Ashab-eBadr Vol 3

Ashab-eBadr Vol 3

اصحابِ بدرؓ (جلد سوم)

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ

جنگِ بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ کی سیرت و سوانح


Book Content

Page 1

وَلَقَدْ نَصَرَ كُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ اصحابے بدر جلد 3 سید نا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD اصحاب بدر جلد سوم (The Guiding Stars of Badr - Vol.3) (Urdu) by Hazrat Mirza Masroor Ahmad, Khalifatul-Masih V (may Allah be his Helper) First published in the UK, 2024 © Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Limited Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-507-1

Page 3

صحاب بدر جلد 3 نمبر شمار پیش لفظ دیباچه 111 فہرست مضامین 2.حضرت عمر بن خطاب نام و نسب، تاریخ پیدائش کنیت،لقب مضمون فہرست مضامین صفحہ نمبر XV xvii 1 2 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 حلیہ مبارک بطور سفیر آپ کے اسلام کے لیے آنحضور صلی الی یکی کی دعائیں قبول اسلام کی وجہ بننے والے واقعات و روایات قبول اسلام کا عام اعلان اور مخالفت حضرت عمرؓ کو بھی سختیاں جھیلنی پڑیں مدینہ کی طرف ہجرت مواخات اذان کی ابتداء اور حضرت عمر کا ایک رؤیا حضرت عمرؓ اور غزوات جنگ بدر حضرت حفصہ کی آنحضرت صلی اللہ کم سے شادی جنگ احد غزوة حمراء الاسد 4 4 6 7 19 21 22 23 24 25 25 28 30 33

Page 4

فہرست مضامین 34 37 37 39 44 45 49 50 51 56 56 57 58 58 59 62 63 64 67 70 73 74 77 79 79 صحاب بدر جلد 3 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 غزوہ بنو مصطلق iv رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی کی نماز جنازہ جنگ خندق صلح حدیده فتح مکہ اور ابو سفیان کو امان کا ملنا پہلی مرتبہ پر چم کا لہرایا جانا اور جنگ خیبر غزوہ تبوک آپ کی آخری بیماری میں وصیت کا اظہار اور صحابہ کار د عمل نبی صلی علیہ سلم کی وفات اور حضرت عمر کا جوش دیوانگی اجماع صحابه خلافت ابو بکر مانعین زکوۃ کے بارہ میں اظہار رائے لشکر اسامہ کی روانگی جمع قرآن حضرت عمر کی خلافت کے بارہ میں مشاورت حضرت ابو بکر کی وفات خلافت کے بعد پہلا خطاب خلیفہ منتخب ہونے کے تیسرے روز خطاب حضرت عمرؓ کی اہل بیت سے عقیدت کا کیا اظہار تھا ؟ دَارُ الدقيق عورت کا اپنے بچے کا زبر دستی دودھ چھڑوانا حضرت عمر کا درخت لگانا اسلامی مساوات جنگی قیدیوں کے علاوہ غلام بنانے کی ممانعت قحط پر آپ کی بے قراری

Page 5

اصحاب بدر جلد 3 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 V قحط کے سال آپ کا رنگ سیاہ ہو گیا نماز استسقاء پڑھی جائے گی مسجد نبوی کی توسیع مردم شماری ہر شخص کے لیے روٹی کپڑے کا انتظام ملکی حقوق کا قیام ممالک کی صوبہ جات میں تقسیم عام رعایا کو انتظامی امور میں مداخلت کا حق عاملین کی تقرری اور ان کے لیے ہدایات عاملین کی شکایات محاصل کا نظام خراج کے قواعد زراعت کی ترقی محکمہ قضا کا اجرا افتاء کا محکمہ محکمہ پولیس کا اجرا بیت المال کا قیام رفاہِ عامہ کے کام مختلف تعمیرات محکمہ فوج ما تحت غیر اقوام اعلیٰ عہدوں پر مارکیٹ کنٹرول، پرائس کنٹرول ناجائز حد تک قیمت گرانا تعلیم کا نظام ہجری کیلنڈر کا آغاز کس طرح ہوا؟ فہرست مضامین 81 82 83 84 85 88 88 89 89 90 91 91 91 91 92 92 93 95 95 96 97 98 98 99 99 99

Page 6

vi ہجری کیلنڈر کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ ہجری کیلنڈر کے لیے ہجرت سے آغاز کیوں ؟ ربیع الاول کی بجائے محرم سے سال کا آغاز کیوں کیا؟ ب نبی کریم صلی العلوم مدینہ کب تشریف لائے؟ تقویم ہجری کس سال میں ہوئی ؟ اسلامی سکه اولیات فاروقی فتوحات فہرست مضامین 99 100 100 101 101 101 101 104 105 105 107 108 108 109 111 112 112 113 113 119 120 125 128 130 131 حضرت ابو بکر کی ایک اہم وصیت عراق پر چڑھائی کے لئے لشکر کی تیاری جنگ نمارق اکسکر معرکہ سقاطيه 13 ہجری جنگ بارُ وسَما جنگ جسر جنگ بویب / يوم الاعشار ایرانیوں کے مقتولین کی تعداد ایک لاکھ اس جنگ کو يَوْمُ الْأَعْشَار بھی کہا جاتا ہے مسلمان خواتین کی ہمت و دلیری جنگ قادسیہ رستم کے لشکر کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بیماری کے باوجو د لشکر کی کمان...فتح مدائن جنگ جلولاء 16 ہجری ماسبذان کی فتح خُوزستان کی فتوحات صحاب بدر جلد 3 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93

Page 7

اصحاب بدر جلد 3 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 اهواز کا معرکہ جنگ رَامَهُرْمُزُ اور تُسْتُر جنگ جندی سابور جنگ نهاوند / فتح الفتوح vii اصفہان کی فتح همدان کی بغاوت اور دوبارہ فتح جنگ رے فتح قومِيس اور جُرْجَان فتح آذربائیجان آرمینیا کی مصالحت فتح خُراسان 22 ہجری فتح اصطخر فسا اور دار الجزد فتح گرمان فتح سجستان فَتح مُكْران بقاع کی مہم فتح فحل فتح طبريه فتح حمص مَرْجُ الرُّوم لاذقیه کی فتح فتح قنسرين فتح قيساريه جنگ یرموک فہرست مضامین 132 132 138 140 149 150 151 151 152 153 154 158 159 161 162 162 163 164 166 166 167 168 169 170 173

Page 8

اصحاب بدر جلد 3 vili بیت المقدس کی فتح 15 ہجری مسلمانوں اور اہل ایلیا کے درمیان صلح نامہ 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 133 134 135 136 137 138 139 140 141 142 143 حضرت عمر بیت المقدس میں حضرت بلال کا ایک بار پھر اذان دینا فتح بلبيس ام دُنَين عين الشمس میں مقابلہ معرکہ قلعہ بابلیون یا فُسْطَاظ کی فتح اسکندریہ کی فتح کس طرح ہوئی ؟ فتح بزقه وطرابلس فتوحات کے اسباب و عوامل آنحضرت صلی اللہ علم کا حضرت عمر کی شہادت کی دعا حضرت عمر کی وفات اور صحابہ کے رویا حضرت عمر کی شہادت عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے کہ...ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے حضرت عمرؓ کے قاتل کا ذکر کیا حضرت عمر کی شہادت سازش کا نتیجہ تھی ؟ فتنہ کے وقت نماز کے موقع پر حفاظت کا انتظام عجز و انکسار تدفین اور نماز جنازہ وفات پر بعض صحابہ کرام کے تاثرات حضرت عمر کی ازواج اور اولاد مستشرقین کے تبصرے عشرہ مبشرہ میں سے ایک فضائل حضرت عمر فہرست مضامین 186 191 192 194 202 203 205 205 206 211 214 220 222 224 226 228 228 238 242 244 245 247 247 250 251

Page 9

صحاب بدر جلد 3 144 145 146 147 148 149 150 151 152 153 154 155 156 157 158 159 160 161 162 163 164 165 166 167 ix رسول اللہ صلی اللی علم سے عاشقانہ تعلق فہرست مضامین 259 دنیا سے بے رغبتی اور زہد تقویٰ کے معیار عاجزی اور انکساری حضرت ابو بکر اور عمرہ کی فضیلت خشیت الہی پرانے خدمت اور قربانی کرنے والوں خیال رکھنا قربانی کرنے والوں کے قریبوں کو نواز نا بوڑھی، معذور عورتوں اور ضرور تمند لوگوں اور بچوں کا خیال رکھنا اولاد کارشتہ دیکھنے کے لیے معیار بازار کی قیمتوں سے کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں طاعون عمواس اور لوگوں کی جانوں کی فکر قبولیت دعا کے چند واقعات دعائیں مالی قربانی رکھنے والوں کے لئے خاص مقام بچوں کی تربیت بیت المال کے اموال کی حفاظت اور نگرانی مساوات کا قیام وسعت حوصلہ مذہبی امور میں آزادی جانوروں پر شفقت اور رحم دلی کا واقعہ آپ کا شاعرانہ ذوق فضائل اور مناقب 264 267 269 274 277 278 278 279 281 282 282 285 288 289 290 290 291 292 293 294 295 296 299

Page 10

صحاب بدر جلد 3 X 3.حضرت عثمان بن عفان فہرست مضامین 168 169 170 171 172 173 174 175 176 177 178 179 180 181 182 183 184 185 186 187 188 189 190 191 نام و نسب و کنیت ذوالنورین 304 304 قبول اسلام بنت رسول صلی ال و نیم حضرت رقیہ سے شادی ہجرت حبشہ حضرت لوط سے ہجرت میں مشابہت ہجرت مدینہ مؤاخات حضرت رقیہ کے بعد حضرت ام کلثوم سے شادی تیسری بیٹی ہوتی تو اس کی شادی بھی.غزوات میں شمولیت غزوہ غطفان غزوة احد صلح حدیبیہ بیعت رضوان غزوہ ذات الرقاع فتح مکہ غزوہ تبوک حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں کردار حضرت عمرؓ کے عہد میں کردار خلافت کی بابت آنحضرت صلی للی کم کی پیشگوئی انتخاب خلافت کے لیے مجلس شوری کا قیام خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلا خطاب دور خلافت کی فتوحات 305 305 306 307 311 311 312 313 313 314 314 316 321 326 327 329 331 333 334 334 337 338

Page 11

فہرست مضامین 339 341 342 343 350 350 359 359 360 361 362 363 364 365 365 367 367 369 370 370 371 371 371 372 373 xi مہمات اور فتوحات کی تفصیل بر صغیر پاک و ہند تک اسلام پہنچنا فتنہ کی بابت آنحضرت صلی اللہ ظلم کی پیشگوئیاں اختلافات کا آغاز اور اس کی وجوہات حضرت ام حبیبہ مدد کے لیے آئیں بنو امیہ کے یتامیٰ کے ولی آخری حج عزم و ہمت تم کبھی متحد نہ ہو سکو گے شہادت سے قبل کی تفصیلات شہادت کا دردناک واقعہ آج شام کو روزہ ہمارے ساتھ کھولنا اسلامی حکومت کا تخت خلیفہ سے خالی قاتلین کی بد تہذیبی جرات و بہادری خلافت کا عظیم الشان سلسلہ فضائل و مناقب تجہیز و تکفین اور تدفین شہادت کے بعد کے واقعات آنحضور صیام کی پیشگوئیاں ترکہ واقعہ شہادت لباس اور حلیہ آنحضور صلی الم کی انگوٹھی عشرہ مبشرہ صحاب بدر جلد 3 192 193 194 195 196 197 198 199 200 201 202 203 204 205 206 207 208 209 210 211 212 213 214 215 216

Page 12

اصحاب بدر جلد 3 217 218 219 220 221 222 223 224 225 226 227 228 229 230 231 232 233 234 235 236 237 238 239 240 xii آنحضور صلى الم کے ساتھ جنت میں رفاقت مسجد نبوی کی توسیع اور بئر رومہ کا کنواں حضرت سلیمان کے ساتھ مشابہت مسجد الحرام کی توسیع پہلا اسلامی بہری بیڑا آنحضرت صلی اللی نام سے سب سے زیادہ مشابہت عفت اور حیا تواضع اور سادگی سخاوت اور فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ کتابت وحی اشاعت قرآن حضرت عثمان کا مقام جمعہ کے دن دوسری اذان کا اضافہ عید کے روز جمعہ کی نماز سے رخصت حضرت عثمان کی شادیاں اور اولاد 4.حضرت علی نام و نسب اور کنیت ابو تراب آنحضرت صلی ال تیم کی کفالت میں قبول اسلام مردوں میں سے پہلے کون ایمان لایا تھا؟ حضرت ابو طالب کی حمایت قریبی رشتہ داروں کو تبلیغ ہجرت کے موقع پر قربانی کا واقعہ مواخات کب کب ہوئی ؟ غزوات میں شمولیت اور جرات و بہادری فہرست مضامین 373 375 380 380 380 381 381 383 384 386 387 392 394 395 397 400 400 401 402 404 404 407 410 411

Page 13

فہرست مضامین 411 412 412 414 417 422 423 425 426 428 432 433 433 433 434 435 436 440 441 442 444 446 448 449 449 صحاب بدر جلد 3 XIII 241 242 243 244 245 246 247 248 249 250 251 252 253 254 255 256 257 258 259 260 261 262 263 264 265 غزوه عشيره غزوه سَفَوَان غزوہ بدر حضرت فاطمہ سے شادی زہد و قناعت کرنے والا جوڑا غزوہ احد غزوہ خندق معاہدہ صلح حدیبیہ کی تحریر لکھنے والے غزوہ خیبر ، میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے !!! آنحضرت کا دست شفا فتح مکہ غزوہ حنین سریہ حضرت علی بطرف بنو کلی غزوہ تبوک یمن کی طرف آپ صلی الیوم کی آخری بیماری میں آپ کی خدمت حضرت ابو بکر کی بیعت خلافت راشدہ کے دوران امیر مدینہ خلافت عثمان میں مخلصانہ دفاعی کوششیں حضرت عثمان کے گھر حضرت حسن و حسین کا پہرا حضرت علی کی بیعت خلافت حضرت عثمان کی شہادت کے بعد کے واقعات مسلمانوں کی تباہی کے اسباب مرکز اور خلافت سے تعلق جنگ جمل

Page 14

صحاب بدر جلد 3 266 267 268 269 270 271 272 273 274 275 276 277 278 279 حضرت طلحہ کی شہادت xiv جنگ صفين جنگ نہروان (اس جنگ میں تمام خوارج مارے گئے ) شہادت اور اس کا پس منظر واقعہ شہادت حضرت حسن بن علی کا خطبہ عمر میں اختلاف حضرت علی کا مزار کہاں واقع ہے ؟ شادی اور اولاد فضائل و مناقب حضرت علی عشرہ مبشرہ میں سے قضائی فیصلے حضرت علی کے فضائل و مقام و مرتبہ فہرست مضامین 454 454 457 458 459 461 464 465 465 466 466 469 480 482

Page 15

اصحاب بدر جلد 3 XV پیش لفظ پیش لفظ جنگ بدر کو تاریخ اسلام میں ایک نمایاں اہمیت اور فضیلت حاصل ہے.قرآن کریم نے اس دن کو ”یوم الفرقان “ کہہ کر اس کی تاریخی فضیلت کو دوام بخشا اور اس فضیلت اور عظمت کا تاج اپنے وفاشعار جاں نثار بدری صحابہ کے سروں پر سجاتے ہوئے آنحضرت صلی ال کلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ الله أَن يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ اور تمہیں یہ کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا کہ تم جو کچھ کرتے رہو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں.(بخاری) اس جنگ میں شامل ہونے والے 313 صحابہ خود بھی اپنے آخری سانسوں تک اس سعادت اور اعزاز پر خدا کا شکر بجالاتے ہوئے فخر کیا کرتے تھے.چنانچہ ایک مشہور مستشرق ولیم میور صاحب لکھتے ہیں: بدری صحابی اسلامی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین رکن سمجھے جاتے تھے.سعد بن ابی وقاص جب اتنی سال کی عمر میں فوت ہونے لگے تو انہوں نے کہا کہ مجھے وہ چوغہ لا کر دو جو میں نے بدر کے دن پہنا تھا اور جسے میں نے آج کے دن کے لئے سنبھال کر رکھا ہوا ہے.یہ وہی سعد تھے جو بدر کے زمانہ میں بالکل نوجوان تھے اور جن کے ہاتھ پر بعد میں ایران فتح ہوا اور جو کوفہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر ان کی نظر میں یہ تمام عزتیں اور فخر جنگ بدر میں شرکت کے عزت و فخر کے مقابلے میں بالکل پیچ تھیں اور جنگ بد روالے دن کے لباس کو وہ اپنے واسطے سب خلعتوں سے بڑھ کر خلعت سمجھتے تھے اور ان کی آخری خواہش یہی تھی کہ اسی لباس میں لپیٹ کر ان کو قبر میں اتارا جاوے.“(بحوالہ سیرت خاتم النبیین صفحہ 373) یہ خوش نصیب صحابہ کون کون تھے ؟ رہتی دنیا تک آسمان پر چمکنے والے یہ چاند ستارے کون تھے ؟؟ ان کے نام، ان کے والدین کے نام ان کے سوال کیا تھے اور ان کی سیرت کے نمایاں کام اور کارنامے کیا کیا تھے.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے

Page 16

حاب بدر جلد 3 xvi پیش لفظ خطبات میں بڑی تفصیل سے ان کا ذکر فرمایا ہے.گویا کہ ان صحابہ کی سوانح اور سیرت کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے.سیرت صحابه کایه تاریخی بیان حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 4 مئی 2018ء کو شروع فرمایا اور پھر یہ تابناک علمی اور تحقیقی مواد خدا کے اس پیارے مقدس وجود کے لب مبارک سے ادا ہو تا رہا.آخری خطبہ 24 فروری 2023ء کو ارشاد فرماتے ہوئے کل 173 خطبات میں یہ ذکر مکمل ہوا.اور اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے آنحضرت صلی علیم کی سیرت پر خطبات دینے کا سلسلہ شروع فرمایا جو ابھی تک جاری و ساری ہے.سیرت النبی صلی علیکم کے یہ تمام خطبات جلد اول میں پیش کئے جائیں گے، اس سے قبل جلد دوم خلیفہ راشد حضرت ابو بکر صدیق کی سیرت و سوانح پر مشتمل شائع ہوئی تھی، اس جلد میں خلفائے ثلاثہ حضرت عمر بن خطاب ، حضرت عثمان اور حضرت علی کی سیرت و سوانح شامل ہے اور اس کے علاوہ دو جلدیں بدری صحابہ کی سیرت و سوانح پر مشتمل قارئین کی خدمت میں پیش ہوں گی.انشاء اللہ اس علمی و تحقیقی کام میں معاونت کرنے والے تمام افراد اور دفاتر خاص طور پر شکریہ کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزاء عطا فرمائے.فجزاهم الله احسن الجزاء جولائی ۲۰۲۴ء منیر الدین سمس ایڈیشنل وکیل التصنیف

Page 17

اصحاب بدر جلد 3 xvii دیباچه بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ دیباچه تبرک تحریر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار صحابہ کے اخلاص وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " خدا تعالیٰ نے صحابہ کی تعریف میں کیا خوب فرمایا ہے مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب : 24) مومنوں میں سے ایسے مرد ہیں جنہوں نے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے خدا تعالی کے ساتھ کیا تھا.سواُن میں سے بعض اپنی جانیں دے چکے اور بعض جانیں دینے کو تیار بیٹھے ہیں." پھر آپ فرماتے ہیں کہ " صحابہ کی تعریف میں قرآن شریف سے آیات اکٹھی کی جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی اسوۂ حسنہ نہیں." (ملفوظات جلد 7 صفحہ 431 تا 433) اور ان آیات میں صحابہ کی نیکیوں کے اور قربانیوں کے جو نمونے بیان ہوئے ہیں وہ ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہیں.چند سال قبل جب میں نے صحابہ کے حالات بیان کرنے شروع کئے تو ان میں بدری صحابہ بھی تھے اور چند دوسرے صحابہ کا بھی ذکر ہوا.لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ پہلے صرف بدر کی جنگ میں شامل ہونے والے صحابہ کا ذکر کروں.کیونکہ ان کا ایک خاص مقام ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک سلسلہ وار خطبات میں مجھے ان پاک طینت عشاق رسول الله الله السلام کا ذکر خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی.غزوہ بدر کے صحابہ وہ لوگ تھے جو غریب اور کمزور ہونے کے باوجود دین کی

Page 18

صحاب بدر جلد 3 xviii دیباچه حفاظت کرنے والوں میں صف اول میں تھے.وہ کبھی دشمن کی طاقت سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ ان کا تمام تر توکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا اور محبت کا عہد کیا تو اس کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا.اپنے عہد وفا کو نبھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی جنت کی بشارت دی اور ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمایا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس غزوہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " یہی وہ جنگ ہے جس کا نام قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرقان رکھا ہے اور یہی وہ جنگ ہے جس میں عرب کے وہ سردار جو اس دعوی کے ساتھ گھر سے چلے تھے کہ اسلام کا نام ہمیشہ کے لئے مٹا دیں گے خود مٹ گئے اور ایسے مٹے کہ آج ان کا نام لیوا کوئی باقی نہیں." (سیرة النبی صلی ال ، انوار العلوم جلد 1 صفحہ 610) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب اور ملفوظات میں دو بدری ادوار کا ذکر فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں: اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہو رہی ہے جو بدر کے موقع پر ہو گئی تھی جس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ (آل عمران:124).اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا." لیکچر لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 280) پھر آپ فرماتے ہیں " اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی اور وہ مدد اذلة کی مدد تھی جس وقت تین سو تیرہ آدمی صرف میدان میں آئے تھے اور کل تین لکڑی کی تلواریں تھیں اور ان تین سو تیرہ میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے.اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہوگی اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمعیت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا.اس وقت

Page 19

ناب بدر جلد 3 XIX دیباچه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر دعالَى اللَّهُمَّ إِنْ أَهْلَكْتَ هُذِهِ الْعِصَابَةَ لَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا.یعنی اے اللہ ! اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا.سنو ! میں بھی یقیناً اس طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر والا معاملہ ہے.اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت تیار کر رہا ہے.وہی بدر اور اَذِلَّةُ کا لفظ موجود ہے." (ملفوظات جلد 2 صفحہ 190-191) غزوہ بدر تاریخ اسلام کا نہایت اہم واقعہ ہے.احباب جماعت کو چاہیئے کہ اس حوالہ سے میرے خطبات کے اس مجموعے کو ضرور پڑھیں تاکہ یہ ایمان افروز واقعات ہمیشہ آپ کے ذہنوں میں مستحضر رہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بھی ہے جو تذکرہ میں یوں درج ہے: "آج رات حضرت نے خواب بیان فرمایا کسی نے کہا کہ جنگ بدر کا قصہ مت بھولو.(تذکرہ ص 668) اللہ تعالیٰ ہم میں خاص طور پر بدر کی اہمیت کا ادراک پیدا فرمائے اور ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی آمد کو سمجھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کرے کہ مسلمان امت بھی اس واقعہ بدر کی حقیقت کو سمجھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئے ہوئے مسیح موعود کو پہچانے تاکہ مسلمان دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کرنے کے قابل بن جائیں.آمین مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس عالمگیر جماعت احمدیہ 25 اپریل2024ء

Page 20

Page 21

اصحاب بدر جلد 3 1 2 حضرت عمر بن خطاب نام و نسب حضرت عمر بن خطاب حضرت عمر کا تعلق قبیلہ بنو عدی بن کعب بن لوی سے تھا.آپ کے والد کا نام خطاب بن نفیل تھا.ایک قول کے مطابق آپ کی والدہ کا نام حنتمہ بنت ہاشم تھا.اسی طرح آپ کی والدہ ابو جہل کی چا زاد ہمشیرہ بنتی ہیں اور دوسرے قول کے مطابق ان کی والدہ کا نام حنتمہ بنت ہشام تھا.اس طرح وہ ابو جہل کی بہن بنی ہیں لیکن یہ روایت جو بہن والی ہے یہ زیادہ تسلیم نہیں کی جاتی.ابو عمر کہتے ہیں کہ جو یہ کہتا ہے کہ ابو جہل کی بہن تھیں تو اس نے خطا کی.اگر ایسا ہو تا تو ابو جہل اور حارث کی بہن ہو تیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے.وہ ان دونوں کی چا کی بیٹی تھیں.ان کے والد کا نام ہاشم ہے.حضرت عمر کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات بیان ہوئی ہیں جن کے مطابق حضرت عمر کی تاریخ پیدائش کا سال الگ الگ بنتا ہے.چنانچہ ایک رائے یہ ہے کہ حضرت عمرؓ بڑی جنگ فجار سے چار سال قبل پیدا ہوئے تھے جبکہ دوسری جگہ لکھا ہے کہ بڑی جنگ فجار کے چار سال بعد پیدا ہوئے تھے.اسے جنگ فجار اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ لڑائی حرمت والے مہینے میں ہوئی جو بہت فسق و فجور والی بات ہے.یہ جنگ چار مرحلوں میں ہوئی تھی.چوتھی جنگ کو الْفِجَارُ الْأَعْظم ، بڑی جنگ فجار کے علاوہ الْفِجَارُ الْأَعْظَمُ الْآخِرِ آخرى بڑی جنگ فجار بھی کہتے ہیں.یہ قریش اور بنو کنانہ نیز ہوازن کے درمیان ہوئی تھی.ایک دوسری رائے یہ ہے کہ حضرت عمر عام الفیل کے تیرہ سال بعد مکہ میں پیدا ہوئے تھے.2 عام الفیل 570 عیسوی کا سال ہے اور اس کے تیرہ سال بعد کے حساب سے حضرت عمر کی پیدائش کا سال 583ء بنتا ہے.تیسری رائے یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے 6 / نبوی میں اسلام قبول کیا اور اس وقت ان کی عمر 26 سال تھی.3 سنہ عیسوی کے اعتبار سے 6/ نبوی 616/ عیسوی کا سال بنتا ہے.اگر اس وقت حضرت عمر 26 سال کے تھے تو ان کی پیدائش کا سال 590ء بنتا ہے.چوتھی رائے یہ ہے کہ حضرت عمر تب پیدا ہوئے جب نبی کریم صلی ا یکم اکیس سال کے تھے.4 بہر حال یہ مختلف آرا ہیں، تقریباً اکیس اور چھبیس سال کے درمیان کی عمر بنتی ہے جب انہوں نے

Page 22

اصحاب بدر جلد 3 2 حضرت عمر بن خطاب اسلام قبول کیا.حضرت عمرؓ کی کنیت ابو حفص تھی.5 حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے جنگ بدر کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ بنو ہاشم اور کچھ دوسرے لوگ قریش کے ساتھ مجبوراً آئے ہیں وہ ہم سے لڑنا نہیں چاہتے.پس تم میں سے جو کوئی بنو ہاشم کے کسی آدمی سے ملے تو اس کو قتل نہ کرے اور جو ابو الْبَخْتَرِی سے ملے وہ اس کو قتل نہ کرے اور جو عباس بن عبد المطلب جو رسول اللہ صلی علیکم کے چچاہیں ان سے ملے تو وہ ان کو بھی قتل نہ کرے کیونکہ یہ لوگ مجبوراً قریش کے ساتھ آئے ہیں.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ : حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ نے کہا کہ ہم اپنے باپوں، بیٹوں، بھائیوں اور رشتہ داروں کو تو قتل کریں اور عباس کو چھوڑ دیں.اللہ کی قسم ! اگر میں اسے یعنی عباس کو ملا تو میں تلوار سے ضرور اسے قتل کر دوں گا.راوی کہتے ہیں کہ یہ خبر رسول اللہ صلی علیکم کو پہنچی تو آپ نے حضرت عمر بن خطاب سے فرمایا.اے ابو حفص ! حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم !یہ پہلا دن تھا کہ جب رسول اللہ صلی الم نے مجھے ابو حفص کی کنیت سے مخاطب فرمایا تھا.آپ نے فرمایا کیارسول اللہ کے چچا کے چہرے پر تلوار ماری جائے گی ؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں کہ میں تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں جس نے یہ کہا ہے.اللہ کی قسم ! اس نے یعنی ابو حذیفہ نے منافقت دکھائی ہے.حضرت ابو حذیفہ بعد میں کہا کرتے تھے کہ میں اس کلمہ کی وجہ سے جو میں نے اس دن کہا تھا چین میں نہیں رہا اور ہمیشہ اس سے ڈر تارہا سوائے اس کے کہ شہادت میری اس بات کا کفارہ کر دے چنانچہ حضرت ابو حذیفہ جنگ یمامہ کے دن شہید ہو گئے تھے.فاروق لقب عطا کیا جانا حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضور صلی ا یکم نے حضرت عمر کو 'فاروق' کے لقب سے نوازا تھا.7 اس لقب کا پس منظر کیا تھا؟ اس کے بعد یہ روایت ملتی ہے کہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ آپ کا لقب فاروق کس طرح رکھا گیا؟ انہوں نے فرمایا کہ حضرت حمزہ نے مجھ سے تین روز قبل اسلام قبول کیا تھا.میں اتفاقا مسجد حرام کی طرف جانکلا تو ابو جہل تیزی سے رسول اللہ صلی للی کم کے پاس گالیاں دیتے ہوئے گیا.پھر انہوں نے حضرت حمزہ کی وہ ساری بات بیان کی جو انہوں نے کیا کہ جب حضرت حمزہ کو خبر ہوئی تو اپنی کمان لے کر خانہ کعبہ کی طرف چلے اور قریش کے اس حلقے میں جس میں ابو جہل بیٹھا تھا اس کے سامنے اپنی کمان پر سہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اس کو مسلسل گھورنے لگے.ابو جہل نے آپ کے چہرے سے ناراضگی محسوس کی تو اس نے کہا اے ابو عمارہ! یہ حضرت حمزہ کی کنیت تھی، کیا معاملہ ہے ؟ یہ سنتے ہی حضرت حمزہ نے اپنی کمان زور سے اس کی گال پر ماری کہ وہ کٹ گئی اور اس سے خون بہنے لگا.اور ان کے غصہ کے

Page 23

اصحاب بدر جلد 3 3 حضرت عمر بن خطاب خوف کی وجہ سے قریش نے فوراً جھگڑا ختم کر وا دیا.حضرت عمر نے یہ واقعہ بیان کیا کہ اس طرح ہوا جو میں نے بھی دیکھا تھا.کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے تیسرے دن میں باہر نکلا تو راستے میں مجھے بنو مخزوم کا ایک شخص ملا.میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے آباؤ اجداد کے دین کو ترک کر کے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین اختیار کر لیا ہے.اس نے کہا کہ اگر میں نے کر لیا ہے تو اس میں کون سی بڑی بات ہے.اس نے بھی تو کر لیا ہے جس پر تم کو مجھ سے زیادہ حق ہے.حضرت عمر کہتے ہیں میں نے کہا وہ کون ہے ؟ اس نے کہا تمہاری بہن اور بہنوئی.یہ سن کر جب میں اپنی بہن کے گھر گیا تو میں نے دروازے کو بند پایا اور مجھے وہاں کچھ پڑھنے کی سر گوشیاں سنائی دیں.میرے لیے دروازہ کھولا گیا اور میں اندر داخل ہو گیا اور ان سے کہا یہ میں نے تم سے کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا تم نے کیا سنا ہے ؟ اس مکالمے میں بات بڑھ گئی اور میں نے بہنوئی کا سر پکڑ لیا اور اس کو مارا اور اسے لہولہان کر دیا.میری بہن اٹھی اور اس نے مجھے سر سے پکڑ لیا اور کہا یہ تمہاری خواہش کے خلاف ہوا ہے یعنی ہمارا اسلام لانا تمہاری خواہش کے خلاف ہے.بہر حال دوسری روایت میں بہن کے زخمی ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے جب بہنوئی کا خون دیکھایا ہو سکتا ہے کہ اس وقت بہن کا بھی ہو گیا ہو تو مجھے شرمندگی ہوئی اور میں بیٹھ گیا اور کہا مجھے یہ کتاب دکھاؤ.میری بہن نے کہا کہ اسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں.اگر سچ بول رہے ہو تو جاؤ اور غسل کرو.چنانچہ میں نے غسل کیا اور آکر بیٹھ گیا تو انہوں نے وہ صحیفہ میرے لیے نکالا.اس میں تھا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ میں نے کہا یہ نام تو بڑے طیب اور پاکیزہ ہیں.اس کے بعد تھا لهُ مَا انْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى یہاں سے لے کر لَهُ الْأَسْمَاءُ الحسنٰی تک، طلا کی آیت 2 سے 9 تک تھیں.کہتے ہیں میرے دل میں اس کلام کی بڑی عظمت پیدا ہوئی.میں نے کہا قریش اس سے بھاگتے ہیں.میں نے اسلام قبول کر لیا اور میں نے کہار سول اللہ صلی یہ کم کہاں ہیں؟ میری بہن نے بتایا کہ وہ دارِ ارقم میں ہیں.میں وہاں پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا تو وہاں موجود صحابہ جمع ہو گئے.حضرت حمزہ نے ان سے کہا تم لوگوں کو کیا ہوا ہے ؟ انہوں نے کہا عمر.حضرت حمزہ نے کہا کہ خواہ عمر ہی ہو اس کے لیے دروازہ کھول دو.اگر وہ باہر دروازے پر کھڑا ہے.اگر وہ اچھے ارادے سے آئے ہیں تو ہم انہیں قبول کر لیں گے اور اگر وہ بری نیت سے آئے ہیں تو ہم اسے قتل کر دیں گے.یہ باتیں رسول کریم صلی لی ایم نے بھی سن لیں.آپ باہر تشریف لائے تو حضرت عمرؓ نے کلمہ شہادت پڑھا اس پر گھر میں موجود تمام صحابہ نے بلند آواز سے اللہ اکبر ! کہا جس کو اہل مکہ نے سنا.میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ حضرت عمر کہتے ہیں میں نے آنحضرت صلی علیہ کم سے عرض کی یارسول اللہ ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں.میں نے کہا پھر یہ اخفاء کیوں ہے ؟ ہم اپنے دین کو چھپا کے کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ اس کے بعد ہم وہاں سے دو صفوں میں ہو کر نکلے.

Page 24

باب بدر جلد 3 4 حضرت عمر بن خطاب ایک صف میں میں تھا اور دوسری صف میں حضرت حمزہ تھے یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوئے.اس پر قریش نے مجھے اور حمزہ کو دیکھا اور ان کو ایسا شدید دکھ اور تکلیف پہنچی کہ اس طرح کی تکلیف پہلے کبھی نہیں پہنچی تھی.چنانچہ اس دن رسول کریم صلی للی رام نے میر انام فاروق رکھا کیونکہ اسلام کو تقویت پہنچی اور حق اور باطل کے درمیان امتیاز پید ا ہو گیا.8 ایوب بن موسیٰ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان و دل پر قائم کر دیا اور وہ فاروق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے حق و باطل میں فرق کر دیا.حلیہ مبارک حضرت عمر دراز قد اور مضبوط جسم کے مالک تھے.سر کے اگلے حصہ پر بال نہیں تھے.رنگ سرخی مائل اور مونچھیں گھنی تھیں جن کے کناروں پر سرخی جھلکتی تھی اور آپ کے رخسار ہلکے پھلکے 10 زمانہ جاہلیت میں حضرت عمر کے جو شغل تھے ان کے بارے میں اس طرح ذکر ملتا ہے کہ گھر سواری اور کشتی حضرت عمر کے محبوب مشاغل میں سے تھے.عکاظ کے میلے میں ہر سال گشتی کا مقابلہ عموماً حضرت عمرؓ ہی جیتا کرتے تھے.نوجوانی میں عرب کے عام رواج کے مطابق اپنے والد کے اونٹ چرایا کرتے تھے.11 اسلام سے قبل عرب میں لکھنے پڑھنے کا چنداں رواج نہیں تھا.چنانچہ جب آنحضرت صلی الی یم مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے.حضرت عمرؓ نے اس وقت اس زمانے میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا.12 حضرت عمرؓ اشراف قریش میں سے تھے.قبل از اسلام قریش کی طرف سے سفارت کا عہدہ آپ کے سپر د تھا اور قریش کا دستور تھا کہ جب ان کے درمیان یا ان کے اور غیروں کے درمیان کوئی جنگ ہوتی تو وہ حضرت عمر کو بطور سفیر بھیجتے تھے.13 رقت قلبی کا ایک منظر اور اسلام دشمنی کی مثال جب حبشہ کی طرف بعض مسلمانوں نے ہجرت کی تو اس وقت حضرت عمرؓ کے جو واقف تھے ان کو ہجرت کرتے دیکھ کے حضرت عمر کا جو رد عمل تھا باوجود اس کے کہ آپ ابھی اسلام نہیں لائے تھے اور سخت طبیعت کے بھی مالک تھے لیکن رد عمل نہایت رفت والا تھا.اس بارے میں حضرت ام عبد اللہ بنت ابو حشم بیان کرتی ہیں کہ اللہ کی قسم ! جب ہم سر زمین حبشہ کی جانب روانہ ہونے لگے اور میرے شوہر عامر بن ربیعہ اپنے کسی کام سے گئے ہوئے تھے تو اسی دوران حضرت عمر بن خطاب آئے اور میرے پاس

Page 25

تاب بدر جلد 3 5 حضرت عمر بن خطاب کھڑے ہو گئے اور وہ ابھی تک اپنے شرک پر ہی قائم تھے اور ہمیں ان کی طرف سے طرح طرح کی اذیتیں اور تکالیف برداشت کرنی پڑتی تھیں.وہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے مجھ سے کہا.اے ام عبد اللہ ! لگتا ہے کہیں روانگی کا ارادہ ہے.بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا کہ ہاں اللہ کی قسم ! ضرور ہم اللہ کی زمین میں نکل جائیں گے.کہیں جارہے ہیں.تلاش کرتے ہیں کہ کہاں جانا ہے.بڑی وسیع زمین ہے اللہ کی.تم لوگوں نے تو ہمیں بہت ستایا ہے اور ہم پر بہت ظلم ڈھائے ہیں یہاں تک کہ اللہ نے ہمارے لیے اب نجات کی راہ پیدا کر دی ہے.ام عبد اللہ بیان کرتی ہیں کہ وہ کہنے لگے اللہ تمہارے ساتھ ہو.ام عبد اللہ کہتی ہیں کہ جیسی رفت اس وقت میں نے ان پر طاری دیکھی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی.اس کے بعد وہ چلے گئے.میر اخیال ہے کہ ہمارے نکلنے نے انہیں غمگین کر دیا تھا.ام عبد اللہ کہتی ہیں کہ جب عامر بن ربیعہ اپنے کام سے واپس آئے تو میں نے ان سے کہا اے عبد اللہ اکاش ابھی تم عمر کی حالت دیکھتے اور ہمارے لیے ان کی رفتت اور غم کو دیکھتے.عامر بن ربیعہ نے کہا کیا تم ان کے اسلام لانے کی امید رکھتی ہو ؟ اس بات سے متاثر ہو گئی ہو گی کہ وہ اسلام لے آئیں گے.وہ کہتی ہیں میں نے کہا ہاں.اس پر اس نے یعنی عامر بن ربیعہ نے کہا کہ وہ کبھی اسلام قبول نہیں کرے گا.جسے تم نے دیکھا ہے وہ اسلام قبول نہیں کرے گا یہاں تک کہ خطاب کا گدھا اسلام قبول کر لے.ام عبد اللہ کہتی ہیں حضرت عمرؓ کی اسلام کے متعلق سختی اور شدت کو دیکھ کر اس سے مایوس ہوتے ہوئے عامر بن ربیعہ نے یہ بات کہی تھی.14 اتنا سخت دشمن ہو تو کس طرح ہو سکتا ہے وہ اسلام قبول کرلے.اس واقعہ کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اپنے انداز میں بیان فرمایا ہے.”حضرت عمرؓ کو اسلام سے شدید دشمنی تھی.“ آپ فرماتے ہیں لیکن ان میں روحانی قابلیت بھی موجود تھی یعنی باوجود آپ میں شدید غصہ ہونے کے باوجو در سول کریم صلی اہم اور آپ کے صحابہ کو تکالیف پہنچانے کے ان کے اندر جذبہ رقت بھی موجود تھا.چنانچہ جب حبشہ کی طرف پہلی ہجرت ہوئی تو مسلمانوں نے نماز فجر سے پہلے مکہ سے روانگی کی تیاری کی تاکہ مشرک انہیں روکیں نہیں اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائیں.مکہ میں یہ رواج تھا کہ رات کو بعض رؤساء شہر کا دورہ کیا کرتے تھے تاکہ چوری وغیرہ نہ ہو.“ جائزہ لیتے تھے گلیوں میں.”اسی دستور کے مطابق حضرت عمرؓ بھی رات کو پھر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا.ایک جگہ گھیر کا سب سامان بندھا پڑا ہے.“ سارا سامان.آپ آگے بڑھے.ایک صحابیہ سامان کے پاس کھڑی تھیں.اس صحابیہ کے خاوند کے ساتھ شاید حضرت عمرؓ کے تعلقات تھے.اس لئے آپ نے اس صحابیہ کو مخاطب کر کے کہا.بی بی یہ کیا بات ہے، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم کسی لمبے سفر پر جارہی ہو.اس صحابیہ کا خاوند وہاں نہیں تھا.اگر وہ وہاں ہو تا تو ہو سکتا تھا کہ مشرکین مکہ کی عداوتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے حضرت عمرؓ کی یہ بات سن کر وہ کوئی بہانہ بنادیتا.کہ جارہے ہیں کہ نہیں جار ہے.یا تھوڑا سفر ہے یا کس جگہ جارہے ہیں یا قریب ہی کوئی جگہ

Page 26

حاب بدر جلد 3 6 حضرت عمر بن خطاب ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”لیکن عورت کو یہ جس نہیں تھی.اس عورت کو یہ خیال نہیں آیا.یا تھی بھی تو اس نے سچائی سے کام لیا.اس صحابیہ نے کہا عمر ا ہم تو مکہ چھوڑ رہے ہیں.انہوں نے کہا تم مکہ چھوڑ رہی ہو ؟ صحابیہ نے کہا ہاں ہم مکہ چھوڑ رہے ہیں.حضرت عمر نے پوچھا تم کیوں مکہ چھوڑ رہے ہو ؟ صحابیہ نے جواب دیا کہ عمرؓ ! ہم اس لئے مکہ چھوڑ رہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے اور ہمیں خدائے واحد کی عبادت کرنے میں یہاں آزادی میسر نہیں.اس لئے ہم وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں جارہے ہیں.اب باوجود اس کے کہ حضرت عمر اسلام کے شدید دشمن تھے.باوجود اس کے کہ وہ خود مسلمانوں کو مارنے پر تیار رہتے تھے.رات کے اندھیرے میں اس صحابیہ سے یہ جواب سن کر کہ ہم وطن چھوڑ رہے ہیں اس لئے کہ تم اور تمہارے بھائی ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے اور ہمیں خدائے واحد کی عبادت آزادی سے نہیں کرنے دیتے حضرت عمرؓ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا.“ یہ بات سن کے ”اور اس صحابیہ کا نام لے کر کہا کہ اچھا جاؤ خدا تمہارا حافظ ہو.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر پر رقت کا ایسا جذبہ آیا کہ آپ نے خیال کیا کہ اگر میں نے دوسری طرف منہ نہ کیا تو مجھے رونا آجائے گا.اتنے میں اس صحابیہ کے خاوند بھی آگئے.وہ سمجھتے تھے کہ عمر! اسلام کے شدید دشمن ہیں.انہوں نے جب آپ کو وہاں کھڑا دیکھا تو خیال کیا یہ ہمارے سفر میں کوئی روک پیدا نہ کر دیں.انہوں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا کہ یہ یہاں کیسے آگیا؟ اس نے بتایا کہ وہ اس اس طرح آیا تھا اور اس نے سوال کیا تھا کہ تم کہاں جارہے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی شرارت نہ کر دے.“ اس وقت جانے لگے ہوں گے ، وہاں کھڑے دیکھا ہو گا.اس کے بعد ان کے آنے سے پہلے ہی یا قریب پہنچنے سے پہلے ہی حضرت عمر وہاں سے روانہ ہو چکے تھے.یا ان کے ملنے کے بعد روانہ ہوئے.بہر حال انہوں نے کہا کوئی شرارت نہ کر دے.” اس صحابیہ نے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ( عرب عور تیں عام طور پر اپنے خاوندوں کو چا کا بیٹا کہا کرتی تھیں) تم تو یہ کہتے ہو کہ وہ کہیں کوئی شرارت نہ کر دے مگر مجھے تو ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اس نے کسی دن مسلمان ہو جاتا ہے کیونکہ جب میں نے کہا عمر ! ہم اس لئے مکہ چھوڑ رہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمیں خدائے واحد کی عبادت آزادی سے نہیں کرنے دیتے تو اس نے منہ پھیر لیا اور کہا.اچھا جاؤ خدا تمہارا حافظ ہو.اس کی آواز میں ارتعاش تھا اور میں سمجھتی ہوں کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے.اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ضرور کسی دن مسلمان ہو جائیگا.حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے لیے آنحضور صلی ا ہم نے دعائیں بھی کی تھیں.اس بارے میں روایت میں آتا ہے.حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا.اللَّهُمْ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبْ هُذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ اے اللہ ! تو ان دو اشخاص ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے اپنے زیادہ محبوب شخص کے ذریعہ 15"

Page 27

اصحاب بدر جلد 3 7 حضرت عمر بن خطاب اسلام کو عزت عطا کر.ابن عمر کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے اللہ کو زیادہ محبوب حضرت عمرؓ تھے.16 حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی علیم نے فرمایا: اللَّهُمَّ أَيْدِ الذِيْنَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ اے اللہ ! عمر بن خطاب کے ذریعہ سے دین کی تائید فرما.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللی انم نے فرمایا.اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بن الخطاب خاصةً کہ اے اللہ ! خاص طور پر عمر بن خطاب کے ذریعہ اسلام کو عزت عطا کر.17 حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے ایک دن پہلے رسول اللہ صلی نیلم نے یہ دعا فرمائی تھی.اللَّهُمْ أَيْدِ الْإِسْلَامَ بِأَحَبَّ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ، عُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ أَوْ عَمر و بن هِشَامٍ اے اللہ ! ان دولوگوں میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعہ سے اسلام کی تائید فرما.عمر بن خطاب یا عمر و بن ہشام.محمد بنِ الْخَطَابِ أَوْ عَمر و بن هِشَامٍ عمر بن خطاب سے یا عمر و بن ہشام سے.جب حضرت عمر نے اسلام قبول کیا تو حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے محمد ! عمر کے اسلام لانے سے آسمان والے بھی خوش ہیں.طبقات الکبریٰ کی یہ روایت ہے.18 حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے بارے میں مزید یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ذوالحجہ 6/ نبوی میں اسلام قبول کیا تھا.19 قبول اسلام کی وجہ بننے والے متعد دواقعات و روایات الله سة قبول اسلام کی وجہ بننے والے متعدد واقعات و روایات کتب حدیث اور سیرت میں مذکور ہیں.اسلام قبول کرنے کے متعلق ایک روایت یہ ہے.سیرۃ الحلبیة میں یہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ ابو جہل نے لوگوں سے کہا کہ اے گروہ قریش ! محمد صلی یہ کہ تمہارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے اور تمہیں عقل ٹھہراتا ہے.نیز تمہارے بزرگوں کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ جہنم کا ایندھن بن رہے ہیں.اس لیے میں اعلان کرتا ہوں کہ جو شخص محمد علی ایم کو قتل کرے گا میری طرف سے وہ ایک سو سرخ و سیاہ اونٹوں اور ایک ہزار اوقیہ چاندی کے انعام کا حق دار ہو گا.ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہو تا تھا یعنی تقریباً 126 گرام اور بعض کے نزدیک اس سے بھی زیادہ بنتی ہے لیکن بہر حال ایک بہت بڑی رقم تھی جو اس نے (اوقیہ جو ہے 126 گرام ہے تو یہ بہت بڑی رقم بنتی ہے ) انعام کے طور پر مقرر کی تھی اور ایک دوسری روایت جو ہے وہ اس طرح ہے کہ جو شخص محمد صلی اللہ ملک کو قتل کرے اس کو اتنے اوقیہ سونا اور اتنے اوقیہ چاندی اور اتنا مشک اور اتنے قیمتی کپڑے اور اس کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں دینے کا اعلان کیا.یہ سن کر حضرت عمرؓ بولے کہ میں اس انعام کا حق دار بنوں گا.لوگوں نے کہا بے شک عمرؓ یہ انعام تمہارا ہو گا.اس کے بعد حضرت عمرؓ نے ان سے اس بارے میں باقاعدہ معاہدہ کیا.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ننگی تلوار اپنے کندھے سے لٹکا کر رسول اللہ کی تلاش میں نکلا.راستے میں ایک جگہ

Page 28

اصحاب بدر جلد 3 8 حضرت عمر بن خطاب سے گزرا جہاں ایک بچھڑ اذ بح کیا جارہا تھا.میں نے اس بچھڑے کے پیٹ میں سے آواز سنی.اے آل ذَرِیخ (دریخ اس بچھڑے کا نام تھا جو ذبح کیا جارہا تھا) ایک پکارنے والا پکار رہا ہے اور صاف آواز میں کہہ رہا ہے اور اس بات کی گواہی کی طرف بلا رہا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی علیکم اللہ کے رسول ہیں.حضرت عمر “ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ سے کہا اس میں میری طرف ہی اشارہ ہے.اگر سیرۃ الحلبیہ کی یہ روایت صحیح ہے تو لگتا ہے کوئی کشفی نظارہ تھا جو آپ نے وہاں اس وقت دیکھا 20 یا کسی طرف سے آواز آئی.تیسری روایت حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں جو ملتی ہے یہ ہے کہ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ : م الله سة ایک دن میں حرم میں طواف کرنے کے ارادے سے آیا.اس وقت رسول اللہ صلی الیم کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے.آپ جب نماز پڑھا کرتے تھے تو ملک شام کی طرف منہ کر لیا کرتے تھے یعنی بیت المقدس کے پتھر کی طرف اس طرح کہ آپ کعبہ کو اپنے اور شام یعنی بیت المقدس کے درمیان کر لیا کرتے تھے.اس طرح آپ کی نماز کی جگہ حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان ہوا کرتی تھی.رکن یمانی کعبہ کا جنوب مغربی کو نہ ہے جو یمن کی طرف ہے کیونکہ اس کے بغیر بیت المقدس کا سامنا نہیں ہو تا تھا.غرض حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے آنحضرت صلی اللہ تم کو دیکھا تو میں نے سوچا کہ آج کی رات میں بھی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا کلام سنوں کہ یہ کیا کہتے ہیں.پھر میں نے سوچا کہ اگر میں سننے کے لیے ان کے قریب گیا تو میں انہیں ہوشیار کر دوں گا اس لیے میں حجر اسود کی طرف سے آیا اور خانہ کعبہ کے غلاف کے پیچھے ہو گیا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا.رسول اللہ صلی ال کی اسی طرح نماز میں مشغول رہے.آنحضرت صلی ا لم نے سورۃ الرحمٰن کی تلاوت کی.یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی علیم کے بالکل سامنے ہو گیا جس طرف آپ نے منہ کیا ہوا تھا.میرے اور آپ کے درمیان غلاف کعبہ کے علاوہ کچھ نہ تھا.جب میں نے قرآن کریم سنا تو میرا دل اس کی وجہ سے پگھل گیا اور میں رو پڑا اور اسلام میرے اندر داخل ہو گیا.میں اسی طرح اپنی جگہ کھڑا رہا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی علیم نے اپنی نماز مکمل کی اور وہاں سے واپس تشریف لے گئے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا.رسول اللہ صلی الیم نے میرے پیروں کی آہٹ سنی تو مجھے پہچان لیا.آپ صلی علیہم یہ سمجھے کہ میں آپ کو کوئی تکلیف پہنچانے کے لیے آپ کا پیچھا کر رہا ہوں.آپ نے مجھے ڈانٹا اور پھر کہا: اے ابن خطاب ! تم اتنی رات گئے کس ارادے سے آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا: میں اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس پر جو اللہ کی طرف سے آیا ہے ایمان لانے کے لیے آیا ہوں.ایک چوتھی روایت جو ہے وہ اس طرح ملتی ہے کہ حضرت عمر کہتے ہیں ایک رات میری بہن کو درد زہ اٹھا تو میں گھر سے نکل آیا اور دعا کرنے کے لیے کعبہ کے پردوں کے ساتھ لپٹ گیا.اس وقت نبی کریم صلی علیکم

Page 29

صحاب بدر جلد 3 9 حضرت عمر بن خطاب تشریف لائے اور حجر اسود کے پاس جتنی اللہ نے چاہی نماز پڑھی اور پھر تشریف لے گئے.اس وقت میں نے ایسا کلام سنا جو اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا.چنانچہ جب آپ صلی یہ تم وہاں سے نکلے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا.آپ نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ عمر ہوں تو آپ نے فرمایا اے عمر ! تم مجھے نہ رات کو چھوڑتے ہو اور نہ دن کو.یہ سن کر میں ڈرا کہ کہیں آپ میرے لیے بد دعانہ فرما دیں تو میں نے فوراً کہا اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللهِ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یقینا آپ اللہ کے رسول ہیں.تب آپ نے مجھ سے فرمایا اے عمر! کیا تم اپنے اسلام کو چھپانا چاہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا: نہیں.قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق دے کر بھیجا ہے کہ میں اپنے اسلام کا بھی اسی طرح اعلان کروں گا جیسے اپنے شرک کا اعلان کیا کرتا تھا.اس پر آپ صلی علیہ یکم نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور فرمایا اے عمر! اللہ تعالیٰ تجھے ہدایت پر قائم رکھے.اس کے بعد آپ نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے ثابت قدمی کی دعا فرمائی.اس کے بعد میں رسول اللہ صلی العلم کے پاس سے چلا گیا اور آپ اپنے گھر میں تشریف لے گئے.21 اسلام قبول کرنے کے متعلق جو پانچویں اور مشہور روایت ہے اس کی کچھ مختصر تفصیل پہلے بھی بیان ہو چکی ہے.وہ اس طرح ہے کہ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر تلوار سونتے ہوئے نکلے.راستے میں بنو زہرہ کا ایک آدمی ملا اس نے آپ سے پوچھا عمر کہاں کا ارادہ ہے ؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا محمد صلی ا و م کو قتل کرنے جارہا ہوں (نعوذ باللہ ).اس نے کہا محمد صلی الم کو قتل کر کے کیا تم بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے امن پالو گے؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تم صابی ہو گئے ہو.اس کو بھی کہا اور اپنے دین سے پھر گئے ہو جس پر تم تھے.اس آدمی نے کہا کہ اے عمر! کیا میں تمہیں اس سے زیادہ تعجب کی بات نہ بتاؤں.مجھے تم کہہ رہے ہو کہ صابی ہو گئے ہو تو اس سے بھی بڑی بات بتاتا ہوں کہ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں صابی ہو گئے ہیں اور اس دین سے منحرف ہو گئے ہیں جس پر تم ہو.یہ سن کر حضرت عمر دونوں کو ملامت کرتے ہوئے ان کے گھر آئے.دونوں کے پاس مہاجرین میں سے ایک صحابی حضرت خباب تھے.حضرت خباب کے ضمن میں یہ واقعہ میں نے پہلے بیان بھی کیا ہے.22 انہوں نے جب حضرت عمر کی آواز سنی تو وہ گھر کے اندر چھپ گئے.حضرت عمر گھر میں داخل ہوئے تو کہا تم کیا پڑھ رہے تھے ؟ یہ کیا آواز تھی جو میں نے تمہاری طرف سے سنی ہے ؟ اس وقت وہ لوگ سورہ کا پڑھ رہے تھے.انہوں نے کہا ایک بات کے سوا کچھ نہ تھا جو ہم آپس میں کر رہے تھے.حضرت عمرؓ نے کہا میں نے سنا ہے کہ تم دونوں اپنے دین سے منحرف ہو گئے ہو.حضرت عمرؓ کے بہنوئی نے کہا اے عمر ! کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ حق تمہارے دین کے سوا دوسرے دین میں ہو.سچائی کی تلاش کرنی ہے ناں تو کبھی تم نے غور کیا ہے کہ شاید دوسرے دین میں سچائی ہو.یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنے بہنوئی کو پکڑ لیا اور سختی سے زدو کوب کیا.آپؐ کی بہن اپنے خاوند کو بچانے کے لیے آئیں تو حضرت

Page 30

حاب بدر جلد 3 10 رض حضرت عمر بن خطاب عمرؓ نے ان پر بھی ہاتھ اٹھا دیا جس سے ان کے چہرے سے (بہن کے چہرے سے ) خون بہنے لگا.انہوں نے غصہ سے کہا اے عمر ! اگر سچائی تیرے دین کے علاوہ کسی اور دین میں ہے تو تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دے کہ محمد صلی علیکم اللہ کے رسول ہیں.جب حضرت عمر عاجز آگئے تو کہنے لگے کہ مجھے وہ کتاب دو جو تمہارے پاس ہے تاکہ میں اسے پڑھوں اور حضرت عمر پڑھنا جانتے تھے.آپ کی بہن نے کہا کہ تم ناپاک ہو اور اسے کوئی ناپاکی کی حالت میں نہیں چھو سکتا.پس اٹھو اور غسل کرو یا وضو کر لو.حضرت عمرؓ نے اٹھ کر وضو کیا.پھر کتاب لے کر پڑھنے لگے وہ سورہ نکلا تھی.جب اس آیت پہنچے کہ اِنَّنِي أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُنِي وَ اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى ( 15:1) یقیناً میں ہی اللہ ہوں میرے سوا اور کوئی معبود نہیں.پس میری عبادت کر اور میرے ذکر کے لیے نماز کو قائم کر.اس آیت کو پڑھنے کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا کہ مجھے محمد صلی اللہ ﷺ کا پتہ بتاؤ.یہ بات سن کر حضرت خباب بھی گھر سے نکلے اور کہنے لگے کہ اے عمر! تمہیں خوشخبری ہو.میری خواہش ہے کہ رسول کریم صلی علیم کی جمعرات کی رات کی دعا تمہارے حق میں قبول ہو.آپ نے فرمایا تھا کہ اللهُم أَعِزّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ أَوْ بِعَمْرِو بنِ هِشَامٍ کہ اے اللہ ! اسلام کو عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام کے ذریعہ سے عزت دے.رسول اللہ صلی الل لم اس وقت اس گھر میں تھے جو کوہِ صفا کے دامن میں تھا.حضرت عمررؓ چلے یہاں تک کہ اس گھر میں داخل ہوئے.اس وقت گھر کے دروازے پر حضرت حمزہ ، حضرت طلحہ اور رسول اللہ صلی علیم کے دیگر صحابہ تھے.حضرت حمزہ نے ان کو دیکھا کہ یہ لوگ عمر سے ڈر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اچھا تو یہ عمر نہیں.اگر اللہ ان کو خیر سے لایا ہے تو یہ اسلام قبول کر کے رسول اللہ صلی علیکم کی پیروی کریں گے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور ارادہ ہو تو ان کو قتل کرنا ہم پر آسان ہے.نبی کریم صلی علیکم گھر کے اندر تھے اور آپ پر وحی کا نزول ہو رہا تھا.آپ بھی باہر نکلے اور عمرہ کے پاس آئے اور ان کو سینے سے پکڑا اور فرمایا اے عمر! کیا تم اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک کہ اللہ تم پر رسوائی اور دردناک عذاب نازل نہ کر دے جس طرح ولید بن مغیرہ کے لیے نازل کیا.پھر آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی.اے اللہ ! یہ عمر بن خطاب ہے.اے اللہ ! دین کو عمر بن خطاب کے ذریعہ عزت دے.اس کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اسلام قبول کر لیا اور کہنے لگے یار سول اللہ صلی اللی کم اسلام کی اشاعت کے لیے باہر نکلیں.مغمر اور زہری سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی ال نیم کے دَارِ از قم میں آنے کے بعد اسلام قبول کیا اور دَارِ از قم میں مسلمان ہونے والے چالیسویں یا چالیس سے کچھ زیادہ مردو خواتین کے بعد اسلام قبول کرنے والے تھے.دار از تم وہ مکان یا مر کز ہے جو ایک نو مسلم ارقم بن ار قم کا مکان تھا اور مکہ سے ذرا باہر تھا.وہاں مسلمان جمع ہوتے تھے اور یہ دین سیکھنے اور عبادت وغیرہ کرنے کے لیے ایک مرکز تھا اور اسی شہرت کی وجہ سے اس کا نام ”دارالاسلام “ بھی مشہور ہوا اور یہ مکہ میں تین سال تک مرکز رہا.وہیں خاموشی سے عبادت کیا کرتے تھے.آنحضرت صلی الم کی مجلسیں لگا

Page 31

حاب بدر جلد 3 11 حضرت عمر بن خطاب 23 کرتی تھیں اور پھر جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو پھر کھل کر باہر نکلنا شروع کیا.روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمررؓ اس مرکز میں اسلام لانے والے آخری شخص تھے جن کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور وہ دار ارقم سے نکل کر بر ملا تبلیغ کرنے لگ گئے.13 حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا یہی واقعہ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ ایک اور جگہ بھی ملتا ہے.اس جگہ سورہ کلہ کی ابتدائی آیات کا ذکر ہے جبکہ دوسری جگہ سورۃ الحدید کی ابتدائی آیات کا ذکر ہے جن کی حضرت عمرؓ نے اپنی بہن کے گھر میں تلاوت کی تھی.24 حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے بارے میں ایک چھٹی روایت بھی ہے.حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ ایک دن قبول اسلام سے پہلے میں رسول اللہ صلی الی یکم کی تلاش میں نکلا تو میں نے دیکھا کہ آپ مجھ سے پہلے مسجد میں پہنچ گئے ہیں.میں آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا.آپ صلی یکم نے سورۃ الحاقہ کی تلاوت شروع کی.میں قرآن کریم کی بناوٹ اور ترکیب سے متعجب ہوا اور میں نے کہا بخدا یہ تو شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں.حضرت عمرؓ نے کہا کہ جب میں نے یہ سوچا تو آپ نے اِنَّهُ لَقَولُ رَسُولٍ كَرِيمٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ (احات : 41-42) وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ کی تلاوت فرمائی.یعنی یقینا یہ عزت والے رسول کا قول ہے اور یہ کسی شاعر کی بات نہیں.بہت کم ہے جو تم ایمان لاتے ہو.حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یہ تو کاہن ہے، جادوگر.جادو گر ہے.پھر آپ صلی الیم نے یہ پڑھا کہ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِن قَلِيلًا مَا تَذَكَرُونَ تَنْزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِيْنَ وَ لَو تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حجزين (الحاقة: 48743) تو پھر آپ نے اس سورت کی آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کا ترجمہ یہ ہے.اور نہ یہ کہ یہ کسی کا ہن کا قول ہے.بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو.ایک تنزیل ہے تمام جہانوں کے رب کی طرف سے اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کر دیتا تو ہم اسے ضرور داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے.پھر ہم یقینا اس کی رگ جان کاٹ ڈالتے.پھر تم میں سے کوئی ایک بھی اس سے ہمیں روکنے والا نہ ہوتا.حضرت عمر کہتے ہیں کہ اس وقت سے اسلام میرے دل میں گھر کر گیا.25 اور ایک ساتویں روایت بھی ملتی ہے جو بخاری کی روایت ہے.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا ہے کہ میں نے جب بھی حضرت عمر کو کسی چیز کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میرا خیال ہے کہ یہ ایسے ہے تو وہ ویسے ہی ہوتی ہے جیسا کہ وہ گمان کرتے تھے.ایک بار حضرت عمرؓ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک خوبصورت شخص گزرا.حضرت عمرؓ نے کہا کہ شاید میر اگمان غلط ہو یا تو یہ شخص جاہلیت والے اپنے دین پر ہے یا یہ ان لوگوں کا کا ہن تھا.اس شخص کو میرے پاس لاؤ.چنانچہ اسے آپ کے پاس بلا کر لایا گیا تو انہوں نے اس شخص سے وہی کہا.اس نے کہا کہ میں نے آج کی مانند کوئی دن نہیں دیکھا

Page 32

حضرت عمر بن خطاب حاب بدر جلد 3 12 جس میں کسی مسلمان شخص کا یوں استقبال کیا گیا ہو.یہ شخص بعد میں مسلمان ہو گیا تھا.حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں قسم دیتا ہوں کہ تمہیں مجھے ضرور بتاتا ہو گا.اس نے کہا کہ میں زمانہ جاہلیت میں ان کا کاہن تھا.حضرت عمرؓ نے فرمایا: کوئی بہت عجیب بات جو تمہاری چٹی تمہارے پاس لائی ہو.کا ہن تھے جادو کرتے تھے.کوئی چٹی تمہارے پاس کوئی عجیب بات لائی ہو.اس نے کہا کہ ایک دفعہ جبکہ میں بازار میں تھا کہ وہ میرے پاس آئی تو میں نے اس میں گھبراہٹ معلوم کی.اس جیبی نے کہا.کیا تم نے جنوں کو نہیں دیکھا اور ان کی پریشانی اور حیرت کو اور اونٹنیوں اور ان کے پالانوں سے ان کے جاملنے کو.حضرت عمر نے فرمایا: تم نے سچ کہا.ایک بار میں ان کے بتوں کے پاس سویا ہو ا تھا کہ ایک شخص گائے کا بچھڑ الایا اور اس نے اسے ذبح کیا تو ایک آواز دینے والے نے چیخ لگائی.میں نے اس سے بلند آواز میں چیخنے والا نہیں سنا.وہ کہہ رہا تھا کہ اے حد سے بڑھے ہوئے دشمن! ایک بامراد اور عمدہ کام ہے.ایک خوش بیان شخص ہے وہ کہتا ہے لا الہ الا اللہ یعنی تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.اس پر لوگ اٹھے.میں نے کہا میں نہیں نکلوں گا یہاں تک کہ میں جان لوں کہ اس کے پیچھے کون ہے.پھر آواز آئی اے حد سے بڑھے ہوئے دشمن! ایک بامراد اور عمدہ کام ہے.ایک خوش بیان شخص ہے وہ کہتا ہے لا إله إلا الله یعنی تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.اس پر میں بھی کھڑا ہو گیا.زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ کہا جانے لگا کہ یہ نبی ہیں.بخاری کے بعض نسخوں میں لا الہ الا اللہ کی جگہ لَا اِلهَ إِلَّا أَنْتَ بھی آتا ہے.تو یہ بخاری کی روایت ہے.26 کبھی بہر حال حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے بارے میں تاریخ وسیرت کی کتب میں مختلف روایات ملتی ہیں اور ان میں سب سے مشہور یعنی جو اکثر کتب میں مذکور ہے وہ وہی روایت ہے جس میں حضرت عمر تلوار لے کر نبی کریم صلی للہ ﷺ کو نعوذ باللہ قتل کرنے کے لیے نکلے تھے تو راستہ میں کسی نے بتایا کہ اپنے گھر کی خبر لیں، تو آپ اپنے بہن اور بہنوئی کے گھر گئے اور یہی روایت زیادہ تر مانی جاتی ہے اور اس کا ہی اکثر جگہوں پہ ذکر ہے.گو بے شمار روایتیں اور بھی ہیں جو میں نے بیان کی ہیں.بہر حال میں نے جو روایتیں بیان کی ہیں اپنی اپنی ان روایتوں کو جنہوں نے بھی صحت پر سمجھا ہے ، مؤرخین نے بھی اور سیرت لکھنے والوں نے بھی، اس پر بڑی بخشیں کی ہیں لیکن بہر حال ہم تو اسی روایت کو صحیح مانتے ہیں جو بہن اور بہنوئی کے گھر والا معاملہ تھا اور پھر وہاں سے دار ارقم میں آپ گئے.یہ کہا جاسکتا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کی مذکورہ تمام روایات ہی اپنی جگہ درست ہوں جن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مختلف مواقع پر حضرت عمر کے دل میں تبدیلی کے واقعات ہوتے رہے.بعض دفعہ تبدیلی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن آخری قدم نہیں اٹھایا جاتا اور آخری واقعہ وہی ہوا جب اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر میں قرآن کریم سنا اور اسلام قبول کرنے کے لیے دربار رسالت میں حاضر ہو گئے.بہر حال اللہ بہتر جانتا ہے.”حضرت عمر کی عمر اس وقت تینتیس سال کی تھی اور آپ اپنے قبیلہ بنو عدی کے رئیس تھے.

Page 33

ناب بدر جلد 3 13 حضرت عمر بن خطاب جب آپ نے بیعت کی ہے، اسلام قبول کیا ہے تو ” قریش میں سفارت کا عہدہ بھی انہی کے سپر د تھا.“ اور ویسے بھی نہایت بارعب اور جری اور دلیر تھے.2766 ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور انہوں نے دارِ ارقم سے نکل کر بر ملا مسجد حرام میں نماز ادا کی.حضرت عمر آخری صحابی تھے جو دار ارقم میں ایمان لائے اور یہ بعثت نبوی کے چھٹے سال کے آخری ماہ کا واقعہ ہے.اس وقت مکہ میں مسلمان مردوں کی تعداد چالیس تھی.27 حضرت مصلح موعود حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے متعلق جس طرح بیان فرماتے ہیں وہ یہ ہے کہ: حضرت عمرؓ اسلام کی برابر سختی سے مخالفت کرتے رہے.“ یعنی جب تک اسلام نہیں لائے مسلسل مخالفت کر رہے تھے.”ایک دن ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس مذہب کے بانی کا ہی کام تمام کر دیا جائے اور اس خیال کے آتے ہی انہوں نے تلوار ہاتھ میں لی اور رسول کریم صلی ایم کے قتل کیلئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے.راستہ میں کسی نے پوچھا کہ عمر کہاں جارہے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو مارنے کیلئے جارہا ہوں.اس شخص نے ہنس کر کہا اپنے گھر کی تو پہلے خبر لو.تمہاری بہن اور بہنوئی تو اس پر ایمان لے آئے ہیں.حضرت عمرؓ نے کہا یہ جھوٹ ہے.اس شخص نے کہا تم خود جا کر دیکھ لو.حضرت عمر وہاں گئے.دروازہ بند تھا اور اندر ایک صحابی قرآن کریم پڑھا رہے تھے.آپ نے دستک دی.اندر سے آپ کے بہنوئی کی آواز آئی.کون ہے ؟ عمر نے جواب دیا عمر.انہوں نے جب دیکھا کہ حضرت عمرؓ آئے ہیں اور وہ جانتے تھے کہ آپ اسلام کے شدید مخالف ہیں تو انہوں نے صحابی کو جو قرآن کریم پڑھارہے تھے کہیں چھپا دیا.اسی طرح قرآن کریم کے اوراق بھی کسی کو نہ میں چھپا کر رکھ دیئے اور پھر دروازہ کھولا.حضرت عمرؓ چونکہ یہ سن کر آئے تھے کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں.“ یعنی ان کے بہنوئی اور بہن.اس لئے انہوں نے آتے ہی دریافت کیا کہ دروازہ کھولنے میں دیر کیوں کی ہے ؟ آپ کے بہنوئی نے جواب دیا آخر دیر لگ ہی جاتی ہے.حضرت عمرؓ نے کہا: یہ بات نہیں.کوئی خاص امر دروازہ کھولنے میں روک بنا ہے.مجھے آواز آرہی تھی کہ تم اس صابی کی باتیں سن رہے تھے.مشرکین مکہ رسول کریم صلی الی نام کو صابی کہا کرتے تھے ) انہوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی “ ان کے بہنوئی نے "لیکن حضرت عمر کو غصہ آیا اور وہ اپنے بہنوئی کو مارنے کیلئے آگے بڑھے.آپ کی بہن اپنے خاوند کی محبت کی وجہ سے درمیان میں آگئیں.حضرت عمرہ چونکہ ہاتھ اٹھا چکے تھے اور ان کی بہن اچانک درمیان میں آگئیں وہ اپنا ہاتھ روک نہ سکے اور ان کا ہاتھ زور سے ان کی ناک پر لگا یعنی بہن کی ناک پر اور اس سے خون بہنے لگا.حضرت عمر جذباتی آدمی تھے یہ دیکھ کر کہ انہوں نے عورت پر ہاتھ اٹھایا ہے جو عرب کے طریق کے خلاف تھا اور پھر بہن پر ہاتھ اٹھایا ہے.حضرت عمرؓ نے بات ٹلانے کیلئے کہا اچھا مجھے بتاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے ؟ بہن نے سمجھ لیا کہ عمر کے

Page 34

حاب بدر جلد 3 14 حضرت عمر بن خطاب اندر نرمی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیں.اس نے کہا جاؤ تمہارے جیسے انسان کے ہاتھ میں میں وہ پاک چیز دینے کیلئے تیار نہیں.حضرت عمرؓ نے کہا پھر میں کیا کروں ؟ بہن نے کہا وہ سامنے پانی ہے نہا کر آن تب وہ چیز تمہارے ہاتھ میں دی جاسکتی ہے.حضرت عمر نہائے اور واپس آئے.بہن نے قرآن کریم کے اوراق جو وہ سن رہے تھے آپ کے ہاتھ میں دیئے چونکہ حضرت عمرؓ کے اندر ایک تغیر پیدا ہو چکا تھا اس لئے قرآنی آیات پڑھتے ہی ان کے اندر رقت پیدا ہوئی اور جب وہ آیات ختم کر چکے تو بے اختیار انہوں نے کہا کہ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ- یہ الفاظ سن کر وہ صحابی بھی باہر نکل آئے جو حضرت عمرؓ سے ڈر کر چھپ گئے تھے.پھر حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی ا ہم آج کل کہاں مقیم ہیں ؟ رسول الله صل العلم ان دنوں مخالفت کی وجہ سے گھر بدلتے رہتے تھے.انہوں نے بتایا کہ آج کل آپ دارِ ارقم میں تشریف رکھتے ہیں.حضرت عمرؓ فوراً اسی حالت میں جب کہ ننگی تلوار انہوں نے لڑکائی ہوئی تھی اس گھر کی طرف چل پڑے.بہن کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید وہ بُری نیت سے نہ جارہے ہوں.انہوں نے آگے بڑھ کر کہا خدا کی قسم ! میں تمہیں اس وقت تک نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھے اطمینان نہ دلا دو کہ تم کوئی شرارت نہیں کرو گے.حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں پکا وعدہ کرتا ہوں کہ میں کوئی فساد نہیں کرونگا.حضرت عمر وہاں پہنچے.“ یعنی اس جگہ جہاں رسول پاک صلی اللی کم تھے اور دستک دی.رسول کریم صلی الیکم اور صحابہ اندر بیٹھے ہوئے تھے دینی درس ہو رہا تھا.کسی صحابی نے پوچھا کون؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا عمر ! صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! دروازہ نہیں کھولنا چاہئے.ایسا نہ ہو کہ کوئی فساد کرے.حضرت حمزہ نئے نئے ایمان لائے ہوئے تھے وہ سپاہیانہ طرز کے آدمی تھے.انہوں نے کہا دروازہ کھول دو.میں دیکھوں گاوہ کیا کرتا ہے.چنانچہ ایک شخص نے دروازہ کھول دیا.حضرت عمرؓ آگے بڑھے تو رسول اللہ صلی ا ہم نے فرمایا.عمر! تم کب تک میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گے ؟ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ ! میں مخالفت کیلئے نہیں آیا میں تو آپ کا غلام بنے کیلئے آیا ہوں.وہ عمر جو ایک گھنٹہ پہلے اسلام کے شدید دشمن تھے اور رسول کریم صلی ایم کو مارنے کیلئے گھر سے نکلے تھے ایک آن میں اعلیٰ درجہ کے مومن بن گئے.حضرت عمرمکہ کے رئیسوں میں سے نہیں تھے لیکن بہادری کی وجہ سے نوجوانوں پر آپ کا اچھا اثر تھا.جب آپ مسلمان ہوئے تو صحابہ نے جوش میں آکر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے.اس کے بعد نماز کا وقت آیا اور رسول کریم صل الیم نے نماز پڑھنی چاہی تو وہی عمر جو دو گھنٹے قبل گھر سے اس لئے نکلا تھا کہ رسول کریم صلی یکم کو مارے.اس نے دوبارہ تلوار نکال لی اور کہا.یارسول اللہ ! خدا تعالیٰ کار سول اور اس کے ماننے والے تو چھپ کر نمازیں پڑھیں اور مشرکین مکہ باہر دندناتے پھریں یہ کس طرح ہو سکتا ہے ؟ میں دیکھوں گا کہ ہمیں خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے سے کون روکتا ہے.رسول کریم صلی علیم نے فرمایا یہ جذبہ تو بہت اچھا ہے لیکن ابھی حالات ایسے ہیں کہ ہمارا باہر نکلنا مناسب نہیں.2866 الله سة

Page 35

حاب بدر جلد 3 پہلی بار خانہ کعبہ میں نماز 15 حضرت عمر بن خطاب لیکن اس کے بعد پھر خانہ کعبہ میں نماز بھی ادا کی گئی جیسا کہ پہلے بھی اس کا ذکر ہو چکا ہے.اس کو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بیان فرمایا ہے کہ ابتدائے زمانہ اسلام میں صرف دو شخص مسلمانوں میں بہادر سمجھے جاتے تھے.ایک حضرت عمر اور دوسرے امیر حمزہ.جب یہ دونوں اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے رسول کریم صلی الی یکم سے درخواست کی کہ ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ہم گھروں میں چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کریں.جب کعبہ پر ہمارا بھی حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے اس حق کو حاصل نہ کریں اور کھلے بندوں اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کریں.چنانچہ رسول کریم صلی الی یکم جو کفار کو فساد کے جرم سے بچانے کے لئے گھر میں نماز ادا کر لیا کرتے تھے خانہ کعبہ میں عبادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس وقت آپ کے ایک طرف حضرت عمر تلوار کھینچ کر چلے جارہے تھے اور دوسری طرف امیر حمزہ اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ ہم نے خانہ کعبہ میں علی الاعلان نماز ادا کی.حضرت عمر پر مصائب اور تکالیف 2966 جب حضرت عمرؓ کے اسلام کی خبر قریش میں پھیلی تو وہ سخت جوش میں آگئے اور اسی جوش کی حالت میں انہوں نے حضرت عمر کے مکان کا محاصرہ کر لیا.حضرت عمر باہر نکلے تو ان کے ارد گر دلوگوں کا ایک بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا اور قریب تھا کہ بعض جو شیلیے ان پر حملہ آور ہو جائیں لیکن حضرت عمرہ بھی نہایت دلیری کے ساتھ ان کے سامنے ڈٹے رہے.آخر اسی حالت میں مکہ کارئیس اعظم عاص بن وائل وہاں آ گیا اور اس ہجوم کو دیکھ کر اس نے اپنے سردارانہ انداز میں آگے بڑھ کر پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ لوگوں نے کہا: عمر صابی ہو گیا ہے.اس رئیس نے موقع شناسی سے کام لیتے ہوئے کہا: تو خیر ، پھر بھی اس ہنگامے کی ضرورت نہیں ہے.میں عمر کو پناہ دیتا ہوں.اس آواز کے سامنے عربی دستور کے مطابق لوگوں کو خاموش ہونا پڑا اور وہ آہستہ آہستہ منتشر ہو گئے.اس کے بعد حضرت عمرؓ چند دن تک امن میں رہے کیونکہ عاص بن وائل کی پناہ کی وجہ سے کوئی ان سے تعرض نہیں کر تا تھا لیکن اس حالت کو حضرت عمرؓ کی غیرت نے زیادہ دیر تک برداشت نہ کیا.چنانچہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ انہوں نے عاص بن وائل سے جا کر کہہ دیا کہ میں تمہاری پناہ سے نکلتا ہوں.حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میں مکہ کی گلیوں میں بس پیٹنا اور بیٹتا ہی رہتا تھا.یعنی لڑائی جھگڑا ہی رہتا تھا مگر حضرت عمر نے کبھی کسی کے سامنے آنکھ نیچی نہیں کی.50 حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ دیکھور سول کریم صلی یکم کے کتنے کتنے شدید دشمن تھے مگر پھر ان میں کیسی تبدیلی پیدا ہوئی.نہ صرف ان کی اصلاح ہوئی بلکہ وہ روحانیت کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے کہ ان کا پہچانا بھی مشکل ہو گیا.یعنی بالکل کا یا پلٹ گئی.پہچانے نہیں جاتے تھے کہ یہ وہی لوگ 30

Page 36

اصحاب بدر جلد 3 16 حضرت عمر بن خطاب ہیں.”حضرت عمرؓ جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لٹھ لئے پھرتے تھے جب انہیں اسلام لانانصیب ہوا تو ان میں ایسی تبدیلی پیدا ہوئی کہ دنیا کے فائدہ کے لئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے لگے اور دن رات اسلام کی خدمت میں مصروف ہو گئے.31<< یہاں ” جان جوکھوں میں ڈالنے لگے“ دین کے فائدہ کے لیے ہونا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس طرح فرماتے ہیں: ”حضرت عمرؓ سے دیکھو کس قدر فائدہ پہنچا.ایک زمانہ میں یہ ایمان نہ لائے تھے اور چار برس کا توقف ہو گیا.اللہ تعالیٰ خوب مصلحت سمجھتا ہے کہ اس میں کیا ستر تھا.ابو جہل نے تلاش کی کہ کوئی ایسا شخص تلاش کیا جاوے جو رسول اللہ کو قتل کر دے.اس وقت حضرت عمر بڑے بہادر اور دلیر مشہور تھے اور شوکت رکھتے تھے.انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے رسول اللہ کے قتل کا بیڑا اٹھایا اور معاہدہ پر حضرت عمر اور ابو جہل کے دستخط ہو گئے اور قرار پایا کہ اگر عمر قتل کر آویں تو اس قدر روپیہ دیا جاوے.“ فرماتے ہیں دیکھو اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ عمر جو ایک وقت رسول اللہ صلی الله علم کو شہید کرنے کے لئے جاتے ہیں دوسرے وقت وہی عمر اسلام میں ہو کر خود شہید ہوتے ہیں.وہ کیا عجیب زمانہ تھا.غرض اس وقت یہ معاہدہ ہوا کہ میں قتل کرتا ہوں.اس تحریر کے بعد آپ کی تلاش اور تجسس میں لگے راتوں کو پھرتے تھے.“ یعنی آپ صلی اللہ ﷺم کی تلاش میں حضرت عمر تجسس میں لگے رہتے تھے ، راتوں کو پھرتے تھے کہ کہیں تنہامل جاویں تو قتل کر دوں “ آپ صلی علیہ نیلم کو لوگوں سے دریافت کیا کہ آپ تنہا کہاں ہوتے ہیں.لوگوں نے کہا کہ نصف رات گزرنے کے بعد خانہ کعبہ میں جاکر نماز پڑھا کرتے ہیں.حضرت عمر یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے.چنانچہ خانہ کعبہ میں آکر چھپ رہے.جب تھوڑی دیر گزری تو جنگل سے لا اله الا اللہ کی آواز آتی ہوئی معلوم ہوئی اور وہ آنحضرت صلیم ہی کی آواز تھی.اس آواز کو سن کر اور یہ معلوم کر کے کہ وہ ادھر ہی کو آرہی ہے.حضرت عمر اور بھی احتیاط کر کے چھپے اور یہ ارادہ کر لیا کہ جب سجدہ میں جائیں گے تو تلوار مار کر سر مبارک تن سے جد ا کر دوں گا.آپ نے آتے ہی نماز شروع کر دی.پھر اس سے آگے کے واقعات خود حضرت عمررؓ بیان کرتے ہیں.“حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ”اس سے آگے کے واقعات حضرت عمر خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے سجدہ میں اس قدر رو رو کر دعائیں کیں کہ مجھ پر لرزہ پڑنے لگا.یہاں تک کہ آنحضرت صلی علیم نے یہ بھی کہا کہ سَجَدَ لَكَ رُوحِي وَجَنَانِي یعنی اے میرے مولیٰ ! میری روح اور میرے دل نے بھی تجھے سجدہ کیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان دعاؤں کو سن سن کر جگر پاش پاش ہو تا تھا.آخر میرے ہاتھ سے ہیبت حق کی وجہ سے تلوار گر پڑی.میں نے آنحضرت صلی علیکم کی اس حالت سے سمجھ لیا کہ یہ سچا ہے اور ھ کر نکلے ضرور کامیاب ہو جائے گا مگر نفس امارہ برا ہوتا ہے.بار بار ابھارتا ہے.”جب آپ نماز پڑھ میں پیچھے پیچھے ہو لیا.پاؤں کی آہٹ جو آپ کو معلوم ہوئی.رات اندھیری تھی.آنحضرت صلی اللہ ہم نے

Page 37

محاب بدر جلد 3 17 حضرت عمر بن خطاب پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا عمر.آپ نے فرمایا اے عمر ا نہ تو رات کو پیچھا چھوڑتا ہے اور نہ دن کو.اس وقت مجھے رسول اللہ کی روح کی خوشبو آئی اور میری روح نے محسوس کیا کہ آنحضرت صیلی ام بددعا کریں گے.میں نے عرض کیا: یا حضرت! بد دعانہ کریں.حضرت عمر " کہتے ہیں کہ وہ وقت اور وہ گھڑی میرے اسلام کی تھی.یہاں تک کہ خدا نے مجھے توفیق دی کہ میں مسلمان ہو گیا.32 یہ ایک روایت ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور ایک اور جگہ دوسری بھی اسی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک وقفہ کے بعد آپ نے بیان فرمائی ہے.وہ بھی یہی باتیں ہیں لیکن اس میں آخر میں ایک دو الفاظ ذرا مزید مختلف نتیجہ نکالے ہوئے ہیں.فرماتے ہیں کہ ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابو جہل کے ساتھ اسلام سے پہلے ملتے تھے.بلکہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ابو جہل نے منصوبہ کیا کہ آنحضرت صلی ایم کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جاوے اور کچھ روپیہ بھی بطور انعام مقرر کیا.حضرت عمرؓ اس کام کے لیے منتخب ہوئے.چنانچہ انہوں نے اپنی تلوار کو تیز کیا اور موقع کی تلاش میں رہے.آخر حضرت عمر کو پتہ ملا کہ آدھی رات کو آپ کعبہ میں آکر نماز پڑھتے ہیں.چنانچہ یہ کعبہ میں آکر چھپ رہے اور انہوں نے سنا کہ جنگل کی طرف سے لا اله الا اللہ کی آواز آتی ہے اور وہ آواز قریب آتی گئی.یہاں تک کہ رسول اللہ صلی للی کام کعبہ میں آداخل ہوئے اور آپ نے نماز پڑھی.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ آپ نے سجدہ میں اس قدر مناجات کی کہ مجھے تلوار چلانے کی جرات نہ رہی.چنانچہ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ آگے چلے.پیچھے پیچھے میں تھا.آنحضرت صلی علیہ یکم کو میرے پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی اور آپ نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا کہ عمر.اس پر آپ نے فرمایا.اے عمر انہ تو دن کو میرا پیچھا چھوڑتا ہے نہ رات کو.آنحضرت صلی علیہم کے اس قول سے حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ آپ بد دعا کریں گے.اس لیے میں نے کہا کہ حضرت آج کے بعد میں آپ کو ایذا نہ دوں گا.عربوں میں چونکہ وعدہ کا لحاظ بہت بڑا ہو تا تھا.اس لیے آنحضرت نے یقین کر لیا مگر دراصل حضرت عمر کا وقت آپہنچا تھا.“ یہ باتیں پچھلے حوالے سے ذرانٹی ہیں.”آنحضرت کے دل میں گذرا کہ اس کو خد ا ضائع نہیں کرے گا.چنانچہ آخر حضرت عمر مسلمان ہوئے اور پھر وہ دوستیاں وہ تعلقات جو ابو جہل اور دوسرے مخالفوں سے تھے یکلخت ٹوٹ گئے اور ان کی جگہ ایک نئی اخوت قائم ہوئی.حضرت ابو بکر اور دوسرے صحابہ ملے اور پھر ان پہلے تعلقات کی طرف بھی خیال تک نہ آیا.334 الله ایک جگہ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا وہی واقعہ اسی طرز پہ بیان کرتے ہوئے پھر آپ نے بیان فرمایا ہے.ہلکے سے چند ایک الفاظ مختلف ہوں گے.آپ فرماتے ہیں کہ ”حضرت عمر کا آنحضرت صلی اللی علم کے قتل کے لیے جانا آپ لوگوں نے سنا ہو گا.ابو جہل نے ایک قسم کا اشتہار قوم میں دے رکھا تھا کہ جو جناب رسالت تاب کو قتل کرے گا وہ بہت کچھ انعام و اکرام کا مستحق ہو گا.حضرت عمر نے مشرف باسلام ہونے سے پہلے ابو جہل سے معاہدہ کیا اور قتل حضرت کے لیے آمادہ ہو گیا.اس کو کسی عمدہ وقت

Page 38

حاب بدر جلد 3 18 حضرت عمر بن خطاب کی تلاش تھی.دریافت پر اسے معلوم ہوا کہ حضرت نصف شب کے وقت خانہ کعبہ میں بغرض نماز آتے ہیں.یہ وقت عمدہ سمجھ کر حضرت عمرؓ سر شام خانہ کعبہ میں جا چھپے.آدھی رات کے وقت جنگل میں سے لا إلهَ إِلَّا الله کی آواز آنا شروع ہوئی.حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ جب آنحضرت صلی علیہ کم سجدہ میں گریں تو اس وقت قتل کروں.آنحضرت صلی الم نے درد کے ساتھ مناجات شروع کی اور سجدہ میں اس طرح حمد الہی کا ذکر کیا کہ حضرت عمر کا دل پسیج گیا.اس کی ساری جرآت جاتی رہی اور اس کا قاتلانہ ہاتھ ست ہو گیا.“ یہاں اس میں حضرت عمر کی نرمی کو آپ نے اس طرح بیان کیا ہے.”نماز ختم کر کے جب آنحضرت صلی علی کم گھر کو چلے تو ان کے پیچھے حضرت عمرؓ ہو گئے.آنحضرت صلی علیہم نے آہٹ پاکر دریافت کیا اور معلوم ہونے پر فرمایا کہ اے عمر ! کیا تو میرا پیچھا نہ چھوڑے گا.حضرت عمرؓ بد دعا کے ڈر سے بول اٹھے کہ حضرت میں نے آپ کے قتل کا ارادہ چھوڑ دیا.میرے حق میں بد دعانہ کیجئے گا.چنانچہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ وہ پہلی رات تھی جب مجھ میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی.34 یہ بتانے کے لیے اب میں نے تین مختلف حوالے پڑھے ہیں.ایک جنوری 1901ء کا ہے، ایک اگست 1902ء کا، ایک جون 1904ء کا ہے یا شاید 1907ءکا ہے.بہر حال ان تینوں جگہوں پر رات کو خانہ کعبہ میں حملے کا ذکر آپ نے فرمایا ہے.شاید اس کے بعد ر نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر دن کو بھی نکلے ہوں گے اور وہ بہن بھائی والا واقعہ پیش آیا جس کو عام بیان کیا جاتا ہے لیکن بہر حال آپ نے تینوں دفعہ یہی فرمایا اور یہ ہوا کیونکہ نفس امارہ کا بھی آپ نے ذکر کیا.ہو سکتا ہے پھر ایک جوش آیا ہو اور اس وقت نکلے ہوں اور دونوں واقعات میں یہ ذکر تو بہر حال ہے چاہے وہ بہن والا واقعہ ، بہن بہنوئی والا یا یہ رات کو قتل والا کہ ابو جہل کے بھڑ کانے اور انعام مقرر کرنے پہ آپ نے، حضرت عمرؓ نے یہ ارادہ کیا تھا.ابو جہل فرعون بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”ابو جہل کو فرعون کہا گیا ہے مگر میرے نزدیک وہ تو فرعون سے بڑھ کر ہے فرعون نے تو آخر کہا.آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى أَمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَاء يُلَ (یونس: 91) مگر یہ آخر تک ایمان نہ لایا مکہ میں سارا فساد اسی کا تھا اور بڑا متکبر اور خود پسند، عظمت اور شرف کو چاہنے والا تھا اس کا اصل نام بھی عمر و تھا اور یہ دونوں عمر مکہ میں تھے.خدا کی حکمت کہ ایک عمر کو بھینچ لیا اور ایک بے نصیب رہا.اس کی روح تو دوزخ میں جلتی ہو گی اور حضرت عمرؓ نے ضد چھوڑ دی تو بادشاہ ہو گئے.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی الیکم نے یہ دعا کرتے ہوئے آپ کے سینے پر تین دفعہ ہاتھ مارا.اَللَّهُمَّ أَخْرِجْ مَا فِي صَدْرِهِ مِنْ غِلٍ وَأَبْدِلْهُ ایمانا.اے اللہ ! اس کے سینے میں جو کچھ بھی بغض ہے اس کو دور کر دے اور اس کو ایمان سے بدل 3566

Page 39

اصحاب بدر جلد 3 19 حضرت عمر بن خطاب دے.آپ نے یہ دعا تین دفعہ فرمائی.36 جیسا کہ ہم حضرت عمر کے اسلام لانے سے پہلے کی زندگی میں دیکھ آئے ہیں کہ حضرت عمرؓ اسلام لانے سے پہلے مسلمانوں کے سخت خلاف تھے لیکن جب آپ اسلام لائے تو آپ کا اسلام قبول کرنا مسلمانوں کے لیے فتح اور تنگی سے نجات کا ذریعہ ثابت ہوا.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اس وقت تک کھل کر اللہ کی عبادت نہیں کی جب تک کہ حضرت عمر ایمان نہ لے آئے.37 قبول اسلام کا عام اعلان اور مخالفت عبد الرحمن بن حارث بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جس رات میں نے اسلام اختیار کیا تو میں نے سوچا کہ اہل مکہ میں سے رسول کریم صلی علیہ کم کی عداوت میں سب سے زیادہ کون بڑھا ہوا ہے کہ میں اس کے پاس جاؤں اور اس کو بتاؤں کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا وہ ابو جہل ہی ہے.اس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ جب صبح ہوئی تو میں اس کے پاس گیا اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا.آپ کہتے ہیں کہ ابو جہل میرے پاس آیا اور کہا: اے میرے بھانجے خوش آمدید.حضرت عمرؓ کو اس نے کہا کہ میرے بھانجے خوش آمدید.تم کس لیے آئے ہو؟ حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں تمہیں بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللی کم پر ایمان لے آیا ہوں اور میں نے اس کی تصدیق کی ہے جو وہ لایا ہے.حضرت عمر کہتے ہیں کہ اس نے دروازہ مجھ پر بند کر دیا اور کہا کہ اللہ تجھ کو اور اس چیز کو جو تولا یا ہے برباد کرے.38 یہ ابو جہل کے الفاظ تھے.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ جب میرے والد حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ قریش میں سب سے زیادہ باتیں پھیلانے کی عادت کس شخص کو ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ جمیل بن مَعْمَر مُجمعی.حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ آپ صبح صبح اس کے پاس چلے گئے اور میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا اور میں دیکھ رہا تھا کہ آپ کیا کرتے ہیں اور میں کم عمر تو تھا لیکن جو کچھ دیکھتا تھا اس کو سمجھتا تھا.یہ ابن عمر کہہ رہے ہیں.یہاں تک کہ جب آپ اس کے پاس پہنچے تو اس سے کہا کہ اے جمیل ! کیا تجھے معلوم ہے کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور دین محمد صلی الی یکم میں داخل ہو چکا ہوں.حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! آپ نے اس بات کو دہرایا نہیں تھا یعنی دوسری دفعہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی کہ وہ اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے نکل پڑا اور حضرت عمرؓ بھی اس کے پیچھے پیچھے ہو لیے.حضرت ابنِ عمر " کہتے ہیں کہ میں بھی اپنے والد کے پیچھے ہو لیا یہاں تک کہ جب وہ یعنی وہ شخص جمیل خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑا ہو گیا اور بلند آواز سے پھر چیخا کہ اے قریش کے گروہ! اس نے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کے یہ اعلان کیا کہ اے قریش کے گروہ! اور وہ لوگ کعبہ کے گرد اپنی اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے تھے.اس کی طرف متوجہ ہوئے.اس نے کہا کہ سن لو عمر بن خطاب صابی ہو گیا ا

Page 40

محاب بدر جلد 3 20 حضرت عمر بن خطاب ہے.راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اس کے پیچھے سے یہ کہہ رہے تھے کہ اس نے جھوٹ کہا ہے.میں نے تو اسلام قبول کیا ہے.صابی نہیں ہو ابلکہ میں نے اسلام قبول کیا ہے اور اس بات کی گواہی دی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللی کم اس کے بندے اور رسول ہیں.پھر قریش آپ پر جھپٹے.آپ ان سے اور وہ آپ سے برابر لڑتے رہے یعنی پھر لڑائی ہوتی رہی یہاں تک کہ سورج ان کے سروں پر آگیا.راوی نے کہا کہ آپ تھک گئے یعنی حضرت عمرؓ تھک گئے تو بیٹھ گئے اور لوگ آپ کے سر پر کھڑے ہو گئے.آپ کہہ رہے تھے تم جو چاہو کرو میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر ہم تین سو مر د ہو گئے تو ہم اسے یعنی مکہ کو تمہارے لیے چھوڑ دیں گے یا تم اسے ہمارے لیے چھوڑ دو گے.یعنی پھر ہم آزادی سے ہر چیز کریں گے.راوی نے کہا کہ وہ لوگ اسی حالت میں تھے کہ قریش میں سے ایک بوڑھا شخص آیا جو یمنی کپڑے کا نیا لباس اور نقش و نگار والی قمیص پہنے ہوئے تھا یہاں تک کہ وہ ان کے پاس آکر کھڑ ا ہو گیا اور کہا کہ تمہارا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ عمر صابی ہو گیا ہے.اس نے کہا کہ پھر کیا ہوا.ایک شخص نے اپنے لیے ایک بات اختیار کرلی ہے.پھر تم کیا چاہتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ بنو عدی بن کعب اپنے آدمی کو اس طرح تمہارے حوالے کر دیں گے.اس شخص کو چھوڑ دو.راوی کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! پھر وہ لوگ آپ سے یکدفعہ الگ ہو گئے.حضرت عمرؓ کے بیٹے ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے یعنی حضرت عمرؓ سے پوچھا جبکہ انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کرلی تھی.بہت عرصہ بعد مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ان سے پوچھا کہ اے میرے باپ ! وہ شخص کون تھا جس نے مکہ میں آپ کے اسلام قبول کرنے کے دن لوگوں کو جھڑک کر آپ سے دُور کر دیا تھا جبکہ وہ آپ سے لڑ رہے تھے.فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے ! وہ عاص بن وائل سنھبی تھا.39 بخاری میں ایک روایت یہ بھی بیان ہوئی ہے.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ ایک بار حضرت عمر اپنے گھر میں خوفزدہ بیٹھے تھے کہ اتنے میں ابو عمروعاص بن وائل سنجی آیا اور وہ ایک نقش دار چادر اور ایک ریشمی حاشیہ دار قمیص پہنے ہوئے تھا اور وہ بنو سہم قبیلہ میں سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارا حلیف تھا.عاص نے حضرت عمرؓ سے کہا تمہارا یہ کیا حال ہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا تمہاری قوم یہ خیال کرتی ہے کہ میں مسلمان ہو گیا تو مجھے مار ڈالیں گے.انہوں نے کہا کہ تم تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا.جب عاص نے یہ بات کہی تو میں مطمئن ہو گیا.عاص چلا گیا اور لوگوں سے ملا.یہ حالت تھی کہ وادی مکہ ان لوگوں سے بھری ہوئی تھی.عاص نے پوچھا کہاں کا قصد ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس خطاب کے بیٹے کی طرف جا رہے ہیں جو بے دین ہو گیا ہے.انہوں نے کہا: اس کے پاس نہیں جانا.یہ سن کر لوگ واپس آگئے.40 عاص بن وائل سہمی کی پناہ اور....حضرت عمرؓ کے خوفزدہ ہونے والی یہ بات جو روایت میں آتی ہے وہ صحیح نہیں لگتی.یہ تو حضرت عمر عمرا.

Page 41

صحاب بدر جلد 3 21 حضرت عمر بن خطاب کی طبیعت کے خلاف بات ہے.ہو سکتا ہے کہ پریشانی کے آثار ہوں جسے راوی نے خوف سمجھا ہو جیسا کہ پہلے بھی ایک روایت میں آچکا ہے کہ کچھ عرصہ بعد حضرت عمرؓ نے یہ پناہ واپس بھی کر دی تھی اور اس کا ذکر آگے بھی ملے گا.حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کی روایات کی تشریح میں عاص بن وائل سہمی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ 41 حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے چند لوگ جو ایمان لائے تھے ان پر سختی کیے جانے کا بھی ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ حضرت عمرؓ بھی مسلمان ہونے پر سختی کا نشانہ بنتے اگر عاص بن وائل سہمی انہیں اپنی پناہ میں لینے کا اعلان نہ کرتا.عاص بن وائل قریش کے معزز ترین اشخاص میں سے تھا اور بنو سہم قبیلہ میں سے تھا.اس کا نسب نامہ یہ ہے.عاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن سہم.ہجرت سے قبل بحالت کفر ہی فوت ہو گیا تھا اور حضرت عمر بنو عدی خاندان میں سے تھے اور بنو عدی اور بنو سہم کے خاندان ایک دوسرے کے حلیف تھے اور اس معاہدہ اور دوستی اور مدد کی وجہ سے عاص بن وائل نے اپنا اخلاقی فرض جانا کہ حضرت عمر کی مدد کریں.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ حضرت عمر نے عاص بن وائل کی پناہ کو ایک وقت میں رڈ کر دیا تھا.چنانچہ اس بارے میں حضرت عمر خود ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی مسلمان کو مار پڑتے ہوئے دیکھتار ہوں اور مجھے نہ مارا جائے.آپؐ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا یہ تو کوئی بات نہیں.یہاں تک کہ مجھے بھی وہی تکلیف پہنچے جو دوسرے مسلمانوں کو پہنچ رہی ہے.آپ کہتے ہیں میں اس وقت تک رکا رہا یہاں تک کہ وہ لوگ کعبہ میں اکٹھے ہوئے.میں اپنے ماموں عاص بن وائل کے پاس گیا.میں نے کہا میری بات سنیں اس نے کہا میں کیا بات سنوں.آپؐ کہتے ہیں میں نے کہا کہ آپ کی پناہ آپ کو واپس لوٹاتا ہوں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس نے کہا کہ اے میرے بھانجے ایسا نہ کر.میں نے کہا: بس ایسا ہی ہے.اس نے کہا: جیسے تمہاری مرضی.حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے پناہ واپس لوٹا دی تو اس کے بعد بس میں مار کھاتا اور مارتا ہی رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت عطا کی.42 محمد بن عبید بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے ہم بیت اللہ میں نماز ادا نہیں کر سکتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کر لیا.جب حضرت عمر اسلام لے آئے تو آپ نے ان کفار سے لڑائی کی یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا اور ہم نماز ادا کرنے لگے.43 حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ جب سے حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے ہم عزت سے ہی رہے.44 جو بعد کی سختیاں تھیں سختیاں تو وہی جاری رہی ہیں لیکن پہلی سختیوں کے مقابلے میں یہ لوگ ان سختیوں کو سختیاں نہیں سمجھتے تھے حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عمرؓ کو بھی سختیاں جھیلنی پڑیں.حضرت عبد اللہ بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی علی ایم کے ساتھ تھے.آپ حضرت عمر بن

Page 42

محاب بدر جلد 3 22 حضرت عمر بن خطاب خطاب کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے.حضرت عمرؓ نے آپ صلی علی کلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے.نبی کریم ملی ایم نے آپ سے فرمایا: نہیں.اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک میں تمہارے نفس سے زیادہ تمہیں محبوب نہ ہو جاؤں.یہ بڑی ضروری چیز ہے.حضرت عمرؓ نے آپ سے عرض کیا.اللہ کی قسم ! اب آپ مجھے میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں.نبی کریم صلی میں ہم نے فرمایا: ہاں اب ہے عمر ، اب ہے عمر 45 یعنی اب ٹھیک ہے.یہ ہے ایمان کی حالت.مدینہ کی طرف ہجرت حضرت عبد اللہ بن عباس حضرت عمرؓ کی مدینہ کی طرف ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ مجھے علی بن ابو طالب نے بتایا کہ میں مہاجرین میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے چھپ کر ہجرت نہ کی ہو سوائے حضرت عمر بن خطاب کے.جب آپؐ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو آپ نے تلوار لٹکائی، کندھے پر اپنی کمان رکھی، تیر ہاتھ میں لیے اور نیزہ پکڑے ہوئے کعبہ کی طرف گئے.سردارانِ قریش اس کے صحن میں تھے.آپ نے وقار کے ساتھ کعبہ کے سات چکر لگائے.پھر آپ مقام ابراہیم پر آئے اور اطمینان سے نماز ادا کی.پھر آپ ہر گروہ کے پاس ایک ایک کر کے کھڑے ہوئے اور ان سے کہا: چہرے بگڑ جائیں اللہ ناکوں کو خاک آلودہ کر دے.جو چاہتا ہے کہ اس کی ماں اسے کھوئے اس کی اولاد یتیم ہو اور اس کی بیوی بیوہ ہو وہ اس وادی کے پار مجھے مل لے.حضرت علی کہتے ہیں کہ حضرت عمر کا سوائے چند کمزور مسلمانوں کے کسی نے پیچھا نہ کیا اور آپؐ نے انہیں معلومات فراہم کیں اور ان کی رہنمائی کی.پھر اپنے رستے پر چل پڑے.46 حضرت عمرضی اس طرح کھل کے ہجرت کرنے کے بارے میں حضرت علی کی صرف یہی ایک روایت ہے جو بیان کی جاتی ہے لیکن کئی سیرت نگار اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں.محمد حسین ہیکل نے حضرت عمر کی سیرت و سوانح پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے.اس نے اس بحث کو اٹھایا ہے کہ آنحضرت صلی علیکم نے ہجرت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ خاموشی سے چپکے سے اور چھپ کر مکہ سے نکلیں تا کہ مخالفین کو علم نہ ہو مبادا وہ روک پیدا کریں اور مزید تنگ کریں.تو اس واضح حکم کے ہوتے ہوئے حضرت عمر کیسے اس کی نافرمانی کر سکتے تھے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ طبقات ابن سعد اور ابن ہشام میں وضاحت سے لکھا ہے کہ حضرت عمر نے بھی دیگر مسلمانوں کی طرح چپکے سے ہجرت کی تھی.بہر حال اگر حضرت علی کی روایت کو کسی طرح صحیح قرار دینا بھی ہے تو ہو سکتا ہے کہ کسی وقت کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا ہو اور اس وقت ہجرت نہ کی ہو.کعبہ میں کھڑے ہو کر سر داروں کے سامنے جو اعلان کیا تھا کہ میں جا رہا ہوں مجھے روک لینا لیکن ہجرت نہ کی ہو اور جب ہجرت کا پروگرام بنا تو خاموشی سے

Page 43

اصحاب بدر جلد 3 23 حضرت عمر بن خطاب ہجرت کی.بہر حال ہیکل کی یہ بات اپنے اندر وزن رکھتی ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ طبقات ابن سعد اور ابن ہشام بھی ایسا ہی لکھتے ہیں.لگتا یہی ہے کہ حضرت عمرؓ نے بھی دیگر مسلمانوں کی طرح آنحضرت صلی علی کلم کے ارشاد کے مطابق خاموشی سے ہجرت کی ہو گی کیونکہ مکہ میں جیسے حالات تھے ان کے پیش نظر کھلم کھلا ایسا کرنا ممکن نہیں تھا بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فتح مکہ تک جس نے بھی ہجرت کی اس نے خاموشی سے ہجرت کرنے میں ہی عافیت جانی.بہر حال اگر حضرت علی کی اس روایت کو صحیح بھی مانا جائے تو ہو سکتا ہے کہ انفرادی فعل ہو لیکن بظاہر شواہد یہی ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے.47 رض حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے مہاجرین میں سے جو ہمارے پاس آئے وہ حضرت مصعب بن عمیر تھے جو بنو عبد الدار میں سے تھے.پھر حضرت ابن ام مکتوم آئے جو نا بینا تھے اور بنوفھر میں سے تھے.پھر حضرت عمر بن خطاب میں لوگوں کے ساتھ سوار ہو کر آئے.ہم نے رسول اللہ صلی الم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ میرے پیچھے ہی ہیں یعنی کچھ عرصہ بعد آجائیں گے.پھر کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی الی یوم تشریف لائے اور ابو بکر آپ کے ساتھ تھے.48 اگر یہ روایت صحیح ہے تو پھر زیادہ قوی امکان یہی ہے کہ حضرت عمرؓ نے کسی وقت مجلس میں ہجرت کا ذکر کر دیا ہو اور جوش میں کہہ دیا ہو کہ مجھے روک کر دکھانا لیکن ہجرت خاموشی سے ہی کی ہے کیونکہ یہ روایت بھی آتی ہے کہ ہمیں لوگ آپ کے ساتھ تھے.بہر حال واللہ اعلم.حضرت عمر مدینہ پہنچ کر قبا میں رفاعه بن عبد المنذر کے مہمان ہوئے.قبا جیسا کہ ہم جانتے ہیں مدینے سے تین میل کے فاصلے پر اس کی بالائی آبادی ہے اور یہاں انصار کے کچھ خاندان آباد تھے.ان سب میں ممتاز عمر و بن عوف کا خاندان تھا.اس خاندان کے سردار کلثوم بن ہزم تھے.قبا پہنچ کر آنحضرت صلی للی کم نے انہی کے مکان پر قیام فرمایا تھا.50 مواخات 49 حضرت عمرؓ کی مواخات کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں.ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی علیم نے حضرت عمر اور حضرت ابو بکر صدیق کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی لیکن یہ مواخات بھی دو مواقع پر ہوئی تھی ایک دفعہ مکہ میں اور ایک دفعہ ہجرت کے بعد مدینہ میں.مکہ میں جو مؤاخات قائم فرمائی تھی اس وقت آنحضرت صلی علی یم نے اپنے ساتھ حضرت علی کو رکھا تھا اور حضرت ابو بکر کی حضرت عمرؓ کے ساتھ مواخات قائم فرمائی تھی.بہر حال مؤاخات قائم ہونے کے یہ دونوں علیحدہ علیحدہ واقعات ہیں.مدینہ میں مہاجر اور انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے ہجرت کے بعد حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عویم بن سَاعِدَہ کے درمیان

Page 44

اصحاب بدر جلد 3 24 حضرت عمر بن خطاب مواخات قائم فرمائی تھی.ایک دوسری روایت کے مطابق رسول اللہ صلی الم نے حضرت عمر بن خطاب کی مؤاخات حضرت عتبان بن مالک کے ساتھ قائم فرمائی تھی.ایک اور روایت کے مطابق حضرت عمر کی مؤاخات حضرت معاذ بن عَفَرَاء سے قائم فرمائی تھی.51 رض حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے تو یہ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کی مؤاخات حضرت عتبان بن مالک سے ہوئی تھی.52 اذان کی ابتداء اور حضرت عمرؓ کا ایک رؤیا اذان کی ابتدا کے بارے میں ایک روایت یوں ملتی ہے کہ محمد بن عبد اللہ بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ : ہم صبح کے وقت رسول اللہ صلی ا کرم کے پاس آئے اور میں نے آپ کو خواب سنائی.یہ حضرت عبد اللہ کے ضمن میں بھی ذکر ہو چکا ہے.53 تو یہاں بھی حضرت عمر کا کیونکہ ذکر ہے اس لیے کچھ تھوڑا سا حصہ بیان کر دیتا ہوں یا دوسری روایات میں دیکھ کے کر دیتا ہوں.تو آپ صلی علیہ نے فرمایا یقینا یہ رویا سچی ہے جو خواب بیان کی.تم بلال کے ساتھ جاؤ کیونکہ وہ تمہاری نسبت زیادہ بلند آواز والے اور منادی کرنے والے ہیں.ان کو بتاتے جاؤ جو تمہیں بتایا گیا ہے.پس وہ اس کی منادی کرے.وہ یعنی حضرت عبد اللہ بن زید کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب نے نماز کے لیے حضرت بلال کی آواز سنی تو حضرت عمر رسول اللہ صلی علیکم کے پاس اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے آئے اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ یارسول اللہ! اس کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یقینا میں نے بھی وہی دیکھا ہے جیسا کہ اس نے اذان میں کہا ہے.راوی کہتے ہیں کہ رسول الله صلى اللہ کریم نے فرمایا: پس تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے.یہ بات زیادہ پختہ ہے.حضرت مصلح موعود اس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : 54 رسول کریم صلی ایم کے زمانہ میں حضرت عبد اللہ بن زید ایک صحابی تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کورڈیا کے ذریعہ سے اذان سکھائی اور رسول کریم صلی علی کریم نے انہی کی رؤیا پر انحصار کرتے ہوئے مسلمانوں میں اذان کا رواج ڈالا.بعد میں قرآنی وحی نے بھی اس کی تصدیق کر دی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہی اذان سکھائی تھی مگر میں دن تک میں خاموش رہا.اس خیال سے کہ ایک اور شخص رسول کریم صلی علیم سے یہ بات بیان کر چکا ہے.“ کیونکہ یہ پہلے بیان ہو چکی تھی اس لیے میں خاموش رہا کہ بیان کی ضرورت نہیں.اسی کی طرف رسول کریم ملی ایم کی یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے کہ الْمُؤْمِنُ يَرَى أَوْ يُرَى لَهُ.یعنی مومن کو کبھی تو براہ راست خبر دی جاتی ہے سبھی دوسروں کی معرفت اسے خبر پہنچائی جاتی ہے.5 55❝

Page 45

اصحاب بدر جلد 3 حضرت عمرؓ اور غزوات 25 حضرت عمر بن خطاب حضرت عمر بن خطاب بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول کریم صلی ایم کے ساتھ شریک ہوئے.اس کے علاوہ متعد د سرایا میں بھی شریک ہوئے جن میں سے بعض سرایا کے آپ امیر بھی تھے.56 جنگ بدر غزوہ بدر کے لیے روانگی کے وقت صحابہ کے اونٹوں کی تعداد جو ان کے پاس تھے ستر تھی.اس لیے ایک ایک اونٹ تین تین آدمیوں کے لیے مقرر کرنا پڑا اور ہر ایک باری باری سوار ہو تا تھا.حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے.57 بدر کے لیے جب آنحضرت صلی للی یم نے روانگی فرمائی تو اس کے ذکر میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی علیکم ابوسفیان کے قافلہ کی روک تھام کے لیے مدینہ سے نکلے جو شام کی طرف سے آرہا تھا.جب مسلمانوں کا قافلہ دفران پہنچا، یہ مدینہ کے نواح میں وادی صفراء کے قریب ایک وادی ہے ، تو آپ کو خبر ملی کہ قریش اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے نکل پڑے ہیں.نبی کریم صلی علی کرم نے صحابہ کرام سے مشورہ طلب کیا اور ان کو یہ خبر دی کہ مکہ سے ایک لشکر انتہائی تیز رفتاری سے نکل پڑا ہے.اس بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ کیا لشکر کے مقابلہ میں تجارتی قافلہ تم کو زیادہ پسند ہے؟ انہوں نے کہا ہاں.یعنی ایک گروہ نے کہا ہم دشمن کے مقابلے میں تجارتی قافلے کو زیادہ پسند کرتے ہیں.ایک روایت میں ذکر ملتا ہے کہ ایک گروہ نے کہا کہ اگر آپ ہم سے جنگ کا ذکر کرتے تو ہم اس کی تیاری کر لیتے.ہم تو تجارتی قافلے کے لیے نکلے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے کہا یارسول اللہ ! آپ کو تجارتی قافلے کی طرف ہی جانا چاہیے اور آپ دشمن کو چھوڑ دیں.اس پر رسول اللہ صلی علی نظم کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا.حضرت ابوایوب بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کا سبب بھی یہی واقعہ ہے کہ گما اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَ إِنَّ فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَرِهُونَ (الانفال:6) کہ جیسے تیرے رب نے تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا تھا حالانکہ مومنوں میں سے ایک گروہ اسے یقیناً ناپسند کرتا تھا.اس وقت حضرت ابو بکر کھڑے ہوئے اور گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی.پھر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی.پھر مقد اڈ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے اس کی طرف چلیے.ہم آپ کے ساتھ ہیں.اللہ کی قسم! ہم آپ سے یہ نہ کہیں گے جیسا کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا تھا کہ فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا طَهُنَا قَعِدُونَ (السلام 25:7) پس جاتو اور تیر ارب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے.انہوں نے کہا نہیں بلکہ ہم لوگ آپ کے ساتھ

Page 46

اصحاب بدر جلد 3 26 حضرت عمر بن خطاب قتال کریں گے جب تک کہ ہم میں جان ہے.58 بدر کے قیدی اور حضرت عمر کا مشورہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے قیدیوں کو پکڑا یعنی بدر کے موقع پر مسلمانوں نے قیدیوں کو پکڑا تو رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ سے فرمایا: ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! وہ ہمارے چچازاد اور رشتہ دار ہیں.میر اخیال ہے آپ ان سے فدیہ لے لیں.وہ ہمارے لیے ان کفار کے مقابلے میں قوت کا باعث ہو گا اور قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اسلام کی طرف راہنمائی فرمائے.رسول اللہ صلی ا ہم نے فرمایا: اے ابن خطاب ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت عمرؓ نے کہا: نہیں یار سول اللہ اللہ کی قسم !امیری وہ رائے نہیں ہے جو ابو بکر کی رائے ہے ، بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ انہیں ہمارے سپر د کر دیں.ہم ان کی گردنیں مار دیں اور علی کے سپر د عقیل کو کریں کہ وہ اس کی گردن مارے اور میرے سپر د فلاں کو کریں جو نسباً حضرت عمر فکارشتہ دار تھا تو میں اس کی گردن مار دوں کیونکہ یہ سب کفار کے لیڈر اور ان کے سردار ہیں.رسول اللہ صلی ال نیلم نے حضرت ابو بکر کی بات کو ترجیح دی.حضرت عمر کہتے ہیں کہ میری بات کو ترجیح نہ دی.اگلے دن میں آیا تو رسول اللہ صلی یکم اور ابو بکر بیٹھے رورہے تھے.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے بتائیے کس چیز نے آپ کو اور آپ کے ساتھی کو رلایا ہے.اگر مجھے رونا آیا تو میں بھی روؤں گا وگرنہ میں آپ دونوں کے رونے کی طرح رونے کی صورت بناؤں گا.رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا: میرے رونے کی وجہ یہ ہے جو تمہارے ساتھیوں نے میرے سامنے ان سے فدیہ لینے کی تجویز پیش کی تھی.میرے سامنے ان کا عذاب اس درخت سے زیادہ قریب پیش کیا گیا ہے جو درخت اللہ کے نبی صلی علیکم کے قریب ہی تھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی.مَا كَانَ لِنَبِي أَن يَكُونَ لَةَ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ (1) نفال:68) یعنی کسی نبی کے لیے جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کے بغیر قیدی بنائے اور پھر انگلی دو آیتیں چھوڑ کے ہے کہ فَكُلُوا مِنا غَيْتُمْ حَللًا طيبا ( قال (70) یعنی پس جو مال غنیمت تم حاصل کرو اس میں سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ.پس اللہ نے ان کے لیے غنیمتیں جائز کر دیں.یہ صحیح مسلم کی روایت ہے.59 روایات میں ایک ابہام اور اس کا حل اس حدیث کے شروع کے الفاظ جو ہیں کہ آنحضرت صلی کم اور حضرت ابو بکر رورہے تھے اور پھر آگے جو قرآنی آیات کے الفاظ ہیں ان میں جو مضمون بیان ہوا ہے وہ اس روایت کو مبہم سا کر دیتا ہے.واضح نہیں کرتا، بات واضح نہیں ہوتی.بہر حال اس روایت کو صحیح سمجھ کے اکثر کتب تاریخ اور سیرت اور مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گویا جنگ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے والے فیصلے پر

Page 47

اصحاب بدر جلد 3 27 27 حضرت عمر بن خطاب ناراضگی کا اظہار فرمایا اور حضرت عمر کی رائے کو پسند فرمایا.حضرت عمر کی سیرت و سوانح لکھنے والے جب ایک الگ باب باندھتے ہیں کہ حضرت عمر کی رائے پر کون کون سے قرآنی احکام نازل ہوئے تو ان میں سے ایک یہ بھی درج کیا جاتا ہے کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں حضرت عمر کی رائے کو اللہ تعالیٰ نے ترجیح دی، لیکن یہ مبہم ہے.جیسا کہ میں نے کہا واضح نہیں ہو تا بلکہ لگتا ہے کہ سیرت نگاروں اور مفسرین کو اس کو سمجھنے میں غلطی لگی ہے.بہر حال حضرت مصلح موعودؓ نے اس کو جو بیان فرمایا ہے تو آپ کے غیر مطبوعہ تفسیری نوٹس میں سے ایک نوٹ مل ہے جو ان روایات کی تردید کر تا ہے اور حضرت مصلح موعودؓ کی جو یہ وضاحت ہے وہی صحیح لگتی ہے.بلا وجہ حضرت عمر کے مقام کو اونچا کرنے کے لیے لگتا ہے کہ انہوں نے یہ روایت بنادی یا اس کو غلط سمجھا گیا.بہر حال حضرت مصلح موعودؓ سورۃ انفال کی آیت نمبر اڑسٹھ 68 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسلام سے پہلے عرب میں رواج تھا اور لکھتے ہیں کہ افسوس ہے کہ دنیا کے بعض حصوں میں اب تک یہ چلا آتا ہے کہ اگر جنگ نہ بھی ہو اور لڑائی نہ بھی ہو تب بھی قیدی پکڑ لیتے ہیں اور ان کو غلام بنا لیتے ہیں.یہ آیت اس قبیح رسم کو منسوخ کرتی ہے اور صاف صاف الفاظ میں حکم دیتی ہے کہ صرف جنگ کی حالت میں اور لڑائی کے بعد ہی دشمن کے آدمی قیدی بنائے جا سکتے ہیں.اگر لڑائی نہ ہو رہی ہو تو کسی آدمی کو قیدی بنانا جائز نہیں.اس آیت کی بڑی غلط تفسیر کی گئی ہے.کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے جنگ بدر کے موقع پر مکہ والوں کے کچھ قیدی پکڑ لیے تو آنحضرت صل الله اعلم نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا فیصلہ کرنا چاہیے.حضرت عمر کی رائے تھی کہ ان کو قتل کر دینا چاہیے.حضرت ابو بکر کی رائے تھی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہیے.آنحضرت صلی اللہ ہم نے ابو بکر کی رائے کو پسند فرمایا اور یہ سورۃ انفال کی 68 آیت ہے جس میں یہ ہے کہ کسی نبی کے لیے جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کرے.بہر حال حضرت مصلح موعودؓ اسی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو رائے لی گئی تھی اس میں تو حضرت ابو بکر کی رائے مختلف تھی، حضرت عمر کی رائے مختلف تھی اور آنحضرت صلی للہ ہم نے حضرت ابو بکر کی رائے کو پسند فرمایا اور فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا.لیکن (مفسرین) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو گویا خدا نے آنحضرت صلی علیم کے فعل کو نا پسند فرمایا.قیدیوں کو قتل کر دینا چاہیے تھا اور فدیہ نہیں لینا چاہیے تھا.یہ طبری کی تفسیر میں ہے.حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں مگر یہ تفسیر غلط ہے.اوّل اس وقت تک خدا نے کوئی ایسا حکم نازل نہیں کیا تھا کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر نہ چھوڑا جائے.اس لیے فدیہ قبول کرنے پر آنحضرت صلی علی کم پر کوئی الزام نہیں آسکتا تھا.دوم اس سے پیشتر آنحضرت صلی اللہ ہم نے نخلہ کے مقام پر دو آدمیوں سے فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا تھا اور خدا نے آپ کے اس فعل کو نا پسند نہیں فرمایا تھا.سوم صرف دو آیتیں اور آگے چل کر خدا مسلمانوں کو اجازت دیتا ہے کہ مال غنیمت سے جو کچھ تم کو ملے اس کو کھاؤ وہ حلال اور طیب ہے.یہ بات کسی کے وہم میں بھی نہیں آسکتی کہ آنحضرت صلی نام کے فدیہ لینے کو

Page 48

حاب بدر جلد 3 61 28 60 حضرت عمر بن خطاب خد انا پسند کرے اور اس طرح جو روپیہ حاصل ہو اس کو حلال اور طیب فرمائے اس لیے یہ تفسیر ہی غلط ہے اور صحیح تفسیر یہی ہے کہ اس آیت میں ایک عام اصول مقرر فرما دیا ہے کہ قیدی اسی صورت میں پکڑے جا سکتے ہیں کہ باقاعدہ جنگ ہو اور دشمن کو کاری ضر میں لگا کر مغلوب کر دیا گیا ہو.0 مفسرین قرآن میں سے علامہ امام رازی اور معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی کا بھی یہی موقف ہے جو حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا ہے.1 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ”مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی الم نے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے.عرب میں بالعموم قیدیوں کو قتل کر دینے یا مستقل طور پر غلام بنا لینے کا دستور تھا مگر آنحضرت صلی اللہ یکم کی طبیعت پر یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی اور پھر ابھی تک اس بارہ میں کوئی الہی احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے.حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ میری رائے میں تو ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ آخر یہ لوگ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور کیا تعجب کہ کل کو انہی میں سے فدایانِ اسلام پیدا ہو جائیں مگر حضرت عمرؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہا کہ دین کے معاملہ میں رشتہ داری کا کوئی پاس نہیں ہونا چاہئے اور یہ لوگ اپنے افعال سے قتل کے مستحق ہو چکے ہیں.پس میری رائے میں ان سب کو قتل کر دینا چاہئے بلکہ حکم دیا جاوے کہ مسلمان خود اپنے ہاتھ سے اپنے اپنے رشتہ داروں کو قتل کریں.آنحضرت صلی سلیم نے اپنے فطری رحم سے متاثر ہو کر حضرت ابو بکر کی رائے کو پسند فرمایا اور قتل کے خلاف فیصلہ کیا اور حکم دیا کہ جو مشرکین اپنا فدیہ وغیر ہ ادا کر دیں انہیں چھوڑ دیا جاوے.چنانچہ بعد میں اسی کے مطابق الہی حکم نازل ہوا.“ جب الہی حکم بھی فدیہ دینے کے بارے میں نازل ہو گیا جیسا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی لکھا ہے تو پھر اس حدیث کو بنیاد بنا کر آنحضرت صلی للی کم اور حضرت ابو بکڑ کے رونے کا جواز پیدا کر ناتو عجیب سی بات ملتی ہے.بہر حال حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں ” چنانچہ ہر شخص کے مناسب حال ایک ہزار درہم سے لے کر چار ہزار درہم تک اس کا فدیہ مقرر کر دیا گیا اس طرح سارے قیدی رہا ہوتے گئے.62 حضرت عمرہ کی بیٹی حضرت حفصہ کی آنحضرت صلی نام سے شادی حضرت عمر کی بیٹی حضرت حفصہ کی آنحضرت صلی یہ کم سے شادی کے بارے میں جو ذکر ملتا ہے کہ حضرت حفصہ کے شوہر جنگ بدر میں شریک ہوئے اور جنگ سے واپسی پر بیمار ہو کر انتقال کر گئے تو بعد میں آنحضرت صلی الم نے حضرت حفصہ کے ساتھ شادی کی.اس کی تفصیل بخاری میں یوں درج ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ جب حضرت حفصہ بنت عمر خُنَيْس بن حُذَافَهُ سَهْمِی سے بیوہ ہوئیں اور وہ رسول اللہ صلی علیم کے صحابہ میں سے تھے جو بدر میں شریک تھے.مدینہ میں انہوں نے وفات پائی تو حضرت عمرؓ نے کہا: میں حضرت عثمان بن عفان سے ملا ان کے پاس حفصہ کا ذکر کیا اور کہا کہ رض و

Page 49

اصحاب بدر جلد 3 29 29 حضرت عمر بن خطاب اگر آپ چاہیں تو حفصہ بنت عمر کا نکاح آپ سے کر دوں.حضرت عثمان نے کہا میں اپنے اس معاملے پر غور کروں گا.حضرت عمر کہتے ہیں چنانچہ میں کئی روز تک ٹھہرا رہا.پھر حضرت عثمان نے کچھ دنوں کے بعد کہا کہ مجھے یہی مناسب معلوم ہوا ہے کہ میں ان دنوں شادی نہ کروں.حضرت عمر “ کہتے تھے.پھر میں حضرت ابو بکر سے ملا کہ اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ بنت عمر کا نکاح آپ سے کر دوں.حضرت ابو بکر خاموش ہو گئے اور مجھے کچھ جواب نہ دیا.اور حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ عثمان کی نسبت میں نے ان سے زیادہ محسوس کیا یعنی احساس زیادہ ہوا کہ انہوں نے بھی انکار کر دیا ہے.پھر میں کچھ دن ٹھہر رہا.پھر رسول اللہ صلی نیلم نے حضرت حفصہ سے نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے آپ سے ان کا نکاح کر دیا.جب نکاح ہو گیا تو پھر حضرت ابو بکر مجھ سے ملے اور کہا جب آپ نے حفصہ کا ذکر کیا تھا اور میں نے آپ کو کوئی جواب نہ دیا تو شاید آپ نے مجھ سے میرے نہ کرنے پر، انکار کرنے پہ کچھ محسوس کیا تھا.میں نے کہا جی ہاں میں نے محسوس کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ دراصل جو بات آپ نے پیش کی تھی اس کی نسبت آپ کو جواب دینے سے مجھے نہیں روکا تھا مگر اس بات نے کہ مجھے علم ہو چکا تھا کہ رسول اللہ صلی ا ہم نے حضرت حفصہ کا ذکر کیا تھا اور میں ایسا نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی ہیم کا یہ راز ظاہر کرتا.یعنی حضرت ابو بکر کو یہ علم تھا کہ آنحضرت صلی ا ہم نے حضرت حفصہ سے رشتہ کا اظہار کیا تھا.تو کہتے ہیں یہ آنحضرت صلی اللی کم کا راز تھا میں اس کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا اور اگر آنحضرت صلی الیوی اسے ترک کر دیتے تو میں ضرور تمہارے اس رشتہ کو قبول کر لیتا.3 یہ حضرت ابو بکر نے جواب دیا.اس واقعہ کی کچھ تفصیل سیرت خاتم النبیین میں بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے.کہتے ہیں کہ ” حضرت عمر بن خطاب کی ایک صاحبزادی تھیں جن کا نام حفصہ تھا.وہ خسیس بن حذافہ کے عقد میں تھیں جو ایک مخلص صحابی تھے اور جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے.بدر کے بعد مدینہ واپس آنے پر خُنیس " بیمار ہو گئے اور اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکے.ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد حضرت عمر کو حفصہ کے نکاح ثانی کا فکر دامن گیر ہوا.اس وقت حفصہ کی عمر میں سال سے اوپر تھی.حضرت عمرؓ نے اپنی فطرتی سادگی میں خود عثمان بن عفان سے مل کر ان سے ذکر کیا کہ میری لڑ کی حفصہ اب بیوہ ہے آپ اگر پسند کریں تو اس کے ساتھ شادی کر لیں مگر حضرت عثمان نے ٹال دیا.اس کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر سے ذکر کیا لیکن حضرت ابو بکر نے بھی خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا.اس پر حضرت عمرؓ کو بہت ملال ہوا اور انہوں نے اسی ملال کی حالت میں آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے ساری سرگذشت عرض کر دی.آپ نے فرمایا.عمر ! کچھ فکر نہ کرو.خدا کو منظور ہوا تو حفصہ کو عثمان وابو بکر کی نسبت بہتر خاوند مل جائے گا اور عثمان کو حفصہ کی نسبت بہتر بیوی ملے گی.یہ آپ نے اس لئے فرمایا کہ آپ حفصہ کے ساتھ شادی کر لینے اور اپنی لڑکی ام کلثوم کو حضرت عثمان کے ساتھ بیاہ کر دینے کا ارادہ کر چکے تھے جس سے حضرت ابو بکر 63

Page 50

محاب بدر جلد 3 30 حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان دونوں کو اطلاع تھی اور اسی لئے انہوں نے حضرت عمر کی تجویز کو ٹال دیا تھا.اس کے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللی کلم نے حضرت عثمان سے اپنی صاحبزادی ام کلثوم کی شادی فرما دی اور اس کے بعد آپ نے خود اپنی طرف سے حضرت عمر کو حفصہ کے لئے پیغام بھیجا.حضرت عمرؓ کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے تھا.انہوں نے نہایت خوشی سے اس رشتہ کو قبول کیا اور شعبان تین ہجری میں حضرت حفصہ محضرت علی ایم کے نکاح میں آکر حرم نبوئی میں داخل ہو گئیں.جب یہ رشتہ ہو گیا تو حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ شاید آپ کے دل میں میری طرف سے کوئی ملال ہو.بات یہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللی ریم کے ارادے سے اطلاع تھی لیکن میں آپ کی اجازت کے بغیر آپ کے راز کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا.ہاں اگر آپ کا یہ ارادہ نہ ہو تا تو میں بڑی خوشی سے حفصہ سے شادی کر لیتا.حفصہ کے نکاح میں ایک تو یہ خاص مصلحت تھی کہ وہ حضرت عمر کی صاحبزادی تھیں جو گویا حضرت ابو بکر کے بعد تمام صحابہ میں افضل ترین سمجھے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ ولیم کے مقربین خاص میں سے تھے.پس آپس کے تعلقات کو زیادہ مضبوط کرنے اور حضرت عمررؓ اور حفصہ کے اس صدمہ کی تلافی کرنے کے واسطے جو خُنَيْس بن حذافہ کی بے وقت موت سے ان کو پہنچا تھا آنحضرت صلی ال سلیم نے مناسب سمجھا کہ حفصہ سے خود شادی فرما لیں اور دوسری عام مصلحت یہ مد نظر تھی کہ آنحضرت صلی علیم کی جتنی زیادہ بیویاں ہوں گی اتنا ہی عورتوں میں جو بنی نوع انسان کا نصف حصہ بلکہ بعض جہات سے نصف بہتر حصہ ہیں دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا کام زیادہ وسیع پیمانے پر اور زیادہ آسانی سے اور زیادہ خوبی کے ساتھ ہو سکے گا.64 حضرت عمر اور جنگ احد حصہ حضرت عمرؓ کے حوالے سے غزوہ احد کے بارے میں لکھا ہے.غزوۂ احد کے موقع پر جب خالد بن ولید نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو مسلمان اس اچانک حملے سے سنبھل نہ سکے.اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں لکھی ہے کہ قریش کے لشکر نے قریب چاروں طرف گھیر اڈال رکھا تھا اور اپنے پے درپے حملوں سے ہر آن دباتا چلا آتا تھا.اس پر بھی مسلمان شاید تھوڑی دیر بعد سنبھل جاتے مگر غضب یہ ہوا کہ قریش کے ایک بہادر سپاہی عبد اللہ بن قمئہ نے مسلمانوں کے علمبر دار مصعب بن پر حملہ کیا جنہوں نے جھنڈا اٹھایا ہوا تھا اور اپنی تلوار کے وار سے ان کا دایاں بازو کاٹ گر ایا.مصعب نے فوراً دوسرے ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا اور ابن قمئہ کے مقابلہ کے لیے آگے بڑھے مگر اس نے دوسرے وار میں ان کا دوسرا ہاتھ بھی قلم کر دیا.اس پر مصعب نے اپنے دونوں کٹے ہوئے ہا تھوں کو جوڑ کر گرتے ہوئے اسلامی جھنڈے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اسے چھاتی سے چمٹا لیا جس پر ابن قمئہ نے ان پر تیسر اوار کیا اور اب کی دفعہ مصعب شہید ہو کر گر گئے.جھنڈا تو کسی دوسرے مسلمان نے فوراً رض

Page 51

اصحاب بدر جلد 3 31 حضرت عمر بن خطاب آگے بڑھ کر تھام لیا مگر چونکہ مصعب نما ڈیل ڈول آنحضرت صلی الیہ کم سے ملتا تھا ابن قمئہ نے سمجھا کہ میں نے محمد صلی علیکم کو مار لیا ہے.یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی طرف سے یہ تجویز محض شرارت اور دھوکا دہی کے خیال سے ہو.بہر حال اس نے مصعب کے شہید ہو کر گرنے پر شور مچادیا کہ میں نے محمد صلی علیہ کم کو مار لیا ہے.اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے اور ان کی جمعیت بالکل منتشر ہو گئی.بہت سے صحابی سراسیمہ ہو کر میدان سے بھاگ نکلے.اس وقت مسلمان تین حصوں میں منقسم تھے.ایک گروہ وہ تھا جو آنحضرت صلی این نام کی شہادت کی خبر سن کر میدان سے بھاگ گیا تھا مگر یہ گروہ سب سے تھوڑا تھا.لیکن جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر آتا ہے اس وقت کے خاص حالات اور ان لوگوں کے دلی ایمان اور اخلاص کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا.دوسر اگر وہ جو تھا اس گروہ میں وہ لوگ تھے جو بھاگے تو نہیں تھے مگر آنحضرت صلی اللہ یلم کی شہادت کی خبر سن کر یا تو ہمت ہار بیٹھے تھے اور یا اب لڑنے کو بیکار سمجھتے تھے اور اس لیے میدان سے ایک طرف ہٹ کر سر نگوں ہو کر بیٹھ گئے تھے اور تیسر اگر وہ وہ تھا جو برابر لڑ رہا تھا.ان میں سے کچھ تو وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللی علم کے ارد گرد جمع تھے اور بے نظیر جان نثاری کے جوہر دکھا رہے تھے اور اکثر وہ تھے جو میدان جنگ میں منتشر طور پر لڑ رہے تھے.ان لوگوں اور نیز گروہ ثانی کے لوگوں کو جوں جوں آنحضرت صلی یکم کے زندہ موجود ہونے کا پتہ لگتا جاتا تھا یہ لوگ دیوانوں کی طرح لڑتے بھڑتے آپ کے ارد گرد جمع ہوتے جاتے تھے.بہر حال اس وقت نہایت خطرناک لڑائی ہو رہی تھی اور مسلمانوں کے واسطے ایک سخت ابتلا اور امتحان کا وقت تھا اور جیسا بیان ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللی علم کی شہادت کی خبر سن کر بہت سے صحابہ ہمت ہار چکے تھے اور ہتھیار پھینک کر میدان سے ایک طرف ہو گئے تھے.انہی میں حضرت عمرؓ بھی تھے جو مایوس ہو کے ایک طرف ہو کے بیٹھ گئے تھے.چنانچہ یہ لوگ اسی طرح میدان جنگ کے ایک طرف بیٹھے تھے کہ اوپر سے ایک صحابی آنس بن نظر انصاری آگئے اور ان کو دیکھ کر کہنے لگے کہ تم لوگ یہاں کیا کرتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی الیوم نے شہادت پائی.اب لڑنے سے کیا حاصل ہے ؟ انس نے کہا کہ یہی لڑنے کا وقت ہے تا جو موت رسول اللہ صلی علیم نے پائی وہ ہمیں بھی نصیب ہو اور پھر آپ کے بعد زندگی کا بھی کیا لطف ہے ! اور پھر ان کے سامنے سعد بن معاذ آئے تو انہوں نے یعنی حضرت انس نے کہا کہ سعد مجھے تو پہاڑی سے جنت کی خوشبو آرہی ہے.یہ کہہ کر انس دشمن کی صف میں گھس گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہوئے اور جنگ کے بعد دیکھا گیا تو ان کے بدن پر اسی سے زیادہ زخم تھے اور کوئی پہچان نہ سکتا تھا کہ یہ کس کی لاش ہے.آخر ان کی بہن نے ان کی انگلی دیکھ کر شناخت کیا.65 الله احد کے وقت رسول اللہ صلی علی کی اپنے چند صحابہ کے ساتھ پہاڑ کی گھاٹی پر پہنچے ہی تھے کہ کفار کے ایک گروہ نے گھائی پر حملہ کیا.ان میں خالد بن ولید بھی تھا.حضور صلی ا ہم نے اس وقت دعا کی کہ اللهُمَّ

Page 52

اصحاب بدر جلد 3 32 حضرت عمر بن خطاب 66 إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لَهُمْ أَنْ يَغلُونَا اے اللہ ! یہ لوگ ہمارے پاس نہ پہنچ سکیں.اس پر حضرت عمر بن خطاب نے چند مہاجرین کے ساتھ ان مشرکین کا مقابلہ کیا اور مارتے مارتے ان کو بھگا دیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ابو سفیان اپنے چند ساتھیوں کو ساتھ لے کر اس درہ کی طرف بڑھا جہاں مسلمان جمع تھے اور اس کے قریب کھڑے ہو کر پکار کر بولا کہ مسلمانو! کیا تم میں محمد ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا.کوئی جواب نہ دے.چنانچہ سب صحابہ خاموش رہے.پھر اس نے ابو بکر و عمر کا پوچھا مگر اس پر بھی آپ کے ارشاد کے ماتحت کسی نے جواب نہ دیا.جس پر اس نے بلند آواز سے فخر کے لہجہ میں کہا کہ یہ سب لوگ مارے گئے ہیں کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو جواب دیتے.اس وقت حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا اور وہ بے اختیار ہو کر بولے.اے عدو الله! تو جھوٹ کہتا ہے.ہم سب زندہ ہیں اور خدا ہمارے ہاتھوں سے تمہیں ذلیل کرے گا.ابوسفیان نے حضرت عمر کی آواز پہچان کر کہا کہ عمر سچ سچ بتاؤ کیا محمد زندہ ہے ؟ حضرت عمر نے کہا کہ ہاں ہاں خدا کے فضل سے وہ زندہ ہیں اور تمہاری یہ باتیں سن رہے ہیں.ابو سفیان نے کسی قدر دھیمی آواز میں کہا.تو پھر ابن قیمہ نے جھوٹ کہا ہے کیونکہ میں تمہیں اس سے زیادہ سچا سمجھتا ہوں.اس کے بعد ابوسفیان نے نہایت بلند آواز سے پکار کر کہا.اُغلُ هبل یعنی اے ہبل تیری شان بلند ہو.صحابہ آنحضرت صلی علی ایم کے ارشاد کا خیال کر کے خاموش رہے مگر آنحضرت صلی ای ام جو اپنے نام پر تو خاموش رہنے کا حکم دیتے تھے اب خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں بہت کا نام آنے پر بے تاب ہو گئے اور فرمایا کہ تم جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا کہو اللہ آغلی و اَجَل یعنی بلندی اور بزرگی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے.ابو سفیان نے کہا لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزّى لَكُمْ.ہمارے ساتھ عربی ہے اور تمہارے ساتھ عربی نہیں ہے.آنحضرت صلی الم نے صحابہ سے فرمایا کہو اللهُ مَوْلَنَا وَلَا مَوْلى لَكُمْ عزیٰ کیا چیز ہے.ہمارے ساتھ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارے ساتھ کوئی مددگار نہیں.اس کے بعد ابو سفیان نے کہا کہ لڑائی ایک ڈول کی طرح ہوتی ہے جو کبھی چڑھتا اور کبھی گرتا ہے.پس یہ دن بدر کے دن کا بدلہ سمجھو اور تم میدان جنگ میں ایسی لاشیں پاؤ گے جن کے ساتھ محلہ کیا گیا ہے.میں نے اس کا حکم نہیں دیا مگر جب مجھے اس کا علم ہوا تو مجھے اپنے آدمیوں کا یہ فعل کچھ بُرا بھی نہیں لگا.اور ہمارے اور تمہارے درمیان آئندہ سال انہی ایام میں بدر کے مقام میں پھر جنگ کا وعدہ رہا.ایک صحابی نے آنحضرت صلی ولیم کی ہدایت کے ماتحت جواب دیا کہ بہت اچھا یہ وعدہ رہا.بہر حال یہ کہہ کر ابو سفیان اپنے ساتھیوں کو لے کر نیچے اتر گیا اور پھر قریش کا لشکر مکہ کی طرف روانہ ہوا.57 67 مدینہ کے منافقین اور یہود کے متعلق حضرت عمر کا جوش الله سة جب رسول اللہ صلی علی کم غزوہ احد کے بعد مدینہ پہنچے تو منافقین اور یہود خوشیاں منانے لگے اور

Page 53

اصحاب بدر جلد 3 33 حضرت عمر بن خطاب مسلمانوں کو برا بھلا کہنے لگے اور کہنے لگے کہ محمد صلی علیہ کی بادشاہت کے طلبگار ہیں اور آج تک کسی نبی نے اتنا نقصان نہیں اٹھایا جتنا انہوں نے اٹھایا.خود بھی زخمی ہوئے اور ان کے اصحاب بھی زخمی ہوئے.اور کہتے تھے کہ اگر تمہارے وہ لوگ جو قتل ہوئے ہمارے ساتھ رہتے تو کبھی قتل نہ ہوتے.حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی علیم سے ان منافقین کے قتل کی اجازت چاہی جو اس طرح یہ باتیں کر رہے ہیں تو آپ صلی علیکم الله سة نے فرمایا: کیا وہ اس شہادت کا اظہار نہیں کرتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں.کلمہ تو پڑھتے ہیں ناں یہ لوگ.اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کیوں نہیں.یہ تو کہتے ہیں لیکن ساتھ منافقانہ باتیں بھی کر رہے ہیں.حضرت عمرؓ نے کہا لیکن یہ تلوار کے خوف سے اس طرح کہتے ہیں.پس ان کا معاملہ ظاہر ہو گیا ہے.اب جب ان کے دل کی باتیں نکل گئی ہیں اور اللہ نے ان کے کینوں کو ظاہر کر دیا ہے تو پھر ان سے انتقام لینا چاہیے.ان کو سزا دینی چاہیے.آپ صلی الی ایم نے فرمایا کہ مجھے اس کے قتل سے منع کیا گیا ہے جو اس شہادت کا اظہار کرے.68 جس نے یہ کلمہ پڑھ لیا مجھے ایسے شخص کے قتل سے منع کیا گیا ہے.69 رض غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں آتا ہے کہ غزوہ احد کے بعد رسول اللہ صلی علیکم واپس مدینہ تشریف لے آئے اور کفار نے مکہ کی راہ لی مگر آپ کو قریش کی دوبارہ لشکر کشی کی خبر ملی تو آپ صحابہ کے ساتھ حمراء الاسد مقام تک تشریف لے گئے.حمراء الاسد مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے.اس غزوہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو تحریر فرمایا ہے وہ اس طرح ہے ، کچھ حصہ بیان کر تاہوں کہ بظاہر لشکرِ قریش نے مکہ کی راہ لے لی تھی.یہ اندیشہ تھا کہ ان کا یہ فعل مسلمانوں کو غافل کرنے کی نیت سے نہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ وہ اچانک لوٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں.لہذا اس رات کو مدینہ میں پہرہ کا انتظام کیا گیا اور آنحضرت صلی علیہ کام کے مکان کا خصوصیت سے تمام رات صحابہ نے پہرہ دیا.صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ اندیشہ محض خیالی نہ تھا کیونکہ فجر کی نماز سے قبل آنحضرت صلی علی یکم کو یہ اطلاع پہنچی کہ قریش کا لشکر مدینہ سے چند میل جا کر ٹھہر گیا ہے اور رؤسائے قریش میں یہ سر گرم اور بحث جاری ہے کہ اس فتح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوں نہ مدینہ پر حملہ کر دیا جائے اور بعض قریش ایک دوسرے کو طعنہ دے رہے ہیں کہ نہ تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کیا اور نہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان کے مال و متاع پر قابض ہوئے بلکہ جب تم ان پر غالب آئے اور تمہیں یہ موقع ملا کہ تم ان کو ملیا میٹ کر دو تو تم انہیں یونہی چھوڑ کر واپس چلے آئے تاکہ وہ پھر زور پکڑ جائیں.پس اب بھی موقع ہے واپس چلو اور مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کی جڑ کاٹ دو.ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ جو کچھ ہو گیا ہے اسے غنیمت جانو اور مکہ واپس لوٹ چلو.ایسا نہ ہو کہ یہ شہرت جو تھوڑی سی جنگ کے جیتنے کی حاصل ہوئی ہے یہ بھی کھو بیٹھو اور یہ فتح شکست کی صورت میں بدل جائے لیکن بالآخر جوشیلے لوگوں کی رائے

Page 54

اصحاب بدر جلد 3 34 حضرت عمر بن خطاب غالب آئی اور قریش مدینہ کی طرف لوٹنے کے لیے تیار ہو گئے.آنحضرت صلی یہ کام کو جب ان واقعات کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فوراً اعلان فرمایا کہ مسلمان تیار ہو جائیں مگر ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ سوائے ان لوگوں کے جو اُحد میں شریک ہوئے تھے اور کوئی ہمارے ساتھ نہ نکلے.70 71 یہ بھی ایک جگہ روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی المیہ ملک کو جب قریش کے اس مشورہ کی اطلاع موصول ہوئی تو آپ نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو بلایا اور انہیں معاملے سے آگاہ فرمایا.دونوں نے مشورہ دیا کہ دشمن کے تعاقب میں جانا چاہیے.” چنانچہ احد کے مجاہدین جن میں سے اکثر زخمی تھے اپنے زخموں کو باندھ کر اپنے آقا کے ساتھ ہو لئے اور لکھا ہے کہ اس موقعہ پر مسلمان ایسی خوشی اور جوش کے ساتھ نکلے کہ جیسے کوئی فاتح لشکر فتح کے بعد دشمن کے تعاقب میں نکلتا ہے.آٹھ میل کا فاصلہ طے کر کے آپ حمراء الاسد میں پہنچے.اب چونکہ شام ہو چکی تھی آپ نے یہیں ڈیر اڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میدان میں مختلف مقامات پر آگ روشن کر دی جاوے.چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حمراء الاسد کے میدان میں پانچ سو آگئیں شعلہ زن ہو گئیں جو ہر دور سے دیکھنے والے کے دل کو مرعوب کرتی تھیں.غالباً اسی موقعہ پر قبیلہ خزاعہ کا ایک مشرک رئیس معبد نامی آنحضرت صلی الی یکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے احد کے مقتولین کے متعلق اظہار ہمدردی کی اور پھر اپنے راستہ پر روانہ ہو گیا.دوسرے دن جب وہ مقام رؤ عاء میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ قریش کا لشکر وہاں ڈیر اڈالے پڑا ہے اور مدینہ کی طرف واپس چلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں.معبد فوراً ابوسفیان کے پاس گیا اور اسے جا کر کہنے لگا کہ تم کیا کرنے لگے ہو ؟ واللہ ! میں تو ابھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لشکر کو حمراء الاسد میں چھوڑ کر آیا ہوں اور ایسا بار عب لشکر میں نے کبھی نہیں دیکھا اور احد کی ہزیمت کی ندامت میں ان کو اتنا جوش ہے کہ تمہیں دیکھتے ہی بھسم کر جائیں گے.ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں پر معبد کی ان باتوں سے ایسار عب پڑا کہ وہ مدینہ کی طرف کوٹنے کا ارادہ ترک کر کے فورا مکہ کی طرف روانہ ہو گئے.آنحضرت صلی عوام کو لشکر قریش کے اس طرح بھاگ نکلنے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپ نے خدا کا شکر کیا اور فرمایا کہ یہ خدا کار عب ہے جو اس نے کفار کے دلوں پر مسلط کر دیا ہے.اس کے بعد آپ نے حمراء الاسد میں دو تین دن اور قیام فرمایا.غزوة بنو مصطلق 72% غزوہ بنو مصطلق شعبان پانچ ہجری میں ہوا.اسے غزوۂ مریسیع بھی کہتے ہیں.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں لکھا ہے کہ قریش کی مخالفت دن بدن زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتی جاتی تھی.وہ اپنی ریشہ دوانی سے عرب کے بہت سے قبائل کو اسلام اور بانی اسلام کے خلاف کھڑا کر چکے تھے لیکن اب ان کی عداوت نے ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا اور وہ یہ کہ حجاز کے وہ

Page 55

صحاب بدر جلد 3 35 حضرت عمر بن خطاب 66 قبائل جو مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے اب وہ بھی قریش کی فتنہ انگیزی سے مسلمانوں کے خلاف اٹھنے شروع ہو گئے.اس معاملہ میں پہل کرنے والا مشہور قبیلہ بنو خزاعہ تھا جن کی ایک شاخ بنو مصطلق نے مدینہ کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی اور ان کے رئیس حارث بن ابی ضر از نے اس علاقہ کے دوسرے قبائل میں دورہ کر کے بعض اور قبائل کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا.آنحضرت صلیا علم کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے مزید احتیاط کے طور پر اپنے ایک صحابی بُریدہ بن حصیب نامی کو دریافت حالات کے لئے “ پتہ کرنے کے لیے ”بنو مصطلق کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو تاکید فرمائی کہ بہت جلد واپس آکر حقیقت الامر سے آپ کو اطلاع دیں.بُریدہ گئے تو دیکھا کہ واقعی ایک بہت بڑا اجتماع ہے اور نہایت زور شور سے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں.انہوں نے فوراً واپس آکر آنحضرت صلی الیم کو اطلاع دی اور آپ نے حسب عادت مسلمانوں کو پیش قدمی کے طور پر دیار بنو مصطلق کی طرف روانہ ہونے کی تحریک فرمائی اور بہت سے صحابہ آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئے بلکہ ایک بڑا گر وہ منافقین کا بھی جو اس سے پہلے اتنی تعداد میں کبھی شامل نہیں ہوئے تھے “ وہ بھی ”ساتھ ہو گیا.آنحضرت صلی غیر ہم اپنے پیچھے ابو ذر غفاری یا بعض روایات کی رو سے زید بن حارثہ کو مدینہ کا امیر مقرر کر کے اللہ کا نام لیتے ہوئے شعبان 15ھ میں مدینہ سے نکلے.فوج میں صرف تیں گھوڑے تھے.البتہ اونٹوں کی تعداد کسی قدر زیادہ تھی اور انہی گھوڑوں اور اونٹوں پر مل جل کر مسلمان باری باری سوار ہوتے تھے.راستہ میں مسلمانوں کو کفار کا ایک جاسوس مل گیا جسے انہوں نے پکڑ کر آنحضرت صلی علی ایم کی خدمت میں حاضر کیا اور آپ نے اس تحقیق کے بعد کہ وہ واقعی جاسوس ہے اس سے کفار کے متعلق کچھ حالات وغیرہ دریافت کرنے چاہے مگر اس نے بتانے سے انکار کیا اور چونکہ اس کا رویہ مشتبہ تھا اس لئے مروجہ قانون جنگ کے ماتحت قانون جنگ جو تھا اس کے ماتحت ”حضرت عمرؓ نے اس کو قتل کر دیا اور اس کے بعد لشکر اسلام آگے روانہ ہوا.بنو مصطلق کو جب مسلمانوں کی آمد آمد کی اطلاع ہوئی اور یہ خبر بھی پہنچی کہ ان کا جاسوس مارا گیا ہے تو وہ بہت خائف ہوئے کیونکہ اصل منشاء ان کا یہ تھا کہ کسی طرح مدینہ پر اچانک حملہ کرنے کا موقعہ مل جائے مگر آنحضرت صلی الی یوم کی بیدار مغزی کی وجہ سے اب ان کو لینے کے دینے پڑ گئے تھے.پس وہ بہت مرعوب ہو گئے اور دوسرے قبائل جو ان کی مدد کے لئے ان کے ساتھ جمع ہو گئے تھے وہ تو خدائی تصرف کے ماتحت کچھ ایسے خائف ہوئے کہ فوراً ان کا ساتھ چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے مگر خود بنو مصطلق کو قریش نے مسلمانوں کی دشمنی کا کچھ ایسا نشہ پلا دیا تھا کہ وہ پھر بھی جنگ کے ارادے سے باز نہ آئے اور پوری تیاری کے ساتھ اسلامی لشکر کے مقابلہ کے لئے آمادہ رہے.جب آنحضرت صلی نام مریسیع میں پہنچے جس کے قریب بنو مصطلق کا قیام تھا اور جو ساحل سمندر صا الله سل.کے قریب مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام کا نام ہے تو آپ صلی یکی نے ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیا اور صف آرائی اور جھنڈوں کی تقسیم وغیرہ کے بعد آپ نے حضرت عمر کو حکم دیا کہ آگے بڑھ کر بنو مصطلق

Page 56

محاب بدر جلد 3 36 حضرت عمر بن خطاب میں یہ اعلان کریں کہ اگر اب بھی وہ اسلام کی عداوت سے باز آجائیں اور آنحضرت صلی ایم کی حکومت کو ہم کر لیں تو ان کو امن دیا جائے گا اور مسلمان واپس لوٹ جائیں گے.مگر انہوں نے سختی کے ساتھ انکار کیا اور جنگ کے واسطے تیار ہو گئے.حتی کہ لکھا ہے کہ سب سے پہلا تیر جو اس جنگ میں چلایا گیا وہ انہی کے آدمی نے چلایا تھا.جب آنحضرت صلی علیم نے ان کی یہ حالت دیکھی تو آپ نے بھی صحابہ کو لڑنے کا حکم دیا.“ جنگ انہوں نے دوسروں نے مخالفین نے ، دشمنوں نے شروع کر دی تھی.تھوڑی دیر تک فریقین کے درمیان خوب تیز تیر اندازی ہوئی.جس کے بعد آنحضرت صلی الم نے صحابہ کو یکلخت دھاوا کر دینے کا حکم دیا ایک دم حملہ کر دو.” اور اس اچانک دھاوے کے نتیجے میں کفار کے پاؤں اکھڑ گئے مگر مسلمانوں نے ایسی ہوشیاری کے ساتھ ان کا گھیر اڈالا کہ ساری کی ساری قوم محصور ہو کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی اور صرف دس کفار اور ایک مسلمان کے قتل پر اس جنگ کا جو ایک خطرناک صورت اختیار کر سکتا تھا خاتمہ ہو گیا.“ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرت خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ ”اس موقعہ پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسی غزوہ کے متعلق صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے بنو مصطلق پر ایسے وقت میں حملہ کیا تھا کہ وہ غفلت کی حالت میں اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے مگر غور سے دیکھا جاوے تو یہ روایت مورخین کی روایت کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ در حقیقت دو روایتیں دو مختلف وقتوں سے تعلق رکھتی ہیں یعنی واقعہ یوں ہے کہ جب اسلامی لشکر بنو مصطلق کے قریب پہنچا تو اس وقت چونکہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ مسلمان بالکل قریب آگئے ہیں (گو انہیں اسلامی لشکر کی آمد آمد کی اطلاع ضر ور ہو چکی تھی) وہ اطمینان کے ساتھ ایک بے ترتیبی کی حالت میں پڑے تھے اور اسی حالت کی طرف بخاری کی روایت میں بھی اشارہ ہے لیکن جب ان کو مسلمانوں کے پہنچنے کی اطلاع ہوئی تو وہ اپنی مستقل سابقہ تیاری کے مطابق فور أصف بند ہو کر مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے اور یہ وہ حالت ہے جس کا ذکر مؤرخین نے کیا ہے اور اس اختلاف کی یہی تشریح علامہ ابن حجر اور بعض دوسرے محققین نے کی ہے 7366 اور یہی درست معلوم ہوتی ہے.غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر ایک اور واقعہ بھی ہوا.صحیح مسلم میں اس کی روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی الی یکم کے ساتھ ایک غزوہ یعنی غزوہ بنو مصطلق میں تھے کہ مہاجروں میں سے کسی آدمی نے انصار میں سے کسی آدمی کی پیٹھ پر مارا.انصاری نے کہا اے انصار ! اور مہاجر نے کہا اے مہاجر و ایعنی دونوں نے مدد کے لیے اپنے اپنے لوگوں کو بلایا.انصار نے بھی، مہاجروں نے بھی.آنحضرت صلی الی یکم تک یہ معاملہ پہنچا اور جب آپ نے یہ شور سنا تو اس پر رسول اللہ صلی علی کلم نے فرمایا کہ یہ جاہلیت کی آوازیں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! مہاجروں میں سے ایک آدمی نے انصار میں سے ایک آدمی کی پیٹھ پر مارا ہے.اس پر آپ نے فرمایا اس بات کو چھوڑ دو.یہ گندی بات ہے.

Page 57

اصحاب بدر جلد 3 37 حضرت عمر بن خطاب یہ فضول باتیں نہ کیا کرو کہ ذرا ذراسی بات پہ لڑائی جھگڑے شروع کر دو.جب عبد اللہ بن اُبی نے یہ سنا، وہ بھی وہاں ساتھ تھا تو اس نے کہا کہ انہوں نے تو ایسا کر لیا کہ ایک مہاجر نے انصار کی کمر پر مارا، چاہے ایک تھپڑ ہی مارا ہو، دو ہتھڑ ہی مارا ہو لیکن اللہ کی قسم ! اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹے تو ضرور معزز ترین شخص (نعوذ باللہ ) ذلیل ترین شخص کو وہاں سے باہر نکال دے گا.حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں.اس پر حضور صلی ا ولم نے فرمایا کہ جانے دو.لوگ یہ باتیں نہ کرنے لگیں کہ محمد علی ایم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے.74 اس واقعہ کی تفصیل سیرت خاتم النبیین میں بیان ہوئی ہے جو میں چھوڑ تا ہوں.یہ پہلے بیان کر چکا ہوں.بہر حال عبد اللہ بن ابی کی آخری زمانے کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ اس کے بعد عبد اللہ بن ابی جب کوئی ایسی ویسی بات کہتا اسی کی قوم اس کو سخت سست کہتی تھی.رسول اللہ صلی علیم کو جب اس کے حالات کا علم ہوا تو آپ نے حضرت عمر بن خطاب سے فرمایا کہ اے عمر! جس دن تم نے مجھ سے اس کے قتل کرانے کے واسطے کہا تھا، اجازت مانگی تھی کہ میں قتل کر دوں اگر میں اس کو قتل کرا دیتا تو لوگ ناک منہ چڑھاتے اور یہی لوگ جو ناک منہ چڑھانے والے تھے ، اب اگر انہی لوگوں کو میں اس کے قتل کا حکم کروں تو وہ خود اس کو قتل کر دیں گے.دیکھو صبر کی وجہ سے اور حالات سامنے آنے کی وجہ سے وہی جو اس کے حمایتی تھے آج اس کے خلاف ہو گئے ہیں اور یہ اس کو قتل بھی کر سکتے ہیں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! میں نے جان لیا کہ بے شک رسول اللہ صلی اللی کم کی بات برکت کے لحاظ سے میری بات سے بہت عظیم تھی.75 رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی کی نماز جنازہ اور حضرت عمر رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ جب آنحضرت صلی کم پڑھنے لگے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ سے منع کیا ہے.رسول اللہ صلی ا ہم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ میں ان کے لیے استغفار کروں یا نہ کروں.پس رسول اللہ صلی الم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی.پھر جب اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد کی نماز جنازہ پڑھنے کی کلیۂ ممانعت فرما دی تو پھر آنحضرت صلی اللہ ہم نے منافقین کی نماز جنازہ پڑھانی بند کر دی تھی.76 حضرت عمر اور جنگ خندق ابو سلمہ نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب غزوہ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے.انہوں نے کہا: یارسول اللہ ! مجھے تو عصر کی نماز بھی نہیں ملی یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا.نبی کریم صلی علیکم نے فرمایا: بخدا ! میں نے بھی نہیں پڑھی.اس پر ہم اٹھ کر بطحان کی طرف گئے.بطحان بھی مدینہ کی وادیوں میں سے ایک وادی

Page 58

تاب بدر جلد 3 38 حضرت عمر بن خطاب ہے اور آپ صلی این کم نے نماز کے لیے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی.پھر آپ نے اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی.یہ بخاری کی روایت ہے.77 جنگ خندق اور نماز...اس بارے میں یہ بحث چلتی ہے کہ غزوہ خندق کے دوران نبی کریم صلی ا یکم اور آپ کے صحابہ کتنی نمازیں نہیں پڑھ سکے تھے.اس بارے میں متفرق روایات ملتی ہیں.چنانچہ ایک روایت یہ ہے کہ حضرت جابر نے بیان کیا کہ حضرت عمر خندق کے دن ان کافروں کو برا بھلا کہنے لگے اور کہا مجھے عصر کی نماز نہیں ملی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا.کہتے تھے اس پر ہم نظحان میں اتر گئے اور انہوں نے سورج غروب ہونے کے بعد نماز پڑھی.پھر انہوں نے مغرب کی نماز پڑھی.یہ بھی بخاری میں ہی روایت ہے.یعنی پہلی میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی میں کم بھی ساتھ تھے.78 پھر حضرت علی نے بیان کیا کہ نبی صلی علیم نے خندق کے موقع پر فرمایا: 79 اللہ ان کافروں کے لیے ان کے گھر اور ان کی قبریں آگ سے بھر دے.انہوں نے ہمیں مصروف رکھا اور صلوۃ وسطی یعنی درمیانی نماز کا موقع نہیں دیا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا.19 حضرت علی کی یہ روایت بھی بخاری کی ہے.80 پھر ابو عبیدہ بن عبد اللہ اپنے والد سے یہ روایت کرتے ہیں کہ : خندق کے دن مشرکین نے نبی صلی کم کو چار نمازوں سے روکے رکھا یہاں تک کہ رات کا حصہ جتنا اللہ نے چاہا گزر گیا.راوی کہتے ہیں کہ آپ نے حضرت بلال کو ارشاد فرمایا تو انہوں نے اذان دی.پھر آپ نے اقامت کا ارشاد فرمایا اور ظہر کی نماز پڑھائی.پھر اقامت کا ارشاد فرمایا اور عصر کی نماز پڑھائی.پھر آپ صلی علیکم نے اقامت کا ارشاد فرمایا اور مغرب کی نماز پڑھائی.پھر آپ صلی علیہ کم نے اقامت کا ارشاد فرمایا اور عشاء کی نماز پڑھائی.یہ مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تمام روایات کو ضعیف قرار دیتے ہوئے صرف ایک روایت کو درست قرار دیا ہے جس میں عصر کی نماز معمول سے تنگ وقت میں پڑھنے کا ذکر ہے.چنانچہ جنگ خندق میں آنحضور صلی الم کی چار نمازیں قضا کرنے پر پادری فتح مسیح کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”آپ کا یہ شیطانی وسوسہ کہ خندق کھودنے کے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں اول آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا ہے.اے نادان قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں.“ چھوڑنے کو نہیں کہتے.”ترک نماز کا نام قضا ہر گز نہیں ہو تا.اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے تو اس کا نام فوت ہے “ یعنی نماز فوت ہو گئی.”اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بے وقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی تک

Page 59

حاب بدر جلد 3 39 حضرت عمر بن خطاب قضا کے معنی بھی معلوم نہیں.جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امور دقیقہ پر نکتہ چینی کر سکے.باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو.اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار جمع کرنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰۃ العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی.اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم آپ کو ذرہ بٹھا کر پوچھتے “ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مخالف کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہو گئی تھیں.چار نمازیں تو خود شرع کی رو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر.اور مغرب اور عشاء.ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور اکٹھی کر کے پڑھی گئی تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو رد کرتی ہیں اور صرف یہی ثابت ہو تا عشاء الله 81❝ ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی.صلح حدیبیہ اور حضرت عمر صلح حدیبیہ کے تعلق میں حضرت عمرؓ کے کردار کے بارے میں جو لکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ: رسول اللہ صلی علیکم نے حضرت عمر بن خطاب کو بلایا تا کہ وہ انہیں مکہ بھیجیں اور وہ اشراف قریش کو بتائیں کہ حضور صلی الی کمک کس لیے تشریف لائے ہیں.حضرت عمرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ! مجھ کو قریش سے اپنی جان کا خوف ہے کیونکہ وہ میرے ان سے عداوت کے حال سے واقف ہیں.ان کو پتہ ہے کہ میں قریش کا کتنادشمن ہوں.میں جس قدر ان پر سختی کرتا ہوں اور میری قوم بنو عدی بن کعب میں سے بھی کوئی مکہ میں نہیں ہے جو مجھے بچائے.اس لیے انہوں نے کچھ تھوڑا سا انقباض کا اظہار کیا.ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے اس موقع پر آنحضور صلی الم کی خدمت میں یہ بھی عرض کیا یار سول اللہ ! اگر آپ پسند فرماتے ہیں تو میں ان کے پاس چلا جاتا ہوں تا ہم رسول اللہ صلی اللی کم نے کچھ نہ فرمایا.حضرت عمرؓ نے مزید عرض کیا کہ میں آپ کو ایسا شخص بتاتا ہوں جو قریش کے نزدیک مجھ سے زیادہ معزز ہے یعنی حضرت عثمان بن عفان.تب حضور صلی اللی کم نے عثمان کو طلب کیا اور ابوسفیان اور دیگر اشراف قریش کے پاس بھیجا تا کہ عثمان ان کو خبر دیں کہ حضور جنگ کے واسطے نہیں آئے.آپ صرف زیارت کعبہ اور اس کی حرمت کی تعظیم کی خاطر تشریف لائے ہیں.82 83 اس کی یہ تفصیل حضرت عثمان کے ضمن میں بیان ہو چکی ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ ”جب صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جارہی تھیں تو اس

Page 60

اصحاب بدر جلد 3 40 حضرت عمر بن خطاب دوران قریش مکہ کے سفیر سہیل بن عمرو کا لڑکا ابو جندل بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا اس مجلس میں گرتا پڑتا آپہنچا.اس نوجوان کو اہل مکہ نے مسلمان ہونے پر قید کر لیا تھا اور سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا.جب اسے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی علی یکم مکہ کے اس قدر قریب تشریف لائے ہوئے ہیں تو وہ کسی طرح اہل مکہ کی قید سے چھوٹ کر اپنی بیٹیوں میں جکڑا ہوا گر تا پڑ تا حدیبیہ میں پہنچ گیا اور اتفاق سے پہنچا بھی اس وقت جب کہ اس کا باپ معاہدہ کی یہ شرط لکھا رہا تھا کہ ہر شخص جو مکہ والوں میں سے مسلمانوں کی طرف آئے وہ خواہ مسلمان ہی ہو اسے واپس کو ٹا دیا جائے گا.ابو جندل نے گرتے پڑتے اپنے آپ کو مسلمانوں کے سامنے لاڈالا اور دردناک آواز میں پکار کر کہا کہ اے مسلمانو! مجھے محض اسلام کی وجہ سے یہ عذاب دیا جارہا ہے.خدا کے لئے مجھے بچاؤ.مسلمان اس نظارہ کو دیکھ کر تڑپ اٹھے مگر سہیل بھی اپنی ضد پر اڑ گیا اور آنحضرت صلی الہی نام سے کہنے لگا.یہ پہلا مطالبہ ہے جو میں اس معاہدہ کے مطابق آپ سے کرتا ہوں اور وہ یہ کہ ابو جندل کو میرے حوالہ کر دیں.آپ نے فرمایا ابھی تو معاہدہ تکمیل کو نہیں پہنچا.“ ابھی تو بات ہو رہی ہے کوئی فائنل تو نہیں ہوا.سہیل نے کہا کہ اگر آپ نے ابو جندل کو نہ کو ٹایا تو پھر اس معاہدہ کی کارروائی ختم سمجھیں.آنحضرت صلی علی یکم نے فرمایا معاملہ کو ختم کرنے کے لیے کہ ”آؤ آؤ.جانے دو اور ہمیں احسان و مروت کے طور پر ہی ابو جندل کو دے دو.سہیل نے کہا نہیں نہیں یہ کبھی نہیں ہو گا.آپ نے فرمایا شہیل! ضد نہ کرو میری یہ بات مان لو.سہیل نے کہا میں یہ بات ہر گز نہیں مان سکتا.اس موقع پر ابو جندل نے پھر پکار کر کہا اے مسلمانو! کیا تمہارا ایک مسلمان بھائی اس شدید عذاب کی حالت میں مشرکوں کی طرف واپس لوٹا دیا جائے گا؟ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس وقت ابو جندل نے آنحضرت صلی یہ کم سے اپیل نہیں کی بلکہ عامۃ المسلمین سے اپیل کی جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی املی کام کے دل میں خواہ کتنا ہی درد ہو آپ کسی صورت میں معاہدہ کی کارروائی میں رخنہ نہیں پیدا ہونے دیں گے.مگر غالباً عامتہ المسلمین سے وہ یہ توقع رکھتا تھا کہ وہ شاید غیرت میں آکر اس وقت جبکہ ابھی معاہدہ کی شرطیں لکھی جارہی تھیں کوئی ایسا رستہ نکال لیں جس میں اس کی رہائی کی صورت پیدا ہو جائے مگر مسلمان خواہ کیسے ہی جوش میں تھے آنحضرت صلی اللہ وسلم کی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے تھے.آپ نے کچھ وقت خاموش رہ کر ابو جندل سے درد مند انہ الفاظ میں فرمایا.اے ابو جندل ! صبر سے کام لو اور خدا کی طرف نظر رکھو.خدا تمہارے لئے اور تمہارے ساتھ کے دوسرے کمزور مسلمانوں کے لیے ضرور خود کوئی رستہ کھول دے گالیکن ہم اس وقت مجبور ہیں کیونکہ اہل مکہ کے ساتھ معاہدہ کی بات ہو چکی ہے اور ہم اس معاہدہ کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے.مسلمان یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور مذہبی غیرت سے ان کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا مگر رسول اللہ صلی علیکم کے سامنے سہم کر خاموش تھے.آخر حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا.وہ آنحضرت صلی یکم کے قریب آئے اور کانپتی ہوئی آواز میں فرمایا: کیا آپ خدا کے برحق رسول نہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہاں ضرور

Page 61

محاب بدر جلد 3 41 حضرت عمر بن خطاب ہوں.عمر نے کہا: کیا ہم حق پر نہیں اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہاں ضرور ایسا ہی ہے.عمر نے کہا تو پھر ہم اپنے سچے دین کے معاملہ میں یہ ذلت کیوں برداشت کریں؟ آپ نے حضرت عمر کی حالت کو دیکھ کر مختصر الفاظ میں فرمایا دیکھو عمرہ میں خدا کا رسول ہوں اور میں خدا کے منشاء کو جانتا ہوں اور اس کے خلاف نہیں چل سکتا اور وہی میرا مددگار ہے “ یعنی اللہ تعالیٰ ہی میر امدد گار ہے.”مگر حضرت عمر کی طبیعت کا تلاطم لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جارہا تھا.کہنے لگے کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں میں نے ضرور کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف ضرور اسی سال ہو گا ؟ عمر نے کہا نہیں ایسا تو نہیں کہا.آپ نے فرمایا تو پھر انتظار کر و تم انشاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہو گے اور کعبہ کا طواف کرو گے.مگر اس جوش کے عالم میں حضرت عمرؓ کی تسلی نہیں ہوئی لیکن چونکہ آنحضرت صلی الم کا خاص رعب تھا اس لئے حضرت عمرؓ وہاں سے ہٹ کر حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور ان کے ساتھ بھی اسی قسم کی جوش کی باتیں کیں.حضرت ابو بکر نے بھی اسی قسم کے جواب دیئے مگر ساتھ ہی حضرت ابو بکڑ نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا.دیکھو عمر سنبھل کر رہو اور رسولِ خدا کی رکاب پر جو ہاتھ تم نے رکھا ہے اسے ڈھیلا نہ ہونے دو کیونکہ خدا کی قسم یہ شخص جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے بہر حال سچا ہے.حضرت عمر کہتے ہیں کہ اس وقت میں اپنے جوش میں یہ ساری باتیں کہہ تو گیا مگر بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی اور میں تو بہ کے رنگ میں اس کمزوری کے اثر کو دھونے کے لئے بہت سے نفلی اعمال بجالایا.یعنی صدقے کئے ، روزے رکھے، نفلی نمازیں پڑھیں اور غلام آزاد کئے تاکہ میری اس کمزوری کا داغ دھل جائے.“ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے جلسہ پر اپنی خلافت سے پہلے ایک تقریر کی تھی.جلسہ پر تقریر کیا کرتے تھے.اُس کا اِس تعلق میں ایک حصہ میں بیان کرتا ہوں.کہتے ہیں کہ ”اس میں کوئی شبہ نہیں کہ درد و کرب کی وہ چیخ جو سوال بن کر حضرت عمر کے دل سے نکلی دوسرے بہت سے سینوں میں بھی گھٹی ہوئی تھی.اگر چہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن جذبات کو عمرؓ نے زبان دی وہ صرف ایک عمر ہی کے جذبات نہیں بلکہ اوروں کے بھی تھے اور سینکڑوں سینوں میں اسی قسم کے خیالات ہیجان بپاکئے ہوئے تھے لیکن حضرت عمرؓ نے جو ان کے اظہار کی جرآت کی، یہ ایک ایسی چوک ہو گئی کہ بعد ازاں عمر بھر حضرت عمرؓ اس سے پشیمان رہے.بہت روزے رکھے.بہت عبادتیں کیں.بہت صدقات دیئے اور استغفار کرتے ہوئے سجدہ گاہوں کو تر کیا لیکن پشیمانی کی پیاس نہ بجھی.حدیبیہ کا اضطراب تو عارضی تھا جسے بہت جلد آسمان سے نازل ہونے والی رحمتوں نے طمانیت میں بدل دیا مگر وہ اضطراب جو اس بے صبری کے سوال نے عمر کے دل میں پیدا کیا وہ ایک دائمی اضطراب بن گیا جس نے کبھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑا.ہمیشہ حسرت سے یہی کہتے رہے کہ کاش میں نے آنحضور سے وہ سوال نہ کیا ہو تا.“ کہتے ہیں کہ بار ہا میں یہ سوچتا ہوں کہ بستر مرگ پر آخری سانسوں میں حضرت عمر جب لالي ولا على کاورد کر رہے 84<<

Page 62

اصحاب بدر جلد 3 42 حضرت عمر بن خطاب تھے کہ اے خدا! میں تجھ سے اپنی نیکیوں کا بدلہ نہیں مانگتا تو میری خطائیں معاف کر دے تو سب خطاؤں سے بڑھ کر اس ایک خطا کا تصور آپ کو بے چین کئے ہوئے ہو گا جو میدان حدیبیہ میں آپ سے سرزد ہوئی.صلح نامہ کی تحریر کے دوران صحابہ کی بے چینی اور دل شکستگی کا عالم دیکھ کر آنحضور کے دل کی کیفیت کا راز آپ کے آسمانی آقا اور بیحد محبت کرنیو الے رفیق اعلیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا لیکن ان تین سادہ سے جملوں میں جو عمرؓ کے جواب میں آپ کی زبان مبارک سے نکلے آپ نے غور کرنے والوں کے لئے بہت کچھ فرما دیا.85 صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس پر حضرت عمررؓ کے بھی دستخط تھے.اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ”اس معاہدہ کی دو نقلیں کی گئیں اور بطور گواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پر اپنے دستخط ثبت کئے.مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ، حضرت عثمان...عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور ابو عبیدہ تھے.معاہدہ کی تکمیل کے بعد شہیل بن عمر و معاہدہ کی ایک نقل لے کر مکہ کی طرف واپس لوٹ گیا اور دوسری نقل آنحضرت صلی ال نیم کے پاس رہی.66 صلح حدیبیہ سے واپسی کے بارے میں سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ ” قربانی وغیرہ سے فارغ ہو کر آنحضرت مصلی املی یکم نے مدینہ کی طرف واپسی کا حکم دیا.اس وقت آپ کو حدیبیہ میں آئے کچھ کم ہیں یوم ہو چکے تھے.جب آپ واپسی سفر میں عسفان کے قریب گراعُ الْغَمِيمِ میں پہنچے.عُسْفَان مکہ سے 103 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور کُرَاعُ الْغَمِيم ، عُسْفَان سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے.”اور یہ رات کا وقت تھا تو اعلان کرا کے صحابہ کو جمع کروایا آپ نے ” اور فرمایا کہ آج رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا کی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے اور وہ یہ ہے.“سورہ فتح کے بارے میں.” إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا وَ يَنْصُرَكَ اللهُ نَصْرًا عَزِيزًا (42) سورہ فتح کی یہ دو سے چار آیتیں لا 8666 ہیں.پھر اسی طرح چلتا ہے اور اٹھا ئیسویں آیت یہ ہے کہ "لَقَد صَدَقَ اللهُ رَسُولَهُ الدُّنْيَا بِالْحَقِّ لتدخُلنَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللهُ امِنِينَ مُحَلِقِينَ رُءُوسَكُمْ وَ مُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ “ (الفتح: 28) یعنی اے رسول! ہم نے تجھے ایک عظیم الشان فتح عطا کی ہے تاکہ ہم تیرے لئے ایک ایسے دور کا آغاز کرا دیں جس میں تیری انگلی اور پچھلی سب کمزوریوں پر مغفرت کا پردہ پڑ جائے اور تا خدا اپنی نعمت کو تجھ پر کامل کرے اور تیرے لئے کامیابی کے سیدھے رستے کھول دے اور ضرور خد اتعالیٰ تیری زبر دست نصرت فرمائے گا...حق یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسول کی اس خواب کو پورا کر دیا جو اس نے رسول کو دکھائی تھی.کیونکہ اب تم انشاء اللہ ضرور ضرور امن کی حالت میں مسجد حرام میں داخل ہو گے اور قربانیوں کو خدا کی راہ میں پیش کر کے اپنے سر کے بالوں کو منڈواؤ گے یا کترواؤ گے اور تم پر کوئی خوف نہیں ہو گا.ج

Page 63

اصحاب بدر جلد 3 43 حضرت عمر بن خطاب یعنی اگر تم اس سال مکہ میں داخل ہو جاتے تو یہ داخلہ امن کا نہ ہو تا بلکہ جنگ اور خون ریزی کا داخلہ ہوتا مگر خدا نے خواب میں امن کا داخلہ دکھایا تھا.اس لئے خدا نے اس سال معاہدہ کے نتیجہ میں امن کی صورت پیدا کر دی ہے اور اب عنقریب تم خدا کی دکھائی ہوئی خواب کے مطابق امن کی حالت میں مسجد حرام میں داخل ہو گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب آپ نے یہ آیات صحابہ کو سنائیں تو چونکہ بعض صحابہ کے دل میں ابھی تک صلح حدیبیہ کی تلخی باقی تھی وہ حیران ہوئے کہ ہم تو بظاہر ناکام ہو کر واپس جارہے ہیں اور خدا ہمیں فتح کی مبارک باد دے رہا ہے حتی کہ بعض جلد باز صحابہ نے اس قسم کے الفاظ بھی کہے کہ کیا یہ فتح ہے کہ ہم طواف بیت اللہ سے محروم ہو کر واپس جارہے ہیں ؟ آنحضرت صلی علیہ کم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے بہت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ایک مختصر سی تقریر میں جوش کے ساتھ فرمایا: یہ بہت بیہودہ اعتراض ہے کیونکہ غور کیا جائے تو واقعی ی کی صلح ہمارے لئے ایک بڑی بھاری فتح ہے.قریش جو ہمارے خلاف میدان جنگ میں اترے ہوئے تھے انہوں نے خود جنگ کو ترک کر کے امن کا معاہدہ کر لیا ہے اور آئندہ سال ہمارے لئے مکہ کے دروازے کھول دینے کا وعدہ کیا ہے اور ہم امن و سلامتی کے ساتھ اہل مکہ کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ ہو کر اور آئندہ فتوحات کی خوشبو پاتے ہوئے واپس جارہے ہیں.پس یقینا یہ ایک عظیم الشان فتح ہے.کیا تم لوگ ان نظاروں کو بھول گئے کہ یہی قریش احد اور احزاب کی جنگوں میں کس طرح تمہارے خلاف چڑھائیاں کر کر کے آئے تھے اور یہ زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہو گئی تھی اور تمہاری آنکھیں پتھر آگئی تھیں اور کلیجے منہ کو آتے تھے مگر آج یہی قریش تمہارے ساتھ امن وامان کا معاہدہ کر رہے ہیں.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم سمجھ گئے.ہم سمجھ گئے.جہاں تک آپ کی نظر پہنچی ہے وہاں تک حد ہماری نظر نہیں پہنچتی مگر اب ہم نے سمجھ لیا ہے کہ واقعی یہ معاہدہ ہمارے لئے ایک بھاری فتح ہے.آنحضرت صلی علیم کی اس تقریر سے پہلے حضرت عمرؓ بھی بڑے پیچ و تاب میں تھے.چنانچہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کی واپسی پر جب کہ آنحضرت صلی علی کی رات کے وقت سفر میں تھے تو اس وقت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آنحضرت صلی یی کم کو مخاطب کر کے کچھ عرض کرنا چاہا مگر آپ خاموش رہے.میں نے دوبارہ سہ بارہ عرض کیا مگر آپ بدستور خاموش رہے.مجھے آنحضرت کی اس خاموشی پر بہت غم ہوا اور میں اپنے نفس میں یہ کہتا ہوا کہ عمر تو تو ہلاک ہو گیا کہ تین دفعہ تو نے رسول اللہ کو مخاطب کیا مگر آپ نہیں بولے.چنانچہ میں مسلمانوں کی جمعیت میں سے سب سے آگے نکل آیا اور اس غم میں پیچ و تاب کھانے لگا کہ کیا بات ہے؟ اور مجھے ڈر پیدا ہوا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہو جائے.اتنے میں کسی شخص نے میر انام لے کر آواز دی کہ عمر بن خطاب کو رسول اللہ نے یاد فرمایا ہے.میں نے کہا کہ بس ہو نہ ہو میرے متعلق کوئی قرآنی آیت نازل ہوئی ہے.چنانچہ میں گھبرایا ہوا جلدی جلدی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کر کے آپ کے پہلو میں

Page 64

حاب بدر جلد 3 44 حضرت عمر بن خطاب آگیا.آپ نے فرمایا: مجھ پر اس وقت ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے.پھر آپ نے سورہ فتح کی آیات تلاوت فرمائیں.حضرت عمرؓ نے عرض کیا.یارسول اللہ ! کیا یہ صلح واقعی اسلام کی فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں یقیناً یہ ہماری فتح ہے.اس پر حضرت عمرہ تسلی پا کر خاموش ہو گئے.اس کے بعد آنحضرت صلی للہ مدینہ میں رم واپس تشریف لے آئے.87 حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول کریم صلی علیم نے مشرکین مکہ سے صلح کر لی جس کی وجہ سے صحابہ کے اندر اس قدر بے چینی پیدا ہو گئی کہ حضرت عمر جیسا آدمی رسول کریم صلی ال نیم کے پاس گیا اور انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ ہم طواف کعبہ کریں گے یا کیا اسلام کے لئے غلبہ مقدر نہیں تھا؟ رسول کریم صلی ا ہم نے فرمایا کیوں نہیں ! حضرت عمر نے کہا پھر ہم نے دب کر صلح کیوں کر لی ؟ رسول کریم صلی الم نے فرمایا بے شک خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم طواف کریں گے مگر یہ نہیں تھا کہ اسی سال کریں گے.8866 فتح مکہ...اور ابوسفیان کو امان کا ملنا صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جب بنو بکر نے جو قریش کے حلیف تھے مسلمانوں کے حلیف قبیلہ بنو خُزاعہ پر حملہ کیا اور قریش نے ہتھیاروں اور سواریوں سے بنو بکر کی مدد بھی کی اور صلح بیہ کی شرائط کا پاس نہ کیا تو اس وقت ابو سفیان مدینہ میں آیا اور صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید چاہی.وہ رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس گیا لیکن آپ نے اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا.پھر وہ ابو بکر کے پاس گیا ان سے بات کی کہ وہ رسول اللہ صلی علیم سے بات کریں لیکن انہوں نے بھی کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا.پھر ابو سفیان حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور ان سے بات کی.انہوں نے جواب دیا کہ کیا میں رسول اللہ کے پاس تیری سفارش کروں؟ خدا کی قسم! اگر میرے پاس ایک تنکا بھی ہو تب بھی میں اس کے ساتھ تم لوگوں سے جنگ کروں گا.89 فتح مکہ کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر علی محمد صلابی نے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلى عليم من الظهران پہنچے تو ابو سفیان کو اپنے بارے میں فکر ہونے لگی.رسول اللہ صلی علی کم کے چا حضرت عباس نے اسے مشورہ دیا کہ رسول اللہ صلی علیم سے امان طلب کر لو.حضرت عباس بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوسفیان سے کہا تیرا برا ہو.دیکھو رسول اللہ صلی علی کم لوگوں میں موجود ہیں.ابو سفیان کہنے لگا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ! اس سے بچنے کی کیا ترکیب ہے؟ میں نے کہا اللہ کی قسم ! اگر وہ تمہیں گرفتار کر لیں تو یقینا تمہیں قتل کر دیں گے.میرے پیچھے خچر پر سوار ہو جاؤ میں تمہیں رسول اللہ صلی الیکم کے پاس لے جاتا ہوں اور پھر تمہارے لیے آپ سے امان طلب کروں گا.حضرت عباس کہتے ہیں کہ وہ میرے پیچھے سوار ہو گیا.

Page 65

ب بدر جلد 3 45 حضرت عمر بن خطاب میں جب بھی مسلمانوں کی آگوں میں سے کسی آگ کے پاس سے گزر تا تو وہ پوچھتے یہ کون ہے ؟ رات کا وقت تھا، آگیں جلی ہوئی تھیں.جب وہ رسول اللہ صلی ال نیم کا خچر دیکھتے اور یہ کہ میں اس پر سوار ہوں تو وہ کہتے رسول اللہ صلی اللی کم کے چا آپ کے خچر پر ہیں.یہاں تک کہ جب میں عمر بن خطاب کی آگ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا یہ کون ہے ؟ اور وہ میرے پاس کھڑے ہوئے.جب انہوں نے ابوسفیان کو دیکھا تو کہا ابوسفیان، اللہ کا دشمن ! ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے بغیر کسی عہد و پیمان کے تجھ پر غلبہ عطا فرمایا ہے.پھر حضرت عباس کھینچتے ہوئے رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے یعنی ابوسفیان کو اور حضرت عمررؓ بھی آپ کے پاس داخل ہوئے اور حضرت عمرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے تاکہ میں اس کی گردن مار دوں.حضرت عباس کہتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اس کو پناہ دی ہے.جب حضرت عمر اپنی بات پر اصرار کرتے رہے تو میں نے کہا اے عمر ! ٹھہرو.اللہ کی قسم ! اگر اس کا تعلق بنو عدی سے ہو تا تو تم ایسانہ کہتے اور تم جانتے ہو کہ وہ بنو عبد مناف میں سے ہے.اس پر حضرت عمر کہنے لگے کہ اے عباس ! ٹھہر و.اللہ کی قسم ! جب تم نے اسلام قبول کیا تھا تو مجھے اتنی خوشی ہوئی تھی کہ اگر میرا باپ خطاب بھی ایمان لاتا تو اتنی خوشی نہ ہوتی اور میں جانتا تھا کہ رسول اللہ صلی یہ تم کو تمہارا ایمان لانا خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ محبوب تھا.اگر وہ اسلام قبول کرتا.اس کے بعد رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا: اے عباس ! ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور صبح لے کر آنا.90 بہر حال حضرت عمر کا اور حضرت عباس کا یہ مکالمہ ہوتا رہا اور آخر پھر آنحضرت صلی ا ہم نے حضرت عباس کو یہی کہا کہ اس کو لے جاؤ.پناہ میں دے دیا ہے تو لے جاؤ.کچھ نہیں کہنا اس کو.ابو بکر بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ شعبان سات ہجری میں رسول اللہ صلی ا لم نے حضرت عمر بن خطاب کو ایک سریہ میں تیس آدمیوں کے ساتھ توبہ میں قبیلہ ہوازن کی ایک شاخ کی طرف روانہ فرمایا.ترتبہ مکہ سے دو دن کی مسافت پر ایک وادی ہے جہاں بنو ہوازن آباد تھے.جب دو دن کی مسافت وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے.دو دن کے حوالے سے میری مراد یہ ہے کہ جب دنوں کے حوالے سے کہیں بھی حوالہ آئے ، بات ہو.تو یہ پرانے زمانے کی سواریاں گھوڑے یا اونٹ تھے ان کے حوالے سے ذکر ہوتا ہے.بریدہ اسلمی سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی المی کم اہل خیبر کے میدان میں اترے تو آپ نے جھنڈ ا حضرت عمر بن خطاب کو دیا.91 سب سے پہلی مر تبہ پر چم کالہرایا جانا اور جنگ خیبر کتب سیرت میں لکھا ہے کہ سب سے پہلی مرتبہ غزوہ خیبر میں پرچم کا ذکر ملتا ہے.اس سے قبل صرف جھنڈے ہوتے تھے.یہ ذکر ہو رہا تھا کہ بُریدہ اسلمی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللی کم اہل خیبر

Page 66

اصحاب بدر جلد 3 46 حضرت عمر بن خطاب کے میدان میں اترے تو آپ نے جھنڈا حضرت عمر بن خطاب کو دیا.آگے اس کی کتب سیرت میں سے وضاحت ہے کہ سب سے پہلی مرتبہ غزوہ خیبر میں پرچم کا ذکر ملتا ہے ، جھنڈے یعنی بڑے پرچم کا اس سے قبل صرف چھوٹے جھنڈے ہوتے تھے.نبی کریم صلی الہ وسلم کا پرچم سیاہ رنگ کا تھا جو ام المومنین حضرت عائشہ کی چادر سے بنایا گیا تھا.اس کا نام عقاب تھا اور آپ کا ایک جھنڈ اسفید رنگ کا تھا جو آپ نے حضرت علی کو عطا فرمایا.ایک جھنڈے کا پہلے ذکر ہوا ہے جو سیاہ رنگ کا تھا جو ام المومنین کی چادر سے بنایا گیا تھا.پھر دوسرے جھنڈے کا ذکر ہے جو سفید رنگ کا تھا یہ حضرت علی ہو آپ نے عطا فرمایا.ایک پرچم آپ نے حضرت حباب بن منذر کو اور ایک حضرت سعد بن عبادہ کو عطا فرمایا.نیز جب آنحضرت صلی علیکم خیبر میں تشریف فرما ہوئے تو آپ کو دردِ شقیقہ ہو گیا اور آپ باہر تشریف نہ لا سکے.اس موقع پر پہلے آپ نے حضرت ابو بکر کو اپنا پر چم عطافرمایا پھر وہی پر چم حضرت عمر کو عطا فرمایا.اس روز شدید لڑائی ہوئی تا ہم مسلمان قلعہ فتح نہ کر سکے تو آپ صلی علی کرم نے فرمایا: کل میں اس شخص کو جھنڈ ا دوں گا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا.چنانچہ اگلے روز وہ پر چم آنحضرت صلی ال یکم نے حضرت علی کو عطا فرمایا جن کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی.92 الله سة م الله سة ابن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے ابن شہاب زہری سے دریافت کیا کہ حضور نے خیبر کی کھجوروں کے باغات کس شرط پر یہودیوں کو عطا کیے تھے ؟ زہری نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللی یکم نے لڑائی کے بعد خیبر پر فتح حاصل کی تھی اور خیبر مال فے میں سے تھا جو اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی علیم کو عطا فرمایا.اس کا پانچواں حصہ رسول اللہ صلی علیکم کے لیے تھا اور اسے آپ نے مسلمانوں میں تقسیم فرمایا اور یہود میں سے جو لوگ لڑائی کے بعد جلا وطنی پر آمادہ ہوتے ہوئے اپنے قلعوں سے نیچے اترے تو رسول اللہ صلی المی یوم نے ان کو بلایا اور بلا کر فرمایا کہ اگر تم چاہو تو یہ اموال تمہارے سپر د کیے جاسکتے ہیں اس شرط پر کہ تم ان میں کام کرو اور اس کا پھل ہمارے اور تمہارے درمیان تقسیم ہو گا.اس جائیداد کا بٹائی پر کام ہو جائے گا اگر تم چاہو تو یہاں رہنا.اور میں تم لوگوں کو ٹھہراؤں گا جہاں اللہ تم لوگوں کو ٹھہرائے گا تو یہود نے قبول کر لیا.یہود ان میں کام کرتے رہے.رسول اللہ صلی اللی کم حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو بھیجا کرتے تھے کہ وہ ان باغات کے پھل تقسیم کرتے اور یہود کے لیے پھلوں کا اندازہ کرنے میں عدل سے کام لیا کرتے تھے.یہ نہیں کہ اچھا والا پھل اپنے لیے رکھ لیا بلکہ انصاف سے تقسیم ہوتی تھی.پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو وفات دے دی تو حضرت ابو بکر نے بھی رسول اللہ صلی علیکم کے بعد اسی طرح یہود سے معاملہ رکھا جس طرح رسول اللہ صل اللی کم کیا کرتے تھے.حضرت عمرؓ نے بھی اپنی خلافت کے ابتدا میں یہی معاملہ رکھا پھر حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے جس بیماری میں آپ کی وفات ہوئی تھی اس میں فرمایا تھا کہ جزیرہ عرب میں دو دین اکٹھے نہ رہیں گے.حضرت عمرؓ نے اس کی تحقیق کی اور جب یہ بات ثابت ہو گئی.تب انہوں نے خیبر کے یہود کو لکھا کہ اللہ عزوجل نے تمہاری جلا وطنی کے بارے میں حکم

Page 67

حاب بدر جلد 3 47 حضرت عمر بن خطاب دیا ہے.مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا تھا کہ جزیرہ عرب میں دو دین اکٹھے نہ رہیں گے.پس یہود میں سے جس کے پاس رسول اللہ صلی علیہم کا کو ئی عہد ہے تو وہ اسے لے کر میرے پاس آئے تا کہ میں اس کے لیے اسے نافذ کر دوں اور جس کے پاس رسول اللہ صلی علی کمر کا کوئی عہد نہیں وہ جلا وطنی کے لیے تیاری کرلے.اگر کسی نے کوئی عہد لیا ہوا ہے اور آنحضرت صلیالی یکم نے رہنے کا کوئی وعدہ کیا تھا تو ٹھیک ہے اس کو میں پورا کروں گا لیکن اگر کوئی نہیں تو پھر تمہیں یہ جگہ چھوڑنی ہو گی.چنانچہ حضرت عمرؓ نے انہیں جلاوطن کر دیا جن کے پاس رسول اللہ صلی الی یکم کا کوئی عہد نہ تھا.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت مقداد بن اسود خیبر میں اپنامال دیکھنے گئے اور وہاں پہنچ کر ہم الگ الگ اپنے اموال کے پاس گئے.رات کے وقت مجھ پر حملہ کیا گیا جبکہ میں اپنے بستر میں سو رہا تھا.میرے بازوؤں کے جوڑ کہنیوں سے اتر گئے.جب صبح ہوئی تو میرے دونوں ساتھی چیختے ہوئے میرے پاس آئے اور دونوں نے پوچھا تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا ہے ؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا.وہ کہتے ہیں ان دونوں نے میرے بازو درست کیسے پھر مجھے لے کر حضرت عمرؓ کے پاس آئے.حضرت عمرؓ نے کہا یہ یہودیوں کا فعل ہے.پھر وہ یعنی حضرت عمر لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو ! رسول اللہ صلی علی کریم نے خیبر کے یہودیوں سے اس شرط پر معاملہ کیا تھا کہ جب ہم چاہیں گے ان کو نکال دیں گے.اب یہود نے حضرت عبد اللہ بن عمرہ پر حملہ کیا اور اس کے بازوؤں کے جوڑ نکال دیے جیسا کہ تم تک یہ بات پہنچ چکی ہے.اس سے پہلے انصاری پر بھی ان لوگوں نے حملہ کیا تھا.ہم کو اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ وہ ان کے ہی ساتھی ہیں.وہاں ان کے سوا ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے.پس جس کا خیبر میں کوئی مال ہے تو وہ اسے سنبھال لے کیونکہ میں یہود کو نکالنے والا ہوں اور آپ نے انہیں نکال دیا.عبد اللہ بن مَكْنَف بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے یہود کو خیبر سے نکالا تو خود انصار اور مہاجرین کے ساتھ سوار ہوئے اور حضرت جبار بن صخر اور حضرت یزید بن ثابت بھی ان کے ساتھ نکلے.حضرت جبار اہل مدینہ کے لیے پھلوں کا اندازہ لگانے والے اور ان کے محاسب تھے.ان دونوں نے خیبر کو اس کے اہل کے درمیان اسی تقسیم کے موافق تقسیم کیا جو پہلے سے تھی.حضرت حاطب کا ایک خط 93 حضرت حاطب کے حوالے سے ایک عورت کو خط دے کر مکہ روانہ کرنے کا یہ واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے جب خط دے کر خفیہ طور پر مکہ کے مشرکوں کو آنحضرت صلی الم کے بعض ارادے کے بارے میں خبر بھیجی اور آنحضرت صلی یہ تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع ہوئی اور حضرت علی کو آپ نے بھیجا اور وہ عورت راستے میں پکڑی گئی.اس کے بعد جب حاطب سے آنحضرت صلی علیم نے پوچھا تو انہوں نے اپنا عذر پیش کیا اور اپنے ایمان کے بارے میں بتایا کہ ایمان میں میرے کوئی لغزش نہیں ہے

Page 68

اصحاب بدر جلد 3 48 حضرت عمر بن خطاب بلکہ میرا کامل ایمان ہے.حضرت حاطب نے اس کی یقین دہانی کرائی تو آنحضرت صلی اللہ کریم نے اسے تسلیم فرمایا لیکن حضرت عمرؓ نے کہا یار سول اللہ ! مجھے اس منافق کی گردن اڑانے دیجیے.آپ نے فرمایا دیکھو وہ غزوہ بدر میں شریک ہوا ہے اور تمہیں کیا علم کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جھانک کر دیکھا جو بدر میں شریک ہوئے اور فرمایا جو چاہو کرو میں نے تمہارے گناہوں سے پردہ پوشی کر کے تم سے در گزر کر دیا ہے.94 کر تم دیا ایک اور واقعہ ہے جس کا حضرت عمرؓ سے براہ راست تو تعلق نہیں ہے لیکن ضمناً حضرت عمر کا ذکر آتا ہے اس لیے بیان کرتا ہوں.حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں کہ جب حسنین کا واقعہ ہوا تو میں نے مسلمانوں میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مشرک شخص سے لڑ رہا ہے اور ایک اور مشرک ہے جو دھوکا دے کر چپکے سے اس کے پیچھے سے اس پر حملہ کرنا چاہتا ہے کہ اس کو مار ڈالے.یہ دیکھ کر میں اس شخص کی طرف جلدی سے اپ کا جو ایک مسلمان پر اس طرح دھو کے سے جھپٹنا چاہتا تھا.اس نے مجھے مارنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے اس کو کاٹ ڈالا.اس کے بعد اس نے مجھے پکڑ لیا اور اس زور سے مجھے بھینچا کہ میں بے بس ہو گیا.پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا وہ ڈھیلا پڑ گیا اور میں نے اس کو دھکا دیا اور اس کو مار ڈالا.ادھر یہ حال ہوا کہ مسلمان شکست کھا کر بھاگ گئے.میں بھی ان کے ساتھ بھاگ گیا.پھر میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عمر بن خطاب لوگوں کے ساتھ ہیں.میں نے ان سے کہا لوگوں کو کیا ہوا کہ بھاگ کھڑے ہوئے ؟ انہوں نے ، حضرت عمرؓ نے کہا کہ اللہ کا منشا.پھر لوگ لوٹ کر رسول اللہ صل اللی کم کے پاس آگئے.رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مقتول کے متعلق یہ ثبوت پیش کر دے کہ اس نے اس کو قتل کیا ہے تو اس مقتول کا سامان اس کے قاتل کا ہو گا.میں اٹھا کہ اپنے مقتول کے متعلق کوئی شہادت ڈھونڈوں مگر کسی کو نہ دیکھا جو میری شہادت دیتا اور میں بیٹھ گیا.پھر مجھے خیال آیا اور میں نے اس مقتول کا واقعہ رسول اللہ صلی المیہ کم سے ذکر کیا.آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا اس مقتول کے ہتھیار جس کا یہ ذکر کرتے ہیں میرے پاس ہیں.آپ ان ہتھیاروں کی بجائے ان کو کچھ دے دلا کر راضی کر دیں.حضرت ابو بکر نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ آپ مالی یہ کلم قریش کے ایک معمولی سے شخص کو تو سامان دلا دیں اور اللہ کے شیر وں میں سے ایک شیر کو چھوڑ دیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی ا کرم کی طرف سے لڑ رہا ہو.حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی یم کھڑے ہوئے اور آپ نے مجھے وہ سامان دلا دیا.میں نے اس سے کھجوروں کا ایک چھوٹا سا باغ خرید لیا اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں بطور جائیداد پیدا کیا.5 95 حضرت عمر کی اعتکاف کی نذر حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ جب ہم حسنین سے لوٹے تو حضرت عمرؓ نے نبی کریم صلی علیم سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو انہوں نے جاہلیت میں مانی ہوئی تھی یعنی اعتکاف بیٹھنے کی.

Page 69

اصحاب بدر جلد 3 49 حضرت عمر بن خطاب نبی کریم صلی علیم نے وہ نذر پوری کرنے کا ارشاد فرمایا.96 کہ چاہے وہ جاہلیت کے زمانے کی تھی اسے پورا کرو.ساتھ یہ شرط بھی ہے کہ اسلامی تعلیم کے اندر رہتے ہوئے جو بھی شرط ہو سکتی ہے اسے پورا کرناضروری ہے.غزوہ تبوک میں حضرت عمر فا کیا کر دار تھا.اس کے بارے میں کیا ذ کر ملتا ہے.غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی الی نام کی طرف سے چندے کی ایک خاص تحریک ہوئی تو اس کے متعلق حضرت عمرؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللی کلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم صدقہ کریں.اس وقت میرے پاس مال تھا.میں نے کہا اگر میں کسی دن حضرت ابو بکر سے سبقت لے جاسکا تو آج لے جاؤں گا تو میں اپنا نصف مال لایا.پھر رسول اللہ صلی الی رام نے فرمایا اپنے اہل کے لیے کیا باقی چھوڑ آئے ہو ؟ میں نے کہا جتنالے کے آیا ہوں اتنا ہی چھوڑ کے آیا ہوں.اور حضرت ابو بکر سب کچھ جو اُن کے پاس تھالے آئے.میں تو نصف لے آیا اور حضرت ابو بکر جو کچھ تھالے آئے.رسول اللہ صلی علیم نے ان سے بھی پوچھا.اپنے اہل کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ تو انہوں نے کہا میں ان کے لیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں.حضرت عمر کہتے ہیں میں نے سوچا کہ میں آپ سے کسی چیز میں کبھی سبقت نہیں لے جاسکوں گا.97 اس واقعہ کو حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ : ایک جہاد کے موقع کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں.مجھے خیال آیا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ مجھ سے بڑھ جاتے ہیں.آج میں ان سے بڑھوں گا.یہ خیال کر کے میں گھر گیا اور اپنے مال میں سے آدھا مال نکال کر رسول کریم صلی للی کم کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے لے آیا.وہ زمانہ اسلام کے لئے انتہائی مصیبت کا دور تھا لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے اور رسول کریم صلی الم کی خدمت میں پیش کر دیا.رسول کریم صلی علی یکم نے پوچھا.ابو بکر گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا.اللہ اور اس کا رسول.حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.یہ سن کر مجھے سخت شرمندگی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ آج میں نے سارا زور لگا کر ابو بکڑ سے بڑھنا چاہا تھا مگر آج بھی مجھ سے ابو بکر بڑھ گئے.98 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” ایک وہ زمانہ تھا کہ الہی دین پر لوگ اپنی جانوں کو بھیڑ بکری کی طرح شار کرتے تھے مالوں کا تو کیا ذ کر.حضرت ابو بکر صدیق نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنا گل گھر بار شار کیا." حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا واقعہ نہیں ہے ایک سے زیادہ دفعہ ”حتی کہ سوئی تک کو بھی اپنے گھر میں نہ رکھا اور ایسا ہی حضرت عمرؓ نے اپنی بساط و انشراح کے موافق اور عثمان نے اپنی طاقت و حیثیت کے موافق عَلى هَذَا الْقِيَاسِ عَلَى قَدْرِ مَرَاتِب تمام صحابہ اپنی جانوں اور مالوں سمیت اس دین الہی پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.“ پھر آگے اس وقت

Page 70

تاب بدر جلد 3 50 حضرت عمر بن خطاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت کے بارے میں بات فرماتے ہیں کہ ”ایک وہ ہیں کہ بیعت تو کر جاتے ہیں اور اقرار بھی کر جاتے ہیں کہ ہم دنیا پر دین کو مقدم کریں گے مگر مدد و امداد کے موقعہ پر اپنی جیبوں کو دبا کر پکڑ رکھتے ہیں.بھلا ایسی محبت دنیا سے کوئی دینی مقصد پاسکتا ہے ؟ اور کیا ایسے لوگوں کا وجود کچھ بھی نفع رساں ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ہر گز نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : 93) جب تک تم اپنی عزیز ترین اشیاء اللہ جل شانہ کی راہ میں خرچ نہ کرو تب تک تم نیکی کو نہیں پاسکتے.9966 نبی صلی کم کی بیماری میں وصیت کا اظہار اور صحابہ کا رد عمل الله 100 آنحضرت صلی اللہ یکم کا جب وصال ہوا، آپ کی وفات ہوئی تو اس وقت حضرت عمر کا کیا رد عمل تھا؟ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم کی وفات کا وقت قریب آیا اور گھر میں کچھ مر دیکھے جن میں حضرت عمر بن خطاب بھی تھے.نبی صلی ہیم نے فرمایا.آؤ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے.آنحضرت صلی الی یکم کی بیماری کے آخری دنوں کی بات ہے.اس پر حضرت عمرؓ نے لوگوں سے کہا جو ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی الی یکم سخت بیمار ہیں اور تمہارے پاس قرآن بھی ہے.تمہارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے.گھر میں موجود لوگوں نے اختلاف کیا اور تکرار کی.بحث شروع ہو گئی.اس پر ان میں سے بعض کہتے تھے کہ کاغذ قلم قریب لے آؤ کہ رسول اللہ صلی ال کی تمہیں ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے اور ان میں سے بعض وہ بات کہہ رہے تھے جو حضرت عمرؓ نے کہی کہ آنحضرت صلی لی ملک کو تکلیف نہ دو.پھر جب انہوں نے رسول اللہ صلی لنی کیم کے پاس بہت باتیں کیں یعنی بحث شروع ہو گئی اور اختلاف کیا تو رسول اللہ صل اللی کرم نے فرمایا کہ چلے جاؤ یہاں سے.یہ مسلم کی روایت ہے.اس کی کچھ تفصیل بخاری میں بھی ہے.وہاں عبید اللہ بن عبد اللہ سے مروی ہے.انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے.وہ کہتے تھے کہ جب نبی صلی علی کمر پر آپ کی بیماری نے سخت حملہ کیا تو آپ صلی علیہم نے فرمایا میرے پاس کوئی لکھنے کا سامان لاؤ تا میں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ جس کے بعد تم بھولو نہیں.حضرت عمرؓ نے ارد گر دلوگوں کو کہا نبی صلی کم پر اس وقت بیماری نے غلبہ کیا ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے یعنی قرآن کریم ہے جو ہمارے لیے کافی ہے.اس لیے آنحضرت صلی ایم کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں.اس پر انہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور شور بہت ہو گیا.آپ کی ٹیم نے فرمایا اٹھو میرے پاس سے چلے جاؤ.میرے پاس جھگڑ نا نہیں چاہیے.اس پر حضرت ابن عباس باہر چلے گئے.وہ کہا کرتے تھے کہ بڑا نقصان سارے کا سارا یہی ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم کو لکھنے سے روک دیا.اس کی تشریح میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے جو لکھا ہے.اس کا کچھ حصہ 101 الله سة

Page 71

اصحاب بدر جلد 3 51 ،، حضرت عمر بن خطاب بیان کرتا ہوں کہ "لا تَضِلُّوا بَعْدَهُ “ یہ الفاظ جو حدیث میں ہیں.یہ امر واضح کر دیا ہے کہ آخری وقت میں بھی آنحضرت صلی الی یم کو اس بات کی فکر رہی.لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ.کہ کہیں تم بھول نہ جاؤ.تحریر لکھ دوں.ضلال کے معنی بھولنا بھی ہوتے ہیں ”بھول کر راہ سے بے راہ ہو جانا“ بھی ہیں.” غَلَبَهُ الوجع یعنی آپ کو بیماری نے نڈھال کر دیا ہے کہیں تکلیف بڑھ نہ جائے.عمرؓ نے جو بات کی تھی یہ اس کے الفاظ ہیں.شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”آپ کے فوت ہو جانے کا تو وہم بھی حضرت عمرؓ کو نہیں تھا.عندَنَا كِتَابُ اللهِ حَسْبُنَا - حضرت عمرؓ نے جب یہ کہا تھا تو ” یہ اس لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ما فَرَّطْنَا فِي الكتب مِنْ شَى (انعام: 39) یہ سورت انعام میں ہے اور پھر ” تِنْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (انحل: 90) یعنی یہ کتاب ہر بات کو واضح کر کے بیان کرتی ہے.ہم نے اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی.“ پھر لکھتے ہیں کہ لَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَارُعُ یعنی بعض لوگ جن کے جذبات حضرت عمر کی طرح رقیق تھے انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں تکلیف نہیں دینی چاہئے اور بعض نے کہا کہ حکم کی تعمیل کرنی چاہئے “آنحضرت علی الیم نے جو فرمایا تو لے آؤ قلم دوات.”مگر آنحضرت صلی لی ہم نے ان کو چلے جانے کا حکم دیا جب آپس میں بحث شروع ہو گئی اور فرمایا کہ میرے پاس شور نہ کرو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کتاب اللہ کی قلم، دوات عزت کا اس حالت بیقراری میں بھی اس قدر پاس تھا کہ حضرت عمرؓ کی بات سننے کے بعد کاغذ ، منگوانے کا ارادہ نہیں فرمایا جیسا کہ بخاری کی دوسری روایتوں سے معلوم ہو گا کہ آپ اس واقعہ کے بعد بھی چند روز زندہ رہے اور اس دن کچھ اور وصیتیں بھی کی ہیں مگر اس خیال کا اعادہ نہیں فرمایا “ یعنی اس بات کو دوبارہ نہیں فرمایا ” ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن احکام کے لکھوانے کی ضرورت سمجھی تھی وہ کتاب اللہ میں موجود تھے.گویا کہ قرآن مجید سے چمٹے رہنے کی تاکید فرمانا چاہتے تھے اور آپ نے حضرت عمر کی تائید کی اور خاموش ہو رہے.یہ وہ ادب ہے جس کی پر و نام نہاد علماء کو نہیں ہوتی.آنحضرت صلی علیکم کا قرآن کریم کا یہ ادب تھا جس کی پروا نام نہاد علماء کو نہیں ہوتی.شاہ صاحب آگے لکھتے ہیں.”ایک رائے کا جو اظہار کر بیٹھیں تو پھر وہ اسے وحی الہی کی طرح سمجھتے ہیں.“ پھر لکھتے ہیں کہ ” ہمیں اس پاکیزہ نمونہ کو کبھی بھولنا نہیں چاہئے“ جو آنحضر لی ایم کا پاکیز نمونہ تھا.”کتاب اللہ کے سامنے سب دوسری باتیں کالعدم ہیں.1024 نبی صلی السلم کی وفات اور حضرت عمر کا جوش دیوانگی عروہ بن زبیر نے نبی صلی املی کام کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی ال تیم فوت ہو گئے اور حضرت ابو بکر اس وقت سُنح میں تھے.سُنح بھی مدینہ سے دو میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے.اسماعیل نے کہا یعنی مضافات میں تھے.جب وفات کی خبر سنی تو حضرت عمر کھڑے ہوئے.حضرت ابو بکر تو باہر مضافات میں گئے ہوئے تھے لیکن جب وفات کی خبر ہوئی تو یہ خبر سن کر حضرت عمرؓ کھڑے

Page 72

اصحاب بدر جلد 3 52 52 حضرت عمر بن خطاب ہوئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی ا یک فوت نہیں ہوئے.حضرت عائشہ کہتی تھیں.حضرت عمر کہا کرتے تھے بخدا! میرے دل میں یہی بات آئی تھی.اور انہوں نے کہا یعنی حضرت عمرؓ نے کہا کہ اللہ آپ کو ضرور ضرور اٹھائے گا تا بعض آدمیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے.اتنے میں حضرت ابو بکر آ گئے.حضرت عمر یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ آنحضرت صلا لنی کیم کی وفات ہوئی ہے.انہوں نے کہا تھا کہ دوبارہ زندہ ہو جائیں گے.اتنے میں حضرت ابو بکر آگئے.انہوں نے رسول اللہ صلی علیم کے چہرہ سے کپڑا ہٹایا.آپ کو بوسہ دیا.کہنے لگے میرے ماں باپ آپ پر قربان.آپ صلی الی یک زندگی میں بھی اور موت کے وقت بھی پاک وصاف ہیں.اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ آپ کو کبھی دو موتیں نہیں چکھائے گا.یہ کہہ کر حضرت ابو بکر باہر چلے گئے یعنی لوگوں کے پاس گئے اور کہنے لگے.اے قسم کھانے والے ٹھہر جا.یعنی حضرت عمر کو مخاطب کیا اور فرمایا قسم کھانے والے ٹھہر جا.جب حضرت ابو بکر بولنے لگے تو حضرت عمررؓ بیٹھ گئے.حضرت ابو بکر نے حمد و ثنابیان کی اور کہا کہ اَلا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَى يَمُوتُ حي لا يموت.کہ دیکھو جو محم علی ایم کو پوجتا تھا سن لے کہ محم ملی تم تو یقینا فوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کو پوجتا تھا تو اسے یادر ہے کہ اللہ زندہ ہے بھی نہیں مرے گا اور حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھی.اِنَّكَ ميتُ وَإِنَّهُمْ مَّيِّتُونَ ( از مر:31) کہ تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں.پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی.وَمَا مُحَمَّدُ اِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَ اللهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّرِينَ (آل عمران:145) کہ محمد صرف اللہ کے رسول ہیں.آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں تو پھر کیا اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو ہر گز نقصان نہ پہنچا سکے گا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا.سلیمان کہتے تھے یہ سن کر لوگ اتنے روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں.103 ج حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ایسا معلوم ہوا کہ گویا لوگ اس وقت تک کہ حضرت ابو بکر نے وہ آیت پڑھی جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل کی تھی.گویا تمام لوگوں نے ان سے یہ آیت سیکھی.پھر لوگوں میں سے جس آدمی کو بھی میں نے سنا یہی آیت پڑھ رہا تھا.زہری کہتے تھے سعید بن مسیب نے مجھے بتایا کہ حضرت عمرؓ نے کہا اللہ کی قسم ! جو نہی کہ میں نے ابو بکر کو یہ آیت پڑھتے سنائیں اس قدر گھبرایا کہ دہشت کے مارے میرے پاؤں مجھے سنبھال نہ سکے اور میں زمین پر گر گیا.جب میں نے حضرت ابو بکر کو یہ آیت پڑھتے سنا تو میں نے جان لیا کہ نبی صلی العلم فوت ہو گئے 104 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں.عربی کے الفاظ بھی حدیث میں آپ نے

Page 73

اصحاب بدر جلد 3 53 حضرت عمر بن خطاب quote فرمائے ہیں تو اس کے بجائے میں ترجمہ پڑھ دیتا ہوں.الفاظ تو جب چھپے گا اس میں آجائیں گے.آپ فرماتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو اصح الکتب کہلاتی ہے مندرجہ ذیل عبارت ہے.عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَرَجَ وَعُمَرُ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ اجْلِسْ يَا عُمَرُ فَأَبِي عُمَرُ أَنْ يَجْلِسَ فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ وَتَرَكُوا عُمَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَمَّا بَعْدُ مَنْ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَى لَا يَمُوتُ قَالَ اللهُ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى الشَّرِينَ وَقَالَ وَاللهِ كَانَ النَّاسَ لَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ انْزَلَ هَذِهِ الآيَةَ حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ فَتَلَقَاهَا مِنْهُ النَّاسُ كُلُّهُمْ فَمَا اسْمَعُ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ إِلَّا يَتْلُوهَا أَنَّ عُمَرًا قَالَ وَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ آبَا بَكْرِ تَلَاهَا فَعَقِرْتُ حَتَّى مَا يُقِلُّى رِجْلَايَ وَحَتَّى أَهْوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ حَتَّى سَمِعْتُهُ تَلَاهَا أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَمَاتَ.یعنی.ابن عباس سے روایت ہے کہ ابو بکر نکلا ( یعنی بروز وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) اور عمر لوگوں سے کچھ باتیں کر رہا تھا ( یعنی کہہ رہا تھا کہ آنحضرت صلی ال تیم فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں) پس ابو بکر نے کہا اے عمر ! بیٹھ جا.مگر عمرؓ نے بیٹھنے سے انکار کیا.پس لوگ ابو بکر کی طرف متوجہ ہو گئے اور عمر کو چھوڑ دیا.پس ابو بکڑ نے کہا کہ بعد حمد وصلوٰۃ واضح ہو کہ جو شخص تم میں سے محمد صل الم کی پرستش کرتا ہے اس کو معلوم ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) فوت ہو گئے اور جو شخص تم میں سے خدا کی پرستش کرتا ہے تو خدا زندہ ہے جو نہیں مرے گا اور آنحضرت صلی الم کی موت پر دلیل یہ ہے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ محمد صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے گزر چکے ہیں یعنی مرچکے ہیں اور حضرت ابو بکر نے الشکرین تک یہ آیت پڑھ کر سنائی.پھر آپ لکھتے ہیں کہ مہا راوی نے پس بخدا گو یا لوگ اس سے بے خبر تھے کہ یہ آیت بھی خدا نے نازل کی ہے اور ابو بکڑ کے پڑھنے سے ان کو پتہ لگا.پس اس آیت کو تمام صحابہ نے ابو بکر سے سیکھ لیا اور کوئی بھی صحابی یا غیر صحابی باقی نہ رہا جو اس آیت کو پڑھتانہ تھا اور عمرؓ نے کہا کہ بخدا میں نے یہ آیت ابو بکر سے ہی سنی جب اس نے پڑھی.پس میں اس کے سننے سے ایسا بے حواس اور زخمی ہو گیا ہوں کہ میرے پیر مجھے اٹھا نہیں سکتے اور میں اس وقت سے زمین پر گرا جاتا ہوں جب سے کہ میں نے یہ آیت پڑھتے سنا اور یہ کلمہ کہتے سنا کہ آنحضرت صلی الم فوت ہو گئے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”اور اس جگہ قسطلاني شرح بخاری کی یہ عبارت ہے.وَ عُمر بن الخطاب يُكَلِّمُ النَّاسَ يَقُوْلُ لَهُمْ مَا مَاتَ رَسُوْلُ اللهِ وَلَا يَمُوتُ حَتَّى يَقْتُلَ الْمُنَافِقِينَ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ کی قوت نہیں ہوئے اور جب تک منافقوں کو قتل نہ کر لیں فوت نہیں ہوں گے.پھر آپ فرماتے ہیں ” اور مَلِلٌ وَنَحل شہرستانی میں اس قصہ کے متعلق یہ عبارت ہے.قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَابِ مَنْ قَالَ أَنَّ مُحَمَّدًا مَاتَ فَقَتَلْتُهُ بِسَيْفِي هَذَا ، وَالْمَا رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ كَمَارُفِعَ عِيسَى

Page 74

حاب بدر جلد 3 54 حضرت عمر بن خطاب ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامَ وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَافَةَ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَهَ مُحَمَّدٍ فَإِنَّهُ حَى لَا يَمُوتُ وَقَرَءَ هَذِهِ الْآيَةَ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَابِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (آل عمران:145) فَرَجَعَ الْقَوْمُ إِلَى قَوْلِهِ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ عمر خطاب کہتے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی ال تیم فوت ہو گئے تو میں اپنی اسی تلوار سے اس کو قتل کر دوں گا بلکہ وہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں جیسا کہ عیسی بن مریم اٹھائے گئے اور ابو بکر نے کہا کہ جو شخص محمد ملا لی کم کی عبادت کرتا ہے تو وہ تو ضرور فوت ہو گئے ہیں اور جو شخص محمد صلی ال نیم کے خدا کی عبادت کرتا ہے تو وہ زندہ ہے.نہیں مرے گا یعنی ایک خدا ہی میں یہ صفت ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ ہے اور باقی تمام نوع انسان و حیوان پہلے اس سے مر جاتے ہیں کہ ان کی نسبت خلود کا گمان ہو.“ ہمیشہ رہنے کا گمان بھی ہو.وہ اس سے پہلے ہی مر جاتے ہیں.” اور پھر حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھی جس کا یہ ترجمہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رسول ہیں اور سب رسول دنیا سے گذر گئے.کیا اگر وہ فوت ہو گئے یا قتل کئے گئے تو تم مرتد ہو جاؤ گے.تب لوگوں نے اس آیت کو سن کر اپنے خیالات سے رجوع کر لیا.اب سوچو کہ حضرت ابو بکر کا اگر قرآن سے یہ استدلال نہیں تھا کہ تمام نبی فوت ہو چکے ہیں اور نیز اگر یہ استدلال صریح اور قطعِيَّةُ الدَّلالت نہیں تھا تو وہ صحابہ جو بقول آپ کے ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھے.یعنی وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دلیل دے رہے ہیں اور بتانے والے کو بتا رہے ہیں کہ صحابہ جو بقول آپ کے ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھے، ” محض ظنی اور شکی امر پر کیونکر قائل ہوگئے اور کیوں یہ حجت پیش نہ کی کہ یا حضرت! یہ آپ کی دلیل نا تمام ہے اور کوئی نص قطعیہ الدلالت ".آپ کے ہاتھ میں نہیں.کیا آپ اب تک اس سے بے خبر ہیں کہ قرآن ہی آیت رَافِعُكَ الی میں حضرت مسیح کا بچشمِهِ الْعُنْصُرِی آسمان پر جانا بیان فرماتا ہے.کیا بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ بھی آپ نے نہیں سنا.پھر آنحضرت صلی اللی کم کا آسمان پر جانا آپ کے نزدیک کیوں مُسْتَعْبَدُ ہے بلکہ صحابہ نے جو مذاق قرآن سے واقف تھے آیت کو سن کر اور لفظ خَلَتْ کی تشریح فقرہ آفَابِنُ مَاتَ أَوْ قُتِلَ میں پاکر فی الفور اپنے پہلے خیال کو چھوڑ دیا.ہاں ان کے دل آنحضرت کی موت کی وجہ سے سخت غمناک اور چور ہو گئے اور ان کی جان گھٹ گئی اور حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس آیت کے سننے کے بعد میری یہ حالت ہو گئی ہے کہ میرے جسم کو میرے پیر اٹھا نہیں سکتے اور میں زمین پر گرا جاتا ہوں.سبحان اللہ کیسے سعید اور وَقَافُ عِنْدَ القُرآن تھے کہ جب آیت میں غور کر کے سمجھ آگیا کہ تمام گذشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تب بجز اس کے کہ رونا شروع کر دیا اور غم سے بھر گئے اور کچھ نہ کہا.“ پھر ایک اور موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ جو شخص حضرت سید نا محمد مصطفی صلی اللی کام کی نسبت یہ کلمہ منہ پر لائے گا کہ وہ مر گئے ہیں تو میں اس کو اپنی اسی تلوار سے قتل کر دوں گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کو اپنے کسی خیال کی وجہ سے 105❝

Page 75

باب بدر جلد 3 55 حضرت عمر بن خطاب آنحضرت صل لم کی زندگی پر بہت غلو ہو گیا تھا اور وہ اس کلمہ کو جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) مر گئے، کلمہ کفر اور ارتداد سمجھتے تھے.خدا تعالیٰ ہزار ہا نیک اجر حضرت ابو بکر کو بخشے کہ جلد تر انہوں نے اس فتنہ کو فرو کر دیا اور نص صریح کو پیش کر کے بتلادیا کہ گذشتہ تمام نبی مرگئے ہیں.اور جیسا کہ انہوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی وغیرہ کو قتل کیا.در حقیقت اس تصریح سے بھی بہت سے فیج اعوج کے کذابوں کو تمام صحابہ کے اجتماع سے قتل کر دیا.“ یعنی جس طرح وہ جھوٹا قتل کیا اسی طرح یہ جو ایک نظر یہ تھا اس کا بھی خاتمہ کر دیا.گو یا چار کذاب نہیں بلکہ پانچ کذاب مارے.“ پھر آپ فرماتے ہیں کہ یا الہی ان کی جان پر کروڑ ہار حمتیں نازل کر.آمین.اگر اس جگہ خلث کے یہ معنے کئے جائیں کہ بعض نبی زندہ آسمان پر جابیٹھے ہیں تب تو اس صورت میں حضرت عمر حق بجانب ٹھہرتے ہیں اور یہ آیت ان کو مضر نہیں بلکہ ان کی مؤید ٹھہرتی ہے.لیکن اس آیت کا اگلا فقرہ جو بطور تشریح ہے یعنی أَفَا بِنْ مَّاتَ أَوْ قتل (آل عمران:145) جس پر حضرت ابو بکر کی نظر جاپڑی ظاہر کر رہا ہے کہ اس آیت کے یہ معنے لینا کہ تمام نبی گذر گئے گو مر کر گزر گئے یا زندہ ہی گزر گئے یہ دجل اور تحریف اور خدا کی منشاء کے برخلاف ایک عظیم افترا ہے اور ایسے افتر اعمد ا کرنے والے جو عدالت کے دن سے نہیں ڈرتے اور خدا کی اپنی تشریح کے بر خلاف الٹے معنے کرتے ہیں وہ بلا شبہ ابدی لعنت کے نیچے ہیں.لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس وقت تک اِس آیت کا علم نہیں تھا اور دوسرے بعض صحابہ بھی اسی غلط خیال میں مبتلا تھے اور اس سہو و نسیان میں گرفتار تھے جو مقتضائے بشریت ہے اور ان کے دل میں تھا کہ بعض نبی اب تک زندہ ہیں اور پھر دنیا میں آئیں گے.پھر کیوں آنحضرت صلی للی کم ان کی مانند نہ ہوں لیکن حضرت ابو بکر نے تمام آیت پڑھ کر اور آفَابِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ سنا کر دلوں میں بٹھا دیا کہ حلت کے معنے دو قسم میں ہی محصور ہیں.1.حتف آنف سے مرنا یعنی طبعی موت “ مرنا اور ”2.مارے جانا.تب مخالفوں نے اپنی غلطی کا اقرار کیا اور تمام صحابہ اس کلمہ پر متفق ہو گئے کہ گذشتہ نبی سب مر گئے ہیں اور فقرہ آفَابِنُ مَاتَ او قتل کا بڑا ہی اثر پڑا اور سب نے اپنے مخالفانہ خیالات سے رجوع کر لیا.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلَى ذَالِكَ.106❝ یہ تحفہ غزنویہ میں آپ نے بیان فرمایا ہے.پھر ایک اور جگہ بیان فرماتے ہیں کہ ”تمام صحابہ کی شہادت آنحضرت صلیم ہی کی وفات پر یہ ہوئی ہے کہ سب نبی مر گئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اینم کی نسبت کہا کہ ابھی نہیں مرے اور تلوار کھینچ کر کھڑے ہو جاتے ہیں مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر یہ خطبہ پڑھتے ہیں کہ مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اب اس موقعہ پر جو ایک قیامت ہی کا میدان تھا کہ نبی کریم صلی یہ کام اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کل صحابہ جمع ہیں.یہاں تک کہ اسامہ کا لشکر بھی روانہ نہیں ہوا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر حضرت ابو بکر بآواز بلند کہتے ہیں کہ محمد صلی الی یم کی وفات ہو گئی اور اس پر استدال کرتے ہیں مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُول سے.اب اگر صحابہ کے وہم گمان الله سة

Page 76

اصحاب بدر جلد 3 56 حضرت عمر بن خطاب 107< میں بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ہوتی تو ضرور بول اٹھتے مگر سب خاموش ہو گئے اور بازاروں میں یہ آیت پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ گویا یہ آیت آج اتری ہے.معاذ اللہ صحابہ منافق نہ تھے جو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے رعب میں آکر خاموش ہو رہے اور حضرت ابو بکر کی تردید نہ کی.نہیں اصل بات یہی تھی جو حضرت ابو بکر نے بیان کی.اس لئے سب نے گردن جھکالی.یہ ہے اجماع صحابہ تھا.حضرت عمر بھی تو یہی کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی علی ظلم پھر آئیں گے.اگر یہ استدلال کامل نہ ہو تا ( اور کامل تب ہی ہو تا کہ کسی قسم کا استثناء نہ ہوتا کیونکہ اگر حضرت عیسی زندہ آسمان پر چلے گئے تھے اور انہوں نے پھر آنا تھا تو پھر یہ استدلال کیا یہ تو ایک مسخری ہوتی تو خود حضرت عمر ہی تردید کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعہ کو مختلف جگہوں پر بار بار بیان کیا ہے.میں نے جو مختلف واقعات بیان کیے ہیں تو وہ اس لیے ہے کہ وہ لوگ جو حضرت عیسی کو زندہ آسمان پر بیٹھا تصور کرتے ہیں ان کے دماغ سے یہ خیال نکالا جائے کہ کوئی بشر بھی زندہ آسمان پر نہیں گیا اور نہ جاسکتا ہے اور اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام بھی وفات پاچکے ہیں.حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں ایک دفعہ میں ان کے ساتھ جارہا تھا اور اپنے کسی کام کے واسطے جاتے تھے.ان کے ہاتھ میں کوڑا تھا اور میرے سوا اور کوئی ان کے ساتھ نہ تھا اور وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہے تھے اور اپنے پیروں کی پچھلی طرف کوڑا مارتے جاتے تھے.پس یکا یک میری طرف مڑ کر کہنے لگے.اے ابن عباس ! کیا تم جانتے ہو کہ جس روز حضور صلی اللی کم کی وفات ہوئی ہے میں نے وہ بات کیوں کہی تھی (یعنی حضور کا وصال نہیں ہوا ہے اور جو ایسا کہے گا اسے میں تلوار سے ماروں گا) حضرت ابن عباس کہتے ہیں.میں نے کہا: اے امیر المومنین ! میں نہیں جانتا.آپ (حضرت عمرؓ رضی اللہ تعالیٰ ) ہی واقف ہوں گے.( یعنی حضرت عمرؓ کو کہا کہ آپ ہی واقف ہوں گے کہ کیوں کہی تھی) حضرت عمررؓ فرمانے لگے کہ اللہ کی قسم ! اس کا باعث یہ تھا کہ میں اس آیت کو پڑھا کرتا تھا کہ : وَكَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (البقره: 144) اور اسی طرح ہم نے تمہیں وسطی امت بنادیا تاکہ تم لوگوں پر نگران ہو جاؤ اور رسول تم پر نگر ان ہو جائے ) اور اللہ کی قسم ! میں یہ سمجھتا تھا کہ رسول اللہ صلی علی تم اپنی امت میں زندہ رہ کر ان کے اعمال کے گواہ ہوں گے.پس اس سبب سے میں نے اس روز وہ گفتگو کی تھی جو میں نے کی تھی.108 خلافت ابو بکر حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں بخاری میں جو ذکر ملتا ہے وہ پہلے بھی بیان ہوا ہے.دوبارہ میں بیان کرتا ہوں کہ انصارینی ساعدہ کے گھر حضرت سعد بن عبادہ کے پاس اکٹھے ہوئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے.حضرت ابو بکر اور حضرت عمر بن خطاب اور

Page 77

حاب بدر جلد 3 57 حضرت عمر بن خطاب حضرت ابو عبیدہ بن جراح ان کے پاس گئے.حضرت عمرؓ بولنے لگے تو حضرت ابو بکر نے انہیں خاموش کیا.حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ اللہ کی قسم! میں نے جو بولنا چاہا تھا تو اس لیے کہ میں نے ایسی تقریر تیار کی تھی جو مجھے بہت پسند آتی تھی.مجھے ڈر تھا کہ حضرت ابو بکر اس تک نہ پہنچ سکیں گے یعنی ویسا نہیں بول سکیں گے.پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر نے تقریر کی اور ایسی تقریر کی جو بلاغت میں تمام لوگوں کی تقریروں سے بڑھ کر تھی.انہوں نے اپنی تقریر کے اثنا میں کہا کہ ہم امیر ہیں اور تم وزیر ہو.انصار کو کہا تم وزیر ہو.حباب بن منذر نے یہ سن کر کہا ہر گز نہیں.اللہ کی قسم! ہر گز نہیں.بخد اہم ایسا نہیں کریں گے.ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر آپ میں سے.حضرت ابو بکرؓ نے کہا نہیں بلکہ امیر ہم ہیں اور تم وزیر ہو کیونکہ یہ قریش لوگ ( بلحاظ نسب) تمام عربوں سے اعلیٰ ہیں اور بلحاظ حسب وہ قدیمی عرب ہیں.اس لیے عمر یا ابو عبیدہ کی بیعت کرو.حضرت عمرؓ نے کہا نہیں.بلکہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر ھو کہا کہ ہم تو آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سے بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی علیم کو ہم میں سے زیادہ پیارے ہیں.یہ کہہ کر حضرت عمررؓ نے حضرت ابو بکر کا ہاتھ پکڑا اور ان سے بیعت کی اور لوگوں نے بھی ان سے بیعت کی.جب حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ ہماری بیعت لیں اور ساتھ ہی حضرت عمر نے حضرت ابو بکر کی بیعت کرلی اور عرض کی کہ اے ابو بکر ! آپ کو رسول اللہ صلی العلیم نے حکم دیا تھا کہ آپ نماز پڑھایا کریں.پس آپ ہی خلیفتہ اللہ ہیں.ہم آپ کی بیعت اس لیے کرتے ہیں کہ آپ رسول اللہ صلی علیم کے ہم سے زیادہ محبوب ہیں.مرتدین کے فتنہ کے بارے میں سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی ایم کی وفات ہوئی تو مسلمانوں کے مصائب بڑھ گئے.ابن اسحاق یہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ سے مجھے وہ روایت پہنچی.آپ کہتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی الیکم کی وفات ہوئی تو عرب مرتد ہو گئے اور یہود و نصاریٰ اٹھ کھڑے ہوئے اور نفاق ظاہر ہو گیا.110 109 حضرت عمر کا حضرت ابو بکر سے مانعین زکوۃ کے بارہ میں اظہار رائے حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الیکم کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے اور عربوں میں سے جس نے کفر کرنا تھا کفر کیا تو حضرت عمر بن خطاب نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں سے لڑائی کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کریں یعنی جو لا إلهَ إِلَّا اللہ کا اقرار کرنے والے ہیں ان سے لڑنا نہیں ہے اور جو شخص لا اله الا اللہ کا اقرار کرے گاوہ مجھ سے اپنامال اور جان بچا لے گا سوائے کسی حق کی بنا پر اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے تو حضرت ابو بکر نے کہا: اللہ کی قسم ! جو بھی نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کرے گا میں اس سے لڑوں گا کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے اور اللہ کی

Page 78

حاب بدر جلد 3 58 حضرت عمر بن خطاب قسم ! اور اگر انہوں نے مجھے ایک گھٹنا باندھنے والی رسی دینے سے بھی انکار کیا جو وہ رسول اللہ صلی یی کم کو دیتے تھے تو اس کے نہ دینے پر بھی ان سے لڑوں گا.حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! پھر میں نے دیکھا کہ اللہ نے حضرت ابو بکر کا لڑائی کے لیے سینہ کھول دیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ حق ہی ہے.111 لشکر اسامہ کی روانگی اور حضرت عمرؓ حضرت اسامہ بن زید کے لشکر کی روانگی کے وقت حضرت ابو بکر نے حضرت اسامہ کو بعض ہدایات فرمائیں.حضرت اسامہ سوار تھے اور حضرت ابو بکر ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے.حضرت اسامہ نے درخواست کی کہ آپ سوار ہوں وگرنہ میں بھی سواری سے اتر جاؤں گا.حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ تم نہ اترو اور اللہ کی قسم ! میں سوار نہیں ہوں گا.فرمایا: اور مجھے کیا ہوا ہے کہ میں اپنے پاؤں کو کچھ دیر اللہ کے راستے میں غبار آلود نہ کروں کیونکہ غازی کے ہر قدم کے عوض جو وہ اٹھاتا ہے سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ سات سو درجات بلند ہوتے ہیں اور اس کی سات سو خطائیں معاف کی جاتی ہیں.ہدایت دینے کے بعد حضرت ابو بکر نے حضرت اسامہ سے فرمایا: اگر تم مناسب سمجھو تو عمر کے ذریعہ میری مدد کرو.یعنی حضرت اسامہ سے عمر ہو اپنے پاس روکنے کی اجازت چاہی کیونکہ آنحضرت صلی علیم نے حضرت عمر ہو اس لشکر میں شامل فرمایا تھا.تو حضرت اسامہ نے آپ کو اس کی اجازت دے دی.2 جمع قرآن اور حضرت عمر 112 حضرت ابو بکر کے دور میں جنگ یمامہ میں ستر حفاظ قرآن شہید ہوئے تو اس بارے میں حضرت زید بن ثابت انصاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے مجھ کو جب یمامہ کے لوگ شہید کیے گئے بلا بھیجا اور اس وقت ان کے پاس حضرت عمرؓ تھے.حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: عمر میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یمامہ کی جنگ میں لوگ بہت شہید ہو گئے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اور لڑائیوں میں بھی قاری نہ مارے جائیں اور اس طرح قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا.سوائے اس کے کہ تم قرآن کو ایک جگہ جمع کر دو اور میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ جمع کریں.حضرت ابو بکر نے فرمایا: میں نے عمر سے کہا کہ میں ایسی بات کیسے کروں جو رسول اللہ صلی الی تم نے نہیں کی ؟ عمر نے کہا اللہ کی قسم ! آپ کا یہ کام اچھا ہے.عمر مجھے بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے اس کے لیے میر اسینہ کھول دیا اور اب میں بھی وہی مناسب سمجھتا ہوں جو عمر نے مناسب سمجھا.حضرت زید بن ثابت نے کہا اور اس وقت حضرت عمرؓ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور خاموش بیٹھے تھے ، بات نہیں کرتے تھے.پھر حضرت ابو بکر نے فرمایا تم جو ان عقلمند آدمی ہو اور ہم تم پر کوئی بد گمانی نہیں کرتے.تم

Page 79

حاب بدر جلد 3 59 حضرت عمر بن خطاب رسول اللہ صلی الم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے.اس لیے قرآن جہاں جہاں ہو تلاش کرو اور اس کو لے کر ایک جگہ جمع کر دو.حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں اور اللہ کی قسم ! اگر وہ پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا مجھے مکلف کرتے تو مجھ پر یہ کام اتنا بو جھل نہ ہو تا جتنا کہ یہ کام جس کے کرنے کے لیے انہوں نے مجھے حکم دیا یعنی قرآن کریم جمع کرنا.میں نے کہا آپ دونوں وہ کام کیسے کرتے ہیں جو نبی صلی اللہ تم نے نہیں کیا.حضرت ابو بکر نے فرمایا: اللہ کی قسم ! وہ اچھا کام ہے.میں ان سے بار بار کہتا رہا یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ اس امر کے لیے کھول دیا جس کے لیے اللہ نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کا سینہ کھولا تھا.میں کھڑا ہو گیا اور قرآن مجید کی تلاش کرنے لگا.اسے چمڑے کے پرچوں اور کندھے کی ہڈیوں اور کھجوروں کی ٹہنیوں اور لوگوں کے سینوں سے اکٹھا کرنے لگا.یہاں تک کہ میں نے سورہ توبہ کی دو آیتیں حضرت خزیمہ انصاری کے پاس پائیں.وہ ان کے سوا میں نے کسی کے پاس نہ پائیں اور وہ یہ ہیں لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْضٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيم (128:31) یعنی یقینا تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیا.اسے بہت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو اور وہ تم پر بھلائی چاہتے ہوئے حریص رہتا ہے.مومنوں کے لیے بے حد مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے.حدیث میں صرف اس آیت کا ذکر ہے ویسے دو آیات لکھا ہوا ہے شاید اگلی آیت بھی ہو.پھر روایت ہے کہ وہ ورق جس پہ قرآن مجید جمع کیا گیا تھا وہ حضرت ابو بکرؓ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دے دی.پھر حضرت عمرؓ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ نے ان کو وفات دے دی.پھر حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس رہے.پھر بعد میں ان سے بھی جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے 113 حضرت عثمان نے لے لیے تھے.114 حضرت عمر کی خلافت کے بارہ میں مشاورت جب حضرت ابو بکر کی وفات کا وقت قریب آیا تو حضرت ابو بکر نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کو بلایا اور فرمایا مجھے عمرہ کے متعلق بتاؤ.تو انہوں نے یعنی حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ اے رسول اللہ کے خلیفہ، اللہ کی قسم ! حضرت عمر آپ کی رائے سے بھی افضل ہیں سوائے اس کے کہ ان کی طبیعت میں سختی ہے.حضرت ابو بکر نے فرمایا سختی اس لیے ہے کہ وہ مجھ میں نرمی دیکھتے ہیں.اگر امارت ان کے سر ہو گئی تو ہ اپنی بہت سی باتیں جو ان میں ہیں ان کو چھوڑ دیں گے کیونکہ میں نے ان کو دیکھا ہے کہ جب میں کسی شخص پر سختی کرتا ہوں تو وہ مجھے اس شخص سے راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب میں کسی شخص سے نرمی کرتا ہوں ، نرمی کا سلوک کرتا ہوں تو وہ اس وقت مجھے سختی کرنے کا کہتے ہیں.اس کے بعد حضرت ابو بکر نے حضرت عثمان بن عفان کو بلایا اور ان سے حضرت عمرؓ کے بارے میں دریافت فرمایا.

