی اونٹنی کی تو خبر نہیں ہے تو آسمان کی خبریں کیسے جان سکتے ہیں.جب آنحضور صلی کم کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ میں وہی باتیں جانتا ہوں جن کے بارے میں خدا مجھے خبر دیتا ہے اور پھر فرمایا کہ اب خدا نے مجھے اونٹنی کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ وادی کی فلاں گھاٹی میں ہے.اس کا ذکر پہلے بھی ایک صحابی کے ذکر میں کچھ ہو چکا ہے تو جو

Page 229

تاب بدر جلد 4 213 صحابی آپ صلی علیم کے بتائے ہوئے مقام سے اونٹنی تلاش کر کے لائے وہ حضرت حارث بن خَزَمہ تھے.وفات ان کی وفات 40 ہجری میں حضرت علی کے دور خلافت میں 67 سال کی عمر میں مدینہ میں ہوئی.517 71 حضرت حارث بن عرفجه حضرت حارث بن عرفجہ.ان کا تعلق قبیلہ بنو غنم سے تھا.غزوہ بدر اور احد میں یہ شامل ہوئے.518 72 حضرت حارث بن نعمان بن امیہ حضرت حارث بن نعمان بن امیہ ، انصاری.حضرت حارث کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا.آپ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ شامل ہوئے.آپ حضرت عبد اللہ بن جبير اور حضرت خوات بن جُبیر کے چچا تھے.جنگ صیقین کے موقع پر حضرت علی کی طرف سے شامل ہوئے تھے.519 73 حضرت حارقه بن سراقه ان کا نام حضرت حارثہ بن سراقہ تھا.ان کی وفات 2 ہجری میں جنگ بدر کے موقع پر ہوئی تھی.ان کی والدہ ربیع بنت نضر حضرت انس بن مالک کی پھوپھی تھیں.520

Page 230

اصحاب بدر جلد 4 521 214 ہجرت سے پہلے والدہ کے ساتھ یہ مشرف بہ اسلام ہوئے جبکہ آپ کے والد وفات پاچکے تھے.رسول اللہ صلی للی کرم نے آپ کے اور حضرت سائب بن عثمان بن مظعون کے درمیان عقد مواخات کیا تھا.2 522 مواخات کا معاہدہ کروایا تھا، بھائی بھائی کا عقد کروایا تھا.والدہ سے حسن سلوک کے نتیجہ میں جنت الله سة ابونعیم نے بیان کیا کہ حضرت حارثہ بن سراقہ اپنی والدہ سے بہت حسن سلوک سے کام لینے والے تھے یہاں تک کہ رسول کریم صلی علی کرم نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں حارثہ کو دیکھا.بدر کے دن سب سے پہلا سوار شہید حبان بن عرقه نے بدر کے دن آپ کو شہید کیا.اس نے انہیں اس وقت تیر مارا جبکہ آپ حوض سے پانی پی رہے تھے.وہ تیر آپ کی گردن پر لگا جس سے آپ شہید ہو گئے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی علی کم پیدل چل رہے تھے کہ ایک انصاری جو ان آپ کے سامنے آیا.نبی صلی الی یکم نے اس سے فرمایا کہ اے حارثہ تم نے کس حال میں صبح کی.انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس حال میں صبح کی کہ میں یقینا اللہ پر حقیقی ایمان رکھتا ہوں.آپ مسی ای کم نے فرمایا دیکھو کیا کہہ رہے ہو کیونکہ ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے.اس نوجوان نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امیر اول دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے.میں رات بھر جاگتا ہوں اور دن بھر پیا سارہتا ہوں.یعنی عبادت کرتا ہوں اور روزے رکھتا ہوں اور میں گویا اپنے پروردگار عزوجل کا عرش ظاہری آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور میں گویا اہل جنت کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ گویا باہم ایک دوسرے سے مل رہے ہیں اور گویا اہل دوزخ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس میں شور مچارہے ہیں.آپ صلی علیہم نے فرمایا تم اسی پر قائم رہو.تم ایک ایسے بندے ہو جس کے دل میں اللہ نے ایمان کو روشن کر دیا ہے.پھر اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی علیکم میرے لئے شہادت کی دعا فرمائیے.چنانچہ رسول اللہ صلی ال کلم نے ان کے لئے دعا کی اور بدر کے روز جب گھڑ سواروں کو بلایا گیا تو آپ سب سے پہلے نکلے او سے پہلے سوار تھے جو شہید ہوئے.بیان کیا جاتا ہے کہ یہ پہلے انصاری تھے جو غزوہ بدر میں شہید ہوئے.جنگ بدر کے ایک شہید کی والدہ اور جنت الفردوس الله حضرت حارثہ کی شہادت کی خبر جب ان کی والدہ کو ملی تو ان کی والدہ حضرت ربیع رسول کریم ملی تعلیم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کو تو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا.بہت خدمت کیا کرتے تھے.اگر وہ اہل جنت میں سے ہے تو میں صبر کرلوں گی اور اگر ایسا نہیں تو پھر خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ میں کیا کروں گی.رسول کریم ملی ایم نے فرمایا اے اتم حارثہ جنت ایک نہیں بلکہ کئی جنتیں ہیں اور حارثہ تو فردوس اعلیٰ میں ہے.جو

Page 231

اصحاب بدر جلد 4 215 اعلی ترین جنت ہے اس میں ہے.اس پر انہوں نے عرض کیا کہ میں ضرور صبر کروں گی.ایک دوسری روایت کے مطابق جب آنحضرت صلی اللہ کریم نے فرمایا کہ حارثہ تو فردوس اعلیٰ میں ہے تو اس پر آپ کی والدہ اس حال میں واپس چلی گئیں کہ وہ مسکرا رہی تھیں اور یہ کہہ رہی تھیں کہ واہ واہ اے حارثہ.523 اہل بدر کے متعلق اس ارشاد کا مفہوم: جو مرضی کرو تم پر جنت واجب ہو گئی غزوہ بدر کے موقع پر خدا تعالیٰ نے کفار کے سرداروں کو موت کے گھاٹ اتار کر کفار کو رسوا کیا اور غزوہ بدر میں شامل ہونے والے مسلمانوں کو عزت بخشی اور خد اتعالیٰ نے اہل بدر کے متعلق خبر پائی تو فرمایا کہ تم جو مرضی کرو تم پر جنت واجب ہو گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو کہا کہ تم جو مرضی کر و جنت واجب ہو گئی ہے.یہ مطلب نہیں تھا کہ جو مرضی کرو.اب گناہ بھی کرو تو جنت واجب ہے.مطلب یہ کہ اب ان سے ایسی کوئی باتیں نہیں ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف ہوں.اللہ تعالیٰ خود ان کی رہنمائی فرماتارہے گا.رسول کریم ملی ای کم نے حضرت حارثہ بن سراقہ کے متعلق فرمایا جو کہ غزوہ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے کہ وہ جنت الفردوس میں ہیں.524 74 نام و نسب و کنیت حضرت حارثہ بن نعمان * حضرت حارثہ بن نعمان.ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی.حضرت حارثہ بن نعمان انصاری صحابی تھے.ان کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھا.حضرت حارثہ کی والدہ کا نام جَعْدَه بِنْتِ عُبَيْد تھا.حضرت حارثہ بن نُعمان کی اولاد میں عبد اللہ ، عبد الرحمن ، سَودَہ، عُمرہ اور اُمّ ھشام شامل ہیں.ان کے بچوں کی والدہ کا نام اقر خالد تھا.آپ کی دیگر اولاد میں اُمّ کلثوم جن کی والدہ بنو عبد الله بن غطفان میں سے تھی اور آمہ اللہ ان کی والدہ جندع میں سے تھیں.تمام غزوات میں شمولیت آپ غزوہ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شامل تھے.ان کا شمار بڑے جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے.ان 80 اصحاب میں سے ایک جو غزوہ حنین میں ثابت قدم رہے ایک دوسری روایت ہے اس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ یہ حضرت حارثہ

Page 232

ناب بدر جلد 4 216 نعْمَان آنحضور صلی یم کے پاس سے گزرے.آپ کے پاس جبرئیل بیٹھے تھے.ایک اور روایت پہلے تھی اور روایت مختصر سی یوں تھی کہ آپ گزرے تو آپ نے سلام کیا اور جبرئیل نے وعلیکم السلام کہا لیکن جو تفصیلی روایت ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت حارثہ بن نعمان آنحضور صلی لی ایم کے پاس سے گزرے.آپ کے پاس جبرئیل بیٹھے تھے اور آپ ان سے آہستہ آہستہ کچھ باتیں کر رہے تھے.حارثہ نے آپ کو سلام نہیں کیا.جبرئیل نے کہا کہ انہوں نے سلام کیوں نہیں کیا ؟ تو رسول اللہ صلی علیم نے بعد میں حارثہ سے دریافت فرمایا کہ جب تم گزر رہے تھے تو تم نے سلام کیوں نہیں کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے آپ کے پاس ایک شخص کو دیکھا تھا.آپ ان سے آہستہ آہستہ کچھ باتیں کر رہے تھے.میں نے ناپسند کیا کہ میں آپ کی بات کو قطع کروں یعنی سلام کر کے پھر آپ کی توجہ پھیروں.آنحضرت صلی اللہ ہم نے پوچھا کہ کیا تم نے اس شخص کو دیکھ لیا تھا جو میرے پاس بیٹھا تھا ؟ انہوں نے کہا جی ہاں.تو آپ نے فرمایا کہ وہ جبرئیل تھے اور وہ کہتے تھے کہ اگر یہ شخص سلام کر تا تو میں اس شخص کو جواب دیتا.پھر اس کے بعد جبرئیل نے کہا کہ یہ اسی لوگوں میں سے ہیں.رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا کہ میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ اس کے کیا معنی ہیں ؟ جس پر جبرئیل نے کہا کہ یہ ان اسی آدمیوں میں سے ہیں جو غزوہ حنین میں آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے تھے.ان کا رزق اور ان کی اولاد کار زق جنت میں اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے.پس آپ صلی علیکم نے حارثہ سے یہ سب کچھ بیان کیا.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی کم ان کا بڑا عزت اور احترام کرتے تھے اور ان کے بارے میں یہ بھی روایت میں ہے ، حضرت عائشہ نے کہا ہے کہ اپنی والدہ کے ساتھ بہترین سلوک کیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی یی کم نے فرمایا کہ اس طرح کی نیکی تم سب کو کرنی چاہیے.مسکین کی مدد کرنا بری موت سے بچاتا ہے حضرت حارثہ بن نعمان آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے.نظر خراب ہو گئی.بند ہو گئی تھی.آپ نے ایک رسی اپنی نماز کی جگہ سے اپنے کمرے کے دروازے تک باندھی تھی اور اپنے پاس ایک ٹوکرنی رکھا کرتے تھے جس میں کھجوریں ہوتی تھیں.جب کوئی مسکین آپ کے پاس آتا، کوئی سوالی آتا اور سلام کرتا یا ملنے والا آتا یا سمجھتے کہ یہ غریب آدمی ہے تو اس رسی کو پکڑ کر اپنی نماز کی جگہ سے دروازے تک آتے اور ان کو کھجوریں دیتے.آپ کے گھر والے کہتے تھے کہ ہم آپ کی طرف سے یہ خدمت کر دیا کریں، ہم دے دیتے ہیں.آپ کی نظر ٹھیک نہیں.کیوں تکلیف کرتے ہیں ؟ مگر آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سنا ہے کہ مسکین کی مدد کرنا بری موت سے بچاتا ہے.اپنے مکانات رسول کریم صلی ا سلم کی خدمت میں پیش کرنا روایت میں ہے کہ حضرت حارثہ بن نعمان کے مکانات مدینہ میں رسول اللہ صلی ال کمی کے مکانات کے قریب تھے، کافی مکان تھے ، جائیداد تھی اور حسب ضرورت حضرت حارثہ اپنے مکان آنحضرت صلی کم کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے.5 525

Page 233

ناب بدر جلد 4 217 یعنی مستقل یا تو شادیوں کی صورت میں یا اور کسی ضرورت کے تحت، جب بھی رہائش کی ضرورت ہوتی تھی دے دیے بلکہ مستقل دیتے تھے.جب حضرت علی کی حضرت فاطمہ سے شادی ہوئی تو آنحضور صلی الم نے حضرت علی سے فرمایا کہ لیے کوئی الگ گھر تلاش کر لو.حضرت علیؓ نے گھر تلاش کیا اور وہیں حضرت فاطمہ کو بیاہ کر لے گئے.پھر آنحضور صلی نیلم نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ میں تمہیں اپنے پاس بلانا چاہتا ہوں یعنی میرے قریب آجاؤ.گھر لے لو.حضرت فاطمہ نے آپ کو مشورہ دیا، آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں عرض کی کہ آپ حارثہ بن نعمان سے فرما ئیں کہ وہ کہیں اور منتقل ہو جائیں اور یہ جو گھر ان کا ہے وہ ہمیں دے دیں.آنحضور صلی علیم نے فرمایا کہ حارثہ ہمارے لیے کئی دفعہ منتقل ہو چکے ہیں.ان کے گھر قریب ہیں وہ جو بھی قریبی گھر ہو تا ہے وہ چھوڑ کے مجھے دے دیتے ہیں.اب مجھے شرم آتی ہے کہ اس سے دوبارہ منتقل ہونے کا کہوں.یہ خبر حضرت حارثہ کو پہنچی اور آپ گھر خالی کر کے وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہو گئے اور نبی کریم صلی اللی کام کے پاس آکر عرض کی کہ یارسول اللہ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ حضرت فاطمہ کو اپنے پاس منتقل کرنا چاہتے ہیں.یہ میرے گھر ہیں اور یہ بنو نجار کے گھروں میں آپ سے سب سے زیادہ قریب ہیں اور میں اور میر امال اللہ اور اس کے رسول ہی کے لیے ہیں.یارسول اللہ ! آپ مجھ سے جو مال چاہیں لے لیں وہ مجھے اس مال سے بہت زیادہ پیارا ہو گا جسے آپ چھوڑ دیں گے.نبی کریم صلی علیہم نے اس پر فرمایا تم نے سچ کہا.خدا تعالیٰ تم پر برکت نازل فرمائے.چنانچہ آپ صلی علیہم نے حضرت فاطمہ کو حضرت حارثہ والے گھر میں بلالیا.526 حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی شادی ره اس کی کچھ تفصیل سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی بیان فرمائی ہے اس طرح کہ آپ لکھتے ہیں کہ حضرت علی اب تک غالباً آنحضرت صلی علیکم کے ساتھ مسجد کے کسی حجرے وغیرہ میں رہتے تھے مگر شادی کے بعد یہ ضروری تھا کہ کوئی الگ مکان ہو جس میں خاوند بیوی رہ سکیں.چنانچہ آنحضرت صلی علیہم نے حضرت علی سے ارشاد فرمایا کہ اب تم کوئی مکان تلاش کرو جس میں تم دونوں رہ سکو.حضرت علی نے عارضی طور پر ایک مکان کا انتظام کیا اور اس میں حضرت فاطمہ نگار خصتانہ ہو گیا.اسی طرح رخصتانہ کے بعد آنحضرت صلی میں ہم ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور تھوڑا سا پانی منگا کر اس پر دعا کی.پھر وہ پانی حضرت فاطمہ اور حضرت علی ہر دو پر یہ الفاظ فرمائے ہوئے چھڑکا کہ اللهُمَّ بَارِكَ فِيهِمَا وَ بارِكْ عَلَيْهِمَا وَبَارِكْ لَهُمَا نَسْلَهُمَا - یعنی " اے میرے اللہ ! تم ان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اور ان کے ان تعلقات میں برکت دے جو دوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اور ان کی نسل میں برکت دے." یعنی ذاتی تعلقات بھی اور رشتہ داروں کے تعلقات بھی، معاشرے کے تعلقات بھی.سب کی برکت کی دعا کی اور فرمایا کہ ان کی نسل میں برکت دے.پھر آپ اس نئے جوڑے کو اکیلا چھوڑ کر

Page 234

اصحاب بدر جلد 4 218 واپس تشریف لے آئے.اس کے بعد ایک دن آنحضرت صلی الی یوم حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے تو حضرت فاطمہ نے آنحضرت صلی الم سے عرض کیا کہ حَارِثَه بن نُعمان انصاری کے پاس چند ایک مکانات ہیں.آپ ان سے فرما دیں کہ وہ اپنا کوئی مکان خالی کر دیں.آپ نے فرمایا وہ ہماری خاطر اتنے مکانات پہلے ہی خالی کر چکے ہیں.اب مجھے تو انہیں کہتے ہوئے شرم آتی ہے.حارثہ کو کسی طرح اس کا علم ہوا تو وہ بھاگے آئے اور آنحضرت صلی املی کام سے عرض کیا.یارسول اللہ امیر اجو کچھ ہے وہ حضور کا ہے اور اللہ کی قسم ! جو چیز آپ مجھ سے قبول فرمالیتے ہیں وہ مجھے زیادہ خوشی پہنچاتی ہے بہ نسبت اس چیز کے جو میرے پاس رہتی ہے.پھر اس مخلص صحابی نے باصرار اپنا ایک مکان خالی کروا کے پیش کر دیا.اور حضرت علی اور حضرت فاطمہ نے وہاں آکر رہائش اختیار کرلی.7 حسنین کے دن پہرہ دینے کی سعادت 527 حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حنین کے دن آنحضور صلی ای کریم نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میں سے کون رات کو پہرہ دے گا ؟ اس پر حضرت حارثہ بن نعمان آہستہ آہستہ اطمینان سے اٹھے.حضرت حارثہ اپنے کسی بھی کام میں جلدی نہیں کیا کرتے تھے.صحابہ نے ان کے اتنے آرام سے اٹھنے ر آنحضور صلی الم سے کہا کہ حیا نے حارثہ کو خراب کر دیا ہے.اس موقع پر جلدی اٹھنا چاہیے تھا.اس پر آنحضور صلی ایم نے فرمایا کہ ایسا مت کہو کہ حیا نے حارثہ کو خراب کیا.یہ نہ کہو کہ حارثہ کو خراب کیا بلکہ اگر تم یہ کہو کہ حیا نے حارثہ کو ٹھیک کر دیا ہے تو یہ سچ ہو گا.528 وفات حضرت حارثہ بن نعمان کی وفات حضرت امیر معاویہ کے دور میں ہوئی تھی.529 75 نام و نسب و کنیت حضرت حاطب بن ابی بلتعہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ.ان کا تعلق قبیلہ تم سے تھا.حضرت حاطب بن ابی بلتعہ بنو اسد کے حلیف تھے.ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کی کنیت ابو محمد تھی.حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اہل یمن میں سے تھے.

Page 235

تاب بدر جلد 4 ہجرت و مواخات 219 عاصم بن عمر روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اور آپ کے غلام سعد نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو دونوں حضرت مُنذر بن محمد بن عقبہ کے پاس رہے.رسول اللہ صلی الم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اور حضرت رحيله بن خالد کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم فرمایا اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے حضرت غُويم بن سَاعِدَہ اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے در میان مواخات کا تعلق قائم کیا.تمام غزوات میں شمولیت حضرت حاطب بن ابی بلتعہ غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی الوم کے ہمراہ شامل رہے.نبی اکرم ملی کم کاخط شاہ اسکندریہ کے پاس لے جانے والے رسول الله صلى اللی مریم نے آپ کو ایک تبلیغی خط دے کر مقوقس شاہ اسکندریہ کے پاس بھیجا.حضرت حاطب آنحضرت صلی ال نیم کے تیر اندازوں میں سے تھے.یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ زمانہ جاہلیت میں قریش کے بہترین گھڑ سواروں اور شعراء میں سے تھے.بعض کہتے ہیں کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ عبید اللہ بن حمید کے غلام تھے اور آپ نے اپنے مالک سے مکاتبت کر کے آزادی حاصل کر لی تھی اور مکاتبت کی رقم انہوں نے فتح مکہ کے دن ادا کی تھی.530 آنحضرت علی ای میمن کی شادی کا پیغام لے کر جانے والے حضرت ام سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے ان کے خاوند کی وفات کے بعد شادی کا جو پیغام دے کر میرے پاس بھیجا تھا وہ حاطب بن ابی بلتعہ کو بھیجا تھا.531 جنگ احد میں نبی اکرم علی یم کو زخمی کرنے والے کا سر قلم کر کے دعالیتا ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک نے حاطب بن ابی بلتعہ سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ نبی صلی الم اُحد کے دن میری طرف متوجہ ہوئے.جنگ کے بعد جب ذرا حالات بہتر ہوئے تو قریب گئے.آنحضرت علی الی یوم تکلیف میں تھے.حضرت علی کے ہاتھ میں پانی کا برتن تھا اور رسول اللہ صلی الیکم اس پانی سے اپنا چہرہ دھو رہے تھے.حاطب نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ کس نے کیا ہے.آپ صلی علیم نے فرما یا عتبہ بن ابی وقاص نے میرے چہرے پر پتھر مارا ہے.حضرت حاطب کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں نے یہ آواز پہاڑی پر سنی تھی کہ محمد علی لام قتل کر دیئے گئے ہیں اور اس آواز کو سن کر

Page 236

ب بدر جلد 4 220 میں اس حالت میں یہاں آیا ہوں گویا کہ میری روح نکل رہی ہے.میری جان نکل رہی ہے.لگتا ہے جسم میں جان نہیں.حضرت حاطب نے پھر آنحضرت صلی علیم سے عرض کیا کہ عقبہ کہاں ہے ؟ آپ صلی علیکم نے ایک طرف اشارہ کیا کہ فلاں طرف ہے.حضرت حاطب اس کی طرف گئے.وہ آدمی چھپا ہوا تھا یہاں تک کہ آپ اسے قابو کرنے میں کامیاب ہو گئے.حضرت حاطب نے تلوار کے وار سے اس کا سر اتار دیا.پھر آپ اس کا سر اور سامان اور اس کا گھوڑا پکڑ کر نبی کریم صلی الم کے پاس لے آئے.آپ صلی میں ہم نے وہ سارا کچھ سامان حضرت حاطب کو دے دیا اور حضرت حاطب کے لئے دعا کی.آپ نے فرمایا اللہ تجھ سے راضی ہو.اللہ تجھ سے راضی ہو.( دو دفعہ فرمایا) 532 شاہ مقوقس کے نام نبی اکرم صلی کم کاخط آنحضرت صلی ا لم نے جو خط مقوقس کو بھیجا تھا اس کی تفصیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے 533 534 لکھا ہوا ہے کہ یہ تیسر اخط تھا جو بادشاہوں کو بھیجا گیا.3 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بیان فرمایا کہ چوتھا خط تھا.4 بہر حال اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے سر بر اہوں اور بادشاہوں کو جو خط لکھے گئے تھے ان میں سے ایک خط مقوقس والی مصر کے نام بھی تھا جو قیصر کے ماتحت مصر اور اسکندریہ کا والی یعنی موروثی حاکم تھا اور قیصر کی طرح مسیحی مذہب کا پیرو تھا.اس کا ذاتی نام جریج بن مینا تھا اور وہ اور اس کی رعایا قبطی قوم سے تعلق رکھتے تھے.یہ خط آپ صلی علی تم نے اپنے صحابی حاطب بن ابی بلتعہ کے ہاتھ بھجوایا.اور اس خط کے الفاظ یہ تھے: بسم اللہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللهِ وَرَسُوْلِهِ إِلَى الْمُقَوْقَسِ عَظِيمِ الْقِبْطِ سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي اَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تُسْلَمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَعَلَيْكَ إِثْمُ الْقِبْطِ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِن دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَا مُسْلِمُونَ.یعنی میں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں جو بن مانگے رحم کرنے والا اور اعمال کا بہترین بدلہ دینے والا ہے.یہ خط محمد خدا کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے قبطیوں کے رئیس مقوقس کے نام ہے.سلامتی ہو اس شخص پر جو ہدایت کو قبول کرتا ہے.اس کے بعد اے والی مصر ! میں آپ کو اسلام کی ہدایت کی طرف بلاتا ہوں.مسلمان ہو کر خدا کی سلامتی کو قبول کرو کہ اب صرف یہی نجات کا رستہ ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو دوہرا اجر دے گا.لیکن اگر آپ نے رُوگردانی کی تو (علاوہ خود آپ کے اپنے گناہ کے ) قبطیوں کا گناہ بھی آپ کی گردن پر ہو گا.اور اے اہل کتاب ! اس کلمہ کی طرف آجاؤ جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے یعنی ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی صورت میں خدا کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں اور خدا کو چھوڑ کر اپنے میں سے ہی کسی کو اپنا آقا اور حاجت روانہ گردانیں.پھر اگر ان لوگوں نے روگردانی کی تو ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو بہر حال خدائے واحد

Page 237

ناب بدر جلد 4 کے فرمانبر دار بندے ہیں.221 یہ خط تھا جو آپ نے اس والی کو بھیجا.جب حاطب بن ابی بلتعہ اسکندریہ پہنچے تو مقوقس کے حاجب یعنی دربان سے مل کر اس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آنحضرت صلی الیہ کمر کا خط پیش کیا.مُقوقس نے خط پڑھا اور پھر حاطب بن ابی بلتعہ سے مخاطب ہو کر نیم مذاقیہ رنگ میں کہا کہ اگر تمہارا یہ صاحب (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) واقعی خدا کا نبی ہے تو ( اس خط کے بھجوانے کی بجائے) اس نے میرے خلاف خدا سے یہ دعا ہی کیوں نہ کی کہ خدا اسے مجھ پر مسلط کر دے.( یعنی آنحضرت صلی کم کو اس والی پر مسلط کر دے.حاطب نے جواب دیا کہ اگر یہ اعتراض درست ہے جو تم کر رہے ہو تو یہ اعتراض حضرت عیسی پر بھی پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفوں کے خلاف اس قسم کی دعا کیوں نہیں کی تھی.پھر حاطب نے مقوقس کو ازراہ نصیحت کہا کہ آپ سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں کیونکہ اس سے پہلے آپ کے اسی ملک مصر میں ایک ایسا شخص (یعنی فرعون ) گزر چکا ہے جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہی ساری دنیا کا رب اور حاکم اعلیٰ ہے جس پر خدا نے اسے ایسا پکڑا کہ وہ اگلوں اور پچھلوں کے لئے عبرت بن گیا.پس میں آپ سے مخلصانہ طور پر عرض کروں گا کہ آپ دوسروں کے حالات سے عبرت پکڑیں اور ایسے نہ بنیں کہ دوسرے لوگ آپ کے حالات سے عبرت پکڑیں.والی نے جب دیکھا کہ اتنی جرات سے بول رہے ہیں تو کہنے لگا بات یہ ہے کہ ہمیں پہلے سے ایک دین حاصل ہے اس لئے جب تک ہمیں اس سے کوئی بہتر دین نہ ملے ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے یعنی عیسائیت کو نہیں چھوڑ سکتے.حاطب رضی اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اسلام وہ دین ہے جو سب دوسرے دینوں سے غنی کر دیتا ہے.( آخری دین ہے اور سب دین اس میں سمٹ گئے ہیں) لیکن وہ یقیناً آپ کو اس بات سے نہیں روکتا کہ آپ حضرت مسیح ناصری پر بھی ایمان لائیں بلکہ وہ سب بیچے نبیوں پر ایمان لانے کی تلقین کرتا ہے اور جس طرح حضرت موسیٰ نے حضرت عیسی کی بشارت دی تھی اسی طرح حضرت عیسی نے ہمارے نبی صلی الم کی بشارت بھی دی ہے.اس پر مقوقس کچھ سوچ میں پڑ کر خاموش ہو گیا.مگر اس کے بعد ایک دوسری مجلس میں جبکہ بعض بڑے بڑے پادری بھی موجود تھے مقوقس نے حاطب سے پھر کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تمہارے نبی اپنے وطن سے نکالے گئے تھے.تو جب تمہارے نبی اپنے وطن سے مکہ سے نکالے گئے تو انہوں نے اس موقع پر اپنے نکالنے والوں کے خلاف بد دعا کیوں نہ کی تاکہ وہ لوگ ہلاک کر دیئے جاتے اور نبی امن میں رہتے.حاطب نے یہ بات سنی تو اس والی کو جواب دیا کہ ہمارے نبی تو صرف وطن سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے مگر آپ کے مسیح کو تو یہودیوں نے پکڑ کر سولی کے ذریعہ ختم ہی کر دینا چاہا مگر پھر بھی وہ اپنے مخالفوں کے خلاف بد دعا کر کے انہیں ہلاک نہ کر سکے.مقوقس نے جب جواب سنا تو متاثر ہوا.کہنے لگا کہ تم بیشک ایک عقلمند انسان ہو اور ایک دانا انسان کی طرف سے سفیر بن کر آئے ہو.اس کے بعد کہنے لگا کہ میں نے تمہارے نبی کے معاملے میں غور کیا ہے.کہنے لگا کہ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے واقعی کسی

Page 238

اصحاب بدر جلد 4 222 بری بات کی تعلیم نہیں دی اور نہ کسی اچھی بات سے روکا ہے.آنحضرت ملی ایم کے خط کو عزت دینا اور آپ کی خدمت میں جوابی خط پھر اس نے آنحضرت صلی علیہ کم کا خط ایک ہاتھی دانت کی ڈبیہ میں رکھ کر اس پر اپنی مہر لگائی اور اسے حفاظت کے لئے اپنے گھر کی ایک معتبر لڑکی کے سپرد کر دیا.بہر حال اس خط سے اس نے عزت کا سلوک کیا.اس کے بعد مقوقس نے اپنے ایک عربی دان کا تب کو بلایا اور آنحضرت علی ایم کے نام خط لکھوایا اور خط لکھوا کر حاطب کے حوالے کیا.اس خط کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ : خدا کے نام کے ساتھ جو رحمن اور رحیم ہے یہ خط محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام قبطیوں کے رئیس مقوقس کی طرف سے ہے آپ پر سلامتی ہو.میں نے آپ کا خط اور آپ کے مفہوم کو سمجھا اور آپ کی دعوت پر غور کیا.میں یہ ضرور جانتا تھا کہ ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے مگر میں خیال کرتا تھا کہ وہ ملک شام میں پید اہو گا نہ کہ عرب میں ) اور میں آپ کے سفیر کے ساتھ عزت سے پیش آیا ہوں اور میں اس کے ساتھ دولڑ کیاں بھجوا رہا ہوں جنہیں قبطی قوم میں بڑا درجہ حاصل ہے.یہ اعلیٰ خاندان کی لڑکیاں ہیں اور میں کچھ پار چات بھی بھجوا رہاہوں اور آپ کی سواری کے لئے خچر بھی بھجوار ہا ہوں.والسلام.اس کے بعد اس کے دستخط.اس خط سے ظاہر ہے کہ مقوقس مصر آنحضرت صلی علیم کے اچھی کے ساتھ عزت سے پیش آیا اور اس نے آپ صلی علیم کے دعوی میں ایک حد تک دلچسپی بھی لی مگر بہر حال اس نے اسلام قبول نہیں کیا اور دوسری روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ عیسائی مذہب پر ہی اس کی وفات ہوئی.اس کی گفتگو کے انداز سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ بیشک مذہبی امور میں دلچپسی تولیتا تھا مگر جو سنجیدگی اس معاملے میں ضروری ہے وہ اسے حاصل نہیں تھی.اس لئے اس نے بظاہر مؤدبانہ رنگ رکھتے ہوئے بھی آنحضرت صلی یکی کی دعوت کو ٹال دیا.جو دو لڑکیاں مقوقس نے بھجوائی تھیں ان میں سے ایک کا نام ماریہ اور دوسری کا نام سیرین تھا اور یہ دونوں آپس میں بہنیں تھیں اور جیسا کہ مقوقس نے اپنے خط میں لکھا تھاوہ قبطی قوم میں سے تھیں اور یہ وہی قوم ہے جس سے خود مقوقس کا تعلق تھا اور یہ لڑکیاں عام لوگوں میں سے نہیں تھیں بلکہ مقوقس کی اپنی تحریر کے مطابق انہیں قبطی قوم میں بڑا درجہ حاصل تھا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ دراصل معلوم ہوتا ہے کہ مصریوں میں یہ پرانا دستور تھا کہ اپنے ایسے معزز مہمانوں کو جن کے ساتھ وہ تعلقات بڑھانا چاہتے تھے رشتہ کے لئے اپنے خاندان یا اپنی قوم کی شریف لڑکیاں پیش کر دیتے تھے تاکہ ان سے شادی ہو جائے.آپ لکھتے ہیں کہ چنانچہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر میں تشریف لے گئے تو مصر کے رئیس نے انہیں بھی ایک شریف لڑکی یعنی حضرت ہاجرہ رشتہ کے لئے پیش کی تھی جو بعد میں حضرت اسماعیل اور ان کے ذریعہ بہت سے عرب قبیلوں کی ماں بنی.بہر حال مقوقس کی بھجوائی ہوئی لڑکیوں کے مدینہ پہنچنے پر آنحضرت صلی اللہ ہم نے حضرت ماریہ کو تو خود اپنے عقد میں لے لیا اور ان کی بہن سیرین کو عرب کے مشہور شاعر حسان بن ثابت کے عقد میں دے دیا.یہ ماریہ وہی

Page 239

تاب بدر جلد 4 223 مبارک خاتون ہیں جن کے بطن سے آنحضرت صلی علیم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے جو زمانہ نبوت کی گو یاواحد اولاد تھی.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ دونوں لڑکیاں مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی حاطب بن ابی بلتعہ کی تبلیغ سے مسلمان ہو گئی تھیں.جو خچر اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ ہی کو تحفہ میں آئی تھی وہ سفید رنگ کی تھی.آنحضرت صلی الیم اس پر اکثر سواری فرمایا کرتے تھے اور غزوہ حنین میں بھی یہی خچر آپ کسی لی کر کے نیچے تھی.535 جو خط مقوقس کو لکھا گیا تھا اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بات زائد بیان فرمائی ہے کہ : " یہ خط بعینہ وہی ہے " اسی طرح کا خط ہے.وہی الفاظ ہیں " جو روم کے بادشاہ کو لکھا گیا تھا.صرف یہ فرق ہے کہ اس میں یہ لکھا تھا کہ اگر تم نہ مانے تو رومی رعایا کے گناہوں کا بوجھ بھی تم پر ہو گا اور اس میں یہ تھا کہ قبطیوں کے گناہوں کا بوجھ تم پر ہو گا.جب حاطب رضی اللہ عنہ مصر پہنچے تو اس وقت مقوقس اپنے دارالحکومت میں نہیں تھا بلکہ اسکندریہ میں تھا.حاطب اسکندریہ گئے جہاں بادشاہ نے سمندر کے کنارے ایک مجلس لگائی ہوئی تھی.حاطب بھی ایک کشتی میں " ہو سکتا ہے وہ وہاں کہیں جزیرہ ہو " سوار ہو کر اس مقام تک گئے اور چونکہ ارد گرد پہرہ تھا انہوں نے دور سے خط کو بلند کر کے آوازیں دینی شروع کیں.بادشاہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو لایا جائے اور اس کی خدمت میں پیش کیا جائے." پھر آپ نے یہ بھی لکھا کہ حاطب نے مقوقس کو یہ بھی کہا کہ خدا کی قسم موسیٰ نے عیسی کے متعلق ایسی خبریں نہیں دیں جیسی کہ عیسی نے محمد صلی اللہ علم کے متعلق دی ہیں اور ہم تمہیں اسی طرح محمد رسول اللہ صلی علیم کی طرف بلاتے ہیں جس طرح تم لوگ یہودیوں کو عیسی کی طرف بلاتے ہو." پھر کہنے لگے کہ " ہر نبی کی ایک امت ہوتی ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کرے.پس جبکہ تم نے اس نبی کا زمانہ پایا ہے " جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے لئے نبی بنا کے بھیجا ہے " تو تمہارا فرض ہے کہ اس کو قبول کرو اور ہمارا دین تم کو مسیح کی اتباع سے روکتا نہیں بلکہ ہم تو دوسروں کو بھی حکم دیتے ہیں کہ وہ مسیح پر ایمان لائیں."536 یہ وہ لوگ تھے جو بڑی جرآت سے اور بڑی حکمت سے تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے تھے.کوئی حاکم ہے یا والی ہے یا بادشاہ ہے کسی کے سامنے کبھی ان کو خوف نہیں ہوا.مکہ والوں کے نام ایک خط جس کی خبر آنحضرت علی ایم کو ہو گئی پھر مکہ والوں کی طرف عورت کے خط لے جانے کا جو واقعہ آتا ہے یہ حاطب بن ابی بلتعہ ہی تھے جنہوں نے اس عورت کے ہاتھ مکہ والوں کے لئے خط بھیجا تھا اور آپ صلی علیکم کے آنے کی اطلاع دی تھی.چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی الی ایم نے جب فتح مکہ کے لئے لشکر کے ساتھ کوچ فرمایا تو اس وقت آپ صلی علیکم کے ایک صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے قریش مکہ کو ایک عورت کے ہاتھ خط بھیجا.

Page 240

تاب بدر جلد 4 224 حضرت سید زین العابدین شاہ صاحب نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ اس واقعہ کی تفصیل سے قبل امام بخاری نے یہ قرآنی آیت لکھی ہے کہ لَا تَتَّخِذُوا عَدُوّى وَعَدُوكُمْ اَولیاء کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو میرے دشمن اور اپنے دشمن کو کبھی دوست نہ بناؤ.حضرت علی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلیالم نے مجھے زبیر اور مقداد بن اسود کو بھیجا.آپ نے فرمایا تم چلے جاؤ جب تم روضتہ طاخ ایک جگہ ہے وہاں پہنچو تو وہاں ایک شتر سوار عورت ہو گی اور اس کے پاس ایک خط ہے تم وہ خط اس سے لے لو.ہم چل پڑے.ہمارے گھوڑے سرپٹ دوڑتے ہوئے ہمیں لے گئے.جب ہم روضَة تخان میں پہنچے تو ہم کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شتر سوار عورت موجود ہے.ہم نے اسے کہا کہ خط نکالو.وہ کہنے لگی کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے.ہم نے کہا تمہیں خط نکالنا ہو گا ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے اور تلاشی لیں گے.اس پر اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے نکالا اور ہم وہ خط رسول اللہ صلی علیکم کے پاس لے آئے.دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ کے مشرکوں کے نام.وہ رسول اللہ صلی علیکم کے کسی ارادے کی ان کو اطلاع دے رہا تھا.رسول اللہ صلی علیم نے حاطب بن ابی بلتعہ کو بلایا اور پوچھا حاطب یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا یار سول اللہ میرے متعلق جلدی نہ فرمائیں.میں ایک ایسا آدمی تھا جو قریش میں آکر مل گیا تھا ان میں سے نہ تھا.اور دوسرے مہاجرین جو آپ صلی تعلیم کے ساتھ تھے ان کی مکہ میں رشتہ داریاں تھیں جن کے ذریعہ سے وہ اپنے گھر بار اور مال و اسباب کو بچاتے رہے ہیں.میں نے چاہا کہ ان مکہ والوں پر کوئی احسان کر دوں کیونکہ ان میں کوئی رشتہ داری تو میری تھی نہیں شاید وہ اس احسان ہی کی وجہ سے میرا پاس کریں.اور میں نے کسی کفر یا ارتداد کی وجہ سے یہ نہیں کیا.نہ میں نے انکار کیا ہے.نہ مرتد ہو اہوں.نہ میں نے اسلام کو چھوڑا ہے.نہ میں منافق ہوں.میں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا.) اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کبھی پسند نہیں کیا جا سکتا.( میں آپ کو یقین دلاتا ہوں.) یہ سن کر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اس نے تم سے بیچ بیان کیا ہے.حضرت عمر وہاں موقع پر موجود تھے.انہوں نے کہا یارسول اللہ مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں.قتل کر دوں.آپ صلی علی کم نے فرمایا کہ یہ تو جنگ بدر میں موجود تھا اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہل بدر کو دیکھا اور فرمایا جو تم چاہو کرو میں نے تمہارے گناہوں کی پردہ پوشی 537 کر دی ہے.حضرت ولی اللہ شاہ صاحب صحیح بخاری کی ایک اور حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ایک اور حدیث میں اس عورت کو مشرکہ کہا گیا ہے اور اس کے تعاقب میں جانے والے حضرت علی، حضرت ابومرشد غنوی اور حضرت زبیر تھے.اسی طرح لکھا ہے کہ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوار چلی جارہی تھی.خط کے چھپانے کے متعلق دوسری روایت میں لکھا ہے کہ جب اس نے ہمیں سنجیدہ دیکھا تو وہ اپنی کمر پر بندھی ہوئی چادر کی طرف جھکی اور خط نکال کر رکھ دیا.ہم اس عورت کو لے کر رسول اللہ صلی العلیم کے پاس آئے.حضرت عمرؓ نے کہا اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں سے خیانت کی ہے.یارسول اللہ مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑا دوں.آپ نے فرمایا کیا وہ (یعنی حاطب بن ابی بلتعہ ) جنگ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں تھا؟ آپ نے فرمایا امید ہے اللہ نے اہل بدر کو دیکھا ہو اور یہ کہا ہو جو تم

Page 241

اصحاب بدر جلد 4 225 چاہو کرو تمہارے لئے جنت ہو چکی.یا فرمایا میں نے تمہاری پردہ پوشی کر کے تم کو معاف کر دیا ہے.یہ سن کر حضرت عمر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور کہنے لگے کہ اللہ اور اس کار سول بہتر جانتے ہیں.538 شاہ مقوقس کے پاس دوبارہ بھیجا جاتا حضرت ابو بکر نے بھی حضرت حاطب کو مقوقس کے پاس مصر بھیجا تھا اور ایک معاہدہ ترتیب دیا تھا جو حضرت عمرو بن عاص کے مصر پر حملہ تک طرفین کے درمیان قائم رہا.ایک امن کا معاہدہ تھا.539 حضرت حاطب کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت حاطب خوبصورت جسم کے مالک تھے.ملکی 540 داڑھی تھی.گردن جھکی ہوئی تھی.پست قامتی کی طرف مائل اور موٹی انگلیوں والے تھے.یعقوب بن عتبہ سے مروی ہے کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے اپنی وفات کے دن چار ہزار درہم اور دینار چھوڑے.آپ غلہ وغیرہ کے تاجر تھے اور آپ نے اپنا تر کہ مدینہ میں چھوڑا.10 حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حاطب کا غلام رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس اپنے مالک حضرت حاطب کی شکایت لے کر آیا.غلام نے کہا کہ اے اللہ کے رسول حاطب ضرور جہنم میں داخل ہو گا.( کوئی سخت ست اس کو کہا ہو گا).اس پر رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ تو نے جھوٹ بولا ہے.وہ اس میں ہر گز داخل نہیں ہو گا کیونکہ وہ غزوہ بدر اور صلح حدیبیہ میں شامل ہو اتھا.قیمتیں مقرر کرنے کے بارہ میں اسلامی تعلیم 541 الله جیسا کہ بتایا گیا کہ حضرت حاطب جو تھے وہ تاجر بھی تھے.منڈی میں مال فروخت کیا کرتے تھے اور مال فروخت کرنے اور قیمتوں کے مقرر کرنے کی جو اسلامی تعلیم ہے وہ کیا ہے ؟ اس کا ذکر کرتے ہوئے ان کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ نے بات بیان فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی علیکم کے زمانے سے مدینہ منورہ میں قیمتوں پر اسلامی حکومت تصرف رکھتی تھی.یعنی مارکیٹ کی جو قیمتیں ہوتی تھیں وہ اسلامی حکومت قیمتیں مقرر کرتی تھی.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ حضرت عمر ایک دفعہ مدینہ کے بازار میں پھر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص حاطب بن ابی بلتعہ المُصَلَّی نامی بازار میں دو بورے سُوکھے انگوروں کے رکھے بیٹھے تھے.سوکھے انگور کہہ لیں یا بعض جگہ کشمش لکھا ہوا ہے.حضرت عمرؓ نے ان سے بھاؤ دریافت کیا تو انہوں نے ایک درہم کے دو مڈ بتائے کہ ایک درہم میں دوند آتے ہیں.یہ جو قیمت تھی، جو بھاؤ تھا، یہ بازار کی عام قیمت سے ستا تھا.اس پر حضرت عمر نے ان کو حکم دیا کہ اپنے گھر جا کر فروخت کریں کیونکہ یہ بہت سستا ہے مگر بازار میں اس قدر سستے نرخ پر فروخت نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اس سے بازار کا بھاؤ خراب ہوتا ہے اور لوگوں کو بازار والوں پر بد ظنی پیدا ہوتی ہے.مارکیٹ کی جو زیادہ قیمت ہے اس پر پھر لوگ کہیں گے کہ وہ ہمارے سے ناجائز قیمت لے رہے ہیں.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ فقہاء نے اس پر بڑی بحثیں کی ہیں.بعض نے اپنی روایات بھی

Page 242

تاب بدر جلد 4 226 کی ہیں کہ بعد میں حضرت عمر نے اپنے اس خیال سے رجوع کر لیا تھا.لیکن بہر حال یہ بات ہے کہ بالعموم فقہاء نے حضرت عمر کی رائے کو ایک قابل عمل اصل کے طور پر تسلیم کیا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ریٹ (rate) مقرر کرے.بازار کی قیمتیں مقرر کرے.ورنہ قوم کے اخلاق اور دیانت میں فرق پڑ جائے گا.مگر یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ انہی اشیاء کا ذکر ہے جو منڈی میں لائی جائیں لا کے کھلی مارکیٹ میں فروخت کی جائیں جو اشیاء منڈی میں نہیں لائی جاتیں اور انفرادی حیثیت رکھتی ہیں ان کا یہاں ذکر نہیں ہے.پس جو چیزیں منڈی میں لائی جاتی ہیں اور فروخت کی جاتی ہیں.ان کے متعلق اسلام کا یہ واضح حکم ہے کہ ایک ریٹ مقرر ہونا چاہئے قیمت مقرر ہونی چاہئے تا کوئی دوکاندار قیمت میں کمی بیشی نہ کر سکے.چنانچہ بعض آثار اور احادیث فقہاء نے لکھی ہیں جن میں اس کی تائید کی ہے.542 آنحضرت علی ایم کا سر کاری چراگاہ بنوانا حکومت کے نظام کے تحت چراگاہ اور وہاں پانی کے لئے کنوئیں کھدوانے کا کام بھی اسلامی حکومت کا کام ہے.یہ کام بھی ایک دفعہ آنحضرت صلی علی یکم نے حضرت حاطب سے کروایا تھا.چنانچہ اس بارے میں روایت میں آتا ہے کہ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر رسول اللہ صلی علی یم نقیع کے مقام سے گزرے تو وہاں وسیع علاقہ اور گھاس دیکھی.بہت بڑا علاقہ تھا اور ہر جگہ بڑا سبز علاقہ تھا اور بہت سے کنوئیں بھی تھے.وہاں زمین کا پانی بھی اچھا تھا.آپ صلی اللہ ہم نے ان کنوؤں کے پانی کے متعلق پوچھا.تو عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! پانی تو یہ بڑا اچھا ہے.لیکن جب ہم ان کنوؤں کی تعریف کرتے ہیں تو ان کا پانی کم ہو جاتا ہے اور کنوئیں بیٹھ جاتے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی علی یکم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کو حکم دیا کہ وہ ایک کنواں کھو دیں اور آپ صلی علی یکم نے نقیع کو چراگاہ بنانے کا حکم دیا.یعنی سرکاری چراگاہ جو حکومت کے انتظام کے تحت ہو گی.حضرت بلال بن حارث مزنی کو اس پر نگران مقرر فرمایا.حضرت بلال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللی کم میں اس زمین میں سے کتنے حصہ کو چراگاہ بناؤں.بڑا وسیع علاقہ ہے.وہ کتنا حصہ ہے جو سرکاری چراگاہ بنانی ہے.آپ صلی تعلیم نے فرمایا جب طلوع فجر ہو جائے تو پھر ایک بلند آواز شخص کو کھڑا کر ورات کے اندھیرے میں تو آواز بہت دور تک جاتی ہے ناں طلوع فجر ہو جائے تو بلند آواز شخص کو کھڑا کرو.پھر اسے معمل نامی وہاں ایک پہاڑ تھا چھوٹا سا تھا اس پر کھڑ ا کرو.پھر جہاں تک است کی آواز جائے اتنے حصے کو مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں اور اونٹوں کی چراگاہ بنا دو.یہ بھی ان کا ایک انتظام تھا.فتنوں اور میلوں کی بات نہیں ہو رہی.اس کے آخر میں مختلف کونوں میں لوگوں کو کھڑا کرو اور جہاں تک آواز جاتی ہے ، جہاں تک آواز پہنچ رہی ہے وہ اس چراگاہ کی باؤنڈری ہو گی.اور وہ مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں کے لئے اور اونٹوں کے لئے چراگاہ ہو گی جس کے ذریعہ سے وہ جہاد کر سکیں.یہ بیت المال اور سر کاری چراگاہ ہے اور جنگ میں جانے والے جو مجاہدین ہیں ان کے گھوڑے اور اونٹ وہاں چریں گے.حضرت بلال نے اس پر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مسلمانوں کے عام چرنے والے جانوروں کے

Page 243

تاب بدر جلد 4 227 بارے میں کیا رائے ہے.بہت سارے عام مسلمانوں کے جانور بھی باہر کھلے میدانوں میں، چراگاہوں میں چرتے ہیں ان کے متعلق کیا رائے ہے ؟ آپ کا کیا ارشاد ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ اس میں داخل نہیں ہوں گے.یہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو جہاد کے لئے اپنے اونٹ اور گھوڑے تیار کر رہے ہیں.حضرت بلال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اس کمزور مرد یا کمزور عورت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس کے پاس قلیل تعداد میں بھیڑ بکریاں ہوں اور وہ انہیں منتقل کرنے پر قدرت نہ رکھتے ہوں.بہت تھوڑی تعداد میں غریب لوگ ہیں چند ایک بکریاں یا بھیڑیں رکھی ہوئی ہیں دور تک لے جانا ان کے لئے بہت مشکل ہے یا کہیں اور بھی جا نہیں سکتے.کمزور ہیں بوڑھے ہیں عورتیں ہیں تو آپ صلی اللہ یکم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو اور انہیں چرنے دو.ان کو اجازت ہے.غریبوں کو ، ضرورت مندوں کو ، کمزوروں کو اجازت ہے کہ وہ سرکاری چراگاہ سے چر سکتے ہیں.تو قومی جائیداد صرف قومی مقاصد کے لئے استعمال ہونی چاہئے.ہاں غریبوں کی اگر ذاتی ضرورت بھی ہے تو وہ اس میں سے حصہ لے سکتے ہیں.وفات 543 حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی وفات 30 ہجری میں مدینہ میں 65 سال کی عمر میں ہوئی.حضرت عثمان نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.4 اخلاق و اوصاف 544 حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے کہ ان کے اخلاق کیا تھے.مصنف سیر الصحابہ لکھتے ہیں: وفا شعاری.بہت زیادہ وفا شعار تھے.احسان پذیری اور صاف گوئی ان کے مخصوص اوصاف ہیں.احباب اور رشتہ داروں کا بے حد خیال رکھتے تھے اور فتح مکہ کے موقع پر انہوں نے مشرکین کو جو خط لکھا تھا جو اس عورت کے ہاتھ بھیجا جس کا ذکر ہو چکا ہے وہ در حقیقت رشتہ داروں کے خیال کی وجہ سے انہی جذبات پر مبنی تھا.چنانچہ رسول اللہ صلی علیم نے بھی اس نیت خیر اور صاف گوئی کو ملحوظ رکھ کر ان سے در گزر فرمایا تھا.ان کو معاف فرما یا تھا.545 ان کی وفات تیس ہجری میں پینسٹھ سال کی عمر میں مدینہ میں ہوئی.حضرت عثمان نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.546 ان کے بارے میں مزید لکھا ہے کہ حضرت ابو بکڑ نے بھی آپ کو مقوقس کے پاس مصر بھیجا اور ایک معاہدہ ترتیب دیا جو حضرت عمرو بن عاص کے حملہ مصر تک طرفین کے درمیان قائم رہا.حضرت حاطب خوبصورت جسم کے مالک تھے.ہلکی داڑھی تھی.گردن جھکی ہوئی تھی.پست 547

Page 244

اصحاب بدر جلد 4 228 قامت کی طرف مائل اور موٹی انگلیوں والے تھے.یعقوب بن عتبہ سے مروی ہے کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے اپنی وفات کے دن چار ہزار دینار اور در اہم چھوڑے.آپ غلہ وغیرہ کے تاجر تھے اور آپ نے اپنا تر کہ مدینہ میں چھوڑا.548 حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حاطب کا غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی شکایت لے کر آیا.غلام نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! خاطب ضرور جہنم میں داخل ہو گا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے جھوٹ بولا.وہ اس میں ہر گز داخل نہیں ہو گا کیونکہ وہ غزوہ بدر اور صلح حدیبیہ میں شامل ہو ا تھا.549 حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے پاس سے گزرے وہ بازار میں کشمش بیچ رہے تھے.حضرت عمرؓ نے کہا یا تو اپنی قیمت زیادہ کریں یا پھر ہمارے بازار سے چلے جائیں.مزید لکھا ہے کہ حضرت امام شافعی سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ حضرت عمر عید گاہ کے بازار میں حضرت حاطب کے پاس سے گزرے.ان کے سامنے دو ٹوکریاں کشمش کی بھری پڑی تھیں.حضرت عمرؓ نے ان سے ان کا نرخ پوچھا تو انہوں نے کہا دو مڈ ایک درہم میں دے رہا ہوں.حضرت عمر نے ان سے کہا کہ مجھے طائف سے آنے والے قافلے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ آپ کے نرخ کا اعتبار کرتے ہیں.یا تو آپ نرخ زیادہ کریں یا پھر گھر میں بیٹھ کر جیسے چاہیں بیچیں.چنانچہ جب حضرت عمرؓ گھر آئے اور سوچ بچار کی تو پھر حضرت حاطب کے گھر ان سے ملنے گئے اور ان سے کہا جو کچھ میں نے آپ سے کہا تھا وہ میری طرف سے کوئی زبر دستی نہیں ہے اور نہ میری طرف سے وہ فیصلہ تھا.میں نے یہ بات صرف شہریوں کی بھلائی کے لیے کی تھی.آپ جہاں چاہیں بیچیں اور جتنے میں چاہیں بیچیں.150 حضرت مصلح موعود اس بارے میں فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے مدینہ منورہ میں قیمتوں پر اسلامی حکومت تصرف رکھتی تھی.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے حضرت عمر یرضي اللہ عنہ ایک دفعہ مدینہ کے بازار میں پھر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک شخص حاطب بن ابی بلتعہ المصلی نامی بازار میں دو بورے سوکھے انگوروں کے رکھے بیٹھے تھے.حضرت عمرؓ نے ان سے بھاؤ دریافت کیا تو انہوں نے ایک درہم کے دونڈ بتائے.یہ بھاؤ بازار کے عام بھاؤ سے سنتا تھا.اس پر آپ نے ان کو حکم دیا کہ اپنے گھر جا کر فروخت کریں مگر بازار میں وہ اِس قدر ستے نرخ پر فروخت نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اس سے بازار کا بھاؤ خراب ہوتا ہے اور لوگوں کو بازار والوں پر بد ظنی پیدا ہوتی ہے.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”فقہاء نے اس پر بڑی بحثیں کی ہیں.بعض نے ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ بعد میں حضرت عمرؓ نے اپنے اس خیال سے رجوع کر لیا تھا مگر

Page 245

اصحاب بدر جلد 4 229 بالعموم فقہاء نے حضرت عمر کی رائے کو ایک قابل عمل اصل کے طور پر تسلیم کیا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ریٹ مقرر کرے ورنہ قوم کے اخلاق اور دیانت میں فرق پڑ جائے گا امر یا د رکھنا چاہئے کہ اس جگہ انہی اشیاء کا ذکر ہے جو منڈی میں لائی جائیں.جو اشیاء منڈی میں نہیں لائی جاتیں اور انفرادی حیثیت رکھتی ہیں ان کا یہاں ذکر نہیں.پس جو چیزیں منڈی میں لائی جاتی ہیں اور فروخت کی جاتی ہیں اُن کے متعلق اسلام کا یہ واضح حکم ہے کہ ایک ریٹ مقرر ہونا چاہئے تا کوئی دکاندار قیمت میں کمی بیشی نہ کر سکے.چنانچہ بعض آثار اور احادیث بھی فقہاء نے لکھی ہیں جن سے 551❝ اس کی تائید ہوتی ہے.“ یہاں مقابلہ بازی میں پھر ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے ایک ریٹ ہو.غزوہ بنو مصطلق پانچ ہجری سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نقیح کے مقام سے گزرے تو وہاں وسیع علاقہ اور گھاس دیکھی اور بہت سے کنویں دیکھے.پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کنوؤں کے پانی کے متعلق پوچھا تو عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب ہم ان کنوؤں کی تعریف کرتے ہیں تو ان کا پانی کم ہو جاتا ہے اور کنویں بیٹھ جاتے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کو حکم دیا کہ وہ ایک کنواں کھودیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع کو چراگاہ بنانے کا حکم دیا.حضرت بلال بن حارث مزنی کو اس پر نگران مقرر فرمایا.حضرت بلال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس زمین میں سے کتنے حصہ کو چراگاہ بناؤں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب طلوع فجر ہو جائے تو ایک بلند آواز شخص کو کھڑا کر و.رات کے اندھیرے میں تو دُور تک آواز میں جاتی ہیں اس لیے دن کے وقت جب دن چڑھ جائے تو اس وقت ایک شخص کو کھڑا کرو پھر اسے معمل نامی پہاڑی پر کھڑا کر کے جہاں تک اس شخص کی آواز جائے اتنے حصہ کو مسلمانوں کے گھوڑوں اور اونٹوں کی چراگاہ بنا دو جس کے ذریعہ سے وہ جہاد کر سکیں.یعنی جہاد کے لیے مسلمانوں کے جو گھوڑے اور اونٹ ہیں وہ وہاں چریں.حضرت بلال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مسلمانوں کے چرنے والے جانوروں کے بارے میں کیا رائے ہے.مسلمانوں کے جو دوسرے جانور ہیں ان کے بارے میں کیا رائے ہے ؟).آپ نے فرمایا: وہ اس میں داخل نہیں ہوں گے صرف جہادی جو جہاد کے لیے استعمال ہونے والے ہیں وہی اس جگہ سے چر سکتے ہیں.باقی اپنی اپنی چراگاہوں پر جائیں.حضرت بلال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! اس کمزور مرد یا کمزور عورت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس کے پاس قلیل تعداد میں بھیڑ بکریاں ہوں اور وہ انہیں منتقل کرنے پر قدرت نہ رکھتے ہوں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں چھوڑ دو اور انہیں چرنے دو.جو غریبوں کا تھوڑا بہت

Page 246

اصحاب بدر جلد 4 230 مال ہے اسے بے شک چرنے دو.552 یہ جو ایک روایت آئی ہے پہلے بھی بیان ہو چکی ہے کہ ایک انصاری تھا جس نے حضرت زبیر سے حدہ کی اس ندی کے بارے میں جھگڑا کیا جس سے لوگ کھجوروں کو پانی دیا کرتے تھے.انصاری نے حضرت زبیر سے کہا کہ پانی بہنے دو اور حضرت زبیر نے نہ مانا تو وہ دونوں منبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر سے فرمایا: زبیر ! تم اپنے درختوں کو سیراب کر لو.پھر اپنے ہمسائے کے لیے پانی چھوڑ دو.انصاری کو غصہ آگیا اور اس نے کہا: آپ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ یہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا اور آپ نے فرمایا: زبیر ! اپنے درختوں کو پانی دو.پھر پانی کو روکے رکھو یہاں تک کہ وہ منڈیروں تک بھر آئے.حضرت زبیر کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی وقت نازل ہوئی تھی کہ تیرے رب کی قسم ! وہ ہر گز ہر گز مومن نہیں ہوں گے جب تک وہ تجھے ان باتوں میں حکم نہ مانیں جو اُن کے درمیان اختلافی صورت اختیار کرتی ہے.یہ بخاری کی روایت ہے.553 اس حدیث میں جن انصاری کا ذکر ہے ان کے بارے میں تفاسیر میں اختلاف ہے.تفسیر قرطبی میں کی والنہاس کے قول کے مطابق لکھا ہے کہ وہ انصاری حضرت حاطب بن ابی بلتعہ تھے.554 76 حضرت حاطب بن عمرو بن عبد شمس نام و نسب و کنیت حضرت حاطب بن عمرو بن عبد شمس.ابو حاطب ان کی کنیت تھی.ان کا تعلق قبیلہ بنو عامر بن کومی سے تھا.ان کی والدہ اسماء بنت حارث بن نوفل تھیں جو قبیلہ اشجع سے تھیں.حضرت سہیل بن عمرو، حضرت سلیط بن عمرو اور حضرت سکران بن عمرو آپ کے بھائی تھے.حضرت حاطب بن عمرو کی اولاد میں عمرو بن حاطب تھے.ان کی والدہ ربطہ بنت علقمہ تھیں.15 555 قبول اسلام اور ہجرت حبشہ و مدینہ آنحضرت صل ال کلم کے دارار تم میں تشریف آوری سے پہلے آپ حضرت ابو بکر صدیق کی تبلیغ سے اسلام لائے تھے.حبشہ کی سرزمین کی طرف دو دفعہ ہجرت کی اور ایک روایت کے مطابق ہجرت اولیٰ

Page 247

اصحاب بدر جلد 4 231 میں سب سے پہلے جو شخص ملک حبشہ میں آئے وہ حضرت حاطب بن عمرو بن عبد شمس تھے.جب آپ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو حضرت رفاعہ بن عبد المندر جو حضرت ابولبابہ بن عبد المندر کے بھائی تھے ان کے گھر میں آپ اترے.غزوہ بدر میں اپنے بھائی حضرت سلیط بن عمرو کے ساتھ شریک تھے اور 556 غزوہ احد میں بھی شریک ہوئے.حضرت سودہ کی شادی اور......رسول اللہ صلی الی یکم سے حضرت سودہ بنت زمعہ کی شادی حضرت سلیط بن عمرو نے کروائی اور بعض کے نزدیک حضرت ابو حاطب بن عمرو نے شادی کروائی اور اس وقت مہر جو باندھا گیا تھا وہ چار سو درہم تھا.اس شادی کی تفصیل طبقات الکبریٰ میں اس طرح درج ہے کہ حضرت سودہ کے خاوند اول حضرت سکران بن عمر وجو کہ حضرت حاطب بن عمرو کے بھائی تھے ان کی حبشہ سے مکہ واپسی پر مکہ میں وفات ہو گئی.جب حضرت سودہ کی عدت پوری ہوئی تو آنحضرت صلی للہ ہم نے ان کی طرف نکاح کا پیغام بھجوایا.حضرت سودہ نے عرض کیا کہ میر امعاملہ آپ کے سپرد ہے.اس پر رسول اللہ صلی علی ایم نے فرمایا کہ اپنی قوم میں سے کوئی مرد مقرر کریں کہ وہ آپ یعنی حضرت سودہ کی شادی مجھ سے کروائے.اس پر حضرت سودہ نے حضرت حاطب بن عمرو کو مقرر کیا.اس طرح حضرت حاطب نے حضرت سودہ کی آنحضرت صلی اللی علم کے ساتھ شادی کروائی.حضرت سودہ حضرت خدیجہ کے بعد پہلی خاتون تھیں جس سے آنحضرت صلی ال ولیم نے شادی کی.7 بیعت رضوان میں شمولیت حدیبیہ کے مقام پر ہونے والی بیعت رضوان میں بھی یہ شریک تھے.558 557 77 حضرت حُباب بن مُنْذِدِ بن جموح " حضرت حُباب بن مُنْذِرِ بن جموح.ان کی وفات حضرت عمر کے دور خلافت میں ہوئی.تمام غزوات میں شمولیت حضرت حباب بن منذر غزره بدر، احد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی ال نیلم کے ساتھ رہے.غزوہ اُحد میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ ثابت قدم رہے اور موت پر آپ سے بیعت کی.559

Page 248

اصحاب بدر جلد 4 232 جنگ بدر کے موقعہ پر ان کا مشورہ جسے جبرئیل کی تائید حاصل ہوئی ان کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی سیرۃ خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ "جس جگہ اسلامی لشکر نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہ تھی.اس پر حضرت حباب بن منذر نے آپ سے چھا کہ خدائی الہام کے ماتحت آپ نے یہ جگہ پسند کی ہے یا محض فوجی تدبیر کے طور پر اسے اختیار کیا ہے ؟ محضرت علی ای نم نے فرمایا کہ اس بارے میں کوئی خدائی حکم نہیں ہے.تم اگر کوئی مشورہ دینا چاہتے ہو تو بتاؤ ؟ اس پر حضرت حباب نے عرض کیا تو پھر میرے خیال میں یہ جگہ اچھی نہیں ہے.بہتر ہو گا کہ آگے بڑھ کر قریش سے قریب ترین چشمہ پر قبضہ کر لیا جاوے.میں اس چشمہ کو جانتا ہوں.اس کا پانی بھی اچھا ہے اور عموما کافی مقدار میں ہوتا ہے.آنحضرت صلی للی کلم نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور چونکہ ابھی تک قریش ٹیلے کے پرے ڈیرہ ڈالے پڑے تھے اور یہ چشمہ خالی تھا، مسلمان آگے بڑھ کر اس چشمہ پر قابض ہو گئے.لیکن جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ پایا جاتا ہے اس وقت چشمہ میں بھی پانی زیادہ نہیں تھا اور مسلمانوں کو پانی کی قلت محسوس ہوتی تھی.پھر یہ بھی تھا کہ وادی کے جس طرف مسلمان تھے وہ ایسی اچھی نہ تھی کیونکہ اس طرف ریت بہت تھی جس کی وجہ سے پاؤں اچھی طرح جھتے نہیں تھے پھر خدا کا فضل ایسا ہوا کہ کچھ بارش بھی ہو گئی جس سے مسلمانوں کو یہ موقع مل گیا کہ حوض بنا بنا کر پانی جمع کر لیں اور یہ بھی فائدہ ہو گیا کہ ریت جم گئی اور پاؤں زمین میں دھنے سے رک گئے اور دوسری طرف قریش والی جگہ میں کیچڑ کی سی صورت ہو گئی اور اس طرف کا پانی بھی کچھ گدلا ہو کر میلا ہو گیا."560 حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرئیل رسول اللہ صلی علی کم پر نازل ہوئے اور فرمایا کہ صحیح رائے یہی ہے جس کا حضرت حباب بن منذر نے مشورہ دیا.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اے حُباب! تم نے عقل کا مشورہ دیا.خزرج کا جھنڈا اٹھائے ہوئے غزوہ بدر میں خزرج کا جھنڈا حضرت حباب بن منذر کے پاس تھا.حضرت محباب بن منذر کی عمر 33 سال تھی جب غزوہ بدر میں شریک ہوئے.561 ان کے بارے میں مزید حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرۃ خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ " جب آنحضرت صلی للی کم کو اپنے مخبروں سے لشکر قریش کے قریب آجانے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپ نے اپنے ایک صحابی حباب بن مُنذر کو روانہ فرمایا کہ وہ جا کر دشمن کی تعد اد اور طاقت کا پتہ لائیں اور آپ نے انہیں تاکید فرمائی کہ اگر دشمن کی طاقت زیادہ ہو اور مسلمانوں کے لئے خطرہ کی صورت ہو تو واپس آکر مجلس میں اس کا ذکر نہ کریں " کہ بہت بڑی تعداد ہے " بلکہ علیحد گی میں اطلاع دیں تاکہ اس سے " مسلمانوں میں " کسی قسم کی بددلی نہ پھیلے.محباب خفیہ خفیہ گئے اور نہایت ہوشیاری سے تھوڑی دیر میں ہی واپس آکر آنحضرت صلی ا یکم سے سارے حالات عرض کر دیئے.56211

Page 249

بدر جلد 4 233 غزوہ بنو قریظہ کے موقعہ پر مشورہ يحيی بن سعید سے مروی ہے کہ آنحضور صلی علی یم نے یوم قریظہ اور یوم النضیر کے موقع پر جب لوگوں سے مشورہ طلب کیا تو حضرت حُباب بن منند کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہم محلات کے درمیان میں پڑاؤ کریں.( یعنی ان کے قریب ترین جائیں تاکہ وہاں کی باتیں بھی معلوم ہو سکیں اور نگرانی بھی صحیح ہو سکے ) تو رسول اللہ صلی علیم نے ان کے اس مشورہ پر عمل کیا.حضرت عمر کے دور خلافت میں ان کی وفات ہوئی.13 563 نبی اکرم علی ایم کی وفات اور حضرت ابو بکر کا خطاب جب آنحضرت صلی اللی کم کا وصال ہوا تو اس وقت مسلمانوں کی جو صور تحال تھی اس کو حضرت ابو بکر نجس طرح کنٹرول میں لائے اس کا یہ واقعہ ہے کہ " حضرت ابو بکر نے حمد و ثنا بیان کی اور کہا کہ دیکھو جو محمد صلی اللہ ہم کو پوجتا تھا سن لے کہ محمد صلی ال کی تو یقینا فوت ہو گئے اور جو اللہ کو پوجتا تھا تو اسے یاد رہے کہ اللہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا اور حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھی إِنَّكَ مَيِّتَ وَإِنَّهُم مِّيِّتُونَ (از مرز G1 کہ تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں.پھر انہوں نے یہ آیت بھی پڑھی کہ وَمَا مُحَمَّد الاَ رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ ۖ وَمَنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَ اللهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّكِرِينَ (آل عمران:145) کہ محمد صرف ایک رسول ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.پھر کیا اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو تم اپنی ایڑھیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی اپنی ایڑھیوں کے بل پھر E جائے تو وہ اللہ کو ہر گز نقصان نہ پہنچا سکے گا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا.انتخاب خلافت سلیمان کہتے ہیں کہ یہ سن کر لوگ اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں.سلیمان کہتے ہیں کہ اور انصار بنی ساعدہ کے گھر حضرت سعد بن عبادۃ کے پاس اکٹھے ہوئے اور کہنے لگے ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے.حضرت ابو بکر اور حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ان کے پاس گئے.حضرت عمر بولنے لگے تھے کہ حضرت ابو بکر نے انہیں خاموش کیا.حضرت عمر کہتے تھے کہ اللہ کی قسم ! میں نے جو بولنا چاہا تھا تو اس لئے کہ میں نے ایسی تقریر تیار کی تھی جو مجھے پسند آئی تھی اور مجھے ڈر تھا کہ حضرت ابو بکر اس تک نہ پہنچ سکیں گے یعنی ویسانہ بول سکیں گے.پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر نے تقریر کی اور ایسی تقریر کی جو بلاغت میں تمام لوگوں کی تقریروں سے بڑھ کر تھی.انہوں نے اپنی تقریر کے اثناء میں یہ بھی کہا کہ ہم امیر ہیں اور تم وزیر ہو.حُباب بن منذر نے یہ سن کر کہا کہ ہر گز نہیں.یہاں یہ ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ محباب بن منذر کا یہاں ذکر آتا ہے.محباب بن منذر نے یہ سن کر یہ کہا کہ ہر گز نہیں اللہ

Page 250

اصحاب بدر جلد 4 234 کی قسم ! ہر گز نہیں.بخدا ہم ایسا نہیں کریں گے ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر آپ میں سے ہو گا.یعنی قریش میں سے بھی ہو اور انصار میں سے بھی ہو.حضرت ابو بکر نے کہا نہیں بلکہ امیر ہم ہیں اور تم وزیر ہو.کیونکہ یہ قریش لوگ بلحاظ نسب تمام عربوں سے اعلیٰ ہیں اور بلحاظ حسب وہ قدیمی عرب ہیں اس لئے عمر یا ابوعبیدۃ کی بیعت کر لو.حضرت عمر نے کہا نہیں بلکہ ہم تو آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سے بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی علیکم کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں.یہ کہہ کر حضرت عمر نے حضرت ابو بکر کا ہاتھ پکڑا اور ان سے بیعت کی اور لوگوں نے بھی ان سے بیعت کی.اس وقت سب نے پھر بیعت کر لی.564 حضرت حباب بن منذر سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت محمد صلی لنی کیم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ان دو باتوں میں سے کون سی آپ کو زیادہ پسند ہے ؟ یہ کہ آپ دنیا میں اپنے صحابہ کے ساتھ رہیں یا یہ کہ اپنے رب کی طرف ان وعدوں کے ساتھ لوٹیں جو اس نے نعمتوں والی جنتوں میں قائم رہنے والی نعمتوں کا آپ سے وعدہ کیا ہے اور اس کا بھی وعدہ کیا ہے کہ جو آپ کو پسند ہو اور جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں.اس پر آپ صلی علیہم نے صحابہ سے پوچھا کہ بتاؤ تم کیا مشورہ دیتے ہو ؟ تو صحابہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! ہمیں یہ بات زیادہ پسند ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہوں اور ہمیں ہمارے دشمن کی کمزوریوں سے آگاہ کریں اور اللہ سے دعا کریں تاکہ وہ ان کے خلاف ہماری مدد کرے اور آپ صلی علیہ کم ہمیں آسمان کی خبروں سے آگاہ کریں.اس پر رسول اللہ صلی عملی کم نے حباب بن منذر کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم نہیں بولتے ؟ بڑے خاموش بیٹھے ہو.کہتے ہیں میں نے اس پر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! جو آپ کے رب نے آپ کے لئے پسند فرمایا ہے وہ اختیار کریں.پس آپ نے میری بات کو پسند فرمایا.565 الله سة 78 حضرت حبیب بن اسود ย حضرت حبیب بن اسود.حضرت حبیب بن اسود بن سعد انصار کے قبیلہ بنو حرام کے آزاد کردہ غلام تھے.آپ جنگ بدر اور احد میں شامل ہوئے.ان کی کوئی اولاد نہیں تھی.آپ کا ذکر خبیب کے نام سے بھی ملتا ہے.566

Page 251

235 79 صحاب بدر جلد 4 حضرت حرام بن ملحان الله سة دوسروں کو قرآن سکھانے اور اصحاب صفہ کی خدمت میں پیش پیش رہنے والے پھر تاریخ ہمیں ایک اور صحابی کے متعلق بتاتی ہے جن کا نام حرام بن ملحان تھا.یہ نوجوان نوجوانوں اور دوسروں کو قرآن سکھانے اور غریبوں اور اصحاب صفہ کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے.جب بنی عامر کے ایک وفد نے آنحضرت صلی علیم سے درخواست کی کہ ہمیں تبلیغ کے لئے کچھ لوگ بھیجیں تاکہ ہمیں بھی اسلام کا پتہ چلے اور ہمارے لوگ اسلام میں داخل ہوں.نیت ان کی اس وقت بھی خراب تھی لیکن بہر حال انہوں نے یہ درخواست کی.یہ لوگ قابل اعتبار نہیں تھے اس لئے آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ مجھے تم لوگوں سے خطرہ ہے کہ جس کو میں بھیجوں گا اسے شاید تمہارے لوگ نقصان پہنچائیں تو ان کے سردار نے کہا.وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا.لیکن کہنے لگا کہ میں ذمہ داری لیتا ہوں.میں ذمہ دار ہوں گا اور سارے میری امان میں ہوں گے.آنحضرت صلی الم نے پھر ایک وفد بنی عامر کی طرف بھیجا.حرام بن ملحان کو امیر مقرر کیا.جب یہ وفد وہاں پہنچا تو حضرت حرام بن ملحان کو شک ہوا کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے.ان کے طور کوئی صحیح نظر نہیں آرہے تھے.دور سے پتا لگ رہا تھا کہ ان لوگوں کی نیت ٹھیک نہیں ہے.چنانچہ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ احتیاطی تدبیر کرنی چاہئے اور سب کو وہاں اکٹھے نہیں جانا چاہئے کیونکہ اگر انہوں نے گھیر لیا تو سب کو ایک ہی وقت میں نقصان پہنچا سکتے ہیں.اس لئے تم سب یہیں رہو اور میں اور ایک اور ساتھی جاتے ہیں.اگر تو انہوں نے ہم سے صحیح سلوک کیا تو تم لوگ بھی آجانا اور اگر ہمیں نقصان پہنچایا تو پھر تم لوگ حالات کے مطابق فیصلہ کرنا کہ کیا کرنا ہے.واپس جانا ہے یا ان سے لڑنا ہے یا وہیں رہنا ہے.بہتے ہوئے خون کو اپنے ہاتھوں پر لے کر کہا رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا جب یہ حرام بن ملحان اور ان کے ساتھی ان لوگوں کے قریب گئے تو بنی عامر کے سردار نے ایک آدمی کو اشارہ کیا اور اس نے پیچھے سے حرام بن ملحان پر نیزے سے حملہ کیا.ان کی گردن سے خون کا فوارہ نکلا.انہوں نے اس خون کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور کہا کہ رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.اور بعد میں پھر ان کے دوسرے ساتھی کو بھی شہید کر دیا گیا اور پھر با قاعدہ حملہ کر کے باقی جو ستر لوگ تھے ، ان سب کو شہید کر دیا سوائے ایک یا دو کے جو بچے.جب ان لوگوں کو ظالمانہ طور پر دھو کے سے شہید کیا جارہا تھا تو انہوں نے یہ دعا کی کہ اے اللہ ایک تو ہماری یہ

Page 252

ب بدر جلد 4 236 567 قربانیاں قبول فرمالے اور ہماری اس حالت کی اطلاع آنحضرت صلی علی کو کم کر دے کیونکہ یہاں تو اطلاع پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے.چنانچہ آنحضرت صلی علیہ ہم کو حضرت جبرائیل نے ان صحابہ کا سلام پہنچایا اور وہاں کے حالات اور شہادت کی اطلاع دی.آنحضرت صلی الیہ ہم نے صحابہ کو اطلاع دی کہ وہ سب شہید کر دیئے گئے ہیں.ستر صحابہ تھے جیسا کہ میں نے کہا، اور ان سب کی شہادت کا آپ کو بڑا انتہائی صدمہ تھا.آپ نے تیس دن تک ان قبائل کے خلاف دعا کی کہ اے اللہ ان میں سے جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے خود ان کی پکڑ کر آنحضرت صلی الم نے ان شہادتوں کو بڑی عظیم شہادتیں قرار دیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس عشق و محبت اور دین کی خاطر عظیم الشان قربانی کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ محبت ایک ایسی شئے ہے کہ وہ سب کچھ کرا دیتی ہے.ایک شخص کسی پر عاشق ہوتا ہے تو معشوق کے لئے کیا کچھ نہیں کر گزرتا.پھر دنیا والوں کی ایک مثال دی آپ نے کہ ایک عورت کسی پر عاشق تھی.اس کو کھینچ کھینچ کر لاتے تھے اور طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے.ماریں کھاتی تھی مگر وہ کہتی تھی کہ مجھے لذت ملتی ہے.جبکہ جھوٹی محبتوں، فسق و فجور کے رنگ میں جلوہ گر ہونے والے عشق میں مصائب اور مشکلات کے برداشت کرنے میں ایک لذت ملتی ہے.آپ فرماتے ہیں دنیا داروں کا یہ حال ہے تو خیال کرو کہ وہ جو خدا تعالیٰ کا عاشق زار ہو، اس کے آستانہ الوہیت پر نثار ہونے کا خواہشمند ہو وہ مصائب اور مشکلات میں کس قدر لذت پاسکتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حالت دیکھو.مکہ میں ان کو کیا کیا تکلیفیں پہنچیں.بعض ان میں سے پکڑے گئے.قسم قسم کی تکلیفوں اور عقوبتوں میں گرفتار ہوئے.مرد تو مرد بعض مسلمان عورتوں پر اس قدر سختیاں کی گئیں کہ ان کے تصور سے بدن کانپ اٹھتا ہے.اگر وہ مکہ والوں سے مل جاتے تو اس وقت بظاہر وہ ان کی بڑی عزت کرتے کیونکہ وہ ان کی برادری ہی تو تھے.مگر وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو مصائب اور مشکلات کے طوفان میں بھی حق پر قائم رکھا.وہ وہی لذت اور سرور کا چشمہ تھا جو حق کے پیار کی وجہ سے ان کے سینوں سے پھوٹ نکلتا تھا.پھر آپ اس واقعہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں.ایک صحابی کی بابت لکھا ہے کہ جب اس کے ہاتھ کاٹے گئے تو اس نے کہا کہ میں وضو کرتا ہوں.آخر لکھا ہے کہ سر کاٹو تو پھر کہا کہ سجدہ کرتا ہے.کہتا ہو امر گیا.اس وقت اس نے دعا کی کہ یا اللہ آنحضرت صلی علیکم کو خبر پہنچا دے.رسول اللہ صلی علی کم اس وقت مدینہ میں تھے.جبرائیل علیہ السلام نے جا کر السلام علیکم کہا.آپ نے علیکم السلام کہا اور اس واقعہ پر اطلاع ملی.غرض اس لذت کے بعد جو خدا تعالیٰ میں ملتی ہے ایک کیڑے کی طرح کچل کر مر جانا منظور ہوتا ہے جس طرح ان صحابی نے کہا تھا میں نے رب کعبہ کو پالیا.جو انتہا تھی عشق کی وہاں میں پہنچ گیا.فرماتے ہیں کہ اور مومن کو سخت سے سخت تکالیف بھی آسان ہی ہوتی ہیں.سچ پوچھو تو مومن کی

Page 253

تاب بدر جلد 4 237 نشانی ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ مقتول ہونے کے لئے تیار رہتا ہے.اسی طرح اگر کسی شخص کو کہہ دیا جاوے کہ یا نصرانی ہو جایا قتل کر دیا جائے گا.اس وقت دیکھنا چاہئے کہ اس کے نفس سے کیا آواز آتی ہے ؟ آیاوہ مرنے کے لئے سر رکھ دیتا ہے یا نصرانی ہونے کو ترجیح دیتا ہے.اگر وہ مرنے کو ترجیح دیتا ہے تو وہ مومن حقیقی ہے ورنہ کا فر ہے.غرض ان مصائب میں جو مومنوں پر آتے ہیں اندر ہی اندر ایک لذت ہوتی ہے.بھلا سوچو تو سہی کہ اگر یہ مصائب لذت نہ ہوتے تو انبیاء علیہم السلام ان مصائب کا ایک دراز سلسلہ کیونکر گزارتے.568 حضرت حرام بن ملحان کے بارے میں آیا ہے، ان کی نسل آگے نہیں چلی.69 حضرت عبد اللہ بن ابی طلحہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ حضرت انس نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ماموں حضرت حرام بن ملحان کو جو اتم سلیم کے بھائی تھے ستر سواروں کے ساتھ بنو عامر کی طرف بھیجا اور عامر بن طفیل مشرکوں کا سر دار تھا.جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تین باتوں میں سے ایک کا اختیار دیا تھا.اس نے کہا تھا قصباتی لوگ آپ کے ہوں گے اور دیہاتی میرے یا یہ کہ میں آپ کی وفات کے بعد آپ کا جانشین ہوں گاور نہ میں دو ہزار غطفان کے آدمیوں کو لے کر آپ پر حملہ کر دوں گا.تو عامر کسی عورت کے گھر طاعون میں مبتلا ہو ا.کہنے لگا یہ ویسے ہی گلٹیوں کی بیماری ہے جو آلِ سلول کی ایک عورت کے گھر میں جوان اونٹ کو ہوئی تھی.میرا گھوڑا لاؤ.وہ اس پر سوار ہوا اور اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر ہی مر گیا.آخر یہ اس کا انجام ہوا.اس کے بارے میں انہوں نے شروع میں ذکر کر دیا.پھر روایت میں اس کا بھی اور اس کے قبیلے کا بھی ذکر یہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلیم کے بھائی حضرت حرام بن ملحان ، ایک لنگڑے آدمی اور ایک اور آدمی کو جو فلاں قبیلہ سے تھا اپنے ساتھ لے کر بنو عامر کے پاس گئے.حرام نے ان دونوں سے کہا.تم قریب ہی رہنا.میں ان کے پاس جاتا ہوں.اگر انہوں ا نے مجھے امن دیا تو تم آجانا اور اگر مجھے قتل کر دیا تو تم اپنے ساتھیوں کے پاس جاکر انہیں بتانا.حضرت حرام نے عامر کے پاس جا کر کہا کیا تم مجھے امن دیتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا دوں.یہ کہہ کر وہ اس سے باتیں کرنے لگے.قبیلے کے لوگوں نے ایک شخص کو اشارہ کیا وہ ان کے پیچھے سے آیا اور ان کو تاک کر نیزہ مارا جو اُن کے جسم سے آر پار ہو گیا.حضرت حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زخموں سے نکلنے والا خون ہاتھ میں لیا اور اپنے منہ پر ملتے ہوئے کہا اللهُ اكْبَرُ افُرْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ- اللہ اکبر ! کعبہ کے رب کی قسم ! میں نے اپنی مراد پالی پھر وہ لوگ دوسرے آدمی کے پیچھے چلے اور اسے مار ڈالا اور پھر باقی قاریوں پر جا کر حملہ کر دیا اور وہ سارے کے سارے مارے گئے سوائے اس لنگڑے آدمی کے جو پہاڑ کی چوٹی پر چلا گیا تھا.اللہ نے ہم پر وہ بات نازل کی.پھر اس کا ذکر اذکار موقوف ہو گیا یعنی ہماری طرف سے ہماری قوم کو کہہ دو کہ ہم

Page 254

اصحاب بدر جلد 4 238 اپنے رب سے جاملے ہیں.وہ ہم سے خوش ہوا اور ہمیں خوش کر دیا.تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیس دن ہر صبح ان کے خلاف یعنی رِغل، ذکوان، بنو لحیان اور خصیہ کے خلاف دعا کرتے رہے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کی تھی.یہ بخاری کی روایت ہے.570 بخاری کی ایک اور روایت جو حضرت انس سے ہے اس کے مطابق نیزے کے بجائے ان کو بر چھا مارا گیا تھا.571 ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک صبح کی نماز میں ان یعنی بنی سلیم کے دو قبیلوں رغل اور ذکوان کے خلاف دعا کرتے رہے حضرت انس کہتے ہیں کہ یہ قوت کی ابتدا تھی.اس سے قبل ہم قنوت نہیں کیا کرتے تھے.572 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حفاظ کی شہادت کے واقعے کو بیان فرماتے ہوئے صحابہ کی قربانیوں کے جذبہ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ”ہمیں تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ جنگوں میں اس طرح جاتے تھے کہ ان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جنگ میں شہید ہونا ان کے لئے عین راحت اور خوشی کا موجب ہے اور اگر ان کو لڑائی میں کوئی دکھ پہنچتا تھا تو وہ اس کو دکھ نہیں سمجھتے تھے بلکہ سکھ خیال کرتے تھے.چنانچہ صحابہ کے کثرت کے ساتھ اس قسم کے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں کہ انہوں نے خدا کی راہ میں مارے جانے کو ہی اپنے لئے عین راحت محسوس کیا.مثلاً وہ حفاظ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وسط عرب کے ایک قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجے تھے ان میں سے حرام بن ملحان اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس عامر بن طفیل کے پاس گئے اور باقی صحابہ پیچھے رہے.شروع میں تو عامر بن طفیل اور اس کے ساتھیوں نے منافقانہ طور پر ان کی آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور تبلیغ کرنے لگے تو ان میں سے بعض شریروں نے ایک خبیث کو اشارہ کیا اور اس نے اشارہ پاتے ہی حرام بن ملحان پر پیچھے سے نیزہ کا وار کیا اور وہ گر گئے، گرتے وقت ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ اللہ اكْبَرُ فُرْتُ وَرَبَّ الْكَعْبَةِ یعنی مجھے کعبہ کے رب کی قسم ! میں نجات پا گیا.پھر ان شریروں نے باقی صحابہ کا محاصرہ کیا اور ان پر حملہ آور ہو گئے.اس موقع پر حضرت ابو بکر کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ جو ہجرت کے سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان کے متعلق ذکر آتا ہے بلکہ خود ان کا قاتل جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ ہی یہ بیان کرتا تھا کہ جب میں نے عامر بن فہیرہ کو شہید کیا تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکا افزت والله یعنی خدا کی قسم ! میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں.یہ واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہ کے لئے موت بجائے رنج کے خوشی کا موجب ہوتی تھی.573"

Page 255

اصحاب بدر جلد 4 239 پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ نجد کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے.اسے میں چھوڑتا ہوں.اور اس ضمن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا حوالہ پیش کر دیتا ہوں.یہ ذرا زیادہ تفصیلی ہے.وہ اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک شخص ابو براء عامِرِی جو وسط عرب کے قبیلہ بنو عامر کا ایک رئیس تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا.آپ نے بڑی نرمی سے اور شفقت کے ساتھ اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی اور اس نے بھی بظاہر شوق اور توجہ کے ساتھ آپ کی تقریر کو سنا مگر مسلمان نہیں ہوا.البتہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ آپ میرے ساتھ اپنے چند اصحاب مجد کی طرف روانہ فرمائیں جو وہاں جا کر اہل نجد میں اسلام کی تبلیغ کریں اور مجھے امید ہے کہ مجدی لوگ آپ کی دعوت کو رد نہیں کریں گے.آپ نے فرمایا: مجھے تو اہل مجد پر اعتماد نہیں ہے.ابو براء نے کہا کہ آپ ہر گز فکر نہ کریں.میں ان کی حفاظت کا ضامن ہو تا ہوں.چونکہ ابوبراء ایک قبیلہ کار ئیں اور صاحب اثر آدمی تھا آپ نے اس کے اطمینان دلانے پر یقین کر لیا اور صحابہ کی ایک جماعت مسجد کی طرف روانہ فرما دی.یہ تاریخ کی روایت ہے.بخاری میں آتا ہے کہ قبائل رغل اور ذکوان وغیرہ (جو مشہور قبیلہ بنو سلیم کی شاخ تھے) ان کے چند لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا اظہار کر کے درخواست کی کہ ہماری قوم میں سے جو لوگ اسلام کے دشمن ہیں ان کے خلاف ہماری امداد کے لئے ( یہ تشریح نہیں کی کہ کس قسم کی امداد، آیا تبلیغی یا فوجی ) چند آدمی روانہ کئے جائیں.جس پر آپ نے یہ دستہ روانہ فرمایا.ان دونوں روایتوں کی مطابقت کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ رغل اور ذکوان کے لوگوں کے ساتھ ابو براء عامری رئیس قبیلہ عامر بھی آیا ہو اور اس نے ان کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بات کی ہو.چنانچہ تاریخی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مجھے اہل مجد کی طرف سے اطمینان نہیں ہے اور پھر اس کا یہ جواب دینا کہ آپ وئی فکر نہ کریں.میں اس کا ضامن ہو تا ہوں کہ آپ کے صحابہ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ابوبراء کے ساتھ رغل اور ذکوان کے لوگ بھی آئے تھے جن کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند تھے.واللہ اعلم.بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صفر 14 ہجری میں مُنذر بن عمر و انصاری کی امارت میں صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی.یہ لوگ عموماً انصار میں سے تھے اور تعداد میں ستر تھے اور قریباً سارے کے سارے قاری یعنی قرآن خوان تھے جو دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں جمع کر کے ان کی قیمت پر اپنا پیٹ پالتے اور رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزار دیتے تھے.جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جو ایک کنویں کی وجہ سے بئر معونہ کے نام سے مشہور تھا تو اُن میں سے ایک شخص حرام بن ملحان جو انس بن مالک کے ماموں تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوتِ اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس اور ابوبراء عامری کے بھتیجے عامر بن طفیل کے پاس

Page 256

اصحاب بدر جلد 4 240 آگے گئے اور باقی صحابہ پیچھے رہے.جب حرام بن ملحان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اینچی کے طور پر عامر بن طفیل اور اس کے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طور پر آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور اسلام کی تبلیغ کرنے لگے تو ان میں سے بعض شریروں نے کسی آدمی کو اشارہ کر کے اس بے گناہ اینچی کو پیچھے کی طرف سے نیزہ کا وار کر کے وہیں ڈھیر کر دیا.اس وقت حیرام بن ملحان کی زبان پر یہ الفاظ تھے.الله اكبر افزتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ یعنی “اللہ اکبر ! کعبہ کے رب کی قسم ! میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا.” عامر بن طفیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایچی کے قتل پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ اس کے بعد اپنے قبیلہ بنو عامر کے لوگوں کو اکسایا کہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر حملہ آور ہو جائیں مگر انہوں نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ ہم ابو براء کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے مسلمانوں پر حملہ نہیں کریں گے.اس پر عامر نے قبیلہ سلیم میں سے بنور غل اور ذکوان اور خصیہ وغیرہ کو (وہی جو بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بن کر آئے تھے ) اپنے ساتھ لیا اور یہ سب لوگ مسلمانوں کی اس قلیل اور بے بس جماعت پر حملہ آور ہو گئے.مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ان سے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی تعرض نہیں ہے.ہم تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک کام کے لئے آئے ہیں اور ہم تم سے لڑنے کے لئے نہیں آئے.مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور سب کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا.ان صحابیوں میں سے جو اس وقت وہاں موجود تھے صرف ایک شخص بچا جو پاؤں سے لنگڑا تھا اور پہاڑی کے اوپر چڑھ گیا ہوا تھا.اس صحابی کا نام کعب بن زید تھا اور بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ کفار نے اس پر بھی حملہ کیا تھا جس سے وہ زخمی ہوا اور کفار اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے مگر دراصل اس میں جان باقی تھی اور وہ بچ گیا.صحابہ کی اس جماعت میں سے دو شخص یعنی عمرو بن امیہ ضمری اور مُنذر بن محمد اس وقت اونٹوں وغیرہ کے چرانے کے لئے اپنی جماعت سے الگ ہو کر ادھر ادھر گئے ہوئے تھے انہوں نے دُور سے اپنے ڈیرہ کی طرف نظر ڈالی تو کیا دیکھتے ہیں کہ پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں.وہ ان صحرائی اشاروں کو خوب سمجھتے تھے.فوراً تاڑ گئے کہ کوئی لڑائی ہوئی ہے.واپس آئے تو ظالم کفار کے کشت و خون کا کارنامہ آنکھوں کے سامنے تھا.دُور سے ہی یہ نظارہ دیکھ کر انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے.ایک نے کہا کہ ہمیں یہاں سے فوراًبھاگ نکلنا چاہئے اور مدینہ میں پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دینی چاہئے مگر دوسرے نے اس رائے کو قبول نہ کیا اور کہا کہ میں تو اس جگہ سے بھاگ کر نہیں جاؤں گا جہاں ہمارا امیر منذر بن عمر و شہید ہوا ہے.چنانچہ وہ آگے بڑھ کر لڑا اور شہید ہوا اور دوسرے کو جس کا نام عمر و بن امیہ ضمری تھا کفار نے پکڑ کر قید کر لیا اور غالباً اسے بھی قتل کر دیتے مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ قبیلہ مضر سے ہے تو عامر بن طفیل نے عرب کے دستور کے مطابق اس کے ماتھے کے چند بال کاٹ کر اسے رہا کر دیا اور کہا کہ میری ماں نے قبیلہ مصر کے ایک غلام

Page 257

تاب بدر جلد 4 241 کے آزاد کرنے کی منت مانی ہوئی ہے میں تجھے اس کے بدلے میں چھوڑتا ہوں.گویا ان ستر صحابہ میں صرف دو شخص بچے.ایک یہی عمرو بن امیہ ضمری اور دوسرے کعب بن زید جسے کفار نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا.بئر معونہ کے موقعہ پر شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت ابو بکر کے آزاد کردہ غلام اور اسلام کے دیرینہ فدائی عامر بن فہیرہ بھی تھے.انہیں ایک شخص جبار بن سلمی نے قتل کیا تھا.جبار بعد میں مسلمان ہو گیا اور وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ یہ بیان کرتا تھا کہ جب میں نے عامر بن فہیرہ کو شہید کیا تو ان کے منہ سے بے اختیار نکلا فزت واللہ یعنی ” خدا کی قسم میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں.“ جبار کہتے ہیں کہ میں یہ الفاظ سن کر متعجب ہوا کہ میں نے تو اس شخص کو قتل کیا ہے اور وہ یہ کہ رہا ہے کہ میں مراد کو پہنچ گیا ہوں.یہ کیا بات ہے.چنانچہ میں نے بعد میں لوگوں سے اس کی وجہ پوچھی تو مجھے معلوم ہوا کہ مسلمان لوگ خدا کے رستے میں جان دینے کو سب سے بڑی کامیابی خیال کرتے ہیں اور اس بات کا میری طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ آخر اسی اثر کے ماتحت میں مسلمان ہو گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو واقعہ رجیع اور واقعہ بئر معونہ کی اطلاع قریباً ایک ہی وقت میں ملی اور آپ کو اس کا سخت صدمہ ہوا.حتی کہ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسا صدمہ نہ اس سے پہلے آپ کو کبھی ہوا تھا اور نہ بعد میں کبھی ہوا.واقعی قریباً اسی صحابیوں کا اس طرح دھوکے کے ساتھ اچانک مارا جانا اور صحابی بھی وہ جو اکثر حفاظ قرآن میں سے تھے اور ایک غریب بے نفس طبقہ ނ تعلق رکھتے تھے.عرب کے وحشیانہ رسم ورواج کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو یہ خبر گویا استی بیٹوں کی وفات کی خبر کے مترادف تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیونکہ ایک روحانی انسان کے لئے روحانی رشتہ یقیناً اس سے بہت زیادہ عزیز ہوتا ہے جتنا کہ ایک دنیادار شخص کو دنیاوی رشتہ عزیز ہوتا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حادثات کا سخت صدمہ ہوا مگر اسلام میں بہر صورت صبر کا حکم ہے آپ نے یہ خبر سن کر انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا اور پھر یہ الفاظ فرماتے ہوئے خاموش ہو گئے کہ هَذَا عَمَلُ آبِي بَرَاءَ وَقَدْ كُنْتُ لِهَذَا كَارِ ما مُتَخَوْفًا یعنی ”یہ ابو براء کے کام کا ثمرہ ہے ورنہ میں تو ان لوگوں کے بھیجوانے کو پسند نہیں کرتا تھا اور اہل مسجد کی طرف سے ڈرتا تھا.574

Page 258

242 80 صحاب بدر جلد 4 حضرت حریث بن زید انصاری اپنے ایک بھائی کے ساتھ جنگ بدر میں شامل ہونے والے وا ہے.حضرت محرّيث بن زید انصاری.ایک روایت میں ان کا نام زید بن ثعلبہ بھی بیان ہوا.حضرت حریت کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو زید بن حارث سے تھا.آپ اپنے بھائی حضرت عبد اللہ کے ساتھ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے جنہیں اذان کی بابت رؤیا دکھائی گئی تھی.آپے غزوہ احد میں بھی شامل ہوئے تھے.5 575 ان کے بھائی کو بھی اذان کے الفاظ کے بارے میں بتایا گیا تھا.576 81 نام و نسب حضرت حصين بن حارث تین بھائی جو جنگ بدر میں شامل ہوئے آج جن بدری صحابہ کا میں ذکر کروں گا ان میں پہلا نام ہے حضرت حصین بن حارث کا.حضرت حصین کی والدہ شخیلہ بنت خُزاعی تھیں.ان کا تعلق بنو مطلب بن عَبدِ مَنَاف سے تھا.ہجرت مدینہ اور مواخات انہوں نے اپنے دو بھائیوں حضرت طفیل اور حضرت عبیدہ کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی.ان کے ساتھ حضرت مسطح بن أثاثه اور حضرت عباد بن مطلب بھی تھے.مدینہ میں آپ نے حضرت عبد الله بن سلمة عجلانی کے گھر قیام کیا.روایت کے مطابق آنحضور صلی الم نے حضرت حصین کی عبد اللہ بن جبیر کے ساتھ مواخات قائم فرمائی.یہ محمد بن اسحاق کے مطابق ہے.تمام غزوات میں شمولیت حضرت حصين " نے غزوہ بدر اور احد سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی ایم کے ساتھ

Page 259

تاب بدر جلد 4 243 شرکت کی.حضرت محصین کے دو بھائیوں حضرت عبیدہ اور حضرت طفیل نے بھی غزوہ بدر میں شرکت کی.حضرت حصین کی وفات 32 ہجری میں ہوئی.اولاد 577 حضرت محصين کے بیٹے کا نام عبد اللہ تھا.ان کی بیٹیاں خدیجہ اور ہند تھیں.انہوں نے بھی اسلام قبول کیا.578 غزوہ خیبر کے وقت رسول اللہ صلی علیم نے ان دونوں کو سو سق غلہ عطا فرمایا.ایک وسق جو ہے وہ 60 صاع ہوتے ہیں.اور ایک صاع کچھ کم اڑھائی سیر کے برابر ہوتا ہے تو اس طرح تقریباً 375 من غلہ آنحضرت صلی علیم نے ان کو ان کے والد کی وجہ سے عطا فرمایا.579 82 حضرت حمزہ بن عبد المطلب آج حضرت حمزہ بن عبد المطلب کا ذکر کروں گا.ان کا ذکر خاص طور پہ جس طرح یہ ہوئے تفصیل سے تاریخ اور احادیث میں بیان ہے.اسی طرح ان کی شہادت کا واقعہ بھی.نام و نسب و کنیت یہ سید الشہداء کے لقب سے مشہور ہیں اور اسی طرح اسد اللہ اور اسد رسول بھی ان کا لقب ہے.حضرت حمزہ سردار قریش حضرت عبد المطلب کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی نیلم کے چچا تھے.حضرت حمزہ کی والدہ کا نام ہالہ تھا اور یہ بھی رسول اللہ صلی علیکم کی والدہ حضرت آمنہ کی چچازاد بہن تھیں.580 حضرت حمزہ رسول اللہ صلی علیم سے دو سال اور ایک روایت کے مطابق چار سال عمر میں بڑے تھے.حضرت حمزہ آنحضرت صلی علی ایم کے رضاعی بھائی بھی تھے.ایک لونڈی تھی ثوبیہ انہوں نے دونوں کو دودھ پلایا تھا.581 قبول اسلام حضرت حمزہ نے آنحضرت صلی علیم کے دعوی نبوت کے بعد چھ نبوی میں دارِ ارقم کے زمانہ میں اسلام قبول کرنے کی توفیق پائی.582

Page 260

اصحاب بدر جلد 4 244 حضرت حمزہ کے قبول اسلام کا واقعہ حضرت مصلح موعودؓ نے تاریخی واقعات کی روشنی میں اپنے اند از میں بیان کیا ہے.اس کا کچھ خلاصہ میں بیان کروں گا اور کچھ تفصیل بھی.اس کو سن کے انسان جب تصور میں لاتا ہے کہ کس طرح حضرت حمزہ نے اسلام قبول کیا اور اس کی کیا وجہ بنی اور کس طرح ان کو آنحضرت صلی الیکم کے بارے میں غیرت آئی جب ابو جہل نے آنحضرت صلی علیکم کے اوپر زیادتی کی تھی.بہر حال اس واقعہ کا ذکر اس طرح ہے کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ کی صفا اور مر وہ پہاڑیوں کے درمیان ایک پتھر پر بیٹھے تھے اور یقینا یہی سوچ رہے تھے کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو کس طرح قائم کیا جائے کہ اتنے میں ابو جہل آگیا.اس نے آتے ہی کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم اپنی باتوں سے باز نہیں آتے.یہ کہہ کر اس نے آپ کو سخت غلیظ گالیاں دینی شروع کیں.آپ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیوں کو سنتے رہے اور برداشت کیا.ایک لفظ بھی آپ نے منہ سے نہیں نکالا.ابو جہل جب جی بھر کے گالیاں دے چکا تو اس کے بعد وہ بد بخت آگے بڑھا اور اس نے آپ کے منہ پر تھپڑ مارا.مگر آپ صلی علی کریم نے پھر بھی اسے کچھ نہیں کہا.آپ جس جگہ بیٹھے تھے اور جہاں ابو جہل نے گالیاں دی تھیں وہاں سامنے ہی حضرت حمزہ کا گھر تھا.حضرت حمزہ اس وقت تک ابھی ایمان نہیں لائے تھے.ان کا معمول تھا کہ روزانہ صبح تیر کمان لے کر شکار پہ چلے جایا کرتے تھے اور شام کو واپس آتے تھے اور پھر قریش کی جو مجالس تھیں ان میں بیٹھا کرتے تھے.اس دن جب ابو جہل نے رسول کریم صلی للی یم کو گالیاں دیں اور بڑائبر اسلوک کیا تو وہ شکار پر گئے ہوئے تھے لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ جب ابو جہل یہ سب کچھ کر رہا تھا تو حضرت حمزہ کے خاندان کی ایک لونڈی دروازے میں کھڑی ہو کر یہ نظارہ دیکھ رہی تھی.ابو جہل جب بار بار آپ پر حملہ کر رہا تھا اور بے تحاشا گالیاں آپ کو دے رہا تھا.آپ خاموشی اور سکون سے اس کی گالیوں کو برداشت کر رہے تھے.وہ لونڈی دروازے میں کھڑی ہو کر یہ سارا نظارہ دیکھتی رہی.حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ وہ بیشک ایک عورت تھی اور کافرہ تھی لیکن پرانے زمانے میں جہاں مکہ کے لوگ اپنے غلاموں پر ظلم کرتے تھے وہاں یہ بھی ہو تا تھا کہ بعض شرفاء اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتے تھے اور آخر کافی عرصہ کے بعد وہ غلام اسی خاندان کا ایک حصہ سمجھے جاتے تھے.اسی طرح وہ بھی حضرت حمزہ کے خاندان کی لونڈی تھی.جب اس نے یہ سارا نظارہ دیکھا.اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا اپنے کانوں سے سب کچھ سنا تو اس پر بہت اثر ہوا مگر کچھ کر نہیں سکتی تھی.دیکھتی رہی سنتی رہی اور اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی رہی، کڑھتی رہی ، جلتی رہی.جب رسول کریم صلی علیہ کام وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو وہ بھی اپنے کام کاج میں لگ گئی.شام کو جب حضرت حمزہ اپنے شکار سے واپس آئے اور اپنی سواری سے اترے اور تیر کمان کو ہاتھ میں پکڑے اپنی بڑی بہادری کا، ایک فخر کا انداز دکھاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے تو وہ لونڈی اس وقت اٹھی.اس نے بڑی دیر سے اپنے غصے اور غم کے جذبات اس وقت دبائے ہوئے تھے.اس نے بڑے زور سے حضرت حمزہ کو کہا کہ تمہیں شرم نہیں آتی بڑے بہادر بنے پھرتے ہو.حمزہ یہ سن الله سة.

Page 261

تاب بدر جلد 4 245 کر حیران ہو گئے اور تعجب سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ لونڈی نے کہا کہ معاملہ کیا ہے.تمہارا بھتیجا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یہاں بیٹھا تھا کہ ابو جہل آیا اور اس نے محمد صلی علی تم پر حملہ کر دیا اور بے تحاشا گالیاں دینی شروع کر دیں اور پھر ان کے منہ پر تھپڑ مارا.مگر محمد صلی ا ہم نے آگے سے اُف تک نہیں کی اور خاموشی کے ساتھ سنتے رہے.ابو جہل گالیاں دیتا گیا اور دیتا گیا اور جب تھک گیا تو چلا گیا.مگر میں نے دیکھا کہ محمد صلی الم نے اس کی کسی بات کا جواب نہ دیا.تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو.بڑے اکڑتے ہوئے شکار سے واپس آئے ہو تو تمہیں شرم نہیں آتی کہ تمہاری موجودگی میں تمہارے بھتیجے کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے.حضرت حمزہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اس وجہ سے بھی کہ سرداران قریش میں ان لوگوں کا شمار ہوتا تھا اور ریاست کی وجہ سے اسلام کو ماننے کو تیار نہیں تھے حالانکہ سمجھتے تھے کہ آنحضرت صلی علیم سچے ہیں مگر حمزہ اس وقت اپنی شان اور جاہ و جلال کو ایمان پر قربان کرنے کے لئے تیار نہیں تھے مگر جب انہوں نے اپنی لونڈی سے یہ واقعہ سنا تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور ان کی خاندانی غیرت جوش میں آئی.چنانچہ وہ اسی طرح بغیر آرام کئے غصہ سے کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے.پہلے انہوں نے کعبہ کا طواف کیا اور اس کے بعد مجلس کی طرف بڑھے جس میں ابو جہل بیٹھا ہوا اپنی بڑیں مار رہا تھا لاف زنی کر رہا تھا اور اس واقعہ کو بڑا مزے لے لے کر سنارہا تھا اور تکبر کے ساتھ یہ بیان کر رہا تھا کہ آج میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یوں گالیاں دیں اور آج میں نے یہ سلوک کیا.حمزہ جب اس مجلس میں پہنچے تو انہوں نے جاتے ہی کمان بڑے زور کے ساتھ ابو جہل کے سر پر ماری اور کہا کہ تم اپنی بہادری کے دعوے کر رہے ہو اور لوگوں کو سنارہے ہو کہ میں نے محمد صلی ا کرم کو اس طرح ذلیل کیا اور محمد نے اُف تک نہیں کی.صلی اللہ علیہ وسلم.اب میں تجھے ذلیل کرتا ہوں اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو میرے سامنے بول.ابو جہل اس وقت مکہ کے اندر ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا.قوم کا سر دار تھا.فرعون والی حالت تھی اس کی.جب اس کے ساتھیوں نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ جوش کے ساتھ اٹھے اور انہوں نے حمزہ پر حملہ کرنا چاہا.مگر ابو جہل جو رسول کریم صلی للی کم کی خاموشی کے ساتھ گالیاں برداشت کرنے کی وجہ سے اور پھر اب حمزہ کی دلیری اور جرآت کی وجہ سے مرعوب ہو گیا تھا بیچ میں آگیا اور ان لوگوں کو حملہ کرنے سے روکا اور کہا تم لوگ جانے دو.دراصل بات یہ ہے کہ مجھ سے ہی زیادتی ہوئی تھی اور حمزہ حق بجانب ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے انداز میں پھر لکھا کہ محمد رسول اللہ صلی علیکم تو جس وقت صفا اور مروہ کی پہاڑیوں سے واپس گھر آئے تھے اپنے دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ میر اکام لڑنا نہیں ہے بلکہ صبر کے ساتھ گالیاں برداشت کرنا ہے مگر خدا تعالیٰ عرش پر کہہ رہا تھا کہ آلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کہ اے محمد صلی ال کی تو لڑنے کے لئے تیار نہیں مگر کیا ہم موجود نہیں ہیں جو تیری جگہ تیرے دشمنوں کا مقابلہ کریں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اسی دن ابو جہل کا مقابلہ کرنے والا ایک جاشار آپ کو دے دیا اور حضرت حمزہ

Page 262

ب بدر جلد 4 246 نے اسی مجلس میں جس میں کہ انہوں نے ابو جہل کے سر پر کمان ماری تھی اپنے ایمان کا اعلان کر دیا اور ابو جہل کو مخاطب ہو کر کہا کہ تو نے محمد صلی للی کم کو گالیاں دی ہیں صرف اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں اور فرشتے مجھ پر اترتے ہیں.ذرا کان کھول کر سن لو کہ میں بھی آج سے محمد صلی علیم کے دین پر قائم ہوں اور میں بھی وہی کچھ کہتا ہوں جو محمد صلی علیہ ہم کہتے ہیں اگر تجھ میں ہمت ہے تو آمیرے مقابلے پر.یہ کہہ کر حمزہ مسلمان ہو گئے.3 مسلمانوں کو تقویت ملنا 583 روایات میں ہے کہ حضرت حمزہ کے مسلمان ہونے کے بعد مکہ کے جو مسلمان تھے ان کے ایمان کو بڑی تقویت ملی.584 بلکہ انگریز مورخ سر ولیم میور نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ محمد صلی علیکم کے مقصد کو حضرت حمزہ اور حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے سے تقویت ملی.585 ہجرت مدینہ اور مواخات حضرت حمزہ نے دیگر مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو حضرت کلثوم بن ھدم کے مکان پر قیام کیا.اور ایک روایت کے مطابق آپ نے حضرت سعد بن خَيْثَمَہ کے ہاں قیام کیا.بہر حال مدینہ ہجرت کرنے کے بعد رسول اللہ صلی علیم نے حضرت حمزہ اور حضرت زید بن حارثہ کے در میان رشتہ اخوت قائم فرمایا.اسی بناء پر غزوہ اُحد پر جاتے ہوئے حضرت حمزہ نے حضرت زید کے حق میں وصیت فرمائی تھی.586 پہلا جھنڈا جور سول اللہ صلی الل ولم نے حضرت حمزہ کو عطا فرمایا مدینہ ہجرت کے بعد بھی کفار کی ریشہ دوانیاں ختم نہیں ہوئیں.ان کی چھیڑ چھاڑ مسلمانوں کو تنگ کرناختم نہیں ہوا اس لئے مسلمانوں کو بڑا ہو شیار رہنا پڑتا تھا اور کفار کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی پڑتی تھی.روایت میں ہے قریش کی نقل و حرکت اور ریشہ دوانیوں سے باخبر رہنے کے لئے نبی کریم صلی ا کم کو مہمات کی ضرورت پیش آئی جن میں حضرت حمزہ کو غیر معمولی خدمت کی توفیق ملی.ربیع الاول دو ہجری کو نبی کریم صلی ا ہم نے حضرت حمزہ کی قیادت میں تیس شتر سوار مہاجرین پر مشتمل ایک دستہ عبیص کی طرف روانہ فرمایا.حمزہ اور ان کے ساتھی جلدی جلدی وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کارئیس اعظم ابو جہل تین سو سواروں کا ایک لشکر لئے ان کے استقبال کو موجود تھے.مسلمانوں کی تعداد سے یہ تعداد دس گنا سے زیادہ تھی مگر مسلمان خدا اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل میں گھر سے نکلے تھے اور موت کا ڈر انہیں پیچھے نہیں ہٹا سکتا تھا.دونوں ایک دوسرے کے مقابل میں ہو گئے.صف آرائی شروع ہو گئی اور لڑائی شروع ہونے والی تھی کہ اس علاقے کے رئیس مجدی بن عمر و الجھنی نے جو دونوں فریق کے ساتھ تعلقات رکھتا تھا

Page 263

اصحاب بدر جلد 4 247 درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کر وایا اور لڑائی ہوتے ہوتے رک گئی.587 یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ جو پہلا لواء تھا یا جھنڈا تھار سول اللہ صلی الم نے حضرت حمزہ کو عطا کیا تھا.جبکہ بعض روایتیں یہ ہیں کہ حضرت ابو عبیدہ اور حضرت حمزہ کے سر یہ ایک ساتھ روانہ ہوئے تھے اس سے شبہ پڑتا ہے (کہ جھنڈا کس کو عطا فرمایا) لیکن بہر حال دو ہجری میں غزوہ بنو قینقاع میں جو رسول اللہ صلی علیم کا جھنڈا تھا وہ حضرت حمزہ ہی اٹھائے ہوئے تھے.588 عزت نفس کو قائم رکھنا بہتر ہے آنحضرت صلی ال یکم کے اس ارشاد پر حضرت حمزہ نے ہمیشہ عمل کیا اور قائم رہے کہ اپنی خودداری اور اپنی عزت نفس کو قائم رکھنا بہتر ہے اور یہ ہمیشہ قائم رکھنی چاہئے.چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد دیگر مسلمانوں کی طرح حضرت حمزہ کے مالی حالات بھی بہت خراب ہو گئے تھے.حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ انہی ایام میں ایک روز حضرت حمزہ نبی کریم صلی الی یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کوئی خدمت میرے سپرد فرما دیں تا کہ ذریعہ معاش کی کوئی صورت پیدا کرلوں تو رسول کریم صلی علی یکم نے انہیں فرمایا کہ اے حمزہ اپنی عزت نفس قائم اور زندہ رکھنا زیادہ پسند ہے یا اسے مار دینا.حضرت حمزہ نے عرض کیا میں تو اسے زندہ رکھنا ہی پسند کرتا ہوں.آپ صلی لی ہم نے فرمایا پھر اپنی عزت نفس کی حفاظت کرو.آپ کو سکھائی جانے والی دعا الله سة 589 590 پھر نبی کریم صلی علیم نے آپ کو دعاؤں پر زور دینے کی تحریک فرمائی اور بعض خاص دعائیں سکھائیں.چنانچہ حضرت حمزہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا تھا کہ اس دعا کو لازم پکڑو کہ اللهم الى استلُكَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ وَرِضْوَانِكَ الْأَكْبَرِ.یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے اسم اعظم اور رضوان اکبر کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں اور ہمیشہ پھر آپ نے اس کے پھل کھائے.چنانچہ حضرت حمزہ کو دعاؤں پر کتنا ایمان اور یقین تھا ان باتوں کا بھی روایتوں سے اظہار ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو تا جبکہ ان دعاؤں ہی کی برکت سے بظاہر اس تہی دست اور تہی دامن مہاجر کو اللہ تعالیٰ نے گھر بار اور ضرورت کا سب کچھ عطا فرمایا.بنو نجار کی ایک خاتون سے شادی اور نبی صلی یم کی انصار سے محبت کچھ عرصہ بعد حضرت حمزہ نے بنی نجار کی ایک انصاری خاتون خولہ بنت قیس کے ساتھ شادی کی.نبی کریم صلی علیم ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے.حضرت خولہ بعد میں نبی کریم صلی ی نیم کی اس دور کی محبت بھری باتیں سنایا کرتی تھیں.فرماتی تھیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی الم ہمارے گھر تشریف لائے.میں نے عرض کیا کہ اے خدا کے رسول مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن

Page 264

بدر جلد 4 248 591 آپ کو حوض کو ثر عطا کیا جائے گا جو بہت وسعت رکھتا ہو گا.حضور صلی علیکم نے فرمایا ہاں یہ سچ ہے اور یہ بھی سن لو کہ مجھے عام لوگوں سے کہیں زیادہ تمہاری قوم انصار کا اس حوض سے سیراب ہونا پسند ہے.کیسی محبت تھی انصار سے صرف اس لئے کہ جب اپنی قوم نے آپ کو نکالا تو انصار تھے جنہوں نے آپ پر اپناسب کچھ نچھاور کر دیا.جنگ بدر اور حضرت حمزہ کے دلیرانہ کارنامے تاریخ میں غزوہ بدر کے حوالے سے ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ دو ہجری میں بدر کا مشہور معرکہ پیش آیا تو غزوہ بدر کے موقع پر کفار کی طرف سے اسود بن عبد الاسد مخزومی نکلا.یہ نہایت ہی شریر اور برا شخص تھا.اس نے عہد کیا تھا کہ مسلمانوں نے جو پانی کی جگہ رکھی تھی میں ضرور رسول اللہ صلی علیم کے اس حوض میں سے جا کر پانی پیوں گا.یا اسے ڈھاؤں گا، خراب کروں گا یا اس کے پاس مر جاؤں گا.وہ اس ارادے سے نکلا.حضرت حمزہ بن عبد المطلب اس کا مقابلہ کرنے آئے.جب ان دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو حضرت حمزہ نے تلوار کا وار کر کے اس کی آدھی پنڈلی کاٹ دی.وہ حوض کے پاس تھا.وہ کمر کے بل گرا اور اپنی قسم پوری کرنے کے لئے حوض کی طرف بڑھا تا کہ اپنی قسم پوری کرے.حضرت حمزہ نے اس کا پیچھا کیا.ایک اور وار کر کے اسے ختم کر دیا.592 سکا.وہ حوض کے قریب مر تو گیا لیکن یہ جو تھا کہ پانی پیوں گا یا خراب کروں گاوہ اسے بہر حال نہ کر جنگ بدر اور مبارزت حضرت علی غزوہ بدر کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اس میں کفار کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی.رات بھر رسول اللہ صلی الل علم خدا کے حضور عاجزانہ دعاؤں اور تضرعات میں مصروف رہے.جب کفار کا لشکر ہمارے قریب ہوا اور ہم ان کے سامنے صف آراء ہوئے تو ناگاہ ایک شخص پر نظر پڑی جو سرخ اونٹ پر سوار تھا اور لوگوں کے درمیان اس کی سواری چل رہی تھی.رسول کریم صلی ا ہم نے فرمایا اے علی ! حمزہ جو کفار کے قریب کھڑے ہیں انہیں پکار کر پوچھو کہ سرخ اونٹ والا کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے ؟ پھر حضور صلی ایم نے فرمایا کہ اگر ان لوگوں میں سے کوئی شخص انہیں خیر بھلائی کی نصیحت کر سکتا ہے تو وہ سرخ اونٹ والا شخص ہے.اتنی دیر میں حضرت حمزہ بھی آگئے.انہوں نے آکر بتایا کہ عتبہ بن ربیعہ ہے جو کفار کو جنگ سے منع کر رہا ہے جس کے جواب میں ابو جہل نے اسے کہا ہے کہ تم بزدل ہو اور لڑائی سے ڈرتے ہو.عتبہ نے جوش میں آکر کہا کہ آج دیکھتے ہیں کہ بزدل کون ہے.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ عتبہ بن ربیعہ اور اس کے پیچھے اس کا بیٹا اور بھائی بھی نکلے اور پکار کر کہا کہ کون ہمارے مقابلہ کے لئے آتا ہے تو انصار کے کئی نوجوانوں نے اس کا جواب دیا.عتبہ نے پوچھا 593

Page 265

تاب بدر جلد 4 249 کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے بتادیا کہ ہم انصار میں سے ہیں.عتبہ نے کہا کہ ہمیں تم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے.ہم تو صرف اپنے چچا کے بیٹوں سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں.تو نبی کریم صلی الم نے فرمایا اے حمزہ ! اٹھو.اے علی ! کھڑے ہو.اے عبیدہ بن حارث ! آگے بڑھو.حمزہ تو عتبہ کی طرف بڑھے اور حضرت علی کہتے ہیں کہ میں شیبہ کی طرف بڑھا اور عبیدۃ اور ولید کے درمیان جھڑپ ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کو سخت زخمی کیا اور پھر ہم ولید کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کو مار ڈالا اور عبیدۃ کو ہم میدان جنگ سے اٹھا کر لے آئے.594 حضرت علی اور حمزہ ان دونوں نے تو اپنے اپنے مخالفین کو مار دیا تھا.جب نبی کریم صلی کلم نے فرمایا اے حمزہ ! اٹھو.اور اے علی ! کھڑے ہو.اے عبیدہ بن حارث ! آگے بڑھو.اس موقع پر جب تینوں کھڑے ہوئے اور عتبہ کی طرف بڑھے تو عتبہ نے کہا کہ کچھ بات کرو تاکہ ہم تمہیں پہچان نہیں کیونکہ وہ خود پہنے ہوئے تھے.ان کے منہ ڈھانکے ہوئے تھے.اس موقع پر حضرت حمزہ نے کہا کہ میں حمزہ ہوں جو اللہ اور اس کے رسول صلی علیہ کم کا شیر ہے تو عتبہ نے کہا اچھا مقابل ہے.595 شتر مرغ کا پر لگائے ہوئے....حضرت حمزہ کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ غزوہ بدر میں کفار میں دہشت ڈالنے کے لئے آپ شتر مرغ کا پر بطور نشان جنگ لگائے ہوئے تھے.حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ اُمیہ بن خلف سردار قریش میں سے تھا جو کہ مکہ میں حضرت بلال کو تکالیف دیتا تھا.غزوہ بدر میں انصار کے ہاتھوں مارا گیا.اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جس کے سینہ میں شتر مرغ کا پر لگا ہوا ہے.میں نے کہا کہ یہ حمزہ بن عبد المطلب ہیں.اُمیہ کہنے لگا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے آج ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے.596 انگریز مؤرخ سر ولیم میور غزوہ احد کے ذکر میں حضرت حمزہ کی موجودگی کے بارہ میں لکھتا ہے کہ حمزہ لہراتے ہوئے شتر مرغ کے پر کے ساتھ ہر جگہ نمایاں نظر آتے تھے.7 اور بھی کئی سرداروں کو آپ نے جنگ میں قتل کیا.597 جنگ احد اور حضرت حمزہ کی شجاعت غزوہ اُحد میں بھی حضرت حمزہ نے شجاعت کے کمالات دکھائے.آپ کی یہ بہادری قریش مکہ کی آنکھوں میں سخت کھٹکی تھی.بخاری میں اس کی تفصیل اس طرح درج ہے کہ : حضرت جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری کہتے ہیں کہ میں عبید اللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ سفر میں گیا.جب ہم حمص جو ملک شام کا مشہور شہر ہے اس میں پہنچے تو عبید اللہ بن عدی نے مجھ سے کہا کہ کیا آپ وحشی بن حرب حبشی سے ملنا چاہتے ہیں.حضرت حمزہ کے قتل کی بابت اس سے پوچھیں گے.اس نے کہا کہ اچھا اور وحشی حمص میں رہا

Page 266

اصحاب بدر جلد 4 250 کرتا تھا.چنانچہ ہم نے اس کا پتہ دریافت کیا.ہم سے کہا گیا کہ وہ اپنے محل کے سائے میں بیٹھا ہے جیسے بڑی مشک ہو.جعفر کہتے ہیں کہ ہم اس کے پاس جا کر تھوڑی دیر کھڑے رہے.ہم نے السلام علیکم کہا.اس نے سلام کا جواب دیا.کہتے تھے : عبید اللہ اس وقت پگڑی اور سر اور منہ لیٹے ہوئے تھے.وحشی صرف ان کی آنکھیں اور پاؤں ہی دیکھ سکتا تھا.عبید اللہ نے کہا وحشی کیا مجھے پہچانتے ہو ؟ کہتے تھے کہ اس نے غور سے انہیں دیکھا تو اس نے کہا اللہ کی قسم نہیں.سوائے اس کے کہ میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ایک عورت سے شادی کی تھی جسے اتم قتال بنت ابی العیص کہتے تھے.مکہ میں عدی کے لئے اس کے ہاں بچہ پید ا ہوا.اور میں اسے دودھ پلو یا کرتا تھا اور بچے کو اٹھا کر اس کی ماں کے ساتھ لے جاتا تھا اور وہ بچہ اس کی ماں کو دے دیتا تھا.میں نے تمہارا پاؤں دیکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی ہے.یعنی اس نے پاؤں سے پہچان لیا.یہ سن کر عبید اللہ نے اپنا منہ کھول دیا.حضرت حمزہ کی شہادت کا قصہ، شہید کرنے والے کی زبانی تو پھر انہوں نے کہا کہ حضرت حمزہ کے قتل کا واقعہ ہمیں بتاؤ.اس نے کہا کہ حضرت حمزہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو بدر میں قتل کیا تھا.میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم میرے چچا کے بدلہ میں حمزہ کو قتل کرو تو تم آزاد ہو.اس نے کہا جب لوگوں نے دیکھا کہ جنگ اُحد ہونے والی ہے اور عینین اُحد کی پہاڑیوں میں سے ایک پہاڑی ہے.اُحد کے اور اس کے درمیان ایک وادی ہے.میں بھی لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لئے نکلا.جب لوگ لڑنے کے لئے صف آراء ہوئے تو سباع میدان میں نکلا اور اس نے پکارا کہ کیا کوئی مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں نکلے گا.یہ سن کر حضرت حمزہ بن عبد المطلب اس کے مقابل نکلے اور کہنے لگے اے سباع ! کیا تم اللہ اور اس کے رسول صلی میں کم سے مقابلہ کرتے ہو.یہ کہہ کر حضرت حمزہ نے اس پر حملہ کیا اور وہ ایسا ہو گیا جیسے کل کا گزرا ہو ادن.یعنی فوراً ہی اس کو زیر کر لیا اور ختم کر دیا.وحشی کہتا ہے کہ میں ایک چٹان کے نیچے حضرت حمزہ کے لئے گھات میں بیٹھ گیا جب وہ میرے قریب پہنچے تو میں نے اپنابر چھا مارا اور اس کو ان کے زیر ناف رکھ کر جو زور سے دبایا تو آر پار نکل گیا اور یہی ان کی آخری گھڑی تھی.تو آرپار وحشی کا قبول اسلام اور......جب لوگ لوٹے تو میں بھی ان کے ساتھ لوٹا اور مکہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ جب اس میں اسلام پھیلا تو میں وہاں سے نکل کر طائف چلا گیا.لوگوں نے رسول اللہ صلی علیکم کی طرف اینچی بھیجے اور مجھ سے کہا گیا کہ آپ ایلچیوں سے تعارض نہیں کرتے.انہیں یعنی ایلچیوں کو کچھ نہیں کہتے.میں بھی ان کے ساتھ گیا.جب رسول اللہ صلی علیم کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ تم ہی وحشی ہو.میں نے کہا جی ہاں.آپ نے فرمایا.تم نے حمزہ کو قتل کیا تھا؟ میں نے کہا ٹھیک بات ہے جو آپ کو پہنچی ہے.آپ نے فرمایا تم سے ہو سکے تو میرے سامنے نہ آیا کرو.وہ کہتے ہیں یہ سن کر میں وہاں سے نکل گیا.جب رسول اللہ صلی الم فوت ہوئے اور مسیلمہ کذاب نے بغاوت کی تو میں نے کہا میں مسیلمہ کی

Page 267

اصحاب بدر جلد 4 251 طرف ضرور جاؤں گا شاید میں اسے قتل کروں اور اس طرح حضرت حمزہ کے گناہ کا کفارہ ادا کروں.کہتے ہیں کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ جنگ میں نکلا.پھر جنگ کا حال جو ہو اوہ ہوا.میں نے دیکھا کہ ایک دیوار کے ایک شگاف میں کھڑا ہے.ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے گندمی رنگ کا اونٹ ہے.سر کے بال پراگندہ ہیں.تو کہتے ہیں کہ میں نے اس کو اپنا بر چھامارا اور اس کی چھاتیوں کے درمیان رکھ کر زور سے جو دبایا تو دونوں کندھوں کے درمیان سے پار نکل گیا.اس کے بعد ایک انصاری نے بھی اس کی گردن کاٹ دی.تو بعد میں یہ انجام اس کا ہوا.دو تلواروں سے لڑنے والا شیر خدا 598 عمیر بن اسحاق سے اس طرح مروی ہے کہ اُحد کے روز حمزہ بن عبد المطلب رسول اللہ صلی ایم کے آگے دو تلواروں سے جنگ کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں اسد اللہ ہوں.یہ کہتے ہوئے کبھی آگے جاتے اور کبھی پیچھے ہٹتے.وہ اسی حالت میں تھے کہ یکا یک پھسل کر اپنی پیٹھ کے بل گرے.انہیں وحشی اسود نے دیکھ لیا.ابو اسامہ نے کہا کہ اس نے انہیں نیزہ کھینچ کر مارا اور قتل کر دیا.599 اور حضرت حمزہ ہجرت نبوی کے بعد بنتیسویں مہینہ میں جنگ اُحد میں شہید ہوئے.آپ کی عمر اس وقت انسٹھ سال تھی.100 حضرت حمزہ کی نعش کی بے حر متی...601 روایت یہ ہے کہ ابوسفیان کی بیوی ہند غزوہ اُحد کے دن لشکروں کے ہمراہ آئی.اس نے اپنے باپ کا انتقام لینے کے لئے جو بدر میں حضرت حمزہ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھا یہ نذرمان رکھی تھی کہ مجھے موقع ملا تو میں حمزہ کا کلیجہ چباؤں گی.جب یہ صورتحال ہو گئی اور حضرت حمزہ پر مصیبت آگئی تو مشرکین نے مقتولین کو مثلہ کر دیا.ان کی شکلیں بگاڑ دیں ناک کان وغیرہ عضو کاٹے.وہ حمزہ کے جگر کا ایک ٹکڑ الائے.ہند اسے لے کر چباتی رہی کہ کھا جائے مگر جب وہ اس کو نگل نہ سکی تو پھینک دیا.یہ واقعہ رسول اللہ صلی یکم کو معلوم ہوا تو آپ صلی علیم نے فرمایا کہ اللہ نے آگ پر ہمیشہ کے لئے حرام کر دیا ہے کہ حمزہ کے گوشت میں سے کچھ بھی چکھے.آنحضرت صلی الی یکم نے حضرت حمزہ کی نعش کے پاس آکر جن جذبات کا اظہار کیا اور آپ کو بلند مقام کی جو خوشخبری دی اس کے بارہ میں روایت ہے کہ رسول کریم ملی تعلیم نے جب حضرت حمزہ کی نعش کو دیکھا تو ان کا کلیجہ نکال کر چبایا گیا تھا.ابن ہشام کہتے ہیں تاریخ میں یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے اس حال میں جب حضرت حمزہ کی نعش پر آکر کھڑے ہوئے تو فرمانے لگے کہ اے حمزہ تیری اس مصیبت جیسی کوئی مصیبت مجھے کبھی نہیں پہنچے گی.میں نے اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آج تک نہیں دیکھا.پھر آپ نے فرمایا جبریل نے آکر مجھے خبر دی ہے کہ حمزہ بن عبد المطلب کو سات آسمانوں میں اللہ اور اس کے رسول کا شیر لکھا گیا ہے.602

Page 268

اصحاب بدر جلد 4 252 بہن کا بھائی کی نعش پر صبر ورضا اور اطاعت کا قابل رشک مظاہرہ حضرت زبیر سے مروی ہے کہ غزوہ اُحد کے دن اختتام پر ایک عورت سامنے سے بڑی تیزی کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی.قریب تھا کہ وہ شہداء کی لاشیں دیکھ لیتی.نبی کریم صلی اللہ ہم نے اس کو اچھا نہیں سمجھا کہ کوئی خاتون وہاں آئے اور لاشوں کی جو بہت بری حالت تھی وہ دیکھ سکے.اس لئے فرمایا کہ اس عورت کو روکو.اس عورت کو روکو.حضرت زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے غور سے دیکھا کہ یہ میری والدہ حضرت صفیہ نہیں.چنانچہ میں ان کی طرف دوڑتا ہوا گیا اور شہداء کی لاشوں تک پہنچنے سے قبل ہی میں نے انہیں جا لیا.انہوں نے مجھے دیکھ کر، میرے سینے پر مار کر مجھے پیچھے کو دھکیل دیا.وہ ایک مضبوط خاتون تھیں.اور کہنے لگیں کہ پرے ہٹو میں تمہاری کوئی بات نہیں مانوں گی.میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی الیکم نے آپ کو روکنے کا کہا ہے کہ آپ ان لاشوں کو مت دیکھیں.یہ سنتے ہی وہ رک گئیں اور اپنے پاس موجود دو کپڑے نکال کر فرمایا یہ دو کپڑے ہیں جو میں اپنے بھائی حمزہ کے لئے لائی ہوں کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے.تو یہ تھی اطاعت اس زمانے کی.یعنی کہ وہ یہ سنتے ہی کہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا ہے کہ اسے روکو تو جہاں بھی آنحضرت صلی علیہ نیم کا نام سناباوجو د غم کی حالت کے باوجود اس کے کہ وہ بڑی جوش کی حالت میں تھیں فوری طور پر اپنے جذبات کو کنٹرول کیا اور رک گئیں.یہ کامل اطاعت ہے.اور کہنے لگیں کہ اپنے بھائی کے لئے کپڑے لائی ہوں.شہادت کی خبر مجھے مل چکی ہے.تم انہیں ان کپڑوں میں کفن دے دینا.جب ہم حضرت حمزہ کو ان دو کپڑوں میں کفن دینے لگے تو دیکھا کہ ان کے پہلو میں ایک انصاری شہید ہوئے پڑے ہیں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تھا جو حضرت حمزہ کے ساتھ کیا گیا تھا.ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ حضرت حمزہ کو دو کپڑوں میں کفن دیں اور اس انصاری کو ایک کپڑا بھی میسر نہ ہو.اس لئے ہم نے یہ طے کیا کہ ایک کپڑے میں حضرت حمزہ کو اور دوسرے میں اس انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کو کفن دیں.اندازہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات میں سے ایک زیادہ لمبے قد کا تھا.ہم نے قرعہ اندازی کی اور جس کے نام جو کپڑا نکل آیا اسے اسی کپڑے میں دفنادیا.603 تجهیز و تکفین حضرت حمزہ کو ایک ہی کپڑے میں کفن دیا گیا تھا.جب آپ کا سر ڈھانکا جاتا تو دونوں پاؤں سے کپڑا ہٹ جاتا اور جب چادر پاؤں کی طرف کھینچ دی جاتی تو آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹ جاتا.تو اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ آپ کا چہرہ ڈھانک دیا جائے اور پاؤں پر حرمل یا اذخر گھاس رکھ دی جائے.حضرت حمزہ اور حضرت عبد اللہ بن جحش جو کہ آپ کے بھانجے تھے ایک ہی قبر میں دفن کئے گئے.نبی کریم صلی علیکم الله

Page 269

تاب بدر جلد 4 253 نے سب سے پہلے حضرت حمزہ کی نماز جنازہ پڑھائی.14 نماز جنازه 604 حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی ایم نے حضرت حمزہ کی نعش کو سامنے رکھ کر ان کی نماز جنازہ پڑھائی.ایک انصاری صحابی کی نعش کو ان کے پہلو میں رکھا گیا اور آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی.پھر اس انصاری کی میت اٹھادی گئی تاہم حضرت حمزہ کی میت وہیں رہنے دی گئی.یہاں تک کہ اس طرح آنحضرت صلی این وکیل نے اس روز حضرت حمزہ کی نماز جنازہ دوسرے باقی شہداء کے ساتھ ستر دفعہ پڑھائی کیونکہ ہر دفعہ حضرت حمزہ کی نعش وہیں پڑی رہتی تھی.15 الله سة 605 حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور تمام نیک کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.چنانچہ شہادت کے بعد آنحضرت علی ایم نے حضرت حمزہ کی لاش کو مخاطب ہو کر فرمایا اللہ کی رحمتیں تجھ پر ہوں.آپ ایسے تھے کہ معلوم نہیں کہ ایساصلہ رحمی کرنے والا اور نیکیاں بجالانے والا کوئی اور ہو.اور آج کے بعد آپ پر کوئی غم نہیں.607 606 ماضی کی کسمپرسی اور حضرت حمزہ کی یاد رسول اللہ صلی اللی کم کے چا اور مسلمانوں کے اس بہادر سردار حضرت حمزہ کی تدفین جس بے کسی اور کسمپرسی کے عالم میں ہوئی صحابہ بڑے دکھ کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا کرتے تھے.بعد میں فراخی کے دور میں حضرت خباب وہ تنگی کا زمانہ یاد کر کے کہا کرتے تھے کہ حضرت حمزہ کا کفن ایک چادر تھی وہ بھی پوری نہ ہوتی تھی.چنانچہ سر کو ڈھانک کر پاؤں پر گھاس ڈال دی گئی تھی.7 اسی طرح حضرت عبد الرحمن بن عوف کا بھی اسی قسم کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ روزے سے تھے تو افطاری کے وقت پر تکلف کھانا پیش کیا گیا جسے دیکھ کر انہیں عسرت کا زمانہ یاد آگیا.تنگی کا زمانہ یاد آگیا.کہنے لگے کہ حمزہ بھی شہید ہوئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے.انہیں کفن کی چادر بھی میسر نہ آسکی تھی.پھر ہمارے لئے دنیا کی کشائش ہوئی.ہمیں دنیا سے جو مل ملا اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا ثواب ہمیں جلدی سے نہ دے دیا گیا ہو.یعنی دنیا میں نہ مل گیا ہو.پھر وہ رونے لگے اور اتنا روئے کہ انہوں نے کھانا چھوڑ دیا.8 یہ وہ لوگ تھے جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے.جو کشائش میں اپنے بھائیوں کو یاد کیا کرتے تھے.اپنی جو گزشتہ حالت تھی اس کو سامنے رکھتے تھے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جنتوں کی خوشخبریاں دی ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند سے بلند تر کر تا چلا جائے.نوحہ اور بین سے پر حکمت انداز میں ممانعت 608 ایک روایت میں آتا ہے اور یہ حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی لی کہ جب اُحد نوٹ: حدیث وسیرت کی دیگر مستند روایات کی روشنی میں شہدائے احد کا جنازہ اس وقت نہیں پڑھایا گیا.مرتب

Page 270

تاب بدر جلد 4 254 سے واپس لوٹے تو آپ صلی للی یکم نے سنا کہ انصار کی عور تیں اپنے خاوندوں پر رو تیں اور بین کرتی ہیں.آپ صلی الم نے فرمایا کہ کیا بات ہے حمزہ کو کوئی رونے والا نہیں ؟ انصار کی عورتوں کو پتہ چلا تو پھر وہ حضرت حمزہ کی شہادت پر بین کرنے کے لئے اکٹھی ہو گئیں.پھر نبی کریم صلی علیم کی آنکھ لگ گئی اور جب بیدار ہوئے تو وہ خواتین اسی طرح رو رہی تھیں.نبی کریم صلی الم نے فرمایا کہ آج حمزہ کا نام لے کر روتی ہی رہیں گی.انہیں کہہ دو کہ واپس چلی جائیں.تب نبی کریم صلی الم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی مرنے 609 والے کا ماتم اور بین نہ کریں.تو اس طرح آنحضرت صلی اللہ ہم نے مردوں پر نوحہ کرنا نا جائز قرار دے دیا اور کسی بھی قسم کا جو نوحہ ہے اور بین ہے وہ ختم کر دیا.بڑی حکمت سے آنحضرت علی ایم نے انصار کی عورتوں کے جذبات کا خیال رکھا.انہیں اپنے خاوندوں اور بھائیوں کی جدائی پر ماتم سے روکنے کی بجائے پہلے ان کی توجہ حضرت حمزہ کی طرف پھیری، عظیم قومی صدمہ کی طرف توجہ دلائی جو سب سے بڑھ کر آپ صلی یہ تم کو غم تھا اور پھر حمزہ پر ماتم اور ئین نہ کرنے کی تلقین فرما کر اپنا نمونہ پیش کر دیا اور انہیں صبر کی تلقین کی، ایسی تلقین جو پر اثر تھی.جہاں تک آنحضرت صلی یکم کو حضرت حمزہ کی جدائی کے غم کا تعلق ہے وہ آخر تک آپ کو رہا.کعب بن مالک نے حضرت حمزہ کی شہادت پر اپنے مرثیہ میں کہا تھا کہ میری آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور حمزہ کی موت پر انہیں رونے کا بجاطور پر حق بھی ہے مگر خدا کے شیر کی موت پر رونے دھونے اور چیخ و پکار سے کیا حاصل ہو سکتا ہے.وہ خدا کا شیر حمزہ کہ جس صبح وہ شہید ہوا د نیا کہہ اٹھی کہ شہید تو یہ جوانمرد ہوا ہے.610 آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اور آپ کے بہت پیارے تھے جس کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف باتوں اور حضرت حمزہ کی شہادت سے ہوتا ہے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا رد عمل تھا.ہو سکتا ہے بعض باتیں اجمالاً دوبارہ بھی دہرائی جائیں.روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حمزہ نام بہت پسند تھا.حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ایک آدمی کے گھر لڑکا پیدا ہوا تو انہوں نے پوچھا ہم اس کا نام کیا رکھیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا نام حمزہ بن عبد المطلب کے نام پر رکھو جو کہ مجھے سب ناموں سے زیادہ پسندیدہ ہے.حضرت حمزہ کی ازواج اور اولاد 611 کے متعلق طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ حضرت حمزہ کی ایک شادی مِلہ بن مالک جو کہ قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے ان کی بیٹی سے ہوئی جن سے یعلی اور عامر پیدا ہوئے.اپنے بیٹے یعلیٰ کے نام پر ہی

Page 271

تاب بدر جلد 4 255 حضرت حمزہ کی ایک کنیت ابو یعلی تھی.حضرت حمزہ کی دوسری زوجہ حضرت خولہ بنت قیس انصاریہ سے حضرت عمارہ کی ولادت ہوئی جن کے نام پر حضرت حمزہ نے اپنی کنیت ابو عمارہ رکھی تھی.حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ایک شادی حضرت اسماء بنت عمیس کی بہن حضرت سلمیٰ بنت عمیس سے ہوئی جن کے بطن سے ایک بیٹی حضرت اُمامہ کی پیدائش ہوئی.یہ وہی انامہ ہیں جن کے بارے میں حضرت علی، حضرت جعفر اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم میں نزاع ہوا تھا.ان میں سے ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ حضرت امامہ اس کے پاس رہیں مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں فیصلہ فرمایا تھا کیونکہ حضرت امامہ کی خالہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں.حضرت حمزہ کے بیٹے یعلی کی اولاد میں عمارہ، فضل، زبیر ، عقیل اور محمد تھے مگر سب فوت ہو گئے اور حضرت حمزہ کی نہ ہی اولاد زندہ رہی اور نہ ہی نسل چل سکی.612 حضرت حمزہ کی بیٹی امامہ کے متعلق حضرت علی، حضرت جعفر اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جس نزاع کا ابھی ذکر آیا ہے اس کی تفصیل بخاری میں اس طرح آئی ہے: حضرت براء بن عازب سے روایت ہے.انہوں نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی القعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے اس بات سے انکار کیا کہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے دیں.آخر آپ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ مکہ میں آئندہ سال عمرنے کو آئیں گے اور تین دن تک ٹھہریں گے.جب صلح نامہ لکھنے لگے تو ، جس طرح کہ لکھا ہے کہ یہ وہ شرطیں ہیں جن پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی ، مکہ والے کہنے لگے کہ ہم اس کو نہیں مانتے.اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپ کو کبھی نہ روکتے بلکہ یہاں تم محمد بن عبد اللہ ہو.آپ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبد اللہ بھی ہوں.آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹادو.علی نے کہا ہر گز نہیں مٹانا.اللہ کی قسم ! میں آپ کے خطاب کو کبھی نہیں مٹاؤں گا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا ہوا کا غذ لے لیا اور آپ اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے.آپ نے یوں لکھا: یہ وہ شرطیں ہیں جو محمد بن عبد اللہ نے ٹھہرائیں.مکہ میں کوئی ہتھیار نہیں لائیں گے سوائے تلواروں کے جو نیاموں میں ہوں گی اور مکہ والوں میں سے کسی کو بھی ساتھ نہیں لے جائیں گے اگر چہ وہ ان کے ساتھ جانا چاہے اور اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی نہیں روکیں گے اگر وہ مکہ میں ٹھہر نا چا ہے.خیر جب معاہدے کے مطابق آپ آئندہ سیال مکہ میں داخل ہوئے اور مدت ختم ہو گئی تو قریش حضرت علی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اپنے ساتھی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں کیونکہ مقررہ مدت گزر چکی ہے.چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے.حضرت حمزہ کی بیٹی آپ کے پیچھے آئی جو پکار رہی تھی کہ اے چچا ! اے چچا ! حضرت علی نے جا کر اسے لے لیا، اس کا ہاتھ پکڑا اور فاطمہ علیہا السلام سے کہا اپنے چا کی بیٹی

Page 272

تاب بدر جلد 4 256 کو لے لیں.انہوں نے اس کو سوار کر لیا.اب علی، زید اور جعفر حمزہ کی لڑکی کی بابت جھگڑنے لگے.علی کہنے لگے کہ میں نے اس کو لیا ہے اور میرے چا کی بیٹی ہے اور جعفر نے کہا میرے چا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے اور زید نے کہا میرے بھائی کی بیٹی ہے.پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فیصلہ کیا کہ وہ اپنی خالہ کے پاس رہے اور فرمایا: خالہ بمنزلہ ماں ہے اور علی سے کہا تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں اور جعفر سے کہا تم صورت اور سیرت میں مجھ سے ملتے جلتے ہو اور زید سے کہا تم ہمارے بھائی ہو اور دوست ہو.علی نے کہا کیا آپ حمزہ کی بیٹی سے شادی نہیں کر لیتے.تو آپ نے فرمایا کہ وہ میرے دودھ بھائی کی بیٹی ہے.میں اس کا چچا ہوں.یہ چھوٹے چھوٹے مسائل بھی ان واقعات میں حل ہو جاتے ہیں.بعض دفعہ قضا میں مقدمے آتے ہیں کہ خالہ کے پاس کیوں جائے ؟ نانی کے پاس کیوں جائے؟ تو یہاں یہ فیصلے ہو گئے.حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے متعلق روض الانف میں لکھا ہے کہ ابنِ اسحاق کے علاوہ بعض نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے 613 اسلام لانے کے متعلق ایک بات کا اضافہ کیا ہے.حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب مجھ پر غصہ غالب آگیا اور میں نے کہہ دیا یعنی وہ جو سارا واقعہ ہوا ہے اور پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جب اپنی لونڈی کے کہنے پہ (کہ دیا) کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ہوں.بعد میں مجھے ندامت ہوئی کہ میں نے اپنے آباؤ اجداد اور قوم کے دین کو چھوڑ دیا ہے اور میں نے اس عظیم معاملے کے متعلق شکوک و شبہات میں اس طرح رات گزاری کہ لمحہ بھر سو نہ پایا.پھر میں خانہ کعبہ کے پاس آیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کی کہ اللہ تعالیٰ میرے سینے کو حق کے لیے کھول دے اور مجھ سے شکوک و شبہات کو دور کر دے.میں نے ابھی دعا ختم بھی نہ کی تھی کہ باطل مجھ سے دُور ہو گیا اور میر ا دل یقین سے بھر گیا.پھر صبح کو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی تمام حالت بیان کی جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ثبات قدم بخشے.حضرت عمار بن ابو عمارؓ سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ انہیں جبرئیل علیہ السلام ان کی حقیقی شکل میں دکھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم انہیں دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے.انہوں نے عرض کی کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو تو اپنی جگہ پر اب بیٹھ جاؤ.راوی کہتے ہیں پھر جبرئیل علیہ السلام خانہ کعبہ کی اس لکڑی پر اتر آئے جس پر مشرکین طواف کے وقت اپنے کپڑے ڈالا کرتے تھے.پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی نگاہ اٹھاؤ اور دیکھو.614

Page 273

اصحاب بدر جلد 4 257 جب انہوں نے دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان یعنی جبرئیل علیہ السلام کے دونوں پاؤں سبز زبر جد کی مانند ہیں.پھر وہ غشی کی حالت میں گر پڑے.زبر جد بھی ایک قیمتی پتھر ہے.کہتے ہیں جو 616 615 زَمُرد سے مشابہت رکھتا ہے.صفر دو ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے ابواء کی طرف نکلے جس میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی شرکت کی توفیق ملی.اس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ہی اٹھایا ہوا تھا جو کہ سفید رنگ کا تھا.آپ صلی اللہ علیہ سلم نے اپنے پیچھے حضرت ابو سعد رضی اللہ عنہ یا ایک روایت کے مطابق حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا.اس سفر میں لڑائی کی نوبت نہیں آئی اور بنو ضمرہ کے ساتھ صلح کا معاہدہ طے پا گیا.یہ پہلا غزوہ تھا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس شرکت کی.اس غزوہ کا دوسرانام وڈان بھی ہے.اس بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ ”جہاد بالسیف کی اجازت ہجرت کے دوسرے سال ماہ صفر میں نازل ہوئی.چونکہ قریش کے خونی ارادوں اور ان کی خطرناک کارروائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لئے فوری کارروائی کی ضرورت تھی اس لئے آپ اسی ماہ میں مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہوئے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے.روانگی سے قبل آپ نے اپنے پیچھے مدینہ میں سعد بن عبادہ رئیس خزرج کو امیر مقرر فرمایا اور مدینہ سے جنوب مغرب کی طرف مکہ کے راستہ پر روانہ ہو گئے اور بالآخر مقام وڈان تک پہنچے.اس علاقہ میں قبیلہ بنو ضمرہ کے لوگ آباد تھے.یہ قبیلہ بنو کنانہ کی ایک شاخ تھا اور اس طرح گویا یہ لوگ قریش کے چچازاد بھائی تھے.یہاں پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو ضمرہ کے رئیس کے ساتھ بات چیت کی اور باہم رضامندی سے آپس میں ایک معاہدہ ہو گیا.جس کی شرطیں یہ تھیں کہ بنو ضمرة مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کریں گے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مسلمانوں کی مدد کے لیے بلائیں گے تو وہ فوراً آجائیں گے.دوسری طرف آپ نے مسلمانوں کی طرف سے یہ عہد کیا کہ مسلمان قبیلہ بنو ضمرة کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور بوقت ضرورت ان کی مدد کریں گے.یہ معاہدہ با قاعدہ لکھا گیا اور فریقین کے اس پر دستخط ہوئے اور پندرہ دن کی غیر حاضری کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے.غزوہ وڈ ان کا دوسرا نام غزوہ ابوا بھی ہے کیونکہ وڈ ان کے قریب ہی ابوا کی بستی بھی ہے اور یہ وہی مقام ہے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تھا.“ یہ وہ مقام ہے.”مؤرخین لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس غزوہ میں بنو ضمرہ کے ساتھ قریش مکہ

Page 274

تاب بدر جلد 4 258 کا بھی خیال تھا.اس کا مطلب یہی ہے کہ دراصل آپ کی یہ مہم قریش کی خطرناک کارروائیوں کے سدباب کے لیے تھی.اور اس میں اُس زہر یلے اور خطرناک اثر کا ازالہ مقصود تھا جو قریش کے قافلے وغیرہ مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب میں پیدا کر رہے تھے اور جس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت ان ایام میں بہت نازک ہو رہی تھی.617 بہر حال حضرت حمزہ نے اس غزوہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اٹھایا ہوا تھا.جمادی الاولی 2 ہجری میں پھر قریش مکہ کی طرف سے کوئی خبر پا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ جن کی تعداد ڈیڑھ سو یا دو سو بیان ہوئی ہے مدینہ سے عشیرہ کی طرف نکلے اور اپنے پیچھے اپنے رضاعی بھائی ابو سلمہ بن عبد الاسد کو امیر مقرر فرمایا.اس غزوہ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفید رنگ کا جھنڈ ا حضرت حمزہ نے اٹھایا ہو ا تھا.اس غزوہ میں آپ کئی چکر کاٹتے ہوئے بالآخر ساحل سمندر کے قریب ینبغ کے پاس مقام عشیره پہنچے اور گو قریش کا مقابلہ نہیں ہوا مگر اس میں آپ نے قبیلہ بنو د لنج کے ساتھ انہی شرائط پر جو بنو ضمرہ کے ساتھ تھیں ایک معاہدہ طے فرمایا اور پھر واپس تشریف لے آئے.618 جنگ بدر میں انفرادی لڑائی میں جو مبارز طلبی کا ذکر ہے ، یہ پہلے مختلف حدیثوں کے حوالے سے بیان ہو چکا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کی تفصیل اس طرح لکھی ہے کہ : اب فوجیں بالکل ایک دوسرے کے سامنے تھیں.مگر قدرت الہی کا عجیب تماشہ ہے کہ اس وقت لشکروں کے کھڑے ہونے کی ترتیب ایسی تھی کہ اسلامی لشکر قریش کو اصلی تعداد سے زیادہ بلکہ دو گنا نظر آتا تھا جس کی وجہ سے کفار مرعوب ہوئے جاتے تھے اور دوسری طرف قریش کالشکر مسلمانوں کو ان کی اصلی تعداد سے کم نظر آتا تھا.جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے دل بڑھے ہوئے تھے.قریش کی یہ کوشش تھی کہ کسی طرح اسلامی لشکر کی تعداد کا صحیح اندازہ پتہ لگ جاوے تاکہ وہ چھوٹے ہوئے دلوں کو سہارا دے سکیں.اس کے لئے رؤساء قریش نے عمیر بن وہب کو بھیجا کہ اسلامی لشکر کے چاروں طرف گھوڑا دوڑا کر دیکھے کہ اس کی تعداد کتنی ہے اور آیا ان کے پیچھے کوئی کمک تو مخفی نہیں؟ چنانچہ عمیر نے گھوڑے پر سوار ہو کر مسلمانوں کا ایک چکر کا نا مگر اسے مسلمانوں کی شکل و صورت سے ایسا جلال اور عزم اور موت سے ایسی بے پروائی نظر آئی کہ وہ سخت مرعوب ہو کر لوٹا اور قریش سے مخاطب ہو کر کہنے لگا.” مجھے کوئی مخفی کمک وغیرہ تو نظر نہیں آئی، لیکن اے معشر قریش! میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں گویا اونٹنیوں کے کجاووں نے اپنے اوپر آدمیوں کو نہیں بلکہ موتوں کو اٹھایا ہوا ہے اور یثرب کی سانڈنیوں پر گو یا ہلاکتیں سوار ہیں.“ قریش نے جب یہ بات سنی تو اُن میں ایک بے چینی سی پیدا ہو گئی.سراقہ جو ان کا ضامن بن کر آیا

Page 275

ناب بدر جلد 4 259 تھا کچھ ایسامر عوب ہوا کہ الٹے پاؤں بھاگ گیا اور جب لوگوں نے اسے روکا تو کہنے لگا.” مجھے جو کچھ نظر آرہا ہے وہ تم نہیں دیکھتے.“ حکیم بن حزام نے عمیر کی رائے سنی تو گھبرایا ہو اعتبہ بن ربیعہ کے پاس آیا تو اور کہنے لگا."اے عشبہ اتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے آخر عمر و حضرمی کا بدلہ ہی چاہتے ہو.وہ تمہارا حلیف تھا.کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم اس کی طرف سے خون بہا ادا کر دو اور قریش کو لے کر واپس لوٹ جاؤ.اس میں ہمیشہ کے لئے تمہاری نیک نامی رہے گی.مشبہ کو جو خود گھبرایا ہوا تھا اور کیا چاہئے تھا جھوٹ بولا ”ہاں ہاں میں راضی ہوں اور پھر حکیم !دیکھو تو یہ مسلمان اور ہم آخر آپس میں رشتہ دار ہی تو ہیں.کیا یہ اچھا لگتا ہے کہ بھائی بھائی پر تلوار اٹھائے اور باپ بیٹے پر.تم ایسا کرو کہ ابھی ابوالحکم (یعنی ابو جہل) کے پاس جاؤ اور اس کے سامنے یہ تجویز پیش کرو“ اور ادھر عشبہ نے خود اونٹ پر سوار ہو کر اپنی طرف سے لوگوں کو سمجھانا شروع کر دیا کہ "رشتہ داروں میں لڑائی ٹھیک نہیں ہے.ہمیں واپس لوٹ جانا چاہئے اور محمد کو اُس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ دوسرے قبائل عرب کے ساتھ نپتا رہے.جو نتیجہ ہو گا دیکھا جائے گا.اور پھر تم دیکھو کہ ان مسلمانوں کے ساتھ لڑنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے.کیونکہ خواہ تم مجھے بزدل کہو حالانکہ میں بزدل نہیں ہوں...مجھے تو یہ لوگ موت کے خریدار نظر آتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دُور سے عشبہ کو دیکھا تو فرمایا.”اگر لشکر کفار میں سے کسی میں شرافت ہے تو اس سرخ اونٹ کے سوار میں ضرور ہے.اگر یہ لوگ اس کی بات مان لیں تو ان کے لیے اچھا ہو.لیکن جب حکیم بن حزام ابو جہل کے پاس آیا اور اس سے یہ تجویز بیان کی تو وہ فرعونِ امت بھلا ایسی باتوں میں کب آنے والا تھا چھٹتے ہی بولا.اچھا اچھا اب غلبہ کو اپنے سامنے اپنے رشتہ دار نظر آنے لگے ہیں.اور پھر اس نے عمر و حضرمی کے بھائی عامر حضر می کو بلا کر کہا تم نے سنا تمہارا حلیف عشبہ کیا کہتا ہے اور وہ بھی اس وقت جبکہ تمہارے بھائی کا بدلہ گو یا ہاتھ میں آیا ہوا ہے.عامر کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے عرب کے قدیم دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ کر اور ننگا ہو کر چلانا شروع کیا.ہائے افسوس !امیر ابھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے.ہائے افسوس ! امیر ابھائی بغیر انتظام کے رہا جاتا ہے !! اس صحرائی آواز نے لشکر قریش کے سینوں میں عداوت کے شعلے بلند کر دیئے اور جنگ کی بھٹی اپنے پورے زور سے دہکنے لگ گئی.“ ابو جہل کے طعنے نے عشبہ کے تن بدن میں آگ لگادی تھی.اس غصہ میں بھر اہو اوہ اپنے بھائی شیبہ اور اپنے لڑ کے ولید کو ساتھ لے کر لشکر کفار سے آگے بڑھا اور عرب کے قدیم دستور کے مطابق انفرادی لڑائی کے لیے مبارز طلبی کی.چند انصار ان کے مقابلہ کے لیے آگے بڑھنے لگے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک دیا اور فرمایا.حمزہ تم اُٹھو.علی تم اُٹھو.عبیدہ تم اٹھو! یہ تینوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت قریبی رشتہ دار تھے اور آپ چاہتے تھے کہ خطرہ کی جگہ پر سب سے پہلے آپ کے عزیز واقارب آگے بڑھیں.دوسری طرف عشبہ وغیرہ نے بھی انصار کو دیکھ کر آواز دی کہ ان لوگوں کو ہم کیا جانتے ہیں.ہماری ٹکر کے ہمارے سامنے آئیں.چنانچہ حمزہ اور علی اور عبیدہ آگے بڑھے.

Page 276

اصحاب بدر جلد 4 260 عرب کے دستور کے مطابق پہلے روشناسی ہوئی.پھر عبیدۃ بن مطلب ولید کے مقابل ہو گئے اور حمزہ عشبہ کے اور علی شیبہ کے.حمزہ اور علی نے تو ایک دوواروں میں ہی اپنے حریفوں کو خاک میں ملا دیا لیکن عبیدۃ اور ولید میں دو چار اچھی ضر میں ہوئیں اور بالآخر دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ سے کاری زخم کھا کر گرے.جس پر حمزہ اور علی نے جلدی سے آگے بڑھ کر ولید کا تو خاتمہ کر دیا اور عبیدۃ کو اُٹھا کر اپنے کیمپ میں لے آئے.مگر عبیدہ اس صدمہ سے جانبر نہ ہو سکے اور بدر سے واپسی پر راستہ میں انتقال کیا.61966 حضرت حمزہ نے غزوہ بدر میں طعیمہ بن عدی سردار قریش کو بھی قتل کیا تھا.620 غزوہ بدر کے واقعہ کے وقت کی ایک روایت ہے کہ حضرت حمزہ نے نشہ کی حالت میں حضرت علی کی اونٹنیوں کو مار دیا تھا.یہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے.اس کی تفصیل بخاری میں یوں بیان ہوئی ہے: مختلف راوی ہیں.حضرت علی بن حسین اپنے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی لڑائی کے موقع پر مجھے ایک جوان اونٹنی غنیمت میں ملی اور ایک دوسری اونٹنی مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عنایت فرمائی.ایک دن ایک انصاری صحابی کے دروازے پر میں ان دونوں کو اس خیال سے باندھے ہوئے تھا کہ ان کی پیٹھ پر اذخر (وہ ایک گھاس ہے کہ جسے سنار وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں، خوشبو دار گھاس ہے) رکھ کر بیچنے لے جاؤں گا.بنی قینقاع کا ایک سنار بھی میرے ساتھ تھا.اس طرح خیال یہ تھا کہ اس کی آمدنی سے فاطمہ رضی اللہ عنہا جن سے میں نکاح کرنے والا تھا ان کا ولیمہ کروں گا.حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اسی انصاری کے گھر میں شراب پی رہے تھے.ان کے ساتھ ایک گانے والی بھی تھی.اس نے جب یہ مصرع پڑھا کہ ہاں اے حمزہ ! اٹھو فربہ جوان اونٹنیوں کی طرف بڑھو.حمزہ رضی اللہ عنہ جوش میں تلوار لے کر اٹھے اور دونوں اونٹنیوں کے کوہان چیر دیے.ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے اور ان کی کلیجی نکال لی.ابن جریج نے بیان کیا کہ میں نے ابنِ شہاب سے پوچھا کہ کیا کو ہان کا گوشت بھی کاٹ لیا ؟ انہوں نے بیان کیا کہ ان دونوں کے کوہان بھی کاٹ لیے اور انہیں لے گئے.ابن شہاب نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی.پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ کی خدمت میں اس وقت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے.میں نے آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپ تشریف لائے.زید رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہی تھے اور میں بھی آپ کے ساتھ تھا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار فرمایا تو حضرت حمزہ نے نظر اٹھا کر دیکھا.نشہ کی حالت میں تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہنے لگے کہ تم سب میرے باپ دادا کے غلام ہو.حضور صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں لوٹ کر ان کے پاس سے چلے آئے.یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا قصہ ہے.21 621

Page 277

اصحاب بدر جلد 4 261 انہوں نے کہا ایسی حالت میں بہتر ہے کہ اس سے بات نہ کی جائے لیکن بعد میں بہر حال دیکھ لیں کہ جب شراب کی حرمت ہو گئی تو پھر اس کے نزدیک بھی یہ لوگ نہیں گئے.صحابہ کا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننے کا یہ معیار تھا کہ فوری طور پر مٹکے توڑ دیے.622 یہ نہیں کہا کہ ہم نشہ کی عادت آہستہ آہستہ چھوڑ دیں گے جیسا کہ آج کل لوگ کہتے ہیں.اول تو پہلے نشہ میں پڑ جاتے ہیں جو ویسے ہی غلط کام ہے.اسلام میں ممنوع ہے اور پھر کہتے ہیں آہستہ آہستہ چھوڑ دیں گے، ہمیں مہلت دی جائے.تو بہر حال یہ ایک واقعہ ہے جو اُس وقت ہوا تھا اور پھر اس کے بعد ان کے قربانی کے معیار بھی بڑھتے چلے گئے.یقینا حضرت حمزہ کو اس کے بعد شرمندگی بھی ہوئی ہو گی کہ انہوں نے کیا کہا.غزوہ بدر کے بعد جب بنو قینقاع کی مہم درپیش تھی تو اس میں بھی حضرت حمزہ پیش پیش تھے.اس غزوہ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ہی اٹھایا ہو ا تھا.یہ جھنڈ اسفید رنگ کا تھا.623 اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھی ہے کہ ”جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائے تھے اس وقت مدینہ میں یہود کے تین قبائل آباد تھے.ان کے نام بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آتے ہی ان قبائل کے ساتھ امن و امان کے معاہدے کر لئے اور آپس میں صلح اور امن کے ساتھ رہنے کی بنیاد ڈالی.معاہدہ کی رُو سے فریقین اس بات کے ذمہ دار تھے کہ مدینہ میں امن وامان قائم رکھیں اور اگر کوئی بیرونی دشمن مدینہ پر حملہ آور ہو تو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں.شروع شروع میں تو یہود اس معاہدہ کے پابند رہے اور کم از کم ظاہری طور پر انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی جھگڑا پیدا نہیں کیا.لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان مدینہ میں زیادہ اقتدار حاصل کرتے جاتے ہیں تو اُن کے تیور بدلنے شروع ہوئے اور انھوں نے مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کا تہیہ کر لیا اور اس غرض کے لیے انھوں نے ہر قسم کی جائز وناجائز تدابیر اختیار کرنی شروع کیں.حتی کہ انھوں نے اس بات کی کوشش سے بھی دریغ نہیں کیا کہ مسلمانوں کے اندر پھوٹ پیدا کر کے خانہ جنگی شروع کرا دیں.چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک موقعہ پر قبیلہ اوس اور خزرج کے بہت سے لوگ اکٹھے بیٹھے ہوئے باہم محبت واتفاق سے باتیں کر رہے تھے کہ بعض فتنہ پرداز یہود نے اس مجلس میں پہنچ کر جنگ بعاث کا تذکرہ شروع کر دیا.یہ وہ خطرناک جنگ تھی جو ان دو قبائل کے درمیان ہجرت سے چند سال قبل ہوئی تھی اور جس میں اوس اور خزرج کے بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ سے مارے گئے تھے.اس جنگ کا ذکر آتے ہی بعض جو شیلے لوگوں کے دلوں میں پرانی یاد تازہ ہو گئی اور گذشتہ عداوت کے منظر آنکھوں کے سامنے پھر گئے.نتیجہ یہ ہوا کہ باہم نوک جھونک اور طعن

Page 278

بدر جلد 4 262 و تشنیع سے گذر کر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسی مجلس میں مسلمانوں کے اندر تلوار کھی گئی مگر خیر گذری کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بروقت اس کی اطلاع مل گئی اور آپ مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ فوراً موقعہ پر تشریف لے آئے اور فریقین کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور پھر ملامت بھی فرمائی کہ تم میرے ہوتے ہوئے جاہلیت کا طریق اختیار کرتے ہو اور خدا کی اس نعمت کی قدر نہیں کرتے کہ اُس نے اسلام کے ذریعہ تمہیں بھائی بھائی بنا دیا ہے.انصار پر آپ کی اس نصیحت کا ایسا اثر ہوا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور وہ اپنی اس حرکت سے تائب ہو کر ایک دوسرے سے بغلگیر ہو گئے.جب جنگ بدر ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو باوجود ان کی قلت اور بے سرو سامانی کے قریش کے ایک بڑے جزار لشکر پر نمایاں فتح دی اور مکہ کے بڑے بڑے عمائد خاک میں مل گئے تو مدینہ کے یہودیوں کی آتش حسد بھڑک اٹھی اور انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا نوک جھونک شروع کر دی اور مجلسوں میں بر ملا طور پر کہنا شروع کیا کہ قریش کے لشکر کو شکست دینا کونسی بڑی بات تھی ہمارے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مقابلہ ہو تو ہم بتا دیں کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں.حتی کہ ایک مجلس میں انھوں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر اسی قسم کے الفاظ کہے.چنانچہ روایت آتی ہے کہ جنگ بدر کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ایک دن یہودیوں کو جمع کر کے ان کو نصیحت فرمائی اور اپنا دعویٰ پیش کر کے اسلام کی طرف دعوت دی.آپ کی اس پر امن اور ہمدردانہ تقریر کار و سائے یہود نے ان الفاظ میں جواب دیا کہ ”اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم شاید چند قریش کو قتل کر کے مغرور ہو گئے ہو.وہ لوگ لڑائی کے فن سے ناواقف تھے.اگر ہمارے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو تو تمہیں پتہ لگ جاوے کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں.یہود نے صرف عام دھمکی پر ہی اکتفاء نہیں کی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بھی شروع کر دیئے تھے.کیونکہ روایت آتی ہے کہ جب ان دنوں میں طلحہ بن براء جو ایک مخلص صحابی تھے فوت ہونے لگے تو انہوں نے وصیت کی کہ اگر میں رات کو مروں تو نماز جنازہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع نہ دی جاوے تا کہ ایسانہ ہو کہ میری وجہ سے آپ پر یہود کی طرف سے کوئی حادثہ گذر جاوے.الغرض جنگ بدر کے بعد یہود نے کھلم کھلا شرارت شروع کر دی اور چونکہ مدینہ کے یہود میں بنو قینقاع سب میں زیادہ طاقتور اور بہادر تھے اس لیے سب سے پہلے انہی کی طرف سے عہد شکنی شروع ہوئی.چنانچہ مورخین لکھتے ہیں کہ مدینہ کے یہودیوں میں سے سب سے پہلے بنو قینقاع نے اس معاہدہ کو توڑا جو اُن کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا اور بدر کے بعد انھوں نے بہت سرکشی شروع کر دی اور بر ملا طور پر بغض وحسد کا اظہار کیا اور عہد و پیمان کو توڑ دیا...

Page 279

اصحاب بدر جلد 4 263 مگر باوجود اس قسم کی باتوں کے مسلمانوں نے اپنے آقا کی ہدایت کے ماتحت ہر طرح صبر سے کام لیا اور اپنی طرف سے کوئی پیش دستی نہیں ہونے دی.بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ اس معاہدہ کے بعد جو یہود کے ساتھ ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر یہود کی دلداری کا خیال رکھتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی میں کچھ اختلاف ہو گیا.یہودی نے حضرت موسیٰ کی تمام انبیاء پر فضیلت بیان کی.صحابی کو اس پر غصہ آیا اور اُس نے اُس یہودی کے ساتھ کچھ سختی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الرسل بیان کیا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ ناراض ہوئے اور اس صحابی کو ملامت فرمائی اور کہا کہ ”تمہارا یہ کام نہیں کہ تم خدا کے رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کرتے پھرو “ اور پھر آپ نے موسی کی ایک جزوی فضیلت بیان کر کے اس یہودی کی دلداری فرمائی.مگر باوجود اس دلدارانہ سلوک کے یہودی اپنی شرارت میں ترقی کرتے گئے اور بالآخر خود یہود کی طرف سے ہی جنگ کا باعث پیدا ہوا اور ان کی قلبی عداوت ان کے سینوں میں سمانہ سکی اور یہ اس طرح پر ہوا کہ ایک مسلمان خاتون بازار میں ایک یہودی کی دُکان پر کچھ سودا خریدنے کے لیے گئی.بعض شریر یہودیوں نے جو اُس وقت اُس دکان پر بیٹھے ہوئے تھے اسے نہایت او باشانہ طریق پر چھیڑا اور خود دوکاندار نے یہ شرارت کی کہ اس عورت کی تہ بند کے نچلے کونے کو اس کی بے خبری کی حالت میں کسی کانٹے وغیرہ سے اس کی پیٹھ کے کپڑے سے ٹانک دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ عورت اُن کے اوباشانہ طریق کو دیکھ کر وہاں سے اٹھ کر کوٹنے لگی تو وہ جنگی ہو گئی.اس پر اس یہودی دوکاندار اور اس کے ساتھیوں نے زور سے ایک قہقہہ لگایا اور ہنسنے لگ گئے.مسلمان خاتون نے شرم کے مارے ایک چیخ ماری اور مدد چاہی.اتفاق سے ایک مسلمان اس وقت قریب موجود تھا.وہ لیک کر موقعہ پر پہنچا اور باہم لڑائی میں یہودی دوکاندار مارا گیا.جس پر چاروں طرف سے اس مسلمان پر تلواریں برس پڑیں اور وہ غیور مسلمان وہیں ڈھیر ہو گیا.مسلمانوں کو اس واقعہ کا علم ہو ا تو غیرت قومی سے ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور دوسری طرف یہود جو اس واقعہ کو لڑائی کا بہانہ بنانا چاہتے تھے ہجوم کر کے اکٹھے ہو گئے اور ایک بلوہ کی صورت پیدا ہو گئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپ نے رؤسائے بنو قینقاع کو جمع کر کے کہا کہ یہ طریق اچھا نہیں.تم ان شرارتوں سے باز آجاؤ اور خدا سے ڈرو.انہوں نے بجائے اس کے کہ اظہار افسوس و ندامت کرتے اور معافی کے طالب بننے، سامنے سے نہایت مستمر دانہ جواب دیئے اور پھر وہی دھمکی دہرائی کہ بدر کی فتح پر غرور نہ کرو، جب ہم سے مقابلہ ہو گا تو پتہ لگ جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں.ناچار آپ صحابہ کی ایک جمعیت کو ساتھ لے کر بنو قینقاع کے قلعوں کی طرف روانہ ہو گئے.اب یہ آخری موقعہ تھا کہ وہ اپنے افعال پر پشیمان ہوتے مگر وہ سامنے سے جنگ پر آمادہ تھے.الغرض جنگ کا اعلان ہو گیا اور اسلام اور یہودیت کی طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل پر نکل آئیں.