Page 80

محاب بدر جلد 3 60 حضرت عمر بن خطاب حضرت عثمان نے کہا کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے بھی بہتر ہے اور ہم میں ان جیسا کوئی نہیں.اس پر حضرت ابو بکڑ نے دونوں اصحاب سے فرمایا.جو کچھ میں نے تم دونوں سے کہا ہے اس کا ذکر کسی اور سے نہ کرنا اور اگر میں عمر کو چھوڑتا ہوں تو عثمان سے آگے نہیں جاتا ( یعنی آپ کے نزدیک دونوں ایسے لوگ تھے جو خلافت کا حق ادا کرنے والے تھے) اور ان کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ تمہارے امور کے متعلق کوئی کمی نہ کریں.اب میری یہ خواہش ہے کہ میں تمہارے امور سے علیحدہ ہو جاؤں اور تمہارے اسلاف میں سے ہو جاؤں.حضرت ابو بکر کی بیماری کے دنوں میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور حضرت ابو بکر سے کہا کہ آپ نے حضرت عمر کو لوگوں پر خلیفہ بنا دیا ہے حالانکہ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی موجودگی میں لوگوں سے کس طرح سلوک کرتے ہیں اور اس وقت کیا حال ہو گا جب وہ تنہا ہوں گے ؟ اور آپ اپنے رب سے ملاقات کریں گے اور آپ سے رعیت کے بارے میں پوچھے گا.حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ مجھے بٹھاؤ.تو انہوں نے آپ کو سہارا دے کر بٹھایا اور آپ نے کہا.کیا تم مجھے اللہ سے ڈراتے ہو ؟ جب میں اپنے رب سے ملوں گا اور وہ مجھ سے پوچھے گا تو میں جواب دوں گا کہ میں نے تیرے بندوں میں سے بہترین کو تیرے بندوں پر خلیفہ بنایا ہے.پھر حضرت ابو بکر نے حضرت عثمانؓ کو علیحدگی میں بلایا تاکہ وہ حضرت عمرؓ کے متعلق وصیت لکھ دیں.پھر فرمایا لکھو بسم الله الرحمن الرحیم.یہ ابو بکر بن ابو قحافہ کی وصیت مسلمانوں کے نام ہے اتنا کہہ کر آپ پر غشی طاری ہو گئی اور حضرت عثمانؓ نے اپنی طرف سے لکھا کہ میں نے تم پر عمر بن خطاب کو خلیفہ مقرر کیا ہے اور میں نے تمہارے متعلق خیر میں کمی نہیں کی.پھر حضرت ابو بکر کو افاقہ ہوا تو فرمایا مجھے پڑھ کر سناؤ کیا لکھا ہوا ہے.حضرت عثمان نے سنایا تو حضرت ابو بکر نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا میر اخیال ہوا تو نے فرمایا میرا ہے کہ تم ڈر گئے کہ اگر میں اس بیہوشی میں وفات پا جاؤں تو کہیں لوگوں میں اختلاف نہ پیدا ہو جائے.حضرت عثمان نے کہا ہاں یہی بات ہے.حضرت ابو بکر نے فرمایا اللہ تمہیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جزا عطا کرے.115 حضرت عثمان نے حضرت عمرؓ کے خلیفہ ہونے کا جو فقرہ اپنی طرف سے لکھا تھا اس پر حضرت ابو بکر نے کوئی اعتراض نہیں کیا.تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ محمد بن ابراہیم بن حارث بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے حضرت عثمان کو علیحدگی میں بلایا اور فرمایا لکھو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ یہ عہد نامہ ابو بکر بن ابو قحافہ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے ہے اور اما بعد راوی کہتے ہیں پھر آپ پر یعنی حضرت ابو بکر پر غشی طاری ہو گئی اور آپ بے ہوش ہو گئے.اس کے بعد اس طرح جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے حضرت ابو بکر ہوش میں آئے.جب افاقہ ہوا تو وہی باتیں ہوئیں اور حضرت عثمان سے پڑھ کر سنانے کے لیے کہا.اس کو سن کر پھر جیسا کہ بیان ہوا ہے حضرت ابو بکر نے اللہ اکبر کہا.پھر حضرت ابو بکر نے فرمایا: اللہ تمہیں اسلام

Page 81

اصحاب بدر جلد 3 61 حضرت عمر بن خطاب اور اہل اسلام کی طرف سے جزائے خیر دے جو تم نے یہ فقرہ لکھ دیا.حضرت ابو بکڑ نے اس تحریر کو اس جگہ برقرار رکھا، کوئی تبدیلی نہیں کی.116 ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے حضرت عثمان کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ مجھے خلیفہ کے لیے کسی شخص کا مشورہ دو.اللہ کی قسم ! تم میرے نزدیک مشورے کے اہل ہو.اس پر انہوں نے کہا حضرت عمرؓ حضرت ابو بکر نے فرمایا لکھو.تو انہوں نے لکھا یہاں تک کہ نام تک پہنچے تو حضرت ابو بکر بے ہوش ہو گئے.پھر جب حضرت ابو بکر کو افاقہ ہو ا تو آپ نے فرمایا لکھو عمر.پھر ایک روایت میں ہے.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر کی وصیت حضرت عثمان تحریر کر رہے تھے.حضرت ابو بکر پر غشی طاری ہوئی.حضرت عثمان نے حضرت عمر کا نام لکھ دیا.جب حضرت ابو بکر کو افاقہ ہوا تو انہوں نے دریافت فرمایا تم نے کیا لکھا ہے ؟ انہوں نے کہا میں نے لکھا ہے عمر حضرت ابو بکر نے فرمایا تم نے وہی لکھا جس کا میں نے ارادہ کیا تھا کہ تم سے کہوں گا.اگر تم اپنا نام بھی لکھ دیتے تو تم بھی اس کے اہل تھے.117 ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب حضرت ابو بکر بیمار ہوئے تو آپ نے حضرت علی اور حضرت عثمان اور مہاجرین و انصار کے چند لوگوں کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا اب وقت آگیا ہے جو تم دیکھ رہے ہو اور تمہیں حکم دینے کے لیے کوئی نہیں کھڑا.اگر تم چاہو تو اپنے میں سے کسی کو چن لو اور اگر تم لوگ چاہو تو میں تمہارے لیے چن لوں.انہوں نے عرض کیا بلکہ آپ ہمارے لیے چن لیں.انہوں نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا لکھو یہ وہ عہد ہے جو ابو بکر بن ابو قحافہ نے اس دنیا سے جاتے ہوئے اپنا آخری عہد کیا اور آخرت میں داخل ہوتے ہوئے اپنا پہلا عہد کیا جہاں فاجر تو بہ کرے گا اور کافر ایمان لائے گا اور جھوٹا تصدیق کرے گا اور وہ عہد یہ ہے کہ وہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی الہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میں خلیفہ مقرر کر تا ہوں.پھر حضرت ابو بکر پر غشی طاری ہو گئی تو حضرت عثمان نے خود ہی عمر بن خطاب لکھ دیا.پھر جب حضرت ابو بکر کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا کیا تم نے کچھ لکھا؟ تو انہوں نے کہا جی ہاں میں نے لکھا ہے عمر بن خطاب.اس پر حضرت ابو بکر نے فرمایا اللہ تم پر رحم فرمائے.اگر تم اپنا نام بھی لکھ دیتے تو تم اس کے اہل تھے.پس تم لکھو میں نے اپنے بعد عمر بن خطاب کو تمہارا خلیفہ مقرر کیا ہے اور میں تم لوگوں کے لیے ان پر راضی ہوں.جب وصیت لکھی جاچکی تو حضرت ابو بکر نے فرمایا.اسے لوگوں کو پڑھ کر سنایا جائے.پھر حضرت عثمان نے لوگوں کو جمع کیا اور آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام کے ہاتھ خط بھیجا.اس وقت حضرت عمر بھی اس کے ساتھ تھے.حضرت عمر لو گوں کو کہتے خاموش ہو جاؤ اور رسول اللہ صلی علیکم کے خلیفہ کی بات سنو کیونکہ انہوں نے تمہارے لیے خیر خواہی میں کمی نہیں کی.تب لوگ سکون سے بیٹھ گئے اور ان کے سامنے 118

Page 82

تاب بدر جلد 3 62 حضرت عمر بن خطاب وصیت پڑھی گئی.انہوں نے اسے سنا اور اطاعت کی.اس وقت حضرت ابو بکر لوگوں کی طرف مائل ہوئے اور فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو جسے میں نے تم پر خلیفہ مقرر کیا ہے کیونکہ میں نے کسی رشتہ دار کو تم پر خلیفہ مقرر نہیں کیا.میں نے یقینا تم پر عمر کو خلیفہ مقرر کیا ہے.پس اس کو سنو اور اطاعت کرو اور اللہ قسم !یقینا میں نے اس بارے میں غور و فکر میں کمی نہیں کی.اس پر لوگوں نے کہا ہم نے سنا اور اطاعت کی.پھر حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ میں نے تمہیں رسول اللہ صلی علی ایم کے صحابہ پر خلیفہ مقرر کیا ہے اور آپ یعنی حضرت عمر کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کی.پھر فرمایا اے عمر ا یقینا اللہ کے کچھ حقوق ہیں جو رات کے وقت ہوتے ہیں جنہیں وہ دن کے وقت میں قبول نہیں کرتا اور کچھ حقوق دن کے ہیں جنہیں وہ رات میں قبول نہیں کرتا اور یقیناًوہ اس وقت تک نوافل قبول نہیں کرتا جب تک فرائض پورے نہ کیے جائیں.اے عمر ! کیا تم نہیں دیکھتے کہ انہی لوگوں کے ترازو بھاری ہیں جن کے حق کی پیروی کرنے اور بھاری ہونے پر قیامت کے دن تر از وبھاری ہوں گے.جو سچائی کی پیروی کریں گے ان کے ترازو قیامت کے دن بھاری ہوں گے.پھر آپؐ نے فرمایا اور ترازو کے لیے یہ بات حق ہے کہ کل کو اس میں وہی بات رکھی جائے گی جو بھاری ہو گی.اے عمر ! کیا تم نہیں دیکھتے کہ انہی لوگوں کے ترازو ہلکے ہیں جن کے قیامت کے دن ترازو ہلکے ہوں گے.ان کے باطل کی پیروی اور ان کے ہلکا ہونے کی وجہ سے یعنی وہ سچائی کی پیروی نہیں کر رہے تھے اور نیکیاں نہیں بجالا رہے تھے اس لیے قیامت کے دن پھر ان کے ترازو ہلکے ہوں گے.اور ترازو کے لیے یہ بات حق ہے کہ جب بھی اس میں باطل رکھا جائے گا تو وہ ہلکا ہی ہو گا.اے عمر ! کیا تم نہیں دیکھتے کہ نرمی والی آیات شدت والی آیات کے ساتھ نازل ہوئی ہیں اور شدت والی آیات نرمی والی آیات کے ساتھ تاکہ مومن رغبت رکھنے والے اور ڈرنے والے بھی ہوں.ایک طرف نیکی کی رغبت رکھیں اور دوسرے اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ان میں ہو اور کوئی ایسی خواہش نہ رکھیں جس کا اللہ سے تعلق نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی ایسے امر سے ڈرے جو اس کے اپنے ہاتھوں سے ہو.اے عمر ! کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آگ والوں کا محض ان کے برے اعمال کی وجہ سے ذکر کیا ہے.پس جب تم ان کا ذکر کرو تو کہو یقیناً میں امید کرتا ہوں کہ میں ان میں سے نہیں ہوں اور اللہ نے جنت والوں کا ذکر محض ان کے نیک اعمال کی وجہ سے کیا ہے کیونکہ اللہ نے ان کی برائیوں سے در گزر کر دیا ہے.پس جب تم ان کا ذکر کرو تو کہو کیا میرے اعمال ان کے اعمال جیسے ہیں.19 1 اپنے دل سے پوچھو.جب حضرت ابو بکر کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ فرمانے لگے.ہمارے پاس مسلمانوں کا جو مال ہے اسے واپس کر دو.میں اس مال میں سے کچھ بھی لینا نہیں چاہتا.میری وہ زمین جو فلاں فلاں مقام پر ہے مسلمانوں کے لیے ان اموال کے عوض ہے جو میں نے بطور نفقہ بیت المال سے لیا تھا.یہ زمین، اونٹنی، تلوار صیقل کرنے والا غلام اور چادر جو پانچ درہم کی تھی سب حضرت عمر کو دے دیا گیا.حضرت عمرؓ نے جب یہ سارا سامان دیکھا تو کہا کہ حضرت ابو بکر نے اپنے بعد والے کو مشقت میں ڈال دیا ہے.120

Page 83

تاب بدر جلد 3 63 حضرت عمر بن خطاب حضرت خلیفتہ المسیح الاول بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کی طبیعت میں وہ تیزی نہیں رہی جو زمانہ جاہلیت میں تھی تو حضرت عمرؓ نے جواب دیا تیزی تو وہی ہے مگر اب کفار کے مقابلے میں دکھائی جاتی ہے.121 حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں نے کہا تھا کہ اگر آپ نے اپنے بعد عمر رضی اللہ عنہ کو جانشین مقرر کیا تو بڑا غضب ہو گا کیونکہ یہ بہت غصیلے ہیں.انہوں نے فرمایا کہ ان کا غصہ اسی وقت تک گرمی دکھاتا ہے جب تک کہ میں نہ رہوں اور جب میں نہ رہوں گا تو یہ خود نرم ہو جائیں گے.122 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت عمرؓ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غصہ کے متعلق آیا ہے کہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ قبل از اسلام آپ بڑے غصہ ور تھے.حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ غصہ تو وہی ہے البتہ پہلے بے ٹھکانے چلتا تھا مگر اب ٹھکانے سے چلتا ہے.123 صحیح جگہ پہ غصہ استعمال ہوتا ہے.جامع بن شداد اپنے کسی قریبی عزیز سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے خدا! میں ضعیف ہوں مجھے طاقتور بنادے اور میں سخت مزاج ہوں مجھے نرم مزاج بنادے اور میں بخیل ہوں مجھے سخی بنادے.خلافت کے بعد حضرت عمر فکا پہلا خطاب حضرت عمر نے خلیفہ بننے کے بعد جو پہلا خطاب فرمایا اس بارے میں بھی متفرق روایات ملتی ہیں.ایک روایت میں ہے.محمید بن ہلال بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق کی وفات کے وقت جو حاضر تھا اس نے ہمیں بتایا کہ حضرت ابو بکر کی تدفین سے جب حضرت عمر فارغ ہوئے تو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ان کی قبر کی مٹی کو جھاڑا.پھر اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے ذریعہ سے اور مجھے تمہارے ذریعہ سے آزمایا ہے اور اس نے میرے دونوں ساتھیوں کے بعد مجھے تم پر باقی رکھا ہے.اللہ کی قسم ! تمہارا جو بھی معاملہ میرے سامنے پیش ہو گا تو میرے علاوہ کوئی اور اس کو نہیں دیکھے گا اور جو معاملہ مجھ سے دُور ہو گا تو اس کے لیے میں قوی اور امین لوگوں کو مقرر کروں گا یعنی لوگ مقرر کیے جائیں گے جو تمہاری نگرانی کریں گے اور معاملات کو دیکھیں گے.اگر لوگ اچھا برتاؤ کریں گے تو میں بھی ان سے اچھا برتاؤ کروں گا اور اگر انہوں نے برائی کی تو میں انہیں سزا دوں گا.حسن کہتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ سب سے پہلا خطبہ جو حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا وہ یہ تھا.آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا.انا بعد مجھے تم لوگوں کے ذریعہ آزمایا گیا ہے اور تم لوگ میرے ذریعہ سے آزمائے گئے ہو اور مجھے اپنے دونوں ساتھیوں کے بعد تم لوگوں پہ پیچھے چھوڑ دیا گیا.پس جو

Page 84

محاب بدر جلد 3 64 حضرت عمر بن خطاب معاملہ ہمارے سامنے ہو گا ہم اسے خود دیکھیں گے اور جو معاملہ ہم سے دور ہو گا تو ہم اس کے لیے قوی اور امین لوگ مقرر کریں گے اور جو اچھائی کرے گا ہم اس کو بھلائی میں بڑھائیں گے اور جو برائی کرے گا ہم اسے سزا دیں گے اور اللہ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے.124 جامع بن شداد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ منبر پر چڑھے تو آپ کا سب سے پہلا کلام یہ تھا کہ آپ نے فرمایا اللهُمَّ إِنِّي شَدِيدٌ فَلَيْنِي وَإِنِّي ضَعِيفٌ فَقَوَنِي وَإِنِّي بَخِيلٌ فَسَخَنِي لَم اے اللہ ! میں سخت ہوں پس تو مجھے نرم کر دے اور میں کمزور ہوں پس تو مجھے طاقتور بنا دے اور میں بخیل ہوں پس تو مجھے سخی بنا دے.4 جامع بن شداد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا کہ میں چند کلمات کہنے والا ہوں تم ان پر آمین کہو.یہ پہلا کلام تھا جو حضرت عمرؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد کیا.حصین مرسی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا عربوں کی مثال نکیل میں بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے جو اپنے قائد کے پیچھے چلتا ہے.پس اس کے قائد کو چاہیے کہ وہ دیکھے کس طرف ہانک رہا ہے اور جہاں تک میرا تعلق ہے تو رب کعبہ کی قسم ! میں انہیں ضرور سید ھے رستے پر رکھوں گا.125 جو پہلے والی روایت ہے اس میں یہ تو ہے کہ آمین کہنا لیکن تفصیل اس کی نہیں بیان ہوئی.یا یہی نکیل والی تفصیل ہے.الله سر بہر حال حضرت عمر نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد تیسرے روز ایک تفصیلی خطاب فرمایا.وہ یوں ہے کہ جب حضرت عمرؓ کولوگوں کے ان سے خائف ہونے کی اطلاع پہنچی تو لوگوں میں ان کے حکم سے الصلوة جامعة کہ نماز تیار ہے کی بلند آواز لگائی گئی.اس پر لوگ حاضر ہو گئے تو آپ منبر پر اس جگہ بیٹھے جہاں حضرت ابو بکر اپنے پاؤں رکھا کرتے تھے.جب پورا اجتماع ہو گیا یعنی لوگ اکٹھے ہو گئے تو سیدھے ڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا ان کلمات سے کی جو اس کے مناسب ہیں اور نبی صلی للی کم پر درود پڑھا.پھر فرمایا کہ مجھے یہ اطلاع پہنچی ہے کہ لوگ میری تیز مزاجی سے ڈر رہے ہیں اور وہ میری تند خوئی سے خوفزدہ ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ عمر ہم پر سخت گیری اس زمانے میں بھی کیا کرتا تھا جبکہ رسول اللہ صلی الی یم ہمارے درمیان موجود تھے اور پھر ہم پر سختی کرتا رہا جبکہ ابو بکر ہم پر حاکم تھے نہ کہ وہ تو اب کیا حال ہو گا جبکہ امور کا پورا اختیار اسی کے ہاتھ میں پہنچ گیا ہے ؟ جس نے یہ کہا اس نے سچ کہا.بے شک میں رسول اللہ کی تعلیم کے ساتھ تھا اور آپ کا غلام اور آپ کا خادم تھا اور آپ صلی علی یم ایسے تھے کہ کوئی شخص آپ کی نرمی اور رحمدلی کی صفت تک نہیں پہنچ سکتا تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے موسوم کیا اور آپ کو اپنے اسماء میں سے دو نام رؤوف اور رحیم عطا کیے اور میں ایک کچھی ہوئی تلوار تھا کہ رسول اللہ صلی علی یکم اگر چاہیں تو مجھے نیام میں کر لیں یا مجھے چھوڑ دیں تو میں کاٹ ڈالوں.یہاں تک کہ رسول اللہ صلالی کی وفات پاگئے اور وہ مجھ سے خوش تھے اور اللہ کا شکر ہے کہ میں اس بنا پر سعادت مند رہا.پھر لوگوں کے حاکم ابو بکر

Page 85

صحاب بدر جلد 3 65 حضرت عمر بن خطاب وہ ہوئے تو وہ ایسے لوگوں میں سے تھے کہ تم میں سے کوئی ان کی رقیق القلبی اور کرم اور نرم مزاجی کا منکر نہیں ہے اور میں ان کا خادم اور ان کا مددگار تھا.اپنی سختی کو ان کی نرمی کے ساتھ ملا دیتا تھا اور سونتی ہوئی تلوار بن جاتا تھا اور ان کے ہاتھ میں ہو تا تھا کہ وہ مجھے نیام میں بند کر دیں یا اگر چاہیں تو مجھے چھوڑ دیں اور میں کاٹ ڈالوں.تو میں ان کے ساتھ اسی طرح رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے ان کو اس حال میں وفات دی کہ وہ مجھ سے خوش تھے.الحمد للہ میں اس بنا پر سعادت مند رہا.پھر اے لوگو! میں تمہارے امور کا والی بن گیا ہوں.اب سمجھ لو کہ وہ تیزی کمزور کر دی گئی لیکن دہ مسلمانوں پر ظلم و دراز دستی کرنے والوں پر ظاہر ہو گی.تم پر کمزور ہے لیکن دشمنوں پر تیزی ظاہر ہو گی.رہے وہ لوگ جو نیک خو اور دین دار اور صاحب فضیلت ہیں میں ان کے ساتھ اس سے بھی زیادہ نرم ثابت ہوں گا جو نرمی وہ ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں اور میں کسی ایسے شخص کو نہیں پاؤں گا جو دوسرے پر ظلم و دراز دستی کرتا ہو گا مگر میں اس کے رخسار کو زمین پر ڈال کر اپنا پاؤں اس کے دوسرے رخسار پر رکھوں گا یہاں تک کہ وہ حق کو اچھی طرح سمجھ لے یعنی بہت سختی کروں گا.اور اے لوگو ! تمہارے مجھ پر بہت سے حقوق ہیں جو میں تم سے ذکر کرتا ہوں تم ان پر میری گرفت کر سکتے ہو.تمہارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں اس مال میں سے جو تم پر خرچ کرنا ہے کوئی شے تم سے چھپا کر نہ رکھوں اور نہ اس میں سے جو اللہ تعالیٰ غنیمتوں میں سے تمہارے لیے بھیجے بجز اس کے جو اللہ تعالیٰ کے کام کے لیے روکوں.اور تمہارا مجھ پر یہ حق ہے کہ وہ مال اپنے حق کے موقع پر خرچ ہو اور تمہارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں تمہارے وظائف اور روزینے تم کو دیتار ہوں اور تمہارا مجھ پر یہ حق بھی ہے کہ میں تم کو ہلاکت کے مقامات میں نہ ڈالوں اور جب تم لشکر میں شامل ہو کر گھر سے غائب رہو تو میں تمہارے بال بچوں کا باپ بنا رہوں یہاں تک کہ تم ان کے پاس واپس آؤ.میں اپنی یہ بات کہہ رہا ہوں اور اللہ سے اپنے اور تمہارے لیے مغفرت چاہتا ہوں.حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت یہ آیت رہتی تھی کہ تُؤَدُّوا الآمنتِ إِلَى أَهْلِهَا.یعنی جو لوگ حکومت کے قابل ہوں، جو انتظامی امور کو سنبھالنے کی اہلیت اپنے اندر رکھتے ہوں ان کو یہ امانت سپر د کیا کرو اور پھر جب یہ امانت بعض لوگوں کے سپر د ہو جاتی تھی تو شریعت کا یہ حکم ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا کہ دیانت داری اور عدل کے ساتھ حکومت کرو.اگر تم نے عدل کو نظر انداز کر دیا، اگر تم نے دیانت داری کو ملحوظ نہ رکھا، اگر تم نے اس امانت میں کسی خیانت سے کام لیا تو خدا تم سے حساب لے گا اور وہ تمہیں اس جرم کی سزا دے گا.یہی وہ چیز تھی جس کا اثر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت پر اس قدر غالب اور نمایاں تھا کہ اسے دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.حضرت عمر جو اسلام میں خلیفہ ثانی گزرے ہیں انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے اس قدر قربانیوں سے کام لیا ہے 126

Page 86

ناب بدر جلد 3 66 حضرت عمر بن خطاب کہ وہ یورپین مصنف جو دن رات رسول کریم صلی الی پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں، جو رسول کریم صلی الم کے متعلق اپنی کتابوں میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ یہ لکھتے ہیں کہ نعوذ باللہ ! آپ نے دیانت داری سے کام نہیں لیا وہ بھی ابو بکر اور عمر کے ذکر پر یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جس محنت اور قربانی سے ان لوگوں نے کام کیا ہے اس قسم کی محنت اور قربانی کی مثال دنیا کے کسی حکمران میں نظر نہیں آتی.خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کام کی تو وہ بے حد تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص تھا جس نے رات اور دن انہماک کے ساتھ اسلام کے قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں کی ترقی کے فرض کو سر انجام دیا مگر عمر کا اپنا کیا حال تھا؟ اس کے سامنے باوجود ہزاروں کام کرنے کے، باوجود ہزاروں قربانیاں کرنے کے ، باوجو د ہزاروں تکالیف برداشت کرنے کے یہ آیت رہتی تھی کہ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا اور یہ کہ وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ یعنی جب تمہیں خدا کی طرف سے کسی کے کام پر مقر ر کیا جاوے اور تمہارے ملک کے لوگ اور تمہارے اپنے بھائی حکومت کے لئے تمہارا انتخاب کریں تو تمہارا فرض ہے کہ تم عدل کے ساتھ کام کرو اور اپنی تمام قوتوں کو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے صرف کر دو.چنانچہ حضرت عمر کا یہ واقعہ کیسا دردناک ہے کہ وفات کے قریب جبکہ آپ کو ظالم سمجھتے ہوئے ایک شخص نے نادانی اور جہالت سے خنجر سے آپ پر وار کیا اور آپ کو اپنی موت کا یقین ہو گیا تو آپ بستر پر نہایت کرب سے تڑپتے تھے اور بار بار کہتے تھے اللهُم لَا عَلَى وَلالي اللهُمَّ لَا عَلَى وَلا لي اے خدا ! تُو نے مجھ کو اس حکومت پر قائم کیا تھا اور ایک امانت تو نے میرے سپرد کی تھی.میں نہیں جانتا کہ میں نے اس حکومت کا حق ادا کر دیا ہے یا نہیں.اب میری موت کا وقت قریب ہے اور میں دنیا کو چھوڑ کر تیرے پاس آنے والا ہوں.اے میرے رب ! میں تجھ سے اپنے اعمال کے بدلہ میں کسی اچھے اجر کا طالب نہیں، کسی انعام کا خواہش مند نہیں بلکہ اے میرے رب ! میں صرف اِس بات کا طالب ہوں کہ تو مجھ پر رحم کر کے مجھے معاف فرمادے اور اگر اس ذمہ داری کی ادائیگی میں مجھے سے کوئی قصور ہو گیا ہو تو اس سے در گزر فرما دے.عمر وہ جلیل القدر انسان تھا جس کے عدل اور انصاف کی مثال دنیا کے پردہ پر بہت کم پائی جاتی ہے مگر اس حکم کے ماتحت که وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ جب وہ مرتا ہے تو ایسی بے چینی اور ایسے اضطراب کی حالت میں مرتا ہے کہ اسے وہ تمام خدمات جو اس نے ملک کی بہتری کے لئے کیں، وہ تمام خدمات جو اس نے لوگوں کی بہتری کے لئے کیں، وہ تمام خدمات جو اس نے اسلام کی ترقی کے لئے کیں بالکل حقیر نظر آتی ہیں.وہ تمام خدمات جو اس کے ملک کے تمام مسلمانوں کو اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو اس کے ملک کی غیر اقوام کو بھی اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو نہ صرف اس کے ملک کے اپنوں اور غیروں کو ہی نہیں بلکہ غیر ممالک کے لوگوں کو بھی اچھی نظر آتی تھیں ، وہ تمام خدمات جو صرف اس کے زمانہ میں ہی لوگوں کو اچھی نظر آتی تھیں بلکہ آج تیرہ سو سال گزرنے کے بعد بھی وہ لوگ جو اس

Page 87

اصحاب بدر جلد 3 67 حضرت عمر بن خطاب کے آقا پر حملہ کرنے سے نہیں چوکتے جب عمر کی خدمات کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں بے شک عمرؓ اپنے کارناموں میں ایک بے مثال شخص تھا.وہ تمام خدمات خود عمر کی نگاہ میں بالکل حقیر ہو جاتی ہیں اور وہ تڑپتے ہوئے کہتا ہے اللهُم لَا عَلَى وَلا لی.اے میرے رب! ایک امانت میرے سپرد کی گئی تھی.میں نہیں جانتا کہ میں نے اس کے حقوق کو ادا بھی کیا ہے یا نہیں.اس لئے میں تجھ سے اتنی ہی درخواست کرتا ہوں کہ تو میرے قصوروں کو معاف فرمادے اور مجھے سزا سے محفوظ ر کھ.127 پھر اپنی ایک تقریر ”دنیا کا محسن میں حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ : ”حضرت عمرؓ وہ انسان تھے جن کے متعلق ویسے یہ آنحضرت صلی اللی کام کے بارے میں تھا.عیسائی مؤرخ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسی حکومت کی جو دنیا میں اور کسی نے نہیں کی.وہ رسول کریم صلی اللہ ہم کو گالیاں دیتے ہیں مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہیں.ایسا شخص ہر وقت کی صحبت میں رہنے والا مرتے وقت یہ حسرت رکھتا ہے کہ رسول کریم صلی للی علم کے قدموں میں اسے جگہ مل جائے.اگر رسول کریم علی ایم کے کسی فعل سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی کہ آپ خدا کی رضا کے لئے کام نہیں کرتے تو کیا حضرت عمر جیسا انسان اس درجہ کو پہنچ کر کبھی یہ خواہش کرتا کہ آپ کے قدموں میں جگہ پائے.؟ حضرت مصلح موعودؓ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ آنحضرت صلی علیہ کم کی غلامی کی وجہ تھی اور آپ کی تربیت تھی جس کی وجہ سے حضرت عمرؓ میں یہ انصاف کے کام تھے اور یہ خوف خدا تھا.حضرت عمرؓ کی اہل بیت سے عقیدت کا کیا اظہار تھا؟ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: 128❝ حضرت عائشہ دیر تک رسول کریم صلی ال کمی کے بعد زندہ رہی تھیں.حضرت عمر کے زمانہ میں جب ایران فتح ہوا تو وہاں سے آٹا پینے والی ہوائی چکیاں لائی گئیں.جن میں بار یک آٹا پیسا جانے لگا.جب سب سے پہلی چکی مدینہ میں لگی تو حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ پہلا پسا ہوا بار یک آنا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بطور تحفہ بھیجا جائے.چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق وہ بار یک میدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا گیا اور ان کی خادمہ نے اس آٹے کے بار یک بار یک پھلکے تیار کیے.میدے کی روٹی محبت کے آنسو مدینہ کی عورتیں جنہوں نے پہلے کبھی ایسا آٹا نہیں دیکھا تھا وہ ہجوم کر کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جمع ہو گئیں کہ آؤ ہم دیکھیں وہ آٹا کیسا ہے اور اس کی روٹی کیسی تیار ہوتی ہے ؟ سارا صحن عورتوں سے بھرا ہوا تھا اور سب اس انتظار میں تھے کہ اس آٹے کی روٹی تیار ہو تو وہ اسے دیکھیں.حضرت مصلح موعود عورتوں کو خطاب کر رہے تھے.ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تم خیال کرتی ہو گی کہ شاید وہ کوئی عجیب قسم کا آنا ہو گا.وہ عجیب قسم کا آٹا نہیں تھا بلکہ اس سے بھی ادنی آٹا تھا جو

Page 88

حاب بدر جلد 3 68 حضرت عمر بن خطاب تم روزانہ کھاتی ہو بلکہ اس سے بھی ادنی آٹا تھا.آج جو آٹا تم میں سے ایک غریب سے غریب عورت کھاتی ہے اس سے بھی وہ ادنی تھا.مگر مدینہ میں جس قسم کے آئے ہوتے تھے ان سے وہ بہت اعلیٰ تھا.بہر حال آٹے کے پھلکے تیار ہوئے.عورتوں نے ان کو دیکھا اور وہ حیران رہ گئیں.وہ وفورِ شوق میں اپنی انگلیاں ان پھلکوں کو لگاتیں اور بے ساختہ کہتیں.اُف کیسا نرم پھلکا ہے.کیا اس سے اچھا آٹا بھی دنیا میں ہو سکتا ہے؟ روٹی تو پک گئی لیکن یہاں سے حضرت عائشہ کے آنحضرت صلی ا م سے عشق و محبت کی کہانی شروع ہوتی ہے اور آپ کے آنحضرت صلی علیکم کے بارے میں کیا جذبات تھے.حضرت عائشہ نے پھلکے میں سے ، اس چھوٹی سی روٹی میں سے ایک لقمہ توڑا اور منہ میں ڈالا.وہ ساری کی ساری عور تیں جو وہاں کھڑی تھیں اس شوق سے حضرت عائشہ کا منہ دیکھنے لگیں کہ اس کے کھانے سے حضرت عائشہ کی عجیب حالت ہو گی.نرم چھلکا ہے کھا کے وہ مزہ لیں گی.وہ خوشی کا اظہار کریں گی اور خاص قسم کی لذت اس سے محسوس کریں گی.مگر حضرت عائشہ کے منہ میں وہ لقمہ گیا تو جس طرح کسی نے گلا بند کر دیا ہو.وہ لقمہ ان کے منہ میں ہی پڑارہ گیا اور ان کی آنکھوں میں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے.عورتوں نے کہا.بی بی آنا تو بڑا ہی اچھا ہے.روٹی اتنی نرم ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں.آپ کو الله کیا ہو گیا ہے کہ اسے نگل ہی نہیں سکیں اور رونے لگ گئیں ؟ کیا اس آٹے میں کوئی نقص ہے؟ حضرت عائشہ نے فرمایا.آٹے میں نقص نہیں.میں مانتی ہوں کہ یہ بڑا ہی نرم پھلکا ہے اور ایسی چیز پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھی مگر میری آنکھوں سے اس لیے آنسو نہیں ہے کہ اس آٹے میں کوئی نقص ہے بلکہ مجھے وہ دن یاد آگئے جب رسول کریم کی لی کی اپنی آخری عمر میں سے گزر رہے تھے.آپ ضعیف ہو گئے تھے اور سخت غذا نہیں کھا سکتے تھے مگر ان دنوں میں بھی ہم پتھروں سے گندم چل کر اور اس کی روٹیاں پکا پکا کر آپ کو دیتے تھے.پھر آپؐ نے فرمایا.وہ جس کے طفیل ہم کو یہ نعمتیں ملیں وہ تو ان نعمتوں سے محروم چلا گیا لیکن ہم جنہیں اس کے طفیل سے یہ سب عزتیں مل رہی ہیں ہم وہ نعمتیں استعمال کر رہے ہیں.یہ کہا اور لقمہ تھوک دیا اور فرمایا.اٹھا لے جاؤ یہ پھلکے میرے سامنے سے.مجھے رسول کریم صلی علیہ کی کا زمانہ یاد آکر گلے میں پھندا پڑتا ہے اور میں یہ پھلکا نہیں کھا سکتی.129 حضرت عمر کا حضرت حسن اور حضرت حسین سے محبت کا اظہار حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانے میں اصحاب رسول اللہ صلی علیم نے مدائن کو فتح کیا.( مدائن کسری کی تخت گاہ تھا) تو آپ نے ان کو مسجد میں چھڑے کی چٹائی بچھانے کا حکم دیا اور اموالِ غنیمت کے بارے میں حکم دیا جو اس چٹائی پر انڈیل دیے گئے.پھر اصحاب رسول صلی الہ یکم جمع ہوئے تو سب سے پہلے جس نے آپؐ سے مالِ غنیمت لینے کی ابتدا کی وہ حضرت حسن بن

Page 89

اصحاب بدر جلد 3 69 حضرت عمر بن خطاب علی تھے.انہوں نے عرض کیا اے امیر المومنین ! جو مال اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمایا ہے اس میں سے میرا حق مجھے عطا فرمائیں تو حضرت عمرؓ نے ان کو کہا بڑی خوشی سے اور عزت سے اور ان کو ایک ہزار در ہم دینے کا حکم فرمایا.پھر وہ یعنی حسن چلے گئے اور حسین بن علی آپ کی طرف آگے بڑھے اور عرض کیا اے امیر المومنین ! جو مال اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمایا اس میں سے میرا حق مجھے عطا فرمائیں تو حضرت عمر نے ان کو کہا بڑی خوشی سے اور عزت کے ساتھ اور ان کو ایک ہزار درہم دینے کا حکم فرمایا.پھر آپ کے بیٹے یعنی حضرت عمرؓ کے بیٹے عبد اللہ بن عمرؓ آپ کی طرف آگے بڑھے اور عرض کیا اے امیر المومنین ! جو مال اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمایا ہے اس میں سے میرا حق مجھے عطا فرمائیں.تو حضرت عمرؓ نے ان کو کہا بڑی خوشی اور عزت کے ساتھ اور انہیں پانچ سو درہم دینے کا حکم فرمایا.اس پر عبد اللہ بن عمرؓ نے عرض کیا.اے امیر المومنین! میں ایک طاقتور مرد ہوں جو رسول اللہ صلی علیم کے سامنے تلوار چلایا کرتا تھا اور حسن اور حسین اس وقت بچے تھے جو مدینہ کی گلیوں میں پھر ا کرتے تھے.آپ نے ان دونوں کو ایک ایک ہزار درہم دیے ہیں اور مجھے پانچ سو.آپ نے فرمایا: ہاں ! جاؤ اور میرے پاس ایسا باپ لے کے آؤ جیسا ان دونوں کا باپ ہے اور ماں جو ان دونوں کی ماں کے جیسی ہو اور نانا جو ان دونوں کے نانا جیسا ہو اور نانی جو ان دونوں کی نانی جیسی ہو اور چچا جو ان دونوں کے چا جیسا ہو اور ماموں جو ان دونوں کے ماموؤں جیسا ہو اور خالہ جو ان دونوں کی خالہ جیسی ہو اور یقینا تو میرے پاس نہیں لا سکے گا.130 ابو جعفر سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب ارادہ کیا کہ لوگوں کے لیے وظیفے مقرر کر دیں اور آپ کی رائے سب لوگوں کی رائے سے بہتر تھی تو لوگوں نے عرض کیا کہ آپ اپنی ذات سے شروع کریں.آپؐ نے فرمایا نہیں.چنانچہ آپ نے رسول اللہ صلی علیکم کے سب سے قریبی رشتہ دار سے شروع کیا.آپؐ نے پہلے حضرت عباس کا اور پھر حضرت علی کا حصہ مقرر کیا.131 حضرت عمر بن خطاب حضرت امام حسن اور امام حسین کی عزت کرتے تھے اور ان کو سوار کرتے اور ان دونوں کو عطا کرتے تھے جیسے ان کے والد کو عطا کیا کرتے تھے.ایک دفعہ یمن سے کچھ حلقے یعنی کپڑوں کے جوڑے آئے تو آپ نے انہیں صحابہ کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا اور ان دونوں کو ان میں سے کچھ نہ دیا اور فرمایا: ان میں ان دونوں کے لائق کوئی چیز نہیں.پھر آپ نے یمن کے نائب کو پیغام بھیجا تو اس نے ان دونوں کے مناسب حال ٹھے بنوائے.132 اناج خود اٹھا کر لائے...زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ان کے والد نے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب

Page 90

اصحاب بدر جلد 3 70 حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ حرة واقم کی طرف گیا.یہ دو حروں کے درمیان جگہ ہے.کڑہ سیاہ پتھریلی زمین کو کہتے ہیں.مدینہ کے مشرق کی جانب حرة واقتم ہے جس کو حرہ بنو قریظہ بھی کہتے ہیں.دوسر ا حَزَةُ الْوَبُرَہ ہے جو مدینہ کے مغرب میں تین میل کے فاصلہ پر ہے.بہر حال کہتے ہیں میں وہاں گیا.جب ہم صر ار مقام پر پہنچے تو ایک جگہ ایک آگ روشن تھی.صرار بھی مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے اسلم! میراخیال ہے کہ یہ کوئی مسافر ہیں جن کو رات اور سردی نے روک رکھا ہے.ہمارے ساتھ آؤ.چنانچہ ہم تیز تیز چلتے ہوئے ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کے ساتھ اس کے کچھ بچے ہیں اور ایک ہنڈیا آگ پر چڑھی ہوئی ہے.اس کے بچے بھوک کی وجہ سے بلک بلک کر رو ر ہے تھے.حضرت عمرؓ نے فرمایا.السلام علیکم اے روشنی والو!.آپ نے آگ والے کہنا پسند نہ کیا بلکہ روشنی والے کہا.اس خاتون نے وعلیکم السلام کہا.آپؐ نے فرمایا: کیا میں قریب آسکتا ہوں ؟ اس عورت نے کہا: خیر سے آؤ ورنہ واپس لوٹ جاؤ.مطلب کوئی خیر کی بات کرنی ہے تو آؤ ورنہ واپس لوٹ جاؤ.آپ قریب ہو گئے.پھر آپ نے فرمایا تم لوگوں کو کیا ہوا؟ تو اس عورت نے کہا رات اور سردی نے ہمیں یہاں روک لیا ہے.آپ نے کہا ان بچوں کا کیا معاملہ ہے، یہ کیوں بلک رہے ہیں ؟ اس عورت نے کہا بھوک کی وجہ سے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس ہنڈیا میں کیا چیز ہے ؟ اس عورت نے کہا کہ اس کے اندر صرف پانی ہے اور اس کے ذریعہ میں بچوں کو دلاسا دے رہی ہوں یہاں تک کہ وہ سو جائیں.اللہ ہمارے اور عمر، حضرت عمرؓ کے درمیان فیصلہ کرے گا.آپ نے فرمایا: اے خاتون! اللہ تم پر رحم کرے، عمر کو تمہاری حالت کیسے معلوم ہو سکتی ہے ! اس نے کہا یعنی اس عورت نے کہا کہ وہ ہمارے امور کے نگران ہیں اور ہم سے غافل ہیں.اسلم جو حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے.وہ کہتے ہیں کہ پھر آپ یعنی حضرت عمر میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا ہمارے ساتھ چلو.پھر ہم نہایت تیزی سے چلتے ہوئے دَارُ التَّقِیق آئے.حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں دَارُ اللقِیق نام سے ایک عمارت بنوائی تھی جس میں آٹا، ستو، کھجور، کشمش اور دیگر ضروریاتِ سفر جن کی ایک مسافر کو ضرورت ہو سکتی ہے میسر ہوتی تھیں.آپ نے مدینہ اور مکہ کے در میانی راستوں پر مسافروں کے لیے کچھ سرائے خانے بھی بنوائے ہوئے تھے.بہر حال پھر آپ نے وہاں سے ایک بو را اناج کا نکالا اور چکنائی کا ڈبہ آپ نے لیا.آپ نے فرمایا: اسے مجھے اٹھوا دو.اسلم کہتے ہیں: میں نے کہا کہ آپ کی جگہ میں اٹھا لیتا ہوں.حضرت عمرؓ نے دو یا تین مرتبہ فرمایا کہ مجھے یہ اٹھو ادو.میں نے ہر دفعہ عرض کیا کہ آپؐ کی جگہ میں اسے اٹھالیتا ہوں.آخر حضرت عمرؓ نے فرمایا: تیر ابھلا ہو ! کیا قیامت کے دن میرا بوجھ تم اٹھاؤ گے؟ اس پر میں نے وہ بورا آپ پر لاد دیا.پھر آپ اس بورے کو اپنی کمر پر لاد کر تیز قدموں سے چلے اور میں بھی تیزی سے آپ کے ساتھ چلا یہاں تک کہ ہم اس عورت کے پاس پہنچ گئے.آپ نے وہ بوری اس کے پاس اتاری اور اس میں سے کچھ آٹا نکالا اور اس خاتون سے

Page 91

حاب بدر جلد 3 71 حضرت عمر بن خطاب کہا کہ اسے ہنڈیا میں آہستہ آہستہ ڈالو اور میں اسے تمہارے لیے ہلا تا ہوں.دوسری جگہ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم آہستہ آہستہ آٹا ڈالو.میں تمہارے لیے حریرہ تیار کرتا ہوں.پھر آپ ہنڈیا کے نیچے آگ سلگانے کے لیے پھونک مارنے لگے.اسلم یعنی روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ آپؐ (حضرت عمر) بڑی اور گھنی داڑھی والے تھے.میں نے دیکھا کہ دھواں آپ کی داڑھی کے اندر سے نکل رہا ہے.یعنی دھواں اٹھتا تھا تو ان کے چہرے پر بھی پڑتا تھا، داڑھی کے اندر سے بھی گزر جاتا تھا.جب ہنڈیا پک گئی تو آپ نے ہنڈیا کو نیچے اتارا.آپ نے فرمایا کوئی برتن لاؤ.وہ عورت بڑی پلیٹ لائی.آپ نے اس میں کھانا ڈالا اور کہنے لگے تم ان بچوں کو کھلاؤ.میں تمہارے لیے پھیلاتا ہوں تاکہ ٹھنڈا ہو جائے، یعنی اس کو مزید پھیلا کے دوسری جگہ، دوسرے برتن میں ٹھنڈا کرتا ہوں.پھر آپؐ مسلسل ایسا کرتے رہے یہاں تک کہ ان بچوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھالیا اور جو بچ گیا وہ آپ نے اس کے پاس چھوڑ دیا.اسلم کہتے ہیں: پھر آپ کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہو گیا.اس پر وہ عورت کہنے لگی اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا دے.تم اس امر میں امیر المومنین سے زیادہ حقدار ہو یعنی جزا کے.اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا بھلائی کی بات کہو.جب تم امیر المومنین کے پاس جاؤ گی تو تم انشاء اللہ مجھے وہاں پاؤ گی.بہر حال وہ کہتے ہیں پھر حضرت عمر وہاں سے ایک طرف ہٹ گئے.پھر اس خاتون کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے.میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا اس کے علاوہ اور بھی کوئی کام ہے.آپ نے مجھ سے کوئی بات نہ کی یہاں تک کہ میں نے بچوں کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے سے کھیل رہے تھے اور ہنس رہے تھے اور تمام بچے پر سکون ہو کر 133 سو گئے تو حضرت عمرؓ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے اسلم! بھوک کی وجہ سے یہ بچے جاگ رہے تھے اور رورہے تھے.میں نے پسند کیا کہ میں یہاں سے اس وقت تک نہ جاؤں جب تک کہ میں ان کی اس آرام کی حالت کو نہ دیکھ لوں جو میں نے ابھی دیکھی ہے.33 حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے.آپؐ فرماتے ہیں کہ انسانی ضروریات کا ان لوگوں کے لیے مہیا کر نا جو ان کو یعنی ان ضروریات کو مہیا نہیں کر سکتے اسلامی حکومت کا فرض ہے.اسلامی حکومت کی ذمہ داری بتا رہے ہیں.اس کے متعلق حضرت عمر کا ایک واقعہ نہایت ہی مؤثر اور کاشف حقیقت ہے.یعنی حقیقت کو کھولنے والا ہے.ایک دفعہ حضرت عمر خلیفہ ثانی باہر مجتس کر رہے تھے کہ کسی مسلمان کو کوئی تکلیف تو نہیں.مدینہ ، دار الخلافہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں مرار نامی ہے.ہمارے تحقیق کرنے والے کہتے ہیں کہ شاید مرار نہیں بلکہ صر ار ہی اس کا نام ہے.ہو سکتا ہے کاتب کی غلطی کی وجہ سے مرار لکھا گیا ہو.بہر حال وہاں آپ نے دیکھا کہ ایک طرف سے رونے کی آواز آرہی ہے.ادھر گئے تو دیکھا ایک عورت کچھ پکار ہی ہے اور دو تین بچے رورہے ہیں.اس سے پوچھا کہ

Page 92

محاب بدر جلد 3 72 حضرت عمر بن خطاب کیا بات ہے.اس نے کہا کہ دو تین وقت کا فاقہ ہے.کھانے کو کچھ پاس نہیں.بچے بہت بے تاب ہوئے تو خالی ہنڈیا چڑھا دی تا کہ بہل جائیں اور سو جائیں.حضرت عمرؓ یہ بات سن کر فورآمدینہ کی طرف واپس ہوئے.آٹا، گھی ، گوشت اور کھجوریں لیں اور ایک بوری میں ڈال کر اپنے خادم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دے.اس نے کہا حضور میں موجود ہوں میں اٹھا لیتا ہوں.آپ نے جواب دیا: بے شک تم اس وقت اٹھا کر لے چلو گے مگر قیامت کے دن میرا بوجھ کون اٹھائے گا ! یعنی ان کی روزی کا خیال رکھنا میرا فرض تھا اور اس فرض میں مجھ سے کوتاہی ہوئی ہے.اس لیے اس کا کفارہ یہی ہے کہ میں خود اٹھا کر یہ اسباب لے جاؤں اور ان کے گھر پہنچاؤں.حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں اس واقعہ سے کوئی یہ مطلب نہ نکال لے کہ ضرورت مندوں کو جو وظائف دیے جاتے ہیں یہ سستی پیدا کرنے کے لیے ہیں بلکہ ہر ضرور تمند کو وظیفہ دینا ہے.چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ اسلام جہاں غریبوں کی خبر گیری کا حکم دیتا ہے وہاں جیسا کہ پہلے اس ضمن میں بیان ہوا ہے کہ سستی اور کاہلی کو بھی مٹاتا ہے.وظائف اس لیے نہیں دیے جاتے کہ سستی اور کاہلی پیدا ہو.ان وظائف کی یہ غرض نہ تھی کہ لوگ کام چھوڑ کر بیٹھیں بلکہ صرف مجبوروں کو یہ وظائف دیے جاتے تھے ورنہ سوال سے لوگوں کو روکا جاتا تھا.حضرت عمر مانگنے والوں کو مانگنے سے روکنے کے لیے بھی بہت سخت اقدام کیا کرتے تھے.یہی نہیں کہ صرف بھوکا دیکھ لیا تو کھانا کھلا دیا، کوئی مانگنے آیا تو اس کو دے دیا بلکہ مانگنے والا اگر صحت مند ہے تو آپ بڑا سخت قدم اٹھایا کرتے تھے.ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک سائل کو دیکھا اس کی جھولی آٹے سے بھری ہوئی تھی.آٹا اس کی جھولی میں پڑا ہوا تھا اور وہ مانگ رہا تھا.آپ نے اس سے آٹا لے کر اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور اس کی جھولی خالی کر دی اور فرمایا کہ اب مانگ.اسی طرح یہ ثابت ہے کہ سوالیوں کو کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا.4 یعنی تم اچھے بھلے انسان ہو.تمہارا مانگنے سے کیا کام ہے.محنت کرو، کماؤ اور کھاؤ اور یہ سبق دیا کہ دوبارہ مانگو گے تو دوبارہ تمہارے سے یہی سلوک ہو گا کہ تمہارے سے چھین کے جانوروں کے آگے ڈال دیا جائے گا.اکثر مانگنے والے یہ ایک مثال دے کر اس پر زور دیتے ہیں کہ دیکھو حضرت عمر کس طرح خیال رکھتے تھے لیکن مانگنے سے جس سختی سے اسلام نے روکا ہے اس کو نہیں دیکھتے اور اس پر آنحضرت میای لیلی و کم کا عمل بھی ہے اور حضرت عمرؓ نے بھی پھر اس کو جاری کیا، اس کو نہیں دیکھتے.134 پھر اس واقعہ کو ایک اور جگہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے یوں بیان فرمایا کہ: ”حضرت عمررؓ کو دیکھ لو.اُن کے رعب اور دبدبہ سے ایک طرف دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کا نپتے تھے.قیصر و کسریٰ کی حکومتیں تک لرزہ بر اندام رہتی تھیں مگر دوسری طرف اندھیری رات میں ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر عمر جیسا عظیم المرتبت انسان تلملا اٹھا اور اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لاد کر اور گھی کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں اٹھا کر ان کے پاس پہنچا اور اس وقت تک واپس نہیں لوٹا جب تک کہ اس نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر ان بچوں کو نہ کھلا لیا اور وہ اطمینان سے سو نہ گئے.“135

Page 93

اصحاب بدر جلد 3 73 حضرت عمر بن خطاب عورت کا اپنے بچے کا زبر دستی دودھ چھڑوانا پھر حضرت عمرؓ کے یہی آزاد کردہ غلام اسلم، جن کا پہلے بھی ذکر ہوا ہے ، یہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں تاجروں کا ایک قافلہ آیا اور ان لوگوں نے عید گاہ میں قیام کیا.حضرت عمرؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے فرمایا کیا تم پسند کرتے ہو کہ ہم رات کے وقت ان کا پہرہ دیں؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں.چنانچہ آپ دونوں ساری رات ان کی حفاظت کرتے رہے اور عبادت کرتے رہے.حضرت عمر نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی تو آپ اس طرف گئے اور اس کی ماں سے کہا اللہ تعالیٰ کا خوف کرو اور اپنے بچے کا اچھی طرح خیال رکھو.یہ کہہ کر آپ واپس تشریف لے آئے یعنی واپس اس جگہ تشریف لے آئے جہاں آپ سامان کی حفاظت کے لیے بیٹھے ہوئے تھے کہ پھر آپ نے اس کے رونے کی آواز سنی.آپ دوبارہ اس کی ماں کی طرف گئے اور اس کو پھر پہلی بات کی طرح کہا اور اپنی جگہ واپس تشریف لے آئے.جب رات کا آخری وقت ہوا اور بچے کے رونے کی آواز سنی تو آپ اس کی ماں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا تیر ابھلا ہو تو بہت لا پر واماں ہے.مجھے کیا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ ساری رات رونے کی وجہ سے تمہارا بچہ بے چین رہا.اس عورت نے کہا کہ اے اللہ کے بندے! میں اس کو دودھ کے علاوہ دوسری خوراک کی طرف مائل کر رہی ہوں لیکن وہ بچہ انکار کر دیتا ہے.کہتا ہے کہ مجھے دودھ ہی دو.آپ نے پوچھا وہ کیوں؟ اس عورت نے کہا کیونکہ حضرت عمر ان ہی بچوں کا وظیفہ مقرر کرتے ہیں جن کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو.آپ نے پوچھا تمہارے اس بچے کی عمر کتنی ہے؟ اس عورت نے کہا اتنے (سال) اور اتنے ماہ.حضرت عمرؓ نے فرمایا تیر ابھلا ہو.دودھ چھڑانے میں اتنی جلدی نہ کر.پھر جب آپ نے لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی تو آپ کے رونے کی وجہ سے قراءت لوگوں پر واضح نہیں ہو رہی تھی.حضرت عمرؓ نے اپنے آپ سے کہا، عمر کابر اہو اس نے کتنے ہی مسلمانوں کے بچوں کا خون کر دیا ہے.پھر آپ نے منادی کرنے والے کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ اپنے بچوں کو دودھ چھڑوانے میں جلدی نہ کرو.اسلام میں جو بھی بچہ ہے یعنی اب ہر پیدا ہونے والے بچے کا ہم وظیفہ مقرر کرتے ہیں اور حضرت عمر نے سارے ممالک میں یہ حکم بھجوادیا.136 اس واقعہ کو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اپنے انداز میں بیان فرمایا ہے کہ ”حضرت عمرؓ نے شروع شروع میں دودھ پیتے بچوں کے لئے کوئی وظیفہ مقرر نہیں کیا تھا لیکن بعد میں دودھ پیتے بچوں کا حق تسلیم کر لیا اور حکم دیا کہ ان کا حصہ ان کی ماؤں کو دیا جائے.پہلے حضرت عمر یہ سمجھتے تھے کہ جب تک بچہ دودھ پیتا ہے وہ قوم کے وجود میں حصہ نہیں لیتا.اس کی ذمہ داری اس کی ماں پر ہے پبلک پر نہیں “ ہے کہ بیت المال سے اس کا خرچ دیا جائے لیکن ایک دفعہ حضرت عمرؓ سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے.شہر سے باہر ایک قافلہ بدویوں کا اترا ہو ا تھا.حضرت عمرؓ نے ایک خیمہ سے بچے کے رونے کی آواز سنی.بچہ چیخ رہا "

Page 94

محاب بدر جلد 3 74 حضرت عمر بن خطاب تھا اور ماں تھپک تھپک کر سلانے کی کوشش کر رہی تھی.جب کچھ مدت تک تھپکی دینے کے باوجود بچہ چپ نہ ہوا تو ماں نے بچے کو تھپڑ مار کر کہا.رؤ عمر کی جان کو.حضرت عمر حیران ہوئے کہ اس بات سے میر اکیا تعلق ہے؟ حضرت عمرؓ نے اس عورت سے خیمہ میں داخل ہونے کی اجازت لی اور اندر جا کر اس عورت سے پوچھابی بی! کیا بات ہے؟ چونکہ وہ حضرت عمر کو پہچانتی نہ تھی اس لئے کہنے لگی بات کیا ہے ؟ عمرؓ نے سب کے گزارے مقرر کئے ہیں لیکن اس کو یہ معلوم نہیں کہ دودھ پیتے بچوں کے لئے بھی غذا کی ضرورت ہے.اب میرے پاس دودھ پورا نہیں اور میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے تا اس کا وظیفہ مقرر ہو جائے.حضرت عمر اسی وقت واپس آئے اور آپ نے خزانے سے آٹے کی بوری نکلوائی اور خود اٹھا کر چلنے لگے.وہ آدمی جو خزانہ پر مقرر تھے وہ آگے بڑھے کہ ہم اٹھا کر لے چلتے ہیں.حضرت عمرؓ نے ان سے کہا تم چھوڑ دو میں خود اٹھا کر لے جاؤں گا.قیامت کے دن جب مجھے کوڑے لگیں گے تو کیا میری جگہ تم جواب دو گے؟ پتہ نہیں کہ اس طرح میرے ذریعہ کتنے بچے مر گئے ہیں.اس کے بعد حضرت عمرؓ نے یہ حکم دیا کہ دودھ پیتے بچوں کا بھی وظیفہ مقرر کیا جائے.137 حضرت عمرؓ کا درخت لگانا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”حدیث میں عمار بن خُزیمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے میرے باپ کو فرمایا کہ تجھے کس چیز نے اپنی زمین میں درخت لگانے سے منع کیا ہے؟ ( وہ آگے مزید درخت نہیں لگا رہا تھا، اپنے باغ کو بڑھا نہیں رہا تھا یا جو خراب پودے تھے ان کی جگہ نئے پودے نہیں لگا رہا تھا تو میرے باپ نے جواب دیا کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں.کل مر جاؤں گا.( مجھے کیا فائدہ اس کا ؟ ) پس اس کو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تجھ پر ضرور ہے کہ درخت لگائے.( یہ کوئی دلیل نہیں ہے.لازمی طور پر تم نے یہ درخت لگانے ہیں).کہتے ہیں ”پھر میں نے حضرت عمر کو دیکھا کہ خود میرے باپ کے ساتھ مل کر ہماری زمین میں درخت لگاتے تھے.1380 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ واقعہ سستی اور کسل مندی سے بچنے کے ضمن میں بھی بیان فرمایا ہے اور یہ بھی کہ پچھلی نسل کے لگائے ہوئے پودوں کے پھل تم کھا رہے ہو تو اگلی نسل کے لیے بھی پورے چھوڑ کے جاؤ.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کو دورہ کیا کرتے تھے.ایک 66 دفعہ رات کو شہر میں پھر رہے تھے تو آپ نے ایک عورت کو سنا کہ وہ عشقیہ شعر پڑھ رہی ہے.آپ نے دن کو تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ اس کا خاوند مدت سے باہر رہتا ہے.فوج میں باہر گیا ہوا ہے ”آپ نے پھر یہ حکم دے دیا اس کے بعد آپ نے یہ حکم دیا کہ کوئی سپایی چار ماہ سے زیادہ باہر نہ رہے.اگر کوئی سپاہی زیادہ مدت تک باہر رہناچاہتا ہو تو اپنی بیوی کو بھی اپنے ساتھ رکھے ورنہ چار ماہ کے بعد اسے فوج کا افسر مجبور اواپس گھر بھیج دے.139

Page 95

اصحاب بدر جلد 3 75 حضرت عمر بن خطاب اس کی تفصیل میں ایک جگہ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا اس عورت سے ، جو شعر پڑھ رہی تھی اس کے شعر سن کے پوچھا کہ تم نے کوئی برائی کا ارادہ تو نہیں کیا؟ اس عورت نے کہا کہ اللہ کی پناہ.حضرت عمرؓ نے اس عورت کو فرمایا کہ اپنے آپ پر قابورکھو.اس کی طرف میں ابھی خط روانہ کر رہا ہوں یعنی تمہارے خاوند کی طرف میں ابھی خط روانہ کر رہا ہوں.چنانچہ آپ نے اس کی طرف قاصد کو بھجوایا تا کہ اس کو واپس بلایا جائے.پھر آپ نے مزید تحقیق کی اور پھر جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ چار مہینہ کا زیادہ سے زیادہ عرصہ رکھا کہ اس عرصہ سے زیادہ خاوند باہر نہ رہے یا پھر بیوی بچے ساتھ ہوں.140 پھر حضرت عمرؓ نے اپنی پشت پر آٹا اور چربی اٹھائی اسلم، حضرت عمر کے وہی آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں حضرت عمررؓ کے ساتھ مدینہ کے بیرونی حصہ میں گیا تو ہمیں ایک خیمہ نظر آیا.ہم نے اس خیمہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس خیمے میں ایک عورت دردزہ میں مبتلا ہے اور رورہی ہے.حضرت عمرؓ نے اس سے اس کا حال دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا.میں ایک مسافر پر دیسی عورت ہوں اور میرے پاس کچھ نہیں ہے.اس پر حضرت عمر رو پڑے اور تیزی سے اپنے گھر واپس لوٹے اور اپنی اہلیہ حضرت ام کلثوم بنت علی سے فرمایا کیا تم اجر حاصل کرنا چاہتی ہو جو اللہ تمہارے پاس لایا ہے.آپ نے ساری بات ان کو بتائی.اس پر انہوں نے کہا جی ضرور.پھر حضرت عمر نے اپنی پشت پر آنا اور چربی اٹھائی اور حضرت ام کلثوم نے زچگی کی ضرورت کا سامان اٹھایا اور وہ دونوں آئے.حضرت ام کلثوم اس عورت کے پاس گئیں اور حضرت عمرؓ اس عورت کے خاوند کے ساتھ بیٹھ گئے.وہ خاوند بھی وہاں موجود تھا.وہ آپ کو نہیں پہچانتا تھا.آپ اس کے ساتھ گفتگو کرنے لگے.اس عورت نے لڑکے کو جنم دیا.حضرت ام کلثوم نے حضرت عمرؓ کو آئے بتایا اور عرض کی کہ اے امیر المومنین ! اپنے ساتھی کو لڑکے کی خوشخبری دے دیں.یعنی وہ جو اس عورت کا خاوند ہے اسے خوشخبری دے دیں کہ لڑکا پیدا ہوا ہے.جب اس شخص نے حضرت ام کلثوم کی یہ بات سنی تو اس کو احساس ہوا.اس کو تو نہیں پتہ تھا کہ کس کے ساتھ بیٹھا ہے، کہ وہ کتنے عظیم شخص کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور وہ حضرت عمرؓ سے معذرت کرنے لگا.حضرت عمرؓ نے فرمایا کوئی بات نہیں.پھر آپ نے ان کو خرچ اور ضرورت کا سامان پہنچایا اور واپس تشریف لے آئے.141....پھر سب عورتوں کے ہاں خطوط کے لیے کاغذ اور دوا تیں لے کر جاتے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا اس کو پورا کر دیا.سختی کرنے کے مواقع پر سختی میں اور نرمی کے مواقع پر نرمی میں بڑھ گئے اور وہ لوگوں کے بال بچوں کے باپ بن گئے یہاں تک کہ ان عورتوں کے پاس جاتے جن کے شوہر باہر گئے

Page 96

اصحاب بدر جلد 3 76 حضرت عمر بن خطاب ہوئے تھے.ان کے دروازوں پر پہنچ کر ان کو سلام کرتے پھر کہتے کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے ؟ یا تم کوئی ضرورت کی چیز منگوانا چاہو تو میں وہ چیز تمہیں بازار سے خرید کر لا دوں گا.مجھے یہ ناپسند ہے کہ خرید و فروخت میں تمہیں دھوکا دیا جائے تو وہ عورتیں آپ کے ساتھ اپنی بچیوں کو یا بچوں کو بھی بھیج دیتی تھیں.آپ بازار میں اس طرح جاتے کہ آپ کے پیچھے لوگوں کی بچیاں اور بچے اتنے ہوتے کہ ان کا شمار مشکل ہو تا.پھر آپ ہر ایک کے لیے ان کی ضرورت کی چیزیں خریدتے اور جن عورتوں کا کوئی بچہ نہ ہو تا تو اس کے لیے خود خریداری کرتے.جب کسی لشکر میں سے کوئی ایچی آتا تو اس سے ان عورتوں کے شوہروں کے خطوط لے کر خود ان کو پہنچاتے اور ان سے فرماتے کہ تمہارے شوہر اللہ کی راہ میں گئے ہوئے ہیں اور تم رسول اللہ صلی علیم کے شہر میں ہو.اگر تمہارے پاس کوئی ہے جو یہ خط پڑھ سکے تو ٹھیک ہے ورنہ دروازے کے قریب کھڑی ہو جاؤ تا کہ میں تمہیں پڑھ کر سنادوں.142 پھر فرماتے کہ ہمارا اینچی یہاں سے فلاں فلاں دن جائے گا تم خط لکھ دینا تا کہ ہم تمہارے خطوط بھیج دیں.پھر سب عورتوں کے ہاں خطوط کے لیے کاغذ اور دوا تیں لے کر جاتے پھر ان میں سے جو خط لکھ دیتی اس کا خط لیتے اور جو نہ لکھ سکتی تو فرماتے کہ یہ کاغذ اور دوات ہے تم دروازے کے قریب آجاؤ اور مجھے لکھواؤ.اس طرح آپ ایک ایک دروازے پر جاتے اور ان کے شوہروں کو ان کی طرف سے خطوط لکھتے.پھر ان خطوط کو بھیج دیتے.2 حضرت علی بیان فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر اونٹ کا پالان کندھے پر رکھے ہوئے ابطخ کی طرف تیزی سے جارہے تھے.یہ البطاخ بھی مکہ اور منی کے قریب ایک جگہ کا نام ہے.تو حضرت علی کہتے ہیں.میں نے کہا اے امیر المومنین ! کہاں جارہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: صدقے کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے.میں اس کو تلاش کرنے جارہا ہوں.میں نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ ایسی باتیں آپ کر رہے ہیں کہ آپ نے اپنے بعد آنے والے خلفاء کے لیے ایسی راہیں متعین کر دی ہیں کہ جن پر چلنا آسان نہیں ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے ابو الحسن ! مجھے ملامت نہ کرو.اس کی قسم ہے جس نے محمد کو نبوت کے ساتھ مبعوث کیا! اگر بکری کا بچہ بھی دریائے فرات کے کنارے ضائع ہو گیا تو قیامت کے دن عمر کا اس پر مواخذہ ہو گا.143 چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے کی ضرورت نہیں ہے حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مسلمان ایسی حالت میں چلے آرہے تھے کہ انہوں نے گردن نیچی ڈالی ہوئی تھی یعنی ایک مسلمان شخص تھا جو نیچے گردن جھکائے ہوئے چلا آرہا تھا.کوئی صدمہ پہنچا ہو گا، کوئی تکلیف پہنچی ہو گی اس وجہ سے پریشان ہو گا.نیچے گردن ڈالی ہوئی تھی.”حضرت عمرؓ نے اس کی ٹھوڑی پر مکا مارا اور کہا اسلام کی فتوحات کا زمانہ ہے اور تم اپنی گردن جھکائے پھر رہے ہو !! یعنی یہ زمانہ ہے اور اسلام کی فتوحات ہو رہی ہیں.اگر تمہیں کوئی تھوڑی سی تکلیف

Page 97

صحاب بدر جلد 3 77 144<< حضرت عمر بن خطاب پہنچی بھی ہے تو اس کی وجہ سے تم نے اپنا سر نیچے کر لیا ہے.نیچے گردن جھکا کر چل رہے ہو.یہ کوئی طریقہ نہیں ہے.” خدا تعالیٰ نے اس وقت اسلام کو حکومت دی ہے.دنیا جو چاہے کہے مگر تم تو یقین رکھتے ہو کہ اسلام کو فتح ہو گی.اگر تم یقین رکھتے ہو کہ اسلام کو فتح ہو گی تو پھر رونا کیا.پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے کی ضرورت نہیں ہے اور یا ایک جگہ سے مسلمانوں کو کہیں بھی کوئی تکلیف پہنچی ہے تو کوئی رونے کی ، پریشان ہونے کی بات نہیں ہے.یہ بات حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان سے ہجرت کے بعد اس ضمن میں بیان فرمائی تھی اور فرمایا کہ ایک مومن کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس نے کیا کھویا ہے.اگر کوئی چیز ضائع بھی ہو گئی ہے، نقصان بھی تھوڑا ہو گیا تو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کیا کھویا ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کس کے لیے کھویا ہے.اگر خدا تعالیٰ کے لیے اور اسلام کی ترقی کے لیے کوئی چیز ضائع ہوئی ہے ، ہاتھ سے نکل گئی تو پھر اللہ تعالیٰ بہترین اجر دے گا.عارضی نقصانوں پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی.اسلامی مساوات اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ حضرت عمر کا ایک مشہور واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں آپ لکھتے ہیں کہ گو حضرت عمرؓ کو تکلیف بھی اٹھانی پڑی مگر آپ نے اس تکلیف کی کوئی پروانہ کی اور وہ مساوات قائم کی جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ جبلة ابن آيہم ایک بہت بڑے عیسائی قبیلے کا سردار تھا.جب شام کی طرف مسلمانوں نے حملے شروع کیے تو یہ اپنے قبیلہ سمیت مسلمان ہو گیا اور حج کے لیے چل پڑا.حج میں ایک جگہ بہت بڑا ہجوم تھا.اتفاقاً کسی مسلمان کا پاؤں اس کے پاؤں پر پڑ گیا.بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا پاؤں اس کے جبہ کے دامن پر پڑ گیا.چونکہ وہ اپنے آپ کو ایک بادشاہ سمجھتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ میری قوم کے ساٹھ ہزار آدمی میرے تابع فرمان ہیں بلکہ بعض تاریخوں میں سے پتہ چلتا ہے کہ ساٹھ ہزار محض اس کے سپاہیوں کی تعداد تھی.بہر حال جب ایک ننگ دھڑنگ مسلمان کا پیر اس کے پیر پر آپڑا تو اس نے غصہ میں آکر زور سے تھپڑ مار دیا اور کہا تو میری ہتک کرتا ہے.تو جانتا نہیں کہ میں کون ہوں؟ تجھے ادب سے پیچھے ہٹنا چاہیے تھا.تُو نے گستاخانہ طور پر میرے پاؤں پر اپنا پاؤں رکھ دیا.وہ مسلمان تو تھپڑ کھا کر خاموش ہو رہا مگر ایک اور مسلمان بول پڑا کہ تجھے پتہ ہے کہ جس مذہب میں تو داخل ہوا ہے وہ اسلام ہے اور اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں.بالخصوص اس گھر یعنی خانہ کعبہ میں جس کا تم طواف کر رہے ہو امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا.اس نے کہا میں اس کی پروا نہیں کرتا.اس مسلمان نے کہا کہ عمر کے پاس تمہاری شکایت ہو گئی تو وہ اس مسلمان کا بدلہ تم سے لیں گے.جبلة ابن آتی ہم نے جب سناتو آگ بگولا ہو گیا اور کہنے لگا کہ کیا کوئی شخص ہے جو جَبَلة ابن آیتم کے منہ پر تھپڑ مارے.اس نے کہا کہ کسی اور کا تو مجھے پتہ نہیں مگر عمر تو ایسے

Page 98

حاب بدر جلد 3 78 حضرت عمر بن خطاب ہی ہیں.یہ سن کر اس نے جلدی سے طواف کیا اور سیدھا حضرت عمر کی مجلس میں پہنچا اور پوچھا کہ اگر کوئی بڑا آدمی کسی چھوٹے آدمی کو تھپڑ مار دے تو آپ کیا کیا کرتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا یہی کرتے ہیں کہ اس کے منہ پر اس چھوٹے شخص سے تھپڑ مرواتے ہیں.وہ کہنے لگا کہ آپ میرا مطلب سمجھے نہیں.میر امطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بہت بڑا آدمی تھپڑ مار دے تو پھر آپ کیا کیا کرتے ہیں ؟ 146 آپ نے فرمایا: اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہے.پھر آپ نے کہا: جبلہ ! تم ہی تو یہ غلطی نہیں کر بیٹھے ؟ اس پر اس نے جھوٹ بول دیا اور کہا کہ میں نے تو کسی کو تھپڑ نہیں مارا.میں نے تو صرف ایک بات پوچھی ہے مگر وہ اسی وقت مجلس سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر اپنے ملک کی طرف بھاگ گیا اور اپنی قوم سمیت مرتد ہو گیا اور مسلمانوں کے خلاف رومی جنگ میں شامل ہوا لیکن حضرت عمر نے اس کی پروا نہیں کی.145 یہ وہ مساوات تھی جو اسلامی حکومت نے قائم کی اور آج کی اسلامی حکومتوں کے لیے بھی یہ سبق ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں.حضرت عمرؓ کے متعلق ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی ال نیم کے ایک ارشاد کے ماتحت جب یہودیوں اور عیسائیوں کو یمن سے نکالا تو آپ نے ان کی زمینیں ضبط نہیں کیں بلکہ ان کی زمینیں خریدیں.مزید فرماتے ہیں کہ یمن کی زمین جو عیسائیوں اور یہودیوں کے نیچے تھی وہ خراجی تھی لیکن جب حضرت عمرؓ نے وہ زمین یہودیوں اور عیسائیوں سے لے لی اور ان کو عرب کے جزیرے سے نکال دیا تو باوجود اس کے کہ وہ زمین خراجی تھی اور اصولی طور پر حکومت اس کی مالک سمجھی جاتی تھی انہوں نے وہ زمین ان سے چھینی نہیں بلکہ خریدی.چنانچہ فتح الباری شرح بخاری میں یہ حدیث درج ہے کہ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيْدٍ أَنَّ عُمَرَ أَجْلِى أَهْلَ نَجْرَانَ وَالْيَهُودَ وَالنَّصَارَى وَاشْتَرَى بَيَاضَ أَرْضِهِمْ وَكُرُومَهُمْ یعنی یحیی بن سعید روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے نجران کے مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کو وہاں سے جلاوطن کر دیا اور ان کی زمینیں اور باغ خرید لیے.یہ ظاہر ہے کہ یہودیوں کی زمین عشری نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر وہ عشری تھی تو اس کا مالک کوئی مسلمان ہو گا.پس یہودیوں سے اس کے خریدنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا.وہ یقیناً خراجی تھی جیسا کہ ہندوستان کی زمین کو خراجی قرار دیا جاتا ہے لیکن حضرت عمرؓ نے اس کو خراجی قرار دے کر اور حکومت کو اس کا مالک قرار دے کر اس کو ضبط نہیں کیا بلکہ اس کو خریدا.شاید کوئی کہے کہ یہ زمین نہ خراجی ہو گی نہ عشری بلکہ کسی اور قسم کی ہو گی تو یہ خیال بیہودہ ہو گا اور اسلامی شریعت سے ناواقفی کی علامت ہو گا.عشری اور خراجی کے سوا اور کوئی زمین اسلام میں نہیں سوائے اس کے کہ وہ بے کار پڑی ہوئی ہو اور اس کا مالک کوئی فرد واحد نہ ہو.پس لازما یہودی اور نصرانی اور مشرک اہل نجران کی زمینیں یا خراجی تھیں یا عشری تھیں مگر دونوں صورتوں میں ان کا مالک حضرت عمرؓ نے ان کے قابضوں کو قرار دیا اور ان سے وہ

Page 99

اصحاب بدر جلد 3 79 حضرت عمر بن خطاب زمینیں خریدی گئیں 147 وو اسلام میں جنگی قیدیوں کے علاوہ غلام بنانے کی ممانعت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ " فرماتا ہے تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا.اے مسلمانو! کیا تم دوسرے لوگوں کی طرح یہ چاہتے ہو کہ تم غیر اقوام کے افراد کو پکڑ کر اپنی طاقت اور قوت کو بڑھا لو.وَاللهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ.اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم دنیا کے پیچھے چلو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں ان احکام پر چلائے جو انجام کے لحاظ سے تمہارے لئے بہتر ہوں اور اگلے جہان میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کا مستحق بنانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور انجام کے خوشگوار ہونے کے لحاظ سے یہی حکم تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم سوائے جنگی قیدیوں کو جنہیں دوران جنگ گرفتار کیا گیا ہو اور کسی کو قیدی مت بناؤ.گویا جنگی قیدیوں کے سوا اسلام میں کسی قسم کے قیدی بنانے جائز نہیں.اس حکم پر شروع اسلام میں اس سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک دفعہ یمن کے لوگوں کا ایک وفد آپ کے پاس آیا اور اس نے شکایت کی کہ اسلام سے پہلے ہم کو مسیحیوں نے بلا کسی جنگ کے یونہی زور سے غلام بنالیا تھا ورنہ ہم آزاد قبیلہ تھے.ہمیں اس غلامی سے آزاد کرایا جائے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گو یہ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے مگر پھر بھی میں اس کی تحقیقات کروں گا.اگر تمہاری بات درست ثابت ہوئی تو تمہیں فوراً آزاد کرا دیا جائے گا.لیکن اس کے بر خلاف“ حضرت مصلح موعوددؓ مقابلہ کر رہے ہیں آج کل کے یورپ کا کہ یہ تو اسلامی تعلیم تھی جس پر حضرت عمرؓ نے عمل کروایا یا اس بارے میں ان کو تسلی کروائی لیکن اس کے برخلاف یورپ میں کیا ہوتا ہے ”یورپ اپنی تجارتوں اور زراعتوں کے فروغ کے لئے انیسویں صدی کے شروع تک غلامی کو جاری رکھتا چلا گیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی تاریخ سے ایک غیر اسلامی غلامی کا بھی پتہ لگتا ہے مگر پھر بھی غلاموں کے ذریعہ سے ملکی طور پر تجارتی یا صنعتی ترقی کرنے کا کہیں پتہ نہیں چلتا.148 اسلام میں یہ کوئی تصور نہیں.قحط اور حضرت عمر کی بے قراری ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بہت سخت قحط پڑ گیا مدینہ اور اس کے گردو نواح میں سخت قحط پڑا.جب تیز ہوا چلتی تو راکھ کی طرح مٹی اڑ آتی تھی.اس وجہ سے اس سال کا نام عام الرمادة، راکھ کا سال رکھ دیا گیا.عوف بن حارث اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اس سال کا نام عام الرمادۃ یعنی راکھ کا سال اس لیے رکھا گیا کہ ساری زمین بارش نہ ہونے کی وجہ سے سیاہ ہو کر راکھ کے مشابہ ہو گئی تھی اور یہ کیفیت نو 9 ماہ رہی.حزام بن ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اٹھارہ ہجری میں لوگ جب حج سے واپس ہوئے تو انہیں سخت تکلیف پہنچی.ملک میں خشک سالی پھیل گئی.مویشی ہلاک ہو گئے اور لوگ بھوک سے مرنے لگے یہاں تک کہ لوگ بوسیدہ ہڈیوں کا سفوف پیس کر اس کو پانی میں ڈال کر پینے لگے اور 149

Page 100

اصحاب بدر جلد 3 80 حضرت عمر بن خطاب چوہوں وغیرہ کے بلوں کو کھودتے اور اس میں جو ہو تا اسے نکالنے لگے.حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت عمرو بن عاص کی طرف عام الرمادۃ میں خط لکھا: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ کے بندے عمر امیر المومنین کی طرف سے عاصی بن عاصی کے نام.تم پر سلامتی ہو.اما بعد.کیا تم مجھے اور ان لوگوں کو مرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہو جو میرے پاس ہیں اور تم زندہ ہو اور وہ لوگ جو تمہارے پاس ہیں وہ بھی زندہ ہوں.کیا کوئی مدد کرنے والا ہے ؟ یہ آپ نے تین دفعہ لکھا اس پر.مد دامد دامد د! اس کے جواب میں حضرت عمرو بن عاص نے لکھا: بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس کے بندے کی طرف.اما بعد.آپ کے پاس مدد پہنچ گئی.کچھ دیر انتظار فرمائیں.میں آپ کی طرف اونٹوں کا ایک قافلہ بھیج رہا ہوں جس کا پہلا اونٹ آپ کے پاس ہو گا اور اس کا آخری اونٹ میرے پاس ہو گا یعنی اتنا بڑا قافلہ ہو گا.ایک لمبی قطار ہو گی.والی کمصر حضرت عمرو بن عاص نے اناج اور غلہ کے ایک ہزار اونٹ بھیجے.گھی اور کپڑے وغیر ہ اس کے علاوہ تھے.والی عراق حضرت سعد نے دو ہزار اونٹ اناج اور غلے کے بھیجے.کپڑے وغیرہ اس کے علاوہ تھے.والی کشام حضرت امیر معاویہ نے تین ہزار اونٹ غلے کے بھیجے اور کپڑے وغیرہ اس کے علاوہ تھے.جب پہلا غلہ آیا تو حضرت عمر بن خطاب نے حضرت زبیر بن عوام سے فرمایا.تم قافلے کو روک کر اہل بادیہ کی طرف پھیر دو.یعنی جو گاؤں کے رہنے والے ہیں ان کی طرف پھیر دو.ان کو پہلے دو اور ان لوگوں میں تقسیم کر دو.بخدا ممکن ہے رسول اللہ علی یلم کی صحبت کے بعد اس سے افضل کوئی ھے تمہیں حاصل نہ ہوئی ہو گی.اس کے بوروں سے لحاف بنا دو جسے وہ لوگ پہنیں اور اونٹوں کو ان کے لیے ذبح کر دینا.وہ لوگ گوشت کھائیں اور اس کی چکنائی اٹھا کر لے جائیں.تم انتظار نہ کرنا کہ وہ کہیں کہ ہم لوگ بارش کے آنے تک انتظار کریں گے.وہ لوگ آثار پکائیں اور جمع کریں یہاں تک کہ اللہ ان کے لیے کشادگی کا حکم لائے.یعنی کچھ پکائیں، کھائیں اور کچھ جو ہے وہ سٹور بھی کر لیں.حضرت عمر کھانا تیار کرواتے اور ان کا منادی اعلان کرتا کہ جو شخص چاہتا ہے کہ وہ کھانے کے وقت حاضر ہو اور کھانا چاہے تو وہ ضرور ایسا کرے.اور جو پسند کرتا ہے کہ جو کھانا اس کے لیے اور اس کے گھر والوں کے لیے کفایت کرے تو وہ آئے اور وہ لے جائے.حضرت عمر لوگوں کو ثرید ، یعنی روٹی کو توڑ کر شور بہ میں ڈال کر جو کھانا تیار ہوتا ہے وہ کھلاتے تھے.یہ روٹی ہوتی تھی جس کے ساتھ زیتون کا سالن ہوتا تھا جو فور دیگوں میں پکایا جاتا تھا.اونٹ ذبح کیے جاتے تھے.حضرت عمر بھی سب لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے تھے جس طرح وہ کھاتے تھے.اگر اللہ نے قحط رفع نہ کیا تو حضرت عمر مسلمانوں کی فکر میں مر ہی جائیں گے عبد اللہ بن زید بن اسلم اپنے دادا اسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر مسلسل روزے رکھتے رہے.عام الرمادۃ کے زمانے میں شام کے وقت حضرت عمرؓ کے پاس روٹی لائی جاتی جو زیتون کے تیل کے

Page 101

اصحاب بدر جلد 3 81 حضرت عمر بن خطاب ساتھ ملی ہوتی تھی.لوگوں نے ایک روز اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو کھلائے.انہوں نے حضرت عمرؓ کے لیے عمدہ حصہ رکھ لیا.جب حضرت عمرؓ کے پاس وہ حصہ لایا گیا تو اس میں کو ہان اور کلیجی کے ٹکڑے تھے.حضرت عمرؓ نے دریافت فرمایا کہ یہ کہاں سے آئے؟ تو بتایا گیا کہ اے امیر المومنین! یہ ان اونٹوں سے ہے جو آج ہم نے ذبح کیے تھے.آپؐ نے فرمایا افسوس! افسوس! میں کیا ہی بُر ا نگران ہوں گا اگر اس کا اچھا حصہ میں کھاؤں اور لوگوں کو اس کا رڈی حصہ کھلاؤں.یہ پیالہ اٹھالو اور ہمارے لیے اس کے علاوہ کوئی اور کھا نالا ؤ.چنانچہ روٹی اور زیتون کا تیل لایا گیا.آپ نے روٹی اپنے ہاتھ سے توڑی اور اس سے شرید بنایا.پھر آپ نے اپنے غلام سے فرمایا.اے یز فا! تمہارا بھلا ہو یہ پیالہ شمع میں ایک گھر والوں کے پاس لے جاؤ.تمع بھی مدینہ کے قریب کھجوروں کا ایک باغ تھا جس کے مالک حضرت عمرؓ تھے.انہوں نے اس باغ کو وقف کیا ہوا تھا.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تین دن سے میں نے ان کو کچھ نہیں دیا اور میر اخیال ہے کہ وہ خالی پیٹ ہوں گے.یہ ان کے سامنے پیش کر دو.حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ قحط کے دنوں میں حضرت عمر نے ایک نیا کام کیا جسے وہ پہلے نہ کیا کرتے تھے اور وہ یہ تھا کہ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا کر اپنے گھر میں داخل ہو جاتے اور آخر شب تک مسلسل نماز پڑھتے رہتے.پھر آپ باہر نکلتے اور مدینہ کے اطراف میں چکر لگاتے رہتے.ایک رات سحری کے وقت میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللهُمَّ لَا تَجْعَلْ هَلَاكَ أُمَّةٍ مُحَمَّدٍ عَلَى يَدَتَى کہ اے اللہ ! میرے ہاتھوں محمد صلی الی یکم کی امت کو ہلاکت میں نہ ڈالنا.محمد بن یحیی بن حبان بیان کرتے ہیں کہ قحط کے ایام میں حضرت عمرؓ کے پاس ایک دفعہ چربی میں ڈوبی ہوئی روٹی لائی گئی.آپ نے ایک بدوی کو اپنے پاس بلایا اور وہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا.وہ جلدی جلدی پیالے کے کناروں سے چربی لینے لگا.اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا.تم تو ایسے کھا رہے ہو جیسے کبھی چربی نہیں دیکھی.اس نے کہا بے شک میں نے کئی دنوں سے نہ گھی کھایا ہے اور نہ زیتون اور نہ ہی کسی کو یہ کھاتے دیکھا ہے.یہ بات سن کر حضرت عمر نے قسم کھائی کہ وہ نہ تو گوشت چکھیں گے اور نہ ہی تھی یہاں تک کہ لوگ پہلے کی طرح خوشحال ہو جائیں.ابن طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے نہ گوشت کھایا اور نہ ہی کبھی یہاں تک کہ لوگ خوشحال ہو گئے اور گھی وغیرہ نہ کھانے اور صرف تیل کھانے کی وجہ سے آپ کا پیٹ گڑ گڑاتا تھا.آپ کہتے یعنی اپنے پیٹ کو مخاطب کر کے کہ تم گڑ گڑاتے رہو.اللہ کی قسم ! تمہیں کچھ اور نہیں ملے گا تاوقتیکہ لوگ خوشحال نہ ہو جائیں اور پہلے جیسا کھانا شروع نہ کر دیں.عیاض بن خلیفہ کہتے ہیں کہ میں نے قحط کے سال حضرت عمر ہو دیکھا.آپ کا رنگ سیاہ ہو گیا تھا حالانکہ پہلے آپ کا رنگ سفید تھا.ہم کہتے یہ کیسے ہوا تو راوی نے بتایا کہ حضرت عمر ایک عربی آدمی تھے.وہ گھی اور دودھ کا استعمال کرتے تھے.جب لوگوں پر قحط آیا تو انہوں نے یہ چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیں یہاں تک کہ لوگ خوشحال ہو جائیں.حضرت عمرؓ نے تیل کے ساتھ کھانا کھایا جس سے آپ

Page 102

اصحاب بدر جلد 3 82 حضرت عمر بن خطاب کارنگ تبدیل ہو گیا اور جب فاقہ کشی کی تو یہ رنگ مزید تبدیل ہو گیا.اسامہ بن زید بن اسلم نے اپنے دادا سے روایت کی کہ ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ نے قحط رفع نہ کیا تو حضرت عمرؓ مسلمانوں کی فکر میں مر ہی جائیں گے.زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قحط کے زمانے میں سارے عرب سے لوگ مدینہ آئے.حضرت عمرؓ نے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کا انتظام کریں اور انہیں کھاناکھلائیں.مدینہ کے چاروں طرف حضرت عمرؓ نے مختلف اصحاب کی ڈیوٹی لگادی تھی جو ایک ایک لمحہ کی خبر شام کو جمع ہو کر آپ کو دیتے تھے.صبح سے لے کے شام تک جو خبریں بھی ہوتی تھیں شام کو آپ کے پاس لائی جاتی تھیں.آپ کو وہ خبریں پہنچائی جاتی تھیں.مدینہ کے مختلف علاقوں میں بدوی لوگ آئے ہوئے تھے.ایک رات جب لوگ رات کا کھانا کھا چکے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جنہوں نے ہمارے ساتھ رات کا کھانا کھایا ہے ان کا شمار کر و.چنانچہ ان کا شمار کیا گیا تو سات ہزار کے قریب افراد تھے.پھر آپ نے فرمایا کہ جو نہیں آئے انہیں اور مریضوں اور بچوں کو بھی شمار کرو.جب گنتی کی گئی تو وہ چالیس ہزار کی تعداد تھی.چند دن بعد یہ تعداد بڑھ گئی.دوبارہ گنتی کی گئی تو جو لوگ آپ کے ساتھ کھانا کھارہے تھے ان کی تعداد دس ہزار اور دوسروں کی تعداد پچاس ہزار ہو گئی.اسی طرح سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بارش نازل فرما دی.جب بارش ہوئی تو میں نے حضرت عمر کو دیکھا کہ آپ نے اپنے عاملین کو حکم دیا کہ سب لوگوں کا ان کے اپنے اپنے علاقے میں واپسی کا انتظام کریں اور انہیں غلہ اور سواریاں بھی مہیا کریں.راوی کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ حضرت عمر بنفس نفیس ان لوگوں کو روانہ کرنے کے لیے آتے تھے.50 ارد گرد کے لوگ بھوک سے تنگ آ کے شہر میں آگئے تھے.کھانا ان کو یہاں ملتا تھا.جب حالات ٹھیک ہو گئے ، بارشیں ہو گئیں اور زراعت وغیرہ ہو سکتی تھی تو پھر آپ نے کہا واپس جاؤ اور محنت کرو اور اپنی کھیتیوں کو آباد کرو.تاریخ طبری میں اس قحط کے ختم ہونے کے متعلق لکھا ہے کہ ایک شخص نے خواب دیکھا جس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے دعا کی طرف توجہ دلائی جس پر حضرت عمرؓ نے لوگوں میں اعلان کرایا کہ نماز استسقاء پڑھی جائے گی.حضرت عمر نے فرمایا: مصیبت اپنے انتہا کو پہنچ چکی اور اب ان شاء اللہ ختم ہونے والی ہے.جس قوم کو دعا کی توفیق مل گئی پس سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی مصیبت دور ہو گئی.آپ نے دیگر شہروں کے گورنروں کے نام خط تحریر فرمائے کہ تم مدینہ اور ان کے اطراف کے بندگان خدا کے لیے نماز استسقاء پڑھو کیونکہ وہ مصیبت کی انتہا کو پہنچ گئے ہیں.حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کو نماز استسقاء کے لیے باہر میدان میں جمع کیا اور حضرت عباس کو لے کر حاضر ہوئے، مختصر خطبہ پڑھا اور نماز پڑھائی پھر دو زانو ہو کر بیٹھے اور دعا شروع کی.اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَارْضَ عَنَّا.اے اللہ ! ہم

Page 103

صحاب بدر جلد 3 83 حضرت عمر بن خطاب صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد کے خواہاں ہیں.اے اللہ ! ہمیں معاف فرما ! ہم پر رحم کر اور ہم سے راضی ہو جا.اس کے بعد آپ واپس لوٹے.ابھی گھر نہیں پہنچ پائے تھے کہ میدان میں بارش کی وجہ سے تالاب بن گیا.151 ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے دعا کرتے ہوئے عرض کیا کہ : اے اللہ ! تیرے نبی صلی ایام کے زمانے میں جب ہم پر خشک سالی ہوتی تو ہم تیرے نبی کے واسطے بارش کی دعا کیا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برساتا تھا.آج ہم تجھے تیرے نبی صلی علیکم کے چا کا واسطہ دے کر دعا کر رہے ہیں.پس تو ہماری یہ قحط سالی ختم کر دے اور ہم پر بارش نازل فرما.چنانچہ لوگ ابھی اپنی جگہوں سے ہٹے نہ تھے کہ بارش برسنی شروع ہو گئی.152 مسجد نبوی میں چٹائیاں بچھانے کا سلسلہ کب شروع ہوا؟ پہلے لوگ اسی طرح نماز پڑھتے تھے اور فرش پر یا چی جگہ پہ نماز پڑھتے تھے.ماتھے پہ مٹی لگ جایا کرتی تھی.اس کے بعد پھر چٹائیوں کا رواج ہوا.اس بارے میں عبد اللہ بن ابراہیم سے روایت ہے کہ سب سے پہلے مسجد نبوی میں جس نے چٹائی بچھائی وہ حضرت عمر بن خطاب تھے.پہلے لوگ جب اپنا سر سجدے سے اٹھاتے تو اپنے ہاتھ جھاڑا کرتے تھے.اس پر آپ نے چٹائیاں بچھانے کا حکم دیا جو عقیق سے لائی گئیں اور مسجد نبوی میں بچھائی گئیں.عقیق بھی ایک وادی کا نام ہے جو مدینہ کے جنوب مغرب سے شروع ہو کر شمال مغرب تک تقریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر تک پھیلی ہوئی وادی ہے.کہتے ہیں بہت بڑی وادی ہے.3 مسجد نبوی میں توسیع 153 حضرت عمرؓ کے زمانے میں سترہ ہجری میں مسجد نبوی کی توسیع بھی ہوئی تھی.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علم کے دور میں مسجد کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی جس کی چھت کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں سے بنی ہوئی تھی اور ستون کھجور کے تنوں کے تھے.حضرت ابو بکر صدیق نے اس کو اسی حال میں رہنے دیا اور اس میں کوئی توسیع یا تبدیلی نہ کی.حضرت عمر نے اس کی تعمیر نو اور توسیع کروائی مگر اس کی ہیئت اور طرز تعمیر میں کوئی تبدیلی نہ کرائی.انہوں نے بھی اسے اسی طرح کے طرز تعمیر سے بنوایا.چھت پہلے کی طرح کھجور کے پتوں کی ہی رہی.انہوں نے صرف ستون لکڑی کے ڈلوادیے.حضرت عمر نے سترہ ہجری میں مسجد کی تعمیر کو اپنی زیر نگرانی مکمل کروایا.اس توسیع کے بعد مسجد کارقبہ سو ضرب سو (100X100) ذرع یعنی تقریباً پچاس ضرب پچاس (50X50) میٹر سے بڑھ کر ایک سو چالیس ضرب ایک سو بیس (140X120) ذرع تقریباً ستر ضرب ساٹھ (70X60) میٹر ہو گیا.اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر کے دور میں بھی مسجد نبوی وہی رہی جو کہ رسول اللہ صلی الیم کے عہد میں تھی تاہم حضرت عمر کی تعمیر نو کے ساتھ اس میں کافی توسیع ہو گئی تھی.

Page 104

اصحاب بدر جلد 3 84 154 حضرت عمر بن خطاب ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ مسجد نبوی کی تعمیر نو کی جائے اور لوگوں کو بارش سے بچانے کا بند و بست کیا جائے تاہم سرخ و سفید تزئین سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہی تزئین انسان کو مصائب میں دوچار کر دیتی ہے.حضرت عمر نے کفایت شعاری سے کام لیا اور مسجد کو اسی طرز پر استوار کیا جیسا کہ رسول اللہ صلی العلیم کے دور مبارک میں ہوا کرتی تھی.مسجد کی توسیع کرتے وقت انہیں اس سے ملحقہ مکانات حاصل کرنے پڑے جو کہ شمال جنوب اور مغربی جانب تھے.کچھ لوگوں نے برضاو رغبت اپنی زمینیں مسجد کے لیے ہبہ کردیں اور کچھ کے لیے حضرت عمر کو افہام و تفہیم اور مالی ترغیب کا طریقہ اختیار کرنا پڑا.اس طرح کچھ زمین آپ کو خرید کر مسجد میں شامل کرنا پڑی.4 حضرت عمرؓ کے زمانے میں مردم شماری کا رواج بھی شروع ہوا یا آپ نے کروائی اور راشننگ سسٹم (rationing system) بھی خوراک کے لیے مقرر ہوا.اس ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ: اسلامی حکومت کا نظم و نسق کس طرح چلتا تھا اور کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں.کیا کیا نئی باتیں انتظامی معاملات میں پیدا اور شروع کی گئیں.آپ لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی الی یکم نے مدینہ میں آکر پہلا کام یہی کیا تھا کہ جائیداد والوں کو بے جائیداد والوں کا بھائی بنا دیا.انصار جائیدادوں کے مالک تھے اور مہاجر بے جائیداد تھے.رسول کریم صلی علیم نے انصار اور مہاجرین دونوں میں مؤاخات قائم فرما دی اور ایک ایک جائیداد والے کو ایک ایک بے جائیداد والے سے ملا دیا اور اس میں بعض لوگوں نے اتنا غلو کیا کہ دولت تو الگ رہی، بعض کی اگر دو بیویاں تھیں تو انہوں نے اپنے اپنے مہاجر بھائیوں کی خدمت میں یہ پیشکش کی الله سة کہ وہ ان کی خاطر اپنی ایک بیوی کو طلاق دینے کو تیار ہیں.وہ ان سے بے شک شادی کر لیں.مساوات کی پہلی مثال تھی جو رسول کریم صلی علیم نے مدینہ میں جاتے ہی قائم فرمائی کیونکہ حکومت کی بنیاد دراصل مدینہ میں ہی پڑی تھی.اس زمانہ میں زیادہ دولتیں نہ تھیں.یہی صورت تھی کہ امیر اور غریب کو اس طرح ملا دیا جائے کہ ہر شخص کو کھانے کے لیے کوئی چیز مل سکے.پھر ایک جنگ کے موقع پر بھی رسول کریم صلی علیم نے اس طریق کو استعمال فرمایا گو اس کی شکل بدل دی.ایک جنگ کے موقع پر آپ کو معلوم ہوا کہ بعض لوگوں کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں رہی یا اگر ہے تو بہت ہی کم اور بعض کے پاس کافی چیزیں ہیں.تو یہ صورت حال دیکھ کر رسول کریم صلی علی یکم نے فرمایا کہ جس جس کے پاس جو کوئی چیز ہے وہ لے آئے اور ایک جگہ جمع کر دی جائے.چنانچہ سب چیزیں لائی گئیں اور آپ نے راشن مقرر کر دیا.گویا یہاں بھی وہی طریق آگیا کہ سب کو کھانا ملنا چاہیے.جب تک ممکن تھا سب لوگ الگ الگ کھاتے رہے مگر جب یہ امر نا ممکن ہو گیا اور خطرہ پیدا ہو گیا کہ بعض لوگ بھو کے رہنے لگ جائیں گے تو رسول کریم ملی الم نے فرمایا کہ اب تمہیں علیحدہ کھانے کی اجازت نہیں، اب سب کو ایک جگہ سے برابر کھانا ملے گا.یہ موقع کی مناسبت کے لحاظ سے فیصلہ ہوا تھا.کوئی سوشلزم کا یا کمیونزم کا نظریہ نہیں قائم کیا گیا تھا.بہر حال صحابہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الم کے اس حکم پر ہم نے اس سختی سے عمل کیا کہ اگر

Page 105

اصحاب بدر جلد 3 85 حضرت عمر بن خطاب ہمارے پاس ایک کھجور بھی ہوتی تو ہم اس کا کھانا سخت بد دیانتی سمجھتے تھے اور اس وقت تک چین نہیں لیتے تھے جب تک کہ اس کو سٹور میں داخل نہیں کر دیتے تھے.یہ دوسرا نمونہ تھا جو رسول کریم صلی ا ہم نے دکھایا.جب تک کہ حالات خراب تھے اس وقت تک یہ اسی طرح ہو تا تھا اور یہ نمونہ آپ نے قائم کیا.پھر رسول کریم صلی اللہ ظلم کے زمانہ میں دولت بھی آئی اور خزانوں کے منہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیے.مگر اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس بارہ میں تفصیلی نظام رسول کریم ملی ایم کے بعد جاری ہو تا لوگ یہ نہ کہہ دیں کہ یہ صرف رسول کریم صل الم کی خصوصیت تھی.کوئی اور شخص اسے جاری نہیں کر سکتا.جب دولتیں آگئیں تو پر انا نظام جاری ہو گیا لیکن بعد میں بھی اس کو اللہ تعالیٰ نے جاری کرنے کا انتظام فرمایا.وہ کس طرح؟ آپ لکھتے ہیں کہ چنانچہ ادھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الم کے ہاتھ سے ایک نمونہ قائم کر دیا اور ادھر مدینہ پہنچتے ہی انصار نے اپنی دولتیں مہاجرین کے سامنے پیش کر دیں.مہاجرین نے کہا ہم یہ زمینیں مفت میں لینے کے لیے تیار نہیں.ہم ان زمینوں پر بطور مزارع کام کریں گے اور تمہارا حصہ تمہیں دیں گے.لیکن یہ مہاجرین کی طرف سے اپنی ایک خواہش کا اظہار تھا.انصار نے اپنی جائیدادوں کے دینے میں کوئی پس و پیش نہیں کیا.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گورنمنٹ راشن دے تو کوئی س نہ لے.اس سے گورنمنٹ زیر الزام نہیں آئے گی.یہی کہا جائے گا کہ گورنمنٹ نے تو راشن مقرر کر دیا تھا.اب دوسرے شخص کی مرضی تھی کہ وہ چاہے لیتا یا نہ لیتا.اسی طرح انصار نے سب کچھ دے دیا.یہ الگ بات ہے کہ مہاجرین نے نہ لیا.غرض عملی طور پر رسول کریم صلی الم نے یہ کام اپنی زندگی میں ہی شروع فرما دیا تھا.یہاں تک کہ جب بحرین کا بادشاہ مسلمان ہو اتو آپ نے اسے ہدایت فرمائی کہ تمہارے ملک میں جن لوگوں کے پاس گزارہ کے لیے کوئی زمین نہیں ہے تم ان میں سے ہر شخص کو چار درہم اور لباس گزارہ کے لیے دو تاکہ وہ بھوکے اور ننگے نہ رہیں.اس کے بعد مسلمانوں کے پاس دولتیں آنی شروع ہو گئیں.چونکہ مسلمان کم تھے اور دولت زیادہ تھی اس لیے کیسی نئے قانون کے استعمال کی اس وقت ضرورت محسوس نہ ہوئی.کیونکہ جو غرض تھی وہ پوری ہورہی تھی.اصول یہ ہے کہ جب خطرہ ہو تب قانون جاری کیا جائے اور جب نہ ہو اس وقت اجازت ہے کہ حکومت اس قانون کو جاری کرے یا نہ کرے.پھر جو بات میں نے شروع کی تھی، جو میں بیان کرنا چاہتا تھا بیچ میں دوسری تفصیل آگئی.اب وہ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی للی یکم کے بعد یہ نظام کس طرح جاری ہوا؟ جب رسول کریم صلی علیہ کو وفات پاگئے اور مسلمان دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلنا شروع ہوئے تو اس وقت غیر قومیں بھی اسلام میں شامل ہو گئیں.عرب لوگ تو ایک جتھہ اور ایک قوم کی شکل میں تھے اور وہ آپس میں مساوات بھی قائم رکھتے تھے.جب اسلام مختلف گوشوں میں پہنچا اور مختلف قومیں اسلام میں داخل ہونی شروع ہو ئیں تو ان کے لیے روٹی کا انتظام بڑا مشکل ہو گیا.آخر حضرت عمرؓ نے تمام لوگوں کی مردم شماری کرائی اور راشننگ سسٹم (rationing system) قائم کر دیا جو بنو امیہ کے عہد تک

Page 106

حاب بدر جلد 3 86 حضرت عمر بن خطاب جاری رہا.یورپین مؤرخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کروائی تھی اور وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے یہ سب سے پہلی مردم شماری رعایا سے دولت چھینے کے لیے نہیں بلکہ ان کی غذا کا انتظام کرنے کے لیے جاری کی تھی.اور حکومتیں تو اس لیے مردم شماری کراتی ہیں کہ لوگ قربانی کے بکرے بہنیں اور فوجی خدمات بجالائیں.مگر حضرت عمرؓ نے اس لیے مردم شماری نہیں کرائی کہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں بلکہ اس لیے کرائی کہ ان کے پیٹ میں روٹی ڈالی جائے ، یہ دیکھا جائے کہ کتنے لوگ ہیں اور خوراک کا کتنا انتظام کرنا ہے؟ چنانچہ مردم شماری کے بعد تمام لوگوں کو ایک مقررہ نظام کے ماتحت غذ املتی اور جو باقی ضروریات رہ جاتیں ان کے لیے انہیں ماہوار کچھ رقم دے دی جاتی اور اس بارہ میں اتنی احتیاط سے کام لیا جا تا تھا کہ حضرت عمرہ کے زمانہ میں جب شام فتح ہوا اور وہاں سے زیتون کا بے شمار تیل آیا اور ہر ایک کو زیتون کا تیل ملنے لگ گیا.تو آپ نے ایک دفعہ لوگوں سے کہا کہ زیتون کے استعمال سے میر اپیٹ پھول جاتا ہے.یعنی حضرت عمر کو خود بھی ملتا تھا، اس میں سے تیل لیتے تھے تو آپ نے کہا کہ زیتون کا جب میں زیادہ استعمال کروں تو میرا پیٹ پھول جاتا ہے.تم مجھے اجازت دو تو میں بیت المال سے اتنی ہی قیمت کا بھی لے لیا کروں.اور زیتون کیونکہ میری صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے تو جتنی قیمت کا زیتون ہے اتنی قیمت کا گھی لے لیا کروں.غرض یہ پہلا قدم تھا جو اسلام میں لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اٹھایا گیا اور ظاہر ہے کہ اگر یہ نظام قائم ہو جائے تو اس کے بعد کسی اور نظام کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ سارے ملک کی ضروریات کی ذمہ دار حکومت ہو گی.ان کا کھانا، ان کا پینا، ان کا پہنا، ان کی تعلیم ، ان کی بیماریوں کا علاج اور ان کی رہائش کے لیے مکانات کی تعمیر یہ سب کا سب اسلامی حکومت کے ذمہ ہو گا اور اگر یہ ضروریات پوری ہوتی رہیں تو کسی بیمہ وغیرہ کی ضرورت نہیں رہتی.بیمے اس لیے لوگ کرواتے ہیں ناں کہ بعد میں ہم اپنے بچوں کے لیے کچھ چھوڑ جائیں یا جب بڑھاپے میں کمائی نہیں کر سکتے تو اپنی ضروریات پوری کر سکیں.جب حکومت یہ ذمہ داری لے لے تو پھر کسی بھی بیمے کی ضرورت نہیں رہتی.پھر حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ مگر بعد میں آنے والوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ بادشاہ کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو کچھ دے اور چاہے تو نہ دے اور چونکہ اسلامی تعلیم ابھی پورے طور پر راسخ نہیں ہوئی تھی تو وہ لوگ پھر قیصر و کسری کے طریق کی طرف مائل ہو گئے.جس طرح دوسرے بادشاہ کرتے تھے وہی طریق پھر رائج ہو گیا.اسلامی حکومت کے ہر شخص کے لیے روٹی کپڑے کے انتظام کرنے کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ مزید فرماتے ہیں کہ ”اسلامی حکومت.....جب وہ اموال کی مالک ہوئی تو اس نے ہر ایک شخص کی روٹی کپڑے کا انتظام کیا چنانچہ وہی بیان ہوا ہے کہ ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب نظام مکمل ہوا تو اس وقت اسلامی تعلیم کے ماتحت ہر فردو بشر کے لیے روٹی اور کپڑا مہیا کر نا حکومت کے ذمہ تھا 155

Page 107

اصحاب بدر جلد 3 87 حضرت عمر بن خطاب اور وہ اپنے اس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا کرتی تھی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس غرض کے لیے مردم شماری کا طریق جاری کیا اور رجسٹرات کھولے جن میں تمام لوگوں کے ناموں کا اندراج ہوا کر تا تھا.یورپین مصنفین بھی تسلیم کرتے ہیں جیسا کہ پہلے ذکر بھی آچکا ہے کہ پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی اور انہوں نے ہی رجسٹرات کا طریق جاری کیا.اس مردم شماری کی وجہ یہی تھی کہ ہر شخص کو روٹی کپڑا دیا جاتا تھا اور حکومت کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس بات کا علم رکھے کہ کتنے لوگ اس ملک میں پائے جاتے ہیں.آج یہ کہا جاتا ہے کہ سوویت رشیا نے غربا کے کھانے اور ان کے کپڑے کا انتظام کیا ہے.حالانکہ سب سے پہلے اس قسم کا اقتصادی نظام اسلام نے جاری کیا ہے اور عملی رنگ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہر گاؤں، ہر قصبہ اور ہر شہر کے لوگوں کے نام رجسٹر میں درج کیے جاتے تھے.ہر شخص کی بیوی، اس کے بچوں کے نام اور ان کی تعداد درج کی جاتی تھی اور پھر ہر شخص کے لیے غذا کی بھی ایک حد مقرر کر دی گئی تھی تاکہ تھوڑا کھانے والے بھی گزارہ کر سکیں اور زیادہ کھانے والے بھی اپنی خواہش کے مطابق کھا سکیں.تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابتدا میں جو فیصلے فرمائے ان میں دودھ پیتے بچوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اور ان کو اس وقت غلہ وغیرہ کی صورت میں مدد ملنی شروع ہوتی تھی جب مائیں اپنے بچوں کا دودھ چھڑا دیتی تھیں.جیسا کہ گذشتہ خطبہ میں میں نے بیان کیا تھا کہ ” ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے گشت لگا رہے تھے کہ ایک خیمہ میں سے کسی بچہ کے رونے کی آواز آئی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں ٹھہر گئے.مگر بچہ تھا کہ روتا چلا جاتا تھا اور ماں اسے تھپکیاں دے رہی تھی تاکہ وہ سو جائے.جب بہت دیر ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس خیمہ کے اندر گئے اور عورت سے کہا کہ تم بچے کو دودھ کیوں نہیں پلاتی.یہ کتنی دیر سے رورہا ہے ؟ اس عورت نے آپ کو پہچانا نہیں.اس نے سمجھا کہ کوئی عام شخص ہے.چنانچہ اس نے جواب میں کہا کہ تمہیں معلوم نہیں عمرؓ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ دودھ پینے والے بچہ کو غذا نہ ملے.ہم غریب ہیں ہمارا گزارہ تنگی سے ہوتا ہے.میں نے اس بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے تاکہ بیت المال سے اس کا غلہ بھی مل سکے.اب اگر یہ روتا ہے تو روئے عمر کی جان کو جس نے ایسا قانون بنایا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی وقت واپس آئے اور راستہ میں نہایت غم سے کہتے جاتے تھے کہ عمر !عمر! معلوم نہیں تو نے اس قانون سے کتنے عرب بچوں کا دودھ چھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے.ان سب کا گناہ اب تیرے ذمہ ہے.یہ کہتے ہوئے آپ سٹور میں آئے، دروازہ کھولا اور ایک بوری آٹے کی اپنی پیٹھ پر اٹھالی.کسی شخص نے کہا کہ لائیے میں اس بوری کو اٹھالیتا ہوں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا.نہیں! غلطی میری ہے اور اب ضروری ہے کہ اس کا خمیازہ بھی میں ہی بھگتوں.چنانچہ وہ بوری آٹے کی انہوں نے اس عورت کو پہنچائی اور دوسرے ہی دن حکم دیا کہ جس دن بچہ پید اہو اسی دن سے اس کے لیے غلہ مقرر کیا جائے کیونکہ اس کی ماں جو اس کو دودھ پلاتی ہے زیادہ غذا -

Page 108

محاب بدر جلد 3 کی محتاج ہے.156❝ 88 حضرت عمر بن خطاب پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”اسلام ہی ہے جس نے ملکی حقوق بھی قائم کیے ہیں.اسلام کے نزدیک ہر فرد کی خوراک، رہائش اور لباس کی ذمہ دار حکومت ہے اور اسلام نے ہی سب سے پہلے اس اصول کو جاری کیا ہے.اب دوسری حکومتیں بھی اس کی نقل کر رہی ہیں مگر پورے طور پر نہیں.پیسے کیے جا رہے ہیں.فیملی پیشنیں دی جارہی ہیں.مگر یہ کہ جوانی اور بڑھاپے دونوں میں خوراک اور لباس کی ذمہ وار حکومت ہوتی ہے یہ اصول اسلام سے پہلے کسی مذہب نے پیش نہیں کیا.دنیاوی حکومتوں کی مردم شماریاں اس لئے ہوتی ہیں تا ٹیکس لیے جائیں یا فوجی بھرتی کے متعلق یہ معلوم کیا جائے کہ ضرورت کے وقت کتنے نوجوان مل سکتے ہیں.مگر اسلامی حکومت میں سب سے پہلی مردم شماری جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کروائی گئی تھی وہ اس لئے کروائی گئی تھی تاکہ تمام لوگوں کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے اس لئے نہیں کہ ٹیکس لگایا جائے یا یہ معلوم کیا جائے کہ ضرورت کے وقت فوج کے لئے کتنے نوجوان مل سکیں گے بلکہ وہ مردم شماری محض اس لئے تھی کہ تاہر فرد کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک مردم شماری رسول کریم صلی الل ولم کے زمانہ میں بھی ہوئی تھی مگر اس وقت ابھی مسلمانوں کو حکومت حاصل نہیں ہوئی تھی اس لئے اس مردم شماری کا مقصد محض مسلمانوں کی تعداد معلوم کرنا تھی.جو مردم شماری اسلامی حکومت کے زمانہ میں سب سے پہلے ہوئی وہ حضرت عمر کے زمانہ میں ہوئی اور اس لئے ہوئی تاکہ ہر فرد کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے.یہ کتنی بڑی اہم چیز ہے جس سے تمام دنیا میں امن قائم ہو جاتا ہے.صرف یہ کہہ دینا کہ درخواست دے دو اس پر غور کیا جائے گا اسے ہر انسان کی غیرت برداشت نہیں کر سکتی کہ درخواستیں منگوائی جائیں پھر غور کیا جائے.” اس لئے اسلام نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ کھانا اور کپڑ ا حکومت کے ذمہ ہے اور یہ ہر امیر اور غریب کو دیا جائے گا خواہ وہ کروڑپتی ہی کیوں نہ ہو اور خواہ وہ آگے کسی اور کو ہی کیوں نہ دے دے تاکہ کسی کو یہ محسوس نہ ہو کہ اسے ادنی خیال کیا جاتا ہے.جو امیروں کو ملے گا تو امیر بھی اگر وہ تقویٰ پر چلنے والے ہیں تو بجائے اس سے فائدہ اٹھانے کے وہ پھر آگے ضرورت مندوں کو دیں گے.حضرت عمرؓ کے زمانے میں ممالک کو صوبہ جات میں تقسیم کیا گیا.میں ہجری میں مقبوضہ ممالک کو حضرت عمرؓ نے آٹھ صوبوں میں تقسیم فرمایا تاکہ انتظامی امور میں آسانی رہے.نمبر ایک مکہ ، نمبر دو مدینہ، نمبر تین شام، نمبر چار جزیرہ، نمبر پانچ بصرہ، نمبر چھ کو فہ نمبر سات مصر اور نمبر آٹھ فلسطین.158 پھر شوری کا قیام آپ کے زمانے میں ہوا.مجلس شوری میں ہمیشہ لازمی طور پر ان دونوں گروہ یعنی مہاجرین اور انصار کے ارکان شریک ہوتے تھے.انصار بھی دو قبیلوں میں منقسم تھے اوس اور خزرج.چنانچہ ان دونوں خاندانوں کا مجلس شوریٰ میں شریک ہو نا ضروری تھا.اس مجلس شوریٰ میں حضرت عثمان، 157"

Page 109

محاب بدر جلد 3 89 حضرت عمر بن خطاب حضرت علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف حضرت معاذ بن جبل، حضرت اُبی بن کعب، حضرت زید بن ثابت شامل ہوتے تھے.مجلس کے انعقاد کا یہ طریقہ تھا کہ پہلے ایک منادی اعلان کرتا تھا کہ الصلوةُ جامعة یعنی سب لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں.جب لوگ جمع ہو جاتے تو حضرت عمر شمسجد نبوی میں جا کر دور کعت نماز پڑھتے تھے.نماز کے بعد منبر پر چڑھ کر خطبہ دیتے تھے اور بحث طلب امر پیش کیا جاتا تھا.اس پر بحث ہوتی تھی.معمولی اور روز مرہ کے کاروبار میں اس مجلس کے فیصلے کافی سمجھے جاتے تھے لیکن جب کوئی اہم امر پیش آتا تھا تو مہاجرین اور انصار کا اجلاس عام ہوتا تھا اور سب کے اتفاق سے وہ امر طے پاتا تھا.فوج کی تنخواہ، دفتر کی ترتیب، عمال کا تقرر، غیر قوموں کی تجارت کی آزادی اور ان پر محصول کی تشخیص.غرض اس قسم کے بہت سے معاملات ہیں جو شوریٰ میں پیش ہو کر طے پاتے تھے.مجلس شوریٰ کا اجلاس اکثر خاص خاص ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت ہو تا تھا.اس کے علاوہ ایک اور مجلس تھی وہاں روزانہ انتظامات اور ضروریات پر گفتگو ہوتی تھی.یہ مجلس ہمیشہ مسجد نبوی میں منعقد ہوتی تھی اور صرف مہاجرین صحابہ اس میں شریک ہوتے تھے.صوبہ جات اور اضلاع کی روزانہ خبریں جو دربار خلافت میں پہنچتی تھیں.حضرت عمر اس مجلس میں بیان کرتے تھے اور کوئی بحث طلب امر ہو تا تھا تو اس میں لوگوں سے رائے لی جاتی تھی.مجلس شوری کے ارکان کے علاوہ عام رعایا کو انتظامی امور میں مداخلت حاصل تھی.صوبہ جات اور اضلاع کے حاکم اکثر رعایا کی مرضی سے مقرر کیے جاتے تھے بلکہ بعض اوقات بالکل انتخاب کا طریقہ عمل میں آتا تھا.کوفہ، بصرہ اور شام میں جب عمال خراج مقرر کیے جانے لگے تو حضرت عمر نے ان تینوں صوبوں میں احکام بھیجے کہ وہاں کے لوگ اپنی اپنی پسند سے ایک ایک شخص انتخاب کر کے بھیجیں جو ان کے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ دیانت دار اور قابل ہو.عاملین کی تقرری اور ان کے لیے کیا ہدایات دیں؟ حضرت عمرؓ کس طرح ہدایات دیتے تھے ؟ اس بارے میں لکھا ہے کہ اہم خدمات کے لیے عہدیداروں کی تقرری شوری کے ذریعہ کی جاتی.جس پر سب ارکان اتفاق کر لیتے اُس کا انتخاب کر لیا جاتا.بعض اوقات صو بہ یا ضلع کے حاکم کو حکم بھیجتے کہ نص زیادہ قابل ہو اس کا انتخاب کر کے بھیجو.چنانچہ انہی منتخب لوگوں کو حضرت عمرؓ عامل مقرر فرما دیتے.حضرت عمرؓ نے عاملین کی زیادہ تنخواہیں مقرر فرمائی تھیں.یہ بھی بڑی حکمت ہے تا کہ ایمانداری سے یہ لوگ اپنے کام کر سکیں، کوئی دنیاوی لالچ نہ ہو.حضرت عمر عہدے داروں کو یہ نصائح فرماتے کہ یاد رکھو! میں نے تم لوگوں کو امیر اور سخت گیر مقرر کر کے نہیں بھیجابلکہ امام بنا کر بھیجا ہے تاکہ لوگ تمہاری تقلید کریں.مسلمانوں کے حقوق ادا کرنا.ان کو زدو کوب نہیں کرنا کہ وہ ذلیل ہوں.سزائیں نہیں دینی بلکہ ان کے حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے.کسی کی بے جا تعریف نہیں کرنی کہ وہ فتنوں میں پڑیں.ان کے لیے اپنے دروازے ہمیشہ بند نہ رکھنا کہیں طاقتور کمزوروں کو نہ کھا جائیں.اپنے آپ کو کسی پر ترجیح نہ دینا کہ یہ ان پر ظلم ہے.جو شخص عامل مقرر ہوتا اس سے یہ عہد لیا جاتا کہ وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہو گا.159

Page 110

محاب بدر جلد 3 90 حضرت عمر بن خطاب 160 باریک کپڑے نہیں پہنے گا.چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا.دروازے پر دربان مقرر نہیں کرے گا.ضرورت مندوں کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رکھے گا.یہ ہدایات تمام عاملین کے لیے تھیں اور لوگوں میں پڑھ کر سنائی جاتی تھیں.عاملین مقرر کرنے کے بعد ان کے مال و اسباب کی جانچ کی جاتی تھی.اگر عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی ترقی ہوتی جس کے بارے میں وہ تسلی نہ کروا سکتے تو اس کا مواخذہ کیا جاتا اور زائد مال بیت المال میں جمع کروالیا جاتا.عاملین کو حکم تھا کہ حج کے موقع پر لازمی جمع ہوں.وہاں پبلک عدالت لگتی جس میں کسی شخص کو کسی عامل سے شکایت ہوتی تو فوراً اس کا ازالہ کیا جاتا.عاملین کی شکایات پیش ہو تیں ان کی تحقیقات کے متعلق بھی ایک عہدہ قائم تھا جس پر کبار صحابہ ہوتے جو تحقیقات کے لیے جاتے اور اگر شکایت سچ ہوتی تو عاملین کا مواخذہ کیا جاتا.0 عاملین کی شکایت کے متعلق حضرت عمرؓ کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر کا ہی واقعہ ہے.کوفے کے لوگ بڑے باغی تھے اور وہ ہمیشہ اپنے افسروں کے خلاف شکایتیں کرتے رہتے تھے کہ فلاں قاضی ایسا ہے.فلاں میں یہ نقص ہے اور فلاں میں وہ نقص ہے.حضرت عمران کی شکایات پر حکام کو بدل دیتے اور اور افسر مقرر کر کے بھیج دیتے اور ان افسروں کو بدل دیتے.دوسرے افسر مقرر کر کے بھیج دیتے.بعض لوگوں نے حضرت عمرؓ کو یہ بھی کہا کہ یہ طریق درست نہیں ہے.اس طرح بدلتے رہیں گے تو وہ شکایتیں کرتے رہیں گے ، آپ بار بار افسر کو نہ بدلیں.مگر حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں افسروں کو بدلتا ہی چلا جاؤں گا یہاں تک کہ کوفے والے خود ہی تھک جائیں.جب اسی طرح ایک عرصہ تک ان کی طرف سے شکایتیں آتی رہیں تو حضرت عمرؓ نے کہا اب میں کوفہ والوں کو ایک ایسا گورنر بھجواؤں گا جو انہیں سیدھا کر دے گا.یہ گور نرانیس سال کا ایک نوجوان تھا جو حضرت عمرؓ نے سیدھا کرنے کے لیے بھیجا.اس انیس سالہ نوجوان کا نام عبد الرحمن بن ابی لیلی تھا.جب کوفے والوں کو پتہ لگا کہ انہیں سال کا ایک لڑکا ان کا گورنر مقرر ہو کر آیا ہے تو انہوں نے کہا آؤ ہم سب مل کر اس سے مذاق کریں.کوفہ کے لوگ شریر اور شوخ تو تھے ہی.انہوں نے بڑے بڑے جبہ پوش لوگوں کو جو ستر ستر ، اسی استی، توے توے سال کے تھے اکٹھا کیا اور فیصلہ کیا کہ ان سب بوڑھوں کے ساتھ شہر کے تمام لوگ مل کر عبد الرحمن کا استقبال کرنے کے لیے جائیں اور مذاق کے طور پر اس سے سوال کریں کہ جناب کی عمر کیا ہے ؟ اس سے اس کی عمر پوچھیں.جب وہ جواب دے گا تو خوب ہنسی اڑائیں گے.اس کا مذاق اڑائیں گے کہ چھو کر اہمارا گورنر بن گیا ہے.چنانچہ اسی سکیم کے مطابق وہ شہر سے دو تین میل باہر اس کا استقبال کرنے کے لیے آئے.ادھر سے گدھے پر سوار عبد الرحمن بن ابی لیلی بھی آ نکلے.کوفہ کے تمام لوگ صفیں باندھ کر کھڑے تھے اور سب سے انگلی قطار بوڑھے سرداروں کی تھی.جب عبد الرحمن بن ابی لیلی قریب پہنچے تو ان لوگوں نے پوچھا کہ آپ ہی ہمارے گورنر مقرر ہو کر آئے ہیں اور عبد الرحمن آپ ہی کا نام ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں.اس پر ان میں سے ایک بہت بوڑھا

Page 111

اصحاب بدر جلد 3 91 حضرت عمر بن خطاب 161 آدمی آگے بڑھا اور اس نے کہا جناب کی عمر ؟ عبد الرحمن نے کہا میری عمر ا تم میری عمر کا اندازہ اس سے لگا لو کہ جب رسول کریم صلی ا ہم نے اسامہ بن زید کو دس ہزار صحابہ کا سردار بنا کر بھیجا تھا جس میں ابو بکر اور عمر بھی شامل تھے تو جو عمر اس وقت اسامہ بن زید کی تھی اس سے ایک سال میری عمر زیادہ ہے.یہ سنتے ہی جیسے اوس پڑ جاتی ہے وہ سب شرمندہ ہو کے پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ جب تک یہ لڑکا یہاں رہے خبر دار تم نہ بولنا ورنہ یہ کھال ادھیڑ دے گا.چنانچہ انہوں نے بڑے عرصہ تک گورنری کی اور کوفہ والے ان کے سامنے بول نہیں سکتے تھے.پھر محاصل کا نظام ہے.حضرت عمرؓ نے عراق اور شام کی فتوحات کے بعد خراج کے نظم و نسق کی طرف توجہ کی.جو زمینیں بادشاہوں نے مقامی باشندوں سے جبر ا چھین کر درباریوں اور امراء کو دی تھیں وہ مقامی لوگوں کو واپس دی گئیں اور ساتھ ہی حضرت عمرؓ نے حکم جاری فرما دیا کہ اہل عرب جو ان ملکوں میں پھیل گئے ہیں زراعت نہیں کریں گے یعنی کہ عرب لوگ جو ہیں وہ زراعت نہیں کریں گے.اس کا یہ فائدہ تھا کہ جو زراعت کے متعلق تجربہ مقامی لوگوں کا تھا عرب اس سے واقف نہ تھے.ہر علاقے کی زراعت کا اپنا مقامی طریقہ ہے تو اس لیے یہ حکم تھا کہ باہر کے جو آئے ہوئے ہیں وہ زراعت نہیں کریں گے بلکہ زراعت مقامی لوگ ہی کریں گے.162 164 خراج پہلے لوگوں سے زبر دستی لیا جاتا تھا.حضرت عمرؓ نے خراج کے قواعد مرتب کرنے کے بعد خراج کی وصولی کا طریق بھی نہایت نرم کر دیا اور نئی ترامیم کیں.ذمیوں کا بہت خیال رکھتے تھے.خراج کی وصولی کے وقت با قاعدہ دریافت فرماتے، کسی سے زیادتی تو نہیں ہوئی ؟ ذمی رعایا سے جو پارسی یا عیسائی تھے ان سے رائے طلب کرتے اور ان کی آرا کا لحاظ کیا کرتے تھے.2 زراعت کی ترقی کے لیے حضرت عمر نے بے آباد زمینوں کے متعلق فرمایا کہ جو ان کو آباد کرے گا وہ اس کی ملکیت ہو گی.اس کے لیے تین سال کا وقت مقرر کیا گیا.نہریں جاری کی گئیں.محکمہ آبپاشی قائم کیا گیا جو تالاب وغیرہ تیار کر وانے کا کام بھی کرتا تھا.163 تاکہ زراعت بہتر ہو.4 محکمہ قضا کے اجرا کے بارے میں روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے باقاعدہ قضا کے صیغہ کا اجر ا فرمایا.تمام اضلاع میں باقاعدہ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے.حضرت عمرؓ نے قضا کے متعلق قانونی احکامات بھی صادر فرمائے.165 قاضیوں کے انتخابات میں ماہرین فقہ کو منتخب کیا جاتا لیکن حضرت عمر اسی پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا امتحان بھی لیتے تھے.قاضیوں کی گراں قدر تنخواہیں مقرر فرماتے تاکہ کوئی غلط فیصلہ نہ کر دے.دولت مند اور معزز شخص کو قاضی مقرر فرماتے تا کہ فیصلہ کے وقت کسی کے رعب میں نہ آ سکے.حضرت عمرؓ نے عدالت میں مساوات اور انصاف کا لحاظ رکھنے کی تلقین فرمائی.ایک دفعہ حضرت ابی

Page 112

اصحاب بدر جلد 3 92 حضرت عمر بن خطاب بن کعب کے ساتھ کسی قسم کا جھگڑا تھا.حضرت اُبی نے زید بن ثابت کی عدالت میں مقدمہ کر دیا.زید نے حضرت عمرؓ اور اُبی کو بلایا اور حضرت عمر کی تعظیم کی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ تمہارا پہلا ظلم ہے.یہ کہہ کر آئی کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے.166 یعنی کہ ہم دونوں اب فریق ہیں.فریقین کو فریق کی طرح دیکھو اور ساتھ ساتھ بٹھاؤ، نہ کہ مجھے عزت دو.حضرت مصلح موعود اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت عمر خلیفہ ثانی کا ایک دفعہ ایک جھگڑا اُبی بن کعب سے ہو گیا تھا.قاضی کے پاس معاملہ پیش ہوا.انہوں نے حضرت عمرؓ کو بلوایا اور آپ کے آنے پر (قاضی نے اپنی جگہ ادب سے چھوڑ دی کہ یہ خلیفہ وقت ہیں.”حضرت عمر فریق مخالف کے پاس جابیٹھے اور قاضی سے فرمایا کہ یہ پہلی بے انصافی ہے جو آپ نے کی ہے.اس وقت مجھ میں اور میرے فریق مخالف میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے تھا.167 حضرت عمر نے افتاء کا محکمہ بھی جاری فرمایا.قانونِ شریعت سے واقفیت کے لیے محکمہ افتاء کا قیام فرمایا اور چند صحابہ کو نامز د فرمایا کہ ان کے علاوہ کسی سے فتویٰ نہیں لیا جائے گا.ان میں حضرت علی یعنی فتویٰ دینے والوں میں حضرت علی تھے.حضرت عثمانؓ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو در دار تھے.ان لوگوں کے سوا اگر کوئی اور فتویٰ دیتا تو حضرت عمر ا سے منع کر دیتے تھے.حضرت عمران مفتیان کی بھی وقتا فوقتا جانچ کرتے رہتے تھے.168 حضرت مصلح موعود اس بارے میں فرماتے ہیں ایک صیغہ فتوی کا ہے.رسول کریم صلی ایام اور آپ کے بعد زمانہ خلفاء میں قاعدہ تھا کہ شرعی امور میں فتوی دینے کی ہر شخص کو اجازت نہ تھی.حضرت عمر تو اتنی احتیاط کرتے تھے کہ ایک صحابی، غالباً عبد اللہ بن مسعودؓ تھے ، جو دینی علوم میں بڑے ماہر بھی تھے اور ایک جلیل القدر انسان تھے انہوں نے ایک دفعہ کوئی مسئلہ لوگوں کو بتایا اور اس کی اطلاع آپ کو پہنچی یعنی حضرت عمرؓ کو جب اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے فوراً ان سے جواب طلب کیا کہ کیا تم امیر ہو یا امیر نے تم کو مقرر کیا ہے کہ فتویٰ دیتے ہو ؟ دراصل اگر ہر ایک شخص کو فتویٰ دینے کا حق ہو تو بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور عوام کے لیے بہت سے فتاوی ابتلا کا موجب بن سکتے ہیں کیونکہ بعض اوقات ایک ہی امر کے متعلق دو مختلف فتوے ہوتے ہیں اور دونوں صحیح ہوتے ہیں.یعنی کہ صورت حال کے مطابق فتوی دیا جاتا ہے.مسائل کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو اس میں لچک ہوتی ہے اس صورت میں یہ فتویٰ ہو گا اور اس صورت میں یہ فتویٰ ہو گا مگر عوام کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ دونوں کس طرح درست ہیں.اس لیے وہ پھر ابتلا میں پڑ جاتے ہیں.پھر اسی طرح محکمہ پولیس کا اجرا کیا.حضرت عمرؓ نے ملک میں امن قائم رکھنے کی خاطر أخداث یعنی 169

Page 113

اصحاب بدر جلد 3 93 96 حضرت عمر بن خطاب پولیس کا محکمہ قائم فرمایا.اس محکمہ کو احتساب، امن و امان، بازار کی نگرانی وغیرہ کے اختیارات دیے تھے یعنی کہ لوگوں کو دیکھنا کہ وہ صحیح طرح باتوں پر عمل درآمد کر رہے ہیں کہ نہیں.کسی کے حق مارے جار ہے ہیں تو ان کی ادائیگی کروانا.جو انتظامی معاملات تھے انہیں دیکھنا جب تک معاملہ قاضی کے پاس نہیں جاتا.امن و امان، بازار کی نگرانی وغیرہ ، یہ سارے نگرانی کے اختیارات تھے.حضرت عمرؓ نے با قاعدہ جبیلیں بھی بنوائیں.اس سے قبل جیلوں کا رواج نہیں تھا.سخت سزائیں بھی مجرموں کو دی جاتی تھیں.پھر اسی طرح بیت المال کا قیام ہے.حضرت عمرؓ سے قبل جو بھی مال آتا وہ فوری تقسیم ہو جاتا.حضرت ابو بکڑ کے دور میں ایک مکان خرید کر بیت المال کے لیے وقف کیا گیا لیکن وہ بند ہی رہتا تھا کیونکہ جو بھی مال آتا اسی وقت تقسیم ہو جاتا.15 ہجری میں بحرین سے پانچ لاکھ کی رقم آئی تو حضرت عمرؓ نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ اس رقم کا کیا کیا جائے.ایک رائے یہ تھی کہ سلاطین شام میں خزانے کا محکمہ قائم ہے.چنانچہ اس رائے کو حضرت عمر نے پسند فرمایا اور مدینہ میں بیت المال کی بنیاد ڈالی.حضرت عبد اللہ بن ارقم کو خزانے کا افسر مقرر کیا گیا.بعد میں مدینہ کے علاوہ تمام صوبہ جات اور ان کے صدر مقامات میں بیت المال قائم کیے گئے.حضرت عمر عمارتوں کی تعمیر میں کفایت شعاری سے کام لیتے تھے مگر بیت المال کے لیے نہایت مستحکم اور شاندار عمارتیں بنوایا کرتے تھے.بعد میں ان پر پہرے دار بھی مقرر کیے گئے تھے.170 اس کے لیے سیکیورٹی کا پورا نظام تھا.بیت المال کے مال کے متعلق حضرت عمر خود حفاظت فرماتے تھے.ایک واقعہ تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان کے ایک آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں کہ ایک روز شدید گرمی تھی.میں حضرت عثمان کے ہمراہ عالیہ مقام میں ان کے مال مویشیوں کے پاس تھا.مدینہ سے نجد کی جانب چار سے آٹھ میل کے درمیان کی وادی ہے اسے عالیہ کہتے ہیں.آپ نے ایک آدمی کو دیکھا جو دو نوجوان اونٹ ہانک کر لے جارہا تھا یعنی حضرت عثمان نے دیکھا کہ ایک آدمی آ رہا ہے اور جوان اونٹ اس کے آگے آگے چل رہے ہیں اور زمین شدید گرم تھی.اس پر حضرت عثمان نے فرمایا اس شخص کو کیا ہوا ہے ! اگر یہ مدینہ میں رہتا اور موسم ٹھنڈا ہونے کے بعد نکلتا تو اس کے لیے بہتر ہو تا.جب وہ شخص قریب آیا تو حضرت عثمان کے ملازم کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھو یہ کون ہے ؟ میں نے کہا چادر میں لپٹا ہوا ایک شخص ہے جو دو نوجوان اونٹ ہانک رہا ہے.پھر وہ شخص اور قریب ہوا تو حضرت عثمان نے پھر فرمایا کہ دیکھو کون ہے ؟ میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر بن خطاب تھے.میں نے عرض کی کہ یہ تو امیر المومنین ہیں.حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور دروازے میں سے سر باہر نکالا لیکن گرم ہوا کی لپٹ پڑی تو آپ نے سر اندر کر لیا اور پھر فوراہی دوبارہ حضرت عمر کی طرف منہ کر کے عرض کیا.آپؐ کو کس مجبوری نے اس وقت گھر سے نکالا ہے ؟ حضرت عمر نے فرما یا صدقے کے اونٹوں میں سے یہ دو اونٹ پیچھے رہ گئے تھے ان کے علاوہ باقی سارے اونٹ

Page 114

محاب بدر جلد 3 94 حضرت عمر بن خطاب ہانک کر لے جائے جاچکے تھے تو میں نے چاہا کہ ان کو چراگاہ میں لے جاؤں.مجھے ڈر تھا کہ یہ دونوں کھو جائیں گے.پھر اللہ مجھ سے ان کے بارے پوچھے گا.حضرت عثمان نے کہا اے امیر المؤمنین! آپ سائے میں آئیں اور پانی پئیں.ہم آپ کے لیے کافی ہیں.ہم خدمت کر لیتے ہیں.ہم بھیجنے کا انتظام کر دیتے ہیں.حضرت عمرؓ نے فرمایا: اپنے سائے میں کوٹ جاؤ، تم جاؤ سائے میں بیٹھو.حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: ہمارے پاس وہ ہے جو آپ کے لیے کافی ہے.اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: اپنے سائے کی طرف لوٹ جاؤ.پھر حضرت عمر چلے گئے.حضرت عثمان نے کہا جو چاہتا ہے کہ وہ الْقَوِی الْآمین یعنی قوی اور امانت دار کو دیکھے تو اس شخص کو دیکھ لے.ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ عمر بن نافع نے ابو بکر عیسی سے روایت کر کے بیان کیا.وہ کہتے تھے میں حضرت عمر بن خطاب، حضرت عثمان بن عفان اور حضرت علی بن ابی طالب کے ساتھ صدقے کے وقت آیا.حضرت عثمان سائے میں بیٹھ گئے اور حضرت علی ان کے پاس کھڑے ہو کر وہ باتیں ان سے کہتے جاتے جو حضرت عمر کہتے تھے اور حضرت عمر با وجود سخت گرمی کے دن ہونے کے دھوپ میں کھڑے تھے اور آپ کے پاس دو سیاہ چادر میں تھیں.ایک کی تہبند باندھ لی تھی اور ایک سر پر ڈال لی تھی اور صدقے کے اونٹوں کا معائنہ کر رہے تھے اور اونٹ کے رنگ اور ان کی عمریں لکھتے تھے.حضرت علی نے حضرت عثمان سے کہا کہ کتاب اللہ میں تم نے حضرت شعیب کی بیٹی کا یہ قول سنا ہے ؟ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ القوى الامين (القصص: 27) یقیناً جنہیں بھی تو نوکر رکھے ان میں بہترین وہی ثابت ہو گا جو مضبوط اور امانت دار ہو.پھر حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ وہی الْقَوِی الْآمین ہے.171 حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”حضرت عمر کا ایک واقعہ ہے.حضرت عثمان بیان کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں میں ایک دفعہ باہر قُبه میں بیٹھا ہوا تھا اور اتنی شدید گرمی پڑرہی تھی کہ دروازہ کھولنے کی بھی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ اتنے میں میرے غلام نے مجھے کہا دیکھئے اس شدید دھوپ میں باہر ایک شخص پھر رہا ہے.میں نے پردہ ہٹا کر دیکھا تو مجھے ایک شخص نظر آیا جس کا منہ شدت گرمی کی وجہ سے جھلسا ہوا تھا.میں نے اس سے کہا کہ کوئی مسافر ہو گا مگر تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ وہ شخص میرے قبہ کے قریب پہنچا اور میں نے دیکھا کہ وہ حضرت عمر نہیں.ان کو دیکھتے ہی میں گھبرا کر باہر نکل آیا اور میں نے کہا: اس وقت گرمی میں آپ کہاں ؟ حضرت عمر فرمانے لگے : بیت المال کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا جس کی تلاش میں میں باہر پھر رہا ہوں.“ اونٹ کے گنے کا یہ بھی ایک واقعہ آتا ہے.پہلے بھی ایک دفعہ بیان ہو چکا ہے.حضرت عمرؓ ایک دفعہ بیت المال کا مال تقسیم کر رہے تھے کہ ان کی ایک بیٹی آگئی اور اس نے اس مال میں سے ایک درہم اٹھا لیا.حضرت عمرؓ اسے لینے کے لیے اٹھے.آپ کے ایک کندھے سے چادر 173 172<<

Page 115

اصحاب بدر جلد 3 95 حضرت عمر بن خطاب 174 ڈھلک گئی اور وہ بچی اپنے گھر والوں کے پاس روتی ہوئی بھاگ گئی اور وہ در ہم اس نے اپنے منہ میں ڈال لیا.حضرت عمرؓ نے انگلی ڈال کر اس کے منہ سے وہ درہم نکالا اور اس کو مال میں لا کر رکھ دیا اور کہا اے لوگو! عمر اور اس کی آل کے لیے خواہ وہ قریبی ہو یا دور کا ان کا اتنا ہی حق ہے جتنا عام مسلمانوں کا ہے.اس سے زیادہ کا نہیں.ایک اور روایت ہے.حضرت ابو موسیٰ نے ایک دفعہ بیت المال میں جھاڑو دیا تو ان کو ایک درہم ملا.حضرت عمر کا ایک چھوٹا بچہ گزر رہا تھا تو انہوں نے وہ اس کو دے دیا.حضرت عمرؓ نے وہ در ہم اس بچے کے ہاتھ میں دیکھ لیا تو آپ نے اس کے بارے میں پوچھا: اس نے کہا کہ یہ مجھے ابو موسیٰ نے دیا ہے تو یہ معلوم کر لینے کے بعد کہ درہم بیت المال کا ہے ، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اے ابو موسیٰ ! کیا اہل مدینہ میں سے آلِ عمر کے گھر سے زیادہ حقیر تر تیرے نزدیک کوئی گھر نہیں تھا.تُو نے یہ چاہا کہ امت محمدیہ صلی علیم سے کوئی بھی باقی نہ رہے مگر وہ ہم سے اس ظلم کا مطالبہ کرے.پھر آپ نے وہ درہم بیت المال میں لوٹا دیا.74 رفاہ عامہ کے کام کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے عوام الناس کی بھلائی اور بہتری کے لیے بہت سے کام سر انجام فرمائے جو درج ذیل ہیں.زراعت میں بہتری اور عوام کے لیے پانی کی فراہمی کے لیے نہریں کھدوائیں: 1.نہر ابو موسیٰ: دریائے دجلہ سے نو میل لمبی نہر بنا کر بصرہ تک لائی گئی.2.نہر معقل : یہ نہر بھی دریائے دجلہ سے نکالی گئی تھی.3.نہر امیر المومنین : حضرت عمرؓ کے حکم سے دریائے نیل کو بحیرہ قلزم سے ملایا گیا.اٹھارہ ہجری میں جب قحط پھیلا تو حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن عاص کو امداد کے لیے خط لکھا.فاصلہ چونکہ زیادہ تھا اس لیے امداد میں تاخیر ہو گئی.حضرت عمرؓ نے عمر و کو بلا کر کہا کہ دریائے نیل کو سمندر سے ملادیا جائے تو عرب میں کبھی قحط نہ ہو.عمر و نے جو وہاں کے گورنر تھے واپس جا کر فسطاط سے بحیرہ قلزم تک نہر تیار کروائی جس کے ذریعہ بحری جہاز مدینہ کی بندر گاہ جدہ تک پہنچ جاتے.یہ نہر انیس میل لمبی تھی اور چھ ماہ کے عرصہ میں تیار کرلی گئی.حضرت عمرو بن عاص نے بحیرہ روم اور بحیرہ قلزم کو آپس میں ملانے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ فرما کے پاس سے جہاں بحر قلزم اور بحر روم میں ستر میل کا فاصلہ تھا نہر نکال کر ان کو ملا دیا جائے.فرما مصر کے نواح میں ایک ساحلی شہر تھا.لیکن حضرت عمر یونانیوں کے ہاتھوں حاجیوں کے لوٹے جانے کے ڈر سے اس پر رضامند نہ ہوئے.اگر عمر و بن عاص کو اجازت مل جاتی تو نہر سویز کی ایجاد عربوں کے حصہ میں آتی جو بعد میں بنائی گئی تھی.مختلف تعمیرات: حضرت عمر نے عوام الناس کی سہولت کے لیے مختلف عمارتیں تعمیر کروائیں.ان میں مساجد، عدالتیں، فوجی چھاؤنیاں، بیر کس ملکی تعمیراتی کاموں کے لیے مختلف دفاتر ، سڑکیں، پل، مہمان خانے، چوکیاں، سرائیں وغیرہ.مدینہ سے مکہ تک ہر منزل پر چشمے اور سرائیں بنوائیں، چوکیاں بھی تعمیر کروائیں.یعنی سیکیورٹی کا بھی انتظام رہے اور لوگوں کی رہائش کے لیے، آرام کرنے کے لیے ہوٹل وغیرہ 175

Page 116

حاب بدر جلد 3 96 حضرت عمر بن خطاب بھی، سرائے بھی میسر آجائیں.شہروں کی آباد کاری کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں متعد د نئے شہر آباد فرمائے.آپؐ نے ان کو آباد کرتے وقت دفاعی، معاشی اور اقتصادی فوائد کو مد نظر رکھا.ان شہروں کے محل وقوع کا انتظام حضرت عمر کی جنگی بصیرت ، سیاست اور آباد کاری کے اصولوں پر ، دقیق نظر پر دلالت کرتا ہے.یہ شہر حالت جنگ اور حالتِ امن دونوں میں فائدہ مند تھے.حضرت عمرؓ کی کوشش ہوتی کہ عرب کی جو سرحد عجم سے ملی ہوئی ہے وہاں شہر آباد ہوں تا کہ اچانک حملے سے بچا جا سکے.ان شہروں کا محل وقوع اس طرح ہوتا جو عربوں کو موافق ہوتا.ان شہروں کے ایک طرف عرب کی سرزمین ہوتی جو چراگاہ کا کام دیتی اور دوسری طرف عجمی سر زمین کے سر سبز علاقے ہوتے جہاں سے پھل غلہ اور دوسری اشیاء میسر ہو تیں یعنی زراعت دوسری طرف کی جاتی تھی.شہروں کی آبادکاری میں یہ بھی مد نظر رکھا گیا کہ ان کے درمیان کوئی دریا یا سمند ر حائل نہ ہو.حضرت عمر نے بصرہ، کوفہ ، فسطاط وغیرہ شہر آباد فرمائے.حضرت عمرؓ نے مستحکم اور صحیح بنیادوں پر ان شہروں کی آبادکاری کی.ان کی سڑکوں اور راستوں کو وسیع رکھا.بڑی کھلی سڑکیں تھیں اور نہایت بہترین انداز میں منظم کیا اور یہ طرز فکر ثابت کرتی ہے کہ آپ اس علم میں ماہر اور منفر د تھے.176 اسی طرح محکمہ فوج ہے.اس کا قیام آپ نے کیا.حضرت عمرؓ نے با قاعدہ فوج کی ترتیب کی اور تنظیم سازی کی.مراتب کے لحاظ سے فوج کے رجسٹر بنوائے اور ان کی تنخواہیں مقرر فرمائیں.حضرت عمرؓ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا.ایک جو باقاعدہ جنگ میں شامل ہوتے اور دوسرے والنٹیئر جو ضرورت کے وقت بلائے جاتے تھے.حضرت عمرؓ کو فوج کی تربیت کا بہت خیال تھا.انہوں نے نہایت تاکیدی احکام جاری کیے تھے کہ ممالک مفتوحہ میں کوئی شخص زراعت یا تجارت کا شغل اختیار نہ کرنے پائے.جو علاقے فتح ہوں گے وہاں جا کے کوئی شخص تجارت یا زراعت نہیں کرے گا کیونکہ یہ فوجی تھے تو یہ فوجیوں کے بارے میں تھا کیونکہ اس سے ان کے سپاہیانہ جو ہر کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا.آج کل ہم مسلمان ملکوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ فوجی تجارتوں میں مصروف ہیں بلکہ ایک ملک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پہلے تو فوجی اپنی پیشہ وارانہ مہارت کی طرف دیکھتے تھے لیکن اب کمیشن ملتے ہی جو افسر ہو تا ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ کہاں کوئی نئی کالونی بن رہی ہے.کون سی ڈیفنس کالونی بن رہی ہے جہاں مجھے پلاٹ ملے اور میں پلاٹ الاٹ کر اؤں.اور اسی وجہ سے بہر حال پھر ان کی سپاہیانہ صلاحیتیں کم ہوتی چلی جارہی ہیں.پھر آتا ہے کہ سرد اور گرم ممالک پر حملہ کرتے وقت موسم کا بھی خیال رکھا جاتا تھا تا کہ فوج کی صحت اور تندرستی کو نقصان نہ پہنچے.فوج کے متعلق حضرت عمرؓ نے سختی سے یہ ہدایات دی تھیں کہ ساری فوج تیرا کی، گھوڑ سواری، تیر چلانا اور نگے پاؤں چلنا سکھے.ہر چار مہینے کے بعد سپاہیوں کو وطن جاکر اپنے اہل و عیال سے ملنے کے لیے رخصت دی جاتی تھی.جفاکشی کے خیال سے یہ حکم تھا کہ اہل فوج

Page 117

اصحاب بدر جلد 3 97 حضرت عمر بن خطاب رکاب کے سہارے سے سوار نہ ہوں.گھوڑے پر سوار ہونے کے لیے رکاب میں پاؤں ڈال کے نہیں سوار ہونا بلکہ چھلانگ مار کے سوار ہونا ہے.نرم کپڑے نہ پہنیں.دھوپ سے بچیں اور حماموں میں نہ نہائیں.وہاں زیادہ آرام طلبی کی عادت پڑ جاتی ہے.حضرت عمر بہار کے موسم میں فوج کو سر سبز و شاداب علاقوں میں بھیج دیتے تھے.فوجی بیر کس اور چھاؤنیوں کے بناتے وقت آب و ہوا کو مد نظر رکھا جاتا.یہ بھی ضروری تھا کہ سر سبز علاقوں میں فوجوں کو بھیجا جائے تاکہ وہاں تازہ فضا سے ان کی صحت بھی اچھی رہے.آب و ہوا کو مد نظر رکھا جاتا تھا.تمام اضلاع میں فوجی چھاؤنیاں بنوائیں.فوجی صدر مقامات میں پدینه، کوفہ، بصره ، موصل ، فنطاط، دمشق، جمعی ، اردن ، فلسطین شامل کیے جہاں ہمیشہ فوج تعینات رہتی تھی.ہر چار ماہ کے بعد فوجیوں کو چھٹی دی جاتی تھی.فوجی مرکز میں بیک وقت چار ہزار گھوڑے ہوتے تھے جن کی دیکھ بھال کی جاتی.گھوڑوں کی رانوں پر جيش في سَبِيلِ اللہ داغ کر لکھا جاتا تھا یعنی اللہ کی راہ میں لشکر.حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں اسلامی فوج نے آلاتِ جنگ میں ترقی کی.نئے ساز و سامان مرتب کیے جن میں قلعہ شکن ہتھیار منجنیق اور دبّابہ وغیرہ شامل تھے.دبّابہ سے مراد وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعہ سے دشمن کے قلعوں کو توڑا اور منہدم کیا جاتا ہے.اس کے اندر آدمی بیٹھتے اور قلعہ کی دیواروں میں سوراخ کر کے اس کی دیوار میں گرائی جاتیں.177 اسلامی حکومت کے ماتحت غیر اقوام کے لوگ بڑے بڑے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے.یہ نہیں کہ صرف مسلمانوں کو اعلیٰ عہدے دیے جاتے تھے بلکہ غیر مسلموں کو بھی اور غیر قوموں کے لوگوں کو بھی اعلیٰ عہدے دیے جاتے تھے.حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی لیلی ظلم کے خلفاء کے زمانے میں بھی حالانکہ ابھی ملک میں پر امن طور پر ساری قو میں نہیں بسی تھیں ان حقوق کو تسلیم کیا جاتا تھا.چنانچہ علامہ شبلی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے صیغہ جنگ کو جو وسعت دی تھی اس کے لیے کسی قوم اور کسی ملک کی تخصیص نہ تھی یہاں تک کہ مذہب وملت کی بھی کچھ قید نہ تھی.النٹیئر فوج میں تو ہزاروں مجوسی شامل تھے یعنی ایسے لوگ جو خدا کو نہیں مانتے، آتش پرست تھے، سورج پرست تھے وہ بھی شامل تھے جن کو مسلمانوں کے برابر مشاہرے ملتے تھے.فوجی نظام میں بھی مجوسیوں کا پتہ ملتا ہے.اسی طرح لکھتے ہیں کہ یونانی اور رومی بہادر بھی فوج میں شامل تھے.چنانچہ فتح مصر میں ان میں سے پانچ سو آدمی شریک جنگ تھے اور آج پاکستان میں یہ کہتے ہیں کہ جی احمدیوں کو فوج سے نکالو.یہ بڑی نازک ، sensitivc پوسٹیں ہیں.حالانکہ اگر تاریخ پڑھیں تو پاکستان کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں احمدی افسروں نے دی ہیں.بہر حال یہ تو ان کے اپنے فعل ہیں.حضرت عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ جب عمر و بن عاص نے فسطاط آباد کیا تو یہ جدا گانہ محلے میں آباد کیے گئے.یہودیوں سے بھی یہ سلسلہ

Page 118

اصحاب بدر جلد 3 98 حضرت عمر بن خطاب خالی نہ تھا.چنانچہ مصر کی فتح میں ان میں سے ایک ہزار آدمی اسلامی فوج میں شریک تھے.اسی طرح تاریخ سے ثابت ہے کہ غیر اقوام کے افراد کو جنگی افسر بھی مقرر کیا جاتا تھا.چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایرانیوں کو بھی فوجی افسر مقرر کیا گیا.ان میں سے بعض کے نام بھی تاریخ میں موجود ہیں.علامہ شبلی نے چھ افسروں کے نام یہ لکھے ہیں.سیاہ، خسرو، شہریار ، شیرویہ، شَهْروَیہ، آفرودین.ان افسروں کو تنخواہیں بھی سرکاری خزانے سے ملتی تھیں اور باقاعدہ پے رول (payroll) میں ان کا نام تھا.چاروں خلفاء کے بعد حضرت معاویہ کے متعلق تاریخ سے ثابت ہے کہ ان کے زمانے میں ایک عیسائی ابن آثال نامی وزیر خزانہ تھا.یہ وضاحت میں لکھتے ہیں کہ تفسیر کبیر میں جو میں نے پڑھا ہے تو حضرت مصلح موعودؓ نے علامہ شبلی کے حوالے سے افرودین لکھا ہے اور ایسے ہی الفاروق میں بھی درج ہے لیکن عربی کتب میں اس کا نام آفر و ذین لکھا ہے.یعنی بجائے دال کے ذال کے ساتھ.178 بہر حال یہ نام کا ذال اور دال کا ذرا سا فرق ہے کیونکہ لوگ اس پہ بحث شروع کر دیتے ہیں اس لیے وضاحت کر دی ہے.اسی طرح مارکیٹ کنٹرول، پرائس کنٹرول کے لحاظ سے جو ناجائز حد تک قیمت گرانا ہے اس سے بھی اسلام نے منع فرمایا ہے اور حضرت عمرؓ نے اس کی پابندی کروائی.مال کی قیمت گرانے کی ممانعت کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”اسلام نے قیمت کو ناجائز حد تک گرانے سے بھی منع کیا ہے.قیمت کا گرانا بھی ناجائز مال کمانے کا ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ طاقتور تاجر اس ذریعہ سے کمزور تاجروں کو تھوڑی قیمت پر مال فروخت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ان کا دیوالہ نکلوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے.حضرت عمررؓ کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ بازار کا دورہ کر رہے تھے کہ باہر سے آئے ہوئے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ خشک انگور نہایت ارزاں قیمت پر فروخت کر رہا تھا جس قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت نہیں کر سکتے تھے.آپ نے اسے حکم دیا کہ یا تو اپنا مال منڈی سے اٹھا کر لے جائے یا پھر اسی قیمت پر فروخت کرو جس مناسب قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت کر رہے تھے.مدینہ کے جو تاجر تھے وہ مال کی زیادہ قیمت نہیں لے رہے تھے بلکہ مناسب قیمت تھی.آپ نے کہا اسی قیمت پر فروخت کرو.” جب آپ سے اس حکم کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے جواب دیا کہ اگر اس طرح فروخت کرنے کی اسے اجازت دی گئی تو مدینہ کے تاجروں کو جو مناسب قیمت پر مال فروخت کر رہے ہیں نقصان پہنچے گا.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صحابہ نے حضرت عمرؓ کے اس فعل کے خلاف رسول کریم صلی اللہ کا یہ قول پیش کیا کہ منڈی کے بھاؤ میں دخل نہیں دینا چاہئے.مگر ان کا یہ اعتراض درست نہ تھا کیونکہ منڈی کے بھاؤ میں دخل دینے کے یہ معنی ہیں کہ پیداوار اور مانگ (Supply and demand) کے اصول میں دخل دیا جائے.“ یعنی سپلائی اور ڈیمانڈ کے جو اصول ہیں ان میں دخل دینا ہے اور ایسا کر نا بیشک نقصان دہ ہے اور اس سے حکومت کو بچنا چاہئے.مارکیٹ خود اپنے آپ کو سپلائی ڈیمانڈ سے ایڈجسٹ کرتی ہے ”ورنہ 66

Page 119

حاب بدر جلد 3 99 حضرت عمر بن خطاب عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا اور تاجر تباہ ہو جائیں گے.179 اس کی اجازت نہ دی جائے لیکن قیمت کنٹرول 180" جو ہے وہ جائز ہے.حضرت مصلح موعودؓ اس کی تفصیل ایک اور جگہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ”شہری حقوق میں یہ بھی داخل ہے کہ لین دین کے معاملات میں خرابی نہ ہو.ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اس حق کو بھی نظر انداز نہیں کیا.چنانچہ اسلام نے بھاؤ کو بڑھانے اور مہنگا سودا کرنے سے روکا ہے.اسی طرح دوسروں کو نقصان پہنچانے اور ان کو تجارت میں فیل کرنے کے لیے بھاؤ کو گرا دینے سے بھی منع فرمایا ہے.مقابلے میں کم قیمت کرنا بھی منع ہے.”ایک دفعہ مدینہ میں ایک شخص ایسے ریٹ پر انگور بیچ رہا تھا جس ریٹ پر دوسرے دکاندار نہیں بیچ سکتے تھے.حضرت عمر پاس سے گزرے تو انہوں نے اس شخص کو ڈانٹا کیونکہ اس طرح باقی دکانداروں کو نقصان پہنچتا تھا.غرض اسلام نے سودا مہنگا کرنے سے بھی روک دیا اور بھاؤ کو گرا دینے سے بھی روک دیا تا کہ نہ دکانداروں کو نقصان ہو اور نہ پبلک کو نقصان ہو.“ تعلیم کے نظام کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے تعلیم کو نہایت ترقی دی.تمام ممالک میں مدر سے قائم کیے جن میں قرآن مجید، حدیث، فقہ کی تعلیم دی جاتی.کبار علماء صحابہ کو تعلیم و تربیت پر مامور کیا گیا اور پڑھانے والوں کی تنخواہیں بھی مقرر کی گئیں.اسی طرح ہجری کیلنڈر کا آغاز کس طرح ہوا؟ اس بارے میں روایات میں آتا ہے.ایک تو صحیح بخاری کی روایت ہے.حضرت سہل بن سعد نے بیان کیا کہ صحابہ نے نبی صلی علیہ کم کی بعثت سے تاریخ کا شمار نہیں کیا اور نہ آپ کی وفات سے بلکہ آپ کے مدینہ میں آنے سے ہی انہوں نے تاریخ کا شمار کیا.182 یعنی ہجرت کے وقت سے.بخاری کے شارح علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں امام سہیلی کے نزدیک صحابہ نے ہجرت سے تاریخ کا آغاز کرنے کا خیال اللہ تعالیٰ کے قول لَمَسْجِدٌ أَيْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمِ سے لیا ہے.پس مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ سے مرادوہ دن ہو گا جس میں نبی صلی علیہم اور آپ کے صحابہ مدینہ میں داخل ہوئے.واللہ اعلم.181 ہجری کیلنڈر کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اس بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں.حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عمرؓ کی طرف لکھا کہ آپ کی طرف سے ہمیں خطوط آتے ہیں ان پر تاریخ وغیرہ درج نہیں ہوتی.اس پر حضرت عمر نے لوگوں کو مشورہ کے لیے اکٹھا کیا.علامہ ابن حجر کہتے ہیں کہ بخاری نے کتاب الادب میں اور حاکم نے میمون بن مہران کے واسطے سے روایت کی ہے کہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں ایک چیک پیش کیا گیا جس کی میعاد شعبان تھی.آپؐ نے فرمایا کون سا شعبان ؟ کیا وہ جو گزر گیا یا وہ جس میں سے ہم گزر رہے ہیں یا وہ شعبان جو آئے گا.آپ نے فرما یالوگوں کے لیے کوئی تاریخ متعین کر وجو سب کو معلوم رہے.ابن سیرین کہتے ہیں کہ ایک شخص یمن سے آیا اور اس نے کہا میں نے یمن میں ایک چیز دیکھی

Page 120

اصحاب بدر جلد 3 100 حضرت عمر بن خطاب جسے وہ تاریخ کہتے ہیں.وہ اسے یوں لکھتے ہیں کہ فلاں سال اور فلاں مہینہ.حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ عمدہ طریق ہے.تم بھی تاریخ لکھو.ہجری تقویم کا آغاز ، اس کیلنڈر کا آغاز کس نے کیا؟ اس بارے میں متفرق آرا ہیں.پہلے قول کے مطابق نبی کریم صلی الیکم نے تاریخ مرتب کرنے کا ارشاد فرمایا اور ربیع الاول میں تاریخ لکھی گئی.چنانچہ حاکم نے اپنی کتاب الاکلیل میں ابن شہاب زہری سے روایت کی ہے کہ أَنَّ النَّبِيُّ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ أَمَرَ بالتاريخ فكتب في ربيع الأول.جب نبی کریم صلی علی المدینہ تشریف لائے تو آپ نے تاریخ لکھنے کا ارشاد فرمایا.پس وہ ربیع الاول میں لکھی گئی.علامہ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ روایت مُغضّل ہے.معضل سے مراد وہ روایت ہوتی ہے جس کی سند میں پے در پے دو یا زیادہ راوی ساکت ہوں.ایک اور روایت میں ہے کہ تاریخ کی ابتدا اس دن سے ہوئی جس دن رسول کریم صلی علیہ کی ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے اور مشہور بات اس کے بر عکس ہے اور وہ یہ کہ تاریخ تقویم ہجری حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں قائم ہوئی.سُبُلُ الْهُدَى وَ الرَّشاد في سِيرَةِ خَيْرِ الْعِبَاد کے مصنف محمد بن یوسف صالحی کہتے ہیں کہ ابن صلاح نے کہا ہے کہ انہوں نے ابو طاہر قخیش کی کتاب الشروط میں یہ لکھا ہوادیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ یکم نے تاریخ لکھنے کا ارشاد فرمایا تھا کیونکہ جب آپ نے نجران کے عیسائیوں کی طرف خط لکھنے کا ارشاد فرمایا تو حضرت علیؓ سے فرمایا اس میں لکھو لخمس من الهِجْرَةِ.یعنی ہجرت کے بعد پانچواں سال.پس اس لحاظ سے پہلے مؤرخ رسول اللہ صلی علیہ کم ہیں اور حضرت عمر نے اس میں آپ صلی علیہ کم کی اتباع کی ہے.دوسرے قول کے مطابق حضرت یعلی بن امیہ نے تاریخ کا آغاز کیا جو یمن کے رہنے والے تھے.امام احمد نے اس کو بیان کیا ہے لیکن اس میں انقطاع ہے یعنی عمر و اور یعلیٰ کے درمیان میں.تیسرے اور مشہور قول کے مطابق یہ ہے کہ تاریخ تقویم ہجری کا آغاز حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہوا.ہجری کیلنڈر کے لیے ہجرت سے کیوں آغاز کیا گیا؟ اس بارے میں یہ تفصیل ملتی ہے.جب حضرت عمر نے سال کی تعیین کے لیے مشورہ مانگا تو ایک رائے یہ تھی کہ نبی کریم صلی الم کی پیدائش سے اس کا آغاز کیا جائے.دوسری رائے یہ تھی کہ آپ کے مبعوث ہونے کے سال سے اس کا آغاز کیا جائے.تیسری رائے یہ تھی کہ آپ کی وفات کے سال سے اس کا آغاز کیا جائے.چوتھی رائے یہ تھی کہ آپ کی ہجرت کے سال سے اس کا آغاز کیا جائے.ہجرت کے سال سے اس کا آغاز کرنا مناسب سمجھا گیا کیونکہ ولادت اور بعثت کے سال کی تعیین میں اختلاف تھا.جہاں تک وفات کا تعلق ہے تو اس لیے منتخب نہیں کیا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ ان کی وفات کی وجہ سے مسلمانوں کے رنج والم کا عصر اس میں شامل تھا.پس صحابہ نے ہجرت پر اتفاق کیا.صحابہ نے ربیع الاول کی بجائے محرم سے سال کا آغاز کیوں کیا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی املی یکم نے ہجرت کا عزم محرم کے مہینہ میں ہی کر لیا تھا.ذوالحجہ میں بیعت عقبہ ثانیہ ہو چکی تھی اور وہی ہجرت کا سة الله

Page 121

محاب بدر جلد 3 101 حضرت عمر بن خطاب پیش خیمہ تھی.اس طرح بیعت عقبہ ثانیہ اور ہجرت کا پختہ ارادہ کر لینے کے بعد جس مہینے کا چاند طلوع ہو اوہ محرم کا چاند تھا.لہذ ا مناسب یہی سمجھا گیا کہ اسی کو نقطہ آغاز بنایا جائے.علامہ ابن حجر کہتے ہیں اسلامی کیلنڈر کے محرم سے آغاز کی مناسبت سے میرے نزدیک یہ سب 183 مضبوط دلیل.نبی کریم صلی ال مدینہ کب تشریف لائے؟ اس بارے میں مختلف آرا ہیں.آپ مختلف جگہ ٹھہر تے ہوئے بارہ ربیع الاول 14 / نبوی مطابق 20/ ستمبر 622ء کو مدینہ کے پاس پہنچے.بعض مورخین کے نزدیک 8 / ربیع الاول کی تاریخ تھی.بعض کے نزدیک آپ ماہ صفر میں نکلے اور ربیع الاول میں پہنچے.یکم ربیع الاول کو مکہ سے آپ نے ہجرت کا آغاز فرمایا اور بارہ ربیع الاول کو مدینہ پہنچے.تقویم ہجری کس سال میں ہوئی ؟ 184 اس بارے میں بھی مختلف آرا ہیں.کب یہ کیلنڈر شروع ہوا؟ کچھ کہتے ہیں سولہ ہجری میں ہوئی.کچھ کے نزدیک سترہ ہجری میں ہوئی.کچھ کہتے ہیں کہ اٹھارہ ہجری میں ہوئی.بعض کے نزدیک اکیس ہجری میں ہوئی.185 لیکن اس بات پر بہر حال اکثر متفق ہیں کہ حضرت عمر کے زمانے میں اس کیلنڈر کا اجر اہوا.اسلامی سکه : عام مؤرخین کے نزدیک عرب میں سب سے پہلے سکہ عبد الملک بن مروان نے جاری کیا.مدینہ طیبہ کے بعض مؤرخین نے کہا ہے کہ سب سے پہلے اسلامی سکے حضرت عمرؓ کے دور میں رائج ہوئے تھے.ان کے اوپر الحمد للہ کندہ تھا اور بعض پر محمد رسول اللہ اور بعض پر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وحدة‘ بھی کندہ ہو تا تھا لیکن ساسانی، ایرانی بادشاہوں کی تصویروں سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا.ایک تحقیق کے مطابق سب سے پہلے اسلامی سکے دمشق میں سترہ ہجری میں حضرت عمررؓ کے دورِ خلافت میں رائج ہوئے تھے مگر ان کے اوپر بھی باز نطینی شہنشاہ کی تصویر اور لاطینی میں ان کی لکھائی موجود ہوا کرتی تھی اور ایک روایت کے مطابق حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں اٹھائیس ہجری میں سب سے پہلے اپنا سکہ استعمال ہوا.وقتی طور پر ساسانیوں کے علاقوں میں رائج سکوں کو ہی چلایا گیا.ان کے اوپر ساسانی بادشاہوں کی تصاویر ہوا کرتی تھیں مگر ان پر کوفی رسم الخط میں بسم اللہ لکھ دیا گیا.86 اولیات فاروقی پھر یہ کہ حضرت عمرؓ نے کون کون سی باتیں شروع کیں؟ کون سی اڈلیات ہیں جو اولیاتِ فاروقی کہلاتی ہیں ؟ علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب الفاروق میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے ہر ذریعہ میں جو جو نئی باتیں ایجاد کیں ان کو مورخین نے یکجا لکھا ہے اور ان کو اولیات کہا جاتا ہے اور وہ درج ذیل ہیں.یعنی یہ شروع کروائیں:

Page 122

حاب بدر جلد 3 1 بیت المال یعنی خزانہ قائم کیا.102 2 نمبر دو: عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے.3 پھر تاریخ اور سن قائم کیا جو آج تک جاری ہے..4 نمبر چار: امیر المومنین کا لقب حضرت عمرؓ نے خلیفہ وقت کے لیے اختیار کیا.5 نمبر پانچ: فوجی دفتر ترتیب دیا.6 نمبر چھ : والنٹیئر ز کی تنخواہیں مقرر کیں.7 نمبر سات: دفتر مال قائم کیا.8 نمبر آٹھ : پیمائش جاری کیں.9 نمبر نو: مردم شماری کروائی.10.نمبر دس : نہریں کھد وائیں.حضرت عمر بن خطاب 11.گیارہ: شہر آباد کرائے یعنی کو فہ ، بصرہ، جیزہ، فسطاط، موصل وغیرہ.12, نمبر بارہ یہ ہے کہ ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا.13 نمبر تیرہ: عشور یعنی دسواں حصہ بطور ٹیکس یا محصول مقرر کیا.عشور حضرت عمر کی ایجاد ہے جس کی ابتدا یوں ہوئی کہ مسلمان جو غیر ملکوں میں تجارت کے لیے جاتے تھے ان سے وہاں کے دستور کے مطابق مال تجارت پر دس فیصد ٹیکس لیا جاتا تھا.ابو موسیٰ اشعری نے حضرت عمر کو اس واقعہ کی اطلاع دی.حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ ان ملکوں کے تاجر جو ہمارے ملک میں آئیں ان سے بھی اسی قدر محصول لیا جائے یعنی پھر دس فیصد ان سے بھی وصول کیا جائے.14.نمبر چودہ یہ ہے کہ دریا کی پیداوار پر محصول لگایا اور محصل مقر ر کیے.15 نمبر پندرہ: حربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی.16.نمبر سولہ : جیل خانہ قائم کیا.17.نمبر سترہ: ڈرے کا استعمال کیا.18.نمبر اٹھارہ: راتوں کو گشت کر کے رعایا کے دریافت حال کا طریق نکالا.19.نمبر انیس: پولیس کا محکمہ قائم کیا.20.نمبر ہیں: جابجا فوجی چھاؤنیاں قائم کیں.21.نمبر اکیس : گھوڑوں کی نسلوں میں اصیل اور مجنس کی تمیز قائم کی جو اس وقت تک عرب میں نہ تھی.22.نمبر بائیس: پرچہ نویس مقر ر کیے.23.نمبر تئیں : مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے آرام کے لیے مکانات بنوائے.24.چو ہیں: لاوارث بچوں کی پرورش کے لیے روزینہ مقرر کیے.

Page 123

محاب بدر جلد 3 103 25 پچیس : مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے.26 چھپیں : یہ قاعدہ قرار دیا کہ اہل عرب گو کافر ہوں غلام نہیں بنائے جاسکتے.27.ستائیس : مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے روزینے مقرر کیے.28.اٹھائیس: مکاتب قائم کیے.حضرت عمر بن خطاب 29.انیتس: معلموں اور مدرسوں کے مشاہرے مقرر فرمائے، تنخواہیں مقرر کیں.30 تمہیں: حضرت ابو بکر کو اصرار کے ساتھ قرآن مجید کی ترتیب پر آمادہ کیا اور اپنے اہتمام سے اس کام کو پورا کیا.31.اکتیس: قیاس کا اصول قائم کیا.32.بنتیں فرائض میں عول کا مسئلہ ایجاد کیا یعنی نان نفقہ کے لیے بعض لوگوں کو عیال میں شامل کرنا.33.تینتیس: نماز تراویح جماعت سے قائم کی.34 چونیتس : تین طلاقوں کو جو ایک ساتھ دی جاتی تھیں طلاق بائن قرار دیا.یہ تو آپ نے سزا کے طور پر بھی کیا تھا.35.پینتیس : شراب کی حد کے لیے اسی کوڑے مقرر کیے.36 چھتیں: تجارت کے گھوڑوں پر زکوۃ مقرر کی.37.سینتیں: بنو ثعلب کے عیسائیوں پر بجائے جزیہ کے زکوۃ مقرر کی.38.اڑتیس: وقف کا طریقہ ایجاد کیا.39.انتالیس: نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر تمام لوگوں کا اجماع کر وا دیا.ویسے عمومی طور پر مسنون یہی ہے تین تکبیریں ہوتی ہیں یا پہلی تکبیر کے ساتھ آخری تکبیر تک سلام پھیر نے سے پہلے چار ابھی بھی یہی رائج ہیں.40.چالیس یہ ہے کہ مساجد میں وعظ کا طریقہ قائم کیا اور ان کی اجازت سے تمیم داری نے وعظ کہا اور یہ اسلام میں پہلا وعظ تھا.41.اکتالیس: اماموں اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں.42 بیالیس: مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا.43.تینتالیس : ہجو کرنے پر تعزیر کی سزا قائم کی..44 چوالیس غزلیہ اشعار میں عورتوں کے نام لینے سے منع کیا حالانکہ یہ طریقہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا.علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ اس کے سوا اور بھی عمر کی اولیات ہیں جن کو ہم طوالت کے خوف سے قلم انداز کرتے ہیں.187

Page 124

تاب بدر جلد 3 104 حضرت عمر بن خطاب حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں فتوحات آپ کے دورِ خلافت میں جو جنگیں ہوئیں اور جو فتوحات ہو ئیں اس ضمن میں لکھا ہے کہ: حضرت عمر کا دورِ خلافت تقریباً ساڑھے دس سال پر محیط تھا.یہ تاریخ تیرہ ہجری سے تیس ہجری تک ہے.اس دور میں ہونے والی فتوحات کی وسعت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے مفتوحہ علاقوں کا کل رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار تیس مربع میل بنتا ہے.ان مفتوحہ علاقوں میں یہ علاقے شامل ہیں.شام، مصر، ایران اور عراق، خوزستان، آرمینیا، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران جس میں بلوچستان کا بھی کچھ حصہ آتا ہے.188 اسلامی جنگوں اور فتوحات کا سلسلہ تو حضرت ابو بکر کے دور میں شروع ہو گیا تھا.آپ کے دور میں، (حضرت ابو بکڑ کے دور میں ) شام اور عراق میں اسلامی افواج جہاد میں مصروف تھیں اور بیک وقت کئی محاذوں پر جہاد جاری تھا اور پھر یہ سلسلہ چلتا گیا اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بھی اسی طرح جاری رہا.حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ایک بات جو بہت نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود گویا ہر فتح کے وقت مسلمانوں کے لشکر میں موجود تھے.اگر چہ آپ نے اپنے دور خلافت میں کسی جنگ میں بھی باقاعدہ حصہ نہیں لیا تا ہم مسلمان کمانڈروں کو لشکر کے حوالے سے جملہ ہدایات مدینہ سے آپ بھجواتے یا جہاں بھی آپؐ موجود ہوتے وہاں ان سے رابطہ میں رہتے بلکہ بعض جنگوں کے حالات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی مسلمان سپہ سالاروں سے خط و کتابت روزانہ کی بنیاد پر جاری رہی اور حضرت عمرؓ نے مدینہ میں بیٹھ کر مسلمانوں کو اپنے لشکروں کو ترتیب دینے کی ہدایات دیں اور ان کو ان علاقوں کے بارے میں ایسے بتایا، اس طرح کی ہدایات دیں گویا حضرت عمرؓ کے سامنے ان علاقوں کا نقشہ موجود تھا یا وہ علاقے حضرت عمرؓ کے سامنے تھے.امام بخاری نے صحیح بخاری میں حضرت عمر کے متعلق لکھا ہے.189 وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ إِنِّي لَأُجَهْرُ جَيْشِيَ وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ کہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے لشکر تیار کرتا ہوں اور میں نماز میں ہو تا ہوں.یعنی آپ اس قدر متفکر ہوتے تھے کہ نماز کے دوران میں بھی اسلامی فوجوں کی منصوبہ بندی اور پلاننگ کا کام جاری رہتا تھا.اس دوران دعا بھی کرتے رہتے ہوں گے.یہی وجہ ہے کہ ہمیں جابجا نظر آتا ہے کہ آپ کی ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان فوجوں نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے فتوحات حاصل کیں.سید میر محمود احمد صاحب نے بھی حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت پر ایک مقالہ لکھا تھا اور اس سے بھی ہمارے نوٹس تیار کرنے والوں نے مدد لی ہے.ریسرچ سیل نے بعض نوٹس لیے ہیں لیکن بہر حال یہ

Page 125

اصحاب بدر جلد 3 105 حضرت عمر بن خطاب اصل ماخذ سے بھی چیک کیے گئے ہیں اور ٹھیک ہیں.حضرت ابو بکر کی ایک اہم وصیت فتوحات ایران و عراق کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کے دور میں اہل فارس کے ساتھ جنگ جاری تھی کہ اس دوران حضرت ابو بکر بیمار ہو گئے جس کی وجہ سے اسلامی افواج کو پیغامات موصول ہونے میں تاخیر ہو رہی تھی.اس لیے حضرت معنی اسلامی فوج میں اپنے نائب مقرر کر کے خود حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ کو جنگ کے حالات سے باخبر کریں اور مزید مدد کی درخواست کریں.حضرت مٹی مدینہ پہنچے اور حضرت ابو بکر کو واقعات کی اطلاع دی.اس پر حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو بلایا اور یہ وصیت فرمائی کہ اے عمر ! میں جو کچھ کہتا ہوں اسے غور سے سنو پھر اس پر عمل کرنا.آج سوموار کا دن ہے میں توقع کرتا ہوں کہ میں آج ہی فوت ہو جاؤں گا، یہ حضرت ابو بکر فرمارہے ہیں.اگر میں فوت ہو جاؤں تو شام ہونے سے قبل لوگوں کو جہاد کی ترغیب دے کر منی کے ساتھ بھیج دینا اور اگر میری وفات رات تک مؤخر ہو جائے تو صبح سے پہلے مسلمانوں کو جمع کر کے معنی کے ساتھ کر دینا.میری موت کی مصیبت خواہ کتنی ہی بڑی ہو وہ تمہیں دین کے احکام اور خد اتعالیٰ کے احکام کی تعمیل سے ہر گز باز نہ رہنے دے.تم نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی ال یکم کی وفات کے موقع پر میں نے کیا کیا تھا حالا نکہ لوگوں کو اور مخلوق کو اس جیسی مصیبت کبھی پیش نہیں آئی تھی.خدا کی قسم ! اگر میں اس وقت رسول اللہ صلی اللی کام کے حکم کی تعمیل میں ذرا تاخیر جائز رکھتا تو خدا ہم کو ذلیل کر دیتا.ہم کو سزا دیتا اور مدینہ میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھتے.عراق پر چڑھائی کے لئے لشکر کی تیاری چنانچہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے مسندِ خلافت پر متمکن ہوتے ہی اس وصیت کی تعمیل میں حضرت ابو بکر کی تدفین سے اگلے روز لوگوں کو جمع کیا.بیعت خلافت کے لیے تمام اطراف سے بے شمار آدمی آئے ہوئے تھے اور تین دن تک ان کا تانتا بندھا رہا تھا.حضرت عمر نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور مجمع عام میں جہاد کا وعظ کیا کیونکہ عرب قدیم سے مملکت ایران کی شان و شوکت اور زبر دست فوجی طاقت سے خائف رہتے تھے اور لوگوں کا عام طور پر خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ تخت ہے اور وہ حضرت خالد کے بغیر فتح نہیں ہو سکتا اس لیے سب خاموش رہے.حضرت عمرؓ نے کئی دن تک وعظ کیا لیکن کچھ اثر نہ ہوا.آخر چوتھے دن اس جوش سے تقریر کی کہ حاضرین کے دل دہل گئے اور لوگوں کی ایمانی حرارت جوش میں آئی اور حضرت ابو عبید بن مسعود ثقفی آگے بڑھے اور انا لھذا کا نعرہ مارا کہ میں اس کے لیے حاضر ہوں.اور اس جہاد کے لیے اپنا نام پیش کیا.ان کے بعد حضرت سعد بن عبید اور سلیط بن قیس سامنے آئے.ان لوگوں کا سامنے آنا تھا کہ ایمانی جوش مسلمانوں کے دلوں میں

Page 126

محاب بدر جلد 3 106 حضرت عمر بن خطاب موجزن ہو گیا اور وہ بڑے جوش و خروش سے بڑھ بڑھ کر جہادِ عراق کے لیے اپنا اپنا نام پیش کرنے لگے.قبل ازیں عراقی افواج کی کمان حضرت خالد بن ولیڈ کے ہاتھ میں تھی مگر حضرت ابو بکڑ نے اپنے آخری زمانے میں شامی جنگوں کی اہمیت کے پیش نظر ان کو شام جانے کا حکم دے دیا تھا اور اب عراق کی اسلامی فوج کی کمان حضرت مثنی بن حارثہ کر رہے تھے.اس موقع پر جب حضرت عمرؓ مسلمانوں کو عراق کی جنگوں کے لیے اپنا نام پیش کرنے کی دعوت دے رہے تھے حضرت علی بھی مدینہ تشریف لائے ہوئے تھے.آپ نے بھی ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور کہا کہ لو گو ! یہ محاذ بہت سخت اور گراں نہ سمجھو.ہم نے فارس والوں سے لڑائی کی اور ان پر غلبہ پایا اور ان شاء اللہ اس کے بعد بھی ہماری ہی فتح ہو گی.یہ ساری تقریریں سننے کے بعد اب مدینہ اور اس کے نواح سے عراقی جنگوں میں شمولیت کے لیے مجاہدین کا لشکر تیار ہوا.طبری اور بلاذری نے اس لشکر کی تعداد ایک ہزار بتائی ہے اور کتاب اخبار الطوال کے مصنف علامہ ابو حنیفہ دینوری پانچ ہزار تعداد بتاتے ہیں.لگتا ہے کہ لشکر کی مدینہ سے روانگی کے وقت تعداد ایک ہزار تھی مگر محاذ جنگ تک پہنچتے پہنچتے یہ تعداد پانچ ہزار تک جا پہنچی کیونکہ بلاذری اور ابو حنیفہ نے تصریح کی ہے که امیر لشکر راستہ میں جس عرب قبیلہ کے پاس سے گزرتے اسے لشکر میں شمولیت کی دعوت دیتے.اب یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ اس لشکر کا امیر کون ہو ؟ گو حضرت مثالی تھے لیکن جو نیالشکر تیار ہوا تھا اس کا امیر کون ہو ؟ حضرت عمر کی جو ہر شناس نظر نے ابو عبید ثقفی کا انتخاب کیا.بعض لوگوں پر یہ امر گراں گزرا کہ سَابِقُونَ الْأَوَّلُون مہاجرین اور انصار کو چھوڑ کر جنہوں نے اپنے خون سے اسلام کے پودے کو سینچا تھا ایک شخص کو امیر بنا دیا ہے جو بعد میں آنے والا ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ صحابہ کو اگر کوئی امتیازی مقام حاصل ہے تو محض اس لیے کہ وہ اسلام کی خدمت میں پیش پیش رہے اور دین کی طرف سے مدافعت کے لیے بڑھ چڑھ کے دشمن سے بر سر پیکار ہوئے مگر اب اس موقع پر پیچھے رہ کر انہوں نے اپنا یہ حق کھو دیا.اس لیے اس موقع پر جو شخص اسلام کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے سامنے آیا وہی امارت کا حق دار ہے.حضرت ابوعبید کے بعد سعد بن عبید اور سلیط بن قیس نے عراقی جنگوں کی دعوت کے موقع پر حضرت عمر کی آواز پر لبیک کہا تھا.حضرت عمرؓ نے ان دونوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر تم میری آواز پر لبیک کہنے میں سبقت اختیار کرتے تو قبولِ اسلام میں سبقت کے باعث میں تمہی کو یہ کمان سونپتا.گوسلیط بن ابوعبید کو ترجیح دینے کے متعلق علاوہ پہلی وجہ کے حضرت عمرؓ نے اس امر کا بھی اظہار فرمایا تھا کہ اس کام کے لیے کسی دھیمے شخص کی ضرورت ہے جو تحمل اور سوچ بچار سے جنگ کا اقدام کرے مگر سلیط بن قیس فوجی پیش قدمی کے سلسلہ میں بڑے جلد باز واقع ہوئے ہیں.اگر چہ حضرت عمر نے شرف تقدم کے باعث ابو عبید کو یہ اہم کمان سونپی تھی لیکن آنحضرت صلی علیم کے بزرگ صحابہ کی قدیمی خدمات اور گذشتہ تجربات کو نظر انداز کر دینا بھی مناسب نہ تھا اس لیے آپ نے حضرت ابوعبید ثقفی کو تاکید بھی کر دی تھی کہ وہ صحابہ کے مشورے سے مستفید ہوں اور انتظامی امور میں ان کی رائے پر چلیں.یہ مختلف

Page 127

اصحاب بدر جلد 3 107 حضرت عمر بن خطاب 190 تاریخی کتب میں ملتا ہے.تاریخ طبری میں یہ سارا واقعہ ہے جس سے یہ اخذ کیا گیا ہے.جنگ نمارق اکسکر تیرہ ہجری میں ایک جنگ ہوئی جو جنگ تمارق اور گشگر کہلاتی ہے.حضرت ابوعبیڈ کے لشکر لے کر روانہ ہونے سے قبل ہی حضرت ملنی واپس جیرہ (حیرہ عراق کی قدیمی عربی حکومت کا پایہ تخت تھا اور فرات کے مغرب میں اس مقام پر واقع تھا جہاں بعد میں کو فہ آباد ہو اوہاں) چلے گئے اور بدستور اپنی فوج کی قیادت سنبھال لی لیکن جلد ہی ایسی صورت حال پیدا ہو گئی کہ حضرت مثٹی کو اپنی افواج سمیت پیچھے ہٹنا پڑا.اس کی تفصیل یوں ہے کہ ایرانی دربار رؤساء اور امراء کے باہمی مناقشات اور اختلافات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا کہ ایک نئی اور زبر دست شخصیت کا ظہور ہوا جو خراسان کے گورنر فرخ زاد کے بیٹے رستم کی تھی.ایرانی دربار کی طرف سے رستم سیاہ وسفید کا مالک بنادیا گیا اور وہ سب اراکین سلطنت جو تفرقہ اور انتشار سے ملک کی طاقت کمزور کرنے کا سبب بنے ہوئے تھے اب رستم کی اطاعت کا دم بھر نے لگے.رستم ایک بہادر اور صاحب تدبیر انسان تھا.اس نے عنان قیادت ہاتھ میں لیتے ہی مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں میں اپنے کارندے بھیجوا کر بغاوت کروا دی اور فرات کے ملحقہ اضلاع میں مسلمانوں کے خلاف سخت جوش بھر دیا اور حضرت مثلی کے مقابلہ کے لیے ایک لشکر روانہ کیا.ان حالات کو دیکھ کر حضرت مشکی نے کچھ پیچھے ہٹ جانا مناسب سمجھا اور حیرہ کو چھوڑ کر خَفّان (کوفہ کے قریب ایک مقام ہے اس جگہ ) آکر قیام پذیر ہو گئے.ادھر رستم برابر فوجی سر گرمیوں میں مشغول تھا.اس نے زبر دست لشکر تیار کر کے دو مختلف راستوں سے مسلمانوں کے مقابلے کے لیے روانہ کیے.ایک لشکر جانتان کی سر کردگی میں تھا جو مقام تمارق میں اترا ، تمہاری بھی عراق میں کوفہ کے قریب ایک جگہ ہے اور دوسرا لشکر نوینی کی سر کردگی میں گشگر کی طرف روانہ کیا گیا.گشگر بغداد اور بصرہ کے درمیان دجلہ کے قریب غربی کنارے پر ایک شہر ہے جس کے آثار پر واسط کا شہر آباد ہے.حضرت منگلی کو مدینہ سے آئے ہوئے ابھی ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ حضرت ابو عبید مجاہدین کا لشکر لیے ہوئے حقان میں ان سے آملے.خفان بھی کوفہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے.اور چند ہزار لشکر اس وقت محاذ جنگ پر پہنچا جب عراق میں عام صورت حالات مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا بہ خوش کن نہ تھی اور مفتوحہ اضلاع ایک ایک کر کے ان کے ہاتھوں سے نکل رہے تھے.حضرت ابوعبید نے خفَّان میں اجتماع لشکر کی غرض سے چند روز قیام کے بعد نمارِق کا رخ کیا.وہاں ایک زبر دست ایرانی لشکر ایک بوڑھے تجربہ کار ایرانی سپہ سالار جانبان کی سر کردگی میں خیمہ زن تھا.حضرت ابوعبید نے لشکر کی تنظیم کی.رسالہ حضرت مثنی کی سر کردگی میں دیا.میمنہ کی کمان والی پری چیکارہ کو دی اور میسرہ کا کمانڈر عمر و بن هیئم کو مقرر کیا.ایرانی لشکر کے دونوں بازوؤں کی کمان جشن ماہ اور مردان شاہ کر رہے تھے.

Page 128

اصحاب بدر جلد 3 108 حضرت عمر بن خطاب اسلامی اخلاق کا جو نمونہ اس جنگ میں پیش ہوا اس پر میر محمود احمد صاحب نے اپنا تبصرہ کیا ہوا ہے کہ اسلامی اخلاق کا ایک نمونہ جو ہمیں نظر آتا ہے یہ ہے کہ نمارق کے مقام پر زبر دست معرکہ ہوا اور ایرانی لشکر نے شکست کھائی.ایرانی لشکر کا سپہ سالار جابان زندہ گرفتار کر لیا گیا مگر مطر بن فضّہ جنہوں نے جابان کو گر فتار کیا تھا اسے پہچانتے نہ تھے.جابان نے ان کی لا علمی سے فائدہ اٹھا کر ان کو فدیہ دیا اور رہائی حاصل کر لی.کچھ دیر بعد مسلمانوں نے دوبارہ جابان کو گرفتار کر لیا اور حضرت ابوعبید کے پاس لائے اور آپ کو بتایا کہ جانان کو ایرانی لشکر میں کیا پوزیشن حاصل ہے مگر حضرت ابوعبید نے یہ برداشت نہ کیا کہ ایک شخص جس کو ایک مسلمان سپاہی ایک دفعہ فدیہ لے کر رہا کر چکا ہے دوبارہ قیدی بنا لیا جائے.لوگوں نے دوبارہ اصرار کیا کہ جابان کو تو گویا بادشاہ کی پوزیشن حاصل ہے.آپ نے فرمایا کہ میں تو پھر بھی بد عہدی کا مرتکب نہیں ہو سکتا.چنانچہ رہا کر دیا گیا.اس واقعہ سے اس ضابطہ اخلاق پر روشنی پڑتی ہے جو اسلامی افواج کا لائحہ عمل ہو تا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح مسلمان زبر دست جنگی فوائد کے حصول کے لیے بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے.191 پھر معرکہ سقاطِیہ ہے جو تیرہ ہجری میں ہوا.نمارق کے معرکہ سے شکست کھا کر ایرانی لشکر گشگر کی طرف بھاگا جہاں ایرانی کمانڈ رنڈ سیٹی پہلے سے ایک لشکر جرار لیے ہوئے مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے تیار تھا.ابوعبید اس کے مقابلے کے لیے گشگر کی طرف بڑھے.نرینی جو گنگر میں ایرانی لشکر کا سپہ سالار تھا ایرانی اراکین سلطنت میں خاص امتیازی مقام رکھتا تھا اور وہ اور اس کے لشکر کے دونوں بازوؤں کے کمانڈر ہندویہ اور تیرویه ایران کے ساسانی بادشاہوں کے قریبی اور گہرے رشتہ داروں میں سے تھے.ایرانی دربار کو نمارق میں شکست کی خبر پہنچ چکی تھی اور رستم نوینی کے لیے مزید امدادی افواج کے بھیجوانے کا بندوبست کر رہا تھا کہ حضرت ابو عبید نے اپنی فوج کی نقل و حرکت کو تیز کرتے ہوئے نڑینی کے لشکر کو اس کی امدادی فوج کے آنے سے قبل ہی گنگر کے نشیبی علاقوں میں جالیا اور سَقَاطِیہ کے نام سے جو معروف جگہ تھی اس پر حملہ کر دیا.سقاطیه کے میدان میں ایک زبر دست معرکہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کو فتح ہوئی.بڑے معرکہ کے بعد حضرت ابوعبید نے گشگر کے ارد گرد علاقے میں مختلف جگہوں پر جمع شدہ دشمن کے مقابلے کے لیے اسلامی دستے بھی بھیجنا شروع کر دیے.192 پھر جنگ بارُ وسَما کا ذکر ہے.یہ بھی تیرہ ہجری کی ہے.بَارُوْسَما گشگر اور سَقَاطِیه کے درمیان ایک مقام تھا جہاں پر ایرانی جرنیل جالینوس سے مقابلہ ہوا جو جابان کی مدد کے لیے آیا تھا.رستم نے نرمینی کی مدد کے لیے ایک ایرانی کمانڈر کی سر کردگی میں ایک لشکر گنگز کی طرف روانہ کیا

Page 129

اصحاب بدر جلد 3 109 حضرت عمر بن خطاب تھا.ابوعبید کو اس کی اطلاع مل چکی تھی اور انہوں نے کمال ہوشیاری سے کام لے کر جالینوس کے لشکر کی آمد سے پہلے ہی نرمینی کی افواج سے ٹکر لے لی اور اس کو شکست دے کر دشمن کی فوجی طاقت کو صدمہ پہنچا دیا تھا.اب جالینوس بار و سما کے علاقے میں باقسيَاثًا کے مقام پر لشکر انداز ہوا.بصرہ اور کوفہ کے درمیان کی بستیوں کو ارض سواد کہا جاتا تھا اور بَارُ وسَما اور باقسَيَانَا ان بستیوں میں سے دو بستیاں ہیں.ابوعبید با فسیانا پہنچے اور مختصر سی لڑائی کے بعد ایرانی افواج نے شکست کھائی اور جالینوس میدان سے بھاگ کھڑا ہوا اور ابوعبید نے وہاں قیام کر کے ارد گرد کے علاقوں پر مکمل قبضہ کر لیا.مؤرخ طبری جو ہے یہ ان کا بیان ہے.بلاذری نے لکھا ہے کہ جالینوس سے مصالحت ہو گئی تھی البتہ بعد کے مؤرخین میں ابن خلدون اور ابن اثیر نے طبری کی تائید کی ہے.193 جنگ جسر کا کچھ بیان کچھ عرصہ پہلے ہو چکا ہے 194 یہاں بھی یہ ضروری ہے بیان کرتا ہوں.جنگ جنیر ، یہ بھی تیرہ ہجری میں ہوئی.دریائے فرات کے کنارے مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان لڑی گئی تھی.مسلمانوں کی طرف سے لشکر کے سپہ سالار حضرت ابو عبید ثقفی تھے جبکہ ایرانیوں کی طرف سے بہمَن جَاذْوَیہ سپہ سالار تھا.مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار تھی جبکہ ایرانیوں کی فوج میں تیس ہزار فوجی اور تین سو ہا تھی تھے.دریائے فرات کے درمیان میں حائل ہونے کی وجہ سے دونوں گروہ کچھ عرصہ تک لڑائی سے رکے رہے یہاں تک کہ فریقین کی باہمی رضامندی سے فرات پر جسر یعنی ایک پل تیار کیا گیا.اسی پل کی وجہ سے اس کو جنگ جسر کہا جاتا ہے.جب پل تیار ہو گیا تو برہمن جَاذْوَیہ نے حضرت ابوعبید کو کہلا بھیجا کہ تم دریا عبور کر کے ہماری طرف آؤ گے یا ہمیں عبور کرنے کی اجازت دو گے.حضرت ابو عبید کی رائے تھی کہ مسلمانوں کی فوج دریا عبور کر کے مخالف گروہ سے جنگ کرے لشکر کے سردار جن میں حضرت سلیط بھی تھے ان کی رائے اس کے خلاف تھی لیکن حضرت ابو عبید نے دریائے فرات کو عبور کر کے اہل فارس کے لشکر پر حملہ کر دیا.تھوڑی دیر تک لڑائی ایسے ہی چلتی رہی کچھ دیر بعد بهمن جَاذْوَیہ نے اپنی فوج کو منتشر ہوتے دیکھا تو اس نے ہاتھیوں کو آگے بڑھانے کا حکم دیا.ہاتھیوں کے آگے بڑھنے سے مسلمانوں کی صفیں بے ترتیب ہو گئیں اور اسلامی لشکر ادھر ادھر ہٹنے لگا.حضرت ابوعبید نے مسلمانوں کو کہا کہ اے اللہ کے بندو! ہاتھیوں پر حملہ کرو اور ان کی سونڈیں کاٹ ڈالو.حضرت ابوعبید یہ کہہ کر خود آگے بڑھے اور ایک ہاتھی پر حملہ کر کے اس کی سونڈ کاٹ ڈالی.باقی اسلامی لشکر نے بھی یہ دیکھ کر تیزی سے لڑائی شروع کر دی اور کئی ہاتھیوں کی سونڈیں اور پاؤں کاٹ کر ان کے سواروں کو قتل کر دیا.اتفاق سے حضرت ابو عبید ایک ہاتھی کے سامنے آگئے.آپ نے وار کر کے اس کی سونڈ کاٹ دی مگر آپ اس ہاتھی کے پاؤں کے نیچے آگئے اور دب کر شہید ہو گئے.

Page 130

اصحاب بدر جلد 3 110 حضرت عمر بن خطاب تاریخ طبری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوعبیڈ کی بیوی کومہ نے جنگ سے قبل ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک شخص آسمان سے ایک برتن میں جنت کا ایک مشروب لایا جس کو حضرت ابوعبید اور جبر بن ابوعبید نے پیا ہے.اسی طرح ان کے خاندان کے چند لوگوں نے بھی پیا ہے.دومہ نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کی.حضرت ابو عبید نے کہا کہ اس خواب کی تعبیر شہادت ہے.اس کے بعد حضرت ابو عبید نے لوگوں کو وصیت کی کہ اگر میں شہید ہو جاؤں تو جبر سپہ سالار ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو فلاں فلاں شخص سپہ سالار ہو گا.چنانچہ جس جس شخص نے خواب میں اس برتن سے مشروب پیا تھا ان کو حضرت ابوعبید نے ترتیب وار سپہ سالار مقرر کر دیا اور پھر فرمایا کہ اگر ابوالقاسم بھی شہید ہو جائیں تو پھر حضرت منگی تمہارے سپہ سالار ہوں گے.دومہ کا یہ خواب حرف بہ حرف پورا ہوا.اس جنگ میں حضرت ابو عبیدہ کے بعد علی الترتیب بیان کردہ چھ اشخاص ایک ایک کر کے علم امارت ہاتھ میں لیتے چلے گئے اور شہید ہوتے چلے گئے.آٹھویں شخص حضرت تمنی تھے جنہوں نے اسلامی جھنڈے کو لے کر دوبارہ ایک پُر جوش حملے کا ارادہ کیا لیکن اسلامی لشکر کی صفیں بے ترتیب ہو گئی تھیں اور لوگوں نے مسلسل سات امیروں کو شہید ہوتے دیکھ کر بھاگنا شروع کر دیا تھا جبکہ کچھ دریا میں کو دگئے تھے.حضرت منلی اور آپ کے ساتھی مردانگی سے لڑتے رہے.بالآخر حضرت منلی زخمی ہو گئے اور آپ لڑتے ہوئے دریائے فرات عبور کر کے واپس آگئے.اس واقعہ میں مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان ہوا.مسلمانوں کے چار ہزار آدمی شہید ہوئے جبکہ ایرانیوں کے چھ ہزار فوجی مارے گئے.یہ شکست مسلمانوں کے لیے زیادہ دیر تک ضرر رساں نتائج پیدا کرنے کا موجب بنتی مگر خوش قسمتی یہ ہوئی کہ قدرتی موقع ایسا پیدا ہو گیا کہ دشمن مسلمانوں کا تعاقب نہ کر سکا کیونکہ خود ایرانی اراکین سلطنت میں باہمی اختلاف پید اہو جانے کی وجہ سے بہمن جَاذْوَیہ کو واپس جانا پڑا.ابن اثیر نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ خود ایرانی دارالحکومت مدائین میں اراکین سلطنت کے ایک فریق نے رستم کے خلاف بغاوت کر دی تھی.195 حضرت مصلح موعودؓ نے بھی جنگ چشہر کے بارے میں کچھ بیان فرمایا ہے کہ ”سب سے بڑی اور ہولناک شکست جو اسلام کو پیش آئی وہ جنگ جسر تھی.ایرانیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کازبر دست لشکر گیا.ایرانی سپہ سالار نے دریا پار اپنے مورچے بنائے اور ان کا انتظار کیا.اسلامی لشکر نے جوش میں بڑھ کر ان پر حملہ کیا اور دھکیلتے ہوئے آگے نکل گئے مگر یہ ایرانی کمانڈر کی چال تھی.اس نے ایک فوج بازو سے بھیج کر پل پر قبضہ کر لیا اور تازہ حملہ مسلمانوں پر کر دیا.مسلمان مصلحتاً پیچھے لوٹے مگر دیکھا کہ پل پر دشمن کا قبضہ ہے.گھبر اگر دوسری طرف ہوئے تو دشمن نے شدید حملہ کر دیا اور مسلمانوں کی بڑی تعداد دریا میں کودنے پر مجبور ہو گئی اور ہلاک بھی ہو گئی.مسلمانوں کا یہ نقصان

Page 131

اصحاب بدر جلد 3 111 حضرت عمر بن خطاب ایسا خطر ناک تھا کہ مدینہ تک اس سے ہل گیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ والوں کو جمع کیا اور فرمایا: اب مدینہ اور ایران کے درمیان کوئی روک باقی نہیں.مدینہ بالکل ننگا ہے اور ممکن ہے کہ دشمن چند دنوں تک یہاں پہنچ جائے.اِس لئے میں خود کمانڈر بن کر جانا چاہتا ہوں.باقی لوگوں نے تو اس تجویز کو پسند کیا مگر حضرت علیؓ نے کہا کہ اگر خدانخواستہ آپ کام آگئے تو مسلمان تتر بتر ہو جائیں گے اور ان کا شیرازہ بالکل منتشر ہو جائے گا اس لئے کسی اور کو بھیجنا چاہئے آپ خود تشریف نہ لے جائیں.اس پر حضرت عمر نے حضرت سعد کو جو شام میں رومیوں سے جنگ میں مصروف تھے لکھا کہ تم جتنا لشکر بھیج سکتے ہو بھیج دو کیونکہ اس وقت مدینہ بالکل ننگا ہو چکا ہے اور اگر دشمن کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو وہ مدینہ پر قابض ہو جائے گا.196❝ جنگ بویب / يوم الاعشار ایک جنگ جنگ بویب کہلاتی ہے جو تیرہ ہجری میں اور بعض مؤرخین کے نزدیک یہ سولہ ہجری میں ہوئی.جسر کے مقام پر یا جسم کی جنگ میں جس کا پہلے گذشتہ خطبہ میں ذکر ہو چکا ہے، مسلمانوں کی شکست کے بعد حضرت منی نے حضرت عمر کو جنگ کے بارے میں اطلاع بھجوائی.حضرت عمر نے قاصد کو فرمایا کہ اپنے اصحاب کے پاس واپس جاؤ اور ان کو کہو کہ اسلامی لشکر جہاں ہے وہیں ٹھہرارہے.جلد ہی امداد آتی ہے.197 جسر کی جنگ میں شکست سے حضرت عمر کو سخت تکلیف پہنچی.آپ نے تمام عرب میں خطیب بھیجے جنہوں نے پر جوش تقریروں سے سارے عرب میں جوش بھر دیا.عرب کے قبائل اس قومی معرکہ میں شامل ہونے کے لیے جوق در جوق آنا شروع ہو گئے.ان میں عیسائی قبائل بھی تھے.صرف مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ عیسائی قبائل بھی تھے.حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کا ایک لشکر عراق روانہ کیا اور حضرت مثنی نے بھی عراق کے سرحدی مقامات سے فوج اکٹھی کر لی.رستم کو جب اس کی خبر ملی تو اس نے مہران کے ہمراہ ایک لشکر مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا.حیرہ ایک مقام ہے ، ایک شہر ہے جو کوفہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے اس کے قریب ٹویب، یہ بویب جو ہے یہ کوفہ کے پاس ایک نہر ہے جو دریائے فرات سے نکلتی ہے.اس مقام پر دونوں حریف صف آرا ہوئے.یہ جنگ رمضان کے مہینہ میں لڑی گئی.اس مقام کے قریب ہی بعد میں کوفہ شہر آباد ہو ا تھا.ایرانی جرنیل مہران نے کہا ہم دریا عبور کر کے آئیں یا تم آؤ گے؟ حضرت مٹی نے کہا تم پار کر کے آؤ.پچھلی جنگ میں مسلمان در یا پار کر کے گئے تھے.اس دفعہ انہوں نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ ان کو ، ایرانیوں کو کہا کہ تم آؤ.حضرت معنی نے اپنے لشکر کی تنظیم اور صف آرائی کی اور پھر ان کے الگ الگ حصوں پر تجربہ کار سر دار مقر رکیے اور اپنے مشہور گھوڑے شموس نامی پر سوار ہو کر اسلامی لشکر کی صفوں کا چکر کاٹ کر معائنہ کیا اور ہر جھنڈے

Page 132

اب بدر جلد 3 112 حضرت عمر بن خطاب کے پاس ٹھہر کر جنگ کے بارے میں ہدایات جنگ دیں اور ولولہ خیز الفاظ میں ان کے حوصلے بڑھاتے ہوئے یوں فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ آج عرب پر تمہاری وجہ سے داغ نہیں لگے گا.خدا کی قسم ! میں اپنی ذات کے لیے آج وہی کچھ پسند کرتا ہوں جو تم میں سے عام آدمی کے لیے میری نظر میں پسندیدہ ہے یعنی میں اور تم برابر ہیں.اور سرفروشانِ اسلام نے پر جوش الفاظ سے اپنے محبوب قائد کی آواز پر پورے جوش سے لبیک کہا اور کیوں نہ کہتے جبکہ اس نے اپنے ہر قول و فعل میں ہمیشہ ہی ان سے نہایت منصفانہ سلوک روارکھا تھا اور راحت و تکلیف دونوں میں ان کا ساتھ دیا تھا اور کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ ان کی کسی بات پر انگلی رکھ سکے.198 حضرت مشکی نے لشکر کو ہدایت کی کہ میں تین تکبیریں کہوں گا.تم تیار اور مستعد ہو جانا اور چوتھی تکبیر سنتے ہی دشمن پر حملہ کر دینا.حضرت ملنی نے پہلی مرتبہ نعرہ تکبیر بلند کیا تو ایرانی فوج نے جلدی سے حملہ کر دیا.اس لیے مسلمانوں نے بھی جلدی کی اور پہلی تکبیر کے بعد ہی قبیلہ بنو عجل کے بعض افراد اپنی صفوں سے نکل کر مقابلہ کے لیے بڑھے.اس طرح صفوں میں خلل پیدا ہو گیا.حضرت علی نے ایک شخص کو پیغام دے کر ان کی طرف بھیجا کہ پیغام یہ تھا کہ امیر لشکر سلام کہتا ہے اور کہتا ہے کہ آج مسلمانوں کو رسوا نہ کرو.اس کے بعد وہ قبیلہ سنبھل گیا.پھر ایک شدید جنگ کے بعد ایرانیوں میں بھگدڑ پڑ گئی.اس جنگ میں ایرانیوں کے مقتولین کی تعداد ایک لاکھ بیان کی جاتی ہے.ایرانی لشکر کا سالار مہران بھی اس جنگ میں قتل ہوا.اس جنگ کو يَوْمُ الْأَعْمار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس جنگ میں سو لوگ ایسے تھے جن میں سے ہر ایک نے دس دس آدمیوں کو قتل کیا تھا.ایرانی لشکر شکست کھا کر پل کی طرف بھاگا تا کہ دریا عبور کر کے اپنے محفوظ علاقے میں چلا جائے لیکن حضرت مینی نے اپنا دستہ لے کر ان کا تعاقب کیا اور پل پار کرنے سے پہلے ہی ان کو گھیر لیا اور دریا کا پل توڑ کر بہت سے ایرانی فوجیوں کو قتل کر دیا.بعد میں حضرت معنی افسوس کا اظہار فرمایا کرتے تھے کہ میں نے شکست خوردہ لوگوں کا تعاقب کیوں کیا؟ مجھے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا.آپ فرماتے کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی ہے.میرے لیے زیبا نہیں کہ میں ان سے مقابلہ کروں جو مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے تھے.آئندہ میں کبھی ایسا نہیں کروں گا اور پھر آپ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ اے مسلمانو! تم بھی کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اور اس معاملہ میں میری پیروی نہ کرنا.اس معرکے میں یہ غلطی میرے سے ہو گئی کہ دوڑتے ہوؤں کا تعاقب کیا یہ نہیں ہونا چاہیے.اصل میں تو یہ اسلامی اخلاق ہیں.اس معرکے میں اسلامی لشکر کے بعض بڑے بڑے کردار مثلاً خالد بن ہلال اور مسعود بن حارثہ بھی شہید ہوئے تھے.حضرت مٹی نے شہداء کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا خدا کی قسم! میرے رنج و غم کو یہ بات ہلکا کرتی ہے کہ یہ لوگ اس جنگ میں شامل ہوئے اور انہوں نے جرآت اور بہادری سے کام لیا اور ثابت قدم رہے اور ان کو کسی قسم کی گھبراہٹ اور پریشانی نہیں ہوئی اور پھر یہ بات میرے غم کو ہلکا کرتی ہے کہ

Page 133

اصحاب بدر جلد 3 113 حضرت عمر بن خطاب شہادت گناہوں کی معافی کے لیے کفارہ بن جاتی ہے.اس جنگ کے ذکر میں مورخین ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس سے مسلمان خواتین کی ہمت و دلیری پر روشنی پڑتی ہے.میدانِ جنگ سے دور مقام قوادس پر اسلامی لشکر کی خواتین اور بچوں کا کیمپ تھا.لڑائی کے خاتمہ پر جب مسلمانوں کا ایک دستہ گھوڑے دوڑاتا ہوا کیمپ کے سامنے پہنچا تو مسلمان خواتین کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ یہ دشمن کی فوج ہے جو ہم پر حملہ کرنے آئی ہے.انہوں نے بڑی تیزی سے بچوں کو تو گھیرے میں لے لیا اور خود پتھر اور چوہیں لے کر مرنے مارنے پر تل گئیں.فوجی دستہ کے قریب پہنچنے پر ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ تو مسلمان ہیں تو اس پارٹی کے راہنما عمر و بن عبد المسیح نے بے ساختہ کہا کہ اللہ کے لشکر کی خواتین کو یہی زیبا ہے.معرکہ بویب ختم ہو گیا مگر اپنے پیچھے گہرے نشانات اور گہرے اثرات چھوڑ گیا.ایران کی اسلامی مہم میں اس سے قبل کبھی اتنا جانی نقصان نہ ہوا تھا.اس معرکہ کا یہ اثر ہوا کہ عراق کے اکثر نواح میں مسلمانوں کے پاؤں مضبوط ہو گئے اور سواد عراق پر دجلہ تک ان کا قبضہ ہو گیا اور معمولی جھڑپوں کے بعد ارد گرد کے علاقوں پر بھی مسلمان از سر نو قابض ہو گئے جو پہلے چھوڑ گئے تھے اور ایرانی افواج نے اس میں خیریت دیکھی کہ پسپا ہو کر دجلہ کے دوسرے کنارے پر جااتریں.اس فتح کے بعد مسلمان عراق کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے.9 199 جنگ قادسیہ پھر جنگ قادسیہ ہوئی جو چودہ ہجری میں ہوئی.قادسیہ موجودہ عراق میں ایک مقام ہے اور کو فہ سے پینتالیس میل کے فاصلہ پر واقع ہے.چودہ ہجری میں حضرت عمر فاروق کے دورِ خلافت میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان قادسیہ کے مقام پر ایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس کے نتیجہ میں ایرانی سلطنت مسلمانوں کے قبضہ میں آگئی.جب اہل فارس کو مسلمانوں کے کارناموں کا علم ہو ا تو انہوں نے رستم اور فیرز ان سے جو اُن کے دوسر دار تھے کہا کہ تم دونوں آپس میں اختلاف کرتے رہے اور تم دونوں نے اہل فارس کو کمزور کر کے دشمن کے حوصلے بڑھا دیے ہیں.اب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اگر ہم یونہی رہتے ہیں تو ایر ان تباہ ہو جائے گا کیونکہ بغداد، سابات جو مدائن کے قریب مقام ہے اور تکریت جو بغداد اور موصل کے درمیان بغداد سے تیس فرسخ یانوے میل کے فاصلے پر ایک مشہور شہر ہے.اس کے بعد اب محض مدائن شہر ہی باقی بچا ہے.انہوں نے کہا کہ اگر تم دونوں متفق نہ ہوئے تو پہلے ہم تم دونوں کو ہلاک کریں گے پھر خود ہلاک ہو کر سکون حاصل کر لیں گے یعنی پھر ہم جنگ خود ہی کریں گے.رستم اور فیرزان نے بوران کو معزول کر کے یزدجرد کو تخت پر بٹھا دیا جو اس وقت اکیس سال کا

Page 134

اصحاب بدر جلد 3 114 حضرت عمر بن خطاب تھا.تمام قلعوں اور فوجی چھاؤنیوں کو مستحکم کر دیا گیا.حضرت منی نے جب اہل فارس کی ان سرگرمیوں سے حضرت عمر کو مطلع کیا تو حضرت عمر نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! میں اہل عجم کے بادشاہوں کا مقابلہ عربوں کے امراء اور بادشاہوں سے کراؤں گا.چنانچہ ہر رئیس، صائب الرائے، معزز، خطیب اور شاعر کو مقابلے کے لیے روانہ کیا گیا نیز حضرت متنی کو حکم دیا کہ وہ بجھی علاقے سے نکل کر ان ساحلی علاقوں میں آجائیں جو تمہاری اور ان کی حدود کے پاس ہیں.قبیلہ ربیعہ اور مصر کے لوگوں کو بھی ساتھ شامل کرنے کا حکم دیا.200 حضرت عمر فعالشکر کی کمان خود سنبھالنا 201 حضرت عمرؓ نے عرب میں چاروں طرف نقیب بھیجے اور سر داروں اور رؤساء کو مکہ میں جمع ہونے کے لیے فرمایا.چونکہ حج قریب آچکا تھا تو حضرت عمر حج کے لیے روانہ ہوئے.حج کے دوران عرب قبائل ہر طرف سے جمع ہو گئے.جب آپ حج سے واپس تشریف لائے تو مدینہ میں ایک بڑا لشکر جمع تھا.حضرت عمر نے اس لشکر کی کمان خود سنبھالی اور حضرت علی کو مدینہ میں امیر مقرر کر کے روانہ ہوئے اور صرار میں پڑاؤ ڈالا.(صرار مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک چشمہ ہے ) کہتے ہیں کہ ابھی حضرت عمرؓ کا خود محاذ جنگ پر جانے کا معین فیصلہ نہیں ہو ا تھا.لشکر لے کے روانہ تو ہو گئے تھے لیکن فیصلہ نہیں کیا تھا کہ خود جائیں گے یا آگے جا کے کسی اور کو کمانڈر بنا کے روانہ کریں گے.بہر حال تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے لوگوں سے مشورہ کیا.سب نے آپ کو فارس جانے کا مشورہ دیا.انہوں نے کہا سارے لشکر کو اپنی کمان میں ہی لے کر جائیں.صرار آنے تک حضرت عمرؓ نے کسی سے مشورہ نہیں کیا تھا لیکن حضرت عبد الرحمن ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ کو جانے سے روکا.باقیوں نے تو کہا کہ ضرور لشکر لے کے جائیں لیکن حضرت عبد الرحمن نے کہا نہیں.حضرت عبد الرحمن نے کہا کہ آج سے پہلے میں نے نبی کریم ملی ایم کے سوا کسی پر اپنے ماں باپ کو قربان نہیں کیا اور نہ آپ مسایل کم کے بعد کبھی ایسا کروں گا مگر آج میں کہتا ہوں کہ اے وہ کہ جس پر میرے ماں باپ فدا ہوں ! اس معاملہ کا آخری فیصلہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں.حضرت عمر کو انہوں نے کہا اور پھر انہوں نے حضرت عمرؓ کو مشورہ دیا کہ آپ صرار مقام پر ہی رک جائیں اور ایک بڑے لشکر کو یہاں سے روانہ فرما دیں.پھر انہوں نے حضرت عمر کو کہا کہ شروع سے لے کر اب تک آپ دیکھ چکے ہیں کہ آپ کے لشکروں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا فیصلہ رہا ہے.اگر آپ کی فوج نے شکست کھائی تو وہ آپ کی شکست کی مانند نہ ہو گی.اگر ابتدا میں آپ شہید ہو گئے یا شکست کھا گئے تو مجھے اندیشہ ہے کہ پھر کبھی مسلمان نہ تکبیر پڑھ سکیں گے اور نہ ہی لا الہ الا اللہ کی گواہی دے سکیں گے.چیدہ اور برگزیدہ اہل الرائے اصحاب کی مجلس شوریٰ کے بعد حضرت عمرؓ نے ایک عام جلسہ منعقد کیا.جب ان

Page 135

محاب بدر جلد 3 115 حضرت عمر بن خطاب و حضرت عبد الرحمن کا یہ مشورہ مل گیا تو پھر اس کے بعد چیدہ لوگوں سے مشورہ کیا اور اس کے بعد ایک جلسہ عام منعقد کیا جس میں تقریر کرتے ہوئے حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اسلام پر جمع کر دیا ہے اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت پیدا کر دی ہے اور اسلام نے سب کو بھائی بھائی بنا دیا ہے اور مسلمانوں کی باہمی حالت جسم کی طرح ہے کہ ایک حصہ کو تکلیف ہو تو دوسرا بھی اس کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا.لہذا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے معاملات باہمی مشورے سے فیصل ہوا کریں.خصوصاً ان میں سے سمجھدار لوگوں کا مشورہ لے لیا جایا کرے اور لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ جس امر یہ متفق اور راضی ہو جائیں اس کی پیروی اور اطاعت کریں اور امیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں میں سے اہل الرائے کے مشورے کو منظور کرے اور لوگوں کے متعلق اُن کی جو رائے ہو اور جنگوں کے متعلق جو اُن کی تدبیر ہو.حضرت عمرؓ نے فرمایا اے لوگو! میں تمہاری طرح ایک فرد بن کر تمہارے ساتھ ہونا چاہتا تھا، جنگ میں شامل ہونا چاہتا تھا مگر تمہارے اہل الرائے اشخاص نے مجھے اس سے روکا ہے.اس لیے اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں نہ جاؤں اور کسی اور شخص کو بھیج دوں.2 202 حضرت سعد بن ابی وقاص کمانڈر بنتے ہیں اس وقت حضرت عمرہ کسی شخص کی تلاش میں تھے.اسی دوران ان کی خدمت میں حضرت سعد کا خط آیا.حضرت سعد اس وقت نجد کے صدقات پر مامور تھے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے کوئی آدمی بتاؤ جس کو کمانڈر بنایا جائے.حضرت عبد الرحمن نے کہا کہ آدمی تو آپ کو مل گیا ہے.حضرت عمرؓ نے پوچھا وہ کون ہے ؟ حضرت عبد الرحمن نے کہا کہ کچھار کا شیر سعد بن مالک یعنی سعد بن ابی وقاص.باقی لوگوں نے بھی اس مشورے کی تائید کی.203 تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت سعد کو امیر مقرر فرما کر نصیحت فرمائی کہ اے سعد ! تم کو یہ گمان نہ ہو کہ تم کو رسول اللہ صلی اللہ کا ماموں اور صحابی کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو نیکی سے مٹاتا ہے.اللہ تعالیٰ اور بندے کے در میان اطاعت کے سوا اور کوئی رشتہ نہیں ہے.روانگی کے وقت حضرت عمرؓ نے حضرت سعد کو یہ نصیحت فرمائی اور آپ نے فرمایا میری نصیحت کو یاد رکھنا.ایک اور نصیحت یہ فرمائی کہ تم نے ایک مشکل اور سخت کام کا بیڑہ اٹھایا ہے.پس اپنے نفس کو اور اپنے ساتھیوں کو نیکی کی عادت ڈالو اور اس کے ذریعہ فتح چاہو اور یاد رکھو کہ ہر عادت ڈالنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے اور نیکی کی عادت ڈالنے کا ذریعہ صبر ہے.صبر کرو گے تو نیکی کی عادت پڑے گی.پس ہر مصیبت جو تمہیں پہنچے اور تکلیف جو تم پر آئے اس پر صبر کرو.اس سے اللہ تعالیٰ کا خوف تمہیں حاصل ہو گا.204 پھر آپ نے فرمایا: اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر شراف سے ایران کی طرف مارچ کرو.پیرافی

Page 136

حاب بدر جلد 3 116 حضرت عمر بن خطاب مجد میں پانی کا ایک چشمہ ہے.اس مقام سے آپ نے کہا کہ یہاں سے فوج اکٹھی ہوئی ہے اور یہاں سے شروع کر دو.اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور اپنے تمام امور میں اسی سے مدد چاہو اور یاد رکھو کہ تم اس قوم کے مقابلہ کے لیے جارہے ہو جن کی تعداد بہت زیادہ ہے.ساز و سامان بڑی کثرت سے ہے.جنگی طاقت نہایت مضبوط ہے اور ایسے علاقے کے مقابلے کے لیے جارہے ہو جو جنگی لحاظ سے سخت اور محفوظ ہے اور گو اپنی زرخیزی اور سیرابی کے باعث عمدہ علاقہ ہے اور دیکھو! ان کے دھوکے میں نہ آجانا کیونکہ وہ چالاک اور دھوکا دینے والے لوگ ہیں اور جب تم قادسیہ پہنچو تو تم لوگ پہاڑی علاقے کے آخری کنارے اور میدانی علاقے کے شروع کنارے پر ہو گے.پس تم اس جگہ پر ہی مقیم رہنا اور یہاں سے نہ ہٹنا، جگہ بھی بتادی کہ وہیں رہنا.جب دشمن کو تمہارے آنے کا علم ہو گا تو وہ مشتعل ہوں گے اور اپنے تمام رسالوں اور پیادہ فوجوں اور پوری قوت کے ساتھ تم پر حملہ آور ہوں گے.اس صورت میں اگر تم دشمن کے سامنے پوری ثابت قدمی سے جمے رہو گے اور تمہیں دشمن سے لڑائی میں ثواب کی خواہش ہو گی اور تمہاری نیت ٹھیک ہو گی تو مجھے امید ہے کہ تمہیں ان پر غلبہ حاصل ہو گا اور پھر وہ کبھی اس طرح جمع ہو کر تمہارا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور اگر ہوئے بھی تو ان کے قلوب ان کے ساتھ نہ ہوں گے.ڈرے ہوئے دلوں کے ساتھ مقابلہ کریں گے.اور اگر کوئی دوسری صورت پیدا ہو گئی تو تم ایرانی علاقے کے قریب ترین میدانوں سے ہٹ کر یعنی اگر پیچھے ہٹنے کی صورت پیدا ہوتی ہے ، شکست کی صورت پیدا ہوتی ہے تو قریب ترین میدانوں سے ہٹ کر اپنے علاقے کے قریب ترین پہاڑوں میں آجاؤ گے.اس کے نتیجہ میں تمہیں اپنے علاقے میں زیادہ جرات ہو گی اور اس علاقے سے تم زیادہ واقف ہو گے اور ایرانی تمہارے علاقے میں خوفزدہ ہوں گے اور انہیں اس علاقے سے ناواقفیت بھی ہو گی یہاں تک کہ خدا تعالیٰ دوبارہ ان کے خلاف تمہاری فتح کا موقع پیدا کرے.آپکو یہ یقین تھا کہ فتح تو ہونی ہے اگر عارضی طور پر کوئی ایسے حالات پیدا بھی ہو جاتے ہیں تب بھی آخری فتح تمہاری ہے.غرض اس لشکر کی تمام نقل و حرکت حضرت عمرؓ کے مدینہ سے آنے والے تفصیلی احکام کے مطابق ہو رہی تھی.چنانچہ طبری نے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے شراف سے لشکر کی روانگی کی تاریخ بھی مقرر فرما دی تھی اور یہ بھی ہدایت کی کہ قادسیہ پہنچ کر لشکر کا قیام عُذَيْبُ الْهَجَانَات اور عُذَيْبُ الْقَوَادِس کے مقامات کے درمیان ہو اور یہاں پر لشکر کو شرقاً غرباً پھیلا دیا جائے.عذیب قادسیہ اور مغیفہ کے رستہ میں پانی کا ایک گھاٹ ہے جو قادسیہ سے چار میل کے فاصلے پر اور مغیفہ سے بتیس میل کے فاصلہ پر ہے.حضرت عمر کے حضرت سعد بن ابی وقاص کے نام خط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں دو عذیب تھے.یہ بھی تاریخ سے پتہ لگتا ہے.205 حضرت عمرؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو چار ہزار مجاہدین کے ساتھ ایران کی طرف بھیجا.بعد میں دو ہزار یمنی، دو ہزار نجدی بھی جاملے.راستہ میں بنو اسد کے تین ہزار افراد اور اشعث بن قیس

Page 137

حاب بدر جلد 3 117 حضرت عمر بن خطاب کندی ایک ہزار سات سو یمنی سپاہیوں کے ساتھ شامل ہوئے.مسلمانوں کے پاس یا پہلے بھی لشکر تھا اور اس لشکر کی تعداد آہستہ آہستہ پھر وہاں تیس ہزار سے زائد ہو گئی.اس فوج کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس میں ننانوے ایسے صحابی تھے جو آنحضور صلی علیکم کے ساتھ غزوہ بدر میں شامل ہو چکے تھے.طبری نے ان کی تعداد ستر سے زائد بیان کی ہے.تین سو دس سے زائد وہ تھے جنہیں ابتدائے اسلام سے لے کر بیعت رضوان تک آنحضرت صلی اللہ نیلم کی صحبت کا شرف حاصل ہو چکا تھا.تین سو ایسے اصحاب تھے جو فتح مکہ میں شامل تھے.سات سو ایسے تھے جو خود صحابی نہ تھے لیکن صحابہ کی اولاد ہونے کا فخر انہیں حاصل تھا.حضرت سعد بن ابی وقاص نے شراف پہنچ کر پڑاؤ کیا.منٹی آٹھ ہزار آدمیوں کے ساتھ مقام ذُو فار جو کوفہ کے قریب پانی کا ایک گھاٹ ہے اس پر مسلمانوں کی کمک کا انتظار کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں ان کا انتقال ہو گیا.انہوں نے بشیر بن خَصاصیہ کو اپنا جانشین مقرر کیا.206 مقلی تو وہاں فوت ہو گئے.شرافی پہنچ کر حضرت سعد نے حضرت عمر کو لشکر کے قیام کے مفصل حالات بھجوائے.اس پر حضرت عمرؓ نے لشکر کی ترتیب خود مقرر فرمائی اور خط میں تحریر فرمایا کہ تمام لشکر کو دس دس مجاہدین کے احزاب میں تقسیم کر کے ان پر ایک ایک نگران مقرر کر دو اور ان دستوں پر ایک بڑا افسر مقرر کر دینا.پھر ان کی تعداد کا حساب کر کے ان کو قادسیہ کی طرف روانہ کر دینا.اپنی کمان میں مغیرہ بن شعبہ کے دستہ کو رکھنا.حضرت عمر نے سعد کو یہ ہدایت فرمائی کہ مغیرہ بن شعبہ کو ، اس کے دستہ کو اپنی کمان میں رکھنا.اس کے بعد کے حالات کی تفصیل مجھے روانہ کرنا اور پھر جو روز کی development ہو گی یا جو حالات پید اہوں گے مجھے بتاتے رہنا.حضرت سعد نے ان ہدایات کے مطابق لشکر کی ترتیب لگائی اور حضرت عمر کو مفصل حالات لکھے.ہر دس آدمیوں پر نگران مقرر کرنا اسی نظام کے تحت تھا جو نبی کریم صلی علی کریم کے دور میں رائج تھا.207 ایک اور خط میں حضرت عمرؓ نے حضرت سعد کو تحریر فرمایا کہ اپنے دل کو نصیحت کرتے رہو اور اپنی فوج کو وعظ و نصیحت کرتے رہو.صبر اختیار کرو.صبر اختیار کرو کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بدلہ نیت کے مطابق ملتا ہے.جو ذمہ داری تمہارے سپر د ہے اور جو کام تم کرنے جارہے ہو اس میں پوری احتیاط سے کام کرو.خوب احتیاط سے کام کرو.خدا سے عافیت چاہو اور لا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ کثرت سے پڑھا کرو.مجھے تحریر کرو کہ تمہارا لشکر کہاں تک پہنچ گیا ہے اور تمہارے مقابلے میں دشمن کا سپہ سالار کون مقرر کیا گیا ہے کیونکہ بعض ہدایات جو میں تحریر کرنا چاہتا تھا صرف اس وجہ سے تحریر نہیں کر سکا کہ مجھے تمہارے اور تمہارے دشمن کے بعض کو ائف کا پوری طرح علم نہیں.سارے کوائف بھیجو.پھر میں تمہیں مزید ہدایات دوں گا.پس مسلمانوں کے لشکر کی منازل میرے پاس بہ تفصیل لکھ بھیجو اور اس علاقے کی کیفیت جو تمہارے درمیان اور ایرانی دارالحکومت مدائن کے درمیان ہے اس طرح لکھ بھیجو کہ

Page 138

حاب بدر جلد 3 118 حضرت عمر بن خطاب گویا مجھے آنکھوں سے نظر آجائے یعنی پوری باریکی سے ساری تفصیل لکھو اور اپنی تمام کیفیت مجھے وضاحت سے تحریر کرو اور خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اس سے امید رکھو اور اپنے کام کے سلسلہ میں اسی پر توکل کرو اور اس بات سے ڈرتے رہو کہ خدا تمہیں ہٹا کر کوئی اور قوم یہ کام سر انجام دینے کے لیے لے آئے.208 209 یعنی ہمیشہ خدا کا تمہیں خوف رہنا چاہیے.یہ نہیں کہ تمہارا کوئی ٹھیکیدار بنا دیا.اگر تم نے یہ ذمہ داری نہ سنبھالی تو خدا تعالیٰ تمہیں اس کام سے ہٹا دے گا اور کوئی اس کام کو سر انجام دینے کے لیے لے آئے گا اور یہ کام تو بہر حال ہونا ہے.قادسیہ پہنچ کر حضرت سعد نے حضرت عمر کو اپنے لشکر کے قیام اور حدود اربعہ کے متعلق مفصل لکھ کر بھیجا.حضرت عمرؓ نے جواب تحریر فرمایا کہ اپنی جگہ پر مقیم رہو یہاں تک کہ دشمن خود حملہ آور ہو اور اگر دشمن کو شکست ہو گئی تو مدائن تک پیش قدمی کرنا.حضرت سعد کے ضمن میں یہ بیان ہو چکا ہے لیکن یہاں حضرت عمرؓ کے حوالے سے بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ حضرت سعد نے دربارِ خلافت کی ہدایت کے مطابق قادسیہ میں ایک ماہ قیام کیا.تاہم ایرانیوں میں سے کوئی بھی ان کے مقابلے کے لیے نہ آیا.اس پر اس علاقے کے لوگوں نے ایران کے بادشاہ یزد جرد کے نام خط لکھا کہ اہل عرب کچھ عرصہ سے قادسیہ میں مقیم ہیں اور آپ لوگوں نے ان کے مقابلے کے لیے کچھ نہیں کیا.انہوں نے فرات تک کا علاقہ برباد کر دیا ہے ، مویشی وغیرہ لوٹ لیے ہیں.اگر مدد نہ آئی تو ہم سب کچھ ان کے حوالے کر دیں گے.اس خط کے بعد یزدجرد نے رستم کو بلایا اور وہ حیلے بہانوں سے جنگ میں شرکت سے گریز کر تا رہا.رستم بچتارہا اور اپنی جگہ جالینوس کو فوج کا سپہ سالار مقرر کرنے کا مشورہ دیا مگر بادشاہ کے سامنے رستم کی ایک نہ چلی اور اسے لشکر کو ساتھ لے کر جانا پڑا.حضرت عمرؓ نے حضرت سعد کو لکھا کہ رستم کے پاس دعوت اسلام دینے کے لیے تم ایسے لوگوں کو بھیجو جو وجیہ ، عقل مند اور بہادر ہوں.یونہی جنگ نہیں کر دینی.دشمن کو بھی دعوت اسلام دینی ہے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس دعوت کو ان کی توہین اور ہماری کامیابی کا ذریعہ بنائے گا.تم روزانہ مجھے خط لکھتے رہو.اس کے بعد حضرت سعد نے چودہ نامور اشخاص کو منتخب کر کے دربار ایران میں سفیر بنا کر بھیجا تا کہ وہ شاہ ایران یزدجرد کو دعوت اسلام دیں.مسلمان گھوڑوں پر سوار تھے.ان مسلمانوں پر چادریں تھیں اور ان کے ہاتھوں میں کوڑے تھے.سب سے پہلے حضرت نعمان بن مقرن نے بادشاہ سے بات کی.پھر مغیرہ بن زرارہ نے.مغیرہ نے بادشاہ سے یہ کہا کہ تمہارے ساتھ یا تو جنگ ہو گی یا پھر تمہیں جزیہ دینا ہو گا.اب تمہارے اختیار میں ہے کہ ہماری ماتحتی تسلیم کرتے ہوئے جزیہ دو یا پھر جنگ کے لیے تیار رہو.تاہم ایک تیسری بات بھی ہے.اگر اسلام قبول کر لو گے تو ہر چیز سے اپنے آپ کو محفوظ کر لو گے.اس پر یزدجرد نے کہا کہ اگر قاصدوں کو قتل کرنا ممنوع نہ ہو تا تو میں تم سب کو قتل کر دیتا.میرے پاس تمہارے لیے

Page 139

ناب بدر جلد 3 119 حضرت عمر بن خطاب کچھ نہیں ہے.دوڑ جاؤ یہاں سے.پھر اس نے مٹی کا ایک ٹوکر امنگوا کر کہا کہ میری طرف سے یہ لے جاؤ اور اس نے حکم دیا کہ ان قاصدوں کو مدائن کے دروازے سے باہر نکال دو.عاصم بن عمرو نے وہ مٹی لی اور جا کر حضرت سعد کو دیتے ہوئے کہا کہ خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ملک کی چابیاں عطا کر دی ہیں.اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک دونوں طرف سکوت رہا.رستم اپنی فوج کے ساتھ ساباظ میں پڑا رہا اور یزدجرد کی تاکید کے باوجو د جنگ سے جی چراتا رہا.یزدجرد کو بار بار لوگوں نے کہا کہ ہماری حفاظت کریں ور نہ ہم اہل عرب کے مطیع ہو جائیں گے.اس پر مجبور ہو کر رستم کو مقابلے کے لیے بڑھنا پڑا اور ایرانی فوجیں ساباط سے نکل کر قادسیہ کے میدان میں خیمہ زن ہوئیں.رستم جب ساباط سے نکلا تو اس کے لشکر کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی اور اس کے ہمراہ تینتیس ہاتھی تھے.رستم نے مدائن سے قادسیہ پہنچنے تک چار ماہ کا عرصہ لگایا.رستم نے قادسیہ میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد اگلی صبح اسلامی لشکر کا جائزہ لیا اور مسلمانوں کو واپس جانے اور صلح کی پیش کش کی.رستم نے مسلمانوں کو کہا صلح کر لو اور واپس چلے جاؤ جس کا جواب مسلمانوں کی طرف سے یہ دیا گیا کہ ہم دنیا طلبی کے لیے نہیں آئے بلکہ ہمارا مقصد آخرت ہے.رستم نے مطالبہ کیا کہ اس کے دربار میں مسلمانوں کی طرف سے اچھی مذاکرات کے لیے آئیں.رستم کے ہ اور قیمتی قالین بچھائے گئے اور مکمل آرائش و زیبائش کا انتظام کیا گیا.رستم کے لیے سونے کا تخت بچھایا گیا اور اس پر قالین بچھا کر اور سونے کے دھاگوں سے تیار کردہ تکیے لگا کر خوب مزین کیا گیا.مسلمانوں کی جانب سے سب سے پہلے حضرت ربعی بن عا مر گئے.وہ رستم کی طرف اس حال میں گئے کہ اپنے نیزے کا سہارا لیتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے رہے جس سے نیزے کی نوک سے قالین اور گدے پھٹتے چلے جاتے تھے.وہ رستم کے پاس پہنچے اور نیچے بیٹھ کر اپنا نیزہ قالین میں گاڑ دیا.حضرت ربعی نے تین باتیں رستم کے سامنے رکھیں کہ (۱) آپ لوگ اسلام لے آئیں ہم آپ کا پیچھا چھوڑ دیں گے اور آپ کے ملک سے بھی ہمیں کوئی سروکار نہیں ہو گا.پھر ٹھیک ہے ملک کو سنبھالو.(۲) ہمیں جزیہ دیں جسے قبول کر کے ہم آپ کی حفاظت کریں گے.جزیہ دے دو تو پھر ہم تمہاری حفاظت بھی کریں گے.(۳) اگر کوئی بھی صورت منظور نہ ہو تو پھر چوتھے دن آپ سے لڑائی ہو گی.ان تین دنوں میں ہماری طرف سے جنگ کی ابتدا نہیں ہو گی.لیکن یہ بھی ہے کہ چوتھے دن لڑائی تو ہو گی لیکن ان تین دنوں میں ہماری طرف سے جنگ کی ابتدا نہیں ہو گی.لیکن اگر آپ لوگوں نے جنگ شروع کر دی تو پھر ہم لڑنے پر مجبور ہوں گے.اگلے روز حضرت سعد نے حذیفہ بن مخھین کو بھجوایا.انہوں نے بھی حضرت ربعی والی تینوں باتیں دہرائیں.تیسرے روز حضرت مغیرہ بن شعبہ گئے.جب انہوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں اپنے پہلے دونوں ساتھیوں کی مانند اسلام، جزیہ اور قتال کا ذکر کیا تور ستم نے کہا تب ضرور تم لوگ مرو گے.اس پر حضرت مغیرہ نے کہا جو ہم میں سے قتل ہو گا وہ جنت میں جائے گا اور جو تم میں سے قتل ہو گا وہ جہنم میں جائے گا اور جو ہم میں سے زندہ رہیں گے وہ تم لوگوں پر کامیاب رہیں گے.حضرت مغیرہ کی بات سن کر

Page 140

باب بدر جلد 3 120 حضرت عمر بن خطاب رستم نے سخت برہم ہو کر قسم کھا کر کہا کہ آفتاب کی قسم ! کل ابھی دن مکمل نکلنے بھی نہ پائے گا کہ ہم اس سے قبل ہی تم سب کو تہ تیغ کر دیں گے.حضرت مغیرہ کے بعد بھی چند سمجھدار مسلمانوں کو حضرت سعد نے رستم کے دربار میں بھیجا جن کی شام کو واپسی ہوئی.حضرت سعد نے مسلمانوں کو مورچہ بند ہونے کا حکم دیا اور ایرانیوں کی طرف پیغام بھجوایا کہ دریا عبور کرنا تمہارا کام ہے.پل پر مسلمانوں کا قبضہ تھا اس لیے ایرانیوں کو دوسری جگہ ساری رات دریائے عقیق پر پل بنانا پڑا.رستم نے پل عبور کرتے وقت کہا کہ کل ہم مسلمانوں کو پیس کر رکھ دیں گے.آگے سے ایک شخص نے کہا.اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا کہ اگر اللہ چاہے تو.شاید اس کو اللہ پر بھی یقین تھا.اس پر رستم نے کہا! اگر اللہ نہ بھی چاہے (نعوذ باللہ ) تب بھی ہم پیس دیں گے.بیماری کے باوجو د لشکر کی کمان..مسلمان اپنی صف بندی مکمل کر چکے تھے اور حضرت سعد کے جسم میں پھوڑے نکل آئے.اس دوران ان کو بیماری ہو گئی ، پھوڑا نکل آیا اور وہ عزقُ النّسا یعنی شیاٹیکا Sciatica کی بیماری کے باعث بیٹھ بھی نہیں سکتے تھے.وہ سینے کے بل لیٹے رہتے تھے.ان کے سینے کے نیچے تکیہ رکھا ہو تا تھا جس کے سہارے وہ محل کی چھت سے یا درخت کے اوپر جو مچان بنائی تھی اس کے اوپر سے لشکر کی طرف دیکھتے رہتے.حضرت سعد نے خالد بن عرفطہ کو اپنا نائب مقرر کیا.حضرت سعد نے مسلمانوں سے خطاب کیا اور انہیں جہاد کی ترغیب دی اور اللہ کی فتح کا وعدہ یاد دلایا.اہل فارس کی افواج دریائے عتیق کے کنارے تھیں.یہ دریائے عتیق بھی ایک دریا ہے جو فرات سے نکلتا ہے اور مسلمانوں کی افواج قدیس کی دیوار اور خندق کے ساتھ تھیں.قدیس قادسیہ کے نزدیک ایک احاطہ ہے جو دریائے عتیق سے ایک میل کے فاصلے پر تھا.ایرانی فوج میں سے تیس ہزار زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی یعنی آپس میں انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ زنجیریں باندھی ہوئی تھیں تاکہ کسی کو دوڑنے کا موقع نہ ملے.حضرت سعد نے مسلمانوں کو سورۃ انفال پڑھنے کا حکم دیا.جب تلاوت کی گئی تو مسلمانوں نے سکینت محسوس کی.نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں اور اہل فارس کے درمیان لڑائی کا آغاز ہوا.انہوں نے مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچایا.قبیلہ بنو تمیم کے ماہر تیر اندازوں کو بلا کر حضرت عاصم نے کہا کہ اپنے تیروں کے ذریعہ ان ہاتھیوں پر بیٹھے سواروں پر حملہ کرو اور بہادر سپاہیوں سے کہا کہ ہاتھیوں کی پشت پر جا کر ان کے ہو دجوں کے بندھ کاٹ ڈالو.چنانچہ کوئی ہاتھی ایسانہ بچا جس کے اوپر سے اس کا سامان اور سوار باقی بچا ہو.سورج غروب ہونے کے بعد تک لڑائی جاری رہی.پہلے روز قبیلہ بنو اسد کے پانچ سو مسلمان شہید ہوئے.اس دن کو یوم ارمان کہا جاتا ہے.دوسرے روز صبح ہوئی تو حضرت سعد نے سب شہداء کو دفنایا اور زخمیوں کو عورتوں کے سپر د کیا تا کہ وہ ان کی دیکھ بھال

Page 141

محاب بدر جلد 3 121 حضرت عمر بن خطاب کریں.اسی دوران ملک شام سے مسلمانوں کو کمک موصول ہوئی.حضرت ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص اس کمک کے امیر تھے.اس کے اگلے حصہ پر حضرت قعقاع بن عمر و امیر تھے.قعقاع بہت جلد سفر طے کر کے اغواث کی صبح عراق کے لشکر میں پہنچ گئے.قعقاع نے یہ ہوشیاری کی کہ اپنے ہر اول دستوں کو دس دس سپاہیوں کے گروپوں میں تقسیم کر دیا تھا جو ایک دوسرے سے کچھ فاصلہ پر حرکت کر رہے تھے اور باری باری اسلامی لشکر سے یہ دس دس کے دستے ملتے جاتے تھے.ہر دستہ کے آنے پر نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتا اور یوں معلوم ہو تا کہ اسلامی لشکر کو مسلسل کمک مل رہی ہے.خود حضرت قعقاع پہلے حصہ میں پہنچے.جاتے ہی مسلمانوں کو سلام کیا اور لشکر کی آمد کی خوشخبری سنائی اور کہا اے لوگو! تم وہ کرو جو میں کر رہا ہوں.یہ کہہ کر وہ آگے بڑھے اور مبارزت طلب کی.یہ سن کر برہمن جادویہ مقابلہ کے لیے نکلا.دونوں میں مقابلہ ہوا اور حضرت قعقاع نے اسے قتل کر دیا.مسلمان بنمَن جَاذْوَیہ کے قتل اور مسلمانوں کے امدادی لشکر کی وجہ سے بہت خوش تھے.حضرت ماغ کے بارے میں حضرت ابو بکر کا ایک قول ہے کہ وہ لشکر نا قابل شکست ہوتا ہے جہاں ان جیسے موجود ہوں.اس دن ایرانی اپنے ہاتھیوں کے ذریعہ جنگ نہ کر سکے کیونکہ ان کے ہو دج گذشتہ روز ٹوٹ گئے تھے.اس لیے وہ صبح سے ان کی درستگی میں مشغول تھے اور مسلمانوں نے یہ ترکیب اختیار کی کہ اپنے اونٹوں کو جھول پہنا دیے جس کے باعث اونٹ او جھل ہو گئے.ان کے اوپر کپڑے ڈال دیے ان کے جسم اور گرد میں سب چھپ گئیں اور یوں معلوم ہو تا تھا گو یا ہاتھی ہیں.یہ اونٹ جہاں جاتے ایرانیوں کے گھوڑے اس طرح بدکنے شروع کر دیتے جیسے گذشتہ روز مسلمانوں کے گھوڑے بدکتے رہے تھے.صبح سے لے کر دو پہر تک فریقین کے گھڑ سوار مقابلہ کرتے رہے.جب دن آدھے سے زیادہ گزر گیا تو عمومی جنگ شروع ہوئی جو آدھی رات تک جاری رہی.یہ دوسرا دن یوم اغواث کہلاتا ہے اور یہ دن مسلمانوں کے نام رہا یعنی اس میں مسلمانوں کو کامیابی ملی.تیسرے دن کی صبح ہوئی تو دونوں لشکر اپنے اپنے مورچوں میں تھے.اس روز خون ریز جنگ ہوئی.مسلمان شہداء کی تعداد دو ہزار تھی اور ایرانی فوج کے دس ہزار سپاہی قتل ہوئے.مسلمان اپنے مقتولین کو دفن کرتے رہے اور زخمیوں کو علاج کے لیے عورتوں کے سپرد کرتے رہے جبکہ ایرانیوں کے مقتولین کی لاشیں اسی طرح میدان میں پڑی رہیں.اس رات ایرانی اپنے ہاتھیوں کے ہودج وغیرہ درست کرتے رہے.پیدل فوج ہاتھیوں کی حفاظت کے لیے ساتھ تھی تاہم آج کے روزوہ ہاتھی اتنی تباہی نہ پھیلا سکے جتنی انہوں نے پہلے دن پھیلائی تھی.حضرت سعد نے حضرت قعقاع اور حضرت عاصیم کی طرف پیغام بھیجا کہ ایرانیوں کے سفید ہاتھی سے میرا پیچھا چھڑاؤ.چنانچہ حضرت قعقاع اور حضرت عاصم نے حملہ کر کے اس کی دونوں آنکھوں میں نیزے گھونپے جس سے ہاتھی نے بدحواس ہو کر اپنے سوار کو نیچے گرادیا.اس کی سونڈ کاٹ دی گئی اور پھر تیروں کے حملے کر کے اسے نیچے گرنے پر مجبور کر دیا.اس کے بعد دوسرے مسلمانوں نے

Page 142

حاب بدر جلد 3 122 حضرت عمر بن خطاب ایک اور ہاتھی کی آنکھوں میں نیزے مارے.کبھی وہ بھاگ کر مسلمانوں کے لشکر میں آتا تو وہ اس کو نیزے کی نوک چھوتے اور کبھی ایرانیوں کے لشکر میں جاتا تو وہ اس کو نیزے چھوتے.بالآخر وہ ہاتھی جسے اجرب کہتے تھے دریائے عقیق کی طرف بھاگا اور اس کی دیکھا دیکھی دیگر ہاتھی بھی اس کے پیچھے دریا میں کود گئے اور وہ اپنے سواروں سمیت ہلاک ہو گئے.دن ڈھلنے تک یہ لڑائی جاری رہی.اسے یوم عماش کہتے ہیں.عشاء کی نماز کے بعد دوبارہ گھمسان کا رن پڑا.کہا جاتا ہے کہ اس وقت تلواروں کی آوازیں یوں سنائی دے رہی تھیں جیسے لوہاروں کی دکانوں میں لوہا کاٹا جارہا ہو.ساری رات حضرت سعد بھی جاگتے رہے اور اللہ کے حضور دعا میں مشغول رہے.عرب و عجم نے اس رات جیسا واقعہ کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا.صبح ہوئی تو مسلمانوں کا جوش و جذبہ بر قرار تھا اور وہ غالب رہے.اس رات کے بعد آنے والی صبح تمام لوگوں پر تھکن کی کیفیت تھی کیونکہ پوری رات وہ جاگتے رہے تھے.اس رات کو لَيْلَةُ الْهَرِير کہتے ہیں.اس کی وجہ تسمیہ یہ لکھی ہے کہ رات مسلمانوں نے آپس میں گفتگو نہ کی بلکہ صرف سر گوشیاں ہی کرتے رہے.کریر کا مطلب بھی یہی لکھا ہے کہ جب تیر چلایا جاتا ہے تو جس طرح ہلکی سی آواز کمان میں سے نکلتی ہے یا چکی چلنے کی ہلکی سی آواز آرہی ہو.طبری میں بھی لَيْلَةُ الْهَرِير کی وجہ تسمیہ یہی لکھی ہے کہ مسلمان اس رات آغاز شب سے لے کر صبح تک نہایت بہادری کے ساتھ جنگ کرتے رہے.وہ زور سے نہیں بول رہے تھے بلکہ وہ آہستہ آہستہ سے گفتگو کرتے تھے.اس وجہ سے اس رات کا نام لَيْلَةُ الْهَرِير مشہور ہو گیا.رستم کا قتل ہونا بہر حال چوتھی صبح پھر دو پہر تک لڑائی جاری رہی اور ایرانی پسپائی اختیار کرتے رہے.اس کے بعد رستم پر حملہ کیا گیا تو وہ دریائے عتیق کی طرف بھاگ نکلا.جب اس نے دریا میں چھلانگ لگائی تو ہلال نامی مسلمان نے اسے پکڑ لیا اور گھسیٹ کر خشکی پر لے آیا اور اسے قتل کر ڈالا.اس کے بعد وہ مسلمان جس نے رستم کو قتل کیا تھا اعلان کرنے لگا کہ میں نے رستم کو قتل کر دیا ہے.میری طرف آؤ.مسلمانوں نے ہر طرف سے اس کو گھیر لیا اور زور سے نعرہ تکبیر لگایا.رستم کے قتل کی خبر سے اہل فارس شکست کھا کر بھاگ گئے.مسلمانوں نے ان کا تعاقب کر کے انہیں قتل بھی کیا اور ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنایا.اس دن کو یوم قادسیہ کہا جاتا ہے.حضرت عمر روزانہ صبح ہوتے ہی میدان سے باہر آنے والے سواروں سے جنگ قادسیہ کے بارے میں پوچھا کرتے تھے.جب جنگ کی بشارت لانے والے قاصد نے بتایا کہ اللہ نے مشرکوں کو شکست دی ہے تو حضرت عمر اس وقت دوڑتے جارہے تھے اور معلومات لیتے جار ہے تھے جبکہ وہ قاصد اپنی اونٹنی پر سوار تھا اور وہ حضرت عمر کو پہچانتا بھی نہ تھا.جب وہ قاصد مدینہ میں داخل ہوا اور لوگ حضرت عمررؓ کو امیر المومنین کہہ رہے تھے اور سلام کر رہے تھے تو قاصد نے حضرت

Page 143

حاب بدر جلد 3 123 حضرت عمر بن خطاب عمرؓ سے عرض کی کہ آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ آپ امیر المومنین ہیں.حضرت عمرؓ نے فرمایا اے میرے بھائی! کوئی بات نہیں.بہر حال فتح کی اطلاع کے بعد حضرت عمرؓ نے مجمع میں فتح کی خبر پڑھ کر سنائی اور اس کے بعد ایک پر اثر تقریر کی.آپ نے حکم بھیجا کہ لشکر اپنی جگہ پر ٹھہر ار ہے اور فوج کی دوبارہ تنظیم و ترتیب کی جائے اور دوسرے قابل اصلاح امور کی طرف توجہ دی جائے.حضرت سعد نے دربارِ خلافت سے راہنمائی کی تھی کہ قادسیہ کی جنگ میں بہت سے لوگ ایرانیوں کی طرف سے ایسے بھی تھے جو اس سے قبل مسلمانوں سے صلح کر چکے تھے اور ان میں بعض تو اس امر کے ایسے مدعی تھے کہ ایرانی حکومت نے ان کے خلاف مرضی، جبراً انہیں اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا.اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے بلکہ مجبور ہو کے آئے تھے اور بہت سے لوگوں کا یہ دعویٰ صحیح بھی تھا.بہت سے لوگ جنگ کے باعث اس علاقے کو چھوڑ کر دشمن کے علاقے کی طرف چلے گئے تھے اور واپس آرہے تھے.حضرت عمر نے ان امور کے فیصلے کے لیے مدینہ میں مجلس شوری منعقد کی اور بعد از فیصلہ یہ ہدایت بھیجی کہ جن لوگوں سے مسلمانوں کے معاہدات تھے اور انہوں نے اپنے معاہدات پورے کیے اور اپنے علاقے میں مقیم رہے، دشمن کی طرف نہیں گئے ان کے معاہدات کا پوری وفا داری سے احترام کیا جائے گا.جن لوگوں سے مسلمانوں کے معاہدات نہیں تھے مگر وہ اپنے علاقے میں رہے اور دشمن کی طرف جا کر تمہارے خلاف صف آرا نہیں ہوئے تو ان سے بھی وہی سلوک کیا جائے جو ان لوگوں سے کیا جارہا ہے جن سے معاہدات ہیں.جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایرانی حکومت نے جبر اان کو لشکر میں شامل کر لیا تھا اور ان کا دعویٰ سچا نظر آتا ہے تو ان سے بھی مسلمانوں کے سلوک میں کوئی کمی نہیں کی جائے.ان کو بھی کچھ نہ کہا جائے اور جو لوگ اس امر کے جھوٹے مدعی ہیں کہ ان پر جبر کیا گیا بلکہ وہ خود اپنی مرضی سے دشمن کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف سرگرم کار رہے تو ان کا پہلا معاہدہ تو منسوخ ہو گیا کیونکہ انہوں نے دشمن کا ساتھ دیا ہے.اب یا تو ان سے دوبارہ مصالحت کی جائے یا انہیں ان کی امن کی جگہ پر پہنچا دیا جائے یعنی پھر ان کو معاہدہ کر کے وہاں سے نکال دیا جائے اور جہاں وہ جانا چاہتے ہیں امن سے رہنے کے لیے چلے جائیں اور جن لوگوں سے معاہدات نہیں اور وہ اس علاقے کو چھوڑ کر دشمن کی طرف چلے گئے اور تمہارے خلاف جنگ آزما ہوئے ان کے متعلق اگر تم مناسب سمجھو تو انہیں بھی بلا لو اور وہ جزیہ ادا کر دیں اور تمہارے علاقے میں رہیں.نرمی کا سلوک جتنا ہو سکتا ہے کرنا ہے اور تم مناسب سمجھو تو انہیں نہ بلاؤ اور وہ بدستور تمہارے خلاف برسر پیکار رہیں اور تم ان کے خلاف لڑائی جاری رکھو.اگر وہ پھر لڑائی کرتے رہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے ، پھر تمہیں بھی لڑائی کا حق ہے لیکن اگر وہ باوجود دشمن کے ساتھ ملنے کے باز آجاتے ہیں تو پھر ان کو چھوڑ دو.یہ احکام مفید ثابت ہوئے اور نواح کے لوگ واپس آکر اپنی زمینوں پر آباد ہو گئے اور یہ وسعت حوصلہ کی ایک عمدہ مثال ہے.کتنی وسعت حوصلہ ہے کہ مسلمانوں نے ان لوگوں کو بھی اپنی زمین آباد

Page 144

حاب بدر جلد 3 124 حضرت عمر بن خطاب کرنے کے لیے بلا لیا جو ایک نہایت نازک وقت میں اپنے معاہدات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دشمن سے جاملے تھے.گو مدینہ کی مجلس مشاورت نے انہیں اس امر کی اجازت دے دی تھی کہ چاہے ایسے ایرانیوں کو واپس بلا لیں چاہے نہ بلائیں اور ان کی اراضی آپس میں تقسیم کر لیں.مسلمانوں میں اراضی تقسیم کر دیں.مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ اس خطرے کے وقت میں بد عہدی کرنے والوں کو واپس بلایا گیا تو ان کی اراضی پر عام اراضی کی نسبت زیادہ ٹیکس لگایا گیا تھا.صرف یہ ایک شرط تھی کہ ٹھیک ہے تم نے بد عہدی کی ہے.واپس آجاؤ اپنی زمینیں آباد کرو لیکن جو ٹیکس زمین کا ہے وہ تمہیں دوسروں کی نسبت زیادہ دینا پڑے گالیکن بہر حال زمینوں کے مالک بے شک بنے رہو.عراق کی فتوحات کے سلسلہ میں اس جنگ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے.مسلمان مجاہدین نے شدید مخالف حالات کا نہایت ثابت قدمی سے مردانہ وار مقابلہ کیا اور مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ دربار خلافت سے جب لوگوں کے لیے گزارے مقرر ہوئے تو اس ضمن میں قادسیہ میں شرکت بھی ایک وجہ امتیاز کبھی گئی.حضرت عمر نے قادسیہ میں شریک لوگوں کے زیادہ وظیفے مقرر کیے.210 حضرت مصلح موعودؓ نے جنگ قادسیہ کا ذکر کرتے ہوئے جو فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ بیان کرتا ہوں.”حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب خسرو پرویز کے ہوتے یزد جرد کی تخت نشینی کے بعد عراق میں مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانہ پر جنگی تیاریاں شروع ہو گئیں تو حضرت عمرؓ نے ان کے مقابلہ کے لئے حضرت سعد بن ابی وقاص کی سر کردگی میں ایک لشکر روانہ کیا.حضرت سعد نے جنگ کیلئے قادسیہ کا میدان منتخب کیا اور حضرت عمرؓ کو اس مقام کا نقشہ بھجوا دیا.حضرت عمرؓ نے اس مقام کو بہت پسند کیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ پیشتر اس کے کہ شاہ ایران کے ساتھ جنگ کی جائے تمہارا فرض ہے کہ ایک نمائندہ وفد شاہ ایران کے پاس بھیجو اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دو.چنانچہ انہوں نے اس حکم کے ملنے پر ایک وفد یزدجرد کی ملاقات کے لئے بھجوا دیا.جب یہ وفد شاہ ایران کے دربار میں پہنچا تو شاہ ایران نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے پوچھو کہ یہ کیوں آئے ہیں اور انہوں نے ہمارے ملک میں کیوں فساد برپا کر رکھا ہے.جب اس نے یہ سوال کیا تو وفد کے رئیس حضرت نعمان بن مقرن کھڑے ہوئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ ﷺ کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اسلام کو پھیلائیں اور دنیا کے تمام لوگوں کو دین حق میں شامل ہونے کی دعوت دیں.اس حکم کے مطابق ہم آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے ہیں اور آپ کو اسلام میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں.يَزْدَجَرُ داس جواب سے بہت برہم ہوا اور کہنے لگا کہ تم ایک وحشی اور مردار خور قوم ہو.تمہیں اگر بھوک اور افلاس نے اس حملہ کے لئے مجبور کیا ہے تو میں تم سب کو اس قدر کھانے پینے کا سامان

Page 145

حاب بدر جلد 3 125 حضرت عمر بن خطاب دینے کے لئے تیار ہوں کہ تم اطمینان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکو.اسی طرح تمہیں پہنے کے لئے لباس بھی دونگا.تم یہ چیزیں لو اور اپنے ملک کو واپس چلے جاؤ.تم ہم سے جنگ کر کے اپنی جانوں کو کیوں ضائع کرنا چاہتے ہو.جب وہ بات ختم کر چکا تو اسلامی وفد کی طرف سے حضرت مغیرہ بن زرارہ گکھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا.آپ نے ہمارے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے یہ بالکل درست ہے.ہم واقعہ میں ایک وحشی اور مردار خور قوم تھے.سانپ اور بچھو اور ٹڈیاں اور چھپکلیاں تک کھا جاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اس نے اپنار سول ہماری ہدایت کے لئے بھیجا.ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اس کی باتوں پر عمل کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ہم میں ایک انقلاب پید اہو چکا ہے.اور اب ہم میں وہ خرابیاں موجود نہیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے.اب ہم کسی لالچ میں آنے کے لئے تیار نہیں.ہماری آپ سے جنگ شروع ہو چکی ہے.اب اس کا فیصلہ میدانِ جنگ میں ہی ہو گا.“اگر آپ کو یہی منظور ہے کہ دعوت نہیں مانتے اور ہمارے ساتھ جنگ کرنا چاہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے ہم بھی جنگ کریں گے.دنیوی مال و متاع کا لالچ ہمیں اپنے ارادہ سے باز نہیں رکھ سکتا.لیکن یہ یر و جر د نے یہ بات سنی تو اسے سخت غصہ آیا اور اس نے ایک نوکر سے کہا کہ جاؤ اور مٹی کا ایک بورا لے آؤ.مٹی کا بورا آیا تو اس نے اسلامی وفد کے سردار کو آگے بلایا اور کہا کہ چونکہ تم نے میری پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے.اس لئے اب اس مٹی کے بورے کے سوا تمہیں اور کچھ نہیں مل سکتا.وہ صحابی نہایت سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھے.انہوں نے اپنا سر جھکا دیا.“ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے تھوڑی سی تفصیل ہے اپنا سر جھکا دیا اور مٹی کا بورا اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا پھر انہوں نے ایک چھلانگ لگائی اور تیزی کے ساتھ اس کے دربار سے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو بلند آواز سے کہا آج ایران کے بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی زمین ہمارے حوالے کر دی ہے اور پھر گھوڑوں پر سوار ہو کر تیزی سے نکل گئے.بادشاہ نے جب ان کا یہ نعرہ سنا تو وہ کانپ اٹھا اور اس نے اپنے درباریوں سے کہا دوڑو اور مٹی کا بورا ان سے واپس لے آؤ.یہ تو بڑی بد شگونی ہوئی ہے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی مٹی ان کے حوالے کر دی ہے مگر وہ اس وقت تک گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت دور نکل چکے تھے.لیکن آخر وہی ہوا جو انہوں نے کہا تھا اور چند سال کے اندر اندر سارا ایران مسلمانوں کے ماتحت آگیا.حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ” یہ عظیم الشان تغیر مسلمانوں میں کیوں پیدا ہوا؟ اسی لئے کہ قرآنی تعلیم نے ان کے اخلاق اور ان کی عادات میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا.ان کی سفلی زندگی پر اس نے ایک موت طاری کر دی تھی اور انہیں بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی سطح پر لا کر کھڑا کر دیا تھا.211 جس کی وجہ سے یہ انقلاب پیدا ہوا.پس قرآنی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی حقیقی انقلاب آیا کرتے ہیں.12 212

Page 146

حاب بدر جلد 3 فتح مدائن 126 حضرت عمر بن خطاب مدائن کی فتح کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں لکھا یہ آنحضرت صلی الم کے زمانے میں اس کی پیشگوئی آنحضرت صلی ایلیا رام نے اللہ تعالیٰ کے علم سے فرمائی تھی.اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ” خندق کھودتے کھودتے ایک جگہ سے ایک پتھر نکلا جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہ آتا تھا اور صحابہ کا یہ حال تھا کہ وہ تین دن کے مسلسل فاقہ سے سخت نڈھال ہو رہے تھے.آخر تنگ آکر وہ آنحضرت صلی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ایک پتھر ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آتا.اس وقت آپ کا بھی یہ حال تھا کہ بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا مگر آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور ایک کدال لے کر اللہ کا نام لیتے ہوئے اس پتھر پر ماری.لوہے کے لگنے سے پتھر میں سے ایک شعلہ نکلا جس پر آپ نے زور کے ساتھ اللہ اکبر کہا اور فرمایا کہ مجھے مملکت شام کی کنجیاں دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! اس وقت شام کے سرخ محلات میری آنکھوں کے سامنے ہیں.اس ضرب سے وہ پتھر کسی قدر شکستہ ہو گیا.دوسری دفعہ آپ نے پھر اللہ کا نام لے کر کدال چلائی اور پھر ایک شعلہ نکلا جس پر آپ نے پھر اللہ اکبر کہا اور فرمایا اس دفعہ مجھے فارس کی کنجیاں دی گئی ہیں اور مدائن کے سفید محلات مجھے نظر آرہے ہیں.اس دفعہ پتھر کسی قدر زیادہ شکستہ ہو گیا.تیسری دفعہ آپ نے پھر کدال ماری جس کے نتیجہ میں پھر ایک شعلہ نکلا اور آپ نے پھر اللہ اکبر کہا اور فرمایا اب مجھے یمن کی کنجیاں دی گئی ہیں اور خدا کی قسم ! صنعاء کے دروازے مجھے اس وقت دکھائے جارہے ہیں.اس دفعہ وہ پتھر بالکل شکستہ ہو کر اپنی جگہ سے گر گیا.اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی الی یکم نے ہر موقعہ پر بلند آواز سے تکبیر کہی اور پھر بعد میں صحابہ کے دریافت کرنے پر آپ نے یہ کشوف بیان فرمائے اور مسلمان اس عارضی روک کو دور کر کے پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئے.“ یعنی پتھر توڑنے کا جو کام تھا (اسے کر کے) پھر کام میں مصروف ہو گئے، پھر خندق کی کھدائی شروع ہو گئی.آنحضرت صلی ایم کے یہ نظارے عالم کشف سے تعلق رکھتے تھے.گویا اس تنگی کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسلمانوں کی آئندہ فتوحات اور فراخیوں کے مناظر دکھا کر صحابہ میں امید و شگفتگی کی روح پیدا فرمائی مگر بظاہر حالات یہ وقت ایسا تنگی اور تکلیف کا وقت تھا کہ منافقین مدینہ نے ان وعدوں کو سن کر مسلمانوں پر پھبتیاں اڑائیں کہ گھر سے باہر قدم رکھنے کی طاقت نہیں اور قیصر و کسریٰ کی مملکتوں کے خواب دیکھے جارہے ہیں مگر خدا کے علم میں یہ ساری نعمتیں مسلمانوں کے لئے مقدر ہو چکی تھیں.چنانچہ یہ وعدے اپنے اپنے وقت پر یعنی کچھ تو آنحضرت صلی علیم کے آخری ایام میں اور زیادہ تر آپ کے خلفاء کے زمانہ میں پورے ہو کر مسلمانوں کے از دیاد ایمان و امتنان کا باعث ہوئے.213 مدائن کی فتح کا جو وعدہ ہے یہ حضرت عمر کے دور خلافت میں حضرت سعد کے ہاتھوں پورا ہوا جیسا کہ آنحضرت مصلی تعلیم کو دکھایا گیا تھا کہ مدائن فتح ہو گا.یہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں پورا ہوا.قادسیہ کو

Page 147

اصحاب بدر جلد 3 127 حضرت عمر بن خطاب فتح کرنے کے بعد اسلامی لشکر نے بابل کو فتح کیا.بابل موجودہ عراق کا قدیم شہر تھا.بابل کو فتح کرنے کے بعد ٹوٹی نام کے ایک تاریخی شہر کے مقام پر پہنچے.گوٹی بابل کا نواحی علاقہ ہے.یہ وہ جگہ تھی جہاں حضرت ابراہیم کو نمرود نے قید کیا تھا اور قید خانے کی جگہ اُس وقت تک محفوظ تھی.حضرت سعد جب وہاں پہنچے اور قید خانے کو دیکھا تو قرآن کریم کی آیت پڑھی.تِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (آل عمران: 141) یعنی یہ دن ایسے ہیں کہ ہم انہیں لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں تا کہ وہ نصیحت پکڑیں.کوٹی سے آگے بڑھے تو بھر سنیر نامی ایک جگہ پر پہنچے.یہ عراق کے شہر مدائن کے اس حصہ کا نام ہے جو دریائے دجلہ کے مغربی کنارے پر واقع ہے.یہاں کسری کا شکاری شیر رہتا تھا.حضرت سعد کا لشکر قریب پہنچا تو انہوں نے اس درندے کو لشکر پر چھوڑ دیا.شیر گرج کر لشکر پر حملہ آور ہوا.حضرت سعد کے بھائی ہاشم بن ابی وقاص لشکر کے ہر اول دستے کے افسر تھے.انہوں نے شیر پر تلوار سے ایسا وار کیا کہ شیر وہیں ڈھیر ہو گیا.پھر اس کے بعد مدائن کا معرکہ بھی ہوا.مدائن بھی عراق میں ہے اس کی location یہ ہے کہ بغداد سے کچھ فاصلے پر جنوب کی طرف دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے.اس کا نام مدائن رکھنے کی وجہ کیا ہے؟ کیونکہ یہاں یکے بعد دیگرے کئی شہر آباد ہوئے تھے اس لیے عربوں نے اسے مدائن یعنی کئی شہروں کا مجموعہ کہنا شروع کر دیا.مدائن کسری کا پایہ تخت تھا.یہاں پر اس کے سفید محلات تھے.مسلمانوں اور مدائن کے درمیان دریائے دجلہ حائل تھا.ایرانیوں نے دریا کے تمام پیل توڑ دیے.تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت سعد نے کشتیاں تلاش ہیں کیں کہ وہ دریا کو عبور کر سکیں لیکن معلوم ہوا کہ وہ لوگ کشتیوں پر قابض ہو چکے ہیں.حضرت سعد چاہتے تھے کہ مسلمان دریا عبور کریں لیکن وہ مسلمانوں کی ہمدری میں ایسا نہیں کرتے تھے.چنانچہ چند دیہاتی لوگوں نے بھی دریا عبور کرنے کا راستہ بتایا کہ اس جگہ سے چلے جائیں تو آسانی سے کر سکتے ہیں تا ہم حضرت سعد نے اس پر بھی عمل نہیں کیا.اسی دوران دریا میں طغیانی بھی آگئی.ایک رات آپ کو خواب دکھایا گیا کہ مسلمانوں کے گھوڑے پانی میں داخل ہوئے ہیں اور دریا کو پار کر لیا ہے حالانکہ وہاں طغیانی بھی ہے.اس خواب کی تکمیل میں حضرت سعد نے دریا کو عبور کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا.حضرت سعد نے فوج سے کہا کہ مسلمانو! دشمن نے دریا کی پناہ لے لی ہے.آؤ اس کو تیر کر پار کریں اور یہ کہہ کر انہوں نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا.حضرت سعد کے سپاہیوں نے اپنے قائد کی پیروی کرتے ہوئے گھوڑے دریا میں ڈال دیے اور اسلامی فوجیں دریا کے پار اتر گئیں.مقابل فوج نے یہ حیران کن منظر دیکھا تو خوف سے چیخنے لگے اور بھاگ کھڑے ہوئے کہ دیوان آمدند! دیوان آمدند ! یعنی دیو آگئے.دیو آگئے.مسلمانوں نے آگے بڑھ کر شہر اور کسریٰ کے محلات پر قبضہ کر لیا.مسلمانوں کی آمد سے قبل ہی کسری نے اپنے خاندان کے لوگوں کو وہاں سے منتقل کر دیا تھا چنانچہ مسلمانوں نے آسانی کے ساتھ شہر پر قبضہ کر لیا.اس طرح رسول اللہ صلی المی کم کی وہ پیشگوئی پوری ہو گئی جو آپ صلی ہم نے غزوہ احزاب وو الله رض رض

Page 148

حاب بدر جلد 3 128 حضرت عمر بن خطاب کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے پتھر پر کدال مارتے ہوئے فرمائی تھی کہ مجھے مدائن کے سفید محلات گرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں.ان محلات کو سنسان حالات میں دیکھ کر حضرت سعد نے سورۂ دخان کی یہ آیات پڑھیں کہ كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنْتٍ وَعُيُونٍ وَ زُرُوعٍ وَ مَقَامٍ كَرِيمٍ وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَكِهِيْنَ كَذلِكَ وَأَوْرَثْنَهَا قَوْمًا أَخَرِينَ (الدخان: 26-29) کتنے ہی باغات اور چشمے ہیں جو انہوں نے پیچھے چھوڑے اور کھیتیاں اور عزت و احترام کے مقام بھی اور ناز و نعمت جس میں وہ مزے اڑایا کرتے تھے.اسی طرح ہوا اور ہم نے ایک دوسری قوم کو اس نعمت کا وارث بنا دیا.حضرت سعد نے حکم دیا کہ شاہی خزانہ اور نوادرات کو ایک جگہ پر جمع کیا جائے.اس خزانے میں بادشاہوں کی یاد گاریں جو کہ ہزاروں کی تعداد میں تھیں جن میں زرہیں، تلواریں، خنجر ، تاج اور شاہی ملبوسات شامل تھے.سونے کا ایک گھوڑا تھا جس پر چاندی کا زین تھا اور سینے پر یا قوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے.اسی طرح چاندی کی ایک اونٹنی تھی جس پر سونے کی پالان تھی اور مہار میں بیش قیمت یا قوت پر وئے ہوئے تھے.مال غنیمت میں ایک فرش بھی تھا جس کو ایرانی ”بہار “ کہتے تھے.اس کی زمین سونے کی اور درخت چاندی کے اور پھل جو اہرات کے تھے.یہ تمام سامان فوج نے اکٹھا کیا لیکن مسلمان سپاہی ایسے راست باز اور دیانت دار تھے، یہاں مسلمان سپاہیوں کی دیانتداری کا پتہ لگتا ہے کہ جس نے جو چیز پائی اسی طرح لا کر افسر کے پاس حاضر کر دی.چنانچہ جب سامان لا کر سجایا گیا اور دور دور تک میدان جگمگا اٹھا تو حضرت سعد کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی اور کہا کہ جن لوگوں نے ان نوادرات میں سے کچھ لیا نہیں بلا شبہ انتہا کے دیانت دار ہیں.مالِ غنیمت حسب قاعدہ تقسیم ہو کر پانچواں حصہ دربارِ خلافت میں بھیجا گیا.فرش اور قدیم یادگار میں اس حالت میں بھیجی گئیں کہ اہل عرب ایرانیوں کے جاہ و جلال اور اسلام کی فتح و اقبال کا تماشا دیکھیں.حضرت عمرؓ کے سامنے جب یہ سامان چنے گئے تو ان کو بھی فوج کی دیانت اور استغنا پر حیرت ہوئی.حضرت عمرؓ نے بھی بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ کتنے ایمان دار سپاہی ہیں.محلم نام ایک شخص مدینہ میں تھا جو دراز قد اور خوبصورت تھا.حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ نوشیر واں کے ملبوسات اس کو لا کر پہنائے جائیں.یہ ملبوسات مختلف حالتوں کے تھے.چنانچہ تمام ملبوسات اسے باری باری پہنائے گئے.ان ملبوسات کی خوبصورتی کو دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے.اس طرح وہ فرش جس کا نام ”بہار “ تھا اس کو بھی تقسیم کروا دیا گیا.214 پھر جنگ جلولاء ہے جو 16 ہجری میں لڑی گئی.مدائن کی فتح کے بعد ایرانیوں نے جلولاء میں جمع ہو کر مقابلہ کی تیاریاں شروع کر دیں.حضرت سعد نے ہاشم بن عتبہ کو بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ حضرت عمرؓ کے حکم پر ایرانی لشکر سے مقابلے کے لیے بھیجا.جلولاء عراق کا شہر ہے جو بغداد سے خراسان جاتے ہوئے راہ پر پڑتا ہے.یہاں مسلمانوں اور فارسیوں کے درمیان جنگ ہوئی.مسلمان

Page 149

تاب بدر جلد 3 129 حضرت عمر بن خطاب جب یہاں پہنچے تو انہوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا.مہینوں محاصرہ رہا.ایرانی وقتاً فوقتاً قلعہ سے باہر نکل کر حملہ آور ہوتے رہے.اس طرح استی 80 معر کے ہوئے.مسلمانوں نے جلولاء کی فتوح کا حال حضرت عمر کو لکھا اور یہ بھی لکھا کہ حضرت قعقاع حلوان میں خیمہ زن ہیں.نیز خط میں حضرت عمرؓ سے اہل عجم کا تعاقب کرنے کی اجازت مانگی گئی مگر آپ نے یہ بات منظور نہیں کی کہ تعاقب نہیں کرنا.پیچھے نہیں جانا بلکہ فرمایا میں چاہتا ہوں کہ سوادِ عراق اور ایران کے پہاڑ کے درمیان دیوار حائل ہوتی تا کہ نہ ایرانی ہماری طرف آتے اور نہ ہم ان کے علاقوں میں جاتے.ہمارے لیے سواد عراق کا دیہاتی علاقہ کافی ہے.میں مال غنیمت حاصل کرنے پر مسلمانوں کی سلامتی کو ترجیح دیتا ہوں.اس بات کا مجھے کوئی شوق نہیں کہ مالِ غنیمت اکٹھا کروں.مسلمانوں کی حفاظت، ان کی جان کی حفاظت زیادہ ضروری ہے.ایک روایت کے مطابق حضرت سعد نے قُضَاعِی بن عمر و دولی کے ہاتھ حمس میں سے سونے چاندی کے برتن اور کپڑے اور ابو مُفَكِّر اسوذ کے ہاتھ قیدی بھجوائے.دوسری روایت کے مطابق خمس قُضَاعِی اور ابو مُفَرِّر کے ہاتھوں بھیجا گیا تھا اور اس کا حساب زیاد بن ابو سفیان کے ذریعہ بھیجا گیا کیونکہ وہ حساب کتاب کے منشی تھے اور اسے رجسٹروں میں محفوظ رکھتے تھے.جب یہ سارا کچھ حضرت عمرؓ کے پاس پہنچا تو زیاد نے مالِ غنیمت کے بارے میں حضرت عمرؓ سے گفتگو کی اور اس کی تمام تفصیلات کہہ سنائیں.حضرت عمرؓ نے فرمایا: کیا تم مسلمانوں کے سامنے کھڑے ہو کر اس کو بیان کر سکتے ہو.یہ تفصیلات جو مجھے بتارہے ہو.زیاد نے جواب دیا خدا کی قسم ! روئے زمین پر آپ سے زیادہ میرے دل میں کسی کا ڈر نہیں اور جب آپ کے سامنے میں نے بیان کر دیا تو اوروں کے سامنے کیوں نہیں بیان کر سکوں گا.چنانچہ حضرت زیاد نے لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر تمام حالات بیان کیے اور مسلمانوں نے جو کارنامے سر انجام دیے تھے ان کا بھی ذکر کیا کہ کس طرح جنگ ہوئی، کس طرح مال غنیمت ہاتھ آیا، نیز کہا مسلمان اس بات کی اجازت چاہتے ہیں کہ وہ دشمن کے ملک میں آگے تک دشمنوں کا تعاقب کریں.حضرت عمر نے ان کی تقریر سن کر فرمایا: یہ بہت بڑا صاحب لسان خطیب ہے.زیاد نے کہا: ہماری فوج نے اپنے کارناموں کے ذریعہ ہماری زبان کھول دی ہے.ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عمر کے پاس ٹمس پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ اس قدر کثیر مالِ غنیمت ہے کہ کسی چھت تلے نہ سما سکے گا.لہذا میں بہت جلد اس کو تقسیم کر دوں گا.حضرت عبد الرحمن بن عوف اور عبد اللہ بن ارقم مسجد کے صحن میں اس مال کی رات بھر چوکیداری کرتے رہے.مال آیا مسجد کے صحن میں رکھا گیا تو یہ دو صحابہ اس کی حفاظت کرتے رہے.جب صبح ہوئی تو حضرت عمرؓ لوگوں کے ساتھ مسجد میں آئے اور مال غنیمت سے کپڑا اٹھایا گیا تو آپ نے یا قوت ، زبر جد اور بیش قیمت جو اہرات دیکھے اور رو پڑے.حضرت عبد الرحمن نے حضرت عمر سے عرض کیا: اے امیر المومنین! آپ کیوں رو رہے ہیں.اللہ کی قسم ! یہ تو شکر کا مقام ہے.اس پر حضرت عمر نے فرمایا: اللہ کی قسم مجھے

Page 150

اصحاب بدر جلد 3 130 حضرت عمر بن خطاب اس چیز نے نہیں رلایا.اللہ کی قسم ! اللہ جس قوم کو یہ عطا فرماتا ہے تو ان میں آپس میں حسد اور بغض بڑھ جاتا ہے.اس خیال نے مجھے رلایا ہے کہ یہ دولت جو تمہارے پاس آرہی ہے اس سے کہیں تم لوگوں کے درمیان بھائی چارے کی بجائے حسد اور بغض نہ بڑھ جائے اور جس قوم میں آپس میں حسد بڑھ جائے تو ان میں پھر خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے.215 یہ بڑے غور اور فکر والی بات ہے اور یہ استغفار کرنے والی بات بھی ہے یہ جو آپ نے بیان فرمائی ہے اور یہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں میں حسد اور بغض دولت کے آنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا.جن کے پاس تیل کی دولت ہے ان میں بھی ہے یا انفرادی طور پر دیکھیں تو جس کے پاس کچھ اور دولت آئی ہے تب بھی یہی حال ہے.تقویٰ میں کمی ہے.مدائن کی جنگ کے دوران شاہ ایران يَزْدَجَرْد اپنا پایہ تخت مدائن چھوڑ کر اپنے خاندان اور ملازمین کے ہمراہ حُلوان کو روانہ ہو گیا تھا.يَزْدَجَرُد کو جلولاء کی شکست کی خبر پہنچی تو وہ ملوان چھوڑ کر رے کو روانہ ہوا اور خُسُر وشَنُوم کو جو ایک معزز افسر تھا چند رسالوں کے ساتھ ملوان کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیا، کچھ فوجی دستوں کے ساتھ وہاں چھوڑ دیا.حضرت سعد خود جلولاء میں ٹھہرے اور فَعْقاع کو خلو ان کی طرف روانہ کیا.قعقاع قصر شیریں کے قریب پہنچے جو حلوان سے تین میل کے فاصلہ پر ہے کہ خُسْرُ وشَئُوم خود آگے بڑھ کر مقابل ہوا لیکن شکست کھا کر بھاگ نکلا.قعقاع نے حلوان پہنچ کر قیام کیا اور ہر طرف امن کی منادی کرا دی.اطراف کے رئیس آآکر جزیہ قبول کرتے جاتے تھے اور اسلام کی حمایت میں آتے جاتے تھے.216 ماسبذان کی فتح کس طرح ہوئی.اس بارے میں آتا ہے کہ حضرت ہاشم بن عقبہ جو جلولاء کے معرکے میں امیر لشکر تھے واپس مدائن آچکے تھے اور حضرت سعداً بھی مدائن میں ہی مقیم تھے کہ اطلاع ملی کہ ایک ایرانی لشکر آذین بن هرمزان کی سر کردگی میں مسلمانوں سے ٹکر لینے کے لیے میدانی علاقے کی طرف بڑھ رہا ہے.حضرت سعد نے یہ رپورٹ حضرت عمرؓ کی خدمت میں بھجوا دی.حضرت عمرؓ نے یہ ہدایت کی کہ ضرار بن خطاب کی سر کردگی میں ایک لشکر مقابلہ کے لیے بھیجا جائے جس کے ہر اول دستوں کی قیادت ابنِ ھذیل کے ہاتھ میں ہو اور ہو اور عبد اللہ بن وهب را سہی اور مُضَارِب بن فُلان عجلی بازوؤں کے کمانڈر ہوں.اسلامی لشکر ایرانی لشکر کے مقابلے کے لیے روانہ ہوا اور ماسبذان کے میدانی علاقے کے قریب دشمن سے جاملا اور هند فى مقام پر لڑائی ہوئی جس میں ایرانیوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے آگے بڑھ کر شہر ماسبذان پر قبضہ کر لیا.باشندے شہر چھوڑ کر بھاگ گئے مگر ضرار بن خطاب نے انہیں دعوت دی کہ آکر امن سے اپنے شہر میں آباد ہو جائیں.انہوں نے دعوت قبول کرلی اور اپنے گھروں میں آباد ہو گئے.217

Page 151

اصحاب بدر جلد 3 131 حضرت عمر بن خطاب بلاذری نے ماسبذان کی فتح کے بارے میں مختلف روایات لی ہیں.ایک روایت یہ ہے کہ ابو موسیٰ اشعری نے نہاوند کے معرکے سے واپسی پر اس شہر کو بغیر لڑائی کے فتح کیا تھا.218 خُوزستان کی فتوحات کا حال یوں بیان ہوا ہے.خُوزستان ایران کا ایک صوبہ ہے.ھرمزان اسلام قبول کرنے سے پہلے اسی صوبہ کا گورنر تھا.اس علاقے اور اس علاقے کے مکینوں کو خُوذ کہا جاتا تھا.اس سے مراد خُوزستان کے رہنے والے اہواز کے نواح میں فارس اور بصری اور واسط اور اصفہان کے پہاڑوں کے در میان کا علاقہ ہے.114 ہجری میں حضرت عمرؓ نے فوجی نقطہ نظر سے بعض فوائد دیکھ کر عراق میں چھوٹے پیمانے پر ایک دوسر ا فرنٹ کھول دیا اور عُتبہ بن غزوان کی سر کردگی میں ایک چھوٹا سا لشکر اس مقام کی طرف روانہ فرمایا جہاں ابتداء اس لشکر کے لیے بطور چھاؤنی شہر بصرہ کی داغ بیل ڈالی.یہ لشکر نہ صرف ارد گرد کے دشمن کے علاقوں پر فتح حاصل کر رہا تھا بلکہ عراقی جنگی مہم میں اس رنگ میں مفید ہو رہا تھا کہ نواح کی ایرانی افواج اعلیٰ اور بڑے محاذ پر اپنے ساتھیوں کی مسلسل شکستوں کی خبریں سن کر بھی ان کی امداد کے لیے نہ جاسکتی تھیں.زیادہ مقصد یہی لگتا ہے فوج یہاں بٹھانے کا، اس رستہ پر قبضہ کرنے کا، کہ ایرانی افواج کی کمک اور مد دوہاں نہ جائے اور وہ مسلمانوں پر حملے نہ کرتے رہیں.اس لشکر کے امیر حج کرنے اور حضرت عمرؓ سے ملاقات کی غرض سے واپس حجاز گئے تھے اور حضرت عمر نے آپ کی غیر حاضری میں اس لشکر کی قیادت حضرت مغیرہ بن شعبہ کو دی تھی.حضرت مغیرہ بن شعبہ پر جب ایک اخلاقی جرم کا الزام لگایا اور اس کی تحقیقات کے سلسلہ میں حضرت عمرؓ نے انہیں معزول کر کے مدینہ بلایا ہوا تھا تو ان کی جگہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کو کمانڈر مقرر کیا تھا.بہر حال تحقیقات پر حضرت مغیرہ پر جو الزام لگا تھا وہ غلط ثابت ہو ا تھا.219 روایات میں اختلاف ہے کہ سولہ ہجری یا سترہ ہجری میں اسلامی لشکر کی مصروفیات بھی کافی رہیں اور اس میدان کی جنگی سرگرمیاں بھی وسعت پکڑ گئیں اور مسلمانوں نے خوزستان کے معروف شہر اهواز پر قبضہ کر لیا.مؤرخ طبری نے سترہ ہجری کے واقعات میں بیان کیا ہے مگر ساتھ ہی لکھا ہے کہ بعض روایات سے اس فتح کا سنہ سولہ ہجری معلوم ہوتا ہے.اس فتح کے ذکر میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس وقت امیر لشکر عُتبہ بن غزوان ہی تھے.لیکن بلاذری نے جو اس کی وضاحت کی ہے لکھا ہے کہ انواز اور اس کے بعد کی فتوحات حضرت عتبہ بن غزوان کے واپس تشریف لے جانے کے بعد حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری کی سر کردگی میں ہوئیں اور لکھا ہے کہ حضرت مغیرہ نے آٹھواز کو فتح کیا.آھواز کے رئیس پیروز نامی نے پہلے تو مقابلہ کیا مگر پھر مصالحت کر لی.کچھ عرصہ بعد جب حضرت مغیرہ کی جگہ ابو موسیٰ اشعری بصرہ کے علاقے کے اسلامی لشکر کے امیر مقرر ہوئے تو ہیروز رئیس نے عہد شکنی کر کے بغاوت کر دی.اس پر حضرت ابو موسیٰ اشعری مقابلے کے لیے نکلے اور لڑائی کے بعد شہر پر قبضہ کر لیا.یہ واقعہ

Page 152

اصحاب بدر جلد 3 132 حضرت عمر بن خطاب سترہ ہجری میں پیش آیا.اهواز کے معرکے میں اسلامی فوج نے بہت سے لوگوں کو گرفتار کر کے غلام بنالیا مگر حضرت عمر کے حکم سے سب کو رہا کر دیا گیا.انہوں نے کہا کوئی غلامی نہیں.سب جو قیدی تھے سب کو رہا کر دیا.آزادی دے دی.طبری نے لکھا ہے کہ اس علاقے میں ایرانی دو راستوں سے مسلمان لشکر پر بار بار حملہ آور ہوتے تھے.ان دونوں راستوں پر دو مقام نظر تیزی اور مَناذِرُ چھاپہ مار ایرانیوں کے مرکز تھے.ان دونوں مقامات پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا.اکثر جگہ ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ جہاں مسلمانوں کو تنگ کیا جاتا تھا، بار بار حملے کیے جاتے تھے وہیں پھر مسلمانوں نے حملے کیے اور ان جگہوں پر قبضہ کیا.چنانچہ بلاذری نے لکھا ہے کہ ابو موسیٰ اشعری نے نہر تیری کو اہواز کے ساتھ فتح کر لیا اور انہو از کی فتح کے بعد آپ دوسرے مقام یعنی مناذر کی طرف بڑھے اور شہر کا محاصرہ کر لیا اور لڑائی شدت پکڑ گئی.اس محاصرے کے دوران میں ایک روز ایک مسلمان بہادر مُهاجر بن زیاد روزہ رکھے ہوئے اپنی جان خدا تعالیٰ کے حضور میں قربان کرنے کے ارادے سے دشمن کے مقابلے کے لیے نکلے.مہاجر کے بھائی ربیع نے امیر لشکر ابو موسیٰ کو اطلاع کر دی کہ مہاجر روزہ رکھ کر میدان میں جارہے ہیں.ابو موسیٰ نے اعلان کروا دیا کہ جس نے روزہ رکھا ہے وہ یا تو روزہ کھول دے یا میدان جنگ میں نہ جائے.مُهَاجِر نے یہ اعلان سن کر پانی کے ایک گھونٹ سے روزہ افطار کیا اور بولے امیر کے حکم کی خاطر ایسا کرتا ہوں ورنہ مجھے پیاس بالکل نہیں ہے.یہ کہہ کر ہتھیار اٹھائے اور دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے.شہر والوں نے آپ کا سر کاٹ کر محل کے بلند کنگروں پر لٹکا دیا.محاصرہ طول پکڑ رہا تھا.ابو موسیٰ اشعر مٹی نے غالباً حضرت عمرؓ کے حکم سے لشکر کا ایک حصہ مہاجر کے بھائی ربیع کی کمان میں مناذر کے محاصرے کے لیے چھوڑا اور خود شہر سُوس کی طرف روانہ ہوئے.ادھر ربیع نے لڑتے بھڑتے شہر پر قبضہ کر لیا اور بہت سے لوگ قیدی بنا لیے مگر حضرت عمرؓ کے احکامات کے نتیجہ میں یہاں بھی سب قیدی رہا کر دیے گئے.حضرت ابو موسیٰ سوس کی طرف بڑھے.شہر والوں نے پہلے مقابلہ کیا اور لڑائی کے بعد شہر میں محصور ہو کر بیٹھ گئے.بالآخر جب غذا کی تنگی ہوئی تو ہتھیار ڈال دیے.ان واقعات کی فتوحات کی تفصیل میں میر محمود احمد صاحب نے مقالے میں جو تحقیق اور اپنا تجزیہ کیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ : طبری اور بلاذری میں متعدد اختلافات ہیں جن کی وجہ غالباً یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس علاقے میں ایرانی سرداروں کی عہد شکنی کر کے بغاوت کے نتیجہ میں اسلامی لشکر کی دوبارہ جنگی نقل و حرکت کے واقعات روایات میں پہلی مرتبہ کی فتوحات کے واقعات سے مل کر مشتبہ ہو گئے ہیں.220 فتوحات جو تھیں وہ، اور پھر دوبارہ جو امن قائم کرنے کے لیے ہوا ، وہ مشتبہ ہو گیا ہے لیکن بہر حال یہ ان کا ایک نقطہ نظر ہے.