Page 280

تاب بدر جلد 4 264 اس زمانہ کے دستور کے مطابق جنگ کا ایک طریق یہ بھی ہوتا تھا کہ اپنے قلعوں میں محفوظ ہو کر بیٹھ جاتے تھے محاصرہ ہو جاتا تھا اور فریق مخالف قلعوں کا محاصرہ کر لیتا تھا اور موقع موقع پر گاہے گاہے ایک دوسرے کے خلاف حملے ہوتے رہتے تھے.حتی کہ یا تو محاصرہ کرنے والی فوج قلعہ پر قبضہ کرنے سے مایوس ہو کر محاصرہ اٹھا لیتی تھی اور یہ محصورین کی فتح سمجھی جاتی تھی اور یا محصورین مقابلہ کی تاب نہ لا کر قلعہ کا دروازہ کھول کر اپنے آپ کو فاتحین کے سپر د کر دیتے تھے.اس موقعہ پر بھی بنو قینقاع نے یہی طریق اختیار کیا اور اپنے قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا محاصرہ کیا اور پندرہ دن تک برابر محاصرہ جاری رہا.بالآخر جب بنو قینقاع کا سارا زور اور غرور ٹوٹ گیا تو انہوں نے اس شرط پر اپنے قلعوں کے دروازے کھول دیے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہو جائیں گے.مگر اُن کی جانوں اور ان کے اہل و عیال پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہو گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو منظور فرمالیا کیونکہ گوموسوی شریعت کی رُو سے یہ سب لوگ واجب القتل تھے.اور معاہدہ کی رو سے ان لوگوں پر موسوی شریعت کا فیصلہ ہی جاری ہونا چاہیے تھا مگر اس قوم کا یہ پہلا جرم تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحیم و کریم طبیعت انتہائی سزا کی طرف جو ایک آخری علاج ہوتا ہے ابتدائی قدم پر مائل نہیں ہو سکتی تھی، لیکن دوسری طرف ایسے بد عہد اور معاند قبیلہ کا مدینہ میں رہنا بھی ایک مارِ آستین کے پالنے سے کم نہ تھا.خصوصاً جب کہ اوس اور خزرج کا ایک منافق گروہ پہلے سے مدینہ میں موجود تھا اور بیرونی جانب سے بھی تمام عرب کی مخالفت نے مسلمانوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا.ایسے حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فیصلہ ہو سکتا تھا کہ بنو قینقاع مدینہ سے چلے جائیں.یہ سزا اُن کے جرم کے مقابل میں اور نیز اس زمانہ کے حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک بہت نرم سزا تھی اور دراصل اس میں صرف خود حفاظتی کا پہلو ہی مد نظر تھا.ورنہ عرب کی خانہ بدوش اقوام کے نزدیک نقل مکان کوئی بڑی بات نہ تھی.خصوصاً جب کہ کسی قبیلہ کی جائیدادیں، زمینوں اور باغات کی صورت میں نہ ہوں جیسا کہ بنو قینقاع کی نہیں تھیں.اور پھر سارے کے سارے قبیلہ کو بڑے امن وامان کے ساتھ ایک جگہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جاکر آباد ہونے کا موقعہ مل جاوے.چنانچہ بنو قینقاع بڑے اطمینان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کر شام کی طرف چلے گئے.ان کی روانگی کے متعلق ضروری اہتمام اور نگرانی وغیرہ کا کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی عبادہ بن صامت کے سپر د فرمایا تھا جو اُن کے حلفاء میں سے تھے.چنانچہ عبادہ بن صامت چند منزل تک بنو قینقاع کے ساتھ گئے اور پھر انہیں حفاظت کے ساتھ آگے روانہ کر کے واپس لوٹ آئے.مالِ غنیمت جو مسلمانوں کے ہاتھ آیا وہ صرف

Page 281

تاب بدر جلد 4 265 مشتمل تھا.آلات حرب“ جنگ کے آلات، جنگ کا سامان اور آلات پیشہ زرگری پر بنو قینقاع کے متعلق بعض روایتوں میں ذکر آتا ہے کہ جب ان لوگوں نے اپنے قلعوں کے دروازے کھول کر اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر د کر دیا تو اُن کی بد عہدی اور بغاوت اور شرارتوں کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ اُن کے جنگجو مردوں کو قتل کروا دینے کا تھا، مگر عبد اللہ بن ابی بن سلول رئیس منافقین کی سفارش پر آپ نے یہ ارادہ ترک کر دیا، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے) محققین ان روایات کو صحیح نہیں سمجھتے " کیونکہ جب دوسری روایت میں یہ صریحاً مذکور ہے کہ بنو قینقاع نے اس شرط پر دروازے کھولے تھے کہ ان کی اور ان کے اہل وعیال کی جان بخشی کی جائے گی تو یہ ہر گز نہیں ہو سکتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شرط کو قبول کر لینے کے بعد دوسرا طریق اختیار فرماتے اور پھر بھی قتل کرنے کی کوشش فرماتے.اس لیے یہ تو بالکل غلط بات ہے.البتہ بنو قینقاع کی طرف سے جان بخشی کی شرط کا پیش ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود ہی سمجھتے تھے کہ اُن کی اصل سزا قتل ہی ہے مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کے طالب تھے اور یہ وعدہ لینے کے بعد اپنے قلع کا دروزاہ کھولنا چاہتے تھے کہ ان کو قتل کی سزا نہیں دی جاوے گی لیکن گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحیم النفسی سے انہیں معاف کر دیا تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ لوگ اپنی بداعمالی اور جرائم کی وجہ سے آب دنیا کے پردے پر زندہ چھوڑے جانے کے قابل نہیں تھے.چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جس جگہ یہ لوگ جلاوطن ہو کر گئے تھے وہاں انہیں ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہ گذرا تھا کہ اُن میں کوئی ایسی بیماری وغیرہ پڑی کہ سارے کا سارا قبیلہ اس کا شکار ہو کر پیوند خاک ہو گیا ختم ہو گیا.624 غزوہ بنو قینقاع ذوالحجہ 2 ہجری میں ہو ا تھا.625 بہر حال حضرت حمزہ اس میں علم بردار تھے.حضرت حمزہ کی شہادت کے بارے میں پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ احد میں شہید ہوئے تھے.اس کی خبر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ رؤیا دے دی تھی.چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رویا میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک مینڈھے کا پیچھا کر رہا ہوں اور یہ کہ میری تلوار کا کنارہ ٹوٹ گیا ہے تو میں نے یہ تعبیر کی کہ قوم کے مینڈھے کو قتل کروں گا یعنی ان کے سپہ سالار کو اور تلوار کے کنارے کی تعبیر میں نے یہ کی کہ میرے خاندان کا کوئی آدمی ہے.پھر حضرت حمزہ کو شہید کر دیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ کو قتل کیا جو کہ مشرکین کا علمبر دار تھا.626 حضرت حمزہ کا مثلہ کیا گیا تھا، شکل بگاڑی گئی تھی.ناک کان کاٹے گئے تھے.ان کا پیٹ چاک کیا گیا تھا.جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ حالت دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید رنج ہوا اور فرمایا اگر اللہ نے مجھے قریش پر کامیابی دی تو میں اُن کے تیس آدمیوں کا مثلہ کروں گا.جبکہ ایک روایت

Page 282

اصحاب بدر جلد 4 266 میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا کہ ان کے ستر آدمیوں کا مثلہ کروں گا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وَ اِنْ عَاقَبتُم فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ وَلَبِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصُّبِرِينَ (نحل: 127) اور اگر تم سزا دو تو اتنی ہی سزا دو جتنی تم پر زیادتی کی گئی تھی اور اگر تم صبر کرو تو یقینا صبر کرنے والوں کے لیے یہ بہتر ہے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبر کریں گے اور اپنی قسم کا 627 کفارہ ادا کر دیا.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کل رات جب میں جنت میں داخل ہوا، یہ نظارہ آپ نے دیکھا، تو میں نے دیکھا کہ جعفر فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہے ہیں جبکہ حمزہ تخت پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں.528 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن حضرت حمزہ کے پاس سے گزرے.ان کا ناک اور کان کاٹے گئے تھے اور مثلہ کیا گیا تھا.اس پر فرمایا اگر مجھے صفیہ کے رنج و غم کا خیال نہ ہو تا تو میں ان کو یونہی چھوڑ دیتا یہاں تک کہ اللہ ان کو پرندوں اور درندوں کے پیٹوں سے ہی اٹھاتا.پھر آپ رضی اللہ عنہ کو ایک چادر میں کفن دیا گیا.629 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت حمزہ کی شہادت اور آپ کی لاش کو دیکھ کر جذبات کا اظہار اور نہ صرف خود صبر کا نمونہ دکھانا بلکہ حضرت حمزہ کی بہن اور اپنی پھوپھی کو بھی اس کا پابند کرنا جس کا کچھ ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے.پھر نوحہ کرنے والی انصاری عورتوں کو نوحہ کرنے سے روکنے کا واقعہ ہے.اس واقعہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابح نے اپنی خلافت سے پہلے کی جلسہ سالانہ کی ایک تقریر میں بیان فرمایا تھا، وہ میں بیان کر دیتا ہوں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خُلقِ عظیم کا بھی پتہ لگتا ہے.بہر حال یہ مناسب ہے کہ اس واقعہ کو یہاں بیان کیا جائے.پہلے تو مختصر حدیثوں کے حوالے سے بیان ہو چکا ہے.فرماتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حمزہ سے جو پیار تھا اس کا اظہار ان الفاظ سے ہوتا ہے جو اُحد کی شام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ کی نعش پر کھڑے ہو کر فرمائے.آپ نے فرمایا اے حمزہ! مجھے آج جو غصہ ہے اور جو تکلیف تیرے مقتل پر کھڑے ہو کر پہنچی ہے اللہ آئندہ کبھی مجھے ایسی تکلیف نہ دکھائے گا.اس وقت آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ، حضرت حمزہ کی بہن بھی یہ خبر سن کر وہاں چلی آئیں تو اس خوف سے کہ کہیں صبر کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے پہلے تو آپ نے انہیں نعش دیکھنے کی اجازت نہ دی لیکن جب انہوں نے صبر کا وعدہ کیا تو اجازت فرما دی.بہر حال آپ حضرت حمزہ کے مقتل پر حاضر ہوئیں اور شیر خدا اور شیر رسول اپنے پیارے بھائی کی لاش اس حالت میں سامنے پڑی دیکھی کہ ظالموں نے سینہ پھاڑ کر کلیجہ نکال لیا تھا اور چہرے کے نقوش بھی بُری طرح بگاڑ دیے تھے.ہر چند کہ سینہ غم سے بیٹھا جاتا تھا مگر صفیہ اپنے صبر کے وعدے پر قائم رہیں

Page 283

ب بدر جلد 4 267 اور ایک کلمہ بے صبری کا منہ سے نکلنے نہ دیا لیکن آنسوؤں پر کسے اختیار تھا.اناللہ پڑھا اور روتے روتے وہیں بیٹھ گئیں.حالت یہ تھی کہ غمزدہ خاموش آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی.راوی کہتا ہے کہ آنحضور بھی پاس بیٹھ گئے.آپ کی آنکھوں سے بھی بے اختیار آنسو جاری ہو گئے.جب حضرت صفیہ کے آنسو مدھم پڑتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بھی مدھم پڑ جاتے.جب حضرت صفیہ کے آنسو تیز ہوتے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بھی تیز ہو جاتے.چند منٹ اسی حالت میں گزرے.پس آنحضور اور اہل بیت کا نوحہ ان چند خاموش آنسوؤں کے سوا اور کچھ نہ تھا اور یہی سنت نبوی ہے.آپ مدینہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ تمام مدینہ ماتم کدہ بنا ہوا تھا اور گھر گھر سے شہدائے احد کی یاد میں نوحہ گروں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو بڑے درد سے فرمایا.حمزہ کا تو کوئی رونے والا نہیں.ہاں حمزہ کو رونے والا ہو بھی کون سکتا ہے کہ اہل بیت کو تو صبح و شام صبر کی تلقین ہوا کرتی تھی.حضور کے اس درد بھرے فقرے کو جب بعض انصار نے سنا تو تڑپ اٹھے اور گھروں کی طرف دوڑے اور بیبیوں کو حکم دیا کہ ہر دوسر اما تم چھوڑ دو اور حمزہ پر ماتم کرو.دیکھتے دیکھتے ہر طرف سے حمزہ کے لیے آہ و بکا کا ایک شور بلند ہوا اور ہر گھر حمزہ کا ماتم کدہ بن گیا.انصار بیبیاں نوحہ کو پڑھتے ہوئے اور آنسو بہا تیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت کدہ پر بھی اکٹھی ہو گئیں.آنحضور نے شور سن کر باہر دیکھا تو انصار بیبیوں کی ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی.حضور نے ان کی ہمدردی پر ان کو دعا دی اور شکریہ ادا کیا لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ مُردوں پر نوحہ کرنا جائز نہیں.پس اس دن سے نوحہ کی رسم متروک کر دی گئی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ہماری جانیں نثار ہوں.کس شان کا معلم اخلاق تھا جو روحانیت کے آسمان سے ہمیں دین سکھانے نازل ہوا.کیسا صاحب بصیرت اور زیرک تھا یہ نصیحت کرنے والا جس کی نظر انسانی فطرت کے پاتال تک گزر جاتی تھی.اگر اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم انصار بیبیوں کو نوحہ کرنے سے منع فرما دیتے جب وہ اپنے شہیدوں کا نوحہ کر رہی تھیں تو شاید بعض دلوں پر یہ شاق گزرتا اور یہ صبر ان کے لیے صبر آزما ہو جاتا لیکن دیکھو! کیسے حکیمانہ انداز میں آپ نے پہلے ان کے ماتم کا رخ اپنے چچا حمزہ کی طرف پھیرا.پھر جب نوحہ سے منع فرمایا تو گویا اپنے چچا کے نوحہ سے منع فرمایا.اللہ کا انتخاب اللہ کا انتخاب ہے.دیکھو! اپنی مخلوق کے لیے کس شان کا نصیحت کرنے والا بھیجا اللہ تعالٰی نے جو انسانی فطرت کی باریکیوں اور لطافتوں سے خوب آشنا تھا اور اپنے غلاموں کے لطیف جذبات کا کیسا خیال رکھنے والا تھا.آنحضور کی ان حسین اداؤں پر جب نظر پڑتی ہے تو دل سینے میں اچھلتا ہے اور فریفتہ ہونے لگتا ہے اور بے اختیار دل سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ ہماری جانیں، ہمارے اموال، ہماری اولادیں تیرے قدموں

Page 284

صحاب بدر جلد 4 268 کے نثار.اے اللہ کے رسول ! تجھ پر لاکھوں درود اور کروڑوں سلام.اے وہ کہ جس کے حسن و احسان کا سمندر بے کنارہ تھا اور لافانی تھا.اے اللہ کے رسول ! تجھ پر لاکھوں درود اور کروڑوں سلام.زمین و آسمان کے واحد اور یگانہ خدا کی قسم از مین و آسمان میں اس کی تمام مخلوق میں تُو واحد و یگانہ ہے.تجھ سا کوئی تھانہ ہے نہ ہو گا.30 حضرت حمزہ کے ذکر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ کا بھی ذکر ہو گیا.631 83 یہ بدری صحابی تھے.حضرت محمید انصاری حضرت حمید انصاری - حضرت زبیر بیان کرتے ہیں کہ مدینے کی پتھر پلی زمین کے ایک کاریزہ یعنی کھیتوں کو پانی دینے والی جو چھوٹی نالی ہوتی ہے اس کے متعلق ان کا ایک انصاری شخص سے جھگڑا ہو گیا جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے.رسول اللہ صلی علیکم کے پاس وہ جھگڑا فیصلے کے لیے آیا.وہ دونوں زمین کو اس کاریزہ سے پانی دیا کرتے تھے.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت زبیر سے فرمایا کہ زبیر تم پانی دو.(پہلے ان کی زمین تھی) پھر اپنے پڑوسی کے لیے اسے چھوڑ دو.پانی لگاؤ، پھر اس کا حصہ بھی اس کو دے دو اور آگے چھوڑ دو.وہ انصاری اس بات پہ ناراض ہو گیا.اس نے کہا یار سول اللہ ! اس لیے آپ ان کے حق میں یہ فیصلہ دے رہے ہیں کہ وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے.رسول اللہ کی تعلیم کا چہرہ سرخ ہو گیا.پھر آپ صلی العلیم نے حضرت زبیر سے فرمایا کہ پہلے تو احسان کے رنگ میں میں نے بات کی تھی کہ تھوڑا سا پانی دے کے اس کو چھوڑو.اب یہ حق والی بات آرہی ہے کہ تم پانی دو اور اسے روکے رکھو یہاں تک کہ وہ منڈیروں تک آ جائے.اپنے کھیتوں کو پورا پانی لگاؤ.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت زبیر کو ان کا پورا حق دلوایا حالانکہ رسول اللہ صلی علیم اس سے پہلے حضرت زبیر کو اپنی رائے کا اشارہ کر چکے تھے جس میں ان کے اور اس انصاری کے لیے بڑی گنجائش تھی.جب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ ہم کو ناراض کر دیا تو آپ صلی الی یکم نے حضرت زبیر" کو صاف اور صحیح فیصلہ دے کر ان کا پورا حق دلا دیا.عروہ نے کہا کہ حضرت زبیر کہتے تھے کہ بخدا میں یہی سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی واقعہ سے متعلق نازل ہوئی ہے کہ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَر (نساء: 66) کہ تیرے رب کی ہی قسم ہے ہر گز ہر گز مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ تجھے ان باتوں میں حکم نہ بنائیں جو ان کے درمیان اختلافی صورت

Page 285

ناب بدر جلد 4 269 اختیار کرتی ہیں.پوری آیت بھی میں بتا دیتا ہوں اس طرح ہے کہ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تسلیما (النساء: 66) کہ تیرے رب کی قسم ہے کہ جب تک وہ ہر بات میں جس کے متعلق ان میں جھگڑا ہو جائے تجھے حکم نہ بنائیں اور پھر جو فیصلہ تو کرے اس سے اپنے نفوس میں کسی قسم کی تنگی نہ پائیں اور پورے طور پر فرمانبر دار نہ ہو جائیں ہر گز ایماندار نہیں ہوں گے.الاصابہ، اسد الغابہ اور صحیح بخاری کی شرح ارشاد الساری میں یہ لکھا ہے کہ انصار کے جس شخص کی حضرت زبیر سے تکرار ہوئی وہ حضرت محمید انصاری تھے جو غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے.632 بہر حال بعض دفعہ شیطان چپکے سے حملہ کر دیتا ہے لیکن ان بدری صحابہ کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی بخشش کی گواہی دی اور اعلان کیا ہوا ہے.33 84 نام و نسب حضرت خارجہ بن محمد الشيعي " جنگ بدر میں شامل ہونے والے دو بھائی حضرت خارجه بن حمیر اشجعی.تاریخوں میں آپ کے نام میں بھی کافی اختلاف ہے.ابن اسحاق نے آپ کا نام خَارِجہ بن مُحميّر بتایا ہے.موسیٰ بن عقبہ نے آپ کا نام حارثہ بن حمیر بیان کیا ہے.واقدی نے آپ کا نام حمزہ بن محمیّر بیان کیا ہے.آپ کے والد کے نام کے متعلق بھی اختلاف ہے.بعض نے خمیر بیان کیا ہے.جبکہ بعض نے والد کا نام مجمیری اور مجمہیر لکھا ہے.بہر حال اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ آپ کا تعلق قبیلہ اشمع سے تھا اور قبیلہ بنو خزرج کے حلیف تھے.آپ کے بھائی کا نام عبد اللہ بن خمشیر ہے جو کہ غزوہ بدر میں آپ کے ہمراہ شامل ہوئے تھے.634

Page 286

270 85 صحاب بدر جلد 4 نام و نسب مواخات حضرت خارجہ بن زید حضرت خارجہ بن زید.حضرت خارجہ بن زید کا تعلق خزرج کے خاند ان آغر سے تھا.حضرت خارجہ کی بیٹی حضرت حبیبہ بنت خارجہ حضرت ابو بکر صدیق کی اہلیہ تھیں جن کے بطن سے حضرت ابو بکر صدیق کی صاحبزادی حضرت اقد حلقوم پیدا ہوئیں.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت خارجہ بن زید اور حضرت ابو بکر صدیق کے در میان مواخات قائم فرمائی.رئیس قبیلہ تھے اور ان کو کبار صحابہ میں شامل کیا جا تا تھا.انہوں نے عقبہ میں بیعت کی تھی.ہجرت مدینہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے حضرت خارجہ بن زید کے گھر قیام کیا تھا.636 635 جنگ احد میں جاں نثارانہ انداز میں شہادت یہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے.حضرت خارجہ نے غزوہ اُحد میں بڑی بہادری اور جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہادت کار تبہ پایا.نیزوں کی زد میں آگئے اور آپ کو تیرہ سے زائد زخم لگے.آپ زخموں سے نڈھال پڑے تھے کہ پاس سے صفوان بن امیہ گزرا.اس نے انہیں پہچان کر حملہ کر کے شہید کر دیا.پھر ان کا مثلہ بھی کیا اور کہا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے بدر میں ابو علی کو قتل کیا تھا یعنی میرے باپ اُمیہ بن خلف کو.اب مجھے موقع ملا ہے کہ ان اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سے بہترین لوگوں کو قتل کروں اور اپنا دل ٹھنڈا کروں.اس نے حضرت ابن قوقل، حضرت خارجہ بن زید اور حضرت اوس بن ارقم کو شہید کیا.حضرت خارجہ اور حضرت سعد بن ربیع جو کہ آپ کے چچازاد بھائی تھے ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا.637 روایت ہے کہ اُحد کے دن حضرت عباس بن عُبادة اونچی آواز سے کہہ رہے تھے کہ اے مسلمانوں کے گروہ ! اللہ اور اپنے نبی سے جڑے رہو.جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے یہ اپنے نبی کی نافرمانی سے پہنچی ہے.وہ تمہیں مدد کا وعدہ دیتا تھا لیکن تم نے صبر نہیں کیا.پھر حضرت عباس بن عبادۃ نے اپنا خود اور اپنی زرہ اتاری اور حضرت خارجہ بن زید سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس کی ضرورت ہے ؟ خارجہ نے کہا نہیں جس چیز کی تمہیں آرزو ہے وہی میں بھی چاہتا ہوں.پھر وہ سب دشمن سے بھڑ گئے.عباس بن عُبادۃ کہتے تھے کہ ہمارے دیکھتے ہوئے اگر رسول اللہ صلی علی یم کو گزند پہنچا، کوئی تکلیف پہنچی تو ہمارا اپنے رب کے حضور کیا عذر ہو گا ؟ اور حضرت خارجہ یہ کہتے تھے کہ اپنے رب کے حضور ہمارے پاس نہ تو کوئی

Page 287

اصحاب بدر جلد 4 271 عذر ہو گا اور نہ ہی کوئی دلیل.حضرت عباس بن عبادۃ کو سفیان بن عبد شمس سلمی نے شہید کیا اور خارجہ بن زید کو تیروں کی وجہ سے جسم پر دس سے زائد زخم لگے.138 جذبہ توحید سے سرشار غزوہ احد کے دن حضرت مالک بن دخشم، حضرت خارجہ بن زید کے پاس سے گزرے.حضرت خارجہ زخموں سے چور بیٹھے ہوئے تھے.ان کو تیرہ کے قریب مہلک زخم آئے تھے.حضرت مالک نے ان سے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی غیر کم شہید کر دیئے گئے ہیں ؟ حضرت خارجہ نے کہا کہ اگر آپ کو شہید کر دیا گیا ہے تو یقینا اللہ زندہ ہے اور وہ نہیں مرے گا.محمد صلی للی کم نے پیغام پہنچا دیا.تم بھی اپنے دین کے لئے قتال کرو.اولاد 639 حضرت خارجہ کے دو بچے تھے جن میں سے ایک حضرت زید بن خارجہ تھے جنہوں نے حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں وفات پائی.حضرت خارجہ بن زید کی دوسری اولاد حضرت حبیبہ بنت خارجہ تھیں.ان کی شادی حضرت ابو بکر صدیق سے ہوئی تھی.حضرت ابو بکر صدیق کی جب وفات ہوئی تو ان کی اہلیہ حضرت حبیبہ امید سے تھیں.ابو بکر نے فرمایا تھا کہ مجھے ان کے ہاں بیٹی کی توقع ہے.چنانچہ ان کے ہاں بیٹی پید اہوئیں.641 640 ان کی کنیت ابوزید تھی.ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل، حضرت سعد بن معاذ اور حضرت خارجہ بن زید نے یہود کے چند علماء سے تورات میں موجود چند باتوں کے متعلق پوچھا جن کا جواب دینے سے ان علماء نے انکار کر دیا اور سچ کو چھپایا، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا انْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَبِ أُولَبِكَ يَلْعَنُهُمُ اللهُ وَيَلْعَنْهُمُ اللَّعِنُونَ (البقره:160) یقیناً وہ لوگ جو اسے چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح نشانات اور کامل ہدایت میں سے نازل کیا ہے اس کے بعد بھی کہ ہم نے کتاب میں اس کو لوگوں کے لیے خوب کھول کر بیان کر دیا تھا.یہی ہیں وہ جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور اس پر سب لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں.612

Page 288

272 86 صحاب بدر جلد 4 حضرت خالد بن بگیر دارارقم میں اسلام قبول کرنے والے ย پھر بدری صحابہ میں ایک ذکر حضرت خالد بن بکیر کا ہے.حضرت خالد بن بگیر حضرت عاقل حضرت عامر ، حضرت ایاس نے اکٹھے دارارقم میں اسلام قبول کیا تھا اور ان چاروں بھائیوں نے دارار قم میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا.رسول اللہ صلی علیہم نے حضرت خالد بن بگیر اور حضرت زید بن دینہ کے درمیان مواخات قائم فرمائی.آپ غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں موجود تھے اور رجیع کا واقعہ جو پہلے بیان ہوا ہے جہاں دھوکے سے دس مسلمانوں کو مارا گیا تھا وہاں آپ بھی شہید ہوئے.3 644 643 واقعہ رجیع اور شہادت نبی کریم صلی للی کرم نے غزوہ بدر سے پہلے ایک سریہ عبداللہ بن جحش کی قیادت میں قریش کے قافلہ کے لئے روانہ فرمایا اس میں حضرت خالد بن بگیر بھی شامل تھے.آپ صفر 4 ہجری کو 34 سال کی عمر میں جنگ رجبیع میں عاصم بن ثابت اور مَرْشَد بن ابی مرقد غنوی کے ساتھ قبائل عضل وقارہ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے.اس بارہ میں ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب قبیلہ عَضَل اور قارہ کے لوگ ان صحابہ کو لے کر مقام رجیع میں پہنچے جو قبیلہ ھذیل کے ایک چشمہ کا نام ہے.رجیع جو جگہ ہے یہ جو قبیلہ ہذیل کے ایک چشمہ کا نام ہے اور حجاز کے کنارے پر واقعہ ہے تو ان لوگوں نے اصحاب کے ساتھ غداری کی.یعنی جو لوگ لے کر گئے تھے انہوں نے صحابہ کے ساتھ غداری کی.دھو کہ دیا اور قبیلہ ھذیل کو ان کے خلاف بھڑ کا دیا.صحابہ اس وقت اپنے خیمہ میں ہی تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ چاروں طرف سے لوگ تلواریں لئے چلے آ رہے ہیں.یہ بھی دلیرانہ جنگ کے لئے تیار ہو گئے.ان لوگوں نے ( یعنی کافروں نے ) کہا واللہ ! ہم تم کو قتل نہیں کریں گے.ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم کو پکڑ کر مکہ والوں کے پاس لے جائیں گے اور ان سے تمہارے معاوضہ میں کچھ لے لیں گے.حضرت مرثد بن ابی مرشد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عاصم بن ثابت اور حضرت خالد بن بکیر نے کہا کہ خدا کی قسم !اہم مشرک کے عہد میں داخل نہیں ہوتے.آخر یہ تینوں اس قدر لڑے کہ شہید ہو گئے.645 حضرت حسان بن ثابت نے ان لوگوں کے بارے میں اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ الَا لَيْتَنِي فِيْهَا شَهِدُتُ ابْنَ طَارِقٍ وَزَيْدًا وَمَا تُغْنِي الْأَمَانِي وَمَرْثَدًا

Page 289

ناب بدر جلد 4 273 646 فَدَا فَعْتُ عَنْ حِيَى خُبَيْبِ وَعَاصِمٍ وَكَانَ شِفَاءَ لَوْ تَدَارَكَتْ خَالِدًا کہ کاش میں اس واقعہ رجیع ) میں ابن طارق اور زید اور مریم کے ساتھ ہوتا.اگرچہ آرزوئیں کچھ کام نہیں آتیں.تو میں اپنے دوست حبیب اور عاصم کو بچاتا اور اگر میں خالد کو پالیتا تو وہ بھی بچ جاتا.تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دین کی حفاظت کے لئے، اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے قربانیاں دیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنے.647 649 نگیر بن عبدیالیل ان کی ولدیت تھی.قبیلہ بنو سعد سے ہیں جو بنی عدی کے حلیف تھے.648 ابن اسحاق نے کہا ہے کہ ہمیں ایاس اور ان کے بھائیوں عاقل، خالد اور عامر کے علاوہ کوئی بھی چار ایسے بھائی معلوم نہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے ہوں.ان چاروں بھائیوں نے اکٹھی ہجرت کی اور مدینہ میں رفاعہ بن عبد المنذر کے ہاں قیام کیا.19 ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جنگ احد کے بعد قبائل عضل اور قارہ کے چند لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں اسلام کی رغبت ہو رہی ہے آپ ہمارے ساتھ اپنے اصحاب میں سے چند لوگ روانہ فرمائیں تاکہ وہ ہماری قوم کو دین کی تعلیم دیں اور قرآن پڑھائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مریمد بن ابی مرید کی امارت میں چھ صحابہ کو ان کے ساتھ بھجوا دیا جن میں حضرت خالد بن بگیر بھی شامل تھے.ان کو ان لوگوں نے بعد میں دھوکے سے شہید بھی کر دیا تھا جو دین سیکھنے کے لیے لے کے گئے تھے.650 87 حضرت خالد بن قیس حضرت خالد بن قیس.حضرت خالد کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بَنُو بَيَاضَہ سے تھا.آپ کے والد قیس بن مالک تھے اور والدہ کا نام سلمیٰ بنت حارثہ تھا.آپ کی اہلیہ اور ربیع تھیں جن سے ایک بیٹے عبد الرحمن تھے.ابن اسحاق کے نزدیک آپ ستر انصار صحابہ کے ساتھ بیعت عقبہ میں شریک ہوئے.حضرت خالد نے غزوہ بدر اور احد میں شرکت کی تھی.651

Page 290

274 88 صحاب بدر جلد 4 حضرت خباب بن الارث نام و نسب حضرت خباب کا تعلق قبیلہ بنو سعد بن زید سے تھا.ان کے والد کا نام آرٹ بن جندلہ تھا.ان کی کنیت ابو عبد اللہ اور بعض کے نزدیک ابو محمد اور ابو یحی بھی تھی.زمانہ جاہلیت میں غلام بنا کر مکہ میں یہ بیچ دیے گئے.یہ عُتْبَة بن غزوان کے غلام تھے.بعض کے نزدیک ایر انمار خُزاعیہ کے غلام تھے.بنو زہرہ کے حلیف ہوئے.اول اسلام لانے والے اصحاب میں یہ چھٹے نمبر پر تھے اور ان اولین میں سے ہیں جنہوں نے اپنا اسلام ظاہر کر کے اس کی پاداش میں سخت مصائب برداشت کیے.حضرت خباب رسول الله صلى اللیل کے دارارقم میں تشریف لانے اور اس میں دعوت دینے سے پہلے اسلام رض لائے تھے.652 خدا کی راہ میں تکالیف اور مصائب برداشت کرنے والے مجاہد کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی علیم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام ظاہر کیا وہ یہ ہیں: حضرت ابو بکر، حضرت خباب ، حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت عمار “ اور حضرت سمیہ “ والدہ حضرت عمار.پس رسول اللہ صلی علی کرم کو تو اللہ تعالیٰ نے ان کے چچا ابوطالب کے ذریعہ سے محفوظ رکھا اور حضرت ابو بکر سکو خود ان کی قوم نے محفوظ رکھا.بہر حال یہ جو لکھنے والا ہے یہ ایک خاص تناظر میں یہ لکھ رہا ہے لیکن یہ بات بہر حال لازمی ہے اور اس لکھنے والے کے ذہن میں بھی شاید یہ نہیں رہا کہ باوجود اس کے جو اس نے لکھا ہے کہ ان کے چا ابو طالب نے ان کو محفوظ رکھا یا ان کی وجہ سے حفاظت کی.آنحضرت صلی می کنم خود بھی مشرکین مکہ کے ہاتھوں مظالم سے محفوظ نہ رہے اور نہ ہی حضرت ابو بکر محفوظ رہے.تاریخ اس پر شاہد ہے.انہیں بھی طرح طرح کے ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا بلکہ حضرت ابو طالب سمیت ظلموں کا نشانہ بنایا گیا.لکھنے والا تو یہ کہتا ہے کہ پھر یہ لوگ تو محفوظ رہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا یہ بھی اس کی ایک سوچ ہے کیونکہ تاریخ تو یہ کہتی ہے کہ نہ آنحضرت صلی اللہ محفوظ رہے، نہ حضرت ابو بکر محفوظ رہے لیکن بہر حال وہ پھر اپنے اس خیال کا اظہار کرتے ہوئے آگے لکھتا ہے کہ یہ تو دونوں محفوظ ہوئے لیکن باقی سب لوگوں کو لوہے کی زرہیں پہنائی گئیں اور انہیں سورج کی شدید دھوپ میں جھلسایا گیا اور جس قدر اللہ نے چاہا انہوں نے لوہے اور سورج کی حرارت کو برداشت کیا.شعبی کہتے ہیں کہ حضرت خباب نے بہت صبر کیا اور کفار کے مطالبے یعنی اسلام سے انکار کو منظور نہیں کیا تو ان لوگوں نے ان کی پیٹھ پر گرم گرم پتھر رکھے یہاں تک کہ ان کی

Page 291

ناب بدر جلد 4 275 پیٹھ سے گوشت جاتا رہا.اسد الغابہ کی یہ ساری روایت ہے.حضرت عمر کا قبول اسلام اور حضرت خباب 653 ا تفصیلی حضرت خباب کا ایک واقعہ جو حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے وقت پیش آیا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ابھی حضرت حمزہ کو اسلام لائے صرف چند دن ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اور خوشی کا موقع دکھایا یعنی حضرت عمرؓ جو ابھی تک اشد مخالفین میں سے تھے مسلمان ہو گئے.ان کے اسلام لانے کا قصہ بھی نہایت دلچسپ ہے.بہت سارے لوگوں نے سنا بھی ہوا ہے، پڑھا بھی ہوا ہے لیکن یہ تفصیل جو آپ نے بیان کی ہے یہ بھی میں بیان کر دیتا ہوں اور یہ بیان کرنا ان کی تاریخ کے لیے ضروری ہے.حضرت عمر کی طبیعت میں سختی کا مادہ تو زیادہ تھا ہی مگر اسلام کی عداوت نے اسے اور بھی زیادہ کر دیا تھا.چنانچہ اسلام سے قبل عمر غریب اور کمزور مسلمانوں کو ان کے اسلام کی وجہ سے بہت سخت تکلیف دیا کرتے تھے لیکن جب وہ انہیں تکلیف دیتے دیتے تھک گئے اور ان کے واپس آنے کی کوئی صورت نہ دیکھی تو خیال آیا کیوں نہ اس فتنے کے بانی کا یعنی آنحضرت صلی للی کم کا ہی خاتمہ کر دیا جاوے.یہ خیال آنا تھا کہ تلوار لے کر گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی علیم کی تلاش شروع کی.راستے میں ایک شخص نے انہیں سنگی تلوار ہاتھ میں لیے جاتے دیکھا تو پوچھا.عمر کہاں جاتے ہو ؟ عمر نے جواب دیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام تمام کرنے جاتا ہوں.اس نے کہا کیا تم محمد کو قتل کر کے بنو عبد مناف سے محفوظ رہ سکو گے ؟ ذرا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو.تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں.حضرت عمرؓ جھٹ پلٹے ، واپس ہوئے اور اپنی بہن فاطمہ کے گھر کا راستہ لیا.جب گھر کے قریب پہنچے تو اندر سے قرآن شریف کی تلاوت کی آواز آئی.جو خباب بن الارت خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنا رہے تھے.عمرؓ نے یہ آواز سنی تو غصہ اور بھی بڑھ گیا.جلدی سے گھر میں داخل ہوئے لیکن ان کی آہٹ سنتے ہی حباب تو فوراً کہیں چھپ گئے اور فاطمہ نے قرآن شریف کے اوراق بھی اِدھر ادھر چھپا دیے.حضرت عمرؓ کی بہن کا نام فاطمہ تھا.حضرت عمرؓ اندر آئے تو للکار کر کہا میں نے سنا ہے تم اپنے دین سے پھر گئے ہو.یہ کہہ کر اپنے بہنوئی سعید بن زید سے لپٹ گئے.فاطمہ اپنے خاوند کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو وہ بھی زخمی ہوئیں مگر فاطمہ نے دلیری کے ساتھ کہا.ہاں عمر ! ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور تم سے جو ہو سکتا ہے کر لو.اب ہم اسلام کو نہیں چھوڑ سکتے.حضرت عمر نہایت سخت آدمی تھے لیکن اس سختی کے پردہ کے نیچے محبت اور نرمی کی بھی ایک جھلک تھی جو بعض اوقات اپنا رنگ دکھاتی تھی.بہن کا یہ دلیرانہ کلام سنا، یہ بات سنی تو آنکھ اوپر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ خون میں تربہ تر تھی.اس نظارہ کا عمر کے قلب پر ایک خاص اثر ہوا.کچھ دیر خاموش رہ کر بہن سے کہنے لگے کہ مجھے وہ کلام تو دکھاؤ جو تم پڑھ رہے تھے ؟ فاطمہ نے کہا کہ میں نہیں دکھاؤں گی کیونکہ تم ان اوراق کو ضائع کر دو گے، ان صفحوں کو ضائع کر دو گے.عمر نے جواب دیا.نہیں نہیں تم مجھے دکھاؤ.میں ضرور واپس کر دوں

Page 292

تاب بدر جلد 4 276 گا.فاطمہ نے کہا مگر تم نجس ہو، ناپاک ہو اور قرآن کو پاکیزگی کی حالت میں ہاتھ لگانا چاہیے.پس تم پہلے غسل کر لو تو پھر دکھا دوں گی اور پھر دیکھ لینا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ غالباً ان کا منشا یہ بھی ہو گا کہ غسل کرنے سے عمر کا غصہ بالکل فرو ہو جائے گا اور وہ ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے قابل ہو سکیں گے.جب عمر غسل سے فارغ ہوئے تو فاطمہ نے قرآن کے اوراق نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے.انہوں نے اٹھا کر دیکھا تو سورۃ طہ کی ابتدائی آیات تھیں.حضرت عمرؓ نے ایک مرعوب دل کے ساتھ انہیں پڑھنا شروع کیا اور ایک ایک لفظ اس سعید فطرت کے اند رگھر کیے جاتا تھا اپنا اثر دکھا رہا تھا.پڑھتے پڑھتے جب حضرت عمرؓ اس آیت پر پہنچے کہ اِنَّنِي أَنَا اللهُ لا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُنِي وَ أَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى إِنَّ السَّاعَةَ اتِيَةٌ أَكَادُ أَخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعى ( 15:14-16) یعنی میں ہی اس دنیا کا واحد خالق و مالک ہوں میرے سوا اور کوئی قابل پرستش نہیں.پس تمہیں چاہیے کہ صرف میری ہی عبادت کرو اور میری ہی یاد کے لیے اپنی دعاؤں کو وقف کر دو.دیکھو ! موعود گھڑی جلد آنے والی ہے مگر ہم اس کے وقت کو مخفی رکھے ہوئے ہیں تا کہ ہر شخص اپنے کیے کا سچا سچابدلہ پاسکے.جب حضرت عمرؓ نے یہ آیت پڑھی تو گویا ان کی آنکھ کھل گئی اور سوئی ہوئی فطرت چونک کر بیدار ہو گئی.بے اختیار ہو کر بولے.یہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے.حباب نے یہ الفاظ سنے تو فور آباہر نکل آئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور کہا.یہ رسول اللہ صلی علیم کی دعا کا نتیجہ ہے کیونکہ خدا کی قسم ! ابھی کل ہی میں نے آپ کو یہ دعا کرتے سنا تھا کہ یا اللہ ! تو عمر ابن الخطاب یا عمر و بن ہشام یعنی ابو جہل میں سے کسی ایک کو ضرور اسلام عطا کر دے.حضرت عمر کو اب ایک ایک پل گر اں تھی.اس کلام کو پڑھنے کے بعد آنحضرت صلی علیم کے مقام کو پہچاننے کے بعد ان کے لیے اب یہاں تک رہنا بڑا مشکل ہو رہا تھا.انہوں نے خبابے سے کہا کہ مجھے ابھی محمد صلی علی کم کا راستہ بتاؤ وہ کہاں ہے.مگر کچھ ایسے آپے سے باہر ہو رہے تھے کہ تلوار اسی طرح نگی کھینچ رکھی تھی.یہ خیال نہیں آیا کہ تلوار بھی میان میں ڈال لیں.نگی تلوار کو اسی طرح ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا.بہر حال اس زمانے میں آنحضرت صلی علی کرم دار ار قم میں مقیم تھے.چنانچہ حباب نے انہیں وہاں کا پتہ بتادیا.عمر وہاں گئے اور دروازے پر پہنچ کر زور سے دستک دی.صحابہ نے دروازے کی دراڑ میں سے عمر کو ننگی تلوار تھامے ہوئے دیکھ کر دروازہ کھولنے میں تامل کیا، ہچکچاہٹ کی مگر آنحضرت صلی لی ایم نے فرمایا.دروازہ کھول دو اور حضرت حمزہ نے بھی کہا، حضرت حمزہ بھی وہاں تھے کہ دروازہ کھول دو.اگر نیک ارادے سے آیا ہے تو بہتر ورنہ اگر نیت بد ہے تو واللہ اسی کی تلوار سے اس کا سر اڑا دوں گا.دروازہ کھولا گیا.عمر ننگی تلوار ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوئے.ان کو دیکھ کر آنحضرت صلی یکم آگے بڑھے اور عمر کا دامن پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا اور کہا عمر کس ارادے سے آئے ہو ؟ واللہ میں دیکھتا ہوں کہ تم خدا کے عذاب کے لیے نہیں بنائے گئے.آنحضرت صلی الی یکم نے فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم خدا کے عذاب کے لیے نہیں بنائے گئے.عمرؓ نے عرض کیا.یارسول اللہ ! میں مسلمان ہونے آیا ہوں.آنحضرت صلی اللہ ہم نے یہ الفاظ سنے تو خوشی سے جوش میں اللہ اکبر کہا اور ساتھ ہی صحابہ رض

Page 293

اصحاب بدر جلد 4 277 نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں.654 حضرت خباب کا تکلیف کا اظہار اور صبر کے نتیجہ میں امن و سکون کی بشارت حضرت خباب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے رسول اللہ صلی الی کمی سے اپنی تکلیف کا اظہار کیا.آپ صلی یہ کام اس وقت کعبے کے سائے میں اپنی چادر پر ٹیک دیے بیٹھے تھے.ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ہمارے لیے نصرت طلب نہیں کریں گے.کیا آپ صلی علی یکم ان تنگی کے حالات میں ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کریں گے.آپ صلی علیم نے فرمایا تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان میں سے ایک شخص کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا پھر اسے اس میں گاڑ دیا جاتا.پھر آرالا یا جاتا اور وہ اس کے سر پر رکھا جاتا اور اس شخص کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے اور یہ بات اس کو اس کے دین سے نہ روک سکتی اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کا گوشت ہڈیوں یا پٹھوں سے نوچ کر الگ کر دیا جاتا اور یہ بات اس کو اس کے دین سے نہ روک سکتی.پھر آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ! اللہ اس کام کو یعنی جو میرا مشن ہے اس کو ضرور پورا کرے گا.جس مقصد کے لیے میں آیا ہوں وہ ضرور پورا ہو گا، آسانیاں بھی آئیں گی.پھر آگے آپ نے فرمایا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا.صنعاء اور حضر موت یمن کے دو شہر ہیں اور کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان 216 میل کا فاصلہ ہے.بہر حال آپ نے فرمایا کہ یہ سفر کرے گا اور اس کو سوائے خدا کے کسی کا ڈر نہیں ہو گا.یا یہ بھی فرمایا کہ نہ اپنی بکریوں پر بھیڑیے کے حملہ آور ہونے کا ڈر ہو گا.آپ نے فرمایا مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو.صبر سے یہ سارا کام ہو گا.بخاری کی روایت ہے یہ.155 دوسری جگہ یہ روایت اس طرح درج ہوئی ہے.حضرت حباب “بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ ایک درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے اور آپ نے اپنا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھا ہوا تھا.میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں کریں گے اس قوم کے خلاف جن کی نسبت ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمیں ہمارے دین سے نہ پھیر دیں ؟ تو آپ نے مجھ سے اپنا چہرہ تین مرتبہ پھیر ا.چہرہ پرے کر لیا اور جب بھی میں آپ سے یہ عرض کرتا تو آپ اپنا منہ موڑ لیتے.تیسری دفعہ آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا اے لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صبر کرو.خدا کی قسم ! تم سے پہلے خدا کے ایسے مومن بندے گزرے ہیں جن کے سر پر آراد کھ دیا جاتا اور انہیں دو ٹکڑے کر دیا جاتا مگر وہ اپنے دین سے پیچھے نہ ہے.اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اللہ تمہاری راہیں کھولنے والا اور تمہارے کام بنانے والا ہے.656 اسلام قبول کرنے کی پاداش میں حقوق کا غصب اور طنز حضرت خباب " سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں لوہار تھا اور عاص بن وائل کے ذمہ میرا قرض تھا.میں اس کے پاس تقاضا کرنے آیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں ہر گز تمہارا قرض ادا نہیں کروں گا جب

Page 294

ب بدر جلد 4 278 تم محمد کا انکار نہ کرو.اس بات کا اعلان نہ کرو کہ میں آنحضرت صلی لیلی کیم کی بیعت سے باہر آتا ہوں.جب تک تم محمد کا انکار نہ کرو گے میں ادا نہیں کروں گا تو حضرت خباب کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ میں آپ صلی یم کا ہر گز انکار نہیں کروں گا یہاں تک کہ تو مرے اور پھر زندہ کیا جائے یعنی ناممکن ہے کہ میں انکار کروں.آگے سے اس نے بھی اس طرح کا جواب دیا کہ جب میں مرنے کے بعد زندہ کیا جاؤں گا اور اپنے مال اور اولاد کے پاس آؤں گا تو اس وقت تیر ا قرض ادا کر دوں گا.اس نے بھی کہہ دیا میں نے تو نہیں دینا.حضرت خباب کہتے ہیں کہ اسی کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ : أَفَرَوَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِأَيْتِنَا وَ قَالَ لأوتَيَنَ مَالًا وَ وَلَدًا أَطلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدَ اللا سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُلُ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَنَّا وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا ( م :8178) | (مریم: تا کیا تو نے اس شخص کی حالت پر غور نہیں کیا جس نے ہمارے نشانوں کا انکار کیا اور کہا کہ مجھے یقیناً بہت سا مال اور بہت سے بیٹے دیے جائیں گے.کیا اس نے غیب کا حال معلوم کر لیا ہے یا خدائے رحمان سے کوئی وعدہ لے لیا ہے.ایسا ہر گز نہیں ہو گا ہم اس کے اس قول کو محفوظ رکھیں گے اور اس کے عذاب کو لمبا کر دیں گے اور جس چیز پر وہ فخر کر رہا ہے اس کے ہم وارث ہو جائیں گے اور وہ ہمارے پاس اکیلا ہی آئے گا.سر پر گرم لوہار کھ دینا اور خدائے قادر و غیور کا بدلہ حضرت خباب لوہار تھے اور تلواریں بنایا کرتے تھے.رسول اللہ صلی العلم ان سے بہت الفت رکھتے تھے اور ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے.ان کی مالکہ کو اس کی خبر ملی کہ آنحضرت صلی الیکم حضرت خباب کے پاس آتے ہیں تو وہ گرم گرم لوہا حضرت خباب کے سر پر رکھنے لگی.لوہے کا کام تھا.لوہے کو بھٹی میں ڈالتے تھے تو وہ گرم لوہا ان کے سر پر رکھنے لگی.حضرت خباب نے رسول اللہ صلی للی نام سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: الله حباب کی مدد کر.آپ نے دعا کی.پس نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روایت میں ہے کہ ان کی مالکہ ام انمار جو تھی اس کے سر میں کوئی بیماری پید اہو گئی اور وہ کتوں کی طرح آوازمیں نکالتی تھی.اس سے کہا گیا کہ تو داغ لگوالے.یعنی اپنے سر پہ گرم لوہا لگوا.چنانچہ حضرت خباب گرم لوہے سے اس کے سر کو داغتے تھے.مجبور ہوئی تو پھر وہ حضرت حباب کے ذریعے سے اپنے سر پہ گرم لو با لگواتی تھی.658 657 نا حضرت عمر کی نظر میں ان کا مقام اور خباب کا اپنے زخم دکھانا....رض ابولیلی کینڈی سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت خباب حضرت عمرؓ کے پاس آئے.حضرت عمرؓ نے ان کو کہا کہ قریب آجاؤ کیونکہ سوائے عمار بن یاسر کے اس مجلس کا تم سے زیادہ مستحق کوئی نہیں.حضرت خباب اپنی پیٹھ کے وہ نشانات دکھانے لگے جو مشرکین کے تکلیف دینے سے پڑ گئے تھے.طبقات الکبریٰ کی یہ روایت ہے.659

Page 295

اصحاب بدر جلد 4 رض 279 ایک اور جگہ کمر کے زخم دکھانے کے بارے میں ذرا تفصیل سے اس طرح روایت آتی ہے.شعبی سے روایت ہے کہ حضرت خباب حضرت عمر بن خطاب کے پاس آئے.انہوں نے حضرت خباب کو اپنی نشست گاہ پر بٹھایا اور فرمایا سطح زمین پر کوئی شخص اس مجلس کا ان سے زیادہ مستحق نہیں سوائے ایک شخص کے.حضرت خباب نے کہا اے امیر المومنین !وہ کون ہے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا وہ بلال ہے.حضرت خباب " نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اے امیر المومنین اوہ مجھ سے زیادہ مستحق نہیں ہے کیونکہ بلال جب مشرکوں کے ہاتھ میں تھے تو ان کا کوئی نہ کوئی مدد گار تھا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان کو بچالیا کرتا تھا مگر میرے لیے کوئی نہ تھا جو میری حفاظت کرتا.ایک روز میں نے خود کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور میرے لیے آگ جلائی.پھر انہوں نے مجھے اس میں ڈال دیا.حضرت حباب کہتے ہیں کہ ایک روز میری یہ حالت تھی.میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگوں نے مجھے پکڑ لیا.میرے لیے آگ جلائی اور پھر اس میں مجھے ڈال دیا.آگ کے کوئلوں پر جو گرم کو ملے تھے ایک آدمی نے مجھے اس میں پھینک کے اپنا پاؤں میرے سینے پر رکھ دیا.لوگوں نے مجھے اس میں پھینک دیا اور اس کے بعد ایک آدمی نے اپنا پاؤں میرے سینے پر رکھ دیا تو میری کمر ہی تھی جس نے مجھے گرم زمین سے بچایا یا کہا کہ میری کمر ہی تھی جس نے زمین کو ٹھنڈا کیا.پھر انہوں نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹایا تو وہ برص کی طرح سفید تھی.660 رض 661 یعنی گرم کو ئلوں پر لٹایا تو کوئی چیز ان کو ئلوں کو ٹھنڈا کرنے والی نہیں تھی.جسم کی جو کھال اور چربی تھی وہی پکھل کے اس کو ٹھنڈا کر رہی تھی.پھر اس بارے میں ایک روایت اس طرح بھی ہے.شعبی کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت خباب " سے ان مصائب کے بارے میں پوچھا جو انہیں مشرکین سے پہنچتے تھے تو انہوں نے کہا کہ اے امیر المومنین امیری پیٹھ دیکھیں.جب حضرت عمر نے پیٹھ دیکھی تو فرمایا میں نے ایسی پیٹھ کسی کی نہیں دیکھی.حضرت خباب نے بتایا کہ آگ جلائی جاتی تھی اور اس پر مجھے گھسیٹا جاتا تھا اور اس آگ کو اور کوئی چیز نہ بجھاتی تھی سوائے میری کمر کی چربی کے.11 حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت خباب کے بارے میں جو بیان کیا ہے وہ اس طرح ہے.آپ بیان کرتے ہیں کہ ” یاد رکھنا چاہیے کہ رسول کریم صلی علیہ تم پر ایمان لا کر جن لوگوں نے سب سے زیادہ تکلیفیں اٹھائیں وہ غلام ہی تھے.چنانچہ خباب بن الارث ایک غلام تھے جو لوہار کا کام کرتے تھے.وہ نہایت ابتدائی ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم “ پر ایمان لے آئے.لوگ انہیں سخت تکالیف دیتے تھے حتی کہ انہی کی بھٹی کے کوئلے نکال کر ان پر انہیں لٹا دیتے تھے اور اوپر سے چھاتی پر پتھر رکھ دیتے تھے تا کہ آپ کمر نہ ہلا سکیں.ان کی مزدوری کا روپیہ جن لوگوں کے ذمہ تھاوہ روپیہ ادا کرنے سے منکر ہوگئے.مگر باوجود ان مالی اور جانی نقصانوں کے آپ ایک منٹ کے لیے بھی متذبذب نہ ہوئے اور ایمان پر ثابت قدم رہے.آپ کی پیٹھ کے نشان آخر عمر تک قائم رہے.چنانچہ حضرت عمرؓ کی حکومت کے ایام میں انہوں نے اپنے گذشتہ مصائب کا ذکر کیا تو انہوں نے ان سے پیٹھ دکھانے کو کہا.جب انہوں نے پیٹھ پر سے کپڑا اٹھایا تو تمام

Page 296

اصحاب بدر جلد 4 280 66266 پر ایسے سفید داغ نظر آئے جیسے کہ برص کے داغ ہوتے ہیں.“ پھر حضرت مصلح موعود ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ”ایک دفعہ ایک ابتدائی نو مسلم غلام حباب کی پیٹھ ننگی ہوئی تو ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ کا چمڑہ انسانوں جیسا نہیں، جانوروں جیسا ہے.وہ گھبر اگئے اور ان سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ کیا بیماری ہے ؟ وہ ہنسے ” یعنی حضرت خباب ہنسے “ اور کہا بیماری نہیں یہ یاد گار ہے اس وقت کی جب ہم تو مسلم غلاموں کو عرب کے لوگ مکہ کی گلیوں میں سخت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے اور متواتر یہ ظلم ہم پر روار کھے جاتے تھے.اسی کے نتیجہ میں میری پیٹھ کا چمڑہ یہ شکل اختیار کر گیا ہے.66366 ابتدائی غریب مسلمان جو بعد میں دنیاوی مقامات سے نوازے گئے ان ابتدائی مسلمانوں کو جو غریب بھی تھے اور اکثر غلام بھی تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد جن تکالیف میں سے انہیں گزرنا پڑا جس کا ذکر ابھی ہم نے حضرت خباب کے حوالے سے سنا ہے کہ کبھی آگ پہ لٹا دیا جاتا، کبھی ان کو پتھروں پر گھسیٹا جاتا.یہ تکلیفیں تو انہوں نے برداشت کر لیں اور جب بعد میں اسلام کی ترقی ہوئی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے کس طرح نوازا اور ان کا دنیاوی مقام بھی کس طرح قائم فرمایا اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ : حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنے زمانہ خلافت میں مکہ تشریف لائے تو شہر کے بڑے بڑے رؤساء جو مشہور خاندانوں میں سے تھے ان کے ملنے کے لیے آئے.انہیں خیال پیدا ہوا کہ حضرت عمرؓ ہمارے خاندانوں سے اچھی طرح واقف ہیں.اس لیے اب جبکہ وہ خود بادشاہ ہیں ہمارے خاندانوں کا بھی پوری طرح اعزاز کریں گے اور ہم پھر اپنی گم گشتہ عزت کو حاصل کر سکیں گے.چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے آپ سے باتیں شروع کر دیں.ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حضرت عمر کی مجلس میں حضرت بلال آگئے.تھوڑی دیر گزری تو حضرت خباب آگئے اور اس طرح یکے بعد دیگرے اول الایمان غلام تے چلے گئے یعنی شروع میں جو ایمان لانے والے تھے وہ غلام تھے.وہ سارے ایک کے بعد دوسرا آتے چلے گئے.یہ وہ لوگ تھے جو ان رؤساء یا ان کے آباء کے غلام رہ چکے تھے.یہ جو نوجوان رؤساء بیٹھے تھے یا اس وقت کے جو رؤساء بیٹھے تھے یہ سارے آنے والے جو تھے یہ ان کے آباؤ اجداد کے غلام تھے.اور جب وہ غلام تھے تو اس وقت اپنی طاقت کے زمانے میں وہ ان پر شدید ترین مظالم بھی کیا کرتے تھے.حضرت عمرؓ نے ہر غلام کی آمد پر اس کا استقبال کیا، جب بھی یہ لوگ حضرت خباب یا حضرت بلال وغیرہ آتے تھے ، جب بھی یہ بہت سارے اول الایمان لوگ آئے اور جو غلام بھی تھے کسی زمانے میں.جب بھی وہ مجلس میں آتے تو حضرت عمررؓ بڑی اہمیت سے ان کا استقبال کرتے.آپ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ہر غلام کی آمد پر اس کا استقبال کیا اور رؤساء سے کہا کہ آپ ذرا پیچھے ہو جائیں.رؤساء مجلس میں آگے بیٹھے ہوتے تھے جب یہ پرانے ایمان لانے والے آتے تھے تو آپ ان رؤساء کو جو مکہ کے

Page 297

تاب بدر جلد 4 281 رؤساء تھے کہتے ذرا پیچھے ہٹ جاؤ ان کو آگے بیٹھنے دو حتی کہ وہ نوجوان رؤساء جو آپ سے، حضرت عمرؓ سے ملنے آئے تھے ہٹتے ہٹتے دروازے تک پہنچ گئے.اس زمانے میں کوئی بڑے بڑے ہال تو ہوتے نہیں تھے ، ایک چھوٹا سا کمرہ ہو گا اور چونکہ وہ سب اس میں سما نہیں سکتے تھے اس لیے پیچھے ہٹتے ہٹتے ان رؤساء کو جوتیوں میں بیٹھنا پڑا.جب مکہ کے وہ رؤساء جوتیوں میں جاپہنچے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح ایک کے بعد ایک مسلمان غلام آیا اور اس کو آگے بٹھانے کے لیے ان لوگوں کو یارؤساء کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا گیا تو ان کے دل کو سخت چوٹ لگی.حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بھی اس وقت کچھ ایسے سامان پیدا کر دیے کہ یکے بعد دیگرے کئی ایسے مسلمان آگئے جو کسی زمانے میں کفار کے غلام رہ چکے تھے.اگر ایک بار ہی وہ رؤساء پیچھے ہٹتے تو ان کو احساس بھی نہ ہوتا مگر چونکہ بار بار ان کو پیچھے ہٹنا پڑا اس لیے وہ اس بات کو برداشت نہ کر سکے اور اٹھ کر باہر چلے گئے.باہر نکل کر وہ ایک دوسرے سے شکایت کرنے لگے کہ دیکھو آج ہماری کیسی ذلت ورسوائی ہوئی ہے.ایک ایک غلام کے آنے پر ہم کو پیچھے ہٹایا گیا ہے یہاں تک کہ ہم جو تیوں میں جا پہنچے.اس پر ان میں سے ایک نوجوان بولا اس میں کس کا قصور ہے ؟ عمر کا ہے یا ہمارے باپ دادا کا ہے ؟ اگر تم سوچو تو معلوم ہو گا کہ اس میں حضرت عمر فیا تو کوئی قصور نہیں.یہ ہمارے باپ دادا کا قصور تھا جس کی آج ہمیں سزا ملی کیونکہ خدا نے جب اپنار سول مبعوث فرمایا تو ہمارے باپ دادا نے مخالفت کی مگر ان غلاموں نے اس کو قبول کیا اور ہر قسم کی تکالیف کو خوشی سے برداشت کیا.اس لیے آج اگر ہمیں مجلس میں ذلیل ہونا پڑا ہے تو اس میں عمر کا کوئی قصور نہیں ہمارا اپنا قصور ہے.اس کی یہ بات سن کر دوسرے کہنے لگے کہ ہم نے یہ تو مان لیا کہ یہ ہمارے باپ دادا کے قصور کا نتیجہ ہے مگر کیا اس ذلت کے داغ کو دور کرنے کا کوئی ذریعہ تبھی ہے یا کوئی نہیں ہے ؟ اس پر سب نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہماری سمجھ میں تو کوئی بات نہیں آتی چلو حضرت عمر سے ہی پوچھ لیں کہ اس کا کیا علاج ہے.چنانچہ وہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے اس کو آپ بھی خوب جانتے ہیں اور ہم بھی خوب جانتے ہیں.حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ معاف کرنا میں مجبور تھا کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو رسول کریم صلی ا م کی مجلس میں معزز تھے.شاید تمہارے غلام ہوں گے لیکن آنحضرت صلی کم کی مجلس میں یہ لوگ معزز تھے.اس لیے میرا بھی فرض تھا کہ میں ان کی عزت کرتا.انہوں نے کہا ہم جانتے ہیں یہ ہمارے ہی قصور کا نتیجہ ہے لیکن آیا اس عار کو مٹانے کا بھی کوئی ذریعہ ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ہم لوگ تو اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے.آج کل اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ وہ لوگ جو مکہ کے رؤساء تھے انہیں مکہ میں کس قدر رسوخ حاصل تھا لیکن حضرت عمران کے خاندانی حالات کو بخوبی جانتے تھے.آپ مکے میں پیدا ہوئے تھے یعنی حضرت عمرؓ کے میں پیدا ہوئے تھے اور مکہ میں بڑے ہوئے تھے اس لیے حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ ان نوجوانوں کے باپ دادا کس قدر عزت رکھتے تھے.آپ جانتے تھے کہ کوئی شخص ان کے سامنے آنکھ اٹھانے کی بھی جرات نہیں کر سکتا تھا اور آپ جانتے

Page 298

تاب بدر جلد 4 282 تھے کہ انہیں کس قدر رعب اور دبدبہ حاصل تھا.جب انہوں نے یہ بات کہی تو حضرت عمرؓ کے سامنے ایک ایک کر کے یہ تمام واقعات آگئے اور آپؐ پر رقت طاری ہو گئی.اس وقت آپ غلبہ رقت کی وجہ سے بول بھی نہ سکے صرف آپ نے ہاتھ اٹھایا اور شمال کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ شمال میں یعنی شام میں بعض اسلامی جنگیں ہو رہی ہیں.اگر تم ان جنگوں میں شامل ہو جاؤ تو ممکن ہے اس کا کفارہ ہو جائے.چنانچہ وہ وہاں سے اٹھے اور جلد ہی ان جنگوں میں شامل ہونے کے لیے چل پڑے.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ رئیس زادے جتنے تھے ان میں سے ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا.سب اسی جگہ شہید ہو گئے اور اس طرح انہوں نے اپنے خاندانوں کے نام پر سے دارغ ذلت کو مٹا دیا.664 نتیجہ یہی ہے کہ قربانیاں کرنی پڑتی ہیں.جنہوں نے شروع میں قربانیاں کیں ان کو عزت ملی.بعد میں اگر آئے اور اس ذلت کے داغ کو مٹانا ہے تو پھر بھی قربانیوں سے ہی مٹایا جاسکتا ہے.ہجرت مدینہ جب حضرت خباب اور حضرت مقداد بن عمرو نے مدینہ ہجرت کی تو یہ دونوں حضرت کلثوم بن الہدم کے ہاں ٹھہرے اور حضرت کلثوم کی وفات تک انہی کے گھر ٹھہرے رہے.حضرت کلثوم کی وفات آنحضرت صلی ال نیم کے بدر کی طرف نکلنے سے کچھ عرصے پہلے ہوئی تھی.پھر وہ حضرت سعد بن عبادہ کی طرف چلے گئے یہاں تک کہ پانچ ہجری میں بنو قریظہ کو فتح کیا گیا.665 مواخات رسول اللہ صلی علیکم نے حضرت خباب اور حضرت خراش بن حیمہ کے آزاد کردہ غلام حضرت تمیم کے درمیان مواخات قائم فرمائی.ایک دوسرے قول کے مطابق آپ نے حضرت خباب کی مواخات حضرت جبر بن عَتِيك کے ساتھ قائم فرمائی.علامہ ابن عبدالبر کے نزدیک پہلی روایت 666 زیادہ صحیح ہے.تمام غزوات میں شمولیت حضرت خباب غزوہ بدر، احد اور خندق سمیت دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی الم کے ساتھ شریک رہے.667 خوف اور تقویٰ کا معیار ابو خالد بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خباب آئے اور خاموشی سے بیٹھ گئے.لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ کے دوست آپ کے پاس اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ آپ ان سے کچھ بیان کریں یا انہیں کچھ حکم دیں.حضرت خباب نے کہا میں انہیں کس بات کا حکم

Page 299

اصحاب بدر جلد 4 283 دوں ! ایسانہ ہو کہ میں انہیں کسی ایسی بات کا حکم دوں جو میں خود نہیں کرتا.ان لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے خوف اور تقویٰ کا یہ معیار تھا.نبی اکرم صلی کام کی خوف اور رغبت کی ایک لمبی نماز 668 عبد اللہ بن حباب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے ایک مرتبہ نماز پڑھائی اور اس کو بہت لمبا کیا.لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ نے ایسی نماز پڑھائی ہے کہ اس جیسی پہلے کبھی نہیں پڑھائی.آپ نے فرمایا ہاں یہ رغبت اور خوف کی نماز ہے.میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگی ہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے دو عطا کی ہیں اور ایک کو روکے رکھا ہے.میں نے اللہ سے مانگا کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرے جو اللہ نے عطا فرما دی.میں نے اللہ سے یہ مانگا کہ میری امت پر کوئی دشمن ان کے اغیار میں سے مسلط نہ کیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرما دی.بحیثیت امت آج بھی امت قائم ہے اور اگر کوئی مسلط کرتے ہیں تو یہ خود حکومتیں اپنے اوپر مسلط کرتی ہیں.بحیثیت امت اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت صلی علیم کی امت قائم ہے.اور پھر فرمایا اور میں نے اللہ سے مانگا کہ میری امت با ہم ایک دوسرے سے نہ لڑے.یہ اللہ نے مجھے عطا نہیں کی.اور نتیجہ آج یہ ہے کہ فرقہ بازیاں، کفر کے فتوے یہ سب کچھ چل رہا ہے.669 شدید اور طویل بیماری طارق سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی للی نیلم کے اصحاب کی ایک جماعت نے حضرت خباب کی عیادت کی.ان لوگوں نے کہا کہ اے ابو عبد اللہ خوش ہو جاؤ کہ تم اپنے بھائیوں کے پاس حوضِ کوثر پر جاتے ہو.حضرت خباب نے کہا کہ تم نے میرے سامنے ان بھائیوں کا ذکر کیا ہے جو گزر گئے ہیں اور انہوں نے اپنے اجر وں میں سے کچھ نہ پایا اور ہم ان کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ ہمیں دنیا سے وہ کچھ حاصل ہو گیا جس کے متعلق ہم ڈرتے ہیں کہ شاید یہ ہمارے گذشتہ کیے گئے اعمال کا ثواب ہے جو دنیا ہمیں مل گئی.یہیں دنیا میں ثواب مل گیا.حضرت خباب بہت شدید اور طویل مرض میں مبتلا ر.ار ہے.670 بعد میں نعمتوں کا حصول اور اپنے گزرے ہوئے بھائیوں کی یاد حَارِثه بن مُضَرب سے مروی ہے کہ میں حضرت خباب " کے پاس ان کی عیادت کے لیے آیا.وہ سات جگہ سے علاج کی خاطر داغ دیے گئے تھے.میں نے انہیں کہتے سنا کہ اگر میں نے رسول الہ علی ایم کو یہ فرماتے نہ سنا ہو تا کہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ موت کی تمنا کرے تو میں اس کی تمنا کر تا یعنی اتنی تکلیف میں تھے.ان کا کفن لایا گیا جو قباطی کپڑے کا تھا.باریک کپڑا جو مصر میں تیار ہو تا تھا تو وہ رونے لگے.پھر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی علیکم کے چچا حضرت حمزہ کو ایک چادر کا کفن دیا گیا جو ان

Page 300

تاب بدر جلد 4 284 کے پاس پاؤں پر کھینچی جاتی تو سر کی جانب سے سکڑ جاتی اور جب سر کی طرف کھینچی جاتی تو پاؤں کی طرف سکڑ جاتی یہاں تک کہ ان پر اذخر گھاس ڈالی گئی.میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ اس حال میں دیکھا کہ میں ایک دینار کا مالک تھانہ ایک درہم کا.یعنی کچھ تھی میرے پاس نہیں تھا نہ دینار تھا نہ در ہم تھا.ایک دینار بھی نہیں تھا اور اب کیا حال ہے.آپ نے فرمایا کہ اب میرے مکان کے کونے میں صندوق میں پورے چالیس ہزار درہم ہیں اور میں ڈرتا ہوں کہ ہماری طیب چیزیں ہمیں اس زندگی میں نہ دے دی گئی ہوں.671 حضرت خباب بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی علیم کے ساتھ ہجرت کی.ہم اللہ تعالیٰ ہی کی رضا چاہتے تھے اور ہمارا اجر اللہ کے ذمہ ہو گیا.ہم میں سے ایسے بھی تھے جو وفات پاگئے اور انہوں نے اپنے اجر سے کچھ نہیں کھایا.ان میں سے حضرت مصعب بن عمیر بھی ہیں.اور ہم میں سے ایسے بھی ہیں جن کا پھل پک گیا اور وہ اس پھل کو چن رہے ہیں.حضرت مصعب احد کے دن شہید ہوئے تھے اور ہمیں صرف ایک ہی چادر ملی تھی کہ جس سے ہم ان کو کفناتے.جب ہم اس سے ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں نکل جاتے اور اگر ان کے پاؤں ڈھانپتے تو ان کا سر نکل جاتا تو نبی کریم صلی علیم نے فرما یا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں.2 حضرت علی ملکا خراج تحسین اور دعا ا 672 زید بن وھب نے بیان کیا کہ ہم حضرت علی کے ساتھ آرہے تھے جب وہ جنگ کے بعد صفین سے کوٹ رہے تھے یہاں تک کہ جب آپ کوفہ کے دروازے پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے داہنی طرف سات قبریں ہیں.حضرت علی نے پوچھا کہ یہ قبریں کیسی ہیں.لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین! آپ کے صفین کے لیے نکلنے کے بعد حباب کی وفات ہو گئی.انہوں نے وصیت کی کہ کوفہ سے باہر دفن کیا جائے.وہاں لوگوں کا دستور تھا کہ اپنے مردوں کو اپنے صحنوں میں اور اپنے گھروں کے دروازوں کے ساتھ دفن کیا کرتے تھے مگر جب انہوں نے حضرت خباب کو دیکھا کہ انہوں نے باہر دفن کرنے کی وصیت کی تو لوگ بھی دفن کرنے لگے.حضرت علیؓ نے کہا اللہ خباب " پر رحم کرے اوہ اپنی خوشی سے اسلام لائے.اور انہوں نے اطاعت کرتے ہوئے ہجرت کی.اور ایک مجاہد کے طور پر زندگی گزاری.اور جسمانی طور پر وہ آزمائے گئے.اور جو شخص نیک کام کرے اللہ اس کا اجر ضائع نہیں کر تا یعنی ان کی جسمانی تکلیفیں بیماریاں بہت لمبی چلیں.پھر حضرت علی نے فرمایا کہ اور جو شخص نیک کام کرے اللہ اس کا اجر ضائع نہیں کرتا.حضرت علی ان قبروں کے نزدیک گئے اور کہا اے رہنے والو جو مومن اور مسلمان ہو تم پر سلامتی ہو.تم آگے جا کر ہمارے لیے سامان کرنے والے ہو اور ہم تمہارے پیچھے پیچھے تم سے ملنے والے ہیں.اے اللہ ! ہمیں اور انہیں بخش دے اور اپنے عفو کے ذریعہ ہم سے اور ان سے در گزر کر.خوشخبری ہو اس شخص کو جو آخرت کو یاد کرے اور حساب کے لیے عمل کرے اور جو اس کی

Page 301

تاب بدر جلد 4 285 673 ضرورت کو پوری کرنے والی چیز ہو وہ اس پر قناعت کرے اور اللہ عزوجل کو راضی رکھے.حضرت علی نے وہاں یہ دعا کی.حضرت خباب کی وفات 137 ہجری میں 173 برس کی عمر میں ہوئی تھی.674 89 حضرت خباب مولیٰ عتبہ بن غزوان حضرت خباب مولیٰ عتبہ بن غزوان.حضرت خباب حضرت عقبہ بن غزوان کے آزاد کردہ غلام تھے.آپ کی کنیت ابو بھی تھی.بنو نوفل کے حلیف تھے.آنحضرت صلی الیم نے ہجرت مدینہ کے وقت آپ کی مواخات حضرت تمیم مولی خراش بن حقمه سے کروائی تھی.ہوئے.حضرت خباب غزوہ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی یکم کے ساتھ شامل 19 ہجری میں آپ کی وفات مدینہ میں ہوئی.اس وقت آپ کی عمر پچاس سال تھی.ان کا جنازہ حضرت عمرؓ نے پڑھایا.5 675 90 نام و نسب حضرت خُبيب بن اساف 676 ย حضرت حبیب بن اساف.حضرت حبیب عما تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو منقہ سے تھا اور حضرت خبیب کا نام ایک دوسرے قول کے مطابق حبیب بن يساف بھی بیان ہوا ہے.ان کے والد کا نام اساف ہے جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق یسافی بھی بیان ہوا ہے.اسی طرح ان کے دادا کا نام عتبہ کے علاوہ عِنَبَہ بھی بیان کیا جاتا ہے حضرت حبیب کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت مسعود تھا.ان کی اولاد میں سے ایک بیٹا ابو کثیر تھا جس کا نام عبد اللہ تھا جو جمیلہ بنت عبد الله بن أبي بن سلول کے بطن سے پید ا ہوا تھا.دوسرے بیٹے کا نام عبد الرحمن تھا جو ام ؤلد کے بطن سے پیدا ہوا تھا.ایک بیٹی اُنھیہ تھی جو زینب بنت قیس کے بطن سے

Page 302

اصحاب بدر جلد 4 پید اہوئی تھی.286 حضرت ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد حضرت حبیب نے ان کی بیوہ یعنی حضرت ابو بکر کی بیوہ حبيبه بنتِ خارجہ سے شادی کی تھی.677 مسلمان نہ ہونے کے باوجود مہاجرین کی میزبانی حضرت حبیب بے شک ہجرت مدینہ کے وقت مسلمان نہ تھے لیکن پھر بھی انہیں ہجرت مدینہ کے وقت مہاجرین کی میزبانی کا شرف حاصل ہو ا تھا.مسلمان نہیں تھے لیکن انہوں نے بڑی میز بانی کی، مہمان نوازی کی.حضرت طلحہ بن عبد اللہ اور حضرت صہیب بن سنان ان کے گھر ٹھہرے.البتہ ایک دوسرے قول کے مطابق حضرت طلحہ ، حضرت اسعد بن زرارہ کے گھر ٹھہرے تھے.678 اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ایک روایت کے مطابق انہوں نے حضرت خبیب کے ہاں قبا میں سُنح کے مقام پر قیام کیا تھا.یہ سُنح ایک جگہ کا نام ہے جو مدینے کے اطراف بلند دیہات میں ہے.جہاں بنی حارث بن خزرج کے لوگ رہا کرتے تھے اس کو کہتے ہیں.جبکہ دوسری روایت کے مطابق حضرت ابو بکر حضرت خَارِجہ بن زید کے گھر ٹھہرے تھے.679 قبول اسلام ایک روایت کے مطابق حبیب کا مدینے میں پڑاؤ تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علم غزوہ بدر کے لیے روانہ ہو گئے.تب یہ راستے میں نبی کریم صلی الی یکم 680 الله سے جاملے اور اسلام قبول کیا.صحیح مسلم میں حضرت حبیب کے اسلام قبول کرنے کا ذکر یوں ملتا ہے کہ نبی کریم صلی یہ کام کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ سے یہ روایت ہے.وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی لیلی کیم بدر کی طرف نکلے.جب آپ حرِّةُ الوبرة جو مدینے سے تین میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے وہاں پہنچے تو آپ کو ایک شخص ملا جس کی جرات اور بہادری کا ذکر کیا جاتا تھا.رسول اللہ صلی العلم کے صحابہ نے جب اسے دیکھا تو بہت خوش ہوئے.جب وہ آپ سے ملا تو اس نے رسول اللہ صلی تعلیم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ کے ساتھ جانے اور آپ کے ساتھ مالِ غنیمت میں حصہ پانے کے لیے آیا ہوں.رسول اللہ صلی علیم نے اسے فرمایا.تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں.میں ایمان نہیں لاتا.مسلمان نہیں ہوں.آپ صلی علیہ ہم نے اس پر فرمایا کہ واپس چلے جاؤ کیونکہ میں کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا.وہ فرماتی ہیں کہ وہ چلا گیا یہاں تک کہ پھر جب آپ شجرہ پہنچے جو ذوالحلیفہ ، یہ مدینہ سے چھ سات میل کے فاصلے پر مقام ہے اور شجرۃ اس کے پاس ہی ایک مقام ہے.بہر حال وہاں جب پہنچے تو وہ شخص پھر آپ کو ملا اور پھر ویسا ہی کہا جیسا پہلی مرتبہ کہا تھا.نبی کریم صلی ال کلم نے اسے ویسے ہی فرمایا جیسے پہلے فرمایا تھا.

Page 303

بدر جلد 4 287 صلی ایم نے فرمایا کہ کوٹ جاؤ.میں کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا.پھر وہ لوٹا اور آپ کو بیداء جو ہے (ذوالحلیفہ، مدینہ سے چھ یا سات میل کے فاصلے پر ایک اور مقام ہے.شجرۃ اس کے پاس ہی ایک مقام ہے اور بیداء مقام بھی ادھر ہی ہے.یہ دونوں جگہ قریب قریب ہیں بہر حال) پھر وہاں ملا تو صلی علی کریم نے اسے فرمایا جیسے پہلے فرمایا تھا کہ مشرک سے ہم مدد نہیں لیں گے اور پھر آپ نے فرمایا کہ کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو ؟ اس نے کہا جی ہاں.تو رسول اللہ صلی علیم نے اسے فرمایا کہ چلو اب تم میرے ساتھ جا سکتے ہو.181 اس روایت کی شرح میں ذکر کیا گیا ہے کہ جس شخص کے اسلام قبول کرنے کا ذکر اس روایت میں کیا گیا ہے وہ حضرت خبیب تھے.682 قبول اسلام اور سیرت حلبیہ حضرت خبیب بن اساف کے اسلام قبول کرنے اور غزوہ بدر میں شرکت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ نور الدین حلبی اپنی کتاب سيرة حلبیہ میں بیان کرتے ہیں کہ مدینے میں حبیب بن يساف “ نامی ایک 683 طاقت ور اور بہاد ہے.شخص تھا.یہ حضرت خبیب بن اساف کا دوسرا نام ہے جو سیرت کی کتب میں لکھا ہوا ہے.بہر حال یہ شخص قبیلہ خزرج کا تھا.غزوہ بدر تک مسلمان نہیں ہوا تھا مگر یہ بھی اپنی قوم خزرج کے ساتھ جنگ جیتنے کی صورت میں مالِ غنیمت ملنے کی امید میں جنگ کے لیے روانہ ہوا.مسلمان اس کے ساتھ نکلنے پر بہت خوش ہوئے مگر رسول اللہ صلی علیم نے اس سے فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی جنگ میں جائے گا جو ہمارے دین پر ہے.ایک اور روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی علی یم نے فرمایا تم واپس جاؤ ہم مشرک کی مدد نہیں لینا چاہتے.حبیب کو یا حبیب کو آنحضرت صلی علیم نے دو مر تبہ واپس لوٹادیا تھا.تیسری مرتبہ آپ صلی علیکم نے اس سے فرمایا کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے ؟ اس نے کہاہاں اور اسلام قبول کر لیا.پھر اس نے نہایت بہادری کے ساتھ زبر دست جنگ کی.3 مسند احمد بن حنبل میں حضرت حبیب اپنے اسلام قبول کرنے کے واقعہ کی تفصیلات یوں بیان کرتے ہیں کہ میں اور میری قوم کا ایک اور آدمی رسول اللہ صلی یی کم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی علی کرم ایک غزوے کی تیاری فرمارہے تھے اور ہم نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا.ہم نے عرض کیا کہ یقینا ہمیں شرم آتی ہے کہ ہماری قوم تو جنگ کے لیے جارہی ہو اور ہم اس میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوں.آپ صلی العلیم نے فرمایا کہ کیا تم دونوں نے اسلام قبول کر لیا ہے.ہم نے عرض کیا نہیں.اس پر آپ صلی لین کوم نے فرمایا یقیناً ہم مشرکوں کے خلاف مشرکوں کی مدد نہیں چاہیں گے.مشرکوں کے خلاف جنگ ہو رہی ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے ہم مشرکوں سے ہی مدد لیں.وہ کہتے ہیں یعنی حضرت حبیب کہتے ہیں کہ اس پر ہم نے اسلام قبول کر لیا اور آپ صلی علی کرم کے ساتھ اس غزوے میں شامل ہوئے.میں نے اس جنگ میں ایک شخص کو قتل کیا اور اس نے تبھی مجھے چوٹ پہنچائی.پھر اس کے الله

Page 304

اصحاب بدر جلد 4 288 بعد جب میں نے اس مقتول شخص کی بیٹی سے شادی کر لی تو وہ کہا کرتی تھی کہ تم اس آدمی کو بھلانہ سکو گے جس نے تمہیں یہ زخم لگایا ہے.اس پر میں کہتا تھا کہ تم بھی اس آدمی کو بھلا نہ پاؤ گی جس نے تمہارے باپ کو جلد آگ میں پہنچایا.684 قریش مکہ کے سردار امیہ بن خلف کو قتل کرنے والے غزوہ بدر میں حضرت حبیب بن اساف نے قریش مکہ کے سردار امیہ بن خلف کو قتل کیا تھا جس کا اختصار کے ساتھ مقتول کے نام کا تذکرہ کیے بغیر مسند احمد بن حنبل کی روایت میں تذکرہ ہوا ہے شادی والا واقعہ جو ہے.اس واقعہ کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے علامہ نور الدین حلبی اپنی کتاب 'سیرۃ حلبیہ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ میدانِ بدر میں مجھے اُمیہ بن خلف ملا.وہ جاہلیت کے زمانے میں میر ا دوست تھا.امیہ کے ساتھ اس کا بیٹا علی بھی تھا جس نے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا.یہ علی ان مسلمانوں میں سے تھا جو نبی کریم صلی علی ایم کے مکہ سے ہجرت سے قبل اسلام قبول کر چکے تھے.اس وقت ان کے رشتے داروں نے انہیں اسلام سے پھیرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب ہو گئے.اسلام قبول کیا تھا اور پھر اسلام سے پھر گئے اور پھر یہ لوگ کفر کی حالت میں مر گئے.ان ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ تَوَقُهُمُ الْمَلَئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْأَرْضِ (النساء: 98 یقیناً وہ لوگ جن کو فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ اپنے کر نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں وہ ان سے کہتے ہیں کہ تم کس حال میں رہے؟ وہ جو ابا کہتے ہیں کہ ہم تو وطن میں بہت کم زور بنا دیے گئے تھے.بہر حال کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں میں حارث بن ربیعه، ابو قیس بن فاكه، ابو قیس بن ولید ، عاص بن منبہ اور علی بن امیہ تھے.علامہ نورالدین حلبی لکھتے ہیں کہ کتاب سیرت ہشامیہ میں لکھا ہے کہ ان لوگوں نے جب اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی لی کر سکتے میں تھے.پھر جب رسول اللہ صلی المی کریم نے مدینے کی طرف ہجرت کی تو ان لوگوں کو ان کے آباء اور رشتے داروں نے گلے میں ہی روک لیا اور انہیں آزمائش میں ڈالا جس کے نتیجے میں یہ لوگ فتنے میں پڑ گئے اور اسلام سے پھر گئے ، اسلام چھوڑ دیا.پھر وہ غزوہ بدر کے وقت اپنی قوم کے ساتھ نکلے اور یہ سب وہاں قتل ہوئے.اس سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ آنحضرت صلی علیم کی ہجرت سے پہلے اپنے دین سے نہیں پھرے تھے جبکہ پہلی روایت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ آپ صلی تعلیم کے مکے سے ہجرت کرنے سے قبل کفر کی طرف لوٹ چکے تھے.بہر حال حضرت عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس کئی زرہیں تھیں جنہیں میں نے اٹھایا ہوا تھا.اس وقت جنگ کا واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ جب امیہ نے مجھے دیکھا تو مجھے میرے جاہلیت کے نام سے اے عبد عمرو! کہہ کر پکارا.میں نے اس کا جواب نہیں دیا کیونکہ رسول اللہ صلی علیم نے جب میر انام عبد الرحمن رکھا تھا تو فرمایا تھا کہ کیا تم اس نام کو چھوڑ نا پسند کرو گے جو تمہارے باپ دادا نے رکھا تھا؟ میں

Page 305

تاب بدر جلد 4 289 نے عرض کیا جی ہاں ! تو امیہ نے کہا کہ میں تو رحمان کو نہیں جانتا.جب امیہ نے مجھے میرے نام سے پکارا.جب دوبارہ عبد الرحمن کہا تو پھر میں نے جواب دیا.بہر حال بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جب امیہ نے انہیں ان کے پرانے نام سے پکارا تھا تو وہ سمجھ تو گئے تھے کہ اس کے مخاطب وہی ہیں مگر انہوں نے اس پکار پر اس لیے جواب نہیں دیا کہ پکارنے والے نے ان کو ایک بت کا بندہ کہہ کر پکارا تھا اور ساتھ ہی اس بات کا بھی بڑی حد تک امکان ہے کہ وہ سمجھے ہی نہ ہوں کہ کس کو پکارا گیا ہے کیونکہ وہ نام چھوڑے ہوئے کافی عرصہ ان کو ہو گیا تھا.پھر جب امیہ نے انہیں ان کے موجودہ نام سے پکارا تو وہ سمجھ گئے کہ وہی مراد ہیں اور وہ جواب دے کر اس کی طرف متوجہ ہوئے.تب امیہ نے ان سے کہا کہ اگر تم پر میرا کوئی حق ہے تو میں تمہارے لیے ان زرہوں سے بہتر ہوں جو تیرے پاس ہیں.پرانی دوستی تھی، دوستی کا حوالہ دیا.کیونکہ اس وقت ایسی حالت تھی کہ ان کو شکست تو ہو چکی تھی تو بچاؤ کی صورت یہ کہا کہ یہ حق ہے تو میں بہتر ہوں ان زرہوں سے کہ میرے لیے تم انتظام کرو.میں نے انہیں کہا ٹھیک ہے.پھر میں نے زر ہیں نیچے رکھ کر امیہ اور اس کے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑ لیا.امیہ کہنے لگے کہ میں نے زندگی بھر کبھی ایسا دن نہیں دیکھا جو آج بدر کے دن گزرا ہے.پھر اس نے پوچھا کہ تم میں وہ شخص کون ہے جس کے سینے پر زرہ میں شتر مرغ کا پر لگا ہوا ہے.میں نے کہا حمزہ بن عبد المطلب.تو امیہ نے کہا کہ یہ سارا کیا دھرا اسی کا ہے.ان کی وجہ سے ہماری یہ حالت ہوئی ہے.بہر حال اس کے اپنے اندازے تھے.ایک قول یہ ہے کہ یہ بات امیہ کے بیٹے نے کہی تھی.بہر حال حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ان دونوں کو لے کر چل رہا تھا.ہاتھ پکڑ لیا چل پڑا کہ اچانک حضرت بلال نے امیہ کو میرے ساتھ دیکھ لیا.کتے میں امیہ حضرت بلال کو اسلام سے پھیرنے کے لیے بڑا عذاب دیا کرتا تھا.حضرت بلال امیہ کو دیکھتے ہی بولے کہ کافروں کا سر دار اُمیہ بن خلف یہاں ہے.اگر یہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا.حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا تم میرے قیدیوں کے بارے میں ایسا کہہ رہے ہو ؟ حضرت بلال نے بار بار یہی کہا کہ اگر یہ بچ گیا تو میں نہیں بچا اور میں بھی ہر بار ایسا ہی کہتا، بار بار اس کو یہی جواب دیتارہا.پھر حضرت بلال بلند آواز سے چلائے کہ اے اللہ کے انصار ! یہ کافروں کا سردار امیہ بن خلف ہے.بڑی زور سے انہوں نے پکارا کہ اے اللہ کے انصار ! یہ کافروں کا سردار امیہ بن خلف ہے اگر یہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا اور بار بار ایسا کہا.حضرت عبد الرحمن " کہتے ہیں کہ یہ سن کر انصاری دوڑ پڑے اور انہوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا.پھر حضرت بلال نے تلوار سونت کر اُمیہ کے بیٹے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں وہ نیچے گر گیا.امیہ نے اس پر خوف کی وجہ سے ایسی بھیانک چیخ ماری کہ ایسی چیچ میں نے کبھی نہیں سنی.اس کے بعد انصاریوں نے ان دونوں کو تلواروں کے وار سے کاٹ ڈالا.685 صحیح بخاری میں اُمیہ کے قتل کا واقعہ اس طرح مذکور ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُمیہ بن خلف کو خط لکھا کہ وہ سگے میں ، جو اس وقت دار الحرب تھا، میرے مال اور

Page 306

تاب بدر جلد 4 290 بال بچوں کی حفاظت کرے اور میں اس کے مال و اسباب کی مدینہ میں حفاظت کروں گا.جب میں نے اپنا نام عبد الرحمن لکھا تو امیہ نے کہا کہ میں عبد الرحمن کو نہیں جانتا.تم مجھے اپناوہ نام لکھو جو جاہلیت میں تھا.اس پر میں نے اپنا نام عبد عمر و لکھا.جب وہ بدر کی جنگ میں تھا تو میں ایک پہاڑی کی طرف نکل گیا جب کہ لوگ سورہے تھے تاکہ میں اس کی حفاظت کروں یعنی حفاظت کی نیت سے ادھر گئے کہ دشمن کہیں ادھر سے حملہ نہ کرے تو بلال نے اس وقت امیہ کو وہاں کہیں دیکھ لیا.چنانچہ وہ گئے اور انصار کی ایک مجلس میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ اُمیہ بن خلف ہے.اگر بچ نکلا تو میری خیر نہیں ہے.اس پر بلال کے ساتھ کچھ لوگ ہمارے تعاقب میں نکلے.میں ڈرا کہ وہ ہمیں پالیں گے.وہاں اس وقت تک لگتا ہے حضرت عبد الرحمن کی اور امیہ کی بات ہو گئی تھی تو بہر حال کہتے ہیں مجھے شک ہوا میں نے انہیں کہا کہ میں تمہیں قیدی بناتا ہوں.اس لیے میں نے امیہ کے بیٹے کو ، دونوں کو پکڑ تو لیا لیکن جب یہ مسلمان حملہ آور حضرت بلال کے ساتھ آئے تو کہتے ہیں میں نے امیہ کے بیٹے کو اس کی خاطر پیچھے چھوڑ دیا، وہاں رکھ دیا تا کہ وہ حملہ آور اس کے ساتھ نبرد آزمار ہیں.اس سے ہی لڑائی کرتے رہیں.اس کی لڑائی میں مشغول ہو جائیں اس کے ساتھ اور ہم آگے نکل جائیں.چنانچہ انہوں نے اسے مار ڈالا.امیہ کے بیٹے کو ان لوگوں نے مار ڈالا.پھر یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا پیچھا کیا اور میر امیہ داؤ کار گر نہ ہونے دیا کہ میں امیہ کو بچالوں.امیہ چونکہ بھاری بھر کم آدمی تھا اس لیے جلدی اِدھر اُدھر نہ ہو سکا آخر جب انہوں نے ہمیں پالیا تو میں نے امیہ سے کہا کہ بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا.میں نے اپنے آپ کو اس پر ڈال دیا کہ اسے بچاؤں تو انہوں نے میرے نیچے سے اس کے بدن میں تلواریں گھو نہیں یہاں تک کہ اسے مار ڈالا.ان میں سے ایک نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں پر بھی زخم کر دیا.راوی ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ہمیں اپنے پاؤں کی پشت پر وہ نشان دکھایا کرتے تھے جو اس وجہ سے ہو اتھا.1906 امیہ اور اس کے بیٹے کو کس نے قتل کیا؟ اس بارے میں مشہور ہے کہ امیہ کو انصار کے قبیلہ کے خوش اسے قتل 686 بنو مازن کے ایک شخص نے عمل کیا تھا جبکہ ابن ہشام کہتے ہیں کہ امیہ کو حضرت معاذ بن عفراء، خَارِجہ بن زید اور حبیب بن اساف نے مل کر قتل کیا تھا.جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے یہ بھی ان میں شامل تھے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت بلال نے اسے قتل کیا تھا تا ہم اصل حقیقت یہ ہے کہ سب صحابہ امیہ کے قتل میں شریک تھے اور امیہ کے بیٹے علی کو حضرت بلال نے حملہ کر کے نیچے گرا دیا تھا.بعد میں اسے حضرت عمار بن یاسر نے قتل کیا تھا.687 بعض واقعات کی جو تفصیل ہے ان کا براہ راست اس صحابی سے تعلق نہیں ہو تا لیکن اس میں تو ذکر ہے بھی لیکن میں اس لیے ذکر کر دیتا ہوں تاکہ ہمیں تاریخ کا بھی کچھ علم ہو جائے.نبی اکرم صلی السلام کی دعا اور لعاب مبارک کی برکت.حبیب بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا حضرت حبیب کو غزوہ بدر کے روز ایک زخم پہنچا

Page 307

تاب بدر جلد 4 291 تھا جس سے ان کی پسلی ٹوٹ گئی.اس پر رسول اللہ صلی العلیم نے اس جگہ پر اپنا لعاب مبارک لگایا اور اسے اس کی معین جگہ پر کر کے اس کو صحیح اور درست کر دیا جس کے نتیجے میں حضرت حبیب چلنے لگے.ایک دوسری روایت میں یہ ذکر ہے کہ حضرت حبیب نے بیان کیا کہ ایک جنگ کے موقعے پر میرے کندھے پر ایک بہت گہر از خم لگا جو میرے پیٹ تک پہنچ گیا اور اس کے نتیجے میں میرا ہاتھ لٹک گیا.پھر میں رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی تعلیم نے اس جگہ اپنا لعاب مبارک لگایا اور اسے ساتھ جوڑ دیا جس کے نتیجے میں وہ بالکل صحیح ہو گیا اور میر از خم بھی ٹھیک ہو گیا.688 غزوہ بدر کے علاوہ غزوہ احد، غزوہ خندق اور دیگر غزوات میں رسول اللہ صلی الی یکم کے ساتھ یہ شامل ہوئے.وفات 689 وفات کے متعلق ایک قول کے مطابق یہ ہے کہ حضرت حبیب کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی تھی جبکہ دوسرے قول کے مطابق ان کی وفات حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں ہوئی 690 بہر حال اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.691 91 نام و نسب و مواخات حضرت خبیب بن عدی انصاری حضرت حبيب بن عدی انصاری - حضرت حبیب بن عدی انصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو بجلی بن عوف سے تعلق رکھتے تھے.692 حضرت عمیر بن ابو وقاص نے جب ملنے سے مدینے ہجرت کی تو رسول اللہ صلی للی یم نے ان کے اور حضرت حبیب بن عدی کے درمیان مواخات قائم فرمائی.193 حضرت حبیب بن عدی غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور انہوں نے اس جنگ میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا.غزوہ بدر میں مجاہدین کے اسباب کی نگرانی ان کے سپرد تھی.94 واقعہ کر جیع اور گرفتاری 694 حضرت خُبيب بن عدی چار ہجری میں واقعہ کر جیع میں شامل تھے.حضرت حبیب بن عدی اور حضرت زید بن دينه کو مشرکین نے قید کر لیا اور انہیں مکہ ساتھ لے گئے اور ملتے پہنچ کر ان دونوں

Page 308

ناب بدر جلد 4 292 صحابہ کو فروخت کر دیا گیا.حارث بن عامر کے بیٹوں نے حضرت حبیب کو خریدا تا کہ وہ اپنے باپ حارث کے قتل کا بدلہ لے سکیں جسے بدر کے روز جبیب نے قتل کیا تھا.ابن اسحاق کے مطابق مجیر بن ابواهاب تمیمی نے حضرت حبیب کو خریدا تھا جو حارث کی اولاد کا حلیف تھا.اس سے حارث کے بیٹے عقبہ نے حضرت حبیب کو خریدا تھا تا کہ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لے سکے.یہ بھی کہا گیا ہے کہ عقبہ بن حارث نے حضرت خبیب کو بنو نجار سے خریدا تھا.یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابواھاب، عکرمہ بن ابو جہل، اخنس بن شریق، عبیدہ بن حکیم، امیہ بن ابو عتبه حضرمی کے بیٹوں نے اور صفوان بن امیہ نے مل کر حضرت حبیب کو خریدا تھا.یہ سب وہ افراد تھے جن کے آباء غزوہ بدر میں " تھے.ان سب نے حضرت حبیب و خرید کر عقبہ بن حارث کو دے دیا تھا جس نے انہیں اپنے گھر میں قید کر لیا تھا.695 بخاری میں واقعہ کر جمیع کی بابت کچھ تفصیلات یوں بیان ہوئی ہیں کہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے دس آدمیوں کا ایک دستہ حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا اور عاصم بن ثابت انصاری کو جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا تھے اس کا امیر مقرر کیا.یہ لوگ چلے گئے.جب هداه مقام پر پہنچے جو عُسفان اور ملنے کے درمیان ہے تو ان کے متعلق کسی نے بنو لحیان کو خبر کر دی جو ھذیل قبیلے کا ایک حصہ ہے.یہ خبر سن کر بنوتھیان کے تقریباً دو سو آدمی جو سب کے سب تیر انداز تھے نکل کھڑے ہوئے اور ان کے قدموں کے نشانوں پر ان کے پیچھے پیچھے گئے.یہاں تک کہ انہوں نے وہ جگہ دیکھ لی، وہاں تک پہنچ گئے جہاں انہوں نے کھجوریں کھائی تھیں.جہاں یہ دس آدمی رکے تھے اور کھجوریں کھائی تھیں جو مدینے سے بطور زادِ راہ کے لے کے آئے تھے ، سفر کے کھانے پینے کا سامان لے کے آئے تھے، تو وہاں بیٹھ کر انہوں نے کھجوریں کھائی تھیں.وہاں کھجوروں کی گٹھلیاں نچھینکیں تو انہیں دیکھ کر انہوں نے کہا کہ یہ یثرب کی کھجوریں ہیں، مدینے کی کھجور میں ہیں اور پھر وہ قدموں کے نشان پر ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے.جب عاصم اور ان کے ساتھیوں نے ان کو آتے دیکھا تو انہوں نے ایک ٹیلے پر پناہ لے لی.ان لوگوں نے ان کو گھیر لیا اور ان سے کہنے لگے کہ نیچے اتر آؤ اور تم اپنے آپ کو ہمارے سپر د کر دو اور ہماری طرف سے تمہارے لیے یہ عہد ہے کہ ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے.عاصم بن ثابت جو اس دستے کے امیر تھے بولے کہ یقینا اگر میں اپنے آپ کو سپر د کروں گا تو آج کا فر کی امان پر ٹیلے سے اترنا ہو گا اور میں کافر کی امان پر ٹیلے سے نہیں اتروں گا.پھر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! اپنے نبی کو ہمارے متعلق خبر کر دے.ان لوگوں نے اس پر تیر چلائے اور عاصم کو سات آدمیوں سمیت مار ڈالا.یہ دیکھ کر تین آدمی عہد و پیمان پر اعتماد کرتے ہوئے، ان کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے پاس نیچے آگئے.ان میں حبیب انصاری اور ابن دفتہ اور ایک اور شخص تھے.جب یہ نیچے آگئے تو کافروں نے ان کو قابو کر لیا.انہوں نے اپنی کمانوں کی تندیاں کھولیں اور ان کی مشکیں کسیں، اس سے ان کو باندھ دیا.تیسرا شخص کہنے

Page 309

تاب بدر جلد 4 293 لگا کہ یہ پہلا دغا ہے.بخدا میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا.میرے لیے ان لوگوں میں راحت بخش نمونہ ہے جو شہید ہوئے.میں تو یہیں ہوں.شہید کرنا ہے تو کرو.انہوں نے اسے کھینچا اور کشمکش کی کہ وہ کسی طرح ان کے ساتھ جائیں مگر وہ نہ مانے.آخر انہوں نے ان کو مار ڈالا اور حبیب اور ابن دینہ کو پکڑ کر لے گئے اور جا کر سکتے میں ان کو بیچ دیا.یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے اور خُبیب کو بنو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف نے خرید لیا اور حبیب ہی تھے جنہوں نے حارث بن عامر کو بدر کے دن قتل کیا تھا.حبیب ان کے پاس قید رہے.واقعہ شہادت ابن شہاب کہتے تھے کہ عبید اللہ بن عیاض نے مجھے بتایا کہ حارث کی بیٹی نے ان سے ذکر کیا کہ جب انہوں نے اتفاق کر لیا کہ انہیں مار ڈالیں گے.جنہوں نے ان کو خرید کر قیدی بنایا تھا وہ اس بات پر متفق ہو گئے کہ اب ان کو قتل کر دینا ہے، شہید کر دینا ہے تو محبیب نے اسی قید کے دوران میں ایک دن ان سے استر اما نگا کہ اسے استعمال کریں.یہ بڑا مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے.چنانچہ اس نے استرا دے دیا.حارث کی بیٹی کہتی ہے کہ اس وقت میری بے خبری کی حالت میں میرا ایک بچہ حبیب کے پاس آیا اور انہوں نے اس کو لے لیا.اس نے کہا کہ میں نے حبیب کو دیکھا کہ وہ بچے کو اپنی ران پر بٹھائے ہوئے ہے اور استرا ان کے ہاتھ میں ہے.میں یہ دیکھ کر اتنا گھبر ائی کہ حبیب نے گھبراہٹ کو میرے چہرے سے پہچان لیا اور بولے تم ڈرتی ہو کہ میں اسے مار ڈالوں گا.میں تو ایسا نہیں ہوں کہ یہ کروں.حارث کی بیٹی کہا کرتی تھی کہ بخدا میں نے کبھی ایسا قیدی نہیں دیکھا جو جیب سے بہتر ہو.پھر کہنے لگی کہ اللہ کی قسم ! میں نے ایک دن ان کو دیکھا کہ خوشہ انگور ان کے ہاتھ میں تھے، انگوروں کا ایک گچھا ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ اس سے انگور کھا رہے تھے اور وہ زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے اور ان دنوں سکتے میں کوئی پھل بھی نہ تھا.کہتی تھیں کہ یہ اللہ کی طرف سے رزق تھا جو اس نے حبیب کو دیا.جب ان لوگوں کو حرم سے باہر لے گئے کہ ایسی جگہ قتل کریں جو حرم نہیں ہے تو ٹھیٹ نے ان سے کہا مجھے اجازت دو کہ میں دور کعتیں نماز پڑھ لوں اور انہوں نے ان کو اجازت دے دی تو انہوں نے دور کعتیں پڑھیں اور کہنے لگے مجھے یہ گمان نہ ہو تا کہ تم یہ خیال کرو گے کہ میں اس وقت جس حالت میں نماز میں ہوں گھبراہٹ کا نتیجہ ہے، مجھے کوئی مرنے کی گھبراہٹ ہے تو میں ضرور یہ نماز بھی پڑھتا.پھر انہوں نے اپنے خدا سے دعا کرتے ہوئے یہ کہا کہ اے اللہ ! ان کو ایک ایک کر کے ہلاک کر.جب ان کو شہید کرنے لگے اس وقت انہوں نے یہ بھی دعا کی کہ اے اللہ ! ان کو ایک ایک کر کے ہلاک کر.پھر حضرت حبیب نے یہ شعر بھی پڑھے کہ وَلَسْتُ أَبَالِي حِيْنَ أَقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى آتِي شِقٍ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَ عَى وَذَالِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأُ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلُو مُمَزَّعِ

Page 310

ب بدر جلد 4 294 کہ جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں مارا جارہا ہوں مجھے پروا نہیں کہ کس کروٹ اللہ کی خاطر گروں گا اور میرا یہ گرنا اللہ کی ذات کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو ٹکڑے کیے ہوئے جسم کے جوڑوں کو برکت دے سکتا ہے.شہادت کے وقت دعا اور نفل پڑھنا 696 علامہ حجر عسقلانی جو بخاری کے شارح ہیں وہ غزوہ کر جمیع کے تحت ایک حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ حضرت حبیب نے شہادت کے وقت یہ دعا مانگی کہ اللهُم أَحْصِهِمْ عَدَدًا.کہ اے اللہ ! ان دشمنوں کی گنتی کو شمار کر رکھ.یہ جو میرے دشمن ہیں ان کو گنتی کرلے تا کہ ان سے بدلہ لے سکے اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْهُمْ أَحَدًا اور انہیں چن چن کر قتل کر اور ان میں سے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ.6 بہر حال انہوں نے نفل پڑھے اور آخر حارث کے بیٹے عقبہ نے حضرت حبیب بن عدی کو وہاں جا کے پھر ٹھیٹ کو قتل کر دیا، شہید کر دیا اور ایک اور روایت بخاری میں ہے اس کے مطابق حضرت خُبیب کو ابو سَروَعَہ نے قتل کیا تھا اور یہ حبیب ہی تھے جنہوں نے ہر ایسے مسلمان کے لیے دور کعت پڑھنے کی سنت قائم کی جو اس طرح باندھ کر مارا جائے.عاصم بن ثابت کی لاش کی خدائی حفاظت اللہ نے عاصم بن ثابت کی دعا جس دن وہ شہید ہوئے وہ قبول فرمائی اور نبی صلی علیم نے اپنے صحابہ کو بتایا جو پہلے ذکر ہو چکا ہے عاصم بن ثابت نے دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی الی تم کو خبر کر دے جو اس قافلے کے لیڈر تھے جن میں حضرت حبیب بھی شامل تھے.نبی کریم صلی الی یکم نے اپنے صحابہ کو بتایا کہ جو ان لوگوں کے ساتھ واقعہ ہوا ہے اور جو انہیں تکلیف پہنچی تھی اور جب کفار قریش کو بعض لوگوں نے بتایا کہ عاصم قتل کیے گئے ہیں تو انہوں نے عاصم کی طرف کچھ آدمیوں کو بھیجا کہ ان کی لاش میں سے ایسا حصہ لائیں کہ جس سے وہ پہچانے جائیں.عاصم نے بدر کے دن ان کے بڑے بڑے لوگوں میں سے ایک شخص کو قتل کیا تھا تو عاصم کی لاش پر بھڑوں کا ایک جھنڈ بھیجا گیا.اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا جو سائبان کی طرح اس کے اوپر چھایا رہا اور ان کی لاش کو کفار کے بھیجے ہوئے آدمی کچھ نقصان نہ پہنچا سکے اور ان سے بچا لیا، وہ کوئی ٹکڑہ نہ کاٹ سکے.697 ایسا حضرت خبیب کی دعا اور مخالفین کا انجام حضرت حبیب کو جب شہید کیا جانے لگا تھا تو اس وقت انہوں نے یہ بھی دعا مانگی کہ اے اللہ ! میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ تیرے رسول صلی علی یکم تیک سلام پہنچا سکوں پس تو خود میری طرف سے آپ صلی نیلم کو سلام پہنچا دے.جب حضرت حبیب قتل کیے جانے کے لیے تختہ پر چڑھے تو پھر دعا

Page 311

ناب بدر جلد 4 295 کی.کہتے ہیں کہ ایک مشرک نے جب یہ دعا سنی کہ اللهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَاقْتُلُهُمْ بَدَدًا کہ یعنی اے اللہ ! ان کی گفتی کو شمار کر رکھ اور ان کو چن چن کر قتل کر تو وہ خوف سے زمین پر لیٹ گیا.کہتے ہیں کہ ابھی ایک سال نہیں گزرا تھا کہ سوائے اس شخص کے جو زمین پر لیٹ گیا تھا حضرت حبیب کے قتل میں شریک تمام لوگ زندہ نہ رہے، سب ختم ہو گئے.حضرت معاویہ بن ابو سفیان بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ اس موقعے پر موجود تھا.جب میرے والد نے حضرت حبیب کی دعا سنی تو وہ مجھے زمین پر گرانے لگے.اور بھی کچھ لوگ ہوں گے بہر حال پہلی روایت ہے، ایک دوسری روایت یہ بھی ہے.عروہ بیان کرتے ہیں مشرکین میں سے جو اس موقعے پر موجود تھے ان میں ابواهَاب، انحنس بن شريق، عُبيدة بن حکیم اور امیہ بن عتبہ شامل تھے.خبیب کی طرف سے حضرت جبرئیل کا سلام پہنچانا وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل نبی کریم صلی علیکم کے پاس آئے اور آپ صلی للی کم کو اس واقعے کی خبر دی جس پر آپ صلی للی کم نے اپنے صحابہ کو بتایا.صحابہ کہتے ہیں کہ اس دن آنحضرت صلی غیر تک بیٹھے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا، مجلس لگی ہوئی تھی بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا وَ عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا خُبَيْبُ کہ اے حُبَيْب تجھ پر خدا کی سلامتی ہو اور قریش نے انہیں قتل کر دیا ہے.698 آپ نے یہ بھی فرمایا.تو اللہ تعالیٰ نے سلام پہنچانے کا انتظام کر دیا.یہ شرح صحیح بخاری کی ہے اس میں یہ لکھا ہے.حضرت حبيب موجب شہید کر دیا گیا تو مشرکین نے ان کا چہرہ قبلے کے علاوہ دوسری طرف کر دیا لیکن ان مشرکین نے حضرت حبیب کا چہرہ تھوڑی دیر بعد دوبارہ دیکھا تو وہ قبلہ رخ تھا.وہ لوگ بار بار حضرت حبیب کے منہ کو دوسری طرف پھیرتے تھے لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکے چنانچہ مشرکین نے انہیں اسی حال پر چھوڑ دیا.699 ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ قریش نے حبیب کو ایک درخت کی شاخ سے لٹکا دیا اور پھر نیزوں کی چو کیں دے دے کر قتل کیا.اس مجھے میں ایک شخص سعید بن عامر بھی شریک تھا.یہ شخص بعد میں مسلمان ہو گیا اور حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت تک اس کا یہ حال تھا کہ جب بھی اسے حبیب کا واقعہ یاد آتا تھا تو اس پر غشی طاری ہو جاتی تھی ظلم کرنے والوں میں یہ شامل تھا بعد میں مسلمان ہو 700 حضرت خبیب بن عدی نے شہادت کے وقت آنحضرت صلی للی کم کی خدمت میں اللہ تعالیٰ کو یہ کہا کہ میر اسلام پہنچا دے تو بہر حال یہ وہ لوگ تھے جو بڑے اعلیٰ مقام کے تھے اور اللہ تعالیٰ کا بڑا قرب حاصل کرنے والے تھے اور اللہ تعالیٰ کا بھی ان سے سلوک کا پتا لگتا ہے کہ جب انہوں نے کہا کہ اللہ

Page 312

تاب بدر جلد 4 296 تعالیٰ اور تو یہاں کوئی ذریعہ نہیں ہے تو ہی میر اسلام آنحضرت صلی علیہم کو پہنچا دے تو پھر وہ سلام اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی علیم کو پہنچا بھی دیا اور وہاں مجلس میں بیٹھے ہوئے آنحضرت صلی میں ہم نے و علیکم السلام بھی کہا اور اس کا صحابہ سے ذکر بھی کیا کہ ان کی شہادت ہو گئی ہے.701 ابوسفیان کو قتل کرنے کا منصوبہ رسول اللہ صلی لی ہم نے، حضرت خبیب بن عدی اور ان کے ساتھیوں کی جو شہادت ہوئی تھی ایس کے بعد حضرت عمر و بن امیہ کو یہ حکم دیا کہ سگے جاؤ اور اس ظلم کا جو کرتا دھرتا ہے ابوسفیان اس کو قتل کر دینا، اس کی یہ سزا ہے.آپ صلی علی کرم نے حضرت جبار بن صخر انصاری کو بھی ساتھ روانہ فرمایا.یہ دونوں اپنے اونٹ یا کج وادی جو ملے سے آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی یہ گھائی تھی اس میں باندھ کر رات کے وقت کے میں داخل ہوئے.حضرت جبار نے حضرت عمرو سے کہا کہ کاش ہم طواف کعبہ کر سکیں اور دور کعت نماز ادا کر سکیں یعنی کعبہ میں دور کعت نماز ادا کر سکیں.حضرت عمر و نے کہا کہ قریش کا یہ طریق ہے کہ رات کو کھانا کھانے کے بعد اپنے صحنوں میں بیٹھ جاتے ہیں.کہیں ہم پکڑے نہ جائیں.حضرت جبار نے کہا ان شاء اللہ ایسا ہر گز نہیں ہو گا.حضرت عمرو بیان کرتے ہیں کہ پھر ہم نے طواف کعبہ کیا اور دور کعت نماز پڑھی.پھر ہم ابو سفیان کی تلاش میں نکل پڑے کہ اللہ کی قسم ! ہم پیدل چل رہے تھے کہ اہل مکہ میں سے ایک آدمی نے ہمیں دیکھا اور مجھے پہچان لیا اور کہنے لگا کہ عمرو بن امیہ یہ تو وہی ہے ضرور کسی شر کی نیت سے آیا ہو گا.اس پر میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ بچو، یہاں سے نکلو.پھر ہم تیزی سے وہاں سے نکلے یہاں تک کہ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے.وہ لوگ بھی ہماری کھوج میں نکلے.جب ہم پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تو وہ مایوس ہو کر چلے گئے.پھر ہم نیچے اتر کر پہاڑ کی ایک غار میں گھس گئے اور پتھر اکٹھے کر کے اوپر نیچے رکھ دیے اور وہیں ہم نے رات گزاری.صبح ہوئی تو ایک قریشی ادھر آنکلا جو اپنے گھوڑے کو لے کر جارہا تھا.ہم پھر غار میں چھپ گئے.میں نے کہا اگر اس نے ہمیں دیکھ لیا ہوا تو یہ شور مچائے گا لہذا اس کو پکڑ کر مار دینا ہی بہتر ہے.حضرت عمر و بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک خنجر تھا جسے میں نے ابوسفیان کے لیے تیار کیا تھا.میں نے اس خنجر سے اس شخص کے سینے پر وار کیا جس سے وہ اس زور سے چیخا کہ مکے والوں نے اس کی آواز سن لی.کہتے ہیں میں دوبارہ اپنی جگہ پر آکر چھپ گیا.جب لوگ اس کے پاس تیزی سے پہنچے تو اپنی آخری سانس لے رہا تھا.انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم پر کس نے حملہ کیا؟ اس نے کہا کہ عمرو بن امیہ نے.پھر موت نے اس پر غلبہ پالیا اور اسی جگہ وہ مر گیا اور انہیں ہماری جگہ کا پتا نہیں بتا سکا.اس زمانے میں یہی حالت تھی کہ اگر دشمنوں کو پتا لگ جاتا تھا تو پھر ایک دوسرے کی شدید مخالفت کی وجہ سے یہی ہو تا تھا کہ قتل کر دو اور ان کو یہی شک تھا کہ اس نے کیونکہ ہمیں دیکھ لیا ہے اب یہ جا کے بتا بھی دے گا اور پھر کفار جو ہیں وہ ہمارے پیچھے آئیں گے اور پھر ہمیں بھی قتل کریں گے تو اس سے پہلے دفاع کے طور پر انہوں نے یہ کیا.بہر حال وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارا پتا بتا نہیں سکا.وہ اسے اٹھا کر لے گئے اور

Page 313

اصحاب بدر جلد 4 297 شام کے وقت میں نے اپنے ساتھی سے کہا اب ہم محفوظ ہیں.پس ہم رات کو مکے سے مدینے کی طرف نکلے تو ایک پارٹی کے پاس سے گزرے جو حضرت خبیب بن عدی کی نعش کی حفاظت کر رہی تھی.ان میں سے ایک شخص نے حضرت عمرو کو دیکھ کر کہا کہ خدا کی قسم ! جتنی اس شخص کی چال عمرو بن امیہ سے ملتی ہے اس سے زیادہ میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی.اگر وہ مدینے میں نہ ہوتا تو میں کہتا کہ یہی عمرو بن امیہ ہے.یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا.کہتے ہیں کہ حضرت جبار جب اس لکڑی تک جس پر حضرت خبیب کو لٹکایا گیا تھا وہاں تک پہنچے تو جلدی سے اسے اٹھا کر چل پڑے.وہ لوگ بھی آپ کے پیچھے بھاگے.ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ وہ لوگ شراب کے نشے میں تھے ، بد مست تھے ، کچھ جاگ رہے تھے، کچھ سو رہے تھے، کچھ اونگھ رہے تھے تو بہر حال ان کو پتا نہیں لگا اور یہ جلدی سے لے کے بھاگے اور پھر ان کو بھی پتالگا تو آپ لوگوں کے پیچھے بھاگے یہاں تک کہ جب حضرت جبار یا حج پہاڑ کے سیلابی نالے کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس لکڑی کو اس کے اندر پھینک دیا.وہ لوگ بھی پیچھے پہنچے لیکن اللہ تعالٰی نے اس لکڑی کو ان کافروں کی آنکھوں سے اوجھل کر دیا اور وہ اسے نہ ڈھونڈ سکے.حضرت عمر و بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھی یعنی حضرت جبار سے کہا کہ تم یہاں سے نکلو اور اپنے اونٹ پر بیٹھ کر روانہ ہو جاؤ.میں ان لوگوں کو تمہارے پیچھے آنے سے روکے رکھوں گا.حضرت عمر و بیان کرتے ہیں کہ پھر میں چلا یہاں تک کہ مجنان پہاڑ تک پہنچ گیا جو ملے سے بچیں میل کے فاصلے پر واقع ہے.میں نے ایک غار میں پناہ لی.وہاں سے نکلا یہاں تک کہ مقام عزج پر پہنچا جو مدینے سے 78 میل کے فاصلے پر واقع ہے.پھر چلتا گیا، کہتے ہیں کہ جب میں مقام نقیح پر اتر اجو مدینے سے تقریباً ساٹھ میل کے فاصلے پر ہے تو مشرکین نے قریش کے دو آدمی دیکھے جنہیں قریش نے مدینہ میں جاسوسی کے لیے بھیجا تھا.میں نے انہیں کہا کہ ہتھیار ڈال دو.پتا تو لگ گیا ہے کہ تم جاسوسی کرنے آئے ہو لیکن وہ نہ مانے.اس پر وہاں لڑائی شروع ہو گئی ، کہتے ہیں ایک کو تو میں نے تیر مارا اور اس کو ہلاک کر دیا اور دوسرے کو قیدی بنالیا اور پھر اسے باندھ کر مدینہ لے آیا.702 حضرت خبیب کی نعش اور لکڑی کا غائب ہو جانا ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عمرو بن امیہ ضمری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال ولم نے انہیں تنہا جاسوس کے طور پر بھیجا تا کہ حضرت خبیب کو لکڑی سے اتاروں.وہ کہتے ہیں کہ رات کے وقت میں حضرت خبیب کی لکڑی کے پاس پہنچ کر اس کے اوپر چڑھ گیا تو اس وقت خوف تھا کہ کوئی مجھے دیکھ نہ لے.جب میں نے اس لکڑی کو چھوڑ دیا تو زمین پر گر پڑی.پھر میں نے دیکھا کہ وہ لکڑی ایسی غائب ہو گئی گویا اسے زمین نے نگل لیا.پھر اس وقت سے لے کر آج تک خبیب کی ہڈیوں کا کوئی ذکر نہیں ہے.103

Page 314

تاب بدر جلد 4 298 704 ایک اور روایت کے مطابق حضرت عمرو بن امیہ ضمری بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حضرت خبیب کو رسیوں وغیرہ سے آزاد کر کے نیچے لٹایا تو میں نے اپنے پیچھے کوئی آہٹ کی آواز سنی.پھر جب دوبارہ میں سیدھا ہوا تو کچھ بھی نظر نہ آیا اور حضرت خبیب کی نعش غائب ہو چکی تھی.تو پہلی روایت جو زیادہ صحیح لگتی ہے کہ پیچھے جب دوڑے تو انہوں نے دریا میں پھینک دیا اور دریا نے اس کو بہالی یا آگے پیچھے کر دیا، ندی تھی پانی کا بہاؤ تھا.تو مختلف روایات آتی ہیں.بہر حال اسی نام سے مشہور ہو گئے تھے کہ ان کی نعش زمین میں غائب ہو گئی.705 تو وہ کفار جو کچھ کرنا چاہتے تھے کوئی معلوم نہ کر سکے اس نعش کی بے حرمتی وہ نہیں کر سکے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو محفوظ رکھا.حضرت خبیب کی قید کا واقعہ ایک اور روایت کے مطابق ایک روایت حضرت خبیب بن عدی کے قید کے واقعے کے بارے میں اس طرح بھی ہے کہ ماويه، مُجير بن ابواهَاب کی آزاد کردہ لونڈی تھی مکہ میں ان ہی کے گھر میں حضرت خبیب بن عدی قید تھے تا کہ حرمت والے مہینے ختم ہوں تو انہیں قتل کیا جاسکے.ماویہ نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ اچھی مسلمان ثابت ہوئیں.ماویہ بعد میں یہ قصہ بیان کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے حضرت بہتر کسی کو نہیں دیکھا.میں انہیں دروازے کے درز سے دیکھا کرتی تھی اور وہ زنجیر میں بندھے ہوتے تھے اور میرے علم میں روئے زمین پر کھانے کے لیے انگوروں کا ایک دانہ بھی نہ تھا، اس علاقے میں کوئی انگور نہیں تھا لیکن حضرت خبیب کے ہاتھ میں آدمی کے سر کے برابر انگوروں کا گچھا ہوتا تھا یعنی کافی بڑا گچھا ہو تا تھا جس میں سے وہ کھاتے.وہ اللہ کے رزق کے سوا اور کچھ نہ تھا.حضرت خبیب تہجد میں قرآن پڑھتے اور عورتیں وہ سن کر رو دیتیں اور انہیں حضرت خبیب پر رحم آتا.وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن میں نے حضرت خبیب سے پوچھا اے خبیب! کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے تو انہوں نے جواب دیا نہیں.ہاں ایک بات ہے کہ مجھے ٹھنڈا پانی پلا دو اور مجھے بتوں کے نام پر ذبح کیے جانے والے سے گوشت نہ دینا.جو کھانا تم لوگ دیتے ہو کبھی وہ کھانا نہ دینا جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور تیسری بات یہ کہ جب لوگ میرے قتل کا ارادہ کریں تو مجھے بتا دینا.پھر جب حرمت والے مہینے گزر گئے اور لوگوں نے حضرت خبیب کے قتل پر اتفاق کر لیا تو کہتی ہیں کہ میں نے ان کے پاس جا کر انہیں یہ خبر دی.کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم ! انہوں نے اپنے قتل کیے جانے کی کوئی پروا نہیں کی.انہوں نے مجھ سے کہا میرے پاس استرا بھیج دو تا کہ میں اپنے آپ کو درست کر لوں.وہ بتاتی ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے ا ابو حسین کے ہاتھ استر ابھیجا.یہ بیٹا جو ہے کہتی ہیں وہ حقیقی بیٹ نہ تھا بلکہ ماویہ نے اس کی صرف پرورش کی تھی، یہی لکھا گیا ہے.جب بچہ چلا گیا تو پھر کہتی ہیں میرے دل میں خیال پید ا ہوا کہ اللہ کی قسم ! خبیب

Page 315

ناب بدر جلد 4 299 نے اپنا انتقام پالیا.اب میرا بیٹا اس کے پاس ہے ، استرا اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ تو انتقام لے لے گا.یہ میں نے کیا کر دیا ! میں نے اس بچے کے ہاتھ استرا بھیج دیا ہے.خبیب اس بچے کو استرے سے قتل کر دے گا اور پھر کہے گا کہ مرد کے بدلے مرد.روایت تو یہ آتی ہے کہ بچہ کھیلتا ہوا ان کے پاس چلا گیا ان کے ہاتھ میں استر اتھا لیکن ایک روایت یہ اس طرح ہے جو تفصیل سے ہے کہ بچہ ہوش و حواس میں تھا اور اس قابل تھا کہ اس کے ہاتھ کوئی چیز بھجوائی جاسکے اور وہ انہوں نے بھجوایا.تو وہ کہتی ہیں کہ جائے گا تو کہہ دے گا کہ ٹھیک ہے تم میرا قتل کر رہے ہو تو میں بھی یہ قتل کر دیتا ہوں.پھر جب میرا بیٹا ان کے پاس استر الے کر پہنچا تو انہوں نے وہ لیتے ہوئے مزاحاً اس بچے کو کہا کہ تو بڑا بہادر ہے.کیا تمہاری ماں کو میری غداری کا خوف نہیں آیا اور تمہارے ہاتھ میرے پاس استرا بھجوا دیا جبکہ تم لوگ میرے قتل کا اردہ بھی کر چکے ہو.حضرت ماویہ بیان کرتی ہیں کہ خبیب کی یہ باتیں میں سن رہی تھی.میں نے کہا اے خبیب! میں اللہ کی امان کی وجہ سے تم سے بے خوف رہی اور میں نے تمہارے معبود پر بھروسا کر کے اس بچے کے ہاتھ تمہارے پاس استرا بھجوایا.میں نے وہ اس لیے نہیں بھجوایا کہ تم اس سے میرے بیٹے کو قتل کر ڈالو.حضرت خبیب نے کہا کہ میں ایسا نہیں ہوں کہ اس کو قتل کروں.ہم اپنے دین میں غداری جائز نہیں سمجھتے.وہ بتاتی ہیں کہ پھر میں نے خبیب کو خبر دی کہ لوگ کل صبح تمہیں یہاں سے نکال کر قتل کرنے والے ہیں.پھر یہ ہوا کہ اگلے دن لوگ انہیں زنجیر میں جکڑے ہوئے تنظیم ، مکے سے مدینے کی طرف تین میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے وہاں لے گئے اور خبیب کے قتل کا تماشا دیکھنے کے لیے بچے، عور تیں، غلام اور کتے کے بہت سارے لوگ وہاں پہنچے اور اس روایت کے مطابق کوئی بھی مکے میں نہ رہا.جو انتقام چاہتے تھے ، جو اپنے بڑوں کے قتل کا بدلہ لینا چاہتے تھے جو جنگ میں مارے گئے تھے وہ تو اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے اور جنہوں نے انتقام نہیں لینا تھا اور جو اسلام اور مسلمانوں کے مخالف تھے وہ مخالفت کا اظہار کرنے اور خوش ہونے کے لیے وہاں گئے تھے کہ دیکھیں کس طرح اس کو قتل کیا جاتا ہے.پھر جب حضرت خبیب کو مع زید بن دشتہ کے تنعیم لے کر پہنچ گئے تو مشرکین کے حکم سے ایک لمبی لکڑی کھو دی گئی.پھر جب وہ لوگ خبیب کو اس لکڑی کے پاس لے کر پہنچے ، وہاں کھڑی کی گئی تو خبیب بولے کیا مجھے دور کعت پڑھنے کی مہلت مل سکتی ہے ؟ لوگ بولے کہ ہاں.حضرت خبیب نے دو نفل اختصار کے ساتھ ادا کیے اور انہیں لمبانہ کیا.یہ ان خاتون کی روایت ہے.706 ابن سعد کے حوالے سے جو روایت ابھی بیان ہوئی ہے اس کے مطابق ماویہ جو تھیں حجیر بن ابواہاب کی آزاد کردہ لونڈی تھیں جن کے گھر میں حضرت خبیب قید کیے گئے تھے.علامہ ابن عبد البر کے مطابق حضرت خبیب عقبہ کے گھر میں قید تھے اور عقبہ کی بیوی انہیں خوراک مہیا کرتی تھیں اور کھانے کے وقت وہ حضرت خبیب کو کھول دیا کرتی تھی.707

Page 316

بدر جلد 4 پہلے صحابی جن کو لکڑی پر باندھ کر شہید کیا گیا 70911 300 علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں کہ حضرت خبیب " پہلے صحابی تھے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر صلیب دیے گئے.708 یعنی پہلے لکڑی کھڑی کی گئی ، زمین پر گاڑی گئی اس پر ان کو باندھ کے پھر شہید کیا گیا.اس قتل کے واقعے کے بارے میں حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ " اس تماشے کو دیکھنے والوں میں ابوسفیان رئیس مکہ بھی تھا.وہ زید کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمد تمہاری جگہ پر ہو اور تم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہو ؟ " صلی علی زید نے بڑے غصے سے جواب دیا کہ ابوسفیان ! تم کیا کہتے ہو ؟ خدا کی قسم ! میرے لیے مرنا اس سے بہتر ہے کہ آنحضرت صلی علیکم کے پاؤں کو مدینے کی گلیوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے.اس فدائیت سے ابو سفیان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا." یہ جو جواب تھا ایسا تھا کہ ابوسفیان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اس نے حیرت سے زید کی طرف دیکھا اور فوراً ہی پھر دبی زبان میں کہنے لگا کہ خدا گواہ ہے کہ جس طرح محمد کے ساتھ محمد کے ساتھی محبت کرتے ہیں میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی اور شخص کسی سے محبت کرتا ہو.یہ تھا صحابہ کا آنحضرت علی ایام سے عشق و وفا کا تعلق اور جان قربان کر دینے کا معیار بھی.پھر اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی ان سے کیا تھا وہ بھی ظاہر ہو گیا.ان کا اپنا معیار کیا تھا.جب یہ انہوں نے کہا کہ جب میں خدا تعالیٰ کی راہ میں مارا جارہا ہوں تو جس پہلو میں بھی گروں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دائیں گرتا ہوں، بائیں گرتا ہوں، آگے گرتا ہوں، پیچھے گرتا ہوں.میں تو خدا تعالیٰ کی خاطر جان دے رہا ہوں.710 ایک آرزو تھی جس کا انہوں نے قتل کیے جانے سے پہلے اظہار کیا اور وہ بھی یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کر لوں، دو نفل پڑھ لوں.آنحضرت صلی علی کم کو سلام پہنچانے کی آرزو تھی، خواہش تھی تو وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی وہ بھی پہنچا دیا.آنحضرت صلی علیم سے عشق کا یہ حال تھا کہ یہ بھی گوارہ نہیں ہوا کہ آپ کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھ جائے اور اس کے بدلے میں میری زندگی بچے.آنحضرت علی ایم کی کسی ہلکی سی تکلیف کی بھی اہمیت تھی اور اپنی جان کی کوئی پروا نہیں تھی.تب ہی تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے تھے.711

Page 317

301 92 صحاب بدر جلد 4 حضرت خراش بن حلمه انصاری حضرت خِراش بن حمہ انصاری.حضرت خراش کا تعلق خزرج کی شاخ بنو مجسم سے تھا.آپ کی والدہ کا نام ایم حبیب تھا.حضرت خراش کی اولاد میں حضرت سلمہ اور عبد الرحمن اور عائشہ شامل ہیں.حضرت خراش نے غزوہ بدر اور احد میں شرکت کی.احد کے دن آپ کو دس زخم آئے.آپ رسول اللہ صلی علیکم کے ماہر تیر اندازوں میں سے تھے.712 غزوہ بدر میں حضرت خراش نے ابو العاص کو نبی کریم صلی الی نیلم کے داماد تھے اسیر بنایا تھا، قید کیا تھا.713 93 نام و نسب و کنیت حضرت خُريم بن فَاتِكَ ย جنگ بدر میں شریک ہونے والے دو بھائی رض 714 حضرت خُريم بن فاتك حضرت خُريم بن فاتك ما تعلق بنو اسد سے تھا.ان کے والد کا نام فَاتِك بن أَخْرَم يا آخرم بن شداد بھی بیان کیا گیا ہے.ان کی کنیت ابو یحی جبکہ ایک روایت کے مطابق ابو ایمن بیان ہوئی ہے کیونکہ ان کے بیٹے کا نام حضرت ایمن بن خُرَيْم تھا.حضرت خُرَيْم بن فَاتِكَ اپنے بھائی حضرت سبرة بن فاتك کے ہمراہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے.ایک قول کے مطابق حضرت خُریہ صلح حدیبیہ میں شامل تھے.ایک غیر معروف روایت یہ بھی ہے کہ حضرت خریم اور ان کے بیٹے حضرت ایمن نے اس وقت اسلام قبول کیا جب فتح مکہ کے بعد قبیلہ بنو اسد نے اسلام قبول کیا تھا جبکہ پہلی روایت زیادہ درست ہے کہ حضرت خریم غزوہ بدر میں شامل ہوئے اور امام بخاری نے اپنی کتاب التاريخ الکبیر میں ان کا بدری ہونا بیان کیا ہے.حضرت خریم بیٹے سمیت بعد میں کوفہ چلے گئے اور ایک روایت کے مطابق یہ دونوں رقہ شہر جو دریائے فرات کے شرقی جانب ایک مشہور شہر ہے وہاں منتقل ہو گئے اور یہ دونوں اسی جگہ حضرت امیر معاویہ کے دورِ حکومت

Page 318

302 صحاب بدر جلد 4 میں فوت ہوئے.715 قبول اسلام شخص حضرت خُريم بن فاتك اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اونٹ گم گئے تھے تو میں اپنے اونٹوں کو ڈھونڈھنے نکلا، ان کے نشانات کا پیچھا کرتے کرتے مجھے رات ہو گئی.چنانچہ میں نے انہیں آبرقُ العَزّاف یہ بنو اسد بن خزیمہ کے پانی پینے کی مشہور جگہ کا نام ہے جو مدینہ سے بصرہ کے راستے پر ہے، وہاں جا کر پا لیا تو میں نے انہیں وہیں باندھ دیا اور ان میں سے ایک اونٹ کی ران کے ساتھ ٹیک لگا کر لیٹ گیا.رات گزارنے کے لیے وہیں رہ گئے اور کہتے ہیں کہ یہ نبی کریم صلی الی یکم کی ہجرت کے ابتدائی زمانے کی بات ہے.میں نے کہا کہ میں اس وادی کے سردار کی پناہ مانگتا ہوں.اونچی آواز میں کہا.یہ اس زمانے میں ان کا رواج تھا.میں اس وادی کے عظیم کی پناہ مانگتا ہوں.حضرت خریم کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اسی طرح کہا کرتے تھے.زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص کسی ویران وادی میں رات گزارنے کی غرض سے داخل ہو تا تو اس کے اہل اور بیوقوفوں کے شر سے بچنے کے لیے یہ الفاظ کہا کرتا تھا.بہر حال کہتے ہیں کہ جب میں یہ کہہ رہا تھا تو اچانک ایک پکارنے والے نے مجھے آواز دی اور یہ اشعار پڑھے کہ تیر ابھلا ہو تو اللہ ذوالجلال کی پناہ مانگ جو حرام اور حلال کا نازل کرنے والا ہے.اللہ کی توحید کا اقرار کر پھر تجھے جنات کی آزمائشوں کی کوئی پروا نہیں ہو گی.جب تو اللہ کو یاد کرے گا تو کئی میلوں اور زمینوں اور پہاڑوں کی پنہائیوں میں جنات کا مکر ناکام ہو جائے گا سوائے تقویٰ والے کے اور نیک اعمال کے یعنی نیکیاں جاری رہیں گی.کوئی برائی نہیں آئے گی.حضرت خریم کہتے ہیں کہ میں نے جوابا کہا کہ اے پکارنے والے ! تو جو کچھ کہہ رہا ہے کیا تیرے نزدیک وہ ہدایت کی بات ہے یا تو مجھے گمراہ کر رہا ہے.یہ زمانہ جاہلیت کی باتیں تو اور تھیں.اور یہ تم توحید کی عجیب باتیں کر رہے ہو.اس نے کہا یہ اللہ کے رسول ہیں.بھلائیوں والے ہیں.لیس اور خمینیجات لے کر آئے ہیں اور اس کے بعد مُفضّلات سورتیں بھی لائے ہیں جنہوں نے ہمیں یہ ساری باتیں بتائی ہیں اور جو بہت ساری چیزوں کو حرام قرار دینے والے ہیں اور بہت ساری چیزوں کو حلال قرار دینے والے ہیں.وہ نماز اور روزے کا حکم دیتے ہیں اور لوگوں کو ان برائیوں سے روکتے ہیں جو گذشتہ دنوں کی برائیاں لوگوں میں موجود تھیں.یہ ان کو جواب ملا کہ اس طرح ہمیں توحید کا اعلان پتا لگا ہے اس لیے ہم کہتے ہیں.حضرت خریم کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اللہ تجھ پر رحمت کرے تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں ملک بن مالك ہوں.رسول اللہ صلی علیم نے مجھے اہل نجد کے جن یعنی سرداروں پر مقرر کر کے بھیجا ہے.یہ ان کی آپس میں بات چیت ہو رہی ہے.حضرت خُریم کہتے ہیں کہ میں نے کہا اگر میرے لیے کوئی ایسا شخص ہو تاجو میرے اونٹوں کی کفالت کرتا، تو میں ضرور اس رسول کے پاس جاتا، یہاں تک کہ اس پر ایمان

Page 319

303 صحاب بدر جلد 4 لے آتا.ان کو توحید کی باتیں اچھی لگیں ، ملك بن مالک نے کہا کہ میں ان کی، تمہارے اونٹوں کی ذمہ داری لیتا ہوں یہاں تک کہ میں انہیں تیرے اہل تک ان شاء اللہ صحیح سلامت پہنچا دوں گا.کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک اونٹ تیار کیا اور اس پر سوار ہو کر مدینہ آگیا.باقی اونٹ ان کے سپر د کر دیے.میں ایسے وقت میں پہنچا کہ جب لوگ نماز جمعہ میں مصروف تھے.جمعہ کا وقت تھا تو میں نے سوچا یہ لوگ نماز پڑھ لیں پھر میں اندر جاؤں گا کیونکہ میں تھکا ہوا تھا لہذا میں نے اپنی سواری کو بٹھا دیا.جب حضرت ابو ذر باہر نکلے تو انہوں نے مجھے کہا کہ رسول اللہ صلی الی یکم فرمارہے ہیں کہ اندر آجاؤ.پس میں اندر آ گیا.جب آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا اس بوڑھے شخص کا کیا بنا جس نے تمہیں ضمانت دی تھی کہ تمہارے اونٹ صحیح سلامت تمہارے گھر پہنچا دے گا.اس نے تمہارے اونٹ تمہارے گھر صحیح سلامت پہنچا دیے ہیں ؟ یہ سارا نظارہ جو تھا اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی ال یکم کو بھی اس کی اطلاع دے دی.حضرت خریم کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا اللہ اس پر رحم کرے.رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا کہ ہاں اللہ اس پر رحم کرے.اس پر حضرت خریم نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس طرح بڑے اچھے انداز میں وہ اسلام لے آئے.716 انہوں نے اپنا اسلام لانے کا یہ واقعہ بیان کیا.لطیف مزاج اور نفاست پسند حضرت خریم بن فاتک نہایت لطیف مزاج اور نفاست پسند تھے.لباس اور وضع قطع میں خوبصورتی اور نفاست کا بہت لحاظ رکھتے تھے.7 717 اسلام لانے سے پہلے نیچا ازار پہنتے تھے، لمباپا جامہ یا جو نچلا لباس ہے وہ لمبا کر کے پہنتے تھے.لمبے بال رکھا کرتے تھے.چنانچہ مستدرک حاکم میں اس کے متعلق ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت خریم بن فاتک سے مروی ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی ایام تشریف لائے اور فرمایا اسے خریم اگر تم میں دو باتیں نہ ہو تیں تو تم بہت اچھے شخص ہوتے.انہوں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ صلی کم پر قربان ہوں وہ دو باتیں کون سی ہیں یار سول اللہ.آپ نے فرما یا تمہارا اپنے بال بڑھانا اور اپنا ازار لٹکانا یعنی ایسالمباپا جامہ پہنا جو فخر کے طور پر پہنا جاتا ہے.پس حضرت خریم گئے اور اپنے بال کٹوا دیے اور اپنا ازار چھوٹا کر دیا.718 ایک یہ روایت ہے اور ایک روایت تاریخ الکبیر میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابن حنظلیہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الی یکم نے فرمایا کہ خُریم اسدی کتنا ہی اچھا شخص ہو تا اگر اپنے بال مونڈھوں تک نہ بڑھاتا.کندھے تک نہ لاتا اور اپنا ازار نہ لٹکا تا فخر کے طور پر.اپنا پاجامہ جو نچلا لباس ہے یا جو بھی نیچے لباس پہنا ہوتا ہے وہ زیادہ لمبا نہ ہو.حضرت تحریم کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے اپنا چھوٹا استرالیا اور اپنے بال کانوں تک کاٹ دیے.الله سة

Page 320

اصحاب بدر جلد 4 304 719 لمبے بالوں کی بجائے یہاں تک کاٹ دیے، اور اپنا ازار نصف پنڈلیوں تک اوپر کر لیا.9 کیونکہ وہ اس وقت لوگوں میں فخر کی نشانی سمجھی جاتی تھی.اس لیے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ بلاوجہ بلا ضرورت لمبے بال رکھنے میں کیا حرج ہے.اتنے ہی پٹے کانوں کی لو تک، رکھنے چاہئیں جتنے آنحضرت صلی یکم نے فرمایا عورتوں کی طرح لمبے نہیں ہونے چاہئیں.حضرت عمر کے زمانے میں شام کی فتوحات میں یہ شریک ہوئے تھے.120 رض حضرت قیس بن ابو حازم اور حضرت عامر شعبی سے مروی ہے کہ مروان بن حکم نے حضرت آیمن بن حریم سے کہا تم ہمارے ساتھ جنگ میں کیوں شریک نہیں ہوتے ؟ انہوں نے کہا میرے والد اور میرے چچا غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے یہ تاکیدی حکم دیا تھا کہ میں کسی ایسے شخص سے نہ لڑوں جو کہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.حضرت ایمن نے مروان بن حکم سے کہا کہ اگر تم میرے پاس آگ سے براءت لائے ہو تو میں تمہارے ساتھ جنگ میں شریک ہو جاؤں گا تو مروان نے کہا تم ہمارے پاس سے چلے جاؤ.پس وہ نکلے تو یہ اشعار پڑھتے جارہے تھے کہ میں کسی شخص سے نہیں لڑوں گا جو قریش کے کسی دوسرے سلطان کی تعریف کرتا ہے.اس کے لیے اس کی سلطنت ہے اور میرے اوپر میرا گناہ میں ایسی جہالت اور غصے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں.کیا میں ایک مسلمان کو بغیر کسی جرم کے قتل کروں گا.اگر ایسا ہوا تو میں جتنی زندگی بھی جی لوں اس کا مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو گا.1 آج کل کے مسلمانوں کے عمل دیکھیں تو پتا لگتا ہے کہ یہ اصل تعلیم سے کتنی دُور جاچکے ہیں.722 721 94 حضرت خلاد بن رافع آنحضرت صلی ال نیم کے ایک صحابی جن کا نام حضرت خَلاد بن رافع زُرقی تھا آپ انصاری تھے.یہ ان خوش قسمت لوگوں میں شامل تھے جو غزوہ بدر اور اُحد میں شریک ہوئے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی کثیر عطا فرمائی.723 نبی اکرم صلی کم کی دعا اور بابرکت پانی کی بدولت اونٹ کی تیز رفتاری ایک روایت میں آتا ہے کہ مُعاذ بن رفاعہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں میں اپنے بھائی حضرت خلاد بن رافع کے ہمر اور سول اللہ صلی می ریم کے ساتھ ایک بہت لاغر کمزور اونٹ پر سوار ہو کر بدر

Page 321

305 ناب بدر جلد 4 کی طرف نکلا یہاں تک کہ ہم بریں مقام پر پہنچے جو روحاء کے مقام سے پیچھے ہے تو ہمارا اونٹ بیٹھ گیا.تو میں نے دعا کی کہ اے اللہ ہم تجھ سے نذر مانگتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس پر مدینہ لوٹا دے تو ہم اس کو قربان کر دیں گے.پس ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی علی یکم کا ہمارے پاس سے گزر ہوا.آپ صلی یا ہم نے ہم سے پوچھا کہ تم دونوں کو کیا ہوا ہے.ہم نے آپ کو ساری بات بتائی.پھر رسول اللہ صلی نمی کم ہمارے پاس رکے اور آپ نے وضو فرمایا.پھر جو بچا ہوا پانی تھا اس میں لعاب دہن ڈالا.726 پھر آپ کے حکم سے ہم نے اونٹ کا منہ کھول دیا.آپ نے اونٹ کے منہ میں کچھ پانی ڈالا.پھر کچھ اس کے سر پر، اس کی گردن پر ، اس کے شانے پر، اس کی کوہان پر، اس کی پیٹھ پر اور اس کی دم پر ( پانی ڈالا).پھر آپ صلی علیہم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! رافع اور خلاد کو اس پر سوار کر کے لے جا.کہتے ہیں پھر رسول اللہ صلی میریم تشریف لے گئے.ہم بھی چلنے کے لئے کھڑے ہوئے اور چل پڑے یہاں تک کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللی کم کو منصف مقام کے شروع میں پالیا اور ہمارا اونٹ قافلے میں سب سے آگے تھا.رسول اللہ صلی علیم نے جب ہمیں دیکھا تو مسکر ا دیئے.آپ صلی علی یم کی دعا سے اس کی وہ کمزوری بالکل دور ہو گئی تھی.کہتے ہیں ہم چلتے رہے یہاں تک کہ بدر کے مقام پر پہنچ گئے.بدر سے واپسی پر جب ہم مصلى مقام پر پہنچے تو وہ اونٹ پھر بیٹھ گیا.پھر میرے بھائی نے اس کو ذبح کر دیا اور اس کا گوشت تقسیم کیا اور ہم نے اس کو صدقہ کر دیا.724 ایک نذر مانی تھی کہ جب وہ کام آجائے تو اس کے بعد ہم ذبح کر دیں گے.اس کے مطابق انہوں نے اس پر عمل کیا.725 یہ انصاری تھے.حضرت خلاد بن رافع کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو خزرج کی شاخ عجلان سے تھا.ان کی والدہ کا نام ام مالک بنت ابی بن مالک تھا.حضرت غلاڈ کے بیٹے کا نام بیچی تھا جو ام رافع بنت عثمان بن خلدہ کے بطن سے تھے.یہی لکھا ہے کہ ان کے تمام بچے شروع میں ہی وفات پاگئے تھے.727 جیسا کہ نماز پڑھنے کے بارے میں ایک روایت بیان ہو چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تین دفعہ ایک شخص کو فرمایا کہ دوبارہ پڑھو.صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ سے یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے.اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی.پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا.آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو اور اسی طرح اس کو دوبارہ لوٹا دیا.پھر اس کو لوٹایا اور یہی کہا کہ واپس جاؤ اور نماز پڑھو جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے.پھر اس نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا اس لیے آپ مجھے سکھائیں.آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو.پھر قرآن میں سے جو

Page 322

تاب بدر جلد 4 306 میسر ہو پڑھو یعنی سورہ فاتحہ کے بعد جو میسر ہے.پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع میں تمہیں اطمینان ہو جائے.پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے کھڑے ہو جاؤ.پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ تمہیں سجدے میں اطمینان ہو جائے.پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ.الغرض اپنی ساری نماز میں اسی طرح کرو.728 علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ وہ شخص جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا وہ حضرت غلا ذ بن رافع 729 95 نام و نسب حضرت خلاد بن سوید حضرت خلاد بن سوید.یہ انصاری تھے.حضرت خلاد کا تعلق خزرج کی شاخ بنو حارث سے تھا.آپ کی والدہ کا نام عمرہ بنت سعد تھا.آپؐ کے ایک بیٹے حضرت سائب کو نبی صلی علیکم کی صحبت نصیب ہوئی اور بعد میں حضرت عمرؓ نے انہیں یمن کا عامل بھی مقرر فرمایا.دوسرے بیٹے کا نام حَكَمُ بن خَلًاد تھا.ان دونوں کی والدہ کا نام لیلی بنتِ عُبادہ تھا.بیعت عقبہ میں شمولیت حضرت خَلًا د بیعت عقبہ میں شامل ہوئے.آپ نے غزوہ بدر اور احد اور خندق میں شرکت کی.غزوہ بنو قریظہ میں شہادت اور دو شہیدوں کا اجر پانے والے غزوہ بنو قریظہ میں ایک یہودی عورت نے جس کا نام بنانہ تھا اوپر سے آپ پر بھاری پتھر پھینکا جس سے آپ کا سر پھٹ گیا اور آپ شہید ہو گئے.اس پر نبی کریم صلی علی یکم نے فرمایا کہ خلاد کے لیے دو شہیدوں کے برابر اجر ہے.رسول اللہ صلی علی ایم نے اس عورت کو بھی بطور قصاص پھر بعد میں قتل کروا دیا تھا.730 سیرت خاتم النبیین میں اس واقعہ کا ذکر اس طرح لکھا ہے کہ "چند مسلمان جو ان کے قلعہ کی دیوار کے پاس ہو کر ذرا آرام کرنے بیٹھے تھے ان پر ایک یہودی عورت بنانہ نامی نے قلعہ کے اوپر سے ایک بھاری پتھر پھینک کر ان میں سے ایک آدمی خلاد نامی کو شہید کر دیا اور باقی مسلمان بچ گئے.' پھر آتا ہے کہ حضرت خلاد " کی والدہ کو جب آپ کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ نقاب کر کے تشریف لائیں.ان سے کہا گیا کہ خلاد شہید کر دیے گئے ہیں اور آپ نقاب کر کے آئی ہیں.اس پر 731"

Page 323

اصحاب بدر جلد 4 307 انہوں نے کہا کہ خلاد تو مجھ سے جدا ہو گیا ہے لیکن میں اپنی حیا کو خود سے جدا نہیں ہونے دوں گی.یہ ئین جو رواج تھاوہ اس طرح نہیں ہو گا اور پر وہ حیا ہے وہ تو قائم رہے گی.حضرت خلاد کی شہادت پر یہ تفصیل آگے اس طرح بھی آتی ہے کہ حضرت خلاد کی شہادت پر نبی صلی یم نے فرمایا کہ ان کے لیے دو شہیدوں کا اجر ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے.لیکن زائد اس میں ہے جب پوچھا گیا کہ یار سول اللہ ایسا کیوں ہے ؟ دو شہیدوں کا اجر کس لیے ؟ تو آپ نے فرمایا کیونکہ انہیں اہل کتاب نے شہید کیا ہے 732 96 حضرت خلاد بن عمرو تین بھائیوں کے ساتھ جنگ میں شامل ہونے والے حضرت خلّادُ بن عمرو بن جموخ انصاری صحابی تھے اور بدری صحابہ میں شامل تھے.آپ اپنے والد حضرت عمرو بن جموح اور بھائیوں حضرت مُعاذ، حضرت ابو ایمن، اور حضرت معوذ " کے ہمراہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے.حضرت ابو ایمن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ آپ کے بھائی نہیں تھے بلکہ آپ کے والد حضرت عمرو بن جموح کے آزاد کردہ غلام تھے.الله 733 جنگ بدر اور نیک فال جنگ بدر کے لئے روانہ ہوتے ہوئے نبی کریم صلی یکم نے اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ سے باہر ایک جگہ شقیا کے پاس قیام کیا.حضرت عبد اللہ بن قادة اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے سُقيا، مدینہ سے باہر ایک جگہ تھی جہاں کنواں بھی تھا ایک، اس کے قریب نماز ادا کی اور اہل مدینہ کے لئے دعا کی.حضرت عدی بن ابي الزَّغْبَاء اور بَسْبَس بن عمر و اسی جگہ اس قیام کے دوران میں نبی کریم صلی ا یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور بعض روایات کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام بھی رسول اللہ صلی ایم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کا اس جگہ قیام کرنا اور اصحاب کا جائزہ لینا بہت اچھا ہے اور ہم اسے نیک فال سمجھتے ہیں کیونکہ جب ہمارے یعنی بنو سلمہ اور اہل حُسیگہ کے درمیان معرکہ ہوا تھا تو ہم نے یہیں پڑاؤ ڈالا تھا.اسلام سے پہلے کی پرانی بات بیان کر رہے ہیں.مدینہ کے نواح میں ذباب نامی ایک پہاڑ ہے حسنکہ اس پہاڑ کے پاس ہی مقام تھا جہاں بڑی تعداد میں یہود آباد تھے.اسی مقام پر کہتے ہیں کہ ہم نے بھی اپنے اصحاب کی حاضری اور جائزہ لیا تھا اور جو لوگ جنگ کی طاقت رکھتے تھے ان کو اجازت دی تھی اور جو ہتھیار اٹھانے

Page 324

اصحاب بدر جلد 4 308 کے قابل نہ تھے ان کو واپس بھیج دیا تھا اور پھر ہم نے محسیگہ کے یہود کی طرف پیش قدمی تھی.اس وقت حُسیگہ کے یہود سب یہود پر غالب تھے پس ہم نے انہیں جس طرح چاہا قتل کیا.ان کی آپس میں بڑی جنگ ہوئی.اس لئے انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے امید ہے کہ جب ہم لوگ قریش کے مقابل ہوں گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ آپ کی آنکھوں کو ان سے ٹھنڈک عطا کرے گا یعنی آپ کو بھی فتح حاصل ہو گی جس طرح پرانے زمانے میں ہمیں ہو چکی ہے.حضرت خلاد بن عمرو کہتے ہیں کہ جب دن چڑھا تو میں خُوبی میں اپنے اہل کے پاس گیا.خُر بی اس محلے کا نام ہے جہاں بنو سلمہ کے گھر تھے.کہتے ہیں میرے والد حضرت عمرو بن جموح نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ تم لوگ جاچکے ہو.پہلی روایت جو بیان ہوئی تھی اس میں یہ لکھا تھا کہ والد عمرو بن جموح کے ہمراہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے لیکن اس روایت سے اور بعد کی روایتوں سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ والد شامل نہیں تھے.میں نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی تیم شقیا کے میدان میں لوگوں کا جائزہ اور گنتی کروا رہے ہیں.تب حضرت عمرو نے کہا کہ کیا ہی نیک فال ہے.واللہ ! میں امید رکھتا ہوں کہ تم غنیمت حاصل کرو گے اور مشرکین قریش پر کامیابی حاصل کرو گے.جس روز ہم نے حُسیگہ کی طرف پیش قدمی کی تھی ہم نے بھی یہیں پڑاؤ ڈالا تھا.اس پرانی بات کی یہ بھی تصدیق کر رہے ہیں جو پہلے روایت میں آگئی ہے کہ یہودیوں کی آپس میں لڑائی ہوئی تھی.حضرت خَلاد بیان کرتے ہیں کہ رسول خداصلی ایم نے محسینگہ کا نام بدل کر سُفیار کھ دیا.میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ میں اس جگہ کو شقیا کو خرید لوں.لیکن مجھ سے پہلے ہی حضرت سعد بن ابی وقاص نے اسے دو اونٹوں کے عوض خرید لیا اور بعض کے مطابق سات اوقیہ یعنی دو سو اسی در ہم کے عوض خریدا تھا.جب آنحضور صلی یکم کے پاس اس بات کا ذکر ہوا تو آپ نے فرما یار بح البیع یعنی اس کا سودا ت ہی نفع مند ہے.734 حضرت خلّاد کے والد حضرت عمرو بن جموح بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے.خَلادُ اور آپ کے والد حضرت عمرو بن جموح اور حضرت ابوائین تینوں غزوہ اُحد میں شامل ہوئے تھے اور ان تینوں نے جام شہادت بھی نوش کیا.735 یعنی خود بھی اور بھائی بھی اور والد بھی یہ تینوں جنگ اُحد میں شامل ہوئے تھے.والد ان کے جنگ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے.ان کی شامل ہونے کی خواہش تھی لیکن ان کی ٹانگ کی مجبوری کی وجہ سے، ان کی ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی.صحیح نہیں تھے ، معذور تھے.اس لئے ان کو بدر میں ان کے بیٹوں نے شامل ہونے سے روک دیا تھا.خدا کی راہ میں جنگ میں شامل ہونے اور شہادت کا جذبہ مسابقت حضرت خلاد کے والد حضرت عمرو بن جموح کے بارے میں آتا ہے کہ بدر کے موقع پر

Page 325

ب بدر جلد 4 309 حضور صلی الم نے جہاد کی تحریک فرمائی تو عمرو کے پاؤں میں تکلیف کی وجہ سے ان کے بیٹوں نے انہیں جنگ میں شامل ہونے سے روک دیا.اللہ تعالیٰ نے بھی معذوروں کو جنگ سے رخصت دی ہوئی ہے.اسی وجہ سے بیٹوں نے بھی انہیں روک دیا تھا کہ ہم چار لڑکے لڑنے جارہے ہیں تو پھر آپ کو کیا ضرورت ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو رخصت ہے.اور پھر یہ باوجود خواہش کے بیٹوں کے کہنے پر جنگ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے.لیکن جب اُحد کا موقع آیا تو عمرو اپنے بیٹوں کو کہنے لگے کہ تم لوگوں نے مجھے بدر میں بھی شامل نہیں ہونے دیا تھا.اُحد کا موقع آیا ہے تو مجھے روک نہیں سکتے.میں لازماً جاؤں گا اور اُحد میں شریک ہوں گا.بہر حال انہوں نے کہا اب تم مجھے روک نہیں سکتے اور میں لازماً اس میں شامل ہوں گا.پھر اولاد نے ان کو اُن کی معذوری کے حوالے سے روکنا چاہا تو یہ خود آنحضور صلی یم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ میں خود ہی حضور سے اجازت لے لوں گا.چنانچہ وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے بیٹے اس دفعہ پھر مجھے جہاد سے روکنا چاہتے ہیں.پہلے بدر میں روکا تھا.اب اُحد میں بھی جانے نہیں دیتے.میں آپ کے ساتھ اس جہاد میں شامل ہونا چاہتا ہوں.پھر انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ! میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دلی مراد قبول کرے گا اور مجھے شہادت عطا فرمائے گا اور میں اپنے اسی لنگڑے پاؤں کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤں گا.آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ اے عمرو! بیشک اللہ تعالیٰ کو آپ کی معذوری قبول ہے اور جہاد آپ پہ فرض نہیں ہے لیکن ان کے بیٹوں سے آنحضرت صلی علی ایم نے فرمایا کہ تم لوگ ان کو نیک کام سے نہ رو کو.ان کی دلی تمنا اگر ایسی ہے تو پھر اسے پورا کرنے دو شاید اللہ تعالیٰ انہیں شہادت عطا فرما دے.چنانچہ حضرت عمرو نے اپنے ہتھیار لئے اور یہ دعا کرتے ہوئے میدان اُحد کی طرف روانہ ہوئے کہ.اللّهُم ارْزُقْنِي شَهَادَةً وَلَا تَرُذَنِي إِلى أَهْلِي خَائِبًا.کہ اے اللہ ! مجھے شہادت عطا کرنا اور مجھے اپنے گھر کی طرف ناکام و نامراد واپس لے کر نہ آنا.اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دعا کو قبول کیا اور انہوں نے وہاں جام شہادت نوش کیا.736 ایک بہادر خاتون نبی اکرم صلی الی یوم سے عشق و محبت کا ایک عجیب نظارہ حضرت خلّاد کی والدہ حضرت ہند بنت عمر و ( اُن کے والد کا نام بھی عمر و تھا اور خاوند کا نام بھی) حضرت جابر بن عبد اللہ کی پھوپھی تھیں.غزوہ اُحد میں حضرت ہند نے اپنے خاوند، اپنے بیٹے اور اپنے بھائی کو شہادت کے بعد اونٹ پر لادا.پھر جب ان کے متعلق حکم ہو ا تو انہیں واپس اُحد لو ٹایا گیا اور وہ وہیں اُحد میں دفن کئے گئے.737 جب پتہ لگا ہے کہ شہید ہوگئے ہیں تو یہ تینوں کو پہلے مدینہ لانے کے لئے لے کر آئی تھیں، لیکن پھر واپس لے گئیں اور اس کی تفصیل بھی آگے بیان ہوئی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی مرضی تھی کہ اُحد کے یہ

Page 326

ناب بدر جلد 4 310 شہداء اُحد میں ہی دفن ہوں.اس واقعہ کی تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ حضرت عائشہ غزوہ اُحد کے بارہ میں خبر لینے کے لئے مدینہ کی عورتوں کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں.اس وقت تک پر دے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے.جب آپ (حضرت عائشہ ) حرہ کے مقام تک پہنچیں تو آپ کی ملاقات ہند بنت عمرو سے ہوئی جو کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو کی ہمشیرہ تھیں.حضرت ہند اپنی اونٹنی کو ہانک رہی تھیں.اس اونٹنی پر آپ کے شوہر حضرت عمرو بن جموح، بیٹے حضرت حلّا ذ بن عمرو اور بھائی حضرت عبد اللہ بن عمرو کی نعشیں تھیں.جب حضرت عائشہ نے میدان جنگ کی خبر لینے کی کوشش کی تو حضرت عائشہ نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں کچھ خبر ہے کہ تم پیچھے لوگوں کو کس حال میں چھوڑ آئی ہو ؟ اس پر حضرت ہند نے کہا کہ رسول اللہ صلی للی یکم بخیریت ہیں اور آپ صلی علیکم کے بعد ہر مصیبت آسان ہے، جب آپ خیریت سے ہیں تو پھر کوئی ایسی بات نہیں.اس کے بعد حضرت ہند نے یہ آیت پڑھی وَرَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۖ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَ كَانَ اللهُ قَوِيَّا عَزِيزًا (الاحزاب:26) یعنی اور اللہ نے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا ان کے غیض سمیت اس طرح لوٹا دیا کہ وہ کوئی بھلائی حاصل نہ کر سکے اور اللہ مومنوں کے حق میں قتال میں کافی ہو گیا اور اللہ بہت قوی اور کامل غلبہ والا ہے.حضرت عائشہ نے دریافت کیا کہ اونٹنی پر کون کون ہیں ؟ تب حضرت ہند نے بتایا کہ میر ابھائی ہے، میرابیٹا خلاد ہے اور میرے شوہر عمرو بن جموح ہیں.حضرت عائشہ نے دریافت کیا کہ تم انہیں کہاں نئے جاتی ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ انہیں مدینہ میں دفن کرنے کے لئے لے جارہی ہوں.پھر وہ اپنے اونٹ کو ہانکنے لگیں تو اونٹ وہیں زمین پر بیٹھ گیا.حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اس پر وزن زیادہ ہے.جس پر حضرت ہند کہنے لگیں کہ یہ تو دو اونٹوں جتنا وزن اٹھا لیتا ہے لیکن اس وقت یہ اس کے بالکل الٹ کر رہا ہے.پھر انہوں نے اونٹ کو ڈانٹا تو وہ کھڑا ہو گیا.جب انہوں نے اس کا رخ مدینہ کی طرف کیا تو وہ پھر بیٹھ گیا.پھر جب انہوں نے اس کا رخ اُحد کی طرف پھیرا تو اونٹ جلدی جلدی چلنے لگا.پھر حضرت ہند رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آئیں اور آنحضور صلی الی یکم کو اس واقعہ کی خبر دی.آپ صلی اسلام نے فرمایا کہ یہ اونٹ مامور کیا گیا ہے یعنی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف اسی کام پر لگایا گیا تھا کہ یہ مدینہ کی طرف نہ جائے بلکہ اُحد کی طرف ہی رہے.فرمایا کہ کیا تمہارے شوہر نے جنگ پہ جانے سے پہلے کچھ کہا تھا؟ کہنے لگیں جب عمر و اُحد کی جانب روانہ ہونے لگے تھے تو انہوں نے قبلہ رُخ ہو کر یہ کہا تھا کہ اے اللہ ! مجھے میرے اہل کی طرف شر مندہ کر کے نہ لوٹانا اور مجھے شہادت نصیب کرنا.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اسی وجہ سے اونٹ نہیں چل رہا تھا.فرمایا کہ اے انصار کے گروہ ! تم میں سے بعض ایسے نیکو کار لوگ ہیں کہ اگر وہ خدا کی قسم کھا کر کوئی بات کریں تو خدا تعالیٰ ان کی وہ بات ضرور پوری کرتا ہے اور عمرو بن جموح بھی ان میں سے ایک ہیں.پھر آپ نے عمرو بن جموح کی بیوی کو فرمایا کہ اے ہند ! جس وقت سے تیر ابھائی شہید ہوا ہے اس وقت سے فرشتے اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ اسے کہاں دفن کیا جائے.رسول اللہ صل العلم ان شہداء کی تدفین تک وہیں رکے رہے.پھر فرمایا اے ہند ! عمرو بن جموح، تیرابیٹاخلاذ اور

Page 327

تاب بدر جلد 4 311 تیرا بھائی عبد اللہ جنت میں باہم دوست ہیں.اس پر ہند نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسہ میرے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان کی رفاقت میں پہنچا دے.738 97 حضرت خُلیدہ بن قیس حضرت خلیدَہ بن قیس.ان کی والدہ کا نام ادام بنت القین تھا جو کہ بنو سلمہ میں سے تھیں.خليدة بن قیس کے علاوہ آپ کا نام خلید بن قیس، خالد بن قیس اور خالدہ بن قیس بھی ملتا ہے.یہ غزوہ بدر اور احد میں شریک تھے.ان کے حقیقی بھائی جن کا نام خلاد تھا بعض مورخین کے نزدیک یہ بھی بدری صحابہ میں شامل تھے.739 98 نام و نسب حضرت خلیفہ بن عدی 740 ان کے نام کے بارے میں بھی اختلاف ہے.ان کا نام بعض نے خلیفہ بن عدی لکھا اور بعض نے عُلَيْفه بن عَدِتی.غزوہ بدر اور غزوہ احد دونوں میں شریک تھے.خلیفه بن عدی بن عمرو بن مالک بن عمر و بن مالک بن علی بن بیاضہ اصحاب بدر میں سے تھے.غزوہ بدر سے پہلے مشرف با اسلام ہوئے اور سب سے پہلے غزوہ بدر میں شریک ہو کر بدری صحابی ہونے کی سعادت حاصل کی.اس کے بعد غزوہ احد میں شریک ہوئے.غزوہ احد کے بعد ان کا نام پر دہ اختفاء میں چلا جاتا ہے، ظاہر نہیں ہو تا، مزید کوئی معلومات نہیں ان کے بارے میں ، اور حضرت علی کے عہد خلافت میں منظر عام پر آتا ہے.بڑا لمبا عرصہ ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں ، پھر علی کے عہد خلافت میں پیش آنے والی تمام لڑائیوں میں یہ حضرت علی کے ساتھ شریک ہوئے.اور وفات کے سال کے بارے میں بھی سیرت کی کتابوں میں کچھ نہیں ملتا.741

Page 328

312 99 99 صحاب بدر جلد 4 نام و نسب و کنیت حضرت خُنيس بن حُذَافَه حضرت خُنيس بن حذافہ ان کی کنیت ابو حذافہ تھی.حضرت خُنیس کی والدہ کا نام ضَعِيفه بنتِ حِذْیم تھا.ان کا تعلق بنی سهم بن عمرو سے تھا.انہوں نے رسول اللہ صلی الی یوم کے دار ارقم میں جانے سے پہلے اسلام قبول کیا تھا.حضرت خُنیس حضرت عبد اللہ بن حذافہ کے بھائی تھے.حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت حضرت خنيس ان مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے دوسری دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی.حضرت جنیس کا شمار اولین مہاجرین میں ہوتا ہے.جب حضرت خنیس نے مدینہ ہجرت کی تو حضرت رفاعه بن عبد المنذر کے پاس رہے.آنحضور صلی علیہم نے حضرت خُنَيْس اور ابو عبس بن جبر کے در میان عقد مؤاخات قائم کیا.حضرت خُنیس غزوہ بدر میں شامل ہوئے.ام المؤمنین حضرت حفصہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل حضرت خنیس کے عقد میں تھیں.ان کی شادی ہوئی تھی.742 حضرت خنیس کی شہادت اور حضرت حفصہ کی دوسری شادی سیرت خاتم النبیین میں اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ : حضرت عمر بن خطاب کی ایک صاحبزادی تھیں جن کا نام حفصہ تھا.وہ حُنَيْس بن حذافہ کے عقد میں تھیں جو ایک مخلص صحابی تھے اور جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے.بدر کے بعد مدینہ واپس آنے پر خنیس بیمار ہو گئے اور اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکے اور ان کی وفات ہو گئی.حضرت عمرؓ کو حضرت حفصہ کے نکاح ثانی کی بڑی فکر تھی.اس وقت حضرت حفصہ کی عمر میں سال سے اوپر تھی.حضرت عمر نے اپنی فطرتی سادگی میں خو د عثمان بن عفان سے مل کر ذکر کیا کہ میری لڑکی حفصہ بیوہ ہے.آپ اگر پسند کریں تو اس کے ساتھ شادی کر لیں مگر حضرت عثمان نے ٹال دیا اس کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر سے شادی کا ذکر کیا کہ آپ اس سے شادی کر لیں لیکن حضرت ابو بکر نے بھی خاموشی اختیار کی.کوئی جواب نہیں دیا.اس پر حضرت عمرؓ کو بہت ملال ہوا، رنج ہوا.انہوں نے اسی دکھ کی حالت میں آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے یہ ساری سرگذشت بیان کی، عرض کی.آنحضرت صلی الی ایم نے فرمایا کہ عمر اکچھ فکر نہ کرو.خدا کو منظور ہوا تو حفصہ کو عثمان اور ابو بکر کی نسبت بہتر خاوند مل جائے گا اور عثمان کو حفصہ کی نسبت بہتر بیوی ملے گی.یہ

Page 329

بدر جلد 4 313 آپ صلی اللہ کریم نے اس لئے فرمایا کہ آپ حفصہ کے ساتھ شادی کر لینے اور اپنی لڑکی ام کلثوم کو حضرت عثمان کے ساتھ بیاہ کر دینے کا ارادہ کر چکے تھے جس سے حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان دونوں کو اطلاع تھی.ان کو بتلا دیا تھا اور اسی لئے انہوں نے حضرت عمر کی تجویز کو ٹال دیا تھا.اس کے کچھ عرصہ کے بعد آنحضرت صلی اہل علم نے حضرت عثمان سے اپنی صاحبزادی ام کلثوم کی شادی فرما دی جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اور اس کے بعد آپ نے خود اپنی طرف سے حضرت عمرؓ کو حفصہ کے لیے پیغام بھیجا.حضرت عمر کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے تھا.انہوں نے نہایت خوشی سے اس رشتہ کو قبول کیا اور شعبان 3 ہجری میں حضرت حفصہ آنحضرت صلی علیم کے نکاح میں آکر حرم نبوی میں داخل ہو گئیں.جب یہ رشتہ ہو گیا تو حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ شاید آپ کے دل میں میری طرف سے کوئی ملال ہوا ہو ، دل میں میل پیدا ہوا ہو، رنج ہوا ہو.بات یہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی علیم کے ارادے سے اطلاع تھی لیکن میں آپ کی اجازت کے بغیر یعنی آنحضرت صلی للی کم کی اجازت کے بغیر آپ کے راز کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا.ہاں آپ کا اگر یہ یعنی اس رشتہ کا آنحضرت صلی کام کا ارادہ نہ ہو تا تو میں بڑی خوشی سے حفصہ سے شادی کر لیتا.حفصہ کے نکاح میں ایک تو یہ خاص مصلحت تھی کہ وہ حضرت عمر کی صاحبزادی تھیں جو گویا حضرت ابو بکر کے بعد تمام صحابہ میں افضل ترین سمجھے جاتے تھے اور آنحضرت صلی علیہ کم کے مقربین خاص میں سے تھے.پس آپس کے تعلقات کو زیادہ مضبوط کرنے اور حضرت عمرؓ اور حفصہ کے اس صدمہ کی تلافی کرنے کے واسطے جو خنیس بن حذافہ کی بے وقت موت سے ان کو پہنچا تھا آنحضرت صلی یکم نے مناسب سمجھا کہ حفصہ سے خود شادی فرمالیں.3 ایک روایت کے مطابق حضرت خُنَيْس بن حذافہ کو غزوہ اُحد میں کچھ زخم آئے.بعد میں انہی زخموں کی وجہ سے آپ کی مدینہ میں وفات ہوئی.حضور صلی العلیم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو جنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعون کے پہلو میں دفن کیا گیا.744 743 100 نام و نسب و کنیت حضرت خوات بن جبير انصاری ان کا نام ہے.حضرت خَوات بن جبیر انصاری.ان کی کنیت ابو عبد اللہ اور ابو صالح بھی تھی.حضرت خوات کا تعلق بنو ثعلبہ سے تھا اور حضرت خوات بن جبير حضرت عبد اللہ بن جبیر کے بھائی

Page 330

314 اصحاب بدر جلد 4 تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ ہم نے غزوہ اُحد میں درے کی حفاظت کے لیے پچاس تیر اندازوں کے ساتھ مقرر فرمایا تھا، یعنی ان کے بھائی کو (مقرر فرمایا) حضرت خوات درمیانے قد کے تھے.آپ نے چالیس ہجری میں 74 برس کی عمر میں مدینہ میں وفات پائی.ایک روایت کے مطابق وفات کے وقت آپ کی عمر 94 سال تھی.آپؐ مہندی اور وسمہ کا خضاب لگایا کرتے تھے.جنگ بدر میں شامل نہ ہونے کے باوجود نبی اکرم صلی ال وکیل نے مال غنیمت اور اجر میں شامل فرمایا حضرت خوات بھی رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ جنگ بدر کے لیے روانہ ہوئے لیکن راستہ میں ایک پتھر کی نوک لگنے سے آپ زخمی ہو گئے.اس لیے رسول اللہ صلی ایم نے آپ کو مدینہ بھجوا دیا.لیکن رسول اللہ صلی علیم نے آپ کو غزوہ بدر کے مال غنیمت اور اجر میں شامل فرمایا.گویا آپ ان لوگوں کی طرح ہی تھے جو غزوہ بدر میں شامل ہوئے.آپ غزوہ اُحد ، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی العلیم کے ہمراہ شریک ہوئے.745......اونٹ بھاگ گیا حضرت خوات “ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے رسول اللہ صلی تعلیم کے ہمراہ مقام مد الظهران میں پڑاؤ کیا.کہتے ہیں کہ میں اپنے خیمے سے نکلا تو کچھ عورتیں باتیں کر رہی تھیں.مجھے یہ دیکھ کر دلچسپی پیدا ہوئی.پس میں واپس آگیا اور ایک مجبہ پہن کر ان کے ساتھ بیٹھ گیا.اپنے آپ کو چھپالیا اور عورتوں کی باتیں سننے کے لیے وہاں بیٹھ گیا.اسی اثناء میں رسول اللہ صلی علی کی اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے.جب میں نے رسول اللہ صلی علیکم کو دیکھا تو ڈر گیا اور آپ سے کہا کہ میرا اونٹ بھاگ نکلا ہے میں اسے ڈھونڈ رہا ہوں.میں کھڑا ہو گیا اور فوری طور پر عرض کیا.آپ چل پڑے.آگے چلے گئے.میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا.آپ نے اپنی چادر مجھے پکڑائی جو اوڑھی ہوئی تھی اور جھاڑیوں میں چلے گئے اور رفع حاجت کے بعد آپ نے وضو کیا اور واپس آئے.آپ کی داڑھی سے پانی کے قطرے آپ کے سینے پر گر رہے تھے.پھر رسول اللہ صلی علیم نے از راہ مزاح مجھ سے پوچھا کہ اے ابو عبد اللہ ! اس اونٹ نے کیا کیا ؟ اب اونٹ تو کوئی گما نہیں تھا اور آنحضرت صلی علی یم کو احساس ہو گیا تھا کہ ویسے ہی یہ باتیں سننے کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ چیز اچھی نہیں ہے.بہر حال کہتے ہیں.پھر ہم روانہ ہو گئے.اس کے بعد جب بھی آپ مجھے ملتے، سلام کرتے اور پوچھتے کہ ابو عبد اللہ اس اونٹ نے کیا کیا؟ جب اس طرح بار بار ہونا شروع ہوا.آنحضور صلی املی کام اس حوالے سے مزاح کے طور پر مجھے چھیڑتے تھے تو میں مدینہ میں چھپ رہنے لگا.جب اس بات کو کچھ عرصہ گزر گیا تو مسجد گیا اور نماز کے لیے کھڑا ہوا.رسول اللہ صلی ا ہم بھی اپنے حجرے سے باہر تشریف لے آئے.آپ نے دور کعت نماز ادا کی.میں اس امید پر نماز لمبی کر تا گیا کہ آپ تشریف لے جائیں اور مجھے چھوڑ دیں.آنحضور علی ایم نے فرمایا: ابو عبد اللہ ! جتنی مرضی نماز لمبی کر لو میں یہیں ہوں.میں نے اپنے دل

Page 331

تاب بدر جلد 4 315 میں کہا کہ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی علیم سے معذرت کر کے آپ کا دل اپنے بارے میں صاف کر دوں گا.جب میں نے سلام پھیرا تو آپ نے فرمایا کہ ابو عبد اللہ ! تم پر سلامتی ہو.اس اونٹ کے بھاگ جانے کا کیا معاملہ ہے؟ میں نے عرض کیا.اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے وہ اونٹ نہیں بھا گا.آپ نے تین بار فرمایا کہ اللہ تم پر رحم کرے.پھر اس کے بعد آپ نے بھی مجھے اس بارے میں کچھ نہیں کہا.گویا ایک تو اس بات سے کہ مجھ سے نہ چھپاؤ مجھے پتہ ہے اصل قصہ کیا ہے.دوسرے اس طرح بیٹھ کے بلاوجہ لوگوں کی مجلس میں ان کی باتیں سننا جو ہے وہ غلط چیز ہے.بیماری سے شفا پانے پر نذر پوری کرنا 746 حضرت حوات بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بیمار ہوا تو نبی صلی یہ ہم نے میری عیادت فرمائی.جب میں شفایاب ہو گیا تو آپ نے فرمایا.اے خوات ! تمہارا جسم تندرست ہو گیا ہے.پس جو تم نے اللہ سے وعدہ کیا ہے وہ پورا کرو.میں نے عرض کیا.میں نے اللہ سے کوئی وعدہ نہیں کیا.آپ نے فرمایا کہ کوئی بھی مریض ایسا نہیں کہ جب وہ بیمار ہوتا ہے تو کوئی نذر نہیں مانتا یانیت نہیں کرتا.ضرور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے تندرست کر دے تو میں یہ کروں گا، وہ کروں گا.پس اللہ سے کیا ہوا وعدہ وفا کرو.جو بھی تم نے بات کہی ہے اسے پورا کرو.747 پس یہ ایسی ہی بات ہے جو ہم سب کے لیے قابل غور اور قابل توجہ ہے.غزوہ بنو قریظہ کی طرف بھیجے جانے والے وفد میں.....غزوہ خندق کے موقع پر جب آنحضور صلی اللہ ہم کو بنو قریظہ کی عہد شکنی کی اطلاع ملی تو آپ نے ایک وفدان کی طرف بھیجا.اس بارے میں سیرت خاتم النبیین میں جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے وہ واقعہ اس طرح ہے کہ: " آنحضرت صلی الم کو جب بنو قریظہ کی اس خطرناک غداری کا علم ہوا تو آپ نے پہلے تو دو تین دفعہ خفیہ خفیہ زبیر بن العوام کو دریافت حالات کے لیے بھیجا اور پھر باضابطہ طور پر قبیلہ اوس و خزرج کے رئیس سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ اور بعض دوسرے بااثر صحابہ کو ایک وفد کے طور پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کوئی تشویشناک خبر ہو تو واپس آکر اس کا بر ملا اظہار نہ کریں بلکہ اشارہ کنایہ سے کام لیں تاکہ لوگوں میں تشویش نہ پیدا ہو.جب یہ لوگ بنو قریظہ کے مساکن میں پہنچے." جہاں ان کی رہائش تھی، گھر تھے " اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے پاس گئے تو وہ بد بخت ان کو نہایت مغرورانہ انداز سے ملا اور سعدین " یعنی سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ" کی طرف سے معاہدہ کا ذکر ہونے پر وہ اور اس کے قبیلہ کے لوگ بگڑ کر بولے کہ : "جاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے." یہ الفاظ سن کر صحابہ کا یہ وفد

Page 332

اصحاب بدر جلد 4 316 750 74811 وہاں سے اٹھ کر چلا آیا اور سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ نے آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہو کر مناسب طریق پر آنحضرت صلی علیم کو حالات سے اطلاع دی.' یہ بھی ہے کہ صحابہ کی اس صحبت میں حضرت خوات بن جُبیر بھی شامل تھے.749 ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے حضرت خوات " کو اپنے گھوڑے پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور اس گھوڑے کا نام جناح تھا.حضرت خوات بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضرت عمرؓ کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے.اس قافلے میں ہمارے ساتھ حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت عبد الرحمن بن عوف بھی تھے.لوگوں نے کہا کہ ہمیں ضرار ، ( ضرار بن خطاب قریش کا ایک شاعر تھا جو فتح مکہ پر ایمان لائے تھے ) کے شعر سناؤ.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ابو عبد اللہ یعنی خوات کو اپنے اشعار سنانے دو.اس پر میں انہیں اشعار سنانے لگا یہاں تک کہ سحر ہو گئی.تب حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ بس کر دو کہ اب وقت سحر ہے.751 101 حضرت تحولی بن ابی تحولی رض حضرت خولی غزوہ بدر اور احد اور تمام غزوات میں آنحضور صلی لی ایم کے ساتھ شریک رہے.ابو معشر اور محمد بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت خولی غزوہ بدر میں اپنے بیٹے کے ساتھ شریک ہوئے مگر انہوں نے بیٹے کا نام ذکر نہیں کیا.محمد بن اسحاق کہتے ہیں ( یہ سارے تاریخ دان ہیں) کہ حضرت خُولِی اپنے بھائی مالک بن آبی خوبی کے ساتھ بدر میں شریک تھے.ایک قول کے مطابق غزوہ بدر میں حضرت خوبی اور آپ کے دو بھائی چلال بن ابی خوبی اور حضرت عبد اللہ بن ابی تحولی بھی شامل تھے.حضرت خوبی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے زمانہ خلافت میں وفات پائی.752 رض

Page 333

317 102 محاب بدر جلد 4 نام و نسب و کنیت حضرت ذكوان بن عَبْد قَيس مدینہ سے مکہ ہجرت کرنے والے منفر د صحابی ย حضرت ذکوان بن عبد قیس.ان کی کنیت ابو الشبع تھی.حضرت ذکوان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو زُریق سے تھا.آپ کی کنیت ابوالشبع ہے.آپ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ میں بھی شریک رہے.مدینہ سے مکہ ہجرت کرنے والے صحابی آپ کی ایک نمایاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ مدینہ سے ہجرت کر کے آنحضور صلی ا ظلم کے پاس مکہ گئے.اس وقت تک آنحضور صلی علی کم مکہ میں ہی تھے.آپ کو انصاری مہاجر کہا جاتا تھا.آپ وہاں مکہ جا کے کچھ عرصہ رہے.یا سمجھنا چاہیے کہ ہجرت کر کے آنحضرت صلی علیہم کے پاس آگئے.آپ غزوہ بدر اور احد میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہادت کا رتبہ پایا.آپ کو ابو حکم بن آنخلس نے شہید کیا تھا.حضرت ذکوان بن عَبْد قَیس کو انصاری مہاجر کہا جاتا ہے.3 753 علامہ ابن سعد طبقات کبریٰ میں لکھتے ہیں کہ ہجرت مدینہ کے وقت جب مسلمان مدینہ روانہ ہوئے تو قریش سخت ناراض تھے اور جو نوجوان ہجرت کر کے جاچکے تھے ان پر انہیں بہت غصہ آیا.انصار کے ایک گروہ نے عقبہ ثانیہ میں رسول اللہ صلی للی یکم کی بیعت کی تھی اور اس کے بعد واپس مدینہ چلے گئے تھے.جب ابتدائی مہاجرین قبا پہنچ گئے تو یہ انصار رسول کریم صلی لمینیم کے پاس مکہ گئے اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آئے.اسی مناسبت سے انہیں انصار مہاجرین کہا جاتا ہے.ان اصحاب میں حضرت ذکوان بن عبد قَيْس ، حضرت عُقْبَه بن وهب ، حضرت عباس بن عبادہ ، اور حضرت زیاد بن لبيد شامل تھے.اس کے بعد تمام مسلمان مدینہ چلے گئے تھے سوائے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر حضرت علی کے یا وہ جو فتنہ میں تھے ، قید تھے ، مریض تھے یا وہ ضعیف اور کمزور تھے.754 جو ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہے جو کل جنت کے سبزے پر چل رہا ہو گا تو اس کو دیکھ لے سهيل بن ابی صالح سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ لی لی نام احمد کے لیے نکلے.آپ نے ایک مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اس طرف کون جائے گا اپنی زُریق میں سے ایک صحابی حضرت ذکوان بن عبد قیس ابو السبع کھڑے ہوئے.کہنے لگے یارسول اللہ ! میں جاؤں گا.آنحضور صلی ایم نے دریافت فرمایا کہ تم کون ہو ؟ حضرت ذکوان نے کہا میں ذکوان بن عَبْدِ قَيْسِ

Page 334

318 اصحاب بدر جلد 4 ہوں.آپ صلی علیہ کم نے بیٹھ جانے کا ارشاد فرمایا.آپ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی.پھر آپ نے فرمایا کہ فلاں فلاں جگہ پر چلے جاؤ.اس پر حضرت ذکوان بن عبد قیس نے عرض کی یارسول اللہ یقیناً میں ہی ان جگہوں پر جاؤں گا.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ جو کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہے جو کل جنت کے سبزے پر چل رہا ہو گا تو اس شخص کی طرف دیکھ لے.اس کے بعد حضرت ذکوان اپنے اہل خانہ کو الوداع کہنے گئے.آپ کی ازواج اور بیٹیاں آپ سے کہنے لگیں کہ آپ ہمیں چھوڑ کر جارہے ہیں ! انہوں نے اپنا دامن ان سے چھڑایا اور تھوڑا دور ہٹ کر ان کی طرف رخ کر کے مخاطب ہوئے کہ اب بروز قیامت ہی ملاقات ہو گی.اس کے بعد غزوہ اُحد میں ہی آپ نے شہادت کا رتبہ پایا.کسی کو ذکوان بن عبد قیس کا علم ہے...؟ 755 غزوہ اُحد کے دن رسول اکرم صلی علیم نے دریافت فرمایا کہ کسی کو ذکوان بن عبد قیس کا علم ہے ؟ حضرت علی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے ایک گھڑ سوار دیکھا جو ذکوان کا پیچھا کر رہا تھا یہاں تک کہ وہ ان کے قریب پہنچ گیا اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اگر آج تم زندہ بچ گئے تو میں نہیں بیچ سکوں گا.اس نے حضرت ذکوان جو کہ پیادہ پاتھے پر حملہ کر کے آپ کو شہید کر دیا اور انہوں نے عرض کیا کہ یہ کہتے ہوئے آپ پر وار کر رہا تھا کہ دیکھو میں ابنِ عِلاج ہوں.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس پر حملہ کیا اور اس کی ٹانگ پر اپنی تلوار مار کر نصف ران سے کاٹ ڈالا.پھر اسے گھوڑے سے اتارا اور اسے قتل کر دیا.حضرت علی فرماتے ہیں.میں نے دیکھا تھا کہ وہ ابو الحکم بن اخنس تھا.756 103 نام و کنیت ذُو السّمَالَينِ حضرت عُمير بن عَبْدِ عَمرو * ย حضرت ذُو الشمالين عمير بن عَبْدِ عَمرو.ان کا اصل نام عمیر تھا اور کنیت ابو محمد.حضرت عمیر کی کنیت ابو محمد تھی جیسا کہ بتایا.ذوالشمالین کیوں کہا جاتا تھا ابن ہشام بیان کرتے ہیں کہ آپ کو ذُو الشمال تین کہا جاتا تھا.یہ نام نہیں تھا بلکہ یہ ان کو لقب مل گیا تھا کیونکہ آپ بائیں ہاتھ سے زیادہ کام لیتے تھے.دوسری روایت میں یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں

Page 335

اصحاب بدر جلد 4 319 ہاتھوں سے کام کر لیتے تھے.ایک طرح استعمال کر لیتے تھے.اس لیے آپ کو ذُو الْيَدَيْنِ بھی کہتے تھے.آپ کا تعلق قبیلہ بنو خزاعہ سے تھا.آپ بنو زُھرہ کے حلیف تھے.ہجرت و مواخات حضرت عمیر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں آئے تو حضرت سعد بن خَيْثَمَہ کے ہاں قیام کیا.آنحضرت صلی علیہ ہم نے آپ کی یزید بن حارث کے ساتھ مواخات قائم فرمائی.بدر میں شہادت یہ دونوں صحابہ غزوہ بدر میں شہید ہو گئے تھے.آپ غزوہ بدر میں شہید ہوئے جیسا کہ ذکر ہو گیا ہے اور آپ کو اُسامہ جشمی نے شہید کیا تھا.شہادت کے وقت آپ کی عمر 30 سال سے زائد تھی.طبقات الکبریٰ میں ابو اسامہ مجصمیمی نام آیا ہے کہ اس نے قتل کیا تھا.757 104 نام و نسب حضرت رافع بن المعلى جنگ بدر میں شریک ہونے والے دو بھائی حضرت رافع بن المعلى - حضرت رافع بن المعلی کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو حبیب سے تھا.آپ کی والدہ کا نام ادام بنت عوف تھا.آنحضور صلی یکم نے حضرت رافع اور حضرت صفوان بن بیضاء کے در میان عقد مؤاخات قائم فرمایا.یہ دونوں اصحاب غزوہ بدر میں شریک تھے.جنگ بدر میں شہادت بعض روایات کے مطابق دونوں ہی غزوہ بدر میں شہید ہوئے.ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت صَفْوَان بن بَيْضَاء غزوہ بدر میں شہید نہیں ہوئے تھے.موسى بن عقبہ کی روایت ہے کہ حضرت رافع اور آپ کے بھائی ھلال بن مُعَلِّی دونوں بھائی غزوہ بدر میں شریک ہوئے.حضرت رافع کو عِكْرِمہ بن ابو جہل نے غزوہ بدر میں شہید کیا تھا.758

Page 336

320 105 صحاب بدر جلد 4 حضرت رافع بن حارث بن سواد ان کا نام رافع بن حارث بن سواد ہے.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو نجار سے تھا.غزوہ بدر اور احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ہمراہ شریک ہوئے.حضرت عثمان کے دور خلافت میں ان کی وفات ہوئی.حضرت رافع بن حارث کا ایک بیٹا تھا جس کا نام حارث تھا.759 106 حضرت رافع بن عُنجدة انصاری حضرت رافع کے والد کا نام عبد الحارث تھا، من جدہ آپ کی والدہ کا نام تھا.حضرت رافع نے اپنی والدہ کی اہنیت سے شہرت پائی، باپ کے بجائے والدہ کے نام سے مشہور ہوئے.ان کا تعلق قبیلہ بنو امیہ بن زید بن مالک سے تھا.غزوہ بدر، احد اور خندق میں یہ شریک ہوئے.0 760 107 ย حضرت رافع بن يزيد " ایک روایت میں آپ کا نام رافع بن زید بھی بیان کیا گیا ہے.حضرت رافع بن یزید کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کی شاخ بنو زَعُورَاء بن عَبْدِ الْأَشْهَل سے تھا.حضرت رافع کی والدہ عقرب بنت مُعَاذ مشہور صحابی حضرت سعد بن معاذ کی بہن تھیں.حضرت رافع کے دو بیٹے اُسید اور عبد الرحمن تھے.ان دونوں کی والدہ کا نام عقرب بنتِ سلامہ تھا.حضرت رافع غزوہ بدر واحد میں شریک ہوئے.ایک روایت کے مطابق آپ غزوہ بدر کے دن سعید بن زید کے اونٹ پر سوار تھے.آپؐ غزوہ اُحد میں شہید ہوئے.761

Page 337

321 108 صحاب بدر جلد 4 حضرت ربعی بن رافع انصاری * آپ کے دادا کے نام میں اختلاف ہے.ایک قول کے مطابق نام حارث جبکہ دوسرے کے مطابق زید تھا.حضرت ربعی بن رافع کا تعلق بنو عجلان سے تھا اور آپ غزوہ بدر اور اُحد میں شامل ہوئے.12 762 109 حضرت ربیع بن ایاس ย جنگ بدر میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ شریک ہونے والے ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنولوذان سے تھا.غزوہ بدر میں اپنے بھائی ورقہ بن ایاس اور عمر و بن ایاس کے ساتھ شامل ہوئے اور غزوہ احد میں بھی آپ شامل ہوئے.763 110) نام و نسب و کنیت حضرت ربيعه بن القم" ان کی کنیت ابو یزید تھی.حضرت ربیعہ چھوٹے قد اور موٹے جسم کے مالک تھے.آپ کا تعلق قبیلہ اسد بن خزیمہ سے تھا.ہجرت مدینہ حضرت ربیعہ کا شمار مہاجر صحابہ میں ہوتا ہے.ہجرت مدینہ کے بعد آپ نے چند دیگر صحابہ کے

Page 338

اصحاب بدر جلد 4 322 ہمراہ حضرت مبشر بن عبد المنذر کے گھر میں قیام کیا.غزوہ بدر میں شمولیت کے وقت آپ کی عمر تھیں برس تھی.غزوہ خیبر میں شہادت غزوہ بدر کے علاوہ آپ نے غزوہ احد، غزوہ خندق، صلح حدیبیہ اور غزوہ خبیر میں بھی شرکت کی اور غزوہ خیبر میں ہی شہادت کا رتبہ بھی پایا.آپ کو حارث نامی یہودی نے نکائی کے مقام پر شہید کیا.نطان خبیر میں موجود ایک قلعہ کا نام ہے.شہادت کے وقت آپ کی عمر 37 سال تھی.764 111 حضرت رُخَيْله بن ثعلبہ انصاری ان کا نام بھی مختلف طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے.بعض کہتے ہیں رُخَيْلَه بعض رُجَيْلَهُ اور رُحَيْله وغیرہ.آپ کے والد کا نام ثعلبہ بن خالد تھا.غزوہ بدر اور احد میں یہ شریک ہوئے.ان کا تعلق قبیلہ خزرج کی ایک شاخ بنو بیاضہ سے تھا اور آپ جنگ صفین میں حضرت علی کے ہمراہ تھے.765 112 نام و کنیت حضرت رفاعه بن رافع بن مالک بن عجلان * یہ بھی انصاری ہیں.ان کی وفات حضرت امیر معاویہ کی امارت کے ابتدائی ایام میں ہوئی.حضرت رفاعه بن رافع بن مالک بن عجلان.ان کی کنیت ابو معاذ ہے.والدہ ام مالک بنت أبي بن سلول تھیں جو عبد اللہ بن اُبی بن سلول سر دار المنافقین کی بہن تھیں.بیعت عقبہ میں شریک ت عقبہ میں شریک تھے.غزوہ بدر اور اُحد اور خندق اور بیعت رضوان اور تمام غزوات میں

Page 339

تاب بدر جلد 4 323 رسول اللہ صلی علیکم کے ہمراہ تھے.آپ کے دو بھائی تھے خلاد بن رافع اور مالک بن رافع.یہ بھی غزوہ بدر میں شامل تھے.766 اہل بدر کا مقام اور حضرت جبرئیل حضرت معاذ نے اپنے باپ حضرت رفاعہ بن رافع سے روایت کی ہے اور ان کے باپ اہل بدر میں سے تھے ، انہوں نے کہا کہ جبرئیل نبی صلی علیکم کے پاس آئے اور کہا آپ مسلمانوں میں اہل بدر کو کیا مقام دیتے ہیں ؟ آپ صلی تعلیم نے جواب دیا کہ بہترین مسلم یا ایسا ہی کوئی کلمہ فرمایا.حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا اور اسی طرح وہ ملائکہ بھی افضل ہیں جو جنگ بدر میں شریک ہوئے.یہ بخاری کی روایت ہے.767 ملائکہ کس طرح جنگ میں شریک ہوئے ؟ حضرت سید زین العابدین شاہ صاحب نے بخاری کی جو شرح لکھی ہے بخاری کی اس میں ان فرشتوں کے شریک ہونے کے حوالے سے جو وضاحت بیان کی ہے وہ اس طرح ہے کہ " اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِذْ يُوحَى رَبُّكَ إِلَى الْمَلَكَةِ إِنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَألْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانِ (الانفال :13) " یہ وہ وقت تھا " جب تیر ارب ملائکہ کو بھی وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.پس مؤمنوں کو ثابت قدم بناؤ.میں کفار کے دلوں میں رعب ڈالوں گا." پس اے مومنو " تم ان کی گردنوں پر حملے کرتے جاؤ اور ان کے پور پور پر ضربیں لگاتے جاؤ.ضرب الاعناق، ضرب الرقاب اور ضَرَبُ كُلّ بنان“ سے مراد زور دار حملہ ہے جس میں نشانے کی صحت ملحوظ ہو." اس سے ملتی جلتی دو تین روایتیں ہیں ان کے بارے میں شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ " روایات زیر باب میں فرشتوں کی موجودگی اور مشاہدے کا جو ذکر ہے وہ از قبیل مکاشفات ہے." یعنی مکاشفہ کی صورت میں ہے " اور ان کی جنگ بھی اسی قسم کی ہے جو اُن کے مناسب حال ہے.یعنی جو فرشتوں کے مناسب حال جنگ ہوتی ہے وہ ہے " نہ تیر و تفنگ کی." فرشتوں نے کوئی تیر اور تلواریں نہیں اٹھائی تھیں." اور ان کا مشاہدہ روحانی بینائی سے ہوتا ہے، نہ جسمانی آنکھ سے.نبی کریم صلی علیم نے بھی مشاہدہ فرمایا اور صحابہ کرام نے بھی اور ایسا مشاہدہ اولیاء اللہ کو بھی ہوتا ہے."کہ ملائکتہ اللہ کس طرح لڑتے ہیں "ملائکۃ اللہ ہی کے تصرف میں سے تھا یہ وضاحت شاہ صاحب کرتے ہیں " کہ عمائد قریش واقعہ نخلہ سے مشتعل ہو کر اپنے طیش میں آپے سے باہر ہو گئے اور یہی واقعہ بعد کی جنگوں کا ایک سبب بنا جن میں کفار قریش کی ہلاکت سے متعلق تقدیر الہی پوری ہوئی.ملائکتہ اللہ کا طریق کار ہمارے طریقہ کار سے جدا اور ان کا اسلوب جنگ ہمارے اسلوب جنگ سے نرالا ہے.بدر کے مقام پر دشمن کا عقنقل "تو ده ریگ" کے فراز میں پڑاؤ کرنا " وہ اونچائی پر تھے نبی کریم صلی للہ علم کا نشیب وادی میں اترنا اور صحابہ کرام کی قلیل تعداد کا دشمن کی نظر سے اوجھل رہنا، بادوباراں کا ظہور ، ( بارش ہو گئی.اس کا ظہور ہونا) صحابہ کرام کا ایک ایک تیر کا اپنے نشانے پر ٹھیک

Page 340

ب بدر جلد 4 324 بیٹھنا.(جو بھی تیر صحابہ چلاتے تھے وہ نشانے پر صحیح بیٹھتا تھا.اس کا صحیح بیٹھنا) اور کاری ثابت ہو نا، دشمن کی سراسیمگی اور صحابہ کرام کی دلجمعی."دشمن پریشان تھا اور صحابہ کرام بڑی مستقل مزاجی اور دلجمعی سے جنگ لڑ رہے تھے.یہ سب ملائکۃ اللہ کے تصرف کا کرشمہ تھا جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللی علم کو ان الفاظ میں دی تھی إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ إِنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُردِ فِينَ (1) نخل (10) " کہ اور اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے التجائیں کرتے تھے اس پر تمہارے رب نے تمہاری دعاؤں کو سنا" اور کہا کہ " میں تمہاری مدد ہزاروں فرشتوں سے کروں گا جن کا لشکر کے بعد لشکر بڑھ رہا ہو گا." پھر لکھتے ہیں کہ " دعائے نبوی کی قبولیت سے ظاہری اسباب میں جو جنبش پید ا ہوئی اس کے اندر ایک عجیب تسلسل دکھائی دیتا ہے.اس کے حصوں پر یکجائی نظر ڈالنے سے ملائکتہ اللہ کا لشکر بیکراں کار فرما نظر آتا ہے."آپ بیان کرتے ہیں کہ " کس نے نبی کریم صلی یک کو نازک گھڑی میں بحفاظت مکہ مکرمہ سے نکالا اور کس نے اہل مکہ کو غافل رکھا اور پھر کس نے انہیں غار ثور تک لا کر آپ کے تعاقب سے قریش کو نا امید واپس لوٹا دیا اور کس نے نبی کریم صلی علیکم کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچایا جو اسلام کی ترقی کا اہم مرکز بنا." پھر لکھتے ہیں کہ "حضرت عباس کا ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ میں بحالت شرک رہنا اور پھر آنحضرت صلی الم سے دلی ہمدردی رکھنا اور آپ کو مدینہ منورہ میں قریش مکہ کے بد ارادوں اور منصوبوں سے آگاہ کرتے رہنا یعنی حضرت عباس کے ذریعہ سے " یہ بھی ملائکۃ اللہ کے تصرف کا ایک حصہ ہے." ملائکہ اس طرح کام کرتے ہیں." ان سب واقعات کے پس پردہ ملائکہ ہی کی تحریک کار فرما آنحضرت صلی ایم کے غزوات اور فتح و ظفر مندی کا پس منظر ایمان افروز آیت أَنِّي مُمِنكُمْ بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَكَةِ مُردِفِينَ (انفال:10) کی تفسیر پیش کرتا ہے." "نور الدین کو بھی ملائکتہ اللہ سے ہمکلام ہونے کا موقع ملا ہے“ پھر شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں کہ "میں نے صحیح بخاری مکمل حضرت خلیفہ اول حضرت مولانانور الدین صاحب رضی اللہ عنہ سے سبقاً سبقاً پڑھی ہے اور اسی طرح قرآن مجید بھی کئی بار در سا در ساسنا اور پڑھا ہے.آپ ا یعنی حضرت خلیفتہ المسیح الاول " ملائکۃ اللہ کے تعلق میں فرمایا کرتے تھے کہ نور الدین کو بھی ملائکتہ اللہ سے ہمکلام ہونے کا موقع ملا ہے اور نظام ملکی بہت وسیع نظام ہے.انسان کے قومی اور ملکات میں سے ہر قوت و ملکہ کے لئے بھی ملائکہ متعین ہیں.قوت بصر و بصیرت، قوت سمع و سماعت، قوت لمس و بطش اور عقل و شعور اور قوائے مفکرۃ ومدبرہ کے ساتھ اگر ملائکتہ اللہ کی مدد اور ہم آہنگی نہ ہو تو یہ قوتیں بریکار بلکہ نقصان دہ ہو جاتی ہیں."ساری انسانی استعدادیں اور قوتیں جو ہیں وہ فرشتوں کی وجہ سے ہی کارآمد ہوتی ہیں." پھر لکھتے ہیں کہ "تیر یا گولی کی شست و نشست اسی وقت اپنے نشانے پر راس آسکتی ہے جب عقل و شعور اپنے ٹھکانے پر اور دور و نزدیک کے فاصلے کا اندازہ صحیح ہو.اوسان بجا ہوں.قوت قلبیہ بر قرار ہو ورنہ تیر خطا جائے گا."لکھتے ہیں کہ خلیفہ اول " فرمایا کرتے تھے کہ ایک ایک ذہنی اور

Page 341

اصحاب بدر جلد 4 325 جسمانی قوت کے ساتھ ملائکۃ اللہ متعین ہیں اور ان کا تعلق ہر انسان کی ہر قوت سے مختلف حالات کفر و ایمان میں کم و بیش ہوتا ہے.قرآن مجید نے ان کی تعداد غزوہ بدر کے ذکر میں تین ہزار اور غزوہ اُحد میں پانچ ہزار بتائی ہے.یہ فرق موقع و محل کے اختلاف اور اہمیت فرض منصبی کی وجہ سے ہے.جنگ بدر میں دشمن کی تعداد کم اور جنگ اُحد میں زیادہ اور اسی نسبت سے خطرہ بھی زیادہ اور ملائکہ کی حفاظت بھی زیادہ تعداد میں نازل کئے جانے کا وعدہ ہے.فرماتا ہے: وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ( آل عمران : 127) " کہ " موعودہ نصرت الہی کا ظہور اللہ تعالیٰ کی صفت عزیزیت اور صفت حکیمیت سے ہے.یہ دونوں صفتیں حسن تدبیر اور کامل غلبہ واستحکام کی متقاضی ہیں جن میں اسباب نصرت کے تمام حلقے ایک دوسرے سے پیہم پیوست ہوتے ہیں.ان میں 769 تسلسل و احکام پایا جاتا ہے اور وہ محکم تدبیر الہی سے قوی و مضبوط کئے جاتے ہیں."768 تو یہ ہے وہ ساری اس علم کی گہرائی جو ملائکتہ اللہ کے جنگ کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے بھیجے تھے جو جنگ کر رہے تھے نہ یہ کہ فرشتے خود مار رہے تھے.اور بعضوں کے نزدیک تو یہ بھی روایتوں میں ہے کہ فرشتوں نے جن کو مارا اور جن کو زخم لگائے ان کی پہچان بالکل علیحدہ تھی اور جو صحابہ کے ذریعہ سے لوگوں کو زخم پہنچ رہے تھے ان کی پہچان علیحدہ تھی.یہ غلط چیز ہے.اصل یہی ہے کہ فرشتے انسانی قوی کو صحیح طرح رہنمائی کرتے ہیں اور ان کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور فرشتوں کی طرف سے جب یہ ہو رہا ہو تا ہے تو وہی فرشتوں کا لڑنا ہے.جنگ بدر میں شامل ہونے کی فضیلت حضرت بچی نے معاذ بن رفاعہ بن رافع سے روایت کی ہے.حضرت رفاعہ اہل بدر میں سے اور ان کے والد حضرت رافع عقبہ میں بیعت کرنے والوں میں سے ایک تھے.حضرت رافع اپنے بیٹے حضرت رفاعہ سے کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ بات خوش نہ کرتی کہ بجائے بدر میں شریک ہونے کے میں عقبہ میں بیعت کرنے والوں میں شامل ہو تا.یعنی یہ بات میرے لئے بہت بڑی بات ہے، میرے لئے یہ زیادہ قابل اعزاز ہے کہ میں جنگ بدر میں شامل ہوا بہ نسبت اس کے کہ بیعت عقبہ میں میں نے بیعت کی.770 ایک بہت بڑا اعزاز مجھے جنگ بدر میں شامل ہو کے ملا.اے انصار کے گروہ ! امیر المومنین کی دوسری دفعہ مدد کرو حضرت رفاعه بن رافع جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی کے ہمراہ تھے.ایک روایت کے مطابق ،حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بصرہ کی طرف لشکر کے ہمراہ نکلے تو حضرت عباس بن عبد المطلب کی اہلیہ لفضل بنت حارث نے حضرت علی ہو ان کے خروج کی اطلاع دی.اس پر حضرت علی نے کہا حیرت ہے کہ لوگوں نے حضرت عثمان پر حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا اور بغیر اکراہ کے میری بیعت کی.میں نے زبر دستی تو نہیں کہا تھا کہ بیعت کرو.ام ال

Page 342

اصحاب بدر جلد 4 326 لوگوں نے میری بیعت کی اور طلحہ اور زبیر نے بھی میری بیعت کی اور اب وہ لشکر کے ہمراہ عراق کی طرف نکل پڑے ہیں.اس پر حضرت رفائہ بن رافع نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی الی ان کا وصال ہوا تو ہمارا گمان تھا کہ ہم لوگ یعنی انصار اس خلافت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ہم نے رسول اللہ صلی للی کم کی مدد کی اور ہمارا مقام دین میں بڑا ہے مگر آپ لوگوں نے کہا کہ ہم مہاجرین اولین ہیں اور ہم رسول اللہ صلی علیکم کے دوست اور قریبی ہیں اور ہم تمہیں اللہ کی یاد دلاتے ہیں کہ تم رسول اللہ صلی علیم کی جانشینی میں ہم سے مزاحمت نہ کرو اور تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم نے اس وقت تمہیں اور (خلافت کے) امر کو چھوڑ دیا تھا.(ہم نے پھر بحث نہیں کی اور بالکل کامل اطاعت کے ساتھ خلافت کی بیعت کر لی.اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب ہم نے دیکھا کہ حق پر عمل ہو رہا ہے اور کتاب اللہ کی پیروی کی جارہی ہے اور رسول اللہ صلی کی کمی کی سنت قائم ہے تو ہمارے پاس راضی ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہ تھا اور اس کے سوا ہمیں کیا چاہئے تھا اور ہم نے آپ کی بیعت کی اور پھر اس سے رجوع نہیں کیا.(پھر پیچھے ہٹے نہیں) اب آپ سے ان لوگوں نے مخالفت کی ہے جن سے آپ بہتر ہیں اور زیادہ پسندیدہ ہیں.پس آپ ہمیں اپنے حکم سے مطلع فرمائیں.اسی اثناء میں حجاج بن غزيه انصاری آئے اور انہوں نے کہا کہ اے امیر المومنین! اس معاملے کا تدارک اس سے پہلے کرنا چاہئے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے.میری جان کو کبھی چین نصیب نہ ہو، اگر میں موت کا خوف کروں.اے انصار کے گروہ ! امیر المومنین کی دوسری دفعہ مدد کرو جس طرح تم نے پہلے رسول اللہ صلی للی علم کی مدد کی تھی.اللہ کی قسم ! یہ دوسری مدد پہلی مدد کی مانند ہو گی سوائے اس کے کہ ان دونوں میں سے پہلی مدد فضل ہے.71 772 771 بہر حال ان کی وفات حضرت امیر معاویہ کی امارت کے ابتدائی ایام میں ہوئی.2 حضرت رقائہ بن رافع کے قبولِ اسلام کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ مُعاذ بنِ رِ فائہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت رفاعہ بن رافع اور ان کے خالہ زاد بھائی حضرت معاذ بن عفرار نکلے اور مکہ مکرمہ پہنچے جب دونوں شنیہ پہاڑی سے نیچے اترے تو انہوں نے ایک شخص کو درخت کے نیچے بیٹھے دیکھا.راوی کے مطابق یہ واقعہ چھ انصاریوں کے نکلنے سے پہلے کا ہے یعنی بیعت عقبہ اولیٰ سے پہلے کا واقعہ ہے.کہتے ہیں کہ جب ہم نے، اس شخص کو دیکھاتو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.تو ہم نے کہا کہ اس شخص کے پاس چلتے ہیں اور اپنا سامان اس کے پاس رکھوا دیتے ہیں یہاں تک کہ بیت اللہ کا طواف کر آئیں.کہتے ہیں کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہلیت کے رواج کے مطابق سلام کیا مگر آپ نے اسلامی طریق کے مطابق سلام کا جواب دیا اور ہم کہتے ہیں کہ ہم نبی کے بارے میں سن تو چکے تھے کہ مکہ میں کسی نے دعویٰ کیا ہے مگر ہم نے آپ کو نہ پہچانا.ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ آپ نے کہا کہ نیچے اتر آؤ.پس ہم نیچے اتر آئے اور آپ سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جو

Page 343

ناب بدر جلد 4 327 نبوت کا دعویدار ہے اور وہ کہتا ہے جو بھی وہ کہتا ہے یعنی جو بھی اس کا دعوی ہے وہ اپنے دعویٰ کے متعلق کہتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا وہ میں ہی ہوں.پھر کہتے ہیں میں نے کہا کہ مجھے اسلام کے بارے میں بتائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسلام کے بارے میں بتایا اور پوچھا کہ آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ ہم نے کہا انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہیں کس نے پید اکیا ہے ؟ ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ بت کس نے پیدا کیے ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو ؟ ہم نے کہا یہ ہم نے خود بنائے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا پھر پیدا کرنے والا عبادت کا زیادہ حق دار ہے یاوہ جن کو پیدا کیا گیا ہے.پھر تو تم زیادہ حقدار ہو کہ تمہاری عبادت کی جائے کیونکہ تم بتوں کے پیدا کرنے والے ہو اور پھر آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کی عبادت اور اس کی گواہی کی طرف بلاتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور آپس میں صلہ رحمی کرنے اور دشمنی کو چھوڑ دینے کی طرف بلاتا ہوں جو لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ہو.ہم نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم جس چیز کی طرف آپ بلاتے ہیں اگر جھوٹی ہوئی تو بھی یہ عمدہ باتیں ہیں اور احسن اخلاق ہیں.آپ ہماری سواری کو سنبھالیں یہاں تک کہ ہم طواف کر آئیں.مُعاذ بن عفراء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی بیٹھے رہے.رِقائد بن رافع کہتے ہیں پس میں بیت اللہ کا طواف کرنے گیا.میں نے سیات تیر نکالے اور ایک تیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مقرر کر لیا جو اُن کا طریقہ تھا.دل کی تسلی کے لیے یہ تیروں سے شگون لیا کرتے تھے.کہتے ہیں پھر بیت اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا مانگی.اے اللہ ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جس چیز کی طرف بلاتے ہیں اگر وہ حق ہے تو ساتوں بار انہی کا تیر نکال.میں نے سات بار قرعہ ڈالا اور ساتوں بار آپ کا ہی تیر نکلا.میں زور سے بولا.اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ.پس لوگ میرے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے یہ شخص مجنون ہے، صالی ہو گیا ہے.میں نے کہا بلکہ مومن آدمی ہے.یعنی جس کی تم باتیں کر رہے ہو وہ تو مجنون ہے، صافی ہے لیکن میں نے کہا نہیں بلکہ مجھے تو لگتا ہے مومن آدمی ہے.پھر میں مکہ کے بالائی علاقے میں آگیا.پس جب معاذ نے مجھے دیکھا تو کہارِ فائہ ایسے نورانی چہرے کے ساتھ آرہا ہے جیسا کہ جاتے وقت نہ تھا یعنی کلمہ پڑھنے سے پہلے وہ نورانی چہرہ نہیں تھا جیسا کہ اب ہے.پس میں آیا اور اسلام قبول کیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سورہ یوسف اور اقرا باسم رَبَّكَ الَّذِی خَلَقَ پھر ہم واپس آگئے.773 حضرت رفاعہ بن رافع بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن میری آنکھ میں تیر لگا جس کی وجہ سے میری آنکھ پھوٹ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آنکھ پر اپنا لعاب لگایا اور میرے لیے دعا کی تو مجھے اس سے کوئی تکلیف نہ ہوئی.774

Page 344

اصحاب بدر جلد 4 328 ایک دوسری روایت کے مطابق جنگ بدر کے دن تیر حضرت رِفاعہ بن رافع کو نہیں بلکہ ان کے والد رافع بن مالک کی آنکھ میں لگا تھا.5 775 بہر حال اللہ بہتر جانتا ہے لیکن نتیجہ بہر حال وہی ہے کہ تکلیف دور ہوئی.حضرت رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ہم بھی آپ کے ساتھ تھے.اسی دوران ایک شخص آپ کے پاس آیا جو بد وی لگ رہا تھا.اس نے آکر نماز پڑھی اور بہت ہلکی پڑھی.پھر مڑا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر بھی سلام ہو.واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی.وہ پھر گیا اور نماز پڑھی.پھر وہ آیا اور آکر اس نے آپ کو سلام کیا.آپ نے پھر فرمایا تم پر بھی سلامتی ہو اور فرمایا کہ واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی.اس طرح اس نے دو باریا تین بار کیا.ہر بار وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو سلام کرتا اور آپ فرماتے تم پر بھی سلام ہو.واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی.تو لوگ ڈرے اور ان پر یہ بات گراں گزری کہ جس نے ہلکی نماز پڑھی ہے اس نے نماز ہی نہیں پڑھی.وہاں جو لوگ، صحابہ ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے ان کو بڑا خوف محسوس ہوا کہ اس کا مطلب ہے کہ بلکی نمازیں تو پھر نماز ہی نہیں ہے.ہمیں بھی اس لحاظ سے اپنا جائزہ لینا چاہیے.آخر اس آدمی نے عرض کیا کہ ہمیں پڑھ کر دکھا دیں اور مجھے سکھا دیں.میں انسان ہی تو ہوں میں صحیح بھی کرتا ہوں اور مجھ سے غلطی بھی ہو جاتی ہے تو آپ نے فرمایا ٹھیک ہے جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو پہلے وضو کرو جیسے اللہ نے تمہیں وضو کرنے کا حکم دیا ہے.پھر اگر تمہیں کچھ قرآن یاد ہو تو اسے پڑھو ورنہ الْحَمْدُ لِلهِ، الله اكبر اور لا إِلهَ إِلَّا اللہ کہو.پھر رکوع میں جاؤ اور خوب اطمینان سے رکوع کرو.اس کے بعد بالکل سیدھے کھڑے ہو جاؤ.پھر سجدہ کرو اور خوب اعتدال سے سجدہ کرو.پھر بیٹھو اور خوب اطمینان سے بیٹھو پھر اٹھو.جب تم نے ایسا کر لیا تو تمہاری نماز پوری ہو گئی اور اگر تم نے اس میں کچھ کمی کی تو تم نے اتنی ہی اپنی نماز میں سے کمی کی.776 حضرت رفاعہ بن رافع سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا کہ کسی کی نماز مکمل نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ پوری طرح وضو کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے.اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئے اور اپنے سر کا مسح کرے اور اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے.777 ایک اور روایت میں حضرت رِفائہ بن رافع سے اس واقعہ کی روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب تم کھڑے ہو اور تم نے قبلہ کی طرف رخ کیا تو اللہ اکبر کہو اور سورہ فاتحہ پڑھو اور اس کے ساتھ جتنا قرآن

Page 345

اصحاب بدر جلد 4 329 اللہ چاہے ، جتنا تمہیں یاد ہے یا جو پڑھنا چاہتے ہو تم پڑھو جب تم رکوع کرو تو اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھو اور اپنی کمر سیدھی رکھو اور انہوں نے کہا جب تم سجدہ کرو تو اطمینان سے سجدہ کرو اور جب تم سر اٹھاؤ تو اپنے بائیں ران پر بیٹھو.78 113 حضرت رِفَاعَه بن عمر و انصاری * حضرت رفاعه بن عمر و انصاری.ان کی کنیت ابو ولید تھی.حضرت رفاعہ کا تعلق قبیلہ بنو عوف بن خزرج سے تھا.آپ کی والدہ کا نام اید رفاعہ تھا.آپ ستر انصار کے ساتھ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے.آپ نے غزوہ بدر اور احد میں شرکت کی اور غزوہ احد میں جام شہادت نوش کیا.779 114) عجیب قسم کی محبتوں کا فیض پانے والے خوش نصیب حضرت زَاهِر بن حَرَام الاشجعي.زاهر ہمارے بادیہ نشین دوست ہیں اور ہم ان کے شہری دوست ہیں حضرت زاهر بن حرام الاشجعی ایک صحابی تھے.یہ بھی بدری صحابی ہیں.ان کا تعلق اشجع قبیلہ سے تھا.غزوہ بدر میں آنحضرت صلی المی یوم کے ہمراہ شامل ہوئے.حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ بادیہ نشینوں میں یعنی گاؤں کے رہنے والے جو تھے ان میں ایک آدمی تھا جن کا نام زاھر تھا.وہ آنحضرت صلی الم کے لئے دیہات کی سوغاتیں ساتھ لایا کرتے تھے اور جب وہ جانے لگتے تو آنحضرت صلی سلیم بھی ان کو کافی مال و متاع دے کر روانہ فرماتے.آنحضرت صلی یکم فرمایا کرتے تھے کہ اِنَّ زَاهِرًا بَادِيَتُنَا وَنَحْنُ حَاضِرُوه کہ زَاهِرٌ ہمارے بادیہ نشین دوست ہیں اور ہم ان کے شہری دوست ہیں.آنحضرت صلی علیہ کام ان سے محبت رکھتے تھے.رض

Page 346

تاب بدر جلد 4 اللہ کے حضور تم بہت قیمتی ہو 780 330 حضرت زاهر معمولی شکل وصورت کے مالک تھے.ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت زَاهِر “بازار میں اپنا کچھ سامان فروخت کر رہے تھے کہ نبی کر یم ملی لیک ان کے پاس تشریف لائے اور پیچھے سے انہیں اپنے سینے سے لگالیا.ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی العلیم نے پیچھے سے آکر ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا.حضرت ڏاھر حضور کو دیکھ نہیں پارہے تھے.انہوں نے پوچھا کون ہے ؟ مجھے چھوڑ دو لیکن جب انہوں نے مڑ کر دیکھا تو آنحضرت صلی علی ایم کو پہچان لیا.جب حضرت زَاهِر نے آپ کو پہچان لیا، ذرا سا مٹر کے دیکھا تو جھلک نظر آگئی ہو گی.پہچاننے کا یہ مطلب ہے کہ ذرا سا مڑ کے دیکھا تو احساس ہوا کہ آنحضرت صلی لی ہم ہی ہیں تو اپنی کمر نبی کریم صلی علی ایم کے سینہ مبارک سے ملنے لگے.آنحضرت صلی یہ ہم نے مزاحا کہنا شروع کر دیا کہ کون اس غلام کو خریدے گا.حضرت ذاھد نے عرض کیا کہ یارسول اللہ تب تو آپ مجھے گھاٹے کا سودا پائیں گے.مجھے کس نے خریدنا ہے؟ اس پر نبی کریم صلی علی کرم نے فرمایا.اللہ کے نزدیک تم گھاٹے کا سودا نہیں ہو.یا فرمایا کہ اللہ کے حضور تم بہت قیمتی ہو.10 حضرت مصلح موعود نے بھی نبی کریم ملی ایم کی دلداری کا یہی واقعہ ایک جگہ بیان فرمایا.آپ فرماتے ہیں کہ : " اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی علی کم بازار میں تشریف لے جارہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک غریب صحابی جو اتفاقی طور پر بد صورت بھی تھے سخت گرمی کے موسم میں اسباب اٹھا رہے ہیں اور ان کا تمام جسم پسینہ اور گردو غبار سے اٹا ہوا ہے.رسول کریم صلی لیلی کی خاموشی سے ان کے پیچھے چلے گئے اور جس طرح بچے کھیل میں چوری چھپے دوسرے کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ وہ اندازہ سے بتائے کہ کس نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ ہم نے خاموشی سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے.اس نے آپ کے ملائم ہاتھوں کو ٹول کر سمجھ لیا کہ یہ رسول کریم صلی علیم ہیں تو محبت کے جوش میں اس نے اپنا پسینہ سے بھرا ہوا جسم رسول کریم صلی الم کے لباس کے ساتھ ملنا شروع کر دیا.رسول کریم صلی علیکم مسکراتے رہے اور آخر آپ نے فرمایا.میرے پاس ایک غلام ہے کیا اس کا کوئی خریدار ہے ؟ اس نے کہا یار سول اللہ ! میر اخریدار دنیا میں کون ہو سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایسا مت کہو.خدا کے حضور تمہاری بڑی قیمت ہے.عجیب قسم کی محبتوں کا فیض پانے والے خوش نصیب 781" بس عجیب قسم کی محبتوں کے فیض پائے ان لوگوں نے.آنحضرت صلی یم نے ایک موقع پر فرمایا كانَ لِكُلِّ حَاضِرَةِ بَادِيَةٌ وَبَادِيَةُ الِ مُحَمَّدٍ زَاهِرُ بْنُ الْحَرَامِ یعنی ہر شہری کا کوئی نہ کوئی دیہاتی تعلق دار ہوتا ہے اور آل محمد کے دیہاتی تعلق دار زاھر بن حرام ہیں.زاھر بن حرام بعد میں کوفہ منتقل ہو گئے تھے.782

Page 347

331 115 صحاب بدر جلد 4 نام و نسب و کنیت حواری رسول، عشره مبشره ابو عبد اللہ حضرت زبیر بن العوام حضرت زبیر بن عوام کے والد کا نام عوام بن حویلد تھا اور والدہ کا نام صَفِيَّه بنت عبد المطلب تھا جو آنحضرت صلی اللی علم کی پھوپھی تھیں.حضرت زبیر کا سلسلہ نسبت قصی بن کلاب پر جا کر نبی کریم صلی الیکم سے مل جاتا ہے.آپ زوجہ رسول صلی علیکم حضرت خدیجہ کے بھتیجے تھے.حضرت زبیر کی حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی حضرت اسماؤ کے ساتھ شادی ہوئی تھی اور نبی کریم صلی لیلی ظلم کی حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی حضرت عائشہ کے ساتھ شادی ہوئی تھی.یوں حضرت زبیر ، نبی کریم صلی اللہ نام کے ہم زلف بھی تھے.اس طرح حضرت زبیر کو نبی کریم صلی الی نام کے ساتھ یہ نسبتیں حاصل تھیں.آپ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی.آپ کی والدہ حضرت صفیہ نے آپ کی کنیت اپنے بھائی زبیر بن عبد المطلب کی کنیت پر ابو طاہر رکھی تھی لیکن حضرت زبیر نے اپنی کنیت اپنے بیٹے عبد اللہ کے نام کی مناسبت سے رکھی جو بعد میں زیادہ مشہور ہو گئی.قبول اسلام حضرت زبیر نے حضرت ابو بکر کے بعد اسلام قبول کیا.اسلام قبول کرنے والوں میں وہ چوتھے یا پانچویں شخص تھے.حضرت زبیر نے بارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا.بعض روایات کے مطابق آپ نے آٹھ یا سولہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا.عشرہ مبشرہ میں سے ایک خوش قسمت حضرت زبیر ان دس خوش قسمت صحابہ میں سے تھے جن کو حضرت رسول کریم صلی علیم نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی اور ان چھ اصحاب شوری میں سے ایک ہیں جنہیں حضرت عمر نے اپنی وفات سے قبل اگلا خلیفہ منتخب کرنے کے لیے نامز د فرمایا تھا.بہادر بنانے کے لئے والدہ کی سختی 783 جب حضرت زبیر کے والد عوام کا انتقال ہوا تو نوفل بن خویلد اپنے بھتیجے زبیر کی پرورش کرتے

Page 348

اصحاب بدر جلد 4 332 تھے اور حضرت صفیہ جو حضرت زبیر کی والدہ تھیں انہیں مارتی تھیں یا ڈانٹتی تھیں.اس وقت حضرت زبیر چھوٹی عمر کے تھے تو نوفل نے ، ان کے چچانے حضرت صفیہ کو کہا کہ کیا اس طرح بچوں کو مارا جاتا ہے، سختی کی جاتی ہے ؟ تم تو ایسے مارتی ہو جیسے اس سے ناراض ہو.اس پر حضرت صفیہ نے یہ اشعار پڑھے که مَنْ قَالَ إِنِّي أَبْغِضُهُ فَقَدْ كَذَّبْ وَإِنَّمَا أَضْرِبُهُ لِكَيْ يَلَبْ وَيَهْزِمَ الْجَيْشَ وَيَأْتِي بِالسَّلَبْ وَلَا يَكُنْ لِمَالِهِ خَبأَ مُخَبْ يَأْكُلُ فِي الْبَيْتِ مِنْ تَمْرٍ وَ حَبْ کہ جو اس بات کا قائل ہے کہ میں اس سے ناراض ہوں تو وہ جھوٹا ہے.میں اس پہ اس لیے سختی کرتی ہوں اسے مارتی ہوں تا کہ یہ بہادر بنے اور لشکروں کو شکست دے اور مقتول کا سامان لے کر لوٹے اور اپنے مال کے لیے چھپ کر نہ بیٹھے کہ گھر میں بیٹھا کھجور میں اور اناج کھاتا پھرے.784 بچوں کو مارنے سے اعتماد میں کمی آتی ہے بہر حال یہ سوچ تھی ان کی اور اس کے مطابق ان کا تربیت کا طریقہ تھا کہ بہادر بنانے کا یہ طریقہ ہے.ضروری نہیں کہ ہم کہیں کہ یہ بڑا اچھا طریق ہے اور عموماً تو آج کل یہی دیکھا جاتا ہے کہ اس سے اعتماد میں کمی آتی ہے.بہر حال اس وقت جو سختی تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس مار کے بد اثرات سے بچایا.ماں کی مامتا مشہور ہے.پیار بھی کرتی ہوں گی.صرف مارتی ہی نہیں ہوں گی.اور بعد کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ واقعی ان میں بہادری اور جرات پیدا ہوئی.کس وجہ سے ہوئی اللہ بہتر جانتا ہے لیکن بہر حال کوئی منفی اثر بچپن کی اس مار کا ان پہ نہیں ہوا.یہاں اگر آج کل کسی نے آزمانے کی کوشش کی تو یہاں تو سوشل سروس والے فوراً آجائیں گے اور بچوں کو لے جائیں گے.اس لیے مائیں کہیں یہ طریقہ آزمانے کی کوشش نہ کریں.قبول اسلام پر سخت تکالیف کا سامنا 785 جب حضرت زبیر نے اسلام قبول کر لیا تو آپ کے چچا آپ کو ایک چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیتے تھے تا کہ وہ اسلام چھوڑ کر کفر میں لوٹ جائیں مگر آپ یہی کہتے تھے کہ اب میں کفر میں نہیں لوٹوں گا.حضرت مصلح موعودؓ نے ان کے بارے میں اس واقعے کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ”زبیر بن عوام ایک بہت بڑے بہادر نوجوان تھے.اسلام کی فتوحات کے زمانہ میں وہ ایک زبر دست جر نیل ثابت ہوئے.ان کا چھا بھی ان کو خوب تکلیفیں دیتا تھا.چٹائی میں لپیٹ دیتا تھا اور نیچے سے دھواں دیتا تھا تا کہ ان کا سانس رک جائے اور پھر کہتا تھا کہ کیا اب بھی اسلام سے باز آؤ گے یا نہیں ؟ مگر وہ ان تکالیف کو برداشت کرتے اور جواب میں یہی کہتے کہ میں صداقت کو پہچان کر اس سے انکار نہیں کر سکتا.786

Page 349

اصحاب بدر جلد 4 333 بہادر ماں کا بہادر بیٹا ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر جب بچے تھے تو مکے میں ایک شخص سے لڑائی ہوگئی.اس شخص نے کوئی سنی کی ہو گی.یہ چھوٹے تھے وہ بڑا مر د تھا.بہر حال اس لڑائی میں انہوں نے ان شخص کا ہاتھ توڑ دیا اور سخت چوٹ پہنچائی.بہر حال اس شخص کو سواری پر لاد کر حضرت صفیہ کے پاس لایا گیا کہ دکھائیں.اس سے کہیں کہ آپ کے بیٹے نے اس کا یہ حال کیا ہے.حضرت صفیہ نے پوچھا کہ اس کو کیا ہوا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ حضرت زبیر نے اس سے لڑائی کی.نہیں بتایا کہ قصور کس کا ہے.بہر حال لڑائی ہوئی تو حضرت صفیہ نے حضرت زبیر کی اس دلیری پر شعر پڑھتے ہوئے کہا کہ : كَيْفَ رَأَيْتَ زَبْرًا أَ أَقِطَا حَسِبْتَهُ أَمْ تَمْرًا آمْ مُشْبَعِلًا صَقْرًا کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا؟ کیا اسے پنیر اور کھجور کی طرح سمجھا ہوا تھا کہ آسانی سے اسے کھا جاؤ گے.جو چاہو گے اس سے کر لو گے.وہ تو تیز جھپٹنے والے عقاب کی طرح ہے.تم نے اس کو تیز جھپٹنے والے عقاب کی طرح پایا ہو گا.787 حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت حضرت زبیر حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں میں شریک ہوئے اور جب آپ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو حضرت مُنذر بن محمد کے پاس ٹھہرے.788 ہجرت کے بعد اسلام میں پہلا پیدا ہونے والا بچہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو حضرت زبیر بن عوام کی بیوی تھیں ان سے مروی ہے کہ جب میں مکے سے ہجرت کر کے روانہ ہوئی تو میں امید سے تھی.وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے قبا میں پڑاؤ کیا.عبد اللہ بن زبیر وہاں پید ا ہوا.پھر میں اسے لے کر نبی کریم صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوئی.آپ نے اسے اپنی گود میں رکھا.پھر آپ نے ایک کھجور منگوائی، اسے چبایا.پھر اس بچے کے منہ میں پہلے لعاب ڈالا.پہلی چیز جو اس کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ صلی للی کم کا لعاب مبارک تھا.پھر آپ نے کھجور چبا کر اس کے منہ میں ڈالی اور اس کے لیے برکت کی دعا کی اور وہ پہلا بچہ تھا جو اسلام میں پیدا ہوا.789 چھوٹی سی عمر میں نبی اکرم صلی علم کی بیعت کرنا صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے حضرت اسماء کے بیٹے کا نام عبد اللہ

Page 350

صحاب بدر جلد 4 334 رکھا تھا.جب وہ سات یا آٹھ سال کے ہوئے تو نبی کریم صلی کم کی بیعت کے لیے آئے اور انہیں اس بات کا ان کے والد حضرت زبیر نے حکم دیا تھا کہ جاؤ بیعت کرو.جب رسول اللہ صلی الیم نے انہیں اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو آپ نے تبسم فرمایا.آپ مسکرائے اور پھر اس کی بیعت لی.790 مکہ اور مدینہ میں مواخات رسول اللہ صلی الم نے جب مکے میں مہاجرین کے درمیان مواخات قائم فرمائی تو حضرت زبیر اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی.ہجرت مدینہ کے بعد جب مہاجرین کی انصار سے مواخات قائم فرمائی تو حضرت سلمہ بن سلامه ان کے دینی بھائی ٹھہرے.791 اپنے بیٹوں کے نام شہداء کے نام پر رکھنا حضرت زبیر نے اپنے بیٹوں کے نام شہداء کے نام پر رکھے تھے تاکہ شاید اللہ انہیں شہادت نصیب کرے.عبد اللہ کا نام عبد اللہ بن جحش کے نام پر.منذر کا نام منذر بن عمرو کے نام پر.عروہ کا نام عُمر وہ بن مسعودؓ کے نام پر.حمزہ کا نام حمزہ بن عبد المطلب کے نام پر.جعفر کا نام جعفر بن ابو طالب کے نام پر.مُصْعَب کا نام مصعب بن محمیر کے نام پر.عبیدہ کا نام عبیدہ بن حارث کے نام پر.خالد کا نام خالد بن سعید کے نام پر اور عمر و کا نام عمر و بن سعید کے نام پر رکھا.حضرت عمرو بن سعید جنگ پر موک میں شہید ہوئے تھے.792 اور یہ پتہ نہیں کس حد تک صحیح ہے.کیونکہ حضرت عبد اللہ کا جو پیدائش کا وقت ہے تو اگر وہ پہلے بچے تھے تو کس سن میں پیدا ہوئے ؟ اللہ بہتر جانتا ہے.لیکن اس وقت کسی کی شہادت ہو بھی چکی تھی کہ نہیں لیکن بہر حال ان بزرگ لوگوں کے نام پر انہوں نے یہ نام رکھے.عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت زبیر اتنے دراز قد تھے کہ جب آپ سوار ہوتے تو آپ کے پاؤں زمین پر لگتے.793 حدیث بیان کرنے میں احتیاط کا عالم حضرت عبد اللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد یعنی حضرت زبیر سے پوچھا کہ جس طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور دیگر حضرات کو میں حدیث بیان کرتا ہو اسنتاہوں.بہت ساری روایتیں وہ آنحضرت صلی علیم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں.آپ کو نہیں سنتا اس کی کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے ، نبی صلی علیم سے کبھی جدا نہیں ہوا لیکن میں نے نبی صل اللہ ہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات منسوب کی اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا.794 اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی جھوٹ منسوب کرتے تھے بلکہ یہ کہ میں اپنے لیے یہی بہتر سمجھتا ہوں

Page 351

تاب بدر جلد 4 335 کہ احتیاط کروں.حالانکہ وہاں تو جان کے منسوب کی لیکن اتنے محتاط تھے کہتے تھے کہیں غلطی سے بھی کوئی ایسی بات منسوب نہ کر دوں اور پھر کہیں سزا پانے والوں میں سے نہ ہو جاؤں.یہ ان کی احتیاط تھی.پہلے جنہوں نے اپنی تلوار اللہ کی راہ میں بے نیام کی حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت زبیر بن عوام پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی تلوار کو اللہ کی راہ میں نیام سے نکالا تھا.ایک دفعہ حضرت زبیر قیطانچ، مکہ میں ایک مقام کا نام ہے اس کی گھائی میں آرام کر رہے تھے کہ اچانک آواز آئی کہ محمدعلی سلیم کو قتل کر دیا گیا ہے.وہ فوراً اپنی تلوار کو نیام سے نکالتے ہوئے اپنے گھر سے نکلے اس جگہ سے جہاں وہ آرام کر رہے تھے وہاں سے نکلے.راستے میں رسول اللہ صلی علیم نے دیکھ لیا اور پوچھاز بیر رک جاؤ، رک جاؤ کیا بات ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے سنا تھا، ایک آواز آئی تھی مجھے کہ آپ صلی ایم کو شہید کر دیا گیا ہے.آپ صلی ا م نے پوچھا اگر مجھے شہید کر دیا تو پھر تم کیا کر سکتے تھے؟ کہنے لگے اللہ کی قسم !میں نے ارادہ کیا کہ تمام اہل مکہ کو قتل کر دوں.نبی کریم صلی یم نے آپ کے لیے اس وقت خصوصی دعا فرمائی.ایک روایت میں درج ہے کہ رسول اللہ صل اللہ ہم نے آپ کی تلوار کے لیے بھی دعا فرمائی.حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ میں امید کرتا ہوں کہ ان کے حق میں نبی صلی ایم کی دعا کو اللہ ضائع نہیں کرے گا.5 795 تمام غزوات میں شمولیت حضرت زبیر غزوہ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ شریک رہے.غزوہ احد میں آنحضرت صلی علیم کے ساتھ ثابت قدم رہے.آپ سے موت پر بیعت کی.فتح مکہ کے موقع پر مہاجرین کے تین جھنڈوں میں سے ایک جھنڈ ا حضرت زبیر کے پاس تھا.796 بدر کے دن نبی کریم صلی لی ایم کے ساتھ صرف دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک پر حضرت زبیر سوار تھے.797 تلوار کے تین بڑے گہرے زخم حضرت عروہ سے مروی ہے کہ حضرت زبیر کے جسم پر تلوار کے تین بڑے گہرے زخم تھے جن میں میں اپنی انگلیاں ڈالا کرتا تھا یعنی گہرے زخم تھے.دوز خم غزوہ بدر کے موقع پر آئے تھے اور ایک زخم جنگ پر موک کے موقعے پر آیا تھا.798 فرشتے زبیر کے مشابہ اترے ہیں موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر بن عوام زرد عمامے کی وجہ سے پہچان لیے جاتے تھے.زرد عمامہ باندھے ہوتے تھے.جنگ بدر میں حضرت زبیر نے زرد عمامہ باندھا ہوا رض

Page 352

اصحاب بدر جلد 4 336 799 تھا اور آنحضرت صلی ا ہم نے دیکھ کر فرمایا کہ فرشتے زبیر کے مشابہ اترے ہیں.ایک برچھی جو بڑی قیمتی اور متبرک ثابت ہوئی یعنی جو اللہ تعالیٰ نے مدد کے لیے بھیجے ہیں وہ بھی اسی عمامے میں جنگ لڑ رہے ہیں.ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر کہتے تھے کہ غزوہ بدر کے دن محبیدہ بن سعید سے میری مڈھ بھیڑ ہوئی اور اس نے ہتھیاروں کو پوری طرح اوپر پہنا ہوا تھا.اس کی صرف آنکھیں ہی نظر آتی تھیں اور اس کی کنیت ابو ذات الکرش تھی.وہ کہنے لگا میں ابو ذات الگرِش ہوں.یہ سنتے ہی میں نے اس پر برچھی سے حملہ کر دیا اور اس کی آنکھ میں زخم لگایا تو وہ وہیں مر گیا.اس زور سے ماری تھی کہ ہشام کہتے تھے مجھے بتایا گیا کہ حضرت زبیر کہتے تھے کہ میں نے اپنا پاؤں اس پر رکھ کر پورا زور لگایا اور بڑی مشکل سے میں نے وہ برچھی کھینچ کر نکالی تو اس کے دونوں کنارے مڑ گئے تھے.عروہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی علیم نے وہ بر چھی حضرت زبیر سے طلب فرمائی.انہوں نے آپ کو پیش کر دی.جب رسول اللہ صلی علی کے فوت ہوئے تو حضرت زبیر نے اسے واپس لے لیا.پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر نے وہ بر چھی طلب کی.حضرت زبیر نے انہیں دے دی.جب حضرت ابو بکر فوت ہوئے تو حضرت عمرؓ نے آپ سے وہ بر چھی طلب کی اور آپ نے انہیں دے دی.جب حضرت عمر فوت ہوئے تو حضرت زبیر نے واپس لے لی.پھر اس کے بعد حضرت عثمان نے ان سے وہ برچھی طلب کی اور حضرت زبیر نے انہیں دے دی.جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو وہ حضرت علی کی آل کو مل گئی.آخر حضرت عبد اللہ بن زبیر نے ان سے لے لی اور وہ ان کے پاس رہی یہاں تک کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر شہید کر دیے گئے.800 نبی صل اللہ نام کا فرمانا میرے ماں باپ تم پر قربان حضرت زبیر بن عوام بیان کرتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن نبی کریم صلی علی یکم نے میرے لیے اپنے والدین کو جمع فرمایا یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں.بہادر بہن کا بھائی کی لاش پر آنا اور قابل رشک صبر اور اطاعت کا مظاہرہ 801 حضرت زبیر سے مروی ہے کہ غزوہ احد کے دن ایک عورت سامنے سے بڑی تیزی کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی.قریب تھا کہ وہ شہداء کی لاشیں دیکھ لیتی.نبی کریم صلی علی ام نے اس چیز کو اچھا نہیں سمجھا کہ خاتون انہیں دیکھ سکے.بہت بری حالت میں مثلہ کیا گیا تھا اس لیے فرمایا کہ اس عورت کو روکو، اس عورت کو روکو.حضرت زبیر فرماتے ہیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ میری والدہ حضرت صفیہ ہیں.چنانچہ میں ان کی طرف دوڑتا ہوا گیا اور ان کے شہداء کی لاشوں تک پہنچنے سے قبل ہی میں ان تک پہنچ گیا.انہوں نے مجھے دیکھ کر میرے سینے پر ہاتھ مار کر مجھے پیچھے دھکیل دیا.وہ ایک مضبوط خاتون تھیں اور کہنے لگیں کہ پرے ہٹو میں تم سے نہیں بولتی.یعنی کہ تم سے میں نے کوئی بات نہیں کرنی.پس تم پرے ہٹ جاؤ اور نہ میں نے تمہاری بات سنی ہے.میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی ہی کم نے آپ کو قسم دلائی ہے کہ

Page 353

تاب بدر جلد 4 337 ان لاشوں کو مت دیکھیں.یہ سنتے ہی وہ رُک گئیں.جب آنحضرت صلی علیم کا حوالہ دیا گیا تو وہ رک گئیں اور اپنے پاس موجود دو کپڑے نکال کر فرمایا: یہ دو کپڑے ہیں جو میں اپنے بھائی حمزہ کے لیے لائی ہوں کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے.تم انہیں ان کپڑوں میں کفن دے دینا.ایک روایت میں ہے کہ حضرت صفیہ نے کہا مجھے یہ علم ہے کہ میرے بھائی کا مثلہ ہوا ہے اور یہ خدا کی راہ میں ہی ہو اہے اور خدا کی راہ میں جو بھی سلوک حضرت حمزہ کے ساتھ ہوا ہے اس پر ہم کیوں نہ راضی ہوں.میں ان شاء اللہ صبر کروں گی اور اس کا اجر خدا سے چاہوں گی.حضرت زبیر نے ماں کا یہ جواب سنا تو آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام ماجرا عرض کیا.آنحضرت صلی علیم نے فرمایا صفیہ کو بھائی کی لاش پر جانے دو.حضرت صفیہ آگے بڑھیں، بھائی کی لاش کو دیکھا انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی.پھر حضور صلی ال کلیم نے ان کو دفن کرنے کا حکم دیا.پھر آگے راوی کہتے ہیں کہ جب ہم حضرت حمزہ کو ان دو کپڑوں میں کفن دینے لگے تو دیکھا کہ ان کے پہلو میں ایک انصاری شہید ہوئے پڑے ہیں.ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تھا جو حضرت حمزہ کے ساتھ کیا گیا تھا.ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ حضرت حمزہ کو دو کپڑوں میں کفن دے دیں اور اس انصاری کو ایک کپڑا بھی میسر نہ ہو.اس لیے ہم نے یہ طے کیا کہ ایک کپڑے میں حضرت حمزہ کو اور دوسرے میں اس انصاری صحابی کو کفن دے دیں گے.اندازہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات میں سے ایک زیادہ لمبے قد کے تھے ہم نے قرعہ اندازی کی اور جن کے نام پر جو کپڑا نکل آیا اسے اسی کپڑے میں دفنا دیا.تب بھی وہ پورا نہیں آیا تھا تو گھاس ڈالنی پڑی تھی.802 ہر نبی کا حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر ہیں حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقعے پر رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ کوئی ہے جو میرے پاس بنو قریظہ کی خبر لائے تو حضرت زبیر نے عرض کی میں حاضر ہوں.نبی صلی علیہ کم نے پھر فرمایا کوئی ہے جو میرے پاس بنو قریظہ کی خبر لائے.حضرت زبیر نے پھر جواب دیا میں حاضر ہوں.آنحضرت صلی الم نے تیسری بار فرمایا کہ کوئی ہے جو میرے پاس بنو قریظہ کی خبر لائے.حضرت زبیر نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں.نبی صلی اہل علم نے فرمایا کہ ہر نبی کا حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر ہیں.حضرت عبد اللہ بن عمر نے ایک شخص کو کہتے سنا جو کہتا تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ نیلم کے حواری کا بیٹا ہوں.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا کہ اگر تم حضرت زبیر کی اولاد میں سے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں.دریافت کیا گیا کہ حضرت زبیر کے علاوہ بھی اور کوئی تھا جسے رسول اللہ صلی الی نام کا حواری کہا جاتا تھا تو حضرت ابن عمرؓ نے کہا کہ میرے علم میں کوئی اور نہیں ہے.3 803 بنو قریظہ کی طرف جانا حضرت عبد اللہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ غزوہ احزاب کے دن مجھے اور عمر بن ابی سلمہ کو عورتوں میں مقرر کیا گیا.میں نے جو نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت زبیر اپنے گھوڑے پر سوار ہیں.

Page 354

صحاب بدر جلد 4 338 میں نے بنو قریظہ کی طرف دو دفعہ یا تین دفعہ جاتے ہوئے انہیں دیکھا.جب میں لوٹ کر آیا تو میں نے کہا اے میرے والد ! میں نے آپ کو ادھر اُدھر جاتے ہوئے دیکھا تھا.انہوں نے کہا بیٹا کیا تم نے واقعی مجھے دیکھا تھا؟ میں نے کہا ہاں.تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تھا کہ بنو قریظہ کے پاس کون جائے گا اور ان کی خبر لے کر میرے پاس آئے گا.یہ سن کر میں چلا گیا.جب میں لوٹا، جب واپس آ کے یہ رپورٹ دی تو رسول اللہ صلی علیم نے میرے لیے اپنے ماں باپ دونوں کا اکٹھا نام لیا یعنی فرمایا میرے 804 ماں باپ تجھ پر قربان ہوں.نہیں بلکہ تیرابیٹا اس کو مارے گا غزوہ خیبر میں یہود کا مشہور سردار مرحب حضرت محمد بن مسلمہ کے ہاتھوں مارا گیا تو اس کا بھائی یا سر میدان میں آیا.اس نے مَن تُبَارِز؟ کا نعرہ بلند کیا کہ کون ہے جو میر ا مقابلہ کرے گا؟ حضرت زبیر اس کے مقابلے کے لیے آگے بڑھے.حضرت صفیہ نے نبی کریم صلی علیہم سے عرض کی کہ یارسول اللہ ! معلوم ہوتا ہے کہ آج میرے بیٹے کو شہادت نصیب ہو گی.آنحضرت صلی ہم نے فرمایا نہیں بلکہ تیرابیٹا اس کو مارے گا.حضرت زبیر یا سر کے مقابلے کے لیے نکلے اور وہ حضرت زبیر کے ہاتھوں مارا گیا.5 805 تمہیں یہ کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور کہا...الله سة حضرت زبیر ان تین لوگوں میں بھی شامل تھے جنہیں آنحضرت صلی ایم نے اس عورت کا پتہ کرنے بھیجا تھا جو کفار کے لیے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کاخط لے کر جارہی تھی.گو اس کا ذکر پہلے ہو لیکن اس حوالے سے یہاں بھی تھوڑا سا ذکر کر دیتا ہوں.حضرت علی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الم نے مجھے ، حضرت زبیر اور حضرت مقداد کو ایک جگہ بھیجتے ہوئے فرمایا کہ جب تم رُوضَه خَاخ میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہو گا.تم اس سے وہ خط لے کر واپس آجانا.چنانچہ ہم لوگ روانہ ہو گئے یہاں تک کہ ہم رُوضَہ خان پہنچے.یہ سکے اور مدینے کے درمیان ایک جگہ ہے اس کا نام ہے.وہاں ہمیں واقعہ ایک عورت ملی.ہم نے اس سے کہا کہ تیرے پاس جو خط ہے وہ نکال دے.اس نے کہا میرے پاس تو کوئی خط نہیں.ہم نے اسے کہا کہ یا تو خود ہی خط نکال دو یا پھر ہم سختی کریں گے بلکہ تمہیں برہنہ کریں گے.جس حد تک بھی ہمیں جانا پڑا جائیں گے.مجبور ہو کر اس نے اپنے بالوں کی چوٹی میں سے ایک خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا.ہم وہ خط لے کر نبی کریم صلی یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے.اس خط کو جو کھول کر دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ وہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے کچھ مشرکین مکہ کے نام تھا جس میں نبی کریم صلی اللہ نام کے ایک فیصلے کی خبر دی گئی تھی.نبی صلی للہ ہم نے ان سے پوچھا کہ حاطب یہ کیا ہے ؟ یہ تم نے کیا کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میرے معاملے میں جلدی نہ کیجیے گا.میں قریش سے تعلق نہیں رکھتا.البتہ ان میں شامل ہو گیا ہوں.میں نے سوچا کہ ان پر ایک احسان کر دوں.میں نے یہ کام جو ہے یہ کافر ہو کر یا مرتد ہو کر یا اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے نہیں کیا.صرف ان لوگوں پر ایک احسان کرنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے میں نے کیا ہے.نبی کریم صلی لی ایم نے

Page 355

اصحاب بدر جلد 4 339 ان کی یہ بات سن کے فرمایا کہ تم نے سچ کہا.حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے بارے میں کہا کہ تم سے اس نے سچ بیان کیا ہے.حضرت عمرؓ اس وقت بڑے غصے میں تھے اور غصے میں مغلوب ہو کر آنحضرت صلی الیکم سے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیں کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں.806 نبی کریم صلی علیم نے فرمایا کہ یہ غزوہ بدر میں شریک ہو چکے ہیں اور تمہیں یہ کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا کہ تم جو کچھ کرتے رہو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں.16 رسول اللہ صلی ال یا کھڑے ہو کر ان کے چہروں سے اپنی چادر کے ساتھ غبار پونچھنے لگے جب رسول اللہ صلی علیم نے مکہ فتح کیا تو حضرت زبیر بن عوام فوج کے بائیں طرف تھے اور حضرت مقداد بن اسود فوج کے دائیں حصے پر مقرر تھے.جب رسول اللہ صلی علیم مکے میں داخل ہوئے اور لوگ مطمئن ہو گئے تو دونوں حضرات یعنی حضرت زبیر اور حضرت مقداد اپنے گھوڑوں پر آئے تو رسول اللہ صلی للی کم کھڑے ہو کر ان کے چہروں سے اپنی چادر کے ساتھ غبار پونچھنے لگے اور فرمایا کہ میں نے گھوڑے کے لیے دو حصے اور سوار کے لیے ایک مقرر کیا ہے.جو ان دونوں کو کم دے اللہ اسے کم دے.807 حصہ ہبل بت کا ٹوٹ کر گرنا اور اُغلُ هُبل کا نعرہ لگانے والے ابوسفیان.....حضرت خلیفہ المسیح الثانی حضرت زبیر کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : جب رسول اللہ صلی علیم نے ہبل نامی بت کے اوپر اپنی چھڑی ماری اور وہ اپنے مقام سے گر کر ٹوٹ گیا تو حضرت زبیر نے ابوسفیان کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا ابوسفیان ! یاد ہے احد کے دن جب مسلمان زخموں سے چور ایک طرف کھڑے ہوئے تھے.تم نے اپنے غرور میں یہ اعلان کیا تھا کہ اُغلُ هُبَل اُعْلُ هُبَل.ہبل کی شان بلند ہو.ہبل کی شان بلند ہو اور یہ کہ ہبل نے ہی تم کو احد کے دن مسلمانوں پر فتح دی تھی.آج دیکھتے ہو سامنے ہبل کے ٹکڑے پڑے ہیں.ابوسفیان نے کہاز بیر یہ باتیں اب جانے دو.آج ہم کو اچھی طرح نظر آرہا ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی یکم کے خدا کے سوا کوئی اور خدا بھی ہو تا تو آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس طرح کبھی نہ ہوتا.پس یہی خدا ہے جو آنحضرت صلی اللہ نمر کا خدا ہے.808 جنگ حنین اور زبیر بن عوام کی بہادری جنگ حنین کے دن قبیلہ ہوازن کی غیر متوقع تیر اندازی سے اور اس وجہ سے بھی کہ آج لشکرِ اسلام میں دو ہزار نو مسلم بھی شامل تھے.ایسا وقت آیا کہ رسول خداصلی ال یکم اکیلے میدان میں رہ گئے.حضرت عباس آنحضرت صلی الم کے خچر کی لگام تھامے تھے.کافر سردار مالک بن عوف ایک گھاٹی پر شہسواروں کے ساتھ کھڑا تھا.اس نے دیکھا کچھ شہسوار ظاہر ہوئے.مالک بن عوف نے پوچھا یہ کیا نظر

Page 356

ب بدر جلد 4 340 آ رہا ہے ؟ اس کے ساتھیوں نے کہا کہ کچھ لوگ ہیں اپنے نیزے گھوڑوں کے کانوں کے درمیان رکھے ہوئے ہیں.اس نے کہا یہ بنو سلیم ہیں ان سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے.چنانچہ وہ آئے اور وادی کی طرف نکل گئے.پھر دیکھا ایک اور دستہ سواروں کا ظاہر ہوا.مالک نے پوچھا کیا دیکھتے ہو.اس نے کہا کچھ لوگ ہیں نیزے ہاتھ میں ہیں.اس نے کہا یہ اوس اور خزرج ہیں.اس نے کہا ان سے بھی کوئی خطرہ نہیں.وہ بھی جب گھائی کے قریب پہنچے تو بنو سلیم کی طرح وادی کی طرف چل پڑے.پھر ایک سوار نظر آیا.مالک نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا دیکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا ایک شہسوار ہے.لمباقد کندھے پر نیزہ ہے.سر پر سرخ پڑکا باندھے ہوئے ہے.مالک نے کہا یہ زبیر بن عوام ہے.لات کی قسم! اس کی تم سے مڈھ بھیڑ ہو گی.اب قدم مضبوط کر لو.جب حضرت زبیر گھاٹی پر پہنچے.سواروں نے انہیں دیکھا تو حضرت زبیر چٹان کی طرح ان کے سامنے ڈٹ گئے اور نیزے کے ایسے وار کیسے کہ گھائی ان کافر سر داروں سے خالی کرالی.9 809 جنگ یرموک میں دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے نکل جانا عروہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ جنگ پر موک میں رسول اللہ صلی علیم کے صحابہ نے حضرت زبیر سے کہا کیا آپ حملہ نہیں کریں گے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ حملہ کریں ؟ حضرت زبیر نے کہا اگر میں نے حملہ کیا تو تم پیچھے رہ جاؤ گے.انہوں نے کہا ہم پیچھے نہیں رہیں گے.چنانچہ حضرت زبیر نے کفار پر اس زور سے حملہ کیا کہ ان کی صفیں چیرتے ہوئے نکل گئے اور دیکھا کہ ان کے ساتھ کوئی ایک بھی نہ تھا.پیچھے مڑ کے جب دیکھا تو کوئی ایک بھی ان کے ساتھ نہیں تھا.پھر وہ لوٹے تو کفار نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور ان کے کندھے پر دوز خم لگائے جن میں وہ بڑ از خم بھی تھا جو جنگ بدر میں ان کو لگا تھا.عروہ کہتے تھے کہ میں اپنی انگلیاں ان زخموں میں ڈال کر کھیلا کرتا تھا اور میں اس وقت چھوٹا تھا.عروہ کہتے ہیں کہ ان دنوں پر موک کی لڑائی میں حضرت زبیر کے ساتھ عبد اللہ بن زبیر بھی تھے اور اس وقت وہ دس برس کے تھے.حضرت زبیر ا نہیں گھوڑے پر سوار کر کے لے گئے تھے اور ایک شخص کو ان کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا تھا.0 810 ایک ہزار کے برابر فتح شام کے بعد حضرت عمرو بن عاص کی سرکردگی میں مصر پر حملہ ہوا.مصر کے فاتح حضرت عمرو بن عاص نے اسکندریہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تھا تو اسکندریہ کے جنوب میں دریائے نیل کے کنارے خیمے نصب کیے تھے اس لیے اس کو فسطاط کہتے ہیں.یہی مقام بعد میں شہر بن گیا اور اسی شہر کا جدید حصہ آج قاہرہ کہلا تا ہے.جب مسلمانوں نے اس فسطاط کا محاصرہ کر لیا.انہوں نے قلعے کی مضبوطی اور فوج کی قلت کو دیکھا تو حضرت عمرو بن عاص نے حضرت عمرؓ سے کمک روانہ کرنے کے لیے درخواست کی.حضرت عمر نے دس ہزار فوج اور چار افسر بھجوائے.فرمایا ان میں سے ہر ایک افسر ایک ہزار کے برابر

Page 357

ย 341 اصحاب بدر جلد 4 ہے.ان میں سے ایک حضرت زبیر تھے.یہ پہنچے تو حضرت عمرو بن عاص نے محاصرے کے انتظامات ان کے سپر د کیے.انہوں نے گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے کے گرد چکر لگایا.فوج کو ترتیب دی.سواروں اور پیادوں کو مختلف جگہوں پر متعین کیا.منجنیقوں سے قلعے پر پتھر پھینکنے شروع کیے.سات ماہ تک محاصرہ جاری رہا.فتح اور شکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا.حضرت زبیر ایک دن کہنے لگے کہ آج میں مسلمانوں پر فدا ہو تا ہوں.یہ کہہ کر تلوار سونت لی اور سیڑھی لگا کر فصیل پر چڑھ گئے.چند اور صحابہ نے ان کا ساتھ دیا.فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ تکبیر کے نعرے بلند کیے اور ساتھ ہی تمام فوج نے اتنے زور سے نعرہ بلند کیا کہ قلعے کی زمین دہل گئی.عیسائیوں نے سمجھا کہ مسلمان قلعے کے اندر گھس گئے ہیں.وہ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے.حضرت زبیر نے فصیل سے اتر کر قلعے کا دروازہ کھول دیا اور تمام فوج اندر گھس گئی.811 خلافت کمیٹی کے ایک ممبر نامزد ہونا حضرت عمرؓ کی وفات کے وقت خلافت کمیٹی کے اراکین کی نامزدگی اور وفات کے بعد خلافت کے انتخاب کا واقعہ بخاری میں جو درج ہے وہ یوں ہے کہ جب حضرت عمررؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو لو گوں نے کہا کہ اے امیر المومنین ! وصیت کر دیں، کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں.انہوں نے فرمایا کہ میں اس خلافت کا حق دار ان چند لوگوں سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی علی کی ایسی حالت میں فوت ہوئے کہ آپ ان سے راضی تھے.انہوں نے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت سعد اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کا نام لیا اور کہا کہ عبد اللہ بن عمر تمہارے ساتھ شریک رہے گا اور خلافت میں اس کا حق کوئی نہیں ہو گا.اور پھر فرمایا کہ اگر خلافت سعد کو مل گئی تو پھر وہی خلیفہ ہو ورنہ جو بھی تم میں سے امیر بنایا جائے وہ سعد سے مدد لیتا رہے کیونکہ میں نے ان کو اس لیے معزول نہیں کیا کہ وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس لیے کہ انہوں نے کوئی خیانت کی تھی.نیز فرمایا میں اس خلیفہ کو جو میرے بعد ہو گا پہلے مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتاہوں کہ وہ ان کے حقوق ان کے لیے پہچانیں اور ان کی عزت کا خیال رکھیں.اور میں انصار کے متعلق بھی عمدہ سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلے اپنے گھروں میں ایمان کو جگہ دی.جو ان میں سے نیک کام کرنے والا ہو اسے قبول کیا جائے اور جو ان میں سے قصور وار ہو اس سے در گذر کیا جائے.اور میں سارے شہروں کے باشندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے کی اس کو وصیت کرتاہوں کیونکہ وہ اسلام کے پشت پناہ ہیں اور مال کے محصل ہیں اور دشمن کے کڑھنے کا موجب ہیں.اور یہ کہ ان کی رضامندی سے ان سے وہی لیا جائے جو ان کی ضرورتوں سے بچ جائے.اور میں اس کو بدوی عربوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ عربوں کی جڑ اور اسلام کا مادہ ہیں.یہ کہ ان کے ایسے مالوں سے لیا جائے جو ان کے کام کے نہ ہوں اور پھر انہی کے محتاجوں کو دے دیا جائے.اور میں اس کو اللہ کے ذمے اور اس کے رسول صلی ا ظلم کے ذمے کرتا ہوں کہ جن لوگوں سے عہد لیا گیا ہو ان کا عہد ان کے

Page 358

اصحاب بدر جلد 4 342 لیے پورا کیا جائے اور ان کی حفاظت کے لیے ان سے مدافعت کی جائے اور ان سے بھی اتنا ہی لیا جاۓ جتنا ان کی طاقت ہو.انتخاب خلافت کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر فوت ہو گئے اور ان کی تدفین سے فراغت ہوئی تو وہ چھ آدمی جمع ہوئے جن کا نام حضرت عمرؓ نے لیا تھا.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ اپنا معاملہ اپنے میں سے تین آدمیوں کے سپر د کر دو.حضرت زبیر نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت علی کو دیا.حضرت طلحہ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عثمان کو دیا.حضرت سعد نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عبد الرحمن بن عوف کو دیا.حضرت عبد الرحمن نے حضرت علی اور حضرت عثمان سے کہا کہ آپ دونوں میں سے جو بھی اس امر سے دستبردار ہو گا ہم اسی کے حوالے اس معاملے کو کر دیں گے اور اللہ اور اسلام اس کا نگران ہو گا.وہ آپ میں سے اسی کو تجویز کرے گا جو اس کے نزدیک افضل ہے.یہ سن کر دونوں بزرگ خاموش رہے.حضرت عبد الرحمن نے کہا: کیا آپ اس معاملے کو میرے سپرد کرتے ہیں؟ اور اللہ میر ا نگران ہے جو آپ میں سے افضل ہے اس کو تجویز کرنے کے متعلق کوئی بھی کمی نہیں کروں گا.ان دونوں نے کہا اچھا.پھر عبد الرحمن ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑ کر الگ ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ کا آنحضرت علی الم سے رشتے کا تعلق ہے اور اسلام میں بھی وہ مقام ہے جو آپ جانتے ہی ہیں.اللہ آپ کا نگر ان ہے.بتائیں اگر میں آپ کو امیر بناؤں تو کیا آپ ضرور انصاف کریں گے ؟ اگر میں عثمان کو امیر بناؤں تو آپ ان کی بات سنیں گے اور ان کا حکم مانیں گے ؟ پھر حضرت عبد الرحمن دوسرے کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی ویسے ہی کہا.جب انہوں نے پختہ عہد لے لیا تو پھر عبد الرحمن نے حضرت عثمان کو کہا کہ اپنا ہاتھ اٹھائیں اور ان کی بیعت کی اور حضرت علیؓ نے بھی ان کی بیعت کی اور گھر والے اندر آ گئے اور انہوں نے بھی حضرت عثمان کی بیعت کی.812 تمہارے آباء زبیر اور ابو بکر اسی آیت میں مذکور صحابہ میں سے تھے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُم الْقَرْحُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمُ (آل عمران:173) کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول کا حکم اپنے زخمی ہونے کے بعد بھی قبول کیا ان میں سے ان کے لیے جنہوں نے اچھی طرح اپنا فرض ادا کیا ہے اور تقویٰ اختیار کیا ہے بڑا اجر ہے.اس آیت کے بارے میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے بیان فرماتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے بھانجے عروہ سے کہا کہ اے میرے بھانجے ! تمہارے آباء زبیر اور ابو بکر اسی آیت میں مذکور صحابہ میں سے تھے.جب جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے اور مشرکین پلٹ

Page 359

اصحاب بدر جلد 4 343 گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا خطرہ محسوس ہوا کہ وہ کہیں پھر کوٹ کر حملہ نہ کریں.اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا پیچھا کرنے کون کون جائے گا.اسی وقت ان میں سے ستر صحابہ تیار ہو گئے.راوی کہتے ہیں کہ ابو بکر اور زبیر بھی ان میں شامل تھے.یہ صحیح بخاری کی روایت ہے اور یہ دونوں حضرت ابو بکر بھی اور حضرت زبیر بھی زخمیوں میں سے تھے.813 صحیح مسلم میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ ہشام نے اپنے والد سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے مجھ سے کہا کہ تمہارے آباء ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے اپنے زخمی ہونے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہا.814 815 طلحہ اور زبیر جنت میں میرے ہمسائے حضرت علی بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کانوں سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طلحہ اور زبیر جنت میں میرے ہمسائے ہوں گے.حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت علیؓ، حضرت طلحہ، حضرت زبیر حضرت سعد حضرت عبد الرحمن اور حضرت سعید بن زید کا مقام ایسا تھا کہ میدانِ جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے لڑتے تھے اور نماز میں آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے.816 عشره مبشره رض حضرت عبد الرحمن بن الخنس سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں تھے کہ ایک شخص نے حضرت علی شکا ذکر کیا، ان کی شان میں کچھ بے ادبی کی تو حضرت سعید بن زید کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں کہ یہ بے شک میں نے آپ سے سنا اور آپ فرماتے تھے کہ دس آدمی جنت میں جائیں گے.نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں ہوں گے.ابو بکر جنت میں ہوں گے.حضرت عمر جنت میں ہوں گے.حضرت عثمان جنت میں ہوں گے.حضرت علی جنت میں ہوں گے.حضرت طلحہ، حضرت زبیر بن عوام، حضرت سعد بن مالک، حضرت عبد الرحمن بن عوف جنت میں ہوں گے.اور اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں.راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا کہ دسواں کون ہے ؟ حضرت سعید بن زید کچھ دیر خاموش رہے.راوی کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے پھر پوچھا کہ دسواں کون ہے؟ فرمایا کہ سعید بن زید یعنی میں خود.817 یہ روایت حضرت طلحہ کے ضمن میں بھی میر اخیال ہے بیان ہو چکی ہے.کاتبین وحی حضرت خلیفہ المسیح الثانی کاتبین وحی کے نام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول کریم

Page 360

تاب بدر جلد 4 344 صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ اس وقت لکھوا دی جاتی تھی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کاتبوں کو قرآن کریم لکھواتے تھے ان میں سے مندرجہ ذیل پندرہ نام تاریخ سے ثابت ہیں.زید بن ثابت، ابی بن کعب، عبد الله بن سعد بن ابی سرح، زبیر بن العوام ، خالد بن سعید بن العاص، آبان بن سعيد العاص، حنظله بن الربيع الاسدی، معیقیب بن ابی فاطمہ ، عبد اللہ بن ارقم الزهری ، شرحبیل بن حسنہ، عبد اللہ بن رواحہ ، حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علی.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف نازل ہو تا تو آپ ان لوگوں میں سے کسی کو بلا کر وحی لکھوا دیتے تھے.“ 818 حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر بن عوام کو ایک غزوے کے موقعے پر خارش کی وجہ سے ریشم کی قمیض پہنے کی اجازت دی تھی.19 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینے میں مکانوں کی حد بندی کی تو حضرت زبیر کے لیے زمین کا بڑا ٹکڑا مقرر کیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر سو کھجور کا ایک باغ بھی دیا.رسول اکرم صلی ا ولم کا حضرت زبیر کو زمین ہبہ کرنا 820 حضرت خلیفتہ المسیح الثانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت زبیر بن عوام کو زمین ہبہ کرنے کے متعلق بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو سرکاری زمینوں میں سے ایک اتنا بڑا ٹکڑ اعطا فرمایا جس میں کہ حضرت زبیر کا گھوڑا آخری سانس تک دوڑ سکے یعنی جس حد تک وہ دوڑ سکتا تھا دوڑ جائے.حضرت زبیر کا گھوڑا جس جگہ پر جا کر کھڑا ہو ا وہاں سے انہوں نے اپنا کوڑا بڑے زور سے اوپر پھینکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ نہ صرف اس حد تک زمین ان کو دی جائے جہاں ان کا گھوڑا جا کر کھڑ ا ہو گیا تھا بلکہ جہاں ان کا کوڑا گر ا تھا اس حد تک ان کو زمین دی جائے.آپ لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کا گھوڑا بھی میلوں دوڑ سکتا ہے اور عرب کا گھوڑا تو بہت زیادہ تیز ہو تا ہے.اگر چار پانچ میل بھی گھوڑے کی دوڑ رکھی جائے تو ہیں ہزار ایکڑ کے قریب زمین بنتی ہے جو ان کو دی گئی تھی.امام ابو یوسف کتاب الخرائج میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو ایک زمین کا ٹکڑا بخشا جس میں کھجور کے درخت بھی لگے ہوئے تھے اور یہ حضرت خلیفہ ثانی نے بھی امام ابویوسف کے بیان کا حوالہ دیا.کہتے ہیں کہ جو زمین کا ٹکڑا بخشا تھا اس میں کھجور کے درخت بھی لگے ہوئے تھے اور وہ کسی وقت یہودی قبیلہ بنو نضیر کی ملکیت میں سے تھا اور ان کو مجرف کہتے تھے ، یہ حرف جو ہے یہ مدینے سے شام کی طرف تین میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے.یعنی وہ مجرف ایک مستقل گاؤں تھا.جب ہم پہلی حدیثوں سے اس حدیث کو ملائیں یعنی جہاں گھوڑے کے دوڑنے کا ذکر ہے اور تقریباً پندرہ

Page 361

تاب بدر جلد 4 345 میں ہزار ایکڑ بنتی ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو اس وقت او پر والی زمین بخشی جبکہ وہ پہلے سے ایک گاؤں کے مالک تھے جس میں کھجور کے باغ بھی تھے.821 زبیر رسول اللہ صلی العلوم کو سب سے زیادہ پیارے تھے عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ مروان بن حکم نے بتایا کہ جس سال نکسیر کی بیماری پھیلی حضرت عثمان بن عفان کو بھی سخت نکسیر ہوئی یہاں تک کہ اس نے ان کو حج سے روک دیا اور انہوں نے وصیت کر دی تو اس وقت قریش میں سے ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں.یعنی بہت خراب حالت ہے.انہوں نے پوچھا کیا لوگوں نے یہ بات کہی ہے ؟ اس نے کہا ہاں.حضرت عثمان نے پوچھا کس کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں ؟ وہ خاموش رہا.اتنے میں پھر ایک اور شخص ان کے پاس آیا.راوی کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ وہ حارث تھا.کہنے لگا خلیفہ مقرر کر دیں.حضرت عثمان نے کہا کیا لوگوں نے یہ کہا ہے ؟ اس نے کہا ہاں.حضرت عثمان نے پوچھا یعنی کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہو ؟ حضرت عثمان نے پوچھا وہ کون ہے جو خلیفہ ہو گا.وہ خاموش رہا.حضرت عثمان نے اس سے کہا شاید وہ زبیر کو منتخب کرنے کا کہتے ہیں.اس نے کہا ہاں.حضرت عثمان نے کہا کہ اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جہاں تک مجھے علم ہے وہ یعنی حضرت زبیر ان لوگوں میں سے یقینا بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سب سے زیادہ پیارے تھے.822 زمین کو پانی دینے پر ایک انصاری سے اختلاف رائے اور نبی اکرم علی ایم کا فیصلہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ان کا ایک انصاری صحابی سے جو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں پانی کی نالی میں اختلاف رائے ہو گیا جس سے وہ دونوں اپنے کھیت کو سیراب کرتے تھے.نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بات کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ زبیر تم اپنے کھیت کو سیراب کر کے اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو.انصاری کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ کہنے لگا یار سول اللہ یہ آپ کے پھو پھی زاد ہیں ناں.اس لیے آپ یہ فیصلہ فرمار ہے ہیں.اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اب تم اپنے کھیت کو سیراب کرو اور جب تک پانی منڈیر تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک پانی کو روکے رکھو.گویا اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو ان کا پورا حق دلوا دیا جبکہ اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو ایسا مشورہ دیا تھا جس میں ان کے لیے اور انصاری کے لیے گنجائش اور وسعت کا پہلو تھا لیکن جب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حکم کے ساتھ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا.حضرت زبیر فرماتے ہیں کہ بخدا میں یہ سمجھتا ہوں کہ مندرجہ ذیل آیت اسی واقعہ

Page 362

اصحاب بدر جلد 4 ނ 346 "(66) متعلق نازل ہوئی ہے فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( یعنی نہیں تیرے رب کی قسم ! وہ کبھی ایمان نہیں لا سکتے جب تک وہ تجھے ان امور میں منصف نہ بنالیں جن میں ان کے درمیان جھگڑا ہوا ہے.پھر تُو جو بھی فیصلہ کرے اس کے متعلق وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور کامل فرمانبرداری اختیار کریں.نعمتوں کا زمانہ عنقریب آنے والا ہے 823 حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ عِندَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ ( از مر:32) یعنی یقینا تم قیامت کے دن اپنے رب کے حضور ایک دوسرے سے بحث کرو گے.تو انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا ہماری دنیاوی لڑائیاں مراد ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں.پھر جب یہ آیت نازل ہوئی ثُمَّ لَتُسْلُنَ يَوْمَنِ عَنِ النَّعِيمِ (:) یعنی اس دن تم ناز و نعم کے متعلق ضرور پوچھے جاؤ گے.تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! ہم سے کن نعمتوں کے بارے میں سوال ہو گا جبکہ ہمارے پاس تو صرف کھجور اور پانی ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبر دار ! یہ نعمتوں کا زمانہ بھی عنقریب آنے والا ہے.آج تو یہ تنگی ہے.ان شاء اللہ کشائش بھی آنے والی ہے.سارا جسم تلواروں سے زخمی اور......824 حفص بن خالد کہتے ہیں کہ مجھے اس بزرگ نے یہ حدیث بیان کی ہے جو کہ موصل ( یہ موصل جو ہے شام کا مشہور شہر ہے جو اپنی کثیر آبادی اور وسیع رقبے کے لحاظ سے اس وقت کے اسلامی ممالک میں بہت اہم تھا.تمام شہروں سے وہاں لوگ آیا کرتے تھے.یہ نیٹو کے قریب دجلہ کے کنارے بغداد سے 222 میل کے فاصلے پر واقع ہے.اس شہر کا تعارف تو یہ ہے جو فرھنگ میں لکھا گیا ہے لیکن بہر حال وہ کہتے ہیں موصل) مقام سے ہمارے پاس آتے تھے.وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زبیر بن عوام کے ساتھ کچھ سفر کیے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک صحرا میں ان کو غسل کی حاجت ہو گئی.انہوں نے مجھ سے کہا کہ میرے لیے پردہ کرو.میں نے ان کے لیے کپڑے سے پردہ کیا.وہ غسل کرنے لگ گئے.اچانک میری نگاہ ان کے جسم پر پڑ گئی.میں نے دیکھا کہ ان کا سارا جسم تلواروں کے زخموں کے نشانات سے چھلنی تھا.میں نے ان سے کہا خدا کی قسم ! میں نے آپ کے جسم پر زخموں کے ایسے نشانات دیکھے ہیں جو آج سے پہلے میں نے کبھی کسی کے جسم پر نہیں دیکھے.انہوں نے جوابا کہا کیا تم نے میرے جسم کے زخموں کے نشان دیکھ لیے ہیں ؟ پھر فرمایا خدا کی قسم ! یہ تمام زخم مجھے اللہ کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنگ کرتے ہوئے آئے ہیں.حضرت عثمان، حضرت مقداد، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت زبیر کو وصیت کر رکھی تھی.چنانچہ وہ ان احباب کے مال کی حفاظت کرتے اور اپنے مال سے ان 825

Page 363

ناب بدر جلد 4 347 کے بچوں پر خرچ کرتے تھے.کشائش تھی تو ان کا مال بچوں پر خرچ نہیں کرتے تھے.اپنے پاس سے خرچ کرتے تھے تاکہ بعد میں یہ مال ان لوگوں کے کام آئے.حضرت زبیر کو کوئی لالچ نہیں تھی.حضرت زبیر کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے ایک ہزار غلام تھے جو انہیں خراج یعنی زمین کی پیداوار ادا کرتے تھے.وہ اس میں سے گھر کچھ بھی نہ لاتے اور سارا صدقہ کر دیتے.مطیع بن انسو د بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت زبیر دین کے ستونوں میں سے ایک ستون ہیں.826 حضرت زبیر کی وصیت اور قرض کی ادائیگی حضرت عبد اللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ جب حضرت زبیر جنگ جمل کے دن کھڑے ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا.میں ان کے پہلو میں کھڑا ہو گیا.انہوں نے کہا کہ اے پیارے بیٹے ! آج یا تو ظالم کو قتل کیا جائے گا یا مظلوم.ایسا نظر آتا ہے کہ آج میں بحالت مظلومی قتل کیا جاؤں گا.مجھے سب سے بڑی فکر اپنے قرض کی ہے.کیا تمہاری رائے میں ہمارے قرض سے کچھ مال بچ جائے گا؟ پھر کہا کہ اے میرے بیٹے !مال بیچ کر قرض ادا کر دینا اور میں ثلث کی وصیت کرتا ہوں، تیسرے حصے کی وصیت کرتا ہوں اور قرض ادا کرنے کے بعد اگر کچھ بچے تو اس میں سے ایک ثلث تمہارے بچوں کے لیے ہے.ان کے بچوں کو باقی کے علاوہ دیا.ہشام نے کہا عبد اللہ بن زبیر کے لڑکے عمر میں حضرت زبیر کے لڑکوں خبیب اور عباد کے برابر تھے.یعنی عبد اللہ کے لڑکے حضرت زبیر کے اپنے لڑکوں کے برابر تھے.بیٹے کے بچے جو تھے وہ بھی اس کے بھائیوں کے برابر تھے.اس زمانے میں حضرت عبد اللہ بن زبیر کی نو بیٹیاں تھیں.حضرت عبد اللہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت زبیر مجھے اپنے قرض کی وصیت کرنے لگے کہ اے میرے بیٹے! اگر اس قرض میں سے تم کچھ ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو میرے مولیٰ سے مدد لینا.عبد اللہ بن زبیر کہتے ہیں.میں ”مولیٰ“ سے ان کی مراد نہیں سمجھا.میں نے پوچھا کہ آپ کا مولیٰ کون ہے ؟ تو حضرت زبیر نے کہا اللہ.پھر جب کبھی میں ان کے قرض کی مصیبت میں پڑا تو کہا اے زبیر کے مولی ! ان کا قرض ادا کر دے اور وہ ادا کر دیتا یعنی اللہ تعالیٰ پھر کوئی انتظام کر دیتا تھا.اس قرض کی ادائیگی کے سامان پیدا کر دیتا تھا.جائیداد تو تھی اس میں سے ہی ادا ہو جاتے تھے.حضرت زبیر اس حالت میں شہید ہوئے کہ انہوں نے نہ کوئی دینار چھوڑا نہ در ہم سوائے چند زمینوں کے جن میں غابہ بھی تھا.مدینے میں گیارہ مکان تھے.دو مکان بصرہ میں تھے.ایک مکان کو فہ میں اور ایک مکان مصر میں تھا.حضرت زبیر مقروض اس طرح ہوئے کہ لوگ ان کے پاس مال لاتے کہ امانتار کھیں مگر حضرت زبیر کہتے کہ نہیں بلکہ یہ قرض ہے کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے.یہ پیسے امانتا نہیں رکھوں گا.میں تمہارے سے اس طرح وصول کرتا ہوں جس طرح کہ یہ قرض ہو تا ہے.خرچ بھی کر لیتے تھے اس میں سے یا اور کوئی خطرہ ہو تو وہ بھی محفوظ ہو جائے اس لیے آپ ان کو

Page 364

ب بدر جلد 4 ا 348 بتاتے تھے کہ یہ قرض کی صورت میں لے رہاہوں جو میں واپس کروں گا.بہر حال حضرت زبیر کبھی امیر نہ بنے خواہ مال وصول کرنے کے لیے یا خراج کے لیے یا کسی اور مالی خدمت کے لیے سوائے اس کے کہ کسی جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کے ہمراہ جہاد میں شامل ہوئے ہوں.جہاد میں ضرور شامل ہوتے تھے لیکن بہت امیر جنہوں نے نقدی کی صورت میں پیسہ جوڑا ہو وہ نہیں ہوا.حضرت عبد اللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے ان کے قرض کا حساب کیا تو بائیس لاکھ پایا.حضرت حکیم بن حزام حضرت عبد اللہ بن زبیر سے ملے اور کہا کہ اے میرے بھتیجے !میرے بھائی پر کتنا قرض ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن زبیر نے چھپایا اور کہا کہ ایک لاکھ.حضرت حکیم بن حزام نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں تمہارے مال کو اتنا نہیں دیکھتا کہ وہ اس کے لیے کافی ہو.ظاہری مال جو نظر آرہا تھا.پھر حضرت عبد اللہ بن زبیر نے ان سے کہا کہ اگر میں کہوں کہ وہ قرض بائیس لاکھ ہے تو آپ کیا کہیں گے.اس پر انہوں نے کہا کہ میں تو تمہیں اس کا متحمل نہیں دیکھتا، مشکل ہے ادا کر سکو.اگر تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو مجھ سے مدد لے لینا.اگر نہ ادا کر سکو تو میں حاضر ہوں.مجھے بتانا میں تمہیں قرض ادا کر دوں گا.حضرت زبیر نے غابہ ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدا تھا.حضرت عبد اللہ بن زبیر نے سولہ لاکھ میں فروخت کیا.پھر کھڑے ہو کر کہا کہ جس کا زبیر کے ذمہ کچھ ہو وہ ہمارے پاس غابہ پہنچ جائے.وہ غابہ کی زمین بیچی.سولہ لاکھ اس کی قیمت ملی اور پھر اعلان کر دیا کہ جو قرض خواہ ہیں وہ آجائیں اور اپنا قرض لے لیں.حضرت عبد اللہ بن جعفر جن کے حضرت زبیر پر چار لاکھ تھے انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر سے کہا کہ اگر تم لوگ چاہو تو میں معاف کر دوں اور اگر چاہو تو اسے ان قرضوں کے ساتھ رکھو جنہیں تم مؤخر کر رہے ہو بشر طیکہ تم کچھ مؤخر کرو.حضرت عبد اللہ بن زبیر نے کہا نہیں.انہوں نے کہا کہ پھر مجھے ایک ٹکڑا زمین کا دے دو.حضرت عبد اللہ بن زبیر نے کہا کہ تمہارے لیے یہاں سے یہاں تک ہے.انہوں نے اس میں سے بقدر ادائے قرض کے فروخت کر دیا اور انہوں نے عبد اللہ بن جعفر کو دے دیا.اس قرض میں سے ساڑھے چار حصے باقی رہ گئے.حضرت عبد اللہ بن زبیر حضرت معاویہ کے پاس آئے.اس زمانے کی بات ہے.وہاں عمرو بن عثمان، منذر بن زبیر اور ابن زمعہ تھے.حضرت معاویہ نے پوچھا کہ غابہ کی کتنی قیمت لگائی گئی؟ حضرت ابن زبیر نے کہا ہر حصہ ایک لاکھ کا ہے.حضرت معاویہ نے پوچھا کتنے حصے باقی رہے ؟ انہوں نے کہا کہ ساڑھے چار حصے.مُنذر بن زبیر نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں میں نے لے لیا.عمرو بن عثمان نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں میں نے لے لیا.ابن زمعہ نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں میں نے لے لیا.حضرت معاویہ نے کہا اب کتنے بچے.حضرت عبد اللہ بن زبیر نے کہا کہ ڈیڑھ حصہ.انہوں نے کہا کہ وہ ڈیڑھ لاکھ میں میں نے لے لیا.یعنی کہ غابہ کی وہ زمین جو باقی رہ گئی تھی اس کو بھی بیچنے لگے.عبد اللہ بن جعفر نے اپنا حصہ حضرت معاویہؓ کے ہاتھ چھ لاکھ میں فروخت کر دیا.بہر حال جو انہوں نے کہا تھا ناں کہ قرض اللہ تعالیٰ ادا کرے گا تو اس طرح اللہ تعالی سامان پیدا کر تا تھا تو وہ کچھ جائیداد بیچ کے قرض ادا کرتے رہے.رض

Page 365

ناب بدر جلد 4 349 جب حضرت عبد اللہ بن زبیر حضرت زبیر کا قرض ادا کر چکے تو حضرت زبیر کی اولا دینے کہا کہ ہم میں ہماری میراث تقسیم کر دو.اب قرض تو سارے ادا ہو گئے ہیں اب جو وراثت ہے وہ تقسیم کر دو.حضرت عبد اللہ بن زبیر نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم !میں تم میں اس وقت تک تقسیم نہ کروں گا جب تک چار سال زمانہ حج میں منادی نہ کرلوں یعنی چار سال تک ہر حج کے دن پہلے اعلان کروں گا کہ جس کا ز بیر پر قرض ہو وہ ہمارے پاس آئے ہم اسے ادا کریں گے اور چار سال تک حج کے موقعے پر منادی کرتے رہے.جب چار سال گزر گئے تو میراث حضرت زبیر کی اولاد میں تقسیم کر دی.حضرت زبیر کی چار بیویاں تھیں.انہوں نے بیوی کے آٹھویں حصے کو چار پر تقسیم کر دیا اور ہر بیوی کو گیارہ لاکھ پہنچے.پھر بھی جو جو جائیداد باقی رہ گئی تھی اس میں سے ہر کوئی جب تقسیم ہوا تو گیارہ گیارہ لاکھ بیویوں کو بھی مل گیا.ان کا پورا مال تین کروڑ باون لاکھ تھا.ایک روایت میں یہ ہے اور سفیان بن عیینہ سے مروی ہے کہ حضرت زبیر کی میراث میں چار کروڑ تقسیم کیے گئے.ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت زبیر کے ترکہ کی قیمت پانچ کروڑ بیس لاکھ یا پانچ کروڑ دس لاکھ تھی.اسی طرح عروہ سے مروی ہے کہ حضرت زبیر کی مصر میں کچھ زمینیں تھیں اور اسکندریہ میں کچھ زمینیں تھیں.کوفے میں کچھ زمینیں تھیں اور بصرے میں مکانات تھے.ان کی مدینے کی کچھ جائیداد کی آمدنی تھی جو ان کے پاس آتی تھی.827 بہر حال یہ سارے قرض اتار کے تو پھر ان جائیدادوں میں سے جو باقی جائیدادیں تھیں وہ ان کے ورثاء میں تقسیم کی گئیں.مُطَرفی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے حضرت زبیر سے کہا کہ اے ابو عبد اللہ ! آپ لوگ کس مقصد کی خاطر آئے ہیں.آپ لوگوں نے ایک خلیفہ کو ضائع کر دیا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے.اب آپ ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں.حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے زمانے میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے تھے کہ وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً نفال:26) کہ اور اس فتنے سے ڈرو جو محض ان لوگوں کو ہی نہیں پہنچے گا جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ( بلکہ عمومی ہو گا) لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا اطلاق ہم پر ہی ہو گا یہاں تک کہ ہم پر یہ آزمائش آئے گی.828 حضرت علی کی خلافت کا انتخاب ، جنگ جمل اور حضرت زبیر کی شہادت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی کی خلافت کے انتخاب کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کا واقعہ شہادت ہوا اور وہ صحابہ جو مدینے میں موجود تھے انہوں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں میں فتنہ بڑھتا جارہا ہے حضرت علی پر زور دیا کہ آپ لوگوں کی بیعت لیں.دوسری طرف کچھ مفسدین بھاگ کر حضرت علی کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس وقت اسلامی حکومت کے

Page 366

تاب بدر جلد 4 زمین پر 350 ٹوٹ جانے کا سخت اندیشہ ہے آپ لوگوں سے بیعت لیں تاکہ ان کا خوف دور ہو اور امن و امان قائم ہو.غرض جب آپ کو بیعت لینے پر مجبور کیا گیا تو کئی دفعہ کے انکار کے بعد آپ نے اس ذمہ داری کو اٹھایا اور لوگوں سے بیعت لینی شروع کر دی.بعض اکابر صحابہ اس وقت مدینے سے باہر تھے.بعض سے تو جبراً بیعت لی گئی چنانچہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے متعلق آتا ہے کہ ان کی طرف حکیم بن جبلہ اور مالک اشتر کو چند آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا گیا اور انہوں نے تلواروں کا نشانہ کر کے انہیں بیعت پر آمادہ کیا یعنی وہ تلواریں سونت کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ حضرت علی کی بیعت کرنی ہے تو کرو ورنہ ہم ابھی تم کو مار ڈالیں گے حتی کہ بعض روایات میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ وہ ان کو نہایت سختی کے ساتھ ر گھسیٹتے ہوئے لائے.ظاہر ہے کہ ایسی بیعت کوئی بیعت نہیں کہلا سکتی.پھر جب انہوں نے بیعت کی تو یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بیعت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے آپ قصاص لیں گے مگر بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت علی قاتلوں سے قصاص لینے میں جلدی نہیں کر رہے تو وہ بیعت سے الگ ہو گئے اور مدینہ سے مکہ چلے گئے.انہی لوگوں کی ایک جماعت نے جو حضرت عثمان کے قتل میں شریک تھی حضرت عائشہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ آپ حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کا اعلان کر دیں.چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہ کو اپنی مدد کے لیے بلایا.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں حضرت علی اور حضرت عائشہ ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے لشکر میں جنگ ہوئی جسے جنگ جمل کہا جاتا ہے.اس جنگ کے شروع میں ہی حضرت زبیر حضرت علی کی زبان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی سن کر علیحدہ ہو گئے تھے.حضرت زبیر تو شروع میں ہی علیحدہ ہو گئے تھے اور انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حضرت علی سے جنگ نہیں کریں گے اور اس بات کا اقرار کیا کہ اپنے اجتہاد میں انہوں نے غلطی کی تھی، جو سمجھا تھا اس سے غلطی ہو گئی.دوسری طرف حضرت طلحہ نے بھی اپنی وفات سے پہلے حضرت علی کی بیعت کا اقرار کر لیا تھا کیونکہ روایت میں آتا ہے کہ وہ زخموں کی شدت سے تڑپ رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا.انہوں نے پوچھا تم کس گروہ میں سے ہو ؟ اس نے کہا حضرت علی کے گروہ میں سے.اس پر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ تیر اہاتھ علی کا ہاتھ ہے اور میں تیرے ہاتھ پر حضرت علی کی دوبارہ بیعت کرتا ہوں.19 829 بہر حال حضرت زبیر کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت زبیر کی شہادت جنگ جمل سے واپسی پر ہوئی تھی.وہاں سے تو وہ علیحدہ ہو گئے تھے اور حضرت علی سے جنگ کا انہوں نے جو ارادہ کیا تو انہوں نے کہا میں نے غلطی کی ہے اور اس سے بالکل علیحدہ ہو گئے لیکن جنگ جمل سے واپسی پر ان کی شہادت ہوئی.جب حضرت علی نے انہیں یاد دلایا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ تم علی سے لڑو گے اور زیادتی تمہاری طرف سے ہو گی.انہوں نے کہا ہاں اور یہ بات مجھے ابھی یاد آئی ہے پھر وہاں سے چلے گئے.حضرت علی سے جنگ سے

Page 367

اصحاب بدر جلد 4 351 رض علیحدگی کی یہ وجہ بنی تھی.اس کی تفصیل جو ہے وہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے ذکر میں بیان ہو چکی ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مفسدین اور منافقین کی بھڑ کائی ہوئی آگ تھی جس میں اکثر صحابہ غلط فہمی کی وجہ سے شامل ہو گئے تھے.بہر حال جو بھی تھا وہ غلط ہوا.حرب بن ابو الاسود کہتے ہیں کہ میں حضرت علی اور حضرت زبیر سے ملا ہوں.جب حضرت زبیر اپنی سواری پر سوار ہو کر صفوں کو چیرتے ہوئے واپس لوٹے تو ان کے بیٹے عبد اللہ ان کے سامنے آئے اور کہنے لگے کہ آپ کو کیا ہوا؟ حضرت زبیر نے ان سے کہا حضرت علی نے مجھے ایک حدیث یاد کرا دی جس کو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سنا ہے.آپ نے فرمایا تھا تو اس یعنی حضرت علی سے جنگ کرے گا اور اس جنگ میں تو ظلم کرنے والا ہو گا.اس لیے میں ان سے جنگ نہیں کروں گا.ان کے بیٹے نے کہا کہ آپ تو اس لیے آئے ہیں کہ لوگوں کے درمیان صلح کرائیں اور اللہ آپ کے ہاتھ سے اس معاملے میں صلح کروائے گا.حضرت زبیر نے کہا میں تو قسم کھا چکا ہوں.حضرت عبد اللہ بن زبیر نے کہا آپ اس قسم کا کفارہ دے دیں اور اپنے غلام جز چش کو آزاد کر دیں اور ادھر ہی موجو در ہیں یہاں تک کہ اللہ ان لوگوں میں صلح کروا دے.راوی کہتے ہیں کہ حضرت زبیر نے اپنے غلام جر جس کو آزاد کیا اور وہیں ٹھہرے رہے.لیکن لوگوں میں اختلاف مزید بڑھ گئے تو آپ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے.جب حضرت زبیر مدینے کی طرف واپسی کا ارادہ کر کے نکلے اور سفوان نامی مقام پر پہنچے جو بصرہ کے قریب ایک مقام ہے تو بکر نامی ایک شخص جو بنو مجاشع سے تھا حضرت زبیر کو ملا.اس نے کہا کہ اے حواري رسول اللہ ! آپ کہاں جارہے ہیں ؟ آپ میری ذمہ داری ہیں.آپ تک کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا.ہ شخص حضرت زبیر کے ساتھ چل پڑا اور ایک آدمی احنف بن قیس سے ملا.اس نے کہا کہ یہ زبیر ہیں جو مجھے سفوان میں ملے تھے.احنف نے کہا کہ مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں گتھم گتھا ہیں اور تلواروں سے ایک دوسرے کی پیشانیاں کاٹ رہے ہیں اور یہ اپنے بیٹے اور گھر والوں سے ملنے جاتے ہیں.جب عمیر بن جُرْمُوز اور فَضَالَہ بن حابس اور نفیع نے یہ بات سنی تو انہوں نے سوار ہو کر حضرت زبیر کا پیچھا کیا اور ان کو ایک قافلے کے ساتھ پالیا.عمیر بن جر موز گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پیچھے سے آیا اور حضرت زبیر پر نیزے سے حملہ کیا اور ہلکا ساز خم دیا.حضرت زبیر نے بھی جو اس وقت ذُو الخمار نامی گھوڑے پر سوار تھے اس پر حملہ کیا.جب ابن جُرموز نے دیکھا کہ وہ قتل ہونے والا ہے تو اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کو آواز دی اور انہوں نے مل کر حملہ کیا یہاں تک کہ حضرت زبیر کو شہید کر دیا.وہ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت زبیر اپنے قاتل کے سامنے آئے اور اس پر غالب بھی آگئے لیکن اس دشمن نے کہا میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں.یہ سن کر حضرت زبیر نے اپنا ہاتھ روک لیا.اس شخص نے یہ عمل کئی مرتبہ کیا.پھر جب حضرت زبیر کے خلاف اس نے بغاوت کی اور ان کو زخمی کر دیا تو حضرت زبیر نے کہا اللہ تجھے غارت کرے تم مجھے اللہ کا واسطہ دیتے رہے اور خود اس کو بھول

Page 368

تاب بدر جلد 4 352 گئے.حضرت زبیر کو شہید کرنے کے بعد ابن حجر موز حضرت علیؓ کے پاس حضرت زبیر کا سر اور ان کی تلوار لایا.حضرت علی نے تلوار لے لی اور کہا کہ یہ وہ تلوار ہے کہ اللہ کی قسم! اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے بے چینی دور ہوئی لیکن اب یہ موت اور فساد کی قتل گاہوں میں ہے.ابنِ حجر موز نے اندر آنے کی اجازت مانگی.دربان نے عرض کی کہ یہ ابن حجر موز جو حضرت زبیر کا قاتل ہے.دروازے پر کھڑا اجازت طلب کرتا ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ابنِ صفیہ، حضرت زبیر کو شہید کرنے والا دوزخ میں داخل ہو.میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ہر نبی کے حواری ہیں اور میرا حواری زبیر ہے.حضرت زبیر وادی سباغ میں دفن کیے گئے.حضرت علی اور ان کے ساتھی بیٹھ کر آپ پر رونے لگے.شہادت کے وقت حضرت زبیر کی عمر چونسٹھ سال تھی.بعض کے نزدیک آپ کی عمر چھیاسٹھ یا ستاسٹھ سال تھی.عاتکہ بنت زید کے اشعار 830 حضرت عاتکہ بنت زید جو حضرت زبیر بن عوام کی بیوی تھیں ان کے متعلق اہل مدینہ کہا کرتے تھے کہ جو شخص شہادت چاہے وہ عاتکہ بنت زید سے نکاح کر لے.یہ پہلے عبد اللہ بن ابی بکر کے عقد میں آئیں وہ شہید ہو کر ان سے جدا ہو گئے.پھر حضرت عمر بن خطاب کے عقد میں آئیں.وہ بھی شہید ہو کر ان سے جدا ہو گئے.پھر حضرت زبیر بن عوام کے عقد میں آئیں.وہ بھی شہید ہو کر ان سے جد اہو گئے.حضرت زبیر کی شہادت پر حضرت عاتکہ نے یہ اشعار کہے تھے کہ غَدَرَ ابْنُ جُرْمُوزِ بِفَارِسِ بُهْمَةٍ يَوْمَ اللِّقَاءِ وَكَانَ غَيْرَ مُعَرِّدِ يَا عَمْرُ ولَوْ نَبَهْتَهُ لَوَجَدْتَهُ لَا طَائِشَّارَ عِشَ الْجَنَانِ وَلَا الْيَدِ شَلَّتْ يَمِيْنَكَ إِنْ قَتَلْتَ لَمُسْلِمًا حَلَّتْ عَلَيْكَ عُقُوْبَةُ الْمُتَعَمِّدِ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ هَلْ ظَفِرْتَ بِمِثْلِهِ فِيمَنْ مَضَى قِيَمَا تَرُوْحُ وَ تَغْتَدِى كُمْ غَمْرَةٍ قَدْ خَاضَهَا لَمْ يَثْنِهِ عَنْهَا طِرَادُكَ يَا ابْنَ فَقْعِ الْقَرْدَدِ یعنی ابن حجر موز نے جنگ کے دن اس بہادر سوار کے ساتھ دغا کیا حالانکہ وہ بھاگنے والا نہ تھا.اے عمرو بن جر موز! اگر تو انہیں آگاہ کر دیتا تو انہیں اس حالت میں پاتا کہ وہ نامرد نہ ہوتے جس کا دل اور ہاتھ کانپتا ہو.تیر اہاتھ شل ہو جائے کہ تو نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا.تجھ پر قتل عمد کے مر تکب کا عذاب واجب ہو گیا.تیر ابر اہو اکیا ان لوگوں میں جو اس زمانے میں گزر گئے جس میں تو شام اور صبح کرتا ہے تو نے کبھی ان جیسے کسی اور شخص پر کامیابی پائی ہے.اے ادنی سی تکلیف کو برداشت نہ کر سکنے والے.زبیر تو ایسا شخص تھا کہ کتنے ہی سخت حالات ہوں وہ جنگ میں مشغول رہتے تھے اور اے سفید چہرے والے ! تمہاری نیزہ زنی اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی تھی.831

Page 369

اصحاب بدر جلد 4 353 پھر وہاں طبقات الکبریٰ کی یہ روایت ہے کہ جب ابنِ حجر مُموز نے آکر حضرت علیؓ سے اجازت چاہی تو حضرت علی نے اس سے دوری چاہی.اس پر اس نے کہا کیا ز بیر مصیبت والوں میں سے نہ تھے.حضرت علی نے کہا کہ تیرے منہ میں خاک میں تو یہ امید کرتا ہوں کہ طلحہ اور زبیر ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٌ اِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ متقبلين (الحجر: 19) اور ہم ان کے دلوں کی کدورت دور کر دیں گے کہ وہ تختوں پر آمنے سامنے بھائی بھائی ہو کر بیٹھیں گے.832 شادی اور اولاد حضرت زبیر نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں اور کثرت کے ساتھ اولاد پیدا ہوئی.ان کی تفصیل حسب ذیل ہے.حضرت اسماء بنت ابو بکر : ان کے بطن سے عبد اللہ ، عروہ، منذد، عاصم، خدیجۃ الکبری، ام الحسن، عائشہ پیدا ہوئیں.حضرت ام خالد : ان کے بطن سے جو بچے پیدا ہوئے وہ خالد ، عمرو، حبیبہ، سودہ، ہند ہیں.حضرت رباب بنت انیف : ان کے بطن سے یہ بچے پیدا ہوئے.مصعب، حمزہ، رمله.حضرت زینب ام جعفر بنت مرید : ان کے بطن سے جو بچے پیدا ہوئے وہ عبیدہ اور جعفر ہیں.حضرت ام کلثوم بنت عقبہ: ان کے بطن سے زینب پیدا ہوئیں.حضرت حلال بنت قیس : ان کے بطن سے خدیجۃ الصغری پیدا ہوئیں.833 حضرت عاتکہ بنت زید - 4 834 116) حضرت زیاد بن عمرو اپنے ایک اور بھائی کے ساتھ جنگ بدر میں شریک حضرت زیاد کو ابن بشر بھی کہا جاتا تھا.آپ انصار کے حلیف تھے.حضرت زیاد غزوہ بدر میں شریک تھے.آپؐ کے بھائی حضرت ضمرہ بھی غزوہ بدر میں شریک تھے.آپ کا تعلق قبیلہ بنو سَاعِدَہ بن کعب سے تھا.ایک دوسرے قول کے مطابق آپ بنو سَاعِدَہ بن كعب بن الخزرج کے آزاد کردہ غلام تھے.835

Page 370

354 117 صحاب بدر جلد 4 نام و نسب حضرت زیاد بن لبید آنحضرت علی الم کے ایک صحابی حضرت زیاد بن لبید تھے.ان کی والدہ کا نام عمرها بِنْتِ عُبيد بن مظروف تھا.حضرت زیاد کا ایک بیٹا عبد اللہ تھا.عقبہ ثانیہ میں شمولیت عقبہ ثانیہ میں ستر اصحاب کے ساتھ آپ حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا.اسلام قبول کرنے کے بعد جب مدینہ واپس آئے تو انہوں نے آتے ہی اپنے قبیلہ بنو بیاضہ کے بت توڑ دیئے جو بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے.مدینہ سے مکہ ہجرت کرنا 836 پھر آپ رسول اللہ صلی علیکم کے پاس مکہ چلے گئے اور وہیں مقیم رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی علیکم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ نے بھی آنحضرت صلی اللہ نام کے ساتھ ہجرت کی.اس لئے حضرت زیاد کو مہاجر انصاری کہا جاتا ہے.مہاجر بھی ہوئے اور انصاری بھی تھے.حضرت زیاد غزوۂ بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی الی یکم کے ہمرکاب تھے.آنحضور صلی علم ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور قبیلہ بنو بیاضہ کے محلہ سے گزرے تو حضرت زیاد نے اهْلًا وَ سَهْلًا کہا اور قیام کے لئے اپنا مکان پیش کیا تو آنحضور صلی للی ایم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو آزاد چھوڑ دو یہ خود منزل تلاش کرلے گی.محصل زكوة محرم نو ہجری میں آپ صلی علیم نے صدقہ و زکوۃ وصول کرنے کے لئے الگ الگ محصلین مقرر فرمائے تو حضرت زیاد کو حضر موت کے علاقے کا محصل مقرر فرمایا.حضرت عمر کے دور تک آپ اسی خدمت پر مامور رہے.اس منصب سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ نے کوفہ میں سکونت اختیار کرلی اور وہیں اکتالیس ہجری میں وفات پائی.تاریخ میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کے دور خلافت میں جب فتنہ ارتداد نے زور پکڑا اور زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تو اشعث بن قیس الکندی نے بھی ارتداد اختیار کیا.حضرت زیاد کو اس کی سرکوبی کے لئے مقرر کیا گیا.جب آپ نے اس پر حملہ کیا تو اس نے قلعہ نیجیر میں پناہ لے لی.حضرت زیاد نے 837

Page 371

839 355 اصحاب بدر جلد 4 اس کا نہایت سختی سے محاصرہ کیا یہاں تک کہ وہ تنگ آگیا اور اس نے پیغام بھیجا کہ مجھے اور نو اور آدمیوں کو امان دے دیں تو قلعہ کا دروازہ کھول دوں گا.حضرت زیاد نے کہا معاہدہ لکھ کر لے آؤ میں اس پر مہر ثبت کر دوں گا.اس کے بعد انہوں نے دروازہ کھولا.بعد میں جب معاہدہ دیکھا گیا تو باقی نو آدمیوں کے نام تو لکھے ہوئے تھے مگر اشعث اپنا نام لکھنا بھول گیا تھا.چنانچہ اسے دوسرے قیدیوں کے ساتھ مدینہ اپنانام کہ منورہ بھجوا دیا گیا.838 ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو بیاضہ بن عامر سے تھا.آپ کی نسل مدینہ اور بغداد میں مقیم تھی.ان کے بارے میں صحاک بن نعمان بیان کرتے ہیں کہ مسروق بن وائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس وادی عقیق سے مدینہ آئے.( عرب میں کئی وادیوں، کانوں اور دوسری جگہوں کا نام عقیق ہے.سب سے مشہور وہ وادی عقیق ہے جو مدینہ کے عین مغرب سے گزرتی ہے.بہر حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ سے مکہ جانے والی سڑک اسی عقیق سے ہوتی ہوئی ذُو الحلیفہ پہنچتی تھی.لکھنے والے لکھتے ہیں کہ آج کل کا راستہ بھی یہی ہے ) اور اسلام قبول کیا اور اسلام پر عمدگی سے قائم رہے.آپ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں چاہتا ہوں کہ آپ میری قوم میں ایک ایسے آدمی کو بھیجیں جو انہیں اسلام کی طرف بلائے.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف حضرت زیاد بن لبید انصاری کو بھیجا.840 حضرت زیاڈ اکتالیس ہجری میں حضرت معاویہ کے دور حکومت کے شروع میں فوت ہوئے.طبرانی کہتے ہیں کہ حضرت زیاد کوفہ میں رہے اور مسلم اور ابنِ حبان کہتے ہیں کہ آپ شام میں رہے.ابن حبان کہتے ہیں کہ آپ فقہاء صحابہ میں سے تھے.841 حضرت زیاد بن لبید بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کا ذکر فرمایا اور فرمایا یہ بات علم اٹھ جانے کے وقت ہو گی.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! علم کیسے چلا جائے گا اور ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ہمارے بچے اپنے بچوں کو قیامت کے دن تک اسے پڑھائیں گے.جب قرآن جاری رہے گا تو پھر کس طرح علم اٹھ جائے گا.اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تیر ابھلا کرے اے زیاد! میں تمہیں مدینہ کے سب سے زیادہ سمجھدار لوگوں میں سے سمجھتا تھا.کیا یہود اور نصاری تورات اور انجیل نہیں پڑھتے جو ان دونوں میں ہے لیکن اس کی کسی بات پر عمل نہیں کرتے.842 علم اس وقت اٹھ جائے گا جب قرآن پڑھیں گے تو سہی لیکن مسلمان عمل نہیں کریں گے اور یہی کچھ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں.پھر یزید بن عبد اللہ بن محیط سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے عکرمہ بن ابو جہل کو پانچ

Page 372

تاب بدر جلد 4 356 سو مسلمانوں کے ساتھ حضرت زیاد بن لبید اور حضرت مہاجر بن ابی امیہ کی مدد کے لیے بھیجا.وہ لشکر کے پاس اس وقت پہنچے جب انہوں نے نخیر جو کہ یمن میں ہے اس کو فتح کر لیا تھا.پھر حضرت زیاد بن لبید نے ان کو مال غنیمت میں سے حصہ دیا.فتح کے بعد یہ قافلہ پہنچا تھا.امام شافعی کہتے ہیں کہ حضرت زیاد نے اس معاملہ کے بارے میں حضرت ابو بکر کو لکھا تھا.حضرت ابو بکر نے ان کو جواباً خط لکھا کہ مالِ غنیمت پر صرف اسی کا حق ہے جو جنگ میں شریک ہوا ہے.اور ان کے خیال میں عکرمہ کا کوئی حصہ نہیں بنتا کیونکہ وہ اس جنگ میں شامل نہیں ہوئے.حضرت زیاد نے اپنے ساتھیوں سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے عکرمہ اور اس کے لشکر کو دلی خوشی سے اس مالِ غنیمت میں شامل کر لیا.843 118 حضرت زید بن اسلم انصاری حضرت زید بن اسلم.یہ بھی انصاری ہیں.حضرت زید بن اسلم کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو عجلان سے تھا.یہ غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے اور حضرت ابو بکر کے دور خلافت میں طلیحہ بن خویلد الاسدی کے خلاف لڑتے ہوئے بُزاخہ کے دن شہید ہوئے.بزاخہ نجد میں ایک چشمہ ہے جہاں مسلمانوں کی اسلامی حکومت کے باغی اور مدعی نبوت طلیحہ بن خویلد الاسدی سے جنگ ہوئی تھی.844 ン 119 حضرت زید بن مزين حضرت زید بن مُزَيْن مُزيّن بن قیس ان کے والد کا نام تھا.حضرت زید کا نام یزید بن الْمُرین بھی بیان ہوا ہے.آپ کا تعلق خزرج قبیلہ سے تھا.حضرت زید غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.ہجرت مدینہ کے وقت آنحضرت صلی الم نے حضرت زید اور حضرت مسطح بن اثاثہ کے در میان عقد مؤاخات قائم فرمایا.آپ کی اولاد میں بیٹا عمرو اور بیٹی رملہ تھیں.845

Page 373

357 120) صحاب بدر جلد 4 نام و نسب وہ واحد صحابی جن کا نام قرآن میں مذکور ہے محب رسول صلی اعلام حضرت زید بن حارثہ ان کا نام حضرت زید بن حارثہ ہے.حضرت زید کے والد کا نام حارثہ بن شراحیل کے علاوہ حارِثه بن شرحبيل بھی بیان کیا جاتا ہے.آپؐ کی والدہ کا نام شغلی بنت تغلبہ تھا.حضرت زید قبیلہ بنو قُضَاعَہ سے تعلق رکھتے تھے جو یمن کا ایک نہایت معزز قبیلہ تھا.غلام کے طور پر فروخت ہو کر مکہ آنا حضرت زید چھوٹی عمر کے تھے کہ ان کی والدہ انہیں لے کر میکے گئیں.وہاں سے بنو قین کے سوار گزر رہے تھے.سفر کے دوران پڑاؤ ڈالا تو انہوں نے خیمے کے سامنے سے حضرت زید کو جو ابھی بچے تھے اٹھا لیا اور غلام بنا کر غحاظ کے بازار میں حکیم بن حزام کو چار سو درہم میں فروخت کر دیا.حکیم بن حزام نے پھر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ بنت خویلد کی خدمت میں حضرت زید کو پیش کیا اور بعد میں حضرت خدیجہ نے اپنے تمام غلاموں کے ساتھ حضرت زید کو آنحضرت صلی ا ظلم کے سپر د کر دیا.846 ایک روایت کے مطابق جب حضرت زید کو خرید کر مکہ لایا گیا تو اس وقت آپ کی عمر محض آٹھ سال کی تھی.847 باپ کے ساتھ جانے سے انکار حضرت زید کی گمشدگی پر آپ کے والد حارثہ کو بہت صدمہ ہوا.کچھ عرصہ کے بعد بنو کلب کے چند آدمی حج کرنے کے لیے مکہ آئے تو انہوں نے حضرت زید کو پہچان لیا.حضرت زید نے انہیں کہا کہ میرے خاندان کو میرے بارے میں بتانا کہ میں خانہ کعبہ کے قریب بنو مَعَد کے ایک معزز خاندان میں رہتا ہوں اس لیے آپ لوگ کچھ غم نہ کریں.بنو کلب کے لوگوں نے جاکر ان کے والد کو اطلاع دی تو وہ بولے کہ رب کعبہ کی قسم! کیا وہ میرابیٹا ہی تھا؟ لوگوں نے حلیہ اور تفصیل بتائی تو آپ کے والد حارثہ اور چچا کعب مکہ کی طرف چل پڑے.مکہ میں آنحضرت صلی الی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فدیہ کے بدلہ اپنے لڑکے حضرت زید کی الله

Page 374

اصحاب بدر جلد 4 358 آزادی کی درخواست کی.آنحضور صلی علیم نے زید کو بلا کر ان کی رائے طلب کی تو حضرت زید نے اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا.848 اس واقعہ کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی للی کم سے شادی کی تو آپ سمجھ گئیں کہ میں مالدار ہوں اور یہ غریب ہیں.آپ صلی یہ نکم کو جب ضرورت ہو گی مجھ سے مانگنا پڑے گا اور یہ شاید آپ صلی للی کم بر داشت نہ کر سکیں تو پھر زندگی کیسے گزرے گی.حضرت خدیجہ میں بڑی ذہانت تھی.آپ بڑی ہوشیار اور سمجھدار خاتون تھیں.آپ نے خیال کیا کہ اگر ساری دولت آپ کی نذر کر دوں تو پھر آپ صلی علیکم کو کو ئی احساس نہیں ہو گا کہ یہ چیز بیوی نے مجھے دی ہے، بلکہ آپ جس طرح چاہیں گے خرچ کر سکیں گے.چنانچہ شادی کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ حضرت خدیجہ نے رسول کریم صلی علیم سے کہا کہ میں ایک تجویز پیش کرنا چاہتی ہوں.اگر آپ اجازت دیں تو پیش کروں.آپ مسلیم نے فرمایا کہ وہ کیا تجویز ہے ؟ حضرت خدیجہ نے کہا کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی ساری دولت اور اپنے سارے غلام آپ کی خدمت میں پیش کر دوں اور یہ سب آپ کا مال ہو جائے.آپ قبول فرمالیں تو میری خوشی ہو گی اور خوش قسمتی ہو گی.آپ نے جب یہ تجویز سنی تو آپ نے فرمایا خدیجہ !کیا تم نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے ؟ اگر تو تم سار امال مجھے دے دو گی تو مال میر اہو جائے گا اور پھر تمہارا نہیں رہے گا.حضرت خدیجہ نے عرض کیا کہ میں نے سوچ کر ہی یہ بات کی ہے اور میں نے سمجھ لیا ہے کہ آرام سے زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے.آپ صلی علیہم نے فرمایا کہ پھر سوچ لو.حضرت خدیجہ نے عرض کیا ہاں ہاں میں نے خوب سوچ لیا ہے.آپ صلی علی یکم نے فرمایا کہ اگر تم نے سوچ لیا ہے اور سارا مال اور سارے غلام مجھے دے دیے ہیں تو میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میرے جیسا کوئی دوسرا انسان میر اغلام کہلائے.میں سب سے پہلے غلاموں کو آزاد کر دوں گا.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ اب یہ آپ کا مال ہے، جس طرح آپ چاہیں کریں.آپ یہ سن کر بے انتہا خوش ہوئے.آپ باہر نکلے، خانہ کعبہ میں آئے اور آپ نے اعلان فرمایا کہ خدیجہ نے اپنا سارا مال اور اپنے سارے غلام مجھے دے دیے ہیں.میں ان سب غلاموں کو آزاد کرتا ہوں.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ آج کل اگر کسی کو مال مل جائے تو وہ کہے گا کہ چلو موٹر خرید لیں، کو ٹھی بنالیں، یورپ کی سیر کر لیں اور یا پھر یہ بھی آج کل میں نے دیکھا ہے اور بعض معاملات آتے ہیں کہ اگر بیوی اپنے خاوند کو مال دے بھی دے تو یہ جو اپنی خواہشات ہیں ان کو پورا کرنے کے علاوہ بیوی کے حقوق ادا کرنے سے بھی انکاری ہو جاتے ہیں اور پھر کوشش یہ ہوتی ہے کہ مال تو ہمارے پاس آگیا، اب تم ہماری لونڈی باندی ہو اور بیویاں پھر مجبور ہوتی ہیں.لیکن آنحضرت صلی یی کم کا جو مقام تھا، جو سوچ تھی وہ یہ تھی کہ دین کی خاطر مال خرچ ہو، اللہ تعالیٰ کی خاطر مال خرچ ہو اور انسانوں کو جو غلام بنایا جاتا ہے اس غلامی کا خاتمہ ہو.بہر حال آپ کے اندر جو خواہش پیدا ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ جو میری طرح خدا تعالیٰ کے بندے المدرسة.

Page 375

تاب بدر جلد 4 359 ہیں اور عقل اور دماغ رکھتے ہیں وہ غلام ہو کر کیوں رہیں.عرب کے لحاظ سے ہی نہیں ساری دنیا کے لحاظ سے یہ ایک عجیب بات تھی مگر اس عجیب بات کا آپ نے اعلان فرمایا اور اس طرح آپ نے مال ملنے پر غیر معمولی سخا کا ثبوت دیا.میں آزاد نہیں ہونا چاہتا رسول کریم صلی علیہم نے جب یہ اعلان فرمایا کہ میں تمام غلاموں کو آزاد کرتا ہوں تو اس پر اور تو سب غلام چلے گئے صرف زید بن حارثہ جو بعد میں آپ کے بیٹے مشہور ہو گئے تھے وہ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ نے تو مجھے آزاد کر دیا مگر میں آزاد نہیں ہونا چاہتا.میں آپ کے پاس ہی رہوں گا.آپ نے اصرار کیا کہ وطن جاؤ اور اپنے رشتہ داروں سے ملو، اب تم آزاد ہو.مگر حضرت زید نے عرض کیا کہ جو محبت اور اخلاص میں نے آپ صلی کیلیے کم میں دیکھا ہے اس کی وجہ سے آپ مجھے سب سے زیادہ پیارے ہیں.زید ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن چھوٹی عمر میں ان کو ڈا کو اٹھا لائے تھے اور انہوں نے آپ کو آگے بیچ دیا تھا.اس طرح یہ پھرتے پھر اتے حضرت خدیجہ کے پاس آگئے.آپ کے باپ اور چا کو بہت فکر ہوا، آپ کی تلاش میں نکلے.انہیں پتا لگا کہ زید روما میں ہیں.وہاں گئے تو پتا لگا کہ آپ عرب میں ہیں.عرب آئے تو پتا لگا کہ آپ مکہ میں ہیں.مکہ میں آئے تو پتا لگا کہ آپ رسول کریم صلی علیکم کے پاس ہیں.وہ آپ کے پاس آئے اور کہا ہم آپ کے پاس آپ کی شرافت اور سخاوت سن کر آئے ہیں.آپ کے پاس ہمارا بیٹا غلام ہے.اس کی جو قیمت آپ مانگیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں.آپ اسے آزاد کر دیں.اس کی ماں بڑھیا ہے اور وہ جدائی کے صدمے کی وجہ سے رو رو کر اندھی ہو گئی ہے.آپ کا بڑا احسان ہو گا اگر آپ منہ مانگی قیمت لے کر اسے آزاد کر دیں.رسول کریم صلی ا ہم نے فرمایا کہ آپ کا بیٹا میر ا غلام نہیں ہے.میں اُسے آزاد کر چکا ہوں.پھر آپ نے زید کو بلایا اور فرمایا تمہارے ابا اور چا تمہیں لینے آئے ہیں.تمہاری ماں بڑھیا ہے اور رو رو کر اندھی ہو گئی ہے.میں تمہیں آزاد کر چکا ہوں.تم میرے غلام نہیں ہو.تم ان کے ساتھ جاسکتے ہو.حضرت زید نے جواب دیا آپ نے تو مجھے آزاد کر دیا ہے مگر میں تو آزاد ہونا نہیں چاہتا.میں تو اپنے آپ کو آپ کا غلام ہی سمجھتا ہوں.آپ نے پھر فرمایا کہ تمہاری والدہ کو بہت تکلیف ہے اور دیکھو تمہارے ابا اور چاکتنی دور سے اور کتنی تکلیف اٹھا کر تمہیں لینے آئے ہیں تم ان کے ساتھ چلے جاؤ.زید کے والد اور چچانے بھی بہت سمجھایا مگر حضرت زید نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ آپ بے شک میرے باپ اور چاہیں اور آپ کو مجھ سے محبت ہے مگر جو رشتہ میرا ان سے قائم ہو چکا ہے وہ اب ٹوٹ نہیں سکتا.حضرت زید نے کہا، مجھے یہ سن کر کہ میری والدہ سخت تکلیف میں ہیں بہت دکھ ہوا ہے، مگر ان سے جدا ہو کر میں زندہ نہیں رہ سکوں گا.یعنی آنحضرت صلی الی یکم سے جد اہو کے میں زندہ نہیں رہ سکوں گا.ماں کا دکھ بھی ایک طرف لیکن یہ دکھ مجھے اس سے بڑھ کر ہو گا.

Page 376

اصحاب بدر جلد 4 زید آج سے میرا بیٹا ہ...360 جب زید نے یہ باتیں کیں تو آپ صلی للہ نام خانہ خدا میں تشریف لے گئے اور اعلان کیا کہ زیڈ نے جس محبت کا ثبوت دیا ہے اس کی وجہ سے وہ آج سے میرا بیٹا ہے.اس پر زید کا باپ اور چا دونوں خوش ہوئے اور خوش خوش واپس چلے گئے کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ وہ نہایت آرام اور سکھ کی زندگی بسر کر رہا ہے.غرض محمد رسول اللہ صلی علی ایم کے کمال اخلاق کا یہ ثبوت ہے کہ جب زید نے وفاداری کا مظاہرہ کیا تو آپ صلی اللہ ہم نے غیر معمولی احسان مندی کا ثبوت دیا.849 اس واقعہ کا ذکر سیرت خاتم النبیین میں یوں ملتا ہے.جب ان کے والد اور چچا انہیں لینے آئے تو آنحضرت صلی اللہ ہم نے زید سے فرمایا تمہیں میری طرف سے بخوشی اجازت ہے.زیڈ نے جواب دیا کہ میں آپ کو چھوڑ کر ہر گز نہیں جاؤں گا.آپ میرے لیے میرے چا اور باپ سے بڑھ کر ہیں.یہاں یہ ایک نئی بات لکھی ہے کہ اس پر زید کا باپ غصے میں بولا کہ ہیں تو غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتا ہے ؟ ہم تجھے آزاد کرانے آئے ہیں، لینے آئے ہیں اور تم کہتے ہو میں غلام بن کر رہوں گا.زیڈ نے کہا.ہاں کیونکہ میں نے ان میں ایسی خوبیاں دیکھی ہیں کہ اب میں کسی کو ان پر ترجیح نہیں دے سکتا.آنحضرت صلی ا ہم نے جب زید کا یہ جواب سنا تو فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور زید کو خانہ کعبہ لے جاکر بلند آواز سے کہا کہ لوگو ! گواہ رہو کہ آج سے میں زید کو آزاد کرتا ہوں اور اسے اپنا بیٹا بنا تا ہوں.گو کہ یہ پہلے ہی آزاد تھے لیکن وہاں لوگوں کے سامنے بھی اعلان کیا.یہ میر اوارث ہو گا.آپ نے فرمایا کہ یہ میر اوارث ہو گا اور میں اس کا وارث ہوں گا.اس دن سے جب آنحضرت صلی علیم نے یہ اعلان کیا تو زید بجائے زید بن حارثہ کے زید بن محمد کہلانے لگے لیکن ہجرت کے بعد خد اتعالیٰ کی طرف سے یہ حکم اترا کہ منہ بولا بیٹا بنانا جائز نہیں ہے تو زید کو پھر زید بن حارثہ کہا جانے لگا مگر آنحضرت صلی علیکم کا سلوک اور پیار اس وفادار خادم کے ساتھ وہی رہا جو پہلے دن تھا بلکہ دن بدن ترقی کرتا گیا اور زید کی وفات کے بعد زید کے لڑکے اسامہ بن زید سے بھی جو آنحضرت صلی علیہ کم کی خادمہ ام ایمن کے بطن سے تھے آپ کا وہی سلوک اور وہی پیار تھا.زید کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ تمام صحابہ میں سے صرف ان ہی کا نام قرآن شریف میں صراحت کے ساتھ مذکور ہوا ہے.850 ایک اور روایت میں یہ بھی ہے.حضرت زید کے بڑے بھائی حضرت جبلہ “ یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی یکم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ میرے بھائی کو میرے ساتھ بھیج دیں.یہ شاید بعد میں دوبارہ پھر واقعہ ہوا ہو.آپ صلی علیم نے فرمایا یہ تمہارا بھائی تمہارے سامنے ہے.اگر یہ جانا چاہے تو میں اسے نہیں روکوں گا.اس پر حضرت زید نے کہا کہ یارسول اللہ صلی علیکم میں آپ پر کبھی بھی کسی کو ترجیح نہیں دوں گا.حضرت جبلہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی کی رائے میری رائے سے بہتر تھی.851

Page 377

اصحاب بدر جلد 4 361 آپ کے بھائی کے حوالے سے ایک یہ روایت بھی ملتی ہے.حضرت جبکہ جو عمر میں حضرت زید سے بڑے تھے ، ان سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ آپ دونوں میں سے کون بڑا ہے.آپ یازید ؟ تو انہوں نے کہا زید مجھ سے بڑے ہیں.میں بس ان سے پہلے پیدا ہو گیا تھا.آپ کی مراد یہ تھی کہ حضرت زید اسلام لانے میں سبقت لے جانے کی وجہ سے آپ سے افضل ہیں.852 حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی علیم کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے یہاں تک کہ قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی کہ اُدعُوهُم لا بابِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللهِ (احزاب:6) کہ چاہیے کہ ان کے پالکوں کو ان کے باپوں کا بیٹا کہہ کر پکارو.یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ حل ہے.853 تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو حضرت براء بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی العلیم نے حضرت زید سے فرمایا.اَنْتَ أَخُونَا وَ مَوْلَانَا تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو.854 ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ يَا زَیدُ اَنْتَ مَوْلای وَمِنْيَ وَإِلَى وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَی کہ اے زید ! تو میر ا دوست ہے اور مجھ سے ہے اور میری طرف سے ہے اور تو مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے.855 رسول اللہ صلی الم کے محبوب افراد میں سے 856 رض حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت اسامہ بن زید کے لیے میرے سے زیادہ وظیفہ مقرر کیا.حضرت عمر کے یہ بیٹے تھے.بیان کر رہے ہیں کہ اسامہ جو زیڈ کے بیٹے تھے ان کا وظیفہ جب مقرر ہوا تو میرے سے زیادہ تھا.اس پر میں نے پوچھا کہ زیادہ کیوں ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اسامہ رسول اللہ صلی علی کم کم تم سے زیادہ پیارا تھا.اسامہ جو زید کا بیٹا تھا یہ تمہارے سے زیادہ پیارا آنحضرت صلی علیہ کم کو تھا اور اس کا باپ یعنی حضرت زید رسول اللہ صلی علیکم کو تمہارے باپ سے زیادہ پیارا تھا.حضرت عمر اپنے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ حضرت زید میرے سے زیادہ آنحضرت صلی لینے کی کو پیارے تھے.سب سے پہلے ایمان لانے والے...حضرت علی سے مروی ہے کہ حضرت زید بن حارثہ جو کہ رسول اللہ صلی علیم کے آزاد کردہ غلام تھے مردوں میں سب سے پہلے ایمان لائے اور نماز ادا کی.857 اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ہے کہ : " ہر طبقہ کے لوگ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرما دیے.عثمان ، طلحہ اور زبیر مکہ کے چوٹی کے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے.اگر کوئی کہتا کہ ادنی ادنیٰ لوگ اس کے ساتھ ہیں، اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے اس کو قبول نہیں

Page 378

ناب بدر جلد 4 362 کیا تو عثمان، طلحہ اور زبیر اس کا جواب دینے کے لیے موجود تھے " کہ ہم اعلیٰ خاندان کے ہیں " اور اگر کوئی کہتا کہ چند امراء کو اپنے ارد گرد اکٹھا کر لیا گیا ہے، غرباء جن کی دنیا میں اکثریت ہے انہوں نے اس مذہب کو قبول نہیں کیا تو زید اور بلال وغیرہ اس اعتراض کا جواب دینے کے لیے موجود تھے اور اگر بعض لوگ کہتے کہ یہ نوجوانوں کا کھیل ہے " نو جوان اکٹھے ہو گئے ہیں " تو لوگ ان کو یہ جواب دے سکتے تھے کہ ابو بکر تو نوجوان اور ناتجربہ کار نہیں.انہوں نے کس بناء پر محمد رسول اللہ صلی علیم کو قبول کر لیا ہے ؟ غرض وہ کسی رنگ میں دلیل پیدا کرنے کی کوشش کرتے رسول کریم صلی علیکم کے ساتھیوں میں سے ہر شخص ان دلائل کو رڈ کرنے کے لیے ایک زندہ ثبوت کے طور پر کھڑا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل تھا جو رسول کریم صلی علیہ نیم کے شامل حال تھا.اسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِى انْقَضَ ظَهْرَكَ اے محمد رسول اللہ ! کیا دنیا کو نظر نہیں آتا کہ جن سالمانوں سے دنیا جیتا کرتی ہے وہ سارے سامان ہم نے تیرے لیے مہیا کر دیے ہیں.اگر دنیا قربانی کرنے والے نوجوانوں سے جیتا کرتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں.اگر دنیا تجربہ کار بڑھوں کی عقل سے ہارا کرتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں." بڑی عمر کے لوگ اگر دنیا مالدار اور بار سوخ خاندانوں کے اثر ورسوخ کی وجہ سے شکست کھاتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں اور اگر عوام الناس کی قربانی اور فدائیت کی وجہ سے دنیا جیتا کرتی ہے تو یہ سارے غلام تیرے پیچھے بھاگے پھرتے ہیں.پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تو ہار جائے اور یہ مکہ والے تیرے مقابلہ میں جیت جائیں.پس و وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي انْقَضَ ظَهْرَكَ کے معنی یہ ہیں کہ وہ بوجھ جس نے تیری کمر کو توڑ دیا تھا وہ ہم نے خود اٹھا لیا.تُو نے اس کام کی طرف نگاہ کی اور حیران ہو کر کہا کہ میں یہ کام کیوں کر کروں گا.خدا نے ایک دن میں ہی تجھے پانچ وزیر دے دیے.ابو بکر کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لیے کھڑا کر دیا.خدیجہ کاستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لیے کھڑا کر دیا.علی کاستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لیے کھڑا کر دیا.زید کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لیے کھڑا کر دیا.ورقہ بن نوفل کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لیے کھڑا کر دیا.اور اس طرح وہ بوجھ جو تجھ اکیلے پر تھاوہ ان سب لوگوں نے اٹھالیا."858 حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ "چار آدمی جن کو آپ سے بہت زیادہ تعلق کا موقع ملا تھا وہ آپ پر ایمان لائے یعنی خدیجہ آپ کی بیوی، علی آپ کے چچازاد بھائی اور زید آپ کے آزاد کردہ غلام اور ابو بکر آپ کے دوست اور ان سب کے ایمان کی دلیل اس وقت یہی تھی کہ آپ جھوٹ نہیں بول سکتے." آپ کے سب قریبی یہ کہا کرتے تھے.859 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت زید بن حارثہؓ کے اسلام لانے کے بارے میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی علی کلم نے جب اپنے مشن کی تبلیغ شروع کی تو سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہ

Page 379

تاب بدر جلد 4 363 تھیں جنہوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی تردد نہیں کیا.حضرت خدیجہ کے بعد مردوں میں سب سے ایمان لانے والے کے متعلق مؤرخین میں اختلاف ہے.بعض حضرت ابو بکر عبد اللہ بن ابی قحافہ کا نام لیتے ہیں.بعض حضرت علی کا جن کی عمر اس وقت صرف دس سال کی تھی اور بعض آنحضرت صلی الی ایم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ کا.مگر ہمارے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے.حضرت علی اور زید بن حارثہ آنحضرت صلی نم کے گھر کے آدمی تھے اور آپ کے بچوں کی طرح آپ کے ساتھ رہتے تھے.آنحضرت صلی علی کم کا فرمانا تھا اور ان کا ایمان لانا بلکہ ان کی طرف سے تو شاید کسی قولی اقرار کی بھی ضرورت نہ تھی.پس ان کا نام بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں اور جو باقی رہے ان سب میں سے حضرت ابو بکر مسلمہ طور پر مقدم اور سابق بالا یمان تھے."860 یعنی عمر کے لحاظ سے صاحب عقل لوگوں میں سے، باشعور لوگوں میں سے تھے.صاحب عقل تو ماشاء اللہ بچے بھی اس زمانے میں ہوا کرتے تھے.اس لحاظ سے دنیا جس کو باشعور اور تجربہ کار کہتی ہے حضرت ابو بکرؓ تھے جو مردوں میں سے ایمان لائے لیکن بہر حال یہ چار تھے، تین مرد اور ایک عورت جو آنحضرت صلی یہ تم پر ایمان لائے اور ان کا ایک بڑا مقام ہے جس طرح حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا.سفر طائف اور حضرت زید 861 سفر طائف میں بھی حضرت زید آنحضرت صلی اللہ علم کی معیت میں تھے.طائف مکہ سے جنوب مشرق کی جانب تقریباً 36 میل کے فاصلہ پر واقع ایک جگہ ہے.نہایت ہی سر سبز و شاداب علاقہ ہے جہاں بہت اعلیٰ قسم کے میوے پیدا ہوتے ہیں.وہاں قبیلہ ثقیف کے لوگ آباد تھے.حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد قریش نے رسول اللہ صلی اللی کمر پر دوبارہ مظالم شروع کیسے تو آپ صلی الیکم حضرت زید بن حارثہؓ کے ہمراہ طائف کی طرف تشریف لے گئے.یہ واقعہ 10 نبوی کا ہے اور ماہ شوال کے کچھ دن ابھی باقی تھے.آپ دس دن تک طائف میں رہے.اس دوران آپ طائف کے تمام رؤسا کے پاس گئے مگر کسی نے بھی آپ کی دعوت قبول نہیں کی.جب ان کو اندیشہ ہوا کہ ان کے نوجوان آپ کی دعوت قبول کر لیں گے ، یہ فکر ضرور پیدا ہو گئی کہ کہیں نوجوان جو ہیں، جو عام لوگ ہیں وہ اسلام کی دعوت قبول نہ کر لیں تو انہوں نے کہا کہ اے محمد ! ( صلی ا کر ہمارے شہر سے نکل جاؤ اور وہاں جاکر رہو جہاں آپ کی دعوت قبول کی گئی ہے.پھر انہوں نے آوارہ لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑ کا یا تو وہ آپ کو پتھر مارنے لگے یہاں تک کہ آپ کے دونوں قدموں سے خون بہنے لگا.حضرت زید بن حارثہ رسول اللہ صلی علیم پر پھینکے جانے والے پتھروں کو اپنے اوپر لینے کی کوشش کرتے تھے حتی کہ حضرت زید کے سر پر بھی متعد د زخم آئے.الله 862

Page 380

اصحاب بدر جلد 4 364 طائف کے اس سفر کی کچھ مزید وضاحت جو سیرت خاتم النبیین میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے ، وہ بھی اس کے حوالے سے بیان کرتا ہوں.الله سة شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد آنحضور صلی علیم نے طائف کا سفر کیا تھا.جب یہ محاصرہ اٹھ گیا اور آنحضرت صلی اللہ ہم کو اپنی حرکات و سکنات یعنی موومنٹ (movement) میں کچھ حد تک آزادی نصیب ہوئی تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ طائف میں جا کر وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں.طائف ایک مشہور مقام ہے جو مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس زمانہ میں قبیلہ بنو ثقیف سے آباد تھا.کعبہ کی خصوصیت کو اگر الگ رکھ کر دیکھا جائے تو شہر کے لحاظ سے طائف گویا مکہ کا ہم پلہ تھا اور اس میں بڑے بڑے صاحب ثروت اور دولت مند لوگ آباد تھے اور طائف کی اس اہمیت کا خود مکہ والوں کو بھی اقرار تھا.چنانچہ یہ مکہ والوں کا ہی قول ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ذکر فرمایا ہے کہ کو لَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (الزخرف:32) یعنی اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے تو مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا.غرض شوال 10 نبوی میں آنحضرت صلی للی کم طائف تشریف لے گئے.بعض روایتوں میں اکیلے تشریف لے گئے، بعض میں یہ ہے کہ زید بن حارثہؓ بھی ساتھ تھے.وہاں پہنچ کر آپ نے دس دن قیام کیا اور شہر کے بہت سے رؤساء سے یکے بعد دیگرے ملاقات کی مگر اس شہر کی قسمت میں بھی مکہ کی طرح اس وقت اسلام لانا مقدر نہیں تھا.چنانچہ سب نے انکار کیا بلکہ ہنسی اڑائی.آخر آپ صلی اللہ ہم نے طائف کے رئیس اعظم عبدیالیل اور حدیث میں ابن عبدیالیل کا نام آتا ہے، اس کے پاس جا کر اسلام کی دعوت دی مگر اس نے بھی صاف انکار کیا بلکہ تمسخر کے رنگ میں کہا کہ اگر آپ سچے ہیں تو مجھے آپ کے ساتھ گفتگو کی مجال نہیں اور اگر جھوٹے ہیں تو پھر گفتگو لا حاصل ہے.اس کا کوئی مقصد نہیں اور پھر اس خیال سے کہ کہیں آپ کی باتوں کا شہر کے نوجوانوں پر اثر نہ ہو جائے آپ سے کہنے لگا کہ بہتر ہو گا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ یہاں کوئی شخص آپ کی بات سننے کے لیے تیار نہیں اور اس کے بعد اس بد بخت نے شہر کے آوارہ آدمی آپ کے پیچھے لگا دیے.آنحضرت صلی علیہ کی شہر سے نکلے تو یہ لوگ شور کرتے ہوئے آپ کے پیچھے ہو لیے اور آپ پر پتھر برسانے شروع کیے جس سے آپ کا سارا بدن خون سے تر بتر ہو گیا اور جو پہلی روایت ہے اس میں یہ بھی تھا کہ حضرت زید بن حارثہ ساتھ تھے ، ان کے سر پر بھی پتھر لگے جب وہ پتھروں کو روکتے تھے.بہر حال برابر تین میل تک یہ لوگ آپ کے ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور پتھر برساتے چلے آئے.وہی نینوا جو یونس بن متی کا مسکن تھا؟ طائف سے تین میل کے فاصلے پر مکہ کے رئیس عتبہ بن ربیعہ کا ایک باغ تھا.آنحضرت صلی علیکم نے اس میں آکر پناہ لی اور ظالم لوگ تھک کر واپس لوٹ گئے.یہاں ایک سائے میں کھڑے ہو کر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور یوں دعا کی کہ اللّهُمَّ إِلَيكَ اَشْكُو ضُعْفَ قُوَّتِي وَ قِلَّةَ حِيلَتِي وَهَوَانِي عَلَى النَّاسِ اللَّهُمَّ يَا أَرْحَمَ الرّاحِمِينَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِينَ وَانْتَ رَتی.اے میرے رب ! میں اپنے

Page 381

صحاب بدر جلد 4 365 ضعف قوت اور قلت تدبیر اور لوگوں کے مقابلے میں اپنی بے بسی کی شکایت تیرے ہی پاس کر تا ہوں.اے میرے خدا! تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اور کمزوروں اور بے کسوں کا تو ہی نگہبان اور محافظ ہے.تو ہی میرا پروردگار ہے.میں تیرے ہی منہ کی روشنی میں پناہ کا خواستگار ہو تاہوں کیونکہ تو ہی ظلمتوں کو دور کرتا اور انسان کو دنیا و آخرت کے حسنات کا وارث بناتا ہے.ہے جو عتبه و شیبہ اس وقت اپنے اس باغ میں موجود تھے.جب انہوں نے آپ صلی اللہ علم کو اس حال میں دیکھا تو دور و نزدیک کی رشتہ داری ہے یا قومی احساس سے یانہ معلوم کسی اور خیال سے ، بہر حال اپنے عیسائی غلام عداس نامی کے ہاتھ ایک کشتی میں کچھ انگور لگا کر آپ کے پاس بھجوائے.آپ نے لے لیے اور عد اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟ اور کس مذہب کے پابند ہو ؟ اس نے کہا کہ میں نینوا کا ہوں اور مذہبا عیسائی ہوں.آپ صلی علیم نے فرمایا کہ کیا وہی نینوا جو خدا کے صالح بندے یونس بن متی کا مسکن تھا؟ عد اس نے کہا.اس نے پھر آپ سے پوچھا کہ ہاں مگر آپ کو یونس کا حال کیسے معلوم ہوا؟ آپ صلی یم نے فرمایا کہ وہ میر ابھائی تھا کیونکہ وہ بھی اللہ کا بی تھا اور میں بھی اللہ کا نبی ہوں.پھر آپ نے اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی جس کا اس پر اثر ہوا اور اس نے آگے بڑھ کر جوش اخلاص میں آپ صلی الیکم کے ہاتھ چوم لیے.اس نظارے کو دور سے کھڑے کھڑے عتبہ اور شیبہ بھی دیکھ رہے تھے.چنانچہ جب عداس ان کے پاس واپس گیا تو انہوں نے کہا عد اس تجھے کیا ہوا تھا کہ اس شخص کے ہاتھ چومنے لگا.یہ شخص تو تیرے دین کو خراب کر دے گا حالانکہ تیرا دین اس کے دین سے بہتر ہے.طائف سے واپس مکہ تشریف آوری اور مطعم بن عدی کی ایک نیکی اس کے بعد پھر تھوڑی دیر آنحضرت صلی علیکم نے اس باغ میں آرام فرمایا اور پھر وہاں سے روانہ ہوئے اور نخلہ میں پہنچے جو مکہ سے ایک منزل کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں کچھ دن قیام کیا.اس کے بعد نخلہ سے روانہ ہو کر آپ کوہ حرا پر آئے اور چونکہ سفر طائف کی بظاہر ناکامی کی وجہ سے مکہ والوں کے زیادہ دلیر ہو جانے کا اندیشہ تھا اس لیے یہاں سے آپ نے مظعم بن عدی کو کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں.کیا تم مجھے اس کام میں مدد دے سکتے ہو ؟ مطعم پکا کا فر تھا مگر طبیعت میں شرافت تھی اور ایسے حالات میں انکار کرناشر فائے عرب کی فطرت کے خلاف تھا کہ اگر کوئی پناہ طلب کرے تو اس کو پناہ نہ دیں.بہر حال عربوں میں اُس زمانے میں بھی، جاہلیت میں بھی یہ خصوصیت تھی.اس لیے اس نے اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو ساتھ لیا اور سب مسلح ہو کر کھبے کے پاس کھڑے ہو گئے اور آپ کو کہلا بھیجا کہ آجائیں ہم آپ کو پناہ دیتے ہیں.آپ صلی علیکم آئے اور کعبہ کا طواف کیا اور وہاں سے مظعم اور اس کی اولاد کے ساتھ تلواروں کے سایہ میں اپنے گھر میں داخل ہو گئے.راستہ میں ابو جہل نے مظعہ کو اس حالت میں دیکھا تو حیران ہو کر کہنے لگا کہ کیا تم نے محمدصلی الی ایم کو صرف پناہ دی ہے یا اس کے تابع ہو گئے ہو ؟ مظعم نے کہا.میں صرف پناہ دینے والا ہوں.تابع نہیں ہوں.اس پر ابو جہل نے کہا.

Page 382

ناب بدر جلد 4 366 اچھا پھر کوئی حرج نہیں.بہر حال مطعم کفر کی حالت میں ہی فوت ہوا.13 یہ بہر حال اس کی ایک نیکی تھی.ہجرت مدینہ اور مواخات 863 حضرت زید جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آپ نے حضرت کلثوم بن ھذہ کے پاس قیام کیا جبکہ بعض کے مطابق آپ حضرت سعد بن خَیقہ کے پاس ٹھہرے.رسول اللہ صلی ٹیم نے آپ کی مؤاخات حضرت اسید بن حضیر " سے کروائی.بعض نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی الیم نے آپ کی مواخات حضرت حمزہ سے قائم کروائی.یعنی کہ حضرت حمزہ کو آپ کا بھائی بنایا.یہی وجہ ہے کہ غزوۂ احد کے دن حضرت حمزہ نے لڑائی کے وقت حضرت زید کے حق میں وصیت فرمائی تھی.64 اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں مزید لکھا ہے کہ مدینہ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد آنحضرت علی سلیم نے زید بن حارثہ کو کچھ روپیہ دے کر مکہ روانہ فرمایا جو چند دن میں آپ کے اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر خیریت سے مدینہ پہنچ گئے.ان کے ساتھ عبد اللہ بن ابی بکر، حضرت ابو بکر کے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے کر مدینہ پہنچ گئے.5 صلح نامہ حدیبیہ کی تحریر 865 حضرت براء سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی للی کم نے ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے اس بات سے انکار کیا کہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے دیں.آخر آپ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ آپ آئندہ سال عمرے کو آئیں گے اور یہاں مکہ میں تین دن تک ٹھہریں گے.جب صلح نامہ لکھنے لگے تو یوں لکھا کہ یہ وہ شرطیں ہیں جس پر محمد رسول اللہ صلی علیم نے صلح کی.مکہ والے کہنے لگے کہ ہم اس چیز کو نہیں مانتے.اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپ کو کبھی نہ روکتے.کہنے لگے ہمارے نزدیک تو آپ محمد بن عبد اللہ ہیں.آپ صلی علی ایم نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبد اللہ بھی.آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ یہاں سے مٹادو.حضرت علی نے کہا ہر گز نہیں.اللہ کی قسم ! میں آپ کے خطاب کو کبھی نہیں مٹاؤں گا یعنی کہ اللہ کا رسول.اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو خطاب دیا ہے اس کو میں نہیں مٹا سکتا.رسول اللہ صلی علیم نے ان سے لکھا ہو ا کاغذ لے لیا.آپ اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے.آپ نے یوں لکھا کہ یہ وہ شرطیں ہیں جو محمد بن عبد اللہ نے ٹھہرائیں.مکہ میں کوئی ہتھیار نہیں لائیں گے سوائے تلواروں کے ، جو نیاموں میں ہوں گی اور مکہ والوں میں سے کسی کو بھی ساتھ نہیں لے جائیں گے اگر چہ وہ ان کے ساتھ جانا چاہے اور اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی نہیں روکیں گے اگر وہ مکہ میں ٹھہر نا چا ہے.بہر حال اس معاہدے کے مطابق آپ صلی علیکم آئندہ سال مکہ میں داخل ہوئے اور تین دن کی مدت ختم ہو گئی تو قریش حضرت علی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ

Page 383

ب بدر جلد 4 367 اپنے ساتھی محمد یعنی آنحضرت صلی للی علم سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں کیونکہ مقررہ مدت گزر چکی ہے، تین دن ٹھہرنے کی شرط تھی، تین دن ہو گئے ہیں.چنانچہ نبی کریم صلی لیکن وہاں سے روانہ ہو گئے.حضرت حمزہ کی ایک بیٹی حضرت حمزہ کی بیٹی معمارہ، ایک روایت میں ان کا نام امامہ اور دوسری روایت میں آمد اللہ بھی ملتا ہے ، آپ ملی تعلیم کے پیچھے پیچھے آئیں کہ اے چا! اے چا! حضرت علی نے جاکر اسے لے لیا، پکڑ لیا.اس کا ہاتھ پکڑا اور حضرت فاطمہ علیہا السلام سے کہا کہ آپؐ چچا کی بیٹی کو لے لیں.انہوں نے اس کو سوار کر لیا.اب حضرت علی، حضرت زید ، اور حضرت جعفر حضرت حمزہ کی لڑکی کی بابت جھگڑنے لگے.حضرت علی کہنے لگے کہ میں نے تو اس کو لیا ہے اور میرے چچا کی بیٹی ہے اور حضرت جعفر نے کہا کہ میرے چا کی ی ہے اور اس کی خالہ اسماء بنت تخمیس میری بیوی ہے اور حضرت زید نے کہا کہ میرے بھائی کی بیٹی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی الی ایم نے مواخات قائم کرائی تھی.پھر نبی صلی لی ہم نے اس کے متعلق فیصلہ کیا کہ وہ اپنی خالہ کے پاس رہیں یعنی حضرت جعفر جو تھے ان کے پاس رہے.پھر آپ صلی لی ایم نے فرمایا کہ خالہ بمنزلہ ماں کے ہے اور حضرت علی سے کہا تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں اور حضرت جعفر سے کہا تم صورت اور سیرت میں مجھ سے ملتے جلتے ہو اور حضرت زید سے کہا کہ تم ہمارے بھائی ہو اور دوست ہو.حضرت علی نے کہا کہ آپ حمزہ کی بیٹی سے شادی نہیں کر لیتے ؟ آپ صلی علیم نے فرمایا کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے.میرے دودھ بھائی ہیں اور میں اس بچی کا چچا ہوں.یہ روایت بخاری میں ہے اور سیرۃ الحلبیہ میں بھی ہے.866 حضرت ام ایمن فکا تعارف اور حضرت زید سے شادی حضرت زید بن حارثہ نے حضرت ام ایمن سے شادی کی تھی.حضرت ام ایمن کا نام بر گۃ تھا اور آپ اپنے بیٹے ایمن کی وجہ سے ام ایمن کی کنیت سے مشہور تھیں.آپ حبشہ کی رہنے والی تھیں.نبی کر نیم ملی ایم کے والد حضرت عبد اللہ کی کنیز تھیں.ان کی وفات کے بعد حضرت آمنہ کے پاس رہنے جب رسول کریم صلی اہلیہ کی عمر چھ سال کی تھی تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو ساتھ لے کر اپنے میکے سے ملنے مدینہ گئیں تو اس وقت حضرت ام ایمن بطور خادمہ ساتھ تھیں، چھوٹی بھی ہوں گی.مدینہ سے واپسی پر جب ابواء مقام جو کہ مسجد نبوی سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے پہنچے تو حضرت آمنہ کی وفات ہو گئی.حضرت ام ایمن آنحضور صلی اللہ ہم کو انہی دو اونٹوں پر مکہ واپس لے آئیں جن پر وہ مکہ سے گئی تھیں.آنحضرت صلی اللہ نام کے دعویٰ نبوت سے قبل مکہ میں حضرت ام ایمن کی شادی عبید بن زید سے ہوئی جو خود ایک حبشی غلام تھے.ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ایمن تھا.حضرت ایمن نے غزوہ حنین میں شہادت کا مقام حاصل کیا.حضرت ام ایمن کے خاوند کی وفات ہو گئی تو آپ کی شادی حضرت

Page 384

تاب بدر جلد 4 زید سے کر دی گئی.368 ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت ام ایمن نبی کریم صلی علیم سے نہایت مہربانی سے پیش آتیں اور آپ کا خیال رکھتی تھیں.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ جو اہل جنت کی خاتون سے شادی کر کے خوش ہونا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ام ایمن سے شادی کرلے.867 چنانچہ اس پر حضرت زید بن حارثہؓ نے ان سے شادی کی جس سے حضرت اسامہ پیدا ہوئے.حضرت ام ایمن نے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی.وہاں سے ہجرت کے بعد مدینہ واپس آئیں اور غزوہ احد میں شرکت کی.اس موقعے پر آپ لوگوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی تیمارداری کرتی تھیں.ان کو غزوہ خیبر میں بھی شرکت کی توفیق ملی.123 ہجری میں جب حضرت عمر نے شہادت پائی تو حضرت ام ایمن بہت روئیں.لوگوں نے پوچھا کیوں روتی ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ حضرت عمر کی شہادت سے اسلام کمزور پڑ گیا ہے.حضرت ام ایمن کی وفات حضرت عثمان کے دورِ خلافت کے آغاز میں ہوئی.حضرت زید کی حضرت ام ایمن سے شادی کے متعلق مختلف حوالوں سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو تحریر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے، جو آپ کی تحریرات میں ہے کہ ام ایمن وہی ہیں جو آپ کے والد کی وفات پر ایک لونڈی کی حیثیت میں آپ صلی اللہ ہم کو ورثہ میں پہنچی تھیں.بڑے ہو کر آپ نے انہیں آزاد کر دیا تھا اور ان کے ساتھ بہت احسان کا سلوک فرماتے تھے.بعد میں ام ایمن کی شادی آپ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کے ساتھ ہو گئی اور ان کے بطن سے اسامہ بن زید پید اہوئے.868 جنہیں الحِبُّ ابن الحب یعنی محبوب کا پیارا بیٹا کہا جاتا تھا.رسول الله صلى اللی کم حضرت ام ایمن کو دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ یا اُرہ یعنی اے میری والدہ.جب آپ صلی علیکم حضرت ام ایمن کی طرف دیکھتے تو فرماتے ـ هذه بَقِيَّةُ أَهْلِ بَيْتِي.یہ میرے اہل بیت میں سے باقی ماندہ ہیں.ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرت صلی علیہ امر یہ بھی فرماتے تھے کہ ام ایمن انى بَعْدَ أُقنى.یعنی ام ایمن میری حقیقی والدہ کے بعد میری والدہ ہے اور آپ صلی علی یکم ان کے گھر میں بھی ان کی ملاقات کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے.870 حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ جب مہاجر مکہ سے مدینہ آئے اور ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ تھا اور انصار زمین اور جائیداد والے تھے تو انصار نے ان سے معاہدہ کیا کہ وہ ان کو اپنے باغوں کا میوہ ہر سال دیا کریں گے لیکن ان میں کام کاج وہ خود کریں گے.باغ کا پھل دیں گے ، آمد دیں گے لیکن جو باغ کی محنت مزدوری ہے، اس کو سنبھالنا ہے وہ خود کیا کریں گے.مہاجرین کو نہیں کرنے دیں گے.حضرت انس کی والدہ حضرت ام سلیم تھیں جو حضرت عبد اللہ بن ابی طلحہ کی بھی والدہ تھیں.حضرت 869

Page 385

تاب بدر جلد 4 369 انس کی ماں نے رسول اللہ صلی علی یم کو کچھ کھجور کے درخت دیے ہوئے تھے.871 نبی کریم صلی یکم نے یہ درخت اپنی کھلائی حضرت ام ایمن کو دے دیے جو حضرت اسامہ بن زید کی والدہ تھیں.ابنِ شہاب کہتے تھے کہ مجھے حضرت انس بن مالک نے بتایا کہ نبی کریم صلی الی یکم جب اہل خیبر کی لڑائی سے فارغ ہوئے اور مدینہ کو لوٹ گئے تو مہاجرین نے انصار کے وہ عطیے یعنی وہ پھل دار درخت جو انہوں نے ان کو اپنے باغوں سے دیے ہوئے تھے ، واپس کر دیے.اب ان کو اپنی بھی کچھ دولت جائیداد وغیرہ مل گئی تھی.نبی کریم صل اللہ ہم نے بھی حضرت انس کی والدہ کو ان کی کھجوریں واپس کر دیں اور ان کی جگہ رسول اللہ صلی لی تم نے ام ایمن کو اپنے باغ میں سے کچھ درخت دے دیے.بخاری کی ایک دوسری روایت میں اس کی مزید تفصیلات یوں ہیں کہ حضرت انس سے روایت ہے کہ کوئی صحابی نبی صلی یہ کلم کے لیے کھجوروں کے کچھ درخت خاص کر دیا کرتا تھا.جب آپ صلی یہ نکم نے قریظہ اور نفیر فتح کیے تو آپ کو ان کی ضرورت نہ رہی.تو وہ کہتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے مجھے کہا کہ میں نبی کریم صلی علیکم کے پاس جاؤں اور آپ صلی الیہ کم سے وہ درخت جو انہوں نے آنحضرت صلی للی کم کو دیے تھے یا ان میں سے کچھ درخت واپس کرنے کے لیے کہوں کیونکہ اب آپ کو ضرورت نہیں رہی.حضرت انس سے یہ روایت ہے.تو کہتے ہیں کہ نبی صلی علیکم نے یہ درخت کیونکہ حضرت ام ایمن کو دیے ہوئے تھے تو یہ سن کر حضرت ام ایمن آئیں اور میری گردن میں کپڑا ڈالا اور بولیں کہ میں ہر گز نہیں دوں گی.قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کہ یہ درخت تمہیں کبھی نہیں ملیں گے جبکہ یہ آنحضرت صلی اللہ تم مجھے دے چکے ہیں یا کچھ ایسا ہی کہا.نبی صلی علیہم نے حضرت ام ایمن سے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، واپس کر دو.تمہیں اتنے ہی اور دوں گا.جتنے تمہیں درخت دیے ہوئے ہیں اُتنے ہی دوسری جگہ سے اور دے دوں گا.لیکن وہ کہتی تھیں کہ اللہ کی قسم ! ہر گز نہیں.حضرت انس کہتے ہیں کہ میر اخیال ہے کہ آخر آپ صلی اللہ ہم نے ان کو ، حضرت ام ایمن کو اس سے دس گنا دیے یا کچھ ایسے ہی الفاظ تھے جو کہے.172 کہ میں تمہیں دس گنا دے دوں گا.اس کے بعد یہ درخت واپس کیے گئے.ام ایمن کی ہجرت مدینہ اور آسمان سے پانی انترنا ایک روایت ہے کہ حضرت ام ایمن گو مدینہ کی طرف پیدل ہجرت کرتے وقت شدید پیاس لگی، بڑی بزرگ عورت تھیں، اللہ تعالیٰ سے ان کا بڑا خاص تعلق تھا.اس وقت آپ کے پاس پانی بھی نہیں تھا اور گرمی بھی بہت شدید تھی.انہوں نے اپنے سر کے اوپر کسی چیز کی آواز سنی تو کیا دیکھتی ہیں کہ ان پر آسمان سے ڈول کی مانند ایک چیز جھک آئی تھی جس سے پانی کے سفید قطرات گر رہے تھے.انہوں نے اس میں سے پانی پایہاں تک کہ سیراب ہو گئیں.وہ کہا کرتی تھیں کہ اس کے بعد سے مجھے کبھی پیاس اور تشنگی کا احساس نہیں ہوا، تکلیف نہیں ہوئی اور کبھی روزے کی حالت میں بھی پیاس محسوس ہوتی تو تب بھی میں پیاسی نہیں رہتی تھی.

Page 386

تاب بدر جلد 4 370 بدری صحابہ کے ساتھ جن خواتین کا بھی تعلق ہے ان خواتین کا ذکر بھی بعض صحابہ کے ذکر میں آجاتا ہے تا کہ ان خواتین کے بلند مقام کا بھی ہمیں پتا لگتار ہے اس لیے میں یہ ذکر ساتھ ساتھ کرتارہتا ہوں.السلام علیکم کا رواج حضرت ام ایمن کی زبان میں کچھ لکنت تھی جب وہ کسی کے پاس جاتیں تو سَلَامُ اللهِ عَلَيْكُمْ کی بجائے، ( پہلے یہ سَلَامُ اللهِ عَلَيْكُمْ کہنے کا رواج تھا، لکنت کی وجہ سے سَلَام لَا عَلَيْكُمْ کہتی تھیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ ﷺ نے انہیں سلام الله عَلَيْكُمْ کی بجائے سَلَامٌ عَلَيْكُمْ يَا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہنے کی اجازت دی اور اب وہی رواج ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی علیم نے پانی پیا تو اس وقت حضرت ام ایمن آپ کے پاس تھیں.انہوں نے کہا یار سول اللہ ! مجھے بھی پانی پلائیں.حضرت عائشہ کہتی ہیں اس پر میں نے اُن سے کہا کہ کیار سول اللہ صلی علیکم کو تم اس طرح کہہ رہی ہو کہ تمہیں پانی پلائیں ؟ اس پر انہوں نے کہا کہ کیا میں نے رسول اللہ صلی علیم کی زیادہ خدمت نہیں کی.اس پر نبی کریم صلی الیم نے فرمایا تو نے سچ کہا ہے.پھر آپ نے انہیں پانی پلایا.873 اس لیے روتی ہوں کہ وحی ہم سے اٹھالی گئی حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی علیہ کی وفات پاگئے تو حضرت ام ایمن روتی رہیں.ان سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی الیکم کے لیے آپ کیوں رو رہی ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں یہ تو جانتی تھی کہ نبی صلی علیہ کی بھی ضرور وفات پا جائیں گے لیکن میں تو اس لیے روتی ہوں کہ وحی ہم سے اٹھالی گئی.874 یعنی آپ کی وفات کا ایک غم ہے وہ تو الگ رہا لیکن اس کے ساتھ جو تازہ بتازہ اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہو تا تھا، وحی ہوتی تھی وہ سلسلہ اب بند ہو گیا ہے.اس وجہ سے مجھے رونا آرہا ہے.حضرت ابو بکر و عمر کا حضرت ام ایمن کی خدمت میں حاضر ہونا حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللی کمی کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ ہمارے ساتھ حضرت ام ایمن کے ہاں چلو کہ ان سے ملیں جس طرح رسول اللہ صلی عملی یکم ان سے ملا کرتے تھے.جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رو پڑیں.اس پر ان دونوں نے انہیں کہا کہ آپ کیوں روتی ہیں ؟ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسول کے لیے بہتر ہے.حضرت ام ایمن نے کہا کہ میں اس لیے نہیں روتی کہ جانتی نہیں ہوں کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسول کے لیے بہتر ہے.ان کا بھی نیکی میں بڑا مقام تھا جیسا کہ میں نے کہا.کہتی ہیں کہ میں تو اس لیے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی آنا بند ہو گئی.انہوں نے ان دونوں کو بھی رلا دیا اور وہ دونوں بھی رونے لگے.875

Page 387

اصحاب بدر جلد 4 371 حضرت اسامہ اور قیافہ شناس حضرت اسامہ اور حضرت زید کی رنگت کا بڑا فرق تھا.ماں کیونکہ حبشہ کی رہنے والی تھیں، افریقن تھیں.اور زید دوسری جگہ کے رہنے والے تھے تو اس وجہ سے باپ بیٹے میں فرق تھا.ماں کی طرف ان کا رنگ زیادہ مائل تھا جس کی وجہ سے بعض لوگ حضرت اسامہ کی نسل پر اعتراض کرتے تھے.یہ کہا کرتے تھے کہ حضرت زید کے بیٹے نہیں ہیں یا اعتراض برائے اعتراض ہوتے تھے.منافقین بھی اعتراض کیا کرتے تھے تو حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ کی ایک روز میرے پاس آئے تو آپ بڑے خوش تھے.آپ نے فرمایا کہ اے عائشہ ! ابھی مجوز مذیبی میرے پاس آیا تھا.اس نے اسامہ بن زید اور زید بن حارثہ کو اس حالت میں دیکھا کہ ان دونوں پر ایک چادر تھی.گرمی کی وجہ سے یا بارش کی وجہ سے بہر حال کسی وجہ سے ایک چادر دونوں نے لی ہوئی تھی اور منہ ڈھکے ہوئے تھے، جس سے انہوں نے اپنے سروں کو ڈھانپا ہوا تھا اور چہرے بھی نظر نہیں آرہے تھے اور ان دونوں کے پیر باہر نکلے ہوئے تھے.صرف پیر باہر نکلے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ یقینا یہ پیر ایک دوسرے میں سے ہیں یعنی کہ دونوں کے جو پاؤں ہیں بہت مشابہت رکھتے ہیں.تو آپ صلی علیہ کم بڑے خوش تھے کہ اسامہ پر جو اعتراض کیا جاتا تھا آج وہ اعتراض دور ہو گیا ہے.کیونکہ یہ ایک ماہر قیافہ شناس ہے اور یہ دیکھنے والے قیافہ شناس جو دنیا دار آدمی ہوتے ہیں اس کی یہ بھی گواہی ہے.876 اور عرب کے ماحول میں یہ ایک حتمی بات ہوا کرتی تھی.ویسے تو کوئی نہیں لیکن یہ جو دنیا داروں کا منہ بند کرانے کے لیے، منافقین کا منہ بند کرانے کے لیے ایک ثبوت ملا جس پہ آنحضرت صلی علیہ یکم بہت خوش تھے.حضرت زینب بنت جحش سے حضرت زید کی شادی اور...حضرت زید نبی کریم کی تعلیم کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے بھی تھے.آپ نے حضرت زید کی ایک شادی حضرت زینب بنت جحش سے کروائی تھی لیکن یہ شادی زیادہ عرصہ تک نہیں چلی اور حضرت زید نے حضرت زینب کو طلاق دے دی.یہ شادی ایک سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ تک رہی.اس کے بعد آنحضرت صلی الم نے خود حضرت زینب بنت جحش سے شادی کی.877 آنحضرت صلی الل علم کی حضرت زینب سے شادی مختلف حوالوں کو اکٹھا کر کے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو تحریر فرمایا ہے اس کی تفصیل یوں ہے کہ ہجرت کے پانچویں سال میں غزوہ بنی مصطلق سے کچھ عرصہ پہلے جو شعبان 15 ہجری میں واقع ہوا آنحضرت صلی علیم نے زینب بنت جحش سے شادی فرمائی.حضرت زینب آنحضرت کی پھوپھی امیمہ بنت

Page 388

تاب بدر جلد 4 372 الله عبد المطلب کی صاحبزادی تھیں اور باوجود نہایت درجہ نیک اور متقی ہونے کے ان کی طبیعت میں اپنے خاندان کی بڑائی کا احساس بھی کسی قدر پایا جاتا تھا.اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی ای کمی کی طبیعت اس قسم کے خیالات سے بالکل پاک تھی اور گو آپ خاندانی حالات کو تمدنی رنگ میں قابل لحاظ سمجھتے تھے مگر آپ کے نزدیک بزرگی کا حقیقی معیار ذاتی خوبی اور ذاتی تقویٰ و طہارت پر مبنی تھا.جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِندَ الله انفسكم (الجرات 146) یعنی اے لوگو ! تم میں سے جو شخص زیادہ متقی ہے وہی زیادہ بڑا اور صاحب عزت ہے.پس آپ نے بلا کسی تامل کے اپنی اس عزیزہ یعنی زینب بنت جحش کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام اور متبنی زید بن حارثہ کے ساتھ تجویز فرما دی.پہلے تو زینب نے اپنی خاندانی بڑائی کا خیال کرتے ہوئے اسے ناپسند کیا لیکن آخر کار آنحضرت صلی اللہ ایم کی بڑی پر زور خواہش کو دیکھ کر رضامند ہو گئیں.بہر حال آنحضرت صلی للی کم کی خواہش اور تجویز کے مطابق ایم زینب اور زید کی شادی ہو گئی اور گو زینب نے ہر طرح شرافت سے نبھاؤ کیا مگر زیڈ نے اپنے طور پر یہ محسوس کیا کہ حضرت زینب کے دل میں ابھی تک یہ خلش مخفی ہے کہ میں ایک معزز خاندان کی لڑکی اور آنحضرت صلی للی کم کی قریبی رشتہ دار ہوں اور حضرت زید ایک محض آزاد شدہ غلام ہے اور میر الفو نہیں.دوسری طرف خود زیڈ کے دل میں بھی زینب کے مقابلہ میں اپنی پوزیشن کے چھوٹا ہونے کا احساس تھا اور اس احساس نے آہستہ آہستہ زیادہ مضبوط ہو کر ان کی خانگی زندگی کو بے لطف کر دیا تھا اور میاں بیوی میں ناچاقی رہنے لگی تھی.جب یہ ناگوار حالت زیادہ ترقی کر گئی تو زید بن حارثہ آنحضرت صلی الیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بزعم خود زینب کے سلوک کی شکایت کر کے انہیں طلاق دے دینے کی اجازت چاہی اور ایک روایت میں یوں بھی آتا ہے کہ انہوں نے یہ شکایت کی کہ زینب سخت زبانی سے کام لیتی ہے.اس لیے میں اسے طلاق دینا چاہتا ہوں.آنحضرت صلی علیم کو طبعاً یہ حالات معلوم کر کے صدمہ بھی ہوا مگر آپ نے زید کو طلاق دینے سے منع فرمایا اور غالبا یہ بات محسوس کر کے کہ زید کی طرف سے نبھاؤ کی کوشش میں کمی ہے آپ نے حضرت زید کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ اختیار کر کے جس طرح بھی ہو نبھاؤ کرو.اس کی کوشش کرو.چنانچہ قرآن شریف میں بھی آپ کے یہ الفاظ مذکور ہیں کہ اَمْسِكُ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ (الاحزاب : 38) کہ اے زید ! اپنی بیوی کو طلاق نہ دو اور خدا کا تقویٰ اختیار کرو.آپ کی اس نصیحت کی وجہ یہ تھی کہ اول تو اصولاً آنحضرت صلی اللہ کی طلاق کو ناپسند فرماتے تھے.چنانچہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا تھا کہ ابغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللهِ الطَّلَاق کہ ساری حلال چیزوں میں سے طلاق خدا کو زیادہ ناپسند ہے اور اسی لیے اسلام میں صرف انتہائی علاج کے طور پر اس کی اجازت دی گئی ہے.دوسرے جیسا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے امام زین العابدین علی بن حسین کی روایت ہے اور امام زہری نے اس روایت کو مضبوط قرار دیا ہے چونکہ آنحضرت صلی علیہ ہم کو پہلے سے یہ وحی الہی ہو چکی تھی کہ زید بن حارثہ بالآخر زینب کو طلاق دے دیں گے اور اس کے بعد زینب آپ کے نکاح میں

Page 389

ناب بدر جلد 4 373 آئیں گی اس لیے آپ اس معاملہ میں اپنا ذاتی تعلق سمجھتے ہوئے بالکل غیر متعلق اور غیر جانبدارانہ رویہ رکھنا چاہتے تھے اور اپنی طرف سے اس بات کی پوری پوری کوشش کرنا چاہتے تھے کہ زید اور زینب کے تعلق کے قطع ہونے میں آپ کا کوئی دخل نہ ہو اور جب تک نبھاؤ کی صورت ممکن ہو نبھاؤ ہو تا رہے اور تعلق قائم رہے اور اسی خیال کے ماتحت آپ صلی علیہ ہم نے بڑے اصرار کے ساتھ زید کو یہ نصیحت فرمائی کہ تم طلاق نہ دو اور خدا کا تقویٰ اختیار کر کے جس طرح بھی ہو نبھاؤ کرو.آپ صلی علیم کو یہ بھی اندیشہ تھا کہ اگر زید کی طلاق کے بعد زینب آپ صلی یہ کام کے عقد میں آئیں تو لوگوں میں اس کی وجہ سے اعتراض ہو گا کہ آپ صلی الی یکم نے اپنے متبنی کی مطلقہ سے شادی کر لی ہے اور خواہ نخواہ ابتلا کی صورت پید اہو گی.چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وَتُخْفِی فِی نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ وَاللهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشه ( 1 حرب: 38) کہ اے نبی !تو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھا وہ بات جسے خدا نے آخر ظاہر کر دیا وَ تُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا الله...جسے خدا نے آخر ظاہر کر دیا تھا.اور تو لوگوں کی وجہ سے ڈرتا تھا اور یقیناً خدا اس بات کا بہت زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے.بہر حال آنحضرت صلی الم نے زید کو تقوی اللہ کی نصیحت کر کے طلاق دینے سے منع فرمایا اور آپ کی اس نصیحت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے زید خاموش ہو کر واپس آگئے مگر اکھڑی ہوئی طبیعتوں کاملنا مشکل تھا.دراڑیں پیدا ہو چکی تھیں.اب بڑا مشکل تھا اور جو بات نہ بنی تھی نہ بنی اور کچھ عرصے کے بعد زید نے طلاق دے دی.جب زینب کی عدت ختم ہو چکی تو ان کی شادی کے متعلق آنحضرت صلی للی کم پر پھر وحی نازل ہوئی کہ آپ صلی علیہ تم کو انہیں خود اپنے عقد میں لے لینا چاہیے اور اس خدائی حکم میں علاوہ اس حکمت کے کہ اس سے حضرت زینب کی دلداری ہو جائے گی اور مطلقہ عورت کے ساتھ شادی کرنا مسلمانوں میں عیب نہ سمجھا جائے گا.یہ حکمت بھی مدِ نظر تھی کہ چونکہ حضرت زید آنحضرت صلی ایم کے متبنیٰ تھے اور آپ کے بیٹے کہلاتے تھے اس لیے جب آپ خود اس کی مطلقہ سے شادی فرمالیں گے تو اس بات کا مسلمانوں میں ایک عملی اثر ہو گا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہو تا اور نہ اس پر حقیقی بیٹوں والے احکام جاری ہوتے ہیں اور آئندہ کے لیے عرب کی جاہلانہ رسم مسلمانوں میں پورے طور پر مٹ جائے گی.چنانچہ اس بارہ میں قرآن شریف نے جو تاریخ اسلامی کا سب سے زیادہ صحیح ریکارڈ ہے یوں فرماتا ہے کہ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَجُنُكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَا بِهِمْ إِذَا قَضَوا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَ كَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا (1 حساب : 38) یعنی جب زید نے زینب سے قطع تعلق کر لیا تو ہم نے زینب کی شادی تیرے ساتھ کر دی تاکہ مومنوں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ بیویوں کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی روک نہ رہے بعد اس کے کہ وہ منہ بولے بیٹے اپنی بیویوں سے قطع تعلق کر لیں اور خدا کا یہ حکم اسی طرح پورا ہونا تھا.الغرض اس خدائی وحی کے نازل ہونے کے بعد جس میں آنحضرت صلی للی کم کی اپنی خواہش اور خیال کا

Page 390

اصحاب بدر جلد 4 374 قطعا کوئی دخل نہیں تھا.آپ صلی للی یکم نے زینب کے ساتھ شادی کا فیصلہ فرمایا اور پھر حضرت زید کے ہاتھ ہی حضرت زینب کو شادی کا پیغام بھجوایا اور حضرت زینب کی طرف سے رضامندی کا اظہار ہونے پر ان کے بھائی ابو احمد بن جحش نے ان کی طرف سے ولی ہو کر چار سو درہم میں آنحضرت صلی علیم کے ساتھ ان کا نکاح کر دیا اور اس طرح وہ قدیم رسم ، جو عرب کی سرزمین میں راسخ ہو چکی تھی، آنحضرت صلی اللی نام کے ذاتی نمونے کے نتیجے میں اسلام میں جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دی گئی.نکاح کی رسم ادا کی گئی تھی اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ عام مؤرخین اور محدثین کا یہ خیال ہے کہ چونکہ زینب کی شادی کے متعلق خدائی وحی نازل ہوئی تھی اور خدا کے خاص حکم سے یہ شادی و قوع میں آئی اس لیے ظاہری طور پر ان کے نکاح کی رسم ادا نہیں کی گئی مگر یہ خیال درست نہیں ہے.بے شک خدا کے حکم سے یہ شادی ہوئی اور کہا جاسکتا ہے کہ آسمان پر نکاح پڑھا گیا مگر اس وجہ سے شریعت کی ظاہری رسم جو تھی وہ بھی خدا ہی کی مقرر کردہ ہے اس سے آزادی حاصل نہیں ہو سکتی تھی.چنانچہ ابن ہشام کی روایت ، جس کا حوالہ پہلے درج کیا گیا ہے اور جس میں ظاہری رسم نکاح کا واقع ہونا بتایا گیا ہے ، اس معاملہ میں واضح ہے اور کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں.اور یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ دوسری امہات المومنین کے مقابلے میں حضرت زینب یہ فخر کیا کرتی تھیں کہ تمہارے نکاح تمہارے ولیوں نے زمین پر پڑھائے ہیں اور میر انکاح آسمان پر ہوا ہے ، اس سے بھی یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ حضرت زینب کے نکاح کی ظاہری رسم ادا نہیں ہوئی تھی کیونکہ باوجود ظاہری رسم کی ادائیگی کے ان کا یہ فخر قائم رہتا ہے کہ ان کا نکاح خدا کے خاص حکم سے آسمان پر ہو مگر اس کے مقابل پر دوسری امہات المومنین کی شادیاں عام اسباب کے ماتحت ظاہری رسم کی ادائیگی کے ساتھ وقوع میں آئیں.ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی می کنم بغیر اذن کے زینب کے پاس تشریف لے گئے تھے اور اس سے بھی یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ان کے نکاح کی ظاہری رسم ادا نہیں ہوئی تھی مگر غور کیا جاوے تو اس بات کو بھی ظاہری رسم کے ادا ہونے یا نہ ہونے کے سوال سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر اس سے یہ مراد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ کی حضرت زینب کے گھر بغیر اجازت چلے گئے تھے تو یہ غلط اور خلاف واقعہ ہے کیونکہ بخاری کی صریح روایت (بڑی واضح روایت میں یہ ذکر ہے کہ شادی کے بعد زینب آنحضرت صلی للی کمر کے گھر میں رخصت ہو کر آئی تھیں نہ کہ آپ ان کے گھر گئے تھے اور اگر اس روایت سے یہ مراد ہے کہ جب وہ رخصت ہو کر آپ کے گھر آگئیں تو اس کے بعد آپ ان کے پاس بغیر اذن کے تشریف لے گئے تو یہ کوئی غیر معمولی اور خلافِ دستور بات نہیں ہے کیونکہ جب وہ آپ صلی الم کی بیوی بن کر آپ کے گھر آگئی تھیں تو پھر آپ نے بہر حال ان کے پاس جانا ہی تھا اور آپ کو اذن کی ضرورت نہیں تھی.