Page 153

محاب بدر جلد 3 133 حضرت عمر بن خطاب جنگ را مَهُرُ مُز اور تُستر - يَزْدَجَز د شاه ایران جو جَلولاء کے معرکے کے بعد رے سے ہو تا ہوا اضطخَر چلا گیا تھا.یہ اضطعر بھی ایک جگہ کا نام ہے.ابھی اس نے شکست نہیں مانی تھی اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے لوگوں کو غیرت دلا رہا تھا اور پوری کوشش میں تھا کہ اس علاقے خُوزستان میں، جہاں کی فتوحات کا ہم ذکر کر رہے ہیں، مسلمانوں کے مقابلے کے لیے امدادی فوج بھجوائی جائے.دوسری وجہ جو اس علاقے میں جنگ کی آگ تیز کرنے کا موجب بنی ہوئی تھی وہ یہاں کے ایک نامی رئیس هرمزان کی مسلمانوں کے خلاف جنگی کارروائی تھی.ھرمزان قادسیہ کے معرکہ میں شریک ہو چکا تھا اور وہاں سے شکست کھا کر اپنے وطن میں آگیا تھا اور یہاں مسلمانوں پر مسلسل چھاپے مار رہا تھا.221 جلولاء میں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایرانی هرمزان کی قیادت میں رَامَهُرُ مُز میں جمع ہوئے.رَامَهُرْمُزُ جو ہے یہ بھی خُوزستان کے نواح میں ایک مشہور شہر تھا.حضرت سعد بن ابی وقاص نے حضرت عمر کی ہدایت پر نعمان بن مقرن کو لشکر کا سردار بنا کر کوفہ سے روانہ کیا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری کو بصرہ سے روانہ کیا اور فرمایا کہ جب دونوں لشکر اکٹھے ہو جائیں تو ابو سبرہ بن رھم ان کے کمانڈر ہوں گے.نعمان بن منقرین کی فوج کے بارے میں جب هُر مُزان کو علم ہوا تو اس نے مقابلہ کیا اور شدید جنگ کے بعد هرمزان شکست کھا کر نشتر کی طرف بھاگ گیا.نشتر بھی خُوزستان سے ایک دن کے فاصلے پر ایک بڑا شہر ہے اور شہر میں محصور ہو گیا.حضرت ابو سبرہ کی قیادت میں اسلامی لشکر نے شہر کا محاصرہ کر لیا جو کئی ماہ تک جاری رہا.ایرانی فوج بار بار باہر نکل کر حملہ آور ہوتی اور واپس آکر دروازے بند کر لیتی.اس طرح اس جنگ میں اتنی معرکے ہوئے.آخری معرکہ میں مسلمانوں نے بھر پور شدت سے حملہ کیا.جب مسلمانوں کی طرف سے حصار سخت ہو گیا تو دو فارسیوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ شہر سے پانی نکلنے والے راستے سے اندر جا کر شہر کو فتح کیا جاسکتا ہے.چنانچہ مسلمان شہر میں داخل ہو گئے.اس بارے میں اخبار الطوال کے مصنف ابو حنیفہ دینوری نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کا محاصرہ طویل ہو گیا.ایک رات شہر کا ایک معزز شخص حضرت ابو موسیٰ اشعر مٹی کے پاس آیا اور اپنے اہل وعیال اور اپنے مال کو امان ملنے کے عوض شہر میں قبضہ کرنے میں مدد کی پیشکش کی.حضرت ابو موسیٰ اشعری نے اسے امان دی.فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ وہ شخص مسلمان بھی ہو گیا تھا.اس شخص نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے کہا کہ میرے ساتھ کوئی شخص بھیج دیں تا کہ میں اسے آگاہ کر دوں.یعنی رستہ بتاؤں کہ کس طرح مسلمان قلعہ میں داخل ہو سکتے ہیں.حضرت ابو موسیٰ اشعری نے قبیلہ بنو شیبان میں سے ایک شخص اشترش بن عوف کو اس کے ساتھ بھیجا.وہ دونوں ایک چھوٹی سی نہر میں سے ہوتے ہوئے ایک سرنگ کے راستے سے شہر میں داخل ہوئے.اس نے اشترش بن عوف پر ایک چادر اوڑھادی اور اسے کہا کہ تم میرے پیچھے پیچھے میرے خادموں کی طرح آؤ.وہ اسے لے کر شہر کے طول و عرض

Page 154

اصحاب بدر جلد 3 134 حضرت عمر بن خطاب میں پھر ا.پھر وہ شہر کے دروازے پر گیا جہاں پہرے دار موجود تھے پھر وہ ھرمزان کے پاس پہنچا جو کہ اپنے محل کے دروازے پر مجلس لگائے بیٹھا تھا.یہ سب دکھانے کے بعد وہ اس کو اسی راستہ سے واپس لے آیا.اشرس بن عوف نے واپس پہنچ کر حضرت ابو موسیٰ اشعری کو سب کچھ بتایا.اشرس بن عوف نے کہا کہ آپ میرے ساتھ دو سو بہادر بھیج دیں میں پہرے داروں کو قتل کر کے دروازہ کھلوا دوں گا اور آپ باہر سے دروازے سے ہمارے ساتھ مل جائیں.اس طرح اشرش بن عوف اپنے ساتھیوں سمیت اس خفیہ رستے سے شہر میں داخل ہوئے اور پہرے داروں کو قتل کر کے شہر کے دروازے کھول دیے.سپہ سالار ھر مزان کا گرفتار ہو کر حضرت عمرؓ کے دربار خلافت میں پیش ہونا اسلامی لشکر اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتا ہوا شہر میں داخل ہوا.ھرمزان نعروں کی آواز سن کر اپنے قلعہ کی طرف بھا گا جو کہ اس شہر کے اندر ہی موجود تھا.مسلمانوں نے قلعہ کو گھیر لیا.ھرمزان اوپر سے دیکھ کر بولا کہ میرے ترکش میں سو تیر ہیں.جب تک ان میں سے ایک تیر بھی باقی ہے مجھے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا.اس کے بعد اگر میں گرفتار ہوا تو میری گرفتاری کے کیا کہنے.مسلمانوں نے کہا کہ پھر تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا کہ میں اس شرط پر ہتھیار ڈالتا ہوں کہ میرا فیصلہ حضرت عمر پر چھوڑ دیا جائے.ھرمزان نے ہتھیار پھینک دیے اور خود کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا.حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ھر مُران کو حضرت انس بن مالک اور احنف بن قیس کی نگرانی میں حضرت عمر کی خدمت میں مدینہ بھجوا دیا.جب قافلہ مدینہ میں داخل ہوا تو انہوں نے ھرمزان کو اس کا اپنار میشمی لباس پہنایا جس پر سونے کا کام ہوا ہوا تھا.قیدی تھا لیکن اس کو لباس پہنا دیا جو بڑا شان والا لباس تھا.اس کے سر پر ہیروں سے جڑا ہوا تاج رکھا گیا تا کہ حضرت عمرؓ اور مسلمان اس کی اصل ہیئت کو دیکھ لیں.یہ بتانے کے لیے کہ دیکھو اتنے بڑے سردار کو ہم نے زیر کیا ہے.پھر انہوں نے حضرت عمررؓ کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں.وہ جب مسجد میں پہنچے تو حضرت عمر اپنی پگڑی پر سر رکھ کر سوئے ہوئے تھے.هُرمُزَان نے پوچھا عمر کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ سورہے ہیں.اس وقت مسجد میں آپ کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تھا.هُزمران نے پوچھا ان کے پہرے دار اور دربان کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا ان کو کسی پہرے دار، درباری، کاتب اور دیوان کی ضرورت نہیں ہے.ھرمزان نے بے ساختہ کہا کہ یہ شخص ضرور کوئی نبی معلوم ہو تا ہے.لوگوں نے کہا کہ نبی تو نہیں مگر انبیاء کے طریق پر ضرور ہیں.حضرت عمر لوگوں کی باتوں سے بیدار ہو گئے.حضرت عمرؓ نے پوچھا کیا ھرمزان ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں.تو حضرت عمرؓ نے اس کو اور اس کے لباس کو بغور دیکھا اور کہا میں آگ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں اور اللہ سے مدد مانگتا ہوں.قافلہ کے لوگوں نے کہا کہ یہ ہر مزان ہے اس سے بات کر لیں.آپ نے کہا ہر گز نہیں.یہاں تک کہ وہ اپنا زرق برق لباس اور زیورات اتار دے.تو اس کے تمام زیورات اور شاہانہ لباس کو اتار دیا

Page 155

حاب بدر جلد 3 135 حضرت عمر بن خطاب گیا.ھرمزان سے گفتگو شروع ہوئی.حضرت عمرؓ نے کہا عہد شکنی اور دھوکا دہی کا انجام دیکھا ہے.جو جنگ ہوئی تھی یا اس کے ساتھ لڑائی ہو رہی تھی، اس کی عہد شکنی کی وجہ سے ہورہی تھی اور دھوکا دینے کی وجہ سے ہو رہی تھی.اس نے کہا جاہلیت میں جب خدا ہم دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہ تھا تو ہم تم پر غالب تھے مگر اب خدا کی مدد تمہارے ساتھ ہے اس لیے اب تم غالب ہو.ھرمزان نے حضرت عمرؓ کو یہ جواب دیا.حضرت عمرؓ نے فرما یا زمانہ جاہلیت میں تم اس وجہ سے غالب تھے کہ تم میں اتحاد تھا اور ہم میں افتراق تھا.ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ تم لوگ اکٹھے تھے اور ہم میں افتراق تھا.پھر حضرت عمرؓ نے هرمزان سے پوچھا.تم نے بار بار عہد شکنی کی اب تم کیا عذر کرتے ہو ؟ جیسا کہ میں نے کہا مسلمانوں نے ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ان سے جنگ کی تھی کیونکہ وہ لوگ جو تھے وہ پر امن ہمسائے کے طور پر رہنا نہیں چاہتے تھے.هُرمزان نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ آپ مجھے یہ بتانے سے پہلے ہی قتل نہ کر دیں.حضرت عمرؓ نے کہا ڈرو نہیں.اس پر ھرمزان نے پانی مانگا تو اس کے لیے ایک پرانے پیالے میں پانی لایا گیا.ھرمزان نے کہا کہ میں اس طرح کے پیالے میں پانی نہیں پیوں گا خواہ میں پیاسا ہی مر جاؤں.چنانچہ اسے اس کے شایان شان بر تن میں پانی دیا گیا تو اس کے ہاتھ کانپنے لگے.ہر مران نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ جب میں پانی پی رہا ہوں گا تو مجھے قتل کر دیا جائے گا.حضرت عمرؓ نے فرمایا جب تک تو پانی پی نہ لے تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی.یہ سن کر اس نے پانی زمین پر گرا دیا.ہوشیار تھا، اس نے کہا اچھا پانی پینا اگر شرط ہے تو مسلمان تو وعدے کے پکے ہیں.تو اس نے کہا میں پانی پیتی ہی نہیں اور پانی زمین پہ گرا دیا.حضرت عمر نے کہا اسے دوبارہ پانی دو اور اسے پیاسا قتل نہ کیا جائے.سزا تو اس کی یہی تھی عہد شکنی اور فتنہ و فساد اور مسلمانوں سے جنگ.ھرمزان نے کہا مجھے پانی کی پیاس نہیں تھی میں تو اس طرح امان حاصل کرنا چاہتا تھا.آخر وہ سچ بول پڑا.اس کے بعد ھرمزان نے اسلام قبول کر لیا اور مدینہ میں ہی رہائش اختیار کرلی.حضرت عمرؓ نے اس کا دو ہزار وظیفہ مقرر کر دیا.222 عِقْدُ الْفَرِید میں لکھا ہے کہ جب هُرمزان کو حضرت عمرؓ کے پاس قیدی بنا کر لایا گیا تو آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی لیکن هُرمزان نے انکار کر دیا.حضرت عمر نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے.جب اسے قتل کیا جانے لگا تو اس نے کہا اے امیر المومنین ! اگر آپ مجھے پانی پلا دیں.حضرت عمر نے پانی پلانے کا حکم دیا.جب پانی کا بر تن اس کے ہاتھ میں رکھا گیا تو اس نے حضرت عمرؓ سے کہا کیا میں پانی پینے تک امن میں ہوں ؟ حضرت عمرؓ نے کہا ہاں.اس پر ہر مُران نے پانی کا برتن ہاتھ سے پھینک دیا اور کہا کہ آپ اپنا وعدہ پورا کریں.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں تجھے کچھ مہلت دیتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ تو کیسے عمل کرتا ہے.جب اس سے تلوار دور کر دی گئی تو ھر مان نے کہا کہ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَدَ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس

Page 156

صحاب بدر جلد 3 136 حضرت عمر بن خطاب کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد صلی ال یکم اس کا بندہ اور اس کے رسول ہیں.حضرت عمرؓ نے ھرمزان سے پوچھا کہ تو پہلے کیوں نہ ایمان لے آیا.اس پر ھرمزان نے کہا کہ اے امیر المومنین ! مجھے ڈر تھا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ میں تلوار کے ڈر سے، کیونکہ تلوار میرے سر پر رکھی ہوئی تھی، اس کے ڈر سے مسلمان ہوا ہوں.اس کے بعد حضرت عمر هرمزان سے ایران پر لشکر کشی میں مشورہ کیا کرتے تھے اور اس کی رائے کے مطابق عمل کیا کرتے تھے.223 پھر وہ حضرت عمر کا مشیر بھی بن گیا.یہ بھی شبہ کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر کی شہادت میں ھرمزان کا ہاتھ تھا.224 لیکن حضرت مصلح موعود اس شبہ کو درست نہیں سمجھتے تھے.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ قصاص کی آیت کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی علیم کے پاس ایک مسلمان لایا گیا جس نے ایک معاہد کا فیر کو جو اسلامی حکومت کی رعایا بن چکا تھا قتل کر دیا تھا.جس سے معاہدہ ہوا ہوا تھا، عہد ہوا ہوا تھا اس کا قتل کر دیا تھا تو آپ نے اس کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں عہد پورا کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ بد کی نگہداشت کرنے والا ہوں.جس سے عہد کیا اس کو کیوں قتل کیا، اس لیے سزا ہے.مسلمان کو عہد بھی قتل کیا گیا.اسی طرح طبرانی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت روایت کی ہے کہ ایک مسلمان نے ایک زمی کو قتل کر دیا تو آپ نے اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ لا يُقْتَلُ مُؤْمِن بِحافِر کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا مگر ساری حدیث دیکھنے سے بات حل ہو جاتی ہے.حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں کہ لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرِ وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ.اس حدیث کا یہ دوسرا فقرہ کہ وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِہ اس کے معنوں کو حل کر دیتا ہے کہ اگر اس کے یہ معنے ہوں کہ کافر کے بدلہ میں مسلمان نہ مارا جائے تو پھر ذُوعَهْدٍ کے یہ معنے کرنے ہوں گے کہ وَلَا ذُو عَهْد بكافر کہ کسی ذو عہد کو بھی کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے.حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا.پس یہاں کا فر سے مراد محارب کا فر ہے نہ کہ عام کا فر.جنگ کرنے والے کافر (مراد) ہیں نہ کہ عام کافر.تبھی فرمایا کہ ذمی کافر بھی محارب کافر کے بدلہ میں نہیں مارا جائے گا.اب ہم صحابہ کا طریق عمل دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ بھی غیر مسلم کے قاتل کو قتل کی سزا ہی دیتے تھے.چنانچہ طبری میں قمنا بان بن ہرمز ان اپنے والد کے قتل کا واقعہ بیان کرتا ہے که هرمزان ایک ایرانی رئیس اور مجوسی المذہب تھا اور حضرت عمر خلیفہ ثانی کے قتل کی سازش میں شریک ہونے کا شبہ اس پر کیا گیا.اس پر بلا تحقیق جوش میں آکر عبید اللہ بن عمر نے اس کو قتل کر دیا.وہ کہتا ہے کہ ایرانی لوگ مدینہ میں ایک دوسرے سے ملے جلے رہتے تھے.جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دوسرے ملک میں جاکر وطنیت نمایاں ہو جاتی ہے تو ایک دن فیروز جو حضرت عمر کا قاتل تھا، میرے باپ سے ملا اور اس کے پاس ایک خنجر تھا جو دونوں طرف سے تیز کیا ہوا تھا.میرے باپ نے اس خنجر کو پکڑ لیا اور

Page 157

محاب بدر جلد 3 137 حضرت عمر بن خطاب اس سے دریافت کیا کہ اس ملک میں تو اس خنجر سے کیا کام لیتا ہے یعنی یہ ملک تو امن کا ملک ہے اس میں ایسے ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے.اس نے کہا کہ میں اس سے اونٹ ہنکانے کا کام لیتا ہوں.جب وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے تو اس وقت کسی نے ان کو دیکھ لیا اور جب حضرت عمر مارے گئے، شہید کیے گئے تو اس نے بیان کیا کہ میں نے خود ہر مز ان کو یہ خنجر فیروز کو پکڑاتے ہوئے دیکھا تھا.اس پر گر مران کا بیٹا کہتا ہے کہ عبید اللہ جو حضرت عمرؓ کے چھوٹے بیٹے تھے انہوں نے جا کر میرے باپ کو قتل کر دیا.جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا اور عبید اللہ کو پکڑ کر میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ اسے میرے بیٹے ! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تو ہماری نسبت اس پر زیادہ حق رکھتا ہے.پس جا اور اس کو قتل کر دے.میں نے اس کو پکڑ لیا اور شہر سے باہر نکلا.راستہ میں جو شخص مجھے ملتا میرے ساتھ ہو جاتا لیکن کوئی شخص مقابلہ نہ کرتا.وہ مجھ سے صرف اتنی درخواست کرتے تھے کہ میں اسے چھوڑ دوں.پس میں نے سب مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا میر احق ہے کہ میں اسے قتل کر دوں؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں تمہارا حق ہے کہ اسے قتل کر دو اور پھر عبید اللہ کو برابھلا بھی کہنے لگے کہ اس نے ایسا برا کام کیا ہے.پھر میں نے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کو حق ہے کہ اسے مجھ سے چھڑا لو ؟ انہوں نے کہا نہیں ہر گز نہیں اور پھر عبید اللہ کو برا بھلا کہا کہ اس نے بلا ثبوت اس کے باپ کو قتل کر دیا ہے.اس پر میں نے خدا اور ان لوگوں کی خاطر اس کو چھوڑ دیا.اتنی سفارشیں جب ہو گئیں.پوچھ لیا، سوال جواب ہو گئے تو کہتے ہیں میں نے اللہ اور اس کے لوگوں کی خاطر اس کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں نے فرطِ مسرت سے مجھے اس خوشی میں اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور خدا تعالیٰ کی قسم ! میں اپنے گھر تک لوگوں کے سروں اور کندھوں پر پہنچا اور انہوں نے مجھے زمین پر قدم تک نہیں رکھنے دیا.اس روایت سے ثابت ہے کہ صحابہ کاطریق عمل بھی یہی رہا ہے کہ وہ غیر مسلم کے مسلم قاتل کو سزائے قتل دیتے تھے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خواہ کسی ہتھیار سے کوئی شخص مارا جائے وہ مارا جائے گا.اسی طرح یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ قاتل کو گرفتار کرنے والی اور اس کو سزا دینے والی حکومت ہی ہوتی ہے.گو یہاں بھی یہ ہے کہ مسلمان ہو گیا تھا لیکن اگر یہ غیر مسلم بھی ہو تب بھی یہ ساری جو پچھلی باتیں بیان ہوئی ہیں ان سے بھی یہی لگتا ہے کہ غیر مسلم کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہو جیسا مسلمان کے قاتل کے ساتھ ہو گا.خاص طور پہ جب معاہدہ ہوا ہو.اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قاتل کو گر فتار کرنے والی اور اس کو سزا دینے والی حکومت ہی ہے.ہر شخص نہیں دے سکتا حکومت دیتی ہے کیونکہ اس روایت سے ظاہر ہے کہ عبید اللہ بن عمر کو گرفتار بھی حضرت عثمان نے ہی کیا تھا اور اس کو قتل کرنے کے لیے ہر مز ان کے بیٹے کے سپر د بھی انہوں نے ہی کیا تھا.نہ ھرمزان کے کسی وارث نے اس پر مقدمہ چلایا اور نہ اس نے گر فتار کیا.حضرت خلیفہ ثانی فرماتے ہیں کہ اس جگہ اس شبہ کا ازالہ کر دینا بھی ضروری معلوم ہو تا ہے کہ قاتل کو سزا دینے کے لیے آیا مقتول کے وارثوں کے سپر د کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت عثمان نے کیا یا خود

Page 158

اصحاب بدر جلد 3 138 حضرت عمر بن خطاب حکومت کو سزا دینی چاہیے.سو یا د رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ ایک جزوی معاملہ ہے اس لیے اس کو اسلام نے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق عمل کرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے.قوم اپنے تمدن اور حالات کے مطابق جس طریق کو زیادہ مفید دیکھے اختیار کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں طریق ہی خاص خاص حالات میں مفید ہوتے ہیں.جنگ جندی سابور 225 ایک جنگ جنگ جندی سابور ہے.جب حضرت ابو سبرہ بن دُھم ساسانی بستیوں کی فتح سے فارغ ہوئے تو آپ لشکر کے ساتھ آگے بڑھے اور جندی ساہور میں پڑاؤ کیا.جندی سابور خوزستان کا ایک شہر تھا.بہر حال ان دشمنوں کے ساتھ صبح شام جنگی معر کے ہوتے رہے لیکن یہ اپنی جگہ ڈٹے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کی طرف سے کسی نے امان دینے کی پیشکش کر دی.دشمن فصیل میں تھا.جب موقع ملتا تھا نکل کے حملہ کر تا تھا.تو جب ایک عام مسلمان نے پیشکش کی تو انہوں نے فوراً فصیل کے دروازے کھول دیے.جانور باہر نکل پڑے، بازار کھل گئے اور لوگ ادھر اُدھر نظر آنے لگے.مسلمانوں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے ہمیں امان دے دی ہے اور ہم نے اسے قبول کر لیا ہے.ہم جزیہ دیں گے اور آپ ہماری حفاظت کریں گے.مسلمانوں نے کہا ہم نے تو ایسا نہیں کیا.انہوں نے کہا کہ ہم جھوٹ نہیں کہہ رہے.پھر مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرے سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ مکنف نامی ایک غلام نے یہ کیا ہے.جب اس کے متعلق حضرت عمرؓ سے استفسار کیا گیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے وفاداری کو بڑی اہمیت دی ہے.تم وفادار نہیں ہو سکتے جب تک اس عہد کو پورا نہ کر وجو عہد کر لیا.چاہے غلام نے کیا اس کو پورا کر و.جب تک تم شک میں ہو انہیں مہلت دو اور ان کے ساتھ وفاداری کرو.چنانچہ مسلمانوں نے عہد و پیمان کی تصدیق کی اور واپس لوٹ آئے.226 یہ معرکه خوزستان کی فتوحات کا خاتمہ تھا.227 حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس طرح کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ: ”حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک حبشی غلام نے ایک قوم سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ فلاں فلاں رعایتیں تمہیں دی جائیں گی.جب اسلامی فوج گئی تو اس قوم نے کہا ہم سے تو یہ معاہدہ ہے.فوج کے افسر اعلیٰ نے اس معاہدہ کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل کی تو بات حضرت عمرؓ کے پاس گئی.انہوں نے فرمایا مسلمان کی بات جھوٹی نہ ہونی چاہئے خواہ غلام ہی کی ہو.“ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک دشمن فوج گھر گئی 2286

Page 159

باب بدر جلد 3 139 حضرت عمر بن خطاب اور اس نے سمجھ لیا کہ اب ہماری نجات نہیں ہے.پہلے جو واقعہ بیان ہوا ہے یہ اسی کی تفصیل ہے.انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان فرمائی ہے.اسلامی کمانڈر دباؤ سے ہمارا قلعہ فتح کر رہا ہے.اگر اس نے فتح کر لیا تو ہم سے مفتوح ملک والا معاملہ کیا جائے گا.ہر مسلمان مفتوح ہونے اور صلح کرنے میں فرق سمجھتا تھا.مفتوح کے لیے تو عام اسلامی قانون جاری ہو تا تھا اور صلح میں جو بھی وہ لوگ ( دوسرا فریق) شرط کر لیں یا جتنے زائد حقوق لے لیں، لے سکتے تھے.انہوں نے سوچا کہ کوئی ایسا طریق اختیار کرنا چاہیے جس سے نرم شرائط پر صلح ہو جائے.چنانچہ ایک دن ایک حبشی مسلمان پانی بھر رہا تھا اس کے پاس جا کر انہوں نے کہا.کیوں بھئی! اگر صلح ہو جائے تو وہ لڑائی سے اچھی ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا کہ ہاں اچھی ہے.وہ حبشی غیر تعلیم یافتہ تھا.انہوں نے کہا کہ پھر کیوں نہ اس شرط پر صلح ہو جائے کہ ہم اپنے ملک میں آزادی سے رہیں اور ہمیں کچھ نہ کہا جائے.ہمارے مال ہمارے پاس رہیں اور تمہارے مال تمہارے پاس رہیں.وہ کہنے لگا بالکل ٹھیک ہے.انہوں نے قلعہ کے دروازے کھول دیے.اب اسلامی لشکر آیا تو دشمن نے کہا ہمارا تو تم سے معاہدہ ہو گیا ہے.مسلمانوں نے کہا کہ معاہدہ کہاں ہوا ہے اور کس افسر نے کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہم نہیں جانتے.ہمیں کیا پتہ کہ تمہارے کون افسر ہیں اور کون نہیں.ایک آدمی یہاں پانی بھر رہا تھا اس سے ہم نے یہ بات کی اور اس نے ہمیں یہ کہہ دیا.مسلمانوں نے کہا دیکھو ایک غلام نکلا تھا اس سے پوچھو کیا ہوا؟ اس حبشی غلام سے کہا تو اس نے بتایا کہ ہاں مجھ سے یہ بات ہوئی تھی.تو مسلمانوں نے کہا کہ وہ تو غلام تھا.اسے کس نے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا تھا.اس پر دشمنوں نے کہا کہ ہمیں کیا پتہ کہ یہ تمہارا افسر ہے یا نہیں.ہم اجنبی لوگ ہیں ہم نے سمجھا کہ یہی تمہارا جرنیل ہے ، ہوشیاری دکھائی.اس افسر نے کہا کہ میں تو نہیں مان سکتا لیکن میں یہ واقعہ حضرت عمر کو لکھتا ہوں.حضرت عمر کو جب یہ خط ملا تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ کے لیے یہ اعلان کر دو کہ کمانڈر انچیف کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں کر سکتا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک مسلمان زبان دے بیٹھے تو میں اس کو جھوٹا کر دوں.اب وہ حبشی جو معاہدہ کر چکا ہے ہ تمہیں ماننا پڑے گا.ہاں آئندہ کے لیے اعلان کر دو کہ سوائے کمانڈر انچیف کے اور کوئی کسی قوم سے معاہدہ نہیں کر سکتا.229 وہ حضرت عمرؓ نے جو ایران کو فتح کیا ہے تو اس کی کیا وجوہات تھیں، آپنے کیوں مجبور ہوئے.ان کا بیان اس طرح ہوا ہے کہ حضرت عمر کی قلبی خواہش تھی کہ اگر عراق اور افواز کے معرکوں پر ہی اس خونریز جنگ کا خاتمہ ہو جائے تو بہتر ہے.جنگیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.دشمن حملہ کر رہا ہے.دشمن کو ایک دفعہ ختم کر دیا، ان کی طاقت کو روک دیا اب یہیں ختم ہو جانا چاہیے.آپ نے بار بار اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ کاش ہمارے اور ایرانیوں کے درمیان کوئی ایسی روک ہو کہ نہ وہ ہماری طرف آسکیں نہ ہم ان کے پاس جا سکیں مگر ایرانی حکومت کی مسلسل جنگی کارروائیوں نے آپؐ کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی.سترہ ہجری میں محاذ جنگ سے مسلمان سرداران لشکر کا ایک وفد حضرت عمر کی خدمت میں

Page 160

اصحاب بدر جلد 3 140 حضرت عمر بن خطاب حاضر ہوا.حضرت عمرؓ نے اس وفد کے سامنے یہ سوال رکھا کہ مفتوحہ علاقوں میں کیوں بار بار عہد شکنی اور بغاوت ہو جاتی ہے.حضرت عمرؓ نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ مسلمان مفتوحہ علاقوں کے باشندوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہوں گے تبھی عہد شکنی ہو رہی ہے.وفد نے اس امر کی تردید کی.انہوں نے کہا نہیں اس طرح نہیں ہے اور بتایا کہ ہمارے علم میں تو مسلمان پوری وفاداری اور حسن انتظام سے کام لیتے ہیں.حضرت عمر نے پوچھا تو پھر اس گڑبڑ کی کیا وجہ ہے ؟ باقی ارکان وفد تو اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے مگر احنف بن قیس بولے کہ امیر المومنین ! میں آپ کو اصل صورت حال سے مطلع کر تا ہوں.بات یہ ہے کہ آپ نے ہمیں مزید فوجی اقدام کی ممانعت کر دی ہے کہ مزید جنگ نہیں کرنی اور اس علاقے پر ڑ کے رہنے کی ہدایت کی ہے جو اب تک فتح ہو چکا ہے مگر ایران کا بادشاہ ابھی زندہ موجود ہے اور جب تک وہ موجود ہے ایرانی ہم سے مقابلہ جاری رکھیں گے اور یہ کبھی ممکن نہیں کہ ایک ملک میں دو حکومتیں ہو سکیں.بہر صورت ایک دوسری کو نکال کر رہے گی.یا ایرانی رہیں گے یا ہم رہیں گے.اس نے کہا کہ آپ کو علم ہے کہ ہم نے کسی علاقے کو بھی خود نہیں کیا بلکہ دشمن کے حملہ آور ہونے کے باعث فتح کیا ہے.ہم نے تو خود کبھی جنگ کی نہیں اور یہی آپ کا حکم تھا.دشمن حملہ کر تا تھا تو مجبور جنگ کرنا پڑتی تھی اور پھر علاقے فتح بھی ہو جاتے تھے.بہر حال اس میں مسلمانوں میں سے بھی ان لوگوں کے لیے یہ واضح ہو گیا جو جنگوں کو بلاوجہ کرنے کے جواز پیش کرتے ہیں اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کا جواب بھی اس میں آگیا ہے کہ مسلمان کبھی زمینیں حاصل کرنے کے لیے، ملک فتح کرنے کے لیے جنگیں نہیں کرتے تھے.ان پر حملے ہوئے تو امن قائم کرنے کے لیے جنگیں کرتے تھے اور پھر فتوحات بھی ہوتی تھیں.بہر حال انہوں نے کہا کہ یہ فوجیں ان کے بادشاہ کی طرف سے آتی ہیں اور ان کا یہ رویہ آئندہ بھی اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آپ ہمیں اس امر کی اجازت نہ دیں کہ ہم آگے فوج کشی کے اقدام کریں اور بادشاہ کو فارس سے نکال دیں.اس صورت میں اہل فارس کی دوبارہ فتح کی امید منقطع ہو سکتی ہے.230 اور بات بھی یہی تھی.حضرت عمرؓ نے اس رائے کو صائب قرار دیتے ہوئے یہ سمجھ لیا کہ اب ایران میں مزید پیش قدمی کیے بغیر چارہ نہیں ہے.مجبوری ہے اس کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا اور مسلمانوں کا خون ہو تا رہے گا، جنگیں ہوتی رہیں گی مگر اس کا عملی فیصلہ پھر بھی حضرت عمر نے ڈیڑھ دو سال کے بعد 121 ہجری میں نہاوند کے معرکے کے بعد کیا جبکہ ایرانی زبر دست طاقت کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلے تھے اور نہاوند کے مقام پر ایک زبر دست جنگ ہوئی تھی.231 جنگ نهاوند کو فتح الفتوح بھی کہتے ہیں.ایران اور عراق میں مسلمانوں کی جنگی مہم میں تین

Page 161

حاب بدر جلد 3 141 حضرت عمر بن خطاب معرکوں کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے.یعنی قادسیہ کا معرکہ ، جلولاء کا معرکہ اور نہاوند کا معرکہ اور نهاوند کی فتح اپنے نتائج کے لحاظ سے اس قدر اہم تھی کہ مسلمانوں میں فتح الفتوح کے نام سے معروف ہو گئی تھی یعنی تمام فتوحات سے بڑھ کر فتح.خاوند کی یہ جنگ پہلی روز بر دست شکستوں کے بعد ایرانیوں کی طرف سے ایسے حملے کی آخری کوشش تھی.اس معرکے کی تفاصیل یہ ہیں کہ شاہ ایران یزدجرد نے جو اب مرو میں مقیم تھا یا بروایت ابو حنیفہ دینوری قسم میں رہائش پذیر تھا بڑی سر گرمی سے مسلمانوں کے مقابلے کے لیے لشکر جمع کرنا شروع کیا اور اپنے خطوط سے خراسان سے لے کر سندھ تک ملک میں ایک حرکت پیدا کر دی اور ہر طرف سے ایرانی فوج امڈ کر یہ کاوند میں جمع ہونے لگی.نهاوند ایران کا ایک شہر ہے جو کرمان شاہ کے مشرق میں واقع ہے اور صوبہ همدان کے دارالحکومت ہمدان سے تقریباً ستر کلو میٹر جنوب میں واقع ہے.نهاوند مکمل طور پر پہاڑوں کے درمیان ایک شہر تھا.234 حضرت سعد نے اس لشکر کی اطلاع حضرت 232 233 عمر کی خدمت میں مدینہ ارسال کر دی.235 چند روز بعد جب خود حضرت سعد کو حضرت عمرؓ نے ان کے عہدے سے سبکدوش کر دیا اور حضرت سعد کو مدینہ جانے کا موقع ملا تو حضرت سعد نے پھر یہ زبانی اطلاعات حضرت عمر کی خدمت میں پیش کر دیں.236 حضرت سعد کو معزول کر کے یہ اہم عہدہ دربارِ خلافت کی طرف سے حضرت عمار بن یاسر کو دیا گیا.حضرت عمار کو اس ایرانی جنگی کارروائی کے سلسلہ میں جو اطلاعات ملتی رہیں وہ آپ مدینہ بھجواتے رہے.237 حضرت عمر نے مجلس مشاورت منعقد کی اور منبر پر کھڑے ہو کر ایک تقریر کی جس میں فرمایا: اے قوم عرب ! اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ تمہاری تائید کی اور افتراق کے بعد تمہیں متحد کر دیا اور فاقہ کشی کے بعد تمہیں غنی کر دیا.اور جس میدان میں بھی تمہیں دشمن سے مقابلہ کرنا پڑا اس نے تمہیں فتح دی.پس تم نہ کبھی ماندہ ہوئے نہ مغلوب.اور اب شیطان نے کچھ لشکر جمع کیے ہیں تاکہ خدا کے نور کو بجھائے اور یہ عمار بن یاسر کا خط ہے کہ قَوْمِسْطَبَرِستان، دُنْبَاوَند، جُرْجَان، اصفهان ، ثم ، هَمَذَانَ ، مَاهَيْن اور مَاسَبَذَان کے باشندے اپنے بادشاہ کے گرد جمع ہو رہے ہیں تاکہ تمہارے بھائیوں کے مقابلے کے لیے جو کو فہ اور بصرہ میں ہیں نکلیں اور ان کو اپنے وطن سے نکال کر خود تمہارے ملک پر حملہ آور ہوں.اے لوگو! اس بارے میں مجھے اپنا مشورہ دو.238 یہ معاملہ اہم ہے.میں نہیں پاتا کہ آپ لوگ زیادہ باتیں کریں اور آپس میں اختلاف رائے

Page 162

اصحاب بدر جلد 3 142 حضرت عمر بن خطاب رکھیں.میں پاتا ہوں کہ آپ مختصر امجھے مشورہ دیں کہ کیا یہ مناسب ہو گا کہ میں خود اس وقت ایران کو روانہ ہوں اور بصرہ و کوفہ کے درمیان کسی مناسب مقام پر قیام کر کے اپنے لشکر کا مددگار ہوں اور اگر خدا کے فضل سے اس معرکہ میں فتح ہو جائے تو اپنے لشکر کو دشمن کے علاقے میں مزید پیش قدمی کے 239 لیے روانہ کروں.حضرت عمرؓ کی تقریر کے بعد حضرت طلحہ بن عبید اللہ کھڑے ہوئے اور تشہد کے بعد بولے کہ اے امیر المومنین ! امور مملکت نے آپ کو دانشمند بنا دیا ہے اور تجارب نے آپ کو ہوشیار بنا دیا ہے.آپ جو چاہیں کیجیے اور جو آپ کی اپنی رائے ہے اس پر عمل کیجیے.ہم آپ کے ساتھ ہیں.آپ ہمیں حکم دیں، ہم آپ کی اطاعت کریں گے.ہمیں بلائیں، ہم آپ کی آواز پر لبیک کہیں گے.ہمیں بھیجیں، ہم روانہ ہو جائیں گے.آپؓ ہمیں ساتھ لے جانا چاہیں، ہم آپ کے ساتھ ہوں گے.آپ نے خود ہی اس امر کا فیصلہ کیجیے کیونکہ آپ باخبر اور تجربہ کار ہیں.طلحہ یہ کہ کر بیٹھ گئے مگر حضرت عمرؓ مشورہ لینا چاہتے تھے.آپ نے فرمایا: لو گو کچھ کہو کیونکہ آج کا موقع ایسا ہے جس کے نتائج دیر پا ہیں.اس پر حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے امیر المومنین میری رائے یہ ہے کہ آپ شام اور یمن میں یہ احکامات بھیج دیں کہ وہاں کی اسلامی افواج ایران کی طرف روانہ ہوں.240 اسی طرح بصرہ کی افواج کو احکام بھیج دیں کہ وہاں سے بھی فوجیں روانہ ہو جائیں اور آپ خود یہاں سے حجاز کی افواج کو لے کر کوفہ کی طرف روانہ ہوں.241 اس صورت میں وہ جو دشمن کی کثرت تعداد کے خطرے کا احساس آپ کو ہے وہ دُور ہو جائے گا.یہ موقع واقعی ایسا ہے جس کے نتائج دیر پا ہوں گے.اس لیے آپ کی اس میں خود اپنی رائے اور اپنے رفقائے کار کے ساتھ موجودگی ضروری ہے.242 243 یعنی خود جانا چاہیے فرنٹ لائن پر.حضرت عثمان کی یہ تجویز مجلس کے اکثر لوگوں کو پسند آئی اور مسلمان ہر طرف سے بولے کہ یہ ٹھیک ہے.اس کو بھی حضرت عمرؓ نے مانا نہیں.آپؐ نے فرمایا کہ مزید مشورہ دو.پھر حضرت علی کھڑے ہو گئے.ایک لمبی تقریر کی جس میں فرمایا امیر المومنین ! اگر آپ نے شام کی افواج کو وہاں سے ہٹ جانے کا حکم دیا تو وہاں رومی حکومت کا قبضہ ہو جائے گا اور اگر یمن سے اسلامی افواج ہٹ آئیں تو حبشہ کی حکومت وہاں قبضہ کرلے گی.اگر آپ خود یہاں سے روانہ ہوئے تو ملک کے گوشہ گوشہ سے مسلمان آپؐ کا نام سن کر آپ کی معیت کے لیے امڈ پڑیں گے اور جس طرح کے خطرے کے مقابلے کے لیے آپ جا رہے ہیں اس سے زیادہ خطرہ ملک خالی ہو جانے کی وجہ سے خود یہاں پیدا ہو جائے گا.اس کے بجائے حضرت علی نے تجویز یہ دی کہ آپ بصرہ یہ حکم بھیجیں کہ کل فوج کے تین حصے کر دیے جائیں.ایک حصہ تو اسلامی آبادی میں مکان و اطراف کی حفاظت کے لیے چھوڑا جائے.ایک حصہ ان مفتوحہ

Page 163

اصحاب بدر جلد 3 143 حضرت عمر بن خطاب علاقوں میں مقرر کر دیا جائے جن سے صلح ہو چکی ہے تاکہ جنگ کے وقت وہاں کے لوگ عہد شکنی کر کے بغاوت نہ کر بیٹھیں اور ایک حصہ مسلمانوں کے لیے ، کوفہ والوں کی امداد کے لیے روانہ کر دیا جائے.244 اسی طرح کوفہ والوں کو لکھ دیں کہ ایک حصہ فوج کا وہیں مقیم رہے اور دوحصے دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ ہوں.اور اسی طرح شام کی افواج کو حکم بھیج دیں کہ دو حصے فوج شام میں مقیم رہے اور ایک حصہ ایران روانہ کر دی جائے اور اس قسم کے احکام عمان اور ملک کے دوسروں علاقوں اور شہروں کے نام صادر کر دیے جائیں.245 آپ کا خود محاذ جنگ پر جانا اس لیے مناسب نہیں کہ آپ کی پوزیشن تو اس لڑی کی سی ہے جس میں موتی پروئے ہوتے ہیں.اگر لڑی کھل جائے تو موتی بکھر جائیں گے اور پھر کبھی اکٹھے نہ ہوں گے اور پھر اگر ایرانیوں کو یہ معلوم ہوا کہ خود حاکم عرب محاذ جنگ پر آیا ہے تو وہ اپنی پوری طاقت صرف کریں گے اور اپنا پورا زور لگا کر مقابلہ کے لیے آئیں گے.اور یہ جو آپ نے دشمن کی افواج کی نقل و حرکت کا ذکر کیا ہے تو خدا تعالیٰ آپ کی نقل و حرکت کے مقابلہ میں دشمن کی نقل و حرکت کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور وہ یعنی اللہ تعالیٰ جس چیز کو نا پسند کرتا ہے اس کو بدل ڈالنے کی بہت قدرت رکھتا ہے.اور یہ جو آپ نے دشمن کی تعداد کی زیادتی کا ذکر کیا ہے تو ماضی میں ہماری روایات کثرت تعداد کے بل پر لڑائی کرنا نہیں بلکہ ہماری جنگ خدائی امداد کے بھروسے پر ہوتی ہے اور ہمارے معاملے میں فتح و شکست فوج کی کثرت و قلت پر نہیں.یہ تو خدا کا دین ہے جس کو خدا نے غالب کیا ہے اور اس کا لشکر ہے جس کی اس نے مدد کی اور ملائکہ کے ذریعہ ان کی وہ تائید کی کہ اس سے یہ مقام حاصل ہو گیا ہے.ہم سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اللہ اپنے وعدے کو ضرور پورا کرے گا اور اپنے لشکر کی مدد کرے گا.246 حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ اگر میں خود روانہ ہوا تو ادھر مسلمان تمام اطراف و اکناف سے ٹوٹ پڑیں گے اور اُدھر خود ایرانی پورے زور سے اپنے ساتھیوں کی امداد کے لیے نکلیں گے اور یہ کہیں گے کہ عرب کا سب سے بڑا حاکم خود میدان جنگ میں نکلا ہے.اگر اس معرکے کو ہم نے جیت لیا تو گویا سارے عرب کو مار لیا.اس وجہ سے میر اجانا مناسب نہیں.یعنی کہ دشمن یہ کہے گا کہ اگر ہم نے جیت لیا تو سارے عرب یہ ہمارا قبضہ ہو گیا.اس وجہ سے میرا جانا مناسب نہیں.آپ لوگ مشورہ دیں کہ کس شخص کو لشکر کا کمانڈر بنایا جائے مگر ایسے شخص کا نام لیا جائے جو عراق کی جنگوں میں شریک ہو کر تجربہ حاصل کر چکا ہو.لوگوں نے حضرت عمر کو کہا کہ حضور خود ہی اہل عراق اور وہاں کے لشکر کے متعلق زیادہ علم رکھتے ہیں.وہ لوگ آپ کے پاس وفد بن کر آتے رہے ہیں.آپ کو انہیں پر کھنے اور ان سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے.247

Page 164

محاب بدر جلد 3 حضرت نعمان بن مقرن بطور کمانڈر 144 حضرت عمر بن خطاب حضرت عمر کی تیز نگاہ نے حضرت نعمان بن مقرن کو اس ذمہ داری کے لیے منتخب کیا جو آنحضرت صلی علیم کے بزرگ صحابہ میں سے تھے.8 248 ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت نعمان مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے کہ حضرت عمر تشریف لائے اور انہیں دیکھ کر ان کے پاس جا بیٹھے.نعمان نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے انہیں فرمایا کہ میں تمہیں ایک عہدے پر مامور کرنا چاہتا ہوں.حضرت نعمان بولے اگر کوئی فوجی عہدہ ہے تو میں حاضر ہوں لیکن اگر ٹیکس جمع کرنے کا کام ہے تو وہ مجھے پسند نہیں.حضرت عمر نے فرمایا کہ نہیں فوجی عہدہ ہے.249 لیکن جو بات حقائق سے زیادہ قریب لگتی ہے وہ طبری کی یہ روایت ہے.نہاوند کے محاذ پر حضرت نعمان بن مقرن کو مقرر کرنے کے بارے میں جو طبری میں لکھا ہے جیسا کہ میں نے کہا وہ یہ ہے.ابن اسحاق کہتے ہیں کہ نہاوند کے واقعات میں یہ بھی مذکور ہے کہ نعمان بن مقرن گشگر پر عامل مقرر تھے.انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ سعد بن ابی وقاص نے مجھے خراج کی وصولی پر لگایا ہوا ہے جبکہ مجھے جہاد پسند ہے اور اس کی خواہش اور غبت ہے.چنانچہ حضرت عمرؓ نے سعد بن ابی وقاص کو لکھا کہ نعمان نے مجھے لکھا ہے کہ آپ نے اسے خراج کی وصولی پر لگایا ہوا ہے جبکہ اسے یہ کام ناپسند اور جہاد میں رغبت ہے.اس لیے انہیں نہاوند میں اہم ترین محاذ پر بھیج دیں.الغرض یہ اہم کمان حضرت نعمان بن مقرن کے سپر د ہوئی اور وہ دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے.حضرت عمرؓ نے جب وہ غالبا کو فہ میں تھے انہیں یہ خط لکھا.یہ خط بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ وہ مدینہ میں نہیں تھے بلکہ کوفہ میں تھے تو اس وقت یہ خط لکھا اور خط اس طرح شروع کیا.بسم اللہ الرحمن الرحیم.نعمان بن مُقَرِن کے نام.سَلَامٌ عَلَيْكَ.پھر تحریر فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں.اما بعد مجھے اطلاع ملی ہے کہ ایرانیوں کا ایک زبر دست لشکر شہر نہاوند میں تمہارے مقابلے کے لیے جمع ہوا ہے.میرا یہ خط جب تمہیں ملے تو خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کی تائید و نصرت کے ساتھ اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر روانہ ہو جاؤ مگر انہیں ایسے خشک علاقے میں نہ لے جانا جہاں چلنا مشکل ہو.ان کے حقوق ادا کرنے میں کمی نہ کرنا مبادا وہ ناشکر گزار بنیں اور نہ ہی کسی دلدل کے علاقے میں لے جانا کیونکہ ایک مسلمان مجھے ایک لاکھ دینار سے زیادہ محبوب ہے.وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ اس حکم کی تعمیل میں حضرت نعمان دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے.آپ کی معیت میں بعض ممتاز اور بہادر مسلمان مثلاً حذيفه بن يمان ابن عمر ، جرير بن عبد الله تجلي ، مُغيرة بن شُعْبَه، عمر و بن مَعْدِیگرب، طلیحہ بن خویلد اسدی اور قیس بن مكشوح مراد بھی تھے.250 حضرت عمر نے ہدایت کی تھی کہ اگر نعمان بن مقرن شہید ہو جائیں تو امیر ، حذیفہ بن یمان ہوں

Page 165

145 حضرت عمر بن خطاب اصحاب بدر جلد 3 گے.ان کے بعد جریر بن عبد اللہ بجلی.ان کے بعد حضرت مغیرہ بن شعبہ اور ان کی شہادت پر اشعث بن قیں.عمرو بن مَعْدِيَكَرِب اور طلیحہ بن خویلد کے بارے میں نعمان کو حضرت عمرؓ نے یہ لکھا کہ عمر و بن مَعْدِيكَرِب اور طلیحہ بن خویلد دونوں تمہارے ساتھ ہیں.یہ دونوں عرب کے شہسوار ہیں.253 ان سے جنگی امور میں مشورہ لیتے رہنا مگر ان کو کسی کام میں افسر نہ بنانا.251 بہر حال اسلامی لشکر روانہ ہوا.حضرت نعمان نے جاسوسوں کے ذریعہ معلوم کر لیا تھا کہ نہاوند تک راستہ صاف ہے جہاں دشمن کا لشکر جمع تھا.252 قبل از میں جو اطلاعات ملی تھیں ان سے معلوم ہو تا تھا کہ دشمن بہت بڑی تعداد میں جمع ہو رہا ہے.مؤرخین نے اس لشکر کی تعداد ساٹھ ہزار اور ایک لاکھ بھی لکھی ہے.مگر بخاری کی جو روایت ہے اس کے مطابق یہ تعداد چالیس ہزار تھی.254 یعنی جو پہلے ساٹھ ہزار یالا کھ ہے یہ مبالغہ ہے.بخاری کے مطابق تو دشمن کی تعداد چالیس ہزار تھی.دشمن نے چاہا کہ کسی شخص کو گفتگو کے لیے بھیجا جائے.حضرت مغیرہ بن شعبہ تشریف لے گئے.ایرانیوں نے بڑی شان و شوکت سے مجلس منعقد کی.ایرانی سپہ سالار سر پر تاج پہنے سنہری تخت پر الله متمكن تھا.درباری ایسے ہتھیار لگائے بیٹھے تھے کہ دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں.مترجم موجود تھا.ایرانی سپہ سالار نے وہی پرانی کہانی دہرائی.اہل عرب کی زندگی کے ہر پہلو کے لحاظ سے رذیل حالت کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اپنے سرداروں کو جو میرے گرد بیٹھے ہیں اس لیے تم لوگوں کو ختم کر دینے کا نہیں دیتا کہ میں نہیں چاہتا کہ تمہارے گندے اجسام سے ان کے تیر ناپاک ہوں.(نعوذ باللہ ) اگر اب بھی تم واپس چلے جاؤ تو ہم تمہیں چھوڑ دیتے ہیں ورنہ پھر میدان جنگ میں تمہاری لاشیں نظر آئیں گی.دشمن کی ان مضحکہ خیز دھمکیوں سے کیا ہوتا تھا.حضرت مغیرہ نے فرمایا کہ اب وہ زمانہ گیا جو آنحضرت صلی علیہ کم کی بعثت سے پہلے ہو تا تھا.آپ صلی ہیم کی آمد نے نقشہ ہی بدل دیا ہے.255 سفارت ناکام ہوئی بہر حال اور دونوں لشکر معرکہ آرائی کے لیے تیار ہوئے.اسلامی لشکر کے مقدمے پر نعیم بن مقرن مقرر تھے.بازوؤں کی کمان حذیفہ بن یمان اور سوید بن مقرن کے ہاتھ میں تھی.مُجردہ کے افسر قعقاع بن عمر و تھے.مجردہ گھڑ سواروں کی جو فرنٹ لائن کے گھڑ سواروں کا رسالہ ہے اس کو کہتے ہیں اور لشکر کا پچھلا حصہ مُجاشع کی سر کردگی میں تھا.256 جھڑ ہیں شروع ہو گئیں مگر میدان جنگ کی صورت حال مسلمانوں کے لیے سخت ضرررساں تھی کیونکہ دشمن خندقوں، قلعوں اور مکانوں کی وجہ سے محفوظ تھا.مسلمان کھلے میدان میں تھے.دشمن جب اپنے لیے مناسب دیکھتا اچانک باہر نکل کر حملہ کر دیتا اور پھر واپس اپنے محفوظ مقامات میں داخل ہو جاتا.257 اسلحہ کے لحاظ سے دشمن کی یہ حالت تھی کہ ایک راوی کا بیان ہے کہ میں نے انہیں ایک جگہ گزرتے دیکھا ایسے معلوم ہو تا تھا گویا لوہے کے پہاڑ ہیں.258

Page 166

حاب بدر جلد 3 146 حضرت عمر بن خطاب ان حالات کو دیکھ کر اسلامی لشکر کے سپہ سالار نعمان بن مقرن نے ایک مشورے کی مجلس منعقد کی جس میں لشکر کے تجربہ کار اور باتد بیر لوگوں کو بلوایا اور ان کو مخاطب ہو کر بولے.آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح دشمن اپنے قلعوں، خندقوں اور عمارتوں کی وجہ سے محفوظ بیٹھا ہوا ہے.جب اس کی مرضی ہوتی ہے باہر نکلتا ہے اور مسلمان اس وقت اس سے لڑائی نہیں کر سکتے جب تک خود اس کی مرضی باہر نکل کر مقابلہ کرنے کی نہ ہو.259 ادھر دشمن کو امدادی کمک بھی مسلسل مل رہی ہے.200 انہوں نے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان اس صورت حال سے کس مشکل میں مبتلا ہیں.اب کیا طریق اختیار کیا جائے کہ دیر کیے بغیر ہم دشمن کو کھلے میدان میں آکر مقابلہ کے لیے مجبور کر دیں.سپہ سالار کی اس بات کو سن کر اس مجلس میں سب سے عمر رسیدہ شخص عمرو بن نینی بولے.وہ قلعوں میں محصور ہیں.انہوں نے کہا کہ دشمن قلعوں میں محصور ہے اور محاصرہ لمبا ہو رہا ہے اور یہ امر اسلامی لشکر کی نسبت دشمن پر زیادہ گراں اور تکلیف دہ ہے.اس لیے آپ اس طرح چلنے دیجیے اور محاصرہ لمبا کرتے چلے جائیں.ہاں ان میں جو لڑنے نکلتے ہیں ان سے مقابلہ جاری رکھا جائے مگر عمر و بن چینی کی یہ تجویز مجلس نے منظور نہ کی.اس کے بعد عمرو بن معدیکرب نے کہا گھبرانے اور ڈرنے کی کوئی بات نہیں.پوری طاقت سے آگے بڑھ کر دشمن پر حملہ کیا جائے مگر یہ تجویز بھی رڈ کر دی گئی.تجربہ کاروں نے یہ اعتراض کیا کہ آگے بڑھ کر حملہ کرنے کی صورت میں ہمیں انسانوں سے مقابلہ نہیں کرنا پڑتا بلکہ دیواروں سے ٹکر لینی پڑتی ہے.یہ دیوار میں ہمارے خلاف دشمن کو مدد دیتی ہیں.یعنی قلعہ میں بند ہیں.دشمن تو سامنے نہیں ہے.اس پر طلیعه کھڑے ہوئے اور بولے میرے نزدیک ان دونوں صاحبوں کی رائے درست نہیں ہے.میری رائے یہ ہے کہ ایک چھوٹا سا رسالہ دشمن کی طرف بھیجا جائے جو قریب جا کر تیر اندازی کر کے کچھ لڑائی ہے بھڑ کانے کی صورت پیدا کرے.اس رسالے کے مقابلہ کے لیے دشمن باہر نکلے گا اور ہمارے رسالے کا مقابلہ کرے گا.اس صورت میں ہمارا رسالہ پیچھے ہٹنا شروع کر دے اور یہ ظاہر کرے گویاوہ شکست کھا کر بھاگ رہا ہے.امید ہے کہ دشمن فتح کی طمع میں باہر نکلے گا اور جب وہ باہر کھلے میدان میں آجائے تو ہم اس سے اچھی طرح نمٹ لیں گے.261 حضرت نعمان نے یہ تجویز منظور کرلی اور اسے حضرت قعقاع کے سپر د کیا کہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنائیں.انہوں نے طلیحہ کی تجویز پر عمل کیا اور بعینہ ویسا ہی ظہور میں آیا جو طلیحہ کا خیال تھا.قعقاع آہستہ آہستہ شکست کھا کر ہٹتے چلے گئے اور دشمن کا لشکر فتح کے نشے میں بڑھتا چلا آیا حتی کہ سب اپنے قلعوں سے باہر نکل آئے.صرف دروازوں پر مقرر کردہ پہرے دار، پہرہ دینے والے سپاہی اپنے محفوظ مقامات میں اندر رہ گئے.دشمن کی فوج اپنی مستحکم پوزیشنوں سے باہر آکر بڑھتے بڑھتے اصل اسلامی لشکر سے اس قدر قریب آگئی کہ اس کے تیروں سے بعض مسلمان زخمی ہو گئے مگر حضرت نعمان

Page 167

اصحاب بدر جلد 3 147 حضرت عمر بن خطاب نے ابھی عام مقابلے کی اجازت نہ دی تھی.حضرت نعمان عاشق رسول تھے اور آنحضرت کی یہ کم کا عام معمول یہ تھا کہ اگر صبح جنگ شروع نہ ہو تو پھر زوال کے بعد لڑائی کا اقدام فرماتے جبکہ گرمی کی شدت نہ رہتی اور ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتیں.بعض مسلمان مقابلے کے لیے بے قرار تھے اور دشمن کے تیروں سے کچھ لوگوں کے زخمی ہو جانے سے یہ جوش اور بھی بڑھ گیا تھا.وہ سر دار لشکر کی خدمت میں جاکر اجازت مانگتے اور آپ کہتے کہ ذرا اور انتظار کر و یعنی کمانڈر نے ان کو کہا کہ اور انتظار کرو.حضرت مغیرہ بن شعبہ بے قرار ہو کر بولے.میں ہو تا تو مقابلے کی اجازت دے دیتا.نعمان نے جواب دیا ذرا دیر اور صبر کرو.بے شک جب آپ امیر ہوتے تھے تو عمدہ انتظام کرتے تھے مگر آج بھی خدا ہمیں اور آپ کو رسوا نہیں کرے گا.جو چیز آپ جلدی کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں ہمیں اس کو تحمل سے کام لے کر حاصل کرنے کی امید ہے.جب دو پہر ڈھلنے کو تھی تو حضرت نعمان گھوڑے پر سوار ہوئے اور سارے لشکر کا چکر لگایا اور ہر جھنڈے کے پاس کھڑے ہو کر نہایت پُر جوش تقریر کی.262 اور نہایت درد ناک الفاظ میں اپنی شہادت کے لیے دعا کی جس کو سن کر لوگ رونے لگے.اس کے بعد آپ نے ہدایت کی کہ میں تین مرتبہ تکبیر کہوں گا اور ساتھ ہی جھنڈ ا ہلاؤں گا.پہلی مرتبہ ہر شخص مستعد ہو جائے.دوسری دفعہ ہتھیار تول لے یعنی ہتھیاروں کو تیار رکھے اور دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بالکل تیار ہو جائے اور تیسری مرتبہ تکبیر کہنے اور جھنڈ اہلانے کے ساتھ ہی میں دشمن کی صفوں پر جا پڑوں گا.تم میں سے ہر شخص اپنے مقابل کی صفوں پر حملہ کر دے.اس کے بعد دعا کی کہ اے خدا! اپنے دین کو عزت دے.اپنے بندوں کی نصرت فرما اور اس کے بدلے میں نعمان کو پہلا شہید ہونے کی توفیق عطا کر.یعنی کمانڈر نے یہ دعا کی.حضرت نعمان نے تیسری بار تکبیر کہی تھی کہ مسلمان دشمن کی صفوں پر ٹوٹ پڑے.راوی کہتا ہے کہ جوش کا یہ عالم تھا کہ کسی ایک کے متعلق بھی یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مرے یا فتح حاصل کیے بغیر واپس جانے کا خیال بھی رکھتا ہو.نعمان جھنڈا لیے خود اس تیزی سے دشمن پر لیکے کہ دیکھنے والوں کو یوں معلوم ہو تا تھا کہ جھنڈا نہیں بلکہ کوئی عقاب جھپٹا مار رہا ہے.غرض مسلمان تلواریں لے کر یکجائی طور پر حملہ آور ہوئے مگر دشمن کی صفیں بھی اس ریلے کے سامنے جمی ہوئی تھیں.لوہے کے لوہے سے ٹکرانے سے سخت شور ہو رہا تھا.زمین پر خون بہنے کی وجہ سے مسلمان شہ سواروں کے گھوڑے پھسلنے لگے.حضرت نعمان جنگ میں زخمی ہو گئے تھے.آپ کا گھوڑا بھی پھسلا اور آپ زمین پر گر پڑے.آپ اپنی سفید قبا اور ٹوپی کی وجہ سے نمایاں طور پر نظر آتے تھے.آپ کے بھائی نعیم بن مقرن نے جب آپ کو گرتے دیکھا تو کمال ہوشیاری سے جھنڈا گرنے سے قبل ہی اٹھالیا اور حضرت نعمان کو کپڑے سے ڈھانک دیا اور جھنڈا لے کر حذیفہ بن یمان کے پاس آئے جو حضرت نعمان کے جانشین تھے.حضرت حلیفہ نُعیم بن مُقَرَّن کو

Page 168

اصحاب بدر جلد 3 148 حضرت عمر بن خطاب لے کر اس مقام پر آگئے جہاں نعمان تھے اور اس جگہ جھنڈ ابلند کر دیا گیا اور حضرت مغیرہ کے مشورہ کے مطابق لڑائی کا نتیجہ نکلنے تک حضرت نعمان کی وفات کو مخفی رکھا گیا.263 264 اخبار الطوال میں لکھا ہے کہ حضرت نعمان بن مقرن "جب زخمی ہو کر گرے تو ان کے بھائی انہیں اٹھا کر خیمہ میں لے گئے اور ان کا لباس خود پہن لیا اور ان کی تلوار لے کر ان کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اور اکثر لوگوں کو یہی غلط فہمی رہی کہ یہ حضرت نعمان ہیں.مؤرخ طبری نے نہایت نازک مرحلے پر امیر کے حکم کی اطاعت کی عمدہ مثال لکھی ہے.حضرت نعمان نے اعلان کر دیا تھا کہ اگر نعمان بھی قتل ہو جائے تو کوئی شخص لڑائی چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ دشمن سے مقابلہ جاری رکھے.معقل کہتے ہیں کہ جب حضرت نعمان گرے تو میں آپ کے پاس آیا پھر مجھے آپ کا حکم یاد آیا اور میں واپس چلا گیا.265 اور لڑائی شروع کر دی.بہر حال لڑائی دن بھر بڑے زور سے جاری رہی مگر رات ہوتے ہی دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے اور میدان مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور ایرانیوں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے.266 معْقِل کہتے ہیں کہ فتح کے بعد میں حضرت نعمان کے پاس آیا.ان میں رمق باقی تھی.تھوڑی سی سانس لے رہے تھے.میں نے ان کا چہرہ اپنی چھا گل سے دھویا.آپ نے میر انام پوچھا اور دریافت کیا کہ مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے فتح و نصرت کی بشارت ہو.آپ نے فرمایا الحمد للہ عمر کو اطلاع کر دو.267 حضرت عمر نہایت شدت سے لڑائی کے نتیجہ کے منتظر تھے.جس رات لڑائی کی توقع تھی وہ رات حضرت عمر نے نہایت بے چینی سے جاگ کر گزاری.208 راوی کہتے ہیں کہ اس تکلیف سے دعا میں مصروف رہے کہ معلوم ہوتا کہ کوئی حاملہ عورت تکلیف میں ہے.قاصد فتح کی خوشخبری لے کر مدینہ پہنچا.حضرت عمر نے الحمد للہ کہا اور نعمان کی خیریت پوچھی.قاصد نے ان کی وفات کی خبر سنائی تو حضرت عمر کو سخت صدمہ ہوا.269 اور سر پہ ہاتھ رکھ کر روتے رہے.270 قاصد نے دوسرے شہداء کے نام سنائے اور کہا کہ امیر المومنین! اور بھی بہت سے مسلمان شہید ہوئے ہیں جنہیں آپ نہیں جانتے.حضرت عمر روتے ہوئے بولے، عمر انہیں نہیں جانتا تو انہیں اس کا کوئی نقصان نہیں خدا تو ا نہیں جانتا ہے.271 گو مسلمانوں میں غیر معروف ہیں مگر خدا نے ان کو شہادت دے کر معزز کر دیا ہے.اللہ ان کو پہچانتا ہے.عمر کے پہچاننے سے انہیں کیا غرض.معرکے کے بعد مسلمانوں نے هَمَذَان تک دشمنوں کا تعاقب کیا.یہ دیکھ کر ایرانی سردار خشتر و شَنُوم نے هَمَذَان اور دستینی کے شہروں کی طرف سے اس ضمانت پر مصالحت کر لی کہ ان شہروں سے مسلمانوں پر حملہ نہیں ہو گا.اسلامی لشکر نے شہر بہاؤند پر قبضہ کر لیا.272

Page 169

صحاب بدر جلد 3 149 حضرت عمر بن خطاب نہاوند کی فتح اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت اہم تھی.اس کے بعد ایرانیوں کو ایک جگہ مجتمع ہو کر مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا اور مسلمان اس فتح کو فتح الفتوح کے نام سے یاد کرنے لگے.273 ایران پر عام لشکر کشی کی تجویز بھی ہوئی.کس طرح ہوئی؟ اس بارہ میں لکھا ہے کہ گو اخلاقی اور قانونی نقطہ نظر سے مسلمان اس امر کے بالکل مجاز تھے کہ مملکت کی جارحانہ طاقت کو پوری طرح توڑ کر دم لیں کیونکہ دشمن بار بار حملہ کر رہا تھا.حضرت عمر کا درد مند دل ہر مرحلے پر مزید خونریزی سے متنفر تھا لیکن حضرت عمرگو یہ چیز پسند نہیں تھی اور رحمت للعالمین مال لینے کے اس بچے خادم کی قلبی خواہش تھی کہ ایرانی سلطنت سرحدی علاقوں پر ہی شکست کھا کر مزید فوجی کارروائیاں بند کر دے اور یہ جنگ وجدال کا سلسلہ بند ہو جائے.حضرت عمرؓ نے نہ صرف اس خواہش کا متعدد مرتبہ اظہار کیا بلکہ ایران و عراق کی افواج کو خود بخود کسی پیش قدمی سے کلیہ منع کر دیا تھا مگر دشمن کی مزید فوجی کارروائیوں اور مفتوحہ علاقوں میں بار بار بغاوت کر ا دینے کے سبب سے آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور محاذ جنگ سے آمدہ اہل الرائے کے ایک وفد سے گفتگو کر کے آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مزید فوجی اقدام کیے بغیر کوئی چارہ نہیں.یہ سترہ ہجری کی بات ہے مگر اس کے باوجود بھی ایک لمبے عرصہ تک آپ نے افواج کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی.مگر اب حالات جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے مزید صبر کی اجازت نہ دیتے تھے.حضرت عمرؓ نے دیکھ لیا تھا کہ یزدجرد متواتر ہر سال فوج کو بھیج کر جنگ کی آگ بھڑ کانے کا موجب بن رہا ہے.لوگوں نے بار بار آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ جب تک وہ اپنی سلطنت میں موجود ہے اس رویہ میں تبدیلی نہیں کرے گا اور اب نہاوند کے معرکے نے اس رائے کو اور بھی مضبوط کر دیا تھا.ان حالات سے مجبور ہو کر حضرت عمرؓ نے معرکہ نہاوند اکیس ہجری کے بعد فوجی پیش قدمی کی اجازت دے دی تھی اور گل ایران کی فتح کے لیے پلان (plan) بنا کر فوج کوفہ روانہ کی جو ان جنگی سرگرمیوں کے لیے چھاؤنی کی حیثیت رکھتا تھا.حضرت عمرؓ نے ایران کے مختلف علاقوں کے لیے مختلف سپہ سالار مقرر کیے اور مدینہ سے ان کے لیے خود جھنڈے بنوا کر بھجوائے.خُراسان کا جھنڈا احنف بن قیس کو ، اضطغر کا جھنڈا عثمان بن ابو عاص کو ، اردشیر اور سابور کا جھنڈ امجاشع بن مسعود کو اور فسا اور دَارًا بجرد کا ساريه بن زُنَیم کو، سجستان کا عاصم بن عمرو کو مکر ان کا حکم بن عمرو کو بھیجا اور گزمان کا جھنڈ اسھیل بن عدی کو دیا.آذربائیجان کی فتح کے لیے عُتبہ بن فرقد اور بگیر بن عبد اللہ کو جھنڈے بھیجے اور حکم دیا کہ ایک آذر بائیجان پر دائیں طرف حُلوان سے حملہ کرے اور دوسرا بائیں طرف موصل کی طرف سے حملہ آور ہو.اصفہان کی مہم کا جھنڈ ا عبد اللہ بن عبد اللہ کو عنایت ہوا.274 اصفہان کی فتح کے بارے میں لکھا ہے کہ اصفہان کی مہم عبد اللہ بن عبد اللہ کے سپر د ہوئی.وہ نهاوند میں تھے کہ حضرت عمر کا خط ملا کہ اصفہان کی طرف روانہ ہوں اور ہر اول دستوں کا کمانڈر عبد اللہ

Page 170

اصحاب بدر جلد 3 150 حضرت عمر بن خطاب بن ورقاء ریاحی کو بنائیں.بازوؤں کی کمان عبد اللہ بن ورقاء آسدی کو اور عضمہ بن عبد اللہ کے سپرد کریں.عبد اللہ روانہ ہوئے.شہر کے مضافات میں اصفہان والوں کے ایک لشکر سے مقابلہ ہوا جو ایرانی سپہ سالار استندار کی سر کر دگی میں تھا.دشمن کے ہر اول کا افسر یعنی جو پہلا دستہ تھا اس کا افسر ایک تجربہ کار بوڑھا شھر بَرازُ جَاذَوَیہ تھا.اس نے اپنے دستوں کو لے کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا.شدید جنگ ہوئی.جَازَ وَیہ نے مُبَارَز طلبی کی.عبد اللہ بن ورقاء نے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا.سخت لڑائی کے بعد دشمن شکست کھا کر بھاگ گیا اور سپہ سالاراشتنداز نے عبد اللہ بن عبد اللہ سے مصالحت کر لی.اسلامی لشکر خاص اصفہان کی طرف بڑھا جو کہ جی کے نام سے موسوم تھا اور شہر کا محاصرہ کر لیا.ایک روز شہر کا حاکم فَاذُو شفان باہر نکلا اور عبد اللہ بن عبد اللہ امیر اسلامی لشکر کو کہا کہ ہماری افواج کی لڑائی سے بہتر ہے کہ ہم تم آپس میں لڑیں جو اپنے حریف پر غالب ہو گیا وہ فالح سمجھا جائے گا.عبد اللہ نے یہ تجویز منظور کرلی اور کہا کہ پہلے تم حملہ کرو گے یا میں.فاذ وشفان نے پہلے حملہ کیا.عبد اللہ اس کے سامنے جمعے رہے اور دشمن کی ضرب سے صرف ان کے گھوڑے کی زین کٹ گئی.عبد اللہ گھوڑے کی نگی پشت پر جم کر بیٹھ گئے اور وار کرنے سے پہلے اس کو مخاطب کیا.اب ٹھہرے رہنا.فَا ذُو شفان بولا کہ آپ کامل اور عظمند اور بہادر انسان ہیں میں آپ سے مصالحت کر کے شہر آپ کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہوں چنانچہ صلح ہو گئی اور مسلمان شہر پر قابض ہو گئے.طبری سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتح 21 / ہجری میں ہوئی.275 مؤرخ بلاذری نے اس معرکے میں شریک ہونے والے اسلامی لشکر کی امارت پر عبد اللہ بن عبد اللہ کے بجائے عبد اللہ بن بدیل بن ورقاء خُزاعی کا نام لیا ہے.مگر مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے عبد اللہ بن ورقاء اسدی کو جو اس معرکے میں 277 276 شریک تھے اور ایک بازو کے کمانڈر تھے عبد اللہ بن بدیل بن ورقاء سے مخلوط کر دیا ہے.حالانکہ عبد اللہ بن بدیل، حضرت عمرؓ کے زمانے میں کم عمر تھے اور صفین کی جنگ میں جب وہ قتل ہوئے تو ان کی عمر صرف چوبیس سال تھی.همدان کی بغاوت اور دوبارہ فتح.نہاوند کے بعد مسلمانوں نے هَمَذَان بھی فتح کر لیا تھا تا ہم هَمَذَان والوں نے صلح کے معاہدے کو توڑ دیا اور آذربائیجان سے بھی فوجی مدد حاصل کر کے لشکر تیار کر لیا.حضرت عمرؓ نے نعیم بن مقرن کو بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ وہاں جانے کی ہدایت فرمائی.ایک سخت معرکے کے بعد مسلمانوں نے شہر فتح کر لیا.278 حضرت عمر کو اس معرکے کے نتیجہ کی خاص فکر تھی.قاصد فتح کی خوشخبری لایا.حضرت عمرؓ نے اس کے ذریعہ نعیم بن مقرن کو حکم بھیجا کہ هَمَذَان میں کسی کو اپنا قائمقام بنا کر خود رے کی طرف بڑھیں اور وہاں جو لشکر ہے اس کو شکست دے کر رے میں ہی قیام کریں کیونکہ اس شہر کو اس تمام

Page 171

اصحاب بدر جلد 3 151 حضرت عمر بن خطاب علاقے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے.جنگ رے 279 حضرت عمر کے زمانے میں ایک جنگ ہوئی جسے جنگ رے کہتے ہیں.رے ایک مشہور شہر ہے جو پہاڑوں کی سر زمین ہے.یہ نیشا پور سے 480 میل کے فاصلے پر اور قزوین سے 51 میل کے فاصلے پر ہے.رے کے رہنے والے کو رازی کہتے ہیں.مشہور مفسر قرآن حضرت امام فخر الدین رازی رے کے رہنے والے تھے.رے کا حاکم سِيَاوَخُش بن مِهْرَان بن بهرام شُوْبِيْن تھا.اس نے دُنْبَاوَند طبَرِستان، قومِس اور جُرْجَانُ والوں کو اپنی امداد کے لیے بلایا اور ان کو کہا کہ مسلمان رے پر حملہ آور ہیں.تم ان کے مقابلے کے لیے جمع ہو جاؤ ورنہ پھر الگ الگ تم ان کے سامنے کبھی نہ ٹھہر سکوگے.چنانچہ ان علاقوں کی امدادی افواج بھی رے میں جمع ہو گئیں.ابھی یہ مسلمان جو تھے رے کے راستے میں ہی تھے کہ ایک ایرانی سردار ابو الْفَرِخان زَيْنَبِی مصالحانہ طور پر مسلمانوں سے آملا جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس کی رے کے حاکم سے لگتی تھی.حاکم ہے لشکر جب رے پہنچا تو دشمن کی تعداد اور اسلامی لشکر کی تعداد میں کوئی مناسبت نہیں تھی.یہ صورت دیکھ کر زینبی نے نعیم کو کہا کہ آپ میرے ساتھ کچھ شہسوار بھیجے میں خفیہ راستے سے شہر کے اندر جاتا ہوں، آپ باہر سے حملہ آور ہوں اور شہر فتح ہو جائے گا.چنانچہ رات کے وقت نعیم بن مقرن نے اپنے بھتیجے مُنذر بن عمرو کی سرکردگی میں رسالے کا کچھ حصہ زینی کے ہمراہ بھیج دیا اور ادھر باہر سے لشکر لے کر خود شہر پر حملہ آور ہوئے.جنگ شروع ہو گئی.دشمن نے بڑی ثابت قدمی سے حملہ کا جواب دیا مگر جب اپنی پشت سے ان مسلمانوں کے نعروں کی آواز سنی جو زینبی کے ہمراہ شہر کے اندر داخل ہو گئے تھے تو ہمت ہار دی اور شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا.شہر والوں کو تحریر امان دے دی گئی اور جو امان دی اس کے الفاظ اس طرح ہیں.بسم اللہ الرحمن الرحیم.یہ وہ تحریر ہے جو نعیم بن مقرن، زینبی کو دیتے ہیں.وہ باشند گان رے اور باہر کے باشندوں کو جو ان کے ساتھ ہیں امان دیتے ہیں اس شرط پر کہ ہر بالغ سالانہ حسب طاقت جزیہ دے اور یہ کہ وہ خیر خواہی کرے.راستہ بتائیں اور خیانت اور دھوکا بازی نہ کریں اور ایک دن رات مسلمانوں کی میزبانی کریں اور ان کی تعظیم کریں.جو مسلمانوں کو گالی دے گا سزا پائے گا اور جو اس پر حملہ کرے گا مستوجب ہو گا.بہر حال یہ تحریر ہو کر گواہی ڈالی گئی.280 پھر فتح قومیس اور جُز جان ہے.یہ بائیس ہجری کی ہیں.رے کی فتح کی خوشخبری حضرت عمرؓ کے پاس قاصد لے کر پہنچا تو آپ نے نعیم بن مقرن کو لکھا کہ اپنے بھائی سُوَيْد بن مُقَرِن کو قُومِیس کی فتح کے لیے بھیج دو.یہ شہر رے اور نیشا پور کے درمیان طبرستان کے پہاڑی سلسلہ کے آخری حصہ پر واقع

Page 172

حاب بدر جلد 3 152 حضرت عمر بن خطاب تھا.قومیس والوں نے کوئی مزاحمت نہ کی اور سوئید نے ان لوگوں کے لیے امان اور صلح کی تحریر لکھ دی.اس کے ساتھ ہی جرجان جو طبرستان اور خُراسان کے درمیان ایک بڑا شہر تھا اور طبرستان کے لوگوں نے بھی سوید کی طرف اپنے لوگ بھیجے اور انہوں نے بھی جزیہ پر صلح کر لی.سوئیں نے سب علاقے کے لوگوں کے لیے امان اور صلح کی تحریر لکھ کر دے دی.281 کوئی مذہب کی بات نہیں ہوئی.جنہوں نے صلح کی ان کے ساتھ صلح کرلی گئی.پھر فتح آذر بائیجان ہے.یہ بھی بائیس ہجری کی ہے.حضرت عمر کی طرف سے آذر بائیجان کی مہم کا جھنڈ ا عتبہ بن فرقد اور بگیر بن عبد اللہ کو دیا گیا تھا جو پہلے بیان ہو چکا ہے.اور حضرت عمرؓ نے ہدایت کی تھی کہ دونوں الگ الگ اطراف سے حملہ آور ہوں.بگیر بن عبد اللہ لشکر لے کر بڑھے اور جزمِیذَان کے قریب رستم کا بھائی اسفنديَاذْ بن فرخزاد جو وَ اجْرُوذ کے معرکہ میں شکست کھا کر بھاگا تھا مقابلہ کے لیے نکلا.یہ بگیر کا آذر بائیجان میں پہلا معرکہ تھا.لڑائی ہوئی.دشمن کو شکست ہوئی اور اسفند یاڈ گرفتار ہو گیا.اسفند یاذ نے اسلامی سالار بگیر سے پوچھا کہ آپ صلح پسند کرتے ہیں یا جنگ؟ بگیر نے جواب دیا کہ صلح.وہ بولا تو پھر آپ مجھے اپنے پاس ہی رکھیں.اپنی قید میں لے لیا ہے تو اپنی قید میں رکھو.جب تک میں ان لوگوں کا نمائندہ بن کر آپ سے صلح نہ کروں گا یہ لوگ کبھی مصالحت نہیں کریں گے.جنگ لڑتے رہیں گے جبکہ ارد گرد کے پہاڑوں میں منتشر ہو جائیں گے یا یہ لوگ قلعوں میں محصور ہو جائیں گے.بگیر نے اسفندیاڈ کو اپنے پاس ہی رکھا.آہستہ آہستہ اور علاقہ ان کے زیر اقتدار آتا چلا گیا.عتبہ بن فرقد نے دوسری جانب سے حملہ کیا.اسفند یاذ کا بھائی بہرام ان کے راستے میں حائل ہوا مگر لڑائی کے بعد شکست کھا کر بھاگ گیا.اسفند یاز نے جب یہ خبر سنی تو کہنے لگا کہ اب لڑائی کی آگ بجھ گئی اور صلح کا وقت آگیا.چنانچہ اس نے صلح کر لی اور آذربائیجان کے باشندوں نے اس کا ساتھ دیا اور یہ صلح نامہ لکھا گیا.اس کے الفاظ یہ تھے جو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتا ہے.یہ تحریر ہے جو امیر المومنین عمر بن خطاب کے عامل عتبه بن فرقد آذربائیجان کے باشندوں کو دیتے ہیں.آذربائیجان کے میدانی علاقے اور پہاڑی علاقے اور سرحدی اور کناروں کے علاقے کے رہنے والوں اور تمام مذاہب والوں کے لیے یہ تحریر ہے.ان سب کو امان ہے اپنے نفوس کے لیے، اپنے اموال کے لیے، اپنے مذاہب کے لیے ، اپنی شریعتوں کے لیے اس شرط پر کہ وہ جزیہ ادا کریں اپنی طاقت کے مطابق.جو بھی ان کی طاقت ہے اس کے مطابق جزیہ ادا کریں.لیکن جزیہ نہ بچے پر ہو گا نہ عورت پر نہ لمبے بیمار پر جو ایک مستقل بیمار ہے جس کے پاس مال نہیں، نہ اس عابد گوشہ نشین پر جس کے پاس کچھ مال نہیں اور یہ یہاں کے باشندوں کے لیے بھی ہے اور ان کے لیے بھی جو باہر سے آکر ان کے ساتھ آباد ہو جائیں.آئندہ آنے والوں اور وہاں آباد ہونے والوں کے لیے بھی ہے.ان کے ذمہ اسلامی لشکر کی ایک دن رات مہمان نوازی ہے اور اس کو راستہ بتانا ہے.اگر کسی سے کوئی فوجی خدمت لی جائے گی تو اس سے

Page 173

اصحاب بدر جلد 3 153 حضرت عمر بن خطاب جزیہ ساقط کر دیا جائے گا.جو یہاں قیام کرے اس کے لیے یہ شرائط ہیں اور جو یہاں سے باہر جانا چاہے وہ امن میں ہے حتی کہ اپنے امن کے مقام پر چلا جائے.یہ تحریر جندب نے لکھی اور اس کے گواہ ہیں بگیر بن عبد اللہ اور سیتماك بن خَرَشَة - 282 آرمینیا کی مصالحت کے بارے میں لکھا ہے کہ آذربائیجان کی فتح کے بعد بگیر بن عبد اللہ آرمینیا کی طرف بڑھے.ان کی امداد کے لیے حضرت عمرؓ نے ایک لشکر سراقہ بن مالک بن عمرو کی سرکردگی میں بھجوایا اور اس مہم میں سپہ سالار اعلیٰ بھی سراقہ کو مقرر کیا اور ہر اول دستوں کی کمان عبد الرحمن بن ربیعہ کو دی.ایک بازو کا افسر حذیفہ بن اسید غفَارِی کو بنایا اور یہ حکم دیا کہ جب یہ لشکر نکیر بن عبد اللہ کے لشکر سے جو آرمینیا کی طرف روانہ تھا جاملے تو دوسرے بازو کی کمان بکیر بن عبد اللہ کے سپرد کی جائے.یہ لشکر روانہ ہوا اور ہر اول دستوں کے افسر عبد الرحمن بن ربیعہ سرعت سے نقل و حرکت کرتے ہوئے بکیر بن عبد اللہ کے لشکر سے آگے نکل کر باب مقام کے قریب جا پہنچے جہاں شَهْرَ بَرَازُ حاکم آرمینیا مقیم تھا.یہ شخص ایرانی تھا.اس نے خط لکھ کر عبدالرحمن سے امان حاصل کی اور عبدالرحمن کی خدمت میں حاضر ہوا.وہ ایرانی تھا اور آرمینیوں سے اسے نفرت تھی.اس نے عبد الرحمن کے پاس صلح کی پیشکش کی اور کہا کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے.میں حسب ضرورت فوجی امداد دیا کروں گا.یہاں یہ ایک اور طرز کا معاہدہ ہو رہا ہے.خود آگیا ہے.صلح کر لی تو جزیہ نہ لیا جائے.میں مدد کرتا ہوں، فوجی مدد کروں گا.سراقہ نے یہ تجویز منظور کرلی اور بغیر جنگ کے آرمینیا پر قبضہ ہو گیا.حضرت عمر کی خدمت میں جب اس قسم کی صلح کی رپورٹ کی گئی تو نہ صرف یہ کہ آپ نے اسے منظور کر لیا بلکہ بڑی مسرت اور پسندیدگی کا اظہار فرمایا.حضرت سراقہ نے جو تحریر صلح کی دی وہ یہ تھی کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم.یہ وہ تحریر ہے جو امیر المومنین عمر بن خطاب کے گورنر سراقہ بن عمرو نے شهر براز اور آرمینیا اور آرمن کے باشندوں کو دی ہے وہ انہیں امان دیتے ہیں ان کی جانوں پر ، اموال پر اور مذہب پر کہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے.وہ حملے کی صورت میں فوجی خدمت سر انجام دیں گے اور ہر اہم کام میں جب حاکم مناسب سمجھے مدد دیں گے اور جزیہ ان پر نہیں لگایا جائے گا بلکہ فوجی خدمت جزیہ کے بدلے میں ہو گی.مگر جو فوجی خدمت نہ دیں ان پر اہل آذر بائیجان کی طرح جزیہ ہے اور راستہ بتانا ہے اور پورے ایک دن کی میزبانی ہے لیکن اگر ان سے فوجی خدمت کی جائے گی تو جزیہ نہ لیا جائے گا.اگر فوجی خدمت نہ لی جائے گی تو جزیہ لگایا جائے گا.پھر اس کے بھی گواہ ہیں عبد الرحمن بن ربیعہ اور سلمان بن ربیعه، بگیر بن عبد اللہ.یہ تحریر جو ہے مرضی بن مقرن نے لکھی اور یہ بھی گواہ ہیں.اس کے بعد سراقہ نے آرمینیا کے ارد گرد کے پہاڑوں کی طرف افواج بھیجنا شروع کیں.چنانچہ بکیر بن عبد اللہ ، حبيب بن مَسْلَمَه، حذيفه بن اسید اور سلمان بن ربیعہ کی سرکردگی میں ان پہاڑوں کی طرف افواج روانہ ہوئیں.بکیر بن عبد اللہ کو موقان بھیجا گیا.حبیب کو تفلیس کی طرف روانہ کیا اور محذیفہ بن

Page 174

اصحاب بدر جلد 3 154 حضرت عمر بن خطاب اُسید کو لان کے پہاڑوں میں رہنے والوں کے مقابلے کے لیے بھیجا.سراقہ کی ان افواج میں نمایاں کامیابی بکیر بن عبد اللہ کو ہوئی.انہیں موقان بھیجا گیا تھا.انہوں نے موقان کے باشندوں کو امن کی تحریر دے دی اور یہ تحریر یوں تھی جو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتی ہے: 283 یہ وہ تحریر ہے جو بکیر بن عبد اللہ نے فتح کے پہاڑوں میں اہل موقان کو دی ہے.ان کو امان ہے ان کی جانوں پر ، ان کے مالوں پر ، ان کے مذہب پر ، ان کی شریعتوں پر اس شرط پر کہ وہ جزیہ دیں جو ہر بالغ پر ایک دینار یا اس کی قیمت ہے.ہر جگہ یہ جو معاہدے ہو رہے ہیں وہاں مذہب پہ آزادی ہے ، شریعت کی آزادی ہے.جو الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام نے مذہب تلوار سے پھیلایا، کسی کو نہیں کہا گیا کہ زبر دستی اسلام لاؤ.اور خیر خواہی کریں اور مسلمانوں کو راستہ دکھائیں اور ایک دن رات کی میز بانی کریں.ان کے لیے امان ہو گی جب تک وہ اس عہد نامے پر قائم رہیں اور خیر خواہ رہیں اور ہمارے ذمہ ان سے وفاداری ہے.واللهُ الْمُسْتَعَانُ اللہ مددگار ہے لیکن اگر وہ اس عہد کو ترک کر دیں اور کوئی قریب ان سے سرزد ہو تو ان کی امان باقی نہ ہو گی مگر یہ کہ وہ دھوکا کرنے والوں کو حکومت کے سپر د کر دیں ورنہ وہ بھی ان کے شریک سمجھے جائیں گے.اس کے بھی گواہ مقرر تھے.چار پانچ گواہوں نے دستخط کیے.پھر فتح خراسان ہے جو بائیس ہجری میں ہوئی.اس کی تفصیل یوں ہے کہ جنگ جلولاء کے بعد بادشاہ ایران یزدجر درے پہنچا.وہاں کے حاکم آبَان جَازَوَیہ نے یزدجرد پر حملہ کر دیا اور یزدجرد کی مہر پر قبضہ کر کے اپنی مرضی کی دستاویز تیار کر لیں اور پھر وہ انگو ٹھی اسے واپس کر دی.پھر آبان حضرت سعد کے پاس آیا اور وہ تمام چیزیں واپس کر دیں جو تحریری طور پر لکھی ہوئی تھیں.یعنی جو دستاویز تیار کی گئی تھیں وہ انہیں دے دیں.یزدجر درے سے اصفہان کی طرف روانہ ہوا.آبان کو یزدجرد کا وہاں قیام پسند نہ آیا.اس لیے یزدجرد کو گرمان کی طرف روانہ ہونا پڑا.مقدس آگ اس کے ساتھ تھی.یہ لوگ آگ پرست تھے تو آگ کو ساتھ لیے پھرتے تھے.جو ان کی مقدس آگ تھی وہ اس کے ساتھ تھی.پھر اس نے محراسان کا ارادہ کیا اور مزو میں آکر مقیم ہو گیا.مقدس آگ کو وہاں روشن کر دیا اور اس کے لیے آتش کدہ تعمیر کروایا اور باغ لگوایا جو مزو سے دو فرسخ یعنی چھ میل کے فاصلے پر تھا.یہاں آ کر وہ امن و امان سے رہنے لگا.غیر مفتوحہ علاقوں کے اہل عجم سے خط و کتابت کی اور راہ ورسم بڑھانے لگا یہاں تک کہ وہ سب اس کے مطیع اور فرمانبردار ہو گئے.نیز اس نے مفتوحہ علاقوں کے اہل فارس کو اور هرمزان کو بھی ور غلایا.چنانچہ اس ورغلانے کے نتیجہ میں انہوں نے مسلمانوں سے اپنے وفا کے بندھن توڑ ڈالے اور بغاوت کر دی.نیز اہل جبال اور اہل فیروزان نے بھی ان کی دیکھا دیکھی معاہدے توڑ دیے اور بغاوت کر دی.جبال جو ہے یہ عراق میں ایک معروف علاقے کا نام ہے جو اَصْبَہان سے لے کر زنجان، قزوین، همدان، رے وغیرہ شہروں پر مشتمل ہے.فیروزان أَصْبَهَان کی ایک بستی کا نام ہے.بہر حال ان

Page 175

اصحاب بدر جلد 3 155 حضرت عمر بن خطاب وجوہات کی بنا پر امیر المومنین حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کو اجازت دے دی کہ وہ ایران کے علاقوں میں پیش قدمی کر کے اس کے اندر گھس جائیں.چنانچہ اہل کو فہ اور اہل بصرہ روانہ ہوئے اور انہوں نے ان کی سرزمین پر پہنچ کر زبر دست حملے شروع کر دیے.احنف بن قیس خُراسان کی طرف روانہ ہوئے.راستے میں انہوں نے مہر جان قدش پر قبضہ کر لیا.مهرجان قلفی جو ہے یہ حلوان سے لے کر ہمدان تک پہاڑوں کے درمیان کا ایک وسیع علاقہ ہے جو کئی شہروں اور بستیوں پر مشتمل تھا.پھر مزید آگے بڑھتے ہوئے آصبھان کی طرف روانہ ہوئے تو اس وقت اہل کوفہ ” بھی " کا محاصرہ کیے ہوئے تھے.بجھی بھی اصبہان کے نواح میں ایک قدیم شہر کا نام تھا جو آج کل تقریب ویران ہے.عجم میں اس کو شہر نشان کہا جاتا ہے.اس لیے وہ طبسان کے راستے خُراسان میں داخل ہوئے اور ہرات پر بزور شمشیر قبضہ کر لیا.طبان ایک نواحی قصبہ ہے جو نیشا پور اور آصبحان کے درمیان واقع ہے.فارس میں اسے مفرد کے طور پر طبس پڑھتے ہیں.هَرَاتُ خُراسان کے مشہور شہروں میں سے ایک عظیم اور مشہور شہر ہے.انہوں نے وہاں صحار بن فُلاں عبدی کو اپنا جانشین بنایا اور پھر مزید آگے بڑھتے ہوئے مَرُ وشَاہ جَهَاں کی طرف روانہ ہوئے.مَروشَاهِ جَهَاں خُراسان کے شہروں اور قصبوں میں سب سے مشہور ہے.یہ نیشا پور سے 210 میل کے فاصلے پر واقع ہے.اس دوران در میان میں کسی سے کوئی جنگ نہیں ہوئی.اس لیے نیشا پور کی طرف مطرف بن عبد اللہ بن شیخیر کو بھیجا اور ستر خش کی طرف حارث بن حسان کو روانہ کیا.سرخش بھی خُراسان کے نواح میں ایک پرانا اور بڑا شہر ہے جو نیشا پور اور مرو کے درمیان واقع ہے.بہر حال جب آخنف بن قیس مَرُوشَاهِ جَهَاں کے قریب پہنچا تو یز دَجَرد مَرُورُود چلا گیا اور وہاں رہنے لگا.مرور و ذ جو ہے اس کا یہ نام اس لیے ہے کہ مزو اس سفید پتھر کو کہتے ہیں جس میں آگ جلائی جاتی ہے.نہ وہ سیاہ ہوتا ہے اور نہ سرخ اور روز فارسی میں دریا کو کہتے ہیں گویا یہ دریا کا مرد ہوا.یہ مَرُ وشَاهِ جَهَاں سے پانچ دن کی مسافت پر ایک بہت بڑے دریا پر واقع ہے.احنف بن قیس مَرُوشَاهِ جَهَاں میں فروکش ہو گئے.يَزْدَجَرد نے مَرُورُود پہنچنے کے بعد خوف کے مارے مختلف حاکموں کے پاس امداد کی درخواست کی.اس نے خاقان سے بھی امداد کی درخواست کی.شاہِ صُغر کو بھی تحریر کیا کہ فوج کے ذریعہ اس کی مدد کی جائے.صغر وہ علاقہ ہے جس میں سمرقند اور بخارا وغیرہ واقع ہیں.نیز اس نے شہنشاہ چین سے بھی امداد کی درخواست کی.احنف بن قیس نے مرُ وشَادِ جَهَاں پر حَارِثَہ بن نعمان باھلی کو اپنا جانشین مقرر کیا اور اس عرصہ میں کوفہ کی فوجیں ان کے چاروں سرداروں کی قیادت میں احنف بن قیس کے پاس پہنچ گئیں.جب تمام فوجیں مَروشَادِ جَهَاں آگئیں تو احنف بن قیس نے مَرُوشَادِ جہاں سے مَرُورُوڈ کی طرف فوج کشی کی.جب یزد جرد کو یہ خبر ملی تو وہ بلخ کی طرف روانہ ہو گیا.بلخ بھی دریائے جیحون کے قریب خُراسان کا ایک خوبصورت شہر تھا چنانچہ احنف بن قیس مَرُورُود میں مقیم ہو گئے.جب کوفہ کی فوجیں براہ راست بلخ روانہ ہو گئیں تو پھر احنف بن قیس بھی ان کے پیچھے

Page 176

صحاب بدر جلد 3 156 ا حضرت عمر بن خطاب روانہ ہو گئے.بالآخر بلخ میں اہل کوفہ کی افواج اور یزدجرد کی افواج کا سامنا ہوا اور فریقین کے درمیان مقابلہ ہوا.نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے یزدجرد کو مات دے دی اور وہ ایرانیوں کو لے کر دریا کی طرف روانہ ہوا اور دریا پار کر کے بھاگ گیا.اتنے میں احنف بن قیس بھی کوفہ کی فوجوں کے ساتھ آملے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں بلی کو فتح کرادیا.اس لیے بلخ اہل کوفہ کی فتوحات میں شامل تھا.اس کے بعد خُراسان کے وہ باشندے جو بھاگ گئے تھے یا قلعہ بند ہو گئے تھے اور نیشا پور سے لے کر تخارستان کے باشندے سب صلح کے لیے آنے لگے.طخارستان : یہ جو علاقہ ہے یہ بہت سے شہروں پر مشتمل ہے اور یہ خُراسان کے نواح میں ہے.اس کا سب سے بڑا شہر طالقان ہے.اس کے بعد احنف بن قیس واپس مرور وز چلے گئے اور وہاں رہنے لگے.البتہ ربعی بن عامر جو عرب کے شرفاء میں سے تھے ان کو طخارستان میں اپنا جانشین بنایا.احنف بن قیس نے حضرت عمر کو فتح خُراسان کی خبر لکھ کر بھجوائی.فتح خُراسان کی خبر سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں چاہتا تھا کہ ان کے خلاف کوئی لشکر نہ بھیجا جاتا اور میری خواہش تھی کہ ان کے اور ہمارے درمیان آگ کا سمند ر حائل ہو تا.یہ کہتے ہیں جی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، ملکوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے.لیکن حضرت عمر کی یہ خواہش تھی کہ میں فوج نہیں بھیجنا چاہتا تھا.حضرت علی نے حضرت عمرؓ کی یہ بات سن کے فرمایا.اے امیر المومنین! آپ یہ بات کیوں فرماتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے باشندے تین مرتبہ عہد شکنی کریں گے اور معاہدہ کو توڑیں گے اور تیسری مرتبہ ان کو مغلوب کرنے کی ضرورت ہو گی.ایک روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ کے پاس فتح خراسان کی خبر پہنچی تو وہ فرمانے لگے میں چاہتا ہوں کہ ہمارے اور ان کے در میان آگ کا سمند ر حائل ہو تا.اس بات پر حضرت علی نے فرمایا اے امیر المومنین! یہ تو خوشی کا مقام ہے.آپ کو کیا پریشانی ہے؟ فتح ہو گیا اور آپ کہتے ہیں روک پیدا ہو جاتی.حضرت عمرؓ نے فرمایا ہاں خوشی کی بات ہے مگر پریشان اس بات پر ہوں کہ یہ لوگ تین مرتبہ عہد شکنی کریں گے.ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عمر کو یہ اطلاع ہوئی کہ احنف بن قیس کا مزو کے دونوں شہروں پر قبضہ ہو گیا ہے اور انہوں نے بلخ بھی فتح کر لیا ہے تو آپ نے فرمایا احنف بن قیس اہل مشرق کے سردار ہیں.پھر آخحنف بن قیس کو یہ تحریر کیا کہ تم دریا عبور نہ کرنا بلکہ تم اس سے پہلے کے علاقے میں مقیم رہو.جن خصوصیات کے ساتھ تم خُراسان میں داخل ہوئے تھے آئندہ بھی تم ان عادات پر قائم رہنا.اس طرح فتح و نصرت ہمیشہ تمہارے قدم چومے گی البتہ تم دریا کو عبور کرنے سے پر ہیز کرو ور نہ تم نقصان اٹھاؤ گے.284 يَزْدَجَر د نے پہلے اپنے ہمسایہ ممالک کو مدد کے لیے بلایا تھا.اس وقت تو ان ممالک نے کوئی خاص امداد نہیں کی مگر اب یزد جرد خود اپنی مملکت سے بھاگ کر ان کے پاس مدد کا طالب ہوا اور ان ممالک

Page 177

اصحاب بدر جلد 3 157 حضرت عمر بن خطاب سے مدد حاصل کر کے دوبارہ اپنا ملک فتح کرنے کا قصد کیا.ترک سر دار خاقان نے اس کا ساتھ دیا اور بلخ میں اپنی فوج لے کر آگیا.بلخ دریائے جیحون کے قریب خُراسان کا ایک خوبصورت شہر تھا.مسلمان بیس ہزار کی تعداد میں تھے.آخنف نے ترک شہسواروں کے تین فوجی قتل کر دیے جس سے ترک سردار خاقان بد شگونی لیتا ہو ا وا پس چلا گیا.الله سة چین کے شہنشاہ نے مسلمانوں کے حالات و واقعات سننے کے بعد یزدجرد کو لکھا کہ تمہارے قاصد نے مسلمانوں کی جو صفات بیان کی ہیں میرے خیال میں اگر وہ پہاڑ سے بھی ٹکرا جائیں تو اسے ریزہ ریزہ کر دیں اور اگر میں تمہاری مدد کے لیے آؤں تو جب تک وہ یعنی مسلمان ان اوصاف پر قائم ہیں جو تمہارے قاصد نے مجھے بتائے ہیں کہ یہ اوصاف ہیں تو وہ میرا تخت بھی چھین لیں گے اور میں ان کا کچھ بگاڑ نہ سکوں گا اس لیے تم ان سے مصالحت کر لو.يَزْدَجَر د پھر مختلف شہروں میں پھر تا رہا یہاں تک کہ حضرت عثمان کے دور خلافت میں قتل ہوا.285 احنف بن قیس نے فتح کی خوشخبری اور مال غنیمت حضرت عمر کی خدمت میں روانہ کر دیا.حضرت عمر نے مسلمانوں کو جمع کیا اور ان سے خطاب فرمایا.فتح کے متعلق تحریر حضرت عمرؓ کے ارشاد پر پڑھ کر سنائی گئی.پھر حضرت عمرؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا: یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی الم کا ذکر فرمایا ہے اور اس ہدایت کا ذکر فرمایا ہے جس کے ساتھ آپ صلی علی یم کو بھیجا گیا تھا.اور اللہ نے آپ صلی اغلی یکم کی پیروی کرنے والوں سے جلد ثواب اور دنیا و آخرت میں دیر سے بھلائی کے ملنے کا وعدہ فرمایا ہے.پھر حضرت عمرؓ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی.هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَةَ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللهِ شَھید ( اتو ب: 3) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے خواہ وہ مشرک کیسا ہی ناپسند کریں.پھر آپ نے فرمایا کہ تمام حمد اللہ کے لیے ہے جس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور اپنے لشکر کی مدد کی.سنو ! اللہ نے مجوسی بادشاہت کو ہلاک کر دیا اور ان کے اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.اپنی حکومت کی ایک بالشت زمین بھی اب ان کی ملکیت میں باقی نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو نقصان پہنچا سکیں.سنو! اللہ نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال اور ان کے بیٹوں کا وارث بنادیا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو.اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ تمہاری طرح بہت سی قومیں فوجی طاقت کی مالک تھیں.حضرت عمرؓ مسلمانوں کو نصیحت فرمار ہے ہیں.اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ تمہاری طرح بہت سی قومیں فوجی طاقت کی مالک تھیں اور گذشتہ زمانے کی بہت سی مہذب قومیں دور دراز کے ممالک میں قابض ہو گئی تھیں.اللہ اپنا حکم نافذ کرنے والا ہے اور اپنے وعدے کو پورا کرنے والا ہے اور ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو نمودار کرے گا.تم لوگ اس کے احکامات کو نفاذ کرانے کے لیے ایسے شخص کی پیروی کرو جو تمہارے لیے اس کے عہد کو پورا کرے اور تمہارے لیے خدائی وعدے کو

Page 178

اصحاب بدر جلد 3 158 حضرت عمر بن خطاب پورا کر کے دکھائے.تم اپنی حالت میں کوئی تغیر و تبدل نہ کر ناور نہ اللہ تمہیں تمہارے علاوہ لوگوں سے بدل دے گا.اگر بدل دو گے اپنے دین کو بھول جاؤ گے ، جو احکامات ہیں ان پر عمل نہیں کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا.پھر فرمایا: مجھے اس وقت امت مسلمہ کی تباہی اور بربادی کا صرف تمہی سے اندیشہ ہے.مجھے یہ خطرہ نہیں کہ دشمن مسلم امہ کو تباہ کرے گا بلکہ مسلمانوں کی مسلم امہ کی تباہی و بربادی کا صرف تمہی مسلمانوں سے ہی اندیشہ ہے اور خوف ہے.286 اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہی بات سچ ثابت ہو رہی ہے.مسلمان ہی مسلمان کی گردنیں مار رہا ہے.ان کو ختم کر رہا ہے.ایک دوسرے پر حملے کر رہا ہے.ملک ملک پر چڑھائی کر رہے ہیں اور کہنے کو یہ جہاد ہے لیکن مسلمان مسلمانوں کو قتل کر رہا ہے.فتح اصْطَخَر اضطر فارس کا مرکزی شہر تھا.یہ ساسانی بادشاہوں کا قدیم مرکزی اور مقدس مقام تھا.یہاں پر ان کا قدیم آتش کدہ بھی تھا جس کی نگرانی خود شہنشاہ ایران کرتا تھا.حضرت عثمان بن ابو العاص نے اضطخر کے مقام کا ارادہ کرتے ہوئے اس کی طرف پیش قدمی کی اور اہل اضطخُر کے ساتھ جور کے مقام پر مقابلہ ہوا.مسلمانوں نے وہاں ان کے ساتھ بھر پور جنگ لڑی.پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل جور کے مقابلے پر فتح عطا کی اور مسلمانوں نے اضطخر بھی فتح کر لیا.بہت سے لوگوں کو قتل کیا گیا اور بہت سے لوگ بھاگ گئے.حضرت عثمان بن ابو العاص نے کافروں کو جزیہ ادا کرنے اور ذمی رعایا بننے کی دعوت دی.چنانچہ انہوں نے ان سے خط و کتابت کی اور حضرت عثمان بن ابو العاص بھی ان سے نامہ و پیام کرتے رہے.آخر کار ان کے حاکم ھرمز نے اس پیشکش کو قبول کر لیا اور جزیہ ادا کرنے پر راضی ہو گئے.چنانچہ جو لوگ فتح اصطخر کے وقت بھاگ گئے تھے یا الگ ہو گئے تھے سب جزیہ ادا کرنے کی شرط کے ساتھ دوبارہ امن کی جگہ پر واپس آگئے.دشمن کی شکست کے بعد حضرت عثمان بن ابو العاص نے سب مال غنیمت جمع کیا اور اس کا خمس نکال کر امیر المومنین حضرت عمرؓ کے پاس بھیج دیا اور باقی حصہ مسلمانوں میں تقسیم کی غرض سے رکھ لیا اور تمام مسلمان فوجوں کو لوٹ مار سے روک دیا اور چھینی ہوئی چیزوں کو واپس کرنے کا حکم دیا.جو کچھ لوگوں سے چھینا تھا سپہ سالار نے کہا کہ سب واپس کر و.پھر حضرت عثمان بن ابو العاص نے تمام لوگوں کو اکٹھا کیا اور فرمایا ہمارا معاملہ ہمیشہ بام عروج پر رہے گا اور ہم تمام مصائب سے محفوظ رہیں گے جب تک کہ ہم چوری اور خیانت نہ کریں.جب ہم مال غنیمت میں خیانت کرنے لگیں گے اور یہ نا پسندیدہ باتیں ہمارے اندر نظر آئیں گی تو یہ برے کام ہماری اکثریت کو لے ڈوبیں گے.خیانت کروگے، چوری کرو گے تو پھر یہی باتیں تمہیں لے ڈوبیں گی اور آج کل کے مسلمانوں میں یہی کچھ ہمیں نظر آرہا ہے.آپس میں ہی لوٹ مار ہے یا جہاں بھی جاتے ہیں وہاں لوٹ مار ہے، بد دیانتی ہے اور انہی بد اخلاقیوں نے ان کو

Page 179

اصحاب بدر جلد 3 159 حضرت عمر بن خطاب بالکل ہی کسی کام کا نہیں چھوڑا اور ہر جگہ دنیا میں بدنام ہو رہے ہیں.حضرت عثمان بن ابو العاص نے فتح کے دن فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو انہیں ہر قسم کی برائیوں سے بچاتا ہے اور ان کے اندر امانت اور دیانت داری کی خصوصیات پیدا فرما دیتا ہے.اس لیے تم امانتوں کی حفاظت کرو کیونکہ تم سے اپنے دین و مذہب کی جو چیز سب سے پہلے چھوٹے گی وہ ہے امانت.اور جب تمہارے اندر سے دیانت داری جاتی رہے گی تو روزانہ کوئی نہ کوئی نیکی تمہارے اندر سے جاتی رہے گی.دیانتداری گئی تو نیکیاں بھی ختم ہونی شروع ہو جائیں گی.حضرت عمر فاروق کے دورِ خلافت کے آخری زمانے اور حضرت عثمان کے دور خلافت کے پہلے سال شهرک نے بغاوت کر دی اور اس نے اہل فارس کو ورغلایا اور ان کو بھڑ کانے کے نتیجہ میں اہل فارس کر نے عہد شکنی کی.حضرت عثمان بن ابو العاص کو ان کی سرکوبی کے لیے دوبارہ بھیجا گیا اور پیچھے سے حضرت عبد اللہ بن معمر اور شبل بن معبد بجلی کی معیت میں امدادی فوج بھیجی گئی.ان کا فارس کے مقام پر دشمن سے سخت مقابلہ ہوا جس میں شَهْرَك اور اس کا بیٹا مارا گیا اور اس کے علاوہ بہت سے لوگوں کو بھی قتل کیا گیا اور شهرک کو حضرت عثمان بن ابو العاص کے بھائی محکم بن ابو العاص نے قتل کیا.287 ایک روایت کے مطابق حضرت علاء بن حضرمی نے سترہ ہجری میں حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ اضطغر کو فتح کیا تھا.اس کے باشندوں نے صلح کے بعد بد عہدی کی جس کے نتیجہ میں بغاوت پھیل گئی.اس کی سرکوبی کے لیے حضرت عثمان بن ابو العاص نے اپنے بیٹے اور بھائی کو بھیجا جنہوں نے بغاوت دور کی اور اضط نحر کے امیر کو قتل کر دیا جس کا نام شهرك تھا.288 فَسَا اور دار الجرد حضرت ساريه بن زنیم کو حضرت عمرؓ نے فسا اور دارا بجرد شہر کی طرف روانہ فرمایا.23 ہجری کا واقعہ ہے.فسا فارس کا ایک قدیم شہر تھا جو شیر از سے 216 میل کے فاصلے پر واقع تھا.دارا بجز د فارس کا ایک وسیع علاقہ ہے جس میں فسا اور دیگر شہر تھے.دلائل النبوۃ میں روایت ہے.حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے ایک لشکر حضرت ساریہ کی سر کردگی میں روانہ فرمایا.ایک دن جبکہ حضرت عمر خطاب کر رہے تھے کہ اچانک اونچی آواز میں کہنے لگے یا ساری انجیل.اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف ہٹ جاؤ.تاریخ طبری میں ہے حضرت عمرؓ نے حضرت ساریہ بن زنیم کو فسا اور دارا بجز د کے علاقے کی طرف روانہ کیا.انہوں نے وہاں پہنچ کر لوگوں کا محاصرہ کر لیا.اس پر انہوں نے اپنے حمایتی لوگوں کو اپنی مدد کے لیے بلایا تو وہ مسلمان لشکر کے مقابلے کے لیے صحرا میں اکٹھے ہو گئے اور جب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی تو انہوں نے ہر طرف سے مسلمانوں کو گھیر لیا.حضرت عمرؓ جمعہ کے دن

Page 180

محاب بدر جلد 3 160 حضرت عمر بن خطاب خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے فرمایا: يَا سَارِيَة بن زُنَيْم ! الْجَبَل الْجَبَل.یعنی اے سَارِيَه بن زُنَيْم ! پہاڑ پہاڑ.مسلمان لشکر جس جگہ پر مقیم تھا اس کے قریب ہی ایک پہاڑ تھا.اگر وہ اس کی پناہ لیتے تو دشمن صرف ایک طرف سے حملہ آور ہو سکتا تھا.پس انہوں نے پہاڑ کی جانب پناہ لے لی.اس کے بعد انہوں نے جنگ کی اور دشمن کو شکست دی اور بہت سا مال غنیمت حاصل کیا.اس مال غنیمت میں جو اہرات کا ایک صندوقچہ بھی تھا جسے مسلمان لشکر نے باہمی اتفاق رائے سے حضرت عمرؓ کے لیے ہبہ کر دیا.حضرت ساریہ نے اس صندوقچے کے ساتھ اور فتح کی خوشخبری کے ساتھ ایک اینچی کو حضرت عمر کی طرف بھجوایا.جب وہ اینچی مدینہ پہنچا تو اس وقت حضرت عمر لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں وہ عصا تھا جس کے ذریعہ وہ اونٹوں کو ہنکایا کرتے تھے.اس قاصد نے حضرت عمرؓ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تو حضرت عمرؓ نے اسے کھانے پہ بٹھا دیا.چنانچہ وہ کھانے پر بیٹھ گیا.جب وہ کھانے سے فارغ ہوا تو حضرت عمرؓ جانے لگے.وہ شخص پھر کھڑے ہو کر ان کے پیچھے پیچھے جانے لگا.حضرت عمرؓ نے اس کو اپنے پیچھے آتے دیکھ کر گمان کیا کہ اس شخص کا پیٹ ابھی نہیں بھرا.لہذا جب آپ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے تو فرمایا اندر آجاؤ اور آپؐ نے نانبائی کو حکم دیا کہ دستر خوان پر کھانا لائے.چنانچہ کھانالا یا گیا جو روٹی اور زیتون اور نمک پر مشتمل تھا.پھر آپ نے اس شخص سے فرمایا کھاؤ جب وہ کھانے سے فارغ ہوا تو اس شخص نے کہا اے امیر المومنین! میں سَارِیہ بن زُنیم کا ایٹی ہوں.آپ نے فرما یا خوش آمدید.پھر وہ آپ کے قریب آیا یہاں تک کہ اس کا گھٹنا حضرت عمرؓ کے گھٹنے سے چھونے لگا.پھر حضرت عمرؓ نے اس سے مسلمانوں کے بارے میں پوچھا.پھر ساریہ کے بارے میں پوچھا تو اس نے آپ کو بتایا.پھر اس نے صند و قیچے کا حال بیان کیا تو حضرت عمرؓ نے اس کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے فرمایا: نہیں.اس میں کوئی عزت والی بات نہیں ہے.اس لشکر کے پاس جاؤ اور اسے ان کے درمیان تقسیم کرو.یہ جو اہرات جو مجھے بھیجے ہیں یہ لشکر کو ہی تقسیم کر دو.اس نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین امیرا اونٹ لاغر ہو گیا ہے اور میں نے انعام کی توقع پر قرض بھی لیا تھا.پس آپ مجھے اتنا دیں جس سے میں ان کی تلافی کر سکوں.وہ اصرار کرتا رہا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے اس کے اونٹ کے بدلے صدقے کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ اسے دیا اور اس کا اونٹ لے کر صدقے کے اونٹوں میں شامل کیا اور وہ اینچی معتوب اور محروم ہوتے ہوئے بصرہ پہنچا اور حضرت عمرؓ کے حکم پر عمل کیا.یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب قاصد فتح کی خوشخبری لے کر مدینہ آیا تو اہل مدینہ نے اس سے ساریہ کے بارے میں پوچھا اور فتح کے بارے میں اور یہ کہ کیا جنگ کے دن مسلمانوں نے کوئی آواز سنی تھی؟ اس نے کہا کہ ہاں ہم نے سنا تھا یا سارية الجبل.یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف ہٹ جاؤ.اس وقت قریب تھا کہ ہم ہلاک ہو جاتے.پس ہم نے پہاڑ کی طرف پناہ لی تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی.289

Page 181

صحاب بدر جلد 3 161 حضرت عمر بن خطاب حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا ہے.فرماتے ہیں کہ : ”حضرت عمررؓ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ان کی خلافت کے ایام میں وہ منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بے اختیار ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے.يَا سَارِيَةُ الْجَبَلُ يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ.یعنی اے سَارِیہ ! پہاڑ پر چڑھ جا.اے ساریہ ! پہاڑ پر چڑھ جا.چونکہ یہ فقرات بے تعلق تھے لوگوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے یہ کیا کہا؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا کہ ایک جگہ ساریہ جو اسلامی لشکر کے ایک جرنیل تھے کھڑے ہیں اور دشمن ان کے عقب سے اس طرح حملہ آور ہے کہ قریب ہے کہ اسلامی لشکر تباہ ہو جائے.اس وقت میں نے دیکھا تو پاس ایک پہاڑ تھا کہ جس پر چڑھ کر وہ دشمن کے حملہ سے بچ سکتے تھے.اس لیے میں نے ان کو آواز دی کہ وہ اس پہاڑ پر چڑھ جاویں.ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ساریہ کی طرف سے بعینہ اسی مضمون کی اطلاع آئی اور انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس وقت ایک آواز آئی جو حضرت عمر کی آواز سے مشابہ تھی جس نے ہمیں خطرہ سے آگاہ کیا اور ہم پہاڑ پر چڑھ کر دشمن کے حملہ سے بچ گئے.“ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کی زبان اس وقت ان کے اپنے قابو سے نکل گئی تھی اور اس قادرِ مطلق ہستی کے قبضہ میں تھی جس کے لئے فاصلہ اور دوری کوئی شئے ہے ہی نہیں.2904 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اس بارے میں فرماتے ہیں: 291<< ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ الزام کہ صحابہ کرام سے ایسے الہام ثابت نہیں ہوئے بالکل بے جا اور غلط ہے کیونکہ احادیث صحیحہ کے رو سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے الہامات اور خوارق بکثرت ثابت ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ساریہ کے لشکر کی خطر ناک حالت سے با علام الہی مطلع ہو جانا جس کو بیہقی نے ابن عمر سے روایت کیا ہے اگر الہام نہیں تھا تو اور کیا تھا اور پھر انکی یہ آواز کہ يَا سَارِيَهِ الْجَبَل الجبل.مدینہ میں بیٹھے ہوئے مونہہ سے نکلنا اور وہی آواز قدرتِ غیبی سے ساریہ اور اس کے لشکر کو دور در از مسافت سے سنائی دینا اگر خوارق عادت نہیں تھی تو اور کیا چیز تھی.پھر فتح گزمان کا ذکر ہے جو 23 ہجری میں ہوئی.حضرت سہیل بن عدی کے ہاتھوں گزمان فتح ہوا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ بن تبدیل کے ہاتھوں فتح ہوا.292 حضرت سہیل کے ہر اول دستے پر نسیر بن عمر و عجلی تھے.ان کے مقابلے کے لیے اہل کرمان جمع ہو گئے.وہ اپنی سرزمین کے قریب علاقے میں جنگ کرتے رہے.آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہیں منتشر کر دیا اور مسلمانوں نے ان کا راستہ روک لیا.نئیر نے ان کے بڑے بڑے سرداروں کو قتل کر دیا.اسی طرح حضرت سہیل بن عدی نے دیہاتیوں کے دستے کے ذریعہ دشمن کے راستے کو جیرفت مقام تک روک لیا.حضرت عبد اللہ بھی شیر کے راستے وہاں پہنچے اور حسب منشا اس مقام پر انہیں بہت سارے

Page 182

اصحاب بدر جلد 3 162 حضرت عمر بن خطاب اونٹ بھیڑ بکریاں ملیں تو انہوں نے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کی قیمت لگائی.ان کی قیمت میں عرب کے اونٹوں سے بڑے ہونے کے باعث ان میں اختلاف پیدا ہوا.چنانچہ اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے اس کے بارے میں حضرت عمررؓ کو لکھا گیا.حضرت عمرؓ نے ان کی طرف لکھا کہ عربی اونٹ کی گوشت کے مطابق قیمت لگائی جاتی ہے اور یہ اونٹ بھی اسی کی مانند ہیں.اگر وہ تمہاری رائے کے مطابق بڑھ کر ہے تو اس کی قیمت میں اضافہ کر دو.جو مال ہاتھ آیا تھا اس کے مطابق اس کے جانوروں کی قیمت لگائی جارہی ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں حضرت عبد اللہ بن بُدیل بن ورقاء خُزاعی نے کرمان کو فتح کیا.پھر فتح کرمان کے بعد وہ طبسین آئے.پھر وہاں سے حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے طبسین کو فتح کر لیا ہے.آپ مجھے یہ دونوں علاقے جاگیر میں دے دیں.جب حضرت عمرؓ نے یہ دونوں علاقے ان کو جاگیر میں دینے کا ارادہ کیا تو کسی نے آپ سے کہا کہ یہ دونوں علاقے بہت بڑے اضلاع ہیں اور خراسان کے دروازے ہیں.اس پر آپ نے ان کو یہ دونوں علاقے جاگیر میں دینے کا ارادہ ملتوی کر دیا.293 فتح سجستان، یہ بھی 123 ہجری کی ہے.سجستان خراسان سے بڑا علاقہ ہے اور اس کی سرحدیں دور درواز علاقوں تک پھیلی ہوئی تھیں.یہ علاقہ سندھ اور دریائے بلخ کے درمیان تھا.اس کی سرحدیں بہت دشوار گزار تھیں اور آبادی بھی بہت زیادہ تھی.اس سجستان کو ایرانی سیستان بھی کہا جاتا ہے یا ایرانی لوگ اس کو سیستان کہتے ہیں.مشہور ایرانی پہلوان رستم اسی علاقے کا رہنے والا تھا.یہ کرمان کے شمال میں واقع تھا اس کا صدر مقام زرنج تھا.قدیم زمانے میں یہ بہت بڑا علاقہ تھا اور حضرت معاویہ کے زمانے میں یہ بہت اہم علاقہ تھا.یہاں کے لوگ قندھار ترک اور دوسری قوموں سے جنگ کرتے رہتے تھے.عاصم بن عمرو نے سجستان کا رخ کیا اور عبد اللہ بن نمیر بھی فوج لے کر اس کے ساتھ شامل ہو گئے.اہل سجستان سے ان کے قریبی علاقے میں مقابلہ ہوا اور مسلمانوں نے انہیں شکست دی اور اہل سجستان بھاگ گئے.چنانچہ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور زرنج مقام پر ان کا محاصرہ کر لیا گیا اور ساتھ ساتھ مسلمان جہاں جہاں ممکن ہوا مختلف علاقوں کو بھی فتح کرتے گئے.بالآخر اہل سجستان نے زرنج اور دیگر مفتوحہ علاقوں کے بارے میں مصالحت کر لی اور باقاعدہ مسلمانوں سے معاہدہ منظور کرایا اور اپنے صلح نامہ میں یہ شرط منظور کرالی کہ ان کے جنگل محفوظ چراگاہوں کی طرح سمجھے جائیں گے.اس لیے جب مسلمان وہاں سے گزرتے تھے تو ان کے جنگلوں سے بچ کر نکلتے تھے کہ وہ کہیں انہیں نقصان پہنچا کر عہد شکنی کے مر تکب نہ ہو جائیں.اس حد تک مسلمان احتیاط کرتے تھے.بہر حال اہل سجستان خراج دینے پر راضی ہو گئے اور مسلمانوں نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری کو قبول کر لیا.294 فتح مکران، یہ بھی 123 ہجری کی ہے.حکم بن عمرو کے ہاتھوں مگر ان ( آج کل اسے مگر ان کہا جاتا ہے.پرانی تاریخوں میں مگر ان لکھا ہوا ہے، یہ فتح ہوا.لیکن پھر شهاب بن مُخَارِقُ، سُهَيل بن

Page 183

اصحاب بدر جلد 3 163 حضرت عمر بن خطاب عدی اور عبد اللہ بن عبد اللہ بھی لشکروں سمیت ان کے ساتھ مل گئے تھے.مسلمانوں نے سندھ کے بادشاہ کے خلاف متحد ہو کر جنگ کی اور اسے شکست دی.حکم بن عمرو نے صحار عبدی کے ہاتھ فتح کی خبر اور مالِ غنیمت بھیجا اور مالِ غنیمت میں حاصل شدہ ہاتھیوں کے بارے میں ہدایت طلب کی.جب حضرت عمر کو فتح کی بشارت پہنچی تو حضرت عمر نے اس سے مکر ان کی زمین کے بارے میں پوچھا.اس نے کہا اے امیر المومنین! اس کے نرم میدانوں کی زمین بھی پہاڑوں کی طرح سخت ہے اور وہاں پانی کی سخت قلت ہے.اس کے پھل خراب ہیں اور وہاں کے دشمن بہت دلیر ہیں اور وہاں بھلائی کے مقابلے میں برائی بہت زیادہ ہے.وہاں کثیر تعداد بھی تھوڑی معلوم ہوتی ہے اور قلیل تعد اد ضائع ہو جاتی ہے اور اس کا پچھلا حصہ تو اس سے بھی بدتر ہے.حضرت عمرؓ نے اس کے اس انداز گفتگو پہ فرمایا کہ کیا تم قافیہ پیمائی کر رہے ہو یا واقعی صورت حال کی خبر دے رہے ہو.اس نے اس پر کہا کہ میں صحیح خبر آپ تک پہنچارہا ہوں.اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر تم صحیح بتلارہے ہو تو بخد امیر الشکر وہاں حملہ نہیں کرے گا.چنانچہ آپ نے حکم بن عمر و اور حضرت سُھیل کو یہ حکم تحریر فرمایا اور یہ حکم تحریر فرما کر روانہ کیا کہ تم دونوں کے لشکروں میں سے کوئی بھی مکر ان سے آگے پیش قدمی نہ کرے اور دریا کے اس پار کے علاقے تک محدودر ہے.نیز آپ نے یہ بھی حکم دیا کہ ہاتھیوں کو اسلامی سر زمین پر ہی فروخت کر دیا جائے اور اس سے حاصل ہونے والے مال کو مسلمان لشکروں میں تقسیم کر دیا جائے.295 اس جنگ کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہ طبری سے لی گئی ہیں.اس جنگ کی بابت علامہ شبلی نے ایک نوٹ بھی دیا ہے کہ فتوحات فاروقی کی اخیر حد یہی مکران ہے لیکن یہ طبری کا بیان ہے.مؤرخ بلاذری کی روایت ہے کہ دیبل کے نشیبی علاقوں اور تھانہ تک فوجیں آئیں.اگر یہ صحیح ہے تو حضرت عمرؓ کے عہد میں اسلام کا قدم سندھ و ہند میں بھی آچکا تھا.نیز وہ حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ آج کل مکر ان کا نصف حصہ بلوچستان کہلاتا ہے.اگر چہ مورخ بلاذری فتوحات فاروقی کی حد سندھ کے شہر دیبل تک لکھتا ہے مگر طبری نے مکر ان کو ہی اخیر حد قرار دیا ہے.296 بقاع کی مہم کتب تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر کے دور میں دمشق کا محاصرہ کئی ماہ تک جاری رہا اور ان کی وفات کے کچھ عرصہ کے بعد اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی.بہر حال کیونکہ یہ حضرت ابو بکر کے دور کی ہے اس لیے اس جنگ کی تفصیلات جب حضرت ابو بکر کا ذکر ہو گا تو وہاں پیش کی جائیں گی انشاء اللہ.297 دمشق کی فتح کے بعد جو واقعات ہیں وہ بیان کرتا ہوں.دمشق کی فتح ہو جانے کے بعد ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کو بقاع کی مہم پر روانہ کیا.بقاع: دِمَشْق، بَعْلَبَك اور حمص کے درمیان ایک وسیع

Page 184

محاب بدر جلد 3 164 حضرت عمر بن خطاب علاقہ ہے جس میں بہت ساری بستیاں واقع ہیں.انہوں نے اسے فتح کیا اور ایک سر یہ انگلی کارروائی کے لیے آگے بھیجا.مَیسَنُون نامی چشمہ پر رومیوں اور سر یہ والوں کی مڈھ بھیڑ ہو گئی.پھر دونوں میں لڑائی ہوئی.اتفاق سے رومیوں میں سے سینان نام کا ایک آدمی بیروت کے عقبی حصہ سے مسلمانوں پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو گیا اور مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد کو شہید کر دیا.بیروت جو ہے یہ سمندر کے کنارے ملک شام کا ایک مشہور شہر تھا.اسی لیے ان شہداء کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس چشمہ کا نام عین الشہداء پڑ گیا.ابوعبیدہ نے دمشق پر یزید بن ابو سفیان کو اپنا قائم مقام بنایا اور یزید نے دخیہ بن خلیفہ کو ایک سریہ کے ساتھ تذمر روانہ کیا تا کہ وہاں فتح کا راستہ ہموار کریں.تذمر شام کے علاقے میں ایک قدیم اور مشہور شہر ہے جو حلب سے پانچ دن کی مسافت پر واقع ہے.یہ جس یزید کا ذکر ہو رہا ہے یہ حضرت ابو سفیان کے بیٹے تھے.ہے.299 اسی طرح ابوزهرا قشیری کو بقنیہ اور خوران بھیجا لیکن وہاں کے لوگوں نے صلح کر لی.بقنيه دمشق کے قریب ایک بستی کا نام ہے.حَوْران دمشق کا ایک وسیع علاقہ تھا جس میں بہت ساری بستیاں اور کاشتکاری والی زمینیں تھیں.شتر خبیل بن حَسَنَہ نے اردن کے دارالحکومت طبریہ کو چھوڑ کر بقیہ پورے ملک پر بذریعہ جنگ یعنی کہ جنگ ٹھونسی گئی تو جنگ کے ذریعہ سے قبضہ کر لیا اور طبر یہ والوں نے مصالحت کر لی.حضرت خالد بقاع کے علاقے سے کامیاب ہو کر کوٹے.بعلبك والوں نے آپ سے مصالحت کرلی اور آپ نے ان کے ساتھ معاہدہ تحریر کر دیا.298 بعلبك بھی دمشق سے تین دن کی مسافت ( یہ تاریخ میں جو لکھا ہوا ہے) پر واقع ایک قدیم شہر یہاں دنوں کی مسافت سے مراد یہ ہے کہ اس زمانے میں اونٹوں یا گھوڑوں کے ذریعہ سے (سفر کا جو ذریعہ تھا اس کے ذریعہ ) جو مسافت ہوتی تھی.فیل ایک جگہ ہے.اس کی فتح چودہ ہجری میں ہوئی.حضرت ابو عبید ہا نے حضرت عمر کی خدمت میں تحریر کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہر قل حمص میں مقیم ہے اور وہاں سے دمشق فوجیں روانہ کر رہا ہے لیکن یہ فیصلہ کرنا میرے لیے دشوار ہے کہ پہلے دمشق پر حملہ کروں یا فخل پر.فخل بھی شام میں ایک جگہ کا نام ہے.حضرت عمرؓ نے جو ابا تحریر فرمایا: پہلے دمشق پر حملہ کر کے اسے فتح کرو کہ وہ شام کا قلعہ ہے اور اس کا صدر مقام ہے.ساتھ ہی فیحل میں بھی سوار دستے بھیج دو جو انہیں تمہاری طرف نہ بڑھنے دیں.اگر دمشق سے پہلے فخل فتح ہو جائے تو بہتر ورنہ دمشق فتح کر لینے کے بعد تھوڑی سی فوج وہاں چھوڑ دینا اور تمام سرداروں کو اپنے ساتھ لے کر فحل روانہ ہو جانا اور اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں فحل کو فتح کرا دے تو خالد اور تم حمص چلے جانا اور شتر خبیل اور عمر و کو اردن اور فلسطین بھیج دینا.حضرت عمر کا جو خط تھا، جب یہ حضرت ابو عبیدہ کو ملا تو انہوں نے فوج کے دس افسروں کو جن میں سب سے نمایاں ابو الأغور سُلْمی تھے فیل بھیج دیا اور خود حضرت خالد بن ولیڈ کے ساتھ دمشق روانہ ہو گئے.رومی فوجوں نے مسلمانوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اپنے گردو پیش کی زمین میں بحیرہ طبریہ اور

Page 185

اصحاب بدر جلد 3 165 حضرت عمر بن خطاب 300 دریائے اردن کا پانی چھوڑ دیا جس سے ساری زمین دلدل بن گئی اور ایسے عبور کرنا دشوار ہو گیا.10 بہر حال ہر قل نے دمشق کی امداد کے لیے جو فوجیں بھیجی تھیں وہ بھی دمشق تک نہ پہنچ سکی تھیں.پانی کھولنے کی وجہ سے تمام راستے بند ہو گئے مگر مسلمان ثابت قدم رہے.مسلمانوں کا استقلال دیکھ کر عیسائی صلح پر آمادہ ہوئے اور ابو عبیدہ کے پاس پیغام بھیجا کہ کوئی شخص سفیر بن کر آئے.ابو عبیدہ نے حضرت معاذ بن جبل کو سفارت کے لیے بھیجا.حضرت معاذ بن جبل نے ان کے سامنے اسلامی تعلیم پیش کی مگر انہوں نے یعنی دشمنوں نے اسے قبول نہ کیا.دیگر امور کے علاوہ رومیوں نے حضرت معاذ کو یہ پیشکش کی کہ ہم تم کو بلقاء کا ضلع اور اردن کا وہ حصہ جو تمہاری زمین سے متصل ہے دیتے ہیں تم یہ ملک چھوڑ کر فارس چلے جاؤ.پہلے خود ہی فوجیں اکٹھی کر رہے تھے جب دیکھا کہ ہارنے کا وقت آیا ہے تو یہ پیشکش کی.حضرت معاذ نے انکار کیا اور اٹھ کے واپس چلے آئے کہ نہیں.رومیوں نے براہ راست ابو عبیدہ سے گفتگو کرنی چاہی.چنانچہ اس غرض سے ایک خاص قاصد بھیجا.جس وقت وہ قاصد وہاں مسلمانوں کے کیمپ میں پہنچا تو ابو عبیدہ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہاتھ میں تیر تھے جن کو الٹ پلٹ کر رہے تھے.قاصد نے خیال کیا کہ سپہ سالار بڑے جاہ و حشم رکھتا ہو گا اور یہی اس کی شناخت کا ذریعہ ہو گا لیکن وہ جس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تھا سب ایک رنگ میں ڈوبے نظر آتے تھے.آخر گھبرا کر پوچھا کہ تمہارا سر دار کون ہے ؟ لوگوں نے ابوعبیدہ کی طرف اشارہ کیا.وہ حیران رہ گیا اور تعجب سے ان کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ کیا در حقیقت تم ہی سردار ہو ؟ ابوعبیدہ نے کہا ہاں.قاصد نے کہا کہ ہم تمہاری فوج کو فی کس دو دو اشرفیاں دے دیں گے ، تم یہاں سے چلے جاؤ.حضرت ابوعبیدہ نے انکار کیا.قاصد اس پر بڑا ناراض ہوا اور اٹھ کر چلا گیا.ابوعبیدہ نے اس کے تیور دیکھ کر فوج کو کمر بندی کا حکم دیا، تیار رہنے کا حکم دیا اور تمام حالات حضرت عمر کو لکھے.رض رض حضرت عمر نے اجازت فرمائی کہ ٹھیک ہے پیش قدمی کرو کیونکہ رومی فوجیں اکٹھی ہو رہی ہیں اور حوصلہ دلایا کہ ثابت قدم رہو.خدا تمہارا مددگار ہے.ابو عبیدہ نے اسی دن کمر بندی کا حکم دے دیا تھا لیکن رومی مقابلے میں نہ آئے اور اگلی صبح پھر حضرت خالد بن ولید صرف سواروں کے ساتھ میدان میں گئے.رومی لشکر بھی تیار تھا.دونوں میں جنگ ہوئی.مسلمانوں کی ثابت قدمی دیکھ کر رومی سپہ سالار نے زیادہ لڑنا بیکار سمجھا اور واپس جانا چاہا.حضرت خالد نے پکارا.رومی اپنا زور لگا چکے ہیں اب ہماری باری ہے.اس کے ساتھ ہی مسلمانوں نے اچانک حملہ کیا اور رومیوں کو پسپا کر دیا.عیسائی مدد کے انتظار میں لڑائی کو ٹال رہے تھے.حضرت خالد ان کی چال سمجھ گئے تو انہوں نے حضرت ابو عبیدہ کی خدمت میں کہا کہ رومی ہم سے مرعوب ہو چکے ہیں حملے کا یہی وقت ہے.چنانچہ اسی وقت اعلان کیا گیا کہ اگلے روز حملہ ہو گا فوج تیار ہو جائے.رات کے پچھلے پہر حضرت ابوعبیدہ نے لشکر کو ترتیب دیا.رومی لشکر کی تعداد تقریباً پچاس ہزار تھی.

Page 186

حاب بدر جلد 3 166 حضرت عمر بن خطاب حضرت عمرؓ کی سیرت و سوانح لکھنے والے دو سیرت نگار ہیکل اور صلابی نے یہ تعداد اسی ہزار سے ایک لاکھ تک بھی بیان کی ہے.بہر حال ایک گھنٹے کی شدید جنگ ہوئی.اس کے بعد رومی لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ نہایت بد حواسی سے بھاگے.بعد میں حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ تمام زمین جو قبضے میں کی گئی ہے ان کے مالکوں کے پاس ہی رہے گی.کوئی زمین کسی سے لی نہیں جائے گی اور لوگوں کی جانیں اور مال اور زمین اور مکانات اور عبادت گاہیں سب محفوظ رہیں گی.صرف مساجد کے لیے جگہ لی جائے گی.کوئی زمین اگر لینی ہے تو مساجد کے لیے لینی ہے.باقی زمینیں ان کے مالکوں کے پاس ہی رہیں گی.302 301 پھر فتح بيسان کا بیان ہے.جب شتر خبیل فحل کی جنگ سے فراغت پاچکے تو وہ اپنی فوج اور عمر و کولے کر اہل بیسان کی طرف بڑھے اور ان کا محاصرہ کر لیا.اس وقت ابو الاعور اور ان کے ساتھ چند اور سردار طبریہ کا محاصرہ کیسے ہوئے تھے.بیسان طبریہ کے جنوب میں اٹھارہ میل کے فاصلے پر واقع جگہ ہے.اردن کے علاقوں میں دمشق اور اس کے بعد کی دیگر مہمات میں رومیوں کی پے در پے شکستوں کی خبر پھیل چکی تھی اور لوگوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ شتر خبیل اور ان کے ساتھ عمر و بن العاص اور حارث بن ہشام اور سہیل بن عمر و اپنی فوج کو لیے ہوئے بیسان کے ارادے سے جارہے ہیں اس لیے ہر جگہ لوگ قلعہ میں جمع ہو گئے.شتر خبیل نے بیسان پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا جو چند روز تک جاری رہا مگر بعد میں وہاں کے کچھ لوگ مقابلے کے لیے باہر نکلے.مسلمان ان سے لڑے اور ان کا خاتمہ کر دیا.باقی لوگوں نے مصالحت کی درخواست کی جس کو مسلمانوں نے دمشق کی شرائط پر منظور کر لیا.جو فتح دمشق کی شرائط تھیں اسی بنیاد پر وہ بھی منظور ہوئیں.02 پھر فتح طبریہ ہے.جب اہل طبریہ کو بیسان کی فتح اور اس کے معاہدہ کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے ابوالاً غور سے اس شرط پر صلح کی کہ ان کو شتر خبیل کی خدمت میں پہنچا دیا جائے.ابو الاعور نے ان کی درخواست کو منظور کر لیا.چنانچہ اہل طبریہ اور اہل بیسان سے دمشق والی شرائط پر ہی مصالحت ہو گئی اور یہ بھی طے ہوا کہ شہروں اور اس کے قریبی دیہات کی آبادیوں کے تمام مکانات میں سے آدھے مسلمانوں کے لیے خالی کر دیے جائیں اور باقی نصف میں خود رومی رہائش اختیار کریں اور وہ فی کس سالانہ ایک دینار اور زمین کی پیداوار میں سے معین حصہ ادا کریں گے.اس کے بعد مسلمان قائدین اور ان کی فوجیں آبادی میں مقیم ہو گئیں اور اردن کی صلح پایہ تکمیل کو پہنچ گئی اور تمام امدادی دستے اردن کے علاقے میں مختلف مقامات میں سکونت پذیر ہو گئے اور فتح کی بشارت، خوشخبری حضرت عمر کی خدمت میں روانہ کر دی گئی.پھر فتح نص، یہ چودہ ہجری میں ہوئی.اس کے بعد حضرت ابوعبیدہ نے حمص کی طرف پیش قدمی کی جو شام کا ایک مشہور شہر تھا اور جنگی اور سیاسی اہمیت رکھتا تھا.حمص دمشق اور حلب کے 303

Page 187

اصحاب بدر جلد 3 رض 167 حضرت عمر بن خطاب در میان شام میں واقع ہے.حمص میں ایک بڑا ہیکل تھا جس کی زیارت کے لیے دور دور سے لوگ آتے اور اس کے پجاری بننے پر فخر محسوس کرتے.بہر حال حمص کے قریب رومیوں نے ہی خود بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا اور آگے بڑھے.چنانچہ ایک فوج کثیر حمص سے نکل کر جو سیہ میں مسلمانوں کے مقابل ہوئی لیکن ان کو شکست ہوئی.حضرت ابو عبیدہ اور حضرت خالد بن ولید نے حمص پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا.سخت سردی کا موسم تھا.رومیوں کو یقین تھا کہ مسلمان کھلے میدان میں دیر تک نہیں لڑ سکیں گے.اس کے ساتھ ھر قل کی طرف سے مدد کی امید بھی تھی.چنانچہ اس نے جزیرے سے ایک فوج بھی روانہ کی لیکن حضرت سعد بن ابی وقاص نے جو عراق کی مہم پر مامور تھے کچھ فوج اس لشکر کی طرف بھیج دی جس نے اس لشکر کو وہیں روک لیا.304 مؤرخین نے لکھا ہے کہ رومیوں کے پاؤں میں چمڑے کے موزے ہوتے تھے پھر بھی ان کے پاؤں شل ہو جاتے جبکہ صحابہ کے پاؤں یا مسلمانوں کی جو فوج تھی ان کے پاؤں میں جوتوں کے علاوہ کچھ ہیں ہو تا تھا.15 هر قل اہل حمص سے مدد کا وعدہ کر کے اور انہیں مقابلے کی ہمت دلا کر خو دڑھاء چلا گیا.وعدہ کیا اور خود وہاں سے چلا گیا.حمص والے قلعہ بند ہو کر بیٹھ رہے.وہ اسی دن مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نکلتے جس دن سخت سردی ہوتی.رومی ہر قل کی مدد کے انتظار میں تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان سردی سے عاجز آکر بھاگ جائیں لیکن مسلمانوں نے ثبات قدم دکھایا اور ہر قل کی مدد بھی ان کو نہ پہنچی یعنی اس شہر کے لوگوں کو اور سردی کے دن بھی گزر گئے تو اہل حمص کو یقین ہو گیا کہ اب ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا.چنانچہ انہوں نے صلح کی درخواست کی.مسلمانوں نے اسے قبول کر لیا اور شہر کے سارے مکان اہل شہر کے لیے چھوڑ دیے گئے اور دمشق کی طرح خراج اور جزیہ پر صلح کر لی گئی.حضرت ابوعبیدہ نے حضرت عمر کو تمام واقعات سے مطلع کیا جس کے جواب میں حضرت عمر کا حکم آیا کہ تم ابھی وہیں ٹھہر و اور شام کے طاقتور قبائل عرب کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرو.میں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ برابر یہاں سے کمک بھیجتا رہوں گا.306 رض پھر مرج الروم ایک جگہ ہے اسی سال مَرجُ الرُّوم کا واقعہ پیش آیا.مَرجُ الرُّوم دِمَشْق کے قریب ایک مقام تھا.واقعہ یہ ہوا کہ حضرت ابو عبیدہ فحل سے حمص جانے کے لیے حضرت خالد بن ولید کے ساتھ روانہ ہوئے.سب نے ذُو العلّاع مقام پر پڑاؤ ڈالا.ان کی اس نقل و حرکت کی اطلاع ہر قل کو ہوئی تو اس نے تُو ذَر ابطریق کو روانہ کیا.وہ مرج دمشق اور اس کی مغربی جانب میں قیام پذیر ہوا.ابوعبیدہ نے مَرجُ الرُّوم اور اس کے لشکر سے ابتدا کی.اس وقت ان کی یعنی مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ سردی کا موسم آچکا تھا اور ان کے جسم زخموں سے بھرے ہوئے تھے.جب یہ لوگ مرج الروم پہنچے تو شنش رومی بھی ادھر آگیا اور تو ذرا کے قریب ہی شاہ سواروں کے ساتھ اس نے پڑاؤ ڈال

Page 188

محاب بدر جلد 3 168 حضرت عمر بن خطاب لیا.یہ شَنَش دراصل تُو ذرا کی مدد اور حمص والوں کے بچاؤ کے لیے آیا تھا.وہ ایک کنارے پر اپنے لشکر کے ساتھ فروکش ہو گیا.جب رات آئی تو ان کا دوسر اسپہ سالار تُو ذرا وہاں سے روانہ ہو گیا اور اس کے جانے کی وجہ سے وہ جگہ خالی ہو گئی.تو ذرا کے مد مقابل حضرت خالد بن ولید تھے جبکہ شنس کے مقابلے میں حضرت ابوعبیدہ تھے.حضرت خالد بن ولید کو جب اس بات کی خبر ملی کہ تُؤذَرا یہاں سے دمشق روانہ ہو چکا ہے تو حضرت خالد اور حضرت ابو عبیدہ نے باتفاق رائے اس بات کا فیصلہ کیا کہ تُوذَرا کے تعاقب میں حضرت خالد روانہ ہو جائیں.چنانچہ حضرت خالد بن ولید گھڑ سواروں کا ایک دستہ لے کر اسی رات اس کے تعاقب میں چل پڑے.ادھر یزید بن ابو سفیان کو تو ذرا کی اس حرکت کی خبر مل گئی تھی.چنانچہ وہ تُو ذرا کے مقابلے پر آگئے اور دونوں لشکروں میں جنگ کا میدان گرم ہو گیا.ابھی دونوں کے درمیان لڑائی جاری تھی کہ پیچھے سے حضرت خالد بن ولید اپنے لشکر کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے تُو ذرا کی پشت سے ہلہ بول دیا.نتیجہی کشتوں کے پشتے لگ گئے اور دشمن سامنے اور پیچھے دونوں طرف سے مارا گیا.مسلمانوں نے ان کو موت کی نیند سلا دیا.ان میں سے زندہ صرف وہی بچے جنہوں نے راہ فرار اختیار کر لی.مسلمانوں کو اس معرکے میں جو مالِ غنیمت ہاتھ آیا اس میں سواری کے جانور ، ہتھیار ، لباس وغیرہ تھے.اس کو حضرت یزید بن ابو سفیان نے اپنے اور حضرت خالد بن ولیڈ کے سپاہیوں میں بانٹ دیا.اس کے بعد حضرت یزید دمشق کی جانب روانہ ہو گئے اور حضرت خالد بن ولید حضرت ابوعبیدہ کی جانب واپس چلے گئے.اسلام کی تاریخ میں جو بد نام یزید ہے وہ معاویہ کے بیٹے تھے اور یہ یزید ابوسفیان کے بیٹے یزید ہیں.تو خدا جو رومیوں کا سردار تھا، اس کو حضرت خالد بن ولید نے قتل کیا تھا.حضرت خالد بن ولید جب تُو ذرا کے تعاقب میں روانہ ہو گئے تو حضرت ابو عبیدہ نے شنس کا مقابلہ کیا.دونوں فوجوں میں مزج الروم کے مقام پر جنگ چھڑ گئی.اسلامی لشکر نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور حضرت ابو عبیدہ نے شکش کا کام تمام کر دیا.مزج الروم دشمن کی لاشوں سے بھر گیا.ان لاشوں کی بنا پر وہ مقام بدبودار ہو گیا تھا.رومیوں میں سے جو بھاگ گئے وہ تو بچ گئے.باقی کوئی موت کے منہ سے نہ بچ سکا.مسلمانوں نے بھاگنے والوں کا حمص تک پیچھا کیا." پھر حضرت ابوعبيده فوج لے کر حماة کی طرف روانہ ہوئے.حماۃ بھی شام کا ایک قدیم شہر ہے جو اس وقت دمشق سے پانچ روز کی مسافت پر واقع تھا.اہل حماۃ نے ان کے آگے سر اطاعت خم کر دیا، تسلیم کر لیا.شیزر والوں کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے بھی اہل حماۃ کی مانند صلح کر لی.شَيُور حماة سے نصف روز کی مسافت پر واقع ایک بستی تھی.پھر حضرت ابوعبیدہ نے سلمیه کو فتح کیا.سلمیہ بھی عمات سے دو دن کی مسافت پر واقع ایک بستی تھی.307 308 رض

Page 189

اصحاب بدر جلد 3 169 حضرت عمر بن خطاب اس کے بعد پھر لاذقیه کی فتح ہوئی جو چودہ ہجری کی ہے.اسلامی لشکر نے حضرت ابوعبیدہ کی سرکردگی میں لاذقیہ کا رخ کیا جو شام کا ایک شہر ہے اور ساحل سمندر پر واقع ہے اور حمص کے نواحی علاقوں میں اس کو شمار کیا جاتا ہے.لاذقیہ والوں نے جب اسلامی لشکر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے اور شہر کے دروازے بند کر کے مقابلے کے لیے آمادہ ہو گئے.انہیں اطمینان تھا کہ اگر مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا تو وہ مقابلے کی طاقت رکھتے ہیں اور اتنی دیر میں سمندر کے راستے انہیں ہر قل سے کمک پہنچ جائے گی.مسلمانوں نے اس شہر کا محاصرہ کر لیا.حفاظتی انتظامات کے لحاظ سے یہ شہر بہت مضبوط تھا اور فوجی چوکیوں کی وجہ سے کافی مشہور تھا.رض حضرت ابوعبیدہ نے اس کو فتح کرنے کی ایک نئی ترکیب نکالی کیونکہ آپ جنگی حکمت عملی جانتے تھے.انہوں نے محسوس کر لیا کہ اسے سر کرنا، فتح کرنا بہت مشکل ہے.اگر وہ اس کے مقابلے پہ خیمہ زن ہو جاتے ہیں تو عرصہ قیام بہت لمبا ہو جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لمبا عرصہ کا جو یہ محاصرہ ہے اس دوران دشمنوں کی طرف سے ان کو مدد بھی پہنچ جائے اور یہاں سے ناکام لوٹنا پڑے یا پھر شہر کا محاصرہ زیادہ لمبا کیا جائے تو انکا کیہ جانانا ممکن ہو جائے گا تو آپ نے ایک رات میدان میں بہت سے گہرے گڑھے کھدوائے اتنے کہ گھوڑے پر سوار بیٹھا ان میں چھپ جائے اور انہیں گھاس سے چھپا دیا اور صبح محاصرہ اٹھا کر حمص کی طرف روانہ ہو گئے.شہر والوں نے محاصرہ اٹھتے دیکھا تو خوش ہوئے اور اطمینان سے شہر کے دروازے کھول دیے.دوسری طرف حضرت ابو عبیدہ راتوں رات اپنی فوج سمیت واپس آگئے اور ان غار نما گڑھوں میں چھپ گئے.صبح جب شہر کے دروازے کھلے تو مسلمانوں نے ان پر حملہ کر دیا کچھ مسلمانوں نے شہر کے دروازے پر قبضہ کر لیا جو قلعہ سے باہر تھے انہوں نے بھاگنے میں اپنی عافیت جانی اور جو شہر میں موجود تھے ان پر خوف طاری ہو چکا تھا.لہذا جو لوگ شہر میں تھے ان میں سے ہر ایک راہ نجات کی جستجو میں لگ گیا.ان کے لیے اطاعت اور تسلیم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا.چنانچہ انہوں نے صلح کر لی اور بھاگنے والوں نے امان چاہی.مسلمانوں نے شہر میں داخل ہو کر شہر کو فتح کر لیا.حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے جزیے پر صلح کرلی اور ان کا گر جا انہی کے قبضے میں رہنے دیا اور بعد میں مسلمانوں نے اس کے قریب ہی اپنی ایک مسجد بنالی.309 اس فتح کے بعد حضرت عمرؓ نے لکھا کہ اس سال مزید پیش قدمی نہ کی جائے.پھر فتح قنسرین ہے.یہ پندرہ ہجری کی ہے.حضرت ابوعبیدہ بن جراح “ نے حضرت خالد بن ولید کو قنسرین کی طرف روانہ کیا جو صوبہ حلب کا ایک بارونق شہر تھا.حلب کے راستے میں پہاڑ کے در میان قنسرین کا قلعہ واقع تھا.حضرت خالد بن ولید حاضر مقام کے قریب پہنچے.حَاضِرُ بھی حَلب کے قریب ایک مقام ہے اس جگہ رومی لوگ میںاس کی زیر قیادت آپ کے مقابلے میں آگئے.ھر قل کے بعد روم کا سب سے بڑا سپہ سالار میناس ہی تھا.بہر حال وہاں کے باشندوں نے اور جو اُن کے ہاں 310

Page 190

اصحاب بدر جلد 3 170 حضرت عمر بن خطاب عرب عیسائی تھے انہوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا.عربوں کا یہ دستور تھا کہ وہ شہر کی حفاظت کے لیے شہر سے باہر نکل کر خیمے ڈال دیتے تھے.چنانچہ یہ عیسائی عرب بھی اسی دستور کے مطابق باہر خیمہ زن تھے.سخت معر کے کے بعد حضرت خالد نے رومیوں کا بہت سا لشکر قتل کر دیا اور ان کے سردار میناس کو بھی قتل کر دیا.علاقے کے لوگوں نے حضرت خالد بن ولید کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم عرب لوگ ہیں اور جنگ کرنے پر راضی ہی نہ تھے.ہمیں زبر دستی اس جنگ میں شامل کیا گیا تھا.لہذا ہم سے در گزر کیا جائے.اس پر حضرت خالد نے ان کا عذر قبول کیا اور ان سے اپنا ہاتھ روک لیا.کچھ رومی بھاگ کر قنسرین میں قلعہ بند ہو گئے.حضرت خالد نے ان کا تعاقب کیا لیکن جب وه قنسرین پہنچے تو رومی شہر کے دروازے بند کر چکے تھے.یہ دیکھ کر حضرت خالد نے ان کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اگر تم بادلوں میں بھی جا چھپو گے تو اللہ تعالیٰ ہم کو تمہارے پاس پہنچا دے گا یا تمہیں ہماری طرف پھینک دے گا.کچھ دن تو وہ یو نہی قلعہ بند ر ہے لیکن آخر کار قشیرین والوں کو یقین ہو گیا کہ اب کوئی راہ نجات نہیں.چنانچہ انہوں نے درخواست کی کہ حمص کی صلح کی شرائط پر انہیں امان دی جائے لیکن انہوں نے جو پہلے حکم عدولی کی تھی حضرت خالد انہیں اس حکم عدولی کی سزا دینے کا فیصلہ کر چکے تھے.اس لیے حضرت خالد شہر کو تباہ کرنے کے سوا اور کسی بات پر راضی نہ ہوئے.اہل قنسرین اپنے مال و متاع اور اہل و عیال کو تقدیر کے حوالے کر کے انکا کیہ بھاگ گئے.جس وقت حضرت ابوعبیدہ بن الجراح قنسرین پہنچے تو انہوں نے حضرت خالد بن ولیڈ کے اس فیصلے کو عدل و انصاف کے عین مطابق پایا اور شہر کے قلعے اور فصیلیں منہدم کر دیں.اس کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ انصاف کے ساتھ شفقت کا سلوک بھی ہونا چاہیے.یہ تو انصاف تھا جو پہلے دشمنوں سے کیا گیا، اب شفقت بھی مسلمانوں کو کرنی چاہیے.پھر انہوں نے شفقت کے لیے یہ کیا کہ اہلِ شہر کو ان کی درخواست کے مطابق امان بھی دے دی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہر کے کلیسا اور مکان تقسیم کر دیے گئے.چرچ بھی اور مکان بھی تقسیم کر دیے گئے اور نصف حصہ پر مسلمان قابض ہو گئے ، نصف حصہ انہی کے پاس رہنے دیا.ایک روایت یہ بھی ہے کہ شہر کی کچھ زمین لے کر وہاں مسجد تعمیر کر دی گئی اور باقی سب کچھ بدستور اہل علاقہ کے قبضہ میں ہی رہنے دیا.جو لوگ آنکا کیہ بھاگ گئے تھے وہ بھی جزیہ قبول کر کے واپس آگئے تھے.دوسرے مفتوحہ علاقوں کی طرح یہاں کے لوگوں سے بھی بہتر سلوک کیا گیا اور صحیح مساوات کی بنیاد پر ان کے درمیان عدل قائم کیا گیا جس میں کوئی طاقتور کسی بھی کمزور پر ظلم وجبر نہیں کر سکتا تھا.11 پھر فتح قیساریہ ہے.یہ بھی پندرہ ہجری کی ہے.قیساریہ شام کا ساحلی شہر ہے جو طبریہ سے تین دن کی مسافت پر واقع تھا.یہ جنگ کس سال میں ہوئی؟ اس کے بارے میں متفرق روایات ملتی ہیں.ایک تو ہے کہ پندرہ ہجری.دوسرے قول کے مطابق سولہ ہجری میں ہوئی اور تیسری

Page 191

اصحاب بدر جلد 3 171 312 حضرت عمر بن خطاب روایت کے مطابق انیس ہجری اور چوتھے قول کے مطابق بیس ہجری میں ہوئی.بہر حال جس وقت حضرت ابو عبیدہ شمالی روم میں فاتحانہ پیش قدمی فرمارہے تھے حضرت عمر و بن عاص اور حضرت شرحبيل بن حَسَنَه روم کی ان فوجوں سے جنگ آزما تھے جو فلسطین میں جمع تھیں اور انہیں شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے لیکن یہ کوئی آسان کام نہ تھا.یہ فوجیں کثرتِ تعداد اور سامان کے اعتبار سے بہت قوی تھیں اور ان کی قیادت روم کا سب سے بڑا سپہ سالار آظر نبون کر رہا تھا جس کی بعید النظری اور جنگی سوجھ بوجھ مملکت میں اپنا کوئی حریف نہ رکھتی تھی.اس نے سوچا کہ فوج کو مختلف مقامات پر پھیلا دیا جائے تاکہ زمام اقتدار بھی تنہا اسی کے ہاتھ میں رہے اور اگر اس فوج کے کچھ حصوں پر عرب فتح بھی پائیں تو دوسرے حصے اس سے متاثر نہ ہوں.چنانچہ اس نے رنکہ اور اسی طرح ایلیا پر ایک بھاری لشکر متعین کیا اور اس کی حمایت کے لیے غزہ، سَبَسْطِيَهِ، تَابُلُسْ، لت اور يَافًا میں فوجیں چھوڑ دیں.اس کے بعد عربوں کی آمد کے انتظار میں بیٹھ گیا.اسے یقین تھا کہ وہ عربوں پر فتح پانے اور ان کی قوتوں کو پراگندہ کرنے کی طاقت وقوت رکھتا ہے.حضرت عمرو بن عاص نے موقع کی نزاکت کو محسوس کر لیا.انہوں نے سوچا کہ اگر وہ اپنی تمام فوجوں کے ساتھ اظربون کے مقابلے میں صف آرا ہوتے ہیں تو رومی فوجیں ایک دوسرے سے مل جائیں گی اور وہ ان پر فتح یاب نہ ہو سکیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ رومی ان پر فتح پالیں.چنانچہ انہوں نے حضرت عمر کو خط لکھا تو آپ نے یزید بن ابو سفیان کو حکم دیا کہ اپنے بھائی معاویہ کو قیساریہ فتح کرنے بھیجو تا کہ بحری راستے سے آخر بون کو مددنہ پہنچ سکے.حضرت عمر نے امیر معاویہ کے نام خط میں تحریر فرمایا کہ میں تمہیں قیساریہ کا امیر بناتا ہوں، وہاں جاؤ اور اس کے خلاف اللہ سے مدد طلب کرو اور لَا حَوْلَ وَلَا قُوَةً إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيم اور اللهُ رَبُّنَا وَثِقَتُنَا وَرَجَاؤُنَاوَ مَوْلَنَا نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ بکثرت پڑھو.یعنی گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی طاقت صرف اللہ ہی کو ہے جو بہت بلندشان والا اور بہت عظمت والا ہے اور اللہ ہمارا رب ہے اور ہمارا بھر وسہ ہے اور وہ ہماری امید گاہ ہے.وہ ہمارا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مولی اور کیا ہی اچھا مدد گار ہے.الفاروق میں لکھا ہے کہ قیساریہ پر اول تیرہ ہجری میں عمرو بن عاص نے چڑھائی کی اور مدت تک محاصرہ کیے پڑے رہے لیکن فتح نہ ہو سکا.ابو عبیدہ کی وفات کے بعد حضرت عمر نے یزید بن ابی سفیان کو ان کی جگہ مقرر کیا اور حکم دیا کہ قیساریہ کی مہم پر جاؤ.یزید سترہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے اور شہر کا محاصرہ کیا لیکن اٹھارہ ہجری میں جب بیمار ہوئے تو اپنے بھائی امیر معاویہ کو اپنا قائم مقام مقرر کر کے دمشق چلے آئے.وہیں ان کی وفات ہو گئی.فَيْسَارِيه بحر شام کے ساحل پر واقع ہے اور فلسطین کے اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے.آج بہر حال یہ ویران پڑا ہے لیکن اس زمانے میں بہت بڑا شہر تھا اور بقول بلاذری کے تین سو بازار آباد تھے جس کی

Page 192

اصحاب بدر جلد 3 172 حضرت عمر بن خطاب حفاظت پر ایک بہت بڑا رومی لشکر متعین تھا.یہاں ان کا ایک بہت مضبوط اور خطرناک سرحدی قلعہ تھا.حضرت معاویہ نے قیساریہ پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا.رومی کبھی اسلامی فوج پر حملہ کرتے لیکن شکست کھا کر پھر اپنے مورچوں میں واپس ہو جاتے.آخر کار جب محاصرہ طویل ہو گیا تو ایک دن مرنے مارنے کے ارادے سے نکلے لیکن شکست کھائی اور ایسی عبرت ناک شکست کھائی کہ میدانِ جنگ میں ان کے اتنی ہزار سپاہی مارے گئے اور یہ تعداد ہزیمت و فرار کے بعد ایک لاکھ تک پہنچ گئی.قیساریہ کی فتح اور اس کے لشکر کی تباہی کے بعد مسلمان اس طرف سے مطمئن اور محفوظ ہو گئے اور اس رستے سے رومیوں کو کمک کا سلسلہ رک گیا.حضرت معاویہ نے مالِ غنیمت کے خمس کے ساتھ فتح کی خبر حضرت عمر کی خدمت میں بھجوائی.ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ نے بڑے ساز و سامان سے محاصرہ کیا.شہر والے کئی دفعہ قلعہ سے نکل نکل کر لڑے لیکن ہر دفعہ شکست کھائی تاہم شہر پر قبضہ نہ ہو سکا.ایک دن ایک یہودی نے جس کا نام یوسف تھا، امیر معاویہ کے پاس آکر ایک سرنگ کا نشان دیا جو شہر کے اندر اندر قلعہ کے دروازے تک گئی تھی.چنانچہ چند بہادروں نے اس راہ قلعہ کے اندر پہنچ کر دروازہ کھول دیا اور ساتھ اس راہ ہی تمام فوج ٹوٹ پڑی اور فتح حاصل کی.حضرت عبادہ بن صامت جو بدری صحابہ میں سے ہیں وہ بھی اس جنگ میں شامل تھے.ان کی بہادری کا واقعہ قیساریہ کی جنگ میں اس طرح ملتا ہے کہ قیساریہ کے محاصرے کے مقام پر حضرت عُبادہ بن صامت اسلامی فوج کے میمنہ کے قائد تھے.آپ اپنی فوج کو نصیحت کرنے کھڑے ہوئے.انہیں گناہوں سے بچنے اور اپنا محاسبہ کرنے کا حکم دیا.پھر مجاہدین کا ایک ہجوم لے کر آگے بڑھے اور بہت سارے رومیوں کو قتل کیا لیکن اپنے مقصد میں اچھی طرح کامیاب نہ ہوئے.دوبارہ اپنی جگہ واپس آئے، اپنے ساتھیوں کو لڑنے مرنے پر جوش دلایا اور اپنے ساتھ اتنا بڑا ہجوم لے کر حملہ کرنے کے بعد بھی نامر ادلوٹنے پر کافی حیرت اور تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ اے اسلام کے پاسبانو ! میں بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے نقباء میں سے یعنی نقیبوں میں سے کم عمر تھا لیکن مجھے سب سے لمبی عمر ملی.اللہ نے میرے حق میں فیصلہ کیا کہ مجھے زندہ رکھا، یہاں تک کہ آج یہاں تمہارے ساتھ اس دشمن سے لڑ رہا ہوں.قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے مومنوں کی جماعت لے کر جب بھی مشرکوں کی جماعت پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمارے لیے میدان خالی کر دیا یعنی ہماری جیت ہوئی اور اللہ نے ان پر ہمیں فتح دی.کیا بات ہے کہ تم نے ان پر حملہ کیا اور ان کو ہٹا نہ سکے.پھر اس کے بارے میں آپ کو جو اندیشہ لاحق تھا اسے ان لفظوں میں بیان کیا کہ مجھے تمہارے بارے میں دو چیزوں کا اندیشہ ہے یا تو تم میں سے کوئی خائن ہے یا جب تم نے حملہ کیا تو مخلص نہیں تھے.یا خائن ہو یا اس وقت اخلاص نہیں تھا جب حملہ کر رہے تھے.اس کے بعد آپ نے انہیں صدق دل

Page 193

اصحاب بدر جلد 3 173 حضرت عمر بن خطاب سے شہادت مانگنے کی تلقین کی اور کہا کہ میں تم میں سب سے پیش پیش رہوں گا اور ہر گز پیچھے نہ ہٹوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فتح سے نواز دے یا شہادت کی موت عطا فرمائے.چنانچہ جب رومی اور مسلمان آپس میں ٹکرائے تو عبادہ بن صامت اپنے گھوڑے سے کود کر پیدل ہو گئے.خمیر بن سعد انصاری نے آپ کو پیدل دیکھا تو امیر لشکر کے پیدل لڑنے کی بات مسلمانوں میں عام کر دی اور کہا کہ سب لوگ انہی کی طرح ہو جائیں.چنانچہ سب نے رومیوں سے زبر دست معرکہ آرائی کی اور انہیں پست کر دیا.بالآخر وہ بھاگ کر شہر میں قلعہ بند ہو گئے.جس طرح عربوں نے قیساریہ پر قبضہ کیا تھا اسی طرح غزہ بھی فتح کر لیا.عہد صدیقی میں بھی مسلمان ایک دفعہ غزہ پر قبضہ کر چکے تھے لیکن بعد میں انہیں وہاں سے نکال دیا گیا تھا.جب یہ دونوں سر حدی مقام مسلمانوں کے زیر اقتدار آگئے تو حضرت عمرو بن عاص کو سمندر کی طرف سے اطمینان ہو گیا.313 جنگ یرموک جنگ پر موک کی تاریخ کے متعلق روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے.ایک روایت تو یہی ہے کہ یہ جنگ پندرہ ہجری کو لڑی گئی.بعض کے نزدیک یہ تیرہ ہجری میں فتح 314 دمشق سے پہلے لڑی گئی تھی.ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کو سب سے پہلے جس جنگ میں فتح کی خوشخبری پہنچی وہ جنگ یر موک ہی تھی.اس وقت حضرت ابو بکر کی وفات کو نہیں دن گزر چکے تھے.بعض کے نزدیک فتح دمشق کی خوشخبری سب سے پہلے ملی تھی.لیکن بہر حال دمشق کی فتح کی خوشخبری والی بات زیادہ صحیح لگتی ہے جو پہلے ہوئی.شواہد تو یہی بتاتے ہیں کہ جنگ پر موک حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہی لڑی گئی تھی.رومی جب شکست کھا کھا کر دمشق اور حمص وغیرہ سے نکلے تھے تو انکا کیہ پہنچے.انطاکیہ شام کا سرحدی شہر ہے.اور ہر قل سے فریاد کی کہ عرب نے تمام شام کو پامال کر دیا ہے.ہر قل نے اس میں سے چند ہوشیار اور معزز آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور کہا کہ عرب تم سے زور میں ، جمعیت میں، ساز و سامان میں کم ہیں پھر تم ان کا مقابلہ کیوں نہیں کر سکتے ؟ کیوں نہیں مقابلے میں ٹھہر سکتے ؟ اس پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا.کسی نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن ایک تجربہ کار بڑھے نے عرض کی کہ عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں.وہ رات کو عبادت کرتے ہیں.دن کو روزے رکھتے ہیں.کسی پر ظلم نہیں کرتے.آپس میں ایک دوسرے سے برابری کے ساتھ ملتے ہیں.اور ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں.بدکاریاں کرتے ہیں.اقرار کی پابندی نہیں کرتے.اوروں پر ظلم کرتے ہیں اور اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں تو جوش ہے اور استقلال پایا جاتا ہے اور ہمارا جو کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے.

Page 194

ناب بدر جلد 3 174 حضرت عمر بن خطاب قیصر در حقیقت شام سے نکل جانے کا ارادہ کر چکا تھا لیکن ہر شہر اور ہر ضلع سے جوق در جوق عیسائی فریادی چلے آتے تھے.قیصر کو سخت غیرت آئی اور نہایت جوش کے ساتھ آمادہ ہوا کہ اپنی شہنشاہی کا پورا زور عرب کے مقابلے میں صرف کر دیا جائے.روم، قسطنطینیه، جزیره آرمینیا، ہر جگہ احکام بھیجے کہ تمام فوجیں انطاکیہ میں ایک تاریخ معین تک حاضر ہو جائیں.تمام اضلاع کے افسروں کو لکھ بھیجا لو کہ جس قدر آدمی جہاں سے مہیا ہو سکیں روانہ کیے جائیں.ان احکام کا پہنچنا تھا کہ فوجوں کا ایک طوفان امڈ آیا.انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نگاہ جاتی تھی فوجوں کا ٹڈی دل پھیلا ہوا تھا.بے شمار فوج تھی.ย رض جزیہ واپس کر دیا گیا حضرت ابو عبیدہ نے جو مقامات فتح کر لیے تھے وہاں کے امراء اور رئیس ان کے عدل و انصاف کے اس قدر گرویدہ ہو گئے تھے کہ باوجود مخالفت مذہب کے انہوں نے خود اپنی طرف سے دشمن کی خبر لانے کے لیے جاسوس مقرر کر رکھے تھے.چنانچہ ان کے ذریعہ سے حضرت ابوعبیدہ " کو تمام واقعات کی اطلاع ہوئی.انہوں نے تمام افسروں کو جمع کیا اور کھڑے ہو کر ایک پر اثر تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانو ! خدا نے تم کو بار بار جانچا اور تم اس کی جانچ پہ پورے اتر ہے.چنانچہ اس کے صلہ میں خدا نے ہمیشہ تم کو مظفر و منصور رکھا، ہمیشہ کامیابی حاصل ہوئی.اب تمہارا دشمن اس ساز و سامان سے تمہارے مقابلے کے لیے چلا ہے کہ زمین کانپ اٹھی ہے.اب بتاؤ کیا صلاح ہے ؟ یزید بن ابی سفیان امیر معاویہ کے بھائی تھے وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میری رائے ہے کہ عورتوں اور بچوں کو شہر میں رہنے دیں اور ہم خود شہر کے باہر لشکر آرا ہوں.اس کے ساتھ خالد اور عمرو بن عاص کو خط لکھا جائے کہ دمشق اور فلسطین سے چل کر مدد کو آئیں.یہاں سے بھی یہی ثابت ہو تا ہے کہ دمشق کی فتح پہلے تھی.شر خبیل بن حَسَنَہ نے کہا کہ اس موقع پر ہر شخص کو آزادانہ رائے دینی چاہیے.یزید نے جو رائے دی بلاشبہ خیر خواہی سے دی ہے لیکن میں اس کا مخالف ہوں.شہر والے تمام عیسائی ہیں.ممکن ہے کہ وہ تعصب سے ہمارے اہل و عیال کو پکڑ کر قیصر کے حوالے کر دیں یا خو د مار ڈالیں.خود ہی ان کے خلاف کھڑے ہو جائیں.حضرت ابو عبیدہ نے کہا کہ اس کی تدبیر یہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو شہر سے نکال دیں تو ہمارے بیوی بچے محفوظ ہو جائیں گے.شر خبیل نے اٹھ کر کہا کہ اے امیر ! تجھ کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں ہے.ہم نے ان عیسائیوں کو اس شرط پر امن دیا ہے کہ وہ شہر میں اطمینان سے رہیں اس لیے نقض عہد کیونکر ہو سکتا ہے؟ ہم ایک عہد کر چکے ہیں.کس طرح اس عہد کو توڑیں کہ ان کو شہر سے نکال دیں.حضرت ابو عبیدہ نے اپنی غلطی تسلیم کی لیکن یہ بحث طے نہیں ہوئی کہ آخر کیا کیا جائے.عام حاضرین نے رائے دی کہ حمص میں ٹھہر کے فوجی امداد کا انتظار کیا جائے.ابوعبیدہ نے کہا کہ اتنا وقت کہاں ہے ؟ آخر یہ رائے ٹھہری کہ حمص کو چھوڑ کر دمشق روانہ ہوں، رض رض

Page 195

اصحاب بدر جلد 3 175 حضرت عمر بن خطاب رض وہاں خالد موجود ہیں اور عرب کی سرحد قریب ہے.یہ ارادہ مصمم ہو چکا تو حضرت ابو عبیدہ نے حبیب بن مسلمہ کو جو افسر خزانہ تھے بلا کر کہا کہ عیسائیوں سے جو جزیہ یا خراج لیا جاتا ہے ، جو بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ، اس وقت ہماری حالت ایسی نازک ہے کہ ہم ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں اٹھا سکتے.یہ تو اس لیے تھا کہ ان کی بہتری کے لیے ان کی حفاظت کے لیے کام ہو گا لیکن وہ ہم کر نہیں سکتے.اس لیے جو کچھ ان سے وصول ہوا ہے سب ان کو واپس دے دو اور ان سے کہہ دو کہ ہم کو تمہارے ساتھ جو تعلق تھا اب بھی ہے لیکن چونکہ اس وقت تمہاری حفاظت کے ہم ذمہ دار نہیں ہو سکتے اس لیے جزیہ جو حفاظت کا معاوضہ ہے تمہیں واپس کیا جاتا ہے.چنانچہ کئی لاکھ کی رقم جو وصول ہوئی تھی کل واپس کر دی گئی.عیسائیوں پر اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو واپس لائے.یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا.انہوں نے کہا کہ تورات کی قسم ! جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا.یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کر دیے اور ہر جگہ چو کی پہرہ بٹھا دیا.ابوعبیدہ نے صرف حمص والوں کے ساتھ یہ برتاؤ نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے ہر جگہ لکھ بھیجا کہ جزیہ کی جس قدر رقم وصول ہوئی ہے واپس کر دی جائے.غرض ابو عبیدہ دمشق کو روانہ ہوئے اور ان تمام حالات سے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی.رض حضرت عمر یہ سن کر کہ مسلمان رومیوں کے ڈر سے حمص چلے آئے ہیں نہایت رنجیدہ ہوئے لیکن جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ گل فوج اور افسران فوج نے یہی فیصلہ کیا ہے تو فی الجملہ تسلی ہوئی اور فرمایا کہ خدا نے کسی مصلحت سے تمام مسلمانوں کو اس رائے پر متفق کیا ہو گا.یہ بھی حوالے ملتے ہیں کہ پہلے حضرت عمر سے پوچھا گیا تھا اور حضرت عمر نے ہی فرمایا تھا کہ اگر تم حفاظت نہیں کر سکتے تو ان کا سب کچھ ، جو کچھ بھی جزیہ وغیرہ لیا ہے واپس کرو.ابو عبیدہ کو حضرت عمرؓ نے جواب لکھا کہ میں مدد کے لیے سعید بن عامر کو بھیجتا ہوں لیکن فتح و شکست فوج کی قلت و کثرت پر نہیں ہوا کرتی.ابوعبیدہ نے دمشق پہنچ کر تمام افسروں کو جمع کیا اور ان سے مشاورت کی.یزید بن ابی سفیان، شرحبيل بن حَسَنَه، معاذ بن جبل سب نے مختلف رائیں دیں.اسی اثنا میں عمرو بن عاص کا قاصد خط لے کر پہنچا جس کا یہ مضمون تھا کہ اردن کے اضلاع میں عام بغاوت پھیل گئی ہے اور رومیوں کی آمد آمد نے سخت تہلکہ ڈال دیا ہے اور حمص کو چھوڑ کر چلے آنا نہایت بے رعبی کا سبب ہوا ہے.ابوعبیدہ نے جواب میں لکھا کہ حمص کو ہم نے ڈر کر نہیں چھوڑا بلکہ مقصود یہ تھا کہ دشمن محفوظ مقامات سے نکل آئے اور اسلامی فوجیں جو جابجا پھیلی ہوئی ہیں یکجا ہو جائیں اور خط میں یہ بھی لکھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ٹلو.میں وہیں آکر تم سے ملتا ہوں.دوسرے دن ابو عبیدہ و مشق سے روانہ ہو گئے اور اردن کی حدود میں پر موک پہنچ کر قیام کیا.یر موک شام کے نواح میں نشیبی وادی تھی جہاں دریائے اردن بہتا تھا.عمر و بن عاص بھی یہیں آکر ملے.

Page 196

حاب بدر جلد 3 176 حضرت عمر بن خطاب موقع جنگ کی ضرورتوں کے لیے اس لحاظ سے مناسب تھا کہ عرب کی سر حد بہ نسبت اور تمام مقامات کے یہاں سے قریب تھی اور پشت پر عرب کی سرحد تک کھلا میدان تھا جس سے یہ موقع حاصل تھا کہ ضرورت پر جہاں تک چاہیں پیچھے ہٹتے جائیں.حضرت عمر نے سعید بن عامر کے ساتھ جو فوج روانہ کی تھی وہ ابھی نہیں پہنچی تھی.ادھر رومیوں کی آمد اور ان کے سامان کا حال سن کر مسلمان گھبر ائے جاتے تھے.ابوعبیدہ نے حضرت عمرؓ کے پاس ایک اور قاصد دوڑایا اور لکھا کہ رومی بحروبر سے اُبل پڑے ہیں اور جوش کا یہ حال ہے کہ فوج جس راہ سے گزرتی ہے راہب اور خانقاہ نشین جنہوں نے کبھی خلوت سے قدم باہر نہیں نکالا وہ بھی نکل نکل کر فوج کے ساتھ ہوتے جاتے ہیں.عمر تم کو سلام کہتا ہے.....یہ خط پہنچا تو حضرت عمر نے مہاجرین اور انصار کو جمع کیا اور خط پڑھ کر سنایا.تمام صحابہ بے اختیار رو پڑے اور نہایت جوش کے ساتھ پکار کر کہا کہ امیر المومنین ! خدا کے لیے ہمیں اجازت دیں کہ ہم اپنے بھائیوں پر جا کر شار ہو جائیں.خدا نخواستہ ان کا بال بھی بیکا ہوا تو پھر جینا بے سود ہے.مهاجرین و انصار کا جوش بڑھتا جاتا تھا یہاں تک کہ عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ امیر المومنین ! آپ خود سپہ سالار بنیں اور ہمیں ساتھ لے کر چلیں لیکن اور صحابہ نے اس رائے سے اختلاف کیا اور رائے یہ ٹھہری کہ اور امدادی فوجیں بھیجی جائیں.حضرت عمرؓ نے قاصد سے دریافت کیا کہ دشمن کہاں تک آ گئے ہیں ؟ اس نے کہا کہ یرموک سے تین چار منزل کا فاصلہ رہ گیا ہے.حضرت عمر نہایت غمزدہ ہوئے اور فرمایا کہ افسوس اب کیا ہو سکتا ہے.اتنے عرصہ میں کیونکر مدد پہنچ سکتی ہے ؟ ابوعبیدہ کے نام نہایت پُر تاثیر الفاظ میں ایک خط لکھا اور قاصد سے کہا کہ خود ایک ایک صف میں جا کر یہ خط سنانا اور زبانی کہنا کہ عمر تم لوگوں کو سلام کہتا ہے اور کہتے ہیں کہ اے اہل اسلام ! بے جگری سے لڑو اور اپنے شمنوں پر شیروں کی طرح جھپٹو اور تلواروں سے ان کی کھوپڑیوں کو کاٹ ڈالو اور چاہیے کہ وہ لوگ تمہارے نزدیک چیونٹیوں سے بھی حقیر ہوں.ان کی کثرت تم لوگوں کو خوفزدہ نہ کرے اور تم میں سے جو ابھی تم سے نہیں ملے ان کی وجہ سے پریشان نہ ہونا.یہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ جس دن قاصد ابوعبیدہ کے پاس آیا اسی دن سعید بن عامر بھی ہزار آدمی کے ساتھ پہنچ گئے.مسلمانوں کو نہایت تقویت ہوئی اور انہوں نے نہایت استقلال کے ساتھ لڑائی کی تیاریاں شروع کیں.معاذ بن جبل موجو بڑے رتبے کے صحابی تھے میمنہ پر مقرر کیا.قبات بن اشیم کو میسرہ اور ہاشم بن عُتبہ کو پیدل فوج کی افسری دی.اپنے رکاب کی فوج کے چار حصے کیے.ایک کو اپنی رکاب میں رکھا باقی پر قیس بن هُبَيْرَه، مَيْسَرَه بن مَسْرُوق، عمر و بن طفیل کو مقرر کیا.یہ تینوں بہادر تمام عرب میں انتخاب تھے یعنی بہت بہادر کہلائے جاتے تھے اور اس وجہ سے فارس العرب“ کہلاتے تھے.رومی بھی بڑے

Page 197

اصحاب بدر جلد 3 177 حضرت عمر بن خطاب سر و سامان سے نکلے تھے.دولاکھ سے زیادہ جمعیت تھی اور چوبیس صفیں تھیں جن کے آگے آگے ان کے مذہبی پیشوا ہا تھوں میں صلیبیں لیے جوش دلاتے جاتے تھے.فوجیں بالمقابل آئیں تو ایک بطریق صف چیر کر نکلا اور کہا کہ میں تنہا لڑنا چاہتا ہوں.بطرِیق عیسائیوں کے مذہبی پیشواؤں کو کہتے ہیں.میسرہ بن مسروق نے گھوڑا بڑھایا مگر چونکہ حریف نہایت تنومند اور جوان تھا.خالد نے روکا اور قیس بن جبیرہ کی طرف دیکھا.وہ شعر پڑھتے ہوئے آگے بڑھے.قیس اس طرح جھپٹ کر پہنچے کہ بطریق ہتھیار بھی نہیں سنبھال سکا اور ان کا وار چل گیا.تلوار سر پر پڑی اور خود کو کاٹتی ہوئی گردن تک اتر گئی.بطریق ڈگمگا کر گھوڑے سے گرا.ساتھ ہی مسلمانوں نے تکبیر کا نعرہ بلند کیا.خالد نے کہا شگون اچھا ہے اور اب خدا نے چاہا تو آگے فتح ہماری ہے.عیسائیوں نے خالد کے ہمرکاب افسروں کے مقابلے میں جدا جدا فوجیں متعین کیں لیکن سب نے شکست کھائی اور اس دن یہیں تک نوبت پہنچی کہ لڑائی ملتوی ہو گئی.رومی قاصد جارج کا اسلام قبول کرنا.رومیوں نے جب دیکھا کہ ہم تو شکست کھا رہے ہیں تو رات کو رومیوں کے سپہ سالار بابان نے سرداروں کو جمع کر کے کہا کہ عربوں کو شام کی دولت کا مزہ پڑ چکا ہے.بہتر یہ ہے کہ مال وزر کی طمع دلا کر ان کو یہاں سے ٹالا جائے بجائے جنگ کرنے کے.سب نے اس رائے سے اتفاق کیا.دوسرے دن ابوعبیدہ کے پاس قاصد بھیجا کہ کسی معزز افسر کو ہمارے پاس بھیج دو.ہم اس سے صلح کے متعلق گفتگو کرنی چاہتے ہیں.ابو عبیدہ نے خالد کا انتخاب کیا.قاصد جو پیغام لے کر آیا اس کا نام جارج تھا.اردو سیرت نگاروں نے جارج لکھا ہے لیکن عرب دانوں کے لیے میں بتا دوں کہ عربی کتب میں اس کا نام جزجة بیان ہوا ہے.بہر حال جس وقت وہ پہنچا اس وقت شام ہو چکی تھی.ذرا دیر کے بعد مغرب کی نماز شروع ہوئی.مسلمان جس ذوق و شوق سے تکبیر کہہ کر کھڑے ہوئے اور جس محویت اور سکون اور وقار اور ادب و خضوع سے انہوں نے نماز ادا کی.قاصد نہایت حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھتا رہا یہاں تک کہ جب نماز ہو چکی تو اس نے ابو عبیدہ سے چند سوالات کیے جن میں ایک یہ تھا کہ تم عیسی کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہو.ابوعبیدہ نے قرآن کی یہ آیتیں پڑھیں کہ إِنَّ مَثَلَ عِیسٰی عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (آل عمران :60) يَاهْلَ الْكِتَبِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقِّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللهِ وَكَلِمَتُهُ الْقُهَا إِلى مَرْيَمَ وَ رُوحُ مِنْهُ فَامِنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَلَا تَقُولُوا ثَلَثَةٌ اِنْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ إِنَّمَا اللهُ اللَّهُ وَاحِدٌ سُبْحَنَةَ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَفَى بِاللهِ وَكِيلًا لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ أَنْ يَكُونَ عَبْد اللهِ وَلَا الْمَلَيكَةُ الْمُقَرَّبُونَ (النساء: 172-173) کہ (یاد رکھو) عیسی کا حال اللہ کے نزدیک یقینا آدم کے ط رض

Page 198

اصحاب بدر جلد 3 178 حضرت عمر بن خطاب حال کی طرح ہے.اسے یعنی آدم کو اس نے خشک مٹی سے پیدا کیا.پھر اس کے متعلق کہا کہ تو وجود میں آجا تو وہ وجود میں آنے لگا.اے اہل کتاب! تو اپنے دین کے معاملے میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے متعلق سچی بات کے سوا کچھ نہ کہو.مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کا صرف ایک رسول اور اس کی ایک بشارت تھا جو اس نے مریم پر نازل کی تھی اور اس کی طرف سے ایک رحمت تھا.اس لیے تم اللہ پر اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لاؤ اور یوں نہ کہو کہ خدا تین ہیں.اس امر سے باز آجاؤ.یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا.اللہ ہی اکیلا معبود ہے.وہ اس بات سے پاک ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو.جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اللہ کی حفاظت کے بعد اور کسی کی حفاظت کی ضرورت نہیں.مسیح ہر گز اس امر کو برا نہیں منائے گا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ متصور ہو اور نہ ہی مقرب فرشتے اسے برا منائیں گے.بہر حال ترجمہ کرنے والے نے ان آیات کا ترجمہ کیا تو جارج جو قاصد تھا بے اختیار پکار اٹھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسی کے یہی اوصاف ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تمہارا پیغمبر سچا ہے.یہ کہہ کر اس نے کلمہ توحید پڑھا اور مسلمان ہو گیا اور وہ اپنی قوم کے پاس واپس نہیں جانا چاہتا تھا لیکن حضرت ابوعبیدہ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بد عہدی کا گمان نہ ہو اُسے مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے ہمارا جو سفیر جائے گا اس کے ساتھ واپس چلے آنا، ابھی تم واپس جاؤ.خالد بن ولید رومیوں کے لشکر میں دوسرے دن حضرت خالد رومیوں کی لشکر گاہ میں گئے.رومیوں نے اپنی شوکت دکھانے کے لیے پہلے سے ہی انتظام کر رکھا تھا کہ راستے کے دونوں جانب دور تک سواروں کی صفیں قائم تھیں جو سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق تھے لیکن حضرت خالد نے اس بے پرواہی اور تحقیر کی نگاہ سے ان پر نظر ڈالی اور اس طرح نظر ڈالتے جاتے تھے جس طرح شیر بکریوں کے ریوڑ کو چیر تا چلا جاتا ہے.باہان کے خیمے کے پاس پہنچے تو اس نے نہایت احترام کے ساتھ استقبال کیا اور لا کر اپنے پاس اپنے برابر بٹھایا.مترجم کے ذریعہ سے گفتگو شروع ہوئی.باتھان نے معمولی بات چیت کے بعد لیکچر کے طریقے پر تقریر شروع کی.حضرت عیسیٰ کی تعریف کے بعد قیصر کا نام لیا اور فخر سے کہا کہ ہمارا بادشاہ تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہے.مترجم نے ان الفاظ کا ابھی پورا ترجمہ نہیں کیا تھا کہ خالد نے باتھان کو روک دیا اور کہا کہ تمہارا بادشاہ ایسا ہی ہو گا لیکن ہم نے جس کو سر دار بنایا ہے اس کو ایک لمحے کے لیے بھی اگر بادشاہی کا خیال آئے تو ہم فوراً اس کو معزول کر دیں.باھان نے پھر تقریر شروع کی اور اپنی جاہ و دولت کا فخر بیان کر کے کہا.اہل عرب ! تمہاری قوم کے لوگ ہمارے ملک میں آکر آباد ہوئے.ہم نے ہمیشہ ان کے ساتھ دوستانہ سلوک کیے.ہمارا خیال تھا کہ ان مراعات کا تمام عرب ممنون ہو گا لیکن خلاف توقع تم ہمارے ملک پر چڑھ آئے اور چاہتے ہو کہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دو.تمہیں معلوم نہیں کہ بہت سی م

Page 199

اصحاب بدر جلد 3 179 حضرت عمر بن خطاب قوموں نے بارہا ایسے ارادے کیے لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئیں.اب تم جو ہو تمام دنیا میں تم سے زیادہ کوئی قوم جاہل نہیں ہے.وحشی اور بے سازو سامان نہیں ہے، تمہیں یہ حوصلہ ہوا ہے کہ ہمارے پہ چڑھائی کر دو لیکن ہم اس پر بھی در گزر کرتے ہیں بلکہ اگر تم یہاں سے چلے جاؤ تو انعام کے طور پر سپہ سالار کو دس ہزار دینار اور افسروں کو ہزار ہزار اور عام سپاہیوں کو سو سو دینار دلا دیے جائیں گے.حالانکہ ایک بہت بڑی فوج تو خود انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جمع کی تھی کہ مسلمانوں کو ختم کیا جائے لیکن جب دیکھا کہ جنگ جیتنا آسان نہیں تو پھر یہ شرطیں لگائیں.بہر حال باھان اپنی تقریر ختم کر چکا تو حضرت خالد اٹھے اور حمد و نعت کے بعد کہا کہ بے شبہ تم دولت مند ہو، مالدار ہو ، صاحب حکومت ہو.تم نے اپنے ہمسایہ عربوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی ہمیں معلوم ہے لیکن یہ تمہارا کچھ احسان نہ تھا بلکہ اشاعت مذہب کی ایک تدبیر تھی.تم اپنا مذہب پھیلانا چاہتے تھے جس کا یہ اثر ہوا کہ وہ عرب عیسائی ہو گئے اور آج خود ہمارے مقابلے میں تمہارے ساتھ ہو کر ہم سے لڑ رہے ہیں.یہ سچ ہے کہ ہم نہایت محتاج، ننگ دست اور خانہ بدوش تھے.ہمارے ظلم و جہالت کا یہ حال تھا کہ قوی جو مضبوط آدمی تھا وہ کمزور کو پیس ڈالتا تھا.قبائل آپس میں لڑ لڑ کر برباد ہوتے جاتے تھے لیکن خدا نے ہم پر رحم کیا اور ایک پیغمبر بھیجا جو خود ہماری قوم سے تھا اور ہم میں سب سے زیادہ شریف، زیادہ فیاض، زیادہ پاک خو تھا.اس نے ہمیں توحید سکھائی اور بتلا دیا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں.وہ بیوی اولاد نہیں رکھتا، وہ بالکل یکتا و یگانہ ہے.اس نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم ان عقائد کو تمام دنیا کے سامنے پیش کریں جس نے ان کو مانا وہ مسلمان ہے اور ہمار ابھائی ہے.جس نے نہ مانا لیکن جزیہ دینا قبول کرتا ہے اس کے ہم حامی اور محافظ ہیں.جس کو دونوں سے انکار ہے اس کے لیے تلوار ہے.جو نہیں مانتے اور پھر لڑائی کرنے کو بھی تیار ہیں تو پھر ہم بھی تیار ہیں.باہان نے جزیہ کا نام سن کر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اپنے لشکر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ مرکز بھی جزیہ نہ دیں گے.ہم جزیہ لیتے ہیں دیتے نہیں.غرض کوئی معاملہ طے نہیں ہوا اور خالد اٹھ کر چلے آئے.اب اس آخری لڑائی کی تیاریاں شروع ہوئیں.اس کے بعد رومی پھر کبھی سنبھل نہ سکے.حضرت خالد کے چلے آنے کے بعد بابان نے سرداروں کو جمع کیا اور کہا کہ تم نے سنا، اہل عرب کا دعوی ہے کہ جب تک تم ان کی رعایا نہ بن جاؤ ان کے حملے سے محفوظ نہیں رہ سکتے.تمہیں ان کی غلامی منظور ہے ؟ تمام افسروں نے بڑے جوش سے کہا کہ ہم مر جائیں گے مگر یہ ذلت گوارا نہیں ہو سکتی.جنگ پھر شروع ہوتی ہے صبح ہوئی تو رومی اس جوش اور سر و سامان سے نکلے کہ مسلمانوں کو بھی حیرت ہو گئی.حضرت خالد نے یہ دیکھ کر عرب کے عام قاعدے کے خلاف نئے طور سے فوج آرائی کی.جب حضرت خالد نے دیکھا کہ رومی اس جوش اور سر و سامان سے نکلے ہیں تو انہوں نے عرب کا جو عام قاعدہ تھا لڑائی کرنے کا اس کے

Page 200

اصحاب بدر جلد 3 180 حضرت عمر بن خطاب خلاف، اس کے الٹ ایک نئے طریقے سے فوج کو سامنے کھڑا کیا.اور فوج جو تیس پینتیس ہزار تھی اس کے چھتیں حصے کیے اور آگے پیچھے نہایت ترتیب کے ساتھ اس قدر صفیں قائم کیں.قلب ابوعبیدہ کو دیا، میمنہ پر عمر و بن عاص اور شُرحبیل مامور ہوئے ، میسرہ یزید بن ابو سفیان کی کمان میں تھا.ان کے علاوہ ہر صف پر الگ الگ جو افسر متعین کیے تو چن کر ان لوگوں کو کیا جو بہادری اور فنونِ جنگ میں شہرت عام رکھتے تھے.خطباء جو اپنے زور کلام سے لوگوں میں ہلچل ڈال دیتے تھے ، ایسے خطیب تھے جو لوگوں میں جوش پیدا کرنے والے تھے اس خدمت پر مامور ہوئے کہ پرجوش تقریروں سے فوج کو جوش دلائیں.انہی میں ابو سفیان بھی تھے جو فوجوں کے سامنے یہ الفاظ کہتے پھرتے تھے کہ اللہ ! اللہ ! تم لوگ عرب کے محافظ اور اسلام کے مددگار ہو اور وہ لوگ روم کے محافظ اور شرک کے مددگار ہیں.اے اللہ ! یہ دن تیرے ایام میں سے ہے.اے اللہ ! اپنے بندوں پر اپنی مد د نازل فرما.عمر و بن عاص کہتے پھرتے تھے کہ اے لوگو! اپنی آنکھیں نیچی رکھو اور گھٹنوں کے بل بیٹھ جاؤ اور اپنے نیزوں کو تان لو اور اپنی جگہ اور اپنی صفوں میں جم جاؤ.جب تمہارا دشمن تم پر حملہ آور ہو تو انہیں مہلت دو یہاں تک کہ جب وہ نیزوں کی انیوں کی زد میں آجائے تو ان پر شیروں کی طرح جھپٹ پڑو.اس خدا کی قسم ! جو راستی پر خوش ہوتا ہے اور اس پر ثواب دیتا ہے اور جو جھوٹ سے ناراض ہو تا ہے اور اس پر سزا دیتا ہے اور احسان کی جزا دیتا ہے، یقینا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ مسلمان بستی کے بعد بستی اور محل کے بعد محل کو فتح کرتے ہوئے اس ملک پر فتح حاصل کریں گے.پس ان لوگوں کی جمعیت اور ان کی تعداد تمہیں خوف زدہ نہ کرے.اگر تم لوگوں نے ثابت قدمی سے لڑائی کی تو یہ لوگ حجل یعنی تیتر جو ایک پرندہ ہے اس کے بچوں کی طرح خوف زدہ ہو کر منتشر ہو جائیں گے.مسلمان فوج کی تعداد اگرچہ کم تھی یعنی تیس پینتیس ہزار سے زیادہ آدمی نہ تھے لیکن تمام عرب میں منتخب تھے.ان میں سے خاص وہ بزرگ جنہوں نے رسول اللہ صلی الہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا تھا ایک ہزار تھے.سو بزرگ وہ تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی ال نیم کے ہمرکاب تھے.عرب کے مشہور قبائل میں سے دس ہزار سے زیادہ صرف آزد کے قبیلے کے لوگ تھے.جہیز کی ایک بڑی تعداد، جماعت تھی.هَمْدَان ، خَوْلَان لَحْم ، جزام وغیرہ کے مشہور بہادر تھے.اس معرکے کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ عورتیں بھی اس میں شریک تھیں اور نہایت بہادری سے لڑیں.امیر معاویہ کی ماں، ابوسفیان کی بیوی ہند ، حضرت ہند جو بعد میں اسلام لے آئی تھیں حملہ کرتی ہوئی بڑھتی تھیں تو پکارتی تھیں کہ تم ان نا مختونوں یعنی ان کافروں کو اپنی تلواروں سے کاٹ کر رکھ دو.اسی طرح ابوسفیان کی بیٹی اور امیر معاویہ کی بہن جویریہ نے ایک جماعت کے ساتھ نکل کر ، اپنے شوہر کے ساتھ مل کر رومی فوج کا مقابلہ کیا اور ایک شدید لڑائی میں شہید ہو گئیں.مقداد جو نہایت خوش آواز تھے فوج کے آگے آگے سورہ انفال جس میں جہاد کی ترغیب ہے تلاوت کرتے جاتے تھے.ادھر رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ تیس ہزار

Page 201

حاب بدر جلد 3 181 حضرت عمر بن خطاب آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لیں کہ ہٹنے کا خیال تک نہ آئے اور اپنے پاؤں کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا.جنگ کی ابتدا رومیوں کی طرف سے ہوئی.ہند زوجہ ابوسفیان کی بہادری دولاکھ کاٹڈی دل لشکر ایک ساتھ بڑھا.ہزاروں پادری اور بشپ ہاتھوں میں صلیب لیے آگے بڑھے اور حضرت عیسی کی جے پکارتے آتے تھے.یہ ساز و سامان دیکھ کر ایک شخص کی زبان سے بے اختیار نکلا کہ اللہ اکبر ! کس قدر بے انتہا فوج ہے.حضرت خالد نے جوش سے کہا چپ رہ.خدا کی قسم ! میرے گھوڑے کے سم اچھے ہوتے تو میں کہہ دیتا کہ عیسائی اتنی ہی فوج اور بڑھا لیں.غرض عیسائیوں نے نہایت زور شور سے حملہ کیا اور تیروں کا مینہ برساتے بڑھے.مسلمان دیر تک ثابت قدم رہے لیکن حملہ اس زور کا تھا کہ مسلمانوں کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے الگ ہو گیا اور نہایت بے ترتیبی سے پیچھے ہٹا.ہزیمت یافتہ ہٹتے ہٹتے عورتوں کے خیمہ گاہ تک پہنچ گئے.عورتوں کو مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر سخت غصہ آیا اور خیمہ کی لکڑیاں اکھاڑ لیں اور پکار ہیں کہ نامرادو! ادھر آئے تو لکڑیوں سے تمہارے سر توڑ دیں گی.ہند ابوسفیان کی بیوی ہاتھوں میں لاٹھی لے کر آگے بڑھی.دیگر خواتین بھی ان کے پیچھے پیچھے آگے بڑھیں.ہند نے ابوسفیان کو بھاگتے دیکھا تو ان کے گھوڑے کے منہ پر میخ مارتے ہوئے کہا کہ کدھر جارہے ہو ؟ واپس آؤ اور جنگ کے میدان میں جاؤ.اسی طرح ایک اور روایت ہے اس کے مطابق ہند لکڑی اٹھا کر ابوسفیان کی طرف لپکیں اور کہا کہ خدا کی قسم اتم دین حق کی مخالفت کرنے اور خدا کے سچے رسول کو جھٹلانے میں بہت سخت تھے.آج موقع ہے کہ میدانِ جنگ میں دین حق کی سربلندی اور رسولِ خدا کی خوشنودی کے لیے اپنی جان قربان کر دو اور خدا کے سامنے سر خرو ہو جاؤ.ابو سفیان کو سخت غیرت آئی اور پلٹ کر شمشیر بدست دشمن کے ٹڈی دل لشکر میں گھس گیا.ایک اور بہادر مسلمان عورت جن کا نام خولہ تھاوہ یہ شعر پڑھ کر لوگوں کو غیرت دلاتی تھیں کہ يَا هَارِبًا عَنْ نِسْوَةٍ تَقِيَّاتِ فَعَنْ قَلِيْلٍ مَا تَرَى سَبِيَّاتٍ وَلَا حَظِيَّاتٍ وَلَا رَضِيَّاتِ کہ اے تقوی شعار عورتوں سے بھاگنے والے عنقریب تو انہیں قیدی دیکھے گا.نہ وہ بلند مرتبہ پر ہوں گے اور نہ ہی وہ پسندیدہ ہوں گے.یہ حالت دیکھ کر مُعاذ بن جبل جو میمنہ کے ایک حصہ کے سپہ سالار تھے ، گھوڑے سے کود پڑے اور کہا کہ میں تو پیدل لڑتا ہوں لیکن کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کر سکے تو گھوڑا حاضر ہے.ان کے بیٹے نے کہا کہ ہاں یہ حق میں ادا کروں گا کیونکہ میں سوار ہو کر اچھا لڑ سکتا ہوں.غرض دونوں باپ بیٹے فوج میں گھس گئے اور دلیری سے جنگ کی کہ مسلمانوں کے اکھڑے

Page 202

اصحاب بدر جلد 3 182 حضرت عمر بن خطاب ہوئے پاؤں سنبھل گئے.ساتھ ہی عجاجج و قبیلہ زبیدہ کے سردار تھے ، پانچ سو آدمی لے کر بڑھے اور عیسائیوں کو جو مسلمانوں کا تعاقب کرتے چلے آتے تھے روک لیا.میمنہ میں قبیلہ آزد شروع حملہ سے ثابت قدم رہا.عیسائیوں نے لڑائی کا سارا زور ان پر ڈالا لیکن وہ پہاڑ کی طرح جھے رہے.جنگ میں یہ شدت تھی کہ فوج میں ہر طرف سر ، ہاتھ ، بازو کٹ کٹ کر گرتے جاتے تھے لیکن ان کے پایہ ثبات کو لغزش نہیں آتی تھی.عمر و بن طفیل جو قبیلہ کے سردار تھے تلوار مارتے جاتے تھے اور للکارتے جاتے تھے کہ از دیو! دیکھنا مسلمانوں پر تمہاری وجہ سے داغ نہ آئے.نو بڑے بڑے بہادر ان کے ہاتھ سے مارے گئے اور آخر خود بھی وہ شہید ہوئے.حضرت عکرمہ بن ابو جہل کی شجاعت حضرت خالد نے اپنی فوج کو پیچھے لگا رکھا تھا.دفعہ صف چیر کر نکلے اور اس زور سے ے حملہ کیا کہ رومیوں کی صفیں پلٹ دیں.عکرمہ نے جو ابو جہل کے فرزند تھے گھوڑا آگے بڑھایا اور کہا عیسائیو! میں کسی زمانے میں کفر کی حالت میں خود رسول اللہ صلی الیہ کمی سے لڑ چکا ہوں.کیا آج تمہارے مقابلے میں میر اپاؤں سکتا ہے.یہ کہہ کر فوج کی طرف دیکھا اور کہا مرنے پر کون بیعت کرتا ہے ! چار سو شخصوں نے جن میں ضرار بن آزد بھی تھے مرنے پر بیعت کی اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ قریباً سب کے سب وہیں کٹ کر رہ گئے.عکرمہ کی لاش مقتولوں کے ڈھیر میں ملی.کچھ کچھ دم باقی تھا.خالد نے اپنی رانوں پر ان کا سر رکھا اور گلے میں پانی ٹپکا کر کہا خدا کی قسم ! عمر کا گمان غلط تھا کہ ہم شہید ہو کر نہ مریں گے.غرض عکرمہ اور ان کے ساتھی کو خود ہلاک ہو گئے لیکن رومیوں کے ہزاروں آدمی برباد کر دیے.خالد کے حملوں نے اور بھی ان کی طاقت توڑ دی یہاں تک کہ آخر ان کو پیچھے ہٹنا پڑا اور خالد ان کو دباتے ہوئے سپہ سالار دُر نجاز تک پہنچ گئے.دُر نجار اور رومی افسروں نے آنکھوں پر رومال ڈال لیے کہ اگر یہ آنکھیں فتح کی صورت نہ دیکھ سکیں تو شکست بھی نہ دیکھیں.عین اسی وقت جب ادھر میمنہ میں بازارِ قتال گرم تھا تو ابن قناطير ، جو رومیوں کے میمنہ کا سردار تھا، نے میسرہ پر حملہ کیا.بد قسمتی سے اس حصہ میں اکثر تخم وغشان کے قبیلے کے آدمی تھے جو شام کے اطراف میں بودو باش رکھتے تھے اور ایک مدت سے روم کے باج گزار تھے.رومیوں کو ٹیکس دیا کرتے تھے تو رومیوں کا جو رعب ان کے دلوں میں سمایا ہوا تھا اس کا یہ اثر ہوا کہ پہلے ہی حملے میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے.مسلمان ہونے کے باوجود بھی وہ پر انار عب چل رہا تھا اس سے خوفزدہ ہو گئے ، پاؤں اکھڑ گئے لیکن بہر حال افسروں نے بھی جرآت دکھائی.اگر افسروں نے بے ہمتی کی ہوتی تو لڑائی کا خاتمہ ہو چکا ہو تا.رومی بھاگتے ہوؤں کا پیچھا کرتے ہوئے خیموں تک پہنچ گئے.عور تیں یہ حالت دیکھ کر بے اختیار نکل پڑیں اور ان کی پامردی نے

Page 203

حضرت عمر بن خطاب اصحاب بدر جلد 3 183 عیسائیوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا.فوج اگر چہ ابتر ہو گئی تھی لیکن افسروں میں سے قبان بن اشیم ، سعید بن زید، یزید بن ابی سفیان، عمرو بن عاص، شرحبيل بن حسنه دادِ شجاعت دے رہے تھے.قبات کے ہاتھ سے تلواریں اور نیزے ٹوٹ کر گرتے جاتے تھے مگر ان کے تیور پر بل نہ آتا تھا.نیزہ ٹوٹ کر گر تا تو کہتے کوئی ہے جو اس شخص کو ہتھیار دے جس نے خدا سے اقرار کیا ہے کہ میدان جنگ سے ہٹے گا تو مر کر ہٹے گا.لوگ فوراً تلوار یا نیزہ ان کے ہاتھ میں لا کر دے دیتے اور پھر وہ شیر کی طرح جھپٹ کر دشمن پر جا پڑتے.ابو الاغور گھوڑے سے کود پڑے اور اپنی رکاب کی فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ صبر و استقلال دنیا میں عزت ہے اور عقبی میں رحمت.دیکھنا یہ دولت ہاتھ سے نہ جانے پائے.سعید بن زید غصہ میں گھٹنے ٹیکے ہوئے کھڑے تھے.رومی ان کی طرف بڑھے تو شیر کی طرح جھپٹے اور مقدمے کے افسر کو مار کر گرا دیا.یزید بن ابو سفیان معاویہ کے بھائی بڑی ثابت قدمی سے لڑ رہے تھے.اتفاق سے ان کے باپ ابوسفیان جو فوج کو جوش دلاتے پھرتے تھے ان کی طرف آنکلے اور بیٹے کو دیکھ کر کہا کہ اے میرے بیٹے ! اس وقت میدان میں ایک ایک سپاہی شجاعت کے جوہر دکھا رہا ہے.تو سپہ سالار ہے اور سپاہیوں کی بہ نسبت تجھ پر شجاعت کا حق زیادہ ہے.تیری فوج میں سے ایک سپاہی بھی اس میدان میں تجھ سے بازی لے گیا تو تیرے لیے شرم کی جگہ ہے.شرحبیل کا یہ حال تھا کہ رومیوں کا چاروں طرف سے نرغہ تھا اور یہ بیچ میں پہاڑ کی طرح کھڑے تھے اور قرآن کی یہ آیت پڑھتے تھے کہ إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ (التوبة: (111) کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس وعدے کے ساتھ خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی کیونکہ وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں.پس یا تو وہ اپنے دشمنوں کو مار لیتے ہیں یا خود مارے جاتے ہیں اور نعرہ مارتے تھے کہ خدا کے ساتھ سودا کرنے والے اور خدا کے ہمسایہ بننے والے کہاں ہیں ؟ یہ آواز جس کے کان میں پڑی، بے اختیار کوٹ پڑا یہاں تک کہ اکھڑی ہوئی فوج پھر سنبھل گئی اور شر خبیل نے ان کو لے کر اس بہادری سے جنگ کی کہ رومی جو لڑتے چلے آتے تھے بڑھنے سے رک گئے.ادھر عور تیں خیموں سے نکل نکل کر فوج کی پشت پر آکھڑی ہوئیں اور چلا کر کہتی تھیں کہ میدان سے قدم ہٹایا تو پھر ہمارا منہ نہ دیکھنا.لڑائی کے دونوں پہلو اب تک برابر تھے بلکہ غلبہ کا پلہ رومیوں کی طرف تھا جو دفعہ قیس بن هبيرہ جن کو خالد نے فوج کا ایک حصہ دے کر میسرہ کی پشت پر متعین کر سنبھل نہ دیا تھا عقب سے نکلے اور اس طرح ٹوٹ کر حملہ کیا کہ رومی سرداروں نے بہت سنبھالا مگر فوج سکی.تمام صفیں ابتر ہو گئیں اور گھبر اگر پیچھے ہٹیں.ساتھ ہی سعید بن زید نے قلب سے نکل کر حملہ کیا.رومی دور تک ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ میدان کے سرے پر جو نالہ تھا اس کے کنارے تک آگئے.تھوڑی دیر میں ان کی لاشوں نے وہ نالہ بھر دیا اور میدان خالی ہو گیا.یوں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس اہم ترین جنگ میں عظیم الشان فتح سے ہمکنار کیا.