Page 391

اصحاب بدر جلد 4 375 پس اذن نہ لینے والی روایت کا قطعاً کوئی تعلق اس سوال سے نہیں ہے کہ آپ کے اس نکاح کی ظاہری رسم ادا کی گئی یا نہیں.اور حق یہی ہے جیسا کہ ابن ہشام کی روایت میں تصریح کی گئی ہے کہ باوجود خدائی حکم کے اس نکاح کی باقاعدہ رسم ادا کی گئی تھی.اور عقل بھی یہی چاہتی ہے کہ ایسا ہو ا ہو کیونکہ اول تو عام قاعدے میں استثنا کی کوئی وجہ نہیں تھی اور دوسرے جب اس نکاح میں ایک رسم کا توڑنا اور اس کے اثر کو زائل کرنا مقصود تھا.یہ پہلے رسم تھی اور بڑی پکی رسم تھی کہ متبنی کی بیوی سے نکاح نہیں ہو سکتا اور اس رسم کو توڑنا مقصد تھا.تو اس بات کی پھر بدرجہ اولی ضرورت تھی، بہت زیادہ ضرورت تھی کہ یہ نکاح بڑے اعلان کے ساتھ کیا جاتا اور بڑی شہادتوں کے سامنے کیا جاتا تا کہ دنیا کو پتا لگتا کہ یہ رسم آج ختم ہو رہی ہے.حضرت زید کی زندگی کے واقعات کے تعلق میں حضرت زینب کے بارے میں اور آنحضرت صلی علیکم کی شادی کے بارے میں بھی میں نے کچھ تفصیل سے یہ ذکر اس لیے کیا ہے کہ آپ صلی علی یکم سے حضرت زینب کی شادی کے بارے میں آج کل بھی معترضین سوال اور اعتراض کرتے ہیں اس لیے اس بارے میں 878 879 ہمیں کچھ تفصیلی علم بھی ہونا چاہیے.حضرت زینب کی فضیلت و پرہیز گاری حضرت زینب بنت جحش کی عمر شادی کے وقت 35 سال کی تھی اور عرب کے حالات کے لحاظ سے یہ عمر ایسی تھی جسے گویا ادھیڑ عمر، بڑی عمر کہنا چاہیے.حضرت زینب ایک نہایت متقی اور پرہیز گار اور مخیر خاتون تھیں.چنانچہ باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی علیم کی تمام بیویوں میں صرف زینب ہی وہ بیوی تھیں جو حضرت عائشہ کا مقابلہ کرتی تھیں اور ان کی ہمسری کا دم بھرتی تھیں.حضرت عائشہ ان کے ذاتی تقویٰ اور طہارت کی بہت مداح تھیں اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ میں نے زینب سے زیادہ نیک عورت نہیں دیکھی اور یہ کہ وہ بہت متقی، بہت راست گو، بہت صلہ رحمی کرنے والی، بہت صدقہ و خیرات کرنے والی اور نیکی اور تقرب الہی کے اعمال میں نہایت سر گرم تھیں.بس اتنی بات تھی ان کی طبیعت ذرا تیز تھی مگر تیزی کے بعد وہ جلد ہی خود نادم ہو جایا کرتی تھیں.صدقہ اور خیرات میں تو ان کا یہ مرتبہ تھا کہ حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی ا ہم نے ہم سے فرمایا کہ آستر عُكُن لحافا ني اطولُكُن يَدا.یعنی تم میں سے جو سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی ہے وہ میری وفات کے بعد سب سے پہلے فوت ہو کر میرے پاس پہنچے گی.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہم نے اس سے ظاہری ہاتھ سمجھے اور اپنے ہاتھ نا پا کرتی تھیں لیکن جب آنحضرت صلی علیم کے بعد سب سے پہلے زینب بنت جحش کا انتقال ہوا تو تب جا کر ہم پر یہ راز کھلا کہ ہاتھ سے مراد صدقہ و خیرات کا ہاتھ تھا نہ کہ ظاہری ہاتھ.

Page 392

اصحاب بدر جلد 4 376 بعض اعتراضات اور ان کے جواب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مزید لکھتے ہیں کہ جیسا کہ اندیشہ کیا جاتا تھا حضرت زینب کی شادی پر منافقین مدینہ کی طرف سے بہت اعتراضات ہوئے اور انہوں نے بر ملا طور پر طعن کیسے کہ محمد صلی ا ہم نے اپنے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کر کے گویا اپنی بہو کو اپنے اوپر حلال کر لیا ہے لیکن جب اس شادی کی غرض ہی عرب کی اس جاہلانہ رسم کو مٹانا تھی تو پھر ان طعنوں کا سننا بھی ضروری تھا.اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ابنِ سعد اور طبری وغیرہ نے حضرت زینب بنت جحش کی شادی کے متعلق ایک سراسر غلط اور بے بنیاد روایت نقل کی ہے اور چونکہ اس سے آنحضرت صلی الم کی ذات والا صفات کے خلاف اعتراض کا موقع ملتا ہے اس لیے بعض مسیحی مؤرخین نے اس روایت کو نہایت ناگوار صورت دے کر اپنی کتب کی زینت بنایا ہے.روایت یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی علیکم نے زینب بنت جحش کی شادی زید کے ساتھ کر دی تو اس کے بعد آپ کسی موقع پر زید کی تلاش میں ان کے مکان پر تشریف لے گئے.اس وقت اتفاق سے زید بن حارثہ اپنے مکان پر نہیں تھے.چنانچہ جب آنحضرت صلی علی یکم نے دروازے سے باہر کھڑے ہو کر زید کو آواز دی تو زینب نے اندر سے جواب دیا کہ وہ مکان پر نہیں ہیں اور ساتھ ہی آنحضرت صلی للی نام کی آواز پہچان کر وہ لپک کر اٹھیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.آپ اندر تشریف لے آئیں لیکن آنحضرت صلی الی یکم نے انکار فرمایا اور واپس لوٹنے لگے.اب یہ راوی اس طرح کی روایت آگے لکھتے ہیں کہ مگر چونکہ حضرت زینب گھبر اکر ایسی حالت میں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں کہ ان کے بدن پر اوڑھنی نہیں تھی اور مکان کا دروازہ کھلا تھا.آنحضرت صلی یک کم کی نظر ان پر پڑ گئی اور آپ نعوذ باللہ ان کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر یہ الفاظ گنگناتے ہوئے واپس لوٹ گئے کہ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ سُبْحَانَ اللهِ مُصَرِفِ الْقُلُوبِ کہ پاک ہے وہ اللہ جو سب سے بڑائی والا ہے اور پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں لوگوں کے دل ہیں جدھر چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے.جب زید بن حارثہ واپس آئے تو زینب نے ان سے آنحضرت صلی علیکم کے تشریف لانے کا قصہ بیان کیا اور زید کے دریافت کرنے پر کہ آپ صلی للہ کم کیا فرماتے تھے.حضرت زینب نے آنحضرت صلی علی کر کے یہ الفاظ بیان کیے اور کہا میں نے تو عرض کیا تھا کہ آپ اندر تشریف لے آئیں مگر آپ نے انکار فرمایا اور واپس تشریف لے گئے.یہ سن کر زید آنحضرت صلی ظلم کی خدمت میں گئے اور کہا یار سول اللہ ! شاید آپ کو زینب پسند آگئی ہے.اگر آپ پسند فرمائیں تو میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور پھر آپ اس کے ساتھ شادی فرمالیں.آپ نے فرما یازید ! خدا کا تقویٰ کرو اور زینب کو طلاق نہ دو.یہ روایت لکھنے والے پھر آگے اس طرح لکھتے ہیں کہ مگر اس کے بعد زید نے زینب کو طلاق دے دی.یہ وہ روایت ہے جو ابنِ سعد اور طبری وغیرہ نے اس موقع پر بیان کی ہے اور گو اس روایت کی ایسی تشریح کی جاسکتی ہے جو چنداں قابلِ اعتراض نہیں، بالکل قابل اعتراض نہیں

Page 393

ناب بدر جلد 4 377 ہو گی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قصہ سر تا پا محض غلط اور جھوٹ ہے اور روایت و درایت ہر طرح سے اس کا جھوٹا ہونا ظاہر ہے.روایت تو اس قدر جاننا کافی ہے کہ اس قصے کے راویوں میں زیادہ تر واقدی اور عبد اللہ بن عامر آسلیمی کا واسطہ آتا ہے اور یہ دونوں شخص محققین کے نزدیک بالکل ضعیف اور نا قابلِ اعتماد ہیں حتی کہ واقدی تو اپنی کذب بیانی اور دروغ بیانی میں ایسی شہرت رکھتا ہے کہ غالباً مسلمان کہلانے والے راویوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ اور اس کے مقابلہ میں وہ روایت جو ہم نے اختیار کی ہے جس میں زید کا آنحضرت صلی ال یکم کی خدمت میں حاضر ہو کر زینب کی بدسلوکی کی شکایت کرنا بیان کیا گیا تھا، (وہ پچھلے خطبے میں بیان ہوئی تھی) اور اس کے مقابلے میں آنحضرت صلی للی کم کا یہ فرمان بیان کیا گیا تھا کہ تم خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور طلاق نہ دو، یہ روایت جو ہے وہ بخاری کی روایت ہے جو دوست اور دشمن کے نزدیک قرآن شریف کے بعد اسلامی تاریخ کا صحیح ترین ریکارڈ سمجھی جاتی ہے اور جس کے خلاف کبھی کسی حرف گیر کو انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی.پس اصولِ روایت کی رو سے دونوں روایتوں کی قدر و قیمت ظاہر ہے.اسی طرح عقلاً بھی غور کیا جاوے تو ابن سعد وغیرہ کی روایت کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا کیونکہ جب یہ بات مسلم ہے کہ زینب آنحضرت صلی علیہم کی پھو پھی زاد بہن تھیں حتی کہ آپ ہی نے ان کے ولی بن کر زید بن حارثہ سے ان کی شادی کی تھی اور دوسری طرف اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ اب تک مسلمان عور تیں پر وہ نہیں کرتی تھیں بلکہ پردہ کے متعلق ابتدائی حکم حضرت زینب اور آنحضرت صلی اللی علم کی شادی کے بعد نازل ہوئے تھے تو اس صورت میں یہ خیال کرنا کہ زینب کو آپ صلی یم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، صرف اس وقت اتفاقی نظر پڑ گئی اور آپ ان پر فریفتہ ہو گئے ایک صریح اور بد یہی بطلان اور جھوٹ ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.یقیناً اس سے پہلے آپ نے ہزاروں دفعہ زینب کو دیکھا ہو گا اور ان کے جسم کا حسن و فتح جو کچھ بھی تھا آپ پر عیاں تھا اور گو اوڑھنی کے ساتھ دیکھنا اور اوڑھنی کے بغیر دیکھنا کوئی فرق نہیں رکھتا لیکن جب رشتہ اس قدر قریب تھا اور پر دے کی رسم بھی اور حکم بھی اس وقت شروع نہیں ہوا تھا اور ہر وقت کی میل ملاقات تھی تو اغلب یہ ہے کہ آپ کو کئی دفعہ انہیں بغیر اوڑھنی کے دیکھنے کا اتفاق بھی ہو اہو گا اور زینب کا آپ کو اندر تشریف لانے کے لیے عرض کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت ان کے بدن پر اتنے کپڑے ضرور تھے کہ وہ آنحضرت صلی الی و کم کے سامنے ہونے کے لیے تیار تھیں.پس جس جہت سے بھی دیکھا جائے یہ قصہ ایک محض جھوٹا اور بناوٹی قصہ قرار پاتا ہے جس کے اندر کچھ بھی حقیقت نہیں اور اگر ان دلائل کے ساتھ آنحضرت صلی علی یم کی اس کامل درجہ مقدس اور زاہدانہ زندگی کو بھی مد نظر رکھا جائے جو آپ کی ہر حرکت و سکون سے واضح اور عیاں تھی تو پھر تو اس واہیات اور فضول روایت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور یہی وجہ ہے کہ محققین نے اس قصے کو قطعی طور پر جھوٹا اور بناوٹی قرار دیا ہے.مثلاً علامہ ابنِ حجر نے

Page 394

ب بدر جلد 4 378 فتح الباری میں ، علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں، علامہ زرقانی نے شرح مواہب میں وضاحت کے ساتھ اس روایت کو سراسر جھوٹا قرار دے کر اس کے ذکر تک کو صداقت کی ہتک سمجھا ہے اور یہی حال دوسرے محققین کا ہے.اور محققین پر ہی بس نہیں بلکہ ہر شخص جسے تعصب نے اندھا نہیں کر رکھا وہ اس بیان کو جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی لکھا ہے کہ ہم نے قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کی بنا پر مرتب کر کے پیش کیا ہے اس لچر اور ناقابل التفات قصے پر ترجیح دے گا جسے بعض منافقین نے اپنے پاس سے گھڑ کر روایت کیا اور مسلمان مؤرخین نے جن کا کام صرف ہر قسم کی روایات کو جمع کرنا تھا اسے بغیر کسی تحقیق کے اپنی تاریخ میں جگہ دے دی اور پھر بعض غیر مسلم مؤرخین نے مذہبی تعصب سے اندھا ہو کر اسے اپنی کتاب کی زینت بنایا.اس بناوٹی قصے کے ضمن میں یہ بات بھی یادر کھنی چاہیے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ اپنی سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ یہ زمانہ اسلامی تاریخ کا وہ زمانہ تھا جبکہ منافقین مدینہ اپنے پورے زور میں تھے اور عبد اللہ بن ابی بن سلول کی سرکردگی میں ان کی طرف سے ایک با قاعدہ سازش اسلام اور بانی اسلام کو بد نام کرنے کی جاری تھی اور ان کا یہ طریق تھا کہ جھوٹے اور بناوٹی قصے گھڑ گھڑ کر خفیہ خفیہ پھیلاتے رہتے تھے یا اصل بات تو کچھ ہوتی تھی اور وہ اسے کچھ کا کچھ رنگ دے کر اور اس کے ساتھ سو قسم کے جھوٹ شامل کر کے اس کی در پردہ اشاعت شروع کر دیتے تھے.چنانچہ قرآن شریف کی سورۃ احزاب میں جس جگہ حضرت زینب کی شادی کا ذکر ہے اس کے ساتھ ساتھ منافقین مدینہ کا بھی خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے اور ان کی شرارتوں کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَبِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ( الاحزاب: 61) یعنی اگر منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں جھوٹی اور فتنہ انگیز خبروں کی اشاعت کرنے والے لوگ اپنی ان کارروائیوں سے باز نہ آئے تو پھر اے نبی ہم تمہیں ان کے خلاف ہاتھ اٹھانے کی اجازت دیں گے اور پھر یہ لوگ مدینہ میں نہیں ٹھہر سکیں گے مگر تھوڑا.اس آیت میں صریح طور پر اس قصہ کے جھوٹا ہونے کی طرف اصولی اشارہ کیا گیا ہے.پھر جیسا کہ آگے چل کے ذکر آتا ہے اسی زمانہ کے قریب قریب حضرت عائشہ کے خلاف بہتان لگائے جانے کا بھی خطرناک واقعہ پیش آیا اور عبد اللہ بن ابی اور اس کے بد دیانت ساتھیوں نے اس افترا کا اس قدر چر چا کیا اور ایسے ایسے رنگ دے کر اس کی اشاعت کی کہ مسلمانوں پر ان کا عرصہ عافیت تنگ ہو گیا اور بعض کمزور طبیعت اور ناواقف مسلمان بھی ان کے اس گندے پروپیگنڈا کا شکار ہو گئے.الغرض یہ زمانہ منافقوں کے خاص زور کا زمانہ تھا اور ان کا سب سے زیادہ دل پسند حربہ یہ تھا کہ جھوٹی اور گندی خبریں اڑا اڑا کر آنحضرت صلی الی ظلم اور آپ کے متعلقین کو بد نام کریں اور یہ خبریں ایسی

Page 395

اصحاب بدر جلد 4 379 ہوشیاری کے ساتھ پھیلائی جاتی تھیں کہ بعض اوقات آنحضرت صلی علیم اور آپ کے اکابر صحابہ کو تفصیلی علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تردید کا موقع بھی نہیں ملتا تھا اور اندر ہی اندر ان کاز ہر پھیلتا جاتا تھا.ایسی صورتوں میں بعض بعد میں آنے والے مسلمان جو زیادہ تحقیق اور تدقیق کے عادی نہیں تھے انہیں سچا سمجھ کر ان کی روایت شروع کر دیتے تھے اور اس طرح یہ روایتیں واقدی وغیرہ کی قسم کے مسلمانوں کے جو مجموعے تھے ان میں راہ پا گئیں مگر جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے صحیح احادیث میں ان کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا اور نہ محققین نے انہیں قبول کیا ہے.حضرت زینب بنت جحش کے قصہ میں سرولیم میور نے جن سے یقینا ایک بہتر ذہنیت کی امید کی جاتی تھی واقدی کی غلط اور بناوٹی روایت کو قبول کرنے کے علاوہ اس موقع پر یہ دل آزار طعن بھی کیا ہے.وہ معترض تھا.ان سے تو یہی امید ہونی چاہیے تھی اور پھر جب حوالہ مسلمانوں کا مل جائے تو پھر ان کو مزید طعن کرنے کا بھی موقع مل جاتا ہے کہ گویا بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی للی نیم کی نفسانی خواہشات بھی ترقی کرتی جاتی تھیں (نعوذ باللہ ) اور میور صاحب آپ کے حرم کی جو توسیع تھی، شادیوں میں اضافہ تھا اس کو میور صاحب اسی جذبے پر مبنی قرار دیتے ہیں.یہی کہتے ہیں کہ یہ نفسانی خواہشات تھیں، نعوذ باللہ.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ میں بھی ایک مؤرخ کی حیثیت سے اس بات کو بغیر کسی مذہبی بحث میں پڑنے کے بیان کرتا ہوں مگر تاریخی واقعات کو ایک غلط راستے پر جب ڈالا جاتا ہے تو اسے دیکھ کر اس ناگوار اور غیر منصفانہ طریق کے خلاف آواز بلند کرنے سے باز نہیں ہ سکتا.پس علاوہ مذہبی جذبات کے اور پھر آنحضرت صلی اہل علم کے تقدس کے سوال کے ، جس پر ایک حقیقی مسلمان اور ایک مومن تو اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہے ، عقلی اور تاریخی حقائق جو ہیں وہ بھی اس بیہودہ بات کی نفی کرتے ہیں.ره آنحضرت صلی السلام کی تعدد ازواج میں حکمت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ بے شک یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی الی یکم نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور یہ بات بھی مسلمہ تاریخ کا حصہ ہے کہ علاوہ حضرت خدیجہ کے آپ کی ساری شادیاں اس زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جسے بڑھاپے کا زمانہ کہا جاسکتا ہے مگر بغیر کسی تاریخی شہادت کے بلکہ واضح اور صریح تاریخی شہادت کے خلاف یہ خیال کرنا کہ آپ کی یہ شادیاں نعوذ باللہ جسمانی خواہشات کے جذبہ کے ماتحت تھیں ایک مؤرخ کی شان سے بہت بعید ہے اور ایک شریف انسان کی شان سے بھی بعید تر ہے.میور صاحب اس حقیقت سے بے خبر نہیں تھے کہ آنحضرت صلی الی ایم نے پچیس سال کی عمر میں ایک چالیس سالہ ادھیڑ عمر کی بیوہ عورت سے شادی کی اور پھر پچاس سال کی عمر تک اس رشتہ کو اس خوبی اور وفاداری کے ساتھ نباہا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی اور اس کے بعد بھی آپ نے پچپن سال کی عمر تک عملاً صرف ایک بیوی رکھی اور یہ بیوی حضرت سودہ بھی حسن اتفاق سے ایک بیوہ اور ادھیڑ عمر کی خاتون تھیں اور اس تمام عرصہ میں جو جذبات نفسانی کے بہیجان کا مخصوص زمانہ ہے آپ کو کبھی دوسری شادی کا خیال نہیں آیا.

Page 396

اصحاب بدر جلد 4 380 میور صاحب اس تاریخی واقعہ سے بھی ہر گز نا واقف نہیں تھے کہ جب مکہ والوں نے آپ کی تبلیغی مساعی سے تنگ آکر اور ان کو اپنے قومی دین کا مخرب ( خراب کرنے والا ) خیال کر کے آپ کے پاس عقبہ بن ربیعہ کو بطور ایک وفد کے بھیجا تھا اور آپ سے بڑی پر زور استدعا کی درخواست کی تھی کہ آپ اپنی ان کوششوں سے رُک جائیں اور دولت اور ریاست کی طمع دینے کے علاوہ ایک یہ درخواست بھی پیش کی کہ اگر آپ کسی اچھی لڑکی کے ساتھ شادی کر کے ہم سے خوش ہو سکتے ہیں اور ہمارے دین کو برابھلا کہنے اور اس نئے دین کی تبلیغ سے باز رہ سکتے ہیں تو آپ جس لڑکی کو پسند کریں ہم آپ کے ساتھ اس کی شادی الله کیے دیتے ہیں.اس وقت آپ کی عمر بھی کوئی ایسی زیادہ نہیں تھی پھر جسمانی طاقت بھی بعد کے زمانہ کی نسبت یقیناً بہتر حالت میں تھی مگر جو جواب آپ صلی علی کرم نے رؤسائے مکہ کے اس نمائندہ کو دیا وہ بھی تاریخ کا ایک کھلا ہو اور ق ہے جس کے دوہرانے کی، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ضرورت نہیں ہے اور یہ تاریخی واقعہ بھی میور صاحب کی نظر سے اوجھل نہیں تھا کہ مکہ کے لوگ آپ کو آپ کی بعثت سے قبل یعنی چالیس سال کی عمر تک ایک بہترین اخلاق والا انسان سمجھتے تھے مگر باوجو دان سب شہادتوں کے میور صاحب کا یہ لکھنا کہ پچپن سال کی عمر کے بعد جب ایک طرف آپ کی جسمانی طاقتوں میں طبعاً انحطاط رو نما ہونے لگا تھا اور دوسری طرف آپ کے مشاغل اور ذمہ داریاں اس قدر بڑھ گئیں جو ایک مصروف سے مصروف انسان کے مشاغل کو بھی شرماتی ہیں تو آپ عیش و عشرت میں مبتلا ہو گئے.یہ یقیناً ہر گز کوئی غیر متعصبانہ ریمارک نہیں سمجھا جا سکتا.یقیناً یہ تعصب سے بھر اہوار یمارک ہے.کہنے کو تو کوئی شخص جو کچھ بھی کہنا چاہے کہہ سکتا ہے اور اس کی زبان اور قلم کو روکنے کی دوسروں میں طاقت نہیں ہوتی مگر عقل مند آدمی کو چاہیے کہ کم از کم ایسی بات نہ کہے جسے دوسروں کی جو عقل سلیم ہے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو.میور صاحب اور ان کے ہم خیال لوگ اگر اپنی آنکھوں سے تعصب کی پٹی اتار کر دیکھتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ محض یہ بات ہی کہ آنحضرت صلم کی یہ شادیاں آپ کے بڑھاپے کی عمر کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جسمانی اغراض کے ماتحت نہیں تھیں بلکہ ان کی تہ میں کوئی دوسری اغراض بھی مخفی تھیں خصوصاً جبکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپ نے اپنی جوانی کے ایام ایک ایسی حالت میں گزارے جس کی وجہ سے آپ نے اپنوں اور بیگانوں سے امین کا خطاب پایا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں اور ہر پڑھنے والے کے، تاریخ جاننے والے کے یقیناً یہی جذبات ہوتے ہیں کہ اس بات کے مطالعہ سے مجھے ایک روحانی سرور حاصل ہوتا ہے کہ آپ کی عمر کے جس زمانہ میں آپ کی یہ شادیاں ہوئیں وہ وہ زمانہ ہے جب کہ آپ پر آپ کے فرائض نبوت کا سب سے زیادہ بار تھا اور اپنی ان لاتعداد اور بھاری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں آپ بالکل محو ہو رہے تھے اور ہر انصاف پسند ، شریف انسان کے نزدیک محض یہ منظر ہی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ آپ کی یہ شادیاں آپ کے فرائض نبوت کا حصہ تھیں جو آپ نے اپنی خانگی خوشی کو برباد کرتے ہوئے تبلیغ و تربیت کی

Page 397

ب بدر جلد 4 381 اغراض کے ماتحت کی تھیں.ایک بُرا آدمی دوسرے کے افعال میں بری نیت تلاش کرتا ہے اور اپنی گندی حالت کی وجہ سے بسا اوقات دوسرے کی نیک نیت کو سمجھ بھی نہیں سکتا مگر ایک شریف انسان اس بات کو جانتا اور سمجھتا ہے کہ بسا اوقات ایک ہی فعل ہو تا ہے جسے ایک گندہ آدمی بری نیت سے کرتا ہے مگر اسی کو ایک نیک آدمی نیک اور پاک نیت سے کر سکتا ہے اور کرتا ہے.پھر یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اسلام میں شادی کی غرض یہ نہیں ہے کہ مرد اور عورت اپنی نفسانی خواہشات کے پورا کرنے کے لیے اکٹھے ہو سکیں بلکہ گو نسل انسانی کے بقا کے لیے مردو عورت کا اکٹھا ہونا نکاح کی ایک جائز غرض ہے مگر اس میں بہت سی اور پاکیزہ اغراض بھی مد نظر ہیں.پس ایک انسان کی شادیوں کی وجہ تلاش کرتے ہوئے، جس کی زندگی کا ہر حرکت اور سکون اس کی بے نفسی اور پاکیزگی پر ایک دلیل ہے ، گندے آدمیوں کی طرح گندے خیالات کی طرف مائل ہونے لگنا اس شخص کو تو ہر گز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا جس کے متعلق یہ رائے لگائی جاتی ہے مگر رائے لگانے والے، دینے والے کے اپنے اندرونے کا آئینہ ضرور سمجھا جا سکتا ہے.مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ پس اس سے زیادہ اس اعتراض کے جواب میں، میں کچھ نہیں کہتا کہ وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ کہ اللہ ہی ہے جس سے اس بات پر مددمانگی جاسکتی ہے جو تم بیان کرتے ہو.660 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی اس شادی اور نکاح کے حوالے سے ایک نکتہ اپنے ایک نکاح کے خطبہ میں بیان فرمایا تھا وہ بھی میں پڑھ دیتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیم نے اپنی پھوپھی کی لڑکی کا نکاح زید سے کرایا.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول کریم صلی الیم نے استخارہ نہیں کیا ہو گا.دعائیں نہیں کی ہوں گی.اللہ تعالیٰ پر اتکال نہ کیا ہو گا تو گل نہیں کیا ہو گا.یہ سب باتیں رسول کریم ملی ایم نے کی ہوں گی.آپ نے استخارہ بھی کیا ہو گا.دعائیں بھی کی ہوں گی مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے آپ کی کوشش کو بار آور نہیں کیا.880 آپ لکھتے ہیں یہ نکتہ بیان فرما رہے ہیں کہ اصل وجہ اس بات کی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ یہ بات لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ رسول کریم صلی علیکم کی نرینہ اولاد نہیں ہے خواہ قانونِ قدرت والی اولاد ہو یا قانون ملکی والی، ( جو بچے adopt کر لیتے ہیں وہ ملکی قانون کے تحت اولاد تصور ہوتی ہے ) قانونِ قدرت کے مطابق تو آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی مگر ملکی دستور اور اس وقت کے قانونِ شریعت کے مطابق آپ کی اولاد موجود تھی جیسا کہ زید تھے.لوگ انہیں ابنِ محمد کہا کرتے تھے.حضرت زینب کے نکاح کے واقعہ سے خدا تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اولا دو ہی ہوتی ہے جو قانونِ قدرت کے مطابق ہو یعنی جسمانی اولاد ہو.قانون ملکی والی اولا د حقیقی اولاد نہیں ہوتی.(جو adopt کیے ہوئے بچے ہوتے ہیں وہ بھی حقیقی اولاد نہیں ہوتی اور نہ شریعت نے حقیقی اولاد کے لیے جو قوانین رکھے ہیں وہ دوسروں پر عائد ہوتے ہیں.اس بات کو قائم کرنے کے لیے واحد طریق یہی تھا کہ حضرت زید کی مطلقہ کے ساتھ رسول کریم ملی ایم نکاح فرماتے.اللہ تعالیٰ نے زید اور اس کی بیوی کے تفرقہ کو دور نہ ہونے دیا.اللہ تعالیٰ چاہتا تو

Page 398

اصحاب بدر جلد 4 382 دور ہو سکتا تھا لیکن نہیں دور ہونے دیا.باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللی کلم نے استخارہ بھی کیا تھا دعائیں بھی کی تھیں اللہ تعالیٰ پر اتکال کیا تھا، کوشش کی تھی مگر حکمت الہی یہی تھی کہ زید اپنی بیوی کو طلاق دے دیں اور وہ رسول کریم صلی لیلی کام کی زوجیت میں جائے تاکہ یہ ثابت ہو کہ قانون ملکی کے لحاظ سے اولاد قانونِ قدرت والی اولاد کی طرح نہیں ہوتی.یہ بھی ایک نکتہ ہے جو اس شادی کی حکمت کے پیچھے آپ نے بیان فرمایا.881 آنحضور صل اللوم کا آزاد شدہ غلاموں کے ساتھ برتاؤ آنحضور صلی علیم کا آزاد شدہ غلاموں کے ساتھ جو برتاؤ تھا اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرت خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ " آنحضرت صلی للی کمر کا یہ طریق تھا کہ لوگوں کے پرانے خیالات کی اصلاح کی غرض سے آپ غلاموں اور آزاد شدہ غلاموں میں سے قابل لوگوں کی تعظیم و تکریم کا خیال دوسرے لوگوں کی نسبت بھی زیادہ رکھتے تھے.چنانچہ آپ نے بہت سے موقعوں پر اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ اور ان کے لڑکے اسامہ بن زید کو جنگی مہموں میں امیر مقرر فرمایا اور بڑے بڑے صاحب عزت اور جلیل القدر صحابیوں کو ان کے ماتحت رکھا اور جب نا سمجھ لوگوں نے اپنے پرانے خیالات کی بنا پر آپ کے اس فعل پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا تم لوگوں نے اسامہ کے امیر بنائے جانے پر اعتراض کیا ہے اور اس سے پہلے تم اس کے باپ زید کی امارت پر بھی طعن کر چکے ہو مگر خدا کی قسم جس طرح زید امارت کا حق دار اور اہل تھا اور میرے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اسی طرح اسامہ بھی امارت کا اہل ہے اور میرے محبوب ترین لوگوں میں سے ہے.اس ارشاد نبوی پر جو اسلام کی حقیقی مساوات کا حامل تھا صحابہ کی گردنیں جھک گئیں اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اسلام میں کسی شخص کا غلام یا غلام زادہ ہونا یا بظاہر کسی ادنیٰ طبقے سے تعلق رکھنا اس کی ترقی کے رستہ میں حارج نہیں ہو سکتا، کوئی روک نہیں بن سکتا ) اور اصل معیار بہر صورت تقویٰ اور ذاتی 88211 قابلیت پر مبنی ہے." " پھر اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ آپ نے اپنی حقیقی پھوپھی کی لڑکی زینب بنت جحش کو زید بن حارثہ سے بیاہ دیا اور عجیب کرشمہ یہ ہے کہ سارے قرآن میں اگر کسی صحابی کا نام مذکور ہوا ہے تو وہ یہی زید بن حارثہ نہیں."883 آزاد شدہ غلاموں کے اعلیٰ ترین مقام غلاموں کی اسلامی طریق پر آزادی کے بارے میں آپ مزید لکھتے ہیں کہ " اسلامی طریق پر آزاد ہونے والے لوگوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی نظر آتی ہے جو ہر قسم کے میدان میں ترقی کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچے ہیں اور جنہوں نے مختلف شعبوں میں مسلمانوں میں لیڈر ہونے کا مر تبہ حاصل

Page 399

بدر جلد 4 383 کیا...صحابہ میں زید بن حارثہ ایک آزاد شدہ غلام تھے مگر انہوں نے اتنی قابلیت پیدا کی کہ آنحضرت صلی الیم نے ان کی قابلیت کی وجہ سے بہت سی اسلامی مہموں میں انہیں امیر العسکر " یعنی پورے لشکر کا امیر " مقرر فرمایا اور بڑے بڑے جلیل القدر صحابی حتی کہ خالد بن ولید جیسے کامیاب جرنیل بھی ان کی ماتحتی میں رکھے.88411 حضرت زید غزوہ بدر، احد، خندق، حدیبیہ ، خیبر میں آنحضرت صلی اللہ نام کے ساتھ شریک ہوئے.حضرت زید امیر مدینہ حضرت زید رسول اللہ صلی علیکم کے ماہر تیر اندازوں میں سے شمار ہوتے تھے.جب آنحضرت صلی علیکم غزوة مريسيع ( یہ غزوہ بنو مصطلق کا دوسرا نام ہے) جو سیرۃ الحلبیہ کے مطابق شعبان 15 ہجری میں ہوا تھا، اس کے لیے جانے لگے تو آپ نے حضرت زید کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا.جس لشکر میں حضرت زید ہوتے وہی امیر لشکر ہوتے حضرت سلمہ بن اکوع بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علی ظلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی اور نو ایسے سرایا میں شامل ہوا ( وہ جنگیں جن میں آنحضرت صلی للی کم لشکروں میں شامل نہیں ہوئے تھے ) جن میں رسول اللہ صلی علیم نے ہم پر حضرت زید بن حارثہ کو امیر لشکر مقرر کیا تھا.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اہل علم نے زید بن حارثہ کو جب بھی کسی لشکر کے ساتھ روانہ فرمایا تو ہر دفعہ اس لشکر کا امیر ہی مقرر فرمایا اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اگر حضرت زید بعد میں بھی زندہ رہتے تو آپ انہی کو امیر مقرر فرماتے.885 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرت خاتم النبیین میں غزوہ سفوان جسے غزوہ بدر اولی بھی کہتے ہیں جو جمادی الآخر 2 ہجری میں ہوا.اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غزوہ عشیرہ کے بعد " ابھی آنحضرت صلی ای کم کو مدینہ میں تشریف لائے دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ مکہ کے ایک رئیس گرز بن جابر فهْرِي نے قریش کے ایک دستہ کے ساتھ کمال ہوشیاری سے مدینہ کی چراگاہ پر جو شہر سے صرف تین میل پر تھی اچانک حملہ کیا اور مسلمانوں کے اونٹ وغیرہ لوٹ کر چلتا ہوا.آنحضرت ملی لی ہم کو یہ اطلاع ہوئی تو آپ فوراً زید بن حارثہ کو اپنے پیچھے امیر مقرر کر کے اور مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر اس کے تعاقب میں نکلے اور سفوان تک جو بدر کے پاس ایک جگہ ہے اس کا پیچھا کیا، مگر وہ بیچ کر نکل گیا.اس غزوہ کو غزوہ بدر الا ولی بھی کہتے ہیں.88611 غزوة عشیره جس کی پہلے وضاحت کی تھی اور جو غزوۂ عشيرة ہے اس کے بارے میں مختصر بتا دوں کہ جب آنحضرت صلی علیم کو قریش کے بد ارادوں کی خبر ملی تو آپ یہ خبر سن کر مدینہ سے نکلے اور ساحل سمندر کے

Page 400

ب بدر جلد 4 384 پاس عُشيرة مقام تک پہنچے.گو قریش سے وہاں مقابلہ نہیں ہوا لیکن وہاں قبیلہ بنو مدلج کے ساتھ بعض شرائط پر آپس میں امن کا معاہدہ ہوا اور اس کے بعد آپ مدینہ تشریف لے آئے.تو عشيرة سمندر کے کنارے مقام تھا.وہاں آپ خبر سن کے گئے تھے کہ کافر وہاں جمع ہو رہے ہیں اور شاید فوج اکٹھی ہو رہی ہے تو آپ نے سوچا کہ وہیں باہر نکل کے ان کا مقابلہ کیا جائے لیکن بہر حال جنگ نہیں ہوئی اور اس سفر کا یہ فائدہ ہوا کہ ایک قبیلے سے آپ کا امن کا معاہدہ ہو گیا.187 غزوہ اور سریہ میں فرق غزوہ اور شیریہ کے بارے میں بھی یہ وضاحت کر دوں.بعضوں کو نہیں پتا ہو گا کہ غزوہ اسے کہتے ہیں جس مہم میں آنحضرت صلی علیہ کام شامل ہوئے اور سیریہ یا بعث اسے کہتے ہیں جس میں آپ شامل نہیں ہوئے.غزوہ اور تیریہ دونوں میں یہ بھی واضح ہو جائے کہ تلوار کے جہاد کے لیے نکلناضروری نہیں ہے بلکہ ہر وہ سفر جس میں آپ صلی ی ی یکم جنگ کی حالت میں شریک ہوئے ہوں وہ غزوہ کہلاتا ہے خواہ وہ خصوصیت سے لڑنے کی خاطر نہ بھی کیا گیا ہو لیکن بعد میں مجبوری سے جنگ کرنی پڑی ہو.اسی طرح سریہ بھی ہے.پس ہر غزوہ اور سیریہ لڑائی کی مہم کا ہی نہیں ہوتا.غزوہ عشیرہ میں بھی جیسا کہ بیان ہوا کوئی جنگ نہیں ہوئی.888 بدر کی فتح کی بشارت مدینہ کی طرف لے جانے والے جب جنگ بدر ختم ہو گئی تو " بدر سے روانہ ہوتے وقت آنحضرت صلی لیم نے زید بن حارثہ کو مدینہ کی طرف روانہ فرمایا تا کہ وہ آگے آگے جاکر اہل مدینہ کو فتح کی خوشخبری پہنچاویں.چنانچہ انہوں نے آپ سے پہلے پہنچ کر مدینہ والوں کو فتح کی خبر پہنچائی جس سے مدینہ کے صحابہ کو اگر ایک طرف اسلام کی عظیم الشان فتح ہونے کے لحاظ سے کمال درجہ خوشی ہوئی تو اس لحاظ سے کسی قدر افسوس بھی ہوا کہ اس الشان جہاد کے ثواب سے وہ خود محروم رہے.اس خوشخبری نے اس غم کو بھی غلط کر دیا جو زید بن حارث کی آمد سے تھوڑی دیر قبل مسلمانان مدینہ کو عموماً اور حضرت عثمان کو خصوصاً رقیہ بنت رسول للہ صلی للی کمی کی وفات سے پہنچا تھا جن کو آنحضرت صلی اللہ تم اپنے پیچھے بیمار چھوڑ کر غزوہ بدر کے لیے تشریف لے گئے تھے اور جن کی وجہ سے حضرت عثمان بھی شریک غزوہ نہیں ہو سکے.8891 قرد کی طرف سریہ حضرت زید بن حارثہ کے ایک سیریہ جو جمادی الآخر سن 13 ہجری میں قردہ کے مقام کی طرف بھیجا گیا تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ بَنُو سُلَيْم اور بَنُو غَطَفَان کے حملوں سے کچھ فرصت ملی تو مسلمانوں کو ایک اور خطرہ کے سدباب کے لیے وطن سے نکلنا پڑا.اب تک قریش اپنی شمالی تجارت کے لیے عموماً حجاز کے ساحلی راستے سے شام کی

Page 401

اصحاب بدر جلد 4 385 طرف جاتے تھے لیکن اب انہوں نے یہ راستہ ترک کر دیا کیونکہ.اس علاقہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن چکے تھے اور قریش کے لیے شرارت کا موقع کم تھا بلکہ ایسے حالات میں وہ اس ساحلی راستے کو خود اپنے لیے خطرے کا موجب سمجھتے تھے.بہر حال اب انہوں نے اس راستے کو ترک کر کے نجدی راستہ اختیار کر لیاجو عراق کو جاتا تھا اور جس کے آس پاس قریش کے حلیف اور مسلمانوں کے جانی دشمن تھے، پہلے رستے وہ تھے جن سے مسلمانوں کا معاہدہ ہوا تھا اور اس رستے پر جس کو قریش نے اختیار کیا وہاں ان کے اپنے معاہدے والے تھے اور وہ لوگ اور قبائل آباد تھے جو مسلمانوں کے بھی جانی دشمن تھے جو قبائل سُلیم اور غطفان تھے.چنانچہ جمادی الآخر کے مہینہ میں آنحضرت صلی علیم کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ قریش مکہ کا ایک تجارتی قافلہ نجدی راستے سے گزرنے والا ہے.ظاہر ہے کہ اگر قریش کے قافلوں کا ساحلی راستے سے گزرنا مسلمانوں کے لیے موجب خطرہ تھا تو مجدی راستے سے ان کا گزر نا ویسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر اندیشہ ناک تھا کیونکہ بر خلاف ساحلی راستے کے اس راستے پر قریش کے حلیف آباد تھے جو قریش ہی کی طرح مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اور جن کے ساتھ مل کر قریش بڑی آسانی کے ساتھ مدینہ میں خفیہ چھاپہ مار سکتے تھے یا کوئی شرارت کر سکتے تھے اور پھر قریش کو کمزور کرنے اور انہیں صلح جوئی کی طرف مائل کرنے کی غرض کے ماتحت بھی ضروری تھا کہ اس راستے پر بھی ان کے قافلوں کی روک تھام کی جاوے.اس لیے آنحضرت صلی للہ ہم نے اس خبر کے ملتے ہی اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہؓ کی سرداری میں اپنے صحابہ کا ایک دستہ روانہ فرما دیا.الله قریش کے اس تجارتی قافلے میں ابو سفیان بن حرب اور صَفْوَان بن أُمَيَّه جیسے رؤساء بھی موجود تھے.زید نے نہایت چستی اور ہوشیاری سے اپنے فرض کو ادا کیا اور نجد کے مقام قردہ میں ان دشمنانِ اسلام کو جا پکڑا اور اس اچانک حملہ سے گھبرا کر قریش کے لوگ قافلہ کے اموال اور جو بھی ان کا مال تھا اس کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور زید بن حارثہ اور ان کے ساتھی ایک کثیر مال غنیمت کے ساتھ مدینہ میں کامیاب و کامران واپس آئے.بعض مورخین نے لکھا ہے کہ قریش کے اس قافلہ کاراہبر ایک فرات نامی شخص تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوا اور مسلمان ہونے پر رہا کر دیا گیا لیکن دوسری روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مشرکین کا جاسوس تھا مگر بعد میں مسلمان ہو کر مدینے میں ہجرت کر کے آگیا.890 رسول الله صلى الل ولم نے گلے لگایا اور ان کا بوسہ لیا حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت زید بن حارثہ ایک سریے سے مدینہ واپس لوٹے.اس وقت رسول اللہ صلی علیکم میرے گھر میں تھے.حضرت زید آئے اور گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا.رسول اللہ صلی یکم نے ہ آپ کا استقبال کیا اور انہیں گلے لگایا اور ان کا بوسہ لیا.891 شعبان 15 ہجری میں جب رسول کریم صلی علیم نے بنو مصطلق کی طرف روانہ ہونے کی تحریک فرمائی

Page 402

تاب بدر جلد 4 386 تو بعض روایات کے مطابق رسول کریم صلی اغلی یم نے حضرت زید بن حارثہ کو مدینہ کا امیر مقرر کیا.غزوہ خندق کے دن مہاجرین کا جھنڈا بھی حضرت زید بن حارثہ کے پاس تھا.893 سریہ بنو سلیم 892 حضرت زید بن حارثہؓ کے ذکر میں بعض مزید واقعات اور حوالے ہیں جنہیں آج میں پیش کروں گا.حضرت زید بن حارثہ ایک سر یہ جو ربیع الآخر سن 6 ہجری میں بنو سلیم کی طرف بھیجا گیا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ماہ ربیع الآخر 6 ہجری میں آنحضرت صلی علیم نے اپنے آزاد کردہ غلام اور سابق مثبتی زید بن حارثہ کی امارت میں چند مسلمانوں کو قبیلہ بنی شلیم کی طرف روانہ فرمایا.یہ قبیلہ اس وقت مجد کے علاقے میں بمقام جموم آباد تھا اور ایک عرصہ سے آنحضرت صلی یی کم کے خلاف بر سر پیکار چلا آتا تھا، سازشیں کرتا رہتا تھا، جنگوں کی کوشش کرتا تھا.چنانچہ غزوہ خندق میں بھی اس قبیلہ نے مسلمانوں کے خلاف نمایاں حصہ لیا تھا.جب زید بن حارثہ اور ان کے ساتھی جموم میں پہنچے جو مدینہ سے قریباً پچاس میل کے فاصلہ پر تھا تو وہاں کوئی نہیں تھا، خالی جگہ دیکھی مگر انہیں قبیلہ مدینہ کی ایک عورت حلیمہ نامی جو مخالفین اسلام میں سے تھی اس نے اس جگہ کا پتہ بتادیا جہاں اس وقت قبیلہ بنو سلیم کا ایک حصہ اپنے جانور ، مویشی چرارہا تھا.چنانچہ اسی اطلاع سے فائدہ اٹھا کر زید بن حارثہؓ نے اس جگہ پر چھاپا مارا اور اس اچانک حملہ سے گھبرا کر اکثر لوگ تو ادھر اُدھر بھاگ کر منتشر ہوگئے مگر چند قیدی اور مویشی مسلمانوں کے ہاتھ آگئے جنہیں وہ لے کر مدینہ کی طرف واپس لوٹے.اتفاق سے ان قیدیوں میں حلیمہ کا خاوند بھی تھا اور گو کہ وہ جنگی مخالف تھا آنحضرت صلی ال کلم نے حلیمہ کی اس امداد کی وجہ سے نہ صرف حلیمہ کو بلا فدیہ آزاد کر دیا بلکہ اس کے خاوند کو بھی احسان کے طور پر چھوڑ دیا اور حلیمہ اور اس کا خاوند خوشی خوشی اپنے وطن کو واپس چلے گئے.894 سریہ عیص حضرت زید بن حارثہؓ کے ایک اور سریہ ، جو جمادی الاولیٰ سن چھ ہجری میں عیص مقام کی طرف بھیجا گیا تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ زید بن حارثہ کو اس مہم یعنی بنوسکیم کی طرف جو سریہ گیا تھا اس سے واپس آئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ آنحضرت صلی ا لم نے جمادی الاولیٰ کے مہینہ میں انہیں ایک سو ستر صحابہ کی کمان میں پھر مدینہ سے روانہ فرمایا اور اس مہم کی وجہ اہل سیر نے یہ لکھی ہے کہ شام کی طرف سے قریش مکہ کا ایک قافلہ آرہا تھا اور اس کی روک تھام کے لیے آنحضرت صلی للی کم نے اس دستہ کو روانہ فرمایا تھا.یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ قریش کے قافلے عموماًہمیشہ مسلح ہوتے تھے اور مکہ اور شام کے

Page 403

صحاب بدر جلد 4 387 در میان آتے جاتے ہوئے وہ مدینہ کے بالکل قریب سے گزرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی طرف سے ہر وقت خطرہ رہتا تھا.اس کے علاوہ یہ قافلے جہاں جہاں سے گزرتے قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے جاتے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں جس کی وجہ سے سارے ملک میں مسلمانوں کے خلاف عداوت کی ایک خطر ناک آگ مشتعل ہو چکی تھی اس لیے ان کی روک تھام ضروری تھی.بہر حال آنحضرت صلی للہ ہم نے قافلے کی خبر پا کر زید بن حارثہؓ کو اس طرف روانہ فرمایا اور وہ اس ہوشیاری سے گھات لگاتے ہوئے آگے بڑھے کہ کسی کو پتہ نہ لگے اور عیص کے مقام پر قافلے کو جا پکڑا.عمیص ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ سے چار دن کی مسافت پر سمندر کی جانب واقع ہے.چونکہ یہ اچانک حملہ تھا، اہل قافلہ مسلمانوں کے حملہ کی تاب نہ لا سکے اور اپنا سازوسامان چھوڑ کر بھاگ گئے.زید نے بعض قیدی پکڑ کر اور سامان قافلہ اپنے قبضہ میں لے کر مدینہ کی طرف واپسی کی اور آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہو گئے.895 سر ایا اور غزوات کی ایک بنیادی وجہ یہ یادرکھنا چاہیے ہر سر یہ یا جو بھی جنگ ہوئی، جو بھی لشکر بھیجا گیا وہ اس لیے کہ کچھ نہ کچھ قافلوں کی طرف سے یہ خبر ہوتی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی سازشیں کر رہے ہیں یا کوئی منصوبہ بندی کر کے حملوں کی تجویز سوچ رہے ہیں.طرف مقام کی طرف ایک سریہ پھر حضرت زید بن حارثہؓ کے ایک اور سر یہ جو جمادی الآخرہ سن چھ ہجری میں طرف مقام کی طرف بھیجا گیا تھا اس کا ذکر بھی ملتا ہے.اس کا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی ذکر کیا ہے کہ "غزوہ بنو لحیان کے کچھ عرصہ بعد جمادی الآخرہ 16 ہجری میں آنحضرت صلی الیم نے زید بن حارثہ کی کمان میں پندرہ صحابیوں کا ایک دستہ طرف کی جانب روانہ فرمایا جو مدینہ سے چھتیس میل کے فاصلہ پر واقع تھا اور اس جگہ ان ایام میں بنو ثعلبہ کے لوگ آباد تھے مگر قبل اس کے کہ زید بن حارثہ وہاں پہنچتے اس قبیلہ کے لوگ بر وقت خبر پا کر ادھر اُدھر منتشر ہو گئے اور زید اور ان کے ساتھی چند دن کی غیر حاضری کے بعد " کچھ دن وہاں قیام کیا اور پھر " مدینہ میں واپس لوٹ آئے."896 اور کوئی جنگ ونگ نہیں کی ، نہ ان کو تلاش کیا.سریہ حسمیٰ پھر زید بن حارثہؓ کا ایک اور سریہ ہے جو جمادی الآخرہ سن 16 ہجری میں چشمی کی طرف بھیجا گیا تھا.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ اسی ماہ جمادی الآخرہ میں آنحضرت صلی علیہ ہم نے زید بن حارثہ کو پانچ سو مسلمانوں کے ساتھ جسمی کی طرف روانہ فرمایا، جو مدینہ کے شمال کی طرف بنو جُذام کا مسکن تھا، وہ وہاں رہتے تھے.اس مہم کی غرض

Page 404

اصحاب بدر جلد 4 388 یہ تھی کہ آنحضرت صلی علی نام کے ایک صحابی جن کا نام دحیہ کلبی تھا، شام کی طرف سے قیصر روم کو مل کر واپس آرہے تھے اور ان کے ساتھ کچھ سامان بھی تھا جو کچھ تو قیصر کی طرف سے خلعت وغیرہ کی صورت میں تھا اور کچھ تجارتی سامان تھا.جب دخیہ بنو جُذام کے علاقہ کے پاس سے گزرے تو اس قبیلہ کے رئیس هنيد بن عَارِض نے اپنے قبیلہ میں سے ایک پارٹی کو اپنے ساتھ لے کر دِخیہ پر حملہ کر دیا اور سارا سامان چھین لیا، تجارتی سامان بھی اور جو کچھ قیصر نے دیا تھا.یہاں تک زیادتی کی کہ دحیہ کے جسم پر بھی سوائے پھٹے ہوئے کپڑوں کے کوئی چیز نہیں چھوڑی.جب اس حملہ کا علم بن ضبیب کو ہو اجو قبیلہ بنو جُذام ہی کی ایک شاخ تھے اور ان میں سے بعض لوگ مسلمان ہو چکے تھے تو انہوں نے بنو جُذام کی اس پارٹی کا پیچھا کر کے ان سے لوٹا ہوا سامان واپس چھین لیا اور دخیرہ اس سامان کو لے کر مدینہ واپس پہنچے جو انحضرت صلی علی علم کے صحابی تھے.یہاں آکر وخیہ نے آنحضرت صلی علی کیم کو سارے حالات سے اطلاع دی جس پر آپ صلی الیم نے زید بن حارثہ کو روانہ فرمایا اور دحیہ کو بھی زیڈ کے ساتھ بھجوا دیا.زید کا دستہ بڑی ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ دن کو چھپتا تھا اور رات کو سفر کرتا تھا اور یہ سفر کرتے ہوئے حسٹی کی طرف بڑھتے گئے اور عین صبح کے وقت بنو جُذام کے لوگوں کو جا پکڑا.بنو جُذام نے مقابلہ کیا، با قاعدہ جنگ ہوئی مگر مسلمانوں کے اچانک حملہ کے سامنے ان کے پاؤں جم نہ سکے اور تھوڑے سے مقابلہ کے بعد وہ بھاگ گئے اور میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اور زید بن حارثہ بہت ساسامان اور مال مویشی اور ایک سو کے قریب قیدی پکڑ کر واپس آگئے.مگر ابھی زید مدینہ میں پہنچے نہیں تھے کہ قبیلہ بنو طبیب کے لوگوں کو جو بنو جُذام کی شاخ تھے زید کی اس مہم کی خبر پہنچ گئی اور وہ اپنے رئیس رفاعہ بن زید کی معیت میں آنحضرت صلی غیر کم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں جا کے کہا کہ یارسول اللہ ! ہم مسلمان ہو چکے ہیں ، جیسا کہ ذکر ہوا ان لوگوں نے تو سامان چھڑایا تھا.اور ہماری بقیہ قوم کے لیے امن کی تحریر ہو چکی ہے، معاہدہ ہو چکا ہے کہ ان کو امن بھی ملے گا تو پھر ہمارے قبیلہ کو اس حملہ میں کیوں شامل کیا گیا ہے.اس حملے میں ان کے قبیلے کے کچھ لوگ بھی شامل ہو گئے تھے.آپ صلی الم نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے مگر زید کو اس کا علم نہیں تھا اور پھر جو لوگ اس موقع پر مارے گئے تھے ان کے متعلق آپ صلی للہ ہم نے بار بار افسوس کا اظہار کیا.اس پر رفاعہ کے ساتھی ابوزید نے کہا یار سول اللہ ! جو لوگ مارے گئے ہیں ان کے متعلق ہمارا کوئی مطالبہ نہیں یہ ایک غلط فہمی کا حادثہ تھا جو ہو گیا کہ ہمارے جو معاہدے والے لوگ تھے جنگ میں ان کو بھی ملوث کر لیا گیا مگر جو لوگ زندہ ہیں اور جو ساز وسامان زیڈ نے ہمارے قبیلہ سے پکڑا ہے وہ ہمیں واپس مل جانا چاہیے.آپ صلی نیلم نے فرمایا کہ ہاں یہ بالکل درست ہے اور آپ نے فوراً حضرت علیؓ کو زیڈ کی طرف روانہ فرمایا اور بطور نشانی کے انہیں اپنی تلوار عطا فرمائی اور زید کو کہلا بھیجا کہ اس قبیلہ کے جو قیدی اور اموال پکڑے گئے ہیں، جو بھی مال تم نے پکڑا ہے وہ چھوڑ دو.زید نے یہ حکم پاتے ہی فوراً سارے قیدیوں کو چھوڑ دیا اور ان کا مال غنیمت بھی انہیں واپس لوٹا دیا.7 پس یہ آنحضرت ملا لی ایم کا معاہدوں کی پاسداری کا اسوہ تھا.یہ نہیں کہ پکڑ لیا تو ظلم کرنا ہے بلکہ غلط آپ 897

Page 405

ناب بدر جلد 4 389 فہمی سے جو کچھ ہوا، بعض قبیلے شامل تھے اور ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ جان بوجھ کے بھی شامل ہوئے ہوں لیکن آنحضرت صلی للی یم نے سب کو چھوڑ دیا اور ان کا مال و متاع بھی ان کو واپس کر دیا.سریہ وادی القریٰ پھر حضرت زید کے ایک اور سر یہ جو رجب 6 ہجری میں وادی القریٰ کی طرف بھیجا گیا تھا اس کا ذکر بھی ملتا ہے."سر یہ چشمی کے قریباً ایک ماہ بعد آنحضرت صلی علی کلم نے پھر زید بن حارثہ کو وادی القریٰ کی طرف روانہ فرمایا.جب زید کا دستہ وادی القریٰ میں پہنچا تو بنو فزارہ کے لوگ ان کے مقابلہ کے لیے تیار تھے.چنانچہ اس معرکے میں متعدد مسلمان شہید ہوئے اور خود زید کو بھی سخت زخم آئے مگر خدا نے اپنے فضل سے بچا لیا." حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ وادی الھویٰ جس کا اس سر یہ میں ذکر ہوا ہے وہ مدینہ سے شمال کی طرف شامی راستہ پر ایک آباد وادی تھی جس میں بہت سی بستیاں آباد تھیں اور اسی واسطے اس کا نام وادی القری پڑ گیا تھا.یعنی بستیوں والی وادی."898 سریہ موئتہ اور امیر لشکر زید بن حارثہ سر یہ مؤتہ 8 ہجری میں ہوا.مُؤتَه بلقاء کے قریب ملک شام میں ایک مقام ہے.اس سر پہ کے اسباب بیان کرتے ہوئے ، وجوہات بیان کرتے ہوئے علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے حارث بن عمیر کو قاصد بنا کر شاہ بصری کے پاس خط دے کر بھیجا.جب وہ موسہ کے مقام پر اترے تو انہیں شرحبيل بن عمر و غَسّاني نے شہید کر دیا.حضرت حارث بن عمیر کے علاوہ رسول اللہ صلی علیم کا اور کوئی قاصد شہید نہیں کیا گیا.بہر حال یہ سانحہ آنحضرت صلی للی کم پر بہت گراں گزرا.آپ صلی علیم نے لوگوں کو بلایا تو وہ تیزی سے حجرف مقام پر جمع ہو گئے جن کی تعداد تین ہزار تھی.آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ سب کے امیر زید بن حارثہ نہیں اور ایک سفید جھنڈا تیار کر کے حضرت زید کو دیتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ حارث بن عمیر جہاں شہید کیے گئے ہیں وہاں پہنچ کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں.اگر وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ہے نہیں تو ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مددمانگیں اور ان سے جنگ کریں.سریہ مؤته جمادی الاول سن 8 ہجری میں ہوا.899 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الین نے سر یہ موتہ کے لیے حضرت زید بن حارثہ کو امیر مقرر فرمایا پھر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اگر زید شہید ہو جائیں تو جعفر امیر ہوں گے اور اگر جعفر" بھی شہید ہو جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ تمہارے امیر ہوں گے.اور اس لشکر کو جیش الأمراء بھی کہتے ہیں.00 صحیح بخاری میں بھی اس کا ذکر ہے مسند احمد بن حنبل میں بھی.روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت جعفر نے رسول اللہ صلی علی نام سے عرض کیا کہ یار سول اللہ! مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ آپ زید کو مجھے پر امیر فرمائیں گے.آپ صلی الی یکم نے فرمایا کہ اس بات کو چھوڑو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ بہتر کیا ہے." 901

Page 406

اصحاب بدر جلد 4 390 حضرت مصلح موعود سریہ موتہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، گو اس واقعہ کا کچھ تھوڑا ساذ کر میں چند ہفتے پہلے یا چند مہینے پہلے کے خطبوں میں بھی کر چکا ہوں.بہر حال دوبارہ کیونکہ حضرت زید کے حوالے سے بات ہو رہی ہے تو پھر ذکر کر دیتا ہوں.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ اس سریہ کا افسر آنحضرت صلی علی یکم نے زید کو مقرر کیا تھا مگر ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا تھا کہ میں اس وقت زید کو لشکر کا سر دار بناتا ہوں.اگر زید لڑائی میں مارے جائیں تو ان کی جگہ جعفر لشکر کی کمان کریں.اگر وہ بھی مارے جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ کمان کریں اور اگر وہ بھی مارے جائیں تو پھر جس پر مسلمان متفق ہوں وہ فوج کی کمان کرے.جس وقت آپ نے یہ ارشاد فرمایا اس وقت ایک یہودی بھی آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا.اس نے کہا کہ میں آپ کو نبی تو نہیں مانتا لیکن اگر آپ سچے بھی ہوں تو ان تینوں میں سے کوئی بھی زندہ بچ کر نہیں آئے گا کیونکہ نبی کے منہ سے جو بات نکلی ہے وہ پوری ہو کر رہتی ہے.گذشتہ چند مہینے پہلے جو ذکر ہوا تھا اس میں غالباً یہ ذکر تھا کہ یہودی حضرت زید کے پاس گیا اور ان کو یہ کہا.تو بہر حال حضرت مصلح موعودؓ نے اس روایت کو اس طرح درج کیا ہے کہ وہ یہودی حضرت زید کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ اگر تمہار ار سول سچا ہے تو تم زندہ واپس نہیں آؤ گے.حضرت زید نے فرمایا کہ میں زندہ آؤں گا یا نہیں آؤں گا اس کو تو اللہ ہی جانتا ہے مگر ہمارا رسول صلی یکم ضرور سچار سول ہے.اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ یہ واقعہ بالکل اسی طرح پورا ہوا.حضرت زید شہید ہوئے.ان کے بعد حضرت جعفر نے لشکر کی کمان سنبھالی وہ بھی شہید ہو گئے.اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے لکی نے لشکر کی کمان سنبھالی وہ بھی شہید ہوئے اور قریب تھا کہ لشکر میں انتشار پھیل جاتا کہ حضرت خالد بن ولید نے مسلمانوں کے کہنے سے جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ مسلمانوں کو فتح دی اور وہ خیریت سے لشکر کو واپس لے آئے.902 زید نے جھنڈ الیا اور وہ شہید ہو گئے ! بخاری میں اس واقعہ کی روایت اس طرح ملتی ہے.حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الم نے فرما یا زید نے جھنڈ الیا اور وہ شہید ہوئے.پھر جعفر نے اسے پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے.پھر عبد اللہ بن رواحہ نے جھنڈے کو پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے اور یہ خبر دیتے ہوئے آپ صلی علیہ کم کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے.فرمایا کہ پھر جھنڈے کو خالد بن ولید نے بغیر سر دار ہونے کے پکڑا اور انہیں فتح حاصل ہوئی.3 جب رسول اللہ صلی علیکم تک حضرت زید بن حارثہ ، حضرت جعفر اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ صلی علی کم ان کا حال بیان کرنے کے لیے کھڑے ہوئے.حضرت زید کے ذکر سے آغاز فرمایا.آپ نے فرمایا اے اللہ ! زید کی مغفرت فرما.اے اللہ ! زید کی مغفرت فرما.اے اللہ ! زید کی مغفرت فرما.پھر آپ نے فرمایا کہ اے اللہ ! جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ کی مغفرت فرما.4 903 904

Page 407

اصحاب بدر جلد 4 391 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب حضرت زید بن حارثہ ، حضرت جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ شہید ہو گئے تو رسول اللہ صلی للی یکم مسجد میں بیٹھ گئے.آپ کے چہرے سے غم و حزن کا اظہار ہو رہا تھا.905 هَذَا شَوقُ الْحَبِيبِ إِلى حَبِيبِهِ طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ جب حضرت زید شہید ہو گئے تو نبی کریم صلی علیکم ان کے اہل خانہ کے پاس تعزیت کے لیے تشریف لائے تو ان کی بیٹی اس حال میں تھی کہ اس کے چہرے سے رونے کے آثار ظاہر ہو رہے تھے.اس پر آپ صلی علیہ یکم کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے.حضرت زید بن عبادہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ کیا ہے ؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو آ رہے ہیں.آپ نے فرمایا.ھذا شَوقُی الحبيب إلى حبيبه یہ ایک محبوب کی اپنے محبوب سے محبت ہے.دوڑتے ہوئے جنت میں داخل ہو گئے 907 906 حضرت زید کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے سریہ مؤتہ میں حضرت زید بن حارثہ کو امیر مقرر کیا اور دوسرے امیروں پر آپ کو مقدم رکھا.جب مسلمانوں اور مشرکوں کا آپس میں مقابلہ ہوا تو رسول اللہ صلی علیکم کے مقرر کر دہ امراء پیادہ ہی لڑ رہے تھے.حضرت زید نے جھنڈ الیا اور قتال کیا اور دوسرے لوگ بھی آپ کے ساتھ مل کر قتال کر رہے تھے.لڑائی کے دوران حضرت زید نیزہ لگنے کی وجہ سے شہید ہو گئے اور شہادت کے وقت آپ کی عمر 55 سال تھی.رسول اللہ صلی للی رام نے حضرت زید کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا کہ حضرت زیڈ کے لیے مغفرت طلب کریں وہ جنت میں دوڑتے ہوئے داخل ہو گئے ہیں.7 حضرت اسامہ، جو حضرت زید بن حارثہ کے بیٹے تھے ، بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی یہ کم نہیں یعنی حضرت اسامہ کو اور حسن کو لیتے اور فرماتے کہ اے اللہ ! ان دونوں سے محبت کر کیونکہ میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں.908 حضرت جبلہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی علم جب کسی غزوے کے لیے تشریف نہ لے جاتے تو آپ اپنا ہتھیار سوائے حضرت علی کے یا حضرت زید کے کسی کو نہ دیتے.19 حضرت جبلہ پھر ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الی کم کو دو کجاوے تحفہ دیے گئے تو ایک آپ صلی علیہم نے خود رکھ لیا اور دوسر احضرت زید کو دے دیا.پھر حضرت جبلہ کی ہی روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللی کم کی خدمت میں دو جبے ہدیہ کیے گئے، تحفہ کے طور پر پیش ہوئے.آپ صلی یہ تم نے ایک خود رکھ لیا اور دوسر ا حضرت زید کو عطا فرمایا.911 910 909

Page 408

اصحاب بدر جلد 4 392 محب رسول صلى اليوم ایک اور جگہ بیان ہوا ہے کہ حضرت زید بن حارثہ کو رسول اللہ صلی علی کم کا محب کہا جاتا تھا.حضرت زید کے متعلق نبی کریم صلی الیم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ میر ا محبوب وہ ہے جس پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی زید.اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ ان پر انعام کیا اور رسول اللہ صلی علیم نے آزادی کے ذریعہ ان پر انعام کیا.912 جنگ موتہ کا بدلہ لینے کے لئے لشکر کی تیاری اور اسامہ بن زید امیر لشکر جنگ موتہ کے بارے میں مختلف تاریخ کی کتب میں جو درج ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جنگ موتہ کا بدلہ لینے کے لیے آنحضرت صلی علیہم نے ایک بہت بڑا لشکر تیار فرمایا جو صفر گیارہ ہجری میں رسول کریم صلی علیکم نے تیار فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ روم کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ.گو جنگ موتہ کے بعد یہ جو تیار فرمایا تھا اس کا زید بن حارثہ سے براہ راست تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی شہید ہو چکے تھے لیکن فوج کی تیاری اور وجہ میں حضرت زید بن حارثہؓ کا ذکر بھی آتا ہے اس لیے یہ حصہ بھی بیان کر دیتا ہوں.کچھ حصے کا حضرت اسامہ کے ذکر میں بھی غالباً کچھ عرصہ پہلے ذکر ہو چکا ہے بہر حال حضرت اسامہ بدری صحابی نہیں تھے اس وقت بہت چھوٹے تھے لیکن پہلے کیونکہ میں عمومی طور پر صحابہ کا ذکر کر رہا تھا اس میں ان کا ذکر ہو گیا تھا.بہر حال یہ لشکر جب تیار ہوا تو اگلے دن آپ صلی یکم نے حضرت اسامہ بن زید کو بلایا اور اس مہم کی قیادت آپ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا اپنے باپ کے شہید ہونے کی جگہ کی طرف جاؤ اور ملک شام کے لیے روانگی کا ارشاد کرتے ہوئے فرمایا جب روانہ ہو تو تیزی کے ساتھ سفر کرو اور ان تک اطلاع پہنچنے سے پہلے وہاں پہنچ جاؤ.پھر صبح ہوتے ہی اہل ابنی یعنی ملک شام میں بلقاء کے علاقے میں مُؤتہ کے قریب ایک مقام جہاں جنگ موتہ ہوئی تھی وہاں پر حملہ کرو اور بلقاء، یہ ملک شام میں واقع ایک علاقہ ہے جو دمشق اور وادی القریٰ کے درمیان ہے.اس کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت لوط کی نسل میں سے بالق نام کے ایک شخص نے آباد کیا تھا.اور داروم کے بارے میں لکھا ہے کہ مصر جاتے ہوئے فلسطین میں غزہ کے مقام پر ایک مقام ہے بہر حال آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ حضرت زید کا بدلہ لینے کے لیے ان جگہوں کو اپنے گھوڑوں کے ذریعہ سے روند ڈالو.آنحضرت صلی علیکم نے اسامہ سے مزید فرمایا اپنے ساتھ راستہ بتانے والے بھی لے کر جاؤ اور وہاں کی خبر کے حصول کے لیے بھی آدمی مقرر کرو جو تمہیں صحیح صورت حال سے آگاہ کریں.اللہ تعالیٰ تمہیں کامیابی بخشے تو جلد واپس لوٹ آنا.اس مہم کے وقت حضرت اسامہ کی عمر سترہ سال سے ہیں سال کے درمیان تھی.آپ صلی للی کم نے حضرت اسامہ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جھنڈ ا باندھا اور حضرت اسامہ سے کہا کہ اللہ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کر وجو اللہ کا انکار کرے اس سے جنگ کرو.حضرت اسامہ یہ جھنڈا لے کر نکلے اور اسے حضرت بریدہ کے سپرد کیا.یہ لشکر جزف مقام پر اکٹھا ہو نا شروع ہوا.جُزف بھی مدینہ سے

Page 409

تاب بدر جلد 4 393 تین میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے.اس لشکر کی تعداد تین ہزار بیان کی جاتی ہے.اس لشکر میں مہاجرین اور انصار میں سے سب شامل ہوئے.ان میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت ابو عبیدہ بن الجرائح، حضرت سعد بن ابی وقاص جیسے جلیل القدر صحابہ اور کبار صحابہ بھی شامل تھے لیکن ان کے لشکر کے سردار حضرت اسامہ کو مقرر فرمایا جو سترہ اٹھارہ سال کی عمر کے تھے.کچھ لوگوں نے حضرت اسامہ پر اعتراض کیا کہ یہ لڑکا اتنی چھوٹی عمر میں اولین مہاجرین پر امیر بنا دیا ہے.اس پر رسول کریم صلی علی کی سخت ناراض ہوئے.آپ نے اپنے سر کو ایک رومال سے باندھا ہو ا تھا اور آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے.آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا کہ اے لوگو ! یہ کیسی بات ہے جو تم میں سے بعض کی طرف سے اسامہ کی امارت کے بارے میں مجھے پہنچی ہے.اگر میرے اسامہ کو امیر بنانے پر تم نے اعتراض کیا ہے تو اس سے پہلے اس کے باپ کو میرے امیر مقرر کرنے پر بھی تم اعتراض کر چکے ہو.پھر آپ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم وہ بھی اپنے اندر امارت کے اوصاف رکھتا تھا یعنی حضرت زید بن حارثہ اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی اپنے اندر امارت کے خواص رکھتا ہے.وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور یہ دونوں یقیناً ہر خیر کے حق دار ہیں.پھر آپ نے فرمایا پس اس یعنی اسامہ کے لیے خیر کی نصیحت پکڑو کیونکہ یہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ہے.یہ دس ربیع الاول ہفتہ کا دن تھا یعنی آنحضرت صلی علیہ سلم کی وفات سے دو دن پہلے کی بات ہے.وہ مسلمان جو حضرت اسامہ کے ساتھ روانہ ہو رہے تھے وہ رسول اللہ صلی املی کام کو وداع کر کے جزف کے مقام پر لشکر میں شامل ہونے کے لیے چلے جاتے.رسول اللہ صلی علیکم کی بیماری بڑھ گئی لیکن آپ صلی للی نام تاکید فرماتے تھے کہ لشکر اسامہ کو بھجواؤ.اتوار کے دن رسول اللہ صلی علی کمر کا درد اور زیادہ ہو گیا اور حضرت اسامہ لشکر میں واپس آئے تو آپ بیہوشی کی حالت نیم میں تھے.اس روز لوگوں نے آپ کو دوا پلائی تھی.حضرت اسامہ نے سر جھکا کر رسول اللہ صلی علیم کو بوسہ دیا.آپ صلی ا کر بول نہیں سکتے تھے لیکن آپ مصلی میں کم اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے اور حضرت اسامہ کے سر پر رکھ دیتے تھے.حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ آپ صلی اللی کرم میرے لیے دعا کر رہے ہیں.حضرت اسامہ لشکر کی طرف واپس آئے.سوموار کو رسول اللہ صلی الم کو افاقہ ہو گیا.لشکر اسامہ کی روانگی اور توقف آپ صلی علیم نے اسامہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی برکت سے روانہ ہو جاؤ.حضرت اسامہ آنحضرت صلی علیکم سے رخصت ہو کر روانہ ہوئے اور لوگوں کو چلنے کا حکم دیا.اسی اثنا میں ان کی والدہ حضرت آید ایمن کی طرف سے ایک شخص یہ پیغام لے کر آیا کہ آنحضرت صلی علیم کا آخری وقت دکھائی دے رہا ہے، طبیعت بہت زیادہ یہ خراب ہو چکی ہے.یہ اندوہناک خبر سنتے ہی حضرت اسامہ حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ کے ساتھ رسول اللہ صلی علیکم کے پاس حاضر ہوئے.واپس آگئے تو دیکھا کہ آپ پر نزع کی حالت تھی.12 ربیع الاول کو پیر کے دن سورج ڈھلنے کے بعد آپ صلی للی یکم نے وفات پائی جس کی وجہ سے مسلمانوں

Page 410

اصحاب بدر جلد 4 394 کالشکر مجرف مقام سے مدینہ واپس آگیا اور حضرت بریدہ نے حضرت اسامہ کا جھنڈ ارسول اللہ صلی علی ایم کے دروازے پر گاڑ دیا.جب حضرت ابو بکر کی بیعت کرلی گئی تو حضرت ابو بکر نے حضرت بریدہ کو حکم دیا کہ جھنڈا لے کر اسامہ کے گھر جاؤ کہ وہ اپنے مقصد کے لیے روانہ ہو.یہ لشکر جو آنحضرت صلی علیہ ہم نے تیار کیا تھا اب اس کو لے کر جاؤ.حضرت بریدہ جھنڈے کو لے کر لشکر کی پہلی جگہ پر لے گئے.حضرت ابو بکر کی بے مثال بہادری اور لشکر اسامہ کی روانگی آنحضرت صلی علیم کی وفات کے بعد تمام عرب میں خواہ کوئی عام آدمی تھا یا خاص تقریباً ہر قبیلے میں فتنہ ارتداد پھیل چکا تھا اور ان میں نفاق ظاہر ہو گیا تھا.اس وقت یہود و نصاری نے اپنی آنکھیں پھیلائیں اور بڑے خوش تھے کہ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے اور بدلے لینے کی تیاریاں بھی کر رہے تھے اور نبی کریم ملی لی ایم کی وفات اور مسلمانوں کی کمی تعداد کے باعث ان مسلمانوں کی حالت ایک طوفانی رات میں بکرے کی مانند تھی، بہت مشکل حالت میں تھے.بڑے بڑے صحابہ نے حضرت ابو بکر سے عرض کیا کہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر فی الحال لشکر اسامہ کی روانگی متاخر کر دیں، ذرالیٹ کر دیں، کچھ عرصہ کے بعد چلے جائیں تو حضرت ابو بکر نہ مانے اور فرمایا کہ اگر درندے مجھے گھسیٹتے پھریں تو بھی میں اس لشکر کو رسول اللہ صلی اللی کم کے فیصلہ کے مطابق بھجوا کر رہوں گا اور میں رسول اللہ صلی الی یوم کا جاری فرمودہ فیصلہ نافذ کر کے رہوں گا.ہاں اگر بستیوں میں میرے سوا کوئی بھی نہ رہے تو بھی میں اس فیصلے کو نافذ کروں گا.بہر حال آپ نے آنحضرت صلی علیم کے حکم کو کما حقہ قائم رکھا اور نافذ فرمایا اور جو صحابہ حضرت اسامہ کے لشکر میں شامل تھے انہیں واپس جذف جا کر لشکر میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا.حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو پہلے اسامہ کے لشکر میں شامل تھا اور اسے رسول اللہ صلی للی یکم نے اس میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا تھا وہ ہر گز پیچھے نہ رہے اور نہ ہی میں اسے پیچھے رہنے کی اجازت دوں گا.اسے خواہ پیدل بھی جانا پڑے وہ ضرور ساتھ جائے گا.بہر حال لشکر ایک بار پھر تیار ہو گیا.بعض صحابہ نے حالات کی نزاکت کے باعث پھر مشورہ دیا کہ فی الحال اس لشکر کو روک لیا جائے.ایک روایت کے مطابق حضرت اسامہ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آپ حضرت ابو بکر کے پاس جا کر ان سے کہیں کہ وہ لشکر کی روانگی کا حکم منسوخ کر دیں تاکہ ہم مرتدین کے خلاف نبرد آزما ہوں اور خلیفہ کر سول اور حرم رسول اور مسلمانوں کو مشرکین کے حملے سے محفوظ رکھیں.اس کے علاوہ بعض انصار صحابہ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ خلیفہ رسول اللہ صلی ا کی حضرت ابو بکر اگر لشکر کو روانہ کرنے پر ہی مصر ہیں اگر یہی اصرار ہے تو ان سے یہ درخواست کریں کہ وہ کسی ایسے شخص کو لشکر کا سردار مقرر کر دیں جو عمر میں اسامہ سے بڑا ہو.لوگوں کی یہ رائے لے کر حضرت عمر حضرت ابو بکر کے پاس حاضر ہوئے تو حضرت ابو بکر نے پھر اسی آہنی عزم کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اگر جنگل کے درندے مدینہ میں داخل ہو کر مجھے اٹھالے جائیں تو بھی وہ کام کرنے سے باز نہیں آؤں گا جسے

Page 411

اصحاب بدر جلد 4 395 رسول اللہ صلی ال یکم نے کرنے کا حکم دیا ہے.اس کے بعد حضرت عمرؓ نے بعض انصار کا پیغام دیا تو وہ سنتے ہی حضرت ابو بکر نے جلال سے فرمایا کہ اسے یعنی اسامہ کو رسول اللہ صلی علیم نے امیر مقرر فرمایا ہے اور تم مجھ سے کہتے ہو کہ میں اسے اس عہدے سے ہٹا دوں.حضرت ابو بکر کا حتمی فیصلہ سننے اور آپ کے آہنی عزم کو دیکھنے کے بعد حضرت عمر الشکر والوں کے پاس پہنچے.جب لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو حضرت عمرؓ نے بڑے غصہ سے کہا کہ میرے پاس سے فوراً چلے جاؤ.محض تم لوگوں کی وجہ سے مجھے آج خلیفہ رسول صلی املی کام سے ڈانٹ کھانی پڑی ہے.جب حضرت ابو بکر کے حکم کے مطابق جیش اسامہ حزف کے مقام پر اکٹھا ہو گیا تو حضرت ابو بکر خود وہاں تشریف لے گئے اور آپ نے وہاں جا کر لشکر کا جائزہ لیا اور اس کو ترتیب دی اور روانگی کے وقت کا منظر بھی بہت ہی حیرت انگیز تھا.اس وقت حضرت اسامہ سوار تھے جبکہ حضرت ابو بكر خليفة الرسول پیدل چل رہے تھے.حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ صلی علیم کے خلیفہ آیا تو آپ سوار ہو جائیں یا پھر میں بھی نیچے اترتا ہوں.اس پر حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا.بخدا نہ ہی تم نیچے اُتر و گے اور نہ ہی میں سوار ہوں گا اور مجھے کیا ہے کہ میں اپنے دونوں پیر اللہ کی راہ میں ایک گھڑی کے لیے آلود نہ کروں کیونکہ غازی جب قدم اٹھاتا ہے تو اس کے لیے اس کے بدلہ میں سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کو سات سو درجے بلندی دی جاتی ہے اور اس کی سات سوبر ائیاں ختم کی جاتی ہیں.حضرت ابو بکر کو مدینہ میں کئی کاموں کے لیے حضرت عمر کی ضرورت تھی.حضرت ابو بکر نے انہیں از خود روکنے کی بجائے حضرت اسامہ سے اجازت چاہی کہ وہ اگر بہتر سمجھیں تو حضرت عمر کو مدینہ میں حضرت ابو بکر کے پاس رہنے دیں.حضرت اسامہ نے خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حضرت عمرؓ کو مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی.اس واقعہ کے بعد حضرت عمر " جب بھی حضرت اسامہ سے ملتے تو آپ کو مخاطب ہو کر کہا کرتے تھے.السّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْأَمِيرُ کہ اے امیر تم پر سلامتی ہو.حضرت اسامہ اس کے جواب میں غَفَرَ اللهُ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنین کہتے تھے کہ اے امیر المومنین ! اللہ تعالیٰ آپ سے مغفرت کا سلوک فرمائے.حضرت ابو بکڑ کی نصیحت اور آداب جنگ بہر حال حضرت ابو بکر نے آخر میں لشکر کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ تم خیانت کے مرتکب نہ ہونا، خیانت نہ کرنا.تم بد عہدی نہ کرنا.چوری نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا، جنگ میں مخالفین کے جو لوگ مر جائیں قتل ہو جائیں ان کی شکلیں نہ بگاڑنا.چھوٹی عمر کے بچے اور بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا.کھجور کے درخت کو نہ کاٹنا اور نہ ہی جلانا.کسی بھیٹر ، گائے اور اونٹ کو کھانے کے سواذ بح نہ کرنا.پھر آپ نے فرمایا کہ تم ضرور ایسی قوم کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو گر جاؤں میں عبادت کے لیے

Page 412

اصحاب بدر جلد 4 396 وقف کر رکھا ہو گا تو انہیں چھوڑ دینا.تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جو اپنے برتنوں میں انواع و اقسام کے کھانے لائیں گے.تم اگر ان میں سے کھاؤ تو بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اور تم ضرور ایسی قوم کے پاس پہنچو گے جنہوں نے درمیان سے اپنے سروں کو منڈوایا ہو گا لیکن چاروں طرف سے بالوں کو لٹوں کی مانند چھوڑا ہو گا پس تم ایسے لوگوں کو تلوار کا ہلکا ساز خم لگانا اور اللہ کے نام کے ساتھ اپنا دفاع کرنا.اللہ تعالیٰ تمہیں طعن اور طاعون کی وبا سے محفوظ رکھے.اور پھر حضرت ابو بکر نے حضرت اسامہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی للی نیلم نے جو تمہیں کرنے کا حکم دیا ہے وہ سب کچھ کرنا.ان ساری باتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں حضرت ابو بکر نے حضرت اسامہ کو اسلامی آداب جنگ کی تاکید فرمائی، کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں ہونا چاہیے وہاں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ کو اس لشکر کی فتح پر بھی یقین تھا اس لیے آپ نے فرمایا کہ تمہیں کامیابیاں ملیں گی.بہر حال یکم ربیع الآخر گیارہ ہجری کو حضرت اسامہ روانہ ہوئے.حضرت اسامہ اپنے لشکر کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہو کر منزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے حسب وصیت رسول اللہ صلی علی کل شام کے علاقہ انٹی پہنچے اور صبح ہوتے ہی آپ نے بستی کے چاروں اطراف سے ان پر حملہ کیا.اس لڑائی میں جو شعار تھا، نعرہ تھا یا مَنْصُورُ آمِت یعنی اے مد د یافتہ !مار ڈال.غیر معمولی فتح اور مدینہ کی طرف واپسی اس لڑائی میں جس نے بھی مسلمان مجاہدوں کے ساتھ مقابلہ کیا وہ قتل ہوا اور بہت سے قیدی بھی بنائے گئے.اسی طرح بہت سا مال غنیمت بھی حاصل ہوا جس میں سے انہوں نے خُمس رکھ کر باقی لشکر میں تقسیم کر دیا، پانچواں حصہ رکھ کے باقی تقسیم کر دیا اور سوار کا حصہ پیدل والے سے دو گنا تھا.اس معرکے سے فارغ ہو کر لشکر نے ایک دن اسی جگہ قیام کیا اور اگلے روز مدینہ کے لیے واپسی کا سفر اختیار کیا.حضرت اسامہ نے مدینہ کی طرف ایک خوشخبری دینے والا روانہ کیا.اس معرکے میں مسلمانوں کا کوئی آدمی بھی شہید نہیں ہوا.جب یہ کامیاب اور فاتح لشکر مدینہ پہنچا تو حضرت ابو بکر نے مہاجرین و انصار کے ساتھ مدینہ سے باہر نکل کر ان کا بھر پور خیر مقدم کیا.حضرت بریدہ جھنڈا لہراتے ہوئے لشکر کے آگے آگے چل رہے تھے.مدینہ میں داخل ہو کر لشکر مسجد نبوی تک گیا.حضرت اسامہ نے مسجد میں دو نفل ادا کیے اور اپنے گھر چلے گئے.متفرق روایات کے مطابق یہ لشکر چالیس سے لے کر ستر روز تک باہر رہنے کے بعد مدینہ واپس پہنچا تھا.جیش اسامہ کا بھیجوایا جانا مسلمانوں کے لیے بہت نفع کا موجب بنا کیونکہ اہل عرب یہ کہنے لگے کہ اگر مسلمانوں میں طاقت اور قوت نہ ہوتی تو وہ ہر گز یہ لشکر روانہ نہ کرتے.تو اس طرح جو کفار تھے وہ بہت ساری ایسی باتوں سے باز آگئے جو وہ مسلمانوں کے خلاف کرنا چاہتے تھے.13

Page 413

اصحاب بدر جلد 4 397 خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید سے حضرت اسامہ نے آنحضرت صلی ایم کے قول کو حرف بہ حرف پورا کر دکھایا اور انتظام و انصرام کے لحاظ سے بھی اور معرکہ آرائی میں انتہائی کامیابی اور کامرانی کے لحاظ سے بھی اس مہم کو اعلیٰ ثابت کر دیا.آپ نے فرمایا تھا کہ یہ بہترین سردار ہے.خدا تعالیٰ کے فضل اور آنحضرت صلی علیہ یکم اور خلیفہ وقت کی دعاؤں کی قبولیت اور برکت نے ثابت کر دیا کہ حضرت اسامہ بھی اپنے شہید والد حضرت زید کی طرح نہ صرف یہ کہ سرداری کے اہل تھے بلکہ ان خواص اور اوصاف میں ایک بلند مقام رکھتے تھے اور یہ خلیفہ وقت کا مضبوط عزم و ہمت اور بلند حوصلہ ہی تھا جس نے متعدد اندرونی اور بیرونی خطرات اور اعتراضات کے باوجود اس لشکر کو روانہ کیا اور پھر خدا نے کامیابی اور کامرانی سے نواز کر مسلمانوں کو پہلا سبق یہ سکھا دیا کہ آنحضرت صلی ایم کی وفات کے بعد اب تمام برکتیں صرف اطاعت خلافت میں ہی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی سر الخلافۃ میں اس 914 واقعہ کا ذکر کیا ہوا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ حضرت زید بن حارثہ اور پھر ان کے بیٹے حضرت اسامہ بن زید پر ، جو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی علی یلم کے پیارے اور محبوب تھے.ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے.915 121 حضرت عمر کے بر اور اکبر حضرت زید بن خطاب ابتدائی اسلام قبول کرنے اور ہجرت کرنے والے حضرت زید بن خطاب.آپ حضرت عمرؓ کے بڑے بھائی تھے اور حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے سے قبل اسلام لے آئے تھے.یہ ابتدائی ہجرت کرنے والوں میں سے بھی تھے.غزوہ بدر میں ، احد میں ، خندق میں ، حدیبیہ میں اور بیعت رضوان سمیت غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ شامل ہوئے.رسول اللہ صلی ا ہم نے آپ کی مؤاخات حضرت معن بن عدی کے ساتھ کروائی تھی.یہ دونوں اصحاب جنگ یمامہ میں شہید ہوئے.916 جنگ احد میں بغیر زرہ لڑنا اور شہادت کی تمنا غزوۂ احد کے دن حضرت عمرؓ نے حضرت زید کو اللہ کی قسم دے کر فرمایا ( حضرت زید حضرت عمرؓ کے بڑے بھائی تھے ، ان کو کہا) کہ میری زرہ پہن لو.حضرت زید نے کچھ دیر کے لئے زرہ پہن لی.جنگ

Page 414

صحاب بدر جلد 4 398 کے وقت پھر اتار دی.حضرت عمرؓ نے زرہ اتارنے کی وجہ پوچھی تو حضرت زید نے جواب دیا کہ میں بھی اسی شہادت کا خواہش مند ہوں جس کی آپ کو تمنا ہے اور دونوں نے زرہ کو چھوڑ دیا.917 حضرت زید بن خطاب سے روایت ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا کہ اپنے غلاموں کا خیال رکھو.اپنے غلاموں کا خیال رکھو.انہیں اسی میں سے کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور انہیں وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو.اور اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے جس پر تم ان کو معاف نہ کرنا چاہو تو اے اللہ کے بندو! انہیں بیچ دیا کرو اور انہیں سزا نہ دیا کرو.جنگ یمامہ میں شہادت جنگ یمامہ میں جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑے تو حضرت زید بن خطاب بلند آواز میں پکارنے لگے، یہ دعا کرنے لگے کہ اے اللہ ! میں تجھ سے اپنے ساتھیوں کے بھاگ جانے پر معذرت کر تاہوں اور مسیلمہ کذاب اور مُحكم بن طفیل نے جو کام کیا ہے اس سے تیرے حضور اپنی براءت ظاہر کرتاہوں.پھر آپ جھنڈے کو مضبوطی سے پکڑ کر دشمن کی صفوں میں آگے بڑھ کر اپنی تلوار کے جوہر دکھانے لگے یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے.918 جب حضرت زید شہید ہو گئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ زید پر رحم کرے.میرا بھائی دو نیکیوں میں مجھ پر سبقت لے گیا یعنی اسلام قبول کرنے میں بھی مجھ سے پہلے اس نے اسلام قبول کیا اور شہید بھی مجھ سے پہلے ہو گیا.آج تک کبھی کسی نے مجھ سے ایسی تعزیت نہیں کی جیسی تم نے کی 919 ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے متمم بن نویرہ کو اپنے بھائی مالک بن نویرہ کی یاد میں مرثیہ کہتے سنا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میں بھی تمہاری طرح اچھے شعر کہتا ہو تا تو میں اپنے بھائی زید کی یاد میں ایسے ہی شعر کہتا جیسے تم نے اپنے بھائی کے لئے کہے ہیں تو متمم بن نویرہ نے کہا کہ اگر میرا بھائی بھی اسی طرح دنیا سے گیا ہو تا جیسے آپ کا بھائی گیا تو میں کبھی اس پر غمگین نہ ہو تا.اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ آج تک کبھی کسی نے مجھ سے ایسی تعزیت نہیں کی جیسی تم نے کی.اس واقعہ کی ایک اور تفصیلی روایت بھی ملتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت مُتمم بن نويرة سے فرمایا کہ تمہیں اپنے بھائی کا کس قدر سخت رنج ہے.انہوں نے اپنی ایک آنکھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میری یہ آنکھ اسی غم میں ضائع ہوئی ہے.میں اپنی صحیح آنکھ کے ساتھ اس قدر رویا کہ ضائع ہونے والی آنکھ نے بھی آنسو بہانے میں اس کی مدد کی ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ ایسا شدید رنج ہے کہ کسی نے اپنے ہلاک ہونے والے کے لئے اتنے شدید غم کا اظہار نہ کیا ہو گا.پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ زید بن خطاب پر رحمت کرے.

Page 415

اصحاب بدر جلد 4 399 اگر میں شعر کہنے کی طاقت رکھتا تو میں بھی ضرور حضرت زید پر اسی طرح رو تا جس طرح تم اپنے بھائی پر روتے ہو.حضرت میم نے کہا کہ اے امیر المومنین! اگر میر ابھائی جنگ یمامہ میں اسی طرح شہید ہو تا جس طرح آپ کے بھائی شہید ہوئے ہیں تو میں کبھی اس پر نہ رو تا.یہ بات حضرت عمرؓ کے دل کو لگی اور اپنے بھائی کی طرف سے آپ کو تسلی ہو گئی.حضرت عمر کو اپنے بھائی کی جدائی کا بہت غم تھا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب باد صبا چلتی ہے تو میرے پاس زید کی خوشبولاتی ہے.920 مسیلمہ کذاب کے ساتھیوں میں سے رجال بن عُنْفُوه حضرت زید بن خطاب ہی کے ہاتھوں سے مارا گیا.ایک روایت میں رجال بن عُنْفُوَة کا نام مہار بھی آیا ہے.یہ وہ شخص تھا جس نے اسلام قبول کیا.ہجرت کی اور قرآن کا قاری تھا.پھر مسیلمہ کے ساتھ شامل ہو گیا.(اس لئے ہمیشہ انجام بخیر ہونے کی دعا مانگنی چاہئے اور اسے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی العلیم سے سنا ہے کہ انہوں نے تمہیں نبوت میں شریک کر لیا ہے.یہ بنو حنیفہ کے لئے سب سے بڑا فتنہ تھا.حضرت ابوہریرۃ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی علیم کے پاس ایک وفد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا.ہمارے ساتھ رجال بن عُنْفُوَہ بھی تھا.آپ نے فرمایا کہ تم میں ایک شخص ہے جس کی داڑھ اُحد پہاڑ کے برابر آگ میں ہو گی یعنی کہ وہ آگ میں ہو گا.وہ ایک قوم کو گمراہ کرے گا.پھر میں اور رجال بن عُنْفُوَہ باقی بچے.میں ہمیشہ اس بارے میں ڈرتا تھا یہاں تک کہ رجال بن عُنْفُوَهُ مُسَيْلِمَه کذاب کے ساتھ نکلا اور اس نے اس کی نبوت کی گواہی دی.یہ رجال بن عُنْفُوَہ جنگ یمامہ میں قتل ہوا اور حضرت زید بن خطاب نے اسے قتل کیا.921 حضرت زید بن خطاب کو ابو مریم الحنفی نے شہید کیا تھا.حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ابو مریم سے جب اس نے اسلام قبول کر لیا تھا کہا کہ کیا تم نے زید کو شہید کیا تھا.اس نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اے امیر المومنین ! اللہ تعالیٰ نے حضرت زید کو میرے ہاتھوں عزت بخشی اور مجھے ان کے ہاتھوں رسوا نہیں کیا.حضرت عمرؓ نے ابو مریم سے فرمایا کہ تمہاری رائے میں اس روز جنگ یمامہ میں مسلمانوں نے تمہارے کتنے آدمیوں کو قتل کیا تھا.ابو مریم نے کہا کہ چودہ سو یا کچھ زائد.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہنس القتلی کہ یہ کیا ہی برے مقتولین ہیں.ابو مریم نے کہا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے باقی رکھا یہاں تک کہ میں نے اس دین کی طرف رجوع کیا جو اس نے اپنے نبی اور مسلمانوں کے لئے پسند فرمایا.حضرت عمر ، ابو مریم کی اس بات سے بہت خوش ہوئے.ابو مریم بعد میں بصرہ کے قاضی بھی بنے.922

Page 416

400 122) صحاب بدر جلد 4 حضرت زید بن ودیعه ย حضرت زید بن ودیعه - حضرت زید کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا.آپ نے بیعتِ عقبہ ، غزوہ بدر اور اُحد میں بھی شرکت کی اور غزوہ اُحد میں ہی شہادت کا رتبہ حاصل کیا.923 حضرت زید کی والدہ ایم زید بنتِ حَارِث تھیں.آپؐ کی اہلیہ کا نام زینب بن سہل تھا.جس سے آپ کے تین بچے سعد بن زید.امامہ اور اُمّ کلثوم شامل ہیں.آپ کے بیٹے سعد حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں عراق آگئے تھے اور وہاں عَقَرْقُوف کے مقام پر آباد ہو گئے تھے.عَقَرْقُوف عراق کے شہر بغداد کے قریب ایک بستی کا نام ہے.924 123 حضرت سالم بن عمير بن ثابت ข حضرت سالم کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف سے تھا.آپ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے.حضرت سالم غزوہ بدر اور احد اور خندق اور تمام غزوات میں آنحضرت صلی املی کام کے ساتھ شریک ہوئے.925 غزوہ تبوک میں شرکت کے خواہشمند غریب صحابہ میں سے ایک غزوہ تبوک کے موقع پر جو غریب اصحاب حضور ملی یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ غزوہ تبوک کے لیے جانا چاہتے تھے اور سواری نہ ہونے کی وجہ سے روتے تھے ، حضرت سالم بھی ان اصحاب میں شامل تھے.یہ سات غریب اصحاب رسول اللہ صلی علیہ کم کے پاس آئے اس وقت آپ تبوک لیے جانا چاہتے تھے.ان اصحاب نے عرض کیا کہ ہمیں سواری دیجیے.آپ صلی علی یم نے فرمایا.میرے پاس کوئی سواری نہیں جس پر میں تم لوگوں کو سوار کروں.وہ لوگ واپس گئے.آنکھوں میں اس غم کی وجہ سے آنسو جاری تھے کہ خرچ کرنے کو کچھ نہ پایا.ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ آیت وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا اتَوكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَجِيلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَ أَعْيُنُهُم تَفِيضُ مِنَ الدَّفْعِ حَزَنَّا إِلَّا ورود يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ (الو به: 12) یعنی نہ ان لوگوں پر کوئی الزام ہے جو تیرے پاس اس وقت آئے جب جنگ کا

Page 417

ب بدر جلد 4 401 اعلان کیا گیا تھا اس لیے کہ تو ان کو کوئی سواری مہیا کر دے تو تو نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس پر میں تمہیں سوار کراؤں اور یہ جواب سن کر وہ چلے گئے اور س غم سے ان کی آنکھوں میں آنسو بہ رہے تھے کہ افسوس ان کے پاس کچھ نہیں جسے خدا کی راہ میں خرچ کریں.تو ابن عباس کہتے ہیں کہ آیت میں جن لوگوں کا ذکر ہے ان میں یہ سالم بن عمر اور ثعلبہ بن زید شامل تھے.926 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سورت توبہ کی اس آیت کی یعنی یہ آیت جو وَ لَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا آتَوكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْاوَ أَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنا اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ " یہ آیت اپنے اطلاق کے لحاظ سے عام ہی ہے مگر جن اشخاص کی طرف اشارہ ہے وہ سات غریب مسلمان تھے جو جہاد پر جانے کے لیے بیتاب تھے مگر اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے سامان نہیں رکھتے تھے.یہ لوگ آنحضرت صلی الی یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے لیے سواری کا انتظام فرما دیں.آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ افسوس ہے میں کوئی انتظام نہیں کر سکتا تو ان کو بڑی تکلیف ہوئی ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ واپس چلے گئے.کہتے ہیں کہ ان کے چلے جانے کے بعد ( یہ روایت آتی ہے کہ ان کے چلے جانے کے بعد) " حضرت عثمان نے تین اونٹ دیے اور چار دوسرے مسلمانوں نے دیے.آنحضرت صلی علیہم نے ہر ایک آدمی کو ایک ایک اونٹ دے دیا." حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ " قرآن نے یہ واقعہ اس لیے بیان کیا ہے تاکہ ان غریب مسلمانوں کے اخلاص کا مقابلہ کر کے دکھائے جو تھے تو مالدار اور سفر پر جانے کے ذرائع بھی رکھتے تھے مگر جھوٹے عذر تلاش کرتے تھے." ( کچھ لوگ ایسے تھے جو عذر تلاش کر رہے تھے اور نہیں گئے.لیکن جو غریب تھے ان کا جذبہ بالکل اور تھا تا کہ مقابلہ ہو جائے) پھر آگے فرماتے ہیں کہ " اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مدینے میں پیچھے رہ گئے تھے وہ سب منافق نہ تھے بلکہ ان میں مخلص مسلمان بھی تھے مگر وہ اس لیے نہیں جاسکے کہ ان کے پاس جانے کے سامان نہ تھے."27 اس کی تفسیر میں بیان کرتے ہوئے مزید آپ نے فرمایا ہے کہ " ابو موسیٰ ان لوگوں کے سردار تھے.جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اس وقت رسول اللہ صلی علیہ ہم سے کیا مانگا تھا؟ تو انہوں نے کہا خدا کی قسم !ہم نے اونٹ نہیں مانگے.ہم نے گھوڑے نہیں مانگے.ہم نے صرف یہ کہا تھا کہ ہم ننگے پاؤں ہیں." جوتی بھی نہیں تھی پاؤں میں اور اتنالم باسفر پیدل نہیں چل سکتے." پاؤں زخمی ہو جائیں گے تو پھر جنگ لڑ نہیں سکتے." اگر ہم کو صرف جوتیوں کے جوڑے مل جائیں تو ہم جو تیاں پہن کر ہی بھاگتے ہوئے اپنے بھائیوں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہونے کے لیے پہنچ جائیں گے.8 یہ غربت کا حال تھا.یہ جذبہ تھا.حضرت سالم بن عمیر حضرت معاویہ کے زمانہ تک زندہ رہے.29.928 92711

Page 418

402 124 صحاب بدر جلد 4 حضرت سالم مولى ابى حديقه نام و نسب و کنیت ان کا نام حضرت سالم مولی آبی حذیفہ ہے.ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور والد کا نام مغقل تھا.حضرت سالم کے والد کا نام معقل تھا جیسا کہ میں نے کہا.ایران کے علاقے اضطخَرُ کے رہنے والے تھے.ان کا شمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے اور آپ مہاجرین میں بھی شامل ہیں.آپ نے آنحضور صلی علیکم سے قبل مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی.رسول اللہ صلی العلیم نے حضرت سالم اور مُعاذ بن مَاعِض " کے درمیان مواخات کارشتہ قائم فرمایا.930 حضرت سَالِم تبيته بنت يَعَارُ کے غلام تھے جو حضرت ابوحذیفہ کی بیوی تھیں.حضرت ثبيته نے حضرت سالم کو سائبہ کرتے ہوئے آزاد کیا تھا.اس زمانے میں غلاموں کا عام قانون یہ ہو تا تھا کہ اگر کسی کو آزاد کر دیا جائے اور یہ آزاد شدہ غلام اگر مر جائے تو اس کے مال کا حصہ دار، جو وارث ہو تا تھا وہ آزاد کرنے والا شخص ہوا کرتا تھا اور سائبہ کرتے ہوئے لکھا ہے یعنی آزاد کیا.سائبہ اس غلام کو کہتے ہیں جس کا مالک اسے آزاد کر دے اور اس کو فی سبیل اللہ چھوڑ دے.اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اب اس غلام کے مرنے کے بعد اس کے مال پر آزاد کرنے والے کا کوئی حق نہیں ہے.حضرت سالم کو حضرت ابو حذیفہ نے اپنا میبلی بنا لیا تھا.اس کے بعد آپ کو سالم بن ابی حذیفہ بھی کہا جانے لگا.حضرت ابوحذیفہ نے اپنی بیجی فاطمہ بنتِ ولید سے ان کی شادی بھی کروائی تھی.لے پالکوں کو ان کے باپوں کا بیٹا کہہ کر پکارو 931 کہا جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اُدعُوهُمْ لا بَابِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَ مَوَالِيكُمْ ، وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَاتُم بِهِ وَ لكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ((احزاب:6) ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ چاہیے کہ ان لے پالکوں کو ان کے باپوں کا بیٹا کہ کر پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ فعل ہے اور اگر تم کو معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو ( بہر حال وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور دینی دوست ہیں اور جو تم غلطی سے پہلے کر چکے ہو اس کے متعلق تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جس بات پر تمہارے دل پختہ ارادہ کر بیٹھے ہوں ( وہ قابل سزا ہے ) اور اللہ ( ہر تو بہ کرنے والے کے لیے) بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس کے بعد حضرت سالم مولى ابو حُذَيْفَہ کہلانے لگے.رم

Page 419

تاب بدر جلد 4 403 پہلے حذیفہ کے بیٹے کہلاتے تھے بعد میں جب ان کو آزاد کر دیا تو پھر یہ آزاد کردہ غلام یا دوست بن گئے.محمد بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوحذیفہ اور حضرت سالم مولى ابو حُذَيْفَہ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو دونوں نے حضرت عباد بن بشر کے گھر قیام کیا.2 مہاجرین کی امامت کروانے والے 932 حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ جب اولین مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو انہوں نے قبا کے قریب عُضبہ کے مقام پر قیام کیا.حضرت سالم ان کی امامت کروایا کرتے تھے کیونکہ وہ ان سب سے زیادہ قرآن کریم جانتے تھے.933 مسعود بن هنيدة بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نے رسول اللہ صلی علیم کے ہمرکاب قبا میں قیام کیا.وہاں ایک مسجد دیکھی جس میں صحابہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کیار کرتے تھے اور حضرت سَالِم مولى ابو حذیفہ انہیں نماز پڑھایا کرتے تھے.934 چار میں سے ایک، جن سے قرآن سیکھنے کا ارشاد ہوا رو.935 حضرت سالم " قرآن کریم کے قاری تھے.آپؐ ان چار صحابہ میں شامل تھے جن کے بارے میں آنحضور علی ایم نے فرمایا تھا کہ ان سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ " علم و فضل میں بھی بعض آزاد شدہ غلاموں نے بہت بڑا رتبہ حاصل کیا.چنانچہ حضرت سَالِم بن مَعْقِل مَوْلى أَبِي حُذَيْفَةٌ خاص الخاص علماء صحابہ میں سے سمجھے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ نے قرآن شریف کی تعلیم کے لیے جن چار صحابیوں کو مقرر فرمایا تھا ان میں سے ایک سالم بھی تھے."936 رض جو پھر اس کے بارے میں تاریخ کے مطابق مزید بیان کرتے ہیں کہ "سالم بن معقل ابو حذيفة بن عُتبہ کے معمولی آزاد کردہ غلام تھے مگر وہ اپنے علم و فضل میں اتنی ترقی کر گئے کہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے جن چار صحابیوں کو قرآن شریف کی تعلیم کے لیے مسلمانوں میں مقرر فرمایا تھا اور اس معاملہ میں گویا انہیں اپنا نائب بننے کے قابل سمجھا تھا ان میں ایک سالم بھی تھے."937 ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا کہ ان چار صحابہ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرو.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نمبر ایک پھر حضرت سَالِم مولى أبو حُذَيْفَه ، نمبر تین حضرت أبي بن كعب اور نمبر چار حضرت معاذ بن جبل ر 938 شکر ہے اللہ تعالیٰ کہ جس نے تم جیسے قاری کو میری امت میں سے بنایا ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ کو آنحضور صلی لینکم کے پاس آنے میں کچھ دیر ہو گئی.آنحضور صلی اللہ ہم نے دیر سے آنے کا سبب دریافت فرمایا تو کہنے لگیں کہ ایک قاری نہایت ہی خوش

Page 420

اصحاب بدر جلد 4 404 الحانی سے قرآن کی تلاوت کر رہا ہے اس کی تلاوت سننے لگ گئی تھی جس وجہ سے دیر ہو گئی.آنحضور صلی الیکم نے چادر اوڑھی اور باہر نکل کر دیکھا تو حضرت سالم تلاوت کر رہے تھے.اس پر آپ نے فرمایا شکر ہے اللہ تعالیٰ کہ جس نے تم جیسے قاری کو میری امت میں سے بنایا.939 غزوہ اُحد کے موقع پر آنحضرت صل الم کے زخم دھونے کی سعادت غزوہ اُحد کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ جو زخمی ہوئے تو آپ کے زخم دھونے کی سعادت بھی حضرت سالم کو نصیب ہوئی.قتادہ سے مروی ہے کہ غزوہ اُحد کے دن آنحضور صلی للی کم کی پیشانی اور دانت ( جو کچلی اور سامنے کے دانتوں کے درمیان تھے ) زخمی ہو گئے تھے.حضرت سَالِهِ مَولیٰ ابو حُذَيْفَهُ آپ مصلی تعلیم کے زخم دھو رہے تھے اور آپ صلی علیہ کی فرمارہے تھے کہ وہ قوم کیسے فلاح پاسکتی ہے جس نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا سلوک کیا.اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٍ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظُلِمُونَ (ال عمران:129 ) یعنی تیرے پاس کچھ اختیار نہیں خواہ ان پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جائے یا انہیں عذاب دے.وہ بہر حال ظالم لوگ ہیں.10 940 بڑی غور سے سننے والی ایک بات حضرت سالم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک ایسی قوم لائے جائے گی.یہ بڑی غور سے سننے والی بات ہے کہ قیامت کے دن ایک ایسی قوم لائے جائے گی جن کے پاس نیکیاں تہامہ پہاڑوں ( تہامہ جو تھا سال عرب کے ساتھ ایک نشیبی علاقہ ہے جو سیناء سے شروع ہو کر عرب کے مغربی اور جانب واقع ہے.تہامہ کے پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے جو خلیج فلزم سے شروع ہوتا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ ان کی نیکیاں تہامہ کے پہاڑوں کی مانند ہوں گی لیکن جب انہیں پیش کیا جائے گا تو اللہ تعالی ان کے تمام تر اعمال ضائع کر دے گا اور پھر انہیں آگ میں ڈال دے گا.اس پر حضرت سالم نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان.ہمیں ایسے لوگوں کی نشاندہی فرما دیں تاکہ ہم انہیں پہچان سکیں.قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں اپنے بارے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ان میں شامل نہ ہو جاؤں.اس پر رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا کہ یہ ایسے لوگ ہوں گے، (غور سے سننے والی بات ہے کہ ایسے لوگ ہوں گے ) جو روزے رکھتے ہوں گے، نمازیں پڑھتے ہوں گے اور رات کو بہت تھوڑا سوتے بھی ہوں گے، نفل پڑھتے ہوں گے لیکن جب کبھی ان کے سامنے حرام پیش کیا جائے گاوہ اس پر ٹوٹ پڑیں گے.اس کے باوجود دنیاوی لالچوں میں پڑ جائیں گے اور یہ نہیں دیکھیں گے حرام کیا ہے، حلال کیا ہے.اس وجہ سے اللہ ان کے اعمال ضائع کر دے گا.941 حضرت ثوبان " سے مروی ہے کہ نبی صلی علیکم نے فرمایا میں اپنی امت میں کچھ ایسے لوگوں کے

Page 421

تاب بدر جلد 4 405 متعلق جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ پہاڑوں جتنی چمکتی ہوئی نیکیوں کے ساتھ آئیں گے لیکن اللہ عز و جل ان کو بے وقعت قرار دے کر ہوا میں بکھیر دے گا.اس پر مزید ایک روای کا ایک بیان ہے.ثوبان نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہمارے لیے ان کی کوئی نشانی بتادیں.ہمیں ان کے متعلق وضاحت سے بتادیں تاکہ ہم ان میں سے نہ ہو جائیں اور ہمیں علم ہی نہ ہو.آپ کسی تمیم نے فرمایا تمہارے ہی بھائی ہیں، تمہاری ہی جلدوں کے سے ہیں یعنی تمہاری جنس کے لوگ ہیں، ایسے ہی رنگ ہیں.وہ رات کے وقت میں عبادت وغیرہ کے لیے بھی ایسے ہی وقت لیتے ہوں گے جیسے تم لیتے ہو، عبادت گزار بھی ہوں گے لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب اللہ کے محارم کی طرف جاتے ہیں تو اس کی بے حرمتی اور پامالی کرتے ہیں.جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ، حرام فرمایا ہے ان کو پھر احساس ہی نہیں ہو تا کہ کیا چیز حلال ہے اور کیا حرام ہے اور پھر دنیا ان پر غالب آجاتی ہے.پس یہ ایک مستقل سوچنے والا اور بڑے خوف کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہمیشہ اپنا جائزہ لینے کی توفیق عطا فرما تار ہے.کبار صحابہ کے نام پر بچوں کے نام 942 حضرت عبد اللہ بن عمر کے بیٹوں کا نام سالم ، واقد اور عبد اللہ تھا.جو انہوں نے بعض کبار صحابہ کے نام پر رکھے تھے.ان میں سے ایک نام سالھ بھی تھا جو سالِم مولی ابو حُذَيْفَہ کے نام پر رکھا گیا تھا.سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو میں نے اپنے بیٹے کا نام سالِعہ کیوں رکھا ہے ؟ کہتے ہیں میں نے عرض کی کہ میں نہیں جانتا.اس پر فرمانے لگے کہ میں نے اپنے بیٹے کا نام حضرت سَالِم مولی ابو حذیفہ کے نام پر سالم رکھا ہے.پھر کہنے لگے کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں نے اپنے بیٹے کا نام واقد کیوں رکھا ہے ؟ میں نے کہا نہیں.نہیں جانتا تو کہنے لگے حضرت واقد بن عبد اللہ یر بوعی کے نام پر کھا ہے.پھر پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں نے اپنے بیٹے کا نام عبد اللہ کیوں رکھا ہے.جب میں نے کہا کہ نہیں جانتا تو کہنے لگے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ کے نام پر عبد اللہ رکھا ہے.943 تو صحابہ جو بڑے کبار صحابہ تھے ان کی بڑی قدر کیا کرتے تھے اور اپنے بچوں کے نام کسی خاص مقصد سے پرانے بزرگوں کے ناموں پر رکھا کرتے تھے.کوئی گھبراہٹ نہیں ہونی چاہیے حضرت عبد اللہ بن عمر و سے مروی ہے کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ تھے.کچھ لوگ گھبراگئے تھے.جنگ کی بڑی شدت ہوئی تو کچھ لوگ گھبراگئے.کہتے ہیں کہ میں اپنا ہتھیار لے کر نکلا تو میری نظر حضرت سالم مولی ابی حذیفہ پر پڑی.ان کے پاس بھی اپنے ہتھیار تھے.چہرے پر رض

Page 422

اصحاب بدر جلد 4 406 و قار اور سکینت تھی.کوئی گھبراہٹ نہیں تھی اور وہ پیش قدمی کر رہے تھے.میں نے کہا کہ میں اس نیک آدمی کے پیچھے چلوں گا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں پہنچ گئے اور آپ کے ساتھ بیٹھ گئے.آنحضرت صلی اللہ کی ناراضگی کی حالت میں نکلے اور فرمانے لگے کہ لوگو! یہ کیسی گھبراہٹ اور کیسا خوف ہے ! کیا تم اس بات سے عاجز آگئے کہ جیسی ہمت ان دونوں مومنوں نے دکھائی ہے تم بھی دکھاؤ.944 کوئی گھبراہٹ نہیں ہونی چاہیے.جس طرح کہ حضرت سالِھ اور ساتھ ان کے یہ تھے جنہوں نے عہد کیا اور بغیر کسی گھبراہٹ کے اس کڑے وقت میں بھی با قاعدہ ڈٹے رہے.فتح مکہ کے بعد تبلیغی مہمات ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے مواقع کے بعد رسول اللہ صل ال ولم نے مکہ مکرمہ کے ارد گرد علاقوں میں چھوٹے چھوٹے لشکر بھیجے تا کہ وہ ان قبائل کو اسلام کی طرف بلائیں لیکن ان لشکروں کو جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا.تبلیغ کے لیے بھیجا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ جنگ نہیں کرنی.اے اللہ ! جو خالد بن ولید نے کیا ہے تیرے حضور بر آت کا اظہار کرتاہوں آنحضرت صلی الم نے حضرت خالد بن ولید کو قبیلہ بنو جذیمہ کی طرف دعوت اسلام کے لیے بھیجا.جب انہوں نے حضرت خالد کو دیکھا تو ہتھیار اٹھا لیے.حضرت خالد نے ان سے کہا لوگ مسلمان ہو چکے ہیں، اب ہتھیار اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے.ان میں سے ایک شخص بخدھ نے کہا کہ میں ہر گز ہتھیار نہیں ڈالوں گا.یہ خالد ہے.مجھے اعتبار نہیں.اللہ کی قسم !ہتھیار ڈالنے کے بعد قید ہونا ہے اور قید ہونے کے بعد گردن اڑایا جاتا ہے.اس کی قوم کے بعض افراد نے اسے پکڑ لیا اور کہا اے بخدم ! کیا تو چاہتا ہے کہ ہمارا خون بہایا جائے.یقیناً لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور جنگ ختم ہو چکی ہے.پھر انہوں نے اس سے ہتھیار چھین لیے اور خود بھی ہتھیار ڈال دیے.جب انہوں نے ہتھیار رکھ دیے تو اس کے بعد پھر حضرت خالد نے ان میں سے بعض کو قتل کر دیا اور بعض کو قیدی بنالیا اور ہم میں سے ہر آدمی کو اس کا قیدی سپر د کر دیا اور پھر اگلے دن یہ حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے.حضرت سالم مولی ابی حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا خدا کی قسم ! میں اپنے قیدیوں کو قتل نہیں کروں گا اور نہ ہی میرا کوئی ساتھی ایسا کرے گا.ابن ہشام بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی ان میں سے نکل کر رسول اللہ صلی الیکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور تمام واقعہ بیان کر دیا.آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا کسی نے خالد کے اس طرزِ عمل کو نا پسند بھی کیا ؟ آنحضرت صلیالی تم کو پسند نہیں آیا کہ اس طرح ہو.انہوں نے پوچھانا پسند کیا تھا؟ انہوں نے عرض کی جی ہاں سفید رنگ کے ایک میانہ قد شخص نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا.خالد نے انہیں ڈانٹا تو وہ

Page 423

صحاب بدر جلد 4 407 الله سة خاموش ہو گئے.ایک دوسرے آدمی نے جن کا قد طویل تھا اس عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو خالد نے ان سے بھی جھگڑا کیا.دونوں میں تلخ کلامی بھی ہوئی.اس پر حضرت عمر بن خطاب نے کہا یا رسول اللہ ! میں ان دونوں کا جانتا ہوں.ایک میرا بیٹا عبد اللہ ہے اور دوسرے سَالِم مولی آبی حُذَيْفَہ ہیں.ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی الم نے حضرت علی کو بلا کر فرمایا کہ ان لوگوں کی طرف جاؤ اور اور معاملہ دیکھو کہ کیا معاملہ ہوا ہے ؟ کیوں ایسا ہوا ہے ؟ اور جاہلیت والے معاملے کو اپنے قدموں تلے مسل دو.یہ بالکل جہالت کی باتیں ہوئی ہیں.اس کو بالکل ختم کر دو.چنانچہ حضرت علی اس مال کو لے کر گئے جو رسول اللہ صلی الی مریم نے انہیں دیا تھا.حضرت علی کو صرف بھیجا نہیں بلکہ بہت سامال ساتھ دے کر بھیجا تھا اور آپ نے ان لوگوں کا جو بھی جانی اور مالی نقصان ہوا تھا اس کی دیت ادا کی.مال اس لیے بھیجا تھا کہ غلط طریقے سے جو جانی اور مالی نقصان ہوا ہے اس کی دیت ادا کی جائے.اس کے بعد بھی حضرت علی کے پاس کچھ مال بیچ رہا تو آپ نے ان لوگوں سے پوچھا کیا کسی جانی اور مالی نقصان کی دیت ادا ہو نا رہ گئی ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں.بڑے انصاف سے سب کچھ ہو گیا.کچھ نہیں رہا.اس پر حضرت علی نے کہا کہ میں پھر بھی اس احتیاط کے ماتحت جو رسول اللہ صلی علی یم کو رہتی ہے یہ مال تمہیں دے دیتا ہوں کیونکہ جو وہ جانتے ہیں وہ تم لوگ نہیں جانتے.چنانچہ آپ ان کو یہ مال دے کر رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں لوٹے اور آپ کو اس کی اطلاع دے دی کہ اس طرح میں کر آیا ہوں.آنحضور صلی ا ہم نے فرمایا کہ تم نے بخوبی اس کام کو انجام دیا ہے.پھر آپ نے قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھ بلند کر کے تین مرتبہ یہ دعا کی کہ اللهُمَّ إِنِّي ابْرَأُ إِلَيْكَ بِمَا صَنَعَ خَالِدُ ابْنُ وَلِید کہ اے اللہ ! میں اس سے جو خالد بن ولید نے کیا ہے تیرے حضور براءت کا اظہار کرتا ہوں.5 یہ بڑا غلط کام ہوا ہے.پس اپنوں نے بھی اگر کوئی ظلم کیا ہے یا غلطی کی ہے تو آنحضرت صل للہ ہم نے نہ صرف اس سے بیزاری کا اظہار فرمایا اور روکا بلکہ اس کا مداوا بھی کیا.ان کو دیت بھی ادا کی اور مظلوم کی تسکین کے سامان بہم پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی.باوجود اس کے کہ وہ لوگ دشمن بھی تھے جنہوں نے ہتھیار اٹھائے تھے لیکن آپ نے پسند نہیں کیا کہ اس طرح ہو.یہ تھا آپ کے انصاف کا معیار.جھنڈے کی دلیرانہ حفاظت 945 ابراہیم بن حنظلہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے روز حضرت سَالِم مولی ابی حذیفہ سے کہا گیا کہ آپ جھنڈے کی حفاظت کریں جبکہ بعض نے کہا کہ ہمیں آپ کی جان کا ڈر ہے.اس لیے ہم آپ کے علاوہ کسی اور کے سپر د جھنڈا کرتے ہیں.اس پر حضرت سالم نے کہا تب تو میں بہت برا حامل قرآن ہوں.یعنی مجھے تو قرآن کریم کا بڑا علم ہے اور اس علم رکھنے کے باوجود اگر میں اس پر عمل نہیں ہے یا یہ جان کے کرنے کا کا ہم یہ بہت بری عمر ہی کے عرق سے ایک اہم فریضہ جو کے کے قرآن ہے اس سے والا بنوں تو قرآن کا پھر کیا فائدہ ؟ بہر حال

Page 424

اصحاب بدر جلد 4 408 دوران جب آپ کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو آپ نے اپنے بائیں ہاتھ میں جھنڈا تھامے رکھا اور جب بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو جھنڈے کو گردن میں دبالیا اور یہ پڑھنے لگے کہ وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولُ (ال عمران : 145) وَكَاين مِنْ نَّبِي قَتَلَ مَعَهُ رِبيُّونَ كَثِير (ال عمران : 147) یعنی محمد صلی اللہ علیہ محض اللہ کے ایک رسول ہیں اور کتنے ہی نبی تھے جن کے ساتھ مل کر بہت سے ربانی لوگوں نے قتال کیا.جب حضرت سالم گر گئے تو ساتھیوں سے پوچھا ابوحذیفہ کا کیا حال ہے.لوگوں نے جواب دیا کہ وہ شہید ہو گئے ہیں.پھر ایک اور آدمی کا نام لے کر پوچھا کہ اس نے کیا کیا تو جواب ملا کہ وہ بھی شہید ہو گئے ہیں.اس پر حضرت سالم نے کہا کہ مجھے ان دونوں کے درمیان میں لٹا دو.جب آپ شہید ہو گئے تو بعد میں حضرت عمرؓ نے ان کی میراث تبيته بنت يعار کے پاس بھیجی.انہوں نے حضرت سالم کو آزاد کیا تھا لیکن انہوں نے اس میراث کو قبول نہ کیا اور ساتھ یہ کہا کہ میں نے ان کو سائبہ بنا کر یعنی محض خدا کی راہ میں آزاد کیا تھا.اس کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کی میراث کو بیت المال میں جمع کروا دیا.محمد بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں جب مسلمان منتشر ہو گئے تو حضرت سالم نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ کے ساتھ اس طرح نہیں کیا کرتے تھے یعنی بھاگ نہیں جایا کرتے تھے.انہوں نے اپنے لیے ایک گڑھا کھودا اور اس میں کھڑے ہو گئے.اس دن آپ کے پاس مہاجرین کا جھنڈا تھا.اس کے بعد آپ بہادری سے لڑتے لڑتے شہید ہوئے.آپ جنگ یمامہ جو 12 ہجری میں ہوئی تھی اس میں شہید ہوئے اور یہ واقعہ حضرت ابو بکر کے دور خلافت میں ہوا.طبقات الکبریٰ کا یہ حوالہ ہے.حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ جب حضرت سالم شہید ہوئے تو لوگ کہتے تھے گویا قرآن کا ایک چوتھائی حصہ چلا گیا.8 یعنی جن چار علماء کا نام آنحضرت صلی علیہ ہم نے لیا تھا کہ ان سے قرآن سیکھو، ان میں سے ایک چلا گیا.249 تصلى نام و نسب 948 946 125 حضرت سائب بن عثمان " 947 حضرت سائب بن عثمان ان کا تعلق قبیلہ بنو مجمیخ سے تھا اور آپ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے.آپ کی والدہ کا نام حضرت خولہ بنت حکیم تھا اور ابتدائے اسلام میں ہی، شروع میں ہی آپے مسلمان ہوئے تھے.حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت حضرت سائب بن عثمان اپنے والد اور چچا حضرت قدامہ کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ

Page 425

ب بدر جلد 4 409 میں شریک تھے.آنحضرت صلی الم نے ہجرت مدینہ کے بعد حضرت سائب بن عثمان اور حارثہ بن شراقه انصاری کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی.ان کا ذکر آنحضرت صلی اللہ نام کے تیر انداز صحابہ میں کیا جاتا ہے.حضرت سائب بن عُمان غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق اور دیگر غزوات میں آنحضور صلی ال یکم کے ساتھ شامل ہوئے.950 مدینہ کے امیر مقرر ہونا غزوہ بواظ میں آنحضور صلی علیم نے آپ کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا تھا.غزوۂ بواظ جو 2 ہجری میں ہوئی ہے اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ ربیع الاول کے آخری ایام یار بیچ الثانی کے شروع میں آنحضرت صلی علی کم کو قریش کی طرف سے کوئی خبر موصول ہوئی جس آپ مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر خود مدینہ سے نکلے اور اپنے پیچھے سائب بن عثمان بن مظعون کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا.لیکن قریش کا پتہ نہیں چل سکا آپ بُواط تک پہنچ کر واپس تشریف لائے.بواظ مدینہ سے قریباً اڑتالیس میل کے فاصلے پر قبیلہ جھینہ کے پہاڑ کا نام ہے.952 حضرت سائب بن عثمان جنگ یمامہ میں شامل تھے.جنگ یمامہ حضرت ابو بکر کے عہد خلافت میں 12 ہجری میں ہوئی تھی جس میں آپ کو ایک تیر لگا جس کی وجہ سے بعد میں آپ کی وفات ہوئی.آپ کی عمر 30 سال سے کچھ اوپر تھی.53 126 حضرت سائب بن مظعون رض ย حضرت سائب بن مَطْعُون ، حضرت عثمان بن مظعون کے سگے بھائی تھے.آپ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے اولین مہاجروں میں سے تھے.حضرت سائب کو غزوہ بدر میں شامل ہونے کی 954 سعادت نصیب ہوئی.4 آنحضرت صلی ال جب غزوہ بواط کے لیے روانہ ہوئے تو بعض روایات کے مطابق آپ نے حضرت سعد بن معاذ کو اور بعض کے مطابق حضرت سائب بن عثمان کو اپنے پیچھے امیر مقرر فرمایا اور ایک روایت میں حضرت سائب بن مظعون کا نام بھی ملتا ہے.155 آنحضرت مصل اللوم کے ساتھ تجارت کرنے کا اعزاز پانے والے حضرت سائب کو آنحضرت صلی علی نام کے ساتھ تجارت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے.چنانچہ سنن

Page 426

ب بدر جلد 4 410 ابی داؤد کی روایت ہے کہ حضرت سائب بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوا تو صحابہ نے آپ کے سامنے میر اذکر اور تعریف کرنی شروع کر دی.اس پر آپ نے فرمایا.میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں.میں نے عرض کیا.صَدَقْتَ بِأَبِي أَنْتَ وَ أَمِّي كُنتَ شَرِيكَي فَنِعْمَ الشَرِيكَ.كُنْتَ لَا تُدَارِى وَ لا تماری کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! آپ نے سچ فرمایا.آپ تجارت میں میرے شریک تھے اور کیا ہی بہترین شراکت دار تھے.آپ نہ ہی مخالفت کرتے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے.956 سیرت خاتم النبیین میں اس واقعہ کو اس طرح درج کیا گیا ہے کہ مکہ سے تجارت کے قافلے مختلف علاقوں کی طرف جاتے تھے.جنوب میں یمن کی طرف اور شمال میں شام کی طرف تو با قاعدہ تجارت کا سلسلہ جاری تھا.اس کے علاوہ بحرین وغیرہ کے ساتھ بھی تجارت تھی.آنحضرت صلی اللہ نظم عموماً ان سب ملکوں میں تجارت کی غرض سے گئے اور ہر دفعہ نہایت دیانت و امانت اور خوش اسلوبی اور ہنر مندی کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کیا.مکہ میں بھی جن لوگوں کے ساتھ آپ کا معاملہ پڑا وہ سب آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے؛ چنانچہ سائب ایک صحابی تھے." (جن کا ذکر ہو رہا ہے) "وہ جب اسلام لائے تو بعض لوگوں نے آنحضرت صلی علیکم کے سامنے ان کی تعریف کی.آپ نے فرمایا میں ان کو تم سے زیادہ جانتا تہوں." سائب نے عرض کی."ہاں یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں.آپ ایک دفعہ تجارت میں میرے شریک تھے اور آپ نے ہمیشہ نہایت صاف معاملہ رکھا."957 127 نام و نسب حضرت سبرہ بن فاتک حضرت سہرہ بن فاتک.یہ خریم بن فاتک کے بھائی تھے اور خاندان بنو اسد سے تھے.ان کے والد کا نام فاتک بن الاخرم تھا.حضرت سبرۃ کا نام سمرہ بن فاتتک بھی ملتا ہے.ایمن بن خریم بیان کرتے ہیں کہ میرے والد اور چا دونوں غزوہ بدر میں شامل ہوئے اور انہوں نے مجھ سے پختہ عہد لیا تھا کہ میں کسی مسلمان سے قتال نہیں کروں گا، جنگ نہیں کروں گا.عبد اللہ بن یوسف نے کہا ہے کہ سبرۃ بن فاتک وہی ہیں جنہوں نے دمشق کو مسلمانوں میں تقسیم کیا تھا.ان کا شمار شامیوں میں ہوتا ہے.یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی علیکم نے فرمایا کہ میزان خدائے رحمن کے الله

Page 427

اصحاب بدر جلد 4 411 ہاتھ میں ہے.وہ بعض قوموں کو بلند کرتا ہے اور بعض کو زوال دیتا ہے ( یعنی ان کے اپنے عملوں کی وجہ سے) حضرت سبرہ بن فاتک کا گزر حضرت ابو درداء کے پاس سے ہوا تو انہوں نے کہا سبرہ کے ساتھ محمد صلی للہ روم کا نور ہے.عبد الرحمن بن عائذ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے حضرت سبرہ کو برا بھلا کہا تو انہوں نے اس کا جواب دینے سے بچنے کے لئے غصہ پی لیا.جواب نہیں دیا، غصہ کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا، خاموش رہے اور غصہ کو دبانے کی وجہ سے آبدیدہ ہو گئے.اتنا شدت سے ان کو غصہ تھا، اتنابر ابھلا کہا گیا ان کو کہ غصہ دبایا جس کی وجہ سے آنکھوں سے پانی آگیا.نبی کریم صلی یم نے فرمایا کیا ہی اچھا آدمی ہے سمرہ اگر وہ اپنے لمبے بال کچھ چھوٹے کر والے (ان کے لمبے بال تھے ) اور اپنی تہ بند کو تھوڑا اوپر اٹھا لے.جب آپ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے فوری طور پر ایسا ہی کیا.آپ بیان کرتے تھے کہ مجھے اس بات کی خواہش ہے کہ ہر دن کسی مشرک سے میر اسامنا ہو جس نے زرہ پہن رکھی ہو.اگر وہ مجھے شہید کر دے تو ٹھیک اور اگر میں اسے قتل کر دوں تو اس جیسا اور میرے مقابل پر آجائے.بعض کے نزدیک یہ بدر میں شامل نہیں تھے لیکن امام بخاری وغیرہ نے آپ کو اور آپ کے بھائی کو بدری اصحاب میں شامل کیا ہے.958 128 حضرت سُبيع بن قيش سبيع بن قیس بن عَيْشَہ.بعض نے آپ کے دادا کا نام عبسہ اور بعض نے عائشہ بھی لکھا ہے.بہر حال آپ انصاری اور خزرجی تھے.غزوہ بدر واحد میں شامل ہوئے.آپ کی والدہ کا نام خدیجہ بنت عمر و بن زید ہے.آپ کا ایک بیٹا تھا جس کا نام عبد اللہ تھا اور اس کی ماں قبیلہ بنو جَدَارہ سے تھی.وہ بچپن میں فوت ہو گیا.اس کے علاوہ آپ کا کوئی بچہ نہ تھا.حضرت عبادہ بن قیس آپ کے بھائی تھے.حضرت سُبیع کے ایک حقیقی بھائی زید بن قیس بھی تھے.959 حضرت شبیع بن قیس اور حضرت عبادہ بن قیس حضرت ابو درداء کے چچا تھے.960

Page 428

صحاب بدر جلد 4 412 129 حضرت سُراقة بن عمر و بن عَطِيَّهِ بن خَنْسَاء انصارى نام و نسب پھر حضرت سُراقہ بن عمرو کا ذکر ہے یہ انصاری تھے.ان کا پورا نام سُراقہ بن عمر و بن عَطِيَّه بن خَنْساء انصاری تھا.ان کی وفات جمادی الاول 8 ہجری میں جنگ موتہ میں ہوئی.ان کا پورا نام سراقہ بن عمر و بن عطیہ بن حنساء انصاری تھا.ان کی والدہ کا نام عقیلہ بنت قیس تھا اور سراقہ کا تعلق انصار کے معزز قبیلہ بنو نجار سے تھا.آپ کے قبول اسلام سے متعلق اختلاف ہے.بعض کے نزدیک آپ نے ہجرت نبوی صلی علیہ یکم سے کچھ پہلے اور بعض کے نزدیک آپ نے ہجرت نبوی صلی علی یکم کے تھوڑی دیر بعد اسلام قبول کیا.رسول اللہ صلی علیم نے مهْجَعُ مولی عمر اور سراقہ بن عمرو کے درمیان مواخات قائم فرمائی.بیعت رضوان میں شمولیت الله سة آپ نے غزوہ بدر ، غزوہ احد، غزوہ خندق اور خیبر میں شرکت کی نیز ان کو صلح حدیبیہ اور عمرة القضاء کے موقع پر بھی آنحضرت صلی علی کیم کی رفاقت حاصل رہی.حضرت سراقہ بن عمروان خوش قسمت صحابہ میں سے تھے جن کو بیعت رضوان میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا اور ان کا سلسلہ نسب آگے نہیں چلا.شہادت ان کی شہادت جیسا کہ بتایا میں نے جمادی الاول 8 ہجری میں جنگ موتہ کے دوران ہوئی.961 130) حضرت سُراقہ بن كعب " ย پھر اگلے صحابی حضرت سُراقہ بن کعب نہیں.حضرت سُراقہ کا تعلق قبیلہ بنو نجار سے تھا.آپ کی والدہ کا نام محميرة بنت نعمان تھا.

Page 429

تاب بدر جلد 4 413 حضرت سراقہ غزوہ بدر اور احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں حضور صلی نیلم کے ساتھ شریک ہوئے.حضرت سُراقہ بن کعب حضرت معاویہ کے زمانے میں فوت ہوئے اور کلبی کی روایت کے مطابق حضرت سراقه جنگ یمامہ میں شہید ہوئے.962 131 نام و نسب و کنیت حضرت سعد بن ابی وقاص نبی صلی علم کے ماموں حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت سعد کی کنیت ابو اسحاق تھی.آپ کے والد کا نام مالک بن أهيب جبکہ بعض روایات میں مالک بن وھیب بھی بیان ہوا ہے.آپ کے والد اپنی کنیت ابو وقاص کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں اس لیے آپ کا نام سعد بن ابی وقاص بیان کیا جاتا ہے.آپ کی والدہ کا نام حمنہ بنتِ سُفیان تھا.963 حضرت سعد بن ابی وقاص کا تعلق قریش کے قبیلہ بَنُو زُهْرَہ سے تھا.عشرہ مبشرہ اور ان میں سب سے آخر میں وفات پانے والے 964 حضرت سعد بن ابی وقاص ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی ا ہم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی.ان دس صحابہ کو عشرہ مبشرہ کہتے ہیں اور حضرت سعد بن ابی وقاص ان میں سب سے آخر پر فوت ہوئے.965 یہ تمام اصحاب یعنی عشرہ مبشرہ مہاجرین میں سے تھے اور رسول اللہ صلی اللی کام اپنی وفات کے وقت ان سے راضی تھے.قبول اسلام کا واقعہ حضرت سعد بن ابی وقاص اپنے ایمان لانے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ کسی نے بھی اسلام قبول نہیں کیا مگر اس دن جس دن کہ میں نے اسلام قبول کیا اور میں سات دن تک ٹھہرارہا اور حالت یہ تھی کہ میں مسلمانوں کا ایک تہائی تھا.966 تین آدمی تھے.آپ کا بیان ہے کہ میں نماز کے فرض ہونے سے پہلے مسلمان ہو چکا تھا.967

Page 430

اصحاب بدر جلد 4 414 حضرت سعد کے اسلام لانے کا واقعہ ان کی بیٹی بیان کرتی ہیں کہ حضرت سعد نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تاریکی میں ہوں اور مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا.اچانک میں دیکھتا ہوں کہ چاند طلوع ہوا اور میں اس کی طرف چل پڑا.کیا دیکھتا ہوں کہ مجھ سے پہلے حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت علی اور حضرت ابو بکر چاند کی طرف جارہے ہیں.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کب پہنچے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم بھی ابھی پہنچے ہیں.حضرت سعد فرماتے ہیں کہ مجھے خبر مل چکی تھی کہ رسول اللہ صلی ال کی مخفی طور پر اسلام کی طرف بلا رہے ہیں.چنانچہ میں شغبِ آخیاد میں آکر آپ کو ملا.آخیاد سکتے میں صفا پہاڑی سے متصل ایک مقام کا نام ہے جہاں رسول اللہ صلی علی ایم نے بکریاں چرائی ہیں.آپ عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تھے کہ میں پہنچ گیا اور بیعت کر کے مسلمان ہو گیا.حضرت سعد کی بیٹی عائشہ بنت سعد روایت کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب میں مسلمان ہوا اس وقت میری عمر سترہ سال تھی.بعض روایات میں ایمان لانے کے وقت ان کی عمر انیس سال بھی بیان ہوئی ہے.969 اولین اسلام لانے والوں میں حضرت ابو بکر کی تبلیغ سے پانچ ایسے اشخاص ایمان لائے جو اسلام میں جلیل القدر اور عالی مرتبہ اصحاب میں شمار کیے جاتے ہیں.ان میں تیسرے حضرت سعد بن ابی وقاص تھے جو اس وقت بالکل نوجوان تھے.یہ سیرت خاتم النبیین میں جو لکھا ہے اسی سے اخذ کیا گیا ہے 968 یعنی اس وقت ان کی عمر انیس سال تھی.یہ بنوز مرہ میں سے تھے اور نہایت دلیر اور بہادر تھے.حضرت عمرؓ کے زمانے میں عراق انہی کے ہاتھ پر فتح ہوا اور امیر معاویہ کے زمانہ میں فوت ہوئے 970 حضرت سعد بن ابی وقاص نے نبی کریم صلی علیم سے بہت سی روایات بیان کی ہیں.ماں کا پیار اور دین کی خاطر حضرت سعد کی ثابت قدمی 971 حضرت سعد کے بیٹے مُضعَب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد سعد نے مجھے بیان کیا کہ میری ماں نے یعنی حضرت سعد کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ وہ ان سے کبھی بات نہیں کرے گی یہاں تک کہ وہ اپنے دین کا انکار کر دے یعنی اسلام سے پھر جائیں.چنانچہ نہ وہ کھاتیں اور نہ پیتی تھیں.کہتے ہیں کہ میری ماں نے کہا تو بیان کیا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے والدین سے احسان کی تاکید کرتا ہے.تم کہتے ہو ناں کہ تمہارا دین یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ اپنے والدین سے احسان کرو.اس کی تاکید کی جاتی ہے.میں تمہاری ماں ہوں اور میں تمہیں اس کا حکم دے رہی ہوں کہ اب اس کو چھوڑو اور میری بات جو میں کہتی ہوں وہ مانو.راوی کہتے ہیں کہ تین روز تک وہ اس حالت میں رہیں یہاں تک کہ کمزوری کی وجہ سے ان پر غشی طاری ہو گئی.پھر ان کا بیٹا جسے عمارہ کہا جاتا تھا کھڑا ہوا اور انہیں پانی پلایا.پھر

Page 431

اصحاب بدر جلد 4 415 جب ہوش آئی تو وہ سعد کو بد دعا دینے لگیں.تب اللہ عز و جل نے قرآن میں یہ آیت اتاری کہ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسُنا (السبت: 9) کہ ہم نے انسان کو اس کے والدین کے حقوق میں احسان کی تاکیدی نصیحت کی وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسُنا یہ عنکبوت کی آیت ہے اور پھر سورۂ لقمان میں یہ ہے کہ وَ إِنْ جَاهَدُكَ لِتُشْرِكَ في (لقمان: 16) اگر وہ دونوں تجھ سے جھگڑا کریں کہ تُو میرا شریک ٹھہرا تو اطاعت نہ کر وَ إِنْ جَاهَدُكَ لِتُشْرِكَ في کہ اگر وہ کہیں تو میر اشریک ٹھہرا تو پھر ان کی اطاعت نہیں کرنی اور اس میں پھر آگے یہ بھی ہے کہ وَصَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا (لقمان: 16) دونوں کے ساتھ دنیا میں دستور کے مطابق رفاقت جاری رکھو.ان سے تعلق رکھو.ان سے نیکی کرو.972 یہ جھگڑا اگر شرک کے بارے میں کرنا ہے تو پھر بات نہیں مانی.یہ جو تفصیلی بات ہے یہ مضمون اسی طرح پورا آگے چلتا ہے.لیکن جو دنیاوی معاملات ہیں ان میں ان سے رفاقت جاری رکھو.وَ صَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ان سے تعلق رکھو.ان سے نیکی کرو.یہ پہلی روایت مسلم میں تھی.آگے پھر سیرت میں ایک اور حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ بہت پیار کرتا تھا مگر جب میں نے اسلام قبول کیا تو اس نے کہا کہ اے سعد! یہ کون سادین تُو نے اختیار کر لیا ہے.یا تو تو اس نئے دین کو ترک کر دے یا میں کچھ نہ کھاؤں اور نہ پیوں گی یہاں تک کہ میں مر جاؤں گی.حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ اے پیاری ماں ! ایسا نہ کرنا کیونکہ میں اپنے دین کو چھوڑنے والا نہیں ہوں.حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ ایک دن اور ایک رات تک میری ماں نے نہ کچھ کھایا اور نہ پیا اور اس کی حالت خراب ہونے لگی تو میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم ! اگر تمہاری ایک ہزار جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کر کے نکلیں تب بھی میں کسی کی خاطر اپنے دین کو ترک نہیں کروں گا.جب آپ کی والدہ نے یہ دیکھا تو کھانا پینا شروع کر دیا.اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ وَ إِنْ جَاهَدُكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا التمان : 16) یعنی اگر وہ دونوں تجھ سے بحث کریں کہ تو کسی کو میرا شریک مقرر کرے جس کا تجھ کو کوئی علم نہیں مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلم کوئی علم نہیں ہے فَلَا تُطِعْهُمَا تو ان دونوں کی بات مت ماننا.ہاں دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ نیک تعلقات قائم رکھ کسی کا ایسا ماموں ہو تو دکھائے 973 رسول اللہ صلی علیکم حضرت سعد کو اپنا ماموں کہا کرتے تھے.974 ایک دفعہ حضرت سعد سامنے سے آرہے تھے تو رسول اللہ صلی علیم نے انہیں دیکھ کر فرمایا یہ میرے ماموں ہیں.کسی کا ایسا ماموں ہو تو دکھائے.امام ترمذی نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی الیم کی والدہ کا تعلق بنوز ھرہ سے تھا اور حضرت سعد بن ابی وقاص کا تعلق بھی بنو زھرہ سے تھا.975

Page 432

اصحاب بدر جلد 4 416 اے حرا! ٹھہر جا کیونکہ تجھ پر نبی یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی نہیں ہے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی یی کم حرا پہاڑ پر تھے کہ وہ ملنے لگا.اس پر رسول للہ صلی علیم نے فرمایا اے حرا ! ٹھہر جا کیونکہ تجھ پر نبی یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی نہیں ہے.اس پہاڑ پر اس وقت نبی کریم صلی اللی کم تھے اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی، حضرت طلحہ بن عبید الله حضرت زبیر بن العوام، حضرت سعد بن ابی وقاص تھے.یہ مسلم کی روایت ہے.976 پہلا خون جو اسلام میں بہایا گیا اسلام کے ابتدائی ایام میں جب مسلمان چھپ کر نمازیں ادا کیا کرتے تھے تو ایک مرتبہ حضرت سعد کے کی ایک گھائی میں کچھ صحابہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ وہاں مشرکین آپہنچے اور انہوں نے مسلمانوں کا مذاق اڑانا شروع کیا اور ان کے دین یعنی اسلام میں عیب نکالنا چا ہے یہاں تک کہ لڑائی تک نوبت پہنچ گئی.حضرت سعد نے ایک مشرک کے سر پر اونٹ کی ہڈی اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا.پس یہ پہلا خون تھا جو اسلام میں بہایا گیا تھا.977 بائیکاٹ اور شعب ابی طالب میں تکالیف اٹھانے والے مکے میں جب کفار نے مسلمانوں کے ساتھ بائیکاٹ کیا اور ان کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تو وہ مسلمان جو ان تکالیف کا شکار ہوئے ان میں سے ایک حضرت سعد بن ابی وقاص بھی تھے.اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین ہم میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ: ”جو جو مصائب اور سختیاں ان ایام میں ان محصورین کو اٹھانی پڑیں ان کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ پڑ جاتا ہے.صحابہ کا بیان ہے کہ بعض اوقات انہوں نے جانوروں کی طرح جنگلی درختوں کے پتے کھا کھا کر گزارہ کیا.سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت ان کا پاؤں کسی ایسی چیز پر جاپڑا جو تر اور نرم معلوم ہوتی تھی غالباً کھجور کا کوئی ٹکڑا ہو گا ” اس وقت ان کی بھوک کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فوراً اسے اٹھا کر نگل لیا اور وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آج تک پتہ نہیں کہ وہ کیا چیز تھی.ایک دوسرے موقعہ پر بھوک کی وجہ سے ان کا یہ حال تھا کہ انہیں ایک سوکھا ہوا چھڑ از مین پر پڑا ہوا مل گیا تو اسی کو انہوں نے پانی میں نرم اور صاف کیا اور پھر بھون کر کھایا اور تین دن اسی غیبی ضیافت میں بسر کیے.ہجرت مدینہ اور مواخات جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا تو حضرت سعد نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں اپنے مشرک بھائی معتبہ بن ابی وقاص کے ہاں قیام کیا.مشبہ سے مکہ میں ایک خون ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ مدینہ میں آکر آباد ہو گیا تھا.حضرت سعد اولین ہجرت کرنے والوں میں سے تھے.آپ رسول اللہ صلی ال نیم کی مدینہ آمد سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ آگئے تھے.980 979 978"

Page 433

اصحاب بدر جلد 4 417 رسول اللہ صلی علیم نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی مواخات حضرت مصعب بن محمیر کے ساتھ فرمائی جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ صلی علیم نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی مواخات حضرت سعد بن معاذ سے فرمائی.981 مکہ اور مدینہ میں مواخات مؤاخات میں اس اختلاف کی مولانا غلام باری صاحب سیف نے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ مکہ میں آپ کی مؤاخات حضرت مُصْعَب کے ساتھ تھی اور مدینہ میں حضرت سعد بن معاذ کے ساتھ تھی.982 قریش کے بہادر شہ سوار حضرت سعد قریش کے بہادر شہ سواروں میں سے تھے.غزوات میں رسول اللہ صلی ا علم کی حفاظت اور دفاع کی ذمہ داری جن اصحاب کے سپرد ہوتی تھی ان میں سے ایک حضرت سعد بن ابی وقاص بھی 983 ابو اسحاق روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم کے اصحاب میں سے چار اشخاص بہت سخت حملہ آور تھے.حضرت عمرؓ، حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت سعد 4 ر 984 کاش! میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرا پہرہ دے ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کو کفار کی طرف سے حملے کا خوف اور پریشانی رہتی تھی جس کی وجہ سے شروع میں مسلمان اکثر راتوں کو جاگا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی علی کی بھی عموماً راتوں کو جاگتے رہتے تھے.اس بارے میں ایک روایت ملتی ہے حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ مدینہ تشریف آوری کے زمانے میں ایک رات رسول اللہ صلی علیکم سونہ سکے تو آپ نے فرمایا کاش ! میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرا پہرہ دے.وہ کہتی ہیں ہم اسی حال میں تھے کہ ہم نے اسلحہ کی آواز سنی.آپ صلی للی کرم نے فرمایا کون ہے ؟ تو باہر سے یہ آواز آئی.آنے والے نے یہ عرض کیا کہ سعد بن ابی وقاص، کہ میں سعد بن ابی وقاص ہوں.رسول اللہ صلی علیم نے اسے فرمایا کہ تم یہاں کیسے آئے ؟ انہوں نے کہا کہ میرے دل میں رسول اللہ صلی علیکم کے بارے میں خوف پیدا ہوا اس لیے میں آپ صلی علی نام کے پہرے کے لیے حاضر ہوا ہوں.رسول اللہ صلی الم نے سعد کو دعا دی اور سو گئے.985 نبی سلام کی دعا کے نتیجہ میں مستجاب الدعوات مشہور یہ بھی ایک حوالہ ہے کہ بخاری اور مسلم دونوں میں اس واقعے کا ذکر تو ہے لیکن اس کے ساتھ دعا کی تفصیل نہیں ہے کہ حضور صلی ا ہم نے کیا دعا دی تھی لیکن حضرت سعد کے مناقب میں جو امام ترمذی نے بیان کیے ہیں ان میں ان کے بیٹے قیس سے روایت ہے کہ میرے والد سعد بیان کرتے ہیں کہ

Page 434

بدر جلد 4 418 آنحضرت صلی ا ولم نے ان کے لئے دعا کی تھی کہ اللَّهُمَّ اسْتَجِبْ لِسَعْدِ إِذَا دَعَا کہ اے اللہ ! سعد جب تجھ سے دعا کریں تو ان کی دعا کو قبول کیجیؤ اور اِكْمَال فِي اسْمَاءِ الرِّجال میں ہے کہ حضور صلی ا یکم نے انہیں یہ دعادی تھی کہ اللَّهُمَّ سَيّد سَهُمَهُ وَآجِبْ دَعْوَتَه کہ اے اللہ ! ان کا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھے اور ان کی دعا قبول کرنا.986 آنحضرت صلی ملی یکم کی اسی دعا کی وجہ سے حضرت سعد قبولیت دعا کی وجہ سے مشہور تھے.987 حضرت سعد بن ابی وقاص مستجاب الدعوات تھے.ایک شخص نے آپ پر جھوٹ گھڑا تو آپ نے اس کے خلاف دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ جھوٹ بول رہا ہے تو اس کی بصارت جاتی رہے اور اس کی عمر طویل ہو اور اسے فتنہ میں مبتلا کر دے.پس اس شخص کو یہ تمام چیزیں پہنچیں.88 988 حضرت علی کو برا بھلا کہنے والا، اور حضرت سعد کی بددعا اور عبرتناک انجام ایک روایت میں آتا ہے کہ قیس بن ابی حازم بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں مدینہ کے بازار میں جارہا تھا کہ میں اختجارُ الزّيت مقام پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم ایک شخص کے پاس موجود تھا جو سواری پر بیٹھا تھا اور حضرت علی کو گالیاں نکال رہا تھا.اتنے میں حضرت سعد بن ابی وقاص وہاں آگئے اور ان میں کھڑے ہو گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ آدمی حضرت علی کو گالیاں دے رہا ہے.حضرت سعد آگے بڑھے تو لوگوں نے انہیں راستہ دیا یہاں تک کہ آپ اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور پوچھا اے شخص اتو کیوں حضرت علی کو گالیاں دے رہا ہے ؟ کیا وہ سب سے پہلے اسلام نہیں لائے تھے ؟ کیا وہ پہلے شخص نہیں تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی علی ریم کے ساتھ نماز پڑھی؟ کیا وہ لوگوں میں سب سے زیادہ متقی انسان نہیں ہیں ؟ کیا وہ لوگوں میں سب سے زیادہ علم والے انسان نہیں ہیں ؟ حضرت سعد بیان کرتے گئے یہاں تک کہ انہوں نے فرمایا کہ نیز کیارسول اللہ صلی الی یکم نے ان سے اپنی بیٹی بیاہ کر ان کو اپنی دامادی کا شرف نہیں بخشا تھا؟ کیا وہ رسول اللہ صلی ایم کے ساتھ غزوات میں جھنڈا اٹھانے والے نہیں تھے ؟ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت سعد نے قبلے کی طرف رخ کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا اور دعا کی کہ اے اللہ ! اگر اس نے تیرے اولیاء میں سے ایک ولی یعنی حضرت علی ہو گالیاں دی ہیں تو تو اس مجمعے کے منتشر ہونے سے پہلے اپنی قدرت کا نشان دکھا.یہ مستند رک کا حوالہ ہے.راوی قیس کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ابھی ہم وہاں سے منتشر نہیں ہوئے تھے کہ اس شخص کی سواری نے اسے نیچے گرا دیا اور اس کے سر کو اپنے پیروں سے پتھر پر مارا جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور وہ مر گیا.989

Page 435

اصحاب بدر جلد 4 419 حضرت سعد کی قربانی اور نبی اکرم صلی ایم کی جانفشانی اور ایثار حضرت سعد نے جس طرح نبی کریم صلی الہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے فوراً بعد رات کو حفاظت کی تھی، اسی طرح کا ان کا ایک اور واقعہ غزوہ خندق کے موقعے پر بھی تاریخ میں نظر آتا ہے.اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ پہرہ دیتے ہوئے تھک جاتے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم.جس طرح باقی صحابہ پہرہ دے رہے ہوتے تھے آپ بھی صحابہ کے ساتھ پہرہ دیتے اور سردی سے نڈھال ہو جاتے.تب واپس آکر تھوڑی دیر میرے ساتھ لحاف میں لیٹ جاتے مگر جسم کے گرم ہوتے ہی پھر اس شگاف کی حفاظت کے لیے چلے جاتے.اسی طرح متواتر جاگنے سے آپ ایک دن بالکل نڈھال ہو گئے اور رات کے وقت فرمایا کاش اس وقت کوئی مخلص مسلمان ہو تا تو میں آرام سے سو جاتا.اتنے میں باہر سے سعد بن ابی وقاص کی آواز آئی.آپ نے پوچھا کیوں آئے ہو.انہوں نے کہا آپ کا پہرہ دینے آیا ہوں.آپ نے فرمایا مجھے پہرے کی ضرورت نہیں.تم فلاں جگہ جہاں خندق کا کنار اٹوٹ گیا ہے جاؤ اور اس کا پہرہ دو تا مسلمان محفوظ رہیں.چنانچہ سعد اس جگہ کا پہرہ دینے چلے گئے اور پھر آپ صلی المیہ ہم کچھ دیر کے لیے سو گئے.990 تمام غزوات میں شمولیت حضرت سعد نے رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ غزوۂ بدر، احد، خندق، حدیبیہ ، خیبر ، فتح مکہ سمیت تمام غزوات میں شرکت فرمائی.آپ رسول اللہ صلی علیکم کے بہترین تیر انداز صحابہ میں سے تھے.991 حضرت سعد کے بارے میں ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے جو جنگیں لڑیں ان میں سے ایک جنگ میں ایک وقت میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ سوائے حضرت طلحہ اور حضرت سعد کے کوئی نہ رہا.992 درختوں کے پتے کھانا...حضرت سعد رسول اللہ صلی للی نیلم کے ساتھ غزوات کے لیے نکلنے کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم علی ایم کے ساتھ جنگ کے لیے نکلتے تھے اور حالت یہ تھی کہ ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ ہوتی سوائے درختوں کے پتے ہی.ہمارا یہ حال تھا کہ ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنیاں کرتا جیسے اونٹ لید کرتا ہے یا بکریاں مینگنیاں کرتی ہیں یعنی خشک ، ان میں نرمی بالکل نہیں ہوتی تھی.ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ بیان کرتے ہیں کہ ان ایام میں ہماری خوراک بول کے درخت، یہ ایک قسم کا کانٹے دار درخت ہوتا ہے اس کی بیلیں ہوا کرتی تھیں.993

Page 436

اصحاب بدر جلد 4 سے 420 994 حضرت سعد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں خون بہایا اور آپ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور یہ واقعہ سر یہ حضرت عبیدہ بن حارث کا ہے.4 اس کی تفصیل یہ یہ ہے کہ ربیع الاول سن دو ہجری میں ایک سر یہ ہوا جسے سر یہ حضرت عبیدہ بن حارث کہتے ہیں.اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے، یہ پہلے بھی کچھ حصہ بلکہ میرا خیال ہے سارا میں بیان کر چکا ہوں لیکن بہر حال یہاں بھی ان کے حوالے سے بیان کر دیتا ہوں.ماہ ربیع الاول کے شروع میں آپ صلی علیہم نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار عُبَيْدَة بن حَارِث مطلبی کی امارت میں ساٹھ شتر سوار یا اونٹ سوار مہاجرین کا ایک دستہ روانہ کیا.اس مہم کی غرض قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی.چنانچہ جب عبیدہ بن حارث اور ان کے ساتھی کچھ مسافت طے کر کے ثَنِيَّةُ الْمَرَّةُ (فَنِيَّةُ الْمَرَّةُ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام کا نام ہے.رسول اللہ صلی یی کم مدینہ ہجرت کرتے ہوئے اس مقام سے گزرے تھے.بہر حال جب یہ اس) مقام کے پاس پہنچے تو نا گاہ کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے 200 مسلح نوجوان عِكْرِمَه بن ابو جہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں.فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کچھ تیر اندازی بھی ہوئی لیکن پھر مشرکین کا گر وہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی نہ ہو ان کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا.البتہ مشرکین کے لشکر میں سے 2 شخص حضرت مقداد بن عمرو اور حضرت عُتبہ بن غزوان عکرمہ بن ابو جہل کی کمان سے خود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقع پاکر مسلمانوں میں آملیں.کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کر سکتے تھے.؟ جمادی الاولی 2 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ نیلم نے سعد بن ابی وقاص کو آٹھ مہاجرین کے ایک دستہ پر امیر مقرر فرما کر قریش کی خبر رسانی کے لیے خراز مقام کی طرف روانہ فرمایا.خرارُ بھی حجاز میں مخفّه کے قریب ایک علاقہ ہے.بہر حال یہ لوگ وہاں گئے مگر دشمن سے ان کا سامنا نہیں ہوا.996 پھر سر یہ حضرت عبد اللہ بن جحش کا ذکر ہے جو جمادی الآخر دو ہجری میں ہوا تھا.اس سریے میں حضرت سعد" بھی شامل ہوئے تھے اور اس کا بھی ذکر میں پہلے ایک دفعہ کر چکا ہوں لیکن سیرت خاتم النبیین کے حوالے سے یہاں مختصر ذکر کر دیتا ہوں.آنحضرت صلی علی کرم نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات و سکنات کا زیادہ قریب سے ہو کر علم حاصل کیا جاوے تاکہ ان کے متعلق ہر قسم کی ضروری اطلاع بر وقت میسر ہو جاوے اور مدینہ ہر قسم کے اچانک حملوں سے محفوظ رہے.چنانچہ اس غرض سے آپ صلی ہم نے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی اور مصلحتاً اس پارٹی میں ایسے آدمیوں کو رکھا جو قریش 995

Page 437

اصحاب بدر جلد 4 421 کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے میں آسانی ہو اور اس پارٹی پر آپ صلی للی یکم نے اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن جحش کو امیر مقرر فرمایا.آپ نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کو بھی یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اور کس غرض سے بھیجا جارہا ہے بلکہ چلتے ہوئے ان کے ہاتھ میں ایک سر بمہر خط دے دیا ،scaled خط تھا اور فرمایا کہ اس خط میں تمہارے لیے ہدایات درج ہیں.جب تم مدینہ سے دو دن کا سفر طے کر لو تو پھر اس خط کو کھول کر اس کی ہدایات کے مطابق عمل کرنا.بہر حال آخر دو دن کی مسافت کے بعد آنحضرت صلی الیم کے فرمان کو، اس خط کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے کہ تم مکہ اور طائف کے درمیان وادی تختہ میں جاؤ اور وہاں جا کر قریش کے حالات کا علم لو اور پھر ہمیں اطلاع کر دو.آپ نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھی تھی کہ اس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگر تمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متامل ہو اور واپس چلا آنا چاہے تو اسے واپس آنے کی اجازت دے دو.عبد اللہ نے آپ کی یہ ہدایت اپنے ساتھیوں کو دی اور سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم بخوشی اس خدمت کے لیے حاضر ہیں.کوئی واپس نہیں جائے گا.اس کے بعد یہ جماعت وادی نخلہ کی طرف روانہ ہوئی.حضرت سعد اور ان کے ساتھی کا اونٹ کھو جانا اور مار گولیس کا اعتراض راستے میں سعد بن ابی وقاص اور عُتبہ بن غزوان کا اونٹ کہیں کھو گیا اور وہ اس کو تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجود بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکا.یہ جو آٹھ آدمیوں کی پارٹی تھی اب باقی یہ صرف چھ رہ گئے.یہ چلتے رہے.اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک مستشرق مسٹر مار گولیس کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنی روایت کے مطابق شبہات پیدا کرنے کے لیے حضرت سعد بن ابی وقاص اور ان کے ساتھی کے بارے میں لکھتا ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عقبہ نے جان بوجھ کر اپنا اونٹ چھوڑ دیا تھا اور اس بہانہ سے پیچھے رہ گئے تھے.ان جاں شارانِ اسلام پر، جن کی زندگی کا ایک ایک واقعہ ان کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے اور جن میں سے ایک غزوہ بئر معونہ میں کفار کے ہاتھوں شہید ہوا اور دوسر اکئی خطر ناک معرکوں میں نمایاں حصہ لے کر بالآخر عراق کا فاتح بنا، اس قسم کا شبہ کرنا اور شبہ بھی محض اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر کرنا یہ مسٹر مار گولیس ہی کا حصہ ہے.اور پھر لطف یہ ہے کہ مار گولیس صاحب اپنی کتاب میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو کر لکھی ہے.حرمت والے مہینہ میں قتل اور اس کا پس منظر بہر حال مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت نخلہ پہنچی اور معلومات جو لینی تھیں ان کے لیے اپنے کام میں مصروف ہو گئی اور ان میں سے بعض نے اخفائے راز کے لیے اپنے سر کے بال منڈوا دیے تاکہ را بگیر وغیرہ ان کو عمرے کے خیال سے آئے ہوئے لوگ سمجھ کر کسی قسم کا شبہ نہ کریں.لیکن ابھی ان کو وہاں پہنچے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اچانک وہاں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ آپہنچا جو طائف سے مکہ کی طرف

Page 438

اصحاب بدر جلد 4 422 جارہاتھا اور ہر دو جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہو گئیں اور حالات ایسے بن گئے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسلمانوں نے آخر اپنی مرضی کے خلاف یہی فیصلہ کیا اور آنحضرت صلی میں کمی کا حکم بھی یہی تھا لیکن حالات کی وجہ سے یہی فیصلہ کیا کہ قافلے پر حملہ کر کے یا تو قافلے والوں کو قید کر لیا جاوے یا مار دیا جائے.چنانچہ انہوں نے اللہ کا نام لے کر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں کفار کا ایک آدمی مارا گیا اور دو آدمی قید ہو گئے لیکن بد قسمتی سے چوتھا آدمی بھاگ کر نکل گیا اور مسلمان اسے پکڑ نہ سکے اور اس طرح ان کی یہ تجویز کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی.بہر حال اس کے بعد مسلمانوں نے قافلے کے سامان پر قبضہ کر لیا اور قیدی اور سامانِ غنیمت لے کر جلد جلد مدینے کی طرف واپس لوٹ آئے لیکن آنحضرت صلی کام کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہ نے قافلے پر حملہ کیا تھا تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا مَا أَمَرْتُكُمْ بِقِتَالٍ فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ کہ میں نے تمہیں شہر حرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی اور آپ نے مالِ غنیمت لینے سے انکار کر دیا.دوسری طرف قریش نے بھی شور مچادیا کہ مسلمانوں نے شہر حرام کی حرمت کو توڑا ہے اور بڑا اس لیے بھی کہ جو آدمی مارا گیا تھا وہ عمرو بن حزر می تھا.یہ ایک بہت بڑار میں تھا.بہر حال اس دوران میں ان کے آدمی، کفار کے آدمی اپنے دو قیدیوں کو چھڑانے کے لیے مدینہ بھی پہنچ گئے لیکن چونکہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عتبہ بن غزوان واپس نہیں آئے تھے اور آنحضرت صلی الله علم ان کے متعلق سخت خدشے میں تھے، خدشہ تھا کہ اگر قریش کے ہاتھ وہ پڑ گئے تو قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے اس لیے صلی اللی نیلم نے ان کی واپسی تک قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میرے آدمی بخیریت مدینہ پہنچ جائیں گے تو پھر میں تمہارے آدمیوں کو چھوڑ دوں گا.چنانچہ وہ دونوں واپس پہنچ گئے تو آپ نے دونوں قیدیوں کو چھوڑ دیا.ان دو میں سے ایک شخص پر مدینہ کے قیام کا ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا اور ما بئر معونہ کے موقع پر شہید ہوا.997 جنگ بدر سے پہلے کے کچھ حالات غزوہ بدر کے موقعے پر جنگ سے پہلے کے حالات بیان کرتے ہوئے بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی للہ یکم تیزی کے ساتھ بدر کی طرف بڑھنے شروع ہوئے اور جب آپ بدر کے قریب پہنچے تو کسی خیال کے ماتحت جس کا ذکر روایات میں نہیں ہے پ صلی علیکم حضرت ابو بکر صدیق کو اپنے پیچھے سوار کر کے اسلامی لشکر سے کچھ آگے نکل گئے.اس وقت آپ کو رستے میں ایک بوڑھا بدوی ملا جس سے آپ کو باتوں باتوں میں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت قریش کا لشکر بدر کے بالکل پاس پہنچا ہوا ہے.آپ صلی علیہم یہ خبر سن کر واپس تشریف لے آئے اور حضرت علیؓ، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد بن ابی وقاص کو دریافت حال کے لیے آگے روانہ فرمایا.جب یہ لوگ بدر کی وادی میں گئے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کے چند لوگ ایک چشمہ سے پانی بھر رہے ہیں.ان صحابیوں نے اس جماعت پر حملہ کر کے ان میں سے ایک حبشی غلام کو پکڑ لیا اور اسے آنحضرت صلی علیکم کے پاس لے آئے.آپ نے نرمی سے اس سے دریافت فرمایا کہ لشکر اس وقت کہاں ہے ؟ اس نے جواب دیا اس سامنے والے ٹیلے کے پیچھے ہے.آپ نے پوچھا کہ لشکر میں کتنے آدمی ہیں.اس نے کہا

Page 439

تاب بدر جلد 4 423 بہت ہیں مگر پوری تعداد مجھے معلوم نہیں ہے.آپ نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ ان کے لیے ہر روز کتنے اونٹ ذبح ہوتے ہیں.اس نے کہا دس ہوتے ہیں.آپ صلی ہم نے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اس لشکر میں ایک ہز ار آدمی معلوم ہوتے ہیں اور حقیقت وہ اتنے ہی تھے.998 فارس الاسلام.....اسلام کاشہ سوار 999 یہ حصہ بھی شاید کچھ تفصیل سے میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.غزوہ بدر کے موقعے پر حضرت سعد کی بہادری کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ غزوہ بدر کے موقعے پر حضرت سعد پیدل ہونے کے باوجو دشہ سواروں کی طرح بہادری سے لڑ رہے تھے.اسی وجہ سے حضرت سعد گو فارس الاسلام" کہا جاتا تھا یعنی اسلام کا شہ سوار.غزوہ احد کے موقعے پر حضرت سعد بن ابی وقاص اُن گنتی کے چند لوگوں میں سے تھے جو سخت افرا تفری کی حالت میں رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس ثابت قدم رہے.1001 1000 اے بندہ خدا ! تیرا کیا جان دینے کا ارادہ ہے؟ غزوۂ احد کے موقعے پر حضرت سعد بن ابی وقاص کا بھائی عقبہ بن ابی وقاص مشرکین کی طرف سے جنگ میں شریک ہوا تھا اور اس نے رسول اللہ صلی علیہ ظلم پر حملہ بھی کیا تھا.اس واقعہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اپنی ایک تقریر میں اس طرح بیان فرمایا تھا کہ : عتبہ وہ بد بخت انسان تھا جس نے شدید حملہ کر کے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی علی ایم کے نیچے کے دو دندانِ مبارک شہید کیے اور دہن مبارک کو سخت زخمی کر دیا.عتبہ کے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص مسلمانوں کی طرف سے لڑرہے تھے.جب ان کو عتبہ کی بد بختی کا علم ہوا تو جوش انتقام سے ان کا سینہ کھولنے لگا.آپ فرماتے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں اپنے بھائی کے قتل پر ایسا حریص ہورہاتھا کہ شاید کبھی کسی اور چیز کی مجھے ایسی حرص نہ لگی ہو.دو مر تبہ دشمن کی صفوں کا سینہ چیر کر اس ظالم کی تلاش میں نکلا کہ اپنے ہاتھ سے اس کے ٹکڑے اڑا کر اپنا سینہ ٹھنڈا کروں مگر وہ مجھے دیکھ کر ہمیشہ اس طرح کترا کر نکل جاتا تھا جس طرح لومڑی کترا جایا کرتی ہے.آخر جب میں نے تیسری مرتبہ اس طرح گھس جانے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی للی نم نے از راہ شفقت مجھ سے فرمایا کہ اے بندہ خدا! تیرا کیا جان دینے کا ارادہ ہے ؟ چنانچہ میں حضور صلی اللہ نام کے روکنے سے اس ارادے سے باز رہا.1002 رسول اللہ صل للہ ﷺ کا فرمانا تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں برابر تیر چلاتے جاؤ! غزوۂ احد کے موقعے پر جب رسول اللہ صلی علیکم کے پاس ثابت قدم صحابہ تھوڑے رہ گئے اس وقت

Page 440

تاب بدر جلد 4 424 حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں لکھا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کو آنحضرت صلی علیہ کی خود تیر پکڑاتے جاتے تھے اور حضرت سعد یہ تیر دشمن پر بے تحاشا چلاتے جاتے تھے.ایک دفعہ رسول اللہ صلی علی کریم نے حضرت سعد سے فرمایا تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں برابر تیر چلاتے جاؤ.سعد اپنی آخری عمر تک ان الفاظ کو نہایت فخر کے ساتھ بیان 1003❝ کیا کرتے تھے.ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ا ہم نے جنگ احد کے دن اپنے ترکش سے تیر نکال کر میرے لیے بکھیر دیے اور آپ نے فرمایا تیر چلاؤ تجھ پر میرے 1004 ماں باپ فداہوں.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص کے علاوہ رسول اللہ صلی لی ہم کو کبھی کسی کے لیے اپنے ماں باپ فدا کرنے کی دعا دیتے نہیں سنا.آپ صلی للی کم نے حضرت سعد سے غزوہ احد کے موقعے پر فرمایا تھا کہ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں تیر چلاتے جاؤ.اے بھر پور طاقتور نوجوان ! تیر چلاتے جاؤ.1005 1006 یہاں یہ بیان بھی قابل ذکر ہے، یہ نوٹ بھی آیا ہوا ہے کہ حضرت سعد کے علاوہ تاریخ میں حضرت زبیر بن عوام کا نام بھی ملتا ہے جنہیں آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ فِدَاكَ آبي واننی یعنی تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں.یہ بخاری کی روایت ہے.غزوہ اُحد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ اُحد کے دن نبی کریم صلی ا ہم نے ان کے لیے اپنے والدین کو اکٹھا کیا.انہوں نے کہا کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا جس نے مسلمانوں میں آگ لگار تھی تھی.نبی صلی اللہ تم نے ان یعنی حضرت سعد سے فرمایا تیر چلاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان.حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے وہ تیر جس کا پھل نہیں تھا اس کے پہلو میں مارا جس کی وجہ سے الله سة وہ مر گیا اور اس کا ستر کھل گیا اور میں نے دیکھا کہ نبی صلی الی کی خوشی سے ہنس پڑے.1007 ایک دوسری روایت میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ اس مشرک نے ( تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام جبان بتایا جاتا ہے ) ایک تیر چلایا جو حضرت ام ایمن کے دامن میں جالگا جبکہ وہ زخمیوں کو پانی پلانے میں مصروف تھیں.اس پر جہان ہنسنے لگا.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت سعد کو ایک تیر پیش کیا وہ تیر جبان کے حلق میں جالگا اور وہ پیچھے گر پڑا جس سے اس کا ننگ ظاہر ہو گیا.اس پر رسول اللہ صلی اللی یکم مسکرا 1008 صحیح مسلم کی جو یہ حدیث بیان ہوئی ہے اس کے متعلق وہاں جو ہماری نور فاؤنڈیشن ہے انہوں نے ابھی جو ترجمہ کیا ہے اس میں یہ نوٹ لکھا ہے اور اچھا نوٹ ہے کہ نبی کریم صلی علی یم کو یہ خوشی اللہ کے اس احسان پر تھی کہ اس نے ایک خطرناک دشمن کو ایک ایسے تیر سے راستے سے ہٹایا جس کا پھل بھی نہیں تھا.1009

Page 441

اصحاب بدر جلد 4 425 1010 ایک روایت میں ہے کہ غزوہ احد کے دن حضرت سعد نے ایک ہزار تیر برسائے.صلح حدیبیہ کے موقعے پر صلح نامہ پر جن صحابہ نے بطور گواہ دستخط کیے ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص بھی شامل تھے.1011 فتح مکہ کے موقعے پر حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس مہاجرین کے تین جھنڈوں میں سے ایک جھنڈ ا تھا.1012 حضرت سعد کی بیماری اور نبی سلام کی دعا حجةُ الْوَدَاع کے موقعے پر حضرت سعد بیمار ہو گئے.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ میں بیمار ہو گیا اور موت کے قریب پہنچ گیا.رسول اللہ صلی اللہ تم میری عیادت کرنے میرے پاس تشریف لائے.میں نے عرض کی یارسول اللہ ! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور میری وارث میری صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں دو تہائی مال صدقہ کر دوں ؟ آپ صلی علیم نے فرمایا نہیں.میں نے عرض کیا پھر نصف مال صدقہ کر دوں ؟ آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا نہیں.میں نے عرض کی پھر ایک تہائی مال صدقہ کر دوں ؟ آپ صلی علیم نے فرمایا ٹھیک ہے مگر یہ بھی بہت زیادہ ہے.پھر فرمایا کہ اگر تم اپنی اولاد کو مال دار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں تنگ دست چھوڑ دو کہ وہ لوگوں سے مانگتے پھریں اور جو بھی تم خرچ کرو گے اس کا تمہیں اجر ملے گا یہاں تک کہ اس لقھے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنی ہجرت میں پیچھے رہ جاؤں گا ؟ آپ صلی الی یکم نے فرمایا اگر تم پیچھے رہ بھی گئے تب بھی جو عمل تم اللہ کی رضامندی کے لیے گرو گے اس سے تمہارا درجہ اور مرتبہ بلند ہو گا اور ساتھ یہ بھی اظہار فرما دیا کہ مجھے امید ہے تم میرے بعد زندہ رہو گے یہاں تک کہ قومیں تم سے فائدہ اٹھائیں گی اور کچھ لوگ نقصان اٹھائیں گے.1013 ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی علی کریم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! میرے صحابہ کے لیے ان کی ہجرت پوری فرما اور ان کو ان کی ایڑھیوں کے بل نہ لوٹانا.1014 ایک تہائی مال کی وصیت ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ جب میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی می کنم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور پوچھا کیا تم نے وصیت کر دی ہے.میں نے عرض کی جی.آپ نے پوچھا کتنی ؟ میں نے عرض کی میرا سارا مال اللہ کی راہ میں.آپ مئی میں ہم نے پوچھا تو اپنی اولاد کے لیے کیا چھوڑا ہے ؟ میں نے عرض کی وہ مال دار ہیں.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا.پھر دسویں حصے کی وصیت کر دو.حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں اسی طرح کہتا رہا اور آپ اسی طرح فرماتے رہے.حضرت سعد زیادہ مال صدقہ کرنا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی علی کم کم کرنے کی تلقین فرما رہے تھے یہاں تک کہ

Page 442

بدر جلد 4 426 1015 ملی ایم نے فرمایا ایک تہائی مال کی وصیت کر دو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے.بہر حال جو علم رکھنے والے ہیں اور فقہ والے بھی اس روایت سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ ایک اور سے یہ 1016 تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں ہو سکتی.6 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ : احادیث بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ اپنے اخراجات نکال کر باقی سارا مال تقسیم کر دینا اسلامی حکم نہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں تجنى أَحَدُكُمْ بِمَالِهِ كُلِهِ يَتَصَدَّقُ بِهِ وَيَجْلِسُ يَتَكَفَّفُ النَّاسَ إِثْمَا الصَّدَقَةُ عَنْ ظَهْرِ غِنًى یعنی تم میں سے بعض لوگ اپنا سارا مال صدقہ کے لیے لے آتے ہیں اور پھر لوگوں کے آگے سوال کے لیے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں.صدقہ صرف زائد مال سے ہوتا ہے.اسی طرح فرماتے ہیں إِنْ تَذَرُ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَفُونَ النَّاسَ یعنی اگر تو اپنے ورثاء کو دولت مند چھوڑ جائے تو یہ زیادہ اچھا ہے بہ نسبت اس کے کہ توان کو غریب چھوڑ جائے اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے رسول کریم صلی الم سے دو ثلث مال کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی مگر آپ نے انہیں منع فرمایا.پھر انہوں نے آدھا مال تقسیم کرنا چاہا.تو اس سے بھی منع فرمایا.پھر انہوں نے تیسرے حصہ کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی تو اس حصہ کی آپ نے اجازت دے دی مگر ساتھ ہی فرمایا کہ یعنی تیسرے حصہ کی وصیت بھی کثیر ہے دو ثلث بھی کثیر ہے."القُلتُ وَالقُلتُ كَثِير.غرض یہ خیال کہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ جو مال ضرورت سے زائد بچے اسے تقسیم کر دینا چاہیے بالکل خلاف اسلام اور خلاف عمل صحابہ ہے.کیونکہ صحابہ کے عمل ایسے تھے.”جن میں سے بعض کی وفات پر لاکھوں روپیہ ان کے ورثاء میں تقسیم کیا گیا.017 ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ جب میں مکہ میں بیمار ہو ا تو رسول اللہ صلی علیکم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور آپ صلی این یکم نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا تو میں نے آپ کے ہاتھ کی ٹھنڈک اپنے دل پر محسوس کی.آپ صلی اسلام نے ہاتھ رکھ کر مجھے فرمایا کہ تمہیں تو دل کی تکلیف ہے پس تم حارث بن كلدہ کے پاس جاؤ جو بنو ثقیف کا بھائی ہے وہ طبیب ہے اور سے کہو کہ وہ مدینے کی سات عجوہ کھجوروں کو ان کی گٹھلیوں سمیت پیس لے اور تمہیں بطور دوائی 1018 پلائے.118 ایک روایت میں بیان ہے کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے مکے میں ایک شخص کو خاص طور پر متعین فرمایا کہ وہ حضرت سعدی کا خیال رکھے اور اسے آپ صلی علیہ ہم نے تاکید فرمائی کہ اگر حضرت سعد کے میں فوت ہو جائیں تو انہیں ہر گز کے میں نہ دفنایا جائے بلکہ مدینہ لایا جائے اور وہاں دفن کیا جائے.19 1019

Page 443

اصحاب بدر جلد 4 427 اپنی ٹھوڑی ان کے کندھے پر رکھ دی اور فرمایا اے خدا اس کا نشانہ بے خطا کر دے حضرت مصلح موعود حضرت سعد کا شکار کے بارے میں واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول کریم علی ای کم و خود شکار نہیں کیا کرتے تھے مگر حدیثوں سے ثابت ہے کہ آپ شکار کروایا کرتے تھے.چنانچہ ایک غزوہ میں آپ نے سعد بن ابی وقاص کو بلایا اور فرمایا کہ دیکھو وہ ہرن جا رہا ہے اسے تیر مارو.جب وہ تیر مارنے لگے تو آپ نے پیار سے اپنی ٹھوڑی ان کے کندھے پر رکھ دی اور فرمایا اے خدا اس کا نشانہ بے خطا کر دے.10204 فاتح عراق اور مدائن کے محلات حضرت سعد کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بھی عطا فرمائی کہ عراق آپ کے ہاتھوں پر فتح ہوا.غزوہ خندق کے موقعے پر ایک مرتبہ صحابہ کرام آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ خندق میں ایک چٹان آگئی ہے جو ٹوٹتی نہیں.حضور صلی علیہ کی تشریف لے گئے اور تین کرالیں اس چٹان پر ماریں اور ہر بار چٹان کچھ ٹوٹی اور حضور صلی اینکر نے بلند آواز سے اللہ اکبر ! کہا اور آپ کی اتباع میں صحابہ نے بھی نعرہ لگایا.اس موقع پر ایک ضرب پر آپ نے فرمایا کہ مجھے مدائن کے سفید محلات گرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں.آپ نے جو دیکھا وہ حضرت سعد کے ہاتھوں پورا ہوا.1021 عرب کے ماحول میں دو بڑی طاقتیں تھیں.ایک کسرٹی کی، دوسری قیصر کی.عراق کا بڑا حصہ کسری کے زیر نگیں تھا اور مدین میں ان کے شاہی محلات تھے.مدائن، قادسیہ ، نہاوند اور جلولاء کے مشہور معر کے حضرت سعد بن ابی وقاص کے زیر قیادت لڑے گئے.مدائن کا تعارف یہ ہے کہ عراق میں بغداد سے کچھ فاصلے پر جنوب کی طرف دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے.چونکہ یہاں یکے بعد دیگرے کئی شہر آباد ہوئے اس لیے عربوں نے اسے مدائن یعنی کئی شہروں کا مجموعہ کہنا شروع کر دیا.قادسیہ بھی عراق کا ایک شہر تھا جہاں مسلمانوں اور فارسیوں کے درمیان مشہور جنگ لڑی گئی جسے جنگ قادسیہ کہتے ہیں اور موجودہ قادسیہ کا شہر کوفے سے پندرہ فرسخ کے فاصلے پر ہے.نهاوند: یہ موجودہ ایران میں واقع ایک شہر ہے جو ایرانی صوبہ ہمدان میں اس کے دارالحکومت ہمد ان سے 70 کلو میٹر جنوب میں واقع ہے.جلولاء موجودہ عراق کا شہر ہے جو دریائے دجله الأئمن کے کنارے واقع ہے.یہاں مسلمانوں اور فارسیوں کے در میان جنگ لڑی گئی.اس کا نام جلولاء اس لیے رکھا گیا کہ یہ شہر ایرانیوں کی لاشوں سے بھر گیا تھا.قادسیہ کا معرکہ اور حضرت سعد کی سپہ سالاری عراق میں حضرت ابو بکر کے زمانے میں حضرت منلی بن حارثہ نے ایرانیوں کے بار بار تنگ

Page 444

اصحاب بدر جلد 4 428 ا کرنے کی وجہ سے بارڈر پہ چڑھائی کی اجازت چاہی.حضرت ابو بکر نے انہیں اجازت دے دی.حضرت خالد بن ولید کو ایک بڑی جمعیت کے ساتھ ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا.جب ملک شام سے حضرت ابو عبید گانے دربارِ خلافت سے کمک طلب کی تو حضرت ابو بکر نے حضرت خالد کو ان کی مدد کے لیے بھجوا دیا.حضرت خالد بن ولید نے عراق میں حضرت منفی کو اپنا جانشین مقرر کیا لیکن حضرت خالد کے عراق سے جانے کے ساتھ ہی یہ مہم سرد پڑ گئی.جب حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے تو آپ نے از سر نو عراق کی مہم کی طرف توجہ فرمائی.حضرت مصلی نے ٹویٹ اور دیگر جنگوں میں دشمنوں کو پے در پے شکست دے کر عراق کے ایک وسیع خطے پر قبضہ کر لیا.اس وقت عراق کا علاقہ کسری کے زیر نگیں تھا.ایرانیوں کو جب مسلمانوں کی جنگی قوتوں کا اندازہ ہوا اور ان کی مسلسل فتوحات نے ان کی آنکھیں کھولیں تو انہوں نے پوران دخت جو ان کی ملکہ تھی اس کی بجائے خاندان کسری کے اصلی وارث جو یڈ ڈ گرڈ تھا اس کو تخت نشین کیا.اس نے تخت پر بیٹھتے ہی ایرانی سلطنت کی تمام طاقتوں کو مجتمع کیا.تمام ملک میں مسلمانوں کے خلاف جوش و انتقام کی آگ بھڑکائی.ان حالات میں حضرت منٹی کو مجبوراً عرب کی سرحد سے ہٹنا پڑا.حضرت عمر کو جب ان واقعات کا علم ہوا تو آپ نے عرب میں پر جوش خطیب ہر طرف پھیلا دیے اور کسری کے خلاف مسلمانوں کو کھڑا ہونے کے لیے کہا.نتیجہ یہ ہوا کہ عرب میں ایک جوش پیدا ہوا اور ہر طرف سے جاں نثارانِ اسلام ہتھیلی پر جانیں رکھ کر دارالخلافہ کی جانب انڈ آئے.حضرت عمرؓ نے مشورہ کیا کہ اس مہم کی قیادت کس کے سپرد کی جائے.عوام کے مشورے سے حضرت عمرؓ خود اس مہم کی قیادت کے لیے تیار ہوئے لیکن حضرت علی اور اکابر صحابہ کی رائے اس میں مانع ہوئی، انہوں نے روک دیا.اس غرض کے لیے حضرت سعید بن زید کا نام بھی پیش کیا گیا.اسی اثناء میں حضرت عبد الرحمن بن عوف اٹھے اور عرض کی یا امیر المومنین ! اس مہم کے لیے مجھے صیح آدمی معلوم ہو گیا ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ وہ کون ہے ؟ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے عرض کیا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ! اس کے بعد سب لوگوں نے حضرت سعد کے نام پر اتفاق کیا اور حضرت عمرؓ نے حضرت سعد کے بارے میں فرمایا.إِنَّهُ رَجُلٌ شُجَاعُ رَامٍ یعنی وہ ایک بہت بہادر نڈر اور زبر دست تیر انداز انسان ہے.حضرت متفی مقام ذی قار ، کوفہ اور واسط کے درمیان ایک جگہ ہے اس میں آٹھ ہزار جاں نثار بہادروں کے ساتھ حضرت سعد کا انتظار کر رہے تھے کہ ان کو خدا کی طرف سے بلاوا آ گیا اور ان کی وفات ہو گئی اور انہوں نے اپنے بھائی حضرت معلمی کو سپہ سالار مقرر کیا.حضرت معنی نے حسبِ ہدایت حضرت سعد سے ملاقات کی اور حضرت متلی کا پیغام پہنچایا.حضرت سعد نے اپنی فوج کا جائزہ لیا تو وہ کم و بیش تیس ہزار آدمیوں پر مشتمل لشکر تھا.آپ نے لشکر کو ترتیب دیا اور لشکر کا جو دایاں حصہ تھا اور بایاں حصہ تھا اس کی تقسیم کر کے ان پر علیحدہ علیحدہ افسر مقرر کیے اور آگے بڑھے اور قادسیہ کا محاصرہ کر لیا.قادسیہ کا معرکہ 16 / ہجری کے آخر میں پیش آیا.کفار کی تعداد دو لاکھ اسی ہزار کے قریب تھی اور ان کے لشکر میں تھیں ہاتھی تھے.ایرانی فوج کی کمان رستم کے ہاتھ میں تھی.حضرت سعد نے کفار کو اسلام کی دعوت دی اس کے لیے آپ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو بھیجا.رستم نے ان

Page 445

ب بدر جلد 4 429 سے کہا کہ تم لوگ تنگ دست ہو اور تنگدستی کو دور کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہوں.ہم تمہیں اتنا دیں گے کہ تم سیر ہو جاؤ گے.حضرت مغیر گانے جواب میں کہا کہ ہم نے خدا کے رسول صلی علیم کی دعوت پر لبیک کہا.ہم تمہیں خدائے واحد کی طرف اور اس کے نبی صلی علی کم پر ایمان لانے کی طرف دعوت دیتے ہیں.اگر تم یہ قبول کر لو تو تمہارے لیے بہتر ہے ورنہ پھر جنگ ہے، تلوار ہے جو ہمارے اور تمہارے میان فیصلہ کرے گی.اس جواب سے رستم کا چہرہ سخت سرخ ہو گیا کیونکہ ان کی طرف سے پہل ہوئی تھی اور وہ جنگ کرنا چاہتے تھے.انہوں نے کہا ہم تو ابھی بھی جنگ نہیں کرنا چاہتے ہم تو تمہیں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں پیغام دے رہے ہیں لیکن تم اگر جنگ چاہتے ہو تو پھر ٹھیک ہے پھر تلوار ہی فیصلہ کرے گی.بہر حال اس کا چہرہ سرخ ہو گیا.مشرک تھا.اس نے کہا سورج اور چاند کی قسم کہ صبح کے طلوع ہونے سے پہلے ہم جنگ کا آغاز کریں گے اور تم سب کو تہ تیغ کر دیں گے.حضرت مغیرہ نے کہا کہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ کہ ساری طاقتوں کا منبع اور مرکز اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ کہہ کر وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے.شاہ ایران کا دربار اور مٹی کے بورے حضرت سعد کو حضرت عمر کا پیغام ملا کہ پہلے ان کو دعوت حق دو.چنانچہ حضرت سعد نے مشہور شاعر اور شہ سوار حضرت عمر و بن مَعْدِی گرب اور حضرت اشعت بن قیس کندی کو اس وفد کے ساتھ بھیجا.رستم سے ان کا آمنا سامنا ہوا تو اس نے پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے والی سے ملنے.اس پر رستم اور ان کے درمیان تفصیلی گفتگو ہوئی.وفد کے ممبران نے کہا کہ ہمارے نبی صلی العلیم نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ ہم تمہارے علاقے پر قابض ہوں گے.اس پر رستم نے مٹی کی ٹوکری منگوائی اور کہالو یہ ہے ہماری زمین.اسے سر پر اٹھا لو.حضرت عمرو بن معدی گرب “جلدی سے اٹھے اور مٹی کی ٹوکری اپنی جھولی میں رکھ لی اور چل دیے اور کہا کہ یہ فال ہے کہ ہم غالب ہوں گے اور ان کی زمین ہمارے قبضہ میں آجائے گی.پھر وہ شاہ ایران کے دربار میں پہنچے اور اسے اسلام کی دعوت دی جس پر وہ سخت ناراض ہوا اور کہا میرے دربار سے چلے جاؤ.اگر تم پیغامبر نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کروا دیتا.پھر اس نے رستم کو حکم دیا کہ انہیں نا قابل فراموش سبق سکھایا جائے.جمعرات کے دن ظہر کے بعد جنگ کا نقارہ بجا.حضرت سعد نے تین بار اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور چوتھے پر جنگ شروع ہو گئی.حضرت سعد بیمار تھے اور میدانِ جنگ کے قریب قصر عذیب کے بالا خانے میں بیٹھے فوج کو ہدایات دے رہے تھے.1022 اس واقعہ کو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بیان فرمایا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب خسرو پرویز کے پوتے یزد جز ء کی تخت نشینی کے بعد عراق میں مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جنگی تیاریاں شروع ہو گئیں تو حضرت عمرؓ نے ان کے مقابلے کے لیے حضرت سعد بن ابی وقاص کی سر کردگی میں ایک لشکر روانہ کیا.حضرت سعد نے جنگ کے لیے قادسیہ کا میدان منتخب کیا اور حضرت عمر کو اس مقام کا نقشہ

Page 446

تاب بدر جلد 4 430 بھجوا دیا.حضرت عمرؓ نے اس مقام کو پسند کیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ پیشتر اس کے کہ شاہ ایران کے ساتھ جنگ کی جائے تمہارا فرض ہے کہ ایک نمائندہ وفد شاہ ایران کے پاس بھیجو اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دو.چنانچہ انہوں نے اس حکم کے ملنے پر ایک وفد یزدجرد کی ملاقات کے لیے بھجوا دیا.جب یہ وفد شاہ ایران کے دربار پر پہنچا.شاہ ایران نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے پوچھو کہ یہ کیوں آئے ہیں ؟ جب اس نے یہ سوال کیا تو وفد کے رئیس حضرت نعمان بن منقرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے رسول کریم صلی الیکم کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اسلام کو پھیلائیں اور دنیا کے تمام لوگوں کو دین حق میں شامل ہونے کی دعوت دیں.اس حکم کے مطابق ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور آپ کو اسلام میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں.یزد جر داس جواب سے بہت برہم ہوا اور کہنے لگا کہ تم ایک وخشی اور مردار خور قوم ہو.تمہیں اگر بھوک اور افلاس نے اس حملے کے لیے مجبور کیا ہے تو میں تم سب کو اس قدر کھانے پینے کا سامان دینے کو تیار ہوں کہ تم اطمینان سے اپنی زندگی بسر کر سکو.حالانکہ ابتدا ان کی طرف سے ہی ہوئی تھی اور پھر الزام بھی مسلمانوں کو دے رہا تھا.بہر حال پھر کہنے لگا کہ اسی طرح تمہیں پہننے کے لیے لباس بھی دوں گا.تم یہ چیز میں لو اور اپنے ملک واپس چلے جاؤ.یہاں بارڈر پر بیٹھے اپنی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہو اس کو چھوڑ دو اور میں جس طرح اس علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہوں مجھے کرنے دو.تم ہم سے جنگ کر کے اپنی جانوں کو کیوں ضائع کرنا چاہتے ہو ؟ جب وہ بات ختم کر چکا تو اسلامی وفد کی طرف سے حضرت مغیرہ بن زرارہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا آپ نے ہمارے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے وہ بالکل درست ہے.ہم واقعی میں ایک وحشی اور مردار خور قوم تھے.سانپ اور بچھو اور ٹڈیاں اور چھپکلیاں تک کھا جاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اس نے اپنار سول ہماری ہدایت کے لیے بھیجا.ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اس کی باتوں پر عمل کیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ہم میں ایک انقلاب پیدا ہو چکا ہے اور اب ہم میں وہ خرابیاں موجود نہیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے.اب ہم کسی لالچ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں.ہماری آپ سے جنگ شروع ہو چکی ہے.اب اس کا فیصلہ میدان جنگ میں ہی ہو گا.دنیوی مال و متاع کا لالچ ہمیں اپنے ارادے سے باز نہیں رکھ سکتا.یزدجر د نے یہ بات سنی تو اسے سخت غصہ آیا اور اس نے ایک نوکر سے کہا کہ جاؤ اور مٹی کا ایک بورا لے آؤ.جب مٹی کا بورا آیا تو اس نے اسلامی وفد کے سردار کو آگے بلایا اور کہا چونکہ تم نے میری پیشکش کو ٹھکرادیا ہے اس لیے اب اس مٹی کے بورے کے سوا تمہیں کچھ اور نہیں مل سکتا.وہ صحابی نہایت سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھے.انہوں نے اپنا سر جھکا دیا اور مٹی کا بورا اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا.پھر انہوں نے ایک چھلانگ لگائی اور تیزی کے ساتھ اس کے دربار سے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو بلند آواز سے کہا.آج ایران کے بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی زمین ہمارے حوالے کر دی ہے اور پھر گھوڑوں پر سوار ہو کر تیزی سے نکل گئے.بادشاہ نے جب ان کا یہ نعرہ سنا تو وہ کانپ اٹھا اور اس نے اپنے درباریوں سے کہا دوڑو اور مٹی کا بورا ان سے واپس لے آؤ.یہ تو بڑی بدشگونی ہو گئی ہے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی مٹی ان کے حوالے کر دی ہے مگر وہ اس وقت تک گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت دور نکل چکے تھے.

Page 447

431 تاب بدر جلد 4 لیکن آخر وہی ہوا جو انہوں نے کہا تھا اور چند سال کے اندر اندر سیارا ایران مسلمانوں کے ماتحت آگیا.یہ عظیم الشان تغیر مسلمانوں میں کیوں پیدا ہوا ؟ اس لیے کہ قرآنی تعلیم نے ان کے اخلاق، ان کی عادات میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا.ان کی سفلی زندگی پر اس نے ایک موت طاری کر دی تھی اور انہیں بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر لا کر کھڑا کر دیا تھا.اور اس کے نتیجہ میں پھر وہ دنیا میں اسلام پھیلانے والے بنے اور اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے حقیقی مسلمان بنانے والے بنے اور کوئی خوف اور خطرہ کسی طاقت کا ان کو مرعوب نہیں کر سکا.1023 ابو محجن ثقفی کی شجاعت جنگ کے دوران حضرت سعد کی اہلیہ حضرت سلمیٰ بنت حفصہ نے دیکھا کہ ایک قیدی جو کہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا بڑی حسرت سے اس جنگ میں حصہ لینے کا خواہش مند تھا.اس کا نام ابو منجن ثقفی تھا جسے حضرت عمر نے شراب پینے پر جلا وطنی کی سزا دی تھی جو یہاں پہنچا.یہاں پہنچنے کے بعد اس نے پھر شراب پی جس کی وجہ سے حضرت سعد نے اسے کوڑوں کی سزا دی اور زنجیر پہنا دی.ابو محجن نے حضرت سعد کی لونڈی زھراء سے درخواست کی کہ میری زنجیریں کھول دو کہ میں جنگ میں شامل ہو سکوں اور کہنے لگا کہ اللہ کی قسم ! اگر میں زندہ بچ گیا تو واپس آکر بیڑیاں پہن لوں گا.لونڈی نے اس کی بات مان لی اور زنجیر میں کھول دیں.ابو محجن نے حضرت سعد کے گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ کا رح کیا اور دشمنوں کی صفوں میں گھس گیا اور سیدھے جا کر سفید بڑے ہاتھی پر حملہ کیا.حضرت سعدیہ سب کچھ دیکھ رہے تھے.انہوں نے کہا کہ گھوڑا تو میرا ہے لیکن اس پر سوار ابو محجن ثَقفی معلوم ہوتا ہے.جیسا کہ پہلے ذکر ہوا تھا حضرت سعد بیماری کی وجہ سے اس جنگ میں براہ راست شریک نو نہیں ہو سکے تھے اور دور سے نگرانی کر رہے تھے.بہر حال لڑائی تین دن تک جاری رہی.لڑائی جب ختم ہوئی تو ابو محجن ثقفی نے واپس آکر اپنی زنجیریں پہن لیں.حضرت سعد نے ابو منجن کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اگر تم نے آئندہ شراب پی تو میں تمہیں بہت سخت سزا دوں گا.ابو محجن نے وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی شراب نہیں پیے گا.ایک دوسری جگہ یہ بیان ہے کہ حضرت سعد نے یہ ماجر احضرت عمرؓ کو لکھا جس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر یہ آئندہ شراب سے توبہ کرلے تو اسے سزا نہ دی جائے.اس پر ابو منجن نے آئندہ تخفي.شراب نہ پینے کی قسم کھائی جس پر حضرت سعد نے اسے آزاد کر دیا.1024 پہلے تو وہاں ذکر ہے کہ لونڈی نے چھوڑا تھا لیکن اس واقعے کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے یوں بیان فرمائی ہے.آپ نے اس طرح لکھا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رسول کریم صلی الظالم کے خاص صحابہ میں سے تھے.حضرت عمر نے انہیں اپنے زمانہ خلافت میں ایرانی فوج کے مقابلہ میں اسلامی فوج کا کمانڈر بنایا تھا.اتفاقاً انہیں ران پر ایک پھوڑا نکل آیا جسے ہمارے ہاں گھمبیر کہتے ہیں وہ لمبے عرصہ تک چلتا چلا گیا.بہتیر اعلاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.آخر انہوں نے خیال کیا کہ اگر میں چار پائی پر پڑار ہا اور فوج نے دیکھا کہ میں جو اُن کا کمانڈر ہوں ساتھ نہیں ہوں تو فوج بد دل ہو جائے گی.چنانچہ انہوں نے ایک

Page 448

اصحاب بدر جلد 4 432 درخت پر عرشہ بنوایا جیسے ہمارے ہاں لوگ باغات کی حفاظت کے لیے بنالیتے ہیں.آپ اس عرشے میں آدمیوں کی مدد سے بیٹھ جاتے تھے تا مسلمان فوج انہیں دیکھتی رہے اور اسے خیال رہے کہ ان کا کمانڈر ان کے ساتھ ہے.انہی دنوں آپ کو اطلاع ملی کہ ایک عرب سردار نے شراب پی ہے.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ شراب اگر چہ اسلام میں حرام تھی مگر عرب لوگ اس کے بہت عادی تھے اور عادت جب پڑ جائے تو مشکل سے چھوٹتی ہے اور اس سردار کو ابھی اسلام لانے پر دو تین سال کا ہی عرصہ گزرا تھا اور دو تین سال کے عرصہ میں جب پرانی عادت پڑی ہو تو حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ پھر عادت جاتی نہیں ہے.بہر حال حضرت سعد بن ابی وقاص کو جب اس مسلمان عرب سردار کی اطلاع ملی کہ اس نے شراب پی ہے تو آپ نے اسے قید کر دیا.ان دنوں با قاعدہ قید خانے نہیں ہوتے تھے.جس شخص کو قید کرنا مقصود ہو تا اسے کسی کمرے میں بند کر دیا جاتا تھا اور اس پر پہرہ مقرر کر دیا جاتا تھا.چنانچہ اس مسلمان عرب سردار کو بھی ایک کمرے میں بند کر دیا گیا اور دروازے پر پہرہ لگا دیا گیا.پھر لکھتے ہیں کہ وہ سال، جب یہ جنگ ہو رہی تھی، تاریخ اسلام میں مصیبت کا سال کہلاتا ہے کیونکہ مسلمانوں کا جنگ میں بہت نقصان ہوا تھا.ایک جگہ پر اسلامی لشکر کے گھوڑے دشمن کے ہاتھیوں سے بھاگے.پاس ہی ایک چھوٹا سا دریا تھا.گھوڑے اس میں کو دے اور عرب چونکہ تیر نا نہیں جانتے تھے اس لیے سینکڑوں مسلمان ڈوب کر مر گئے.اس لیے اس سال کو مصیبت کا سال کہتے ہیں.بہر حال وہ مسلمان عرب سردار کمرے میں قید تھا.مسلمان سپاہی جنگ سے واپس آتے اور اس کے کمرے کے قریب بیٹھ کر یہ ذکر کرتے کہ جنگ میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا ہے.وہ کڑھتا اور ایس بات پر اظہار افسوس کرتا کہ وہ اس موقع پر جنگ میں حصہ نہیں لے سکا.بے شک اس میں کمزوری تھی کہ اس نے شراب پی لی لیکن وہ تھا بڑا بہادر ، اس کے اندر جوش پایا جاتا تھا.جنگ میں مسلمانوں کے نقصانات کا ذکر سن کر وہ کمرے میں اس طرح ٹہلنے لگ جاتا جیسے پنجرے میں شیر ٹہلتا ہے.ٹہلتے ٹہلتے وہ شعر پڑھتا جس کا مطلب یہ تھا کہ آج ہی موقع تھا کہ تو اسلام کو بچاتا اور اپنی بہادری کے جوہر دکھاتا مگر تُو قید ہے.حضرت سعد کی بیوی بڑی بہادر عورت تھیں.وہ ایک دن اس کے کمرے کے پاس سے گزریں تو انہوں نے وہ شعر سن لیے.انہوں نے دیکھا کہ وہاں پہرہ نہیں ہے.وہ دروازے کے پاس گئیں اور اس قیدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تجھے پتہ ہے کہ سعد نے تجھے قید کیا ہوا ہے.اگر اسے پتہ لگ گیا کہ میں نے تجھے قید سے آزاد کر دیا ہے تو مجھے چھوڑے گا نہیں لیکن میراجی چاہتا ہے کہ میں تجھے قید سے آزاد کر دوں تا کہ تو اپنی خواہش کے مطابق اسلام کے کام آسکے.اس نے کہا اب جو لڑائی ہو تو مجھے چھوڑ دیا کریں.میں وعدہ کرتا ہوں کہ لڑائی کے بعد فوراً واپس آکر اس کمرے میں داخل ہو جایا کروں گا.اس عورت کے دل میں بھی اسلام کا درد تھا اور اس کی حفاظت کے لیے جوش پایا جاتا تھا اس لیے اس نے اس شخص کو قید سے نکال دیا.چنانچہ وہ لڑائی میں شامل ہوا اور ایسی بے جگری سے لڑا کہ اس کی بہادری کی وجہ سے اسلامی لشکر بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ گیا.سعد نے اسے پہچان لیا اور بعد میں کہا کہ آج کی لڑائی میں وہ شخص موجود تھا جسے میں نے شراب پینے کی وجہ سے قید کیا ہوا تھا.گو اس نے چہرے پر نقاب

Page 449

اصحاب بدر جلد 4 433 ڈالی ہوئی تھی مگر میں اس کے حملے کے انداز اور قد کو پہچانتا ہوں.میں اس شخص کو تلاش کروں گا جس نے اسے قید سے نکالا ہے اور اسے سخت سزا دوں گا یعنی جس نے اس کو اس قید سے باہر نکالا اس کی زنجیریں کھولیں اس کو سخت سزا دوں گا.1025 سلة جب حضرت سعد نے یہ الفاظ کہے تو ان کی بیوی کو غصہ آگیا اور اس نے کہا کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ آپ تو درخت پر عرشہ بنا کر بیٹھا ہوا ہے اور اس شخص کو تو نے قید کیا ہوا ہے جو دشمن کی فوج میں بے دریغ گھس جاتا ہے اور اپنی جان کی پروا نہیں کرتا.میں نے اس شخص کو قید سے چھڑایا تھا تم جو چاہو کر لو.میں نے اسے کھلوایا تھا اب جو تم نے کرنا ہے کر لو.بہر حال یہ تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی ایک لجنہ کی تقریر میں بیان فرمائی تھی اور یہ بیان فرما کے فرمایا تھا کہ غرض عورتوں نے اسلام میں بڑے بڑے کام کیسے ہیں.آپ نے یہ فرمایا کہ پیس آج بھی احمدی عورتوں کو ان مثالوں کو سامنے رکھنا چاہیے.25 پھر عورتوں کی قربانی کا حضرت سعد کے حوالے سے ہی مزید واقعہ سنیں.انصار کے قبیلہ بنو کی مشہور شاعرہ اور صحابیہ حضرت خنساء نے اس جنگ میں اپنے چار بیٹے اللہ کی راہ میں قربان کیے.حضرت خنساء کے خاوند اور بھائی ان کی جوانی میں فوت ہو گئے تھے.حضرت خنساء نے بڑی محنت سے اپنے بچوں کو پالا تھا.قادسیہ کی جنگ کے آخری دن صبح جنگ سے پہلے حضرت خنساء نے اپنے بیٹوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے میرے بیٹو! تم نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا ہے اور اپنی مرضی سے ہجرت کی ہے.اس ذات کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں !میں نے تمہارے حسب و نسب میں کوئی عار نہیں آنے دی.یادر کھو کہ آخرت کا گھر اس فانی دنیا سے بہتر ہے.بیٹو !ڈٹ جاؤ اور ثابت قدم رہو اور کندھے سے کندھا ملا کر لڑو.خدا کا تقویٰ اختیار کرو.جب تم دیکھو گے کہ گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے اور اس کا تندور بھڑک اٹھا ہے اور شہ سواروں نے اپنے سینے تان لیے ہیں تو تم اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے اس میں کو دجاؤ.حضرت خنساء کے بیٹوں نے ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں اور رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے میدانِ جنگ میں کود گئے اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے.اس روز شام سے پہلے قادسیہ پر اسلامی پرچم لہرا رہا تھا.حضرت خنسان کو بتایا گیا کہ تمہارے چاروں بیٹے شہید ہو گئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے انہیں شہادت سے سر فراز کیا.میرے لیے کم فخر نہیں کہ وہ راہ حق میں قربان ہو گئے.مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں ضرور جمع رکھے گا.وہ جگہ جہاں حضرت ابراہیم کو نمرود نے قید کیا تھا قادسیہ کو فتح کرنے کے بعد اسلامی لشکر نے بابل کو فتح کیا.بابل موجودہ عراق کا قدیم شہر تھا جس کا ذکر ہاروت اور ماروت کے سلسلے میں قرآن نے بھی کیا ہے اور یہ وہیں تھا جہاں آج کوفہ ہے.شہروں کا جو تعارف ہے اس میں اس کا یہ تعارف لکھیا ہے.اور پھر آگے یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ فتح کر کے کوئی نام کے تاریخی شہر کے مقام پر پہنچے یہ وہ جگہ تھی جہاں حضرت ابراہیم کو نمرود نے قید کیا تھا.قید خانے کی جگہ

Page 450

اصحاب بدر جلد 4 434 اس وقت تک محفوظ تھی.حضرت سعد نے جب وہاں پہنچے اور قید خانے کو دیکھا تو قرآن کریم کی آیت پڑھی.تِلْكَ الْآيَامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (آل عمران: 141) یعنی یہ دن ایسے ہیں کہ ہم انہیں لوگوں کے در میان ادلتے بدلتے رہتے ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں.کوئی سے آگے بڑھے تو بہترہ شنیر نامی ایک جگہ پر پہنچے.معجم البلدان جو شہروں کی مجسم ہے اس کے مطابق اس کا نام بھر سیز ہے.بھر سیز دریائے دجلہ کے مغرب میں واقع عراق کے شہر مدائن کے قریب بغداد کے نواحی علاقوں میں سے ایک مقام کا نام ہے.یہاں کسریٰ کا شکاری شیر رہتا تھا.حضرت سعد کا لشکر قریب پہنچا تو انہوں نے اس درندے کو لشکر پر چھوڑ دیا.شیر گرج کر لشکر پر حملہ آور ہوا.حضرت سعد کے بھائی ہاشم بن ابی وقاص لشکر کے ہر اول دستے کے افسر تھے.انہوں نے شیر پر تلوار سے ایساوار کیا کہ شیر وہیں ڈھیر ہو گیا.مدائن کے سفید محلات پھر اسی جنگ میں مدائن کا معرکہ بھی ہے.مدائن کسری کا پایہ تخت تھا.یہاں پر اس کے سفید محلات تھے.مسلمانوں اور مدائن کے درمیان دریائے دجلہ حائل تھا.ایرانیوں نے دریا کے تمام پل توڑ دیے.حضرت سعد نے فوج سے کہا کہ مسلمانو! دشمن نے دریا کی پناہ لے لی ہے.آؤ اس کو تیر کر پار کریں اور یہ کہہ کر انہوں نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا.حضرت سعد کے سپاہیوں نے اپنے قائد کی پیروی کرتے ہوئے گھوڑے دریا میں ڈال دیے اور اسلامی فوجیں دریا کے پار اتر گئیں.ایرانیوں نے یہ حیران کن منظر دیکھا تو خوف سے چلانے لگے اور بھاگ کھڑے ہوئے کہ دیو آگئے.دیو آگئے.مسلمانوں نے آگے بڑھ کر شہر اور کسریٰ کے محلات پر قبضہ کر لیا اور اس طرح رسول اللہ صلی للی کم کی پیشگوئی پوری ہو گئی جو آپ صلی للی کرم نے غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے پتھر پر کدال مارتے ہوئے فرمائی تھی کہ مجھے مدائن کے سفید محلات گرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں.ان محلات کو سنسان حالات میں دیکھ کر حضرت سعد نے سورہ دخان کی یہ آیات كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنْتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَكِهِينَ كَذلِكَ وَ أَوْرَثْنَهَا قَوْمًا أخَرِينَ ( الدخان 26-29) کتنے ہی باغات اور چشمے ہیں جو انہوں نے پیچھے چھوڑے اور کھیتیاں اور عزت و احترام کے مقام بھی اور ناز و نعمت جس میں وہ مزے اڑایا کرتے تھے.اسی طرح ہوا اور ہم نے ایک دوسری قوم کو اس نعمت کا وارث بنادیا.بہر حال اس کے بعد حضرت سعد نے حضرت عمر کی خدمت میں لکھ کر مزید آگے بڑھنے کی اجازت چاہی جس پر حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ سر دست اسی پر اکتفا کرو اور مفتوحہ علاقے کے نظم و نسق کی طرف توجہ کی جائے.چنانچہ حضرت سعد نے مدائن کو مرکز بنا کر نظم و نسق کو مستحکم کرنے کی کوشش شروع کی اور اس کام کو بخوبی نبھایا.آپ نے عراق کی مردم شماری اور پیمائش کروائی.رعایا کے آرام و آسائش کا انتظام کیا اور اپنے حسن تدبر اور حسن عمل سے ثابت کیا کہ آپ کو اللہ نے جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیتوں سے بھی بہرہ ور فرمایا ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے

Page 451

تاب بدر جلد 4 435 فتح کیا تو رعایا کا خیال نہیں رکھا لیکن مسلمانوں نے جب شہر فتح کیے تو وہاں کے رہنے والوں کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھا گیا.پھر تعمیر کوفہ ہے.مدائن کی آب و ہوا عربوں کی طبیعت کے موافق نہ آئی تو حضرت سعد نے حضرت عمر کی اجازت سے ایک نیا شہر بسایا جس میں مختلف عرب قبائل کو الگ الگ محلوں میں آباد کیا اور شہر کے درمیان ایک بڑی مسجد بنوائی جس میں چالیس ہزار نمازی ایک وقت میں نماز پڑھ سکتے تھے.کوفہ دراصل فوجی چھاؤنی تھا جس میں ایک لاکھ سپاہی بسائے گئے تھے.اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ حضرت سعد نے ایک عرصہ تک مدائن میں قیام کرنے کے بعد محسوس کیا کہ یہاں کی آب و ہوانے اہل عرب کا رنگ و روپ بالکل بدل دیا ہے.حضرت عمر کو اس سے مطلع کیا تو حکم آیا کہ عرب کی سرحد میں کوئی مناسب سر زمین تلاش کر کے ایک نیا شہر بسائیں اور عربی قبائل کو آباد کر کے اس کو مرکز حکومت قرار دیں.حضرت سعد نے اس حکم کے مطابق مدائن سے نکل کر ایک موزوں جگہ منتخب کر کے کوفہ کے نام سے ایک وسیع شہر کی بنیاد ڈالی.عرب کے جُدا جُدا قبیلوں کو جدا جدا محلوں میں آباد کیا.وسط میں ایک عظیم الشان مسجد بنوائی جس میں تقریباً چالیس ہزار نمازیوں کی گنجائش رکھی گئی تھی.مسجد کے قریب ہی بیت المال کی عمارت اور اپنا محل تعمیر کرایا جو قصر سعد کے نام سے مشہور تھا.1026 پھر معرکہ نهاوند ہے یہاں 21 ہجری میں ایرانیوں نے عراق عجم یعنی عراق کا وہ حصہ جو فارسیوں کے پاس تھا اس میں مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاریاں کیں اور مسلمانوں سے مفتوحہ علاقے واپس لینے کی غرض سے نہاوند کے مقام پر مسلمانوں کے خلاف ڈیڑھ لاکھ ایرانی جنگجو اکٹھے ہوئے.حضرت سعد نے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی تو آپ نے اہل الرائے کے مشورے سے ایک عراقی حضرت نعمان بن مقرن مُزئی کو مسلمان فوج کا قائد مقرر فرمایا.حضرت نعمان اس وقت کسکر میں تھے.کسکر نہروان سے لے کر بصرہ کے قریب دریائے دجلہ کے دہانے تک کا علاقہ ہے جس میں بیسیوں گاؤں اور قصبے ہیں.بہر حال حضرت عمر نے انہیں نہاوند پہنچنے کا حکم دیا.ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کے مقابل پر مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار تھی.حضرت نعمان نے تشکر کی صفوں میں پھر کر انہیں ہدایات دیں اور پھر کہا کہ اگر میں شہید ہو جاؤں تو لشکر کے قائد حذیفہ ہوں گے اور اگر وہ شہید ہوں تو امیر لشکر فلاں ہو گا اور اس طرح ایک ایک کر کے انہوں نے سات آدمیوں کا نام لیا.اس کے بعد اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ! اپنے دین کو معزز فرما اور اپنے بندوں کی مدد فرما اور نعمان کو آج سب سے پہلے شہادت کا درجہ عطا فرما.ایک دوسری روایت کے مطابق انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ آج میری آنکھ ایسی فتح کے ذریعہ ٹھنڈی کر جس میں اسلام کی عزت ہو اور مجھے شہادت عطا ہو.جنگ شروع ہوئی.مسلمان اس بہادری کے ساتھ لڑے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا اور اسی جنگ میں حضرت نعمان شہید ہو گئے.ابو لولوة فيروز اسی جنگ میں قید ہوا اور وہ غلام بن

Page 452

بدر جلد 4 436 کر حضرت مغیرہ بن شعبہ کے حصہ میں آیا.یہ وہی شخص نے جس نے بعد میں حضرت عمر پر حملہ کر کے انہیں شہید کیا تھا.حضرت عمرؓ نے نہاوند کے امیر کو خط لکھا کہ اگر اللہ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے تو خمس یعنی 5 / 1 بیت المال کے لیے رکھ کر تمام مالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دو اور اگر یہ لشکر ہلاک ہو جائے تو کوئی بات نہیں کیونکہ زمین کی سطح سے اس کا بطن یعنی قبر بہتر ہے.حضرت سعد کے متعلق غلط شکایات اور......بنا 1027 حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ قبیلہ بنو اسد کے لوگوں نے حضرت سعد کی نماز پر اعتراض کیا اور ان کی شکایات حضرت عمرؓ سے کہیں کہ صحیح طرح نماز نہیں پڑھاتے.حضرت عمرؓ نے حضرت محمد بن مسلمیہ کو تحقیق کے لیے بھیجا.تحقیق سے معلوم ہوا کہ شکایات غلط تھیں.تاہم بعض مصلحتوں کی بنا پر حضرت عمر نے حضرت سعد کو مدینے میں بلا لیا.اس کی تفصیل صحیح بخاری کی روایت میں یوں بیان ہوئی ہے کہ حضرت جابر بن سمرۃا سے مروی ہے.وہ کہتے تھے کہ کوفہ والوں نے حضرت عمرؓ کے پاس حضرت سعد کی شکایت کی تو انہوں نے ان کو معزول کر دیا اور حضرت عمار کو ان کا عامل یعنی حاکم مقرر کیا.کوفہ والوں نے حضرت سعد کے متعلق شکایات میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ نماز بھی اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو حضرت عمرؓ نے ان کو بلا بھیجا اور کہا: اے ابو اسحاق ! ( ابو اسحاق حضرت سعد کی کنیت تھی) یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھاتے.ابو اسحاق نے کہا میں تو بخدا انہیں رسول اللہ صلی علیہم کی نماز پڑھایا کرتا تھا.اس میں ذرا بھی کم نہیں کر تا تھا.عشاء کی نماز پڑھاتا تو پہلی دور کعتیں لمبی اور پچھلی دور کعتیں ہلکی پڑھتا تھا.تب حضرت عمرؓ نے کہا ابو اسحاق آپ کے متعلق یہی خیال تھا.یعنی مجھے امید تھی کہ اس طرح ہی کرتے ہوں گے.حضرت سعد کی دعا کا ایک اور شکار پھر حضرت عمرؓ نے ان کے ساتھ ایک آدمی یا چند آدمی کوفہ روانہ کیے تا ان کے بارے میں کوفہ والوں سے پوچھیں.انہوں نے کوئی مسجد بھی نہیں چھوڑی جہاں حضرت سعد کے متعلق نہ پوچھا گیا ہو.ہر مسجد میں گئے اور لوگ ان کی (حضرت سعد کی ) اچھی تعریف کرتے تھے.آخر وہ قبیلہ بنو عبس کی مسجد میں گئے.ان میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا.اسے اسامہ بن قتادہ کہتے تھے اور ابو سعدہ اس کی کنیت تھی.اس نے کہا چونکہ تم نے ہمیں قسم دی ہے اس لیے اصل بات یہ ہے کہ سعد فوج کے ساتھ نہیں جایا کرتے تھے اور نہ برابر تقسیم کرتے تھے اور نہ فیصلے میں انصاف کرتے تھے.یہ الزام انہوں نے حضرت سعد پر لگائے.حضرت سعد نے جو یہ بات سنی تو اس پر حضرت سعد نے کہا.دیکھو اللہ کی قسم ! میں تین دعائیں کرتا ہوں کہ اے میرے اللہ ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور ریا اور شہرت کی غرض سے کھڑ ا ہوا ہے یعنی جو الزام لگانے والا تھا تو اس کی عمر لمبی کر اور اس کی محتاجی کو بڑھا اور اسے مصیبتوں کا تختہ

Page 453

تاب بدر جلد 4 437 1028 مشق بنا.اس کے بعد جب کوئی اس شخص کا حال پوچھتا جس نے الزام لگایا تھا تو وہ کہتا پیر فرتوت ہوں.بہت بوڑھا ہو چکا ہوں.بُری حالت ہے.مصیبت زدہ ہوں اور حضرت سعد کی بددعا مجھے لگ گئی ہے یعنی لوگوں نے جھوٹا الزام لگوایا تھا.اس کا نتیجہ بھگت رہا ہوں.عبد الملک کہتے تھے کہ میں نے اس کے بعد اسے دیکھا ہے.حالت یہ تھی کہ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی بھنویں اس کی دونوں آنکھوں پر آپڑی تھیں اور تعجب ہے کہ اس کے باوجود اس کی اخلاقی حالت کا یہ حال تھا کہ وہ راستوں میں چھو کر یوں کو چھیڑ تا اور چشمک کرتا تھا.بخاری میں یہ سارا واقعہ درج ہے.بہر حال ان شکایات کا حضرت سعد کو بہت دکھ ہوا اور آپ نے کہا عربوں میں سے میں پہلا ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر پھینکا اور ہم نبی کریم صلی املی کام کے ساتھ جنگ کے لیے نکلتے اور حالت یہ تھی کہ ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ ہوتی سوائے درختوں کے پتے ہی.ہمارا یہ حال تھا کہ ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنیاں کرتا جیسے اونٹ لید کرتے ہیں یا بکریاں مینگنیاں کرتی ہیں یعنی خشک.اور اب یہ حال ہے کہ بنو اسد ابن خُذیمہ مجھ کو آداب اسلام سکھاتے ہیں.تب تو میں بالکل نامر اور ہا اور میرا عمل ضائع ہو گیا اور بنو اسد کے لوگوں نے حضرت عمرؓ کے پاس چغلی کھائی تھی اور کہا تھا کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتا.یہ بھی بخاری کی ہے.حضرت سعد کا خلافت کمیٹی کا ممبر ہونا 1029 123 ہجری میں جب حضرت عمر پر قاتلانہ حملہ ہوا تو حضرت عمررؓ سے لوگوں نے عرض کی کہ آپ خلافت کے لیے کسی کو نامزد کریں.اس پر حضرت عمر نے انتخاب خلافت کے لیے ایک بورڈ مقرر کیا جس میں حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ تھے.حضرت عمرؓ نے فرمایا ان میں سے کسی ایک کو چن لینا کیونکہ رسول اللہ صلی لینکم نے انہیں اہل جنت قرار دیا ہے.پھر فرمایا کہ اگر خلافت سعد بن ابی وقاص کو مل گئی تو وہی خلیفہ ہوں ورنہ جو بھی تم میں سے خلیفہ ہو وہ سعد سے مدد لیتا رہے کیونکہ میں نے انہیں اس لیے معزول نہیں کیا کہ وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس لیے کہ انہوں نے کوئی خیانت کی تھی.1030 جب حضرت عثمان خلیفہ منتخب ہوئے تو انہوں نے حضرت سعد کو دوبارہ کوفے کا والی بنا دیا.آپ تین سال تک اس عہدے پر فائز رہے اور اس کے بعد کسی وجہ سے حضرت سعد کا حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے اختلاف ہو ا جو اس وقت بیت المال کے انچارج تھے جس کی وجہ سے حضرت عثمان نے انہیں ( حضرت سعد کو معزول کر دیا.معزول ہونے کے بعد حضرت سعد نے مدینے میں گوشہ نشینی اختیار کرلی.جب حضرت عثمان کے خلاف فتنہ و فساد شروع ہوا تب بھی آپ گوشہ نشین ہی رہے.1031

Page 454

ب بدر جلد 4 438 حضرت سعد کی فتنوں سے کنارہ کشی اور گوشہ نشینی 1032 ایک روایت میں آتا ہے کہ فتنے کے زمانے میں ایک مرتبہ حضرت سعد کے صاحبزادے نے حضرت سعد سے پوچھا کہ آپ کو کس چیز نے جہاد سے روکا ہے.اس پر حضرت سعد نے جواب دیا کہ میں تب تک نہیں لڑوں گا یہاں تک کہ مجھے ایسی تلوار لا کر دو جو مومن اور کافر کو پہچانتی ہو.اب تو مسلمان مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں.ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت سعد نے فرمایا کہ ایسی تلوار لاؤ جس کی آنکھیں، ہونٹ اور زبان ہوں اور جو مجھے بتائے کہ فلاں شخص مومن ہے اور فلاں شخص کافر ہے.32 اب تک تو میں صرف کافروں کے خلاف لڑا ہوں.سنن ترمذی کی ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت سعد نے حضرت عثمان کے زمانے میں شروع ہونے والے فتنوں کے بارے میں فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ہے کہ ضرور آئندہ زمانے میں ایک فتنہ ہو گا اور اس میں بیٹھا ر ہنے والا کھڑے ہونے والے شخص سے بہتر ہو گا اور کھڑا ہونے والا شخص چلنے والے شخص سے بہتر ہو گا اور چلنے والا شخص دوڑنے والے سے بہتر ہو گا.یعنی کہ ہر لحاظ سے کسی طرح بھی اس فتنے میں شامل نہیں ہو نا بلکہ بیچنے کی کوشش کرنی ہے، تو بہر حال کسی نے پوچھا کہ اگر فتنہ میرے گھر میں داخل ہو جائے تو میں کیا کروں.فرمایا کہ تو ابن آدم کی طرح ہو جانا.یعنی جیسے قرآن شریف میں اس ابن آدم کا ذکر ہے کہ اپنا بچاؤ تو کرو لیکن ایک دوسرے کو قتل کرنے کی نیت سے لڑائی نہیں کرنی اور یہی واقعہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے.اس سے یہی لگتا ہے کہ وہی مثال آپ نے دی تھی.حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں جب فتنوں کا آغاز ہوا تو اس فتنے کو فرو کرنے میں صحابہ کی مساعی جمیلہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ گو صحابہ کو اب حضرت عثمان کے پاس جمع ہونے کا موقع نہ دیا جاتا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے فرض سے غافل نہ تھے.مصلحت وقت کے ماتحت انہوں نے و حصوں میں اپنا کام تقسیم کیا ہوا تھا جو سن رسیدہ بوڑھے تھے اور جن کا اخلاقی اثر عوام پر زیادہ تھاوہ تو اپنے اوقات کو لوگوں کو سمجھانے پر صرف کرتے اور جو لوگ ایسا کوئی اثر نہ رکھتے تھے یا نوجوان تھے وہ حضرت عثمان کی حفاظت کی کوشش میں لگے رہتے.“ پھر لکھتے ہیں کہ ”اول الذکر جماعت میں سے حضرت علی اور حضرت سعد بن ابی وقاص فاتح فارس فتنہ کے کم کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں تھے.“ رو 1034 حضرت سعد کا امیر معاویہ کو جواب 1033 حضرت عثمان کے بعد حضرت علی کی خلافت میں بھی حضرت سعد گوشہ نشین ہی رہے.ایک روایت کے مطابق جب حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان اختلاف بڑھا تو امیر معاویہ نے تین صحابہ

Page 455

صحاب بدر جلد 4 439 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت محمد بن مسلمہ کو اپنی مدد کے لیے خط لکھا اور ان کو لکھا کہ وہ حضرت علی کے خلاف ان کی مدد کریں.اس پر ان تینوں نے انکار کیا.حضرت سعد نے امیر معاویہ کو یہ اشعار لکھ کر بھیجے کہ مُعَاوِيَ دَاؤُكَ الرَّاءِ الْعَيَاءِ وَلَيْسَ لِمَا تَجِيءُ بِهِ دَوَاءُ فَلَمْ ارْدُدْ عَلَيْهِ مَا يَشَاءُ ايَدُعُونِي أَبُو حَسَنٍ عَلِيٌّ وَقُلْتُ لَهُ أَعْطِنِي سَيْفًا بَصِيرًا تَمِيزُ بِهِ الْعَدَاوَةُ وَالْوَلَاء اتَطْمَعُ فِي الَّذِي أَعْيَا عَلِيًّا عَلَى مَا قَدُ طَعْتَ بِهِ الْعَفَاءِ لَيَوْمٌ مِنْهُ خَيْرٌ مِنْكَ حَيًّا وَمَيْتًا أَنْتَ لِلْمَرْءِ الْفِدَاءِ ترجمہ ان کا یہ ہے کہ اے معاویہ ! تیری بیماری سخت ہے.تیرے مرض کی کوئی دوا نہیں.کیا تو اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ ابو حسن یعنی حضرت علی نے مجھے لڑنے کے لیے کہا تھا مگر میں نے ان کی بات بھی نہیں مانی اور میں نے ان سے کہا کہ مجھے ایسی تلوار دے دیں جو بصیرت رکھتی ہو اور مجھے دشمن اور دوست میں 1035 فرق کر کے بتادے.اے معاویہ ! کیا تو امید رکھتا ہے کہ جس نے لڑائی کرنے کے لیے حضرت علی کی بات نہ مانی ہو وہ تیری بات مان لے گا.حالانکہ حضرت علی کی زندگی کا ایک دن تیری ساری زندگی اور موت سے بہتر ہے اور تو ایسے شخص کے خلاف مجھے بلاتا ہے.اسد الغابہ کی یہ روایت ہے.اس میں واقعہ درج ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ امیر معاویہ نے حضرت سعد سے پوچھا کہ ابو تراب ! ( یہ حضرت علی کی کنیت تھی) کو برا کہنے سے آپ کو کس چیز نے منع کیا ہے ؟ ان کو آپ برا نہیں کہتے تھے.حضرت سعد نے فرمایا وہ تین باتیں جو رسول اللہ صلی علی یم نے ان کے بارے میں فرمائی ہیں اگر ان میں سے ایک بھی مجھے مل جاتی تو وہ میرے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہوتی.ان تین باتوں کی وجہ سے میں کبھی ان کو یعنی حضرت علی کو برا نہیں کہوں گا.نمبر ایک یہ کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی نیلم نے حضرت علی ہو ایک غزوے میں اپنے پیچھے چھوڑا.اس پر حضرت علی نے آپ سے عرض کی کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں.اس پر حضرت رسول اللہ صلی لی ہم نے فرمایا کیا تو اس بات پر خوش نہیں کہ تیر امیرے ساتھ ویسا ہی تعلق ہے جیسا کہ ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، صرف اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد مجھے نبوت کا مقام حاصل نہیں ہے.نمبر دو بات یہ کہی کہ غزوہ خیبر کے موقعے پر رسول اللہ صلی الی تم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں ایسے شخص کو اسلامی جھنڈ اعطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں.اس پر ہم نے اس کی خواہش کی، ہر ایک میں خواہش پیدا ہوئی کہ جھنڈا ہمیں دیا جائے ہم بھی اللہ سے اور رسول سے محبت رکھتے ہیں.پس آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ علی کو بلاؤ.ہم میں سے کسی کو نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ علی کو بلاؤ.حضرت علی آئے.ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی.رسول اللہ صلی اللہ ہم نے ان کی آنکھ میں اپنا لعاب دہن

Page 456

440 ناب بدر جلد 4 ڈالا اور ان کو اسلامی جھنڈا دیا اور اللہ نے اس روز مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی.پھر تیسری بات انہوں نے یہ بیان کی کہ جب آیت فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَ ابْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ (آل عمران :62) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تُو کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو.ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو.جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللی نیلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسین کو بلایا اور فرمایا کہ اے اللہ ! یہ میرا اہل وعیال ہے.یہ ترمذی کی روایت ہے.اللہ مجھے کبھی عذاب نہیں دے گا...! 1036 حضرت سعد بن ابی وقاص کے بیٹے مُصْعَب بن سعد بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کی وفات کا وقت آیا تو ان کا سر میری گود میں تھا.میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے.انہوں نے مجھے دیکھا اور مجھ سے کہا کہ اے میرے پیارے بیٹے ا تجھے کیا چیز رلاتی ہے.میں نے عرض کیا آپ کی وفات کا غم اور اس بات کا غم کہ میں آپ کے بعد آپ کا بدل کسی کو نہیں دیکھتا.اس پر حضرت سعد نے فرمایا مجھ پر مت رو.اللہ مجھے کبھی عذاب نہیں دے گا اور میں جنتیوں میں سے ہوں.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جی فلاں نے فلاں پروگرام میں کہہ دیا جنتیوں میں سے کس طرح ہو گئے تو یہاں حضرت سعد بھی فرمار ہے ہیں کہ میں جنتیوں میں سے ہوں.پھر فرمایا کہ اللہ مومنوں کو ان کی نیکیوں کی جزا دیتا ہے جو انہوں نے اللہ کے لیے کیں اور جہاں تک کفار کا معاملہ ہے تو اللہ ان کے اچھے کاموں کی وجہ سے ان کے عذاب کو ہلکا کر دیتا ہے مگر جب وہ اچھے کام ختم ہو جائیں تو دوبارہ عذاب دیتا ہے.ہر انسان کو اپنے اعمال کی جزا اس سے طلب کرنی چاہیے جس کے لیے اس نے عمل کیا ہو.17 انصار سے محبت اور حسن سلوک 1037 حضرت سعد بن ابی وقاص کے بیٹے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ آپ انصار کے گروہ کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ نہیں کرتے تو انہوں نے بھی بیٹے سے پوچھا کہ اے میرے بیٹے ! کیا تمہارے دل میں ان کی طرف سے کچھ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ سلوک جو میں انصار سے کرتا ہوں تو کیا تمہارے دل میں کوئی بات ہے ؟ تو میں نے جواب دیا نہیں ن مجھے آپ کے اس معاملے سے تعجب ہوتا ہے.حضرت سعد نے جواب دیا میں نے رسول اللہ صلی علیکم سے سنا ہے کہ مومن ہی ان کو دوست رکھتا ہے اور منافق ہی ان سے بغض رکھتا ہے.پس میں اس لیے ان سے تعلق رکھتا ہوں.8 جریر سے مروی ہے کہ وہ ایک دفعہ حضرت عمر کے پاس سے گزرے تو حضرت عمر نے حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا میں نے انہیں اس حال میں چھوڑا ہے کہ وہ اپنی حکومت میں باوجو د قدرت کے سب سے شریف انسان ہیں.سختی میں سب سے کم ہیں.وہ تو ان 1038

Page 457

اصحاب بدر جلد 4 441 لوگوں کے لیے مہربان ماں جیسے ہیں.وہ ان کے لیے ایسے جمع کرتے ہیں جیسے چیونٹی جمع کرتی ہے.جنگ کے وقت لوگوں میں سے سب سے زیادہ بہادر ہیں اور قریش میں سے لوگوں کے سب سے زیادہ محبوب ہیں.وفات 1039 حضرت سعد بن ابی وقاص نے 155 ہجری میں وفات پائی.وفات کے وقت آپ کی عمر ستر برس سے کچھ زیادہ تھی.بعض کے نزدیک آپ کی عمر چوہتر سال تھی جبکہ بعض کے نزدیک آپ کی عمر تر اسی سال تھی.1040 حضرت سعد بن ابی وقاص کی وفات کے سال کے بارے میں اختلاف ہے.مختلف روایات میں آپ کی وفات کا سال اکاون ہجری سے لے کر اٹھاون ہجری تک ملتا ہے لیکن اکثر نے آپ کی وفات کا 1041 سال پچپن ہجری بیان کیا ہے.حضرت سعد بن ابی وقاص نے وفات کے وقت اڑھائی لاکھ درہم ترکے میں چھوڑے.2 جنازہ مسجد نبوی میں اور ازواج مطہرات کی شرکت 1042 حضرت سعد بن ابی وقاص نے عقیق مقام پر وفات پائی جو مدینے سے سات میل کے فاصلے پر تھایا دس میل کے فاصلے پر تھا.بعض کہتے ہیں کہ وہاں سے لوگ آپ کی میت کو کندھوں پر رکھ کر مدینہ لائے اور مسجد نبوی میں نماز جنازہ ادا کی گئی.آپ کا جنازہ مروان بن حکم نے پڑھا جو اس وقت مدینے کا حکمران تھا.آپ کی نماز جنازہ میں ازواج مطہرات نے بھی شرکت فرمائی.آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی.1043 حضرت سعد بن ابی وقاص کے جنازے کے بارے میں روایت ملتی ہے.حضرت عبد اللہ بن زبیر حضرت عائشہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص کی وفات ہوئی تو نبی صلی الیکم کی ازواج مطہرات نے یہ کہلا بھیجا کہ لوگ ان کا جنازہ لے کر مسجد میں آئیں تا کہ وہ یعنی ازواج بھی ان کی نماز جنازہ پڑھیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.جنازہ ان کے حجروں کے سامنے رکھا گیا تا کہ وہ نماز جنازہ پڑھ لیں.پھر انہیں باب الجنائز سے باہر لے جایا گیا جو بیٹھنے کی جگہوں کے پاس تھا.پھر ان ازواج مطہرات کو یہ بات پہنچی کہ لوگوں نے اس بات پر نکتہ چینی کی ہے اور کہتے ہیں کہ جنازے مسجد میں داخل نہیں کیے جاتے تھے.حضرت عائشہ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا کہ لوگ کتنی جلدی ایسی باتوں پر نکتہ چینی کرنے لگ جاتے ہیں جن کا ان کو علم نہیں ہو تا.انہوں نے ہم پر اعتراض کیا ہے یعنی حضرت عائشہ نے کہا کہ لوگوں نے ہم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ جنازہ مسجد میں سے گزارا گیا حالانکہ رسول اللہ صلی علیم نے سہیل بن بیضاء کی نماز جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھی تھی.یہ مسلم کی روایت ہے.1044

Page 458

اصحاب بدر جلد 4 442 1045 حضرت سعد بن ابی وقاص نے اپنی مرض الموت میں وصیت کی کہ میرے لیے لحد بنانا اور مجھ پر اینٹیں نصب کرنا جیسا کہ رسول اللہ صلی نیلم کے لیے کیا گیا تھا.یہ بھی مسلم کی روایت ہے.جو جبہ غزوہ بدر کے دن پہنا تھا اس کا کفن حضرت سعد بن ابی وقاص نے مہاجرین مردوں میں سے سب سے آخر پر وفات پائی.حضرت سعد بن ابی وقاص نے اپنی وفات کے وقت ایک اونی جبہ نکالا اور وصیت کی کہ مجھے اس کا کفن پہنانا کیونکہ میں اس جسے کو پہن کر غزوہ بدر میں شامل ہوا تھا اور میں نے اسے اسی وقت کے لیے یعنی وفات کے وقت کے لیے سنبھال کر رکھا تھا.1046 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سیرت خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ ”حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی جب صحابہ کے وظیفے مقرر ہوئے تو بدری صحابیوں کا وظیفہ ممتاز طور پر خاص مقرر کیا گیا.خود بدری صحابہ بھی جنگ بدر کی شرکت پر خاص فخر کرتے تھے.چنانچہ مشہور مستشرق ولیم میور صاحب لکھتے ہیں.بدری صحابی اسلامی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین رکن سمجھے جاتے تھے.سعد بن ابی وقاص جب 80 سال کی عمر میں فوت ہونے لگے تو انہوں نے کہا کہ مجھے وہ چوغہ لا کر دو جو میں نے بدر کے دن پہنا تھا اور جسے میں نے آج کے دن کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا ہے.یہ وہی سعد تھے جو بدر کے زمانہ میں بالکل نوجوان تھے اور جن کے ہاتھ پر بعد میں ایران فتح ہوا اور جو کو فہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر ان کی نظر میں یہ تمام عزتیں اور فخر جنگ بدر میں شرکت کے عزت و فخر کے مقابلے میں بالکل پیچ تھیں اور جنگ بدر والے دن کے لباس کو وہ اپنے واسطے سب خلعتوں سے بڑھ کر خلعت سمجھتے تھے اور ان کی آخری خواہش یہی تھی کہ اسی لباس میں لپیٹ کر ان کو قبر میں اتارا جاوے.“ 1047 پہلے روایت آچکی ہے کہ آپ نے قصر سعد بنایا تھا تو اس کے تعمیر ہونے پر کسی کے دل میں کوئی خیال بھی ہو ، سوال اٹھتا ہو تو یہی اس کا جواب ہے کہ انہوں نے آخر میں گوشہ نشینی اختیار کی اور پھر جس چیز کو پسند کیا وہ بدر کی جنگ میں پہنا ہو لباس تھا اور اس سے پہلے بھی ان کی جو گوشہ نشینی کی حالت تھی وہی ان کی عاجزی اور سادگی کی دلیل ہے.شادی اور اولاد حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ جب میں غزوہ بدر میں شامل ہوا تھا تو اس وقت میری صرف ایک بیٹی تھی.دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حجتہ الوداع کے موقعے پر بھی آپ کی ایک ہی بیٹی تھی.پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ میری اولاد بہت زیادہ ہو گئی.حضرت سعد نے مختلف اوقات میں نو شادیاں کیں اور ان سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چونیتس بچوں سے نوازا جن میں سترہ لڑکے اور سترہ لڑکیاں تھیں.1048

Page 459

443 132 صحاب بدر جلد 4 حضرت سعد بن خوله حضرت سعد بن خولہ ایک صحابی تھے اور بعض کے نزدیک آپ ابن ابی رُهم بن عبدالعزی عامری کے آزاد کردہ غلام تھے.آپ اسلام لائے اور سابقین میں آپ کا شمار ہو تا ہے.حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے آپ حبشہ کی طرف دوسری مرتبہ ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے.حضرت سعد بن خولہ نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو آپ نے حضرت كلتوم بن ھدم کے ہاں قیام کیا.ابن اسحاق موسیٰ بن عقبہ نے آپ کا ذکر اہل بدر میں کیا ہے.حضرت سعد بن خولہ جب غزوہ بدر میں شامل ہوئے تو اس وقت آپ کی عمر 25 برس تھی.آپ غزوہ احد، غزوہ خندق اور صلح حدیبیہ میں شامل تھے.حضرت سعد حضرت شبیعہ اسلمیہ کے شوہر تھے.آپ کی وفات حجتہ الوداع کے موقع پر ہوئی.رض عدت وضع حمل 1049 1050 آپ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد آپ کے بچہ کی پیدائش ہوئی تو آنحضرت صلی لی کر نے آپ کی اہلیہ سے فرمایا کہ تم اب اس پیدائش کے بعد جس سے چاہو نکاح کر سکتی ہو.آپ کے حجتہ الوداع کے موقع پر فوت ہونے کے بارے میں سوائے طبری کے کسی نے اختلاف نہیں کیا.ان کے نزدیک ان کی وفات پہلے ہوئی تھی.19 آپ کا تعلق قبیلہ بنو مالک بن حسل بن عامر بن لوئی سے تھا.بعض کے نزدیک آپ بنو عامر کے حلیف تھے.آپ اہل فارس میں سے ہیں جو کہ یمن میں آکر آباد ہوئے.عامر بن سعد اپنے والد سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میری اس بیماری میں عیادت فرمائی جس میں میں موت کے کنارے پر پہنچ گیا تھا.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میری تکلیف جس حد تک پہنچ چکی ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں.میں مالدار ہوں اور میر اوارث سوائے میری اکلوتی بیٹی کے کوئی نہیں ہے.کیا میں دو تہائی مال صدقہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں.وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: کیا میں اس کا نصف صدقہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں.تیسر احصہ کر دو اور تیسر احصہ بھی بہت ہے.پھر فرمایا کہ

Page 460

تاب بدر جلد 4 444 تمہارا اپنے وارثوں کو اچھی حالت میں چھوڑنا انہیں محتاج چھوڑنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے جو بھی خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر دیا جائے گا یہاں تک کہ ایک لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو اس کا بھی اجر ہے.وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے چھوڑا جاؤں گا؟ یہاں فوت ہو جاؤں گا میں ؟ آپ نے فرمایا تم پیچھے چھوڑے نہ جاؤ گے مگر جو نیک عمل کرو گے جس کے ذریعہ تم اللہ کی رضا چاہو تو تم اس کے ذریعہ درجہ اور رفعت میں زیادہ ہو گے اور بعید نہیں کہ تم پیچھے چھوڑے جاؤ.یعنی لمبی عمر دیے جاؤ گے یہاں تک کہ قومیں تجھ سے فائدہ اٹھائیں اور کچھ دوسری نقصان بھی اٹھائیں.پھر فرمایا کہ اے اللہ ! میرے اصحاب کی ہجرت پوری فرما اور انہیں ان کی ایڑھیوں کے بل نہ لوٹانا.لیکن بیچارہ سعد بن خولہ.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دکھ کا اظہار فرمایا کیونکہ وہ ہجرت کے بعد مکے میں فوت ہو گئے تھے.ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن خولہ کے لیے افسوس کرتے تھے کہ وہ سکے میں مر گئے.یہ اس لیے کہ جس نے مکے سے ہجرت کی اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نا پسند کرتے تھے کہ وہ وہاں واپس آئے یا اس میں حج اور عمرہ ادا کرنے سے زیادہ قیام کرے.اسماعیل بن محمد بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائب بن عمیر القاری کو حکم فرمایا کہ اگر سعد بن خولہ مکہ میں وفات پا جائیں تو انہیں مکے میں دفن نہ کیا جائے.اور ایک روایت کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاص کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 1051 1052 فرمایا کہ اگر یہ مکے میں وفات پا جائیں تو انہیں مکے میں دفن نہ کیا جائے.1053 حضرت سعد بن خولہ جب حجتہ الوداع کے موقع پر فوت ہوئے تو ان کی زوجہ حاملہ تھیں.ان کی وفات پر زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ان کا وضع حمل ہو گیا.بچے کی پیدائش ہونے والی تھی.وفات سے کچھ عرصہ کے بعد بچہ کی پیدائش ہو گئی.روایات میں آتا ہے کہ چھپیں راتوں یا اس سے بھی کم وقت کے بعد وضع حمل ہو گیا.جب وہ نفاس سے فارغ ہو ئیں تو انہوں نے نکاح کا پیغام دینے والوں کے لیے سنگھار کیا.ان کے پاس ابو سنابل بن بتلک جو بنی عبد الدار کے ایک شخص تھے آئے.بغلک نے ان سے کہا کہ کیا بات ہے میں تمہیں بنا سنورا دیکھتا ہوں.شاید تمہارا ارادہ نکاح کرنے کا ہے.اللہ کی قسم ! تم نکاح نہیں کر سکتی جب تک تم پر چار ماہ دس دن نہ گزر جائیں.سییعہ کہتی ہیں جب اس نے مجھ سے یہ کہا تو میں نے شام کے وقت کپڑے پہنے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے اس بارے میں پوچھا.آپ نے مجھے فتویٰ دیا کہ جب میں نے وضع حمل کیا تو حلال ہو گئی اور مجھے ارشاد فرمایا کہ اگر میں چاہوں تو شادی کر سکتی ہوں.1054 بعض مسائل کا بھی ان سے پتا لگ جاتا ہے.1055

Page 461

445 133 صحاب بدر جلد 4 نام و نسب حضرت سعد بن خَيْقيه پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت سعد بن خَيْقمه " حضرت سعد بن خَيقيه شما تعلق قبیلہ اوس سے تھا.آپ کی والدہ کا نام ھند بنتِ آؤس تھا.حضرت ابو ضَيَّاح نُعْمان بن ثابت جو کہ بدری صحابی ہیں والدہ کی طرف سے آپ کے بھائی تھے.آپ کی کنیت ابوحیقمه اور ابو عبد اللہ بیان کی جاتی ہے.آنحضرت صلی علیم نے حضرت سعد بن خَيْقته "کے اور حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی.بارہ نقیبوں میں سے ایک حضرت سعد ان بارہ نقباء میں سے یعنی نقیبوں میں سے تھے جنہیں آنحضرت صلی الم نے بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر مدینہ کے مسلمانوں کا نقیب مقرر فرمایا تھا.1056 بیعت عقبہ ثانیہ بارہ نقیب کس طرح مقرر ہوئے اس کی کچھ تفصیل اور نقیبوں کے نام اور کام کے بارے میں بھی بتاتا ہوں جو سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ 13 نبوی کے ماہ ذی الحجہ میں حج کے موقع پر اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکہ میں آئے.ان میں سے ستر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے یا اب مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت علی علیکم سے ملنے کے لیے مکہ آئے تھے.مُضعَب بن عمیر بھی ان کے ساتھ تھے.مُضعَب کی ماں زندہ تھی اور گو مشرکہ تھی مگر ان سے بہت محبت کرتی تھی.جب اسے ان کے آنے کی خبر ملی تو اس نے ان کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ سے آکر مل جاؤ پھر کہیں دوسری جگہ جانا.مُصْعَب " نے جواب دیا کہ میں ابھی تک رسول اللہ علی الی و کم سے نہیں ملا.آپ سے مل کر ، آنحضرت علیم سے مل کر پھر آپ کے پاس آؤں گا.چنانچہ وہ آنحضرت علی ایم کے پاس حاضر ہوئے آپ سے مل کر اور ضروری حالات عرض کر کے پھر اپنی ماں کے پاس گئے.وہ بہت جلی بھنی بیٹھی تھی.ان کو دیکھ کر بہت روئی اور بڑا شکوہ کیا.مُضعَب نے کہاماں میں تم سے ایک بڑی اچھی بات کہتا ہوں جو تمہارے واسطے بہت مفید ہے اور سارے جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے.اس نے کہا وہ کیا ہے ؟ مصعب نے آہستہ سے جواب دیا کہ بس یہی کہ بت پرستی ترک کر کے مسلمان ہو جاؤ اور آنحضرت صلی علی کم ایمان لے آؤ.وہ پکی مشرکہ تھی سنتے ہی شور مچادیا کہ مجھے ستاروں کی قسم ہے

Page 462

تاب بدر جلد 4 446 میں تمہارے دین میں کبھی داخل نہیں ہوں گی اور اپنے رشتہ داروں کو اشارہ کیا کہ مصعب کو پکڑ کر قید کرلیں مگر وہ بھاگ گئے.بہر حال آنحضرت صلی للی و کم کم مصعب " سے انصار کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی اور ان میں سے بعض لوگ آپ سے انفرادی طور پر ملاقات بھی کر چکے تھے مگر چونکہ اس موقع پر ایک اجتماعی اور خلوت کی ملاقات کی ضرورت تھی یعنی علیحدہ ملاقات ہونی چاہیے تھے اس لیے مراسم حج کے بعد ماہ ذی الحجہ کی وسطی تاریخ مقرر کی گئی کہ اس دن نصف شب کے قریب یہ سب لوگ گزشتہ سال والی گھاٹی میں آپ صلی للہ ہم کو آکر ملیں تاکہ اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ میں بات چیت ہو سکے اور آپ صلی علیم نے انصار کو تاکید فرمائی کہ اکٹھے نہ آئیں بلکہ ایک ایک دو دو کر کے آئیں دشمن کی نظر پڑ سکتی ہے اور وقت مقررہ پر گھائی میں پہنچ جائیں اور اگر کوئی سویا ہوا ہے تو سوتے کو نہ جگائیں اور غیر حاضر کا انتظار نہ کریں.چنانچہ جب مقررہ تاریخ آئی تو رات کے وقت جبکہ ایک تہائی رات جاچکی تھی آنحضرت صلی الم اکیلے گھر سے نکلے اور راستے میں اپنے چچا عباس کو ساتھ لیا جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، مشرک تھے مگر آپ سے محبت رکھتے تھے اور خاندان باشم کے رئیس تھے.اور پھر دونوں مل کر اس گھائی میں پہنچے.ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ انصار بھی ایک ایک دو دو کر کے آپہنچے.یہ ستر اشخاص تھے اور اوس اور خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے.سب سے پہلے عباس نے گفتگو شروع کی یعنی حضرت عباس جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے کہ اے خزرج کے گروہ ! محمد صلی تمیم اپنے خاندان میں ایک معزز اور محبوب ہے اور خاندان آج تک اس کی حفاظت کا ضامن رہا ہے اور ہر خطرے کے وقت میں اس کے لیے سینہ سپر ہوا ہے.ہے مگر اب محمد کا ارادہ اپنا وطن چھوڑ کر تمہارے پاس چلے جانے کا ہے.سو اگر تم اسے اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں اس کی ہر طرح حفاظت کرنی ہو گی اور ہر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونا پڑے گا.اگر تم اس کے لیے تیار ہو تو بہتر ورنہ ابھی سے صاف صاف جواب دے دو کیونکہ صاف صاف بات اچھی ہوتی ہے.براء بن مغرُور جو انصار کے قبیلے کے ایک معمر اور با اثر بزرگ تھے انہوں نے کہا کہ عباس ہم نے تمہاری بات سن لی ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم خود بھی اپنی زبان مبارک سے کچھ فرما دیں اور جو ذمہ داری ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ بیان فرمائیں.اس پر آنحضرت صلی علیم نے قرآن شریف کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور پھر ایک مختصر سی تقریر میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ بھی معاملہ کرو.جب آپ صلی علیکم تقریر ختم کر چکے براء بن مغرور نے عرب کے دستور کے مطابق آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نے کر کہا یا رسول اللہ ! ہمیں اس خدا کی قسم ہے جس نے آپ کو حق اور صداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ ہم اپنی جانوں کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے.ہم لوگ تلواروں کے سائے میں پہلے ہیں اور بات یہ کہہ ہی رہے تھے ، ابھی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ ابو الْهَيْقَمُ بن تَيْهَان ایک اور شخص وہاں بیٹھا تھا، اس نے ان کی بات کاٹ کر کہا کہ یا رسول اللہ ! ( یہ بھی مسلمان ہو گئے تھے ) یثرب کے یہود کے ساتھ ہمارے رض

Page 463

اصحاب بدر جلد 4 447 دیرینہ تعلقات ہیں، پرانے تعلقات ہیں، آپ کا ساتھ دینے سے وہ منقطع ہو جائیں گے.ایسا نہ ہو کہ جب اللہ تعالیٰ آپ کو غلبہ دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن میں واپس تشریف لے آئیں اور ہم نہ ادھر کے رہیں اور نہ ادھر کے رہیں.آپ مسلیم نے ہنس کر فرمایا کہ نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو گا.تمہارا خون میرا خون ہو گا.تمہارے دوست میرے دوست اور تمہارے دشمن میرے دشمن.اس پر عباس بن عُبَادَہ انصاری نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈال کر کہا کہ لوگو! کیا تم سمجھتے ہو کہ اس عہد و پیمان کے کیا معنی ہیں؟ اس کا یہ مطلب یہ کہ تمہیں ہر اسود و احمر، ہر کالے گورے کے مقابلے کے لیے تیار ہونا چاہیے.ہر شخص کو جو آنحضرت صلی للی کم کی مخالفت کرے گا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمہیں تیار ہونا پڑے گا اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہنا چاہیے.لوگوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں مگر یار سول اللہ ! اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملے گا؟ پھر ان لوگوں نے آنحضرت صلی علیہ کم سے پوچھا کہ ہم تو یہ سب کچھ کریں گے ہمیں کیا ملے گا؟ ملی ایم نے فرمایا تمہیں خدا کی جنت ملے گی جو اس کے سارے انعاموں میں سے بڑا انعام ہے.سب نے کہا ہمیں یہ سودا منظور ہے یار سول اللہ ! آپ اپنا ہاتھ آگے کریں.آپ نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا اور یہ ستر جاشاروں کی جماعت ایک دفاعی معاہدے میں آپ کے ہاتھ پر بک گئی.اس بیعت کا نام بیعت عقبہ ثانیہ ہے.بارہ نقیبوں کا تقرر جب بیعت ہو چکی تو آپ صلی للی کم نے ان سے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم میں سے بارہ نقیب چنے تھے جو موسیٰ کی طرف سے ان کے نگران اور محافظ تھے.میں بھی تم میں سے بارہ نقیب مقرر کرنا چاہتا ہوں جو تمہارے نگران اور محافظ ہوں گے اور وہ میرے لیے عیسی کے حواریوں کی طرح ہوں گے اور میرے سامنے اپنی قوم کے متعلق جوابدہ ہوں گے.پس تم مناسب لوگوں کے نام تجویز کر کے میرے سامنے پیش کرو.چنانچہ بارہ آدمی تجویز کیے گئے جنہیں آپ نے منظور فرمایا اور انہیں ایک ایک قبیلے کا نگران مقرر کر کے ان کے فرائض سمجھا دیے اور بعض قبائل کے لیے آپ نے دو دو نقیب مقرر فرمائے.بہر حال ان بارہ نقیبوں کے نام یہ ہیں: اسْعَدُ بن زُرَارة - أسيد بن الْحُضَير - ابو الهَيْثَم مالك بن تَيْهَان.سعد بن عُبادہ.بَراء بن مَغرُور - عبد الله بن رواحه - عُبادہ بن صامت - سعد بن ربیع رافع بن مالک.عبد اللہ بن عمر و اور سعد بن خَيْثَمَه ( جن کا ذکر چل رہا ہے.یہ سعد بن خَیمہ بھی ان نقیبوں میں سے ایک نقیب تھے) اور مُنْذِرُ بن عمرو - 1057 نا الرس ہجرت مدینہ کے وقت قبا میں آنحضرت صلی علیہ ہم نے حضرت کلثوم بن العِلم کے گھر قیام فرمایا.اس ضمن میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ صلی ا لم نے حضرت سعد بن خنیقمہ کے گھر قیام فرمایا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیام آنحضرت صلی علیہم کا حضرت لقوم بن الھم کے گھر ہی تھا لیکن جب آپ ان کے گھر

Page 464

تاب بدر جلد 4 448 سے نکل کر لو گوں میں بیٹھتے تھے تو وہ سعد بن خیثمہ کے گھر تشریف فرما ہوا کرتے تھے.1058 مدینہ میں پہلا جمعہ بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد جب آنحضرت صلی علیم نے حضرت مصعب بن عمیر کو مدینہ کے مسلمانوں کی تربیت کے لیے بھجوایا تو کچھ عرصہ بعد انہوں نے آپ سے نماز جمعہ کی اجازت چاہی.اس پر آپ نے انہیں اجازت دی اور جمعہ کے متعلق ہدایت فرمائی.چنانچہ ان ہدایات کے ماتحت مدینہ میں جو پہلا جمعہ ادا کیا گیا وہ حضرت سعد بن خَيْثَمَہ کے گھر ادا کیا گیا.یہ حوالہ الطبقات الکبریٰ کا ہے.1059 العرس : وہ کنواں جس کا پانی آنحضور ملی ﷺ کو بہت پسند تھا فرمایا جب میرا انتقال ہو جائے تو اس کے پانی سے مجھے غسل دیا جائے.حضرت سعد بن خَیمہ کا قبا میں ایک کنواں تھا جسے الغرس کہا جاتا تھا آنحضرت صلی ای ام اس سے پانی پیا کرتے تھے.رسول اللہ صلی علیم نے اس کنویں کے بارے میں فرمایا کہ یہ جنت کے چشموں میں سے ہے اور اس کا پانی بہترین ہے.یعنی بہت اچھا میٹھا ٹھنڈا پانی تھا.آنحضرت صلی یکم کی وفات کے بعد آپ کو اسی کنویں کے پانی سے غسل دیا گیا.حضرت علی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ جب میر انتقال ہو جائے تو بِشُرِ غَرُس سے سات مشکیزے لا کر اس کے پانی سے مجھے غسل دینا.ابو جعفر محمد بن علی روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم کو تین مرتبہ غسل دیا گیا.آپ کو پانی اور بیری کے پتوں سے قمیض میں ہی غسل دیا گیا.یعنی قمیض نہیں اتاری گئی تھی.حضرت علی، حضرت عباس اور حضرت فضل نے آپ کو غسل دیا اور ایک روایت کے مطابق حضرت اسامہ بن زید حضرت شقران اور حضرت اوس بن خولی بھی آنحضرت صلی ایم کو غسل دینے میں شریک تھے.1060 مہاجرین کے اولین میزبان قریش کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت کرنے والے بہت سے مسلمانوں کی پہلی منزل عموماً حضرت سعد بن خيفته کا گھرا ہوا کرتی تھی.جو لوگ بھی ہجرت کر کے آتے تھے وہ حضرت سعد بن خَيْه کے گھر ٹھہرا کرتے تھے.مثلاً حضرت حمزہ.ان میں سے بعض لوگوں کے نام جو ملتے ہیں وہ یہ ہیں: حضرت حمزہ، حضرت زید بن حارثہ ، حضرت ابو کبشہ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جو غلام تھے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ وغیرہ.جب انہوں نے ہجرت کی تو حضرت سعد بن خَيْقيه کے گھر ٹھہرے.1061

Page 465

اصحاب بدر جلد 4 449 بدر کے لئے باپ بیٹے کا جوش و خروش اور قرعہ ڈالنا سلیمان بن ابان روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی علی کیم بدر کے لیے نکلے تو حضرت سعد بن خَيْقمه " اور آپ کے والد دونوں نے آپ کے ساتھ جانے کا ارادہ کیا اور نبی صلی علیکم کے سامنے یہ بات عرض کی گئی کہ دونوں باپ بیٹا گھر سے نکل رہے ہیں.اس پر آپ نے ہدایت فرمائی کہ ان دونوں میں سے صرف ایک جاسکتا ہے.وہ دونوں قرعہ اندازی کر لیں.حضرت خَيْقمه " نے اپنے بیٹے سعد سے کہا کہ ہم میں سے ایک ہی جا سکتا ہے.تم ایسا کرو کہ عورتوں کے پاس وہاں نگرانی کے لیے، حفاظت کے لیے رک جاؤ.حضرت سعد نے کہا اگر جنت کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہو تاتو میں ضرور آپ کو ترجیح دیتا لیکن میں خود شہادت کا طلبگار ہوں.اس پر دونوں نے قرعہ اندازی کی تو قرعہ حضرت سعد کے نام نکلا.آپ رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ بدر کے لیے نکلے اور جنگ بدر میں شہید ہو گئے.2 آپ کو عمر و بن عبدود نے شہید کیا اور ایک قول کے مطابق طعیمہ بن عدی نے آپ کو شہید کیا تھا.طعیمہ کو حضرت حمزہ نے جنگ بدر میں اور عمر و بن عبدود کو حضرت علی نے جنگ خندق میں قتل کیا تھا.1063 حضرت سعد کی شہادت اور قاتل کا واصل جہنم ہونا 1062 حضرت علی فرماتے ہیں کہ بدر کے روز جب دن چڑھ گیا اور مسلمانوں اور (ایک روایت یہ ہے) مسلمانوں اور کفار کی صفیں باہم مل گئیں یعنی جنگ شروع ہو گئی تو میں ایک آدمی کے تعاقب میں نکلا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ریت کے ٹیلے پر حضرت سعد بن خَيْشَہ ایک مشرک سے لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ اس مشرک نے حضرت سعد کو شہید کر دیا.وہ مشرک لوہے کی زرہ میں ملبوس گھوڑے پر سوار تھا پھر وہ گھوڑے سے نیچے اترا.اس نے مجھے پہچان لیا تھا لیکن میں اسے نہ پہچان سکا.اس نے مجھے لڑائی کے لیے للکارا.میں اس کی طرف بڑھا.جب وہ آگے بڑھ کر مجھ پر حملہ کرنے لگا تو میں نیچے کو پیچھے ہٹا تا کہ بلندی سے میرے قریب آجائے.زیادہ اونچا نہ ہو.لڑائی کا اصول ہے ، نیچے آئے اور قریب آجائے کیونکہ مجھے یہ ناگوار گزرا کہ وہ بلندی سے مجھ پر تلوار سے وار کرے.جب میں اس طرح ایک قدم پیچھے ہٹ رہا تھا تب وہ بولا کہ اے ابن ابی طالب ! کیا بھاگ رہے ہو ؟ تو میں نے اسے کہا کہ قَرِيبٌ مَفَرُّ ابنِ الشَّتَرَاء کہ نے الشقراء کے بیٹے کا بھاگ جانا قریب ہے یعنی کہ نا ممکن ہے.یہ عربوں میں ایک محاورہ بن گیا تھا کیونکہ کہتے ہیں.تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک ڈاکو تھا جو لو گوں کو لوٹنے کے لیے آتا تھا.لوگ اس پر حملے کرتے تو بھاگ جاتا لیکن اس کا بھا گنا عارضی ہوتا تھا.پھر ہو جلدی موقع یا کر دوبارہ حملہ کر دیتا تھا.پس یہ بطور ضرب المثل استعمال ہونے لگا تھا کہ داؤ پیچ کے لیے پیچھے ہٹو اور پھر حملہ کرو.حضرت علی کہتے ہیں کہ جب میرے قدم جم گئے اور وہ بھی میرے قریب پہنچ گیا تو اس نے اپنی تلوار سے مجھ پر حملہ کیا جسے میں نے اپنی ڈھال پر لیا اور اس کے کندھے پر اس زور سے وار کیا کہ میری تلوار اس کی زرہ کو چیرتی ہوئی نکل گئی.مجھے یقین تھا

Page 466

ب بدر جلد 4 450 کہ میری تلوار اس کا خاتمہ کر دے گی کہ اپنے پیچھے سے مجھے تلوار کی چمک محسوس ہوئی.کہتے ہیں دوسرا وار بھی کرنا تھا کہ اتنے میں مجھے پیچھے سے تلوار کی چمک محسوس ہوئی.میں نے اپنا سر فوار انیچے کر لیا کہ پیچھے سے کوئی تلوار آرہی ہے اور وہ تلوار اس زور سے دشمن پر پڑی کہ اس کا سر مع خُود کے تن سے جدا ہو گیا.حضرت علی کہتے ہیں کہ جب میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت حمزہ تھے.وہ اس کو کہہ رہے تھے کہ میرے وار کو سنبھالو کہ میں ابن عبد المطلب ہوں.1064 جنگ بدر میں مسلمانوں کے پاس کتنے اونٹ اور گھوڑے تھے اس روایت سے کہتے ہیں ناں کہ فلاں نے فلاں کو قتل کیا تو یہی لگتا ہے کہ طعیمہ بن عدی نے حضرت سعد کو شہید کیا تھا اور پھر وہ وہیں مارا گیا.ایک روایت کے مطابق جنگ بدر میں رسول اللہ صلی للی کی کے ساتھ دو گھوڑے تھے.ایک گھوڑے پر حضرت مصعب بن عمیر اور دوسرے پر حضرت سعد بن خَيْقه سوار تھے.حضرت زبیر بن العوام اور حضرت مقداد بن اسود بھی باری باری ان پر سوار ہوئے.1065 جنگ بدر میں مسلمانوں کے پاس کتنے گھوڑے تھے اس کے متعلق تاریخوں میں مختلف روایات ملتی ہیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا خیال ہے کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کے پاس ستر اونٹ اور دو 1066 گھوڑے تھے.لیکن یہ بھی بعض دوسری کتابوں میں لکھا ہے کہ گھوڑوں کی تعداد تین اور پانچ بھی بیان ہوئی ہے.1067 بہر حال جو بھی ساز و سامان اور گھوڑے اور اونٹ تھے یا ان کی تعداد تھی اس کی کافروں کے ساز و سامان کے ساتھ اور گھوڑوں کی تعداد سے تو کوئی نسبت ہی نہیں تھی.لیکن جب مسلمانوں پر حملہ ہوا، جنگ ٹھونسی گئی اور کافر اپنے زعم میں اس لیے آئے کہ اب اسلام کو ختم کر دیں گے تو پھر ان مومنین نے اپنے سامان کی طرف نہیں دیکھا، گھوڑوں کی طرف نہیں دیکھا بلکہ خدا تعالیٰ کی خاطر ایک قربانی کرنے کی تڑپ تھی جیسا کہ ان کے جواب سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ یہاں کسی اور دنیاوی چیز کی خواہش کا سوال نہیں ہے یہاں تو اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کا سوال ہے.اس لیے بیٹے نے باپ کو کہا کہ میں یہاں تمہیں ترجیح نہیں دے سکتا.بہر حال ایک تڑپ تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور پھر فتح بھی عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ ہر آن ان صحابہ کے درجات بلند فرماتا رہے.18 1068

Page 467

451 134) صحاب بدر جلد 4 حضرت سعد بن ربیع جن کے بارہ میں رسول ملالی نے فرمایا: ”اللہ تعالی اس پر رحم فرمائے.وہ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کا خیر خواہ رہا.“ نام و نسب حضرت سعد بن ربیع کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو حارث سے تھا.آپ کے والد کا نام ربیع بن عمر و اور والدہ کا نام هُزَيْله بنتِ عِنَبَہ تھا.حضرت سعد کی دو بیویاں تھیں ایک کا نام عمرہ بنت حزم اور دوسری کا نام حبیبہ بنت زید تھا.حضرت سعد بن ربیع کی دو بیٹیاں تھیں.ایک بیٹی اتم سعد تھیں ایک جگہ انہیں اُمّد سعید بھی لکھا گیا ہے ان کا اصل نام جمیلہ تھا.1069 بیعت عقبہ اولیٰ و ثانیہ میں شامل حضرت سعد بن ربیع زمانہ جاہلیت میں بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے جبکہ بہت کم لوگ یہ جانتے تھے.حضرت سعد قبیلہ بنو حارث کے نقیب تھے.ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن رواحہ بھی اسی قبیلہ کے نقیب تھے.حضرت سعد بیعت عقبہ اولیٰ اور عقبہ ثانیہ میں شامل تھے.مہاجر بھائی کے لئے تاریخی اور قابل رشک ایثار 1070 ہجرت مدینہ کے وقت آنحضور صلی ا لم نے حضرت سعد اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کے در میان مواخات قائم فرمائی.صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ جب ہم مدینہ میں آئے تو رسول اللہ صلی علیم نے مجھے اور سعد بن ربیع کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا.تو سعد بن ربیع نے کہا میں انصار میں سے زیادہ مالدار ہوں.سو میں تقسیم کر کے نصف مال آپ کو دے دیتا ہوں اور میری دو بیویوں میں سے جو آپ پسند کریں میں آپ کے لیے اس سے دستبردار ہو جاؤں گا.جب اس کی عدت گزر جائے تو اس سے آپ نکاح کر لیں.یہ سن کر حضرت عبد الرحمن نے حضرت سعد سے کہا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں.تم صرف یہ بتاؤ یہاں کوئی بازار ہے جس میں تجارت ہوتی ہو ؟ حضرت سعد نے بتایا کہ قینقاع کا بازار ہے.حضرت عبد الرحمن یہ معلوم کر کے صبح سویرے وہاں گئے اور پنیر اور کبھی لے آئے.پھر اسی طرح ہر صبح وہاں بازار میں جاتے رہے.ابھی کچھ عرصہ نہ گزرا تھا کہ حضرت عبد الرحمن آئے اور ان پر زعفران کا نشان تھا تو رسول اللہ صلی علیکم نے پوچھا کیا وجہ ہے؟

Page 468

بدر جلد 4 452 آنحضرت صلی ال یکم کی خدمت میں جب حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی علیہ سلم کو نہیں پتا تھا کہ ان کی شادی ہو گئی ہے.زعفران کا نشان ڈالتے تھے تو مطلب تھا کہ شادی ہو گئی ہے.بہر حال آنحضرت صلی علیہ ہم نے پوچھا کہ کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ عرض کیا جی ہاں.آپ صلی میں ہم نے فرمایا کس سے ؟ انہوں نے کہا کہ انصار کی ایک عورت سے تو آپ نے فرمایا کتنا مہر دیا ہے.تو انہوں نے عرض کیا کہ ایک گٹھلی کے برابر سونا یا کہا سونے کی گٹھلی.نبی صلی علیم نے فرمایا کہ ولیمہ کرو خواہ ایک بکری کا ہی سہی.ان کی حیثیت کے مطابق ان کو ولیمہ کی دعوت کی طرف توجہ دلائی.شہادت اور جذبہ عشق و وفا میں ڈوبا ہوا ایک پیغام 1071 حضرت سعد بن ربیع غزوہ بدر و اُحد میں شامل ہوئے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے.غزوہ احد کے روز رسول اللہ صلی صل الکریم نے فرمایا میرے پاس سعد بن ربیع کی خبر کون لائے گا؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ میں.چنانچہ وہ مقتولین میں جاکر تلاش کرنے لگے.حضرت سعد نے اس شخص کو دیکھ کر کہا تمہارا کیا حال ہے.اس نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی العلیم نے بھیجا ہے تاکہ میں آپ صلی اللی کم کے پاس تمہاری خبر لے کے جاؤں تو حضرت سعد نے کہا کہ آنحضور صلی یک کم کی خدمت میں میر اسلام عرض کرنا اور آپ صلی لینک کو یہ خبر دینا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم آئے ہیں اور میرے سے لڑنے والے دوزخ میں پہنچ گئے ہیں یعنی جس نے بھی میرے سے لڑائی کی اس کو میں نے مار دیا ہے اور میری قوم کو یہ کہنا کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی عذر نہیں ہو گا اگر رسول اللہ صلی للی یکم شہید ہو جائیں اور تم لوگوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہا.بیان کیا جاتا ہے کہ جو شخص ان کے پاس گیا تھا وہ حضرت ابی بن کعب تھے.حضرت سعد نے حضرت ابی بن کعب سے کہا اپنی قوم سے کہنا کہ تم سے سعد بن ربیع کہتا ہے کہ اللہ سے ڈرو اور ایک اور روایت بھی ہے کہ اور جو عہد تم لوگوں نے عقبہ کی رات رسول اللہ صلی علیم سے کیا تھا اس کو یاد کرو.اللہ کی قسم ! اللہ کے حضور تمہارے لیے کوئی عذر نہ ہو گا اگر کفار تمہارے نبی صلی اہل علم کی طرف پہنچ گئے اور تم میں سے کوئی ایک آنکھ المدرسة حرکت کر رہی ہو یعنی کوئی شخص بھی زندہ باقی رہے تو اللہ کے نزدیک یہ کوئی عذر نہیں ہو گا.حضرت ابی بن کعب بیان کرتے ہیں کہ میں ابھی وہیں تھا یعنی حضرت سعد کے پاس ہی تھے تو حضرت سعد بن ربیع کی وفات ہو گئی.اس وقت وہ زخموں سے چور تھے.میں رسول اللہ صلی علی کم کی خدمت میں واپس حاضر ہوا اور آپ کو سب بتادیا کہ یہ گفتگو ہوئی تھی.یہ ان کی حالت ہے اور اس طرح شہید ہو گئے.اس پر آپ میلی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے.وہ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کا خیر خواہ رہا.حضرت سعد بن ربیع اور حضرت خارجہ بن زید کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا.172 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت سعد کی شہادت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس طرح تحریر فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیکم بھی میدان میں اتر آئے ہوئے تھے اور شہداء کی نعشوں کی

Page 469

ب بدر جلد 4 453 دیکھ بھال شروع تھی.جو نظارہ اس وقت، یعنی جب جنگ ختم ہو گئی، مسلمانوں کے سامنے تھاوہ خون کے آنسو رلانے والا تھا.آنحضرت صلی اللہ ہم زخمی بھی تھے لیکن آپ پھر بھی میدان میں آگئے.شہداء کی نعشوں کی دیکھ بھال شروع ہوئی، کس طرح تدفین کرنی ہے.زخمیوں کو سنبھالنے کی طرف توجہ ہوئی تو بہر حال اس وقت جو نظارہ مسلمانوں کے سامنے تھا وہ ایسا خوفناک تھا کہ کہتے ہیں کہ خون کے آنسو رلانے والا تھا.ستر مسلمان خاک و خون میں لتھڑے ہوئے میدان میں پڑے تھے اور عرب کی وحشیانہ رسم ممثلہ کا مہیب نظارہ پیش کر رہے تھے.یعنی نہ صرف یہ کہ شہید ہوئے تھے بلکہ ممثلہ کیا گیا تھا.ان کے اعضاء کاٹے گئے تھے.ان کی شکلوں کو بگاڑا گیا تھا.آپ لکھتے ہیں کہ ان مقتولین میں صرف چھ مہاجر تھے اور باقی سب انصار سے تعلق رکھتے تھے.قریش کے مقتولوں کی تعداد تئیس تھی.جب آنحضرت صلی الله علم اپنے چا اور رضاعی بھائی حمزہ بن عبد المطلب کی نعش کے پاس پہنچے تو بے خود سے ہو کر رہ گئے کیونکہ ظالم ہند جو زوجہ ابوسفیان تھی، نے ان کی نعش کو بری طرح بگاڑا ہوا تھا.تھوڑی دیر تک تو آپ خاموشی سے کھڑے رہے اور آپ کے چہرے سے غم و غصہ کے آثار نمایاں تھے.ایک لمحہ کے لیے آپ کی طبیعت اس طرف بھی مائل ہوئی کہ مکہ کے ان وحشی درندوں کے ساتھ جب تک انہی کا سا سلوک نہ کیا جائے گا وہ غالباً ہوش میں نہیں آئیں گے.ان کو سبق نہیں ملے گا مگر آپ اس خیال سے رک گئے اور صبر کیا بلکہ اس کے بعد آپ صلی یہ ہم نے مثلہ کی جو رسم تھی، شکلوں کو بگاڑنے والی رسم، اعضاء کاٹنے والی رسم اس کو اسلام میں ہمیشہ کے لیے ممنوع قرار دے دیا اور فرمایا دشمن خواہ کچھ کرے تم اس قسم کے وحشیانہ طریق سے بہر حال بازر ہو اور نیکی اور احسان کا طریق اختیار کرو.آپ کی پھوپھی صفیہ بنت عبد المطلب اپنے بھائی حمزہ سے بہت محبت رکھتی تھیں.وہ بھی مسلمانوں کی ہزیمت کی خبر سن کر مدینہ سے نکل کے آئیں.آنحضرت صلی الم نے ان کے صاحبزادے زبیر بن العوام سے فرمایا کہ اپنی والدہ کو ماموں کی نعش نہ دکھانا مگر بہن کی محبت کب چین لینے دیتی تھی.بیٹے نے تو کہا کہ حضرت حمزہ کی نعش نہ دیکھیں کیونکہ مثلہ کیا ہوا ہے.چہرہ بگاڑا ہوا ہے.انھوں نے اصرار کے ساتھ کہا کہ مجھے حمزہ کی نعش دکھا دو.میں وعدہ کرتی ہوں کہ صبر کروں گی اور کوئی جزع فزع کا کلمہ منہ سے نہیں نکالوں گی.چنانچہ وہ گئیں اور بھائی کی نعش دیکھ کر إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن پڑھتی ہوئی خاموش ہو گئیں.الله پھر لکھتے ہیں کہ قریش نے دوسرے صحابہ کی نعشوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا تھا.چنانچہ آنحضرت صلی ال نیم کے پھوپھی زاد بھائی عبد اللہ بن بخش کی نعش کو بھی بری طرح بگاڑا گیا تھا.جوں جوں آنحضرت صلی علیم ایک نعش سے ہٹ کر دوسری نعش کی طرف جاتے تھے آپ کے چہرے پر غم والم کے آثار زیادہ ہوتے جاتے تھے.غالباً اسی موقعے پر آپ صلی للی کرم نے فرمایا کہ کوئی جا کر دیکھے کہ سعد بن الربیع رئیس انصار کا کیا حال ہے.آیا وہ زندہ ہیں یا شہید ہو گئے ہیں ؟ کیونکہ میں نے لڑائی کے وقت

Page 470

اصحاب بدر جلد 4 454 دیکھا تھا کہ وہ دشمن کے نیزوں میں بری طرح گھرے ہوئے تھے.آپ کے فرمانے پر ایک انصاری صحابی ابی بن کعب گئے اور میدان میں اِدھر اُدھر سعد کو تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا.آخر انہوں نے اونچی نہ اونچی آواز میں دینی شروع کیں اور سعد کا نام لے لے کر پکارا مگر پھر بھی کوئی سراغ نہ ملا.مایوس ہو کر وہ واپس جانے کو تھے کہ انہیں خیال آیا کہ میں آنحضرت صلی علیہ نیم کا نام لے کر تو پکار وں شاید اس طرح پتہ چل جاوے.پہلے تو خالی نام لے کر پکارا پھر کہا کہ آنحضرت صلی علی کم کا نام لے کے اس طرح پکاروں کہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے تمہیں تلاش کرنے کے لیے مجھے بھیجا ہے.چنانچہ انہوں نے بلند آواز سے پکار کر کہا کہ سعد بن ربیع کہاں ہیں ؟ مجھے رسول اللہ نے ان کی طرف بھیجا ہے.اس آواز نے سعد کے نیم مردہ جسم میں ایک بجلی کی لہر دوڑا دی.لاشوں کے بیچ میں نیم مردہ پڑے ہوئے تھے.آنحضرت صلی علیہم کا نام سنا تو ایک دم جسم میں جنبش پید اہوئی اور انہوں نے چونک کر مگر نہایت دھیمی آواز میں جواب دیا.کون ہے ؟ میں یہاں ہوں.ابی بن کعب نے غور سے دیکھا تو تھوڑے فاصلہ پر مقتولین کے ایک ڈھیر میں سعد کو پایا جو اس وقت نزع کی حالت میں جان توڑ رہے تھے.ابی بن کعب نے ان سے کہا کہ مجھے آنحضرت صلی لی ہم نے اس لیے بھیجا ہے کہ تمہاری حالت سے آپ کو اطلاع دوں.سعد نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی ا یکم سے میر اسلام عرض کرنا اور کہنا کہ خدا کے رسولوں کو اُن کے متبعین کی قربانی اور اخلاص کی وجہ سے جو ثواب ملا کرتا ہے خدا آپ کو وہ ثواب سارے نبیوں سے بڑھ چڑھ کر عطا فرمائے اور آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے اور میرے بھائی مسلمانوں کو بھی میر اسلام پہنچانا اور میری قوم سے کہنا کہ اگر تم میں زندگی کا دم ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی ال ولم کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو خدا کے سامنے تمہارا کوئی عذر نہیں ہو گا.یہ کہہ کر سعد نے جان دے دی.حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس واقعہ کا ذکر اپنے الفاظ میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ 1073 ” جنگ احد کا ایک واقعہ ہے.جنگ کے بعد آنحضرت صلی علی رام نے حضرت ابی ابن کعب کو فرمایا کہ جاؤ اور زخمیوں کو دیکھو.وہ دیکھتے ہوئے حضرت سعد بن ربیع کے پاس پہنچے جو سخت زخمی تھے اور آخری سانس لے رہے تھے.انہوں نے ان سے کہا کہ اپنے متعلقین اور اعزاء“ عزیزوں کو اگر کوئی پیغام دینا ہو تو مجھے دے دیں.حضرت سعد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں منتظر ہی تھا کہ کوئی مسلمان ادھر آئے تو پیغام دوں.تم میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وعدہ کرو کہ میرا پیغام ضرور پہنچا دو گے اور اس کے بعد انہوں نے جو پیغام دیاوہ یہ تھا کہ میرے بھائی مسلمانوں کو میر اسلام پہنچا دینا اور میری قوم اور میرے رشتہ داروں سے کہنا کہ رسول کریم ملی لی نام ہمارے پاس خدا تعالیٰ کی ایک بہترین امانت ہیں اور ہم اپنی جانوں سے اس امانت کی حفاظت کرتے رہے ہیں.اب ہم جاتے ہیں.“ ہم تو جارہے ہیں.اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں.”اور اس امانت کی حفاظت تمہارے سپرد کرتے ہیں.ایسانہ ہو کہ تم اس کی حفاظت میں کمزوری دکھاؤ.“ حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”دیکھو ایسے وقت میں جب

Page 471

اصحاب بدر جلد 4 455 انسان سمجھتا ہو کہ میں مر رہا ہوں کیا کیا خیالات اس کے دل میں آتے ہیں.وہ سوچتا ہے میری بیوی کا کیا حال ہو گا.میرے بچوں کو کون پوچھے گا.مگر اس صحابی نے کوئی ایسا پیغام نہ دیا.صرف یہی کہا کہ ہم آنحضرت صلی ایم کی حفاظت کرتے ہوئے اس دنیا سے جاتے ہیں تم بھی اسی راستہ سے ہمارے پیچھے آ جاؤ.“ سب سے بڑا کام یہی ہے کہ آنحضرت صلی علیکم کی حفاظت کرنی ہے.لکھتے ہیں کہ ”ان لوگوں کے اندر یہی ایمان کی قوت تھی جس سے انہوں نے دنیا کو تہ و بالا کر دیا اور قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کے تختے الٹ دیے.قیصر روم حیران تھا کہ یہ کون لوگ ہیں.کسری نے اپنے سپہ سالار کو لکھا کہ اگر تم ان عربوں کو بھی شکست نہیں دے سکتے تو پھر واپس آجاؤ اور گھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھو.“ اس نے اپنے جرنیل کو یہ کہا کہ ” یہ گو ہیں کھانے والے لوگ ہیں ان کو بھی تم نہیں روک سکتے.“بالکل معمولی لوگ ہیں، کھانا بھی ان کو نہیں ملتا.گوہ کھاتے ہیں یہ لوگ.” اس نے جواب دیا یہ تو آدمی معلوم ہی نہیں ہوتے.یہ تو کوئی بلا ہیں.یہ تلواروں اور نیزوں کے اوپر سے کو دتے ہوئے آتے ہیں.1074" ان میں ایسا جوش و جذ بہ ہے.ان کو ہم کس طرح شکست دے سکتے ہیں.حضرت ابو بکڑ نے فرمایا یہ اس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا ایک مرتبہ حضرت سعد بن ربیع کی صاحبزادی ام سعد حضرت ابو بکڑ کے پاس آئیں تو انہوں نے اس کے لیے اپنا کپڑا بچھا دیا حضرت عمر آئے تو انہوں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا یہ اس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا.حضرت عمر نے کہا اے خلیفہ رسول صلی یک وہ کون ہے ؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ وہ شخص جس کی وفات رسول اللہ صلی للی نیلم کے زمانے میں ہوئی اور اس نے جنت میں اپنا ٹھکانا بنالیا جبکہ میں اور تم باقی رہ گئے.وراثت کے احکام کا نزول 1075 حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ آنحضرت صلی علیم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ دونوں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں جو آپ صلی علیہ کم کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہید ہو گئے تھے.اور ان کے چچانے ان دونوں کا مال لے لیا ہے یعنی حضرت سعد کی جائیداد جو تھی ان کے چانے لے لی ہے.انہیں کچھ نہیں ملا اور ان کے لیے مال نہیں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھی نہیں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو.آپ صلی علیہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ فرمائے گا.اس پر میراث کے احکام پر آیت نازل ہوئی.پھر رسول اللہ صلی علیم نے دونوں کے چچا کو بلوایا اور فرمایا کہ سعد کی بیٹیوں کو سعد کے مال الله س مشتمل کا تیسر احصہ دو اور ان دونوں کی والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے.1076 اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اس بارے میں کچھ تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت

Page 472

اصحاب بدر جلد 4 456 خاتم النبیین میں اس طرح لکھی ہے کہ حضرت سعد ایک متمول آدمی تھے.اچھے کھاتے پیتے تھے.اپنے قبیلہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے.ان کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی.صرف دو لڑکیاں تھیں اور بیوی تھی.چونکہ ابھی تک آنحضرت صلی علی کم پر ورثہ کے متعلق کوئی جدید احکام نازل نہیں ہوئے تھے اور صحابہ میں قدیم دستور عرب کے مطابق، عرب کا جو دستور تھا اس کے مطابق ورثہ تقسیم ہوتا تھا.متوفی یعنی فوت ہونے والے کی نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کے جدی اقرباء جو تھے جائیداد پر قابض ہو جاتے تھے اور بیوہ اور لڑکیاں یوں ہی خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں.اس لیے سعد بن ربیع کی شہادت پر ان کے بھائی نے سارے ترکے پر قبضہ کر لیا اور ان کی بیوہ اور لڑکیاں بالکل بے سہارارہ گئیں.اس تکلیف سے پریشان ہو کر سعد کی بیوہ اپنی دونوں لڑکیوں کو ساتھ لے کر آنحضرت صلی علی ظلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ساری سر گزشت سنا کر اپنی پریشانی کا ذکر کیا.آنحضرت صلی الی علم کی فطرت صحیحہ کو اس درد کے قصہ نے ایک ٹھیس لگائی مگر چونکہ ابھی تک اس معاملہ میں خدا کی طرف سے آپ پر کوئی احکام نازل نہیں ہوئے تھے آپ نے فرمایا تم انتظار کرو.پھر جو احکام خدا کی طرف سے نازل ہوں گے ان کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا.چنانچہ آپ صلی لی یم نے اس بارہ میں توجہ فرمائی اور ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ آپ پر ورثہ کے معاملہ میں بعض وہ آیات نازل ہوئیں جو قرآن شریف کی سورۃ النساء میں بیان ہوئی ہیں.اس پر آپ نے سعد کے بھائی کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ سعد کے ترکہ میں سے دو ثلث ان کی لڑکیوں اور ایک تمن اپنی بھا وجہ کے سپر د کر دو اور جو باقی بچے وہ خود لے لو.اس وقت سے تقسیم ورثہ کے متعلق جدید احکام کی ابتدا قائم ہو گئی جس کی رو سے بیوی اپنے صاحب اولاد خاوند کے ترکہ میں آٹھویں حصہ کی اور بے اولا د خاوند کے ترکہ میں چہارم حصہ کی اور لڑکیاں اپنے باپ کے ترکہ میں اپنے بھائی کے حصہ کی نسبت نصف حصہ کی اور اگر بھائی نہ ہو تو سارے ترکہ میں سے حالات کے اختلاف کے ساتھ دو ثلث یا نصف کی ( تین چوتھائی یا نصف کی دو تہائی یا نصف کی ) اور ماں اپنے صاحب اولاد لڑکے کے ترکہ میں چھٹے حصہ کی اور بے اولاد لڑکے کے ترکہ میں تیسرے حصہ کی حق دار قرار دی گئی اور اسی طرح دوسرے ورثاء کے حصے مقرر ہو گئے.اور عورت کا وہ فطری حق جو اس سے چھینا جا چکا تھا اسے واپس مل گیا.عورتوں کے تمام حقوق کی حفاظت جس تک دنیا کا کوئی مذہب اور تمدن نہیں پہنچا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آگے ایک نوٹ لکھا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ اس موقع پر یہ نوٹ بھی غیر ضروری نہیں ہو گا کہ آنحضرت صلی للی کم کی تعلیم کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے طبقہ نسواں کے تمام جائز اور واجبی حقوق کی پوری پوری حفاظت فرمائی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں آپ صلی علیہم سے پہلے یا آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جس نے عورت کے حقوق کی ایسی حفاظت کی ہو جیسی آپ نے کی ہے.چنانچہ ورثہ میں، بیاہ شادی میں، خاوند بیوی کے تعلقات میں، طلاق و خلع میں ، اپنی ذاتی جائیداد پیدا کرنے کے حق میں، اپنی ذاتی جائیداد کے استعمال کرنے کے حق میں، تعلیم کے حقوق میں، بچوں کی ولایت و تربیت کے حقوق میں، قومی اور ملکی معاملات میں حصہ لینے کے حق

Page 473

457 اصحاب بدر جلد 4 میں، شخصی آزادی کے معاملہ میں ، دینی حقوق اور ذمہ داریوں میں الغرض دین و دنیا کے ہر اس میدان میں جس میں عورت قدم رکھ سکتی ہے آنحضرت صلی علی ایم نے اس کے تمام واجبی حقوق کو تسلیم کیا ہے اور اس کے حقوق کی حفاظت کو اپنی امت کے لیے ایک مقدس امانت اور فرض کے طور پر قرار دیا ہے.یہی وجہ ہے کہ عرب کی عورت آپ کی بعثت کو اپنے لیے ایک نجات کا پیغام سمجھتی تھی.پھر آپ لکھتے ہیں کہ مجھے اپنے رستہ سے ہٹنا پڑتا ہے یعنی مضمون جو بیان ہو رہا ہے اس سے پرے ہٹ رہا ہوں.اگر میں اس کی مزید تفصیلات بیان کرتا تو ہٹنا پڑتا ورنہ میں بتاتا (کیونکہ یہ عورتوں کے حقوق کا مضمون نہیں بیان ہو رہا اس لیے بیان نہیں کر سکتا ) کہ عورت کے معاملہ میں آپ کی تعلیم حقیقتاً اس اعلیٰ مقام پر قائم ہے جس تک دنیا کا کوئی مذہب اور کوئی تمدن نہیں پہنچا اور یقیناً آپ کا یہ پیارا قول ایک گہری صداقت پر مبنی ہے کہ محبّبَ إِلَى مِنْ دُنْيَا كُمُ النِّسَاء وَالطَّيِّبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوةِ یعنی دنیا کی چیزوں میں سے میری فطرت کو جن چیزوں کی محبت کا خمیر دیا گیا ہے وہ عورت اور خوشبو ہیں مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز یعنی عبادت الہی میں رکھی گئی ہے.077 آج کی دنیا عورت کے حقوق کی بات کرتی ہے اور چند سطحی باتوں کو اٹھا کر جن کا آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلام نے جو پابندیاں لگائی ہیں وہ بھی عورت کی عزت قائم کرنے اور گھروں کے سکون اور اگلی نسل کی تربیت کے لیے رکھی ہیں ان پر اسلام پر اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت کی آزادی اور حقوق دلوانے کی حقیقی تعلیم اسلام کی ہی ہے.اللہ کرے کہ دنیا اس حقیقت کو سمجھ کر غلاظتوں اور فسادوں سے بچ سکے اور ہماری عورتیں بھی اس حقیقت کو سمجھیں.بعض دفعہ دنیا کے پیچھے چل پڑتی ہیں کہ دنیا کی آزادی یہ ہے.وہ اس حقیقت کو سمجھیں اور جو مقام اسلام نے عورت کو دیا ہے اس کو سمجھیں کیونکہ وہ نہ کسی مذہب نے دیا ہے اور نہ ہی نام نہاد روشن خیال حقوق نسواں کے اداروں نے دیا ہے یا تحریک نے دیا ہے.اللہ تعالیٰ مردوں کو بھی عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی اسلامی تعلیم کے مطابق توفیق عطا فرمائے تاکہ یہ معاشرہ پر امن معاشرہ ہو.8 1078 135 حضرت سعد بن زید حضرت سعد بن زید الاشْهَلي ایک صحابی تھے.ان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو عبدُ الْأَشْهَل سے تھا.غزوہ بدر میں شریک ہوئے.بعض کا خیال ہے کہ بیعت عقبہ میں بھی شریک ہوئے.غزوہ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علی ایم کے ساتھ شریک ہوئے.نبی کریم صلی لی ہم نے آپ

Page 474

ناب بدر جلد 4 458 کے ہاتھ بنو قریظہ کے قیدی بھیجے تھے.آپ نے ان کے بدلے میں نجد میں گھوڑے اور ہتھیار خریدے 1079 روایت ہے کہ حضرت سعد بن زید نے ایک نجرانی تلوار رسول اللہ صلی نیز کم کو تحفہ میں دی تھی.آپ نے وہ تلوار حضرت محمد بن مسلمہ کو عنایت کر دی اور فرمایا تھا کہ اس سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور جب لوگ آپس میں اختلاف کرنے لگیں تو اس کو پتھر پر دے مارنا اور گھر میں گھس جانا.1080 یعنی کسی بھی قسم کے فتنہ اور فساد میں شامل نہیں ہونا.1081 136 حضرت سعد بن سہیل پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت سعد بن سُهَيْل “.حضرت سعد انصار میں سے تھے.بعض نے آپ کا نام سعید بن سُهَيْل بیان کیا ہے.حضرت سعد غزوہ بدر اور اُحد میں شریک ہوئے.آپ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام هُزَيْلَہ تھا.نام و نسب 137 رئیس بنو خزرج، انصار کے علمبردار حضرت سعد بن عبادہ 1082 حضرت سعد بن عبادہ.حضرت سعد بن عبادہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو ساعدہ سے تھا.ان کے والد کا نام عبادہ بن ڈلیم اور والدہ کا نام عمرہ تھا جو کہ مسعود بن قیس کی تیسری بیٹی تھیں.ان کی والدہ کو بھی نبی کریم صلی علیکم کی بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت سعد بن عبادہ حضرت سعد بن زید اشهَلی کے خالہ زاد بھائی تھے جو کہ اہل بدر میں سے تھے.حضرت سعد نے دو شادیاں کی تھیں.غزيه بنت سعد جس سے سعید ، محمد اور عبد الرحمن پیدا ہوئے اور دوسری فُكَيْهَة بنتِ عُبيد جس سے قیس، امامہ اور سدوس کی پیدائش ہوئی.3 1083

Page 475

ناب بدر جلد 4 459 منڈوس بنت عُبادہ حضرت سعد بن عبادہ کی بہن تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی یم کی بیعت کر کے اسلام قبول کیا تھا.حضرت سعد بن عبادہ کی ایک اور بہن بھی تھیں جن کا نام لیلیٰ بنت عبادہ تھا.انہوں نے بھی رسول اللہ صلی الی یوم کی بیعت کر کے اسلام قبول کیا تھا.84 کنیت 1084 حضرت سعد بن عبادہ کی کنیت ابو ثابت تھی.بعض نے ان کی کنیت ابو قیس بھی بیان کی ہے جبکہ پہلا قول درست اور صحیح لگتا ہے یعنی ابو ثابت.تمام غزوات میں انصار کا جھنڈا ان کے پاس رہا حضرت سعد بن عبادہ انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو ساعدہ کے نقیب تھے.حضرت سعد بن عبادہ سر دار اور سخی تھے اور تمام غزوات میں انصار کا جھنڈا ان کے پاس رہا.حضرت سعد بن عبادہ انصار میں صاحب وجاہت اور ریاست تھے.ان کی سرداری کو ان کی قوم تسلیم کرتی تھی.کاملین میں سے ایک اور سخاوت میں اپنی مثال آپ 1085 حضرت سعد بن عبادہ زمانہ جاہلیت میں عربی لکھنا جانتے تھے حالانکہ اس وقت کتابت کم لوگ جانتے تھے.وہ تیرا کی اور تیر اندازی میں بھی مہارت رکھتے تھے اور ان چیزوں میں جو شخص مہارت رکھتا تھا اس کو کامل کہا جاتا تھا.زمانہ جاہلیت میں حضرت سعد بن عبادہ اور ان سے قبل ان کے آباؤ اجداد اپنے قلعہ پر اعلان کروایا کرتے تھے کہ جس کو گوشت اور چربی پسند ہو تو وہ دلیم بن حَارِثہ کے قلعہ میں آجائے.ھشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں نے سعد بن عبادہ کو اس وقت پایا جب وہ اپنے قلعہ پر آواز دیا کرتے تھے کہ جو شخص چربی یا گوشت پسند کرتا ہے وہ سعد بن عبادہ کے پاس آئے یعنی جانوروں کا گوشت ذبح کروا کے تقسیم کرتے تھے.میں نے ان کے بیٹے کو بھی اسی حالت میں پایا کہ وہ بھی اسی طرح دعوت دیتا تھا.کہتے ہیں کہ میں مدینہ کے راستے پر چل رہا تھا.اس وقت میں جوان تھا.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ میرے ساتھ سے گزر رہے تھے ، ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے.کہتے ہیں اس وقت میں جوان تھا اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ میرے پاس سے گزرے جو عالیہ مقام جو مدینہ سے نجد کی طرف چار سے آٹھ میل کے درمیان واقع ایک وادی ہے ، وہاں اپنی زمین کی طرف جارہے تھے.انہوں نے کہا کہ اے جوان ! ادھر آؤ.عبد اللہ بن عمر نے ان کے والد کو بلایا.انہوں نے کہا کہ اے جو ان ! دیکھو! آیا تمہیں سعد بن عبادہ کے قلعہ پر کوئی آواز دیتا ہوا دکھائی دے رہا ہے.قلعہ قریب تھا.میں نے دیکھا اور کہا نہیں.انہوں نے کہا تم نے سچ کہا.86 1086

Page 476

اصحاب بدر جلد 4 لگتا 460 نا ہے کہ جتنا گھلا ہاتھ حضرت سعد بن عبادہ کا تھا اور جس طرح وہ تقسیم کیا کرتے تھے اس کے بعد وہ کام جاری نہیں رہا.اس لیے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ان سے یہ پوچھا.حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر حضرت سعد بن عبادہ کے قلعہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے مجھے کہا کہ اے نافع ! یہ ان کے آباؤ اجداد کے گھر ہیں.سال میں ایک دن منادی کرنے والا یہ آواز دیتا کہ جو چربی اور گوشت کھانے کا خواہش مند ہے وہ ڈلیم کے گھر آجائے پھر ڈلیم فوت ہو گیا تو عبادہ ایسے اعلان کرنے لگے.جب عیادہ فوت ہو گئے تو حضرت سعد ایسے اعلان کرنے لگے.پھر میں نے قیس بن سعد کو ایسا کرتے دیکھا اور فیس حد سے زیادہ سخاوت کرنے والے لوگوں میں سے تھا.1087 پس اس روایت سے مزید وضاحت ہو گئی کہ ان کی اولاد تک یہ سلسلہ جاری رہا.اس کے بعد وہ حالت نہیں رہی.قبولیت اسلام رض 1088 حضرت سعد بن عبادہ نے بیعت عقبہ ثانیہ کے موقعے پر اسلام قبول کیا تھا.سیرت خاتم النبیین میں اس کے حالات اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ 13 نبوی کے ماہ ذوالحجہ میں حج کے موقع پر اوس اور خزرج کے کئی آدمی مکہ میں آئے.ان میں ستر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے اور یا مسلمان ہو نا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی یی کم سے ملنے کے لیے مکہ آئے تھے.مُصعب بن عمیر بھی ان کے ساتھ تھے.مُضعَب کی ماں زندہ تھی اور گو مشرکہ تھی مگر ان سے بہت محبت کرتی تھی.جب اسے ان کے آنے کی خبر ملی تو اس نے ان کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ سے آکر مل جاؤ.پھر کہیں دوسری جگہ جانا.مُضعَب " نے جواب دیا، اپنی ماں کو کہا کہ میں ابھی تک رسول اللہ صلی اللی کم سے نہیں ملا.آپ صلی للی کم سے مل کر پھر آپ کے پاس آؤں گا.چنانچہ وہ آنحضرت صلی عملی کام کے پاس حاضر ہوئے.آپ سے مل کر اور ضروری حالات عرض کر کے پھر اپنی ماں کے پاس گئے.ماں ان کی یہ بات کہ پہلے مجھے نہیں ملے سن کے بڑی جلی بھی بیٹھی تھی.ان کو دیکھ کر بہت روئی اور بڑا شکوہ کیا.مُصْعَب نے کہا کہ ماں میں تم سے ایک بڑی اچھی بات کہتا ہوں جو تمہارے واسطے بہت ہی مفید ہے اور سارے جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے.اس نے کہا وہ کیا؟ مُضعَب "کہنے لگے، بڑی آہستہ سے جواب دیا کہ میں یہی کہ بت پرستی ترک کر کے مسلمان ہو جاؤ اور آنحضرت صلی علیکم پر ایمان لے آؤ.وہ پکی مشرکہ تھی.سنتے ہی شور مچادیا کہ مجھے ستاروں کی قسم ہے.میں تمہارے دین میں کبھی داخل نہ ہوں گی اور اپنے رشتہ داروں کو اشارہ کیا کہ مصعب کو پکڑ کر قید کر لیں مگر وہ ہوشیار تھے جلدی سے بھاگ کر نکل گئے.بیعت عقبہ ثانیہ کے تعلق میں لکھا ہے کہ آنحضرت سلیم کو مصعب سے انصار کی آمد کی اطلاع مل

Page 477

تاب بدر جلد 4 461 علیہم چکی تھی اور ان میں سے بعض لوگ آپ سے انفرادی طور پر ملاقات بھی کر چکے تھے مگر چونکہ اس موقع پر ایک اجتماعی اور خلوت کی ملاقات، علیحدہ ملاقات کی ضرورت تھی اس لیے مراسم حج کے بعد ماہ ذی الحجہ کی وسطی تاریخ مقرر کی گئی کہ اس دن نصف شب کے قریب یہ سب لوگ گذشتہ سال والی گھاٹی میں آپ کو آکر ملیں تاکہ اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ علیحدگی میں بات چیت ہو سکے اور آپ صلی الم نے انصار کو تاکید فرمائی کہ اکٹھے نہ آئیں بلکہ ایک ایک کر کے، دو دو کر کے وقتِ مقررہ پر گھائی میں پہنچ جائیں اور سوتے کو نہ جگائیں اور نہ غیر حاضر کا انتظار کریں.جو موجود ہیں وہ آجائیں.چنانچہ جب مقررہ تاریخ آئی تو رات کے وقت جبکہ ایک تہائی رات جا چکی تھی آنحضرت صلی علیہ یکم اکیلے گھر سے نکلے اور راستہ میں اپنے چچا عباس کو ساتھ لی جو ابھی تک مشرک تھے مگر آپ صلی اللہ کم سے محبت رکھتے تھے اور خاندان ہاشم کے رئیس تھے اور پھر دونوں مل کر اس گھائی میں پہنچے.ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ انصار بھی ایک ایک دو دو کر کے آپہنچے اور یہ ستر اشخاص تھے اور اوس اور خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے.سب پہلے عباس نے ، آنحضرت صلی علیم کے چچانے ، گفتگو شروع کی کہ اے خزرج کے گروہ محمد صلی نام اپنے خاندان میں معزز و محبوب ہے اور وہ خاندان آج تک اس کی حفاظت کا ضامن رہا ہے اور ہر خطرہ کے وقت میں اس کے لیے سینہ سپر ہوا ہے مگر اب محمد کا ارادہ اپنا وطن چھوڑ کر تمہارے پاس چلے جانے کا ہے.سواگر تم اسے اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں اس کی ہر طرح حفاظت کرنی ہو گی اور ہر دشمن کے ساتھ سینہ سپر ہونا پڑے گا.اگر تم اس کے لیے تیار ہو تو بہتر ورنہ ابھی سے صاف صاف جواب دے دو کیونکہ صاف صاف بات اچھی ہوتی ہے.البَراء بن مَعْرُور جو انصار کے قبیلہ کے ایک معمر اور با اثر بزرگ تھے انہوں نے کہا کہ عباس ہم نے تمہاری بات سن لی ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ خود بھی اپنی زبانِ مبارک سے کچھ فرمائیں اور جو ذمہ داری ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ بیان فرمائیں.اس پر آنحضرت صلی ا ہم نے قرآن شریف کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور پھر ایک مختصر سی تقریر میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ بھی معاملہ کرو.جب آپ تقریر ختم کر چکے تو البراء بن مغرور نے عرب کے دستور کے مطابق آپ صلی علی یکم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا یارسول اللہ ! ہمیں اس خدا کی قسم ہے جس نے آپ کو حق و صداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے.ہم اپنی جانوں کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے.ہم لوگ تلواروں کے سایہ میں پلے ہیں.مگر انبھی وہ بات ختم نہیں کر پائے تھے کہ ابو الْهَيْقم بن تیہان نے ان کی بات کاٹ کر کہا کہ یارسول اللہ ! یثرب کے یہود کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں.آپ کا ساتھ دینے سے وہ منقطع ہو جائیں گے.ایسا نہ ہو کہ جب اللہ آپ کو غلبہ دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن میں واپس تشریف لے آئیں اور ہم نہ ادھر کے رہیں نہ اُدھر کے.آپ صلی ہی کم ہنس پڑے اور آپ نے ہنس کے فرمایا نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو گا.تمہارا خون میرا خون ہو گا.تمہارے دوست میرے دوست ہوں گے.تمہارے دشمن میرے دشمن ہوں گے.اس پر عباس بن عبادہ انصاری نے اپنے ساتھیوں پر نظر

Page 478

اصحاب بدر جلد 4 462 ڈال کر کہا.لو گو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس عہد و پیمان کے کیا معنے ہیں ؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ اب تمہیں ہر اسود و احمر کے مقابلہ کے لیے تیار ہونا چاہیے یعنی ہر قوم کے لوگ جو ہیں تمہارے خلاف ہو جائیں گے ان کے مقابلے کے لیے تیار ہونا چاہیے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہنا چاہیے.لوگوں نے کہا کہ ہاں ہم جانتے ہیں مگر یار سول اللہ ! اس کے بدلہ میں ہمیں کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ تمہیں خدا کی جنت ملے گی جو اس کے سارے انعاموں میں سے بڑا انعام ہے.سب نے کہا کہ ہمیں یہ سودا منظور ہے.یارسول اللہ ! اپنا ہاتھ آگے کریں.آپ نے اپنا دست مبارک آگے بڑھا دیا اور یہ ستر جاں نثاروں کی جماعت ایک دفاعی معاہدہ میں آپ کے ہاتھ پر بک گئی.اس بیعت کا نام بیعت عقبہ ثانیہ ہے.موسیٰ کے نقیبوں کی طرح نقیبوں کا انتخاب جو میرے لئے عیسی کے حواریوں کی طرح جب یہ بیعت ہو چکی تو آپ نے ان سے فرمایا کہ موسیٰ نے اپنی قوم میں سے بارہ نقیب چنے تھے جو موسیٰ کی طرف سے ان کے نگران اور محافظ تھے.میں بھی تم میں سے بارہ نقیب مقرر کرنا چاہتا ہوں جو تمہارے نگران اور محافظ ہوں گے اور وہ میرے لیے عیسی کے حواریوں کی طرح ہوں گے اور میرے سامنے اپنی قوم کے متعلق جواب دہ ہوں گے.پس تم مناسب لوگوں کے نام تجویز کر کے میرے سامنے پیش کرو.چنانچہ بارہ آدمی تجویز کیے گئے جنہیں آپ نے منظور فرمایا اور انہیں ایک ایک قبیلے کا نگران مقرر کر کے ان کے فرائض سمجھا دیے اور بعض قبائل کے لیے آپ نے دو دو نقیب مقرر فرمائے.جب نقیبوں کا تقرر ہو چکا تو آنحضرت صلی علیہ سلم کے چچا عباس بن عبد المطلب نے انصار سے تاکید کی کہ انہیں بڑی ہوشیاری اور احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ قریش کے جاسوس سب طرف نظر لگائے بیٹھے ہیں ایسا نہ ہو کہ اس قول و اقرار کی خبر نکل جائے اور مشکلات پیدا ہو جائیں.ابھی غالباً وہ یہ تاکید کرہی رہے تھے کہ گھائی کے اوپر سے رات کی تاریکی میں کسی شیطان کی آواز آئی یعنی کوئی شخص چھپا تھا، جاسوسی کر رہا تھا کہ اے قریش! تمہیں بھی کچھ خبر ہے کہ یہاں (نعوذ باللہ ) مُذمّہ اور اس کے ساتھ کے مرتدین تمہارے خلاف کیا عہد و پیمان کر رہے ہیں؟ اس آواز نے سب کو چونکا دیا مگر آنحضرت صلی العلم بالکل مطمئن رہے اور فرمایا کہ اب آپ لوگ جس طرح آئے تھے اسی طرح ایک ایک دو دو ہو کر اپنی قیام گاہوں میں واپس چلے جاؤ.عباس بن نضلہ انصاری نے کہا.یارسول اللہ ! ہمیں کسی کا ڈر نہیں ہے.اگر حکم ہو تو ہم آج صبح ہی ان قریش پر حملہ کر کے انہیں ان کے مظالم کا مزہ چکھا دیں.آپ نے فرمایا نہیں نہیں مجھے ابھی تک اس کی اجازت نہیں ہے.بس تم صرف یہ کرو کہ خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے خیموں میں واپس چلے جاؤ.جس پر تمام لوگ ایک ایک دو دو کر کے دبے پاؤں گھائی سے نکل گئے اور آنحضرت صلی اللی کم بھی اپنے چچا عباس کے ساتھ مکہ واپس تشریف لے آئے.قریش کے کانوں میں چونکہ بھنک پڑ چکی تھی کہ اس طرح کوئی خفیہ اجتماع ہوا ہے.وہ صبح ہوتے ہی اہل یثرب کے ڈیرہ میں گئے اور ان سے کہا کہ آپ کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں اور ہم ہر گز نہیں چاہتے کہ ان تعلقات کو خراب کریں مگر ہم نے سنا ہے کہ گذشتہ رات محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ آپ کا کوئی خفیہ معاہدہ یا

Page 479

تاب بدر جلد 4 463 سمجھوتہ ہوا ہے.یہ کیا معاملہ ہے؟ اوس اور خزرج میں سے جو لوگ بت پرست تھے ان کو چونکہ اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں تھی وہ سخت حیران ہوئے اور صاف انکار کیا کہ قطعاً کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا.عبد اللہ بن اُبی بن سکول بھی جو بعد میں منافقین مدینہ کا سردار بنا وہ بھی اس گروہ میں تھا.اس نے کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.بھلا یہ ممکن ہے کہ اہل بیثرب کوئی اہم معاملہ طے کریں اور مجھے اس کی اطلاع نہ ہو ؟ غرض اس طرح قریش کا شک رفع ہوا اور وہ واپس چلے آئے اور اس کے تھوڑی دیر بعد ہی انصار بھی واپس یثرب کی طرف کوچ کر گئے لیکن ان کے کوچ کر جانے کے بعد قریش کو کسی طرح اس خبر کی تصدیق ہو گئی کہ واقعی اہل یثرب نے آنحضرت صلی اللہ نام کے ساتھ کوئی عہد و پیمان کیا ہے جس پر ان میں سے بعض آدمیوں نے اہل یثرب کا پیچھا کیا.قافلہ تو نکل گیا تھا مگر سعد بن عبادہ کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے ان کو یہ لوگ پکڑ لائے اور مکہ کے پتھر یلے میدان میں لا کر خوب زدو کوب کیا اور سر کے بالوں سے پکڑ کر ادھر ادھر گھسیٹا.آخر جبیر بن مطعم اور حارث بن حرب کو جو سعد کے واقف تھے انہیں اطلاع ہوئی تو انہوں نے ان کو ظالم قریش کے ہاتھ سے چھڑایا.بارہ نقیبوں میں سے ایک 1090 1089 حضرت سعد بن عبادہ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقعے پر بنائے جانے والے بارہ نقباء میں سے ایک تھے.ان کے بارے میں سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں بیان کیا ہے کہ " قبیلہ خزرج کے خاندان بنو ساعدہ سے تھے اور تمام قبیلہ خزرج کے رئیس تھے اور آنحضرت صلی یہ کام کے عہد مبارک میں ممتاز ترین انصار میں شمار ہوتے تھے.حتی کہ آنحضرت کی وفات پر بعض انصار نے انہی کو خلافت کے لیے پیش کیا تھا." یعنی انصار میں سے جو نام پیش ہوا تھا وہ ان کا نام تھا.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فوت ہوئے." 1091 رض 1092 " حضرت سعد بن عبادہ، مُنذر بن عمرو اور ابو دجانہ ، یہ تین اشخاص تھے انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو ان سب نے اپنے قبیلہ بنو ساعدہ کے بت توڑ ڈالے.2 ہجرت مدینہ کے وقت رسول اللہ صلی علیکم جب بنو ساعدہ کے گھروں کے پاس سے گزرے تو حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت منذد بن عمرو اور حضرت ابودجانہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ ہمارے پاس تشریف لائیں.ہمارے پاس عزت ہے.دولت، قوت اور مضبوطی ہے.حضرت سعد بن عبادہ نے یہ بھی عرض کیا کہ یارسول اللہ میری قوم میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کے کھجوروں کے باغات مجھ سے زیادہ ہوں اور اس کے کنویں مجھ سے زیادہ ہوں.اس کے ساتھ ساتھ دولت، قوت اور کثیر تعداد بھی ہو.اس پر آنحضرت صلی للی یم نے فرمایا اے ابو ثابت ! اس اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو، یہ مامور ہے.3 1093

Page 480

اصحاب بدر جلد 4 464 یہ اپنی مرضی سے کہیں جائے گی.حضرت سعد بن عبادہ قبیلہ بنو ساعدہ کے نقیب تھے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا کہ جو نقیب مقرر کیے گئے تھے ان میں ان کا بھی نام تھا.کہا جاتا ہے کہ قبیلہ اوس اور خزرج میں ایسا کوئی گھر نہ تھا جس میں چار شخص پے در پے فیاض ہوں.بڑے کھلے دل کے ہوں سوائے ڈلیم کے ، پھر اس کے بیٹے عبادہ کے ، پھر اس کے بیٹے سعد کے ، پھر اس کے بیٹے قیس کے.ڈلیم اور اس کے اہل خانہ کی سخاوت کے بارے میں بہت سی اچھی اچھی خبریں مشہور تھیں.24 1094 1096 آنحضرت صلی الل علم کی خدمت میں پیش کیا جانے والا بڑا پیالہ جب رسول اللہ صلی ی تیم مدینہ تشریف لائے تو سعد آنحضرت علی الی یکم کی خدمت میں روزانہ ایک بڑا پیالہ بھیجتے جس میں گوشت اور شرید، گوشت میں پکے ہوئے روٹی کے ٹکڑے یا دودھ کا ثرید یا سر کے اور زیتون کا ثرید یا چربی کا پیالہ بھیجتے اور زیادہ تر گوشت کا پیالہ ہی ہو تا تھا.سعد کا پیالہ رسول اللہ صلی الی یکیم کے ہمراہ آپ کی ازواج مطہرات کے گھروں میں چکر لگایا کرتا تھا.095 یعنی یہ کھانا تھا جو مختلف ازواج کے لیے جایا کرتا تھا.بعض روایات ایسی بھی ہیں کہ آنحضرت صلی علی ایم کے گھر ایسے دن بھی آتے تھے کہ کھانا نہیں ہو تا تھا.ہو سکتا ہے کہ یہ روزانہ نہیں اکثر بھیجتے ہوں یا شروع میں بھیجتے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی ال اپنی سخاوت کی وجہ سے، غریبوں کے خیال کی وجہ سے بعض اوقات انہیں غرباء میں سیم کر دیتے ہوں، مہمانوں کو کھلا دیتے ہوں اس لیے اپنے گھر میں کچھ نہیں ہو تا تھا.بہر حال ایک روایت اور ہے ، حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال کلیم نے جب حضرت ابو ایوب انصاری کے ہاں قیام فرمایا تو آپ کے ہاں کوئی ہدیہ نہیں آیا.پہلا ہد یہ جو میں آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہو اتھا وہ ایک پیالہ تھا جس میں گندم کی روٹی کی شرید، گوشت اور دودھ تھا.میں نے اسے آپ کے سامنے پیش کیا.میں نے عرض کی یارسول اللہ ! یہ پیالہ میری والدہ نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے.آپ نے فرمایا اللہ اس میں برکت ڈالے اور آپ نے اپنے صحابہ کو بلایا تو انہوں نے بھی اس میں سے کھایا.کہتے ہیں میں ابھی دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ سعد بن عبادہ بھی ایک پیالہ لے کر حاضر ہوئے جسے ان کا غلام اپنے سر پر اٹھائے ہوئے تھا.وہ کافی بڑا تھا.میں حضرت ابوایوب کے دروازے پر کھڑا ہو گیا.میں نے اس پیالے کا کپڑا اٹھایا تاکہ میں اسے دیکھوں تو میں نے شرید دیکھی جس میں ہڈیاں تھیں.اس غلام نے وہ آنحضرت صلی علی کم کی خدمت میں پیش کیا.حضرت زید کہتے ہیں کہ ہم بنو مالک بن نجار کے گھروں میں رہتے تھے.ہم میں سے تین یا چار افراد

Page 481

اصحاب بدر جلد 4 465 ہر رات رسول اللہ صلی کمی کی خدمت میں باری باری کھانا لے کر حاضر ہوتے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی الم نے سات ماہ حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر میں قیام فرمایا.ان ایام میں حضرت سعد بن عُبادہ اور حضرت اسعد بن زرارہ نما پیالہ ہر روز آپ کی خدمت میں آتا تھا اور اس میں کبھی ناغہ نہیں ہو تا تھا.یہاں کچھ وضاحت بھی ہو گئی کہ شروع میں روزانہ کھانا آتا تھا.سات مہینے تک با قاعدہ آتا رہا.اس کے بعد بھی آتا ہو گا لیکن شاید اس با قاعدگی سے نہیں.پھر کہتے ہیں کہ اس کے متعلق جب حضرت ام ایوب سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی لی ہم نے آپ کے ہاں قیام فرمایا تھا اس لیے آپ بتائیں کہ رسول اللہ صلی غیر کم کا سب سے زیادہ پسندیدہ کھانا کون سا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی مخصوص کھانے کا کبھی حکم دیا ہو اور پھر وہ آپ کے لیے تیار کیا گیا ہو اور نہ ہی ہم نے کبھی یہ دیکھا کہ آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا ہو اور آپ نے اس میں عیب نکالا ہو.یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب نے مجھے بتایا کہ ایک رات حضرت سعد بن عبادہ نے آنحضرت صلی الیکم کی خدمت میں ایک پیالہ بھجوایا جس میں طفیشل تھا.یہ شوربہ کی ایک قسم ہے.آپ نے وہ سیر ہو کر پیا اور میں نے اس کے علاوہ آپ کو کبھی اس طرح سیر ہو کر پیتے نہیں دیکھا.پھر ہم بھی آنحضرت صلی علیکم کے لیے یہ بنایا کرتے تھے.کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ لاؤ یاوہ پکاؤ.کبھی عیب نہیں نکالا لیکن جو کھانا آتا تھا اس میں سے یہ کھانا آپ کو پسند آیا اور آپ نے بڑے شوق سے کھایا یا پیا.اس کے بعد سے پھر صحابہ کو پتالگ گیا کہ یہ آنحضرت صلی للی یکم کی پسند ہے تو اس کے مطابق پھر بناتے تھے.کہتے ہیں کہ ہم آپ کے لیے هَرِئيس، مشہور کھانا ہے جو گندم اور گوشت سے بنایا جاتا ہے، یہ بھی بنایا کرتے تھے جو آپ کو پسند تھا اور رات کے کھانے میں آنحضرت صلی علیم کے ہمراہ پانچ سے لے کر سولہ تک افراد ہوتے تھے جس کا انحصار کھانے کی قلت یا کثرت پر ہو تا تھا.1097 حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر رسول اللہ صلی علیکم کے قیام کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی لکھا ہے.کہتے ہیں کہ اس مکان میں آپ نے سات ماہ تک یا ابن اسحاق کی روایت کے مطابق اور ابن اسحاق کی روایت یہ ہے کہ ماہ صفر 2 ہجری تک قیام فرمایا تھا گویا جب تک مسجد نبوی اور اس کے ساتھ والے حجرے تیار نہیں ہو گئے آپ اسی جگہ مقیم رہے.ابو ایوب آپ کی خدمت میں کھانا بھجواتے تھے اور پھر جو کھانا بیچ کر آتا تھا وہ حضرت ابو ایوبے خود کھاتے تھے.اور محبت و اخلاص کی وجہ سے اسی جگہ انگلیاں ڈالتے تھے جہاں سے آپ صلی می کنم نے کھایا ہو تا.دوسرے اصحاب بھی عموماً آپ کی خدمت میں کھانا بھیجا کرتے تھے.چنانچہ ان لوگوں میں سعد بن عبادہ رئیس قبیلہ خزرج کا نام تاریخ میں خاص طور پر مذکور ہوا ہے.1098

Page 482

تاب بدر جلد 4 آنحضرت مصلی کام کو ہم پر زیادہ سلام کر لینے دو 466 حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی ا یکم کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ ہمارے گھر تشریف لائیں تو آنحضرت صلی یہ کی سعد کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے.حضرت سعد کھجور اور تیل لے آئے پھر آنحضور صلی لی نام کے لیے دودھ کا پیالہ لائے جس میں 1099 الله سة سے آپ نے پیا.قیس بن سعد، سعد بن عبادہ کے بیٹے ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال کی ملاقات کے لیے ہمارے گھر تشریف لائے تو آپ نے فرمایا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله.آنحضرت علی الم نے گھر والوں کو سلام کیا.قیس نے کہا کہ میرے والد سعد نے آہستہ سے جواب دیا.قیس نے کہا میں نے ان سے پوچھا، اپنے باپ سے پوچھا کہ آپ رسول اللہ صلی علیم کو اندر آنے کا نہیں کہیں گے ؟ حضرت سعد نے، باپ نے بیٹے کو یہ جواب دیا کہ آنحضرت صلی علیہ کم کو ہم پر زیادہ سلام کر لینے دو.رسول اللہ صلی علیکم پھر سلام کر کے واپس ہوئے.یعنی آپ نے کہا کہ آنحضرت صلی علی ایم نے سلام کیا.میں نے آہستہ سے جواب دیا کہ آنحضرت صلی علیکم دوبارہ سلام کریں گے تو اس طرح ہمارے گھر میں سلامتی پہنچے گی.بہر حال کہتے ہیں رسول اللہ صلی علیکم سلام کر کے واپس ہوئے تو پھر سعد آپ کے پیچھے گئے اور عرض کیا: یارسول اللہ ! میں آپ کے سلام کو سنتا اور آپ کو آہستہ سے جواب دیتا تا کہ آپ ہم پر زیادہ سلام بھیجیں.پھر آپ سعد کے ہمراہ لوٹ آئے.سعد نے آنحضرت صلی الم سے غسل کا عرض کیا.آپ نے غسل فرمایا.سعد نے آپ کو زعفران یا ؤرس جو یمن کے علاقے میں پیدا ہونے والا ایک زر در نگ کا پودا ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے ہیں اس سے رنگا ہوا ایک لحاف دیا.آپ نے اسے ارد گرد لپیٹ لیا.پھر رسول اللہ صلی علیکم نے اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا.اے اللہ ! اپنے درود اور اپنی رحمت سعد بن عبادہ کی اولاد پر نازل کر 1100 یہ روایت حضرت انس سے اس طرح مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی نیلم نے حضرت سعد بن عبادہ کے ہاں اندر آنا چاہا، گھر میں جانا چاہا اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہا.حضرت سعد نے آہستہ سے کہا وعلیک السلام ورحمتہ اللہ جو نبی کریم صلی کم کو نائی نہ دیا حتی کہ نبی کریم صلی لی ہم نے تین مرتبہ سلام کیا اور سعد نے تینوں مرتبہ اسی طرح جواب دیا کہ نبی کریم صلی یی کم کو سنائی نہ دیا.چنانچہ نبی کریم صلی علی کی واپس تشریف لے گئے.حضرت سعد آپ کے پیچھے گئے اور کہنے لگے یار سول اللہ صلی اللی کم میرے ماں باپ آپ پر قربان.آپ نے جتنی مرتبہ بھی سلام کہا میں نے اپنے کانوں سے سنا اور اس کا جواب دیا لیکن آپ کو نہیں سنایا.آپ کو میری آواز نہیں آئی.میں چاہتا تھا کہ آپ کی سلامتی اور برکت کی دعا کثرت سے حاصل کروں.

Page 483

ناب بدر جلد 4 467 پھر وہ نبی کریم صلی علی یکم کو اپنے گھر لے گئے اور کشمش پیش کی.نبی کریم صلی الی یکم نے اسے تناول کرنے کے بعد فرمایا تمہارا کھانا نیک لوگ کھاتے رہیں اور تم پر ملائکہ رحمت کی دعائیں کرتے رہیں اور روزے دار تمہارے ہاں افطاری کرتے رہیں.آپ نے ان کو دعا دی.اصحاب صفہ کا سب سے زیادہ خیال رکھنے والے 1102 1101 علامہ ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ اہل صفہ جب شام کرتے تو ان میں سے کوئی شخص کسی ایک یا دو کو کھانا کھلانے کے لیے لے جاتا تاہم حضرت سعد بن عبادہ اُستی اہل صفہ کو کھانا کھلانے کے لیے اپنے ساتھ لے جاتے.02 یعنی اکثر یہ ہوتا تھا لیکن ایسی روایات بھی ہیں کہ اہل صفہ پر ایسے دن بھی آئے جب ان کو بھوکا بھی رہنا پڑا.بہر حال صحابہ عموماً ان غرباء کا خیال رکھا کرتے تھے جو آنحضرت صلی نیلم کے در پر بیٹھے ہوتے تھے اور ان کا سب سے زیادہ خیال رکھنے والے حضرت سعد بن عبادہ تھے.مدینہ میں امیر بنایا جانا آنحضرت صلی علیم نے مدینہ تشریف لانے کے ایک سال بعد ماہ صفر میں ابواء، جو مدینہ سے مکے کی شاہراہ پر مجحفہ سے 23 میل دور واقع ہے.یہاں نبی کریم صلی علیم کی والدہ حضرت آمنہ کی قبر بھی ہے، اس کی طرف کوچ فرمایا.آپ کا جھنڈ اسفید رنگ کا تھا.اس موقع پر رسول اللہ صلی علیم نے مدینے میں حضرت سعد بن عبادہ کو اپنا جانشین یا امیر مقرر فرمایا.1103 غزوة ابواء غزوۂ ابواء کا دوسرا نام غزوۂ وَذَان بیان کیا جاتا ہے.سیرت خاتم النبیین میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے غزوۂوڈان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے.یہ لکھتے ہیں کہ آنحضرت علی یہ کام کا طریق تھا کہ کبھی تو خود صحابہ کو ساتھ لے کر نکلتے تھے اور کبھی کسی صحابی کی امارت میں کوئی دستہ روانہ فرماتے تھے.مؤرخین نے ہر دو قسم کی مہموں کو الگ الگ نام دیے ہیں.چنانچہ جس مہم میں آنحضرت صلی للی یک خود بنفس نفیس شامل ہوئے ہوں اس کا نام مؤرخین غزوہ رکھتے ہیں اور جس میں آپ خود شامل نہ ہوئے ہوں اس کا نام سریه یا بعث رکھا جاتا ہے مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غزوہ اور سریہ دونوں میں مخصوص طور پر جہاد بالسیف کی غرض سے نکلناضروری نہیں."ضروری نہیں ہے کہ تلوار کے جہاد کے لیے نکالا جائے." بلکہ ہر وہ سفر جس میں آپ جنگ کی حالت میں شریک ہوئے ہوں غزوہ کہلا تا ہے خواہ وہ خصوصیت کے ساتھ لڑنے کی غرض سے نہ کیا گیا ہو اور اسی طرح ہر وہ سفر جو آپ کے حکم سے کسی جماعت نے کیا ہو مؤرخین کی اصطلاح میں سیریه یابغث کہلاتا ہے خواہ اس کی غرض وغایت لڑائی نہ ہو لیکن بعض لوگ ناواقفیت سے ہر غزوہ اور سریہ کو لڑائی کی مہم سمجھنے لگ جاتے

Page 484

اصحاب بدر جلد 4 468 ہیں جو درست نہیں ہے.یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ جہاد بالسیف کی اجازت ہجرت کے دوسرے سال ماہ صفر میں نازل ہوئی." تھی.یہ گذشتہ خطبوں میں پہلے بھی بیان ہو چکا ہے."چونکہ قریش کے خونی ارادوں اور ان کی خطرناک کارروائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت تھی اس لیے آپ اسی ماہ میں مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہوئے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے.روانگی سے قبل آپ نے اپنے پیچھے مدینہ میں سعد بن عبادہ رئیس خزرج کو امیر مقرر فرمایا اور یدینہ سے جنوب مغرب کی طرف مکہ کے راستہ پر روانہ ہو گئے اور بالآخر مقام وڈان تک پہنچے." اس کی یہ تفصیل پہلے بھی بیان ہو چکی ہے." اس علاقہ میں قبیلہ بنو ضمرہ کے لوگ آباد تھے.یہ قبیلہ بنو کنانہ کی ایک شاخ تھا اور اس طرح گویا یہ لوگ قریش کے چچا زاد بھائی تھے.یہاں پہنچ کر آنحضرت صلی للہ ہم نے قبیلہ بنو ضمرہ کے رئیس کے ساتھ بات چیت کی اور باہم رضامندی سے آپس میں ایک معاہدہ ہو گیا جس کی شرطیں یہ تھیں کہ بنو ضمرہ مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کریں گے اور جب آنحضرت صلی ا یکم ان کو " یعنی بنو ضمرہ کو " مسلمانوں کی مدد کے لیے بلائیں گے تو وہ فوراً آجائیں گے.دوسری طرف آپ نے مسلمانوں کی طرف سے یہ عہد کیا کہ تمام مسلمان قبیلہ بنو ضمرہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور بوقت ضرورت ان کی مدد کریں گے.یہ معاہدہ با قاعدہ لکھا گیا اور فریقین کے اس پر دستخط ہوئے اور پندرہ دن کی غیر حاضری کے بعد آنحضرت صلی الیہ کو واپس تشریف لے آئے.غزوہ ودان کا دوسرا نام غزوہ ابواء بھی ہے کیونکہ وڈان کے قریب ہی ابواء کی بستی بھی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں آنحضرت صلی اللہ کم کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تھا.مؤرخین لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی علی کم کو اس غزوے میں بنو عمرہ کے ساتھ قریش مکہ کا بھی خیال تھا.اس کا مطلب یہی ہے کہ دراصل آپ کی یہ مہم قریش کی خطر ناک کارروائیوں کے سدباب کے لیے تھی اور اس میں اس زہر یلے اور خطر ناک اثر کا ازالہ مقصود تھا جو قریش کے قافلے وغیرہ مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب میں پیدا کر رہے تھے." قریش مسلمانوں کے خلاف قبیلوں میں جاکے پراپیگینڈہ کرتے تھے." اور جس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت ان ایام میں بہت نازک ہو رہی تھی.11041 غزوہ بدر میں شامل نہ ہونے کے باوجو د بدر کے مال غنیمت میں سے حصہ عنایت فرمایا حضرت سعد بن عبادہ کے غزوہ بدر میں شامل ہونے کے بارے میں دو آرا بیان کی جاتی ہیں.واقدی، مداینی اور ابنِ گلبی کے نزدیک یہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے.جبکہ ابن اسحاق اور ابن عقبہ اور ابن سعد کے نزدیک یہ غزوہ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے.بہر حال اس کی ایک وضاحت طبقات الکبریٰ کی ایک روایت کے مطابق اس طرح ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ غزوہ بدر میں حاضر نہیں ہوئے تھے.وہ روانگی کی تیاری کر رہے تھے اور انصار کے گھروں

Page 485

اصحاب بدر جلد 4 469 میں جاکر انہیں روانگی پر تیار کر رہے تھے کہ روانگی سے پہلے انہیں کتے نے کاٹ لیا.اس لیے وہ غزوہ بدر میں شامل نہ ہو سکے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اگر چہ سعد شریک نہ ہوئے لیکن اس کے آرزومند تھے.رسول اللہ صلی الل ولم نے حضرت سعد کو غزوہ بدر کے مالِ غنیمت میں سے حصہ عنایت فرمایا تھا.حضرت سعد بن عبادہ غزوہ احد ، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ شامل ہوئے.1105 ایک روایت یہ بھی ہے کہ انصار کا جھنڈا غزوہ بدر کے روز حضرت سعد بن عبادہ کے پاس تھا.یہ المستدرک کی روایت ہے.1106 جنگ بدر کے موقعہ پر نبی اکرم صلی عوام کی خدمت میں تلوار بطور تحفہ پیش کرنا غزوہ بدر پر روانگی کے وقت حضرت سعد بن عبادہ نے عضب نامی تلوار رسول اللہ صلی کم کی خدمت میں تحفہ پیش کی اور آنحضرت صلی علیم نے غزوہ بدر میں اسی تلوار کے ساتھ شرکت کی تھی.رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں ایک گدھا بھی حضرت سعد بن عبادہ نے تحفہ پیش کیا تھا.18 1107 1108 ذَاتُ الْفُضُول: وہ زرہ جو یہودی کے پاس بطور رہن تھی نبی کریم صلی اللی کام کے پاس سات زر ہیں تھیں.ان میں سے ایک کا نام ذَاتُ الْفُضُول تھا.یہ نام اسے اس کی لمبائی کی وجہ سے دیا گیا تھا اور یہ زرہ جو تھی حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں تب بھجوائی تھی جب آپ صلی علیہ کم بدر کی طرف روانہ ہو چکے تھے اور یہ زرہ لوہے کی تھی.یہ وہی زرہ تھی جو آنحضرت صلی کم نے ابو شخص یہودی کے پاس جو کے عوض بطور رہن رکھوائی تھی اور جو کا وزن تیں صاع تھا اور ایک سال کی مدت کے لیے بطور قرض لیا گیا تھا.1109 جب جنگ زوروں پر ہوتی تو نبی کریم صلی ا یم انصار کے جھنڈے تلے ہوتے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی علیکم کا جھنڈا حضرت علی کے پاس ہو تا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ کے پاس ہوتا اور جب جنگ زوروں پر ہوتی تو نبی کریم صلی علیم انصار کے جھنڈے تلے ہوتے.تھے.1110 یعنی دشمنوں کا جو زیادہ تر زور تھا انصار کی طرف ہو تا تھا کیونکہ آنحضرت صلی لی ہم بھی وہیں ہوتے سعد بن عبادہ کی عیادت اور عبد اللہ بن ابی بن سلول کی بے باکی حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ملی یکم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کی بنی ہوئی کملی ڈالی ہوئی تھی اور آپ نے حضرت اسامہ بن زید کو پیچھے بٹھا لیا.حضرت سعد بن عُبادہ کی عیادت کو جارہے تھے کیونکہ حضرت سعد بن عبادہ ان دنوں میں بیمار تھے ، جو بنو حارث بن

Page 486

تاب بدر جلد 4 الله سة 470 خزرج کے محلے میں تھے.یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے.حضرت اسامہ کہتے تھے کہ چلتے چلتے آپ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبد اللہ بن اُبی بن سلول تھا اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول جو تھا ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا اور یہ وہی واقعہ ہے جس میں عبد اللہ بن ابی بن سلول نے آنحضرت صلی علیہ کم سے بد تمیزی کا رویہ دکھایا تھا.بہر حال جب آپ سواری کے جانور پر بیٹھے ہوئے جارہے تھے تو اس کی گرد، مٹی اڑی اور اس مجلس پر پڑی.وہ لوگ کنارے سڑک کے بیٹھے ہوں گے تو عبد اللہ بن ابی بن سلول نے اپنی چادر سے اپنی ناک کو ڈھانکا اور کہنے لگا کہ ہم پر گر دنہ اڑاؤ.رسول اللہ صلی علیم نے ان کو السلام علیکم کہا اور ٹھہر گئے.جب اس نے یہ بات کی ہے تو آنحضرت صلی ا ہم نے اپنی سواری کو کھڑا کر لیا.ٹھہر گئے اور السلام علیکم کہا اور گدھے سے اترے.آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا.عبد اللہ بن اُبی بن سلول نے کہا اے مرد! جو بات تم کہتے ہو اس سے اچھی کوئی بات نہیں.اگر یہ سچ ہے تو ہماری مجلس میں آکر اس سے تکلیف نہ دیا کرو.ہماری مجلس میں آنے کی، یہ باتیں کہنے کی کوئی ضرورت نہیں.مختصر پہلے بھی ایک دفعہ میں یہ بیان کر چکا ہوں.اپنے ٹھکانے پر ہی واپس جاؤ.پھر جو تمہارے پاس آئے اسے بیان کرو.حضرت عبد اللہ بن رواحہ بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے ، مسلمان ہو چکے تھے ، صحابی تھے انہوں نے یہ سن کر کہا کہ نہیں یار سول اللہ ! آپ ہماری ان مجلسوں میں ہی آکر ہمیں پڑھ کر سنایا کریں.ہمیں تو یہ بات پسند ہے.اس پر مسلمان، مشرک اور یہودی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے.قریب تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ کرتے مگر نبی کریم صلی الیکم نے ان کا جوش دبایا.آخر وہ رک گئے.اس کے بعد پھر نبی کریم صلی علیم اپنے جانور پر سوار ہو کر چلے گئے یہاں تک کہ حضرت سعد بن عبادہ کے پاس آئے.نبی کریم صلی العلیم نے ان سے کہا سعد ! کیا تم نے سنا جو ابو حباب نے کہا.آپ کی مراد عبد اللہ بن اُبی بن سلول سے تھی.آپ صلی الی یکم نے فرمایا کہ اس نے مجھے یوں یوں کہا ہے.حضرت سعد بن عبادہ نے کہا یار سول اللہ ! آپ اس کو معاف کر دیں اور اس سے در گزر کیجیے.اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی ہے.اللہ وہ حق اب یہاں لے آیا ہے جس کو اس نے آپ پر نازل کیا ہے.اس بستی والوں نے تو یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس کو یعنی عبد اللہ بن ابی بن سلول کو سر داری کا تاج پہنا کر عمامہ اس کے سر پر باند ھیں.جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے یہ منظور نہ کیا تو وہ حسد کی آگ میں جل گیا.اس لیے اس نے وہ کچھ کیا جو آپ نے دیکھا یعنی وہ سر دار بننے والا تھا اور آپ کے آنے سے اس کی سرداری جاتی رہی.اس وجہ سے اس کو حسد ہے.آپ سے جلن ہے اور اس نے یہ سب کچھ کہا ہے.یہ سن کر نبی کریم صلی العلیم نے اس سے در گزر کیا اور نبی صلی علیہم اور آپ کے صحابہ مشرکوں اور اہل کتاب سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا در گزر کیا کرتے تھے اور ان کی ایذاد ہی پر صبر کیا کرتے تھے.اللہ عز و جل نے فرمایا ہے لَتُبُلُونَ فِي أَمْوَالِكُمْ وَ انْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۖ وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأمور ( آل عمران: 187) کہ تم ضرور اپنے اموال اور اپنی جانوں کے معاملے میں آزمائے جاؤ گے اور تم ضرور

Page 487

تاب بدر جلد 4 471 ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان سے جنہوں نے شرک کیا بہت تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا یہ ایک بڑا ہمت والا کام ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا که وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقِّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْ ءٍ قَدِيرٌ (1108) اہل کتاب میں سے بہت سے لوگ بعد اس کے کہ حق ان پر خوب کھل چکا ہے اس حسد کی وجہ سے جو ان کی اپنی ہی جانوں سے پیدا ہو ا ہے چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لے آنے کے بعد تمہیں پھر کافر بنا دیں پس تم اس وقت تک کہ اللہ اپنے حکم کو نازل فرمائے انہیں معاف کرو اور ان سے در گزر کرو اور اللہ یقیناً ہر ایک امر پر پورا پورا قادر ہے.اور نبی کریم صلی میں کم عفو کو ہی مناسب سمجھتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا تھا.آخر اللہ نے ان کو اجازت دے دی جب رسول اللہ صلی علیہم نے بدر کے مقام پر ان کا یعنی کافروں کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی میں کفار کے، قریش کے بڑے بڑے سرغنے مار ڈالے تو عبد اللہ بن ابی بن سلول اور جو اس کے ساتھ مشرک اور بت پرست لوگ تھے تب وہ کہنے لگے کہ اب تو یہ سلسلہ شان دار ہو گیا ہے.کافروں کی یہ شکست دیکھ کر تب ان کو یقین آیا انہوں نے رسول اللہ صلی علیم سے اسلام پر قائم رہنے کی بیعت کرلی اور مسلمان ہو گئے.1111 جنگ بدر کے موقعہ پر حضرت سعد م کا جانثارانہ اظہار عشق و وفا غزوہ بدر کے موقعے پر نبی کریم صلی علیہم نے جب صحابہ سے مشاورت کی تو حضرت سعد بن عبادہ نے اس موقع پر جو کہا اس کے بارے میں ایک روایت میں تذکرہ ملتا ہے.حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی یکم کو جب ابو سفیان کے آنے کی خبر ملی تو آپ نے مشورہ کیا.راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے گفتگو کی.آپ صلی علیم نے ان سے اعراض فرمایا.پھر حضرت عمرؓ نے گفتگو کی، مشورے دینے چاہیے.آپ نے ان سے بھی اعراض فرمایا.پھر حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ ہم سے مشورہ طلب کرتے ہیں.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم انہیں ڈال دیں گے.اگر آپ ہمیں بَرَكَ الْغِمَادُ، یمن کا ایک شہر ہے جو مکے سے پانچ رات کی مسافت پر سمندر کے کنارے واقع ہے ، اس تک ان کے جگر مارنے کا حکم دیں تو ہم ایسا ضرور کریں گے.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی العلیم نے لوگوں کو بلایا.وہ چلے یہاں تک کہ بدر میں اترے.پہ بات سن کے پھر آپ اپنے ساتھیوں کو ہمراہ لے کر چلے اور بدر کے مقام تک پہنچے.وہاں قریش کے پانی لانے والے آئے اور ان میں بنو حجاج کا ایک سیاہ لڑکا بھی تھا.انہوں نے اسے پکڑ لیا یعنی مسلمانوں نے اسے پکڑ لیا.رسول اللہ صلی للی یکم کے صحابہ اس سے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھتے رہے.کیونکہ پہلے یہی پتا لگا تھا کہ ابوسفیان اپنے ایک بڑے لشکر کے ساتھ یا شاید گروہ کے ساتھ آرہا ہے.بہر حال ان سے ابو سفیان کے بارے میں پوچھتے رہے.وہ یہ کہتا رہا کہ مجھے ابوسفیان کے بارے میں کچھ علم نہیں لیکن یہ ابو جہل اور عتبہ اور شیبہ اور اُمیہ بن خلف ہیں.یہ ضرور یہاں بیٹھے ہوئے ہیں،

Page 488

تاب بدر جلد 4 472 ابو جہل بھی ہے، عتبہ بھی ہے، شیبہ بھی ہے، امیہ بن خلف بھی ہے.جب اس نے یہ کہا تو انہوں نے اسے مارا.اس نے کہا اچھا میں تمہیں بتاتا ہوں.یہ ہے ابو سفیان یعنی کہ ابو سفیان بھی ان میں شامل ہے.جب انہوں نے اسے چھوڑ دیا اور اس سے پھر پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے ابوسفیان کا کوئی علم نہیں لیکن یہ ابو جہل اور عتبہ اور شیبہ اور امیہ بن خلف لوگوں میں موجود ہیں.یہ جو گروہ آیا ہوا ہے یا ایک لشکر بدر کے قریب ٹھہرا ہوا ہے اس میں یہ یہ لوگ موجود ہیں لیکن ابوسفیان نہیں ہے.جب اس نے ایسا کہا تو انہوں نے پھر اسے مارا.رسول اللہ صلی املی کام اس وقت کھڑے نماز پڑھ رہے تھے جب آپ نے یہ صورت دیکھی تو سلام پھیرا اور فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !جب وہ تم سے سچ بولتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب وہ تم سے جھوٹ بولتا ہے تو تم اسے چھوڑ دیتے ہو.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ یہ لڑکا جو کہہ رہا ہے ٹھیک کہہ رہا ہے.پھر فرمایا کہ یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے.یعنی جو دشمنوں کے نام لیے تھے.اور بتایا کہ یہ بدر کا میدان ہے یہاں فلاں کرے گا.راوی کہتے ہیں آپ اپنا ہاتھ زمین پر رکھتے تھے کہ یہاں یہاں.راوی کہتے ہیں ان میں سے کوئی اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر نہیں ہٹا یعنی جو دشمن تھے وہیں گرے اور مرے جہاں رسول الله صلى ال عوام نے ہاتھ سے نشان دہی کی تھی.1112 جنگ احد کے دن آپ کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے جانا غزوۂ احد سے قبل ایک جمعہ کی شام حضرت سعد بن معاذ، حضرت اُسید بن حضیر اور حضرت سعد بن عبادہ مسجد نبوی میں ہتھیار پہنے رسول اللہ صلی علیم کے دروازے پر صبح تک پہرہ دیتے رہے.غزوۂ احد کے لیے جب نبی کریم صلی علی یکم مدینے سے نکلنے لگے اور رسول اللہ صلی علی یکم اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور کمان کندھے پر ڈال لی اور نیزہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تو دونوں سعد یعنی حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ آپ کے آگے آگے دوڑنے لگے.یہ دونوں صحابہ زرہ پہنے ہوئے تھے اور باقی لوگ آنحضرت صلی علی یکم کے دائیں اور بائیں تھے.1113 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے غزوہ احد کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ " آپ صلی للہ یکم صحابہ کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ نماز عصر کے بعد مدینے سے نکلے.قبیلہ اوس اور خزرج کے رؤسا سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ آپ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے اور باقی صحابہ آپ کے دائیں اور بائیں اور پیچھے چل رہے تھے.“ 1114<< جنگ احد میں ثابت قدم رہنے والے غزوۂ احد کے موقعے پر جو صحابہ رسول اللہ صلی علیم کے پاس ثابت قدمی سے کھڑے رہے ان میں حضرت سعد بن عبادہ بھی تھے.1115 جب رسول اللہ صلی للی کم غزوہ احد سے مدینہ واپس تشریف لائے اور اپنے گھوڑے سے اترے تو

Page 489

اصحاب بدر جلد 4 473 آپ حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ کا سہارا لیتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہوئے.زحمی تھے.اس حالت میں جب اترے تو آپ نے ان دونوں کا سہارا لیا.غزوہ حمراء الاسد 1116 حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حمراء الاسد میں ہمارا عام زاد راہ کھجوریں تھیں.غزوہ حمراء الاسد شوال 3 ہجری میں ہوا.غزوۂ احد سے واپسی پر قریش کے لوگ روحاء مقام پر ٹھہرے جو مدینہ سے 36 میل کے فاصلے پر واقع ہے.اس جگہ قریش کو خیال آیا کہ مسلمانوں کو نقصان بہت پہنچا ہے.واپس جا کر مدینے پر اچانک حملہ کر دینا چاہیے اور مسلمان مقابلہ نہیں کر سکیں گے کیونکہ کافی ان کو نقصان پہنچ چکا ہے.ادھر رسول اللہ صلی علی کلم قریش کے تعاقب میں نکلے اور حمراء الاسد مقام تک پہنچے.آپ کو بھی پتالگا کہ یہ ارادہ ہے تو آپ نے کہا چلو ہم ان کے تعاقب میں چلتے ہیں.حمراء الاسد مدینہ سے ذوالحلیفہ کی جانب آٹھ میل کے فاصلے پر ہے.قریشی لشکر کو جب نبی کریم صلی للی کم کی یہ خبر ملی تو وہ سکے کی طرف بھاگ کھڑا ہوا.جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان بجائے اس کے کہ کمزور ہوں یہ تو ہم پر حملہ کرنے آرہے ہیں تو وہ دوڑ گئے.حضرت سعد بن عبادہ تھیں اونٹ اور کھجوریں لائے جو حمراء الاسد مقام تک ہمارے لیے وافر ر ہیں.راوی نے لکھا ہے وہ اونٹ بھی لے کر آئے تھے جو کسی دن دو یا کسی دن تین 1117 کر کے ذبح کیے جاتے تھے.اور ان کو کھایا جاتا تھا.غزوہ بنو نضیر اور انصار کا عجیب قابل رشک محبت و ایثار کا اظہار غزوہ بنو نضیر ، یہ غزوہ ربیع الاول 4 ہجری میں ہوا تھا.نبی کریم صلی ا ہم نے یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے قلعوں کا 15 روز تک محاصرہ کیا تھا.نبی کریم صلی علی کلم نے ان لوگوں کو خیبر کی طرف جلا وطن کر دیا تھا.اس موقع پر اموال غنیمت حاصل ہوا تو آپ نے حضرت ثابت بن قیس کو بلا کر فرمایا.میرے پاس اپنی قوم کو بلاؤ.حضرت ثابت بن قیس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خزرج کو ؟ آپ نے فرمایا نہیں تمام انصار کو بلاؤ.چنانچہ انہوں نے اوس اور خزرج کو آپ کے لیے بلایا.رسول اللہ صلی علیکم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ اہل ہے.پھر آپ نے انصار کے ان احسانات کا ذکر کیا جو انہوں نے مہاجرین پر کیے ہیں.تم نے مہاجرین پر کس طرح احسان کیے ہیں کہ انہیں اپنے گھروں میں ٹھہرایا اور مہاجرین کو اپنے نفوس پر ترجیح دی.مة الله پھر آپ صلی علیہ ہم نے فرمایا اگر تم پسند کرو تو میں بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال سے، وہ اموال غنیمت جو کفار سے جنگ کے بغیر مسلمانوں کو حاصل ہو ، یہ وہ مال تھا، اس میں سے تم میں اور مہاجرین میں برابر تقسیم کر دوں.اس حالت میں مہاجرین حسب سابق تمہارے گھروں اور اموال میں رہیں گے اور اگر تم پسند کرو تو یہ اموال میں مہاجرین میں تقسیم کر دوں ، یعنی آدھا آدھا تقسیم کروں تو ٹھیک ہے جس طرح

Page 490

ب بدر جلد 4 474 تم پہلے ان سے سلوک کر رہے ہو مہاجرین سے کرتے رہو، تمہارے گھروں میں بھی رہتے رہیں گے.مؤاخات قائم رہے گی جس طرح یہ سلسلہ چل رہا ہے.لیکن اگر تم پسند کرو تو یہ اموال میں مہاجرین میں تقسیم کر دوں جس کے نتیجہ میں وہ تمہارے گھروں سے نکل جائیں گے.مال سارا ان کو مل جائے گا لیکن وہ تمہارے گھروں سے پھر نکل جائیں گے.کوئی حق نہیں رہے گا جو پہلے ایک قائم کیا گیا تھا.اس پر حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ دونوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی العلم ! آپ یہ اموال مہاجرین میں تقسیم فرما دیں اور وہ ہمارے گھروں میں اسی طرح ہوں گے جیسا کہ پہلے تھے.ہمیں کوئی ضرورت نہیں.آپ یہ تمام مال انہی میں تقسیم کر دیں.انصار کو دینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ان کا جو حق ہے اور مہاجرین اور انصار کی جو مواخات قائم ہوئی ہوئی ہے، جو حق ہے ہمارے گھروں میں آنے جانے کا، رہنے کا وہ بھی اسی طرح قائم رہے گا اور انصار نے بآواز بلند عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ہم راضی ہیں اور ہمارا سر تسلیم خم ہے.اس پر رسول اللہ صلی الم نے فرمایا اے اللہ ! انصار اور انصار کے بیٹوں پر رحم فرما.حضرت سعد کو تلوار عطا ہونا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللی علم کو جو مال کے عطا فرمایا وہ آپ نے مہاجرین میں تقسیم فرمایا اور انصار میں سے دو صحابہ کے علاوہ کسی کو کچھ نہ دیاوہ دونوں صحابہ جو انصار کے تھے ضرورت مند تھے وہ دونوں حضرت سہل بن حنیف اور حضرت ابو دجانہ تھے اور آپ نے حضرت سعد بن معاذ کو ابن ابی حقیق کی تلوار عطا فرمائی.1118 حضرت سعد کی والدہ کی وفات اور نبی اکرم علی ایم کی نماز جنازہ غائب حضرت سعد کی والدہ حضرت عمرہ بنت مسعودؓ جو صحابیات میں سے تھیں ان کی وفات اس وقت ہوئی جب رسول اللہ صلی علیم غزوہ دومۃ الجندل کے لیے تشریف لے گئے تھے.یہ غزوہ ربیع الاول 5 ہجری میں ہو ا تھا.حضرت سعد اس غزوہ میں آپ کے ہم رکاب تھے.سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کی وفات اس وقت ہوئی جب آنحضرت صلی علیکم مدینہ سے باہر تھے.سعد نے عرض کیا کہ میری والدہ کی وفات ہو گئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ ان کی نماز جنازہ پڑھائیں.آپ نے نماز جنازہ پڑھائی حالانکہ انہیں فوت ہوئے ایک مہینہ ہو چکا تھا.ایک مہینے کے بعد انہیں خبر پہنچی تھی.حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی علیم سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ پر تھی اور وہ اس کو پورا کرنے سے پہلے ہی وفات پاگئی تھیں.تو رسول اللہ صلی علیم نے فرما یا تم ان کی طرف سے اسے پورا کرو.سب سے افضل صدق.....پانی! حضرت سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نبی کریم صلی ا یکم کی خدمت میں