Page 204

محاب بدر جلد 3 184 حضرت عمر بن خطاب اس لڑائی کا یہ واقعہ یا درکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی عباس بن قیس جو ایک بہادر سپاہی تھے بڑی جانبازی سے لڑ رہے تھے.اسی اثنا میں کسی نے ان کے پاؤں پر تلوار ماری اور ایک پاؤں کٹ کر الگ ہو گیا.حباس کو خبر تک نہ ہوئی.تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ میرے پاؤں کا کیا ہوا؟ جب پاؤں کی طرف دیکھا تو خیال آیا کہ پاؤں دیکھوں کہاں ہے تو پھر پتہ لگا کہ پاؤں غائب ہے.ان کے قبیلے کے لوگ اس واقعہ پر ہمیشہ فخر کیا کرتے تھے.رومیوں کے کس قدر آدمی مارے گئے ان کی تعداد میں اختلاف ہے.طبری اور آزدی نے لاکھ سے زیادہ بیان کیا ہے.بلاذری نے ستر ہزار لکھا ہے.مسلمانوں کی طرف سے تین ہزار کا نقصان ہوا جن میں عکرمہ، ضرار بن ازور ، ہشام بن عاصی، آبان بن سعید وغیرہ تھے.قیصر انطاکیہ میں تھا کہ اس کو شکست کی خبر پہنچی.اسی وقت اس نے قسطنطنیہ کی تیاری کی اور چلتے وقت شام کی طرف رُخ کر کے کہا کہ الوداع اے شام !“ ابوعبیدہ نے حضرت عمرؓ کو فتح کی خوشخبری کا خط لکھا اور ایک مختصر سی سفارت بھیجی جن میں حذیفہ بن یمان بھی تھے.حضرت عمر یرموک کی خبر کے انتظار میں کئی دن سے سوئے نہیں تھے.فتح کی خبر پہنچی تو دفعہ سجدے میں گرے اور خدا کا شکر ادا کیا.315 یہ ایسا نمونہ تھا کہ جو دنیا کی تاریخ میں اور کسی بادشاہت نے نہیں دکھایا پر موک کے لیے حمص سے اسلامی فوج کو عارضی طور پر جانا پڑا تھا اس پر ان لوگوں سے لیا گیا جزیہ انہیں واپس کر دیا گیا تھا.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بیان کیا ہے کہ صحابہ نے جس وقت رومی حکومت کے ساتھ مقابلہ کیا اور بڑھتے بڑھتے یروشلم پر جو عیسائیوں کی مذہبی جگہ ہے قابض ہو گئے اور پھر اس سے بھی آگے بڑھنا شروع ہوئے تو عیسائیوں نے یہ دیکھ کر کہ ان کا مذہبی مرکز مسلمانوں کے ہاتھ آگیا ہے ان کو وہاں سے نکالنے کے لئے آخری جد وجہد کا ارادہ کیا اور چاروں طرف مذہبی جہاد کا اعلان کر کے عیسائیوں میں ایک جوش پیدا کر دیا گیا.اور بڑی بھاری فوجیں جمع کر کے اسلامی لشکر پر حملہ کی تیاری کی.ان کے اس شدید حملہ کو دیکھ کر مسلمانوں نے جو اُن کے مقابلہ میں نہایت قلیل تعداد میں تھے عارضی طور پر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور اسلامی سپہ سالار نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ دشمن اتنی کثیر تعداد میں ہے اور ہماری تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ اس کا مقابلہ کرنا اس لشکر کو تباہ کرنے کے مترادف ہے.اس لئے آپ اگر اجازت دیں تو جنگی صف بندی کو سیدھا کرنے اور محاذ جنگ کو چھوٹا کرنے کے لیے اسلامی لشکر پیچھے ہٹ جائے تا تمام جمعیت کو یکجا کر کے مقابلہ کیا جاسکے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ ہم نے ان علاقوں سے جو فتح کر رکھے ہیں لوگوں سے ٹیکس بھی وصول کیا ہوا ہے.اگر آپ ان علاقوں کو چھوڑنے کی اجازت دیں تو یہ بتائیں کہ اس ٹیکس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ محاذ کو چھوٹا کرنے اور اسلامی طاقت کو یکجا کرنے کے لئے پیچھے ہٹنا اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں لیکن

Page 205

صحاب بدر جلد 3 185 حضرت عمر بن خطاب یہ یاد رکھو کہ ان علاقوں کے لوگوں سے ٹیکس اس شرط پر وصول کیا گیا تھا کہ اسلامی لشکر ان کی حفاظت کرے گا اور جب اسلامی لشکر پیچھے ہٹے گا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ ان علاقوں کی حفاظت نہیں کر سکے گا.اس لئے ضروری ہے کہ جس سے جو کچھ وصول کیا گیا ہے وہ اسے واپس کر دیا جائے.جب حضرت عمر کا یہ حکم پہنچا تو اسلامی سپہ سالار نے ان علاقوں کے زمینداروں اور تاجروں اور دوسرے لوگوں کو بلا بلا کر ان سے وصول شدہ رقوم واپس کر دیں اور ان سے کہا کہ آپ لوگوں سے یہ رقوم اس شرط پر وصول کی گئی تھیں کہ اسلامی لشکر آپ لوگوں کی حفاظت کرے گا مگر اب جبکہ ہم دشمن کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کمزور پاتے ہیں اور کچھ دیر کے لیے عارضی طور پر پیچھے ہٹ رہے ہیں اور اس وجہ سے آپ لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتے.ان رقوم کو اپنے پاس رکھنا درست نہیں.یہ ایسا نمونہ تھا کہ جو دنیا کی تاریخ میں اور کسی بادشاہت نے نہیں دکھایا.بادشاہ جب کسی علاقے سے ہٹتے ہیں تو بجائے وصول کردہ ٹیکس وغیر ہ واپس کرنے کے ان علاقوں کو اور بھی لوٹتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اب تو یہ علاقے دوسرے کے ہاتھ میں جانے والے ہیں ہم یہاں سے جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھا لیں.پھر چونکہ انہوں نے وہاں رہنا نہیں ہو تا اس لیے بد نامی کا بھی کوئی خوف ان کو نہیں ہو تا اور اگر کوئی اعلیٰ درجہ کی منظم حکومت ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتی ہے کہ خاموشی سے فوجوں کو پیچھے ہٹا دیتی ہے اور زیادہ لوٹ مار نہیں کرنے دیتی لیکن اسلامی لشکر نے جو نمونہ دکھایا جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صرف حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہی نظر آتا ہے.بلکہ افسوس ہے کہ بعد کے زمانہ کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو اس کی کوئی اور مثال دنیا میں نہیں ملتی کہ کسی فاتح نے کوئی علاقہ چھوڑا ہو تو اس علاقہ کے لوگوں سے وصول کردہ ٹیکس اور جزیے اور مالیے واپس کر دیئے ہوں.اس کا عیسائیوں پر اتنا اثر ہوا کہ باوجودیکہ ان کی ہم مذہب فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں، حملہ آور ان کی اپنی قوم کے جرنیلوں، کر نیلوں اور افسروں پر مشتمل تھے اور سپاہی ان کے بھائی بند تھے اور باوجود اس کے کہ اس جنگ کو عیسائیوں کے لیے مذہبی جنگ بنادیا گیا تھا اور باوجود اس کے کہ عیسائیوں کا مذہبی مرکز جو ان کے قبضہ سے نکل کر مسلمانوں کے ہاتھ میں جا چکا تھا اب اس کی آزادی کے خواب دیکھے جارہے تھے.عیسائی مرد اور عور تیں گھروں سے باہر نکل نکل کر روتے اور دعائیں کرتے تھے کہ مسلمان پھر واپس آئیں.حضرت مصلح موعود کو تاریخ پر بڑا عبور تھا.ان کا یہی خیال ہے کہ حضرت عمرؓ سے پوچھ کے ہی واپسی ہوئی تھی اور پھر یہ ٹیکس وغیرہ جو تھاوہ واپس کیا گیا تھا.حضرت مصلح موعودؓ حضرت عکرمہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جنگ یر موک میں جب رسول کریم صلی علی یم کے صحابہ کی جانیں خطرہ میں تھیں اور مسلمان کثرت سے مارے جا رہے تھے تو اسلامی کمانڈر انچیف حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ایسے بہادر نکل آئیں جو تعداد میں اگر چہ تھوڑے ہوں لیکن وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر رومی فوج پر رعب ڈال 316"

Page 206

محاب بدر جلد 3 186 حضرت عمر بن خطاب رض دیں.حضرت عکرمہ آگے نکلے اور انہوں نے حضرت ابو عبیدہ سے درخواست کی کہ مجھے اپنی مرضی کے مطابق کچھ آدمی چن لینے دیں میں ان آدمیوں کو ساتھ لے کر دشمن کے قلب لشکر پر حملہ کروں گا اور کوشش کروں گا کہ ان کے جرنیل کو مار دوں.اس وقت رومی لشکر کا جرنیل خوب زور سے لڑ رہا تھا اور بادشاہ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں فتح حاصل کر لے تو وہ اپنی لڑکی کی شادی اس سے کر دے گا اور اپنی آدھی مملکت اس کے سپر د کر دے گا.اس لالچ کی وجہ سے وہ بڑے جوش میں تھا اور اپنی ذاتی اور شاہی فوج لے کر میدان میں اتر ہو اتھا اور اس نے سپاہیوں سے بڑی رقوم کا وعدہ کیا ہو اتھا.چنانچہ رومی سپاہی بھی جان توڑ کر لڑ رہے تھے.جب رومی لشکر نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو وہ جرنیل لشکر کے قلب میں کھڑا تھا.حضرت عکرمہ نے قریبا چار سو آدمیوں کو لے کر لشکر کے قلب پر حملہ کیا اور ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے اس جرنیل پر حملہ کر کے اسے نیچے گرا دیا.مقابلہ میں لاکھوں کا لشکر تھا اور یہ صرف چار سو مسلمان تھے.اس لیے مقابلہ آسان نہ تھا.اس جرنیل کو تو انہوں نے مار دیا اور اس کے مرجانے کی وجہ سے لشکر بھی تتر بتر ہو گیا مگر دشمن ان آدمیوں پر ٹوٹ پڑا اور سوائے چند ایک کے سارے کے سارے شہید ہو گئے.ان آدمیوں میں سے بارہ شدید زخمی تھے.جب مسلمان لشکر کو فتح ہوئی تو ان لوگوں کی تلاش شروع ہوئی.ان بارہ زخمیوں میں حضرت عکرمہ بھی شامل تھے.ایک مسلمان سپاہی آپ کے پاس آیا.آپ کی حالت خراب تھی.اس نے کہا عکرمہ میرے پاس پانی کی چھا گل ہے تم کچھ پانی پی لو.آپ نے منہ پھیر کر دیکھا تو پاس ہی حضرت عباس کے بیٹے فضل پڑے ہوئے تھے.وہ بھی بہت زخمی تھے.عکرمہ کہنے لگے میری غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ جن لوگوں نے رسول کریم صلی اللی علم کی اس وقت مدد کی جب میں آپ کا شدید مخالف تھا وہ اور ان کی اولا د تو پیاس کی وجہ سے مر جائے اور میں پانی پی کر زندہ رہوں.پہلے انہیں پانی پلاؤ.اگر کچھ بچ جائے تو پھر میرے پاس لے آنا.چنانچہ وہ مسلمان فضل کے پاس گیا.انہوں نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا پہلے انہیں پلاؤ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے.وہ اس زخمی کے پاس گیا تو اس نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے، پہلے اسے پلاؤ.اس طرح وہ جس سپاہی کے پاس جاتا وہ اسے دوسرے کی طرف بھیج دیتا اور کوئی پانی نہ پیتا.جب وہ آخری زخمی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا.جب مکرمہ کی طرف لوٹا تو وہ بھی دم توڑ چکے تھے.اس طرح باقی زخمیوں کا حال ہوا.جس کے پاس بھی وہ گیا وہ فوت ہو چکا تھا.17 3 تو یہ تھا اس جنگ کا انجام.اللہ تعالیٰ نے اس طرح پھر فتح دی.18 بیت المقدس کی فتح ( پندرہ ہجری) حضرت عمر و بن عاص کی قیادت میں اسلامی لشکر نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا تو حضرت ابو عبیدہ

Page 207

اصحاب بدر جلد 3 187 حضرت عمر بن خطاب کا لشکر بھی ان سے جاملا.عیسائیوں نے قلعہ بندی سے تنگ آکر صلح کی پیشکش کی لیکن شرط یہ رکھی کہ خود حضرت عمر آکر صلح کا معاہدہ کریں.حضرت ابو عبیدہ نے حضرت عمر ھو اس کی اطلاع دی.حضرت عمرؓ نے صحابہ سے مشورہ کیا تو حضرت علیؓ نے جانے کا مشورہ دیا.حضرت عمر نے ان کی رائے کو پسند کیا.پھر حضرت عمرؓ نے حضرت علی کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا.ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت عثمان کو امیر مقرر فرمایا تھا.اس کے بعد آپ بیت المقدس کے لیے روانہ ہو گئے.حضرت عمر کا یہ سفر کوئی معمولی سفر نہ تھا.اس کا مقصد دشمنوں کے دلوں پر اسلامی رعب و دبدبہ بٹھانا تھا لیکن جب آپ روانہ ہوئے تو روایات میں ہے کہ دنیاوی بادشاہوں کی طرح نہ تو ان کے ساتھ کوئی نقارہ تھا نہ کوئی لاؤ لشکر تھا یہاں تک کہ ایک معمولی ساخیمہ بھی ساتھ نہ تھا.حضرت عمرؓ ایک گھوڑے پر سوار تھے اور چند ساتھی مہاجرین اور انصار میں سے تھے.ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ کے ساتھ صرف ان کا ایک غلام، کھانے کے لیے کچھ سنتو اور ایک لکڑی کا پیالہ تھا اور اونٹ پر سوار تھے لیکن اس کے باوجود جہاں بھی یہ خبر پہنچتی کہ حضرت عمرؓ نے مدینہ سے بیت المقدس کا ارادہ کیا ہے تو زمین کانپ اٹھتی تھی.319 اس بات کی وضاحت میں یہ ایک سفر کا مختصر سا حال بیان کیا گیا ہے لیکن اس میں تفصیل نہیں ہے.بہر حال ایلیا ایک شہر تھا جس میں بیت المقدس موجود ہے ، اس کا محاصرہ کس نے کیا تھا اور کس نے حضرت عمر کی خدمت میں بیت المقدس تشریف لانے کی درخواست کی تھی ؟ اس بارے میں طبری میں لکھا ہے کہ حضرت عمرو بن عاص نے حضرت عمر بن خطاب کو خط بھیجا جس میں ان سے امداد بھجوانے کی درخواست کی.اس میں حضرت عمر و نے یہ تجویز کیا تھا کہ مجھے انتہائی گھمسان کی جنگیں در پیش ہیں اور کئی شہر ہیں جن سے جنگیں ابھی باقی ہیں.آپ کے ارشاد کا منتظر ہوں.حضرت عمرؓ کے پاس حضرت عمر و بن عاص کا یہ خط پہنچا تو آپ سمجھ گئے کہ حضرت عمر ڈ نے یہ بات پوری معلومات کے بعد ہی لکھی ہو گی.پھر حضرت عمرؓ نے لوگوں میں اپنے سفر کی منادی کرادی اور سفر کے لیے کوچ کیا.20 طبری میں حضرت عمر کی شام میں تشریف آوری کے متعلق ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ اس کا سبب دراصل یہ پیش آیا تھا کہ حضرت ابو عبیدہ بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے ان سے شام کے دیگر شہروں کے معاہدات صلح کے مطابق صلح کرنی چاہی اور ان کی خواہش یہ بھی تھی کہ اس معاہدہ صلح میں مسلمانوں کی طرف سے سربراہ کی حیثیت سے حضرت عمرؓ بھی شرکت کریں.حضرت ابو عبیدہ نے 320 حضرت عمرؓ کی خدمت میں یہ لکھا تو حضرت عمر مدینہ سے روانہ ہو گئے.321 لیکن حضرت ابو عبیدہ کی روایت پر بعض مؤرخین کو تسلی نہیں ہے.محمد حسین ہیکل اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اُس روایت کو حقیقت سے بعید سمجھیں جس کا بیان یہ

Page 208

حاب بدر جلد 3 188 حضرت عمر بن خطاب ہے کہ حضرت خالد بن ولید یا حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے تنہایا مشترکہ طور پر بیت المقدس کا محاصرہ کیا جیسا کہ طبری، ابن اثیر اور ابن کثیر وغیرہ نقل کرتے ہیں.طبری کی روایت ہے کہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے شام آنے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابو عبیدہ نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا تو اہل شہر نے، شام کے دوسرے علاقوں کے باشندوں سے جو صلح ہو چکی تھی انہی شرطوں پر انہیں صلح کی درخواست کی مگر اس میں اتنی شرط اور بڑھائی کہ حضرت عمر بن خطاب خود تشریف لا کر صلح کی تکمیل کریں.حضرت ابو عبید گانے اس کی اطلاع بار گاہِ خلافت میں ارسال کی اور حضرت عمر مدینہ سے روانہ ہو گئے.یہ لکھتے ہیں کہ اس روایت کو ہم خلافِ حقیقت سمجھتے ہیں کہ بیت المقدس کے محاصرے کے وقت حضرت ابو عبیدہ اور حضرت خالد حمص، حلب، انطاکیہ اور اس کے آس پاس کے شہروں میں فتوحات میں مصروف تھے اور ہر قل ان کے بالمقابل رھاء مقام میں بیٹھا لشکر جمع کر رہا تھا کہ انہیں الٹے پاؤں واپس ہونے پر مجبور کر دے.یہ تمام واقعات بھی بیت المقدس کے محاصرے کی طرح سنہ 15 ہجری مطابق سنہ 636ء کے ہیں اور یہ لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ صحیح ہے کہ بیت المقدس کا محاصرہ اسی سنہ میں کئی مہینے تک جاری رہا جس سنہ میں یہ دونوں سپہ سالار شام کے انتہا میں بڑھتے چلے جارہے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ہر قل کو اپنے دارالسلطنت میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا.ایسی صورت میں کہ وہ دونوں ادھر مصروف تھے، یہ کہنا کہ ان میں سے کسی ایک یا دونوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا ایک ایسی بات ہے جو کسی طرح نہیں بنتی.اس لیے ناقابل قبول قرار دینا پڑتا ہے.اب صرف یہ ایک روایت اور باقی رہ جاتی ہے اور طبری نے بھی پہلے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ بیت المقدس کا محاصرہ حضرت عمر و بن عاص نے کیا تھا جو طویل مدت تک جاری رہا اور بیت المقدس والوں نے بڑے جوش اور بڑی شدت سے مسلمانوں کا مقابلہ کیا اور یہی روایت ہماری رائے میں صحیح ہے.اس لیے کہ یہ اس مقاومت سے اتفاق رکھتی ہے یعنی جو مقابلہ ہو رہا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے جو کہ بیت المقدس نے مختلف زمانوں میں ہر حملہ آور کے مقابلے میں ظاہر کی.322 محمد حسین ہیکل مزید لکھتا ہے کہ ” تعجب ہے کہ حضرت عمر محض صلح کی تکمیل اور عہد نامے کی تسویط “ یعنی تنفیذ ” کے لئے لشکر کے ساتھ تشریف لے جاتے ہیں اور اسی طرح تعجب ہے کہ اہل بیت المقدس معاہدہ صلح کی تکمیل کے لئے حضرت عمر کے مدینہ سے تشریف لانے کا مطالبہ کرتے ہیں حالا نکہ جانتے ہیں کہ اگر مدینہ سے کوئی قافلہ لگا تار سفر کر کے ان کی طرف آئے تو پورے تین ہفتہ لگیں گے.اس لئے “ یہ کہتا ہے کہ ”میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ محاصرے کی طوالت اور حضرت عمر و بن عاص کے ان خطوط سے جن میں دشمن کی طاقت کا ذکر کر کے مدد طلب کی گئی تھی حضرت عمر کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تھا.چنانچہ جب ان سے نئی کمک طلب کی گئی تو اس کے ساتھ حضرت عمر بھی روانہ ہو گئے اور جابیہ میں قیام فرمایا جو صحرائے شام اور سرزمین اردن کے درمیان واقع ہے.اس دوران میں

Page 209

حاب بدر جلد 3 189 حضرت عمر بن خطاب حضرت ابو عبیدہ اور حضرت خالد شام کی فتح سے فارغ ہو چکے تھے.حضرت عمرؓ نے ان دونوں کو حکم بھیجا کہ جابیہ میں آکر ملیں تاکہ حضرت عمران سے اور فوج کے دوسرے سرداروں سے مشورے کے بعد بیت المقدس کی مہم سر کرنے کی کوئی مفید ترین راہ تلاش کر سکیں.آخر بُون اور صفر نیوس کو حضرت عمرؓ کی تشریف آوری کا علم ہوا.“ یہاں ناموں کا اختلاف ہے.عربی کتب میں یہ نام از طبون لکھا ہے لیکن ہیکل کے نزدیک وہ درست نہیں ہے اس کی تحقیق کے مطابق نام آظربون ہے اور صَفْرُو نیوس کا نام عربی کتب میں صَفْرُو نیوس لکھا ہے.بہر حال یہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کوئی رستہ تلاش کرنے کے لیے کہ کیا سٹرپنجی (strategy) بنائی ہے اس کے لیے اکٹھا کیا تھا.”حضرت ابو عبیدہ اور حضرت خالد کے ہاتھوں شام پر جو بیتی تھی اس کی بھی اطلاع ملی تو انہوں نے سمجھ لیا یعنی ان دو سر داروں نے جو دشمنوں کے تھے کہ بیت المقدس کی مقاومت اب زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی.یعنی مزید مقابلہ مشکل ہے ”چنانچہ انظر بون تو کچھ فوج لے کر چپکے سے مصر کھسک گیا اور بوڑھے پادری نے اپنی نجات کی طرف سے مطمئن ہو کر مسلمانوں سے صلح کی گفتگو شروع کر دی اور چونکہ اسے یہ معلوم تھا کہ امیر المومنین جابیہ میں اقامت فرما ہیں“ جابیہ تک آ چکے ہیں اس لئے یہ شرط لگادی کہ صلح کا معاہدہ لکھنے کے لئے وہ خود تشریف لائیں.جابیہ اور بیت المقدس میں اتنا فاصلہ نہ تھا کہ صفر نیوس کی اس درخواست کے جواب میں عذر پیش کر دیا جاتا.تو یہ کہتے ہیں کہ ”یہ ہے وہ بات جسے میں صحیح سمجھتا ہوں اور جو شام و فلسطین پر حملے سے متعلق واقعات کے سلسلے میں تاریخی سیاق و سباق کے مطابق ہے.بہر حال ان خطوط کے ملنے کے بعد حضرت عمرؓ کی کیا مشاورت ہوئی؟ اس بارے میں لکھا ہے کہ خطوط کے ملنے کے بعد حضرت عمرؓ نے تمام معزز صحابہ کو جمع کیا اور مشاورت کی.حضرت عثمان نے رائے دی کہ عیسائی مرعوب اور شکستہ دل ہو چکے ہیں.آپ ان کی درخواست کو رڈ کر دیں تو ان کو اور بھی ذلت ہو گی اور یہ سمجھ کر کہ مسلمان ان کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں بغیر شرط کے ہتھیار ڈال دیں گے لیکن حضرت علی نے اس کے خلاف رائے دی اور حضرت عمرؓ کو ایلیا جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مسلمانوں نے سردی، جنگ اور لمبے قیام کی غیر معمولی مشقت برداشت کی ہے.اگر آپ تشریف لے جائیں گے تو اس میں آپ کے اور مسلمانوں کے لیے امن و عافیت اور بہتری ہے لیکن اگر آپ نے انہیں اپنی اور صلح کی طرف سے مایوس کر دیا تو یہ بات آپ کے حق میں اچھی ثابت نہیں ہو گی.دشمن تو قلعہ بند ہو کر بیٹھ رہیں گے اور انہیں اپنے ملک اور رومی بادشاہ کی طرف سے کمک پہنچ جائے گی خاص طور پہ اس لیے کہ بیت المقدس ان کے نزدیک بڑی عظمت رکھتا ہے اور ان کی زیارت گاہ ہے.حضرت عمر نے حضرت علی کی رائے کو پسند اور قبول فرمایا.4 324 32366

Page 210

تاب بدر جلد 3 190 حضرت عمر بن خطاب اس سفر میں حضرت عمرؓ کے ہمراہ دیگر مہاجرین اور انصار کے علاوہ حضرت عباس بن عبد المطلب بھی تھے.اس سفر کے متعلق ایک روایت ملتی ہے کہ ابو سعید مقبری سے روایت ہے کہ حضرت عمر اپنے اس سفر میں صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے لیے تشریف فرما ہوتے اور ان کی طرف اپنارخ کرتے.پھر کہتے ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہمیں اسلام اور ایمان کے ذریعہ عزت بخشی اور محمد صلی علیکم کے ذریعہ ہمیں شرف بخشا اور ہمیں آپ کے ذریعہ گمراہی سے ہدایت فرمائی اور گروہوں میں تقسیم کے بالمقابل ہمیں اکٹھا کیا اور ہمارے دلوں میں الفت پیدا کی اور دشمنوں کے بالمقابل آپ کے ذریعہ ہماری نصرت فرمائی اور ہمیں مختلف شہروں میں متمکن کیا اور آپ کے ذریعہ ہمیں آپس میں محبت کرنے والے بھائی بھائی بنا دیا.پس تم لوگ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرو اور اس سے مزید مدد طلب کرو اور ان نعمتوں پر اللہ سے شکر کی توفیق مانگو اور وہ نعمتیں جن میں تم چلتے پھرتے ہو ان کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعامانگو کہ وہ تم پر انہیں پورا کر دے کیونکہ اللہ عزوجل اپنی جانب رغبت چاہتا ہے اور وہ شکر گزاروں پر اپنی نعمتوں کو مکمل کرتا ہے.حضرت عمرؓ اپنے اس سفر کے دوران آغاز سے لے کر واپس تشریف لانے تک اس قول کو ہر صبح کہتے رہے اور اسے ترک نہ کیا.325 یعنی یہی ایک ہی پیغام روزانہ دیتے تھے.مسلمان سرداروں کو اطلاع دی جاچکی تھی کہ جابیہ میں آ کر ان سے ملیں.اطلاع کے مطابق یزید بن ابی سفیان اور خالد بن ولید و غیرہ نے یہیں استقبال کیا.شام میں رہ کر ان افسروں میں عرب کی سادگی باقی نہیں رہی تھی.چنانچہ حضرت عمرؓ کے سامنے یہ لوگ آئے تو اس ہیئت سے آئے کہ بدن پر حریر اور دیباج کی چکنی اور پر تکلف قبائیں تھیں اور زرق برق پوشاک اور ظاہری شان و شوکت سے منجمی معلوم ہوتے تھے.حضرت عمر کو سخت غصہ آیا.گھوڑے سے اتر پڑے اور سنگ ریزے اٹھا کر ان کی طرف پھینکے کہ اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اختیار کر لیں.ان لوگوں نے عرض کیا کہ قباؤں کے نیچے ہتھیار ہیں یعنی سپہ گرمی کا جو ہر انہوں نے ہاتھ سے نہیں دیا.پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو ٹھیک ہے.26 کہ ظاہری رکھ رکھاؤ تم نے ان لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا ہے اور اندر سے تمہارا حلیہ عربوں والا ہی ہے ( تو ٹھیک ہے ) ایک روایت میں مذکور ہے کہ یزید بن ابی سفیان نے عرض کیا.اے امیر المومنین ! ہمارے پاس کپڑے اور سواریاں بہت ہیں اور ہمارے ہاں زندگی بہت عمدہ ہے اور مال بہت سستا ہے اور مسلمانوں کا وہ حال ہے جسے آپ پسند فرماتے ہیں.اگر آپ یہ سفید کپڑے پہنیں اور ان عمدہ سواریوں پر سوار ہوں اور اس بہت زیادہ اناج اور غلہ میں سے مسلمانوں کو کھانے کے لیے دیں تو ایسا کرنا شہرت کا باعث ہو گا اور امور سلطنت کی ادائیگی میں آپ کے لیے زیادہ زینت کا باعث ہو گا اور عجمیوں کے نزدیک آپ کی زیادہ عظمت کا موجب ہو گا.اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا اے یزید ! نہیں.اللہ کی قسم ! میں اس ہیئت اور حالت کو ترک نہیں کروں گا جس پر میں نے اپنے دونوں ساتھیوں کو چھوڑا تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ یکم

Page 211

محاب بدر جلد 3 191 حضرت عمر بن خطاب 327 اور حضرت ابو بکر جس طرح میں ان کے ساتھ رہا تھا اسی حال میں رہوں گا اور میں لوگوں کے لیے زینت اور زیبائش نہیں اختیار کروں گا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا کرنا مجھے میرے رب کے ہاں عیب دار نہ کر دے اور میں نہیں چاہتا کہ لوگوں کے ہاں تو میر امعاملہ عظمت اختیار کر جائے اور اللہ کے حضور بہت چھوٹا ہو جائے.پس حضرت عمرؓ اسی حالت پر قائم رہے جس پر رسول اللہ صلی یکم اور حضرت ابو بکر کی زندگی میں تھے یہاں تک کہ وہ دنیا سے کوچ کر گئے.مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلح نامہ کس طرح ہوا؟ اہل ایلیا کے نزدیک معاہدہ کہاں ہوا تھا؟ اس کے متعلق اکثر مورخین نے لکھا ہے کہ جابیہ کے مقام پر عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پایا تھا.لکھا ہے کہ جابیہ میں قیام کے دوران حضرت عمر فوج کے حلقے میں بیٹھے تھے کہ اچانک کچھ سوار نظر آئے جو گھوڑے دوڑاتے ہوئے آرہے تھے اور ان کی تلواریں چمک رہی تھیں.مسلمانوں نے فورا ہتھیار سنبھال لیے.حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ لوگوں نے سواروں کی طرف اشارہ کیا تو آپ نے فرمایا: گھبر اؤ نہیں یہ لوگ امان طلب کرنے آئے ہیں.یہ لوگ ایلیا کے باشندے تھے.آپ نے انہیں صلح نامہ لکھ کر دیا.328 پھر ایک روایت ہے.علامہ بلاذری اور محمد حسین ہیکل نے یہ لکھا ہے کہ صلح کا معاہدہ جابیہ کے بجائے ایلیا میں ہوا تھا تا ہم محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ معاہدہ جابیہ میں ہو ا تھا.329 مسلمانوں اور اہل ایلیا کے درمیان جو صلح نامہ ہوا اس کی تحریر تاریخ طبری میں یوں درج ہے:.بسم اللہ الرحمن الرحیم.یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیر المومنین عمر نے ایلیا والوں کو دی ہے.ان کی جان، مال، گرجے ، صلیب، بیمار، تندرست اور ان کی ساری قوم کو امان دی جاتی ہے.کوئی بھی ان کے گرجاگھروں میں قیام نہیں کرے گا اور نہ وہ گرائے جائیں گے.نہ ان کے گرجاگھروں کے احاطوں میں کچھ کمی کی جائے گی اور نہ ان کی صلیب کو نقصان پہنچایا جائے گا اور نہ ان کے اموال کو نقصان پہنچایا جائے گا.اور ان سے دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں کیا جائے گا اور ان میں سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی اور ایلیا میں ان کے ساتھ کوئی بھی یہودی نہیں رہ سکے گا اور اہل ایلیا پر یہ فرض ہے کہ وہ دوسرے شہروں کے باشندوں کی طرح جزیہ دیں.ان کو چاہیے کہ وہ رومیوں اور فسادیوں کو ایلیا میں سے نکال دیں.پس جو اُن میں سے نکلے گا تو اس کے جان و مال کو امن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے محفوظ مقام تک پہنچ جائے.اور جو شخص ان میں سے ایلیا میں رہنا چاہے تو وہ امن میں ہے اور اس کو اہل ایلیا کی طرح جزیہ دینا ہو گا اور اہل ایلیا میں سے جو شخص اپنی جان اور مال لے کر رومیوں کی طرف جانا چاہے اور وہ اپنی عبادت گاہوں اور صلیبوں کو چھوڑ کر چلے جائیں تو ان کی جانیں اور ان کی عبادت گاہیں، ان کی صلیبیں امان میں ہیں.( چھوڑ بھی جاؤ گے تو کچھ نہیں کیا جائے گا) یہاں تک کہ وہ

Page 212

حاب بدر جلد 3 192 حضرت عمر بن خطاب اپنے محفوظ مقام تک پہنچ جائیں اور ایلیا میں جنگ سے پہلے جو کاشتکار تھے اگر ان میں سے کوئی چاہے کہ وہ اپنی زمینوں پر بیٹھے رہیں تو ان پر بھی اہل ایلیا کی طرح جزیہ دینا ہو گا اور جو رومیوں کے ساتھ جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے اور جو اپنے گھر والوں کی طرف لوٹنا چاہتا ہے تو وہ لوٹ آئے، ان سے کچھ جزیہ نہیں لیا جائے گا یہاں تک کہ ان کی فصلوں کی کٹائی ہو جائے.(یعنی کہ آمد پیدا ہو جائے گی تب ان سے جزیہ ہو گا) اور جو کچھ اس معاہدے میں ہے اس پر اللہ کا عہد ہے اور اس کے رسول کا ذمہ ہے اور خلفاء کا ذمہ ہے اور مومنین کا ذمہ ہے جب تک کہ وہ جزیہ ادا کرتے رہیں جو ان کے ذمہ ہے.اس معاہدے پر حضرت خالد بن ولید، حضرت عمر و بن عاص حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت معاویہ بن ابو سفیان کی گواہی ثبت تھی.تاریخ ابن خلدون میں لکھا ہے کہ اس معاہدے سے چند باتیں ثابت ہوتی ہیں ؛ نمبر ایک یہ کہ مسلمانوں نے اپنا مذ ہب تلوار کے زور سے نہیں پھیلایا؛ دویہ کہ ان کے عہد حکومت میں دوسرے مذاہب والوں کو بہت بڑی مذہبی آزادی حاصل تھی؛ تین یہ کہ غیر قوموں سے زبر دستی جزیہ نہیں لیا جاتا تھا.ان 330 کو قیام کرنے اور جزیہ دینے میں اختیار حاصل تھا اور دونوں صورتوں میں ان کو امن دیا گیا تھا.331 اس صلح کی خبر جب اہل رملہ کو ملی تو وہ بھی امیر المومنین سے اسی قسم کا معاہدہ کرنے کے لیے بے چین ہو گئے.یہی حال فلسطین کے دوسرے لوگوں کا تھا.لڑ والوں کو حضرت عمرؓ کی طرف سے ایک مکتوب لکھا گیا جس کے دائرہ نفاذ میں وہ شہر بھی شامل کر لیے گئے جنہوں نے اس کے بعد مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی.اس خط میں حضرت عمر نے لڑ کے باشندوں کے جان ومال، گر جا، صلیب، تندرست، بیمار اور تمام مذاہب کو امان دی اور کہا کہ اگر وہ شام کے شہروں کی طرح جزیہ ادا کریں گے تو ان کے مذہب پر جبر نہیں کیا جائے گا اور نہ اختلافی عقائد کی بنا پر کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا.ان تمام کاموں سے فارغ ہو کر امیر المومنین نے فلسطین پر دو حاکم مقرر فرمائے اور ملک کا آدھا آدھا حصہ ان دونوں میں بانٹ دیا.چنانچہ عَلْقَبَہ بن حکیم کا مرکز حکومت رَمَلَہ قرار پایا اور عَلْقَمَہ بن مُجزَزْ کا ایلیا.حضرت عمر بیت المقدس میں تشریف لائے: 332 اس کے بارے میں لکھا ہے کہ جس وقت حضرت عمرؓ نے ایلیا والوں کو پناہ اور امان دی اور ایلیا میں لشکر کو ٹھہرادیا تو آپ جابیہ سے بیت المقدس کی جانب چل پڑے.لکھا ہے کہ جب آپ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ نے محسوس کیا کہ آپ کا گھوڑا پاؤں میں درد کی وجہ سے سیدھا نہیں چل رہا.حضرت عمرؓ کے لیے ایک ترکی نسل کا گھوڑا لایا گیا.آپ اس پر سوار ہوئے تو وہ اڑی کرنے لگا.آپ اس سے اتر آئے.پھر حضرت عمر نے چند روز بعد اپنا گھوڑا طلب کیا جس پر آپ نے سواری ترک کی ہوئی تھی.اس کا علاج ہو رہا تھا.پھر آپ اس پر سوار ہوئے یہاں تک کہ بیت المقدس تشریف لے گئے.333

Page 213

صحاب بدر جلد 3 193 حضرت عمر بن خطاب بیت المقدس قریب آیا تو حضرت ابو عبیدہ اور سردارانِ فوج استقبال کے لیے آئے.حضرت عمر نکا لباس اور سامان بالکل سادہ تھا.مسلمانوں نے یہ سوچ کر کہ عیسائی کیا کہیں گے آپ کو قیمتی پوشاک دی لیکن آپ نے فرمایا خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لیے یہی کافی ہے.عیسائی پادریوں نے خود شہر کی چابیاں حضرت عمرؓ کے سپرد کیں.سب سے پہلے حضرت عمر مسجد اقصیٰ گئے.پھر عیسائیوں کے گرجا میں آئے اور اس کو دیکھتے رہے.حضرت عمرؓ نے عیسائیوں کے گرجا کی سیر کی.نماز کا وقت ہوا تو عیسائیوں نے گرجے میں نماز پڑھنے کی اجازت دی لیکن حضرت عمرؓ نے اس خیال سے کہ آئندہ نسلیں اس کو حجت قرار دے کر مسیحی معبدوں میں دست اندازی نہ کریں باہر نکل کر نماز پڑھی.ابو عبیدہ نے حضرت عمرؓ کی ضیافت نہیں کی.....ایلیا میں قیام کے دوران مسلمان لشکر کے امراء نے حضرت عمر کی دعوتیں کرنا شروع کر دیں.وہ کھانا تیار کرتے اور حضرت عمرؓ سے درخواست کرتے کہ ان کے خیمہ میں تشریف لائیں تو حضرت عمران کی عزت افزائی کرتے ہوئے ان کی دعوت کو قبول فرماتے تا ہم حضرت ابو عبیدہ نے حضرت عمررؓ کی ضیافت نہیں کی تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہ سے فرمایا کہ تمہارے سوالشکر کے امراء میں سے کوئی ایسا امیر نہیں جس نے میری دعوت نہ کی ہو.اس پر حضرت ابو عبیدہ نے عرض کیا: اے امیر المومنین ! میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے آپ کی دعوت کی تو آپ اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رکھ سکیں گے یعنی جذباتی ہو جائیں گے.حضرت عمر اس کے بعد ان کے خیمہ میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے حضرت ابو عبیدہ کے گھوڑے کے نمدے کے اور وہی ان کا بستر تھا اور ان کی زمین تھی اور وہی ان کا تکیہ تھا.زین کو تکیہ بنالیتے تھے اور جو نمیدہ تھا زین کے نیچے رکھنے والا اس کو وہ بستر بنا لیتے تھے اور ان کے خیمے کے ایک کونے میں خشک روٹی تھی.حضرت ابو عبیدہ اسے لائے اور اسے زمین پر حضرت عمررؓ کے سامنے رکھ دیا.پھر وہ نمک اور مٹی کا پیالہ لائے جس میں پانی تھا.جب حضرت عمرؓ نے یہ منظر دیکھا تو آپ رو پڑے.پھر حضرت عمر نے ابو عبیدہ کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور فرمایا تم میرے بھائی ہو.اور میرے ساتھیوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں مگر اس نے دنیا سے کچھ حاصل کیا اور دنیا نے بھی اس سے کچھ حاصل کیا ہو سوائے تمہارے.اس پر ابو عبیدہ نے عرض کیا کہ کیا میں نے آپ کی خدمت میں پہلے عرض نہیں کر دیا تھا کہ آپ میرے ہاں اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رکھ سکیں گے.اس کے بعد پھر حضرت عمرؓ باہر نکل کے لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ حق دار ہے اور نبی کریم صلی املی کم پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا.اے اہل اسلام ! یقینا اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا ہے اور اس نے دشمنوں کے خلاف تمہاری مدد کی ہے اور تمہیں ان ممالک کا وارث

Page 214

محاب بدر جلد 3 194 حضرت عمر بن خطاب بنا دیا ہے اور تمہیں زمین میں تمکنت عطا فرمائی ہے.پس تمہیں اپنے رب کی نعمتوں پر شکر بجالانا چاہیے.تم لوگ نافرمانی والے کاموں سے دور رہو کیونکہ نافرمانی والے کام نعمتوں کی ناشکری ہے اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ اللہ کسی قوم پر انعام کرے اور وہ ناشکری کریں.پھر وہ جلد تو بہ نہ کریں مگر ضرور ان کی عزت سلب کر لی جاتی ہے.یعنی اگر ناشکری کرنے کے بعد تو بہ نہیں کرتے تو پھر ان کی عزتیں سلب ہو جاتی ہیں، ختم ہو جاتی ہیں.ان کے انعامات واپس ہو جاتے ہیں اور ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے.کیونکہ ایلیا میں اکثر افسرانِ فوج اور عمال جمع ہو گئے تھے اس لیے حضرت عمرؓ نے کئی دن تک قیام کیا اور ضروری احکام جاری کیے.ایک دن حضرت بلال نے آکر شکایت کی کہ اے امیر المومنین ! ہمارے افسر پرندے کا گوشت اور میدے کی روٹیاں کھاتے ہیں لیکن عام مسلمانوں کو معمولی کھانا بھی نصیب نہیں ہو تا.حضرت عمرؓ نے افسران سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ تمام چیزیں یہاں بہت سستی ہیں.جتنی قیمت پر حجاز میں روٹی اور کھجور ملتی ہے یہاں اسی قیمت پر پرندے کا گوشت اور میدہ ملتا ہے.حضرت عمر نے افسران کو بھی مجبور نہیں کیا کہ تم نے یہ نہیں کھانا مگر اس بات کا حکم دے دیا کہ مالِ غنیمت اور تنخواہ کے علاوہ ہر سپاہی کا کھانا بھی مقرر کر دیا جائے.تنخواہ کے علاوہ ان کو کھانا بھی دیا جائے جو سپاہی ہیں.اس کی مزید تفصیل ایک جگہ یوں بیان ہوئی ہے کہ حضرت یزید بن ابو سفیان کہنے لگے کہ ہمارے شہروں کا نرخ سستا ہے.اس قیمت میں جس میں ہم لوگ ایک مدت تک گزارہ کر سکتے ہیں یہ چیزیں جسے حضرت بلال بیان کر رہے ہیں مل جاتی ہیں.حضرت عمر فاروق نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو خوب مزے سے پیٹ بھر کر کھاؤ.میں اس وقت تک یہاں سے واپس نہ جاؤں گا یہاں تک کہ تم میرے سامنے چیزوں کی اور قیمتوں کی فہرست پیش نہ کر دو.میں شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والے کمزور مسلمانوں کے لیے بجٹ لکھ کر دیتا ہوں.پھر جس مسلمان کو جتنی ضرورت ہو گی اس بجٹ میں سے ہر گھر کے لیے گندم اور جو اور شہد اور زیتون وغیر ہ ادا کر دیا کرو.پھر آپ نے ان کمزور اور کم سرمایہ دار مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: میں نے تمہارے لیے جو فہرست تیار کی ہے تمہارے سردار تمہیں یہ سب کچھ دیا کریں گے اور یہ سب کچھ اس کے علاوہ ہو گا جو میں بیت المال سے تمہارے لیے بھیجا کروں گا.اگر کوئی سردار تمہیں یہ چیزیں نہ دے تو مجھے اطلاع دینا.پھر میں فوراً ہی اسے معزول کر دوں گا.حضرت بلال کا ایک بار پھر اذان دینا ایلیا میں قیام کے دوران ایک دفعہ نماز کا وقت ہوا تو لوگوں نے حضرت عمرؓ سے اصرار کیا کہ وہ حضرت بلال کو اذان دینے کا حکم دیں.حضرت بلال نے کہا میں عزم کر چکا تھا کہ رسول اللہ صلی لنی کیم کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا لیکن آپ کا ارشاد بجالاؤں گا.چنانچہ حضرت عمرؓ کے حکم پر حضرت بلال

Page 215

اصحاب بدر جلد 3 195 حضرت عمر بن خطاب نے جب اذان دی تو تمام صحابہ کو رسول اللہ صلی علیہم کا زمانہ یاد آگیا اور ان پر اتنی رقت طاری ہوئی کہ وہ روتے روتے بیتاب ہو گئے.حضرت عمر بھی اتنے بیتاب ہوئے کہ ہچکی بندھ گئی اور دیر تک اس کا اثر رہا.بیت المقدس سے واپسی کے وقت حضرت عمرؓ نے تمام ملک کا دورہ کیا اور سرحدوں کا معائنہ کر کے ملک کی حفاظت کا انتظام کیا.334 ” بیت المقدس تشریف لانے سے حضرت عمرؓ کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو گیا.چنانچہ جس رستے سے آپ تشریف لائے تھے اسی رستے سے مدینہ واپس ہو گئے.جابیہ پہنچ کر فاروق اعظم حضرت عمر نے کچھ دن قیام فرمایا اور اس کے بعد اپنے گھوڑے پر روانہ ہو گئے.امیر المومنین نے فلسطین میں جو کام کیسے تھے ان کی اطلاع حضرت علی اور دوسرے مسلمانوں کو مل چکی تھی.چنانچہ مدینے کے باہر انہوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا.335 336 رضوو حضرت عمر نمسجد نبوی میں داخل ہوئے اور منبر کے پاس دور کعت نماز ادا کی پھر منبر پر چڑھے اور لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے.آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور نبی کریم صلی الیکم پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا.اے لوگو! یقینا اللہ نے اس امت پر احسانات کیسے ہیں تا کہ وہ لوگ اس کی حمد بیان کریں اور اس کا شکر ادا کریں.اللہ نے اس امت کے پیغام کو عزت دی اور ان کو متحد کر دیا اور ان کی فتح ظاہر کی اور دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کی اور اسے عزت بخشی اور اسے زمین میں تمکنت عطا فرمائی اور اسے مشرکین کے علاقوں اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا.پس ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہو وہ تمہیں اور زیادہ عطا کرے گا اور ان نعمتوں پر اللہ کی حمد بیان کرو جو اس نے تم پر نازل کی ہیں.وہ ہمیشہ ان نعمتوں کو تم پر قائم رکھے گا.اللہ ہمیں اور تمہیں شکر گزاروں میں سے بنا دے.اس کے بعد حضرت عمر منبر سے نیچے اتر گئے.حضرت خلیفہ المسیح الاول بیان فرماتے ہیں کہ : یروشلم کے محاصرہ میں پادریوں نے کہا تمہارا خلیفہ آوے تو اسے ہم دخل دے دیں“ دخل دے دیں گے ” حضرت عمر اسی سادگی میں روانہ ہوئے.غلام کے ساتھ باری باری اونٹ پر چڑھتے آتے تھے.ابو عبیدہ نے عرض کیا آپ کپڑے بدل لیں.گھوڑے پر سوار ہوں.آپ نے یہ عرض مان لی مگر تھوڑی دور جا کر گھوڑے سے اتر بیٹھے.کہا میر اوہی لباس اور اونٹ لاؤ.آپ جب گئے تو بطریق وغیرہ نے رعب میں آکر چابیاں پھینک دیں.کہا اس سپہ سالار کا مقابلہ ہم نہیں کر سکتے.“337 اپنے رنگ میں حضرت خلیفہ اول نے بیان کیا ہے.حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ یروشلم میں ایک مسجد ہے وہ مقام یہودیوں کے لئے ایسا ہی متبرک ہے جیسا ہمارے لئے خانہ کعبہ.مسلمانوں کے زمانہ میں جب یروشلم فتح ہوا تو عیسائیوں نے چاہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس مقام کے اندر آکر نماز پڑھیں مگر آپ نے فرمایا: وو

Page 216

اصحاب بدر جلد 3 196 حضرت عمر بن خطاب میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے اندر نماز پڑھی تو مسلمان اس جگہ کو اپنی عبادت گاہ بنالیں گے اور آپ نے 33866 33966 باہر نماز پڑھی.پھر حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہوا اور جس وقت آپ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں.آپ مسجد میں آکر دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپ کو تسلی ہو جائے کہ آپ نے ہماری مقدس جگہ میں جو آپ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہاری مسجد میں اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ میں ان کا خلیفہ ہوں، کل کو یہ مسلمان اس مسجد کو چھین لیں گے اور کہیں گے کہ یہ ہماری مقدس جگہ ہے اس لئے میں باہر ہی نماز پڑھوں گا تا کہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے.بہر حال سترہ ہجری میں رومیوں کی طرف سے ایک آخری کوشش ہوئی اور اس کوشش کی وجہ سے ہی مسلمانوں کی شام پر مکمل فتح بھی ہوئی.اسلامی فتوحات چونکہ روز بروز وسیع تر ہوتی جاتی تھیں اور حکومت اسلام کے حدود برابر بڑھتے جاتے تھے، ہمسایہ سلطنتوں کو خود بخود خوف پیدا ہوا کہ ایک دن ہماری باری بھی آتی ہے.چنانچہ اہل جزیرہ جو عراق اور شام کے درمیان آباد تھے یزدجرد کے رے فرار ہو جانے کے بعد وہ اس کی طرف سے مایوس ہو گئے تھے.اس لیے انہوں نے ھر قل کو لکھا کہ اگر وہ مسلمانوں سے لڑنے اور انہیں ان کے مقبوضات سے نکال باہر کرنے کے لیے بحری راستے سے لشکر بھیجے تو وہ اس کی مدد کریں گے.ھرقل نے اس مسئلہ پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس میں نقصان کا کوئی پہلو نہیں ہے.اہل جزیرہ نے ہر قل کو دوبارہ خط لکھا جس سے وہ سمجھ گیا کہ ان کے ارادے میں کوئی جھول نہیں ہے.اس نے دیکھا کہ ان میں سے اکثر عیسائی عرب اپنے مذہب کا دامن مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں اور اس کی راہ میں لڑکے مر جانا بہتر سمجھتے ہیں.ھر قل کو شام کے میدان کارزار سے دور ہوئے ایک برس سے زیادہ ہو گیا تھا اس لیے اب اس کے دل میں وہ پہلا سا خوف بھی باقی نہیں رہاتھا.پھر اس نے دیکھا کہ بہت سے سرحدی علاقے ابھی اتنے مستحکم ہیں کہ مسلمانوں کے حملوں کی تاب لا سکتے ہیں، مقابلہ کر سکتے ہیں.اس کا جنگی بیڑہ بھی ہنوز محفوظ تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ مسلمان سمندر اور سمندر کی طرف سے آنے والی ہر چیز سے ڈرتے ہیں.اس سے اس کے ارادے میں قوت پیدا ہوئی اور وہ اہل جزیرہ کا مطالبہ تسلیم کر لینے پر مائل ہو گیا.اس نے اپنے خط میں ان قبائل کو جوش دلایا.ان کی ہمتیں بڑھائیں اور لکھا کہ جہازوں کو حکم دے دیا گیا ہے.وہ فوج اور سامان جنگ لے کر اسکندریہ سے انطاکیہ پہنچ رہے ہیں.ہر قل کا خط ملنے پر یہ قبائل اپنی تیس ہزار کی فوج لے کر جزیرہ سے حمص کی طرف روانہ ہو گئے.حضرت ابو عبیدہ کو ان تمام باتوں کی اطلاع ملی.انہوں نے حضرت خالد بن ولید کو مشورے کے لیے قتئرین سے بلایا اور ان دونوں سپہ سالاروں نے مل کر فیصلہ کیا کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے

Page 217

حاب بدر جلد 3 197 حضرت عمر بن خطاب تمام اسلامی فوجیں شمالی شام میں جمع ہو جائیں.چنانچہ انطاکیہ اور حماة، حلب اور قریب کی تمام فوجی چھاؤنیوں کے لشکر حمص میں اکٹھے کر دیے گئے.ادھر سارے ملک میں یہ خبر پھیل گئی کہ ہر قل کی فوجیں بحری رستے سے آرہی ہیں اور جزیرہ کے قبائل حملے کے لیے حمص کی طرف روانہ ہو گئے ہیں چنانچہ گرد نہیں بڑھا بڑھا کر لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ قیصر اور اس کے حلیفوں کا یہ نیا حملہ کس چیز سے روکا جائے گا اور جب ہر قل کے جہاز انطاکیہ پہنچے تو شہر کے دروازے فوج کے لیے کھل گئے.رعایا مسلمانوں کے خلاف ہو گئی اور تمام شمالی شام میں بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے.حضرت ابو عبیدہ نے اپنے آپ کو حمص میں محصور پایا جسے باغیوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور دشمنوں کو سمندر اور صحرا دونوں طرف سے اپنی سمت بڑھتے دیکھا تھا.انہوں نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے امیر المومنین کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا ہے جس میں اس نازک مرحلے پر ان سے مدد طلب کی ہے.اس کے بعد ان سے پوچھا کہ مسلمان دشمنوں سے باہر نکل کر مقابلہ کریں یا مدینہ سے آنے والی کمک کے انتظار میں قلعہ بند ہو کر لڑیں.صرف خالد بن ولید نے میدان سے نکل کر لڑنے کا مشورہ دیا باقی تمام فوجی افسران کی یہ رائے تھی کہ قلعہ بند ہو کر جلد سے جلد کمک طلب کرنی چاہیے.حضرت ابو عبیدہ نے ان لوگوں کی رائے قبول کر لی جنہوں نے قلعہ بند ہونے کا کہا تھا اور حضرت خالد کے مشورے سے اختلاف کیا کہ باہر نکل کے لڑا جائے.چنانچہ مورچوں کو اور مضبوط کر کے بار گاہِ خلافت میں اپنے ساتھیوں کی رائے لکھ بھیجی.حضرت عمرؓ اس بات کو کبھی فراموش نہ ہونے دیتے تھے کہ عراق اور شام کے اسلامی لشکروں کو اگر کبھی اس قسم کا خطرہ در پیش آگیا تو اسلامی فتوحات اسی ابتلا سے دو چار ہو جائیں گی جن کا سامنا ہو رہا تھا اور جس سے وہ اپنی خلافت کے دن سے دوچار تھے یعنی شروع دن کی جو حالت تھی وہ اب بھی ہو سکتی تھی.اس لیے حضرت عمر نے بصرہ اور کوفہ آباد کرنے کا حکم دیا تھا اور اسی لیے ان دونوں شہروں کو مسلمانوں کی فوجی چھاؤنیاں بنایا تھا کہ جہاں کوئی غیر مسلم آباد نہیں تھا.اس کے علاوہ دوسرے سات شہروں میں سے ہر شہر میں چار ہزار سوار مقرر کیے تھے جو ہر وقت اس قسم کی ہنگامی ضروریات کے لیے کیل کانٹے سے لیس رہتے تھے.چنانچہ جب حضرت ابو عبیدہ کا خط بارگاہ خلافت میں پہنچا اور حضرت عمر نے محسوس کیا اور فرمایا کہ مسلمانوں کا یہ عظیم سپہ سالار ایک بہت بڑے خطرے میں گھر گیا ہے تو حضرت سعد بن ابی وقاص کو فوری حکم دے کر روانہ کیا کہ جس دن تمہارے پاس خط پہنچے اسی دن قعقاع بن عمرو کو امدادی فوج کے ساتھ حمص بھیج دو، ابو عبیدہ وہاں محصور ہیں.جتنی جلدی اور جتنی تیزی سے ممکن ہو کمک انہیں پہنچ جانی چاہیے.حضرت سعد نے اسی دن امیر المومنین کے حکم کی تعمیل کی اور قغقاع کی سرکردگی میں چار ہزار تجربہ کار سواروں کی فوج فراہم ہو کر کوفہ سے جمع کی طرف چل پڑی.معاملہ اتنا خطر ناک تھا کہ محض چار ہزار فوج لے کر قعقاع کا اس کے مقابلے کے لیے چلے جانا کافی

Page 218

محاب بدر جلد 3 198 حضرت عمر بن خطاب نہ تھا کیونکہ جزیرے سے حمص آنے والوں کی تعداد تیس ہزار تھی اور وہ فوج اس کے علاوہ تھی جو ہر قل نے بحری جہازوں کے ذریعہ انطاکیہ بھیجی تھی.حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ ان کے آدمی شام کے ہر شہر میں وہاں کے باشندوں سے نمٹ رہے ہیں.اگر وہ ان شہروں کو چھوڑ کر حمص چلے گئے تو سارے شام کا نظام درہم برہم ہو جائے گا.اس لیے انہوں نے قعقاع کو کوفہ سے روانگی کا حکم دینے کے بعد اور بھی احکام صادر کیے جو ان کے تدبر اور دوراندیشی کے آئینہ دار تھے.جزیرے سے حمص آنے والے قبائل نے یہ جرات اس لیے کی تھی کہ وہ جانتے تھے کہ ان کی بستیاں اسلامی حملوں کی زد سے باہر ہیں.پس اگر ان بستیوں پر حملہ کر دیا جائے تو یہ قبائل الٹے پاؤں واپس ہو جائیں گے اور ابو عبیدہ اور ان کی فوجوں پر جو دباؤ بڑھ رہا تھا اس میں تخفیف ہو جائے گی.اس لیے حضرت عمرؓ نے سعد بن ابی وقاص کے خط میں لکھا کہ شہیل بن عدی کی سر کردگی میں ایک فوج جزیرہ کے شہر رقہ میں بھیج دو.جزیرہ کے لوگوں نے ہی رومیوں کو حمص پر حملہ کے لیے ابھارا ہے اور ان سے پہلے قرقیسیا کے باشندے یہی حرکت کر چکے ہیں.دوسری فوج عبد اللہ بن عثبان کی سر کردگی میں نصیبین پر چڑھائی کے لیے روانہ کر دو.یہاں کے باشندوں کو بھی اہل قرقیسیا نے حملہ کے لیے اکسا یا تھا.پھر حران جو جزیرے کا پایہ تخت تھا اور دُھا جا کر وہاں سے دشمن کو نکال دیں.حران اور ڈھاء جاکر وہاں سے دشمن کو نکال دیں.ایک تیسری فوج ولید بن عقبہ کی کمان میں جزیرہ کے عیسائی عرب قبائل ربیعہ اور تنوح کی جانب روانہ کرو اور عیاض بن غنم کو اسی جزیرہ کے محاذ پر بھیجو.اگر جنگ ہو تو دوسرے سالارانِ فوج عیاض بن غنم کے ماتحت ہوں گے.چنانچہ جب یہ سب کے سب سپہ سالار روانہ ہوئے تو اہل جزیرہ حمص کا محاصرہ چھوڑ کر جزیرے کو چل دیے.حضرت عمر کی یہ پالیسی، سٹریٹجی تھی، حکمت عملی تھی کہ بجائے وہاں اکٹھے ہوں کچھ فوجیں جن علاقوں سے یہ فوجیں اکٹھی ہوئی تھیں ان شہروں اور علاقوں میں بھیج دو جس کا نتیجہ یہ ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان تو ہمارے علاقوں میں اور جزیروں میں اور شہروں میں آرہے ہیں تو یہ لوگ پھر محاصرہ چھوڑ کے وہاں سے چلے گئے.لیکن حضرت عمرؓ نے پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا.انہوں نے اندازہ فرما لیا تھا کہ بار بار شکستیں کھانے کے بعد ہر قل نے یہ جو بحری راستے سے فوجیں بھیجی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے اپنی قوت پر اعتماد ہے اور وہ یقین رکھتا ہے کہ اس میں تنہا مسلمانوں کے مقابلہ کی قدرت ہے.اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اسکندریہ سے جہازوں پر آنے والی فوجوں کا کمانڈر اس نے اپنے بیٹے حسطنطین کو بنایا ہے.رومیوں سے مقابلہ اور پھر قیصر کبھی شام کا رخ نہ کر سکا بنایا حضرت عمرؓ کی پلاننگ کے مطابق قعقاع بن عمر و اپنے ساتھ چار ہزار شہسواروں کو لے کر حمص روانہ ہوئے.سہیل بن عدی، عبد اللہ بن عثبان، ولید بن عقبہ اور عیاض بن غنم اہل جزیرہ کی گوشمالی

Page 219

حاب بدر جلد 3 199 حضرت عمر بن خطاب کے لیے ان کے مختلف شہروں میں چلے گئے اور حضرت عمرؓ نے حمص کے ارادے سے مدینہ چھوڑا اور جابیہ میں فروکش ہوئے.اہل جزیرہ نے حمص کا محاصرہ کرنے میں رومیوں کا ساتھ دیا.انہیں عراق سے اسلامی فوج کی آمد کی اطلاع ہو گئی لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ فوج ہمارے شہر جزیرہ پر حملہ کرے گی یا حمص پر اس لیے وہ اپنے شہر اور اپنے بھائیوں کی حفاظت میں لگ گئے اور رومیوں کا ساتھ چھوڑ دیا.ایک دن حضرت ابو عبیدہ جب سو کر اٹھے تو معلوم ہوا کہ جزیرے کے قبائل اپنے ملک واپس چلے گئے ہیں اور ان کے مقابلے پر صرف ہر قل کا لشکر رہ گیا ہے.انہوں نے اپنی فوج سے سر داروں کو بلا کر کہا کہ وہ رومیوں کے مقابلہ کے لیے میدان میں نکلنا چاہتے ہیں.یہ سن کر حضرت خالد بن ولید بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اس سے پہلے کہ رومی اس نئی صورت حال کا کوئی انتظام کریں ان پر فور أحملہ کر دینا چاہیے.حضرت ابو عبیدہ نے لشکر کے سپاہیوں سے ایک جوشیلا خطاب کیا اور فرمایا مسلمانو ! آج جو ثابت قدم رہ گیا وہ اگر زندہ بچا تو ملک و مال اس کو ملے گا اور اگر مارا گیا تو شہادت کی دولت ملے گی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ لی لی یکم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ مشرک نہ ہو تو وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا.فوج پہلے ہی سے حملے کرنے کے لیے بے قرار تھی.ابو عبیدہ کی تقریر نے اور بھی گرما دیا اور دفعہ سب نے ہتھیار سنبھال لیے.حضرت ابو عبیدہ قلب فوج اور حضرت خالد بن ولید میمنہ اور حضرت عباس میسرہ کو لے کر بڑھے.دونوں گروہوں میں جنگ ہوئی تو مسلمانوں کے مقابلے میں تھوڑی ہی دیر میں رومیوں کے پیر اکھڑ گئے اور وہ شکست کھا گئے.جب قعقاع بن عمرو کوفہ کی فوج کے ساتھ حمص پہنچے تو لڑائی ختم ہوئے تین دن گزر چکے تھے.دوسری طرف حضرت عمرؓ شام کے رستے میں جابیہ پہنچے ہی تھے کہ حضرت ابو عبیدہ کا قاصد ملا اور اس نے بیان کیا کہ قعقاع کے جمص پہنچنے سے تین دن پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو رومیوں پر فتح یاب کر دیا ہے اور رائے معلوم کی کہ قعقاع اور اس کی فوج کو مال غنیمت میں سے حصہ دیا جائے یانہ دیا جائے.حضرت عمر فطمئن ہو گئے اور اس خبر کے بعد سفر جاری رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی.وہیں سے حضرت امین الامت ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ اہل کوفہ کو مال غنیمت کی تقسیم میں شریک کیا جائے کیونکہ ان کی آمد کی خبر ہی نے دشمن کے دل پر رعب طاری کیا تھا جس کی وجہ سے اس نے شکست کھائی.اللہ کوفہ والوں کو جزائے خیر دے کہ اپنے علاقے کی حفاظت اور دوسرے شہر والوں کی اعانت کرتے ہیں اور اس کے بعد مدینہ کی طرف کوچ فرما دیا.اس شکست کے بعد قیصر پر اتنی مایوسی چھا گئی کہ وہ پھر کبھی شام کا رخ نہ کر سکا.ادھر باغیوں کو جب معلوم ہوا کہ رومی فوجیں جہازوں میں بیٹھ کر فرار ہو گئی ہیں تو ان کی بغاوت بھی اپنی موت آپ مر گئی.یہ سترہ ہجری کا واقعہ ہے.اس کے تین سال بعد هر قل120 ہجری کو 641 عیسوی میں فوت ہو گیا.340

Page 220

حاب بدر جلد 3 200 حضرت عمر بن خطاب حضرت مصلح موعود ایک موقع پر ایک تقریر میں تبلیغ کے بارے میں جب بیان فرمارہے تھے تو اس وقت حضرت عمرؓ کے زمانے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد جو لڑائیاں ہوئی ہیں ان میں اکثر اوقات مسلمانوں کی قلت ہوتی تھی.شام کی لڑائی میں سپاہیوں کی بہت کمی تھی.حضرت ابوعبیدہ نے حضرت عمر کو لکھا کہ دشمن بہت زیادہ تعداد میں ہے.اس لئے اور فوج بھیجنے کا بندوبست فرما دیں.حضرت عمرؓ نے جائزہ لیا تو آپ کو نئی فوج کا بھرتی کرنا ناممکن معلوم ہوا کیونکہ عرب کے ارد گرد کے قبائل کے نوجوان یا تو مارے گئے تھے یاسب کے سب پہلے ہی فوج میں شامل تھے.آپ نے مشورہ کے لئے ایک جلسہ کیا اور اس میں مختلف قبائل کے لوگوں کو بلایا اور ان کے سامنے یہ معاملہ رکھا.انہوں نے بتایا کہ ایک قبیلہ ایسا ہے جس میں کچھ آدمی مل سکتے ہیں.حضرت عمرؓ نے ایک افسر کو حکم دیا کہ وہ فوراً اس قبیلہ میں سے نوجوان جمع کریں اور حضرت ابو عبیدہ کو لکھا کہ چھ ہزار سپاہی تمہاری مدد کے لئے بھیج رہا ہوں جو چند دنوں تک تمہارے پاس پہنچ جائیں گے.تین ہزار آدمی تو فلاں فلاں قبائل میں سے تمہارے پاس پہنچ جائیں گے اور باقی تین ہزار کے برابر عمر و بن مَعْدِی گرب کو بھیج رہاہوں.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”ہمارے ایک نوجوان کو اگر تین ہزار آدمی کے مقابلہ میں بھیجا جائے تو وہ کہے گا کہ کیسی خلاف عقل بات ہے.کیا خلیفہ کی عقل ماری گئی ہے.ایک آدمی کبھی تین ہزار کا مقابلہ کر سکتا ہے! لیکن ان لوگوں کے ایمان کتنے مضبوط تھے.حضرت ابو عبیدہ کو حضرت عمر کا خط ملا تو انہوں نے خط پڑھ کر اپنے سپاہیوں سے کہا خوش ہو جاؤ کل عمر و بن مغیی گرب تمہارے پاس پہنچ جائے گا.سپاہیوں نے اگلے دن بڑے جوش کے ساتھ عمر و بن مَعْدِی گرب کا استقبال کیا اور نعرے لگائے.دشمن سمجھا کہ شاید مسلمانوں کی مدد کے لئے لاکھ دو لاکھ فوج آرہی ہے اس لئے وہ اس قدر خوش ہیں حالانکہ وہ اکیلے عمرو بن معدی گرب تھے.اس کے بعد وہ تین ہزار فوج بھی پہنچ گئی اور مسلمانوں نے دشمن کو شکست دی حالانکہ تلوار کی لڑائی میں ایک آدمی تین ہزار کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے.“ فرماتے ہیں کہ زبان کی لڑائی میں تو ایک آدمی بھی کئی ہزار لوگوں کو اپنی بات پہنچا سکتا ہے مگر وہ لوگ خلیفہ وقت کی بات کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ حضرت عمرؓ نے عمرو بن معدی گرب کو تین ہزار سپاہیوں کا قائم مقام بنا کر بھیجا تو سپاہیوں نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ اکیلا آدمی کس طرح تین ہزار کا مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ اسے تین ہزار کے برابر ہی سمجھا اور بڑی شان و شوکت سے اس کا استقبال کیا.مسلمانوں کے اس استقبال کی وجہ سے دشمن کے دل ڈر گئے اور وہ یہ سمجھے کہ شاید لاکھ دولاکھ فوج مسلمانوں کی مدد کو آگئی ہے اس لئے میدانِ جنگ سے ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ شکست کھا کر بھاگ نکلے.آپؐ فرماتے ہیں کہ ”سر دست ہمیں بھی اس طرح اپنے دل کو اطمینان دینا ہو گا.“341 یہ آپ بتارہے تھے کہ یورپ میں سپین میں اور سلی وغیرہ میں تبلیغ کس طرح کرنی ہے.اس

Page 221

صحاب بدر جلد 3 201 حضرت عمر بن خطاب ضمن میں یہ واقعہ بیان کیا.اب فتوحات مصر کا ذکر کرتا ہوں.اس میں ایک جنگ فَرَما تھی.فَرَمَا مصر کا ایک مشہور شہر تھا.یہ بحیرہ روم اور تلوزی کے دہانے کے قریب جو دریائے نیل کی سات شاخوں میں سے ایک شاخ تھی ایک پہاڑی پر آباد تھا.342 علامہ شبلی نعمانی کے مطابق بیت المقدس کی فتح کے بعد حضرت عمرو بن عاص کے اصرار پر حضرت عمر نے حضرت عمرو بن عاص کو چار ہزار کا لشکر دے کر مصر کی طرف روانہ کیا لیکن ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ اگر مصر پہنچنے سے پہلے میرا خط ملے تو واپس لوٹ آنا.عربیش پہنچے تھے کہ حضرت عمر کا خط پہنچا.اگر چہ اس میں آگے بڑھنے سے روکا تھا لیکن چونکہ شرطیہ حکم تھا اس لیے حضرت عمرو نے کہا کہ اب تو ہم مصر کی حد میں آچکے ہیں اور عَرِیش سے چل کر فرما پہنچے.343 اسلامی جنگوں پر مشتمل ایک کتاب ہے الاكتفاء.اس میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمرو بن عاص رفح مقام تک پہنچے تو آپ کو حضرت عمر کا خط ملا تھا لیکن آپ نے اس ڈر سے کہ اس خط میں واپس لوٹنے کا حکم نہ ہو جیسا کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا قاصد سے خط نہ لیا اور چلتے رہے یہاں تک کہ آپ رفتح اور عریش کے درمیان ایک چھوٹی بستی میں پہنچے اور اس کے متعلق پوچھا.بتایا گیا کہ یہ مصر کی حدود میں ہے.پس آپ نے خط منگوایا اور اسے پڑھا اور اس میں لکھا تھا کہ آپ کے ساتھ جو مسلمان ہیں انہیں لے کر واپس لوٹ آئیں تو آپ نے اپنے ہمراہ لوگوں سے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ یہ مصر میں ہے.انہوں نے کہا جی ہاں.تو آپ نے کہا کہ امیر المومنین نے حکم دیا ہے کہ اگر مجھے ان کا خط مصر کی سر زمین تک پہنچنے سے پہلے مل جائے تو میں واپس لوٹ آؤں اور مجھے یہ خط مصر کی سرزمین میں داخل ہونے کے بعد ملا ہے.پس اللہ کا نام لے کر چلو.اور ایک اور روایت میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرو بن عاص فلسطین میں تھے اور وہ بلا اجازت اپنے ساتھیوں کو لے کر مصر چلے گئے.یہ بات حضرت عمر کو ناگوار گزری.پس حضرت عمرؓ نے انہیں خط لکھا.حضرت عمر کا خط حضرت عمر و کو اس وقت ملا جب وہ عریش کے قریب تھے.پس آپ نے وہ خط نہ پڑھا یہاں تک کہ آپ عربیش پہنچ گئے.پھر آپ نے خط پڑھا.اس میں لکھا تھا کہ عمر بن خطابے کی طرف سے عمرو بن عاص کے نام.اَماً بَعْدُ، یقینا تم مصر اپنے ساتھیوں کے ساتھ گئے ہو اور وہاں رومیوں کی بڑی تعداد ہے اور تمہارے ساتھ تھوڑے لوگ ہیں.میری عمر کی قسم! اللہ تمہارا بھلا کرے.بہتر ہو تا اگر تم انہیں ساتھ نہ لے جاتے.پس اگر تم مصر نہیں پہنچے تو واپس لوٹ آؤ.44 اس سفر میں فرما سے پہلے اسلامی لشکر کی کسی بھی رومی سپاہی سے ملاقات نہ ہوئی تھی بلکہ جگہ جگہ مصریوں نے ان کا استقبال کیا تھا اور سب سے پہلے فرما میں محاذ آرائی ہوئی تھی.یہ تو مختلف روایتیں ہیں لیکن وہی روایت صحیح لگتی ہے کہ عریش مصر کی حدود میں پہنچنے کے بعد ان کو خط ملا.نہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ بہانے بنائے جائیں کہ ہم مصر پہنچیں گے تو خط کھولوں گا.بہر حال جب وہ مصر پہنچ گئے تھے تو پھر 344

Page 222

اصحاب بدر جلد 3 202 حضرت عمر بن خطاب آگے بڑھنا تھا کیونکہ پھر مومن کا قدم پیچھے نہیں اٹھتا.رومیوں نے یہ خبر پاکر کہ حضرت عمرو کے ساتھ آنے والی فوج معمولی تعداد اور نا قابل ذکر جنگی تیاریوں میں ہے زیادہ دنوں تک محاصرہ نہیں کر سکتے جبکہ ہم ان سے زیادہ تعد اور رکھتے ہیں اور اس کی تیاری کر رہے ہیں اور انہیں پست کر کے لے جائیں گے.تو رومیوں نے یہ خیال کیا اور وہ شہر میں قلعہ بند ہو گئے.ادھر حضرت عمرو بن عاص کو رومیوں کی عسکری قوت کا علم ہو چکا تھا کہ اسلحہ اور تعداد میں کئی گنا ہم پر بھاری ہیں.چنانچہ آپؐ نے فرما پر قابض ہونے کے لیے منصوبہ بنایا کہ اچانک حملہ کر کے فصیل کے دروازوں کو کھول دیا جائے یا پھر اس وقت تک صبر کے ساتھ محاصرہ جاری رکھا جائے جب تک کہ شہریوں کی خوراک ختم نہ ہو جائے اور بھوک سے بے تاب ہو کر باہر نہ نکل آئیں.چنانچہ محاصرہ کر لیا.ادھر مسلمانوں کا محاصرہ سخت سے سخت تر ہوتا جارہا تھا اور ادھر رومی بھی اپنی ضد سے پیچھے نہ ہٹ رہے تھے.اس طرح محاصرہ کئی مہینے جاری رہا.کبھی کبھی رومی فوج باہر آتی اور دو چار جھڑ ہیں کر کے پیچھے ہٹ جاتی.ان جھڑپوں میں مسلمان ہی غالب رہتے.ایک دن رومی افواج کی ایک جماعت بستی سے باہر نکل کر مسلمانوں سے لڑنے نکلی.مقابلہ میں مسلمان غالب رہے اور رومی ہزیمت کھا کر بستی کی طرف بھاگے.مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور دوڑنے میں کافی تیز روی کا ثبوت دیا اور کچھ لوگوں نے دروازوں تک رومیوں کے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں پہنچ کر فصیل کا دروازہ کھول دیا اور فتح مبین کا رستہ صاف کر دیا.345 فتح بلبيس، یہ کس طرح ہوئی.فرما کے بعد حضرت عمرو بن عاص نے پلیٹس کا رخ کیا تو رومی فوج نے آپ کا راستہ روک لیا.بلبيس فسطاظ سے تقریباً تیس میل دور شام کے رستے پر ایک شہر ہے.بہر حال رستہ روک لیا تا کہ مسلمان بابلیوں کے قلعہ تک نہ پہنچ سکیں.بابلیون نام قدیم لغت میں دیارِ مصر کے لیے استعمال ہوتا ہے بالخصوص جہاں فسطاط آباد ہوا اسے پہلے بابلیون کہا جاتا تھا.رومی فوج یہیں لڑنا چاہتی تھی لیکن حضرت عمرو بن عاص نے ان سے کہا تم اس وقت تک جلدی نہ کرو جب تک ہم اپنی بات تمہارے سامنے رکھ نہ دیں تاکہ کل عذر و معذرت کی کوئی بات نہ رہ جائے.پھر کہا کہ تم اپنے پاس سے ابو مریم اور ابو مریام کو میرے پاس سفیر بنا کر بھیجو.چنانچہ وہ لوگ لڑنے سے رک گئے اور ان دونوں سفیروں کو بھیج دیا.یہ دونوں سفیر اہل بلبیس کے راہب تھے.حضرت عمرو نے ان کے سامنے اسلام لانے یا جزیہ دینے کی تجویز رکھی اور ساتھ اہل مصر کے بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ ان کا یہ فرمان بھی پیش کیا کہ تم مصر کو فتح کرو گے.وہ ایسا ملک ہے جہاں قیراط کا نام چلتا ہے.پس جب تم اسے فتح کر چکو تو اس کے رہنے والوں سے احسان کا سلوک کرنا کیونکہ ان کے لیے ذمہ داری اور صلہ رحمی ہے یا فرمایا کہ ذمہ داری اور مصاہرت ہے.ان دونوں سفیروں نے یہ بات سن کر کہا یہ بہت دور کا رشتہ ہے، اسے انبیاء ہی پورا کر سکتے ہیں.ہمیں جانے دو.ہم واپس آکے بتائیں گے.حضرت عمرو بن عاص نے کہا مجھ جیسے شخص کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا ہے.میں تمہیں تین دن کی مہلت دیتا ہوں آپ لوگ اچھی طرح معاملے پر غور کر لیں.

Page 223

اصحاب بدر جلد 3 203 حضرت عمر بن خطاب دونوں سفیروں نے کہا کہ ایک دن کی اور مہلت دے دیں.آپ نے انہیں مزید ایک دن کی مہلت دے دی.دونوں سفیر لوٹ کر قبطیوں کے سردار مقوقس اور شاہ روم کی طرف سے مصر کے حاکم از طبون کے پاس آئے اور مسلمانوں کی بات ان کے سامنے رکھی.از طبون نے ماننے سے انکار کر دیا اور جنگ کا پختہ ارادہ کر کے راتوں رات اس نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا.ارطبون کے اس لشکر کی تعداد بارہ ہزار بیان کی جاتی ہے.مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد اس معرکے میں شہید ہوئی اور رومیوں کے ایک ہزار سپاہی قتل اور تین ہزار سپاہی گرفتار ہوئے اور از طبون میدان چھوڑ کر بھاگ گیا اور بعض نے کہا کہ وہ اسی جنگ میں مارا گیا.مسلمانوں نے اسے اس کے لشکر سمیت اسکندریہ تک شکست دی.مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمان پلیس میں ایک مہینہ تک رہے.اس دوران لڑائی ہوتی رہی اور آخر میں فتح مسلمانوں کو ہوئی لیکن اس امر میں ان کا اختلاف ہے کہ یہ جنگ شدید تھی یا کم.اس جنگی کشمکش کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو مسلمانوں کی دانش مندی اور اخلاقی برتری کی دلیل ہے.واقعہ یوں ہے کہ جب بلبیس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی تو اس میں مقوقس کی لڑکی گرفتار ہوئی جس کا نام آزمانُوسہ تھا.وہ اپنے باپ کی چہیتی بیٹی تھی.اس کا باپ قسطنطين بن هِرقُل سے اس کی شادی کرنا چاہتا تھا.وہ اس شادی پر راضی نہیں تھی.اس لیے وہ اپنی 346 خادمہ کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے بلبیس آئی ہوئی تھی.بہر حال جب مسلمانوں نے اسے گرفتار کیا تو حضرت عمرو بن عاص نے تمام صحابہ کرام کی ایک مجلس بلائی اور انہیں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن: 61) کیا احسان کی جزا احسان کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتی ہے ؟ پھر اس آیت یعنی هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ کے حوالے سے کہا کہ مقوقس نے ہمارے نبی صلی الیوم کے پاس ہدیہ بھیجا تھا.میری رائے ہے کہ اس لڑکی اور اس کے ساتھ جو دیگر خواتین ہیں اور اس کے خدمت گزار ہیں اور جو مال ہمیں ملا ہے وہ سب کچھ مقوقس کے پاس بھیج دو.سب نے عمرو بن عاص کی رائے کو درست قرار دیا.پھر عمر و بن عاص نے مقوقس کی بیٹی آزمانُوسہ کو اس کے تمام جواہرات، دیگر خواتین اور خدمت گزاروں کے ساتھ نہایت عزت و احترام سے اس کے باپ کے پاس بھیج دیا.واپس ہوتے ہوئے اس کی خادمہ نے آزمائوسہ سے کہا ہم ہر طرف سے عربوں کے گھیرے میں ہیں.آزمانُو سہ نے کہا میں عربی خیمے میں جان اور عزت کو محفوظ سمجھتی ہوں لیکن اپنے باپ کے قلعہ میں اپنی جان کو محفوظ نہیں بجھتی.پھر جب وہ اپنے باپ کے پاس پہنچی تو اس کے ساتھ مسلمانوں کا برتاؤ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا.347 پھر اُم دُرین ایک جگہ ہے، وہاں کی فتح کا ذکر ہے.ہلبیس کی فتح کے بعد حضرت عمر و بن عاص صحرا کی سرحد پر پیش قدمی کرتے ہوئے اُم دُنین کی بستی کے قریب جا پہنچے جو دریائے نیل پر خلیج تر اجان

Page 224

اصحاب بدر جلد 3 204 حضرت عمر بن خطاب کے منبع کے پاس واقع تھی.یہ خلیج سویز کے قریب شہر مصر کو بحیرہ روم سے ملاتی تھی جہاں آج کل قاہرہ کا محلہ ازبکیہ ہے وہیں اس زمانے میں اُم دُنین کی بستی تھی جسے رومیوں نے قلعہ بند کر رکھا تھا.اس کے قریب دریائے نیل کا گھاٹ تھا اور اس گھاٹ پر بہت سی کشتیاں کھڑی رہتی تھیں.یہ بستی باہلیوں کے شمال میں تھی جو شہر مصر کا سب سے بڑا قلعہ تھا.اس لحاظ سے اُم دُنین کو مصریوں کے اس محبوب علاقے کی، جو گذشتہ زمانوں کے فرعونوں کا دارالحکومت بھی رہ چکا تھا، سب سے پہلی دفاعی چو کی کہا جاسکتا ہے.اُم دُنین کے قریب جا کر مسلمانوں نے پڑاؤ ڈالا.رومیوں نے قلعہ بابلیوں میں اپنی بہترین فوج پہنچادی تھی اور اُم ڈرین کے قلعہ کو خوب اچھی طرح مضبوط کر کے جنگ کے لیے تیار ہو گئے تھے.جاسوسوں کی خبروں سے حضرت عمر و بن عاص کو اندازہ ہو گیا کہ ان کی فوج قلعہ بابلیون کی فتح یا اس کے محاصرے کے لیے ناکافی ہے.انہوں نے ایک قاصد کے ہاتھ ایک خط مدینہ بھیجا اور اس میں اپنے سفر مصر کے حالات، قلعوں کی تفصیلات اور ان پر حملہ کرنے کے لیے کمک کی ضرورت کا اظہار کیا.ادھر فوج میں یہ اعلان کر دیا کہ امدادی فوجیں بہت جلد پہنچنے والی ہیں.اس کے بعد اُم دُنین کی طرف بڑھے اور اس کا محاصرہ کر کے قلعہ میں غذائی اور فوجی ضروریات کے سامان کی رسد روک دی.قلعہ باہلیوں میں جو رومی تھے انہوں نے ادھر آنے کی کوشش نہ کی کیونکہ بلبیس میں ارطبون کا حشر دیکھ چکے تھے اور وہ جانتے تھے کہ عربوں سے کھلے میدان میں لڑنا ان کے بس کی بات نہیں ہے.اُم دُنین کی فوجیں البتہ کبھی کبھار نکلتیں اور ناکام جھڑپوں کے بعد واپس ہو جاتیں.کئی ہفتے اسی طرح گزر گئے.اسی اثنا میں خبر ملی کہ بار گاہِ خلافت سے پہلی امدادی فوج روانہ کر دی گئی اور وہ آج کل میں پہنچا چاہتی ہے.اس خبر سے مسلمانوں کی ہمت اور طاقت میں اضافہ ہو گیا.حضرت عمرؓ نے اسلامی لشکر کی مدد کے لیے چار ہزار سپاہی بھیجے.حضرت عمرؓ نے ہر ہزار آدمی پر ایک امیر مقرر کیا.ان امراء کے نام حضرت زبیر بن عوام، حضرت مقداد بن اسود، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت مَسْلَمہ بن مُخَلّد تھے.ایک قول کے مطابق حضرت مَسْلَمہ بن مُخَلَّد کی جگہ خارجہ بن حذافہ امیر تھے.حضرت عمرؓ نے یہ کمک بھیجنے کے ساتھ حضرت عمر و بن عاص کو خط لکھا کہ اب تمہارے ساتھ بارہ ہزار مجاہدین ہیں.یہ تعداد کمی کی وجہ سے کبھی مغلوب نہیں ہو گی.رومی جنگجو قبطیوں کو ساتھ لے کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلے.دونوں فوجوں میں شدید لڑائی ہوئی.حضرت عمرو بن عاص نے حکمت عملی سے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا.ایک حصہ کو جَبَلِ احمد کے قریب ایک جگہ پر ٹھہرا دیا.دوسرے حصے کو اُم دُنین کے قریب دریائے نیل کے کنارے ایک جگہ پر ٹھہر ادیا اور فوج کا بقیہ حصہ لے کر دشمن کے مقابلے پر نکلے.جس وقت دونوں فوجوں میں سخت لڑائی ہو رہی تھی جبلِ احمد میں چھپی فوج نے نکل کر پیچھے سے حملہ کر دیا جس سے دشمن کا فوجی نظام درہم برہم ہو گیا اور وہ اُم دُنین کی طرف بھاگے.رض 348

Page 225

حاب بدر جلد 3 205 حضرت عمر بن خطاب 349 وہاں اسلامی فوج کا دوسرا حصہ تیار تھا.اس نے ان کا راستہ روک دیا.اس طرح رومی فوج مسلمانوں کی تینوں فوجوں کے درمیان پھنس گئی اور دشمن کو شکست ہوئی.متفرق فتوحات کے بارے میں ذکر ہے کہ ان ڈرین کی فتح کے بعد سب سے پہلے فیوم کے علاقے پر حضرت عمرو بن عاص نے فتح حاصل کی اور اس علاقے کا سر دار اس لڑائی میں قتل ہو گیا.پھر عَيْنُ الشَّمس میں مسلمانوں کا رومیوں سے مقابلہ ہوا.اس سے قبل آٹھ ہزار مجاہدین کا لشکر بطور کمک حضرت عمر و بن عاص سے آملا جس کی کمان حضرت زبیر بن عوام کے ہاتھ میں تھی اور اس میں 350 حضرت عبادہ بن صامت، حضرت مقداد بن اسود اور مَسْلَمہ بن مُخَلَّد و غیرہ بھی تھے.اس جنگ میں بھی مسلمانوں نے فتح حاصل کی.اس کے بعد فیوم کے پورے صوبہ پر مسلمانوں نے فتح حاصل کی.مسلمانوں کی فوج کے ایک حصہ نے صوبہ منوفیہ کے دو شہروں اِثْرِیب اور مَنُوف پر فتح پائی.351 معرکہ قلعہ بابلیون یا فسطاط کی فتح کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت عمر و بن عاص اُم دُنین کی فتح کے بعد قلعہ باہلیوں کی طرف بڑھے اور اس کا زبر دست محاصرہ کیا.اب اس علاقے کا نام فسطاظ ہے.اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عربی میں خیمے کو فسطاط کہتے ہیں.حضرت عمر و بن عاص نے قلعہ کو فتح کرنے کے بعد جب یہاں سے کوچ کرنے کا حکم دیا تو اتفاق سے ایک کبوتر نے حضرت عمرو کے خیمے میں گھونسلا بنا لیا تھا.جب ان کی نظر اس پر پڑی تو انہوں نے حکم دیا کہ اس خیمے کو یہیں رہنے دو اور حضرت عمرو نے اسکندریہ سے واپس آکر اسی خیمے کے قریب شہر بسایا اس لیے یہ شہر فسطاظ کے نام سے مشہور ہو گیا.352 قلعہ میں محافظ دستے کی تعداد کا اندازہ پانچ سے چھ ہزار تک لگایا جاتا تھا اور وہ ہر طرح سے مسلح تھے.حضرت عمرو نے قلعہ بابلیون کا محاصرہ شروع کیا.اسکندریہ کے بعد یہ بہت مضبوط قلعہ تھا اور پکی اینٹوں سے بنایا ہوا تھا اور چاروں طرف سے دریائے نیل کے پانیوں سے گھرا ہوا تھا چونکہ دریائے نیل پر واقع تھا اور جہاز اور کشتیاں قلعہ کے دروازے پر آکر لگتی تھیں اس لیے سرکاری ضرورتوں کے لیے نہایت مناسب مقام تھا.عرب اس آ مضبوط قلعہ پر حملہ کرنے کے لیے ضروری آلات سے لیس نہ تھے نہ وہ اس کے لیے تیار تھے.353 حضرت عمرو نے اول اس کا محاصرہ کرنے کی تیاریاں کر لیں.مقوقس جو مصر کا فرمانروا تھا وہ حضرت عمرو بن عاص سے پہلے قلعہ میں پہنچ چکا تھا اور لڑائی کا بندوبست کر رہا تھا.حضرت زبیر نے گھوڑے پر سوار ہو کر خندق کے چاروں طرف چکر لگایا اور جہاں جہاں ضرور تیں تھیں مناسب تعداد کے ساتھ سوار اور سپاہی متعین کیے.یہ محاصرہ مسلسل سات ماہ تک جاری رہا اور فتح و شکست کا فیصلہ نہ ہوا.354

Page 226

محاب بدر جلد 3 206 حضرت عمر بن خطاب اس دوران رومی فوج کبھی کبھی قلعہ سے باہر آکر جنگ بھی کرتی لیکن پھر واپس چلی جاتی.اس دوران مقوقس اپنے سفیروں کو مصالحت اور دھمکانے کی غرض سے حضرت عمرو بن عاص کے پاس بھیجتا رہا.حضرت عمرو بن عاص نے حضرت عُبادہ بن صامت کو بھیجا اور مصالحت کرنے کے لیے صرف تین شرائط لگا دیں کہ اسلام لاؤ، جزیہ دو یا پھر جنگ ہو گی اور کہا کہ اس کے علاوہ کسی بات پر صلح نہیں ہو سکتی.نہ صلح کرنا.مقوقس نے جزیہ دینا منظور کر لیا اور اس سلسلہ میں ہر قل سے اجازت مانگنے کے لیے خود ہر قل کے پاس گیا لیکن ہر قل نے اسے ماننے سے انکار کر دیا بلکہ مقوقس سے سخت ناراض ہوا اور اس کو سزا دیتے ہوئے جلا وطن کر وا دیا.355 جب قلعہ باہلیوں کی فتح میں زیادہ تاخیر نظر آئی تو حضرت زبیر بن عوام کہنے لگے کہ اب میں اپنی جان اللہ کے رستہ میں ہبہ کرنے جارہا ہوں.مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا.یہ کہہ کر ننگی تلوار لی اور سیڑھی لگا کر قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے.چند اور صحابہ نے بھی آپ کا ساتھ دیا.فصیل پر چڑھ کر سب نے ایک نعرہ لگایا اور ساتھ ہی تمام فوج نے بھی نعرہ لگایا جس سے قلعہ کی زمین دہل گئی.عیسائی سمجھ گئے کہ مسلمان قلعہ کے اندر گھس آئے ہیں وہ بدحواس ہو کر بھاگے اور حضرت زبیر نے فصیل سے اتر کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور تمام فوج اندر آگئی اور لڑتے لڑتے قلعہ کو فتح کر لیا.356 حضرت عمر و بن عاص نے انہیں اس شرط پر امان دے دی کہ رومی فوج اپنے ساتھ چند دنوں کی خوراک لے کر یہاں سے نکل جائے اور قلعہ باہلیوں میں جو ذخیرہ اور جنگی اسلحہ ہے انہیں ہاتھ نہ لگائیں کیونکہ وہ مسلمانوں کے اموالِ غنیمت ہیں.اس کے بعد حضرت عمرو بن عاص نے قلعہ بابلیون کے گنبدوں اور بلند اور مستحکم دیواروں کو توڑ دیا.357 قلعہ بابلیون کی فتح کے بعد اسلامی فوج نے مصر میں مختلف علاقوں اور قلعوں پر فتوحات حاصل کیں جن میں سب سے نمایاں طر نُوط ، نَقْيُوسُ، سُلْطيس ، کریون وغیرہ ہیں.358 اسکندریہ کی فتح کس طرح ہوئی؟ اس بارے میں لکھا ہے کہ فسطاط کی فتح کے بعد حضرت عمرؓ نے اسکندریہ کی فتح کی بھی اجازت دے دی.اسکندریہ اور فنطاط کے درمیان مقام کیریون میں رومیوں کے ساتھ شدید جنگ ہوئی جس میں مسلمانوں کو فتح ہوئی.اس کے بعد اسکندریہ تک رومی سامنے نہ آئے.مقوقس جزیہ دے کر صلح کرنا چاہتا تھا لیکن رومیوں نے اس پر دباؤ ڈالا جس کے نتیجہ میں مقوقس نے حضرت عمر و بن عاص کو پیغام بھیجا کہ وہ اور قبطی قوم اس جنگ میں شامل نہیں ہیں.اس لیے ہمیں اس میں کوئی ضرر نہ پہنچے.قبطی اس معرکے سے الگ رہے جبکہ انہوں نے اسلامی فوج کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کے لیے

Page 227

اصحاب بدر جلد 3 207 حضرت عمر بن خطاب راستہ ہموار کرنے لگے اور پل مرمت کرنے لگے.اسکندریہ کے محاصرہ میں بھی قبطی لوگ مسلمانوں کو رسد مہیا کرتے رہے.اسکندریہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس وقت مسلمانوں نے اسکندریہ کو فتح کیا اس وقت اس شہر کو دارالحکومت کی حیثیت حاصل تھی.قسطنطنیہ کے بعد باز نطینی رومی بادشاہت کا دوسرا بڑا شہر مانا جاتا تھا.مزید بر آں دنیا کا سب سے پہلا تجارتی شہر تھا.بازنطینی یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر اس شہر پر مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا تو اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آئیں گے.اسی پریشانی کی حالت میں ہر قل نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر عرب اسکندریہ پر غالب آگئے تو رومی ہلاک ہو جائیں گے.اسکندریہ میں ہر قل نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بنفس نفیس تیاری کی تھی لیکن تیاری کے دوران مر گیا اور اس کا بیٹا قسطنطین بادشاہ بنا.اسکندریہ اپنی فصیلوں کی استواری، ضخامت، محل وقوع اور محافظوں کی کثرت کی وجہ سے دفاعی اعتبار سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتا تھا.اسکندریہ کا محاصرہ نو ماہ تک جاری رہا.حضرت عمر کو تشویش ہوئی اور حضرت عمرؓ نے خط لکھا کہ شاید تم لوگ وہاں رہ کر عیش پرست ہو گئے ہو اور نہ فتح میں اس قدر دیر نہ ہوتی.اس پیغام کے ساتھ مسلمانوں میں جہاد کی تقریر کرو اور حملہ کرو.حضرت عمر کا یہ خط سنانے کے بعد حضرت عمر و بن عاص نے حضرت عبادہ بن صامت کو بلایا اور علم ان کے سپر د کیا.مسلمانوں نے نہایت شدید حملہ کیا اور شہر فتح کر لیا.اسی وقت حضرت عمرو نے مدینہ قاصد روانہ کیا اور اس کو کہا کہ جس قدر تیز جاسکو جاؤ اور امیر المومنین کو خوشخبری سناؤ.قاصد اونٹنی پر سوار ہوا اور منزلیں طے کرتے ہوئے مدینہ پہنچا.چونکہ دو پہر کا وقت تھا تو اس خیال سے کہ یہ آرام کا وقت ہے ، بارگاہ خلافت میں جانے سے پہلے سیدھا مسجد نبوی کا رخ کیا.اتفاق سے حضرت عمر کی لونڈی ادھر آنکلی اور پوچھا کہ کون ہو اور کہاں سے آئے ہو ؟ قاصد نے کہا اسکندریہ سے آیا ہوں.اس لونڈی نے اسی وقت جا کر خبر دی اور ساتھ ہی واپس آئی اور کہا کہ چلو تم کو امیر المومنین بلاتے ہیں.حضرت عمر بغیر انتظار کے خود چلنے کے لیے تیار ہوئے اور چادر سنبھال رہے تھے کہ قاصد پہنچ گیا.فتح کا حال سن کر زمین پر گرے اور سجدہ شکر ادا کیا.آپ اٹھ کر مسجد میں آئے اور منادی کرادی کہ الصلوۃ جامعہ.یہ سنتے ہی سارا مدینہ امڈ آیا.قاصد نے سب کے سامنے فتح کے حالات بیان کیے.بعد ازاں قاصد حضرت عمرؓ کے ساتھ ان کے گھر گیا.اس کے سامنے کھانا پیش کیا گیا.پھر حضرت عمرؓ نے قاصد سے پوچھا کہ سیدھے میرے پاس کیوں نہیں آئے ؟ اس نے کہا کہ میں نے سوچا کہ آپ آرام کر رہے ہوں گے.فرمانے لگے تم نے میرے متعلق یہ کیوں گمان کیا؟ میں دن کو سوؤں گا تو خلافت کا بار کون اٹھائے گا؟ اسکندریہ کی فتح کے ساتھ سارا مصر فتح ہو گیا.ان معرکوں میں کثرت سے قیدی بنائے گئے.حضرت عمرؓ نے تمام قیدیوں کے متعلق حضرت عمرو کو بذریعہ خط ارشاد فرمایا کہ سب کو بلا کر کہہ دو کہ ان کو اختیار ہے کہ مسلمان ہو جائیں یا اپنے مذہب پر قائم رہیں.اسلام قبول کریں گے تو ان کو وہ تمام حقوق

Page 228

اصحاب بدر جلد 3 208 حضرت عمر بن خطاب حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں ورنہ جزیہ دینا ہو گا جو تمام ذمیوں سے لیا جاتا ہے.حضرت عمر کا یہ فرمان جب قیدیوں کے سامنے پڑھا گیا تو بہت سے قیدیوں نے اسلام قبول کیا اور بہت سے اپنے مذہب پر قائم رہے.جب کوئی شخص اسلام کا اظہار کرتا تو مسلمان اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے تھے اور جب کوئی شخص عیسائیت کا اقرار کرتا تھا تو تمام عیسائیوں میں مبارکباد کا شور اٹھتا تھا اور غمگین ہوتے تھے.359 مسلمان اسکندریہ کی لائبریری جلائے جانے کا واقعہ بھی بعض مستشرقین بڑے زور شور سے بیان کرتے ہیں.اس کی حقیقت کیا ہے؟ اسکندریہ کی اس فتح کے ضمن میں مخالفین بالخصوص عیسائی مصنفین کی طرف سے ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اسکندریہ میں موجود ایک بہت بڑے کتب خانے کو جلانے کا حکم دیا تھا اور اس اعتراض کے ساتھ گویا یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان نعوذ باللہ کس قدر علم و عقل کے مخالف تھے اور اسکندریہ میں موجود اتنے بڑے کتب خانے کو جلا دیا کہ چھ ماہ تک آگ جلتی رہی حالانکہ عقل و نقل دونوں اعتبار سے یہ اعتراض سراسر بناوٹی اور جعلی معلوم ہوتا ہے کیونکہ جس قوم کو اس کے رب اور راہنمار سول اللہ صلی الم نے یہ فرمایا ہو کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلى كُلِّ مُسْلِمٍ کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے.10 اور جس نے یہ حکم دیا ہو کہ أَطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصّينِ کہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے.361 360 اور جن کے لیے قرآن کریم میں علم و عقل اور تدبر و تفکر کے لیے در جنوں احکام و آیات موجود ہوں ایسے لوگوں پر کتب خانے کو جلانے کا الزام لگانا عقل اور درایت کے اصولوں کے خلاف ہے.اس کے علاوہ بہت سے محققین جن میں خود عیسائی اور یورپین محقق شامل ہیں انہوں نے اس بات کی تردید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسکندریہ کے کتب خانے کو جلائے جانے کا واقعہ سر اسر بناوٹی اور جعلی قصہ ہے.چنانچہ مصر کے ایک عالم محمد رضا اپنی تصنیف 'سیرت عمر فاروق ، میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسکندریہ میں آگ لگنے کا جو اعتراض کیا جاتا ہے اس کا ذکر ابو الفرج مَلَطِی نے کیا ہے.اس نے یہ واقعہ تاریخ کی ایک کتاب مختصر الدول میں کیا ہے.یہ مورخ 1226ء میں پیدا ہوا اور 1286ء میں فوت ہوا.اس نے لکھا ہے کہ فتح کے وقت يُوحَنَّا التَّحْوِی نامی ایک شخص جو قبطی پادری تھا اور مسلمانوں میں بیچی کے نام سے مشہور ہوا، اعتقاد کے لحاظ سے عیسائیوں کے فرقہ یعقوبیہ سے اس کا تعلق تھا اور بعد میں عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے رجوع کر لیا.اس نے عمرو بن عاص سے خزائن ملوکیت میں سے حکمت کی کتب ما نگیں تو حضرت عمرو بن عاص نے جواب دیا کہ حضرت عمرؓ سے اجازت کے بعد ہی کچھ بتانے کے قابل ہوں گا.ویسے تو یہ بالکل جھوٹی کہانی ہے لیکن پھر بھی اعتراض کو رڈ کرنے کے لیے بیان کر دیتا ہوں.حضرت عمرؓ نے لکھا کہ آپ نے جن کتابوں کا ذکر کیا ہے اگر تو ان کا مواد اللہ تعالیٰ کی کتاب

Page 229

حاب بدر جلد 3 209 حضرت عمر بن خطاب کے موافق ہے تو پھر جو کچھ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے وہ ہمارے لیے کافی ہے اور ان کتابوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں اور اگر ان کا مواد اللہ تعالیٰ کی کتاب کے خلاف ہے تو پھر ان کتابوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں.لہذا آپ ایسی کتابیں ضائع کرا دیں.حضرت عمرو بن عاص نے اسکندریہ کے حماموں پر ان کتابوں کی چھانٹی شروع کر دی اور انہیں ان بھٹیوں میں جلا دیا.اس طرح وہ کتابیں چھ ماہ میں ختم ہو گئیں.اس روایت کا ذکر نہ تاریخ طبری میں ہے نہ ابن اثیر میں ہے ، نہ یعقوبی اور کینڈی میں ، نہ ابن عبد الْحَكَم اور بلاذری میں اور نہ ہی ابنِ خلدون نے اس کا ذکر کیا ہے.صرف ابو الفرنج نے تیرھویں صدی عیسوی کے نصف اور ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں کسی مصدر کا ذکر کیے بغیر اسے لکھا ہے.پروفیسر بٹلر نے یوحنا نحوی کے بارے میں تحقیق کی اور لکھا ہے کہ وہ سن 642ء میں جس میں لائبریری کو آگ لگنے کا ذکر ہے زندہ ہی نہیں تھا.دائرہ معارف برطانیہ نے ذکر کیا ہے کہ یوحنا پانچویں صدی کے اواخر اور چھٹی صدی کے اوائل میں زندہ تھا اور یہ بھی معلوم ہے کہ مصر ساتویں صدی کے اوائل میں فتح ہوا تھا.اس بنا پر پروفیسر بٹلر نے درست کہا ہے کہ وہ اس وقت فوت ہو چکا تھا.یہ یعنی جس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ تو اس واقعہ سے جو غلط رنگ میں ہی بے شک بیان کیا جاتا ہے اس سے بہت پہلے فوت ہو چکا تھا.پھر یہ کہ ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن نے پروفیسر اسماعیل کی سند سے اپنے رسالے ” تاریخ عمر و بن عاص “ میں یہ تحریر کیا ہے کہ اس وقت دار کتب اسکندریہ یعنی اسکندریہ کی جو لائبریری تھی وہ موجود ہی نہیں تھی کیونکہ اس کے دو حصوں میں سے ایک بڑے حصے کو ٹولیوس قیصر (جولیس قیصر، جولیس سیزر (Julius Caesar)) کے لشکروں نے بلا قصد ، بغیر کسی مقصد کے اور بلا وجہ سن 47 ق م میں جلا دیا تھا اور اس کی دوسری قسیم بھی اسی طرح مذکورہ زمانے میں معدوم ہو گئی تھی اور یہ واقعہ نیوفل (Tcoill) پادری کے حکم پر چوتھی صدی میں ہوا.پروفیسر بٹلر لکھتا ہے کہ ابوالفرج کا قصہ تاریخی اساس سے محض بے سروپا ہے اور مضحکہ خیز ہے.اگر کتا بیں جلائی ہو تیں تو وہ مختصر سی مدت میں ایک دفعہ ہی جل سکتی تھیں اور اگر وہ چھ ماہ میں جلائی گئیں تو ان میں سے بہت سی چوری بھی ہو سکتی تھیں.عربوں کے متعلق معروف نہیں کہ انہوں نے کسی چیز کو تلف کیا ہو.گبن (Gibbon) نے لکھا ہے کہ اسلامی تعلیمات اس روایت کی مخالفت کرتی ہیں کیونکہ اس کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ جنگ میں یہودیوں اور عیسائیوں کی ملنے والی کتب کو جلانا جائز نہیں اور جہاں تک علم، فلسفہ ، شعر اور دین کے دیگر علوم کی کتب کا تعلق ہے تو اسلام نے ان سے استفادہ کرنا جائز قرار دیا ہے.مسلمانوں نے مفتوحہ علاقوں میں گرجوں اور ان کی متعلقہ چیزوں کو نقصان پہنچانے سے منع کیا بلکہ ذمیوں کو بھی حریت دینیہ کی اجازت دی تھی تو کیا عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ امیر المومنین، اسکندریہ کا کتب خانہ جلا دینے کا حکم دیں گے.362

Page 230

تاب بدر جلد 3 210 حضرت عمر بن خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے اپنی کتاب ” تصدیق براہین احمدیہ“ میں اس اعتراض کا ذکر کر کے جواب دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ فیلُونَش حکیم اور فاضل اجل کی عرض پر عمر و سپہ سالار فوج نے امیر المومنین عمر خلیفہ ثانی سے اس کتب خانے کے بارے میں ارشاد پوچھا تو خلیفہ نے لکھا فی الفور جلا دیے جاویں.چھ مہینے تک وہ حمام گرم ہوتے رہے.آپ لکھتے ہیں یہ لوگ یہ کہتے ہیں.یہ تو اعتراض صرف پادری صاحبان کی کاسہ لیسی کا نتیجہ ہے.اس میں حقیقت کوئی نہیں.والا ناظرین غور کریں.حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں کہ اول یہ کہ اگر اسلام کی عادات میں یہ ہوتا تو اسلام والے پھر خلیفہ عمر اپنے عہد سعادت مہد میں یہود اور عیسائیوں کی پاک کتب کو جلاتے کیونکہ وہی دونوں مذاہب، ہاں پاک کتابوں والے مذاہب مذہب اسلام کے پہلے مخاطب تھے.پھر مجوس پر اسلام کا پورا تسلط ہوا مگر کوئی تاریخ نہیں بتاتی کہ اسلام نے ان کی کتابیں جلائیں.اگر یہ فعل اسلام یا خلفائے اسلام کا داب ہو تا یعنی ان کی عادت ہوتی تو اس کے ارتکاب کے اسباب ہمیشہ اسلام میں موجود ہوتے اور اسلام کو اس میں کوئی چیز مانع نہیں تھی.حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں: دوسری بات یہ کہ اگر مذہبی کتابوں کا جلانا اسلامی بادشاہوں اور عوام اسلام کا کام ہو تا تو یونانی فلسفہ ، یونانی طب یونانی علوم کے ترجمے عربی زبان میں محال ہوتے.سوئم یہ کہ اگر کتابوں کا جلانا اسلامی لوگ اختیار کرتے تو ضرور تھا کہ مکذب براہین احمدیہ ، جو براہین احمدیہ کی تکذیب کر رہا ہے ، اس کے جواب میں حضرت خلیفہ اول لکھ رہے ہیں ناں کہ اپنے ملک سے کوئی نظیر دیتے اور انہیں اسکندریہ میں سمندر پار نہ جانا پڑتا.یہاں لکھتے کہ ہندوستان میں کون سی کتابیں جلی ہیں.چہارم یہ کہ سات سو برس سے زیادہ اسلام نے ہندوستان میں سلطنت کی اور اس عرصہ میں بھگوت، رامائن، گیتا، مہابھارت اور ان کے مثل لنگ پران (Ling Puran)، مار گندی (Markundi) مشہور کتابیں ہیں جو آج تک مذہبی کتابیں اور مقدس پشتک یقین کی جاتی ہیں.کسی کے جلانے کی خبر کان میں نہیں پہنچی بلکہ ان کتابوں میں سے بعض کے ترجمے ہوئے.پس تعجب آتا ہے کہ ان ہندوؤں نے کیونکر سمجھ لیا کہ مسلمان ان کی پشتگوں کو جلاتے ہیں.انصاف سے سوچو.اس اعتراض کے جواب میں تصدیق براہین احمدیہ میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب نے بھی نوٹ لکھا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ اگر چہ اس وقت تک جبکہ اس واقعہ کی تحقیق نہ کی گئی تھی اور صحیح حالات روشنی میں نہ آئے تھے یہ الزام مسلمانوں کو دیا جاتا تھا مگر اب منصف مزاج اور حق پسند علماء میں ایسے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں جو یہ ناحق الزام مسلمانوں کو دیتے ہوں.اس الزام کی وجہ زیادہ تر تعصب یا ناواقفیت پر مبنی تھی اور اس وقت بھی جب یہ الزام لگانے والے کے پاس کوئی صحیح سند موجود نہ تھی یعنی اس قصہ کے بیان کرنے والے دو مورخ اس واقعہ سے پانچ سو اسی برس بعد پیدا ہوئے اور کوئی پہلی سندان کے پاس موجود نہ تھی.سینٹ کرائے (Saint Croix) جس نے اسکندریہ کے کتب خانے کی تحقیق میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں اس روایت کو بالکل جھوٹا ٹھہرایا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ یہ کتابیں جولیس سیزر 363

Page 231

ب بدر جلد 3 211 حضرت عمر بن خطاب (Julius Caesar) کی لڑائی میں جل گئی تھیں.چنانچہ پلو ٹارک (Plutarch) بھی 'لائف آف سیز ر“ میں لکھتا ہے کہ جولیس سیز رنے دشمنوں کے ہاتھوں میں پڑ جانے کے خوف سے اپنے جہازوں کو آگ لگا دی اور وہی آگ بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی کہ اس نے اسکندریہ کے مشہور کتب خانہ عظیم کو بالکل جلا دیا.ہیڈن (Haydn) نے اپنی کتاب ڈکشنری آف ڈیٹس ریلیٹنگ ٹو آل امیجز ( Dictionary of Dates Relating to all Ages) میں جہاں اس غلط روایت کو درج کیا ہے وہاں اپنی تحقیقات سے یہ نوٹ لکھا ہے ہ یہ قصہ بالکل مشکوک ہے.حضرت عمر کا قول ”اگر وہ کتابیں مخالف اسلام ہیں تو جلا دینی چاہئیں“ مسلمانوں نے تسلیم نہیں کیا.اس قول کو بعض نے تھیو فلش (Theophilus) اسکندریہ کے بشپ سے منسوب کیا ہے جو 391ء میں ہوا اور بعض نے اسے کارڈینل جیمینیز (Cardinal Jimenez) کے ماتھے لگایا ہے جو 1500ء میں تھا.پھر لکھتے ہیں کہ ہمارے مشہور جو ان مرد ڈاکٹر لائتنر (Dr.Leitner) نے اپنی کتاب سنین الاسلام میں اس غلط روایت کی پیروی کی ہے اور افسوس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو اپنی تحقیقات میں دھوکا ہوا ہے.ڈر پر صاحب، جان ولیم ڈر پر (John William Draper) نے مشہور کتاب میں پہلے اس قول کو غلط راویوں سے نقل کیا ہے لیکن بعد میں جاکر اس قول کی غلطی کو تسلیم کیا ہے اور لکھا ہے کہ در حقیقت یہ کتابیں جولیس سیزر کی لڑائی میں جل گئی تھیں اور اب کامل یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قول بالکل بے اصل اور محض فسانہ ہے.اگر رونے کے لائق ہے تو یہ سچا واقعہ ہے، اگر جس بات پر افسوس کرنا چاہیے، رونا چاہیے تو یہ واقعہ سچا ہے کہ متعصب کارڈینل جیمینیز (Cardinal Jimenez) نے اتنی ہزار عربی قلمی کتابیں گرناڈا (Granada) کے میدانوں میں برباد کرنے والی آگ کے شعلوں کے حوالے کر دی تھیں.جب سپین کو انہوں نے مسلمانوں سے چھینا اور عیسائیوں کا قبضہ ہوا تو وہاں غرناطہ کی لائبریری سے اتنی ہزار کتابیں انہوں نے جلائی تھیں.یہ ہے اصل رونے کا مقام بجائے اسلام پہ الزام لگانے کے.دیکھو.Conflict Between Religion and Science 34اس میں یہ حوالہ درج ہے.تو بہر حال یہ لائبریری کے جلانے کا حوالہ تھا جس کا الزام لگایا جاتا ہے.پھر فتح بوقه و طرابلس وغیرہ کا ذکر ہے.مصر فتح کر لینے اور وہاں امن و امان قائم ہو جانے کے بعد عمرو بن عاص مغرب کی سمت بڑھے تاکہ ادھر سے مفتوحہ علاقوں کے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے.کیونکہ برقہ اور طرابلس میں روم کی کچھ فوج قلعہ بند تھی اور موقع ملنے پر لوگوں کو ورغلانے سے وہ مصر میں مسلمانوں پر دھاوا بول سکتے تھے.اسکندریہ اور مراکش کے درمیان جو علاقہ ہے اس کو بزقہ کہتے ہیں.اس علاقے میں کئی شہر اور بستیاں آباد ہیں.چنانچہ عمرو بن عاص بائیس ہجری میں اپنی فوج لے کر بزقہ کی طرف چلے.اسکندریہ ہے بزقہ تک کا راستہ نہایت سر سبز و شاداب اور گھنی آبادی والا تھا.اس لیے وہاں تک پہنچنے میں آپ کو دشمن کی کسی سازش کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور جب وہاں پہنچے تو لوگوں نے

Page 232

اصحاب بدر جلد 3 212 حضرت عمر بن خطاب جزیہ کی ادائیگی پر مصالحت کر لی.اس کے بعد بزقہ کے لوگ خود بخود والی مصر کے پاس جاتے اور اپنا خراج جمع کرا آتے.مسلمانوں کی طرف سے کسی کو ان کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی.یہ لوگ مغرب میں سب سے زیادہ سادہ لوگ تھے.ان کے یہاں کوئی فتنہ و فساد نہیں تھا.عمر و بن عاص یہاں سے نکلے تو طرابلس کی طرف بڑھے جو محفوظ و مضبوط قلعوں والا شہر تھا.وہاں رومی فوج کی بہت بڑی تعداد مقیم تھی.اس نے مسلمانوں کی آمد کی خبر سن کر اپنے قلعوں کے دروازے بند کر دیے اور مجبوراً مسلمانوں کے محاصرے کو برداشت کرنے لگے.یہ محاصرہ ایک ماہ تک جاری رہا لیکن مسلمانوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی.طرابلس کے عقب میں شہر سے متصل سمند رہتا تھا اور سمند ر اور شہر کے درمیان کوئی فصیل قائم نہیں تھی.مسلمانوں کی ایک جماعت کو یہ راز معلوم ہو گیا اور پیچھے سے سمندر کی طرف سے شہر میں داخل ہو گئی.انہوں نے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا.اب فوج کے سامنے اپنی اپنی کشتیوں میں بھاگ کر پناہ لینے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا.وہ جو نہی پیچھے بھاگے پیچھے سے عمر و بن عاص نے ان پر حملہ کر دیا.ان میں سے اکثر تہ تیغ کر دیے گئے سوائے یہ کہ جو کشتیوں سے بھاگ نکلے.شہر میں موجود سامان اور جائیداد کو مسلمانوں نے مال غنیمت کے طور پر حاصل کیا.طر ابلس سے نمٹنے کے بعد عمر و بن عاص نے اپنی فوج کو قرب و جوار میں پھیلا دیا.آپ کا ارادہ تھا کہ مغرب کی سمت فتوحات مکمل کر کے تیونس اور افریقہ کا رخ کریں.چنانچہ اس سلسلہ میں سید نا عمر بن خطاب کے پاس خط لکھا جبکہ حضرت عمرؓ اسلامی لشکر کو نئے محاذ پر بھیجنے سے ہچکچاتے تھے اور خاص طور پر ایسی حالت میں جبکہ شام سے طرابلس تک تیزی سے فتوحات کے باعث مفتوحہ علاقوں کی طرف سے ابھی بالکل مطمئن نہ ہوئے تھے.اس لیے آپ نے اسلامی لشکر کو طرابلس میں ٹھہر جانے کا حکم دیا.حضرت عمر فاروقی کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کا دائرہ دور دراز علاقوں کی سرحدوں کو چھونے لگا.اسلامی سلطنت مشرق میں دریائے جیحون اور دریائے سندھ سے لے کر مغرب میں افریقہ کے صحراؤں تک اور شمال میں ایشیائے کو چک کے پہاڑوں اور آرمینیا سے لے کر جنوب میں بحر الکاہل اور نوبہ تک ایک عالمی ملک کی شکل میں دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوئی.توبہ مصر کا جنوبی علاقہ ہے جو بہت وسیع و عریض ہے جس میں مختلف اقوام ادیان اور ملل اور تہذیب و تمدن نے زندگی پائی تھی.یعنی اسلامی حکومت نے مصر کے علاقے میں ہی نہیں بلکہ یہ جو پورا علاقہ مسلمانوں کے زیر اثر تھا اور وہاں مختلف اقوام تھیں، مختلف تہذیب و تمدن تھے ، ان سب نے اسلام کے سایہ عدل اور رحمت میں امن اور سکون کی زندگی گزاری.وہ دین اسلام جس نے اپنے عقائد اور عبادات اور تہذیب و تمدن کے مخالفین کو ہزاروں مخالفتوں کے باوجود اس دنیا میں مکمل حقوق عطا کیے اور ان کی زندگی کا پورا پورا احترام کیا.جنگوں کے دوران مسلمانوں کی عبادات کا رنگ کیسا ہوتا تھا؟ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح 365

Page 233

اصحاب بدر جلد 3 213 حضرت عمر بن خطاب موعودؓ فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیز قدم بہ قدم ترقی کرتی ہے.بڑے بڑے کام بھی یکدم نہیں ہو جایا کرتے بلکہ آہستہ آہستہ ہوتے ہیں.رسول کریم صلی علیم کے زمانہ میں بھی سارے مسلمان تہجد نہیں پڑھتے تھے آہستہ آہستہ انہیں عادت ڈالی جا رہی تھی حتی کہ پھر وہ زمانہ آیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جنگ کے دنوں میں بھی جب کہ ثابت ہے کہ رسول کریم صل اللیل کی بھی بعض دفعہ ”چھوڑ دیتے تھے، مسلمان تہجد پڑھتے تھے.ممکن ہے کہ رسول کریم ملی علیکم بھی جنگ کے دنوں میں تہجد کے لئے اٹھا کرتے ہوں مگر یہ ثابت ہے کہ بعض دفعہ ” نہیں بھی اٹھتے تھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسلمان جنگ کے دنوں میں بھی تہجد پڑھتے تھے حتی کہ ایک دفعہ جب ہر قل نے ان پر شب خون مارنے کا ارادہ کیا تو اس پر خوب بحث ہوئی اور آخر یہی فیصلہ ہوا کہ نہ مارا جائے کیونکہ مسلمانوں پر شب خون مارنا بے سود ہے.اس لئے کہ وہ تو سوتے ہی نہیں بلکہ تہجد پڑھتے رہتے ہیں.یہ بھی ترقی کی علامت ہے جو ابتدا میں تھی.شروع شروع میں رسول کریم صلی للی کم کو اس کے لئے بہت تحریک و تحریص کی ضرورت پیش آتی تھی مگر بعد میں آہستہ آہستہ کمزور بھی اس کے عادی ہو گئے.“366 خلفائے راشدین کے دور میں ہونے والی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ”اسلام نے صرف مقابلہ کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ بعض مصلحتوں کے ماتحت ظلم کو برداشت کرنے کی بھی ہدایت دی ہے.چنانچہ جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت ہے کہ اگر تمہیں کوئی شخص تھپڑ مارے تو تم بھی ایسے تھپڑ مارو.وہاں اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر تم مقابلہ کرنا مصلحت کے خلاف سمجھو تو تم چپ رہو اور تھپڑ کا تھپڑ سے جواب مت دو.پس وہ دلیل جو عام طور پر ان جنگوں کے متعلق پیش کی جاتی ہے اس سے حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان پر دشمن کے الزام کا دفاع تو ہو جاتا ہے.یہ تو پتہ لگ جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے ظلم نہیں کیا بلکہ قیصر نے ظلم کیا.حضرت عمرؓ نے ظلم نہیں کیا بلکہ کسری نے ظلم کیا.حضرت عثمان نے ظلم نہیں کیا بلکہ افغانستان اور بخارا کی سرحد پر رہنے والے قبائل اور کر دوں وغیرہ نے ظلم کیا لیکن اس امر کی دلیل نہیں ملتی کہ حضرت ابو بکر نے ان کو معاف کیوں نہ کر دیا؟ حضرت عمرؓ نے ان کو معاف کیوں نہ کر دیا؟ حضرت عثمان نے ان کو معاف کیوں نہ کر دیا؟ جب وہ مقابلے کے لئے نکلے تھے تو وہ قیصر سے کہہ سکتے تھے کہ تمہاری سپاہ سے فلاں غلطی ہو گئی ہے اگر اس کے متعلق تمہاری حکومت ہم سے معافی طلب کرے تو ہم معاف کر دیں گے اور اگر معافی طلب نہ کرے تو ہم لڑائی کریں گے.انہوں نے قیصر کے سامنے یہ پیش نہیں کیا کہ تم سے یا تمہاری فوج کے ایک حصہ سے فلاں موقع پر ظلم ہوا ہے اور چونکہ ہماری تعلیم یہ بھی ہے کہ دشمن کو معاف کر دو اس لئے اگر تم معافی مانگو تو ہم معاف کرنے کے لئے تیار ہیں بلکہ جب اس نے ظلم کیا وہ “ (مسلمان) ”فوراً اس کے مقابلے کے لئے“ (جنگ کے لئے کھڑے ہو گئے اور پھر اس کے مقابلہ کو جاری رکھا اس مقابلے کو جاری رکھا.” جب کسری کے سپاہیوں نے عراقی سرحد پر حملہ کیا تو سیاسی طور پر اس کے بعد صحابہ اور

Page 234

محاب بدر جلد 3 214 حضرت عمر بن خطاب کسری کے در میان جنگ بالکل جائز ہو گئی لیکن اخلاقی طور پر حضرت عمر سری کو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ شاید تم نے اس حملے کا حکم نہ دیا ہو بلکہ سپاہیوں نے خود بخود حملہ کر دیا ہو اس لئے ہم اس حملہ کو نظر انداز کرنے کے لئے تیار ہیں بشر طیکہ تم ہم سے معافی مانگو اور اس فعل پر ندامت کا اظہار کرو مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا.اسی طرح حضرت عثمان نے اپنے زمانہ میں دشمنوں کو یہ نہیں کہا کہ تم نے ظلم تو کیا ہے لیکن چونکہ ہمارا مذ ہب ظلم کی معافی کی بھی تعلیم دیتا ہے اس لئے ہم تمہیں معاف کرتے ہیں بلکہ وہ فوراً اس ظلم کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور لشکر بھیجے ، لڑائی کی اور پھر اس لڑائی کو جاری رکھا.آخر اس کی کیا وجہ تھی ؟“ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ”اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں تھی کہ حضرت ابو بکر جانتے تھے کہ جب بھی بیرونی خطرہ کم ہوا اندرونی فسادات شروع ہو جائیں گے.وہ سمجھتے تھے کہ قیصر نے حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے حملہ کیا ہے تا مسلمان اس مصیبت کے ذریعہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں اور اپنے اندر نئی زندگی اور نیا تغیر پیدا کریں.حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ کسریٰ نے حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے حملہ کیا ہے تاکہ مسلمان غافل، سست ہو کر دنیا میں منہمک نہ ہو جائیں بلکہ ہر وقت بیدار اور ہوشیار رہیں.حضرت عثمان جانتے تھے کہ بعض قبائل نے مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے حملہ کیا ہے تاکہ مسلمان بیدار ہوں اور ان کے اندر ایک نئی روح اور ایک نئی زندگی پیدا ہو.367 حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک خطبہ میں یہ بیان فرمایا تھا.اس بنیاد پر حضرت مصلح موعودؓ نے اس میں آگے پھر یہ بھی اعلان فرمایا ہے ، جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ مصائب آتے ہیں، مشکلات میں ے گزرنا پڑتا ہے تاکہ روحانی ترقی ہو.اور اس اصول کو اگر ہم آج بھی یاد رکھنا چاہتے ہیں تو پھر یاد رکھیں کہ یہ مصائب اور مشکلات جو ہیں ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والے ہونے چاہئیں اور یہی فتوحات کا پھر ذریعہ بنتے ہیں.اگر ان باتوں میں ہم صرف ڈر کے پیچھے پیچھے رہتے رہیں اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں تو پھر ترقی نہیں ہو سکتی.ہاں جب ترقیات مل جائیں اور مصائب ختم ہو جائیں تب بھی ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ سے رہنا چاہیے لیکن ان دنوں میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے اور ہمیں اپنی روحانی ترقی اور روحانی بہتری کی طرف توجہ دینی چاہیے.حضرت مصلح موعودؓ نے یہی لکھا ہے کہ اگر ہم نے اس بات کو نہیں سمجھا تو کچھ نہیں سمجھا اور یہی بات ہر ایک احمدی کے لیے آج کل بھی سمجھنے والی ہے.168 حضرت عمر کی فتوحات کے اسباب و عوامل حضرت عمرؓ کی سیرت و سوانح لکھنے والے ایک سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی حضرت عمر کی فتوحات اور اس کے اسباب اور عوامل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مورخ کے دل میں فوراً یہ سوالات پیدا

Page 235

اصحاب بدر جلد 3 215 حضرت عمر بن خطاب ہوں گے کہ چند صحرانشینوں نے کیونکر فارس اور روم کا تختہ الٹ دیا؟ کیا یہ تاریخ عالم کا کوئی مستثنیٰ واقعہ تھا؟ (استثنائی واقعہ تھا؟) آخر اس کے اسباب کیا تھے ؟ کیا ان واقعات کو سکندر اور چنگیز خان کی فتوحات سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ؟ جو کچھ ہوا، اس میں فرمانروائے خلافت کا کتناحصہ تھا؟ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس موقع پر انہی سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں لیکن اجمال کے ساتھ پہلے یہ بتادینا ضروری ہے کہ فتوحات فاروقی کی وسعت اور اس کے حدود اربعہ کیا تھے.حضرت عمر کے مقبوضہ ممالک کا کل رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار تیس مربع میل تھا.یعنی مکہ مکرمہ سے شمال کی جانب دس سو چھتیں میل، مشرق کی جانب دس سو ستاسی میل اور جنوب کی جانب چار سو تر اسی میل تھا.یہ تمام فتوحات خاص حضرت عمر کی فتوحات ہیں اور اس کی تمام مدت دس برس سے کچھ ہی زیادہ ہے.یہ پس منظر جو بیان ہوا ہے جس کو تاریخ کے حوالے سے میں بیان کرنے لگا ہوں یہ اس لیے ہے کہ ان فتوحات کو سمجھنے کے لیے اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے.بہر حال میں بیان کرتاہوں کہ یورپین مؤرخین کی ان فتوحات کے بارے میں کیا رائے ہے.پہلے سوال کا جواب یورپین مؤرخوں نے یہ دیا ہے کہ اس وقت فارس اور روم دونوں سلطنتیں اوج اقبال سے گر چکی تھیں جو ان کا انتہا تھی وہاں تک وہ پہنچ چکی تھیں اور قانونِ قدرت ہے کہ انہوں نے نیچے گرنا ہی تھا.پھر کہتے ہیں کہ فارس میں خسر و پرویز کے بعد نظامِ سلطنت بالکل درہم برہم ہو گیا تھا کیونکہ کوئی لائق شخص جو حکومت کو سنبھال سکتا ہو موجود نہ تھا.دربار کے عمائدین اور ارکان میں سازشیں شروع ہو گئی تھیں اور انہی سازشوں کی بدولت تخت نشینوں میں ادل بدل ہو تا رہتا تھا.چنانچہ تین چار برس کے عرصہ میں ہی عنان حکومت چھ سات فرمانرواؤں کے ہاتھ میں آئی اور نکل گئی.یورپین مؤرخین یہ کہتے ہیں کہ ایک اور وجہ یہ ہوئی کہ نوشیر واں سے کچھ پہلے مُزد کیہ فرقہ کا بہت زور ہو گیا تھا جو الحاد اور زندقہ کی طرف مائل تھا.اس فرقہ کے عقائد یہ تھے کہ لوگوں کے دلوں سے لالچ اور دیگر اختلافات کو دور کر دیا جائے اور عورت سمیت تمام مملوکات کو مشتر کہ ملکیت قرار دیا جائے یعنی عورت کی بھی کوئی عزت نہیں تھی تا کہ مذہب پاک اور صاف ہو جائے.یہ نظریہ تھا ان کا اور بعض کے نزدیک یہ معاشرتی تحریک تھی جس کا مقصد زرتشتی مذہب کو مصفی کرنا تھا.نوشیر واں نے گو تلوار کے ذریعہ اس مذہب کو دبا دیا تھا لیکن بالکل اس کو مٹانہ سکا.اسلام کا قدم جب فارس میں پہنچا تو اس فرقے کے لوگوں نے مسلمانوں کو اس حیثیت سے اپنا پشت پناہ سمجھا کہ وہ کسی مذہب اور عقائد سے تعرض نہیں کرتے تھے.یہ یورپین مؤرخین کا نظریہ ہے.پھر وہ لکھتے ہیں کہ عیسائیوں میں نشطوری فرقہ (Nestorian) جس کو اور کسی حکومت میں پناہ نہیں ملتی تھی وہ اسلام کے سائے میں آکر مخالفوں کے ظلم سے بچ گیا.اس طرح مسلمانوں کو دو بڑے فرقوں کی ہمدردی اور اعانت مفت میں ہاتھ آگئی.روم کی سلطنت خود کمزور ہو چکی تھی.اس کے ساتھ عیسائیت کے باہمی اختلافات ان دنوں زوروں پر تھے اور چونکہ اس وقت تک مذہب کو نظام حکومت میں دخل تھا

Page 236

تاب بدر جلد 3 216 حضرت عمر بن خطاب اس لیے اس اختلاف کا اثر مذہبی خیالات تک محدود نہ تھا بلکہ اس کی وجہ سے خود سلطنت کمزور ہوتی جاتی تھی.علامہ اس موقف کی تردید کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں جو یورپین مؤرخین کی رائے ابھی بیان ہوئی ہے.کہتے ہیں کہ یہ جواب گو واقعیت سے بالکل خالی نہیں ہے لیکن جس قدر واقعیت ہے اس سے زیادہ طرز استدلال کی ملمع سازی ہے جو یورپ کا خاص انداز ہے.بے شبہ اس وقت فارس اور روم کی سلطنتیں اصلی عروج پر نہیں رہی تھیں لیکن اس کا صرف اس قدر نتیجہ ہو سکتا تھا کہ وہ پر زور قوی سلطنت کا مقابلہ نہ کر سکتیں نہ یہ کہ عرب جیسی بے سر و سامان قوم سے ٹکرا کر پرزے پرزے ہو جاتیں.روم اور فارس فنون جنگ میں ماہر تھے.یونان میں خاص قواعد حرب پر جو کتابیں لکھی گئی تھیں اور جو آب تک موجود ہیں رومیوں میں ایک مدت تک اس کا عملی رواج رہا.اس کے ساتھ رسد کی فراوانی تھی.سر و سامان کی بہتات تھی.آلات جنگ کا تنوع تھا.مختلف قسم کی چیزیں تھیں.فوجوں کی کثرت میں کمی نہیں آئی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی ملک پر چڑھ کر جانانہ تھا بلکہ اپنے ملک میں اپنے قلعوں میں اپنے مورچوں میں رہ کر اپنے ملک کی حفاظت کرنی تھی.مسلمانوں کے حملے سے ذرا ہی پہلے خسرو پرویز کے عہد میں جو ایران کی شان و شوکت کا عین شباب تھا قیصر روم نے ایران پر حملہ کیا اور ہر ہر قدم پر فتوحات حاصل کرتا ہوا اصفہان تک پہنچ گیا.شام کے صوبے جو ایرانیوں نے چھین لیے تھے واپس لے لیے اور نئے سرے سے نظم و نسق قائم کیا.ایران میں خسرو پرویز تک عموما مسلم ہے کہ سلطنت کو نہایت جاہ و جلال تھا.خسرو پرویز کی وفات سے اسلامی حملے تک صرف تین چار برس کی مدت ہے.اتنے تھوڑے عرصہ میں ایسی قوم اور قدیم سلطنت کہاں تک کمزور ہو سکتی تھی.البتہ تخت نشینوں کی ادل بدل یسے نظام میں فرق آگیا تھا لیکن چونکہ سلطنت کے اجزا یعنی خزانہ ، فوج اور محاصل میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اس لیے جب یزدگرد تخت نشین ہوا اور درباریوں نے اصلاح کی طرف توجہ کی تو فورانئے سرے سے وہی ٹھاٹھ قائم ہو گئے.مُزد کیہ فرقہ گوایران میں موجود تھا لیکن ہمیں تمام تاریخ میں ان سے کسی قسم کی مدد ملنے کا حال معلوم نہیں ہوتا.یعنی مسلمانوں کو کوئی مدد ملی ہو.اسی طرح فرقہ نسطوری کی کوئی اعانت ہمیں معلوم نہیں.نسطوری عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے جس کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ کی ذات میں الوہیت اور بشریت دونوں علیحدہ علیحدہ پائی جاتی تھیں.عیسائیت کے اختلاف مذہب کا اثر بھی کسی واقعہ پر خود یورپین مؤرخوں نے کہیں نہیں بتایا.اب عرب کی حالت دیکھو.تمام فوجیں جو مصر اور ایران اور روم کی جنگ میں مصروف تھیں ان کی مجموعی تعداد بھی ایک لاکھ تک نہ پہنچی.فنونِ جنگ سے واقفیت کا یہ حال تھا کہ پر موک پہلا معرکہ ہے جس میں عرب نے تنبیہ کی طرز پر صف آرائی کی.تعبیہ جنگ کے وقت فوج کی ایسی ترتیب جس میں سپه سالار یا بادشاہ جو لشکر کی کمان کرتا ہے تمام فوج کے درمیان میں کھڑا ہوتا ہے.اس کو ترتیب تغییہ کہتے ہیں.خود، زرہ، چلته (لوہے یا فولاد کی پوشاک) جوشن ( زرہ کی ایک قسم) بکتر ، چار آئینہ (فولاد کی

Page 237

اصحاب بدر جلد 3 217 حضرت عمر بن خطاب چار پلیٹیں جو سینے اور پشت اور دونوں رانوں پر باندھی جاتی تھیں) آہنی دستانے ، جھلم (خود پر لگی ہوئی لوہے کی کڑیاں یا نقاب) موزے جو ہر ایرانی سپاہی کا لازمی ملبوس جنگ تھا.اس میں سے عربوں کے پاس صرف زرہ تھی اور وہ بھی اکثر چمڑے کی ہوتی تھی.ان کا یہ سارا پروٹیکشن (protection) کا سامان لوہے کا کا تھا اور عربوں کے پاس اگر کچھ چھوٹا موٹا تھا بھی تو وہ چمڑے کا تھا.رکاب لوہے کی بجائے لکڑی کی ہوتی تھی.آلات جنگ میں گُرز اور گمند سے عرب بالکل آشنا نہیں تھے.گر ز ایک ہتھیار کا نام ہے جو اوپر سے گول اور موٹا ہوتا ہے اور نیچے دستہ لگا ہوتا ہے اور دشمن کے سر پر مارتے ہیں.کمند پھندہ یا جال یا رسی.عربوں کے پاس تیر تھے لیکن ایسے چھوٹے اور کم حیثیت تھے کہ قادسیہ کے معرکے میں ایرانیوں نے جب پہلے پہل عربوں کے ان تیروں کو دیکھا تو سمجھا کہ تکلے یا سوئے ہیں.مصنف علامہ صاحب ان کے اصلی اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس سوال کا اصلی جواب صرف اس قدر ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت پیغمبر اسلام صلی یکم کی بدولت جو جوش، عزم، استقلال، بلند حوصلگی، دلیری پیدا ہو گئی تھی اور جس کو حضرت عمر نے اور زیادہ قوی اور تیز کر دیا تھا.روم اور فارس کی سلطنتیں عین عروج کے زمانے میں بھی اس کی فکر نہیں اٹھا سکتی تھیں.البتہ اس کے ساتھ اور چیزیں بھی مل گئی تھیں جنہوں نے فتوحات میں نہیں بلکہ قیام حکومت میں مدد دی.اس میں سب سے مقدم چیز مسلمانوں کی راست بازی اور دیانت داری تھی.جو ملک فتح ہو تا تھا وہاں کے لوگ مسلمانوں کی راست بازی سچائی کے اس قدر گرویدہ ہو جاتے تھے کہ باوجود اختلاف مذہب کے ان کی سلطنت کا زوال نہیں چاہتے تھے.یرموک کے معرکے سے قبل جنگ کے لیے جب مسلمان شام کے اضلاع سے نکلے تو تمام عیسائی رعایا نے پکارا کہ خدا تم کو پھر اس ملک میں لائے اور یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا کہ ہمارے جیتے جی قیصر اب یہاں نہیں آسکتا.رومیوں کی حکومت جو شام اور مصر میں تھی وہ بالکل جابرانہ تھی اس لیے رومیوں نے جو مقابلہ کیا وہ سلطنت اور فوج کے زور سے کیا، رعایا ان کے ساتھ نہیں تھی.مسلمانوں نے جب سلطنت کا زور توڑا تو آگے مطلع صاف تھا، کوئی روک نہیں تھی.یعنی رعایا کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہوئی.البتہ ایران کی حالت اس سے مختلف تھی.وہاں سلطنت کے نیچے بہت سے بڑے بڑے رئیس تھے جو بڑے بڑے اضلاع اور صوبوں کے مالک تھے وہ سلطنت کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی ذاتی حکومت کے لیے لڑتے تھے.یہی وجہ تھی کہ پایہ تخت کے فتح کر لینے پر بھی فارس میں ہر قدم پر مسلمانوں کو مزاحمتیں پیش آئیں لیکن عام رعا یا وہاں بھی مسلمانوں کی گرویدہ ہوتی جاتی تھی اور اس لیے فتح کے بعد بقائے حکومت میں ان سے بہت مدد ملتی تھی.حکومت کے قیام میں مدد ملتی تھی.ایک اور بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا اوّل اوّل حملہ شام اور عراق پر ہوا اور دونوں مقامات پر کثرت سے عرب آباد تھے.شام میں دمشق کا حاکم غسانی خاندان تھا جو برائے نام قیصر کا محکوم تھا.عراق میں تخیی خاندان والے دراصل ملک کے مالک تھے گو کسریٰ کو خراج کے طور پر کچھ

Page 238

باب بدر جلد 3 218 حضرت عمر بن خطاب دیتے تھے.ان عربوں نے اگر چہ اس وجہ سے کہ عیسائی ہو گئے تھے اوّل اوّل مسلمانوں کا مقابلہ کیا لیکن قومی اتحاد کا جذبہ رائیگاں نہیں جا سکتا تھا.عراق کے بڑے بڑے رئیس بہت جلد مسلمان ہو گئے اور مسلمان ہو جانے پر وہ مسلمانوں کے دست و بازو بن گئے.شام میں آخر عربوں نے اسلام قبول کر لیا اور رومیوں کی حکومت سے آزاد ہو گئے.سکندر اور چنگیز وغیرہ کا نام لینا یہاں بالکل بے موقع ہے.بے شبہ ان دونوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں لیکن کس طرح؟ قبر، ظلم اور قتل عام کی بدولت.چنگیز کا حال تو سب کو معلوم ہے.سکندر وغیرہ کی فتوحات کا اگر موازنہ کریں تو سکندر کی یہ کیفیت ہے کہ جب اس نے شام کی طرف شہر صُور کو فتح کیا تو چونکہ وہاں کے لوگ دیر تک جم کر لڑے تھے اس لیے قتل عام کا حکم دیا اور ایک ہزار شہریوں کے سر شہر پناہ کی دیوار پر لٹکا دیے گئے.جو فصیل تھی اس پر لٹکا دیے.اس کے ساتھ تیس ہزار باشندوں کو لونڈی غلام بنا کر بیچ ڈالا.جو لوگ قدیم باشندے اور آزادی پسند تھے ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ نہیں چھوڑا.اسی طرح فارس میں جب اِصْطخر (اضطخر فارس کے قدیم شہر وں میں سے تھا اس ) کو فتح کیا تو تمام مردوں کو قتل کر دیا.اسی طرح کی اور بھی بے رحمیاں اس کے کارناموں میں مذکور ہیں یعنی مشہور سکندر کے کارناموں میں.پھر اسلامی فتوحات سے اس کا کس طرح موازنہ ہو سکتا ہے.عام طور پر ہے کہ ظلم اور ستم سے سلطنت برباد ہو جاتی ہے.یہ اس لحاظ سے صحیح ہے کہ ظلم کی بقا نہیں.چنانچہ سکندر اور چنگیز کی سلطنتیں بھی دیر پا نہ ہو ئیں لیکن فوری فتوحات کے لیے اسی قسم کی سفاکیاں کارگر ثابت ہوئی ہیں.اس کی وجہ سے ملک کا ملک مرعوب ہو جاتا ہے اور چونکہ رعایا کا بڑا گر وہ ہلاک ہو جاتا ہے اس لیے بغاوت اور فساد کا اندیشہ باقی نہیں رہتا.یہی وجہ ہے کہ چنگیز، بخت نصر ، تیمور ، نادر شاہ جتنے بڑے بڑے فاتح گزرے ہیں سب کے سب سفاک بھی تھے لیکن حضرت عمر کی فتوحات میں کبھی قانون اور انصاف سے تجاوز نہیں ہو سکتا تھا.آدمیوں کا قتل عام ایک طرف، درختوں کے کاٹنے تک کی اجازت نہیں تھی.بچوں اور بوڑھوں سے بالکل تعرض نہیں کیا جاسکتا تھا.بجز عین معرکہ کارزار کے کوئی شخص قتل نہیں کیا جا سکتا تھا.یعنی لڑائی کے دوران میں قتل ہو تو ہو ، اس کے علاوہ کسی کو قتل نہیں کرنا.دشمن سے کسی موقع پر بد عہدی یا قریب دہی نہیں کی جا سکتی تھی.افسروں کو تاکیدی احکام دیے جاتے تھے کہ اگر دشمن تم سے لڑائی کریں تو تم ان سے فریب نہ کرو.کسی کی ناک، کان نہ کاٹو.کسی بچے کو قتل نہ کرو.کھل کے لڑو.پھر جو لوگ مطیع ہو کر باغی ہو جاتے تھے یعنی ایک دفعہ اطاعت کر لی پھر باغی ہو گئے ان سے دوبارہ اقرار لے کر در گزر کی جاتی تھی یہاں تک کہ جب عَربَسُوس والے تین تین دفعہ متواتر اقرار کر کے پھر گئے، (یہ بنویس جو ہے یہ شام کی آخری سرحد پر واقع ایک شہر کا نام ہے جس کی سرحد ایشیائے کوچک سے ملی ہوئی تھی) تو صرف اس قدر کیا کہ ان کو وہاں سے جلا وطن کر دیا لیکن اس کے ساتھ ان کی کل جائیداد

Page 239

حاب بدر جلد 3 219 حضرت عمر بن خطاب مقبوضہ کی قیمت ادا کر دی.پیسے دے دیے.پھر یہ لکھتے ہیں کہ اگر خیبر کے یہودیوں کو سازش اور بغاوت کے جرم میں نکالا تھا تو ان کی مقبوضہ ارضیات کا معاوضہ دے دیا تھا اور اضلاع کے حکام کو احکام بھیج دیے کہ جدھر سے ان لوگوں کا گزر ہو ان کو ہر طرح کی اعانت دی جائے اور جب کسی شہر میں قیام پذیر ہوں تو ایک سال تک ان سے جزیہ نہ لیا جائے.پھر لکھتے ہیں کہ جو لوگ فتوحات فاروقی کی حیرت انگیزی کا جواب دیتے ہیں کہ دنیا میں اور بھی ایسے فاتح گزرے ہیں ان کو یہ دکھانا چاہیے کہ اس احتیاط، اس قید یعنی اتنی پابندی، اس در گزر کے ساتھ دنیا میں کس حکمران نے ایک چپہ بھی غیروں کی زمین فتح کی ہے.اس کے علاوہ سکندر اور چنگیز وغیرہ خود ہر موقع اور ہر جنگ میں شریک رہتے تھے اور خود سپہ سالار بن کر فوج کو لڑاتے تھے اس کی وجہ سے علاوہ اس کے کہ فوج کو ایک ماہر سپہ سالار ہاتھ آتا تھا، فوج کے دل قوی رہتے تھے اور ان میں بالطبع اپنے آقا پر فدا ہونے کا جوش پیدا ہو تا تھا.حضرت عمر تمام مدت خلافت میں ایک دفعہ بھی کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے.فوجیں ہر جگہ کام کر رہی تھیں.البتہ ان کی باگ حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں رہتی تھی.ایک اور بڑا واضح اور صریح فرق یہ ہے کہ سکندر وغیرہ کی فتوحات گزرنے والے بادل کی طرح تھیں.ایک دفعہ زور سے آیا اور نکل گیا.ان لوگوں نے جو ممالک فتح کیے وہاں کوئی نظم حکومت نہیں قائم کیا.اس کے بر خلاف فتوحات فاروقی میں یہ استواری تھی کہ جو ممالک اس وقت فتح ہوئے تیرہ سو برس گزرنے پر آج بھی اسلام کے قبضہ میں ہیں اور خود حضرت عمرؓ کے عہد میں ہر قسم کے ملکی انتظامات وہاں قائم ہو گئے تھے.پھر جو حضرت عمر کی فتوحات کا خاص کردار ہے اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ آخری سوال کا جواب عام رائے کے موافق یہ ہے کہ فتوحات میں خلیفہ وقت کا اتنا کردار نہیں ہے بلکہ اس وقت کے جوش اور عزم کی جو حالت تھی اسی کی وجہ سے تمام فتوحات ہو ئیں.یہ ایک سوال ہے لیکن کہتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کردار نہیں ہے، ہماری رائے کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے.حضرت عثمان اور حضرت علی کے زمانے میں بھی تو آخر وہی مسلمان تھے لیکن کیا نتیجہ ہوا.جوش اور اثر بے شبہ برقی قوتیں ہیں لیکن یہ قوتیں اس وقت کام دے سکتی ہیں جب کام لینے والا بھی اسی زور اور قوت کا ہو.قیاس اور استدلال کی ضرورت نہیں، واقعات خود اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں.فتوحات کے تفصیلی حالات پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ تمام فوج پتلی کی طرح حضرت عمر کے اشاروں پر حرکت کرتی تھی اور فوج کا جو نظم و نسق تھا وہ خاص ان کی سیاست اور تدبیر کی بدولت ہے.حضرت عمرؓ نے فوج کی ترتیب، فوجی مشقیں، بیرکوں کی تعمیر ، گھوڑوں کی پرداخت، قلعوں کی حفاظت، جاڑے اور گرمی کے لحاظ سے حملوں کا تعین، فوج کی نقل و حرکت، پرچہ نویسی کا انتظام، افسران فوجی کا انتخاب یعنی جو فوجی افسران تھے ان کا انتخاب، قلعه شکن آلات کا استعمال، یہ اور اس قسم کے امور خود ایجاد کیے اور ان کو کس کس عجیب و

Page 240

حاب بدر جلد 3 220 حضرت عمر بن خطاب غریب زور و قوت کے ساتھ قائم رکھا یہ حضرت عمر کا خاصہ ہے.عراق کی فتوحات میں حضرت عمرؓ نے در حقیقت خود سپہ سالاری کا کام کیا تھا.فوج جب مدینہ سے روانہ ہوئی تو ایک ایک منزل بلکہ راستہ تک خود متعین کر دیا تھا کہ یہاں سے جانا ہے، یہاں سے گزرنا ہے، یہاں یہ کرنا ہے اور اس کے موافق تحریری احکام بھیجتے رہتے تھے.فوج جب قادسیہ کے قریب پہنچی تو موقع کا نقشہ منگوا کر بھیجا اور اس کے لحاظ سے فوج کی ترتیب اور صف آرائی سے متعلق ہدایتیں بھیجیں.جس قدر افسر جن جن کاموں پہ مامور ہوتے تھے ان کے خاص حکم کے موافق مامور ہوتے تھے.تاریخ طبری میں اگر عراق کے واقعات کو تفصیل سے دیکھو تو صاف نظر آتا ہے کہ ایک بڑا سپہ سالار دور سے تمام فوجوں کو لڑا رہا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اس کے اشاروں پر ہوتا ہے.ان تمام لڑائیوں میں جو دس برس کی مدت میں پیش آئیں سب سے زیادہ خطر ناک دو موقعے تھے ایک نہاوند کا معرکہ جب ایرانیوں نے فارس کے صوبہ جات میں ہر جگہ نقیب دوڑا کر تمام ملک میں آگ لگا دی تھی اور لاکھوں فوج مہیا کر کے مسلمانوں کی طرف بڑھے تھے.دوسرے جب قیصر روم نے جزیرہ والوں کی اعانت سے دوبارہ حمص پر چڑھائی کی تھی.ان دونوں معرکوں میں صرف حضرت عمر کی حسن تدبیر تھی جس نے ایک طرف ایک اٹھتے ہوئے طوفان کو دبا دیا اور دوسری طرف ایک کوہِ گراں کے پر خچے اڑا دیے.ان واقعات کی تفصیل کے بعد یہ دعوی صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ جب سے دنیا کی تاریخ معلوم ہے آج تک کوئی شخص فاروق اعظم کے برابر فاتح اور کشور کشا نہیں گزرا جو فتوحات اور عدل دونوں کا جامع ہو.فتوحات بھی ملی ہوں اور عدل و انصاف بھی قائم کیا ہو.آنحضرت علی علم کا حضرت عمرؓ کو شہادت کی دعا دینے کے بارے میں آتا ہے اور آپ نے حضرت عمر کو شہید کہا.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی علیم نے حضرت عمرؓ کو سفید کپڑوں میں ملبوس دیکھا.آپ نے دریافت فرمایا: 369 کیا تمہارے یہ کپڑے نئے ہیں یا دھلے ہوئے ؟ حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں رہا کہ حضرت عمر نے اس کا کیا جواب دیا لیکن رسول اللہ صلی اللی کم نے آپ کو دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ: نئے کپڑے پہنو اور قابل تعریف زندگی گزارو اور شہیدوں کی موت پاؤ اور حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تمہیں دنیا اور آخرت میں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کرے.370 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی ای کم حضرت ابو بکر ، حضرت عمرؓ اور ح ر حضرت عثمان اُحد پہاڑ پر چڑھے تو وہ ان کے سمیت ملنے لگا.آپ صلی اللہ کلم نے فرمایا.احد ! ٹھہر جا.تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں.1 371 حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الیم نے فرمایا کہ جبرئیل نے مجھے کہا کہ عالم

Page 241

محاب بدر جلد 3 221 حضرت عمر بن خطاب اسلام حضرت عمرؓ کی وفات پر روئے گا.372 شہادت کی تمنا جو حضرت عمر کو تھی اس کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی علیکم کی زوجہ مطہرہ ام المومنین حضرت حفصہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللھم ارْزُقْنِي قَتْلًا فِي سَبِيلِكَ وَوَفَاةٌ فِي بَلَد نَبِيك کہ اے اللہ ! مجھے اپنے رستے میں شہادت نصیب فرما اور مجھے اپنے نبی صلی علیہ نیم کے شہر میں وفات دے.کہتی ہیں کہ میں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے تو حضرت عمرؓ نے الله سة فرمايا: إِنَّ اللهَ يَأْتِي بِأَمْرِهِ إِلى شَاء یقینا اللہ تعالیٰ اپنا حکم لے آتا ہے جس طرح وہ چاہے.373 حضرت عمرؓ نے شہادت کے متعلق جو دعا کی تھی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ”حضرت عمر اللہ تعالیٰ کے کتنے مقرب تھے.رسول کریم صلی علی کرم فرماتے ہیں کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہونا ہوتا تو عمر ہوتا.یہاں میرے بعد سے مراد معاً بعد ہے تو وہ شخص جسے رسول کریم صلی علیکم بھی اس قابل سمجھتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے کسی کو شہادت کے مرتبہ سے اٹھا کر نبوت کے بلند مرتبہ پر فائز کرنا ہوتا تو اس کا مستحق عمر تھا.وہ عمر جس کی قربانیوں کو دیکھ کر یورپ کے اشد ترین مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس قسم کی قربانی کرنے اور اس طرح اپنے آپ کو مٹا دینے والا انسان بہت کم ملتا ہے اور جس کی خدمات کے متعلق وہ یہاں تک غلو کرتے ہیں کہ اسلام کی ترقی کو ان سے ہی وابستہ کرتے ہیں.وہ عمر دعا کیا کرتے تھے کہ الہی ! میری موت مدینہ میں ہو اور شہادت سے ہو.“ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے یہ دعا محبت کے جوش میں کی ورنہ یہ دعا تھی بہت خطرناک.اس کے معنے یہ بنتے تھے کہ کوئی اتناز بر دست غنیم ہو ایسا حملہ آور حملہ کرنے والا ہو کہ جو تمام اسلامی ممالک کو فتح کرتا ہوا مدینہ پہنچ جائے اور پھر وہاں آکر آپ کو شہید کرے لیکن اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اس نے حضرت عمر کی اس خواہش کو بھی پورا کر دیا اور مدینہ کو بھی ان آفات سے بچا لیا جو بظاہر اس دعا کے پیچھے مخفی تھیں اور وہ اس طرح کہ اس نے مدینہ میں ہی ایک کافر کے ہاتھ سے آپ کو شہید کروا دیا.بہر حال حضرت عمر کی دعا سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کے قرب کی یہی نشانی تھی کہ اپنی جان کو اس کی راہ میں قربان کرنے کا موقع مل سکے لیکن آج قرب کی یہ نشانی سمجھی جاتی ہے.“ اپنے خطبہ میں ایک وصیت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ، احمدیوں کو فرمارہے ہیں کہ ”لیکن آج قرب کی یہ نشانی سمجھی جاتی ہے کہ خدا بندہ کی جان بچالے.“ ایک اور جگہ حضرت عمر کی شہادت کا واقعہ اور دعا کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ مجھے موت مدینہ میں آئے اور شہادت کی موت آئے.دیکھو موت کس قدر بھیانک چیز ہے.موت کے وقت عزیز سے عزیز بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں.374"

Page 242

ناب بدر جلد 3 222 حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کسی عورت کی ایک بیٹی بیمار ہو گئی.حضرت مصلح موعود واقعہ سنارہے ہیں کہ موت سے لوگ کس طرح ڈرتے ہیں.اس ڈرنے کا ایک واقعہ اس طرح ہے ، ایک کہانی ہے کہ کسی عورت کی بیٹی بیمار ہو گئی.وہ دعائیں کرتی تھی خدایا میری بیٹی بچ جائے اور اس کی جگہ میں مر جاؤں.بہت پیار کا اظہار کر رہی تھی بیٹی سے.ایک رات اتفاق سے اس عورت کی گائے کی رسی کھل گئی اور اس نے ایک برتن میں منہ ڈالا.گائے نے بر تن میں منہ ڈال دیا جس میں اس کا سر پھنس گیا اور وہ اسی طرح گھڑ سر پر اٹھا کر ادھر ادھر بھاگنے لگی.گائے پریشان ہو گئی، سر پھنس گیا، بھاگنے لگی.یہ دیکھ کر کہ گائے کے جسم پر منہ کی بجائے کوئی اور بڑی سی چیز ہے وہ عورت ڈر گئی.اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ یہ کیا ہے ؟ گائے بھاگ رہی ہے اور اس کے منہ پر کوئی اور چیز نظر آرہی ہے.وہ ڈر گئی.اس نے سمجھا کہ شاید میری دعا قبول ہو گئی ہے اور عزرائیل میری جان نکالنے کے لیے آیا ہے.اس پر بے اختیار بول اٹھی کہ عزرائیل بیمار میں نہیں ہوں بلکہ وہ لیٹی ہے.اس کی جان نکال لے یعنی بیٹی کی طرف اشارہ کیا.حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ جان اتنی پیاری چیز ہے کہ اسے بچانے کے لیے انسان ہر ممکن تدبیر کرتا ہے.کہاں تو یہ تھا کہ دعا کر رہی تھی.کہاں جب دیکھا کہ واقعی کوئی ایسا خطرہ پیدا ہو گیا ہے تو بیٹی کی طرف اشارہ کر دیا کہ اس کی جان نکال لو.فرماتے ہیں انسان ہر ممکن تدبیر کرتا ہے جان بچانے کے لیے.علاج کراتے کراتے کنگال ہو جاتا ہے لیکن صحابہ کرام کو یہی جان خدا تعالیٰ کے لیے دینے کی اس قدر خواہش تھی کہ حضرت عمر دعائیں کرتے تھے کہ مجھے مدینہ میں شہادت نصیب ہو.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت عمر کی یہ دعا کس قدر خطر ناک تھی.اس کے معنی یہ ہیں کہ دشمن مدینہ پر چڑھ آئے اور مدینہ کی گلیوں میں حضرت عمرؓ کو شہید کر دے لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی دعا کو اور رنگ میں قبول کر لیا اور وہ ایک مسلمان کہلانے والے کے ہاتھوں سے ہی مدینہ میں شہید کر دیے گئے.کہا یہی جاتا ہے کہ شہید کرنے والا کافر تھا لیکن بعض جگہ یہ بھی روایت مل جاتی ہے کہ شاید مسلمان کہلاتا تھا لیکن بہر حال عمومی طور پر یہی ہے کہ وہ کافر تھا.پہلی دفعہ حضرت مصلح موعودؓ نے کا فر بیان کیا ہے دوسری جگہ مسلمان کہلانے والا کہا ہے.یعنی کہ خود بھی پوری طرح تسلی نہیں ہے کہ مسلمان تھا کہ نہیں.اور بعض کے نزدیک وہ شخص مسلمان نہ تھا.ہاں خود ہی یہ فرمارہے ہیں کہ بعض کے نزدیک وہ شخص مسلمان نہ تھا.بہر حال وہ ایک غلام تھا جس سے خدا تعالیٰ نے حضرت عمر کو شہید کر ادیا تو انسان خود جن چیزوں کو چاہتا ہے اور خواہش رکھتا ہے وہ اس کے لیے مصیبت نہیں ہو تیں.375 حضرت عمر کی وفات اور بعض صحابہ کا رویا حضرت مصلح موعودؓ نے یہ واقعہ بھی ایک خطبہ میں بیان فرمایا تھا.حضرت عمر کی شہادت اور وفات کے متعلق صحابہ کرام کار دیا.

Page 243

محاب بدر جلد 3 223 حضرت عمر بن خطاب حضرت ابو بر دہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عوف بن مالک نے ایک خواب دیکھا کہ لوگ ایک میدان میں جمع کیے گئے ہیں.ان میں سے ایک شخص دوسرے لوگوں سے تین ہاتھ بلند ہے.میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ کہا یہ عمر بن خطاب ہیں.میں نے پوچھا کہ وہ کس وجہ سے باقی لوگوں سے بلند ہیں.کہا ان میں تین خوبیاں ہیں؛ وہ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ، وہ اللہ کی راہ میں شہادت پانے والے ہیں اور وہ خلیفہ ہیں جنہیں خلیفہ بنایا جائے گا.پھر حضرت عوف اپنی خواب سنانے کے لیے حضرت ابو بکر کے پاس آئے.حضرت ابو بکر اس زمانے میں خلیفہ تھے.انہیں یہ بتایا تو حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ کو بلایا اور ان کو بشارت دی اور حضرت عوف سے فرمایا اپنی خواب بیان کرو.راوی کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ کہا کہ انہیں خلیفہ بنایا جائے گا تو حضرت عمر نے انہیں ڈانٹا اور خاموش کروا دیا کیونکہ یہ حضرت ابو بکر کی زندگی کا واقعہ ہے.پھر جب حضرت عمر خلیفہ بنے تو آپ شام کی طرف گئے.آپ خطاب فرمارہے تھے کہ آپ نے حضرت عوف کو دیکھا.آپ نے انہیں بلایا اور منبر پر چڑھا لیا اور انہیں کہا کہ اپنی خواب سناؤ.انہوں نے اپنی خواب سنائی.اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا.جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ میں اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتا تو میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں سے بنادے گا اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے خلیفہ بنایا جائے گا تو میں خلیفہ مقرر ہو چکا ہوں اور میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ جو اس نے میرے سپرد کیا ہے وہ اس میں میری مدد فرمائے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شہید کیا جاؤں گاتو مجھے شہادت کیسے نصیب ہو سکتی ہے! میں جزیرہ عرب میں ہی رہتا ہوں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں سے جنگ نہیں کرتا.پھر فرمایا: اگر اللہ نے چاہا تو وہ اس شہادت کو لے آئے گا.یعنی گو بظاہر حالات نہیں ہیں لیکن اگر اللہ چاہے تو لا سکتا ہے.حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے بہت سے راستے اختیار کیے پھر وہ سب مٹ گئے.صرف ایک راستہ رہ گیا اور میں اس پر چل پڑا یہاں تک کہ میں ایک پہاڑ پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس پر رسول اللہ صل اللہ کم ہیں اور آپ کے پہلو میں حضرت ابو بکر نہیں اور آپ حضرت عمر کو اشارے سے بلا رہے ہیں کہ وہ آئیں تو میں نے کہا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ اللہ کی قسم ! امیر المومنین فوت ہو گئے.حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے کہا ( دل میں یہ کہتے ہیں کہ) آپ یہ خواب حضرت عمر کو نہیں لکھیں گے.انہوں نے کہا میں ایسا نہیں کہ حضرت عمر ہو ان کی وفات کی خبر دوں.سعید بن ابو ھلال سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے جمعہ کے دن لوگوں سے خطاب کیا.آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ اہل ہے.پھر فرمایا اے لوگو! مجھے ایک خواب دکھایا گیا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات کا وقت قریب ہے.میں نے دیکھا کہ ایک سرخ مرغ ہے جس 376

Page 244

اصحاب بدر جلد 3 224 حضرت عمر بن خطاب نے مجھے دو مر تبہ چونچ ماری ہے.چنانچہ میں نے یہ رویا اسماء بنت عمیس سے بیان کیا تو انہوں نے بتایا یعنی تاویل یہ کی کہ عجمیوں میں سے کوئی شخص مجھے قتل کرے گا.377 حضرت عمر کی شہادت حضرت عمرؓ کے واقعہ شہادت کے بارے میں کہ کس دن حضرت عمر پر حملہ ہوا اور آپ کس دن دفن ہوئے ؟ اس سلسلہ میں مختلف روایات ملتی ہیں.طبقات کبری میں لکھا ہے کہ حضرت عمر پر بدھ کے روز حملہ ہوا اور جمعرات کے دن آپ کی وفات ہوئی.حضرت عمر کو 26/ ذوالحجہ 23 ہجری کو حملہ کر کے زخمی کیا گیا اور یکم محرم 24 ہجری صبح کے وقت آپ کی تدفین ہوئی.عثمان آخنس کہتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ کی وفات 26 / ذوالحجہ بدھ کے روز ہوئی.ابو مغشر کہتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر کو 27 / ذوالحجہ کو شہید کیا گیا.378 تاریخ طبری اور تاریخ ابن اثیر کے علاوہ اکثر مورخین کے نزدیک حضرت عمر 26/ ذوالحجہ 23 ہجری کو زخمی ہوئے اور یکم محرم چو ہیں ہجری کو آپ کی وفات ہوئی اور اسی روز آپ کی تدفین ہوئی.379 شہادت کے واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری میں یوں بیان ہوئی ہے.عمر و بن میمون بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو ان کے زخمی کیے جانے سے کچھ دن پہلے مدینہ میں دیکھا.وہ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف کے پاس رکے اور فرمانے لگے کہ عراق کی اراضی کے لیے جس کا انتظام خلافت کی جانب سے ان کے سپر د تھا تم دونوں نے کیا کیا ہے ؟ کیا تمہیں یہ اندیشہ تو نہیں کہ تم دونوں نے زمین پر ایسالگان مقرر کیا ہے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتی.ان دونوں نے کہا کہ ہم نے وہی لگان مقرر کیا ہے جس کی وہ طاقت رکھتی ہے.یعنی زمین کی اتنی پوٹینشل (potential) ہے کہ اس میں سے اتنی فصل نکل سکے.اس میں کوئی زیادتی نہیں کی گئی.حضرت عمرؓ نے فرمایا: پھر دیکھ لو کہ تم لوگوں نے زمین پر ایسا لگان تو مقرر نہیں کیا جس کی وہ طاقت نہ رکھتی ہو ؟ راوی کہتے ہیں ان دونوں نے کہا: نہیں.حضرت عمر نے کہا اگر اللہ نے مجھے سلامت رکھا تو میں ضرور اہل عراق کی بیواؤں کو اس حال میں چھوڑوں گا کہ وہ میرے بعد کبھی کسی شخص کی محتاج نہ ہوں گی.راوی نے کہا پھر اس گفتگو کے بعد حضرت عمر پر ابھی چوتھی رات نہیں آئی تھی کہ وہ زخمی ہو گئے.راوی نے کہا کہ جس دن وہ زخمی ہوئے، میں کھڑا تھا.میرے اور ان کے درمیان سوائے حضرت عبد اللہ بن عباس کے کوئی نہ تھا اور آپ کی عادت تھی کہ جب دو صفوں کے درمیان سے گزرتے تو فرماتے جاتے کہ صفیں سیدھی کر لو.یہاں تک کہ جب دیکھتے کہ ان میں کوئی خلل نہیں رہ گیا تو آگے بڑھتے اور اللہ اکبر کہتے اور بسا اوقات نماز فجر میں سورہ یوسف یا سورۂ محل یا ایسی ہی سورہ پہلی رکعت میں پڑھتے تاکہ لوگ جمع ہو جائیں.ابھی انہوں نے اللہ اکبر کہا ہی تھا کہ میں نے ان کو کہتے سنا کہ مجھے قتل کر دیا یا کہا مجھے کتے نے کاٹ کھایا ہے.جب اس نے یعنی حملہ آور

Page 245

حاب بدر جلد 3 225 حضرت عمر بن خطاب نے آپ پر وار کیا تو وہ بجھی دودھاری چھری لیے ہوئے بھاگا.وہ کسی کے پاس سے دائیں اور بائیں نہ گزرتا مگر اس کو زخمی کرتا جاتا یعنی وہ جہاں سے بھی گزرتا اس خوف سے کہ لوگ یا کوئی پکڑنے والا اگر کوئی پکڑنے کی کوشش کر تا تو وہ اسی چھری سے اس پر بھی وار کرتا جاتا اور لوگوں کو زخمی کرتا جاتا تھا یہاں تک کہ اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کیا.ان میں سے سات مر گئے.مسلمانوں میں سے ایک شخص نے جب یہ دیکھا تو اس نے کوٹ، بخاری میں اس جگہ بزنس کا لفظ آیا ہے جو اس کپڑے کو کہتے ہیں جس کے ساتھ سر ڈھانپنے والا حصہ بھی ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے.لمبا چوغہ اور ساتھ ہی سر ڈھانپنے والی ٹوپی سی لگی ہوتی ہے.لمبی ٹوپی کو بھی کہتے ہیں.بہر حال وہ کوٹ اس پر پھینکا.جب اس نے یقین کر لیا کہ وہ پکڑا گیا تو اس نے اپنا گلا کاٹ لیا.اور حضرت عمرؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر انہیں آگے کیا اور راوی کہتے ہیں کہ جو حضرت عمرؓ کے قریب تھے انہوں نے بھی وہ دیکھا جو میں نے دیکھا اور مسجد کے اطراف میں جو تھے وہ نہیں جانتے تھے سوائے اس کے کہ انہوں نے حضرت عمر کی آواز کو غائب پایا اور وہ سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! کہنے لگے تو عبد الرحمن بن عوف نے لوگوں کو مختصر نماز پڑھائی.پھر جب وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو حضرت عمررؓ نے کہا ابن عباس ! دیکھو مجھ کو کس نے مارا ہے ؟ حضرت ابن عباس نے کچھ دیر چکر لگایا پھر آئے اور انہوں نے بتایا کہ مغیرہ کے غلام نے.حضرت عمرؓ نے فرمایا وہی جو کاریگر ہے.حضرت ابن عباس نے کہا ہاں.حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ اسے ہلاک کرے میں نے اس کے متعلق نیک سلوک کرنے کا حکم دیا تھا.اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے میری موت ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں کی جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو یعنی یہاں سے بھی ثابت ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھا.اے ابن عباس ! تم اور تمہارا باپ پسند کرتے تھے کہ یہ جمی غلام مدینہ میں زیادہ سے زیادہ ہوں اور حضرت عباس کے پاس سب سے زیادہ غلام تھے.حضرت ابن عباس نے کہا اگر آپ چاہیں تو میں کر گزروں.یعنی اگر آپ چاہیں تو ہم بھی مدینہ میں موجود عجمی غلاموں کو قتل کر دیں.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نہیں.درست نہیں ہے.کہا کہ خصوصاً جبکہ اب وہ تمہاری زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور تمہارے قبلے کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے ہیں اور تمہاری طرح حج کرتے ہیں.بہت سے غلام ایسے بھی تھے جو مسلمان ہو گئے تھے.پھر ہم انہیں یعنی حضرت عمر ہو اٹھا کر ان کے گھر لے گئے.ہم بھی ان کے ساتھ گھر میں چلے گئے.ایسا معلوم ہو تا تھا کہ گویا مسلمانوں پر اس دن سے پہلے ایسی کوئی مصیبت نہیں آئی.کوئی کہتا: کچھ نہیں ہو گا اور کوئی کہتا: مجھے ان کے بارے میں خطرہ ہے کہ وہ جانبر نہ ہو سکیں گے.آخر ان کے پاس نبیذ لائی گئی اور انہوں نے اس کو پیاجو ان کے پیٹ سے نکل گئی.پھر ان کے پاس دودھ لایا گیا انہوں نے اسے پیاوہ بھی آپ کے زخم سے نکل گیا تو لوگ سمجھ گئے کہ آپ کی وفات ہو جائے گی.عمرو بن میمون کہتے ہیں پھر ہم ان کے پاس گئے اور دیگر لوگ بھی آئے جو ان کی تعریف کرنے لگے.اور ایک نوجوان شخص آیا.اس نے کہا امیر المومنین! آپ اللہ

Page 246

ناب بدر جلد 3 226 حضرت عمر بن خطاب کی اس بشارت سے خوش ہو جائیں جو آپ کو رسول اللہ صلی علیکم کے صحابی ہونے کی وجہ سے حاصل ہے اور ابتدا میں اسلام لانے کے شرف کی وجہ سے ہے جسے آپ خوب جانتے ہیں.پھر آپ خلیفہ بنائے گئے اور آپ نے انصاف کیا پھر شہادت.حضرت عمرؓ نے فرمایا: میری تو یہ آرزو ہے.یہ باتیں برابر برابر ہی رہیں.نہ میرا مواخذہ ہو اور نہ مجھے ثواب ملے.جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو اس کا نہ بند زمین سے لگ رہا تھا.حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس لڑکے کو میرے پاس واپس لاؤ.فرمانے لگے میرے بھتیجے اپنا کپڑا اٹھائے رکھو.اس سے تمہارا کپڑا بھی زیادہ دیر چلے گا.زمین سے گھسٹنے سے پھٹے گا نہیں اور یہ فعل تمہارے رب کے نزدیک تقویٰ کے زیادہ قریب ہو گا.یعنی بعض دفعہ بلاوجہ تکبر پیدا ہو جاتا تھا.اس زمانے میں لمبے کپڑے اس لیے بھی لوگ پہنتے تھے کہ امارت کی نشانی ہو تو انہوں نے کہا تکبر نہ پیدا ہو اور یہ تقویٰ کے قریب رہے.پھر عبد اللہ بن عمر کو کہنے لگے دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے.انہوں نے حساب کیا تو اس کو چھیاسی ہزار در ہم یا اس کے قریب پایا.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر عمر کے خاندان کی جائیداد اس کو پورا کر دے تو پھر ان کی جائیداد سے اس کو ادا کر دو ورنہ بنو عدی بن کعب سے مانگنا.اگر ان کی جائیدادیں بھی پوری نہ کریں تو قریش سے مانگنا اور اس کے سوا کسی کے پاس نہ جانا.یہ قرض میری طرف سے ادا کر دینا.حضرت عائشہ ، ام المومنین کے پاس جاؤ اور ان سے کہنا کہ عمر آپ کو سلام کہتے ہیں اور امیر المومنین نہ کہنا کیونکہ آج میں مومنوں کا امیر نہیں اور ان سے کہنا کہ عمر بن خطاب اس بات کی اجازت چاہتا ہے کہ اسے اس کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے.بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایسا اس وقت کہا تھا جب آپ کو موت کا یقین ہو گیا تھا اور حضرت عائشہ کے لیے اس میں اشارہ تھا کہ امیر المومنین کہنے کی وجہ سے ڈریں نہیں.چنانچہ عبد اللہ نے سلام کہا اور اندر آنے کی اجازت مانگی.پھر ان کے پاس اندر گئے تو انہیں دیکھا کہ میٹھی ہوئی اور ہی تھیں.حضرت عبد اللہ نے کہا: عمر بن خطاب آپ کو سلام کہتے ہیں اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگتے ہیں.حضرت عائشہ کہنے لگیں کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے رکھا ہوا تھا لیکن آج میں اپنی ذات پر ان کو مقدم کروں گی.جب حضرت عبد اللہ لوٹ کر آئے تو حضرت عمرؓ سے کہا گیا کہ عبد اللہ بن عمرؓ آگئے ہیں.انہوں نے کہا مجھے اٹھاؤ تو ایک شخص نے آپ کو سہارا دے کر اٹھایا.آپ نے پوچھا کیا خبر لائے ہو ؟ عبد اللہ نے کہا امیر المومنین ! وہی جو آپ پسند کرتے ہیں.حضرت عائشہ نے اجازت دے دی ہے.کہنے لگے الحمد للہ ! اس سے بڑھ کر اور کسی چیز کی مجھے فکر نہ تھی.جب میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے جانا.پھر سلام کہنا اور یہ کہنا کہ عمر بن خطاب اجازت مانگتا ہے.اگر انہوں نے میرے لیے اجازت دی تو مجھے اندر حجرے میں تدفین کے لیے لے جانا اور اگر انہوں نے مجھے لوٹا دیا تو پھر مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں واپس لے جانا.ام المومنین حضرت حفصہ آئیں اور دوسری

Page 247

اصحاب بدر جلد 3 227 حضرت عمر بن خطاب عورتیں بھی ان کے ساتھ آئیں.جب ہم نے ان کو دیکھا تو ہم چلے گئے.وہ ان کے پاس اندر گئیں اور کچھ دیر ان کے پاس روتی رہیں.پھر جب کچھ مردوں نے اندرونی حصہ میں آنے کی اجازت مانگی تو وہ مردوں کے آتے ہی اندر چلی گئیں اور ہم اندر سے ان کے رونے کی آواز سنتے رہے.لوگوں نے کہا امیر المومنین وصیت کر دیں.کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں.انہوں نے کہا میں اس خلافت کا حق دار ان چند لوگوں میں سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی الی یکم ایسی حالت میں فوت ہوئے کہ آپ ان سے راضی تھے.اور انہوں نے حضرت علی، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیر حضرت طلحہ ، حضرت سعد اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کا نام لیا اور کہا عبد اللہ بن عمرؓ تمہارے درمیان موجود رہے گا لیکن اس امر یعنی خلافت میں اس کا کوئی حق نہیں ہو گا.اگر خلافت سعد کو مل گئی تو پھر وہی خلیفہ ہو ورنہ جو بھی تم میں سے امیر بنایا جائے وہ سعد سے مدد لیتا ر ہے کیونکہ میں نے ان کو اس لیے معزول نہیں کیا تھا کہ وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس لیے کہ کوئی خیانت کی تھی.نیز فرمایا میں اس خلیفہ کو جو میرے بعد ہو گا پہلے مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق ان کے لیے پہنچا نہیں.ان کی عزت کا خیال رکھیں.میں انصار کے متعلق بھی بھلائی کی وصیت کرتا ہوں جو مدینہ میں پہلے سے رہتے تھے اور مہاجرین کے آنے سے پہلے ایمان قبول کر چکے تھے.جو ان میں سے نیک کام کرنے والا ہو اسے قبول کیا جائے اور جو اُن میں سے قصور وار ہو اس سے در گزر کیا جائے اور میں سارے شہروں کے باشندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے کی ان کو وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کے پشت پناہ ہیں اور مال کے حصول کا ذریعہ ہیں اور دشمن کے کڑھنے کا موجب ہیں اور یہ کہ ان کی رضا مندی سے ان سے وہی لیا جائے جو ان کی ضرورتوں سے بچ جائے.اور میں اُس کو بدوی عربوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں یعنی آئندہ کے خلیفہ کو کیونکہ وہ عربوں کی جڑ ہیں اور اسلام کا مادہ ہیں یہ کہ ان کے اموال میں سے جو زائد ہے وہ لیا جائے اور پھر ان کے محتاجوں کو لوٹایا جائے اور میں اس کو اللہ کے ذمہ اور اس کے رسول صلی الم کے ذمہ کی وصیت کرتاہوں کہ ان کے عہدوں کو ان کے لیے پورا کیا جائے اور ان کی حفاظت کے لیے جنگ کی جائے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے.جب آپ فوت ہو گئے تو ہم ان کو لے کر نکلے اور پیدل چلنے لگے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے حضرت عائشہ صمو السلام علیکم کہا اور کہا عمر بن خطاب اجازت مانگتے ہیں.انہوں نے کہا کہ ان کو اندر لے آؤ.چنانچہ ان کو اندر لے جایا گیا اور وہاں ان کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھ دیے گئے.جب ان کی تدفین سے فراغت ہوئی تو وہ آدمی جمع ہوئے جن کا حضرت عمرؓ نے نام لیا تھا تا کہ انتخاب خلافت ہو سکے اور پھر وہ انگلی کارروائی ہوئی.صحیح بخاری کی جو روایت بیان کی گئی تھی اس سے یہ معلوم ہو تا تھا کہ حضرت عمر ثیر جب حملہ ہوا تو 380

Page 248

حاب بدر جلد 3 228 حضرت عمر بن خطاب اسی وقت فجر کی نماز ادا کی گئی.اور حضرت عمر اس وقت مسجد میں ہی تھے.جبکہ دوسری روایات میں ملتا ہے کہ فوری طور پر حضرت عمررؓ کو گھر لے جایا گیا اور نماز بعد میں ادا کی گئی جیسا کہ صحیح بخاری کے شارح علامہ ابن حجر اس روایت کے نیچے ایک دوسری روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر کا خون زیادہ بہنے لگا اور ان پر غشی طاری ہو گئی تو میں نے انہیں لوگوں کے ساتھ اٹھایا اور انہیں گھر پہنچا دیا.آپؐ پر بے ہوشی طاری رہی یہاں تک کہ صبح کی روشنی نمایاں ہو گئی.جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے ہماری طرف دیکھ کر فرمایا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟ تو میں نے عرض کیا کہ جی ہاں.اس پر آپ نے فرمایا: اس کا کوئی اسلام نہیں جس نے نماز ترک کی.پھر آپ نے وضو کیا اور نماز پڑھی.381 اس کے علاوہ طبقات کبری میں بھی یہی ہے کہ حضرت عمر کو اٹھا کر گھر پہنچایا گیا اور حضرت عبد الرحمن بن عوف نے نماز پڑھائی.نیز یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت عبد الرحمن نے قرآن کریم کی سب چھوٹی دو سورتیں وَالْعَصْرِ اور اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ پڑھیں اور ایک جگہ وَالْعَصْرِ اور قُلْ يَاتِهَا الْكَفِرُونَ پڑھنے کا ذکر ہے.382 حضرت عمرؓ کے قاتل کا ذکر کرتے ہوئے طبقات کبری میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمر پر حملہ ہوا تو آپ نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے فرمایا: جاؤ اور دریافت کرو کہ کس نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی ہے.حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ میں نکلا اور میں نے گھر کا دروازہ کھولا تو لوگوں کو جمع دیکھا جو حضرت عمرؓ کے حال سے ناواقف تھے.میں نے پوچھا کہ کس نے امیر المومنین کو خنجر مارا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کے دشمن ابو لولوں نے آپ کو خنجر مارا ہے جو مغیرہ بن شعبہ کا غلام ہے.اس نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا ہے لیکن جب وہ پکڑا گیا تو اسی خنجر سے اس نے خود کشی کرلی.183 اس بارے میں کہ کیا حضرت عمر کی شہادت کوئی سازش کا نتیجہ تھی یا اس شخص کا ذاتی عناد تھا، بعد کے بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عمر کی شہادت صرف کسی ذاتی عناد کی بنا پر نہیں تھی بلکہ ایک سازش تھی.بہر حال حضرت عمر جیسے بہادر خلیفہ کو جس طرح شہید کر دیا گیا، ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر مؤرخین اور سیرت نگار شہادت کے واقعات تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں اور یہ تاثر ملتا ہے کہ ابولولو فیروز نے ایک وقتی جوش اور غصہ میں انہیں قتل کر دیا تھا.لیکن حال کے بعض مؤرخین، سیرت نگار اس پر تفصیل کے ساتھ بحث کرتے ہوئے یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ محض ایک فردِ واحد کے غصہ کی وجہ سے انتقامی کارروائی نہیں ہو سکتی بلکہ ایک سازش تھی اور با قاعدہ ایک پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت حضرت عمرؓ کو قتل کیا گیا تھا.اور اس سازش میں مشہور ایرانی سپه سالار هرمزان جو کہ اب بظاہر مسلمان ہو کر مدینہ میں رہ رہا تھا وہ بھی شامل تھا.حال کے ان مصنفین نے قدیم مؤرخین اور سیرت نگاروں سے شکوہ کیا ہے کہ کیوں انہوں نے اس اہم قتل پر تفصیلی

Page 249

اصحاب بدر جلد 3 229 حضرت عمر بن خطاب بحث نہیں کی کہ یہ ایک سازش تھی.البتہ تاریخ وسیرت کی ایک اہم کتاب البدایہ والنہایہ میں صرف اتنا ملتا ہے کہ شبہ کیا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے قتل میں ھرمزان اور جھینہ کا ہاتھ تھا.184 چنانچہ اسی شبہ پر حضرت عمر کے سوانح نگار سیر حاصل بحث کرتے ہوئے اس کو باقاعدہ ایک سازش قرار دیتے ہیں.انہی مصنفین میں سے ایک محمد رضا صاحب اپنی کتاب سیرت عمر فاروق میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمر کسی بالغ قیدی کو مدینہ میں آنے کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے حتی کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ والی کوفہ نے ان کے نام ایک خط لکھا کہ ان کے پاس ایک غلام ہے جو بہت ہنر مند ہے اور وہ اس کو مدینہ میں آنے کی اجازت کے طلبگار ہیں اور حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ وہ بہت کام جانتا ہے جس میں لوگوں کے لیے فائدے ہیں.وہ لوہار ہے.نقش و نگار کا ماہر ہے.بڑھتی ہے.حضرت عمر نے حضرت مغیرہ کے نام خط لکھا اور انہوں نے اسے مدینہ بھیجنے کی اجازت دے دی.حضرت مغیر گانے اس پر ماہانہ سو در ہم ٹیکس مقرر کیا.وہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور خراج زیادہ ہونے کی شکایت کی.حضرت عمرؓ نے پوچھا: تم کون سے کام اچھی طرح کر لیتے ہو ؟ اس نے آپ کو وہ کام بتائے جس میں اسے اچھی خاصی مہارت حاصل تھی.حضرت عمرؓ نے فرمایا: تمہارے کام کی مہارت کے حوالے سے تو تمہارا خراج کوئی زیادہ نہیں ہے.وہ آپ سے ناراضی کی حالت میں واپس چلا گیا.حضرت عمر نے چند روز توقف کیا.ایک دن وہی غلام آپ کے پاس سے گزرا تو آپ نے اسے بلا کر کہا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ تم ہو اسے چلنے والی چکی بہت اچھی بنا سکتے ہو.وہ غلام غصے اور ناپسندیدگی کے عالم میں حضرت عمرؓ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ میں آپ کے لیے ایک ایسی چکی بناؤں گا کہ لوگ اس کا چرچا کرتے رہیں گے.جب وہ غلام مڑا تو آپ اپنے ساتھ والے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا اس غلام نے مجھے ابھی ابھی دھمکی دی ہے.چند دن گزرے کہ ابو لُؤْلُوں نے اپنی چادر میں دو دھاری والا خنجر چھپارکھا تھا جس کا دستہ اس کے وسط میں تھا اور اس نے حضرت عمر پر وار کیا جیسا کہ واقعہ شہادت میں بیان ہو چکا ہے.اس کا ایک وار ناف کے نیچے لگا تھا.ابولُؤْلُؤًہ کو حضرت عمرؓ سے ایک لحاظ سے کینہ اور بغض بھی تھا کیونکہ عربوں نے اس کے علاقے کو فتح کر لیا تھا اور اسے قیدی بنالیا تھا اور اس کے بادشاہ کو ذلیل و خوار ہونے کی حالت میں جلا وطن ہونے پر مجبور کر دیا تھا.وہ جب بھی کسی چھوٹے قیدی بچے کو دیکھتا تو ان کے پاس آکر ان کے سروں پر ہاتھ پھیر تا اور رو کر کہتا کہ عربوں نے میرا جگر گوشہ کھا لیا.جب ابولولوة نے حضرت عمرؓ کو شہید کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا تو اس نے بڑے اہتمام سے دو دھاری خنجر بنایا، اسے تیز کیا، پھر اسے زہر آلود کیا، پھر اسے لے کر ھرمزان کے پاس آیا اور کہا تمہارا اس خنجر کے بارے میں کیا خیال ہے.اس نے کہا میر اتو خیال ہے کہ تو اس کے ذریعہ جس پر بھی وار کرے گا اسے قتل کر دے گا.ھرمزان فارسیوں کے سپہ سالاروں میں سے تھا.مسلمانوں نے اسے تنتر کے مقام پر قید کر لیا تھا اور انہوں نے اسے مدینہ بھیج دیا تھا.جب اس نے حضرت عمر کو دیکھا تو اس

Page 250

اصحاب بدر جلد 3 230 حضرت عمر بن خطاب نے پوچھا ان کے محافظ و در بان کہاں ہیں ؟ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بتایا کہ ان کا کوئی محافظ ہے نہ دربان ہے اور نہ کوئی سیکر ٹری ہے ، نہ کوئی دیوان ہے تو اس نے کہا کہ انہیں تو نبی ہونا چاہیے.بہر حال پھر وہ مسلمان ہو گیا اور حضرت عمرؓ نے اس کے لیے دو ہزار مقرر کر دیے اور اسے مدینہ میں قیام کرایا.طبقات ابن سعد میں نافع کی سند سے ایک روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمن نے وہ چھری دیکھی جس کے ذریعہ سے حضرت عمررؓ کو شہید کیا گیا تھا.انہوں نے کہا: میں نے گذشتہ روز یہ چھری هرمزان اور جُفِّینہ کے پاس دیکھی تھی تو میں نے پوچھا: تم اس چھری سے کیا کرتے ہو تو ان دونوں نے کہا: ہم اس کے ذریعہ گوشت کاٹتے ہیں کیونکہ ہم گوشت کو چھوتے نہیں.اس پر حضرت عبید اللہ بن عمرؓ نے حضرت عبدالرحمن سے پوچھا: کیا آپ نے یہ چھری ان دونوں کے پاس دیکھی تھی؟ انہوں نے کہا ہاں.پس حضرت عبید اللہ بن عمرؓ نے اپنی تلوار پکڑی اور دونوں کے پاس آئے اور انہیں قتل کر دیا.حضرت عثمان نے حضرت عبید اللہ کو بلا بھیجا.جب وہ ان کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا: آپ کو ان دونوں افراد کے قتل کرنے پر کس چیز نے بر انگیختہ کیا جبکہ وہ دونوں ہماری امان میں ہیں.یہ سنتے ہی حضرت عبید اللہ نے حضرت عثمان کو پکڑ کر زمین پر گرا دیا حتی کہ لوگ آگے بڑھے اور انہوں نے حضرت عثمان کو حضرت عبید اللہ سے بچایا.جب حضرت عثمان نے انہیں بلوایا تھا تو انہوں نے یعنی حضرت عبید اللہ نے تلوار حمائل میں کر لی تھی لیکن حضرت عبد الرحمن نے انہیں سختی کے ساتھ کہا کہ اسے اتار دو تو انہوں نے تلوار اتار کر رکھ دی تھی.سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر شہید کر دیے گئے، یہ ایک روایت ہے جو میں نے پہلے بیان کی.کہاں تک یہ سچی ہے ، حضرت عثمان والا قصہ کہاں تک صحیح ہے اللہ بہتر جانتا ہے لیکن بہر حال قتل کرنے کا واقعہ اور جگہ بھی بیان ہوا ہے.حضرت عمر شہید کر دیے گئے تو حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر نے کہا: میں حضرت عمرؓ کے قاتل ابولولوہ کے پاس سے گزرا تھا جبکہ جُفّینہ اور هُرمزان بھی اس کے ساتھ تھے اور وہ سر گوشی کر رہے تھے.جب میں اچانک ان کے پاس پہنچا تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور ایک خنجر ان کے مابین گر پڑا.اس کے دو پھل تھے.اس کا دستہ اس کے وسط میں تھا.پس دیکھو کہ جس خنجر سے حضرت عمر کو شہید کیا گیا ہے وہ کیسا تھا؟ انہوں نے دیکھا تو وہ خنجر بالکل ویسا ہی تھا جیسے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر نے بیان کیا تھا.جب حضرت عبید اللہ بن عمرؓ نے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر سے یہ سنا تو تلوار لے کر نکل پڑے حتی کہ ھرمزان کو آواز دی.جب وہ ان کے پاس آیا تو اسے کہا میرے ساتھ چلو حتی کہ ہم اپنے گھوڑے کو دیکھیں اور خود اس سے پیچھے ہٹ گئے.جب وہ آپ کے آگے چلنے لگا تو انہوں نے اس پر تلوار کا وار کیا.حضرت عبید اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ جب اس نے تلوار کی حدت محسوس کی تو اس نے لا الہ الا

Page 251

اصحاب بدر جلد 3 231 حضرت عمر بن خطاب اللہ پڑھا.حضرت عبید اللہ کہتے ہیں کہ میں نے جھینہ کو آواز دی وہ حیرہ کے نصاریٰ میں سے ایک نصرانی تھا وہ سعد بن ابی وقاص کا مددگار تھا انہوں نے اسے صلح کے لیے مدینہ بھیجا تھا جو کہ اس کے اور ان کے درمیان ہوئی تھی.وہ مدینہ میں کتابت سکھاتا تھا.جب میں نے اسے تلوار ماری تو اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے صلیب کا نشان بنایا.پھر حضرت عبید اللہ آگے بڑھے اور ابولولون کی بیٹی کو قتل کر دیا جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی تھی.حضرت عبد اللہ کا ارادہ تھا کہ آج وہ مدینہ میں کسی قیدی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے.مہاجرین ان کے خلاف اکٹھے ہو گئے اور انہیں روکا اور انہیں دھمکی دی تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں انہیں ضرور قتل کروں گا.اور وہ مہاجرین کو بھی خاطر میں نہ لائے حتی کہ حضرت عمر و بن عاص ان کے ساتھ مسلسل بات چیت میں لگے رہے حتی کہ انہوں نے تلوار حضرت عمروبن عاص کے حوالے کر دی.پھر حضرت سعد بن ابی وقاص ان کے پاس آئے تو ان دونوں نے ایک دوسرے کی پیشانی کے بال پکڑ لیے.غرض آپ نے ھرمزان، جھینہ اور ابولولوہ کی بیٹی کو قتل کر دیا.اب تمام معاملہ اس بحث میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ کس نے ابو لُؤْلُون کو حضرت عمرؓ کے قتل کرنے پر اکسایا تھا اور لکھنے والے یہ لکھتے ہیں کہ جو روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں اور جو اس حق میں ہیں کہ حضرت عمر کا قتل ایک سازش تھی.ھر ھمران نے یہ ساری منصوبہ بندی کی تھی کہ اس نے حضرت عمرؓ کے خلاف ابولولوة کے کینہ اور بغض کو مزید بھڑ کا یا.وہ دونوں عجمی تھے پھر یہ کہ جب هرمزان کو قید کر لیا گیا اور اسے مدینہ بھیج دیا گیا تو اس نے اس اندیشہ کے پیش نظر اسلام قبول کر لیا کہ خلیفہ اسے قتل کر دیں گے.طبقات ابن سعد میں نافع کی روایت میں مذکور ہے کہ عبد الرحمن بن عوف نے وہ چھری دیکھی تھی جس کے ساتھ حضرت عمرؓ کو شہید کیا گیا تھا اور سعید بن مسیب کی روایت طبری میں مذکور ہے کہ عبد الرحمن بن ابی بکڑ نے وہ خنجر دیکھا تھا جو ابولولوة، جُفّینہ اور ھر مُزان کے درمیان گر گیا تھا.جب وہ اچانک ان کے پاس آئے تھے تو وہ ان کے چلنے کی وجہ سے گر گیا تھا.جب حضرت عبید اللہ بن عمرؓ نے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر سے یہ بات سنی تو وہ فورآ گئے اور ان دونوں کو قتل کر دیا اور انہوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ انہوں نے جذبہ انتقام سے مغلوب ہو کر ابو لولوہ کی بیٹی کو بھی قتل کر دیا.وہ خنجر جس کے متعلق حضرت عبد الرحمن بن ابی بکڑ نے بتایا تھا وہ بالکل وہی تھا جس کے ذریعہ حضرت عمر کو شہید کیا گیا تھا.اگر حضرت عبید اللہ بن عمر هرمزان اور جینہ کو قتل کرنے میں جلدی نہ کرتے تو اس بات کا امکان تھا کہ ان دونوں کو معاملہ کی تحقیق کے لیے بلایا جاتا اور اس طرح یہ سازش آشکار ہو جاتی.اگر ان سب چیزوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی چیزوں کو تو یہ جاسکتی سازش تھی اور جس نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا اور حضرت عمر کو قتل کیا وہ ابو لولوہ تھا.یہ سازش کے حق میں کہنے والے کہتے ہیں.385

Page 252

اصحاب بدر جلد 3 232 حضرت عمر بن خطاب اسی طرح ایک اور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حسین ہیکل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ واقعہ یہ ہے کہ جب مسلمان ایرانیوں اور عیسائیوں پر غالب آئے تھے اور جب سے ان ملکوں کی زمام حکومت انہوں نے سنبھالی تھی اور شہنشاہ ایران کو عبرت ناک شکست دے کر فرار پر مجبور کیا تھا اس وقت سے ایرانی، یہودی اور عیسائی اپنے دلوں میں عربوں کے خلاف عموماً اور حضرت عمر کے خلاف خصوصا کینہ و بغض کے جذبات چھپائے بیٹھے تھے.اس وقت لوگوں نے اپنی گفتگو میں اس کینہ اور بغض کا ذکر بھی کیا تھا اور انہیں حضرت عمر کی وہ بات بھی یاد آئی تھی جو انہوں نے یہ معلوم کرنے کے بعد کہ ان پر حملہ کرنے والا ابولولوہ ایک ایرانی ہے کہی تھی.حضرت عمر نے فرمایا تھا.میں تم کو منع کرتا تھا کہ ہمارے پاس کسی بے دین کو گھسیٹ کر نہ لانا لیکن تم نے میری بات نہ مانی.مدینہ میں ان عجمی بے دینوں کی تعداد مختصر سی لیانا تم تھی لیکن ایک جماعت تھی جن کے دل غضب اور انتقام سے لبریز اور جن کے سینے کینہ و بغض کی آگ سے دہک رہے تھے اور کون جانے، ہو سکتا ہے ان لوگوں نے سازش کی ہو اور ابو لولوہ کا یہ فعل اسی سازش کا نتیجہ ہو جس کا جال ان دشمنانِ اسلام نے اپنے کینہ اور دشمنی کی پیاس بجھانے کے لیے بنا تھا اور جس کے متعلق وہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح عربوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے مسلمانوں کے بازو کمزور کیے جاسکتے ہیں.حضرت عمرؓ کے صاحبزادوں کو حقیقت حال سے باخبر ہونے کی سب سے زیادہ بے چینی تھی.وہ اس راز سے پردہ اٹھا کر اس کی تہ تک پہنچ سکتے تھے اگر ابولولو فیروز خود کشی نہ کرتا.لیکن اس نے مخود کشی کر لی اور اس راز کو اپنے ساتھ قبر میں لے گیا تو کیا بات ختم ہو گئی اور اب اس راز کو پانے کی کوئی سبیل نہیں رہی؟ یہ لکھنے والا مؤرخ لکھتا ہے جو اس سازش کو بے نقاب کرنے کے حق میں ہے کہ یہ سازش تھی کہ نہیں ؟ بلکہ کارکنان قضا و قدر نے چاہا کہ عرب کا ایک سردار اس راز سے واقف ہو جائے اور اس سازش کی طرف رہنمائی کرے.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے جب وہ چھری دیکھی جس سے حضرت عمر کو شہید کیا گیا تھا تو فرمایا: میں نے یہ چھری کل هرمزان اور جھینہ کے پاس دیکھی تھی.میں نے ان سے پوچھا تم اس چھری سے کیا کرو گے؟ وہ بولے کہ گوشت کاٹیں گے کیونکہ ہم گوشت کو ہاتھ نہیں لگاتے اور حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر نے فرمایا کہ میں حضرت عمرؓ کے قاتل ابو لُؤْلُوہ کے پاس سے گزرا.جُفّینه اور هرمزان اس کے ساتھ تھے اور وہ آپس میں چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے.تمہیں دفعتا ان کے پاس پہنچاتو وہ بھاگے اور ایک خنجر ان کے درمیان گر پڑا جس کے دو پھل تھے اور دستہ بیچ میں تھا.دیکھو وہ شجر کیسا ہے جس سے حضرت عمر کو شہید کیا گیا ہے؟ لوگوں نے دیکھا تو واقعی وہی خنجر تھا جو حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر نے بتایا تھا.پھر تو اس معاملے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا.یہ لکھنے والا کہتا ہے کہ دونوں کے دونوں بچے گواہ ہیں بلکہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ قابل اعتبار ہیں اور گواہی دے رہے ہیں کہ جس چھری سے حضرت عمر کو شہید کیا گیا وہ ھرمزان اور جھینہ کے پاس تھی.ان میں سے ایک گواہ کا کہنا ہے کہ اس نے قاتل ابو لولون کو قتل کرنے سے پہلے دونوں سے سازش کرتے دیکھا ہے

Page 253

اصحاب بدر جلد 3 233 حضرت عمر بن خطاب اور دونوں گواہوں کے بیان کے مطابق یہ سب کچھ اس رات کا قصہ ہے جس صبح حضرت عمرہ پر حملہ کیا گیا.کیا اس کے بعد بھی کوئی شخص اس میں شبہ کر سکتا ہے کہ امیر المومنین اس سازش کا شکار ہوئے جس کے اہم کردار تو یہی تین آدمی تھے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرے ایرانی یا ان قوموں کے افراد بھی اس میں شامل ہوں جن پر مسلمانوں نے غلبہ پایا تھا.حضرت عبید اللہ بن عمرؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کی بات اور عبد الرحمن بن ابی بکر کی شہادت سنی تو ساری کائنات ان کی نگاہوں میں خون ہی خون ہو گئی.ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ مدینہ کے تمام پر دیسی اس سازش میں شریک ہیں اور ان سب کے ہاتھوں سے جرم کا خون ٹپک رہا ہے.انہوں نے فوراً تلوار سنبھالی اور سب سے پہلے هرمزان اور جُفّینہ کا کام تمام کیا.روایت ہے کہ انہوں نے ھرمزان کو آواز دی اور جب وہ باہر نکل کر آیا تو اسے کہا کہ ذرا ساتھ آؤ اور میرے گھوڑے کو دیکھ لو اور خود پیچھے ہٹ گئے.جب وہ ان کے سامنے سے گزرا تو تلوار کا ایک ہاتھ اس پر مارا.ایرانی نے جب تلوار کی سوزش محسوس کی تو کہا لا الہ الا اللہ اور وہیں ڈھیر ہو گیا.روایت ہے کہ حضرت عبید اللہ بن عمرؓ، یہ حضرت عمر کے بیٹے تھے نے کہا کہ پھر میں نے جھینہ کو بلایا وہ حیرہ کا ایک عیسائی تھا اور سعد بن ابی وقاص کا دودھ شریک بھائی تھا.اس رشتے سے سعد اسے مدینہ لے آئے تھے جہاں وہ لوگوں کو پڑھایا لکھایا کرتا تھا.جب میں نے اسے تلوار ماری تو اس نے اپنی دونوں آنکھوں کے در میان صلیب کا نشان بنایا.حضرت عبید اللہ کے دوسرے بھائی بھی اپنے والد کی شہادت پر ان سے کچھ کم غضبناک نہیں تھے اور سب سے زیادہ غصہ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تھا.بہر حال یہ جو انہوں نے کیا ہے قانونی طور پر اس کی کوئی اجازت نہیں تھی.کسی شخص کو اختیار نہیں کہ وہ خود انتقام لینے کے لیے کھڑا ہو جائے یا اپنا حق خود وصول کرے جبکہ معاملات کا فیصلہ رسول اللہ صلی علی کرم اور آپ صلی علیکم کے بعد آپ صلی ایم کے خلفاء رضوان اللہ علیہم کے لیے مخصوص تھا.وہ لوگوں کے در میان منصفانہ فیصلے اور مجرم کے خلاف قصاص کا حکم صادر کرتے تھے.اس لیے حضرت عبید اللہ کا فرض تھا کہ جب انہیں اس سازش کا علم ہو ا جس کے نتیجہ میں ان کے والد کی جان گئی تو اس کا فیصلہ امیر المومنین سے چاہتے.اگر ان کے نزدیک سازش ثابت ہو جاتی تو وہ قصاص کا حکم جاری فرما دیتے اور اگر ثابت نہ ہوتی یا اس کے متعلق امیر المومنین ، نئے خلیفہ کے دل میں کوئی شبہ پیدا ہو جاتا تو وہ شبہ کی حد تک سزا میں تخفیف کر دیتے یا یہ فیصلہ دے دیتے کہ تنہا آبُولُولُون مجرم ہے.386 بہر حال جو انہوں نے کیا قانونی طور پر وہ ان کا حق نہیں بنتا تھا.مختصر یہ کہ ہر چند کہ یہ بعید از قیاس نہیں کہ یہ قتل ایک باقاعدہ سازش ہو لیکن اس وقت کے حالات کا تقاضا ہو کہ حضرت عثمان فوری طور پر اس میں تحقیق نہ کروا سکے ہوں یا جو بھی حالات ہوں ابتدائی مورخ اس کے متعلق خاموش ہیں اور اس زمانے کے کچھ مؤرخ قرائن کی روشنی میں اس پر بحث

Page 254

محاب بدر جلد 3 234 حضرت عمر بن خطاب کر رہے ہیں اور ان کے دلائل میں کچھ وزن معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ سازشی گروہ یہیں رکتا نہیں بلکہ پھر حضرت عثمان بھی اسی طرح کی ایک سازش کا شکار ہوتے ہیں اور اس سے اس شبہ کو مزید تقویت ملتی ہے کہ اسلام کی بڑھتی ہوئی ترقی اور غلبہ کو روکنے کے لیے اور اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بیرونی عناصر کی ایک سازش کے تحت حضرت عمر کو شہید کیا گیا تھا.واللہ اعلم.387 صحیح مسلم میں مذکور ہے کہ حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ جب میرے والد پر حملہ ہوا تو میں ان کے پاس موجود تھا.لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہا جَزَاكَ اللهُ خَيْرًا.اللہ تعالٰی آپ کو بہترین بدلہ دے.آپؐ نے فرمایا: میں رغبت رکھنے والا بھی ہوں اور ڈرنے والا بھی ہوں.لوگوں نے کہا کہ آپ خلیفہ مقرر کر دیجیے.آپ نے کہا: کیا میں تمہارا بوجھ زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اٹھاؤں ؟ میں چاہتا ہوں کہ اس میں میر احصہ برابر کا ہو.یعنی نہ مجھ پر کوئی گرفت ہو نہ مجھے کچھ ملے.اگر میں کسی کو جانشین بناؤں تو انہوں نے بھی جانشین بنایا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی حضرت ابو بکر.بنا دوں تو کوئی حرج نہیں ہے.اگر میں تمہیں بغیر جانشین مقرر کرنے کے چھوڑ جاؤں تو وہ تمہیں بغیر جانشین مقرر کرنے کے چھوڑ گئے تھے جو مجھ سے بہتر تھے یعنی دوسری مثال رسول اللہ صلی علی کمکی دی کہ آپ تھے جنہوں نے جانشین مقرر نہیں کیا تھا.حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ جب آپ نے رسول اللہ صل الی لر کا ذکر کیا تو میں جان گیا کہ آپ انشین مقرر نہیں کریں گے.صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت حفصہ کے پاس گیا.انہوں نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے والد جانشین مقرر کرنے والے نہیں.وہ کہتے ہیں میں نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے.انہوں نے یعنی حضرت حفصہ نے فرمایا وہ ایسا کریں گے.وہ کہتے ہیں میں نے قسم کھائی کہ حضرت عمرؓ سے دوبارہ بات کروں گا.کہتے ہیں میں صبح تک خاموش رہا اور آپ سے کوئی بات نہیں کی.وہ کہتے ہیں کہ میر احال یہ تھا کہ گویا میں اپنی قسم کی وجہ سے پہاڑ اٹھانے والا ہوں.میں لوٹا اور ان کے پاس گیا.انہوں نے مجھ سے لوگوں کا حال دریافت کیا یعنی حضرت عمر نے اور میں نے آپ کو بتایا کہ وہ کہتے ہیں.پھر میں نے جو وہ لوگ کہتے ہیں وہ باتیں بتائیں.پھر میں نے آپ سے کہا کہ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے ہوئے سنا ہے اور میں نے قسم کھائی ہے کہ آپ سے وہ بات ضرور کہوں گا.ان کا، لوگوں کا خیال ہے کہ آپ جانشین مقرر نہیں کریں گے.بات یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے اونٹوں کو چرانے والا ہو یا بکریوں کا چرواہا ہو پھر وہ آپ کے پاس آئے اور انہیں چھوڑ دے تو آپ دیکھیں گے کہ اس نے ان کو ضائع کر دیا.پس لوگوں کی نگہبانی تو زیادہ ضروری ہے.کہتے ہیں حضرت عمرؓ نے میری بات سے اتفاق کیا اور کچھ دیر کے لیے اپنا سر جھکایا.پھر آپ نے سر اٹھایا اور میری طرف توجہ کی اور فرمایا: اللہ عزوجل اپنے دین کی حفاظت کرے گا.اگر میں کسی کو خلیفہ نہ

Page 255

اصحاب بدر جلد 3 235 حضرت عمر بن خطاب بناؤں تو رسول اللہ صلی الم نے خلیفہ تو نہیں بنایا تھا اور اگر میں خلیفہ بناؤں تو حضرت ابو بکر نے خلیفہ بنایا تھا.انہوں نے یعنی حضرت عمر کے بیٹے ابن عمر نے کہا: پس اللہ کی قسم ! جب انہوں نے یعنی حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی علی کم اور حضرت ابو بکر کا ذکر کیا تو میں سمجھ گیا کہ آپ کسی کو رسول اللہ صلی ال نیم کے برابر نہیں کریں گے اور یہ کہ آپ کسی کو جانشین نہیں بنائیں گے.الله 388 حضرت مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر کو زخمی کیا گیا تو درد سے بے قرار ہونے لگے.حضرت ابن عباس نے ان سے کہا جیسا کہ ان کو تسلی دینے لگے ہیں.امیر المومنین ! اگر ایسا ہے تو آپ رسول اللہ صلی علیکم کی صحبت میں رہ چکے ہیں اور آپ نے نہایت عمدگی سے آپ کا ساتھ دیا.پھر آپ ان سے ایسی حالت میں جدا ہوئے کہ آنحضرت صلی علیہ کام آپ سے خوش تھے.پھر آپ حضرت ابو بکر کے ساتھ رہے اور نہایت عمدگی سے ان کا ساتھ دیا.پھر آپ ان سے ایسی حالت میں جدا ہوئے کہ وہ آپ سے خوش تھے.389 پھر آپ ان کے صحابہ کے ساتھ رہے اور آپ نے نہایت عمدگی سے ان کا ساتھ دیا اور اگر آپ ان سے جدا ہو گئے تو یقیناً آپ ایسی حالت میں ان سے جدا ہوں گے کہ وہ آپ سے خوش ہوں.حضرت عمر نے کہا یہ جو تم نے رسول اللہ صلی علیم کی صحبت اور آپ کی خوشنودی کا ذکر کیا ہے تو یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جو اس نے مجھ پر کیا.اور جو تم نے حضرت ابو بکر کی صحبت اور ان کی خوشنودی کا ذکر کیا ہے تو یہ بھی محض اللہ جلّ ذِکرہ کا احسان ہے جو اُس نے مجھ پر کیا.اور یہ جو تم میری فکر دیکھ رہے ہو تو یہ تمہاری خاطر اور تمہارے ساتھیوں کی خاطر ہے.میں اپنی فکر نہیں کر رہا.تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی فکر کر رہا ہوں.اللہ کی قسم! اگر میرے پاس زمین بھر سونا بھی ہو تو میں ضرور اللہ عز وجل کے عذاب سے فدیہ دے کر چھڑا لیتا پیشتر اس کے کہ میں وہ عذاب دیکھوں.حضرت مصلح موعودؓ آیت وَلَيُبَدِّلَهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے خوف کھایا ہو اور اگر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے امن سے بدل دیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمرؓ شہید ہو گئے مگر جب واقعات کو دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو اس شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا بلکہ وہ متواتر دعائیں کیا کرتے تھے کہ یا اللہ ! مجھے شہادت نصیب کر اور شہید بھی مجھے مدینہ میں کر.پس وہ شخص جس نے اپنی ساری عمر یہ دعائیں کرتے ہوئے گزار دی ہو کہ یا اللہ ! مجھے مدینہ میں شہادت دے.وہ اگر شہید ہو جائے تو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس پر ایک خوفناک وقت آیا مگر وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے امن سے نہ بدلا گیا.بیشک اگر حضرت عمرؓ شہادت سے ڈرتے اور پھر وہ شہید ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ان کے خوف کو خدا تعالیٰ نے امن سے نہ بدلا مگر وہ تو دعائیں کرتے رہتے تھے کہ یا اللہ ! مجھے مدینہ میں شہادت دے.پس ان کی شہادت سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ وہ شہادت سے ڈرتے بھی تھے اور جب وہ شہادت سے نہیں ڈرتے خلفاء پر ک

Page 256

صحاب بدر جلد 3 236 حضرت عمر بن خطاب تھے بلکہ اس کے لئے دعائیں کرتے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے قبول فرمالیا تو معلوم ہوا کہ اس آیت کے ما تحت ان پر کوئی ایسا خوف نہیں آیا جو ان کے دل نے محسوس کیا ہو اور اس آیت میں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہی ذکر ہے کہ خلفاء جس بات سے ڈرتے ہوں گے وہ بھی وقوع پذیر نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا مگر جب وہ ایک بات سے ڈرتے ہی نہ ہوں بلکہ اپنی عزت اور بلندی درجات کا موجب سمجھتے ہوں تو اسے خوف کہنا اور پھر یہ کہنا کہ اسے امن سے کیوں نہ بدل دیا گیا بے معنی بات ہے.“ یہ نکتہ بھی سمجھنے والا ہے.39066 آپ فرماتے ہیں کہ ”میں نے تو جب حضرت عمرؓ کی اس دعا کو پڑھا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس کا بظاہر یہ مطلب تھا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور اس کا حملہ اتنی شدت سے ہو کہ تمام مسلمان تباہ ہو جائیں.پھر وہ خلیفہ وقت تک پہنچے اور اسے بھی شہید کر دے.مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر کی دعا بھی قبول کرلی اور ایسے سامان بھی پیدا کر دیئے جن سے اسلام کی عزت قائم رہی.چنانچہ بجائے اس کے کہ مدینہ پر کوئی بیرونی لشکر حملہ آور ہو تا اندر سے ہی ایک خبیث اٹھا اور اس نے خنجر سے آپ کو شہید کر دیا.“ غلاموں کی آزادی کے حوالے سے اسلامی تعلیم بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت عمرؓ کی شہادت کے واقعہ کو لے کر لکھا ہے اور اس کا سبب بیان کیا ہے.فرمایا کہ ”پہلے تو یہ حکم دیا کہ تم احسان کر کے بغیر کسی تاوان کے ہی ان کو رہا کر دو“ یعنی غلاموں کو بغیر کسی تاوان کے رہا کر دو.پھر یہ کہا کہ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو تاوان وصول کر کے آزاد کر دو اور اگر کوئی شخص ایسارہ جائے.“ کوئی غلام ”جو خود تاوان ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کی حکومت بھی اس کے معاملہ میں کوئی دلچسپی.“ اور جہاں سے وہ آیا ہے جس حکومت کا وہ فرد ہے اس کو آزاد کرانے میں اس کی حکومت بھی کوئی دلچپسی نہ لیتی ہو اور اس کے رشتہ دار بھی لاپر واہ ہوں تو وہ تم کو نوٹس دے کر اپنی تاوان کی قسطیں مقرر کروا سکتا ہے.“ پھر وہ خود قیدی جو ہے وہ اپنی تاوان کی قسطیں مقرر کروا سکتا ہے.”ایسی صورت میں جہاں تک اس کی کمائی کا تعلق ہے قسط چھوڑ کر سب اسی کی ہو گی اور وہ عملاً پورے طور پر آزاد ہو گا.“ یعنی جتنی کمائی وہ کرے گا اس میں سے وہ قسط ادا کرے گا جو اس نے آزادی کے لیے رکھی ہے اور باقی آمد اس کی اپنی ہے اور یہ ایک طرح کی آزادی ہے.”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک ایسے غلام نے ہی مارا تھا جس نے مکاتبت کی ہوئی تھی.وہ غلام جس مسلمان کے پاس رہتا تھا ان سے ایک دن اس نے کہا کہ میری اتنی حیثیت ہے، آپ مجھ پر تاوان ڈال دیں.میں ماہوار اقساط کے ذریعہ آہستہ آہستہ تمام تاوان ادا کر دونگا.انہوں نے ایک معمولی سی قسط مقرر کر دی اور وہ ادا کر تا رہا.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس نے شکایت کی کہ میرے مالک نے مجھ پر بھاری قسط مقرر کر رکھی ہے آپ اسے کم کرا دیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے

Page 257

اصحاب بدر جلد 3 237 حضرت عمر بن خطاب اس کی آمدن کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جتنی آمد کے اندازہ پر قسط مقرر ہوئی تھی اس سے کئی گنازیادہ آمد وہ پیدا کرتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ اس قدر آمد کے مقابلہ میں تمہاری قسط بہت معمولی ہے اسے کم نہیں کیا جاسکتا.اس فیصلہ سے اسے سخت غصہ آیا اور اس نے سمجھا کہ میں چونکہ ایرانی ہوں اس لئے میرے خلاف فیصلہ کیا گیا ہے اور میرے مالک کا عرب ہونے کی وجہ سے لحاظ کیا گیا ہے.چنانچہ اس غصہ میں اس نے دوسرے ہی دن خنجر سے آپ پر حملہ کر دیا اور آپ انہی زخموں کے نتیجہ میں شہید ہو گئے.“391 حضرت مصلح موعود مزید بیان کرتے ہیں کہ ”دنیا میں دو ہی چیزیں راستی سے پھیرنے کا موجب ہوتی ہیں یا تو انتہائی بغض یا پھر انتہائی محبت.انتہائی بغض بسا اوقات معمولی واقعہ سے پیدا ہو جاتا ہے.حضرت عمرؓ کے وقت دیکھو کتنے معمولی واقعہ سے بغض بڑھا جس نے عالم اسلامی کو کتنا بڑا نقصان پہنچایا ہے.میں سمجھتا ہوں اس واقعہ کا اثر اب تک چلتا جا رہا ہے.حضرت عمرؓ کے وقت ایک مقدمہ آپ کے پاس آیا.کسی شخص کا غلام کما تا بہت تھا لیکن مالک کو دیتا کم تھا.حضرت عمرؓ نے اس غلام کو بلایا اور اسے کہا کہ مالک کو زیادہ دیا کرو.اس وقت چونکہ پیشہ ور کم ہوتے تھے اس لئے لوہاروں اور نجاروں کی بڑی قدر ہوتی تھی.وہ غلام آٹا پیسنے کی چکی بنایا کرتا تھا اور اس طرح کافی کماتا تھا.حضرت عمر نے ساڑھے تین آنے اس کے ذمہ لگا دیئے کہ مالک کو ادا کیا کرے.یہ کتنی قلیل رقم ہے مگر اس کا خیال تھا کہ حضرت عمرؓ نے غلط فیصلہ کیا ہے اس پر اس کے دل میں بغض بڑھنا شروع ہوا.ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے اسے کہا کہ ہمیں بھی چھکی بنا دو.اس پر کہنے لگا ایسی چکی بنادوں گا جو خوب چلے گی.یہ سن کر کسی نے حضرت عمرؓ سے کہا آپ کو دھمکی دے رہا ہے.“ یہ پہلا جو واقعہ ہے اس سے لگتا ہے کہ اسی سے ملتا جلتا ہے یا وہی واقعہ ہے اور اسی کا واقعہ ہے.بہر حال ہے اسی غلام کا.”آپ نے کہا الفاظ سے تو یہ بات ظاہر نہیں ہوتی.“ پہلی روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے خود کہا تھا کہ یہ دھمکی دے رہا ہے.”اس نے کہا لہجہ دھمکی آمیز تھا.آخر ایک دن حضرت عمر نماز پڑھ رہے تھے کہ اس غلام نے آپ کو منجر مار کر قتل کر دیا.“ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ ”وہ عمر جو کروڑوں انسانوں کا بادشاہ تھا، جو بہت وسیع مملکت کا حکمران تھا، جو مسلمانوں کا بہترین رہنما تھا ساڑھے تین آنے پر مار دیا گیا مگر بات یہ ہے کہ جن کی طبیعت میں بغض اور کینہ ہوتا ہے وہ ساڑھے تین آنے یا دو آنے نہیں دیکھتے وہ اپنی پیاس بجھانا چاہتے ہیں.ان کی طبیعت بغض کے لئے وقف ہوتی ہے.ایسی حالت میں وہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے لئے اور دوسروں کے لئے کیا نتیجہ ہو گا.حضرت عمرؓ کے قاتل سے جب دریافت کیا گیا کہ تو نے یہ سفاکانہ فعل کیوں کیا تو اس نے کہا انہوں نے میرے خلاف فیصلہ کیا تھا میں نے اس کا بدلہ لیا ہے.پہلے یہ تفصیل اس طرح بیان نہیں ہوئی.ہو سکتا ہے کہ اس وقت اس کو پکڑتے ہوئے تھوڑا سا وقت ملا ہو تو اس میں اس نے یہ کہہ دیا ہو کہ میں نے یہ قتل اس لئے کیا ہے اور پھر خودکشی بھی کر لی.

Page 258

محاب بدر جلد 3 238 حضرت عمر بن خطاب حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ”میں نے اس دردناک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے اس کا اسلام پر آج تک اثر ہے اور وہ اس طرح کہ گو موت ہر وقت لگی ہوتی ہے مگر ایسے وقت میں موت کے آنے کا خیال نہیں کیا جاتا جب قویٰ مضبوط ہوں لیکن جب قویٰ کمزور ہوں اور صحت انحطاط کی طرف ہو تو لوگوں کے ذہن خود بخود آئندہ انتظام کے متعلق سوچنا شروع کر دیتے ہیں.وہ ایک دوسرے سے اس بارے میں باتیں نہیں کرتے مگر خود بخود رو ایسی پیدا ہو جاتی ہے جو آئندہ انتظام کے متعلق غور کرنے کی تحریک کرتی ہے.اس وجہ سے جب امام فوت ہو تو لوگ چوکس ہوتے ہیں.چونکہ حضرت عمرؓ کے قویٰ مضبوط تھے گو ان کی عمر تریسٹھ سال کی ہو چکی تھی لیکن صحابہ کے ذہن میں یہ نہ تھا کہ حضرت عمران سے جلدی جدا ہو جائیں گے اس وجہ سے وہ آئندہ انتظام کے متعلق بالکل بے خبر تھے کہ یکدم حضرت عمر کی وفات کی مصیبت آپڑی.اس وقت جماعت کسی دوسرے امام کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھی.اس عدم تیاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عثمانؓ سے لوگوں کو وہ لگاؤ نہ پیدا ہوا جو ہونا چاہئے تھا.اس وجہ سے اسلام کی حالت بہت نازک ہو گئی اور حضرت علی کے وقت اور زیادہ نازک ہو گئی.3924 جو فساد بعد میں ہوئے یہ بھی ان کی ایک وجہ بیان کی ہے.آپ کے نزدیک یہ وجہ ہو سکتی ہے.فتنہ کے وقت چند آدمی نماز کے موقع پر حفاظت کے لیے کھڑے ہونے ضروری ہیں.یہ بھی حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ہے.اور اس ضمن میں حضرت عمرؓ کی شہادت کا واقعہ بیان کیا ہے.فرماتے ہیں کہ ” قرآن مجید کا صراحتاً حکم ہے کہ حفاظت کے لئے مسلمانوں میں سے آدھے کھڑے رہا کریں اور گو یہ جنگ کے وقت کی بات ہے جب ایک جماعت کی حفاظت کے لئے ضرورت ہوتی ہے لیکن اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ چھوٹے فتنے کے انسداد کے لئے اگر چند آدمی نماز کے وقت کھڑے کر دیئے جائیں تو یہ قابل اعتراض امر نہیں بلکہ ضروری ہو گا کہ یہ کس طرح کیا جائے؟ فرماتے ہیں کہ ”اگر جنگ کے وقت ہزار میں سے پانچ سو حفاظت کے لئے کھڑے کئے جاسکتے ہیں تو کیا معمولی خطرے کے وقت ہزار میں سے پانچ دس آدمی حفاظت کے لئے کھڑے نہیں کئے جاسکتے؟ یہ کہنا کہ خطرہ غیر یقینی ہے بیہودہ بات ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ہوا.آپ نماز پڑھ رہے تھے.مسلمان بھی نماز میں مشغول تھے کہ ایک بدمعاش شخص نے سمجھا یہ وقت حملہ کرنے کے لئے موزوں ہے وہ آگے بڑھا اور اس نے خنجر سے وار کر دیا.اس واقعہ کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ نماز کے وقت پہرہ دینا اس کے اصول یا وقار کے خلاف ہے.“ یعنی نماز کے اصول یا وقار کے خلاف ہے تو سوائے اپنی حماقت کے مظاہرہ کرنے کے اور وہ کچھ نہیں کرتا.اس کی مثال اس بیوقوف کی سی ہے جو لڑائی میں شامل ہوا اور ایک تیر اسے آلگا جس سے خون بہنے لگا.وہ میدان سے بھاگا اور خون پونچھتا ہوا یہ کہتا چلا گیا کہ یا اللہ ! یہ خواب ہی ہو “ یہ سچی بات نہ ہو کہ تیر مجھے لگ گیا ہے.تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ ایک موقع پر صحابہ نے اپنی حفاظت کا انتظام نہ کیا تو انہیں سخت تکلیف اٹھانی پڑی.چنانچہ حضرت عمر و بن العاص جب

Page 259

تاب بدر جلد 3 239 حضرت عمر بن خطاب 394 مصر کی فتح کے لئے گئے اور انہوں نے علاقہ کو فتح کر لیا تو اس کے بعد جب وہ نماز پڑھاتے تو پہرہ کا انتظام نہ کرتے.دشمنوں نے جب دیکھا کہ مسلمان اس حالت میں بالکل غافل ہوتے ہیں تو انہوں نے ایک دن مقرر کر کے چند سو مسلح آدمی عین اس وقت بھیجے.جب مسلمان سجدہ میں تھے پہنچتے ہی انہوں نے تلواروں سے مسلمانوں کے سر کاٹنے شروع کر دیئے.تاریخ سے ثابت ہے کہ سینکڑوں صحابہ اس دن مارے گئے یازخمی ہوئے.ایک کے بعد دوسراسر زمین پر گرتا اور دوسرے کے بعد تیسر ا اور ساتھی سمجھ ہی نہ سکتے کہ یہ کیا ہو رہا ہے حتی کہ شدید نقصان لشکر کو پہنچ گیا.حضرت عمرؓ کو جب معلوم ہو ا تو آپ نے انہیں بہت ڈانٹا اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ حفاظت کا انتظام رکھنا چاہئے مگر انہیں“ یعنی حضرت عمرؓ کو کیا معلوم تھا کہ مدینہ میں بھی ایسا ہی ان کے ساتھ ہونے والا ہے.اس واقعہ کے بعد صحابہ نے یہ انتظام کیا کہ جب بھی نماز پڑھتے ہمیشہ حفاظت کے لئے پہرے رکھتے.393 حضرت عمر کے قرض کے بارے میں پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے.آپ نے پوچھا تھا اور پھر اپنے بیٹے کو فرمایا تھا.اس بارے میں مزید یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ عبد اللہ بن عمر د یکھو مجھ پر کتنا قرض ہے ؟ انہوں نے حساب کیا تو چھیاسی ہزار درہم نکلے.آپؐ نے فرمایا: اے عبد اللہ ! اگر آلِ عمر کا مال اس کے لیے کافی ہو تو ان کے مال سے میرا یہ قرض ادا کر دینا.اگر ان کا مال کافی نہ ہو تو بنو عدی بن کعب سے مانگنا.اگر وہ بھی کافی نہ ہو تو قریش سے مانگنا اور ان کے علاوہ کسی اور سے نہ کہنا.4 صحابہ کرام جانتے تھے کہ ہمارا یہ سادہ زندگی بسر کرنے والا امام اتنی بڑی رقم اپنے اوپر خرچ کرنے والا نہیں ہے.انہیں معلوم تھا کہ جو اتنا قرض چڑھایا تھا، یہ رقم بھی انہوں نے ضرورت مندوں اور غریبوں پر ہی خرچ کی تھی.اس لیے عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آپ بیت المال سے قرض لے کر اپنا یہ قرض کیوں نہیں ادا کر دیتے ؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا معاذ اللہ ! کیا تم چاہتے ہو کہ تم اور تمہارے ساتھی میرے بعد یہ کہیں کہ ہم نے تو اپنا حصہ عمرؓ کے لیے چھوڑ دیا.تم اب تو مجھے تسلی دے دو مگر میرے پیچھے ایسی مصیبت پڑ جائے کہ اس سے نکلے بغیر میرے لیے نجات کی کوئی راہ نہ ہو.پھر حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمرؓ سے فرمایا.میرے قرض کی ذمہ داری قبول کرو.چنانچہ انہوں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی.حضرت عمرؓ ا بھی دفن نہیں کیے گئے تھے کہ ان کے بیٹے نے ارکانِ شوری اور چند نصاریٰ کو اپنی اس ضمانت پر گواہ بنایا جو قرض کی ذمہ داری لی تھی اور حضرت عمر کی تدفین کے بعد ابھی جمعہ نہیں گزرا تھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر قرض کی رقم لے کر حضرت عثمان کی خدمت میں پہنچے اور چند گواہوں کے سامنے اس بار سے سبکدوش ہو گئے.قرض کی ادائیگی کے متعلق ایک اور روایت کتاب ”وفاء الوفاء میں ملتی ہے.حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کے ذمہ قرض تھا.آپ نے حضرت عبد اللہ اور حضرت حفصہ کو بلایا اور کہا میرے ذمہ اللہ کے مال میں سے کچھ قرض ہے اور میں چاہتا ہوں کہ 395

Page 260

اصحاب بدر جلد 3 240 حضرت عمر بن خطاب میں اللہ کو اس حال میں ملوں کہ میرے ذمہ کوئی قرض نہ ہو.پس تم اس قرض کو پورا کرنے کے لیے اس مکان کو بیچ دینا جس میں رہتے تھے.پس اگر کچھ مال کم رہ جائے تو بنو عدی سے مانگنا.اگر پھر بھی بچ جائے تو قریش کے بعد کسی کے پاس نہ جانا.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ان کی، حضرت عمر کی وفات کے بعد حضرت معاویہ کے پاس گئے اور آپ نے، حضرت معاویہ نے حضرت عمر کا گھر خرید لیا جس کو دارالقضاء کہا جاتا ہے.آپ نے وہ مکان بیچ دیا اور حضرت عمر کا قرض ادا کر دیا.اس لیے اس گھر کو دَارُ قَضَاءِ دَيْنِ عُمر کہا جانے لگا یعنی وہ گھر جس کے ذریعہ حضرت عمرؓ کے قرض کو ادا کیا گیا تھا.396 حضرت عبید اللہ بن عمر جب حضرت عثمان سے الجھے ہیں تو اس وقت تک ابھی حضرت عثمان خلافت کے مسند پر فائز نہیں ہوئے تھے.پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ عبید اللہ کا ارادہ تھا کہ وہ آج مدینہ کے کسی قیدی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے.397 مہاجرین اولین ان کے خلاف اکٹھے ہو گئے اور انہیں روکا اور انہیں دھمکی دی تو وہ مہاجرین کو بھی خاطر میں نہ لائے اور انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں انہیں یعنی جتنے بھی قیدی ہیں، غلام ہیں، ضرور قتل کروں گا.حتی کے عمرو بن عاص ان کے ساتھ مسلسل لگے رہے یہاں تک کہ انہوں نے تلوار عمر و بن عاص کے حوالے کر دی.پھر سعد بن ابی وقاص سمجھانے کے لیے ان کے پاس آئے تو ان سے بھی عبید اللہ بن عمرؓ نے لڑائی کی.جیسا کہ بیان ہوا تھا کہ حضرت عثمان سے لڑائی ہوئی اور لوگوں نے بیچ بچاؤ کر وایا.اس ضمن میں یہ ذکر ملتا ہے کہ جب یہ واقعہ ہوا تو ابھی حضرت عثمان کی بیعت نہیں کی گئی تھی.یعنی حضرت عثمان اس وقت تک خلیفہ منتخب نہیں ہوئے تھے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے.اسی طرح یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ حضرت عبید اللہ کو اس کے بعد قید بھی کر لیا گیا تھا.حضرت عثمان کی بیعت کے بعد جب خلافت پر متمکن ہوئے تو حضرت عبید اللہ کو حضرت عثمان کے سامنے پیش کیا گیا تو امیر المومنین نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ مجھے اس کے بارے میں رائے دو جس نے اسلام میں رخنہ ڈالا ہے.حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا کہ اسے چھوڑ نا انصاف سے بعید ہے، میری رائے میں اس کو یعنی تعبید اللہ بن عمر کو قتل کر دینا چاہیے لیکن بعض مہاجرین نے اس رائے کو نا قابل برداشت، شدت اور سختی پر محمول کیا اور کہا کہ کل عمرہ قتل کیے گئے اور آج ان کا بیٹا قتل کر دیا جائے.اس اعتراض نے حاضرین کو مغموم کر دیا اور حضرت علی بھی خاموش رہے لیکن بہر حال پھر حضرت عثمان نے چاہا کہ حاضرین میں سے کوئی شخص اس نازک صورت حال سے عہدہ برا ہونے کی کوئی راہ نکالے، مشورہ دے.حضرت عمرو بن عاص اس مجلس میں موجود تھے.انہوں نے کہا کہ اللہ نے آپ کو اس سے معاف رکھا ہے.یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ مسلمانوں کے امیر نہیں تھے اور چونکہ یہ واقعہ آپ کے عہد خلافت میں نہیں ہوا اس لیے آپ پر اس کی کوئی ذمہ داری شخص

Page 261

محاب بدر جلد 3 241 حضرت عمر بن خطاب عائد نہیں ہوتی لیکن حضرت عثمانؓ ان کی اس رائے سے مطمئن نہیں ہوئے اور بہتر یہی سمجھا کہ خون بہا ادا کیا جائے.چنانچہ فرمایا: میں ان مقتولین کا ولی ہوں اس لیے خون بہا مقرر کر کے اپنے مال سے ادا کروں گا.398 اس بارے میں ایک یہ رائے ہے.تاریخ طبری کے مطابق حضرت عثمانؓ نے حضرت عبید اللہ کو ہر مزان کے بیٹے کے سپر د کر دیا تھا کہ وہ اپنے باپ کے بدلے میں قصاص کے طور پر قتل کر دے لیکن بیٹے نے معاف کر دیا.حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کو بیان فرمایا ہے اور ایک مسئلہ کے حل کے بیان میں اس کی تفصیل میں لکھا ہے جو میں ایک گذشتہ خطبہ میں بیان کر چکا ہوں تاہم یہاں وضاحت کے لیے دوبارہ بیان کرتا ہوں کہ کیا مقتول کا فر معاہد کے بدلے میں مسلمان قاتل کو سزا دی جا سکتی ہے ؟ معاہد کا فر کے بدلے میں مسلمان قاتل کو سزا دی جاسکتی ہے کہ نہیں؟ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ طبری میں قُهَا ذُبَان بن هُوَ مُزَان اپنے والد کے قتل کا واقعہ بیان کرتا ہے.ہر مزان ایک ایرانی رئیس اور مجوسی المذہب تھا اور حضرت عمر خلیفہ ثانی کے قتل کی سازش میں شریک ہونے کا شبہ اس پر کیا گیا تھا.اس پر بلا تحقیق جوش میں آکر عبید اللہ بن عمرؓ نے اس کو قتل کر دیا.وہ بیٹا کہتا ہے کہ ایرانی لوگ مدینہ میں ایک دوسرے سے ملے جلے رہتے تھے جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دوسرے ملک میں جا کر وطنیت نمایاں ہو جاتی ہے.ایک دن فیروز قاتل جو حضرت عمر کا تھا میرے باپ سے ملا اور اس کے پاس ایک خنجر تھا جو دونوں طرف سے تیز کیا ہوا تھا.میرے باپ نے ( یہ ھرمز ان کا بیٹا بیان کر رہا ہے) کہ میرے باپ نے اس خنجر کو پکڑ لیا اور اس سے دریافت کیا کہ اس ملک میں تو اس خنجر سے کیا کام لیتا ہے یعنی یہ ملک تو امن کا ملک ہے.اس میں ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے ؟ اس نے کہا کہ میں اس سے اونٹ ہنکانے کا کام لیتا ہوں.جب وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے تو اس وقت کسی نے ان کو دیکھ لیا اور جب حضرت عمر مارے گئے تو اس نے بیان کیا کہ میں نے خود ھرمزان کو یہ خنجر فیروز کو پکڑاتے ہوئے دیکھا تھا.اس پر عبید اللہ حضرت عمرؓ کے چھوٹے بیٹے نے جا کر میرے باپ کو قتل کر دیا.جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا اور عبید اللہ کو پکڑ کر میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ اے میرے بیٹے ! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تُو ہماری نسبت اس پر زیادہ حق رکھتا ہے.پس جا اور اس کو قتل کر دیے.میں نے اس کو پکڑ لیا اور شہر سے باہر نکلا.راستہ میں جو شخص مجھے ملتا میرے ساتھ ہو جاتا لیکن کوئی شخص مقابلہ نہ کرتا.وہ مجھ سے صرف اتنی درخواست کرتے تھے کہ میں اسے چھوڑ دوں.پس میں نے سب مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا میرا حق ہے کہ میں اسے قتل کر دوں؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں تمہارا حق ہے اسے قتل کر دو، اور عبید اللہ کو بھلا برا کہنے لگے کہ اس نے ایسا بُرا کام کیا ہے.پھر میں نے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کو حق ہے کہ اسے مجھ سے چھڑالو؟ انہوں نے کہا کہ ہر گز نہیں اور پھر عبید اللہ کو برا بھلا کہا کہ اس نے بلا ثبوت اس کے باپ کو قتل کر دیا.اس پر میں نے خدا اور ان لوگوں کی خاطر اس کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں رض

Page 262

اصحاب بدر جلد 3 242 حضرت عمر بن خطاب نے فرط مسرت سے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور خدا تعالیٰ کی قسم ! میں اپنے گھر تک لوگوں کے سروں اور کندھوں پر پہنچا اور انہوں نے مجھے زمین پر قدم تک نہیں رکھنے دیا.اس روایت سے ثابت ہے کہ صحابہ کا طریق عمل بھی یہی رہا ہے کہ وہ غیر مسلم کے مسلم قاتل کو سزائے قتل دیتے تھے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خواہ کسی ہتھیار سے کوئی شخص مارا جائے وہ مارا جائے گا.اسی طرح یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ قاتل کو گرفتار کرنے والی اور اس کو سزا دینے والی حکومت ہی ہے کیونکہ اس روایت سے ظاہر ہے کہ عبید اللہ بن عمرؓ کو گرفتار بھی حضرت عثمان نے ہی کیا اور اس کو قتل کے لیے ھر مزان کے بیٹے کے سپرد بھی انہوں نے ہی کیا تھا.نہ ہر مز ان کے کسی وارث نے اس پر مقدمہ چلایا اور نہ گرفتار کیا.اس جگہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس شبہ کا ازالہ بھی کر دینا ضروری ہے کہ قاتل کو سزا دینے کے لیے آیا مقتول کے وارثوں کے سپرد کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت عثمان نے کیا یا خود حکومت کو سزا دینی چاہیے.سو یا د رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ ایک جزوی معاملہ ہے اس لیے اس کو اسلام نے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق عمل کرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے.قوم اپنے تمدن اور حالات کے مطابق جس طریق کو زیادہ مفید دیکھے اختیار کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں طریق ہی خاص خاص حالات 399 میں مفید ہوتے ہیں.حضرت عمر فما عجز وانکسار یہ وضاحت کرنے کے بعد اب میں حضرت عمرؓ کے کچھ اور واقعات کا ذکر کرتا ہوں.وفات کے وقت حضرت عمرؓ کے الحاح اور عجز و انکسار کا کیا حال تھا؟ اس بارے میں ان کے بیٹے روایت کرتے ہیں کہ : انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ میرے کفن میں میانہ روی سے کام لینا.اگر اللہ کے پاس میرے لیے خیر ہو گی تو مجھے اس سے اچھے لباس سے بدل دے گا.اگر میں اس کے سوا ہوں گا تو مجھ سے چھین لے گا اور چھینے میں تیزی کرے گا اور یہ بھی کہ میری قبر کے متعلق بھی میانہ روی سے کام لینا.اگر اللہ کے پاس میرے لیے اس میں خیر ہے تو اس کو اتنا وسیع کر دے گا جہاں تک میری نظر جائے گی اور اگر میں اس کے سوا ہوا تو وہ اسے مجھ پر تنگ کر دے گا کہ میری پسلیاں ٹوٹ جائیں گی.اور پھر میرے جنازے کے ساتھ کسی عورت کو نہ لے کر جانا.میری ایسی تعریف نہ بیان کرنا جو مجھ میں نہیں ہے کیونکہ اللہ مجھے زیادہ جانتا ہے.اور جب تم مجھے لے جانے لگو تو چلنے میں جلدی کرنا.اگر میرے لیے اللہ کے پاس خیر ہے تو تم مجھے اس چیز کی طرف بھیجے ہو جو میرے لیے زیادہ بہتر ہے اور اگر اس کے سوا ہو تو تم اپنی گردن سے اس شر کو ٹال دو گے جو تم اٹھائے ہوئے ہو.400 اس کے علاوہ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے وصیت کی تھی کہ مجھے مسک یعنی کستوری وغیرہ سے غسل نہ دینا.201

Page 263

حاب بدر جلد 3 402 243 حضرت عمر بن خطاب حضرت عثمان بن عفان سے مروی ہے کہ میں حضرت عمرؓ کے پاس گیا جب ان کا سر ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر کی ران پر تھا.حضرت عمرؓ نے ان کو یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر کو کہا کہ میرا رخسار زمین پر رکھ دو.حضرت عبد اللہ نے کہا میری ران اور زمین برابر ہی ہے یعنی اس میں فاصلہ ہی کتنا ہے.حضرت عمر نے دوسری یا تیسری مرتبہ کہا کہ تیر ابھلا ہو میر ار خسار زمین پر رکھ دو.پھر آپ (حضرت عمر نے اپنی ٹانگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملالیا.راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے آپ (حضرت عمرؓ) کو کہتے ہوئے سنا کہ میری اور میری ماں کی ہلاکت ہو گی اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے نہ بخشا یہاں تک کہ آپؐ کی وفات ہو گئی.12 حضرت ساک حنفی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عمرؓ سے کہا اللہ نے آپ کے ذریعہ سے نئے شہر آباد کیے اور آپ کے ذریعہ سے بہت سی فتوحات حاصل ہو ئیں اور آپ کے ذریعہ سے فلاں فلاں کام ہوا.اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میری تو تمنا ہے کہ اس سے ایسے نجات پا جاؤں کہ نہ میرے لیے کوئی اجر ہو اور نہ کوئی بوجھ.یعنی اس بات پر فخر نہیں کہ ہاں میں نے بڑے بڑے کام کیے ہیں اور میرے وقت میں بڑی فتوحات ہوئی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت غالب رہے اور اپنی آخرت کی فکر تھی.زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے فرمایا تم لوگ امارت کے بارے میں مجھ پر شک کرتے ہو.خدا کی قسم !مجھے تو یہ پسند ہے کہ میں اس طرح نجات پا جاؤں کہ لا على ولائي کہ نہ مجھ پر کچھ عذاب ہو اور نہ میرے لیے کوئی ثواب یا جزا ہو.403 حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ”حضرت عمر جیسا انسان جنہوں نے اپنی ساری عمر ہی ملت اسلامیہ کے غم اور فکر میں گھلادی.جنہوں نے ہر موقعہ پر اعلیٰ سے اعلیٰ قربانی کی گو عمل کے لحاظ سے ان کی قربانیاں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی قربانیوں تک نہ پہنچیں لیکن ارادہ اور نیت کے لحاظ سے سب کی برابر تھیں.جب ابو بکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور انہوں نے کہا: خدا تعالیٰ ابو بکر رضی اللہ عنہ پر برکت کرے میں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ ان سے بڑھ جاؤں مگر کبھی کامیاب نہ ہوا.ایک دفعہ رسول کریم صلی علیم نے فرمایا: مال لاؤ تو میں اپنا نصف مال لے گیا اور خیال کیا کہ آج میں ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ جاؤں گا مگر ابو بکر رضی اللہ عنہ مجھ سے پہلے وہاں پہنچے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی علیہ نیم کا چونکہ ان سے رشتہ بھی تھا اور جانتے تھے کہ انہوں نے کچھ نہیں چھوڑا ہو گا اس لئے آپ دریافت فرما رہے تھے کہ ابو بکر گھر کیا چھوڑا؟ انہوں نے کہا گھر گھر میں ”خدا اور رسول کا نام چھوڑا ہے.یہ کہہ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ روتے اور فرماتے میں اس وقت بھی ان سے نہ بڑھ سکا.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ”یہ ان کی قربانیاں تھیں.

Page 264

حاب بدر جلد 3 244 حضرت عمر بن خطاب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پہلے بھی دیتے رہتے تھے لیکن جب خاص موقعہ آیا تو سب کچھ لا کر رکھ دیا.ایک طرف تو یہ لوگ تھے اور ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے مال کے دسویں حصہ کی قربانی کا بھی موقعہ نہیں ملتا اور کہتے ہیں ہم لٹ گئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب فوت ہونے لگے تو بار بار ان کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں اور کہتے خدایا میں کسی انعام کا مستحق نہیں ہوں.میں تو صرف یہی چاہتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں.404❝ تدفین اور نماز جنازہ پھر تدفین اور جنازے کے بارے میں بیان ہوتا ہے کہ آپ کے بیٹے حضرت عبد اللہ نے آپ کو غسل دیا.حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ مسجد نبوی میں حضرت عمرؓ کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور حضرت صہیب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.آپ کی نماز جنازہ رسول اللہ صلی علیکم کے منبر اور روضہ کے درمیان والی جگہ پر ادا کی گئی.حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضرت عمر کو قبر میں اتارنے کے لیے عثمان بن عفان، سعید بن زید ، صہیب بن سنان اور عبد اللہ بن عمرؓ اترے تھے.405 406 ان کے علاوہ حضرت علیؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بن عوام کا نام بھی آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں صلحاء کے پہلو میں دفن بھی ایک نعمت ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ مرض الموت میں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہلا بھیجا کہ آنحضرت مصلی للی نیم کے پہلو میں جو جگہ ہے انہیں دی جاوے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایثار سے کام لے کر وہ جگہ ان کو دے دی تو فرمایا.مابقى لي هَم بَعْدَ ذَالِكَ.یعنی اس کے بعد اب مجھے کوئی غم نہیں جبکہ میں آنحضرت صلی ال نام کے روضہ میں مدفون ہوں.“ الله سة ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : 407" ”جو شخص بکمال شوق اللہ کے دامن سے وابستہ ہو جاتا ہے تو وہ اسے ہر گز ضائع نہیں کرتا خواہ دنیا بھر کی ہر چیز اس کی دشمن ہو جائے.اور اللہ کا طالب کسی نقصان اور تنگی کا منہ نہیں دیکھتا.اور اللہ صادقوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا.اللہ اکبر ! ان دونوں ( ابو بکر و عمر) کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے وہ دونوں ایسے (مبارک) مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو بصد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے لیکن یہ مقام محض تمنا سے تو نہیں حاصل ہو سکتا اور نہ صرف خواہش سے عطا کیا جاسکتا ہے بلکہ یہ تو بارگاہ رب العزت کی طرف سے ایک ازلی رحمت ہے اور یہ رحمت صرف انہی لوگوں کی طرف رخ کرتی ہے جن کی طرف عنایت ( الہی) ازل سے متوجہ ہو.408 حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ ”جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہونے لگے تو انہوں

Page 265

اصحاب بدر جلد 3 245 حضرت عمر بن خطاب نے اس بات کے لئے بڑی تڑپ ظاہر کی کہ آپ کو رسول کریم صلی علی ایم کے قدموں میں دفن ہونے کی جگہ مل جائے.چنانچہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہلا بھیجا کہ اگر اجازت دیں تو مجھے آپ کے پہلو میں دفن کیا جائے.حضرت عمر وہ انسان تھے جن کے متعلق عیسائی مؤرخ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسی حکومت کی جو دنیا میں اور کسی نے نہیں کی.وہ رسول کریم صلی ا یکم کو گالیاں دیتے ہیں “ یعنی عیسائی مؤرخین ”مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہیں.ایسا شخص ہر وقت کی صحبت میں رہنے والا مرتے وقت یہ حسرت رکھتا ہے کہ رسول کریم صلی ال نیلم کے قدموں میں “ جو آنحضرت صلی الم کی صحبت میں رہا مرتے وقت بھی یہ حسرت کرتا ہے کہ رسول کریم صلی الیکم کے قدموں میں اسے جگہ مل جائے.اگر رسول کریم ملی ایم کے کسی فعل سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی کہ آپ خدا کی رضا کے لئے کام نہیں کرتے تو کیا حضرت عمرؓ جیسا انسان اس درجہ کو پہنچ کر کبھی یہ خواہش کرتا کہ آپ کے قدموں میں جگہ پائے.“ پس یہ آنحضرت صلی علیہ کہ کا مقام ہے جس کی وجہ سے حضرت عمر کی بھی خواہش ہوئی کہ آپ کے 409❝ قدموں میں جگہ پائیں.حضرت عمر کی وفات.حضرت عمر کی وفات کے وقت کیا عمر تھی؟ اس بارے میں بھی مختلف رائے ہیں.سن پیدائش کے متعلق مختلف روایات ہیں.اس لیے آپ کی وفات کے وقت عمر کے بارے میں مختلف اقوال ہیں.چنانچہ تاریخ طبری، اسد الغابہ، البدایۃ والنھایہ ، ریاض النظرة، تاریخ الخلفاء کی مختلف روایات میں آپ کی عمر ترین سال، پچپن سال، ستاون سال، انسٹھ سال، اکسٹھ سال، تریسٹھ سال اور پینسٹھ سال بیان ہوتی ہے.110 البتہ صحیح مسلم اور ترمذی کی روایت کے مطابق آپ کی عمر تریسٹھ سال بیان کی گئی ہے.حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ وفات کے وقت رسول اللہ صلی علیکم کی عمر تریسٹھ برس تھی.حضرت ابو بکر کی وفات کے وقت عمر تریسٹھ برس تھی اور حضرت عمر کی بھی وفات کے وقت عمر تریسٹھ برس تھی.411 حضرت عمر کی وفات پر بعض صحابہ کرام کے تاثرات کے بارے میں یہ بیان ہوا ہے.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر کا جسد مبارک جنازے کے لیے رکھا گیا اور لوگ ان کے گرد کھڑے ہو گئے.ان کے اٹھانے سے پہلے دعا کرنے لگے.پھر نماز جنازہ پڑھنے لگے اور میں بھی ان میں موجود تھا تو ایک شخص نے میرا کندھا پکڑ کر چونکا دیا.کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت علی بن ابوطالب ہیں.آپ نے حضرت عمر کے لیے رحمت کی دعاکی اور کہا کہ آپ نے کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جو آپ سے بڑھ کر مجھے اس لحاظ سے پیارا ہو کہ میں اس کے اعمال جیسے عمل کرتے ہوئے اللہ سے ملوں.بخدا میں یہی سمجھتا تھا کہ اللہ آپ کو بھی آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا یعنی حضرت عمر کو بھی آپ

Page 266

اصحاب بدر جلد 3 246 حضرت عمر بن خطاب کے ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا اور میں جانتا ہوں کہ نبی کریم صلی این ولیم سے بہت دفعہ میں یہ سنا کرتا تھا، آپ فرمایا کرتے تھے کہ ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وغمر.میں اور ابو بکر اور عمر گئے.میں اور ابو بکر اور عمر داخل ہوئے.میں اور ابو بکر اور عمر نکلے.412 یعنی مختلف واقعات بیان کرتے ہوئے آپ یہ فقرے فرمایا کرتے تھے.جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب کو غسل اور کفن دے دیا گیا اور آپ کو چارپائی پر رکھ دیا گیا تو حضرت علی نے ان کے پاس کھڑے ہو کر آپ کی تعریف فرمائی اور کہا اللہ کی قسم! مجھے اس چادر میں ڈھکے ہوئے انسان سے زیادہ روئے زمین پر کوئی شخص پسند نہیں کہ میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ خدا سے ملوں.413 ابو مخلد سے روایت ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی علی نیم فوت نہیں ہوئے تھے کہ ہم نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی یام کے بعد ابو بکر ہم میں افضل ہیں اور حضرت ابو بکر فوت نہیں ہوئے تھے کہ ہم نے جان لیا کہ حضرت ابو بکر کے بعد ہم میں حضرت عمر سب سے افضل ہیں.414 زید بن وهب بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس آئے.آپ حضرت عمر کا ذکر کرتے ہوئے اتنا روئے کہ آپ کے آنسو گرنے سے کنکر بھی تر ہو گئے.پھر آپ نے کہا حضرت عمرؓ اسلام کے لیے حصن حصین تھے.لوگ اس میں داخل ہوتے اور باہر نہ نکلتے.ایک مضبوط قلعہ تھے لوگ اس میں داخل ہوتے اور باہر نہ نکلتے.جب آپ کی وفات ہوئی تو اس قلعہ میں دراڑ پڑ گئی اور لوگ اسلام سے نکل رہے ہیں.15 ابو وائل سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ اگر حضرت عمر کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور باقی تمام انسانوں کا علم دوسرے پلڑے میں تو حضرت عمر کا پلڑا بھاری ہو گا.ابو وائل نے کہا کہ میں نے اس کا ذکر ابراہیم سے کیا تو انہوں نے کہا خدا کی قسم ! ایسا ہی ہے.عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس سے بھی بڑھ کر کہا کہ میں نے پوچھا کیا کہا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جب حضرت عمر کی وفات ہو گئی تو انہوں نے یہ کہا کہ علم کے دس میں سے نو حصے جاتے رہے.416 حضرت انس نے کہا کہ جب حضرت عمر بن خطاب کی شہادت ہوئی تو حضرت ابو طلحہ نے کہا: عرب میں کوئی شہری یا بد وی گھر ایسا نہیں مگر اس کے گھر کو حضرت عمر کی شہادت سے نقصان پہنچا ہے.417 یعنی ہر ایک کی اتنی مدد کرتے تھے کہ یقینا ان کو نقصان پہنچے گا.یہ لوگ متاثر ہوں گے.حضرت عبد اللہ بن سلام نے حضرت عمرؓ کے جنازے کے بعد حضرت عمر کی چارپائی کے پاس کھڑے ہو کر کہا اے عمر! آپ کیا ہی عمدہ اسلامی بھائی تھے.حق کے لیے سخی اور باطل کے لیے بخیل تھے.رضامندی کے اظہار کے وقت آپ راضی ہوتے اور غصہ کے وقت آپ غصہ کرتے.پاک نظر

Page 267

اصحاب بدر جلد 3 247 حضرت عمر بن خطاب 418 اور عالی ظرف والے تھے.نہ بے جا تعریف کرنے والے تھے اور نہ ہی غیبت کرنے والے تھے.8 ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عمر کی وفات پر حضرت سعید بن زید روئے تو کسی نے کہا اے ابو الاخور ! آپ کیوں روتے ہیں؟ انہوں نے کہا میں اسلام پر روتا ہوں.یقیناً حضرت عمر کی وفات سے اسلام میں ایسار خنہ پید اہو گیا ہے جو قیامت تک پر نہیں ہو گا.419 حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یی کم کی زندگی میں ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ کی ابو نبی صلی الم کی امت میں آپ کے بعد سب سے افضل حضرت ابو بکر ہیں.پھر حضرت عمر، پھر حضرت عثمان ہیں رضی اللہ عنہم.20 حضرت حذیفہ نے کہا کہ حضرت عمرؓ کے دور میں اسلام کی مثال اس شخص کی طرح تھی جو مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن تھا.جب آپ کی شہادت ہو گئی تو وہ دور پیٹھ پھیر گیا اور مسلسل پیچھے جاتا جا رہا ہے.421 حضرت عمر کی ازواج اور اولاد کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ آپ کی مختلف وقتوں میں دس بیویاں تھیں جن میں سے نو بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں.ان میں سے ایک حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں جنہیں آنحضرت صلی المی کم کی زوجہ مطہرہ بننے کی سعادت ملی.حضرت زینب بنت مطعون پہلی تھیں.یہ حضرت عثمان بن مظعون کی بہن تھیں.ان سے آپ کی اولاد عبد اللہ، عبد الرحمن اکبر اور حضرت حفصہ ہیں.حضرت ام کلثوم بنت علی بن ابو طالب: ان سے آپ کی اولاد زید اکبر اور رقیہ ہیں.ملیکہ بنت جرول: ان کو ام کلثوم بھی کہتے ہیں.ان سے آپ کی اولاد زید اصغر اور عبید اللہ ہیں.قریبہ بنتِ ابو امیہ مخزومی: چونکہ ملیگہ اور قریبہ ایمان نہیں لائی تھیں اس لیے حضرت عمرؓ نے چھ ہجری میں ان دونوں کو طلاق دے دی تھی.حضرت جمیلہ بنت ثابت : ان کا نام عاصیہ تھا آنحضور صلی ا ہم نے تبدیل کر کے جمیلہ رکھ دیا تھا.یہ بدری صحابی عاصم بن ثابت کی بہن تھیں.ان سے آپ کی اولاد عاصم ہیں.لھيَّه سے آپ کی اولاد عبد الرحمن اوسط ہیں.ایک اور آپ کی بیوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ام ولد ہیں یعنی کہ وہ لونڈی جس سے شادی کی جاتی ہے.اس کی اولاد ہو تو وہ آزاد ہو جاتی ہے.ایک اور ام ولد تھیں جن کے بطن سے عبد الرحمن اصغر پیدا ہوئے.حضرت ام حکیم بنت حارث سے آپ کی اولاد فاطمہ تھیں.فریقہ سے آپ کی اولاد زینب تھیں.حضرت عاتکہ بنت زید : ان سے آپ کی اولا د عیاض ہے.422 مشہور مستشرق ایڈورڈ گبن حضرت عمرؓ کی تعریف میں لکھتا ہے کہ حضرت عمر کی پر ہیز گاری اور عاجزی حضرت ابو بکر کی نیکیوں سے کم نہ تھی.آپ کے کھانے میں جو کی روٹی اور کھجوریں ہی ہوتی تھیں.پانی آپ کا مشروب تھا.آپ نے لوگوں کو تبلیغ کی اس حال میں کہ آپ کا چوغہ بارہ جگہوں سے پھٹا ہوا تھا.ایرانی گورنر جنہوں نے اس فاتح کو خراج عقیدت پیش کیا انہوں نے آپ کو مسجد نبوی

Page 268

اصحاب بدر جلد 3 248 حضرت عمر بن خطاب کی سیڑھیوں پر فقیروں کے ساتھ سوتے دیکھا.معیشت منبع ہوتی ہے آزاد خیالی کا اور آمدنی میں اضافے کے باعث عمر اس قابل ہوئے کہ مخلصین کی ماضی اور حال کی خدمات کے باعث ان کے لیے وظیفہ کا منصفانہ اور مستقل نظام قائم کر سکیں.اپنے وظیفہ سے بے نیاز تھے.آپ نے عباس (نبی صلی علیکم کے چا) کے لیے سب سے پہلا اور ضرورت کے لیے کافی پچیس ہزار درہم یا چاندی کے ٹکڑے و ظیفہ مقرر کیا.جنگ بدر میں شامل ہونے والے بزرگ صحابہ میں سے ہر ایک کے لیے پانچ ہزار درہم کا وظیفہ مقرر کیا.محمدصلی علیکم کے دیگر صحابہ کو سالانہ انعام کے طور پر تین ہزار چاندی کے ٹکڑوں سے نوازا گیا.423 ہے.یہ عظ مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب The Hundred میں تاریخ کی سو بااثر شخصیات کا ذکر کیا ہے اور پہلے نمبر پر حضرت محمد مصطفی صلی میں کم کو لیا ہے اور اس کتاب میں باون ویں نمبر پر حضرت عمر کا ذکر کیا یہ لکھتا ہے کہ عمر بن خطاب مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ اور غالباً مسلمانوں کے سب سے ترین خلیفہ تھے.آپ محمد صلی الی یوم کے نوجوان ہم عصر اور انہی کی طرح مکہ میں پیدا ہوئے تھے.آپ کی پیدائش کا سال معلوم نہیں مگر شاید 586ء کے قریب کا زمانہ تھا.آغاز میں عمر محمد علی می نم کے اور آپ کے نئے دین کے سب سے سخت دشمنوں میں سے تھے تاہم اچانک عمر نے اسلام قبول کر لیا اور اس کے بعد اس کے مضبوط ترین حمایتیوں میں سے ہو گئے.سینٹ پال کے عیسائی ہونے سے اس کی مشابہت حیرت انگیز ہے.عمرؓ بھی محمد صلی علیم کے قریب ترین مشیروں میں سے ہو گئے اور آپ کی وفات تک ایسے ہی رہے.632ء میں محمد صلی ال یکم بغیر اپنا جانشین نامزد کیے فوت ہو گئے.عمرؓ نے فوری طور پر ابو بکرؓ کے عہدہ خلافت کے لیے حمایت کی جو رسول اللہ صلی الل علم کے قریبی ساتھی اور خسر تھے جس کی وجہ سے اقتدار کی کشمکش ٹل گئی.یہ تو اپنے انداز میں لکھ رہا ہے اور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ کس طرح لوگوں نے اکٹھے ہو کر آپ کو خلیفہ منتخب کیا لیکن بہر حال دنیاوی نظر سے دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کے خسر کی بیعت کرلی جس کی وجہ سے اقتدار کی کشمکش مل گئی اور اس سے ابو بکر اس قابل ہوئے کہ ان کو عام طور پر پہلا خلیفہ مانا گیا یعنی کہ محمد صلی اللہ علم کا جانشین.ابو بکر ایک کامیاب راہنما تھے لیکن وہ صرف دو سال تک خلیفہ کے طور پر خدمت بجالانے کے بعد فوت ہوئے.البتہ انہوں نے اپنے بعد معین طور پر عمر کو اپنا جانشین نامزد کیا.عمر نبی کریم علی ایم کے خسر تھے اس وجہ سے ایک دفعہ پھر اقتدار کی جنگ مل گئی.پھر یہ اس کو دنیاوی رنگ دینا چاہتا ہے.لیکن تعریف بہر حال کر رہا ہے.عمر 634ء میں خلیفہ بنے اور 644ء تک اقتدار یعنی خلافت میں رہے جب انہیں ایک فارسی غلام نے مدینہ میں شہید کر دیا.بستر مرگ پر عمر نے چھ لوگوں کی ایک کمیٹی کو مقرر کیا جو ان کا جانشین منتخب کر لیں اور اس دفعہ ایک دفعہ پھر مسلح اقتدار کی جنگ کو ٹال دیا.اس کمیٹی نے عثمان

Page 269

محاب بدر جلد 3 249 حضرت عمر بن خطاب کو تیسر ا خلیفہ مقرر کیا جنہوں نے 644ء سے 656ء تک حکومت کی.پھر یہ لکھتا ہے کہ یہ حضرت عمرؓ کا ہی دس سالہ دور خلافت تھا جس میں عربوں نے سب سے اہم فتوحات حاصل کیں.آپ کی خلافت کے تھوڑے عرصہ ہی میں عرب فوج نے شام اور فلسطین پر حملہ کیا جو اس وقت باز نطینی سلطنت کا حصہ تھے.جنگ پر موک 636ء میں عربوں نے بازنطینی فوجوں کے خلاف ایسی فتح حاصل کی جس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی.دمشق بھی اسی سال فتح ہوا اور یروشلم نے بھی دو سال بعد ہتھیار ڈال دیے.641ء تک عرب تمام فلسطین اور شام کو فتح کر چکے تھے اور موجودہ دور کے ترکی میں پیش قدمی کر رہے تھے.639ء میں عرب فوجیں مصر میں داخل ہو گئیں جو کہ بازنطینی حکومت کے ہی ماتحت تھا.تین سال کے اندر اندر عرب مکمل طور پر مصر پر فتح پاچکے تھے.عراق پر عربوں کے حملے جو اس وقت فارسیوں کی ساسانی سلطنت کا ایک حصہ تھاوہ حضرت عمر کے مسند خلافت پر فائز ہونے سے بھی پہلے شروع ہو چکے تھے.عربوں کی کلیدی فتح جنگ قادسیہ 637ء میں کامیابی کی صورت میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی.641 ء تک تمام عراق عربوں کے قبضے میں آچکا تھا اور یہیں پر بس نہیں، عرب فوجوں نے فارس پر بھی حملہ کر دیا تھا اور نہاوند کے معرکہ میں 642ء عیسوی میں انہوں نے آخری ساسانی بادشاہوں کی فوجوں کو فیصلہ کن شکست دے دی تھی.جس وقت عمر کی وفات ہوئی یعنی 644ء میں مغربی ایران کا بیشتر حصہ قبضہ میں آچکا تھا.حضرت عمر کی وفات پر بھی عرب فوجوں کا جوش ماند نہ پڑا.مشرق میں انہوں نے جلد ہی فارس کی فتح مکمل کرلی جبکہ مغرب میں شمالی افریقہ میں قدم بڑھاتے رہے.پھر لکھتا ہے کہ جس قدر عمر کی فتوحات کی وسعت کی اہمیت ہے اسی قدر ان فتوحات کی پائیداری بھی اہم ہے.اگر چہ ایران کی آبادی نے اسلام قبول کر لیا لیکن بالآخر انہوں نے عربوں کی حکمرانی سے آزادی حاصل کر لی لیکن شام، عراق اور مصر نے ایسا نہیں کیا.وہ یکسر عرب تہذیب میں ڈھل گئے اور آج تک یہی صور تحال ہے.پھر لکھتا ہے کہ بلاشبہ عمر کو پالیسیاں بنانی پڑیں تا کہ وہ اس عظیم سلطنت کا انتظام کر سکیں جو ان کی فوجوں نے فتح کی تھیں.انہوں نے فیصلہ کیا کہ عربوں کو ان علاقوں میں جو انہوں نے فتح کیے ہیں ایک خصوصی فوجی مقام حاصل ہو اور وہ مقامی لوگوں سے الگ چھاؤنیوں میں رہیں.محکوم لوگوں کو اپنے مسلمان فاتحین کو جو زیادہ تر عرب تھے ایک جزیہ دینا ہو تا تھا.باقی انہیں مکمل امن و امان حاصل تھا.اس کے علاوہ ان پر کوئی اور ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی.خصوصاً انہیں اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا تھا.مندرجہ بالا بات سے یہ ثابت ہے کہ عربوں کی مہمات مقدس جنگوں سے زیادہ قومی نوعیت کی تھیں.اگر چہ مذہبی عصر مکمل طور پر مفقود نہیں تھا.عمر کی کامیابیاں بلا شبہ متاثر کن ہیں.محمد صلی علیہم کے بعد آپ اسلام کے پھیلاؤ میں کلیدی شخصیت تھے.آپؐ کی تیز رفتار فتوحات کے بغیر شاید یہ ممکن نہ ہو تا کہ اسلام اتنا پھیلتا جتنا آج وہ پھیلا ہوا ہے.مزید یہ کہ حضرت عمرؓ کے دور میں فتح کیے گئے علاقے اب تک

Page 270

اصحاب بدر جلد 3 250 حضرت عمر بن خطاب عرب ہی ہیں.بلاشبہ محمد صلی علی یکم جو کہ سب سے اہم محرک تھے انہی کو بہت زیادہ ترقیات کا کریڈٹ جاتا ہے مگر حضرت عمرؓ کے کردار کو نظر انداز کرنا بھی بہت بڑی غلطی ہو گی.آپ کی فتوحات محمد صلی یکم کے اثر میں رہنے کی وجہ سے نتیجہ خود بخود نہیں ہوئی تھیں کچھ وسعت تو مقدر تھی لیکن اس غیر معمولی حد تک نہیں جہاں تک عمر کی شاندار قیادت میں ہوئی.پھر لکھتا ہے کہ شاید یہ حیرت کا موجب ہو کہ عمرؓ جو مغرب میں ایک نامعلوم شخصیت ہیں کو شارلیمن(Charlemagne) اور جولیس سیز ر جیسی مشہور شخصیات سے بلند تر مر تبہ دیا جائے تاہم عمر کے دور میں عربوں کی فتوحات شارلیمن اور جولیس سیزر کے مقابلے میں بلحاظ حجم اور وقت کے بہت زیادہ اہم ہیں.424 پھر ایک پروفیسر ہیں فلپ کے ہٹی Philip K Hitti) اپنی کتاب History of the Arabs میں لکھتے ہیں کہ سادہ، کفایت شعار اور آپ میلی لی ایم کے متحرک اور باصلاحیت جانشین عمر جو کہ بلند قامت اور مضبوط جسامت والے اور سر پر کم بالوں والے تھے ، آپ نے خلافت کے بعد کچھ وقت تک تجارت کے ذریعہ گزر بسر کی کوشش کی.آپ نے اپنی تمام عمر ایک بادیہ نشین شیخ کی طرح سادگی سے گزاری.در حقیقت عمر کو ، جن کا نام مسلم روایات کے مطابق ابتدائے اسلام میں محمد صلی علیہ کم کے بعد سب سے عظیم تھا، مسلمان مؤرخین نے ان کے تقویٰ، انصاف اور سادگی کے لیے بطور مثال پیش کیا ہے اور خلیفہ کی شخصیت میں ہونے والی تمام خوبیوں کے طور پر پیش کیا ہے.پھر لکھتا ہے کہ آپ کا بلند و بالا کر دار تمام با ضمیر جانشینوں کے لیے پیروی کا نمونہ بن گیا.بتایا جاتا ہے کہ آپ کے پاس صرف ایک قمیص اور ایک چوغہ تھا اور دونوں پر پیوند واضح طور پر نظر آتے تھے.آپ کھجور کے پتوں کے بستر پر سو جاتے.آپ کو ایمان کی پختگی، انصاف کی بالا دستی، عربوں اور اسلام کے عروج اور سلامتی کے علاوہ کوئی اور خیال نہ تھا.425 عشرہ مبشرہ میں سے ایک جن لوگوں کو آنحضرت صلیالی تم نے جنت کی بشارت عطا فرمائی تھی ان میں حضرت عمر بھی تھے.حضرت ابو موسی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی این نام کے ساتھ مدینہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں تھا اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا.نبی کریم صلی علیکم نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھولو اور اس کو جنت کی بشارت دو.میں نے اس کے لیے دروازہ کھولا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابو بکر ہیں.میں نے ان کو اس بات کی بشارت دی جو نبی کریم صلی ا لم نے فرمائی تھی.انہوں نے الْحَمْدُ للہ کہا.پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا.نبی کریم صلی للہ ہم نے فرمایا اس کے لیے دروازہ کھولو اور اس کو جنت کی بشارت دو.میں نے دروازہ کھولا تو دیکھتا ہوں کہ ح ہ حضرت عمر نہیں.میں نے ان کو وہ بات بتائی جو نبی کریم صلی علیم نے فرمائی انہوں نے الحمدللہ کہا.پھر ایک اور

Page 271

محاب بدر جلد 3 251 حضرت عمر بن خطاب 426 س آیا دروازہ اس نے کھولنے کے لیے کہا.آنحضرت صلی للی کم نے فرمایا کہ اس کے لیے دروازہ کھولو اور اس کو جنت کی بشارت دو باوجود ایک مصیبت کے جو اسے پہنچے گی.تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عثمان ہیں.میں نے ان کو وہ بات بتائی جو نبی صلی ا یکم نے فرمائی تھی.انہوں نے بھی الحمد للہ کہا.پھر کہا مصیبت سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ ہی سے مدد طلب کی جاسکتی ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی ال یکم نے فرمایا ابو بکر جنتی ہیں.عمر جنتی ہیں.عثمان جنتی ہیں.یہ دس آدمیوں کے متعلق آپ نے فرمایا تھا.علی جنتی ہیں.طلحہ جنتی ہیں.زبیر جنتی ہیں.عبد الرحمن بن عوف جنتی ہیں.سعد بن ابی وقاص جنتی ہیں.سعید بن زید جنتی ہیں اور ابو عبیدہ بن جراح جنتی ہیں.427 فضائل حضرت عمر حضرت ابوہریرہ نے کہا: ایک بار ہم نبی کریم صلی اللی کم کے پاس تھے.آپ صلی سلیم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت ایک محل کے پاس وضو کر رہی میں دیکھا تو کیا دکھتا ہوں رہی ہے.میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ عمر بن خطاب کا.ان کی غیرت کا مجھے خیال آیا تو میں واپس چلا آیا.حضرت عمرؓ بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے.یہ سن کر آپ روئے اور کہا یارسول اللہ ! کیا میں آپ سے غیرت کروں گا.128 کیوں واپس آگئے، برکت بخشتے ! حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی نیلم نے فرمایا: علتین والوں میں سے کوئی شخص جنت والوں پر جھانکے گا تو اس کے چہرے کی وجہ سے جنت جگمگا اٹھے گی گویا ایک چمکتا ہو استارہ ہے.حضرت ابو بکر اور حضرت عمر بھی ان میں سے ہیں اور وہ دونوں کیا ہی خوب ہیں.429 حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الی تم نے فرمایا: تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آرہا ہے تو حضرت ابو بکر آئے.پھر آپ نے فرمایا تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آ رہا ہے تو حضرت عمرؓ آئے.130 اسی طرح ایک روایت میں ہے حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے بارے میں فرمایا کہ یہ ابو بکر اور عمر جنت کے اولین اور آخرین کے تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین کے.پھر حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا عمر بن خطاب اہل جنت کے چراغ ہیں.432 431 حضرت عمرؓ کے مقام کے بارے میں ایک اور جو روایت ہے وہ آنحضرت صلی علیم سے یوں مروی ہے ، حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اینم نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو

Page 272

اصحاب بدر جلد 3 252 حضرت عمر بن خطاب ضرور عمر بن خطاب ہوتے.433 یعنی یہ فوری بعد نبوت کی بات ہے ورنہ تو آنے والے مسیح اور مہدی کو آنحضرت علی ایم نے خود نبی اللہ کہہ کر فرمایا ہے.134 رسول اللہ صلی الم کا حضرت عمر کو محدث کہنا.435 اس بارے میں حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ یقیناً پہلی امتوں میں محدثین ہوتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ عمر بن خطاب ہیں.5 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا ہم نے فرمایا: تم سے پہلے جو امتیں تھیں ان میں ایسے لوگ تھے جو محدث ہوا کرتے تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی ایسا ہے تو وہ عمر نہیں.محدث وہ ہیں جن کو کثرت سے الہام اور کشوف ہوتے ہیں.پھر فرمایا: تم سے پہلے جو بنی اسرائیل سے ہوئے ہیں ان میں ایسے آدمی آچکے ہیں جن سے اللہ کلام کیا کرتا تھا بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوتے تھے.اگر میری امت میں بھی ان میں سے کوئی ایسا ہے تو وہ عمر نہیں.436 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ ہمیشہ استعاروں سے کام لیتا ہے اور طبع اور خاصیت اور استعداد کے لحاظ سے ایک کا نام دوسرے پر وارد کر دیتا ہے.جو ابراہیم کے دل کے موافق دل رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ابراہیم ہے اور جو عمر فاروق کا دل رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک عمر فاروق ہے.کیا تم یہ حدیث پڑھتے نہیں کہ اگر اس امت میں بھی محدث ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے تو وہ عمر ہے.اب کیا اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ محد ثیت حضرت عمر پر ختم ہو گئی ؟ ہر گز نہیں.بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کی روحانی حالت عمر کی روحانی حالت کے موافق ہو گئی وہی ضرورت کے وقت پر محدث ہو گا.“ پھر آپ فرماتے ہیں ” چنانچہ اس عاجز کو بھی ایک مرتبہ اس بارے میں الہام ہوا تھا فِيكَ مَاذَةٌ فَارُ وَقِيَّةٌ - 43744 مکمل الہام اس طرح ہے کہ انتَ مُحَدَّتُ اللهِ فِيْكَ مَاذَةٌ فَارُوْقِيَّةٌ.“ یعنی ”تو محدث اللہ ہے تجھ 43866 میں مادہ فاروقی ہے.تدوین قرآن کی تجویز رض جیسا کہ پہلے بھی میں گذشتہ کئی خطبات میں سے ایک خطبہ میں بیان کر چکا ہوں کہ حضرت عمرؓ نے حفاظت اور تدوین قرآن کی تجویز دی تھی.اس بارے میں یہاں پہ بھی ذکر کرتا ہوں.439 حضرت ابو بکر کے دور میں جنگ یمامہ میں جب ستر حفاظ قرآن شہید ہوئے تو اس بارے میں حضرت زید بن ثابت انصاری روایت کرتے ہیں کہ جب یمامہ کے لوگ شہید کیے گئے تو حضرت ابو بکر نے مجھے بلا بھیجا اور اس وقت ان کے پاس حضرت عمرؓ تھے.حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: عمر میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہا یمامہ کی جنگ میں لوگ بہت

Page 273

تاب بدر جلد 3 253 حضرت عمر بن خطاب شہید ہو گئے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اور لڑائیوں میں بھی قاری نہ مارے جائیں اور اس طرح قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا سوائے اس کے کہ تم قرآن کو ایک جگہ جمع کر دو اور میری یہ رائے ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ جمع کریں.یعنی حضرت عمر نے کہا: میری یہ رائے ہے کہ یہ قرآن کو جمع کریں.اس پر حضرت ابو بکر نے عمر کو فرمایا کہ میں ایسی بات کیسے کروں جو رسول اللہ صلی علیم نے نہیں کی.عمرؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم ! آپ کا یہ کام اچھا ہے.پھر حضرت ابو بکڑ نے فرمایا کہ عمر مجھے بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور اب میں بھی وہی مناسب سمجھتا ہوں جو عمرؓ نے مناسب سمجھا یعنی اس کی تدوین ہو جانی چاہیے اور پھر زید بن ثابت نے اس کی تدوین کا کام شروع کیا.اس کی تفصیل جیسا کہ میں نے کہا پہلے میں بیان کر چکا ہوں.حضرت عمرؓ کے قرآن کریم حفظ کرنے کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم کے مہاجر صحابہ میں سے مندرجہ ذیل کا حفظ ثابت ہے.ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، سعد، ابن مسعود، حذیفہ ، سالم، ابوہریرہ، عبد اللہ بن سائب، عبد اللہ بن عمر عبد اللہ بن عباس.حضرت عمر کی موافقات 441<< 440 یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض و جیبیں جو آنحضرت صلی علیہ تم پر ہوئیں ان کی وجہ حضرت عمر کی موافقت ہے یا حضرت عمر کی ان وحیوں سے موافقت ہے.صحاح ستہ کی روایت میں حضرت عمر کی موافقات کا ذکر جن احادیث میں آیا ہے وہاں تین باتوں میں موافقت کا ذکر ملتا ہے تاہم اگر صرف صحاح ستہ کی ان روایات کو یکجائی صورت میں دیکھا جائے تو ان کی تعد اد سات تک بنتی ہے.صحیح بخاری میں حضرت عمرؓ سے ایک روایت مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہا تین باتوں میں میری رائے میرے رب کے منشا کے مطابق ہوئی.میں نے کہا یا رسول اللہ ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز گاہ بنا لیں.یہ میں نے کہا تو آیت وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى نازل ہوئی.اور پردے کا حکم.میں نے کہا تو پردے کا حکم نازل ہوا.میں نے کہا یا رسول اللہ ! اگر آپ اپنی بیویوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں کیونکہ ان سے بھلے بھی اور برے بھی باتیں کرتے ہیں تو پردے کی آیت نازل ہوئی.پھر نبی صلی الی یم کی بیویوں نے بوجہ غیرت آپ صلی تعلیم کے متعلق ایکا کیا تو حضرت عمر کہتے ہیں میں نے انہیں کہا یعنی ان بیویوں کو جن میں ان کی بیٹی بھی تھیں کہ اگر تمہیں آنحضرت صلی علی کم طلاق دے دیں تو مجھے امید ہے کہ ان کا رب تم سے بہتر بیویاں آنحضرت صلی علیکم کو بدلہ میں دے گا.اس پر یہ آیت نازل ہوئی عَسى ربةٌ إِن طَلَقَكُونَ أَنْ يُبْدِلَةٌ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُن یعنی قریب ہے کہ اگر وہ تمہیں طلاق دے دے تو اس کا رب تمہارے بدلے اس کے لیے تم سے بہتر ازواج لے آئے.442 صحیح مسلم میں ایک روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تین

Page 274

حاب بدر جلد 3 254 حضرت عمر بن خطاب مواقع پر میں نے اپنے رب سے موافقت کی.مقام ابراہیم کے بارے میں اور پر دے کے بارے میں اور بدر کے قیدیوں کے بارے میں.443 لیکن بدر کے قیدیوں کے بارے میں روایت درست نہیں ہے.اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بڑی بحث کی ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی بعض ثبوتوں سے لکھا ہے.پرانے علماء اور مفسرین نے بھی لکھا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بدر کے قیدیوں کو سزا دینے والی روایت صحیح نہیں ہے اور اس کی جو تفصیل ہے میں پیچھے ایک خطبہ میں بیان کر چکا ہوں.صحیح مسلم میں حضرت عمر کا منافقین کا جنازہ نہ پڑھنے کے بارے میں وحی قرآنی سے موافقت کا ذکر ملتا ہے.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن ابی بن سلول مرا تو اس کا بیٹا عبد اللہ بن عبد اللہ رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضور سے درخواست کی کہ آپ اس کو اپنی قمیص عطا فرمائیں تا کہ وہ اس میں اپنے باپ کو کفنائے.چنانچہ آپ صلی الی یکم نے اسے قمیص عطا فرمائی.پھر اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں تو رسول اللہ صلی علیم کیے گئے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں.اس پر حضرت عمر کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی علیکم کے کپڑے کو پکڑ لیا اور عرض کیا یارسول اللہ ! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھنے لگے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ کو اس پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے: اِسْتَغْفِرُ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرُ لَهُم کہ تو ان کے لیے استغفار کریانہ کر.اگر تو ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کرے گا تو فرمایا کہ میں ستر سے زیادہ دفعہ استغفار کر لوں گا.حضرت عمرؓ نے کہا وہ منافق ہے مگر رسول اللہ صلی علیہ یکم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی تب اللہ عز و جل نے یہ آیت اتاری وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُم مَّاتَ اَبَدًا اور تُو ان میں سے یعنی منافقین میں سے کسی مرنے والے کی کبھی جنازے کی نماز نہ پڑھ اور کبھی ان کی قبر پر دعا کے لیے کھڑا نہ ہو.444 شراب کی حرمت کے بارے میں حضرت عمر کی وحی قرآنی سے موافقت کا ذکر سنن ترمذی میں ملتا ہے.حضرت عمر بن خطاب نے دعا کی کہ اے اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے اطمینان بخش حکم بیان فرما تو سورہ بقرہ کی آیت يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ نازل ہوئی.وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں.تو کہہ دے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لیے فوائد بھی اور دونوں کا گناہ کا پہلو ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے.جب یہ آیت نازل ہو چکی تو حضرت عمرؓ کو یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی.یہ آیت سن کر عمرؓ نے پھر کہا اے اللہ ! ہمارے لیے شراب کا واضح حکم بیان فرما تو سورہ نساء کی آیت لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ وَ انتُم شکری نازل ہوئی کہ اے وہ لو گو ! جو ایمان لائے ہو تم نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم پر مدہوشی کی کیفیت ہو یہاں تک کہ اس قابل ہو جاؤ کہ تمہیں علم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو.عمر پھر آئے اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی.انہوں نے پھر کہا اے اللہ ! ہمارے لیے شراب کا حکم صاف صاف بیان فرما دے تو سورۂ مائدہ کی آیت إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَنُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ

Page 275

اصحاب بدر جلد 3 255 حضرت عمر بن خطاب العَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ عَنِ الصَّلوةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ 445 شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کر دے اور تمہیں ذکر الہی اور نماز سے باز رکھے تو کیا تم باز آجانے والے ہو.عمر پھر آئے اور یہ آیت پڑھ کر ان کو سنائی گئی تو انہوں نے کہا ہم باز رہے.ہم باز رہے.صحاح ستہ میں مذکور ان موافقات کے علاوہ بھی سیرت نگاروں نے متعد د موافقات کا ذکر کیا ہے.چنانچہ علامہ سیوطی نے بیس کے قریب موافقات کا ذکر کیا ہے.446 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہ میں کس قدر بڑا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات ان کی رائے کے موافق قرآن شریف نازل ہو جایا کرتا تھا اور ان کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے.دوسری یہ حدیث ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہو تا.تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی امتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں اگر اس امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے.447<< حضرت عمر کا غزوات میں مشورہ دینا اور آنحضرت صلی للی کم کا اسے قبول فرمانا، اس بارے میں روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ یا حضرت ابو سعید جو روایت کرنے والے ہیں.اعمش کو شک ہے کہ ان میں سے کون تھا.بہر حال وہ کہتے ہیں ان سے روایت ہے کہ جب غزوہ تبوک کے دن تھے تولوگوں کو سخت بھوک لگی انہوں نے کہا یار سول اللہ ! اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنے پانی لانے والے اونٹ ذبح کر لیں اور ہم کھائیں اور چکنائی استعمال کریں.آپ نے فرمایا کر لو.کہتے ہیں اس پر حضرت عمر آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر آپ نے ایسا کیا تو سواریاں کم ہو جائیں گی.ہاں لوگوں کو اپنا باقی ماندہ زادِ راہ لانے کا ارشاد فرمائیں.جو کچھ بھی کسی کے پاس کھانے کی چیز ہے وہ لے آئے.پھر ان کے لیے اس پر برکت کی دعا کریں.بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت رکھ دے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے.راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی ا ہم نے ایک چمڑے کا دستر خوان منگوایا اور اسے بچھا دیا اور پھر ان کے باقی ماندہ زادِ راہ زاد منگوائے.جو بھی کھانے کا سامان تھاوہ منگوایا.راوی کہتے ہیں کوئی مٹھی بھر مکئی لایا، کوئی مٹھی بھر کھجوریں، کوئی روٹی کا ٹکڑہ وغیرہ لے آیا یہاں تک کہ اس دستر خوان پر اس میں سے کچھ تھوڑا سا اکٹھا ہو گیا.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ ہم نے اس پر برکت کی دعا کی.پھر فرمایا اپنے برتنوں میں لے لو.انہوں نے برتنوں میں اس کو لے لیا یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا مگر اس کو بھر لیا.پھر سب نے کھایا اور سیر ہو گئے اور کچھ بیچ بھی گیا.تب رسول اللہ صلی اللی یکم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کار سول ہوں اور جو شخص بغیر کسی شک کے ان دونوں شہادتوں کے ساتھ خدا سے ملے گاوہ جنت سے روکا نہیں جائے گا.یہ مسلم کی روایت ہے.بخاری میں یہ روایت اس طرح درج ہے.یزید بن ابو عبید نے حضرت سلمہ بن اکوع سے 448

Page 276

حاب بدر جلد 3 256 حضرت عمر بن خطاب 449 روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ ایک سفر میں لوگوں کے زادِ راہ کم ہو گئے اور ان کے پاس کچھ نہ رہا اور وہ نبی صلی علیکم کے پاس اپنے اونٹ ذبح کرنے کے لیے اجازت مانگنے آئے.آپ نے انہیں اجازت دے دی.پھر حضرت عمرؓ ان لوگوں سے ملے اور انہوں نے حضرت عمر کو بتایا تو حضرت عمرؓ نے کہا اپنے اونٹوں کے بعد تم کیسے گزارہ کرو گے ؟ یہ کہہ کر حضرت عمر نبی صلی نیم کے پاس گئے اور کہا یار سول اللہ ! وہ اپنے اونٹوں کے بعد کیسے گزارہ کریں گے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا : لوگوں میں منادی کرو کہ سب اپنا بچا ہو ا زادِ راہ لے آئیں.پھر آپ صلی علی کرم نے دعا کی اور اس زادِ راہ کو برکت دی.پھر ان کے برتن منگوائے اور لوگوں نے بھر بھر کر لینا شروع کیا یہاں تک کہ جب وہ فارغ ہو گئے تو رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں.19 اذان کی جو ابتدا ہوئی ہے اس بارے میں بھی حضرت عمرؓ نے خواب دیکھی تھی.مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وحی صحابہ پر نازل ہوئی.رسول کریم صلی الیکم کے زمانے میں عبد اللہ بن زید ایک صحابی تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی کے ذریعہ سے اذان سکھائی تھی اور رسول کریم صلی علی کریم نے انہی کی وحی پر انحصار کرتے ہوئے مسلمانوں میں اذان کا رواج ڈالا تھا.بعد میں قرآنی وحی نے بھی اس کی تصدیق کر دی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہی اذان سکھائی تھی مگر ہیں دن تک میں خاموش رہا اس خیال سے کہ ایک اور شخص رسول کریم صلی اینیم سے یہ بات بیان کر چکا ہے.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ نے مجھے آکر اذان سکھائی اور میں حضرت اس وقت پوری طرح سویا ہوا نہیں تھا“ یہ حضرت عمرؓ نے فرمایا.کچھ کچھ جاگ رہا تھا.4500 سنن ترمذی کی روایت ہے جو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں لیکن یہاں بھی بیان کر دیتا ہوں.اس کے آخر میں جو الفاظ ہیں وہ بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی علم کے نزدیک حضرت عمرؓ کے خواب کی کتنی اہمیت تھی.محمد بن عبد اللہ بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم صبح کے وقت رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آئے اور میں نے آپ کو خواب سنائی.آپ صلی علیہ نے فرمایا: یقینا یہ کیا چی ہے.تم بلال کے ساتھ جاؤ.یقیناوہ تم میں سے اونچی اور لمبی آواز والے ہیں.ان کو بتاتے جاؤ جو تمہیں بتایا گیا ہے.پس وہ اس کی منادی کرے.آپ یعنی عبد اللہ بن زید کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب نے نماز کے لیے حضرت بلال کی اذان سنی تو حضرت عمر ر سول اللہ صلی اللیلم کے پاس اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے آئے اور آپ یہ کہہ رہے تھے کہ اے رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یقیناً میں نے بھی وہی دیکھا ہے جیسا اس نے اذان میں کہا ہے.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا: پس تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے.پس یہ بات زیادہ پختہ ہے.451 یعنی اب مزید تصدیق ہو گئی.حضرت عمر حضرت رسول کریم ملی ﷺ کا ادب اور احترام کس طرح کیا کرتے تھے.کیا مقام تھا

Page 277

باب بدر جلد 3 257 حضرت عمر بن خطاب آنحضرت صلی اللہ علم کا؟ اس بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ یعنی حضرت ابن عمر نبی کریم صلی ال نیم کے ساتھ کسی سفر میں تھے اور حضرت عمرؓ کے ایک اونٹ پر سوار تھے جو منہ زور تھا اور نبی صلی یکم سے ، ان کی سواری سے آگے بڑھ جاتا تھا.اور ان کے والد حضرت عمرؓ ا نہیں کہتے تھے کہ عبد اللہ ! نبی صلی علیم سے آگے کسی کو بھی نہیں بڑھنا چاہیے.یہ تمہاری سواری جو ہے یہ آنحضرت صلی علیکم کی سواری سے آگے نہیں بڑھنی چاہیے.نبی صلی اللی کم نے حضرت عمر سے فرمایا.میرے پاس یہ فروخت کر دو.حضرت عمرؓ نے کہا یہ تو آپ ہی کا ہے.آنحضرت صلی علی کرم نے اسے خرید لیا اور اس کے بعد فرمایا: عبد اللہ ! یہ اب تمہارا ہی ہے اس سے تم جو چاہو کام لو.452 لے کے پھر تحفہ دے دیا.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی یکم جب سورج ڈھل گیا تو تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی اور منبر پر کھڑے ہوئے اور موعودہ گھڑی کا ذکر کیا اور فرمایا اس میں بڑے بڑے واقعات ہوں گے.پھر فرمایا: جو شخص کچھ پوچھنا چاہے تو پوچھ لے.تم جو کچھ بھی مجھ سے پوچھو گے میں تمہیں بتاؤں گا جب تک کہ میں اپنے اس مقام میں ہوں تو لوگ بہت روئے اور آنحضرت صلی الی یکم نے کئی دفعہ فرمایا کہ مجھ سے پوچھو.اس پر حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی اٹھے اور کہا میر اباپ کون ہے ؟ تو آپ نے فرما یا حذافہ.پھر آپ نے بہت دفعہ فرمایا کہ مجھ سے پوچھو.اس پر حضرت عمرؓ اپنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور کہا: رَضِيْنَا بِاللهِ رَبَّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا کہ ہم راضی ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسلام ہمارا دین اور محمد ہمارے نبی ہیں.آپ صلی امید کم خاموش ہو گئے.پھر فرمایا جنت اور آگ ابھی اس دیوار کی چوڑائی میں میرے سامنے پیش کی گئی تھیں تو میں نے ایسا خیر وشر کبھی بھی نہیں دیکھا.453 بخاری کی ہی ایک اور روایت میں اس طرح بھی ذکر ملتا ہے.حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ کم سے بعض ایسی باتوں کے متعلق پوچھا گیا جن کو آپ نے ناپسند کیا.جب آپ سے بہت سوال کیے گئے تو آپ صلی اللہ ہم کو غصہ آیا اور آپ نے لوگوں سے کہا: پوچھو مجھ سے جس کے متعلق بھی چاہو.تب ایک شخص نے کہا میرا باپ کون ہے؟ فرمایا تمہارا باپ حذافہ ہے.اس کے بعد ایک اور اٹھا اور اس نے کہا یا رسول اللہ امیر اباپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہارا باپ شیبہ کا آزاد کردہ غلام سالم ہے.جب حضرت عمرؓ نے اس تغیر کو دیکھا جو آپ کے چہرے پر تھا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اللہ عزوجل کے حضور اپنی غلطی سے رجوع کرتے ہیں.4 پھر بخاری کی ہی ایک دوسری روایت بھی ہے.یہ زہری سے روایت ہے.اس میں آتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک نے مجھے بتلایا کہ رسول اللہ صلی علی یکم باہر نکلے تو حضرت عبد اللہ بن حذافہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میر اباپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا: تمہارا باپ حذافہ ہے.پھر آپ نے بہت دفعہ فرمایا: پوچھو مجھ سے.مگر حضرت عمرؓ نے دوزانو ہو کر عرض کیا 454

Page 278

اصحاب بدر جلد 3 258 حضرت عمر بن خطاب اور انہوں نے کہا ہم راضی ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسلام ہمارا دین ہے اور محمدصلی علی کم ہمارے نبی ہیں.اس پر آپ خاموش ہو گئے.455 الله سة حضرت ابو قتادہ انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم سے آپ کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ کی ناراض ہوئے تو حضرت عمرؓ نے کہا ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللی کیم کے رسول ہونے پر اور اپنی بیعت کے حقیقی بیعت ہونے پر راضی ہیں.456 صحیح بخاری میں ایک اور روایت ہے کہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ آنحضرت صلی علیم کے پاس آئے.اس وقت آپ صلی الی یکم ایک بالا خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے.حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں میں آپ کے پاس گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں.آپ کے اور چٹائی کے درمیان کوئی بچھونا نہیں.اس لیے چٹائی نے آپ کے پہلو پر نشان ڈالے ہوئے ہیں.ایک چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے.میں نے آپ صلی نم کے گھر کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو اللہ کی قسم ! تین کچی کھالوں کے سو او ہاں کوئی چیز نہیں تھی جو مجھے نظر آئی ہو.میں نے آپ مصلی می کنم سے کہا.اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کی امت کو کشائش دے کیونکہ فارس اور روم کو بہت دولت دی گئی ہے اور انہیں دنیا ملی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے.آپ تکیہ لگائے بیٹھے تھے.آپ صلی علیہ کم نے فرمایا: خطاب کے بیٹے ! کیا ابھی تک تم شک میں ہو.وہ ایسے لوگ ہیں جن کو جلدی سے اس دنیا کی زندگی میں ہی ان کے مزے کی جو چیزیں تھیں دی گئی ہیں.میں نے کہا یا رسول اللہ ! میرے لیے مغفرت کی دعا کریں.457 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” ایک دفعہ حضرت عمرؓ آپ کے گھر میں گئے اور دیکھا کہ گھر میں کچھ اسباب نہیں اور آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور چٹائی کے نشان پیٹھ پر لگے ہیں.تب عمر کو یہ حال دیکھ کر رونا آیا.آپ نے فرمایا: اے عمر ! تو کیوں روتا ہے.حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ آپ کی تکالیف کو دیکھ کر مجھے رونا آگیا.قیصر اور کسریٰ جو کا فر ہیں آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور آپ ان تکالیف میں بسر کرتے ہیں.تب آنجناب نے فرمایا کہ مجھے اس دنیا سے کیا کام! میری مثال اس سوار کی ہے کہ جو شدت گرمی کے وقت ایک اونٹنی پر جارہا ہے اور جب دو پہر کی شدت نے اس کو سخت تکلیف دی تو وہ اسی سواری کی حالت میں دم لینے کے لئے ایک درخت کے سایہ کے نیچے ٹھہر گیا اور پھر چند منٹ کے بعد اسی گرمی میں اپنی راہ لی.نبی صلی الم کا حضرت عمرؓ کو دعا کے لئے کہنا 458" ایک واقعہ ملتا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے حضرت عمر کو دعا کے لیے کہا تھا.حضرت عمرؓ

Page 279

اصحاب بدر جلد 3 259 حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی ای کم سے عمرہ ادا کرنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی یکم نے مجھے اجازت دی اور فرمایا لا تنسَنَا يَا أُخَى مِن دُعَائِكَ، اے میرے بھائی ! ہمیں اپنی دعا میں نہ بھولنا.حضرت عمر فرماتے ہیں کہ یہ ایسا کلمہ ہے کہ اگر مجھے اس کے بدلے میں ساری دنیا بھی مل جائے تو اتنی خوشی نہ ہو.ایک اور روایت میں یہ الفاظ اس طرح آتے ہیں کہ اَشْرِ كُنَا يَا أُخَيَ فِي دُعَائِكَ کہ اے میرے بھائی! ہمیں اپنی دعا میں شامل رکھنا.459 حضرت عمر فکار سول اللہ صلی الہ عوام سے کس حد تک عاشقانہ تعلق تھا اس کا پتہ اس واقعہ سے ملتا ہے.پہلے بھی ایک خطبہ میں بیان ہو چکا ہے.اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی علی کرم فوت ہو گئے تو یہ خبر سن کر حضرت عمر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللی علم فوت نہیں ہوئے.حضرت عائشہ کہتی تھیں حضرت عمر کہا کرتے تھے بخدا میرے دل میں یہی بات آئی تھی اور انہوں نے کہا اللہ آپ کو ضرور ضرور اٹھائے گا.یعنی آنحضرت صلی ای کم کو ضرور اٹھائے گا تا بعض آدمیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے.بہر حال پھر جب حضرت ابو بکر آئے تو انہوں نے سورہ آل عمران کی آیت 145 پڑھی اور حضرت عمررؓ کو حقیقت کو سمجھنے کا کہا اور پھر معاملہ ختم ہوا.10 460 اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: آنحضرت کی وفات پر صحابہ کا اجماع بھی اسی مسئلہ پر ہوا ہے کہ گل انبیاء وفات پاگئے ہیں اور اس کی یہ وجہ ہوئی کہ آپ کی وفات پر حضرت عمر کو خیال پیدا ہو گیا تھا کہ آپ ابھی زندہ ہیں اور دوبارہ تشریف لائیں گے اور آپ کو اپنے اس اعتقاد پر اس قدر یقین تھا کہ آپ اس شخص کی گردن اڑانے کو تیار تھے جو اس کے خلاف کہے لیکن حضرت صدیق جب تشریف لائے اور آپ نے گل صحابہ کے سامنے یہ آیت پڑھی کہ وَمَا مُحَمَّد اللَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ تو حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میرے پاؤں کانپ گئے اور میں صدمہ کے مارے زمین پر گر گیا اور صحابہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یوں معلوم ہوا کہ جیسے یہ آیت آج ہی اتری ہے اور ہم اس دن اس آیت کو بازاروں میں پڑھتے پھرتے تھے.پس اگر کوئی نبی زندہ موجود ہو تا تو یہ استدلال درست نہیں تھا کہ جب سب نبی فوت ہو گئے تو آپ کیوں فوت نہ ہوتے.حضرت عمرؓ کہہ سکتے تھے کہ آپ کیوں دھوکا دیتے ہیں.حضرت مسیح ابھی زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں.وہ زندہ ہیں تو کیوں ہمارے آنحضرت صلی للی کم زندہ نہیں رہ سکتے ؟ مگر سب صحابہ کا سکوت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سب صحابہ کا یہی مذہب تھا کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں.461 اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے وہ تفصیل میں پہلے ایک خطبہ میں بیان کر چکا ہوں.حضرت عمرؓ کس طرح رسول اللہ صلی للی کم کی پیروی کرتے تھے اس بارے میں حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی الیم نے حجر اسود کی طرف منہ کیا.پھر اپنے ہونٹ اس

Page 280

اصحاب بدر جلد 3 260 حضرت عمر بن خطاب پر رکھ دیے اور دیر تک روتے رہے.آپ صلی میں کم نے مڑ کر دیکھا تو حضرت عمر بن خطاب کو بھی روتے پایا.آپ صلی علیہ ہم نے فرمایا اے عمر ! یہ وہ جگہ ہے جہاں آنسو بہائے جاتے ہیں.462 463 عابس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو چوما اور کہا میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہی ہے نہ نقصان دے سکتا ہے نہ نفع.اگر میں نے نبی صلی للی کم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے ہر گز نہ چومتا.3 حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ طواف کر رہے تھے کہ آپ حجر اسود کے پاس سے گزرے اور آپ نے اس سے اپنی سوئی ٹھکر اکر کہا کہ میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے اور تجھ میں کچھ بھی طاقت نہیں مگر میں خدا کے حکم کے ماتحت تجھے چومتا ہوں.یہی جذبۂ توحید تھا جس نے ان کو دنیا میں سر بلند کیا.وہ خدائے واحد کی توحید کے کامل عاشق تھے.وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ اس کی طاقتوں میں کسی اور کو شریک کیا جائے.“ یعنی خدا تعالیٰ کی طاقتوں میں.”بے شک وہ حجر اسود کا ادب بھی کرتے تھے مگر اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے اس کا ادب کرو، نہ اس لیے کہ حجر اسود کے اندر کوئی خاص بات ہے.وہ سمجھتے تھے کہ اگر خد اتعالیٰ ہمیں کسی حقیر سے حقیر چیز کو چومنے کا حکم دے دے تو ہم اس کو چومنے کے لیے بھی تیار ہیں کیو نکہ ہم خدا تعالیٰ کے بندے ہیں کسی پتھر یا مکان کے بندے نہیں.پس وہ ادب بھی کرتے تھے اور توحید کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیتے تھے اور یہی ایک سچے مومن کا مقام ہے.ایک سچا مومن بیت اللہ کو ویسا ہی پتھروں کا ایک مکان سمجھتا ہے جیسے دنیا میں اور ہزاروں مکان پتھروں کے بنے ہوئے ہیں.ایک سچا مومن حجر اسود کو ویسا ہی پتھر سمجھتا ہے جیسے دنیا میں اور کروڑوں پتھر موجود ہیں مگر وہ بیت اللہ کا ادب بھی کرتا ہے.وہ حجر اسود کو چومتا بھی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرے رب نے ان چیزوں کے ادب کرنے کا مجھے حکم دیا ہے مگر باوجود اس کے وہ اس مکان کا ادب کرتا ہے.باوجود اس کے کہ وہ حجر اسود کو چومتا ہے پھر بھی وہ اس یقین پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتا ہے کہ میں خدائے واحد کا بندہ ہوں کسی پتھر کا بندہ نہیں.یہی حقیقت تھی جس کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اظہار فرمایا.آپ نے حجر اسود کو سوٹی ماری اور کہا میں تیری کوئی حیثیت نہیں سمجھتا.تو ویسا ہی پتھر ہے جیسے اور کروڑوں پتھر دنیا میں نظر آتے ہیں مگر میرے رب نے کہا ہے کہ تیرا ادب کیا جائے اس لیے میں ادب کرتا ہوں.یہ کہہ کر وہ آگے بڑھے اور اس پتھر کو بوسہ دیا.“464 حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ صلی میں کم سے پوچھا جبکہ آپ طائف سے واپس آنے کے بعد جعرانہ میں تھے اور عرض کیا یار سول اللہ ! میں نے جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک روز اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی.آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا: جاؤ اور ایک دن کا اعتکاف کرو.بہر حال جو جائز نذر ہے وہ کسی بھی زمانے میں ہو اسے پورا کرناچاہیے.