Page 491

ناب بدر جلد 4 475 1119 حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میری والدہ کی وفات ہو گئی ہے.انہوں نے وصیت نہیں کی تھی.اگر میں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ انہیں مفید ہو گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں.انہوں نے عرض کیا کہ کون سا صدقہ آپ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایاپانی پلاؤ ؟ لگتا ہے اس وقت پانی کی کمی تھی.کافی ضرورت تھی.بہر حال ایک روایت میں ہے کہ اس پر حضرت سعد نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا کہ یہ ام سعد کی خاطر ہے.ان کے نام پر وہ جاری کر دیا.علامہ ابوطیب شمس الحق عظیم آبادی ہیں انہوں نے ابو داؤد کی شرح میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے جو یہ فرمایا کہ سب سے افضل صدقہ پانی ہے یعنی حضرت سعد کو کہا کہ پانی پلاؤ.اس کی وجہ یہ تھی کہ ان ایام میں پانی کم یاب تھا یا اس لیے کہ پانی کی ضرورت عام طور پر تمام اشیاء کی نسبت سب سے زیادہ ہوتی ہے.1120 پھر لکھتے ہیں کہ پانی کا صدقہ آپ نے اس لیے بھی افضل قرار دیا کیونکہ یہ دینی اور دنیاوی معاملات میں بالخصوص ان گرم ممالک میں سب سے زیادہ نفع رساں چیز ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس احسان کا ذکر فرمایا ہے کہ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا کہ اور ہم نے آسمان سے پاکیزہ پانی اتارا.وہاں مدینے میں پانی افضل ترین تھا.گرمی کی شدت کی وجہ سے عمومی ضرورت اور پانی کی کم یابی کی وجہ سے اس کو بہت قیمتی سمجھا جاتا تھا.0 اور پانی کو تو آج بھی قیمتی سمجھا جاتا ہے.اس کے لیے حکومتیں بھی کہتی رہتی ہیں.خیال بھی رکھنا چاہیے.بہر حال انہوں نے صرف اسی پر بس نہیں کیا کہ پانی کا کنواں کھود دیا.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ جو بنو ساعدہ میں سے تھے ان کی والدہ فوت ہو گئیں اور اس وقت وہ موجود نہ تھے.وہ نبی کریم صلی علیکم کے پاس آئے انہوں نے کہا یارسول اللہ ! میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور میں اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھا.یہ آنے کے بعد پتا لگا ہو گا.پہلے شاید میں نے سفر میں کہہ دیا تھا.بہر حال سفر میں پتا لگا یا آنے کے بعد پتالگا لیکن بہر حال وہ موجود نہیں تھے.وہ آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں آئے اور اس وقت یہ عرض کیا کہ میں موجود نہیں تھا تو کیا میرا ان کی طرف سے کچھ صدقہ کرنا ان کو نفع دے گا ؟ آپ صلی اللی کرم نے فرمایا کہ ہاں.تو انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! پھر میں آپ کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میرا باغ مخراف ہے وہ ان کی طرف سے صدقہ ہے.1121 صدقہ اور خیرات اور غریبوں کی مدد میں بڑا کھلا دل رکھتے تھے اور بڑا کھلا ہاتھ رکھتے تھے.1122 ایک حوالہ کی وضاحت گذشتہ سے پہلے خطبے میں حضرت سعد بن عبادہ کا ذکر چل رہا تھا اور کچھ رہ گیا تھا.آج بھی ان کے ذکر کے حوالے سے ہی بیان کروں گا.لیکن یہاں بھی ایک حوالے کی درستی کی ضرورت ہے جو گذشتہ

Page 492

تاب بدر جلد 4 476 خطبے میں میں نے بیان کیا تھا.گو احساس کے باوجود میں نے حوالے بھیجنے والوں کو ذکر تو نہیں کیا لیکن ریسرچ سیل میں ہمارے کام کرنے والوں کو خود ہی احساس ہو گیا اور انہوں نے یہ درستی بھیجی اور اس سے بہر حال میری یہ غلط فہمی جو مجھے بھی تھی وہ بھی دور ہو گئی.ماشاء اللہ اپنی طرف سے تو بڑی محنت سے کام کر کے یہ حوالے نکالتے ہیں لیکن بعض دفعہ جلد بازی سے ایسی تحریروں سے گزر جاتے ہیں جو دو صحابہ کے ملتے جلتے واقعات کو ملا دیتی ہیں.اسی طرح بعض دفعہ عربی عبارتوں کے ترجمے میں بھی الفاظ کا صحیح چناؤ نہ ہونے کی وجہ سے حقیقت واضح نہیں ہوتی.بہر حال اس حوالے سے اب انہوں نے خود ہی درستی کر کے بھجوائی ہے جو میں پہلے بیان کروں گا.پھر باقی ذکر ہو گا.27 دسمبر کے خطبے میں حضرت سعد بن عبادہ کے تعارف میں یہ بیان ہوا تھا کہ آنحضور صلی ا ہم نے حضرت سعد اور طبیب بن عمیر کے درمیان مواخات قائم فرمائی جو مکے سے ہجرت کر کے مدینے آئے تھے اور ابن اسحاق کے مطابق رسول اللہ صلی اللی کلم نے حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت ابو ذر غفاری کے در میان مواخات قائم فرمائی تھی لیکن بعض کو اس سے اختلاف بھی ہے اور واقدی نے اس کا انکار کیا ہے کیونکہ اس کے مطابق آنحضرت صلی الم نے مواخات غزوہ بدر سے قبل صحابہ کے درمیان قائم فرمائی تھی.حضرت ابو ذر غفاری جو اس وقت مدینہ میں موجود نہیں تھے اور وہ آئے نہیں تھے اور غزوہ بدر اور احد اور خندق میں بھی شامل نہیں تھے بلکہ وہ ان غزوات کے بعد آنحضرت صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو میں نے یہ بتایا تھا کہ یہ ان کی دلیل ہے.بہر حال یہ اس طرح نہیں ہے.مؤاخات کا یہ ذکر در اصل حضرت مُنذر بن عمر و بن خنیس کے ضمن میں تھا.1123 ریسرچ سیل والوں نے خود ہی لکھا ہے کہ جس کتاب سے یہ لیا گیا ہے وہاں ان کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہ کا بھی ذکر تھا تو ریسرچ سیل کی طرف سے سہو ا یہ عبارت حضرت سعد کے ساتھ بھی بیان کر دی گئی جبکہ حضرت منذر بن عمرو کے ذکر میں مواخات کا یہ ذکر ہے اور یہ تفصیل میں گذشتہ سال کے شروع میں 25 جنوری کے خطبے میں بیان کر چکا ہوں.بہر حال یہ ایک درستی ہے.سة غزوہ خندق اور انصار کی غیرت و شجاعت اب آگے جو ذکر چل رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ جب غزوہ خندق کا واقعہ ہوا تو رسول اللہ صلی الی یکم نے عیینہ بن حصن کو مدینہ کی ایک تہائی کھجور اس شرط پر دینے کی پیشکش کے بارے میں سوچا کہ قبیلہ غطفان کے جو لوگ ان کے ہمراہ ہیں وہ انہیں واپس لے جائے.باقی لوگوں کو چھوڑتے ہوئے آنحضرت صلی اللی کم نے صرف حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ سے مشورہ طلب کیا.اس پر ان دونوں نے عرض کیا کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کرنے کا حکم ہوا ہے تو آپ ایسا کر دیں.اگر ایسا نہیں تو پھر بخدا ہم کچھ نہیں دیں گے سوائے تلوار کے یعنی ہم اپنا حق لیں گے یا جو بھی اس کی سزا ہے وہ ان کو اس منافقت کی یا عہد کی پابندی نہ کرنے کی ملے گی.رسول اللہ صلی ا ہم نے

Page 493

477 تاب بدر جلد 4 الله صحیح فرمایا مجھے کسی بات کا حکم نہیں دیا گیا.یہ میری ذاتی رائے ہے جو میں نے تم دونوں کے سامنے رکھی ہے.ان دونوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان لوگوں نے جاہلیت میں ہم سے ایسی ہی طمع نہیں کی تو آج کیوں کر ؟ جبکہ اللہ ہمیں آپ کے ذریعہ ہدایت دے چکا ہے یعنی کہ یہ جو پہلا اصول ان کے ساتھ چل رہا تھا آج بھی وہی چلے گا.رسول اللہ صلی اللی کم ان دونوں کے اس جواب سے خوش ہو گئے.1124 اس کی تفصیل غزوہ خندق کے حالات کے ذکر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ یہ دن مسلمانوں کے لیے نہایت تکلیف اور پریشانی اور خطرے کے دن تھے اور جوں جوں یہ محاصرہ لمبا ہوتا جاتا تھا مسلمانوں کی طاقت مقابلہ لازماً کمزور ہوتی جاتی تھی اور گو ان کے دل ایمان و اخلاص سے پر تھے مگر جسم مادی قانون اسباب کے ماتحت چلتا ہے تو وہ مضمحل ہو تا چلا جارہا تھا.یعنی جسم کی ضروریات ہیں، آرام ہے، خوراک ہے، محاصرہ لمبا ہو گیا تو اس کی وجہ سے بے آرامی بھی تھی.رنگ میں خوراک بھی پوری نہیں ہو رہی تھی اس لیے تھکاوٹ بھی پیدا ہو رہی تھی، کمزوری بھی پیدا ہو رہی تھی، یہ جسم کا قدرتی تقاضا ہے.تو آنحضرت صلی علی کریم نے ان حالات کو دیکھا تو آپ نے انصار کے رؤساء سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو بلا کر انہیں حالات بتلائے اور مشورہ مانگا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کی، غریبوں کی تو یہ حالت ہو رہی ہے اور ساتھ ہی اپنی طرف سے یہ ذکر فرمایا کہ اگر تم لوگ چاہو تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قبیلہ غطفان کو مدینے کے محاصل میں سے کچھ حصہ دینا کر کے اس جنگ کو ٹال دیا جائے.سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ نے یک زبان ہو کر یہ عرض کیا کہ یارسول اللہ ! اگر آپ کو اس بارہ میں کوئی خدائی وحی ہوئی ہے تو سر تسلیم خم ہے.اس صورت میں آپ بے شک خوشی سے اس تجویز کے مطابق کارروائی فرمائیں.آپ نے فرمایا نہیں مجھے اس معاملہ میں وحی کوئی نہیں ہوئی.میں تو صرف آپ لوگوں کی تکلیف کی وجہ سے مشورہ کے طریق پر پوچھ رہا ہوں.ان دونوں سعد نے جواب دیا کہ پھر ہمارا یہ مشورہ ہے کہ جب ہم نے شرک کی حالت میں کبھی کسی دشمن کو کچھ نہیں دیا تو اب مسلمان ہو کر کیوں دیں.یعنی جو اُن کے وہاں قانون ہیں اس کے مطابق اب بھی عمل ہو گا.پھر آگے انہوں نے کہا کہ واللہ ہم انہیں تلوار کی دھار کے سوا کچھ نہیں دیں گے.چونکہ آنحضرت صلی ا لی ایم کو انصار ہی کی وجہ سے فکر تھی.دوسرے لوگ بھی وہاں کے رہنے والے ہیں لیکن مدینہ کے انصار کو کوئی اعتراض یا لمبے محاصرے سے انقباض یا بے چینی نہ پید اہو تو انصار کی وجہ یہ فکر تھی جو مدینہ کے اصل باشندے تھے اور غالباً اس مشورہ میں آپ کا مقصد بھی صرف یہی تھا کہ انصار کی ذہنی کیفیت کا پتا لگائیں کہ کیا وہ ان مصائب میں پریشان تو نہیں ہیں اور اگر وہ پریشان ہوں تو ان کی دلجوئی فرمائی جائے.اس لیے آپ نے پوری خوشی کے ساتھ ان کے اس مشورے کو قبول فرمایا اور پھر جنگ بھی جاری رہی.5 سے یہ 1125

Page 494

اصحاب بدر جلد 4 جنگ خندق اور بنو قریظہ کی غداری 478 غزوہ خندق کے حالات بیان کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں قبیلہ بنو قریظہ کی غداری کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ابو سفیان نے یہ چال چلی کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہودی رئیس حیی بن اخطب کو یہ ہدایت دی کہ وہ رات کی تاریکی کے پردے میں بنو قریظہ کے قلعہ کی طرف جاوے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے ساتھ مل کر بنو قریظہ کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے.چنانچہ حیی بن اخطب موقعہ لگا کر کعب کے مکان پر پہنچا.شروع شروع میں تو کعب نے اس کی بات سننے سے انکار کیا اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ہمارے عہد و پیمان ہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیشہ اپنے عہد و پیمان کو وفاداری کے ساتھ نبھایا ہے.اس لیے میں اس سے غداری نہیں کر سکتا مگر محیی نے اسے ایسے سبز باغ دکھائے اور اسلام کی عنقریب تباہی کا ایسا یقین دلایا اور اپنے اس عہد کو کہ جب تک ہم اسلام کو مٹانہ لیں گے مدینہ سے واپس نہیں جائیں گے اس شد و مد سے بیان کیا کہ بالآخر وہ راضی ہو گیا اور اس طرح بنو قریظہ کی طاقت کا وزن بھی اس پلڑے کے وزن میں آکر شامل ہو گیا."جو ملانے آیا تھا باہر سے " جو پہلے سے ہی بہت جھکا ہوا تھا " یعنی پہلے ہی ان میں طاقت تھی.دنیاوی طاقت ان کے پاس پہلے ہی بہت تھی." محضرت علی الی یکم کو جب بنو قریظہ کی اس خطر ناک غداری کا علم ہوا تو آپ نے پہلے تو دو تین دفعہ خفیہ خفیہ زبیر بن العوام کو دریافت حالات کے لیے بھیجا اور پھر باضابطہ طور پر قبیلہ اوس و خزرج کے رئیس سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ اور بعض دوسرے با اثر صحابہ کو ایک وفد کے طور پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کوئی تشویشناک خبر ہو تو واپس آکر اس کا بر ملا اظہار نہ کریں بلکہ اشارہ کنایہ سے کام لیں تاکہ لوگوں میں تشویش نہ پیدا ہو.جب یہ لوگ بنو قریظہ کے مساکن میں پہنچے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے پاس گئے تو وہ بد بخت ان کو نہایت مغرورانہ انداز سے ملا اور سعدین " یعنی دونوں سعد جو تھے ان " کی طرف سے معاہدہ کا ذکر ہونے پر وہ اور اس کے قبیلہ کے لوگ بگڑ کر بولے کہ 'جاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے.یہ الفاظ سن کر صحابہ کا یہ وفد وہاں سے اٹھ کر چلا آیا اور سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ نے آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہو کر مناسب طریق پر آنحضرت صلی علیکم کو حالات سے اطلاع دی." 1126 بہر حال پھر جو بھی ان کے ساتھ جنگ تھی یا سزا ملنی تھی وہ جاری رہی.غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر حضرت سعد بن عبادہؓ نے کئی اونٹوں پر کھجور میں لاد کر رسول اللہ صلی علی نام اور مسلمانوں کے لیے بھیجیں جو ان سب کا کھانا تھا.اس وقت رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ کھجور کیا ہی اچھا کھانا ہے.1127 غزوہ موتہ جو جمادی الاولی سنہ آٹھ ہجری میں ہوئی.اس میں حضرت زید شہید ہو گئے تو نبی کریم صلی الیکم ان کے اہل خانہ کے پاس تعزیت کے لیے گئے تو ان کی بیٹی کرب اور تکلیف کے باعث روتے ہوئے رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس آئی.اس پر آپ بھی بہت زیادہ رونے لگے.اس پر حضرت سعد بن

Page 495

اصحاب بدر جلد 4 479 عبادہ نے عرض کیا کہ یار سول اللہ ! یہ کیا! آپ نے فرمایا.هذَا شَوقُ الْحَبِيْبِ إِلى حَبِيْبِہ یہ ایک محبوب کی اپنے محبوب سے محبت ہے.128 فتح مکہ اور حضرت سعد بن عبادہ سے جھنڈ اواپس لیا جانا صحیح بخاری کی ایک اور روایت ہے.یہ پہلی صحیح بخاری کی نہیں تھی.یہ واقعہ اور ہے اور صحیح بخاری کی روایت سے ہے کہ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الیم نے فتح مکہ کے سال کوچ فرمایا تو قریش کو یہ خبر پہنچی.تب ابو سفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء رسول اللہ صلی ال کی جستجو میں نکلے.وہ چل پڑے یہاں تک کہ مَر الظَّهْرَانَ مقام پر پہنچے.مر الظهران مکے کی جانب ایک مقام ہے جس میں بہت سے چشمے اور کھجور کے باغات ہیں.یہ مکے سے پانچ میل کے فاصلے پر واقع ہے.بہر حال جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا کہ بے شمار آگیں روشن ہیں جیسے حج کے موقع پر عرفات کے مقام کے آگے ہوتی ہیں.ابو سفیان نے کہا یہ کیسی ہیں ؟ یوں معلوم ہوتا ہے کہ عرفات کی آگئیں ہیں.بدیل بن ورقاء نے کہا بنو عمرو کی آگئیں معلوم ہوتی ہیں یعنی خزاعہ قبیلہ کی.ابو سفیان نے کہا عمرو کا قبیلہ اس تعداد سے بہت کم ہے.اتنے میں ان کو رسول اللہ صلی ایم کے پہر بے داروں میں سے کچھ لوگوں نے دیکھ لیا اور ان تینوں کو پکڑ کر گرفتار کر لیا اور پھر ان کو رسول اللہ صلی علیم کے پاس لے کے آئے.ابوسفیان نے اسلام قبول کر لیا.جب آنحضرت صلی علیہ ہم چلے یعنی مکے کی طرف تو آپ نے حضرت عباس سے فرمایا.ابوسفیان کو پہاڑ کے دڑے پر روکے رکھنا تا کہ وہ مسلمانوں کو دیکھ لے.چنانچہ حضرت عباس نے اسے روکے رکھا.مختلف قبائل نبی کریم صلی علیکم کے ساتھ گزرنے لگے.لشکر کا ایک ایک دستہ ابوسفیان کے سامنے سے گزرتا گیا.جب ایک گروہ گزرا تو ابوسفیان نے کہا عباس ! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ قبیلہ غفار کے لوگ ہیں.ابوسفیان نے کہا مجھے غفار سے کیا سروکار.پھر جہینہ والے گزرے.ابوسفیان نے ویسے ہی کہا.پھر سعد بن ھذیم والے گزرے.پھر اس نے ویسے ہی کہا.پھر سلیم والے گزرے.پھر اس نے ویسے ہی کہا.یہاں تک کہ آخر میں ایک ایسا لشکر آیا کہ ویسا اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا.ابوسفیان نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ حضرت عباس نے کہا انصار ہیں اور ان کے سر دار سعد بن عبادہ ہیں جن کے پاس جھنڈا ہے.حضرت سعد بن عبادہ نے پکار کر کہا ابو سفیان ! آج کا روز گھمسان کی لڑائی کا روز ہے.آج کعبہ میں لڑائی حلال ہو گی.ابوسفیان نے یہ سن کر کہا عباس ! بر بادی کا یہ دن کیا خوب ہو گا اگر مقابلے کا موقع مل جاتا.یعنی کہ میں دوسری طرف ہو تا یا کہ اس طرف ہونے کی وجہ سے مجھے بھی موقع ملتا کیونکہ اسلام قبول کر لیا تھا.پھر ایک اور دستہ فوج کا آیا اور وہ تمام لشکروں سے چھوٹا تھا.ان میں رسول اللہ صلی للی کم تھے اور آپ کے ساتھی مہاجرین تھے اور نبی صلی علیکم کا جھنڈا حضرت زبیر بن عوام کے پاس تھا.جب رسول اللہ صلی الی یکم ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو ابوسفیان نے کہا کیا آپ کو علم نہیں کہ سعد بن عبادہؓ نے کیا کہا ہے ؟ آپ نے پوچھا کیا کہا ہے ؟ اس نے کہا کہ ایسا کہا ہے.جو بھی انہوں نے الفاظ استعمال کیے تھے (وہ بتائے).آپ نے فرمایا سعد نے رض

Page 496

تاب بدر جلد 4 1129 480 درست نہیں کیا بلکہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ کعبہ کی عظمت قائم کرے گا اور کعبہ پر غلاف چڑھایا جائے گا.کوئی جنگ ونگ نہیں ہو گی.اس واقعے کو حضرت مصلح موعودؓ نے ذرا تھوڑی سی تفصیل سے بیان کیا ہے.وہ اس طرح ہے کہ لشکر مکے کی طرف بڑھا تو رسول کریم صلی علیم نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ کسی سڑک کے کونے پر ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کو لے کر کھڑے ہو جاؤ تا کہ وہ اسلامی لشکر اور اس کی فدائیت کو دیکھ سکیں.حضرت عباس نے ایسا ہی کیا.ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سے یکے بعد دیگرے عرب کے قبائل گزرنے شروع ہوئے جن کی امداد پر مکہ بھروسا کر رہا تھا یعنی مکہ والے سمجھتے تھے یہ مدد کریں گے اور وہ سب آنحضرت صلی علی ایم کے ساتھ تھے ، مگر آج وہ قبائل کفر کا جھنڈا نہیں لہرا رہے تھے ، آج وہ اسلام کا جھنڈ الہرا رہے تھے اور ان کی زبان پر خدائے قادر کی توحید کا اعلان تھا.وہ محمد رسول اللہ صلی الی یکم کی جان لینے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہے تھے جیسا کہ مکہ والے امید کرتے تھے بلکہ وہ محمد رسول اللہ صلی الی یکم کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار تھے اور ان کی انتہائی خواہش یہی تھی کہ خدائے واحد کی توحید اور اس کی تبلیغ کو دنیا میں قائم کر دیں.لشکر کے بعد لشکر گزر رہا تھا کہ اتنے میں آشجع قبیلے کا لشکر گزرا.اسلام کی محبت اور اس کے لیے قربان ہونے کا جوش ان کے چہروں سے عیاں تھا اور ان کے نعروں سے ظاہر تھا.ابوسفیان نے کہا عباس ! یہ کون ہیں.عباس نے کہا یہ اسجع قبیلہ ہے.ابوسفیان نے حیرت سے عباس کا منہ دیکھا اور کہا سارے عرب میں ان سے زیادہ محمد رسول اللہ صلی علیم کا کوئی دشمن نہیں تھا.عباس نے کہا کہ یہ خدا کا فضل ہے کہ جب اس نے چاہا ان کے دلوں میں اسلام کی محبت داخل ہو گئی.سب سے آخر میں رسول اللہ صلی علی کی مہاجرین و انصار کا لشکر لیے ہوئے گزرے.یہ لوگ دو ہزار کی تعداد میں تھے اور سر سے پاؤں تک زرہ بکتروں میں چھپے ہوئے تھے.حضرت عمران کی صفوں کو درست کرتے چلے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ قدموں کو سنبھال کر چلو تا کہ صفوں کا فاصلہ ٹھیک رہے.ان پرانے فداکارانِ اسلام کا جوش اور ان کا عزم اور ان کا ولولہ ان کے چہروں سے ٹپکا پڑتا تھا.ابوسفیان نے ان کو دیکھا تو اس کا دل دہل گیا.اس نے پوچھا عباس! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے ، عباس نے کہا کہ رسول الله صلى ال نیم انصار و مہاجرین کے لشکر میں جارہے ہیں.ابو سفیان نے جواب دیا اس لشکر کا مقابلہ کرنے کی دنیا میں کس کو طاقت ہے.پھر وہ حضرت عباس سے مخاطب ہوا اور کہا تمہارے بھائی کا بیٹا آج دنیا میں سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے.عباس نے کہا اب بھی تیرے دل کی آنکھیں نہیں کھلیں.یہ بادشاہت نہیں ہے ، یہ تو نبوت ہے.ابو سفیان نے کہا ہاں ہاں اچھا پھر نبوت ہی سہی.جس وقت یہ لشکر ابوسفیان کے سامنے سے گزر رہا تھا تو انصار کے کمانڈر سعد بن عبادہ نے ابو سفیان کو دیکھ کر کہا.آج خد اتعالیٰ نے ہمارے لیے مکہ میں داخل ہونا تلوار کے زور سے حلال کر دیا ہے.آج قریشی قوم ذلیل کر دی جائے گی.جب رسول اللہ صلی علی یکم ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے بلند آواز سے کہا کہ یارسول اللہ ! کیا آپ نے اپنی قوم کے قتل کی اجازت دے دی ہے.ابھی ابھی انصار کے سردار سعد اور اس کے ساتھی ایسا کہہ رہے تھے.انہوں نے بلند آواز سے یہ کہا ہے کہ آج لڑائی ہو گی اور مکہ کی حرمت آج ہم کو لڑائی سے باز نہیں

Page 497

اصحاب بدر جلد 4 481 رکھ سکے گی اور قریش کو ہم ذلیل کر کے چھوڑیں گے.یارسول اللہ ! آپ تو دنیا میں سب سے زیادہ نیک، سب سے زیادہ رحیم اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں.کیا آج آپ اپنی قوم کے ظلموں کو بھول نہ جائیں گے.ابو سفیان کی یہ شکایت اور التجا سن کر وہ مہاجرین بھی تڑپ گئے جن کو مکہ کی گلیوں میں پیٹا اور مارا جاتا تھا جن کو گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کیا جاتا تھا اور ان کے دلوں میں بھی مکہ کے لوگوں کی نسبت رحم پیدا ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ ! انصار نے مکہ والوں کے مظالم کے جو واقعات سنے ہوئے ہیں آج ان کی وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ وہ قریش کے ساتھ کیا معاملہ کریں.رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا کہ ابوسفیان، سعد نے غلط کہا ہے.آج رحم کا دن ہے.آج اللہ تعالیٰ قریش اور خانہ کعبہ کو عزت بخشنے والا ہے.پھر آپ نے ایک آدمی کو سعد کی طرف بھیجوایا اور فرمایا اپنا جھنڈا اپنے بیٹے قیں سو دے دو کہ وہ تمہاری جگہ انصار کے لشکر کا کمانڈر ہو گا.اس طرح آپ نے جھنڈا ان سے لے لیا اور ان کے بیٹے کو دے دیا.اس طرح آپ نے مکہ والوں کا دل بھی رکھ لیا اور انصار کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنے سے محفوظ ر کھا اور رسول اللہ صلی علیم کو قیس پر پورا اعتماد تھا جو سعد کے بیٹے تھے کیونکہ قیس نہایت ہی شریف طبیعت کے نوجوان تھے.سارے قرضداروں کا قرض معاف کر دیا حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں ایسے شریف تھے، ان کی شرافت کا یہ حال تھا کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ان کی وفات کے قریب جب بعض لوگ ان کی عیادت کے لیے آئے اور بعض نہ آئے تو انہوں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ بعض دوست میرے واقف ہیں اور میری عیادت کے لیے نہیں آئے.ان کے دوستوں نے کہا کہ آپ بڑے مخیر آدمی ہیں.قیس بڑے مخیر تھے اور لوگوں کی بڑی مدد کرتے تھے تو آپ ہر شخص کو اس کی تکلیف کے وقت قرضہ دے دیتے ہیں.کسی نے مانگا قرضہ دے دیا اور شہر کے بہت سے لوگ آپ کے مقروض ہیں اور وہ اس لیے آپ کی عیادت کے لیے نہیں آئے کہ شاید آپ کو ضرورت ہو اس حالت میں اور آپؐ ان سے روپیہ مانگ بیٹھیں.جو قرض دیا ہوا ہے وہ واپس نہ مانگ لیں.آپ نے فرمایا او ہو، بڑا افسوس کا اظہار کیا کہ میرے دوستوں کو بلاوجہ ہم تکلیف ہوئی ہے.ان کو اگر یہ خیال آیا تو میری طرف سے تمام شہر میں منادی کر دو، اعلان کر دو کہ ہر شخص جس پر قیس کا قرضہ ہے وہ اسے معاف ہے.اس پر کہتے ہیں کہ اس قدر لوگ ان کی عیادت کے لیے آئے کہ ان کے مکان کی سیڑھیاں ٹوٹ گئیں.1130 غزوہ حنین اور اموال غنیمت کی تقسیم اور انصار کا نصیبہ سمجھ غزوہ حنین جس کا دوسر انام غزوہ ہوازن بھی ہے، حسین مکہ مکرمہ اور طائف کے در میان مکہ سے تیس میل کے فاصلہ پر واقع ایک گھائی ہے.غزوۂ حسنین شوال آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ہوا تھا.جو اموالِ غنیمت اس جنگ میں حاصل ہوئے وہ نبی کریم صلی سلیم نے مہاجرین میں تقسیم کر دیے.انصار نے

Page 498

تاب بدر جلد 4 482 اپنے دلوں میں اس بات کو محسوس کیا.اس کے متعلق ایک تفصیلی روایت مسند احمد بن حنبل میں اس طرح مذکور ہے کہ حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی الم نے قریش اور دیگر قبائل عرب میں مال تقسیم فرمایا تو انصار کے حصے میں اس میں سے کچھ نہ آیا.انصار نے اس کو محسوس کیا اور ان میں اس کے متعلق باتیں ہونے لگیں.یہاں تک کہ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ رسول اللہ صلی علی کی اپنی قوم سے جاملے ہیں، ہمیں بھول گئے.مہاجروں کو دے دیا.حضرت سعد بن عبادہ آنحضرت صلی علیہ یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! یہ قبیلہ یعنی انصار جو ہیں آپ کے متعلق اپنے نفسوں میں کچھ محسوس کر رہا ہے.آپ نے جو اپنی قوم اور مختلف قبائل عرب میں مالِ ئے تقسیم کیا ہے اور انصار کو اس میں سے کچھ بھی نہیں ملا.آپ نے پوچھا اے سعد! اس معاملے میں تم کس طرف ہو ؟ تم اپنی بات کرو.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنی قوم کا محض ایک فرد ہوں اور میری کیا حیثیت ہے.آپ صلی علی یم نے فرمایا اپنی قوم کو اس احاطے میں اکٹھا کرو یعنی وہاں ایک بڑا احاطہ تھا، ایک جگہ تھی وہاں لے کے آؤ.چنانچہ حضرت سعد نکلے اور انہوں نے انصار کو اس احاطے میں اکٹھا کر لیا.کچھ مہاجرین بھی آگئے.حضرت سعد نے انہیں اندر آنے دیا اور کچھ اور لوگ اندر آئے تو حضرت سعد نے انہیں روک دیا.جب سب اکٹھے ہو گئے تو حضرت سعد نے آنحضرت صلی ی کمی کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ انصار جمع ہو گئے ہیں.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی یکم ان کے پاس تشریف لائے اور اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا.اے گروہ انصار ! کیا باتیں ہیں جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچ رہی ہیں، کہ تمہیں اس بات پر کچھ ناراضگی ہے کہ تمہیں مال نہیں ملا.کیا جب میں تمہارے پاس آیا تو تم گمراہی میں نہ پڑے ہوئے تھے کہ اللہ نے تمہیں ہدایت سے سرفراز فرمایا ؟ تم مالی تنگ دستی کا شکار نہ تھے کہ اللہ نے تمہیں مال دار بنا دیا ؟ تم ایک دوسرے کے دشمن نہ تھے کہ اللہ نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں.اللہ اور اس کا رسول زیادہ احسان کرنے والا اور افضل ہیں.آپ نے فرمایا کہ اے انصار کے گروہ ! تم میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم آپ کو کیا جواب دیں جبکہ احسان اور فضل اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے.آپ نے فرمایا بخدا اگر تم چاہتے تو یہ کہہ سکتے تھے اور تمہاری وہ بات سچی ہوتی اور تمہاری تصدیق بھی ہو جاتی کہ آپ ہمارے پاس اس حال میں آئے تھے جب آپ کو جھٹلا دیا گیا تھا.پس ہم نے آپ کی تصدیق کی اور آپ کو آپ کے اپنوں نے چھوڑ دیا تھا تو ہم نے آپ کی مدد کی.آپ ہمارے پاس آئے کہ لوگوں نے آپ کو نکال دیا تھا تو ہم نے آپ کو پناہ دی.آپ کو ہم نے ایک بڑے کنبے والا پایا تو ہم نے آپ کے ساتھ مواسات قائم کی.اے انصار کے گروہ ! کیا تم نے دنیا کے حقیر سے مال پر دکھ محسوس کیا ہے ؟ پھر آپ نے یہ الفاظ فرمانے کے بعد کہا کہ تم یہ یہ جواب دے سکتے تھے.پھر فرمایا کہ اے انصار کے گروہ ! کیا تم نے دنیا کے حقیر مال پر دکھ محسوس کیا ہے کہ میں نے تمہیں نہیں دیا اور ان کو دے دیا جو میں نے اس

Page 499

اصحاب بدر جلد 4 483 قوم کی تالیف قلب کے لیے دیا ہے تاکہ وہ اسلام قبول کر لیں اور میں نے تمہیں تمہارے اسلام کے سپر د کر دیا ہے.ان کی تالیف قلب کی ہے تاکہ اسلام قبول کر لیں اور مضبوط ہوں اور تمہیں تمہارے اسلام کے سپر د کر دیا ہے.اے انصار کے گروہ ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم رسول اللہ کو لے کر اپنے گھروں میں لوٹو، صلی اللہ علیہ وسلم.پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد علی ایم کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک شخص ہو تا.اور اگر لوگ ایک وادی میں چل رہے ہوں اور انصار دوسری وادی میں چل رہے ہوں تو میں انصار کی وادی کو اختیار کروں گا.اے اللہ ! انصار پر رحم فرما اور انصار کے بیٹوں پر اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں پر.راوی کہتے ہیں اس پر وہ سب انصار رونے لگے جو وہاں موجود تھے حتی کہ ان کی داڑھیاں ان کے آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور وہ کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ تم پر تقسیم اور حصے کے لحاظ سے راضی ہیں یعنی جو بھی آپ نے تقسیم کی ہے اس پر راضی ہیں اور آپ ہمارے لیے کافی ہیں.پھر رسول اللہ صلی علیہ کو واپس تشریف لے گئے اور لوگ بھی منتشر ہو گئے.1131 حجۃ الوداع اور حضرت سعد م کا اخلاص و محبت حجۃ الوداع کے لیے مدینہ سے سفر کر کے جب نبی کریم صلی للی کم مقام حج پر پہنچے تو وہاں آپ کی سواری گم ہو گئی.آنحضرت صلی یی کم اور حضرت ابو بکر کی سواری ایک ہی تھی اور وہ حضرت ابو بکڑ کے غلام کے پاس تھی جس سے رات کے وقت وہ گم ہو گئی.حضرت صفوان بن معقل قافلہ میں سب سے پیچھے تھے.وہ اپنے ہمراہ اس اونٹنی کو لے آئے اور سارا سامان بھی اس پہ موجود تھا.وہ اونٹنی جو گم گئی تھی اس کو لے آئے اور وہ سامان بھی اس پہ موجود تھا.حضرت سعد بن عبادہ نے جب یہ بات سنی تو اپنے بیٹے قیس کے ہمراہ آئے.ان دونوں کے ساتھ ایک اونٹ تھا جس پر زادِ راہ تھا.سارا سامان سفر کا لد ا ہوا تھا.وہ رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ اس وقت اپنے گھر کے دروازے کے پاس کھڑے ہوئے تھے.تب اللہ تعالی نے آپ کی سامان والی سواری واپس لوٹا دی تھی یعنی اس وقت تک آپ کی وہ اونٹنی مل چکی تھی جو گئی تھی.جب سعد آئے ہیں تو حضرت سعد نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کی سامان والی سواری گم ہو گئی ہے.یہ ہماری سواری اس کے بدلے میں ہے.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ وہ سواری ہمارے پاس لے آیا ہے.یعنی وہ جو گئی تھی وہ مل گئی ہے.تم دونوں اپنی سواری واپس لے جاؤ.اللہ تم دونوں میں برکت ڈالے.1132 حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ملی علی یم کی بیٹی نے آپ کو کہلا بھیجا کہ میرا بچہ حالتِ

Page 500

اصحاب بدر جلد 4 484 نزع میں ہے ہمارے پاس آئیں تو آپ نے کہلا بھیجا اور فرمایا کہ اللہ ہی کا ہے جو لے لے اور اسی کا ہے جو عنایت کرے اور ہر بات کا اس کے ہاں ایک وقت مقرر ہے.اس لیے تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی چاہو.انہوں نے پھر آپ کو بلا بھیجا اور آپ صلی علی کیم کو قسم دی کہ ان کے پاس ضرور آئیں.آپ اٹھے اور آپ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت اور کئی آدمی نبی کریم صلی علی نیم کے پاس تھے.جب آپ پہنچے تو بچہ اٹھا کر لایا گیا.وہ بچہ اس وقت دم توڑ رہا تھا اور ایسی ہی دم توڑنے کی آواز آرہی تھی.عثمان کہتے تھے کہ میرا خیال ہے اسامہ نے کہا کہ جیسے پرانی مشک ٹھکرانے سے آواز دیتی ہے یعنی ایسی آواز آرہی تھی کہ بڑے بڑے سانس لے رہا تھا.بچے کی یہ حالت دیکھ کر آپ صلی ایام کے آنسو بہنے لگے.حضرت سعد نے کہا کہ یارسول اللہ یہ کیا ہے ! آپ نے جواب دیا یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے اور اللہ بھی اپنے بندوں میں سے انہی پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں.یہ کوئی جذباتی حالت ہے تو ایسی کوئی بات نہیں.محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.حضرت سعد کی عیادت اور آپ صلی ال نیم کا رو دینا 1133 حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ کو کسی بیماری کی شکایت ہوئی تو رسول اللہ صلی علی و کم حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ان سب کو اپنے ساتھ لے کر ان کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے.جب ان کے پاس پہنچے تو آپ نے ان کو گھر والوں کے جمگھٹ میں پایا.آپ نے فرمایا کیا یہ فوت ہو گئے ؟ لوگ بیماری کی وجہ سے اکٹھے ہوئے تھے ، شدید بیماری تھی.گھر والے ارد گرد اکٹھے تھے.انہوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ ! فوت نہیں ہوئے.بہر حال نبی کریم صلی للی کم قریب گئے.ان کی حالت دیکھی تو آپ رو پڑے.لوگوں نے نبی کریم صلی علی یم کو روتے دیکھا تو وہ بھی رو دیے.پھر آپ نے فرمایا کہ سنتے نہیں.دیکھو کہ اللہ آنکھ کے آنسو نکلنے سے عذاب نہیں دیتا اور نہ دل کے غمگین ہونے پر بلکہ اس کی وجہ سے سزا دے گا یا رحم کرے گا اور آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا اور پھر فرمایا اور میت کو بھی اس کے گھر والوں کے اس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے.نوحہ کرنا جو ہے وہ غلط ہے.اس وقت ہو سکتا ہے کہ دیکھ کر ان کی ایسی حالت ہو یا آپ کی دعا کی کیفیت پید اہوئی ہو اس میں بھی آپ کو رونا آگیا ہو لیکن باقیوں نے یہ سمجھا ہو کہ ان کا آخری وقت ہے اس لیے رونا شروع کر دیا.اس بات پر آنحضرت صلی علی یکم نے انہیں سمجھایا کہ رونا منع نہیں ہے لیکن بری بات اور منع یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے ظاہر ہونے پر ناراض ہو جائے.پس آنسو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے نکلیں تو اس کار حم جذب کرتے ہیں ورنہ اگر بر امنا کر نکلیں اور اس پر نوحہ کیا جائے تو پھر یہ سنز امل جاتی ہے.بہر حال اس وقت فوت نہیں ہوئے تھے جبکہ بیماری ان کی شدید تھی.1134

Page 501

اصحاب بدر جلد 4 485 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی للی کم کی خدمت میں حاضر تھے کہ انصار میں سے ایک شخص آپ کے پاس آیا.اس نے آپ کو سلام کیا.پھر وہ انصاری پیچھے مڑا.رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا اے انصاری بھائی ! میرے بھائی سعد بن عبادہ کا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا بہتر ہے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تم میں سے کون اس کی عیادت کرے گا.آپ اٹھے اور ہم آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم دس سے کچھ اوپر لوگ تھے.ہم نے نہ جوتے پہنے تھے نہ موزے، نہ ٹوپیاں تھیں نہ قمیض.یعنی بڑی جلدی میں آپ کے ساتھ ساتھ چلے گئے.کہتے ہیں کہ ہم اس قدر زمین میں چلے یہاں تک کہ ہم ان کے یعنی سعد بن عبادہ کے پاس آئے.سارے لوگ ان کے ارد گرد اکٹھے وہ سب پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ صلی علی کم اور آپ کے وہ اصحاب جو آپ کے ساتھ تھے ان کے الله سة قریب آگئے.یہ صحیح مسلم کی روایت ہے.اسی پہلے واقعہ کا اس روایت میں ذکر ہے.1135 حضرت جابر بن عبد اللہ بن عمرو بن حرام بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے حریرہ تیار کرنے کا حکم دیا.میں نے حریرہ تیار کیا.حریرہ مشہور غذا ہے جو آئے اور گھی اور پانی سے بنتا ہے بلکہ ( بعض نے کہا ہے کہ) آئے اور دودھ سے بنتا ہے بہر حال یہ انہوں نے لغت حدیث میں سے جو (معنی) نکالا ہے انہوں نے کہا ہے کہ میں ان کے حکم کے مطابق وہ حریرہ رسول کریم صلی علیم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا.نبی کریم صلی علیہ نام اس وقت گھر میں تھے.آپ نے فرمایا اے جابر! کیا یہ گوشت ہے ؟ میں نے عرض کی جی نہیں یار سول اللہ ! یہ حریرہ ہے جو میں نے اپنے والد کے حکم سے بنایا ہے.پھر انہوں نے مجھے حکم دیا تو میں آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہو ا ہوں.پھر میں واپس اپنے والد کے پاس آگیا.میرے والد نے پوچھا کیا تم نے رسول اللہ صلی علیکم کو دیکھا.میں نے کہا جی.میرے والد نے پوچھار سول اللہ صلی علیم نے تمہیں کیا کہا ؟ میں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی العلیم نے مجھ سے پوچھا کہ اے جابر ! کیا یہ گوشت ہے ؟ میرے والد نے سن کر کہا کہ شاید رسول اللہ صل العلم کو گوشت کی خواہش ہو رہی ہو.والد صاحب نے بکری ذبح کی، اس کو بھونا اور مجھے حکم دیا کہ یہ رسول اللہ صلی یی کم کی بارگاہ میں پیش کر آؤ.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میں نے وہ بکری رسول اللہ صلی اللی کم کی خدمت میں پیش کر دی.رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ انصار کو ہماری طرف سے جزائے خیر دے بالخصوص عبد اللہ بن عمر و بن حرام اور سعد بن عُبادہ کو.136 انصار کے بہترین گھرانے حضرت ابو اسید سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی العلیم نے فرمایا کہ انصار کے گھرانوں میں سے بہترین بنو نجار ہیں.پھر بنو عبد ا کھل.پھر بنو حارث بن خزرج.پھر بنو ساعدہ اور انصار کے تمام گھرانوں میں بھلائی ہے.یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہ بولے اور وہ اسلام میں اعلیٰ پایہ کے تھے.یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے یعنی کہ اچھے اعلیٰ پائے کے تھے کہ میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی الم نے انہیں ہم سے

Page 502

اصحاب بدر جلد 4 ان پر 486 افضل قرار دیا ہے.اس پر ان سے کہا گیا کہ آنحضرت صلی علیم نے آپ کو بھی تو بہت سے لوگوں پر فضیلت دی ہے.1137 حضرت ابواسید انصاری گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ ہم نے فرمایا کہ انصار کے بہترین گھر بنو نجار ہیں.پھر بنو عبد اشہل.پھر بنو حارث بن خزرج اور پھر بنو ساعدہ اور انصار کے سب گھروں میں بھلائی ہے.راوی ابو سلمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو اسید نے کہا کہ رسول اللہ سے یہ روایت کرنے پر مجھے متہم کیا جاتا ہے.اگر میں غلط کہہ رہاہوتا تو ضرور اپنی قوم بنو ساعدہ سے شروع کرتا.یہ بات حضرت سعد بن عبادہ تک پہنچی تو بھی بڑی گراں گزری.پہلی بھی جو روایت ہے اس میں بھی ان کا اظہار یہ تھا کہ ہمیں انہوں نے کہا کہ ہمیں پیچھے کر دیا گیا ہے یہاں تک کہ ہم چار میں سے آخری ہو گئے ہیں.انہوں نے کہا کہ میرے لیے یعنی سعد بن عبادہ نے کہا کہ میرے لیے میرے گدھے پر زین کسو.میں رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں جارہا ہوں.ان کے بھتیجے سہل نے ان سے کہا، سعد بن عبادہ کے بھیجے نے کہا کہ کیا آپ اس لیے جارہے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم کی بات کی تردید کریں.جو آپ نے ترتیب بیان کی ہے اس کے بارے میں بلا وجہ جا کے پوچھیں حالانکہ رسول اللہ صلی علیکم زیادہ جانتے ہیں.کیا آپ کے لیے یہ کافی نہیں کہ آپ چار میں سے ایک ہیں.چنانچہ انہوں نے ارادہ بدل دیا اور کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں اور انہوں نے اپنے گدھے کی زین کھولنے کا حکم دیا اور وہ زمین کھول دی گئی.یہ بھی صحیح مسلم کی روایت ہے.138 ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! مجھے قابل تعریف بنا دے اور مجھے شرف اور بزرگی والا بنا دے.شرف اور بزرگی بغیر اچھے کاموں کے نہیں ہو سکتی.اچھے کام نہ ہوں تو پھر شرف بھی نہیں مل سکتا اور بزرگی بھی نہیں ہو سکتی اور اچھے کام بغیر مال کے نہیں ہو سکتے.اے اللہ ! تھوڑا میرے لیے مناسب نہیں اور نہ ہی میں اس میں درست رہوں گا.1139 تمہارا سردار بہت غیور ہے ، میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ بہر حال یہ دعا کرنے کا ان کا اپنا ایک انداز تھا.صحیح مسلم کی ایک روایت ہے.حضرت ابوہریرہ اللہ ! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ شخص کو غلط حالت میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ میں چار گواہ لے آؤں.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا ہاں.اس پر انہوں نے کہا کہ ہر گز نہیں.اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر میں ہوں تو اس سے پہلے ہی جلدی سے تلوار کے ساتھ اس کا فیصلہ کر دوں.کوئی گواہی تلاش نہیں کروں گا بلکہ قتل کر دوں گا.رسول اللہ صلی الل ولم نے فرمایا لوگوں سے کہا کہ سنو ! تمہارا سر دار کیا کہتا ہے.وہ بہت غیور ہے اور فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے.کہ کے بر دی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ کے ہر سة 1140

Page 503

اصحاب بدر جلد 4 487 پھر اسی حوالے سے مسلم کی ہی ایک اور روایت بھی ہے جو حضرت مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ نے کہا اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھوں تو اسے قتل کر دوں اور تلوار بھی چوڑے رخ سے نہیں دھار کے رخ سے.یہ بات رسول اللہ صلی علیہم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو.اللہ کی قسم ! میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے.اللہ نے اپنی غیرت ہی کی وجہ سے بے حیائیوں کو منع فرمایا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں اور کوئی شخص بھی اللہ سے زیادہ غیرت مند نہیں اور اللہ سے بڑھ کر کوئی شخص معذرت کرنے کو پسند نہیں کرتا.اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند بھی نہیں اور اللہ جتنا معذرت کو پسند کرتا ہے، تو بہ کو پسند کرتا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے کوئی شخص اس میں اللہ سے زیادہ بڑھ نہیں سکتا.آپ نے فرمایا کہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر مبعوث فرمایا ہے.بشارت بھی دیتے ہیں ڈراتے بھی ہیں.اور کوئی شخص اللہ سے بڑھ کر مدح کو پسند نہیں کرتا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ کی مدح، تعریف برائیوں سے بچنا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے جنت کا بھی وعدہ کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ سزا بھی دیتا ہے تو جلدی نہیں کرتا.انسان کہہ دے میں غیرت کھا گیا اور جلدی کی.تو بہ کرنے والے کو معاف بھی فرماتا ہے اور صرف معاف ہی نہیں کرتا بلکہ نواز تا بھی ہے.پس اللہ 1141 تعالیٰ کے قانون سے، آپ نے فرمایا آگے نہ بڑھو.جو اللہ تعالیٰ کے قانون ہیں اس کے اندر رہو.حدیث میں ایک روایت مسند احمد بن حنبل کی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کر میم ملی ایم نے ان سے فرمایا فلاں قبیلے کے صدقات کی نگرانی کرو لیکن دیکھنا قیامت کے دن اس حال میں نہ آنا کہ تم اپنے کندھے پر کسی جوان اونٹ کو لادے ہوئے ہو اور وہ قیامت کے روز چیخ رہا ہو.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر یہ ذمہ داری کسی اور کے سپرد فرما دیجیے تو آپ نے یہ کام ان کے سپرد نہیں کیا.1142 یعنی نگرانی کا پھر حق ادا کرنا ہو گا.انصاف کرنا ہو گا اور کسی قسم کی خیانت نہیں ہو گی.اگر خیانت ہوئی، انصاف نہ ہوا، اس کا حق ادا نہ ہوا تو پھر یہ بہت بڑا گناہ ہے اور قیامت کے دن اس کا جواب دہ ہونا ہو گا.آنحضرت صلی الم کے دور میں چھ انصار نے قرآن کریم جمع کیا تھا آنحضرت صلی علیم کے دور میں چھ انصار نے قرآن کریم جمع کیا تھا جن میں حضرت سعد بن عبادہ بھی شامل تھے.43 1143 حضرت مصلح موعود اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ انصار میں سے جو مشہور حفاظ تھے ان کے نام یہ ہیں : عبادہ بن صامت.معاذ مجمع بن حارثہ.فَضَاله بن عُبيد - مسلمه بن مخلد - ابو دَرْدَاء - ابوزید زید بن ثابت.اُبی بن کعب اور سعد بن رض

Page 504

اصحاب بدر جلد 4 488 عبادہ اثر ورقه " لکھتے ہیں کہ " تاریخ سے ثابت ہے کہ صحابہ میں سے بہت سے قرآن کریم کے حافظ 1144 خلافت کے مقام کی اہمیت آنحضرت صلی ایم کی وفات کے بعد انصار اپنے میں سے جن کو خلیفہ منتخب کرنا چاہتے تھے ان میں ان کا نام بھی خاص طور پر لیا جاتا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ انصار کا ان کو خلیفہ منتخب کرنے پر زور تھا اور یہ قوم کے سردار بھی تھے اور جب حضرت ابو بکر خلیفہ منتخب کیے گئے تو یہ اس وقت بلکہ اس سے پہلے ہی انصار کے کہنے پر کچھ متزلزل بھی ہو گئے تھے کہ ان کو ہونا چاہیے.اس حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور خلافت کے مقام کی اہمیت بھی اس حوالے سے بیان کی ہے.اس لیے میں اس بیان کو بڑا ضروری سمجھتا ہوں.وقت کی بڑی ضرورت ہے.مصلح موعودؓ کے اس حوالے سے پہلے حدیث اور ایک تاریخی حوالہ بھی پیش کروں گا.حضرت ابو بکر کا انتخاب خلافت اور سعد بن عبادہ کا کردار محمید بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی نیلم کے وصال کے وقت حضرت ابو بکر مدینہ منورہ کے نواح میں تھے.جب وہ آئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ سلم کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر آپ کے چہرہ مبارک کو چوما اور فرمایا میرے ماں باپ آپ پر قربان ! آپ زندہ ہونے اور وفات یافتہ ہونے کی حالت میں کس قدر پاکیزہ تھے.پھر کہا کہ رب کعبہ کی قسم محمد صلی اللہ یوم وفات پاچکے ہیں.اس کے بعد حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما تیزی کے ساتھ سقیفہ بنو ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے.یہ دونوں وہاں پہنچے تو حضرت ابو بکر نے گفتگو شروع کی.آپؐ نے قرآن کریم میں انصار کی بابت جو کچھ نازل ہوا اس میں سے کچھ نہ چھوڑا اور نبی کریم صلی للی ایم نے انصار کی فضیلت کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ سب بیان کیا.پھر آپ نے فرمایا تم لوگوں کو علم ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تھا کہ اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا.پھر حضرت سعد کو مخاطب کر کے حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ اے سعد! تجھے علم ہے کہ تو بیٹھا ہوا تھا جب رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا کہ خلافت کا حق دار قریش ہوں گے.لوگوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ قریش کے نیک افراد کے تابع ہوں گے اور جو فاجر ہوں گے وہ قریش کے فاجروں کے تابع ہوں گے.حضرت سعد نے کہا کہ آپ نے سچ کہا.ہم وزیر ہیں اور آپ لوگ امراء.یہ مسند احمد بن حنبل کی حدیث ہے.15 طبقات الکبریٰ میں اس موقعے کی تفصیل میں اس طرح لکھا ہے کہ نبی کریم صلی کم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر نے حضرت سعد بن عبادہ کی طرف پیغام بھجوایا کہ وہ آکر بیعت کریں کیونکہ لوگوں نے بیعت کرلی ہے اور تمہاری قوم نے بھی بیعت کرلی ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں اس 1145

Page 505

489 اصحاب بدر جلد 4 وقت تک بیعت نہیں کروں گا جب تک میں اپنے ترکش میں موجو د سارے تیر لوگوں کو نہ مار لوں یعنی بقول ان کے انکار کیا، اور وہ لوگ جو میری قوم و قبیلہ میں سے میرے تابع ہیں ان کے ہمراہ تم لوگوں سے قتال نہ کرلوں.حضرت ابو بکر کو جب یہ خبر موصول ہوئی تو بشیر بن سعد نے کہا کہ اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! انہوں نے انکار کیا ہے اور اصرار کیا یعنی انکار پر اصرار کر رہے ہیں.وہ آپ کی بیعت کرنے والے نہیں خواہ انہیں قتل کر دیا جائے.اور وہ ہر گز قتل نہیں کیے جاسکتے جب تک کہ ان کے ساتھ ان کی اولاد اور ان کے قبیلے کو قتل نہ کیا جائے.اور یہ لوگ ہر گز قتل نہیں کیے جاسکتے جب تک کہ قبیلہ خزرج کو قتل نہ کیا جائے.اور خزرج کو ہر گز قتل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اوس کو قتل نہ کیا جائے.لہذا آپے ان کی طرف پیش قدمی نہ کریں جبکہ اب لوگوں کے لیے معاملہ سیدھا ہو چکا ہے.وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا یعنی ان کی قوم میں سے اکثریت نے بیعت کرلی ہے.اگر انکار کیا ہے تو کوئی بات نہیں کیونکہ وہ ایک ایسا تنہا شخص ہے جسے چھوڑ دیا گیا ہے.حضرت ابو بکر نے حضرت بشیر کی نصیحت کو قبول کرتے ہوئے حضرت سعد کو چھوڑ دیا.پھر جب حضرت عمر خلیفہ بنے تو ایک روز مدینہ کے راستے پر سعد سے ملے تو آپ نے فرمایا.کہو اے سعد.سعد نے کہا کہو اے عمر یہ آپس میں گفتگو ہو رہی ہے.حضرت عمر نے فرمایا کہ تم ویسے ہی ہو جیسے پہلے تھے ؟ سعد نے کہا ہاں میں ویسا ہی ہوں.خلافت آپ کو مل گئی ہے.ٹھیک ہے کہ خلافت تو مل گئی ہے آپ کو.بہت سارے لوگوں نے بیعت بھی کر لی ہے لیکن میں نے ابھی تک نہیں کی.پھر انہوں نے کہا کہ بخدا آپ کا ساتھی یعنی حضرت ابو بکر ہمیں آپ کی نسبت زیادہ محبوب تھا.یہ حضرت عمرؓ کو حضرت سعد نے کہا کہ حضرت ابو بکر ہمیں آپ کی نسبت زیادہ محبوب تھے.پھر حضرت سعد نے کہا کہ بخدا میں نے اس حالت میں صبح کی ہے کہ میں آپ کی ہمسائیگی کو پسند نہیں کرتا.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جو اپنے پڑوسی کی مصاحبت کو نا پسند کرتا ہے تو وہ پھر اُس کے پاس سے منتقل ہو جائے.حضرت سعد نے کہا میں یہ بھولنے والا نہیں یعنی میں یہ کروں گا.میں ایسی ہمسائیگی کی طرف منتقل ہونے والا ہوں جو اُن کے خیال میں آپ سے بہتر ہے.کچھ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ حضرت سعد نے حضرت عمر کی خلافت کے آغاز میں ملک شام کی طرف ہجرت کی.طبقات الکبری کا یہ حوالہ ہے.1146 حضرت سعد کے متعلق یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی تھی.چنانچہ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ وَاتَّبَعَ الْقَوْمُ عَلَى الْبَيْعَةِ، وَبَايَعَ سَعْدٌ که ساری قوم نے باری باری حضرت ابو بکر کی بیعت کی اور حضرت سعد نے بھی بیعت کی.یہ تاریخ طبری کا حوالہ ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے جو تفصیل بیان فرمائی ہے اس میں بہت سے پہلو بیان ہو جاتے ہیں.خلافت کی بیعت بھی کیوں ضروری ہے، خلافت کا مقام کیا ہے اور حضرت سعد نے جو کچھ کیا اس کی کیا حیثیت ہے؟ 1147

Page 506

تاب بدر جلد 4 490 رض آپ اپنے ایک خطبہ میں بیان فرماتے ہیں کہ " قتل کے معنی قطع تعلق کے بھی ہوتے ہیں.رسول کریم صلی یم کی وفات کے بعد جب صحابہ میں خلافت کے متعلق اختلاف پیدا ہوا.انصار کا خیال تھا کہ خلافت ہمارا حق ہے ، ہم اہل بلد ہیں.کم سے کم اگر ایک مہاجرین میں سے خلیفہ ہو تو ایک انصار میں سے و." یعنی دو دو ہوں."بنو ہاشم نے خیال کیا کہ خلافت ہمارا حق ہے.رسولِ کریم صلی یہ کم ہمارے خاندان سے تھے.اور مہاجرین گو یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ قریش سے ہونا چاہیے کیونکہ عرب لوگ سوائے قریش کے کسی کی بات ماننے والے نہ تھے مگر وہ کسی خاص شخص کو پیش نہ کرتے تھے بلکہ تعین کو انتخاب پر چھوڑنا چاہتے تھے " کہ انتخاب کر لیتے ہیں."مسلمان جسے منتخب کر لیں وہی خدا تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ سمجھا جائے گا.جب انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا تو انصار اور بنو ہاشم سب ان سے متفق ہو گئے مگر ایک صحابی کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی.یہ وہ انصاری صحابی تھے جنہیں انصار اپنے میں سے خلیفہ بنانا چاہتے تھے اس لیے شاید انہوں نے اس بات کو اپنی ہتک سمجھایا یہ بات ہی ان کی سمجھ میں نہ آئی " جو بھی وجہ تھی اور انہوں نے کہہ دیا کہ میں ابو بکر کی بیعت کے لیے تیار نہیں ہوں.حضرت عمر کا اس موقعے کے متعلق ایک قول بعض تاریخوں میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا اُفتلُوا سعدا.یعنی سعد کو قتل کر دو لیکن نہ انہوں نے خود ان کو قتل کیا نہ کسی اور نے.بعض ماہر زبان لکھتے ہیں کہ حضرت عمر کی مراد صرف یہ تھی کہ سعد سے قطع تعلق کر لو.بعض تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت سعد با قاعدہ مسجد میں آتے اور الگ نماز پڑھ کر چلے جاتے تھے اور کوئی صحابی ان سے کلام نہ کرتا تھا.پس قتل کی تعبیر قطع تعلق اور قوم سے جد اہونا بھی ہوتی ہے."1148 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سعد بن عبادہ کے واقعے کی مزید تفصیل بیان فرماتے ہیں اور یہ پہلا اقتباس جو میں نے پڑھا ہے اس خطبے کے حوالے سے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے پہلے ایک خطبے میں ایک انصاری صحابی کا ذکر کیا تھا کہ رسول کریم صلی ایم کی وفات کے بعد بعض انصار کی تحریک تھی کہ انصار میں سے خلیفہ مقرر کیا جائے لیکن جب مہاجرین نے اور خصوصاً حضرت ابو بکر نے صحابہ کو بتایا کہ اس قسم کا انتخاب کبھی بھی ملت اسلامیہ کے لیے مفید نہیں ہو سکتا اور یہ کہ مسلمان کبھی اس انتخاب پر راضی نہیں ہوں گے یعنی انصار کو منتخب کرنے یہ تو پھر انصار اور مہاجر اس بات پر جمع ہوئے، اس بات پر متفق ہوئے کہ وہ کسی مہاجر کے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور آخر حضرت ابو بکر کی ذات پر ان سب کا اتفاق ہوا.انصار پر تو اتفاق نہیں ہو سکتا تھا.حضرت ابو بکر نے وضاحت فرمائی اور بعض اور صحابہ نے وضاحت فرمائی کہ کیونکہ یہ مفید نہیں ہو گا.بہر حال یہ فیصلہ ہوا کہ مہاجرین میں سے خلیفہ ہو اور پھر حضرت ابو بکر کی ذات پر ان سب کا اتفاق ہوا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت بتایا تھا کہ اُس وقت جب سعد نے بیعت سے تخلف کیا تھا، تھوڑا سا انقباض کیا تھا تو حضرت عمر نے کہا تھا کہ اُقْتُلُوا سغدًا.یعنی سعد کو قتل کر دو مگر نہ تو انہوں نے سعد کو قتل کیا اور نہ کسی اور صحابی نے بلکہ وہ حضرت عمرؓ کی خلافت تک زندہ رہے.حضرت سعد حضرت عمر کی خلافت تک زندہ رہے جیسا کہ پہلے اقتباس بیان ہو چکا ہے اور حضرت عمر کی خلافت میں شام میں فوت ہوئے.انہوں نے ہجرت کر لی تھی اور شام میں فوت

Page 507

اصحاب بدر جلد 4 491 ہوئے جس سے ائمہ سلف نے استدلال کیا ہے کہ قتل کے معنی یہاں جسمانی قتل نہیں بلکہ قطع تعلق کے ہیں اور عربی زبان میں قتل کے کئی معنی ہوتے ہیں.اردو میں بے شک قتل کے معنی جسمانی قتل کے ہی ہوتے ہیں لیکن عربی زبان میں جب قتل کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ کئی معنوں میں استعمال ہو تا ہے جن میں سے ایک معنی قطع تعلق کے ہیں اور لغت والوں نے استدلال کیا ہے کہ حضرت عمر کی مراد قتل سے قتل نہیں بلکہ قطع تعلق تھا، ان کو چھوڑ دیا جائے، ان سے بات چیت بند کر دی جائے ورنہ اگر قتل سے مراد ظاہری طور پر قتل کر دینا تھا تو حضرت عمرؓ نے جو بہت جو شیلے تھے انہیں خود کیوں نہ قتل کر دیا یا صحابہ میں سے کسی نے کیوں انہیں قتل نہ کیا مگر جبکہ حضرت عمرؓ نے نہ صرف انہیں اس وقت قتل نہ کیا بلکہ اپنی خلافت کے زمانے میں بھی قتل نہ کیا اور بعض کے نزدیک تو وہ حضرت عمر کی خلافت کے بعد بھی زندہ رہے اور ر کسی صحابی نے ان پر ہاتھ نہ اٹھایا تو بہر حال اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل سے مراد قطع تعلق ہی تھا.ظاہری طور پر قتل کرنا نہیں تھا اور گو وہ صحابی عام صحابہ سے الگ رہے.حضرت سعدان سے الگ ہو گئے لیکن کسی نے اُن پر ہاتھ نہیں اٹھایا.پس حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مثال دی تھی کہ رویا میں بھی اگر کسی کے متعلق قتل ہو نا دیکھا جائے تو اس کی تعبیر قطع تعلق اور بائیکاٹ بھی ہو سکتی ہے.اپنے ایک خطبہ کا ذکر کر رہے ہیں.بہر حال آگے فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک دوست نے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے اس خطبے کے بعد کہا کہ سعد نے گو بیعت نہیں کی تھی لیکن مشوروں میں انہیں ضرور شامل کیا جاتا تھا یعنی بیعت نہ ہونے کے باوجو د بھی حضرت ابو بکر نہیں مشوروں میں شامل کرتے تھے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں اس شخص نے جو بات کی ہے حضرت سعد کے متعلق اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں کہ یا تو میرے مفہوم کی تردید ہے یعنی حضرت مصلح موعودؓ لغت کی قتل کی جو تعریف بیان کر رہے ہیں یا تو وہ میرے مفہوم کی تردید کر رہا ہے یا یہ کہ یعنی کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہو ایا یہ کہ خلافت کی بیعت نہ کرنا کوئی اتنا بڑا جرم نہیں ہے.دوسری بات یہ شخص یہی ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اگر خلافت کی بیعت نہ کی جائے تو کوئی بڑا جرم نہیں ہے کیونکہ سعد نے گو بیعت نہیں کی تھی مگر مشوروں میں شامل ہوا کرتے تھے.آپؐ فرماتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے کہ تَا مَرْد سُخَن نَكُفْتَه بَاشَد عَيْب وَهُشْرَشُ نَهُفْتَه بَاشَد انسان کے عیب و ہنر اس کی بات کرنے تک پوشیدہ ہوتے ہیں.جب انسان بات کر دیتا ہے تو کئی دفعہ اپنے عیوب ظاہر کر دیتا ہے.خاموش ہو تو عیب چھپے رہتے ہیں.بعض دفعہ بیوقوفوں والی باتیں کر دیتا ہے تو عیب ظاہر ہو جاتے ہیں.آپ کہتے ہیں کہ اس شخص نے جس نے یہ تعریف کی تھی کہ حضرت عد مشورے میں شامل ہوتے تھے یا حضرت مصلح موعودؓ کے خطبہ پہ تبصرہ کیا تھا، اس شخص کا بات کرنا بھی یہی معنی رکھتا ہے کہ یا تو وہ خلافت کی بیعت کی تخفیف کرنا چاہتا ہے یا اپنے علم کا اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں.علم کے اظہار کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بات اتنی ہی غلط ہے کہ ہر سعد

Page 508

تاب بدر جلد 4 492 عقل مند اِس کو سن کر سوائے مسکر ا دینے کے اور کچھ نہیں کر سکتا.صحابہ کے حالات کے متعلق اسلامی تاریخ میں تین کتابیں بہت مشہور ہیں اور تمام تاریخ جو صحابہ سے متعلق ہے انہی کتابوں میں چکر کھاتی ہے اور وہ کتابیں یہ ہیں کہ تہذیب التہذیب، اصابہ اور اُسد الغابہ.ان تینوں میں سے ہر ایک میں یہی لکھا ہے کہ سعد باقی صحابہ سے الگ ہو کے شام میں چلے گئے اور وہیں فوت ہوئے اور بعض لغت کی کتابوں نے بھی قتل کے لفظ پر بحث کرتے ہوئے اس واقعے کا ذکر کیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ صحابہ میں سے ساٹھ ، ستر کے نام سعد ہیں.انہی میں سے ایک سعد بن ابی وقاص بھی ہیں جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے.حضرت عمرؓ کی طرف سے کمانڈر ان چیف مقرر تھے اور تمام مشوروں میں شامل ہوتے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبے پہ یہ اعتراض کیا تھا اس نے کمی علم سے سعد کا لفظ سن کر یہ نہ سمجھا کہ یہ سعد اور ہے اور وہ سعد اور ، بلکہ جھٹ میرے خطبے پہ تبصرہ کر دیا.یہ میں نے سعد بن ابی وقاص کا ذکر نہ کیا تھا جو مہاجر تھے بلکہ میں نے جس کا ذکر کیا وہ انصاری تھے.ان دو کے علاوہ اور بھی بہت سے سعد ہیں بلکہ ساٹھ ، ستر کے قریب سعد ہیں.جس سعد کے متعلق میں نے ذکر کیا ان کا نام سعد بن عبادہ تھا.عرب کے لوگوں میں نام دراصل بہت کم ہوتے تھے اور عام طور پر ایک ایک گاؤں میں ایک نام کے کئی کئی آدمی ہوا کرتے تھے.جب کسی کا ذکر کرنا ہو تا تو اس کے باپ کے نام سے اس کا ذکر کرتے مثلاً صرف سعد یا سعید نہیں کہتے تھے بلکہ سعد بن عبادہ یا سعد بن ابی وقاص کہتے.پھر جہاں باپ کے نام سے شناخت نہ ہو سکتی وہاں ان کے مقام کا ذکر کرتے ، جہاں مقام کے ذکر سے بھی شناخت نہ ہو سکتی وہاں اس کے قبیلہ کا ذکر کرتے.چنانچہ ایک سعد کے متعلق تاریخوں میں بڑی بحث آئی ہے کیونکہ نام ان کا دوسروں سے ملتا جلتا تھا اس لیے مورخین ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مثلاً ہماری مراد اوسی سعد سے ہے یا مثلاً خزر جی سعد سے ہے.یہ اعتراض کرنے والے صاحب جو ہیں یا تبصرہ کرنے والے ان صاحب نے معلوم ہوتا ہے کہ ناموں کے اختلاف کو نہیں سمجھا اور یو نہی اعتراض کر دیا مگر ایسی باتیں انسانی علم کو بڑھانے والی نہیں ہو تیں بلکہ جہالت کا پردہ فاش کرنے والی ہوتی ہیں.خلافت ایک ایسی چیز ہے جس سے جدائی کسی عزت کا مستحق انسان کو نہیں بنا سکتی پھر آپ فرماتے ہیں کہ خلافت ایک ایسی چیز ہے جس سے جدائی کسی عزت کا مستحق انسان کو نہیں بنا سکتی.آپؐ فرماتے ہیں کہ اسی مسجد میں جہاں آپ خطبہ دے رہے تھے غالباً مسجد اقصیٰ ہے کہ میں نے حضرت خلیفہ اول سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ تم کو معلوم ہے کہ پہلے خلیفہ کا دشمن کون تھا ؟ پھر خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ قرآن پڑھو تمہیں معلوم ہو گا کہ اس کا دشمن ابلیس تھا.یعنی آدم کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا تو اس کا دشمن ابلیس تھا.اس کے بعد آپ نے فرمایا یعنی حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ میں بھی خلیفہ ہوں اور جو میر ادشمن ہے وہ بھی ابلیس ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ مامور نہیں ہوتا، گو یہ ضروری

Page 509

تاب بدر جلد 4 493 بھی نہیں کہ وہ مامور نہ ہو.حضرت آدم مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے.حضرت داؤد مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے.اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے.پھر تمام انبیاء مامور بھی ہوتے ہیں اور خدا کے قائم کردہ خلیفہ بھی.جس طرح ہر انسان ایک طور پر خلیفہ ہے اسی طرح انبیاء بھی خلیفہ ہوتے ہیں مگر ایک وہ خلفاء ہوتے ہیں جو کبھی مامور نہیں ہوتے.گو اطاعت کے لحاظ سے ان میں اور انبیاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا.اطاعت جس طرح نبی کی ضروری ہوتی ہے ویسے ہی خلفاء کی بھی ضروری ہوتی ہے.ہاں ان دونوں اطاعتوں میں ایک امتیاز اور فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ نبی کی اطاعت اور فرمانبر داری اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ وحی الہی اور پاکیزگی کا مرکز ہوتا ہے مگر خلیفہ کی اطاعت اس لیے نہیں کی جاتی کہ وہ وحی الہی اور تمام پاکیزگی کا مرکز ہے بلکہ اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ تنفیذ وحی الہی اور تمام نظام کا مرکز ہے یعنی جو وحی نبی پہ اتری ہے اس کی تنفیذ کرنے والا ہے.اور جو نظام نبی نے قائم کیا ہے اس کو چلانے کا مرکز ہے خلیفہ.اسی لیے واقف اور اہل علم لوگ کہا کرتے ہیں کہ انبیاء کو عصمت کبری حاصل ہوتی ہے اور خلفاء کو عصمت صغری.اسی مسجد میں (جہاں قادیان میں مصلح موعودؓ خطبہ فرمار ہے ہیں کہ اسی مسجد میں) اسی منبر پر جمعہ کے ہی دن حضرت خلیفہ اول سے میں نے سنا.آپ فرماتے تھے کہ تم میرے کسی ذاتی فعل میں عیب نکال کر اس اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتے.اگر میرا کوئی ذاتی کام ہے اس میں کوئی عیب نکال لو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اطاعت سے باہر ہو گئے.کبھی نہیں ہو سکتے جو خدا نے تم پر عائد کی ہے.وہ اطاعت جو خدا نے تم پر عائد کی ہے تم اس سے باہر نہیں ہو سکتے کیونکہ جس کام کے لیے میں کھڑ ا ہوا ہوں وہ اور ہے اور وہ نظام کا اتحاد ہے.اس لیے میری فرمانبر داری ضروری اور لازمی ہے.تو انبیاء کے متعلق جہاں الہی سنت یہ ہے کہ سوائے بشری کمزوریوں کے جس میں توحید اور رسالت میں فرق ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ دخل نہیں دیتا اور اس لیے بھی کہ وہ امت کی تربیت کے لیے ضروری ہوتی ہے جیسے سجدہ سہو کہ وہ بھول کے نتیجے میں ہوتا ہے مگر اس کی ایک غرض امت کو سہو کے احکام کی عملی علیم دینا تھی.ایسی غلطی نبی بھی کر سکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ ہم سے بھی ہوئی اور سجدہ سہو بھی آپ نے پھر ادا فرمایا.فرمایا کہ انبیاء کے تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتے ہیں اور وہاں خلفاء کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے ، انبیاء کے لیے تو ہو گیا کہ تمام اعمال خدا کی حفاظت میں ہیں لیکن خلفاء کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ اُن کے وہ تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں گے جو نظام سلسلہ کی ترقی کے لیے ان سے سرزد ہوں گے اور کبھی بھی وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کریں گے اور اگر کریں تو اس پر قائم نہیں رہیں گے جو جماعت میں خرابی پیدا کرنے والی اور اسلام کی فتح کو اس کی شکست میں بدل دینے والی ہو.وہ جو کام بھی نظام کی مضبوطی یعنی خلیفہ وقت جو کام بھی نظام کی مضبوطی اور اسلام کے کمال کے لیے کریں گے خدا تعالیٰ کی حفاظت اس کے ساتھ ہو گی اور اگر وہ کبھی غلطی بھی کریں تو خدا ان کی اصلاح کا خود ذمہ دار ہو گا گویا نظام کے متعلق خلفاء کے اعمال کے ذمہ دار خلفاء نہیں بلکہ خدا ہے.اس لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلفاء خود قائم کیا کرتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتے یعنی خلفاء غلطی نہیں کر سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یا تو انہی کی زبان سے یا عمل سے خدا تعالیٰ اس غلطی کی اصلاح کرا دے گا یا اگر ان کی

Page 510

تاب بدر جلد 4 494 زبان یا عمل سے غلطی کی اصلاح نہ کرائے تو اس غلطی کے بد نتائج کو بدل ڈالے گا یعنی اس کے نتائج پھر بد نہیں نکلیں گے.فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت چاہے کہ خلفاء کبھی کوئی ایسی بات کر بیٹھیں جس کے نتائج بظاہر مسلمانوں کے لیے مضر ہوں اور جس کی وجہ سے بظاہر جماعت کے متعلق خطرہ ہو کہ وہ بجائے ترقی کرنے کے تنزل کی طرف جائے گی تو اللہ تعالیٰ نہایت مخفی سامانوں سے اس غلطی کے نتائج کو بدل دے گا اور جماعت بجائے تنزل کے ترقی کی طرف قدم بڑھائے گی اور وہ مخفی حکمت بھی پوری ہو جائے گی جس کے لیے خلیفہ کے دل میں ذہول پیدا کیا گیا تھا یعنی کوئی بھول ہو گئی تھی یا غفلت ہو گئی تھی ، وہ حکمت پوری ہو جائے گی.مگر انبیاء کو یہ دونوں باتیں حاصل ہوتی ہیں یعنی عصمت کبریٰ بھی اور عصمت صغریٰ بھی.وہ تنفیذ و نظام کا بھی مرکز ہوتے ہیں اور وحی و پاکیزگی اعمال کا بھی مرکز ہوتے ہیں.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر خلیفہ کے متعلق ضروری ہے کہ وہ پاکیزگی اعمال کا مرکز نہ ہو.ہاں یہ ہو سکتا ہے، ممکن ہے کہ پاکیزگی اعمال سے تعلق رکھنے والے بعض افعال میں وہ دوسرے اولیاء سے کم ہو.پس جہاں ایسے خلفاء ہو سکتے ہیں جو پاکیزگی اعمال کا مرکز ہوں اور نظام سلسلہ کا مرکز بھی، وہاں ایسے خلفاء بھی ہو سکتے ہیں جو پاکیزگی اور ولایت میں دوسروں سے کم ہوں لیکن انتظامی قابلیت، نظامی قابلیتوں کے لحاظ سے دوسروں سے بڑھے ہوئے ہوں مگر ہر حال میں ہر شخص کے لیے ان کی اطاعت فرض ہو گی چونکہ نظام کا ایک حد تک جماعتی سیاست کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.اب جماعتی سیاست سے لوگ ایک دم چونک گئے ہوں گے.بعضوں کو خیال آیا ہو گا کہ یہ جماعتی سیاست کیا ہوئی ؟ یہاں لفظ سیاست سے مراد عمومی طور پر ہماری زبان میں، زبان میں کیا ؟ ہمارے ہاں عام طور پر جو مفہوم لیا جاتا ہے وہ منفی رنگ میں لیا جاتا ہے اور منفی رنگ میں ہی استعمال ہوتا ہے.کچھ سیاست دانوں نے اس لفظ کو بدنام کر دیا ہے کہ جوڑ توڑ کرنا اور نقصان پہنچانا یا صحیح کام نہ کرنا لیکن حقیقت میں اس کا جو لغت میں مطلب ہے اس سے مراد یہ ہے کہ نظام چلانے کا طریق.صحیح رنگ میں نظام چلانا اس کو سیاست کہتے ہیں.پھر حکمت عملی سے کام کرنا یہ ہے اس کا مطلب.برائیوں کو روکنے کے لیے نظام کو قائم کرنا یہ ہے اس کا مطلب.عقل اور حکمت سے کام کو چلانا.بین الا قوامی معاملات کو صحیح رنگ میں ادا کرنے کی صلاحیت ہونا یہ اصل سیاست ہے.گویا تمام مثبت باتیں اس لفظ کا مطلب ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ بد قسمتی سے ہم اصلی معنوں کو بھول کر سیاست دانوں کے عمل کی وجہ سے اور اپنی ہی غلط حرکتوں کی وجہ سے منفی مطلب لیتے ہیں لیکن بہر حال یہاں حضرت مصلح موعودؓ نے جو یہ لفظ سیاست استعمال کیا ہے وہ مثبت رنگ میں استعمال کیا ہے اور وہ ساری وہ باتیں ہیں جو میں نے بیان کی ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ نظام کو چلانے کے لیے جو عقل اور حکمت اور دانائی اور صلاحیتیں ہونی چاہئیں.فرمایا کہ چونکہ نظام کا ایک حد تک جماعتی سیاست کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس لیے خلفاء کے متعلق غالب پہلو یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ نظامی پہلو کو بر تر رکھنے والے ہوں.نظامی پہلو کو سب سے اوپر

Page 511

ناب بدر جلد 4 495 رکھیں.گو ساتھ ہی یعنی یہاں آپ نے اس بات کی وضاحت بھی کر دی.گو ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ دین کے استحکام اور اس کے مفہوم کے قیام کو بھی مد نظر رکھیں، نظام جماعت چلانا بھی فرض ہے خلیفہ وقت کا اور ساتھ ہی ان کے لیے دین کے استحکام اور اس کے قیام کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے.اس لیے خدا تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جہاں خلافت کا ذکر کیا وہاں بتایا ہے کہ وَ لَيْمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارتضى لَهُم خدا ان کے دین کو مضبوط کرے گا اور اسے دنیا پر غالب کرے گا.پس جو دین خلفاء پیش کریں وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے مگر یہ حفاظت صفر کی ہوتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ جزئیات میں وہ غلطی کر سکتے ہیں اور خلفاء کا آپس میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے مگر وہ نہایت ادنی چیزیں، معمولی چیزیں ہوتی ہیں جیسے بعض مسائل کے متعلق حضرت ابو بکر اور حضرت عمر میں اختلاف رہا بلکہ آج بھی امت محمد یہ ان مسائل کے بارے میں ایک عقیدہ اختیار نہیں کر سکی مگر یہ اختلاف صرف جزئیات میں ہوتا ہے.اصولی امور میں ان میں کبھی اختلاف نہیں ہو گا بلکہ اس کے برعکس ان میں بھی اتحاد ہو گا کہ وہ یعنی خلفاء دنیا کے ہادی اور رہنما اور اسے روشنی پہنچانے والے ہوں گے.پس یہ کہہ دینا کہ کوئی شخص باوجود بیعت نہ کرنے کے اس مقام پر رہ سکتا ہے جس مقام پر بیعت کرنے والا ہو در حقیقت یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسا شخص سمجھتا ہی نہیں کہ بیعت اور نظام کیا چیز ہے.مشورہ کی اہمیت اور...مشورے کے متعلق بھی یہ یادرکھنا چاہیے کہ ایک ایکسپرٹ اور ماہر فن خواہ وہ غیر مذہب کا ہو اس سے مشورہ لے لیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مقدمے میں ایک انگریز وکیل کیا مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آپ نے امورِ نبوت میں اس سے مشورہ لیا.جنگ احزاب ہوئی تو اس وقت رسول کریم صلی العلیم نے حضرت سلمان فارسی سے مشورہ لیا اور فرمایا کہ تمہارے ملک میں جنگ کے موقعے پر کیا کیا جاتا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک میں تو خندق کھود لی جاتی ہے.آپ نے فرمایا یہ بہت اچھی تجویز ہے.چنانچہ خندق کھودی گئی اور اسی لیے اسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے مگر باوجود اس کے ہم نہیں کہہ سکتے کہ سلمان فارسی فنونِ جنگ میں رسول کریم صلی المیہ کم سے زیادہ ماہر تھے.انہیں فنونِ جنگ میں مہارت کا وہ مقام کہاں حاصل تھا جو محمد صلی املی کام کو حاصل تھا یا محمد صلی علیم نے جو کام کیے وہ کب حضرت سلمان فارسی نے کیے بلکہ خلفاء کے زمانے میں بھی انہیں یعنی حضرت سلمان فارسی کو کسی فوج کا کمانڈر ان چیف نہیں بنایا گیا حالانکہ انہوں نے لمبی عمر پائی تھی.تو ایک ایکسپرٹ خواہ وہ غیر مذہب کا ہو اس سے بھی مشورہ لیا جا سکتا ہے.آپؐ پھر اپنا بیان فرماتے ہیں کہ میں بیمار تھا تو انگریز ڈاکٹروں سے بعض مشورے لے لیتا ہوں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خلافت میں بھی میں نے ان سے مشورہ لیا ہے یا ان سے مشورہ لیتا ہوں یا یہ کہ میں انہیں اسی مقام پر سمجھتا ہوں جس مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کو سمجھتا ہوں.صحابہ سے مشورہ لیتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر سے مشورہ

Page 512

صحاب بدر جلد 4 496 لینا اور صحابہ سے مشورہ لینا ایک بات ہے.صحابہ کا مقام بہر حال بلند ہے.فرمایا بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ میں نے طب میں مشورہ لیا.ایک خاص فیلڈ، ایک خاص شعبہ ہے اس میں مشورہ لیا یا کسی خاص بات کے لیے مشورہ لیا.پس فرض کرو کہ سعد بن عبادہ سے کسی دنیوی امر میں جس میں وہ ماہر فن ہوں مشورہ لینا ثابت بھی ہو تو یہ نہیں کہا جا سکتا، تب بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے.مگر ان سے متعلق تو کوئی صحیح روایت ایسی نہیں جس میں ذکر آتا ہو کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے بلکہ مجموعی طور پر روایات یہی بیان کرتی ہیں کہ وہ مدینہ چھوڑ کر شام کی طرف چلے گئے تھے اور صحابہ پر یہ اثر تھا کہ وہ اسلامی مرکز سے منقطع ہو چکے ہیں.اسی لیے ان کی وفات پر صحابہ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے نزدیک ان کی موت کو بھی اچھے رنگ میں نہیں سمجھا گیا کیونکہ یوں تو ہر ایک کو فرشتہ ہی مارا کرتا ہے مگر ان کی وفات پر خاص طور پر کہنا کہ انہیں فرشتوں نے یا جنوں نے مار دیا، بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک وفات ایسے رنگ میں ہوئی کہ گویا خدا تعالیٰ نے انہیں اپنے خاص فعل سے اٹھا لیا کہ وہ شقاق کا موجب نہ ہوں یعنی بہر حال بدری صحابہ میں سے تھے تو کسی قسم کے نفاق یا کوئی اور مخالفت یا اور کوئی ایسی بات کا موجب نہ ہوں جس سے پھر ان کا وہ مقام گرتا ہو لیکن بہر حال وہ علیحدہ ہو گئے.یہ بیان کرنے کے بعد آپؐ فرماتے ہیں کہ یہ تمام روایات بتلاتی ہیں کہ ان کی وہ عزت صحابہ کے دلوں میں نہیں رہی تھی جو ان کے اُس مقام کے لحاظ سے ہونی چاہیے تھے جو کبھی انہوں نے حاصل کیا تھا.اور یہ کہ صحابہ ان سے خوش نہیں تھے ورنہ وہ کیونکر کہہ سکتے تھے کہ فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا بلکہ ان الفاظ سے بھی زیادہ سخت الفاظ ان کی وفات پر کہے گئے ہیں جنہیں میں اپنے منہ سے کہنا نہیں چاہتا.پس یہ خیال کہ خلافت کی بیعت کے بغیر بھی انسان اسلامی نظام میں اپنے مقام کو قائم رکھ سکتا ہے واقعات اور اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف ہے اور جو شخص اس قسم کے خیالات اپنے دل میں رکھتا ہے میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ بیعت کا مفہوم ذرہ بھی سمجھتا ہو.1149 حضرت سعد کی وفات حضرت سعد بن عبادہ کی وفات حوران ملک شام میں ہوئی.حضرت عمر کے خلیفہ منتخب ہونے کے اڑھائی سال کے بعد ہوئی تھی.علامہ ابن حجر عسقلانی کے مطابق ان کی وفات شام کے شہر بصری میں ہوئی تھی.یہ شام کا پہلا شہر تھا جو مسلمانوں نے فتح کیا تھا.مدینہ میں ان کی موت کا پتا نہیں لگا، پھر کس طرح علم ہوا ؟ یہ روایت آتی ہے یہاں مدینہ میں اس کا علم اس وقت ہوا کہ جب بِثْرِ مَدَبَّهُ بابترِ سَكَن کے کنویں تھے ان میں دو پہر کی سخت گرمی میں چھلانگیں لگانے والے لڑکوں میں سے ایک نے کنویں میں سے کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ قد قَتَلْنَا سَيْدَ الْخَزْرَجِ سَعْدَ بْنَ عُبَادَه وَرَمَيْنَاهُ بِسَهْمَيْنِ فَلَمْ تُخْطِ فُؤَادَه

Page 513

اصحاب بدر جلد 4 497 کہ ہم نے خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کر دیا.ہم نے اسے دو تیر مارے ہم نے اس کے دل پر نشانہ لگانے سے خطا نہ کیا.لڑکے ڈر گئے اور لوگوں نے اس دن کو یا در کھا.لوگوں نے اسے وہی دن پا یا جس روز حضرت سعد کی وفات ہوئی تھی.سعد بیٹھے پیشاب کر رہے تھے کہ انہیں قتل کر دیا گیا اور وہ اسی وقت وفات پاگئے.حضرت سعد بن عبادہ کی وفات حضرت عمررؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی.ان کی وفات کے سال میں اختلاف ہے.بعض روایات کے مطابق 14 ہجری میں اور بعض کے مطابق 15 ہجری میں اور بعض کے مطابق وفات 16 ہجری میں ہوئی.حضرت سعد کی قبر دمشق کے قریب نشیبی جانب واقع ایک گاؤں مَنِيْحَة میں ہے.طبقات الکبریٰ کا یہ حوالہ ہے.1150 138 نام و کنیت حضرت سعد بن عبید حضرت سعد بن عبيد بدری صحابی تھے.حضرت سعد بن عبید غزوۂ بدر، احد خندق سمیت تمام غزوات میں حضور صلی علیہم کے ساتھ شامل ہوئے.آپؐ کا نام سعید بھی بیان ہوا ہے.آپ قاری کے لقب سے مشہور تھے.آپ کی کنیت ابوزید تھی.حضرت سعد بن عبید کا شمار ان چار اصحاب میں ہوتا ہے جنہوں نے انصار میں سے رسول اللہ صلی علیم کے دور میں قرآن جمع کیا تھا.آپ کے بیٹے عمیر بن سعد حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں شام کے ایک حصہ کے والی تھے.مسجد قبا کے امام ایک روایت کے مطابق حضرت سعد بن عبيد "آنحضرت صلی العلم کے زمانے میں مسجد قبا میں امامت کرتے تھے.حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمرؓ کے دور میں بھی اس امامت پر مامور تھے.حضرت سعد بن عبید ہجرت کے سولہویں سال جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے.شہادت کے وقت آپ کی عمر 64 سال تھی.قادسیہ کا ایک اور بہادر شہید عبد الرحمن بن ابولیلیٰ سے روایت ہے کہ جنگ جسر جو 13 ہجری میں ہوئی اس میں مسلمانوں کو

Page 514

صحاب بدر جلد 4 498 کافی نقصان ہوا تھا.حضرت سعد بن عُبید شکست کھا کر واپس آئے.پیچھے ہٹ گئے تھے تو حضرت عمرؓ نے حضرت سعد بن عبید سے فرمایا کہ ملک شامل میں جہاد سے دجیسی ہے؟ سوال پوچھا.وہاں مسلمانوں سے شدید خونریزی کی گئی ہے.مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے.اگر تمہیں شوق ہے تو پھر وہاں چلے جاؤ اور دشمن کی اس خونریزی کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے اس سے دشمن ان پر دلیر ہو گئے ہیں تو حضرت عمرؓ نے ان کو فرمایا کہ شاید آپ اپنے اوپر لگی ہوئی شکست کی بدنامی کا داغ دھو سکیں کیونکہ یہاں یعنی جنگ جسر سے واپس آئے تو مسلمانوں کو نقصان ہوا تھا تو حضرت عمرؓ نے آپ کو کہا کہ اگر اس بدنامی کا، شکست کا داغ دھونا ہے تو وہاں شام کی طرف بھی جنگ ہو رہی ہے.حضرت سعد نے عرض کیا نہیں.میں سوائے اس زمین کے اور کہیں نہیں جاؤں گا جہاں سے میں بھا گاہوں یا نا کام واپس آیا ہوں اور ان دشمنوں کے مقابل پر ہی نکلوں گا جنہوں نے میرے ساتھ جو کرنا تھا کیا.یعنی مراد یہ تھی کہ لڑائی میں وہ غالب آگئے.چنانچہ حضرت سعد بن عبید قادسیہ آئے اور وہاں لڑتے لڑتے شہید ہو گئے.عبد الرحمن بن ابولیلی روایت کرتے ہیں کہ حضرت حضرت سعد بن عبید نے لوگوں سے وعظ کیا اور کہا کہ کل ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے اور کل ہم شہید ہوں گے.لہذا تم لوگ نہ ہمارے بدن سے خون دھونا اور نہ سوائے ان کپڑوں کے جو ہمارے بدن پر ہیں کوئی اور کفن دینا.1151 جنگ جسر جنگ جسر کی کچھ تفصیل ایک گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے بیان کی تھی.اس حوالے سے کچھ اور تھوڑا بیان کر دیتا ہوں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ جنگ جسر 13 ہجری میں دریائے فرات کے کنارے مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان لڑی گئی تھی اور مسلمانوں کی طرف سے لشکر کے سپہ سالار حضرت ابو عبید ثقفی تھے جبکہ ایرانیوں کی طرف سے بَ بمَن جَادُویہ سپہ سالار تھا.مسلمان فوج کی تعد اد دس ہزار تھی جبکہ ایرانیوں کی فوج میں تیس ہزار فوجی اور تین سو ہا تھی تھے.دریائے فرات کے درمیان حائل ہونے کی وجہ سے یعنی بیچ میں دریائے فرات آگیا تھا اس وجہ سے دونوں گروہ کچھ عرصہ تک لڑائی سے رکے رہے یہاں تک کہ فریقین کی باہمی رضامندی سے فرات پر جسر یعنی ایک پل تیار کیا گیا.اسی پل کی وجہ سے اس کو جنگ جسر کہا جاتا ہے.جب پل تیار ہو گیا تو بہمن جَادُوَیہ نے حضرت ابوعبید کو کہلا بھیجا کہ تم دریا عبور کر کے ہماری طرف آؤ گے یا ہمیں عبور کرنے کی اجازت دو گے.حضرت ابوعبید کی رائے تھی کہ مسلمانوں کی فوج دریا عبور کر کے مخالف گروہ سے جنگ کرے جبکہ لشکر کے سردار جن میں حضرت سلیط بھی تھے اس رائے کے خلاف تھے لیکن حضرت ابوعبید نے دریائے فرات کو عبور کر کے اہل فارس کے لشکر پر حملہ کر دیا.تھوڑی دیر تک لڑائی ایسے ہی چلتی رہی.کچھ دیر بعد بهمن جادویہ نے اپنی فوج کو منتشر ہوتے دیکھا.دیکھا کہ ایرانیوں کی فوج پیچھے ہٹ رہی ہے تو اس نے ہاتھیوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا.ہاتھیوں کے آگے بڑھنے سے مسلمانوں کی صفیں بے ترتیب رض

Page 515

اب بدر جلد 4 499 ย ہو گئیں.اسلامی لشکر ادھر ادھر ہٹنے لگا.حضرت ابوعبید نے مسلمانوں کو کہا کہ اے اللہ کے بندو! ہاتھیوں پر حملہ کرو اور ان کی سونڈیں کاٹ ڈالو.حضرت ابوعبید یہ کہہ کر خود آگے بڑھے اور ایک ہاتھی پر حملہ کر کے اس کی سونڈ کاٹ ڈالی.باقی لشکر نے بھی یہی دیکھ کر تیزی سے لڑائی شروع کر دی اور کئی ہاتھیوں کی سونڈیں اور پاؤں کاٹ کر ان کے سواروں کو قتل کر دیا.اتفاق اے حضرت ابوعبید ایک ہاتھی کے سامنے آئے.آپ نے وار کر کے اس کی سونڈ کاٹ دی مگر آپ اس ہاتھی کے پاؤں کے نیچے آگئے اور دب کر شہید ہو گئے.حضرت ابوعبید کی شہادت کے بعد سات آدمیوں نے باری باری اسلامی جھنڈ اسنبھالا اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے.آٹھویں شخص حضرت منفی تھے جنہوں نے اسلامی جھنڈے کو لے کر دوبارہ ایک پر جوش حملے کا ارادہ کیا لیکن اسلامی لشکر کی صفیں بے ترتیب ہوگئی تھیں اور لوگ مسلسل سات امیروں کو شہید ہوتے دیکھ کر ادھر ادھر بھاگنا شروع ہو گئے تھے جبکہ کچھ دریا میں کود گئے تھے.حضرت مثلی اور آپ کے ساتھی مردانگی سے لڑتے رہے.بالآخر حضرت مثلی زخمی ہو گئے اور آپ لڑتے ہوئے دریائے فرات عبور کر کے واپس آگئے.اس واقعہ میں مسلمانوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا.مسلمانوں کے چار ہزار آدمی شہید ہوئے جبکہ ایرانیوں کے چھ ہزار فوجی مارے گئے.1152 بہر حال یہ جنگ اس لیے ہوئی تھی کہ ایرانیوں کی طرف سے بار بار حملے ہو رہے تھے اور ان حملوں کے روکنے کے لیے یہ اجازت لی گئی تھی کہ جنگ کریں.1153 رض 139 حضرت سعد بن عثمان بن خلدة انصاری حضرت سعد بن عثمان بن خلدة انصاری.بعض کے نزدیک ان کا نام سعید بن عثمان ہے.غزوہ بدر میں شامل ہوئے.ان اشخاص میں سے ہیں جن کے پاؤں جنگ احد میں اکھڑ گئے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب کی معافی کو قرآن کریم میں نازل فرمایا.آپ حضرت عقبہ کے بھائی تھے.ایک دفعہ نبی کریم صلی علیہ کے حوزہ کے مقام پر ی پر اکاب پر تشریف لائے جو ان دنوں آپ کی یعنی کہ ان صحابی کی ملکیت تھا جہاں آپ اپنے بیٹے عبادہ کو چھوڑ گئے تھے تاکہ وہ لوگوں کو پانی پلائیں.حضرت عبادہ نبی کریم صلی علیکم کو نہ پہچان پائے.جو چھوٹے بیٹے تھے.بعد میں جب حضرت سعد آئے تو عبادہ نے آنے والی شخصیت کا حلیہ بیان کیا تو حضرت سعد نے کہا کہ یہی تو رسول اللہ صلی علی کم تھے جن کو تم نے پہچانا نہیں.جاؤ جا کے ملوان سے، فوری دوڑ کے جاؤ پیچھے.

Page 516

تاب بدر جلد 4 500 چنانچہ وہ آپ صلی یکم کے پاس گئے اور حضور صلی علیہم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دی.حضرت سعد بن عثمان کی 80 سال کی عمر تھی جب ان کی وفات ہوئی.1154 140 جس کی وفات پر رحمن خدا کا عرش جھوم اٹھا ابو عمر و حضرت سعد بن معاذ اوس قبیلہ کے رئیس اعظم انصارِ مدینہ میں وہ پوزیشن حاصل تھی جو مہاجرین مکہ میں حضرت ابو بکر کو حاصل تھی نام و نسب و کنیت حضرت سعد بن معاف.حضرت سعد بن معاذ کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کی شاخ بنو عبدُ الْأَشْهَل سے تھا اور آپ قبیلہ اوس کے سردار تھے.آپ کے والد کا نام معاذ بن نعمان تھا اور والدہ کا نام گہشہ بنتِ رافع تھا جو صحابیہ رسول صلی علیہ کی تھیں.حضرت سعد بن معاذ کی کنیت ابو عمرو تھی.حضرت سعد بن معاذ کی بیوی کا نام ھند بنت سماک تھا جو صحابیہ تھیں.حضرت ہند سے حضرت سعد بن معاذ کی اولاد میں عمر و اور عبد اللہ تھے.قبول اسلام حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اُسید بن حضیر نے حضرت مصعب بن عمیر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور حضرت مصعب بن عمیر بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہونے والے ستر صحابہ سے پہلے مدینہ آگئے تھے.ان کو مدینہ بھجوایا گیا تھا.رسول اللہ صلی املی کام کے ارشاد کے مطابق لوگوں کو اسلام طرف بلاتے اور انہیں قرآن پڑھ کر سناتے.جب حضرت سعد بن معاذ نے اسلام قبول کیا تو بنو عبد الاشہل سے کہا کہ مجھ پر حرام ہے کہ میں تمہارے مردوں اور عورتوں سے کلام کروں یہاں تک کہ تم اسلام قبول کر لو.چنانچہ اس قبیلے کے سب افراد نے اسلام قبول کر لیا اور انصار میں سے بنو عبد الاشہل کا گھرانہ وہ پہلا گھرانہ تھا جس کے سب مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کیا.حضرت سعد بن معاذ حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت اسعد بن زرارہ کو اپنے گھر لے آئے.مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ دونوں آدمیوں کو لے آئے.پھر وہ دونوں حضرت سعد بن معادؓ

Page 517

تاب بدر جلد 4 501 کے گھر میں ہی لوگوں کو اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے.حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اسعد بن زرارہ خالہ زاد بھائی تھے اور حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اُسید بن حضیر نے بنو عبد الاشہل کے بت توڑے تھے.ایک ہی خاندان کے تھے.اس لیے جب سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا تو انہوں نے ان کے بت توڑے.مواخات رسول الله صلى ال ل ل لم نے حضرت سعد کی مؤاخات حضرت سعد بن ابی وقاص سے کی تھی.ایک دوسری روایت کے مطابق آپ کی مؤاخات حضرت ابوعبیدہ بن الجراح " سے کی تھی.1155 حضرت سعد بن معاذ کے قبولیت اسلام کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں جو لکھا ہے وہ یہ ہے.لکھتے ہیں کہ بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد مکہ سے رخصت ہوتے ہوئے ان بارہ نو مسلمین نے درخواست کی کہ کوئی اسلامی معلم ہمارے ساتھ بھیجا جاوے تا کہ وہ ہمیں وہاں دین سکھائے ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور ہمارے مشرک بھائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرے.آنحضرت صلی ہم نے مصعب بن عمیر کو جو قبیلہ عبدالدار کے ایک نہایت مخلص نوجوان تھے ان کے ساتھ روانہ کر دیا.حضرت مصعب بن محمیر کو بھیج دیا.اسلامی مبلغ ان دنوں میں قاری یا مقری کہلاتے تھے کیونکہ ان کا کام زیادہ تر قرآن شریف سنانا تھا کیونکہ یہی تبلیغ اسلام کا بہترین ذریعہ تھا.چنانچہ مُصْعَب بھی جب مبلغ بن کے یثرب میں گئے تو اسی وجہ سے مقری کے نام سے مشہور ہو گئے.مُصْعَب بن عمیر نے مدینہ پہنچ کر اسعد بن زرارہ کے مکان پر قیام کیا.غالباً اس کا کچھ حصہ میں مصعب بن عمیر کے ذکر میں بھی بتا چکا ہوں.بہر حال یہاں بھی یہ ذکر ہے.انہوں نے اسعد بن زرارہ کے مکان پر قیام کیا جو مدینے میں سب سے پہلے مسلمان تھے.یہ اسعد بن زرارہ ویسے بھی ایک نہایت مخلص اور با اثر بزرگ تھے اور اسی مکان کو اپنا تبلیغی مرکز بنایا اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہو گئے.اور چونکہ مدینے میں مسلمانوں کو اجتماعی زندگی نصیب تھی اور تھی بھی نسبتاً امن کی زندگی، اس لیے اسعد بن زرارہ کی تجویز پر آنحضرت صلی علی یم نے مصعب بن عمیر کو جمعے کی نماز کی ہدایت فرمائی.اس طرح مسلمانوں کی اشتراکی زندگی کا آغاز اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ میں گھر گھر اسلام کا چرچا ہونے لگا.جمعہ با قاعدہ وہاں پڑھا جانے لگا اور اسلام کا چرچا بھی ہونے لگا اور اوس اور خزرج بڑی سرعت کے ساتھ مسلمان ہونے شروع ہو گئے.بعض صورتوں میں تو ایک قبیلے کا قبیلہ ایک دن میں ہی سب کا سب مسلمان ہو گیا.چنانچہ بنو عبد الاشہل کا قبیلہ بھی اسی طرح ایک ہی وقت میں اکٹھا مسلمان ہوا تھا.یہ قبیلہ انصار کے مشہور قبیلہ اوس کا ایک ممتاز حصہ تھا اور اس کے

Page 518

اصحاب بدر جلد 4 502 رئیس کا نام سعد بن معاذ تھا جو صرف قبیلہ بنو عبد الاشہل کے ہی رئیس اعظم نہیں تھے بلکہ تمام قبیلہ اوس کے سردار تھے.جب مدینہ میں اسلام کا چرچا ہوا تو سعد بن معاذ کو یہ بُرا معلوم ہوا اور انہوں نے ایسے روکنا چاہا.جب سعد بن معاذ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور جب اسلام مدینے میں پھیلنا شروع ہوا یہ قبیلے کے رئیس تھے تو ان کو بہت بر الگا.مگر اسعد بن زرارہ سے ان کی بہت قریب کی رشتہ داری تھی ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی تھے اور اسعد مسلمان ہو چکے تھے اس لیے سعد بن معاذ خود براہ راست دخل دیتے ہوئے جھجکتے تھے.رکھتے تھے کہ آپس میں رشتہ داریوں میں کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو جائے.لہذا انہوں نے اپنے ایک دوسرے رشتہ دار اُسید بن الحضیر سے کہا کہ آسعد بن زرارہ کی وجہ سے مجھے تو کچھ حجاب ہے مگر تم جاکر مصعب کو روک دو کہ ہمارے لوگوں میں یہ بے دینی نہ پھیلائیں.آنحضرت صلی ا لم نے مکے سے جو مبلغ بھیجے تھے ان کو جا کے رو کو کہ یہ دین ہمارے شہر میں نہ پھیلائیں اور اسعد سے بھی کہہ دو کہ یہ طریق اچھا نہیں ہے.اُسید جو تھے وہ قبیلہ بنو اشکل کے ممتاز رؤسا میں سے تھے.حتی کہ ان کا والد جنگِ بعات میں تمام اوس کا سر دار رہ چکا تھا.جنگ بعاث جو ہے اس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ یہ جنگ اسلام سے قبل مدینے کے دو قبائل اوس اور خزرج کے درمیان ہوئی تھی.بہر حال سعد بن معاذ کے بعد اُسید بن حضیر کا اپنے قبیلہ پر بہت اثر تھا.چنانچہ سعد کے کہنے پر وه مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ کے پاس گئے اور مصعب سے مخاطب ہو کر غصہ کے لہجہ میں کہا.تم کیوں ہمارے آدمیوں کو بے دین کرتے پھرتے ہو.اس سے باز آجاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا.پیشتر اس کے کہ مصعب کچھ جواب دیتے اسعد نے آہستگی سے مصعب سے کہا کہ یہ اپنے قبیلہ کے ایک با اثر رئیس ہیں ان سے بہت نرمی اور محبت سے بات کرنا.چنانچہ مصعب نے بڑے ادب اور محبت کے رنگ میں اسیڈ سے کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں بلکہ مہربانی فرما کر تھوڑی دیر تشریف رکھیں، ٹھنڈے دل سے ہماری بات سن لیں اور اس کے بعد کوئی رائے قائم کریں.اُسید اس بات کو معقول سمجھ کر بیٹھ گئے اور مصعب نے انہیں قرآن شریف سنایا اور بڑی محبت کے پیرا یہ میں اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا.اُسید پر اتنا اثر ہوا کہ وہیں مسلمان ہو گئے اور پھر کہنے لگے کہ میرے پیچھے ایک ایسا شخص ہے جو اگر ایمان لے آیا تو ہمارا سارا قبیلہ مسلمان ہو جائے گا جس نے مجھے بھیجا ہے.تم ٹھہرو میں اسے بھی یہاں بھیجتا ہوں.یہ کہہ کر اسید اٹھ کر چلے گئے اور کسی بہانہ سے سعد بن معاذ کو مُصعب بن محمیر اور اسعد بن زرارہ کی طرف بھیجوا دیا.سعد بن معاذ آئے اور بڑے غضبناک ہو کر اسعد بن زرارہ سے کہنے لگے کہ دیکھو اسعد ! تم اپنی قرابت داری کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہو.میری جو تمہارے سے رشتہ داری ہے اس کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہو اور یہ ٹھیک نہیں ہے.اس پر مصعب نے جو مبلغ تھے اور مکہ سے آئے ہوئے تھے، اسی طرح نرمی اور محبت کے ساتھ ان کو ٹھنڈا کیا.حضرت مصعب نے بڑی محبت سے ان سے بات کی.انہوں نے کہا کہ آپ ذرا تھوڑی دیر تشریف رکھ کر میری بات سن لیں اور پھر اگر اس میں کوئی چیز قابل - ย رض

Page 519

اصحاب بدر جلد 4 503 اعتراض ہو تو بے شک رڈ کر دیں.سعد نے کہا ہاں یہ مطالبہ معقول ہے اور اپنا نیزہ ٹیک کر بیٹھ گئے.نیزہ ان کے ہاتھ میں تھا اور اکثر جو تھے وہ اس طرح ہی ہتھیار لے کے پھر ا کرتے تھے.اور مصعب نے اسی طرح پہلے قرآن شریف کی تلاوت کی اور پھر اپنے دلکش رنگ میں اسلامی اصول کی تشریح کی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ یہ بت بھی رام تھا.یعنی دل ان کا نرم ہو گیا اور ان پر بھی اسلام کی تعلیم کا اثر ہو گیا.چنانچہ سعد نے مسنون طریق پر غسل کر کے کلمہ شہادت پڑھ دیا اور پھر اس کے بعد سعد اور اُسید بن حضیر دونوں مل کر اپنے قبیلہ والوں کی طرف گئے اور سعد نے ان سے اپنے قبیلے والوں سے مخصوص عربی انداز میں پوچھا کہ اے بنی عبد الاشہل تم مجھے کیسا جانتے ہو ؟ سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ آپ ہمارے سردار اور سردار ابن سردار ہیں اور آپ کی بات پر ہمیں کامل اعتماد ہے.سعد نے کہا تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں جب تک تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لاؤ.اسی وقت تبلیغ بھی شروع کر دی.اس کے بعد سعد نے انہیں اسلام کے اصول سمجھائے یعنی اپنے قبیلے والوں کو اسلام کے اصول سمجھائے.تعلیم دی اور کہتے ہیں کہ ابھی اس دن پر شام نہیں آئی تھی اور دن تختم نہیں ہوا تھا کہ شام سے پہلے پہلے ہی تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا اور سعد اور اسیڈ نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی قوم کے بت نکال کر توڑے.سعد بن معاذ کو انصار میں وہ پوزیشن حاصل تھی جو مہاجرین میں حضرت ابو بکر ھو تھی سعد بن معاذ اور اُسید بن حضیر جو اس دن مسلمان ہوئے تھے دونوں چوٹی کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اور انصار میں تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ لاریب ان کا بہت ہی بلند مقام تھا.کوئی شک نہیں اس میں کہ ان کا بہت بلند مقام تھا.بالخصوص سعد بن معاذ کو تو انصارِ مدینہ میں وہ پوزیشن حاصل تھی جو مہاجرین مکہ میں حضرت ابو بکر کو حاصل تھی.یہ نوجوان نہایت درجه مخلص، نہایت درجه وفادار اور اسلام اور بانی اسلام کا ایک نہایت جاں شار عاشق نکلا اور چونکہ وہ اپنے قبیلے کارئیس اعظم بھی تھا اور نہایت ذہین تھا.اسلام میں اسے وہ پوزیشن حاصل ہوئی جو صرف خاص بلکہ احض صحابہ کو حاصل تھی، بہت ہی خاص صحابہ کو وہ حاصل تھی اور لاریب اس کی جوانی کی موت پر آنحضرت ملا لی لی لی کا ہے ارشاد کہ سعد کی موت پر تو رحمن کا عرش بھی حرکت میں آگیا ہے ایک گہری صداقت پر مبنی تھا.ان کی جوانی میں موت ہو گئی تھی.غرض اس طرح سرعت کے ساتھ اوس اور خزرج میں اسلام پھیلتا گیا.یہو د خوف بھری آنکھ کے ساتھ یہ نظارہ دیکھتے تھے اور دل ہی دل میں یہ کہتے تھے کہ خدا جانے کیا ہونے والا ہے.ہجرت مدینہ کے بعد قریش مکہ کا اہل مدینہ کو دھمکی آمیز خط 1156 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کتاب سیرت خاتم النبیین میں مزید ایک جگہ تحریر فرمایا ہے کہ ابھی آنحضرت صلی اللہ ہم کو مدینہ میں تشریف لائے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ قریش مکہ کی طرف سے

Page 520

اصحاب بدر جلد 4 504 عبد اللہ بن ابی بن سلول رئیس قبیلہ خزرج اور اس کے مشرک رفقاء کے نام، مکہ والوں کی طرف سے ایک تہدیدی خط آیا کہ تم لوگ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی پناہ سے دستبر دار ہو جاؤ ورنہ تمہاری خیر نہیں ہے.چنانچہ اس خط کے الفاظ یہ تھے کہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی محمدعلی ایم کو پناہ دی ہے اور ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو تم اس کا ساتھ چھوڑ کر اس کے خلاف جنگ کرو یا کم از کم اسے اپنے شہر سے نکال دوور نہ ہم اپنا سارا لاؤ لشکر لے کر تم پر حملہ آور ہو جائیں گے اور تمہارے سارے مردوں کو تہ تیغ کر دیں گے اور تمہاری عورتوں پر قبضہ کر کے انہیں اپنے لیے جائز کر لیں گے.جب مدینہ میں یہ خط پہنچا تو عبد اللہ اور اس کے ساتھی جو پہلے سے ہی دل میں اسلام کے سخت دشمن ہو رہے تھے.ان کے اندر آنحضرت صلی الی ظلم کے خلاف، اسلام کے خلاف کیسے پنپ رہے تھے.انہوں نے آنحضرت صلی علیم سے جنگ کرنے کے لیے تیاری شروع کر دی، تیار ہو گئے.آنحضرت صلی علی کم کو جب یہ اطلاع ملی تو آپ فوراً ان لوگوں سے ملے اور ان لوگوں کے پاس گئے.ان کو ، عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں کو سمجھایا کہ میرے ساتھ جنگ کرنے میں تمہارا اپنا ہی نقصان ہے کیونکہ تمہارے ہی بھائی بند تمہارے مقابلے میں ہوں گے.یہ لوگ جو مسلمان ہوئے ہیں یہ تمہارے قبیلے کے لوگ ہیں، تمہارے شہر کے لوگ ہیں اور جب جنگ کرو گے تو یہی لوگ میری طرف سے تمہارے خلاف لڑیں گے.یعنی اوس اور خزرج کے مسلمانوں نے بہر حال میر اساتھ دینا ہے.آپ نے انہیں یہ فرمایا.پھر آپ نے فرمایا پس میرے ساتھ جنگ کرنے کے صرف یہ معنے ہوں گے کہ تم لوگ اپنے ہی بیٹوں اور بھائیوں اور باپوں کے خلاف تلوار اٹھاؤ.اب تم خود سوچ لو کہ یہ ٹھیک ہے.عبد اللہ اور اس کے ساتھیوں کو جن کے دلوں میں ابھی تک جنگ بعاث کی تباہی کی یاد تازہ تھی.آپس میں یہ لڑتے رہے تھے.اس جنگ سے بڑی تباہی پھیلی تھی.ان کو یہ بات سمجھ آگئی کہ دوبارہ آپس میں ہی لڑنا پڑے گا اور وہ اس ارادے سے باز آگئے.کفار مکہ کا یہود مدینہ کو ایک خط جب قریش کو اس تدبیر میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے کچھ عرصے کے بعد اسی قسم کا ایک خط مدینے کے یہود کے نام بھی ارسال کیا.در اصل کفار مکہ کی غرض یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو اسلام کے نام و نشان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جاوے.دنیا سے اس کا نام ہی ختم کر دیا جائے.مسلمان ان کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ گئے.جب حبشہ کی پہلی ہجرت ہوئی تھی تو وہاں انہوں نے ، کافروں نے ان کا پیچھا کیا.تو ہمیشہ پہلے دن سے ہی یہی کوشش کی تھی اور اس بات کی کوشش میں اپنی انتہائی طاقت صرف کر دی کہ نیک دل نجاشی ان مظلوم غریب الوطنوں کو مکہ والوں کے حوالے کر دے.پھر آنحضرت صلی علیہ یکم مکہ سے ہجرت کر کے جب مدینہ آگئے تو قریش نے آپ کا تعاقب کر کے آپ کو گرفتار کر لینے میں بھی کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا.پوری کوشش کی.ہر موقع پر انہوں نے کوشش کی کہ آنحضرت صلی علیم کو یا اسلام کو کسی طرح ختم کیا جائے اور اب جب انہیں یہ علم ہوا کہ آپ صلی للی کم اور آپ کے اصحاب مدینہ پہنچ گئے ہم

Page 521

تاب بدر جلد 4 505 ہیں اور وہاں اسلام سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے تو انہوں نے یہ تہدیدی خط بھیج کر مدینہ والوں کو آپ کے ساتھ جنگ کر کے اسلام کو ملیا میٹ کر دینے یا آپ کی پناہ سے دستبردار ہو کر آپ کو مدینہ سے نکال دینے کی تحریک کی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ یہ خط جو لکھا تھا تو قریش کے اس خط سے عرب کی اس رسم پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ وہ اپنی جنگوں میں اپنے دشمنوں کے ساتھ دشمن کے سارے مردوں کو قتل کر کے ان کی عورتوں پر قبضہ کر لیا کرتے تھے اور پھر ان کو اپنے لیے جائز سمجھتے تھے اور نیز یہ کہ مسلمانوں کے متعلق ان کے ارادے اس سے بھی زیادہ خطر ناک تھے کیونکہ جب یہ سزا انہوں نے مسلمانوں کے پناہ دینے والوں کو دینی تھی اور یہ ان کے لیے تجویز کی تھی کہ ہم تمہارے مردوں کو قتل کر دیں گے اور عورتوں کو اپنے لیے جائز کر لیں گے تو خود مسلمانوں کے لیے تو یقینا وہ اس سے بھی زیادہ سخت ارادے رکھتے ہوں گے.سعد بن معاذ کا طواف اور ابو جہل کا مکالمہ بہر حال قریش مکہ کا یہ خط ان کے کسی عارضی جوش کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ مستقل طور پر اس کا تہیہ کر چکے تھے کہ مسلمانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دینا.ان کو چین نہیں لینے دیں گے اور اسلام کو دنیا سے مٹاکر چھوڑیں گے.چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ لکھا ہے.لکھتے ہیں کہ یہ تاریخی واقعہ مکہ کے خونی ارادوں کا پتہ دے رہا ہے.وہ واقعہ اس طرح ہے جس کی بخاری میں روایت آتی ہے کہ ہجرت کے کچھ عرصہ بعد سعد بن معاذ جو قبیلہ اوس کے رئیس اعظم تھے اور مسلمان ہو چکے تھے عمرہ کے خیال ہے مکہ گئے اور اپنے زمانہ جاہلیت کے دوست، پرانے زمانے میں، جاہلیت کے زمانے میں امیہ بن خلف رئیس مکہ ان کا دوست تھا.وہ اس کے پاس جاکے ٹھہرے.چونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ اکیلے عمرہ ادا کرنے، طواف کرنے گئے تو مکہ والے ان کے ساتھ ضرور چھیڑ چھاڑ کریں گے.اس لیے انہوں نے فتنہ سے بچنے کے لیے امید سے کہا کہ میں کعبتہ اللہ کا طواف کرنا چاہتا ہوں.تم میرے ساتھ ہو کر ایسے وقت میں مجھے طواف کرا دو جبکہ میں علیحد گی میں امن کے ساتھ اس کام سے فارغ ہو کر اپنے وطن واپس چلا جاؤں.چنانچہ امیہ بن خلف دو پہر کے وقت جبکہ لوگ عموماً اپنے اپنے گھروں میں ہوتے ہیں سعد کو لے کر کعبہ کے پاس پہنچا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ عین اسی وقت ابو جہل بھی وہاں آنکلا اور جو نبی اس کی نظر سعد پر پڑی اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا مگر اپنے غصہ کو دبا کر وہ امیر سے یوں مخاطب ہوا کہ اے ابو صفوان ! یہ تمہارے ساتھ کون شخص ہے ؟ امیہ نے کہا کہ یہ سعد بن معاذر ئیس اوس ہے.اس پر ابو جہل نہایت غضبناک ہو کر سعد سے مخاطب ہوا کہ کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ اس مرتد (نعوذ باللہ) محمد صلی علیم کو پناہ دینے کے بعد تم لوگ امن کے ساتھ کعبہ کا طواف کر سکو گے اور تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم اس کی یعنی آنحضرت صلی علیہ ہم کی حفاظت اور امداد کی طاقت رکھتے ہو ؟ کہنے لگا کہ خدا کی قسم ! اگر اس وقت تیرے ساتھ ابو صفوان نہ ہوتا تو اپنے گھر والوں کے پاس بیچ کر نہ جاتا سعد بن معاذ فتنہ سے بچتے تھے مگر ان کی رگوں میں بھی ریاست کا خون تھا اور دل میں ایمانی غیرت جوش زن تھی.کڑک کر

Page 522

اصحاب بدر جلد 4 506 بولے کہ واللہ ! اگر تم نے ہم کو کعبہ سے روکا تو یاد رکھو کہ پھر تمہیں بھی تمہارے شامی راستے پر امن نہیں مل سکے گا.ہم بھی راستے میں بیٹھے ہیں ہم بھی تمہارے خلاف بہت کچھ کریں گے.امیہ نے ان کی جو یہ بات سنی اور اسی طرح ان کا غصہ بھی دیکھا تو کہنے لگا کہ سعد دیکھو! ابو الحکم سید اہل وادی کے مقابلہ میں یوں آواز بلند نہ کرو.کہ یہ ابوالحکم جو ہے مکہ والے ابو جہل کا نام ابو الحکم لیتے تھے ، مکہ کی وادی کا یہ سر دار ہے.اس کے سامنے اس طرح بلند آواز سے نہ بولو.سعد بھی غصے میں تھے اس کی یہ بات سن کے امیہ کو کہنے لگے کہ جانے دو امیہ ! تم اس بات میں نہ پڑو واللہ! مجھے رسول اللہ صلی علیکم کی پیشگوئی نہیں پھولتی کہ تم کسی دن مسلمانوں کے ہاتھوں سے قتل ہو گے.یعنی امیہ جو ہے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے قتل ہو گا.یہ خبر سن کر امیہ بن خلف سخت گھبر ا گیا اور گھر میں آکر اس نے اپنی بیوی کو سعد کی اس بات سے اطلاع دی اور کہا کہ خدا کی قسم ! میں تو اب مسلمانوں کے خلاف مکہ سے نہیں نکلوں گا.یہ یقین تھا کہ آنحضرت صلی ال نیم نے بات کی ہے اور ہمیشہ آپ کی باتیں پوری ہوتی ہیں تو میرے متعلق بھی یہ بات پوری ہو جائے گی.لیکن تقدیر کے نوشتے پورے ہونے تھے.بدر کے موقع پر امیہ کو مجبور امکہ سے نکلنا پڑا اور وہیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہو کر اپنے کیفر کردار کو پہنچا.یہ امیہ وہی تھا جو حضرت بلال پر اسلام کی وجہ سے نہایت سخت 1157 مظالم کیا کرتا تھا.امیہ بن خلف کے قتل کی پیشگوئی صحیح بخاری کی ایک روایت میں اس طرح ذکر ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن معاذ عمرے کی نیت سے چلے گئے.حضرت عبد اللہ کہتے تھے اور وہ امیہ بن خلف ابو صفوان کے پاس اترے.انہوں نے یہ روایت کی کہ اس کے پاس اترے.پرانی واقفیت تھی.امیہ حضرت سعد کے پاس مدینے میں آ کے ٹھہرا کرتا تھا اور جب آپ نے عمرے کا ارادہ کیا تو یہی سوچا کہ اس کے پاس ٹھہریں اور امن سے عمرہ کر سکیں.امیہ کی عادت تھی کہ جب شام کی طرف جاتا تھا تو مدینے سے گزرتا تھا اور حضرت سعد کے پاس ٹھہرتا تھا.جیسا کہ میں نے کہا کہ پرانی واقفیت تھی.وہ ان کے پاس مدینے میں ٹھہرتا تھا تو آپ نے، حضرت سعد نے بھی ارادہ کیا کہ اس کے پاس ٹھہریں.جب آپؐ نے ذکر کیا کہ میں نے عمرہ کرنا ہے تو امیہ نے حضرت سعد سے کہا کہ ابھی انتظار کرو.جب دو پہر ہو اور لوگ غافل ہو جائیں تو جا کر طواف کر لینا.روایت والے کہتے ہیں کہ اس اثنا میں کہ حضرت سعد طواف کر رہے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ ابو جہل ہے.ابو جہل اس دوران آگیا اور وہ کہنے لگا یہ کون ہے ؟ یہ کون ہے جو کعبہ کا طواف کر رہا ہے ؟ حضرت سعد نے کہا میں سعد ہوں.خود ہی جواب دیا میں سعد ہوں.ابو جہل بولا کیا تم خانہ کعبہ کا طواف امن سے کرو گے حالانکہ تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کو پناہ دی ہے.حضرت سعد نے کہا ہاں.تب ان دونوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں.یہ راوی روایت کرتے ہیں.امیہ نے حضرت سعد سے کہا ابو الحکم پر اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ وہ باشند گانِ وادی کا سردار ہے.حضرت سعد نے کہا یعنی ابو جہل کو کہا بخدا ! اگر تم نے بیت اللہ کا طواف کرنے سے

Page 523

اصحاب بدر جلد 4 507 مجھے روکا تو میں بھی شام میں تمہاری تجارت بند کر دوں گا.حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ یہ سن کر امیہ حضرت سعد سے یہی کہتا رہا کہ اپنی آواز کو بلند نہ کرو اور ان کو روکتا رہا.حضرت سعد غصہ میں آگئے کہنے لگے ہمیں ان باتوں سے رہنے دو.میں اور یہ ابو جہل بات کر رہے ہیں، ہمیں بات کرنے دو اور امیہ کو کہا کہ میں نے محمدصلی العلیم سے سنا ہے.آپ صلی علیہ کم فرماتے تھے کہ امیہ کو یہی قتل کروانے والا ہے یعنی ابو جہل جو ہے یہی تمہارے قتل کا ذریعہ بنے گا.امیہ نے کہا، مجھے ؟ حضرت سعد نے کہا ہاں.یہ سن کر امیہ بولا اللہ کی قسم امحمد جب بات کہتے ہیں تو جھوٹی بات نہیں کہتے.آخر وہ اپنی بیوی کے پاس واپس آیا اور کہنے لگا کیا تمہیں علم نہیں کہ میرے یثربی بھائی نے مجھ سے کیا کہا ہے ؟ اس نے پوچھا کیا کہا ؟ امیہ نے کہا کہتا ہے کہ اس نے محمد صلی علیم سے سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ابو جہل ہی میرا قاتل ہو گا.اس کی بیوی نے کہا اللہ کی قسم امحمد تو جھوٹی بات نہیں کیا کرتے (صلی اللہ علیہ وسلم).حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے تھے کہ جب وہ بدر کی طرف نکلے اور مدد طلب کرنے کے لیے فریادی آیا تو امیہ کی بیوی نے اسے کہا کہ کیا وہ جو تو بات تمہیں یاد نہیں جو تمہارے بیٹر بی بھائی نے تم سے کہی تھی.بدر کے لیے جب نکلنے لگے تو یاد کرایا کہ یادیں تم جار ہے ہو لیکن وہ بات یاد رکھو.کہتے تھے اس نے چاہا کہ نہ نکلے یعنی امیہ نے اس بات پر چاہا کہ نہ نکلے مگر ابو جہل نے اسے کہا کہ تم اس وادی کے رؤسا میں سے ہو تو ایک دو دن کے لیے ہی ساتھ چلو.چنانچہ وہ ان کے ساتھ دو دن کے لیے چلا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو قتل کر دیا.1158 امیہ بن خلف جنگ بدر میں قتل ہوتا ہے ایک دوسری روایت میں امیہ بن خلف کے جنگ بدر میں شریک ہونے اور قتل کیے جانے کے بارے میں یوں بیان ہوا ہے.حضرت سعد نے کہا امیہ ! بخدا میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ وہ یعنی صحابہ تمہیں مار ڈالیں گے.اس نے پوچھا مکہ میں ؟ حضرت سعد نے کہا کہ یہ میں نہیں جانتا.امیہ حضرت سعد کی یہ بات سن کر بہت ڈر گیا.جب امیہ اپنے گھر گیا تو اپنی بیوی صفیہ یا کریمہ بنت مُعْمر سے کہنے لگا کہ اے ام صفوان ! تو نے سعد کی بات سنی جو اس نے میرے بارے میں کہی.بیوی نے کہا کہ کیوں سعد کیا کہتا ہے ؟ اس پر امیہ نے کہا وہ کہتا ہے کہ محمد صلی علیم نے ان سے بیان کیا ہے کہ وہ مجھ کو مار ڈالیں گے.میں نے پوچھا کہ مکہ میں ؟ تو اس نے کہا کہ میں نہیں جانتا.پھر امیہ نے کہا کہ بخدا میں مکہ سے نکلوں گا ہی نہیں.اس قدر خوفزدہ ہو گیا.جب بدر کی جنگ ہوئی تو ابو جہل نے لوگوں سے جنگ کے لیے نکلنے کو کہا اور امیہ کو بھی کہا کہ اپنے قافلے کو بچانے کے لیے پہنچو.امیہ نے نکلنا پسند نہیں کیا.ابو جہل امیہ کے پاس آیا.جب بھیجے ہوئے پیغامبر کو انکار کر دیا تو پھر ابو جہل خود آیا اور کہنے لگا کہ ابو صفوان ! جب لوگ تمہیں دیکھیں گے کہ تم ہی پیچھے رہ گئے ہو جبکہ تم اہل وادی کے سردار ہو تو وہ بھی تمہارے ساتھ پیچھے رہ جائیں گے.ابو جہل اسے سمجھا تا رہا.آخر امیہ نے کہا کہ اگر تم نے مجبور ہی کرنا ہے تو بخدا میں مکہ سے ایک نہایت ہی عمدہ اونٹ خریدوں گا.اس کے بعد امیہ نے کہا ام صفوان میرے لیے سفر کا سامان تیار کرو.اپنی بیوی سے کہا تو وہ اسے کہنے لگی کہ تم وہ بات بھول گئے ہو جو تم سے تمہارے یثربی

Page 524

اصحاب بدر جلد 4 508 1159 بھائی نے کہی تھی.کہنے لگا نہیں.میں بھولا نہیں ہوں.میں تھوڑی دور ان کے ساتھ جانا چاہتا ہوں.واپس آجاؤں گا آخر تک نہیں جاؤں گا.جب امیہ نکلا تو جس منزل میں بھی وہ اتر تا وہاں اپنا اونٹ کا گھٹنا باندھ دیتا.وہ یہی احتیاط کرتارہا یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے بدر میں اس کو ہلاک کر دیا.9 اس قتل کا واقعہ پہلے بھی ایک جگہ بیان ہو چکا ہے اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کے ذکر میں گذشتہ خطبے میں بھی بیان ہو چکا ہے جب حضرت بلال نے انصار کو بلا کر اس کے ظلم کی وجہ سے اسے قتل کروا دیا جو وہ حضرت بلال پر کیا کرتا تھا.حضرت مصلح موعود سعد بن معاذ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”مدینہ کے ایک رئیس سعد بن معاذ جو اوس قبیلہ کے سردار تھے بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے مکہ گئے تو ابو جہل نے ان کو دیکھ کر بڑے غصہ سے کہا.کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ اس مرتد (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو پناہ دینے کے بعد تم لوگ امن کے ساتھ کعبہ کا طواف کر سکو گے اور تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم اس کی حفاظت اور امداد کی طاقت رکھتے ہو ؟ خدا کی قسم ! اگر اس وقت تیرے ساتھ ابو صفوان نہ ہو تا تو تو اپنے گھر والوں کے پاس بیچ کر نہ جا سکتا.سعد بن معاذ نے کہا واللہ ! اگر تم نے ہمیں کعبہ سے روکا تو یا درکھو پھر تمہیں بھی تمہارے شامی راستہ پر امن نہیں مل سکے گا.1160" بدر کے روز اوس کا جھنڈ ا حضرت سعد بن معاذ کے پاس حضرت سعد بن معاذ غزوہ بدر، احد اور خندق میں رسول اللہ صلی الی ایم کے ساتھ شامل ہوئے.غزوہ بدر کے روز اوس کا جھنڈا حضرت سعد بن معاذ کے پاس تھا.1161 غزوہ بدر اور سعد بن معاذ کا آنحضرت صلی ا تم سے محبت و فدائیت کا اظہار غزوہ بدر کے موقعے پر حضرت سعد بن معاذ کا جوش و جذبہ اور آنحضرت صلی علیم سے محبت و فدائیت کا اظہار اس واقعے سے ہوتا ہے جو بدر میں انہوں نے آنحضرت صلی علی ایم کو اپنی رائے دی تھی اور جس کا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں یوں ذکر کیا ہے کہ جب مسلمان وادی صفرا، صفرا بھی بدر اور مدینے کے درمیان ایک وادی کا نام ہے جہاں آپ نے بدر کا تمام مال غنیمت مسلمانوں میں برابر تقسیم فرمایا تھا.اس وادی میں کھجور کے درخت اور کھیتی باڑی بھی کثرت سے ہوتی ہے.اس کے اور بدر کے درمیان ایک مرحلے کا فاصلہ ہے.بہر حال جب وہ اس وادی کے ایک پہلو سے گزرے اور گزرتے ہوئے زیران میں پہنچے جو بدر سے صرف ایک منزل ورے ہے تو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ قافلے کی حفاظت کے لیے قریش کا ایک بڑا جرار لشکر مکہ سے آرہا ہے.وہ ایک تجارتی قافلہ جو پہلے تھا اس کی مدد کے لیے ایک اور جرار لشکر آرہا ہے.ان کو شک تھا کہ شاید مدینہ والے اس قافلے پر حملہ کرنے والے ہیں.اب چونکہ اخفائے راز کا موقع گزر چکا تھا.چھپی ہوئی بات نہیں رہی تھی.آنحضرت صلی للی یکم نے تمام صحابہ کو جمع کرکے انہیں اس خبر سے اطلاع دی اور ان

Page 525

ناب بدر جلد 4 509 سے مشورہ پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہیے.بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! ظاہری اسباب کا خیال کرتے ہوئے تو یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ قافلہ سے سامنا ہو کیونکہ لشکر کے مقابلہ کے لیے ہم ابھی پوری طرح تیار نہیں.مگر آپ نے اس رائے کو پسند نہ فرمایا.دوسری طرف اکابر صحابہ نے یہ مشورہ سنا تو اٹھ اٹھ کر جاں نثارانہ تقریریں کیں اور عرض کیا کہ ہمارے جان و مال سب خدا کے ہیں.ہم ہر میدان میں ہر خدمت کے لیے حاضر ہیں.چنانچہ مقداد بن اسوڈ نے جن کا دوسرا نام مقداد بن عمرو بھی تھا کہا یا رسول اللہ ! ہم موسیٰ کے اصحاب کی طرح نہیں ہیں کہ آپ کو یہ جواب دیں کہ جاو اور تیر اخدا جا کر لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ جہاں بھی چاہتے ہیں لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم آپ کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے ہو کر لڑیں گے.آپ نے یہ تقریر سنی تو آپ کا چہرہ مبارک خوشی سے تمتمانے لگا.مگر اس موقع پر بھی آپ انصار کے جواب کے منتظر تھے.چاہتے تھے کوئی انصاری سردار بھی یہی باتیں کہے.وہ کچھ بولیں کیونکہ آپ کو یہ خیال تھا کہ شاید انصاریہ سمجھتے ہوں کہ بیعت عقبہ کے ماتحت ہمارا فرض صرف اس قدر ہے کہ اگر عین مدینہ پر کوئی حملہ ہو تو اس کا دفاع کریں.چنانچہ باوجود اس قسم کی جاں نثارانہ تقریروں کے آپ یہی فرماتے گئے کہ اچھا پھر مجھے مشورہ دو کہ کیا کیا جاوے ؟ سعد بن معاذر کیس اوس نے آپ کا منشا سمجھا اور انصار کی طرف سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! شاید آپ ہماری رائے پوچھتے ہیں.خدا کی قسم ! جب ہم آپ کو سچا سمجھ کر آپ پر ایمان لے آئے ہیں اور ہم نے اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دیا ہے تو پھر اب آپ جہاں چاہیں چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے کہ اگر آپ ہمیں سمندر میں کود جانے کو کہیں تو ہم کو دجائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا اور آپ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم سب کو لڑائی میں صابر پائیں گے اور ہم سے وہ بات دیکھیں گے جو آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے گی.آپ نے یہ تقریر سنی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو اور خوش ہو کیونکہ اللہ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ کفار کے ان دو گروہوں یعنی لشکر اور قافلہ میں سے کسی ایک گروہ پر وہ ہم کو ضرور غلبہ دے گا اور خدا کی قسم !میں گویا اس وقت وہ جگہیں دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہو کر گریں گے.2 اور پھر ویسا ہی ہوا.1163 جنگ بدر میں عہد وفا کے اظہار 1162 خدا کی قسم! اگر آپ ہمیں سمندر میں کو د جانے کا حکم دیں تو ہم کو د جائیں گے گذشتہ خطبات سے حضرت سعد بن معاذ کا ذکر چل رہا تھا.جنگ بدر میں عہد وفا کے اظہار کا ایک واقعہ جس کا گذشتہ خطبے میں بھی ذکر ہوا تھا اسے حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اپنے انداز میں بیان فرمایا ہے.آپ اس طرح فرماتے ہیں کہ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جہاں عشق ہو تا ہے وہاں کوئی شخص بھی

Page 526

تاب بدر جلد 4 510 نہیں چاہتا کہ میرے محبوب کو کوئی تکلیف پہنچے اور کوئی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کا محبوب لڑائی میں جائے بلکہ ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ محبوب لڑائی سے بچ جائے.اسی طرح صحابہ بھی اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ آپ لڑائی پر جائیں.“ صحابہ اس بات کو نا پسند نہیں کرتے کہ ہم لڑائی پر کیوں جائیں بلکہ ان کو رسول کریم صلی للی کم کالڑائی پر جانانا پسند تھا اور یہ ان کی طبعی خواہش تھی جو ہر محب کو اپنے محبوب کے ساتھ ہوتی ہے.اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ سے اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ جب رسول کریم صلی علیکم بدر کے قریب پہنچے تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارا مقابلہ قافلے سے نہیں بلکہ فوج کے ساتھ ہو گا.پھر آپ نے ان سے مشورہ لیا اور فرمایا کہ بتاؤ تمہاری کیا صلاح ہے ؟ جب اکابر صحابہ نے آپ کی یہ بات سنی تو انہوں نے باری باری اٹھ اٹھ کر نہایت جاں نثارانہ تقریریں کیں اور عرض کیا ہم ہر خدمت کے لیے حاضر ہیں.ایک اٹھتا اور تقریر کر کے بیٹھ جاتا.پھر دوسرا اٹھتا اور مشورہ دے کر بیٹھ جاتا.غرض جتنے بھی اٹھے انہوں نے یہی کہا کہ اگر ہمارا خدا ہمیں حکم دیتا ہے تو ہم ضرور لڑیں گے مگر جب کوئی مشورہ دے کر بیٹھ جاتا تو رسول کریم صلی للی کرم فرماتے مجھے مشورہ دو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی تک جتنے صحابہ نے اٹھ اٹھ کر تقریریں کی تھیں اور مشورے دیے تھے وہ سب مہاجرین میں سے تھے مگر جب آپ نے بار بار یہی فرمایا کہ مجھے مشورہ دیا جائے تو سعد بن معاد رئیس اوس نے آپ کا منشاء سمجھا اور انصار کی طرف سے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ کی خدمت میں مشورہ تو عرض کیا جا رہا ہے مگر آپ پھر بھی یہی فرماتے ہیں کہ مجھے مشورہ دو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ انصار کی رائے پوچھنا چاہتے ہیں.اس وقت تک اگر ہم خاموش تھے تو صرف اس لیے کہ اگر ہم لڑنے کی تائید کریں گے تو شاید مہاجرین یہ سمجھیں کہ یہ لوگ ہماری قوم اور ہمارے بھائیوں سے لڑنا اور ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں.پھر انہوں نے کہا یار سول اللہ شاید آپ کا بیعت عقبہ کے اس معاہدہ کے متعلق کچھ خیال ہے جس میں ہماری طرف سے یہ شرط پیش کی گئی تھی کہ اگر دشمن مدینے پر حملہ کرے گا تو ہم اس کا دفاع کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا پڑا تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے.آپ نے فرمایا ہاں.سعد بن معاذ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس وقت جبکہ ہم آپ کو مدینہ لائے تھے ہمیں آپ کے بلند مقام اور مرتبہ کا علم نہیں تھا.اب تو ہم نے اپنی آنکھوں سے آپ کی حقیقت کو دیکھ لیا ہے.اب اس معاہدے کی ہماری نظروں میں کچھ بھی حقیقت نہیں.“ ہے یعنی جو بیعت عقبہ کے وقت معاہدہ ہو ا تھا وہ تو دنیاوی لحاظ سے ایک عام معاہدہ تھا.اب جو ہم نے دیکھا ہے اور اس کے بعد ہماری روحانیت کی جو آنکھیں کھلی ہیں تو اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے.” اس لیے آپ جہاں چاہیں چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور خدا کی قسم ! اگر آپ ہمیں سمندر میں کو د جانے کا حکم دیں تو ہم کو د جائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا.یارسول اللہ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے.آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ

Page 527

ب بدر جلد 4 511 تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.یہ مخلصین بھی میرے نزدیک ان مُعَقِّبَات میں سے تھے 1164cc حضرت مصلح موعودؓ سورہ رعد کی آیت 12 جو اس طرح شروع ہوتی ہے کہ لَهُ مُعَقِّبْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ (الرعد: 12) یعنی اس کے لیے اس کے آگے اور پیچھے چلنے والے محافظ مقرر ہیں.اس کی تفسیر فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی علیکم کا تمام زمانہ نبوت اس حفاظت کا ثبوت دیتا ہے.جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا.آگے اور پیچھے ہم نے محافظ مقرر کیے ہوئے ہیں.چنانچہ مکہ معظمہ میں آپ کی حفاظت فرشتے ہی کرتے تھے ورنہ اس قدر دشمنوں میں گھرے ہوئے رہ کر آپ کی جان کس طرح محفوظ رہ سکتی تھی.ہاں مدینہ تشریف لانے پر دونوں قسم کی حفاظت آپ کو حاصل ہوئی.آسمانی فرشتوں کی بھی اور زمینی فرشتوں یعنی صحابہ کی بھی.بدر کی جنگ اس ظاہری اور باطنی حفاظت کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے.حضور جب مدینہ تشریف لے گئے تھے تو آپ نے اہل مدینہ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر آپ مدینہ سے باہر جا کر لڑیں گے تو مدینہ والے آپ کا ساتھ دینے پر مجبور نہ ہوں گے.بدر کی لڑائی میں آپ نے انصار اور مہاجرین سے لڑنے کے بارہ میں مشورہ فرمایا.مہاجرین بار بار آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے پر زور دیتے تھے لیکن حضور ان کی بات سن کر پھر فرما دیتے کہ اے لوگو مشورہ دو.جس پر ایک انصاری ( سعد بن معاذ) نے کہا کیا حضور کی مراد ہم سے ہے ؟ حضور نے فرمایا ہاں.اس نے کہا کہ بیشک ہم نے حضور سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر باہر جا کر لڑنے کا موقع ہو گا تو ہم حضور کا ساتھ دینے پر مجبور نہ ہوں گے لیکن وہ وقت اور تھا جاکر جبکہ ہم نے دیکھ لیا ، اب ” جبکہ ہم نے دیکھ لیا کہ آپ خدا کے رسول برحق ہیں تو اب اس مشورہ کی کیا ضرورت ہے.اگر حضور ہمیں حکم دیں تو ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے.ہم اصحاب موسیٰ کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ تو اور تیر ارب جا کر لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں.بلکہ ہم حضور کے دائیں بائیں، آگے اور پیچھے لڑیں گے اور دشمن آپ تک ہر گز نہ پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روند تا ہوا نہ گزرنے.“ آپ فرماتے ہیں کہ ”یہ مخلصین بھی میرے نزدیک ان مُعَقِّبَات میں سے تھے.“ یعنی ان محافظوں میں سے تھے ”جو خدا تعالیٰ نے حضور کی حفاظت کے لیے مقرر فرما دیے تھے.ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللی علم کی معیت میں تیرہ جنگوں میں شریک ہوا ہوں مگر میرے دل میں بارہا یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ میں بجائے ان لڑائیوں میں حصہ لینے کے اس فقرہ کا کہنے والا ہو تا جو سعد بن معاذ کے منہ سے نکلا تھا.1165 یعنی کہ اپنے عہد وفا کا فقرہ.جنگ بدر کے موقعے پر حضرت سعد بن معاذ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ ”جس جگہ اسلامی لشکر نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہ تھی.جنگی لحاظ سے.” اس پر حباب بن منذر نے آپ سے دریافت کیا کہ آیا خدائی الہام کے ماتحت آپ نے یہ جگہ پسند کی ہے یا محض فوجی تدبیر کے طور پر اسے اختیار کیا ہے ؟

Page 528

اصحاب بدر جلد 4 512 آنحضرت صلی اللہ نے فرمایا اس بارہ میں کوئی خدائی حکم نہیں ہے.تم کوئی مشورہ دینا چاہتے ہو تو بتاؤ.حُباب نے عرض کیا تو پھر میرے خیال میں یہ جگہ اچھی نہیں ہے.“جنگی لحاظ سے.”بہتر ہو گا کہ آگے بڑھ کر قریش سے قریب ترین چشمہ پر قبضہ کر لیا جاوے.میں اس چشمہ کو جانتا ہوں.اس کا پانی اچھا ہے اور عموماً ہوتا بھی کافی ہے.آنحضرت صلی علی یم نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور چونکہ ابھی تک قریش ٹیلہ کے پرے ڈیرہ ڈالے پڑے تھے اور یہ چشمہ خالی تھا مسلمان آگے بڑھ کر اس چشمہ پر قابض ہو گئے لیکن جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ پایا جاتا ہے اس وقت اس چشمہ میں بھی پانی زیادہ نہیں تھا مسلمانوں کو پانی کی قلت محسوس ہوتی تھی.پھر یہ بھی تھا کہ وادی کے جس طرف مسلمان تھے وہ ایسی اور اچھی نہ تھی کیونکہ اس طرف ریت بہت تھی جس کی وجہ سے پاؤں اچھی طرح جمتے نہیں تھے.جگہ کے انتخاب کے بعد سعد بن معاذر ئیس اوس کی تجویز سے صحابہ نے میدان کے ایک حصہ میں آنحضرت صلی علی کریم کے واسطے ایک سائبان ساتیار کر دیا اور سعد نے آنحضرت صلی علیہ کیم کی سواری سائبان کے پاس باندھ کر عرض کیا کہ یار سول اللہ ! آپ اس سائبان میں تشریف رکھیں اور ہم اللہ کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں.اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو یہی ہماری آرزو ہے“ تو الحمد للہ.”لیکن اگر خدانخواستہ معاملہ دگر گوں ہوا تو آپ اپنی سواری پر سوار ہو کر جس طرح بھی ہو مدینہ پہنچ جائیں.“ اس خیمہ کے ساتھ ہی اچھی قسم کی سواری، ایک اونٹ بھی باندھ کر رکھ دیا.پھر انہوں نے عرض کیا کہ آپ وہاں مدینہ پہنچ جائیں.وہاں ہمارے ایسے بھائی بند موجود ہیں جو محبت واخلاص میں ہم سے کم نہیں ہیں لیکن چونکہ ان کو یہ خیال نہیں تھا کہ اس مہم میں جنگ پیش آجائے گی اس لیے وہ ہمارے ساتھ نہیں آئے ورنہ ہر گز پیچھے نہ رہتے لیکن جب انہیں حالات کا علم ہو گا تو وہ آپ کی حفاظت میں جان تک لڑا دینے سے دریغ نہیں کریں گے.یہ سعد کا جوش اخلاص تھا جو ہر حالت میں قابل تعریف ہے ورنہ بھلا خدا کار سول اور میدان سے بھاگے ؟ آنحضرت صلی اینم تو جنگوں میں سب سے آگے ہوتے تھے.وو چنانچہ حنین کے میدان میں ہم دیکھتے ہیں کہ ”بارہ ہزار فوج نے پیٹھ دکھائی مگر یہ مرکز توحید اپنی جگہ سے متزلزل نہیں ہوا.بہر حال سائبان تیار کیا گیا جیسا کہ سعد نے کہا تھا ” اور سعد اور بعض دوسرے انصار اس کے گرد پہرہ دینے کے لیے کھڑے ہو گئے.آنحضرت صلی ای کم اور حضرت ابو بکر نے اسی سائبان میں رات بسر کی اور آنحضرت صلی علیہم نے رات بھر خدا کے حضور گریہ وزاری سے دعائیں کیں اور لکھا ہے کہ سارے لشکر میں صرف آپ ہی تھے جو رات بھر جاگے.باقی سب لوگ باری باری اپنی نیند لیے.1166CC سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ آپ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے غزوہ احد کے موقعے پر جمعے کی شب حضرت سعد بن معاذ، حضرت اُسید بن حضیر اور حضرت سعد بن عبادہ مسجد نبوی میں ہتھیار پہنے رسول اللہ صلی ال نیم کے دروازے پر پہرہ دیتے رہے.غزوۂ احد کے

Page 529

اصحاب بدر جلد 4 513 موقعے پر جب رسول اللہ صلی علی کو گھوڑے پر سوار ہو کر اور کمان کندھے پر ڈال کر اور نیزہ ہاتھ میں لے کر مدینے سے روانہ ہوئے تو دونوں سعد یعنی حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ آپ کے آگے آگے دوڑ رہے تھے.ان دونوں نے زرہ پہنی ہوئی تھی.1167 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب غزوہ احد کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ 1168cc " آپ صحابہ کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ نماز عصر کے بعد مدینے سے نکلے.قبیلہ اوس اور خزرج کے رؤساء سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ آپ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے اور باقی صحابہ آپ کے دائیں اور بائیں اور پیچھے چل رہے تھے.“ جب رسول الله صلى ال یکم غزوہ احد سے مدینہ واپس آئے اور اپنے گھوڑے سے اترے تو آپ حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ کا سہارا لیتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہوئے.نبی اکرم صلی ا ولم سے محبت کرنے والی ایک بہادر و صابر ماں 1169 حضرت سعد بن معاذ کی والدہ کو آنحضرت صلی یا کم سے کس قدر محبت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جنگ احد سے واپسی پر رسول کریم صلی للی کم کی سواری کی باگ حضرت سعد بن معاذ پکڑے ہوئے فخر سے چل رہے تھے.جنگ میں آپ کا بھائی بھی مارا گیا تھا.مدینہ کے قریب پہنچ کر حضرت سعد نے اپنی ماں کو آتے ہوئے دیکھا اور کہا یا رسول اللہ ! میری ماں آ رہی ہے.حضرت سعد کی والدہ کی عمر اس وقت کوئی ایسی بیاسی سال کی تھی.آنکھوں کا نور جاچکا تھا.بہت کمزور نظر تھے دھوپ چھاؤں مشکل سے نظر آتی تھی.رسول کریم صلی الی نیم کی شہادت کی خبر سن کر ، مدینہ میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی یم کو شہید کر دیا گیا ہے تو یہ خبر سن کر وہ بڑھیا بھی لڑکھڑاتی ہوئی مدینہ سے باہر نکلی جارہی تھی.حضرت سعد نے کہا یارسول اللہ میری ماں آرہی ہے.رسول کریم صلی الی کا قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا میری سواری کو ٹھہر الو.تمہاری ماں آرہی ہے وہاں اس کے قریب میری سواری کو کھڑا کر دو.جب آپ اس بوڑھی عورت کے قریب آئے تو اس نے اپنے بیٹوں کے متعلق کوئی خبر نہیں پوچھی.پوچھا تو یہ پوچھا کہ رسول کریم صلی علی رام کہاں ہیں ؟ حضرت سعد نے جواب دیا آپ کے سامنے ہیں.اس بوڑھی عورت نے اوپر نظر اٹھائی اور اس کی کمزور نگاہیں رسول کریم صلی علیم کے چہرے پر پھیل کر رہ گئیں.رسول کریم صلی الم نے فرمایا بی بی مجھے افسوس ہے تمہارا جوان بیٹا اس جنگ میں شہید ہو گیا ہے.بڑھاپے میں کوئی شخص ایسی خبر سنتا ہے تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں لیکن اس بڑھیا نے کیسا محبت بھر اجواب دیا کہ یارسول اللہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں.مجھے تو آپ کی خیریت کی فکر تھی.کیا تمہارے اندر دین کا وہی جذبہ موجزن ہے..؟ حضرت مصلح موعود نے یہ واقعہ بیان کیا اس کے بعد آپ نے احمدی خواتین کو مخاطب ہو کر فریضہ

Page 530

تاب بدر جلد 4 514 تبلیغ پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہی وہ عورتیں تھیں جو اسلام کی اشاعت اور تبلیغ میں مردوں کے دوش بدوش چلتی تھیں اور یہی وہ عورتیں تھیں جن کی قربانیوں پر اسلامی دنیا فخر کرتی ہے.تمہارا بھی دعویٰ ہے، آج کل جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والی عور تیں ہیں، تمہارا بھی یہ دعویٰ ہے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائی ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم صلی علیم کے بروز ہیں.گویا دوسرے لفظوں میں تم صحابیات کی بروز ہو لیکن تم صحیح طور پر بتاؤ کہ کیا تمہارے اندر دین کا وہی جذبہ موجزن ہے جو صحابیات میں تھا؟ کیا تمہارے اندر وہی نور موجود ہے جو صحابیات میں تھا؟ کیا تمہاری اولادیں ویسی ہی نیک ہیں جیسی صحابیات کی تھیں ؟ اگر تم غور کرو گی تو تم اپنے آپ کو صحابیات سے بہت پیچھے پاؤ گی.صحابیات نے توجو قربانیاں کیں آج تک دنیا کے پر دے پر اس کی مثال نہیں ملتی.ان کی قربانیاں جو انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر کیں اللہ تعالیٰ کو ایسی پیاری لگیں کہ اللہ تعالیٰ نے بہت جلد ان کو کامیابی عطا کی اور دوسری قومیں جس کام کو صدیوں میں نہ کر سکیں ان کو صحابہ اور صحابیات نے چند سالوں کے اندر کر کے دکھا دیا.1170 ہمارے مردوں کو بھی وہی نمونے دکھانے پڑیں گے یہاں کیونکہ مخاطب آپ احمد کی خواتین سے تھے اس لیے ان کا ذکر ہے ورنہ بے شمار جگہ پر ہمیشہ خلفاء یہ کہتے آئے ہیں، میں بھی بیشمار دفعہ کہہ چکا ہوں کہ ہمارے مردوں کو بھی وہی نمونے دکھانے پڑیں گے تبھی ہم جو دعویٰ کرتے ہیں اور جو اس دعوی کو لے کر اٹھے ہیں کہ دنیا میں اسلام کا پیغام پھیلانا ہے اور دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لے کے آنا ہے اس پر عمل کر سکتے ہیں.جب ہماری قربانیاں اور ہمارے عمل اس کے مطابق ہوں گے جس کے نمونے صحابہ نے ہمارے سامنے قائم فرمائے.آؤ اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "عیسائی دنیا مریم مگر لینی اور اس کی ساتھی عورتوں کی اس بہادری پر خوش ہے کہ وہ مسیح کی قبر پر صبح کے وقت دشمنوں سے چھپ کر پہنچی تھیں.میں ان سے کہتا ہوں آؤ اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو کہ کن حالتوں میں انہوں نے اس کا ساتھ دیا اور کن حالتوں میں انہوں نے توحید کے جھنڈے کو بلند کیا.اس قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخ میں ملتی ہے جب رسول کریم صلی الی یوم شہداء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے.“ پھر ایک اور موقع پر دوبارہ حضرت سعد بن معاذ کی والدہ کی یہی مثال دے رہے ہیں کہ شہداء کو دفن کر کے جب مدینہ واپس گئے.”تو پھر عور تیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لیے نکل آئے.رسول کریم صلی علیم کی اونٹنی کی باگ سعد بن معاذ مدینہ کے رئیس نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے دوڑے جاتے تھے.شاید دنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ صلی علیکم کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے.شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی.

Page 531

اصحاب بدر جلد 4 515 سة احد میں اس کا ایک بیٹا عمرو بن معاذ بھی مارا گیا تھا.اسے دیکھ کر سعد بن معاذ نے کہا یار سول اللہ ! اُمّی.اے اللہ کے رسول ! میری ماں آرہی ہے.آپؐ نے فرمایا خدا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے.بڑھیا آگے بڑھی اور اپنی کمزور پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول کریم صلی الم کی شکل نظر آ جائے.آخر رسول اللہ صلی تین کم کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہو گئی.رسول اللہ صلی ا ہم نے فرمایا مائی ! مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے.اس پر نیک عورت نے کہا حضور ! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا.” مصیبت کو بھون کر کھالیا کیا عجیب محاورہ ہے.محبت کے کتنے گہرے جذبات پر دلالت کرتا ہے.غم انسان کو کھا جاتا ہے.وہ عورت جس کے بڑھاپے میں اس کا عصائے پیری ٹوٹ گیا کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے جب محمد رسول اللہ صلی لی کہ زندہ ہیں تو میں اس غم کو کھا جاؤں گی.میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہو گی بلکہ یہ خیال کہ رسول اللہ صلی املی کام کے لیے اس نے جان دی.“ یہ خیال تو ” میری قوت کے بڑھانے کا موجب ہو گا.“میری طاقت کو بڑھانے کا موجب ہو گا.حضرت مصلح موعود انصار کی تعریف کرتے ہوئے اور ان کو دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں.”اے انصار ! میری جان تم پر فدا ہو.تم کتنا ثواب لے گئے.1171 کعب بن اشرف کی سازشیں اور اس کا قتل کعب بن اشرف کو اس کی ریشہ دوانیوں، اسلام کے خلاف بغض اور دشمنی پھیلانے حتی کہ آنحضرت صلی الم کے قتل کی سازش کرنے پر جو قتل کی سزا کا فیصلہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرمایا تھا اس میں بھی بحیثیت سردار قبیلہ انصار کے ، سردار قبیلہ کے طور پر حضرت سعد بن معاذ کے مشورے کو بھی شامل کیا گیا تھا.اس کی تفصیل یعنی اس سزا کے عمل درآمد ہونے اور کعب بن اشرف کے قتل کی یہ تفصیل جو ہے وہ میں کچھ عرصہ پہلے دو صحابہ کے ذکر میں بیان کر چکا ہوں 1172 تاہم اس کا کچھ حصہ یہاں بھی بیان کر تاہوں جس کا تعلق حضرت سعد بن معاذ سے ہے.اور یہ جو میں بیان کروں گا اس میں بھی کچھ اخذ کیا ہے اور کچھ اقتباس میں نے سیرت خاتم النبیین سے ہی لیا ہے.جب آنحضرت علی ای کم مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو کعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدہ میں شرکت کی جو آنحضرت صلی علی یکم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اور امن وامان اور مشتر کہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا مگر اندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض و عداوت کی آگ سلگنے لگ گئی اور اس نے خفیہ چالوں اور مخفی ساز باز سے اسلام اور بانی اسلام کی مخالفت شروع کر دی.چنانچہ لکھا ہے کہ کعب ہر سال یہودی علماء و مشائخ کو بہت سی خیرات دیا کرتا تھا.اس نے ایک دن ان مشائخ سے ان کی مذہبی کتابوں کی رو سے آپ ملی لی ایم کے متعلق سوال کیا کہ تمہارا کیا خیال ہے یہ سچا ہے کہ نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا تھا، ہماری تعلیم میں ذکر ہے.کعب تو آنحضرت صلی علیہم کا اور اسلام کا بڑا سخت مخالف تھا.اس جواب پر وہ

Page 532

تاب بدر جلد 4 516 بہت بگڑ گیا اور ان کو سخت ست کہہ کر، برا بھلا کہہ کر وہاں سے رخصت کر دیا اور جو خیرات انہیں دیا کر تا تھا وہ بھی نہ دی.جب خیرات بند ہو گئی، جو ان کا وظیفہ جاری تھا وہ بند ہو گیا تو کچھ عرصہ بعد انہوں نے کعب کے پاس جا کر کہا کہ ہم نے دوبارہ غور کیا ہے.پیسے کو تو مولوی آج بھی نہیں چھوڑ تا یہی حال اُن کا تھا.انہوں نے کہا جی ہم نے دوبارہ غور کیا ہے دراصل محمد ملا لیا کہ وہ نبی نہیں ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا.اس پر اس نے خوش ہو کر ان کا وظیفہ دوبارہ جاری کر دیا.وہ جو خیرات دیتا تھا دے دی.بہر حال یہ تو معمولی بات تھی کہ یہودی علماء کو اپنے ساتھ ملالیا لیکن خطر ناک بات جو تھی وہ یہ تھی کہ جنگ بدر کے بعد اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا اور جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک حالات پیدا ہو گئے تھے.جب بدر کے موقع پر مسلمانوں کو ایک غیر معمولی فتح نصیب ہوئی اور رؤسائے قریش اکثر مارے گئے تو کعب نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیادین یو نہی مٹتا نظر نہیں آتا.پہلے تو ہمارا خیال تھا آپ ہی ختم ہو جائے گا.نہیں اب نہیں.لگتا ہے کہ یہ پھلے گا.چنانچہ بدر کے بعد اس نے ہر طرح اپنی پوری کوشش کی کہ اسلام کے مٹانے اور تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا جائے، کوئی دقیقہ نہ چھوڑا جائے اور یہ تہیہ کر لیا کہ میں نے اسلام کو تباہ و برباد کرنا ہی کرنا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد تو وہ غیظ و غضب سے بہت زیادہ بھر گیا تھا.اس نے اس غصہ کی وجہ سے جب فیصلہ کیا کہ میں نے اسلام کو تباہ کرنا ہی کرنا ہے تو اس نے فور أسفر کی تیاری کر کے مکہ کی راہ لی.وہاں جا کر اپنی چرب زبانی اور شعر گوئی کے زور سے قرنیش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو شعلہ بار کر دیا اور بھڑ کا دیا.ان کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کر دی.تم شکست کھا گئے.تمہارے لیڈروں کو انہوں نے مار دیا.تم اب بیٹھے ہو.جاؤ اور بدلہ لو.وہ ٹرک اٹھے.اپنی تقریروں سے اور شعروں سے ان کے سینے جذبات انتقام اور عداوت سے بھر دیے.جب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک انتہائی درجہ کی بجلی پید اہو گئی تو اس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جاکر اور کعبہ کے پر دے ان کے ہاتھوں میں دے دے کر ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانی اسلام کو صفحہ دنیا سے ملیا میٹ نہ کر دیں گے اس وقت تک چین نہیں لیں گے.مکہ میں یہ آتش فشاں فضا پیدا کرنے کے بعد اس نے یہیں بس نہیں کی بلکہ اس بدبخت نے دوسرے قبائل عرب کا رخ کیا اور پھر قوم بقوم ہر قبیلے میں پھر پھر کر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑ کا یا.پھر مدینہ میں واپس آکر وہاں اپنی اسلام مخالف سرگرمیاں تیز کیں اور غیر مسلموں میں اپنے جوش دلانے والے اشعار میں اور خاص طور پر یہودیوں میں بھی گندے اور مخش طریق پر مسلمان خواتین کا ذکر کیا اور صرف یہاں تک نہیں کہ مخالفت کی آگ بھڑکائی بلکہ آخر میں اس نے یہ بھی کوشش کی بلکہ سازش کی کہ آنحضرت صل الالم کو قتل کیا جائے اور آپ کو کسی دعوت کے بہانے سے اپنے مکان پر اس نے بلایا اور چند نوجوان یہودیوں سے آپ کے قتل کروانے کا منصوبہ باندھا.خدا کے فضل سے وقت پر اطلاع ہو گئی.آپ کو خدا تعالیٰ نے اطلاع دے دی اور اس کی سازش کامیاب نہیں ہوئی.جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور کعب کے خلاف جو معاہدہ کیا ہوا تھا اس کی عہد شکنی اور جو حکومت قائم تھی اس کے خلاف بغاوت،

Page 533

تاب بدر جلد 4 517 ن اللسان تحریک جنگ، فتنہ پردازی، فحش گوئی اور سازش قتل کے الزامات پایہ ثبوت کو پہنچ گئے تو آنحضرت علی علیہ نے جو اس بین الا قوام معاہدہ کی رو سے جو آپ صلی علیکم کے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد اہالیانِ مدینہ میں ہوا تھا، مدینہ کی جمہوری سلطنت کے آپ صدر اور حاکم اعلیٰ تھے ، آپ نے یہ فیصلہ فرمایا دیا کہ کعب بن اشرف اپنی کارروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے اور اپنے بعض صحابہ کو ارشاد فرمایا کہ اسے قتل کر دیا جاوے.بعض حالات اور حکمت کے تقاضے کے تحت آپ نے یہ ہدایت فرمائی کہ کعب کو بر ملاطور پر قتل نہ کیا جائے بلکہ چند لوگ خاموشی کے ساتھ کوئی مناسب موقع نکال کر اسے قتل کر دیں اور یہ ڈیوٹی آپ نے قبیلہ اوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مسلمین کے سپرد فرمائی اور انہیں تاکید فرمائی کہ جو طریق بھی اختیار کر و قبیلہ اوس کے رئیس جو سعد بن معاذ ہیں ان سے ضرور مشورہ کریں.چنانچہ محمد بن مسلمہ نے سعد بن معاذ کے مشورہ سے ابو نائلہ اور دو تین اور صحابیوں کو اپنے ساتھ لہ کھ لیا اور کعب کے قتل کی سزا کو عملی جامہ پہنایا.اس کی جو بھی حکمت تھی یا قتل کا طریق اختیار کیا گیا تھا اس کی تفصیل جیسا کہ میں نے کہا ہے میں گذشتہ بعض صحابہ کے ذکر میں بیان کر چکا ہوں.1173 کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا ہے؟ بہر حال جو حکمت اختیار کی گئی تھی اس کے تحت اس کو رات کے وقت گھر سے نکال کر قتل کیا گیا تھا.اس کے قتل کی خبر جو مشہور ہوئی تو صبح کے وقت شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اور یہودی لوگ سخت جوش میں آگئے.اور دوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کا ایک وفد آنحضرت صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سر دار کعب بن اشرف اس طرح قتل کر دیا گیا ہے.آنحضرت صلی علیم نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ کعب کس کس جرم کا نہم مر تکب ہوا ہے ؟ قتل ہو ا ہے ہاں ٹھیک ہے لیکن اس کے جرم تھے جس کی سزا اس کو ملی ہے.پھر آپ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہد شکنی اور تحریک جنگ اور فتنہ انگیزی اور فحش گوئی اور سازش قتل و غیرہ کی کارروائیاں یاد کروائیں جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہو گئے.انہیں، سب کو پتہ تھا کہ یہ سب کچھ یہ کرتا رہا ہے.اس کے بعد آنحضرت صلی علیہم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہیے کم از کم آئندہ کے لیے امن اور تعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اور فتنہ وفساد کا بیج نہ بوؤ.چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لیے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن وامان کے ساتھ رہنے اور فتنہ وفساد کے طریقوں سے بچنے کا از سر نو وعدہ کیا.اور یہ نیا معاہدہ لکھا گیا.تاریخ میں کسی جگہ بھی مذکور نہیں ہے کہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کر کے مسلمانوں پر الزام قائم کیا ہو کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے.74 یہ سزا تھی جو اسے دی گئی اور نہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے اس کا انکار کیا کہ ہم نے نہیں کیا، ہمیں پتہ 1174

Page 534

اصحاب بدر جلد 4 518 نہیں، بلکہ سارا کچھ گنوایا اور ظاہر تھا یہ آپ کا فیصلہ تھا.آپ سر براہ حکومت تھے اور اس میں دوسر دار جو مدینے کے رئیس تھے ان کی رائے بھی شامل تھی جو مسلمان تھے سعد بن معاذ وغیرہ.قبیلہ بنو نضیر کے اموال غنیمت اور انصار کا مخلصانہ ایثار یہودی قبیلہ بنو نضیر نے آنحضرت صلی نیلم کو ایک پتھر گرا کر دھوکے سے ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا.اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آنحضرت صلی للہ ہم کو اس کی خبر دی.آنحضرت صلی الم صحابہ کے ہمراہ اس قبیلہ کی طرف گئے ہوئے تھے آپ صلی علیہ یکم فور اواپس مدینہ تشریف لے آئے.بعد میں آنحضرت صلی الله یم نے اس قبیلے کے محاصرے کا حکم دیا.ربیع الاول چار ہجری میں آنحضرت صلی اللی کم کو خود حفاظتی کے خیال سے مجبور ہو کر بنو نضیر کے خلاف فوج کشی کرنی پڑی جس کے نتیجہ میں بالآخر یہ قبیلہ مدینہ سے جلا وطن ہو گیا.جب رسول اللہ صلی علی نکم کو غزوہ بنو نضیر کا اموال غنیمت ملا تو آپ نے حضرت ثابت بن قیس کو بلا کر فرمایا کہ میرے لیے اپنی قوم کو بلاؤ.حضرت ثابت نے عرض کیا یار سول اللہ صلی ال کی کیا خزرج کو ؟ آپ نے فرمایا تمام انصار کو بلا لو کسی بھی قبیلے کے ہوں.چنانچہ انہوں نے اوس اور خزرج کو آپ صلی علیم کے لیے بلایا.رسول اللہ صلی الم نے ان سے خطاب کیا.آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ اہل ہے.پھر انصار کے مہاجرین پر کیے جانے والے احسانوں یعنی انصار کے مہاجرین کو اپنے گھر میں ٹھہرانے اور انصار کے مہاجرین کو اپنی جانوں پر ترجیح دینے کا ذکر فرمایا کہ کس طرح انصار نے مہاجرین پر احسان کیا ہے.پھر آپ نے فرمایا اگر تم پسند کرو تو میں بنو نضیر سے حاصل ہونے والا مال کے تم میں اور مہاجرین میں تقسیم کر دوں.مہاجرین حسب سابق تمہارے گھروں میں اور اموال میں رہیں گے.غنیمت کا جو مال ملا ہے آدھا آدھا تقسیم کر لو لیکن اس کا یہ ہے کہ جس طرح وہ پہلے تمہارے گھروں میں رہ رہے ہیں اور جو تم ان سے احسان کا سلوک کر رہے ہو وہ کرتے رہو.پال یہ آدھا آدھا لے لو.لیکن دوسری صورت کیا ہے کہ اگر تم پسند کرو تو یہ اموال میں مہاجرین میں تقسیم کر دیتا ہوں.انصار کو کچھ نہیں دیتا.سارا مال جو ملا ہے وہ مہاجرین میں تقسیم کر دیتا ہوں پھر وہ تمہارے گھروں سے نکل جائیں گے.پھر تمہارے گھروں میں نہیں رہیں گے.اپنا اپنا انتظام کریں کیونکہ اب ان کو مال مل گیا ہے.اس پر حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ نے آپس میں بات کی.دونوں نے مشورہ کیا اور دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی الی یکم آپ یہ اموال مہاجرین میں تقسیم فرما دیں.مہاجرین میں مال تقسیم کر دیں لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ حسب سابق ہمارے گھروں میں رہیں گے.ہم یہ نہیں چاہتے کہ مال لینے کے بعد وہ ہمارے گھروں سے نکل جائیں.جو جس طرح ہمارے گھروں میں رہ رہے ہیں اور جس طرح مواخات کا وہ سلسلہ قائم ہے اب بھی وہی قائم رہے گا.اور انصار نے عرض کیا یارسول اللہ صلیل لی کہ ہم راضی ہیں اور ہمارا سر تسلیم خم ہے.اگر سارا مال آپ مہاجرین میں تقسیم کر دیں تو اس بات پر کوئی ہمیں شکوہ نہیں.اس پر رسول اللہ صلی علی ایم نے فرمایا اے اللہ ! انصار پر رحم فرما اور انصار کے بیٹوں پر رحم فرما.پھر رسول اللہ صلی للی تم نے مال کے مہاجرین میں تقسیم فرما دیا اور انصار میں سے کسی کو بھی اس میں سے کچھ نہیں دیا

Page 535

تاب بدر جلد 4 519 سوائے دو ضرورت مند آدمیوں کے.وہ دونوں سھل بن حنیف اور ابو دجانہ تھے اور آنحضرت صلی الہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ کو ابن ابی حقیق یہودی کی تلوار عطا کی اور اس تلوار کی یہودیوں میں بڑی شہرت تھی.پھر حضرت معاذ کو ایک تلوار دی.1175 واقعہ افک اور حضرت سعد کا فدائیت کا اظہار رض جب افک کا واقعہ ہوا اور حضرت عائشہ پر الزام لگایا گیا اور آنحضرت صلی یہ کم اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آپ کے خاندان کو بڑی تکلیف سے گزرنا پڑا اور اسی دوران میں کچھ عرصہ کے بعد آنحضرت صلی الم نے صحابہ کے سامنے ایک موقع پر منافقین کے اس غلط رویے کا ذکر کیا تو اس وقت بھی حضرت سعد بن معاذ نے بے لوث فدائیت کا اظہار فرمایا تھا.یہ واقعہ بڑی تفصیل سے حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہوا ہے جو ایک صحابی حضرت مشطخ کے ذکر میں پہلے میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں.تاہم حضرت سعد سے متعلقہ حصہ یہاں میں پیش کر دیتا ہوں.جیسا کہ میں نے کہا ایک روز آنحضرت صلی الم نے اس دوران میں گھر سے باہر تشریف لا کر صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کوئی ہے جو مجھے اس شخص سے بچائے جس نے مجھے دکھ دیا ہے.اس سے آپ کی مراد عبد اللہ بن ابی بن سلول سے تھی.حضرت سعد بن معاذ جو اوس قبیلے کے سردار تھے کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اگر وہ شخص ہم میں سے ہے تو ہم اس کو مارنے کے لیے تیار ہیں اور اگر وہ خزرج میں سے ہے تب بھی اس کو مارنے کے لیے تیار ہیں.1176 غزوہ خندق اور بنو قریظہ کی غداری غزوہ خندق کے دوران ابو سفیان نے بنو نضیر کے رئیس محینی کو بنو قریظہ کے رئیس کعب بن اسد کے پاس بھیجا کہ مسلمانوں سے کیے گئے معاہدے کو ختم کر دو.جب وہ نہ مانا تو سبز باغ دکھا کر اور مسلمانوں کی تباہی کا یقین دلا کر مسلمانوں سے کیے گئے معاہدے پر عمل نہ کرنے پر راضی کر لیا بلکہ اس بات پر بھی راضی کر لیا کہ وہ کفارِ مکہ کے مدد گار بن جائیں گے.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ وآ نحضرت صلی اللہ ہم کو جب بنو قریظہ کی اس خطر ناک غداری کا علم ہوا تو آپ نے پہلے تو دو تین دفعہ خفیہ خفیہ زبیر بن العوام کو دریافت حالات کے لیے بھیجا اور پھر باضابطہ طور پر قبیلہ اوس و خزرج کے رئیس سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ اور بعض دوسرے با اثر صحابہ کو ایک وفد کے طور پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کوئی تشویشناک خبر ہو تو واپس آکر اس کا بر ملا اظہار نہ کریں بلکہ اشارہ کنایہ سے کام لیں تاکہ لوگوں میں تشویش نہ پیدا ہو.جب یہ لوگ بنو قریظہ کے مساکن میں پہنچے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے پاس گئے تو وہ بد بخت ان کو نہایت مغرورانہ انداز سے ملا اور سعدین کی طرف“ یعنی سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کی طرف ” سے معاہدہ کا ذکر ہونے پر وہ اور اس

Page 536

تاب بدر جلد 4 520 کے قبیلہ کے لوگ بگڑ کر بولے کہ جاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے.“ ہم نے کوئی معاہدہ نہیں کیا.” یہ الفاظ سن کر صحابہ کا یہ وفد وہاں سے اٹھ کر چلا آیا اور سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ نے آنحضرت صلی ال یکم کی خدمت میں حاضر ہو کر مناسب طریق پر آنحضرت صلی علیکم کو حالات سے اطلاع دی.1177 بنو قریظہ کی غداری کی سزا کا خدائی حکم بہر حال اس وقت تو ان کی یہ حرکت مسلمانوں کے لیے بڑا دھچکا تھی.چاروں طرف سے مکے کے کفار نے مدینے کو گھیر ہو ا تھا.کفارِ مکہ سے جنگ کی حالت کی وجہ سے اس قبیلے کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی تھی لیکن جنگ کے اختتام پر جب شہر میں واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی للی کلم کو کشفی رنگ میں بنو قریظہ کی غداری اور بغاوت کی سزا دینے کا بتایا.یہ حکم ہوا کہ ان کو سزا ملنی چاہیے.اس پر آپ صلی علی کرم نے عام اعلان فرمایا کہ بنو قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہو جائیں اور نماز عصر وہیں پہنچ کر ادا ہو اور آپ نے حضرت علی کو صحابہ کے ایک دستے کے ساتھ فوراً آگے روانہ کر دیا.اس جنگ کی تفصیل کچھ لمبنی ہے جس میں حضرت سعد بن معاذ کا بھی آخر پر فیصلہ کرنے میں کردار ہے.اب وقت نہیں.اس لیے آئندہ ان شاء اللہ یہ تفصیل بیان کروں گا.جیسا کہ گذشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ جنگ احزاب کے بعد بنو قریظہ کی غداری کی سزا کا خدائی حکم آپ صلی للی کم کو ہو ا.چنانچہ ان سے جنگ ہوئی اور پھر بنو قریظہ نے جنگ بندی کر کے حضرت سعد سے فیصلہ کروانے پر رضامندی کا اظہار کیا.چنانچہ حضرت سعد نے فیصلہ کیا.اس غزوہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ 1178 ” ہیں دنوں کے بعد مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا یعنی جنگ احزاب کے بعد ”مگر اب بنو قریظہ کا معاملہ طے ہونے والا تھا.ان کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظر انداز کی جاتی.رسول کریم صلی للی نے واپس آتے ہی اپنے صحابہ سے فرمایا کہ گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ جاؤ.اور پھر آپ نے حضرت علی کو بنو قریظہ کے پاس بھجوایا کہ وہ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی ؟ بجائے اس کے کہ بنو قریظہ شر مندہ ہوتے یا معافی مانگتے یا کوئی معذرت کرتے ، انہوں نے حضرت علی اور ان کے ساتھیوں کو برابھلا کہنا شروع کر دیا اور رسول اللہ صلی یکم اور آپ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہا ہم نہیں جانتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا چیز ہیں.ہمارا ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں.حضرت علی ان کا یہ جواب لے کر واپس کوئے تو اتنے میں رسول اللہ صلی علی یوم صحابہ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جارہے تھے.چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلی علیم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق بھی ناپاک کلمات بول رہے تھے حضرت علی نے اس خیال سے کہ آپ کو ان کلمات کے سننے سے تکلیف ہو گی،

Page 537

تاب بدر جلد 4 521 عرض کیا یارسول اللہ ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں.ہم لوگ اس لڑائی کے لیے کافی ہیں.آپ واپس تشریف لے جائیں.رسول اللہ صلی اللی یم نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں.حضرت علی نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ بات تو یہی ہے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں.موسیٰ نبی تو ان کا اپنا تھا اُس کو اِس سے بھی زیادہ انہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں.یہ کہتے ہوئے آپ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے مگر یہود دروازے بند کر کے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی حتی کہ ان کی عور تیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں.چنانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اوپر سے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کو مار دیا.لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہود نے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے.تب ان کے سرداروں نے رسول اللہ صلی علیم سے خواہش کی کہ وہ ابولبابہ انصاری کو، جو اُن کے دوست اور اوس قبیلہ کے سردار تھے، ان کے پاس بھجوائیں تاکہ وہ ان سے مشورہ کر سکیں.آپ نے ابو لبابہ کو بھجوا دیا.ان سے یہود نے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صل الم کے اس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار پھینک دو ہم یہ مان لیں ؟“ یہود نے پوچھا." ابو لبابہ نے منہ سے تو کہا 'ہاں' لیکن اپنے گلے پر اس طرح ہاتھ پھیرا جس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے.رسول اللہ صلی علیکم نے اس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابو لبابہ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کے اس جرم کی سزا “ جو یہودیوں نے جرم کیا ہے اس کی سزا سوائے قتل کے اور کیا ہو گی، بغیر سوچے سمجھے اشارہ کے ساتھ ان سے ایک بات کہہ دی جو آخر ان کی تباہی کا موجب ہوئی“ یعنی بنو قریظہ قبیلے کی.”چنانچہ یہود نے کہہ دیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی علیکم کا فیصلہ ماننے کو تیار نہیں.اگر وہ آپ کا فیصلہ مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح ان کو زیادہ سے زیادہ یہی سزادی جاتی کہ ان کو مدینہ سے جلاوطن کر دیا جاتا مگر ان کی بد قسمتی تھی.انہوں نے کہا ہم محمد رسول اللہ صلی للی کم کا فیصلہ ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ ہم اپنے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کا فیصلہ مانیں گے.جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا لیکن اس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا.“ آپس میں اختلاف ہو گیا.”یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے“ واضح ہے کہ ہم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے وہ لوگ اپنا مذہب ترک کر کے اسلام میں داخل ہو گئے.“ یہ جنہوں نے اختلاف کیا تھا.” ایک شخص عمرو بن سعدی نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ توڑا ہے اب یا مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ پر راضی ہو جاؤ.یہود نے کہانہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے.پھر ان سے اس نے کہا میں تم سے بری ہوں.“ جب ان کو سمجھایا اور نہیں سمجھے تو اس نے کہا پھر میں تم سے بری ہوں میں تمہارے ساتھ نہیں ” اور یہ کہہ کر قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا.جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مسلمہ تھے اسے دیکھ لیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے ؟ اس نے بتایا کہ میں فلاں ہوں.اس پر محمد بن مسلمہ نے فرمایا.اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنِي إِقَالَةٌ الله

Page 538

صحاب بدر جلد 4 522 عَشَرَاتِ الْكِرَامِ.یعنی آپ سلامتی سے چلے جائیے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی“ حضرت محمد بن مسلمہ نے دعا کی کہ الہی مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیو.یعنی یہ شخص چونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے تو ہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اسے معاف کر دیں.اس لیے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا ہے.خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشتا ر ہے.کوئی ظلم کا ارادہ نہیں تھا.”جب رسول اللہ صلی للی کم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہ گو سرزنش نہیں کی پوچھا نہیں کہ کیوں تم نے نہیں اس کو پکڑا کہ کیوں اس یہودی کو چھوڑ دیا بلکہ اس کے فعل کو سراہا.“ آپ نے اس کی اس بات کی تعریف کی کہ تم نے بڑا اچھا کیا.سعد بن معاذ بطور حکم یه....واقعات انفرادی تھے.بنو قریظہ بحیثیت قوم اپنی ضد پر قائم رہے.“ گو اِکا دُکا واقعات ایسے تھے، چند شخص ایسے تھے جو اس سے، بنو قریظہ کے فیصلوں سے اختلاف کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے معاہدہ کیا جائے ، ان کی بات مانی جائے لیکن یہ انفرادی واقعات تھے.بحیثیت قوم وہ اس بات پر ضد کر رہے تھے اور اس بات پر قائم رہے کہ رسول کریم صلی علیکم کو حکم نہ مانیں.” اور رسول کریم صلی علیم کو حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے سعد کے فیصلہ پر اصرار کیا.“ انہوں نے یہ پسند نہیں کیا کہ رسول کریم صلی علی نیم کے فیصلے کو مانیں اور ان کو فیصلہ کرنے کے لیے حکم کے طور پر مقرر کر دیں بلکہ انہوں نے کہا کہ سعد ہمارا فیصلہ کرے گا.رسول کریم صلی علیم نے بھی ان کے اس مطالبہ کو مان لیا.سعد کو جو جنگ میں زخمی ہو چکے تھے اطلاع دی کہ تمہارا فیصلہ بنو قریظہ تسلیم کرتے ہیں“ اس لیے آ کر فیصلہ کرو.اس تجویز کا اعلان ہوتے ہی اوس قبیلہ کے لوگ جو بنو قریظہ کے دیر سے حلیف چلے آئے تھے وہ سعد کے پاس دوڑ کر گئے اور انہوں نے اصرار کرنا شروع کیا کہ چونکہ خزرج نے اپنے حلیف یہودیوں کو ہمیشہ سز ا سے بچایا ہے اس لیے آج تم بھی اپنے حلیف قبیلہ کے حق میں فیصلہ دینا.سعد ز خموں کی وجہ سے سواری پر سوار ہو کر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی قوم کے افراد ان کے دائیں بائیں دوڑتے جاتے تھے اور سعد سے اصرار کرتے جاتے تھے کہ دیکھنا بنو قریظہ کے خلاف فیصلہ نہ دینا.مگر سعد نے صرف یہی جواب دیا کہ جس کے سپر دفیصلہ کیا جاتا ہے وہ امانت دار ہوتا ہے.اسے دیانت سے فیصلہ کرنا چاہئے.میں دیانت سے فیصلہ کروں گا.جب سعد یہود کے قلعہ کے پاس پہنچے جہاں ایک طرف بنو قریظہ قلعہ کی دیوار سے کھڑے سعد کا انتظار کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمان بیٹھے تھے تو سعد نے پہلے اپنی قوم سے پوچھا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو میں فیصلہ کروں گا وہ آپ لوگ قبول کریں گے ؟ انہوں نے کہا ہاں.پھر سعد نے بنو قریظہ کو مخاطب کر کے کہا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو فیصلہ میں کروں وہ آپ لوگ قبول کریں گے ؟ انہوں نے کہا ہاں.پھر شرم سے دوسری طرف دیکھتے ہوئے نیچی نگاہوں سے اس طرف اشارہ کیا جدھر رسول الله صلی ایام تشریف رکھتے تھے اور کہا ادھر بیٹھے ہوئے لوگ بھی یہ وعدہ کرتے ہیں ؟“ یعنی

Page 539

بدر جلد 4 523 آنحضرت صلی کم کی طرف اس لیے نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے کہ شرم تھی، حیا تھی لیکن فیصلے کے لیے حکم مقرر کیے گئے تھے تو پوچھنا بھی ضروری تھا.اس لیے نظریں بڑی نیچی کر کے آپ نے رسول اللہ صلی علیم کی طرف بھی منہ کر کے پوچھا کہ آپ بھی وعدہ کرتے ہیں "رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا ہاں.اس کے بعد سعد نے “ جب تینوں فریقوں سے وعدہ لے لیا تو سعد نے ”بائبل کے حکم کے مطابق فیصلہ سنایا.بائبل میں لکھا ہے : اور جب تو کسی شہر کے پاس اس سے لڑنے کے لیے آپہنچے تو پہلے اس سے صلح کا پیغام کر.تب یوں ہو گا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لیے کھول دے تو ساری خلق جو اس شہر میں پائی جائے تیری خراج گزار ہو گی اور تیری خدمت کرے گی اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو تُو اس کا محاصرہ کر اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر.مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اس شہر میں ہو اس کا سارا لوٹ اپنے لیے لے اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھا ئیو.اسی طرح سے تو ان سب شہروں سے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں، یہی حال کیجیو.لیکن ان قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیر اخدا تیری میراث کر دیتا ہے کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑ یو بلکہ تو ان کو حرم کیجیو.چینی اور آموری اور کنعانی اور فَرَزِی اور حوی اور یبوسی کو جیسا کہ خداوند تیرے خدا نے تجھے حکم کیا ہے تاکہ وے اپنے سارے کر یہ کاموں کے مطابق جو انہوں نے اپنے معبودوں سے کیسے تم کو عمل کرنانہ سکھائیں اور کہ تم خداوند اپنے خدا کے گنہگار ہو جاؤ“.1179 یہ بائبل کے الفاظ ہیں.حضرت سعد نے یہ پڑھے اور اس کے مطابق فیصلہ کیا.”بائبل کے اس فیصلہ سے ظاہر ہے کہ اگر یہودی جیت جاتے اور محمد رسول اللہ صلی للی یک بار جاتے تو بائبل کے اس فیصلہ کے مطابق اول تو تمام مسلمان قتل کر دیئے جاتے.مرد بھی اور عورت بھی اور بچے بھی اور جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کا یہی ارادہ تھا کہ مردوں، عورتوں اور بچوں سب کو یکدم قتل کر دیا جائے لیکن اگر وہ ان سے بڑی سے بڑی رعایت کرتے تب بھی کتاب استثناء کے مذکورہ بالا فیصلہ کے مطابق وہ ان سے دور کے ملکوں والی قوموں کا سا سلوک کرتے اور تمام مردوں کو قتل کر دیتے اور عورتوں اور لڑکوں اور سامانوں کو لوٹ لیتے.سعد نے جو بنو قریظہ کے حلیف تھے اور ان کے دوستوں میں سے تھے دیکھا کہ یہود نے اسلامی شریعت کے مطابق، جو یقیناً ان کی جان کی حفاظت کرتی، محمد رسول اللہ صلی الی یوم کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا تو انہوں نے وہی فیصلہ یہود کے متعلق کیا جو “ حضرت موسی نے استثناء میں پہلے سے ایسے مواقع کے لیے کر چھوڑا تھا.اور اس فیصلہ کی ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی علی کم پر یا مسلمانوں پر نہیں “ یہ تو ان کی اپنی کتاب کے مطابق فیصلہ تھا بلکہ موسیٰ پر اور تورات پر اور ان یہودیوں پر ہے جنہوں نے غیر قوموں کے ساتھ ہزاروں سال اس طرح معاملہ کیا تھا اور جن کو محمد رسول اللہ صلی العلم کے رحم کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللی کم کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں.ہم سعد حضرت سعد کی بات مانیں گے.جب سعد نے موسیٰ کے فیصلہ کے مطابق

Page 540

ناب بدر جلد 4 524 فیصلہ دیا تو حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ ”آج عیسائی دنیا شور مچاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی علی ہم نے ظلم کیا.کہ.کیا عیسائی مصنف اس بات کو نہیں دیکھتے کہ محمد رسول اللہ صلی علیم نے کسی دوسرے موقع پر کیوں ظلم نہ کیا؟“ باقی تو کہیں ظلم نظر نہیں آتا.”سینکڑوں دفعہ دشمن نے محمد رسول اللہ صلی علیم کے رحم پر اپنے آپ کو چھوڑا اور ہر دفعہ محمد رسول اللہ صلی علیہم نے ان کو معاف کر دیا.یہ ایک ہی موقع ہے کہ دشمن نے اصرار کیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی علیم کے فیصلہ کو نہیں مانیں گے بلکہ فلاں دوسرے شخص کے فیصلہ کو مانیں گے اور اس شخص نے محمد رسول اللہ صلی اللی علم سے پہلے اقرار لے لیا کہ جو میں فیصلہ کروں گا اسے آپ مانیں گے.“جیسا کہ تاریخ سے ظاہر ہے اقرار آپ سے بھی لیا گیا تھا اس کے بعد اس نے فیصلہ کیا بلکہ اُس نے فیصلہ نہیں کیا.اس نے موسیٰ کا فیصلہ دہرا دیا جس کی امت میں سے ہونے کے یہود مدعی تھے.پس اگر کسی نے ظلم کیا تو یہود نے اپنی جانوں پر ظلم کیا جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی علیہ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا.اگر کسی نے ظلم کیا تو موسی نے ظلم کیا جنہوں نے محصور دشمن کے متعلق تورات میں خدا سے حکم پا کر یہی تعلیم دی تھی.اگر یہ ظلم تھا تو ان عیسائی مصنفوں کو چاہئے کہ موسیٰ کو ظالم قرار دیں بلکہ موسیٰ کے خدا کو ظالم قرار دیں جس نے یہ تعلیم تو رات میں دی ہے.آج سے مشرک ہم پر حملہ نہیں کریں گے احزاب کی جنگ کے خاتمہ کے بعد رسول کریم صلی ال یکم نے فرمایا.آج سے مشرک ہم پر حملہ نہیں کریں گے.اب اسلام خود جواب دے گا اور ان اقوام پر جنہوں نے ہم پر حملے کئے تھے اب ہم چڑھائی کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.احزاب کی جنگ میں بھلا کفار کا نقصان ہی کیا ہوا تھا؟ چند آدمی مارے گئے تھے.وہ دوسرے سال پھر دوبارہ تیاری کر کے آسکتے تھے.ہمیں ہزار کی جگہ وہ چالیس یا پچاس ہزار کا لشکر بھی لا سکتے تھے بلکہ اگر وہ اور زیادہ انتظام کرتے تو لاکھ ڈیڑھ کا لشکر لانا بھی ان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا مگر اکیس سال کی متواتر کوشش کے بعد کفار کے دلوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ خدا محمد رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ ہے.ان کے بت جھوٹے ہیں اور دنیا کا پیدا کرنے والا ایک ہی خدا ہے.ان کے جسم صحیح سلامت تھے مگر ان کے دل ٹوٹ چکے تھے.“ یعنی کافروں کے ”بظاہر وہ اپنے بتوں کے آگے سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے مگر ان کے دلوں میں سے لا إِلهَ إِلَّا اللہ کی آواز میں اٹھ رہی تھیں.1180°C تم نے بادشاہوں جیسا فیصلہ کیا حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ کچھ لوگ حضرت سعد بن معاذ کے فیصلہ کو قبول کرنے کی شرط پر قلعہ سے اتر آئے.آنحضرت صلی علیم نے حضرت سعد کو بلا بھیجا تو وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے.جب مسجد کے قریب پہنچے تو نبی صلی یکم نے فرمایا تم اپنے میں سے بہتر کے استقبال کے لیے اٹھویا فرمایا اپنے سردار کے استقبال کے لیے اٹھو.پھر آپ نے فرمایا سعد یہ لوگ آپ کے فیصلہ پر اترے ہیں.انہوں نے کہا: پھر میں ان کے متعلق یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے جو لڑنے والے تھے انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے اہل و عیال قید کر لیے جائیں.آپ نے فرمایا تم نے الہی منشاء کے مطابق فیصلہ کیا ہے

Page 541

اصحاب بدر جلد 4 525 یا فرمایا تم نے شاہانہ فیصلہ کیا ہے یعنی تم نے بادشاہوں جیسا فیصلہ کیا.یہ بخاری کی روایت ہے.غزوہ بنو قریظہ کی بعض مزید باتیں 1181 اس کی جو بعض زائد باتیں ہیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی تفصیل بیان کی ہے.کچھ باتیں میں یہاں بیان کر دیتا ہوں.وہ لکھتے ہیں: بنو قریظہ کے تعلق میں ہی کہ آخر کم و بیش تیس (ہیں) دن کے محاصرے کے بعد یہ بد بخت یہود ایک ایسے شخص کو حکم مان کر اپنے قلعوں سے اترنے پر رضامند ہوئے جو باوجو دان کا حلیف ہونے کے ان کی کارروائیوں کی وجہ سے ان کے لیے اپنے دل میں کوئی رحم نہیں پاتا تھا اور جو گو عدل وانصاف کا مجسمہ تھا مگر اس کے قلب میں رحمتہ للعالمین کی سی شفقت اور رافت نہیں تھی.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قبیلہ اوس بنو قریظہ کا قدیم حلیف تھا اور اس زمانہ میں اس قبیلہ کے رئیس سعد بن معاذ تھے جو غزوہ خندق میں زخمی ہو کر اب مسجد کے صحن میں زیر علاج تھے.اس قدیم جتھہ داری کا خیال کرتے ہوئے بنو قریظہ نے کہا کہ ہم سعد بن معاذ کو اپنا حکم مانتے ہیں.جو فیصلہ بھی وہ ہمارے متعلق کریں وہ ہمیں منظور ہو گا.لیکن یہود میں بعض ایسے لوگ بھی تھے (جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے) جو اپنے اس قومی فیصلہ کو صحیح نہیں سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو مجرم یقین کرتے تھے اور دل میں اسلام کی صداقت کے قائل ہو چکے تھے.ایسے لوگوں میں سے بعض آدمی جن کی تعداد تاریخی روایات میں تین بیان ہوئی ہے بطیب خاطر بڑی خوشی سے اسلام قبول کر کے آنحضرت صلی علیکم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گئے.ایک اور شخص تھا ہ مسلمان تو نہیں ہوا مگر وہ اپنی قوم کی غداری پر اس قدر شرمندہ تھا کہ جب بنو قریظہ نے آنحضرت صلی علیکم کے ساتھ جنگ کرنے کی ٹھانی تو وہ یہ کہتا ہوا کہ میری قوم نے محمد صلی علیم سے سخت غداری کی ہے میں اس غداری میں شامل نہیں ہو سکتا، مدینہ چھوڑ کر کہیں باہر چلا گیا تھا مگر باقی قوم آخر تک اپنی ضد پر قائم رہی اور سعد کو اپنا ثالث بنانے پر اصرار کیا.آنحضرت صلی علی کرم نے بھی اسے منظور فرمایا (جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے) اس کے بعد آپ نے چند انصاری صحابیوں کو سعد کے لانے کے لیے روانہ فرمایا.سعد آئے اور راستہ میں ان کے قبیلے کے بعض لوگوں نے اصرار کیا اور بار بار یہ درخواست کی کہ قریظہ ہمارے حلیف ہیں اس لیے ان کا خیال رکھنا.جس طرح خزرج نے اپنے حلیف قبیلہ بنو قینقاع کے ساتھ نرمی کی تھی تم بھی قریظہ سے رعایت کا معاملہ کرنا اور انہیں سخت سزا نہ دینا.سعد بن معاذ پہلے تو خاموشی کے ساتھ ان کی باتیں سنتے رہے لیکن جب ان کی طرف سے زیادہ اصرار ہونے لگا تو سعد نے کہا کہ یہ وہ وقت ہے کہ سعد اُس وقت حق و انصاف کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کر سکتا.جب سعد کا یہ جواب سنا تو لوگ خاموش ہو گئے.بہر حال جب سعد آنحضرت صلی علیم کے قریب پہنچے تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ اپنے رئیس کے لیے اٹھو اور سواری سے نیچے اترنے میں انہیں مدد دو.جب سعد سواری سے نیچے اترے تو آنحضرت صلی علیکم وہ

Page 542

ب بدر جلد 4 526 کی طرف آگے بڑھے.حضرت سعد آنحضرت صلی علیم کے قریب آئے تو آپ صلی الم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا سعد بأبنو قریظہ نے تمہیں حکم مانا ہے اور ان کے متعلق تم جو فیصلہ کرو انہیں منظور ہو گا.اس پر سعد نے اپنے قبیلے اوس کے لوگوں کی طرف نظر اٹھا کر کہا کہ کیا تم خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ پختہ عہد کرتے ہو کہ تم بہر حال اس فیصلہ پر عمل کرنے کے پابند ہو گے جو میں بنو قریظہ کے متعلق کروں ؟ لوگوں نے کہا ہاں ہم وعدہ کرتے ہیں.پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جو ذکر فرمایا ہے اس میں بھی بیان ہو چکا ہے.بہر حال پھر سعد نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاں آنحضرت صلی علی کی تشریف رکھتے تھے کہا کہ وہ صاحب جو...( انہوں نے اس طرح یہاں لکھا ہے کہ وہ صاحب جو ) یہاں تشریف رکھتے ہیں کیا وہ بھی ایسا ہی وعدہ کرتے ہیں کہ وہ بہر حال میرے فیصلہ کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوں گے.اس پر آنحضرت صلی یم نے فرمایا کہ میں وعدہ کرتا ہوں.اس عہد و پیمان کے بعد سعد نے اپنا فیصلہ سنایا جو یہ تھا کہ بنو قریظہ کے مقاتل یعنی جنگجو لوگ قتل کر دیے جائیں اور ان کی عور تیں اور بچے قید کر لیے جائیں اور ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دیے جائیں.آنحضرت صلی علیہ یکم نے یہ فیصلہ سنا تو بے ساختہ فرمایا کہ تمہارا یہ فیصلہ ایک خدائی تقدیر ہے جو ٹل نہیں سکتی اور ان الفاظ سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ بنو قریظہ کے متعلق یہ فیصلہ ایسے حالات میں ہوا ہے کہ اس میں صاف طور پر خدائی تصرف کام کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اس لیے آپ کا جذبہ رحم اسے روک نہیں سکتا.اور یہ واقعی درست تھا کیونکہ بنو قریظہ کا ابولبابہ کو اپنے مشورہ کے لیے بلانا اور ابو لبابہ کے منہ سے ایک ایسی بات نکل جانا جو سر اسر بے بنیاد تھی اور بنو قریظہ کا آنحضرت صلی علیہ ہم کو حکم ماننے سے انکار کرنا اور اس خیال سے کہ قبیلہ اوس کے لوگ ہمارے حلیف ہیں اور ہم سے رعایت کا معاملہ کریں گے سعد بن معاذ رئیس اوس کو اپنا حکم مقرر کرنا، پھر سعد کا حق و انصاف کے رستے میں اس قدر پختہ ہو جانا کہ عصبیت اور جتھصہ داری کا احساس دل سے بالکل محو ہو جاوے اور بالآخر سعد کا اپنے فیصلہ کے اعلان سے قبل آنحضرت صلی علی نام سے اس بات کا پختہ عہد لے لینا کہ بہر حال اس فیصلہ کے مطابق عمل ہو گا.یہ ساری باتیں اتفاقی نہیں ہو سکتیں اور یقیناً ان کی تہ میں خدائی تقدیر اپنا کام کر رہی تھی اور یہ فیصلہ خدا تعالیٰ کا تھانہ کہ سعد کا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنو قریظہ کی بد عہدی اور غداری اور بغاوت اور فتنہ وفساد اور قتل و خونریزی کی وجہ سے خدائی عدالت سے یہ فیصلہ صادر ہو چکا تھا کہ ان کے جنگجو لو گوں کو دنیا سے مٹادیا جاوے.چنانچہ ابتداء آنحضرت مصلی یہ کام کو اس غزوہ کے متعلق غیبی تحریک ہونا بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک خدائی تقدیر تھی مگر خدا کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کے رسول کے ذریعہ سے یہ فیصلہ جاری ہو اور اس لیے اس نے نہایت پیچ در پیچ غیبی تصرفات سے آنحضرت صلی للی نام کو بالکل الگ رکھا اور سعد بن معاذ کے ذریعہ اس فیصلہ کا اعلان کروایا اور فیصلہ بھی ایسے رنگ میں کروایا کہ اب آنحضرت صلی اللہ ہم اس میں بالکل دخل نہیں دے سکتے تھے کیونکہ آپ وعدہ فرما چکے تھے کہ آپ بہر حال اس فیصلہ کے پابند رہیں گے اور پھر چونکہ اس فیصلہ کا اثر بھی صرف آپ کی ذات پر نہیں پڑتا تھا بلکہ تمام

Page 543

اصحاب بدر جلد 4 527 مسلمانوں پر پڑتا تھا اس لیے آپ اپنا یہ حق نہیں سمجھتے تھے کہ اپنی رائے سے خواہ وہ کیسی ہی عفو اور رحم کی طرف مائل ہو اس فیصلہ کو بدل دیں.یہی خدائی تصرف تھا جس کی طاقت سے متاثر ہو کر آپ کے منہ سے بے اختیار طور پر یہ الفاظ نکلے کہ قد حَكَمْتَ بِحُكْمِ اللہ یعنی اے سعد ! تمہارا یہ فیصلہ تو خدائی تقدیر معلوم ہوتی ہے جس کے بدلنے کی کسی کو طاقت نہیں.یہ الفاظ کہہ کر آپ خاموشی سے وہاں سے اٹھے اور شہر کی طرف چلے آئے اور اس وقت آپ کا دل اس خیال سے درد مند ہو رہا تھا کہ ایک قوم جس کے ایمان لانے کی آپ کے دل میں بڑی خواہش تھی اپنی بد کرداریوں کی وجہ سے ایمان سے محروم رہ کر خدائی قہر و عذاب کا نشانہ بن رہی ہے اور غالباً اسی موقع پر آپ نے یہ حسرت بھرے الفاظ فرمائے کہ اگر یہود میں سے مجھ پر دس آدمی یعنی دس بار سوخ آدمی بھی ایمان لے آتے تو میں خدا سے امید رکھتا کہ یہ ساری قوم مجھے مان لیتی اور خدائی عذاب سے بچ جاتی.بہر حال وہاں سے اٹھتے ہوئے آپ نے یہ حکم دیا کہ بنو قریظہ کے مردوں اور عورتوں اور بچوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیا جائے.چنانچہ دونوں گروہوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے مدینہ میں لایا گیا اور شہر میں دو الگ الگ مکانات میں جمع کر دیا گیا اور آنحضرت صلی علیم کے حکم کے ماتحت صحابہ نے جن میں سے غالباً کئی لوگ خود بھوکے رہے ہوں گے بنو قریظہ کے کھانے کے لیے ڈھیروں ڈھیر پھل مہیا کیا اور لکھا ہے کہ یہودی لوگ رات بھر پھل نوشی میں مصروف رہے.دوسرے دن صبح کو سعد بن معاذ کے فیصلہ کا اجر اہونا تھا.آنحضرت صلی علیم نے چند مستعد آدمی اس کام کی سر انجام دہی کے لیے مقرر فرما دیے اور خود بھی قریب ہی ایک جگہ میں تشریف فرما ہو گئے تاکہ اگر فیصلہ کے اجرا کے دوران میں کوئی ایسی بات پیدا ہو جس میں آپ کی تعلیم کی ہدایت کی ضرورت ہو تو آپ بلا توقف ہدایت دے سکیں.نیز یہ بھی کہ اگر کسی مجرم کے متعلق کسی شخص کی طرف سے رحم کی اپیل ہو تو اس میں آپ فور افیصلہ صادر فرما سکیں کیونکہ گوسعد کے فیصلہ کی اپیل عدالتی رنگ میں آپ کے سامنے پیش نہیں ہو سکتی تھی مگر ایک بادشاہ یا صدر جمہوریت کی حیثیت میں آپ کسی فرد کے متعلق کسی خاص وجہ کی بنا پر رحم کی اپیل ضرور بن سکتے تھے.بہر حال آپ نے بتقاضائے رحم یہ بھی حکم فرمایا کہ مجرموں کو ایک ایک کر کے علیحدہ علیحدہ قتل کیا جاوے.یعنی ایک کے قتل کے وقت دو سر ہے مجرم پاس موجود نہ ہوں.چنانچہ ایک ایک مجرم کو الگ الگ لایا گیا اور حسب فیصلہ سعد بن معاذ ان کو قتل کیا گیا.بنو قریظہ اور بعض غیر مسلم مؤرخین کے ناواجب حملے بنو قریظہ کے واقعہ کے متعلق بعض غیر مسلم مؤرخین نہایت ناگوار طریقے پر آنحضرت صلی علیہ یکم کے خلاف حملے کرتے ہیں یا انہوں نے حملے کیے.اور کم و بیش چار سو یہودیوں کی سزائے قتل کی وجہ سے آپ کو نعوذ باللہ ظالم اور سفاک فرمانروا کے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ایک محقق نے یہ بھی تحقیق کی ہے کہ جو اصل تعداد ہے وہ سولہ سترہ بنتی ہے لیکن بہر حال یہ تحقیق طلب چیز ہے.ابھی بھی تحقیق ہو سکتی ہے.کسی نے تعداد سو لکھی ہے.چار سو لکھی ہے.کسی نے زیادہ لکھی ہے.کسی نے ہزار لکھی ہے.نو سو لکھی ہے.بہر حال کیونکہ معین تعداد نہیں ہے اس لیے اس پر بحث ہو سکتی ہے.بہر حال اگر چار سو بھی ہے تو اس اعتراض کی بنا محض مذہبی تعصب پر واقع ہے جس سے جہاں تک کم از کم اس

Page 544

اصحاب بدر جلد 4 528 اسلام اور بانی اسلام کی تعلیم کا تعلق ہے بہت سے مغربی روشنی میں تربیت یافتہ مؤرخ بھی آزاد نہیں ہو سکے.یہی الزام لگاتے ہیں.تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ اس اعتراض کے جواب میں اول تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بنو قریظہ کے متعلق جس فیصلہ کو ظالمانہ کہا جاتا ہے وہ سعد بن معاذ کا فیصلہ تھا، آنحضرت صلی علی یم کا ہر گز نہیں تھا.اور جب وہ آپ کا فیصلہ ہی نہیں تھا تو اس کی وجہ سے آپ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا.دوسرے یہ کہ فیصلہ حالات پیش آمدہ کے ماتحت ہر گز غلط اور ظالمانہ نہیں تھا.سوم یہ کہ اس عہد کی وجہ سے جو سعد نے فیصلے کے اعلان سے قبل آپ صلی علیم سے لیا تھا آپ اس بات کے پابند تھے کہ بہر حال اس کے مطابق عمل کرتے.چہارم یہ کہ خود مجرموں نے اس فیصلے کو قبول کیا اور اس پر اعتراض نہیں کیا اور اسے اپنے لیے ایک خدائی تقدیر سمجھا.تو اس صورت میں آپ کا یہ کام نہیں تھا کہ خواہ مخواہ اس میں دخل دینے کے لیے کھڑے ہو جاتے.سعد کے فیصلے کے بعد اس معاملے کے ساتھ آپ صلی لی ایک کا تعلق صرف اس قدر تھا کہ آپ اپنی حکومت کے نظام کے ماتحت اس فیصلے کو بصورت احسن جاری فرما دیں اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ آپ نے اسے ایسے رنگ میں جاری فرمایا کہ جو رحمت و شفقت کا بہترین نمونہ سمجھا جا سکتا ہے.یعنی جب تک تو یہ لوگ فیصلے کے اجر اسے قبل قید میں رہے آپ نے ان کی رہائش اور خوراک کا بہتر سے بہتر انتظام فرمایا اور جب ان پر سعد کا فیصلہ جاری کیا جانے لگا تو آپ نے ایسے رنگ میں جاری کیا کہ وہ مجرموں کے لیے کم سے کم موجب تکلیف تھا.یعنی اول تو ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے آپ نے یہ حکم دیا کہ ایک مجرم کے قتل کے وقت کوئی دوسر امجرم سامنے نہ ہو بلکہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جن لوگوں کو مقتل میں لایا جا تا تھا ان کو اس وقت تک علم نہیں ہو تا تھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں جب تک وہ عین مقتل میں نہ پہنچ جاتے تھے.اس کے علاوہ جس شخص کے متعلق بھی آپ کے سامنے رحم کی اپیل پیش ہوئی آپ نے اسے فوراً قبول کر لیا اور نہ صرف ایسے لوگوں کی جان بخشی کی بلکہ ان کے بیوی بچوں اور اموال وغیرہ کے متعلق بھی حکم دے دیا کہ انہیں واپس دے دیے جائیں.ان کا سب کچھ ، مال بھی لوٹا دیا.اس سے بڑھ کر ایک مجرم کے ساتھ رحمت و شفقت کا سلوک کیا ہو سکتا ہے ؟ پس نہ صرف یہ کہ بنو قریظہ کے واقعہ کے متعلق آنحضرت صلی علی کم پر قطعاً کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا بلکہ حق یہ ہے کہ یہ واقعہ آپ صلی علی یکم کے اخلاق فاضلہ اور حسن انتظام اور آپ کے فطری رحم و کرم کا ایک نہایت بین ثبوت ہے.بے شک اپنی ذات میں سعد کا فیصلہ ایک سخت فیصلہ تھا اور فطرت انسانی بظاہر اس سے ایک صدمہ محسوس کرتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بغیر کوئی اور راستہ کھلا تھا جسے اختیار کیا جاتا.بنو قریظہ کے متعلق سعد کا فیصلہ جیسا کہ ہم نے کہا گو اپنی ذات میں بڑا سخت ہے مگر وہ حالات کی مجبوری تھی اور حالات کی مجبوری کا ایک لازمی نتیجہ تھا جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا.یہی وجہ ہے کہ مار گولیس (Margulis) جیسا مؤرخ بھی جو ہر گز اسلام کے دوستوں میں سے نہیں ہے اس موقع پر اس اعتراف پر مجبور ہوا کہ سعد کا فیصلہ حالات کی مجبوری پر مبنی تھا جس کے بغیر چارہ نہیں تھا.چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ غزوہ احزاب کا حملہ جس کے متعلق محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ محض خدائی تصرفات کے ماتحت

Page 545

ب بدر جلد 4 529 پسپا ہو اوہ بنو نضیر ہی کی اشتعال انگیز کوششوں کا نتیجہ تھا یا کم از کم یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ ان کی کوششوں کا یہ ہے اور بنو نضیر وہ تھے جنہیں محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صرف جلاوطن کر دینے پر اکتفا کی تھی.اب سوال یہ تھا کہ کیا محمد صاحب علی علیکم بنو قریظہ کو بھی جلا وطن کر کے اپنے خلاف اشتعال انگیز کوششیں کرنے والوں کی تعداد اور طاقت میں اضافہ کر دیں؟ دوسری طرف وہ قوم مدینہ میں بھی نہیں رہنے دی جاسکتی تھی جس نے اس طرح بر ملا طور پر حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا.ان کا جلاوطن کرنا غیر محفوظ تھا مگر ان کا مدینہ میں رہنا بھی کم خطر ناک نہ تھا.پس اس فیصلہ کے بغیر چارہ نہ تھا کہ ان کے قتل کا حکم دیا جاتا.“ یہ مار گولیس لکھ رہا ہے.” پس سعد کا فیصلہ بالکل منصفانہ اور عدل و انصاف کے قواعد کے بالکل مطابق تھا اور آنحضرت صلی علیہ کی وجہ اپنے عہد کے اس فیصلے کے متعلق رحم کے پہلو کو کام میں نہیں لا سکتے تھے سوائے چند افراد کے اور اس کے لیے آپ نے ہر ممکن کوشش کی جنہوں نے رحم کی اپیل کی.عمومی فیصلہ نہیں دے سکتے تھے.مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہود نے اس شرم سے کہ انہوں نے آپ کو حج ماننے سے انکار کر دیا تھا آپ کی طرف رحم کی اپیل کی صورت میں زیادہ رجوع نہیں کیا.صرف چند ایک نے کیا اور ظاہر ہے کہ بغیر اپیل ہونے کے آپ رحم نہیں کر سکتے تھے کیونکہ جو باغی اپنے جرم پر ندامت کا اظہار بھی نہیں کرتا اسے خود بخود چھوڑ دینا سیاسی طور پر نہایت خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے.ایک اور بات یادر کھنی ضروری ہے کہ جو معاہدہ آنحضرت صلی یم اور یہود کے درمیان ابتدا میں ہو ا تھا اس کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر یہود کے متعلق کوئی امر قابل تصفیہ پیدا ہو گا تو اس کا فیصلہ خود انہیں کی شریعت کے ماتحت کیا جائے گا یعنی یہود کی شریعت کے مطابق.چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس معاہدہ کے ماتحت آنحضرت صلی علی کل ہمیشہ یہود کے متعلق شریعت موسوی کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے.اب ہم تو رات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہاں اس قسم کے جرم کی سزا جس کے مر تکب بنو قریظہ ہوئے بعینہ وہی لکھی ہوئی پاتے ہیں جو سعد بن معاذ نے بنو قریظہ پر جاری کی.1182 بہر حال بنو قریظہ کے معاملے کے بارے میں حضرت سعد بن معاذ کا جہاں تک ان سے تعلق تھا اس کی اتنی ہی تفصیل یہاں کافی ہے.جنگ احزاب میں حضرت سعد گاز خمی ہونا 1183 غزوہ احزاب اور حضرت سعد بن معاذ کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین ہمیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں لکھا ہے کہ: ”اس لڑائی میں مسلمانوں کا جانی نقصان زیادہ نہیں ہوا.یعنی صرف پانچ چھ آدمی شہید ہوئے مگر قبیلہ اوس کے رئیس اعظم سعد بن معاذ کو ایسا کاری زخم آیا کہ وہ بالآخر اس سے جانبر نہ ہو سکے اور یہ نقصان مسلمانوں کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان تھا.کفار کے لشکر میں سے صرف تین آدمی قتل

Page 546

اصحاب بدر جلد 4 530 ہوئے لیکن اس جنگ میں قریش کو کچھ ایسا دھکالگا کہ اس کے بعد ان کو پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف اس طرح جتھہ بنا کر نکلنے یا مدینہ پر حملہ آور ہونے کی ہمت نہیں ہوئی اور آنحضرت صلی للی نام کی پیشگوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی.1184<< جیسا کہ پچھلے خطبے میں ذکر ہو چکا ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: آئندہ سے کفار کو ہمت نہیں ہو گی کہ ہم پر حملہ کریں.حضرت سعد بن معاذ کو غزوہ خندق کے موقعے پر کلائی میں زخم آیا جس سے آپ کی شہادت ہوئی.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں غزوہ خندق کے روز نکلی اور لوگوں کے قدموں کے نشان پر چل رہی تھی کہ میں نے پیچھے سے آہٹ سنی.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضرت سعد بن معاذ اپنے بھتیجے حارث بن اوس کے ہمراہ ڈھال لیے ہوئے تھے.میں زمین پر بیٹھ گئی.حضرت سعد بن معاذ میرے پاس سے رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے گزرے کہ لَيْكَ قَلِيْلًا يُدْرِكُ الْهَيْجَا حَمَلْ مَا أَحْسَنَ الْمَوْتَ إِذَا حَانَ الْأَجَلْ کہ کچھ دیر انتظار کرو یہاں تک کہ حمل جنگ کے لیے حاضر ہو جائے.موت کیا ہی اچھی ہوتی ہے جب مقررہ میعاد کا وقت آ گیا ہو.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ کے بدن پر ایک زرہ تھی جس سے آپ کی دونوں اطراف باہر تھیں.یعنی جسم بھاری ہونے کی وجہ سے، چوڑا ہونے کی وجہ سے اس سے باہر نکل رہا تھا.کہتی ہیں کہ مجھے اس بات پر حضرت سعد کی دونوں اطراف کے زخمی ہونے کا اندیشہ ہوا کہ زرہ سے باہر ہیں.حضرت سعد طویل القامت اور عظیم الجثہ لوگوں میں سے تھے.1185 حضرت سعد بن معاذ کو ابن عرقہ نے زخمی کیا تھا.ابن عرقہ کا نام حبان بن عبد مناف تھا.قبیلہ 1187 بنو عامر بن لوٹی سے تعلق رکھتا تھا.عرقہ اس کی والدہ کا نام تھا.1186 حضرت جابر سے روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن مُعاذ کے بازو کی رگ میں تیر لگا تو رسول اللہ صلی العلیم نے اپنے ہاتھ سے تیر کے پھل کو نکال کر پھل سے اس کو پھر بعد میں کاٹ کر داغ دیا، اس زخم کو کاٹ کر داغ دیا پھر وہ سوج گیا.آپ نے اس کو دوبارہ کاٹ کر دوبارہ داغ دیا.جو زخم لگا تھا تیر کے پھل سے ہی اس کو کاٹا اور پھر داغ دیا.7 زخمی ہونے پر حضرت سعد کی ایک دعا حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مشرکین میں سے ایک شخص ابن عرقہ حضرت سعد بن معاذ کو تیر مار رہا تھا.اس نے ایک تیر مارتے ہوئے کہا: یہ لو میں ابن عرقہ ہوں.وہ تیر حضرت سعد کے بازو کی رگ میں لگا.زخمی ہونے پر حضرت سعد نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اے اللہ ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ تو بنو قریظہ سے میری تسلی نہ کرا دے.1188

Page 547

اصحاب بدر جلد 4 531 عیادت کے لئے مسجد نبوی میں خیمہ نصب شخص حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ خندق کے روز حضرت سعد کو زخم آیا.قریش کے ایک حبان بن عَرِقَہ نے آپ کی کلائی پر تیر مارا تھا.رسول اللہ صلی علی کریم نے مسجد میں ان کے لیے ایک خیمہ نصب کیا تا کہ قریب رہ کر ان کی عیادت کر سکیں.1189 حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ حضرت سعد گاز خم خشک ہو کر اچھا ہونے لگا تو انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ مجھے تیری راہ میں اس قوم کے خلاف جہاد کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ محبوب نہیں جس نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور اسے نکال دیا.اے اللہ ! میں خیال کرتا ہوں کہ تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے.اگر قریش کی جنگ میں سے کچھ باقی ہے تو مجھے ان کے مقابلے کے لیے زندہ رکھ.اگر ابھی مزید کچھ جنگیں ہوتی ہیں تو پھر مجھے اس وقت تک زندہ رکھ تاکہ میں تیری راہ میں ان سے جہاد کر سکوں اور اگر تُو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس طرح کہ میری سوچ ہے تو پھر میری رگ کھول دے اور اس زخم کو میری شہادت کا ذریعہ بنادے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ زخم اسی رات پھٹ گیا اور اس میں سے خون بہ نکلا.مسجد نبوی میں بنو غفار کے لوگ خیمہ زن تھے.خون بہ کر جب ان کے پاس پہنچا تو وہ خوفزدہ ہو گئے.لوگوں نے کہا اے خیمے والو ! یہ خون کیسا ہے جو تمہاری طرف سے ہمارے پاس آرہا ہے.کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت سعد کے زخم سے خون بہ رہا تھا اور اسی سے ان کی وفات ہو گئی.یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن معاذ کا خون بہنے لگا تو رسول اللہ صلی للی علم اٹھ کر ان کی طرف گئے اور انہیں اپنے ساتھ چمٹایا.خون رسول اللہ صلی علی ایم کے منہ اور داڑھی پر لگ رہا تھا.جس قدر کوئی شخص آپ کو خون سے بچانا چاہتا تھا یعنی جس طرح وہ بہ رہا تھا لوگوں کی کوشش تھی کہ آپ کو خون نہ لگے، اس سے زیادہ آپ حضرت سعد کے قریب ہو جاتے تھے یہاں تک کہ حضرت سعد وفات پاگئے.ایک اور روایت میں ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذ گاز خم پھٹ گیا اور نبی کریم صلی علیہم کو معلوم ہو ا تو آپ ان کے پاس تشریف لائے، ان کا سر اپنی گود میں رکھا اور انہیں سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا.پھر رسول اللہ صلی علی یکم نے دعا کی کہ اے اللہ !سعد نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیرے رسول کی تصدیق کی اور جو اس کے ذمے تھا اسے ادا کر دیا پس تو اس کی روح کو اس خیر کے ساتھ قبول فرما جس کے ساتھ تو کسی روح کو قبول کرتا ہے.جب حضرت سعد نے ، کچھ تھوڑی سی ہوش تھی، اس وقت قریب المرگ تھے ، حضرت سعد نے جب رسول اللہ صلی علیم کے کلمات سنے تو انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر سلام ہو.میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.جب سعد کے گھر والوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی علیم نے حضرت سعد کا سر اپنی گود میں رکھا ہوا ہے تو وہ ڈر

Page 548

ب بدر جلد 4 532 گئے.جب رسول اللہ صلی علیم سے اس بات کا ذکر کیا گیا کہ سعد کے گھر والے آپ کی گود میں اس کا سر دیکھ کر ڈر گئے تھے تو آپ نے یہ دعادی.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا: میں اللہ سے اس بات کا طالب ہوں کہ جس قدر تم لوگ اس وقت گھر میں موجود ہو اتنی ہی زیادہ تعداد میں فرشتے حضرت سعد کی وفات کے وقت حاضر ہوں.1190 سعد بن معاذ کے رومال جنت میں اس سے زیادہ خوبصورت ہوں گے حضرت انس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی للی علم کو باریک ریشمی کپڑے کا ایک چونہ تحفہ دیا گیا.آپ ریشمی کپڑا پہنے سے منع فرمایا کرتے تھے.وہ کپڑا دیکھ کر لوگوں کو تعجب ہوا.آپ صلی الی یکم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے سعد بن معاذ کے رومال جنت میں اس سے زیادہ خوبصورت ہوں گے.یہ بخاری کی حدیث ہے.191.انہوں نے ہاتھ میں کپڑا دیکھا.ان کا خیال تھا شاید نبی کریم صلی الی یوم اس کو استعمال کریں گے کیونکہ آپ تو منع فرمایا کرتے تھے لیکن بہر حال آپ نے اس کو دیکھ کے یہ مثال دی کہ تم اس پر حیران ہو رہے ہو بلکہ حیرت کا اظہار کیا.اصل میں تو دوسری حدیث سے واضح ہو تا ہے کہ لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا جیسا کہ مسلم کی حدیث میں ہے.اس کی روایت اس طرح ہے کہ حضرت برا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں ایک ریشمی چوغہ تحفہ پیش کیا گیا جسے آپ کے صحابہ چھونے لگے اور اس کی نرمی پر تعجب کا اظہار کرنے لگے.اس پر آپ نے فرمایا کیا تم اس کی نرمی پر تعجب کرتے ہو یقینا جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے زیادہ بہتر اور زیادہ نرم ہیں.سعد کی موت پر خدائے رحمان کا عرش جھومنے لگ گیا ہے 1193 1192 1194 حضرت جابر سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی علیم سے سنا آپ فرماتے تھے سعد بن معاذ کی وفات پر عرش کانپ گیا.یہ بخاری کی روایت ہے.3 اور مسلم میں اس طرح ہے کہ حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ اللہ کے نبی صلی ہم نے جبکہ حضرت سعد شما جنازہ رکھا ہوا تھا فرمایا کہ اس کی وجہ سے رحمان کا عرش لرز اُٹھا.4 ان باتوں کی تفصیل اور تھوڑی سی وضاحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں فرمائی ہے.آپ لکھتے ہیں کہ ”حضرت سعد بن معاذ رئیس قبیلہ اوس کی کلائی میں جو زخم غزوہ خندق کے موقعہ پر آیا تھا وہ باوجود بہت علاج معالجہ کے اچھا ہونے میں نہیں آتا تھا اور مندمل ہو ہو کر پھر کھل کھل جاتا تھا.چونکہ وہ ایک بہت مخلص صحابی تھے اور آنحضرت صلی اللہ تم کو ان کی تیمار داری کا خاص خیال تھا.اس لیے آپ نے غزوہ خندق کی واپسی پر ان کے متعلق ہدایت فرمائی تھی کہ انہیں مسجد کے صحن میں ایک خیمہ میں رکھا جائے تا آپ آسانی کے ساتھ ان کی تیمارداری فرما سکیں.چنانچہ انہیں ایک مسلمان عورت رفیدہ نامی کے خیمہ میں رکھا گیا جو بیماروں کی تیمارداری اور نرسنگ میں مہارت رکھتی تھی یعنی وہ ایسا

Page 549

بدر جلد 4 533 خیمہ تھا جہاں مریض رکھے جاتے تھے ” اور عموماً مسجد کے صحن میں خیمہ لگا کر مسلمان زخمیوں کا علاج کیا کرتی تھی.مگر باوجود اس غیر معمولی توجہ کے سعد کی حالت رو به اصلاح نہ ہوئی اور اسی دوران میں بنو قریظہ کا واقعہ پیش آگیا جس کی وجہ سے سعد کو غیر معمولی مشقت اور کوفت برداشت کرنی پڑی اور ان کی کمزوری بہت بڑھ گئی.انہی ایام میں ایک رات سعد نے نہایت گریہ وزاری سے یہ دعا کی کہ اے میرے مولا! تو جانتا ہے کہ میرے دل میں یہ خواہش کس طرح بھری ہوئی ہے کہ میں اس قوم کے مقابل میں تیرے دین کی حفاظت کے لیے جہاد کروں جس نے تیرے رسول کی تکذیب کی اور اسے اس کے وطن سے نکال دیا.اے میرے آقا ! میرے خیال میں اب ہمارے اور قریش کے درمیان لڑائی کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن اگر تیرے علم میں کوئی جنگ ابھی باقی ہے تو مجھے اتنی مہلت دے کہ میں تیرے رستے میں ان کے ساتھ جہاد کروں لیکن اگر ان کے ساتھ ہماری جنگ ختم ہو چکی ہے تو مجھے اب زندگی کی تمنا نہیں ہے.مجھے اس شہادت کی موت مرنے دے.لکھا ہے کہ اسی رات سعد گاز خم کھل گیا اور اس قدر خون بہا کہ خیمے سے باہر نکل آیا اور لوگ گھبرا کر خیمہ کے اندر گئے تو سعد کی حالت دگر گوں تھی.آخر اسی حالت میں سعد نے جان دے دی.آنحضرت علی علیکم کو سعد کی وفات کا سخت صدمہ ہوا اور واقعی اس وقت کے حالات کے ماتحت سعد کی وفات مسلمانوں کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان تھی.سعد کو انصار میں قریباً قریباً وہی حیثیت حاصل تھی جو مہاجرین میں ابو بکر صدیق کو حاصل تھی.اخلاص میں، قربانی میں، خدمت اسلام میں، عشق رسول میں یہ شخص ایسا بلند مرتبہ رکھتا تھا جو کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا کرتا ہے اور اس کی ہر حرکت وسکون سے یہ ظاہر ہو تا تھا کہ اسلام اور بانی اسلام کی محبت اس کی روح کی غذا ہے اور بوجہ اس کے کہ وہ اپنے قبیلہ کار میں تھا اس کا نمونہ انصار میں ایک نہایت گہرا عملی اثر رکھتا تھا.ایسے قابل روحانی فرزند کی وفات پر آنحضرت صلی علیکم کا صدمہ ایک فطری امر تھا مگر آپ نے کامل صبر سے کام لیا اور خدائی مشیت کے سامنے تسلیم ورضا کا سر جھکا دیا.اس وقت سعد کی ماں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ کہا ہے جب سعد کا جنازہ اٹھا تو سعد کی بوڑھی والدہ نے بتقاضائے محبت کسی قدر بلند آواز سے ان کا نوحہ کیا اور اس نوحہ میں زمانہ کے دستور کے مطابق سعد کی بعض خوبیاں بیان کیں.آنحضرت صلی ا لم نے اس نوحہ کی آواز سنی تو گو آپ نے اصولاً نوحہ کرنے کو پسند نہیں کیا مگر فرمایا کہ نوحہ کرنے والیاں بہت جھوٹ بولا کرتی ہیں لیکن اس وقت سعد کی ماں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ کہا ہے.یعنی جو خو بیاں سعد میں بیان کی گئی ہیں وہ سب درست ہیں.اس کے بعد آنحضرت صلی علیم نے نماز جنازہ پڑھائی اور دفنانے کے لیے خود ساتھ تشریف لے گئے اور قبر کی تیاری تک وہیں ٹھہرے رہے اور آخر وہاں سے دعا کرنے کے بعد تشریف لائے.غالباً اسی دوران میں کسی موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ لِمَوْتِ سَعْدٍ یعنی سعد کی موت پر خدائے رحمان کا عرش جھومنے لگ گیا ہے.

Page 550

اصحاب بدر جلد 4 534 باقیوں نے ( ترجمہ ) کیا ہے کہ لرز اٹھا ہے یا کانپ اٹھا.آپ نے فرمایا کہ جھومنے لگ گیا یعنی عالم آخرت میں خدا کی رحمت نے خوشی کے ساتھ سعد کی روح کا استقبال کیا.“ عرش کے جھومنے سے یہ مراد ہے.” ایک عرصہ کے بعد جب آپ کو کسی جگہ سے کچھ ریشمی پار چات ہدیۂ آئے تو بعض صحابہ نے انہیں دیکھ کر ان کی نرمی اور ملائمت کا بڑے تعجب کے ساتھ ذکر کیا اور اسے ایک غیر معمولی چیز جانا.آپ نے فرمایا کیا تم اس کی نرمی پر تعجب کرتے ہو ؟ خدا کی قسم جنت میں سعد کی چادر میں ان سے بہت زیادہ نرم اور بہت زیادہ اچھی ہیں.بخاری اور مسلم کی آدھی احادیث میں جو پہلے ذکر ہوئی ہیں وہاں رومال کا ذکر ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہاں اس کا ترجمہ چادر میں کیا ہے.بہر حال عربی کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے لحاظ سے کپڑے کو بھی کہتے ہیں.حضرت سعد کی والدہ کے اشعار 11956 حضرت سعد کی والدہ آپ کے غم میں روتے ہوئے یہ شعر پڑھ رہی تھیں.وَيْلُ أُمَّ سَعْدِ سَعْدًا بَرَاعَةً وَنَجْدًا بَعْدَ أَيَادِيَالَهُ وَهَجْدًا مُقَد مَّا سَد بِهِ مَسَدا ام سعد کو سعد کی جدائی پر افسوس ہے جو ذہانت اور شجاعت کا پیکر تھا.جو بہادری اور شرافت کا مجسمہ تھا.اس محسن کی بزرگی کے کیا کہنے جو سب خلا پُر کرنے والا سر دار تھا.اس پر رسول اللہ صلی للی کم نے فرمایا: كُلُّ الْبَوَا كِي يَكْذِ بْنَ إِلَّا أُمَّ سَعْدٍ کہ کسی کے مرنے پر ہر رونے والی جھوٹ بولتی ہے.غیر ضروری مبالغے سے کام لیتی ہے سوائے سعد کی والدہ کے.طبقات الکبریٰ کا یہ حوالہ ہے.1196 سعد کا جنازہ فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں حضرت سعد بھاری بھر کم آدمی تھے جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین کہنے لگے کہ ہم نے کسی آدمی کا جنازہ اس قدر ہلکا نہیں دیکھا جتنا حضرت سعد کا تھا اور یہ کہتے جاتے تھے کہ ایسا ان کے بنو قریظہ کے متعلق فیصلے کی وجہ سے ہوا ہے یعنی اس کو منفی رنگ دینا چاہتے تھے.رسول اللہ صلی علیکم کو جب اس کے بارے میں آگاہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! سعد کا جنازہ جو تمہیں ہلکا لگا تو وہ اس لیے کہ سعد کا جنازہ ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں.ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرت صلی ا ہم نے فرمایا کہ ستر ہزار فرشتے سعد بن مُعاذ کے جنازے پر حاضر ہیں جو آج سے قبل کبھی زمین پر نہیں اترے.97 1197 حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی علی رام کو حضرت سعد بن معاذ کے جنازے کے آگے آگے چلتے ہوئے دیکھا.98 1198

Page 551

اصحاب بدر جلد 4 535 حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے جنت البقیع میں حضرت سعد بن معاذ کی قبر کھودی تھی.جب ہم مٹی کا کوئی حصہ کھودتے تو مشک کی خوشبو آتی یہاں تک کہ ہم لحد تک پہنچ گئے.جب ہم قبر کھود چکے تو رسول اللہ صلی علیکم تشریف لائے.حضرت سعد کا جنازہ قبر کے پاس رکھا گیا.پھر آپ کی یہ کم نے نماز جنازہ پڑھائی.راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اتنی کثرت سے آدمی دیکھے جنہوں نے جنت البقیع کو بھر دیا تھا.1199 عبد الرحمن بن جابر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد کی قبر تیار ہو چکی تو چار افراد حارث بن اوس، اسيد بن حضير ، ابونائلہ سلكان بن سلامه اور سلمه بن سَلَامه بن وقش حضرت سعد کی قبر میں اترے.رسول اللہ صلی الی و کم حضرت سعد کے قدموں کی جانب کھڑے تھے.جب حضرت سعد کو قبر میں اتار دیا گیا تو آپ صلی للی کیم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا.آپ نے تین مرتبہ سبحان اللہ کہا.آپ کے ساتھ تمام صحابہ نے بھی تین مرتبہ سبحان اللہ کہا.یہاں تک کہ جنت البقیع گونج اٹھا.پھر رسول اللہ صلی علیم نے تین مرتبہ اللہ اکبر کہا.آپ کے ساتھ تمام صحابہ نے بھی اللہ اکبر کہا.یہاں تک کہ جنت البقیع اللہ اکبر سے گونج اٹھا.رسول اللہ صلی علیم سے عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ! ہم نے آپ کے چہرے کی تبدیلی دیکھی اور آپ نے تین مرتبہ سبحان اللہ کہا.اس کی کیا وجہ ہے.تو آپ نے فرمایا کہ سعد پر قبر میں تنگی ہوئی اور انہیں دبایا گیا.اگر اس سے کسی کو نجات ہوتی تو سعد کی ضرور ہوتی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اسے کشادہ کر دیا.1200 مِسْوَر بن رِفَاعَه قُرَظی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ کی والدہ انہیں لحد میں اتارنے کے لیے آئیں تو لوگوں نے انہیں واپس بھیج دیا.رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو.وہ آئیں اور قبل اس کے کہ ان کی قبر پر اینٹ اور مٹی ڈالی جاتی انہوں نے حضرت سعد کو لحد میں دیکھا اور کہا مجھے یقین ہے کہ تم اللہ کے پاس ہو.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت سعد کی قبر پر ان کی والدہ سے تعزیت کی اور ایک جانب بیٹھ گئے.مسلمانوں نے قبر پر مٹی ڈال کر اسے برابر کر دیا اور اس پر پانی چھڑک دیا تو رسول صلى ال علم قبر کے پاس تشریف لائے کچھ دیر وہاں ٹھہرے اور پھر دعا کی اور واپس تشریف لے گئے.حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علی یم اور آپ کے دو ساتھیوں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے بعد مسلمانوں پر کسی کی جدائی اتنی شاق نہ تھی جتنی حضرت سعد بن معاذ کی.حضرت سعد بن معاذ کی عمر وفات کے وقت 37 سال تھی.1201 رسول اللہ صلی العلیم نے حضرت سعد بن معاذ کی والدہ کو فرمایا کیا تمہارا غم ختم نہ ہو گا اور تمہارے آنسو نہیں ھمیں گے کیونکہ تمہارا بیٹا وہ پہلا شخص ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ مسکرایا اور جس کے لیے عرش لرز اٹھا.1202 جب رسول اللہ صلی علیم نے حضرت سعد کو دفن کیا اور ان کے جنازے سے لوٹے تو آپ کے آنسو آپ کی داڑھی پر بہ رہے تھے.1203

Page 552

تاب بدر جلد 4 536 ایک روایت حضرت سعد کے حوالے سے ہے.حضرت سعد نے بیان کیا کہ میں بے شک کمزور ہوں مگر تین باتوں میں میں بہت پختہ ہوں.جو اپنی باتیں انہوں نے بتائیں کہ میرے اندر تین باتیں کیا ہیں.بہت کمزور انسان ہوں لیکن یہ تین باتیں ہیں جو میرے اندر بہت یکی ہیں اور ان پر میں عمل کرتا ہوں.پہلی یہ کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے جو سنا اسے حق جانا.کوئی کبھی ان کو انقباض نہیں ہوا.دوسرا یہ کہ میں نے اپنی نماز میں نماز کے علاوہ کوئی دوسرا خیال نہیں آنے دیا یہاں تک کہ نماز مکمل کر لوں.بڑی توجہ سے نماز پڑھتے تھے.تیسرا یہ کہ کوئی جنازہ حاضر نہیں ہو تا تھا مگر میں اپنے آپ کو اس کی جگہ مردہ خیال کر کے سوچتا ہوں کہ وہ کیا کہے گا اور اس سے کیا پوچھا جائے گا.گویا کہ وہ سوال وجواب مجھ سے ہو رہے ہیں.آخرت کی فکر تھی.1204 حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ انصار کے تین افراد ایسے تھے جو سب بنو عبدُ الْأَشْهَل میں سے تھے رسول اللہ صلی علیم کے بعد کسی کو ان پر فضیلت نہیں دی جاتی تھی اور وہ حضرت سعد بن معاذ، حضرت أسيد بن حضير ، اور حضرت عباد بن بشر تھے.1205 ، 141 حضرت سعد مولی حاطب بن ابی بلتعہ حضرت سعد مولیٰ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ.ان کا تعلق بنو کلب کے قبیلے سے تھا.حضرت سعد بن خولی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے آزاد کردہ غلام تھے.حضرت سعد بن خُولِی کا تعلق قبیلہ بنو کلب سے ہے لیکن ابو معشر کے نزدیک ان کا تعلق قبیلہ بنو من حج سے تھا.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ اہل فارس میں سے تھے.حضرت سعد بن خولی، حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے پاس غلام ہو کر پہنچے.حضرت حاطب بن ابی بلتعہ آپ کے ساتھ نہایت شفقت اور مہربانی سے پیش آتے تھے.حضرت سعد حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے ساتھ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے اور غزوہ احد میں آپ کی شہادت ہوئی.حضرت عمر نے حضرت سعد کے بیٹے عبد اللہ بن سعد کا انصار کے ساتھ وظیفہ مقرر فرمایا.1206

Page 553

537 142 صحاب بدر جلد 4 نام و نسب و کنیت حضرت سعید بن زید シ حضرت سعید بن زید.حضرت سعید کے والد کا نام زید بن عمر و اور والدہ کا نام فاطمہ بنت بَعْجَہ تھا.ان کا تعلق قبیلہ عدی بن کعب بن لوی سے تھا.حضرت سعید بن زید کی کنیت ابو الاغور تھی جبکہ بعض نے ابو ثور بھی بیان کی ہے.ان کا قد لمبا، رنگ گندمی اور بال گھنے تھے.یہ حضرت عمر بن خطاب کے چازاد بھائی تھے.ان کا شجرہ نسب چوتھی پشت پر نفیل پر جاکر حضرت عمرؓ سے ملتا ہے جبکہ آٹھویں پشت پر کعب بن لوی پر جا کر آنحضرت صلی کم سے ملتا ہے تا ہے.حضرت سعید کی بہن عاتکہ کی شادی حضرت عمرؓ سے اور حضرت عمر کی بہن فاطمہ کی شادی حضرت سعید سے ہوئی تھی اور یہ وہی بہن ہیں جو حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کا باعث بھی بنیں.اس زمانے میں بھی موحد موجود تھے 1208 1207 حضرت سعید کے والد زید بن عمر و زمانہ جاہلیت میں ایک خدا کی عبادت کیا کرتے تھے اور حضرت ابراہیم کے دین کی تلاش کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جو حضرت ابراہیم کا معبود ہے وہی میر امعبود ہے اور جو ابراہیم کا دین ہے وہی میرا دین ہے.اس زمانے میں بھی موحد موجود تھے.بعض بچے بھی سوال کر دیتے ہیں کہ اسلام سے پہلے آنحضرت علی علی کرم کا کیا دین تھا؟ کس کی عبادت کرتے تھے ؟ تو آنحضرت صلی علی کم تو سب سے بڑھ کر موحد تھے اور وہ بھی ایک خدا کی عبادت کیا کرتے تھے.زید بن عمرو بن نفیل زمانہ جاہلیت کے ایک موحد زید بن عمرو ہر قسم کے فسق و فجور غرضیکہ مشرکین کے ذبیحہ سے بھی اجتناب کرتے تھے.ایک دفعہ نبی کریم صلی العلیم سے ان کی ملاقات آپ صلی علیہ کم کی بعثت سے قبل ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں یوں بیان ہوئی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی یزید بن عمر و بن نفیل سے بلدخ مقام کے نیچے ملے پیشتر اس کے کہ نبی صلی علی کم پر وحی اتری تھی یعنی آنحضرت صلی اللہ علم کے دعوئی نبوت سے پہلے کی بات ہے.بندخ یہ مکے سے مغرب کی طرف ایک وادی کا نام ہے، کتے کی طرف جاتے ہوئے تنعیم کے راستے میں ہے.نبی صلی علیکم کے سامنے دستر خوان رکھا گیا.آپ صلی ایم نے کھانے

Page 554

ناب بدر جلد 4 538 سے انکار کر دیا.زید نے کہا کہ میں بھی اس سے نہیں کھایا کرتا جو تم اپنے تھانوں میں ذبح کرتے ہو اور میں صرف وہی کھاتا ہوں جس پر اللہ کا نام لیا جائے.آنحضرت صلی علیہم نے اس احتیاط کے تقاضے کے تحت نہیں کھایا کہ غیر اللہ کے نام پر یہ چیزیں ذبح کی گئی ہیں.اس پر زید نے بھی کہا کہ میں بھی غیر اللہ کے نام پر ذبح کی ہوئی چیزیں نہیں کھاتا.اور پھر روایت آگے چلتی ہے کہ زید بن عمر و قریش کی قربانیوں کو معیوب سمجھا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بکری کو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور آسمان سے اس کے لیے پانی برسایا اور زمین سے اس کے لیے چارہ اگایا.پھر تم اس کو اللہ کے سوا اوروں کے نام پر ذبح کرتے ہو.یعنی اس غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کو بُرا منایا کرتے تھے اور اس کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے.دین حق کی تلاش میں دور دراز ممالک کا سفر زید بن عمر و کفر و شرک سے متنفر ہوئے تو انہوں نے حق کی تلاش میں دور دراز ممالک کا سفر کیا.اُن کے اس سفر کے متعلق صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں یوں بیان ہوا ہے.حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ زید بن عمر و بن نفیل شام کے ملک کی طرف دین کے متعلق دریافت کرنے کے لیے گئے تاکہ اس کی پیروی کریں.چنانچہ وہ ایک یہودی عالم سے ملے جس سے انہوں نے اُن کے دین کے متعلق پوچھا.انہوں نے کہا، یہودی عالم سے پوچھا کہ مجھے بتائیں شاید میں تمہارا دین اختیار کرلوں.تو اس نے کہا کہ ہمارے مذہب پر نہ ہونا یہ تو بگڑ چکا ہے ورنہ تم بھی غضب الہی سے اپنا حصہ لو گے.زید نے کہا میں تو اللہ کے غضب سے بھاگ رہا ہوں اور میں تو اللہ کی ناراضگی کو کبھی برداشت نہیں کروں گا اور میں اس کی طاقت کہاں رکھتا ہوں.پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا تم مجھے اس کے علاوہ کسی دین کا پتا دیتے ہو ؟ اس یہودی عالم نے کہا کہ میں تو یہی جانتا ہوں کہ انسان حنیف ہو.زید نے کہا حنیف کیا ہوتا ہے ؟ اس نے کہا کہ ابراہیم کا دین.نہ وہ یہودی تھے نہ نصرانی اور وہ صرف اللہ ہی کی پرستش کرتے تھے.پھر زید وہاں سے نکلے اور نصاریٰ کے ایک عالم سے ملے اس سے بھی یہی ذکر کیا.اس نے کہا کہ تم ہمارے مذہب پر کبھی نہ ہوناور نہ تم اللہ کی لعنت سے اپنا حصہ لو گے.زید نے کہا کہ میں اللہ کی لعنت سے بھاگ رہا ہوں اور میں اللہ کی لعنت اور نہ اس کا غضب برداشت کر سکتا ہوں اور مجھے یہ طاقت ہی کہاں ہے.کیا تم مجھے کسی اور دین کا پتا دیتے ہو ؟ اس نے کہا کہ میں یہی جانتا ہوں کہ انسان حنیف ہو.زید نے پوچھا یہ حنیف کیا ہوتا ہے ؟ اس نے کہا ابراہیم کا دین.نہ وہ یہودی تھے نہ نصرانی اور صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے.جب زید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق ان کی رائے دیکھی تو وہ وہاں سے نکلے.جب باہر میدان میں آئے تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا اے میرے اللہ ! میں یہ اقرار کرتا ہوں کہ میں حضرت ابراہیم کے دین پر ہوں.1210 رسول اکرم ما الم کی خدمت میں زید بن عمرو کا سلام زید بن عمرو نے آنحضرت صلی للی کم کا زمانہ پایا مگر آپ کی بعثت سے پہلے وفات پاگئے تھے.حضرت

Page 555

ب بدر جلد 4 539 عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ زید بن عمر و دین کی تلاش میں رہے اور انہوں نے نصرانیت اور یہودیت اور بتوں اور پتھروں کی پرستش سے کراہت کا اظہار کیا اور انہوں نے اپنی قوم سے اختلاف کیا اور ان کے بتوں اور جن کی ان کے آباؤ اجداد عبادت کیا کرتے تھے ان کو چھوڑ دینے کا اظہار کیا.اور نہ ہی وہ ان کا ذبیحہ کھاتے تھے.ایک بار انہوں نے مجھے کہا کہ اے عامر ! دیکھو مجھے اپنی قوم سے اختلاف ہے.میں ابراہیمی ملت کی پیروی کرنے والا ہوں اور جس کی وہ عبادت کیا کرتے تھے یعنی ابراہیم علیہ السلام اور اس کے بعد اسماعیل کی اتباع کرتا ہوں جو اسی قبلے کی طرف نماز پڑھتے تھے اور میں اسماعیل کی نسل سے ایک نبی کا منتظر ہوں لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اس کا زمانہ نصیب نہیں ہو گا کہ اس کی تصدیق کروں اور اس پر ایمان لاؤں اور گواہی دوں کہ وہ سچانبی ہے.اے عامر ! اگر تم اس نبی کا زمانہ پاؤ تو اسے میر اسلام کہنا.عامر کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی علیہ علم کا ظہور ہوا تو میں مسلمان ہو گیا اور حضور صلی علیم کو زید بن عمرو کا پیغام دیا اور سلام عرض کیا.حضور نے سلام کا جواب دیا اور ان کے لیے رحمت کی دعا کی اور فرمایا میں نے اس کو جنت میں اس طرح دیکھا کہ وہ اپنے دامن کو سمیٹ رہا تھا.1211 زید بن عمرو کو اپنے موحد ہونے پر نہایت فخر تھا.حضرت اسماء بنت ابو بکر زمانہ جاہلیت کا ایک واقعہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے زید بن عمر و بن نفیل کو دیکھا کہ کعبے سے اپنی پیٹھ لگائے کھڑے یہ کہہ رہے تھے کہ اے قریش کے لوگو! اللہ کی قسم!! تم میں سے کوئی بھی میرے سوا ابراہیم کے دین پر نہیں ہے.اور زید بیٹیوں کو زندہ نہیں گاڑتے تھے جو عربوں کے بعض قبیلوں کی رسم تھی کہ بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے.وہ نہیں گاڑتے تھے بلکہ جو شخص اپنی بیٹی مارنا چاہتا تھا، ان کو پتالگ جاتا تو وہ اسے کہتے کہ اسے نہ مارو.اسے نہ مارو.میں اس کا خرچ اور خوراک تمہاری جگہ مہیا کروں گا.چنانچہ وہ اس کو لے لیتے.جب وہ جوان ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے کہ اگر تم چاہو تو میں اسے تمہارے سپر د کیے دیتا ہوں اور اگر چاہو تو میں اس کے سب کام پورے کر دوں گا.1212 یعنی شادی وغیرہ کے خرچے بھی پورے کر دوں گا.ایک دوسری روایت میں حضرت اسماء بنت ابو بکر بیان کرتی ہیں، پہلی روایت بخاری کی تھی اور دوسری اسماءالرجال کی کتاب ” اسد الغابہ “ کی ہے.حضرت اسماء بنت ابو بکر بیان کرتی ہیں میں نے زید بن عمرو بن نُقیل کو کعبہ سے پیٹھ لگائے ہوئے کھڑے دیکھا.وہ کہہ رہے تھے کہ اے قریش کے لوگو! اس ذات کی قسم !! جس کے ہاتھ میں زید کی جان ہے کہ میرے سوا تم میں سے کسی نے بھی ابراہیم کے دین پر صبح نہیں کی.وہ کہا کرتے تھے کہ اے اللہ ! کاش کہ میں تیری عبادت کا پسندیدہ طریق جانتا تو میں اسی طرح تیری عبادت کرتا لیکن میں اس سے واقف نہیں ہوں.پھر وہ اپنی ہتھیلی پر سجدہ کرتے.1213 سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ زید بن عمرو کی وفات رسول اللہ صلی للی کم کی بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی.اس وقت قریش خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے.جب وہ فوت ہوئے تو یہ کہہ رہے تھے کہ

Page 556

تاب بدر جلد 4 540 میں دین ابراہیم پر ہوں.یہ ذکر تو حضرت سعید بن زید کیا ہو رہا تھا.ان کے والد کا ذکر ضمنا آ گیا اور بیٹے کو بھی اسلام میں جو مقام ملا اور پھر باپ کی جو نیکیاں تھیں اس کی وجہ سے یہ بھی تاریخ میں محفوظ ہو گیا اور اس لیے میں نے یہاں بیان بھی کر دیا کیونکہ یہ روایتیں بخاری میں بھی ملتی ہیں.بہر حال اب حضرت سعید بن زید کا بقایاذ کر کر تاہوں.1215 ایک مرتبہ حضرت سعید بن زید اور حضرت عمر بن خطاب رسول اللہ صلی الی علم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے زید بن عمرو کے متعلق دریافت کیا.یعنی حضرت سعید کے والد کے بارے میں تو رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ اللہ زید بن عمرو کی مغفرت کرے اور ان پر رحم کرے.ان کی موت دین ابراہیم پر ہوئی.اس کے بعد جب بھی مسلمان زید بن عمرو کا ذکر کرتے تو ان کے لیے رحمت اور مغفرت کی دعا کرتے.1214 ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب آنحضرت صلی یی کم سے زید بن عمرو کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاوہ قیامت کے دن اکیلے ایک امت کے برابر اٹھائے جائیں گے.سعید بن زید ابتدائی اسلام قبول کرنے والے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت سعید بن زید حضرت عمر کے بہنوئی تھے اور حضرت سعید بن زید کی ہمشیرہ عاتکہ بنت زید حضرت عمرؓ کے عقد میں آئی تھیں.حضرت سعید بن زید اور ان کی بیوی حضرت فاطمہ بنت خطاب اوائل اسلام میں مسلمان ہو گئے تھے ، شروع میں ہی مسلمان ہو گئے تھے.یہ آنحضرت صلی الم کے دارِ ارقم میں داخل ہونے سے پہلے ایمان لے آئے تھے اور حضرت سعید کی اہلیہ جیسا کہ پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کا سبب بنی تھیں.1216 حضرت عمر کا قبول اسلام اس کی تفصیل تو پچھلی دفعہ حضرت خباب بن ارت کے ذکر میں بیان ہو چکی ہے لیکن بہر حال یہاں کیونکہ حضرت سعید کا حوالہ بھی ہے اس لیے مختصر آکچھ بیان کر دیتا ہوں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ حضرت حمزہ کو اسلام لائے ابھی صرف چند دن گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اور خوشی کا موقع دکھایا اور حضرت عمرؓ بھی جو اسلام کے اشد مخالف تھے وہ مسلمان ہو گئے.حضرت عمر میں سختی کا مادہ تو پہلے ہی تھا.ان کی فطرت میں ہی تھا لیکن اسلام کی عداوت نے، دشمنی نے اسے اور بھی زیادہ کر دیا تھا.چنانچہ اسلام سے قبل غریب اور کمزور مسلمانوں کو ان کے اسلام لانے کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف دیا کرتے تھے.ایک دن انہیں خیال آیا کہ ان کو تو میں تکلیفیں دیتارہتا ہوں لیکن یہ لوگ تو ( پھر بھی) باز نہیں آتے اور اپنے ایمان پر پکے ہیں تو کیوں نہ اس فتنہ کے بانی کو ختم کر دیا جائے.اس نیت سے

Page 557

بدر جلد 4 541 گھر سے نکلے.ہاتھ میں ننگی تلوار تھی.راستہ میں ایک شخص ملا انہوں نے کہا عمر ! بڑے غصہ میں ننگی تلوار لے کر کہاں جارہے ہو ؟ انہوں نے کہا آج میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام تمام کرنے جا رہا ہوں.تو اس نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو.تمہاری بہن اور بہنوئی بھی مسلمان ہو چکے ہیں.اس پر حضرت عمرؓ نے فوراً اپنارخ پلٹا اور اپنی بہن کے گھر کی طرف چلے گئے.جب گھر کے قریب پہنچے تو اندر سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آرہی تھی.خباب بن ارت بڑی خوش الحانی سے وہ پڑھ رہے تھے.یہ آواز سن کر حضرت عمر کا غصہ اور بڑھ گیا.جلدی سے ایک دم دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوئے.بہر حال اس آمیٹ سے خباب تو فوراً کہیں چھپ گئے.پر دہ یا کسی جگہ کوئی چھپنے کی جگہ تھی اور فاطمہ نے جو اُن کی بہن تھیں انہوں نے فوری طور پر قرآن شریف کے اور اق بھی اِدھر اُدھر چھپا دیے.اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت فاطمہ اور حضرت سعید سے کہا کہ سنا ہے تم لوگ اپنے دین سے پھر گئے ہو ؟ اور یہ کہہ کے مارنے کے لیے اپنے بہنوئی سعید بن زید سے لپٹ گئے.فاطمہ اپنے خاوند کو بچانے کے لیے بیچ میں آگئیں لیکن اس وقت حضرت عمر کا حملہ ایسا تھا کہ حضرت فاطمہ بھی اس کی زد میں آگئیں اور زخمی بھی ہو گئیں.بہر حال زخمی ہونے کے بعد فاطمہ کی جرات بڑھی.انہوں نے بڑے جوش سے کہا کہ ہاں عمر ہم مسلمان ہو گئے ہیں.جو تمہارے سے ہو سکتا ہے کر لو لیکن ہم اسلام کو نہیں چھوڑیں گے.بہر حال بہن کا یہ جرات مندانہ اور دلیرانہ کلام سنا، یہ بات سنی تو آنکھ اٹھا کر اوپر دیکھا.اور جب حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ بہن بھی خون و خون ہوئی ہوئی ہے.اُس کو بھی ایسی چوٹ لگی تھی کہ چہرے سے خون بہ رہا تھا.اس نظارے کا حضرت عمرؓ کی طبیعت پر بڑا اثر ہوا اور فوراً انہوں نے کہا اچھا مجھے اپنا وہ کلام تو دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے.فاطمہ نے کہا اس طرح نہیں.کیونکہ تم ان اوراق کو ضائع کر دو گے.عمرؓ نے جواب دیا کہ نہیں.نہیں کرتا.واپس کر دوں گا.تو اس پر حضرت فاطمہ نے کہا پھر بھی اس طرح نہیں دکھایا جا سکتا.پہلے تم جاکے غسل کر لو، پھر دیکھنا.چنانچہ جب غسل کر کے فارغ ہوئے تو حضرت فاطمہ نے قرآن کریم کے اوراق نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے.انہوں نے اٹھا کر دیکھا تو سورۃ طلا کی یہ ابتدائی آیات تھیں اور حضرت عمر بڑے مرعوب دل کے ساتھ انہیں پڑھنے لگے.فطرت سعید تھی اور آنحضرت صلی اللہ علم کی دعا بھی تھی.جب پڑھنا شروع کیا تو ہر ہر لفظ ان کے دل میں اترتا گیا اور پڑھتے پڑھتے جب اس آیت پر پہنچے، یہ دو آیات ہیں کہ اِنَّنِي أَنَا اللهُ لا إلهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى إِنَّ السَّاعَةَ اتِيَةُ أَكَادُ أَخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسعى ( 15:1-16) یعنی میں ہی اس دنیا کا واحد خالق و مالک ہوں.میرے سوا اور کوئی قابل پرستش نہیں.پس تمہیں چاہیے کہ صرف میری ہی عبادت کرو اور میری ہی یاد کے لیے اپنی دعاؤں کو وقف کر دو.دیکھو موعود گھڑی جلد آنے والی ہے مگر ہم اس کے وقت کو مخفی رکھے ہوئے ہیں تاکہ ہر شخص اپنے کیے کا سچا بد لہ پاسکے.جب حضرت عمرؓ نے یہ آیت پڑھی تو گویا ان کی آنکھ کھل گئی اور بے اختیار ہو کے بولے.کیسا عجیب کلام ہے ؟ کیسا پاک کلام ہے ؟ خَبَاب نے جب یہ الفاظ سنے، وہ چھپے ہوئے تھے تو فوراً باہر نکل آئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور پھر انہوں نے کہا کہ یہ جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے یہ رسول اللہ کی دعا کا نتیجہ ہے کیونکہ خدا کی

Page 558

ناب بدر جلد 4 الله سة 542 رض قسم ! ابھی کل ہی میں نے آپ کو یہ دعا کرتے سنا تھا کہ یا اللہ اتو عمر بن الخطاب یا عمر و بن ہشام یعنی ابو جہل میں سے کوئی ایک ضرور اسلام کو عطا کر دے.بہر حال حضرت عمرؓ نے اس بات پر حضرت خباب سے کہا کہ مجھے ابھی آنحضرت صلی علیم کا پتہ بتاؤ کہاں ہیں وہ ؟ اور تلوار بھی انہوں نے نیام میں نہیں ڈالی ہوئی تھی.اسی طرح کھینچی ہوئی تھی.آنحضرت صلی علیم اس زمانے میں دار ارقم میں ہوتے تھے.چنانچہ کتاب نے انہیں وہاں کا پتہ بتادیا.حضرت عمر وہاں گئے.دروازے پر پہنچ کے زور سے دستک دی.صحابہ نے دروازے کی دراڑ سے دیکھا تو دیکھا کہ حضرت عمرؓ ننگی تلوار لیے کھڑے ہیں اور یہ دیکھ کر دروازہ کھولنے میں تامل کیا.آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو.حضرت حمزہ نے بھی کہا ( حضرت حمزہ بھی وہاں موجود تھے) کہ دروازہ کھول دو.اگر تو نیک ارادے سے آیا ہے تو بہتر ہے ورنہ اگر بد ارادہ ہو ا تو اسی کی تلوار سے اس کا سر اڑا دوں گا.دروازہ کھولا گیا.حضرت عمر ننگی تلوار لیے اندر داخل ہوئے.آنحضرت صلی ا کلم نے حضرت عمرؓ کا پلو پکڑ کے کھینچا اور فرمایا عمر کس ارادے سے آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں مسلمان ہونے آیا ہوں.آنحضرت صلی للہ ہم نے یہ الفاظ سنے تو خوشی سے اللہ اکبر ! کہا اور یہ لکھا ہے کہ ساتھ ہی صحابہ نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا کہ مکہ کی پہاڑیاں بھی گونج اٹھیں.7 ย 1217 تو یہ حضرت سعید تھے جو حضرت عمر کے بھی اسلام لانے کا ذریعہ بنے.اولین مہاجرین اور مواخات حضرت سعید بن زید اولین مہاجرین میں سے تھے.مدینہ پہنچ کر حضرت رِفَاعَه بن عبد المُنْذِرِ کے ہاں ٹھہرے جو حضرت ابو لبابہ کے بھائی تھے.رسول اللہ صلی علی ایم نے ان کی مواخات حضرت رافع بن مالک سے جبکہ ایک روایت کے مطابق حضرت ابی بن کعب سے کروائی.بدر میں شامل نہ ہوئے لیکن نبی اکرم صلی اللہ تم نے اس میں سے حصہ دے کر شامل فرمایا حضرت سعید بن زید غزوہ بدر میں شامل نہیں ہو سکے تھے.تاہم رسول اللہ صلی الی یکم نے انہیں مالِ غنیمت میں سے حصہ دیا تھا.1218 اور اسی وجہ سے ان سب صحابہ کو جن کو کسی نہ کسی صورت میں آنحضرت صلی الم نے شامل فرمایا یا آنحضرت صلی ایم کے ارشاد کے مطابق ان کو کسی رنگ میں بھی حصہ دے کر شامل فرمایا گیا ان کو بدری صحابہ میں شمار کیا جا رہا ہے.ان کی جنگ بدر میں نہ شامل ہونے کی وجہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے ذکر میں بیان ہو چکی ہے تاہم یہاں بھی بیان کرنا ضروری ہے اس لیے بیان کر دیتا ہوں.ویسے بھی اس کو دو تین مہینے گزر گئے ہیں اور یہاں بیان کرناضروری بھی ہے.بہر حال حضرت سعید بن زید کی جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کی جو وجہ بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نیلم نے قریش کے ایک قافلے کی شام سے روانگی کا اندازہ فرمایا تو آپ نے مدینے سے اپنی روانگی سے دس روز پہلے حضرت طلحہ بن عبيد الله اور حضرت سعید بن زید کو قافلے کی خبر رسانی کے ย

Page 559

ناب بدر جلد 4 رض 543 لیے بھیجا.یہ دونوں کو راء پہنچے.یہ وہاں ایک جگہ ہے.وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ قافلہ ان کے پاس سے گزرا.حوراء بحیرہ احمر پر واقع ایک پڑاؤ ہے جہاں سے حجاز اور شام کے درمیان چلنے والے قافلے گذرتے تھے.بہر حال رسول اللہ صلی علی یم کو حضرت طلحہ اور حضرت سعید کے واپس آنے سے پہلے ہی یہ خبر معلوم ہو گئی کہ وہ قافلہ تو وہاں سے گذر کے چلا گیا ہے.اب اس طرف آنے کا ارادہ نہیں ہے.اس وقت وہ قافلہ ادھر آنے کی بجائے جب گذر گیا تو ابھی صحیح حالات کی خبر تو نہیں تھی لیکن یہ بہر حال آنحضرت صلی ال یکم کو خبر پہنچ گئی کہ قافلہ وہاں سے گذر گیا ہے.اس پر آپ نے صحابہ کو بلایا اور قریش کے قافلے کے قصد سے روانہ ہوئے مگر قافلہ ساحل کے ساتھ راستے سے تیزی سے نکل گیا اور تلاش کرنے والوں سے بچنے کے لیے دن رات چلتا رہا.قافلے والوں نے بھی اپنا راستہ بدل لیا تو ادھر ٹکراؤ نہیں ہوا.جس راستے سے ان کے آنے کی توقع تھی وہاں سے نہیں گزرا بلکہ ایک چکر کاٹ کے ساحل کی طرف چلا گیا.اس کے بعد حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت سعید بن زید مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تاکہ رسول اللہ صلی کم کو قافلے کی خبر دیں.ان دونوں کو آپ کی غزوہ بدر کے لیے روانگی کا علم نہیں تھا.یہ مدینہ اس دن پہنچے جس دن رسول اللہ صلی علیم نے بدر میں قریش کے لشکر سے مقابلہ کیا تھا.یہ دونوں بھی رسول اللہ صلی العلیم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے اور آپ کی بدر سے واپسی پر زبان میں ملے.تربان مدینہ سے انہیں میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے جس میں کثرت سے میٹھے پانی کے کنویں ہیں.غزوہ بدر کے لیے جاتے ہوئے رسول اللہ صلی علیکم نے یہاں قیام فرمایا تھا.یہ تجارتی قافلہ دوسر ا تھا جو ادھر سے نکل گیا لیکن ملنے سے حملہ کرنے کے لیے جو ایک فوج آئی تھی وہ دوسری تھی جن کی بدر کے مقام پر مڈھ بھیڑ ہوئی لیکن بہر حال آنحضرت صلی لی لی امی اس لیے نکلے تھے کہ اس قافلے کو دیکھیں کہ ان کی نیت کیا ہے.یہ نہیں پتا تھا کہ ایک فوج بھی آرہی ہے.بہر حال آگے ذکر یہ ہے کہ حضرت طلحہ اور حضرت سعید جنگ میں شامل نہ ہوئے مگر رسول اللہ صلی الی الم نے بدر کے مال غنیمت میں سے ان کو حصہ عطا فرمایا اور یہ دونوں بدر میں شاملین ہی قرار دیے گئے.1219 عشرہ مبشرہ میں سے ایک حضرت سعید بن زید عشرہ مبشرہ یعنی ان دس خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی علی دلم کی زبان مبارک سے اسی دنیا میں جنت کی خوشخبری ملی.حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی الم نے ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، سعید بن خداصلی زید اور ابو عبيدة بن الجراح میں سے ایک ایک کا نام لے کر فرمایا کہ یہ جنتی ہیں.1220 حضرت سعید بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں نو لوگوں کے بارے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے بارے میں بھی یہی کہوں، گواہی دوں تو گناہ گار نہیں ہوں گا.کہا گیا وہ کیسے ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی المی ریم کے ساتھ حراء پہاڑ پر تھے تو وہ ہلنے لگا.اس پر

Page 560

بدر جلد 4 544 1221 سلام نے فرمایا ٹھہرارہ اسے حراء ا یقیناً تجھ پر ایک نبی یا صدیق یا شہید ہے.کسی نے پوچھاوہ دس جنتی لوگ کون ہیں ؟ حضرت سعید بن زید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد اور عبد الرحمن بن عوف ہیں.اور کہا گیا کہ دسواں کون ہے تو حضرت سعید بن زید نے کہا وہ میں.سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمررؓ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علی، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت عبد الرحمن اور حضرت سعید بن زید میدانِ جنگ میں رسول اللہ صلی الم کے آگے ہوتے یعنی آپ کا دفاع کرتے اور نماز میں آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے.1222 حکیم بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سعید بن زید کی انگو ٹھی میں قرآن کریم کی آیت لکھی ہوئی دیکھی.1223 شوق جہاد میں گورنر کا عہدہ لینے سے انکار رض حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں شام کے معرکے میں جب با قاعدہ فوج کشی ہوئی تو حضرت سعید بن زید حضرت ابو عبیدہ کے ماتحت پیدل فوج کی افسری پر متعین ہوئے.دمشق کے محاصرے اور یرموک کی فیصلہ کن جنگ میں نمایاں شجاعت اور جانبازی کے ساتھ شریک رہے.جنگ کے دوران حضرت سعید بن زید کو دمشق کی گورنری پر مامور کیا گیا لیکن انہوں نے حضرت ابو عبیدہ کو لکھا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا کہ آپ لوگ جہاد کریں اور میں اس سے محروم رہوں.اس لیے خط پہنچتے ہی میری جگہ پر کسی اور کو بھیج دیں اور میں جلد سے جلد آپ کے پاس پہنچتا ہوں.چنانچہ حضرت ابوعبیدہ نے مجبور یزید بن ابوسفیان کو بھیجوا دیا اور حضرت سعید بن زید دوبارہ جنگ میں شامل ہو گئے.1224 اپنے زہد و انقاء کے باعث ان جھگڑوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہے 1225 حضرت سعید بن زید کے سامنے بہت سے انقلابات برپا ہوئے، بیبیوں خانہ جنگیاں پیش آئیں اور گو وہ اپنے زہد و انتقاء کے باعث ان جھگڑوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہے تاہم جس کی نسبت جو رائے رکھتے تھے اس کو آزادی کے ساتھ ظاہر کرنے میں تامل بھی نہیں کرتے تھے.حضرت عثمان شہید ہوئے تو وہ عموماً کوفہ کی مسجد میں فرمایا کرتے تھے کہ تم لوگوں نے عثمان کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے اگر احد پہاڑ متزلزل ہو جائے تو کچھ عجب نہیں.اسی طرح ایک روز کوفہ کی جامع مسجد میں مغیرہ بن شعبہ نے حضرت علی کی شان میں برابھلا کہا تو حضرت سعید بن زید نے فرمایا اے مغیرہ بن شعب ! اے مغیرہ بن شعب ! اے مغیرہ بن شعب ! میں نے رسول اللہ صلی علیم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ دس جنت میں ہوں گے اور ان میں سے ایک حضرت علی بھی تھے.1226

Page 561

اصحاب بدر جلد 4 545 مستجاب الدعوات حضرت سعید بن زید مستجاب الدعوات تھے.ایک مرتبہ ان پر زمین پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا گیا جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت سعید بن زید کی زمین کے ساتھ ملحقہ زمین ایک خاتون آروی بنت اُویس کی تھی.اس نے حضرت معاویہ کی طرف سے مقرر کردہ مدینہ پر گورنر مروان بن حکم کے پاس شکایت کی کہ سعید نے ظلم سے میری زمین پر قبضہ کر لیا ہے.مروان نے تحقیق کے لیے آدمی مقرر کیے تو حضرت سعید نے انہیں جواب دیا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں رسول اللہ صلی ال و کرم سے یہ سننے کے بعد ظلم کر سکتا ہوں کہ جو ظلم کی راہ سے ایک بالشت زمین بھی غصب کرے گا قیامت کے دن ساتوں زمینیں اس کے گلے کا طوق ہوں گی.اس کے بعد انہوں نے کہا اے خدا ! اگر اڑ وی جھوٹ بولتی ہے تو اس کو اس وقت تک موت نہ دے جب تک اس کی نظر نہ جاتی رہے اور اس کی قبر اس کے گھر کا کنواں نہ بنے.چنانچہ لکھا ہے کہ آڑوی پہلے بصارت کی نعمت سے محروم ہوئی.پھر ایک روز چلتے ہوئے اپنے ہی گھر کے کنویں میں گر کر مر گئی.اس کے بعد یہ محاورہ بن گیا اور اہل مدینہ یہ کہنے لگے کہ اعتماك الله كما أغمی آروی کہ اللہ تجھے اسی طرح اندھا کرے جس طرح اس نے آڑوی کو اندھا کیا تھا.وفات 1227 حضرت سعید بن زید نے پچاس یا اکاون ہجری میں تقریباً ستر برس کی عمر میں جمعے کے دن وفات پائی.بعض روایات کے مطابق وفات کے وقت ان کی عمر ستر سال سے متجاوز تھی، زیادہ تھی.نواح مدینہ میں بمقام عقیق ان کا مستقل مسکن تھا اور عقیق !! جزیرہ عرب میں اس نام کی کئی وادیاں ہیں.ان میں سب سے اہم مدینہ کی وادی عقیق ہے جو مدینے کے جنوب مغرب سے شمال مشرق تک پھیلی ہوئی ہے اور اس میں مدینہ منورہ کی ساری وادیاں آکر شامل ہو جاتی ہیں.بہر حال حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جمعہ کی تیاری کر رہے تھے.جب انہوں نے حضرت سعید کی وفات کی خبر سنی تو وہ جمعہ پر نہیں گئے بلکہ اسی وقت عقیق کی طرف روانہ ہو گئے.حضرت سعد بن ابی وقاص نے غسل دیا اور ان کی نعش مبارک لوگ کندھوں پر رکھ کر مدینہ لائے.پھر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ میں ان کی تدفین ہوئی.1228 ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے حضرت سعید بن زید کی وفات کی خبر سنی تو وہ جمعہ پر جانے کی تیاری کر رہے تھے لیکن وہ جمعہ پر نہ گئے اور ان کی طرف گئے اور انہیں غسل دیا، خوشبو لگائی اور ان کی نماز جنازہ پڑھائی جبکہ عائشہ بنت سعد بیان کرتی ہیں کہ حضرت سعید بن زید کو حضرت سعد بن ابی وقاص نے غسل دیا اور خوشبو لگائی پھر گھر آئے اور خود بھی غسل کیا.پھر جب گھر سے باہر نکلے تو کہا کہ حضرت سعید بن زید کو غسل دینے کی وجہ سے غسل نہیں کیا بلکہ گرمی کی وجہ سے میں نے غسل کیا ہے.

Page 562

اصحاب بدر جلد 4 546 حضرت سعید بن زید کی نماز جنازہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے پڑھائی.حضرت سعد بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن عمرؓ دونوں قبر میں اترے یعنی نعش کو لحد کے اندر رکھنے کے لیے لحد میں آئے.شادیاں اور اولاد 1229 حضرت سعید بن زید نے مختلف اوقات میں دس شادیاں کیں اور ان بیویوں سے تیر ہ لڑ کے اور انہیں لڑکیاں ان کی پید ا ہوئیں.1230 143 حضرت سفیان بن نسر حضرت سفیان رضی اللہ عنہ بن نسر انصاری ایک صحابی تھے.حضرت سفیان کا تعلق قبیلہ خزرج کے خاندان بنو جشع سے تھا.ان کے والد کے نام میں اختلاف ہے بعض نے نسر لکھا ہے اور بعض نے بشر بیان کیا ہے.غزوہ بدر اور احد میں یہ شریک ہوئے.ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی الی یکم نے حضرت سفیان کی مؤاخات حضرت طفیل بن حارث 1231 کے ساتھ کروائی ہے.32 1232 144) نام و نسب و کنیت حضرت سلمہ بن اسلم حضرت سلمہ بن اسلم حضرت سلمہ بن اسلم قبیلہ بنو حارثہ بن حارث سے تھے.آپ کے والد کا نام اسلم تھا.ایک قول کے مطابق آپ کے دادا کا نام حریش تھا جبکہ دوسرے قول کے مطابق حریس تھا.آپ کی کنیت ابو سغد تھی.1233 حضرت سلمہ بن اسلم کی والدہ کا نام سُعاد بنت رافع تھا.حضرت سلمہ بن اسلم غزوہ بدر، غزوۂ احد، غزوہ خندق اور اس کے علاوہ دیگر تمام غزوات میں آنحضرت صلی لی نام کے ساتھ شریک ہوئے.

Page 563

تاب بدر جلد 4 547 آپ نے غزوہ بدر میں صائب بن عبید اور نُعمان بن عمرو کو قید کیا تھا.حضرت سلمہ بن اسلم حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جنگ جسر میں شہید ہوئے تھے جو دریائے فرات کے کنارے لڑی گئی تھی.اس جنگ کی تفصیل، میں گذشتہ خطبات میں بیان کر چکا ہوں.بہت بڑی جنگ تھی جو مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان لڑی گئی تھی اور جسر پل کو کہتے ہیں.دریا پر ایک پل بنایا گیا تھا.اس سے ،جسر نام ہے اس کے ذریعے سے پھر مسلمان دوسرے علاقے میں گئے تھے.اور اس جنگ میں ایرانیوں کی طرف سے جنگی ہاتھی بھی استعمال ہوئے تھے.بہر حال جنگ میں دونوں فریقین کا بہت نقصان ہوا.مسلمانوں کا خاص طور پر بہت نقصان ہوا تھا.بوقت وفات روایات کے اختلاف کے ساتھ کم و بیش آپ کی عمر 38 سال بیان کی جاتی.ہے.کھجور کی چھڑی جو تلوار بن گئی 1234 علامہ نور الدین حلبی کی مشہور کتاب سیرت حلبیہ میں غزوہ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی علیم کے معجزات کے ضمن میں بیان ہے کہ غزوہ بدر میں حضرت سلمہ بن اسلم کی تلوار ٹوٹ گئی تو آنحضرت صلی اینیم نے آپ کو کھجور کی چھڑی دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کے ساتھ لڑائی کرو.حضرت سلمہ بن اسلم نے جیسے ہی اس چھڑی کو اپنے ہاتھ میں لیا تو وہ ایک بہترین تلوار بن گئی اور وہ بعد میں ہمیشہ آپ کے پاس رہی.1235 شرح زرقانی اور دلائل نبوت میں ہے کہ بدر کے روز حضرت سلمہ بن اسلم کی تلوار ٹوٹ گئی تو خالی ہاتھ رہ گئے اور بغیر کسی ہتھیار کے تھے.آنحضرت صلی اہل علم نے انہیں ایک چھڑی دیتے ہوئے فرمایا اس کے ساتھ لڑائی کرو تو وہ ایک بہترین تلوار بن گئی جو یوم جسر میں شہید ہونے تک آپ کے پاس رہی.1236 الله س ابن سعد غزوہ خندق کے ذکر کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ غزوہ خندق کے موقع پر مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہ کے پاس تھا اور انصار کا جھنڈ ا حضرت سعد بن عبادہ کے پاس تھا.رسول اللہ صلی علیکم نے حضرت سلمہ بن اسلم کو دوسو آدمیوں پر نگران مقرر کیا تھا.ان جھنڈوں کے نیچے جو مختلف پارٹیاں تھیں ان پر نگران مقرر کیے گئے تھے تو حضرت سلمہ کو دو سو آدمیوں پر نگران مقرر کیا گیا تھا اور حضرت زید بن حارثہ کو تین سو آدمیوں پر نگران مقرر کیا گیا تھا اور ان کی یہ ڈیوٹی مقرر فرمائی کہ وہ مدینے کا پہرہ دیں گے اور بآواز بلند تکبیر پڑھتے رہیں گے.اس کی وجہ یہ تھی کہ بنو قریظہ کی طرف سے جہاں بچے وغیرہ حفاظت کی غرض سے رکھے گئے تھے اس جگہ پر حملے کا اندیشہ تھا.1237 نبی اکرم علی ایم کے قتل کی ایک سازش اور خدائی نصرت آنحضرت صلی اللہ روم کے قتل کی ایک سازش ہوئی تھی اور اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد

Page 564

بدر جلد 4 548 صاحب لکھتے ہیں کہ غزوہ احزاب کی ذلت بھری ناکامی کی یاد نے قریش مکہ کے تن بدن میں آگ لگارکھی تھی اور طبعاً یہ قلبی آگ زیادہ تر ابو سفیان کے حصے میں آئی تھی جو مکہ کار کیس تھا اور احزاب کی مہم میں خاص طور پر ذلت کی مار کھا چکا تھا.کچھ عرصے تک ابوسفیان اس آگ میں اندر ہی اندر جلتا رہا مگر بالآخر معاملہ اس کی برداشت سے باہر نکل گیا اور اس آگ کے مخفی شعلے باہر آنے شروع ہوئے، ان کا اظہار ہو نا شروع ہو گیا.طبعا کفار کی سب سے زیادہ عداوت بلکہ در حقیقت اصل عداوت آنحضرت صلی علی کم کی ذات کے ساتھ تھی اس لیے اب ابو سفیان اس خیال میں پڑ گیا کہ جب ظاہری تدبیروں اور حیلوں اور جنگوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو کیوں کسی مخفی تدبیر سے، کسی بہانے سے، کسی حیلے سے) حضرت محمد مصطفی صلی علیم کا خاتمہ نہ کر دیا جائے، کیوں ایسی تدبیر نہ کی جائے.وہ یہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی الی یکم کے اردگرد کوئی خاص پہرہ نہیں رہتا بلکہ بعض اوقات آپ بالکل بے حفاظتی کی حالت میں اِدھر اُدھر آتے جاتے تھے.شہر کے گلی کوچوں میں پھرتے تھے.مسجد نبوی میں روزانہ کم از کم پانچ وقت نمازوں کے لیے تشریف لاتے تھے اور سفر وں میں بالکل بے تکلفانہ اور آزادانہ طور پر رہتے تھے.اس سے زیادہ اچھا موقع کسی کرایہ دار قاتل کے لیے کیا ہو سکتا تھا؟ یہ خیال آنا تھا کہ ابوسفیان نے اندر ہی اندر آنحضرت صلی اللہ یکم کے قتل کی تجویز پختہ کرنی شروع کر دی.جب وہ پورے عزم کے ساتھ اس ارادے پر جم گیا تو اس نے ایک دن موقع پا کر اپنے مطلب کے چند قریشی نوجوانوں سے کہا کہ کیا تم میں سے کوئی ایسا جواں مرد نہیں جو مدینے میں جا کر خفیہ خفیہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا کام تمام کر دے؟ تم جانتے ہو کہ محمد کھلے طور پر مدینے کی گلی کوچوں میں پھرتا ہے.(جس طرح بھی اس نے اپنی زبان میں آنحضرت صلی علی کیم کے متعلق کہا) ان نوجوانوں نے اس خیال کو سنا اور لے اڑے.(ان کے دل میں یہ بات رچ گئی ) یہ بات نکلے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک بدوی نوجوان ابوسفیان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے آپ کی تجویز سنی ہے.کسی نوجوان نے بتادی اور میں اس کے لیے حاضر ہوں.میں ایک مضبوط دل والا اور پختہ کار انسان ہوں جس کی گرفت سخت اور حملہ فوری ہوتا ہے.اگر آپ مجھے اس کام کے لیے مقرر کر کے میری مدد کریں تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرنے کی غرض سے جانے کے لیے تیار ہوں اور میرے پاس ایک ایسا خنجر ہے جو شکاری گدھ کے مخفی پروں کی طرح رہے گا یعنی بہت چھپا ہوا ہے، چھپا کے ایسی حالت میں رکھوں گا.سو میں محمد صلی علی کم پر حملہ کروں گا اور پھر بھاگ کر کسی قافلے میں مل جاؤں گا اور مسلمان مجھے پکڑ نہیں سکیں گے اور میں مدینے کے رستے کا بھی خوب ماہر ہوں.ابوسفیان بڑا خوش ہوا اس نے کہا کہ بس بس تم ہمارے مطلب کے آدمی ہو.اس کے بعد ابوسفیان نے اسے ایک تیز رو اونٹنی اور سفر کا زادِ راہ دیا، خرچ دیا اور رخصت کیا اور تاکید کی کہ اس راز کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دینا.ملے سے رخصت ہو کر یہ شخص دن کو چھپتا ہوا اور رات کو سفر کرتا ہوا مدینے کی طرف روانہ ہوا.

Page 565

اصحاب بدر جلد 4 الله 549 چھٹے دن مدینے پہنچ گیا اور آنحضرت صلی علیہ کی کا پتہ لیتے ہوئے سیدھا قبیلہ بنی عبد الاشہل کی مسجد میں پہنچا جہاں آپ صلی علیہم اس وقت تشریف لے گئے ہوئے تھے.چونکہ ان ایام میں نئے سے نئے آدمی مدینے میں آتے رہتے تھے اس لیے کسی مسلمان کو اس کے متعلق شبہ نہیں ہوا کہ کس نیت سے آیا ہے.مگر جو نہی یہ مسجد میں داخل ہوا اور آنحضرت صلی علیم نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا تو آپ نے فرمایا یہ شخص کسی بری نیت سے آیا ہے.اونچی آواز میں آپ نے فرمایا.اس تک یہ الفاظ پہنچ گئے، وہ یہ الفاظ سن کر اور بھی تیزی کے ساتھ آپ کی طرف بڑھا مگر ایک انصاری رئیس اُسید بن حضیر فوراً لپک کر اس کے ساتھ لپٹ گئے اور اس جدوجہد میں ان کا ہاتھ اس کے چھپے ہوئے خنجر پر بھی جاپڑا.پھر وہ گھبر اکر بولا ، کہ میرا خون میر اخون.یعنی تو نے مجھے زخمی کر دیا.جب اسے مغلوب کر لیا گیا تو آنحضرت صلی ا ہم نے اس سے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ کہ تم کون ہو اور کس ارادے سے آئے ہو ؟ اس نے کہا کہ میری جان بخشی کی جائے تو میں بتادوں گا.آپ نے فرمایا کہ ہاں اگر تم ساری بات سچ سچ بتا دو تو پھر تمہیں معاف کر دیا جائے گا.جس پر اس نے سارا قصہ من و عن آنحضرت صلی علی کم کی خدمت میں عرض کر دیا اور یہ بھی بتایا کہ ابوسفیان نے اس سے اس قدر انعام کا وعدہ کیا تھا.اس کے بعد یہ شخص چند دن تک مدینے میں ٹھہرا اور پھر اپنی خوشی سے ، آنحضرت صلی الم کی باتیں سن کے ، مسلمانوں کے ساتھ رہ کر آنحضرت صلی للی ام کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گیا.اسلام لے آیا.ابوسفیان کو قتل کرنے کی جوابی کارروائی ابوسفیان کی اس خونی سازش نے اس بات کو آگے سے بھی زیادہ ضروری کر دیا کہ کتنے والوں کے ارادے اور نیت سے آگاہی رکھی جائے.تاکہ پتا لگے کہ ان کی کیا نیت ہے کہ اس طرح کی خفیہ سازشیں بھی کر رہے ہیں.چنانچہ آپ صلی میں کم نے اس وجہ سے اپنے دو صحابی عمرو بن امیہ ضمری اور سلمہ بن اسلم، جن کا ذکر ہو رہا ہے ، ان کو سکتے کی طرف روانہ فرمایا اور ابوسفیان کی اس سازش قتل اور اس کی سابقہ خون آشام کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ بھی اجازت دے دی کہ اگر موقع پائیں تو بے شک اسلام کے اس حربی جنگی دشمن کا خاتمہ کر دیں.مگر جب امیہ اور ان کا ساتھی مکہ میں پہنچے تو قریش ہوشیار ہو گئے اور یہ رو صحابی اپنی جان بچا کر مدینے کی طرف واپس لوٹ آئے.راستے میں انہیں قریش کے دو جاسوس مل گئے جنہیں روسائے قریش نے مسلمانوں کی حرکات و سکنات کا پتا لینے اور آنحضرت صلی علیہ نیم کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا.اب یہ بھی کوئی تعجب نہیں کہ یہ تدبیر بھی قریش کی کسی اور خونی سازش کا پیش خیمہ ہو ، جیسے پہلے ایک آدمی کو بھیجا تھا.ان کو بھی بھیجا ہو کہ سازش کر کے نعوذ باللہ آنحضرت صلیالی کم کا قتل کریں مگر خدا کا ایسا افضل ہوا کہ امیہ اور سلمہ بن اسلم کو ان کی جاسوسی کا پتا چل گیا جس پر انہوں نے ان جاسوسوں پر حملہ کر کے انہیں قید کر لینا چاہا مگر انہوں نے سامنے سے مقابلہ کیا.چنانچہ اس لڑائی میں ایک جاسوس تو مارا گیا اور دوسرے کو قید کر کے وہ اپنے ساتھ مدینے میں واپس لے آئے.

Page 566

تاب بدر جلد 4 550 اس سریہ کی تاریخ کے متعلق مؤرخین میں اختلاف ہے.ابن ہشام اور طبری اسے 14 ہجری میں بیان کرتے ہیں مگر ابن سعد نے اسے 16 ہجری میں لکھا ہے.علامہ قسطلانی اور زرقانی نے ابن سعد کی روایت کو ترجیح دی ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ان ساروں کی ( تحقیق کا) تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لہذا میں نے بھی اسے 6 ہجری میں بیان کیا ہے.اللہ بہتر جانتا ہے.واللہ اعلم.ابن سعد کی روایت کے مفہوم کی تائید بیہقی نے بھی کی ہے مگر اس میں اس واقعہ کے زمانہ کا پتا نہیں چلتا.1238 صلح حدیبیہ کے دن پہرہ پر مامور صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت سلمہ بن اسلم کا ذکر یوں ملتا ہے کہ حضرت ام عمارہ بیان کرتی ہیں کہ میں صلح حدیبیہ کے روز رسول اللہ صلی علی یم کو دیکھ رہی تھی جبکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت عباد بن بشر اور حضرت سلمہ بن اسلم دونوں آہنی خود پہنے ہوئے نبی کریم صلی علیم کے پاس کھڑے پہرہ دے رہے تھے.جب قریش کے سفیر سھیل بن عمرو نے اپنی آواز کو بلند کیا تو ان دونوں نے اسے کہا کہ اپنی آواز کو رسول اللہ صلی علی نام کے سامنے دھیمار کھو، آہستہ رکھو، ہلکی رکھو.1239 یہ ان کی ایک خاص خدمت کا ذکر ہے جو اس موقعے پر بیان ہوا.0 1240 145 حضرت سلمہ بن ثابت ان کا نام پورا نام سلمہ بن ثابت بن و قش ہے.حضرت سلمہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے غزوہ احد میں ابو سفیان نے حضرت سلمہ بن ثابت کو شہید کیا تھا..حضرت سلمہ کے والد حضرت ثابت بن وقش اور چچا حضرت رفاعہ بن وقش اور ان کے بھائی حضرت عمر و بن ثابت بھی غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے.اس خاندان کے بہت سارے افراد غزوہ احد میں شریک ہوئے.ان کی والدہ کا نام لیلیٰ بنت یمان تھا جو حضرت حذیفہ بن یمان کی بہن تھیں.1241

Page 567

551 146 صحاب بدر جلد 4 حضرت سلمہ بن سلامه یمامہ کے حکمران اولین قبول اسلام کرنے والے پھر حضرت سلمہ بن سلامہ بدری صحابی تھے.انصاری تھے اور قبیلہ اوس کے خاندان بنو اشھل سے ان کا تعلق تھا.جب مدینہ میں رسول اللہ صلی علی یم کی بعثت کی خبر پہنچی تو آپ ان اولین لوگوں میں سے تھے جو آنحضور صلی لی کم پر ایمان لائے تھے.1242 بیعت عقبہ اولیٰ و ثانیہ میں شامل آپ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شامل ہوئے اور نیز آپ کو بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی للی نیلم کے ساتھ شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی.حضرت عمر نے آپ کو اپنے دور خلافت میں یمامہ کا حکمران مقرر فرمایا.1243 مواخات عمر بن قتادہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی یکم نے حضرت سلمہ بن سلامہ اور حضرت ابوسبرۃ بن ابی رقم کے درمیان مواخات قائم فرمائی لیکن ابن اسحاق کے نزدیک سلمہ بن سلامہ اور حضرت زبیر بن العوام کے درمیان مواخات قائم ہوئی.4 1244 یہود کا آنے والے نبی کا انتظار اور پھر حسد کی وجہ سے انکار آپ اپنے بچپن کا ایک واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب کہ میں چھوٹی عمر کا تھا اور اپنے خاندان کے چند آدمیوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک یہودی عالم وہاں آگیا اور اس نے ہمارے سامنے قیامت اور حساب اور میزان اور جنت اور دوزخ کا ذکر شروع کر دیا اور کہنے لگا کہ مشرک اور بت پرست جہنم میں ڈالے جائیں گے.آپ کے خاندان کے لوگ چونکہ بت پرست تھے اس لئے وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے.ان لوگوں نے اس یہودی عالم سے پوچھا کہ کیا واقعی لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائیں گے ؟ اور اپنے اعمال کا بدلہ پائیں گے.آخرت کی زندگی کا ان کو کوئی تصور نہیں تھا.اس نے کہا کہ ہاں.انہوں نے پوچھا کہ اس کی نشانی کیا ہے ؟ اس پر اس نے مکہ اور یمن کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس جگہ سے ایک نبی آئے گا.اس پر ان لوگوں نے

Page 568

تاب بدر جلد 4 552 پوچھا کہ وہ کب آئے گا ؟ تو اس نے میری طرف اشارہ کیا.کہتے ہیں میں بچہ تھا، چھوٹا تھا میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس لڑکے نے عمر پائی تو یہ ضرور اس نبی کو دیکھے گا.حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کو کچھ سال ہی گزرے تھے کہ نبی کریم صلی للی کم کی آمد کی ہمیں اطلاع ملی اور ہم سب ایمان لے آئے، یہ جو بت پرست تھے آگ پرست تھے سب ایمان لے آئے.کہتے ہیں اس وقت وہ یہودی عالم بھی زندہ تھا مگر حسد کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لایا اور ہم نے اس کو کہا کہ تم نہیں نبی صلی علیکم کی آمد کی خبر میں سنایا کرتے تھے اب خود ہی ایمان نہیں لائے.اس پر اس نے کہا کہ یہ وہ نبی نہیں ہے جس کا میں نے ذکر کیا تھا.کہتے ہیں کہ آخر وہ شخص اسی طرح کفر کی حالت میں مر گیا.فتن کے زمانہ میں عزلت نشینی اور وفات حضرت عثمان کے زمانے میں جب فتنوں نے سر اٹھایا تو آپ نے عزلت نشینی اختیار کر لی اور اپنے آپ کو عبادت الہی کے لئے وقف کر دیا.1245 یعنی کہ گوشہ نشین ہو گئے کیونکہ فتنے اس وقت کافی بڑھ رہے تھے اور صرف عبادت الہی کیا کرتے تھے.ان کی وفات کے بارے میں اختلاف ہے.بعض کہتے ہیں 34 ہجری میں وفات ہوئی بعض کہتے ہیں 45 ہجری میں وفات ہوئی.ان کی عمر 74 سال تھی جب ان کی وفات ہوئی اور مدینہ میں ہی وفات ہوئی.1246 147 حضرت سلیط بن قیس حضرت سلیط بن قیس بن عمرو.ان کی وفات 14 ہجری میں ہوئی.حضرت سلیط بن قیس بن عمرو بن عُبيد بن مالک ان کا پورا نام ہے.حضرت سلیط بن قیس اور حضرت ابوھڑ مہ دونوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد خاندان بنو عدی بن نجار کے بت توڑ دیئے.آنحضرت صلی اللی علم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو جب آپ صلی علیہ کی اونٹنی پر بیٹھ کر مدینہ شہر میں داخل ہو رہے تھے تو ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ آنحضرت صلی علیہ لکم ان کے گھر میں قیام کریں.جب آپ کی اونٹنی بنو عدی کے گھر کے پاس پہنچی اور یہ لوگ رسول اللہ صلی علیم کے ماموں تھے کیونکہ سلمیٰ بنت عمرو، عبد المطلب کی والدہ اسی قبیلہ سے تھیں.اس وقت حضرت سلیط بن قیس، ابوسليط أسيره بن ابو خارجہ نے روکنا چاہا تو آنحضور صلی الیم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو کہ اس وقت یہ مامور ہے.یعنی جہاں خدا کا منشاء ہو گا وہاں یہ خود بیٹھ

Page 569

تاب بدر جلد 4 جائے گی.1249 553 حضرت سلیط بدر اور اُحد اور خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی ال و نیم کے ساتھ تھے.جنگ جسر ابی عبید میں 14 ہجری کو حضرت عمر کے عہد خلافت میں یہ شہید ہوئے.1247 حضرت سلیظ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عدی بن سنجار سے تھا.حضرت سلیط کی والدہ کا نام حضرت زعیبہ بنت زرارہ تھا جو حضرت اسعد بن زرارہ کی ہمشیرہ تھیں.1248 1252 ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت خالد بن ولید کے بھائی ولید بن ولید کو غزوہ بدر کے موقع پر حضرت سلیط بن قیس نے قید کیا تھا.1250 فتح مکہ کے موقع پر انصار کے قبیلہ بنو مازن کا جھنڈ ا حضرت سلیط بن قیس کے پاس تھا.1251 اسی طرح غزوہ حنین کے موقع پر بھی بنو مازن کا جھنڈ ا حضرت سلیظہ کے پاس تھا.2 تیرہ ہجری میں جبکہ بعض کے مطابق چودہ ہجری کے آغاز میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جنگ جسر کا واقعہ پیش آیا.یہ جنگ مسلمانوں اور فارسیوں کے درمیان موجودہ عراق کے علاقے میں لڑی گئی.اس جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت ابو عبید بن مسعود تقی تھے اس لیے اس جنگ کو جنگ جسر ابی عبید بھی کہتے ہیں.اس جنگ کے مزید نام ہیں جنگ مروکہ جو دریائے فرات کے مغربی کنارے پر واقع ایک جگہ کا نام ہے.جنگ قش الناطف یہ بھی دریائے فرات کے مشرقی کنارے پر کوفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے.اس جنگ میں دو ہزار ایرانی تہ تیغ ہوئے جبکہ بعض روایات کے مطابق چھ ہزار ایرانی مارے گئے.مسلمانوں کی طرف سے بعض روایات کے مطابق اس جنگ میں اٹھارہ سو مسلمان شہید ہوئے جبکہ بعض کے مطابق چار ہزار مسلمان شہید ہوئے جن میں ستر انصار اور بائیس مہاجرین بھی شامل تھے.ان شہداء میں حضرت سلیط بن قیس بھی شامل تھے.بعض کے نزدیک اس معرکہ میں سب سے آخر میں شہید ہونے والے حضرت سلیط بن قیس تھے.1253 بعض مؤرخین کے مطابق آپ کی نسل آگے نہیں چلی جبکہ بعض کے مطابق آپ کے بیٹے کا نام عبد اللہ بن سلیط تھا جس نے آپ سے ایک روایت بیان کی ہے.ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت سلیہ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام ثبیتہ تھا جو حضرت سخیلہ بنت صمین کے بطن سے تھی.اسد الغابہ کے مؤلف لکھتے ہیں کہ آپ کی اولاد کی نسل آگے نہیں چلی.عبد اللہ بن سلیط بن قیس اپنے والد حضرت سلیط بن قیس سے روایت کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص کا باغ تھا جس میں کسی دوسرے انصاری شخص کے کھجور کے درخت تھے اور وہ شخص اس باغ

Page 570

ناب بدر جلد 4 554 میں صبح و شام آیا کرتا تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ اس کے درختوں میں سے جو باغ کی دیوار کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ان کی کھجوریں اس انصاری کو دیا کریں جس کا باغ تھا.1254 148 حضرت سلیم بن حارث حضرت سلیم بن حارث انصاری.ان کا تعلق بھی قبیلہ خزرج کے خاندان بنو دینار سے ہے اور ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ خاندان بنو دینار کے غلام تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ضحاك بن حارث کے بھائی ہیں.بہر حال جو معلومات ہیں اس کے مطابق یہ دونوں باتیں ہیں.غزوہ بدر میں شامل ہوئے اور غزوہ اُحد میں شہادت کا رتبہ پایا.1255 149 حضرت سلیم بن عمرو تعلق حضرت سلیم بن عمر و انصاری.ان کی والدہ کا نام اقد سُلیم بنت عمر و تھا اور آپ کا خزرج کے خاندان بنو سلمہ سے تھا اور بعض روایات میں آپ کا نام سُلیمان بن عمر و بھی ملتا ہے.انہوں نے عقبہ میں ستر آدمیوں کے ساتھ بیعت کی اور غزوہ بدر اور احد میں شامل ہوئے اور غزوہ احد کے موقع پر ان کی شہادت ہوئی اور آپ کے ساتھ آپ کے غلام عذرہ بھی تھے.1256

Page 571

555 150 صحاب بدر جلد 4 حضرت سلیم بن قیس حضرت سلیم بن قیس انصاری.ان کی والدہ کا نام اُم سُليم بنت خالد تھا.حضرت خولہ بنت قیس کے بھائی تھے جو حضرت حمزہ کی بیوی تھیں.آپ نے غزوہ بدر اور احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ شرکت کی.ان کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی.1257 151 حضرت سلیم بن طحان اپنے ایک اور بھائی کے ساتھ جنگ بدر میں شرکت حضرت سلیم بن ملحان انصاری.ان کی والدہ مُلیکه بنت مالك تھیں.حضرت انس بن مالک کے ماموں جبکہ حضرت ام حرام اور حضرت اُم سُلیم کے بھائی تھے.حضرت اید حرام حضرت عُبادہ بن صامت کی اہلیہ تھیں جبکہ حضرت ام سلیم حضرت ابو طلحہ انصاری کی اہلیہ تھیں اور ان کے صاحبزادے حضرت انس بن مالک خادم رسول صلی املی کم تھے.انہوں نے غزوہ بدر اور احد میں اپنے بھائی حضرت حرام بن ملحان کے ساتھ شرکت کی تھی اور آپ دونوں ہی واقعہ بئر معونہ میں شہید ہوئے.1258 واقعہ بئر معونه رسول اللہ صلی علیکم کی ہجرت کے چھتیسویں مہینے صفر میں یعنی صفر کا جو مہینہ ہے اس میں بِثْرِ مَعُونہ کی طرف حضرت منذر بن عمر و السَّاعِدی کا سر یہ ہوا.عامر بن جعفر رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آیا اور آپ کو ہدیہ دینا چاہا جسے آپ نے لینے سے انکار کر دیا.آپ صلی علی نکم نے اسے اسلام کی دعوت دی.اس نے اسلام قبول نہ کیا اور نہ ہی اسلام سے دور ہوا.عامر نے درخواست کی کہ اگر آپ اپنے اصحاب میں سے چند آدمی میرے ہمراہ میری قوم کے پاس بھیج دیں تو امید ہے کہ وہ آپ کی دعوت کو قبول کر لیں گے.آپ علی الایم نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ اہل مجد ان کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچائیں تو اس نے کہا کہ اگر کوئی ان کے

Page 572

556 اصحاب بدر جلد 4 سامنے آیا تو میں ان کو پناہ دوں گا.رسول اللہ صلی ا ہم نے ستر نوجوان جو قرآن کریم کے قاری کہلاتے تھے اس کے ساتھ بھجوائے اور حضرت مُنذر بن عمر و السَّاعِدِی کو ان پر امیر مقرر کیا.پہلے بھی یہ واقعہ بیان ہو چکا ہے.جب یہ لوگ بئر معونہ کے مقام پر پہنچے جو بنی سُلیم کا گھاٹ تھا اور بنی عامر اور بنی سُلیم کی زمین کے درمیان تھا یہ لوگ وہیں اترے، پڑاؤ کیا اور اپنے اونٹ وہیں چھوڑ دئے.انہوں نے پہلے حضرت حرام بن ملحان کو رسول اللہ صلی علیکم کا پیغام دے کر عامر بن طفیل کے پاس بھیجا.اس نے رسول اللہ صلی للی کم کا پیغام پڑھا ہی نہیں اور حضرت حرام بن ملحان پر حملہ کر کے شہید کر دیا.اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف اس نے بنی عامر کو بلایا مگر انہوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا.پھر اس نے قبائل سلیم میں عُصَيَّہ اور ذکوان اور دغل کو پکارا.وہ لوگ اس کے ساتھ روانہ ہو گئے اور اسے اپنار کیس بنالیا.جب حضرت حرام کے آنے میں دیر ہوئی تو مسلمان ان کے پیچھے آئے.کچھ دور جا کر ان کا سامنا اس جتھے سے ہوا جو حملہ کرنے کے لئے آرہا تھا.انہوں نے مسلمانوں کو گھیر لیا.دشمن تعداد میں بھی زیادہ تھے.جنگ ہوئی اور رسول اللہ صلی علیم کے اصحاب شہید کر دئے گئے.مسلمانوں میں حضرت سُلیم بن ملحان اور حکم بن کیسان کو جب گھیر لیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ ! ہمیں سوائے تیرے کوئی ایسا نہیں ملتا جو ہمارا سلام تیرے رسول کو پہنچا دے.لہذا تو ہی ہمارا سلام پہنچا.جب رسول اللہ صلی علیہ ہم کو جبرئیل نے اس کی خبر دی تو آپ نے فرما یاوَ عَلَيْهِمُ السّلام ـ ان پر سلامتی ہو.مُنذر بن عمر و سے ان لوگوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو ہم تمہیں امن دے دیں گے مگر انہوں نے انکار کیا.وہ حضرت حرام کی جائے شہادت پر آئے.ان لوگوں سے جنگ کی یہاں تک کہ شہید کر دئے گئے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ وہ آگے بڑھ گئے تاکہ مر جائیں یعنی موت کے سامنے چلے گئے حالانکہ وہ اسے جانتے تھے.259 با وجو د جنگ کا سامان پورانہ ہونے کے بڑی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور جنگ کی نیت سے گئے بھی نہیں تھے.1260 152 حضرت سماک بن سعد اپنے بھائی کے ساتھ جنگ بدر میں شریک حضرت سماك بن سعد.ان کے والد سعد بن ثعلبہ تھے.آپ حضرت نعمان بن بشیر کے والد حضرت بشیر بن سعد کے بھائی تھے.بدر میں اپنے بھائی حضرت بشیر کے ساتھ شریک ہوئے اور احد میں بھی شریک ہوئے تھے.ان کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا.1261

Page 573

557 153 صحاب بدر جلد 4 تمام غزوات میں شرکت حضرت سنان بن ابی سنان حضرت سنان بن ابی سنان جو بنو اسد قبیلہ سے تھے اور بنو عبد شمس کے حلیف تھے.غزوہ بدر میں آپ نے حصہ لیا.غزوہ احد میں اور خندق میں اور حدیبیہ سمیت جتنی لڑائیاں بھی آ نحضر ت م ل ل ل ل ل لن کو پیش آئیں ان تمام میں آنحضرت صلی علیم کے ہمرکاب تھے.بیعت رضوان میں شامل بیعت رضوان میں سب سے پہلے کس نے بیعت کی اس کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے.بعض کے نزد یک حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیعت کی اور بعض حضرت سلمہ الاکوع کا نام بیان کرتے ہیں لیکن واقدی کے نزدیک حضرت سنان بن ابی سنان نے سب سے پہلے بیعت کی.اور بعض کے نزدیک حضرت سنان کے والد نے سب سے پہلے بیعت کی سعادت حاصل کی.بہر حال تاریخ میں بیان ہوا ہے کہ بیعت رضوان میں جب آنحضرت صلی ا ہم نے لوگوں کی بیعت لینی شروع کی تو حضرت سنان نے بھی ہاتھ بڑھایا کہ میری بیعت لیں.اس پر رسول اللہ صلی یکم نے فرمایا کس چیز پر بیعت کرتے ہو.حضرت سنان نے عرض کیا کہ جو آپ کے دل میں ہے.رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا کہ میرے دل میں کیا ہے ؟ تمہیں پتہ ہے ؟ صحابہ پر آنحضرت صلی للی کم کی صحبت کا بھی اثر تھا تو انہوں نے عرض کیا کہ فتح مند ہونا یا شہادت پانا.اس پر دوسرے لوگوں نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ ہم بھی اسی بات پر بیعت کرتے ہیں جس پر حضرت سنان بیعت کرتے ہیں.1262 حضرت سنان بار مہاجرین صحابہ میں سے تھے.1263 طلیحہ بن خویلد نے دعویٰ نبوت کیا تو سب سے پہلے حضرت سنان نے رسول اللہ صلی الی کی کو خط لکھ کر خبر دی جو اس وقت بنو مالک پر عامل تھے.11

Page 574

558 154 صحاب بدر جلد 4 حضرت سنان بن صیفی حضرت سنان بن صیفی.ان کا تعلق خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تھا.ان کی والدہ کا نام نائلہ بنت قیس تھا.ان کا ایک بیٹا مسعود بھی تھا.12 نبوی میں مصعب بن عمیر کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں انہوں نے اسلام قبول کیا.یہ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر دیگر ستر انصار کے ساتھ شامل ہوئے اور غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.1265 غزوہ خندق میں بھی یہ شریک تھے اور اس میں آپ کو شہادت نصیب ہوئی.1266 155 نام و نسب حضرت سہل بن حنیف حضرت سهل بن حنیف انصاری -- حنیف ان کے والد تھے.والدہ کا نام ہند بنت رافع تھا.والدہ کی طرف سے آپ کے دو بھائی تھے عبد اللہ اور نعمان اور ان کی اولاد میں بیٹے اسعد اور عثمان اور سعد تھے.حضرت سہل کی اولاد مدینہ اور بغداد میں مقیم رہی.آنحضرت صلی علی کریم نے آپ کے اور حضرت علی کے درمیان مواخات قائم فرمائی.انہوں نے غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی علیم کے ہمراہ شرکت کی.بنو نضیر کے اموال غنیمت میں سے حصہ پانے والے حضرت سہل بن حنیف عظیم المرتبت صحابی تھے لیکن آپ کے مالی حالات مضبوط نہ تھے.حضرت ابنِ عيينه بیان کرتے ہیں کہ میں نے زہری کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی ال ولیم نے بنو نضیر کے اموال میں سے حضرت سہل بن حنیف اور حضرت ابودجانہ کے علاوہ انصار میں سے کسی کو حصہ نہیں دیا کیونکہ یہ دونوں تنگدست تھے.1267 اپنے لوگوں میں شرک مٹانے کے ایک ترکیب ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الم کے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد حضرت علی نے

Page 575

اصحاب بدر جلد 4 559 1268 تین دن اور راتیں مکہ میں قیام کیا اور لوگوں کی وہ امانتیں جو آنحضرت صلی ایم کے سپر د تھیں وہ انہیں واپس کیں.پھر حضرت علی آ نحضرت صلی للی نام سے جاملے اور آپ کے ساتھ حضرت کلثوم بن ھذم کے ہاں ٹھہرے.دوران سفر ایک دورات قبا میں حضرت علی کا قیام رہا.آپ بیان کرتے تھے کہ قبامیں ایک مسلمان عورت تھی جس کا خاوند نہیں تھا.کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رات گئے ایک آدمی آ کے اس کے دروازے پر دستک دیتا ہے.اس پر وہ عورت باہر آتی ہے.وہ آدمی کوئی چیز اسے دیتا ہے اور وہ لے لیتی ہے.آپ کہتے ہیں کہ مجھے اس معاملہ پر شک ہوا.میں نے اس عورت سے کہا کہ اے اللہ کی بندی! یہ آدمی کون ہے جو ہر رات تمہارے دروازے پر دستک دیتا ہے اور جب تم باہر آتی ہو تو تمہیں کوئی چیز پکڑا جاتا ہے جس کا مجھے پتہ نہیں کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے.اور تم ایک مسلمان عورت ہو تمہارا شوہر بھی نہیں ہے اس لئے یہ اس طرح رات کو نکلنا اور کسی غیر مرد سے اس طرح بات کرنا یا چیز لینا ٹھیک نہیں ہے.اس عورت نے کہا کہ یہ سھل بن محنیف ہیں.انہیں معلوم ہے کہ میں اکیلی عورت ہوں اور میرا کوئی نہیں ہے.اس لئے جب شام ہوتی ہے تو یہ اپنے لوگوں کے، قوم کے، رشتہ داروں کے بتوں کو توڑتے ہیں اور پھر مجھے لا کر دے دیتے ہیں تاکہ میں انہیں جلا دوں.اور ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی حضرت سہل کی وفات تک آپ کا یہ واقعہ بیان کرتے تھے یعنی کہ اپنے لوگوں میں شرک مٹانے کے لئے آپ نے یہ ایک ترکیب استعمال کی.جنگ احد میں ثابت قدم رہنے والے عظیم المرتبت صحابی حضرت سهل بن حنيف ان عظیم المرتبت صحابہ میں سے تھے جنہوں نے اُحد کے روز ثابت قدمی دکھائی.اس روز انہوں نے موت پر آنحضور صلی علیم کی بیعت کی.آپ اس وقت آنحضور صلی نیم قدمی دکھائی.اس روز انہوں نے موت کچھ علیکم کے آگے ڈھال بن کر ڈٹے رہے.جب دشمن کے شدید حملے کی وجہ سے مسلمان بکھر گئے تھے اس دن انہوں نے آنحضور صلی کم کی طرف سے تیر چلائے.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا.کہ سہل کو تیر پکڑاؤ کیونکہ تیر چلانا اس کے لئے آسان امر ہے.پھر بیان کیا جاتا ہے کہ غزول ایک ماہر نیزہ باز یہودی تھا اس کا پھینکا ہوا نیزہ وہاں تک پہنچ جاتا تھا جہاں دوسروں کے نیزے نہیں پہنچ سکتے تھے.بنو نضیر کے محاصرہ کے ایام میں آنحضرت صلی علیکم کے لئے ایک خیمہ تیار کیا گیا.غزول نے نیزہ پھینکا جو کہ اس خیمے تک پہنچ گیا.اس پر رسول اللہ صلی علیہم نے صحابہ کو حکم دیا کہ اس کو یعنی خیمہ کو وہاں سے ہٹا دیں.چنانچہ اس کی جگہ تبدیل کر دی گئی.پھر اس کے بعد حضرت علی اس خص کی گھات میں گئے.غزول ایک گروہ کو ساتھ لئے مسلمانوں کے کسی بڑے سردار کو قتل کرنے کے ارادے سے نکل رہا تھا.حضرت علی نے موقع پا کر اسے قتل کر دیا اور اس کا سر آنحضرت صلی یکم کی خدمت میں پیش کیا.اس کے ساتھ جو لوگ تھے وہ بھاگ گئے.ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے آنحضرت صلی العلم نے حضرت علی کی ہی قیادت میں دس افراد پر مشتمل ایک دستہ روانہ فرمایا جنہوں نے ان لوگوں کا تعاقب کر 1269

Page 576

تاب بدر جلد 4 560 1270 کے ان کو قتل کر دیا اس لئے کہ وہ جنگ کے لئے اور چھپ کر حملہ کر کے قتل کرنے کے لئے نکلے تھے.اس دستہ میں جو حضرت علی کے ساتھ گیا تھا حضرت ابو دجانہ اور حضرت سہل بن حنیف بھی شامل تھے.کوئی دن نہیں تھا جو اس زمانے میں آرام و سکون سے گزر تاہو ہر وقت دشمن حملے کی تاک میں تھا.تو ایسے دشمنوں کے ساتھ پھر یہی سلوک ہونا چاہئے تھا.غزوہ وادی القریٰ اور دشمن سے حسن سلوک رسول اللہ صلی علیم نے فتح خیبر کے بعد وادی القری کا رخ فرمایا.جب آنحضرت صلی لی یکم کا لشکر وادی القری میں اتر اتو یہود پہلے سے جنگ کے لئے تیار تھے.چنانچہ انہوں نے تیروں کے ساتھ استقبال کیا.مسلمانوں پر تیر پھینکنے شروع کر دیئے.آنحضرت صلی علیہم کا غلام جس کا نام میں عمہ تھا آپ صلی علیہم کی سواری سے کجاوہ وغیرہ اتار رہا تھا کہ ایک اندھا تیر آکر اسے لگا جس سے وہ جاں بحق ہو گیا.آنحضرت صلی اللی کم نے فوراً صف بندی کا حکم دیا.لواء حضرت سعد بن عبادہ کو عنایت فرمایا اور جھنڈوں میں سے ایک حضرت اور حباب بن منذر اور دوسر احضرت سہل بن حنیف کو اور تیسر احضرت عباد بن بشر کو سونپا.اس لڑائی کے نتیجہ میں یہ سارا علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا.اللہ تعالیٰ نے یہاں فتح عطا فرمائی یہاں سے اللہ تعالیٰ نے کثیر مال عطا فرمایا.آنحضرت صلی المیہ ہم نے یہاں چار دن قیام فرمایا.صحابہ میں غنائم تقسیم فرمائے.یہاں کی زمین اور باغات یہود کے پاس رہنے دیئے.باوجو د فتح کرنے کے زمین اور باغات جو تھے ان لوگوں کے پاس ہی رہنے دیئے مگر اپنی طرف سے ان پر ایک عامل مقرر فرما دیا.تو یہ ہے دشمن سے بھی حسن سلوک کی اعلیٰ مثال کہ ملکیت ان کے پاس ہی رہی اور ان سے کچھ ٹیکس یا حصہ وصول کیا جاتا تھا.اس زمانے کے رواج کے مطابق اگر ایسے دشمن کے مال اور جائیداد پر قبضہ بھی کر لیا جاتا تو حرج نہیں تھا.لیکن آپ صلی اللہ ہم نے ان پر احسان کیا.1 1271 عیسائی کے جنازہ کا احترام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی کتاب میں سیرت خاتم النبیین میں تحریر فرماتے ہیں کہ : جب شام کا ملک فتح ہوا اور وہاں کی عیسائی آبادی اسلامی حکومت کے ما تحت آگئی تو ایک دن جبکہ آنحضرت علی علم کے صحابی سہل بن محنیف اور قیس بن سعد قادسیہ کے کسی شہر میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے تو ان کے پاس سے ایک عیسائی کا جنازہ گزرا.یہ دونوں اصحاب اس کی تعظیم میں کھڑے ہوئے.ایک مسلمان نے جو آنحضرت صلی علیہ کمر کا صحبت یافتہ نہیں تھا اور ان اخلاق سے نا آشنا تھا جو اسلام سکھاتا ہے یہ دیکھ کر بہت تعجب کیا اور حیران ہو کر سہل اور قیس سے کہا کہ یہ تو ایک ذقی عیسائی کا جنازہ ہے.انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم جانتے ہیں مگر آنحضرت صلی للی کم کا یہی طریق تھا کہ آپ غیر مسلموں کے جنازے کو دیکھ کر بھی کھڑے ہو جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ کیا ان میں خدا کی پیدا کی ہوئی

Page 577

تاب بدر جلد 4 جان نہیں ہے.1272 561 پس یہ ہے ایک طریق انسانیت کے احترام اور مذاہب کے درمیان نفرتیں ختم کرنے کا جس کی بنیاد آنحضرت صلی علیم نے رکھی اور وہی اسوہ حسنہ پھر صحابہ نے بھی اپنایا.صلح حدیبیہ اور حضرت عمر...ابو وائل سے روایت ہے کہ ہم صفین میں تھے کہ حضرت سہل بن حنیف کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اے لوگو! اپنے آپ کو ہی غلطی پر سمجھو کیونکہ ہم حدیبیہ کے واقعہ میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ تھے اگر ہم مقابلہ کی صورت دیکھتے تو ضرور مقابلہ کرتے.اتنے میں حضرت عمر بن خطاب آئے.( یعنی حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے ) اور انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور وہ کافر باطل پر ؟ تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں.تو انہوں نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں نہیں اور ان کے مقتول آگ میں نہیں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں.تو حضرت عمر نے کہا کہ ہم حدیبیہ کے دن جو صلح کر رہے ہیں تو اپنے دین سے متعلق ایسی ذلت کیوں برداشت کریں.کیا ہم یہاں سے یونہی کوٹ جائیں یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہ کر دے.آپ صلی این یکم نے فرمایا خطاب کے بیٹے ! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے ہر گز کبھی ضائع نہیں کرے گا.پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور ان سے وہی کچھ کہا جو نبی کریم صلی علی نام سے عرض کیا تھا.حضرت ابو بکر نے کہا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ان کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.پھر بخاری نے ہی لکھا ہے.وہ آگے حدیث لکھتے ہیں کہ پھر سورۃ فتح نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی علیم نے حضرت عمر کو آخر تک پڑھ کر سنائی.حضرت عمر نے کہا کہ یارسول اللہ ! کیا یہ فتح ہے.آپ نے فرمایا.ہاں.جنگ صفین 1273 اس حدیث کی شرح میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " صفین عراق اور شام کے در میان ایک جگہ کا نام ہے جہاں حضرت علی اور حضرت معاویہ کا مقابلہ ہوا اور جب حضرت معاویہ کی فوج کے لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ ان کو شکست ہونے لگی ہے.تو انہوں نے قرآن مجید کو اونچا کیا اور کہا کہ قرآن مجید کو حکم بنا کر فیصلہ کیا جائے.چنانچہ اس پر جنگ بند ہو گئی." حضرت علی کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان ہو گیا." بعض لوگوں کی طرف سے جنگ بندی پر اعتراضات بھی ہوئے."حضرت سہل حضرت علی کی طرف سے شریک تھے." حضرت سہل بن حنیف صحابی نے ان سے کہا بُوا أَنْفُسَكُمْ.اپنی رائے ہی کو نہ درست سمجھو کیونکہ اس سے قبل صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر کو کبھی غلط فہمی پیدا ہوئی لیکن آخر واقعات نے بتادیا کہ نبی کریم صلی علیکم کی استقامت اور ایفائے عہد کو برکت دی گئی اور آپ خطرہ سے محفوظ ہو گئے." تو کہتے ہیں پھر آپ نے کہا کہ لوگ جس بات کو کمزوری اور ذلت پر محمول کر رہے تھے اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو قوت و عزت کا باعث بنا دیا نبی کریم صلی علیہم نے ہر چھوٹی بڑی بات میں

Page 578

تاب بدر جلد 4 562 1274" معاہدہ کی نگہداشت ملحوظ ر کھی ہے.گو یہاں تو دھو کہ ہوا اور وہ نتائج نہیں نکلے لیکن مومن کو ہمیشہ حسن ظن رکھنا چاہئے اور جو معاہدے اللہ تعالیٰ کے نام پر کئے جانے کی کوشش کی جائے تو ساری چیزیں دیکھ کر اسے کر لینا چاہئے یہی مومنانہ شان ہے.لیکن بہر حال دوبارہ دھو کہ نہیں کھانا چاہئے.وہاں تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی یی کم کو بتا بھی دیا تھا.اسی کو بیان کرتے ہوئے حضرت سہل نے یہ کہا کہ اگر معاہدہ ہو رہا ہے، جنگ بندی ہو رہی ہے تو ہمیں بھی صلح حدیبیہ والے واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے صلح کر لینی چاہئے.تم مکہ کی طرف میرے پیامبر ہو حضرت سہل بن حنیف سے روایت ہے آپ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی یکم نے مجھ سے مخاطب ہو کیر فرمایا کہ تم مکہ کی طرف میرے پیامبر ہو.پس تم جاکر انہیں میر اسلام پہنچانا اور ان سے کہنا کہ رسول اللہ صلی علیکم تمہیں تین باتوں کا حکم دیتے ہیں.اپنے باپ دادا کی قسمیں نہ کھاؤ.باپ دادا کی قسمیں کھانا منع ہے.گناہ ہے.جب تم قضائے حاجت کے لئے بیٹھو تو اپنا منہ اور پیٹھ قبلہ رخ کر کے نہ بیٹھو.شمالاً جنوبا بیٹھنا چاہئے.اسی طرح تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ ہڈی اور گوبر سے استنجا نہ کرو.1275 اس میں تبھی بڑی حکمت ہے کئی قسم کے بیکٹریا ہوتے ہیں جس سے انفیکشن کا خطرہ ہوتا ہے.آجکل تو ٹشو اور پانی کا رواج ہے لیکن اس زمانے میں جنگلوں میں پتھر اور ہڈیاں وغیرہ استعمال کی جاتی تھیں جس سے آپ نے منع فرمایا.جیسا کہ پہلے حضرت علی کے ضمن میں ذکر ہو چکا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میری تلوار نے آج کمال کر دیا تو حضرت عاصم بن ثابت اور سہل بن حنیف کے بارے میں بھی آنحضرت صلی الیہ کم نے یہی فرمایا تھا کہ ان کی تلواروں نے بھی آج کمال کیا ہے.جب حضرت علی کی بیعت کی گئی تب بھی سہل جو تھے وہ ان کے ساتھ تھے.جب حضرت علی بھیرہ کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت سہل کو اپنا قائمقام مقرر فرمایا.آپ حضرت علی کے ساتھ جنگ صفین میں شامل ہوئے.حضرت علی نے آپ کو بلا د فارس کا والی مقرر فرمایا لیکن وہاں کے لوگوں نے آپ کو نکال دیا جس پر حضرت علی نے حضرت زیاد کو بھیجا جن سے اہل فارس راضی ہوئے اور مصالحت کی اور خراج ادا کیا.نکال اس لئے نہیں دیا تھا کہ نعوذ باللہ آپ کوئی غلط کام رہے تھے بلکہ مختلف طبائع ہوتی ہیں.ہر ایک انسان کی مختلف خصوصیات ہوتی ہیں اس لحاظ سے حضرت زیاد اہل فارس کو بہتر رنگ میں قابو کر سکے اور پھر ان سے مصالحت بھی ہو گئی اور خراج و غیرہ بھی وصول کیا.1276 وفات اور نماز جنازہ پر حضرت علی نے چھ تکبیرات کہیں کہ بدری صحابی تھے حضرت سہل بن حنیف کی وفات جنگ صفین سے واپسی پر کوفہ میں 38 ہجری میں ہوئی.آپ کی نماز جنازہ حضرت علی نے پڑھائی.

Page 579

اصحاب بدر جلد 4 563 حضرت حنش بن مُغتر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سہل بن حنیف کی وفات ہوئی تو حضرت علی آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے میدان میں تشریف لائے.حضرت علی نے نماز جنازہ میں چھ تکبیرات کہیں.یہ بات کچھ لوگوں کو ناگوار گزری.اس پر آپ نے لوگوں کو کہا کہ حضرت سہل بدری صحابی ہیں.جب ان کا جنازہ جبّانَہ کے مقام پر پہنچا تو حضرت قَرَظَه بن کعب اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ہمیں ملے.انہوں نے حضرت علی کی خدمت میں عرض کیا کہ یا امیر المومنین ! ہم حضرت سہل کی نماز جنازہ میں شامل نہیں ہو سکے تھے.اس پر حضرت علی نے انہیں آپ کی نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت دی.نماز پس انہوں نے حضرت قرظہ کی امامت میں حضرت سہل کی نماز جنازہ ادا کی.1277 حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سو اونٹ اور اونٹنیاں اور دو گھوڑے تھے ان میں سے ایک پر حضرت مقداد بن اسود سوار تھے اور دوسرے پر حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت سہل بن حنیف تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ راستے میں ان اونٹنیوں پر باری باری سوار ہوتے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی اور حضرت مرید بن ابی مرتنقید عنوٹی جو حضرت حمزہ بن عبد المطلب کے حلیف تھے یہ سب باری باری ایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے.1278 احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہنے والوں میں حضرت سہل بن حنیف کا بھی ذکر ملتا ہے.یسیر بن عمرو سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں حضرت سہل بن حنیف کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو فرقہ حروریہ یعنی خارجی کے متعلق آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو.انہوں نے فرمایا کہ میں تم سے صرف اتنا بیان کرتا ہوں کہ جو میں نے سنا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کروں گا.میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک قوم کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جو یہاں سے نکلے گی اور انہوں نے عراق کی طرف اشارہ کیا.وہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا.وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے.راوی کہتے ہیں میں نے اس سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوئی علامت بھی ذکر فرمائی ہے.تو انہوں نے جواب دیا میں نے جو سنا تھا وہ یہی ہے.میں نے اس سے زیادہ تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا.1279 جو بات سنی تھی وہ بتادی اب خود اندازہ لگالو.عمیر بن سعید سے مروی ہے کہ حضرت علی نے حضرت سہل بن حنیف کی نماز جنازہ پڑھی اور اس پر پانچ تکبیریں کہیں.لوگوں نے کہا کہ یہ کیسی تکبیر ہے ؟ حضرت علی نے فرمایا کہ یہ سہل بن حنیف ہیں

Page 580

اصحاب بدر جلد 4 564 جو اہل بدر میں سے ہیں اور اہل بدر کو غیر اہل بدر پر فضیلت ہے.میں نے چاہا کہ تمہیں ان کی فضیلت سے آگاہ کر دوں.1280 زائد تکبیریں پڑھ کے.1281 156 حضرت سہل بن ٹھیک حضرت سهل بن عتيك " ان کا نام سھیل بھی بیان کیا جاتا ہے.ان کی والدہ کا نام جمیلہ بنتِ عَلْقَمَہ تھا.حضرت سَهْل بن عتيك ستر انصار کے ساتھ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے.آپ نے غزوہ بدر اور احد میں شامل ہونے کی سعادت پائی.32 1282 157 نام و نسب حضرت سہل بن قیس حضرت سهل بن قیس.ان کی والدہ کا نام نائلہ بنت سلامہ تھا اور مشہور شاعر حضرت کعب بن مالک کے آپ چچازاد بھائی تھے.سہل نے غزوہ بدر اور احد میں شرکت کی اور غزوہ احد میں جام شہادت نوش کیا.1283 شہدائے احد کی فضیلت آنحضرت صلی علیم ہر سال شہدائے احد کی قبروں کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے.جب آپ اس گھائی میں داخل ہوتے تو بلند آواز سے فرماتے : السَّلَامُ عَلَيْكُمْ بمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى اللار سورہ رعد کی آیت ہے.وہاں السّلامُ عَلَيْكُمْ کی بجائے سلم عَلَيْكُم (الرعد:28 سے شروع ہوتی ہے کہ سلام ہو تم پر بسبب اس کے جو تم نے صبر السَّلَامُ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّار.پس کیا ہی اچھا ہے ، اس گھر کا انجام.آنحضرت صلی علیکم کے بعد حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان نے بھی اسی روایت کو جاری رکھا.پھر حضرت معاویہ بھی جب حج یا عمرہ کے لئے آتے تو شہدائے احد کی قبروں کی زیارت کے لئے جاتے.آنحضرت صل اللل

Page 581

اصحاب بدر جلد 4 565 فرمایا کرتے تھے کہ لیت آنِّي عُوَ دِرْتُ مَعَ اَصْحَابِ الْجَبَلِ کہ اے کاش! میں ان پہاڑ والوں کے ساتھ ہو جاتا یعنی مجھے بھی اس دن شہادت عطا ہوتی.اسی طرح جب حضرت سعد بن ابی وقاص غابتہ جو کہ مدینہ کے شمال مغرب میں واقعہ ایک گاؤں ہے، اپنی جائیدادوں پر جاتے تو شہدائے احد کی قبروں کی زیارت کرتے.تین مرتبہ انہیں سلام کہتے.پھر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑتے اور انہیں کہتے کہ کیا تم ان لوگوں پر سلامتی نہیں بھیجو گے جو تمہارے سلام کا جواب دیں گے.جو بھی انہیں سلام کہے گا یہ قیامت کے دن اس کے سلام کا جواب دیں گے.ایک مرتبہ آنحضرت صلی علیکم حضرت مصعب بن عمیر کی قبر کے پاس سے گزرے تو وہاں رک کر دعا کی اور اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (احزاب:24) کہ مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا اسے سچا کر دکھایا.مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالُ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ پس ان میں سے وہ بھی ہیں جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے ہر گز اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی.پھر آپ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک شہید ہوں گے.تم ان کے پاس آیا کرو.ان کی زیارت کیا کرو اور ان پر سلامتی بھیجا کرو.قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے قیامت کے دن تک جو بھی ان پر سلامتی بھیجے گا یہ اس کا جواب دیں گے.آنحضرت صلی ال نیلم کے صحابہ یہاں آتے ان کے لئے دعا کرتے اور سلامتی بھیجا کرتے.1284 حضرت سهل بن قیس کی بہنیں حضرت شخصی اور حضرت محمرہ بھی آنحضرت صلی علیہ ظلم پر ایمان لائیں اور آپ کی بیعت سے فیضیاب ہوئیں.15 1285 158 حضرت سہیل بن رافع ”حضرت سُھیل اور ان کے بھائی وہ خوش قسمت تھے جن کو اسلام کے اس عظیم مرکز میں اپنی زمین پیش کرنے کی توفیق ملی.“ حضرت سهيل بن رافع حضرت سهیل کا تعلق قبیلہ بنو نجار سے تھا.وہ زمین جس پر مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی ہے وہ آپ اور آپ کے بھائی حضرت سھیل کی ملکیت تھی.آپ کی والدہ کا نام زغيبه

Page 582

ناب بدر جلد 4 566 بنت سھل تھا.حضرت سہیل غزوہ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیم کے ہمراہ شامل ہوئے اور حضرت عمر کے دورِ خلافت میں آپ کی وفات ہوئی.نبی ملیالم کا ہجرت مدینہ اور قیام 1286 آنحضرت صلی اللہ نام کی ہجرت مدینہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے جو تحریر فرمایا ہے پیش کرتا ہوں.آپ لکھتے ہیں کہ جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے، ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپ اس کے گھر میں ٹھہریں.جس جس گلی میں آپ کی اونٹنی گزرتی تھی اس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی علیکم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے یا رسول اللہ ایہ ہمارا گھر ہے اور یہ ہمارا مال ہے اور یہ ہماری جانیں ہیں جو آپ کی خدمت کے لیے ہیں حاضر ہیں.یارسول اللہ ! اور ہم آپ کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں.آپ ہمارے ہی پاس ٹھہریں.بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تاکہ آپ کو اپنے گھر میں اتروالیں مگر آپ ہر ایک شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے." ( جو اس کو حکم ہو گا.یہی سمجھو کہ جہاں اللہ تعالیٰ چاہے گا وہاں یہ بیٹھ جائے گی یہ وہیں کھڑی ہو گی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہوا.آخر مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جاکر اونٹنی ٹھہر گئی.آپ نے فرما یا خد اتعالیٰ کا یہی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہریں.پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے ؟ زمین کچھ یتیموں کی تھی.ان کا ولی آگے بڑھا اور اس نے کہا کہ یارسول اللہ ! یہ فلاں فلاں یتیم کی زمین ہے اور آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے.آپ نے فرمایا ہم کسی کا مال مفت نہیں لے سکتے.آخر اس کی قیمت مقرر کی گئی اور آپ نے اس جگہ پر مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا."1287 مسجد نبوی کی تعمیر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کی تفصیل سیرت خاتم النبیین میں کچھ اس طرح لکھی ہے کہ مدینہ کے قیام کا سب سے پہلا کام مسجد نبوی کی تعمیر تھا جس جگہ آپ کی اونٹنی آکر بیٹھی تھی وہ مدینہ کے دو مسلمان بچوں سھیل اور شھیل کی ملکیت تھی جو حضرت اسعد بن زرارة کی نگرانی میں رہتے تھے.یہ ایک افتادہ جگہ تھی." یعنی بالکل بنجر ، غیر آباد جگہ تھی.جس کے ایک حصہ میں کہیں کہیں کھجوروں کے درخت تھے." اکاڈ کا درخت لگے ہوئے تھے." اور دوسرے حصہ میں کچھ کھنڈرات وغیرہ تھے." گرے ہوئے مکان تھے ، کھنڈر تھے." آنحضرت صلی علی کرم نے اسے مسجد اور اپنے حجرات کی تعمیر کے لیے پسند فرمایا اور دس دینار میں یہ زمین خرید لی گئی اور جگہ کو ہموار ر کر کے اور درختوں کو کاٹ کر مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہو گئی." 1288"

Page 583

ناب بدر جلد 4 567 1289 ایک روایت کے مطابق اس زمین کی یہ جور تم تھی حضرت ابو بکر صدیق نے ادا کی تھی.پھر لکھتے ہیں کہ جگہ کو ہموار کر کے اور درختوں کو کاٹ کر مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہو گئی.آنحضرت صلی الم نے خود دعا مانگتے ہوئے سنگ بنیاد رکھا اور جیسا کہ قبا کی مسجد میں ہوا تھا صحابہ نے معماروں اور مزدوروں کا کام کیا جس میں کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علم خود بھی شرکت فرماتے تھے.بعض اوقات اینٹیں اٹھاتے صحابہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ انصاری کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ : هَذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَيْبَر هَذَا أَبَرُ رَبَّنَا وَأَظْهَرُ یعنی یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں ہے جو جانوروں پر لد کر آیا کرتا ہے.بلکہ اے ہمارے مولی ! یہ بوجھ تقویٰ اور طہارت کا بوجھ ہے جو ہم تیری رضا کے لیے اٹھاتے ہیں.اور کبھی کبھی صحابہ کام کرتے ہوئے عبد اللہ بن رواحہ کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ فَارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَة اللَّهُمَّ اِنَّ الْأَجْرَ أَجْرُ الْآخِرَة یعنی اے ہمارے اللہ ! اصل اجر تو صرف آخرت کا اجر ہے پس تو اپنے فضل سے انصار اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما.جب صحابہ یہ شعر پڑھتے تھے یا اشعار پڑھتے تھے تو بعض اوقات آنحضرت صلی الیم بھی ان کی آواز کے ساتھ آواز ملادیتے تھے اور اس طرح ایک لمبے عرصہ کی محنت کے بعد یہ مسجد مکمل ہوئی.مسجد کی عمارت پتھروں کی سلوں اور اینٹوں کی تھی جو لکڑی کے کھمبوں کے درمیان چنی گئی تھی.اس زمانے میں مضبوط عمارت کے لیے یہ رواج تھا کہ لکڑی کے بلاک کھڑے کر کے، کھمبے بنا کر یا pillar بنا کر اس کے اندر یہ اینٹیں اور مٹی کی دیوار میں لگائی جاتی تھیں تاکہ مضبوطی قائم رہے.یہ اس کا سٹرکچر (stricture) ہو تا تھا اور چھت پر کھجور اور تنے اور شاخیں ڈالی گئیں تھیں.مسجد کے اندر چھت کے سہارے کے لیے کھجور کے ستون تھے اور جب تک منبر کی تجویز نہیں ہوئی، وہ منبر جہاں کھڑے ہو کر آنحضرت صلی ال یکم خطبہ دیا کرتے تھے انہی ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علم خطبہ کے وقت ٹیک لگا کر کھڑے ہو جاتے تھے.مسجد کا فرش کچا تھا اور چونکہ زیادہ بارش کے وقت چھت ٹیکنے لگتی تھی اس لیے ایسے اوقات میں فرش پر کیچڑ ہو جاتا تھا.چنانچہ اس تکلیف کو دیکھ کر بعد میں کنکریوں کا فرش بنوا دیا گیا.چھوٹے چھوٹے پتھر وہاں ڈالے گئے.شروع شروع میں مسجد کا رخ بیت المقدس کی طرف رکھا گیا تھا لیکن تحویل قبلہ کے وقت یہ رخ بدل دیا گیا.مسجد کی بلندی یعنی height اس وقت دس فٹ تھی.(چھت دس فٹ اونچی تھی) اور طول ایک سو پانچ فٹ.(لمبائی ایک سو پانچ فٹ تھی) اور عرض 90 فٹ کے قریب تھا.( چوڑائی جو تھی نوے فٹ تھی لیکن بعد میں اس کی توسیع کر دی گئی.یہ بھی جو 105 فٹ اور 90 فٹ کا رقبہ بنتا ہے یہ تقریباً پندرہ سولہ سو نمازیوں کے لیے جگہ بنتی ہے.مسجد کے ایک گوشے میں ایک چھت دار چبوترا بنایا گیا تھا جسے صفہ کہتے تھے.یہ ان غریب

Page 584

اصحاب بدر جلد 4 568 مہاجرین کے لیے تھا جو بے گھر بار تھے ، جن کا کوئی گھر نہیں ہوتا تھا.یہ لوگ یہیں رہتے تھے اور اصحاب الصفہ کہلاتے تھے.ان کا کام گویا دن رات آنحضرت صلی اللہ کم کی صحبت میں رہنا، عبادت کرنا اور قرآن شریف کی تلاوت کرنا تھا.ان لوگوں کا کوئی مستقل ذریعہ معاش نہ تھا.آنحضرت صلی علیہ یکم خود ان کی خبر گیری فرماتے تھے اور جب کبھی آپ کے پاس کوئی ہدیہ وغیرہ آتا تھا یا گھر میں کچھ ہو تا تھا تو ان کا حصہ ضرور نکالتے تھے.ان لوگوں کا کھانا پینا اکثر آنحضرت صلی یی کم کیا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ نام خود فاقہ کرتے اور جو کچھ گھر میں ہو تا تھا وہ اصحاب الصفہ کو بھجوا دیتے تھے.انصار بھی ان لوگوں کی مہمان نوازی میں حتی المقدور مصروف رہتے تھے اور ان کے لیے کھجوروں کے خوشے لالا کر مسجد میں لٹکا دیا کرتے تھے.لیکن اس کے باوجود ان کی حالت تنگ رہتی تھی اور بسا اوقات فاقے تک نوبت پہنچ جاتی تھی اور یہ حالت کئی سال تک جاری رہی حتی کہ کچھ تو مدینہ کی آبادی کی وسعت کے نتیجہ میں ان لوگوں کے لیے کام نکل آیا مزدوری وغیرہ ملنے لگ گئی اور کچھ قومی بیت المال سے امداد کی صورت پیدا ہو گئی.حالات بہتر ہوئے تو ان کی مدد ہونے لگ گئی.مسجد کے ساتھ ملحق طور پر آنحضرت صلی للی کم کے لیے رہائشی مکان تیار کیا گیا تھا.مکان کیا تھا ایک دس پندرہ فٹ کا چھوٹا سا حجرہ تھا اور اس حجرے اور مسجد کے درمیان ایک دروازہ رکھا گیا تھا جس میں سے گزر کر آپ نماز وغیرہ کے لیے مسجد میں تشریف لاتے تھے.جب آپ صلی نمیریم نے اور شادیاں کیں تو اسی حجرے کے ساتھ دوسرے حجرات بھی تیار ہوتے گئے اور مسجد کے آس پاس بعض اور صحابہ کے مکانات بھی تیار ہو گئے.یہ تھی مسجد نبوی جو مدینہ میں تیار ہوئی اور اس زمانہ میں چونکہ اور کوئی پبلک عمارت ایسی نہیں تھی جہاں قومی کام سر انجام دیے جاتے.اس لیے ایوانِ حکومت کا کام بھی یہی مسجد دیتی تھی.یہی دفتر تھا.یہی حکومت کا پورا سیکر ٹریٹ (secretariat) تھا.یہیں آنحضرت صلی الی یکم کی مجلس لگتی تھی.یہیں تمام قسم کے مشورے ہوتے تھے.یہیں مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا تھا.یہیں سے احکامات صادر ہوتے تھے.یہی قومی مہمان خانہ تھا یعنی جو مہمان خانہ تھا وہ بھی یہی مسجد ہی تھا.اور ہر قومی کام جو تھا وہ اسی مسجد میں سر انجام دیا جا تا تھا.اور ضرورت ہوتی تھی تو اسی سے جنگی قیدیوں کا جبس گاہ کا کام بھی لیا جا تا تھا.یعنی یہیں مسجد میں جنگی قیدی بھی رکھے جاتے تھے اور بہت سارے قیدی ایسے بھی تھے جب مسلمانوں کو عبادت کرتے اور آپس کی محبت اور پیار دیکھتے تو ان میں سے پھر مسلمان بھی ہوئے.مسجد نبوی اور سرولئیم میور بہر حال اس کے بارے میں سرولیم میور بھی ذکر کرتا ہے جو ایک مستشرق ہے اور اسلام کے خلاف بھی اور آنحضرت صلی الیہ کے خلاف بھی کافی لکھتا ہے ، لیکن وہ یہاں اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ گو یہ مسجد سامان تعمیر کے لحاظ سے نہایت سادہ اور معمولی تھی لیکن محمد علی ای نیم کی یہ مسجد اسلامی تاریخ میں ایک خاص شان رکھتی ہے.رسول خدا اور ان کے اصحاب اسی مسجد میں اپنے وقت کا بیشتر

Page 585

صحاب بدر جلد 4 569 حصہ گزارتے تھے.یہیں اسلامی نماز کا باقاعدہ باجماعت صورت میں آغاز ہوا.یہیں تمام مسلمان جمعہ کے دن خدا کی تازہ وحی کو سننے کے لیے مؤدبانہ اور مرعوب حالت میں جمع ہوتے تھے.یہیں محمد صلی علیکم اپنی فتوحات کی تجاویز پختہ کیا کرتے تھے.یہی وہ ایوان تھا جہاں مفتوح اور تائب قبائل کے وفودان کے سامنے پیش ہوتے تھے.یہی وہ دربار تھا جہاں سے وہ شاہی احکام جاری کیے جاتے تھے جو عرب کے دور دراز کونوں تک باغیوں کو خوف سے لرزا دیتے تھے اور بالآخر اسی مسجد کے پاس اپنی بیوی عائشہ کے حجرے میں محمد صلی اللہ ہم نے اپنی جان دی اور اسی جگہ اپنے دو خلیفوں کے پہلو بہ پہلو مدفون ہیں.یہ مسجد اور اس کے ساتھ کے حجرے کم و بیش سات ماہ کے عرصہ میں تیار ہو گئے اور آنحضرت صلی للی نیم اپنے نئے مکان میں اپنی بیوی حضرت سودہ کے ساتھ تشریف لے گئے.بعض دوسرے مہاجرین نے بھی انصار سے زمین حاصل کر کے مسجد کے آس پاس مکانات تیار کر لیے اور جنہیں مسجد کے قریب زمین نہیں مل سکی انہوں نے دور دور مکان بنا لیے اور بعض کو انصار کی طرف سے بنے بنائے مکان مل گئے.1290 بہر حال حضرت سھیل اور ان کے بھائی وہ خوش قسمت تھے جن کو اسلام کے اس عظیم مرکز میں اپنی زمین پیش کرنے کی توفیق ملی 1 1291 159 حضرت سہیل بن وہب ย جنگ بدر میں اپنے بھائی کے ساتھ شریک ہونے والے حضرت سہیل بن وہب ہیں.ان کا نام حضرت سہیل بن وہب بن ربیعہ بن عمرو بن عامر قریشی تھا.ان کی والدہ کا نام دعد تھا مگر وہ بیضاء کے نام سے مشہور تھیں.اس لئے آپ بھی ابن بیضاء کے نام سے مشہور ہوئے.چنانچہ کتب میں آپ کا نام سہیل بن بیضاء بھی ملتا ہے.ان کا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بنو فھر سے تھا.1292 حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت ابتدائی زمانے میں یہ اسلام لائے.اسلام لانے کے بعد حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے.وہاں عرصہ تک مقیم رہے.جب اسلام کی اعلانیہ تبلیغ ہونے لگی تو مکہ واپس آگئے اور پھر آنحضرت صلی ال نیم کے بعد مدینہ گئے.1293

Page 586

تاب بدر جلد 4 ہوئے.570 حضرت سہیل کے ساتھ ان کے دوسرے بھائی حضرت صفوان بن بیضاء بھی غزوہ بدر میں شامل 1294 تمام غزوات میں شامل جب آپ غزوہ بدر میں شامل ہوئے اس وقت آپ کی عمر 34 سال تھی.غزوہ احد اور خندق اور تمام غزوات میں آنحضرت صلی علیم کے ہمراہ تھے.ان کے تیسرے بھائی سہل مشرکین کی طرف سے غزوہ بدر میں شامل ہوئے.رسول اللہ صلی الم نے ان کا نماز جنازہ مسجد نبوی میں ادا کیا علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ سہل مکہ میں اسلام لائے لیکن کسی سے اپنا مسلمان ہونا ظاہر نہیں کیا.قریش انہیں بدر میں ساتھ لے گئے اور پھر وہ گرفتار ہوئے تو حضرت ابن مسعود نے ان کے بارے میں گواہی دی کہ میں نے انہیں مکہ میں نماز پڑھتے دیکھا ہے.اس پر وہ آزاد کر دیئے گئے پھر مدینہ میں ان کی وفات ہوئی اور آپ کا اور حضرت سہیل کا جنازہ رسول کریم صلی علیکم نے مسجد میں پڑھایا.نبی اکرم صلی ای کمی کی سواری پر پیچھے بیٹھنے کی سعادت حضرت سہیل بن بیضاء روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ یکم نے غزوہ تبوک کے سفر میں انہیں سواری پر پیچھے بٹھایا ہوا تھا.وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم نے بلند آواز سے فرمایا اے سہیل ! اور آنحضرت صلی للی کم نے تین مرتبہ یوں فرمایا تو ہر مرتبہ حضرت سہیل نے عرض کیا لبیک یارسول اللہ.یہاں تک کہ لوگوں نے بھی جان لیا کہ رسول اللہ صلی علیکم کی ان سے مراد ہے.اس پر جو لوگ آگے تھے وہ آپ کی طرف لیکے اور جو پیچھے تھے وہ بھی آپ کے قریب ہو گئے.یہ بھی لوگوں کو بلانے کا، متوجہ کرنے کا انداز تھا.جب لوگ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی الل ولم نے فرمایا کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں تو ایسے شخص پر اللہ آگ کو حرام کر دے گا.1295 اب یہ تاریخ کی کتاب ہے اور یہ مسلمان پڑھتے ہیں کہ یہ مسلمان ہونے کی بھی ایک تعریف ہے لیکن ان کے معمل اس کے خلاف نہیں اور اس بات پر جو ان کے فتوے ہیں وہ بھی ان باتوں کے خلاف ہیں.حرمت شراب کا اعلان اور والہانہ لبیک و اطاعت حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی شراب نہ ہوتی تھی سوائے تمہاری فضیخ یعنی کھجور کی شراب کے.یہی وہ شراب تھی جس کو تم فضیخ کہتے ہو.کہتے ہیں میں ایک دفعہ کھڑا ابو طلحہ اور فلاں فلاں کو شراب پلا رہا تھا کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کیا تمہیں خبر پہنچی ہے ؟ کہنے لگا کیا خبر ؟ اس نے کہا کہ شراب حرام کی گئی ہے.وہ لوگ جن کو یہ شراب پلا رہے تھے حضرت انس کو کہنے

Page 587

اصحاب بدر جلد 4 571 لگے کہ انس یہ منکے انڈیل دو.کہتے تھے پھر انہوں نے اس شخص کی خبر دینے کے بعد اس شراب سے متعلق پوچھا اور نہ کبھی اس کو دوبارہ پیا.1296 ایک حکم آیا اور اس کے بعد ایسی اطاعت تھی کہ دوبارہ پھر اس شراب کا ذکر بھی نہیں ہوا.ایک دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت ابو طلحہ کے ساتھ حضرت ابو دجانہ اور حضرت سہیل بن بیضاء تھے جو اس وقت شراب پی رہے تھے.1297 غزوہ تبوک سے واپسی پر 9 ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور ان کی نماز جنازہ آنحضرت صلی ا ہم نے مسجد نبوی میں پڑھائی اور وفات کے وقت ان کی کوئی اولاد نہیں تھی.حضرت سعد کا مسجد نبوی میں جنازہ اور اعتراض پر جواب 1298 حضرت عباد بن عبد اللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کا جنازہ مسجد سے گزارا جائے یعنی کہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی ان کی نماز جنازہ پڑھ لیں.لوگوں نے حضرت عائشہ کی اس بات کو اوپر جانا کہ یہ عجیب بات کر رہی ہیں تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ لوگ کتنی جلدی بھول جاتے ہیں.رسول اللہ صلی اللی کرم نے حضرت سہیل بن بیضاء کی نماز جنازہ مسجد میں ہی پڑھی تھی.1299 ان کا خیال تھا کہ کھلی جگہ پر پڑھنی چاہئے تو اس کی اصلاح حضرت عائشہ نے فرمائی کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے.1300 160 حضرت سواد بن رزن حضرت سواد بن رزن انصاری ایک صحابی ہیں.ان کا نام سواد بن رزن تھا اور بعض روایات میں آپ کا نام اسود بن رزن اور سواد بن زُریق بھی بیان ہوا ہے.یہ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے.1301

Page 588

572 161 صحاب بدر جلد 4 حضرت سواد بن غزية حضرت سَوَادُ بن غزيه رضی اللہ تعالیٰ عنہ.یہ بھی انصاری تھے.ان کا ذکر بھی آتا ہے.ان کا تعلق قبیلہ بنو عدی بن نجار سے تھا.غزوہ بدر اور اُحد اور خندق اور اس کے بعد کے غزوات میں شریک ہوئے.غزوہ بدر میں انہوں نے خالد بن ہشام مخزومی کو قید کیا تھا.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضور صلی ا ہم نے آپ کو خیبر کا عامل بنا کر بھیجا تھا.آپ وہاں سے عمدہ کھجوریں لے کر آئے.نبی کریم صلی الی کلم نے ان سے ایک صاع عمدہ کھجور میں دو صاع عام کھجوروں کے بدلے میں خریدیں.آنحضور صلی علی یم کو کھجوریں پسند آئیں تو آپ نے اس کی جو موجودہ قیمت تھی وہ کھجوروں کے مقابلے میں کھجوریں دے کر خرید لیں.حضرت سواد کی خوش بختی اور محبت رسول صلی اللہ نام کا ایک ذکر 1302 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرت خاتم النبیین میں غزوہ بدر کے واقعات میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت سواد کی خوش بختی اور محبت رسول صلی علیہ کم کا ایک ذکر ملتا ہے.رمضان دو ہجری کی سترہ تاریخ جمعہ کا دن تھا.عیسوی حساب سے 14 مارچ 623 عیسوی تھی.صبح اٹھ کر سب سے پہلے نماز ادا کی گئی اور پھر پرستاران احدیت کھلے میدان میں خدائے واحد کے حضور سربسجود ہوئے.اس کے بعد آنحضرت صلی الیم نے جہاد پر ایک خطبہ فرمایا.پھر جب ذرا روشنی ہوئی تو آپ نے ایک تیر کے اشارے سے مسلمانوں کی صفوں کو درست کر ناشروع کیا.ایک صحابی سواد نامی صف سے کچھ آگے نکل کے کھڑ ا تھا.آپ نے اسے تیر کے اشارے سے پیچھے ہٹنے کو کہا مگر اتفاق سے آپ کے تیر کی لکڑی اس کے سینے پہ جا لگی.اس نے جرات کے انداز سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کو خدا نے حق و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے.یہ عجیب واقعہ ہے کہ تیر سے لائنیں سیدھی کر رہے تھے تو تیر کی لکڑی لائن سے باہر نکلے اس کے سینے پر لگ گئی.اس نے بڑی جرآت سے کہا کہ آپ کو خدا نے حق و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے مگر آپ نے مجھے ناحق تیر مارا ہے.واللہ میں تو اس کا بدلہ لوں گا.اس پر صحابہ بڑے حیران پریشان انگشت بدنداں تھے کہ سواد کو کیا ہو گیا ہے.مگر آنحضرت صلی اللہ نیلم نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ اچھا سواد میں نے تمہیں مارا ہے تو تم بھی مجھے تیر مار لو.آپ نے اپنے سینے سے کپڑا اٹھا دیا.سواد نے فرط محبت سے آگے بڑھ کر آپ کا سینہ چوم لیا.آنحضرت علی یم نے مسکراتے ہوئے پوچھا.سو اد ا یہ تمہیں کیا سو جھی؟ اس نے رفت بھری آواز میں

Page 589

تاب بدر جلد 4 573 عرض کیا کہ یارسول اللہ دشمن سامنے ہے.کچھ خبر نہیں کہ یہاں سے بچ کے جانا بھی ملتا ہے یا نہیں.میں نے چاہا کہ شہادت سے پہلے آپ کے جسم مبارک سے اپنا جسم چھو لوں اور پیار کروں.اس پر آنحضرت صلى ال عالم نے آپ کے لئے بھلائی کی دعا کی.13 1303 162) نام و نسب حضرت سُوَيْبَط بن سعد رض حضرت سُوَيْبَط بن سعد - آپ کو سُوَيْبَط بن حرملہ بھی کہا جاتا ہے.آپ کا نام سویط بن حَرملہ اور سلیط بن حرملہ بھی بیان کیا گیا ہے.حضرت سُوَيْبَط کا تعلق قبیلہ بنو عبد دار سے تھا.ان کی والدہ کا نام هُنَیدَہ تھا.آپ ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھے.اکثر سیرت نگاروں نے آپ کو مہاجرین حبشہ میں شامل کیا ہے.ہجرت مدینہ رض 1304 حضرت سويبط نے مدینہ کی طرف ہجرت کی.ہجرت کے بعد آپ نے حضرت عبد اللہ بن سلمہ عجلانی کے گھر قیام کیا.رسول اللہ صلی علی یم نے حضرت سُوَيْبَط اور حضرت عَائِد بن مَاعِض کے درمیان عقد رض مؤاخات قائم فرمایا تھا.حضرت سُونبَط نے غزوہ بدر اور غزوہ احد میں بھی شرکت کی.1305 ایک ظریفانہ واقعہ جس سے نبی اکرم صلی کم خوب محظوظ ہوئے حضرت ام سلمه "بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر نبی کریم صلی ایم کی وفات سے ایک سال قبل بضری، ملک شام کا ایک علاقہ اس کی طرف تجارت کے لیے گئے تھے.ان کے ساتھ نعیمان اور سُوَيْبَط بن حرملة " نے بھی سفر کیا اور یہ دونوں جنگ بدر میں بھی موجود تھے.نعیمان زاد راہ پر متعین تھے.سويبط کی طبیعت میں ظرافت تھی.اس نے نُعمان سے کہا کہ مجھے کھانا کھلاؤ.جو زاد راہ تھا، سامان تھا اس کے نگران تھے.قافلے کا کھانے پینے کا انتظام ان کے سپر د تھا.انہوں نے جواب دیا کہ جب تک حضرت ابو بکر نہیں آئیں گے میں کھانا نہیں دوں گا.انہوں نے ان سے کہا اگر تم مجھے کھانا نہیں دو گے تو میں تمہیں غصہ دلاؤں گا.یہ واقعہ پہلے بھی میں نے مختصر بیان کیا تھا.جب یہ جارہے تھے تو اس دوران

Page 590

تاب بدر جلد 4 574 میں حضرت سُوَيْبَط ایک قوم کے پاس سے گزرے تو سویبَط نے ان سے کہا کیا تم مجھ سے میرا ایک غلام خرید و گے ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں.سُوَیبَط نے اس قبیلے والوں کو کہا کہ وہ غلام بولنے والا ہے یاد رکھنا.اور یہی کہتا رہے گا کہ میں آزاد ہوں.جب تمہیں وہ یہ بات کہے تو تم اس کو چھوڑ کر میرے غلام کو میرے لیے خراب نہ کرنا.انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ ہم اسے تجھ سے خریدنا چاہتے ہیں.تو انہوں نے دس اونٹنیوں کے عوض اس غلام کو خرید لیا.پھر وہ لوگ حضرت نعیمان کے پاس آئے اور ان کے گلے میں پگڑی یارسی ڈالی.نعیمان بولے کہ یہ شخص تم سے مذاق کر رہا ہے.میں آزاد ہوں غلام نہیں.لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اس نے تمہارے بارے میں پہلے ہی ہمیں بتادیا تھا کہ تم یہی کہو گے اور وہ پکڑ کے لے گئے.جب حضرت ابو بکر واپس آئے اور لوگوں نے اس کے متعلق آپ کو بتایا تو آپ ان لوگوں کے پیچھے گئے اور ان کو ان کی اونٹنیاں واپس دیں اور نعیمان کو واپس لیا.واپس لے آئے اور کہا یہ آزاد ہے غلام نہیں ہے.انہوں نے مذاق کیا تھا.اس طرح کے مذاق بھی صحابہ میں چلتے تھے.بہر حال جب یہ لوگ واپس پہنچے، نبی کریم صلی علیکم کے پاس آئے تو آپ کو بتایا تو راوی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ملی امی اور آپ کے صحابہ ایک سال تک اس سے حظ اٹھاتے رہے.آنحضرت صلی علیکم بھی اس بات پر خوب ہنسے اور ایک سال تک لطیفہ مشہور رہا.بہر حال مندرجہ بالا واقعہ ایک فرق کے ساتھ بعض کتب میں اس طرح بھی ملتا ہے.لکھا ہے کہ فروخت کرنے والے حضرت سُوَيْبَط نہیں بلکہ حضرت نعیمان تھے.1307 1306 163 حضرت شجاع بن وہب حضرت شجاع بن وہب جو وہب بن ربیعہ کے بیٹے تھے.ان کی وفات جنگ یمامہ میں ہوئی.آپ کو شجاع بن ابی وہب بھی کہا جاتا ہے.آپ کا خاندان بنو عبد شمس کا حلیف تھا.آپ طویل القامت پتلے جسم والے اور نہایت گھنے بالوں والے تھے.حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے حضرت شجاع کا شمار ان بزرگ صحابہ میں ہوتا ہے جنہوں نے ابتداء ہی میں آنحضرت صلی ا ہم کو لبيك کہا تھا.بعثت نبوی صلی الم کے چھ سال بعد حضور صلی للی یکم کے ایماء پر مہاجرین حبشہ کے دوسرے

Page 591

575 اصحاب بدر جلد 4 قافلہ میں شریک ہو کر حبشہ چلے گئے تھے.کچھ عرصہ بعد یہ افواہ سن کر کہ اہل مکہ مسلمان ہو گئے ہیں حضرت شجاع حبشہ سے واپس مکہ آگئے.کچھ مدت بعد حضور صلی علی ایم نے صحابہ کرام کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا تو آپ بھی اپنے بھائی عقبہ بن وہب کے ساتھ ارض مکہ کو خیر باد کہہ کر مدینہ چلے گئے.حضور صلی یکم نے حضرت اوس بن خولی کو حضرت شجاع کا دینی بھائی بنایا تھا.مؤاخات جو قائم کی نتھی اس میں حضرت شجاع کا بھائی بنایا تھا.حضرت شجاع بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں حضور صلی ال نیم کے ساتھ شامل رہے اور چالیس برس سے کچھ زائد عمر پا کر جنگ یمامہ میں شہادت پائی.نبی اکرم علی کا خط ریاست عنسان کے سربراہ کی طرف 1308 غزوہ حدیبیہ سے واپس آنے کے بعد آنحضرت صلی لی میم نے اکثر سلاطین عالم کو دعوت اسلام کے خطوط روانہ فرمائے تھے.حضرت عبد الرحمن سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم ایک روز منبر پر خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے.حمد وثنا کے بعد آپ صلی الم نے فرمایا میں تم میں سے بعض کو شاہان عجم کی طرف بھیجنا چاہتا ہوں.جو غیر عرب بادشاہ ہیں ان کی طرف بھیجنا چاہتا ہوں.تم مجھ سے اختلاف نہ کرنا جیسا بنی اسرائیل نے عیسی سے کیا تھا.تو مہاجرین نے عرض کیا یا رسول صلی یہ کم ہم آپ سے کبھی کچھ اختلاف نہ کریں گے آپ ہمیں بھجوائیے.309 چنانچہ جن صحابہ کو اس دینی فریضہ کے انجام دینے کی سعادت ملی ان میں حضرت شجاع بن وہب بھی شامل تھے.آپ صلی اہلیہ کلم نے حضرت شجاع کو حارث بن ابی شمر غسانی کی طرف جو دمشق کے قریب مقام غوطہ کارئیس تھا سفیر بنا کر بھیجا اور بعض کے نزدیک اس کا نام منذر بن حارث بن ابی شمر عنسانی تھا.بہر حال آپ نے تبلیغ کا جو خط بھیجا اس کے ابتدائی فقرے یہ تھے کہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) إِلَى الْحَارِثِ ابْنِ أَبِي شِمَر سَلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَآمَنَ بِاللَّهِ وَصَدَّقَ فَإِنِّي أَدْعُوكَ إِلَى أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ يَبْقَى لَكَ مُلْكُكَ.محمد رسول اللہ صلی علیکم کی طرف سے حارث بن ابی شمر کی طرف، سلامتی ہے اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے.اللہ پر ایمان لائے اور تصدیق کرے.بیشک میں تم کو اس خدا پر ایمان لانے کی دعوت 1310 دیتا ہوں جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.اسی صورت میں تمہاری سلطنت باقی رہے گی.عنسانی بادشاہ کے سیکیورٹی انچارج کا قبول اسلام اور نبی صلی کمی کی خدمت میں تحفہ اور سلام حضرت شجاع کہتے ہیں کہ میں خط لے کر روانہ ہوا یہاں تک کہ حارث بن ابی شمر کے محل کے دروازے پر پہنچا وہاں دو تین دن گزر گئے مگر دربار میں رسائی نہیں ہو سکی.آخر میں نے وہاں کا جو سیکیورٹی کا انچارج تھا اس سے کہا کہ میں رسول اللہ صلی علیکم کے ایچی کی حیثیت سے اس کے پاس آیا ہوں.تو اس نے کہا کہ یہ جو رئیس ہے وہ فلاں دن باہر آئیں گے اس سے پہلے تم ان سے کسی طرح نہیں مل