Page 281

حاب بدر جلد 3 261 سة حضرت عمر بن خطاب الله سة یہ سبق آنحضرت صلی علی کریم نے دیا.پھر راوی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی ا ہم نے انہیں خُمس میں سے ایک لڑکی دی.جب رسول اللہ صلی علی کرم نے لوگوں کے قیدی آزاد کیے اور حضرت عمرؓ نے ان کی آوازیں سنیں اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں رسول اللہ صلی علیکم نے آزاد کر دیا تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کیابات ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی علیم نے لوگوں کے قیدی آزاد کر دیے ہیں تو حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو کہا کہ اے عبد اللہ اتم اس لڑکی کے پاس جاؤ جو آنحضرت صلی ال ولم نے دی تھی اور اسے آزاد کر دو.465 حضرت حذیفہ کو نبی کریم صلی علیم کا رازدار کہا جاتا تھا.غزوہ تبوک کے دوران کا ایک واقعہ ہے کہ حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی املی یکم اپنی سواری سے نیچے اترے تو اس وقت آپ پر وحی نازل ہوئی.آپ صلی ای کم کی سواری بیٹھی ہوئی تھی تو وہ کھڑی ہو گئی اور اس نے اپنی مہار کو کھینچنا شروع کر دیا.میں نے اس کی مہار پکڑ لی اور اسے رسول اللہ صلی اللی نیم کے پاس لا کر بٹھا دیا.پھر میں اس اونٹنی کے پاس بیٹھارہا یہاں تک کہ نبی کریم صلی ہی کم کھڑے ہو گئے اور میں اس اونٹنی کو آپ کے پاس لے گیا.آپ مسی ایم نے پوچھا کون ہے ؟ تو میں نے جواب دیا کہ حذیفہ.رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا: میں تمہیں ایک راز سے آگاہ کرنے والا ہوں اور تم اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا.مجھے فلاں فلاں شخص کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور آپ کی ٹیم نے منافقین کی ایک جماعت کا نام لیا.جب رسول اللہ لیا لیکم کی وفات ہو گئی تو حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب کوئی شخص فوت ہو جاتا جس شخص کے متعلق حضرت عمر یہ سمجھتے تھے کہ وہ منافقین کی اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے تو آپ حضرت محذیفہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں نماز جنازہ پڑھنے کے لیے ساتھ لے جاتے.اگر تو حضرت حذیفہ آپ کے ساتھ چل پڑتے تو حضرت عمر بھی اس شخص کا نماز جنازہ ادا کر لیتے اور اگر حضرت حذیفہ اپنا ہاتھ حضرت عمرؓ کے ہاتھ سے چھڑ والیتے تو حضرت عمررؓ بھی اس کی نماز جنازہ ترک کر دیتے.حضرت عمر کا آنحضور ملی ایم کی پیشگوئی کو ظاہر پورا کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ : ”حضرت عمرؓ جو صدق اخلاص سے بھر گئے تھے انہوں نے یہ مزہ پایا کہ ان کے بعد خلیفہ ثانی ہوئے.غرض اس طرح پر ہر ایک صحابی نے پوری عزت پائی.قیصر و کسری کے اموال اور شاہزادیاں ان کے ہاتھ آئیں.لکھا ہے ایک صحابی کسریٰ کے دربار میں گیا.ملازمان کسری نے سونے چاندی کی کرسیاں بچھوا دیں اور اپنی شان و شوکت دکھائی.اس نے کہا کہ ہم اس مال کے ساتھ فریفتہ نہیں ہوئے.ہم کو تو وعدہ دیا گیا ہے کہ کسری کے کڑے بھی ہمارے ہاتھ آجائیں گے.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ کڑے ایک صحابی کو پہنا دیئے تاکہ وہ پیشگوئی پوری ہو.4674 حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ”سونا پہنا مر دوں کے لئے جائز نہیں لیکن حضرت عمرؓ نے کسری کے کڑے ایک صحابی کو پہنائے اور جب اس نے ان کے پہنے سے انکار کیا تو اس کو آپ نے ڈانشا اور 466

Page 282

حاب بدر جلد 3 262 حضرت عمر بن خطاب فرمایا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تھا کہ تیرے ہاتھوں میں مجھے کسری کے کڑے نظر آتے ہیں.اسی طرح ایک موقعہ پر کسری کا تاج اور اس کا ریشمی لباس جب غنیمت کے اموال میں آیا تو حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو اس لباس اور اس تاج کے پہنے کا حکم دیا اور جب اس نے پہن لیا تو آپ رو پڑے اور فرمایا: چند دن ہوئے کسر می اس لباس کو پہن کر اور اس تاج کو سر پر رکھ کر ملک ایران پر جابرانہ حکومت کر تا تھا اور آج وہ جنگلوں میں بھا گا پھر رہا ہے.دنیا کا یہ حال ہوتا ہے.اور یہ حضرت عمر یا فعل ظاہر بین انسان کو شاید درست معلوم نہ ہو کیونکہ ریشم اور سونا پہننا مردوں کے لئے جائز نہیں لیکن ایک نیک بات سمجھانے اور نصیحت کرنے کے لئے حضرت عمر نے ایک شخص کو چند منٹ کے لئے سونا اور ریشم پہنا دیا.غرض اصل شئے تقوی اللہ ہے احکام سب تقویٰ اللہ کے پیدا کرنے کے لئے ہوتے ہیں.اگر تقویٰ اللہ کے حصول کے لئے کوئی شئے جو بظاہر عبادت معلوم ہوتی ہے چھوڑنی پڑے تو وہی کار ثواب ہو گا.468 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ ہم نے فرمایا: خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایک کنویں پر کھڑ اڈول سے جو چرخی پر رکھا ہوا تھا پانی کھینچ کر نکال رہا ہوں.اتنے میں ابو بکر آئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول کھینچ کر اس طور سے نکالے کہ ان کو کھنچنے میں کمزوری تھی اور اللہ ان کی کمزوری پر پردہ پوشی کرے گا اور ان سے در گزر فرمائے گا.پھر عمر بن خطاب آئے اور وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا تو میں نے کوئی شہ زور نہیں دیکھا جو ایسا حیرت انگیز کام کرتا ہو جیسا عمرؓ نے کیا.اتنا پانی نکالا کہ لوگ سیر ہو گئے اور اپنے اپنے ٹھکانوں پر جابیٹھے.469 470 اپنا بچا ہوا دودھ حضرت عمرؓ کو دیا حضرت ابن عمرؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی الیوم سے سنا.آپ فرماتے تھے.ایک بار میں سویا ہوا تھا کہ اس اثنا میں میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا اور میں نے اتنا پیا کہ میں نے اس کی طراوت کو اپنے ناخنوں سے پھوٹتے ہوئے دیکھا.پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ حضرت عمر بن خطاب کو دیا.صحابہ نے پوچھا یار سول اللہ ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی.آنحضرت صلی الم نے فرمایا : علم حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ فضل العلم سے اس جگہ مراد علم کی فضیلت نہیں بلکہ علم کا بچا ہوا حصہ.فضیلت علم کے متعلق الگ باب باندھا گیا ہے.آنحضرت صلی علیکم کی رؤیا اور اس کی تعبیر سے نیز ان واقعات سے جن سے کہ اس رؤیا کی تصدیق ہوئی یہ استدلال کرنا مقصود ہے کہ دنیاوی فتوحات اور عظمت جو مسلمانوں کو حضرت عمرؓ کے ذریعہ سے نصیب ہوئی وہ علم نبوی کا ایک بچا ہوا حصہ تھا جو حضرت عمرؓ کو آنحضرت صلی ای کم سے ملا تھا.قرآن مجید میں آنحضرت صلی علیکم کو بوجہ آپ کی اس جامع حیثیت کے مجمع البحرین (دنیوی اور اخروی بہبودی کے علوم کا جامع ) کہا گیا ہے.امام بخاری نے سیاست کو العلم میں شمار کر کے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ

Page 283

باب بدر جلد 3 263 حضرت عمر بن خطاب آنحضرت صلی الم کامل راستی لائے جو انسان کے حسنات الدارین پر حاوی ہے جیسا کہ مسیح نے آپ کے متعلق پیشگوئی کی تھی کہ 'جب وہ روح حق آئے گی تو کامل سچائی لائے گی.4714 حضرت عمرؓ کے واقعات کا مطالعہ کرنے سے اس بچے ہوئے دودھ کی حقیقت کا پتہ چل سکتا ہے جو انہوں نے آنحضرت صلی اللی کام کے فیضان سے پیا.حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ : 472<< رسول کریم صلی ایم کے سامنے ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے خواب کی حالت میں دودھ کا پیالہ ملنے کا 473" ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اس سے مراد علم ہے.حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سنا.آپ فرماتے تھے: میں سویا ہوا تھا میں نے لوگوں کو دیکھا کہ میرے سامنے پیش کیے گئے ہیں اور انہوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں تو ان میں سے بعض کی قمیصیں چھاتیوں تک پہنچتی ہیں اور ان میں سے بعض اس کے نیچے تک اور عمر بھی میرے سامنے پیش کیے گئے انہوں نے قمیص پہنی ہوئی تھی جس کو وہ گھسیٹ رہے تھے.صحابہ نے کہا آپ نے اس سے کیا مراد لی تو آپ نے فرمایا: دین 474 آنحضرت صلی علیہ یکم نے ایک موقع پر مختلف صحابہ کی خصوصیات بیان فرماتے ہوئے حضرت عمرؓ کے بارے میں فرمایا کہ میری امت میں سے اللہ کے دین میں سب سے زیادہ مضبوط عمر نہیں.475 حضرت مالک بن مغول سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے کیونکہ یہ زیادہ آسان ہے.یا فرمایا تمہارے حساب کے لیے زیادہ آسان ہے اور اپنے نفس کو تولو قبل اس کے کہ تمہیں تولا جائے اور سب سے بڑھ کر بڑی پیشی کے لیے تیاری کرو.يَوْمَبِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ یعنی اس دن تم پیش کیے جاؤ گے کوئی مخفی رہنے والی تم سے مخفی نہیں رہے گی.476 حضرت حسنؓ کبھی حضرت عمر کا ذکر کرتے تو فرماتے.اللہ کی قسم ! اگر چہ وہ پہلے اسلام لانے والوں میں سے نہیں تھے اور نہ ہی اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والوں میں سب سے زیادہ افضل تھے لیکن وہ دنیا سے بے رغبتی میں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے معاملے میں سختی میں لوگوں پر غالب تھے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے.477 حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم !حضرت عمر بن خطاب اسلام لانے میں ہم سے مقدم نہ تھے لیکن میں نے جان لیا کہ آپ کس چیز میں ہم سے افضل تھے.آپ ہمارے مقابلے میں سب سے زیادہ زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے.478 ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ شام تشریف

Page 284

حاب بدر جلد 3 264 حضرت عمر بن خطاب لائے تو آپ کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی.وہ ایک موٹی اور سُنبُلانی قمیص تھی.سُنبُلانی ایسی قمیص جو اتنی لمبی ہو کہ زمین کے ساتھ لگ رہی ہو اور اس طرح کی قمیص روم کی طرف بھی منسوب کی جاتی ہے.بہر حال آپ نے اس قمیص کو آخر عات یا ایلہ والوں کی طرف بھیجا.ایلہ شام کی طرف ایک شہر ہے اور شام کے ساتھ بحیرہ قلزم کے ساحل پر واقع ایک شہر ہے.بہر حال راوی کہتے ہیں کہ پس اس نے اس قمیص کو دھویا اور اس میں پیوند لگا دیا اور حضرت عمرؓ کے لیے قبطری قمیص بھی تیار کر دی.قبطری گتان سے بنا ہوا سفید باریک کپڑا ہوتا ہے.پھر ان دونوں قمیصوں کو لے کر حضرت عمر کے پاس آیا اور آپ کے سامنے قبطری قمیص پیش کی.حضرت عمرؓ نے اس قمیص کو پکڑا اور اس کو چھوا اور فرمایا: یہ زیادہ نرم ہے اور اس کو اسی آدمی کی طرف پھینک دیا اور فرمایا: مجھے میری قمیص دے دو کیونکہ وہ قمیصوں میں سے پسینہ کو زیادہ چوسنے والی ہے.479 پھٹی ہوئی جو تم نے مرمت کی ہے وہی بہتر ہے.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو اس وقت دیکھا جب آپ امیر المومنین تھے کہ آپ کے کندھوں کے درمیان قمیص میں تین چھڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے.ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں.میں نے حضرت عمرؓ کے کندھوں کے در میان قمیص میں چار چمڑے کے پیوند دیکھے.80 حضرت حفصہ بنت عمر حضرت عمر کی دنیا سے بے رغبتی اور زہد کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتی ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ اپنے والد بزرگوار سے کہا اے امیر المومنین ! اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اس طرح مخاطب کیا کہ اے میرے باپ! اللہ نے رزق کو وسیع کیا ہے اور آپ کو فتوحات عطا کی ہیں اور کثرت سے مال عطا کیا ہے کیوں نہ آپ اپنے کھانے سے زیادہ نرم غذا کھایا کریں اور اپنے اس لباس سے زیادہ نرم لباس پہنا کریں.حضرت عمرؓ نے فرمایا میں تم سے ہی اس امر کا فیصلہ چاہوں گا.کیا تمہیں یاد نہیں کہ رسول اللہ صل الی یم کو زندگی میں کتنی سختیاں گزارنی پڑیں.راوی کہتے ہیں کہ آپ مسلسل حضرت حفصہ کو یہ یاد دلاتے رہے یہاں تک کہ حضرت حفصہ کو رلا دیا.پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! جہاں تک مجھ میں طاقت ہو گی میں رسول اللہ صلی علیم اور حضرت ابو بکر کی زندگیوں کی سختی میں شامل رہوں گا تا کہ شاید میں ان دونوں کی راحت کی زندگی میں بھی شریک ہو جاؤں.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت حفصہ سے کہا کہ اے حفصہ بنت عمر اتم نے اپنی قوم کی خیر خواہی تو کی ہے لیکن اپنے باپ کی خیر خواہی نہیں کی.تم نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ یہ ہو گا تو قوم کی بہتر خدمت کروں گا لیکن میری خیر خواہی نہیں ہے.اور پھر فرمایا کہ میرے خاندان والوں کا صرف میری جان اور میرے مال پر حق ہے لیکن میرے دین اور میری امانت میں ان کا کوئی حق نہیں.481

Page 285

اصحاب بدر جلد 3 265 حضرت عمر بن خطاب 482 یعنی جو امانت میں ادا کر رہا ہوں اور جس طرح ادا کر رہا ہوں، اس میں مجھے تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.اس بات میں، اس بارے میں کہنا تمہارا کوئی حق نہیں.حضرت عکرمہ بن خالد بیان کرتے ہیں کہ حضرت حفصہ اور حضرت عبد اللہ اور ان کے علاوہ کچھ اور لوگوں نے حضرت عمرؓ سے بات کرتے ہوئے کہا.اگر آپ زیادہ عمدہ غذا کھائیں تو حق کے لیے کام کرنے پر آپ زیادہ قوی ہو جائیں گے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کیا تم سب کی یہی رائے ہے تو انہوں نے کہا ہاں.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں تمہاری خیر خواہی سمجھ گیا ہوں لیکن میں نے اپنے دونوں دوستوں یعنی آنحضرت صلی علیہ کم اور حضرت ابو بکر کو اس راستے پر چھوڑا ہے کہ اگر میں نے ان دونوں کا وہ راستہ چھوڑ دیا تو میں ان دونوں سے منزل میں نہیں مل سکوں گا.2 حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی علی کمر کا زمانہ خوف و خطر کا زمانہ تھا.اس وقت جو آپ نے مسلمانوں کو احکام دیے تھے ہم ان سے سبق حاصل کر سکتے ہیں.آپ کا اپنا طریق بھی یہ تھا اور ہدایت بھی آپ نے یہ کر رکھی تھی کہ ایک سے زیادہ سالن استعمال نہ کیا جائے.حضرت مصلح موعود اپنے ایک خطبہ میں تحریک جدید کے سلسلہ میں ہی یہ ذکر کر رہے ہیں.بہر حال فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی للی علم کی ہدایت تھی کہ ایک سے زیادہ سالن استعمال نہ کیا جائے اور اس پر اتنا زور دیتے تھے کہ بعض صحابہ نے اس میں غلو کر لیا.انتہا سے بڑھ گئے.چنانچہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے سامنے سر کہ اور نمک رکھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ دو کھانے کیوں رکھے گئے ہیں جبکہ رسول کریم صلی علی نیم نے صرف ایک کھانے کا حکم دیا ہے.آپؐ سے عرض کیا گیا، لوگوں نے حضرت عمر کو کہا یہ دو نہیں بلکہ نمک اور سر کہ دونوں مل کر ایک سالن ہوتا ہے.مگر آپ نے کہا نہیں.یہ دو ہیں.اگر چہ حضرت عمر کا فعل رسول کریم صلی کم کی محبت کے جذبہ کی وجہ سے غلو کا پہلو رکھتا ہو ا معلوم ہوتا ہے.غالباًر سول کریم صلی یم کا یہ منشانہ تھا لیکن اس مثال سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ آپ نے دیکھ کر کہ مسلمانوں کو سادگی کی ضرورت ہے اس کی کس قدر تاکید کی تھی.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر والا مطالبہ میں نہیں کرتا اور یہ نہیں کہتا کہ نمک ایک سالن ہے اور سر کہ دوسر ا مگر یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ آج سے تین سال کے لیے جس کے دوران میں ایک ایک سال کے بعد دوبارہ اعلان کرتارہوں گا تا کہ اگر ان تین سالوں میں حالت خوف بدل جائے تو احکام بھی بدلے جاسکیں.ہر احمد ی جو اس جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہے یہ اقرار کرے کہ وہ آج سے صرف ایک سالن استعمال کرے گا.روٹی اور سالن یا چاول اور سالن.یہ دو چیزیں نہیں بلکہ دونوں مل کر ایک ہوں گے لیکن روٹی کے ساتھ دو سالن ہوں یا چاولوں کے ساتھ دو سالنوں کی اجازت نہ ہو گی.483 میر اس زمانے کی بات ہے جب تحریک جدید کا اعلان فرمایا تھا اور اس وقت جماعت کو ضرورت تھی تو تحریک کی کہ اپنے خرچے کم کر کے چندہ دو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب حالات مختلف ہیں.اس لیے یہ

Page 286

حاب بدر جلد 3 266 حضرت عمر بن خطاب پابندی نہیں ہے لیکن پھر بھی اسراف سے کام نہیں لینا چاہیے.حضرت مصلح موعود آیت وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَ لَمْ يَقْتُرُوا وَ كَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا (الفرقان: 68) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی عبد الرحمن بننا چاہے تو اس کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے وقت دو باتوں کا لحاظ کرے.اول یہ کہ وہ اپنے مال میں اسراف نہ کرے.اس کا کھانا صرف تکلف اور مزے کے لیے نہیں ہو تا بلکہ قوت طاقت اور بدن کو قائم رکھنے کے لیے ہوتا ہے.اس کا پہننا آرائش کے لیے نہیں ہو تا بلکہ بدن کو ڈھانکنے اور خدا تعالیٰ نے جو اسے حیثیت دی ہے اس کے محفوظ رکھنے کے لیے ہوتا ہے.چنانچہ صحابہ کا طرزِ عمل بتاتا ہے کہ وہ اسی طرح کرتے تھے.چنانچہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ ملک شام کو تشریف لے گئے وہاں بعض صحابہ نے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے تھے.( ریشمی کپڑوں سے مراد وہ کپڑے ہیں جس میں کسی قدر ریشم تھا ورنہ خالص ریشم کے کپڑے سوائے کسی بیماری کے مردوں کو پہننے منع ہیں.حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ ان لوگوں پر خاک پھینکو یعنی برا منایا اور ان سے کہا کہ تم اب ایسے آسائش پسند ہو گئے ہو کہ ریشمی کپڑے پہنتے ہو.اس پر ان صحابہ میں سے ایک نے کر تہ اٹھا کر دکھایا تو معلوم ہوا کہ اس نے نیچے موٹی اون کا سخت کر نہ پہنا ہوا تھا.اس نے حضرت عمر کو بتایا کہ ہم نے ریشمی کپڑے اس لیے نہیں پہنے کہ ہم ان کو پسند کرتے ہیں بلکہ اس لیے کہ اس ملک کے لوگوں کی طرز ہی ایسی ہے.اور یہ بچپن سے ایسے امراء کو دیکھنے کے عادی ہیں جو نہایت شان و شوکت سے رہتے تھے.پس ہم نے بھی ان کی رعایت سے اپنے لباسوں کو ملکی سیاست کے طور پر بدلا ہے ورنہ ہم پر ان کا کوئی اثر نہیں.پس صحابہ کا عمل بتاتا ہے کہ اسراف سے کیا مراد ہے.اس سے یہی مراد ہے کہ مال ایسی اشیاء پر نہ خرچ کرے جن کی ضرورت نہیں اور جن کا مدعا صرف آرائش اور زیبائش ہو.غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبادالرحمن وہ ہوتے ہیں جو اپنے مالوں میں اسراف نہیں کرتے.جو مالوں میں اسراف نہ کرتے ہوں وہ اپنے مالوں کو ریا اور دکھاوے کے لیے خرچ نہ کرتے ہوں بلکہ فائدہ اور نفع کے لیے صرف کرتے ہوں.پھر اپنے مالوں کو ایسی جگہ دینے سے نہ روکیں جہاں دینا ضروری ہو اور ان کا قوام ہو یعنی درمیانی ہو ( اس فائدہ کا ذریعہ بن رہا ہو ) نہ اپنے مالوں کو اس طرح لوٹائیں جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے ماتحت نہ ہو اور نہ اس طرح رو کیں کہ جائز حقوق کو بھی ادانہ کریں.یہ دو شرطیں عبادالرحمن کے لیے مال خرچ کرنے کے متعلق ہیں لیکن بہت لوگ ہیں جو یا تو اسراف کی طرف چلے جاتے ہیں یا بخل کی طرف چلے جاتے ہیں.484 حضرت عمرؓ دکھاوے اور شان و شوکت والے لباس کے اس قدر خلاف تھے کہ مفتوح دشمن کے لیے بھی یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ وہ کوئی ایسا لباس پہن کے ان کے سامنے آئے جو شان و شوکت والا.چنانچہ فارسیوں کے سپہ سالار هرمزان کے واقعہ میں اس کی تفصیل ملتی ہے.یہ تفصیل تو میں پہلے

Page 287

اصحاب بدر جلد 3 267 حضرت عمر بن خطاب بیان کر چکا ہوں.اس جگہ میں کچھ تھوڑا سا حصہ واضح کرنے کے لیے بیان کرتا ہوں.جب تشٹر کی فتح کے وقت فارسیوں کے سپہ سالار ھرمزان نے ہتھیار پھینک دیے اور خود کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا اور اسے حضرت عمرؓ کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا تو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے جو مسلمان لے جانے والے تھے انہوں نے اسے اس کا ریشمی لباس پہنا دیا تا کہ حضرت عمر اور مسلمان اس کی اصل بلیت کو دیکھ سکیں.جب حضرت عمرؓ کے سامنے وہ آیا تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کیا ھرمزان ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں.تو حضرت عمرؓ نے اس کو اور اس کے لباس کو بغور دیکھا اور کہا میں آگ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں اور اللہ سے مدد مانگتا ہوں.قافلہ کے لوگوں نے کہا کہ یہ ہر مان ہے.اس سے بات کر لیں.آپ نے کہا ہر گز نہیں یہاں تک کہ وہ اپنا زرق برق لباس اور زیورات اتار دے.یہ سب کچھ اتارا گیا اور پھر حضرت عمرؓ نے اس سے بات کی.485 حضرت عمر کی عاجزی اور تقویٰ کے معیار کے بارے میں اس بات سے اندازہ ہوتا ہے.حضرت عُروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ میں نے عمر بن خطاب کو کندھے پر پانی کا ایک مشکیزہ اٹھائے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ کے لیے یہ مناسب نہیں ہے.آپ نے فرمایا کہ جب وفود اطاعت اور فرمانبر داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے پاس آئے، مختلف قوموں کے وفد جب اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئے تو میرے دل میں اپنی بڑائی کا احساس ہوا.اس لیے میں نے اس بڑائی کو توڑنا ضروری سمجھا.486 یہ بڑائی کیوں پیدا ہوئی؟ اس لیے میں نے سوچا کہ میں پھر اس کو اس طرح توڑوں کہ پانی کا مشکیزہ اٹھا کے لے کے جاؤں.حضرت یحی بن عبد الرحمن بن حاطب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ مکہ سے قافلے کی صورت میں واپس آرہے تھے یہاں تک کہ ہم سخنان کی گھاٹیوں میں پہنچے تو لوگ رک گئے.مجنان مکہ سے پچیس میل کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے.کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا مجھے اس جگہ پر وہ وقت بھی یاد ہے جب میں اپنے والد خطاب کے اونٹ پر ہو تا تھا اور وہ بہت سخت طبیعت کے انسان تھے.ایک مرتبہ میں ان اونٹوں پر لکڑیاں لے کر جاتا تھا اور دوسری مرتبہ ان پر گھاس لے کر جاتا تھا.آج میرا یہ حال ہے کہ لوگ میرے علاقے کے دور دراز میں سفر کرتے ہیں اور میرے اوپر کوئی نہیں.یعنی میں ایک وسیع و عریض علاقے کا حاکم ہوں جس میں لوگ دور دور تک سفر کرتے ہیں اور مجھ سے ملنے آتے ہیں اور میرے اوپر دنیا کا کوئی حکمران نہیں ہے جو مجھ پر حکومت کرتا ہو.پھر یہ شعر پڑھا.لَا شَيْءٍ فِيمَا تَرَى إِلَّا بَشَاشَتَه يَبْقَى الْإِلهُ وَيُوْدِي الْمَالُ وَالْوَلَد یعنی جو کچھ تمہیں نظر آتا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں سوائے ایک عارضی خوشی کے.صرف خدا کی ذات باقی رہے گی جبکہ مال اور اولا د فنا ہو جائے گی.487

Page 288

تاب بدر جلد 3 268 حضرت عمر بن خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الاول اس بارے میں فرماتے ہیں ” حضرت عمر حج سے آتے ہوئے ایک درخت کے پاس کھڑے ہو گئے.حذیفہ جو بے تکلف تھا اس نے جرآت کی اور وجہ پوچھی آپ نے فرمایا کہ ایک وقت تھا کہ جب میں اپنے ایک اونٹ کو چراتا تھا اور اس درخت کے نیچے میرے والد نے مجھے بہت زجر و توسیع کی تھی اور اب یہ وقت ہے کہ اونٹ تو کیا کئی لاکھ آدمی میری آنکھ کے اشارے پر جان دینے کو تیار 488" اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اونٹوں کے چرانے والا ایک شخص عظیم الشان بادشاہ بن گیا اور صرف دنیاوی بادشاہ نہیں بنا بلکہ روحانی بھی.یہ حضرت عمر تھے جو ابتدائے عمر میں اونٹ چرایا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ حج کو گئے تو راستہ میں ایک مقام پر کھڑے ہو گئے.دھوپ بہت سخت تھی جس سے لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی لیکن کوئی یہ کہنے کی جرات نہ کرتا کہ آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں.آخر ایک صحابی کو جو حضرت عمر کے بڑے دوست تھے اور جن سے آپ فتنہ کے متعلق پوچھا کرتے تھے لوگوں نے کہا کہ آپ ان سے پوچھیں “حضرت عمرؓ سے پوچھیں کہ یہاں کیوں کھڑے ہیں ؟ انہوں نے حضرت عمر سے عرض کیا کہ آگے چلئے یہاں کیوں کھڑے ہو گئے ہیں.“ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں یہاں اس لئے کھڑ ا ہوا ہوں کہ ایک دفعہ میں اونٹ چرانے کی وجہ سے تھک کر اس درخت کے نیچے لیٹ گیا تھا.میرا باپ آیا اور اس نے مجھے مارا کہ کیا تجھے اس لئے بھیجا تھا کہ وہاں جا کر سو رہنا.تو ایک وقت میں میری یہ حالت تھی لیکن میں نے رسول کریم صلی ا ہم کو قبول کیا تو خدا تعالیٰ نے مجھے یہ درجہ دیا کہ آج اگر لاکھوں آدمیوں کو کہوں تو وہ میری جگہ جان دینے کو تیار ہیں.اس واقعہ سے اور نیز اس قسم کے اور بہت سے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کس حالت میں تھے اور رسول کریم کی اتباع سے ان کی کیا حالت ہوگئی اور انہوں نے وہ درجہ اور علم پایا جو کسی کو حاصل نہ تھا.”حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ قصہ میں نے اس لئے سنایا ہے کہ دیکھو ایک اونٹ چرانے والے کو دین اور دنیا کے وہ وہ علم سکھائے گئے جو کسی کو سمجھ نہیں آسکتے.ایک طرف اونٹ یا بکریاں چرانے کی حالت کو دیکھو کیسی علم سے دور معلوم ہوتی ہے اور دوسری طرف اس بات پر غور کرو کہ اب بھی جبکہ یورپ کے لوگ ملک داری کے قوانین سے نہایت واقف اور آگاہ ہیں حضرت عمر کے بنائے ہوئے قانون کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ایک اونٹ کا چرواہا اور سلطنت کیا تعلق رکھتے ہیں ؟ لیکن دیکھو کہ انہوں نے وہ کچھ کیا کہ آج دنیا ان کے آگے سر جھکاتی ہے اور ان کی سیاست دانی کی تعریف کرتی ہے.پھر دیکھو حضرت ابو بکر ایک معمولی تاجر تھے لیکن اب دنیا حیران ہے کہ ان کو یہ فہم ، یہ عقل اور یہ فکر کہاں سے مل گیا.میں بتاتا ہوں کہ ان کو قرآن شریف سے سب کچھ ملا.انہوں نے قرآن شریف پر غور کیا اس لئے ان کو وہ کچھ آگیا جو تمام دنیا کو نہ آتا تھا کیونکہ قرآن شریف ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جب اس کے ساتھ دل کو صیقل کیا جائے تو ایسا صاف ہو جاتا ہے کہ تمام دنیا کے علوم اس

Page 289

محاب بدر جلد 3 269 حضرت عمر بن خطاب میں نظر آجاتے ہیں اور انسان پر ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے کہ پھر کسی کے روکے وہ علوم جو اس کے دل پر نازل کئے جاتے ہیں نہیں رک سکتے.پس ہر ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو پڑھنے اور غور کرنے کی کوشش کرے.489 حضرت عمر کی عاجزی اور انکساری کے بارے میں ایک روایت میں اس طرح ذکر ملتا ہے.بجبیر بن نظیر سے روایت ہے کہ ایک جماعت نے عمر بن خطاب سے کہا اے امیر المومنین! اللہ کی قسم ہم نے کسی شخص کو آپ سے زیادہ انصاف کرنے والا، زیادہ حق گو اور منافقین پر سختی کرنے والا نہیں دیکھا.بیشک آپ رسول اللہ صلی علیم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر ہیں.عوف بن مالک نے اس کہنے والے شخص کو کہا کہ اللہ کی قسم ! تم نے جھوٹ بولا ہے.یقینا ہم نے نبی کریم صلی علیم کے بعد ان سے بہتر کو دیکھا ہے یعنی حضرت عمر سے بہتر کو بھی دیکھا.تو حضرت عمر نے پوچھا اے عوف ! وہ کون ہے تو انہوں نے کہا ابو بکر.حضرت عمرؓ نے فرمایا عوف نے بیچ بولا اور اس شخص کو کہا کہ تم نے جھوٹ بولا.اللہ کی قسم ! ابو بکر مشک 490 کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہیں اور میں اپنے گھر والوں کے اونٹوں سے بھی زیادہ بھٹکا ہوا ہوں.حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں ” حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ اور حضرت ابو بکر کی کسی بات پر تکرار ہو گئی.یہ تکرار بڑھ گئی.حضرت عمر کی طبیعت تیز تھی.اس لئے حضرت ابو بکر نے مناسب سمجھا کہ وہ اس جگہ سے چلے جائیں تا کہ جھگڑا خواہ مخواہ زیادہ نہ ہو جائے.حضرت ابو بکر نے جانے کی کوشش کی تو حضرت عمرؓ نے آگے بڑھ کر حضرت ابو بکر کا کرتہ پکڑ لیا کہ میری بات کا جواب دے کر جاؤ.جب حضرت ابو بکر اس کو چھڑا کر جانے لگے تو آپ کا کرتہ پھٹ گیا.آپ وہاں سے اپنے گھر کو چلے آئے لیکن حضرت عمرؓ کو شبہ پید اہوا کہ حضرت ابو بکر رسول کریم صلی ایم کے پاس میری شکایت کرنے گئے ہیں.وہ بھی پیچھے پیچھے چل پڑے تا کہ میں بھی رسول کریم صلی علیکم کی خدمت میں اپنا عذر پیش کر سکوں لیکن راستے میں حضرت ابو بکر حضرت عمر کی نظروں سے اوجھل ہو گئے.حضرت عمر یہی سمجھے کہ آپ رسول کریم صلی علیکم کی خدمت میں شکایت کرنے گئے ہیں وہ بھی سیدھے رسول کریم صلی علیکم کی خدمت میں جا پہنچے.وہاں جا کر دیکھا تو حضرت ابو بکر موجود نہ تھے لیکن چونکہ ان کے دل میں ندامت پیدا ہو چکی تھی اس لئے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں ابو بکر سے سختی سے پیش آیا.حضرت ابو بکر کا کوئی قصور نہیں.میر اہی قصور ہے.جب حضرت عمر رسول کریم صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابو بکر کو جا کر کسی نے بتایا کہ حضرت عمر ر سول کریم صلی الی نیم کے پاس آپ کی شکایت کرنے گئے ہیں.حضرت ابو بکر کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مجھے بھی اپنی براءت کے لئے جانا چاہئے تاکہ یکطرفہ بات نہ ہو جائے اور میں بھی اپنا نقطہ نگاہ پیش کر سکوں.جب حضرت ابو بکر رسول کریم صلیالی کم کی خدمت میں مجلس میں پہنچے تو حضرت عمرؓ عرض کر رہے تھے کہ یارسول اللہ ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے حضرت ابو بکر سے تکرار کی اور ان کا

Page 290

تاب بدر جلد 3 270 حضرت عمر بن خطاب کرتہ مجھ سے پھٹ گیا.جب رسول کریم صلی العلیم نے یہ بات سنی تو غصہ کے آثار آپ کے چہرہ پر ظاہر ہوئے.آپ نے فرمایا.اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے جب ساری دنیا میرا انکار کرتی تھی اور تم لوگ بھی میرے مخالف تھے اس وقت ابو بکر ہی تھا جو مجھ پر ایمان لایا اور ہر رنگ میں اس نے میری مدد کی.پھر افسردگی کے ساتھ فرمایا کیا اب بھی تم مجھے اور ابو بکر کو نہیں چھوڑتے ؟ آپ یہ فرما رہے تھے کہ حضرت ابو بکر داخل ہوئے.یہ ہو تا ہے سچے عشق کا نمونہ کہ بجائے یہ عذر کرنے کے کہ یارسول اللہ ! میرا قصور نہ تھا عمر کا قصور تھا.“ حضرت ابو بکر جب داخل ہوئے اور ”آپ نے جب دیکھا کہ رسول کریم صلی علی یکم کے دل میں خفگی پیدا ہو رہی ہے آپ سچے عاشق کی حیثیت سے برداشت نہ کر سکے کہ میری وجہ سے رسول کریم صلی للہ ہم کو تکلیف ہو.“ اس لئے حضرت ابو بکر وہ آتے ہی رسول کریم صلی ال ملک کے سامنے گھ نے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! عمر کا قصور نہیں تھا میر اقصور تھا.“491 حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے لوگوں سے عورت کے جنین کے اسقاط کی صورت میں اس کی دیت کے بارے میں مشورہ کیا.مغیرہ نے کہا کہ نبی کریم صلی المی کم نے ایک غلام یا لونڈی کی قیمت بطور دیت ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا.حضرت عمرؓ نے کہا ایسا شخص لاؤ جو تمہارے ساتھ اس بات کی گواہی دے.پھر محمد بن مسلمہ نے گواہی دی کہ وہ نبی کریم صلی علیم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ ہم نے ایسا ہی فیصلہ کیا تھا.492 یعنی کسی ظلم کی وجہ سے یا زبر دستی کسی عورت کا اسقاط ہو جائے یا کروایا جائے تو پھر اس کی دیت دینی ضروری ہے اور جس نے یہ ظلم کیا ہو وہ دیت دے گا اور ایک لونڈی یا غلام آزاد کرے گا.حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا السلام علیکم.کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ عمرؓ نے دل میں کہا ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے.تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا السلام علیکم.کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ عمرؓ نے دل میں کہا یعنی جواب دل میں دیا اور پھر کہا کہ ابھی دو ہی بار اجازت طلب کی ہے.تھوڑی دیر مزید خاموش رہ کر انہوں نے پھر کہا السلام علیکم.کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے ؟ جب ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تین بار اجازت طلب کر چکے تو پھر واپس ہو لیے.جب تین بار انہوں نے اجازت لے لی اور حضرت عمر کا جواب نہیں سنا تو واپس چلے گئے.عمرؓ نے دربان سے کہا ابو موسیٰ نے کیا کیا؟ اس نے کہا کہ لوٹ گئے ہیں.عمرؓ نے کہا کہ انہیں بلا کر میرے پاس لاؤ.پھر جب وہ ان کے پاس آئے تو حضرت عمرؓ نے کہا یہ آپ نے کیا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سنت پر عمل کیا ہے.عمرؓ نے کہا سنت پر ؟ قسم اللہ کی تمہیں اس کے سنت ہونے پر دلیل اور ثبوت پیش کرنا ہو گاور نہ میں تمہارے ساتھ سخت بر تاؤ کروں گا.ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ پھر وہ ہمارے پاس آئے.اس وقت ہم انصار کی ایک جماعت کے ساتھ

Page 291

باب بدر جلد 3 271 حضرت عمر بن خطاب تھے.ابو موسیٰ اشعری نے کہا اے انصار کی جماعت ! کیا تم رسول اللہ صلی ال نیلم کی حدیث کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو ، کیارسول اللہ صلی ا ہم نے یہ نہیں فرمایا الاستغذَانُ ثَلَاثٌ ؟ یعنی اجازت طلبی تین بار ہے.اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو گھر میں جاؤ اور اگر اجازت نہ دی جائے تو کوٹ جاؤ.یہ سن کر لوگ ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے.ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر ابو موسیٰ اشعری کی طرف اونچا کر کے کہا اس سلسلہ میں جو بھی سزا آپ کو ملے گی میں اس میں حصہ دار ہوں.انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے ٹھیک کہا ہے.راوی کہتے ہیں پھر وہ یعنی ابو سعید ، عمر کے پاس آئے اور ان کو اس حدیث کی خبر دی.حضرت عمر نے کہا کہ ٹھیک ہے مجھے اس حدیث کا علم نہیں تھا اور اب مجھے علم ہو گیا ہے.493 صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی ال نیم کے گرد بیٹھے ہوئے تھے.حضرت ابو بکر اور حضرت عمر سمیت اور لوگ بھی تھے.رسول اللہ صلی املی کم ہمارے درمیان سے اٹھ کر چلے گئے مگر آپ کو واپسی میں دیر ہو گئی اور ہم ڈرے کہ آپ ہم سے کٹ نہ جائیں اور ہم گھبر اگئے اور اٹھ کھڑے ہوئے.سب سے پہلے مجھے فکر پیدا ہوئی تو میں رسول اللہ صلی علی کرم کو ڈھونڈنے کے لیے باہر نکل پڑا یہاں تک کہ میں انصار کے ایک باغ کے پاس آیا جو بنو نجار کا تھا.میں نے اس کے گرد چکر لگایا کہ دروازہ ڈھونڈوں مگر میں نے دروازہ نہ پایا پھر دیکھا کہ پانی کا ایک بڑا نالہ باہر ایک کنویں سے باغ کے اندر جاتا ہے تو کہتے ہیں میں اس میں لومڑی کے سمٹنے کی طرح سمٹ کر نالے کے ذریعہ سے داخل ہوا اور رسول اللہ صلی نیم کے پاس چلا گیا.آپ نے پوچھا ابو ہریرہ؟ میں نے کہا جی ہاں یارسول اللہ ! فرمایا کیا بات ہے ؟ میں نے کہا آپ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے.پھر آپ اٹھ کھڑے ہوئے مگر واپسی میں آپ کو دیر ہو گئی تو ہم ڈر گئے کہ آپ ہم سے کٹ نہ جائیں تو ہم گھبراگئے.سب سے پہلے مجھے فکر پیدا ہوئی اور میں اس باغ کے پاس آیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر اس میں داخل ہوا اور وہ لوگ میرے پیچھے ہیں.آنحضرت صلی العلیم نے مجھے اپنے جوتے دیے اور آپ نے فرمایا اے ابوہریرہ ! میرے یہ دونوں جوتے لے جاؤ اور جو کوئی اس باغ کے پرے تمہیں ملے اور یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں اور دل سے اس بات پر یقین رکھتا ہو تو اس بات پر اسے جنت کی بشارت دے دو.کہتے ہیں: میں جب گیا تو سب سے پہلے حضرت عمرؓ ملے.انہوں نے کہا اے ابوہریرہ ! یہ جوتے کیسے ہیں ؟ میں نے کہا یہ رسول اللہ صلی علیکم کے جوتے ہیں اور آپ صلی الی ایم نے یہ نشانی کے طور پر مجھے دیے ہیں اور ان دونوں کے ساتھ بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور دل سے اس پر یقین رکھتا ہو تو میں اسے جنت کی بشارت دوں.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ اس پر حضرت عمرؓ نے غصہ میں زور سے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور میں پشت کے بل گرا.انہوں نے کہا اے ابوہریرہ ! واپس جاؤ.خیر کوئی ضرورت نہیں کسی کو کچھ کہنے کی.کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس

Page 292

اصحاب بدر جلد 3 272 حضرت عمر بن خطاب واپس گیا اور رونے ہی لگا تھا کہ حضرت عمررؓ بھی میرے پیچھے پیچھے آپہنچے.رسول اللہ صلی الی الم نے فرمایا اے ابوہریرہ! تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا میں عمر سے ملا تھا اور ان سے جو آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا بیان کیا تو عمر نے مجھے سینے پر زور سے ہاتھ مارا.میں پشت کے بل گر گیا.انہوں نے کہا واپس جاؤ.رسول اللہ صلی للی کم نے فرمایا اے عمر ! تم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت عمرؓ نے کہا یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں.کیا آپ نے اپنی جوتیوں کے ساتھ ابوہریرہ کو بھیجا تھا کہ جو اسے ملے اور گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس کا دل اس بات پر یقین رکھتا ہو تو اسے جنت کی بشارت دے دے؟ آپ صلی الیم نے فرمایا کہ ہاں.اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ ایسانہ کیجیے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ لوگ پھر اسی پر بھروسہ کرنے لگ جائیں گے.اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ ان کو عمل کرنے دیں وہ عمل کریں اور نیکیوں کا جو حکم ہے ، احکامات ہیں ان پر عمل کرنے دیں تاکہ وہ حقیقی مومن بنیں.نہیں تو یہ صرف اسی بات پر قائم ہو جائیں گے کہ لا الہ الا اللہ کہنا ہی جنت کی بشارت ہے.رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا: الله سة اچھا رہنے دو.494 ٹھیک ہے، اسی طرح کرتے ہیں.بڑی محتاط طبیعت تھی حضرت عمرؓ گی.حضرت عمر سے ڈر کر شیطان بھی بھاگتا ہے اس بارے میں بھی بعض روایات ہیں.صحیح بخاری میں ایک روایت ہے.حضرت سعد بن وقاص روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ صلی علیکم کے پاس اندر آنے کی اجازت مانگی اور اس وقت آپ کے پاس قریش کی کچھ عور تیں بیٹھی ہوئی تھیں.وہ آپ سے باتیں کر رہی تھیں اور آپ سے زیادہ خرچ مانگ رہی تھیں.ان کی آواز آپ کی آواز سے اونچی تھی.جب حضرت عمر بن خطاب نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو وہ اٹھ کر جلدی سے پر دے میں چلی گئیں اور اس پر رسول اللہ صلی نیلم نے حضرت عمررؓ کو آنے کی اجازت دی.حضرت عمر آئے اور رسول اللہ صلی علیکم ہنس رہے تھے.حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ آپ کو ہمیشہ ہنستا ر کھے.نبی صلی الم نے فرمایا: ان عورتوں سے متعجب ہوں جو میرے پاس تھیں.جب انہوں نے آپ کی آواز سنی جلدی سے پردے میں چلی گئیں.حضرت عمر نے کہا یار سول اللہ ! حالا نکہ آپ زیادہ لائق نہیں کہ آپ سے ڈریں.پھر حضرت عمر نے عورتوں کو مخاطب کیا اونچی آواز میں اور کہنے لگے : اے اپنی جانوں کی دشمنو! کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی کی کمی سے نہیں ڈر تھیں.وہ بولیں ہاں آپ تو بڑے سخت مزاج اور سخت دل ہیں.رسول اللہ صلی ام ایسے نہیں ہیں.تو رسول اللہ صلی اللہ تم نے فرمایا: خطاب کے بیٹے سنو.اسی ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے.شیطان جب کبھی بھی تمہارے راستے پر چلتے ہوئے ملا ہے تو ضرور ہی اس نے اپنا وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ لیا ہے.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی علی کی تشریف فرما تھے کہ ہم نے شور سنا اور بچوں کی آوازیں بھی.رسول اللہ صلی علی کم کھڑے ہو گئے.وہاں حبشہ کی ایک عورت تھی جو ناچ کر کرتب دکھارہی تھی اور بچے اس کے ارد گرد جمع تھے.رسول اللہ صلی یکم نے فرمایا عائشہ آجاؤ اور دیکھ لو.495

Page 293

اصحاب بدر جلد 3 273 حضرت عمر بن خطاب 496 میں آئی اور اپنی ٹھوڑی رسول اللہ صلی ا یکم کے کندھے پر رکھ کر دیکھنے لگی.میری ٹھوڑی آپ کے سر اور کندھے کے درمیان تھی.پھر آپ مجھ سے فرمانے لگے کیا تم سیر نہیں ہوئی؟ میں نے کہا ابھی نہیں تا کہ میں دیکھوں کہ آپ کو میری کتنی قدر ہے.جب حضرت عمر آئے تو لوگ اس عورت کے پاس سے بھاگ گئے.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی یم نے فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ جن وانس کے شیطان عمر سے بھاگتے ہیں.حضرت عائشہ کہتی ہیں پھر میں وہاں سے لوٹ آئی.حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی کم کسی غزوہ کے لیے نکلے.جب آپ واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام لونڈی نے آکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو سلامتی سے واپس لے آیا تو میں آپ کے سامنے دف بجا کر گانا گاؤں گی.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ اگر تم نے نذر مانی ہے تو بجالو ورنہ نہیں.چنانچہ وہ دف بجانے لگی اور حضرت ابو بکر تشریف لائے.وہ دف بجاتی رہی.پھر حضرت علی آئے تو وہ دف بجاتی رہی.پھر حضرت عثمان آئے تو پھر بھی دف بجاتی رہی.پھر حضرت عمرؓ تشریف لائے تو اس نے دف اپنے نیچے رکھ لی اور اس کے اوپر بیٹھ گئی.49866 رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ اے عمر ! شیطان بھی تجھ سے ڈرتا ہے.میں بیٹھا تھا تو یہ دف بجاتی رہی.پھر ابو بکر آئے یہ دف بجاتی رہی.پھر علی آئے تو بھی بجاتی رہی.پھر عثمان آئے تو یہ بجاتی رہی مگر اے عمر ! جب تم آئے ہو تو اس نے دف رکھ دی ہے.197 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”نبی صلی علیم نے حضرت عمر کو کہا تھا کہ اگر شیطان تجھ کو کسی راہ میں پاوے تو دوسری راہ اختیار کرے اور تجھ سے ڈرے اور اس دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان حضرت عمرؓ سے ایک نامر و ذلیل کی طرح بھاگتا ہے.98 حضرت عمر کی زبان اور دل پر حق اور سکینت کے بارے میں آنحضرت صلی علیم نے ایک مرتبہ فرمایا.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یم نے فرمایا کہ اللہ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر جاری کر دیا.499 حضرت ابن عباس اپنے بھائی فضل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی ا ہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عمر بن خطاب میرے ساتھ ہوتا ہے جہاں میں پسند کرتا ہوں اور میں اس کے ساتھ ہو تا ہوں جہاں وہ پسند کرتا ہے اور میرے بعد عمر بن خطاب جہاں ہو گا حق اس کے ساتھ رہے گا.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ہم آپس میں گفتگو کیا کرتے تھے کہ سکینت حضرت عمر کی زبان اور دل پر جاری ہوتی ہے.501 حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ ہم نے اپنی ایک بیوی سے کہا کہ میرا سامانِ سفر باندھنا شروع کرو.انہوں نے رخت سفر باندھنا شروع کیا اور حضرت عائشہ سے کہا میرے 500

Page 294

اصحاب بدر جلد 3 274 حضرت عمر بن خطاب لئے ستو وغیرہ یا دانے وغیرہ بھون کر تیار کرو.اسی قسم کی غذائیں ان دنوں میں ہوتی تھیں.چنانچہ انہوں نے مٹی وغیرہ پھٹک کے دانوں سے نکالنی شروع کی.حضرت ابو بکر گھر میں بیٹی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ تیاری دیکھی تو پوچھا عائشہ ! یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کیا رسول اللہ کے کسی سفر کی تیاری ہے ؟ کہنے لگیں سفر کی تیاری ہی معلوم ہوتی ہے.آپ نے سفر کی تیاری کے لئے کہا ہے.کہنے لگے کوئی لڑائی کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے کہا کچھ پتہ نہیں.رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا ہے کہ میر اسامان سفر تیار کرو اور ہم ایسا کر رہے ہیں.دو تین دن کے بعد آپ نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو بلایا اور کہا دیکھو! تمہیں پتہ ہے خُزاعہ کے آدمی اس طرح آئے تھے اور پھر بتایا کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور مجھے خدا نے اس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی تھی کہ انہوں نے غداری کی ہے.“ یعنی مکہ والوں نے غداری کی ہے ” اور ہم نے ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے.اب یہ ایمان کے خلاف ہے کہ ہم ڈر جائیں اور مکہ والوں کی بہادری اور طاقت دیکھ کر ان کے مقابلہ کے لئے تیار نہ ہو جائیں تو ہم نے وہاں جانا ہے.تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت ابو بکر نے کہا یارسول اللہ ! آپ نے تو ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے اور پھر وہ آپ کی اپنی قوم ہے.مطلب یہ تھا کہ آپ اپنی قوم کو ماریں گے ؟ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا ہم اپنی قوم کو نہیں ماریں گے.معاہدہ شکنوں کو ماریں گے.پھر حضرت عمرؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا بسم اللہ ! میں تو روز دعائیں کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسول اللہ کی حفاظت میں کفار سے لڑیں.رسول کریم صلی علیکم نے فرمایا: ابو بکر بڑا نرم طبیعت کا ہے مگر قول صادق عمر کی زبان سے زیادہ جاری ہو تا ہے.فرمایا کرو تیاری.پھر آپ نے ارد گرد کے قبائل کو اعلان بھجوایا کہ ہر شخص جو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں مدینہ میں جمع ہو جائے.چنانچہ لشکر جمع ہونے شروع ہوئے اور کئی ہزار آدمیوں کا لشکر تیار ہو گیا اور آپ لڑنے کے لئے تشریف لے گئے.5020 503 حضرت ابو بکر اور عمرہ کی فضیلت کے بارے میں ایک روایت ہے حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی علیم نے فرمایا کہ علیین والوں میں سے کوئی شخص جنت والوں پر جھانکے گا تو اس کے چہرہ کی وجہ سے جنت جگمگا اٹھے گی.گویا ایک چمکتا ہو استارہ ہے اور حضرت ابو بکر اور عمر بھی ان میں سے ہیں اور وہ دونوں کیا ہی خوب ہیں.3 ابو عثمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے حضرت عمرو بن عاص کو ذات السلاسل کی فوج پر افسر مقرر کر کے بھیجا.اس زمانے کا جو سفر کا طریقہ ہو تا تھا اس کے مطابق یہ مدینہ سے کوئی ایک دن کے سفر پہ واقع جگہ ہے.اور وادی القریٰ سے آگے قبیلہ جذام کے علاقے میں ایک کنویں کا نام ہے.حضرت عمر و کہتے ہیں کہ جب میں آپ کے پاس واپس آیا تو میں نے آپ سے پوچھا: لوگوں میں سے آپ کو کون زیادہ پیارا ہے ؟ آپ نے فرما یا عائشہ.میں نے کہا مر دوں میں سے کون زیادہ پیارا ہے، آپ نے فرمایا اس عائشہ کا باپ.میں نے کہا پھر

Page 295

تاب بدر جلد 3 275 حضرت عمر بن خطاب کون؟ آپ نے فرمایا عمر.پھر آپ نے کئی مردوں کا نام لیا.504 حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی للی کم مہاجرین و انصار میں سے اپنے صحابہ کے پاس نکل کر آتے اور وہ بیٹھے ہوتے.ان میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی ہوتے تو ان میں سے کوئی اپنی نگاہ آپ کی طرف نہیں اٹھاتا تھا سوائے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے.یہ دونوں آپ کو دیکھتے اور مسکراتے اور آپ ان دونوں کو دیکھتے اور مسکراتے.505 حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی للی یکم ایک دن نکلے اور آپ اور حضرت ابو بکر اور عمر مسجد میں داخل ہوئے ان میں سے ایک آپ کے دائیں جانب تھے اور دوسرے بائیں جانب اور آپ ان دونوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے.آپ نے فرمایا: اسی طرح ہم قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے.506 507 عبد اللہ بن حنطب سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علی یکم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھ کر فرمایا: یہ دونوں کان اور آنکھ ہیں.حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر سے کہا: اے رسول اللہ صلی الم کے بعد سب سے بہتر انسان ! اس پر حضرت ابو بکر نے کہا سنو! اگر تم ایسا کہہ رہے ہو تو میں نے رسول اللہ صلی علیکم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کسی آدمی پر سورج طلوع نہیں ہوا جو عمر سے بہتر ہو.508 حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی.پھر ابو بکر.پھر عمر رضی اللہ عنہما.509 پھر میں بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے.پھر میں مکہ والوں کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ حرمین کے درمیان اٹھایا جاؤں گا.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی نیلم نے فرمایا: تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آ رہا ہے تو حضرت ابو بکر آئے.پھر آپ نے فرمایا: تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آ رہا ہے تو حضرت عمرؓ آئے.حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ ہم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے بارے میں فرمایا.یہ دونوں جنت کے اولین اور آخرین کے تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین کے.511 510 حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا میرے بعد ان دونوں ابو بکر اور عمر کی پیروی کرنا.512 حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی یم نے فرمایا: ہر نبی کے آسمان والوں میں سے دو وزیر ہوتے ہیں اور زمین والوں میں سے بھی دو وزیر ہوتے ہیں.آسمان والوں میں سے میرے دو

Page 296

276 حضرت عمر بن خطاب اصحاب بدر جلد 3 وزیر جبرئیل اور میکائیل ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابو بکر اور عمر ہیں.3 حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ: 513 الله سة ہم نبی کریم صلی الیکم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی الی الم نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ میں کب تک تمہارے درمیان رہوں گا.پس تم لوگ ان دونوں کی پیروی کر وجو میرے بعد ہوں گے اور آپ صلی میں کم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف اشارہ کیا.514 515 حضرت ابو بکرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللی کم نے ایک روز فرمایا: تم میں سے کس نے خواب دیکھی ہے.ایک شخص نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا گویا کہ ایک میزان ہے.آسمان سے اترا ہے اور آپ کو اور حضرت ابو بکر ہو تو لا گیا تو آپ حضرت ابو بکر سے بھاری ہوئے.پھر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو تو لا گیا تو حضرت ابو بکر بھاری ہوئے.پھر حضرت عمررؓ اور حضرت عثمان کو تو لا گیا تو حضرت عمر بھاری ہوئے.اس کے بعد میزان تر از و اٹھالی گئی.راوی کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے.ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللی تم نے خواب کے سننے کے بعد فرمایا: یہ نبوت کی خلافت ہے.اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا بادشاہت عطا فرمائے گا.5 عبد خير بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی منبر پر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اے لوگو! کیا میں تمہیں نبی کریم صلی علی میم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین انسان کے بارے میں نہ بتاؤں.لوگوں نے کہا کیوں نہیں.حضرت علی نے کہا ابو بکر نہیں.پھر آپ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر کہنے لگے اے لوگو ! کیا میں تمہیں حضرت ابو بکر کے بعد اس امت کے سب سے بہترین انسان کے بارے میں بتاؤں وہ عمر نہیں.516 ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی سے سنا کہ اس امت میں نبی علی میم کے بعد سب سے بہترین ابو بکر نہیں.پھر عمر نہیں.517 صحابہ کی پہلی حالت اور اسلام قبول کرنے کے بعد جو انقلاب ان کی حالتوں میں آیا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مثال حضرت عمر کی بھی دی ہے.یہ مثال گو میں پہلے ذکر کر چکا ہوں لیکن یہاں اس حوالے سے بیان کر دیتا ہوں.آپؐ نے فرمایا.”دیکھو صحابی کس طرح رسول کریم صلی الم کے صحابہ بنے اور کس طرح انہوں نے بڑے بڑے درجے حاصل کیے.اسی طرح کہ کوشش کی ورنہ یہ وہی لوگ تھے جو رسول کریم صلی ال کر کے جانی دشمن تھے اور آپ کو گالیاں دیتے تھے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی علیم کے بعد دوسرے خلیفہ ہوئے ہیں ابتداء میں آنحضرت صل ال روم کے ایسے سخت دشمن تھے کہ آپ کو قتل کرنے کے لیے گھر سے نکلے تھے.راستہ میں ایک ملا جس نے پوچھا کہاں جارہے ہو ؟ انہوں نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرنے جاتا ہوں.اس شخص

Page 297

محاب بدر جلد 3 277 حضرت عمر بن خطاب نے کہا پہلے اپنی بہن اور بہنوئی کو تو قتل کر لوجو مسلمان ہو گئے ہیں پھر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مارنا.یہ سن کر وہ غصہ سے بھر گئے اور اپنی بہن کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے.آگے جا کر دیکھا تو دروازہ بند تھا اور ایک شخص قرآن کریم سنارہا تھا اور ان کی بہن اور بہنوئی سن رہے تھے.اس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہ ہوا تھا.“ اس لیے وہ صحابی اندر گھر میں بیٹھے تھے.حضرت عمرؓ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو.ان کی آواز سن کر اندر والوں کو ڈر پیدا ہوا کہ مار دیں گے اس لئے انہوں نے دروازہ نہ کھولا.حضرت عمرؓ نے کہا اگر دروازہ نہ کھولو گے تو میں توڑ دوں گا.اس پر انہوں نے قرآن کریم سنانے والے مسلمان کو چھپا دیا اور بہنوئی بھی چھپ گیا.صرف بہن نے سامنے آکر دروازہ کھولا.حضرت عمرؓ نے پوچھا: بتاؤ کیا کر رہے تھے اور کون شخص تھا جو کچھ پڑھ رہا تھا؟ انہوں نے ڈر کے مارے ٹالنا چاہا.حضرت عمر نے کہا جو پڑھ رہے تھے مجھے سناؤ.ان کی بہن نے کہا: آپ اس کی بے ادبی کریں گے اس لیے خواہ ہمیں جان سے مار دیں ہم نہیں سنائیں گے.انہوں نے کہا: نہیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ بے ادبی نہیں کروں گا.“ یعنی قرآن کریم کی بے ادبی نہیں کروں گا.اس پر انہوں نے قرآن کریم سنایا جسے سن کر حضرت عمر رو پڑے اور دوڑے دوڑے رسول کریم صلی ال نیم کے پاس گئے.تلوار ہاتھ میں ہی تھی.رسول کریم صلی ا یم نے انہیں دیکھ کر کہا.عمر یہ بات کب تک رہے گی ؟ یہ سن کر وہ رو پڑے اور کہا میں نکلا تو آپ کے مارنے کے لیے تھا لیکن خود شکار ہو گیا ہوں.“ م الله سة تو یہ خلاصہ ہے اس سارے لمبے واقعہ کا جو پہلے بیان ہو چکا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ” تو پہلے یہ حالت تھی جس سے انہوں نے ترقی کی.پھر یہی صحابہ تھے جو پہلے شراب پیا کرتے تھے.آپس میں لڑا کرتے تھے “ اور صحابہ کا بھی ذکر ہے.اور کئی قسم کی کمزوریاں ان میں پائی جاتی تھیں لیکن جب انہوں نے آنحضرت صلی ا م کو قبول کیا اور دین کے لئے ہمت اور کوشش سے کام لیا تو نہ صرف خود ہی اعلیٰ درجے پر پہنچ گئے بلکہ دوسروں کو بھی اعلیٰ مقام پر پہنچانے کا باعث ہو گئے.وہ پیدا ہی صحابی نہیں ہوئے تھے بلکہ اسی طرح کے تھے جس طرح کے اور تھے مگر انہوں نے عمل کیا اور ہمت دکھائی تو صحابی ہو گئے.آج بھی اگر ہم ایسا ہی کریں تو صحابی بن سکتے ہیں.518 حضرت عمر کی خشیت الہی کی کیا حالت تھی؟ اس بارے میں روایت ہے.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی بکری بھی ضائع ہو کر مرگئی تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے قیامت کے دن اس کے بارے میں سوال کرے گا.ایک روایت میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی اونٹ بھی ضائع ہو کر مر گیا تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے اس کے بارے میں سوال کرے گا.520 519 حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دن میں عمر بن خطاب کے ساتھ باہر گیا یہاں تک

Page 298

حاب بدر جلد 3 278 حضرت عمر بن خطاب کہ آپ ایک باغ میں داخل ہوئے.میرے اور آپ کے درمیان ایک دیوار حائل تھی.آپ باغ کے اندر تھے.میں نے اس وقت آپ کو یہ کہتے سنا.واہ واہ اے خطاب کے بیٹے عمر ا تو امیر المومنین ہے.اللہ کی قسم تو ضرور اللہ سے ڈر ورنہ وہ ضرور تجھے عذاب دے گا.521 حضرت عمرہ کی انگوٹھی پر یہ جملہ کندہ تھا کہ گفی بِالْمَوْتِ وَاعِظا یا محمرُ کہ اے عمر ! واعظ ہونے کے لحاظ سے موت کافی ہے.2 522 یعنی اگر انسان موت کو یا د رکھے تو وہی نصیحت کرنے والی ایک چیز ہے اور اپنی حالت کو ٹھیک رکھنے کے لیے یہی چیز کافی ہے.523 عبد اللہ بن شداد کہتے تھے کہ میں نے حضرت عمرؓ کی ہچکیاں سنیں اور میں آخری صف میں تھا.آپ یہ تلاوت کر رہے تھے.اِنَّمَا أَشْكُوا بَغَى وَحُزْنِى إِلَى الله (ہسٹ :87) یعنی میں تو اپنے رنج و الم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتا ہوں.3 اس روایت کو ایک خطبہ میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے بھی بیان فرمایا تھا اور اس کی کچھ تفصیل اپنے الفاظ میں بھی اس طرح بیان کی تھی کہ حضرت عبد اللہ بن شداد کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ نماز پڑھارہے تھے اور میں آخری صف میں تھا لیکن حضرت عمر کی گریہ وزاری کی آواز سن رہا تھا.وہ یہ تلاوت کر رہے تھے.اِنَّمَا اَشْكُوا بَنِى وَحُزُنَى إِلَى اللهِ (یوسف: 87) کہ میں تو اپنے اللہ ہی کے سامنے اپنے سارے دکھ رویا کروں گا.کسی اور کے سامنے مجھے ضرورت نہیں ہے.پس جو ذکر الہی میں گم رہتے ہیں ان کو خدا کے سوا کسی اور کا دربار ملتا ہی نہیں جہاں وہ اپنے غم اور دکھ روئیں اور اپنے سینوں کے بوجھ ہلکے کریں.یہ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ پچھلی صف میں تھا وہاں تک مجھے حضرت عمر کے سینے کے گڑ گڑانے کی آواز آرہی تھی.524 حضرت عمرہ پرانے خدمت کرنے والوں اور قربانی کرنے والوں کا کس طرح خیال رکھا کرتے تھے.اس بارے میں روایت ہے.ثعلبہ بن ابو مالک کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اہل مدینہ کی عورتوں میں سے بعض کو اوڑھنیاں تقسیم کیں.کوئی اچھی قسم کی اوڑھنیاں آئی تھیں ان میں سے ایک اچھی اوڑھنی بچ گئی.جو لوگ ان کے پاس تھے ان میں سے کسی نے ان سے کہا کہ اے امیر المومنین ! آپ یہ رسول اللہ صلی للہ علم کی اس بیٹی کو دیں جو آپ کے پاس ہے.اس کی مراد حضرت علی کی بیٹی حضرت ام کلثوم نتھیں.حضرت عمرؓ نے کہا: ایم سلیط اس کی زیادہ حق دار ہیں.کہا نہیں، ام سلیط اس کی زیادہ حق دار ہیں اور حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ حضرت ام سلیط ان انصاری عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی علیم کی بیعت کی تھی.حضرت عمرؓ نے کہا وہ جنگ احد کے دن ہمارے لیے مشکیں اٹھا کر لاتی تھیں

Page 299

اصحاب بدر جلد 3 279 حضرت عمر بن خطاب پھر قربانی کرنے والوں کے قریبیوں کو بھی نوازنے کا ذکر ایک روایت میں ملتا ہے.زید بن اسلم نے اپنے باپ سے روایت کی.کہتے تھے کہ میں حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ بازار گیا.حضرت عمر سے ایک جوان عورت پیچھے سے آملی اور کہنے لگی اے امیر المومنین! میرا خاوند فوت ہو گیا ہے اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے.اللہ کی قسم ! بکری کے پائے بھی انہیں نصیب نہیں.نہ ان کی کوئی کھیتی ہے اور نہ دودھیل جانور یعنی دودھ دینے والے جانور اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کو قحط سالی نہ کھا جائے اور میں خفاف بن ایماء غفاری کی بیٹی ہوں اور میرے والد حدیبیہ میں نبی کریم صلی علیکم کے ساتھ موجود تھے.حضرت عمرؓ یہ سن کر ٹھہر گئے اور آگے نہیں چلے.حضرت عمر نے کہا واہ واہ ! بہت نزدیک کا تعلق ہے.اس کے بعد حضرت عمرؓ نے واپس جا کر ایک مضبوط اونٹ لیا جو گھر میں بندھا تھا اور دو بوریاں اناج سے بھریں اور ان پر لا دیں اور ان کے درمیان سال بھر کے خرچ کے لیے مال اور کپڑے بھی رکھے.پھر اس اونٹ کی نکیل اس عورت کے ہاتھ میں دے دی اور کہا اسے لے جاؤ.یہ ختم نہیں ہو گا کہ اللہ تمہیں اور دے گا.ایک شخص کہنے لگا کہ امیر المومنین! آپ نے اس کو بہت دے دیا ہے.حضرت عمر نے کہا: تیری ماں تجھے کھوئے یعنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ اللہ کی قسم! میں تو اس کے باپ اور اس کے بھائی کو اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ انہوں نے عرصے تک ایک قلعہ کا محاصرہ کیے رکھا جسے انہوں نے آخر فتح کر لیا.پھر اس کے بعد صبح کے وقت ہم ان دونوں کے حصے اپنے درمیان تقسیم کرنے لگے یعنی وہ قلعہ ان دونوں نے فتح کیا تھا جس کی غنیمت گل مسلمانوں کو ملی.گویا ہم نے ان کے حصہ میں سے بانٹا.525 پس یہ وجہ ہے کہ یہ اس کی حق دار بنتی ہے کہ اسے کچھ دیا جائے.بوڑھی اور معذور اور ضرورت مند عورتوں اور لوگوں کا کس طرح خیال رکھا کرتے تھے اس بارے میں روایت ہے.حضرت طلحہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمررات کی تاریکی میں گھر سے نکلے تو حضرت طلحہ نے دیکھ لیا.حضرت عمرؓ ایک گھر میں داخل ہوئے.پھر دوسرے گھر میں داخل ہوئے.جب صبح ہوئی تو حضرت طلحہ ان گھروں میں سے ایک گھر میں گئے ، وہاں ایک نابینا بڑھیا بیٹھی ہوئی تھی.حضرت طلحہ نے اس سے پوچھا جو شخص تیرے پاس رات کو آتا ہے وہ کیا کرتا ہے ؟ بڑھیا نے جواب دیا: وہ کافی عرصہ سے میری خدمت کر رہا ہے اور میرے کام کاج کو ٹھیک کرتا ہے اور میری گندگی دور کرتا ہے.یہ سن کر حضرت طلحہ نے ندامت سے اپنے آپ کو کہا اے طلحہ ! تیری ماں تجھے کھوئے.کتنے افسوس کی بات ہے کہ تو عمر کی لغزشوں کی کھوج میں ہے اور یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے.رعایا کی خدمت کے یہ عظیم معیار تھے جو حضرت عمرؓ نے قائم فرمائے.526 حضرت عمر کی لوگوں، ضرورت مندوں، عورتوں، بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی بہت سی روایات ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے آپ پوری کیا کرتے تھے اور کس طرح بے چین ہو جایا کرتے تھے.آپ جب دیکھتے تھے کہ کسی کی ضرورت پوری نہیں ہوئی اور وہ آپ کی رعایا میں ہے

Page 300

ناب بدر جلد 3 280 حضرت عمر بن خطاب تو بہت بے چین ہوتے تھے.بعض مثالیں میں گذشتہ ہفتوں کے جمعوں میں مختلف حوالوں سے پیش کر چکا ہوں مثلاً کس طرح ایک موقع پر آپ نے جب رات کو ایک عورت سے اس کے بچے کے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ کیونکہ عمر نے دودھ پیتے بچوں کا راشن مقرر نہیں کیا اس لیے میں بچے کو غذا کھانے کی عادت ڈالنے کے لیے دودھ نہیں دے رہی اور یہ بھوک سے رورہا ہے.یہ بات سن کر حضرت عمر بے چین ہو گئے اور فوراً کھانے پینے کے سامان کا انتظام کیا اور پھر اعلان کیا کہ آئندہ سے ہر پید اہونے والے بچے کو بھی راشن ملا کرے گا.527 اسی طرح ایک موقع پر ایک مسافر خاتون جس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور رات کو اسے ڈیرہ ڈالنا پڑا اور بچے بھوک سے رور ہے تھے.آپ کو جب رات کو اس کا علم ہوا تو فوراسٹور سے کھانے پینے کا سامان اٹھا کر اس تک پہنچایا اور بے چین ہو گئے اور اس وقت تک آپ کو چین نہیں آیا جب تک کہ کھانا پکا کر ان بچوں کو کھلا کر انہیں ہنستا نہ دیکھ لیا پھر آپ اس جگہ سے واپس ہوئے.18 528 حضرت مصلح موعود نے بیان کیا کہ: ”حضرت عمر کو دیکھ لو ان کے رعب اور دبدبہ سے ایک طرف دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کا نپتے تھے.قیصر وکسریٰ کی حکومتیں تک لرزہ بر اندام رہتی تھیں مگر دوسری طرف اندھیری رات میں ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر عمر جیسا عظیم المرتبت انسان تلملا اٹھا اور وہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لاد کر اور گھی کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں اٹھا کر ان کے پاس پہنچا اور اس وقت تک واپس نہیں لوٹا جب تک کہ اس نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر ان بچوں کو نہ کھلا لیا اور وہ اطمینان سے سو نہ گئے.529 پھر ایک واقعہ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے.حضرت عمرؓ جب شام سے مدینہ لوٹ کر آئے تو لوگوں سے الگ ہو گئے تاکہ ان کے احوال معلوم کریں.یعنی اس قافلے سے الگ ہو گئے اور ایک طرف چلے گئے تاکہ لوگوں کے احوال معلوم کریں تو آپ کا گزر ایک بڑھیا کے پاس سے ہو ا جو اپنے خیمے میں تھی.آپ اس سے پوچھ کچھ کرنے لگے تو اس نے کہا اے شخص عمر نے کیا کیا؟ آپ نے کہا کہ وہ ادھر ہی تو ہے اور شام سے آگیا ہے تو اس عورت نے کہا کہ خدا اس کو میری طرف سے جزائے خیر نہ دے.آپے نے فرمایا: تجھ پر افسوس ہے ! کیوں ؟ یعنی تم ایسا کیوں کہتی ہو؟ اس نے کہا کہ جب سے وہ خلیفہ ہوا ہے آج تک مجھے اس کا کوئی عطیہ نہیں ملا.نہ کوئی دینار نہ در ہم.حضرت عمرؓ نے فرمایا: تجھ پر افسوس اور عمر کو تیرے حال کی خبر کیسے ہو سکتی ہے ؟ اس بڑھیا کو نہیں پتہ تھا کہ حضرت عمر ہیں، جبکہ تو ایسی جگہ بیٹھی ہوئی ہے ، دور دراز علاقے میں جنگل کے قریب بیٹھی ہوئی ہے تو اس نے کہا سبحان اللہ ! عورت کہنے لگی سبحان اللہ ! میں گمان نہیں کرتی کہ کوئی لوگوں پر والی بن جائے اور اس کو یہ خبر نہ ہو کہ اس کے آگے مشرق و مغرب میں کیا ہے.تو عمر روتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ کہہ رہے تھے کہ ہائے عمر ہائے ! کتنے دعویدار ہوں گے.ہر ایک تجھ سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والا ہے اے عمر.پھر حضرت عمرؓ نے اس

Page 301

اصحاب بدر جلد 3 281 حضرت عمر بن خطاب سے فرمایا کہ تو اپنی مظلومیت کے حق کو اس کے ہاتھ کتنے میں بچتی ہے کہ میں اس کو جہنم سے بچانا چاہتا ہوں.یعنی یہ کہا کہ حضرت عمر کو جہنم سے بچانا چاہتا ہوں.تو بتا کہ اپنی مظلومیت کے حق کو کتنے میں بیچتی ہو.اس عورت نے کہا کہ ہم سے مذاق نہ کر.خدا تجھ پر رحمت کرے.تو حضرت عمر نے اس سے فرمایا یہ مذاق نہیں ہے.حضرت عمرؓ اس سے اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اس کے حق مظلومیت کو چھپیں دینار میں خرید لیا.ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہ بن مسعود آپہنچے اور ان دونوں نے کہا: السّلامُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ.اس پر عورت نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا اور کہنے لگی کہ اللہ بھلا کرے.میں نے امیر المومنین کو ان کے سامنے برا بھلا کہہ دیا.تو امیر المومنین نے اس سے فرمایا: تجھ پر کوئی جرم نہیں.خدا تجھ پر رحم کرے.پھر حضرت عمرؓ نے ایک چھڑے کا ٹکٹر اما نگا کہ اس پر لکھیں مگر نہ ملا.پھر اپنی چادر میں سے جس کو اوڑھا ہوا تھا ایک ٹکڑا کاٹا اور لکھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرّحِیمِ یہ اس کی دستاویز ہے جو عمر نے فلاں عورت سے آج کے دن تک اس کا حق مظلومیت پچیس دینار میں خریدا ہے جب سے وہ والی بنا ہے.اگر وہ اب اللہ کے سامنے محشر میں کھڑی ہو کر دعویٰ کرے تو عمر اس سے بری ہے.علی بن ابی طالب اور عبد اللہ بن مسعود اس پر گواہ ہیں.پھر وہ تحریر حضرت علی کو دے دی اور فرمایا کہ اگر میں تم سے پہلے دنیا سے گزر جاؤں تو اس کو میرے کفن میں رکھ دینا.اولاد کا رشتہ دیکھنے کے لیے لوگ کیا معیار رکھتے ہیں.آج کل بھی ہم دیکھتے ہیں بڑے بڑے 530 اونچے معیار ہوتے ہیں.حضرت عمر کا کیا معیار تھا؟ اس بارے میں ایک روایت ہے ، حضرت اسلم سے مروی ہے جو حضرت عمرؓ کے آزاد کر دہ تھے کہ بعض راتوں میں سے ایک رات میں میں امیر المومنین کے ساتھ مدینہ کی اطراف میں پھر رہا تھا.آپ نے ایک گھڑی کے لیے یعنی کچھ وقت کے لیے استراحت کی غرض سے ایک دیوار کی جانب سہارا لیا.گھر کی دیوار تھی اس کے سہارے بیٹھ گئے تو آپ نے سنا کہ گھر کے اندر ایک بڑھیا اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ اٹھ اور دودھ میں پانی ملا دے.لڑکی نے کہا آپ نہیں جانتیں کہ امیر المومنین کے منادی نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ دودھ میں پانی نہ ملایا جائے.ماں نے کہا: نہ اس وقت امیر المومنین موجود ہے اور نہ اس کا منادی.لڑکی نے کہا کہ خدا کی قسم ! یہ بات تو ہمارے لیے مناسب نہیں ہے کہ سامنے تو ہم ان کی اطاعت کریں اور خلوت میں نافرمانی کرنے لگیں.حضرت عمر یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اپنے ساتھی سے فرمایا کہ اے اسلم! اس مکان پر نشان لگا دو.اس کے دروازے پر ایک نشان لگا دو.دوسرے دن آپ نے کسی کو بھیجا اور اس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے عاصم سے کر دیا.اس کی اسی سچائی پر ، نیکی کو دیکھتے ہوئے اپنے بیٹے کا رشتہ اس لڑکی سے کر دیا.اس سے عاصم کی ایک لڑکی پیدا ہوئی حضرت عمر بن عبد العزیز اسی لڑکی کی اولاد میں سے تھے.531

Page 302

حاب بدر جلد 3 282 حضرت عمر بن خطاب ایک روایت میں ہے کہ سلمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ حضرت عمرؓ بھی اپنے کسی کام سے گزر رہے تھے.آپ کے ہاتھ میں کوڑا تھا.حضرت عمر نے کہا اے سلمہ ! اس طرح رستہ سے ہٹ کر چلا کرو.پھر مجھے ہلکا سا کوڑا مارا لیکن کوڑا میرے کپڑے کے کنارے پر لگا.پس میں رستے سے ہٹ گیا اور آپ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ اس بات کو سال گزر گیا.پھر حضرت عمرؓ سے میری بازار میں ملاقات ہوئی.آپؐ نے فرمایا اے سکمہ ! کیا اس سال حج کو جانے کا ارادہ ہے.میں نے کہا ہاں اے امیر المومنین.پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر لے گئے اور ایک تھیلے میں سے چھ سو درہم مجھے دیے اور فرمانے لگے اے سلمہ ! اس کو اپنی ضروریات میں استعمال کر لو اور یہ اس کا بدلہ ہے جو ایک سال پہلے میں نے تمہیں کوڑا مارا تھا.سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! امیر المومنین ! میں یہ بات بالکل بھول چکا تھا اور آج آپ نے یاد کروائی ہے.132 533" حضرت عمر یہ بھی دیکھا کرتے تھے کہ بازار کی قیمتیں ایسی ہوں جن سے کسی بھی فریق کے شہری حقوق متاثر نہ ہوں.چنانچہ اسی بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے بیان کیا کہ ”شہری حقوق میں یہ بھی داخل ہے کہ لین دین کے معاملات میں خرابی نہ ہو.ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اس حق کو بھی نظر انداز نہیں کیا.چنانچہ اسلام نے بھاؤ کو بڑھانے اور مہنگا سودا کرنے سے روکا ہے.اسی طرح دوسروں کو نقصان پہنچانے اور ان کو تجارت میں فیل کرنے کے لئے بھاؤ کو گراد پینے سے بھی منع فرمایا ہے.جس طرح آجکل کی مارکیٹ میں یہ چلتا ہے.”ایک دفعہ مدینہ میں ایک شخص ایسے ریٹ پر انگور بیچ رہا تھا جس ریٹ پر دوسرے دکاندار نہیں بچ سکتے.حضرت عمرؓ پاس سے گزرے تو انہوں نے اس شخص کو ڈانٹا کیونکہ اس طرح باقی دکانداروں کو نقصان پہنچتا تھا.غرض اسلام نے سودا مہنگا کرنے سے بھی روک دیا اور بھاؤ کو گرادینے سے بھی روک دیا تا کہ نہ دکانداروں کو نقصان ہو اور نہ پبلک کو نقصان ہو.334 عامر بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور کہا کہ میری ایک بیٹی تھی جس کو جاہلیت میں زندہ در گور کر دیا گیا لیکن میں نے اسے مرنے سے پہلے نکال لیا.جب وہ اسلام لے آئی تو اس پر اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد لگ گئی.غلط کام ہوا اس کی وجہ سے حد لگ گئی تو اس نے ایک چھری کی تا کہ اس سے اپنے آپ کو قتل کر دے.میں نے اسے پکڑ لیا جبکہ اس نے اپنی بعض رگوں کو کاٹ لیا تھا.پھر میں نے اس کا علاج کیا یہاں تک کہ وہ ٹھیک ہو گئی.پھر اس نے اس کے بعد توبہ کر لی اور اچھی توبہ کی.اے امیر المومنین! اب مجھے اس کے لیے نکاح کے پیغامات آرہے ہیں.لڑکی کے رشتے آرہے ہیں.کیا میں اس کے پہلے معاملے کے بارے میں بتایا کروں کہ کیا زندگی تھی، اس کی پہلی زندگی کیا تھی، اس کے ساتھ کیا کچھ ہو تارہا اور کیا اس نے اپنے ساتھ کیا ؟ حضرت عمرؓ نے اس شخص سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے عیب پر پردہ ڈالا ہے اور تو اس کو ظاہر کرے گا ! اللہ کی قسم ! اگر تو نے اس کے معاملے کے

Page 303

محاب بدر جلد 3 283 حضرت عمر بن خطاب بارے میں کسی کو بھی بتایا تو میں تجھے پورے شہر والوں کے سامنے عبرت کا نشان بناؤں گا بلکہ اس کا نکاح ایک پاکدامن مسلمان عورت کی طرح کر دو.534 بھول جاؤ باتوں کو.طاعون عمواس اور حضرت عمر کی لوگوں کی جانوں کے بارے میں فکر کیا تھی؟ اس بارے میں آتا ہے کہ رملہ سے بیت المقدس کے راستے میں چھ میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے جس کا نام عمو اس ہے.کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ یہاں سے مرض طاعون کا آغاز ہوا اور ارض شام میں پھیل گیا.اس لیے اسے طاعون عمواس کہا جاتا ہے.اس مرض سے شام میں لاتعداد اموات ہوئیں.بعض کے نزدیک اس سے پچیس ہزار کے قریب اموات ہوئیں.سترہ ہجری کو حضرت عمر مدینہ سے شام کے لیے روانہ ہوئے اور سرغ مقام پر پہنچ کر سپہ سالاران لشکر سے ملاقات کی.مرغ بھی شام اور حجاز کے سرحدی علاقے میں وادی تبوک کی ایک بستی کا نام ہے.اور آپ کو اس بات کی اطلاع دی گئی کہ زمین عمو اس میں بیماری پھیلی ہوئی ہے تو آپ مشورے کے بعد واپس لوٹ آئے.اس کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک روایت میں یوں مذکور ہے.یہ پہلے بھی ایک دفعہ ایک اور حوالے سے اس واقعہ کا کچھ بیان ہو چکا ہے.حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر شرغ مقام پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراء حضرت ابو عبیدہ اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی.ان لوگوں نے حضرت عمر کو بتایا کہ شام کے ملک میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے.حضرت عمرؓ نے اپنے پاس مشورہ کے لیے اولین مہاجرین کو بلایا.حضرت عمرؓ نے ان سے مشورہ کیا مگر مہاجرین میں اختلاف رائے ہو گئی.بعض کا کہنا تھا کہ یہاں سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے جبکہ بعض نے کہا کہ اس لشکر میں رسول اللہ صلی علیکم کے صحابہ کرام شامل ہیں اور ان کو اس وبا میں ڈالنا مناسب نہیں.حضرت عمرؓ نے مہاجرین کو بھجوا دیا اور انصار کو بلایا، ان سے مشورہ لیا گیا مگر انصار کی رائے میں بھی مہاجرین کی طرح اختلاف ہو گیا.حضرت عمرؓ نے انصار کو بھجوایا اور پھر فرمایا قریش کے بوڑھے لوگوں کو بلاؤ جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے.ان کو بلایا گیا انہوں نے یک زبان ہو کر مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اور وبائی علاقے میں لوگوں کو نہ لے کر جائیں.حضرت عمرؓ نے لوگوں میں واپسی کا اعلان کر دیا.حضرت ابو عبیدہ نے اس موقع پر سوال کیا.کیا اللہ کی تقدیر سے فرار ممکن ہے ؟ حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہ سے فرمایا.اے ابو عبیدہ ! کاش تمہارے علاوہ کسی اور نے یہ بات کہی ہوتی.ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار ہوتے ہوئے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف جاتے ہیں.اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ان کو لے کر ایسی وادی میں اتر و جس کے دو کنارے ہوں.ایک سر سبز اور دوسرا خشک تو کیا ایسا نہیں کہ اگر تم اپنے اونٹوں کو سر سبز جگہ پر چر اؤ تو وہ اللہ کی تقدیر سے ہے اور اگر تم ان کو خشک جگہ پر چرا او تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہے.راوی کہتے ہیں کہ اتنے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی آگئے جو پہلے اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے تھے.انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس اس مسئلے کا علم ہے.میں نے رسول اللہ صلی الی یم

Page 304

اصحاب بدر جلد 3 284 حضرت عمر بن خطاب کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں کوئی وبا پھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر کوئی مرض کسی ایسی جگہ پر پھوٹ پڑے جہاں تم رہتے ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے باہر مت نکلو.اس پر حضرت عمرؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس لوٹ گئے.535 حضرت عمر مدینہ سے آئے تھے اور ابھی وبا والی جگہ پر نہیں پہنچے تھے اس لیے اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس آگئے لیکن حضرت ابو عبیدہ چونکہ فوجیوں کے سپہ سالار تھے اور پہلے سے ہی وبا والے علاقے میں مقیم تھے اس لیے آپ اور مسلمان فوجیں طاعون زدہ علاقے میں ہی رہیں.جو جہاں تھے وہ وہیں رہے.مدینہ پہنچ کر حضرت عمرؓ نے شام کے مسلمانوں کے متعلق سوچنا شروع کیا کہ انہیں طاعون کی تباہ کاریوں سے کیسے بچایا جائے.خاص طور پر حضرت عمر کو حضرت ابو عبیدہ کا بہت خیال تھا.ایک دن حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہ کو خط بھیجا کہ مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے اس لیے جب تمہیں یہ خط پہنچے تو فورا مد ینہ کے لیے روانہ ہو جانا.اگر خط رات کو پہنچے تو صبح ہونے کا انتظار نہ کرنا اور اگر خط صبح پہنچے تو رات ہونے کا انتظار نہ کرنا.یہ محبت تھی آپ کی حضرت ابو عبیدہ سے.حضرت ابو عبیدہ نے جب وہ خط پڑھا تو کہنے لگے میں امیر المومنین کی ضرورت کو جانتا ہوں.اللہ حضرت عمر پر رحم کرے وہ اسے باقی رکھنا چاہتے ہیں جو باقی رہنے والا نہیں ہے.یعنی یہ تو اللہ جانتا ہے کہ میرے ساتھ کیا ہونا ہے ، ابو عبیدہ نے یہ سوچا.پھر اس خط کا جواب دیا کہ یا امیر المومنین ! میں آپ کی منشا کو سمجھ گیا ہوں مجھے نہ بلائیے.یہیں رہنے دیجیے.میں مسلمان سپاہیوں میں سے ایک ہوں.جو مقدر ہے وہ ہو کر رہے گا.میں ان سے کیسے منہ موڑ سکتا ہوں.حضرت عمرؓ نے جب وہ خط پڑھا تو رو پڑے.حاضرین نے پوچھا کہ یا امیر المومنین ! کیا حضرت ابو عبیدہ فوت ہو گئے.آپ نے فرمایا نہیں لیکن شاید ہو جائیں.536 حضرت عمرؓ نے اہل الرائے اصحاب کے مشورے کے بعد حضرت ابو عبیدہ کو لکھا کہ تم لوگوں کو نشیب میں لے کر اترے ہو اس لیے کسی بلند اور پر فضا مقام پر چلے جاؤ.نیچی جگہ کی بجائے ذرا اونچی جگہ ، پہاڑی جگہ پر چلے جاؤ جہاں ذرا ہوا بھی صاف ہو.حضرت ابو عبیدہ ابھی اس حکم کی تعمیل کے متعلق فکر کر رہے تھے کہ طاعون نے ان پر وار کیا اور وہ فوت ہو گئے.حضرت ابو عبیدہ نے اپنے جانشین حضرت معاذ بن جبل کو نامزد کیا تھا لیکن وہ بھی طاعون میں مبتلا ہو گئے اور ان کا انتقال ہو گیا.حضرت معاذ بن جبل نے اپنا قائمقام حضرت عمرو بن عاص کو بنایا تھا.آپ نے ایک تقریر کی اور فرمایا: یہ وبا جب پھوٹتی ہے تو آگ کی طرح پھیلتی ہے.پہاڑوں میں چھپ کر اپنی جانیں بچاؤ.آپ لوگوں کو لے کر وہاں سے نکلے اور پہاڑوں میں چلے گئے یہاں تک کہ وبا کا زور ٹوٹ گیا اور گھٹتے گھٹتے بالکل ختم ہو گیا.حضرت عمررؓ کو حضرت عمرو بن عاص کی اس تقریر کا علم ہوا تو نہ صرف یہ کہ آپ نے اسے پسند

Page 305

محاب بدر جلد 3 285 537 حضرت عمر بن خطاب فرمایا بلکہ اسے اپنے اس حکم کی تعمیل قرار دیا جو آپ نے حضرت ابو عبیدہ کو بھیجا تھا.حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے علاوہ حضرت معاذ بن جبل، حضرت یزید بن ابوسفیان، حضرت حارث بن ہشام اور حضرت سہیل بن عمرو اور حضرت عتبہ بن سہیل اور ان کے علاوہ بھی دیگر معززین اس وبا سے فوت ہوئے تھے.538 طاعون عمواس سے واپس آنے کا ذکر ایک جگہ پر حضرت مصلح موعود نے بھی بیان فرمایا ہے.آپ بیان فرماتے ہیں کہ ”جب شام میں جنگ ہوئی اور وہاں طاعون پڑی حضرت عمر وہاں خود تشریف لے گئے تاکہ لوگوں کے مشورہ سے فوج کی حفاظت کا کوئی معقول انتظام کیا جاسکے مگر جب بیماری کا حملہ تیز ہو گیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ آپ کا یہاں ٹھہر نا مناسب نہیں، آپ واپس مدینہ تشریف لے جائیں.جب آپ نے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت ابو عبیدہ نے کہا أَفرَارًا مِنْ قَدَرِ اللهِ؟ کیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے آپ بھاگتے ہیں ؟ حضرت عمر نے فورا جواب دیا.نَعَمْ نَفِرُّ مِن قدر الله إلى قدر اللہ.ہاں ہم خدا تعالیٰ کی ایک تقدیر سے اس کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں.غرض دنیاوی سامانوں کو ترک کرنا جائز نہیں.ہاں دنیاوی سامانوں کو دین کے تابع رکھنا چاہئے.539❝ حضرت عمر کی قبولیت دعا کے چند واقعات ہیں.حضرت خوات بن جبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے دور خلافت میں لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوئے تو حضرت عمر لو گوں کے ساتھ نکلے اور ان کو دور کعت نماز استسقاء پڑھائی.پھر اپنی چادر اپنے دونوں کندھوں پر ڈالی اور چادر کے دائیں طرف کو بائیں کندھے پر ڈالا اور بائیں طرف والی چادر کو دائیں کندھے پر ڈالا یعنی لپیٹ لی.پھر اپنے ہاتھ کو دعا کے لیے اٹھایا اور عرض کیا: اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَغْفِرُكَ وَنَسْتَسْقِيْكَ کہ اے اللہ عزوجل !بے شک ہم تجھ سے بخشش طلب کرتے ہیں اور بارش کے خواستگار ہیں.ابھی آپ دعا مانگ کر اپنی جگہ سے پیچھے نہیں ہوئے تھے کہ بارش شروع ہو گئی.راوی کہتے ہیں کہ ہمارے جو دیہاتی لوگ تھے وہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور عرض کیا ”اے امیر المومنین فلاں دن فلاں وقت ہم اپنے صحرائی مسکن میں تھے کہ بادلوں نے ہم پر سایہ کیا اور ہم نے اس میں سے ایک آواز سنی کہ اے ابو حفص! بارش کے ذریعہ مدد تمہارے پاس آئی.اے ابو حفص ! بارش کے ذریعہ مدد تمہارے پاس آئی.540 آپ کی ایک دعا کی قبولیت کا واقعہ دریائے نیل کے جاری ہونے کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے.دریائے نیل جب خشک ہو تا تھا تو اسلام سے پہلے وہاں کے لوگوں میں اسے جاری رکھنے کی ایک رسم تھی اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ واقعی اس رسم کا کوئی اثر ہو تا تھا یا نہیں لیکن اسلام نے آکر اس رسم کا خاتمہ کر دیا اور اس رسم کے خاتمے کے بارے میں جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ یوں ہے کہ قیس بن حجاج سے روایت ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو وہاں کے باشندے عجمی مہینوں کے کسی دن حضرت عمر و بن عاص کے پاس آئے تو لوگوں نے کہا اے امیر ! ہمارے دریائے نیل کے لیے ایک رسم ہے جس کے بغیر یہ بہتا

Page 306

ب بدر جلد 3 286 حضرت عمر بن خطاب نہیں ہے.حضرت عمر ڈ نے پوچھا کہ وہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جب گیارہ راتیں اس مہینے کی گزر جائیں تو ہم ایک کنواری لڑکی کے پاس اس کے والدین کی موجودگی میں جاتے ہیں.پھر اس کے والدین کو رضا مند کرتے ہیں اور اس کو بہترین کپڑے اور زیورات پہناتے ہیں.پھر اس کو دریائے نیل میں ڈال دیتے ہیں.یعنی شروع میں ڈال دیتے تھے.حضرت عمر نے ان سے کہا کہ اسلام میں ایسا کبھی نہیں ہو گا.یقیناً اسلام ان تمام رسموں کو ختم کرتا ہے جو اس سے پہلے تھیں.پس وہ ٹھہرے رہے اور آخر جب ایسا وقت آگیا کہ دریائے نیل بھی خشک ہو گیا.دریائے نیل اس وقت بالکل نہیں یہ رہا تھا یہاں تک کہ لوگوں نے وطن سے نکلنے کا ارادہ کر لیا.لوگوں نے وہاں سے جانے کا، جگہ کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا.پس جب حضرت عمر نے یہ دیکھا تو حضرت عمر بن خطاب کو اس کے بارے میں لکھا.حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن عاص کو جو ابا لکھا کہ تم نے جو کچھ کہا وہ ٹھیک ہے.یقیناً اسلام ان تمام رسموں کو ختم کرتا ہے جو اس سے پہلے تھیں.انہوں نے خط کے اندر ایک چھوٹا رقعہ بھیجا اور حضرت عمر نے حضرت عمر و گو لکھا کہ یقیناً میں نے تمہاری طرف اپنے خط کے اندر ایک رقعہ بھیجا ہے اس کو دریائے نیل میں ڈال دینا.جب حضرت عمر کا خط حضرت عمرو بن عاص کو پہنچا تو انہوں نے وہ رقعہ نکالا اور اس کو کھولا تو اس میں لکھا تھا.اللہ کے بندے عمر بن خطاب امیر المومنین کی طرف سے مصر کے دریائے نیل کی طرف.اما بعد ، اگر تو خود سے بہ رہا ہے تو نہ بہ ، لیکن اگر اللہ تعالیٰ تجھے چلا رہا ہے تو میں اللہ واحد و قہار سے دعا کر تاہوں کہ وہ تجھے چلائے.پس حضرت عمرو نے وہ رقعہ صلیب کے تہوار سے ایک دن پہلے دریائے نیل میں ڈال دیا.جب صبح ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی رات میں سولہ ہاتھ زیادہ پانی دریائے نیل میں جاری کر دیا.پھر اللہ تعالیٰ نے اہل مصر کی اس رسم کا خاتمہ کر دیا.541 اکثر تاریخی کتب میں تو اس واقعہ کی تصدیق ہی لکھی ہے لیکن حضرت عمرؓ کے ایک سیرت نگار محمد حسین ہیکل نے اس کی تردید کی ہے کہ ایسی کوئی رسم نہیں تھی.542 بہر حال یہ ایک واقعہ ہے.کی پھر حضرت ساریہ کی جنگ میں حضرت عمر کی آواز سننے کا واقعہ ہے، پہلے بھی بیان ہو چکا ہے.یہاں بھی اس حوالے سے بیان کر دیتا ہوں قبولیت دعا کے حوالے سے اور جو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص سلوک تھا.تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ساریہ بن زنیم کو فسا اور دار ابجر د کے علاقے کی طرف روانہ کیا.انہوں نے وہاں پہنچ کر لوگوں کا محاصرہ کر لیا تو اس پر انہوں نے اپنے حمایتی لوگوں کو اپنی مدد کے لیے بلایا.وہ لوگ مسلمان لشکر کے مقابلہ کے لیے صحرا میں اکٹھے ہو گئے اور جب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی تو انہوں نے ہر طرف سے مسلمانوں کو گھیر لیا.حضرت عمررؓ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے فرمایا يَا سَارِيَةُ ابن زُنَيْم ، الْجَبَلَ الجبل “ یعنی اے ساریہ بن زنیم ! پہاڑ پہاڑ.مسلمان لشکر جس جگہ مقیم تھا اس کے قریب ہی ایک پہاڑ تھا.اگر وہ اس کی پناہ لیتے تو دشمن صرف ایک طرف سے حملہ آور ہو سکتا تھا.پس انہوں نے پہاڑ کی

Page 307

حاب بدر جلد 3 287 حضرت عمر بن خطاب جانب پناہ لے لی.اس کے بعد انہوں نے جنگ کی اور دشمن کو شکست دی اور بہت سا مال غنیمت حاصل کیا.343 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس واقعہ کو بیان فرما کر فرمایا ہے کہ صحابہ سے ایسے 544 خوارق کثرت سے ثابت ہیں.4 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو مکمل اقتباس ہے وہ میں گذشتہ خطبہ میں پڑھ چکا ہوں.پس دریائے نیل کے جاری کرنے والے واقعہ کو بھی ہم دیکھیں تو بعید نہیں کہ وہ بھی صحیح واقعہ ہی ہو جس کو بعض تاریخ دان صحیح نہیں مانتے.حضرت عمر کی ٹوپی کی برکت اور قیصر روم کے بارے میں ایک ذکر ملتا ہے.اس کو حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک دفعہ قیصر کے سر میں شدید درد ہوا اور باوجود ہر قسم کے علاج کے اسے آرام نہ آیا.کسی نے اسے کہا کہ حضرت عمر کو اپنے حالات لکھ کر بھجوا دو اور ان سے تبرک کے طور پر کوئی چیز منگواؤ.وہ تمہارے لیے دعا بھی کریں گے اور تبرک بھی بھجوا دیں گے.ان کی دعا سے تمہیں ضرور شفا حاصل ہو جائے گی.اس نے حضرت عمرؓ کے پاس اپنا سفیر بھیجا.حضرت عمر نے سمجھا کہ یہ متکبر لوگ ہیں.میرے پاس اس نے کہاں آنا ہے.اب یہ دکھ میں مبتلا ہوا ہے تو اس نے اپنا سفیر میرے پاس بھیج دیا ہے.اگر میں نے اسے کوئی اور تبرک بھیجا تو ممکن ہے وہ اسے حقیر سمجھ کر استعمال نہ کرے.اس لیے مجھے کوئی ایسی چیز بھجوانی چاہیے جو تبرک کا کام بھی دے اور اس کے تکبر کو بھی توڑ دے.چنانچہ انہوں نے اپنی ایک پرانی ٹوپی جس پر جگہ جگہ داغ لگے ہوئے تھے اور جو میل کی وجہ سے کالی ہو چکی تھی اسے تبرک کے طور پر بھجوادی.اس نے جب یہ ٹوپی دیکھی تو اسے بہت بر الگا تو اس نے ٹوپی نہ پہنی مگر خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ تمہیں برکت اب محمد رسول اللہ صلی علیکم کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہے.اسے اتنا شدید درد سر ہوا کہ اس نے اپنے نوکروں سے کہا وہ ٹوپی لاؤ جو عمرؓ نے بھجوائی تھی تاکہ میں اسے اپنے سر پر رکھوں.چنانچہ اس نے ٹوپی پہنی اور اس کا درد جاتارہا.چونکہ اسے ہر آٹھویں دسویں دن سر درد ہو جایا کرتا تھا اس لیے پھر تو اس کا یہ معمول ہو گیا کہ وہ دربار میں بیٹھتا تو وہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی میلی کچیلی ٹوپی اس نے اپنے سر پر رکھی ہوئی ہوتی.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ نشان جو خدا تعالیٰ نے اسے دکھایا اس میں ایک اور بات بھی مخفی تھی.(اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی ال نیم کے ایک صحابی قیصر کے پاس قید تھے اور اس نے حکم دیا تھا کہ انہیں سور کا گوشت کھلایا جائے.وہ فاقے برداشت کرتے مگر سور کے قریب نہیں جاتے تھے.گو اسلام نے یہ کہا ہے کہ اضطرار کی حالت میں سور کا گوشت کھالینا جائز ہے مگر وہ کہتے تھے کہ میں صحابی ہوں میں ایسا نہیں کر سکتا.جب کئی کئی دن کے فاقوں کے بعد وہ مرنے لگتے تو قیصر انہیں روٹی دے دیتا.جب پھر انہیں کچھ طاقت آجاتی تو وہ پھر کہتا کہ انہیں سور کھلایا

Page 308

اصحاب بدر جلد 3 288 حضرت عمر بن خطاب جائے.اس طرح نہ وہ انہیں مرنے دیتا نہ جینے.کسی نے اسے کہا کہ تجھے یہ سر درد اس لیے ہے کہ تو نے اس مسلمان کو قید رکھا ہوا ہے اور اب اس کا علاج یہی ہے کہ تم عمرؓ سے اپنے لیے دعا کر اؤ اور ان سے کوئی تبرک منگواؤ.جب حضرت عمر نے اسے ٹوپی بھیجی اور اس کے درد میں افاقہ ہو گیا تو وہ اس سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اس صحابی کو بھی چھوڑ دیا.اب دیکھو! کہاں قیصر ایک صحابی کو تکلیف دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی سزا کے طور پر اس کے سر میں درد پیدا کر دیتا ہے.کوئی اور شخص اسے مشورہ دیتا ہے کہ عمر سے تبرک منگو اؤ اور ان سے دعا کرواؤ.وہ تبرک بھیجتے ہیں اور قیصر کا درد جاتا رہتا ہے.تو اس طرح اللہ تعالیٰ اس 545 صحابی کی نجات کے بھی سامان کر دیتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی الی یوم کی صداقت اس پر ظاہر کر دیتا ہے.تفسیر رازی میں ہے کہ قیصر نے حضرت عمر کو لکھا کہ مجھے سر درد ہے جو ٹھیک نہیں ہو رہی.آپ میرے لیے کوئی دوا بھجوائیں تو حضرت عمرؓ نے اس کے لیے ٹوپی بھجوائی.جب وہ اسے اپنے سر پر رکھتا تو اس کے سر میں درد رک جاتی اور جو نہی وہ اسے سر سے اتار تا اسے دوبارہ سر درد ہو جاتی.پس اس بات ، وہ متعجب ہوا اس نے ٹوپی میں تلاش کیا اور اس میں ایک کاغذ پایا جس میں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ لکھا ہوا تھا.یہ تفسیر رازی کا ایک ذکر ہے.146 حضرت عمرؓ کی دعائیں ہیں بعض.عمر و بن میمون بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللهُمَّ تَوَفَّنِي مَعَ الْأَبْرَارِ وَلَا تُخَلَّفْنِي فِي الْأَشْرَارِ وَقِنِي عَذَابَ النَّارِ وَأَلْحِقْنِي بِالْأَخْيَارِ اے اللہ ! مجھے نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے اور مجھے برے لوگوں میں پیچھے نہ چھوڑ اور مجھے آگ کے عذاب سے بچا اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے.47 حیی بن سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جب منی سے لوٹے تو اپنے اونٹ کو ابطح میں بٹھایا اور وادی بطحا کے پتھروں سے ایک ڈھیر بنایا اور اس پر اپنی چادر کا ایک کنارہ بچھا کر لیٹ گئے اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرنے لگے: اللَّهُمَّ كَبُرَتْ سِنِّي وَضَعُفَتْ قُوَتِي وَانْتَشَرَتْ رَعِيَّتِى فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مُضَيَّعٍ وَلَا مُفَرِّط اے اللہ ! میری عمر زیادہ ہو گئی ہے اور میری قوت کم ہو گئی ہے اور میری رعیت پھیل گئی ہے.تو مجھے بغیر ضائع کیے اور کم کیے وفات دے دے.پس ابھی ذوالحجہ کا مہینہ ختم نہیں ہوا تھا کہ آپ پر حملہ ہوا اور آپ کی شہادت ہو گئی.548 حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ قحط کے دنوں میں حضرت عمر نے ایک نیا کام کیا جسے وہ نہ کیا کرتے تھے.وہ یہ تھا کہ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا کر اپنے گھر میں داخل ہو جاتے اور آخر شب تک مسلسل نماز پڑھتے رہتے.پھر آپ باہر نکلتے اور مدینہ کے اطراف میں چکر لگاتے رہتے.ایک رات سحری کے وقت میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللهُم لَا تَجْعَلْ هَلَاكَ أُمَّةٍ مُحَمَّدٍ عَلَى يَدَيَّ اے الله ! میرے ہاتھوں محمد صلی ال نیلم کی امت کو ہلاکت میں نہ ڈالنا.549

Page 309

صحاب بدر جلد 3 289 حضرت عمر بن خطاب حضرت خلیفتہ المسیح الاول بیان فرماتے ہیں کہ ”انسان کو چاہئے کہ اپنے خدا تعالیٰ کے واسطے خالصةً عبادت کرے پھر خواہ خلقت اس کو برا سمجھے یا بھلا اس امر کی پرواہ نہیں چاہئے اور اپنے ظاہر کو جان بوجھ کر بُرا بنانا آنحضرت رسول کریم صلی ال نیم کی سکھلائی ہوئی اس دعا سے ناجائز ثابت ہو تا ہے.وہ دعا آنحضرت نے حضرت عمرؓ کو سکھلائی تھی اور اس طرح ہے اللهُمَّ اجْعَلُ سَرِيرَتي خَيْرًا مِّنْ عَلَانِيَّتِي وَاجْعَلْ عَلَانِيَّتِي صَالِحَةً اے اللہ ! میرے باطن کو میرے ظاہر سے بہتر بنا اور میرے ظاہر کو اچھا کر.“ 550 حضرت عمر کا مسجد نبوی اور نماز کے آداب کا خیال رکھنا، اس بارے میں یہ روایت ہے.حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے.وہ کہتے تھے کہ میں مسجد میں کھڑا تھا کہ ایک شخص نے مجھے ٹنکر ماری.میں نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عمر بن خطاب ہیں.انہوں نے کہا جاؤ ان دونوں کو میرے پاس لے آؤ.دو شخص تھے جو اونچی اونچی باتیں کر رہے تھے.میں ان دونوں کو لے آیا.حضرت عمرؓ نے کہا تم دونوں کون ہو یا کہا تم کہاں سے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہم طائف کے باشندوں میں سے ہیں.اس پر حضرت عمر نے کہا کہ اگر تم اس شہر کے باشندے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیتا.رسول اللہ صلی الیکم کی مسجد میں تم اپنی آوازیں بلند کرتے ہو.551 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حضرت عمر کا طریقہ یہ تھا کہ جب تک صفیں برابر نہیں ہوتی تھیں اس وقت تک اللہ اکبر نہیں کہتے تھے بلکہ صفیں سیدھی کروانے کے لیے ایک شخص مقرر فرمایا ہو ا تھا.ابو عثمان مہدی نے کہا کہ میں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ جب نماز کے لیے اقامت ہوتی تو قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے یعنی لوگوں کی طرف منہ کر کے فرماتے اے فلاں ! آگے ہو جاؤ اور اے فلاں ! پیچھے ہو جاؤ.یعنی صفیں سیدھی کر رہے ہوتے تھے.تم اپنی صفوں کو سیدھی رکھو.جب صفیں سیدھی ہو جائیں تو پھر آپ قبلہ کی طرف منہ کر کے اللہ اکبر کہتے.552 حضرت عمر کی مالی قربانی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں ایک روایت ہے.اور بھی بہت ساری روایتیں ہیں.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے خیبر میں کچھ زمین حاصل کی اور وہ نبی صلی ال نیم کے پاس اس کے متعلق مشورہ کرنے آئے.انہوں نے کہا یار سول اللہ ! میں نے خیبر میں زمین حاصل کی ہے.میرے نزدیک اس سے بہتر مجھے کبھی کوئی جائیداد نہیں ملی.آپ مجھے اس کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہیں.آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو اصل زمین وقف کر دو اور اس کی آمدنی غرباء پر خرچ کرو.نافع کہتے تھے کہ پھر حضرت عمرؓ نے وہ صدقہ میں دے دی اس شرط پر کہ نہ وہ بیچی جائے اور نہ کسی کو ہبہ کی جائے، نہ ورثاء میں تقسیم کی جائے اور انہوں نے وہ زمین محتاجوں اور رشتہ داروں، غلاموں کے آزاد کرنے، اللہ کی راہ میں اور مسافروں اور مہمانوں کے لیے وقف کر دی اور جو زمین کا نگران ہو اس کے لیے کوئی ہرج نہیں کہ وہ اس میں سے دستور کے مطابق خود کھائے اور

Page 310

حاب بدر جلد 3 290 حضرت عمر بن خطاب کھلائے مگر مال کو جمع کرنے والا نہ ہو.3 555 553 جب بھی موقع آیا حضرت عمرؓ نے قربانی کرنے میں بڑھنے کی کوشش کی.وہ بھی موقع تھا جب آنحضرت صلی ا ہم نے مال کی قربانی کی تحریک فرمائی تو اپنا آدھا مال لے کر آگئے.پہلے بھی یہ واقعہ بیان ہو چکا ہے.لیکن خشیت الہی کا یہ حال تھا کہ جب فوت ہونے لگے تو آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور فرماتے تھے کہ میں کسی انعام کا مستحق نہیں ہوں.میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں.554 یہ تھا آپ کا خشیت، خوف خدا کا حال.حضرت عمرؓ کے دربار میں علم رکھنے والے خاص طور پر قرآن کریم کا علم رکھنے والوں کا بڑا مقام تھا چاہے وہ چھوٹی عمر کے نوجوان ہیں یا بچے ہیں یا بڑے ہیں.بخاری میں ایک روایت ہے حضرت ابن عباس نے کہا عیینہ بن حصن بن حذیفہ مدینہ آئے اور اپنے بھتیجے حربن قیس کے پاس اترے اور حربن قیس ان لوگوں میں سے تھے جن کو حضرت عمر اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے اور قاری یعنی قرآن کے عالم ہی، بڑی عمر کے ہوں یا جوان، مجلس میں حضرت عمرؓ کے قریب بیٹھنے والے تھے ، ان کو مشورہ دینے والے ہوتے تھے.عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا: اے بھتیجے! اس امیر کے پاس تمہاری وجاہت ہے.اس لیے میرے لیے ان کے پاس آنے کی اجازت مانگو.محر بن قیس نے کہا: میں تمہارے لیے ان کے پاس آنے کی اجازت لے لوں گا.حضرت ابن عباس کہتے تھے چنانچہ ٹر نے عیینہ کے لیے اجازت مانگی اور حضرت عمر نے ان کو اجازت دی.جب عیینہ ان کے پاس آیا تو اس نے کہا خطاب کے بیٹے یہ کیا بات ہے.اللہ کی قسم ! نہ تو آپ ہم کو بہت مال دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان اور ہمارے مال کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرتے ہیں.یہ سن کر حضرت عمرؓ ناراض ہو گئے یہاں تک کہ اس کو کچھ کہنے کو ہی تھے کہ محر نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا امیر المومنین ! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی الیہ کم سے فرمایا ہے: 556 خُذِ الْعَفْوَ وَامُرُ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ (الاعراف : 200) یعنی اے نبی ! ہمیشہ عفو اختیار کر اور معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر اور یہ عیینہ جاہلوں میں سے ہی ہے.اللہ کی قسم ! جب کر نے ان کے سامنے یہ آیت پڑھی تو حضرت عمر وہیں رک گئے اور کچھ نہیں کہا اور حضرت عمرؓ کتاب اللہ کو سن کر رک جاتے تھے.حضرت خلیفہ اول حضرت عمرؓ کے دربار کا ایک واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت عمرؓ کے دربار میں ایک امیر آیا.اس نے اس بات کو بہت مکر وہ سمجھا کہ ایک دس برس کا لڑکا بھی بیٹھا ہے کہ ایسی عالیشان بار گاہ میں لونڈوں کو کیا کام ؟ اتفاق سے حضرت عمر اس امیر کی کسی حرکت پر ناراض ہوئے.جلاد کو بلایا.وہی لڑکا پکار اٹھا: وَ الْعَظِمِينَ الْغَيْظَ (آل عمران : 135) اور پڑھا وَاَعْرِضْ عَنِ الْجُهِلِينَ (الاعراف: 200) اور کہا هذَا مِنَ

Page 311

اصحاب بدر جلد 3 291 حضرت عمر بن خطاب الجاهلين.حضرت عمر کا چہرہ زرد ہو گیا اور خاموش رہ گئے.اس وقت اس کے بھائی نے “ یعنی اس می کے بھائی نے جو بول رہا تھا کہا.دیکھا اسی لونڈے نے تمہیں بچایا ہے جس کو تم حقیر سمجھتے تھے.557 حضرت عمر نبچوں کی تربیت کس طرح کیا کرتے تھے.اس بارے میں ایک روایت ہے.یوسف 558 بن یعقوب نے کہا: ابن شہاب نے مجھے اور میرے بھائی کو اور میرے چچا کے بیٹے کو جبکہ ہم کم سن بچے تھے کہا تم اپنے آپ کو بچہ ہونے کی وجہ سے حقیر نہ سمجھنا کیونکہ حضرت عمر کو جب کوئی معاملہ در پیش آتا تو آپ بچوں کو بلاتے اور ان سے بھی اس غرض سے مشورہ لیتے کہ آپ ان کی عقلوں کو تیز کرنا چاہتے تھے.جنگ احد میں جب جنگ کا پانسا پلٹا اور مسلمانوں کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑا تو اس وقت ابو سفیان نے تین بار پکار کر کہا.یہاں حضرت عمر کی غیرت کا سوال ہے کہ کیا ان لوگوں میں محمد ہے ؟ نبی صلی الم نے صحابہ کو اسے جواب دینے سے روک دیا.پھر اس نے تین بار پکار کر پوچھا: کیا لو گوں میں ابو قحافہ کا بیٹا ہے؟ پھر تین بار پوچھا: کیا ان لوگوں میں ابن خطاب ہے ؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور کہنے لگا یہ جو تھے وہ تو مارے گئے.یہ سن کر حضرت عمرؓ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بولے: اے اللہ کے دشمن ! بخدا تم نے جھوٹ کہا ہے.جن کا تم نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں اور جو بات ناگوار ہے اس میں سے ابھی تیرے لیے بہت کچھ باقی ہے.ابوسفیان بولا یہ معرکہ بدر کے معرکہ کا بدلہ ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہے کبھی اس کی فتح اور کبھی اس کی.559 پھر بیت المال کے اموال کی حفاظت اور نگرانی میں کس حد تک محتاط تھے.اس بارے میں روایت ہے.زید بن اسلم کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے دودھ پیا.آپ کو وہ پسند آیا.کسی نے گلاس میں دودھ دیا، آپ نے پیا اور پسند آیا.آپ نے اس شخص سے پوچھا جس نے آپ کو دودھ پلایا تھا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ اس نے آپ کو بتایا کہ وہ ایک چشمہ پر گیا جس کا اس نے نام بھی لیا.وہاں زکوۃ کے اونٹوں کو لوگ پانی پلا رہے تھے.انہوں نے میرے لیے ان کا دودھ دوہا جس کو میں نے اپنے اس پانی پینے والے برتن میں ڈال لیا.حضرت عمر بن خطاب نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال کر قے کر کے اس کو نکال دیا.560 کہ یہ زکوۃ کا مال ہے.یہ میں نہیں پیوں گا.براء بن مغرور کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت عمر گھر سے نکلے یہاں تک کہ آپ منبر پر تشریف لائے.آپ اس وقت بیمار تھے.آپ کی اس بیماری کے لیے شہد تجویز کیا گیا.بیت المال میں شہد کا برتن موجود تھا.حضرت عمرؓ نے کہا اگر آپ لوگ مجھے اجازت دیں تو میں اسے لے لیتا ہوں ورنہ یہ مجھ پر حرام ہے تو لوگوں نے اس بارے میں آپ کو اجازت دے دی.561 بیت المال کے اموال کی حفاظت کا کس قدر خیال تھا اس بارے میں یہ واقعہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.مختصر بیان کرتاہوں کہ ایک دو پہر کو شدید گرمی میں پیچھے رہ جانے والے دو اونٹوں کو خو د ہانک کر

Page 312

محاب بدر جلد 3 292 حضرت عمر بن خطاب آپ چراگاہ میں لے کر جارہے تھے کہ کہیں ادھر ادھر گم نہ ہو جائیں.اتفاق سے حضرت عثمان نے جب دیکھا تو کہا کہ یہ کام ہم کر لیتے ہیں، آپؐ سائے میں آجائیں.تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: تم لوگ آرام سے سائے میں بیٹھو.یہ میرا کام ہے.یہ میں ہی کروں گا.562 اس واقعہ کو حضرت مصلح موعود یوں بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق مسلمانوں کو مال دیا، دولت دی، عزت دی، رتبہ دیا مگر وہ اسلام سے غافل نہیں ہو گئے.یہ بیان فرمار ہے ہیں کہ تم لوگوں میں کچھ ہے تو اپنے دین سے غافل نہ ہو، اسلام کی تعلیم سے غافل نہ ہو، اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہو.فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ باہر قُبہ میں بیٹھا ہوا تھا اور اتنی شدید گرمی پڑرہی تھی کہ دروازہ کھولنے کی بھی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ اتنے میں میرے غلام نے مجھے کہا.دیکھئے شدید دھوپ میں باہر ایک شخص پھر رہا ہے.تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ وہ شخص میرے قبہ کے قریب پہنچا اور میں نے دیکھا کہ وہ حضرت عمر نہیں.ان کو دیکھتے ہی میں گھبر اکر باہر نکلا اور میں نے کہا اس گرمی میں آپ کہاں؟ حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ بیت المال کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا جس کی تلاش میں میں باہر پھر رہا ہوں.حضرت مصلح موعودؓ نے آگے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عَلَی الْأَرَابِكِ يَنْظُرُونَ وہ ہوں گے تختوں پر مگر ہر وقت نگرانی ان کا کام ہو گا.دنیا کی نعمتیں اور دنیا کے آرام ان کو سست نہیں بنائیں گی.وہ ان آرائك کے اندر سو نہ رہے ہوں گے بلکہ بیدار اور ہوشیار ہوں گے.لوگوں کے حقوق کی دیکھ بھال کریں گے اور اپنے فرائض منصبی کو پوری خوش اسلوبی سے ادا کرتے چلے جائیں گے.563 مساوات کے قیام کے بارے میں روایت آتی ہے.سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ کے پاس ایک یہودی اور ایک مسلمان لڑتے ہوئے آئے.حضرت عمر کو یہودی کی طرف حق معلوم ہوا تو انہوں نے اس کے موافق فیصلہ کیا.پھر یہودی بولا اللہ کی قسم !تم نے سچا فیصلہ کیا ہے.564 حضرت انس سے روایت ہے کہ مصر کا ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا اے امیر المومنین ! میں ظلم سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں.آپؐ نے فرمایا: تو نے اچھی پناہ گاہ ڈھونڈی ہے.اس نے کہا میں نے عمرو بن عاص کے بیٹے کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا اور میں اس سے آگے نکل گیا.اس پر وہ مجھے کوڑے مارنے لگا اور کہا میں معزز فرد کا بیٹا ہوں.تمہیں یہ جرات کس طرح ہوئی کہ میرے سے آگے نکلو.یہ سن کر حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن عاص کو خط لکھا اور انہیں اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دیا.حضرت عمرو بن عاص آئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا مصری کہاں ہے ؟ کوڑالو اور حضرت عمرو بن عاص کے اس لڑکے کو مارو.وہ اسے مارنے لگا.اور حضرت عمررؓ فرما رہے تھے، اس مصری شخص کو کہہ رہے تھے کہ معزز فرد کے بیٹے کو مار.حضرت انس نکا بیان ہے کہ اس نے اسے مارا اور ہم اس کے مارنے کو پسند کر رہے تھے.وہ اسے مسلسل کوڑے مارتا رہا یہاں تک کہ ہم نے تمنا کی کہ اب چھوڑ

Page 313

اصحاب بدر جلد 3 293 حضرت عمر بن خطاب دے.پھر حضرت عمرؓ نے اس مصری شخص سے کہا کہ عمرو بن عاص کے سر پر مارو.تو اس (مصری) نے کہا کہ اے امیر المومنین ! ان کے بیٹے نے مجھے مارا تھا اور میں نے اس سے بدلہ لے لیا ہے.تو حضرت عمر نے حضرت عمرو بن عاص سے کہا: تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنار کھا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا ہے ؟ حضرت عمرو بن عاص نے عرض کیا اے امیر المومنین !نہ مجھے اس واقعہ کا علم تھا اور نہ وہ مصری میرے پاس آیا.565 ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے پاس کچھ مال آیا اور آپؐ اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے لگے.لوگوں نے بھیڑ لگادی.حضرت سعد بن ابی وقاص لوگوں سے مزاحمت کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور آپ تک پہنچ گئے.آپ نے انہیں ایک درہ لگایا اور کہا: تم زمین میں اللہ کے سلطان سے نہیں ڈرے اور اثر دھام کو چیرتے ہوئے آگے نکل آئے تو میں نے سوچا کہ تم کو بتادوں کہ اللہ کا سلطان بھی تم سے قطعا نہیں ڈرتا.حضرت عمر میں وسعت حوصلہ کس حد تک تھی.اس بارے میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا.اے لوگو! تم میں کوئی بھی شخص اگر مجھ میں ٹیڑھا پن دیکھے تو اسے سیدھا کر دے.ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا اگر ہم آپ میں ٹیڑھا پن دیکھیں گے تو اسے اپنی تلواروں سے سیدھا کریں گے.حضرت عمر نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس امت میں ایسا بھی آدمی 569 566 پیدا کیا ہے جو عمر کے ٹیڑھے پن کو اپنی تلوار سے سیدھا کرے گا.567 حضرت عمرؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: مجھے بھلائی کا حکم دے کر ، برائی سے روک کر اور مجھے نصیحت کر کے میری مدد کرو.568 پھر ایک موقع پر حضرت عمر نے فرمایا کہ میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ وہ شخص ہے جو میرے عیوب سے مجھے آگاہ کرے.9 پھر حضرت عمر کا ایک قول بیان کیا جاتا ہے کہ مجھے خوف ہے کہ میں غلطی کروں اور میرے ڈر سے کوئی مجھے سیدھا راستہ نہ دکھائے.570 ایک دن آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور مجمع عام کے سامنے کہنے لگا: اے عمر! اللہ سے ڈرو.بعض لوگ اس کی بات سن کر سخت غصہ ہو گئے اور اسے خاموش کرانا چاہا.اس پر حضرت عمرؓ نے اس سے کہا: تم میں کوئی خیر نہیں اگر تم عیب کو نہ بتاؤ اور ہم میں کوئی خیر نہیں اگر ہم اس کو نہ سنیں.571 یعنی اسے کہا صرف یہ بات نہ کرو بلکہ معین کر کے بتاؤ کہ کیا بات کرنا چاہتے ہو.ایک دن حضرت عمر لو گوں کے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے.آپ نے اتنا ہی کہا تھا اے لوگو! سنو اور اطاعت کرو کہ ایک آدمی نے بات کاٹتے ہوئے کہا: اے عمر !نہ ہم سنیں گے اور نہ اطاعت کریں گے.حضرت عمرؓ نے اس سے نرمی سے پوچھا اللہ کے بندے ! کیوں؟ اس نے کہا: اس لیے

Page 314

تاب بدر جلد 3 294 حضرت عمر بن خطاب کہ بیت المال سے جو کپڑ اسب میں تقسیم کیا گیا اس سے لوگ صرف قمیص بنوا سکے.جوڑا مکمل نہیں ہوا اور آپ کو بھی اتنا ہی کپڑا ملا ہو گا.پھر آپ کا جوڑا کیسے تیار ہو گیا؟ حضرت عمرؓ نے کہا: اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور پھر اپنے بیٹے عبد اللہ کو بلایا.عبد اللہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کو اپنے حصہ کا کپڑا دیا ہے تا کہ ان کا لباس مکمل ہو جائے.یہ سن کر سب لوگ مطمئن ہو گئے اور اس آدمی نے کہا.اے امیر المومنین ! اب سنوں گا اور اطاعت کروں گا.572 بعض اس قسم کے اجڈ بھی ہوتے تھے لیکن اس قسم کی باتیں آنحضرت صلی علم کے جو تربیت یافتہ صحابہ تھے ان کے منہ سے کبھی آپ نہیں سنیں گے.یہ وہی لوگ ہیں جو دیر سے مسلمان ہوئے، یا پھر بالکل ہی اجڈ، ان پڑھ اور جاہل تھے.جو کبار صحابہ تھے ان میں ایسی باتیں نہیں پائی جاتی تھیں ان میں کامل اطاعت ہوتی تھی.اسلام مذہبی امور میں آزادی دیتا ہے.اس بارے میں حضرت عمر کا طریق کیا تھا.فتح اسکندریہ کے بعد وہاں کے حاکم نے حضرت عمرو بن عاص کو پیغام بھیجا کہ اے اقوامِ عرب ! میں تم سے زیادہ قابل نفرت قوموں یعنی اہل فارس اور روم کو جزیہ ادا کر تا تھا.اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کو جزیہ ادا کرنے کے لیے تیار ہوں بشر طیکہ آپ میرے علاقے کے جنگی قیدیوں کو لوٹا دیں.حضرت عمرو بن عاص نے دربارِ خلافت میں تمام حالات لکھے.حضرت عمر کا جواب آیا کہ تم حاکم اسکندریہ کے سامنے یہ تجویز رکھو کہ وہ جزیہ ادا کرے مگر جو جنگی قیدی تمہارے قبضہ میں ہیں یعنی مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں انہیں اختیار دیا جائے گا کہ وہ اسلام قبول کریں یا اپنی قوم کے مذہب کو برقرار رکھیں.جو مسلمان ہو جائے گاوہ مسلمانوں میں شامل ہو گا اور اس کے حقوق و فرائض انہی جیسے ہوں گے یعنی مسلمانوں جیسے مگر جو اپنی قوم کے مذہب پر بر قرار رہے گا اس پر وہی جزیہ مقرر کیا جائے گا جو اس کے ہم مذہبوں پر ہو گا.چنانچہ عمر و بن عاص نے تمام قیدیوں کو جمع کیا اور ان کو فرمانِ خلافت پڑھ کر سنایا گیا تو بہت سے قیدی مسلمان ہو گئے.3 مذہبی آزادی میں آپ کس قدر محتاط تھے.اس بارے میں ایک واقعہ ہے.ایک دفعہ ایک بوڑھی نصرانی عورت اپنی کسی ضرورت سے حضرت عمرؓ کے پاس آئی تو آپ نے اس سے کہا مسلمان ہو جاؤ محفوظ رہو گی.اللہ نے محمد کو حق کے ساتھ بھیجا تھا.اس نے جواب دیا میں بوڑھی عورت ہوں اور موت میرے قریب ہے.آپ نے اس کی ضرورت پوری کر دی لیکن ڈرے کہ کہیں آپ کا یہ کام اس کی ضرورت سے غلط فائدہ اٹھا کر اسے مجبور امسلمان بنانے کے مترادف نہ ہو جائے.اس لیے آپ نے اس عمل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کی اور کہا اے اللہ ! میں نے اسے سیدھی راہ دکھائی تھی اسے مجبور نہیں کیا تھا.بہت احتیاط تھی.574 پھر ایک واقعہ ہے.حضرت عمر کا ایک عیسائی غلام تھا اس کا نام اشق تھا اس کا بیان ہے کہ میں 573

Page 315

حاب بدر جلد 3 295 حضرت عمر بن خطاب حضرت عمر کا غلام تھا.آپ نے مجھ سے کہا مسلمان ہو جاؤ تا کہ مسلمانوں کے بعض معاملات میں تم سے مدد لے لیا کروں کیونکہ ہمارے لیے مناسب نہیں کہ مسلمانوں کے معاملے میں ان لوگوں سے مد دلوں جو غیر مسلم ہیں لیکن میں نے انکار کر دیا، غلام نے کہا.تو آپ نے فرمایا لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ دین اسلام میں زبر دستی نہیں.جب آپ کی وفات قریب ہوئی تو آپ نے مجھے آزاد کر دیا اور کہا تمہاری جہاں مرضی ہو چلے جاؤ.575 جانوروں پر شفقت اور رحم دلی کا واقعہ.آخنف بن قیس کا بیان ہے کہ ہم عمر بن خطاب کے پاس ایک وفد کی شکل میں فتح عظیم کی خوشخبری لے کر آئے.آپ نے پوچھا آپ لوگ کہاں ٹھہرے ہو ؟ میں نے کہا فلاں جگہ.پھر آپ میرے ساتھ چل پڑے.ہماری سواری کے اونٹوں کے باڑے یعنی ان کے باندھنے کے مقام تک پہنچے اور ایک ایک کو غور سے دیکھنے کے بعد فرمانے لگے کیا تم اپنی سواریوں کے بارے میں اللہ سے خوف نہیں کھاتے ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ان کا بھی تم پر حق ہے ؟ انہیں کھلا کیوں نہ چھوڑ دیا کہ گھاس وغیرہ چرتے.حضرت عمر نے ایک اونٹ دیکھا جس پر بے بسی اور بیماری کے آثار بالکل نمایاں تھے.سالم بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے اپنا ہاتھ اونٹ کی پشت پر ایک زخم کے پاس رکھا اور خود کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تیرے بارے میں اللہ کے ہاں میری باز پرس نہ ہو.577 پھر ایک روایت اسلم سے ہے.وہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے فرمایا میرے 576 دل میں تازہ مچھلی کھانے کی خواہش پیدا ہوئی.پرفا ( حضرت عمرؓ کے غلام کا نام ہے) سواری پر سوار ہوا اور آگے پیچھے چار میل تک دوڑا کر ایک عمدہ مچھلی خرید کر لایا.پھر سواری کی طرف متوجہ ہوا اور اسے غسل دیا.اتنے میں حضرت عمرؓ بھی آگئے اور فرمانے لگے چلو یہاں تک کہ آپ نے سواری کو دیکھ کر فرمایا.تم اس پسینہ کو دھونا بھول گئے ہو جو اس کے کان کے نیچے ہے.تم نے عمر کی خواہش پوری کرنے کے لیے ایک جانور کو تکلیف میں مبتلا کر ڈالا ہے.اللہ کی قسم! عمر تیری اس مچھلی کو نہیں چکھے گا.578 ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے پاس گرمی کے موسم میں دو پہر کے وقت عراق سے ایک وفد آیا.اس میں اختف بن قیس بھی تھے.حضرت عمر سر پر پگڑی باندھ کر ز کوۃ کے ایک اونٹ کو تارکول وغیر ہ لگا رہے تھے.آپ نے فرمایا اے اختف! اپنے کپڑے اتارو اور آؤ.اس اونٹ میں امیر المومنین کی مدد کرو.یہ زکوۃ کا اونٹ ہے.اس میں یتیم، بیوہ اور مسکین کا حق ہے.579 بارے میں عمر بن خ است عمر کا ایک یہودی نواع میں سے کسی شخص نے ان سے کیا تاہم روایت ہے.طارق نے حضرت سے ! کتاب میں

Page 316

محاب بدر جلد 3 296 حضرت عمر بن خطاب ایک آیت ہے جسے آپ پڑھتے ہیں اگر وہ ہم پر یعنی یہود کی قوم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے.حضرت عمر نے پوچھا وہ کون سی ہے ؟ اس نے کہا.اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: 4) یعنی آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا ہے اور تمہیں اپنی نعمت ساری کی ساری عطا کر دی ہے اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کیا ہے.حضرت عمرؓ نے جواب دیا ہمیں وہ دن اور وہ جگہ بھی معلوم ہے جہاں نبی صلی ہیں تم پر یہ آیت نازل ہوئی تھی.آپ اس وقت جمعہ کے دن عرفات میں کھڑے تھے.حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ سے ایک یہودی نے کہا کہ قرآن مجید میں ایک آیت ہے.اگر وہ ہماری کتاب میں اترتی تو ہم اس دن عید مناتے.حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ کون سی آیت ہے ؟ اس نے جواب دیا.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكم الآیۃ.آپ نے فرمایا وہ دن تو ہمارے لئے دو عیدوں کا دن تھا یعنی جمعہ کا دن اور عرفہ کے دن.[ اس دن یہ آیت نازل ہوئی تھی.“ 580 بعض بزرگان حضرت عمرؓ کے بارے میں بیان کرتے ہیں.اشعث سے روایت ہے کہ میں نے امام شعبی کو یہ کہتے ہوئے سنا.جب لوگ کسی مسئلے میں اختلاف کریں تو دیکھو کہ حضرت عمرؓ نے اس معاملے میں کیا کیا ہے.کیونکہ حضرت عمررؓ بغیر مشورہ کے کوئی کام نہیں کرتے تھے.581 امام شعبی فرماتے ہیں: میں نے حضرت قبیصہ بن جابر کو یہ کہتے ہوئے سنا.میں حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ رہاہوں.میں نے آپ سے زیادہ کتاب اللہ کو پڑھنے والا اور اللہ کے دین کو سمجھنے والا اور آپ سے اچھا اس کی درس و تدریس کرنے والا کوئی نہیں دیکھا.حضرت حسن بصری نے کہا جب تم اپنی مجلس کو خوشبو دار بنانا چاہو تو حضرت عمر کا بہت ذکر کرو.583 582 584 مجاہد سے روایت ہے کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ بے شک حضرت عمرؓ کے دور میں شیاطین جکڑے ہوئے تھے.جب آپ شہید ہوئے تو شیاطین زمین میں کودنے لگے.حضرت عمر کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کا شاعرانہ ذوق بھی بہت تھا.خود شعر تو نہیں کہتے تھے لیکن شعر سنتے تھے، پسند کرتے تھے.حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے ساتھ ایک سفر میں نکلا.ایک رات جب ہم چل رہے تھے تو میں ان کے قریب آیا تو انہوں نے اپنے پالان کے اگلے حصہ پر ایک کوڑا مار کر یہ اشعار پڑھے.كَذَبْتُمْ وَبَيْتِ اللهِ يُقْتَلُ أَحمدُ وَلَمَّا نُطَاعِنَ دُونَهُ وَنُنَاضِلُ وَنُسْلِمُهُ حَتَّى نُصَرَّعَ حَوْلَهُ وَنَذْهَلَ عَنْ أَبْنَائِنَا وَالْحَلَائِلِ تم جھوٹ بولتے ہو.اللہ کے گھر خانہ کعبہ کی قسم !حضرت احمد علی علیکم شہید نہیں ہو سکتے جب تک کہ

Page 317

اصحاب بدر جلد 3 297 حضرت عمر بن خطاب ہم ان کی حفاظت کے لیے نیزہ بازی اور شمشیر زنی کے جوہر نہ دکھائیں.ہم انہیں نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ ہم ان کے قریب جنگ کرتے ہوئے مارے جائیں اور اپنے فرزند اور اہل و عیال کو بھول جائیں.وَمَا حَمَلَتْ مِنْ نَاقَةٍ فَوْقَ رَحْلِهَا أَبَرَ وَ أَوْفَى ذِمَّةً مِنْ مُحَمَّدِ کسی اونٹنی نے اپنی پشت پر حضرت محمد صلی علیہ کم سے بڑھ کر نیکی کرنے والا اور وعدہ پورا کرنے والے 585 انسان کو نہیں اٹھایا.ایک تاریخ دان ڈاکٹر علی محمد صلابی اپنی کتاب ”سید نا عمر بن خطاب.شخصیت اور کارنامے “ میں شعر و شاعری سے لگاؤ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ خلفائے راشدین میں سب سے زیادہ شعر کے ذریعہ مثال دینے والے حضرت عمرؓ تھے.آپ کے بارے میں بعض لوگوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ آپ کے سامنے شاید ہی کوئی معاملہ آتا رہا ہو اور آپ اس پر شعر نہ سناتے رہے ہوں.بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نیا جوڑا زیب تن کر کے باہر نکلے.لوگ آپ کو بہت دھیان سے دیکھنے لگے.اس پر آپ نے انہیں مثال دیتے ہوئے یہ اشعار سنائے: لَمْ تُغْنِ عَنْ هُرْ مُزِ يَوْمًا خَزَائِنُهُ أَيْنَ الْمُلُوكُ الَّتِي كَانَتْ نَوَافِلُهَا وَالخُلْدُ قَدْ حَاوَلَتْ عَادٌ فَمَا خَلَدُوا مِنْ كُلِّ أَوْبِ إِلَيْهَا رَا كِبْ يَفِدُ کہ موت کے وقت ہر مز کو اس کے خزانوں نے کوئی فائدہ نہ دیا اور قوم عاد نے ہمیشہ آباد رہنے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ نہ رہی.کہاں گئے وہ بادشاہ جن کے چشموں گھاٹوں سے ہر طرف سے آنے والا 586 قافلہ سیراب ہو تا تھا.علی محمد صلابی لکھتے ہیں کہ حضرت عمر ا نہی اشعار کو پسند کرتے تھے جن میں اسلامی زندگی کا جو ہر چمکتا ہو.وہ اسلامی خصوصیات کی عکاسی کرتے ہوں اور ان کے معانی اور مطالب اسلام کی تعلیمات کے خلاف اور اس کی اقدار سے متعارض نہ ہوں.آپ مسلمانوں کو بہترین اشعار یاد کرنے پر ابھارتے اور فرماتے تھے.شعر سیکھو.اس میں وہ خوبیاں ہوتی ہیں جن کی تلاش ہوتی ہے نیز حکماء کی حکمت ہوتی ہے اور مکارم اخلاق کی طرف راہنمائی ہوتی ہے.آپ شعر کے فوائد کے سلسلہ میں صرف اتنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اسے دلوں کی چابی اور انسان کے جسم میں خیر کے جذبات کا محرک تصور کرتے تھے.آپ شعر کی فضیلت اور فائدے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انسان کا سب سے بہترین فن شعر کے چند ابیات کی تخلیق ہے جنہیں وہ اپنی ضرورتوں میں پیش کرتا ہے.ان میں کریم اور سخی آدمی کے دل کو نرم کر لیتا ہے اور کمینے شخص کے دل کو اپنی طرف مائل کر لیتا ہے.جاہلی شعراء، زمانہ جاہلیت کے جو پرانے شعراء تھے، ان کے کلام کو بھی اس لیے کافی لگن سے یاد

Page 318

باب بدر جلد 3 298 حضرت عمر بن خطاب کرتے تھے کہ کتاب الہی کے افہام و تفہیم سے ان کا گہرا تعلق ہے.آپ نے فرمایا: تم اپنے دیوان کو حفظ کر لو اور گمراہ نہ رہو.سامعین نے آپ سے پوچھا کہ ہمارا دیوان کون سا ہے تو حضرت عمر نے فرمایا دورِ جاہلیت کے اشعار ہیں.ان میں تمہاری کتاب یعنی قرآن مجید کی تفسیر ہے اور تمہارے کلام کے معنی ہیں.آپ کا یہ فرمان آپ کے شاگرد اور ترجمان القرآن عبد اللہ بن عباس کے اس موقف سے بھی متفق ہے جس میں آپ نے کہا کہ جب تم قرآن پڑھو اور اس کو نہ سمجھ سکو تو اس کے مفہوم معانی عرب کے اشعار میں تلاش کرو کیونکہ شاعری عربوں کا دیوان ہے.587 بر صغیر کے معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب ”الفاروق، میں آپ کے شعر و شاعری کے ذوق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شعر و شاعری کی نسبت اگر چہ حضرت عمرؓ کی شہرت عام طور پر کم ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ شعر بہت کم کہتے تھے لیکن شعر و شاعری کا مذاق ایسا عمدہ رکھتے تھے کہ ان کی تاریخ زندگی میں یہ واقعہ ہم ترک نہیں کر سکتے.عرب کے ایک مشہور و معروف شعراء کا کلام کثرت سے یاد تھا اور تمام شعرا کے کلام پر ان کی خاص خاص آراء تھی.اہل ادب کو عموماً تسلیم ہے کہ آپ کے زمانہ میں اُن سے بڑھ کر کوئی شخص شعر پڑھنے والا نہ تھا.جاحظ نے اپنی کتاب البیان والتبیین میں لکھا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب اپنے زمانے میں سب سے بڑھ کر شعر کے شناسا تھے.حضرت عمر کے ذوق سخن کا یہ حال تھا کہ اچھے اشعار سنتے تو بار بار مزے لے لے کر پڑھتے تھے.اگر چہ آپ کو مہمات خلافت کی وجہ سے ان اشغال میں مصروف ہونے کا موقع نہیں مل سکتا تھا تا ہم چونکہ طبعی ذوق رکھتے تھے اس لیے سینکڑوں ہزاروں شعر یاد تھے.علمائے ادب کا بیان ہے کہ ان کے حفظ اشعار کا یہ حال تھا کہ جب کسی معاملے کا فیصلہ کرتے تو ضرور کوئی شعر پڑھتے.آپ صرف وہ اشعار پسند کرتے تھے جن میں خودداری، آزادی، شرافتِ نفس، حمیت، عبرت کے مضامین ہوتے تھے.اسی بنا پر امرائے فوج اور اضلاع کے عاملوں کو حکم بھیج دیا تھا کہ لوگوں کو اشعار یاد کرنے کی تاکید کی جائے.چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کو یہ فرمان بھیجا کہ لوگوں کو اشعار یاد کرنے کا حکم دو کیونکہ وہ اخلاق کی بلند باتوں اور صحیح رائے اور انساب کی طرف راستہ دکھاتے ہیں.تمام اضلاع میں جو حکم بھیجا تھا اس کے الفاظ یہ تھے: اپنی اولاد کو تیرنا اور شہ سواری سکھاؤ اور ضرب الامثال اور اچھے اشعار یاد کراؤ یعنی علمی ذوق بھی پیدا کرو.اس موقع پر یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ حضرت عمرؓ نے شاعری کے بہت سے عیوب مٹادیے.اس وقت تمام عرب میں یہ طریقہ جاری تھا کہ شعراء شریف عورتوں کا نام اعلانیہ اشعار میں لاتے تھے اور ان سے اپنا عشق جتاتے تھے.حضرت عمرؓ نے اس رسم کو مٹا دیا اور اس کی سخت سزا مقرر کی.اسی طرح ہجو گوئی کو ایک جرم قرار دیا اور خطیقہ کو جو مشہور ہجو گو تھا اس جرم میں قید کیا.18 علامہ شبلی نعمانی مزید لکھتے ہیں.اس زمانے کا سب سے بڑا شاعر متهم بن نویرہا تھا جس کے بھائی کو 588

Page 319

صحاب بدر جلد 3 299 حضرت عمر بن خطاب حضرت ابو بکر صدیق کے زمانہ میں حضرت خالد نے غلطی سے قتل کر دیا تھا.اس واقعہ نے اس کو اس قدر صدمہ پہنچایا تھا کہ ہمیشہ رویا کرتا اور مرثیہ کہا کرتا تھا.حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مرثیہ پڑھنے کی فرمائش کی تو اس نے چند اشعار پڑھے.حضرت عمرؓ نے اس سے کہا کہ اگر مجھے کوئی ایسامر شیہ کہنا آتا تو میں اپنے بھائی زید کا مرثیہ کہتا.اس نے کہا اے امیر المومنین ! اگر میر ابھائی آپ کے بھائی کی طرح مارا جاتا یعنی شہادت کی موت مرتا تو میں ہر گز اس کا ماتم نہ کرتا.حضرت عمرؓ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے ساتھ متم جیسی تعزیت کسی نے نہیں کی.589 590" حضرت عمرؓ کے فضائل اور مناقب کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” بعض واقعات پیشگوئیوں کے جن کا ایک ہی دفعہ ظاہر ہو نا امید رکھا گیا ہے وہ تدریجاً ظاہر ہوں یا کسی اور شخص کے واسطہ سے ظاہر ہوں جیسا کہ ہمارے نبی صلی علی نام کی یہ پیشگوئی کہ قیصر و کسری کے خزانوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں حالانکہ ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے ظہور سے پہلے آنحضرت صلی علم فوت ہو چکے تھے اور آنجناب نے نہ قیصر اور کسریٰ کے خزانہ کو دیکھا اور نہ کنجیاں دیکھیں مگر چونکہ مقدر تھا کہ وہ کنجیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود ظلی طور پر گویا آنجناب صلی للی کم کا وجود ہی تھا اس لیے عالم وحی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پیغمبر خداصلی للی کم کا ہاتھ قرار دیا گیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں: یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق عمر اور حضرت ذوالنورین اور حضرت علی مرتضیٰ سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے.ابو بکر جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اگر دین میں سچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لئے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی من جانب اللہ بتا سکتے.591 پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” مجھے میرے رب کی طرف سے خلافت کے بارے میں از روئے تحقیق تعلیم دی گئی ہے اور محققین کی طرح میں اس حقیقت کی تہ تک پہنچ گیا اور میرے رب نے مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ صدیق اور فاروق اور عثمان (رضی اللہ عنہم ) نیکو کار اور مومن تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے چن لیا اور جو خدائے رحمان کی عنایات سے خاص کئے گئے اور اکثر صاحبان معرفت نے ان کے محاسن کی شہادت دی.انہوں نے بزرگ و برتر خدا کی خوشنودی کی خاطر وطن چھوڑے.ہر جنگ کی بھٹی میں داخل ہوئے اور موسم گرما کی دو پہر کی تپش اور سردیوں کی رات کی ٹھنڈک کی پرواہ نہ کی بلکہ نوخیز جوانوں کی طرح دین کی راہوں پر محو خرام ہوئے اور اپنوں اور غیروں کی طرف مائل نہ ہوئے اور اللہ رب العالمین کی خاطر سب کو خیر باد کہہ دیا.ان کے اعمال میں خوشبو اور ان کے افعال میں مہک ہے اور یہ سب کچھ ان کے مراتب کے باغات اور ان کی نیکیوں کے گلستانوں کی

Page 320

اصحاب بدر جلد 3 300 حضرت عمر بن خطاب طرف رہنمائی کرتا ہے اور ان کی بادِ نسیم اپنے معطر جھونکوں سے ان کے اسرار کا پتہ دیتی ہے اور ان کے انوار اپنی پوری تابانیوں سے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں پس تم ان کے مقام کی چمک دمک کا ان کی خوشبو کی مہک سے پتہ لگاؤ اور جلد بازی کرتے ہوئے بد گمانیوں کی پیروی مت کرو اور بعض روایات پر تکیہ نہ کرو! کیونکہ ان میں بہت زہر اور بڑا غلو ہے اور وہ قابل اعتبار نہیں ہو تیں.ان میں سے بہت ساری روایات تہ و بالا کرنے والی آندھی اور بارش کا دھوکہ دینے والی بجلی کے مشابہ ہیں.پس اللہ سے ڈر اور ان ( روایات) کی پیروی کرنے والوں میں سے نہ بن.5924 پھر آپ فرماتے ہیں: بخدا اللہ تعالیٰ نے شیخین حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو اور تیسرے جو ذوالنورین ہیں ہر ایک کو اسلام کے دروازے اور خیر الانام محمد رسول اللہ صلی اللی کم کی فوج کے ہر اول دستے بنایا ہے.پس جو شخص ان کی عظمت سے انکار کرتا ہے اور ان کی قطعی دلیل کو حقیر جانتا ہے اور ان کے ساتھ ادب سے پیش نہیں آتا بلکہ ان کی تذلیل کرتا اور ان کو برا بھلا کہنے کے درپے رہتا ہے اور زبان درازی کرتا ہے مجھے اس کے بد انجام اور سلب ایمان کا ڈر ہے اور جنہوں نے اس کو دکھ دیا، ان پر لعن کیا اور بہتان لگائے تو دل کی سختی اور خدائے رحمان کا غضب ان کا انجام ٹھہرا.میر ابار ہا کا تجربہ ہے اور میں اس کا کھلے طور پر اظہار بھی کر چکا ہوں کہ ان سادات سے بغض و کینہ رکھنا برکات ظاہر کرنے والے اللہ سے سب سے زیادہ قطع تعلقی کا باعث ہے اور جس نے بھی ان سے دشمنی کی تو ایسے شخص پر رحمت اور شفقت کی سب راہیں بند کر دی جاتی ہیں اور اس کے لئے علم و عرفان کے دروازے وا نہیں کئے جاتے اور اللہ تعالیٰ انہیں دنیا کی لذات و شہوات میں چھوڑ دیتا ہے اور نفسانی خواہشات کے گڑھوں میں گرادیتا ہے اور اسے اپنے آستانے سے دور رہنے والا اور محروم کر دیتا ہے انہیں یعنی خلفائے راشدین کو اسی طرح اذیت دی گئی جس طرح نبیوں کو دی گئی اور ان پر لعنتیں ڈالی گئیں جس طرح مرسلوں پر ڈالی گئیں اس طرح ان کا رسولوں کا وارث ہونا ثابت ہو گیا اور روز قیامت ان کی جزا اقوام و ملل کے ائمہ جیسی متحقق ہو گئی کیونکہ جب مومن پر کسی قصور کے بغیر لعنت ڈالی جائے اور کافر کہا جائے اور بلا وجہ اس کی ہجو کی جائے اور اسے برا بھلا کہا جائے تو وہ انبیاء کے مشابہ ہو جاتا ہے اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کی مانند بن جاتا ہے.پھر اسے بدلہ دیا جاتا ہے جیسا نبیوں کو بدلہ دیا جاتا ہے اور مرسلوں جیسی جزا پاتا ہے.یہ لوگ بلاشبہ حضرت خیر الانبیاء کی اتباع میں عظیم مقام پر فائز تھے اور جیسا کہ بزرگ و برتر اللہ نے ان کی مدح فرمائی وہ ایک اعلیٰ امت تھے اور اس نے خود اپنی روح سے ان کی ایسی ہی تائید فرمائی جیسے وہ اپنے تمام برگزیدہ بندوں کی تائید فرماتا ہے اور فی الحقیقت ان کے صدق کے انوار اور ان کی پاکیزگی کے آثار پوری تابانی سے ظاہر ہوئے اور یہ کھل کر واضح ہو گیا کہ وہ سچے تھے اور اللہ ان سے اور وہ اس سے راضی ہو گئے اور اس نے انہیں وہ کچھ عطا فرمایا جو دنیا جہان میں کسی اور کو نہ دیا گیا.93 593

Page 321

اصحاب بدر جلد 3 301 حضرت عمر بن خطاب پھر آپ شیعہ حضرات کی ایک بات کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”شیعہ حضرات میں سے جو یہ خیال کرتا ہے کہ (ابوبکر) صدیق یا (عمر) فاروق نے (علی) مرتضی یا (فاطمتہ الزھرۃ کے حقوق کو غصب کیا اور ان پر ظلم کیا تو ایسے شخص نے انصاف کو چھوڑا اور زیادتی سے پیار کیا اور ظالموں کی راہ اختیار کی.یقیناً وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر اپنے وطن، عزیز دوست اور مال و متاع چھوڑے اور جنہیں کفار کی طرف سے اذیتیں دی گئیں اور جو شر پسندوں کے ہاتھوں بے گھر ہوئے مگر (پھر بھی) انہوں نے اچھے اور نیک لوگوں کی طرح صبر کیا اور وہ خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے (پھر بھی) گھروں کو سیم و زر سے نہ بھرا اور نہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو سونے اور چاندی کا وارث بنایا بلکہ جو کچھ حاصل ہو اوہ بیت المال کو دے دیا اور انہوں نے دنیا داروں اور گمر اہوں کی طرح اپنے بیٹوں کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا.انہوں نے اس دنیا میں زندگی فقر اور تنگدستی کی حالت میں بسر کی اور وہ امراء اور رؤسا کی طرح ناز و نعمت کی طرف مائل نہ ہوئے.کیا ان کے بارے میں یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ ازراہِ تعدی لوگوں کے اموال چھیننے والے تھے اور حق چھیننے ، لوٹ مار کرنے اور غارت گری کی طرف میلان رکھنے والے تھے.کیا سرور کائنات رسول اللہ صلی علیکم کی صحبت قدسیہ کا یہ اثر تھا؟ حالانکہ اللہ تمام کائنات کے رب نے ان کی حمد و ثناء کی.حقیقت یہ ہے کہ (اللہ) نے ان کے نفوس کا تزکیہ فرمایا اور ان کے دلوں کو پاکیزگی بخشی اور ان کے وجو دوں کو منور کیا اور آئندہ آنے والے پاکبازوں کا پیش رو بنایا اور ہم کوئی کمزور احتمال اور سطحی خیال بھی نہیں پاتے جو ان کی نیتوں کے فساد کی خبر دے یا ان کی ادنی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہو چہ جائیکہ ان کی ذات کی طرف ظلم منسوب کرنے کا کوئی پختہ ارادہ کرے.بخدا وہ انصاف کرنے والے لوگ تھے.اگر انہیں مال حرام کی وادی بھی دی جاتی تو وہ اس پر تھوکتے بھی نہیں اور نہ ہی حریصوں کی طرح اس کی طرف مائل ہوتے خواہ سونا پہاڑوں جتنا یا سات زمینوں جتنا ہوتا.اگر انہیں حلال مال ملتا تو وہ ضرور اسے صاحب جبروت (خدا) کی راہ اور دینی مہمات میں خرچ کرتے.پس ہم یہ کیسے خیال کر سکتے ہیں کہ انہوں نے چند درختوں کی خاطر (فاطمتہ الزھراء کو ناراض کر دیا اور جگر گوشئہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو شر پسندوں کی طرح اذیت دی بلکہ شرفاء نیک نیت ہوتے اور حق پر ثابت قدم ہوتے ہیں اور اللہ کی طرف سے ان پر رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور اللہ متقیوں کے باطن کو خوب جانتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: ”سچ تو یہ ہے کہ (ابو بکر صدیق اور (عمر) فاروقی دونوں اکابر صحابہ میں سے تھے.ان دونوں نے ادائیگی حقوق میں کبھی کو تا ہی نہیں کی.انہوں نے تقویٰ کو اپنی راہ اور عدل کو اپنا مقصود بنالیا تھا.وہ حالات کا گہرا جائزہ لیتے اور اسرار کی کنہ تک پہنچ جاتے تھے.دنیا کی خواہشات کا حصول بھی بھی ان کا مقصود نہ تھا.انہوں نے اپنے نفوس کو اللہ کی اطاعت میں لگائے رکھا.کثرت فیوض اور نبی الثقلین کے دین کی تائید میں شیخین (یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) جیسا میں نے کسی کو نہ 594"

Page 322

حاب بدر جلد 3 302 حضرت عمر بن خطاب پایا.یہ دونوں ہی آفتاب امم و ملل (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اتباع میں مہتاب سے بھی زیادہ سریع الحرکت تھے اور آپ کی محبت میں فنا تھے.انہوں نے حق کے حصول کی خاطر ہر تکلیف کو شیر میں جانا اور اس نبی کی خاطر جس کا کوئی ثانی نہیں، ہر ذلت کو برضاور غبت گوارا کیا اور کافروں اور منکروں کے لشکروں اور کافروں سے مٹھ بھیڑ کے وقت شیروں کی طرح سامنے آئے یہاں تک کہ اسلام غالب آ گیا اور دشمن کی جمعیتوں نے ہزیمت اٹھائی.شرک چھٹ گیا اور اس کا قلع قمع ہو گیا اور ملت و مذہب کا سورج جگمگ جگمگ کرنے لگا اور مقبول دینی خدمت بجالاتے ہوئے اور مسلمانوں کی گردنوں کو لطف و احسان سے زیر بار کرتے ہوئے ان دونوں کا انجام خیر المرسلین کی ہمسائیگی پر منتج ہوا اور یہ اس اللہ کا فضل ہے جس کی نظر سے متقی پوشیدہ نہیں اور بیشک فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے.جو شخص بکمال شوق اللہ کے دامن سے وابستہ ہو جاتا ہے تو وہ اسے ہر گز ضائع نہیں کرتا، خواہ دنیا بھر کی ہر چیز اس کی دشمن ہو جائے اور اللہ کا طالب کسی نقصان اور تنگی کا منہ نہیں دیکھتا اور اللہ صادقوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا.اللہ اکبر ! ان دونوں (ابو بکر و عمر) کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے! وہ دونوں ایسے (مبارک) مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو بصد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے لیکن یہ مقام محض تمنا سے تو حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ صرف خواہش سے عطا کیا جاسکتا ہے بلکہ یہ تو بارگاہ رب العزت کی طرف سے ایک ازلی رحمت ہے اور یہ رحمت صرف انہی لوگوں کی طرف رخ کرتی ہے جن کی طرف عنایت الہی) ازل سے متوجہ ہو.( یہی لوگ ہیں) جنہیں انجام کار اللہ کے فضل کی چادر میں ڈھانپ لیتی ہیں.“ پھر آپ فرماتے ہیں: "آنحضرت صلی علیم کے بعد جو کچھ اسلام کا بنا ہے وہ اصحاب ثلاثہ سے ہی بنا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا ہے وہ اگر چہ کچھ کم نہیں مگر ان کی کارروائیوں سے کسی طرح صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خفت نہیں ہو سکتی کیونکہ کامیابی کی پڑی تو صدیق اکبر نے ہی جمائی تھی اور الشان فتنہ کو انہوں نے ہی فرو کیا تھا.ایسے وقت میں جن مشکلات کا سامنا حضرت ابو بکر کو پڑا وہ حضرت عمرؓ 595❝ عظ کو ہر گز نہیں پڑا.پس صدیق نے رستہ صاف کر دیا تو پھر اس پر عمرؓ نے فتوحات کا دروازہ کھولا.596 پھر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل کی کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں جو آپ کے دل میں رسول کریم صلی یہ کم اور شیخین حضرت ابو بکر و عمر کی محبت اور عزت کی رم تھی کہ: ”ایک دفعہ ایک دوست نے جو محبت مسیح موعود میں فنا شدہ تھے.آپ کی خدمت میں عرض کی کہ کیوں نہ ہم آپ کو مدارج میں شیخین ، یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر " سے افضل سمجھا کریں اور رسول اکرم صلی الم کے قریب قریب مانیں؟ اللہ اللہ ! اس بات کو سن کر حضرت اقدس یعنی مسیح موعود

Page 323

محاب بدر جلد 3 303 حضرت عمر بن خطاب علیہ السلام کا رنگ اُڑ گیا اور آپ کے سراپا پر عجیب اضطراب و بیتابی مستولی ہو گئی.“ کہتے ہیں کہ ” میں خدائے غیور و قدوس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس گھڑی نے میرا ایمان حضور اقدس کی نسبت اور بھی زیادہ کر دیا.آپ نے برابر چھ گھنٹے کامل تقریر فرمائی.بولتے وقت میں نے گھڑی دیکھ لی تھی اور جب آپ نے تقریر ختم کی جب بھی دیکھی.پورے چھ ہوئے.ایک منٹ کا فرق بھی نہ تھا.اتنی مدت تک ایک مضمون کو بیان کرنا اور مسلسل بیان کرنا ایک خرق عادت تھا.اس سارے مضمون میں آپ نے رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیمات کے محامد و فضائل اور اپنی غلامی اور کفش برداری کی نسبت حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے اور جناب شیخین علیہم السلام حضرت ابو بکر و عمر) ” کے فضائل بیان فرمائے اور فرمایا.”میرے لئے یہ کافی فخر ہے کہ میں ان لوگوں کا مداح اور خاک پا ہوں.“ جو جز کی فضیلت خد اتعالیٰ نے انہیں بخشی ہے وہ قیامت تک کوئی اور شخص نہیں پاسکتا.کب دوبارہ محمد رسول اللہ صل اللہ تم دنیا میں پیدا ہوں اور پھر کسی کو ایسی خدمت کا موقع ملے جو جناب شیخین علیہما السلام “ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر) کو ملا.597

Page 324

اصحاب بدر جلد 3 304 3 حضرت عثمان بن عفان حضرت عثمان بن عفان حضرت عثمان کے بارے میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہیے کہ یہ خود جنگ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے البتہ ان آٹھ خوش نصیب صحابہ میں شامل تھے جنہیں نبی اکرم صلی علیم نے جنگ بدر کے مال غنیمت میں حصہ دے کر جنگ میں شامل ہونا ہی قرار دیا تھا.نام و نسب آپ کا نام عثمان بن عفان بن ابو العاص بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي بن كلاب ہے.اس طرح آپ کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی علیم کے سلسلہ نسب کے ساتھ پانچویں پشت پر عبدا مناف پر جا کر ملتا ہے.حضرت عثمان کی والدہ کا نام آروی بنت کریز تھا.حضرت عثمان کی نانی ام حکیم بيضاء بنت عبد المطلب تھیں جو نبی صلی علیکم کے والد حضرت عبد اللہ کی سگی بہن تھیں.ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی الیوم کے والد حضرت عبد اللہ اور حضرت عثمان کی نانی ام حکیم بیضاء بنت عبد المطلب جڑواں پیدا ہوئے تھے.حضرت عثمان کی والدہ آروی بنت کریز نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئیں اور اپنے بیٹے حضرت عثمان کے دور خلافت میں فوت ہونے تک مدینہ میں ہی قیام پذیر رہیں.حضرت عثمان کے والد زمانہ جاہلیت میں ہی فوت ہو گئے تھے.کنیت 599 598 حضرت عثمان کی کنیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت عثمان کی کنیت ابو عمر و تھی.جب حضرت رقیہ بنت رسول صلی اللی کم سے آپ کے بیٹے عبد اللہ پیدا ہوئے تو اس کی مناسبت سے پھر مسلمانوں میں آپ کی کنیت ابو عبد اللہ بھی معروف ہو گئی.ابن اسحاق کے مطابق نبی کریم صل الیہ کم نے اپنی بیٹی حضرت رقیہ کی شادی حضرت عثمان سے کی جو غزوہ بدر کے ایام میں وفات پاگئیں.اس پر آنحضرت صلی للی کم نے اپنی دوسری بیٹی حضرت رقیہ کی بہن حضرت أقر کلثوم سے حضرت عثمان کی شادی کر دی اس وجہ سے آپ کو ذوالنورین کہا جانے لگا.600 یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ کو ذوالنورین اس لیے کہا جاتا تھا کہ آپ ہر رات نماز تہجد میں بہت زیادہ تلاوت قرآن کریم کیا کرتے تھے چونکہ قرآن نور ہے اور قیام اللیل بھی نور ہے اس لیے آپ

Page 325

اصحاب بدر جلد 3 305 حضرت عثمان بن عفان ذوالنورین یعنی ”دونوروں والا “ کے لقب سے مشہور ہو گئے.601 ایک صحیح قول کے مطابق حضرت عثمان کی ولادت کے بارے میں یہ بھی ایک روایت ملتی ہے کہ حضرت عثمان عام الفیل کے چھ سال بعد مکہ میں پیدا ہوئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ طائف میں پیدا ہوئے تھے.آپ رسول اللہ صلی علیم سے تقریب پانچ سال چھوٹے تھے.602 قبول اسلام آپ کے قبولِ اسلام کے بارے میں یزید بن رومان روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عثمان بن عفان اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ دونوں حضرت زبیر بن عوام کے پیچھے پیچھے نکلے اور رسول اللہ صلی علی یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے ان دونوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کیا اور انہیں قرآن کریم پڑھ کر سنایا اور انہیں اسلام کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا اور ان سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی عزت واکرام کا وعدہ کیا.اس پر وہ دونوں، حضرت عثمانؓ اور حضرت طلحہ ایمان لے آئے اور آپ کی تصدیق کی.پھر حضرت عثمانؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں حال ہی میں ملک شام سے واپس آیا ہوں.جب ہم معان اور زرقاء مقام کے درمیان پڑاؤ کیے ہوئے تھے.مکان اردن کے جنوب میں حجاز کی حدود کے قریب ایک شہر ہے اور زر قاءیہ معان کے ساتھ ہی واقع ہے.بہر حال کہتے ہیں وہاں ہم پڑاؤ کیسے ہوئے تھے اور ہم سوئے ہوئے تھے کہ ایک منادی کرنے والے نے اعلان کیا کہ اے سونے والو ! جا گو.یقیناً احمد مکہ میں ظاہر ہو چکا ہے.پھر جب ہم واپس پہنچے تو ہم نے آپ کے بارے میں سنا.حضرت عثمان رسول اللہ صلی علی دلم کے دارِ ارقم میں داخل ہونے سے پہلے قدیمی اسلام لانے والوں میں سے تھے.قبول اسلام کے بعد آپ پر ظلم بھی ہوئے.603 موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن عفان نے اسلام قبول کیا تو آپ کے چچا حکم بن ابو العاص بن امیہ نے آپ کو پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا اور کہا کیا تم اپنے آباؤ اجداد کا دین چھوڑ کر نیادین اختیار کرتے ہو.بخدا میں تمہیں ہر گز نہیں کھولوں گا یہاں تک کہ تم اپنا یہ نیادین چھوڑ نہ دو.اس پر حضرت عثمان نے کہا خدا کی قسم ! میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا اور نہ اس سے علیحدگی اختیار کروں گا.حکم نے جب آپ کے دین پر مضبوطی کی یہ حالت دیکھی تو پھر مجبوراً آپ کو چھوڑ دیا.604 بنت رسول صلى ال علم حضرت رقیہ سے شادی حضرت رقیه سے جب آپ کی شادی ہوئی تو اس کا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی علیکم کے دعویٰ نبوت سے پہلے حضرت رقیہ نگار شتہ ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے اور ان کی بہن حضرت ام کلثوم کا

Page 326

صحاب بدر جلد 3 306 حضرت عثمان بن عفان رشتہ عقبہ کے بھائی عتیبہ سے ہو چکا تھا.جب سورة المسد یعنی سورۃ اللھب نازل ہوئی تو ان کے باپ ابو لہب نے ان سے کہا کہ اگر تم دونوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں سے علیحدہ نہ ہوئے تو میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہو گا.یہ رشتے توڑ دو.اس پر ان دونوں نے رخصتی سے قبل ہی دونوں بہنوں کو طلاق دے دی.اس کے بعد حضرت عثمان بن عفان نے مکہ میں ہی حضرت رقیہ سے شادی کر لی اور ان کے ساتھ حبشہ کی جانب ہجرت کی.حضرت رقیہ اور حضرت عثمان دونوں ہی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے.چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اَحْسَنَ زَوْجَيْنِ رَاهُمَا إِنْسَانٌ رُقَيَّةُ وَزَوْجُهَا عُثمان.سب سے خوبصورت جوڑا جو کسی انسان نے دیکھا ہو وہ حضرت رقیہ اور ان کے شوہر حضرت عثمان ہیں.5 عبد الرحمن بن عثمان قرشی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الی و تم اپنی بیٹی کے گھر تشریف لائے.605 وہ اس وقت حضرت عثمان کا سر دھو رہی تھیں.اس پر رسول اللہ صلی ا لم نے فرمایا: بیٹی ! ابو عبد اللہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتی رہو.یقینا یہ میرے صحابہ میں اخلاق کے لحاظ سے مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں.ہجرت حبشہ 606 ہجرت کے واقعہ کے بارے میں ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الیکم نے دیکھا کہ آپ کے صحابہ کو آزمائش پہنچ رہی تھی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مقام و مرتبہ کی وجہ سے اور اپنے چچا ابو طالب کی وجہ سے آپ عافیت میں تھے.یعنی آپ صلی المیہ کم تو عافیت میں تھے اور یہ کہ جس آزمائش میں صحابہ تھے اسے روکنے کی آپ قدرت اور طاقت نہیں رکھتے تھے.گو خود تو کچھ حد تک امن میں تھے لیکن صحابہ پر جو ظلم ہو رہے تھے ان ظلموں کو روکنے کی آپ میں طاقت نہیں تھی.اس پر آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تم حبشہ کی سرزمین کی طرف نکلو تو وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی ایک پر ظلم نہیں کیا جاتا اور وہ سچائی کی سر زمین ہے.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس آزمائش سے فراخی عطا فرما دے گا جس میں تم لوگ ہو.اس پر رسول اللہ صلی علیکم کے اصحاب فتنہ کے خوف سے اور اپنے دین کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف فرار کے لیے آنحضرت صلی اللی نیم کے پاس سے حبشہ کی سر زمین کی طرف روانہ ہوئے.یہ اسلام میں ہونے والی پہلی ہجرت تھی.حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابہ میں حضرت عثمانؓ اپنی زوجہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ صلی العلم کے ساتھ شامل تھے.607 حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان حبشہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو ان کے ساتھ حضرت رقیہ بنت رسول صلی علیہ کم بھی تھیں.نبی صلی علیہ یکم تک ان کی خبر پہنچنے میں تاخیر ہو گئی.پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ ہجرت کی ہے تو کہاں تک پہنچے ہیں، کیا حال ہے؟ تو آپ باہر نکل کر ان کے متعلق خبر کا انتظار

Page 327

محاب بدر جلد 3 307 حضرت عثمان بن عفان 608 کرتے رہتے.پھر ایک عورت آئی اور اس نے آپ کو ان کے بارے میں بتایا.اس پر نبی صلی الیم نے فرمایا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے بعد عثمان وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنے اہل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی ہے.18 حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن عفان نے ارض حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی الیکم نے انہیں فرمایا کہ رقیہ کو بھی ہمراہ لے جاؤ.میر اخیال ہے کہ تم میں سے ایک اپنے ساتھی کا حوصلہ بڑھاتا رہے گا.یعنی دونوں ہوں گے تو ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہو گے.پھر رسول اللہ صلی العلیم نے حضرت اسماء بنت ابو بکر کو فرمایا کہ جاؤ اور ان دونوں کی خبر لاؤ کہ چلے گئے ہیں ؟ کہاں تک پہنچے ہیں ؟ کیا حالات ہیں باہر کے ؟ حضرت اسماء جب واپس آئیں تو حضرت ابو بکر بھی رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس موجود تھے.انہوں نے بتایا کہ حضرت عثمان ایک خچر پر پالان ڈال کر حضرت رقیہ کو اس پر بٹھا کر سمندر کی طرف نکل گئے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا: اے ابو بکر ! حضرت لوط اور حضرت ابراہیمؑ کے بعد یہ دونوں ہجرت کرنے والوں میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے ہیں.609 پھر حبشہ سے ان کی واپسی کا واقعہ بھی بیان ہوا ہے.ابن اسحاق کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال نیم کے جن صحابہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی انہیں خبر پہنچی کہ مکہ والے اسلام لے آئے ہیں.اس پر یہ مہاجرین حبشہ سے مکہ کی طرف واپس لوٹے.جب وہ مکہ کے قریب پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی.اس پر یہ لوگ پوشیدہ طور پر یا کسی کی امان میں آکر مکہ میں داخل ہوئے.ان میں سے بعض تو ایسے تھے کہ جنہوں نے پھر مدینہ ہجرت کی اور بد ر اور احد کی جنگ میں آپ کے ساتھ یعنی رسول پاک صلی میں کمی کے ساتھ شریک ہوئے اور بعض ایسے تھے جن کو کفار نے مکہ میں ہی روک لیا اور وہ جنگ بدر وغیرہ میں شریک نہیں ہو سکے.حبشہ سے آکر پھر مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والوں میں حضرت عثمانؓ اور ان کی بیوی حضرت رقیہ بنت رسول صلی علیکم بھی شامل تھیں.610 حضرت عثمان حبشہ میں چند سال رہے.کتاب میں ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ چند سال رہے.اس کے بعد جب بعض صحابہ قریش کے اسلام کی غلط خبر پا کر اپنے وطن واپس آئے تو حضرت عثمان بھی آگئے.یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے.اس بنا پر بعض صحابہ پھر حبشہ کی طرف لوٹ گئے مگر حضرت عثمان مکہ میں ہی رہے یہاں تک کہ مدینہ کی ہجرت کا سامان پیدا ہو گیا اور رسول اللہ صلی علی یم نے اپنے تمام صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا ارشاد فرمایا تو حضرت عثمان بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے 611 612 ایک روایت میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت عثمان دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے.2 لیکن اکثر کتب سیرت میں حضرت عثمان کی حبشہ کی طرف اس دوسری ہجرت کا ذکر نہیں ہے.ویسے

Page 328

308 اصحاب بدر جلد 3 حضرت عثمان بن عفان بھی ہجرت حبشہ ثانیہ کا جو پس منظر اور تفصیلات کتب سیرت و حدیث میں بیان ہوئی ہیں، محتاط سیرت نگار اس کو من و عن اس طرح تسلیم نہیں کرتے کیونکہ در ایتا ایسا ممکن نہیں ہے.چنانچہ ہجرت حبشہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو اپنی تحقیق کی ہے گو اس میں سے کچھ حصہ میں پہلے گذشتہ بعض صحابہ کے ذکر میں کر چکا ہوں لیکن بہر حال یہاں بھی ذکر ضروری ہے.مرزا بشیر احمد صاحب کی تحقیق یہ ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ ”جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی اور قریش اپنی ایذاء رسانی میں ترقی کرتے گئے تو آنحضرت صلی ال ولم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے.اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہو تا.حبشہ کا ملک جو انگریزی میں ایتھوپیا یا ابی سینیا کہلاتا ہے براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور جائے وقوع کے لحاظ سے جنوبی عرب کے بالکل مقابل پر ہے اور درمیان میں بحیرہ احمر کے سوا کوئی اور ملک حائل نہیں ہوتا.اس زمانہ میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلا تا تھا بلکہ اب تک بھی وہاں کا حکمران اسی نام سے پکارا جاتا ہے.“ یعنی جب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ لکھا.” حبشہ کے ساتھ عرب کے تجارتی تعلقات تھے اور ان ایام میں....حبشہ کا دارالسلطنت اکسوم (Axsum) تھا جو موجودہ شہر عدوا (Adowa) کے قریب واقع ہے اور اب تک ایک مقدس شہر کی صورت میں آباد چلا آتا ہے.اکسوم اُن دنوں میں ایک بڑی طاقتور حکومت کا مرکز تھا اور اس وقت کے نجاشی کا ذاتی نام اصحمہ تھا.جو ایک عادل، بیدار مغز اور مضبوط بادشاہ تھا.بہر حال جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی تو آنحضرت صلی علیہ ہم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ جن جن سے ممکن ہو حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں.چنانچہ آنحضرت صلی علیم کے فرمانے پر ماہ رجب 15 نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.ان میں سے زیادہ معروف کے نام یہ ہیں: حضرت عثمان بن عفان اور ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، عبد الرحمن بن عوف، زبیر ابن العوام، ابو حذیفہ بن عُتْبَه، عثمان بن مَطْعُونَ ، مُصْعَب بن عمير ، ابوسلمه بن عبد الاسد اور ان کی زوجہ اقر سَلَّمَه “ مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ان ابتدائی مہاجرین میں زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقتور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے.اول یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہ تھے.دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام و غیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی بھی طاقت نہ رکھتے تھے.جب یہ مہاجرین جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے شعیبہ پہنچے جو اس زمانہ میں عرب کی ایک بندر گاہ تھی تو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان کو ایک تجارتی جہاز مل گیا جو حبشہ کی طرف روانہ ہونے کو بالکل تیار تھا.چنانچہ یہ سب امن سے اس میں سوار ہو گئے اور جہاز روانہ ہو گیا.قریش مکہ کو ان کی

Page 329

اصحاب بدر جلد 3 309 حضرت عثمان بن عفان ہجرت کا علم ہوا تو سخت برہم ہوئے کہ یہ شکار مفت میں ہاتھ سے نکل گیا.چنانچہ انہوں نے ان مہاجرین کا پیچھا کیا مگر جب ان کے آدمی ساحل پر پہنچے تو جہاز روانہ ہو چکا تھا اس لئے خائب و خاسر واپس لوٹے.حبشہ میں پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکارا ملا.لیکن جیسا کہ بعض مورخین نے بیان کیا ہے ابھی ان مہاجرین کو حبشہ میں گئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ایک اڑتی ہوئی افواہ ان تک پہنچی کہ تمام قریش مسلمان ہو گئے ہیں اور مکہ میں اب بالکل امن و امان ہے.اس خبر کا یہ نتیجہ ہوا کہ اکثر مہاجرین بلا سوچے سمجھے واپس آگئے.جب یہ لوگ مکہ کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی.اب ان کے لئے بڑی مصیبت کا سامنا تھا.بالآخر بعض تو راستہ میں سے ہی واپس لوٹ گئے اور بعض چھپ چھپ کر یا کسی ذی اثر اور طاقتور شخص کی حمایت میں ہو کر مکہ میں آ گئے.یہ شوال 15 نبوی کا واقعہ ہے.یعنی آغاز ہجرت اور مہاجرین کی واپسی کے درمیان صرف ڈھائی تین ماہ کا فاصلہ ہے..گو حقیقتا یہ افواہ بالکل جھوٹی اور بے بنیاد تھی جو مہاجرین حبشہ کو واپس لانے اور ان کو تکلیف میں ڈالنے کی غرض سے قریش نے مشہور کر دی ہو گی بلکہ زیادہ غور سے دیکھا جاوے تو اس افواہ اور مہاجرین کی واپسی کا قصہ ہی بے بنیاد نظر آتا ہے.لیکن اگر اسے صحیح سمجھا جاوے تو ممکن ہے کہ اس کی تہ میں وہ واقعہ ہو جو بعض احادیث میں بیان ہوا ہے.“اگر اس طرح دیکھا جائے، اگر اس کو صحیح مانا جائے تو بعضوں کی جو یہ روایت ہے کہ حضرت عثمان چند سال ٹھہرے وہ روایت پھر غلط نکلتی ہے اور اگر اس کو غلط سمجھا جائے تو پھر تین چار مہینے میں واپس آگئے لیکن بہر حال حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ یہ بات غلط ہی ہے.وہ لکھتے ہیں ”اگر اسے صحیح سمجھا جاوے تو ممکن ہے کہ اس کی تہ میں وہ واقعہ ہو جو بعض احادیث میں بیان ہوا ہے.اور وہ جیسا کہ بخاری میں آتا ہے یہ ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی ا ہم نے صحن کعبہ میں سورہ نجم کی آیات تلاوت فرما ئیں.اس وقت وہاں کئی ایک رؤسائے کفار بھی موجود تھے اور بعض مسلمان بھی تھے.جب آپ نے سورت ختم کی تو آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ ہی تمام مسلمان اور کافر بھی سجدہ میں گر گئے.“ بہر حال ”کفار کے سجدہ کی وجہ حدیث میں بیان نہیں ہوئی کہ وہ کیوں گر گئے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ ہم نے نہایت پر اثر آواز میں آیات الہی کی تلاوت فرمائی اور وہ آیات بھی ایسی تھیں جن میں خصوصیت کے ساتھ خدا کی وحدانیت اور اس کی قدرت و جبروت کا نہایت فصیح و بلیغ رنگ میں نقشہ کھینچا گیا تھا اور اس کے احسانات یاد دلائے گئے تھے اور پھر ایک نہایت پر رعب و پر جلال کلام میں قریش کو ڈرایا گیا تھا کہ اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان کا وہی حال ہو گا جو ان سے پہلے ان قوموں کا ہوا جنہوں نے خدا کے رسولوں کی تکذیب کی اور پھر آخر میں ان آیات میں حکم دیا گیا تھا کہ آؤ اور اللہ کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ اور ان آیات کی تلاوت کے بعد آنحضرت صلی علیہ نما مسلمان یکلخت سجدہ میں گر گئے تو اس کلام اور اس نظارہ کا ایسا ساحرانہ اثر قریش پر ہوا کہ وہ بھی بے اختیار

Page 330

اصحاب بدر جلد 3 310 حضرت عثمان بن عفان ہو کر مسلمانوں کے ساتھ سجدہ میں گر گئے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ ایسے موقعوں پر ایسے حالات کے ماتحت...بسا اوقات انسان کا قلب مرعوب ہو جاتا ہے اور وہ بے اختیار ہو کر ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو دراصل اس کے اصول و مذہب کے خلاف ہوتی ہے.ضروری نہیں ہو تا کہ اس کو مان کے یہ حرکت ہوئی ہو.بے اختیاری میں بعض دفعہ حرکت ہو جاتی ہے.” بعض اوقات ایک سخت اور ناگہانی آفت کے وقت ایک دہر یہ بھی اللہ اللہ یا رام رام پکار اٹھتا ہے.“ میں نے بھی بعض دہریوں سے پوچھا ہے اور وہ کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ باوجود اس کے کہ ہمیں خدا پر یقین نہیں لیکن کوئی ایسی خطرناک حالت ہو تو بے اختیار منہ سے خدا کا لفظ نکل آتا ہے.تو بہر حال ” قریش تو دہر یہ نہ تھے بلکہ بہر حال خدا کی ہستی کے قائل تھے.پس جب اس پر رعب اور پر جلال کلام کی تلاوت کے بعد مسلمانوں کی جماعت یکلخت سجدہ میں گر گئی تو اس کا ایسا ساحرانہ اثر ہوا کہ ان کے ساتھ قریش بھی بے اختیار ہو کر سجدہ میں گر گئے لیکن ایسا اثر عموماً وقتی ہوتا ہے اور انسان پھر جلد ہی اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتا ہے.چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا اور سجدہ سے اٹھ کر قریش پھر وہی بت پرست کے بت پرست تھے.“ یہ نہیں کہ وہ موحد بن گئے تھے.بہر حال یہ ایک واقعہ ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے.پس اگر مہاجرین حبشہ کی واپسی کی خبر درست ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد قریش نے جو مہاجرین حبشہ کے واپس لانے کے لیے بیتاب ہو رہے تھے اپنے اس فعل کو آڑ بنا کر خود ہی یہ افواہ مشہور کر دی ہو گی کہ قریش مکہ مسلمان ہو گئے ہیں اور یہ کہ اب مکہ میں مسلمانوں کے لئے بالکل امن ہے اور جب یہ افواہ مہاجرین حبشہ کو پہنچی تو وہ طبعاً اسے سن کر بہت خوش ہوئے اور سنتے ہی خوشی کے جوش میں واپس آگئے لیکن جب وہ مکہ کے پاس پہنچے تو حقیقت امر سے آگاہی ہوئی جس پر بعض تو چھپ چھپ کر اور بعض کسی طاقتور اور صاحب اثر رئیس قریش کی حفاظت میں ہو کر مکہ میں آگئے اور بعض واپس چلے گئے.پس اگر قریش کے مسلمان ہو جانے کی افواہ میں کوئی حقیقت تھی تو وہ صرف اسی قدر تھی جو سورۃ نجم کی تلاوت پر سجدہ کرنے والے واقعہ میں بیان ہوئی ہے.واللہ اعلم.بہر حال اگر مهاجرین حبشہ واپس آئے بھی تھے تو ان میں سے اکثر پھر واپس چلے گئے اور چونکہ قریش دن بدن اپنی ایذارسانی میں ترقی کرتے جاتے تھے اور ان کے مظالم روز بروز بڑھ رہے تھے.اس لئے آنحضرت صلی علی ایم کے ارشاد پر دوسرے مسلمانوں نے بھی خفیہ خفیہ ہجرت کی تیاری شروع کر دی اور موقع پاکر آہستہ آہستہ نکلتے گئے.یہ ہجرت کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ بالآخر ان مہاجرین حبشہ کی تعداد ایک سو ا یک تک پہنچ گئی جن میں اٹھارہ عورتیں بھی تھیں اور مکہ میں آنحضرت صلی ایم کے پاس بہت ہی تھوڑے مسلمان رہ گئے.اس ہجرت کو بعض مؤرخین ہجرت حبشہ ثانیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں.66 پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنا ایک تجزیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”ایک اور بات

Page 331

محاب بدر جلد 3 311 حضرت عثمان بن عفان ہے جو اس افواہ اور مہاجرین کی واپسی کے قصہ کو سرے سے ہی مشتبہ کر دیتی ہے اور وہ یہ کہ تاریخ میں ہجرت حبشہ کے آغاز کی تاریخ رجب 5 / نبوی اور سجدہ کی تاریخ رمضان 15 نبوی بیان ہوئی ہے اور پھر تاریخ میں ہی یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اس افواہ کے نتیجہ میں مہاجرین حبشہ کی واپسی شوال 5 نبوی میں ہوئی تھی.گویا آغاز ہجرت اور واپنی مہاجرین کے زمانوں میں صرف دو سے لے کر تین ماہ کا فاصلہ تھا اور اگر سجدہ کی تاریخ سے زمانہ کا شمار کریں تو یہ عرصہ صرف ایک ہی ماہ کا بنتا ہے.اب اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ قطعی طور پر ناممکن ہے کہ مکہ اور حبشہ کے درمیان اس قلیل عرصہ میں تین سفر مکمل ہو سکے ہوں.یعنی سب سے پہلے مسلمان مکہ سے حبشہ پہنچے.اس کے بعد کوئی شخص قریش کے اسلام کی خبر لے کر مکہ سے حبشہ گیا اور پھر مسلمان حبشہ سے روانہ ہو کر مکہ میں واپس آئے.ان تین سفروں کی تکمیل قطع نظر اس عرصہ کے جو زائد امور میں صرف ہو جاتا ہے “ تیاری بھی ہوتی ہے اور چیزیں ہیں اس قلیل عرصہ میں قطعا نا ممکن تھی اور اس سے بھی زیادہ یہ بات نا ممکن تھی کہ سجدہ کے زمانہ سے لے کر مہاجرین حبشہ کی مزعومہ واپسی تک دو سفر مکمل ہو سکے ہوں کیونکہ اس زمانہ میں مکہ سے حبشہ جانے کے لئے پہلے جنوب میں آنا پڑتا تھا اور پھر وہاں سے کشتی لے کر جو ہر وقت موجود نہیں ملتی تھی بحر احمر کو عبور کر کے افریقہ کے ساحل تک جانا ہوتا تھا اور پھر ساحل سے لے کر حبشہ کے دارالسلطنت اکسوم تک جو ساحل سے کافی فاصلہ پر ہے پہنچنا پڑتا تھا اور اس زمانہ کے آہستہ سفروں کے لحاظ سے اس قسم کا ایک سفر بھی ڈیڑھ دوماہ سے کم عرصہ میں ہر گز مکمل نہیں ہو سکتا تھا.اس جہت سے گویا یہ قصہ سرے سے ہی غلط اور بے بنیاد قرار پاتا ہے لیکن اگر بالفرض اس میں کوئی حقیقت تھی بھی تو وہ یقینا اس سے زیادہ نہیں تھی جو اوپر بیان کی گئی ہے.واللہ اعلم 13 مدینہ کی طرف ہجرت بہر حال اس کی وجوہات جو بھی تھیں کچھ عرصہ کے بعد حضرت عثمان کی حبشہ سے واپسی ہو گئی اور پھر حضرت عثمان کی مدینہ کی طرف ہجرت اور مواخات کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ محمد بن جعفر بن زبیر سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ قبیلہ بنو نجار میں حضرت حسان بن ثابت کے بھائی حضرت اوس بن ثابت کے گھر ٹھہرے.مواخات موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے حضرت عثمان اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کے مابین عقد مؤاخات قائم فرمایا تھا.ایک روایت کے مطابق حضرت شداد بن اوس کے والد حضرت اوس بن ثابت اور حضرت عثمان کے مابین عقد مؤاخات قائم فرمایا گیا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو عبادہ سعد بن عثمان زُرَقی سے حضرت عثمان کا عقد مؤاخات

Page 332

حاب بدر جلد 3 قائم ہوا تھا.614 ا 312 حضرت عثمان بن عفان ایک روایت کے مطابق حضرت عثمان کی مواخات نبی کریم صلی للی یکم نے اپنے ساتھ قائم فرمائی تھی.چنانچہ طبقات کبری میں لکھا ہے کہ ابن لبیبه بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن عفان محصور ہو گئے یعنی جب دشمنوں نے آپ کو محصور کر دیا، ہر طرح کی پابندی لگا دی تو آخری دنوں میں آپ نے ایک اونچی کو ٹھڑی کے روشن دان سے جھانک کیر لوگوں سے پوچھا کیا تم میں طلحہ ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ہے.آپ نے انہیں فرمایا کہ تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کا کہا کہ کیا آپ کو علم ہے ناں کہ جب رسول اللہ صلی علی ایم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی تو اس وقت آپ صلی الیکم نے اپنے ہمراہ میری مؤاخات قائم فرمائی تھی.یعنی آنحضرت صلی اللہ ہم نے حضرت عثمان کو اپنے ساتھ مؤاخات میں رکھا تھا.اس پر حضرت طلحہ نے کہا کہ واللہ یہ درست ہے.اس پر حضرت طلحہ سے پوچھا گیا حضرت عثمان کے گھر کو گھیرے ہوئے جو ارد گرد مخالفین تھے انہوں نے ان سے پوچھا، جواب طلبی کی کہ تم نے یہ کیا کیا؟ تو حضرت طلحہ نے بڑی جرات سے جواب دیا کہ حضرت عثمان نے مجھے سے قسم لے کر پوچھا تھا اور جس بات کے بارے میں پوچھا تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے ہوئی تھی تو کیا میں اس کی شہادت نہ دیتا؟ 615 میں تو جھوٹ نہیں بول سکتا تھا.جو تم نے مخالفت کرنی ہے کر لو.حضرت رقیہ کی وفات اور حضرت ام کلثوم سے شادی کے واقعہ کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ عبد اللہ بن مُكيف بن حارثه انصاری بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی علوم غزوہ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت عثمان کو اپنی بیٹی حضرت رقیہ کے پاس چھوڑا.وہ بیمار تھیں اور انہوں نے اس روز وفات پائی جس دن حضرت زید بن حارثہ مدینہ کی طرف اس فتح کی خوشخبری لے کر آئے جو بدر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی ا تم کو عطا فرمائی تھی.الله رسول اللہ صلی علیم نے حضرت عثمان کے لیے بدر کے مال غنیمت میں حصہ مقرر فرمایا اور آپ کا حصہ جنگ بدر میں شامل ہونے والوں کے برابر تھا.رسول اللہ صلی علیم نے حضرت رقیہ کی وفات کے بعد حضرت عثمان بن عفانؓ کے ساتھ اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم کی شادی کر دی.616 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یوم حضرت عثمان سے مسجد کے دروازے پر ملے اور فرمانے لگے کہ عثمان یہ جبریل ہیں انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ام کلثوم کا نکاح رُقیہ جتنے حق مہر پر اور اس سے تمہارے حسن سلوک پر تمہارے ساتھ کر دیا ہے.617 یعنی دوسری بیٹی کا نکاح بھی اللہ تعالیٰ نے کہا کہ حضرت عثمان سے کر دیا جائے.الله حضرت عائشہ نے بیان فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی علیکم نے ام کلثوم کی شادی حضرت عثمان سے کی تو آپ نے حضرت ام ایمن سے فرمایا میری بیٹی ام کلثوم کو تیار کر کے عثمان کے ہاں چھوڑ آؤ اور اس کے

Page 333

اصحاب بدر جلد 3 313 حضرت عثمان بن عفان سامنے دف بجاؤ.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.رسول اللہ صلی اللہ تم تین دن کے بعد حضرت ام کلثوم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا.اے میری پیاری بیٹی ! تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ ام کلثوم نے عرض کیا وہ بہترین شوہر ہیں.618 حضرت ام کلثوم حضرت عثمان کے ہاں 19 ہجری تک رہیں اس کے بعد وہ بیمار ہو کر وفات پاگی گئیں.619 رسول اللہ صلی الم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی قبر کے پاس بیٹھے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی للی کیم کو حضرت ام کلثوم کی قبر کے پاس اس حال میں بیٹھے ہوئے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں.بخاری کی ایک روایت میں اس واقعہ کا یوں ذکر ہوا ہے کہ ہلال نے حضرت انس بن مالک سے روایت کی.وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی الم کی بیٹی کے جنازے پر موجود تھے.انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ کی قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسو بہارہی تھیں.ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی نیلم نے حضرت ام کلثوم کی وفات پر فرمایا: 620 اگر میری کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی بھی عثمان سے کروا دیتا.621 حضرت ابنِ عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم ایک جگہ سے گزرے تو دیکھا کہ حضرت عثمان و ہاں بیٹھے تھے اور حضرت ام کلثوم بنت رسول صلی یہ کم کی وفات کے غم میں رور ہے تھے.راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی الی نام کے ہمراہ آپ کے دونوں ساتھی یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ بھی تھے.رسول اللہ صلی علیکم نے پوچھا اے عثمان ! تم کس وجہ سے رورہے ہو ؟ حضرت عثمان نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ میرا آپ سے دامادی کا تعلق ختم ہو گیا ہے.دونوں بیٹیاں فوت ہو گئیں.آپ نے فرمایا کہ مت رو.قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میری سو بیٹیاں ہو تیں اور ایک ایک کر کے فوت ہو جاتیں تو میں ہر ایک کے بعد دوسری کو تجھ سے بیاہ دیتا یہاں تک کہ سو میں سے ایک بھی باقی نہ رہتی.2 بہر حال یہ ایک محبت کا اظہار تھا جو دونوں طرف سے ہوا.ایک فکر تھی حضرت عثمان کی.اس رشتہ کا جو تعلق تھاوہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے قائم رکھا اور یہ یقین دہانی کرائی کہ یہ تعلق تو قائم ہے.623 حضرت عثمان کی غزوات میں شمولیت کا ذکر کرتا ہوں.622 جیسا کہ غزوہ بدر کے بارے میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ حضرت عثمان غزوہ بدر میں شامل نہیں ہو سکے تھے کیونکہ آپ کی زوجہ حضرت رقیہ بنت رسول صل الله یکم سخت بیمار تھیں اس لیے آنحضرت صلی ا ہم نے آپ کو ارشاد فرمایا کہ ان کی تیمار داری کے لیے مدینہ میں ٹھہریں اور آپ کو بدر میں شامل ہونے والوں کی طرح ہی قرار دیا.اسی لیے رسول اللہ صلی علیم نے آپ کے لیے بدر میں شامل ہونے والوں کی طرح مالِ

Page 334

اصحاب بدر جلد 3 314 حضرت عثمان بن عفان غنیمت میں اور اجر میں حصہ مقرر فرمایا.غزوہ غطفان محرم یا صفر 13 ہجری میں ہوا.غزوۂ غطفان کے لیے مسجد کے علاقے کی طرف نکلتے وقت رسول اللہ صلی علی یکم نے حضرت عثمان کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا تو اس لحاظ سے اس میں بھی شامل نہیں ہوئے.624 اس غزوہ کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں بیان فرمائی ہے کہ بنو غطفان کے بعض قبائل یعنی بنو ثعلبہ اور بنو محارب کے لوگ اپنے ایک نامور جنگجو دغفور بن حارث کی تحریک پر پھر مدینہ پر اچانک حملہ کر دینے کی نیت سے نجد کے ایک مقام ذی امر میں جمع ہونے شروع ہوئے لیکن چونکہ آنحضرت صلی ایم اپنے دشمنوں کی حرکات وسکنات کا باقاعدہ علم رکھتے تھے، آپ کو ان کے اس خونی ارادے کی بروقت اطلاع ہو گئی اور آپ ایک بیدار مغز جرنیل کی طرح پیش بندی کے طور پر ساڑھے چار سو صحابیوں کی جمعیت کو اپنے ساتھ لے کر محرم 13ھ کے آخر یا صفر کے شروع میں مدینہ سے نکلے اور تیزی کے ساتھ کوچ کرتے ہوئے ذی امر کے قریب پہنچ گئے.دشمن کو آپ کی آمد کی اطلاع ہوئی تو اس نے جھٹ پٹ آس پاس کی پہاڑیوں پر چڑھ کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیا اور مسلمان ذی امر میں پہنچے تو میدان خالی تھا.البتہ بنو ثعلبہ کا ایک بدوی جس کا نام جباز تھا صحابہ کے قابو میں آگیا جسے قید کر کے وہ آنحضرت صلی یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آنحضرت صلی ا ہم نے اس سے حالات دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ بنو ثعلبہ اور بنو محارب کے سارے لوگ پہاڑیوں میں محفوظ ہو گئے ہیں اور وہ کھلے میدان میں مسلمانوں کے سامنے نہیں آئیں گے.ناچار آنحضرت صلی یہ تم کو واپسی کا حکم دینا پڑا مگر اس غزوہ کا اتنا فائدہ ضرور ہو گیا کہ اس وقت جو خطرہ بنو غطفان کی طرف سے پیدا ہو اتھاوہ وقتی طور پر ٹل گیا.625 غزوہ احد جو شوال 13 ہجری میں ہوا تھا.حضرت عثمان غزوہ احد میں شریک ہوئے تھے.پہلے دو غزوات میں تو (شامل) نہیں ہوئے تھے اس غزوہ احد میں شریک ہوئے تھے.دورانِ جنگ صحابہ کا ایک گر وہ ایسا تھا جو اچانک حملہ اور آنحضرت صلی علیم کی شہادت کی خبر سن کر میدان سے اِدھر اُدھر ہو گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ نبی کریم صلی علیکم کے ہمراہ صرف 12 صحابہ کا ایک چھوٹا سا گر وہ رہ گیا تھا.حضرت عثمان پہلے گروہ میں سے تھے.626 مسلمانوں نے جب لشکر قریش پر غلبہ پالیا اور وہ مالِ غنیمت اکٹھا کرنے لگے تو آنحضور صلیالی یکم نے جن پچاس تیر اندازوں کو اپنی جگہ نہ چھوڑنے کا ارشاد فرمایا تھا انہوں نے فتح کو دیکھ کر اپنی جگہ کو چھوڑ دیا حالانکہ نبی کریم صلی الم نے انہیں سختی سے اپنی جگہ نہ چھوڑنے کا ارشاد فرمایا تھا.خالد بن ولید جو ابھی ن نہیں ہوئے تھے انہوں نے یہ منظر دیکھ کر فوراً وہاں سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا.یہ حملہ ایسا اچانک، غیر متوقع اور اس قدر شدید تھا کہ مسلمان منتشر ہو گئے.ان منتشر ہونے والے صحابہ میں مسلمان

Page 335

محاب بدر جلد 3 315 حضرت عثمان بن عفان حضرت عثمان کا نام بھی بیان کیا جاتا ہے.قرآن شریف میں ان لوگوں کے ضمن میں ذکر آتا ہے کہ اس وقت کے خاص حالات اور ان لوگوں کے دلی ایمان اور اخلاص کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعِنِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَنُ بِبَعْضٍ مَا كَسَبُوا ۚ وَ لَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ (آل عمران:156) یقیناً تم میں سے وہ لوگ جو اس دن پھر گئے جس دن دو گروہ متصادم ہوئے یقیناً شیطان نے انہیں پھیلا دیا تھا بعض ایسے اعمال کی وجہ سے جو وہ بجالائے اور یقینا اللہ ان سے در گزر کر چکا ہے.یقینا اللہ بہت بخشنے والا اور بہت بردبار ہے.اس غزوہ کے دوران مسلمانوں کی اس کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ قریش کے لشکر نے قریباً چاروں طرف گھیر اڈال رکھا تھا اور اپنے پے در پے حملوں سے ہر آن دباتا چلا آتا تھا.اس پر بھی مسلمان شاید تھوڑی دیر بعد سنبھل جاتے مگر غضب یہ ہوا کہ قریش کے ایک بہادر سپاہی عبد اللہ بن قمیہ نے مسلمانوں کے علمبر دار مصعب بن عمیر پر حملہ کیا اور اپنی تلوار کے وار سے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ گر ایا.مُضعَب نے فوراً دوسرے ہاتھ میں جھنڈ اتھام لیا اور ابن قمیئہ کے مقابلہ کے لئے آگے بڑھے مگر اس نے دوسرے وار میں ان کا دوسرا ہاتھ بھی قلم کر دیا.اس پر مضع بے نے اپنے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں کو جوڑ کر گرتے ہوئے اسلامی جھنڈے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اسے چھاتی سے چمٹا لیا.جس پر ابن قیمہ نے ان پر تیسر اوار کیا اور اب کی دفعہ مُصعب شہید ہو کر گر گئے.جھنڈا تو کسی دوسرے مسلمان نے فوراً آگے بڑھ کر تھام لیا مگر چونکہ مُصْعَب ساڈیل ڈول آنحضرت صلی ا ولم سے ملتا تھا ابن قیمہ نے سمجھا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار لیا ہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی طرف سے یہ تجویز محض شرارت اور دھوکا دہی کے خیال سے ہو.بہر حال اس نے مصعب کے شہید ہو کر گرنے پر شور مچادیا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار لیا ہے.اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سے اوسان بھی جاتے رہے اور ان کی جمعیت بالکل منتشر ہو گئی اور بہت سے صحابی سراسیمہ ہو کر میدان سے بھاگ نکلے.اس وقت مسلمان تین حصوں میں منقسم تھے.ایک گروہ وہ تھا جو آنحضرت صلی علیکم کی شہادت کی خبر سن کر میدان سے بھاگ گیا تھا مگر یہ گروہ سب سے تھوڑا تھا یا یہ کہہ دیں کہ مایوس ہو کے منتشر ہو گیا تھا.ان لوگوں میں حضرت عثمان بن عفان بھی شامل تھے مگر جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر آتا ہے اس وقت کے خاص حالات اور ان لوگوں کے دلی ایمان اور اخلاص کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا.ان لوگوں میں سے بعض مدینہ تک جا پہنچے اور اس طرح مدینہ میں بھی آنحضرت صلی علیکم کی خیالی شہادت اور لشکر اسلام کی ہزیمت کی خبر پہنچ گئی جس سے تمام شہر میں ایک کہرام مچ گیا اور مسلمان مرد عورت بچے بوڑھے نہایت سراسیمگی کی حالت میں شہر سے باہر نکل آئے اور الله سة

Page 336

اصحاب بدر جلد 3 316 حضرت عثمان بن عفان احد کی طرف روانہ ہو گئے اور بعض تو جلد جلد دوڑتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچے اور اللہ کا نام لے کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے.دوسرے گروہ میں وہ لوگ تھے جو بھاگے تو نہیں تھے مگر آنحضرت صلیا ایم کی شہادت کی خبر سن کر یا تو ہمت ہار بیٹھے تھے اور یا اب لڑنے کو بریکار سمجھتے تھے اور اس لئے میدان سے ایک طرف ہٹ کر سر نگوں ہو کر بیٹھ گئے.تیسر اگر وہ وہ تھا جو برابر لڑ رہا تھا.ان میں سے کچھ تو وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی الم کے ارد گرد جمع تھے اور بے نظیر جان شاری کے جوہر دکھا رہے تھے اور اکثر وہ تھے جو میدان جنگ میں منتشر طور پر لڑ رہے تھے.ان لوگوں اور نیز گروہ ثانی کے لوگوں کو جوں جوں آنحضرت صلی علیم کے زندہ موجود ہونے کا پتہ لگتا جاتا تھا یہ لوگ دیوانوں کی طرح لڑتے بھڑتے آپ کے ارد گرد جمع ہوتے جاتے تھے.اس وقت جنگ کی حالت یہ تھی کہ قریش کا لشکر گویا سمندر کی مہیب لہروں کی طرح چاروں طرف سے بڑھا چلا آتا تھا اور میدان جنگ میں ہر طرف سے تیر اور پتھروں کی بارش ہو رہی تھی.جاں نثاروں نے اس خطرہ کی حالت کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ وسلم کے ارد گرد گھیر اڈال کر آپ کے جسم مبارک کو اپنے بدنوں سے چھپا لیا مگر پھر بھی جب کبھی حملہ کی رو اٹھتی تھی تو یہ چند گنتی کے آدمی ادھر ادھر دھکیل دئے جاتے تھے اور ایسی حالت میں بعض اوقات آنحضرت صلی علی نیم قریباً اکیلے رہ جاتے تھے.627 بہر حال اس میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عثمان مایوس ہو کے یا کسی وجہ سے اس وقت آنحضرت صلی علم کی شہادت کی خبر سن کے وہاں سے چلے گئے تھے اور اسی طرح مایوس ہو کر بیٹھنے والوں میں نہیں تھے لیکن بیٹھنے والوں میں حضرت عمر کا بھی ذکر آتا ہے.بہر حال وہ تو اپنے وقت پر بیان ہو گا.صلح حدیبیہ اور حضرت عثمان اب میں بیان کرتا ہوں صلح حدیبیہ کے موقع پر جو سفارت کاری ہوئی اور بیعت رضوان ہوئی اس میں حضرت عثمان کا کر دار یا آپ کے بارے میں کیا واقعات ملتے ہیں.آنحضرت صلی امین ہم نے رویا دیکھا کہ آپ اور آپ کے صحابہ امن کے ساتھ اپنے سروں کو منڈائے ہوئے اور بال چھوٹے کیے ہوئے بیت اللہ میں داخل ہو رہے ہیں.اس رویا کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علم ذوالقعدہ 16 ہجری میں اپنے چودہ سو اصحاب کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کے لیے مدینہ سے نکلے.حدیبیہ کے مقام پر آپ نے پڑاؤ کیا.قریش نے صل الم کو عمرے کی ادائیگی سے روکا.فریقین کے درمیان جب سفارت کاری کا آغاز ہوا اور آنحضرت صلی الم نے مکہ کے جوش و خروش کا حال سنا تو آپ نے فرمایا کسی ایسے بااثر شخص کو مکہ میں بھجوایا جائے جو مکہ ہی کا رہنے والا ہو اور قریش کے کسی معزز قبیلے سے تعلق رکھتا ہو.628 چنانچہ حضرت عثمان کو اس مقصد کے لیے بھجوایا گیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کی جو تفصیل بیان کی ہے اس کا کچھ ذکر میں کرتا ہوں.آپ نے لکھا ہے کہ:

Page 337

اصحاب بدر جلد 3 317 حضرت عثمان بن عفان آنحضرت صلی له لمر نے ایک خواب دیکھی کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں.اس وقت ذو قعدہ کا مہینہ قریب تھا جو زمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مبارک مہینوں میں سے سمجھا جاتا تھا جن میں ہر قسم کا جنگ و جدل منع تھا.گویا ایک طرف آپ نے یہ خواب دیکھی اور دوسری طرف یہ وقت بھی ایسا تھا کہ جب عرب کے طول و عرض میں جنگ کا سلسلہ رک کر امن وامان ہو جاتا تھا.گو یہ حج کے دن نہیں تھے اور ابھی تک اسلام میں حج باقاعدہ طور پر مقرر بھی نہیں ہوا تھا لیکن خانہ کعبہ کا طواف ہر وقت ہو سکتا تھا.اس لیے آپ نے اس خواب دیکھنے کے بعد اپنے صحابہ سے تحریک فرمائی کہ عمرہ کے واسطے تیاری کر لیں.اس موقع پر آپ نے صحابہ میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ چونکہ اس سفر میں کسی قسم کا جنگی مقابلہ مقصود نہیں ہے بلکہ محض ایک پر امن دینی عبادت کا بجالانا مقصود ہے اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس سفر میں اپنے ہتھیار ساتھ نہ لیں.البتہ عرب کے دستور کے مطابق صرف اپنی تلواروں کو نیاموں کے اندر بند کر کے مسافرانہ طریق پر اپنے ساتھ رکھا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی آپ نے مدینہ کے گردونواح کے بدوی لوگوں میں بھی جو بظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے یہ تحریک فرمائی کہ وہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہو کر عمرہ کی عبادت بجالائیں مگر افسوس ہے کہ ایک نہایت قلیل یعنی برائے نام تعداد کے سوا ان مسلمان کہلانے والے کمزور ایمان بدوی لوگوں نے جو مدینہ کے آس پاس آباد تھے آنحضرت صلی ایم کے ساتھ نکلنے سے احتراز کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ خواہ مسلمانوں کی نیت عمرہ کے سوا کچھ نہیں مگر قریش بہر حال مسلمانوں کو روکیں گے اور اس طرح مقابلہ کی صورت پید ا ہو جائے گی اور وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ یہ مقابلہ مکہ کے قریب اور مدینہ سے دور ہو گا اس لیے کوئی مسلمان بچ کر واپس نہیں آسکے گا.اس لیے ڈر کر وہ اس میں شامل نہیں ہوئے.بہر حال آنحضرت صلی المیہ کم کچھ اوپر چودہ سو صحابیوں کی جمعیت کے ساتھ ذو قعدہ 6 ہجری کے شروع میں ہی پیر کے دن بوقت صبح مدینہ سے روانہ ہوئے.اس سفر میں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ آپ کے ہم رکاب تھیں اور مدینہ کا امیر تمیلہ بن عبد اللہ ہو اور امام الصلوة عبد الله بن أم مكتوم موجو آنکھوں سے معذور تھے مقرر کیا گیا تھا.جب آپ ذُو الحلیفہ میں پہنچے جو مدینہ سے قریباً چھ میل کے فاصلہ پر مکہ کے راستہ پر واقع ہے تو آپ نے ٹھہرنے کا حکم دیا اور نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد قربانی کے اونٹوں کو جو تعداد میں ستر تھے نشان لگائے جانے کا ارشاد فرمایا اور صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ حاجیوں کا مخصوص لباس جو اصطلاحا احرام کہلاتا ہے پہن لیں اور آپ نے خود بھی احرام باندھ لیا اور پھر قریش کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لیے کہ آیا وہ کسی شرارت کا ارادہ تو نہیں رکھتے ایک خبر رساں بسر بن سفیان نامی کو جو قبیلہ خزاعہ سے تعلق رکھتا تھا، جو مکہ کے قرب میں آباد تھا، آگے بھیجوا کر آہستہ آہستہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور مزید احتیاط کے طور پر مسلمانوں کی بڑی جمعیت کے آگے آگے رہنے کے لیے عباد بن بشر کی کمان میں ہیں سواروں کا ایک دستہ بھی متعین فرمایا.جب آپ چند روز کے سفر کے بعد عشفان کے قریب پہنچے جو مکہ

Page 338

حاب بدر جلد 3 318 حضرت عثمان بن عفان سے تقریباً دو منزل کے راستہ پر واقع ہے.(کہا جاتا ہے کہ ایک منزل نو میل کی ہوتی ہے ) تو آپ کے خبر رساں نے واپس آکر آپ کی خدمت میں اطلاع دی کہ قریش مکہ بہت جوش میں ہیں اور آپ کو روکنے کا پختہ عزم کیے ہوئے ہیں.حتی کہ ان میں سے بعض نے اپنے جوش اور وحشت کے اظہار کے لیے چیتوں کی کھالیں پہن رکھی ہیں اور جنگ کا پختہ عزم کر کے بہر صورت مسلمانوں کو روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں.یہ بھی معلوم ہوا کہ قریش نے اپنے چند جانباز سواروں کا ایک دستہ خالد بن ولید کی کمان میں جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے آگے بھجوا دیا ہے اور یہ کہ یہ دستہ اس وقت مسلمانوں کے قریب پہنچا ہوا ہے اور اس دستہ میں عکرمہ بن ابو جہل بھی شامل ہے وغیرہ وغیرہ.آنحضرت صلی علیم نے یہ خبر سنی تو تصادم سے بچنے کی غرض سے صحابہ کو حکم دیا کہ مکہ کے معروف راستے کو چھوڑ کر دائیں جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھیں.چنانچہ مسلمان ایک دشوار گزار اور کٹھن رستہ پر پڑ کر سمندر کی جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھنا شروع ہوئے.جب آپ صلی ہی کی اس نئے رستہ پر چلتے ہوئے حدیبیہ کے قریب پہنچے جو مکہ سے ایک منزل یعنی صرف نو میل کے فاصلہ پر ہے اور حدیبیہ کی گھاٹیوں پر سے مکہ کی وادی کا آغاز ہو جاتا ہے تو آپ کی اونٹنی جو الفضوا کے نام سے مشہور تھی اور بہت سے غزوات میں آپ کے استعمال میں رہ چکی تھی یکلخت پاؤں پھیلا کر زمین پر بیٹھ گئی اور باوجود اٹھانے کے اٹھنے کا نام نہ لیتی تھی.صحابہ نے عرض کیا کہ شاید یہ تھک گئی ہے مگر آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرمایا: نہیں نہیں.یہ تھکی نہیں اور نہ ہی اس طرح تھک کر بیٹھ جانا اس کی عادت میں داخل ہے بلکہ حق یہ ہے کہ جس بالا ہستی نے اس سے پہلے اصحاب فیل کے ہاتھی کو مکہ کی طرف بڑھنے سے روکا تھا اسی نے اب اس اونٹنی کو بھی روکا ہے.پس خدا کی قسم !مکہ کے قریش جو مطالبہ بھی حرم کی عزت کے لیے مجھ سے کریں گے میں اسے قبول کروں گا.یہ آپ نے فرمایا.اس کے بعد آپ نے اپنی اونٹنی کو پھر اٹھنے کی آواز دی اور خدا کی قدرت کہ اس دفعہ وہ جھٹ اٹھ کر چلنے کو تیار ہو گئی.اس پر آپ اسے وادی حدیبیہ کے پر لے کنارے کی طرف لے گئے اور وہاں ایک چشمہ کے پاس ٹھہر کر اونٹنی سے نیچے اتر آئے اور اسی جگہ آپ کے فرمانے پر صحابہ نے ڈیرے ڈال دیے.پھر یہاں آگے ذکر آتا ہے کہ قریش کے ساتھ صلح کی گفتگو کا آغاز کس طرح ہوا.جب آنحضرت صلی علیم نے حدیبیہ کی وادی میں پہنچ کر قیام فرمایا تو اس وادی کے چشمہ کے پاس قیام کیا.جب صحابہ اس جگہ ڈیرے ڈال چکے تو قبیلہ خُزاعہ کا ایک نامور رئیس بدیل بن ورقا نامی جو قریب ہی کے علاقہ میں آباد تھا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آنحضرت صلی علی یم کی ملاقات کے لیے آیا اور اس نے آپ سے عرض کیا کہ ملکہ کے رو سا جنگ کے لیے تیار کھڑے ہیں اور وہ کبھی بھی آپ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے.آپ نے فرمایا کہ ہم تو جنگ کی غرض سے نہیں آئے بلکہ صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں اور افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ قریش مکہ کو جنگ کی آگ نے جلا جلا کر خاک کر رکھا ہے مگر پھر بھی یہ لوگ باز نہیں آتے اور میں تو ان لوگوں کے ساتھ اس سمجھوتہ کے لیے بھی تیار ہوں کہ وہ

Page 339

صحاب بدر جلد 3 319 حضرت عثمان بن عفان میرے خلاف جنگ بند کر کے مجھے دوسرے لوگوں کے لیے آزاد چھوڑ دیں.مکہ والوں سے میں کوئی تعارض نہیں کرتا.کچھ ان سے تعلق نہیں رکھوں گا اور دوسرے لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچاؤں گا لیکن اگر انہوں نے میری اس تجویز کو بھی رڈ کر دیا اور بہر صورت جنگ کی آگ کو بھڑکائے رکھا تو مجھے بھی اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ پھر میں بھی اس مقابلہ سے اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹوں گا کہ یا تو میری جان اس رستہ میں قربان ہو جائے اور یا خدا مجھے فتح عطا کرے.اگر میں ان کے مقابلہ میں آکر مٹ گیا تو قصہ ختم ہوا لیکن اگر خدا نے مجھے فتح عطا کی اور میرے لائے ہوئے دین کو غلبہ حاصل ہو گیا تو پھر مکہ والوں کو بھی ایمان لے آنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے.بدیل بن ورقا پر آپ کی اس مخلصانہ اور دردمندانہ تقریر کا بہت اثر ہوا اور اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ مجھے کچھ مہلت دیں کہ میں مکہ جا کر آپ کا پیغام پہنچاؤں اور مصالحت کی کوشش کروں.آپ نے اجازت دے الله دی اور بدیلا پنے قبیلہ کے چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گیا.جب بدیل بن ور قامکہ میں پہنچا تو اس نے قریش کو جمع کر کے ان سے کہا کہ میں اس شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی ایم کے پاس سے آرہا ہوں اور میرے سامنے اس نے ایک تجویز پیش کی ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کا ذکر کروں.اس پر قریش کے جوشیلے اور غیر ذمہ دار لوگ کہنے لگے کہ ہم اس س کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں مگر اہل الرائے اور ثقہ لوگوں نے کہا.ہاں جو تجویز بھی ہے وہ ہمیں بتاؤ.چنانچہ بدنیل نے آنحضرت صلی علیہم کی بیان کردہ تجویز کا اعادہ کیا.اس پر ایک شخص عُروہ بن مسعود نامی جو قبیلہ ثقیف کا ایک بہت با اثر رئیس تھا اور اس وقت مکہ میں موجود تھا کھڑا ہو گیا اور قدیم عربی انداز میں قریش سے کہنے لگا کہ اے لوگو ! کیا میں تمہارے باپ کی جگہ نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا ہاں.پھر اس نے کہا کیا آپ لوگ میرے بیٹوں کی طرح نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں.پھر غزو بنے کہا کیا تمہیں مجھے پر کسی قسم کی بے اعتمادی ہے؟ قریش نے کہا ہر گز نہیں.اس پر اس نے کہا کہ پھر میری یہ رائے ہے کہ اس شخص محمد صلی علیم نے آپ کے سامنے ایک عمدہ بات پیش کی ہے.آپ کو چاہیے کہ اس کی تجویز کو قبول کر لیں اور مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کی طرف سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جا کر مزید گفتگو کروں.قریش نے کہا بے شک آپ جائیں اور گفتگو کریں.جب وہ آنحضرت صلی علیکم کی مجلس میں پہنچا تو اس وقت وہاں ایک روح پرور نظارہ بھی اس نے دیکھا.عروہ آنحضرت صلی ال نیم کی خدمت میں آیا اور آپ کے ساتھ گفتگو شروع کی.آپ نے اس کے سامنے اپنی وہی تقریر دوہرائی جو اس سے قبل بدیل بن ورقا کے سامنے فرما چکے تھے.عُزوه اصولاً آنحضرت صلی اسلام کی رائے کے ساتھ متفق تھا مگر قریش کی سفارت کا حق ادا کرنا اور ان کے حق میں زیادہ سے زیادہ شرائط محفوظ کرانا چاہتا تھا.عُروہ آپ کے ساتھ گفتگو ختم کر کے قریش کی طرف لوٹا اور جاتے ہی قریش سے کہنے لگا.اے لوگو ! میں نے دنیا میں بہت سفر کیے ہیں.بادشاہوں کے دربار میں شامل ہوا ہوں اور قیصر وکسریٰ اور نجاشی

Page 340

محاب بدر جلد 3 320 حضرت عثمان بن عفان کے سامنے بطور وفد کے پیش ہو چکا ہوں مگر خدا کی قسم ! جس طرح میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابیوں کو محمد کی عزت کرتے دیکھا ہے ایسا میں نے کسی اور جگہ نہیں دیکھا.پھر اس نے اپنا وہ سارا مشاہدہ بیان کیا جو اس نے آنحضرت صلی علیم کی مجلس میں دیکھا تھا اور آخر میں کہنے لگا کہ میں پھر یہی مشورہ دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تجویز ایک منصفانہ تجویز ہے اسے قبول کر لینا چاہیے.عُروہ کی یہ گفتگو سن کر قبیلہ بنی کنانہ کے ایک رئیس نے جس کا نام محلیس بن عَلْقَمَہ تھا قریش سے کہا اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاتا ہوں.انہوں نے کہاہاں بے شک جاؤ.چنانچہ یہ شخص حدیبیہ میں آیا اور جب آنحضرت صلی علیم نے اسے دُور سے آتے دیکھا تو صحابہ سے فرمایا یہ شخص جو ہماری طرف آرہا ہے ایسے قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے مناظر کو پسند کرتے ہیں.پس فوراً اپنے قربانی کے جانوروں کو اکٹھا کر کے اس کے سامنے لاؤ تا کہ اسے پتہ لگے اور احساس پیدا ہو کہ ہم کس غرض سے آئے ہیں.چنانچہ صحابہ اپنے قربانی کے جانوروں کو ہنکاتے ہوئے اور تکبیروں کی آواز بلند کرتے ہوئے اس کے سامنے جمع ہو گئے.جب اس نے یہ نظارہ دیکھا تو کہنے لگا.سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! یہ تو حاجی لوگ ہیں.انہیں بیت اللہ کے طواف سے کسی طرح روکا نہیں جاسکتا.چنانچہ وہ جلدی ہی قریش کی طرف واپس لوٹ گیا اور قریش سے کہنے لگا میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے جانوروں کے گلے میں قربانی کے بار باندھ رکھے ہیں اور ان پر قربانی کے نشان لگائے ہوئے ہیں.پس یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ انہیں طوافِ کعبہ سے روکا جائے.قریش میں اس وقت ایک سخت انتشار کی کیفیت پید اہو رہی تھی اور لوگوں کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں.ایک پارٹی بہر صورت مسلمانوں کو واپس لوٹانے پر مصر تھی اور مقابلہ کے خیالات پر سختی سے قائم تھی مگر دوسری پارٹی اسے اپنی قدیم مذہبی روایات کے خلاف پا کر خوف زدہ ہو رہی تھی اور کسی باعزت سمجھوتہ کی متمنی تھی.اس لیے فیصلہ معلق چلا جارہا تھا.اس موقع پر ایک عربی رئیس مکرر بن حفص نامی نے قریش سے کہا کہ مجھے جانے دو.میں کوئی فیصلہ کی راہ نکالوں گا.قریش نے کہا اچھا تم بھی کوشش کر کے دیکھ لو.چنانچہ وہ آنحضرت صلی علیم کے پاس آیا.آنحضرت صلی تعلیم نے اسے دُور سے آتے دیکھا تو فرمایا خدا خیر کرے یہ آدمی تو اچھا نہیں.بہر حال مگرز آپ کے پاس آیا اور گفتگو کرنے لگا مگر ابھی وہ بات کر ہی رہا تھا کہ مکہ کا ایک نامور رئیس سهیل بن عمر و آنحضرت صلی یکم کی خدمت میں حاضر ہوا جسے غالباً قریش نے اپنی گھبراہٹ میں مگرز کی واپسی کا انتظار کرنے کے بغیر بھجوادیا تھا.آنحضرت صلی الیکم نے سہیل کو آتے دیکھا تو فرمایا یہ سُھیل آتا ہے.اب خدا نے چاہا تو معاملہ آسان ہو جائے گا.بہر حال یہ بات چیت ہوتی رہی.اس موقع پر یہ واقعہ بھی ہوا کہ جب قریش کی طرف سے پے رپے سفیر آنے شروع ہوئے تو آنحضور صلی ﷺ نے یہ محسوس کر کے کہ آپ کی طرف سے بھی کوئی فہمیدہ شخص قریش کی طرف جانا چاہیے جو انہیں ہمدردی اور دانائی کے ساتھ مسلمانوں کا زاویہ نظر سمجھا

Page 341

تاب بدر جلد 3 321 حضرت عثمان بن عفان سکے ایک شخص خراش بن امیہ کو اس کام کے لیے چنا جو قبیلہ خُزاعہ سے تعلق رکھتا تھا.یعنی وہی قبیلہ جس سے قریش کے سب سے پہلے سفیر بدیل بن ورقا کا تعلق تھا اور اس موقع پر آنحضرت صلی ا ہم نے خراش کو سواری کے لیے خود اپنا ایک اونٹ عطا فرمایا.خراش قریش کے پاس گیا مگر چونکہ ابھی یہ گفتگو کا ابتدائی مرحلہ تھا اور نوجوانان قریش بہت جوش میں تھے.ایک جوشیلے نوجوان عکرمہ بن ابو جہل نے خراش کے اونٹ پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا جس کے عربی دستور کے مطابق یہ معنی تھے کہ ہم تمہاری نقل و حرکت کو جبر آروکتے ہیں.علاوہ ازیں قریش کی یہ جو شیلی پارٹی خود خراشن پر بھی حملہ کرنا چاہتی تھی مگر بڑے بوڑھوں نے بیچ بچاؤ کر کے اس کی جان بچائی اور وہ اسلامی کیمپ میں واپس آگیا.کفار کی طرف سے وہ واپس آگیا.قریش مکہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے جوش میں اندھے ہو کر اس بات کا بھی ارادہ کیا کہ اب جبکہ آنحضرت صلی اللہ کم اور آپ کے صحابہ مکہ سے اس قدر قریب اور مدینہ سے اتنی دور آئے ہوئے ہیں تو ان پر حملہ کر کے جہاں تک ممکن ہو نقصان پہنچایا جائے.چنانچہ اس غرض کے لیے انہوں نے چالیس پچاس آدمیوں کی ایک پارٹی حدیبیہ کی طرف روانہ کی اور اس گفت و شنید کے پر دے میں جو اس وقت فریقین میں جاری تھی ان لوگوں کو ہدایت دی کہ اسلامی کیمپ کے ارد گرد گھومتے ہوئے تاک میں رہیں اور موقع پا کر مسلمانوں کا نقصان کرتے رہیں بلکہ بعض روایتوں سے یہاں تک پتہ لگتا ہے کہ یہ لوگ تعداد میں اسی تھے اور اس موقع پر قریش نے آنحضرت صلی ایم کے قتل کی بھی سازش کی تھی مگر بہر حال خدا کے فضل سے مسلمان اپنی جگہ ہوشیار تھے.چنانچہ قریش کی اس سازش کا راز کھل گیا اور یہ لوگ سب کے سب گرفتار کر لیے گئے.مسلمانوں کو اہل مکہ کی اس حرکت پر جو اشہر حرم میں اور پھر گویا حرم کے علاقہ میں کی گئی تھی سخت طیش تھا مگر آنحضرت صلی ا ہم نے ان لوگوں کو معاف فرما دیا اور مصالحت کی گفتگو میں روک نہ پیدا ہونے دی.اہل مکہ کی اس حرکت کا قرآن شریف نے بھی ذکر کیا ہے چنانچہ فرماتا ہے.وَهُوَ الَّذِى كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطِن مَكَةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا (الت: 25) یعنی خدا نے اپنے فضل سے کفار کے ہاتھوں کو مکہ کی وادی میں تم سے روک کر رکھا اور تمہاری حفاظت کی اور پھر جب تم نے ان لوگوں پر غلبہ پالیا اور انہیں اپنے قابو میں کر لیا تو خدا نے تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک کر رکھا.حضرت عثمان کا مکہ جانا اور بیعت رضوان بہر حال جب ہم ان تمام حالات اور اس پس منظر میں آنحضرت صلی اللہ ر مسلسل صبر اور حوصلہ اور امن کی کوشش کو دیکھتے ہیں جو انتہا کو پہنچا ہوا ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ ایک صبر اور امن کی کوشش ہے جس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی.آپ مسلسل اس کوشش میں تھے کہ امن کی صورت پیدا ہو.انحضرت صلی علیم نے جب قریش کی شرارت کو دیکھا اور ساتھ ہی خراش بن امیہ سے اہل مکہ کے جوش

Page 342

اصحاب بدر جلد 3 322 حضرت عثمان بن عفان و خروش کا حال سنا تو قریش کو ٹھنڈا کرنے اور راہ راست پر لانے کی غرض سے ارادہ فرمایا کہ کسی ایسے بااثر شخص کو مکہ میں بھجوایا جائے جو مکہ ہی کا رہنے والا ہو اور قریش کے کسی معزز قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو.یعنی اس کے بعد بھی آپ نے کوشش چھوڑی نہیں بلکہ پھر بھی یہ رسک (risk) لیا کہ کسی کو دوبارہ بھیجنا چاہیے.چنانچہ آپ نے حضرت عمر بن الخطاب سے فرمایا کہ بہتر ہو گا کہ آپ مکہ میں جائیں اور مسلمانوں کی طرف سے سفارت کا فرض سر انجام دیں.حضرت عمرؓ نے عرض کیا یار سول اللہ ! آپ جانتے ہیں کہ مکہ کے لوگ میرے سخت دشمن ہو رہے ہیں اور اس وقت مکہ میں میرے قبیلہ کا کوئی بااثر آدمی موجود نہیں جس کا اہل مکہ پر دباؤ ہو.اس لیے میر امشورہ ہے کہ کامیابی کارستہ آسان کرنے کے لیے اس خدمت کے لیے عثمان بن عفان کو چنا جائے جن کا قبیلہ بنو امیہ اس وقت بہت بااثر ہے اور مکہ والے عثمان کے خلاف شرارت کی جرات نہیں کر سکتے اور اگر حضرت عثمان کو بھیجا جائے تو کامیابی کی زیادہ امید ہے.آنحضرت مصلی تم نے اس مشورہ کو پسند فرمایا اور حضرت عثمان سے ارشاد فرمایا کہ وہ مکہ جائیں اور قریش کو مسلمانوں کے پرامن ارادوں اور عمرہ کی نیت سے آگاہ کریں اور آپ نے حضرت عثمان کو اپنی طرف سے ایک تحریر بھی لکھ کر دی جو رؤسائے قریش کے نام تھی.اس تحریر میں آنحضرت صلی الہ وسلم نے اپنے آنے کی غرض بیان کی اور قریش کو یقین دلایا کہ ہماری نیت صرف ایک عبادت کا بجالانا ہے اور ہم پر امن صورت میں عمرہ بجالا کر واپس چلے جائیں گے.آپ صلی امید کم نے حضرت عثمان سے یہ بھی فرمایا کہ مکہ میں جو کمزور مسلمان ہیں انہیں بھی ملنے کی کوشش کرنا اور ان کی ہمت بڑھانا اور کہنا کہ ذرا اور صبر سے کام لیں.خدا عنقریب کامیابی کا دروازہ کھولنے والا ہے.یہ پیغام لے کر حضرت عثمان مکہ میں گئے اور ابوسفیان سے مل کر جو اس زمانہ میں مکہ کارئیس اعظم تھا اور حضرت عثمان کا قریبی عزیز بھی تھا اہل مکہ کے ایک عام مجمع میں پیش ہوئے.اس مجمع میں حضرت عثمان نے آنحضرت صلی اللہ علم کی تحریر پیش کی جو مختلف رؤسائے قریش نے فرداً فرداً بھی ملاحظہ کی مگر باوجود اس کے سب لوگ اپنی اس ضد پر قائم رہے کہ بہر حال مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے.حضرت عثمان کے زور دینے پر قریش نے کہا کہ اگر تمہیں زیادہ شوق ہے تو ہم تم کو ذاتی طور پر طواف بیت اللہ کا موقع دے دیتے ہیں مگر اس سے زیادہ نہیں.حضرت عثمان نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی علی یکم تو مکہ سے باہر روکے جائیں اور میں طواف کروں ! مگر قریش نے کسی طرح نہ مانا اور بالآخر حضرت عثمان مایوس ہو کر واپس آنے کی تیاری کرنے لگے.اس موقع پر مکہ کے شریر لوگوں کو یہ شرارت سوجھی کہ انہوں نے غالباً اس خیال سے کہ اس طرح ہمیں مصالحت میں زیادہ مفید شرائط حاصل ہو سکیں گی حضرت عثمانؓ اور ان کے ساتھیوں کو مکہ میں روک لیا.اس پر مسلمانوں میں یہ افواہ مشہور ہوئی کہ اہل مکہ نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا ہے.یہ خبر جب پہنچی تو آنحضرت صلی کم کو بھی شدید غصہ اور صدمہ تھا.تب آپ نے وہاں بیعت رضوان لی.اس کے بارے میں لکھا ہے.یہ خبر حدیبیہ میں پہنچی تو مسلمانوں میں سخت جوش پیدا ہوا کیونکہ

Page 343

اصحاب بدر جلد 3 323 حضرت عثمان بن عفان عثمان آنحضرت صلی الم کے داماد اور معزز ترین صحابہ میں سے تھے اور مکہ میں بطور اسلامی سفیر کے گئے تھے اور یہ دن بھی اشہرِ حُرم کے تھے، حرمت والا مہینہ تھا اور پھر مکہ خود حرم کا علاقہ تھا.آنحضرت صلی الیکم نے فوراً تمام مسلمانوں میں اعلان کر کے انہیں ایک بول یعنی کیکر کے درخت کے نیچے جمع کیا اور جب صحابہ جمع ہو گئے تو اس خبر کا ذکر کر کے فرمایا کہ اگر یہ اطلاع درست ہے تو خدا کی قسم! ہم اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ملیں گے کہ عثمان کا بدلہ نہ لے لیں.پھر آپ نے صحابہ سے فرمایا: آؤ اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر جو اسلام میں بیعت کا طریقہ ہے یہ عہد کرو کہ تم میں سے کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا.اس اعلان پر صحابہ بیعت کے لیے اس طرح لیکے کہ ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے اور ان چودہ پندرہ سو مسلمانوں کا کہ یہی اس وقت اسلام کی جمع پونجی تھی، کل مسلمان تھے ، ایک ایک فرد اپنے محبوب آقا کے ہاتھ پر گویا دوسری دفعہ بک گیا.جب بیعت ہو رہی تھی تو آنحضرت صلی اللہ ہم نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے کیونکہ اگر وہ یہاں ہو تا تو اس مقدس سودے میں کسی سے پیچھے نہ رہتا لیکن اس وقت وہ خدا اور اس کے رسول کے کام میں مصروف ہے.اس طرح یہ بجلی کا سا منظر اپنے اختتام کو پہنچا.اسلامی تاریخ میں یہ بیعت بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے یعنی وہ بیعت جس میں مسلمانوں نے خدا کی کامل رضامندی کا انعام حاصل کیا.قرآن شریف نے بھی اس بیعت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے.چنانچہ فرماتا ہے لَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا (افت: 19) یعنی اللہ تعالیٰ خوش ہو گیا مسلمانوں سے جب کہ اے رسول! وہ ایک درخت کے نیچے تیری بیعت کر رہے تھے کیونکہ اس بیعت سے ان کے دلوں کا مخفی اخلاص خدا کے ظاہری علم میں آگیا سو خدا نے بھی ان پر سکینت نازل فرمائی اور انہیں ایک قریب کی فتح کا انعام عطا کیا.صحابہ کرام بھی ہمیشہ اس بیعت کو بڑے فخر اور محبت کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر بعد میں آنے والے لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ تم تو مکہ کی فتح کو فتح شمار کرتے ہو مگر ہم بیعت رضوان ہی کو فتح خیال کرتے تھے اور اس میں شبہ نہیں کہ یہ بیعت اپنے کوائف کے ساتھ مل کر ایک نہایت عظیم الشان فتح تھی.نہ صرف اس لیے کہ اس نے آئندہ فتوحات کا دروازہ کھول دیا بلکہ اس لیے بھی کہ اس سے اسلام کی اس جاں فروشانہ روح کا جو دین محمدی کا گویا مرکزی نقطہ ہے ایک نہایت شاندار رنگ میں اظہار ہوا اور فدائیان اسلام نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ وہ اپنے رسول اور اس رسول کی لائی ہوئی صداقت کے لیے ہر میدان میں اور اس میدان کے ہر قدم پر موت وحیات کے سودے کے لیے تیار ہیں.اسی لیے صحابہ کر ام بیعت رضوان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ بیعت موت کے عہد کی بیعت تھی یعنی اس عہد کی بیعت تھی کہ ہر مسلمان اسلام کی خاطر اور اسلام کی عزت کی خاطر اپنی