Page 592

بدر جلد 4 576 سکتے.شجاع کہتے ہیں کہ پھر وہی شخص مجھ سے رسول اللہ صلی علی یکم اور آپ صلی نیکی کی دعوت کے متعلق پوچھنے لگا.میں اسے تفصیلات بتاتا رہا جس سے اس کے دل پر بہت اثر ہوا اور وہ رونے لگا.یعنی وہ جو سیکیورٹی انچارج تھا اس علاقے کے بادشاہ یا گور نریار کیں کہہ لیں.پھر اس نے کہا کہ میں نے انجیل میں پڑھا تھا کہ اس نبی کی بالکل یہی تفصیلات اس میں موجود ہیں.مگر میں سمجھتا تھا کہ وہ سر زمین شام میں ظاہر ہوں گے مگر اب معلوم ہوا کہ وہ سر زمین قرظ یعنی یمن کے علاقہ میں ظاہر ہو چکے ہیں.بہر حال میں ان پر ایمان لاتا ہوں.وہ جو سیکیورٹی انچارج تھا اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں اور ان کی تصدیق کرتا ہوں.مجھے حارث بن ابی شمر سے ڈر لگتا ہے کہ وہ مجھے قتل کر دے گا.ساتھ اس بات کا اظہار بھی کیا کہ علاقے کا رئیس جو ہے وہ مجھے قتل کر دے گا.کہتے ہیں کہ اس کے بعد یہ پہریدار میری بہت عزت کرنے لگا اور بہتر سے بہتر انداز میں میری میزبانی کرتا.وہ مجھے حارث کے متعلق بھی اطلاعات دیتار ہتا اور اس کے متعلق مایوسی کا اظہار کرتا.کہتا کہ حارث بن ابی شمر اصل میں بادشاہ قیصر سے ڈرتا ہے کیونکہ یہ اسی کی حکومت میں تھا.آخر ایک دن حارث باہر نکلا اور دربار میں آکر بیٹھا.اس کے سر پر تاج تھا.پھر مجھے حاضری کی اجازت ملی.میں نے اس کے سامنے پہنچ کر آنحضرت صلی علیکم کا خط اس کے حوالے کیا.اس نے وہ خط پڑھا پھر اسے اٹھا کر پھینک دیا اور غضبناک ہو کر کہنے لگا.کون ہے جو مجھ سے میری سلطنت چھین سکے.میں خود اس کی طرف پیش قدمی کرتا ہوں چاہے وہ یمن میں ہی کیوں نہ ہو.میں وہاں اس کے پاس سزا دینے کے لئے پہنچوں گا.لوگ فوجی تیار کریں.اس نے اپنی انتظامیہ کو حکم دیا کہ تیار ہو.یعنی آنحضرت صلی اللی کام کے بارے میں یہ الفاظ کہے کہ میں جنگ کے لئے نکلوں گا اور جو خط لکھا ہے وہ دھمکی دی ہے کہ اگر تم باز نہ آئے تو تمہاری حکومت جاتی رہے گی.بہر حال کہتے ہیں اس کے بعد حارث بن ابی شمر رات تک وہیں بیٹھا رہا اور لوگ اس کے سامنے پیش ہوتے رہے.پھر اس نے گھڑ سواروں کو تیاری کا حکم دیا اور مجھ سے کہا کہ اپنے آقا سے یہاں کا سب حال بتا دینا.اس کے بعد اس نے قیصر شاہ روم کو آنحضرت صلی ال یکم کے خط کا سارا واقعہ لکھ کر بھجوایا.اپنا ایلچی بھجوایا اور یہی باتیں ساری لکھ کر بھجوائیں کہ اس طرح یہ نمائندہ مجھے اسلام کی تبلیغ کرنے آیا ہے.حارث بن ابی شمر کا یہ خط قیصر کے پاس اس وقت پہنچا جب آنحضرت صلی علیم کا خط حضرت دحیہ کلبی کے ہاتھ قیصر کو پہنچ گیا تھا.قیصر نے حارث کا خط پڑھ کر اسے لکھا کہ اس نبی پر حملے اور پیش قدمی کا خیال چھوڑ دو اور ان سے مت الجھو.بہر حال جب قیصر کا یہ جوابی خط حارث کے پاس پہنچا تو اس نے حضرت شجاع کو جو کہ اس وقت تک وہیں ٹھہرے ہوئے تھے بلوایا اور پوچھا کہ تم کب واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہو ؟ حضرت شجاع نے کہا کل.بادشاہ نے اسی وقت آپ کو سو مثقال سونا دلائے جانے کا حکم دیا اور وہ دربان آپ کے پاس آیا.وہی جو پہلے سیکیورٹی انچارج تھا ان کے پاس آیا اور اس نے خود کچھ روپیہ اور لباس دیا.پھر سیکیورٹی انچارج کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں میرا اسلام عرض کرنا اور بتانا کہ میں آپ صلی نیلم کے دین کا پیروکار بن چکا ہوں.حضرت شجاع کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب میں آنحضرت صلی نیلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی علیکم کو شاہ حارث کے متعلق سب حال بتایا.آپ نے تمام روداد سن کر فرمایا کہ تباہ ہو گیا یعنی اس

Page 593

اصحاب بدر جلد 4 577 سلطنت تباہ ہو گئی.پھر میں نے آپ صلی اللہ ہم کو اس کے محل کے دربان منڈی کا سلام پہنچایا اور اس نے جو کچھ کہا وہ سب کچھ بتلایا.آپ صلی الیم نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا.سیرۃ الحلبیہ میں یہ سارا واقعہ بیان ہے.1311 عنسانی قبائل کے حملوں کا خوف حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تاریخ کی مختلف کتابوں سے لے کر جو باتیں بیان کی ہیں اس میں سے جو چند زائد باتیں ہیں وہ یہ ہیں کہ آپ لکھتے ہیں کہ پانچواں تبلیغی خط ریاست غسان کے فرمانروا حارث بن ابی شمر کے نام لکھا گیا.غسان کی ریاست عرب کے ساتھ متصل جانب شمال واقع تھی اور اس کار میں قیصر کے ماتحت ہوا کرتا تھا.جب حضرت شجاع بن وہب وہاں پہنچے تو حارث اس وقت قیصر کی فتح کے جشن کے لئے تیاری کر رہا تھا.جو شاہ روم تھا اس کی فتح کا جشن تھا اس کے لئے وہاں کار کیس تیاری کر رہا تھا.حارث سے ملنے سے پہلے شجاع بن وہب اس کے دربان یعنی مہتم ملاقات سے ملے.وہ ایک اچھا آدمی تھا.اس نے شجاع کی زبانی آنحضرت صلی علی کم کی باتیں سن کر فی الجملہ ان کی تصدیق کی.بہر حال چند دن کے انتظار کے بعد وہی واقعہ بیان ہوا کہ شجاع بن وہب کو رئیس غسان کے دربار میں رسائی ہو گئی.انہوں نے آنحضرت صلی علیہ علم کا خط پیش کیا.حارث نے خط پڑھ کر غصہ سے پھینک دیا اور نہ صرف غصہ سے پھینک دیا بلکہ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے فوجوں کو حملہ کے لئے تیاری کا حکم دیا اور اس دوران اس نے قیصر کو بھی یہ خط بھیجا اور یہ بتایا کہ میں فوج کشی کرنے لگاہوں تو قیصر نے کہا کہ فوج کشی نہ کرو اور مجھے آکر دربار کی شرکت کے لئے ایلیاء یعنی بیت المقدس میں ملو.قیصر نے اس رئیس کو بلایا.بہر حال یہ تو معاملہ ان کا وہیں ختم ہو گیا.حدیث اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ مدینہ میں ایک عرصہ تک اس بات کا خوف رہا کہ غسانی قبائل مسلمانوں کے خلاف کب حملہ کرتے ہیں.کافی عرصہ تک یہ خوف رہا.اس جواب کی وجہ سے جو شمر نے آپ کے صحابی کو دیا تھا.ماہ ربیع الاول سنہ 8 ہجری میں رسول اللہ صلی اللی کم کو خبر ملی کہ بنو ہوازن کی ایک شاخ بنو عامر مسلمانوں کے خلاف لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں.حضور صلی ا ہم نے حضرت شجاع کو 24 مجاہدین دے کر ان لوگوں کی سرکوبی پر مامور فرمایا جو مدینہ پر حملہ کرنے لگے تھے.اس وقت بنو عامر کے لوگ مدینہ سے پانچ راتوں کی مسافت پر الٹتی جو مکہ اور بصرہ کے درمیان ایک مقام ہے اس پر خیمہ لگائے بیٹھے تھے.آپ یعنی حضرت شجاع مجاہدین کے ساتھ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپے رہتے یہاں تک کہ اچانک صبح کے وقت بنو عامر کے سر پر جا پہنچے.وہ لوگ مسلمانوں کو اچانک اپنے سر پر دیکھ کر بوکھلا گئے باوجود اس کے کہ وہ حملے کی تیاری کے لئے نکلے تھے اور پوری فوج بنا کے نکلے تھے اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے.1312

Page 594

اصحاب بدر جلد 4 578 حضرت شجاع نے اپنے مجاہدین کو حکم دیا کہ ان کا تعاقب نہ کریں.کوئی ضرورت نہیں تعاقب کرنے کی اور مال غنیمت جو ہے اس زمانے کے رواج کے مطابق جو بھی وہ چھوڑ گئے تھے اونٹ اور بکریاں وہ ہانک کر مدینہ لے آئے.مال غنیمت کی کثرت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ہر ایک مجاہد کو پندرہ پندرہ اونٹ ملے تھے اور دیگر اسباب و سامان اس کے علاوہ تھا.3 1313 یعنی کہ وہ حملہ آور جو تھے پوری تیاری کر کے آئے تھے اور جنگ کے سازو سامان سے لیس 1314

Page 595

1 3 محاب بدر جلد 4 579 حوالہ جات اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 13 ، الاصابہ جلد 5 صفحہ 535 2 الاصابہ جلد 5 صفحہ 536، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 22 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 286 4 مسلم حدیث 5233 5 شرف المصطفیٰ جلد 4 صفحہ 400 6 امتاع الاسماع جلد 1 صفحہ 212 صحیح البخاری حدیث 6191 فتح الباری جلد 7 صفحہ 497 حدیث 4094 9 المستدرک جلد 3 صفحہ 591 10 مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6 صفحہ 216 11 شعب الایمان للبیہقی جلد 5 صفحہ 167 حدیث نمبر 3247 12 المستدرک جلد 3 صفحہ 592 13 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 377 تا 379 14 مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 409 حدیث 14179 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 321-325 خطبه جمعه بیان فرموده مورخه 13 جولائی 2018ء) 15 طبقات الکبری جزء 3 صفحه 421 16 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 431 17 ابو داؤد حدیث 5142 18 طبقات الکبری جزء 2 صفحہ 79-80 19 معرفۃ الصحابة جلد 1 صفحہ 295 حدیث 1022 (خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 فروری 2023ء( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحه 5 تا10 جلد 30 شماره 14-15) 20 الاستيعاب جلد 4 صفحہ 1599 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 389-390 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 491 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) 21 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 75 ، کتاب المغازى للواقدی جلد 1 صفحہ 38 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 490 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) 22 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 175 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 364-365 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 308،309 خطبہ جمعه بیان فرمودہ مورخہ 06 جولائی 2018ء) 23 البدایۃ و النہایة جزء 5 صفحہ 252 ( خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 فروری 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحہ 5 تا 10 جلد 30 شماره 14-15) 24 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 294، الاصابہ جلد 6 صفحہ 525 25 26 خطبات مسرور 16 صفحه 486 خطبه جمعه بیان فرمود ہمورخہ 12 اکتوبر 2018ء 2 الاصابہ جلد 7 صفحہ 365، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 341، سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 215

Page 596

تاب بدر جلد 4 27 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 341 الصحابہ جلد 3 صفحہ 215 سیرت خاتم النبین صفحہ 224 28 29 30 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 341-342 31 مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 427 حدیث 15891 الاصابہ جلد 7 صفحہ 365 32 34 33 صحیح البخاری حدیث 5613 سنن ابو داؤ د حدیث 3853 35 سنن الترمذی حدیث 2369 36 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 342 37 کتاب المغازى للواقدی جلد 2 صفحہ 165 38 الاصابہ جلد 7 صفحہ 366 580 39 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 342، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 13 خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 387-391 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 اگست 2018ء) 40 طبقات الکبری جزء 3 صفحہ 343341 4 معرفۃ الصحابة جلد 4 صفحہ 196 42 اصابہ جزء 7 صفحہ 365 43 استیعاب جزء 2 صفحہ 477 44 سیرت خاتم النبيين " صفحہ 230 (خطبہ جمعہ 24 فروری 2023ء روزنامه الفضل انٹر نیشنل مورخہ 23 مارچ 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مسیح موعود بعنوان براہین احمدیہ صفحہ 5 تا 10 جلد 30 شماره 24) 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 326-327 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 528-529 طبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ 8 مصنف عبد الرزاق جلد 5 صفحہ 239 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 92 مسند احمد جلد 8 صفحہ 726 حدیث 27569 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 383 صحیح مسلم حدیث 7512 صحیح مسلم حدیث 7513،7512 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 436 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 51-54 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2019ء) سد الغابہ جلد 6 صفحه 22 الاصابہ جلد 2 صفحہ 200 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 368-369 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 23 58 سیرت خاتم النبيين تصفحہ 267 268

Page 597

اصحاب بدر جلد 4 61 63 64 581 به تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 228، 229 یات معلم حدیث 5356 تا 5358 مسند احمد جلد 7 صفحہ 781 حدیث 23966 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 3 صفحہ 369 مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 780 حدیث نمبر 23963 السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 65 65 صحیح بخاری کتاب حدیث 1186 ،لغات الحدیث جلد اول صفحہ 580 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 16 66 67 ماخوذ از صحیح البخاری حدیث 1186 جلد 2 صفحہ 565 68 صحیح بخاری حدیث 1840 69 کنز العمال جلد 13 صفحہ 614 حدیث 37569،37568 70 7 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 22 71 تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 153 ، ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 112 72 کنز العمال جلد 13 صفحہ 614-615 حدیث 37570 73 تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 240 74 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 حصہ اول صفحہ 113 75 مسند احمد جلد 7 صفحہ 785 حدیث 23983، ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 حصہ اول صفحہ 116 76 77 78 مسند احمد جلد 7 صفحہ حدیث 23895 مسند احمد جلد 7 صفحہ 773 حدیث 23931 مسند احمد جلد 7 صفحہ 775 حدیث 23938 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 حصہ اول صفحہ 115 80 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 369، 370 ، الاصابہ جلد 2 صفحہ 201، مسند احمد جلد 7 صفحہ 768 حدیث 23912 81 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 23 82 83 الاصابہ جلد 2 صفحہ 201 13 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 20 نومبر 2020ء الفضل انٹر نیشنل 11 دسمبر 2020 ء الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 344 ، اصابہ جلد 7 صفحہ 31-32، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 358 84 86 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 343 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 15 87 الطبقات الکبری جلد 1 صفحہ 380 88 المعجم الكبير للطبرانی جلد 22 صفحہ 195 89 اصابہ جلد 7 صفحہ 32 90 صحیح البخاری حدیث 983 91 ماخوذ از ملفوظات جلد 10 صفحه 85 92 خطبات مسرور جلد 17 صفحه 69-71 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 فروری 2019ء

Page 598

تاب بدر جلد 4 582 93 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 62-61، المستدرک جلد 3 صفحہ 248 حدیث 4993 امتاع الاسماع جلد 14 صفحہ 335 94 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے صفحہ 124 95 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 62 96 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين تصفحہ 146 تا 149 97 98 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 62 سیرت ابن ہشام صفحہ 286 99 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين "صفحہ 330 تا334 100 تثبيت دلائل النبوۃ جلد 2 صفحہ 585 101 المستدرک جلد 3 صفحہ 248-247 حدیث 4988 102 المستدرک جلد 3 صفحہ 249 حدیث 4995 103 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 62 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحه 55-63 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2019ء) 104 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 365 ، اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 63 (خطبات مسرور جلد 17 صفحه 178 خطبه جمعه فرموده مورخہ 5 اپریل 2019ء) 105 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 81 ، الاستیعاب جلد 1 صفحہ 363 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 487 خطبه جمعه فرموده مورخه 12 اکتوبر 2018ء) 106 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 373 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحه 563 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 317، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 419 107 108 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 420 109 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 317 110 111 الاستیعاب جلد 2 صفحہ 212 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 96 112 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 420 113 الاستيعاب جلد 4 صفحہ 209 صحیح مسلم حدیث 6353 114 115 الاصابہ جلد 7 صفحہ 100 ، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 317 116 المستدرک جلد 3 صفحہ 441،440 حدیث 5088، شرح علامہ زرقانی جلد 2 صفحہ 406 407 117 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 490،489 118 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 3 صفحه 230 119 LIFE OF MAHOMET pg: 269¹ 120 سیرت خاتم النبيين صفحہ 490 121 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 317، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 420 122 123 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 420 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 318، الاستیعاب جلد 4 صفحہ 209، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 420، اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 8 صفحہ 695

Page 599

اصحاب بدر جلد 4 124 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 318 125 583 ماخوذ از خطبه جمعه بیان فرموده 16 مارچ 2018ء بحوالہ الفضل، انٹر نیشنل مورخہ 06 تا 12 اپریل 2018ء جلد 25 شماره 14 صفحہ 5 (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 13 نومبر 2020ء الفضل انٹر نیشنل 14 دسمبر 2020ء) 126 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 307-308، سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 583 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 491 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) اصحاب بدر صفحه 131 127 128 صحابہ کرام کا انسائیکلو پیڈ یا صفحہ 508 129 اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 156 (خطبات مسرور جلد 16 صفحه 572 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء) 130 131 اسدا د الغابہ جلد 6 صفحہ 153 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 153، الروض الانف جلد 4 صفحہ 62، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 69 132 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 69 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 50 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2019ء) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 382، اسد الغابہ جلد 1 صفحه 165-166 ، اصابه جلد 1 صفحہ 179 ، ابن ہشام صفحہ 340 (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 68، 69 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 فروری 2019ء) اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 204-205، الاصابہ جلد 7 صفحہ 222، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 238 134 135 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 238 الاصابہ جلد 7 صفحہ 222 136 137 مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 693 حدیث 13906 138 المستدرک جلد 6 صفحہ 2028 حدیث 5495 139 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 238 140 141 مسند جلد 4 صفحہ 607 حدیث 13516 مسند احمد جلد 5 صفحہ 469 حدیث 16031 142 خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 415-417 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31 اگست 2018ء 143 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 248-249 144 مأخوذ از آسمان ہدایت کے ستر ستارے صفحہ 491-492 145 ماخوذ از صحیح البخاری جلد 10 صفحہ 371 حدیث 4668 146 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 249، حیاۃ الصحابہ جلد 1 صفحہ 801 تا 803 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 417-419 خطبه جمعه فرموده مورخہ 31 اگست 2018ء) 147 148 149 الاصابہ جلد 7 صفحہ 284، سیر الصحابہ جلد 2 حصہ دوم صفحہ 579 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 36 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 309 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 جولائی 2018ء) الاصابہ جلد 7 صفحہ :290،289 150 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 354 151 الاصابہ جلد 7 صفحہ 290 152 الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 16،15 153 کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 114،113

Page 600

تاب بدر جلد 4 584 154 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 597 تا 599، اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 261 262، کتاب المغازی جلد 2 صفحہ 12،11 155 ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 282 تا284 الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 22 156 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 349 158 الاصابہ جلد 7 صفحہ 290 159 السفن الكبرى للبيهقي جلد 3 صفحه 500 160 امتاع الاسماع جلد 6 صفحہ 146 161 متدرک جلد 1 صفحہ 309 حدیث 703 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 297-303 خطبہ جمعہ مؤرخہ 29 جون 2018ء) 162 163 164 استیعاب جلد 4 صفحہ 1741 معرفۃ الصحابہ جلد 1 صفحہ 250 ابی داؤد حدیث 1471 ( خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 فروری 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحه 5 تا 10 جلد 30 شماره 14-15) 165 الاستيعاب جلد 4 صفحہ 1754، الاصابہ جلد 7 صفحہ 304 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 490 خطبه جمعه فرموده مورخه 12 اکتوبر 2018ء) 166 سیر الصحابہ جلد 2 حصہ دوم صفحہ 581، الاصابہ جلد 7 صفحہ 305 167 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 34-35 168 169 حیح البخاری حدیث 3983 الاصابہ جلد 7 صفحہ 305 170 سير الصحابہ جلد 2 حصہ 2 صفحہ 581( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 311،310 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2018ء) 171 الاصابہ جزء7 صفحہ 305 172 طبقات الکبری جزء 3 صفحہ 34 173 174 اسد الغابہ جزء 6 صفحہ 276-277 اسد الغابہ جزء1 صفحہ 306 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 329 176 طبقات الکبری جزء 2 صفحہ 3-4 ( خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 فروری 2023ء(خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحه 5 تا 10 جلد 30 شماره 14-15) 177 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 353، اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 295 178 اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 65 (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 68 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 فروری 2019ء) اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 184،183 جلد 2 صفحہ 150 179 180 الاستيعاب جلد 2 صفحہ 124 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 383، عمدة القاری شرح صحیح البخاری جلد 4 صفحہ 124 181 سنن النسائی حدیث 3341 182 صحیح البخاری حدیث 3976 183 ماخوذ از صحیح البخاری کتاب حدیث 4064، ماخوذ از الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 384-385 184 صحیح البخاری حدیث 2902 185 مسند احمد بن حنبل جلد 4 مسند حدیث 13781

Page 601

186 تاب بدر جلد 4 صحیح البخاری حدیث 2893 187 صحیح بخاری حدیث 2768 188 189 585 البخاری حدیث 3085، لغات الحدیث جلد 3 صفحہ 172 اسوہ حسنہ، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 127،126 190 صحیح البخاری حدیث 371 191 الطبقات الکبری جلد 8 صفحہ 98،97 192 سفن ابو داؤد حدیث 2718 193 مسند احمد بن حنبل، جلد 4 صفحہ 286 حدیث 12119 ، الاستیعاب جلد 4 صفحہ 261، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 383 194 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 385 195 صحیح البخاری حدیث 2828 196 صحیح البخاری حدیث 3798، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 16 صفحہ 364 197 198 صحیح البخاری حدیث 171 صحیح البخاری حدیث 3578 199 صحیح البخاری حدیث 2769 ماخوذاز حیح البخاری حدیث 1285 صحیح البخاری حدیث 2867 200 201 202 203 صحیح البخاری حدیث 6203، سنن ابن ماجہ حدیث 3720 مسلم حدیث:2144 204 صحیح مسلم حدیث 2144 205 با خوذ از تقریر جلسه سالانہ جماعت احمدیہ لاہور 1948ء، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 54،53 206 البخاری حدیث 1301 207 صحیح البخاری حدیث 5638 صحیح البخاری حدیث 7253 208 209 سنن ابن ماجہ حدیث 1557، شروح سنن ابن ماجه جزء 1 صفحه 617 ( خطبه جمعه بیان فرمودہ 31 جنوری 2020ء الفضل انٹر نیشنل 18 فروری 2020ء) 210 الاصابہ جلد 3 صفحہ 475 211 ماخوذ از سیر الصحابه جلد دوم صفحه 135 212 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 41 213 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 22 214 الاصابہ جلد 3 صفحہ 477 215 و عشره مبشره از بشیر ساجد صفحه 798 216 صحیح البخاری حدیث نمبر 3744 217 صحیح بخاری حدیث 3745، صحیح مسلم حدیث 2419-2420 218 جامع ترمذی حدیث 3795

Page 602

219 220 تاب بدر جلد 4 صحیح مسلم حدیث 2385 جامع ترمذی حدیث 3657 221 سیرت خاتم النبیین صفحہ 123 222 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 315 586 223 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 11-12 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 313 224 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 313، الاصابہ جلد 3 صفحہ 476 225 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 313 226 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 316 227 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 124 م الكبير للطبرانی صفحہ 154 حدیث 7596 229 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 313 228 230 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 769 231 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 668 232 ماخوذ از رحمت دارین کے سو شیدائی صفحہ 33 ، شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 357 تا360 233 صحیح البخاری حدیث 4361-4362 234 ماخوذ از صحیح البخاری مترجم جلد 9 صفحہ 239 235 صحیح مسلم حدیث 1780 236 صحیح بخاری حدیث نمبر 3158 237 عشرہ مبشرہ صفحہ 801 238 239 رت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 663 حیح بخاری حدیث 3668 240 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 126-127 241 سیر اعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 15 242 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 19 تا 21، عشرہ مبشرہ صفحه 804 سیر الصحابہ جلد 4 صفحه 457، 459، فرہنگ ت صفحہ 110 سیرت 243 2 ماخوذ از عشره مبشره از بشیر ساجد صفحہ 805، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 129 244 ماخوذ از عشرہ مبشرہ صفحہ 805-806 245 ماخوذ از عشره مبشره صفحه 807-808، ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 128 216 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 128، عشرہ مبشرہ صفحہ 809، معجم البلدان جلد 5 صفحہ 6 247 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحه 21 تا 25 ، ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 14 صفحه 520،519، معجم البلدان جلد 5 صفحہ 497 248 ماخوذ از ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے ، انوار العلوم جلد 26 صفحہ 230-231 249 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 26-27 250 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 28 تا 30، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 106 251 عشرہ مبشرہ صفحہ 816-817 ، سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 131 ، معجم البلد ان جلد 5 صفحہ 118

Page 603

252 تاب بدر جلد 4 587 صحیح البخاری حدیث 5729، معجم البلد ان جلد 4 صفحہ 177 178 ، معجم البلدان جلد 3 صفحہ 239 253 تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 208 سیر اعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 18-19 254 255 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 31 تا 33، سیر اعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 22-23 256 استیعاب جلد 2 صفحہ 343 257 المستدرک جلد 3 صفحہ 252 حدیث 5005 258 خطبه جمعه بیان فرموده 2 اکتوبر و 9 اکتوبر 2020 ء الفضل انٹر نیشنل 23 اکتوبر 2020 ء 259 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 169،168 260 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 378 261 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 378 262 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 378 263 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 14 صفحه 394 264 265 266 دیباچہ تفسیر القرآن ، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 425-426 ويا تفسير القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 427-428 حیح بخاری حدیث 3809 267 صحیح بخاری حدیث 4961 268 تفسیر کبیر جلد 13 صفحہ 503 سير الصحابہ جلد 3 صفحہ 149، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 91 269 270 صحیح بخاری حدیث 3810 متر جم جلد 7 صفحہ 290 271 دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 430 272 جامع ترمذی حدیث 3790 273 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 170 ، ماخوذ از سیر الصحابه جلد 3 صفحہ 158 274 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 148 275 ماخوذ از سیر الصحابه جلد 3 صفحہ 148 276 صحیح مسلم مترجم نور فاؤنڈیشن جلد 3 صفحہ 308-309 277 ماخوذ از سیرال ر الصحابہ جلد 3 صفحہ 149 278 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 152 279 سير الصحابہ جلد 3 صفحہ 157 280 صحیح مسلم مترجم نور فاؤنڈیشن جلد 3 صفحہ 300 281 الصحابہ جلد 3 صفحہ ،152،151 282 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 378 283 سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 142،141 ، اردو لغت جلد 22 صفحہ 29، کل Lexicon under word 284 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 10 صفحه 34 285 سير الصحابہ جلد 3 صفحہ 142

Page 604

ناب بدر جلد 4 286 سير الصحابہ جلد 3 صفحہ 143 ،142 287 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 379،378 588 288 صحیح بخاری حدیث نمبر 2010 مترجم جلد 3 صفحہ 680،681 289 290 2 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 153 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 154 291 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 155 292 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 156، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 328، ماخوذ از فقہ احمد یہ جلد اوّل صفحہ 335-336 293 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 146،145 295 294 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 381 2 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 143 296 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 380 297 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 379 298 299 300 301 302 مسند احمد بن حنبل حدیث 14075، بخاری حدیث 2095، ابن ماجہ حدیث 1414،ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 158 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 170 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 154 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 156، فرہنگ سیرت صفحہ 197 ماخوذ از سیر الصحابه جلد 3 صفحہ 157 303 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 381، الاصابہ جلد 1 صفحہ 36،35 304 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 378( خطبہ جمعہ 16 اکتوبر 2020ء الفضل انٹر نیشنل 3 تا 10 نومبر 2020ء صفحہ 5 تا10) 305 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 187 ، اصابہ جلد 1 صفحہ 197 ، المستدرک جلد 3 صفحہ 574 حدیث 6127 306 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 129 307 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 185 308 309 310 311 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 198، اصابہ جلد 1 صفحہ 187 استیعاب جلد 1 صفحہ 131 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 188 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 187 (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 74-76 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 فروری 2019ء) 312 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 445، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 450 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحه 71 خطبه جمعه فرموده مورخہ 8 فروری2018ء) 313 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 381، اسد الغابہ جلد 1 صفحه 299 (خطبات مسرور جلد 17 صفحه 68 خطبه جمعه فرموده مورخہ 8 فروری 2018ء) 314 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 301-302، سیر الصحابہ جلد 2 حصہ دوم صفحہ 587 ، الاصابہ جلد 1 صفحہ 283(خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 309 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2018ء) 315 316 اصابه جلد 1 صفحہ 283 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 301 ، روشن ستارے جلد 1 صفحہ 145

Page 605

اصحاب بدر جلد 4 317 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 35 318 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 36 589 319 خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 فروری 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحہ 5 تا 10 جلد 30 شماره 14-15 320 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 305-306، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 353-354 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 306 خطبہ جمعه فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2018ء) 321 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 187 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 354 322 خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 493 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء 323 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 382،41 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 71،72 خطبہ جمعہ 8 فروری 2019ء) 324 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 320، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 409-410 325 327 سبل الهدی جلد 5 صفحہ 41، امتاع الاسماع جلد 1 صفحہ 284 شرح علامہ زرقانی جلد 4 صفحہ 423، معجم البلدان جلد 3 صفحہ 12 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 320 ، الاصابہ جلد 1 صفحہ 299 328 سنن ابن ماجہ حدیث 1628 329 معرفة الصحابه لابی نعیم جلد 1 صفحہ 279 330 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 321(خطبات مسرور جلد 17 صفحه 119-121 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2019ء) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 413، اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 323 331 332 آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 50 333 سنن ابی داؤد حدیث 2214 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 323 334 335 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 23 3 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحه 74-72 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 فروری 2019ء) الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 297-298، اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 213، الاصابہ جلد 1 صفحه 309-310، کتاب المحبر صفحہ 399-400، بدر البدور صفحہ 44 337 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 179 338 خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 491-493 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء 339 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 395 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 488 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) 340 341 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 373 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 379 342 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 422 343 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 354 344 سیرت ابن ہشام صفحہ 617 345 کتاب المغازی صفحہ 40-41 346 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 355-356 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 76 - 79 خطبہ جمعہ 8 فروری 2019ء) 347 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 471 ، اسد الغابۃ جلد 1 صفحہ 380

Page 606

348 349 تاب بدر جلد 4 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 291 590 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 365-366 350 الاصابہ جلد 1 صفحہ 426 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 291 الاصابہ جلد 1 صفحہ 426-427 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 291 351 352 الطبقات الكبرى جزء 8 صفحہ 435 353 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 381 ، السيرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ 512 صفحہ 698،الروض الانف جلد 2 صفحہ 325 354 السيرة الحلمية جلد 2 صفحہ 310 ، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 432 355 ماخوذ از درس القرآن بیان فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع 6 / رمضان المبارک ، 17 / فروری 1994ء 356 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 291 357 سبل الہدی والرشاد جلد 3 صفحہ 132 358 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح جلد 4 صفحہ 99 359 السيرة الحلمية جلد 3 صفحہ 82 300 ماخوذ از دیباچه تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد 20 صفحہ 327 تا 329 361 صحیح البخاری حدیث 4428 362 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 628-620 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 29 نومبر 2019ء 363 الاستيعاب جلد 1 صفحہ 172 364 365 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 402-403 صحیح البخاری حدیث 2586 366 صحیح البخاری حدیث 2587 صحیح مسلم حدیث 4182 367 368 ماخوذ از الفضل 16 اپریل 1960ء صفحہ 5 369 ماخوذ از فرمودات مصلح موعودؓ صفحہ 316-317 370 سیرت ابن ہشام صفحہ 454-455 371 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 403 حیح البخاری حدیث 4252 373 شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 314تا321،317 تا 323، سیرت ابن ہشام صفحہ 529، لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 163 374 صحیح البخاری حدیث 1778–1779 375 الاستیعاب جلد 1 صفحہ 172-173 376 معجم البلدان جلد 3 صفحہ 259 377 سیرت ابن ہشام صفحہ 668 ، ماخوذ از محمد رسول اللہ صلی یی کم کی حکمرانی و جانشینی صفحہ 155-156 378 السيرة الحلمية جلد 3 صفحہ 504-506 379 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 193، السيرة الحلمية جلد 3 صفحہ 506 380 تاريخ الخلفاء الراشدین صفحه 367،22 381 الاصابہ جلد 1 صفحہ 442

Page 607

382 383 384 تاب بدر جلد 4 البلد ان جلد 4 صفحہ 199 مسلم حدیث 907 591 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 88-95 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 فروری 2019ء 385 الطبقات الكبری جزء 3 صفحہ 174-175، اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 415، روشن ستارے جلد 01 صفحہ 145، اسد الغابہ ( مترجم ) جلد اول صفحہ 283 386 روشن ستارے جلد 1 صفحہ 145 387 388 389 390 سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 159، الاصابہ جلد 8 صفحہ 339، تاریخ دمشق الكبير جلد 10 صفحہ 334 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 418 الطبقات الكبرى صفحہ 175 سیر اعلام النبلاء جلد 1 0 صفحه 349 391 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 175 393 394 395 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 175 ، اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 283 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 175 ، لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 527 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 415 سیر اعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 353 396 المستدرک جلد 3 صفحہ 321 397 صحیح البخاری حدیث 3754 398 399 دیباچه به تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 193 ،194 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 176 400 سنه 401 402 سنن ابن ماجہ فضائل بلال حدیث 150 ترجمه از نور فاؤنڈیشن مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر ، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 598 سیرت خاتم النبيين مصفحه 140 103 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 176 404 صحیح البخاری حدیث 1889 ماخوذ از فرهنگ سیرت صفحہ 58 ،180 ، 259، شمائل النبی صلی علیم صفحہ 76 حاشیہ ، شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 172 405 ماخوذ از قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسانی تقدیر تھی ، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 379 406 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 180 407 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 156 408 صحیح البخاری حدیث 2301 409 السيرة الحلبيه جلد 2 صفحہ 232-233 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 415 حیح البخاری حدیث 863 410 412 سنن ابن ماجہ حدیث 151 413 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 416

Page 608

ناب بدر جلد 4 414 سنن ابن ماجہ حدیث 706، صحیح البخاری حدیث 604 سیرت خاتم النبین صفحہ 271-272 415 416 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 176-177 417 سنن ابن ماجہ حدیث 716 592 418 معجم الكبير للطبرانی جلد 1 صفحہ 355 حدیث 1081 419 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 2020ء الفضل انٹر نیشنل 2, اکتوبر 2020 ء 420 سنن ابن ماجہ حدیث 697 421 صحیح البخاری حدیث 468 422 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 177 423 ماخوذ از سیر روحانی، انوار العلوم جلد 24 صفحہ 268 تا 273 424 426 دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 341،340 425 انوار العلوم جلد 21 صفحہ 164 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 177 427 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 178 128 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 178 429 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 178 430 431 432 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 416 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 417 اسدالغ د الغابہ جلد 1 صفحہ 416-417 433 ماخوذ از خطبات محمود جلد 25 صفحہ 182 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 مارچ 1944ء 434 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 176 435 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 179 436 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 179 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 369 437 438 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 13 صفحہ 426،425 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 2020ءالفضل انٹر نیشنل 9اکتوبر 2020ء 439 خط 440 سنن ترمذی حدیث 3689 صحیح البخاری حدیث 1149 441 442 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جلد 9 صفحہ 363 443 سیرت خاتم النبيين صفحه 124 125 444 مستورات سے خطاب، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 458،457 445 446 سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی جلد 01 صفحہ 360 سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی جلد 1 صفحہ 355 447 تاریخ دمشق الكبير لابن عساکر جلد 10 صفحہ 363

Page 609

448 449 450 تاب بدر جلد 4 مسلم حدیث 2504 مسلم حدیث 2497 4 ترمذی حدیث 3785 451 المستدرک جلد 3 صفحہ 322 452 مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 363 453 سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی جلد 1 صفحہ 355 تاریخ دمشق الكبير لابن عساکر جلد 10 صفحہ 356 455 مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 364 456 الكبير للطبرانی جلد 1 صفحہ 337 457 المعجم الكبير للطبرانی جلد 1 صفحہ 341 حدیث 1021 593 458 الطبقات الكبرىی جلد 3 صفحہ 180 ، تاریخ الدمشق لابن عساکر جلد 10 صفحہ 335 459 ماخوذ از خطبات محمود جلد 30 صفحه 263 تا 267 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 / اگست 1949ء 460 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 2020ءالفضل انٹر نیشنل 16 اکتوبر 2020ء 461 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 429 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 564 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء) 462 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 407 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحه 71 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 فروری 2019ء) 463 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 253 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 490 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) 464 الاستیعاب جلد 1 صفحہ 199 465 سبل الهدی والرشاد جلد 5 صفحہ 677 466 سیرت ابن ہشام صفحہ 533 467 سبل الهدی والرشاد جلد 6 صفحہ 148 468 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 355-356 469 سنن الکبری للبیہقی جلد 8 صفحہ 580-581 470 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 355-356 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 567،568 خطبہ جمعہ 23 نومبر 2018ء) 471 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 428-429، اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 324 472 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 428-429 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 570 خطبہ جمعہ 23 نومبر 2018ء) (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 43 خطبہ جمعہ 25 جنوری 2019ء) 473 الاستیعاب جلد 1 صفحہ 198 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 578 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2018ء) 474 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 389( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 72 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 فروری 2019ء) ف اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 449 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 491 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) 476 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 456، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 283( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 489 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2018ء) 475 477 اصحاب بدر صفحہ 136 478 صحابہ کرام کا انسائیکلو پیڈ یا صفحہ 450 479 480 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 325-326 الاصابہ جلد 1 صفحہ 516-517

Page 610

تاب بدر جلد 4 594 482 483 481 خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 572-574 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 467 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 396،428 Arabic-English Lexicon part 2 page (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 564 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء) الروض الانف جلد 3 صفحہ 158 159 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 386، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 366، تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 522 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحه 79 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 فروری 2019ء) 484 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 435، استیعاب جلد 1 صفحہ 207 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 80،79 خطبہ جمعہ 8 فروری 2019ء) اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 476 ، الاصابہ جلد 1 صفحہ 525 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 72 (خطبات مسرور جلد 16 صفحه 494 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) 486 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 394 (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 80 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 فروری 2019ء) 487 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 431 485 488 490 491 492 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 492 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 566 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء) ماخوذ از سیرت خاتم النبيين مصفحہ 222 تا 224 خطبات مسرور جلد 17 صفحه 43-45 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2019ء الطبقات الکبری جز 3 صفحہ 293، المعجم الكبير للطبرانی جلد 2 صفحہ 270 مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 330 حدیث 15550 493 سبل الھدی والرشاد جلد 4 صفحہ 49 494 سا سبل الھدی والرشاد جلد 3 صفحہ 272-273 سبل الهدی والرشاد جلد 3 صفحہ 398-399 495 496 السيرة النبویۃ لابن ہشام جلد 3 صفحہ 639 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 403-407 خطبہ جمعہ 24 اگست 2018ء) طبقات الکبری جزء 2 صفحہ 124 ، موسوعۃ کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم جلد 1 صفحه 19 498 تاریخ دمشق الکبیر جلد 73 صفحہ 146 ، امتاع الاسماع جزء 2 صفحہ 45-46 499 استیعاب جلد 2 صفحہ 302 500 خطبہ جمعہ 24 فروری 2023 ء روزنامہ الفضل انٹر نیشنل مورخہ 23 مارچ 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مسیح موعود بعنوان براہین احمدیہ صفحہ 5 تا 10 جلد 30 شمارہ 24 501 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 357(خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 569،570 خطبہ جمعہ 23 نومبر 2018ء) 502 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 444 504 505 فتح الباری حدیث 5763 جلد 10 صفحہ 282 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 122 خطبہ جمعہ 8 مارچ 2019ء) الاستیعاب جلد 1 صفحہ 292 الاصابہ جلد 1 صفحہ 673 506 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 386، اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 615 507 508 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 615 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 615، سیرت ابن ہشام صفحہ 439 509 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 615( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 82-80 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 فروری 2019ء) 510 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 3629334، جلد 8 صفحہ 277 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 80 خطبہ جمعہ 8 فروری 2019ء)

Page 611

511 تاب بدر جلد 4 595 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 589، مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 256 512 صحیح بخاری حدیث 4037 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 334 513 عمدۃ القاری جلد 17 صفحہ 179 514 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 467 تا 473 515 خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 595-601 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07دسمبر 2018ء اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 598، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 351 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 64 5 خطبہ جمعہ 23 نومبر 2018ء) اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 602-603، الاصابہ جلد 1 صفحہ 666 (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 83 خطبہ جمعہ 15 فروری 2019ء) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 253(خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 493 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 641، اصابه جلد 1 صفحہ 694 (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 80 خطبہ جمعہ 8 فروری 2019ء) 516 517 518 519 520 521 522 523 الاصابہ جلد 1 صفحہ 704 الصحابه جلد 3 صفحہ 299 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 307 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 650-651 524 شرح زرقانی جلد دوم صفحه 257 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 338،337 خطبہ جمعہ 20 جولائی 2018ء) طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 371-372، اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 655-656 525 526 الطبقات الکبری جلد 8 صفحہ 18-19 527 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 456 528 المنتقى من كتاب مکارم الاخلاق للخر الطی صفحہ 68 529 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 372 (خطبات مسرور جلد 17 صفحه 85-88 خطبہ جمعہ 15 فروری 2019ء) 530 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 491، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 242,61، الاصابہ جلد 2 صفحہ 4-5 531 صحیح مسلم جلد 4 صفحہ 80 حدیث 1516 لاله 532 السنن الكبرى للبيهقی حدیث 13041 جزء 6 صفحہ 504 533 534 سیرت خاتم النبيين صفحہ 818 دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 321 535 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 818تا821 چه تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 322 536 دیباچه 537 ماخوذ از صحیح البخاری حدیث 3007 جلد 5 صفحہ 350 تا 352 538 ماخوذاز صحیح البخاری حدیث 3983 جلد 8 صفحہ 53 تا 55 539 الاستیعاب جلد 1 صفحہ 376 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 61 541 سنن الترمذی حدیث 3864 542 543 544 ماخوذ از خطبات محمود جلد 19 صفحہ 307-308 5 ماخوذ از سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 352-353 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 61

Page 612

تاب بدر جلد 4 596 545 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 411-412( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 348-357 خطبہ جمعہ 27 جولائی 2018ء) 546 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 84 547 استیعاب جلد 1 صفحہ 314 طبقات الکبری جزء 3 صفحہ 85 549 ترمذی حدیث 3864 550 سنن الکبری للبیہقی جزء 6 حدیث 11146 صفحہ 48 551 خطبات محمود.جلد 19 صفحہ 307-308 552 سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 352-353 553 554 بخاری حدیث 2359، 2360 جامع لاحکام القرآن لقرطبی جزو 6 صفحہ 441 (خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 فروری 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحه 5 تا 10 جلد 30 شماره 14-15) اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 662، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 309 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 309، سیرت ابن ہشام صفحہ 119،117 555 556 557 سیرت ابن ہشام صفحہ 661، الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 42 558 کتاب المغازی جلد دوم صفحہ 92(خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 562،563 خطبہ جمعہ 23 نومبر 2018ء) اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 665، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 428 559 561 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 356-357 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 427-428 502 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 484 563 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 427-428 564 صحیح البخاری حدیث 3668 566 565 المستدرک جلد 3 صفحہ 483 حدیث 5803 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 312-15 3 خطبہ جمعہ 6 جولائی 2018ء) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 429، الاصابہ جلد 2 صفحہ 18 ،اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 671 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 566،565 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء) 567 صحیح البخاری کتاب حدیث 4091، صحیح مسلم حدیث 4917، تاریخ الخمیس جلد 1 صفحہ 452، مسند احمد جلد 4 صفحہ 355 حدیث 12429 568 ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 179، 180 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 112-114 خطبہ جمعہ 9 مارچ2018ء) 569 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 266 570 بخاری حدیث 4091 571 572 573 بخاری حدیث 2801 بخاری حدیث 4088 574 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 612-613 سیرت خاتم النبيين صفحه 521517 (خطبہ جمعہ 24 فروری 2023ء روزنامه الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 23 مارچ 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مسیح موعود بعنوان براہین احمدیہ) صفحہ 5 تا 10 جلد 30 شماره 24)

Page 613

اصحاب بدر جلد 4 597 575 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 717-718 576 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 80 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 فروری 2019ء 577 الطبقات الكبرىی جلد 3 صفحہ 30، الاستیعاب جلد 3 صفحہ 141 ، اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 573 578 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 30 579 لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 487 - جلد 2 صفحہ 648( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 191 خطبہ جمعہ 12 اپریل 2019ء) 580 الاستیعاب جلد 1 صفحہ 369، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 67 581 شرح زرقانی جلد 4 صفحہ 499 582 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 6 583 انوار العلوم جلد 19 صفحہ 137 تا 139 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 6 584 The life of Mohammad pg 89585 586 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 6 587 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 329 588 589 590 591 592 593 سیرت ابن ہشام صفحہ 283 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 6 مسند احمد جلد 2 صفحہ 624 حدیث 6639 الاصابہ جلد 2 صفحہ 106 مسند احمد جلد 8 صفحہ 822 حدیث 27859 سیرت ابن ہشام صفحہ 298-299 مسند احمد جلد 1 صفحہ 338-339 حدیث 948 594 سن سنن ابو داؤد حدیث 2665 595 الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 12 سیرت ابن ہشام صفحہ 302 pg 596 260597 599 The life of Mohammad 598 صحیح البخاری حدیث 4072 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 8 600 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 6 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 8 602 603 سیرت ابن ہشام صفحہ 395 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 452 حدیث 1418 604 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 6-7، مسند احمد جلد 7 صفحہ 72 حدیث 21387 605 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 11 606 607 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 9 مسند احمد جلد 7 صفحہ 71-72 حدیث 21387 608 صحیح البخاری حدیث 4045

Page 614

تاب بدر جلد 4 598 609 مسند احمد جلد 2 صفحہ 418-419 حدیث 5563 610 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 69 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 198-208 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 مئی 2018ء) 611 مستدرک جزء5 صفحہ 183 حدیث نمبر 4888 612 ماخوذ از طبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 46 613 ماخوذاز صحیح بخاری حدیث 4251.61 روض الألف جزء 2 صفحہ 4544 615 طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 8، منجد زیر مادہ زبر 616 61 ماخوذ از سبل الهدی والرشاد جزء 4 صفحہ 14 617 سیرت خاتم النبيين صفحه 327-328 618 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 329 ، سبل الهدی والرشاد جزء 4 صفحہ 17 619 620 سیرت خاتم النبیین صفحہ 358 تا 360 بخاری کتاب المغازی باب قصة غزوة بدر 621 صحیح البخاری حدیث 2375 622 صحیح مسلم حدیث نمبر 5138 623 سبل الہدی والرشاد جزء4 صفحہ 180 624 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 457-461 625 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 461 626 متدرک جزء5 صفحہ 1834 627 الاستيعاب جزء اول صفحہ 426 628 متدرک جزء 5 صفحہ 1832 حدیث نمبر 4890 629 مدرک جزء 5 صفحہ 1831 حدیث 4887 630 631 632 ماخوذ از خطابات طاہر، تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت صفحه 364 تا 366 63 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2022ء الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 20 جنوری 2023ء صفحہ 5 تا 10 جلد 30 شماره 6 الاصابہ جلد 2 صفحہ 112، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 76، ارشاد الساری شرح صحیح البخاری حدیث 2708، جلد 5 صفحہ 140 633 خطبات مسرور جلد 17 صفحه 396-397 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 26 جولائی 2019ء اصابه جلد 1 صفحہ 704 ، اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 649(خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 308،307 خطبہ جمعہ 6 جولائی 2018ء) 634 635 636 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 271 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 640 637 الاستیعاب جلد 2 صفحہ 3-4 638 کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 227-228 639 کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 243 640 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 640-641( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 251،252 خطبہ جمعہ یکم جون 2018ء) 641 طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 397 642 تفسیر طبری جزء 3 صفحہ 250 (خطبہ جمعہ 13 جنوری 2023 ء الفضل انٹر نیشنل 3 فروری 2023ء صفحہ 5 تا 11 جلد 30 شماره 10)

Page 615

ناب بدر جلد 4 643 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 297 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 647 سیرت ابن ہشام صفحہ 591-592 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 647 644 645 646 599 647 خطبات مسرور جلد 16 صفحه 254،255 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2018ء 648 649 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 194 الاصابہ جزء 1 صفحہ 310 650 سيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 591-592 (خطبہ جمعہ 13 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل مورخہ 3 فروری 2023 ء صفحہ 5 تا 11 جلد 30 شماره 10) 651 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 449-450 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 83 خطبہ جمعہ 15 فروری 2019ء) 652 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 121 ، 122 ، الاصابہ 2 صفحہ 221، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 147 653 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 147 654 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 157 تا 159 655 صحیح البخاری حدیث 3612، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 311 656 المستدرک جلد 3 صفحہ 431-432 حدیث 5643 657 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 122 658 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 148 الطبقات الك ن الکبری جلد 3 صفحہ 122 659 660 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 123 661 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 148 662 663 664 دنیا کا محسن، انوار العلوم جلد 10 صفحہ 273 دیباچہ تفسیر القر آن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 193 ز تفسیر کبیر جلد 11 صفحه 97 تا 99 6 ماخوذ از تفسیر 665 الطبقات الكبرى جلد 2 صفحہ 57 و جلد 3 صفحہ 123 666 الاستیعاب جلد 2 صفحہ 21 667 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 123 668 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 149 669 سنن الترمذی حدیث 2175 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 149 670 671 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 123 ، لغات الحدیث جلد 3 صفحہ 484 672 صحیح البخاری حدیث 1276 673 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 149 674 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 124 ( خطبہ جمعہ 8 مئی 2020ء الفضل انٹر نیشنل 22 مئی تا 04 جون 2020ء) 675 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 73 ، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 151 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 490 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2018ء)

Page 616

تاب بدر جلد 4 600 676 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 467، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 275، اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 683 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 275-276، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 153 677 678 السيرة النبويد لابن ہشام صفحہ 338 679 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 348، لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 373 680 681 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 152 صحیح مسلم حدیث 1817، معجم البلد ان جلد 3 صفحہ 142 اکمال المعلم بفوائد المسلم جزء4 صفحہ 181 682 البحر المحيط جلد 31 صفحہ 620 683 السيرة الحلمه جزء 2 صفحہ 204 684 مسند احمد جلد 5 صفحہ 411، حدیث 15855 ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 232-233 685 686 صحیح البخاری حدیث 2301 687 شرح زرقانی جزء 2 صفحہ 296 688 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 152 ، البدایہ والنہایہ جلد 3 جزء 6 صفحہ 166-167 689 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 276 690 الاصابہ جلد 2 صفحہ 224، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 276 691 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 480-486 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 13 ستمبر 2019ء 692 اسد الغابه جزء 1 صفحہ 681 693 عیون الاثر جلد 1 صفحہ 232 694 سير الصحابہ جلد 3 حصہ چہارم صفحہ 309 695 696 697 الاستيعاب جزء 2 صفحہ 23 تا 25، سیرت خاتم النبین صفحہ 513 صحیح بخاری حدیث 3045 ، فتح الباری شرح صحیح البخاری جزء 7 صفحہ 488 صحیح البخاری حدیث 4086-4087 698 فتح الباری شرح صحیح البخاری جزء7 صفحہ 488 حدیث 4086 699 الاصابه جزء 2 صفحہ 227 700 ماخوذ از سیرت خاتم النبین صفحہ 515 تا516 (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 497-500 خطبہ جمعہ 20 ستمبر 2019) 701 فتح الباری شرح صحیح البخاری جزء 7 صفحہ 488 حدیث 4086 702 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 885-886، الاصابہ جزء 2 صفحہ 226، لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 603 و جلد 3 صفحہ 46، معجم البلدان جلد 3 صفحہ 225، 309.جلد 4 صفحہ 400 703 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 684 704 الاستیعاب جزء 2 صفحہ 25 705 الاصابہ جزء 2 صفحہ 226 706 الطبقات الکبریٰ جزء 8 صفحہ 399 ، صحیح البخاری حدیث 3045 ،اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 683 707 الاستيعاب جزء 2 صفحہ 25 708 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 683

Page 617

اصحاب بدر جلد 4 709 710 601 دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 262 تا 263 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 683 711 خطبات مسرور جلد 17 صفحه 40-535 خطبه جمعه بیان فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2019ء 712 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 425 713 714 715 716 سیرت ابن ہشام صفحہ 312 (خطبات مسرور جلد 17 صفحه 177 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اپریل 2019ء) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 167 الاصابہ جلد 2 صفحہ 236، التاريخ الكبير جلد 3 صفحہ 196 ، معجم البلد ان جلد 4 صفحہ 413-414 المعجم الكبير جلد 4 صفحہ 211 تا 213 حدیث نمبر 4166، السیرۃ النبویہ لابن کثیر جلد 1 صفحہ 379 ، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 68، بلوغ الارب مترجم جلد 3 صفحہ 135 717 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد ہفتم صفحه 307 718 المستدرک جلد 6 صفحہ 2363 حدیث 6608 719 التاريخ الكبير جلد 3 صفحہ 196 حدیث 3651 سیر الصحابہ جلد ہفتم صفحہ 307 720 721 المستدرک جلد 3 صفحہ 1004 حدیث 2667 122 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 388-390 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2019ء 723 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 447 124 كتاب المغازى للواقدی جلد اوّل صفحہ 25، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 181 725 خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 336،337 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2018ء 726 سیرت ابن ہشام صفحہ 472 727 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 447 728 729 بخاری حدیث 757 مرقاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح جزء 2 صفحہ 458 حدیث 790 (خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023 ء الـ ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 فروری 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحه 5 تا 10 جلد 30 شماره 14-15) 730 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 401-402 731 سیرت خاتم النبيين صفحہ 598 732 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 402 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 118,119 خطبہ جمعہ یکم مارچ 2019ء) 733 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 184 34 7 کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 37-38، معجم البلدان جلد 3 صفحہ 258 ، وفاء الوفاء جلد 3 صفحہ 1200 ،لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 82 735 المستدرک جلد 3 صفحہ 226 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 195-196 736 737 الاصابہ جلد 2 صفحہ 287 138 کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 232-233 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 16-19 خطبہ جمعہ 11 جنوری 2019ء) 739 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 292 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 493 494 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2018ء) اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 710-711، اصحاب بدر در صفحه 179 740

Page 618

ناب بدر جلد 4 602 741 حبیب کبریا کے تین سو اصحاب صفحہ 221 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 575،576 خطبہ جمعہ 23 نومبر 2018ء) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 300، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 188 743 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين مصفحہ 477-478 744 الاستیعاب جلد 2 صفحہ 452، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 300 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 83-85 خطبہ جمعہ 15 فروری 2019ء) 745 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 362 تا 364، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 190 746 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 362 تا 364، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 190 747 المستدرک جلد 3 صفحہ 467 حدیث 5750 سیرت خاتم النبيين صفحه 584-585 سیرت ابن ہشام صفحہ 456 748 749 750 المستدرک جلد 3 صفحہ 466 حدیث 5747 751 الاصابہ جلد 2 صفحہ 292، الطبقات الکبریٰ جلد 6 صفحہ 10 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 110-113 خطبہ جمعہ یکم مارچ 2019ء) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 299 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 108 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2019ء) 753 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 210 754 الطبقات الكبرى جلد 1 صفحه 175 155 معرفة الصحابہ لابی نعیم جلد 2 صفحہ 248 156 كتاب المغازى للواقدی جلد 1 صفحہ 245 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 109-110 خطبہ جمعہ یکم مارچ 2019ء) 757 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 124-125 ، سیرت ابن ہشام صفحہ 327، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 217(خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 109 ،108 خطبہ جمعہ فرموده مورخه تیم مارچ 2019ء) 760 758 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 450 ، الاستیعاب جلد 2 صفحہ 484-485 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 108 خطبہ جمعہ یکم مارچ 2019ء) 759 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 373 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 566 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 45 ، الاصابہ جلد 2 صفحہ 369(خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 493 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2018ء) الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 337 ، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 235( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 109 خطبہ جمعہ یکم مارچ 2019ء) الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 356-357 ، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 252(خطبات من ت مسرور جلد 17 صفحہ 114 خطبہ جمعہ یکم مارچ 2019ء) 763 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 416-417، کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 167 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحه 49 خطبہ جمعہ 761 762 764 765 25 جنوری 2019ء) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 257، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 70،66 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 113 خطبہ جمعہ 1 مارچ2019ء) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 273 و جلد 1 صفحہ 509 ، الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 450 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 566 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء) 766 767 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 279 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 447 حیح البخاری حدیث 3992 768 صحیح البخاری جلد 8 صفحه 71 تا 73 769 فتح الباری جلد 7 صفحہ 396 حدیث 3992 770 771 صحیح البخاری حدیث 3993 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 280-281

Page 619

اصحاب بدر جلد 4 772 603 الاستیعاب جلد 2 صفحہ 497 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 315-19 3 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 جولائی 2018ء) 773 مستدرک جلد 4 صفحہ 165-166 774 سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 53 175 متدرک صفحہ 1876 حدیث نمبر 5024 776 777 778 ترمذی حدیث 302 ابن ماجہ حدیث 460 ابي داؤد حدیث 859 (خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 فروری 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحه 5 تا10 جلد 30 شماره 14-15) 779 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 410-411 (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 114 خطبہ جمعہ 1 مارچ 2019ء) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 98، الاستیعاب جلد 2 صفحہ 509، الشمائل المحمديه للترمذی صفحه 143 780 781 سیر روحانی صفحہ 489 مطبوعہ قادیان 2005ء 782 783 784 785 786 787 الاستیعاب جلد دوم صفحہ 509 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 591،592 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 دسمبر 2018ء) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 307 ، الاصابہ جلد 2 صفحہ 457، سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 67 الاصابہ جلد 2 صفحہ 458 الاصابہ جلد 2 صفحہ 457 دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 196-197 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 74-75 788 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 75 789 صحیح بخاری حدیث: 3909 صحیح مسلم حدیث: 2146 790 791 793 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 307 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 74 الاصابہ جلد 2 صفحہ 458 794 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 451 حدیث: 1413 195 کتاب فضائل الصحابہ جلد 2 صفحہ 733، الاستیعاب جلد 2 صفحہ 512، معجم البلد ان جلد 5 صفحہ 171 796 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 77 797 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 76 798 الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ 459 799 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 76 800 صحیح بخاری حدیث:3998 801 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 450 حدیث: 1408 802 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 452، السيرة النبوية لابن ہشام جلد 2 صفحہ 97، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 10 803 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 78 804 صحیح البخاری حدیث: 3720

Page 620

805 806 تاب بدر جلد 4 سيرة النبوية لابن ہشام جلد 2 صفحہ 334 604 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 251، فرہنگ سیرت صفحہ 136 807 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 77 808 ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 346-347 809 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 52-53 ، سيرة النبویہ لابن ہشام جلد 2 صفحہ 456 810 صحیح بخاری حدیث: 3975 811 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 54-55، معجم البلدان صفحہ 259 812 صحیح بخاری حدیث: 3700 ( خطبہ جمعہ بیان فرموده 21 اگست 2020ء ، الفضل انٹر نیشنل 11 ستمبر 2020ء) 813 صحیح البخاری حدیث 4077 حیح مسلم حدیث 2418 814 815 سنن الترمذی حدیث 3740 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 478 816 817 سنن ابی داؤد حدیث 4649 818 819 دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوام جلد 20 صفحہ 425-426 حیح البخاری حدیث 2919 820 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 76 821 ماخوذ از اسلام اور ملکیت زمین، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 429، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 149 822 صحیح البخاری حدیث 3717 823 824 مسند احمد جلد 1 صفحہ 453 حدیث 1419 مسند احمد جلد 1 صفحہ 449 حدیث 1405 825 المستدرک جلد 3 صفحہ 406 حدیث 5550، فرہنگ سیرت صفحہ 288 826 827 الاصابہ جلد 2 صفحہ 460 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 80-81 828 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 451 حدیث 1414 829 ماخوذ از خلافت را شده، صفحہ 44-45 انوار العلوم جلد 15 830 متدرک جلد 3 صفحہ 412-413 حدیث 5571 ، استیعاب جلد 2 صفحہ 516، طبقات الکبری جز 3 صفحہ 78، 83، الاصابہ جلد 2 صفحہ 460 831 الطبقات الکبریٰ جز 3 صفحہ 83 832 الطبقات الكبرى جز 3 صفحہ 84 833 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 74 834 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 83 (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 4 ستمبر 2020ء الفضل انٹر نیشنل 25, ستمبر 2020ء) 835 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 338 ، الاصابہ جلد 2 صفحہ 483 (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 114 115 خطبہ جمعہ 1 مارچ2019ء) 836 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 302 837 سرور کائنات کے پچاس صحابہ صفحہ 557 تا 559

Page 621

اصحاب بدر جلد 4 605 838 امتاع الاسماع جلد 14 صفحہ 254 255 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 252،253 خطبہ جمعہ 1 جون 2018ء) 839 طبقات الکبری جزء 3 صفحہ 448 840 معجم الكبير جزء 20 صفحہ 336 حدیث 795 ، اردو دائرہ معارف اسلام جلد 13 صفحہ 414 841 842 تہذیب التہذیب جزء1 صفحہ 652-653 ابن ماجہ حدیث 4048 843 سنن الکبریٰ جزء 9 صفحہ 86 (خطبہ جمعہ 13 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل مورخہ 3 فروری 2023ء صفحہ 5 تا 11 جلد 30 شماره 10) الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 246، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 135-136 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحه 486 خطبه جمعه فرموده 844 مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) 845 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 375، طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 407 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 114 خطبہ جمعہ 1 مارچ 2019ء) 846 السيرة النبویہ لابن ہشام صفحہ 188 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 165 847 عمدۃ القاری جلد 8 صفحہ 94 850 848 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 165 تا 168 849 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 15 صفحہ 138،137 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 110-111 851 کنز العمال جلد 13 صفحہ 397 حدیث 37065 8 الروض الانف جلد 3 صفحہ 19 853 صحیح البخاری حدیث 4782 854 صحیح البخاری جلد 7 صفحہ 224 852 855 856 الاصابہ جلد 2 صفحہ 497 الاصابہ جلد 2 صفحہ 497 857 کنز العمال جلد 13 صفحہ 397 حدیث 37063 858 تفسیر کبیر جلد 13 صفحہ 206،205 دورہ یورپ، انوار العلوم جلد 8 صفحہ 543 سیرت خاتم النبیین صفحہ 121 859 860 861 معجم البلدان جلد 3 صفحہ 241 ، لغات الحدیث جلد 3 صفحہ 46 862 الطبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 165 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 296-02 3 خطبہ جمعہ 7 جون 2019ء) 863 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحہ 181 تا 183 864 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 32 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 6 865 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 269 866 صحیح البخاری حدیث 4251، السيرة العلمیہ جلد 3 صفحہ 95 867 طبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 179 تا 181 ، السيرة الحلمية جلد 1 صفحہ 77 ، اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 291، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 102 868 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 99 869 الاستيعاب جلد 1 صفحہ 75 870 تاریخ الطبری جلد 13 صفحہ 375، اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 291

Page 622

تاب بدر جلد 4 871 صحیح البخاری حدیث 2630 872 صحیح البخاری حدیث 4120 873 السيرة الحلمية جلد 1 صفحه 77-78 874 اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 291 875 صحیح مسلم حدیث 2454 876 606 صحیح البخاری حدیث 6771، فتح الباری حدیث 6771 جلد 12 صفحہ 58 877 السيرة النبوية صفحه 628-629 878 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 543 تا 546 874 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 303 تا 14 3 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 14 جون 2019ء 880 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 549 تا 555 881 ماخوذ از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 390-391 882 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين تصفحہ 683 سیرت خاتم النبيين صفحه 399 سیرت خاتم النبیین صفحه 403 883 884 885 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 33، السيرة الحلميه جلد 2 صفحہ 377-378 886 سیرت خاتم النبيين صفحہ 330 887 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 329 888 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 327 889 سیرت خاتم النبيين صفحه 367 890 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 465-466 891 سنن الترمذی حدیث 2732 892 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 558 893 الطبقات الکبری جلد دوم صفحہ 51 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 315-325 خطبہ جمعہ 21 جون 2019ء) 894 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 669 895 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 670 النبه سیرت خاتم النبیین صفحہ 680-681 896 897 ماخوز از سیرت خاتم النبيين مصفحہ 681-682 898 سیرت خاتم النبیین صفحہ 682-683 899 الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 98-97 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 34 900 صحیح البخاری حدیث 4261، مسند احمد جلد 7 صفحہ 505 حدیث 22918 901 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 34 902 ماخوذ از فریضہ تبلیغ اور احمدی خواتین ، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 405-406 903 صحیح البخاری حدیث 1246 904 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 34

Page 623

906 تاب بدر جلد 4 905 سنن ابی داؤ د حدیث 3122 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 34 907 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 33-34 صحیح البخاری حدیث 3735 909 کنز العمال جلد 13 صفحہ 397 حدیث 37066 911 910 کنز العمال جلد 13 صفحہ 397 حدیث 37067 المستدرک جلد 3 صفحہ 241 حدیث 4963 912 الاستيعاب جلد 2 صفحہ 117 913 607 ماخوذ از طبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 145 تا 147 ، ماخوذ از سيرة حلبیہ جلد 3 صفحہ 291 تا 294، ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 199-200، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 579 و جلد 2 صفحہ 483 و جلد 2 صفحہ 149 914 ماخوذ از سر الخلافته روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 394 حاشیہ 915 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 328-339 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 28 جون 2019ء 916 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 288، الاستیعاب جلد دوم صفحہ 550 917 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 289 918 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 288 919 الاستیعاب جلد دوم صفحہ 553 920 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 289 الاستيعاب جلد دوم صفحہ 551-552 921 922 الاستیعاب جلد 2 صفحہ 121 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 288-289 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 592-594 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 دسمبر 2018ء) 923 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 377 924 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 410، معجم البلدان جلد 4 صفحہ 155 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 113،114 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 01 مارچ 2019ء) 925 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 387 926 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 366، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 387 927 دروس حضرت مصلح موعودؓ (غیر مطبوعه) تفسیر سورة التوبه زیر آیت 92 928 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 361 929 930 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 387 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 115،116 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 01 مارچ2019ء) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 382-383 931 الطبقات الکبری جلد 3 صفحه 63 ماخوذ از مستدرک مترجم جلد 4 صفحہ 434 حاشیہ 932 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 62 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 64 934 الطبقات الكبرى جلد 4 صفحہ 233 935 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 382

Page 624

تاب بدر جلد 4 936 سیرت خاتم النبيين مصفحه 399 ت خاتم النبین صفحہ 403 البخاری حدیث 3758 937 938 939 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 383 940 الطبقات الكبرى جلد 2 صفحہ 35 608 941 اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 6 صفحہ 851، معرفۃ الصحابہ لابی نعیم جلد 2 صفحہ 483 942 سنن ابن ماجہ حدیث 4245 الطبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ 119 943 944 التاريخ الكبير جلد 6 صفحہ 127 حدیث 8538 945 946 سیرت ابن ہشام صفحہ 557-558، صحیح البخاری حدیث 4339 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 384 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 64-65 948 المستدرک جلد 3 صفحہ 251-252 حدیث 5004 949 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 166-172 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 مارچ2019ء 950 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 396 397، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 306 تا 307، الاصابہ جلد 3 صفحہ 20 951 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين 329 952 سبل الہدی جلد 4 صفحہ 15 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 307 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 135 134 خطبہ جمعہ 15 مارچ2019ء) 953 954 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 399 955 السيرة الحلمية جلد 2 صفحہ 174 958 959 956 سنن ابی داؤد حدیث 4836 957 سیرت خاتم النبيين "صفحہ 106 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 117،116 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 1 مارچ 2019ء) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 190، الاصابہ جلد 3 صفحہ 25-26 ، 152 ، الاستیعاب جلد 2 صفحہ 29 (خطبات مسرور جلد 16 صفحه 494 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 407 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 403 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 306 خطبہ جمعہ 6 جولائی 2018ء) 960 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 275 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 489 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2018ء) 961 الاستيعاب جلد 2 صفحہ 580، الاصابہ جلد صفحہ 34 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 393، عیون الاثر جلد 1 صفحہ 233 ، پچاس صحابہ صفحہ 553 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 308 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 جولائی 2018ء) 92 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 371، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 412 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 116 خطبہ جمعہ 1 مارچ 2019ء) 963 الاستیعاب جزء 2 صفحہ 606-607، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 101 964 سیرت خاتم النبیین صفحہ 123 ، سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 680-681 965 الاصابه جزء 2 صفحہ 324 966 صحیح بخاری حدیث : 3727، صحیح بخاری حدیث: 3858 967 اسد الغابه جزء 2 صفحہ 453

Page 625

اصحاب بدر جلد 4 609 968 اسد الغابہ جزء2 صفحہ 455، روشن ستارے جلد 2 صفحہ 63-64، فرہنگ سیر ت صفحہ 30 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 103 970 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 122-123 971 972 973 974 975 الاصابہ جزء 2 صفحہ 324 صحیح مسلم حدیث: 1748 اسد الغابہ صفحہ 455 اصحاب بدر صفحه 91 جامع ترمذی حدیث : 3752 976 صحیح مسلم حدیث 2417 الاصابه جزء 2 صفحہ 324 978 سیرت خاتم النبیین صفحه 166-167 979 روشن ستارے جلد 2 صفحہ 66-67 980 عمدة القاری شرح صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 305 981 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 103 982 روشن ستارے جلد 2 صفحہ 64 983 الاستيعاب جزء 2 صفحہ 172 الاصابہ جزء 2 صفحہ 325 984 985 986 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 282-283، صحیح مسلم حدیث: 2410 روشن ستارے جلد 2 صفحہ 67-68 الاصابہ جزء 2 صفحہ 324-325 988 جامع العلوم والحكم في شرح حمسين حديثا من جوامع الکلم جلد 2 صفحہ 350 989 المستدرک روایت: 6121 جلد 3 صفحہ 571-572 990 ماخوذ از انوارالعلوم جلد 20 صفحہ 279 ( خطبہ جمعہ 17 جولائی 2020ء ، الفضل انٹر نیشنل 7 اگست 2020ء) 991 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 105 992 صحیح مسلم حدیث: 2415 993 صحیح بخاری حدیث: 3728، جامع ترمذی حدیث 2366 994 سنن ابن ماجہ حدیث:131 ، الاستیعاب جزء 2 صفحہ 607، اسد الغابہ جزء 2 صفحہ 453 995 معجم البلدان جلد 2 صفحہ 99-100 ، ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 328 996 معجم البلدان جلد 2 صفحہ 400 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 329-330 997 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 330 تا334 998 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ 355-356 999 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 104 1000 عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 1 صفحه 305 1001 ماخوذ از خطبات طاہر ( تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت تقریر جلسہ سالانہ 1979ء صفحہ 337

Page 626

اصحاب بدر جلد 4 610 1002 ماخوذ از خطبات طاہر ( تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت) تقریر جلسہ سالانہ 1979ء صفحہ 346 1003 سیرت خاتم النبيين تصفحہ 495 1004 صحیح بخاری حدیث: 4055 جامع ترمذی حدیث: 3753 1005 1006 1007 1008 بخاری حدیث: 3720 صحیح مسلم حدیث:2412 الاصابہ جلد 3 صفحہ 64 1009 صحیح مسلم جلد 13 صفحہ 41 1010 روشن ستارے جلد 2 صفحہ 71 1011 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 769 1012 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 105 1013 صحیح بخاری حدیث: 6733 1014 صحیح بخاری حدیث 1295 1015 سنن نسائی حدیث: 3661 جامع ترمذی حدیث: 2116 تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 325 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 108 1019 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 108 1016 1017 1018 1020 تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 151 1021 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 79 1024 1022 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 79 تا 82 ، اٹلس فتوحات اسلامیہ صفحہ 126،118،100،81، معجم البلد ان جلد 4 صفحہ 333 1023 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحه 368،367(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 24 جولائی 2020ء ، الفضل انٹر نیشنل 14 اگست 2020ء) ماخوذ از عشره مبشره از بشیر ساجد صفحه 850-851 1025 ماخوذ از قرون اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ ، انوار العلوم جلد 25 صفحہ 428 تا430 1026 ماخوذ از روشن ستارے صفحہ 84 تا 88 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 117-118، معجم البلدان مترجم صفحہ 56، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 610 1027 1028 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 88 تا 90 ، شرح زرقانی جلد 4 صفحہ 539، معجم البلدان مترجم صفحہ 292 حیح بخاری حدیث: 755 1029 صحیح بخاری حدیث: 3728، سنن الترمذی حدیث: 2365-2366 1030 ماخوذ از صحیح بخاری حدیث حدیث : 3700، صحیح بخاری حدیث: 1392 1031 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 120 1032 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 106 1033 سنن ترمذی حدیث: 2194 1034 اسلام میں اختلافات کا آغاز ، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 321

Page 627

تاب بدر جلد 4 1035 اسد الغابہ جزء 2 صفحہ 455 1036 سنن ترمذی حدیث:3724 1037 طبقات الکبریٰ جزء3 صفحہ 108-109 اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 456 1038 1039 الاصابہ جلد 3 صفحہ 64 611 1040 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 110 ، الاستیعاب جزء 2 صفحہ 610 1041 1042 1043 1044 اسد الغابہ جزء 2 صفحہ 456 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 110 اسد الغابہ جزء 2 صفحہ 456، طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 110 ، الاستیعاب جزء 2 صفحہ 610 حیح مسلم حدیث: 973، الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 109 1045 1046 1047 صحیح مسلم حدیث: 966 اسد الغابہ جزء 2 صفحہ 456 سیرت خاتم النبیین صفحہ 373 1048 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 98، 99، الاصابہ جلد 5 صفحہ 219(خطبہ جمعہ 14 اگست 2020ء، الفضل انٹر نیشنل 4 ستمبر 2020ء) 1049 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 209-210، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 217 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 387 خطبہ جمعہ 17 اگست 2018ء) 1050 اسد الغابہ جزء 2 صفحہ 427 1051 صحیح مسلم حدیث 4209، طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 312 1052 اصابہ جلد 3 صفحہ 21 1053 سبل الهدی والرشاد جزء 8 صفحہ 485 1054 صحیح مسلم حدیث 3722، استیعاب جلد 4 صفحہ 1859 1055 خطبہ جمعہ 24 فروری 2023ء روزنامه الفضل انٹر نیشنل مورخہ 23 مارچ 2023 ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مسیح موعود بعنوان براہین احمدیہ ) صفحہ 5 تا 10 جلد 30 شمارہ 24 1056 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 366-367، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 429 1057 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين مصفحہ 227 تا 232 1058 السيرة النبوية لابن كثير صفحہ 215-216 1059 الطبقات الکبری جلد 3 صفحه 87-88 1060 الطبقات الکبرای جلد 2 صفحہ 214، سنن ابن ماجہ حدیث 1468 ، سبل الهدی والرشاد جلد 7 صفحہ 229 1061 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 112،36،32،6 1062 1063 مستدرک جلد 3 صفحہ 209 حدیث 4866 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 429 1064 کتاب المغازي للواقدی صفحہ 92-93 ، لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 431 اللہ 1065 دلائل النبوة للبیہقی جلد 3 صفحہ 110 1066 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 353

Page 628

اصحاب بدر جلد 4 612 1067 شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 260، السيرة الحلمية جلد 2 صفحہ 205 1068 خطبات مسرور جلد 17 صفحه 140-145 خطبه جمعه فرمود مودہ مورخہ 15 مارچ2019ء 1069 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 395، جلد 8 صفحہ 303 ، عمدۃ القاری جلد 20 صفحہ 216 1070 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 214 1071 صحیح بخاری حدیث 2048 1072 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 396 ، الاستیعاب جلد 2 صفحہ 157 ، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 432-433 1073 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین تصفحہ 500-501 1074 تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 35،34 الاصابہ جلد 2 صفحہ 315 1075 1076 سنن الترمذی حدیث 2092 1077 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 507 تا509 1078 1079 1080 خطبہ جمعہ 5 جون 2020ء ، الفضل انٹر نیشنل 26 جون 2020ء صفحہ 5 تا 9 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 217-218 اسد د الغابہ جلد 2 صفحہ 216 1081 خطبات مسرور جلد 16 صفحه 577 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 439، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 395 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 135 خطبہ جمعہ 15 مارچ2019ء) 1082 1083 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 460-461 1084 طبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 277 1085 اسدال د الغابہ جلد 2 صفحہ 441 1086 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 460-461، عمدۃ القاری جلد 16 صفحہ 279 1087 الاستيعاب جلد 2 صفحہ 595 1088 1089 الصحابہ جلد 3 صفحہ 375 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 227 تا 232،229 233 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 661 تا 665 خطبہ جمعہ 20 دسمبر 2019ء) 1090 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 461 1091 سیرت خاتم النبيين صفحه 230 1092 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 461 1093 1094 سبل الهدی والرشاد جلد 3 صفحہ 272 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 441 1095 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 461 1096 صحیح البخاری حدیث 2567 1097 سبل الهدی والرشاد جلد 3 صفحہ 275 و 279 ، لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 572 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 268 1099 سبل الہدی والرشاد جلد 7 صفحہ 200 1100 سد الغابہ جلد 2 صفحہ 442،441 ، عمدۃ القاری جلد 2 صفحہ 222

Page 629

تاب بدر جلد 4 1101 1102 مسند احمد جلد 4 صفحہ 356-357 حدیث 12433 الاصابہ جلد 3 صفحہ 56 613 1103 الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 5 ، اٹلس سیرت نبوی صلی الم صفحہ 84 1104 1105 سیرت خاتم النبیین صفحہ 327-328 الاستیعاب جلد 2 صفحہ 594 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 461، سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 377 1106 المستدرک جلد 3 صفحہ 282 حدیث 5096 1107 سا سبل الہدی والرشاد جلد 4 صفحہ 24 1108 سبل الہدی والرشاد جلد 7 صفحہ 406 سبل الهدی والرشاد جلد 7 صفحہ 368 مسند احمد جلد 1 صفحہ 917 حدیث 3486 1109 1110 1111 صحیح البخاری حدیث 4566 1112 صحیح مسلم حدیث 1779، فرہنگ سیرت صفحه 57 1113 الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 28 تا 30 1114 سیرت خاتم النبيين صفحه 486 1115 سبل الہدی والرشاد جلد 4 صفحہ 197 1116 سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 229 1117 سبل الہدی والرشاد جلد 4 صفحہ 310، فرہنگ سیرت صفحہ 106، سیرت خاتم النبین صفحہ 354، شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 464 1118 سبل الہدی والرشاد جلد 4 صفحہ 325، اٹلس سیرت نبوی صلی الی یوم صفحہ 264-265، عمدۃ القاری جلد 12 صفحہ 204 1119 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 461-462 1120 عون المعبود شرح سنن ابی داؤد جلد 3 صفحه 65-66 1121 صحیح البخاری حدیث 2762 1122 خطبات مسرور جلد 17 صفحه 666-678 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 27 دسمبر 2019ء 1123 اُسد الغابہ جلد 5 صفحہ 258 1124 1125 1126 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 442 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 589-590 سیرت خاتم النبيين منصفحہ 584-585 1127 سبل الهدی والرشاد جلد 5 صفحہ 6 1128 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 34 1129 صحیح بخاری حدیث 4280، معجم البلدان جلد 4 صفحہ 247 1130 1131 ماخوذ از دیباچه په تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 341 تا 343 مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 2 19-193، الٹا 1 اٹلس سیرت نبوی صفحہ 408-409،السيرة الحلبيه جلد 3 صفحہ 163و175 1132 سبل الهدی والرشاد جلد 8 صفحہ 460 کتاب المغازی جلد 3 صفحہ 1093 1133 صحیح البخاری حدیث 1284 1134 صحیح البخاری حدیث 1304

Page 630

تاب بدر جلد 4 1135 صحیح مسلم حدیث 2138 614 1136 مستدرک جلد 5 صفحہ 39-40، فتح الباری جلد 9 صفحہ 678، جہا نگیر اردو لغت صفحہ 539،649 :Lexicon part 2 P 1137 1138 1139 1140 1141 1142 1143 حیح بخاری حدیث 3807 صحیح مسلم حدیث 6425 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 461 صحیح مسلم حدیث 3763 1 صحیح مسلم حدیث 3764 مسند احمد جلد 7 صفحہ 473 حدیث 22828 اسد الغابہ، جلد 1 صفحہ 503 1144 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 430( الفضل انٹر نیشنل لندن 31 جنوری 2020ء صفحہ 5 تا9، خطبہ جمعہ 10 جنوری 2020ء) 1145 مسند احمد جلد 1 صفحہ 158-159 1146 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 312 1147 تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 266 1148 خطبات محمود جلد 16 صفحہ 81-82، خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1935ء 1149 ماخوذ از خطبات محمود جلد 16 صفحہ 95 تا 101، خطبہ جمعہ 08 فروری 1935ء 1150 الطبقات الکبر کی جلد 3 صفحہ 463 ، الاصابہ جلد 3 صفحہ 56، الاستیعاب جلد 2 صفحہ 164 ( الفضل انٹر نیشنل لندن 7 فروری 2020ء صفحه 5 تا 9 ، خطبہ جمعہ بیان فرموده 17 جنوری 2020ء) 1151 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 349 ، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 445، الاصابہ جلد 3 صفحہ 57 1152 ماخوذ از تاریخ ابن خلدون مترجم جلد 3 صفحہ 270 تا 273 1153 خطبات مسرور جلد 17 صفحه 135-137 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2019ء 1154 اصحاب بدر صفحہ 148، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 263، الاصابہ جلد 3 صفحہ 58 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 574، 575 خطبہ جمعہ 23 نومبر 2018ء) 1155 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 320-321 ، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 461 ، الاصابہ جلد 3 صفحہ 70 1156 النه ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 224 تا 227، فرہنگ سیرت صفحہ 60 1157 ماخوذ از سیرت خاتم النبین صفحہ 280 تا282 1158 1159 1160 حیح بخاری حدیث: 3632 صحیح بخاری حدیث: 3950 دیباچه یہ تفسیر القرآن ، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 235-236 1161 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 321-322 1162 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 354-355، فرہنگ سیرت صفحہ 173 1163 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 26 جون 2020 ء، الفضل انٹر نیشنل 17 جولائی 2020ء 1164 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 620-621 1165 تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 31،30 سیرت خاتم النبیین صفحه 356-357 1166

Page 631

تاب بدر جلد 4 1167 الطبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 28 تا30 سیرت خاتم النبيين صفحه 486 1168 1169 سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 229 615 1170 ماخوذ از فریضہ تبلیغ اور احمد کی خواتین، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 400-401 1171 دیباچه تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 256-257 1172 خطبہ جمعہ 7 / دسمبر 2018ء اور خطبہ جمعہ 17 فروری 2020ء 1173 خطبہ جمعہ 17 دسمبر 2018ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 28 دسمبر 2018ء اور خطبہ جمعہ 17 فروری 2020ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 128 فروری 2020ء 1174 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين تصفحہ 467 تا471 1175 اٹلس سیرت نبوی صلی علیہ الم صفحہ 264-265 ، سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 325 1176 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحه 449 تا451 1177 سیرت خاتم النبین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ) صفحہ 584-585 1178 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 3 جولائی 2020ء ، الفضل انٹر نیشنل 24 جولائی 2020ء 1179 استثناء باب 20 آیت 10 تا 17 1180 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 282-287 1181 صحیح بخاری حدیث: 3804 1182 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 599 تا611 1183 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 2020ء، الفضل انٹر نیشنل 31 جولائی 2020 1184 سیرت خاتم النبیین صفحه :595 : 1185 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 322 1186 1187 1188 الاصابہ جلد 03 صفحہ 71 صحیح مسلم حدیث: 2208 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 322 1189 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 325 1190 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 325-326 1191 1192 یح بخاری حدیث: 2615 صحیح مسلم حدیث: 2468 1193 صحیح بخاری حدیث: 3803 1194 صحیح مسلم حدیث:2467 1195 سیرت خاتم النبيين صفحه 613-614 1196 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 328 1197 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 328، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 464 1198 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 329 1199 الطبقات الکبری جزء 3 صفحہ 329-330

Page 632

تاب بدر جلد 4 1200 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 330 1201 الطبقات الکبری جزء 3 صفحہ 330-331 1202 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 332 1203 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 463 1204 مجمع الزوائد جلد 09 صفحه 375 616 1205 الاصابهہ جلد 03 صفحه 71 ( خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2020ء ، الفضل انٹر نیشنل 7 اگست 2020ء) 1206 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 428، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ ،85، سیر الصحابہ جلد 4 حصہ 7 صفحہ 318 (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 50 خطبہ جمعہ 25 جنوری 2019ء) 1207 1208 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 476، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 294،292، ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 155 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 476، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 368 1209 صحیح البخاری حدیث 3626، فرہنگ سیرت صفحہ 61 1210 صحیح البخاری حدیث 3627 1211 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 156 ، الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 290 1212 صحیح بخاری حدیث 3828 1213 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 370،369 1214 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 156-157 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 291 1215 1216 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 368 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 476، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 292 1217 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 157 تا 159 1218 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 476 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 292 1219 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 292-293، السيرة النبوية على ضوء القرآن والسنتہ جلد 2 صفحہ 123، فرہنگ سیرت صفحہ 75 1220 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 155 1221 سنن الترمذی حدیث 3757، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 478 1222 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 478 1223 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 294 1224 ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 164 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 138 1225 ماخوذ از سیر الصحابه جلد دوم صفحه 139 1226 ماخوذاز روشن ستارے جلد 2 صفحہ 165 1227 1228 1229 1230 اسد الغابہ جلد 2 صفحه 477 ، ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 164-165 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 478، ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 138 ، فرہنگ سیرت صفحہ 204 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 478 ، ماخوذ از سیر الصحابه جلد دوم صفحه 138 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 292، ماخوذ از سیر الصحابه جلد دوم صفحه 140 (خطبہ جمعہ 12 جون 2020ء، الفضل انٹر نیشنل 3 جولائی 2020ء) 1231 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 274

Page 633

تاب بدر جلد 4 617 1232 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 30 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 490 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) 1233 السيرة النبویہ لابن ہشام صفحہ 464، الاستیعاب جلد 2 صفحہ 198 1234 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 236 ، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 516 ، الاصابہ جلد 3 صفحہ 120 ، تاریخ ابن خلدون مترجم جلد 3 حصہ 1 صفحہ 271 1235 السيرة العلمية جلد 2 صفحہ 245 شرح زرقانی جزء 2 صفحہ 302 ، دلائل النبوة للبيهقى جلد 3 صفحہ 99 * 1236 1237 عیون الاثر جلد 2 صفحہ 88 1238 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحہ 741 تا 743 1239 کتاب المغازی جلد 2 صفحہ 93 1240 خطبات مسرور جلد 17 صفحه 232-236 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03 مئی 2019ء 1241 الطبقات الکبریٰ صفحہ 234 ، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 291 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 484 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2018ء) 1242 1243 سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 391 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 523 1244 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 335 1245 رحمت دارین کے سوشیدائی صفحہ 574 تا 576 1246 1247 الاصابہ جلد 3 صفحہ 125 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 568،569 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء) الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 388، سیرت ابن ہشام صفحہ 229 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 311 خطبہ جمعہ 6 جولائی 2018ء) 1248 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 538 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 388 1249 1250 1251 امتاع الاسماع جلد 6 صفحہ 248 امتاع الاسماع جلد 7 صفحہ 169،168 1252 کتاب المغازی جلد 3 صفحہ 896 1253 ماخوذ از الاكتفاء جلد 2 جزء 2 صفحہ 124- 129 ، ماخوذ از البدایة والنہایہ جلد 4 صفحہ 46، ماخوذ از اٹلس فتوحات اسلامیہ حصہ 2 صفحہ 90، البداية والنهاية جلد 9 صفحہ 594، معجم البلدان جلد 4 صفحہ 349، سیر اعلام النبلاء سير الخلفاء الراشدون صفحہ 100 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 538، طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 388 (خطبہ جمعہ 27 جنوری 2023ء الفضل انٹر نیشنل 1254 1255 17 تا 23 فروری 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحه 5 تا 10 جلد 30 شماره 14-15) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 543 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 41 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2019ء) 1256 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 545 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 435 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 41 خطبہ جمعہ 25 جنوری 2019ء) اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 545 - 546 ، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 372 ( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 43 خطبہ جمعہ 1257 25 جنوری 2019ء) 1258 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 546، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 391 1259 الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 39- 40 1260 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 41-43 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2019ء 1261 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 552 (خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 41-43 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2019ء)

Page 634

اصحاب بدر جلد 4 618 1262 روض الانف جلد 4 صفحہ 62، سیرة الحلبية جلد 3 صفحہ 26، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 69، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 561 1263 سیرت ابن کثیر صفحہ 280، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهير والاعلام جلد 3 صفحہ 371 1264 تاريخ الطبری جلد 3 صفحہ 245 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 562،561 خطبہ جمعہ 23 نومبر 2018ء) 1265 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 291 ، حبیب کبریاء کے تین سو اصحاب صفحہ 325 1266 السيرة النبوية لابن ہشام جزء 1 صفحہ 276 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 485 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2018ء) 1267 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 247، الاستیعاب جلد 2 صفحہ 223 1268 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 348 1269 الاستيعاب جلد 2 صفحہ 223 1270 السيرة الحلمية جلد 2 صفحہ 359 1271 شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 301 تا 303 ، امتاع الاسماع جلد 1 صفحہ 325-326 1272 ماخوذ از سیرت خاتم النبین صفحہ 656-657 1273 * 1274 حیح البخاری حدیث 3182 شرح حیح البخاری جلد 5 صفحہ 543 حدیث 3183 1275 المستدرک جلد 4 صفحہ 127 حدیث 5837 1276 الاستيعاب جلد 2 صفحہ 223 1277 المستدرک جلد 4 صفحہ 124 حدیث 5827 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 248 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 399 403 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 24 اگست 2018ء) 1278 معجم الاوسط جزء5 صفحہ 324 حدیث 5438 1279 مسند احمد جلد 25 صفحہ 351 روایت 15977 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 360 1280 1281 خطبہ جمعہ 24 فروری 2023ء روزنامہ الفضل انٹر نیشنل مورخہ 23 مارچ 2023ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مسیح موعود بعنوان براہین احمدیہ صفحہ 5 تا 10 جلد 30 شمارہ 24 1282 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 387، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 578( خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 137 خطبہ جمعہ 15 مارچ2019ء) 1283 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 436 1284 کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 267 1285 الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 301 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 626،625 خطبہ جمعہ 28 دسمبر 2018ء) 1286 1287 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 372 دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 228 1288 سیرت خاتم النبيين "صفحہ 269 1289 شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 186 1290 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 269 تا 271 1291 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 137-140 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2019ء 1292 1293 الاصابہ جلد 3 صفحہ 162، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 344 سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 577

Page 635

تاب بدر جلد 4 1294 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 318 1295 1296 1297 619 الاصابہ جلد 3 صفحہ 162 163 ، الاصابہ جلد 3 صفحہ 176 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 317 صحیح البخاری حدیث 4617 صحیح البخاری حدیث 5600 1298 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 317 مترجم صحیح مسلم حدیث 1603 جلد 4 صفحہ 135 1299 1300 خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 570،571 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2018ء 1301 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 293 ( خطبات مسرور جلد 16 صفحه 488 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2018ء) 1302 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 590 1303 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 357-358، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 590 (خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 345،346 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2018ء) 1304 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 354، الاصابہ جزء 6 صفحه 368، تاریخ دمشق الكبير لابن عساکر جلد 12 جزء 24 صفحہ 117 1305 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 65 1306 سنن ابن ماجہ حدیث 3719، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 522 1308 1309 خطبات مسرور جلد 17 صفحہ 200،201 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2019ء اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 370 ، الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 51 سیرت ابن کثیر صفحہ 421 1310 شرح زرقانی جلد 5 صفحہ 46، الاصابہ جلد 3 صفحہ 256 1311 السيرة الحلمه جلد 3 صفحہ 357-358، الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 70 1312 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 828-829 1313 الطبقات الکبری جلد 2 صفحہ 313، شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 337 1314 خطبات مسرور جلد 16 صفحہ 410-414 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31 اگست 2018ء

Page 636

Page 637

اصحاب بدر جلد 4 آیات قرآنیه.احادیث نبوية.مضامین.اسماء........مقامات کتابیات ببلیوگرافی انڈیکس 3.............5.7….................انڈیکس 13.28..............32......33..............

Page 638

Page 639

تاب بدر جلد 4 3 آیات آیات البقرة وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَبٌ مِّنْ عِنْدِ اللَّهِ (90) وَ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَب لَوْ يَرُدُّونَكُمْ (110) إنا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (157) الانفال 138 إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ (10) 471 إذْ يُوحَى رَبُّكَ إِلَى الْمَلَكَةِ إِنِّي مَعَكُمْ (13) 324 323 453،337،241 وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً (26) 349 إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَتِ وَالْهُدى (271160 وَ انْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيِّدِ يَكُمُ (196) يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالِ فِيْهِ (218) وَلا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمُ (238) آل عمران التوبة 30 26 انْفِرُوا خِفَافًا وَ ثِقَالا (41) وَمِنْهُمْ مَنْ عَهَدَ اللهَ لَبِنْ النَا مِنْ فَضْلِهِ (75-77) 191 40 5 58 الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَوَعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (79) وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوكَ لِتَحْمِلَهُمْ (92) 401،400 فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَ ابْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا (62) 440 السَّابِقُونَ الْأَوَّلُون (100) لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَلَى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (93) 78 قُلْ يَاهْلَ الْكِتَبِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِأَيْتِ اللهِ (100،99 200 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا ( 101 102) وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ (127) 157.156 وَأَخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا (102) 67 یوسف 200 وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ (19) الرعد 325 لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ (129) 404 لَهُ مُعَقِبتَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ (12) تِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (141) وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ (145) 434 سَلامُ عَلَيْكُم (25) 408.407-233 الحجر وَكَاتِن مِنْ نَّبِي قَتَلَ مَعَهُ رِبيُّونَ كَثِيرٌ (408،407147 وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِّنْ غِلٌ (48) ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَةِ آمَنَةً نُّعَاسًا (155)138 الَّذِينَ اسْتَجَابُو اللَّهِ وَالرَّسُولِ (173) لتبلونَ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ (187) النساء 342 470 النحل 381 511 565 353 وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُو قِبْتُم بِهِ (127) 266 الكهف الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (47) مریم 178 فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ (66) 346،269،268 ياهل الكتب لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ (172) 96 لَن يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ أن يكونَ عَبد الله (173) 96 إِنَّ الَّذِينَ تَوَقُهُمُ الْمَلبِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمُ (98) 288 الانعام ماتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (163) 183 أَفَرَعَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِأَيْتِنَا وَ قَالَ لَأُوتَيَنَ مَالًا وَ وَلَدًا (8178) 278 إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُنِي (16،15) 542،276

Page 640

حاب بدر جلد 4 4 آیات المومنون وَقُلْ رَّبِّ انْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَرَكَا (30) النور الَّذِينَ يُظْهِرُونَ مِنْكُم مِّن نِّسَا بِهِم مَّاهُنَّ أمَّهُتِهِد 199 | وَلِلْكَفِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (53) الحشر 129 وَلَيْسَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ (56) 495 وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (10) 76 الفرقان وَ انْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا (49) العنكبوت وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسُنا (9) لقمان 475 415 الطلاق وَأَوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (5)114 الم نشرح وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي انْقَضَ ظَهْرَكَ (3) العلق وَ إِنْ جَاهَدُكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي وَ صَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبَّكَ الَّذِي خَلَقَ (2) 362 327 مَعْرُوفًا (16) الاحزاب 415 وووووو أدعوهم لا بَابِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللهِ (6) 402.361 مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالُ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ (24) 566 وَرَدَ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمُ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا (26) 310 أمسِك عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللهَ (38) 372 وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ (38) 373 فَلَمَّا قَضَى زَيْدُ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجُنْكَهَا (38) 373 لَبِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ في الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ (61) الزمر 378 ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ (32) 346 الزخرف لَو لَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ (32) الدخان كمْ تَرَكُوا مِن جَنتِ وَعُيُونٍ وَأَوْرَثْنَهَا قَوْمًا أَخَرِينَ 364 (26-29) الحجرات إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ (14) المجادلة قَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا (2) 434 372 130 التكاثر ثُمَّ لَتُسْتَكُنَّ يَوْمَيذٍ عَنِ النَّعِيمِ (9) 346

Page 641

اصحاب بدر جلد 4 5 احادیث احادیث أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللهِ الطَّلَاقُ 372 اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَةِ وَالحَزَنِ، وَالعَجْزِ 375 وَالكَسَلِ، وَالبُخْلِ وَالجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ أَسْرَعُكُنَ لَحَاقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا اللَّهُمَّ اسْقِنَا اللَّهُمَّ اسْقِنَا اللَّهُمَّ اسْقِنَا الرَّجَالِ اللَّهُمَّ اكْفِنِي نَوْفَلْ ابْنَ خُوَيْلِد 198 اللهم سدد سهمه وأجب دعوته اللَّهُمَّ بَارِكْ فِيهِمَا وَبَارِكْ عَلَيْهِمَا وَبَارِك لَهُما ما امرتكم بقتال في الشهر الحرام نَسْلَهُمَا 73 418 422 217 مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يَبْتَغِي بِذلِكَ وَجْةَ اللهِ 23 أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تلدهم عالةٌ مَنْ يَأْخُذُ مِنّى هَذَا يتكففون الناس 426 آئِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبّنَا حَامِدُونَ 73 الأئمة من قريش 151 هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ 46 82 هذَا عَمَلُ أَبِي بَراءَ وَقَدْ كُنْتُ لِهَذَا كَارِهَا مُتَخَوْفًا 241 حُبَّبَ إِلَى مِنْ دُنْيَاكُمُ النِّسَاءِ وَالطِيبُ وَجُعِلَتْ يَجِينُ أَحَدُكُمْ بِمَالِهِ كُلِّهِ يَتَصَدَّقُ بِهِ وَ يَجْلِسُ قُرَةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ 457 يَتَكَفَّفُ النَّاسَ إِثْمَا الصَّدَقَةُ عَنْ ظَهْرِ غِنَّى 426 خُذُوا القُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ احادیث بالمعنى 107 آپ نے اس دن ان کا نام منذر رکھا وَسَالِمٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَأُتِيَ بْنِ كَعْبٍ 107 سبحان اللہ العظیم سبحان الله مصرف القلوب اس طرح کی نیکی تم سب کو کرنی چاہئے الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ 2 216 376 اے اللہ جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے خود ان کی پکڑ کر 236 اے مسلمانوں کے گروہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو 200 آنحضرت صلی ا م پر کسی یہودی نے جادو کر دیا تھا 164 اللهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ المُنْذِرِينَ اللَّهُمَّ اسْتَجِبْ لِسَعْدِ إِذَا دَعَاكَ 74 418 202 میرے پاس ایک غلام ہے کیا اس کا کوئی خریدار ہے ؟ 330 تم ایک ایسے بندے ہو جس کے دل میں اللہ نے ایمان کو اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ بِمَا صَنَعَ خَالِدٌ 407 روشن کر دیا ہے اللَّهُمَّ إِنِّي أَشْكُو إِلَيْكَ ضَعْفَ قُوَّتِي وَقِلَّةَ حِيلَتِى تم پر جنت واجب ہو گئی 214 215 وَهَوَانِي عَلَى النَّاسِ أَنْتَ أَرْحَمُ الرّاحِمِينَ، أَنْتَ رَبُّ جب تم روضتہ طاخ ایک جگہ ہے وہاں پہنچو تو ہاں ایک شتر الْمُسْتَضْعَفِينَ أَنْتَ رَبِّي 364 سوار عورت ہو گی 224

Page 642

اصحاب بدر جلد 4 تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہل بدر کو دیکھا اور فرمایا جو تم چاہو کرو 225.224 جس نے ہماری نماز جیسی نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی تو اس نے ٹھیک قربانی کی حارثہ تو فردوس اعلیٰ میں ہے خد اتعالیٰ تم پر برکت نازل فرمائے 32 215.214 217 سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اسے ہلاک کیا 203 صحابی کا ہلکی نماز پڑھنا اور آنحضور صلی یکم کا دوبارہ نماز پڑھنے کا ارشاد فرمانا فرشتے اس کی حفاظت کر رہے ہیں فرشتے اس کی معیت میں لڑ رہے ہیں اللہ تجھ سے راضی ہو مسکین کی مدد کر نا بری موت سے بچاتا ہے مهمان نوازی جس پر خدا بھی ہنس پڑا میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں حارثہ کو دیکھا 328 204 204 220 216 76 214 میں وہی باتیں جانتا ہوں جن کے بارہ میں خد ا مجھے خبر دیتا ہے 212 اگر تمہارے پاس پانی ہو یا آج رات مشک میں رہا ہو تو پلاؤ ور نہ ہم یہیں سے منہ لگا کر پانی پی لیں گے 10 یارسول اللہ ! میرے ماں باپ کے مر جانے کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی صورت ہے ؟ 6.5 وہ اس میں ہر گز داخل نہیں ہو گا کیونکہ وہ غزوہ بدر اور صلح حدیبیہ میں شامل ہو ا تھا 228-225 6 احادیث

Page 643

اصحاب بدر جلد 4 7 مضامین اذان حضرت بلال کو اذان دینے کے لئے مقرر کرنا مضامین حرمت والے مہینہ میں لڑائی اور اعتراض کا جواب 40 156 حضرت اسامہ کو امیر بنائے جانے پر اعتراض 393 ان کی اذان پر ہنسنا اور نبی صلی علیم کا فرمانا کہ عرش کا خدا اس جنازہ کا مسجد میں لائے جانے پر اعتراض اور جواب 571 کی اذان سن کر خوش ہوتا ہے 181، 156 اسلام پر اعتراض کرنے والے دیکھیں کہ بچے اور ماں کے 162 حوالہ سے کیا خوبصورت تعلیم دی گئی ہے.اذان کی ابتداء اور سب سے پہلا مؤذن اذان کے الفاظ وحی ہونا فجر کی اذان کے الفاظ میں اضافہ 163 اعتراض کہ نبی صلی ایم کی وفات زہر سے ہوئی 164 کعب بن اشرف کا قتل اور اعتراض حضرت بلال کا اذان دینا چھوڑ دینا 171 ، 100 حضرت زینب سے شادی پر اعتراض 28 143 209 375 حضرت بلال کا مدت بعد اذان دینا فتح مکہ کے دن کعبہ کی چھت پر اذان 165 کا اعتراض حضرت عمرؓ کا حضرت بلال کے بعد حضرت سعد اور ان کی عورت کے حقوق اور اعتراض بنو قریظہ کے قتل اور اعتراض 100 حضرت سعد اور انکے ساتھی کا اونٹ کھو جانا اور مار گولیس اولا د کے سپر د اذان کرنا اذان کے بعد دو نوافل کی اہمیت 171 176 امانت اگر کسی بستی میں اذان کی آواز سنتے تو حملہ نہ کرتے 187 | امانت و دیانت کا اعلیٰ معیار اسلام اسلام قبول کر نیکی پاداش میں حقوق کا غصب اور طنز 277 57 421 457 527 3 گری پڑی چیز امانت اور دو سال تک اس کے مالک کا انتظار انفاق فی سبیل اللہ 118 قبول اسلام اور نام تبدیل کرنا قیمتیں مقرر کرنے کے بارہ میں اسلامی تعلیم 225 کھجوروں کا باغ جو سب سے زیادہ محبوب تھا وہ خدا کی راہ میں اطاعت 87 دے دیا اونٹ 421 56 78 حضرت ابو عبیدہ کا اعلیٰ درجہ کی اطاعت شراب کی حرمت کا سن کر فورا مٹکے توڑ دینا 570 ، 81 حضرت سعد اور انکے ساتھی کا اونٹ کھو جانا اور مار گولیس صحابہ کی اطاعت ہر عہدیدار اور احمدی کے لئے نمونہ 99 کا اعتراض بھائی کی نعش پر بہن کا صبر اور اطاعت کا مظاہرہ 252 چندہ وغیرہ لینے والوں کی دیانت کا اعلیٰ معیار تمام برتر برکتیں صرف اطاعت خلافت میں ہی ہیں 397 بچہ بیٹا اطاعت کے لحاظ سے ان میں اور انبیاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا.بچوں کو بہادر بنانے میں والدہ کا کر دار اطاعت جس طرح نبی کی ضروری ہوتی ہے ویسے ہی خلفاء کی بھی بچوں کو مارنے سے اعتماد میں کمی آتی ہے ضروری ہوتی ہے اعتراض آنحضرت کی شادیوں پر اعتراض کا جواب 493 5 بنت جون کا قصہ اور مخالفین کے اعتراض کا جواب 3 بیٹیوں کا نام شہداء کے نام پر رکھنا 331 332 334 بیٹے کی وفات پر قابل رشک صبر ورضا ( ام سلیم) 79 اوفات پر قابل رشک صبر ورضا سب سے بڑی بیماری 137

Page 644

اصحاب بدر جلد 4 بر چھی تلوار ایک قیمتی اور متبرک بر چھی بیماری 336 آنحضور کی تلوار کا حق ادا کرنے والے کھجور کی چھڑی جو تلوار بن گئی بیماری سے شفا پانے پہ نذر پوری کرنا 315 توحید بخل سب سے بڑی بیماری بنو قینقاع کا بیماری سے ہلاک ہونا 137 265 زمانہ جاہلیت کے موحد جزائے خیر حضرت خباب کی ظالم مالکہ کو خطرناک بیماری لگنا 278 اللہ جزا دے ابن حجر عسقلانی کو.مضامین 46 547 537 192 نکسیر کی بیماری پھیلنا پانی سب سے افضل صدق...پانی پرده 345 | جمع قرآن جمع قرآن کمیٹی / بورڈ کے صدر 474 جمعۃ المبارک مدینہ میں پہلا جمعہ عیسائی کے جنازہ کا احترام ایک صحابیہ کا بیٹے کی شہادت پر پر وہ قائم رکھنا اور 307 جنازه پاره 116 448 560 ایک صحابی کا حضرت صفیہ کے رخصتانہ کے موقعہ پر از خود جنازہ کا مسجد میں لائے جانے پر اعتراض اور جواب 571 21 آنحضرت صلی علم کا نماز جنازہ غائب پڑھانا ساری رات پہرہ دینا 474 جنگ خندق کے موقعہ پر مدینہ میں پہرہ 547 حضرت علی ما بدری صحابی کی نماز جنازہ پر چھ تکبیرات 562 | شفا 548 جنت آنحضرت صلی اہل علم کا پہرہ نہیں ہوتا تھا صلح حدیبیہ کے موقعہ پر آپ کے لئے پہرہ 550 جنت تین لوگوں سے ملنے کی مشتاق ہے والدہ سے حسن سلوک کے نتیجہ میں جنت 218 جنگ حنین کے موقعہ پر پہرہ مدینہ کے جنگی حالات اور نبی اکرم صلی ا ولم کا خواہش کرنا کہ جنگ / غزوہ کاش کوئی پہرہ دے 417 419 آنحضرت صلی الم کا خود مدینہ کا پہرہ دینا جنگ احد کے موقعہ پر آپ کے لئے پہرہ 472 تبرک آنحضرت کا ایک پیالہ تبرک کے طور پر 80 آنحضرت کے بالوں کا تبرک لینے والے صحابہ 76 آنحضور کے کھانے کا تبرک ایک قیمتی اور متبرک بر چھی 20 336 178 214 325 442 138 جنگ بدر میں شامل ہونے کی فضلیت ملائکہ کس طرح جنگ بدر میں شریک ہوئے؟ 323 جنگ بدر کا لباس کفن کے لئے رکھنا جنگ احد نیند کا طاری ہونا جنگ یرموک میں عیسائیوں کا خاص طور پر صحابہ کو نشانہ بنانا جنگ پر موک میں مسلمان عورتوں کی بہادری واقعہ رجیع 97 96 292 جنگی قیدی ماں، بیٹے میں سے بیٹے کو فروخت کرنے پر تعدد ازدواج آنحضرت کی شادیوں پر اعتراض کا جواب آنحضرت صلی الم کی تعدد ازواج اور حکمت 379 5 آنحضور کا ناراض ہونا جہاد تکبیرات 27.2 حضرت انس کا جہاد کی وجہ سے نفلی روزے نہ رکھنا اور پھر حضرت علی کا بدری صحابی کی نماز جنازہ پر چھ تکبیرات 562 | ہمیشہ روزے سے رہنا 76

Page 645

اصحاب بدر جلد 4 9 مضامین شوق جہاد اور دشمن کے علاقہ میں تدفین کی اہمیت 29 دارارقم شوق جہاد میں گورنر کا عہدہ لینے سے انکار ر کا عہدہ لینے جھوٹ جھوٹی آنا کو ختم کرنا چاہیئے چراگاه آنحضور کا سر کاری چراگاہ بنوانا چہرہ کی چمک 544 دارارقم کی اہمیت و فضیلت درخت 201 در محت کا تنا اپنے پاس رکھ لیا درود 226 آنحضور پر درود کیسے بھیجا جائے؟ دعا 119 117 152 مرتے وقت بھی چہرے کی چمک کا راز، 1: ایسی بات نہیں آنحضرت کی دعا سے مستجاب الدعوات صحابی 417 کرتا جس کا مجھ سے تعلق نہ ہو ، 2: میرا دل مسلمانوں کے حضور کی دعا اور بابرکت پانی اونٹ کی تیز رفتاری 304 لئے صاف رہتا ہے حامله / حمل حاملہ کی عدت وضع حمل اور عورت حدیث حدیث بیان کرنے میں احتیاط کا عالم آخری وقت ایک حدیث بیان کرنا حرمت والا مہینہ 50 114 دعوت الی اللہ نماز اور دعوت الی اللہ کے لئے سفر کرنے والے پر آگ حرام 443 444 | ذمہ داری 334.17 29 ذمہ داری اور ایمانداری کا اعلیٰ معیار روزه 56 55 حضرت انس کا جہاد کی وجہ سے نفلی روزے نہ رکھنا اور پھر ہمیشہ روزے سے رہنا حرمت والے مہینہ میں لڑائی اور اعتراض کا جواب 40 ریسرچ سیل حسن سلوک ریسرچ سیل زكوة 76 476 والدہ سے حسن سلوک کے نتیجہ میں جنت غلام کے ساتھ حسن سلوک کی بہترین مثال دشمن سے حسن سلوک کی ایک اعلیٰ مثال خلافت / خلیفہ خلافت کے مقام کی اہمیت بیعت خلافت راشدہ اور تفصیل 214 15 560 دولت کی فراوانی زکوۃ لینے سے انکار ایک وضاحت 190 زہر یہودیہ کا گوشت میں زہر ملا کر دینا 488 کیا نبی کی وفات اسی زہر سے ہوئی؟ م کی وفات اس زہر سے ہوئی 151 | سادگی 140 143 جو دین خلفاء پیش کریں وہ خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے 495 حضرت صفیہ کے ولیمہ کی سادگی اور خوبصورتی 75 تمام بر 397 سفر برکتیں صرف اطاعت خلافت میں ہی ہیں اطاعت کے لحاظ سے ان میں اور انبیاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا.نماز اور دعوت الی اللہ کے لئے سفر کرنے والے پر آگ اطاعت جس طرح نبی کی ضروری ہوتی ہے ویسے ہی خلفاء کی بھی حرام ضروری ہوتی ہے خواتین 493 سلام سلام کرنے والے کو نیکیوں کا ملنا آنحضور سر کیسے دھوتے تھے صحابہ کے ساتھ صحابیہ خواتین کا ذکر تاکہ ان کے بلند مقام سیرت النبی صلی ا یم کا بھی علم ہو 370 56 13 24

Page 646

اصحاب بدر جلد 4 کھانے میں لہسن پیاز کی وجہ سے نہ کھانا 10 20 مضامین اللہ نے ایک صحابی کا نام لیکر کہا کہ اس کو سورۃ پڑھ کر سنائی آنحضرت کا اپنے منہ میں کھجور چبا کر کھٹی دینا اور نام رکھنا جائے 79 آنحضرت کا ایک پیالہ تبرک کے طور پر 107 80 آنحضور کو قتل کرنے کی ایک سازش اور خدائی نصرت 547 بیٹے کی وفات پر قابل رشک صبر ورضا ( الم سلیم) 79 572 جنگ یرموک میں عیسائیوں کا خاص طور پر صحابہ کو نشانہ بنانا آنحضرت سے بدلہ لینے کی خواہش اور..آنحضرت کا ایک پیالہ تبرک کے طور پر 80 شادی / نکاح جنگ یرموک میں مسلمان عورتوں کی بہادری 97 96 370 ایک شادی میں آنحضور کی شرکت اور دلہن میزبان 1 صحابہ کے ساتھ صحابیہ خواتین کا ذکر تاکہ ان کے بلند مقام رشتوں میں لڑکیوں پر زبر دستی نہیں کرنی چاہیئے 124 کا بھی علم ہو عورت کی آزادی نکاح پسند نہیں تو ضح کر دیا 124 صدقہ و خیرات حضرت زینب بنت جحش شادی اور اعتراض حضرت زینب سے شادی پر اعتراض 377 375 صدقہ کرنے کے لئے ساری رات مزدوری کرنا 57 سب سے افضل صدق....پانی ضیافت شاه ایران شاہ ایران کا دربار اور مٹی کے بورے 429 نبی کی ضیافت اور اس کا بدلہ...دعا 474 10 101 103 128 114 309 27 111 149 طاعون تباہ کن طاعون طاعون سے مرنے والا شہید ظہار 81 103 564 شراب کی حرمت کا سن کر فورا مٹکے توڑ دینا شہادت / شہداء حضرت ابو عبیدہ کا شوق شہادت شہدائے احد کی فضیلت شہادت کی قسمیں : جو طاعون سے مرے وہ شہید ہے.پیٹ کی ظہار اور اس کے مسائل بیماری، ڈوبنے والا، دب کر مرنے والا شہید 103 عدت شوری مجلس شوری کا قیام صبر ورضا حاملہ کی عدت 113 عشق و محبت بہادر خاتون نبی سے عشق و محبت بیٹے کی وفات پر قابل رشک صبر ورضا( ام سلیم) 79 نبی سے اظہار عشق صحابی / صحابه حضرت ابو عبیدہ کی اعلیٰ درجہ کی اطاعت حضرت ابو عبیدہ کا شوق شہادت حضرت بلال کا مدت بعد اذان دینا 87 103 100 81 قرآن پڑھانے کے عوض کوئی ہد یہ نہیں لینا عمرة قضا.عورت شراب کی حرمت کا سن کر فورا مٹکے توڑ دینا اسلام پر اعتراض کرنے والے دیکھیں کہ بچے اور ماں کے صحابہ کی اطاعت ہر عہدیدار اور احمدی کے لئے نمونہ 99 حوالہ سے کیا خوبصورت تعلیم دی گئی ہے کتاب کے آخر پر کاتب کا نام لکھنے کی ابتداء کرنے والے عورت کے حقوق اور اعتراض صحابی 28 457 108 صحابہ کے ساتھ صحابیہ خواتین کا ذکر تاکہ ان کے بلند مقام وہیل مچھلی جس کا گوشت صحابہ اور آنحضرت نے کھایا 88 کا بھی علم ہو 370

Page 647

اصحاب بدر جلد 4 عہد ووفا 11 بهجور جنگ بدر میں عہد و وفا کا ایک خوبصورت اظہار 509 کھجور کی چھڑی جو تلوار بن گئی عهد بد عهدی بنو قریظہ کی بد عہدی تفصیل 525.64 کعب بن اشرف کا قتل اور اس کے اسباب مضامین 547 205 عہدہ عہدیدار شوق جہاد میں گورنر کا عہدہ لینے سے انکار 544 جنگ بدر کالباس کفن کے لئے رکھنا صحابہ کی اطاعت ہر عہد ید ار اور احمدی کے لئے نمونہ 99 جس نے لا الہ الا اللہ پڑھا اس پر آگ حرام عورت گھٹی دینا 442 23 124 آنحضرت کا اپنے منہ میں کھجور چبا کر گھٹی دینا اور نام رکھنا عورت کی آزادی...نکاح پسند نہیں تو فسح کر دیا 124 بہادر خاتون...نبی سے عشق و محبت پہلے عورت کی خبر لو....حفاظت و احترام وضع حمل اور عورت 309 73 444-443 آنحضرت کا عیادت کے لئے جانا 484،426،443 غشانی قبائل مٹی شاہ ایران کا دربار اور مٹی کے بورے مزاح مزاح سے آنحضور کا محظوظ ہونا 429 573 79 غسانی قبائل کے حملوں کا خوف 577 آنحضرت کا مزاح، چڑیا کی وجہ سے چھیڑنا غلام آنحضور کا آزاد شدہ غلاموں کے ساتھ برتاؤ 382 آداب مسجد قتل 79 118 مسجد نبوی کعب بن اشرف کا قتل اور اعتراض 209 مسجد نبوی کی تعمیر بنو قریظہ کے مقتل اور اعتراض قرآن قرآن پڑھانے کے عوض کوئی ہد یہ نہیں لینا 527 مسجد نبوی کی توسیع میں اختلاف کا فیصلہ 111 مسجد نبوی میں نماز جنازہ ا میں نماز جناز مسکین اللہ نے ایک صحابی کا نام لیکر کہا کہ اس کو سورۃ پڑھ کر سنائی مسکین کی مدد کرنا بری موت سے بچاتا ہے جائے جمع قرآن کمیٹی / بورڈ کے صدر قربانی قربانی کے لئے بکرے کی عمر قرضہ / قرضدار 107 معجزه 566 114 570 216 116 آنحضور کا ایک صحابی کو عصا دینا جو روشنی کرتا تھا 55 33 تھوڑی سی کھجور جو تمام خندق کھودنے والوں نے کھائی چند روٹیاں جو اسی افراد کے لئے کافی ہو گئیں 148 77 ایک صحابی کا تمام قرضداروں کا قرض معاف کر دینا 481 حضور کی دعا اور بابرکت پانی...اونٹ کی تیز رفتاری 304 قید خانہ خشک کنواں پانی سے بھر گیا 126 عرب میں ابتداء میں کوئی قید خانہ نہ ہو تا تھا 432 حضرت مسیح موعود کے تین صحابہ..دوران سفر روشنی 55 قیمت قیمتیں مقرر کرنے کے بارہ میں اسلامی تعلیم 225 | حضرت صفیہ کامہر ان کی آزادی 75

Page 648

اصحاب بدر جلد 4 12 مضامین مہمان نوازی ولیمه حضرت ابو طلحہ کی مہمان نوازی جس سے خدا بھی ہنس پڑا حضرت صفیہ کے ولیمہ کی سادگی اور خوبصورتی 75 ناخن تراشنا ناخن تراشنے کی تلقین نام رکھنا 76 وہیل مچھلی وہیل مچھلی جس کا گوشت صحابہ اور آنحضرت نے کھایا 88 28 یہود یهودی یہود کا محمد نبی کا انتظار آنحضرت کا منہ میں کھجور چبا کر گھٹی دینا اور نام رکھنا 7 یہود کانبی کا انتظار اور حسد کی وجہ سے انکار قبول اسلام اور نام تبدیل کرنا اسلام اور نام ر نام تبدیل کرنا 57 137 551 اذان کے بعد دونوافل کی اہمیت نماز 176 نماز اور دعوت الی اللہ کے لئے سفر کرنے والے پر آگ حرام نماز مغرب میں تاخیر نہ کرنے کی نصیحت آنحضور کا ایک صحابی کے گھر نماز ادا فرمانا نماز جنازه 56 28 22 22 حضرت علی کا ایک بدری صحابی کی نماز جنازہ پر چھ تکبیرات کہنا مسجد نبوی میں نماز جنازہ نوحہ اور بین نوحہ اور بین سے پر حکمت انداز میں ممانعت نیند جنگ احد...نیند کا طاری ہونا بیہ جہ کا مسئلہ اور تفصیل ہجرت ہجرت کے بعد مکہ کی یاد اور بخار قادیان سے ہجرت کرنے والوں کو نصیحت ہجرت حبشہ سے واپسی کا قصہ بے بنیاد ہے ہجرت حبشہ کس طرح اور کیوں ہوئی ؟ وراثت وراثت کے احکام کانزول 562 570 253 138 145 158 158 35 34 455 حضرت ابو عبیدہ کی وصیت اور خلیفہ راشد کو سلام 104

Page 649

اسماء 13 192 468 اسماء ن قلبی ابن این ن کلبی 189 204.186.54 <6 ابن ہشام 550.406-375-374-318-290-251 131 374 436.417.413 6 537 61.15 132 506-259.135 124 7 7 301 اصحاب بدر جلد 4 ابواسامه بخشی ابان بن سعید العاص 319 344.106 ابراہیم 222،110، 223، 540،539،538،537،433 ابن منده ابراہیم بن حنظلہ ابراہیم، ابن رسول 407 223 ابن ابی حقیق 519،474 | ابن یونس ابن ابی رہم ابن ابی ملیکہ 443 165.67 ابو احمد بن جحش ابو اسحاق ابن اسحاق 5، 6، 18، 53، 60، 61، 122، 189، 256، 269، ابو الاعور بن الحارث 559،558،551،476،468،465،407،406،292،273،272 ابو الاعور / ابو ثور 443 569 260.88 ابو البختری ابوالبكير ابوالحکم 355 ابوالحکم بن اخنس ابوالحمراء 570.496.306.192.191.58 303 ابن اسحاق موسیٰ بن عقبہ ابن بيضاء ابن جریج ابن حبان ابن حجر عسقلانی ابن حنظلیه این دخشن ابن زمعہ ابن سعد ابن سیرین ابن شہاب ابن صفیه ابن عباس 24 348 ابو الضیاح بن ثابت بن نعمان ابو العاص ابو المنذر یزید بن عامر ابو الهيثم بن التيهان 550،547،468،391،389،377،376،317،299،89،65،58 | ابوامامہ 467.80 369.293.260 352 ابو اولیس ابو ایمن، خریم بن فاتک کی کنیت 26،25،14، 29، 137،130،128،49،41، 215،192،161، ابو بردہ بن نیار 400،266،232،216، 563،531،475،474،469،401 حضرت ابو بکر صدیق 8 461.446.138 32.31.29 197 308.307.301 464 119.3117 241.240.239 55.33.32.31 <12.11.10 ابوایوب انصاری ابو براء عامری 96.92.91.85.83.82.69.63.57.50 48.43.34.22 153 152 151 150 135 123.112.108.106.99 177 172 171 170 167 166.158 157 156 155 +234-233-230-227-225.191.190.187.179.178 331317313-312-286-274 271 270.241.238 356 355 354 353 349 348 344 343 342.336 $409.408.396.395 394 393 370-366-363<362 ابن عبد یالیل ابن عرقه ابن عقبہ ابن علاج ، ابو حکم بن اخنس ابن عماره 364 530 468 318 6 ابن عمر 538-403-361.337.165.59.29.3 ابن عیینہ 558

Page 650

اصحاب بدر جلد 4 14 اسماء <296 295.251.178.174.169.168.166 165 488 488 483.471.455.428 427 422 416.414 480.479.478 472.471.453.385.339.300 535.533.512 503 500 497 495 491 490.489 550-549-548-544-519.481 574-573-567-564-561.544.543.539 ابوتراب ابو ثابت ابو ثابت، سعد بن عبادہ کی کنیت ابو جعفر محمد بن علی ابو جعفر منصور ابو جہل 439 463.459.25 459 448 120 ابو سلمہ ابو سلمہ بن عبد الاسد ابوسلیط اسیرہ بن ابو خارجہ ابوسنا بل بن بعلک ابوسینان بن محصن 61 69، 97، ابو 486 445.258.34 552.52 444 53.52 469 135، 244، 245، 246، 248 ، 259، 276، 319، 355، ابو صالح ذکوان 542-508-507-506-505-472.471.420-365 ابو صالح، خوات بن جبیر انصاری کی کنیت ابو حاطب ، حاطب بن عمرو بن عبد شمس کی کنیت 231،230 ابو صرمه ابو حبیب بن از عمر ابو حذیفہ ابو حذیفہ بن عتبہ بوحسین 70 408.405.404.403.402-105.84 412.408.407.43033 298 88 313 552 ابو صفوان، کنیت امیہ بن خلف 508،507،506،505 ابو ضیاح نعمان بن ثابت ابو طالب 445 363-334-274-179.170.156 ابو طاہر ، زبیر بن عوام کی کنیت 331 ابو حکم بن اخنس ابوحنہ ، مالک بن عمر و ابوحیہ ابو خارجہ عمرو بن قیس ابو خزیمہ بن اوس ابو دجانہ ، سماک بن خرشه ابو درداء 318،233،124 | ابو طلحہ انصاری 70 تا 81، 571،570،555،140،90 43 ابوطیب شمس الحق 107،43 | ابو عبد الرحمن حبلی 52 44 ابو عبد اللہ ، خوات بن جبیر انصاری کی کنیت ابو عبید ابو عبس بن جبر مد ثقفی 45تا571،560،558،519،474،463،51 | ابو عبیدہ بن الجراح، عامر بن عبد اللہ 487.411.154.111.110.108 ابو ذات الکرش، عبیدہ بن سعید کی کنیت ابو ذر غفاری ابورافع ابو رافع بن ابی الحقیق ابورویحہ ابور ہم غفاری ابوز بیر ابوزید 336 ابو عقیل بن عبد اللہ انصاری 476 206.127 206 158 149 88 ابو عمرو ابو عمیر بن ابو طلحہ انصاری ابوقتاده ابو قیس، سعد بن عبادہ کی کنیت ابو کبشہ سلیم ابو کبشہ مولی محمد 497،487،388،271،108 ابولبابہ بن عبد المنذر 475 27 313 312.67.5654 553.498 233 151 119.105081 60057 500-153 79.71 3 459 60 448 ابو سبرہ بن ابی رہم ابو سعده ابوسعید خدری ابوسفیان 52.51 436 535.482 542-526-521-231.211.133.124.6760.56 ابولولوه فیروز ابو محجن ثقفی 47، 48، 134،96،91، 135 ، | ابو محذورہ 435 431 164

Page 651

اسماء 483.469-448-397.392.382.371.369 436 321.302 502.501-500-465-286-195.8 122 444 539-222 539.353.331.96 230 15 318 272،69،68 ، 563 | اسامہ بن قتادہ اصحاب بدر جلد 4 ابو محمد ، عمیر بن عبد عمرو کی کنیت ابومر تد غنوی ابو مريم المخفی ابو مسعود ابو معشر ابو ملیل بن الازعر ابوموسیٰ ابوموسیٰ اشعری ابونائلہ ابونائلہ ، سلکان بن سلامه ابو نعمان ، بشیر بن سعد کی کنیت 399 152.57 536-316 اسد بن خزیمہ اسعد بن زراره اسعد بن یزید 70 اسماعیل بن محمد بن سعد 401،179 | اسماعیل 118،114 | اسماء بنت ابو بکر 517،208 اسماء بنت حارث بن نوفل 367.255 571 <447-366-83-13 549.536-535-512-503-502.501.500.472 114.89.83.76 52 429.354 235 96 353 17 122 اسماء بنت عمیس اسود بن رزن اسید بن حضیر اسیر ہ بن عمرو، ابوسلیط اشعث بن قیس الکندی اصحاب صفہ ام ایان ام احسن بنت زبیر بن عوام ام الرباع ام اناس بنت خالد ام اناس بنت سعد 125،54،53 | ام ایمن ام ایوب 535 144 214 486-416.305-292-187.180.178.177.164 105،81تا542،487،484،454،452،403،344،119 | ام ثابت 122 519.474 ام حرام 173،169،166 | ام حسن بنت زید ام حبیب، خراش بن صمہ انصاری کی والدہ ادام بنت عوف اراشہ بن عامر ار قم زہری ارقم بن ابی ارقم 351 301 311 319 57 106 121119 545 ام خالد زوجہ زبیر بن عوام ام رافع بنت عثمان بن خلده 188 424-393-370-369-368-367-360 465.21 202 301 555 17 353.215 305 ام رفاعه 329 ام زید بنت حارث ام سعد بنت سعد بن ربیع م سلمہ 400 534.475.455.451 573.219.179.63.34 555-554-368.237.80.79.77<75.71 ام سلیم بنت خالد 555 28 187 561 413 301 344 476.303 179.110 ابونعیم ابو ہریرہ ابو واصل ابو واقد لینی ابو وائل ابود قاص ابو یحیی، خریم بن فاتک کی کنیت ابویوسف، امام ابوذر الي بن ثابت ، ابو شیخ ابی بن کعب ابی بن معاذ الی حقیق ابی رویحہ احنف بن قیس اخرم بن شداد ادام بنت القین 554 62، 165، 360، 361، 368، | ام سلیم بنت عمرو اروی بنت اولیس اسامہ بن زید

Page 652

اصحاب بدر جلد 4 ام شریک ، حضرت ام صفوان، کریمہ بنت معمر کی کنیت ام طفیل بنت طفیل ام عماره ام عمر و ام الفضل بنت حارث ام کلثوم 16 205 555-532-390-370-369-368.344.265 507،33 انس بن معاذ 119 550 انیس بن قتادہ 17، 70، 119 انیس بن مرثد 325 400-353-313-270-215.83.66.51 ام کلثوم بنت سہیل بن عمرو ام کلثوم بنت عقبہ زوجہ زبیر بن عوام ام مالک بنت ابی بن مالک ام مالک بنت ابی بن سلول 51 353 305 322 6 215 انیسہ بنت خلیفہ انیسہ اوس بن ثابت بن منذر اوس بن خولی اوس بن صامت اوس بن قیفی ایاس بن بکیر ایاس بن خالد اسماء 122 123 124.67 69 144 285 125.54.53 575.448.128126 131128 200 212.132.131 202 ام نیار بنت ایاس بن عامر ام ہشام ام ورقہ ام ولد امام زہری امام شافعی امامہ بنت سعد بن عبادہ امامہ بنت زید بن و دیعه امامہ باہلی امامہ بنت صامت امامہ بنت عثمان امۃ اللہ بنت حمزہ امر عمرو بنت اشرف امیر معاویہ 488،108 | ایمن ، دیکھیے کناز بن حصین 17 ایمن بن خریم 372،123 | آدم 356-228 458 400 190 211 188 367 70 آمنہ بنت عمرو آمنه (ام محمد صلی ال) بالق بابان بجیر بن ابی بجیر بدیل بن ورقاء براء براء بن عازب 69 410.304.301 438.104 45 467-367-243 392 96.95 133 479 532.366.361 255.32.31.29 براء بن معرور 461،447،446،142،139،137،136 439،438،414،326،322،218،30،27،26،25،17 | برکتة (ام ایمن کا نام) امیمه امیمہ بنت حارث امیمہ بنت عبد المطلب امیمہ بنت غنم امیہ بن خلف 4 119 371 81 برہ بنت عبد المطلب بریده بسبس بن عمر و بسر بن ابو ارطاة 61، 153، 158،157،156،154، 160، 161، 177، 249، بسیس 290،289،288،270، 507،506،505،472،471 | بسیه 367 51 396-394-392 307.136133 133 25 134.133 133 انس بن رافع انس بن مالک 205 بشر بن البراء 29، 72، 73، 75، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اثے 144136 <15.13.9 135.120.85.83.47.40.36.35.34.24.23.18 239.219.213.161.114.107.81.79.78.77

Page 653

اصحاب بدر جلد 4 17 اسماء 157، 162، 174، 177، 206، 207، 209، 210 ، 217، ثابت بن خنساء 220 ، 222 ، 232، 239 ، 257 ، 258 ، 261 ، 275 ، 276 ، ثابت بن عمرو بن زید 362،315، 364، 368،366، 376،371، 378، 379 ، ثابت بن قیس 380، 382،381، 389،387،386،384،383 ، 403 ، ثابت بن ھزال 409، 416، 421، 422، 424، 442، 445، 450، 452، ثابت بن و قش 455، 456، 463، 467،465، 472، 477، 478، 488، ثبیتہ بنت يعار 501، 526،519،513،511،508،505،503، 528، ثعلبہ بن ابی حاطب 577-572-566-560-550-547.540.534.529 ثعلبہ بن خالد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی و مصلح موعود ثعلبہ بن زید 64،49،26،20،19،5،4،3، 74،73، 79، 93، 102، ثعلبہ بن عمرو 107،106، 108، 146،142،141، 158،155،147، ثعلبہ بن غنمه 167،166، 172، 174،173، 223، 225، 228 ، 238 ، ثقف بن عمرو 239، 244، 245، 279، 280، 281، 282، 300، 330 ، ثوبان 419 401 390-363-362-361-358.349.332 426، 427، 429، 431 432 433، 438، 454، 480 | جابر بن خالد 481، 487، 488، 489، 490، 491، 492، 493، 494، جابر بن سمره 508، 509، 524،520،519،515،514،513،511، جابر بن عبد اللہ 566 بشیر بن سعد بلال بن حارث مزنی 189 189 518.473.83 190 550 408.402 192 322 401.193.192.188 193 194 194 405.404 243 195 436.29 485.473.455-337-309.254.202.155.88.17.10 144تا556،489،153 | جابر بن عبد اللہ رکاب 229-226 جارج بلال بن رباح، ابو عبد اللہ ، ابو عبد الرحمن، ابو عبد الکریم، ابو عمرو جبار بن سلمی 153،132،100،2 تا 227،226،185، 289،279 290 | جبار بن صخر 197195 96 241 296-2020*197 بنانہ بنت الجون بيضاء بیقی بھمن جاز ویہ پوران دخت تماضر بنت حذیم تمیم بن يعار تمیم مولی بنو غنم تمیم مولی خراش تھیوڈور (Theodore) ثابت بن اقرم بن ثعلبہ ثابت بن خالد انصاری 57.31.8 306 4.3 569 550 193 428 119 185 186 185 93 188*186 189 202 282-202 54 207 177.151.110 323.195-257-256.234.232.216 202 202 250 406 351 220 440 215 334-255 جبر بن ایاس جبر بن عتیک جبر بن عمرو جبریل، جبرائیل جبیر بن الیاس جبیر بن ایاس جبیر بن مطعم جحدم جرجس جریج بن مینا جریر جعدہ بنت عبید جعفر بن ابو طالب

Page 654

اصحاب بدر جلد 4 جمیلہ جمیلہ بنت ابی جمیلہ بنت علقمہ جمیلہ ، ام سعید بنت سعد بن ربیع جندع جونیہ جو پیر جمعیر و بنت قین حاتم، آل حارث ، ربعی بن رافع حارث حارث بن ابی شمر عنسانی حارث بن انس انصاری 18 185 126 564 451 215 4 113 194 201 321 345.322 حبیب بن ابو ثابت حبیب بن اسود بن سعد حبیبہ بنت خارجہ حبیبہ بنت زید حجاج حجاج بن غز یہ انصاری حجیر بن ابو اہاب حذیفہ بن یمان حرام بن ملحان حرب بن ابو الاسود 577،576،575 | حریث بن زید انصاری 205 حرییس حارث بن اوس بن معاذ 205تا211، 530، 535 | حریش حارث بن حاطب حارث بن حرب حارث بن خزمه حارث بن صمہ حارث بن ظالم، ابوالاعور بن الحارث حارث بن عرفجه حارث بن عفراء حارث بن عمیر حارث بن قیس بن خالد بن مخلد ، ابو خالد حارث بن کلده حارث بن نعمان بن امیہ حارثہ بن سراقہ حارثہ بن شراحیل حارثہ بن شرحبیل حارثہ بن نعمان 212-211 463 213 212.131 204.203.50 6 213 7 389 44 426 213 اسماء 17 25 234 286-271-270 451 61 326 299.292 550.105 556-555-241*235 351 242 546 546 45 222-193.125.53 440.391 173.172 440-260 173.172 243-242 69 حمہ بنت حرمله حسان بن ثابت حسین بن علی ) حصین بن حارث حصین بن کناز ، دیکھیے کناز بن حصین حصین بن یر بوع حفص بن خالد حفصہ، حضرت حکم بن خلاد حکم بن کیسان 213 تا 408،215 | حکیم بن جبلہ 357 357 218 215 حاطب بن ابی بلتعہ 218،69،68تا339،338،230 حاطب بن عمرو بن عبد شمس حباب بن عمر و 231.230 15 حباب بن منذر بن جموح 91، 231،152تا560،511،234 حبان حبان بن عبد مناف حبان بن عرقه 531 530 531.214 69 346 313.312 306 556.41 350 حکیم بن حزام حکیم بن محمد 479-357-348-259-169 حلال بنت قیس زوجہ زبیر بن عوام حمامه 544 353 386 153 حمزہ بن عبد المطلب 563-555-453-367-337-334-289-268243.69 حمزه بن زبیر بن عوام حمنہ بنت سفیان حمید اللہ ، ڈاکٹر 353 413 151

Page 655

اصحاب بدر جلد 4 حمید بن عبد الرحمن حنش بن معتر حنظلہ بن الربیع السدی حیی بن اخطب 19 488 563 ذروان ذکوان بن عبد قیس، ابو السبع 344،106 | ذوالشمالين (عمیر بن عبد عمر و کا لقب ) 478 رافع بن حارث بن سواد خارجہ بن زید 452،290،286،271،270 رافع بن زید ، رافع بن یزید خالد بن زبیر بن عوام خالد بن سعید بن العاص خالد بن قیس،خلیدہ بن قیس 353 344-334-106 311.273 572 رافع بن عنجده انصاری رافع بن المعلى رافع بن یزید رباب بنت انیف 92،91،89،44، 94،93، ربعی بن رافع انصاری 553.428.407-406-390-187-166.152.99 خالد بن ہشام مخزومی خالد بن ولید خالدہ بن قیس، خلیدو بن قیس خبیب بن اساف خدیجۃ الصغریٰ بنت زبیر بن عوام 311 ربیع بن ایاس ربیع بن عمرو خباب بن الارت 274،202تا541،540،285 ربیع بنت نفر ربیعہ بن اکثم،ابو یزید رجال بن عنفوه رجیله (رخیلہ بن ثعلبہ انصاری) رحیلہ (رخیلہ بن ثعلبہ انصاری) خدیجۃ الکبریٰ بنت زبیر بن عوام خدیجہ بنت عمرو خدیجہ بنت خویلد، حضرت خراش بن صمہ انصاری خریم بن فاتک خسرو پرویز خلاد بن رافع خلاد بن سوید خلاد بن عمرو بن جموح خلید بن قیس، خلیدہ بن قیس خلیفہ بن عدی خنساء بنت خدام خنیس بن حذافہ ، ابو حذیفہ خوات بن جبیر خولانیه خولہ بنت حکیم خولہ بنت قیس خولی بن ابی خولی خویلہ بنت مالک دحیہ کلبی دلیم بن حارثہ 291285.160 353 353 411 358.357.231 301.285-282 410.304301 429 306*304 307.306 3110307 311 311 124.67 313.312.54 316313.213 154 408 555.255.247 316 129.128 576.388.74 464.460.459 رخیلہ بن ثعلبہ انصاری رخیلہ بن خالد رستم رفاعہ بن زید رفاعہ بن عبد المنذر رفاعہ بن عمر و انصاری، ابو ولید رفاعه بن وقش رفیده رقیہ بنت محمد رملہ بنت زبیر بن عوام رملہ بنت زید بن مزین ریطہ بنت علقمہ اسماء 202 318 317 319-318 320 320 320 319 320 353 321 321 451 213 322.321 399 322 322 322 219 429.428 388 542.312.273 329 550 532 384-34 353 356 230 330-329.135.106.34 زاہر بن حرام الاشجعی زبیر بن العوام، ابو عبد اللہ 551.478.453-450-416-353331.315 زبیر بن عبد المطلب زرقانی زغیبہ بنت زراره زنی بہ بنت سہل 331 550-378 553 565

Page 656

اسماء 67 409.408.214 444 411.410.301 411 443 125.53 242 553 568.249.246 412 سبره بن فاتک 558،372،189 | سبیع بن قیس نہ اسلمیه 353 354 تا 356 | سخطی بنت حارثہ 180 سخیلہ بنت خزاعی 356،174،132،50 | سخیلہ بنت صمه 106، 108، 116، سرولیم میور سراقہ بن عمرو بن عطیہ بن خنساء اصحاب بدر جلد 4 زمخشری، علامه زمعہ بن الاسود زہراء بنت سعد زهراء زہری، امام 20 60 سائب بن ابولبابہ 61 17 431 سائب بن عثمان بن مظعون سائب بن عمیر القاری 413.412 546 سراقہ بن کعب سعاد بنت رافع 242.85.41.38 3 <444.443.4420413.393.308.121.101.100 571.565.546.545.543.501.492.484 556.144 444.443 سعد بن ثعلبہ سعد بن خوله زیاد بن عمرو، ابن بشر زیاد بن لبید، ابو عبد الله زید بن ار نم زید بن اسلم زید بن ثابت 487.484.464.408.344.152.118 زید بن ثعلبہ زید بن حارثہ 357،260،255،246،61،37تا547،448،414،397 | سعد بن ابی وقاص زید بن خالد جہنی زید بن خطاب زید بن دشته زید بن سہل، ابو طلحہ انصاری سعد بن خیثمہ 68، 445،366،319،246،157،123تا450 457 451.447.270.112 458.457.400.274.122 458.152.108.90 سعد بن ربیع سعد بن زید سعد بن سہیل سعد بن عبادہ 512.4970458.447 316 315-282-257-233 560-547.520.519.518-513 4990497 5000499 343 320316 315 271 208 205.84 سعد بن عبید سعد بن عثمان بن خلدة انصاری سعد بن مالک سعد بن معاذ 536500.478.477 476.474.473.472.417-409 479 536 357 343 29 399397.187 299-291-272 120.81070 118 391 540-539-538.537 411 17 361.360 356 400 372 353 353 400 زید بن صوحان زید بن عبادہ زید بن عمر و زید بن قیس زید بن کلیب زید بن محمد ، زید بن حارثہ زید بن مزین زید بن ودیعه زین العابدین بن علی بن حسین زینب بنت زبیر بن عوام زینب ام جعفر بنت عقبہ زینب بنت سہل زینب بنت جحش 382،379،376،375،372،371 سعد بن هزيم سعد مولی حاطب بن ابی بلتعہ سعد کی بنت ثعلبه سعید بن جبیر سعید بن زید 537،428،343،320،275،106تا546 499 سعید بن عثمان 138 29 401.400 403 106.105 زینب بنت حارث سالم بن عبد اللہ سالم بن عمیر بن ثابت سالم بن معقل سالم مولیٰ ابو حذیفہ

Page 657

اصحاب بدر جلد 4 21 اسماء سفیان بن عیینہ سفیان بن نسر سکر ان بن عمر و سعید بن مسیب 474،335،228،66،29،25 | سہل بن عتیک 349،88 | سہل بن قیس 546 سہلہ بنت سہیل 230 231 | سہیل بن ابی صالح سلام بن ن مستم سلامہ بنت معقل 138 15 سہیل بن بيضاء 564 565.564 34 317 5710569.441 سبیل بن رافع سلمان فارسی 495،154 | سہیل بن عمرو سلمہ بن اسلم 546تا550 | سہیل بن وہب بن ربیعہ سلمہ بن اکوع سلمہ بن ثابت بن و قش 557-383 550 سواد بن رزن سواد بن زریق سلمہ بن سلامه 552،551،535،334،51 | سواد بن غزیہ سلمی بنت حارثہ سلمی بنت حفصہ سلمی بنت عمرو سلمی بنت میں سلمی بنت مسعود سلیط بن قیس بن عمرو سلیم بن حارث سلیم بن عمرو سلیم بن قیس 273 431 552 255 285 5540552 554 554 555 سودہ بنت زبیر بن عوام سودہ بنت زمعہ سوسبط بن حرمله سوسبط بن سعد سوید بن غفلہ 5690565 550-230-174-61.51 571*569 571 571 573.572 353 569-379-231 574.573 574.573 118 سوید بن مخشی، ابو مخشی الطائی سید زین العابدین، ولی اللہ شاہ 68 323.224.88 شاس بن قیس شجاع بن وهب سلیم بن ملحان 555 تا 556 | شداد بن اوس حضرت سلیمان سلیمان بن ابان سلیمان بن ربیعہ سلیمان بن صرد سلیمان بن عمرو سلیمان بن یسار سماک بن سعد سمرہ بن جندب سمرہ بن فاتک سنان بن ابوسنان سنان بن صیفی سہل بن اسود سہل بن حنیف سہل بن سعد 115 449 118 114 554 2 556.144 118 411.410 274.156 557.53 558 70 564558-519.474.50 114.1 شرحبیل بن حسنه شر صبیل بن عمر و غسانی 200.199 578574 126 125 344.106.92 389 شیبہ بن ربیعہ 472،365،260،259،249،158،135،61 صائب بن عبید صخر بن امیه صفوان بن امیه صفوان بن بيضاء صفوان بن معطل صفیہ بنت حارث صفیہ بنت حیی 547 197 385.292-270 570-319 483 119 74.73 صفیہ بنت عبد المطلب 453،337،336،333،331،266،252 مہیلہ بنت اسود ضحاک بن حارث ضحاک بن نعمان ضرار بن خطاب 105 554 355 316

Page 658

اصحاب بدر جلد 4 ضعیفہ بنت حذیم حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع طعیمہ بن عدی طفیل بن حارث طفیل بن عمرو دوسی طلحہ بن عبید اللہ طلبیب بن عمیر طلیحہ بن خویلد الاسدی عاتکہ بنت زید عاصم بن زبیر بن عوام عاصم بن عدی عاصم بن عمر عامر بن جعفر عامر بن ربیعہ 22 اسماء 165 114.41.24.14 312 عباس بن عبد المطلب 462-461-446-334-270-166 266،139 ، 423 | عباس بن عبادہ 260،250، 449 | عباس بن نضلہ 546 111 عبد الرحمن بن عوف 543.542-437-416-351.105 476 557-356-188.187 540-352 353 186-133 292-219 555 539 443 556-240-239-238-237 461 447 317.271-270 462 <58.56.34 <249 318.204.166.161.160.154.102.85 346 343 342 341 316-290-289-288-253 544.543.508.484.451.437.490.428 عبد العزی عامری عبد اللہ بن ابی بن سلول 443 <285-265-126 519.504-471-470-469-463-378-322 186 148.106.12 567.470.451.447.405.391.390.389.344 253.247.170.59 عبد اللہ بن رواحہ عبد اللہ بن عمر <447.439.405 389 361 341 337.310.307 عامر بن سعد 557-546-545-485.484.460.459 عامر بن طفیل عبد اللہ بن عمرو بن حرام 485،447،405،310،307،247 عامر بن فہیرہ 158،155، 241،238 | عبد اللہ بن مسعود عائذ المر زبان عائذ بن ماعص عائشہ بنت زبیر بن عوام عبد الحارث حضرت عائشہ ، ام المومنین 85،83،42، 143، 155، عبد الرحمن بن ابی لیلی 158، 218،216،205، 310،286، 350،343،342،331، عبدالرحمن بن اخنس 370، 378،375،371، 383، 385، 391، 403، 417، 419، عبدالرحمن بن جابر عبد الرحمن بن زید عبد الرحمن بن عبد قاری 571-569-536-535-534-531-530.519.441 عائشه بن خراش بن صمہ انصاری عائشہ بنت سعد 301 545،414 | عبد العزیز 6 573 353 179.156 118.107.106 507-506-484-448-437-403-346-334-253 عبد الجبار بن ورد 67 320 498.29 343 353 عبد اللہ بن زبیر 535 66 113 75.74 571.348 عباد بن زبیر بن عوام عباد بن بشر عباد بن عبد اللہ بن زبیر عباد بن مطلب عبادة بن قیس عبادہ بن دلیم عبادہ بن صامت عبادہ بن ولید عبادہ بنت مالک 560،550،536،403،37 | عبد اللہ بن جبیر 571 242 411 458 555.487.447.114.108.68 17 70 313.213.205 عبد اللہ بن جحش 453.421-420-334-272-252-39.38.37 عبد اللہ بن جعفر عبد اللہ بن حذافہ عبد اللہ بن حسنین عبد اللہ بن زید عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح 348 312 24 163.162.50 344.106

Page 659

اسماء 5.3 55.54.52.44.34.2 عثمان بن عبید اللہ حضرت عثمان بن عفان 128.125 122.119.116.108.106.85.76.66 <291 271.227.198.197.193.191.167.166 23 573.242 553 83 377 اصحاب بدر جلد 4 عبد اللہ بن سلمہ عجلانی عبد اللہ بن سلیط بن قیس عبد اللہ بن شقیق عبد اللہ بن عامر اسلمی عبد اللہ بن عباس، ابن عباس 24،14، 25، 26، 29، 41، 49، 312، 313، 320 ، 325 ، 336، 342،341، 344،343، 416.368 362 361-350 349 348 346 345 215.192.161.130.128.127.116.114.101.67 564-555-552-544-543-406-484.438.437 409.313.214.119.34.10 307.134 572.553.552.189.52.6 103 345 334.154.133.119.29 334 29 29 195 28.27 575.317 320 320 187.53.52 420-356-355.319.98.97 300 570.496.306.192.191.58 299.282.67 81 550-378 89 عثمان بن مطعون عدی بن ابی الزغباء عدی بن نجار عرباض بن ساریہ عروہ بن زبیر عروہ بن مسعود عطاء بن یزید لیثی عطاء بن یسار عقبہ بن عامر بن نابی عقبہ بن عامر جہنی عقبہ بن وہب عقرب بنت سلامه عقرب بنت معاذ عکاشہ بن محصن عکرمہ بن ابو جہل ابن اثیر جزری ابن حجر عسقلانی ابن عبد البر بوصیری 563-531-475-474-469-401 400-266-232-216 127 84 27 عبد اللہ بن عبد اللہ عبد اللہ بن قمئہ عبد اللہ بن قیس فزاری 202 125 29 410 552.243 437 عبد اللہ بن محمد عبد اللہ بن محمد بن عمارہ عبد اللہ بن یزید خطمی عبد اللہ بن یوسف عبد المطلب عبد الملک 29 14 367 13 219 353 420.334.157 336 23.22 423.416.219 عبد الملک بن مروان عبید بن اوس عبید بن زید عبید بن عبید عبید اللہ بن حمید عبیده بن زبیر بن عوام عبیدہ بن حارث عبیدہ بن سعید عتبان بن مالک عتبہ بن ابی وقاص عتبہ بن ربیعہ 380،264،259،248،158،40،34 | زرقانی عتبہ بن غزوان 422،421،420،285،274،185،45،38 علاء بن حضرمی <25.14.13 حضرت علی بن ابی طالب 106 100 68 66 64 61 50 49 48 32.27 179.178.170.167 166.135.128.127.118 248.224.218.217.213.209 203.201.198 318 317 311.285 284 260.259.255.249 350.349 343 342 341.338.336-325-322 388-367-366-363-362-361.353.352.351 <428 424 422 418 417 416.414.407.391 117 92 13 412 121.6 305 165 203 عتی بن ضمره عتیق بن ابو قحافہ عنیک بن التيهان عقیلہ بنت قیس عثمان بن ارقم عثمان بن خلده عثمان بن طلحہ عثمان بن عبد اللہ بن مغیرہ مخزومی

Page 660

اسماء 65 334 14 449-202 348 515 429 24 اصحاب بدر جلد 4 437، 438، 439، 440، 448 449 450، 520، 521 ، عمرو بن سعدی عمرو بن سعید عمر و بن عباد عمرو بن عبدود عمر و بن عثمان عمرو بن معاذ عمرو بن معدی کرب 127 311 3 337 164 563-562-561-560-559-558-544.543 علی بن عبد اللہ بن عباس علیفہ بن عدی، خلیفہ بن عدی کا ایک نام عماره بن غزیه عمر بن ابی سلمہ عمر بن ام مکتوم حضرت عمر بن خطاب 12، 13، 42، 44، 48، 60، عمرو بن ہشام، ابو جہل 103،102،101،100،99،91،85،83،81،72،66، عمیر بن سعد 115،114،113،111،108،106،105،104، 116، عمیر بن جرموز 118، 120،119، 150، 163،162،155،152،151، عمیر بن سعد 175،174،173،172،171،167،166، 177،176، عمیر بن سعید 179،178، 187،184،181، 191، 193، 201، 224، عمیر بن عبد عمرو 280 279 278 276-275-233-229.228.225 281، 282، 285، 291، 292، 295، 306، 312، 313 ، عوام بن خویلد 316، 331، 336، 339، 340 341 342 343 344 ، عوف بن حارث بن رفاعه 347، 352،348، 361، 370،368، 394،393، 395، عویم بن ساعدہ 417 416 414.408 407-400-399-398-397 428، 429، 430، 431، 434، 435، 436، 437، 440، عیینہ بن حصن 442، 455، 463، 471، 480، 489، 490، 491، 492، | غزول 496، 497، 497، 498، 535، 536، 537، 540، 541، غزیہ بنت سعد 566-564-561-553.551.547.544.543.542 551 غفیرہ 542-276 497 351 497 563 318 554 331 195 219 575‹462‹447<223‹221.182.96 476.145 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود 559 458 154 514.495.493.397.236.130.129.55.33 417 301 66 440-367-260-255-218-217.49 537 541.540.537-276-275 33 402 259.245 12 126 351 474.44 451 غلام باری سیف 144، 148،146 | فاتک بن اخرم 306 341 340 225 166.99.92.87.86 40.39 فاطمہ بنت عمر فاطمہ بنت محمد فاطمہ بنت بعجه عمر بن قتاده عمرہ بن مسعود عمره بنت حزم عمرہ بنت رواحہ عمرہ بنت سعد عمر و بن عاص عمرو بن الحضرمی عمرو بن امیہ ضمری 204 ،549،298،294،296،249،240 فاطمہ بنت خطاب عمرو بن ایاس عمر و بن ثابت عمر و بن جر موز 321 550 352 فاطمہ بنت صفوان فاطمہ بنت ولید فرعون عمرو بن جموح 310،308،307،83 | فروہ بن عمرو عمر و بن حاطب عمرو بن دینار 230 88 فضالہ بن حابس

Page 661

اصحاب بدر جلد 4 فضالہ بن عبید فضل بن عباس لیہ بنت علیہ 25 487.108 لقمان 128،98 | لوط، حضرت اسماء 4 قبیہ بنت صیفی قرطہ بن کعب قسطلانی قصی بن کلاب قطبه بن عامر قعقاع بن عمر و قیس بن سعد قیس بن ابو حازم قیس بن عبادہ قیس بن محصن قیصر روم 577-576-455-427.388.220 کشه کبشہ بنت رافع كثير بن صلت کر زمین جابر فہری کریمہ بنت معمر کسری کعب بن مالک کعب بن اسد 458 201 137 128 563 550 331 195 101 560-466-460.88 304 114 202 لیلیٰ بنت عبادہ لیلیٰ بنت میمان لیلی بنت عتیک مار گولیس (Margulis) ماریہ مالک اشتر مالک بن ابی خولی مالک بن رافع مالک بن ربیعہ ، ابو اسید مالک بن عمر و، ابوحنہ مالک بن عوف مالک بن نضر مالک بن وہیب 93، 94، 100، 101 ، 176 ، | ماویه مبشر بن عبد المنذر 193 500 161 383.37 507 455.434.428.427 564.254 519.478.315 متم بن نویرہ منی بن حارثہ مجاہد مجدی بن عمر والجبنی مجزر مدلجی مجمع بن جاریہ مجمع بن حارثہ محصن بن حرثان 392 459.306 550 8 529.528.421 222 350 316 323 1تا6 311.194.43 339 71 413 299-298 322 399.398 499.428.427.92 کعب بن اشرف 206،205،54 ،517،515،209،208 | محکم بن طفیل کعب بن زید کعب بن عمرو، ابوالیسر کعب بن قیس کعب بن لوی کلبی کلثوم بن الهدم 240 241 | محمد بن ابراہیم 17014 105 537 413 محمد بن اسحاق محمد بن ایاس بن بکیر محمد بن ثابت محمد بن جعفر محمد بن عبد اللہ بن زید 559،447،443،366،282،246،123،83،68،60 | محمد بن عمر کناز بن الحصين غنوی، ابو مرثد لات لبابہ بنت حارث 69.68 340.175.157.156.155 17 محمد بن مسلمہ محمود بن ربیع 274.140.30 134.69 371 67 487.108 52 398 45 316.242.124 131 408 403 162 316 188.170.124.45.43.8 149 86-85.84.65 522-521-517-458-439-436-338-208-206 24.23

Page 662

اسماء 402 397.59 307.131.7 344.106 430 544-487-436.428 563.509.450.339.224 509.420-282.197 29 اصحاب بدر جلد 4 مداینی مدعم مدلاج بن عمرو مذمم مرتدین ابی مرند حب مروان بن الحکم مری مریم مریم مگر لینی مزین بن قیس مسروق بن وائل 26 468 560 194 462 563 273 272.128 338 545.441.345.304.27.3 577 96 514 356 355 معقل معن بن عدی معوز معقيب بن ابي فاطمه مغیرہ بن زراره مغیرہ بن شعبہ مقداد بن اسود مقداد بن عمرو مقدام بن معدی کرب مقوقس مکی والنھاس ملک بن مالک مسطح بن اثاثہ 356،242، 519 ملیکہ بنت مالک مسعود بن اوس مسعود بن قیس مسعود بن ہنیده 44 458 403 مندوس بنت عباده منذر بن زبیر بن عوام منذر بن ابواسید 227.225.223 222 221-220-219 230 303.302 555 459 353 2 575 مسلمہ بن مخلد مسور بن رفاعه قرظی مسور بن مخرمه 487،108 منذر بن حارث بن ابی شمر عنسانی 535 24 منذر بن عمرو 556.555.476-463-447-334.240.239.2 مسیلمہ کذاب 399،398،250،59،58،57،50،34 منذر بن محمد 353 مهاجر بن ابی امیہ 46،34،17، 334،284،179، حضرت موسیٰ 333-240-219.204.51 356 <263.223.221.142.64.13 365 347 مصعب بن زبیر بن عوام مصعب بن عمیر 565-558-502-501-500-460-450-448-445.417 مطعم بن عدی مطیع بن اسود معاذ بن رفاعہ بن رافع معاذ بن جبل 484.403.271.194.116.108.107 معاذ بن عفراء معاذ بن عمرو بن جموح معاذ بن ماعض معاذ بن نعمان 524-523-521.511.509.462.447.439 موسی بن عقبہ موسیٰ بن محمد 326،325،304 نور الدین، حضرت خلیفتہ المسیح اول 83، 106،105،104، نور الدین حلبی میمونه 326،290 327 | صحصحیح مولی عمر 83 402 500 ناجیہ بن انجم نافع نائلہ بنت سلامه معاویہ بن ابوسفیان 27،26،25،23،17،1، 30،29، نائلہ بنت قیس 32، 105، 202 ، 218، 295، 301، 322، 326، 348، نجاشی، اصحہ 443.269 335.171.163 500-324-33 547.288.287 127 412 126 460 564 558 504.170.34 14 556.145 نسیبه بنت از هر نعمان بن بشیر 564.561.545.439.438.414.413.401.355 138 معتب بن قشیر

Page 663

اصحاب بدر جلد 4 نعمان بن عمرو نعمان بن مقرن نعیمان 27 547 ولیم میور، سر 435.430 وہب بن ربیعہ 574،573 | یاسر ، مرحب کا بھائی نمرود 351 537 433 یحیی بن خلاد یحیی بن سعید یزد جرد نوفل بن خویلد 331،198 | یزدگرد حضرت ہاجرہ ہارون ہاشم بن ابی وقاص ہالہ ہالہ بنت عوف ہبیرہ بن ابی وہب ہریلہ بنت سعد ہریلہ بنت عنبہ ہشام بن عروہ بلال بن ربیعہ ہلال بن معلی ہند بنت زبیر بن عوام ہند خولانیہ ہند بنت اوس ہند بنت رافع ہند بنت سعید ہند بنت سماک ہند بنت عتبہ ہند بنت عمر و ہند زوجہ ابوسفیان ہنید بن عارض ہنیده واقد بن عبد اللہ 222 439 434 243 154 194 458 451 486-479-349-336-333 1 319 یزید بن ابو سفیان یزید بن ابو لیسر یزید بن الفا کہ یزید بن ثابت یزید بن حارث یزید بن عبد اللہ بن قسیط یزید بن معاویہ لیسیر بن عمرو يعار یعقوب بن عتبہ حضرت یوسف 353 یونس بن متی 154 445 558 17 500 96 310.309 453.251.48.47 388 573 136 واقدی، محمد بن عمرو 43 ،557،476،468،379،377،269 وحشی بن حرب ورقہ بن ایاس ورقہ بن نوفل ولی اللہ شاہ صاحب ولید بن ولید 249.50 321 362 561-224-88.24 553 اسماء 568.442.379.249.246.49 574.569 338 305 233 430 428 554.92 17 122 201 319 355 202.30.29.23 563 185 228-225 327.168 365.364

Page 664

مقامات 499 496 28 مقامات اصحاب بدر جلد 4 ابرق العزاف اپنی ابواء 302 392 بئر اهاب بئر سکن 468،467،365،257،24 | بئر معونه 557.556.422-421-241-239.189.131.2 496 78 104.93 434 159 101 544 48.31 537.299 405.404 326 420 107.104.100.92 145 564 467.420.158.127 395-394-393-392-389-344 100 179.150 427 386 535.441 313.121.54 479 بر منبه بیرحاء بیسان بہر سیر پاکستان تبوک تربان تهامه ثنية المرة جابیہ جبانہ جحفہ حرف الجزيره جعرانہ جلولاء جموم جنت البقيع جہینہ 198.197 93 418 544.399.309.49 104.94.91 31 349-340-223-221-220-219 402 28 523 442.431.430.427.402 انایه اجنادین احجار الزيت احد اردن استنبول اسکندریہ اصطخر امریکہ اموری ایران ایلیاء آرمینیا بحرین بحیرہ احمر برک العماد 577 100 410.90 543 471 305 برید 356.188.187 <302.76 <26 578-563-435.399.351.347.325 496.389 94 559-434-427-400-355-346.8 538.126 392.389.92 409 بزاخه بصره بصری بعلبک بغداد بلدح بلقاء بواط بیت اللہ بیت المقدس 153.123.83.51.37.36.35.34 508،507،327،326 | حبشہ 368-367-333-312.231.230.181.170.154.101.100.99 576-575-574-570-504.443.409.408.371 578-568-403-131-121.115.104 523 حتی

Page 665

اصحاب بدر جلد 4 حجاز حديدة حراء حره جسمی حیکم حضر موت حمراء الاسد حمص حوران حوراء حوی 29 29 544-420-384.272.101 231 545.544.416.365 499-310-230 387 308.307 354.277 473 249 101.95.94 496 544 روحاء روضه خاخ روم روما ز فران سراة مرغ سفوان سقیا سقیفہ بنو ساعده السی 523 سيف البحر مقامات 473.305.211.203.133.61 338.224.69 392.223.30-23 359.182 508 153.123 101 383.351.37 308.307 488.151.150 578 89.88.87.69 404 حیرہ خانہ کعبہ خرار خربی خلیج قلزم دارارقم داروم دجله دمشق ذباب ذوالحلیفہ ذوالقصه ذی قار رابغ رقہ رمله 115.92 سيناء 168،167،166،165،164، | شام 95.94.93.92.91.89.68 540-516-506-481-360-358-357.256.207 171 170 111.107.104.102.101.100.99 <282 249.222.183.181.177 176.173 172 392.389 386 384 355 346 344 340 304 <506.498.497 496 492 491 489 428 410 420 308 404 577.574.562.561.545.544.543.539.507 141.74.72.12 573-568-561.473.201.197.143.142 شامه 543.541-312-276-274-272-243-230-131 34، 82، 119 ، 120 ، شعب ابی طالب شعب اجیاد 392 435،434،427،346 | صفا 93، 94، 100، صفرا، وادی 576.545.497.410.392-184.183.181.107 صفین 158 416.364 414 35 414.245.244.120.119 508 562.284 307 473-355-287-286 86.85 428 127 301 131.101 طائف 481.421.365-364-363-250.228.196.38 طرف طفیل عذیب 387 158 459 576.435 429.118

Page 666

مقامات 30 340 92، 99، قاہرہ 317-286-67.56 568-560-497-448-447-403-333 385-384 577 31.30.26 354 435 165 164.150.149.121.35 قرده اصحاب بدر جلد 4 عراق 428 427 421 414 400 385.326.100 564-562-534-442-435 434.433.429 ‹112.55.39.35‹34.30‹4.3 ، عرب 168 158 154 153.151.145 142.137 173، 181، 182، 183، 184، 206، 208، 210، قسطنطنیہ 222، 238، 239 240 241، 258، 259، 260، قلعه نخیر +373 371 365.359.355344 <280 <264 427.404.396 394 387.376.375.374 <238-237-236-235.207.169 168 167 166 461 457 456 453 446 435 432 428 365 364 360.358 357 296 256 245 240 540-516-508-506-505-488-480 481-479 523 433.434 578-570-546-505-492-482-480.468 292-73 258 کنعانی 403 کوئی عسفان شیره عون 354.347.330.301.284.152.115.101.25 563-554-545-442-436-435-433-428-355 95 94 92 158 434.435.427 400 546-441-355-121 357،158 | لاذقیه 101 102 | لبنان 387-386-246.69 348.347 324 392 تاب مدائن مدینہ ، یثرب 8،4، 18،9، 19، 39،38،37،27،25،23،20، عقر قوف عقیق عكاظ عمواس عيص غابه غار ثور غزه $69.68.66.65 61 60 59 57.52 51 50 45.41 <40 108.106.103-101.90.89.88-87-86-83-78-73.71 134 133 131 128.125.123.120.118.112.111 166 159 158 157 156 151 150 149.145.136 198 197 196 195.193.186.179.177.173.172 578.576 576 563-536-498-443.438.154 104.94.93 469.145 غسان غوطه فارس مخل فدک فرات ، دریا 544،548،499،498،301،193 213 211 210 209 208 206 205 203 202.201 <236 231 230 228 227.225.223 222 219 216 215 214 <267 +264 +262 +261 +258 +257 247 246.242.240 <302 297 292 290 287 286 285 282 273 270 319 317 314 313 312 310 309 307 305.303 366 356 355 354 352 350 334 333 324 321 523 340 392.131.99.93.92 فردوس اعلیٰ فرزی فسطاط فلسطین قادسیہ 427،118 428 561،498،497،433،429

Page 667

مقامات 31 اصحاب بدر جلد 4 410-406 403-386-385-383-380-368-367 387 386 385 384 383 <378-376-369-368<367 <443-426-425-422-421 420.419.417.416 409 408 403 402 396 395 394 392 389.388 <480.479.468 463 462 460.453.445.444 | 443 441 426 422 421 420 419 418 417 416 507 506 505 504 503 502.501.500 481 463 462 461 459 453 451 448 447 446.445.552.550.549 543 520-519-516-511-508 488.483 478 477 476 474 473 468 467.464 578.576-571-570-563-560-554 509.508 505 504 503 502 501.500.496 489 305 497 521 518.517-516-515-514.513-512-511.510 559.553-552-546-544-543 530.529.527.525 392.389 346 556-459-458-386-385-356-302.241.239 82 115 421.365.323.38 322 297.229.226 435 365.364.346 436.435.427 427 159 561 392 389.145 546.441.355 201 579-578-576-575-574-571-570-569-567-566 101 245.244 497 وصل مجد نجران 56، 62، 367،199،63، نجف نخله 479.314.148.149 567-568-569-572-566-472.465.396 222-221-220.171.131.28.27 394-392-349-347-340-283-227.225.223 228،225 | نهروان 101 335 118 نینوا نهاوند ہمدان مر الظهران مرج الديباج مسجد قبا مسجد نبوی مصر المصلى مطابخ مکه 226، 229 | ہندوستان 1، 8، 9، 10، 30، 31 ، 35، 36 ، وادی القریٰ 69،68،66،57،54،52،51،49،48،40،39،38،37، وادی عقیق 73، 89، 90، 96، 97، 101، 119، 120، 121 ، 127، وادی قری 428 468.257 149 523 545.99.98.95 552.50 bl 166 165 164.158.157.156.153.149.135 یمامه 195.188.182.179.174.170.169.168.167 224-223 221.219.207.202.198 197 196 255-250-249246 245 244.236.231.227 281.280.277.274-272-262-261.258.257 319 317 316.301.300.298.296 291.288 <306 277 218 153.145.123.82354.350.339.338.335-334-327-326-324 577.552.471.466-443-410-357-356 366-365-364-363-362 361.359.357 355

Page 668

اصحاب بدر جلد 4 استثناء الاستيعاب اسد الغابہ الاصابه انجیل بائبل بغوی 32 کتابیات 523 حیح البخاری کتابیات 101.90.87.82.73.72.57.36.35.24.10 158 150 146 143 140 117.108.107 240 239 238 230 224 177.162.160 <295 294 292 289 269-260-255-249 369-367-343 341 324 323 <305.301 424 417 411.390.389.377.374.371.506.505.485 481 479 451 437.436 561-540-539-538-537-534.532.525 67 553-539-492-439-275-269-171 492.269 576-355.97 523 69 492 355،271، 529،524،523 صحیح البخاری متر جم از سید زین العابدین ولی اللہ شاہ 168 561.323.224.88.24 256 صحیح مسلم 164.157 355-343-333-286-146.83.82.69.46-20 475.409.75 <486.485 <442 441 424 417 416.415 440.438.140 534.532.487 71 534.497.489-488-468-448-408.391.353 378 344 469.418.303 الطبقات الكبرى 160، 231، 254، 278، 319، فتح الباری کتاب الخراج المستدرک مسند احمد بن حنبل 488-487-482-389-289-288-117.28.21 معجم البلدان 434 227 168 547-383-367-288-287.186.54.6 تہذیب التہذیب تورات دیباچه تفسیر القرآن الروض الانف سنن ابن ماجہ سنن ابو داؤد سنن الترمذی سنن نسائی سیر الصحابه سیر روحانی السيرة الحلبيه السيرة النبوسہ لابن ہشام 550.406-375-374-318-290.251.204 سیرت خاتم النبيين 133.120.85.83.49.47.40.37.18.15.9 315 312 306.275.257.217.157.135 +386 383 382.378.371.366.364 360 <456 <445 <442 ‹422 ‹420 ‹416 414 410 511 508 503 501 478.467 463 460 572-566-560-540-529-519-515 شرح زرقانی شرح مواہب 550.547.378 378

Page 669

اصحاب بدر جلد 4 33 ببلیوگرافی بیلیوگرافی 1 اٹلس سیرت نبوی از ڈاکٹر شوقی ابوخلیل ترجمہ حافظ محمد امین مطبوعہ دار السلام الریاض 1424ھ 2 اٹلس فتوحات اسلامیه از احمد عادل کمال ترجمه و اضافه از محسن فارانی مطبوعہ دار السلام ریاض 1428ھ اردو دائرہ معارف اسلامیہ زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب لاہور مطبوعہ عالمین پبلیکیشنز پر نہیں ہجویری پارک لاہور 2002ء 4 اردو لغت ( تاریخی اصول پر) زیر اہتمام ترقی اردو لغت بورڈ کراچی 2006 ء ارشاد الساری شرح بخاری از ابو العباس شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی، دار الفکر بیروت 2010ء الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب از ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر قرطبی، مطبوعہ دارالجمیل بیروت 1992ء / دار الكتب العلمیة بیروت 2002ء /2010ء 5 7 اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابه از عز الدین بن الاثیر ابو الحسن علی بن محمد جزری، دار الفکر بیروت، 2003ء / دار الكتب العلمية بیروت، 2003ء / 2008ء / مترجم اردو شائع کردہ مکتبہ خلیل آسمان ہدایت کے ستر ستارے از طالب ہاشمی مطبوعہ البدر پبلی کیشنز اردو بازار لاہور الاصابۃ فی تمییز الصحابه از شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی، مطبوعہ دار الفکر بیروت 2001ء / دار الكتب العلمیہ بیروت 2005ء 10 اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان منصور پوری مکتبہ اسلامیہ لاہور 2015 ء 11 المال المعلم بفوائد المسلم شرح صحیح مسلم از ابو الفضل، عیاض بن موسیٰ بن عیاض بن عمرون الحصبی السبتی، مطبوعہ دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزيع مصر 1998ء 12 امتاع الاسماع از تقی الدین احمد بن علی بن عبد القادر بن محمد المقریزی مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 1996ء/ $1999 13 انوار العلوم، از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ السیح الثانی و المصلح الموعود، شائع کردہ اسلام انٹر نیشنل پلیکیشنز لمیٹڈ، رقیم پریس، اسلام آباد ٹلفورڈیو کے 14 البداية والنهایة از حافظ عماد الدین ابی الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی الدمشقی، مطبوعہ دار ہجر بیروت 1999ء دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2001ء 15 بدر البدور المعروف اصحاب بدر مصنفہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری مطبوعہ مکتبہ نذیریہ لاہور 16 بلوغ الارب از محمود شکری آلوسی ترجمه و حواشی از ڈاکٹر پیر محمد حسن، مطبوعہ اردوسائنس بورڈ لاہور 2001ء 17 سرور کائنات کے پچاس صحابہ از طالب الہاشمی مطبوعہ البدر پبلیکیشنزار دو بازار لاہور 2006ء تاریخ ابن خلدون (اسمی کتاب العبر و ديوان المبتدأ والخبر في ايام العرب و العجم والبربر) از عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون، دار الفکر بیروت 2000ء / مترجم اردو دار الاشاعت کراچی 2003 ء 19 تاریخ الاسلام و وفیات المشاهير والاعلام از شمس الدین محمد بن احمد عثمان الذہبی مطبوعہ دار الكتاب العربی بیروت 1993ء 20 تاریخ الخلفاء الراشدين الفتوحات والانجازات السیاسیة از محمد سهیل طقوش، دار النفائس بیروت 2011 ء 21 تاریخ الطبری ( تاریخ الامم و الملوک) از ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، دار الكتب العلمية بيروت 1987ء / دار الفكر بیروت 2002ء

Page 670

اصحاب بدر جلد 4 34 22 التاريخ الكبير از ابو عبد الله محمد بن اسماعیل بخاری مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 2001ء 23 تاریخ دمشق الکبیر از ابو عبد اللہ علی عاشور الجنوبی ( ابن عساکر) مطبع دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء 24 تبرکات صحابہ کا تصویری البم از ارسلان بن اختر مطبوعہ مکتبه ارسلان کراچی 2011 ء 25 تثبیت دلائل النبوۃ از عبد الجبار مطبوعہ دار العربیہ بیروت ببلیوگرافی 26 تفسیر کبیر از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ البیع الثانی و المصلح الموعود، شائع کردہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لندن 2023 ء 27 جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم مطبوعہ مؤسسة الرسالة بيروت 2001ء فی الكلم 28 حبیب کبریا کے تین سو اصحاب از طالب الہاشمی مطبوعہ القمر انٹر پرائزز لاہور 1999ء 29 حياة الصحابه از محمد یوسف الكاندهلوی مطبوعه موسسة الرسالة ناشرون 1999ء / مكتبة العـ 30 خطابات طاہر ( تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت) از حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ پاکستان العلم لاہور 1 خطبات محمود، از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی و المصلح الموعود ، شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن مطبوعہ ضیاء الاسلام پر میں ربوہ پاکستان 32 دروس حضرت مصلح موعود غیر مطبوعہ 33 دلائل النبوة از ابی بکر احمد بن حسین بیہقی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان، 1988ء 34 رحمت دارین کے سوشیدائی از طالب ہاشمی مطبوعہ البدر پبلیکیشنزار دو بازار لاہور 2003ء 35 روحانی خزائن از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود، شائع کر وہ نظارت اشاعت، مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس ربوہ ضیاء الاسلام کے ہیں.36 الروض الانف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام از ابی القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن احمد بن ابی الحسن تنعمی سہیلی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت طبع اول / مکتبہ ابن تیمیہ 1990ء 37 سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد از محمد بن یوسف صالحی الشامی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 1993ء 38 سرور کائنات کے پچاس صحابہ از طالب الہاشمی مطبوعہ میٹرو پر نٹر ز لاہور 1985ء 39 سنن ابن ماجه از ابو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجه قزوینی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 2009ء 40 سنن ابو داؤد از ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 2009ء 41 سنن الترمذی الجامع الصحیح از ابو عیسی محمد بن عیسیٰ بن سورۃ، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت لبنان، 2002ء 42 السنن الکبری از ابی بکر احمد بن حسین خراسانی بیقی، مطبوعه مكتبة الرشد ناشرون 2004ء / دار الكتب العلميه بیروت 2003ء 43 سنن النسائی از ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب ابن علی بن سنان النسائی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 2009ء 44 سیر اعلام النبلاء از شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذہبی، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت لبنان، 1996ء / الرسالة العالمية دمشق 2014ء 45 سیر روحانی از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثاني والمصلح الموعود، مطبوعہ قادیان 2005ء 46 سیر الصحابه از معین الدین ندوی، مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء / اسلامی کتب خانه / ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور 47 السيرة الحلبية ( انسان العيون في سيرة الامين والمامون ) از ابی الفرج نور الدین علی بن ابراہیم بن احمد حلبی الشافعی، مطبوعہ

Page 671

اصحاب بدر جلد 4 35 ببلیوگرافی دارا الكتب العلمية بيروت لبنان 2002 ء / 2008ء / اردو ترجمہ از محمد اسلم قاسمی، دار الاشاعت کراچی 1999ء 48 السيرة النبوية لابن ہشام از ابی محمد عبد الملک بن ہشام بن ایوب حمیری معافری مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2001ء / دار ابن حزم بیروت لبنان 2009ء / المكتبه العصريه بيروت 2011 ء 49 السيرة النبوية لابن کثیر از ابی الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت لبنان 1976ء / دار الكتب العلمية بيروت 2005 ء 50 السيرة النبوية عرض وقائع و تحلیل احداث از دکتور علی محمد صلابی دار المعرفۃ بیروت لبنان 2007ء 51 السيرة النبوية على ضوء القرآن والسته از محمد بن محمد بن سويلم مطبوعہ دار القلم دمشق 52 سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ اسلام آباد ٹلفورڈیو کے 1996ء 53 شرح العلامة الزرقانی علی المواهب اللدنية بالمخ المحمدیۃ از علامہ قسطلانی، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت 1996ء 54 صحابہ کرام کا انسائیکلو پیڈیا از ڈاکٹر ذوالفقار کا ظم شائع کر دہ بیت العلوم پرانی انار کلی لاہور 55 صحیح البخاری از ابوعبد الله محمد بن اسماعیل بخاری جعفی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 1999ء / مترجم اردو شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ پاکستان 56 صحیح مسلم از ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری، ناشر دار السلام ریاض، 2000ء / مترجم اردو ، شائع کردہ نور فاؤنڈیشن ربوہ پاکستان 57 الطبقات الکبری از محمد بن سعد بن منبع الہاشمی النصری المعروف بابن سعد مطبوعہ دارالکتب العلمية بيروت 1990ء / 2012 / 2017 / دار احیاء التراث العربی بیروت 1996 ء / مترجم اردو از عبد العمادی نفیس اکیڈمی کراچی 58 عشره مبشره از بشیر ساجد ناشر البدر پبلیکیشنز لاہور پاکستان 2000ء 59 عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری از بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد العینی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء / داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 2003 ء 60 عون المعبود شرح سنن ابی داؤد از ابی الطیب محمد شمس الحق عظیم آبادی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2002ء 61 عیون الاثر في فنون المغازی والشمائل والسیر از حافظ فتح الدین ابو الفتح محمد بن سید الناس الشافعی مطبوعہ دارالقلم بیروت لبنان 1993ء 62 فتح الباری شرح صحیح البخاری از احمد بن علی بن حجر عسقلانی، مطبوعہ دار الریان للتراث قاہرة 1986ء / قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی 63 فرمودات مصلح موعود مر تبہ سید شمس الحق صاحب مربی سلسلہ غیر مطبوعہ 64 فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمن ناشر زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، کراچی 2003 ء 65 الکامل فی التاریخ از عز الدین ابی الحسن علی بن محمد ابن اثیر جزری مطبوعہ دارالکتاب العربي بيروت 1997ء / دار الكتب العلمیة بیروت 2006/2003ء/2012ء 66 کتاب الحجب از محمد بن حبیب بن امیہ بن عمر ہاشمی مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامی پیلاہور 67 کتاب المغازی از ابو عبد الله محمد بن عمر بن واقد الواقدی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2004ء / 2013ء/ عالم الكتب بيروت 1984ء 68 فضائل صحابہ از ابو عبد اللہ احمد بن حنبل، مطبوعہ دار العلم للطباعة والنشر السعودية 1983ء / مترجم اردو از نوید احمد بشار

Page 672

اصحاب بدر جلد 4 36 ببلیوگرافی مطبوعہ بک کارنر پر نٹر ز پبلشرز جہلم پاکستان 2016ء 69 کتاب مقدس یعنی پرانا اور نیا عہد نامه از پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور پاکستان 2019ء 70 کنز العمال فی سنن الا قوال و الافعال از علاء الدین علی بن حسام الدین الہندی، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالة 1985ء / دار الكتب العلمية بيروت 2004ء 71 لغات الحدیث از وحید الزمان مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء/ آصف علی پر نٹر ز لاہور 2005ء 72 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد از نور الدین علی بن ابی بکر بن سلیمان اہیتمی المصری مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء 73 محمد رسول اللہ صلی علم کی حکمرانی و جانشینی از ڈاکٹر محمد حمید الله مترجمه پروفیسر خالد پرویز مطبوعہ المكتبة الرحمانية لاہور $2006 74 مرقاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح از ملا علی القاری مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء 75 المستدرک علی الصحیحین از ابو عبد الله محمد بن عبد اللہ الحاکم نیشاپوری، مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت 1990ء / دار الفکر بیروت 2001ء / مکتبہ نزار مصطفى الباز الرياض 2000ء / مترجم اشتیاق اسے مشتاق پر نٹر ز لا ہو ر 2012ء 76 مسند الامام احمد بن حنبل) از امام احمد بن حنبل، مطبوعہ عالم الكتب 1998 ء / دار الحدیث قاہرہ 2012ء 77 المصنف لابن ابی شیبته از ابی بکر عبد بن محمد بن ابراہیم ابی شیبه العبي الفاروق الحدیثہ قاہرہ 2008ء / مترجم محمد اولیس سرور مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور 2014ء 78 مصنف عبد الرزاق از عبد الرزاق صنعانی مطبوعہ المكتب الاسلامی 1983ء 79 مضامین بشیر از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے شائع کردہ مجلس انصار الله 80 معجم البلدان از شہاب الدین ابی عبد اللہ یا قوت بن عبد الله الحموی الرومی البغدادی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2001ء / المكتبة العصرية بيروت لبنان 2014ء / الفیصل اردو بازار لاہور 2013 ء 81 المعجم الكبير از ابی القاسم سلیمان بن احمد طبرانی، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی 2002ء / مکتبہ ابن تیمیہ قاہر 1994ء 82 معرفۃ الصحابہ از ابی نعیم احمد بن عبد اللہ بن احمد بن اسحاق بن مہران اصبہانی دارالکتب العلمیة بیروت 2002ء 83 ملفوظات از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود، شائع کردہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لندن 2022 ء 84 المنتقى من کتاب مکارم الاخلاق از ابو بکر محمد بن جعفر بن محمد بن سھل بن شاکر الخرائطی مطبوعہ دار الفکر دمشق 1988ء 85 وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی از علامه نور الدین علی بن احمد السمهودی، مطبوعہ مکتبۃ الحقانیة پشاور پاکستان 86 Arabic-English Lexicon by Edward William Lane librairie du liban 1968 87 LIFE OF MAHOMET by Sir William Muir, Smith Elder& co, Waterloo place London 1878 88 The life of Mohammad by sir William Muir Edition 1923

Page 672