Page 344

حاب بدر جلد 3 324 حضرت عثمان بن عفان جان پر کھیل جائے گا مگر پیچھے نہیں ہٹے گا اور اس بیعت کا خاص پہلو یہ تھا کہ یہ عہد و پیمان صرف منہ کا ایک وقتی اقرار نہیں تھا جو عارضی جوش کی حالت میں کر دیا گیا ہو بلکہ دل کی گہرائیوں کی آواز تھی جس کے پیچھے مسلمانوں کی ساری طاقت ایک نقطۂ واحد پر جمع تھی.معاہدہ صلح حدیبیہ الله سة جب قریش کو اس بیعت کی اطلاع پہنچی تو وہ خوف زدہ ہو گئے اور نہ صرف حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں کو آزاد کر دیا بلکہ اپنے ایلچیوں کو بھی ہدایت دی کہ اب جس طرح بھی ہو مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر لیں مگر یہ شرط ضرور رکھی جائے کہ اس سال کی بجائے مسلمان آئندہ سال آکر عمرہ بجا لائیں اور بہر حال اب واپس چلے جائیں.دوسری طرف آنحضرت صلی کم بھی ابتدا سے یہ عہد کر چکے تھے کہ میں اس موقع پر کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جو حرم المحرم اور بیت اللہ کے احترام کے خلاف ہو اور چونکہ آپ کو خدا نے یہ بشارت دے رکھی تھی کہ اس موقع پر قریش کے ساتھ مصالحت آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ بننے والی ہے اس لیے گویا فریقین کے لحاظ سے یہ ماحول مصالحت کا ایک نہایت عمدہ ماحول تھا اور اسی ماحول میں سہیل بن عمر و آنحضرت صلی اللہ کرم کے پاس پہنچا اور آپ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ اب معاملہ آسان ہوتا نظر آتا ہے.صلح کی گفتگو شروع ہوئی جب تسہیل بن عمر و آنحضرت صلی للی کم کے سامنے آیا تو آپ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سہیل آتا ہے.اب خدا نے چاہاتو معاملہ سہل ہو جائے گا.بہر حال سہیل آیا اور آتے ہی آنحضرت صلی یم سے کہنے لگا.آؤ جی.اب لمبی بحث جانے دو.ہم معاہدے کے لیے تیار ہیں.آنحضرت صلی علیم نے فرمایا: ہم بھی تیار ہیں اور اس ارشاد کے ساتھ ہی آپ نے اپنے سیکرٹری حضرت علی کو بلوایا.اس معاہدہ کی شرائط حسب ذیل تھیں.آنحضرت صلی اہم اور آپ کے ساتھی اس سال واپس چلے جائیں.آئندہ سال وہ مکہ میں آکر رسم عمرہ ادا کر سکتے ہیں مگر سوائے نیام میں بند تلوار کے کوئی ہتھیار ساتھ نہ ہو اور مکہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں.اگر کوئی مرد مکہ والوں میں سے مدینہ جائے تو خواہ وہ مسلمان ہی ہو آنحضرت صلی الم اسے مدینہ میں پناہ نہ دیں اور واپس لوٹا دیں.لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ کو چھوڑ کر مکہ میں آجائے تو اسے واپس نہیں لوٹایا جائے گا.ایک اور روایت میں یہ ہے کہ اگر مکہ والوں میں سے کوئی شخص اپنے ولی یعنی گارڈین (guardian) کی اجازت کے بغیر مدینہ آجائے تو اسے واپس لوٹا دیا جائے گا.قبائل عرب میں سے جو قبیلہ چاہے مسلمانوں کا حلیف بن جائے اور جو چاہے اہل مکہ کا.یہ معاہدہ فی الحال دس سال تک کے لیے ہو گا اور اس عرصہ میں قریش اور مسلمانوں کے درمیان جنگ بند رہے گی.اس معاہدہ کی دو نقلیں کی گئیں اور بطور گواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پر دستخط کیے.مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان جو اس وقت

Page 345

حاب بدر جلد 3 325 حضرت عثمان بن عفان تک مکہ سے واپس آچکے تھے یعنی کفار نے جو ان کو روکا تھا تو اس وقت چھوڑ دیا تھا.انہوں نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے.عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور ابو عبیدہ تھے.معاہدہ کی تکمیل کے بعد سہیل بن عمر و معاہدہ کی ایک نقل لے کر مکہ کی طرف واپس لوٹ گیا اور دوسری نقل آنحضرت صلی علیکم کے پاس رہی.629 حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کو اپنے الفاظ میں اس طرح بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ بعض ارد گرد کے لوگوں نے مکہ والوں سے اصرار کیا کہ یہ لوگ صرف طواف کے لیے آئے ہیں آپ ان کو کیوں روکتے ہیں ؟ مگر مکہ کے لوگ اپنی ضد پر قائم رہے.اس پر بیرونی قبائل کے لوگوں نے مکہ والوں سے کہا کہ آپ لوگوں کا یہ طریق بتاتا ہے کہ آپ کو شرارت مد نظر ہے، صلح مد نظر نہیں.اس لیے ہم لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں.یہ ایک نئی بات ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمائی ہے کہ ارد گرد کے قبائل کا بھی پریشر (pressure) تھا.اس پر مکہ کے لوگ ڈر گئے اور انہوں نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتے کی کوشش کریں گے.جب اس امر کی اطلاع رسول کریم صلی علی کم کو پہنچی تو آپ نے حضرت عثمان کو جو بعد میں آپ کے تیسرے خلیفہ ہوئے، مکہ والوں سے بات چیت کرنے کے لیے بھیجا.جب حضرت عثمان مکہ پہنچے تو چونکہ مکہ میں ان کی بڑی وسیع رشتہ داری تھی.ان کے رشتہ دار ان کے گرد اکٹھے ہو گئے اور ان سے کہا کہ آپ طواف کر لیں لیکن محمد رسول الله صلى ال یکم اگلے سال آکر طواف کریں مگر حضرت عثمان نے کہا کہ میں اپنے آقا کے بغیر طواف نہیں کر سکتا.چونکہ رؤسائے مکہ سے آپ کی گفتگو لمبی ہو گئی تو مکہ میں بعض لوگوں نے شرارت سے یہ خبر پھیلا دی کہ عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے اور یہ خبر پھیلتے پھیلتے رسول اللہ صلی الی نام تک جا پہنچی.اس پر رسول اللہ صلی الم نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا: سفیر کی جان ہر قوم میں محفوظ ہوتی ہے.تم نے سنا ہے کہ عثمان کو مکہ والوں نے مار دیا ہے.اگر یہ خبر درست نکلی تو ہم بزور مکہ میں داخل ہوں گے.یعنی ہمارا پہلا ارادہ صلح کے ساتھ مکہ میں داخل ہونے کا تھا، جن حالات میں وہ کیا گیا تھا وہ حالات چونکہ تبدیل ہو جائیں گے اس لیے ہم اس ارادہ کے پابند نہیں رہیں گے.جو لوگ یہ عہد کرنے کے لیے تیار ہوں کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا پڑا تو یا ہم فتح کر کے لوٹیں گے یا ایک ایک کر کے میدان میں مارے جائیں گے وہ اس عہد پر میری بیعت کریں.آپ کا یہ اعلان کرنا تھا کہ پندرہ سو زائر جو آپ کے ساتھ آیا تھا یکدم پندرہ سو سپاہی کی شکل میں بدل گیا اور دیوانہ وار ایک دوسرے پر پھاندتے ہوئے انہوں نے رسول اللہ صلی علیکم کے ہاتھ پر دوسروں سے پہلے بیعت کرنے کی کوشش کی.یہ بیعت تمام اسلامی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور درخت کا عہد نامہ کہلاتی ہے کیونکہ جس وقت یہ بیعت لی گئی اس وقت رسول کریم صلی علیکم ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے.جب تک اس بیعت میں شامل ہونے والا آخری آدمی بھی دنیا میں زندہ رہا وہ فخر سے اس بات کا ذکر کیا کرتا تھا کیونکہ پندرہ سو آدمیوں میں سے ایک شخص نے بھی یہ عہد کرنے سے

Page 346

اصحاب بدر جلد 3 326 حضرت عثمان بن عفان دریغ نہ کیا تھا کہ اگر دشمن نے اسلامی سفیر کو مار دیا ہے تو آج دو صورتوں میں سے ایک ضرور پیدا کر کے چھوڑیں گے یا وہ شام سے پہلے پہلے مکہ کو فتح کر کے چھوڑیں گے یا شام سے پہلے پہلے میدان جنگ میں مارے جائیں گے.لیکن ابھی بیعت سے مسلمان فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت عثمان واپس آگئے اور انہوں نے بتایا کہ مکہ والے اس سال تو عمرے کی اجازت نہیں دے سکتے مگر آئندہ سال اجازت دینے کے لیے تیار ہیں.چنانچہ اس بارے میں معاہدہ کرنے کے لیے انہوں نے اپنے نمائندے مقرر کر دیے.حضرت عثمان کے آنے کے تھوڑی دیر کے بعد مکہ کا ایک رئیس سہیل نامی معاہدہ کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ معاہدہ لکھا گیا.630 ایک غزوہ تھا غزوہ ذات الرقاع: نبی کریم صلی علیہ یکم مسجد میں غطفان کے قبیلہ بنو ثعلبہ اور بنو مُحَارِب پر حملہ کے لیے چار سو یا ایک روایت کے مطابق سات سو صحابہ کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے اور مدینہ میں حضرت عثمان کو امیر مقرر فرمایا اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابو ذر غفاری کو امیر مقرر فرمایا.آنحضرت صلی الله علم مسجد میں نخل مقام پر پہنچے جسے ذات الرقاع کہتے ہیں.وہاں آنحضرت صلی علیکم کے مقابلے کے لیے بڑا لشکر تیار تھا.دونوں گروہ ایک دوسرے کے بالمقابل ہوئے تاہم جنگ نہ ہوئی اور لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ رہے.اسی جنگ کے دوران پہلی مرتبہ مسلمانوں نے صلوۃ خوف ادا 631 اس غزوہ کی وجہ تسمیہ کے بارہ میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ اسے ذات الرقاع اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس میں صحابہ نے اپنے جھنڈوں میں پیوند لگائے ہوئے تھے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں درخت یا پہاڑ تھا جس کا نام ذات الرقاع ہے.بخاری کی ایک روایت میں اس طرح ذکر ہے: حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک حملے میں نبی صلی علیکم کے ساتھ نکلے اور ہم چھ آدمی تھے.ہمارے پاس ایک مشترکہ اونٹ تھا جس پر ہم باری باری سوار ہوتے تھے.ہمارے پاؤں پھٹ گئے یعنی غزوہ میں چھ آدمی نہیں تھے.یہ چھ آدمی اس اونٹ کے لیے تھے.اور میرے دونوں پاؤں بھی پھٹ گئے اور میرے ناخن گر گئے اور ہم اپنے پاؤں پر کپڑوں کے ٹکڑے لپیٹتے تھے.اس لیے اس کا نام غزوہ ذات الرقاع یعنی چیتھڑوں والی لڑائی رکھا گیا کیونکہ ہم کپڑوں کے ٹکڑے اپنے پیروں پر باندھے ہوئے تھے.632 یہ ایک نوٹ ہے وہ بھی بیان کر دیتا ہوں.ریسرچ سیل نے ٹھیک نوٹ لکھا ہے کہ کتب تاریخ و سیر کے مطابق غزوہ ذات الرقاع چار ہجری میں ہوا تھا جبکہ امام بخاری نے اس غزوہ کو غزوہ خیبر کے بعد قرار دیا ہے کیونکہ حضرت ابو موسیٰ اشعر کی اس غزوہ میں شامل ہوئے تھے اور وہ غزوہ خیبر کے بعد مسلمان ہوئے تھے * اس لیے سات ہجری کی تاریخ اس غزوہ کی زیادہ قرین قیاس ہے.533 * غزوہ خیبر کے بعد مدینہ تشریف لائے تھے.مرتب

Page 347

حاب بدر جلد 3 327 حضرت عثمان بن عفان فتح مکہ کے ضمن میں جو روایات ہیں جو 18 ہجری میں ہوئی اس میں ایک تفصیلی روایت سنن نسائی میں یوں مذکور ہے جس میں فتح مکہ کے موقع پر ان افراد کی تفصیل بیان ہوئی ہے جن کے قتل کے بارے میں نبی کریم صلی تعلیم کی جانب سے ارشاد جاری ہوا تھا.حضرت مصعب بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی الیم نے چار مردوں اور دو عورتوں کے علاوہ باقی سب کفار کو امان دے دی تھی.آپ نے فرمایا ان چار کو قتل کر دو خواہ تم انہیں کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے پاؤ.وہ عکرمہ بن ابو جہل، عبد اللہ بن خَطل، مقیس بن صُبّابہ اور عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح تھے.عبد اللہ بن خطل جب پکڑا گیا تو اس نے خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑا ہوا تھا.حضرت سعید بن حریث اور حضرت عمار بن یاسر دونوں اس کی طرف لپکے اور سعید نے آگے بڑھ کر اسے قتل کر دیا.مقیس کو لوگوں نے بازار میں پایا اور اسے قتل کر دیا.عکرمہ سمندر کی طرف بھاگ گیا.کشتی پر سوار لوگوں کو سمندری طوفان نے آلیا.اس پر کشتی والوں نے کہا تم لوگ اخلاص اور سچائی سے کام لو کیونکہ تمہارے معبود یہاں کچھ فائدہ نہیں دیں گے.اس پر عکرمہ نے کہا بخدا! مجھے سمندر میں اگر کوئی چیز بچائے گی تو اخلاص و سچائی ہے اور خشکی پر بھی اخلاص و سچائی ہی مجھے بچائے گی.اے اللہ ! میں تجھ سے پختہ عہد کرتا ہوں کہ اگر تو مجھے اس طوفان سے محفوظ رکھے تو میں ضرور محمد علی ایم کے پاس جا کر ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھوں گا اور میں ضرور انہیں عفو کرنے والا اور کریم پاؤں گا.پھر وہ واپس آیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا.اس بارہ میں زیادہ مشہور روایت تو یہی ہے کہ جہاز پر چڑھنے سے پہلے ہی اس کی بیوی نے آکر اسے قائل کر لیا تھا اور واپس لے گئی تھی.یہ روایت بھی آگے آجائے گی.بہر حال یہ سنن نسائی کی ایک روایت ہے.جہاں تک عبد اللہ بن ابی سرح کا تعلق ہے تو وہ حضرت عثمان بن عفان کے ہاں چھپ گیا.پھر جب رسول اللہ صلی ا ہم نے لوگوں کو بیعت کی دعوت دی تو حضرت عثمان اسے نبی صلی علیم کے سامنے لائے اور عرض کی یارسول اللہ ! عبد اللہ کی بیعت قبول فرمائیں.آپ نے اپنا سر اٹھا کر اس کی طرف تین مرتبہ دیکھا اور تینوں مرتبہ انکار کیا.بہر حال آخر آپ نے اس کی بیعت لے لی اور پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کوئی صاحب عقل شخص نہ تھا جو اس شخص کو قتل کر دیتا جس کی بیعت لینے سے میں نے تخلف کیا تھا.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمیں کیسے علم ہو تا کہ آپ کے دل میں کیا تھا.آپ نے کیوں نہ آنکھ سے ہمیں اشارہ کیا؟ اس پر آپ صلی الم نے فرمایا کہ نبی کے لیے جائز نہیں کہ وہ آنکھوں کی خیانت کا ر تکب ہو.یہ روایت سنن ابو داؤد میں بھی ہے.البتہ سنن ابو داؤد میں ایک دوسری روایت بھی موجود ہے لیکن اس روایت کے آخری فقرات یعنی اس کو قتل کرنے وغیرہ کا ذکر نہیں ہے چنانچہ اس روایت میں بیان ہے کہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح رسول اللہ صلی علی کم کا کاتب تھا.اسے شیطان نے بہکا دیا.وہ کفار سے مل گیا.فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی الم نے اس کے قتل کا حکم دیا.حضرت عثمان بن عفان نے اس کے لیے پناہ طلب کی.اس پر

Page 348

اصحاب بدر جلد 3 328 حضرت عثمان بن عفان رسول اللہ صلی الل ولم نے اسے پناہ دے دی.634 آنحضرت مصل الم کا ارشاد کہ قتل کرنا تھا کیوں نہیں قتل کیا؟ اس کے بارے میں ایک وضاحت یہ بھی کی جاتی ہے کہ اس روایت میں آنحضرت صلی ایم کا صحابہ کو یہ فرمانا کہ جب میں نے بیعت لینے میں تامل کیا تو تم لوگوں نے اس کو قتل کیوں نہ کر دیا محل نظر ہے کیونکہ اگر نبی کریم صلی اللہ تم اس کی بیعت نہ لینا چاہتے اور اس کے قتل کے فیصلہ پر قائم رہنا پسند فرماتے تو اس کو قتل کرنے کا ارشاد فرما سکتے تھے.آپ فاتح تھے ، سر بر او ریاست تھے اور اس کے قتل کا فیصلہ بھی مبنی بر انصاف تھا.اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس روایت میں کسی راوی کی اپنی رائے یا خیال شامل ہو گیا ہو.مزید بر آں یہ روایت بخاری اور مسلم میں موجود نہیں ہے اور ابو داؤد میں اسی مضمون کی ایک روایت حضرت ابن عباس سے مروی ہے جس کا ذکر ہو چکا ہے اور اس میں قتل کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے.حضرت مصلح موعود سورۃ المؤمنون کی آیت نمبر 15 کی تفسیر کرتے ہوئے اس واقعہ کا تذکرہ یوں بیان کرتے ہیں کہ صا الله اس آیت کے ساتھ ایک تاریخی واقعہ بھی وابستہ ہے جس کا یہاں بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.رسول کریم صلی للی کم کا ایک کاتب وحی تھا جس کا نام عبد اللہ بن ابی سرح تھا.آپؐ پر جب کوئی وحی نازل ہوتی تو اسے بلوا کر لکھوا دیتے.ایک دن آپ یہی آیتیں اسے لکھوا رہے تھے.جب آپ تمّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ پر پہنچے تو اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِيْنَ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ یہی وحی ہے.اس کو لکھ لو.اس بد بخت کو یہ خیال نہ آیا کہ پچھلی آیتوں کے نتیجہ میں یہ آیت طبعی طور پر آپ ہی بن جاتی ہے.اس نے سمجھا کہ جس طرح میرے منہ سے یہ آیت نکلی اور رسول اللہ صلی علی کرم نے اس کو وحی قرار دے دیا ہے اسی طرح آپ نعوذ باللہ خود سارا قرآن بنارہے ہیں.چنانچہ وہ مرتد ہو گیا اور مکہ چلا گیا.فتح مکہ کے موقعہ پر جن لوگوں کو قتل کرنے کا رسول کریم ملی ام نے حکم دیا تھا ان میں ایک عبد اللہ بن ابی سرح بھی تھا مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے پناہ دے دی اور وہ آپ کے گھر میں تین دن چھپا رہا.ایک دن جب کہ رسول کریم صلی ا یک مکہ کے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ عبد اللہ بن ابی سرح کو بھی آپ کی خدمت میں لے گئے اور اس کی بیعت قبول کرنے کی درخواست کی.رسول کریم صلی الی یم نے پہلے تو کچھ دیر تامل فرمایا مگر پھر آپ نے اس کی بیعت لے لی.اور اس طرح دوبارہ اس نے اسلام قبول کر لیا.سنن نسائی کی بیان کردہ روایت میں عکرمہ بن ابو جہل کے قبولِ اسلام کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے جبکہ کتب سیرت میں اس کے اسلام قبول کرنے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا ذرا مختلف ہیں کہ عکرمہ بن ابو جہل ان لوگوں میں سے تھا جن کے قتل کا نبی کریم صلی اللہ ہم نے فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا ہوا تھا.عکرمہ اور اس کا والد نبی کریم صلی الی یکم کو اذیت دیتا تھا اور وہ مسلمانوں پر 6356

Page 349

اصحاب بدر جلد 3 329 حضرت عثمان بن عفان بہت زیادہ سختی کرتا تھا.جب اسے علم ہوا کہ رسول اللہ صلی علی یکم نے اس کا خون بہانے کا حکم دیا ہے تو وہ یمن کی طرف بھاگ گیا.اس کی بیوی نے بعد اس کے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اس کا پیچھا کیا اور اس نے عکرمہ کو سمندر کے ساحل پر پایا جب وہ کشتی پر سوار ہونے کا ارادہ کر رہا تھا.ایک قول کے مطابق اس نے عکرمہ کو تب پایا جبکہ وہ کشتی میں سوار ہو چکا تھا.اس نے عکرمہ کو یہ کہتے ہوئے روکا کہ اے میرے چچا کے بیٹے !میں تمہارے پاس اس انسان کی طرف سے آئی ہوں جو لو گوں میں سب سے زیادہ جوڑنے والے اور لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور لوگوں میں سب سے زیادہ خیر خواہ ہیں.تو اپنی جان کو ہلاکت میں مت ڈال کیونکہ میں تمہارے لیے امان طلب کر چکی ہوں.اس پر وہ اپنی بیوی کے ساتھ آیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا اور اس کا اسلام بہت خوبصورت رہا.روایت میں آتا ہے کہ جب عکرمہ رسول اللہ صلی ای کم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میری بیوی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے مجھے امان دی ہے.آپ نے فرمایا: تو نے سچ کہا.یقینا تو امن میں ہے.اس پر عکرمہ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور آپ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس نے اپنا سر شرم سے نیچے جھکا لیا.اس پر رسول اللہ صلی الی یکم نے اسے فرمایا: اے عکرمہ اتو مجھ سے جو بھی چیز مانگے گا اگر میں اس کی طاقت رکھتا ہوں گا تو ضرور تجھے دوں گا.عکرمہ نے عرض کیا کہ میری ہر اس عداوت کے لیے بخشش کی دعا کر دیں جو میں نے آپ سے روار کھی.اس پر آنحضرت علی علیم نے یہ دعا کی کہ اے اللہ ! عکرمہ کی ہر وہ عداوت اس کو بخش دے جو اس نے مجھ سے روار کھی یا ہر وہ بُری بات بخش دے جو اس نے کی.پھر رسول اللہ صل اللیل کی خوشی سے سر شار اٹھے اور اپنی چادر اس پر ڈال دی اور فرمایا: خوش آمدید اس شخص کو جو ایمان لانے کی حالت میں اور ہجرت کرنے کی حالت میں ہمارے پاس آیا.عکرمہ بعد میں بڑے جلیل القدر صحابہ میں شمار ہوتے تھے.عکرمہ کے ایمان لانے سے وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو آنحضرت صلیالی یکم نے اپنے صحابہ سے بیان فرمائی تھی کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ جنت میں ہیں.آپ صلی میں کم نے وہاں انگور کا ایک خوشہ دیکھا جو آپ کو بہت اچھا لگا.آپ صلی میں ہم نے پوچھا یہ کس کے لیے ہے تو کہا گیا کہ ابو جہل کے لیے ہے.یہ بات آپ پر گراں گزری.آپ کو اچھی نہیں لگی، پریشان ہوئے اور آپ نے فرمایا: جنت میں تو سوائے مومن جان کے اور کوئی داخل نہیں ہو تا تو یہ ابو جہل کے لیے کس طرح؟ پھر جب عکرمہ بن ابو جہل نے اسلام قبول کیا تو آپ اس سے خوش ہوئے اور اس خوشہ کی تعبیر یہ بیان فرمائی کہ اس سے مراد عکرمہ تھا.636 غزوہ تبوک جو رجب 19 ہجری میں ہوئی اس غزوہ تبوک کو جیشُ الْعُسْرَۃ یعنی تنگی والا لشکر بھی کہتے ہیں.اس غزوہ کی تیاری کے لیے حضرت عثمان کو جس مالی خدمت کی توفیق ملی اس کا تذکرہ یوں ملتا ہے

Page 350

حاب بدر جلد 3 330 حضرت عثمان بن عفان کہ غزوہ تبوک کو جیش العسرة یعنی تنگی والا لشکر بھی کہتے ہیں.اس غزوہ کی تیاری کے لیے آنحضرت صلی للی سیم نے تحریک فرمائی تو حضرت عثمان نے شام کی طرف تجارت کی غرض سے تیار کیا جانے والا اپنا سو اونٹوں کا قافلہ ان کے کجاووں اور پالانوں سمیت پیش کر دیا.آنحضرت صلی اللی کم نے پھر تحریک فرمائی تو اس غزوہ کی ضروریات کے پیش نظر حضرت عثمان نے مزید سو اونٹ کجاووں اور پالانوں کے ساتھ تیار کروا کر پیش کر دیے.آپ نے پھر تحریک فرمائی تو تیسری مرتبہ حضرت عثمان نے پھر مزید ایک سو اونٹ کجاووں اور پالانوں کے ساتھ تیار کروا کے آپ کی خدمت میں پیش کیے.آنحضرت صلی ا ظلم جب منبر سے نیچے اترے تو آپ نے فرمایا مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هذِهِ مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذه.اس کے بعد عثمان جو بھی کرے اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہو گا.اس کے بعد عثمان جو بھی کرے اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہو گا.اس کے علاوہ حضرت عثمان نے دو سو اوقیہ سونا بھی نبی کریم صلی العلیم کے حضور پیش کیا.ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عثمان نے حاضر ہو کر آنحضرت صلی ال کم کی جھولی میں ایک ہزار دینار ڈال دیے.اس پر آنحضرت صلی علیہ کی جھولی میں پڑے دیناروں کو الٹتے پلٹتے رہے اور دو مر تبہ فرمایا: مَا ضَرَ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ.آج کے بعد عثمان جو بھی کرے گا اس کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا.ایک روایت کے مطابق حضرت عثمان نے اس موقع پر دس ہزار دینار عطا کیے تو آنحضرت صلی علیم نے حضرت عثمان کے لیے یہ دعا کی.غَفَرَ اللهُ لَكَ يَا عُثْمَانُ مَا اسْتَرَرْتَ وَمَا أعْلَنْتَ وَمَا هُوَ كَائِنُ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا يُبَالِي مَا عَمِلَ بَعْدَهَا کہ اے عثمان ! اللہ تجھ سے مغفرت کا سلوک فرمائے جو تُو نے مخفی طور پر کیا اور جو تُو نے اعلانیہ کیا اور جو قیامت تک ہونے والا ہے.اس کے بعد وہ جو بھی عمل کرے اسے کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے.ایک روایت کے مطابق آپ نے اس جنگ کی تیاری کے لیے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے پیش کیے.ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ ہم نے اس موقع پر حضرت عثمان سے فرمایا: اے عثمان! اللہ تعالیٰ تجھے وہ سب کچھ معاف فرمائے جو تو نے مخفی طور پر کیا اور جو تُو نے اعلانیہ کیا اور جو قیامت تک ہونے والا ہے.اس عمل کے بعد یہ جو بھی کرے اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں.ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی علیہ ہم نے اس موقع پر حضرت عثمان کے حق میں یہ دعا کی کہ اللَّهُمَّ ارْضِ عَنْ عُثْمَانَ فَانِي عَنْهُ رَاضٍ کہ اے اللہ !تو عثمان سے راضی ہو جا کیونکہ میں اس سے راضی ہوں.7 حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ”صحابہ نے بعض دفعہ اپنے گھر کا مال و اسباب بیچ کر جنگ کے اخراجات پورے کیے بلکہ یہ بھی نظر آتا کہ بعض دفعہ انہوں نے اپنی جائیدادیں بیچ کر دوسروں پر خرچ کر دیں اور ان کے لیے تمام ضروریات مہیا کیں.چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی للی کم باہر تشریف لائے اور آپ نے فرمایا کہ فلاں سفر پر ہماری فوج جانے والی ہے مگر مومنوں کے پاس کوئی چیز نہیں.کیا 637

Page 351

اصحاب بدر جلد 3 331 63866 حضرت عثمان بن عفان کوئی تم میں سے ہے جو ثواب حاصل کرے ؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ سنتے ہی اٹھے اور آپ نے اپنا اند وختہ نکال کر وہ رقم مسلمانوں کے اخراجات کے لیے رسول کریم صلی ا ورم کی خدمت میں پیش کر دی.رسول کریم ملی ایم نے جب یہ دیکھا تو فرمایا عثمان نے جنت خرید لی.اسی طرح ایک دفعہ ایک کنواں بک رہا تھا.مسلمانوں کو چونکہ ان دنوں پانی کی بہت تکلیف تھی اس لیے آپ نے اس موقع پر پھر فرمایا کوئی ہے جو ثواب حاصل کرے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں.چنانچہ آپ نے وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا.رسول کریم صلی اللہ ہم نے پھر فرمایا کہ عثمان نے جنت خرید لی.اسی طرح ایک اور موقع پر بھی رسول کریم صلی الم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق یہی الفاظ کہے.غرض تین موقعے ایسے آئے ہیں جہاں رسول کریم صلی علیکم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے جنت خریدلی ہے.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی علی یم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق بار ہا یہ فرمایا ہے کہ انہوں نے جنت خرید لی اور وہ جنتی ہیں اور ایک دفعہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی علیم نے مسلمانوں سے دوبارہ بیعت لی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس وقت موجود نہ تھے تو آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے.میں اس کی طرف سے اپنے ہاتھ پر رکھتا ہوں.اس طرح آپ نے اپنے ہاتھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا اور پھر ایک دفعہ آپ نے فرمایا اے عثمان اخد اتعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے گا.منافق چاہیں گے کہ وہ تیری اس قمیص کو اتار دیں مگر تو اس قمیص کو اُتار یو نہیں.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”اب محمد رسول اللہ صلی علیکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہیں کہ اس قمیص کو نہ اتارنا اور جو تم سے اس قمیص کے اتارنے کا مطالبہ کریں گے وہ منافق ہوں گے.639 تو اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ وہ لوگ جو بھی تھے وہ منافق تھے کیونکہ ان کی پیشگوئی آنحضرت صلی الیکم نے پہلے ہی فرما دی.حضرت خلیفہ ثالث نے ایک جگہ حضرت عثمان کی قربانی کا ذکر اس طرح فرمایا ہے کہ : جنگی ضرورت تھی.نبی اکرم صلی اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے سامنے ضرورت حقہ کو رکھا اور مالی قربانیاں پیش کرنے کی انہیں تلقین کی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تو اپنا سارا مال لے کر آگئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا نصف مال لے کر آگئے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میری یہ پیشکش قبول کر لی جائے کہ میں دس ہزار صحابہ هما پورا خرچ برداشت کروں گا اور اس کے علاوہ آپ نے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے دیئے.حضرت عثمان کا حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں کیا کر دار تھا اور آپ کا مقام اور مرتبہ کیا تھا؟ حضرت ابو بکر آپ کو کس طرح کا مقام دیتے تھے.کیا سمجھتے تھے ؟ حضرت ابو بکر کے دورِ خلافت میں الله سة 640"

Page 352

محاب بدر جلد 3 332 حضرت عثمان بن عفان حضرت عثمان ان صحابہ اور اہل شوریٰ میں سے تھے جن سے اہم ترین مسائل میں رائے لی جاتی تھی.جب حضرت ابو بکر نے فتنہ ارتداد کا مقابلہ کر کے اسے ختم کر دیا تو روم پر چڑھائی کرنے اور مختلف اطراف میں مجاہدین کو روانہ کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس سلسلہ میں لوگوں سے مشورہ طلب کیا.بعض صحابہ نے مشورہ دیا.اس پر حضرت ابو بکر نے مزید مشورہ طلب فرمایا.جس پر حضرت عثمان نے عرض کیا کہ آپ اس دین کے ماننے والوں کے خیر خواہ اور مشفق ہیں.پس آپ جس رائے کو عام لوگوں کے لیے مفید سمجھیں تو اس پر عمل کرنے کا پختہ عزم کر لیں کیونکہ آپ کے بارے میں بدظنی نہیں کی جا سکتی.یعنی حضرت ابو بکر کو عرض کیا کہ آپ کے بارے میں بدظنی نہیں کی جاسکتی.اس پر حضرت طلحہ حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت ابو عبیدہ ، حضرت سعید بن زید اور اس مجلس میں موجود مہاجرین و انصار نے کہا حضرت عثمان نے سچ کہا ہے.آپ جو مناسب سمجھیں کر گزریں.ہم نہ تو آپ کی مخالفت کریں گے اور نہ ہی آپ پر کوئی الزام لگائیں گے.اس کے بعد حضرت علیؓ نے گفتگو کی.پھر حضرت ابو بکر لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بیان کیا جس کا وہ اہل ہے اور نبی کریم صلی کم پر درود بھیجا.پھر فرمایا: اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر اسلام کے ذریعے سے فضل نازل فرمایا اور جہاد کے ذریعہ تمہیں عزت بخشی اور اس دین کے ذریعہ تم لوگوں کو تمام ادیان پر فضیلت بخشی.پس اے اللہ کے بندو! ملک شام میں روم کے ساتھ جنگ کے لیے لشکر کی تیاری کرو.حضرت ابو بکر نے جب اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ حضرت آیبان بن سعید کے بعد کس کو بحرین کا گورنر بنا کر بھیجا جائے تو حضرت عثمان بن عفانؓ نے عرض کیا اس آدمی کو بھیجیں جسے رسول اللہ صلی علیکم نے بحرین والوں پر گورنر مقرر فرمایا تھا اور وہ ان کے قبول اسلام اور اطاعت کرنے کا موجب ہو اتھا اور وہ ان لوگوں سے اور ان کے علاقے سے بھی اچھی طرح واقف ہے.وہ علاء بن حضرھی ہے.اس پر حضرت ابو بکر نے علاء بن حضرمی کو بحرین بھیجنے پر اتفاق کر لیا.642 641 حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت میں ایک مرتبہ بارش نہیں ہوئی.لوگ حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا آسمان بارش نہیں برسا رہا اور زمین فصلیں نہیں اگا ر ہی.لوگ سخت شدید مصیبت کا شکار ہیں.حضرت ابو بکر نے فرمایا تم لوگ جاؤ اور شام تک صبر سے کام لو.اللہ تعالیٰ تمہاری پریشانی کو دور فرما دے گا.اتنے میں حضرت عثمان کا سو اونٹوں کا تجارتی قافلہ گندم یا کھانے کا سامان لادے شام سے مدینہ پہنچ گیا.اس کی خبر سن کر لوگ حضرت عثمان کے دروازے پر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا.حضرت عثمان لوگوں میں نکلے اور پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں.لوگوں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ قحط سالی کا زمانہ ہے.آسمان بارش نہیں برسا رہا اور زمین بھی فصلیں نہیں اگار ہی.لوگ شدید پریشانی کا شکار ہیں.ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس غلہ ہے.آپ اسے ہمارے پاس فروخت کر دیں تاکہ ہم اسے فقراء اور مساکین تک پہنچا دیں.حضرت عثمان نے فرمایا:

Page 353

حاب بدر جلد 3 333 حضرت عثمان بن عفان بہت اچھا! اندر آجاؤ.اندر آ کے خرید لیں.تاجر لوگ آپ کے گھر میں داخل ہوئے اور غلے کو حضرت عثمان کے گھر میں پڑا ہوا پایا.حضرت عثمان نے تاجروں سے کہا جو سامان میں نے ملک شام سے ، جو جہاں سے میں نے خریدا ہے میری قیمت خرید پر آپ کتنا منافع دیں گے ؟ شام سے سامان لے کر آیا ہوں.میں یہاں وہاں سے خرید کے لایا ہوں.تم مجھے بتاؤ تم مجھے اس پر کتنا منافع دو گے؟ وہاں جتنے لوگ تھے کچھ مفت تقسیم کرنا چاہتے تھے کچھ تاجر تھے.انہوں نے کہا کہ ہم دس کے بارہ دے دیں گے.اگر اس کی قیمت دس درہم ہے تو ہم بارہ دے دیتے ہیں.حضرت عثمان نے کہا مجھے اس سے زیادہ مل رہا ہے.تو انہوں نے کہا ہم دس کے پندرہ دے دیں گے.دس کے بجائے ہم پندرہ دینے کو تیار ہیں.حضرت عثمان نے کہا مجھے اس سے بھی زیادہ مل رہا ہے.تاجروں نے کہا اے ابو عمرو! مدینہ میں تو ہمارے علاوہ اور کوئی تاجر نہیں ہے.تو کون آپ کو اس سے زیادہ دے رہا ہے.حضرت عثمان نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مجھے ہر درہم کے بدلے دس زیادہ دے رہا ہے.ہر ایک کے بدلے میں دس گنا دے رہا ہے.کیا آپ لوگ اس سے زیادہ دے سکتے ہیں.انہوں نے کہا نہیں ہم تو اس سے زیادہ نہیں دے سکتے.اس پر حضرت عثمان نے فرمایا: میں اللہ کو گواہ بناتے ہوئے اس غلے کو مسلمانوں کے فقراء پر صدقہ کرتا ہوں.یعنی یہ سارے کا سارا غلہ میں غریبوں کو دیتا ہوں اور اس کی کوئی قیمت نہیں لوں گا.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جس دن یہ واقعہ ہوا، غلہ تقسیم کیا گیا، صدقہ دیا گیا میں نے اس رات رسول اللہ صلی یکم کو خواب میں دیکھا.آپ ایک غیر عربی گھوڑے پر سوار ہیں جو بڑے جے والا ہے.آپ پر نور کی پوشاک ہے اور آپ الله 643 کے پیروں میں نور کی جوتیاں ہیں اور ہاتھ میں نور کی چھڑی ہے اور آپ جلدی میں ہیں.میں نے عرض کی یارسول اللہ ! میں آپ کا اور آپ سے گفتگو کا بہت مشتاق ہوں.آپ اتنی جلدی میں کہاں تشریف لے جارہے ہیں.آپ صلی علیہم نے فرمایا: اے ابن عباس! عثمان نے ایک صدقہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمالیا ہے اور جنت میں اس کی شادی کی ہے اور ہمیں ان کی شادی میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے.13 حضرت عثمان کا ”حضرت عمرؓ کے عہد میں کردار اور مقام اور مرتبہ“ کے بارے میں یہ چند باتیں بیان کر تاہوں.جب حضرت عمر خلیفہ بنے تو آپ نے بڑے صحابہ سے بیت المال سے اپنے وظیفہ کے متعلق مشورہ کیا.اس پر حضرت عثمانؓ نے عرض کیا.کھائیے اور کھلائیے.جو آپ کی ضروریات ہیں آپ پوری کریں اور جو لوگوں کی ضروریات ہیں وہ بھی پوری کریں.کوئی فکس ( fix) کرنے کی ضرورت نہیں ہے.جب اسلامی فتوحات کا سلسلہ وسیع ہوا اور مال کی کثرت ہوئی تو حضرت عمرؓ نے صحابہ میں سے بعض کو اس مال کے بارے میں مشاورت کے لیے اکٹھا کیا.حضرت عثمان نے عرض کیا: میں دیکھتا ہوں کہ مال بہت ہو گیا ہے جو لوگوں کے لیے کافی ہے.اگر لوگوں کے اعدادو شمار اکٹھے نہ کیے گئے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کس نے لے لیا ہے اور کس نے نہیں لیا تو مجھے ڈر ہے 644

Page 354

حاب بدر جلد 3 334 حضرت عثمان بن عفان کہ مشکلات پیدا ہوں گی.بعض دفعہ لوگ دو دو دفعہ لے جائیں گے.باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے.کھاتے بننے چاہئیں.اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت عثمان کی رائے کو اختیار فرمایا اور مردم شماری کر کے لوگوں کے نام رجسٹروں میں محفوظ کرنے کا کام عمل میں آیا.645 اور پھر باقاعدہ اس کے حساب سے ہر ایک کو امداد ملنی شروع ہوئی.حضرت عثمان کی خلافت کی بابت آنحضرت علی علیم کی پیشگوئی بھی ہے.اس کا پہلے اشارة قمیص پہننے کا اور منافقوں کا قمیص اتارنے کا ذکر ہو چکا ہے.حضرت ابوبکرہ سے یہ روایت ہے کہ نبی کریم علی ایم نے ایک دن فرمایا تم میں سے کسی نے خواب دیکھی ہے.ایک شخص نے کہا.میں نے دیکھا گویا ایک ترازو آسمان سے اترا اور آپ صلی علیہ کم کو اور حضرت ابو بکر کو تولا گیا تو آپ ابو بکر سے بھاری نکلے.پھر حضرت عمر اور حضرت ابو بکر مو تولا گیا تو حضرت ابو بکر بھاری نکلے.پھر حضرت عمر اور حضرت عثمان کو تولا گیا تو حضرت عمرؓ بھاری نکلے.پھر ترازو اٹھا لیا گیا تو ہم نے رسول اللہ صلی علیکم کے چہرے سے نا پسندیدگی دیکھی.آپ نے اس خواب پر خوشی کا اظہار نہیں کیا.بڑی نا پسندیدگی ہوئی.646 الله سة 647 ایک اور روایت یوں ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا آج کی رات ایک صالح شخص کو خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت ابو بکر کو رسول اللہ صلی اللی نام سے جوڑ دیا گیا ہے اور حضرت عمر کو حضرت ابو بکر سے اور حضرت عثمان کو حضرت عمرؓ سے.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی علیم کے پاس سے اٹھ کر آئے تو ہم نے کہا کہ مرد صالح سے مراد تو رسول اللہ صلی علی کرم ہیں اور بعض کا بعض سے جوڑے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہی لوگ اس امر یعنی دین کے والی ہوں گے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی علیکم کو مبعوث فرمایا ہے.حضرت سمرہ بن جندب بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ! میں نے دیکھا گویا کہ آسمان سے ایک ڈول لٹکایا گیا.پہلے حضرت ابو بکر آئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑ کر اس میں سے تھوڑا سا پیا.پھر عمر آئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا.پھر عثمان آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور خوب سیر ہو کر پیا.پھر حضرت علی آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں تو وہ چھلک گیا اور اس میں سے کچھ ان کے اوپر بھی پڑ گیا.648 خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے یہ بھی اشارہ تھا اور علی کے ساتھ جو سارا دور گزرا وہ مشکلات کا ہی تھا.اس طرف اشارہ تھا کہ صحیح طرح پینے کا موقع نہیں ملا.حضرت عثمان کے انتخاب خلافت کے لیے جو مجلس شوری قائم ہوئی تھی اس بارے میں حضرت مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب اپنے اوپر ہونے والے حملے کے بعد جب ابھی ٹھیک تھے تو آپ سے بار بار درخواست کی جاتی کہ آپ کسی کو خلیفہ مقرر فرما دیں لیکن آپ انکار فرماتے.ایک روز آپ منبر پر تشریف لائے اور چند کلمات کہے اور فرمایا اگر میں مر جاؤں تو تمہارا

Page 355

حاب بدر جلد 3 335 حضرت عثمان بن عفان معاملہ ان چھ افراد کے ذمہ ہو گا جو رسول اللہ صلی العلیم سے اس حالت میں جدا ہوئے جبکہ آپ ان سے راضی تھے.علی بن ابو طالب اور آپ کے نظیر زبیر بن عوام، عبد الرحمن بن عوف اور آپ کے نظیر عثمان بن عفان، طلحہ بن عبید اللہ اور آپ کے نظیر سعد بن مالک.پھر آپ نے فرمایا خبر دار ! میں تم سب کو فیصلہ کرنے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور تقسیم میں انصاف اختیار کرنے کا حکم دیتا ہوں.ابو جعفر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے انتخاب خلافت کے لیے مجلس شوری کے اراکین سے کہا کہ اپنے اس معاملے میں باہم مشورہ کرو.پھر اگر دونوں طرف دو دو ووٹ ہوں تو دوبارہ مشورہ کرو اور اگر چار اور دو ووٹ ہوں تو پھر جس کے ووٹ زیادہ ہوں اسے اختیار کرو.زید بن اسلم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر دونوں طرف تین تین ووٹ ہوں تو جس طرف حضرت عبد الرحمن بن عوف ہوں گے اس طرف کے لوگوں کی سننا اور اطاعت کرنا.عبد الرحمن بن سعید بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر زخمی ہوئے تو آپ نے فرمایا صہیب تم لوگوں کو تین دن تک نماز پڑھائیں گے.یعنی کہ صہیب کو امام الصلوۃ مقرر فرمایا.پھر فرمایا: اپنے اس معاملے میں یعنی خلافت کے بارے میں مشاورت کرو اور یہ معاملہ ان چھ افراد کے سپر د ہے.پھر اس کے بعد جو تمہاری مخالفت کرے اس کی گردن اڑا دو.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے کچھ دیر قبل حضرت ابو طلحہ کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا اے ابو طلحہ اتُو اپنی قوم انصار میں سے پچاس افراد کو لے کر ان اصحاب شوری کے پاس چلے جاؤ اور انہیں تین دن تک نہ چھوڑنا یہاں تک کہ وہ اپنے میں سے کسی کو امیر منتخب کر لیں.اے اللہ ! تو ان پر میر ا خلیفہ ہے.اسحاق بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت عمر کی قبر تیار ہوتے وقت کچھ دیر رکے اور اس کے بعد اصحاب شوری کے ساتھ ہی رہے.پھر جب ان اصحاب شوریٰ نے اپنا معاملہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سپرد کر دیا اور کہا کہ وہ جسے چاہیں امیر مقرر کر دیں تو حضرت ابو طلحہ اس وقت تک حضرت عبد الرحمن بن عوف کے گھر کے دروازے پر رہے جب تک کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عثمان کی بیعت نہ کر لی.حضرت سلمہ بن ابو سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عثمان کی بیعت کی.پھر اس کے بعد حضرت علی نے.حضرت عمررؓ کے آزاد کردہ غلام عمر بن عمیرہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے حضرت علیؓ نے حضرت عثمان کی بیعت کی.اس کے بعد لوگوں نے پے در پے آپ کی بیعت کی.649 صحیح بخاری میں حضرت عمر کی آخری بیماری میں اپنے بعد میں آنے والے خلیفہ کو نصائح اور مجلس شوری کے حوالے سے جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ لوگوں نے کہا امیر المومنین ! وصیت کر دیں.کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں.انہوں نے فرمایا میں اس خلافت کا حقدار ان چند لوگوں میں

Page 356

صحاب بدر جلد 3 336 حضرت عثمان بن عفان سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی الی کی ایسی حالت میں فوت ہوئے کہ آپ صلی میں کم ان سے راضی تھے اور انہوں نے حضرت علی، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت سعد اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کا نام لیا اور کہا عبد اللہ بن عمر تمہارے ساتھ شریک رہے گا اور اس خلافت میں اس کا کوئی حق نہیں.یہ روایت پہلے بھی میں بیان کر چکا ہوں.اس لیے یہاں مختصر بیان کر تاہوں.بہر حال حضرت عمر کی وفات کے بعد جب ان کی تدفین سے فراغت ہوئی تو وہ آدمی جمع ہوئے جن کا نام حضرت عمرؓ نے لیا تھا.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا اپنا معاملہ اپنے میں سے تین آدمیوں کے سپر د کر دو.حضرت زبیر نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت علی کو دیا اور حضرت طلحہ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عثمان کو دیا اور حضرت سعد نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عبد الرحمن بن عوف کو دیا.حضرت عبد الرحمن نے حضرت علیؓ اور حضرت عثمان سے کہا آپ دونوں میں سے جو بھی اس امر سے دستبردار ہو گا ہم اسی کے حوالے اس معاملے کو کر دیں گے اور اللہ اور اسلام اس کا نگران ہو گا یعنی انتخاب خلافت کا معاملہ اس کے سپرد کر دیا جائے گا.ان میں سے اسی کو تجویز کرے گا جو اس کے نزدیک افضل ہے.اس بات نے دونوں بزرگوں کو خاموش کر دیا.پھر حضرت عبد الرحمن نے کہا کہ کیا آپ اس معاملے کو میرے سپرد کرتے ہیں اور اللہ میر انگران ہے کہ جو آپ میں سے افضل ہے اس کو تجویز کرنے کے متعلق کوئی بھی کمی نہیں کروں گا.پھر یہی ہے کہ میرے سپر د کر دو.اب اس کمیٹی کی جو صدارت ہے وہ پھر میرے سپرد ہو جائے گی.پہلے تو ان دونوں سے کہا کہ کسی ایک کو صدر بنا دیا جائے.انہوں نے کہا وہ علیحدہ نہیں ہوتے، دستبردار نہیں ہوتے تو انہوں نے کہا اچھا پھر میں اس معاملے سے دستبر دار ہوتا ہوں اور صدارت اس طرح ہو گی.بہر حال انہوں نے کہا پھر میں جو فیصلہ کروں گا وہ انصاف سے کروں گا اور اللہ میرا نگران ہے.ان دونوں نے کہا اچھا.پھر عبد الرحمن ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑ کر الگ لے گئے اور کہنے لگے آپ کا آنحضرت صلی اللہ ظلم سے رشتہ کا تعلق ہے اور اسلام میں آپ کا جو مقام ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں.اللہ آپ کا نگران ہے.بتائیں اگر میں آپ کو امیر بناؤں تو کیا آپ ضرور انصاف کریں گے ؟ اور اگر میں عثمان کو امیر بناؤں تو آپ اس کی بات سنیں گے اور ان کا حکم مانیں گے ؟ یعنی پہلے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر لے گئے.ان سے پوچھا.پھر حضرت عبد الرحمن دوسرے کو تنہائی میں نے گئے یعنی اب حضرت عثمان کی باری آئی اور ان سے بھی ویسے ہی کہا جب انہوں نے پختہ عہد لے لیا تو پھر آپ نے حضرت عثمان کو کہا کہ آپ اپناہاتھ اٹھائیں اور انہوں نے ان سے بیعت کی اور حضرت علی نے بھی ان سے بیعت کی اور گھر والے اندر آگئے اور انہوں نے بھی ان سے بیعت کی.650 حضرت مصلح موعودؓ حضرت عمرؓ کی وفات اور حضرت عثمان کے خلیفہ منتخب ہونے کی بابت بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت عمر جب زخمی ہوئے اور آپ نے محسوس کیا کہ اب آپ کا آخری وقت قریب

Page 357

محاب بدر جلد 3 337 حضرت عثمان بن عفان ہے تو آپ نے چھ آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں.وہ چھ آدمی یہ تھے.حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زبیر، حضرت طلحہ.اس کے ساتھ ہی حضرت عبد اللہ بن عمر کو بھی آپ نے اس مشورہ میں شریک کرنے کے لیے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کے لیے صہیب کو امام الصلوۃ مقرر کیا اور مشورہ کی نگرانی مقداد بن الاسود کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازہ پر پہرہ دیتے رہیں.اور فرمایا کہ جس پر کثرت رائے سے اتفاق ہو سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبد اللہ بن عمر اُن میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو.اگر اس فیصلہ پر وہ راضی نہ ہوں تو جس طرف عبد الرحمن بن عوف ہوں وہ خلیفہ ہو.آخر پانچوں اصحاب نے مشورہ کیا کیونکہ طلحہ اس وقت مدینہ میں نہیں تھے) مگر کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوا.بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ بولے.جب سب خاموش رہے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں.پھر حضرت عثمان نے کہا کہ میں بھی لیتا ہوں ”پھر باقی دونے “ بھی کہا.حضرت علی خاموش رہے.آخر انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے.انہوں نے عہد کیا اور سب کام ان کے سپر د ہو گیا.“ یعنی حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سپرد ہو گیا.حضرت عبد الرحمن بن عوف تین دن مدینہ کے ہر گھر گئے اور مر دوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کسی شخص کی خلافت کے حق میں ہے.سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمان کی خلافت منظور ہے.چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا اور وہ خلیفہ ہو گئے.“ علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان کی 29 ذوالحجہ 23 ہجری کو پیر کے روز بیعت کی گئی.نَزَّال بن سبرہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان خلیفہ منتخب ہوئے تو حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ہم نے باقی رہ جانے والوں میں سے سب سے بہترین شخص کا انتخاب کیا ہے اور ہم نے اس انتخاب میں کوئی کوتاہی نہیں کی.حضرت عثمان نے خلافت پر متمکن ہونے کے بعد جب پہلا خطاب فرمایا تو اس کے بارے میں یہ روایت ہے کہ اسماعیل بن ابراہیم بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن ابور بیعہ مخزومی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کی بیعت کی گئی تو آپ یعنی حضرت عثمان لوگوں میں تشریف لائے اور ان سے خطاب فرمایا.جس میں آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا.اے لوگو! اپہلے پہل جو کام کیا جائے وہ مشکل ہوتا ہے.نیا نیا کام کوئی پہلی دفعہ کر رہا ہو تو مشکل ہوتا ہے.651"

Page 358

صحاب بدر جلد 3 338 حضرت عثمان بن عفان آج کے بعد اور بھی دن آنے والے ہیں اگر میں زندہ رہا تو ان شاء اللہ تمہارے سامنے مناسب خطاب بھی کر سکوں گا.آج تو یہ مختصر خطاب کر رہا ہوں.آئندہ دن بھی آئیں گے میں مناسب خطاب کروں گا.پھر فرمایا: ہم کوئی خطیب نہیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ ہمیں سکھا دے گا.اللہ تعالیٰ خطاب کرنے کے طریقے بھی سکھادے گا.652 بدر بن عثمان اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ جب اہل شوریٰ نے حضرت عثمان کی بیعت کر لی تو آپ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ ان سب سے زیادہ غمگین تھے.پھر آپ رسول اللہ صلی علیکم کے منبر پر آئے اور لوگوں سے خطاب کیا.آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور نبی کریم صلی کم پر درود بھیجا.پھر فرمایا یقینا تم لوگ ایک ایسے گھر میں ہو جسے چھوڑ جاتا ہے یعنی یہ دنیا اور تم عمر کے آخری حصوں میں ہو اس لیے موت سے پہلے پہل جس قدر نیک کام کر سکتے ہو کر لو.یقینا تم موت کے گھیرے میں ہو اور یہ دشمن صبح یا شام تم پر حملہ آور ہونے والا ہے.خبر دار ! یقینا دنیا مکر و فریب سے آراستہ ہے.پس تمہیں دنیاوی زندگی دھوکا نہ دے دے اور اللہ کے بارے میں سخت دھوکے باز شیطان تمہیں ہر گز دھوکے میں مبتلا نہ کرے.گزرے ہوئے لوگوں سے عبرت حاصل کرو اور پھر بھر پور کوشش کرو اور غافل نہ رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تم سے غافل نہیں.وہ دنیا دار اور ان کے بھائی کہاں ہیں جنہوں نے زمین کو پھاڑا اور اسے آباد کیا اور ایک لمبا عرصہ اس سے فائدہ حاصل کرتے رہے؟ کیا اس نے انہیں نکال باہر نہیں پھینکا؟ پس تم بھی دنیا کو وہاں پھینک دو جہاں اللہ تعالیٰ نے اسے پھینکا ہوا ہے اور آخرت کو طلب کرو.آخرت کو طلب کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آخرت کی مثال اور اس چیز کی جو بہترین ہے مثال دیتے ہوئے فرمایا ہے.وَاضْرِبُ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا كَمَاء أَنْزَلْنَهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَاصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيحُ وَكَانَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِرًا الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ۚ وَ البقيتُ الصَّلِحْتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَ خَيْرٌ أَمَلًا (الكيف :46-47) الکہف کی یہ آیات ہیں.اور ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کر جو ایسے پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا.پھر اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی شامل ہو گئی.پھر وہ چورا چورا ہو گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے.مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے طور پر بہتر اور امنگ کے لحاظ سے بہت اچھی ہیں.اس کے بعد لوگ آپ کی بیعت کرنے کے لیے لیکے.حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں جو فتوحات ہو ئیں ان کا ذکر کرتا ہوں.حضرت عثمان کے دور خلافت میں درج ذیل علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتوحات سے نوازا.فتح افریقیہ.یہ الجزائر اور مراکش کے علاقے ہیں.فتح اندلس، سپین 27 / ہجری.فتح قبرص، سائپرس (cyprus).128 ہجری.فتح طبرستان 130 ہجری.فتح صواری.فتح آرمینیا.فتح خراسان 131 ہجری.بلا دروم کی طرف پیش قدمی مرؤ 653

Page 359

اصحاب بدر جلد 3 339 حضرت عثمان بن عفان رُود طالقان، فَارِيَاب،جُوْز جان اور طَخَارِستان کی فتوحات.بلخ، هرات کی مہم 132 ہجری.اس کے علاوہ اس امر کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ حضرت عثمان کے دور میں ہندوستان میں اسلام کی آمد ہو گئی تھی.154 ان مہمات اور فتوحات کی مختصر تفصیل یوں ہے.127 ہجری میں حضرت عثمان نے حضرت سعد بن ابی سرح کو دس ہزار فوج دے کر افریقیہ روانہ فرمایا.افریقیہ سے مراد وہی مراکش اور الجزائر کا علاقہ ہے.پس اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی.655 اندلس، 127 ہجری، سپین.حضرت عثمان نے عبد اللہ بن نافع بن حصین فھری اور عبد اللہ بن نافع بن عبدِقيس فہری کو افریقیہ سے اندلس کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا.پس یہ انگلش کی طرف حیلے اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح سے نوازا.5 فتح قبرص 128 ہجری.ابومعشر کا قول ہے کہ قبر ص 133 ہجری میں فتح ہوا.بعض لوگوں کے مطابق 127 ہجری میں قبرص کی جنگ لڑی گئی.تاریخ طبری اور بدَايَة وَالنَّهَايَة دونوں نے اس کو 128 ہجری کے واقعات میں بیان کیا ہے.اس جنگ میں صحابہ میں سے حضرت ابو ذر غفاری، حضرت عبادہ بن صامتے اور آپ کی زوجہ حضرت ام حرام بنت ملحان ، حضرت مقداد، حضرت ابودرداء ،حضرت شداد بن اوس شامل تھے.قبرص ملک شام کے غربی جانب ایک اکیلا جزیرہ ہے.اس میں باغات اور کا نہیں بکثرت تھیں.قبرص 656 حضرت عثمان کے دور میں آپ کی اجازت اور حکم سے امیر معاویہ کے ہاتھ پر فتح ہوا.اس جنگ میں حضرت ام حرام بنت ملحان بھی شامل تھیں جن کو آنحضور صلی اللی کم نے شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی تھی.اس جنگ سے واپسی پر آپ کے لیے سواری لائی گئی.آپ اس پر سوار ہوئیں لیکن اس پر سے گر پڑیں اور آپ کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی جس سے آپ کی شہادت ہو گئی.علی بن محمد مدائنی بیان کرتے ہیں کہ طبرستان پر حضرت عثمان کے دور میں حضرت سعید بن عاص نے 130 ہجری میں حملہ کیا، وہاں لڑائی ہوئی اور قلعہ فتح کیا.7 اسی طرح فتح حواری 131 ہجری میں ہے اس کے بارے میں آتا ہے کہ اکثر کتب تاریخ میں اس معرکے کے مقام کی تعیین درج نہیں ہے.657 658 علامہ ابن خلدون نے اس معرکے کا مقام اسکندریہ لکھا ہے.8 ایک قول کے مطابق 131 ہجری میں مسلمانوں نے اہل روم کے ساتھ ایک جنگ لڑی جسے صواری کہا جاتا ہے.ابومعشر کی روایت کے مطابق غزوۂ صَوَارِی 134 ہجری میں ہوا اور آساوِدَہ کی بحری جنگ 131 ہجری میں ہوئی.واقدی کے مطابق جنگ صَوَارِی اور جنگ آساوِدَہ دونوں 131 ہجری میں ہوئیں.159

Page 360

محاب بدر جلد 3 340 حضرت عثمان بن عفان جب حضرت عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نے فرنگیوں یعنی فرنچ اور بر بریوں کو افریقیہ اور اندلس میں شکست دے دی تو رومی بڑے سیخ پا ہوئے اور سب مل کر قسطنطين بن هِر قل کے پاس جمع ہوئے اور مسلمانوں کے مقابلے میں ایسی فوج نے کر نکلے جس کی آغاز اسلام سے اب تک کوئی مثال نہیں دیکھی گئی تھی.یہ لشکر پانچ سو بحری جہازوں پر مشتمل تھا جو مسلمانوں سے مقابلے کے لیے نکلا.امیر معاویہ نے حضرت عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کو بحری بیڑے کا امیر مقرر کیا.جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو سخت مقابلہ ہوا.بالآخر اللہ تعالیٰ کی نصرت سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور قسطنطین اور اس کا باقی ماندہ لشکر بھاگ کھڑا ہوا.660 661 فتح آرمینیا 1 13 ہجری میں ہوئی.واقدی کے قول کے مطابق 131 ہجری میں حبیب بن مسلمه فھدی کے ہاتھ پر آرمینیا فتح ہوا.فتح خُراسان 131 ہجری میں حضرت عبد اللہ بن عامر خُراسان کی طرف روانہ ہوئے اور انہوں نے ابر شهر (Abarshahr) ، طوس (Tous)، آبی ورد(Abivard) اور نسا (Nesa) کو فتح کر لیا یہاں تک کہ وہ سرخس (Sarakhs) پہنچ گئے.اہل مزو ( Merv) نے بھی اسی سال صلح کر لی.662 یہ مرو ترکمانستان میں ہے.باقی علاقے ایران کے ہیں.بلادِ روم کی طرف پیش قدمی 132 ہجری میں ہوئی.132 ہجری میں امیر معاویہ نے بلادِ روم سے جنگ کی حتی کہ وہ قسطنطنیہ کے دروازے پر جا پہنچے.3 663 مَرُورُود، طالقان، فَارِيَاب (Faryab)، جوزجان (Jowz) اور خارستان (Takhar) کی فتوحات 664 132 ہجری کی ہیں.132 ہجری میں حضرت عبد الله بن عامر نے مَرُو رُود، طالقان موجودہ افغانستان میں بلخ اور مروروز کے درمیان علاقہ ہے ، فاریاب یہ بھی افغانستان کا علاقہ ہے.جوزجان، یہ بھی افغانستان کا علاقہ ہے.طخارستان، یہ بھی افغانستان کا علاقہ ہے، یہ سب علاقے فتح کیے.4 ابو الْأَشْهَب سعدی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اَحْنَفُ بن قَيْس کی اہل مَرْوُ رُود، طالقان فَارِيَاب اور جوزجان سے رات کی تاریکی تک جنگ جاری رہی حتی کہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست سے دوچار کیا.665 احنف بن قیس نے اقرع بن حابس کو ایک گھڑ سوار لشکر کے ساتھ جو ز جان کی طرف روانہ کیا.آفر کو اس باقی ماندہ لشکر کی طرف بھیجا گیا تھا جسے آخنَف شکست دے چکا تھا.چنانچہ اقرع بن حابس نے ان سے سخت جنگ کی جس میں ان کے شہ سوار شہید بھی ہوئے تاہم اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا.16 666 بلخ کی فر 32 ہجری میں ہوئی.احنف بن قیس مزوروڈ سے بلخ کی طرف گئے اور وہاں جاکر اہل

Page 361

محاب بدر جلد 3 341 حضرت عثمان بن عفان بلہ کا محاصرہ کر لیا.قدیم بلا خراسان کا ایک اہم ترین شہر تھا اور یہ موجودہ افغانستان کا سب سے قدیم شہر ہے.آر.آج کل قدیم شہر کھنڈر کی شکل میں موجود ہے.دریائے بلخ کے دائیں کنارے سے 12 کلو میٹر دور واقع ہے.وہاں کے لوگوں نے چار لاکھ کی رقم ادا کرنے پر صلح کی درخواست کی جو احنف بن قیس نے قبول کر لی.667 هرات کی مہم 132 ہجری میں ہوئی.حضرت عثمان نے خُلید بن عبد اللہ بن حَنَفِی کو هَرات اور باذغیس کی طرف روانہ کیا انہوں نے ان دونوں کو فتح کر لیا لیکن بعد میں انہوں نے بغاوت کر دی اور قارن بادشاہ کے ساتھ ہو گئے.668 132 ہجری میں حضرت عبد اللہ بن عامر نے خُراسان پر قیس بن هیقم کو اپنا جانشین مقرر کیا اور 669 670 خود وہاں سے روانہ ہو گئے.قارن نے مسلمانوں کے لیے ایک بڑی فوج تیار کر رکھی تھی.قیس بن هيقم امارت عبد اللہ بن خازم کے حوالے کر کے حضرت عبد اللہ بن عامر کے پاس مدد اور کمک کے لیے چلے.کیونکہ فوج کافی تھی جس کا مقابلہ تھا.عبد اللہ بن خَازِم چار ہزار کی فوج لے کر قارن کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے روانہ ہوئے.عبد اللہ بن خَازِم نے چھ سو سپاہیوں کو ہر اول دستے کے طور پر آگے بھیجا اور ان کے پیچھے روانہ ہوئے.وہ ہر اول دستہ آدھی رات کو قارن کے لشکر تک پہنچ گیا اور ان پر حملہ کر دیا.اس اچانک حملے سے دشمن خوفزدہ ہو گیا اور جب مسلمانوں کی باقی فوج پہنچی تو دشمن کو بری طرح شکست ہوئی اور قارن قتل ہوا.مسلمانوں نے تعاقب کیا اور بہت سے لوگوں کو قتل اور گرفتار کر کے قیدی بنالیا.671 حضرت عثمان کے دور میں بر صغیر پاک وہند میں اسلام پہنچ گیا.امام ابو یوسف کتاب الخراج میں امام زہری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مصر اور شام حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتح ہوئے اور افریقیہ اور خراسان اور سندھ کا کچھ علاقہ حضرت عثمان کے دور میں فتح ہوا.672 بر صغیر میں اسلام کی آمد کے متعلق ایک روایت یوں ملتی ہے.673 حضرت عثمان کے عہد میں حضرت عبید اللہ بن معمر کو فوج کا ایک دستہ دے کر مکران اور سندھ کی طرف بھیجا گیا.فتوحات مکر ان میں انہوں نے خوب بہادری کے جوہر دکھائے.بعد ازاں اس نواح کے مفتوحہ علاقوں کی امارت ان کے سپر د ہوئی.3 حضرت مُجاشع بن مسعود سلیمی کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت مُجاشع نے موجودہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اسلامی فوج کے ایک دستہ کی کمان کرتے ہوئے مخالفین اسلام سے جہاد کیا.مؤرخین کے نزدیک اس زمانے میں کابل کا شمار بلاد ہند میں ہو تا تھا.حضرت مجا شغنے حضرت عثمان کے

Page 362

اصحاب بدر جلد 3 342 حضرت عثمان بن عفان دورِ خلافت میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مخالفین اسلام سے جنگ کی اور اس سے ملحقہ علاقے سجستان پر علم لہرایا.اس کے بعد مسلمانوں نے بر صغیر کے ان علاقوں میں سکونت اختیار کر لی اور انہیں اپنا وطن قرار دے دیا تھا.674 حضرت عثمان کے دور خلافت میں فتنہ کی بابت آنحضرت ملی الم کی پیشگوئیاں حضرت عثمان کے دور خلافت میں فتنہ کی بابت آنحضرت لی لی نیم کی پیشگوئیاں بھی ہیں.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی الم نے فرمایا: اے عثمان ! ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے.اگر لوگ تجھ سے اس قمیص کے اتارنے کا مطالبہ کریں تو تو ان کے کہنے پر اسے ہر گزنہ اتارنا.یہ ترمذی کی روایت ہے.675 سنن ابن ماجہ میں یہ روایت اس طرح ہے.حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی ا ہم نے فرمایا: اے عثمان ! اگر اللہ تعالیٰ کسی دن یہ امر تمہارے سپرد کر دے اور منافق تم سے چاہیں کہ تم اپنی قمیص کو جو اللہ نے تمہیں پہنائی ہے اتار دو تو تم اسے نہ اتارنا.آپ نے یہ تین دفعہ فرمایا.راوی نعمان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے عرض کیا کہ آپ کو کس بات نے منع کیا تھا کہ آپ لوگوں کو اس سے آگاہ کریں؟ حضرت عائشہ نے فرمایا مجھے یہ بات بھلا دی گئی تھی.176 حضرت کعب بن عجرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے ایک فتنہ کا ذکر فرمایا اور اسے قریب بنایا تو ایک شخص گزرا.جب بیان فرما ر ہے تھے تو وہاں سے ایک شخص گزرا جس نے سر ڈھانپا ہوا تھا، چادر 677 اوڑھی ہوئی تھی.رسول اللہ صلی یم نے فرمایا کہ یہ شخص اس دن ہدایت پر ہو گا جب یہ فتنہ ہو گا.تو راوی کہتے ہیں کہ میں نے چھلانگ لگائی اور میں نے اس شخص کو پکڑا تو وہ حضرت عثمان تھے.ان کو دونوں بازوؤں سے پکڑا.پھر میں نے رسول اللہ کی طرف رخ کیا اور عرض کیا.کیا یہ ؟ حضور نے فرمایا : ہاں یہی.7 حضرت عائشہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی التمیم نے اپنی بیماری کے دوران فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس بعض صحابہ ہوں.ہم نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا ہم آپ کی خدمت میں ابو بکر کو نہ بلا لیں؟ آپ خاموش رہے.پھر ہم نے کہا کیا ہم آپ کی خدمت میں عمر کو نہ بلا لیں ؟ آپ خاموش رہے.پھر ہم نے کہا کیا ہم آپ کی خدمت میں عثمان کو نہ بلالیں؟ آپ نے فرمایا ہاں.وہ آئے اور آپ صلی علی نیم ان سے تنہائی میں ملے اور نبی صلی ال ام ان سے گفتگو فرمانے لگے اور عثمان کے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا.قیس کہتے ہیں مجھ سے ابو سفلہ جو حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام تھے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عثمان بن عفان نے یوم الدار کے موقع پر بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی تم نے مجھے ایک تاکیدی ارشاد فرمایا تھا اور میں اس کی طرف جارہا ہوں.راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان نے فرمایا.اَنَا صَابِرُ عَلَيْهِ.میں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں.یوم الدار اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن حضرت عثمان کو منافقوں

Page 363

اصحاب بدر جلد 3 343 حضرت عثمان بن عفان نے آپ کے گھر میں محصور کر دیا تھا اور پھر انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا.678 حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں اختلافات کا آغاز اور اس کی وجوہات کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں: حضرت عثمان اور حضرت علی یہ دونوں بزرگ اسلام کے اولین فدائیوں میں سے ہیں اور ان کے ساتھی بھی اسلام کے بہترین ثمرات میں سے ہیں.ان کی دیانت اور ان کے تقویٰ پر الزام کا آنا در حقیقت اسلام کی طرف عار کا منسوب ہونا ہے.اور جو مسلمان بھی سچے دل سے اس حقیقت پر غور کرے گا اُس کو اس نتیجہ پر پہنچنا پڑے گا کہ ان لوگوں کا وجود در حقیقت تمام قسم کی دھڑ بندیوں سے ارفع اور بالا ہے اور یہ بات بے دلیل نہیں بلکہ تاریخ کے اوراق اس شخص کے لئے جو آنکھ کھول کر ان پر نظر ڈالتا ہے اس امر پر شاہد ہیں.جہاں تک میری تحقیق ہے ان بزرگوں اور ان کے دوستوں کے متعلق جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ اسلام کے دشمنوں کی کارروائی ہے اور گو صحابہ کے بعد بعض مسلمان کہلانے والوں نے بھی اپنی نفسانیت کے ماتحت ان بزرگوں میں سے ایک یا دوسرے پر اتہام لگائے ہیں لیکن باوجود اس کے صداقت ہمیشہ بلند و بالا رہی ہے اور حقیقت بھی پردہ خفا کے نیچے نہیں چھپی.حضرت عثمان کے خلاف جو فتنہ اٹھا تھا اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”سوال یہ ہے کہ یہ فتنہ کہاں سے پیدا ہوا؟ اس کا باعث بعض لوگوں نے حضرت عثمان کو قرار دیا ہے اور بعض نے حضرت علی ہو.بعض کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے بعض بدعتیں شروع کر دی تھیں جن سے مسلمانوں میں جوش پیدا ہو گیا اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت علی نے خلافت کے لئے خفیہ کوشش شروع کر دی تھی اور حضرت عثمان کے خلاف مخالفت پیدا کر کے انہیں قتل کرا دیا تا کہ خود خلیفہ بن جائیں.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں.نہ حضرت عثمان نے کوئی بدعت جاری کی اور نہ حضرت علی نے خود خلیفہ بننے کے لئے انہیں قتل کرایا یا ان کے قتل کے منصوبہ میں شریک ہوئے بلکہ اس فتنہ کی اور ہی وجوہات تھیں.679" حضرت عثمان اور حضرت علی کا دامن اس قسم کے الزامات سے بالکل پاک ہے.وہ نہایت مقدس انسان تھے.حضرت عثمان تو وہ انسان تھے جن کے متعلق حضرت رسول کریم صلی الم نے فرمایا کہ انہوں نے اسلام کی اتنی خدمات کی ہیں کہ وہ اب جو چاہیں کریں خدا ان کو نہیں پوچھے گا.“یہ ترمذی کی روایت ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ”اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ خواہ وہ اسلام سے ہی برگشتہ ہو جائیں تو بھی مؤاخذہ نہیں ہو گا بلکہ یہ تھا مطلب اس کا کہ ان میں اتنی خوبیاں پید اہو گئی تھیں اور وہ نیکی میں اس قدر ترقی کر گئے تھے کہ یہ ممکن ہی نہ رہا تھا کہ ان کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو.پس حضرت عثمان ایسے انسان نہ تھے کہ وہ کوئی خلاف شریعت بات جاری کرتے اور نہ حضرت علی ایسے انسان تھے کہ خلافت کے لئے خفیہ منصوبے کرتے.6806

Page 364

اصحاب بدر جلد 3 344 حضرت عثمان بن عفان پھر حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان کی شروع خلافت میں چھ سال تک ہمیں کوئی فساد نظر نہیں آتا بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ عام طور پر آپ سے خوش تھے.بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں وہ حضرت عمرؓ سے بھی زیادہ لوگوں کو محبوب تھے “ یعنی حضرت عثمان حضرت عمرؓ سے بھی زیادہ لوگوں کو محبوب تھے ”صرف محبوب ہی نہ تھے بلکہ لوگوں کے دلوں میں آپے کا رعب بھی تھا جیسا کہ اس وقت کا شاعر اس امر کی شعروں میں شہادت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اے فاسقو! عثمان کی حکومت میں لوگوں کا مال لوٹ کر نہ کھاؤ کیونکہ ابنِ عفان وہ ہے جس کا تجربہ تم لوگ کر چکے ہو.وہ لٹیروں کو قرآن کے احکام کے ماتحت قتل کرتا ہے اور ہمیشہ سے اس قرآن کریم کے احکام کی حفاظت کرنے والا اور لوگوں کے اعضاء وجوارح پر اس کے احکام جاری کرنے والا ہے.لیکن چھ سال کے بعد ساتویں سال ہمیں ایک تحریک نظر آتی ہے اور وہ تحریک حضرت عثمان کے خلاف نہیں بلکہ یا تو صحابہ کے خلاف ہے یا بعض گورنروں کے خلاف.چنانچہ طبری بیان کرتا ہے کہ لوگوں کے حقوق کا حضرت عثمان پورا خیال رکھتے تھے مگر وہ لوگ جن کو اسلام میں سبقت اور قدامت حاصل نہ تھی وہ سابقین اور قدیم مسلمانوں کے برابر نہ تو مجالس میں عزت پاتے اور نہ حکومت میں ان کو ان کے برابر تفضیل پر حصہ ملتا اور نہ مال میں ان کے برابر ان کا حق ہو تا تھا.اس پر کچھ مدت کے بعد بعض لوگ اس تھی گرفت کرنے لگے اور اسے ظلم قرار دینے لگے مگر یہ لوگ عامۃ المسلمین سے ڈرتے بھی تھے اور اس خوف سے کہ لوگ ان کی مخالفت کریں گے اپنے خیالات کو ظاہر نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے یہ طریق اختیار کیا ہوا تھا کہ خفیہ خفیہ صحابہ کے خلاف لوگوں میں جوش پھیلاتے تھے اور جب کوئی ناواقف مسلمان یا کوئی بدوی غلام آزاد شدہ مل جاتا تو اس کے سامنے اپنی شکایات کا دفتر کھول بیٹھتے تھے اور اپنی ناواقفیت کی وجہ سے یا خود اپنے لئے حصولِ جاہ کی غرض سے کچھ لوگ ان کے ساتھ مل جاتے.ہوتے ہوتے یہ گروہ تعداد میں زیادہ ہونے لگا اور اس کی ایک بڑی تعداد ہو گئی.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”جب کوئی فتنہ پیدا ہونا ہوتا ہے تو اس کے اسباب بھی غیر معمولی طور پر جمع ہونے لگتے ہیں.ادھر تو بعض حاسد طبائع میں صحابہ کے خلاف جوش پیدا ہونا شروع ہوا اُدھر وہ اسلامی جوش جو ابتداء ہر ایک مذہب تبدیل کرنے والے کے دل میں ہوتا ہے ان نو مسلموں کے دلوں سے کم ہونے لگا جن کو نہ رسول کریم صلیا کم کی صحبت ملی تھی اور نہ آپ کے صحبت یافتہ لوگوں کے پاس زیادہ بیٹھنے کا موقع ملا تھا بلکہ اسلام کے قبول کرتے ہی انہوں نے خیال کر لیا تھا کہ وہ سب کچھ سیکھ گئے ہیں.جوش اسلام کے کم ہوتے ہی وہ تصرف جو ان کے دلوں پر اسلام کو تھا کم ہو گیا اور وہ پھر ان معاصی میں خوشی محسوس کرنے لگے جس میں وہ اسلام لانے سے پہلے مبتلا تھے.ان کے جرائم پر ان کو سزا ملی تو بجائے اصلاح کے سزا دینے والوں کی تخریب کرنے کے درپے ہوئے اور آخر اتحاد اسلامی میں ایک بہت بڑا رخنہ پیدا کرنے کا موجب ثابت ہوئے.ان لوگوں کا مرکز تو کوفہ میں تھا مگر سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ خود مدینہ منورہ

Page 365

صحاب بدر جلد 3 345 حضرت عثمان بن عفان میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بعض لوگ اسلام سے ایسے ہی ناواقف تھے جیسے کہ آج کل بعض نہایت تاریک گوشوں میں رہنے والے جاہل لوگ.681" خمران ابن آبان ایک شخص تھا جس نے ایک عورت سے اس کی عدت کے دوران میں ہی نکاح کر لیا.جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو آپ اس پر ناراض ہوئے اور اس عورت کو اس سے جدا کر دیا اور اس کے علاوہ اس کو مدینہ سے “ اس شخص کو مدینہ سے ” جلاوطن کر کے بصرہ بھیج دیا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی طرح بعض لوگ صرف اسلام کو قبول کر کے اپنے آپ کو عالم اسلام خیال کرنے لگے تھے اور زیادہ تحقیق کی ضرورت نہ سمجھتے تھے یا یہ کہ مختلف ابا حتی خیالات کے ماتحت شریعت پر عمل کرنا ایک فعل عبث خیال کرتے تھے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حق یہی ہے کہ یہ سب شورش ایک خفیہ منصوبہ کا نتیجہ تھی جس کے اصل بانی یہودی تھے جن کے ساتھ طمع دنیاوی میں مبتلا لبعض مسلمان جو دین سے نکل چکے تھے شامل ہو گئے تھے ورنہ امراء بلاد کا نہ کوئی قصور تھا نہ وہ اس فتنہ کے باعث تھے.“ بعض یہودی اس کے بانی تھے اور ان کے ساتھ بعض مسلمان بھی مل گئے تھے.بہر حال جو مختلف امراء حضرت عثمان کی طرف سے مقرر کئے گئے تھے ان کا کوئی قصور نہیں تھا نہ ہی وہ اس فتنہ کا باعث بنے تھے.ان کا صرف اسی قدر قصور تھا کہ ان کو حضرت عثمان نے اس کام کے لئے مقرر کیا تھا اور حضرت عثمان کا یہ قصور تھا کہ باوجود پیرانہ سالی اور نقاہت بدنی کے اتحاد اسلام کی رسی کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے بیٹھے تھے اور امت اسلامیہ کا بوجھ اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے تھے اور شریعت اسلام کے قیام کی فکر رکھتے تھے اور متمر دین اور ظالموں کو اپنی حسب خواہش کمزوروں اور بے وارثوں پر ظلم و تعدی کرنے نہ دیتے تھے.چنانچہ اس امر کی تصدیق اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ کوفہ میں انہی فساد چاہنے والوں کی ایک مجلس بیٹھی اور اس میں افساد امر المسلمین پر گفتگو ہوئی تو سب لوگوں نے بالا تفاق یہی رائے دی.لَا وَاللهِ لَا يَرْفَعُ رَأْسٌ مَا دَامَ عُلمانُ عَلَى النَّاس یعنی کوئی شخص اس وقت تک سر نہیں اٹھا سکتا جب تک کہ عثمان کی حکومت ہے.عثمان ہی کا ایک وجود تھا جو سرکشی سے باز رکھے " ہوئے تھا.اس کا درمیان سے ہٹا نا آزادی سے اپنی مرادیں پوری کرنے کے لئے ضروری تھا.682 اس فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے ان مفسدوں کو بھی بلوایا اور آنحضرت علی ایم کے صحابہ کو بھی جمع کیا.جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے ان لوگوں کا سب حال سنایا اور وہ دونوں مخبر بھی بطور گواہ کھڑے ہوئے اور گواہی دی جنہوں نے خبریں حضرت عثمان کو پہنچائی تھیں کہ مفسدین کیا فساد پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں.اس پر سب صحابہ نے فتویٰ دیا کہ ان لوگوں کو قتل کر دیا جائے.یہ جو مفسدین ہیں جو اصلاح کے نام پر فساد پھیلا رہے ہیں ان کو قتل کر دیجیے کیونکہ رسول کریم صلی الہی تم نے فرمایا ہے کہ جو شخص ایسے وقت میں کہ ایک امام موجود ہو اپنی

Page 366

اصحاب بدر جلد 3 346 حضرت عثمان بن عفان اطاعت یاکسی اور کی اطاعت کے لیے لوگوں کو بلاوے اس پر خدا کی لعنت ہو.تم ایسے شخص کو قتل کر دو خواہ کوئی ہو.یہ مسلم کی روایت ہے.اور حضرت عمر کا یہ قول یاد دلایا کہ میں تمہارے لیے کسی ایسے شخص کا قتل جائز نہیں سمجھتا جس میں میں شریک نہ ہوں.یعنی سوائے حکومت کے اشارے کے کسی شخص کا قتل جائز نہیں.حضرت عثمان نے صحابہ کا یہ فتویٰ سن کر فرمایا کہ نہیں.ہم ان کو معاف کریں گے اور ان کے عذروں کو قبول کریں گے اور اپنی ساری کوشش سے ان کو سمجھاویں گے اور کسی شخص کی مخالفت نہیں کریں گے جب تک کہ وہ کسی حد شرعی کو نہ توڑے یا اظہار کفر نہ کرے.پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے کچھ باتیں بیان کی ہیں جو تم کو بھی معلوم ہیں مگر ان کا خیال ہے کہ وہ ان باتوں کے متعلق مجھے سے بحث کریں گے تاکہ واپس جا کر کہہ سکیں کہ ہم نے ان امور کے متعلق عثمان سے بحث کی اور وہ ہار گئے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے سفر میں یعنی حضرت عثمان کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے سفر میں پوری نماز ادا کی.ایک سفر کے دوران میں مکہ میں پوری نماز ادا کی حالانکہ رسول کریم صلی علیہ کم سفر میں نماز قصر کیا کرتے تھے.حضرت عثمان کہتے ہیں مگر میں نے صرف منی میں پوری نماز پڑھی ہے اور وہ بھی دو وجہ سے.ایک تو یہ کہ میری وہاں جائیداد تھی اور میں نے وہاں شادی کی ہوئی تھی.دوسرے یہ کہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ چاروں طرف سے لوگ ان دنوں حج کے لیے آئے ہیں.ان میں سے ناواقف لوگ کہنے لگیں گے کہ خلیفہ تو دور کعت پڑھتا ہے اور اس لیے نماز دور کعت ہی ہو گی.کیا یہ بات درست نہیں؟ حضرت عثمان نے صحابہ سے پوچھا کیا یہ بات درست نہیں؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ہاں درست ہے.پھر حضرت عثمان نے فرمایا: دوسرا الزام یہ لگاتے ہیں کہ میں نے رکھ مقرر کرنے کی بدعت جاری کی ہے حالانکہ یہ الزام غلط ہے.رکھ مجھ سے پہلے مقرر کی گئی تھی.حضرت عمرؓ نے اس کی ابتدا کی تھی اور میں نے صرف صدقہ کے اونٹوں کی زیادتی پر اس کو وسیع کیا تھا.جو سرکاری چراگاہ تھی جہاں جانور رکھے جاتے تھے اس کو وسیع کیا تھا اور پھر رکھ میں جو زمین لگائی گئی ہے وہ کسی کا مال نہیں ہے.یہ سرکاری زمین تھی اور میرا اس میں کوئی فائدہ بھی نہیں ہے.میرے تو صرف دو اونٹ ہیں حالانکہ جب میں خلیفہ منتخب ہوا تھا اس وقت میں سب عرب سے زیادہ مالدار تھا.تو حضرت عثمان نے کہا اس وقت میرے پاس صرف دو اونٹ ہیں اور میں سب سے زیادہ مالدار تھا جب خلیفہ منتخب ہو ا ہوں.اب صرف دو اونٹ ہیں جو حج کے لیے رکھے ہوئے ہیں.کیا یہ درست نہیں ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں درست ہے.پھر حضرت عثمان نے فرمایا کہ یہ کہتے ہیں کہ نوجوانوں کو حاکم بناتا ہے حالانکہ میں ایسے ہی لوگوں کو حاکم بنا تا ہوں جو نیک صفات، نیک اطوار ہوتے ہیں اور مجھ سے پہلے بزرگوں نے میرے مقرر کردہ والیوں سے زیادہ نو عمر لوگوں کو حاکم مقرر کیا تھا اور رسول کریم صلی علیکم پر اسامہ بن زید کے سردار لشکر مقرر کرنے پر اس سے زیادہ اعتراض کیے گئے تھے جو اب مجھ پر کیسے جاتے ہیں.کیا یہ درست نہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں درست ہے.پھر حضرت عثمان نے فرمایا کہ یہ لوگوں کے سامنے عیب تو بیان کرتے ہیں مگر

Page 367

اصحاب بدر جلد 3 347 حضرت عثمان بن عفان اصل واقعات نہیں بیان کرتے.غرض اسی طرح حضرت عثمانؓ نے تمام اعتراضات ایک ایک کر کے بیان کیے اور ان کے جواب بیان کیے.صحابہ برابر زور دیتے کہ ان مفسدین کو قتل کر دیا جائے مگر حضرت عثمان نے ان کی یہ بات نہ مانی اور ان کو چھوڑ دیا.طبری کہتا ہے کہ آتِي الْمُسْلِمُوْنَ إِلَّا قَتْلَهُمْ وَأَبِي إِلَّا تز گهُمْ یعنی باقی سب مسلمان تو ان لوگوں کے قتل کے سوا کسی بات پر راضی نہ ہوتے تھے مگر حضرت عثمان سزا دینے پر کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسد لوگ کس کس قسم کے فریب اور دھوکے سے کام کرتے تھے اور اس زمانے میں جبکہ پر لیں اور سامانِ سفر کا وہ انتظام نہ تھا جو آج کل ہے.کیسا آسان تھا کہ یہ لوگ ناواقف لوگوں کو گمراہ کر دیں.اصل میں ان لوگوں کے پاس کوئی معقول وجہ فساد کی نہیں تھی.نہ حق ان کے ساتھ تھانہ یہ حق کے ساتھ تھے.ان کی تمام کارروائیوں کا دارو مدار جھوٹ اور باطل پر تھا اور صرف حضرت عثمان کار حم ان کو بچائے ہوئے تھا ورنہ مسلمان ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے.وہ یعنی صحابہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے اور جو پرانے مسلمان تھے یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ وہ امن و امان جو انہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے حاصل کیا تھا چند شریروں کی شرارتوں سے اس طرح جاتا رہے اور وہ دیکھتے تھے کہ ایسے لوگوں کو جلد سزا نہ دی گئی تو اسلامی حکومت تہ و بالا ہو جائے گی مگر حضرت عثمان رحم مجسم تھے.وہ چاہتے تھے کہ جس طرح ہو ان لوگوں کو ہدایت مل جائے اور یہ کفر پر نہ مریں.پس آپ ڈھیل دیتے تھے اور ان کے صریح بغاوت کے اعمال کو محض ارادہ بغاوت سے تعبیر کر کے سزا کو پیچھے ڈالتے چلے جاتے تھے.اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ ان لوگوں سے بالکل متنفر تھے کیونکہ اول تو خود وہ بیان کرتے ہیں کہ صرف تین اہل مدینہ ہمارے ساتھ ہیں یعنی مفسدین نے صرف تین اہل مدینہ کا نام لیا جو اُن کے ساتھ تھے اس سے زیادہ نہیں.اگر اور صحابہ بھی ان کے ساتھ ہوتے تو وہ ان کا نام بھی لیتے.دوسرے صحابہ نے اپنے عمل سے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ ان لوگوں کے افعال سے متنفر تھے اور ان کے اعمال کو ایسا خلاف شریعت سمجھتے تھے کہ سزا قتل سے کم ان کے نزدیک جائز ہی نہ تھی.اگر صحابہ ان کے ساتھ ہوتے یا اہل مدینہ ان کے ہم خیال ہوتے تو کسی مزید حیلہ وبہانہ کی ان لوگوں کو کوئی ضرورت ہی نہ تھی.اسی وقت وہ لوگ حضرت عثمان کو قتل کر دیتے اگر مدینہ والے بہت سارے ان کے ساتھ ہوتے اور ان کی جگہ کسی اور شخص کو خلافت کے لیے منتخب کر لیتے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ یہ لوگ حضرت عثمان کے قتل میں کامیاب ہوتے خود ان کی جانیں صحابہ کی شمشیر ہائے بر ہنہ سے خطرے پڑ گئی تھیں اور صرف اسی رحیم و کریم وجود کی عنایت و مہربانی سے یہ لوگ بیچ کر واپس جاسکے جس کے قتل کا ارادہ ظاہر کرتے تھے اور جس کے خلاف اس قدر فساد برپا کر رہے تھے.ان مفسدوں کی کینہ وری اور تقویٰ سے بُعد پر تعجب آتا ہے.اس واقعہ سے انہوں نے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھایا.ان کے ایک

Page 368

اصحاب بدر جلد 3 348 683 حضرت عثمان بن عفان ایک اعتراض کا خوب جواب دیا گیا اور سب الزام غلط اور بے بنیاد ثابت کر دیے گئے.حضرت عثمان کا رحم و کرم انہوں نے دیکھا اور ہر ایک شخص کی جان اس پر گواہی دے رہی تھی کہ اس شخص کا مثیل اتنار حم کرنے والا اس وقت دنیا کے پردے پر نہیں مل سکتا مگر بجائے اس کے کہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتے ، جفاؤں پر پشیمان ہوتے ، اپنی غلطیوں پر نادم ہوتے، اپنی شرارتوں سے رجوع کرتے.یہ لوگ غیظ و غضب کی آگ میں اور بھی زیادہ جلنے لگے اور اپنے لاجواب ہونے کو اپنی ذلت اور حضرت عثمان کے عفو اور اپنے حسن تدبیر کا نتیجہ سمجھتے ہوئے آئندہ کے لئے اپنی بقیہ تجویز کے پورے کرنے کی تدابیر سوچتے ہوئے یہ لوگ واپس چلے گئے.13 حضرت عثمان کے خلاف جو فتنہ اٹھا تھا اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے جو بیان فرمایا ہے اس کا ذکر ہو رہا تھا.اس بارے میں مزید فرماتے ہیں اور زیادہ تر حوالے آپ نے طبری سے لے کر پھر ان کا تجزیہ کیا ہے یا اس کے مطابق آگے اپنا جو نقطہ نظر ہے اور جو تجزیہ ہے وہ پیش کیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ یہ تین لوگ یعنی محمد بن ابو بکر ، محمد بن حذیفہ اور عمار بن یاسر جو تھے یہ باغیوں کے ساتھ مل گئے تھے ، ان کی باتوں میں آگئے تھے.فرمایا کہ اس کے سوا باقی شخص اہل مدینہ میں سے صحابی ہو یا غیر صحابی ان مفسدوں کا ہمد رد نہ تھا اور ہر ایک شخص ان پر لعنت ملامت کر تا تھا مگر ان کے ہاتھ میں اس وقت انتظام نہ تھا.یہ کسی کی ملامت کی پروانہ کرتے تھے.بیس دن تک یہ لوگ یعنی مخالفین جو تھے یہ صرف زبانی طور پر کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح حضرت عثمان خلافت سے دستبردار ہو جائیں مگر حضرت عثمان نے اس امر سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ جو قمیص مجھے خدا تعالیٰ نے پہنائی ہے میں اسے اتار نہیں سکتا اور نہ امت محمدیہ صلی اللہ ہم کو بے پناہ چھوڑ سکتا ہوں کہ جس کا جو جی چاہے دوسرے پر ظلم کرے.ان لوگوں کو ، باغیوں کو بھی یہ سمجھاتے رہے کہ اس فساد سے باز آجائیں اور فرماتے رہے کہ آج یہ لوگ فساد کرتے ہیں اور میری زندگی سے بیزار ہیں.آپؐ نے فرمایا یہ لوگ جو آج فساد کر رہے ہیں اور میری زندگی سے بیزار ہیں مگر جب میں نہ رہوں گا تو خواہش کریں گے کہ کاش عثمان کی عمر کا ایک ایک دن ایک ایک سال سے بدل جاتا اور وہ ہم سے جلد رخصت نہ ہو تا کیونکہ میرے بعد سخت خونریزی ہو گی اور حقوق کا اتلاف ہو گا اور انتظام کچھ کا کچھ بدل جائے گا.چنانچہ بنو امیہ کے زمانے میں خلافت حکومت سے بدل گئی اور ان مفسدوں کو ایسی سزائیں ملیں کہ سب شرارتیں ان کو بھول گئیں.بہر حال میں دن گزرنے کے بعد یہ مخالفین جو تھے، باغی جو تھے ان لوگوں کو خیال ہوا کہ جلد ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے تا ایسانہ ہو کہ صوبہ جات سے فوجیں آجائیں اور ہمیں اپنے اعمال کی سزا بھگتنی پڑے.پتہ تھا کہ ہم غلط ہیں اور اکثریت جو مسلمانوں کی ہے وہ حضرت عثمان کے ساتھ ہے.اس لیے انہوں نے حضرت عثمان کا گھر سے نکلنا بند کر دیا اور کھانے پینے کی چیزوں کا اندر جانا بھی روک دیا اور سمجھے کہ شاید اس طرح مجبور ہو کر حضرت عثمان ہمارے مطالبات کو قبول کر لیں گے لیکن آپ نے تو

Page 369

صحاب بدر جلد 3 349 حضرت عثمان بن عفان فرمایا تھا کہ جو قمیص مجھے اللہ تعالیٰ نے پہنائی ہے وہ میں کس طرح اتار سکتا ہوں.بہر حال مدینہ کا انتظام انہی لوگوں کے ہاتھ میں تھا اور انہوں نے مل کر مصر کی فوجوں کے سردار غافقی کو اپنا سر دار تسلیم کر لیا تھا.اس طرح مدینہ کا حاکم گویا اس وقت غافقی تھا اور کو فہ کی فوج کا سردار اشتر تھا اور بصرہ کی فوج کا سردار حکیم بن جَبَلہ تھا، وہی ڈاکو جسے اہل ذمہ کے مال لوٹنے پر حضرت عثمان نے بصرہ میں نظر بند کر دینے کا حکم دیا تھا.وہ ڈا کو سر دار بن گیا تھا.دونوں غافقی کے ماتحت کام کرتے تھے.حکیم بن جبلہ بھی اور اشتر بھی غافقی کے ماتحت کام کرنے لگے اور آپ فرماتے ہیں کہ اس سے ایک دفعہ پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس فتنے کی جڑ مصری تھے جہاں عبد اللہ بن سبا کام کر رہا تھا.مسجد نبوی میں غافقی نماز پڑھاتا تھا اور رسول کریم صلی علیہ نیم کے صحابہ اپنے گھروں میں مقید رہتے یا اس کے پیچھے نماز ادا کرنے پر مجبور تھے.جب تک ان لوگوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا تب تک تو لوگوں سے زیادہ تعارض نہیں کرتے تھے مگر محاصرہ کرنے کے ساتھ ہی ان باغیوں نے دوسرے لوگوں پر بھی سختیاں شروع کر دیں.اب یہ پنبہ دارالامن کی بجائے دارالحرب ہو گیا تھا.اہل مدینہ کی عزت اور نگ و ناموس خطرے میں تھی اور کوئی شخص اسلحہ کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا تھا اور جو شخص ان کا مقابلہ کرتا اسے یہ لوگ قتل کر دیتے تھے.جب ان لوگوں نے حضرت عثمان کا محاصرہ کر لیا اور پانی تک اندر جانے سے روک دیا تو حضرت عثمان نے اپنے ایک ہمسائے کے لڑکے کو حضرت علیؓ اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور امہات المومنین کی طرف بھیجا کہ ان لوگوں نے ہمارا پانی بھی بند کر دیا ہے.آپ لوگوں سے اگر کچھ ہو سکے تو کوشش کریں اور ہمیں پانی پہنچائیں.مردوں میں سب سے پہلے حضرت علی آئے اور آپؐ نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ تم لوگوں نے کیا رویہ اختیار کیا ہے.تمہارا عمل تو نہ مومنوں سے ملتا ہے نہ کافروں سے.حضرت عثمان کے گھر میں کھانے پینے کی چیزیں مت روکو.حضرت علی نے ان کو فرمایا کہ روم اور فارس کے لوگ بھی قید کرتے ہیں تو کھانا کھلاتے ہیں اور پانی پلاتے ہیں اور اسلامی طریق کے موافق تو تمہارا یہ فعل کسی طرح بھی جائز نہیں کیونکہ حضرت عثمان نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم ان کو قید کر دینے اور قتل کر دینے کو جائز سمجھنے لگے ہو.حضرت علی کی اس نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اس شخص تک دانہ پانی نہ پہنچنے دیں گے.یہ وہ جواب تھا جو انہوں نے اس شخص کو دیا جسے وہ رسول کریم ملی الم کا وصی اور آپ کا حقیقی جانشین قرار دیتے تھے.حضرت علی کے بارے میں ہی کہتے تھے ناں کہ یہ حقیقی جانشین ہے، اور اُن کو یہ جواب مل رہا ہے.اور کیا اس جواب کے بعد کسی اور شہادت کی بھی اس امر کے ثابت کرنے کے لیے ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ حضرت علی کو وصی قرار دینے والا گروہ حق کی حمایت اور اہل بیت کی محبت کی خاطر اپنے گھروں سے نہیں نکلا تھا بلکہ یہ لوگ اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنے کے لیے آئے تھے.

Page 370

اصحاب بدر جلد 3 350 حضرت عثمان بن عفان امہات المومنین میں سے سب سے پہلے حضرت ام حبیبہ آپ کی مدد کے لیے آئیں.ایک خچر پر آپ سوار تھیں.آپ اپنے ساتھ ایک مشکیزہ پانی کا بھی لائیں لیکن اصل غرض آپ کی یہ تھی کہ بنو امیہ کے تیتامی اور بیواؤں کی وصیتیں حضرت عثمان کے پاس تھیں اور آپ نے جب دیکھا کہ حضرت عثمان کا پانی باغیوں نے بند کر دیا ہے تو آپ کو خوف ہوا کہ وہ وصایا بھی کہیں تلف نہ ہو جائیں اور آپ نے چاہا کہ کسی طرح وہ وصایا محفوظ کرلی جائیں ورنہ پانی آپ کسی اور ذریعہ سے بھی پہنچا سکتی تھیں.جب آپ حضرت عثمان کے دروازے تک پہنچیں تو باغیوں نے آپ کو روکنا چاہا.لوگوں نے بتایا کہ یہ ام المومنین ام حبیبہ ہیں مگر اس پر بھی وہ لوگ باز نہ آئے اور آپ کی خچر کو مارناشروع کیا.ام المومنین ام حبیبہ نے ان لوگوں کو، باغیوں کو فرمایا کہ میں ڈرتی ہوں کہ بنو امیہ کے یتامی اور بیو گان کی وصایا ضائع نہ ہو جائیں اس لیے اندر جانا چاہتی ہوں تاکہ ان کی حفاظت کا سامان کر دوں.مگر ان بد بختوں نے آنحضرت صلی علیم کی زوجہ مطہرہ کو جواب دیا کہ تم جھوٹ بولتی ہو اور آپ کی خچر پر حملہ کر کے اس کے پالان کے رستے کاٹ دیے اور زمین الٹ گئی اور قریب تھا کہ حضرت ام حبیبہ گر کر ان مفسدوں کے پیروں کے نیچے روندی جا کر شہید ہو جاتیں کہ بعض اہل مدینہ نے جو قریب تھے جھپٹ کر آپ کو سنبھالا اور گھر پہنچایا.یہ وہ سلوک تھا جو ان لوگوں نے آنحضرت صلی للی کم کی زوجہ مطہرہ سے کیا.حضرت ام حبیبہ آنحضرت صلی علیم سے ایسا اخلاص اور عشق رکھتی تھیں کہ جب پندرہ سولہ سال کی جدائی کے بعد، والدین سے جو ان کی جدائی تھی اس کے بعد جب آپ کا باپ جو عرب کا سر دار تھا اور مکہ میں ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا ایک خاص سیاسی مشن پر مدینہ آیا اور آپ ( ام حبیبہ) کو ملنے کے لیے بھی گیا تو آپ نے اس کے نیچے سے رسول کریم صلی للہ یکم کا بستر کھینچ لیا.جب وہ بیٹھنے لگا تو نیچے آنحضرت صلی علیہ کس کا بستر بچھا ہوا تھا.جب آپ کا باپ بیٹھنے لگا تو آپ نے بستر بھینچ لیا اس لیے کہ خدا کے رسول کے پاک کپڑے سے ایک مشرک کے تجس جسم کو چھوتے ہوئے دیکھنا آپ کی طاقت برداشت سے باہر تھا، باپ کو بھی نہیں بیٹھنے دیا.تعجب ہے کہ حضرت ام حبیبہ نے تو محمد رسول اللہ صلی ہی کم کی غیبت میں آپ کے کپڑے تک کی حرمت کا خیال رکھا مگر ان مفسدوں نے محمد رسول اللہ صلی علیم کی غیبت میں آپ کی حرم محترم کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا.نادانوں نے کہا کہ رسول کریم ملی ایم کی بیوی جھوٹی ہیں حالانکہ جو کچھ انہوں نے فرمایا تھا وہ درست تھا.حضرت عثمان بنو امیہ کے یتامی کے ولی تھے اور ان لوگوں کی بڑھتی ہوئی عداوت کو دیکھ کر آپنے کا خوف درست تھا.ام حبیبہ کا خوف درست تھا کہ یتامی اور بیواؤں کے اموال ضائع نہ ہو جائیں.جھوٹے وہ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی ال نیم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے ان کے دین کی تباہی کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا، نہ ام المومنین ام حبیبہ آپ جھوٹی نہیں تھیں.حضرت اُم حبیبہ کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا گیا تھا جب اس کی خبر مدینہ میں پھیلی تو صحابہ اور اہل مدینہ حیران رہ گئے اور سمجھ لیا کہ اب ان لوگوں سے کسی رض

Page 371

حاب بدر جلد 3 351 حضرت عثمان بن عفان رض قسم کی خیر کی امید رکھنی فضول ہے.حضرت عائشہ نے اسی وقت حج کا ارادہ کر لیا اور سفر کی تیاری شروع کر دی.جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپ مدینہ سے جانے والی ہیں تو بعض نے آپ سے درخواست کی کہ اگر آپ یہیں ٹھہریں تو شاید فتنہ کے روکنے میں کوئی مدد ملے اور باغیوں پر کچھ اثر ہو مگر انہوں نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ مجھ سے بھی وہی سلوک ہو جو ام حبیبہ سے ہوا ہے.خدا کی قسم ! میں اپنی عزت کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی کیونکہ وہ رسول کریم صلی الی یکم کی عزت تھی.اگر کسی قسم کا معاملہ مجھ سے کیا گیا تو میری حفاظت کا کیا سامان ہو گا ؟ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ لوگ اپنی شرارتوں میں کہاں تک ترقی کریں گے اور ان کا کیا انجام ہو گا.حضرت عائشہ صدیقہ نے چلتے چلتے ایک ایسی تدبیر کی ، جب حج پر جانے لگیں تو ایک ایسی تدبیر کی جو اگر کار گر ہو جاتی تو شاید فساد میں کچھ کمی ہو جاتی اور وہ تدبیر یہ تھی کہ اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کو کہلا بھیجا جو اپنی لاعلمی کی وجہ سے یا چھوٹے ہونے کی وجہ سے، کمزور ایمان کی وجہ سے ان باغیوں کے ساتھ تھے کہ تم بھی میرے ساتھ حج کو چلو مگر انہوں نے انکار کر دیا.اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا کیا کروں بے بس ہوں.اگر میری طاقت ہوتی تو ان لوگوں کو اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہ ہونے دیتی.حضرت عائشہ تو حج پر تشریف لے گئیں اور بعض صحابہ بھی جن سے ممکن ہو سکا اور مدینہ سے نکل سکے مدینہ سے تشریف لے گئے اور باقی لوگ سوائے چند اکابر صحابہ کے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اور آخر حضرت عثمان کو بھی یہ محسوس ہو گیا کہ یہ لوگ نرمی سے مان نہیں سکتے اور آپ نے ایک خط تمام والیانِ صوبہ جات کے نام روانہ کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے بعد بلاکسی خواہش یا درخواست کے مجھے ان لوگوں میں شامل کیا گیا تھا جنہیں خلافت کے متعلق مشورہ کرنے کا کام سپر د کیا گیا تھا.حضرت عثمان نے جو خط لکھا اس میں یہ فرمایا.پھر فرمایا پھر بلامیری خواہش یا سوال کے مجھے خلافت کے لیے چنا گیا اور میں برابر وہ کام کرتا رہا جو مجھ سے پہلے خلفاء کرتے رہے اور میں نے اپنے پاس سے کوئی بدعت نہیں نکالی لیکن چند لوگوں کے دلوں میں بدی کا بیج بویا گیا اور شرارت جاگزیں ہوئی اور انہوں نے میرے خلاف منصوبے کرنے شروع کر دیے اور لوگوں کے سامنے کچھ ظاہر کیا اور دل میں کچھ اور رکھا اور مجھ پر وہ الزام لگانے شروع کیے جو مجھ سے پہلے خلفاء پر بھی لگتے تھے لیکن میں معلوم ہوتے ہوئے خاموش رہا اور یہ لوگ میرے رحم سے ناجائز فائدہ اٹھا کر شرارت میں اور بھی بڑھ گئے اور آخر کفار کی طرح مدینہ پر حملہ کر دیا.پس آپ لوگ اگر کچھ کر سکیں تو مدد کا انتظام کریں.اسی طرح ایک خط، جس کا خلاصہ مطلب اس طرح ہے ، جو حج پر آنے والوں کے نام لکھ کر کچھ دن کے بعد مکہ میں روانہ کیا.آپ نے حاجیوں کے لیے لکھا کہ میں آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور اس کے انعامات یاد دلاتا ہوں.اس وقت کچھ لوگ فتنہ پردازی کر رہے ہیں اور اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش میں مشغول ہیں مگر ان لوگوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ (النور: 56) یعنی اللہ

Page 372

اصحاب بدر جلد 3 352 حضرت عثمان بن عفان ها الله سة تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنادے گا اور اتفاق کی قدر نہیں کرتے.فرمایا کہ اور اتفاق کی قدر نہیں کرتے حالانکہ خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا (آل عمران : 104) کہ تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو.پھر آپ نے فرمایا اور مجھ پر الزام لگانے والوں کی باتوں کو قبول کیا اور قرآن کریم کے اس حکم کی پرواہ نہ کی کہ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوا (الحجرات: 7) یعنی اے مومنو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق اہم خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو.پھر فرمایا کہ اور میری بیعت کا ادب نہیں کیا حالا نکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی علیکم کی نسبت فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ :11) یعنی وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ صرف اللہ کی بیعت کرتے ہیں.فرمایا اور میں رسول کریم صلی المیہ یکم کا نائب ہوں یعنی یہی حکم جو ہے یہی بات جو ہے مجھ پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ میں رسول کریم صلی یکم کا نائب ہوں.کوئی امت بغیر سر دار کے ترقی نہیں کر سکتی اور اگر کوئی امام نہ ہو تو جماعت کا تمام کام خراب و بر باد ہو جائے گا.پھر آپ نے آگے تحریر فرمایا کہ یہ لوگ امت اسلامیہ کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں اور اس کے سوا ان کی کوئی غرض نہیں کیونکہ میں نے ان کی بات کو قبول کر لیا تھا اور والیوں کے بدلنے کا وعدہ کر لیا تھا مگر انہوں نے اس پر بھی شرارت نہ چھوڑی.اب یہ تین باتوں میں سے ایک کا مطالبہ کرتے ہیں.تین مطالبے انہوں نے ، باغیوں نے سامنے رکھے تھے.اول یہ کہ جن لوگوں کو میرے عہد میں سزا ہے ان سب کا قصاص مجھ سے لیا جائے.اگر یہ مجھے منظور نہ ہو تو پھر خلافت کو چھوڑ دوں.اگر میں لوگوں کا قصاص نہیں دیتا جن کو سزادی ہے تو پھر میں خلافت کو چھوڑ دوں اور یہ لوگ میری جگہ کسی اور کو مقرر کر دیں.یہ بھی نہ مانوں تو پھر یہ لوگ دھمکی دیتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے تمام ہم خیال لوگوں کو پیغام بھیجیں گے کہ میری اطاعت سے باہر ہو جائیں.اگر یہ نہ مانوں تو پھر یہ دھمکی دیتے ہیں کہ میری اطاعت سے باہر نکل جاؤ.پہلی بات کا تو یہ جواب ہے کہ مجھ سے پہلے خلفاء بھی کبھی فیصلوں میں غلطی کرتے تھے مگر ان کو کبھی سزا نہ دی گئی.جو غلط فیصلے بھی ہوئے ان کے قصاص پہلے خلفاء نے نہیں دیے.نہ ان کو کسی قسم کی کوئی سزا ملی اور اسی طرح میں نے کیا ہے اور اس قدر سزائیں مجھ پر جاری کرنے کا مطلب سوائے مجھے مارنے کے اور کیا ہو سکتا ہے ! یہ باتیں تم جو کر رہے ہو کہ قصاص دو یا سز ا لو تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ تم مجھے مارنا چاہتے ہو.پھر فرمایا خلافت سے معزول ہونے کا جواب میری طرف سے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ موچنوں سے نوچ نوچ کے میری بوٹیاں کر دیں تو یہ مجھے منظور ہے مگر خلافت سے میں جدا نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ نے قمیص پہنائی ہے کبھی نہیں ہو سکتا کہ چھوڑ دوں.باقی رہی تیسری بات کہ پھر یہ لوگ اپنے آدمی چاروں طرف بھیجیں گے کہ کوئی میری بات نہ مانے.سو میں خدا کی طرف سے ذمہ دار نہیں ہوں.اگر یہ لوگ ایک امر خلاف شریعت کرنا چاہتے ہیں تو کریں.پہلے بھی جب انہوں نے میری بیعت

Page 373

اصحاب بدر جلد 3 353 حضرت عثمان بن عفان کی تھی تو ان پر میں نے جبر نہیں کیا تھا.ان کو مجبور نہیں کیا تھا کہ ضرور میری بیعت کرو.جو شخص عہد توڑنا چاہتا ہے میں اس کے اس فعل پر راضی نہیں نہ خدا تعالیٰ راضی ہے.اب عہد کو توڑنا چاہتے ہو تو توڑو.میں نے نہ پہلے جبر کیا تھانہ اب جبر کروں گا.ہاں میں راضی بہر حال نہیں.یہ بہر حال غلط کام ہے.اور اللہ تعالیٰ بھی اس پر راضی نہیں ہے.ہاں وہ اپنی طرف سے جو چاہے کرے.کیونکہ حج کے دن قریب آ رہے تھے اور چاروں طرف سے لوگ مکہ مکرمہ میں جمع ہو رہے تھے.حضرت عثمان نے اس خیال سے کہ کہیں وہاں بھی یہ باغی کوئی فساد کھڑا نہ کریں اور اس خیال سے بھی کہ حج کے لیے جمع ہونے والے مسلمانوں میں اہل مدینہ کی مدد کی تحریک کریں، حضرت عبد اللہ بن عباس کو حج کا امیر بنا کر روانہ فرمایا.حضرت عبد اللہ بن عباس نے بھی عرض کی کہ ان لوگوں سے جہاد کرنا مجھے زیادہ پسند ہے.آپنے مجھے حج کے لیے امیر بنا کے بھیج رہے ہیں لیکن میری خواہش یہ ہے کہ میں ان لوگوں سے جہاد کروں مگر حضرت عثمان نے ان کو مجبور کیا کہ وہ حج کے لیے جاویں اور حج کے ایام میں امیر حج کا کام کریں تا کہ مفسد وہاں اپنی شرارت نہ پھیلا سکیں اور وہاں جمع ہونے والے لوگوں میں بھی مدینہ کے لوگوں کی مدد کی تحریک کی جاوے اور مذکورہ بالا خط آپ ہی کے ہاتھ روانہ کیا.جب ان خطوں کا ان مفسدوں کو علم ہوا تو انہوں نے اور بھی سختی کرنا شروع کر دی اور اس بات کا موقع تلاش کرنے لگے کہ کسی طرح لڑائی کا کوئی بہانہ مل جائے تو حضرت عثمان کو شہید کر دیں مگر ان کی تمام کوششیں فضول جاتی تھیں اور حضرت عثمان ان کو کوئی موقع شرارت کا ملنے نہ دیتے تھے.آخر تنگ آکر یہ تدبیر سو جبھی کہ جب رات پڑتی اور لوگ سو جاتے تو یہ لوگ حضرت عثمان کے گھر میں پتھر پھینکتے اور اس طرح اہل خانہ کو اشتعال دلاتے تاکہ جوش میں آکر وہ بھی پتھر پھینکیں تو لو گوں کو کہہ سکیں کہ دیکھو انہوں نے ہم پہ حملہ کیا ہے اس لیے ہم بھی جواب دینے پر مجبور ہیں مگر حضرت عثمان نے اپنے تمام اہل خانہ کو جواب دینے سے روک دیا.کچھ جواب نہیں دینا.ایک دن موقع پا کر دیوار کے پاس حضرت عثمان تشریف لائے اور فرمایا کہ اے لوگو! میں تو تمہارے نزدیک تمہارا گناہگار ہوں، تم سمجھتے ہو ناں مجھے گناہگار تو گناہگار ہوں مگر دوسرے لوگوں نے کیا قصور کیا ہے ؟ تم سمجھتے ہو کہ میں گناہ گار ہوں تو پھر مجھ سے جو زیادتی کرنی ہے کرو.دوسرے لوگوں نے کیا قصور کیا ہے کہ تم پتھر پھینکتے ہو.اس سے دوسروں کو بھی چوٹ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے.انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ ہم نے پتھر نہیں پھینکے.حضرت عثمان نے فرمایا کہ اگر تم نہیں پھینکتے تو اور کون پھینکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ خد اتعالیٰ پھینکتا ہو گا.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ - حضرت عثمان نے فرمایا کہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو.اگر خدا تعالیٰ ہم پر پتھر پھینکتا تو اس کا کوئی پتھر خطا نہ جاتا.یہ نہ ہو تا کہ اس کا نشانہ اچک جاتا لیکن تمہارے پھینکے ہوئے پتھر تو ادھر اُدھر جاپڑتے ہیں.یہ فرما کر آپ ان کے سامنے سے ہٹ گئے.گو صحابہ کو اب حضرت عثمان کے پاس جمع ہونے کا موقع نہ دیا جاتا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے فرض سے

Page 374

اصحاب بدر جلد 3 354 حضرت عثمان بن عفان غافل نہ تھے.مصلحت وقت کے ماتحت انہوں نے دو حصوں میں اپنا کام تقسیم کیا ہو ا تھا.جو سن رسیدہ تھے، بوڑھے تھے اور جن کا اخلاقی اثر عوام پر زیادہ تھاوہ تو اپنے اوقات کو لوگوں کو سمجھانے پر صرف کرتے اور جو لوگ ایسا کوئی اثر نہ رکھتے تھے یا نوجوان تھے وہ حضرت عثمان کی حفاظت کی کوشش میں لگے رہتے.اوّل الذکر جماعت میں سے حضرت علی اور حضرت سعد بن وقاص فاتح فارس فتنہ کے کم کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں تھے.خصوصاً حضرت علی تو اس فتنہ کے ایام میں اپنے تمام کام چھوڑ کر اس کام میں لگ گئے تھے.چنانچہ ان واقعات کی رؤیت کے گواہوں میں سے ایک شخص عبد الرحمن نامی بیان کرتا ہے کہ ان ایام فتنہ میں میں نے دیکھا ہے کہ حضرت علی نے اپنے تمام کام چھوڑ دیے تھے اور حضرت عثمان کے دشمنوں کا غضب ٹھنڈا کرنے اور آپ کی تکالیف دور کرنے کی فکر میں ہی رات دن لگے رہتے تھے.ایک دفعہ آپ تک پانی پہنچنے میں کچھ دیر ہوئی تو حضرت طلحہ پر جن کے سپرد یہ کام تھا حضرت علی نسخت ناراض ہوئے اور اس وقت تک آرام نہ کیا جب تک پانی حضرت عثمان کے گھر میں پہنچ نہ گیا.دوسر ا گر وہ ایک ایک دو دو کر کے جس جس وقت موقع ملتا تھا تلاش کر کے حضرت عثمان یا آپ کے ہمسائے کے گھروں میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور اس نے اس امر کا پختہ ارادہ کر لیا کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر حضرت عثمان کی جان پر آنچ نہ آنے دیں گے.اس گروہ میں حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی اولاد کے سوائے خود صحابہ میں سے بھی ایک جماعت شامل تھی.یہ لوگ رات اور دن حضرت عثمان کے مکان کی حفاظت کرتے تھے اور آپ تک کسی دشمن کو پہنچنے نہ دیتے تھے.اور گو یہ قلیل تعداد اس قدر کثیر تعداد کا مقابلہ تو نہ کر سکتی تھی مگر چونکہ باغی چاہتے تھے کہ کوئی بہانہ رکھ کر حضرت عثمان کو قتل کریں وہ بھی اس قدر زور نہ دیتے تھے.اس وقت کے حالات سے حضرت عثمان کی اسلامی خیر خواہی پر جو روشنی پڑتی ہے اس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے.تین ہزار کے قریب باغیوں کا لشکر آپ کے دروازے کے سامنے پڑا ہے اور کوئی تدبیر اس سے بچنے کی نہیں مگر جو لوگ آپ کو بچانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں ان کو بھی آپ روکتے ہیں کہ جاؤ اپنی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالو.ان لوگوں کو صرف مجھ سے عداوت ہے تم سے کوئی تعارض نہیں.آپ کی آنکھ اس وقت کو دیکھ رہی تھی جبکہ اسلام ان مفسدوں کے ہاتھوں سے ایک بہت بڑے خطرے میں ہو گا اور صرف ظاہری اتحاد ہی نہیں بلکہ روحانی انتظام بھی پراگندہ ہونے کے قریب ہو جاوے گا اور آپ جانتے تھے کہ اس وقت اسلام کی حفاظت اور اس کے قیام کے لیے ایک ایک صحابی کی ضرورت ہو گی.پس آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپؐ کی جان بچانے کی بے فائدہ کوشش میں صحابہ کی جانیں جاویں اور سب کو یہی نصیحت کرتے تھے کہ ان لوگوں سے تعارض نہ کرو اور چاہتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے آئندہ فتنوں کو دور کرنے کے لیے وہ جماعت محفوظ رہے جس نے رسول کریم رسول اللہ صلی علیکم کی صحبت پائی ہے مگر باوجود آپ کے سمجھانے کے جن صحابہ کو آپ کے گھر تک پہنچنے کا موقع مل جاتا وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کو تاہی نہ کرتے اور آئندہ کے خطرات پر موجودہ خطرے کو مقدم رکھتے اور اگر ان کی

Page 375

حاب بدر جلد 3 355 حضرت عثمان بن عفان جانیں اس عرصہ میں محفوظ تھیں تو صرف اس لیے کہ ان لوگوں کو جلدی کی کوئی ضرورت نہ معلوم ہوتی تھی.یعنی ان لوگوں کو جو باغی تھے جلدی کی کوئی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی اور بہانہ کی تلاش تھی.بہانہ یہ تھا کہ اس دن حضرت عثمان پر حملہ کریں.لیکن وہ وقت بھی آخر آگیا جبکہ زیادہ انتظار کرنانا ممکن ہو گیا کیونکہ حضرت عثمان کا دل کو ہلا دینے والا وہ پیغام جو آپ نے حج پر جمع ہونے والے مسلمانوں کو بھیجا تھا حجاج کے مجمع میں سنادیا گیا اور وادی مکہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس کی آواز سے گونج رہی تھی.اور حج پر جمع ہونے والے مسلمانوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ حج کے بعد جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہ رہیں گے اور مصری مفسدوں اور ان کے ساتھیوں کا قلع قمع کر کے چھوڑیں گے.مفسدوں کے جاسوسوں نے انہیں اس ارادے کی اطلاع دے دی اور اب ان مفسدوں کے کیمپ میں سخت گھبراہٹ کے آثار تھے.حتی کہ ان میں چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں کہ اب اس شخص کے قتل کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اگر اسے ہم نے قتل نہ کیا تو مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہمارے قتل میں اب کوئی شبہ نہیں.اس گھبراہٹ کو اس خبر نے اور بھی دوبالا کر دیا کہ شام اور کوفہ اور بصرہ میں بھی حضرت عثمان کے خطوط پہنچ گئے ہیں اور وہاں کے لوگ جو پہلے سے ہی حضرت عثمان کے احکام کے منتظر تھے ان خطوط کے پہنچنے پر اور بھی جوش سے بھر گئے ہیں اور صحابہ نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے مسجدوں اور مجلسوں میں تمام مسلمانوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلا کر ان مفسدوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جس نے آج جہاد نہ کیا اس نے گویا کچھ بھی نہ کیا.کوفہ میں عقبہ بن عمر و، عبد اللہ بن ابی اوفی اور حنظلہ بن ربیع اور دیگر صحابہ کرام نے لوگوں کو اہل مدینہ کی مدد کے لیے ابھارا ہے تو بصرہ میں عمران بن حصین، انس بن مالک، ہشام بن عامر اور دیگر صحابہ نے.شام میں اگر عبادہ بن صامت، ابو امامہ اور دیگر صحابہ نے حضرت عثمان کی آواز پر لبیک کہنے پر لوگوں کو اکسایا ہے تو مصر میں خارجہ اور دیگر لوگوں نے اور سب ملکوں سے فوجیں اکٹھی ہو کر مدینہ کی طرف بڑھتی چلی آتی ہیں.غرض ان خبروں سے باغیوں کی گھبر اہٹ اور بھی بڑھ گئی.آخر حضرت عثمانؓ کے گھر پر حملہ کر کے بزور اندر داخل ہونا چاہا.صحابہ نے مقابلہ کیا اور آپس میں سخت جنگ ہوئی.گو صحابہ کم تھے مگر ان کی ایمانی غیرت ان کی کمی کی تعداد کو پورا کر رہی تھی.جس جگہ لڑائی ہوئی یعنی حضرت عثمان کے گھر کے سامنے وہاں جگہ بھی تنگ تھی اس لیے بھی مفسد اپنی کثرت سے زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکے.حضرت عثمان کو جب اس لڑائی کا علم ہوا تو آپ نے صحابہ کو لڑنے سے منع کیا مگر وہ اس وقت حضرت عثمان کو اکیلا چھوڑ دینا ایمانداری کے خلاف اور اطاعت کے حکم کے متضاد خیال کرتے تھے اور باوجو د حضرت عثمان کے اللہ کی قسم دینے کے انہوں نے کوٹنے سے انکار کر دیا.آخر حضرت عثمان نے ڈھال ہاتھ میں پکڑی اور باہر تشریف لائے اور صحابہ کو اپنے مکان کے اندر لے گئے اور دروازے بند کرادیے اور آپ نے سب صحابہ اور ان کے مدد گاروں کو وصیت کی کہ خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو دنیا اس لیے نہیں دی کہ تم اس کی طرف جھک جاؤ بلکہ اس لیے دی ہے کہ تم اس کے ذریعہ

Page 376

اصحاب بدر جلد 3 356 حضرت عثمان بن عفان سے آخرت کے سامان جمع کرو.یہ دنیا و فنا ہو جائے گی اور آخرت ہی باقی رہے گی.پس چاہیے کہ فانی چیز تم کو غافل نہ کرے.باقی رہنے والی چیز کو فانی ہو جانے والی چیز پر مقدم کرو اور خدا تعالیٰ کی ملاقات کو یا در کھو اور جماعت کو پراگندہ نہ ہونے دو اور اس نعمت الہی کو مت بھولو کہ تم ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے تھے اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تم کو نجات دے کر بھائی بھائی بنا دیا.اس کے بعد آپ نے سب کو رخصت کیا اور کہا کہ خدا تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو.تم سب اب گھر سے باہر جاؤ اور ان صحابہ کو بھی بلواؤ جن کو مجھ تک آنے نہیں دیا تھا خصوصاً حضرت علی، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر گو.یہ لوگ باہر آگئے اور دوسرے صحابہ کو بھی بلوایا گیا.اس وقت کچھ ایسی کیفیت پیدا ہو رہی تھی اور ایسی افسردگی چھا رہی تھی کہ باغی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے.وقتی طور پر ایسے حالات پید اہو گئے.جب آپ نے کہا کہ باہر جاؤ، یہ لوگ نکلے تو باغیوں نے حملہ نہیں کیا لیکن بہر حال یہ باہر گئے اور بڑے صحابہ کو اکٹھا کیا اور کیوں نہ ہو تاسب دیکھ رہے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی علیم کی جلائی ہوئی ایک شمع اب اس دنیا کی عمر کو پوری کر کے اس دنیا کے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہونے والی ہے.غرض باغیوں نے زیادہ تعارض نہ کیا اور سب صحابہ جمع ہوئے.انہوں نے بھی کچھ نہیں کہا.صحابہ کو جمع ہونے دیا.جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ گھر کی دیوار پر چڑھے اور فرمایا میرے قریب ہو جاؤ.جب سب قریب ہو گئے تو فرمایا کہ اے لوگو! بیٹھ جاؤ.اس پر صحابہ بھی اور مجلس کی ہیبت سے متاثر ہو کر باغی بھی بیٹھ گئے.جب سب بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ اہل مدینہ ! میں تم کو خدا تعالیٰ کے سپر د کر تا ہوں اور اس سے دعا کرتاہوں کہ وہ میرے بعد تمہارے لیے خلافت کا کوئی بہتر انتظام فرما دے.آج کے بعد اس وقت تک کہ خدا تعالیٰ میرے متعلق کوئی فیصلہ فرما دے، میں باہر نہیں نکلوں گا اور میں کسی کو کوئی ایسا اختیار نہیں دے جاؤں گا کہ جس کے ذریعہ سے دین یا دنیا میں وہ تم پر حکومت کرے اور اس امر کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دوں گا کہ وہ جسے چاہے اپنے کام کے لیے پسند کرے.اس کے بعد صحابہ اور دیگر اہل مدینہ کو قسم دی کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرہ عظیم میں نہ ڈالیں اور اپنے گھروں کو چلے جاویں.آپ کے اس حکم نے صحابہ میں ایک بہت بڑا اختلاف پیدا کر دیا.ایسا اختلاف کہ جس کی نظیر پہلے نہیں ملتی.صحابہ ماننے کے سوا اور کچھ جانتے ہی نہ تھے مگر آج اس حکم کے ماننے میں ان میں سے بعض کو اطاعت نہیں، غداری کی بو نظر آتی تھی کہ ہم نے مانا تو یہ اطاعت نہیں ہے غداری ہے.بعض صحابہ نے اطاعت کے پہلو کو مقدم سمجھ کر بادلِ نخواستہ آئندہ کے لیے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا اور غالباً انہوں نے سمجھا کہ ہمارا کام صرف اطاعت ہے.یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس حکم پر عمل کرنے کے کیا نتائج ہوں گے.مگر بعض صحابہ نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ بیشک خلیفہ کی اطاعت فرض ہے مگر جب خلیفہ یہ حکم دے کہ تم مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ تو اس کے یہ معنی ہیں کہ خلافت سے وابستگی چھوڑ دو.پس یہ اطاعت در حقیقت بغاوت پیدا کرتی ہے.اور وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ

Page 377

محاب بدر جلد 3 357 حضرت عثمان بن عفان حضرت عثمان کا ان کو گھروں کو واپس کرنا ان کی جانوں کی حفاظت کے لیے تھا یعنی صحابہ کی جانوں کی حفاظت کے لیے تھا تو پھر کیا وہ ایسے محبت کرنے والے وجود کو خطرے میں چھوڑ کر اپنے گھروں میں جاسکتے تھے کہ حضرت عثمان تو ان کی محبت کی خاطر ان کی جانوں کو ضائع ہونے سے بچارہے ہیں اور وہ حضرت عثمان کو چھوڑ دیں یہ ممکن نہیں تھا.اس مؤخر الذکر گروہ میں سب اکابر صحابہ شامل تھے.چنانچہ باوجو داس حکم کے حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر کے لڑکوں نے اپنے اپنے والد کے حکم کے ماتحت حضرت عثمان کی ڈیوڑھی پر ہی ڈیرہ جمائے رکھا اور اپنی تلواروں کو میانوں میں نہ داخل کیا.باغیوں کی گھبراہٹ اور جوش کی کوئی حد باقی نہ رہی جبکہ حج سے فارغ ہو کر آنے والے لوگوں میں سے اسے دستے مدینہ میں داخل ہونے لگے اور ان کو معلوم ہو گیا کہ اب ہماری قسمت کے فیصلہ کا وقت بہت نزدیک ہے.چنانچہ مغیرہ بن الأخنس سب سے پہلے شخص تھے جو حج کے بعد ثواب جہاد کے لیے مدینہ میں داخل ہوئے اور ان کے ساتھ ہی یہ خبر باغیوں کو ملی کہ اہل بصرہ کا لشکر جو مسلمانوں کی امداد کے لیے آرہا ہے صر از مقام پر جو مدینہ سے صرف ایک دن کے فاصلے پر ہے آپہنچا ہے.ان خبروں سے متاثر ہو کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح ہو اپنے مدعا کو جلد پورا کیا جائے اور چونکہ وہ صحابہ اور ان کے ساتھی، جنہوں نے باوجود حضرت عثمان کے منع کرنے کے حضرت عثمان کی حفاظت نہ چھوڑی تھی اور صاف کہہ دیا تھا کہ اگر ہم آپ کو باوجو د ہا تھوں میں طاقت مقابلہ ہونے کے چھوڑ دیں تو خدا تعالیٰ کو کیا منہ دکھلائیں گے بوجہ اپنی قلت تعداد اب مکان کے اندر کی طرف سے حفاظت کرتے تھے اور دروازہ تک پہنچنا باغیوں کے لیے مشکل نہ تھا.انہوں نے دروازے کے سامنے لکڑیوں کے انبار جمع کر کے آگ لگادی تا کہ دروازہ جل جائے اور اندر پہنچنے کا رستہ مل جاوے.صحابہ نے اس بات کو دیکھا تو اندر بیٹھنا مناسب نہ سمجھا.تلواریں پکڑ کر باہر نکلنا چاہا مگر حضرت عثمانؓ نے اس بات سے روکا اور فرما یا گھر کو آگ لگانے کے بعد اور کون سی بات رہ گئی ہے.اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا.تم لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالو اور اپنے گھروں کو چلے جاؤ.ان لوگوں کو صرف میری ذات سے عداوت ہے مگر جلد یہ لوگ اپنے کیے پر پشیمان ہوں گے.میں ہر ایک شخص کو جس پر میری اطاعت فرض ہے اس کے فرض سے سبکدوش کرتا ہوں اور اپنا حق معاف کرتا ہوں.مگر صحابہ نے اور دیگر لوگوں نے اس بات کو تسلیم نہ کیا اور تلواریں پکڑ کر باہر نکلے.ان کے باہر نکلتے وقت حضرت ابو ہریرہ بھی آگئے اور باوجود اس کے کہ وہ فوجی آدمی نہ تھے وہ بھی ان کے ساتھ مل گئے اور فرمایا کہ آج کے دن کی لڑائی سے بہتر اور کون سی لڑائی ہو سکتی ہے اور پھر باغیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا.يُقَومِ مَالَی ادْعُوكُمْ إِلَى النَّجوةِ وَ تَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ (المومن :42) یعنی اے میری قوم ! کیا بات ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف بلاتے ہو.یہ لڑائی ایک خاص لڑائی تھی اور مٹھی بھر صحابہ جو اس وقت جمع ہو سکے انہوں نے اس لشکر عظیم کا

Page 378

اصحاب بدر جلد 3 358 حضرت عثمان بن عفان مقابلہ جان توڑ کر کیا.حضرت امام حسن جو نہایت صلح جو بلکہ صلح کے شہزادے تھے انہوں نے بھی اس دن رجز پڑھ پڑھ کر دشمن پر حملہ کیا.ان کا اور محمد بن طلحہ کا اس دن کا رجز خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ ان سے ان کے دلی خیالات کا خوب اندازہ ہو جاتا ہے.حضرت امام حسن یہ شعر پڑھ کر باغیوں پر حملہ کرتے تھے کہ لَا دِينُهُمْ دِينِي وَلَا أَنَا مِنْهُمُ حَتَّى أَسِيرَ إلى طَمَارِ شَمَامٍ یعنی ان لوگوں کا دین میرا دین نہیں اور نہ ان لوگوں سے میرا کوئی تعلق ہے اور میں ان لوگوں سے اس وقت تک لڑوں گا کہ شمام پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ جاؤں.(شمام عرب کا ایک پہاڑ ہے جس کو بلندی پر پہنچنے اور مقصد کے حصول سے مشابہت دیتے ہیں) بہر حال حضرت امام حسن کا یہ مطلب ہے کہ جب تک میں اپنے مدعا کو نہ پہنچ جاؤں اس وقت تک میں برابر ان سے لڑتا رہوں گا اور ان سے صلح نہ کروں گا کیونکہ ہم میں کوئی معمولی اختلاف نہیں کہ بغیر ان پر فتح پانے کے ہم ان سے تعلق قائم کر لیں.یہ تو وہ خیالات ہیں جو اس شہزادہ صلح کے دل میں موجزن تھے.اب ہم طلحہ کے لڑکے محمد کار جز لیتے ہیں.وہ کہتے ہیں.أَنَا ابْنُ مَنْ حَالَى عَلَيْهِ بِأُحُدٍ وَرَدَّ احْزَابًا عَلَى رَغْمِ مَعَةٍ یعنی میں اس کا بیٹا ہوں جس نے رسول کریم صلی علیکم کی حفاظت اُحد کے دن کی تھی اور جس نے باوجود اس کے کہ عربوں نے سارا زور لگایا تھا ان کو شکست دے دی تھی.یعنی آج بھی اُحد کی طرح کا ایک واقعہ ہے اور جس طرح میرے والد نے اپنے ہاتھ کو تیروں سے چھلنی کروالیا تھا مگر رسول کریم صلی علیہ یکم کو آنچ نہ آنے دی تھی میں بھی ایسا ہی کروں گا.حضرت عبد اللہ بن زبیر بھی اس لڑائی میں شریک ہوئے اور بری طرح زخمی ہوئے.مروان بھی سخت زخمی ہوا اور موت تک پہنچ کر کو ٹا.مغیرہ بن الاخنس مارے گئے.جس شخص نے ان کو مارا تھا اس نے دیکھ کر کہ آپ زخمی ہی نہیں ہوئے بلکہ مارے گئے ہیں زور سے کہا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ سردارِ لشکر نے اسے ڈانٹا کہ اس خوشی کے موقع پر افسوس کا اظہار کرتے ہو.اس نے کہا کہ آج رات میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ مغیرہ کے قاتل کو دوزخ کی خبر دو.پس یہ معلوم کر کے کہ میں ہی اس کا قاتل ہوں مجھے اس کا صدمہ ہونالازمی تھا.مذکورہ بالا لوگوں کے سوا اور لوگ بھی زخمی ہوئے اور مارے گئے اور حضرت عثمان کی حفاظت کرنے والی جماعت اور بھی کم ہو گئی لیکن اگر باغیوں نے باوجود آسمانی انذار کے اپنی ضد نہ چھوڑی اور خدا تعالیٰ کی محبوب جماعت کا مقابلہ جاری رکھا تو دوسری طرف مخلصین نے بھی اپنے ایمان کا اعلیٰ نمونہ دکھانے میں کوئی کمی نہیں کی.باوجود اس کے کہ اکثر محافظ مارے گئے یازخمی ہو گئے پھر بھی ایک قلیل گر وہ برابر دروازے کی حفاظت کرتا رہا.684

Page 379

حاب بدر جلد 3 آخری حج 359 حضرت عثمان بن عفان حضرت عثمان نے اپنی وفات سے یا جب فتنہ زوروں پر تھا اس سے تقریباً ایک سال پہلے آخری حج کیا.بہر حال ان کا جو آخری حج تھا اس وقت فتنہ پردازوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا اور حضرت امیر معاویہ نے اس کو بڑی شدت سے محسوس کیا تھا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حج سے واپسی پر حضرت معاویہ بھی حضرت عثمان کے ساتھ مدینہ آئے.کچھ دن ٹھہر کر آپ واپس جانے لگے تو آپ نے حضرت عثمان سے علیحدہ مل کر درخواست کی کہ فتنہ بڑھتا ہو ا معلوم ہوتا ہے.اگر اجازت ہو تو میں اس کے متعلق کچھ عرض کروں.حضرت عثمان نے فرمایا کہو.اس پر انہوں نے کہا کہ اول میر امشورہ یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ شام چلیں کیونکہ شام میں ہر طرح سے امن ہے اور کسی قسم کا فساد نہیں.ایسا نہ ہو کہ یکدم کسی قسم کا فساد اٹھے اور اس وقت کوئی انتظام نہ ہو سکے.حضرت عثمان نے ان کو جواب دیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی کو کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا خواہ جسم کی دھجیاں اڑا دی جائیں.حضرت معاویہ نے کہا پھر دوسر ا مشورہ یہ ہے کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ایک دستہ شامی فوج کا آپ کی حفاظت کے لیے بھیج دوں.ان لوگوں کی موجودگی میں کوئی شخص شرارت نہیں کر سکے گا.حضرت عثمان نے جواب دیا کہ نہ میں عثمان کی جان کی حفاظت کے لیے اس قدر بوجھ بیت المال پر ڈال سکتا ہوں اور نہ یہ پسند کرتا ہوں کہ مدینہ کے لوگوں کو فوج رکھ کر تنگی میں ڈالوں.اس پر حضرت معاویہ نے عرض کی کہ پھر تیسری تجویز یہ ہے کہ صحابہ کی موجودگی میں لوگوں کو جرآت ہے کہ اگر عثمان نہ رہے تو ان میں سے کسی کو آگے کھڑا کر دیں گے.ان لوگوں کو مختلف ملکوں میں پھیلا دیں.حضرت عثمان نے جواب دیا کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے میں ان کو پراگندہ کر دوں، پھیلا دوں.اس پر معاویہ رو پڑے اور عرض کی کہ اگر ان تدابیر میں سے جو آپ کی حفاظت کے لیے میں نے پیش کی ہیں آپ کوئی بھی قبول نہیں کرتے تو اتنا تو کیجیے کہ لوگوں میں یہ اعلان کر دیں کہ اگر میری جان کو کوئی نقصان پہنچا تو معاویہ کو میرے قصاص کا حق ہو گا.شاید لوگ اس سے خوف کھا کر شرارت سے باز رہیں.حضرت عثمان نے جواب دیا کہ معاویہ ! جو ہونا ہے ہو کر رہے گا، میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ آپ کی طبیعت سخت ہے.حضرت عثمان نے حضرت معاویہ کو کہا کہ آپ کی طبیعت سخت ہے ایسانہ ہو کہ آپ مسلمانوں پر سختی کریں.اس پر حضرت معاویہ روتے ہوئے آپ کے پاس سے اٹھے اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو.اور باہر نکل کر صحابہ سے کہا.اسلام کا دارو مدار آپ لوگوں پر ہے.حضرت عثمان اب بالکل ضعیف ہو گئے ہیں اور فتنہ بڑھ رہا ہے.آپ لوگ ان کی نگہداشت رکھیں.یہ کہ کر معاویہ شام کی طرف روانہ ہو گئے.حضرت عثمان کا جو مضبوط عزم و ہمت تھا اس کے بارے میں بیان ہے ، مجاہد نے بیان 685

Page 380

ب بدر جلد 3 360 ا حضرت عثمان بن عفان کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر سے محاصرین کو جھانک کر فرمایا کہ اے میری قوم! مجھے قتل نہ کرو کیونکہ میں حاکم وقت اور تمہارا مسلمان بھائی ہوں.بخدا میں نے ہمیشہ مقدور بھر اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے خواہ میرا موقف درست تھایا مجھ سے کوئی خطا ہوئی.یاد رکھو اگر تم نے مجھے قتل کیا تو تم لوگ کبھی بھی اکٹھے نماز نہ پڑھ سکو گے اور نہ ہی کبھی اکٹھے جہاد کر سکو گے اور نہ ہی اموالِ غنیمت کی تم میں منصفانہ تقسیم ہو سکے گی.راوی کہتے ہیں کہ جب محاصرہ کرنے والوں نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم لوگوں نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کی وفات کے وقت جبکہ تم سب متحد تھے اور سب دین اور حق پر قائم تھے وہ دعانہ کی تھی جو تم نے کی تھی یعنی خلافت کے بارے میں.پھر کیا اب تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعائیں قبول نہیں کیں یا پھر یہ کہنا چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اب دین کی کوئی پروا نہیں رہی یا پھر یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں نے اس چیز یعنی خلافت کو تلوار کے زور سے یا غاصبانہ قبضہ کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور مسلمانوں کے مشورے سے اسے حاصل نہیں کیا یا پھر تمہارا خیال ہے کہ میری خلافت کے ابتدائی زمانے میں اللہ تعالیٰ میرے بارے میں وہ باتیں نہیں جانتا تھا جن کا اسے بعد میں پتہ چلا.یہ تو نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے.اس پر بھی جب محاصرین نے آپ کی بات نہ مانی تو آپ نے دعا کی کہ یا اللہ تو انہیں اچھی طرح گن لے اور ان سب کو چن چن کر مارنا اور ان سب میں سے کسی ایک کو بھی نہ چھوڑنا.مجاہد کہتے ہیں کہ اس فتنہ میں جس جس نے بھی حصہ لیا اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کر دیا.686 تم کبھی متحد نہ ہو سکو گے ابولیلیٰ کندی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان کو دیکھا جبکہ آپ محصور تھے.آپ نے ایک روشن دان سے جھانک کر فرمایا اے لوگو! مجھے قتل نہ کرو اور اگر میرا قصور ہے تو مجھے تو بہ کا موقع دو.اللہ کی قسم ! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر کبھی اکٹھے نماز نہیں پڑھ سکو گے اور کبھی بھی متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ نہ کر سکو گے اور ضرور تم آپس میں اختلاف کرو گے اور اس طرح تم الجھ کر رہ جاؤ گے.راوی کہتے ہیں آپ نے انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر بتایا کہ ایسے.پھر آپ نے فرمایا: وَيُقَومِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صُلِح وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْكُمْ بِبَعِید (مورد:90) اور اے میری قوم! میری دشمنی تمہیں ہر گز ایسی بات پر آمادہ نہ کرے کہ تمہیں بھی ویسی ہی مصیبت پہنچے جیسی نوح کی قوم کو اور ہود کی قوم کو اور صالح کی قوم کو پہنچی تھی اور لوط کی قوم بھی تم سے کچھ دور نہیں.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن سلام کی طرف پیغام بھیجا.انہوں نے آکر حضرت عثمان سے عرض کیا کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اس میں آپ کی کیا رائے ہے؟

Page 381

اصحاب بدر جلد 3 361 حضرت عثمان بن عفان تو آپ نے یعنی حضرت عثمان نے فرمایا لڑائی سے بچو.لڑائی سے بچو.کیونکہ یہ بات تمہارے حق میں 687 بطور دلیل زیادہ مضبوط ہو گی.87 محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ حضرت زید بن ثابت انصاری نے حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یہ انصار دروازے پر حاضر ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ پسند فرمائیں تو ہم دوسری مرتبہ اللہ کے انصار بننے کو تیار ہیں.اس پر حضرت عثمان نے فرمایا.نہیں، قتال ہر گز نہیں کرنا.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ یوم الدار کو میں نے حضرت عثمان کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا.اے امیر المومنین ! اب تو تلوار اٹھانا ہی مناسب ہے.آپؐ نے فرمایا اے ابو ہریرہ ! کیا تم پسند کروگے کہ تم تمام لوگوں کو اور مجھے بھی قتل کر دو.میں نے عرض کیا نہیں.تو آپ نے فرمایا خدا کی قسم ! اگر تم نے ایک شخص کو بھی قتل کیا تو گویا سب لوگ قتل ہو گئے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں پھر واپس آگیا.اس لڑائی میں حصہ نہیں لیا.پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ آج ہی لڑنے کا موقع ہے.حضرت عبد اللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے محاصرہ کے روز حضرت عثمان کی خدمت میں عرض کیا کہ اے امیر المومنین ! ان لوگوں سے جنگ کیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے ان سے جنگ کرنا جائز قرار دیا ہے.آپؐ نے فرمایا اللہ کی قسم ! میں ان سے کبھی بھی جنگ نہیں کروں گا.راوی کہتے ہیں کہ اس پر وہ لوگ آپ کے پاس گھر میں گھس آئے جبکہ آپ روزے سے تھے.حضرت عثمان نے اپنے گھر کے دروازے پر حضرت عبد اللہ بن زبیر کو نگران مقرر فرمایا ہوا تھا.آپ نے فرمایا تھا کہ جو میری اطاعت کرنا چاہتا ہے وہ عبد اللہ بن زبیر کی اطاعت کرے.حضرت عبد اللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان کی خدمت میں عرض کیا کہ اے امیر المومنین ! یقینا آپ کے پاس گھر میں آپ کی حفاظت کے لیے ایک گروہ ہے جسے اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہے اور وہ ان محاصرین کی نسبت تعداد میں کم ہیں.پس آپ مجھے باغیوں سے قتال کی اجازت دیں.تو آپ نے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں یا فرمایا میں تمہیں اللہ کے نام پر نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی آدمی میری خاطر اپنا خون نہ بہائے یا میری خاطر کسی اور کا خون نہ بہائے.شہادت سے قبل کی تفصیلات 688 حضرت عثمان کی شہادت سے قبل کے فتنہ اور آپ کے واقعہ شہادت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو بیان فرمایا ہے وہ اس طرح ہے.آپ فرماتے ہیں کہ چونکہ باغیوں کو بظاہر غلبہ حاصل ہو چکا تھا.انہوں نے آخری حیلے کے طور پر پھر ایک شخص کو حضرت عثمان کی طرف بھیجا کہ وہ خلافت سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خود دستبردار ہو جائیں گے تو مسلمانوں کو انہیں سزا دینے کا کوئی حق اور موقع نہ رہے گا یعنی باغیوں کو پھر سزا دینے کا موقع نہیں ملے گا.حضرت

Page 382

اصحاب بدر جلد 3 362 حضرت عثمان بن عفان عثمان کے پاس جو پیامبر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو جاہلیت میں بھی بدیوں سے پر ہیز کیا ہے اور اسلام میں بھی اس کے احکام کو نہیں توڑا.میں کیوں اور کس جرم میں اس عہدے کو چھوڑ دوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے ؟ میں تو اس قمیص کو کبھی نہیں اتاروں گا جو خدا تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے.وہ شخص یہ جواب سن کر واپس آگیا اور اپنے ساتھیوں سے ان الفاظ میں آکر مخاطب ہوا کہ خدا کی قسم! ہم سخت مصیبت میں پھنس گئے ہیں.خدا کی قسم ! مسلمانوں کی گرفت سے عثمان کو قتل کرنے کے سوائے ہم بیچ نہیں سکتے کیونکہ اس صورت میں حکومت تہ و بالا ہو جائے گی اور انتظام بگڑ جائے گا اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو گا اور اس کا قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں یعنی حل تو یہی ہے لیکن قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں.اس شخص کے یہ فقرات نہ صرف ان لوگوں کی گھبراہٹ پر دلالت کرتے ہیں بلکہ اس امر پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس وقت تک بھی حضرت عثمان نے کوئی ایسی بات پیدا نہ ہونے دی تھی جسے یہ لوگ بطور بہانہ استعمال کر سکیں اور ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ حضرت عثمان کا قتل کسی صورت میں جائز نہیں.ہے.عموماً شہادت کا دردناک واقعہ جب یہ لوگ حضرت عثمان کے قتل کا منصوبہ کر رہے تھے تو حضرت عبد اللہ بن سلام جو بحالت کفر بھی اپنی قوم میں نہایت معزز تھے اور جن کو یہود اپنا سر دار مانتے تھے اور عالم بے بدل جانتے تھے، تشریف لائے اور دروازے پر کھڑے ہو کر ان لوگوں کو نصیحت کرنی شروع کی اور حضرت عثمان کے قتل سے ان کو منع فرمایا کہ اے قوم! خدا کی تلوار کو اپنے اوپر نہ کھینچو.خدا کی قسم ! اگر تم نے تلوار کھینچی تو پھر اسے میان میں کرنے کا موقع نہ ملے گا، پھر ہمیشہ مسلمانوں میں تلوار کھنچی رہے گی.ہمیشہ مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا ہی رہے گا.عقل کرو.آج تم پر حکومت صرف کوڑے کے ساتھ کی جاتی.حدود شریعہ میں کوڑے کی سزا دی جاتی ہے اور اگر تم نے اس شخص کو قتل کر دیا یعنی حضرت عثمان کو قتل کر دیا تو حکومت کا کام بغیر تلوار کے نہ چلے گا.یعنی چھوٹے چھوٹے مجرموں کے جرموں پر بھی لوگوں کو قتل کیا جائے گا.یاد رکھو کہ اس وقت مدینہ کے محافظ ملائکہ ہیں.اگر تم اس کو قتل کر دو گے تو ملائکہ مدینہ کو چھوڑ جائیں گے.اس نصیحت سے ان لوگوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ عبد اللہ بن سلام صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دھتکار دیا اوران کو پہلے دین کا طعنہ دے کر کہا کہ اے یہو دن کے بیٹے تھے ان کاموں سے کیا تعلق ؟ افسوس کہ ان لوگوں کو یہ تو یا د رہا کہ عبد اللہ بن سلام یہو دن کے بیٹے تھے لیکن یہ بھول گئے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ایمان لائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ایمان لانے پر نہایت خوشی کا اظہار کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر ایک مصیبت اور دکھ میں آپ شریک ہوئے اور اسی طرح یہ بھی بھول گیا کہ ان کا لیڈر اور ان کو ورغلانے والا حضرت علی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی قرار دے کر حضرت عثمان کے مقابلے پر کھڑا کرنے والا عبد اللہ بن سبا بھی یہو دن کا بیٹا تھا بلکہ خود یہودی تھا اور صرف ظاہر میں اسلام کا اظہار کر رہا تھا.

Page 383

حاب بدر جلد 3 آج شام کو روزہ ہمارے ساتھ کھولنا 363 حضرت عثمان بن عفان حضرت عبد اللہ بن سلام تو یہ باتیں سن کے ان لوگوں سے مایوس ہو کر چلے گئے اور ادھر ان لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ دروازے کی طرف سے جا کر حضرت عثمان کو قتل کرنا مشکل ہے کیونکہ اس طرف تھوڑے بہت جو لوگ بھی روکنے والے موجود ہیں وہ مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں، یہ فیصلہ کیا کہ کسی ہمسائے کے گھر کی دیوار پھاند کر حضرت عثمان کو قتل کر دیا جائے.چنانچہ اس ارادے سے چند لوگ ایک ہمسائے کی دیوار پھاند کر آپ کے کمرے میں گھس گئے.جب اندر گھسے تو حضرت عثمان قرآن کریم پڑھ رہے تھے اور جب سے کہ محاصرہ ہو ا تھا رات اور دن آپ کا یہی شغل تھا کہ نماز پڑھتے یا قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اس کے سوا اور کسی کام کی طرف توجہ نہ کرتے اور ان دنوں میں صرف آپ نے ایک کام کیا اور وہ یہ کہ ان لوگوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے آپ نے دو آدمیوں کو خزانے کی حفاظت کے لیے مقرر کیا کیونکہ جیسا کہ ثابت ہے اس دن رات کو رویا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو نظر آئے ، حضرت عثمان کو خواب میں نظر آئے اور فرمایا کہ عثمان آج شام کو روزہ ہمارے ساتھ کھولنا.اس رویا سے آپ کو یقین ہو گیا تھا کہ آج میں شہید ہو جاؤں گا.پس آپ نے اپنی ذمہ داری خیال کر کے دو آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ خزانے کے دروازے پر کھڑے ہو کر پہرہ دیں تاکہ شور وشر میں کوئی شخص خزانے کو لوٹنے کی کوشش نہ کرے.غرض جب یہ لوگ اندر پہنچے تو حضرت عثمان کو قرآن کریم پڑھتے ہوئے پایا.ان حملہ آوروں میں محمد بن ابی بکر بھی تھے اور بوجہ اپنے اقتدار کے جو ان لوگوں پر ان کو حاصل تھا اپنا فرض سمجھتے تھے ، ان کا خیال تھا ناں کہ میں حضرت ابو بکر کا بیٹا ہوں تو مجھے فوقیت حاصل ہے.اپنا فرض سمجھتے تھے کہ ہر ایک کام میں آگے ہوں.چنانچہ انہوں نے بڑھ کر حضرت عثمان کی داڑھی پکڑ لی اور زور سے جھٹکا دیا.حضرت عثمان نے ان کے اس فعل پر صرف اس قدر فرمایا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تیر اباپ یعنی حضرت ابو بکر اس وقت ہو تا تو تو کبھی ایسانہ کرتا.تجھے کیا ہوا.تو خدا کے لیے مجھ پر ناراض ہے.کیا اس کے سوا تجھے مجھ پر کوئی غصہ ہے کہ تجھ سے میں نے خدا کے حقوق ادا کروائے ہیں؟ میں یہی کہتا ہوں ناں کہ خدا کے حقوق ادا کرو.اس پر محمد بن ابی بکر شرمندہ ہو کر واپس لوٹ گئے لیکن دوسرے شخص وہیں رہے اور چونکہ اس رات بصرہ کے لشکر کی مدینہ میں داخل ہونے کی یقینی خبر آچکی تھی اور یہ موقع ان لوگوں کے لیے آخری موقع تھا.ان لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ بغیر اپنا کام کیے واپس نہ لوٹیں گے اور ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور ایک لوہے کی سیخ حضرت عثمان کے سر پر ماری اور پھر حضرت عثمان کے سامنے جو قرآن کریم دھر ا ہوا تھا اس کو لات مار کر پھینک دیا.قرآن کریم لڑھک کر حضرت عثمان کے پاس آگیا اور آپ کے سر پر سے خون کے قطرات گر کر اس پر آپڑے.قرآن کریم کی بے ادبی تو کسی نے کیا کرنی ہے مگر ان لوگوں کے تقوی اور دیانت کا پردہ اس واقعہ سے اچھی طرح فاش ہو گیا.جس آیت پر آپ کا خون گرا وہ ایک زبر دست پیشگوئی تھی جو اپنے وقت پر جا کر اس شان سے پوری ہوئی کہ سخت دل سے سخت دل آدمی نے.

Page 384

اصحاب بدر جلد 3 364 حضرت عثمان بن عفان اس کے خونی حروف کی جھلک کو دیکھ کر خوف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں.وہ آیت یہ تھی: فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (ابت 1387) اللہ تعالیٰ ضرور ان سے تیر ابدلہ لے گا اور وہ بہت سننے والا اور جاننے والا ہے.اس کے بعد ایک اور شخص سودان نامی آگے بڑھا اور اس نے تلوار سے آپ پر حملہ کرنا چاہا.پہلا وار کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کو روکا اور آپ کا ہاتھ کٹ گیا.اس پر آپ نے ، حضرت عثمان نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم !یہ وہ ہاتھ ہے جس نے سب سے پہلے قرآن کریم لکھا تھا.اس کے بعد پھر اس نے دوسر اوار کر کے آپ کو قتل کرنا چاہا تو آپ کی بیوی نائلہ وہاں آگئیں اور اپنے آپ کو بیچ میں کھڑا کر دیا مگر اس شفتی نے ایک عورت پر وار کرنے سے بھی دریغ نہ کیا اور وار کر دیا جس سے آپ کی بیوی کی انگلیاں کٹ گئیں اور وہ علیحدہ ہو گئیں.پھر اس نے ایک وار حضرت عثمان پر کیا اور آپ کو سخت زخمی کر دیا.اس کے بعد اس شقی نے یہ خیال کر کے کہ ابھی جان نہیں نکلی، شاید بچ جائیں اسی وقت جبکہ زخموں کے صدموں سے آپ بیہوش ہو چکے تھے اور شدت درد سے تڑپ رہے تھے آپ کا گلا پکڑ کر گھونٹنا شروع کیا اور اس وقت تک آپ کا گلا نہیں چھوڑا جب تک آپ کی روح جسم خاکی سے پرواز کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو لبیک کہتی ہوئی عالم بالا کو پرواز نہیں کر گئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پہلے حضرت عثمان کی بیوی اس نظارے کی ہیبت سے متاثر ہو کر بول نہ سکیں لیکن آخر انہوں نے آواز دی اور وہ لوگ جو دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اندر کی طرف دوڑے مگر اب مدد فضول تھی، جو کچھ ہو نا تھاوہ ہو چکا تھا.حضرت عثمان کے ایک آزاد کردہ غلام نے سوڈان کے ہاتھ میں وہ خون آلود تلوار دیکھی جس نے حضرت عثمان کو شہید کیا تھا تو اس سے نہ رہا گیا اور اس نے آگے بڑھ کر اس شخص کا تلوار سے سرکاٹ دیا.اس پر اس کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے اس کو قتل کر دیا.اب اسلامی حکومت کا تخت خلیفہ سے خالی ہو گیا.اہل مدینہ نے مزید کوشش فضول سمجھی اور ہر ایک اپنے اپنے گھر جا کر بیٹھ گیا.ان لوگوں نے حضرت عثمان کو مار کر گھر پر دست تعدی دراز کرنا شروع کیا.حضرت عثمان کی بیوی نے چاہا کہ اس جگہ سے ہٹ جاویں تو اس کے لوٹتے وقت ان میں سے ایک کمبخت نے اپنے ساتھیوں سے ان کے متعلق نہایت غلیظ الفاظ میں تبصرہ کیا.بے شک ایک حیادار آدمی کے لیے خواہ وہ کسی مذہب کا پیرو کیوں نہ ہو اس بات کو باور کرنا بھی مشکل ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت سابق قدیمی صحابی، آپ کے داماد، تمام اسلامی ممالک کے بادشاہ اور پھر خلیفہ وقت کو یہ لوگ ابھی ابھی مار کر فارغ ہوئے تھے ایسے گندے خیالات کا ان لوگوں نے اظہار کیا ہو لیکن ان لوگوں کی بے حیائی ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ کسی قسم کی بد اعمالی بھی ان سے بعید نہ تھی.یہ لوگ کسی نیک مدعا کو لے کر کھڑے نہیں ہوئے تھے نہ ان کی جماعت نیک آدمیوں کی جماعت تھی.ان میں سے بعض عبد اللہ بن سبا یہودی کے فریب خوردہ اور اس کی عجیب و غریب مخالف اسلام تعلیموں کے دلدادہ تھے.کچھ حد سے بڑھی ہوئی سوشلزم بلکہ بولشویزم کے فریفتہ تھے.کچھ سزا یافتہ

Page 385

محاب بدر جلد 3 365 حضرت عثمان بن عفان 689 مجرم تھے جو اپنے دیرینہ بغض کو نکالنا چاہتے تھے.کچھ لٹیرے اور ڈاکو تھے جو اس فتنہ پر اپنی ترقیات کی راہ دیکھتے تھے.نپس ان کی بے حیائی قابل تعجب نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اگر ایسی حرکات نہ کرتے تب تعجب کا مقام تھا.جب یہ لوگ لوٹ مار کر رہے تھے تو ایک اور آزاد کردہ غلام سے حضرت عثمان کے گھر والوں کی چیخ و پکار سن کر نہ رہا گیا اور اس نے حملہ کر کے اس شخص کو قتل کر دیا جس نے پہلے غلام کو مارا تھا.اس پر ان لوگوں نے اسے بھی قتل کر دیا اور عورتوں کے جسم پر سے بھی زیور اتار لیے اور ہنسی ٹھٹھا کرتے ہوئے گھر سے نکل گئے.حضرت مصلح موعود ان قاتلین کی بد تہذہبی کا مزید ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ خود انہوں نے کیا کیا! حضرت عثمان کو شہید کیا اور جب خون میں تڑپ رہے تھے تو قاتل ان کی بیوی، حضرت عثمان کی بیوی کے متعلق بیہودہ بکواس کر رہے تھے ، جسم کے بارے میں تبصرے کر رہے تھے.پھر اس سے بھی بد تر انہوں نے کام کیا یعنی حضرت عثمان کی بیوی پر ہی نہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھے اور حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کے متعلق بھی باتیں کیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ باتیں سن کے میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بہت بڑا مر تبہ دیا ہے اور میں اس پر فخر کرتا ہوں لیکن میرادل چاہتا ہے کہ کاش میں اُس وقت ہوتا اور اب نہ ہو تا تو میں ان لوگوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا.ان لوگوں کی انتہا کیا تھی؟ حضرت عائشہ کے بارے میں جیسا کہ میں نے کہا فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بے پرد کیا اور دیکھ کر کہا تھا کہ یہ تو نوجوان 690 حضرت عثمان کی جرآت و بہادری حضرت عائشہ پر بھی تبصرے سے باز نہیں آئے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں سے کبھی خائف نہیں ہوئے یعنی حضرت عثمان اس بات سے کبھی خائف نہیں ہوئے کہ مجھ سے کیا سلوک ہو گا.تاریخ سے ثابت ہے کہ جب باغیوں نے مدینہ پر قبضہ کر لیا تو وہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے اور اہل مدینہ کو ایک دوسرے سے جداجدار کھتے تاوہ اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ نہ کر سکیں مگر باوجود اس شورش اور فتنہ انگیزی اور فساد کے حضرت عثمان نماز پڑھنے کے لیے اکیلے مسجد میں تشریف لاتے اور ذرا بھی خوف محسوس نہ کرتے اور اس وقت تک برابر آتے رہے جب تک لوگوں نے آپ کو منع نہ کر دیا.جب فتنہ بہت بڑھ گیا اور حضرت عثمان کے گھر پر مفسدوں نے حملہ کر دیا تو بجائے اس کے کہ آپ صحابہ کا اپنے مکان کے ارد گرد پہرہ لگواتے آپ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالیں اور اپنے گھروں کو چلے جائیں.کیا شہادت سے ڈرنے والا آدمی بھی ایسا ہی کیا کرتا ہے اور وہ لوگوں سے کہا کرتا ہے کہ میری فکر نہ کرو بلکہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ.ثابت ہے کہ حضرت عثمانؓ کو شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا.پھر اس بات کا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان واقعات سے کچھ

Page 386

اصحاب بدر جلد 3 366 حضرت عثمان بن عفان بھی خائف نہیں تھے ایک اور زبر دست ثبوت یہ ہے جیسا کہ خطبہ کے شروع میں بیان ہوا تھا کہ اس فتنہ کے دوران میں ایک دفعہ حضرت معاویہ حج کے لیے آئے.جب وہ شام کو واپس جانے لگے تو مدینہ میں وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے اور عرض کیا کہ آپ میرے ساتھ شام چلیں وہاں آپ ان فتنوں سے محفوظ رہیں گے.آپؐ نے فرمایا کہ معاویہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے سکتا.انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں تو میں شامی سپاہیوں کا ایک لشکر آپ کی حفاظت کے لیے بھیج دیتا ہوں.حضرت عثمان نے فرمایا اپنی حفاظت کے لیے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی نہیں کرنا چاہتا.حضرت معاویہ نے عرض کیا کہ امیر المومنین ! لوگ آپ کو دھوکے سے قتل کر دیں گے یا ممکن ہے کہ آپ کے خلاف وہ بر سر جنگ ہو جائیں.حضرت عثمان نے فرمایا کہ مجھے اس کی پروا نہیں.میرے لیے میر اخد ا کافی ہے.آخر انہوں نے کہا اگر آپ اور کچھ منظور نہیں کرتے تو اتنا کریں کہ شرارتی لوگوں کو بعض اکابر صحابہ کے متعلق گھمنڈ ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے.چنانچہ وہ ان کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں.آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کر دیں اور بیرونی ملکوں میں پھیلا دیں.اس سے شریروں کے ارادے پست ہو جائیں گے اور وہ خیال کریں گے کہ آپ سے تعارض کر کے انہوں نے کیا لینا ہے جبکہ مدینہ میں کوئی اور کام کو سنبھالنے والا ہی نہیں ہے.مگر حضرت عثمان نے یہ بات بھی نہ مانی، پہلے ذکر ہو چکا ہے ، اور کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع لیا ہے میں انہیں جلاوطن کر دوں.حضرت معاویہ یہ سن کر رو پڑے اور انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ اور کچھ نہیں کرتے تو اتنا ہی اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہ لے گا.آپ نے فرمایا معاویہ تمہاری طبیعت تیز ہے.میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں پر تم کہیں سختی نہ کرو.اس لیے میں یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا.اب کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان دل کے کمزور تھے مگر تم خود ہی بتاؤ کہ اس قسم کی جرات کتنے لوگ دکھا سکتے ہیں؟ اور کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے دل میں کچھ بھی خوف تھا یعنی حضرت عثمان کے دل میں کوئی خوف تھا.اگر خوف ہو تا تو وہ کہتے کہ تم اپنی فوج کا ایک دستہ میری حفاظت کے لیے بھجوا دو.انہیں تنخواہ میں دلا دوں گا اور اگر خوف ہو تا تو آپ اعلان کر دیتے اگر مجھ پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تو وہ سن لے کہ میر ابدلہ معاویہ لے گا مگر آپ نے سوائے اس کے کوئی جواب نہ دیا کہ معاویہ تمہاری طبیعت تیز ہے.میں ڈر تاہوں کہ اگر میں نے تم کو یہ اختیار دے دیا تو تم مسلمانوں پر سختی کروگے.پھر جب آخر میں دشمنوں نے دیوار پھاند کر آپ پر حملہ کیا تو بغیر کسی ڈر اور خوف کے اظہار کے آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابو بکر کا ایک بیٹا، اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے، آگے بڑھا اور اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی داڑھی پکڑ کے اسے زور سے جھٹکا دیا.حضرت عثمان نے اس کی طرف آنکھ اٹھائی اور فرمایا میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تیرا باپ اس وقت ہو تا تو تو کبھی ایسا نہ کرتا.یہ سنتے ہی اس کا سر سے لے کر پیر تک جسم کانپ گیا اور شرمندہ ہو کر واپس لوٹ گیا.

Page 387

صحاب بدر جلد 3 367 حضرت عثمان بن عفان اس کے بعد ایک اور شخص آگے بڑھا اور اس نے ایک لوہے کی سیخ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے حضرت عثمان کے ہر پہ ماری اور آگے قرآن جو پڑا ہو ا تھا اس کو پاؤں سے ٹھو کر ماری.الگ پھینک دیا.وہ ہٹا تو ایک اور شخص آگے آیا اور اس نے تلوار سے آپ کو شہید کر دیا.ان واقعات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان واقعات سے خائف تھے.191 خلافت کا عظیم الشان سلسلہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور اسی رنگ میں آئے جس رنگ میں حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان اور دوسرے انبیاء مبعوث ہوئے تھے اور آپ کے بعد بھی اسی رنگ میں سلسلہ خلافت شروع ہوا جس طرح پہلے انبیاء کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہوا.اگر ہم عقل کے ساتھ دیکھیں اور اس کی حقیقت کو پہچاننے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ ایک عظیم الشان سلسلہ ہے.یعنی خلافت کا سلسلہ ایک عظیم الشان سلسلہ ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ اگر دس ہزار نسلیں بھی اس کے قیام کے لیے قربان کر دی جائیں تو کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.میں دوسروں کے متعلق تو نہیں جانتا مگر کم از کم اپنے متعلق جانتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی تاریخ پڑھنے کے بعد جب میں حضرت عثمان پر پڑی ہوئی مصیبتوں پر نظر کرتا ہوں اور دوسری طرف اس نور اور روحانیت کو دیکھتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر ان میں پیدا کی تو میں کہتا ہوں کہ اگر دنیا میں میری دس ہزار نسلیں پیدا ہونے والی ہو تیں اور وہ ساری کی ساری ایک ساعت میں جمع کر کے قربان کر دی جائیں تا وہ فتنہ ٹل سکتا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ مجوں دے کر ہا تھی خریدنے کا سودا ہے یعنی بہت چھوٹی سی چیز دے کر ، بجوں تو ایک بڑا معمولی سا کیڑا ہے وہ دے کے ہاتھی خریدنے کے سودے سے بھی یہ ستا ہے.در حقیقت ہمیں کسی چیز کی قیمت کا پتہ پیچھے لگتا ہے.692 فضائل و مناقب بعد میں پتہ آ یہ لگتا ہے کہ اصل قیمت کیا ہے.حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد پتہ لگا کہ خلافت کی اہمیت کیا ہے.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ " حضرت عمر کے بعد تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی نظر مسند خلافت پر بیٹھنے کے لیے حضرت عثمان پر پڑی اور آپ اکابر صحابہ کے مشورہ سے اس کام کے منتخب کیے گئے.آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اور یکے بعد دیگرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں آپ سے بیاہی گئیں اور جب دوسری لڑکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فوت ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اُسے بھی حضرت عثمان سے بیاہ دیتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں آپ کو خاص قدر و منزلت حاصل تھی.آپ اہل مکہ کی نظر میں نہایت ممتاز حیثیت رکھتے اور اس وقت ملک عرب کے حالات کے مطابق مالدار آدمی تھے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلام اختیار کرنے کے بعد جن خاص خاص لوگوں کو تبلیغ

Page 388

تاب بدر جلد 3 368 حضرت عثمان بن عفان اسلام کے لیے منتخب کیا ان میں ایک حضرت عثمان بھی تھے اور آپ پر حضرت ابو بکر سکا گمان غلط نہیں گیا بلکہ تھوڑے دنوں کی تبلیغ سے ہی آپ نے "حضرت عثمانؓ نے "اسلام قبول کر لیا اور اس طرح السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ میں یعنی اسلام میں داخل ہونے والے اس پیشر و گروہ میں شامل ہوئے جن کی قرآن کریم نہایت قابل رشک الفاظ میں تعریف فرماتا ہے.معتبر عرب میں انہیں جس قدر عزت و توقیر حاصل تھی اس کا کسی قدر پتہ اس واقعہ سے لگ سکتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رؤیا کی بنا پر مکہ تشریف لائے اور اہل مکہ نے بغض و کینہ سے اندھے ہو کر آپ کو عمرہ کرنے کی اجازت نہ دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا کہ کسی خاص شخص کو اہل مکہ کے پاس اس امر پر گفتگو کرنے کے لیے بھیجا جاوے اور حضرت عمر کا اس کے لیے انتخاب کیا.حضرت عمر نے جواب دیا کہ یارسول اللہ ! میں تو جانے کو تیار ہوں مگر مکہ میں اگر کوئی شخص ان سے گفتگو کر سکتا ہے تو وہ حضرت عثمان ہے کیونکہ وہ ان لوگوں کی نظر میں خاص عزت رکھتا ہے.پس اگر کوئی دوسرا شخص گیا تو اس پر کامیابی کی اتنی امید نہیں ہو سکتی جتنی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ہے.اور آپ کی اس بات کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی درست تصور کیا اور انہی کو اس کام کے لیے بھیجا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کفار میں بھی خاص عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا بہت احترام فرماتے تھے.ایک دفعہ آپ لیٹے ہوئے تھے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور آپ اسی طرح لیٹے رہے.پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تب بھی آپ اسی طرح لیٹے رہے.پھر حضرت عثمان تشریف لائے تو آپ نے جھٹ اپنے کپڑے سمیٹ کر درست کر لیے اور فرمایا حضرت عثمان کی طبیعت میں حیا بہت ہے.اس لیے میں اس کے احساسات کا خیال کر کے ایسا کرتا ہوں.آپ ان شاذ آدمیوں میں سے ایک ہیں " یعنی حضرت عثمان ان شاذ آدمیوں میں سے ایک ہیں " جنہوں نے اسلام کے قبول کرنے سے پہلے بھی کبھی شراب کو منہ نہیں لگایا اور زنا کے نزدیک نہیں گئے اور یہ ایسی خوبیاں ہیں جو عرب کے ملک میں جہاں شراب کا پینا فخر اور زنا ایک روز مرہ کا شغل سمجھا جاتا تھا اسلام سے پہلے چند گنتی کے آدمیوں سے زیادہ لوگوں میں نہیں پائی جاتی تھیں.غرض آپ کوئی معمولی آدمی نہ تھے.نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق آپ میں پائے جاتے تھے.دنیاوی و جاہت کے لحاظ سے آپؐ نہایت ممتاز تھے.اسلام میں سبقت رکھتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آپ پر نہایت خوش تھے اور حضرت عمرؓ نے آپ کو ان چھ آدمیوں میں سے ایک قرار دیا ہے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تک آپ کی اعلیٰ درجہ کی خوشنودی کو حاصل کیے رہے اور پھر آپ عشرہ مبشرہ میں سے ایک فرد ہیں یعنی ان دس آدمیوں میں سے ایک ہیں جن کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی.6931 حضرت عثمانؓ کی شہادت کے دن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان سترہ یا اٹھارہ ذوالحجہ

Page 389

اصحاب بدر جلد 3 369 حضرت عثمان بن عفان 135 ہجری کو جمعہ کے دن شہید کیے گئے.ابو عثمان نہدی کے مطابق حضرت عثمانؓ کی شہادت ایام تشریق کے وسط میں ہوئی یعنی بارہ ذوالحجہ کو جبکہ ابن اسحاق کے مطابق حضرت عثمان کا واقعہ شہادت حضرت عمرؓ کے واقعہ شہادت کے گیارہ سال گیارہ ماہ اور بائیس دن کے بعد ہوا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچیس سال بعد ہوا.694 695 ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن عمرو بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان نے بروز جمعہ 18 ذوالحجہ 136 ہجری میں نماز عصر کے بعد بیاسی سال کی عمر میں شہادت پائی.آپؐ شہادت کے وقت روزے سے تھے.ابو معشر کے نزدیک شہادت کے وقت آپ کی عمر 75 سال تھی.حضرت عثمان کی تجہیز و تکفین کے بارے میں بیان ہے کہ نیار بن مکرم نے کہا کہ ہفتہ کی رات مغرب اور عشاء کے درمیان حضرت عثمان کی میت کو ہم چار اشخاص نے اٹھایا یعنی میں اور جُبیر بن مطعم اور حکیم بن حزام اور ابو جهم بن حذیفہ - حضرت جبیر بن مطعم نے آپ کی نماز جنازہ 696 پڑھائی.معاویہ نے اس بات کی تصدیق کی.یہی چار آپؒ کی قبر میں اترے تھے.ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبیر بن مُطْعِمُ نے سولہ افراد کے ہمراہ حضرت عثمان کی نماز جنازہ پڑھائی.علامہ ابن سعد کا قول ہے کہ پہلی روایت زیادہ درست ہے یعنی چار آدمیوں والی جس میں ذکر ہے کہ چار افراد نے آپؐ کی نماز جنازہ ادا کی تھی.عبد اللہ بن عمرو بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کو ہفتے کی رات مغرب اور عشاء کے در میان حَش گوگب میں دفن کیا گیا.ربیع بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں کی یہ آرزو تھی کہ وہ اپنے مردوں کو حش گوگبُ میں دفن کیا کریں.حش چھوٹے باغ کو کہتے ہیں اور کو کب ایک انصاری کا نام تھا جس کا یہ باغ تھا.یہ جنت البقیع کے بالکل قریب ہی ایک جگہ تھی.حضرت عثمان بن عفان کہا کرتے تھے کہ عنقریب ایک مرد صالح وفات پائے گا اور اسے وہاں دفن کیا جائے گا یعنی حَشِ گوگن میں دفن کیا جائے گا اور لوگ اس کی پیروی کریں گے.مالک بن ابو عامر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان پہلے شخص تھے جو وہاں دفن کیے گئے.حضرت عثمان کی تدفین کے حوالے سے ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ مفسدین اور باغیوں نے تین روز تک آپ کی تدفین نہیں ہونے دی.چنانچہ تاریخ طبری میں مذکور ہے کہ ابو بشیر عابدی نے بیان کیا کہ حضرت عثمان کی نعش تین دن تک بے گور و کفن رہی اور ان کی تدفین نہ ہونے دی گئی.پھر حضرت حکیم بن حزام اور حضرت جبیر بن مطعم نے حضرت علی سے حضرت عثمان کی تدفین کی بابت بات کی کہ وہ حضرت عثمان کے اہل سے ان کی تدفین کی اجازت طلب کریں.چنانچہ حضرت علی نے ایسا کیا اور انہوں نے حضرت علی کو اجازت دے دی.جب ان لوگوں نے یعنی مفسدین نے یہ بات سنی تو وہ پتھر لے کر راستے میں بیٹھ گئے اور حضرت عثمان کے جنازے کے ساتھ ان کے اہل میں سے چند لوگ ساتھ 697

Page 390

اصحاب بدر جلد 3 370 حضرت عثمان بن عفان نکلے.وہ لوگ مدینہ میں ایک احاطے میں جانا چاہتے تھے جسے حَشِ گوگب کہتے تھے.یہود وہاں اپنے مردے دفن کیا کرتے تھے.جب حضرت عثمان کا جنازہ باہر آیا تو ان لوگوں نے آپ کی چار پائی پر پتھر مارے اور آپ کو گرانے کی کوشش کی.جب یہ بات حضرت علی تک پہنچی تو انہوں نے ان لوگوں کی طرف پیغام بھجوایا اور کہا کہ وہ ایسا کرنے سے باز آجائیں.اس پر وہ لوگ باز آگئے.جنازہ چلا یہاں تک کہ حضرت عثمان کو حش کو کب میں دفن کر دیا گیا.جب امیر معاویہ لوگوں پر غالب آگئے تو انہوں نے حکم دیا کہ اس احاطے کی دیوار کو گرادیا جائے یہاں تک کہ وہ بقیع یعنی قبرستان جو تھا اس میں شامل ہو جائے اور انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے وفات یافتگان کو حضرت عثمان کی قبر کے ارد گرد دفن کریں یہاں تک کہ وہ احاطہ مسلمانوں کی قبروں کے ساتھ جا ملا.698 بعض کتب تاریخ میں یہ بھی بیان ہے کہ اس جگہ کو حضرت عثمان نے خود خرید کر جنت البقیع میں شامل کر دیا تھا.9 699 حضرت عثمان کی شہادت کے بعد کے واقعات شہادت کے بعد کے ایام کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کچھ مختصر ساتحریر کیا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ اب مدینہ انہی لوگوں کے قبضہ میں رہ گیا اور ان ایام میں ان لوگوں نے جو حرکات کیں وہ نہایت حیرت انگیز ہیں.حضرت عثمان کو شہید تو کر چکے تھے.ان کی نعش کے دفن کرنے پر بھی ان کو اعتراض ہوا اور تین دن تک آپ کو دفن نہ کیا جاسکا.آخر صحابہ کی ایک جماعت نے ہمت کر کے رات کے وقت آپ کو دفن کیا.ان لوگوں کے راستوں میں بھی انہوں نے روکیں ڈالیں لیکن بعض لوگوں نے سختی سے مقابلہ کرنے کی دھمکی دی تو دب گئے.100 حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئیاں فرمائی تھیں.ان کا ذکر اس طرح ملتا ہے.حضرت ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے باغ کے دروازے پر پہرہ دینے کا حکم فرمایا.اتنے میں ایک شخص آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اندر آنے دو اور ایسے جنت کی بشارت دو تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں.پھر ایک اور شخص آیا اور اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آنے دو اور اسے جنت کی بشارت دو تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں.پھر ایک اور شخص آیا اور اجازت مانگی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا اسے آنے دو اور اسے جنت کی بشارت دو تاہم ایک بڑی مصیبت اسے پہنچے گی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں.701

Page 391

محاب بدر جلد 3 703 702 371 704 حضرت عثمان بن عفان حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد پر چڑھے جبکہ آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان تھے.احد پہاڑ ہلنے لگا تو آپ نے فرمایا احد ٹھہر جا.راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے اس پر اپنا پاؤں بھی مارا اور فرمایا تم پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں.2 حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شخص اس فتنہ میں حالت مظلومیت میں مارا جائے گا.یہ آپ نے حضرت عثمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا.3 حضرت عثمان نے جو ترکہ چھوڑا تھا اس کے بارے میں جو ذکر ملتا ہے وہ یہ ہے.عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ جس روز حضرت عثمان شہید کیے گئے اس روز آپ کے خزانچی کے پاس آپ کے تین کروڑ پانچ لاکھ درہم اور ڈیڑھ لاکھ دینار پڑے تھے.وہ سب لوٹ لیے گئے.نیز آپ نے رَبزَهُ مقام پر ایک ہزار اونٹ چھوڑے ہوئے تھے.ربذہ حجاز کے رستہ میں مدینہ سے تین دن کی مسافت پر واقع ایک بستی ہے.اسی طرح برادیس اور خیبر اور وادی القریٰ میں دو لاکھ دینار کے صدقات چھوڑے جن سے آپ صدقہ دیا کرتے تھے.پہلے یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں امیر آدمی تھا اور اب میرے پاس صرف دو اونٹ ہیں جو حج کے لیے میں نے رکھے ہوئے ہیں.ہو سکتا ہے کہ جو بات کی جارہی ہے یہ اس وقت کی ہو جب قومی خزانے میں اس قدر مال ہو جو راوی نے حضرت عثمان کی ذات کی طرف منسوب کر دیا ہے اور یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے ذاتی بھی ہوں تو اپنی ذات پر اب خرچ نہیں کرتے تھے بلکہ صدقات اور قومی ضروریات پر ہی خرچ کیا کرتے تھے.بہر حال ایک روایت ہے جو میں نے بیان کی.اس سے پہلے ان کے اپنے حوالے سے بھی ایک روایت بیان ہو چکی ہے اور خزانے کی حفاظت کے لیے جو آدمی مقرر کیے تھے ان خزانچیوں سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قومی خزانہ تھا جس کی حفاظت کے لیے آپ نے مقرر کیا تھا.706 صحابہ حضرت عثمان کے واقعہ شہادت کے بارے میں جو بیان کرتے ہیں وہ اس طرح ہے.حضرت علی سے پوچھا گیا کہ آپؐ ہمیں حضرت عثمان کے بارے میں کچھ بتائیں.آپؐ نے فرمایا وہ تو ایسا تو تھا جو ملا اعلیٰ میں بھی ذوالنورین کہلاتا تھا.707 اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی وہ ذوالنورین تھا.حضرت علی نے فرمایا حضرت عثمان ہم میں سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے تھے.حضرت عائشہ کو جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے فرمایا: ان لوگوں نے آپ کو قتل کر دیا حالانکہ آپ ان سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور ان سب سے زیادہ رب کا تقوی اختیار کرنے والے تھے.708 705 شخص

Page 392

اصحاب بدر جلد 3 372 حضرت عثمان بن عفان 709 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے دامادوں کے حق میں جو دعا ہے اس کی بھی ایک روایت ملتی ہے.الاستیعاب میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عز و جل سے یہ دعامانگی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو آگ میں داخل نہ کرے جو میر اداماد ہو یا جس کا میں داماد ہوں.حضرت عثمان کے لباس اور حلیہ کے بارے میں محمود بن لبید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عثمان بن عفان کو ایک خچر پر اس حالت میں سوار دیکھا کہ آپ کے جسم پر دو زرد چادریں تھیں.حكم بن صلت بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ انہوں نے حضرت عثمان کو خطاب کرتے ہوئے دیکھا جبکہ آپ پر سیاہ رنگ کی چادر تھی اور آپ نے مہندی کا خضاب لگایا ہوا تھا.سُلیم ابو عامر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عثمان بن عفان پر ایک یمنی چادر دیکھی جس کی قیمت سو درہم تھی.محمد بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے عمرو بن عبد اللہ ، نحر وہ بن خالد اور عبد الرحمن بن ابو زناد سے حضرت عثمان کے حلیہ وغیرہ کے بارے میں پوچھا.ان سب نے بغیر اختلاف کے کہا کہ آپ نہ پست قد تھے نہ ہی بہت لمبے.آپؐ کا چہرہ خوبصورت، جلد نرم، داڑھی گھنی اور لمبی، رنگ گندمی، جوڑ مضبوط ، کندھے چوڑے، سر کے بال گھنے تھے.آپ داڑھی کو خضاب سے پیلا کرتے تھے.واقد بن ابو یاسر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان نے اپنے دانتوں کو سونے کی تار سے باندھا ہوا تھا.موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان کو دیکھا کہ آپ جمعہ کے روز باہر تشریف لاتے تو آپ پر دوزر د چادریں ہوتیں.پھر آپؐ منبر پر تشریف رکھتے اور مؤذن اذان دیتا.پھر جب مؤذن خاموش ہو جاتا تو ایک ٹیڑھی مٹھ والے عصا کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے اور عصا ہاتھ میں لیے ہوئے خطبہ دیتے.پھر آپے منبر سے اترتے اور مؤذن اقامت کہتا.حسن بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان کو مسجد میں اپنی چادر کا تکیہ بنا کر سوتے ہوئے دیکھا.710 موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ جمعہ کے روز حضرت عثمان نے ایک عصا کا سہارا لیا ہوا تھا.آپ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھے.آپؐ پر دو زرد رنگ کے کپڑے ہوتے تھے ایک چادر اور ایک تہ بند یہاں تک کہ آپ منبر پر آتے اور اس پر بیٹھ جاتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک انگوٹھی تھی جس پر محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا، کندہ تھا.وہ آنحضرت صلی علی کم استعمال کیا کرتے تھے.اس کے بارے میں روایت آتی ہے.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روم کے بادشاہ کی طرف خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ اگر اس خط پر کوئی مہر نہ لگی ہوئی ہو گی تو آپ کا خط نہیں پڑھیں گے.اس پر آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر یہ نقش تھا محمد رسول اللہ راوی کہتے ہیں گویا میں ابھی بھی انگو تھی کی سفیدی کو آپ کے ہاتھ میں دیکھ رہا ہوں.712 وہ بات مجھے اتنی تازہ ہے.711

Page 393

حاب بدر جلد 3 373 حضرت عثمان بن عفان حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی آپ کے ہاتھ میں رہی.آپ کے بعد حضرت ابو بکر کے ہاتھ میں رہی.حضرت ابو بکر کے بعد حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں رہی.پھر جب حضرت عثمان کا دور آیا تو ایک بار اریس نامی کنویں پر آپ بیٹھے تھے.راوی کہتے ہیں کہ آپ نے وہ انگوٹھی نکالی اور اس سے کھیلنے لگے.یعنی انگلی میں پھیر نے لگ گئے ہوں گے تو وہ گر گئی.* راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عثمان کے ہمراہ تین روز تک اسے تلاش کیا اور کنویں کا سارا پانی بھی باہر نکالا لیکن وہ انگوٹھی نہ مل سکی.اس انگوٹھی کے گم ہونے کے بعد حضرت عثمان نے اسے ڈھونڈ کر لانے والے کے لیے مال کثیر دینے کا اعلان کیا اور اس انگوٹھی کے گم ہونے کا آپ کو بہت زیادہ غم ہوا.جب آپ اس انگوٹھی کے ملنے سے ، اس کی تلاش سے مایوس ہو گئے تو آپ نے ویسی ہی چاندی کی ایک اور انگوٹھی بنانے کا حکم دیا.چنانچہ بالکل ویسی ہی ایک انگوٹھی تیار کی گئی جس کا نقش بھی محمد رسول اللہ تھا.وہ انگو ٹھی آپ نے اپنی وفات تک پہنے رکھی.آپ کی شہادت کے وقت وہ انگوٹھی کسی نامعلوم شخص نے لے لی.713 عشرہ مبشرہ میں بھی آپے شامل تھے.حضرت عبد الرحمن بن آخش سے مروی ہے کہ وہ مسجد میں تھے کہ ایک شخص نے حضرت علی کا بے ادبی سے ذکر کیا.اس پر حضرت سعید بن زید کھڑے ہو گئے اور کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ دس آدمی جنت میں جائیں گے.نبی صلی اللہ علیہ و سلم جنت میں ہوں گے.ابو بکر جنت میں ہوں گے.عمرؓ جنت میں ہوں گے.عثمان جنت میں ہوں گے.علی جنت میں ہوں گے.طلحہ جنت میں ہوں گے.عبد الرحمن بن عوف جنت میں ہوں گے.زبیر بن عوام جنت میں ہوں گے.سعد بن مالک جنت میں ہوں گے اور اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں.راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا کہ دسواں کون ہے ؟ حضرت سعید بن زید کچھ دیر خاموش رہے.اس پر لوگوں نے پھر پوچھا کہ دسواں کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا سعید بن زید یعنی میں خود ہوں.714 پہلے بھی ایک جگہ پہ یہ روایت ان کے ضمن میں بیان کر چکا ہوں.715 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عثمان کے ساتھ جنت میں رفاقت کے بارے میں آتا ہے.حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور میرا رفیق یعنی جنت میں میر اسا تھی، رفیق عثمان ہو گا.716 حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک گھر میں مہاجرین کے ایک گروہ کے ساتھ تھے جن میں ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ ، زبیر ، عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر شخص اپنے ہم کفو کے ہمراہ کھڑا ہو جائے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان سے معانقہ کیا اور بعض روایات کے مطابق یہ انگو ٹھی حضرت عثمان سے نہیں بلکہ ان کے خاتم بر دار حضرت معیقیب سے گری تھی.( صحیح مسلم، کتاب اللباس حدیث 2091 / اسد الغابہ زیر اسم ”معیقیب بن ابی فاطمہ)

Page 394

374 حضرت عثمان بن عفان اصحاب بدر جلد 3 فرمايا أَنْتَ وَلِي فِي الدُّنْيَا وَ وَلِ فِي الْآخِرَةِ کہ تم دنیا میں بھی میرے دوست ہو اور آخرت میں بھی میرے دوست ہو.717 حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام ابوسهله بیان کرتے ہیں کہ یوم الدار کو یعنی جس دن حضرت عثمان کو باغیوں نے آپ کے گھر میں محصور کر کے شہید کر دیا تھا.کہتے ہیں کہ اس دن میں نے حضرت عثمان سے عرض کیا اے امیر المومنین ! ان مفسدین سے لڑیں.حضرت عبد اللہ نے بھی آپ سے عرض کیا کہ اے امیر المومنین! ان مفسدین سے لڑیں.حضرت عثمان نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں لڑائی نہیں کروں گا.رسول اللہ صلی الیم نے مجھ سے ایک بات کا وعدہ کیا تھا.پس میں چاہتا ہوں کہ وہ پورا ہو.18 منافقین کے بے سر و پا اعتراض حضرت عثمان کے غزوہ بدر سے پیچھے رہنے ، اُحد میں فرار اور بیعت رضوان میں شامل نہ ہونے کی بابت اعتراض کیا جاتا ہے.یہ منافقین نے بھی آپ پہ اعتراض کیسے تھے.عثمان بن مَوْهَب بیان کرتے ہیں کہ اہل مصر سے ایک شخص حج کے لیے آیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا.فتنہ پیدا کرنے کے لیے اس نے باتیں کیں.اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ قریشی ہیں.اس نے پوچھا: ان میں یہ بوڑھا شخص کون ہے ؟ لوگوں نے کہا حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ہیں.اس نے کہا اے ابن عمر ! آپ سے ایک بات کے متعلق پوچھتا ہوں.آپ مجھے بتائیں کیا آپ کو علم ہے کہ حضرت عثمان اُحد کے دن فرار ہوئے تھے ؟ انہوں نے کہا ہاں.پھر اس نے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ جنگ بدر سے غیر حاضر رہے اور اس میں شریک نہ ہوئے ؟ انہوں نے کہا ہاں.اس نے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ بیعت رضوان سے بھی غیر حاضر تھے اور اس میں شریک نہیں تھے ؟ انہوں نے کہا ہاں.اس پر اس شخص نے تعجب سے کہا اللہ اکبر.حضرت ابن عمرؓ نے اسے کہا ادھر آؤ.تم نے اعتراض تو کیا ہے.تمہیں حقیقت حال کھول کر بتاتا ہوں.جنگ اُحد کے دن جو اُن کا بھاگ جانا تھا تو میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کر دیا تھا اور آپؐ سے مغفرت کا سلوک فرمایا تھا.اس وقت جب ایسی ہنگامی حالت تھی یہ مشہور ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کافروں نے شہید کر دیا ہے تو اس وقت پھر بہر حال ایسی حالت تھی جو ایک وقتی اضطراب کے طور پہ آپ چلے گئے تھے.کہتے ہیں جہاں تک بدر سے حضرت عثمان کا غائب رہنا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی جو آپ کی بیوی تھیں وہ بیمار تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے فرمایا تھا کہ تم اپنی بیوی کے پاس ہی رہو.تمہارے لیے بدر میں شامل ہونے والوں کی مانند اجر اور مال غنیمت میں سے حصہ ہو گا.اور جہاں تک بیعت رضوان سے آپ کی غیر حاضری ہے تو یاد رکھو اگر وادی مکہ میں حضرت عثمان سے بڑھ کر کوئی اور شخص معزز ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان کی جگہ اس می کو کفار کی طرف سفیر بنا کر بھیجتے.میں.شخص

Page 395

اصحاب بدر جلد 3 375 حضرت عثمان بن عفان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو بھیجا اور بیعت رضوان اس وقت ہوئی جب آپ مکہ والوں کی طرف گئے ہوئے تھے.بیعتِ رضوان کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور آپ نے اپنے بائیں ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ پر زور سے رکھتے ہوئے فرمایا یہ عثمان کے لیے ہے.حضرت ابن عمرؓ نے یہ بیان فرمانے کے بعد اس شخص سے کہا.اب یہ باتیں اپنے ساتھ لے جاؤ اور یاد رکھنا یہ کوئی اعتراض کی باتیں نہیں ہیں.جاؤ.719 یہ بخاری کی روایت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسجد نبوی کی توسیع ہوئی تھی.اس میں بھی حضرت عثمان کو حصہ لینے کی توفیق ملی.ابو ملیح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد مدینہ کی توسیع کے لیے زمین کے ایک ٹکڑے کے مالک کو جو ایک انصاری تھا فرمایا: تمہارے لیے اس قطعہ کے بدلے جنت میں گھر ہو گا مگر اس نے دینے سے انکار کر دیا.اس پر حضرت عثمان آئے اور اس شخص سے کہا کہ تمہارے لیے اس قطعہ کے بدلے ، اس ٹکڑ از مین کے بدلے میں دس ہزار درہم دیتا ہوں.آپ نے اس سے وہ قطعہ خرید لیا.پھر حضرت عثمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی یارسول اللہ ! آپ مجھ سے زمین کا یہ ٹکڑا خریدیں جو میں نے انصاری سے خریدا ہے.اس پر آپ نے وہ زمین کا ٹکڑا حضرت عثمان سے جنت میں گھر کے بدلے خرید لیا.وہی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت عثمان کو فرمائی کہ تمہارا جنت میں گھر ہو گا.حضرت عثمان نے بتایا کہ میں نے دس ہزار درہم کے بدلے میں اسے خرید لیا ہے.اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اینٹ رکھی.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو بلایا تو انہوں نے بھی ایک اینٹ رکھی.پھر حضرت عمرؓ کو بلایا انہوں نے بھی ایک اینٹ رکھی.پھر حضرت عثمان آئے اور انہوں نے بھی ایک اینٹ رکھی.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی لوگوں سے فرمایا کہ اب تم سب اینٹیں رکھو تو ان سب نے رکھیں.720 یہ جو اس کی ایکسٹینشن (extension) ہوئی تھی تو اس طرح اس کی بنیاد پڑی.تُمَامَه بن حَنان قُشَيْرِی بیان کرتے ہیں کہ میں محاصرے کے وقت حاضر تھا جب حضرت عثمان نے جھانک کر لوگوں سے فرمایا.جب حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تھا تو حضرت عثمان نے فرمایا: تمہیں اللہ اور اسلام کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو رومہ نامی کنویں کے علاوہ میٹھے پانی کا کوئی انتظام نہ تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو رومہ کنویں کو خریدے گا تا کہ وہ اس میں اپنا ڈول مسلمانوں کے ڈول کے ساتھ ڈالے.یعنی وہ خود بھی پیے اور مسلمان بھی اس سے پئیں اور جنت میں اس کے لیے اس سے بہتر بدلہ ہو گا.حضرت عثمان نے کہا کہ اس پر میں نے وہ کنواں اپنے ذاتی مال سے خریدا اور اس میں اپنا ڈول مسلمانوں کے ڈولوں کے ساتھ ڈالا اور آج تم مجھے اس سے پانی پینے سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ میں سمندر کا پانی پینے پر مجبور ہو جاؤں.اس پر لوگوں نے کہا اللہ کی قسم ! آپ نے درست فرمایا ہے.پھر حضرت عثمان نے

Page 396

حاب بدر جلد 3 376 حضرت عثمان بن عفان فرمایا: میں تمہیں اللہ اور اسلام کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ میں نے جیش عُسرہ، غزوہ تبوک کے لشکر کی تیاری اپنے مال سے کی تھی.اس پر لوگوں نے کہا اللہ کی قسم ایسے ہی ہے.پھر آپ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ اور اسلام کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ یہ مسجد نبوی جب نمازیوں کے لیے تنگ ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص فلاں خاندان سے زمین کا یہ ٹکڑا خرید کر مسجد میں شامل کر دے گا تو اس کے لیے جنت میں اس سے بہتر ہو گا.چنانچہ میں نے زمین کا یہ ٹکڑا اپنے ذاتی مال سے خرید کر مسجد میں شامل کر دیا اور اب تم لوگ مجھے اس مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے سے بھی روک رہے ہو.اس پر ان لوگوں نے کہا اللہ کی قسم ایسا ہی ہے.721 پھر آپ نے فرمایا میں تمہیں اللہ اور اسلام کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی شہید نامی پہاڑی پر تھے اور آپ کے ہمراہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ اور میں تھا.جب پہاڑی لرزی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا پاؤں مارتے ہوئے فرمایا اے شبیر ! ٹھہر جا کیونکہ تجھ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں.اس پر ان لوگوں نے کہا اللہ کی قسم ایسا ہی ہے.آپ نے فرمایا اللہ اکبر رب کعبہ کی قسم ان لوگوں نے میرے حق میں یہ گواہی دے دی ہے یعنی یہ کہ میں شہادت کا مقام پانے والا ہوں.مسجد نبوی کی مزید توسیع جو ہوئی وہ زیادہ تر حضرت عثمان کے زمانے میں ہوئی تھی.اس لیے اس کی مختصر تاریخ اور ابتدائی حالات اور پھر توسیع کے بارے میں جو بھی بیان ہے وہ بتاتا ہوں.پہلے تو یہ بیان کیا گیا ہے ناں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں توسیع کی گئی.اس کے بارے میں ایک نوٹ یہ بھی ہے کہ ماہ ربیع الاول یکم ہجری بمطابق اکتوبر 622ء کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے مسجد نبوی کا سنگ بنیادرکھا.بنیاد تقریباً تین ذرع یعنی ڈیڑھ میٹر گہری تھی.بنیاد کے لیے پتھر سے گھڑی ہوئی اینٹوں سے دیوار بنائی گئی جبکہ اوپر کی دیوار گارے سے بنی اور دھوپ میں سکھائی گئی کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھی اور دھوپ میں سکھائی گئی.دیوار کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھی.722 یہ مسجد کی تعمیر کی تاریخ ہے.ساتھ ساتھ اس میں توسیع کا بھی ذکر آجائے گا.مسجد کی دیواریں تقریباً پون میٹر، تقریبا دو اڑھائی فٹ چوڑی رکھی گئی تھیں، جن کی اونچائی تقریباً سات ذرع یعنی تقریباً ساڑھے تین میٹر تھی.723 725 مسجد نبوی کی تکمیل ماہ شوال یکم ہجری، اپریل 623ء میں ہوئی.724 حضرت خارجہ بن زید بن ثابت کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد کا طول ستر ذرع، تقریباً 35 میٹر اور عرض ساٹھ ذرع، تقریباً 30 میٹر رکھا تھا.رسول کریم صلی علیم کے دور میں مسجد نبوی کی پہلی توسیع محرم 17 ہجری، جون 628ء میں ہوئی.جب رسول الله صلى ليوم غزوہ خیبر سے کامیاب ہو کر کوٹے تو آپ نے مسجد نبوی کی توسیع اور تعمیر نو کا حکم جاری فرمایا.مسجد کی توسیع جنوبی یعنی جانب قبلہ اور مشرقی جانب نہ کی گئی.زیادہ تر توسیع شمالی جانب کی

Page 397

اصحاب بدر جلد 3 377 حضرت عثمان بن عفان گئی اور کچھ مغربی جانب بھی.شمالی جانب صحابہ کرام کے چند گھر تھے.اس جانب ایک انصاری صحابی کا گھر تھا جس کو اپنا مکان دینے میں کچھ پس و پیش تھا.ایسے میں جیسے کے پہلے بیان ہو چکا ہے حضرت عثمان بن عفان نے اپنی جیب سے دس ہزار دینار دے کر وہ گھر خرید لیا اور نبی کریم صلی ای کمی کی خدمت میں پیش کیا.اس طرح مسجد کی توسیع زیادہ تر شمالی جانب اور مغربی جانب ممکن ہو سکی.اس توسیع کے بعد مسجد کا کل رقبہ 100 × 100 ذرع یعنی 50x50 میٹر ہو گیا.726 حضرت عمرؓ کے دور میں مسجد نبوی کی دوسری توسیع 17 / ہجری میں ہوئی.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صل اللی یم کے دور میں مسجد کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی جس کی چھت کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں سے بنی ہوئی تھی اور ستون کھجور کے تنوں کے تھے.حضرت ابو بکر صدیق نے اس کو اسی حالت میں رہنے دیا اور اس میں کوئی تبدیلی یا توسیع نہیں کی.حضرت عمرؓ نے اس کی تعمیر نو اور توسیع کروائی مگر اس کی ہیئت اور طرز تعمیر میں کوئی تبدیلی نہیں کروائی.جس طرح تھا انہی بنیادوں پر یا اسی طرح پرانا حصہ رہنے دیا تھا.انہوں نے بھی اسے اسی طرح کے طرز تعمیر سے بنوایا صرف ایکسٹینشن ہوئی.چھت پہلے کی طرح کھجور کے پتوں کی ہی رہی.انہوں نے صرف ستون لکڑی کے ڈلوا دیے.حضرت عمر نے 17 ہجری میں مسجد کی تعمیر کو اپنے زیر نگرانی مکمل کروایا.اس توسیع کے بعد مسجد کا رقبہ 50x50 میٹر جو پہلے تھا سے بڑھ کر 60x70 میٹر ہو گیا یا 120x140 ذرع ہو گیا.اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کے دور میں بھی مسجد نبوی وہی رہی جو کہ رسول اللہ صل الیم کے عہد میں تھی تاہم حضرت عمر کی تعمیر نو کے ساتھ اس میں کافی توسیع ہو گئی.727 پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور تعمیر نو بھی ہوئی.یہ 129 ہجری کا واقعہ ہے.حضرت عثمان نے مسجد نبوی کی توسیع اور تعمیر نو کی تو اسے خوبصورت اور مضبوط بنانے کے لیے پتھر جسم اور نقش و نگار کا استعمال کیا.حضرت عثمان نے دیواریں پتھر کی بنوائیں جن پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور مسجد نبوی میں پہلی بار سفیدی کے لیے چونے کا استعمال بھی کیا گیا.چھت میں شیشم کی لکڑی استعمال ہوئی تھی.جب حضرت عثمان 124 ہجری میں خلیفہ منتخب ہوئے تو لوگوں نے ان سے درخواست کی کہ مسجد نبوی کی توسیع کر دی جائے.انہوں نے ن کی تنگی کی شکایت کی.خاص طور پر نماز جمعہ کے اجتماعات پر ایسا کثرت سے ہوتا.اکثر ہو تا کہ لوگوں کو مسجد کے باہر والے حصہ میں نماز ادا کرنی پڑتی تھی.لہذا حضرت عثمان نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا.سب کی رائے یہی تھی کہ پرانی مسجد کو مسمار کر کے اس کی جگہ نئی مسجد تعمیر کر دی جائے.پہلی مسجد کو گرا دیا جائے، نئی تعمیر کی جائے.ایک دن حضرت عثمان نے نماز ظہر کے بعد منبر پر خطبہ دیا اور فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں.میں مسجد کو مسمار کر کے اس کی جگہ نئی مسجد بنانا چاہتا ہوں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا ہے کہ جو بھی مسجد بناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں ایک گھر عطا کر دیتا ہے.مجھ سے پہلے حضرت عمر فاروق تھے ان کے ہاتھوں

Page 398

اصحاب بدر جلد 3 378 حضرت عثمان بن عفان مسجد نبوی کی توسیع اور تعمیر نو میرے لیے ایک مثال اور نظیر ہے.میں نے صائب الرائے اصحاب سے مشورہ کیا ہے اور ان سب کی متفقہ رائے یہی ہے کہ مسجد نبوی کو مسمار کر کے اسے دوبارہ بنایا جانا چاہیے.جب حضرت عثمان نے مسجد کی تعمیر نو کا منصوبہ پیش کیا تو چند صحابہ کرام نے اس معاملے میں اپنے تحفظات پیش کیے.ان کا خیال تھا گرانی نہیں چاہیے.ان میں وہ صحابہ کرام شامل تھے جو بالکل مسجد نبوئی کے قریب مقیم تھے اور جن کے مکانات اس منصوبے سے متاثر ہوتے نظر آ رہے تھے.عوام کی اکثریت نے تو اس منصوبے کی حمایت کی مگر چند صحابہ کرام نے اعتراض کیا.حضرت أفلح بن حمید نے بیان کیا کہ جب حضرت عثمان نے چاہا کہ منبر پر تشریف لا کر لوگوں کی رائے معلوم کریں تو مروان بن حکم نے کہا بلا شبہ یہ ایک نیک کام ہے.لہذا کیا ضرورت ہے کہ آپ لوگوں کی رائے معلوم کریں.اس پر حضرت عثمان نے ان کی سرزنش کی اور سر زنش کرتے ہوئے فرمایا تیر ابھلا ہو میں کسی معاملے میں لوگوں پر جبر واکراہ کا قائل نہیں ہوں.مجھے ان سے ضرور مشورہ کرنا ہے.آپ نے فرمایا میں اپنی رائے کولوگوں پر مسلط کرنا نہیں چاہتا.میں تو جو کام بھی کروں گا ان کی مرضی سے کروں گا.پھر جب آپ نے اپنے منصوبے کے متعلق اہل الرائے اصحاب کو اعتماد میں لے لیا تو مسجد نبوی کی شمالی جانب واقع گھروں کو خرید کر ان کی زمین حاصل کی.اگر چہ آپ نے معاوضہ کے طور پر ان اصحاب کو کافی رقوم پیش کی تھیں مگر پھر بھی چند اصحاب اپنے مکانات دینے کے حق میں نہ تھے اور تقریباً چار سال گزر گئے مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہو سکی.حضرت عبید اللہ جولائی سے مروی ہے کہ جب لوگ اپنے مکانات دینے کے لیے پس و پیش کر رہے تھے اور دلائل طوالت پکڑتے جارہے تھے تو میں نے حضرت عثمان کو کہتے ہوئے سنا تم لوگ بہت باتیں بنا چکے.میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے مسجد کی تعمیر کرے گا اللہ تعالیٰ اجر میں اس کے لیے ایسا ہی محل جنت میں تعمیر کروائے گا.اسی طرح حضرت محمود بن لبیڈ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان نے مسجد نبوی کی تعمیر نو کا ارادہ کیا تو لوگوں کو ان کا منصوبہ پسند نہ آیا.ان کا اصرار تھا کہ مسجد نبوی کو اسی حالت میں رہنے دیا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھی.اس پر آپ نے فرمایا جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے مسجد تعمیر کرے گا اللہ تعالیٰ اجر میں اس کے لیے ایسا ہی محل جنت میں تعمیر کروائے گا.جب حضرت عثمان لوگوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو آپ نے ماہ ربیع الاول 129 ہجری، نومبر 649ء میں کام کی ابتدا کروا دی.تعمیر نو کے کام میں صرف دس ماہ صرف ہوئے اور یوں یکم محرم 130 ہجری کو مسجد نبوی تیار ہو گئی.آپ بنفس نفیس کام کی نگرانی فرماتے تھے.دن کے وقت ہمیشہ روزہ رکھتے اور رات کے وقت اگر نیند مجبور کرتی تو مسجد نبوی میں ہی ستالیا کرتے تھے.حضرت عبد الرحمن بن سَفِينَہ سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ مسجد کی تعمیر کے لیے مصالحہ اٹھا اٹھا کر حضرت عثمان غنی کے پاس لایا جاتا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ ہمیشہ اپنے پاؤں پر کھڑے کھڑے کاریگروں سے کام

Page 399

صحاب بدر جلد 3 379 حضرت عثمان بن عفان کرواتے اور پھر جب نماز کا وقت آجاتا تو ان کے ساتھ نماز ادا کرتے اور پھر کبھی کبھی وہیں سو بھی جایا کرتے تھے.حضرت عثمان نے مسجد نبوی کو جنوب میں قبلہ کی جانب وسعت دی اور اس کی قبلہ کی دیوار کو اس جگہ تک لے آئے جہاں کہ آج تک ہے.شمالی جانب اس میں پچاس ذرع، تقریباً 25 میٹر کا اضافہ کیا گیا اور کچھ توسیع مغربی جانب بھی کروائی گئی.البتہ شرقی جانب جہاں حجرات مبارکہ تھے کوئی توسیع نہیں کی گئی.اس کے بعد مسجد نبوی کا کل رقبہ 160 × 150 ذرع یعنی تقریباً80×75 میٹر ہو گیا.حضرت عثمان کے دور میں مسجد کے دروازوں کی تعداد چھ تھی.پہلی مرتبہ مسجد نبوی میں پتھروں نقش و نگار بنوائے گئے.اس میں سفیدی کروائی گئی.حضرت خَارِجہ بن زید کے بیان کے مطابق حضرت عثمان نے مسجد نبوی کی شرقی اور غربی دیواروں میں روشن دان رکھوائے تھے.مسجد نبوی کی توسیع کے لیے حضرت عثمان کو جو مکان لینے پڑے ان میں ام المومنین حضرت حفصہ کا حجرہ بھی شامل تھا جن کو اس کا متبادل مکان دیوار قبلہ سے متصل جنوب مشرقی کونے پر دے دیا گیا تھا اور ایک دریچہ کے ذریعہ سے ان کی آمد ورفت حجرے تک ممکن اور آسان بنادی گئی تھی.اس کے علاوہ حضرت جعفر بن ابو طالب کے ورثاء سے ان کے مکان کا نصف حصہ ایک لاکھ درہم کے عوض خریدا گیا اور اس طرح دار العباس کا کچھ حصہ خرید کر مسجد نبوی میں شامل کیا گیا تھا.دیوار قبلہ کو جنوبی جانب لے جانے کے علاوہ سب سے نمایاں فرق جو کہ مسجد نبوی میں ہو ا وہ یہ تھا کہ محراب نبوی کی جگہ مقام قبلہ بھی اس کی سیدھ میں اتنا ہی آگے لے جانا پڑا جہاں تک دیوار قبلہ لے جائی گئی تھی جو عین اسی جگہ پر تھی جہاں آج کل ہم محراب عثمانی کو دیکھتے ہیں وہاں علامتی محراب بھی بنائی گئی تھی.مٹی کے گارے کی جگہ انہوں نے پسا ہوا پتھر استعمال کروایا تھا اور پتھر سے بنے ہوئے ستون میں سیسے کی بنی سلاخیں ڈلوائی گئی تھیں.اس بات کا خاص اہتمام رکھا گیا کہ نئے ستون انہی ستونوں کی جگہ استوار کیے جائیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارکہ میں کھجور کے تنے سے بنے ہوئے ستون ہوا کرتے تھے.تعمیر میں جو مواد اور طرز تعمیر استعمال ہو اوہ اسی طرح کا تھا جیسا کہ یروشلم میں گنبد صخرہ کی تعمیر میں باز نطینیوں نے استعمال کیا تھا.چھت شیشم کی لکڑی سے بنائی گئی تھی جو کہ لکڑی کے شہتیروں پر رکھی گئی تھی جو سیسہ پلائے پتھروں کے ستونوں پر استوار تھے.چونکہ حضرت عمر کی شہادت محراب نبوی میں نماز کی امامت کرواتے ہوئے ہوئی تھی، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ آئندہ کوئی ایسا حادثہ رونما نہ ہو حضرت عثمانؓ نے محراب کے مقام پر ایک مقصورہ (مسجد میں صفوں سے آگے امام کے لیے کھڑا ہونے کی جگہ جس میں منبر بنا ہو تا ہے ) تعمیر کروایا جو کہ مٹی کی اینٹوں سے بنا تھا اور اس میں جھرو کے اور روزن رکھے گئے تھے تاکہ مقتدی اپنے امام کو دیکھ سکیں.یہ پہلا حفاظتی طریقہ تھا جو کہ مسجد نبوی میں تعمیر ہو ا جو کہ بعد میں دمشق میں خلفائے بنو امیہ کے حفاظتی پروٹوکول کا با قاعدہ حصہ بن گیا تھا.728 یعنی محراب کو دیوار بنا کے محفوظ کیا گیا تھا لیکن مقتدی امام

Page 400

ناب بدر جلد 3 کو دیکھ سکتے تھے.380 حضرت عثمان بن عفان بہر حال اس کے بعد پھر مختلف وقتوں میں مسجد کی توسیع ہوتی رہی ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام سے مشابہت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ : " حضرت عثمانؓ کو تو میں حضرت سلیمان سے تشبیہ دیتا ہوں.ان کو بھی عمارات کا بڑا شوق تھا.حضرت علی کے وقت میں اندرونی فتنے ضرور تھے.ایک طرف معاویہ تھے اور دوسری طرف علی اور ان فتنوں کے باعث مسلمانوں کے خون ہے.6 سال کے اندر اسلام کے لیے کوئی کارروائی نہیں ہوئی.اسلام کے لیے تو عثمان تک ہی ساری کارروائیاں ختم ہو گئیں.پھر تو خانہ جنگی شروع ہو گئی.7291 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : " یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرضع اور پکی عمارت کی ہو بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو تا کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو.خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی.پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا.مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمان اور عثمان کا قافیہ خوب ملتا ہے.شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا."730 مسجد الحرام کی توسیع 126 ہجری میں ہوئی.126 ہجری میں حضرت عثمان نے حرم کے نشانات کی از سر نو تجدید کی اور مسجد الحرام کی توسیع فرمائی اور ارد گرد کے مکانات خرید کر مسجد الحرام میں شامل کیے.بعض لوگوں نے اپنی رضا مندی سے مکانات فروخت کر دیے لیکن بعض اپنے مکانات فروخت کرنے پر راضی نہ ہوئے.حضرت عثمان نے ان کو ہر ممکن طریقے سے راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے موقف پر قائم رہے.آخر حضرت عثمان کے حکم سے وہ تمام مکانات گرا دیے گئے اور ان کی قیمت آپ نے بیت المال میں جمع کرادی.اس پر ان لوگوں نے حضرت عثمان کے خلاف شور مچایا تو آپ نے انہیں گرفتار کر کے جیل بھیجنے کا حکم دیا.پھر ان سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا.کیا تم جانتے ہو کہ کس بات کی وجہ سے تم میں میرے خلاف یہ جرات ہوئی ہے ؟ اس جرآت کا سبب صرف میر اعلم ہے.حضرت عمرؓ نے بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا تھا مگر ان کے خلاف تو تم لوگوں نے کوئی ہنگامہ نہ کیا تھا.اس کے بعد عبد اللہ بن خالد بن 731 اُسید نے حضرت عثمان سے ان ہنگامہ کرنے والوں کے بارے میں بات کی تو انہیں چھوڑ دیا گیا.پہلا اسلامی بحری بیڑا بھی 128 ہجری میں حضرت عثمان کے زمانے میں بنایا گیا.امیر معاویہ بن ابو سفیان وہ پہلے حص تھے جنہوں نے حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں بحری جنگ کی.امیر معاویہ نے

Page 401

اصحاب بدر جلد 3 381 حضرت عثمان بن عفان حضرت عمرؓ سے بھی بحری جنگ کی اجازت مانگی تھی لیکن آپ نے اجازت نہیں دی تھی.جب حضرت عثمان خلیفہ منتخب ہوئے تو امیر معاویہ نے آپ سے بھی بار بار تذکرہ کیا اور اجازت مانگی.آخر کار حضرت عثمان نے اجازت دے دی اور فرمایا کہ تم خود لوگوں کا انتخاب نہ کرو اور نہ ہی ان کے درمیان قرعہ اندازی کرو بلکہ انہیں اختیار دو.پھر جو اپنی خوشی سے اس جنگ میں شامل ہونا چاہے اسے ساتھ لے جاؤ اور اس کی مدد کرو.چنانچہ امیر معاویہ نے ایسا ہی کیا.انہوں نے عبد اللہ بن قیس جاسی کو امیر البحر مقرر کیا جس نے سمندر میں موسم گرما اور موسم سرما میں پچاس جنگیں کیں اور ان سب جنگوں میں مسلمانوں کا نہ تو کوئی سپاہی ڈوبا اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی نقصان ہوا.732 روایت میں یہ آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اخلاق میں سب سے زیادہ مشابہت حضرت عثمان کی تھی.حضرت عبد الرحمن بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کے پاس تشریف لائے جبکہ وہ حضرت عثمان کا سر دھو رہی تھیں.آپ نے فرمایا: اے میری بیٹی ! ابو عبد اللہ یعنی عثمان سے بہترین سلوک سے پیش آیا کرو کیونکہ وہ میرے صحابہ میں سے اخلاق کے لحاظ سے سب سے زیادہ میرے مشابہ ہے.حضرت یحی بن عبد الرحمن بن حاطب بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بات کو مکمل اور خوبصورت رنگ میں بیان کرنے 733 میں حضرت عثمان سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا تا ہم آپ زیادہ بات چیت سے گریز کرتے تھے.734 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.غالباً یہاں حضرت رقیہ کی جگہ حضرت ام کلثوم مراد ہو سکتی ہیں کیونکہ روایت میں ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر حضرت رقیہ کی وفات ہو گئی تھی اور حضرت ابو ہریرۃ اس کے پانچ سال کے بعد مسلمان ہوئے تھے اور مدینہ آئے تھے تو حضرت ام کلثوم مراد ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کی وفات 19 ہجری میں ہوئی تھی.بہر حال یہ روایت ہے کہ بنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو اجو حضرت عثمان کی بیوی تھیں اور ان کے ہاتھ میں کنگھی تھی.انہوں نے بتایا کہ ابھی ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے تشریف لے گئے ہیں اور میں نے آپ کے سر میں کنگھی کی ہے تو آپ نے مجھ سے پوچھا کہ تم ابو عبد اللہ حضرت عثمان کو کیسا پاتی ہو ؟ میں نے عرض کیا بہت عمدہ.آپ نے فرمایا : پس تو بھی ان سے عزت سے پیش آیا کر کیونکہ وہ میرے صحابہ میں سے اخلاق کے لحاظ سے مجھ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں.735 حضرت عثمان میں عفت اور حیا بہت زیادہ تھی.اس بارے میں ایک روایت ہے.حضرت انس بن

Page 402

حاب بدر جلد 3 382 حضرت عثمان بن عفان مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابو بکر نہیں.اللہ کے دین میں ان سب سے زیادہ مضبوط عمر نہیں.ان میں سب سے زیادہ حقیقی حیا والے عثمان ہیں.ان میں سے سب سے عمدہ فیصلہ کرنے والے علی بن ابی طالب ہیں.ان میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کو جاننے والے اُبی بن کعب نہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ حلال و حرام کو جاننے والے معاذ بن جبل نہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ فرائض کو جاننے والے زید بن ثابت نہیں.سنو ہر امت کے لیے ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ بن جرات ہیں.736 حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابو بکر نہیں اور اللہ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ میں ان میں سب سے زیادہ مضبوط عمر نہیں اور ان میں سب سے زیادہ حیا کرنے والے عثمان ہیں.7 737 738 حضرت عثمان بن عفان فرماتے ہیں کہ نہ میں نے کبھی لا پروائی کی اور نہ میں نے کبھی تمنا کی.یعنی خلافت کی یا کسی بھی عہدے کی یا جھوٹی تمنا نہیں کی.حضرت عائشہ آپ کی حیا کے بارے میں روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صل الی تم میرے گھر میں اپنی رانوں یا پنڈلیوں سے کپڑا ہٹائے ہوئے لیٹے تھے کہ حضرت ابو بکر نے اجازت مانگی تو آپ نے اسی حالت میں انہیں اجازت دی.پھر آپ باتیں کرنے لگے.پھر حضرت عمر نے اجازت مانگی تو آپ نے اسی حالت میں انہیں بھی اجازت دے دی.پھر بھی آپ باتیں کرتے رہے.پھر جب حضرت عثمان نے اجازت مانگی تو رسول اللہ صل اللہ تم بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو ٹھیک کیا.محمد جو راوی ہیں کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب ایک دن میں ہوا.مختلف وقتوں کی باتیں ہو سکتی ہیں.وہ آئے باتیں کیں اور جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ ابو بکر آئے لیکن ان کے لیے آپ نے کوئی خاص خیال نہ کیا.پھر عمر آئے تو ان کے لیے بھی آپ نے کوئی خاص خیال نہ کیا.لیکن جب عثمان اندر آئے تو آپ بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے ٹھیک کرنے لگے.اس پر آپ نے فرمایا کیا میں اس شخص کا لحاظ نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں ! ایک دوسری جگہ اس روایت کو بیان کرتے ہوئے یہ بات لکھی ہے کہ جب حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ صرف حضرت عثمان کے لیے آپ نے یہ ایسا خاص اہتمام کیوں کیا؟ تو آپ صلی المیڈم نے فرمایا: کیا میں اس سے حیانہ کروں جس سے فرشتے بھی دیا کرتے ہیں ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللی کم کی جان ہے ! یقیناً فرشتے عثمان سے اسی طرح حیا کرتے ہیں جیسے وہ فرشتے اللہ اور اس کے رسول سے حیا کرتے ہیں.اگر عثمان اندر آتے اور تو میرے قریب ہی ہوتی تو ان میں اتنی حیا ہے کہ وہ واپس جانے تک نہ ہی اپنا سر اوپر اٹھاتے یعنی نظر اوپر بھی نہ اٹھاتے اور نہ ہی کوئی بات کرتے.739 حضرت عثمان کا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں.یہ واقعہ آپ نے اللہ

Page 403

اصحاب بدر جلد 3 383 حضرت عثمان بن عفان تعالیٰ کی صفت کریم کے بیان میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم ہے.فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی الی کم کا ایک واقعہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کریم سے شرم کی جاتی ہے.کریم جو صفت ہے جس میں ہو اُس سے شرم کی جاتی ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی ال یکم اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ کی ٹانگوں کا کچھ حصہ نگا تھا کہ حضرت ابو بکر آئے اور بیٹھ گئے.پھر حضرت عمر آئے اور بیٹھ گئے مگر آپ نے کوئی پروانہ کی.تھوڑی دیر گزری تھی کہ حضرت عثمان نے دستک دے دی.آپ فوراً اٹھ بیٹھے اور اپنی ٹانگوں کو کپڑے سے ڈھانک لیا اور فرمایا عثمان بہت شرمیلا ہے.اس کے سامنے ٹانگ کا کچھ حصہ ننگا رکھتے ہوئے شرم آتی ہے.چنانچہ حدیث کے الفاظ ہیں (پہلے بیان بھی ہوئے ہیں ) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی لی لیکر گھر میں بیٹھے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا ہٹایا ہوا تھا.اسی حالت میں ابو بکر نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ اسی طرح لیٹے رہے اور آپ نے اجازت دے دی، ان سے گفتگو فرماتے رہے.پھر عمر آئے.انہوں نے اجازت طلب کی.آپ نے اجازت دے دی اور صا الله سة اسی طرح لیٹے رہے.(لیٹے ہوئے تھے یا بیٹھے ہوئے تھے) پھر تھوڑی دیر بعد عثمان آئے تو نبی کریم صلی املی کیم اٹھ کھڑے ہوئے اور کپڑے کو درست کر لیا اور ان کو اندر آنے کی اجازت دے دی.جب سب چلے گئے تو حضرت عائشہ نے نبی کریم صلی العلیم سے سوال کیا کہ یارسول الله ؟ ابو بکر آئے اور عمر آئے تو آپ نے ان کی آمد پر خاص پروانہ کی اور اسی طرح لیٹے رہے جیسے لیٹے تھے لیکن عثمان کی آمد پر آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور کپڑے ٹھیک کر لیے.آپ نے جواب دیا اے عائشہ ! کیا میں اس سے شرم نہ کروں جس سے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں.تو دیکھو رسول اللہ صلی للی کم نے عثمان کی شرم کا لحاظ کیا کہ وہ لوگوں سے شرماتے تھے.آپ ان سے شرمائے یعنی حضرت عثمان لوگوں سے شرماتے تھے اس لیے آنحضرت صلی یکم ان سے شرمائے.اس واقعہ کو بیان کر کے آپ نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کریم ہونے سے لو گوں کو گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے.حیا کرنی چاہیے اس کی بات ماننی چاہیے.نہ یہ کہ گناہوں پر جرآت پیدا ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ بڑا کریم ہے کرم کر دے گا.ہمارے گناہوں کے باوجود ہم پر کرم کر دے گا.آپ فرماتے ہیں کہ اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی صفت کریم ہے تو پھر بندے کو بھی حیا کرنی چاہیے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے.740 تواضع اور سادگی کے بارے میں آتا ہے.عبد اللہ رومی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رات کے وضو کا خود انتظام کرتے تھے.آپؐ سے عرض کی گئی کہ اگر آپ کسی خادم کو حکم دیں تو وہ آپ کے لیے انتظام کر دیا کرے.اس پر آپ نے فرمایا: نہیں، رات تو ان لوگوں کی ہے جس میں یہ آرام کرتے ہیں.741 یعنی کہ کام کرنے والے خدمت گزاروں کو رات کو آرام کرنے کے لیے وقت دینا چاہیے.علقمہ بن وقاص بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عاص نے حضرت عثمان سے عرض کیا جبکہ

Page 404

ب بدر جلد 3 384 حضرت عثمان بن عفان آپ منبر پر تھے کہ اے عثمان ! آپ نے اس امت کو ایک بہت ہی مشکل معاملے میں ڈال دیا.آپ نے خطاب فرمایا.کچھ باتیں کیں، کچھ تنبیہ کی امت کو.پس آپ تو بہ کریں اور وہ بھی آپ کے ساتھ تو بہ کریں.اللہ کا بڑا خوف دلایا تھا تو اس پر ایک صحابی نے یہ عرض کر دی.742 راوی کہتے ہیں اس پر آپ نے اسی وقت اپنا چہرہ قبلہ رخ کیا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا.اَللهُمَّ إِنِّي أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ کہ اے اللہ ! یقینا میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور تیری طرف جھکتا ہوں.اور اس موقع پر موجود لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی.یہ اللہ تعالیٰ سے خوف اور خشیت اور آپ کی عاجزی کا مقام ہے کہ فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے.کسی بحث میں نہیں پڑے.اپنے لیے دعا کی، امت کے لیے دعا کی.سخاوت اور فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں روایات ملتی ہیں.حضرت عثمان خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس چیزیں اپنے رب کے حضور چھپا کے رکھی ہوئی ہیں.میں سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے چوتھا شخص ہوں.نہ میں نے کبھی لہو ولعب والے گانے سنے اور نہ کبھی جھوٹی بات کی ہے اور جب سے میں نے رسول اللہ صلی علیم کی بیعت کی ہے تب سے میں نے اپنی شرمگاہ کو اپنے دائیں ہاتھ سے نہیں چھوا اور اسلام قبول کرنے کے بعد مجھ پر کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا جس میں میں نے کوئی گردن آزاد نہ کی ہو ماسوائے اس جمعہ کے کہ جس میں میرے پاس آزاد کرنے کے لیے کوئی غلام نہ ہو.اس صورت میں میں جمعہ کے علاوہ کسی اور دن میں غلام آزاد کر دیتا تھا اور میں نے نہ زمانہ جاہلیت میں زنا کیا اور نہ ہی اسلام میں.3 حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان نے اپنے گھر کے 744 743 محاصرہ کے دوران ہمیں غلام آزاد کیے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی نیلم کے ساتھ ایک جنگ میں تھے کہ لوگوں کو بھوک کی تکلیف آ پہنچی یہاں تک کہ میں نے مسلمانوں کے چہروں پر پریشانی اور منافقین کے چہروں پر خوشی کے آثار دیکھے.جب رسول اللہ صلی علیہم نے یہ کیفیت دیکھی تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ! سورج غروب نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے رزق کے سامان فرما دے گا.حضرت عثمان کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول بالکل سچ فرماتے ہیں.چنانچہ آپ نے چودہ اونٹ غلہ سمیت خریدے اور ان میں سے نو نبی صلی کم کی خدمت میں بھجوادیے.رسول اللہ صلی اللی یکم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ بتایا گیا کہ حضرت عثمان نے یہ آپ کی طرف ہدیہ ارسال کیے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی علیم کے چہرے پر خوشی اور مسرت پھیل گئی اور منافقوں کے چہروں پر بے چینی اور پریشانی چھا گئی.تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی علیم نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے یہاں تک کہ آپ کی بغل کی سفیدی نظر آنے لگی اور آپ نے حضرت عثمان کے لیے دعا کی.میں نے نبی کریم صلی این کم کو کسی اور کے الله

Page 405

محاب بدر جلد 3 385 حضرت عثمان بن عفان حق میں ایسی دعا کرتے ہوئے نہ پہلے کبھی سنا اور نہ بعد میں، اور وہ دعا یہ تھی اللَّهُمَّ أَعْطِ عُثْمَانَ اللَّهُم افعل بعثمان.اے اللہ ! عثمان کو بہت عطا فرما.اے اللہ ! عثمان پر اپنا فضل و کرم نازل فرما.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم میرے پاس تشریف لائے تو آپ نے گوشت دیکھ کر فرمایا یہ کس نے بھیجا ہے ؟ میں نے عرض کیا حضرت عثمان نے.آپ کہتی ہیں کہ اس پر میں نے رسول اللہ صلی علیکم کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر عثمان کے لیے دعا کرتے دیکھا.محمد بن ہلال اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی دادی حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتی تھیں جبکہ آپ گھر میں محصور کر دیے گئے تھے.وہ بتاتے ہیں کہ ان کی دادی کے ہاں بیٹا پید اہوا جس کا نام ہلال رکھا گیا.جب ایک روز حضرت عثمان نے انہیں موجود نہ پایا تو پوچھنے پر آپ کو معلوم ہوا 746 745 کہ آج رات ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے.میری دادی کہتی ہیں کہ اس پر حضرت عثمان نے میری طرف پچاس درہم اور ایک بڑی چادر میں سے ٹکڑا بھجوایا اور فرمایا تیرے بیٹے کا وظیفہ ہے اور یہ اس کے پہننے کے لیے کپڑا ہے.جب اس کی عمر ایک سال ہو جائے گی تو ہم اس کا وظیفہ بڑھا کر سو درہم کر دیں گے.ابن سعید بن يزبوع بیان کرتے ہیں کہ میں ایک بار دو پہر کے وقت گھر سے نکلا جبکہ میں بچہ تھا.میرے پاس ایک پرندہ تھا جسے میں مسجد میں اڑا رہا تھا.کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک خوبصورت چہرے والے بزرگ لیٹے ہوئے ہیں.ان کے سر کے نیچے اینٹ یا اینٹ کا کوئی ٹکڑا تھا.تکیہ کی جگہ اینٹ رکھی ہوئی تھی.میں کھڑا ہو کر ان کی خوبصورتی کو تعجب سے دیکھنے لگا.انہوں نے اپنی آنکھیں کھول کر مجھ سے چھا.اے بچے تم کون ہو ؟ میں نے اپنے متعلق بتایا تو انہوں نے قریب ہی سوئے ہوئے ایک لڑکے کو آواز دی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا.اس پر انہوں نے مجھے کہا کہ اسے بلا کر لاؤ.چنانچہ میں اسے بلا لایا.اس بزرگ نے اسے کچھ لانے کا حکم دیا اور مجھے کہا کہ بیٹھ جاؤ.پھر وہ لڑکا چلا گیا اور ایک پوشاک اور ایک ہزار درہم لے کر آیا.انہوں نے میر الباس اتروایا اور اس کی جگہ مجھے وہ پوشاک پہنادی اور وہ ایک ہزار درہم اس پوشاک میں ڈال دیے.جب میں اپنے والد کے پاس پہنچا تو انہیں یہ سب کچھ بتایا.اس پر انہوں نے کہا کہ اے میرے بیٹے ! کیا تجھے علم ہے کہ کس نے تیرے ساتھ ایسا سلوک کیا؟ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم سوائے اس کے کہ وہ کوئی ایسا شخص تھا جو مسجد میں سو رہا تھا اور اس سے بڑھ کر حسین میں نے کبھی زندگی میں کسی کو نہیں دیکھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ہیں.747 ابن جریر روایت کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ حضرت عثمانؓ سے اس وقت ملے جبکہ آپ مسجد کی طرف جارہے تھے.حضرت طلحہ نے کہا آپ کے پچاس ہزار درہم جو میرے ذمہ تھے وہ اب میسر آگئے ہیں.آپ انہیں وصول کرنے کے لیے کسی شخص کو میری طرف بھیج دیں.اس پر حضرت عثمان نے ان

Page 406

اصحاب بدر جلد 3 386 حضرت عثمان بن عفان سے فرمایا کہ آپ کی مروت کی وجہ سے وہ ہم نے آپ کو صبہ کر دیے ہیں.وہ نہیں لینے.اضمعی کہتے ہیں کہ ابن عامر نے قطن بن عوف هلالی کو کیرمان کے علاقے پر گورنر بنایا.وہ چار ہزار مسلمانوں کا لشکر لے کر نکلا.راستے میں ایک وادی بارش کے پانی کی وجہ سے یہ پڑی جس کی وجہ سے ان کا راستہ بند ہو گیا اور قطن کو بروقت نہ پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہوا تو اس نے اعلان کیا کہ جو شخص اس وادی کو عبور کرے گا اس کے لیے ایک ہزار درہم بطور انعام ہو گا.اس پر لوگ تیر کر پار کرنے لگے.جب بھی کوئی شخص وادی کو پار کر لیتا تو قطن کہتے اسے اس کا جائزہ یعنی انعام دو.یہاں تک کہ سارے لشکر نے وادی پار کر لی اور یوں ان سب کو چالیس لاکھ درہم دیے گئے مگر گورنر ابن عامر نے قطن کو یہ رقم دینے سے انکار کر دیا اور یہ بات حضرت عثمان کی خدمت میں تحریر کی.اس پر آپ نے ، حضرت عثمان نے فرمایا کہ یہ رقم قطن کو دے دو کیونکہ اس نے تو اللہ کے راستے میں مسلمانوں کی مدد کی ہے.پس اس وادی کو عبور کرنے کی وجہ سے اس دن سے انعام میں دی جانے والی رقم کا نام جو ائز پڑ گیا.جو جائزہ کی جمع ہے.748 حضرت عثمانؓ سے ، ایک دفعہ جب بیمار ہوئے تھے تو خلیفہ مقرر کرنے کی درخواست بھی کی گئی.اس واقعہ کو ہشام نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ مروان بن حکم نے مجھے بتایا کہ جس سال نکسیر کی بیماری پھیلی حضرت عثمان بن عفان کو بھی سخت نکسیر ہوئی.ناک میں سے خون آنے لگا یہاں تک کہ اس بیماری نے ان کو حج سے روک دیا اور انہوں نے وصیت کر دی تو اس وقت قریش میں شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں.سے ایک آپ کی ایسی حالت ہو رہی ہے کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں.حضرت عثمان نے پوچھا کیا لو گوں نے یہ بات کہی ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں.حضرت عثمان نے پھر پوچھا کہ کس کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں؟ وہ خاموش رہا.اتنے میں ایک اور شخص ان کے پاس آیا.میں سمجھتا ہوں کہ وہ حارث تھا.کہنے لگا کہ خلیفہ مقرر کر دیں.حضرت عثمان نے فرمایا کیا لوگوں نے یہ کہا ہے ؟ اس نے کہا ہاں.حضرت عثمان نے پوچھا وہ کون ہے جو خلیفہ ہو گا ؟ وہ خاموش رہا.حضرت عثمان نے کہا شاید وہ کہتے ہیں زبیر کو.اس نے کہا ہاں.حضرت عثمان نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جہاں تک مجھے علم ہے وہ ان میں سے یقینا بہتر ہے اور رسول اللہ صلی علیکم کو بھی ان سب سے زیادہ پیارا تھا.749 آپ کو کتابت وحی کا بھی موقع ملا.ایک روایت میں ہے کہ سورہ مزمل کے نزول کے موقع پر حضرت عثمان کو کتابت وحی کی سعادت ملی.ام کلثوم بن ثمامہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے کہا کہ ہم آپ سے حضرت عثمان کے بارے میں پوچھتے ہیں کیونکہ لوگ ان کے بارے میں ہم سے بکثرت پوچھ رہے ہیں.اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت عثمان کو رسول اللہ صلی الم کے ہمراہ اس گھر میں ایک شدید گرم رات میں دیکھا جبکہ نبی صلی اللہ تم پر حضرت جبرئیل وحی نازل کر رہے

Page 407

باب بدر جلد 3 387 حضرت عثمان بن عفان تھے.جب آپ پر نزول وحی ہو تا تو آپ پر بہت شدید بوجھ نازل ہو جاتا تھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.اِنا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلاً (المزمل:6) کہ یقینا ہم تجھ پر ایک بھاری فرمان اتاریں گے.حضرت عثمان نبی صلی علیہ یکم کے سامنے بیٹھے لکھتے جارہے تھے اور آپ فرما رہے تھے کہ اے عثمان ! لکھ.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالی ، رسول اللہ صلی اللہ ﷺ کا ایسا قرب کسی نہایت معزز و مکرم شخص کو ہی عطا فرماتا ہے.750 اشاعت قرآن حضرت ابو بکر کے زمانے میں قرآن کریم کے تحریری صحیفے جمع ہوئے جو انہوں نے اپنے پاس رکھے.پھر حضرت عمر کے پاس وہ صحیفے رہے.اس کے بعد حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس رہے.جب حضرت عثمان کی خلافت کا دور آیا تو آپ کے پاس یہ نسخے پہنچنے کی روایت اس طرح ملتی ہے.حضرت حذیفہ بن یمان بیان کرتے ہیں کہ وہ اہل عراق کے ساتھ مل کر فتح آرمینیا اور آذربائیجان کے لیے اہل شام سے جنگ کر رہے تھے اور وہاں سے لوٹ کر حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت حذیفہ کو ان علاقوں کے لوگوں کی قرآن کریم کی قراءت میں اختلاف کی وجہ سے خوف لاحق ہوا.آپ نے حضرت عثمان سے عرض کیا کہ اے امیر المومنین! اس امت کو سنبھالیں قبل اس کے کہ وہ کتاب اللہ کے بارے میں یہود و نصاریٰ کی مانند اختلاف کرنے لگ جائیں.اس پر حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ قرآن کریم کے تحریری صحیفے ہمیں بھیج دیں تا کہ ہم ان کے نسخے تیار کریں.اس کے بعد وہ صحیفے آپ کو واپس لوٹا دیں گے.چنانچہ حضرت حفصہ نے وہ صحیفے حضرت عثمان کی خدمت میں بھجوا دیے.اس پر حضرت عثمان نے حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت سعید بن عاص اور حضرت عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا کہ وہ ان کی نقول تیار کریں.حضرت عثمان نے مؤخر الذکر تینوں صحابہ کو جو قریش سے تھے کہا کہ جب تمہارا اور زید کا قرآن کے کسی ٹکڑے کے متعلق اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان میں تحریر کرو کیونکہ قرآن کریم قریش کی زبان میں اترا ہے.چنانچہ ان اصحاب نے یہ کام کیا.جب نقول تیار ہو گئیں تو اصلی صحیفے حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کو واپس بھجوادیے اور نئے تیار شدہ نسخے مختلف ممالک میں بھجوا کر حکم دیا کہ اس کے علاوہ جو بھی دیگر نسخے ہوں وہ جلا کر تلف کر دیے جائیں.علامہ ابن التین کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان کے جمع قرآن کے واقعہ کا فرق یہ ہے کہ حضرت ابو بکر نے قرآن کو اس خوف سے جمع کیا کہ کہیں حفاظ قرآن کے وفات پا جانے کی وجہ سے قرآن کا کچھ حصہ ضائع نہ ہو جائے کیونکہ قرآن یکجا جمع نہیں کیا گیا تھا.لہذا آپ نے قرآن کریم کو اس کی آیات کی اس ترتیب کے مطابق جمع کیا جس ترتیب کے مطابق نبی کریم صلی علیم نے انہیں قرآن کریم حفظ کروایا تھا جبکہ حضرت عثمان کے جمع قرآن کا واقعہ یہ ہے کہ جب قراءت میں بہت زیادہ اختلاف ہونے لگا یہاں کے 751

Page 408

388 حضرت عثمان بن عفان حاب بدر جلد 3 لوگوں نے اپنے لہجہ اور لغات کے مطابق قرآن پڑھنا شروع کر دیا حتی کہ ایک دوسرے کی قراءت کو غلط قرار دینے لگے تو آپ ڈرے کہ کہیں یہ معاملہ سنگین صورت نہ اختیار کر جائے.چنانچہ آپ نے ان صحائف کو جو حضرت ابو بکر نے تیار کر وائے تھے ایک مصحف میں سورتوں کی ترتیب کے ساتھ جمع کر دیا اور صرف قریش کی لغت کو ملحوظ رکھا اور یہ دلیل دی کہ قرآن کا نزول قریش کی لغت میں ہوا ہے.اگر چہ ابتدامیں آسانی کی خاطر دوسری لغات کے مطابق قرآن کی تلاوت کی اجازت دی گئی تھی مگر جب آپ نے دیکھا کہ اب ایسا کرنے کی حاجت نہیں رہی تو آپ نے ایک ہی لغت کی قراءت پر اکتفا کا ارشاد فرمایا.مصحف : علامہ قرطبی فرماتے ہیں اگر یہ سوال کیا جائے کہ حضرت عثمان نے لوگوں کو اپنے والے جمع کرنے کی زحمت کیوں اٹھائی جبکہ آپ سے قبل حضرت ابو بکر اس کام کو کر چکے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عثمان نے جو کیا اس کا مقصد مصحف کی تدوین پر لوگوں کو جمع کرنا نہ تھا.کیا آپ دیکھتے نہیں کہ حضرت عثمان نے ام المومنین حضرت حفصہ گو کہلا بھیجا کہ آپ قرآنی صحیفے ہمیں بھیج دیں ہم ان کی کاپیاں بنا کر اصل صحیفے آپ کو واپس کر دیں گے.حضرت عثمان نے یہ قدم صرف اس لیے اٹھایا کہ قراءت قرآن کے بارے میں لوگ اختلاف کرنے لگے تھے.کیونکہ صحابہ مختلف شہروں میں منتشر ہو چکے تھے اور اختلاف قراءت کی صور تحال سنگین ہو چکی تھی اور اہل شام و عراق کے درمیان اختلاف نے وہ شکل اختیار کر لی تھی جس کو حضرت حذیفہ نے بیان کیا ہے.752 حضرت مصلح موعودؓ سورۃ الاعلیٰ کی آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تنسی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ ہم تمہیں وہ کلام سکھائیں گے جسے قیامت تک تم نہیں بھولو گے بلکہ یہ کلام اسی طرح محفوظ رہے گا جس طرح اس وقت ہے.چنانچہ اس دعویٰ کا ثبوت یہ ہے کہ اسلام کے اشد ترین معاند بھی آج کھلے بندوں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم اسی شکل و صورت میں محفوظ ہے جس شکل و صورت میں رسول کریم صلی علیم نے اسے پیش فرمایا تھا.نولڈ کے( Theodor Noldeke)، سپر نگر (Springer) اور ولیم میور (William Muir) سب نے اپنی کتابوں میں تسلیم کیا ہے کہ قطعی اور یقینی طور پر ہم سوائے قرآن کریم کے اور کسی کتاب کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس شکل میں بائی سلسلہ نے وہ کتاب پیش کی تھی اسی شکل میں وہ دنیا کے سامنے موجود ہے.صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کے متعلق حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جس شکل میں محمد رسول اللہ صلی علیہ ہم نے اپنے صحابہ کو یہ کتاب دی تھی اسی شکل میں اب بھی محفوظ ہے.وہ لوگ چونکہ اس بات کے قائل نہیں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ نے نازل کیا ہے بلکہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی علیم نے یہ کتاب خود بنائی ہے اس لیے وہ یہ تو نہیں کہتے کہ جس شکل میں یہ کتاب نازل ہوئی تھی اسی شکل میں محفوظ ہے مگر وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ جس شکل میں محمد رسول اللہ صلی للی کرم نے یہ کتاب پیش کی تھی اسی شکل میں یہ کتاب اب تک دنیا میں پائی جاتی ہے.چنانچہ سرولیم میور اپنی کتاب 'دی کران‘ ( القرآن ) میں لکھتے

Page 409

اصحاب بدر جلد 3 ہیں:.389 حضرت عثمان بن عفان یہ تمام ثبوت دل کو پوری تسلی دلا دیتے ہیں کہ وہ قرآن جسے ہم آج پڑھتے ہیں لفظ لفظا وہی ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے لوگوں کو پڑھ کر سنایا تھا.“ پھر سر ولیم میور اپنی کتاب ”لائف آف محمدم“ میں لکھتے ہیں کہ : اب جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے گو یہ بالکل ممکن ہے کہ محمد (رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم) نے اپنے زمانہ میں اسے خود بنایا ہو اور بعض دفعہ اس میں خود ہی بعض تبدیلیاں بھی کر دی ہوں مگر اس میں شبہ نہیں کہ یہ وہی قرآن ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیں دیا تھا.“ اسی طرح سے لکھتے ہیں کہ ”ہم نہایت مضبوط قیاسات کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ ہر ایک آیت جو قرآن میں ہے وہ اصلی ہے.اور محمد ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی غیر محرف تصنیف ہے.“ پھر نولڈ کے جر من مستشرق لکھتا ہے کہ: ممکن ہے کہ تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں (یعنی طرزِ تحریر کی ) ہوں تو ہوں لیکن جو قرآن عثمان نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اس کا مضمون وہی ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پیش کیا تھا.گو اس کی ترتیب عجیب ہے.یورپین علماء کی یہ کوششیں کہ وہ ثابت کریں کہ قرآن میں بعد کے زمانہ میں بھی کوئی تبدیلی ہوئی بالکل ناکام ثابت ہوئی ہیں.الغرض یورپین مصنفین نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ جہاں تک قرآن کی ظاہری حفاظت کا سوال ہے اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں کیا جاسکتا.بلکہ لفظاً لفظا اور حر فأحر فأیہ الله سة 754<< 7536 وہی کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی ا ل م نے لوگوں کو پڑھ کر سنائی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول بیان فرماتے ہیں کہ ”لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جامع القرآن جتلاتے ہیں.یہ بات غلط ہے.صرف عثمان کے لفظ کے ساتھ قافیہ ملایا ہے.ہاں شائع کنندہ قرآن اگر کہیں تو کسی حد تک بجا ہے.آپ کی خلافت کے زمانہ میں اسلام دور دور تک پھیل گیا تھا اس لئے آپ نے چند نسخه نقل کرا کر مکہ، مدینہ ، شام ، بصرہ، کوفہ اور بلاد میں بھجوا دیئے تھے اور جمع تو اللہ تعالی کی پسند کی ہوئی ترتیب کے ساتھ نبی کریم صلی المی کم ہی نے فرمایا تھا اور اسی پسندیدہ ترتیب کے ساتھ ہم تک پہنچایا گیا ہے.ہاں اس کا پڑھنا اور جمع کرنا ہم سب کے ذمہ ہے.حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کہ جب بجائے اس کے کہ مکہ والے مکہ میں رہتے ، مدینہ والے مدینہ میں رہتے، نجد والے نجد میں رہتے ، طائف والے طائف میں رہتے، یمن والے یمن میں رہتے اور وہ ایک دوسرے کی زبان اور محاورات سے ناواقف ہوتے.مدینہ دارالحکومت بن گیا تو تمام قو میں ایک ہو گئیں کیونکہ اس وقت مدینہ والے حاکم تھے جن میں ایک بڑا طبقہ مہاجرین مکہ کا تھا اور خود اہل مدینہ بھی اہل مکہ کی صحبت میں حجازی عربی سیکھ چکے تھے.پس چونکہ قانون کا نفاذان کی طرف سے ہوتا تھا.مال ان کے قبضہ میں تھا یعنی حکومت جن کے پاس تھی.

Page 410

حاب بدر جلد 3 390 حضرت عثمان بن عفان ” اور دنیا کی نگاہیں انہی کی طرف اٹھتی ہیں.اس وقت طائف کے بھی اور نجد کے بھی اور مکہ کے بھی اور یمن کے بھی اور دوسرے علاقوں کے بھی اکثر لوگ مدینہ میں آتے جاتے تھے اور مدینہ کے مہاجر و انصار سے ملتے اور دین سیکھتے تھے اور اسی طرح سب ملک کی علمی زبان ایک ہوتی جاتی تھی.پھر کچھ ان لوگوں میں سے مدینہ میں ہی آکر بس گئے تھے.ان کی زبان تو گویا بالکل ہی حجازی ہو گئی تھی.یہ لوگ جب اپنے وطنوں کو جاتے ہوں گے تو چونکہ یہ علماء اور استاد ہوتے تھے یقیناً ان کے علاقہ پر ان کے جانے کی وجہ سے بھی ضرور اثر پڑتا تھا.علاوہ ازیں جنگوں کی وجہ سے عرب کے مختلف قبائل کو اکٹھارہنے کا موقعہ ملتا تھا اور افسر چونکہ اکابر صحابہ ہوتے تھے ان کی صحبت اور ان کی نقل کی طبعی خواہش بھی زبان میں یک رنگی پیدا کرتی تھی.پس گوابتدامیں تو لوگوں کو قرآن کریم کی زبان سمجھنے میں دقتیں پیش آتی ہوں گی مگر مدینہ کے دارالحکومت بننے کے بعد جب تمام عرب کا مرکز مدینہ منورہ بن گیا اور قبائل اور اقوام نے بار بار وہاں آنا شروع کر دیا تو پھر اس اختلاف کا کوئی امکان نہ رہا.کیونکہ اس وقت تمام علمی مذاق کے لوگ قرآنی زبان سے پوری طرح واقف ہو چکے تھے.چنانچہ جب لوگ اچھی طرح واقف ہو گئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ آئندہ صرف حجازی قراءت پڑھی جائے.اور کوئی قراءت پڑھنے کی اجازت نہیں.آپ کے اس حکم کا مطلب یہی تھا کہ اب لوگ حجازی زبان کو عام طور پر جاننے لگ گئے ہیں اس لئے کوئی جہ نہیں کہ انہیں حجازی عربی کے الفاظ کا بدل استعمال کرنے کی اجازت دی جائے.حضرت عثمان کے اس حکم کی وجہ سے ہی شیعہ لوگ جو سنیوں کے مخالف ہیں کہا کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن بیاض عثمانی ہے حالانکہ یہ اعتراض بالکل غلط ہے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک عربوں کے میل جول پر ایک لمبا عرصہ گذر چکا تھا اور وہ آپس کے میل جول کی وجہ سے ایک دوسرے کی زبانوں کے فرق سے پوری طرح آگاہ ہو چکے تھے.اس وقت اس بات کی کوئی ضروت نہیں تھی کہ قراء توں میں بھی لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی اجازت دی جاتی.یہ اجازت محض وقتی طور پر تھی اور اس ضرورت کے ماتحت تھی کہ ابتدائی زمانہ تھا، قو میں متفرق تھیں اور زبان کے معمولی معمولی فرق کی وجہ سے الفاظ کے معانی بھی تبدیل ہو جاتے تھے.اس نقص کی وجہ سے عارضی طور پر بعض الفاظ کو جو ان قبائل میں رائج تھے اصل وحی کے بدل کے طور پر خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی تاکہ قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اور اس کی تعلیم سے روشناس ہونے میں کسی قسم کی روک حائل نہ ہو اور ہر زبان والا اپنی زبان کے محاورات میں اس کے احکام کو سمجھ سکے اور اپنے لہجہ کے مطابق پڑھ سکے.جب میں سال کا عرصہ اس اجازت پر گزر گیا.زمانہ ایک نئی شکل اختیار کر گیا.قومیں ایک نیارنگ اختیار کر گئیں.وہ عرب جو متفرق قبائل پر مشتمل تھا ایک زبر دست قوم بلکہ ایک زبر دست حکومت بن گیا.آئین ملک کا نفاذ اور نظام تعلیم کا اجرا ان کے ہاتھ میں آگیا.مناصب کی ان کے اختیار میں آگئی.حدود اور قصاص کے احکام کا اجرا انہوں نے شروع کر دیا تو اس کے بعد اصلی

Page 411

اصحاب بدر جلد 3 391 حضرت عثمان بن عفان قرآنی زبان کے سمجھنے میں لوگوں کو کوئی دقت نہ رہی اور جب یہ حالت پیدا ہو گئی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اس عارضی اجازت کو جو محض وقتی حالات کے ماتحت دی گئی تھی منسوخ کر دیا اور یہی اللہ تعالیٰ کا منشا تھا مگر شیعہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا قصور اگر قرار دیتے ہیں تو یہی کہ انہوں نے مختلف قراء توں کو مٹاکر ایک قراءت جاری کر دی.حالانکہ اگر وہ غور کرتے تو آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مختلف قراتوں میں قرآن کریم پڑھنے کی اجازت اسلام کے دوسرے دور میں دی ہے، ابتدائی دور میں نہیں دی.جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم کا نزول گو حجازی زبان میں ہوا ہے ہے مگر قراء توں میں فرق دوسرے قبائل کے اسلام لانے پر ہوا.چونکہ بعض دفعہ ایک قبیلہ اپنی زبان کے لحاظ سے دوسرے قبیلہ سے کچھ فرق رکھتا تھا اور یا تو وہ تلفظ صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتا تھا یا ان الفاظ کا معنوں کے لحاظ سے فرق ہو جاتا تھا.اس لئے رسول کریم صلی علی یکم نے اللہ تعالیٰ کے منشا کے ماتحت بعض اختلافی الفاظ کے لہجہ کے بدلنے یا اس کی جگہ دوسر ا لفظ رکھنے کی اجازت دے دی.مگر اس کا آیات کے معانی یا ان کے مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا بلکہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو فرق پڑتا.چنانچہ اس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ رسول کریم صلی علیم نے ایک سورت عبد اللہ بن مسعود کو اور طرح پڑھائی اور حضرت عمرؓ کو اور طرح پڑھائی کیونکہ حضرت عمر خالص شہری تھے اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ گڈریا تھے اور اس وجہ سے بدوی لوگوں سے ان کا تعلق زیادہ تھا.پس دونوں زبانوں میں بہت بڑا فرق تھا.ایک دن عبد اللہ بن مسعودؓ قرآن کریم کی وہی سورت پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پاس سے گزرے اور انہوں نے عبد اللہ بن مسعودؓ کو کسی قدر فرق سے اس سورہ کی تلاوت کرتے سنا.انہیں بڑا تعجب آیا کہ یہ کیا بات ہے کہ الفاظ کچھ اور ہیں اور یہ کچھ اور طرح پڑھ رہے ہیں.چنانچہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے گلے میں پڑکا ڈالا اور کہا چلور سول کریم صلی یہ نیم کے پاس میں ابھی تمہارا معاملہ پیش کرتا ہوں.تم سورت کے بعض الفاظ اور طرح پڑھ رہے ہو اور اصل سورت اور طرح ہے.غرض وہ انہیں رسول کریم صلی علیم کے پاس لائے اور عرض کیا.یارسول اللہ ! آپ نے یہ سورت مجھے اور طرح پڑھائی تھی اور عبد اللہ بن مسعود اور طرح پڑھ رہے تھے.رسول کریم صلی الی یکم نے عبد اللہ بن مسعودؓ سے فرمایا تم یہ سورت کس طرح پڑھ رہے تھے ؟ وہ ڈرے اور کانپنے لگ گئے کہ کہیں مجھ سے غلطی نہ ہو گئی ہو مگر رسول کریم صلی الی یکم نے فرمایا ڈرو نہیں، پڑھو.انہوں نے پڑھ کر سنائی تو رسول کریم صلی ا ہم نے فرمایا: بالکل ٹھیک ہے.حضرت عمرؓ نے کہا کہ یارسول اللہ ! آپ نے تو مجھے اور طرح پڑھائی تھی.آپ نے فرمایا: وہ بھی ٹھیک ہے.پھر آپ نے فرمایا: قرآن کریم سات قراء توں میں نازل کیا گیا ہے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑا نہ کرو.اس فرق کی وجہ دراصل یہی تھی کہ رسول کریم صلی ا ہم نے سمجھا عبد اللہ بن مسعود گڈریا ہیں اور ان کا اور لہجہ ہے اس لئے ان کے لہجہ کے مطابق جو قراءت تھی وہ انہیں پڑھائی.حضرت عمر کے متعلق آپ صلی ہم نے سوچا کہ یہ خالص شہری ہیں اس لئے انہیں اصل مکی

Page 412

اصحاب بدر جلد 3 392 حضرت عثمان بن عفان زبان کی نازل شدہ قراءت بتائی.چنانچہ آپ نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو ان کی اپنی زبان میں سورت پڑھنے کی اجازت دے دی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خالص شہری زبان میں وہ سورت پڑھا دی.اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فرق ہیں جو مختلف قراء توں کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے مگر ان کا نفس مضمون پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا.ہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ تمدن اور تعلیم اور زبان کے فرق کا ایک لازمی نتیجہ ہے.“ پھر آپؐ فرماتے ہیں کہ " تمدن اور حکومت کے ذریعہ سے قبائلی حالت کی جگہ ایک قومیت اور ایک زبان نے لے لی اور سب لوگ حجازی زبان سے پوری طرح آشنا ہو گئے تو حضرت عثمان نے سمجھا اور صحیح سمجھا کہ اب ان قراء توں کو قائم رکھنا اختلاف کو قائم رکھنے کا موجب ہو گا.اس لئے ان قراء توں کا عام استعمال اب بند کرنا چاہئے ، باقی کتب قراءت میں تو وہ محفوظ رہیں گی.پس انہوں نے اس نیک خیال کے ماتحت عام استعمال میں حجازی اور اصل قراءت کے سوا باقی قراء توں سے منع فرما دیا اور عربوں اور عجمیوں کو ایک ہی قراءت پر جمع کرنے کے لئے تلاوت کے لئے ایسے نسخوں کی اجازت دی جو حجازی اور ابتدائی قراءت کے مطابق تھے.7554 صحابہ میں حضرت عثمان کا مقام حضرت عثمان کا کیا مقام تھا، صحابہ ان کو کس طرح آنحضرت صلی ال نیم کی زندگی میں بھی اور اس کے بعد بھی دیکھتے تھے.اس بارے میں روایت ہے.نافع نے حضرت ابن عمررؓ سے روایت کی ہے.انہوں نے کہا کہ نبی صلی علیم کے زمانے میں ہم لوگوں میں سے ایک کو دوسرے سے بہتر قرار دیا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ حضرت ابو بکر سب سے بہتر ہیں.پھر حضرت عمر بن خطاب.پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم.بخاری کی روایت ہے.756 اور ایک دوسری روایت بخاری میں اس طرح ہے.نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ ہم نبی صلی الی نام کے زمانے میں تھے.کسی کو بھی حضرت ابو بکڑ کے برابر نہیں سمجھا کرتے تھے.پھر حضرت عمرؓ کے برابر.پھر حضرت عثمان کے برابر.پھر نبی صلی علی کلم کے صحابہ کو چھوڑ دیتے تھے.ان میں سے کسی کو ایک دوسرے سے افضل نہیں سمجھتے تھے.757 پھر حضرت عثمان کے آنحضرت صل لل علم کے بعد بہترین لوگوں میں شمار ہونے کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں اس میں محمد بن حنفیہ کی روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت علیؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی للی یکم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ انہوں نے کہا ابو بکر میں نے پوچھا ان کے بعد کون ؟ انہوں نے کہا پھر عمر.پھر میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا کہ پھر کون؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حضرت عثمان.پھر میں نے کہا اے میرے باپ! ان کے بعد کیا آپ ؟ تو آپ نے جواب دیا

Page 413

اصحاب بدر جلد 3 393 حضرت عثمان بن عفان 758 کہ میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام آدمی ہوں.آنحضرت صلی علیہ نمک کو حضرت عثمان سے جو تعلق تھا اور آپ کی نظر میں ان کا جو مقام تھا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ حضرت عثمان سے بغض رکھنے والے ایک شخص کا جنازہ آنحضرت صلی ا ہم نے نہیں پڑھا.اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یم کی خدمت میں ایک شخص کا جنازہ لایا گیا تا کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں لیکن آپ نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی.کسی نے عرض کی یارسول اللہ ؟ سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کی نماز جنازہ چھوڑی ہو.اس پر آپ نے فرمایا یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا.پس اللہ تعالیٰ کبھی اس سے دشمنی رکھتا 759 رض پھر حضرت عثمان کے انصاف کے بارے میں روایت آتی ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے بھائی کا بھی قصور ثابت ہونے پر ان کو سزا دینے کا کہا.عبید اللہ بن عدی نے بیان کیا حضرت مِسْوَر بن مخرمه اور عبد الرحمن بن اسود بن عَبدِ يَغُوث دونوں نے مجھے کہا کہ تمہیں کیا بات روکتی ہے کہ حضرت عثمان سے ان کے بھائی ولید سے متعلق گفتگو کرو کیونکہ لوگوں نے ان کے متعلق بعض غلط باتوں کی وجہ سے بہت چہ میگوئیاں کی ہیں تو میں حضرت عثمان کے پاس گیا.وہ نماز کے لیے باہر آئے.میں نے کہا آپ سے مجھے ایک کام ہے اور وہ آپ کی خیر خواہی ہے.حضرت عثمان نے کہا بھلے آدمی تم سے.معمر نے کہا.میں سمجھتا ہوں انہوں نے کہا ہے ان کا پیغام لے کے آیا ہے تو.پھر کہا میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں.یہ سن کر وہ شخص جو حضرت عثمان کے پاس گیا تھا وہاں سے چل دیا اور ان لوگوں کے پاس واپس آیا اتنے میں حضرت عثمان کا پیغامبر آیا اور میں ان کے پاس گیا.انہوں نے پوچھا تمہاری خیر خواہی کیا ہے؟ کہتا تھا ناں آپ کی خیر خواہی چاہتا تھا.تو میں نے کہا اللہ سبحانہ نے محمد صلی اللی علم کو سچائی کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل کی اور آپ بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صل الم کی دعوت قبول کی اور آپ نے دو ہجرتیں کیں اور رسول اللہ صلی علیکم کا ساتھ دیا اور آپ نے حضور کی روش دیکھی اور پھر میں نے کہا کہ ولید جو حضرت عثمان کے بھائی تھے اس کے متعلق لوگ بہت کچھ کہ چکے ہیں.حضرت عثمان نے مجھ سے پوچھا اور کہا کیا تم نے رسول اللہ لی لی یم کا زمانہ پایا میں نے کہا نہیں لیکن آپ کے علم سے وہ باتیں مجھے پہنچی ہیں.زمانہ تو نہیں پایا لیکن وہ باتیں مجھ تک پہنچی ہیں جو آنحضرت صل الم کے زمانے کی تھیں اور جو ایک کنواری عورت کو بھی اس کے پردے میں پہنچتی ہیں.حضرت عثمان نے فرمایا کہ اما بعد اللہ نے یقینا محمد علی ایم کو سچائی کے ساتھ بھیجا اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت قبول کی اور میں ان تمام باتوں پر ایمان لایا جن کے ساتھ آپ صلی یکم مبعوث کیے گئے اور میں نے دو ہجر تیں بھی کیں جیسا کہ تم نے کہا اور میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ رہا اور آپ کی بیعت کی اور اللہ کی قسم ! میں نے آپ کی نافرمانی نہیں کی اور نہ آپ سے کوئی دعا

Page 414

محاب بدر جلد 3 394 حضرت عثمان بن عفان کیا یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دی.پھر حضرت ابو بکر بھی میرے لیے ویسے ہی مطاع رہے.حضرت عمر بھی ویسے ہی مطاع رہے، ان کی بھی میں نے اطاعت کی.پھر مجھے خلیفہ بنایا گیا تو کیا میر ابھی وہی حق نہیں جو ان کا ہے، جو پہلے دو خلفاء کا ہے.میں نے کہا کیوں نہیں.تو انہوں نے فرما یا پھر کیا با تیں ہیں جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچتی رہتی ہیں اور یہ جو ولید کے معاملے سے متعلق تم نے ذکر کیا ہے تو ہم ان شاء اللہ اس کو واجبی سزا دیں گے یعنی جو سزا اس جرم کے لیے ہے جو جرم اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس نے کیا تو اس کی سزا دیں گے.پھر اس کے بعد انہوں نے حضرت علی کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ اس کو درے لگائیں تو انہوں نے اس کو اسی درے لگائے.760 حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اس کی شرح میں بیان کرتے ہیں.یہ بخاری کی روایت ہے کہ ”ولید بن عقبہ کے خلاف تعزیر عائد کرنے کا جو ذکر ہے اس کا تعلق شراب پینے کے الزام سے ہے.شہادت سے ثابت ہونے پر کہ وہ زمانہ جاہلیت والی شراب ہی تھی نہ کہ منقہ یا کھجور کا شربت.حضرت عثمان نے قرابت کا لحاظ نہیں فرمایا بلکہ قرابت کی وجہ سے اسے دو گنا سزا دی.بجائے چالیس کے اتی کوڑے لگوائے اور یہ تعداد حضرت عمرؓ کے تعامل سے ثابت تھی.1 761" پھر ایک روایت میں آتا ہے عطاء بن یزید نے انہیں خبر دی کہ عمران نے جو کہ حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام تھے انہیں بتایا کہ انہوں نے حضرت عثمان بن عفان کو دیکھا کہ انہوں نے ایک برتن منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ تین بار پانی ڈال کر دھوئے.پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا اور کلی کی اور ناک صاف کیا.پھر اپنا منہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک تین بار دھوئے پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک تین تین بار دھوئے.پھر کہا رسول اللہ صلی علیکم فرماتے تھے کہ جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور پھر اس طرح دور کعتیں پڑھیں کہ ان میں اپنے نفس سے باتیں نہ کیں تو جو گناہ بھی اس سے پہلے ہو چکے ہیں ان سب سے اس کی مغفرت کی جائے گی.762 جمعہ کے دن دوسری اذان کا جو اضافہ ہوا ہے یہ حضرت عثمان کے زمانے میں ہو ا یعنی پہلی اذان جو ہوتی ہے.اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے.زہری نے سائب بن یزید سے روایت کی کہ جمعہ کے دن پہلی اذان نبی صلی اللہ یکم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اس وقت ہوا کرتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا تھا.جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہوا اور لوگ بہت ہو گئے تو انہوں نے زَورَاء میں تیسری اذان بڑھا دی.ابو عبد اللہ نے کہا کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک مقام ہے.763 فقہ احمدیہ میں بھی اس کے متعلق حدیث کے حوالے سے لکھا ہوا ہے کہ آنحضرت صلی علیہ کم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں جمعہ کے دن منبر کے پاس (جو یقینا مسجد کے اندر رکھا ہوا تھا) ایک ہی اذان دی جاتی تھی.بعد میں حضرت عثمان کے زمانہ میں دوسری اذان کا رواج پڑا جو

Page 415

تاب بدر جلد 3 395 حضرت عثمان بن عفان مسجد کے دروازہ پر پڑے ہوئے ایک بڑے پتھر پر کھڑے ہو کر دی جاتی تھی جس کا نام زَورَاء تھا.صحیح بخاری کی شرح نعمۃ الباری میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے:.7656 764" ”ابن شہاب زہری نے سائب سے روایت کی ہے کہ اس باب کی حدیث میں اس کو تیسری اذان جو کہا ہے وہ اقامت کے اعتبار سے ہے.پہلے دو اذانیں تھیں.تیسری اذان دلوائی جاتی تھی.پہلی روایت جو میں نے پڑھی تھی اس میں لکھا تھا ناں کہ لوگ بہت ہو گئے تو انہوں نے زوراء میں تیسری اذان بڑھادی.تیسری اذان سے مراد یہ ہے کہ پہلی اذان، دوسری اذان یہ اور تکبیر جو ہے اس کو بھی اذان کے نام سے کہا گیا ہے اس طرح تین دفعہ نماز کے لیے بلایا جاتا ہے.عید کے روز جمعہ کی نماز سے رخصت کے بارے میں بھی روایت ملتی ہے.ابن از ھر کا آزاد کردہ غلام ابو عبید بیان کرتا ہے کہ اس نے حضرت عمر کی اقتدا میں ایک عید الا ضحی کے دن نماز عید ادا کی.آپ نے خطبہ سے قبل نماز پڑھائی.پھر آپ نے لوگوں سے خطاب فرمایا اور کہا اے لوگو! یقیناً رسول اللہ صلی الم نے تمہیں ان دو عیدوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے.ان میں سے ایک تو روزوں کے افطار ہونے کی خوشی میں عید کا دن ہے اور دوسر اوہ دن ہے جب تم اپنی قربانیوں میں سے کھاتے ہو.ابو عبید کہتا ہے کہ پھر اس نے حضرت عثمان بن عفان کے زمانے میں آپ کے پیچھے ایک عید پڑھی.وہ جمعہ کا دن تھا.آپ نے خطبہ سے قبل نماز پڑھائی.پھر آپ نے لوگوں سے خطاب فرمایا اور کہا اے لو گو! یہ وہ دن ہے جس میں تمہارے لیے دو عیدیں اکٹھی ہو گئی ہیں.پس مدینہ کے اطراف میں رہنے والوں میں سے جو جمعہ کا انتظار کرنا چاہتا ہے تو وہ انتظار کر سکتا ہے اور جو واپس جانا پسند کرتا ہے تو اس کو میری طرف سے واپس جانے کی اجازت ہے.فقہ احمدیہ میں ایک چیز جو لکھی گئی ہے اس پہ مجھے تو ابھی تک کوئی واضح ثبوت نہیں ملے.وہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر جمعہ اور عید ایک روز جمع ہو جائیں تو عید کی نماز کے بعد نہ جمعہ پڑھا جائے اور نہ ظہر بلکہ عصر کے وقت میں عصر کی نماز پڑھی جائے.”چنانچہ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ ایک بار جمعہ اور عید الفطر دونوں ایک دن میں اکٹھے ہو گئے.حضرت عبد اللہ بن زبیر نے فرمایا ایک دن میں دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں ان کو اکٹھا کر کے پڑھا جائے گا.چنانچہ آپ نے دونوں کے لئے دو رکعتیں دو پہر سے پہلے پڑھیں.اس کے بعد عصر تک کوئی نماز نہ پڑھی.یعنی اس دن صرف نماز عصر ادا کی.767 اس بارے میں ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے بھی یہی فرمایا تھا.اور تحقیق کی تھی.68 766 پہلے میرا خیال تھا کہ ضرورت نہیں پھر کیونکہ کوئی اور ایسی روایات نہیں ملیں جو براہ راست

Page 416

اصحاب بدر جلد 3 396 حضرت عثمان بن عفان آنحضرت صلی علیم کے تعامل سے یا عمل سے ثابت ہوتی ہوں جبکہ ظہر کی نماز بھی چھوڑی گئی ہو.یہی ایک روایت ہے جو حضرت عبد اللہ بن زبیر نے کیا.تو اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے.فقہ دوبارہ ریوائز (revise) ہو رہا ہے.میر اخیال ہے اس بات کو مزید غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہاں تک یہ صحیح ہے کہ ظہر کی نماز بھی نہ پڑھی جائے.جمعہ تو ٹھیک ہے نہیں پڑھا جائے گا لیکن یہ کہنا کہ ظہر کی نماز بھی نہ پڑھی جائے اس میں سوائے اس روایت کے آنحضرت صلی الم سے براہ راست یا خلفائے راشدین سے براہ راست کوئی ایسی روایت نہیں ملتی یا ابھی تک سامنے نہیں آئی.جہاں تک میں نے تحقیق کروائی ہے.جمعہ کے دن غسل کے بارے میں روایت ہے.حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ حضرت عثمان بن عفان داخل ہوئے تو حضرت عمر نے ان کے متعلق اشارۃ فرمایا.لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اذان کے بعد بھی دیر سے آتے ہیں ؟ اس پر حضرت عثمان نے کہا اے امیر المومنین! میں تو اذان سنتے ہی وضو کر کے چلا آیا ہوں.حضرت عمرؓ نے کہا صرف وضو کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو چاہیے کہ وہ غسل کرے اگر پانی میسر ہے، سہولتیں میسر ہیں تو غسل کرنا ضروری ہے.”سلسلہ احادیث میں دوسرے صحابہ کی نسبت حضرت عثمان سے مرفوع احادیث بہت کم مروی ہیں.آپ کی کل روایتوں کی تعداد 146 ہے جن میں تین متفق علیہ ہیں یعنی بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہیں اور آٹھ صرف بخاری میں اور پانچ صرف مسلم میں ہیں.اس طرح صحیحین میں آپؐ کی کل سولہ حدیثیں ہیں.ان کی روایات کی قلت کی وجہ یہ ہے کہ وہ روایات حدیث میں یعنی حضرت عثمان روایات حدیث میں حد درجہ محتاط تھے.فرماتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہی نام سے بیان کرنے میں یہ چیز مانع ہوتی ہے کہ شاید دیگر صحابہ کے مقابلہ میں میرا حافظہ زیادہ قوی نہ ہو.کہتے ہیں کوئی بات میں بیان کروں تو یہ روک ہوتی ہے کہ یہ نہ ہو کہ دوسرے صحابہ کے مقابلے میں میرا حافظہ اتنا مضبوط نہ ہو اور ان کی بات صحیح ہو.اس لیے میں روایات بیان کرنے میں بڑا محتاط ہوں.فرمایا کہ ”لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم کو یہ کہتے سنا ہے کہ جو شخص میری طرف وہ منسوب کرے گا جو میں نے نہیں کہا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے.اسی 769 770< " لیے وہ (حضرت عثمانؓ ) حدیث کی روایت میں سخت احتیاط کرتے تھے.“ عبد الرحمن بن حاطب کا بیان ہے کہ میں نے کسی صحابی کو حضرت عثمان سے زیادہ پوری بات کرنے والا نہیں دیکھا لیکن وہ حدیث بیان کرتے ڈرتے تھے.حمدان بن ابان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان بن عفان نے وضو کے لیے پانی منگوایا.گلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ چہرہ دھویا اور بازوؤں کو تین تین مرتبہ دھویا اور سر پر اور دونوں پاؤں کے اوپر والے حصہ پر مسح فرمایا.پھر آپؐ ہنس پڑے.پھر اپنے ساتھیوں سے کہا.کیا تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ نہیں پوچھو گے ؟ انہوں نے کہا اے امیر المومنین! آپ کیوں ہنسے تھے ؟ فرمایا میں نے رسول اللہ صلی علیکم کو

Page 417

صحاب بدر جلد 3 397 حضرت عثمان بن عفان دیکھا کہ آپ نے اسی جگہ کے قریب پانی منگوایا.پھر آپ نے اسی طرح وضو کیا جیسا کہ میں نے وضو کیا ہے.پھر آپ ہنس دیے.پھر آپ نے ، آنحضرت صلی الم نے صحابہ سے فرمایا کیا تم مجھ سے نہیں پوچھو گے کہ میں کس وجہ سے ہنسا ہوں ؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ کس وجہ سے ہنسے ہیں ! آپ نے فرمایا انسان جب وضو کا پانی منگوائے اور اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے جو چہرے سے ہوتے ہیں.پھر جب وہ اپنے باز و دھوتا ہے تب بھی ایسا ہی ہو تا ہے.پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور جب وہ اپنے پاؤں پاک کرتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے.یہ روایت اصل میں تو پہلی وضو والی روایت کے ساتھ ہی بیان ہونی چاہیے تھی.بہر حال اب بیان ہو گئی.771 حضرت عثمان کی شادیاں اور اولاد کے متعلق جو روایات ہیں اس کے مطابق حضرت عثمان نے آٹھ شادیاں کیں.یہ سب شادیاں اسلام قبول کرنے کے بعد کیں.آپ کی ازواج اور اولاد کے نام درج ذیل ہیں.حضرت رقیہ بنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم.آپؐ کے بطن سے آپ کے فرزند عبد اللہ بن عثمان پیدا ہوئے.حضرت ام کلثوم بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم.حضرت رقیہ کی وفات کے بعد حضرت عثمان نے آپ سے شادی کی.حضرت فاختہ بنت غزوان.آپ حضرت عتبہ بن غزوان کی ہمشیرہ تھیں.ان کے بطن سے آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام بھی عبد اللہ تھا اور اس کو عبد اللہ الاصغر کہا جاتا تھا.حضرت ام عمر و بنت جندب از دیه.ان کے بطن سے عمرو، خالد ، آبان، عمر اور مریم کی ولادت ہوئی.حضرت فاطمہ بنت ولید مخزومیہ.ان کے بطن سے ولید، سعید اور ام سعید کی ولادت ہوئی.حضرت ام البنين بنت عيينه بن حضن فزاریہ.ان کے بطن سے آپ کے فرزند عبد الملک کی ولادت ہوئی.حضرت رملہ بنت شیبہ بن ربیعہ.ان کے بطن سے عائشہ، ام ابان اور ام عمرو کی ولادت ہوئی.حضرت نائلہ بنتِ فَرافِصَهُ بن اخوصیه پہلے نصرانی تھیں لیکن رخصتی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اچھی مسلمان ثابت ہوئیں.ان سے آپ کی بیٹی مریم پیدا ہوئیں.کہا جاتا ہے کہ ایک بیٹا عنبسہ بھی پیدا ہوا تھا.حضرت عثمان کی جب شہادت ہوئی تو اس وقت ایک روایت کے مطابق آپ کی یہ چار ازواج آپ کے پاس تھیں.حضرت رملہ اور حضرت نائلہ اور حضرت ام البنین اور حضرت فاختہ جبکہ ایک اور روایت کے مطابق محاصرہ کے ایام میں حضرت عثمان نے حضرت ام البنین کو طلاق دے دی تھی.772 حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سورہ نور کی تفسیر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک نور معرفت کا ہوتا ہے جس سے بھلے برے کی تمیز ہوتی ہے.وہ نور ان گھروں میں ہوتا ہے جن گھروں میں صبح شام اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے.وہاں جو لوگ رہتے ہیں وہ تاجر ہیں.ان کے گھر چھوٹے ہیں مگر کسی دن اللہ ان کے گھروں کو بڑا بنا دے گا.چنانچہ اس قرآن شریف کا جمع کرنے والا حضرت ابو بکر صدیق ہے.پھر حضرت عمرؓ.پھر حضرت عثمانؓ اس کے شائع کرنے والے ہیں.پھر حضرت علیؓ جن سے سچے روحانی علوم دنیا میں پہنچے.حضرت خلیفہ اول کہتے ہیں کہ میں نے بھی خود بلا واسطہ حضرت علی سے

Page 418

اصحاب بدر جلد 3 398 حضرت عثمان بن عفان قرآن کے بعض معارف سیکھے ہیں.پھر حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان رکوعوں میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ انصار میں خلافت نہ ہو گی بلکہ مہاجرین میں.پھر یہ بتایا کہ ان کا مقابلہ مسلمان بھی کریں گے اور کفار بھی.چنانچہ حضرت ابو بکر کی مخالفت اسی طرح ہوئی.بعض لوگ خلافت کے قائل نہ تھے.اللہ تعالیٰ نے دونوں کی مثال دی کہ ایک وہ جو کلر کے بخارات کو پانی سمجھے.دوسرے وہ جو شریعت کے سمندر میں بھی ہو کر مقابلہ کریں گے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ انجام یہ کہ چرند پرند ان کا گوشت کھائیں گے.خلفائے راشدین میں سے حضرت ابو بکر کے لیے بہت مشکلات تھے.لشکر حضرت اسامہ کے ساتھ روانہ کر دیا گیا تھا.ادھر عرب میں جابجا بغاوت پھیل گئی.مکہ میں لوگ آمادہ بغاوت تھے کہ وہاں ایک عقل مند انسان پہنچ گیا، اس نے مکہ والوں کو کہا کہ تم ایمان لانے میں سب سے پیچھے تھے اب مرتد ہونے میں سب سے پہلے ہو.اس پر وہ باز آگئے.پھر آپ فرماتے ہیں اِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ (النور (49) میں جس گروہ کا ذکر ہے وہ نہ حضرت ابو بکر کے زمانے میں، نہ حضرت عمر کے زمانے میں ، نہ حضرت عثمان و علی کے زمانے میں غرض کبھی بھی مظفر و منصور نہیں ہوا.یہ گروہ کبھی کامیاب نہیں ہوا.مگر دوسرا فریق سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (القر و 286) کہنے والا ہے.مظفر و منصور رہا.ہمیشہ کامیاب رہا.چنانچہ قرآن مجید نے فرمایا ہے وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (البقره: 6) 773 کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک...774<< حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ: میں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سارنگ پیدانہ ہو.وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں.پھر آپ فرماتے ہیں ”یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق عمر اور حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ “ یعنی حضرت عثمانؓ اور حضرت علی مرتضیٰ سب واقعی طور پر دین میں امین تھے.ابو بکر جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اگر دین میں بچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لیے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے.7756 پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ” بخد ا اللہ تعالیٰ نے شیخین ( ابو بکر و عمر) کو اور تیسرے جو ذوالنورین ہیں ہر ایک کو اسلام کے دروازے اور خیر الانام ( محمد رسول اللہ) کی فوج کے ہر اول دستے بنایا ہے.پس جو شخص ان کی عظمت سے انکار کرتا ہے اور ان کی قطعی دلیل کو حقیر جانتا ہے اور ان کے ساتھ ادب سے پیش نہیں آتا بلکہ ان کی تذلیل کرتا اور ان کو برا بھلا کہنے کے درپے رہتا ہے اور زبان درازی کرتا ہے مجھے اس کے بد انجام اور سلب ایمان کا ڈر ہے اور جنہوں نے ان کو دکھ دیا، ان پر لعن کیا اور بہتان لگائے تو دل کی سختی اور خدائے رحمن کا غضب ان کا انجام ٹھہرا.میر ابارہا کا تجربہ ہے اور میں اس کا

Page 419

ب بدر جلد 3 399 حضرت عثمان بن عفان کھلے طور پر اظہار بھی کر چکا ہوں کہ ان سادات سے بغض و کینہ رکھنا برکات ظاہر کرنے والے اللہ سے سب سے زیادہ قطع تعلقی کا باعث ہے اور جس نے بھی ان سے دشمنی کی تو ایسے شخص پر رحمت اور شفقت کی سب راہیں بند کر دی جاتی ہیں اور اس کے لئے علم و عرفان کے دروازے وا نہیں کئے جاتے اور اللہ تعالیٰ انہیں دنیا کی لذات و شہوات میں چھوڑ دیتا ہے اور نفسانی خواہشات کے گڑھوں میں گرا دیتا ہے اور اسے (اپنے آستانے سے دور رہنے والا اور محروم کر دیتا ہے.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ”آنحضرت میام کے بعد جو کچھ اسلام کا بنا ہے وہ اصحاب ثلاثہ سے ہی بنا ہے.777 یعنی حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان.776" پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اہل تشیع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”ہم تمہاری گالیوں کا شکوہ کیا کریں کیونکہ تم تمام صحابہ کو گالیاں دیتے ہو مگر قدرے قلیل اور نیز تم آنحضرت صلی اللہ کم کی بیویوں امہات المومنین کو لعنت سے یاد کرتے ہو اور گمان کرتے ہو کہ خدا کی کتاب میں کچھ زیادہ اور کم کیا گیا ہے اور کہتے ہو کہ وہ بیاض عثمان ہے اور خدا کی طرف سے نہیں ہے.....تم نے اسلام کو ایسا سمجھ لیا جیسا کہ ایک بیابان جس کی زمین خشک اور زراعت سے خالی ہے یعنی خدا کے مقربوں سے خالی ہے.“ پھر فرمایا ”پس کون سی عزت تمہارے ہاتھوں سے باقی رہی اے حد سے نکلنے والو!؟ 7786 پھر آپ فرماتے ہیں: ”مجھے میرے رب کی طرف سے خلافت کے بارے میں ازروئے تحقیق تعلیم دی گئی ہے اور محققین کی طرح میں اس حقیقت کی تہ تک پہنچ گیا اور میرے رب نے مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ صدیق اور فاروق اور عثمان (رضی اللہ عنہم ) نیکو کار اور مومن تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے چن لیا اور جو خدائے رحمن کی عنایات سے خاص کئے گئے اور اکثر صاحبانِ معرفت نے ان کے محاسن کی شہادت دی.انہوں نے بزرگ و برتر خدا کی خوشنودی کی خاطر وطن چھوڑے.ہر جنگ کی بھٹی میں داخل ہوئے اور موسم گرما کی دو پہر کی تپش اور سردیوں کی رات کی ٹھنڈک کی پروانہ کی بلکہ نوخیز جوانوں کی طرح دین کی راہوں پر محو خرام ہوئے اور اپنوں اور غیروں کی طرف مائل نہ ہوئے اور اللہ رب العالمین کی خاطر سب کو خیر باد کہہ دیا.ان کے اعمال میں خوشبو اور ان کے افعال میں مہک ہے اور یہ سب کچھ ان کے مراتب کے باغات اور ان کی نیکیوں کے گلستانوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ان کی بادِ نسیم اپنے معطر جھونکوں سے ان کے اسرار کا پتہ دیتی ہے اور ان کے انوار اپنی پوری تابانیوں سے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں.پس تم ان کے مقام کی چمک دمک کا ان کی خوشبو کی مہک سے پتہ لگاؤ اور جلد بازی کرتے ہوئے بد گمانیوں کی پیروی مت کرو اور بعض روایات پر تکیہ نہ کرو! کیونکہ ان میں بہت زہر اور بڑا غلو ہے اور وہ قابل اعتبار نہیں ہو تیں.ان میں سے بہت ساری روایات تہ و بالا کرنے والی آندھی اور بارش کا دھوکا دینے والی بجلی کے مشابہ ہیں.پس اللہ سے ڈر اور ان (روایات) کی پیروی کرنے والوں میں سے نہ بن.779"

Page 420

اصحاب بدر جلد 3 400 حضرت علی نام و نسب اور کنیت حضرت علی حضرت علی بن ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم.ان کے والد کا نام عبد مناف تھا جن کی کنیت ابو طالب تھی.آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھا.آپ بعثت نبوی سے دس سال قبل پیدا ہوئے تھے.حضرت علی کے حلیہ کے بارے میں بیان ہوتا ہے کہ آپ کا قد در میانہ تھا.آنکھیں سیاہ تھیں.آپ کا جسم فربہ تھا.کندھے چوڑے تھے.780 حضرت علی کی والدہ نے آپ کا نام اپنے والد کے نام پر اسد رکھا تھا اور آپ کی پیدائش کے وقت ابو طالب گھر پر موجود نہ تھے.جب ابو طالب واپس آئے تو انہوں نے آپ کا نام اسد کے بجائے علی رکھ دیا.حضرت علی کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں.ان کے بھائی طالب، عقیل، جعفر اور بہنیں اُم ہانی اور جمائہ.ان میں طالب اور مجمانہ کے علاوہ باقی سب نے اسلام قبول کر لیا تھا.حضرت علی کی کنیت ابو الحسن، ابوسبطین اور ابوتراب تھی.ابوتراب 781 782 صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلى للعلم حضرت فاطمہ کے گھر آئے تو حضرت علی کو گھر میں نہ پایا.آپ نے پوچھا: تمہارے چا کا بیٹا کہاں ہے ؟ حضرت فاطمہ نے کہا: میرے اور ان کے درمیان کوئی بات ہو گئی تھی تو وہ مجھ سے ناراض ہو کر چلے گئے اور قیلولہ بھی میرے پاس نہیں کیا تو رسول اللہ صلی اللی یم نے کسی آدمی سے کہا دیکھو وہ کہاں ہیں ؟ وہ آیا اور اس نے کہا کہ یارسول اللہ ! وہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں تو رسول اللہ صلی علی تیم تشریف لائے، مسجد میں چلے گئے اور حضرت علی وہاں لیٹے ہوئے تھے.ان کے پہلو سے ان کی چادر ہٹی ہوئی تھی اور کچھ مٹی پہلو پر ، کمر پر لگ گئی تھی.رسول اللہ صلی الی تم نے مٹی پونچھی اور فرمایا: اٹھو اے ابوتراب ! اٹھو اے ابوتراب ! 783 اس وقت سے وہ ابوتراب کی کنیت سے پکارے جانے لگے.الله آنحضرت صلی اللہ علم کی کفالت میں آنحضرت صلی ال تیم کی کفالت میں کس طرح آئے ؟ اس بارے میں بیان ہو تا ہے مجاہد بن جبر ابو الحجاج بیان کرتے ہیں کہ قریش کو ایک بڑی مصیبت پیش آنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت علی پر

Page 421

اصحاب بدر جلد 3 401 حضرت علی انعام اور خیر وبرکت کا باعث بنا.حضرت ابو طالب کثیر العیال تھے.وہاں قحط پڑا تھا.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ یکم نے اپنے چچا حضرت عباس سے جو بنو ہاشم میں زیادہ خوشحال تھے فرمایا کہ اے عباس ! آپ کا بھائی ابو طالب کثیر العیال ہے.اس قحط سے لوگوں کی جو حالت ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں.آپ میرے ساتھ چلیں تا کہ ہم ان کی عیال داری میں کچھ کمی کر دیں.آنحضرت صلی انہیں تم نے فرمایا کہ ان کے بیٹوں میں سے ایک میں لے لیتا ہوں اور حضرت عباس کو کہا کہ ایک آپ لے لیں.آپ نے فرمایا ہم ان دونوں کے لیے حضرت ابو طالب کی طرف سے کافی ہو جائیں گے.حضرت عباس نے کہا ٹھیک ہے.دونوں حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور کہا ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی عیال داری میں کچھ تخفیف کر دیں یہاں تک کہ لوگوں کی وہ حالت جاتی رہے جس میں وہ اس وقت مبتلا ہیں.حضرت ابو طالب نے کہا کہ عقیل کو میرے پاس رہنے دو اس کے علاوہ جو مرضی کرو.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ نیلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے ساتھ ملالیا اور حضرت عباس نے جعفر کو لیا اور اسے اپنے ساتھ ملالیا.حضرت علی رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی علی کم کو بطور نبی مبعوث فرما دیا.پھر حضرت علی نے آپ کی پیروی اختیار کی اور آپ پر ایمان لے آئے اور آپ کی تصدیق کی اور حضرت جعفر حضرت عباس کے پاس رہے یہاں تک کہ انہوں نے یعنی حضرت جعفر نے بھی اسلام قبول کر لیا اور وہ یعنی حضرت عباس پھر حضرت جعفر سے بے نیاز ہو گئے.یہ پہلی تو تاریخ طبری کی روایت تھی.اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کو یوں بیان فرمایا ہے کہ ”ابو طالب ایک بہت با عزت آدمی تھے مگر غریب تھے اور بڑی تنگی سے ان کا گزارہ چلتا تھا.خصوصاً ان ایام میں جب کہ مکہ میں ایک قحط کی صورت تھی.ان کے دن بہت ہی تکلیف میں کٹتے تھے.آنحضرت صلی علیہم نے جب اپنے چچا کی اس تکلیف کو دیکھا تو اپنے دوسرے چچا عباس سے ایک دن فرمانے لگے کہ چچا ! آپ کے بھائی ابو طالب کی معیشت تنگ ہے.کیا اچھا ہو کہ ان کے بیٹوں میں سے ایک کو آپ اپنے گھر لے جائیں اور ایک کو میں لے آؤں.عباس نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور پھر دونوں مل کر ابو طالب کے پاس گئے اور ان کے سامنے یہ درخواست پیش کی.ان کو اپنی اولاد میں عقیل سے بہت محبت تھی.“ ابو طالب کو عقیل سے بہت محبت تھی.” کہنے لگے عقیل کو میرے پاس رہنے دو اور باقیوں کو اگر تمہاری خواہش ہے تو لے جاؤ.چنانچہ جعفر کو عباس اپنے گھر لے آئے اور علی کو آنحضرت صلی علی کی اپنے پاس لے آئے.حضرت علی کی عمر اس وقت قریباً چھ سات سال کی تھی.اس کے بعد علی ہمیشہ آنحضرت صلی الم کے پاس رہے.“ 784 785❝ قبول اسلام حضرت علی کے قبول اسلام کے بارے میں ابن اسحاق سے یہ روایت ہے کہ حضرت علی بن

Page 422

تاب بدر جلد 3 402 حضرت علی الله ابو طالب حضرت خدیجہ کے اسلام لانے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کے ایک دن بعد آئے.راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت صلی علیہ کم اور حضرت خدیجہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو حضرت علی نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیا ہے ؟ تو رسول اللہ صلی علیہم نے فرمایا یہ اللہ کا دین ہے جو اس نے اپنے لیے چن لیا ہے اور رسولوں کو اس کے ساتھ مبعوث فرمایا.پس میں تمہیں اللہ اور اس کی عبادت کی طرف اور لات اور عزیٰ کے انکار کی طرف بلاتا ہوں.اس پر حضرت علی نے آپ سے کہا یہ ایسی بات ہے جس کے بارے میں آج سے پہلے میں نے کبھی نہیں سنا.میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتا جب تک ابو طالب سے اس کا ذکر نہ کر لوں.رسول اللہ صلی علیم نے نا پسند فرمایا کہ آپ کے اعلان نبوت سے پہلے یہ راز کھل جائے.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اے علی ! اگر تم اسلام نہیں قبول کرتے تو اس بات کو پوشیدہ رکھو.پس حضرت علی نے وہ رات گزاری پھر اللہ نے حضرت علی کے دل میں اسلام کو داخل کر دیا اور اگلی صبح رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد ! رات کو آپ نے میرے سامنے کیا چیز پیش فرمائی تھی.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا : تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور لات اور عزیٰ کا انکار کرو اور اللہ تعالیٰ کے شریکوں سے براءت کا اظہار کرو.حضرت علی نے ایسا ہی کیا اور اسلام قبول کر لیا.حضرت علی ابو طالب کے خوف سے پوشیدہ طور پر آپ صلی علیہم کے پاس آیا کرتے تھے اور انہوں نے اپنا اسلام مخفی رکھا.786 حالانکہ رہتے بھی وہیں تھے کیونکہ روایتوں میں تو یہی ہے.بہر حال اسد الغابہ کی یہ روایت ہے.حضرت خدیجہ کے بعد سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت علی تھے.اس وقت حضرت علی کی عمر تیرہ برس تھی.بعض دوسری روایات میں پندرہ سولہ اور اٹھارہ سال عمر کا بھی ذکر ملتا ہے.سیرت نگاروں نے یہ بحث بھی اٹھائی ہے کہ مردوں میں سے پہلے کون ایمان لایا تھا.حضرت ابو بکر یا حضرت علی یا حضرت زید.بعض اس کا یہ حل نکالتے ہیں کہ بچوں میں سے 787 حضرت علی اور بڑوں میں سے حضرت ابو بکر اور غلاموں میں سے حضرت زید اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی اپنا ایک نقطہ نظر پیش کیا ہے.آپ کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ کے بعد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے کے متعلق مورخین میں اختلاف ہے.بعض حضرت ابو بکر عبد اللہ بن ابی قحافہ کا نام لیتے ہیں.بعض حضرت علی علما جن کی عمر اس وقت صرف دس سال کی تھی اور بعض آنحضرت صلی علیم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ کا.مگر ہمارے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے.حضرت علی اور زید بن حارثہ آنحضرت صلی علیم کے گھر کے آدمی تھے اور آپ کے بچوں کی طرح آپ کے ساتھ رہتے تھے.آنحضرت صلی علیم کا فرمانا اور ان کا ایمان لانا، بلکہ ان کی طرف سے تو شاید کسی قولی اقرار کی بھی ضرورت نہ تھی.پس ان کا نام بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں.“ یعنی آنحضرت صلی علی یکم کا فرمانا اور ان کا ایمان لانا، سے کوئی نہیں فرق پڑتا ایک ہی

Page 423

حاب بدر جلد 3 403 حضرت علی بات ہے.اس کے لیے کسی قولی اقرار کی ضرورت نہیں پس ان کا نام پیچ میں لانے کی ضرورت نہیں اور 78866 جو باقی رہے ان سب میں سے حضرت ابو بکر مسلمہ طور پر مقدم ہیں اور سابق بالا یمان تھے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے مانگنے پر ایک مددگار ملا تھا مگر محمد رسول اللہ صلی ایم کی شان دیکھو کہ آپ کو بن مانگے مدد گار مل گیا.“ یہاں حضرت مصلح موعودؓ حضرت خدیجہ کا ذکر فرمانا چاہ رہے ہیں اور آپ کا بتارہے ہیں کہ حضرت خدیجہ آپ کی مدد گار تھیں.کہتے ہیں دیکھو ! محمد رسول اللہ کی شان دیکھو !! کہ آپ کو بن مانگے مدد گار مل گیا یعنی آپ کی وہ بیوی جس کے ساتھ آپ کو بے حد محبت تھی سب سے پہلے آپ پر ایمان لے آئی.کیونکہ ہر شخص کا مذہب اور عقیدہ آزاد ہو تا ہے اور کوئی کسی کو جبر آمنوا نہیں سکتا، اس لیے ممکن تھا کہ جب آپ نے حضرت خدیجہ سے خدا تعالیٰ کی پہلی وحی کا ذکر کیا تو وہ آپ کا ساتھ نہ دیتیں اور کہہ دیتیں کہ میں ابھی سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھاؤں گی لیکن نہیں.حضرت خدیجہ نے بلا تامل، بلا توقف اور بلا پس و پیش آپ کے دعوی کی تائید کی اور رسول کریم صلی علیم کا یہ فکر کہ ممکن ہے خدیجہ مجھ پر ایمان نہ لائے جاتارہا اور سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہ ہی ہوئیں.اس وقت خدا تعالیٰ عرش پر بیٹھیا کہ رہا تھا.الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تجھے خدیجہ کے ساتھ پیار تھا اور محبت تھی اور تیرے دل میں یہ خیال تھا کہ کہیں خدیجہ تجھے چھوڑ نہ دے اور تُو اس فکر میں تھا کہ خدیجہ مجھ پر ایمان لاتی ہے یا نہیں.مگر کیا ہم نے تیری ضرورت کو پورا کیا یانہ کیا؟“ اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”اس کے بعد جب آپ کے گھر میں خدا تعالیٰ کی وحی کے متعلق باتیں ہوئیں تو زید بن حارث غلام جو آپ کے گھر میں رہتا تھا آگے بڑھا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں.اس کے بعد حضرت علییؓ جن کی عمر اس وقت گیارہ سال کی تھی اور وہ ابھی بالکل بچہ ہی تھے اور وہ دروازہ کے ساتھ کھڑے ہو کر اس گفتگو کو سن رہے تھے جو رسول کریم صلی الم اور حضرت خدیجہ کے درمیان ہو رہی تھی.جب انہوں نے یہ سنا کہ خدا کا پیغام آیا ہے تو وہ علی جو ایک ہونہار اور ہوشیار بچہ تھا.وہ علی جس کے اندر نیکی تھی.وہ علی جس کے نیکی کے جذبات جوش مارتے رہتے تھے مگر نشو و نمانہ پاسکے تھے.وہ علی نجس کے احساسات بہت بلند تھے مگر ابھی تک سینے کے اندر دبے ہوئے تھے اور وہ علی نجس کے اندر اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا مادہ ودیعت کیا تھا مگر ابھی تک اسے کوئی موقع نہ مل سکا تھا اس نے جب دیکھا کہ اب میرے جذبات کے ابھرنے کا وقت آگیا ہے.اس نے جب دیکھا کہ اب میرے احساسات کے نشو و نما کا موقع آگیا ہے.اس نے جب دیکھا کہ اب خدا مجھے اپنی طرف بلا رہا ہے تو وہ بچہ ساعلی اپنے درد سے معمور سینے کے ساتھ لجاتا اور شرماتا ہوا آگے بڑھا اور اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! جس بات پر میری بچی ایمان لائی ہے اور جس بات پر زید ایمان لایا ہے اس پر میں بھی ایمان لاتا ہوں.78964

Page 424

اصحاب بدر جلد 3 404 حضرت علی حضرت ابو طالب کی حمایت تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تو رسول کریم صلی الی یکم مکہ کی گھاٹیوں کی طرف چلے جاتے اور حضرت علی بھی آپ کے چچا ابو طالب اور دیگر چچاؤں اور تمام قوم سے چھپ کر آپ کے ساتھ ہو لیتے اور دونوں وہاں نماز ادا کرتے.شام کو واپس تشریف لے آتے.یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا.پھر ایک دن ابو طالب نے ان دونوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور رسول اللہ صلی الم سے پوچھا کہ اے میرے بھتیجے ! یہ کون سا دین ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے میں آپ کو دیکھ رہا ہوں.آپ صلی میں ہم نے فرمایا: اے میرے چا یہ اللہ کا دین ہے اور اس کے فرشتوں کا دین ہے اور اس کے رسولوں کا دین ہے اور ہمارے باپ حضرت ابراہیم کا دین ہے.یا اس سے ملتا جلتا کچھ فرمایا.نیز فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ مجھے لوگوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے اور اے چا تو اس بات کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ میں تجھے اس کی نصیحت کروں اور تجھے اس ہدایت کی طرف بلاؤں اور تو اس بات کا زیادہ سزاوار ہے کہ مجھے قبول کرے اور میری مدد کرے یا اس طرح کی بات فرمائی.اس پر ابو طالب نے کہا اے میرے بھتیجے ! میں اپنے اور اپنے آباؤ اجداد کے دین اور جس پر وہ تھے اس کو چھوڑنے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن اللہ کی قسم ! میں جب تک زندہ ہوں تمہیں کوئی ایسی چیز نہیں پہنچے گی جسے تو نا پسند کرتا ہو.790 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس واقعے کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ”ایک دفعہ آنحضرت صلی علیکم اور حضرت علی مکہ کی کسی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک اس طرف سے ابوطالب کا گذر ہوا.ابو طالب کو ابھی تک اسلام کی کوئی خبر نہ تھی.اس لیے وہ کھڑا ہو کر نہایت حیرت سے یہ نظارہ دیکھتا رہا.جب آپ نماز ختم کر چکے تو اس نے پوچھا بھیجے ! یہ کیا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے ؟ آنحضرت صلی علیکم نے فرمایا.چا! یہ دین الہی اور دین ابراہیم ہے اور آپ نے ابو طالب کو مختصر طور پر اسلام کی دعوت دی لیکن ابو طالب نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میں اپنے باپ دادا کا مذہب نہیں چھوڑ سکتا مگر ساتھ ہی اپنے بیٹے حضرت علی کی طرف مخاطب ہو کر بولا.ہاں بیٹا تم بے شک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ساتھ دو کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ تم کو سوائے نیکی کے اور کسی طرف نہیں بلائے گا.7914 قریبی رشتہ داروں کو تبلیغ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق نبی کریم صلی علیکم کا اپنے اقرباء کو ڈرانے کا ذکر ایک جگہ یوں ملتا ہے.حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی علی تم پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وَ انْذِرُ کم پر عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (اشعر 215:1) اور تُو اپنے اہل خاندان یعنی اقربا کو ڈرا.آپ نے فرمایا اے علی ! ہمارے لیے ایک صاع کھانے کے ساتھ بکری کی ران تیار کرو اور ایک روایت میں صاع کے بجائے مذ کا لفظ ملتا ہے.ایک صاع چار مڈ کا تھا یعنی کچھ کم اڑھائی سیر وزن میں یا اڑھائی کلو کہہ سکتے ہیں اور یہاں یہ بھی لکھا

Page 425

اب بدر جلد 3 405 حضرت علی ہے کہ اہل کوفہ اور عراق کا صاع آٹھ مڈ کا ہو تا تھا یعنی چار سیر کا یا ساڑھے چار سیر کا لیکن بہر حال بہت تھوڑی مقدار.جتنا بھی ہو اڑھائی سیر ہو یا چار سیر ہو خاندان کے افراد کو بلانا تھا، دعوت کرنی تھی اس کے لیے کھانا تیار کرنا تھا.اور ہمارے لیے ایک بڑا پیالہ دودھ کا تیار کرو.پھر بنو عبد المطلب کو جمع کرو.حضرت علی کہتے ہیں میں نے ایسا ہی کیا.وہ سب جمع ہوئے.کوئی چالیس افراد تھے.ایک زیادہ یا ایک کم تھا.ان میں آپ کے چا ابو طالب اور حمزہ اور عباس اور ابو لہب بھی تھے.میں نے ان کے سامنے کھانے کا وہ بڑا بر تن پیش کیا تو رسول اللہ صلی للی کرم نے اس میں سے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اپنے دانتوں سے اسے کاٹا.پھر اس پیالے کے اطراف میں اسے برکت دینے کی خاطر بکھیر دیا اور فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ کھاؤ.لوگوں نے کھایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئے.اللہ کی قسم ! میں نے ان سب کے لیے جو پیش کیا تھا وہ صرف ایک آدمی کھا سکتا تھا.پھر آپ نے فرمایا لو گوں کو پلاؤ.چنانچہ میں دودھ کا وہ پیالہ لایا.انہوں نے پیا یہاں تک کہ سب کے سب سیر ہو گئے.اللہ کی قسم ! ان میں سے صرف ایک شخص سارا پی سکتا تھا.پھر جب رسول اللہ صلی العلیم نے ارادہ فرمایا کہ حاضرین سے بات کریں تو ابو لہب نے جلدی سے بولنا شروع کر دیا اور کہا دیکھو !تمہارے ساتھی نے تم پر کیسا جادو کیا ہے ! پھر وہ لوگ منتشر ہو گئے اور رسول اللہ صلی علیکم ان سے بات نہ کر سکے.اگلے روز آپ نے فرمایا.اے علی ! جو کھانا اور مشروب تم نے کل تیار کیا تھا ویسا ہی تیار کرو.میں نے ایسا ہی کیا.پھر میں نے ان لوگوں کو جمع کیا.رسول اللہ صلی الم نے ایسے ہی کیا جیسا کہ کل کیا تھا یعنی کھانے کو برکت بخشی تھی.پھر ان لوگوں نے کھایا اور پیا یہاں تک کہ خوب سیر ہو گئے.پھر رسول اللہ صلی علی یکم نے فرمایا: اے بنو عبد المطلب ! میں عرب کے کسی نوجوان کو نہیں جانتا جو اپنی قوم کے لیے اس سے بہتر بات لے کر آیا ہو جو میں تمہارے لیے لایا ہوں.میں تمہارے لیے دنیا اور آخرت کا معاملہ لے کر آیا ہوں.پھر فرمایا اس پر کون میری مدد کرے گا؟ حضرت علی کہتے ہیں اس پر سب لوگ خاموش رہے اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! باوجود اس کے کہ میں ان سب میں کم عمر ہوں میں آپ کا مددگار ہوں گا.792 سیرت خاتم النبیین میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ آنحضرت صلی الم نے حضرت علی سے ارشاد فرمایا کہ ایک دعوت کا انتظام کرو اور اس میں بنو عبد المطلب کو بلاؤ تاکہ اس ذریعہ سے ان تک پیغام حق پہنچایا جاوے.چنانچہ حضرت علی نے دعوت کا انتظام کیا اور آپ نے اپنے سب قریبی رشتہ داروں کو جو اس وقت کم و بیش چالیس نفوس تھے اس دعوت میں بلایا.جب وہ کھانا کھا چکے تو آپ نے کچھ تقریر شروع کرنی چاہی مگر بد بخت ابو لہب نے کچھ ایسی بات کہہ دی جس سے سب لوگ منتشر ہو گئے.اس پر آنحضرت صلی ا ہم نے حضرت علی سے فرمایا کہ یہ موقع تو جا تا رہا.اب پھر دعوت کا انتظام کرو.چنانچہ آپ کے رشتہ دار پھر جمع ہوئے اور آپ نے انہیں یوں مخاطب کیا کہ اے بنو عبد المطلب ! دیکھو میں تمہاری طرف وہ بات لے کر آیا ہوں کہ اس

Page 426

حاب بدر جلد 3 406 حضرت علی سے بڑھ کر اچھی بات کوئی شخص اپنے قبیلہ کی طرف نہیں لایا.میں تمہیں خدا کی طرف بلاتا ہوں.اگر تم میری بات مانو تو تم دین و دنیا کی بہترین نعمتوں کے وارث بنو گے.اب بتاؤ اس کام میں میرا کون مددگار ہو گا ؟ سب خاموش تھے اور ہر طرف مجلس میں ایک سناٹا تھا کہ یکلخت ایک طرف سے ایک تیرہ سال کا دبلا پتلا بچہ ، جس کی آنکھوں سے پانی بہ رہا تھا اٹھا اور یوں گویا ہوا.گو میں سب میں کمزور ہوں اور سب میں چھوٹا ہوں مگر میں آپ کا ساتھ دوں گا.یہ حضرت علی کی آواز تھی.آنحضرت صلی ا لم نے حضرت علیؓ کے یہ الفاظ سنے تو اپنے رشتہ داروں کی طرف دیکھ کر فرمایا اگر تم جانو تو اس بچے کی بات سنو اور اسے مانو.حاضرین نے یہ نظارہ دیکھا تو بجائے عبرت حاصل کرنے کے سب کھل کھلا کر ہنس پڑے اور ابو لہب اپنے بڑے بھائی ابو طالب سے کہنے لگا.لو اب محمد تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی پیروی اختیار کرو.اور پھر یہ لوگ اسلام اور آنحضرت صلی علیم کی کمزوری پر جنسی اڑاتے ہوئے رخصت ہو گئے.7936 حضرت مصلح موعودؓ اس واقعے کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں کہ ”حضرت علی کا واقعہ ہے وہ بھی گیارہ سال کے تھے.“ بچوں کو بھی اس کو غور سے سننا چاہیے ” جب وہ دین کی تائید کے لیے کھڑے ہوئے.جب رسول کریم صلی یکم کو وحی ہوئی تو آپ نے ایک دعوت کی جس میں مکہ کے تمام بڑے بڑے امراء کو بلایا اور انہیں کھانا کھلایا.پھر آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں کچھ اپنے دعویٰ کی باتیں کرنا چاہتا ہوں.اس پر سارے اٹھ کر بھاگ گئے.یہ دیکھ کر حضرت علی رسول کریم صلی الم کے پاس آئے اور کہنے لگے اے بھائی! آپ نے یہ کیا کیا؟ آپ جانتے ہیں کہ یہ بڑے دنیادار لوگ ہیں ان کو پہلے سنانا تھا اور پھر کھانا کھلانا تھا.یہ بے ایمان تو کھانا کھا کر بھاگ گئے کیونکہ یہ کھانے کے بھوکے ہیں.اگر آپ پہلے باتیں سناتے تو چاہے دو گھنٹہ سناتے وہ ضرور بیٹھے رہتے.پھر ان کو کھانا کھلاتے.چنانچہ رسول کریم صلی علیہم نے پھر اس طرح کیا.پھر دوبارہ ان کو بلایا اور ان کی دعوت کی لیکن پہلے کچھ باتیں سنائیں اور پھر کھانا کھلایا.اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا اے لوگو! میں نے تمہیں خدا کی باتیں سنائی ہیں.کیا کوئی تم میں سے ہے جو میری مدد کرے اور اس کام میں میر اہاتھ بٹائے ؟ مکہ کے سارے بڑے بڑے آدمی بیٹھے رہے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اے میرے چچا کے بیٹے ! میں ہوں.آپ کی مدد کروں گا.آپ نے سمجھا کہ یہ تو بچہ ہے.چنانچہ پھر آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! کیا تم میں سے کوئی ہے جو میری مدد کرے؟ پھر سارے بڑھے بڑھے بیٹھے رہے اور وہ گیارہ سال کا بچہ کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ میرے چچا کے بیٹے ! میں جو ہوں میں تیری مدد کروں گا.پھر رسول کریم صلی الی یکم نے سمجھا کہ خدا کے نزدیک جوان یہی گیارہ سالہ بچہ ہے باقی بڑھے سب بچے ہیں.“ ان میں کوئی طاقت نہیں ہے یہی بچہ ہے جو عقل مند ہے ” چنانچہ آپ نے ان کو اپنے ساتھ ملالیا اور پھر وہی علی آخر تک آپ کے ساتھ رہے اور پھر آپ کے بعد خلیفہ بھی ہوئے اور انہوں نے دین کی بنیاد ڈالی.اسی طرح آپ کی نسل کو بھی اللہ

Page 427

اصحاب بدر جلد 3 407 794" حضرت علی تعالیٰ نے نیک بنایا اور بارہ نسلوں تک برابر ان میں بارہ امام پید اہوئے.حضرت مصلح موعود ایک جگہ حضرت علی محاذ کر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”حضرت علی جب ایمان لائے تو ابھی بچے ہی تھے اور وہ بھی یہ سمجھ کر ایمان لائے تھے کہ مجھے اسلام کے لیے ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے پڑیں گے.“ بچے تھے لیکن یہ سمجھ کر ایمان لائے تھے کہ قربانی مجھے دینی پڑے گی ”یہاں تک کہ اگر جان قربان کرنے کا وقت آیا تو مجھے اپنی جان بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرنی پڑے گی.حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی الم نے اپنی رسالت کے ابتدائی ایام میں ایک دعوت کی جس میں بنو عبد المطلب کو بلایا تا کہ ان تک پیغام حق پہنچایا جائے.چنانچہ آپ کے بہت سے رشتہ دار اس دعوت میں شریک ہوئے.جب سب لوگ کھانا کھا چکے تو آپ نے کھڑے ہو کر تقریر کرنا چاہی مگر ابو لہب نے ان سب لوگوں کو منتشر کر دیا اور وہ آپ کی بات سنے بغیر اپنے گھروں کو چلے گئے.آپ بہت حیران ہوئے کہ یہ اچھے لوگ ہیں جو دعوت کھا کر تبھی بات نہیں سنتے مگر آپ مایوس نہیں ہوئے بلکہ آپ نے حضرت علی سے فرمایا کہ دوبارہ ان کی دعوت کی جائے.چنانچہ دوبارہ ان سب کو کھانے پر مدعو کیا گیا.جب وہ سیر ہو کر کھا چکے تو آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کا یہ تم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنا نبی تمہارے اندر بھیجا ہے.میں تمہیں خدا کی طرف بلاتا ہوں.اگر تم میری بات مانو گے تو تم دینی اور دنیوی نعماء کے وارث قرار پاؤ گے.کیا تم میں سے کوئی ہے جو اس کام میں میر امددگار بنے ؟ یہ سن کر ساری مجلس پر سناٹے کی سی حالت طاری ہو گئی.مگر یکلخت ایک کونے سے ایک نو عمر بچہ اٹھا اور اس نے کہا کہ گو میں ایک کمزور ترین فرد ہوں اور عمر میں سب سے چھوٹا ہوں مگر میں آپ کا ساتھ دوں گا.یہ بچے حضرت علی تھے جنہوں نے اس وقت اسلام کی تائید کا اعلان کیا.795 حضرت علی کی قربانی کا واقعہ جو آنحضرت علی علم کی ہجرت کے وقت حضرت علی نے دی.اس کا بھی ذکر اس طرح ملتا ہے کہ : اہل مکہ نے باہم مشورہ کر کے جب رسول اکرم صلی علیکم کے گھر پر حملہ آور ہو کر آپ کو قید کرنے یا قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو وحی الہی سے آپ کو دشمنوں کے اس ارادے کی اطلاع ہو گئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت مدینہ کی اجازت مرحمت فرمائی تو آپ نے ہجرت کی تیاری کی اور حضرت علی کو ارشاد فرمایا کہ وہ آج کی رات آنحضرت صلی علیم کے بستر پر لیٹیں.حضرت علی نے رسول اللہ صلی الم کی وہی سرخ حضر هی چادر اوڑھ کر رات گزاری جس میں آپ سویا کرتے تھے.796 مشرکین کا وہ گروہ جو کہ رسول اللہ صلی الیکم کی گھات لگائے ہوئے بیٹھا تھا وہ صبح کے وقت رسول اللہ صلی ا و و م کے گھر میں داخل ہوا اور حضرت علی بستر سے اٹھے.جب وہ حضرت علی کے قریب ہوئے تو ان لوگوں نے آپ کو پہچان لیا اور پوچھا تمہارا سا تھی کہاں ہے ؟ آنحضرت صلی علیکم کے بارے میں پوچھا.حضرت علی نے کہا کہ میں نہیں جانتا.کیا میں رسول اللہ صلی علی کم پر نگران تھا؟ تم نے انہیں مکے سے نکل

Page 428

اصحاب بدر جلد 3 408 حضرت علی جانے کا کہا اور وہ چلے گئے.مشرکوں نے آپ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور زدو کوب کیا.پکڑ کر خانہ کعبہ میں لے گئے اور کچھ دیر محبوس رکھا.پھر آپ کو چھوڑ دیا.797 پھر ایک اور سیرت کی کتاب میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی علی ایم کے ارشاد کے مطابق حضرت علی تین دن کے بعد اہل مکہ کی امانتیں لوٹا کر ہجرت کر کے نبی کریم کے پاس پہنچے اور آپ کے ساتھ قبا میں کلثوم بن ہرم کے ہاں قیام پذیر تھے.798 سیرت خاتم النبیین میں اس واقعہ کا جو ہجرت کے دوران ہوا اس کا ذکر یوں آیا ہے کہ ”رات کا تاریک وقت تھا اور ظالم قریش جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اپنے خونی ارادے کے ساتھ آپ کے مکان کے ارد گرد جمع ہو کر آپ کے مکان کا محاصرہ کر چکے تھے اور انتظار تھا کہ صبح ہو یا آپ اپنے گھر سے نکلیں تو آپ پر ایک دم حملہ کر کے قتل کر دیا جاوے.آنحضرت صلی علیہم کے پاس بعض کفار کی امانتیں پڑی تھیں کیونکہ باوجود شدید مخالفت کے اکثر لوگ اپنی امانتیں آپ کے صدق و امانت کی وجہ سے آپ کے پاس رکھوا دیا کرتے تھے.لہذا آپ نے حضرت علی کو ان امانتوں کا حساب کتاب سمجھا دیا اور تاکید کی کہ بغیر امانتیں واپس کیسے مکہ سے نہ نکلنا.اس کے بعد آپ نے ان سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور تسلی دی کہ انہیں خدا کے فضل سے کوئی گزند نہیں پہنچے گا.وہ لیٹ گئے اور آپ نے اپنی چادر جو سرخ رنگ کی تھی ان کے اوپر اوڑھا دی.اس کے بعد آپ اللہ کا نام لے کر اپنے گھر سے نکلے.اس وقت محاصرین آپ کے دروازے کے سامنے موجود تھے مگر چونکہ انہیں یہ خیال نہیں تھا کہ آنحضرت صلی الیم اس قدر اول شب میں ہی گھر سے نکل آئیں گے وہ اس وقت اس قدر غفلت میں تھے کہ آپ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے.آپ صلی علیہ کی ان مخالفین کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان ے نکل گئے اور ان کو خبر تک نہ ہوئی.اب آنحضرت صلی اللہ کی خاموشی کے ساتھ مگر جلد جلد مکہ کی گلیوں میں سے گزر رہے تھے اور تھوڑی ہی دیر میں آبادی سے باہر نکل گئے اور غارِ ثور کی راہ لی.حضرت ابو بکر کے ساتھ پہلے ہی تمام بات طے ہو چکی تھی.وہ بھی راستہ میں مل گئے.غار ثور جو اسی واقعہ کی وجہ سے اسلام میں ایک مقدس یاد گار سمجھی جاتی ہے مکہ سے جانب جنوب یعنی مدینہ سے مختلف جانب تین میل کے فاصلہ پر ایک بنجر اور ویران پہاڑی کے اوپر خاصی بلندی پر واقع ہے اور اس کا راستہ بھی بہت دشوار گذار ہے.مدینے کی طرف نہیں ہے بلکہ مخالف سمت میں ہے.”وہاں پہنچ کر پہلے حضرت ابو بکر نے اندر گھس کر جگہ صاف کی اور پھر آپ بھی اندر تشریف لے گئے.دوسری طرف وہ قریش جو آپ کے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آپ کے گھر کے اندر جھانک کر دیکھتے تھے تو حضرت علی کو آپ کی جگہ پر لیٹا دیکھ کر مطمئن ہو جاتے تھے لیکن صبح ہوئی تو انہیں علم ہوا کہ ان کا شکار ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے.اس پر وہ ادھر اُدھر بھاگے، مکہ کی گلیوں میں صحابہ کے مکانات پر تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا.اس غصہ میں انہوں نے حضرت علی کو پکڑا اور کچھ مارا پیٹا.7994 الله

Page 429

تاب بدر جلد 3 409 حضرت علی حضرت علی کی اس قربانی کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے یوں فرمایا ہے.فرماتے ہیں کہ : "رسول کریم صلی علیم نے گھر سے نکلتے وقت حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹا دیا تھا.( چارپائی کا رواج ان دنوں نہیں تھا بلکہ اب تک بھی مکہ میں چارپائی کا عام رواج نہیں.بعض روایات میں غلطی سے یوں بیان ہوا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو اپنی چارپائی پر لٹا دیا بستر بنایا جاتا تھا با قاعدہ چار پائی نہیں ہوتی تھی ”جب رسول کریم صلی الیہ ہم رات کے وقت ان لوگوں کے پاس سے گزرے تو ان میں سے بعض نے آپ کو دیکھا بھی مگر انہوں نے خیال کر لیا کہ یہ کوئی اور شخص ہے جو شاید آپ سے ملنے کے لیے آیا ہو گا اور اب واپس جارہا ہے.اس کی وجہ یہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نہایت دلیری کے ساتھ باہر نکلے تھے اور آپ کی طبیعت پر ذرا بھی خوف نہیں تھا.انہوں نے سمجھا کہ اتنی دلیری سے آپ اس وقت باہر نکلنے کی جرات کہاں کر سکتے ہیں.یہ ضرور کوئی اور آدمی ہے جو آپ سے ملنے کے لیے آیا ہو گا.اس کے بعد انہوں نے دروازہ کی دراڑ “ دروازے کی درز ”میں سے اندر جھانکا یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ کہیں آپ باہر تو نہیں نکل گئے تو انہوں نے ایک آدمی کو سویا ہوا دیکھا اور خیال کیا کہ یہی رسول کریم صلی اللہ کم ہیں.ها سة غرض ساری رات وہ آپ کے مکان کا پہرہ دیتے رہے پھر جب مناسب وقت سمجھا تو اندر داخل ہوئے اور شاید انہیں جسم سے شک پڑ گیا کہ یہ جسم آنحضرت صلی علیم کا نہیں.انہوں نے منہ پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھا یا شاید منہ نگا تھا بہر حال انہیں معلوم ہوا کہ سونے والے شخص حضرت علی نہیں.رسول کریم صلی ا کم نہیں.تب انہیں معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی الیکم سلامتی کے ساتھ جاچکے ہیں اور ان کے لیے اب سوائے ناکامی کے کچھ باقی نہیں رہا.800❝ حضرت علی ہو یہ عظیم الشان قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائی ایک اور جگہ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کو یہ عظیم الشان قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائی کہ جب رسول کریم صلی علیم نے ہجرت کے لیے رات کے وقت اپنے گھر سے نکلنا چاہا تو آپ صلی المیہ ہم نے حضرت علیؓ سے فرمایا تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ تا کہ کفار اگر جھانک کر دیکھیں تو انہیں یہ دکھائی دیتا ر ہے کہ کوئی شخص بستر پر سو رہا ہے اور وہ تعاقب کے لیے ادھر ادھر نہ نکلیں.اس وقت حضرت علی نے یہ نہیں کہا کہ یا رسول اللہ ! مکان کے ارد گرد تو قریش کے چنیدہ نوجوان ہاتھ میں تلوار لیے کھڑے ہیں.اگر صبح کو انہیں معلوم ہوا کہ آپ کہیں باہر تشریف لے جاچکے ہیں تو وہ مجھ پر حملہ کر کے مجھے قتل کر دیں گے بلکہ وہ بڑے اطمینان کے ساتھ یعنی حضرت علی بڑے اطمینان کے ساتھ رسول کریم صلی اللی نم کے بستر پر لیٹ گئے اور آپ نے اپنی چادر ان پر ڈال دی.جب صبح ہوئی اور قریش نے دیکھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللی کم کے بجائے حضرت علی آپ کے بستر سے اٹھے ہیں تو وہ اپنی ناکامی پر دانت پیس کر رہ گئے اور انہوں نے حضرت علی کو پکڑ کر مارا پیٹا مگر اس سے کیا بن سکتا تھا.

Page 430

اصحاب بدر جلد 3 410 حضرت علی خدائی نوشتے پورے ہو چکے تھے اور محمد رسول اللہ صلی علیہ کی سلامتی کے ساتھ مکہ سے باہر جاچکے تھے.اس وقت حضرت علی کو کیا معلوم تھا کہ مجھے اس ایمان کے بدلے میں کیا ملنے والا ہے.ہاں اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اس قربانی کے بدلے میں صرف حضرت علی ہی عزت نہیں پائیں گے بلکہ حضرت علی کی اولاد بھی عزت پائے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی پر پہلا فضل تو یہ کیا کہ ان کو رسول کریم صلی الم کی دامادی کا شرف بخشا.دوسرا فضل اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ کیا کہ رسول کریم صلی اللی ایم کے دل میں ان کے لیے اتنی محبت پیدا کی کہ آپ نے بارہا ان کی تعریف فرمائی.801 بہر حال یہ ایک ہی واقعہ کے مختلف ذریعوں سے حوالے میں نے پیش کیے ہیں جو اصل واقعہ کے لحاظ سے تو ایک ہی چیز ہوتی ہے لیکن مختلف رنگوں میں جب میں بیان کرتا ہوں تو اس لیے کہ اس کی تفصیل اور تشریح جو ہے اس میں اس صحابی کی بعض نئی باتیں پتہ لگ جاتی ہیں یا نئے انداز میں پیش کی جاتی ہیں جس سے کئی پہلو سامنے آجاتے ہیں.اور یہاں حضرت علی کے معاملے میں حضرت علی کی شخصیت کے مختلف پہلو بھی سامنے آگئے.آنحضرت صلی اللہ علم کا ہر صحابی سے جو تعلق تھا اس کا بھی پتہ لگ جاتا ہے تو اس طرح بعض دفعہ لگتا یہی ہے کہ ایک ہی حوالہ مختلف جگہ پیش کیا جا رہا ہے لیکن ہر حوالے کا انداز مختلف ہوتا ہے اس لیے پیش کرتا ہوں اور یہاں حضرت علی کے حوالے سے بھی یہی باتیں ہمیں پتہ چلی ہیں.مواخات 802 803 حضرت علی کی مؤاخات کے بارے میں روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے حضرت علی مودو مرتبہ اپنا بھائی قرار دیا.ایک مرتبہ رسول اللہ صلی علی کم نے مہاجرین کے درمیان مکے میں مؤاخات قائم فرمائی.پھر آپ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مدینے میں ہجرت کے بعد مؤاخات قائم فرمائی اور دونوں مرتبہ حضرت علی سے فرمایا: أنتَ أخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو.3 ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی علی کرم نے حضرت علی بن ابو طالب اور حضرت سھل بن حنیف کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیا.804 مواخات کب کب ہوئی؟ اس بارے میں تاریخ میں ذکر ملتا ہے کہ مؤاخات دو مر تبہ ہوئی.چنانچہ صحیح بخاری کے ایک شارح علامہ قسطلانی بیان کرتے ہیں کہ مؤاخات دو مر تبہ ہوئی.پہلی مرتبہ ہجرت سے قبل کتنے میں مہاجرین میں جن میں آپ صلی الیہ کم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے در میان، حضرت عثمان اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کے درمیان، حضرت زبیر اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے درمیان اور حضرت علی اور اپنے درمیان مواخات قائم فرمائی.پھر جب آپ صلی للی کم مدینہ تشریف لائے تو مہاجرین اور انصار کے درمیان حضرت انس بن مالک کے گھر میں مؤاخات قائم فرمائی.الله

Page 431

محاب بدر جلد 3 411 حضرت علی ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی ہم نے سو صحابہ کے درمیان مواخات قائم فرمائی یعنی پچاس مهاجرین اور پچاس انصار کے درمیان.805 غزوات میں شمولیت اور جرآت و بہادری حضرت علی غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی علیہ نام کے ساتھ شامل ہوئے سوائے غزوۂ تبوک کے.غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی لی تم نے ان کو اہل و عیال کی نگہداشت کے لیے مقرر فرمایا تھا.806 حضرت ثعلبہ بن ابو مالیک بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ ہر موقعے پر رسول اللہ صلی علیکم کی طرف سے علمبر دار ہوتے تھے مگر جب لڑائی کا وقت آتا تو حضرت علی بن ابوطالب جھنڈا لے 807 808 غزوہ عشیرہ جمادی الاولی دو ہجری میں ہوا تھا.تاریخ وسیرت کی کتب میں اس غزوہ کا نام غزوہ عشیرہ کے علاوہ غزوہ ذوالعشیرہ، ذات العشیرہ اور عسیرہ بھی بیان ہو ا ہے.عشیرہ ایک قلعے کا نام ہے جو کہ حجاز میں يَنْبُغ اور ذُو الْمَرْوَة کے درمیان واقع ہے.اس کے متعلق تفصیل بیان فرماتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں تحریر فرمایا ہے کہ جمادی الاولیٰ سن 12 ہجری میں قریش مکہ کی طرف سے کوئی خبر پا کر آپ صلی میں کم مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ مدینے سے نکلے اور اپنے پیچھے اپنے رضاعی بھائی ابو سلمہ بن عبد الاسد کو امیر مقرر فرمایا.اس غزوے میں آپ صلی للی کم کئی چکر کاٹتے ہوئے بالآخر ساحل سمندر کے قریب ینبع کے پاس مقام عشیرہ تک پہنچے اور گو قریش کا مقابلہ نہیں ہوا مگر اس میں آپ صلی علیہ یکم نے قبیلہ بنو مدلج کے ساتھ ایک معاہدہ طے فرمایا اور پھر واپس تشریف لے آئے.8 حضرت علی اس غزوے میں شامل ہوئے تھے.اس حوالے سے مسند احمد بن حنبل کی روایت اس طرح ہے کہ حضرت عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں کہ غزوہ ذات العشیر ہمیں حضرت علی اور میں رفیق سفر تھے.جب آنحضور صلی ال یکم اس جگہ تشریف لے گئے اور وہاں قیام فرمایا تو ہم نے بنو مد لج کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ کھجور کے باغات میں اپنے ایک چشمے پر کام کر رہے ہیں.حضرت علی نے مجھے فرمایا اے ابو يقظان تمہاری کیا رائے ہے ؟ کیا ہم ان لوگوں کے پاس جائیں اور دیکھیں وہ کیا کر رہے ہیں ؟ پس ہم ان کے پاس آئے اور ان کے کام کو کچھ دیر دیکھا.پھر نہیں نیند آنے لگی تو میں اور حضرت علی وہاں سے چلے اور کھجوروں کے درمیان مٹی پر ہی لیٹ کر سو گئے.اللہ کی قسم! ہمیں نبی اکرم صلی الم کے علاوہ کسی نے نہ جگایا.آپ صلی اللہ یکم نے ہمیں اپنے پاؤں کے مس سے جگایا جبکہ ہمارے جسموں پر مٹی لگ چکی تھی.اس دن نبی کریم صلی الم نے حضرت علی کے جسم پر مٹی دیکھ کر فرمایا.اے ابو تراب! پھر آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں دو بد بخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں.ابو تراب کا ذکر پچھلی دفعہ بھی خطبے میں ہوا

Page 432

محاب بدر جلد 3 412 حضرت علی تھا کہ مسجد میں سوئے ہوئے تھے.مٹی لگ گئی تھی تو آپ نے کہا اے ابو تراب! ابو تراب کے نام سے پکارا.اس وقت سے آپ کی کنیت یہ بھی ہو گئی تھی یا ہو سکتا ہے اس وقت سے آپ نے یہ نام رکھا ہو ، بعد میں بھی ہو یا دونوں جگہ فرمایا ہو.جو بھی پہلے کا واقعہ ہے.پہلے کا واقعہ تو یہی لگتا ہے.بہر حال کیا میں تمہیں دو بد بخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ! ہم نے کہا ہاں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا پہلا شخص قوم ثمود کا اخیر تھا جس نے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں اور دوسرا شخص وہ ہے جو اے علی ! تمہارے سر پر وار کرے گا یہاں تک کہ خون سے یہ داڑھی تر ہو جائے گی.809 غزوه سَفَوَان بَدْرُ الأولى مجمادی الآخر میں 2 ہجری میں ہوا تھا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کے بارے میں تفصیل اس طرح لکھی ہے کہ ابھی آنحضرت صلی کم کو غزوہ عقیدہ سے واپس مدینہ تشریف لائے ہوئے دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ مکہ کے ایک رئیس گرز بن جابر فِهْرِی نے قریش کے ایک دستہ کے ساتھ کمال ہوشیاری سے مدینہ کی چراگاہ پر جو شہر سے صرف تین میل پر تھی سة اچانک حملہ کیا اور مسلمانوں کے اونٹ وغیرہ لوٹ کر جاتارہا.آنحضرت صلی اللہ ہم کو یہ اطلاع ہوئی تو آپ فوراً زید بن حارثہ کو اپنے پیچھے امیر مقرر کر کے مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر اس کے تعاقب میں نکلے اور سفوان تک جو بدر کے پاس ایک جگہ ہے اس کا پیچھا کیا مگر وہ بچ کر نکل گیا.اس غزوہ کو غزوہ بدرالاولی بھی کہتے ہیں.810 اس غزوے کے موقعے پر آپ صلی یہ تم نے حضرت علی کو سفید جھنڈ اعطا فرمایا تھا.811 غزوہ بدر 12 ہجری مطابق مارچ 624ء میں ہوا تھا اور اس کا ذکر اور اس میں حضرت علی کے بارے میں یوں تذکرہ ملتا ہے کہ : آنحضرت صلی الم نے حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت بشبش بن عمرو کو مشرکین کی خبر دریافت کرنے کے لیے بدر کے چشمہ پر بھیجا.انہوں نے قریش کو اپنے جانوروں کو پانی پلاتے ہوئے دیکھا اور مشرکین کی اس جماعت کو پکڑ کر رسول اللہ صلیالی کم کی خدمت میں پیش کیا.812 غزوہ بدر کے موقعے پر جب دونوں لشکر آمنے سامنے تھے تو سب سے پہلے ربیعہ کے دونوں بیٹے شَيْبَه عُتبہ اور ولید بن عتبہ نکلے اور مبارزت کی دعوت دی تو قبیلہ بنو حارث کے تین انصاری معاذ اور معوذ اور عوف جو عفراء کے فرزند تھے ان کی طرف سے مقابلے کے لیے نکلے مگر رسول الله صلى اللم نے یہ ناپسند فرمایا کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان پہلی مڈھ بھیٹر میں انصار شامل ہوں بلکہ آپ نے یہ پسند فرمایا کہ آپ کے چا کی اولاد اور آپ کی قوم کے ذریعہ سے یہ شوکت ظاہر ہو.پس آپ نے انصار کو حکم دیا تو وہ اپنی صفوں میں واپس آگئے اور آپ نے ان کے لیے کلمہ خیر فرمایا.پھر مشرکین نے کہا اے محمد ! ہماری طرف مقابلے کے لیے ہماری قوم میں سے ہمارے ہم پلہ لوگ بھیجو.* وہاں سن 623ء لکھا ہوا ہے جو سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.مرتب

Page 433

اصحاب بدر جلد 3 413 حضرت علی الله سة پس رسول اللہ صلی اللہ کریم نے فرمایا: اے بنو ہاشم ! اٹھو اپنے حق کے لیے لڑو جس کے ساتھ اللہ نے تمہارے نبی کو مبعوث کیا ہے جبکہ وہ لوگ اپنے باطل کے ساتھ آئے کہ وہ اللہ کے نور کو بجھا دیں.پس حضرت حمزہ بن عبد المطلب، حضرت علی بن ابو طالب اور حضرت عبیدہ بن حارث کھڑے ہوئے اور ان کی طرف بڑھے تو عتبہ نے کہا کچھ بولو تا کہ ہم تمہیں پہچان سکیں.ان لوگوں نے خود پہنے ہوئے تھے جن کی وجہ سے چہرے چھپے ہوئے تھے.حضرت حمزہ نے کہا کہ میں حمزہ بن عبد المطلب اللہ اور اس کے رسول صلی علیکم کا شیر ہوں.اس پر عتبہ نے کہا اچھا مقابل ہے اور میں حلیفوں کا شیر ہوں.تیرے ساتھ یہ دو کون ہیں.حضرت حمزہ نے کہا علی بن ابو طالب اور عبیدہ بن حارث.عتبہ نے کہا دونوں اچھے مقابل ہیں.پھر اس نے یعنی عتبہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اے ولید ! اٹھو.پس حضرت علی اس کے مقابل گئے اور ان دونوں میں تلوار چلنے لگی اور حضرت علی نے اسے قتل کر دیا.پھر عتبہ کھڑا ہوا اور اس کے مقابل میں حضرت حمزہ نکلے.پھر ان دونوں کے درمیان تلوار چلی.حضرت حمزہ نے اسے قتل کر دیا.پھر شیبہ کھڑ ا ہوا اور اس کے مقابل پر حضرت عبیدہ بن حارث نکلے جبکہ وہ (حضرت عبیدہ ) اس دن رسول کریم صلی المی یوم کے اصحاب میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ تھے.شیبہ نے حضرت عبیدہ کی ٹانگ پر تلوار کا کنارا مارا جو آپ کی پنڈلی کے گوشت میں لگا اور اس کو چیر دیا.حضرت حمزہ اور حضرت علی نے شَيْبَہ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا.یہ روایت دو سال ہوئے پہلے بھی بیان ہوئی تھی 814 کچھ حصہ میں بیان کرتاہوں.ایک اور روایت ہے جو حضرت علی بیان کرتے ہیں.اس کا تذکرہ اس طرح ملتا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ اور اس کے پیچھے اس کا بیٹا اور بھائی بھی نکلے اور پکار کر کہا کہ کون ہمارے مقابلے کے لیے آتا ہے تو انصار کے کئی نوجوانوں نے اس کا جواب دیا.عتبہ نے پوچھا کہ تم کون ہوں؟ انہوں نے بتا دیا کہ ہم انصار میں سے ہیں.عتبہ نے کہا کہ ہمیں تم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے.ہم تو صرف اپنے چچا کے بیٹوں سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں.نبی کریم صلى الم نے فرمایا ! اے حمزہ ! اٹھو.اے علی ! کھڑے ہو.اے عبیدہ بن حارث ! آگے بڑھو.حمزہ تو عتبہ کی طرف بڑھے اور حضرت علی کہتے ہیں کہ میں شیبہ کی طرف بڑھا اور عبیدہ اور ولید کے درمیان جھڑپ ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کو سخت زخمی کیا اور پھر ہم ولید کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کو مار ڈالا اور عبیدہ کو ہم میدان جنگ سے اٹھا کر لے آئے.815 813 حضرت علی غزوہ بدر کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اس میں کفار کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی.رات بھر رسول اللہ صلی المی یوم خدا کے حضور عاجزانہ دعاؤں اور تضرعات میں مصروف رہے.جب کفار کا لشکر ہمارے قریب ہوا اور ہم ان کے سامنے صف آرا ہوئے تو نا گاہ ایک شخص پر نظر پڑی جو سرخ اونٹ پر سوار تھا اور لوگوں کے درمیان اس کی سواری چل رہی تھی.رسول کریم صلی ا ہم نے فرمایا: اے علی حمزہ !جو کفار کے قریب کھڑے ہیں انہیں پکار کر پوچھو کہ سرخ اونٹ والا کون ہے اور کیا کہہ رہا

Page 434

ب بدر جلد 3 414 حضرت علی 816 ہے ؟ پھر حضور صلی الم نے فرمایا کہ اگر ان لوگوں میں سے کوئی شخص انہیں خیر بھلائی کی نصیحت کر سکتا ہے تو وہ سرخ اونٹ والا شخص ہے.اتنی دیر میں حضرت حمزہ بھی آگئے.انہوں نے آکر بتایا کہ وہ عشبہ بن ربیعہ ہے جو کفار کو جنگ سے منع کر رہا ہے جس کے جواب میں ابو جہل نے اسے کہا کہ تم بزدل ہو اور لڑائی سے ڈرتے ہو.عتبہ نے جوش میں آکر کہا کہ آج دیکھتے ہیں کہ بزدل کون ہے.بہر حال پھر وہ جنگ میں شامل ہوا.حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للی یکم نے غزوہ بدر کے موقعے پر میرے اور حضرت ابو بکر کے بارے میں فرمایا تم دونوں میں سے ایک کے دائیں جانب حضرت جبرئیل ہیں اور دوسرے کے دائیں جانب حضرت میکائیل ہیں اور حضرت اسرافیل عظیم فرشتہ ہے جو لڑائی کے وقت حاضر ہوتا ہے 817 اور صف میں ہوتا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب غزوہ بدر کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں کہ حضرت علی کہتے ہیں کہ : مجھے لڑتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ عمر کا خیال آتا تھا تو میں آپ کے سائبان کی طرف بھاگ جاتا تھا لیکن جب بھی میں گیا میں نے آپ کو سجدہ میں گڑ گڑاتے ہوئے پایا.اور میں نے سنا کہ آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ يَا حَنُ يَا قَيُّومُ - يَا حَى يَا قَيُّومُ - اے خدا میرے زندہ خدا، اے میرے خدا زندگی بخش آقا.حضرت ابو بکر آپ کی اس حالت کو دیکھ کر بے چین ہوئے جاتے تھے اور کبھی کبھی بے ساختہ عرض کرتے تھے یار سول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں.آپ گھبر ائیں نہیں.اللہ اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا.مگر اس کے باوجود آپ کا برابر دعا کیے جانا، آپ دعا میں مصروف تھے اور اس خوف میں تھے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے بھی بعض دفعہ مشروط ہوتے ہیں.حضرت فاطمہ سے شادی 818 حضرت فاطمہ سے شادی 2 ہجری میں ہوئی.حضرت علی نے رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں حضرت فاطمہ سے عقد کی درخواست کی جسے حضور صلی ا ہم نے بخوشی قبول فرمایا.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور پھر حضرت عمر دونوں نے نبی کریم صلی للی کم کی خدمت میں آکر حضرت فاطمہ سے شادی کی درخواست کی لیکن رسول کریم صلی علیم خاموش رہے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا.حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ حضرت فاطمہ کی شادی مجھ سے کریں گے ؟ آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس مہر کے لیے کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرا گھوڑا اور میری زرہ ہے.آپ نے فرمایا: گھوڑا تو تمہارے لیے ضروری ہے البتہ اپنی زرہ کو بیچ دو.چنانچہ میں نے اپنی زرہ کو چار سو انتی در ہم میں بیچ کر حق مہر کی رقم کا انتظام کیا.لوگ یہ کہتے ہیں کہ حق مہر رکھ لو تو جو ہو گاد دیکھی جائے گی، دے دیں گے.لیکن ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ حق مہر

Page 435

حاب بدر جلد 3 415 حضرت علی کے لیے پہلے انتظام کرو.اس کا مطلب یہ فوری حق ہے.یہ نہیں ہے جب کہ بعض لوگ مجھے لکھ دیتے ہیں کہ عور تیں حق مہر کا پہلے مطالبہ کر لیتی ہیں حالانکہ ہم ہنسی خوشی رہ رہے ہیں.مطالبہ کر دیتی ہیں تو یہ ان کا حق ہے.یہ تو اسی وقت دینا چاہیے اور اس کے نہ دینے سے پھر جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں.اور پھر طلاق خلع کے وقت تو یہ ادا ہونا چاہیے حالانکہ اس یعنی حق مہر کا طلاق اور خلع سے کوئی تعلق نہیں ہے بہر حال ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت علی نے یہ زرہ حضرت عثمان کو نیچی.حضرت عثمان نے زرہ کی قیمت بھی ادا کر دی اور زرہ بھی واپس کر دی.حضرت علی کہتے ہیں کہ میں وہ رقم لے کر آیا اور نبی کریم صلی الم کی گود میں رکھ دی.آپ صلی للہ ہم نے اس میں سے مٹھی بھر بلال کو دیتے ہوئے فرمایا: اس سے کچھ خوشبو خرید لاؤ اور کچھ لوگوں کو ارشاد فرمایا کہ حضرت فاطمہ کا جہیز تیار کرو.چنانچہ حضرت فاطمہ کے لیے ایک چارپائی، چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی یہ سب تیار کیا گیا.ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی سے یہ رشتہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: میرے رب نے مجھے ایسا کرنے کا حکم فرمایا ہے.رخصتی کے بعد آنحضرت صلی اللہ ہم نے حضرت علیؓ سے فرمایا.جب فاطمہ تمہارے پاس آئیں تو جب تک میں نہ آؤں کوئی بات نہ کرنا.چنانچہ حضرت فاطمہ حضرت ام ایمن کے ساتھ آئیں اور گھر کے ایک حصہ میں بیٹھ گئیں.میں بھی ایک طرف بیٹھ گیا.پھر رسول اللہ صلی اللی علم تشریف لائے اور فرمایا کیا میرا بھائی یہاں ہے.ام ایمن نے کہا کہ آپ کا بھائی؟ اور آپ نے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.کیونکہ ایسے رشتے میں شادی ہو سکتی ہے.بہر حال وہ سگا بھائی نہیں ہے.آپ اندر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ سے کہا میرے پاس پانی لاؤ.وہ اٹھیں اور گھر میں رکھے ہوئے ایک پیالے میں پانی لائیں.آپ نے اسے لیا اور اس میں کلی کی پھر حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ آگے بڑھو وہ آگے ہوئیں.آپ نے ان پر اور ان کے سر پر کچھ پانی چھٹڑ کا اور دعا دیتے ہوئے کہا.اللَّهُمَّ إِنِّي أَعِيْنُهَا بِكَ وَذُرِّيَّعَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ اے اللہ ! اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتا ہوں.پھر آپ نے فرمایا دوسری طرف رخ کرو.جب انہوں نے دوسری طرف رخ کیا تو آپ نے ان کے کندھوں کے در میان پانی چھڑ کا.پھر ایسا ہی حضرت علی کے ساتھ کیا.حضرت علی سے فرمایا اپنے اہل کے پاس جاؤ اللہ کے نام اور برکت کے ساتھ.اسی طرح حضرت علی سے ایک روایت یوں مروی ہے کہ نبی کریم صلی الم نے ایک برتن میں وضو کیا.پھر اس پانی کو حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ پر چھڑ کا اور فرمایا: اللَّهُمَّ بَارِكْ فِيْهِمَا وَبَارِكَ لَهُمَا فِي شملِهِمَا.اے اللہ ! ان دونوں میں برکت رکھ دے اور ان دونوں کے جمع ہونے میں برکت رکھ دے.حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی ا یکم نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ ہم فاطمہ کو تیار کریں.یہاں تک کہ ہم اس کو حضرت علی کے پاس لے جائیں.چنانچہ ہم گھر کی طرف متوجہ

Page 436

اصحاب بدر جلد 3 416 حضرت علی ہوئے.ہم نے اس کو بطحا کے نواح کی نرم مٹی سے لیپا.پھر کھجور کے ریشوں سے دو تکیے بھرے.ہم نے اس کو اپنے ہاتھوں سے دھنا.پھر ہم نے کھجور اور منقہ کھانے کے لیے اور میٹھا پانی پینے کے لیے رکھا اور ایک لکڑی لی اور اس کو کمرے میں ایک طرف لگا دیا تا کہ اس پر کپڑے وغیر ہ لٹکائے جاسکیں اور اس پر مشکیزہ لٹکایا جائے.یعنی کپڑے لٹکانے کے لیے اور مشکیزہ لٹکانے کے لیے وہ لکڑی کھڑی کی.ہم نے حضرت فاطمہ کی شادی سے اچھی کوئی شادی نہیں دیکھی.دعوت ولیمہ کھجور ، جو ، پنیر اور حَيْس پر مشتمل تھا.خیس اس کھانے کو کہتے ہیں جو کھجور اور بھی اور پنیر وغیرہ سے ملا کے بنایا جاتا ہے.حضرت اسماء بنت عمیس بیان کرتی ہیں کہ اس زمانے میں اس دعوت ولیمہ سے بہتر کوئی ولیمہ نہیں ہوا.819 لکھا ہے حضرت فاطمہ اور حضرت علی کی شادی کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں یوں ہے کہ حضرت فاطمہ آنحضرت صلی علیم کی اس اولاد میں سب سے چھوٹی تھیں جو حضرت خدیجہ کے بطن سے پیدا ہوئی اور آپ اپنی اولاد میں سب سے زیادہ حضرت فاطمہ کو عزیز رکھتے تھے.اور اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے وہی اس امتیازی محبت کی سب سے زیادہ اہل بھی تھیں.اب ان کی عمر کم و بیش پندرہ سال کی تھی اور شادی کے پیغامات آنے شروع ہو گئے تھے.سب سے پہلے حضرت فاطمہ کے لیے حضرت ابو بکر نے درخواست کی مگر آنحضرت صل الی عوام نے عذر کر دیا.پھر حضرت عمرؓ نے عرض کیا مگر ان کی درخواست بھی منظور نہ ہوئی.اس کے بعد ان دونوں بزرگوں نے یہ سمجھ کر کہ آنحضرت صلی ای دلم کا ارادہ حضرت علی کے متعلق معلوم ہوتا ہے حضرت علی سے تحریک کی کہ تم فاطمہ کے متعلق درخواست کر دو.حضرت علیؓ نے جو غالباً پہلے سے خواہش مند تھے مگر بوجہ حیا خاموش تھے فوراً آنحضرت صلی علم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست پیش کر دی.دوسری طرف آنحضرت صلیا ہم کو خدائی وحی کے ذریعہ یہ اشارہ ہو چکا تھا کہ حضرت فاطمہ کی شادی حضرت علی سے ہونی چاہیے.چنانچہ حضرت علی نے درخواست پیش کی تو آپ صلی میں ہم نے فرمایا کہ مجھے تو اس کے متعلق پہلے سے خدائی اشارہ ہو چکا ہے.پھر آپ نے حضرت فاطمہ سے پوچھا تو وہ بوجہ حیا کے خاموش رہیں.یہ بھی ایک طرح کا اظہارِ رضا مندی تھا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ تم نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کو جمع کر کے حضرت علی اور فاطمہ کا نکاح پڑھایا.یہ 2 ہجری کی ابتدا یا وسط کا واقعہ ہے.اس کے بعد جب جنگ بدر ہو چکی تو غالباً ماہ ذوالحجہ 12 ہجری میں رخصتانہ کی تجویز ہوئی اور آنحضرت صلی الم نے حضرت علی کو بلا کر دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر کی ادائیگی کے لیے کچھ ہے یا نہیں ؟ یہ باغ والا واقعہ جو پچھلی دفعہ بیان ہوا تھا اس شادی کے واقعہ سے پہلے کا ہے.یہ میں نے صحیح کہا تھا.حضرت علی کو بلا کر دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر کی ادائیگی کے لیے کچھ ہے یا نہیں ؟ حضرت علی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میرے پاس تو کچھ نہیں.آپ نے فرمایا وہ زرہ کیا ہوئی جو میں نے اس دن

Page 437

محاب بدر جلد 3 417 حضرت علی یعنی بدر کے مغانم میں سے تمہیں دی تھی ؟ حضرت علی نے عرض کیا وہ تو ہے.آپ نے فرمایا بس وہی لے آؤ.چنانچہ یہ زرہ چار سواسی درہم میں فروخت کر دی گئی اور آنحضرت صلی العلیم نے اسی رقم میں سے شادی کے اخراجات مہیا کیے.جو جہیز آنحضرت صلی اللہ ہم نے حضرت فاطمہ کو دیا وہ ایک بیل دار چادر، ایک چمڑے کا گدیلا جس کے اندر کھجور کے خشک پتے بھرے ہوئے تھے اور ایک مشکیزہ تھا.اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت فاطمہ کے جہیز میں ایک چکی بھی دی تھی.جب یہ سامان ہو چکا تو مکان کی فکر ہوئی.حضرت علی اب تک غالباً آنحضرت صلی علیکم کے ساتھ مسجد کے کسی حجرے وغیرہ میں رہتے تھے مگر شادی کے بعد یہ ضروری تھا کہ کوئی الگ مکان ہو جس میں خاوند بیوی رہ سکیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے حضرت علی سے ارشاد فرمایا کہ اب تم کوئی مکان تلاش کرو جس میں تم دونوں رہ سکو.حضرت علی نے عارضی طور پر ایک مکان کا انتظام کیا اور اس میں حضرت فاطمہ نکا رخصتانہ ہو گیا.اسی دن رخصتانہ کے بعد آنحضرت صلی علیکم ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور تھوڑا سا پانی منگوا کر اس پر دعا کی اور پھر وہ پانی حضرت فاطمہ اور حضرت علی ہر دو پر یہ الفاظ فرماتے ہوئے چھڑ کا کہ اللهُمَّ بَارِكَ فِيهِمَا وَبَارِكْ عَلَيْهِمَا وَبَارِكَ لَهُمَا نَسْلَهُمَا یعنی اے میرے اللہ ! تو ان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اور ان کے ان تعلقات میں برکت دے جو دوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اور ان کی نسل میں برکت دے اور پھر آپ اس نئے جوڑے کو اکیلا چھوڑ کر واپس تشریف لے آئے.اس کے بعد جو ایک دن آنحضرت صلی للی کم حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے تو حضرت فاطمہ نے آنحضرت صلی اللی نام سے عرض کیا کہ حارثہ بن نعمان انصاری کے پاس چند ایک مکانات ہیں آپ ان سے فرماویں کہ وہ اپنا کوئی مکان خالی کر دیں.آپ نے فرمایا وہ ہماری خاطر اتنے مکانات پہلے ہی خالی کر چکے ہیں اب مجھے تو انہیں کہتے ہوئے شرم آتی ہے.حارثہ کو کسی طرح اس کا علم ہوا تو وہ بھاگے ہوئے آئے اور آنحضرت صلی علیم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میر ا جو کچھ ہے وہ حضور کا ہے اور واللہ جو چیز آپ مجھ سے قبول فرمالیتے ہیں وہ مجھے زیادہ خوشی پہنچاتی ہے بہ نسبت اس چیز کے جو میرے پاس رہتی ہے اور پھر اس مخلص صحابی نے باصرار اپنا ایک مکان خالی کروا کے پیش کر دیا اور حضرت علی اور حضرت فاطمہ وہاں آگئے.820 زہد و قناعت کرنے والا جوڑا حضرت علی اور حضرت فاطمہ اپنی تنگدستی اور غربت کے باوجو د زہد و قناعت کا نمونہ دکھایا کرتے تھے.چنانچہ احادیث میں ذکر ہے کہ حضرت علی نے بیان فرمایا کہ حضرت فاطمہ نے چکی چلانے سے اپنے ہاتھ میں تکلیف کی شکایت کی اور نبی صلی علی کرم کے پاس کچھ قیدی آئے تو وہ حضور صلی الی یم کی طرف گئیں اور آپ کو نہ پایا.آپ یعنی حضرت فاطمہ ، حضرت عائشہ سے ملیں اور ان کو بتایا کہ کس طرح میں آئی تھی.جب نبی صل الله علم تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے حضرت فاطمہ کے اپنے ہاں آنے کا بتایا.حضرت علی

Page 438

باب بدر جلد 3 418 حضرت علی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی علی ظلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے.ہم کھڑے ہونے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو.پھر آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی.آپ نے فرمایا کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر بات نہ بتاؤں جو تم نے مانگا ہے وہ یہ ہے کہ جب تم دونوں اپنے بستروں پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہو، تینتیں دفعہ سبحان اللہ کہو اور تینتیس دفعہ الحمد للہ کہو.یہ تم دونوں کے لیے خادم سے زیادہ بہتر ہے.حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ نبی کریم صلیالی کمی کی خدمت میں آپ سے خادم مانگنے کے لیے حاضر ہوئیں اور کام کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا تم اس خادم کو ہمارے پاس نہیں پاؤ گی یعنی اس طرح تمہیں مجھ سے خادم نہیں ملے گا.آپ نہیں دینا چاہتے تھے.حالانکہ حضرت علی علما بھی مال غنیمت میں سے حق بنتا تھا لیکن آپ نے نہیں دیا.آپ نے فرمایا کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتاؤں جو تیرے لیے خادم سے بہتر ہے؟ تم اپنے بستر پر جاتے ہوئے تینتیس دفعہ سبحان اللہ کہو، تینتیس مرتبہ الحمد للہ کہو اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر کہو.یہ صحیح مسلم کی روایت ہے.821 حضرت مصلح موعود آنحضرت صلی اللہ علم کی سیرت بیان فرماتے ہوئے اس واقعے کو بخاری کے حوالہ سے یوں بیان فرماتے ہیں.حدیث یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شکایت کی کہ چکی پینے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے.اسی عرصے میں آنحضرت صلی اللی علم کے پاس کچھ غلام آئے.آپ آنحضرت صلی میزنم کے پاس تشریف لے گئیں لیکن آپ کو گھر پر نہ پایا اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنی آمد کی وجہ سے اطلاع دے کر گھر لوٹ آئیں.جب آنحضرت صلی للی دم گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے جناب صلی علیم کو حضرت فاطمہ کی آمد کی اطلاع دی جس پر آپ صلی المیہ کم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے.میں نے آپ کو آتے دیکھ کر چاہا کہ اٹھوں مگر آنحضرت صلی نیلم نے فرمایا کہ اپنی جگہ لیٹے رہو.پھر ہم دونوں کے درمیان آکر بیٹھ گئے یہاں تک کہ آپ کے قدموں کی خنکی میرے سینے پر محسوس ہونے لگی.جب آپ بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں کوئی ایسی بات نہ بتاؤں جو اس چیز سے جس کا تم نے سوال کیا ہے بہتر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تم اپنے بستروں پر لیٹ جاؤ تو چونیتس دفعہ تکبیر کہو، تینتیس دفعہ سبحان اللہ کہو اور تینتیس دفعہ الحمد للہ کہو.پس یہ تمہارے لیے خادم سے اچھا ہو گا.حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی علیکم اموال کی تقسیم میں ایسے محتاط تھے کہ باوجود اس کے کہ حضرت فاطمہ کو ایک خادم کی ضرورت تھی اور چکی پینے سے آپ کے ہاتھوں کو تکلیف ہوتی تھی مگر پھر بھی آپ نے ان کو خادم نہ دیا بلکہ دعا کی تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجہ کیا.آپ اگر چاہتے تو حضرت فاطمہ کو خادم دے سکتے تھے کیونکہ جو اموال تقسیم کے لیے آپ صلی ایم کے پاس آتے تھے وہ بھی صحابہ میں تقسیم کرنے کے لیے آتے تھے الله الله سة

Page 439

محاب بدر جلد 3 419 حضرت علی اور حضرت علی کا بھی ان میں حق ہو سکتا تھا اور حضرت فاطمہ بھی اس کی حقدار تھیں لیکن آپ صلی للی یکم نے احتیاط سے کام لیا اور نہ چاہا کہ ان اموال سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو دے دیں کیونکہ ممکن تھا کہ اس سے آئندہ لوگ کچھ کا کچھ نتیجہ نکالتے اور بادشاہ اپنے لیے اموال الناس کو جائز سمجھ لیتے.پس احتیاط کے طور پر آپ نے حضرت فاطمہ کو ان غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو آپ کے پاس اس وقت بغرض تقسیم ہمیں کوئی نہ دی.اس جگہ یہ بھی یادر کھنا چاہیے کہ ان اموال میں آپ کا اور آپ کے رشتہ داروں کا خدا تعالیٰ نے حصہ مقرر فرمایا ہے ان سے آپ خرچ فرما لیتے تھے اور اپنے متعلقین کو بھی دیتے تھے.ہاں جب تک کوئی چیز آپ کے حصہ میں نہ آئے اسے قطعا خرچ نہ فرماتے اور اپنے عزیز سے عزیز رشتہ داروں کو بھی نہ دیتے.822 کیا د نیا کسی بادشاہ کی مثال پیش کر سکتی ہے جو بیت المال کا ایسا محافظ ہو.اگر کوئی نظیر مل سکتی ہے تو صرف اسی پاک وجود کے خدام میں سے ورنہ دوسرے مذاہب اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتے.نماز تہجد کی تلقین حضرت علی بن ابو طالب نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی للی کم ایک رات ان کے اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم دونوں نماز نہیں پڑھتے تو میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں.جب وہ چاہے کہ ہمیں اٹھائے تو ہمیں اٹھاتا ہے.آپ صلی یہی تم نے مجھے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور واپس تشریف لے گئے.نماز سے مراد تہجد تھی یعنی کہ نماز تہجد اگر نہیں پڑھتے، تہجد کے وقت اگر ہماری آنکھ نہیں کھلتی تو یہ اللہ کی مرضی ہے اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ہمیں اٹھا دے اور جب اٹھا دیتا ہے تو ہم پڑھ لیتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ ہم نے کوئی بحث نہیں کی اور واپس تشریف لے گئے.پھر میں نے آپ کو سنا جبکہ آپ واپس جارہے تھے.آپ اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے فرما رہے تھے کہ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جدلا کہ انسان سب سے بڑھ کر بحث کرنے والا ہے.123 حضرت مصلح موعود اس واقعے کو بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں.”ایک دفعہ آپ رات اپنے داماد حضرت علی اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر گئے اور فرمایا کیا تہجد پڑھا کرتے ہو ؟ ( یعنی وہ نماز جو آدھی رات کے قریب اٹھ کر پڑھی جاتی ہے) حضرت علی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کی منشا کے ماتحت کسی وقت ہماری آنکھ بند رہتی ہے تو پھر تہجد رہ جاتی ہے.آپ نے فرمایا تہجد پڑھا کرو اور اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور راستہ میں بار بار کہتے جاتے تھے وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً یہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اکثر اپنی غلطی تسلیم کرنے سے گھبراتا ہے اور مختلف قسم کی دلیلیں دے کر اپنے قصور پر پردہ ڈالتا ہے.مطلب یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ یہ کہتے کہ ہم سے کبھی کبھی غلطی بھی ہو

Page 440

حاب بدر جلد 3 420 حضرت علی 824<< جاتی ہے انہوں نے یہ کیوں کہا کہ جب خدا تعالیٰ کا منشا ہوتا ہے کہ ہم نہ جاگیں تو ہم سوئے رہتے ہیں اور اپنی غلطی کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں منسوب کیا.حضرت مصلح موعودؓ اس واقعے کو مزید کھول کے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علی اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک موقعے پر جبکہ حضرت علی نے آپ کو ایسا جواب دیا جس میں بحث اور مقابلے کا طر پایا جاتا تھا تو بجائے اس کے کہ آپ صلی الی یکم ناراض ہوتے یا خفگی کا اظہار کرتے آپ نے ایک ایسی لطیف طرز اختیار کی کہ حضرت علی غالباً اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس کی حلاوت سے مزہ اٹھاتے رہے ہوں گے اور انہوں نے جو لطف اٹھایا ہو گا وہ تو انہی کا حق تھا.اب بھی آنحضرت صلی علیہ یکم کے اس اظہار ناپسندیدگی کو معلوم کر کے ہر ایک باریک بین نظر محو حیرت ہو جاتی ہے.حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں.بخاری کی روایت ہے.کہ نبی کریم صلی علیہ کی ایک رات میرے اور فاطمتہ الزہرا کے پاس تشریف لائے جو رسول اللہ صلی الی یکم کی صاحبزادی تھیں اور فرمایا کہ کیا تم تہجد کی نماز نہیں پڑھا کرتے ؟ میں نے جواب دیا کہ یارسول اللہ ! ہماری جانیں تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اور جب وہ اٹھانا چاہے اٹھا دیتا ہے.آپ اس بات کو سن کر لوٹ گئے اور مجھے کچھ نہیں کہا.پھر میں نے آپ سے سنا اور آپ پیٹھ پھیر کر کھڑے ہوئے تھے اور آپ اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہہ رہے تھے کہ انسان تو اکثر باتوں میں بحث کرنے لگ پڑتا ہے.اللہ اللہ ، کس لطیف طرز سے حضرت علی کو آپ نے سمجھایا کہ آپ کو یہ جواب نہیں دینا چاہیے تھا.کوئی اور ہو تا تو اول تو بحث شروع کر دیتا کہ میری پوزیشن اور رتبہ کو دیکھو پھر اپنے جواب کو دیکھو.کیا تمہیں یہ حق پہنچتا تھا کہ اس طرح میری بات کو رڈ کر دو.یہ نہیں تو کم سے کم بحث شروع کر دیتا کہ یہ تمہارا دعویٰ غلط ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں.وہ جس طرح چاہے کرواتا ہے.چاہے نماز کی توفیق دے چاہے نہ دے.اور کہتا کہ جبر کا مسئلہ قرآن شریف کے خلاف ہے.لیکن آپ نے ان دونوں طریقوں سے کوئی بھی اختیار نہ کیا اور نہ تو ان پر ناراض ہوئے ، نہ بحث کر کے حضرت علی کو ان کے قول کی غلطی پر آگاہ کیا بلکہ ایک طرف ہو کر ان کے اس جواب پر اس طرح حیرت کا اظہار کر دیا کہ انسان بھی عجیب ہے کہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی پہلو اپنے موافق نکال ہی لیتا ہے اور بحث شروع کر دیتا ہے.حقیقت میں آپ صلی علیہ کم کا اتنا کہہ دینا ایسے ایسے منافع اپنے اندر رکھتا تھا کہ جس کا عشر عشیر بھی کسی اور کی سو بحثوں سے نہیں پہنچ سکتا تھا.اس حدیث سے ہمیں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں جن سے آنحضرت صلی الم کے اخلاق کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور اسی جگہ ان کا ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اول تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو دین داری کا کس قدر خیال تھا کہ رات کے وقت پھر کر اپنے قریبیوں کا خیال رکھتے تھے.بہت لوگ ہوتے ہیں جو خود تو نیک ہوتے ہیں، لوگوں کو بھی نیکی کی تعلیم دیتے ہیں لیکن ان کے گھر کا حال خراب ہوتا ہے اور ان میں یہ مادہ نہیں ہو تا کہ اپنے گھر کے

Page 441

حاب بدر جلد 3 421 حضرت علی لوگوں کی بھی اصلاح کریں اور انہی لوگوں کی نسبت مثل مشہور ہے کہ چراغ تلے اندھیرا.یعنی جس طرح چراغ اپنے آس پاس تمام اشیاء کو روشن کر دیتا ہے لیکن خود اس کے نیچے اندھیرا ہو تا ہے اسی طرح یہ لوگ بھی دوسروں کو تو نصیحت کرتے پھرتے ہیں مگر اپنے گھر کی فکر نہیں کرتے کہ ہماری روشنی سے ہمارے اپنے گھر کے لوگ کیا فائدہ اٹھا رہے ہیں.مگر آنحضرت صلیالی نمک کو اس بات کا خیال معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عزیز بھی اس نور سے منور ہوں جس سے وہ دنیا کو روشن کرنا چاہتے تھے اور اس کا آپ تعہد بھی کرتے تھے اور ان کے امتحان و تجربہ میں لگے رہتے تھے اور تربیت اعزاء ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہے جو اگر آپ میں نہ ہو تا تو آپ کے اخلاق میں ایک قیمتی چیز کی کمی رہ جاتی.دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ میلی لی یم کو اس تعلیم پر کامل یقین تھا جو آپ دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے اور ایک منٹ کے لیے بھی آپ اس پر شک نہیں کرتے تھے اور جیسا کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ دنیا کو اُلو بنانے کے لیے اور اپنی حکومت جمانے کے لیے آپ نے یہ سب کار خانہ بنایا تھاور نہ آپ کو کوئی وحی نہیں آتی تھی.یہ بات نہ تھی بلکہ آپ کو اپنے رسول اور خدا کے مامور ہونے پر ایسا ملح قلب عطا تھا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی کیونکہ ممکن ہے کہ لوگوں میں آپ بناوٹ سے کام لے کر اپنی سچائی کو ثابت کرتے ہوں لیکن یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ رات کے وقت ایک شخص خاص طور پر اپنی بیٹی اور داماد کے پاس جائے اور ان سے دریافت کرے کہ کیا وہ اس عبادت کو بھی بجالاتے ہیں جو اس نے فرض نہیں کی بلکہ اس کا ادا کر نا مومنوں کے اپنے حالات پر چھوڑ دیا ہے اور جو آدھی رات کے وقت اٹھ کر ادا کی جاتی ہے.اس وقت آپ کا جانا اور اپنی بیٹی اور داماد کو ترغیب دینا کہ وہ تہجد بھی ادا کیا کریں اس کامل یقین پر دلالت کرتا ہے جو آپ کو اس تعلیم پر تھا جس پر آپ لوگوں کو چلانا چاہتے تھے.ورنہ ایک مفتری انسان جو جانتا ہو کہ ایک تعلیم پر چلنا ایک اہے، اپنی اولاد کو ایسے پوشیدہ وقت میں اس تعلیم پر عمل کرنے کی نصیحت نہیں کر سکتا یعنی تعلیم پر چلنا بے شک ایک ہے لیکن وہ نصیحت پوشیدہ وقت میں تو نہیں کر سکتا.یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک آدمی کے دل میں یقین ہو کہ اس تعلیم پر چلے بغیر کمالات حاصل نہیں ہو سکتے.یعنی کہ تعلیم پر چلنا یا نہ چلنا یہ ایک جیسا ہے لیکن نصیحت کرنا، رات کے وقت، پوشیدہ وقت میں نصیحت کرنا یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب یقین ہو کہ جو تعلیم ہے اس پر چلے بغیر انسان اس کے دین کے یا اس تعلیم کے جو اعلیٰ کمال ہیں ان تک نہیں پہنچ سکتا.تیسری بات وہی ہے جس کے ثابت کرنے کے لیے میں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی للہ ہر ایک بات کے سمجھانے کے لیے تحمل سے کام لیا کرتے تھے اور بجائے لڑنے کے محبت اور پیار سے کسی کو اس کی غلطی پر آگاہ فرماتے تھے.چنانچہ اس موقع پر جب حضرت علی نے آپ کے سوال کو اس طرح رڈ کرنا چاہا کہ جب ہم سو جائیں تو ہمارا کیا اختیار ہے کہ ہم جاگیں کیونکہ سویا ہوا انسان اپنے آپ پر قابو نہیں رکھتا.جب وہ سو گیا تو اب اسے کیا خبر ہے کہ فلاں وقت آگیا ہے اب میں فلاں فلاں کام کر لوں.اللہ تعالیٰ آنکھ کھول دے تو نماز ادا کر لیتے ہیں

Page 442

اصحاب بدر جلد 3 422 حضرت علی ور نہ مجبوری ہوتی ہے کیونکہ اس وقت الارم کی گھڑیاں نہ تھیں.اس بات کو سن کر آنحضرت صلی للی نم کو حیرت ہوئی ہی تھی کیونکہ آپ صلی للی نیم کے دل میں جو ایمان تھا وہ کبھی آپ کو ایسا غافل نہ ہونے دیتا تھا کہ تہجد کا وقت گزر جائے اور آپ کو خبر نہ ہو.اس لیے آپ نے دوسری طرف منہ کر کے صرف یہ کہہ دیا کہ انسان بات مانتا نہیں جھگڑتا ہے.یعنی تم کو آئندہ کے لیے کوشش کرنی چاہیے تھی کہ وقت ضائع نہ ہو نہ کہ اس طرح ٹالنا چاہیے تھا.چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں.میں نے پھر کبھی تہجد میں ناغہ نہیں کیا.825 غزوہ احد 826 غزوہ احد کے موقعے پر جب ابن قمئہ نے حضرت مصعب بن عمیر کو شہید کیا تو اس نے یہ گمان کیا کہ اس نے رسول اللہ صلی علی قوم کو شہید کر دیا ہے.چنانچہ وہ قریش کی طرف کو ٹا اور کہنے لگا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر دیا ہے.جب حضرت مصعب شہید ہوئے تو رسول اللہ صلی علیم نے جھنڈا حضرت علی کے سپرد کیا.چنانچہ حضرت علی اور باقی مسلمانوں نے لڑائی کی.ایک روایت میں آتا ہے کہ غزوہ احد کے موقعے پر مشرکین کے علمبر دار طلحہ بن ابو طلحہ نے حضرت علی کو للکارا.انہوں نے آگے بڑھ کر ایسا وار کیا کہ وہ زمین پر ڈھیر ہو کر تڑپنے لگا.حضرت علی نے یکے بعد دیگرے کفار کے علمبر داروں کو تہ تیغ کیا.رسول اللہ صلی الیم نے کفار کی ایک جماعت دیکھ کر حضرت علی ہو ان پر حملہ کرنے کا ارشاد فرمایا.حضرت علی نے عمرو بن عبد اللہ مجمحی کو قتل کر کے انہیں منتشر کر دیا.پھر آپ نے کفار کے دوسرے دستہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا.حضرت علی نے شَيْبَة بن مالك کو ہلاک کیا تو حضرت جبرئیل نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یقینا یہ ہمدردی کے لائق ہے ، یعنی حضرت علی کے بارے میں ، تو رسول اللہ صلی الم نے فرمایا ہاں علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں.تو جبرئیل نے کہا کہ میں آپ دونوں میں سے ہوں.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ غزوہ احد میں جب رسول اللہ صلی مینیم کے پاس سے لوگ ہٹ گئے تو میں نے شہداء کی لاشوں میں دیکھنا شروع کیا تو ان میں رسول اللہ صلی امید کم کو نہ پایا.تب میں نے کہا خدا کی قسم !رسول اللہ صلی علیہ کم نہ بھاگنے والے تھے اور نہ ہی میں نے آپ کو شہداء میں پایا ہے لیکن اللہ ہم سے ناراض ہوا اور اس نے اپنے نبی کو اٹھا لیا ہے پس اب میرے لیے بھلائی یہی ہے کہ میں لڑوں یہاں تک کہ قتل کر دیا جاؤں.828 الله سة 827 پھر میں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کفار پر حملہ کیا.وہ ادھر اُدھر منتشر ہو گئے تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی العلم ان کے درمیان ہیں.8 یہ عشق و وفا کی وہ داستان ہے جو بچپن کے عہد سے شروع ہوئی اور ہر موقعے پر اپنا جلوہ دکھاتی رہی.غزوہ احد میں آنحضرت صلی علی یم کو جو زخم لگے اس حوالے سے ایک روایت ہے کہ حضرت سہل بن

Page 443

باب بدر جلد 3 423 حضرت علی بعد سے رسول اللہ صلی علیم کے زخم کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے کہا مجھ سے پوچھتے ہو تو اللہ کی قسم ! میں خوب جانتا ہوں کہ کون رسول اللہ صلی علیکم کا زخم دھو رہا تھا.یعنی یہ نظارہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہے، اور کون پانی ڈال رہا تھا اور کیا دوالگائی گئی تھی.حضرت سہل نے کہا کہ رسول اللہ صلی للی نیم کی بیٹی حضرت فاطمہ زخم دھو رہی تھیں اور حضرت علی ڈھال میں سے پانی ڈال رہے تھے.جب حضرت فاطمہ نے دیکھا کہ پانی خون کو اور نکال رہا ہے تو انہوں نے بوریہ کا ایک ٹکڑ الیا اور اس کو جلایا اور ان کے ساتھ چپکا دیا.اس سے خون رک گیا اور اس دن آپ کا سامنے والا دانت بھی ٹوٹ گیا تھا اور آپ کا چہرہ زخمی ہو گیا تھا اور آپ کا خود آپ کے سر پر ٹوٹ گیا تھا.829 830 حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ غزوہ احد میں حضرت علی کو سولہ زخم لگے تھے.حضرت مصلح موعودؓ یہ مضمون بیان فرما رہے تھے کہ مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں تو یہ مضمون بیان فرماتے ہوئے آپ نے یہ بیان فرمایا کہ حضرت علی نے احد سے واپس آکر حضرت فاطمہ کو اپنی تلوار دی اور کہا اس کو دھو دو.آج اس تلوار نے بڑا کام کیا ہے.رسول کریم صلی علیکم حضرت علی کی یہ بات سن رہے تھے.آپ نے فرمایا: علیا تمہاری ہی تلوار نے کام نہیں کیا اور بھی بہت سے تمہارے بھائی ہیں جن کی تلواروں نے جو ہر دکھائے ہیں.آپ نے چھ سات صحابہ کے نام لیتے ہوئے فرمایا ان کی تلواریں تمہاری تلوار سے کم تو نہ تھیں.اور پھر انہی مصیبتوں میں سے گزرتے ہوئے ان لوگوں کو آخر فتح پاپی ہوئی.غزوہ خندق شوال پانچ ہجری میں ہوئی ہے.اس موقعے پر کفار کے لشکر نے جب مدینہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو ان کے رؤساء نے اس امر پہ اتفاق کیا کہ مل کر حملہ کیا جائے.وہ خندق میں کوئی ایسی تنگ جگہ تلاش کرنے لگے جہاں سے وہ اپنے گھڑ سوار نبی صلی یم اور آپ کے اصحاب تک پہنچا دیں مگر انہیں کوئی 831" جگہ نہ ملی.انہوں نے کہا کہ یہ ایسی تدبیر ہے جس کو عرب میں آج تک کسی نے نہیں کیا تھا.ان سے کہا گیا کہ آنحضرت صلی علیم کے ہمراہ ایک فارسی شخص ہے جس نے آپ کو اس بات کا مشورہ دیا ہے.انہوں نے کہا یہ اس کی تدبیر ہے یعنی کفار نے کہا.پھر وہ لوگ ایسے تنگ مقام پر پہنچے جس سے مسلمان غافل تھے تو عکرمہ بن ابو جہل ، نوفل بن عبد اللہ اور ضرار بن خطاب اور ٹھیرہ بن ابو وهب اور عمر و بن عبد وُڈ نے اس جگہ سے خندق کو پار کیا.عمرو بن عبدود مقابلے کے لیے بلاتے ہوئے یہ شعر پڑھنے لگا کہ :.وَلَقَد بَحْتُ مِن النداء لِجَمْعِهِمْ هَلْ مِنْ مُبَارِزُ یعنی ان کی جماعت کو آواز دیتے دیتے خود میری آواز بیٹھ گئی ہے کہ ہے کوئی جو مقابلے کے لیے نکلے.اس کے جواب میں حضرت علی نے یہ اشعار کہے.لَا تَعْجَلَن فَقَدْ آتَاك مُجِيبُ صَوْتِكَ غَيْرُ عَاجِزُ

Page 444

اصحاب بدر جلد 3 في نِيَّةٍ وَبَصِيرَةٍ إنِّي لَأَرْجُو ان أُقِيمَ 424 وَالصِّدقُ مَنْجى كُلِّ فَائِزُ عَلَيْكَ نَائِحِةَ الْجَنَائِز مِنْ ضَرْبَةٍ نَجْلاءَ يَبْقَى ذِكْرُهَا عِندَ الْهَزَاهِرُ حضرت علی تم ہر گز جلدی نہ کرو.تمہاری آواز کا جواب دینے والا تمہارے پاس آ گیا ہے جو بے بسی اور کمزوری کا اظہار کرنے والا نہیں.مضبوط ارادے اور مکمل بصیرت کے ساتھ اور میدان میں ثابت قدمی اور ڈٹ جانا ہی ہر کامیاب ہونے والے کی نجات کا ذریعہ ہے.میں یقیناً امید رکھتا ہوں کہ میں تجھ پر میتوں پر نوحہ کرنے والیاں اکٹھی کر دوں گا.ایسا بڑ از خم لگا کر جس کا تذکرہ جنگوں میں باقی رہے گا.حضرت علی بن ابو طالب نے جب کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس سے مقابلے کے لیے نکلوں گا تو رسول اللہ صلی علی یم نے انہیں اپنی تلوار دی اور عمامہ باندھا اور دعا کی کہ اے اللہ ! اس یعنی عمر و بن عبدو ڈ کے مقابل میں اس کی مدد کر.حضرت علی اس کے مقابلہ کے لیے نکلے.دونوں ایک دوسرے سے مقابلہ کے لیے ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور جب مقابلے پہ آئے تو وہاں ان دونوں کے درمیان مٹی کا غبار اٹھا.حضرت علیؓ نے اسے مار کر قتل کر دیا اور اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تو ہم نے جان لیا کہ حضرت علی نے اسے قتل کر دیا ہے.اس کے ساتھی پشت پھیر کر بھاگ گئے اور اپنے گھوڑوں کی وجہ سے جان بچانے میں کامیاب ہو گئے.32 اس کی مزید تفصیل بیان فرماتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں تحریر فرمایا ہے کہ عمر و ایک نہایت نامور شمشیر زن تھا اور اپنی بہادری کی وجہ سے اکیلا ہی ایک ہزار سپاہی کے برابر سمجھا جاتا تھا اور چونکہ وہ بدر کے موقع پر خائب و خاسر ہو کر واپس گیا تھا اس لئے اس کا سینہ مسلمانوں کے خلاف بغض و انتقام کے جذبات سے بھرا ہوا تھا.اس نے میدان میں آتے ہی نہایت مغرورانہ لہجے میں مبارز طلبی کی.کہا کوئی ہے جو میرے مقابلے پہ آئے.بعض صحابہ اس کے مقابلہ سے کتراتے تھے مگر آنحضرت صلی ایم کی اجازت سے حضرت علی اس کے مقابلہ کے لئے آگے نکلے اور آنحضرت صلی علیہ ہم نے اپنی تلوار ان کو عنایت فرمائی اور ان کے واسطے دعا کی.حضرت علیؓ نے آگے بڑھ کر عمر و سے کہا.میں نے سنا ہے کہ تم نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص تم سے دو باتوں کی درخواست کرے گا تو تم ان میں سے ایک بات ضرور مان لو گے.عمرو نے کہا ہاں.حضرت علی نے کہا تو پھر میں پہلی بات تم سے یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ہو جاؤ اور آنحضرت صلی للی کم کو مان کر خدائی انعامات کے وارث بنو.عمرو نے کہا یہ نہیں ہو سکتا.حضرت علی نے کہا کہ اگر یہ بات منظور نہیں ہے تو پھر آؤ میرے ساتھ لڑنے کو تیار ہو جاؤ.اس پر عمرو بننے لگا اور کہنے لگا میں نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص مجھ سے یہ الفاظ کہہ سکتا ہے.پھر اس نے حضرت علی کا نام و نسب پوچھا اور ان کے بتانے پر کہنے لگا کہ بھتیجے تم ابھی بچے ہو.میں تمہارا خون نہیں گرانا چاہتا.اپنے بڑوں میں سے کسی کو بھیجو.حضرت علی نے جواب میں کہا کہ تم میرا خون تو

Page 445

صحاب بدر جلد 3 425 حضرت علی نہیں گرانا چاہتے مگر مجھے تمہارا خون گرانے میں تامل نہیں ہے.اس پر عمر و جوش میں اندھا ہو کر اپنے گھوڑے سے کود پڑا اور اس کی کونچیں کاٹ کر اسے نیچے گرا دیا تا کہ گھوڑے سے واپسی کا بھی کوئی رستہ نہ رہے اور پھر ایک آگ کے شعلہ کی طرح دیوانہ وار حضرت علی کی طرف بڑھا اور اس زور سے حضرت علی پر تلوار چلائی کہ وہ ان کی ڈھال کو قلم کرتی ہوئی ان کی پیشانی پر لگی اور ان کی پیشانی کو کسی قدر زخمی بھی کیا مگر ساتھ ہی حضرت علی نے اللہ اکبر ! کا نعرہ لگاتے ہوئے ایسا وار کیا کہ وہ اپنے آپ کو بچا تارہ گیا اور حضرت علی کی تلوار اسے شانے پر سے کاٹتی ہوئی نیچے اتر گئی اور عمر و تڑپتا ہوا گر ا اور جان دے دی.عمرو بن عبد وُڈ کے قتل ہونے کے بعد کفار نے رسول اللہ صلی اللی کمی کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ وہ اس کی لاش دس ہزار درہم کے بدلے میں خرید لیں گے تو آپ صلی علیہم نے فرمایا: اسے لے جاؤ.ہم مردوں کی قیمت نہیں کھاتے.834 معاہدہ صلح حدیبیہ کی تحریر لکھنے والے الله سة 833 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی علیم نے اہل حدیبیہ سے صلح کی تو حضرت علی بن ابو طالب نے ان کے درمیان ایک تحریر لکھی اور اس میں آپ کا نام محمد رسول اللہ صلی للی کم لکھا.مشرکوں نے کہا کہ محمد رسول اللہ نہ لکھو.اگر آپ رسول ہوتے تو ہم آپ سے نہ لڑتے.آپ صلی علیہم نے حضرت علی سے کہا کہ اسے مٹادو.حضرت علی نے کہا کہ میں وہ شخص نہیں جو اسے مٹائے گا.پھر رسول اللہ صلی علیم نے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا اور ان سے اس شرط پر صلح کر لی کہ آپ اور آپ کے صحابہ تین دن مکہ میں رہیں گے اور وہ اس میں ہتھیار جلبان میں رکھ کر داخل ہوں گے.لوگوں نے پوچھا کہ یہ جلبان کیا ہوتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ وہ غلاف جس میں تلوار مع میان کے رکھی جاتی ہے.835 اس واقعہ کو حضرت مصلح موعودؓ نے ذرا تفصیل سے بیان فرمایا ہے.آپؐ فرماتے ہیں کہ : "جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح حدیبیہ کی مجلس میں تشریف رکھتے تھے اور کفار صلح کے لئے شرائط پیش کر رہے تھے.صحابہ اپنے دلوں میں ایک آگ لئے بیٹھے تھے اور ان کے سینے ان مظالم کی تپش سے جل رہے تھے جو کفار کی طرف سے میں سال سے ان پر کئے جارہے تھے.ان کی تلواریں میانوں سے باہر نکلی پڑتی تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح موقع آئے تو ان مظالم کا جو انہوں نے اسلام پر کئے ہیں بدلہ لیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کی باتیں سنیں اور جب یہ تجویزان کی طرف سے پیش ہوئی کہ آؤ ہم آپس میں صلح کر لیں تو آپ نے فرمایا بہت اچھا ہم صلح کر لیتے ہیں.انہوں نے کہا کہ شرط یہ ہے کہ اس سال تم عمرہ نہیں کر سکتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اس سال ہم عمرہ نہیں کریں گے.پھر انہوں نے کہا کہ دوسرے سال جب آپ عمرہ کے

Page 446

اصحاب بدر جلد 3 426 حضرت علی لئے آئیں تو یہ شرط ہو گی کہ آپ مکہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہر ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا.مجھے یہ شرط بھی منظور ہے.پھر انہوں نے کہا کہ آپ کو مسلح ہو کر مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہو گی.آپ نے فرمایا: بہت اچھا ہم مسلح ہو کر مکہ میں داخل نہیں ہوں گے.صلح کا معاہدہ طے ہو رہا تھا اور صحابہ کے دل اندر ہی اندر جوش سے اہل رہے تھے.وہ غصہ سے تلملا رہے تھے مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے.حضرت علی و صلح نامہ لکھنے کے لئے مقرر کیا گیا.انہوں نے جب یہ معاہدہ لکھنا شروع کیا تو انہوں نے لکھا کہ یہ معاہدہ ایک طرف تو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ہے اور دوسری طرف مکہ کے فلاں فلاں رئیس اور مکہ والوں کی طرف سے ہے.اس پر کفار بھڑک اٹھے اور انہوں نے کہا ہم ان الفاظ کو برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ نہیں مانتے.اگر مانتے تو ان سے لڑائی کس بات پر ہوتی.ہم تو ان سے محمد بن عبد اللہ کی حیثیت سے معاہدہ کر رہے ہیں، محمد رسول اللہ کی حیثیت سے معاہدہ نہیں کر رہے.پس یہ الفاظ اس معاہدہ میں نہیں لکھے جائیں گے.836" اس وقت صحابہ کے جوش کی کوئی انتہانہ رہی اور وہ غصہ سے کانپنے لگ گئے.انہوں نے سمجھا اب خدا نے ایک موقع پیدا کر دیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بات نہیں مانیں گے اور ہمیں ان سے لڑائی کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جائے گا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں.معاہدہ میں سے رسول اللہ کا لفظ کاٹ دینا چاہئے.“ آپ نے حضرت علی کو فرمایا کہ ” علی ! اس لفظ کو مٹا دو مگر حضرت علی ایسے انسان جو فرمانبر داری اور اطاعت کا نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا نمونہ تھے ان کا دل بھی کانپنے لگ گیا.ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا یار سول اللہ ! یہ لفظ مجھ سے نہیں مٹایا جاتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لاؤ مجھے کاغذ دو اور کاغذ لے کر جہاں رسول اللہ کا لفظ لکھا تھا اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا.میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے !!! غزوہ خیبر جو محرم اور صفر سات ہجری میں ہوئی تھی اس کے بارے میں صحیح مسلم کی ایک لمبی روایت ہے.حضرت سلمہ بن اکوع بیان کرتے ہیں کہ جب ہم خیبر پہنچے تو ان کا سردار مَرحَب اپنی تلوار لہراتا ہوا نکلا اور وہ کہہ رہا تھا کہ خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہتھیار بند بہادر تجربہ کار ہوں جب کہ جنگیں شعلے بھڑکاتی ہوئی آئیں یعنی میری بہادری کا پتہ لگتا ہے.راوی کہتے ہیں کہ اس کے مقابلے کے لیے میرے چچا عامر نکلے اور انہوں نے کہا خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہتھیار بند بہادر خطرات میں اپنے آپ کو ڈالنے والا ہوں.راوی کہتے ہیں دونوں نے ضر میں لگائیں.مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر پڑی اور عامر اس پر نیچے سے وار کرنے لگے کہ ان کی اپنی تلوار ہی ان کو آن لگی اور اس نے ان کی رگ کاٹ

Page 447

اصحاب بدر جلد 3 427 حضرت علی دی اور وہ اسی سے شہید ہو گئے.سلمہ کہتے ہیں.میں نکلا تو نبی صلی اللی یکم کے بعض صحابہ کہہ رہے تھے کہ عامر کے عمل باطل ہو گئے اس نے اپنے آپ کو قتل کیا.وہ کہتے ہیں.میں روتے ہوئے نبی صلی علیہ یکم کے پاس آیا.میں نے کہا یار سول اللہ ! عامر کے عمل ضائع ہو گئے ؟ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا یہ کس نے کہا؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا آپ کے بعض صحابہ نے.آپ نے فرمایا جس نے یہ کہا غلط کہا.اس کے لیے تو دوہرا اجر ہے.پھر آپ صلی المیڈم نے مجھے حضرت علی کی طرف بھیجا.ان کی آنکھیں آئی ہوئی تھیں.آپ نے فرمایا: میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے یا اللہ اور اس کار سول اس سے محبت کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں میں حضرت علی کے پاس گیا اور انہیں ساتھ لے کر چل پڑا.ان کی آنکھیں آئی ہوئی تھیں.یعنی بیماری سے آنکھیں ابلی ہوئی تھیں، سوجی ہوئی تھیں.یہاں تک کہ میں انہیں لے کر رسول کریم ملی ایم کے پاس پہنچا.آپ نے ان کی آنکھوں میں لعابِ دہن لگایا.وہ ٹھیک ہو گئیں.آپ نے انہیں جھنڈا دیا اور مرحب نکلا اور اس نے کہا کہ خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں.ہتھیار بند بہادر تجربہ کار جبکہ جنگیں شعلے بھڑ کا ر ہی ہوتی ہیں.حضرت علی نے کہا:.أَنَا الَّذِي سَمَتْنِي أُتِي حَيْدَرَهُ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيْهِ الْمَنْظَرَةٌ أو فِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنَدَرَهُ کہ میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے.ہیبت ناک شکل والے شیر کی مانند جو جنگلوں میں ہوتا ہے.میں ایک صاع کے بدلے سندرہ دیتا ہوں.یہ عربی کا ایک محاورہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے.اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ سیر کے مقابلے میں سواسیر جو اردو محاورہ استعمال ہو تا ہے کہ ایسے کو تیسا.اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والا.سندرہ کے لفظی معنی مکیال واسع، یعنی بہت بڑا پیمانہ ہے.صاع صرف تین سیر کا ہوتا ہے سندہ بڑا ہوتا ہے.پھر راوی کہتے ہیں کہ یہ کہنے کے بعد حضرت علی نے مرحب کے سر پر ضرب لگائی اور قتل کر دیا اور حضرت علی کے ہاتھوں فتح ہوئی.یہ بھی مسلم کی روایت ہے.837 حضرت مصلح موعود اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : خیبر کے دن حضرت علی کو موقع ملا.رسول کریم صلی علی یم نے فرمایا آج میں اسے موقع دوں گا جو خدا سے محبت کرتا ہے اور جس سے خدا تعالیٰ محبت کرتا ہے اور تلوار اس کے سپر د کروں گا جسے خد اتعالیٰ نے فضیلت دی ہے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں اس مجلس میں موجود تھا اور اپنا سر اونچا کرتا تھا کہ شاید رسول کریم صلی علیکم مجھے دیکھ لیں اور مجھے دے دیں.مگر آپ دیکھتے اور چپ رہتے.میں پھر سر اونچا کرتا اور آپ پھر دیکھتے اور چپ رہتے حتی کہ علی آئے ، ان کی آنکھیں سخت دکھتی تھیں.رسول کریم صلی ا یکم نے فرمایا.علی ! آگے آؤ.وہ آپ کے پاس پہنچے تو آپ نے لعاب دہن ان کی آنکھوں پر لگایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کو شفا دے.یہ تلوار لوجو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہے.83866

Page 448

حاب بدر جلد 3 428 حضرت علی ایک اور جگہ بھی حضرت مصلح موعودؓ اس کا اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی ا ہم نے حدیبیہ سے واپس آنے کے قریبا پانچ ماہ بعد یہ فیصلہ کیا کہ یہودی خیبر سے جو مدینہ سے صرف چند منزل کے فاصلہ پر تھا اور جہاں سے مدینہ کے خلاف آسانی سے سازش کی جاسکتی تھی نکال دیئے جائیں.چنانچہ آپ نے سولہ سو صحابہ کے ساتھ اگست 628ء میں خیبر کی طرف کوچ فرمایا.خیبر ایک قلعہ بند شہر تھا اور اس کے چاروں طرف چٹانوں کے اوپر قلعے بنے ہوئے تھے.ایسے مضبوط شہر کو اتنے تھوڑے سے سپاہیوں کے ساتھ فتح کر لینا کوئی آسان بات نہ تھی.ارد گرد کی چھوٹی چھوٹی چوکیاں تو چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے بعد فتح ہو گئیں.لیکن جب یہودی سمٹ سمٹا کر شہر کے مرکزی قلعہ میں آگئے تو اس کے فتح کرنے کی تمام تدابیر بیکار جانے لگیں.ایک دن رسول اللہ صلی لی کام کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ اس شہر کی فتح حضرت علی کے ہاتھ پر مقدر ہے.83966 آپ نے صبح کے وقت یہ اعلان کیا کہ میں اسلام کا سیاہ جھنڈا آج اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کو خدا اور اس کا رسول اور مسلمان پیار کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس قلعہ کی فتح اس کے ہاتھ پر مقدر کی ہے.اس کے بعد دوسری صبح آپ نے حضرت علی کو بلایا اور جھنڈا ان کے سپر د کیا.جنہوں نے صحابہ کی فوج کو ساتھ لے کر قلعہ پر حملہ کیا.باوجود اس کے کہ یہودی قلعہ بند تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت علی اور دوسرے صحابہ کو اس دن ایسی قوت بخشی کہ شام سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو گیا." پھر ایک اور جگہ حضرت علی کا ذکر کرتے ہوئے اسی واقعہ کے تعلق میں حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح فرمایا ہے کہ خیبر کی فتح کا سوال پیدا ہوا تو رسول کریم صلی ا ولم نے حضرت علی کو بلایا اور لشکر اسلامی کا علم آپ کے سپرد کرنا چاہا مگر حضرت علی کی آنکھیں دُکھ رہی تھیں“ یہاں آنکھوں کے دکھنے کا بھی ذکر آگیا ” اور شدت تکلیف کی وجہ سے وہ سوجی ہوئی تھیں.رسول کریم صلی ال کلم نے حضرت علی ہو اس حالت میں دیکھا تو آپ نے علی سے فرمایا ادھر آؤ.وہ سامنے آئے تو آپ نے اپنا لعاب دہن حضرت علی کی آنکھوں پر لگایا اور ان کی آنکھیں اسی وقت اچھی ہو گئیں.پھر ایک اور جگہ آنحضرت کے دست شفا کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایسے نظارے نظر آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی طور پر شفاء بعض مریضوں کو ملتی ہے بغیر اس کے کہ طبعی ذرائع استعمال ہوں یا ان موقعوں پر شفاء ملتی ہے کہ جب طبعی ذرائع مفید نہیں ہوا کرتے.چنانچہ رسول کریم صلی علیکم کی زندگی کے واقعات میں سے اس قسم کی شفاء کی ایک مثال جنگ خیبر کے وقت ملتی ہے.خیبر کی جنگ کے دوران میں ایک دن آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ خیبر کی فتح اس شخص کے لئے مقدر ہے جس کے ہاتھ میں میں جھنڈا دوں گا.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب وہ وقت آیا تو میں نے گردن اونچی کر کر کے دیکھنا شروع کیا کہ شاید مجھے ہی رسول کریم صلی یکم جھنڈا دیں.مگر آپ نے انہیں اس کام کے لئے مقرر نہ فرمایا.اتنے میں حضرت علی آئے اور ان کی الله

Page 449

حاب بدر جلد 3 429 حضرت علی آنکھیں سخت دکھ رہی تھیں.آپ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور آنکھیں فوراً اچھی ہو گئیں اور آپ نے ان کے ہاتھ میں جھنڈا دے کر خیبر کی فتح کا کام ان کے سپر د کیا.141 841" حضرت علی کی ایک مثال بڑی ایمان افزاء ہے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علی کی ایک مثال بڑی ایمان افزاء ہے.جنگ خیبر میں ایک بہت بڑے یہودی جرنیل کے مقابلہ کے لئے نکلے اور بڑی دیر تک اس سے لڑتے رہے کیونکہ وہ بھی لڑائی کے فن کا ماہر تھا اس لئے کافی دیر تک مقابلہ کرتارہا، آخر حضرت علی نے اسے گرالیا اور آپ اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ تلوار سے اس کی گردن کاٹ دیں.اتنے میں اس یہودی نے آپ کے منہ پر تھوک دیا.اس پر حضرت علی اسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے.وہ یہودی سخت حیران ہوا کہ انہوں نے یہ کیا کیا؟ کہ حضرت علی نے مجھ پر قابو پالیا تھا پھر مجھے چھوڑ دیا.”جب یہ میرے قتل پر قادر ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے چھوڑ کیوں دیا؟ چنانچہ اس نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ آپ مجھے چھوڑ کر الگ کیوں ہو گئے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں تم سے خدا کی رضا کے لیئے لڑ رہا تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو مجھے غصہ آگیا اور میں نے سمجھا کہ اب اگر میں تم کو قتل کروں گا تو میر اقتل کرنا اپنے نفس کے لئے ہو گا، خدا کے لئے نہیں ہو گا.پس میں نے تمہیں چھوڑ دیا تا کہ میر اغصہ فرو ہو جائے اور میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کے لئے نہ رہے.یہ کتنا عظیم الشان کمال ہے کہ عین جنگ کے میدان میں انہوں نے ایک شدید دشمن کو محض اس لئے چھوڑ دیا تا کہ ان کا قتل کرنا اپنے نفس کے غصہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو.“ سورۃ توبہ کی ابتدائی آیات کاحج کے موقعہ پر اعلان 84266 الله سة روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی نے سورہ توبہ کی ابتدائی آیات کاحج کے موقع پر اعلان کیا.یہ روایت اس طرح ہے.ابو جعفر محمد بن علی سے روایت ہے کہ جب سورة براءت ( سوره توبه ) رسول الله صلى علم.نازل ہوئی تو آپ صلی للی کم حضرت ابو بکر کو بطور امیر حج بھجواچکے تھے.آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! اگر آپ یہ سورت حضرت ابو بکر کی طرف بھیج دیں تاکہ وہ وہاں پڑھیں تو آپ صلی ایم نے فرمایا کہ میرے اہل بیت میں سے کسی شخص کے سوا کوئی یہ فریضہ میری طرف سے ادا نہیں کر سکتا.پھر آپ نے حضرت علی کو بلوایا اور انہیں فرمایا: سورۂ توبہ کے آغاز میں جو بیان ہوا ہے اس کو لے جاؤ اور قربانی کے دن جب لوگ مٹی میں اکٹھے ہوں تو ان میں اعلان کر دو کہ جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج کرنے کی اجازت نہ ہو گی.نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ساتھ آنحضرت علی اعظم نے کوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدت پوری کی جائے گی.حضرت علی بن ابو طالب رسول اللہ صلی للی کم کی اونٹنی عضباء پر سوار ہو کر روانہ ہوئے.راستہ

Page 450

تاب بدر جلد 3 430 حضرت علی 844 میں ہی حضرت ابو بکر سے جاملے.جب حضرت ابو بکر نے حضرت علی کو راستے میں دیکھا تو کہا کہ آپ کو امیر مقرر کیا گیا ہے یا آپ میرے ماتحت ہوں گے ؟ حضرت علی نے کہا کہ آپ کے ماتحت.پھر دونوں روانہ ہوئے.حضرت ابو بکر نے لوگوں کی حج کے امور پر نگرانی کی اور اس سال اہل عرب نے اپنی انہی جگہوں پر پڑاؤ کیا ہو ا تھا جہاں وہ زمانہ جاہلیت میں پڑاؤ کیا کرتے تھے.جب قربانی کا دن آیا تو حضرت علی کھڑے ہوئے اور لوگوں میں اس بات کا اعلان کیا جس کا رسول اللہ صلی ال نیلم نے ارشاد فرمایا تھا اور کہا اے لوگو! جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا.نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ساتھ آنحضرت صلی انم نے کوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدت پوری کی جائے گی اور لوگوں کو اس اعلان کے دن سے چار ماہ تک کی مہلت دی تا کہ ہر قوم اپنے امن کی جگہوں یا اپنے علاقوں کی طرف لوٹ جائے.پھر نہ کسی مشرک کے لیے کوئی عہد یا معاہدہ ہو گا اور نہ ذمہ داری سوائے اس عہد یا معاہدہ کے جو رسول اللہ صلی للی کم کے پاس کسی مدت تک ہو.یعنی جس معاہدے کی مدت ابھی باقی ہے ان معاہدوں کے علاوہ کوئی نیا معاہدہ نہیں ہو گا.تو اس کا مقررہ مدت تک پاس کیا جائے گا.پھر اس سال کے بعد نہ کسی مشرک نے حج کیا اور نہ کسی نے ننگے بدن حج کیا.پھر وہ دونوں ( حضرت علی اور حضرت ابو بکر رسول اللہ صلی علی کم کی خدمت میں حاضر ہو گئے.843 یہ روایت جو اب میں پڑھنے لگا ہوں پہلے بھی ایک صحابی کے ذکر میں بیان ہو چکی ہے 8 لیکن یہاں حضرت علی کے حوالے سے بھی بیان کرتا ہوں.فتح مکہ کے موقعے کی ہے جو رمضان 8 ہجری میں جنوری 630ء کا واقعہ ہے.حضرت علیؓ سے روایت ہے.انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللیم نے مجھے ، زبیر اور مقداد بن اسوڈ کو بھیجا.آپ نے فرمایا تم چلے جاؤ تم روضہ خارخ، یہ فتح مکہ سے پہلے کا واقعہ ہے جو عورت کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ تم چلے جاؤ.جب تم روضہ خاخ ایک جگہ ہے وہاں پہنچو تو وہاں ایک شتر سوار عورت ہو گی اور اس کے پاس ایک خط ہے تم وہ خط اس سے لے لو.ہم چل پڑے.ہمارے گھوڑے سرپٹ دوڑتے ہوئے ہمیں لے گئے.جب ہم روضہ خاخ میں پہنچے تو ہم کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شتر سوار عورت موجود ہے.ہم نے اسے کہا کہ خط نکالو.وہ کہنے لگی کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے.ہم نے کہا تمہیں خط نکالنا ہو گا ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے اور تلاشی لیں گے.اس پر اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے نکالا اور ہم وہ خط رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس لے آئے.دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ کے مشرکوں کے نام.وہ رسول اللہ صلی الم کے کسی ارادہ کی ان کو اطلاع دے رہا تھا.رسول اللہ صلی الم نے حاطب بن ابی بلتعہ کو بلایا اور پوچھا حاطب یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا یارسول اللہ ! میرے متعلق جلدی نہ فرمائیں.میں ایک ایسا آدمی تھا جو قریش میں آکر مل گیا تھا.ان میں سے نہ تھا اور دوسرے مہاجرین جو آپ صلی الی یکم کے ساتھ تھے ان کی مکہ میں رشتہ داریاں تھیں جن کے ذریعہ سے وہ اپنے گھر بار اور مال و اسباب کو بچاتے الله سة

Page 451

محاب بدر جلد 3 431 حضرت علی رہے ہیں.میں نے چاہا کہ ان مکہ والوں پر کوئی احسان کر دوں کیونکہ ان میں کوئی رشتہ داری تو میری تھی نہیں شاید وہ اس احسان ہی کی وجہ سے میرا پاس کریں اور میں نے کسی کفر یا ارتداد کی وجہ سے یہ نہیں کیا، نہ میں نے انکار کیا ہے ، نہ مرتد ہوا ہوں ، نہ میں نے اسلام کو چھوڑا ہے ، نہ میں منافق ہوں.میں نے یہ کام اس لیے نہیں کیا) اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کبھی پسند نہیں کیا جا سکتا.( میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ) یہ سن کر رسول اللہ صلی علی یم نے فرمایا: اس نے تم سے سچ بیان کیا ہے.یعنی ان کی بات مان لی.845 اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں.صرف ایک کمزور صحابی نے مکہ والوں کو خط لکھ دیا کہ رسول اللہ صلی ال یکم دس ہزار کا لشکر لے کر نکلے ہیں.مجھے معلوم نہیں آپ کہاں جا رہے ہیں لیکن میں قیاس کرتا ہوں کہ غالباً وہ ملکہ کی طرف آرہے ہیں.میرے مکہ میں بعض عزیز اور رشتہ دار ہیں میں امید کرتا ہوں کہ تم اس مشکل گھڑی میں ان کی مدد کرو گے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنے دو گے.یہ خط ابھی مکہ نہیں پہنچا تھا کہ رسول کریم ملی الیکم نے صبح کے وقت حضرت علی کو بلایا اور فرمایا تم فلاں جگہ جاؤ.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہاں ایک عورت اونٹنی پر سوار تم کو ملے گی اس کے پاس ایک خط ہو گا جو وہ مکہ والوں کی طرف لے جارہی ہے.تم وہ خط اس عورت سے لے لینا اور فوراًمیرے پاس آجانا.جب وہ جانے لگے تو آپ نے فرمایا.دیکھنا وہ عورت ہے اس پر سختی نہ کرنا.اصرار کرنا اور زور دینا کہ تمہارے پاس خط ہے لیکن اگر پھر بھی وہ نہ مانے اور منتیں سماجتیں بھی کام نہ آئیں تو پھر تم سختی بھی کر سکتے ہو اور اگر اسے قتل کرنا پڑے تو قتل بھی کر سکتے ہو لیکن خط نہیں جانے دینا.چنانچہ حضرت علی وہاں پہنچ گئے.عورت موجود تھی.وہ رونے لگ گئی اور قسمیں کھانے لگ گئی کہ کیا میں غدار ہوں ؟ دھو کے باز ہوں ؟ آخر کیا ہے ؟ تم تلاشی لے لو.چنانچہ انہوں نے ادھر اُدھر دیکھا، اس کی جیبیں ٹٹولیں، سامان دیکھا مگر خطا نہ ملا.صحابہ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے خط اس کے پاس نہیں.حضرت علی کو جوش آگیا.آپ نے کہا تم چپ رہو اور بڑے جوش سے کہا کہ خدا کی قسم !رسول کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا.چنانچہ انہوں نے اس عورت سے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی علیم نے کہا ہے کہ تیرے پاس خط ہے اور خدا کی قسم! میں جھوٹ نہیں بول رہا.پھر آپ نے تلوار نکالی اور کہا یا تو سیدھی طرح خط نکال کر دے دے ورنہ یادر کھ اگر تجھے نگا کر کے بھی تلاشی لینی پڑی تو میں تجھے نگا کروں گا کیونکہ رسول اللہ صلی للی تم نے سچ بولا ہے اور تو جھوٹ بول رہی ہے.چنانچہ وہ ڈر گئی اور جب اسے ننگا کرنے کی دھمکی دی گئی تو اس نے جھٹ اپنی مینڈھیاں کھولیں.ان مینڈھیوں میں اس نے خط رکھا ہوا تھا جو اس نے نکال کر دے دیا.پھر ایک جگہ اس واقعے کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیکم کے زمانہ میں ایک صحابی نے اپنے رشتہ داروں کو مکہ پر مسلمانوں کے حملہ کی خبر پوشیدہ طور پر پہنچانی چاہی تاکہ اس ہمدردی کے اظہار کی وجہ سے وہ اس کے رشتہ داروں سے نیک سلوک کریں.لیکن آنحضرت صلی ا تم کو الہام کے ذریعہ یہ بات بتا دی گئی.آپ نے حضرت علی اور چند ایک اور 846"

Page 452

حاب بدر جلد 3 432 حضرت علی 847" صحابہ کو بھیجا کہ فلاں جگہ ایک عورت ہے اس سے جا کر کاغذ لے آؤ.انہوں نے وہاں پہنچ کر اس عورت سے کاغذ مانگا تو اس نے انکار کر دیا.بعض صحابہ نے کہا کہ شاید رسول کریم کو غلطی لگی ہے.حضرت علی نے کہا نہیں.آپ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی.جب تک اس سے کاغذ نہ ملے میں یہاں سے نہ ہٹوں گا.انہوں نے اس عورت کو ڈانٹا تو اس نے وہ کاغذ نکال کر دے دیا.فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ لیا لیکن جب مسجد الحرام میں تشریف فرما تھے تو حضرت علی آب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں کعبہ کی چابی تھی.انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لیے سقایہ یعنی حج کے موقع پر پانی پلانے کی ڈیوٹی کے ساتھ حجاب ، خانہ کعبہ کو کھولنے اور بند کرنے کی ڈیوٹی کی ذمہ داریاں سونپ دیں.آپ نے فرمایا عثمان بن طلحہ کدھر ہے ؟ اسے بلایا گیا تو آپ صلی ہی ہم نے فرمایا: اے عثمان ! یہ تیری چابی ہے.آج کا دن نیکی اور وفا کا دن ہے اور رسول اللہ صلی الیکم نے حضرت علی سے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو ایسی چیز نہیں دوں گا جس سے تم لوگ مشقت اور تکلیف میں پڑو بلکہ وہ دوں گا جس میں تم لوگوں کے لیے خیر اور برکت ہو گی اور میں تم کو وہ چیز نہیں دوں گا جس کی تم خود ذمہ داری لینا چاہو.خود مانگ کے لے رہے ہو تو نہیں ( دوں گا )848 حضرت ام ہانی بنت ابی طالب کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی المینیوم نے مکہ کے بالائی حصہ میں پڑاؤ فرمایا تو بنی مخزوم میں سے میرے دو سسرالی رشتہ دار بھاگ کر میرے پاس آگئے.حضرت ام ہانی کہتی ہیں کہ میر ابھائی علی میرے پاس آیا اور کہا خدا کی قسم ! میں ان دونوں کو قتل کر دوں گا.حضرت ام ہانی کہتی ہیں کہ میں نے ان دونوں کے لیے اپنے گھر کا دروازہ بند کر دیا.پھر میں خود رسول اللہ صلی الیکم کے پاس مکہ کے بالائی حصہ میں آئی.میں نے آپ کو پانی کے ایک برتن میں سے غسل کرتے پایا جس میں گوندھے ہوئے آٹے کے نشانات موجود تھے اور آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ ایک کپڑے کے ساتھ آپ کے لیے پر وہ کیسے ہوئے تھیں.غسل کے بعد آپ نے اپنے کپڑے تبدیل کیے.پھر چاشت کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی.پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے ام ہائی.خوش آمدید.تمہارا کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے ان دونوں آدمیوں اور حضرت علیؓ کے متعلق سارا معاملہ بتایا کہ اس طرح حضرت علی ان کو قتل کرنا چاہتے تھے اور میں ان کو اپنے گھر میں چھپا کے آئی ہوں.آپ نے فرمایا جن کو تم نے پناہ دی انہیں ہم نے پناہ دی اور جن کو تم نے امان دی ان کو ہم نے بھی امان دی.پس وہ ان دونوں کو قتل نہ کرے یعنی رسول پاک صل اللہ ہم نے فرمایا کہ حضرت علی ان کو قتل نہیں کریں گے.آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے حویرث بن نقید کے قتل کا حکم نامہ جاری فرمایا ہوا تھا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی الیکم کو مکہ میں ایذا پہنچاتا تھا اور آپ کی اذیت کے لیے بڑی بڑی باتیں کر تا تھا اور ہجو کیا کرتا تھا.رسول الله صلى ال نیلم کے چچا حضرت عباس نے جب حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم کو مکہ سے 849

Page 453

تاب بدر جلد 3 433 حضرت علی 850 مدینہ بھجوانے کے لیے اونٹ پر بٹھایا تو حولیوٹ نے اس اونٹ کو گرادیا تھا.حضرت علیؓ نے فتح مکہ کے موقع پر حویرث بن نُقید کو قتل کیا تھا جبکہ وہ بھاگنے کے لیے نکل چکا تھا.10 غزوہ حنین جو شوال آٹھ ہجری میں ہوئی.روایت میں آتا ہے کہ غزوہ حنین کے موقعے پر مہاجرین کا جھنڈ ا حضرت علی کے پاس تھا.غزوہ حنین کے دوران جب گھمسان کی جنگ ہوئی اور کفار کے سخت حملے کی وجہ سے آپ کے گرد صرف چند صحابہ ہی رہ گئے تو ان چند صحابہ میں حضرت علی بھی شامل تھے.851 غزوہ حنین میں مشرکوں کی صفوں کے آگے سرخ اونٹ پر سوار ایک شخص تھا جس کے ہاتھ میں ایک سیاہ پر چھم تھا.پر پرچم ایک بہت لمبے نیزے سے باندھا گیا تھا.بنو ہوازن کے لوگ اس شخص کے پیچھے تھے.اگر کوئی شخص اس کی زد میں آجاتا تو وہ فوراً اس کو نیزہ مار دیتا اور اگر وہ اس کے نیزے کی زد سے بچ جاتا تو وہ اپنے پیچھے والوں کے لیے نیزہ اٹھا کر اشارہ کرتا اور وہ لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے اور وہ سرخ اونٹ والے کے پیچھے رہتے.یہ شخص اسی طرح حملے کرتا پھر رہا تھا کہ اچانک حضرت علی اور ایک انصاری شخص اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے قتل کرنے کے لیے بڑھے.حضرت علی نے اس کی پشت کی طرف سے آکر اس کے اونٹ کے کولہوں پر وار کیا جس کے نتیجہ میں اونٹ الٹے منہ گرا.اسی وقت اس انصاری شخص نے اس پر چھلانگ لگائی اور ایسا سخت وار کیا کہ اس کی ٹانگ آدھی پنڈلی سے کٹ گئی.اسی وقت مسلمانوں نے مشرکوں پر ایک سخت حملہ کر دیا.852 853 سر یہ حضرت علی بطرف بنو کلی کے بارے میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی ا یکم نے حضرت علی کو ڈیڑھ سو افراد کے ہمراہ بنوکی کے بت فکس کو گرانے کے لیے روانہ فرمایا.( بنوطی کا علاقہ مدینے کے شمال مشرق میں واقع تھا ) آپ نے اس سریہ کے لیے حضرت علی ہو ایک کالے رنگ کا بڑا جھنڈا اور سفید رنگ کا چھوٹا پر چم عطا فرمایا.حضرت علی صبح کے وقت آل حاتم پر حملہ آور ہوئے اور ان کے بت فلس کو منہدم کر دیا.حضرت علی بنو طی سے بہت سارا مالِ غنیمت اور قیدی لے کر مدینہ واپس آئے.3 غزوہ تبوک جو ر جب 19 ہجری میں ہوا اس کے بارے میں روایت ہے جو مصعب بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال وتم تبوک کے لیے نکلے اور حضرت علی کو مدینہ میں اپنا قائمقام مقرر فرمایا.حضرت علی نے کہا: کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں پیچھے چھوڑ کر جاتے ہیں.آپ نے فرمایا: کیا تم خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا مقام مجھ سے وہی ہے جو ہارون کا موسیٰ سے تھا مگر یہ بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں.854 حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کو بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی یکم ایک دفعہ جنگ پر گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے قائمقام بنا گئے.پیچھے صرف منافق ہی منافق رہ

Page 454

اصحاب بدر جلد 3 434 حضرت علی گئے تھے.اس وجہ سے وہ گھبر اکر رسول کریم صلی ایم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ مجھے بھی لے چلیں.آپ نے تسلی دی اور فرمایا.اَلا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنَى مَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُّوْسَى إِلَّا أَنَّهَ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِى یعنی اے علی! تمہیں مجھ سے ہارون اور موسیٰ کی نسبت حاصل ہے.ایک دن ہارون کی طرح تم بھی میرے خلیفہ ہو گے لیکن باوجود اس نسبت کے تم نبی نہ ہو گے.حضرت علی میمن کی طرف 85566 آنحضرت صلی الم کا حضرت علی کو یمن کی طرف بھیجنے کے بارے میں آتا ہے کہ دس ہجری میں رسول اللہ صلی الم نے حضرت علی کو یمن کی طرف بھیجوایا.اس سے قبل رسول اللہ صلی الم نے حضرت خالد بن ولید کو ان کی طرف بھیجا کہ وہ ان کو اسلام کی طرف بلائیں ، یعنی یمن والوں کی طرف، لیکن ان لوگوں نے انکار کر دیا پھر اس پر آپ نے حضرت علی کو بھیجا.حضرت علی نے اہل یمن کو آپ صلی علیہ کمر کا خط پڑھ کر سنایا.پھر پورے ہمدان نے ایک ہی دن میں اسلام قبول کر لیا.حضرت علی نے ان کے قبول اسلام کے متعلق آنحضرت صلی علی نظم کو خط لکھا تو آپ صلی اللہ ہم نے تین مرتبہ یہ جملہ دہرایا کہ ہمدان پر سلامتی ہو.ہمدان یمن میں مدینہ کے جنوب مشرق میں مدینہ سے تقریباً ساڑھے گیارہ سو کلو میٹر دور واقع ایک شہر ہے.پھر اس کے بعد اہل یمن نے بھی اسلام قبول کر لیا اور حضرت علی نے اس کے متعلق آپ صلی ہیں تم کو لکھا.اس پر آپ صلی میں تم نے سجدہ شکر ادا کیا.856 حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے مجھے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ مجھے بھیج رہے ہیں اور میں نوجوان ہوں اور مجھے قضا کا کوئی علم بھی نہیں تو صلی الم نے فرمایا: یقینا اللہ تیرے دل کو ضرور ہدایت دے گا اور تیری زبان کو ثبات بخشے گا.پس جب تیرے سامنے دو جھگڑا کرنے والے بیٹھیں تو فیصلہ نہ کرنا یہاں تک کہ تو دوسرے سے بھی سن لے جیسا کہ تو نے پہلے سے سنا.ایسا کرنا اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تیرے لیے فیصلہ واضح ہو جائے.حضرت علی کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے فیصلہ کرنے میں کبھی کوئی شک پیدا نہیں ہوا.857 حضرت عمرو بن شاس آسلمی جو صلح حدیبیہ کے شاملین میں سے تھے.وہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی کے ہمراہ یمن کی طرف روانہ ہوا.سفر کے دوران انہوں نے میرے ساتھ سختی کی یہاں تک کہ میں اپنے دل میں ان کے بارے میں کچھ محسوس کرنے لگا.پس جب میں یمن سے واپس آیا تو میں نے ان کے خلاف مسجد میں شکایت کی یہاں تک کہ یہ بات رسول اللہ صلی ال تم تک پہنچ گئی.ایک دن میں مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی الی یم اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے.جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو آپ نے مجھے غور سے دیکھا.وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی علیہم نے مجھے تیز نظر سے دیکھا یہاں تک کہ جب میں بیٹھا تو آپ نے فرمایا: اے عمر و! خدا کی قسم ! تو نے مجھے اذیت دی ہے.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اللہ کی

Page 455

اصحاب بدر جلد 3 435 حضرت علی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ آپ کو تکلیف پہنچاؤں.آپ نے فرمایا: کیوں نہیں جس نے علی گو اذیت دی تو اس نے مجھے اذیت دی.یہ مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے.858 حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں.یہ روایت جو میں نے پہلے پڑھی ہے وہ مسند کی ہے.انگلی ایک روایت یہ ہے کہ حضرت ابو سعید خدری نے بیان کیا کہ ایک موقع پر لوگوں نے حضرت علی کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی للی کم ہم میں خطاب کے لیے کھڑے ہوئے.میں نے آپ صلی اللہ ہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، اے لوگو ! تم علی کی شکایت نہ کرو.خدا کی قسم ! وہ اللہ کی ذات کے بارے میں بہت ڈرنے والا ہے یا فرمایا وہ اللہ کے رستے میں بہت ڈرنے والا ہے اس بات سے کہ اس کی شکایت کی جائے.859 آنحضرت علی اہل علم کی آخری بیماری میں آپ کی خدمت آنحضرت صلی اللہ کم کی آخری بیماری میں آپ کی خدمت کا ذکر اس طرح ملتا ہے.بخاری میں روایت ہے کہ عبید اللہ بن عبد اللہ نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی تھیں کہ جب نبی صلی للی کم بیمار ہو گئے اور آپ کی بیماری بڑھ گئی تو آپ نے اپنی ازواج سے اجازت لی کہ میرے گھر میں آپ کی تیمارداری کی جائے تو آپ کو انہوں نے اجازت دے دی.اس پر آپ دو آدمیوں کے درمیان نکلے.آپ کے پاؤں زمین پر لکیر ڈال رہے تھے اور آپ حضرت عباس اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے یعنی حضرت عائشہ کے گھر میں ہی تھے اور وہیں سے آپ مسجد جانے کے لیے دو آدمیوں کا سہارا لے کر باہر آئے.عبید اللہ نے کہا کہ میں نے اس بات کا ذکر حضرت ابن عباس سے کیا جو حضرت عائشہ نے کہی تھی تو انہوں نے کہا کیا تم جانتے ہو وہ کون آدمی تھے جس کا حضرت عائشہ نے نام لیا تھا؟ میں نے کہا نہیں.ایک تو حضرت عباس تھے جن کا حضرت عائشہ نے نام لیا تھا اور دوسرے آدمی جس کا نام نہیں لیا تھا انہوں نے کہا کہ وہ حضرت علی بن ابی طالب تھے.حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابو طالب رسول اللہ صلی علیم کے پاس سے آپ کی اس بیماری کے دوران جس میں آپ فوت ہوئے باہر نکلے.لوگوں نے پوچھا اے ابو الحسن ! آج صبح رسول اللہ صلی علیہ کم کی طبیعت کیسی ہے ؟ انہوں نے کہا الحمد للہ.آج صبح آپ کی طبیعت اچھی ہے.اس پر حضرت عباس بن عبد المطلب نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑا اور کہا اللہ کی قسم ! تم تین دن کے بعد کسی اور کے ماتحت ہو جاؤ گے کیونکہ بخدا میں دیکھ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی العلم اپنی اس بیماری میں جلد فوت ہو جائیں گے کیونکہ موت کے وقت بنو عبد المطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے.آؤ ہم رسول اللہ صلی این نیم کے پاس چلیں اور آپ سے پوچھیں کہ یہ معاملہ ( یعنی خلافت) کن میں ہو گی ؟ اگر ہمارے میں ہوئی تو ہمیں علم ہو جائے گا اور اگر یہ ہمارے علاوہ 860

Page 456

محاب بدر جلد 3 436 حضرت علی کسی اور میں ہوئی تو بھی ہم یہ بات جان لیں گے اور آپ اس کے بارے میں ہمیں کوئی وصیت کر جائیں گے.حضرت علی نے کہا: اللہ کی قسم ! اگر ہم نے رسول اللہ صلی علیم سے یہ بات پوچھی اور آپ نے ہمیں یہ (اعزاز) نہ دیا تو آپ کے بعد لوگ ہمیں نہیں دیں گے.بخدا میں تو رسول اللہ صلی علیم سے اس کے متعلق نہیں پوچھوں گا.861 یہ بھی بخاری کی روایت ہے بخاری میں اس جگہ عربی الفاظ ہیں أَنْتَ وَاللهِ بَعْدَ ثَلَاثٍ عَبْدُ الْعَصَا اس کے متعلق حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی کتاب میں یہ نوٹ درج کیا ہے کہ یہ اس شخص کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے جو آپ صلی علیکم کے بعد کسی اور کے ماتحت ہو جائے گا اور مطلب یہ ہے کہ آپ صلی للی کم کی تین دن کے بعد وفات ہو جائے گی.52 حضرت عامر سے روایت ہے کہ (نبی کریم صلی کرم کی وفات کے بعد ) رسول اللہ صلیا یکم کو حضرت علی، حضرت فضل اور حضرت اسامہ بن زید نے غسل دیا اور انہی افراد نے آپ کو قبر میں اتارا اور ایک روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے آپ کے ساتھ حضرت عبد الرحمن بن عوف کو نبھی داخل کیا.863 حضرت ابو بکر کی بیعت 862 حضرت علی کی حضرت ابو بکر کی بیعت کرنے کے بارے میں مختلف روایتیں آتی ہیں کیونکہ بعض روایات میں یہ ہے کہ حضرت علی نے پوری رضا ور غبت کے ساتھ فوراً حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی تھی.بعض اس کے خلاف لکھتے ہیں.بہر حال حضرت ابوسعید خدری سے روایت مروی ہے کہ مہاجرین و انصار نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی تو حضرت ابو بکر منبر پر چڑھے تو انہوں نے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرت علی گونہ پایا.حضرت ابو بکر نے حضرت علی کے بارے میں دریافت فرمایا.انصار میں سے کچھ لوگ گئے اور حضرت علی کو لے آئے.حضرت ابو بکر نے حضرت علی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ رسول اللہ صلی علی الم کے چچا کے بیٹے اور آپ کے داماد ! کیا تم مسلمانوں کی طاقت کو توڑنا چاہتے ہو ؟ حضرت علیؓ نے عرض کیا: اے رسول اللہ صلی علیکم کے خلیفہ !گرفت نہ کیجیے.پھر انہوں نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی.864 تاریخ طبری میں ہے کہ حبیب بن ابو ثابت سے یہ روایت ہے کہ حضرت علی اپنے گھر میں تھے جب ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہا گیا کہ حضرت ابو بکر بیعت لینے کے لیے تشریف فرما ہیں.حضرت علی قمیص پہنے ہوئے تھے.جلدی سے اس حالت میں باہر نکلے کہ نہ ہی ان پر ازار تھا اور نہ ہی کوئی چادر.آپ اس امر کو نا پسند کرتے ہوئے نکلے کہ کہیں اس سے دیر نہ ہو جائے یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو بکر کی بیعت کی اور حضرت ابو بکڑ کے پاس بیٹھ گئے.پھر آپ نے اپنے کپڑے منگوائے

Page 457

اصحاب بدر جلد 3 437 حضرت علی 865 اور وہ کپڑے پہنے.پھر حضرت ابو بکر کی مجلس میں ہی بیٹھے رہے علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب نےنبی کریم صلی للی کم کی وفات کے بعد پہلے دن یا دوسرے دن حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی تھی.اور یہی سچ ہے کیونکہ حضرت علی نے حضرت ابو بکر کو کبھی نہیں چھوڑا اور نہ ہی انہوں نے حضرت ابو بکر کے پیچھے نماز کی ادا ئیگی ترک کی.866 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت علی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اوّل اوّل حضرت ابو بکر کی بیعت سے بھی تخلف کیا تھا مگر پھر گھر جا کر خدا جانے کیا خیال آیا کہ پگڑی بھی نہ باندھی اور فور آٹوپی سے ہی بیعت کرنے کو آگئے اور پگڑی پیچھے منگوائی.معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں خیال آگیا ہو گا کہ یہ تو بڑی معصیت ہے.اس واسطے اتنی جلدی 868 کی کہ پگڑی بھی نہ باندھی.867 یعنی کپڑے بھی پورے نہیں پہنے اور جلدی جلدی آگئے.دوسری قسم کی روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت علی نے حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر کی بیعت کی تھی جیسا کہ بخاری میں ہے کہ حضرت علی نے حضرت فاطمہ کی وفات تک بیعت نہیں کی تھی.جبکہ بہت سے علماء نے بخاری میں موجود اس روایت پر جرح کی ہے.چنانچہ امام بیہقی سنن الکبریٰ میں امام شہاب الدین زہری کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے جس میں انہوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت علی نے حضرت ابو بکر کی بیعت حضرت فاطمہ کی وفات تک نہیں کی تھی، تحریر کرتے ہیں.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ امام زہری کی یہ بات کہ حضرت علی حضرت ابو بکر کی بیعت سے حضرت فاطمہ کی وفات تک رکے رہے یہ منقطع قول ہے اور حضرت ابو سعید خدری کی روایت زیادہ صحیح ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ حضرت علی نے سقیفہ کے بعد ہونے والی عام بیعت میں حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی.869 اور بعض علماء نے بخاری میں موجود اس روایت کی تطبیق اس طرح سے کی ہے کہ اس دوسری بیعت کو تجدید بیعت کا نام دیا ہے.شاید ان علماء کا یہ خیال ہو کہ آخر کوئی بات تو ہو گی اس لیے بخاری جیسی کتاب میں اس روایت کی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ حضرت علی کی اس دوسری بیعت کو کوئی نام دیا جائے.بہر حال یہ ضروری بھی نہیں ہے کہ بخاری کی سب روایات ٹھیک ہی ہوں.چنانچہ ڈاکٹر علی محمد صلابی اپنی کتاب سیرۃ امیر المومنین علی بن ابی طالب شخصیتۂ وعضرہ میں تحریر کرتے ہیں کہ علامہ ابن کثیر اور بہت سے اہل علم کے نزدیک حضرت علی نے چھ ماہ بعد جب حضرت فاطمہ کی وفات ہوئی اپنی بیعت کی تجدید کی ہے.10 انہوں نے اس کا نام تجدید بیعت رکھ دیا ہے کہ پہلے بیعت تو کر لی تھی اور حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد دوبارہ تجدید کی.870

Page 458

محاب بدر جلد 3 438 حضرت علی 871 علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب حضرت فاطمہ کی وفات ہوئی تو حضرت علی نے مناسب سمجھا کہ حضرت ابو بکر کے ساتھ اپنی بیعت کی تجدید کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف 'سر الخلافہ میں بیان فرماتے ہیں یہ عربی کی کتاب ہے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ صدیق اکبر ان لوگوں میں سے تھے ( یہ ان کے بارے میں بیان فرما رہے ہیں جو حضرت ابو بکر صدیق پر الزام لگاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس وقت حضرت علی کو خلیفہ ہونا چاہیے تھا) اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ صدیق اکبر ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے دنیا اور اس کی رعنائیوں کو مقدم کیا اور انہیں چاہا اور وہ غاصب تھے تو ایسی صورت میں ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ پھر یہ بھی اقرار کریں کہ شیر خدا علی بھی منافقوں میں شامل تھے (نعوذ باللہ ) اور جیسا کہ ہم ان کے متعلق خیال کرتے ہیں وہ دنیا کو تیاگ کر اللہ سے لو لگانے والے نہ تھے بلکہ وہ دنیا اور اس کی دل فریبیوں پر گر پڑنے والے اور اس کی رعنائیوں کے فریفتہ تھے اور اسی وجہ سے آپ نے کافر مرتدوں کا ساتھ نہ چھوڑا ( یعنی یہ کافر کہتے ہیں ناں.حضرت ابو بکر کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں) بلکہ مداہنت اختیار کرنے والوں کی طرح ان میں شامل رہے اور قریباً تیس سال کی مدت تک تقیہ اختیار کیے رکھا.پھر جب صدیق اکبر ، علی رضی اللہ عنہ وارضی کی نگاہ میں کا فریا غاصب تھے تو پھر کیوں ان کی بیعت پر راضی ہوئے اور کیوں انہوں نے ظلم، فتنے اور ارتداد کی سر زمین سے دوسرے ممالک کی جانب ہجرت نہ کی ؟ کیا اللہ کی زمین اتنی فراخ نہ تھی کہ وہ اس میں ہجرت کر جاتے جیسا کہ یہ تقویٰ شعاروں کی سنت ہے.وفاشعار ابراہیم کو دیکھو کہ وہ حق کی شہادت میں کیسے شدید القویٰ تھے ، (بڑے باہمت نکلے) جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا باپ گمراہ ہو گیا اور راہ حق سے بھٹک گیا ہے اور یہ دیکھا کہ ان کی قوم بتوں کو پوج رہی ہے اور وہ بزرگ و بر تر رب کے تارک ہیں تو انہوں نے بلا کسی خوف کے اور ان کی پروا کیے بغیر ان سے منہ موڑ لیا.وہ آگ میں ڈالے گئے اور شریروں کے خوف سے تقیہ اختیار نہ کیا.یہ ہے نیکو کاروں کی سیرت کہ وہ شمشیر وسناں سے نہیں ڈرتے اور وہ تقیہ کو گناہ کبیرہ اور بے حیائی اور تعدی تصور کرتے ہیں.اگر (بالفرض) ان سے اس قسم کی ذلیل حرکت ذراسی بھی صادر ہو جائے تو وہ اللہ کی طرف استغفار کرتے ہوئے رجوع کرتے ہیں.ہمیں تعجب ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ صدیق اور فاروق کافر اور حقوق غصب کرنے والے ہیں، انہوں نے ان کی کیسے بیعت کر لی.وہ یعنی حضرت علی ان دونوں کی معیت میں ایک لمبی عمر تک ساتھ رہے اور پورے اخلاص اور عقیدے سے ان دونوں کی اتباع کی اور اس میں نہ کبھی انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ ہی کسی کراہت کا اظہار فرمایا، نہ کوئی اور وجہ آڑے آئی اور نہ ہی آپ کے ایمانی تقویٰ نے آپ کو اس سے روکا.بایں ہمہ کہ آپ ان حضرات کے فساد، کفر اور ارتداد سے آگاہ تھے.(علاوہ ازیں) آپ کے اور اقوام عرب کے درمیان نہ کوئی بند دروازہ تھا اور نہ ہی کوئی لمبا چوڑا پر دہ اور نہ ہی آپ

Page 459

حاب بدر جلد 3 439 حضرت علی کوئی قیدی تھے.(ایسی صورت میں) آپ پر یہ واجب تھا کہ آپ کسی دوسرے عرب علاقے اور شرق اور غرب کے کسی حصہ کی جانب ہجرت فرما جاتے.(اگر ایسے حالات تھے ، زبر دستی تھی.کوئی زبر دستی تو نہیں تھی.ہجرت کر سکتے تھے ) اور لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ صرف ہجرت کر جاتے بلکہ لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرتے کہ یہ لوگ تو مرتد اور کافر ہیں ان کے خلاف جنگ کرو.اور بادیہ نشینوں کو لڑائی کی ترغیب دیتے اور اپنی فصاحت بیانی سے ان کو مسخر کرتے اور پھر مرتد ہونے والے لوگوں سے جنگ کرتے.پھر فرماتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب کے گرداند ازا ایک لاکھ بادیہ نشین جمع ہو گئے تھے جبکہ علی اس مدد کے زیادہ حقدار تھے اور اس مہم جوئی کے لیے زیادہ مناسب تھے.پھر کیوں آپ یعنی حضرت علی کافروں کے پیچھے لگ گئے ، یعنی پہلے خلفاء کے جن کو تم کافر کہتے ہو.آپ بر سر اقتدار ہوئے مگر ست لوگوں کی طرح بیٹھے رہے اور مجاہدوں کی طرح اٹھ کھڑے نہ ہوئے.وہ کون سی بات تھی جس نے آپ کو اقبال و عروج کی تمام علامات ہوتے ہوئے بھی اس خروج سے روکے رکھا، ان باتوں سے روکے رکھا.آپ جنگ و جدل اور حق کی تائید اور لوگوں کو دعوت دینے کے لیے کیوں نہ اٹھ کھڑے ہوئے.کیا آپ قوم کے سب سے فصیح و بلیغ واعظ اور ان لوگوں میں سے نہ تھے جو کلام میں روح پھونک دیا کرتے ہیں.اپنی بلاغت اور حسن بیان کے زور سے اور سامعین کے لیے اپنی قوت تاثیر سے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لینا آپ کے لیے محض ایک گھنٹہ بلکہ اس سے بھی کم تر وقت کا کام تھا.اور جب لوگ ایک کاذب دجال کے گرد جمع ہو گئے تو شیر خدا کی کیفیت تو کچھ اور ہی ہونی چاہیے تھی جو بڑے بڑے کام کرنے والے رب کا تائید یافتہ اور رب العالمین کا محبوب تھا.پھر عجیب تر اور حیران کن بات یہ ہے کہ آپ نے صرف مبائعین میں سے ہونے پر اکتفا نہیں فرمایا.یعنی یہی نہیں کیا کہ صرف بیعت کرلی، بلکہ ہر نماز شیخین (یعنی ابو بکر اور عمر) کے پیچھے ادا کی اور کسی وقت بھی اس میں تخلف نہ فرمایا اور نہ ہی شکوہ کرنے والوں کی طرح اس سے گریز کیا.آپ ان کی شوریٰ میں شامل ہوئے اور ان کے دعویٰ کی تصدیق کی اور اپنی پوری ہمت اور پوری طاقت سے ان کی مدد کی اور کبھی پیچھے نہ ہٹے.اس لیے غور کرو اور بتاؤ کہ کیا ستم رسیدوں اور مکفروں کی یہی نشانیاں ہوتی ہیں ؟ اور پھر اس بات پر بھی غور کرو کہ کذب و افترا کا علم ہونے کے باوجو د وہ یعنی حضرت علی محاذبوں کی اتباع کرتے رہے گویا کہ صدق و کذب ان کے نزدیک یکساں تھے.آپ حضرت علی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کیا حضرت علی یہ نہیں جانتے تھے کہ جو لوگ قادر و توانا ذات پر توکل کرتے ہیں وہ ایک لحظہ کے لیے بھی مداہنت کی راہ کو اہمیت نہیں دیتے خواہ انہیں سچائی کی خاطر جلا دیا جائے، ہلاکت میں ڈال دیا جائے اور پارہ پارہ کر دیا جائے.872 پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے واضح فرما دیا کہ حضرت علی نے کبھی بھی اپنے سے پہلے خلفاء کی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ ان کی بیعت کی دور نہ جو باتیں تم حضرت علی کے بارے میں کہتے ہو کہ

Page 460

اصحاب بدر جلد 3 440 حضرت علی انہوں نے حضرت ابو بکر کی بیعت نہیں کی یہ بات تو حضرت علی کے مقام کو گراتی ہے نہ کہ بڑھاتی ہے.خلفائے ثلاثہ کے دور میں حضرت علی کی کیا خدمات تھیں یعنی آپ سے پہلے جو تین خلفاء گزرے ہیں.جب رسول کریم صلی الی یکم کی وفات ہوئی تو عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہو گئے اور مدینہ میں بھی منافقین نے سر اٹھایا اور بنو حنیفہ اور یمامہ کے بہت زیادہ لوگ مسیلمہ کذاب کے ساتھ مل گئے جبکہ قبیلہ بنو اسد اور طے اور دیگر بہت سے لوگ طلیحہ اسدی کے گرد اکٹھے ہو گئے.اس نے بھی مسیلمہ کی طرح نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا.مصیبت بہت بڑھ گئی اور صورتحال بشدت بگڑ گئی.ایسے میں جب حضرت ابو بکر نے حضرت اسامہ کے لشکر کو روانہ کیا تو آپ کے پاس بہت کم لوگ رہ گئے تھے.اس پر بہت سے بدوؤں کا مدینہ پر قبضہ کے لیے دل للچایا اور انہوں نے مدینہ پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا.اس پر حضرت ابو بکر صدیق نے مدینہ میں داخل ہونے والے مختلف راستوں پر مدینہ کے ارد گرد پہرے دار مقرر کر دیے جو اپنے دستوں کے ساتھ مدینہ کے ارد گرد پہرہ دیتے ہوئے رات گزارتے تھے.ان پہرہ داروں کے نگرانوں میں سے حضرت علی بن ابی طالب، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبید اللہ ، سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمن بن عوف اور عبد اللہ بن مسعودؓ تھے.873 یعنی فوج کا جو ایک حصہ تھا، جو حفاظت کے لیے مقرر کیا گیا تھا حضرت علی اس وقت بھی اس کے نگران تھے.رسول اللہ صلی الہی ان کی وفات کی جب عام خبر پھیلی تو عرب کے اکثر قبائل مرتد ہو گئے اور ادائیگی زکوۃ سے پہلو تہی کرنے لگے.حضرت ابو بکر صدیق نے ان سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا.عروہ کا بیان ہے کہ حضرت ابو بکر مہاجرین و انصار کو ساتھ لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور جب نجد کے بلند علاقے کے بالمقابل ایک تالاب پر پہنچے تو بد و وہاں سے اپنے بال بچوں سمیت بھاگ کھڑے ہوئے.اصل میں تو یہ ہے کہ ایک طرف مسلمان ہونے کا بھی دعوی تھا، پوری طرح مرتد بھی نہیں تھے اور دوسری طرف زکوۃ دینے سے بھی انکاری تھے اس لیے جنگ کی گئی تھی.یہ نہیں ہے کہ مرتد ہونے کی وجہ سے ان کو سزا مل رہی تھی.اس پر جب وہ بھاگ کھڑے ہوئے تو اس پر لوگوں نے حضرت ابو بکر سے عرض کیا کہ اپنے بچوں اور عورتوں کے پاس واپس مدینہ کوٹ چلیں اور لشکر پر کسی شخص کو امیر بنا دیں.لوگوں کے اصرار پر آپ نے حضرت خالد بن ولید کو امیر لشکر مقرر کیا اور ان سے فرمایا کہ اگر وہ لوگ اسلام لے آئیں اور زکوۃ دیں تو تم میں سے جو واپس آنا چاہے یعنی بیعت میں آجائیں اور زکوۃ دیں تو جو واپس آنا چاہے وہ آجائے.اس کے بعد حضرت ابو بکر مدینہ لوٹ آئے.874 خلافت راشدہ کے دوران امیر مدینہ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ”تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عمر نے اپنے زمانہ

Page 461

اصحاب بدر جلد 3 441 حضرت علی خلافت میں بعض سفروں کے پیش آنے پر حضرت علی کو اپنی جگہ مدینہ کا امیر مقرر فرمایا تھا.چنانچ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ واقعہ جسر کے موقع پر جو مسلمانوں کو ایرانی فوجوں کے مقابلہ پر ایک قسم کی زک اٹھانی پڑی تو حضرت عمرؓ نے لوگوں کے مشورہ سے ارادہ کیا کہ آپ خود اسلامی فوج کے ساتھ ایران 8756 کی سرحد پر تشریف لے جائیں تو آپ نے اپنے پیچھے حضرت علی ہو مدینہ کا گورنر مقرر کیا.875 حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ”سب سے بڑی اور ہولناک شکست جو اسلام کو پیش آئی وہ جنگ جسر تھی.ایرانیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا زبردست لشکر گیا.ایرانی سپہ سالار نے دریا پار اپنے مورچے بنائے اور ان کا انتظار کیا.اسلامی لشکر نے جوش میں بڑھ کر ان پر حملہ کیا اور دھکیلتے ہوئے آگے نکل گئے مگر یہ ایرانی کمانڈر کی چال تھی.اس نے ایک فوج بازو سے بھیج کر “ یعنی ایک سائیڈ سے بھیج کر ”پل پر قبضہ کر لیا اور تازہ حملہ مسلمانوں پر کر دیا.مسلمان مصلحتا پیچھے لوٹے مگر دیکھا کہ پل پر دشمن کا قبضہ ہے.گھبراکر دوسری طرف ہوئے تو دشمن نے شدید حملہ کر دیا اور مسلمانوں کی بڑی تعداد دریا میں کو دنے پر مجبور ہو گئی اور ہلاک بھی ہو گئی.مسلمانوں کا یہ نقصان ایسا خطر ناک تھا کہ مدینہ تک اس سے ہل گیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ والوں کو جمع کیا اور فرمایا اب مدینہ اور ایران کے درمیان کوئی روک باقی نہیں.مدینہ بالکل ننگا ہے اور ممکن ہے کہ دشمن چند دنوں تک یہاں پہنچ جائے اس لئے میں خود کمانڈر بن کر جانا چاہتا ہوں.باقی لوگوں نے تو اس تجویز کو پسند کیا مگر حضرت علی نے کہا کہ اگر خدانخواستہ آپ کام آگئے شہید ہو گئے تو مسلمان تتر بتر ہو جائیں گے اور ان کا شیرازہ بالکل منتشر ہو جائے گا.اس لئے کسی اور کو بھیجنا چاہئے آپ خود تشریف نہ لے جائیں.اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت سعد کو جو شام میں رومیوں سے جنگ میں مصروف تھے لکھا کہ تم جتنا لشکر بھیج سکتے ہو بھیج دو کیونکہ اس وقت مدینہ بالکل ننگا ہو چکا ہے اور اگر دشمن کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو وہ مدینہ پر قابض ہو جائے گا.876 خلافت عثمان میں حضرت علی کی مخلصانہ دفاعی کوششیں حضرت عثمان کے عہد خلافت میں فتنہ و فساد ہو ا تو حضرت علی نے ان کا رفع کرنے کے لیے ان کو مخلصانہ مشورے دیے.ایک دفعہ حضرت عثمان نے ان سے پوچھا کہ ملک میں موجود شورش اور ہنگامے کی حقیقی وجہ اور اس کے رفع کرنے کی صورت کیا ہے ؟ انہوں نے (حضرت علی نے ) نہایت خلوص اور آزادی سے ظاہر کر دیا کہ موجودہ بے چینی تمام تر آپ کے عمال کی بے اعتدالیوں کا نتیجہ ہے.حضرت عثمان نے فرمایا کہ میں نے عمال کے انتخاب میں انہی صفات کو ملحوظ رکھا ہے جو حضرت عمر کے پیش نظر تھے پھر ان سے عام بیزاری کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی.حضرت علی نے فرمایا ہاں یہ صحیح ہے لیکن حضرت عمر نے سب کی تکمیل اپنے ہاتھ میں دے رکھی تھی اور گرفت ایسی سخت تھی کہ عرب کا سرکش سے

Page 462

باب بدر جلد 3 442 حضرت علی سرکش اونٹ بھی بلبلا اٹھتا.بڑی سختی سے نگرانی رکھی ہوئی تھی.بر خلاف اس کے آپ ضرورت سے زیادہ نرم ہیں.آپ کے معمال اس نرمی سے فائدہ اٹھا کر من مانی کارروائیاں کرتے ہیں اور آپ کو اس کی خبر بھی نہیں ہونے پاتی.رعایا بجھتی ہے کہ عمال جو کچھ کرتے ہیں وہ سب دربار خلافت کے احکام کی ہے.اس طرح تمام بے اعتدالیوں کا ہدف آپ کو بننا پڑتا ہے.جب مصریوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور اس قدر شدت اختیار کی کہ کھانے پینے سے بھی محروم کر دیا.حضرت علی کو معلوم ہوا تو محاصرہ کرنے والوں کے پاس گئے اور فرمایا تم لوگوں نے جس قسم کا محاصرہ قائم کیا ہے وہ نہ صرف اسلام بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہے.کفار بھی مسلمانوں کو قید کر لیتے ہیں تو کھانے پینے سے محروم نہیں کرتے.حضرت عثمان کے بارے میں فرمایا کہ اس شخص نے تمہارا کیا نقصان کیا ہے جو ایسی سختی روا ر کھتے ہو.محاصرین نے حضرت علی کی سفارش کی کچھ پروا نہیں کی اور محاصرے میں سہولت پیدا کرنے سے قطعی انکار کر دیا.حضرت علی غصہ میں اپنا عمامہ پھینک کر واپس چلے گئے.877 لوگوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا.ان کا پانی بند کر دیا.اس پر آپ نے (حضرت عثمان نے ) اوپر سے جھانک کر دیکھا.انہوں نے کہا کیا تم لوگوں میں علی ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں.پھر پوچھا سعد ہیں ؟ جواب ملا نہیں.پھر کچھ دیر خاموش رہ کر حضرت عثمان نے کہا کیا تم میں سے کوئی ہے جو علی سے جا کر کہے کہ وہ ہمیں پانی پلائیں.حضرت علی کو یہ اطلاع ہوئی تو انہوں نے پانی کی بھری ہوئی تین مشکیں آپ کے گھر روانہ کیں مگر باغیوں کی مزاحمت کی وجہ سے یہ مشکیں حضرت عثمان کے گھر نہیں پہنچ رہی تھیں، ان کو لے جانے نہیں دے رہے تھے.ان مشکوں کو پہنچانے کی کوشش میں بَنُوهَا ثیم اور بَنُو اُمیہ کے کئی غلام زخمی ہوئے تاہم پانی آخر کار حضرت عثمان کے گھر پہنچ گیا.حضرت عثمان کے گھر حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کا پہرا حضرت علی ہو جب معلوم ہوا کہ حضرت عثمان کے قتل کا منصوبہ ہے تو آپ نے اپنے صاحبزادوں امام حسن اور امام حسین سے فرمایا: اپنی تلواریں لے کر جاؤ اور حضرت عثمان کے دروازے پر کھڑے ہو جاؤ اور خبر دار کوئی بلوائی آپ تک پہنچنے نہ پائے.یہ دیکھ کر باغیوں نے حضرت عثمان کے گھر کے دروازے پر تیر اندازی شروع کر دی جس سے حضرت حسن اور محمد بن طلحہ لہولہان ہو گئے.اسی اثنا میں محمد بن ابو بکر دو ساتھیوں سمیت ایک انصاری کے گھر کی طرف سے چھپ کر حضرت عثمان کے گھر میں کو دے اور آپ کو شہید کر دیا.جب یہ خبر حضرت علی کو پہنچی تو آپ نے آکر دیکھا کہ حضرت عثمان واقعی شہید کر دیے گئے ہیں.اس پر آپ نے اپنے بیٹوں سے پوچھا.تم دونوں کے دروازے پر پہرہ دار ہونے کے باوجو د حضرت عثمان کس طرح شہید کر دیے گئے ؟ یہ کہہ کر آپ نے حضرت حسن کو تھپڑ مارا اور

Page 463

اصحاب بدر جلد 3 443 حضرت علی حضرت حسینؓ کے سینے پر ہاتھ مارا اور محمد بن طلحہ اور عبد اللہ بن زبیر کو برا بھلا کہا اور غصہ کی حالت میں وہاں سے آپ گھر لوٹ آئے.878 شداد بن اوس بیان کرتے ہیں کہ یوم الدار کو جب حضرت عثمان کے محاصرے نے شدت اختیار کرلی.(یوم الدار اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن حضرت عثمان کو باغیوں نے اپنے گھر میں محصور کر کے انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا تھا) تو حضرت عثمان نے لوگوں کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا اے اللہ کے بندو! راوی کہتے ہیں اس پر میں نے دیکھا کہ حضرت علی اپنے گھر سے باہر نکل رہے ہیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی علیکم کا عمامہ باندھا ہوا ہے اور اپنی تلوار لٹکائی ہوئی ہے.ان کے آگے مہاجرین و انصار کا گر وہ تھا جس میں حضرت حسن اور حضرت عبد اللہ بن عمررؓ بھی تھے.یہاں تک کہ انہوں نے باغیوں پر حملہ کر کے انہیں وہاں سے ہٹا دیا.پھر یہ لوگ حضرت عثمان کے گھر میں داخل ہوئے اور حضرت علی نے عرض کی کہ اے امیر المومنین آپ پر سلامتی ہو.رسول اللہ صلی الیوم کو دین کی بلندی اور مضبوطی اس وقت حاصل ہوئی جب آپ نے ماننے والوں کو ساتھ لے کر منکرین سے جنگ کی.بخدا میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ آپ کو ضرور قتل کرنے والے ہیں.پس آپ ہمیں ان سے لڑائی کرنے کا حکم دیں.اس پر حضرت عثمان نے فرمایا ہر اس شخص کو جو اللہ کو حق سمجھتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ میرا اس پر حق ہے میں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ وہ میری خاطر نہ کسی کا سینگی برابر خون بہائے اور نہ میری خاطر اپنا خون بہائے.حضرت علیؓ نے دوبارہ وہی درخواست کی جس پر حضرت عثمان نے وہی جواب دیا.راوی کہتے ہیں اس پر میں نے حضرت علی کو حضرت عثمان کے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھا جبکہ وہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ ! تُو جانتا ہے کہ ہم نے اپنی تمام کوششیں صرف کر ڈالی ہیں.پھر آپ مسجد نبوی میں تشریف لائے نماز کا وقت ہو چکا تھا.لوگوں نے آپ سے کہا اے ابو الحسن ! آگے بڑھیں اور لوگوں کو نماز پڑھا دیں.حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو نماز نہیں پڑھا سکتا جبکہ امام محصور ہے ، میں اکیلے نماز پڑھ لوں گا.پھر آپ تنہا نماز پڑھ کر واپس چلے گئے.حضرت علی کا بیٹا آیا اور اس نے آپ سے کہا اے میرے باپ! بخدا مخالفین نے حضرت عثمان کے گھر پر حملہ کر دیا ہے.حضرت علیؓ نے کہا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اليه راجعون خدا کی قسم ! وہ انہیں قتل کر دیں گے.لوگوں نے حضرت علی سے پوچھا حضرت عثمان کہاں ہوں گے یعنی شہادت کے بعد.فرمایا اللہ کی قسم ! جنت میں.لوگوں نے پوچھا اور یہ لوگ کہاں ہوں گے جنہوں نے قتل کیا ہے اے ابوالحسن! یہ لوگ کہاں ہوں گے ؟ حضرت علی نے فرمایا: خدا کی قسم ! آگ میں.آپؐ نے تین بار یہ کہا.179 باغیوں نے جب مدینے کا محاصرہ کر لیا تو ان حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ اہل مصر حضرت علی کے پاس گئے.وہ اس وقت مدینہ سے باہر ایک حصہ لشکر کی کمان کر رہے تھے اور اس کا سر کچلنے پر آمادہ کھڑے تھے.ان لوگوں نے آپ کے پاس پہنچ کر عرض کیا کہ

Page 464

حاب بدر جلد 3 444 حضرت علی 881" 880 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بد انتظامی کے باعث اب خلافت کے قابل نہیں ہم ان کو علیحدہ کرنے کے لئے آئے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ ان کے بعد اس عہدے کو قبول کریں گے.انہوں نے ان کی بات سن کر اس غیرت دینی سے “ یعنی حضرت علی نے منافقین کی بات سن کر ” اس غیرت دینی سے کام لے کر جو آپ کے رتبہ کے آدمی کا حق تھا ان لوگوں کو دھتکار دیا اور بہت سختی سے پیش آئے اور فرمایا کہ سب نیک لوگ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی علیہ ہم نے پیشگوئی کے طور پر ذُوالْمَرْوَہ اور ذُو خُشُب (جہاں ان لوگوں کا ڈیرہ تھا) پر ڈیرہ لگانے والے لشکروں کا ذکر فرما کر ان پر لعنت فرمائی تھی.10 پس خدا تمہارا برا کرے تم واپس چلے جاؤ.اس پر ان لوگوں نے کہا بہت اچھا.ہم واپس چلے جائیں گے اور یہ کہہ کر واپس چلے گئے.حضرت عثمان کی شہادت اور اس کے بعد حضرت علی کی جو بیعت خلافت ہے اس کے بارے میں ذکر کہیں پہلے بھی میں ایک دفعہ مختصر بیان کر چکا ہوں.882 بہر حال پہلے تفصیل سے کیا تھا.اب یہاں تھوڑا سا واقعہ مختصر بتا دیتا ہوں.جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو تمام لوگ حضرت علی کی طرف دوڑتے ہوئے آئے جن میں صحابہ اور دیگر لوگ بھی شامل تھے.وہ سب یہی کہہ رہے تھے کہ علی امیر المومنین ہیں.وہ آپ کے پاس آپ کے گھر حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں کیونکہ آپ اس بات کے سب سے زیادہ حقدار ہیں.اس پر حضرت علی نے فرمایا یہ تمہارا کام نہیں ہے بلکہ یہ اصحاب بدر کا کام ہے.پس جس کے بارے میں اصحاب بدر راضی ہوں گے وہی خلیفہ ہو گا.اس پر سبھی لوگ حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم کسی کو آپ سے زیادہ اس بات کا حقدار نہیں سمجھتے.پس اپنا ہاتھ بڑھائیں کہ ہم آپ کی بیعت کریں.آپ نے فرمایا طلحہ اور زبیر کہاں ہیں.پھر سب سے پہلے حضرت طلحہ نے آپ کی زبانی بیعت کی اور سب سے پہلے حضرت سعد نے آپ کی دستی بیعت کی.جب حضرت علی نے یہ دیکھا تو آپ مسجد کی طرف نکلے اور منبر پر چڑھے.حضرت طلحہ سب سے پہلے شخص تھے جو حضرت علی کی طرف منبر پر چڑھے اور آپ کی بیعت کی ان کے بعد حضرت زبیر نے بیعت کی اور پھر باقی صحابہ نے بیعت کی.683 حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد کے واقعات کا جو تذکرہ کیا ہے اس میں جس طرح آپ نے بیان فرما یا وہ یوں ہے کہ : جب حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا تو مفسدوں نے بیت المال کو لوٹا اور اعلان کر دیا کہ جو مقابلہ کرے گا قتل کر دیا جائے گا.لوگوں کو جمع نہیں ہونے دیا جاتا تھا، کوئی اکٹھا نہیں ہو سکتا تھا.جس طرح آج کل دفعہ 144 لگتی ہے اس طرح لگادی تھی اور مدینہ کا انہوں نے سخت محاصرہ کر رکھا تھا اور کسی کو ہر نہیں نکلنے دیا جاتا تھا یا کہنا چاہیے کرفیو جس طرح لگتا ہے اس طرح لگا دیا تھا حتی کہ حضرت علییؓ جن کی محبت کا وہ لوگ دعوی کرتے تھے ان کو بھی روک دیا گیا تھا اور مدینہ میں خوب لوٹ مچائی.ادھر تو یہ باہر

Page 465

محاب بدر جلد 3 445 حضرت علی حالت تھی اور ادھر انہوں نے اپنی قساوت قلبی کا یہاں تک ثبوت دیا کہ حضرت عثمان جیسے مقدس انسان کو جن کی رسول کریم صلی ا یمن نے بڑی تعریف کی ہے قتل کرنے کے بعد بھی نہ چھوڑا اور لاش کو تین چار دن تک دفن نہ کرنے دیا.آخر چند صحابہ نے مل کر رات کو پوشیدہ طور پر دفن کیا.حضرت عثمان کے ساتھ ہی کچھ غلام بھی شہید ہوئے تھے.ان کی لاشوں کو دفن کرنے سے روک دیا اور کتوں کے آگے ڈال دیا.حضرت عثمانؓ اور غلاموں کے ساتھ یہ سلوک کرنے کے بعد مفسدوں نے مدینہ کے لوگوں کو جن کے ساتھ ان کی کوئی مخالفت نہ تھی چھٹی دے دی اور صحابہ نے وہاں سے بھاگنا شروع کر دیا.پانچ دن اسی طرح گزر گئے کہ مدینہ کا کوئی حاکم نہ تھا.مفسد اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ کسی کو خود خلیفہ بنائیں اور جس طرح چاہیں اس سے کرائیں لیکن صحابہ میں سے کسی نے یہ برداشت نہ کیا کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عثمان کو قتل کیا ہے ان کا خلیفہ بنے.مفسد حضرت علی، طلحہ اور زبیر کے پاس باری باری گئے اور انہیں خلیفہ بننے کے لیے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا.جب انہوں نے انکار کر دیا اور مسلمان ان کی موجودگی میں اور کسی کو خلیفہ نہیں مان سکتے تھے تو مفسدوں نے ان کے متعلق بھی جبر سے کام لینا شروع کر دیا کیونکہ انہوں نے خیال کیا کہ اگر کوئی خلیفہ نہ بنا تو تمام عالم اسلامی میں ہمارے خلاف ایک طوفان برپا ہو جائے گا.انہوں نے اعلان کر دیا کہ اگر دو دن کے اندر اندر کوئی خلیفہ بنالیا جائے تو بہتر ورنہ ہم علی ، طلحہ اور زبیر اور سب بڑے بڑے لوگوں کو قتل کر دیں گے.اس پر مدینہ والوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا وہ ہم سے اور ہمارے بچوں اور عورتوں سے کیا کچھ نہ کریں گے.وہ حضرت علی کے پاس گئے اور انہیں خلیفہ بننے کے لیے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر میں خلیفہ ہوا تو تمام لوگ یہی کہیں گے کہ میں نے عثمان کو قتل کرایا ہے اور یہ بوجھ مجھ سے نہیں اٹھ سکتا.یہی بات حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے کہی اور صحابہ نے بھی جن کو خلیفہ بننے کے لیے کہا گیا انکار کر دیا.آخر سب لوگ پھر علی کے پاس گئے اور کہا جس طرح بھی ہو آپ یہ بوجھ اٹھائیں.آخر انہوں نے کہا کہ میں اس شرط پر یہ بوجھ اٹھاتا ہوں کہ سب لوگ مسجد میں جمع ہوں اور مجھے قبول کریں.چنانچہ لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے قبول کیا مگر بعض نے اس پر انکار کر دیا کہ جب تک حضرت عثمان کے قاتلوں کو سزا نہ دی جائے اس وقت تک ہم کسی کو خلیفہ نہیں مانیں گے اور بعض نے کہا جب تک باہر کے لوگوں کی رائے نہ معلوم ہو جائے کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہیے مگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت قلیل تھی.اس طرح حضرت علی نے خلیفہ بننا تو منظور کر لیا مگر وہی نتیجہ ہوا جس کا انہیں خطرہ تھا.تمام عالم اسلامی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ علی نے عثمان کو قتل کرایا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کی اگر اور تمام خوبیوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو میرے نزدیک ایسی خطر ناک حالت میں ان کا خلافت کو منظور کر لینا ایسی جرات اور دلیری کی بات تھی جو نہایت ہی قابل تعریف تھی کہ انہوں نے اپنی عزت اور اپنی ذات کی اسلام کے مقابلے میں کوئی پروا

Page 466

اصحاب بدر جلد 3 446 حضرت علی 884 نہیں کی اور اتنابڑا بوجھ اٹھالیا.4 پھر حضرت مصلح موعود حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد کے واقعات میں ایک اور جگہ ذکر کرتے ہوئے اس طرح فرماتے ہیں کہ ”ایک دو دن تو خوب لوٹ مار کا بازار گرم رہا لیکن جب جوش ٹھنڈ اہو ا تو ان باغیوں کو اپنے انجام کا فکر ہوا اور ڈرے کہ اب کیا ہو گا.چنانچہ بعض تو یہ سمجھ کر کہ حضرت معاویہؓ ایک زبر دست آدمی ہیں اور ضرور اس قتل کا بدلہ لیں گے شام کا رخ کیا اور وہاں جا کر خود ہی واویلا کرنا شروع کر دیا کہ حضرت عثمان شہید ہو گئے اور کوئی ان کا قصاص نہیں لیتا.کچھ بھاگ کر مکہ کے راستے میں حضرت زبیر اور حضرت عائشہ سے جاملے اور کہا کہ کس قدر ظلم ہے کہ خلیفہ اسلام شہید کیا جائے اور مسلمان خاموش رہیں.کچھ بھاگ کر حضرت علی کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس وقت مصیبت کا وقت ہے اسلامی حکومت کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے آپ بیعت میں تا لوگوں کا خوف دور ہو اور امن و امان قائم ہو.جو صحابہ مدینہ میں موجود تھے انہوں نے بھی بالا تفاق یہی مشورہ دیا کہ اس وقت یہی مناسب ہے کہ آپ اس بوجھ کو اپنے سر پر رکھیں کہ آپ کا یہ کام موجب ثواب و رضائے الہی ہو گا.جب چاروں طرف سے آپ کو مجبور کیا گیا تو کئی دفعہ انکار کرنے کے بعد آپ نے مجبوراً اس کام کو اپنے ذمہ لیا اور بیعت لی.اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی کا یہ فعل بڑی پر مشتمل تھا.اگر آپ اس وقت بیعت نہ لیتے تو اسلام کو اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچتا جو آپ کی حکمت پر 88566 اور حضرت معاویہ کی جنگ سے پہنچا.“ یہ حضرت مصلح موعودؓ نے نتیجہ نکالا ہے.پھر حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حضرت علی کی بیعت کو توڑا یہ غلط مثال ہے.یہ جو تھا ناں کہ بیعت کر لی اور آرام سے بیعت کر لی تو وہ اتنی آرام سے نہیں ہوئی تھی.اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پھر بیعت کو توڑ کر حضرت عائشہ کے ساتھ چلے گئے یا ان کے خلاف جنگ کی.اس کے بارے میں حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں.یہ غلط مثال اور تاریخ سے ناواقفیت کا ثبوت ہے.اس طرح نہیں ہوا.تاریخیں اس بات پر متفقہ طور پر شاہد ہیں کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے حضرت علی کی جو بیعت کی تھی وہ بیعت طوعی نہیں تھی بلکہ جبراً ان سے بیعت لی گئی تھی.چنانچہ محمد اور طلحہ دو راویوں سے طبری میں یہ روایت آتی ہے کہ حضرت عثمان جب شہید ہو گئے تو لوگوں نے آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ جلد کسی کو خلیفہ مقرر کیا جائے تا امن قائم ہو اور فساد مئے.آخر لوگ حضرت علیؓ کے پاس گئے اور ان سے عرض کیا کہ آپ ہماری بیعت لیں.حضرت علی نے کہا کہ اگر تم نے میری بیعت کرنی ہے تو تمہیں ہمیشہ میری فرمانبرداری کرنی پڑے گی.اگر یہ بات تمہیں منظور ہے تو میں تمہاری بیعت لینے کے لئے تیار ہوں ورنہ کسی اور کو اپنا خلیفہ مقرر کر لو میں اس کا ہمیشہ فرمانبردار رہوں گا اور تم سے زیادہ اس کی اطاعت کروں گا جو بھی خلیفہ ہو گا.

Page 467

اصحاب بدر جلد 3 447 حضرت علی انہوں نے کہا کہ ہمیں آپ کی اطاعت منظور ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا کہ پھر سوچ لو اور آپس میں مشورہ کر لو.چنانچہ انہوں نے مشورے سے یہ طے کیا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اگر حضرت علی کی بیعت کر لیں تو سب لوگ حضرت علی کی بیعت کر لیں گے ورنہ جب تک وہ حضرت علی کی بیعت نہیں کریں گے اس وقت تک پورے طور پر امن قائم نہیں ہو گا.اس پر حکیم بن جبلہ کو چند آدمیوں کے ساتھ حضرت زبیر کی طرف اور مالک اشتر کو چند آدمیوں کے ساتھ حضرت طلحہ کی طرف روانہ کیا گیا جنہوں نے تلواروں کا نشانہ کر کے انہیں بیعت پر آمادہ کیا یعنی وہ تلواریں سونت کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت علی کی بیعت کرنی ہے تو کر دور نہ ابھی ہم تم کو مار ڈالیں گے.چنانچہ انہوں نے مجبور ہو کر رضامندی کا اظہار کر دیا اور یہ واپس آگئے.دوسرے دن حضرت علی منبر پر چڑھے اور فرمایا: اے لوگو! تم نے کل مجھے ایک پیغام دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ تم اس پر غور کر لو.کیا تم نے غور کر لیا ہے اور کیا تم میری کل والی بات پر قائم ہو ؟ اگر قائم ہو تو یاد رکھو کہ تمہیں میری کامل فرمانبرداری کرنی پڑے گی.اس پر وہ پھر حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے پاس گئے اور ان کو زبر دستی کھینچ کر لائے اور روایت میں صاف لکھا ہے کہ جب وہ حضرت طلحہ کے پاس پہنچے اور ان سے بیعت کرنے کے لئے کہا تو انہوں نے جواب دیا.اِنّى إِنَّمَا أُبَايِعُ گڑھا.دیکھو میں زبر دستی بیعت کر رہا ہوں.خوشی سے بیعت نہیں کر رہا.اسی طرح حضرت زبیر کے پاس جب لوگ گئے اور بیعت کے لئے کہا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ابي انما اتابع گڑھا کہ تم مجھ کو مجبور کر کے بیعت کروارہے ہو ، دل سے میں یہ بیعت نہیں کر رہا.اس طرح عبد الرحمن بن جندب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان کے قتل کے بعد اشتر طلحہ کے پاس گئے اور بیعت کے لئے کہا.انہوں نے کہا کہ مجھے مہلت دو.میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ لوگ کیا فیصلہ کرتے ہیں.مگر انہوں نے نہ چھوڑا اور جَاءَ بِهِ يَتْلُه تَلًّا عَنِيْفًا.ان کو زمین پر نہایت سختی سے گھسٹتے ہوئے لے آئے جیسے بکرے کو گھسیٹا جاتا ہے.86 حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی حضرت طلحہ جس وقت ایک باہمی اختلاف کے موقع پر حضرت علی کے مقابل پر کھڑے ہوئے اور پھر جب ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اس میں میری غلطی تھی تو وہ میدان جنگ سے چلے گئے.“ یہاں یہ قصہ اب شروع ہوتا ہے کہ حضرت طلحہ مقابلے پر آئے اور بیعت نہیں کی لیکن اس کی تفصیل بھی بیان فرماتے ہیں، آپ مقابلہ پر بیشک آئے، پہلے بیعت زبر دستی کی.پھر مقابلے پر بھی آئے.مطلب زبر دستی کروائی گئی پھر بعد میں جب موقع ملا تو اختلاف بھی ہوا، پھر جنگ بھی ہوئی لیکن جب بات ان کی سمجھ میں آگئی تو پھر وہ چھوڑ کے میدان جنگ سے چلے گئے کہ حضرت علی ٹھیک ہیں.اس بارے میں حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں.”آپ واپس گھر جارہے تھے تو کسی وحشی انسان نے جو حضرت علی کی فوج میں سے کہلا تا تھا راستے میں جاتے ہوئے ان کو قتل کر دیا اور پھر حضرت علی کے پاس انعام کی خواہش 886

Page 468

تاب بدر جلد 3 448 حضرت علی میں آکر کہا کہ میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ آپ کا دشمن طلحہ میرے ہاتھوں مارا گیا.حضرت علی نے کہا کہ میں تم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جہنم کی بشارت دیتا ہوں.میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا کہ طلحہ کو ایک جہنمی قتل کرے گا.8874 پھر ایک اور جگہ اسی واقعے کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں: ” حاکم نے روایت کی ہے کہ ثور بن منجزاہ نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں واقعہ جمل کے دن حضرت طلحہ کے پاس سے گزرا.اس وقت ان کی نزع کی حالت قریب تھی.“ جب اس نے زخمی کیا اس وقت نزع کی حالت تھی ”مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم کون سے گروہ سے ہو ؟ میں نے کہا کہ حضرت امیر المومنین علی کی جماعت میں سے ہوں تو کہنے لگے اچھا اپنا ہاتھ بڑھاؤ تا کہ میں تمہارے ہاتھ پر بیعت کر لوں.چنانچہ انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر جان بحق تسلیم کر گئے.میں نے آکر حضرت علی سے تمام واقعہ عرض کر دیا.آپ سن کر کہنے لگے اللہ اکبر !خدا کے رسول کی بات کیا سچی ثابت ہوئی.اللہ تعالیٰ نے یہی چاہا کہ طلحہ میری بیعت کے بغیر جنت میں نہ جائے.(آپ عشرہ مبشرہ میں سے تھے).پہلے گو مجبوری کی بیعت تھی لیکن جیسا کہ میں نے کہا وفات سے قبل کامل شرح صدر سے بیعت کر لی.نیکی تھی، سعادت تھی.اللہ تعالیٰ کا جنت میں لے جانے کا وعدہ بھی تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ ایسا انجام ہو کہ جب آپ خلافت کی بیعت سے باہر ہوں اور اس وقت ان کو موقع ملا اور خلافت کی بیعت کر ل 889 مسلمانوں کی تباہی کے اسباب 88866 حضرت عثمان کی شہادت اور باغیوں کا ذکر ہوا تھا اور اس بارے میں حضرت علی کی کیا کوششیں تھیں یا اب جو آگے حضرت علی کے واقعات آئیں گے ، اس بارے میں ایک بہت اہم بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ چونکہ تم لوگ بھی صحابہ کے مشابہ ہو اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تاریخ سے بیان کروں کہ کس طرح مسلمان تباہ ہوئے اور کون سے اسباب ان کی ہلاکت کا باعث بنے.پس تم ہو شیار ہو جاؤ اور جو لوگ تم میں نئے آئیں ان کے لیے تعلیم کا بندوبست کرو.یعنی تربیت صحیح ہونی چاہیے.ان کی دینی تعلیم ہونی چاہیے.حضرت عثمان کے وقت جو فتنہ اٹھا تھا وہ صحابہ سے نہیں اٹھا تھا.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے اٹھایا تھا ان کو دھوکا لگا ہے.اس میں شک نہیں کہ حضرت علی کے مقابلے میں بہت سے صحابہ تھے اور معاویہ کے مقابلہ میں بھی لیکن میں کہتا ہوں کہ اس فتنہ کے بانی صحابہ نہیں تھے بلکہ وہی لوگ تھے جو بعد میں آئے اور جنہیں آنحضرت صلی میں کم کی صحبت نصیب نہ ہوئی اور آپ کے پاس نہ بیٹھے.پس میں آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں اور فتنہ سے بچنے کا یہ طریق بتاتا ہوں کہ کثرت سے اس وقت آپؐ قادیان میں تھے کہ کثرت سے ” قادیان آؤ اور بار بار آؤ تا کہ تمہارے ایمان تازہ رہیں اور تمہاری

Page 469

اصحاب بدر جلد 3 449 حضرت علی خشیت اللہ بڑھتی رہے.890❝ یعنی تمہارا مرکز سے تعلق بھی رہے اور خلافت سے تعلق بھی رہے.یہ رہے گا تو صحیح تربیت بھی رہے گی.آج کل اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کی صورت مہیا فرمائی ہے.خطبات ساری دنیا میں سنے جاتے ہیں، دکھائے جاتے ہیں، سنائے جاتے ہیں.اور پروگرام دکھائے جاتے ہیں اور سنائے جاتے ہیں.اس لیے تربیت کے لیے بہت ضروری ہے کہ علاوہ اس کے کہ خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں.ایم ٹی اے کے ساتھ بھی تعلق رکھیں اور خاص طور پر جمعے کے خطبات ضرور ایم ٹی اے کے ذریعہ سے سنا کریں تا کہ خلافت سے تعلق قائم رہے اور بہتر ہو تار ہے اور بڑھتار ہے.جنگ جمل کے واقعہ کے بارے میں روایت میں آتا ہے کہ جنگ جمل حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ کے درمیان 136 ہجری میں ہوئی تھی.حضرت عائشہ کے ساتھ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی تھے.حضرت عائشہ میدان جنگ میں ایک اونٹ پر سوار تھیں اسی وجہ سے اس جنگ کا نام جنگ جمل مشہور ہے.حضرت عائشہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ گئی ہوئی تھیں.وہ وہیں قیام پذیر تھیں کہ حضرت عثمان کی شہادت کی خبر ملی.جب عمرہ کی ادائیگی کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئیں تو راستے میں مقام سرف پر عبید بن ابو سلمہ نے اطلاع دی کہ حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے اور حضرت علی خلیفہ منتخب ہو گئے ہیں اور مدینہ منورہ میں ہنگامہ برپا ہے.چنانچہ حضرت عائشہ راستے ہی سے مکہ واپس ہو گئیں اور لوگوں کو حضرت عثمان کا قصاص لینے اور فتنے کے خاتمہ کے لیے اکٹھا کیا.حضرت عائشہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بن عوام کی سرکردگی میں بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور یہ قافلہ وہاں سے بصرہ کی طرف روانہ ہوا.حضرت علی نے بھی یہ دیکھ کر بصرہ کا رخ کیا کہ یہ قافلہ ادھر جارہا ہے.بصرہ پہنچ کر حضرت عائشہ نے اہل شہر کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی.اہل شہر کی ایک بڑی تعداد حضرت عائشہ کے ساتھ شامل ہو گئی لیکن ایک جماعت نے حضرت علی کے مقرر کردہ بصرہ کے عامل عثمان بن حنیف کے ہاتھ پر بیعت کر لی.اس دوران دونوں جماعتوں میں جھڑ پیں بھی ہوئیں.حضرت علی نے حضرت عائشہ کے لشکر کے قریب پڑاؤ کیا.حضرت علی کا یہ لشکر بھی پہنچ گیا اور انہوں نے قریب پڑاؤ کیا.دونوں طرف سے مصالحت کی طرح ڈالی گئی، کوشش کی گئی اور مذاکرات کامیاب بھی ہو گئے مگر عین رات کے وقت وہ گروہ جو حضرت عثمان کے قتل میں شریک تھا اور اس کا ایک حصہ حضرت علی کے لشکر میں بھی شامل تھا.اس نے حضرت عائشہ کے لشکر پر حملہ کر دیا جس سے جنگ کا آغاز ہو گیا.حضرت عائشہ اونٹ سوار تھیں.جاں نثار یکے بعد دیگرے اونٹ کی مہار پکڑتے اور شہید ہوتے جاتے تھے.حضرت علیؓ نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت عائشہ جب تک اونٹ پر سوار رہیں گی جنگ ختم نہیں ہو گی.اس لیے آپ نے جنگجوؤں کو حکم دیا کہ اس اونٹ کو کسی نہ کسی طرح مار گر اؤ کیونکہ جنگ کا خاتمہ اس کے گرنے پر منحصر ہے.اس پر ایک شخص نے آگے بڑھ کر اونٹ کے پاؤں میں تلوار ماری اور وہ بلبلا کر بیٹھ گیا.حضرت علی

Page 470

حاب بدر جلد 3 450 حضرت علی کی فوج نے اونٹ کو چاروں طرف سے گھیر لیا.حضرت عائشہ کا اونٹ گر جانے پر اہل جمل منتشر ہو گئے.اس کے بعد حضرت علیؓ نے اعلان کرادیا کہ ہتھیار ڈالنے یا گھر کا دروازہ بند کرنے والا امن و امان میں ہے.کسی کا تعاقب نہ کیا جائے یہ کسی کے مال کو مالِ غنیمت سمجھ کر اس پر دست درازی نہ کی جائے.حضرت علی کی فوج نے اس حکم کی تعمیل کی.حضرت زبیر بن عوام اور حضرت طلحہ اسی جنگ میں شہید ہوئے.891 اس کا ایک حصہ ابن اثیر کی تاریخ سے خلاصہ لیا گیا ہے.ย حضرت خلیفہ المسیح الثانی اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ”انہی لوگوں کی ایک جماعت نے جو حضرت عثمان کے قتل میں شریک تھے حضرت عائشہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ آپ حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کا اعلان کر دیں.چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہ کو اپنی مدد کے لیے بلایا.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں حضرت علی اور حضرت عائشہ ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے لشکر میں جنگ ہوئی.“ یعنی حضرت طلحہ اور حضرت زبیر تو حضرت عائشہؓ کے لشکر میں تھے.حضرت علی کا اور حضرت عائشہ کا جو مین (main) لشکر تھا ان کی جنگ ہوئی.” جسے جنگ جمل کہا جاتا ہے.اس جنگ کے شروع میں ہی حضرت زبیر، حضرت علی کی زبان سے رسول کریم ملی ایم کی ایک پیشگوئی سن کر علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حضرت علی سے جنگ نہیں کریں گے اور اس بات کا اقرار کیا کہ اپنے اجتہاد میں انہوں نے غلطی کی.دوسری طرف حضرت طلحہ نے بھی اپنی وفات سے پہلے حضرت علی کی بیعت کا اقرار کر لیا.پہلے بھی گذشتہ خطبے میں اس کا ذکر ہو چکا ہے.کیونکہ روایات میں آتا ہے کہ وہ زخموں کی شدت سے تڑپ رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا.انہوں نے پوچھا تم کس گروہ میں سے ہو ؟ اس نے کہا حضرت علی کے گروہ میں سے.اس پر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ تیرا ہاتھ علی کا ہاتھ ہے اور میں تیرے ہاتھ پر حضرت علی کی دوبارہ بیعت کرتا ہوں.غرض باقی صحابہ کے اختلاف کا تو جنگ جمل کے وقت ہی فیصلہ ہو گیا مگر حضرت معاویہ کا اختلاف باقی رہا یہاں تک کہ جنگ صفین ہوئی.892 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مزید فرماتے ہیں کہ ” حضرت عثمان کے قاتلوں کے گروہ مختلف جہات میں پھیل گئے تھے اور اپنے آپ کو الزام سے بچانے کے لیے دوسروں پر الزام لگاتے تھے.جب ان کو معلوم ہوا کہ حضرت علی نے مسلمانوں سے بیعت لے لی ہے تو ان کو آپ پر الزام لگانے کا عمدہ موقع مل گیا اور یہ بات درست بھی تھی کہ آپ کے ارد گرد حضرت عثمان کے قاتلوں میں سے کچھ لوگ جمع ہو گئے تھے اس لیے ان کو الزام لگانے کا عمدہ موقع حاصل تھا.چنانچہ ان میں سے جو جماعت مکہ کی طرف گئی تھی اس نے حضرت عائشہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کا اعلان کریں.چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہ کو اپنی مدد کے لیے طلب کیا.حضرت طلحہ اور زبیر نے حضرت علی کی بیعت اس شرط پر کر لی تھی کہ وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے جلد سے جلد بدلہ لیں

Page 471

اصحاب بدر جلد 3 451 حضرت علی گے.انہوں نے جلدی کے جو معنی سمجھے تھے وہ حضرت علی کے نزدیک خلاف مصلحت تھے.ان کا خیال تھا حضرت علی کا خیال تھا کہ پہلے تمام صوبوں کا انتظام ہو جائے پھر قاتلوں کو سزا دینے کی طرف توجہ کی جائے کیونکہ اول مقدم اسلام کی حفاظت ہے.قاتلوں کے معاملہ میں دیر ہونے سے کوئی ہرج نہیں.اسی طرح قاتلوں کے تعین میں بھی اختلاف تھا.جو لوگ نہایت افسردہ شکلیں بنا کر سب سے پہلے حضرت علی کے پاس پہنچ گئے تھے اور اسلام میں تفرقہ ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کرتے تھے ان کی نسبت حضرت علی ہو بالطبع شبہ نہ ہو تا تھا کہ یہ لوگ فساد کے بانی ہیں، دوسرے لوگ ان پر شبہ کرتے تھے “ حضرت علی گوان پر شبہ نہیں تھا لیکن باقی کچھ لوگوں کو شبہ تھا.”اس اختلاف کی وجہ سے طلحہ اور زبیر نے یہ سمجھا کہ حضرت علی اپنے عہد سے پھرتے ہیں.چونکہ انہوں نے ایک شرط پر بیعت کی تھی اور وہ شرط ان کے خیال میں حضرت علی نے پوری نہ کی تھی اس لیے وہ شرعاً اپنے آپ کو بیعت سے آزاد خیال کرتے تھے.جب حضرت عائشہ کا اعلان ان کو پہنچا تو وہ بھی ان کے ساتھ جاملے اور سب مل کر بصرہ کی طرف چلے گئے.بصرہ میں گورنر نے لوگوں کو آپ کے ساتھ ملنے سے باز رکھا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ طلحہ اور زبیر نے صرف اکراہ سے “ مجبوری سے ” اور ایک شرط سے مقید کر کے حضرت علی کی بیعت کی ہے تو اکثر لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے.جب حضرت علی کو اس لشکر کا علم ہوا تو آپ نے بھی ایک لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے.بصرہ پہنچ کر آپ نے ایک آدمی کو حضرت عائشہ اور طلحہ اور زبیر کی طرف بھیجا.وہ آدمی پہلے حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ آپ کا ارادہ کیا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا ارادہ صرف اصلاح ہے.اس کے بعد اس شخص نے طلحہ اور زبیر کو بھی بلوایا اور ان سے پوچھا کہ آپ بھی اسی لیے جنگ پر آمادہ ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ ہاں.“ یعنی کہ اصلاح کی وجہ سے.اس شخص نے جواب دیا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح ہے تو اس کا یہ طریق نہیں جو آپ نے اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ تو فساد ہے.اس وقت ملک کی ایسی حالت ہے کہ اگر ایک شخص کو آپ قتل کریں گے تو ہزار اس کی تائید میں کھڑے ہو جائیں گے اور ان کا مقابلہ کریں گے تو اور بھی زیادہ لوگ ان کی مدد کے لیے کھڑے ہو جائیں گے.پس یہ تو سلسلہ چلتا جائے گا.” پس اصلاح یہ ہے کہ پہلے ملک کو اتحاد کی رسی میں باندھا جائے پھر شریروں کو سزادی جائے ورنہ اس بدامنی میں کسی کو سزا دینا ملک میں اور فتنہ ڈلوانا ہے.حکومت پہلے قائم ہو جائے تو وہ سزا دے گی.“ پہلے حکومت قائم ہو جائے پھر وہ سزا دے گی.”یہ بات سن کر انہوں نے کہا کہ اگر حضرت علی کا یہی عندیہ ہے تو وہ آجائیں، ہم ان کے ساتھ ملنے کو تیار ہیں.اس پر اس شخص نے حضرت علی کو اطلاع دی اور طرفین کے قائمقام ایک دوسرے کو ملے اور فیصلہ ہو گیا کہ جنگ کرنا درست نہیں، صلح ہونی چاہئے.جب یہ خبر سبائیوں کو (یعنی جو عبد اللہ بن سبا کی جماعت کے لوگ اور قاتلین حضرت عثمان تھے ) پہنچی تو ان کو سخت گھبراہٹ ہوئی اور خفیہ خفیہ ان کی ایک جماعت مشورہ کے لیے اکٹھی ہوئی.انہوں نے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ مسلمانوں میں صلح ہو جانی ہمارے لیے سخت مضر ہو

Page 472

اصحاب بدر جلد 3 452 حضرت علی گی کیونکہ اسی وقت تک ہم حضرت عثمان کے قتل کی سزا سے بچ سکتے ہیں جب تک کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے.اگر صلح ہو گئی اور امن ہو گیا تو ہمارا ٹھکانہ کہیں نہیں.“ کہیں بھی ہمارا ٹھکانہ نہیں ہو گا.اس لیے جس طرح سے ہو صلح نہ ہونے دو.اتنے میں حضرت علی بھی پہنچ گئے اور آپ کے پہنچنے کے دوسرے دن آپ کی “ یعنی اس علاقے میں اور آپ کی ”اور حضرت زبیر کی ملاقات ہوئی.وقت ملاقات حضرت علیؓ نے فرمایا کہ آپ نے میرے لڑنے کے لیے تو لشکر تیار کیا ہے مگر کیا خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لیے کوئی عذر بھی تیار کیا ہے ؟ آپ لوگ کیوں اپنے ہاتھوں سے اس اسلام کے تباہ کرنے کے درپے ہوئے ہیں جس کی خدمت سخت جانکاہیوں سے کی تھی.کیا میں آپ لو گوں کا بھائی نہیں ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ پہلے تو ایک دوسرے کا خون حرام سمجھا جاتا تھا لیکن اب حلال ہو گیا.اگر کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہوتی تو بھی بات تھی.جب کوئی نئی بات پیدا ہی نہیں ہوئی تو پھر یہ مقابلہ کیوں ہے ؟ اس پر حضرت طلحہ نے کہا، وہ بھی حضرت زبیر کے ساتھ تھے کہ آپ نے حضرت عثمان کے قتل پر لوگوں کو اکسایا ہے.حضرت علی نے فرمایا کہ میں حضرت عثمان کے قتل میں شریک ہونے والوں پر لعنت کرتا ہوں.پھر حضرت علیؓ نے حضرت زبیر سے کہا کہ کیا تم کو یاد نہیں کہ رسول کریم صلی علیہ ہم نے فرمایا تھا کہ خدا کی قسم ! تو علی سے جنگ کرے گا اور تو ظالم ہو گا یعنی حضرت زبیر کو فرمایا تھا."یہ سن کر حضرت زبیر اپنے لشکر کی طرف واپس لوٹے اور قسم کھائی کہ وہ حضرت علی سے ہر گز جنگ نہیں کریں گے اور اقرار کیا کہ انہوں نے اجتہاد میں غلطی کی.جب یہ خبر لشکر میں پھیلی تو سب کو اطمینان ہو گیا کہ اب جنگ نہ ہو گی بلکہ صلح ہو جائے گی لیکن مفسدوں کو سخت گھبراہٹ ہونے لگی جنہوں نے فساد پیدا کرنا تھا قدرتی بات ہے انہیں گھبراہٹ ہوئی تھی.ان کو گھبراہٹ ہونے لگی اور جب رات ہوئی تو انہوں نے صلح کو روکنے کے لیے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علی کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ و زبیر کے لشکر پر رات کے وقت شب خون مار دیا اور جو ان کے لشکر میں تھے.“ انہوں نے جو دوسرے لشکر میں تھے ”انہوں نے حضرت علی کے لشکر پر شب خون مار دیا.“ دونوں طرف جو منافق تھے ، بٹ کر شامل ہوئے تھے ناں، حضرت عائشہ کی طرف بھی اور حضرت علی کی طرف بھی.دونوں نے ایک دوسرے پر حملہ کر دیا.خود آپس میں نہیں لڑے ”جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شور پڑ گیا اور ہر فریق نے خیال کیا کہ دوسرے فریق نے اس سے دھوکا کیا حالانکہ اصل میں یہ صرف سبائیوں کا ایک منصوبہ تھا.جب جنگ شروع ہو گئی تو حضرت علی نے آواز دی کہ کوئی شخص حضرت عائشہ کو اطلاع دے.شاید ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اس فتنہ کو دور کر دے.چنانچہ حضرت عائشہ کا اونٹ آگے کیا گیا لیکن نتیجہ اور بھی خطرناک نکلا.مفسدوں نے یہ دیکھ کر کہ ہماری تدبیر پھر الٹی پڑنے لگی.حضرت عائشہ کے اونٹ پر تیر مارنے شروع کیے.حضرت عائشہ نے زور زور سے پکار ناشروع کیا کہ اے لوگو! جنگ کو ترک کرو اور خدا اور یوم حساب کو یاد کرو لیکن مفسد باز نہ آئے اور برابر آپ کے اونٹ پر تیر مارتے چلے گئے.چونکہ اہل بصرہ اس لشکر کے ساتھ تھے جو

Page 473

محاب بدر جلد 3 453 حضرت علی حضرت عائشہ کے ارد گرد جمع ہوا تھا ان کو یہ بات دیکھ کر سخت طیش آیا اور اُم المومنین کی یہ گستاخی دیکھ کر ان کے غصہ کی کوئی حد نہ رہی اور تلواریں کھینچ کر لشکر مخالف پر حملہ آور ہو گئے“ مخالف لشکر پر حملہ آور ہو گئے.اور اب یہ حال ہو گیا کہ حضرت عائشہ کا اونٹ جنگ کا مرکز بن گیا.صحابہ اور بڑے بڑے بہادر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک کے بعد ایک قتل ہونا شروع ہوا لیکن اونٹ کی باگ انہوں نے نہ چھوڑی.حضرت زبیر تو جنگ میں شامل ہی نہ ہوئے اور ایک طرف نکل گئے مگر ایک شقی نے ان کے پیچھے سے جاکر اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے ان کو شہید کر دیا.حضرت طلحہ عین میدان جنگ میں ان مفسدوں کے ہاتھ سے مارے گئے.جب جنگ تیز ہو گئی تو یہ دیکھ کر کہ اس وقت تک جنگ ختم نہ ہو گی جب تک حضرت عائشہ کو درمیان سے ہٹایا نہ جائے.بعض لوگوں نے آپ کے اونٹ کے پاؤں کاٹ دیئے اور ہودج اتار کر زمین پر رکھ دیا تب کہیں جا کر جنگ ختم ہوئی.اس واقعہ کو دیکھ کر حضرت علی کا چہرہ مارے رنج کے سرخ ہو گیا لیکن یہ جو کچھ ہوا اس سے چارہ بھی نہ تھا.جنگ کے ختم ہونے پر جب مقتولین میں حضرت طلحہ کی نعش ملی تو حضرت علی نے سخت افسوس کیا.ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس لڑائی میں صحابہ کا ہر گز کوئی دخل نہ تھا بلکہ یہ شرارت بھی قاتلان عثمان کی ہی تھی اور یہ کہ طلحہ اور زبیر حضرت علی کی بیعت ہی میں فوت ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے ارادہ سے رجوع کر لیا تھا اور حضرت علی کا ساتھ دینے کا اقرار کر لیا تھا لیکن بعض شریروں کے ہاتھوں سے مارے گئے.چنانچہ حضرت علیؓ نے ان کے قاتلوں پر لعنت بھی کی.“ رض 89366 جنگ جمل کے اختتام پر حضرت علی نے حضرت عائشہ کے لیے تمام سواری اور زاد راہ تیار کیا اور حضرت عائشہ کو چھوڑنے کے لیے خود تشریف لائے اور حضرت عائشہ کے ہمراہ جو لوگ جانا چاہتے تھے ان کو روانہ کیا.جس دن حضرت عائشہ نے روانہ ہونا تھا حضرت علی حضرت عائشہ کے پاس تشریف لائے اور آپ کے لیے کھڑے ہوئے اور تمام لوگوں کی موجودگی میں حضرت عائشہ لوگوں کے سامنے نکلیں اور کہا کہ اے میرے بیٹو! ہم نے تکلیف پہنچا کر اور زیادتی کر کے ایک دوسرے کو ناراض کر دیا.آئند ہ ہمارے ان اختلافات کے باعث کوئی شخص نبی ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرے اور خدا کی قسم ! میرے اور حضرت علی کے درمیان شروع سے کبھی کوئی اختلاف نہ تھا سوائے اس کے جو مرد اور اس کے سسرالی رشتہ داروں کے درمیان عام طور پر بات ہوا کرتی ہے.یعنی چھوٹی موٹی باتیں ہیں اور حضرت علی میری نیکیوں کے حصول کا ذریعہ ہیں.حضرت علیؓ نے فرمایا: اے لوگو !حضرت عائشہ نے اچھی اور سچی بات کہی ہے.میرے اور حضرت عائشہ کے درمیان محض یہی اختلاف تھا.حضرت عائشہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کریم صلی اللی علم کی زوجہ مطہرہ ہیں.حضرت علی حضرت عائشہ کو چھوڑنے کے لیے کئی میل ساتھ تشریف لے گئے اور حضرت علی نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت عائشہ کے ہمراہ جائیں اور ایک دن کے بعد واپس آجائیں.894 یہ طبری کا حوالہ تھا جو میں نے ابھی پڑھا ہے.

Page 474

حاب بدر جلد 3 454 حضرت علی رض حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ رسول کریم صلی ا یکم کے بعد بھی زندہ رہے اور جب حضرت عثمان کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوا اور ایک گروہ نے کہا کہ حضرت عثمان کے مارنے والوں سے ہمیں بدلہ لینا چاہیے تو اس گروہ کے لیڈر حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ تھے لیکن دوسرے گروہ نے کہا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑ چکا ہے.آدمی مراہی کرتے ہیں.سر دست ہمیں تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنا چاہئے تا کہ اسلام کی شوکت اور اس کی عظمت قائم ہو.بعد میں ہم ان لوگوں سے بدلہ لے لیں گے.اس گروہ کے لیڈر حضرت علی تھے.یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ نے الزام لگایا کہ علی ان لوگوں کو پناہ دینا چاہتے ہیں جنہوں نے حضرت عثمان کو شہید کیا ہے اور حضرت علی نے الزام لگایا کہ “ (جو یہ کہتے ہیں کہ فوری بدلہ لیا جائے) ان لوگوں کو اپنی ذاتی غرضیں زیادہ مقدم ہیں.اسلام کا فائدہ ان کے مد نظر نہیں ہے.گویا اختلاف اپنی انتہائی صورت تک پہنچ گیا اور پھر آپس میں جنگ بھی شروع ہوئی ایسی جنگ جس میں حضرت عائشہ نے لشکر کی کمان کی.آپ اونٹ پر چڑھ کر لوگوں کو لڑواتی تھیں اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی اس لڑائی میں شامل تھے.جب دونوں فریق میں جنگ جاری تھی تو ایک صحابی حضرت طلحہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ طلحہ ! تمہیں یاد ہے فلاں موقع پر میں اور تم رسول کریم صلی لی یکم کی مجلس میں نبیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کریم صلی ا ہم نے فرمایا.طلحہ ! ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم اور لشکر میں ہو گے اور علی اور لشکر میں ہو گا اور علی حق پر ہو گا اور تم غلطی پر ہو گے.حضرت طلحہ نے یہ سنا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے کہا ہاں ! مجھے یہ بات یاد آگئی ہے اور پھر اسی وقت لشکر سے نکل کر چلے گئے.جب وہ لڑائی چھوڑ کر جارہے تھے تاکہ رسول کریم لی لی نام کی بات پوری کی جائے تو ایک بد بخت انسان جو حضرت علی کے لشکر کا سپاہی تھا اس نے پیچھے سے جا کر آپ کو خنجر مار کر شہید کر دیا.حضرت علیؓ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے وہ اس خیال سے “ یعنی جو حضرت طلحہ کا قاتل تھا اس خیال سے کہ مجھے بہت بڑا انعام ملے گا دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا اے امیر المومنین! آپ کو آپ کے دشمن کے مارے جانے کی خبر دیتا ہوں.حضرت علی نے کہا.کون دشمن؟ اس نے کہا.اے امیر المومنین ! میں نے طلحہ کو مار دیا ہے.حضرت علی نے فرمایا اے شخص! میں بھی تجھے رسول کریم صلی یم کی طرف سے بشارت دیتا ہوں کہ تو دوزخ میں ڈالا جائے گا کیونکہ رسول کریم صلی علیم نے ایک دفعہ فرمایا ( جبکہ طلحہ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور میں بھی بیٹھا ہوا تھا) کہ اے طلحہ تو ایک دفعہ حق و انصاف کی خاطر ذلت برداشت کرے گا اور تجھے ایک شخص مار ڈالے گا مگر خدا اس کو جہنم میں ڈالے گا.پھر جنگ صفین ہوئی تھی.اس کے واقعات میں لکھا ہے کہ یہ جنگ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان 137 ہجری میں ہوئی تھی.صیفین شام اور عراق کے درمیان ایک مقام ہے.حضرت علی گوفہ سے فوج لے کر چلے اور جب صفین پہنچے تو دیکھا کہ شامی لشکر امیر معاویہ کی سر کردگی میں پہلے سے 89566

Page 475

صحاب بدر جلد 3 455 حضرت علی پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور ان کی ایک جماعت دریائے فرات کے گھاٹ پر قابض تھی.حضرت علی نے یقین دلایا کہ ہم لڑنے نہیں آئے بلکہ امیر معاویہ سے تصفیہ کرنے آئے ہیں تاہم امیر معاویہ تصفیہ پر رضامند نہ ہوئے.شامی لشکر نے حضرت علی کے لشکر کو دریائے فرات سے پانی لینے سے روک دیا.اس پر حضرت علیؓ نے اپنی فوج کو حملہ کرنے کا حکم دیا.اس طرح حضرت علی کی فوج شامی فوج کو پسپا کرنے اور اپنے لیے دریا تک کاراستہ بنانے میں کامیاب ہو گئی.حضرت علی نے شامیوں کو فرات سے پانی لے کر جانے کی کھلی اجازت بھی دے دی.شامیوں نے تو حضرت علی کو منع کیا تھا، پانی لینے سے روک دیا تھا لیکن آپ نے جب دریا پہ قبضہ کر لیا تو آپ نے ان کو پانی لینے سے نہیں روکا بلکہ اجازت دی.امیر معاویہ کا اصرار تھا کہ حضرت علیؓ قاتلین عثمان کو ان کے حوالے کر دیں.ایک دفعہ جب لڑائی چھڑ جانے کا خطرہ پیدا ہوا تو دونوں طرف کے صلح پسندوں نے روک تھام کروادی.جنگ کا آغاز صفر 137 ہجری میں شروع ہوا.جنگ سے قبل جھڑ ہیں ہوتی رہیں لیکن دونوں فریق عام جنگ کے مہلک نتائج سے خائف ہونے کے باعث گریز کرتے رہے.صلح کے ہر امکان کی گنجائش باقی رکھنے کی غرض سے فریقین اس پر متفق ہو گئے کہ حرمت والے مہینوں میں عارضی صلح کر لی جائے لیکن یہ تدبیر بھی کامیاب نہ ہوئی.چنانچہ آغاز صفر میں دوبارہ جنگ کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا.جب لڑائی کچھ مدت تک بغیر حتمی فیصلہ کے ہوتی رہی تو امیر معاویہ کی ہمت پست ہو گئی.اس خطر ناک حالت میں حضرت عمرو بن عاص نے انہیں مشورہ دیا کہ قرآن مجید کے نسخے نیزوں کے سروں پر بندھوائیں اور کہیں کہ اس کتاب کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جس کے نتیجہ میں حضرت علی کے متبعین میں اختلاف پید اہو گیا.ایک بڑی تعداد نے یہ کہہ دیا کہ اللہ سے فیصلہ چاہنے کی استدعا مسترد نہیں کی جاسکتی.اس طرح حضرت علی نے ہر اول دستے کو واپس بلا لیا اور لڑائی رک گئی.حضرت علی کی فوج کی اکثریت نے امیر معاویہ کی تجویز مان لی کہ دونوں فریق ایک ایک حکم کا انتخاب کریں اور یہ دونوں حکم مل کر قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق کسی فیصلہ پر پہنچ جائیں.کتب تاریخ میں اس واقعہ کو تحکیم کہا جاتا ہے.بہر حال شامیوں نے حضرت عمرو بن عاص کا انتخاب کیا اور حضرت علیؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو نامزد کیا اور اقرار نامہ پر دستخط کے بعد فوجیں منتشر ہو گئیں.یہ ابن اثیر کی تاریخ کا حوالہ ہے.896 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس بارے میں اس طرح تحریر فرمایا ہے ، بیان فرمایا ہے کہ اس جنگ میں حضرت معاویہ کے ساتھیوں نے یہ ہوشیاری کی کہ نیزوں پر قرآن اٹھا دیے اور کہا کہ جو کچھ قرآن فیصلہ کرے وہ ہمیں منظور ہے اور اس غرض کے لیے حکم مقرر ہونے چاہئیں.اس پر وہی مفسد جو حضرت عثمان کے قتل کی سازش میں شامل تھے اور جو آپ کی شہادت کے معا بعد اپنے بچاؤ کے لیے حضرت علی کے ساتھ شامل ہو گئے تھے انہوں نے حضرت علی پر یہ زور دینا شروع کر دیا کہ یہ بالکل درست کہتے ہیں.آپ فیصلہ کے لیے حکم مقرر کر دیں.حضرت علیؓ نے بہتیرا انکار کیا مگر انہوں نے اور کچھ ان کمزور طبع لوگوں

Page 476

اصحاب بدر جلد 3 456 حضرت علی نے جو اُن کے اس دھوکا میں آگئے تھے حضرت علی ہو اس بات پر مجبور کیا کہ آپ حکم مقرر کریں.چنانچہ معاویہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص اور حضرت علی کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری حکم مقرر ہوئے.یہ تحکیم دراصل قتل عثمان کے واقعہ میں تھی اور شرط یہ تھی کہ قرآن کریم کے مطابق فیصلہ ہو گا.“ اور یہ حکم اس لیے مقرر کیے گئے تھے کہ حضرت عثمان کا جو قتل ہے اس واقعہ کے بارے میں فیصلہ ہو گا اور یہ تھا کہ قرآن کریم کے مطابق جو بھی قاتل ہیں ان کو سزا دینے کے لیے یا ان کو پکڑنے کے لیے فیصلہ ہو گا.”مگر عمر و بن العاص اور ابو موسیٰ اشعری دونوں نے مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ بہتر ہو گا کہ پہلے ہم دونوں یعنی حضرت علی اور حضرت معاویہ گو ان کی امارت سے معزول کر دیں.“ تحکیم تو اس لیے تھی، اس لیے حکم مقرر کیے گئے تھے کہ حضرت عثمان کے قتل کے بارے میں فیصلہ کریں لیکن یہاں دونوں حکمین جو مقر ر کیے گئے تھے انہوں نے یہ ایک فیصلہ کر دیا کہ دونوں کو پہلے معزول کیا جائے پھر بعد میں بات ہو گی کیونکہ تمام مسلمان انہی دونوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا ہو رہے ہیں“ یہ ان دونوں کا خیال تھا اور پھر آزادانہ رنگ میں مسلمانوں کو کوئی فیصلہ کرنے دیں تاکہ وہ جسے چاہیں خلیفہ بنائیں حالانکہ وہ اس کام کے لیے مقرر ہی نہیں ہوئے تھے.“ یہ تو بات ہی غلط تھی جس کے بارے میں ان علمین نے سوچنا شروع کر دیا تھا کیونکہ وہ اس کام کے لیے مقرر نہیں کیے گئے تھے ”مگر بہر حال ان دونوں نے اس فیصلہ کا اعلان کرنے کے لیے ایک جلسہ عام منعقد کیا اور حضرت عمرو بن العاص نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے کہا کہ پہلے آپ اپنے فیصلہ کا اعلان کر دیں، بعد میں میں اعلان کر دوں گا.چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے اعلان کر دیا کہ وہ حضرت علی کو خلافت سے معزول کرتے ہیں.اس کے بعد حضرت عمرو بن العاص کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ابو موسیٰ نے حضرت علی و معزول کر دیا ہے اور میں بھی ان کی اس بات سے متفق ہوں اور حضرت علی کو خلافت سے معزول کرتا ہوں لیکن معاویہ کو میں معزول نہیں کرتا بلکہ اس کے عہدہ امارت پر انہیں بحال رکھتا ہوں (حضرت عمرو بن العاص خود بہت نیک آدمی تھے لیکن اس وقت حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ ” میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا تھا) اس وقت بہر حال وہ باوجود اس نیکی کے وہاں کسی طرح لوگوں کی باتوں میں آگئے یا کیا ہوا؟ یہ ایک علیحدہ مضمون ہے اس لیے اس بحث میں نہیں پڑتا لیکن بہر حال ان کا فیصلہ غلط تھا.” اس فیصلہ پر حضرت معاویہ کے ساتھیوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ جو لوگ محکم مقرر ہوئے تھے انہوں نے علی کی بجائے معاویہ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور یہ درست ہے مگر حضرت علی نے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ نہ حکم اس غرض کے لیے مقرر تھے اور نہ ان کا یہ فیصلہ کسی قرآنی حکم پر ہے.اس پر حضرت علی کے وہی منافق طبع ساتھی جنہوں نے حکم مقرر کرنے پر زور دیا تھا یہ شور مچانے لگ گئے کہ حکم مقرر ہی کیوں کیے گئے تھے جبکہ دینی معاملات میں کوئی حکم ہو ہی نہیں سکتا.حضرت علی نے جواب دیا کہ اول تو یہ بات معاہدہ میں شامل تھی کہ ان کا فیصلہ قرآن کے مطابق ہو گا جس کی انہوں نے تعمیل نہیں

Page 477

حاب بدر جلد 3 457 حضرت علی کی.کہ قرآن کے مطابق فیصلہ ہوا ہی نہیں.”دوسرے حکم تو خود تمہارے اصرار کی وجہ سے “مقرر کیے گئے تھے یا ” مقرر کیا گیا تھا اور اب تم ہی کہتے ہو کہ میں نے حکم کیوں مقرر کیا؟ ( یہ جو باغی تھے جو منافق غلط.تھے ) انہوں نے کہا ہم نے جھک مارا تھا اور ہم نے آپ سے جو کچھ کہا تھاوہ ہماری غلطی تھی.مگر سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ بات کیوں مانی.اس کے تو یہ معنی ہیں کہ ہم بھی گنہ گار ہو گئے اور آپ بھی.برابر ہو گئے دونوں.”ہم نے بھی غلطی کا ارتکاب کیا اور آپ نے بھی.اب ہم نے تو اپنی طی سے توبہ کرلی ہے.مناسب یہ ہے کہ آپ بھی توبہ کریں اور اس امر کا اقرار کریں کہ آپ نے جو کچھ کیا ہے ناجائز کیا ہے.اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ اگر حضرت علی نے انکار کیا تو وہ یہ کہہ کر آپ کی بیعت سے الگ ہو جائیں گے کہ انہوں نے چونکہ ایک خلاف اسلام فعل کیا ہے اس لیے ہم آپ کی بیعت میں نہیں رہ سکتے اور اگر انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اگر علی نے انکار کیا تو وہ یہ کہہ کر بیعت سے الگ ہو جائیں گے کہ خلافِ اسلام فعل کیا ہے اس لیے ہم آپ کی بیعت میں نہیں رہ سکتے اور اگر انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا.اور کہا کہ میں تو بہ کرتا ہوں تو بھی ان کی خلافت باطل ہو جائے گی کیونکہ جو خص اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرے وہ خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے.حضرت علی نے جب یہ باتیں سنیں تو کہا کہ میں نے کوئی غلطی نہیں کی.جس امر کے متعلق میں نے حکم مقرر کیا تھا اس میں کسی کو حکم مقرر کرنا شریعت اسلامیہ کی رو سے جائز ہے.باقی میں نے حکم مقرر کرتے وقت صاف طور پر یہ شرط رکھی تھی کہ وہ جو کچھ فیصلہ کریں گے اگر قرآن اور حدیث کے مطابق ہو گاتب میں اسے منظور کروں گاورنہ “ نہیں ”میں اسے کسی صورت میں بھی منظور نہیں کروں گا.انہوں نے چونکہ اس شرط کو ملحوظ نہیں رکھا اور نہ جس غرض کے لیے انہیں مقرر کیا گیا تھا اس کے متعلق انہوں نے کوئی فیصلہ کیا ہے اس لیے میرے لیے ان کا فیصلہ کوئی حجت نہیں.مگر انہوں نے حضرت علی کے اس عذر کو تسلیم نہ کیا اور بیعت سے علیحدہ ہو گئے اور خوارج کہلائے اور انہوں نے یہ مذہب نکالا کہ واجب الاطاعت خلیفہ کوئی نہیں.کثرت مسلمین کے فیصلہ کے مطابق عمل ہوا کرے گا کیونکہ کسی ایک شخص کو امیر واجب الاطاعت ماننا لا حُكْمَ الا للہ کے خلاف ہے." جنگ نهروان 138 ہجری میں ہوئی تھی.نہروان بغداد اور واسط کے درمیان واقع ہے.اس مقام پر حضرت علی اور خوارج کے درمیان جنگ لڑی گئی تھی.ابن اثیر کی تاریخ میں یوں لکھا ہے کہ جنگ صفین کے تصفیہ کے لیے حضرت علی کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری اور امیر معاویہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص حکم مقرر ہوئے.تاریخ میں اس واقعہ کو تحکیم کہتے ہیں.تحکیم کے معاملے میں حضرت علیؓ سے ان کے لشکر کے ایک گروہ نے اختلاف کیا اور بغاوت کرتے ہوئے علیحدہ ہو کر خوارج کہلایا.ان خوارج نے تحکیم کو گناہ قرار دے کر حضرت علی سے تو بہ کرنے اور خلافت سے معزولی کا مطالبہ کیا تو آپ نے صاف انکار کر دیا.کیوں انکار کیا 897❝ 898

Page 478

اصحاب بدر جلد 3 458 حضرت علی یہ وضاحت پہلے آچکی ہے.حضرت علی امیر معاویہ کے خلاف دوبارہ شام کی طرف پیش قدمی کی تیاری میں مصروف تھے کہ خوارج نے فسادی سر گرمیاں شروع کر دیں.انہوں نے عبد اللہ بن وہب کو اپنا امام بنایا اور کو فہ سے نہروان کی طرف چلے گئے.خوارج نے بصرہ میں بھی اپنا جتھا جمع کیا جو بعد ازاں نہروان میں عبد اللہ بن وہب کے لشکر سے جاملا.رسول اللہ صلی علیکم کے ایک صحابی عبد اللہ بن حباب کو حضرت علی کی طرفداری پر قتل کر دیا اور ان کی حاملہ بیوی کا پیٹ چاک کر کے نہایت بیدردی سے اسے بھی قتل کر دیا اور قبیلہ کے کی تین عورتوں کو بھی قتل کر دیا.حضرت علی ٹھیک جب یہ حالات پہنچے تو آپ نے تحقیق کے لیے حارث بن مرة کو سفیر کے طور پر بھیجا.جب وہ ان کے پاس گئے تو خوارج نے انہیں بھی قتل کر دیا.یہ حالات دیکھ کر حضرت علی نے شام جانے کا ارادہ ترک کیا اور تقریباً پینسٹھ ہزار کا لشکر جو شام کے لیے تیار کیا تھا اسے لے کر خوارج کے مقابلہ کے لیے نکلے.جب آپ نہروان مقام پر پہنچے تو خوارج کو صلح کی دعوت دی اور حضرت ابو ایوب انصاری کو جھنڈا دیا کہ جو اس کی پناہ میں آجائے گا اس سے جنگ نہیں کی جائے گی.یہ اعلان سن کر خوارج جن کی تعداد چار ہزار تھی ان میں سے ایک سو حضرت علی کے ساتھ شامل ہو گئے اور ایک بڑی تعداد کو فہ کو لوٹ گئی.صرف ایک ہزار آٹھ سو افراد عبد اللہ بن وہب خارجی کی سر کردگی میں آگے بڑھے اور حضرت علی کے پینسٹھ ہزار کے لشکر سے جنگ ہوئی جس میں تمام خوارج مارے گئے.ایک روایت کے مطابق خوارج کی معمولی تعداد جو کہ دس سے بھی کم تھی بیچ سکی.حضرت علیؓ کے لشکر میں سے سات آدمی شہید ہوئے.99 حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن نے بیان کیا کہ جب حضرت علی بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو الوداعی ملاقات کے لیے نبی کریم صلی علیم کی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ کی خدمت میں آئے.انہوں نے فرمایا آپ اللہ تعالیٰ کے حفظ و امان میں جائیں یعنی حضرت علی کو کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حفظ و امان میں جائیں.خدا کی قسم !یقینا آپ حق پر ہیں اور حق آپ کے ساتھ ہے.رسول اللہ صلی المی یوم نے ہمیں گھروں میں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے.اس لیے اگر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا ڈر نہ ہو تا تو میں آپ کے ہمراہ چلتی لیکن اللہ کی قسم ! تاہم میں اپنے بیٹے عمر کو آپ کے ساتھ روانہ کرتی ہوں جو میرے نزدیک سب سے افضل ہے اور وہ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہے.00 حضرت علی کی شہادت اور اس کا پس منظر حضرت مصلح موعود حضرت علی کی شہادت کے پس منظر میں بیان فرماتے ہیں کہ ”ابھی معاملات پوری طرح سمجھے نہ تھے کہ خوارج کے گروہ نے یہ مشورہ کیا کہ اس فتنہ کو اس طرح دور کرو کہ جس قدر بڑے آدمی ہیں ان کو قتل کر دو.چنانچہ ان کے دلیر یعنی بہادر لوگ جو تھے ، بعض جرآت والے لوگ جو تھے ” یہ اقرار کر کے نکلے کہ ان میں سے ایک حضرت علی ہو ، ایک حضرت معاویہ کو اور ایک عمر و بن

Page 479

تاب بدر جلد 3 459 حضرت علی رض العاص کو ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں قتل کر دے گا.جو حضرت معاویہ کی طرف گیا تھا اس نے تو حضرت معاویہ پر حملہ کیا لیکن اس کی تلوار ٹھیک نہیں لگی اور حضرت معاویہ صرف معمولی زخمی ہوئے.وہ شخص پکڑا گیا اور بعد ازاں قتل کیا گیا.جو عمر و بن العاص کو مارنے گیا تھا وہ بھی ناکام رہا کیونکہ وہ بوجہ بیماری نماز کے لیے نہ آئے تھے اور جو شخص ان کو نماز پڑھانے کے لیے آیا تھا“ یعنی اس وقت حضرت عمرو بن عاص کی جگہ ”اس نے اس کو مار دیا.“ جو عمرو بن عاص پہ حملہ کرنے گیا تھا خود پکڑا گیا اور بعد ازاں مارا گیا.شخص حضرت علی کو مارنے کے لیے نکلا تھا اس نے جبکہ آپ صبح کی نماز کے لیئے کھڑے ہونے لگے آپ پر حملہ کیا اور آپ خطر ناک طور پر زخمی ہوئے.آپ پر حملہ کرتے وقت اس شخص نے یہ الفاظ کہے کہ اے علی ! تیر احق نہیں کہ تیری ہر بات مانی جایا کرے بلکہ یہ حق صرف اللہ کو ہے.9016 حضرت علی کی شہادت کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرمائی تھی.حضرت عبید اللہ نے بیان کیا کہ نبی صلی الم نے حضرت علیؓ سے فرمایا اے علی ! کیا تم جانتے ہو کہ اولین اور آخرین میں سے سب سے بد بخت شخص کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا کہ پہلوں میں سب سے بدبخت شخص حضرت صالح کی اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والا تھا اور اتے علی ! آخرین میں سب سے بدبخت وہ شخص ہو گا جو تمہیں نیزہ مارے گا اور آپ صلی یم نے اس جگہ کی طرف اشارہ فرمایا جہاں آپ کو نیزہ مارا جائے گا.حضرت علی کی لونڈی ہم جعفر کی روایت ہے کہ میں حضرت علی کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہی تھی کہ آپ نے اپنا سر اٹھایا اور اپنی داڑھی کو پکڑ کر اسے ناک تک بلند کیا اور داڑھی کو مخاطب کر کے فرما یا واہ واہ! تیرے کیا کہنے.تم ضرور خون میں رنگی جاؤ گی.پھر جمعہ کے دن آپ شہید کر دیے گئے.حضرت علی کا واقعہ شہادت ایک جگہ اس طرح بیان ہوا ہے.ابن حنفیہ روایت کرتے ہیں کہ میں اور حضرت حسن اور حضرت حسین حمام میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے پاس ابن ملجم آیا.جب وہ داخل ہوا تو گویا حسنین نے اس سے نفرت کا اظہار کیا اور کہا کہ تیری یہ جرآت کہ اس طرح یہاں ہمارے پاس آئے.میں نے ان دونوں سے کہا کہ تم اسے منہ نہ لگاؤ.قسم سے کہ یہ تمہارے خلاف جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے.حضرت علی پر حملہ کے وقت ابن ملجم کو قیدی بنا کر لایا گیا تو ابن حنفیہ نے کہا میں تو اسے اس دن ہی اچھی طرح جان گیا تھا جس دن یہ حمام میں ہمارے پاس آیا تھا.اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ یہ قیدی ہے.لہذا اس کی اچھی طرح مہمان نوازی کرو اور اسے عزت کے ساتھ ٹھہراؤ.اگر میں زندہ رہا تو یا تو اسے قتل کروں گا یا اسے معاف کروں گا اور اگر میں مر گیا تو اسے میرے قصاص میں قتل کر دینا اور حد سے نہ بڑھنا.یقیناً اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا.

Page 480

محاب بدر جلد 3 460 حضرت علی حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ غلام قشم سے روایت ہے کہ حضرت علی نے میرے بڑے بیٹے کو اپنی وصیت میں لکھا کہ اس یعنی ابن ملجم کے پیٹ اور شرم گاہ میں نیزہ نہ مارا جائے.لوگوں نے بیان کیا کہ خوارج میں سے تین آدمیوں کو نامزد کیا گیا تھا عبد الرحمن بن ملجم مُرَادِی جو قبیلہ حمیر سے تھا اور اس کا شمار قبیلہ مُراد میں ہو تا تھا جو کندہ کے خاندان بَنُو جَبَلَہ کا حلیف تھا اور بُرك بن عبد اللہ تمیمی اور عمر و بن بگیر تمیمی یہ تینوں مکہ میں جمع ہوئے اور انہوں نے پختہ عہد و پیمان کیسے کہ وہ تین آدمیوں یعنی حضرت علی بن ابو طالب ، حضرت معاویہ بن ابو سفیان اور حضرت عمرو بن عاص کو ضرور قتل کریں گے ، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے.یہ نام ان تین قتل کرنے والوں کے تھے جس کا واقعہ حضرت مصلح موعودؓ نے شروع میں بیان کیا تھا، اور لوگوں کو ان سے نجات دلائیں گے.عبد الر حمن بن ملجم نے کہا میں علی بن ابو طالب کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں.برک نے کہا میں معاویہ کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں اور عمرو بن نگیر نے کہا میں تمہیں عمر و بن عاص سے نجات دلاؤں گا.اس کے بعد انہوں نے اس بات پر باہم پختہ عہد و پیمان کیا اور ایک دوسرے کو یقین دلایا کہ وہ اپنے نامزد کردہ شخص کو قتل کرنے کے عہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور وہ اس تک پہنچے گا یہاں تک کہ اسے قتل کر دے یا اس راہ میں اپنی جان دے دے یعنی اس حد تک وہ جائیں گے یا تو ان تینوں کو قتل کر دیں گے یا اپنی جان دے دیں گے ، واپس نہیں آئیں گے.انہوں نے آپس میں رمضان کی سترھویں رات اس غرض کے لیے مقرر کی.پھر ان میں سے ہر نص اس شہر کی طرف روانہ ہو گیا جس میں اس کا مطلوبہ شخص رہتا تھا یعنی جسے اس نے قتل کرنا تھا.عبد الرحمن بن ملجم کو فہ آیا اور اپنے خارجی دوستوں سے ملا مگر ان سے اپنے قصد کو پوشیدہ رکھا.وہ انہیں ملنے جاتا اور وہ اسے ملنے آتے رہے.اس نے ایک روز تیم الرِّبَاب قبیلہ کی ایک جماعت دیکھی جس میں ایک عورت قطام بنت شجته بن عدی تھی.حضرت علی نے جنگ نہروان میں اس کے باپ اور بھائی کو قتل کیا تھا.وہ عورت ابن ملجم کو پسند آئی تو اس نے اسے نکاح کا پیغام بھیجا.اس نے کہا میں اس وقت تک تجھ سے نکاح نہ کروں گی جب تک تو مجھ سے ایک وعدہ نہ کرے.ابن ملجم نے کہا کہ تو جو مانگے گی میں وہ تجھے دوں گا.اس نے کہا کہ تین ہزار اور علی بن ابی طالب کا قتل.درہم تین ہزار ہوں گے اور علی بن ابو طالب کا قتل.اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اس شہر میں علی بن ابو طالب کو قتل کرنے کے واسطے ہی آیا ہوں اور میں تجھے وہ ضرور دوں گا جو تو نے مانگا.پھر ابنِ مُلْجم ، شَبِيب بن بَجَرَة اشجعی سے ملا اور اسے اپنے ارادے سے آگاہ کیا اور اپنے ساتھ رہنے کا کہا.شبیب نے اس کی یہ بات مان لی.عبد الرحمن بن ملجم نے وہ رات جس کی صبح کو اس نے حضرت علی کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تھا اشعث بن قیس کندی کی مسجد میں اس سے سر گوشی کرتے ہوئے گزاری.طلوع فجر کے قریب اشعث نے اسے کہا، اٹھو صبح ہو گئی ہے.عبد الرحمن بن ملجم اور شبيب بن بجرة کھڑے ہو گئے اور اپنی تلواریں لے کر اس تھڑے کے بالمقابل آکر بیٹھ گئے جہاں سے حضرت علی نکلتے تھے.حضرت حسن

Page 481

ناب بدر جلد 3 461 حضرت علی بن علی بیان کرتے ہیں کہ میں صبح سویرے حضرت علی کے پاس آکر بیٹھ گیا.اس وقت حضرت علی نے فرمایا: میں رات بھر اپنے گھر والوں کو جگا تا رہا پھر بیٹھے بیٹھے میری آنکھوں پر نیند غالب آگئی تو خواب میں رسول اللہ صلی ا تم کو دیکھا.میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یعنی حضرت علی فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے آپ کی اُمت کی طرف سے ٹیڑھے پن اور شدید جھگڑے کا سامنا ہے.آپ صلی علی کرم نے فرمایا: ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے دعا کرو.میں نے کہا: اے اللہ ! مجھے ان کے بدلے میں وہ دے جو ان سے بہتر ہو اور ان کو میرے بدلے وہ دے جو مجھ سے بد تر ہو.اتنے میں ابنِ نَباخ مؤذن آئے اور کہا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے.حضرت حسن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑا تو وہ کھڑے ہو کر چلنے لگے.ابن نباخ آپ کے آگے تھے اور میں پیچھے.جب آپ دروازے سے باہر نکلے تو آپ نے آواز دی کہ اے لوگو! نماز، نماز.صلوۃ، صلوۃ کی آواز دیتے تھے.آپ ہر روز اسی طرح کیا کرتے تھے.جب آپ نکلتے تو آپ کے ہاتھ میں کوڑا ہو تا تھا اور آپ اُسے دروازوں پہ مار کے لوگوں کو جگایا کرتے تھے.عین اس وقت وہ دونوں حملہ آور آپ کے سامنے نکل آئے.عینی شاہدوں میں سے بعض کا کہنا ہے کہ میں نے تلوار کی چمک دیکھی اور ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے علی ! حکم اللہ کے لیے ہے نہ کہ تمہارے لیے.پھر میں نے دوسری تلوار دیکھی.پھر دونوں نے مل کر وار کیا.عبد الرحمن بن ملجم کی تلوار حضرت علی کی پیشانی سے سر کی چوٹی تک پڑی اور دماغ تک پہنچ گئی جبکہ شبیب کی تلوار دروازے کی لکڑی پر جالگی.میں نے حضرت علی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ آدمی تم سے بھاگنے نہ پائے.لوگ ہر طرف سے ان پر ٹوٹ پڑے مگر شبیب بیچ کر نکل گیا جبکہ عبدالرحمن بن ملجم گرفتار کر لیا گیا اور اسے حضرت علی کے پاس پہنچا دیا گیا.حضرت علی نے فرمایا کہ اسے اچھا کھانا کھلاؤ اور نرم بستر دو.اگر میں زندہ رہا تو میں اس کا خون معاف کرنے یا قصاص لینے کا زیادہ حق دار ہوں گا اور اگر میں فوت ہو گیا تو اسے بھی قتل کر کے میرے ساتھ ملادینا.میں رب العالمین کے پاس اس سے جھگڑوں گا.یعنی پھر آپ یہ معاملہ اللہ کے حضور میں پیش کریں گے.حضرت علی کی وصیت 902 جب حضرت علی کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت کی.آپ کی وصیت یہ تھی: بسم اللہ الرحمن الرحیم.یہ وہ وصیت ہے جو علی بن ابی طالب نے کی ہے.علی نے یہ وصیت کی ہے کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ یکتا ہے.اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمدعلی ای ام اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت اور دین حق دے کر مبعوث فرمایا تھا تا کہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کر دیں خواہ یہ بات مشرکین کو بُری ہی لگے.یقینا میری نماز اور میری قربانی اور

Page 482

صحاب بدر جلد 3 462 حضرت علی میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے.اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبر داروں میں سے ہوں.اس کے بعد اے حسن، اپنے بیٹے کو مخاطب فرمایا کہ میں تجھے اور اپنی تمام اولاد اور اپنے تمام گھر والوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارا پروردگار ہے اور یہ کہ تم حالت اسلام میں ہی دنیا سے رخصت ہونا.تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور آپس میں تفرقہ نہ کرنا کیونکہ میں نے ابو القاسم صلی علیم سے سنا ہے کہ باہمی تعلقات کی اصلاح کرنا نفل نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے.( یہ بڑی اہم بات ہے.اسے یادرکھنا چاہیے کہ باہمی تعلقات کی اصلاح کرنا نفل نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے.آپس میں صلح صفائی سے رہنا اصلاح کرنا اور کر وانا یہ بہت بڑی نیکی ہے ) تم اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنااس سے اللہ تعالیٰ تم پر حساب آسان فرما دے گا.یتیموں کے معاملات میں اللہ سے ڈرنا.نہ تو انہیں اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ اپنی زبان سے تم سے مدد طلب کریں اور نہ اس بات پر کہ وہ تمہارے سامنے ضائع ہو جائیں.پڑوسیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ یہ تمہارے نبی صلی ایم کی وصیت ہے.آپ ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کی وصیت کرتے رہے حتی کہ ہمیں گمان ہوا کہ کہیں آپ صلی میں کم پڑوسیوں کو وارث ہی نہ بنا دیں.قرآن کے معاملے میں اللہ سے ڈرو.قرآن پر عمل کرنے میں کہیں دوسرے تم پر سبقت نہ لے جائیں.نماز کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ یہ تمہارے دین کا ستون ہے.اپنے رب کے گھر کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور زندگی بھر اسے خالی نہ ہونے دو کیونکہ اگر وہ خالی چھوڑ دیا گیا تو اس جیسا کوئی گھر تمہیں نہ ملے گا.اور جہاد فی سبیل اللہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرو.اور زکوۃ کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ یہ رب کے غصہ کو بجھاتی ہے.اور اپنے نبی صلی للی کم کی ذمہ داری کے بارے میں اللہ سے ڈرو.تمہارے درمیان کسی پر ظلم نہ کیا جائے.اور اپنے نبی صلی علی ظلم کے صحابہ کے بارہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ رسول اللہ صلی علی کرم نے ان کے حق میں وصیت فرمائی ہے.اور فقراء اور مساکین کے بارہ میں بھی اللہ سے ڈرو اور انہیں اپنے سامان معیشت میں شریک کر و.اور ان کے بارے میں اللہ سے ڈرو جن کے مالک تمہارے داہنے ہاتھ ہوئے ہیں یعنی جن کی ذمہ واری تمہارے سپرد کی گئی ہے ان کے معاملات کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو.نماز کی حفاظت کرو.نماز کی حفاظت کرو.فرمایا اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی ملامت کرنے والے کا خوف مت کرو.اللہ تعالیٰ کی رضا سامنے ہونی چاہیے.( بہت اہم چیز ہے ) وہ خدا تمہارے لیے کافی ہو گا اس شخص کے خلاف جو تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے اور تمہارے خلاف بغاوت کرے.اور لوگوں سے نیک بات کہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو نہ چھوڑو ورنہ تم میں سے بڑے تمہارے حاکم بن جائیں گے.(بڑی اہم بات ہے امر المعروف اور نہی عن المنکر نیک کاموں کا کہنا اور بُرے کاموں سے روکنا اس پر ہمیشہ کار بند رہو.اس کو بھی نہ چھوڑ ناور نہ تم میں سے بڑے تمہارے حاکم بن جائیں گے ) پھر تم دعا کروگے مگر تمہاری دعائیں قبول

Page 483

اصحاب بدر جلد 3 463 حضرت علی نہ ہوں گی.(جو آج کل مسلمان ملکوں کا حال ہے ) ایک دوسرے سے رابطہ اور تعلق رکھو اور تکلفات کے بغیر ایک دوسرے کے کام آؤ.خبر دار ! ایک دوسرے سے دشمنیاں نہ بڑھاؤ، نہ قطع تعلق کرو اور نہ تفرقہ کرو اور نیکی اور تقویٰ میں باہم تعاون کرو اور گناہ اور سرکشی میں تعاون نہ کرو.اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.یقینا اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے.اے اہل بیت کے معزز افراد ! اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے اور تمہارے نبی صلی للی کم کی تمہارے ذریعہ حفاظت کرے یعنی تمہارے نیک نمونے کے ذریعہ رسول اللہ صلی علی کم گو یا ہمیشہ زندہ رہیں.میں تمہیں اللہ کے سپر د کر تاہوں اور تم پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتا ہوں.903 ابوستان کا بیان ہے کہ جب حضرت علی زخمی تھے تو وہ ان کی عیادت کے لیے گئے.راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اے امیر المومنین! آپ کی اس زخمی حالت پر ہمیں بہت تشویش ہو رہی ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا لیکن خدا کی قسم ! مجھے اپنے اوپر کوئی تشویش نہیں ہے کیونکہ صادق و مصدوق رسول للہ صلی علی یم نے مجھے بتا دیا تھا کہ تمہیں اس اس جگہ پر زخم آئیں گے اور آپ نے اپنی کنپٹیوں کی طرف اشارہ کیا پھر وہاں سے خون بہے گا حتی کہ تیری داڑھی رنگین ہو جائے گی اور ایسا کرنے والا اس امت کا سب سے بڑا بد بخت شخص ہو گا جیسا کہ اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والا قوم نمود کا سب سے بڑا بد بخت تھا.904 ایک روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے قاتل ابن ملجم کے بارے میں فرمایا اس کو بٹھاؤ.اگر میں مر گیا تو اسے قتل کر دینا مگر اس کا مقلہ نہ کرنا اور اگر میں زندہ رہا تو میں خود اس کی معافی یا قصاص کا فیصلہ کروں گا.905 حضرت مصلح موعود اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں کہ ” تاریخوں میں لکھا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ایک شخص نے خنجر کے ساتھ حملہ کیا اور آپ کا پیٹ چاک کر دیا وہ پکڑا گیا.“ بہر حال آپ نے یہ لکھا ہے کہ پیٹ چاک کیا.سر کا زخم بھی تھا.شاید پیٹ پر بھی زخم ہوا ہو یا ویسے ہی آپ کا خیال تھا یا محاورة بولا.کیونکہ اکثر روایتیں بہر حال سر کے زخم کی آتی ہیں.وہ پکڑا گیا تو صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کریں.آپ نے حضرت امام حسن کو بلوایا اور وصیت کی کہ اگر میں مر جاؤں تو میری جان کے بدلے اس کی جان نے لی جائے لیکن اگر میں بچ جاؤں تو پھر اسے قتل نہ کیا جائے.عمر و ذی مر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی کو تلوار کے زخم آئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے اپنا سر لپیٹا ہوا تھا.میں نے عرض کیا اے امیر المومنین! مجھے اپناز خم دکھائیں.آپ نے زخم سے کپڑا کھولا تو میں نے عرض کیا ہلکا ساز خم ہے اور کچھ نہیں ہے.آپ نے فرمایا: میں تم لوگوں سے جدا ہونے والا ہوں.اس پر آپ کی صاحبزادی اتم کلثوم پر دے کے پیچھے سے رو پڑیں.آپ نے اسے فرمایا چپ ہو جاؤ.اگر تم وہ دیکھ لو جو میں دیکھ رہا ہوں تو نہ روؤ.میں 906❝

Page 484

اصحاب بدر جلد 3 464 حضرت علی 907 نے عرض کی کہ اے امیر المومنین! آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا یہ فرشتوں اور نبیوں کے وفد ہیں اور یہ محمد رسول اللہ صلی میں کم ہیں جو فرمارہے ہیں (یعنی ایک نظارہ میں دیکھ رہا ہوں کہ فرشتوں اور نبیوں کے وفد ہیں، محمد رسول اللہ صلی علیکم بھی وہاں ہیں.آپ یعنی آنحضرت صلی علیہ یکم فرمارہے ہیں) کہ اے علی ! خوش ہو جاؤ کیونکہ جس طرف تم جارہے ہو وہ اس سے بہتر ہے جس میں تم موجود ہو.ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت علی اپنی وصیت سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میں آپ سب کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہتا ہوں.اس کے بعد کوئی بات نہیں کی سوائے لا الہ الا اللہ کے کلمہ کے، یہاں تک کہ آپ کی روح قبض ہو گئی.حضرت حسن بن علی ملکا خطبہ جب حضرت علی بن ابو طالب کی وفات ہوئی تو حضرت حسن بن علی منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو ! آج کی رات ایک ایسے شخص کی وفات ہوئی ہے کہ نہ اس سے پہلے لوگ اس سے سبقت لے جا سکے اور نہ بعد میں آنے والے اس کا مقام پاسکیں گے.رسول الله صلى علم جب اسے کسی مہم پر بھیجتے تو جبرئیل اس کے دائیں طرف اور میکائیل اس کے بائیں طرف ہوتے تھے اور وہ واپس نہ کو شنا تھا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح نہ عطا کر دیتا تھا.اس نے صرف سات سو درہم ترکہ چھوڑا ہے.اس کا ارادہ تھا کہ وہ اس رقم سے غلام خریدے اور اس کی روح اسی رات کو قبض کی گئی جس رات کو حضرت عیسیٰ کی روح کا رفع ہوا تھا یعنی ستائیس رمضان المبارک کی ایک اور روایت میں ہے حضرت علی کی شہادت کی تاریخ سترھویں رمضان کی رات سن چالیس ہجری بیان ہوئی ہے.یہ چالیس ہجری کا سال تھا اور آپ کا دور خلافت چار سال ساڑھے آٹھ ماہ رہا.208 حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کو بیان فرماتے ہیں.طبقات ابن سعد کی جلد ثالث میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وفات کے حالات میں حضرت امام حسن سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اے لو گو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اس کی بعض باتوں کو نہ پہلے پہنچے اور نہ بعد کو آنے والے پہنچیں گے.رسول اللہ صلی اللہ تم اسے جنگ کے لیے بھیجتے تھے تو جبرئیل اس کے دائیں طرف ہوتے تھے اور میکائیل بائیں طرف.پس وہ ہلافتح حاصل کیے واپس نہیں ہوتا تھا.بغیر فتح حاصل کیسے واپس نہیں ہو تا تھا اور اس نے صرف سات سو درہم اپنا ترکہ چھوڑا ہے جس سے اس کا ارادہ تھا کہ ایک غلام خریدے اور وہ اس رات کو فوت ہوا ہے جس رات عیسی بن مریم کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی تھی یعنی رمضان کی ستائیسویں تاریخ کو.حضرت علی کو ان کے دونوں بیٹوں اور حضرت عبد اللہ بن جعفر نے غسل دیا اور آپنے کے بیٹے حضرت حسن نے نماز جنازہ پڑھائی اور نماز جنازہ میں چار تکبیرات کہیں.آپ کو تین کپڑوں کا کفن دیا گیا 909

Page 485

محاب بدر جلد 3 465 حضرت علی جس میں قمیص نہیں تھی.آپ کی تدفین سحری کے وقت ہوئی.کہا جاتا ہے کہ حضرت علی کے پاس کچھ متبرک مشک تھا جو رسول اللہ صلی علی یم کے جسد مبارک کو لگائے گئے مشک سے بچا تھا اور حضرت علی کی وصیت تھی کہ وہ مشک آپ کی میت کو لگایا جائے.آپ کی عمر میں اختلاف پایا جاتا ہے.بعض نے کہا آپ کی عمر ستاون سال تھی، بعض کے نزدیک اٹھاون سال تھی، بعض کے نزدیک پینسٹھ سال تھی، بعض کے نزدیک تریسٹھ سال تھی.تاہم اکثریت کے نزدیک تریسٹھ سال والی روایت زیادہ درست تھی.910 حضرت علی کا مزار کہاں واقع ہے ؟ اس بارے میں بھی سوال اٹھتا ہے.اس کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں متفرق روایات ملتی ہیں جو یوں ہیں.حضرت علی کو رات کے وقت کوفہ میں دفن کیا گیا اور ان کی تدفین کو مخفی رکھا گیا.حضرت علی کو کوفہ کی جامع مسجد میں دفن کیا گیا.حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما نے حضرت علی کی لاش کو مدینہ منتقل کیا اور حضرت فاطمہ کی قبر کے پاس بقیع میں دفن کیا.ایک روایت یہ ہے کہ جب ان دونوں نے حضرت علی کی لاش کو ایک صندوق میں ڈال کر اونٹ پر رکھا تو اونٹ گم ہو گیا.اس اونٹ کو کے قبیلہ نے پکڑا.وہ اس صندوق کو مال سمجھ رہے تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ صندوق میں لاش ہے تو وہ اس کو پہچان نہیں سکے اور انہوں نے اس لاش کو صندوق سمیت دفن کر دیا اور کوئی نہیں جانتا کہ حضرت علی کی قبر کہاں ہے.پھر ایک روایت ہے کہ حضرت حسن نے حضرت علی کو کوفہ میں جعدہ بن ہبیرہ کی آل کے کسی حجرے میں دفن کیا تھا.کہا جاتا ہے کہ جعدہ حضرت علی کا بھانجا تھا.امام جعفر صادق کہتے ہیں کہ حضرت علی شکا رات کے وقت جنازہ پڑھا گیا اور کوفہ میں ان کی تدفین ہوئی اور ان کی قبر کے مقام کو مخفی رکھا گیا تا ہم وہ قصر امارت کے پاس تھا.ایک دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت علی کی وفات کے بعد حضرت امام حسن نے حضرت علی کا جنازہ پڑھایا اور کوفہ کے باہر حضرت علی کی تدفین کی گئی اور ان کی قبر کو اس خوف سے مخفی رکھا گیا کہ خوارج وغیرہ ان کی اور قبر کی بے حرمتی نہ کریں.بعض شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علی کا مزار نجف میں ہے، اس مقام پر جس کو آج کل مَشْهَدُ النجف کہتے ہیں.ایک روایت کے مطابق کوفہ میں حضرت علی کو شہید کیا گیا تا ہم آپ کی قبر کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے.حضرت علی کی وفات کے بعد حضرت امام حسن نے حضرت علی کا جنازہ پڑھایا اور کوفہ کے دارالامارہ میں حضرت علی کی تدفین کی گئی اس خوف سے کہ خوارج ان کی لاش کی بے حرمتی نہ کریں.علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ یہ روایت مشہور ہے اور جس نے یہ کہا کہ انہیں جانور پر رکھا گیا اور وہ اسے لے گیا اور کوئی نہ جان سکا کہ وہ جانور کہاں چلا گیا تو یہ درست نہیں ہے اور اس نے اس بارے میں تکلف سے کام لیا ہے جس کا اس کو کوئی علم نہیں اور نہ ہی عقل اور نہ ہی شریعت اس کا جواز پیش کرتی ہے اور جو اکثر جاہل روافض یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علی کا مزار مَشْهَدُ النَّجَف میں ہے تو

Page 486

اصحاب بدر جلد 3 466 حضرت علی اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی حقیقت ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہاں تو حضرت 911 مغیرہ بن شعبہ کی قبر ہے.امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ نجف میں مشہد کے نام سے جو مقام ہے اہل علم اس پر متفق ہیں کہ وہ حضرت علی کی قبر کا مقام نہیں بلکہ وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی قبر ہے.اہل بیت، شیعہ اور دیگر مسلمانوں نے کوفہ میں ان کی حکومت اور تین سو سال سے زیادہ بیت جانے کے باوجود کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ یہ حضرت علی کی قبر ہے.حضرت علی کی شہادت کے تین سو سال بعد اس جگہ کو مشہد علی کا نام دیا گیا ہے اس لیے یہ روایت بالکل غلط ہے کہ یہ حضرت علی کی قبر ہے.نیز علامہ ابن جوزی نے اپنی تاریخ کی کتاب میں حضرت علی کے مزار کے متعلق متفرق روایات جنہیں اوپر بیان کر دیا گیا ہے کو درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ واللهُ أَعْلَمُ أَي الْأَقْوَالِ اَصَحُ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون سا قول زیادہ درست اور صحیح ہے.3 شادی اور اولاد 913 912 حضرت علی کی جو شادیاں اور اولاد ہیں ان کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ حضرت علی نے مختلف وقتوں میں آٹھ شادیاں کیں جن کے نام یہ ہیں.فاطمہ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، خولہ بنت جعفر بن قیس لیلیٰ بنت مسعود بن خالد ، أقد البنين بنت حِزام بن خالد ، اسماء بنت عُمَيْس صَهْبَاء أُم حبيب بنت ربیعہ ، امامہ بنت ابو العاص بن ربیع.یہ آنحضرت صلی الی یکم کی صاحبزادی حضرت زینب کی بیٹی اور نبی کریم صلی للی کم کی نواسی تھیں.اُتم سعید بنت عُروة بن مسعود ثقفی.ان سے اللہ تعالیٰ نے ان کو کثیر اولاد عطا کی جن کی تعداد تیس سے زائد بنتی ہے.چودہ لڑکے اور انہیں لڑکیاں.آپ کی نسل حضرت حسن، حضرت حسین، محمد بن حَنَفِيَّه، عباس بن کلابیہ اور عمرو بن تغلبيه سے چلی.4 914 فضائل و مناقب حضرت علی کے فضائل و خصائل اور مناقب کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ : حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی یکم نے فرمایا: أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلَى بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ، فَلْيَأْتِ الْبَابَ کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے جو اس شہر کا قصد کرے اس کو چاہیے کہ وہ اس کے دروازے پر آئے.915 حضرت مصلح موعودؓ اس بات کو بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک دفعہ فرمایا کہ صحابہ میں سے زیادہ بہادر اور دلیر حضرت ابو بکرؓ تھے اور پھر انہوں نے کہا کہ جنگ بدر میں جب رسول کریم صلی الی نیم کے لیے ایک علیحدہ چبوترہ بنایا گیا تو اس وقت سوال پیدا ہوا کہ آج رسول اللہ صلی اللی کم کی حفاظت کا کام کس

Page 487

اصحاب بدر جلد 3 467 حضرت علی کے سپرد کیا جائے؟ اس پر حضرت ابو بکر فورانگی تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس انتہائی خطرے کے موقع پر نہایت دلیری سے آپ کی حفاظت کا فرض سر انجام دیا.اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی ا ہم نے ایک دفعہ فرمایا أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلَى بائیها یعنی کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے.پس حضرت علی ہو بھی رسول کریم صلی الی یکم نے علماء میں سے قرار دیا ہے مگر خیبر کی جنگ میں سب سے نازک وقت میں اسلام کا جھنڈار سول کریم صلی این یکم نے آپ ہی کے ہاتھ میں دیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی املی کام کے وقت علماء بزدل نہیں تھے بلکہ سب سے زیادہ بہادر تھے.916 یہ ذکر آپ علماء کی بہادری کا فرمارہے ہیں.اس ضمن میں یہ واقعہ بیان فرمایا.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ میں اپنے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے پتھر باندھتا تھا اور آج میر اصدقہ یعنی زکوۃ چار ہزار دینار تک پہنچ چکا ہے.ایک روایت میں چالیس ہزار دینار کا ذکر ہے.ابو بحر اپنے ایک استاد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی کو موٹی تہ بند پہنے دیکھا.آپ نے فرمایا: میں نے یہ پانچ درہم میں خریدی ہے جو مجھے اس پر ایک درہم کا نفع دے گا میں اسے یہ فروخت کر دوں گا.راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کے پاس چند درہم کی تھیلی دیکھی تو آپ نے کہا یہ ینبع کی جائیداد میں سے ہمارا بچنے والا نفقہ ہے.يَنْبع ایک بستی ہے جو مدینہ سے سات منزل دور تھی، ساحل سمندر کی طرف واقع ہے.آپ کی انگوٹھی پر ، حضرت علی کی انگوٹھی پر اللہ الملك کندہ تھا کہ اللہ ہی 917 918 بادشاہ ہے.جميع بن محمیر بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ کے پاس اپنی پھوپھی کے ساتھ آیا تو انہوں نے سوال کیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ صلی علیہم کو کون عزیز تھا؟ حضرت عائشہ نے فرمایا فاطمہ.پھر سوال کیا گیا کہ مردوں میں سے ؟ تو آپ نے فرمایا ان کے خاوند حضرت علی 18 حضرت ثعلبہ بن ابو مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ ہر میدان جنگ میں رسول اللہ صلی ال نیم کی طرف سے علمبر دار ہوتے تھے مگر جب لڑائی کا وقت آتا تھا تو حضرت علی بن ابو طالب جھنڈا تھام لیتے تھے.919 قبیلہ ثقیف کے ایک شخص نے بیان کیا کہ حضرت علی نے مجھے سابور علاقے کا عامل مقرر کیا.سابور فارس میں ایک علاقہ ہے جو شیر از سے کوئی تقریباً 75 میل کے فاصلہ پر ہے اور فرمایا کسی شخص کو بھی ایک درہم ٹیکس کی وجہ سے کوڑا نہ مارنا اور لوگوں کے رزق کے پیچھے نہ پڑنا اور نہ سردیوں یا گرمیوں میں ان کے کپڑوں کے پیچھے پڑنا.اس طرح ٹیکس نہیں لینا کہ کپڑے اتر جائیں اور نہ ان سے کسی ایسے جانور کا مطالبہ کرنا جسے وہ کام میں استعمال کرتے ہوں.کسی کو ایک درہم کی طلب میں کھڑے نہ رکھنا.

Page 488

محاب بدر جلد 3 468 حضرت علی یعنی جو بھی ٹیکس وصول کرنا ہے جزیہ وصول کرنا ہے اس کے لیے کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دینی، بوجھ نہیں ڈالنا.میں نے کہا یا امیر المومنین! پھر تو میں آپ کی طرف ایسے ہی لوٹوں گا جیسے میں آپ کے پاس سے جارہا ہوں.کچھ نہیں ملے گا.حضرت علی نے فرمایا تمہارا بھلا ہو.ہاں خواہ تم خالی ہاتھ ہی لوٹو ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں کے اس مال میں سے لیں جو اُن کی ضرورت سے زائد ہو.920 حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی تم نے حضرت علی سے فرمایا تم میرے بھائی اور میرے ساتھی ہو.921 علی بن ربیعہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی کے پاس حاضر تھا جب ان کے لیے ایک جانور لایا گیا تا کہ اس پر سوار ہوں.جب آپ نے رکاب میں پاؤں رکھا تو تین مرتبہ بسم اللہ کہا.جب اس کی پشت پر سیدھا بیٹھ گئے تو الحمد للہ کہا.پھر کہا سُبُحْنَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هُذَا وَ مَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَ إِنَّا إِلَى رَبَّنَا لمُنقَلِبُونَ (الزخرف : 14-15) یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع کر دیا جبکہ ہم اس کی قدرت نہیں رکھتے تھے اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.پھر آپ نے تین مرتبہ الحمد للہ اور تین مرتبہ اللہ اکبر کہا.پھر آپ نے یہ دعا پڑھی کہ سُبحَانَكَ إِنِّي قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا انْتَ.یعنی تو پاک ہے یقیناً میں نے ہی اپنی جان پر ظلم کیا.پس مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا.پھر آپ مسکرائے.راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین ! آپ کس وجہ سے مسکرائے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی علی نام کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا جس طرح میں نے کیا ہے.پھر آپ مسکرائے تھے اور حضرت علی کہتے ہیں کہ پھر میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! آپ کس وجہ سے مسکرائے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: یقیناً تیر ارب اپنے بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب ! میرے گناہ بخش دے.یقینا تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا.اس بات پر آنحضرت صلی ال یکم مسکرائے تھے.922 يحيى بن يَعْمُر سے مروی ہے کہ ایک بار حضرت علی بن ابو طالب نے خطاب کیا.اللہ تعالیٰ کی حمد و شنابیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: اے لوگو! تم سے پہلے لوگ صرف گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے ہلاک ہوئے.ان کے نیک لوگ اور علماء انہیں اس بات سے منع نہ کرتے تھے.پھر جب وہ گناہوں میں حد سے بڑھ گئے تو انہیں قسماقسم کی سزاؤں نے پکڑ لیا.پس تم لوگ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے رو کو قبل اس کے کہ تم پر بھی ان جیسا عذاب آجائے.یاد رکھو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا نہ تو تمہاری روزی گھٹائے گا اور نہ تمہاری موت کو قریب کرے گا.923 حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ ایک بار ہم رسول اللہ صلی نیلم کے ساتھ ایک انصاری عورت کے گھر میں تھے جس نے آپ کے لیے کھانا تیار کیا ہوا تھا، دعوت کی ہوئی تھی.نبی اکرم صلی الی یکم نے فرمایا:

Page 489

اصحاب بدر جلد 3 469 حضرت علی 925 ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا.اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی.پھر آپ نے دوبارہ فرمایا ابھی تمہارے پاس، ایک جنتی آدمی آئے گا.اس پر حضرت عمر داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارکباد دی.پھر تیسری دفعہ آپ نے فرمایا کہ ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا.راوی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اس وقت نبی کریم صلی کم اپنا سر کھجور کے ایک چھوٹے سے پودے کے نیچے چھپائے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو یہ آنے والا علی ہو.پھر حضرت علی داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارکباد دی.924 حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے اور وہ ہیں علی ، عمارہ اور سلمان.5 ابو عثمان تھدی سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی ل ی م میر اہاتھ تھامے ہوئے تھے اور ہم مدینہ کی ایک گلی سے گزر کر ایک باغ کے پاس پہنچے.میں نے عرض کی یارسول اللہ ! یہ باغ کس قدر خوبصورت ہے.آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا: تیرے لیے جنت میں اس سے بھی زیادہ خوبصورت باغ ہے.926 حضرت عمار بن ياسر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی ال یکم کو حضرت علیؓ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے علی ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ایسی خوبی عنایت کی ہے کہ اس سے بہتر خوبی اس نے اپنے بندوں کو عطا نہیں کی اور وہ ہے دنیا سے بے رغبتی.تمہیں اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ نہ تم دنیا میں سے کچھ لیتے ہو نہ دنیا تم میں سے کچھ لیتی ہے یعنی تمہیں دنیا کی، دنیا کی چیزوں کی کوئی خواہش نہیں ہے اور نہ ہی دنیا کی خواہش رکھنے والے لوگ تم سے کوئی تعلق رکھنا چاہتے ہیں.نیز تجھے اللہ تعالیٰ نے مساکین کی محبت عطا کی ہے وہ تم کو اپنا امام بنا کر خوش ہیں اور تم ان کو اپنا پیروکار بنا کر خوش ہو.پس خوشخبری ہو اس شخص کو جو تم سے محبت کرے اور تمہارے بارے میں سچ بولے اور ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو تم سے بغض رکھے اور تمہارے خلاف جھوٹ بولے.وہ لوگ جو تم سے محبت رکھتے ہیں اور تمہارے بارے میں سچ بولتے ہیں وہ جنت میں تمہارے گھر کے پڑوسی اور تمہارے محل میں تمہارے ساتھی ہوں گے اور جو لوگ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم پر جھوٹ باندھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمہ لے رکھی ہے کہ 92866 قیامت کے دن وہ انہیں سخت جھوٹوں کے کھڑے ہونے کی جگہ پر کھڑا کرے گا.927 حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا ہے کہ جنت میں جس درجہ میں میں ہوں گا اس میں علی اور فاطمہ ہوں گے.حضرت علی کے عشرہ مبشرہ میں ہونے کے بارے میں ذکر ہے کہ حضرت علی عشرہ مبشرہ یعنی ان دس خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی الیتیم کی زبان مبارک سے اسی دنیا میں جنت کی خوشخبری ملی.حضرت سعید بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں 9ر لوگوں کے بارے میں اس بات کی گواہی

Page 490

محاب بدر جلد 3 470 حضرت علی الله سة رض 929 دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے بارے میں بھی یہی کہوں یعنی گواہی دوں تو گناہگار نہیں ہوں گا.کہا گیا کہ وہ کیسے تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی الی ایم کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے تو وہ ہلنے لگا.اس پر آپ صلی الیکم نے فرمایا: ٹھہر اے حرا ! یقینا تجھ پر ایک نبی یا صدیق یا شہید ہے.کسی نے پوچھا وہ دس جنتی لوگ کون ہیں.حضرت سعید بن زید نے کہا رسول الله صل ال یکم خود، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ زبیر، سعد اور عبد الرحمن بن عوف ہیں اور کہا گیا کہ دسواں کون ہے ؟ تو حضرت سعید بن زید نے کہا: وہ میں (ہوں).یہ واقعہ جو بیان کرنے لگا ہوں یہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے لیکن نفس پر قابورکھنے اور انانیت کو دور کرنے کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے اس لیے میں یہاں دوبارہ یہ بیان کر رہا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " کہتے ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دشمن سے لڑتے تھے اور محض خدا کے لیے لڑتے تھے.آخر حضرت علی نے اس کو اپنے نیچے گرا لیا اور اس کے سینہ پر چڑھ بیٹھے.اس نے جھٹ حضرت علی کے منہ پر تھوک دیا.آپ فوراً اس کی چھاتی پر سے اتر آئے اور اسے چھوڑ دیا.اس لئے کہ اب تک تو میں محض خدا تعالیٰ کے لئے تیرے ساتھ لڑتا تھا لیکن اب جبکہ تُو نے میرے منہ پر تھوک دیا ہے تو میرے پنے نفس کا بھی کچھ حصہ اس میں شریک ہو جاتا ہے.پس میں نہیں چاہتا کہ اپنے نفس کے لئے تمہیں نتقل کروں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کے دشمن کو دشمن نہیں سمجھا.ایسی فطرت اور عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.“ آپ جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں.”اگر نفسانی لالچ اور اغراض کے لئے کسی کو دکھ دیتے اور عداوت کے سلسلوں کو وسیع کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی کیا بات ہو گی ؟ 930 پھر آپ نے ایک اور موقع پر تفصیل سے بیان فرمایا اور اس پر مزید روشنی ڈالی.فرماتے ہیں کہ "جوش نفسانی اور للہی جوش میں فرق کے واسطے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک واقعہ سے سبق حاصل کرو.لکھا ہے کہ حضرت علی کا ایک کافر پہلوان کے ساتھ جنگ شروع ہوا.بار بار آپ اس کو قابو کرتے تھے وہ قابو سے نکل جاتا تھا.آخر اس کو پکڑ کر اچھی طرح سے جب قابو کیا اور اس کی چھاتی پر سوار ہو گئے اور قریب تھا کہ خنجر کے ساتھ اس کا کام تمام کر دیتے کہ اس نے نیچے سے آپ کے منہ پر تھوک دیا.جب اس نے ایسا فعل کیا تو حضرت علی اس کی چھاتی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کو چھوڑ دیا اور الگ ہو گئے.اس پر اس نے تعجب کیا اور حضرت علی سے پوچھا کہ آپ نے اس قدر تکلیف کے ساتھ پکڑا اور میں آپ کا جانی دشمن ہوں اور خون کا پیاسا ہوں.پھر باوجود ایسا قابو پا چکنے کے آپ نے مجھے اب چھوڑ دیا.یہ کیا بات ہے ؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ ہماری تمہارے ساتھ کوئی ذاتی عداوت نہیں.چونکہ تم دین کی مخالفت کے سبب مسلمانوں کو دکھ دیتے ہو اس واسطے تم واجب القتل ہو اور میں

Page 491

محاب بدر جلد 3 471 حضرت علی محض دینی ضرورت کے سبب تم کو پکڑتا تھا.لیکن جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا اور اس میں مجھے غصہ آیا تو میں نے خیال کیا کہ یہ اب نفسانی بات درمیان میں آگئی ہے.اب اس کو کچھ کہنا جائز نہیں تا کہ ہمارا کوئی کام نفس کے واسطے نہ ہو.جو ہو سب اللہ تعالیٰ کے واسطے ہو.جب میری اس حالت میں تغیر آئے گا اور یہ غصہ دور ہو جائے گا تو پھر وہی سلوک تمہارے ساتھ کیا جائے گا.اس بات کو سن کر کافر کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ تمام کفر اس کے دل سے خارج ہو گیا اور اس نے سوچا کہ اس سے بڑھ کر اور کون سادین دنیا میں اچھا ہو سکتا ہے جس کی تعلیم کے اثر سے انسان ایسا پاک نفس بن جاتا ہے.پس اس نے اسی وقت توبہ کی اور مسلمان ہو گیا.931 پس یہ ہے اصل تقویٰ جو نتیجہ بھی دکھاتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے بھی کم و بیش اس یہودی کی حضرت علی سے لڑائی کے واقعہ کو اسی طرح بیان فرمایا ہے.فرماتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک لڑائی میں شامل تھے.ایک بہت بڑا دشمن جس کا مقابلہ بہت کم لوگ کر سکتے تھے آپ کے مقابلہ پر آیا اور کئی گھنٹے تک آپ کی اور اس یہودی پہلو ان کی لڑائی ہوتی رہی.آخر کئی گھنٹے کی لڑائی کے بعد آپ نے اس یہودی کو گر الیا اور اس کے سینہ پر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ خنجر سے اس کی گردن کاٹ دیں کہ اچانک اس یہودی نے آپ کے منہ پر تھوک دیا.آپ فوراً اسے چھوڑ کر سیدھے کھڑے ہو گئے اور وہ یہودی سخت حیران ہوا اور کہنے لگا یہ عجیب بات ہے کہ کئی گھنٹے کی کشتی کے بعد آپ نے مجھے گرایا ہے اور اب یکدم مجھے چھوڑ کر الگ ہو گئے ہیں.یہ آپ نے کیسی بیوقوفی کی ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: میں نے بیوقوفی نہیں کی بلکہ جب میں نے تمہیں گرایا اور تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو یکدم میرے دل میں غصہ پیدا ہوا کہ اس نے میرے منہ پر کیوں تھوکا ہے مگر ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ اب تک تو میں جو کچھ کر رہا تھا خدا کے لئے کر رہا تھا اگر اس کے بعد میں نے لڑائی جاری رکھی تو تیرا خاتمہ میرے نفس کے غصہ کی وجہ سے ہو گا.“ یعنی حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس یہودی کو ختم کرنا میرے ذاتی غصہ کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ”خدا کی رضا کے لئے نہیں ہو گا.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس وقت میں تجھے چھوڑ دوں.جب غصہ جاتا رہے گا تو پھر خدا کے لئے میں تجھے گرالوں گا.“ 932 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” حضرت امام حسین صاحب نے ایک دفعہ سوال کیا یعنی حضرت علی سے ”کہ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں؟ حضرت علیؓ نے فرمایا ہاں.حضرت حسین علیہ السلام نے اس پر بڑا تعجب کیا اور کہا کہ ایک دل میں دو محبتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں ؟ پھر حضرت امام حسین علیہ السلام نے کہا کہ وقت مقابلہ پر آپ کس سے محبت کریں گے؟ فرمایا ( حضرت علیؓ نے فرمایا ”اللہ سے.933 اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ: ”حضرت حسنؓ نے

Page 492

حاب بدر جلد 3 472 حضرت علی حضرت علی سے ایک سوال کیا کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے ؟ حضرت علی نے فرمایا ہاں.حضرت حسنؓ نے پھر سوال کیا کہ کیا آپ کو خدا تعالیٰ سے بھی محبت ہے ؟ حضرت علیؓ نے فرمایا ہاں.حضرت حسن نے کہا تب تو آپ ایک رنگ میں شرک کے مرتکب ہوئے.شرک اسی کو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کی محبت میں کسی اور کو شریک بنالیا جائے.حضرت علیؓ نے فرمایا حسن! میں شرک کا مر تکب نہیں ہوں.میں بیشک تجھ سے محبت کرتا ہوں لیکن جب تیری محبت خدا تعالیٰ کی محبت سے ٹکرا جائے تو میں فوراً اسے چھوڑ دوں گا.934 9356 پھر حضرت مصلح موعودؓ حضرت علی کے بارے میں ایک جگہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”حضرت علی ہو جب کوئی بڑی مصیبت پیش آتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ یا کھیعص اغْفِر لی.یعنی اسے کھیعص ! مجھے معاف فرما دے.ائم ہانی کی ایک روایت کے مطابق ان مقطعات کے یہ معنی ہیں.رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا کہ کاف قائم مقام صفت کافی کا ہے، ہاء قائم مقام صفت بادی کا ہے اور عین قائم مقام صفت عالم یا علیم کی ہے اور ص قائم مقام صفت صادق کی ہے.136 یعنی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ ! تو کافی ہے.تو ہادی ہے.تو علیم ہے اور تو سچا ہے ، صادق ہے.تیری تمام صفات کا واسطہ ہے کہ مجھے بخش دے.حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ : مفسرین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ اپنے ایک نوکر کو آواز دی مگر وہ نہ بولا.آپ نے بار بار آواز دی مگر پھر بھی اس نے کوئی جواب نہ دیا.تھوڑی دیر کے بعد وہ لڑکا اتفاقاً آپ کو سامنے نظر آگیا تو آپ نے اس سے پوچھا مَالَكَ لَمْ تُجِننِی کہ تجھے کیا ہو گیا کہ میں نے تجھے اتنی بار بلایا مگر تو پھر بھی نہیں بولا قال لثقنِی بِحِلْمِكَ وَآمَن مِنْ عُقُوبَتِكَ فَاسْتَحْسَنَ جَوَابَهُ وَاغْتَقَهُ اس نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ مجھے آپ کی نرمی کا یقین تھا اور آپ کی سزا سے میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہوں.اس لئے میں نے آپ کی بات کا جواب نہ دیا.حضرت علی کو اس لڑکے کا یہ جواب پسند آیا تو آپ نے اسے آزاد کر دیا.937 اب کوئی دنیا دار ہو تا تو شاید اسے سزا دیتا کہ تومیری نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن آپ نے اس کو انعام سے نوازا.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت علی کے بیٹوں حسن اور حسین کو ایک پڑھایا کرتا تھا.حضرت علی ایک دفعہ اپنے بچوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے سنا کہ آپ کے بچوں کو ان کا استاد خاتم النبیین پڑھا رہا تھا.حضرت علیؓ نے فرمایا: میرے بچوں کو حَاتِم النبیین نہ پڑھاؤ بلکہ خاتم النبیین پڑھایا کرو یعنی 'ت کے نیچے زیر کے بجائے 'ت' کے اوپر زبر کے ساتھ پڑھاؤ.”یعنی بیشک شخص

Page 493

اصحاب بدر جلد 3 473 حضرت علی یہ دونوں قراء تیں ہیں لیکن میں خاتم النبیین کی قراءت کو زیادہ پسند کرتا ہوں کیونکہ خاتم النبیین کے معنی ہیں نبیوں کی مہر اور خاتم النبیین کے معنی ہیں نبیوں کو ختم کرنے والا.میرے بچوں کو تاء کی زبر سے پڑھایا کرو.938 پھر حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں ” حضرت علی کی نسبت بھی ثابت ہو تا ہے کہ وہ قرآن شریف کے حافظ تھے بلکہ انہوں نے قرآن شریف کے نزول کی ترتیب کے لحاظ سے قرآن لکھنے کا کام رسول کریم صلی علیم کی وفات کے معابعد شروع کر دیا تھا.939 ایک جگہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ”رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کسی صحابی نے کھانے پر بلایا.بعض صحابہ بھی مدعو تھے جن میں حضرت علی بھی شامل تھے.آٹے کی عمر نسبتاً چھوٹی تھی“ حضرت علی کی عمر چھوٹی تھی اس لئے بعض صحابہ کو آپ سے مذاق کی سو جھی.وہ کھجوریں کھاتے جاتے تھے اور گٹھلیاں حضرت علی کے سامنے رکھتے جاتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسی طرح کر رہے تھے.حضرت علی جوان تھے کھانے میں مصروف رہے اور اس طرف نہیں دیکھا.جب دیکھا تو گٹھلیوں کا ڈھیر آپ کے سامنے لگا ہوا تھا.صحابہ نے مذاقا حضرت علی سے کہا تم نے ساری کھجوریں کھالی ہیں !! یہ دیکھو! ساری گٹھلیاں تمہارے آگے پڑی ہیں.حضرت علی کی طبیعت میں بھی مذاق تھا.چڑچڑا پن نہیں تھا.چڑ چڑا پن ہو تا تو آپ صحابہ سے لڑ پڑتے اور کہتے کہ آپ مجھ پر الزام لگاتے ہیں یا مجھ پر بدظنی کرتے ہیں.حضرت علی سمجھ گئے کہ یہ مذاق ہے جو اُن سے کیا گیا ہے.“ حضرت علی نے سوچا کہ ”اب میری خوبی یہ ہے کہ میں بھی اس کا جواب مذاق میں دوں.“ چنانچہ آپ نے فرمایا : آپ سب گٹھلیاں بھی کھا گئے ہیں لیکن میں گٹھلیاں رکھتارہا ہوں کہ آپ سب لوگ جب کھا رہے تھے تو گٹھلیوں سمیت کھجوریں کھا گئے ہیں لیکن میں نے گٹھلیاں رکھی ہوئی ہیں ” اور ثبوت اس کا یہ ہے کہ گٹھلیوں کا ڈھیر میرے سامنے پڑا ہے.صحابہ پر یہ مذاق الٹ پڑا.940 940❝ حضرت مصلح موعود ایک جگہ حضرت علیؓ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ”حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی للی کم قرآن مجید کی تلاوت فرمارہے تھے کہ حضرت علی نے لقمہ دیا.نماز کے بعد آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ تمہارا کام نہ تھا.غلطی کی طرف توجہ دلانے کے لئے میں نے آدمی مقرر کئے ہوئے ہیں.941 نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے تو کہیں آگے پیچھے ہو گیا ہو گا اور حضرت علی نے لقمہ دیا تو آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ میں نے اس کے لیے مقرر کیے ہوئے ہیں تم نہ دو.حالانکہ حضرت علیؓ بھی کافی عالم تھے.حضرت مصلح موعودؓ ایک اور جگہ بیان فرماتے ہیں کہ : " قرآن کریم میں حکم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی مشورہ لو تو پہلے صدقہ دے لیا کرو.کہتے ہیں حضرت علی نے اس حکم

Page 494

ب بدر جلد 3 474 حضرت علی سے پہلے کبھی آنحضرت صلی اللہ کم سے کوئی مشورہ نہ لیا تھا مگر جب یہ حکم نازل ہوا تو حضرت علی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ رقم بطور صدقہ پیش کر کے عرض کیا کہ میں کچھ مشورہ لینا چاہتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے الگ جا کر حضرت علی سے باتیں کیں.کسی دوسرے صحابی نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ کیا بات تھی جس کے متعلق آپ نے مشورہ لیا؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ کوئی خاص بات تو مشورہ طلب نہ تھی مگر میں نے چاہا کہ قرآن کریم کے اس حکم پر بھی عمل ہو جائے.942" یہ تھے صحابہ کے طریق.ایک جگہ یہ واقعہ اس طرح بھی ملتا ہے کہ ایک صحابی لوگوں کے گھروں میں جایا کرتے تھے کہ قرآن کریم کا یہ جو حکم ہے کہ اگر تمہیں کوئی گھر والا کہے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس جاؤ.کہتے ہیں میں نے کئی دفعہ کوشش کی بلکہ بعض دفعہ روزانہ کوشش کی، کسی نہ کسی گھر میں جاتا کہ کوئی مجھے کہے کہ واپس چلے جاؤ اور میں خوشی خوشی واپس آجاؤں تا کہ قرآن کریم کے حکم کی تعمیل ہو جائے لیکن میری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی.کسی گھر والے نے کبھی مجھے یہ نہیں کہا کہ واپس چلے جاؤ.943 944 66 آج کل اگر ہم کسی کو کہیں کہ مصروف ہیں، واپس چلے جاؤ یا ملاقات نہیں ہو سکتی تو لوگ بر امان جاتے ہیں لیکن صحابہ کا تقویٰ یہ تھا کوشش کرتے تھے کہ قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کریں.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی ا ہم نے ایک دفعہ کسی غرض کے لئے صحابہ سے چندہ مانگا.حضرت علی باہر گئے گھاس کاٹا اور اسے بیچ کر جو قیمت ملی وہ چندہ میں دے دی.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ایک دفعہ واقعات بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ غالباً اپنے درس میں بیان فرمایا تھا کہ حضرت علامہ عبید اللہ صاحب بسمل ایک چوٹی کے شیعہ عالم تھے.اتنے بزرگ اور اتنے علم میں گہرے اور متبحر کہ جب یہ احمدی ہو گئے تو اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ہی نہیں بعد میں پارٹیشن تک، پارٹیشن کے بعد بھی ان کی بعض کتب ابھی تک تدریس کے طور پر شیعہ مدرسوں میں پڑھائی جارہی ہیں کیونکہ مجھے یاد ہے خلیفتہ المسیح الرابع کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شیعہ دوست میرے پاس گفتگو کے لیے آئے جب میں وقف جدید میں ہوتا تھا تو گفتگو کے بعد انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا اور اللہ کے فضل سے احمدی ہو گئے.اس فیصلہ کے بعد انہوں نے بتایا کہ میں پہلے آپ کو بتایا نہیں کرتا تھا.پہلے وہ ایک شیعہ عالم تھے ، ان کا مجھے عہدہ یاد نہیں مگر وہ شیخو پورہ کے کسی گاؤں یا فیصل آباد کے کسی گاؤں، ان کے بازو کے علاقے کے تھے کہیں کے ، انہوں نے بتایا کہ میں شیعوں میں یہ مرتبہ رکھتا ہوں، عالم ہوں.یعنی کہ یہ جو آدمی جنہوں نے بیعت کی ان کے بارے میں خلیفہ رابع بتارہے ہیں کہ وہ شیعہ عالم تھے.اور (وہ کہتے ہیں ) میں عالم ہوں اور شیعوں میں کافی مر تبہ رکھتا ہوں لیکن آج میں آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ ابھی تک عبید اللہ صاحب مسمل کی کتب ہمارے مدرسوں

Page 495

محاب بدر جلد 3 475 حضرت علی میں پڑھائی جارہی ہیں.اتنا ان کا رعب ہے ، ان کے علم کا اور ہمیں یہ لوگ بتاتے نہیں.خلیفہ رابع کہتے ہیں ہمیں یہ شیعہ لوگ نہیں بتاتے کہ کس طرح وہ بسمل صاحب کی کتابیں پڑھارہے ہیں.آپ بتارہے ہیں کہ مجھے تو ویسے پتہ لگ گیا ہے اس عالم کے ذریعہ سے.لیکن یہ وہاں پڑھاتے ہوئے نہیں بتاتے کہ وہ کون تھا اور بعد میں، بسمل صاحب کے ساتھ کیا ہوا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کیا اور ان ساری عزتوں کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا جو ان کو اس زمانے میں شیعہ مسلک سے حاصل تھیں.یہ ان کی کتب کا حوالہ ہے یعنی کسی معمولی آدمی کا حوالہ نہیں ہے.اس کتاب کا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع حوالہ دے رہے ہیں.یہ ساری تمہید باندھ کے کہ البزار نے اپنی مسند میں لکھا ہے کہ حضرت علی نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ جواب دیا کہ آپ سب سے زیادہ بہادر ہیں.آپ نے فرمایا کہ میں تو ہمیشہ اپنے برابر کے جوڑ سے لڑتا ہوں پھر میں سب سے زیادہ بہادر کیسے ہوا؟ اب تم یہ بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ حضرت علی نے دوبارہ پوچھا.یہ بسمل صاحب نے ایک کتاب کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہوا ہے.لوگوں نے کہا کہ جناب ہم کو نہیں معلوم آپ ہی فرمائیں.آپ نے ارشاد کیا کہ سب سے زیادہ بہادر اور شجاع حضرت ابو بکر ہیں.آپ نے ارشاد کیا یعنی حضرت علی نے ارشاد کیا کہ سب سے زیادہ بہادر اور شجاع حضرت ابو بکر نہیں.سنو ! جنگ بدر میں ہم نے رسول خداصلی مینی کیم کے لیے ایک سائبان بنایا تھا.ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سائبان کے نیچے رسول اللہ صلی الم کے ساتھ کون رہے گا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مشرک رسول اللہ صلی علی تم پر حملہ کر دے.بخدا ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا کہ اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق شمشیر برہنہ کے ساتھ ، شمشیر برہنہ ہاتھ میں لے کر رسول اللہ صلی می کرم کے پاس کھڑے ہو گئے اور پھر کسی مشرک کو آپ کے پاس آنے کی جرات نہ ہو سکی.اگر کسی نے ایسی جرآت کی بھی تو آپ فوراً اس پر ٹوٹ پڑے.اس لیے آپ ہی سب سے زیادہ بہادر ہیں یعنی حضرت ابو بکر.یہ حضرت علی نے فرمایا.حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں.ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی ا ہم کو اپنے نرغے میں لے لیا اور وہ آپ کو گھسیٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم ہی وہ ہو جو کہتے ہو کہ خدا ایک ہے.حضرت علی فرما رہے ہیں کہ خدا کی قسم ! کسی کو مشرکین سے مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی لیکن حضرت ابو بکر صدیق آگے بڑھے اور مشرکین کو مار مار کر اور دھکے دے دے کر ہٹاتے جاتے اور فرماتے جاتے، تم پر افسوس ہے کہ تم ایسے شخص کو ایذا پہنچارہے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار صرف اللہ ہے.یہ فرما کر حضرت علی نے اپنی چادر اٹھائی، چادر منہ پر رکھ کر اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی بھیگ گئی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ تم کو ہدایت دے.اے لوگو! بتاؤ کہ مومن آل فرعون اچھے تھے کہ ابو بکر ا چھے ہیں.آل فرعون سے جو لوگ ایمان لائے انہوں نے اپنے پیغمبر پر اس قدر جاں نثاری نہیں کی جتنی ابو بکرنے کی ہے.لوگ یہ سن کر خاموش رہے تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اے لوگو! جواب کیوں نہیں دیتے.خدا کی

Page 496

ب بدر جلد 3 476 حضرت علی قسم ! ابو بکر کی ایک ساعت آل فرعون کے مومن کی ہزار ساعتوں سے بہتر ہے اور بڑھ کر ہے اس لیے کہ وہ لوگ اپنا ایمان چھپاتے پھرتے تھے اور ابو بکرؓ نے اپنے ایمان کا اظہار علی الاعلان کیا.وو حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ : 945 ر سول کریم صلی الم نے حضرت علی کو نصیحت کی.فرمایا اے علی ! اگر تیری تبلیغ سے ایک آدمی بھی ایمان لے آئے تو یہ تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ دو پہاڑوں کے درمیان تیری بھیٹروں اور بکریوں کا ایک بڑا بھاری گلہ جارہا ہو اور تو اسے دیکھ کر خوش ہو.946 ام المومنین حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے رسول کریم صلی علیکم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض 947 رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا.7 حضرت زر بیان کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور روح کو پیدا کیا.یقیناً نبی امی صلی علی کریم کا یہ مجھ سے عہد تھا کہ مجھ سے صرف مومن محبت رکھے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا.948 949 حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی تم نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ تمہاری مثال حضرت عیسیٰ کی سی ہے جن سے یہودیوں نے اتنا بغض کیا کہ ان کی والدہ پر بہتان باندھ دیا اور عیسائی لوگ آپ کی محبت یعنی عیسی علیہ السلام کی محبت میں اس قدر بڑھ گئے کہ انہوں نے آپ کو وہ مقام دے دیا جو کہ ان کا مقام نہ تھا.پھر حضرت علی نے فرمایا: خبر دار !میرے بارے میں دو طرح کے آدمی ہلاک ہوں گے.ایک وہ جو محبت میں غلو کر کے مجھے وہ مقام دیں گے جو کہ میر امقام نہیں ہے اور دوسرے وہ لوگ جو مجھ سے بغض رکھیں گے اور میری دشمنی میں مجھ پر بہتان باندھیں گے.حضرت علی فے کے مال یعنی وہ مالِ غنیمت جو دشمن سے جنگ کیے بغیر ہاتھ لگے ، اس کی تقسیم میں حضرت ابو بکر کے طریق کو اختیار کرتے تھے.آپؐ کے پاس جب بھی مال آتا تو آپ وہ سارے کا سارا تقسیم کر دیتے اور اس میں سے کچھ بھی بچا کر نہ رکھتے سوائے اس کے جو اس روز تقسیم ہونے سے رہ جاتا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اے دنیا! جا میرے علاوہ کسی اور کو جاکر دھوکا دے.آپ کے کے مال میں سے نہ تو خود لیتے اور نہ کسی گہرے دوست یا عزیز کو اس میں سے کچھ دیتے.آپ گورنری اور عہدہ وغیرہ صرف دیانت دار اور امین لوگوں کو دیتے.جب آپ کو ان میں سے کسی کی خیانت کی خبر پہنچتی تو آپ ان کو یہ آیات لکھ کر بھیجتے.قَدْ جَاءَ تَكُم مَّوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُم (یونس:58) یقینا تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت کی بات آچکی ہے اور اوفُوا الْمِكْيَالَ وَ الْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ

Page 497

صحاب بدر جلد 3 477 حضرت علی اشْيَاءَ هُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ.بَقِيَّتُ اللهِ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بحفیظ ( : 86-87) ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو اور لوگوں کی چیزیں ان کو کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں مفسد بنتے ہوئے بدامنی نہ پھیلاؤ.اللہ کی طرف سے جو تجارت میں بچتا ہے وہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سچے مومن ہو اور میں تم پر نگران نہیں ہوں.نیز اسے لکھتے جب میرا یہ خط تمہارے پاس پہنچے تو تمہارے پاس ہمارے جو اموال ہیں وہ سنبھال کر رکھنا یہاں تک کہ ہم تمہاری طرف کسی ایسے شخص کو بھیجیں جو تم سے وہ اموال وصول کرے.پھر آپ اپنی نظریں آسمان کی طرف کر کے فرماتے اے اللہ ! یقینا تو جانتا ہے کہ میں نے انہیں تیری مخلوق پر ظلم کرنے اور تیرے حق کو چھوڑنے کا حکم نہیں دیا تھا.انجر بن جُز موز اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے حضرت علی بن ابو طالب کو دیکھا کہ آپ کو فہ سے نکل رہے تھے اور آپ کے اوپر دو قطری چادریں تھیں.قطر بحرین کی ایک بستی کا نام ہے جہاں سرخ دھاری دار چادریں بنتی تھیں.جن میں سے ایک کو آپ نے تہبند کے طور پر باندھا ہو اتھا اور دوسری کو اوپر لیا ہوا تھا.آپ کی تہبند نصف پنڈلی تک تھی.آپ ایک کوڑا تھامے ہوئے بازار میں چل رہے تھے اور لوگوں کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے، سچی بات کہنے ، عمدگی سے خرید و فروخت کرنے 950 اور ماپ تول اور وزن کو پورا کرنے کی تلقین فرمارہے تھے.مجمع تیمی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی نے بیت المال میں جتنا مال تھا وہ سارے کا سارا مسلمانوں میں تقسیم کر دیا.پھر آپ کے حکم سے اس میں چونا کروایا گیا.پھر آپ نے اس میں اس امید پر نماز پڑھی کہ قیامت کے دن وہ آپ کے لیے گواہی دے.10 حضرت مصلح موعودؓ حضرت علی کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ”حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 17 دسمبر 1892ء کو اپنا ایک رؤیا بیان فرمایا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن گیا ہوں یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتا ہوں کہ وہی ہوں.اور خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کر لیتا ہے سو اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں علی مرتضیٰ ہوں اور ایسی صورت واقع ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے.تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی الیکم میرے پاس ہیں اور شفقت اور تو ڈر سے مجھے فرماتے ہیں کہ يَا عَلِيُّ دَعْهُمْ وَ أَنْصَارَهُمْ وَزِرَاعَتَهُمْ یعنی اے علی ! ان سے اور ان کے مددگاروں اور ان کی کھیتی سے کنارہ کر اور ان کو چھوڑ دے اور ان سے منہ پھیر لے اور میں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبر کے لئے آنحضرت صلی علیکم مجھ کو فرماتے ہیں اور اعراض کے لئے تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو ہی حق پر ہے مگر ان لوگوں سے ترک خطاب بہتر ہے.951"

Page 498

حاب بدر جلد 3 478 حضرت علی حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ” حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے لشکر کی تمام چیزوں پر قبضہ کر لیا.ہتھیار اور جنگی سواریاں تو لوگوں میں تقسیم کروائے لیکن سامان و غلام اور لونڈیوں کو کوفہ واپس آنے پر ان کے مالکوں کو لوٹا دیا.952 پھر ایک اور حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ :.9536 ”حضرت ابو بکر کے زمانہ کی نسبت حضرت عمر کا زمانہ رسول کریم صلی العلیم سے زیادہ دور تھا.یہی حال حضرت عثمانؓ اور حضرت علی کا تھا.بیشک ان کا درجہ اپنے سے پہلے خلیفوں سے کم تھا لیکن ان کے وقت جو واقعات پیش آئے ان میں ان کے درجہ کا اتنا اثر نہیں تھا جتنا رسول کریم کے زمانہ سے دور ہونے کا اثر تھا کیونکہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے وقت زیادہ تر وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول کریم صلی الیکم کی صحبت اٹھائی تھی لیکن بعد میں دوسروں کا زیادہ دخل ہو گیا.چنانچہ جب حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے عہد میں تو ایسے فتنے اور فسادنہ ہوتے تھے جیسے آپ کے وقت میں ہو رہے ہیں تو انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ ابو بکر اور عمر کے ماتحت میرے جیسے لوگ تھے اور میرے ماتحت تیرے جیسے لوگ ہیں.پھر ایک اور جگہ حضرت مصلح موعود ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک شخص اس زمانہ میں جبکہ حضرت علی اور معاویہ کے درمیان جنگ جاری تھی حضرت عبد اللہ بن عمر کے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ حضرت علی کے زمانہ کی جنگوں میں کیوں شامل نہیں ہوتے حالانکہ قرآن کریم میں صاف حکم موجود ہے کہ وقتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ انہوں نے جواب دیا کہ...ہم نے یہ حکم رسول کریم صلی ایم کے وقت میں پورا کر دیا ہے جبکہ اسلام بہت قلیل تھا اور آدمی کو اس کے دین کی وجہ سے فتنہ میں ڈالا جاتا تھا یعنی یا تو اسے قتل کیا جاتا تھایا عذاب دیا جاتا تھا یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا.پھر کسی کو فتنہ میں نہیں ڈالا جاتا تھا.954 یعنی اگر جنگیں تھیں تو دین بدلنے کے لیے تھیں اور ان کے خلاف تھیں جو دین بدلنا چاہتے تھے.اب یہاں تو دین قائم ہو گیا.اسلام قائم ہو گیا.عقیدے کا تو کوئی اختلاف نہیں ہے.بعض نظریاتی اختلاف ہیں اس لیے میں جنگوں میں شامل نہیں ہوتا.بہر حال یہ ان کا اپنا ایک نظریہ تھا.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ”جب رومی بادشاہ نے حضرت علی اور حضرت معاویہ کی جنگ کی خبر معلوم کر کے اسلامی مملکت پر حملہ کرنا چاہا تو حضرت معاویہ نے اسے لکھا کہ ہوشیار رہنا ہمارے آپس کے اختلاف سے دھو کہ نہ کھانا.اگر تم نے حملہ کیا تو حضرت علی کی طرف سے جو پہلا جرنیل تمہارے مقابلہ کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا.955 آپ نے اس کا ذرا تفصیل سے ذکر اس طرح بھی بیان فرمایا کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ جب روم کے بادشاہ نے حضرت علی اور حضرت معاویہ میں اختلاف دیکھا تو اس نے چاہا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے

Page 499

ب بدر جلد 3 479 حضرت علی لیے ایک لشکر بھیجے.اس وقت رومی سلطنت کی ایسی ہی طاقت تھی جیسی اس وقت امریکہ کی ہے.اس کی لشکر کشی کا ارادہ دیکھ کر ایک پادری نے جو بڑا ہوشیار تھا کہا بادشاہ سلامت آپ میری بات سن لیں اور شکر کشی کرنے سے اجتناب کریں.یہ لوگ اگر چہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن آپ کے مقابلے میں متحد ہو جائیں گے اور باہمی اختلاف کو بھول جائیں گے.پھر اس نے ایک مثال دی وہ بھی شاید اس نے تحقیر کے رنگ میں ہی دی ہو بہر حال کس نیت سے دی، تحقیر کی نیت سے یا ویسے ہی سمجھا ہو گا کہ یہ بہتر مثال ہے.اس نے کہا کہ آپ کتے منگوائیں اور انہیں ایک عرصہ تک بھو کار کھیں.پھر ان کے آگے گوشت ڈالیں وہ آپس میں لڑنے لگ جائیں گے.اگر آپ انہی کتوں پر شیر چھوڑ دیں تو وہ دونوں اپنے اختلاف کو بھول کر شیر پر جھپٹ پڑیں گے.اس مثال سے اس نے یہ بتایا کہ تو چاہتا ہے کہ اس وقت حضرت علی اور معاویہ کے اختلاف سے فائدہ اٹھالے لیکن میں یہ بتا دیتا ہوں کہ جب بھی کسی بیرونی دشمن سے لڑنے کا سوال پیدا ہو گا یہ دونوں اپنے باہمی اختلافات کو بھول جائیں گے اور دشمن کے مقابلے میں متحد ہو جائیں گے اور ہوا بھی یہی.جب حضرت معاویہ کو روم کے بادشاہ کے ارادے کا علم ہوا تو آپ نے اسے پیغام بھیجا کہ تُو چاہتا ہے کہ ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں پر حملہ کرے لیکن میں تمہیں بتادینا چاہتا ہوں کہ میری حضرت علی کے ساتھ بیشک لڑائی ہے لیکن اگر تمہارا لشکر حملہ آور ہوا تو حضرت علی کی طرف سے اس لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے جو سب سے پہلا جرنیل نکلے گاوہ میں ہوں گا.56 حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عمر کہتے تھے کہ ہم میں سب سے 956 957 بہتر قرآن پڑھنے والے اُبی بن کعب نہیں اور ہم میں سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی نہیں.57 حضرت ام عطیہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے ایک لشکر بھیجا جس میں حضرت علی بھی تھے.وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی لی ہم کو یہ دعا کرتے سنا.اے اللہ اتو مجھے موت نہ دینا جب تک کہ تو مجھے علی کو دکھانہ دے.958 959 رسول اللہ صلی علی کرم نے ایک دفعہ حضرت علی کو ایک سریہ پر بھیجا.جب وہ واپس آئے تور سول اللہ صلی علیکم نے ان سے فرمایا: اللہ اور اس کار سول اور جبرئیل تجھ سے راضی ہیں.ایک جگہ ایک واقعہ آتا ہے کہ امیر معاویہ نے خیرار صدائی سے کہا کہ مجھے حضرت علی کے اوصاف بتاؤ.اس نے کہا کہ امیر المومنین! مجھے اس سے معاف فرمائیں.امیر معاویہ نے کہا تمہیں بتانا پڑے گا.ضرار نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر سنیں.خدا کی قسم !حضرت علی بلند حوصلہ اور مضبوط قویٰ کے مالک تھے.فیصلہ کن بات کہتے اور عدل سے فیصلہ کرتے تھے.آپ علم و معرفت کا بہتا چشمہ تھے اور آپ کی بات بات سے حکمت ٹپکتی تھی.آپؐ دنیا اور اس کی رونقوں سے وحشت محسوس کرتے اور رات اور اس کی تنہائی سے انس رکھتے تھے.آپ بہت رونے والے اور بہت غور و فکر کرنے والے انسان تھے.آپ مختصر لباس اور نہایت سادہ کھانا پسند کرتے تھے.آپ ہمارے درمیان ہمارے جیسے ایک عام "

Page 500

حاب بدر جلد 3 480 حضرت علی کی طرح رہتے تھے.ہم سوال کرتے تو آپ جواب دیتے اور کسی واقعہ کی بابت دریافت کرتے تو اس کے بارے میں بتاتے.خدا کی قسم ! باوجودیکہ ہمارا ان سے اور ان کا ہم سے محبت اور قرب کا بڑا تعلق تھا مگر ہم ان کے رعب کی وجہ سے ان سے کم کم بات کرتے تھے.وہ دیندار لوگوں کی تعظیم کرتے اور مساکین کو اپنے قرب میں جگہ دیتے تھے.کوئی طاقتور شخص یہ طمع نہیں رکھ سکتا تھا کہ وہ اپنی جھوٹی بات آپ سے منوانے گا اور کوئی کمزور شخص آپ کے عدل و انصاف سے مایوس نہ ہو تا تھا.خدا کی قسم! بعض موقعوں پر میں نے دیکھا کہ جب رات ڈھل جاتی اور بتارہے ماند پڑ جاتے تو آپ اپنی داڑھی پکڑ کر ایسے تڑپتے جیسے سانپ کا ڈسا ہوا شخص تڑپتا ہے اور سخت غمگین شخص کی طرح روتے اور کہتے اسے دنیا ! جاتو میرے سوا کسی اور کو جاکر دھوکا دے.کیا تو میرے منہ لگتی ہے اور مجھے بن سنور کر دکھاتی ہے.تو جو چاہتی ہے وہ کبھی نہیں ہو گا، کبھی نہیں ہو گا.میں تو تمہیں تین طلاقیں دے چکا جن کے بعد کوئی رجوع نہیں ہوتا کیونکہ تیری عمر تھوڑی ہے اور تو بے وقعت ہے.یہ تمثیلی زبان میں دنیا سے مخاطب ہیں کیونکہ تیری عمر تھوڑی ہے اور تو بے وقعت ہے.آہ !ازادِ راہ کم ہے اور سفر لمبا اور راستہ وحشت ناک ہے.آپ کی صفات کے بارے میں یہ ساری باتیں بتائیں تو یہ سن کر امیر معاویہ رو پڑے اور کہا.اللہ ! ابوالحسن پر رحم کرے.خدا کی قسم وہ ایسے ہی تھے.اے ضرار ! علی کی وفات پر تمہیں کیسا غم ہو !؟ خیر ار نے کہا اس عورت کے غم جیسا جس کے بچے کو اس کی گود میں ہی ذبح کر دیا جائے.960 حضرت علی کے قضائی فیصلے بہت مشہور ہیں.ان میں سے بعض بیان کرتا ہوں جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمائے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا ایک واقعہ جو طبری نے لکھا ہے، بتاتا ہے کہ ابتدائے اسلام سے اس احتیاط پر عمل ہو تا چلا آیا ہے.وہ واقعہ اس طرح ہے کہ عدل بن عثمان بیان کرتے ہیں.“ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی ساری عربی عبارت بھی لکھی ہے میں اس وقت وہ عربی کی عبارت چھوڑ دیتا ہوں.ان شاء اللہ خطبہ چھپے گا تو اس وقت یہ لکھی جائے گی.(رَأَيْتُ عَلِيًّا عَمَّ خَارِجًا مِنْ هَمْدَانَ فَرَأَى فِئَتَيْنِ تَقْتُلَانِ فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا ثُمَّ مَضى فَسَمِعَ صَوْتَايَا غَوْنَا بِاللَّهِ فَخَرَجَ يَحُضُّ نَحْوَهُ حَتَّى سَمِعْتُ خَفْقَ نَعْلِهِ وَهُوَ يَقُولُ آتَاكَ الْغَوْثُ فَإِذَا رَجُلٌ يُلَازِمُ رَجُلًا فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِعْتُ مِنْ هَذَا ثَوْبَا بِتِسْعَةِ دَرَاهِمَ وَشَرَطْتُ عَلَيْهِ أَنْ لَّا يُعْطِينِى مَغْبُورًا وَلَا مَقْطُوْعًا وَكَانَ شَرْطُهُمْ يَوْمَئِذٍ فَأَتَيْتُهُ بِهْذِهِ اللَّدَاهِمِ لِيُبَتِلَهَا لِي فَأَبَى فَلَزِمَتُهُ فَلَطَمَنِى فَقَالَ ابْدِلْهُ فَقَالَ بَينَتُكَ عَلَى اللَّطْمَةِ فَأَتَاهُ بِالْبَيِّنَةِ فَأَقْعَدَهُ ثُمَّ قَالَ دُونَكَ فَاقْتَصَّ فَقَالَ إِنِّي قَدْ عَفَوْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَحْتَاطَهُ فِي حَقِّكَ ثُمَ ضَرَبَ الرَّجُلَ يَسْحَ دُرّاتٍ وَقَالَ هَذَا حَقُ السُّلْطَانِ) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ”میں نے دیکھا کہ حضرت علییؓ ہمدان سے باہر مقیم تھے کہ اسی اثناء میں آپ نے دو گروہوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا اور آپ نے ان میں صلح کرا دی لیکن ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ آپ کو کسی شخص کی آواز آئی کہ کوئی خدا کے

Page 501

481 حضرت علی حاب بدر جلد 3 شخص لیے مدد کو آئے.پس آپ تیزی سے اس آواز کی طرف دوڑے حتی کہ آپ کے جوتوں کی آواز بھی آ رہی تھی اور آپ کہتے چلے جاتے تھے کہ مدد آگئی.مدد آ گئی.جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی دوسرے سے لپٹا ہوا ہے.جب اس نے آپ کو دیکھا تو عرض کیا کہ اے امیر المومنین ! میں نے اس شخص کے پاس ایک کپڑا نو در ہم کو بچا تھا اور شرط یہ تھی کہ کوئی روپیہ “ یعنی جو درہم ہے وہ ”مشکوک یا کٹا ہوا نہ ہو اور اس نے (خریدنے والے نے ) اس کو منظور کر لیا تھا لیکن آج جو میں اس کو بعض ناقص روپے دینے کے لئے آیا اس نے جب مجھے روپے دیے تو ان درہم میں سے بعض ناقص تھے.جب میں ان کو ناقص روپے دینے کے لیے آیا تو اس نے بدلانے سے انکار کر دیا.جب میں پیچھے پڑا تو اس نے مجھے تھپڑ مارا.آپ نے مشتری سے کہا کہ اس کو روپے بدل دے.“ جو خریدار تھا اس کو یہ کہا اس کو روپے بدل کے دو.رقم بدل کے دو ” پھر دوسرے شخص سے کہا کہ تھپڑ مارنے کا ثبوت پیش کر.جب اس نے ثبوت دے دیا تو آپ نے مارنے والے کو بٹھا دیا اور اس سے کہا کہ اس سے بدلہ لے.اس نے کہا اے امیر المومنین! میں نے اس کو معاف کر دیا ہے.آپ نے فرمایا تو نے تو اس کو معاف کر دیا مگر میں چاہتا ہوں کہ تیرے حق میں احتیاط سے کام لوں.معلوم ہوتا ہے وہ سادہ تھا اور اپنے نفع نقصان کو نہیں سمجھ سکتا تھا.حضرت مصلح موعود لکھ رہے ہیں.اور پھر اس شخص کو جس نے تھپڑ مارا تھا اس شخص کو 9 کوڑے مارے.اور فرمایا اس شخص نے تو تجھے معاف کر دیا تھا مگر یہ سزا حکومت کی طرف سے ہے.“ پھر ایک اور واقعہ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ” ایک عمدہ مثال حضرت علی کے عمل سے ملتی ہے.آپ نے ایک دفعہ دیکھا کہ ایک شخص نے دوسرے کو پیٹا ہے.حضرت علی نے اس کو روکا اور مضروب کو کہا کہ اب تم اس کو مارو.مگر مضروب نے کہا کہ میں اس کو معاف کرتا ہوں.حضرت علیؓ نے سمجھ لیا کہ ڈر کے مارے اس نے اسے مارنے سے انکار کیا ہے کیونکہ وہ مارنے والا بڑا جبار شخص تھا.اس لئے آپ نے فرمایا تم نے اپنا ذاتی حق معاف کر دیا ہے مگر میں اب قومی حق کو استعمال کرتا ہوں اور اسے اسی قدر پٹوا دیا جس قدر کہ اس نے دوسرے کمزور شخص کو پیٹا تھا.“ حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ”حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ ان کا ایک مقدمہ ایک اسلامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا تو مجسٹریٹ نے حضرت علی کا کچھ لحاظ کیا.آپ نے فرمایا یہ پہلی بے انصافی ہے جو تم نے کی ہے کہ میر الحاظ کر رہے ہو ” میں اور یہ اس وقت برابر ہیں.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت علی کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کیا آپ قوم کے سب سے فصیح و بلیغ واعظ اور ان لوگوں میں سے نہ تھے جو لفظوں میں جان ڈال دیتے ہیں ؟ اپنی بلاغت اور حسن بیان کے زور سے اور سامعین کے لئے اپنی پرکشش تاثیر سے لوگوں کو 961" 962" 963"

Page 502

باب بدر جلد 3 482 حضرت علی اپنے گرد جمع کر لینا آپ کے لئے محض ایک گھنٹے بلکہ اس سے بھی کم تر وقت کا کام تھا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: 96466 میں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سارنگ پیدا نہ ہو.وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں.96566 پھر آپ فرماتے ہیں کہ خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فاسق قرار دیتے ہیں اور بہت سے امور خلاف تقویٰ ان کی طرف منسوب کرتے ہیں بلکہ حلیہ ایمان سے بھی ان کو عاری سمجھتے ہیں.“ یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں تو ایمان ہی نہیں تھا.یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان کے زیور سے عاری تھے.” تو اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ جبکہ صدیق کے لئے تقویٰ اور امانت اور دیانت شرط ہے تو یہ تمام بزرگ اور اعلیٰ طبقہ کے انسان جو رسول اور نبی اور ولی ہیں کیوں خدا تعالیٰ نے ان کے حالات کو عوام کی نظر میں مشتبہ کر دیا.کیوں یہ لوگ جو تھے ان کو صحیح طرح سمجھ نہیں آئی کیوں ان کی جو حالت تھی، ان کا جو سارا اسوہ تھا مشتبہ تھا؟ اور وہ اُن کے افعال اور اقوال کو سمجھنے سے اس قدر قاصر رہے کہ ان کو دائرہ تقویٰ اور امانت اور دیانت سے خارج سمجھا اور ایسا خیال کر لیا کہ گویا وہ لوگ ظلم کرنے والے اور مالِ حرام کھانے والے اور خون ناحق کرنے والے اور دروغ گو اور عہد شکن اور نفس پرست اور جرائم پیشہ تھے حالانکہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ نہ رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ نبی ہونے کا اور نہ اپنے تئیں ولی اور امام اور خلیفتہ المسلمین کہلاتے ہیں لیکن بایں ہمہ کوئی اعتراض ان کے چال چلن اور زندگی پر نہیں ہوتا تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسا کیا کہ تا اپنے خاص مقبولوں اور محبوبوں کو بد بخت شتاب کاروں سے جن کی عادت بد گمانی ہے مخفی رکھے جیسا کہ خود وجود اس کا اس قسم کی بد ظنی کرنے والوں سے مخفی ہے.9666 یعنی یہ کہنے والے خود بد بخت ہیں اور بدظنی کرنے والے ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے خود اپنے آپ کو مخفی رکھا ہوا ہے اور لوگ اللہ تعالیٰ پر بد ظنی کرتے ہیں اسی طرح اس کے جو مقرب ہیں ان پر بھی خود یہ بد بخت لوگ اعتراض میں جلدی کرنے والے ہیں یہی لوگ اصل میں ایسے ہیں جن میں تقویٰ نہیں ہے اور یہ متقیوں پر الزام لگاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ حضرت علی متلاشیان (حق) کی امید گاہ اور سنیوں کا بے مثال نمونہ اور بندگان (خدا) کے لئے حجۃ اللہ تھے.نیز اپنے زمانے کے لوگوں میں بہترین انسان اور ملکوں کو روشن کرنے کے لئے اللہ کے نور تھے لیکن آپ کی خلافت کا دور امن و امان کا زمانہ نہ تھا بلکہ فتنوں اور ظلم و تعدی کی تند ہواؤں کا زمانہ تھا.عوام الناس آپ کی اور ابن ابی سفیان کی خلافت کے بارے میں اختلاف

Page 503

باب بدر جلد 3 483 حضرت علی کرتے تھے اور ان دونوں کی طرف حیرت زدہ شخص کی طرح ٹکٹکی لگائے بیٹھے تھے اور بعض لوگ ان دونوں کو آسمان کے فرقد نامی دوستاروں کی مانند تصور کرتے تھے اور دونوں کو درجہ میں ہم پلہ سمجھتے تھے لیکن سچ یہ ہے کہ حق (علی) مرتضی کے ساتھ تھا اور جس نے آپ کے دور میں آپ سے جنگ کی تو اس نے بغاوت اور سرکشی کی لیکن آپ کی خلافت اس امن کی مصداق نہ تھی جس کی بشارت خدائے رحمن کی طرف سے دی گئی تھی بلکہ (حضرت علی) مرتضی کو ان کے مخالفوں کی طرف سے اذیت دی گئی اور آپ کی خلافت مختلف قسم اور طرح طرح کے فتنوں کے نیچے پامال کی گئی.آپ پر اللہ کا بڑا فضل تھا لیکن زندگی بھر آپ غمزدہ اور دل فگار رہے اور پہلے خلفاء کی طرح دین کی اشاعت اور شیطانوں کو رحم کرنے پر قادر نہ ہو سکے بلکہ آپ کو قوم کی طعن زنی سے ہی فرصت نہ ملی اور آپ کو ہر ارادے اور خواہش سے محروم کیا گیا.وہ آپ کی مدد کے لئے جمع نہ ہوئے بلکہ آپ پر پیہم ظلم ڈھانے پر یکجا ہو گئے اور اذیت دینے سے باز نہ آئے بلکہ آپ کی مزاحمت کی اور ہر راستے میں بیٹھے اور آپ بہت صابر اور صالحین میں سے تھے مگر یہ ممکن نہیں کہ ہم ان کی خلافت کو اس (آیت استخلاف والی) بشارت کا مصداق قرار دیں کیونکہ آپ کی خلافت فساد، بغاوت اور خسارے کے زمانے میں تھی.“ 967 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق عمر اور حضرت ذوالنورین اور ت علی مرتضیٰ سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے.968 پھر آپ حضرت علی کے مقام و مرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” آپ “ یعنی حضرت علی ”رضی اللہ عنہ تقویٰ شعار، پاک باطن اور ان لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمان کے ہاں سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں اور آپ قوم کے برگزیدہ اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے.آپ خدائے غالب کے شیر ، خدائے مہربان کے جوانمرد، سخی، پاک دل تھے.آپ ایسے منفرد بہادر تھے جو میدان جنگ میں اپنی جگہ نہیں چھوڑتے خواہ ان کے مقابلے میں دشمنوں کی ایک فوج ہو.آپ نے ساری عمر تنگدستی میں بسر کی اور نوع انسانی کے مقام زہد کی انتہا تک پہنچے.آپ مال و دولت عطا کرنے ، لوگوں کے ہم و غم دور کرنے اور یتیموں، مسکینوں اور ہمسایوں کی خبر گیری کرنے میں اول درجے کے مرد تھے.آپ نے جنگوں میں طرح طرح کے بہادری کے جوہر دکھائے تھے.تیر اور تلوار کی جنگ میں آپ سے حیرت انگیز واقعات ظاہر ہوتے تھے.اس کے ساتھ ساتھ آپ نہایت شیریں بیان اور فصیح اللسان بھی تھے.آپ کا بیان دلوں کی گہرائی میں اتر جاتا اور اس سے ذہنوں کے زنگ صاف ہو جاتے اور برہان کے نور سے اس کا چہرہ دمک جاتا.آپ قسما قسم کے انداز بیان پر قادر تھے اور جو آپ سے ان میں مقابلہ کرتا تو اسے ایک مغلوب شخص کی طرح آپ سے معذرت کرنا پڑتی.آپ ہر خوبی میں اور بلاغت و فصاحت

Page 504

اصحاب بدر جلد 3 484 حضرت علی کے طریقوں میں کامل تھے اور جس نے آپ کے کمال کا انکار کیا تو اس نے بے حیائی کا طریق اختیار کیا اور آپ لاچاروں کی غمخواریوں کی جانب ترغیب دلاتے اور قناعت کرنے والوں اور خستہ حالوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے.آپ اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ فرقان (حمید) کے جام (معرفت) نوش کرنے میں سابقین میں سے تھے اور آپ کو قرآنی دقائق کے ادراک میں ایک عجیب فہم عطا کیا گیا تھا.میں نے عالم بیداری میں انہیں دیکھا ہے نہ کہ نیند میں.پھر (اسی حالت میں ) آپ نے خدائے علام الغیوب) کی کتاب کی تفسیر مجھے عطا کی اور فرمایا یہ میری تفسیر ہے اور یہ اب آپ کو دی جاتی ہے.پس آپ کو اس عطا پر مبارک ہو “ یعنی حضرت علی نے یہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی اور فرمایا آپ کو اس عطا پر مبارک ہو.جس پر میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا.“ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ جس پر میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی اور میں نے صاحب قدرت عطا کرنے والے اللہ کا شکر ادا کیا اور میں نے آپ کو خلق میں متناسب اور خُلق میں پختہ اور متواضع منکسر المزاج تاباں اور منور پایا اور میں یہ حلفاً کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے بڑی محبت والفت سے ملے اور میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آپ مجھے اور میرے عقیدے کو جانتے ہیں اور میں اپنے مسلک اور مشرب میں شیعوں سے جو اختلاف رکھتا ہوں وہ اسے بھی جانتے ہیں لیکن آپ نے کسی بھی قسم کی ناپسندیدگی یا ناگواری کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی (مجھ سے) پہلو تہی کی بلکہ وہ مجھے ملے اور مخلص محبین کی طرح مجھ سے محبت کی اور انہوں نے سچے صاف دل رکھنے والے لوگوں کی طرح محبت کا اظہار فرمایا اور آپ کے ساتھ “ یعنی حضرت علی کے ساتھ ”حسین بلکہ حسن اور حسین دونوں اور سید الرسل خاتم النبیین بھی تھے اور ان کے ساتھ ایک نہایت خوبرو، صالحہ جلیلة القدر، بابرکت، پاکباز، لائق تعظیم، باوقار، ظاہر وباہر نور مجسم جوان خاتون بھی تھیں جنہیں میں نے غم سے بھر اہو اپا یا لیکن وہ اسے چھپائے ہوئے تھیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ حضرت فاطمتہ الزہر ا ہیں.آپ میرے پاس تشریف لائیں اور میں لیٹا ہو ا تھا.پس آپ بیٹھ گئیں اور آپ نے میرا سر اپنی ران پر رکھ لیا اور شفقت کا اظہار فرمایا اور میں نے دیکھا کہ وہ میرے کسی غم کی وجہ سے غمزدہ اور رنجیدہ ہیں اور بچوں کی تکالیف کے وقت ماؤں کی طرح شفقت و محبت اور بے چینی کا اظہار فرمارہی ہیں.“ ( اس بات پر بھی بعض غیر از جماعت لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ یہ دیکھو جی.کیسی غلط بات کی ہے کہ ران پر سر رکھ لیا حالانکہ آپ نے یہ ماؤں کی مثال دی ہے اور اس سے پہلے جو باتیں کی ہیں اور وہ ساری جو صفات بیان کی ہیں اس کو اگر غور سے پڑھیں اور پھر یہ فقرہ دیکھیں کہ ماؤں کی طرح شفقت و محبت کی تو سارے اعتراض دور ہو جاتے ہیں لیکن گندی ذہنیت ہے اس لیے ان لوگوں میں اعتراض پیدا ہوتے رہتے ہیں.بہر حال پھر آپ یعنی مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ) ” پھر مجھے بتایا گیا کہ دین کے تعلق میں ان کے نزدیک میری حیثیت بمنزلہ بیٹے کے ہے اور میرے دل میں خیال آیا کہ ان کا غمگین ہونا یعنی حضرت فاطمہ کا غمگین ہونا ” اس امر پر “

Page 505

تاب بدر جلد 3 485 حضرت علی کنایہ ہے جو میں قوم، اہل وطن اور دشمنوں سے ظلم دیکھوں گا.پھر حسن اور حسین دونوں میرے پاس آئے اور بھائیوں کی طرح مجھ سے محبت کا اظہار کرنے لگے اور ہمدردوں کی طرح مجھے ملے اور یہ کشف بیداری کے کشفوں میں سے تھا اور اس پر کئی سال گزر چکے ہیں اور مجھے حضرت علی اور حضرت حسین کے ساتھ ایک لطیف مناسبت ہے اور اس مناسبت کی حقیقت کو مشرق و مغرب کے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا اور میں حضرت علی اور آپ کے دونوں بیٹیوں سے محبت کرتاہوں اور جو اُن سے عداوت رکھے اس سے میں عداوت رکھتا ہوں اور بائیں ہمہ میں جور و جفا کرنے والوں میں سے نہیں اور یہ میرے لئے ممکن نہیں کہ میں اس سے اعراض کروں جو اللہ نے مجھ پر منکشف فرمایا اور نہ ہی میں حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہوں.اگر تم قبول نہ کرو تو میر ا عمل میرے لئے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے اور اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان ضرور فیصلہ فرمائے گا اور وہ فیصلہ کرنے والوں میں سے سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے.969

Page 506

اصحاب بدر جلد 3 486 حوالہ جات الاصابہ جلد 4 صفحہ 484،اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 138 حوالہ جات 2 تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 47 صفحہ 45، الاصابہ جلد 4 صفحہ 484، ماخوذ از اٹلس سیرت نبوی صلی علی نیم صفحہ 102 3 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 204، ماخوذ از اٹلس سیرت نبوی صلی کمی صفحہ 75 4 تاریخ الخمیس جزء اول صفحہ 259 5 الاصابہ جلد 4 صفحہ 484 7 6 سیرت ابن ہشام صفحہ 429 ماخوذ از اسد الغابه جلد 4 صفحه 143 8 تاریخ الخلفاء صفحہ 91-92 9 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 143 10 الاصابہ جلد 4 صفحہ 484 ۱۱ ماخوذ از سید نا حضرت عمر فاروق اعظم از محمد حسین بیکل (مترجم) صفحه 51-52 12 ماخوذ از سیر الصحابه جلد 1 صفحہ 133 13 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 642 14 سیرت ابن ہشام صفحہ 159 15 تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 286تا288 16 سنن الترمذی حدیث 3681 17 متدرک جلد 3 صفحہ 89 حدیث 4485-4483 18 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 143 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 204 20 السيرة الحلبية جلد 1 صفحہ 470، لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 527 21 السيرة الحلبيه جلد 1 صفحہ 469، فرہنگ سیرت صفحہ 135 22 مخطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8 مئی 2020 ء 23 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 142 - 143 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 129 24 25 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 140 مسند احمد جلد 1 صفحہ 108-109، حدیث 107 26 صحیح بخاری حدیث 3866 27 سیرت خاتم النبیین صفحه 159 ( خطبه جمعه بیان فرمودہ 23 اپریل 2021 ء، الفضل انٹر نیشنل 14 مئی 2021ء صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 39) 28 تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 288 290 29 خطبات محمود جلد 23 صفحہ 10 30 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 159 31 تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 294

Page 507

محاب بدر جلد 3 32 ملفوظات جلد 2 صفحہ 64-65 33 ملفوظات جلد 3 صفحہ 135-136 3 ملفوظات جلد 6 صفحہ 223-224 35 ملفوظات جلد 3 صفحہ 417 34 38 36 الاستيعاب جزء 3 صفحہ 237 37 الاصابه جزء 4 صفحہ 484 3 سیرت ابن ہشام صفحہ 162 سیرت ابن ہشام صفحہ 161-162 40 صحیح بخاری حدیث 3864 39 41 ماخوذ از صحیح بخاری (مترجم) جلد 7 صفحہ 346-347 42 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 141 43 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 143 صحیح بخاری حدیث 3684 45 صحیح بخاری حدیث 6632 44 46 47 48 اسد الغابہ جلد نمبر 3 صفحہ 648-649 الفاروق عمر جزء1 صفحہ 53-54 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 145 49 سیر الصحابه جلد 1 صفحہ 93 50 فرہنگ سیرت صفحہ 230 487 51 سبل الهدی والرشاد جلد 3 صفحہ 363، طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 206 52 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 277 53 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 5 اپریل 2019ء 54 سنن ترمذی حدیث 189 حوالہ جات 55 تفسیر کبیر جلد 10 صفحه 389 (خطبہ جمعہ 7 مئی 2021ء الفضل انٹر نیشنل (خصوصی اشاعت برائے یوم خلافت) 21 تا 31 مئی 2021ء صفحہ 11 تا 15 جلد 28 شماره 41 تا 43) 56 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 206 57 السيرة الحلمه جلد 2 صفحہ 204 58 السيرة الحلمه جلد 2 صفحہ 205-206، فرہنگ سیرت صفحہ 125 59 مسلم حدیث 4588 60 ماخوذ از دروس حضرت مصلح موعودؓ ( غیر مطبوعہ ) سورۃ الانفال، رجسٹر نمبر 36 صفحہ 968-969 61 تفسیر کبیر علامہ امام رازی جلد 8 جزء 15 صفحہ 158 ، سیرت النبی جلد اول صفحہ 194 62 رت خاتم النبيين مصفحہ 367-368 63 صحیح البخاری حدیث 4005 64 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 477-478 65 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 493تا495

Page 508

66 حاب بدر جلد 3 سیرۃ ابن ہشام صفحہ 537 7 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحہ 498-499 68 6 السيرة الحلمية جلد 2 صفحہ 348 488 69 خطبہ جمعہ 21 مئی 2021ء الفضل انٹر نیشنل 11 جون 2021ء صفحہ 5 تا 8 جلد 28 شماره 47 70 معجم البلدان جلد 2 صفحہ 346 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 504-505 72 73 74 کتاب المغازى للواقدی جلد 1 صفحہ 278 ا سیرت خاتم النبيين صفحه 504-505 رت خاتم النبیین صفحه 557 تا 559 صحیح مسلم حدیث 6583 75 سیرت ابن ہشام صفحہ 672 الاستيعاب جلد 3 صفحہ 941 76 77 صحیح البخاری حدیث 596، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 529 78 صحیح بخاری حدیث 598 79 صحیح بخاری حدیث 4111 80 مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 6-7 حدیث 3555 81 ا روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 389-390 82 سیرت ابن ہشام صفحہ 685، سبل الهدی والرشاد جلد 5 صفحہ 46 خطبه جمعه بیان فرمودہ 29 جنوری 2021ء 83 4 سیرت خاتم النبيين صفحه 766-768 85 خطابات طاہر ( تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت) صفحه 428 86 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 769 87 سیرت خاتم النبيين صفحه 770 تا 772، فرہنگ سیرت صفحہ 243،200 حوالہ جات 88 خطبات محمود جلد 30 صفحہ 220 ( خطبہ جمعہ 4 جون 2021ء الفضل انٹر نیشنل 25 جون 2021ء صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 51) 89 سیرت ابن ہشام صفحہ 735، الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 115 90 عمر بن خطاب از علی محمد محمد الصلابی صفحہ 51 91 92 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 206 ، فرہنگ سیرت صفحه 75 زیر لفظ تر به ماخوذ از سبل الهدی والرشاد جلد 5 صفحہ 125،124،120 93 سیرت ابن ہشام صفحہ 710 94 حیح بخاری حدیث 4274 95 صحیح البخاری حدیث 4322 صحیح البخاری حدیث 4320 96 97 سد سنن ابو داؤد حدیث 1678 98 انوار العلوم جلد 11 صفحہ 577 99 ملفوظات جلد 5 صفحہ 192 100 صحیح مسلم حدیث 4234

Page 509

حاب بدر جلد 3 101 صحیح البخاری حدیث 114 102 صحیح البخاری حدیث 114 مترجم اردو جلد 1 صفحہ 190 489 103 صحیح البخاری حدیث 3668،3667، فرہنگ سیرت صفحہ 157 104 صحیح البخاری حدیث 4454 105 روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 579 تا 583 106 تحفہ غزنویہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 581-582 حاشیہ 107 ملفوظات جلد 1 صفحہ 397-398 108 رت ابن ہشام صفحہ 901 109 صحیح البخاری حدیث 3668 رت ابن ہشام صفحہ 903 110 111 صحیح البخاری حدیث 7285،7284 112 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 246 113 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 2 اپریل 2021ء حضرت عثمان بن عقار کے تذکرہ میں حوالہ جات 114 صحیح البخاری حدیث 4679(خطبہ جمعہ 11 جون 2021ء الفضل انٹر نیشنل 2 جولائی 2021ء صفحہ 5 تا10 جلد 28 شمارہ 53) 115 الکامل فی التاریخ لابن اثیر جلد 2 صفحہ 272-273 116 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 353 117 سیرت عمر بن الخطاب از ابن جوزی صفحہ 44-45 118 صحیح تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 126 حاشیہ 119 الکامل جلد 2 صفحہ 273-274 120 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 143 121 ماخوذ از حقائق الفرقان جلد اول صفحه 206 122 انوار العلوم جلد 3 صفحہ 151 123 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 487 124 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 208 125 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 355 126 ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء مترجم از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جلد 3 صفحہ 226 تا 228 127 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 11 تا 13 128 انوار العلوم جلد 10 صفحہ 262 129 ماخوذ از انوار العلوم جلد 21 صفحہ 155-156 131 130 ماخوذ از ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء مترجم از شاه ولی اللہ محدث دہلوی جلد 3 صفحہ 292-293، فرہنگ سیرت صفحہ 264 ماخوذ از ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء مترجم از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جلد 3 صفحہ 241.132 الهداية والنھات جلد 4 جزء 8 صفحہ 214-215 (خطبہ جمعہ 18 جون 2021ء الفضل انٹر نیشنل 19 جولائی 2021ء صفحہ 5 تا 8 جلد 28 شماره 55) 133 1 تاريخ الطبری جلد 2 صفحہ 567-568، فرہنگ سیرت صفحہ 101،102،172، سیدنا عمر بن خطاب شخصیت اور کارنامے صفحہ 442، لسان العرب زیر مادہ ”حر “

Page 510

محاب بدر جلد 3 134 انوار العلوم جلد 8 صفحہ 296-297 135 انوار العلوم جلد 22 صفحہ 596 136 البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر جلد 10 صفحہ 185-186 137 خطبات محمود جلد 27 صفحہ 353 138 ملفوظات جلد 1 صفحہ 495 139 خطبات محمود جلد 4 صفحہ 63 سال 1914ء 140 ماخوذ از تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحه 111 141 البدایۃ والنھایة لابن کثیر جلد 10 صفحہ 186 490 حوالہ جات 142 ماخوذ از ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (مترجم) جلد 3 صفحہ 228-229 143 ماخوذ از ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ( مترجم ) جلد 3 صفحہ 286-287، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 95 144 انوار العلوم جلد 21 صفحہ 379 145 انوار العلوم جلد 16 صفحہ 42-43 146 خطبہ جمعہ 25 جون 2021 ء الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2021ء صفحہ 5 تا8 جلد 28 شمارہ 57 147 انوار العلوم جلد 21 صفحہ 478،444-479 148 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 26-27 149 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 508 150 ماخوذ از طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحه 165 تا 169، لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 234 زیر لفظ شرید ، فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد 5 صفحہ 460-461 حدیث 2764 151 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 508-509 152 طبقات الکبری جلد 4 صفحہ 21 153 ماخوذ از ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء مترجم از شاہ ولی اللہ جلد 3 صفحہ 236، السیرت نبوی صفحہ 168 154 ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 459 155 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 29 تا 31 156 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 61-62 14 تفسیر کبیر جلد 15 صفحه 101-102 157 158 ماخوذ از الفاروق صفحہ 185 159 ماخوذ از الفاروق صفحہ 180 تا 182 160 ماخوذ از الفاروق صفحہ 189 تا 193 161 ماخوذ از خطبات محمود جلد 23 صفحہ 222-223 162 ماخوذ از الفاروق صفحہ 207،202،198-208 163 164 165 ماخوذ از الفاروق صفحہ 209-210 خطبہ جمعہ 2 جولائی 2021 ء الفضل انٹر نیشنل 23 / جولائی 2021ء صفحہ 3 تا 8 جلد 28 شمارہ 59 ماخوذ از الفاروق صفحہ 195 تا 198 166 ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 199 ، 200 167 انوار العلوم جلد 8 صفحہ 300

Page 511

محاب بدر جلد 3 168 ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 202 انوار العلوم جلد 4 صفحہ 404 169 170 ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 203 تا 205 491 171 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 667، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 16 صفحہ 279 172 تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 460 173 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جون 2021 ء 174 ماخوذ از ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء مترجم اشتیاق احمد صاحب جلد 3 صفحہ 286 175 ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 206 تا 210 176 ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحه 214 تا 217 و221 177 ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 216 تا 218، سیر الصحابہ جلد 1 صفحہ 126 ، 127 ، لسان العرب زیر مادہ دب 178 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9 صفحه 154، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 504 179 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 53 180 تفسیر کبیر جلد 15 صفحه 100 ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 233 181 182 183 صحیح بخاری حدیث 3934 فتح الباری لابن حجر جلد 7 صفحہ 314-315 حدیث 3934، سبل الهدی والرشاد جلد 12 صفحہ 36-37 حوالہ جات 184 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صلی اللی علوم صفحہ 243، شرح الزرقانی علی المواهب اللدنية جزء 2 صفحہ 102 از 185 فتح الباری جلد 7 صفحہ 315.حدیث 3934، الکامل فی التاریخ جزء 1 صفحہ 13 ، ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 248 186 ماخوذ از الفاروق صفحه 250 ، ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 310 18 اخوذ از الفاروق، صفحہ 401 تا 12،403 2 (خطہ جمعہ 9 جولائی 2021ء الفضل انٹر نیشنل 27 جولائی تا 12 اگست 2021ء (سالانہ نمبر بعنوان اطاعت خلافت) صفحہ 7 تا 11 جلد 28 شماره 60 تا64) 188 ماخوذ از الفاروق صفحه 159 189 بخاری کتاب العمل فی الصلوۃ باب تفکر الرجل الشئ في الصلوة 191 190 تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ مقاله از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 7 تا 9، تاریخ طبری جلد 2 حصہ 2 مترجم صفحہ 194، تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 334 و 360-361، اخبار الطوال صفحہ 165-166، فتوح البلدان صفحہ 350، ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحه 354،353، ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 79،78 مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 9 تا12، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 362-363، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 434، جلد 5 صفحہ 351 192 مقاله تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 12، 13، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 364 193 مقاله تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 14، ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحه 357، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 261 194 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 18 دسمبر 2020ء حضرت علی کے تذکرہ میں 195 مقاله تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 18 تا 21، تاریخ طبری مترجم جلد دوم حصہ دوم صفحه 229، ماخوذ از تاریخ ابن خلدون مترجم جلد 3 حصہ اوّل صفحہ 270 تا 273، الکامل فی التاریخ صفحہ 311

Page 512

محاب بدر جلد 3 492 حوالہ جات 196 انوار العلوم جلد 22 صفحہ 56-57 (خطہ جمعہ 16 جولائی 2021ء الفضل انٹر نیشنل 27 جولائی تا 12 اگست 2021 ء سالانہ نمبر بعنوان اطاعت خلافت) صفحه 12 تا 14 جلد 28 شماره 60 تا 64) 197 الاخبار الطوال صفحہ 166-167 198 مقاله تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 23-24، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 372، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 607، جلد 2 صفحہ 376 199 ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحه 361 تا 363، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 373-374، ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 82 تا 84، ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 288 تا 291، ماخوذ از تاریخ طبری مترجم جلد 2 حصہ 2 صفحہ 237-240،238-241، مقالہ 'تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 28-29 200 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 294 تا 295، فرہنگ سیرت صفحہ 229، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 45، جلد 3 صفحہ 187 201 ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 85 86t، فرہنگ سیرت صفحہ 172 202 203 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 381، مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 35 تا37 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 382 204 تاریخ طبری مترجم جلد دوم حصہ دوم صفحہ 253-254 205 مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 48 تا50 ، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 386-387، معجم البلد ان جلد 3 صفحہ 304،131 206 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 299-302، معجم البلد ان جلد 4 صفحہ 333 207 تاریخ الطبری جلد 4 صفحہ 115-116 208 211 ت تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 387، مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 50-51 201 تاریخ الطبری جلد 4 صفحہ 117-118 210 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 301 تا 333، مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحه 91 تا 95، ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 84 تا 89، تاریخ الطبری جلد 2 صفحه 435-436، ماخوذ از تاریخ طبری مترجم جلد دوم حصہ دوم صفحہ 325،310263، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 267، جلد 4 صفحہ 356،94 تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 367-368 212 خطبہ جمعہ 23 جولائی 2021ء الفضل انٹر نیشنل 13 / اگست 2021ء صفحہ 5 تا 10 جلد 28 شمارہ 65 213 سیرت خاتم النبيين صفحه 577-578 214 ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحه 413 تا 417، ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 100 تا 103 ، ماخوذ از تاریخ طبری متر جم جلد دوم حصہ دوم صفحہ 388، معجم البلد ان جلد 4 صفحہ 553، جلد 5 صفحہ 89،88 مترجم 215 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحه 468 تا 471، ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحه 421،420، ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 104 216 الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 106 ،الأخبار الطوال، صفحہ 183 217 21 طبری جلد 2 صفحہ 475 218 مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 120 ، فتوح البلد ان صفحہ 185 219 ماخوذ از تاریخ طبری جلد دوم صفحه 438 تا 442، فرہنگ سیرت صفحہ 116، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 259-260 220 مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 124 تا 127، طبری جلد 2 صفحہ 494، فتوح البلد ان صفحہ 225-226

Page 513

محاب بدر جلد 3 493 حوالہ جات 221 مقاله تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر ، صفحہ 127-128، تاریخ الطبری جلد 2، صفحہ 494,473 222 ماخوذ از الاخبار الطوال صفحه 188 تا 190 ، ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از اصلابی صفحه 422 تا425، فتوح البلد ان صفحہ 536، معجم البلد ان جلد 3 صفحہ 19، جلد 2 صفحہ 34 224 223 العقد الفريد جلد دوم صفحہ 144 مقالہ تا تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر ، صفحہ 135 225 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 145-146 ( خطبہ جمعہ 30 جولائی 2021ء الفضل انٹر نیشنل 20 اگست 2021ء صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 67) 226 ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحه 425، ماخوذ از سید نا عمر بن خطاب، شخصیت کار نامے صفحہ 689، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 198 227 مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر ، صفحہ 135 228 انوار العلوم جلد 12 صفحہ 405 229 ماخوذ از انوار العلوم جلد 24 صفحہ 293-294 230 مقاله تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر صفحہ 136 تا138، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 502-503 231 مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر صفحہ 138-139 232 فتوح البلدان صفحہ 184، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 521، اخبار الطوال صفحہ 192، مقالہ 'تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر صفحہ 139 233 اٹلس فتوحات اسلامیہ جلد 2 صفحہ 118 234 سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از اصلابی صفحه 426 235 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 522 236 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 523 237 اخبار الطوال صفحہ 192، فتوح البلد ان صفحہ 170 ، مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر صفحہ 140 238 اخبار الطوال صفحہ 192 239 تاریخ الطبری جلد 2، صفحہ 523 240 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 23-24 241 اخبار الطوال صفحہ 193 242 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 524 243 اخبار الطوال صفحہ 193 244 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 523-524 245 اخبار الطوال صفحہ 193 246 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 523 247 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 524 248 اخبار الطوال صفحہ 193

Page 514

محاب بدر جلد 3 249 فتوح البلد ان صفحه 183 250 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 518 251 اخبار الطوال صفحہ 194 252 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 525 256 253 فتوح البلدان صفحه 183 254 صحیح بخاری حدیث: 3159 255 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 520 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 525 257 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 526 258 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 520 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 526 اخبار الطوال صفحہ 194 259 260 261 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 526 262 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 526-527 263 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 527،521 264 اخبار الطوال صفحہ 195 265 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 533 266 تاريخ الطبری جلد 2 صفحہ 527-528 26 فتوح البلدان صفحه 183 268 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 528 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 521 269 270 فتوح البلد ان صفحہ 184 271 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 521 272 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 528 273 فتوح البلد ان صفحہ 184 494 274 مقاله تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 164 تا 166 275 طبری جلد نمبر 2 صفحہ 531 تا 532 276 فتوح البلدان صفحہ 188 277 مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 166 تا168 278 ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحه 431 حوالہ جات 279 مقاله تاریخ اسلام بعد حضرت عمرؓ از مکرم سد میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 169 (خطبہ جمعہ 20 اگست 2021ء الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 2021، صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 73) 280 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 537، مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 170 تا 172 ، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 511 جلد 3 صفحہ 132 281 سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحه 432

Page 515

محاب بدر جلد 3 495 حوالہ جات 282 مقاله تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 176 تا 179، تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 539-540 283 مقالہ تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ 180 تا184 284 تاریخ طبری متر جم جلد 3 حصہ اول صفحه 183 تا 185، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 546-547، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 105،26 جلد 3 صفحہ 252،191،37،250،451 جلد 4 صفحہ 253،471،347 285 سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحه 433 تا 435، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 548 286 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 549، تاریخ طبری متر جم جلد 3 حصہ اول صفحہ 190 287 تاریخ طبری مترجم جلد سوم حصہ اول صفحہ 192-193 289 288 سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از صلابی صفحہ 436، الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 382-383 تاریخ طبری مترجم جلد 3 حصہ اول صفحہ 194 تا196 ، تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 553-54، دلائل النبوة للبيبقى جلد 6 صفحہ 370، سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از صلابی صفحه 436، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 273، جلد 3 صفحہ 434 290 تقدیر الہی، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 575 براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 653-654 حاشیه در حاشیہ نمبر 4 291 292 سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از صلابی صفحه 436 293 تاریخ طبری مترجم جلد سوم حصہ اول صفحہ 196-197 294 تاریخ طبری متر جم جلد سوم حصہ اول صفحہ 197 295 تاریخ طبری مترجم جلد سوم حصہ اول صفحہ 198-199، تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 555 296 ماخوذ از الفاروق از شبلی صفحه 157 خطبه جمعه 27 اگست 2021ء الفضل انٹر نیشنل 17 ستمبر 2021ء صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 75) 297 مخطبہ جمعہ بیان فرموده 2 ستمبر 2022ء 298 سید نا عمر بن خطاب شخصیت اور کارنامے صفحہ 730، معجم البلد ان جلد اول صفحہ 402،557،623، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 364،20 299 معجم البلد ان جلد اول صفحہ 537-538 300 سیدناعمر فاروق اعظم مترجم صفحہ 194-195، الفاروق صفحہ 114، معجم البلد ان جلد 4 صفحہ 268 201 ماخوذ از الفاروق صفحه 114 تا سید نا عمر بن خطاب شخصیت اور کارنامے صفحہ 730، سید نا عمر فاروق اعظم مترجم صفحہ 213 302 تاریخ طبری ( مترجم ) جلد دوم حصہ دوم صفحہ 216، الفاروق صفحہ 114 303 تاریخ طبری (مترجم) جلد دوم حصہ دوم صفحہ 216-217 304 ماخوذ از الفاروق صفحہ 118-119، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 347 305 سید نا عمر بن خطاب شخصیت اور کارنامے صفحہ 734 306 ماخوذ از سید نا عمر فاروق اعظم مترجم صفحہ 331-332 307 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 321، تاریخ الطبری (مترجم) جلد دوم حصہ دوم صفحہ 359-360 308 سید ناعمر فاروق اعظم مترجم صفحہ 333، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 345، معجم البلد ان جلد 3 صفحہ 272 309 حضرت عمر فاروق اعظم، مترجم صفحہ 333-334، الفاروق صفحہ 118-119 310 ماخوذ از الفاروق صفحه 119 11 سید نا عمر فاروق اعظم مترجم صفحہ 333 تا339، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 445، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 238

Page 516

محاب بدر جلد 3 496 حوالہ جات 312 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 511، معجم البلد ان جلد 4 صفحہ 478 313 سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم صفحہ 357-359، سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب صفحہ 735-744،736-745، الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 140-141 (خطبہ جمعہ 10 ستمبر 2021ء الفضل انٹر نیشنل یکم اکتوبر 2021ء صفحہ 5تا8 جلد 28 شماره 79) 314 تاریخ دمشق الكبير جزء 2 صفحه 141-143 315 ماخوذ از الفاروق صفحه 119 تا 130 ، الاكتفاء جزء 2 صفحہ 271، فتوح الشام جزء 1 صفحہ 242، تاریخ طبری جز 2 صفحہ 338 تاریخ اسلام کی بہادر خواتین صفحہ 116، البدایۃ والنہایہ جلد 9 صفحہ 560 316 خطبات محمود جلد 24 صفحہ 15 تا 17 317 انوار العلوم جلد 26 صفحہ 229-231 318 مخطبہ جمعہ 17 ستمبر 2021ء، الفضل انٹر نیشنل 08 اکتوبر 2021ء صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 81 319 ماخوذ از تاریخ ابن خلدون مترجم جلد 3 حصہ اول صفحہ 207 320 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 حصہ دوم صفحہ 804 321 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 449، معجم البلد ان جلد اول صفحہ 348 322 ماخوذ از حضرت عمر فاروق اعظم مصفحہ 365-366 323 حضرت عمر فاروق اعظم مترجم صفحہ 368،358، تاریخ الخلفاء الراشدین صفحہ 279 324 ماخوذ از الفاروق صفحه 124 ماخوذ از حضرت عمر فاروق مترجم صفحه 369 325 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 292-293 326 ماخوذ از الفاروق صفحہ 124 327 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 295 328 ماخوذ از تاریخ طبری مترجم جلد 2 حصہ دوم صفحہ 369-370 ماخوذ از الفاروق صفحه 125 329 ماخوذ از حضرت عمر فاروق اعظم مترجم صفحه 368و371، فتوح البلدان صفحہ 88 330 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 449 331 ماخوذ از تاریخ ابن خلدون جلد 3 حصہ 1 صفحہ 208 332 ماخوذ از حضرت عمر فاروق اعظم مترجم صفحہ 373 333 ماخوذ از تاریخ طبری مترجم جلد دوم حصہ دوم صفحه 809 334 ماخوذ از الفاروق صفحہ 125-126 ، فتوح الشام مترجم جلد 2 صفحہ 224، خلفائے راشدین صفحہ 126-127، الاكتفاء جلد 2 296-295197 335 حضرت عمر فاروق اعظم مترجم صفحه 382 336 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 305-306 337 حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 174 338 خطبات محمود جلد 11 صفحہ 437 339 تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 110-111 340 سید نا حضرت عمر فاروق اعظم مترجم صفحہ 384 تا 390 ،590، سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب صفحہ 750 تا 752، الفاروق صفحہ 134 تا 136 (خطبہ جمعہ 24 ستمبر 2021ء ، الفضل انٹر نیشنل 15 تا 21 اکتوبر 2021ء(خصوصی اشاعت بابت سیرت النبی صلی علی نیم حصہ اول ) صفحہ 5 تا 10 جلد 28 شماره 83-84)

Page 517

محاب بدر جلد 3 341 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 359-360 342 سید نا حضرت فاروق اعظم مترجم صفحه 556-557 343 ماخوذاز الفاروق صفحہ 160 344 الاكتفاء جلد 2 صفحہ 324-325 345 ماخوذ از سید نا عمر بن خطاب مترجم صفحه 756،755 497 حوالہ جات 346 سیدنا عمر بن خطاب مترجم صفحہ 757-758، ماخوذ از حضرت عمر فاروق اعظم متر جم صفحہ 564-565، الاكتفاء جزء2 صفحہ 346، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 567، اٹلس فتوحات اسلامیہ جلد 2 صفحہ 225 347 348 349 سید نا عمر بن خطاب مترجم صفحه 758-759 حضرت عمر فاروق اعظم متر جم صفحه 567-570 سید نا عمر بن خطاب مترجم صفحہ 759 350 ماخوذ از سید نا حضرت عمر فاروق اعظم متر جم صفحه 571-572 351 سید نا حضرت عمر فاروق اعظم مترجم صفحہ 573 و579، اٹلس فتوحات اسلامیہ جلد 2 صفحہ 229 352 ماخوذاز الفاروق صفحہ 150-151 سیرت عمر فاروق صفحہ 264-265 353 354 ماخوذ از الفاروق صفحہ 150 355 سید نا عمر بن خطاب شخصیت اور کارنامے صفحہ 760 ، ماخوذ از سید نا حضرت عمر فاروق اعظم متر حجم صفحہ 590,584,582 356 سید نا عمر بن خطاب شخصیت اور کارنامے صفحہ 760 ، ماخوذ از الفاروق صفحہ 150 357 سید نا عمر بن خطاب شخصیت اور کارنامے مترجم صفحہ 760 358 359 سید نا حضرت عمر فاروق اعظم متر جم صفحہ 602،603،605،608 3 ماخوذ از الفاروق صفحہ 162 تا 165، ماخوذ از سید نا عمر بن خطاب مترجم صفحہ 760 تا 764 ☑360 3 سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 224 361 کنز العمال جزء 10 صفحہ 138 حدیث 28697 362 363 3 ماخوذ از سیرت عمر فاروق صفحات 294 تا 297 ماخوذ از تصدیق براہین احمدیہ جلد اوّل صفحہ 203-204 364 ماخوذ از تصدیق براہین احمدیہ جلد اول صفحہ 203 حاشیہ 365 سید نا عمر بن خطاب شخصیت اور کارنامے صفحہ 765-766، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 462، جلد 5 صفحہ 357 366 خطبات محمود جلد 13 صفحہ 189 367 خطبات محمود جلد 30 صفحہ 175-176 368 خطبہ جمعہ یکم اکتوبر 2021ء، الفضل انٹر نیشنل 22 تا 28 اکتوبر 2021ء ( خصوصی اشاعت بابت سیرت النبی صلی اللام حصہ دوم) صفحہ 5 تا 10 جلد 28 شماره 85-86 369 ماخوذ از الفاروق صفحہ 170 تا 177 ، 287 ، اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 20 صفحات 529-530، اردو لغت جلد 19 صفحہ 932، اردو لغت جلد پنجم صفحہ 281-282، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 249-250 370 مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 429، حدیث 5620 371 صحیح البخاری حدیث 3675 372 المعجم الكبير للطبرانی جلد اول صفحہ 67-68، روایت 61

Page 518

محاب بدر جلد 3 373 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 252 374 خطبات محمود جلد 17 صفحہ 474-475 375 ماخوذ از خطبات محمود جلد 1 صفحہ 166-167 376 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 252-253 377 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 255 378 380 498 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 278، البدایۃ والنھایۃ جلد 4 صفحہ 134 حوالہ جات 379 ماخوذ از تاریخ الطبری جزء 5 صفحہ 54، الکامل فی التاریخ جزء 2 صفحہ 448 ماخوذ از الفاروق صفحه 154 صحیح بخاری حدیث 3700، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 16 صفحہ 292، لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 137 (خطبہ جمعہ 8 اکتوبر 2021ء ، الفضل انٹر نیشنل 29 اکتوبر 2021ء صفحہ 5 تا 10 جلد 28 شماره 87) 381 فتح الباری جلد 7 صفحہ 64 شرح حدیث نمبر 3700، طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 263 382 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 266 383 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 263 384 البدایہ والنھایہ جلد 4 صفحہ 144 385 ماخوذ از سیرت عمر فاروق مترجم، صفحه 340 تا344 386 ماخوذ از الفاروق عمر مترجم، صفحہ 869 تا 872 387 388 389 390 391 392 393 صحیح مسلم کتاب حدیث 4713 صحیح مسلم حدیث 4714 ماخوذ از یحیح البخاری حدیث 3692 تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 587-588 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 28-29 خطبات محمود جلد 11 صفحہ 240-241 خطبات محمود جلد 16 صفحہ 68-69 394 طبقات الکبری جلد 3 صفحه 257 395 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 273 396 وفاء الوفاء باخبار دار المصطفى جلد 1 جزء الثانی صفحہ 222 (خطبہ جمعہ 15 اکتوبر 2021ء، الفضل انٹر نیشنل 05 نومبر 2021، صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 89) 397 ماخوذ از سیرت عمر فاروق مترجم صفحه 342-343 398 ماخوذ از سید نا حضرت عمر فاروق اعظم مترجم صفحه 881-882 399 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 145-146 400 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 273 401 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 279 402 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 274-275 403 طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 267 404 خطبات محمود جلد 10 صفحہ 24 405 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 279 تا 281، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 166

Page 519

صحاب بدر جلد 3 499 406 سید نا حضرت عمر فاروق اعظم مترجم 867-868، الفاروق صفحہ 169 407 408 ملفوظات جلد 8 صفحہ 124 ستر الخلافہ ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 346.اردو ترجمہ سر الخلافہ صفحہ 78 409 انوار العلوم جلد 10 صفحہ 262 حوالہ جات 410 تاریخ طبری مترجم جلد 3 حصہ 1 صفحہ 211، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 166 ، البدایۃ والنھایہ جزء10 صفحہ 192 تا194، ریاض النظرة صفحہ 418-419، تاریخ الخلفاء مترجم صفحہ 168 صحیح مسلم حدیث 6091، سنن ترمذی حدیث 3653 411 412 صحیح البخاری حدیث 3685 413 طبقات الكبرى جزء 3 صفحه 282 414 سيرة عمر بن الخطاب صفحہ 212 415 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 283 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 651 417 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 285 418 طبقات الکبری جزء 3 صفحہ 282 416 419 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 284 420 سنن ابی داؤد حدیث 4628 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 285 422 الخلفاء الرشدون صفحہ 100 ، الفاروق صفحہ 404، اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 53 423 ' The decline and fall of the Roman empire, Edward Gibbon V 3 p 178.London 424 The 100 by Michael H.Hart pages 271 to 275 425 175 page History of The Arabs by Philip K.Hitti 426 (خطبہ جمعہ 22 اکتوبر 2021 ء، الفضل انٹر نیشنل 12 نومبر 2021، صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 91) صحیح بخاری حدیث 3693 427 سنن ترمذی حدیث 3747 428 صحیح بخاری حدیث 3242 429 سر سنن ابو داؤ د حدیث 3987 سنن ترمذی حدیث 3694 430 سن 431 سنه.ترمذی حدیث 3664 432 حلیة الاولیاء جلد 6 صفحہ 309 روایت 8950 433 سم 434 435 نن ترمذی حدیث 3686 صحیح مسلم حدیث 7373 سنن ترمذی حدیث 3693 436 صحیح بخاری حدیث 3689 437 فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 11 حاشیہ 438 تذکرہ صفحہ 82 ایڈیشن چہارم

Page 520

صحاب بدر جلد 3 439 440 441 500 خطبہ جمعہ بیان فرموده 29 اکتوبر 2021ء حضرت عمررؓ کے تذکرہ میں ماخوذاز صحیح بخاری حدیث 4679 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 429 442 صحیح بخاری حدیث نمبر 402 صحیح مسلم حدیث 6206 صحیح مسلم حدیث 6207 سنن ترمذی حدیث 3049 443 444 445 سن 446 تاریخ الخلفاء صفحہ 98 447 448 449 ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 219 صحیح مسلم حدیث 139 صحیح بخاری حدیث 2982 450 انوار العلوم جلد 23 صفحہ 282 453 454 451 سم سنن ترمذی حدیث 189 452 صحیح بخاری حدیث 2610 یح بخاری حدیث 540 صحیح بخاری حدیث 92 455 صحیح بخاری حدیث 93 صحیح مسلم حدیث 2747 صحیح بخاری حد ا حدیث 2468 456 457 458 دة چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 299-300 459 سنن ابو داؤد حدیث 1498 460 صحیح بخاری حدیث 3668،3667 461 انوار العلوم جلد 2 صفحہ 128 سنن ابن ماجہ حدیث 2945 صحیح بخاری 1597 462 463 464 تفسیر کبیر جلد 14 صفحہ 456-457 صحیح مسلم حدیث 4294 465 466 السيرة الحلميه مترجم جلد 3 صفحہ 440-441 467 468 ملفوظات جلد 1 صفحہ 455 انوار العلوم جلد 3 صفحہ 28 469 صحیح بخاری حدیث 3682 صحیح بخاری حدیث 82 470 471 یوحنا باب 16 آیت 12-13 472 صحیح بخاری مترجم جلد 1 صفحہ 156-157 473 خطبات محمود جلد 23 صفحہ 467 حوالہ جات

Page 521

حاب بدر جلد 3 474 صحیح بخاری حدیث 3691 475 سنن ابن ماجہ حدیث 154 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 161 476 477 478 479 مصنف ابن ابی شیبہ جلد 11 صفحہ 120 حدیث 32546 مصنف ابن ابی شیبہ جلد 11 صفحہ 121 حدیث 32548 501 سنبل حوالہ جات 4 مصنف ابن ابی شیبہ جلد 11 صفحہ 580-581 حدیث 34427، تاج العروس زیر مادہ 480 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 249 خطبہ جمعہ 29 اکتوبر 2021ء ، الفضل انٹر نیشنل 19 نومبر 2021ء صفحہ 5 تا 10 جلد 28 شماره 93) 481 طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 148 482 تاریخ الخلفاء صفحہ 101 483 ماخوذ از خطبات محمود جلد 15 صفحہ 426 484 ماخوذ از خطبات محمود جلد 5 صفحہ 3،4 485 ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب صفحه 424 تا425 486 سیرت عمر بن خطاب صفحہ 122 487 491 طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 202، فتح الباری جلد 2 صفحہ 144 493 سم 488 حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ 326 489 انوار العلوم جلد 3 صفحہ 130-131 490 کنز العمال جلد 6 روایت 35624 خطبات محمود جلد 27 صفحہ 313-314 492 صحیح بخاری روایت 6906،6905 سنن ترمذی حدیث 2690 صحیح مسلم حدیث 147 495 صحیح بخاری حدیث 3683 496 سنن ترمذی حدیث 3691 497 سنن ترمذی حدیث 3690 498 روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 143 499 سنن ترمذی حدیث:3682 494 500 501 سیرت عمر بن خطاب از ابن الجوزی صفحه 21 کنز العمال جلد 6 جزء 12 روایت 35870 502 انوار العلوم جلد 24 صفحہ 260-261 503 سنن ابو داؤد حدیث 3987 504 صحیح بخاری حدیث 4358، فرہنگ سیرت صفحہ 152 505 سن سنن ترمذی حدیث 3668 506 سد سنن الترمذی حدیث 3669 507 سنن ترمذی حدیث 3671

Page 522

محاب بدر جلد 3 509 سفر 508 سنن ترمذی حدیث 3684 سنن ترمذی حدیث 3692 سنن ترمذی عمر حدیث 3694 سنن ترمذی حدیث 3664 510 سن 511 سم 513 سم 512 سنن ترمذی حدیث 3662 سنن ترمذی حدیث 3680 514 سر سنن ترمذی حدیث 3663 502 515 سنن ابو داؤد حدیث 4634-4635، عون المعبود شرح سنن ابی داؤد جزء 12 صفحہ 388،387 516 حلیۃ الاولیاء از امام اصفهانی جلد 7 صفحہ 205 حدیث 10323 517 حوالہ جات حلیۃ الاولیاء از امام اصفہانی جلد 7 صفحہ 205 حدیث 10325 (خطبہ جمعہ 12 نومبر 2021ء،الفضل انٹر نیشنل 03 دسمبر 2021ء صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 97) 518 انوار العلوم جلد 4 صفحہ 38-39 519 سیرت عمر بن خطاب از ابن الجوزی صفحه 140 521 520 الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 232 5 موطا امام مالک صفحہ 601 روایت 1867 522 الاستيعاب جلد 3 صفحہ 236 523 صحیح بخاری کتاب الاذان باب اذا کی الامام في الصلواة 524 ماخوذ از خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 248-249 525 صحیح بخاری حدیث 4161،4160 526 سیرت عمر بن خطاب از ابن الجوزی صفحہ 58 527 ماخوذ از البدایۃ والنھایة جزء 10 صفحہ 185-186 528 ماخوذ از تاریخ الطبری جزء 5 صفحہ 62 529 انوار العلوم جلد 22 صفحہ 596 530 ماخوذ از ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء مترجم جلد 3 صفحہ 276 تا 278 531 ماخوذ از ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء متر جم جلد 3 صفحہ 281-282 532 سیرت عمر بن خطاب از ابن الجوزی صفحہ 98 533 54 تفسیر کبیر جلد 15 صفحہ 100 534 تفسیر الطبری جزء6 صفحہ 127 535 صحیح بخاری حدیث 5729، طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 214-215، معجم البلدان جلد 3 صفحہ 239، جلد 4 صفحہ 177-178 536 سیر اعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 18-19 537 ماخوذ از سید نا حضرت عمر فاروق اعظم از بیکل.مترجم صفحہ 413 538 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 487 539 انوار العلوم جلد 21 صفحہ 104 540.5 کنز العمال جلد 4 جزء 8 حدیث 23533 541 تاریخ الخلفاء از سیوطی، صفحه 100

Page 523

صحاب بدر جلد 3 503 542 ماخوذ از سید نا حضرت عمر فاروق اعظم از بیکل متر جم صفحه 673 543 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 553-554 544 ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 654 حاشیہ در حاشیہ نمبر 4 545 انوار العلوم جلد 19 صفحہ 536-537 546 تفسیر کبیر لامام رازی جلد 1 صفحه 143 547 طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 177 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 162 548 549 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 237 550 حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 482 صحیح بخاری حدیث 470 551 552 سیرت عمر بن الخطاب از ابن جوزی صفحہ 165 553 صحیح بخاری حدیث 2737 554 ماخوذ از خطبات محمود جلد 10 صفحہ 24 555 خطبہ جمعہ 19 نومبر 2021ء، الفضل انٹر نیشنل 10 دسمبر 2021ء صفحہ 5 تا9 جلد 28 شماره 99 556 صحیح بخاری حدیث 4642 557 حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 122 558 رت عمر بن الخطاب از ابن جوزی صفحه 165 559 صحیح بخاری حدیث 3039 560 موطا امام مالک حدیث 31 561 طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 147 ماخوذ از اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 667 563 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 11 صفحه 460 562 564 566 موطا امام مالک روایت 1425 565 کنز العمال جلد 6 روایت نمبر 36005 سیرت عمر بن خطاب از صلابی صفحه 97 567 سیرت عمر بن خطاب از صلابی صفحه 106 سیرت عمر بن خطاب از صلابی صفحه 107 569 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 222 568 سیرت عمر بن خطاب از صلابی صفحه 107 571 سیرت عمر بن خطاب از علی محمد صلابی صفحه 107 572 سیرت عمر بن خطاب از صلابی صفحه 107 573 ماخوذ از تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 512-513 574 ماخوذ از سید نا عمر بن خطاب از صلابی صفحه 101 575 ماخوذ از سید نا عمر بن خطاب شخصیت اور کارنامے از صلابی متر جم صفحہ 184 سیرت عمر بن خطاب از صلابی صفحه 171 576 حوالہ جات

Page 524

صحاب بدر جلد 3 577 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 217 578 کنز العمال جلد 6 صفحہ 287 روایت 35966 574 کنز العمال جلد 3 صفحہ 303 حدیث 14303 580 تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 201 581 حلیۃ الاولیاء جلد 4 صفحہ 304-305.روایت 5841 582 تاریخ دمشق الكبير لابن عساکر مجلد 11 جزء 21 صفحہ 128 سیرت عمر بن الخطاب از ابن جوزی صفحہ 217 583 584 سیرت عمر بن الخطاب از ابن جوزی صفحہ 217 585 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 577 586 587 504 سیرۃ عمر بن الخطاب، شخصیت اور کارنامے مترجم از صلابی صفحہ 333 ماخوذ از سیرۃ عمر بن الخطاب شخصیت اور کارنامے مترجم از صلابی صفحہ 336 588 ماخوذ از الفاروق صفحہ 330 تا 333 589 ماخوذاز الفاروق صفحہ 345 590 ايام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 265 591 مکتوبات احمد جلد دوم صفحه 151 مکتوب نمبر 2 592 593 594 595 سر الخلافہ اردو ترجمہ صفحہ 25-26 ماخوذ از سر الخلافۃ اردو ترجمہ صفحہ 28 تا 30 سر الخلافۃ اردو ترجمہ صفحہ 37 تا 39 سر الخلافۃ اردو ترجمہ صفحہ 77 تا 79 596 ملفوظات جلد 6 صفحہ 129 حوالہ جات 597 ملفوظات جلد 1 صفحہ 297-298(خطبہ جمعہ 26 نومبر 2021ء، الفضل انٹر نیشنل 17 دسمبر 2021ء صفحہ 5 تا9 جلد 28 شماره 101) 598 الاصابه جزء 4 صفحہ 377، سيرة امير المؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ و عصرہ صفحہ 15، سیر الصحابہ جلد 1 صفحہ 154، طبقات الكبر فى جلد 8 صفحہ 183،182 599 سيرة امير المؤمنين عثمان بن عفان شخصیته و عصر و صفحه 15 600 601 602 603 الاصابه جزء 4 صفحہ 377 سيرة امير المؤمنین عثمان بن عفان شخصیته و عصره صفحه 16 سيرة امير المؤمنين عثمان بن عفان شخصیتہ و عصرہ صفحہ 16 الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 31، معجم البلدان صفحہ 320، معجم البلدان جلد 3 صفحہ 472 604 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 31 605 شرح علامہ زرقانی جزء 4 صفحہ 323،322 606 المعجم الكبير للطبرانی جزء 1 صفحہ 76 حدیث 98 607 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 237-238 608 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جزء 9 صفحہ 58 حدیث نمبر 14498 609 المستدرک جز 4 صفحہ 414 حدیث 6999

Page 525

حاب بدر جلد 3 610 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 265-266 611 سیر الصحابہ جلد اول ( خلفائے راشدین ) صفحہ 178 612 الطبقات الكبرى جزء3 صفحہ 31 613 سیرت خاتم النبيين صفحه 146 تا152 614 الطبقات الكبرى جزء الثالث صفحہ 31 615 الطبقات الكبرى جزء الثالث صفحہ 38 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 32 616 505 617 سنن ابن ماجہ حدیث 110 سيرة امير المؤمنين عثمان بن عفان شخصیتہ وعصره صفحه 41 سيرة امير المؤمنين عثمان بن عفان شخصیته و عصره صفحه 42 صحیح البخاری حدیث 1342 مترجم صحیح البخاری جلد 2 صفحہ 663 618 619 620 621 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحه 32 622 6 کنز العمال جزء 13 صفحہ 21 حدیث 36201 حوالہ جات 623 خطبه جمعه بیان فرموده 22 جنوری 2021ء الفضل انٹر نیشنل 12 فروری 2021، صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 13 624 الطبقات الكبرى لابن سعد، جزء 3 صفحہ 41، سیرت خاتم النبیین صفحہ 463 625 سیرت خاتم النبيين تصفحہ 463 626 ماخوذ از شرح العلامه الزرقانی جزء 2 صفحہ 418-419 627 سیرت خاتم النبيين صفحہ 493-494 628 شرح العلامة الزرقانی جزء 3 صفحہ 169-222،170 629 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين مصفحہ 749 تا 769 630 ماخوذ از دیباچه تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 307-308 (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 29 جنوری 2021ء الفضل انٹر نیشنل 16 تا22 فروری 2021ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود) صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 14-15) سیرت ابن ہشام صفحہ 14 6 تا 615، الطبقات الکبری جزء 2 صفحہ 280 631 632 633 صحیح البخاری حدیث: 4128 السيرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ 614، الطبقات الکبری جزء 2 صفحہ 280، صحیح البخاری حدیث:4128 634 سن 635 سنن النسائی حدیث : 4072، سنن ابوداؤد حدیث 4358-4359 6 تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 285 636 السيرة الحلمه جلد 3 صفحہ 132-133 63 شرح الزرقانی جلد 4 صفحہ 66 ، 68 تا 71 ، سنن الترمذی حدیث 3700،3701 638 خطبات محمود جلد 19 صفحہ 98-99 639 خطبات محمود جلد 19 صفحہ 100 640 خطبات ناصر جلد 2 صفحہ 341 641 ماخوذ از تاریخ دمشق الكبير جلد 1 جز 2 صفحہ 46 642 کنز العمال جلد 3 جز 5 صفحہ 248 حدیث: 14089 643 سيرة امير المؤمنين عثمان بن عفان صفحه 51-52

Page 526

محاب بدر جلد 3 644 645 646 647 648 649 650 سيرة امير المؤمنین عثمان بن عفان صفحہ 53 سيرة امير المؤمنین عثمان بن عفان صفحہ 54 ابی داؤد حدیث:4634 ابی داؤد حدیث: 4636 ابی داؤ د حدیث: 4637 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 34-35 صحیح البخاری حدیث: 3700 651 انوار العلوم جلد 15 صفحہ 484-485 652 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 35 64 تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 87 653 506 حوالہ جات 654 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 1 صفحہ 165 تا168، البداية والنهاية جلد 10 صفحہ 237، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 625 و صفحہ 632، بر صغیر میں اسلام کے اولین نقوش صفحہ 63،65 655 البداية والنهاية جزء7 صفحه 147-148 656 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 96، البداية والنهاية جزء 7 صفحہ 148-149 ( خطبه جمعه بیان فرمودہ 5 فروری 2021ء الفضل انٹر نیشنل 26 فروری 2021ء صفحہ 5 تا10 جلد 28 شماره 17) 657 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 102-103 658 تاریخ ابن خلدون جزء 2 صفحہ 575، النجوم الزاهرة فى ملوک مصر و القاهرة، جلد 1 صفحہ 80 659 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 115 660 ماخوذ از تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 116 ، ماخوذ از البدایہ والنہایة جزء 7 صفحہ 152-153 661 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 118 662 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 123 663 البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر جزء 7 صفحہ 155 664 665 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 630، سیر الصحابہ جلد 1 صفحہ 168 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 130 666 تاريخ الطبری جلد 5 صفحہ 130-131 667 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 131، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 568 668 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 131 669 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 132 670 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 132-133 671 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 132 672 کتاب الخراج صفحه 218 673 بر صغیر میں اسلام کے اولین نقوش صفحہ 63 674 بر صغیر میں اسلام کے اولین نقوش بھٹی صفحہ 65 675 سنن الترمذی ابواب حدیث 3705 676 سنن ابن ماجہ حدیث 112

Page 527

صحاب بدر جلد 3 677 سنن ابن ماجہ حدیث 111 678 سنن ابن ماجہ حدیث 113 معہ حاشیہ 679 انوار العلوم جلد 4 صفحہ 249 680 انوار العلوم جلد 4 صفحہ 253-254 681 انوار العلوم جلد 4 صفحہ 262-263 682 انوار العلوم جلد 4 صفحہ 282-283 507 حوالہ جات 683 ماخوذ از انوار العلوم جلد 4 صفحہ 293 تا 296 (خطہ جمعہ 26 فروری 2021ء ، الفضل انٹر نیشنل 19 تا 29 مارچ 2021ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مسیح موعود) صفحه 5 تا 8 جلد 28 شماره 23 تا 25) 684 ماخوذ از انوار العلوم جلد 4 صفحه 314 تا 327( خطبه جمعه بیان فرموده 5 0 مارچ2021 ء ، الف ، الفضل انٹر نیشنل 19 تا 29 مارچ 2021ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم مسیح موعود ) صفحه 11 تا 15 جلد 28 شماره 23 تا 25) 685 ماخوذ از اسلام میں اختلافات کا آغاز، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 285-286 686 الطبقات الکبری جز 3 صفحہ 38 الطبقات الكبرى جز 3 صفحہ 39 687 688 الطبقات الكبرى جز 3 صفحه 39 689 ماخوذ از اسلام میں اختلافات کا آغاز، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 327 تا331 690 ماخوذ از رپورٹ مجلس مشاورت 11، 12 اپریل 1925 ، صفحہ 32-33 191 ماخوذ از خلافت راشده، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 536-537 692 ماخوذ از نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہے ، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 246 693 اسلام میں اختلافات کا آغاز ، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 251 تا 253 694 الاستيعاب جز 3 صفحہ 159 الطبقات الكبرى جز 3 صفحہ 43 695 696 الطبقات الكبرى جز 3 صفحہ 43 697 الطبقات الکبریٰ جز 3 صفحہ 42-43، الاصابہ جلد 5 صفحہ 468 69 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 687 699 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 586 ( خطبہ جمعہ بیان 12 مارچ 2021ء الفضل انٹر نیشنل 02 اپریل 2021ء صفحہ 5 تا 10 جلد 28 شماره 27) 700 ماخوذ از اسلام میں اختلافات کا آغاز، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 333 701 صحیح بخاری حدیث 3695 702 صحیح بخاری حدیث 3699 703 سنه سنن ترمذی حدیث 3708 704 الطبقات الكبرى جز 3 صفحہ 42، فرہنگ سیرت صفحہ 130 705 ماخوذ از اسلام میں اختلافات کا آغاز، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 294 706 ماخوذ از اسلام میں اختلافات کا آغاز ، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 329 707 الاصابہ جز 4 صفحہ 378 708 الاصابہ جز 4 صفحہ 378

Page 528

صحاب بدر جلد 3 709 الاستيعاب جز 3 صفحہ 156 710 الطبقات الکبریٰ جز 3 صفحہ 32 تا 34 711 508 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جز 9 صفحہ 57 حدیث نمبر 14493 712 صحیح بخاری حدیث 5875 713 صحیح بخاری حدیث 5879، تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 112،111 714 سنن ابی داؤد حدیث 4649 715 خطبہ جمعہ 12 مارچ 2021ء 716 سنن ترمذی حدیث 3698 717 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جز 9 صفحہ 66 حدیث 14528 718 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 484،483 7 ماخوذاز صحیح بخاری حدیث 3698 719 720 مجمع الزوائد جز 9 صفحہ 65 حدیث 14524 721 سنن النسائی حدیث 3638 722 ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 430 723 ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 432 724 ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 435 725 ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 438،437 ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 447،446 ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 459 726 727 728 ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 463 تا 465، اردو لغت تاریخی اصولوں پر جلد 18 صفحہ 492، زیر لفظ مقصورہ 729 ملفوظات جلد 8 صفحہ 117 730 ملفوظات جلد 6 صفحہ 275-276 731 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 92 حوالہ جات 732 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 97 733 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جز 9 صفحہ 58 حدیث 14500 734 الطبقات الكبرى جز 3 صفحہ 32 735 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جز 9 صفحہ 58 حدیث 14501 (خطبہ جمعہ 19 مارچ 2021ء الفضل انٹر نیشنل 9 اپریل 2021 ء صفحہ 5 تا 10 جلد 28 شماره 29) 736 737 ابن ماجہ حدیث 154 ترمذی حدیث 3790 738 سنن ابن ماجہ حدیث 311 139 صحیح مسلم روایت 6209، مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 59-60 حدیث 14504 740 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 381-382 741 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 33 742 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 39

Page 529

حاب بدر جلد 3 743 مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 65 حدیث نمبر 14525 744 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 489 745 مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 64،حدیث 14523،14520 البداية والنهاية جلد 4 جزء 7 صفحہ 206 746 747 البداية النهاية جلد 4 جزء 7 صفحہ 206-207 748 البداية النهاية جلد 4 جزء 7 صفحہ 208 749 صحیح بخاری حدیث 3717 750 کنز العمال جلد 7 جزء13 صفحہ 23، حدیث 36217 751 صحیح بخاری حدیث 4987،4986 752 753 سيرة امير المؤمنين عثمان بن عفان صفحه 231-232 74 تفسیر کبیر جلد 12 صفحه 69-70 754 حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 272 509 حوالہ جات 755 تفسیر کبیر جلد 13 صفحه 71 تا75 (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 2 اپریل 2021ء ، الفضل انٹر نیشنل 23/ اپریل 2021ء صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 33) 756 یح بخاری حدیث 3655 757 صحیح بخاری حدیث 3697 ابی داؤد حدیث 4629 758 759 761 762 763 ترمذی حدیث 3709 حیح بخاری حدیث 3696 اردو ترجمہ صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 192 حیح بخاری حدیث 159 حیح البخاری حدیث 912 764 فقہ احمدیہ (عبادات) صفحہ 122 765 نعمۃ الباری فی شرح صحیح البخاری جلد 2 صفحہ 837 حدیث 912 766 صحیح بخاری حدیث 5571-5572 767 فقہ احمدیہ (عبادات) صفحہ 177 768 خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 374 صحیح مسلم حدیث 1956 769 770 سیر الصحابہ خلفائے راشدین جلد 1 صفحہ 204 771 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 201 حدیث نمبر 415 772 تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 200، سيرة امير المؤمنین عثمان بن عفان صفحہ 17 773 ماخوذ از حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 223 774 لیکچر لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 294 775 مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 151 مکتوب نمبر 2 776 سر الخلافۃ، اردو ترجمہ صفحہ 28-29

Page 530

اصحاب بدر جلد 3 777 ملفوظات جلد 6 صفحہ 129 778 حجمتہ اللہ.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 184-185 779 510 حوالہ جات سر الخلافة، اردو ترجمہ صفحہ 25، 26 خطبہ جمعہ 9 اپریل 2021ء، الفضل انٹر نیشنل 30 اپریل 2021ء صفحہ 5 تا 8 جلد 28 شماره 35) 780 الاصابہ جلد 4 صفحہ 464، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 88،87، الاستیعاب جلد 3 صفحہ 218 781 تاریخ الخمیس جلد 1 صفحہ 295 تا 297, جلد 2 صفحہ 421 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 88، صحیح البخاری حدیث 441 782 783 حیح بخاری حدیث 441 784 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 225 785 سیرت خاتم النبیین صفحه 111 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 88-89 الاستیعاب جلد 03 صفحہ 200 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 121 789 انوار العلوم جلد 19 صفحہ 127-128 786 787 788 790 تاریخ الطبری جزء 2 صفحہ 225 191 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 127 792 سبل الهدی والرشاد جلد 2 صفحہ 324 ، لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 648 793 796 سیرت خاتم النبیین صفحه 128-129 794 انوار العلوم جلد 25 صفحہ 187-188 795 تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 268-269 الطبقات الکبریٰ جلد 01 صفحہ 176 797 تتاریخ طبری جلد 2 صفحہ 256 798 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 348 سیرت خاتم النبيين صفحه 236-237 799 800 تفسیر کبیر جلد 12 صفحہ 193-194 8 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9 صفحه 269-270 801 802 803 خطبه جمعه بیان فرمودہ 27 نومبر 2020 الف ء الفضل انٹر نیشنل 18 / دسمبر 2020ء صفحہ 5 تا 9 جلد 27 شمارہ 101 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 88 804 الطبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 16 805 ارشاد الساری شرح صحیح بخاری جزء 8 صفحہ 410-411 حدیث نمبر 3937 806 807 اسد الغابہ جلد 04 صفحه 92 اسد الغابہ جلد 04 صفحہ 93 808 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 329، لغات الحدیث جلد 3 صفحہ 110-111، السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 175، دلائل النبوة للبيبقى جلد 5 صفحہ 460 809 مسند احمد جلد 106 صفحہ 261 حدیث 18511

Page 531

محاب بدر جلد 3 810 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 330 11 الطبقات الكبرى جزء 2 صفحہ 253 511 812 طبقات الكبرى جزء 2 صفحہ 256، سیرت خاتم النبيين صفحه 349 13 الطبقات الكبرى جزء 2 صفحہ 257 14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 4 مئی 2018ء حضرت حمزہ کے تذکرہ میں 815 سنن ابو داؤد حدیث 2665 مسند احمد جلد 1 صفحہ 338-339 حدیث 948 816 817 المستدرک جزء3 صفحہ 345 818 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 361 حوالہ جات 819 شرح زرقانی جلد 2 صفحه 357 تا 367 ، ابن ماجہ حدیث 1911، تاریخ انمیں جزء 2 صفحہ 77، الطبقات الکبریٰ جزء 8 صفحہ 19، لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 172 820 با خوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 455-456 صحیح مسلم حدیث نمبر 6918،6915 ماخوذ از انوار العلوم جلد 1 صفحہ 544-545 821 822 823 صحیح البخاری حدیث 1127 824 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 389-390 825 ماخوذ از انوار العلوم جلد 1 صفحہ 588 تا590 ( خطبہ جمعہ بیان فرموده 4 دسمبر 2020 ء الفضل انٹر نیشنل 22 تا 31 دسمبر 2020ء ( خصوصی اشاعت برائے جلسہ سالانہ ) صفحہ 5 تا 9 جلد 27 شماره 102 تا104) 826 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 529 827 شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 409، تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 68 828 830 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 94 829 صحیح البخاری حدیث 4075 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 93 831 انوار العلوم جلد 19 صفحہ 59 832 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 573، طبقات الکبری جزء 2 صفحہ 283، البدایہ والنھایہ جلد 2 جزء 4 صفحہ 115 833 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 588-589 834 البدایۃ والنہایہ جلد 2 جزء 4 صفحہ 116 835 حیح البخاری حدیث 2698، مترجم جلد 5 صفحہ 12-13 836 خطبات محمود جلد 20 صفحہ 379 تا 381 837 سیرت خاتم النبیین صفحہ 837، صحیح مسلم حدیث 4678، مترجم صحیح مسلم جلد 9 صفحہ 240 مع حاشیہ 838 خطبات محمود جلد 19 صفحہ 614 839 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 325-326 840 تفسیر کبیر جلد 12 صفحہ 37 841 انوار العلوم جلد 6 صفحہ 327 842 انوار العلوم جلد 16 صفحہ 74

Page 532

حاب بدر جلد 3 843 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 832 844 845 512 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 21 اگست 2020 ، حضرت زبیر بن العوام کے تذکرہ میں سیرت خاتم النبیین صفحه 840 ماخوذ از صحیح البخاری حدیث 3007، متر جم جلد 5 صفحہ 350 تا352 846 انوار العلوم جلد 24 صفحہ 262-263 847 خطبات محمود جلد 4 صفحہ 183،182 848 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 744 849 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 743-744 السيرة الحلمية جلد 3 صفحہ 131 850 851 سیرت خاتم النبيين "صفحہ 840، طبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 325 852 السيرة الحلمية جلد 3 صفحہ 158 853 طبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 331 854 سیرت خاتم النبيين صفحه 842، صحیح البخاری حدیث 4416 خاتم 855 انوار العلوم جلد 15 صفحہ 579 856 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 168، غزوات و سرایا صفحہ 550 857 858 ابو داؤد حدیث 3582 مسند احمد جلد 5 صفحہ 478-479 حدیث 16056 حوالہ جات 859 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 867-868 (خطبہ جمعہ بیان فرموده 11 دسمبر 2020ء الفضل انٹر نیشنل یکم جنوری 2021ء صفحہ 5 تا 10 جلد 28 شماره 1) 860 861 حیح بخاری حدیث 665 حیح البخاری حدیث 4447 متر جم جلد 9 صفحہ 337-338 مترجم 862 صحیح بخاری مترجم جلد 9 صفحہ 337 863 ابوداؤ د حدیث 3209 864 سيرة امیر المؤمنین علی بن ابی طالب شخصیتہ و عصره صفحه 119، السيرة النبوية لابن کثیر صفحہ 693 865 تاریخ الطبری جزء 3 صفحہ 257 866 السيرة النبوية لابن كثير صفحه 694 867 ماخوذ از ملفوظات جلد 10 صفحہ 150 صحیح البخاری حدیث 4240 869 سنن الكبرى للبيهقی حدیث 12732 868 870 سيرة امير المؤمنین علی بن ابی طالب شخصيَّتُهُ وَعَصْرُه صفحه 121 871 السيرة النبوية لابن كثير صفحه 694 872 سر الخلافہ ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 349 تا 351.اردو ترجمہ ماخوذ از سر الخلافه صفحه 86تا91 873 البداية والنهاية جزء 7 صفحہ 307-308 874 تاریخ الخلفاء صفحہ 61 875 انوار العلوم جلد 9 صفحہ 383-384 876 انوار العلوم جلد 22 صفحہ 56-57

Page 533

حاب بدر جلد 3 877 ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 1 صفحہ 207-208 878 تاریخ الخلفاء صفحہ 123-124 879 ریاض النضره فی مناقب العشرہ جلد 3 صفحہ 68-69 880 السبداية والنهاية جزء 7 صفحه 174 881 انوار العلوم جلد 4 صفحہ 299 513 882 خطبہ جمعہ 26 فروری 2021ء حضرت عثمان کے تذکرہ میں 883 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 107 انوار العلوم جلد 4 صفحہ 635-637 884 885 انوار العلوم جلد 3 صفحہ 197-198 886 84 ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحہ 300-302 88 خطبات محمود جلد 26 صفحہ 385 888 انوار العلوم جلد 2 صفحہ 318-319 حوالہ جات 889 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 18 دسمبر 2020ء الفضل انٹر نیشنل 8 جنوری 2021، صفحہ 5 تا 10 جلد 28 شماره 3 890 انوار العلوم جلد 3 صفحہ 171 891 ماخوذ از الکامل فی التاریخ از ابن الاثیر جلد 3 صفحہ 99 تا 149 892 انوار العلوم جلد 15 صفحہ 485-486 893 انوار العلوم جلد 3 صفحہ 198 تا 201 894 تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 60-61 895 انوار العلوم جلد 21 صفحہ 149-150 896 ماخوذ از الکامل جلد 3 صفحہ 161 تا 201، لغات الحدیث جلد دوم صفحہ 608 897 ماخوذ از انوار العلوم جلد 15 صفحہ 4887486 898 معجم البلد ان جلد 5 صفحہ 375 899 ماخوذ از الکامل جلد 3 صفحہ 212 تا 223، تاریخ المسعودی حصہ دوم صفحه 342 900 مستدرک جلد 3 صفحہ 129 حدیث 4611 (خطبه جمعه بیان فرموده 25 دسمبر 2020ء الفضل انٹر نیشنل 15 جنوری 2021ء صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 5) 901 انوار العلوم جلد 3 صفحہ 202 902 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 25 تا 27 903 تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 158 904 المستدرک جزء3 صفحہ 327 حدیث 4648 905 906 907 الاستیعاب جلد 3 صفحہ 219 خطبات محمود جلد 16 صفحہ 428 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 114-115 908 الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 28، الاصابہ جلد 4 صفحہ 468 904 ماخوذ از انوار العلوم جلد 7 صفحہ 348 910 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 115 11 البداية والنهاية جلد 4، جزء 7 صفحہ 316-317، تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 477

Page 534

محاب بدر جلد 3 912 ماخوذ از انسائیکلو پیڈیا سیرت صحابہ کر ام جلد 1 صفحہ 436 1913 المنتظم جلد 5 صفحہ 178 514 914 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 14، سید نا علی بن ابی طالب صفحہ 82-83 915 المستدرک جزء3 صفحہ 339 916 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 10 صفحه 67 917 918 919 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 97، طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 22، لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 613 ترمذی حدیث 3874 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 93 920 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 98، معجم البلد ان جلد 3 صفحہ 188 921 کنز العمال جلد 13 صفحہ 109 حدیث 36356 922 9 ترمذی حدیث 3446 923 تفسير القرآن العظيم لابن کثیر جلد 3 صفحہ 132 924 مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 107 925 المستدرک علیا 926 المستدرک علی ا 927 الصحي من 3 صفحہ 348 حدیث 4724 الصحیحین جزء3 صفحہ 349-350 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 97،96 928 انوار العلوم جلد 2 صفحہ 254 929 ترمذی حدیث 3757 ملفوظات جلد 7 صفحہ 316 930 931 ملفوظات جلد 9 صفحہ 121-122 حوالہ جات 932 انوار العلوم جلد 16 صفحه 132 ( خطبه جمعه بیان فرموده یکم جنوری 2021ء الفضل انٹر نیشنل 22 جنوری 2021ء صفحہ 5 تا 10 جلد 28 شماره 7) 933 ملفوظات جلد 6 صفحہ 220 934 انوار العلوم جلد 21 صفحہ 623 935 تفسیر کبیر جلد 7 صفحه 22 936 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحه 21 937 تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 376 938 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 404 9 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 429 939 940 خطبات محمود جلد 33 صفحہ 259-260 خطبات محمود جلد 25 صفحہ 299 خطبات محمود جلد 25 صفحہ 752 941 942 943 تفسير الجامع لاحكام القرآن للقرطبی جلد 15 صفحہ 199 944 خطبات محمود جلد 33 صفحہ 357 945 ماخوذ از درس القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع بیان فرموده 16 فروری 1994ء

Page 535

محاب بدر جلد 3 946 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 464 947 مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 126 حدیث 14757 صحیح مسلم حدیث 240 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 439 948 949 950 515 استیعاب جلد 3 صفحہ 1111 تا 1113، لغات الحدیث جلد 3 صفحہ 575 951 انوار العلوم جلد 2 صفحہ 176 9 انوار العلوم جلد 23 صفحہ 363 952 953 انوار العلوم جلد 5 صفحہ 95 954 تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 237-238 955 تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 493 956 انوار العلوم جلد 25 صفحہ 416-417 957 صحیح بخاری حدیث 4481 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 100 958 960 959 کنز العمال جلد 13 صفحہ 107 حدیث 36349 استیعاب جلد 3 صفحہ 1107-1108 961 تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 148-149 تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 339 خطبات محمود جلد 16 صفحہ 516 962 963 964 965 سر الخلافة، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 350، سر الخلافه مترجم صفحہ 89-90 لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 294 966 تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 422 حاشیہ سر الخلافة، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 352-353 ، سر الخلافه مترجم صفحه 95-96 964 مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ 151 مکتوب نمبر 2 حوالہ جات 969 سر الخلافة، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 358-359، سر الخلافه مترجم صفحه 108 تا 112 (خطبه جمعه بیان فرمودہ 15 جنوری 2021ء الفضل انٹر نیشنل 5 فروری 2021ء صفحہ 5 تا10 جلد 28 شماره 11)

Page 536

Page 537

اصحاب بدر جلد 3 آیات قرآنید.احادیث نبوید.مضامین.اسماء..مقامات کتابیات ببلیوگرافی انڈیکس 3.............5..............9...............12..............46..................52...........54.انڈیکس

Page 538

Page 539

اصحاب بدر جلد 3 3 آیات إنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَنُ أَن يُوقِعَ (92) سورة البقرة وَ أُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (6) 398 فَاذْهَبُ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا (25) وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى (126) 253 آیات 254 25 سورۃ الانعام فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (138) 364 مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ (39) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا شَهِيدًا (144 56 إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ (157) 443.358-364-223 وقتلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ (194) ވ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ (220) لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (257) سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (286) رَافِعُكَ إِلَى (56) سورة آل عمران 478 254 سورۃ الاعراف 51 خُذِ الْعَفْوَ وَامُرُ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ (200) سورۃ الانفال كما أخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ (6) 294 تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا (68) 398 54 سورة التوبه هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى (33) اسْتَغْفِرُ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرُ لَهُمُ (80) 177 وَلَا تُصَل عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ اَبَدًا (84) 290 25 79 157 254 254 لَمَسْجِدُ أَيْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ (108) 99 352 إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ (111) 183 إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ (60) لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتى تُنْفِقُوا مِنَاتُحِبُّونَ (93) 50 وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا (104) وَالْعَظِمِينَ الْغَيْظَ (135) تِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (141) وو 290 لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ (128) 127 سورة هود وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولُ (145) 54،52 تا 56، 259 اوفوا المِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ (87،86) إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعِنِ (156) 59 477.476 سورة النساء 315 وَيُقَومِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقَ (90) سورة يونس لا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ وَ اَنْتُم سُكرى (44) 254 قَدْ جَاءَ تَكُم مَّوْعِظَةٌ مِنْ رَّبِّكُمُ (58) إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْآمَنَتِ إِلَى أَهْلِهَا (59) امَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي (91) 66.65 سورة يوسف 54 واللهُ الْمُسْتَعَانُ (19) بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ (159) يَاهْلَ الْكِتب لا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ (172 173 ) 177 إنَّمَا اشْكُوا بَقِي وَحُزْنِى إِلَى اللَّهِ (87) سورة النحل سورة المائدة اليومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (4) 296،295 | تِنْيَانَّا لِكُلِّ شَيْءٍ (90) 360 476 18 154 278 51

Page 540

اصحاب بدر جلد 3 سورة الكهف 4 سورة الفتح آیات وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا (55) سورة مريم وَاضْرِبُ لَهُم مَّثَلَ الْحَيوةِ الدُّنْيَا ( 47،46) 338 - إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ (11) 352 419 42 انا فتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا (42) لَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ (19) 323 كهيعص (2) 472 وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ (25) 321 سورة طه سورة الحجرات له مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى (92) اني انا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُ فِي ( 15 ) 3 10 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوا (7) 352 سورة المومنون ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ (15) سورة النور إذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ (49) 328 398 سورة التحريم عَلى رَبَّةٌ إِنْ طَلَقَكُنَ أَنْ يُبْدِلَةَ أَزْوَاجًا خَيْرًا منكن (6) سورة الحاقه 253 وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُوْلِ كَرِيمٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ (42،41) لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ (56) سورة الفرقان 351.235 وَالَّذِينَ إِذَا انْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَ لَمْ يَقْتُرُوا (68) 11 وَلَا بِقَوْلِ كَاهِن مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَجِزِيْنَ (4843) 265 يَوْمَبِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ (19) 11 سورة الشعراء وَ انْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (215) سورة القصص 404 إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْآمِينُ (27) 94 سورة الزمر إنَّكَ مَيِّتٌ وَ إِنَّهُمْ مَيْتُونَ (31) اليسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَة (37) سورة المؤمن سورة المزمل إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا (6) سورة رة مطففين عَلَى الْأَرَابِكِ يَنْظُرُونَ (24) 52 سورة الاعلى 403 | سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَى (7) سورة الكوثر سورة الكافرون يقوم مالى ادْعُوكُمْ إِلَى النَّجوةِ (42) 357 - إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (2) سورة الزخرف سُبُحْنَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هُذَا وَمَا كُنَّالَهُ (1514) قُلْ يَايُّهَا الكَفِرُونَ (2) سورة الدخان 468 كُمْ تَرَكُوا مِنْ جَنْتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ وَ مَقَامِ (26، 29 ) 128 263 387 292 388 228 228

Page 541

اصحاب بدر جلد 3 5 احادیث احادیث اللهم أعِنَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَب هَدَيْنِ الرَّجُلَيْنِ 6 اللہ ان کافروں کے لیے ان کے گھر اور ان کی قبریں آگ اللَّهُمَّ أَيْدِ الذِيْنَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ اللهم أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ حَاضَةً لا تَضِلُّوا بَعْدَهُ ان النَّبِيِّ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ أَمَرَ بِالتَّارِيخ طلب الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ أَطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصَّيْنِ ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ.لَا تَنْسَنَا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ الْإِسْتِمُذَانُ ثَلَاثُ مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَهُذِهِ مَا ضَرَ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ غَفَرَ اللهُ لَكَ يَا عُثْمَانُ مَا أَسْرَرْتَ وَمَا أَعْلَنْتَ..اللهم ارضِ عَنْ عُثْمَانَ فَإِنِّي عَنْهُ رَاضٍ انت ولى فى الدنيا و ولى في الآخرة اللَّهُمَّ أَعْطِ عُثْمَانَ اللَّهُمَّ افْعَلْ بِعُثْمَانَ 7 51 سے بھر دے 38 تمہیں کیا علم کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جھانک کر دیکھا جو بدر 100 میں شریک ہوئے 48 208 جو شخص کسی مقتول کے متعلق یہ ثبوت پیش کر دے کہ اس نے اس کو قتل کیا ہے تو اس مقتول کا سامان اس کے قاتل کا 208 245 258 271 330 330 330 330 374 386 ہو گا 48 نبی صلی الم نے حضرت عمر کو اپنی نذر پوری کرنے کا ارشاد فرمایا اپنے اہل کے لیے کیا باقی چھوڑ آئے ہو؟ 49.48 49 آؤ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے 50 میرے پاس کوئی لکھنے کا سامان لاؤ تا میں تمہیں ایک ایسی اللهُم إلى أعِيدُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَبَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 415 415 50 تحریر لکھ دوں کہ جس کے بعد تم بھولو نہیں اللهم بارك فِيهِمَا وَبَارِك لَهُمَا فِي شَمْلِهِمَا اللهم بارك فِيهِمَا وَبَارِكْ عَلَيْهِمَا وَبَارِكَ لَهُمَا نَسْلَهُمَا 417 نئے کپڑے پہنو اور قابل تعریف زندگی گزار و اور شہیدوں أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلَى بَابِهَا فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِ کی موت پاؤ الْبَابَ أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلَى بَابِهَا 466 467 أحد الظهر جا الا تَرْضَى أَن تَكُونَ مِنِى مَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى 434 عالم اسلام حضرت عمر کی وفات پر روئے گا احادیث بالمعنى 220 220 220 حضرت ابو بکر، عمر، عثمان کو جنت کی بشارت 251،250 251 ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک میں عشرہ مبشرہ تمہارے نفس سے زیادہ تمہیں محبوب نہ ہو جاؤں 22 میں سویا ہوا تھا میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا 251 میرے رونے کی وجہ یہ ہے جو تمہارے ساتھیوں نے عمر بن خطاب اہل جنت کے چراغ ہیں 251 میرے سامنے ان سے فدیہ لینے کی تجویز پیش کی تھی 26 علتين والوں میں سے کوئی شخص جنت والوں پر رسول اللہ صلی علیم اور حضرت حفصہ کی شادی الله 29.28 لوگ باتیں نہ کرنے لگیں کہ محمد صل للہ ہم اپنے ساتھیوں کو جھانکے گا تو قتل کرتا ہے 37 تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص غزوہ خندق میں رسول اللہ صلی علیم نے عصر کی نماز تاخیر سے آرہا ہے 251 251 پڑھی 37 38 ابو بکر اور عمر جنت کے اولین اور آخرین کے تمام بڑی عمر

Page 542

اصحاب بدر جلد 3 احادیث 251 | مضبوط عمر نہیں 263 کے لوگوں کے سردار ہیں میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو ضر ور عمر بن خطاب ہوتے اے ابو ہریرہ ! میرے یہ دونوں جوتے لے جاؤ اور جو کوئی 251 اس باغ کے پرے تمہیں ملے اور یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ یقیناً پہلی امتوں میں محمد ثین ہوتے تھے اور اگر میری امت کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں اور دل سے اس بات پر یقین میں کوئی ہے تو وہ عمر بن خطاب ہیں 252 رکھتا ہو تو اسے جنت کی بشارت دے دو تم سے پہلے جو امتیں تھیں ان میں ایسے لوگ تھے جو محدث شیطان جب کبھی بھی تمہارے راستے پر چلتے ہوئے ملا ہے تو 272.271 ہوا کرتے تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی ایسا ہے تو وہ ضرور ہی اس نے اپنا وہ راستہ چھوڑ کر دوسر اراستہ لیا ہے عمر نہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے 252 272 254 نبی صلی ا لم نے حضرت عائشہ کو ایک حبشی عورت کا کرتب میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں دکھایا 255 اے عمر ! شیطان بھی تجھ سے ڈرتا ہے 273-272 273 اللہ کا رسول ہوں لوگوں میں منادی کرو کہ سب اپنا بچا ہو از ادراہ لے آئیں اللہ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر جاری کر دیا 273 255 256 سکینت حضرت عمر کی زبان اور دل پر جاری ہوتی ہے 256 273 پس تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے عبد اللہ ! یہ اب تمہارا ہی ہے اس سے تم جو چاہو کام لو علیین والوں میں سے کوئی شخص جنت والوں پر جھانکے گا تو 257 اس کے چہرہ کی وجہ سے جنت جگمگا اٹھے گی 274 جو کچھ بھی مجھ سے پوچھو گے میں تمہیں بتاؤں گا 257 آپ کو کون زیادہ پیارا ہے ؟ آپ نے فرمایا عائشہ 274 پوچھو مجھ سے جس کے متعلق بھی چاہو 257 اسی طرح ہم قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے 275 257 یہ دونوں کان اور آنکھ ہیں 258 275 275 تمہارا باپ حذافہ ہے وہ ایسے لوگ ہیں جن کو جلدی سے اس دنیا کی زندگی میں ہی ہے کسی آدمی پر سورج طلوع نہیں ہواجو عمر سے بہتر ہو ان کے مزے کی جو چیزیں تھیں دی گئی ہیں اے عمر ا یہ وہ جگہ ہے جہاں آنسو بہائے جاتے ہیں 259 میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی 275 260 تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آرہا ہے جاؤ اور ایک دن کا اعتکاف کرو 275 خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایک کنویں پر کھڑ اڈول سے جو چرخی پر رکھا ہوا تھا پانی کھینچ کر نکال رہا ہوں 262 یہ دونوں جنت کے اولین اور آخرین کے تمام بڑی عمر کے ایک بار میں سویا ہو ا تھا کہ اس اثنا میں میرے پاس دودھ کا لوگوں کے سردار ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین کے ایک پیالہ لایا گیا 262 275 میں سویا ہوا تھا میں نے لوگوں کو دیکھا کہ میرے سامنے میرے بعد ان دونوں ابو بکر اور عمر کی پیروی کرنا 275 پیش کیے گئے ہیں 263 زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابو بکر اور عمر ہیں میری امت میں سے اللہ کے دین میں سب سے زیادہ 275

Page 543

اصحاب بدر جلد 3 7 احادیث تم لوگ ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہوں گے حضرت عثمان کو رویا میں فرمایا آج رات روزہ ہمارے ساتھ 276 | کھولنا 363 368 یہ نبوت کی خلافت ہے.اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا حضرت عثمان کی طبیعت میں حیا بہت ہے 276 نبی کریم صلی ا لم نے حضرت ابو بکر، عمر، عثمان کو جنت کی بادشاہت عطا فرمائے گا جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں کوئی وبا پھوٹ بشارت دی 283 تم پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں 370 371 پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ اگر تم چاہو تو اصل زمین وقف کر دو اور اس کی آمدنی غرباء یہ شخص اس فتنہ میں حالت مظلومیت میں مارا جائے گا 289 پر خرچ کرو یہ میرے صحابہ میں اخلاق کے لحاظ سے مجھ سے سب سے دس آدمی جنت میں جائیں گے 306 ہر نبی کا ایک رفیق ہو تا ہے حضرت لوط علیہ السلام کے بعد عثمان وہ پہلا شخص ہے جس یہ عثمان کا ہاتھ ہے نے اپنے اہل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی ہے اے شبیر ٹھہر جا زیادہ مشابہ ہیں 371 373 373 375 376 307 جو مسجد بناتا ہے اللہ اس کو جنت میں ایک گھر عطا فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے ام کلثوم کا نکاح رُقیہ جتنے حق مہر پر اور اس 377 سے تمہارے حسن سلوک پر تمہارے ساتھ کر دیا ہے جو مسجد بناتا ہے اللہ اس کیلئے جنت میں ایک محل تعمیر 312 کروائے گا 377 اگر میری سو بیٹیاں ہو تیں اور ایک ایک کر کے فوت ہو اخلاق کے لحاظ سے آنحضرت کے ساتھ سب سے زیادہ جاتیں 313 مشابه 381 ان چار کو قتل کر دو خواہ تم انہیں کعبہ کے پردوں سے چھٹے میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابو بکر نہیں ہوئے پاؤ 327 382 تم میں سے کسی نے خواب دیکھی ہے 334 کیا میں اس سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے آج کی رات ایک صالح شخص کو خواب میں دکھایا گیا کہ ہیں حضرت ابو بکر کو رسول اللہ صلی اللہ کم سے جوڑ دیا گیا ہے 334 اے عثمان الکھ اے عثمان ! ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے یہ شخص عثمان سے بغض رکھتا تھا 383 387 393 342 جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور پھر اس طرح منافق تم سے چاہیں کہ تم اپنی قمیص کو جو اللہ نے تمہیں دور کعتیں پڑھیں کہ ان میں اپنے نفس سے باتیں نہ کہیں تو 342 جو گناہ بھی اس سے پہلے ہو چکے ہیں ان سب سے اس کی پہنائی ہے اتار دو تو تم اسے نہ اتارنا یہ شخص اس دن ہدایت پر ہو گا جب یہ فتنہ ہو گا 342 مغفرت کی جائے گی 394 میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس بعض صحابہ ہوں 342 جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو چاہیے کہ وہ غسل 396

Page 544

اصحاب بدر جلد 3 8 احادیث کیا میں تمہیں دو بدبخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ تیرے لیے جنت میں اس سے بھی زیادہ خوبصورت باغ ہے بتاؤں 411 اگر ان لوگوں میں سے کوئی شخص انہیں خیر بھلائی کی ٹھہر اے حرا ! یقیناً تجھ پر ایک نبی یا صدیق یا شہید ہے نصیحت کر سکتا ہے تو وہ سرخ اونٹ والا شخص ہے 414 469 470 تم دونوں میں سے ایک کے دائیں جانب حضرت جبرئیل اے علی ! اگر تیری تبلیغ سے ایک آدمی بھی ایمان لے ہیں اور دوسرے کے دائیں جانب حضرت میکائیل ہیں آئے تو یہ تیرے لئے 476 414 جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی 476 جب تم دونوں اپنے بستروں پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہ تمہاری مثال حضرت عیسی کی سی ہے جن سے یہودیوں کہو، تینتیس دفعہ سبحان اللہ کہو اور تینتیں دفعہ الحمد للہ کہو نے اتنا بغض کیا کہ ان کی والدہ پر بہتان باندھ دیا.418 476 419 اے اللہ تو مجھے موت نہ دینا جب تک کہ تو مجھے علی کو دکھا کیا تم دونوں نماز نہیں پڑھتے معاہدہ حدیبیہ میں نبی صلی ا لم نے حضرت علی کو اپنے نام کے نہ دے 479 ساتھ رسول اللہ مٹانے کے لئے کہا میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی نہیں 425 اللہ اور اس کار سول اور جبرئیل تجھ سے راضی ہیں 479 محبت کرتا ہے یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں اس نے تم سے سچ بیان کیا ہے 428 431 کہ تمہارا مقام مجھ سے وہی ہے جو ہارون کا موسیٰ سے تھا مگر یہ بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں 433 اللہ تیرے دل کو ضرور ہدایت دے گا اور تیری زبان کو ثبات بخشے گا 434 جس نے علی کو اذیت دی تو اس نے مجھے اذیت دی 435 رسول اللہ صلی الیم نے مجھے بتا دیا تھا کہ تمہیں اس اس جگہ پر زخم آئیں گے تم میرے بھائی اور میرے ساتھی ہو 463 468 یقینا تیرا رب اپنے بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب ! میرے گناہ بخش دے 468 479 ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا 469 جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے اور وہ ہیں علی، عمار اور سلمان 469

Page 545

اصحاب بدر جلد 3 9 مضامین مضامین اجماع الہام آنحضرت کی وفات پر صحابہ کا اجماع..وفات مسیح پر 52 يا سارية الجبل اخلاق امت 161 جنگ میں مسلمانوں کی دانشمندی اور اخلاقی برتری 203 اموال غنیمت کی تقسیم پر حضرت عمر کا خطاب کہ امت مسلمہ کی تباہی کا اندیشہ مسلمانوں سے ہی ہے 157 158 اذان 256 امیر اذان کی ابتداء اور حضرت عمر کا خواب اذان کی ابتداء کی تفصیلات اور حضرت عمر کا رویا 24 امیر کے حکم کی اطاعت کی ایک عمدہ مثال 394 اہل بیت جمعہ کے روز دوسری اذان کی ابتداء حضرت بلال کا ایک لمبے عرصہ بعد پھر اذان دینا 194 اسلام / مسلمان اہل بیت سے حضرت عمر کی عقیدت و محبت اولاد 148 67 اسلام کے بعد حضرت عمر پر مصائب اور ابتلاء 15 اولا د کارشتہ دیکھنے کے لئے لوگ کیا معیار رکھتے ہیں 281 مردوں میں سب سے پہلے کون اسلام لایا 402 | اولیات فاروقی اسلامی مساوات اور حضرت عمرہ کا انصاف 77 اولیات فاروقی مسلمان کمانڈر کا جزبہ واپس کرنا.خدا تم کو واپس لائے 174 انگوٹھی اموال غنیمت کی تقسیم پر حضرت عمر کا خطاب کہ امت آنحضرت صلی ایم کی انگوٹھی مسلمہ کی تباہی کا اندیشہ مسلمانوں سے ہی ہے 158،157 حضرت عثمان کے دور خلافت میں اسلام میں اختلافات کا حضرت عمر کی ٹوپی کی برکت اور قیصر روم 343 آغاز اور اس کی وجوہات حضرت عمر پر اسلام قبول کر نیکی وجہ سے سختی اور ایک رئیس کا پناہ دینا 20 برکت بیعت بیعت رضوان حضرت عمر کا قبول اسلام روایات اور آنحضور کی دعائیں 2 حضرت علی شما حضرت ابو بکر کی بیعت کرنا جنگوں کے دوران مسلمانوں کی عبادات کا رنگ 212 بیماری مسلمان عورتوں کی بہادری کے کارنامے مسلمانوں کی تباہی کے اسباب 101 372 287 323 436 181 نبی کی بیماری میں وصیت کا اظہار اور صحابہ کارد عمل 50 ت اور 448 تاریخ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلح نامہ 191 حضرت مصلح موعودؓ کو تاریخ پر بڑا عبور تھا 185 ایسا نمونہ جو تاریخ میں کسی بادشاہت نے نہیں دکھایا 184 اطاعت امیر کے حکم کی اطاعت کی ایک عمدہ مثال اعتراض 148 منافقین کے اعتراض حضرت عثمان کے بارہ میں 374 ٹوپی اعتکاف حضرت عمر کی اعتکاف کی نذر 48 حضرت علی کو نماز تہجد کی تلقین 419 حضرت عمر کی ٹوپی کی برکت اور قیصر روم 287 جزیه مسلمان کمانڈر کا جزیہ واپس کرنا..خدا تم کو واپس لائے 175

Page 546

اصحاب بدر جلد 3 جماعت جماعت کو نصیحت 10 جنگ بقاع مضامین 213 جنگ فحل جمع قرآن 58 جنگ طبريه جمعتہ المبارک جنگ حمص جمعہ کے روز دوسری اذان کی ابتداء جنگ 394 جنگ مرجُ الرُّوم جنگ لاذقیه جنگوں کے دوران مسلمانوں کی عبادات کارنگ 212 جنگ قنسرين م عبادات کا رنگ 1 جنگ قَيْسَارِيه جنگ میں مسلمانوں کی دانشمندی اور اخلاقی برتری 203 جنگ یرموک جنگ فجار اور اس کی تفصیل جنگ نمارق /کسکر جنگ سَقَاطِيَه جنگ بار وسما جنگ جسر جنگ بویب / يوم الاعشار جنگ قادسیه جنگ مدائن جنگ جلولاء جنگ مَا سَبَذَان جنگ خُوزستان جنگ آهو از جنگ رَامَهُرُ مُز اور تُسْتُر جنگ جندی سابور جنگ نهاوند / فتح الفتوح جنگ اصفهان جنگ همدان جنگ رے جنگ قُوْمِیس اور جُرْجَانُ جنگ آذر بائیجان جنگ آرمینیا جنگ خُراسان جنگ اِصْطَخَر جنگ فسا اور دار الجرد جنگ گرمان جنگ سجستان جنگ مگران 107 جنگ بیت المقدس 108 جنگ بلبيس جنگ ام دُنَيْنِ 108 109 جنگ عَيْن الشَّمس 111 | جنگ بابِليُون يَا فُسْطَاط جنگ اسکندریہ 113 126 جنگ بزقه و طرابلس 128 جھنڈا / پرچم 130 163 164 166 166 167 168 169 170 173 186 202 203 205 205 206 211 غزوات میں سب سے پہلی مر تبہ پر چم غزوہ خیبر میں لہرایا 131 گیا اس سے قبل صرف جھنڈے ہوتے تھے 132 132 138 جوش الله نبی صلی ارم کی وفات اور حضرت عمر کا جوش 45 51 140 حضرت عمر اور انتظام حکومت مختلف شعبہ جات 86 تا 95 حضرت عمر کا اپنی رعایا اور مجاہدین کا خیال رکھنا 69 تا 76 حضرت عمرؓ کے عہد میں رفاہ عامہ کے کام اور تعمیرات 95 149 150 151 خلافت / خلفاء 151 حضرت ابو بکر اور انتخاب خلافت 152 حضرت عمر کی خلافت کے بارہ میں مشاورت حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں فتوحات 154 خلافت کے بعد حضرت عمر کا پہلا خطاب 153 158 56 59 104 63 حضرت عثمان کے دور خلافت میں اسلام میں اختلافات کا 159 آغاز اور اس کی وجوہات 343 161 خلفاء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے 162 162 خوف کھایا ہو 235 خلفائے راشدین کے دور کی جنگیں اور حضرت مصلح موعودہؓ کا اقتباس 213

Page 547

اصحاب بدر جلد 3 دعا دعا کی قبولیت کے چند واقعات ، حضرت عمرؓ کی 11 مضامین بدر کے قیدیوں کے بارہ میں حضرت عمر کا مشورہ اور روایات آنحضرت صلی علم کا حضرت عمر کو دعا کے لئے کہنا لائبریری 259 285 میں ایک ابہام اور اس کا حل اسکندریہ کی لائبریری جلائے جانیکی حقیقت حضرت عمر کی شہادت کے لئے آپ صلی ال نیکی کی دعا 220 مالی قربانی از کوه حضرت عمر کا گھر کا آدھا مال پیش کرنا اور 26 208 49 اولا د کارشتہ دیکھنے کے لئے لوگ کیا معیار رکھتے ہیں 281 مانعین زکوۃ اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمرہ کی گفتگو 57 رویا حضرت عمر کی وفات اور صحابہ کے رویا اذان کی ابتداء کی تفصیلات اور حضرت عمر کا رویا شہادت حضرت عمر کی شہادت کی تفصیل 222 مردم شماری مردم شماری اور راشننگ سسٹم 24 مستشرق مستشرقین کا حضرت عمر کی تعریف کرنا مسجد نبوی کی توسیع عہد عثمان میں مسجد نبوی میں توسیع کی تفصیل مشوره 224 حضرت عمر کی شہادت کے لئے آپ صلی ال یکم کی دعا 220 حضرت عمر کی شہادت میں ہر مز ان کا ہاتھ تھا؟ صلح حدیبیه مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلح نامہ 136 191 39 84 247 376 83 بدر کے قیدیوں کے بارہ میں حضرت عمر کا مشورہ اور روایات صلح حدیبیہ کی تفصیل اور حضرت عمر کا جوش صلح حدیبیہ کے معاہدہ پر حضرت عمر کے بھی دستخط تھے 43 میں ایک ابہام اور اس کا حل عبادت جنگوں کے دوران مسلمانوں کی عبادات کارنگ 212 عورت 181 معاہدہ 26 آنحضرت کو قتل کرنے کے لئے ابو جہل کے ساتھ حضرت عمرنیا جو عمر کا معاہدہ واقعہ جو قبولیت اسلام کا باعث بنا منافق 16 مسلمان عورتوں کی بہادری کے کارنامے ایک جنگ میں مسلمان خواتین کی ہمت و دلیری 113 منافقین کے اعتراض حضرت عثمان کے بارہ میں 374 غزوہ بنو مصطلق کے موقعہ پر منافقین کی ایک شرارت 37 عیسائی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلح نامہ اموال غنیمت 191 مواخات دو مرتبہ ہوئی ایک بار مکہ میں اور ایک بار مدینہ میں 23 اموال غنیمت کی تقسیم پر حضرت عمرؓ کا خطاب کہ امت نصیحت مسلمہ کی تباہی کا اندیشہ مسلمانوں سے ہی ہے 157 158 جماعت کو نصیحت فتوحات نماز 213 حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں فتوحات فرعون 104 جنگ خندق اور نمازوں کو جمع کرنے کی بابت روایات 38 وصیت ابو جہل فرعون بلکہ اس سے بھی بڑھ کر 18 نبی کی بیماری میں وصیت کا اظہار اور صحابہ کار د عمل 50 قحط اور حضرت عمر کی بے تابی اور حسن انتظام قرآن جمع قرآن 79 ہجرت / مجری ہجرت حبشہ حضرت عمر کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا 58 ہجری کیلنڈر کی ابتداء 306 222 99 قیدی

Page 548

اسماء 30 182 438.437 312 253 463.460.459 461 130 340 12 اصحاب بدر جلد 3 اسماء آذین بن هرمزان کا ایرانی لشکر لے کر مسلمانوں کے مقابلہ حضرت مصعب بن عمیر کو شہید کرنا کرنا ابن قناطیر ابن کثیر ابن لينه 130 154 332.184 397 حضرت ابن مسعود کا حفظ قرآن ثابت ہے 477 ابن مالنجم حضرت علی کا قاتل 127 ابن ہذیل ابن نباح، حضرت علی کا موذن ابوالا شہب سعدی ابان جادویہ ، رے کا حاکم ابان بن سعید آبان، حضرت عثمان کے بیٹے ایجر بن جر موز حضرت ابراہیم کوٹی میں آپ کو نمرود نے قید کیا 438.404.307.252 ابن ابی سفیان 482 ابن اثیر 465،457،455،450،188،110،109 ابوالحسن، حضرت علی کی کنیت این از هر ابن اسحاق این الستین علامه 395 401-369-307-306-304-144.57.46 480-443-435-400-76 ابو العاص بن امیہ ، حضرت عثمان کا چچا جو آپ پر ظلم کرتا 387 ابوالفرج ملطی حضرت ابن ام مکتوم ، مدینہ کی طرف ہجرت 23 ابوالقاسم ، رسول اللہ صلی ایم کی کنیت ابن آثال، عمر کے دور میں وزیر خزانہ تھا 98 حضرت ابو امامه 466 حضرت ابو ایوب انصاری ابن تیمیہ امام ابن جریر ابن جوزی علامه ابن حجر عسقلانی 385 466 ابو بحر حضرت ابو برده 100،36 | ابو بشیر عابدی اسلامی کیلنڈر کے محرم سے آغاز کے بارے میں رائے 101 | حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ 304 209.208 462.110 355 458 467 223 369 190 173.121.64.61.60.56-55-52-49-44-29.23 <246-245-244-243-235-234-223-214-213.191 <273 271 270-269-268-265-262-259-248.247 324-313-307-303-302-301.300.298.276 <367-366-363-377-376-351.342.332.331 482-480-478-476-475-375-373 371 370368 اسلام کے آدم ثانی دمشق کا محاصرہ جنت کی بشارت ملنا 398.299 163 370 حضرت عمر کا ابو بکر کو قرآن کی ترتیب پر آمادہ کرنا 103 ابن حجر علامہ، بخاری کے شارح ابن حجر، ایک روایت کو معضل قرار دینا ابن حنفیه ابن خلدون 228 100 459 339.209.192.109 369-337 385 395 291 100.46 386 422 315-32.31 ابن سعد علامه ابن سعید بن پر بوع ابن شہاب ابن عامر ابن قمئہ

Page 549

اصحاب بدر جلد 3 حضرت عمرؓ کے ساتھ مواخات احد پہاڑ پر چڑھنا اور اس کا ہلنا 13 410 220 حضرت عمر کو بلا کر وصیت کرنا فارس کے ساتھ جنگ ہونا آپ کی تبلیغ سے حضرت عثمان کا قبول اسلام 368،367 لوگوں کو جہاد کی ترغیب دینے کی وصیت فتوحات ایران و عراق کے بارہ میں وصیت بڑے نرم طبیعت کے مالک بڑوں میں سب سے پہلے اسلام لانا 274 402 مسجد نبوی کو نبی کے زمانہ کے مطابق رہنے دینا اسماء 105 105 105 105 83 جنت میں تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار 251 خیبر کے باغات کا معاملہ آنحضرت کے مطابق رکھا 46 حضرت ابو بکر صدیق اور عمرہ کے درمیان مواخات 23 - حضرت عمر کا کہنا کہ آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ ایک اہم وصیت بدر کے موقع پر مشورہ 105 وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کریں 57 25 _ آپ کے دور میں جمع کیا جانے والا قرآن بعد میں کس کس 26 _ حضرت حفصہ کے رشتہ سے انکار اور وجہ 59 _ اصحاب کے ہمراہ بدر میں اونٹ پر باری باری سوار ہونا 25 کے پاس رہا، تفصیل بدر کے قیدیوں کے بارہ میں مشورہ دینا غزوہ احد میں ابوسفیان کا ابو بکر و عمر کے نام لے کر پکارنا 32 - خلافت کے لئے ابو عبیدہ اور عمر کا نام پیش کرنا عثمان سے عمر کی خلافت کی بابت وصیت لکھوانا 61،60 42 28 57 صلح حدیبیہ کے معاہدہ پر دستخط ابوسفیان کا صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید چاہنا اور مختلف صحابہ سے عمر کی خلافت کی بابت مشورہ آنحضرت کے علاوہ حضرت ابو بکر، عمر کے پاس آنا 44 دنیا کا آخری اور آخرت میں جانے کا پہلا عہد حضرت علی نے فرمایا ابو بکر سب سے زیادہ بہادر ہیں اسامہ کے لشکر کی روانگی کے وقت عمر کو اپنے پاس روکنا 58 حضرت فاطمہ سے شادی کی درخواست کرنا _ آپ کی وفات کے وقت سخ میں تھے رسول اللہ صلی ایم کی وفات پر رد عمل 476.475 59 61 58.57 مانعین زکوۃ کا فتنہ اور اس کا سد باب 414 - مسجد نبوی کی توسیع کی بنیاد میں اینٹ رکھنا آپ کے دور میں اسلامی جنگوں اور فتوحات کا سلسلہ شروع ہونا 52.51 105 یہ فوت یہ نظریہ پیش کرنا کہ باقی سب انبیاء فوت ہو چکے ہیں امت میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے الله 55 حفظ قرآن ثابت ہے 375 104 382 253 رسول کریم صلی علیم کی انگوٹھی ابو بکر کے ہاتھ میں 373 یورپین مصنفین کا آنحضور پر اعتراض مگر ابو بکر و عمر کے زمین پر رسول کریم صلی ال ولیم کے وزیر 275 صحابہ میں سب سے دلیر ابو بکر نہیں عشرہ مبشرہ میں سے ہونا علیین میں سے عمر کا آپ کو جمع قرآن کی تجویز دینا 467.466 469.373.251 251 ذکر پر ان کی محنت اور قربانی کو تسلیم کرنا ย 66 آنحضور کا قریش کے متعلق حضرت ابو بکر و عمر سے مشورہ وفات و تدفین 34 105 تدفین کے بعد آپ کی قبر سے عمر کا مٹی جھاڑنا 63 حضرت عمر کا آپ کی وصیت پر عمل کرنا 252،103،58 253 | سقیفہ بنو ساعدہ کے واقعہ کی تفصیلات 105 105 آپ صلی ایم کے حکم میں ذرا تاخیر نہ کرنا حضرت ابو بکر کا بیمار ہونا حضرت خالد بن ولید کو شام جانے کا حکم دینا 106 105 57.56 عمر کا ابو بکر کی رقیق القلبی اور نرم مزاجی کا ذکر کرنا 65 وہ مال جو ابو بکر نے وفات کے وقت عمر کو دے دیا 62 حضرت عمر کی خلافت کے بارہ میں ابو بکر کی وصیت کا پڑھ

Page 550

اسماء 463 374.342 424.413.411 401.400 400 404.306 400 335.246 14 اصحاب بدر جلد 3 کر سنایا جانا اور ابو بکر کی صحابہ اور عمر کو نصیحت 62،61 ابوسنان لوگوں کے عمر کے غصہ کا اظہار اور ابو بکر کیا جواب 63 ابو سہلہ حضرت عثمان کے آزاد کردہ 45 ابو طالب حضرت علی کے والد 94 334،276 _ بیٹے کا نام علی رکھنا رسول کریم صلی ا ظلم کے چچا 467 276 رسول کریم صلی الہ وسلم کی حمایت کرنا ایم 404 ابو طالب، عبد مناف کی کنیت ابو طلحہ 429 335.69 369 ابو بکر بن عبد الرحمن ابو بکر عیسی حضرت ابو بکرہ ابو تراب، حضرت علی کی کنیت ابو جحیفہ ابو جعفر محمد بن علی ابو جعفر ابو جہم بن حذیفہ حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ کی حبشہ کی طرف ہجرت 308 ابو عبادہ سعد بن عثمان، حضرت عثمان سے مواخات 311 حضرت ابو درداء حضرت ابو ذر غفاری 339 339 ابو عبد اللہ ، حضرت عثمان کی کنیت 381،306،304 ابو عبید ، این از هر کا آزاد کرده ذات الرقاع میں ابو ذر غفاری کو مدینہ کا امیر بنانا 326 حضرت ابو عبید ثقفی ما 164 395 ابوزہرا قشیری لشکر لیے ہوئے خَفَّان میں حضرت علی سے ملنا 107 ابو سبرہ بن رھم کا ساسانی بستیوں کو فتح کے کرنا 138 جابان کو گرفتار کر کے ابو عبید کے پاس لایا جانا 108 400 جالینوس کو شکست دینا 109 نرسی کو سَقَاطِيَہ کے میدان میں شکشت دینا 108 263،255،251 270 271 274، 275، 384، 435 _ جالینوس کے لشکر کی اطلاع ملنا ابو سبطین، حضرت علی کی کنیت حضرت ابو سعید ابوسعید مقبری ابو سعید ، حضرت عثمان کے آزاد کردہ ابوسفیان 189 جہاد کے لئے آنا لھذا کا نعرہ مارنا 384 جنگ جسر میں لشکر کے سپہ سالار 164:44:39، 322،291 ہاتھی کے پاؤں کے نیچے آکر شہید ہونا ابوسفیان کا غزوہ اُحد میں ابو بکر و عمر کے نام لے کر پکارنا بیوی کا خواب اس کی تعبیر شہادت رائے کہ مسلمانوں کی فوج دریا عبور کرے 32 غزوہ حمراء الاسد کے موقع پر ابو سفیان کے دل میں رعب حضرت عمر کا امیر لشکر بنانا حضرت ابو عبیدہ بن الجراح فتح مکہ کے موقع پر عمر کا ابوسفیان کی گردن مارنے کی اجازت مانگنا ابوسفیان کو ہند کا غیرت دلانا 34 45 181 108 105 109 109 110 109 106 178 177 176.174-171.170.168164 199.198.196-195-192.189184.179 332-325-285-284-283.200 ابوسفیان کا اپنے بیٹے یزید کو شجاعت دکھانے کی نصیحت اس امت کے امین عشرہ مبشرہ میں سے ہونا 183 382 468.373.251 42 57 ابو سلمہ بن عبد الاسدی کا حبشہ کی طرف ہجرت کرنا 308 صلح حدیبیہ کے معاہدہ پر دستخط تھے ابو سلمہ بن عبد الاسد رسول کریم صلی اللہ نام کے رضائی بھائی خلافت کے لئے ابو عبیدہ اور عمر کا نام پیش ہونا 411 _ حضرت خالد بن ولید کو بقاع کی مہم پر روانہ کرنا 163

Page 551

اصحاب بدر جلد 3 مشق پر یزید بن ابوسفیان کو اپنا قائم مقام بنانا زبر دست جنگی حکمت عملی حضرت عمر کی ضیافت نہ کرنا 15 164 169 193 حضرت عمرؓ کے مقرر کردہ مفتی تھے اسماء 92 حضرت عثمان کی حفاظت کرنے والوں میں شامل 357 ابو وائل حمص میں باغیوں کا چاروں طرف سے گھیر لینا 197 ابو یقظان، حضرت عمار بن یاسر کی کنیت حضرت عمر کا ابو عبیدہ کی سادگی پر فرمانا تم میرے بھائی ہو ابویوسف امام 193 ابُو الْأَغْوَرِ سُلْمِي 246 411 341 164 طاعون کی وجہ سے وفات حمص چھوڑتے ہوئے وصول شدہ جزیہ واپس کرنا 175 ابو البختری کا بدر میں قتل نہ کئے جانے کا حکم 284 ابو الاغور، سعید بن زید کی کنیت 247،183،166 ابو عبیدہ بن عبد اللہ ابو عثمان مهدی حضرت ابو قتادہ انصاری، 38 2 حضرت ابوالدردا حضرت عمرؓ کے مقرر کردہ مفتی تھے 92 289، 469، 369 أبو الْفَرْخَان زینبی ایرانی سردار مسلمانوں سے مصالحت حضرت ابو قحافہ، حضرت ابو بکر کے والد 258 کرنا 151 291 ابو الْفَرْخَانِ زَيْنَی کا خفیہ راستے سے شہر کے اندر جانا ابو لہب رسول کریم صلی نیلم کے چچا 305-306 405، 407 ابولو کوہ فیروز ، حضرت عمر کو شہید کرنے والا 228 تا 233 | ابو جعفر ابولیکلی کندی ابو مخلد 151 360 حضرت ابو جندل کا صلح حدیبیہ کے موقع پر بیٹریوں میں آنا، 246 تفصیل 69 40 ابو مریام ، اہل بلبیس کے راہب 202 ابو جہل 423،414،329،328،327،321،318،182 ابو مریم، اہل بلبیس کے راہب ابو معشر ابو ملیح 202 قبول اسلام کے لئے آنحضرت کی دعا 369.339.224 رسول صلی الم کو گالیاں دینا اور حمزہ کا کمان مارنا 375 فرعون بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے حضرت عمر کی والدہ کی رشتہ داری 370،298،257،250،133،102،99،95 _ آنحضور کے قتل کا اعلان اور انعام 457 455 6 2 18 1 17.16.7 حضرت عمر کا اپنے قبول اسلام کے بارہ میں بتانا 19 223 ابو حذیفہ بن عتبہ کا ایک کلمہ کی وجہ سے بے چین اور حضرت ابو موسیٰ اشعری حضرت علی اور معاویہ کے درمیان حکم حضرت عمرؓ کے بارے خواب دیکھنا بصرہ کے علاقے کے امیر مقرر ہوئے 131 شہادت شہر سُوس کی طرف روانہ ہونا 132 ابو حفص عمر کی کنیت ما سَبَذَان کو بغیر لڑائی کے فتح کرنا نهر تیری کو اہواز کے ساتھ فتح کرنا غزوہ خیبر کے بعد مسلمان ہونا 131 132 326 ابو حنیفہ دینوری کتاب اخبار الطوال کے مصنف 133.106 ابو حنیفہ 141 2 1 دربار حضرت عمر میں تین بار اجازت لینا 270 271 حضرت ابوذر غفاری کو غزوہ بنو مصطلق پر مدینہ کا امیر مقرر حضرت ابو ہریرہ حفظ قرآن ثابت سے 255،252،251،57، کرنا 418.396.381.361.312.272.271 أبو سبره بن رھم دو لشکروں کے کمانڈر 253 | حضرت ابو سعید خدری 35 133 4370*425.83

Page 552

اصحاب بدر جلد 3 ابو سلمہ بن عبد الرحمن ابوسلمہ ابوطاہر محمش ابو عثمان ابو عمر ابو عمرو، عاص بن وائل کی کنیت 16 75 از دی 37 حضرت اسامہ بن زید 100 اسماء 184 436-346-91.82.58 لشکر صحابہ کے اجماع کے بعد گیا 274 روانگی کے وقت ابو بکر کا عمر کو اپنے پاس روک لینا امیر لشکر بنے پر لوگوں کے اعتراضات 1 الله 20 رسول کریم صلی ا ہم کو غسل دینا اور قبر میں اتارنا حضرت ابو قتادہ کا حسنین کے موقع ایک مشرک کو قتل کرنا اسامہ بن زید بن اسلم ابوالحسن سعد بن ابی وقاص نے ابو مُفَزِر اسود کے ہاتھ قیدی 55 58 346 436 82 150 48 استدار، اصفہان میں ایرانی سید سالار 480 استدار کا حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ سے مصالحت کرنا 150 129 اسحق بن عبد اللہ 335 220 حضرت علی کی والدہ نے آپ کا نام اسد رکھا 400 بھجوائے حضرت ابی بن کعب بہتر قرآن پڑھنے والے 479 اسفنديَاذُ بن فَرخُزاذ کا مسلمانوں سے صلح کرنا 152 _ سب سے زیادہ قرآن جاننے والے ہیں 382 إسْفَنَدِيَاذْ بن فَرخزاد رستم کا بھائی عمر کے ساتھ جھگڑا جس کا فیصلہ زید بن ثابت نے کیا 91 بهرام، اسفند یا ز کا بھائی 152 152 88 اسلم کا عمر کے ساتھ جانا اور بھوکے بچوں کو کھانا کھلانا 70 حضرت عمر کی مجلس شوری کے ممبر حضرت عمر کے مقرر کر وہ مفتی تھے 92 اسلم، حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ احمد امام 100 احمد صلی اللہ وسلم مکہ میں ظاہر ہو چکا ہے احنف بن قیس أحنف بن قیس اہل مشرق کے سردار 156 اسماء بنت عمیس 305 اسماعیل پروفیسر 341،340،295،156،134 حضرت اسماء بنت ابو بکر 295.281.80.75.73 209 307 485.466 حضرت عمر کو ایران میں پیش قدمی پر آمادہ کرنا 140 اسماء بنت عمیس کا حضرت عمر کی رؤیا کی تعبیر کرنا 223 157 اشتر 349 134.133 بلخ میں کامیابی خُراسان کا جھنڈا احنف بن قیس کے سپرد 149 اشترسُ بن عوف مهرجان قذق پر قبضہ کرنا يزدجرد کی افواج سے مقابلہ ہونا 155 کے ساتھ لشکر میں شامل ہونا احیمر ، حضرت صالح کی اونٹنی کی کو چیں کاٹنے والا 412 اشعث بن قیس 155 اشعث بن قیس کندی کا ایک ہزار سات سو یمنی سپاہیوں ارطبون ارطبون کا جنگ بلبیس میں مارا جانا 204،202 اشق ، حضرت عمر کا عیسائی غلام 203 اصحمہ، حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا نام حضرت ارقم بن ارقم کا مکان اسلام کا مکہ میں مرکز تھا 10 اصمعی ارمانوسہ مقوقس کی لڑکی 203 اطربون، عربی کتب میں ارطبون لکھا ہے حضرت اروی بنت کریز ، حضرت عثمان کی والدہ 304 | اعمش اروی بنت کریزی کا صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لانا 304 افرودین، ایران میں غیر مسلم فوجی افسر 116 460-296 294 308 386 189 255 98

Page 553

اصحاب بدر جلد 3 افروزین الح بن حمید اقرع بن حابس ام آبان، حضرت عثمان کی بیٹی 98 17 اسماء حضرت ام کلثوم بن علی عمر کی اہلیہ جو ایک خیمہ میں دردِ زہ 378 میں مبتلا خاتون کے پاس گئیں 340 ام کلثوم بنت ثمامه 397 | حضرت ام کلثوم بنت رسول الله صلى اللعلم أم البنين بنت حزام بن خالد ، حضرت علی کی زوجہ 466 حضرت عثمان کی زوجہ 75 386 432.381.305.304 397-312 ام البنین بنت عيينه بن حضن فزاری ، حضرت عثمان کی آپ کا حضرت ام کلثوم کی حضرت عثمان کے ساتھ شادی زوجه حضرت ام ایمن 397 415 کا ارادہ وھ میں وفات ام ایمن اللہ کا حضرت ام کلثوم گوشادی والے دن ام کلثوم بنت علی بن ابو طالب، حضرت عمر کی بیوی تیار کیا 313.312 459 حضرت ام ہائی ، حضرت علی کی بہن 29 313 463.278.247 472.432 ام جعفر ، حضرت علی کی لونڈی حضرت ام حبیبہ کار سول کریم صلی ای ایم سے عشق کا واقعہ ام ہانی بنت ابی طالب کا فتح مکہ کے دن لوگوں کو امان دینا 350 432 حضرت ام حبیبہ کا حضرت عثمان کی مدد کے لیے آنا أمامه بنت ابو العاص بن ربیع زینب کی بیٹی نبی صلی اللہ وسلم کی 351.350 نواسی 466 ام حرام بنت ملحان کو رسول کریم کا شہادت کی خبر دینا أمامه بنت ابو العاص بن ربیع حضرت علی کی زوجہ 466 339 حضرت انس بن مالک 247 م حکیم بنت حارث، حضرت عمرؓ کی بیوی ام حليم بيضاء بنت عبد المطلب، نبی کریم صلی الم کی پھوپھی <220.134 <275-274-264-257-251-246-245-223 371-358-355-335-313-306.292.277 304 469-414-410-382-381-373.372 ام سعيد بنت عُروة بن مسعود ثقفی، حضرت علی کی زوجہ انس بن نضر انصاری، غزوہ احد میں فدائیت کا اند از 31 466 اوس بن ثابت 311 397 ایڈورڈ گبن ، حضرت عمر کی تعریف میں لکھنا 247،209 ام سعید ، حضرت عثمان کی بیٹی ام سلمہ ، ابو سلمہ کی زوجہ ، حبشہ کی طرف ہجرت کرنا ایوب بن موسیٰ 308 بابان ، رومي سپه سالار 4 177 حضرت ام سلمہ ، ام المؤمنین 415،317، 458 جنگ سے قبل مسلمانوں کو انعام پیش کرنا 179،178 حضرت ام سلیط ، جنگ احد کے دن مشکیں اٹھانا 278 بٹلر پروفیسر ، یوحنا النحوی کے بارے تحقیق کرنا 209 ام عبد اللہ بن ابو حمہ کی اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت امام بخاری کا واقعہ 262.145.104 حیح بخاری میں حضرت عمر کے متعلق لکھنا 104 ائم عطیہ حضرت ام عمرو، حضرت عثمان کی بیٹی 4 479 397 بخت نصر بدر بن عثمان ام عمر و بنت جندب از دید حضرت عثمان کی زوجہ 397 بدیل بن ورقا 218 338 321.319.318

Page 554

اصحاب بدر جلد 3 حضرت براء بن عازب براء بن معرور 18 425.404.23 291 اسماء بهمن جَاذْوَیہ کا ایرانی اراکین سلطنت میں باہمی اختلاف کی وجہ سے واپس جانا برک بن عبد اللہ تمیمی کی معاویہ کو قتل کرنے کی کوشش بهمن جَاذْوَیہ کو حضرت قعقاع کا قتل کرنا 460 45 110 121 بهمن جَاذْوَیه، جنگ جسر میں ایرانیوں کے لشکر کے سپہ سالار حضرت بریدہ بن حصیب کو بنو مصطلق کی طرف حالات کے ہیروز کا عہد شکنی کر کے بغاوت کرنا بریدہ اسلمی علم کے لئے روانہ کیا جانا حضرت بریده البزار 35 27 بیقی امام پلو ٹارک (Plutarch) 475 | تمیم داری بسبس بن عمرو کا بدر کے وقت مشرکین کی خبر دریافت تُوْذَرَا بِطَرِيق کرنے جانا 412 تیرویه ایرانی لشکر کے ایک بازوں کا کمانڈر بسر بن سفیان کا حدیبیہ سے پہلے مدینہ خبر رسانی کے لیے تیمور بھیجنا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب 109 131 437.161 210 103 168.167 108 218 209 211 467.411.278 375 107 107 317 تیوفل، ایک پادری تهیوفلس(Theophilus) اسکندریہ کا بشب 24تا32،30تا310،308،254،126،42،39،36، ثعلبہ بن ابو مالک 314تا405،402،401،316، 424،414،412،411 | ثمامہ بن حزن قشیری بشیر بن خَصاصیہ کو حضرت علی کا اپنا جانشین مقرر جابان کرنا بطریق، عیسائیوں کا مذہبی پیشوا حضرت نگیر بن عبد الله اہل موقان کو صلح کی تحریر دینا موقان بھیجنا 117 | جابان ایک بوڑھا تجربہ کار ایرانی سپہ سالار 177 جابان کی مدد کے لیے رستم کا جالینوس کو بھیجنا 108 جابان، جنگ نمارق میں آپ کا زندہ گرفتار ہونا 108 153.152 154 153 حضرت جابر بن عبد اللہ حضرت عمر کا آذر بائیجان کی مہم کے لیے بھیجنا 152 جاحظ آرمینیا کی طرف بڑھنا آذر بائیجان کا جھنڈ ا سپر د کرنا 153 149 جارج کا مسلمان ہونا بلاذری 468-393-373-334-275.37 298 178.177 191 184 171.163.150.132.131.109.106 24 حضرت بلال کا اذان کے الفاظ سیکھنا حضرت بلال کا حضرت عمرؓ کے اصرار پر اذان دینا 195.194 جارج، عربی کتب میں اس کا نام جرجہ بیان ہوا ہے 177 جارج کا ابو عبیدہ سے حضرت عیسی کے متعلق پوچھنا 178.177 جالینوس ایرانی کمانڈر جس کو رستم نے جابان کی مدد کے لئے 108 جالینوس کا بار و سما کے علاقے میں لشکر انداز ہونا 109 بلال کا اذان دینا اور غزوہ خندق کے موقع پر چار نمازوں کی جالینوس کا شکست کے بعد میدان سے بھاگنا ادا ئیکی بلال بندویه ایرانی لشکر کے ایک بازوں کا کمانڈر 38 256 108 109 جالینوس کو رستم کا فوج کا سپہ سالار مقرر کرنے کا بادشاہ کو مشوره 118

Page 555

اصحاب بدر جلد 3 19 اسماء جامع بن شداد جبار بن صخر ، اہل مدینہ کے لئے محاسب تھے جبار ، بنو ثعلبہ کا بدوی حضرت جبرئیل 63 64 حارث بن حسان کو ستر خس کی طرف بھیجا جانا 155 47 314 479.464.422-414-386-275-220.7 حارث بن مره حارث بن ہشام حارث بن ہشائم کی طاعون کی وجہ سے وفات حضرت حارثہ بن نعمان حضرت حاطب کا خفیہ طور پر اہل مکہ کو خط جبر بن ابو عبید کا دومہ کی خواب میں مشروب پینا 110 حضرت حاطب بن ابی بلتعہ 78 جبلہ بن ایم کا اپنی قوم سمیت مرتد ہونا جبلہ بن ایم کا ایک مسلمان کو حج کے دوران تھپڑ مارنا اور عمر حضرت حباب بن مندر کو جھنڈا دیا جانا کا عدل و انصاف 77 458 166 284 417 430 47 46 حباس بن قیس کا جنگ میں پاؤں کا کٹنا اور پتہ بھی نہ چلنا 184 حضرت جبیر بن مطعم کیا حضرت عثمان کی نمازہ جنازہ پڑھانا حبیب بن ابو ثابت 436 جبیر بن نفیر جعدہ بن ہبیرہ ، حضرت علی کا بھانجا جرير بن عبد الله بجلي 369 269 465 144 حبیب بن مَسْلَمَہ کو تفلیس بھیجنا حبیب بن مسلمہ ، افسر خزانه حبیب بن مسلمہ کے ہاتھ آرمینیا کی فتح حذافہ جنس ماہ کا جنگ نمارق میں ایرانی لشکر کے بازوؤں کی کمان حضرت حذیفہ ، نبی کریم صلی الم کا رازدار کرنا حضرت جعفر بن ابو طالب جعفر بن محمد جعفر صادق امام حضرت جعفر، حضرت علی کا بھائی 107 379 246 465 401.400 حذيفه بن أسيد كولان بھیجنا حُذَيْفَه بن أُسَيُدغِفَارِى حذیفہ بن محصن حضرت حذیفہ بن یمان 153 174 340 257 261 153 153 119 388-387-275-268-247.224.184.147.144 جفینہ 232،231،229 233 بازوؤں کی کمان کرنا جفینہ حیرہ کے نصاریٰ میں سے ایک نصرانی جینہ کو عبید اللہ بن عمر کا قتل کرنا 230 230 حضرت نعمان کے جانشین حفظ قرآن ثابت ہے جمانہ حضرت علی کی بہن اسلام قبول نہیں کیا 400 حربن قیس جميع بن عمير 467 حزام بن ہشام جمین بن علم سمجھی قریش میں سب سے زیادہ بات میں پھیلانے حسان بن ثابت 19 حضرت امام حسن والا 145 147 253 290 79 311 465.463.459.443-442-358-263 جمیلہ بنت ثابت کا نام عاصیہ تھا آنحضور صلی ا تم نے تبدیل کر کے تجمیلہ رکھ دیا تھا حضرت عمر کی بیوی 247 حضرت علی کی وفات کے بعد خطبہ دینا جندب جولیس سیزر جویریہ ابوسفیان کی بیٹی امیر معاویہ کی بہن چنگیز خاں 152 حضرت علی کا بیٹا 250،211 حضرت علی کی نماز جنازہ پڑھائی حضرت عثمان کے گھر کا پہرا دینا 180 464 466 464 443.442 218،215، 219 عمر کا حسن اور حسین کو سوار کرنا اور ان کو ملے عطا کرنا حارث بن ابی ضرار کا مدینہ پر حملہ کا ارادہ 35

Page 556

اصحاب بدر جلد 3 20 69 حضرت عمر کا حسن اور حسین سے محبت کا اظہار 68 حضرت امام حسین حضرت علی کا بیٹا حضرت عثمان کے گھر کا پہرا دینا 485.484.472.471.465-459 466 443.442 اسماء حضرت حمزہ ابتدائے اسلام میں بہادر سمجھے جانے والوں میں سے حمید بن ہلال حنتمہ بنت ہاشم حضرت عمر کی والدہ حنظلہ بن ربیع حو بیرث بن نقید کو حضرت علی ضیا قتل کرنا 15 63 355 433 عمر کا حسن اور حسین کو سوار کرنا اور ان کو ٹھلے عطا کرنا 69 حویرث بن نقید کا فتح مکہ کے موقع پر قتل کیا جانا 432 1 حضرت علی سے سوال حسن (راوی) حسن ابراہیم حسن ڈاکٹر حسن بصری حصین مری 471 372.63 209 296 64 خارجہ بن حذافہ خارجہ بن زید بن ثابت خارجہ خاقان، ایک ترک سردار خاقان سے یز و خبر د کا امداد کی درخواست کرنا 204 379.376 355 156 155 397 حضرت حفصہ ام المؤسنين خطیئہ ، مشہور ہجو گو جس کو حضرت عمرؓ نے قید کیا 298 خالد ، حضرت عثمان کے بیٹے.233.226.221 ย حضرت خالد بن ولید 170،169،168،167،165،105ء 388-387-379-265-264-247-239-234 188 187.183.182.181.179.178.177.174 318.314.298.199.197.196.192.190.189 آنحضرت سے شادی آپ کے پاس حضرت ابو بکر و الا قرآن رہا 440-434 28 59 جنگ اُحد میں مسلمانوں پر حملہ 30 حکم بن ابو العاص، حضرت عثمان بن ابو العاص کے بھائی 159 حضرت ابو عبیدہ کا بقاع کی مہم پر روانہ کرنا 163 حلم بن صلت حکم بن عمرو 163 372 _ بقاع کو فتح کرنا حضرت ابو بکر کا شام جانے کا حکم دینا 447،349 | خالد بن ہلال کا جنگ بویب میں شہید ہونا حکم بن عمرو کے ہاتھوں مگر ان کی فتح 149 ،162 _ عراقی افواج کی کمان حکیم بن جبلہ حضرت حکیم بن حزام 164 106 106 112 369 حضرت خباب کا حضرت عمر کی آواز سن کر چھپنا 9 حلیس بن علقمہ کا صلح حدیبیہ کے وقت مذاکرات کرنے آنا حضرت خدیجہ ام المومنین حمران، حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام حمران بن ابان 416.403.402 320 حضرت خراش بن امیہ نما صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں کی 394 | طرف سے مذاکرات کرنے جانا 321 345، 396 حضرت خزیمہ انصاری کے پاس سورۃ توبہ کی دو آیات کا ملنا حضرت حمزہ نے عمر سے تین روز قبل اسلام قبول کیا 2 حضرت حمزہ کا دارار تم میں عمر کے آنے پر رد عمل خسرو پرویز 1410 خشتر و شَنُوه ایرانی سردار 59 216.215.124 148 98 حمزہ بن عبد المطلب کا بدر میں مبارزت کے لیے نکلنا 413 خسرو، ایران میں غیر مسلم فوجی افسر ابو جہل کار سول ملیا میں تم کو گالیاں دینا اور حمزہ کا کمان مارنا 2 نخسر و شتوم کا خلو ان سے شکست کھا کر بھاگنا 130 الله سة حضرت حمزہ، رسول کریم صلی لنی کیم کے چچا 405 خطاب، حضرت عمرؓ کے والد 1 ، 290،272،267،258

Page 557

اصحاب بدر جلد 3 21 اسماء خفاف بن ایماء غفاری، حدیبیہ میں نبی کریم صلی الم کے ساتھ حضرت عثمان کے ساتھ ہجرت خلید بن عبد اللہ حنفی 279 341 حضرت رقیه لیہ کی وفات رقیہ بنت عمر، حضرت عمر کی بیٹی 308.307.306 312 247 خنیس بن حذافہ سہمی، حفصہ کے پہلے خاوند ، ان کی وفات رمله بنت شَيْبه بن ربیعہ، حضرت عثمان کی زوجہ 397 خوات بن خبیر حضرت خولہ کا جنگ کے دوران شعر پڑھنا 30.29.28 285 181 خولہ بنت جعفر بن قیس، حضرت علی کی زوجہ 466 حضرت داؤد دحيه بن خليفه در نجار ، رومی سپه سالار دعثور بن حارث دومه، حضرت ابوعبید کی بیوی 367 164 182 314 109 حضرت زبیر بن العوام 354-349-335-305-244-205-204-80 440-430-412-386-373-361-357-356 <452.451.450.449-447-446.445.444 470.454.453 410 373.251 عبد اللہ بن مسعودؓ کے ساتھ مواخات عشرہ مبشرہ میں سے ہونا بدر کے وقت مشرکین کی خبر دریافت کرنے جانا 412 خیبر کے اموال کی طرف جانا اور ایک ساتھی پر حملہ 47 آپ کہنا کہ جان اللہ کے راستے ہبہ کرنے جارہا ہوں 206 دومہ کا حضرت ابولہبیڈ کی شہادت سے قبل خواب دیکھنا حبشہ کی طرف ہجرت کرنا 110 امام رازی کا بدر کے قیدیوں سے فدیہ کی بابت مؤقف ربعی بن عامر ربیج، حضرت مُہاجر بن زیاد کا بھائی ربیع بن مالک ربیعہ رستم، مشہور ایرانی پہلوان اراکین سلطنت کی بغاوت 28 156.119 132 369 413.412 162 120 119 118.111.108.107 110 112 حضرت عمر کی خلافت کمیٹی میں شامل خلافت کمیٹی کے ممبر زہری امام 308 337.336.335 227 437-463-395-341.52.46.10 100 129 247 247 امام ابن شہاب کا کہنا کہ آنحضرت مدینہ تشریف لائے تو آپ نے تاریخ لکھنے کا ارشاد فرمایا زیاد بن ابوسفیان زید اصغر ، حضرت عمر کا بیٹا زید اکبر ، حضرت عمر کا بیٹا زید بن اسلم اہل فارس کا سر دار حضرت زید بن ثابت حضرت مثلی کے مقابلہ کے لیے لشکر روانہ کرنا 107 بوران کو معزول کر کے یزدجرد کو تخت پر بٹھانا 112 حضرت مغیرہ کی بات سن کر سخت برہم ہونا خراسان کے گورنر فرخ زاد کا بیٹا قادسیہ میں قتل ہونا 119 107 122 جمع قرآن کا واقعہ 335-291-278.243.82.69 361.253.252 59.58 حضرت ابی بن کعب نما عمر کے ساتھ جھگڑے کا فیصلہ کرنا 91 عثمان کے کہنے پر قرآن کریم کی نقول تیار کرنا 387 حضرت عمر کی مجلس شوری کے ممبر دربار میں حضرت ربعی بن عامر کیا بطور اینچی جانا 119 حضرت رفاعہ بن عبد المنذر کے ہاں عمر کا قبا میں قیام 23 حضرت عمرؓ کے مقرر کر وہ مفتی تھے حضرت رقیہ بنت رسول الله صلى ال 381،313،304 فرائض کو جاننے والے حضرت رقیہ نہ کی شادی 397،305 | حضرت زید بن حارثہ 89.88 92 382 412

Page 558

اصحاب بدر جلد 3 22 اسماء 116 120 غلاموں میں سب سے پہلے اسلام لانا 403 _ مجاہدین کے ساتھ ایران کی طرف بھیجنا بدر کی فتح کی خوشخبری لے کر مدینہ آنا 312 بیماری کے باوجود لشکر کی کمان غزوہ بنو مصطلق کے موقع پر مدینہ کا امیر مقرر کیا جانا 35 - عبد الرحمن کا آپ کو کمانڈر بنانے کے بارے حضرت عمر کو بتانا حضرت زید بن خطاب زید بن وہب 298 246 محلات کو سنسان دیکھ کر آیت پڑھنا زین العابدین ولی اللہ شاہ 436،394،262،50،21 سپاہیوں کی دیانتداری پر حیرت کا اظہار زینب بنت عمر، حضرت عمر کی بیٹی زینب بنت مطعون، حضرت عمر کی بیوی 247 _ مسلمانوں کو سورۃ انفال پڑھنے کا حکم دینا 247 _ اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا ساریہ بن زُنیم کے ہاتھ فسا اور دارا بجرد کا جھنڈا.جنگ کے لیے قادسیہ کا میدان منتخب کرنا 149 115 128 128 120 127 124 حضرت ابراہیم جہاں قید ہوئے اس قید خانہ کو دیکھنا 127 اچانک يَا سَارِيَة الجبل کی آواز آنا 159 160 161 ساری رات جاگنا اور اللہ کے حضور دعائیں 295_ مدائن کی فتح کا وعدہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں سالم بن عبد اللہ حضرت سالم کا حفظ قرآن ثابت ہے سالم، شیبہ کا آزاد کردہ حضرت سائب بن یزید 122 253 حضرت سعد بن ابی وقاص کے ہاتھوں پورا ہوا 126 257 | سعد بن مالک ، حضرت سعد بن ابی وقاص کا دوسرا نام 395.394.289 373.115 467.411.46 سپر نگر (Springer) کا حفاظت قرآن کا اقرار کرنا 388 حضرت سعد بن عبادہ سراقہ بن مالک کی سرکردگی میں حضرت عمر کا لشکر بھجوانا حضرت سعد بن عبادہ کا کہنا کہ ایک امیر ہم میں اور ایک تم میں سعد بن ابی سرح حضرت سعد بن ابی وقاص 153 340-327 ނ 56 حضرت سعد بن عبید کا اپنے آپ کو جہاد کے لئے پیش کرنا 167،154،144،133،130،129،124،119،117،115 ، سعد بن مالک حضرت عمر کی خلافت کمیٹی میں شامل <307-272-263-244-240-233-231-230-198.197 464،463،440،412،373،354،337،325 حضرت سعد بن معاذ صلح حدیبیہ کے معاہدہ پر دستخط تھے 42 سعد بن عبيد عشرہ مبشرہ میں سے ہونا 373،251 سعید ، حضرت عثمان کے بیٹے 105 373-335-115 31 106 397 حضرت عمر کا معزول کرنا قحط کے سال غلہ بھجوانا حفظ قرآن ثابت ہے 141 سعید بن ابو ہلال کا حضرت عمر کی شہادت کے بارے خواب 80 دیکھنا 253 سعید بن حریث حضرت عمر کا مدینہ میں لشکر بھیجنے کے بارے میں لکھنا حضرت سعید بن زید خلافت کمیٹی کے ممبر 111 عشرہ مبشرہ میں سے ہونا 227 _ حضرت عمر کی وفات پر رونا حضرت عمر کا آپ کو رستم کے پاس دعوت دینے کے لیے لکھنا.حضرت عمر کو قبر میں اتارنے والے 118 | حضرت سعید بن عاص 223 327 332.183.182 373.251 247 244 339

Page 559

اصحاب بدر جلد 3 23 اسماء سعید بن عاص کا عثمان کے کہنے پر قرآن کریم کی نقول تیار سويد بن مقرن کا قومیں والوں سے صلح کرنا 151 کرنا حضرت سعید بن عامر 387 سیاہ، ایران میں غیر مسلم فوجی افسر 176.175 سِيَاوَخُش بن مِهْرَان بن بهرام شُوبِين رَے کا حاکم 98 151 سعید بن مسیب 292،231،230،75،52، 23 سینٹ کرائے کا اسکندریہ کے کتب خانہ کی تحقیق میں بہت سکندر سَلْمَان بن ربيعة 219،218،215 سی کتابیں لکھنا 153 علامہ سیوطی رسول اللہ صلی الم نے فرمایا جنت تین آدمیوں کی مشتاق شارلیمن (Charlemagne) ہے علی، عمار، سلمان سلمہ بن اکوع سلیط بن قیس 469 شبل بن مَعْبَد بَجَلي شبلی نعمانی علامه 426-255 106 210 255 250 159 201 163 104-103 101.98.97 298 بر صغیر کے معروف سیرت نگار سلیط بن قیس کا اپنے آپ کو جہاد کے لئے پیش کرنا سلیم ابو عامر حضرت سلیمان سماك بن خَرَشَهُ حضرت سماک حفی سمرہ بن جندب سنان بدر کے قیدیوں سے فدیہ کی بابت موقف 105 109،106 _ اپنی کتاب الفاروق میں اولیات عمر لکھنا حضرت عمر کی فتوحات کا ذکر کرنا 372 380،367،52 _ اپنی کتاب میں حضرت عمرؓ کی فتح کے اسباب کا ذکر 153.152 101 104 2200*214 243 شبیب بن بجرہ کا حضرت علی کے قتل میں ملوث ہونا 334 163 حضرت شداد بن اوس 461.460 443.339 حضرت سہل بن حنیف کی حضرت علی سے مواخات حضرت شداد بن اوس حضرت اوس بن ثابت کے بیٹے 311 حضرت سہل بن سعد سهيل بن عدى 410 شرحبيل بن حسنة 423.400.99 183 182.180.175.174-171.166 162 163 ،198 حضرت شرخبيل بن حَسَنَہ کا اردن پر قبضہ کرنا سهيل بن عدی کے ہاتھوں گزمان کی فتح سہیل بن عمرو کا طاعون کی وجہ سے وفات سہیل بن عمرو 161.149 284 حضرت شعیب 42،40، 166 | شنش سہیل بن عمرو کا حدیبیہ کے وقت مشرکین کی طرف سے شِهَابٌ بن مُخَارِقُ 164 296 94 168.167 162 مذاکرات کرنے آنا 324،320 325 326 شَهْرَ بَرَازُ جَاذَوَیہ کو عبد اللہ بن ورقاء کا قتل کرنا 99 سمیلی امام سودان حضرت عثمان کو شہید کرنے والا 364 شهر براز حاکم آرمینیا 150 153 سويد بن مقرن کا بازوؤں کی کمان کرنا 145 شهر براز کا حضرت سراقہ کے ساتھ فوجی امداد پر مصالحت سويد بن مقرن کا جرجان والوں سے صلح کرنا کرنا 151 ،152 | شہرستانی | شهرك کا بغاوت کرنا 153 53 159

Page 560

اصحاب بدر جلد 3 24 اسماء شَهرك کو حکم بن ابو العاص کا قتل کرنا 159 | طلیحہ بن خويلد عرب کا شہسوار مگر کسی کام میں افسر نہ شہر ویہ ایران میں غیر مسلم فوجی افسر شہر یار، ایران میں غیر مسلم فوجی افسر شیبه شیبہ بن مالک حضرت صالح محار بن فُلَان عَبْدِى 98 98 بننا عاتکہ بنت زید حضرت عمر کی بیوی 145 247 413 عاص بن وائل کا حضرت عمر کو لوگوں سے بچانا 2015 422 عاص بن وائل کا قریش میں مقام و مرتبہ 481.459.412.360 صفر نیوس عربی کتب میں صفر ونیوس لکھا ہے 162.155 189 صهباء ام حبیب بنت ربیعہ، حضرت علی کی زوجہ 466 صہیب بن سنان حضرت عمر کو قبر میں اتارنے والے 244 ย 244 عاص ابو عمر و کنیت حضرت عاصم بن ثابت بدری صحابی عاصم بن عمر 21 20 247 281 121 120 119 247 عاصم بن عمر ، حضرت عمر کا بیٹا عاصم بن عمرو کا سجستان کو فتح کرنا 162،149 صہیب نے حضرت عمرؓ کی نماز جنازہ پڑھائی عامر بن ربیعہ، اپنی اہلیہ کے ساتھ حبشہ ہجرت کا واقعہ 4 صہیب کا عمر کے زخمی ہونے کے بعد امام الصلوۃ بنا، 337،335 ضرار بن از د 436-282 184:182 حضرت عامر کا مرحب کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنی ہی تلوار کامر خیرار بن خطاب کی سر کردگی میں ایک لشکر مقابلہ کے لیے لگنے سے شہید بھیجنا ضرار بن خطاب خندق کو پار کرنے والے ضرار صدائی 130 423 480.479 طالب حضرت علی ضیا بھائی اسلام قبول نہیں کیا 467 کا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابح 475.474.395.278.41 حضرت عائشہ 427.426 <259.252.244.227.61.51 371.365.351.342.312.274.273.272 418.417.415-387-386-385-383.382 454449.446.435 عائشہ کی چادر سے بنایا گیا پرچم 46 آنحضور سے محبت کا انداز ، باریک آٹے والا واقعہ 67 العام طبری 144،136،132،131،109،106 ، آپ کا قول کہ نبی کی وفات کے بعد عرب مرتد ہو گئے 247.244.188 187.184.163.150.148 57 طلحہ بن ابو طلحہ احد میں مشرکین کے علمبر دار 422 عمر کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن کی اجازت لینا 226 عثمان زیادہ صلح رحمی کرنے والے اور تقویٰ اختیار کرنے طلحه (راوی) 446 حضرت طلحہ بن عبید اللہ 305،279،244،142،60،10، والے 371 444،440،385،373،357،356،354،349،332،312، قاتلین عثمان کا اپنی بد تہذیبی میں حضرت عائشہ پر 470-450-449-448-447-446-445 عشرہ مبشرہ میں سے ہونا ایک جہنمی قتل کرے گا حفظ قرآن ثابت ہے.حضرت عمر کی خلافت کمیٹی میں شامل 373.251 454 253 تبصرے کرنا عائشہ حضرت عثمان کی بیٹی حضرت عباد بن بشر حضرت عبادہ بن صامت 365 397 317 355.339.207.206.204< 172 172 172 12 نقیبوں میں سے کم عمر _جنگ قیساریہ میں بہادری کا واقعہ شہادت کی دعا مانگنا 337-336-335 227 454.453 440.146.144 خلافت کمیٹی کے ممبر کی جنگ جمل میں شہادت طلیحہ بن خویلد اسدی

Page 561

اصحاب بدر جلد 3 25 اسماء حضرت عباس 435،432،405،260،199،185 عبد الملک بن مروان سب سے پہلے اسلامی سکے جاری کرنا رسول کریم صلی ا ظلم کے چچا بدر میں قتل نہ کئے جانے کا حکم اسلام لانے پر عمر کا خوشی کا اظہار سفر شام میں حضرت عمرؓ کے ہمراہ 401.248 2 45 189 عبد مناف 101 400 عبد مناف پر جاکر حضرت عثمان کا شجرہ نسب رسول کریم صل العلوم سے ملتا ہے عباس کا واسطہ دے کر عمرہ کا بارش کے لئے دعا کرنا 82 عبد الرحمن اصغر ، حضرت عمر کا بیٹا عمر نے وظیفہ کے وقت سب سے پہلے ان کا حصہ مقرر کیا 69 عبد الرحمن اکبر ، حضرت عمر کا بیٹا فتح مکہ کے موقع پر عباس کا ابو سفیان کو امان طلب کرنے کا عبد الرحمن اوسط، حضرت عمر کا بیٹا 44 عبد الرحمن بن ابو زناد مشوره عباس بن کلابیه، حضرت علی کا بیٹا عبد الرحمن بن اپنی بکر عبد الرحمن بن اخنس 304 247 247 247 372 466 عبدالرحمن بن ابی لیلی کے کوفہ گورنر بھجوانے جانے والا واقعہ 233-232-231-230 373 عبد الرحمن بن اسود حضرت عبد الرحمن بن عوف 59 ، 176،115،88،73 ، عبد الرحمن بن جندب 440-354-325-283-251.244.239.192 عبد الرحمن بن حارث 90 393 447 19 عشرہ مبشرہ میں سے ہونا 251، 373 ، 470 عبد الرحمن بن حارث نے حضرت عثمان کے کہنے پر قرآن حبشہ کی طرف ہجرت کرنا حضرت عثمان سے مواخات 308 کریم کی نقول تیار کیں 410،311 | عبد الرحمن بن حاطب دو اصحاب کے ہمراہ جنگ بدر میں اونٹ پر باری باری سوار ہونا عبد الرحمن بن ربيعه 25 42 عبد الرحمن بن سعید عبد الرحمن بن سفینہ رسول کریم صلی اللہ ملک کو غسل دینا اور قبر میں اتار نا 436 عبد الرحمن بن عثمان قرشی صلح حدیبیہ کے معاہدہ پر دستخط تھے حضرت عمر پر اپنے ماں باپ کو قربان کرنا حضرت عمر کو فارس جانے سے روکنا 112 حضرت عبد الکریم سیالکوٹی 112 حضرت عبد اللہ حضرت عمر کے زخمی ہونے کے بعد نماز مکمل کروانا عبد اللہ الاصغر ، حضرت عثمان کے بیٹے 225، 228 | عبد اللہ بن ابراہیم خلافت کمیٹی کے ممبر 335،227 336 337 حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی حضرت عثمان کو خلیفہ منتخب کرنا رات بھر خمس کی حفاظت کرنا عمر کے مقرر کردہ مفتی تھے حضرت عمر کی شہادت سے قبل چھری دیکھنا عبد اللہ بن شداد عبد اللہ بن عتبان 336 337 عبد اللہ بن ابی بن سلول 393 396 153 335 378 381.306 302 374 397 83 355 254 129 عبد اللہ بن ابی بن سلول، کا کہنا کہ اگر ہم مدینہ لوٹے تو 92 ضرور معزز ترین شخص ذلیل ترین کو وہاں سے نکال دے گا 37 232،231 233 عمر شکار کیس المنافقین کی نماز جناز سے آنحضرت کو روکنا 37 278 عمر کا عبد اللہ بن ابی بن سلول کی گردن مارنے کی اجازت 198 طلب کرنا 37

Page 562

اصحاب بدر جلد 3 26 اسماء الله س عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی کو رسول کریم صلی این کم کا چادر دینا عبد اللہ بن عباس کا کہنا کہ جب ابو بکر نے آپ کی وفات 254 بارے آیت پڑھی تو یوں معلوم ہو ا جیسے یہ ابھی نازل ہوئی عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح، فتح مکہ کے موقع پر قتل کرنے کا حکم 327 عبد اللہ بن عباس کا حفظ قرآن ثابت ہے عبد اللہ بن ابی سرح کاتب وحی مرتد ہو ا بعد میں پھر بیعت کرلی 38 عبد اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ عبد اللہ بن ارقم، رات بھر خمس کی حفاظت کرنا 129 عبد اللہ بن عبد اللہ 56.52 253 371 162.150.149 عبد اللہ بن ام مکتوم کو صلح حدیبیہ کے لیے امام الصلوۃ بنا نا 317 عبد اللہ بن عبد اللہ سے استدار کا مصالحت کرنا 150 بنانا عبد اللہ بن بُدیل کے ہاتھوں گزمان کی فتح 162,161 عبد اللہ بن عبد المطلب رسول کریم صلی الم کے والد عبد اللہ بن بُدیل کا صفین کی جنگ میں قتل ہونا 150 304 حضرت عبد اللہ بن جعفر نے حضرت علی تو غسل دیا 464 عبد اللہ بن عثمان، حضرت عثمان کے بیٹے عبد اللہ بن حذافہ سہمی 257 حضرت عبد اللہ بن عمر 397 47.28.20.19<18<7<6 عبد اللہ بن حنطب عبد اللہ بن خازم عبد اللہ بن خالد بن اسید عبد اللہ بن خباب کو خوارج کا شہید کرنا 275 341 380 458 253-247-234-220-180.144.161.81.79.69.48 288-275-265-262-261-260-259-257-256.254 478-443-392-377-375-374-371-293-289 حفظ قرآن ثابت ہے حضرت عمر کا بیٹا عبد اللہ بن خطل کو فتح مکہ کے موقع پر قتل کرنے کا حکم 327 حضرت عمر و عسل دینا عبد اللہ بن رواحہ کا خیبر کے پھلوں کی زکوۃ وصول کرنے حضرت عمر کو قبر میں اتارنا 46 کمیٹی میں شامل لیکن خلیفہ نہیں جانا حضرت عبد اللہ بن زبیر 443،396،395،361،358 حضرت عبد اللہ بن زبیر نے حضرت عثمان کے کہنے پر قرآن کریم کی نقول تیار کیں 387 حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عثمان عبد اللہ بن قمئہ عبد اللہ بن قیس جاسی حضرت عبد اللہ بن زید کی اذان کے بارہ میں رویا 24 حضرت عبد اللہ بن مسعود 256.80 253 247 244 244 337-336 369 315 381 440-384-337-281-275.251.21.19 عبد اللہ بن زید بن اسلم حضرت عبد اللہ بن سائب کا حفظ قرآن ثابت ہے 253 حضرت زبیر کے ساتھ مواخات عبد اللہ بن سبا 410 451،362 حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے حضرت عمر کا قراءت قرآن عبد اللہ بن سبا کا یہودی ہو کر اسلام کا اظہار کرنا 364 کے حوالے سے جھگڑا عبد اللہ بن سبافتنہ حضرت عثمان کا بانی مبانی حضرت عبد اللہ بن سلام عبد اللہ بن عامر حضرت عبد اللہ بن عباس 349 363-362-360.246 341.340 56.53.50.22.2 391 92 عمر کا بغیر اجازت فتوی دینے پر باز پرس کرنا عمرہ کی وفات پر فرمایا علم کے دس میں سے وحصے جاتے رہے عبد اللہ بن مَعْمَر 246 159 <297 296-290-283-273.245.243.228.225.224 عبد اللہ بن مکنف بن حارثہ 479.468.466-460-435-333-332-328-327-313 عبد اللہ بن نافع بن حصین حضرت عبد اللہ بن عباس کو حضرت عثمان کا امیر حج بنانا 353 عبد اللہ بن نافع بن عبد قیس 312.47 339 339

Page 563

اصحاب بدر جلد 3 عبد اللہ بن نمیر ، سجستان کو فتح کرنا حضرت عبد اللہ بن ہشام اسماء حضرت عثمان بن عفان 49،42،39، 61،60،59، 94،93، 233 230-220-219-214-213.189.159.157.137 <292 291.276-273-248-242 241 240 239.238 <327-326-316-315-312-309-307-306-300-299 +382-377-372-348-347-342-338-337-335-332 27 162 21 عبد الله بن ورقاء اسدی کا بازوؤں کی کمان کرنا 149 عبد اللہ بن ورقاء ریاحی ہر اول دستوں کا کمانڈر 149 عبد اللہ بن ورقاء کا ایرانی افسر شَهْرَ بَرَازُ جَازَوَيْه کو قتل کرنا عبد الله بن وهب راسبی عبد اللہ بن وہب خوارج کا امام 150 394-386-385 آپ کے والد زمانہ جاہلیت میں فوت ہو گئے تھے 304 130 رسول کریم صلی ا ہم سے 5 سال چھوٹے 305 458 عبد اللہ حضرت رقیہ کے بطن سے حضرت عثمان کے بیٹے 304 اسلام لانے والوں میں سے چوتھے 400 _ قبولِ اسلام کے بعد آپ پر عبد المطلب بن ہاشم عبد الملک، حضرت عثمان کے بیٹے 397 384 305 آپ کے اخلاق میں سب سے زیادہ مشابہت عثمان کو ہے 381 عبد الملک بن مروان، آپ نے سب سے پہلے سکہ جاری کیا 101 تہجد میں زیادہ تلاوت کی وجہ سے ذوالنورین کہا جاتا 304 - عبد خیر عبید اللہ بن عمر 276 341.247.242.241.233 بلا تحقیق جوش میں ہر مز ان کو قتل کرنا ابولو کوہ فیروز کی بیٹی کو قتل کرنا ہر مزان اور جنینہ کو قتل کرنا حضرت عثمان سے الجھنا 137.136 231 230 240 عبید اللہ بسمل کی کتب شیعہ مدرسوں میں پڑھائی جانا 475.474 ذوالنورین کہا جاتا 304 قحط کے دنوں میں تجارت کا پورا قافلہ صدقہ دینا 333 مکہ اور طائف میں پیدائش کی روایات حفظ قرآن ثابت ہے حلیہ اور لباس کتابت وحی کا موقع ملنا عفت اور حیا بہت تھی حضرت رقیہ بنت رسول اللہ سے شادی 305 253 372 386 382.381 305 عبید اللہ بسل چوٹی کے شیعہ عالم احمدی ہو گئے 475،474 آپ کا ام کلثوم کی حضرت عثمان کے ساتھ شادی کا ارادہ 29 حضرت عبید اللہ بن زبیر عبید اللہ بن عبد اللہ حضرت عبید اللہ خولانی 361 435.50 378 عبیدہ بن حارث کا بدر میں مبارزت کے لیے نکلنا 413 عتبان بن مالک کی عمر کے ساتھ مواخات عنبه 24 414-413 412.306.305 حضرت ام کلثوم بنت محمد صلی یکم سے شادی 312 رسول اللہ صلی علیم کا فرمانا اگر کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو آپ 313 کے ساتھ شادی کر دیتا اگر سو بیٹیاں بھی ہو تیں تو عثمان کے ساتھ بیاہ دیتا 313 308 حبشہ کی طرف ہجرت کرنا دوبارہ حبشہ ہجرت کرنے کے حوالے سے روایت 307 حضرت عقبہ بن سہیل کی طاعون کی وجہ سے وفات 284 حضرت لوط کے بعد پہلے جس نے اہل کے ساتھ ہجرت کی 307 عُتبہ بن غزوان کی سرکردگی میں ایک شکر خُوزستان ہجرت کے بعد اوس بن ثابت کے گھر ٹھہرنا روانہ 131 149 عتبه بن فرقد کے سپر د آذر بائیجان کا جھنڈا عُتبہ بن فرقد کا آذربائیجان کے باشندوں کو صلح نامہ دینا 152 306 نبی کریم صلی الم سے مواخات 311 312 311 حضرت اوس بن ثابت سے مواخات حضرت عبد الرحمن بن عوف سے مواخات 479،311 ابو عبادہ سعد بن عثمان سے مواخات عبد اللہ بن ابی سرح کو پناہ دینا 311 328

Page 564

اصحاب بدر جلد 3 _جنت خریدلی عشرہ مبشرہ میں سے ہونا غزوات میں شمولیت 331 373.368.251 28 انتخاب خلافت کے لیے مجلس شوریٰ حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں کردار 334 اسماء 332.331 313 فرشتے حیا کرتے ہیں 382 بدر میں شامل نہیں ہوئے لیکن غنیمت میں حصہ ملا 304 حضرت ابو بکر کا عمر کی خلافت کی بابت مشورہ 60،59 314 حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں کردار غزوہ احد میں شمولیت آپ کا عثمان سے بغض رکھنے والے کا جنازہ نہ پڑھنا 393 حضرت عمر کی مجلس شوری کے ممبر مکہ جانا اور بیعت رضوان حدیبیہ کے موقع پر قتل ہونے کی افواہ 325 321 322 عمر کے مقرر کردہ مفتی تھے حضرت عمر کو مشورہ دینا 333 88 92 142 244 334 رسول اللہ صلی العلیم نے بیعت رضوان میں بائیں ہاتھ کی طرف حضرت عمر کی خلافت کمیٹی میں شامل 337،336،335 اشارہ کر کے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے 375،331،323 حضرت عمر کو قبر میں اتارنا حضرت عثمان کو ذات الرقاع میں مدینہ کا امیر بنانا 326 مردم شماری کروانے کا مشورہ حضرت حفصہ کے رشتہ سے انکار اور وجہ مضبوط عزم و ہمت آپ کو ایک مصیبت کے بعد جنت کی بشارت ملنا 370 آٹھ شادیاں خلافت کی بابت رسول کریم صلی الم کی پیشگوئی 334 تواضع اور سادگی دور خلافت کی فتوحات دور خلافت میں اشاعت قرآن سة فتنہ کی بابت رسول کریم صلی الم کی پیشگوئیاں 28 339.338 387 342 جرات و بہادری 360.359 397 383 365 زمانہ میں مسجد نبوی کی توسیع زیادہ ہوئی آپ صلی ا علم کی نظر میں حضرت عثمان کا مقام 385 زمین خرید کر مسجد نبوی کی توسیع کے لیے دینا 377.376.375 376 حضرت عثمان کی سخاوت اور فیاضی، انفاق فی سبیل اللہ 384 عید کے روز جمعہ کی نماز سے رخصت 395 حضرت جبیر بن مطعم کا عثمان کی نمازہ جنازہ پڑھانا 369 بیعت کے بعد شرمگاہ کو دائیں ہاتھ سے نہ چھونا 384 اپنی وفات سے ایک سال قبل آخری حج کرنا 359 380 رسول کریم صلی علیم کی انگوٹھی کا گم ہو جاتا 373 پہلا اسلامی بیٹر اعثمان کے دور میں جب خلیفہ بنے اس وقت عرب میں سب سے زیادہ مالدار رسول کریم صلی علیم کا فرمانا کہ ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے 346 میر ارفیق جنت میں عثمان ہے اور اب صرف دو اونٹ جمعہ کے دن دوسری اذان کا اضافہ کرنا جو قمیص اللہ نے مجھے پہنائی ہے کس طرح اتاروں الله 373 394 رسول کریم صلی علی رام کا حضرت عثمان کا بہت احترام فرمانا 368 352.349.348 زمانہ جاہلیت میں بھی زنانہ کرنا 384.368 آپ دور خلافت میں میں سب سے پہلے اپنا سکہ استعمال ہو نا 101 حضرت معاویہ کا فتنہ بڑھنے کی صورت میں 4 تجاویز دینا خواب میں رسول کریم صلی علیم کا فرمانا عثمان آج شام روزه جسے منظور نہ فرمانا خلافت کمیٹی کے ممبر اپنے بھائی کو درے لگوانا اختلافات کا آغاز وجوہات 366-359 227 394.393 345.344.343 ہمارے ساتھ کھولنا باغیوں کا عثمان کے گھر کا محاصرہ شہادت کے بعد کے واقعات آپ دور میں اسلام کی ہندوستان میں آمد 341،339 _شہادت کا دردناک واقعہ مسجد حرام کی توسیع 380 363 442.408.375.349 444 365*362 مفسدین کا تین روز تک عثمان کی تدفین نہ ہونے دینا 369

Page 565

اصحاب بدر جلد 3 تجهیز و تکفین 29 369 400 بہادر لے کر حملہ کرنا حش کو کب میں تدفین ، بعد میں جنت البقیع کا حصہ بن گیا بے مثال شجاعت و شہادت اپنی جان پر دوسروں کو ترجیح عظیم نمونہ جو ترکہ چھوڑا اس کا ذکر 370.369 371 عکرمہ بن خالد اسماء 186.185 182 186 264 444 علاء بن حضرمی کا حضرت عمرؓ کے دور میں اضطغحر کو آپ کی شہادت اور حضرت علی کی بیعت حضرت عثمان کا اور علی کا عمر و القوى الامین کہنا فتح کرنا حضرت عثمان بن ابو العاص کا اضطخر کو فتح کرنا 94 158.149 عثمان بن ابو العاص کا شہر کے مقابلہ کے لیے جانا 159 عثمان بن اخنس عثمان بن حنیف 224 449.224 159 رسول کریم ملی اله نام کابرین والوں پر گورنر بنانا 332 192 عالقمہ بن حکیم ، فلسطین کا حاکم عالقبہ بن مجزز، فلسطین کا حاکم علقمه بن و قاص حضرت علی بن ابو طالب 240،94،22، 281،247،246، 192 383 <425-424-419-413-411-410-401-400-339-335 <481.479.478.477-461-460-440-437-435-429 400 373.251 253 434.401 485.484.483.482 478 308.247 حضرت عثمان بن طلحہ حضرت عثمان بن مظعون حضرت عثمان بن مظعون کا حبشہ کی طرف ہجرت کرنا 308 آنحضور صلی الیتیم کی کفالت میں عثمان بن موهب عدل بن عثمان عروه بن خالد رض حضرت عروہ بن زبیر 374 480 372 267.51 عشرہ مبشرہ میں سے حفظ قرآن ثابت ہے قبول اسلام آپ کے ساتھ مکہ میں آنحضرت کی مواخات 23 عروہ بن مسعود کا صلح حدیبیہ میں مذاکرات کرنے آنا آپ سلیم کی ہجرت کے وقت علی کی قربانی عروہ عزرائیل عضمه بن عبد اللہ ، بازوؤں کی کمان کرنا عطابن یزید عطاء بن ابي رباح عقبہ بن عامر حضرت عقبہ بن عمرو عقیل بن ابو طالب سے ابو طالب کو محبت عقیل، حضرت علی کا بھائی عکرمہ بن ابو جہل 320-319 463 222 149 بدر میں مبارزت کے لیے نکلنا غزوہ احد میں سولہ زخم لگے 478.477.476 413 423 بدر سمیت تمام غزوات میں سوائے تبوک کے شامل 411 394 دشمن پر قابو پانا اور اس کے تھوکنے پر چھوڑ دینا 395 252 355 401 467 423-329-328-327-318-182 327 329.328 329 فتح مکہ کے موقع پر قتل کرنے کا حکم قبول اسلام کا واقعہ ایمان لانے سے پیشگوئی پوری ہونا 470.428 481.480 479 غزوہ عشیرہ میں شرکت بہتر فیصلہ کرنے والے جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی 435 426 426 صلح حدیبیہ پر معاہدہ لکھنے والے صلح نامہ سے رسول اللہ کا نام نہ مٹانا لڑائی کے وقت رسول کریم کے علمبر دار 467،411 سورۃ توبہ کی ابتدائی آیات کاحج کے موقع پر اعلان 429

Page 566

اصحاب بدر جلد 3 30 اسماء صحابہ کا حضرت علی سے کھجور کھاتے ہوئے مذاق کرنا 473 حضرت عمر کو مشورہ دینا 143.142 استاد کو خاتم کی بجائے خاتم پڑھانے کی نصیحت 472 473 _ حضرت عثمان اور علی ضیا عمر کو القوى الامین کہنا 94 قرآن کے حافظ کے ہاتھوں خیبر کے موقع پر فتح آپ صلی علیکم کا معجزہ علی کی آنکھیں ٹھیک ہونا 473 _ معاویہ کے درمیان تحکیم 46 429.428.427 حضرت عمر کی مجلس شوری کے ممبر حضرت عمرؓ کے مقرر کردہ مفتی تھے حویرث بن نقید کو قتل کرنا 4570455 88 92 آپ نے علی سے فرمایا لکھو ہجرت کے بعد پانچواں سال 100 خوارج کے ساتھ نہروان کی جنگ عبید اللہ بن عمر کو قتل کرنے کا مشورہ مکہ بھیجے گئے خط کو لے جانے والی خاتون کو پکڑنا 431.430.47 433.432 458.457 240 ان اصحاب میں جنہیں خلیفہ منتخب کرنے کا ابو بکر نے فرمایا تھا 61 335 خیبر میں حضرت علی کی بہادری 473 474 _ سب سے پہلے حضرت عثمان کی بیعت کرنا میر انام میری ماں نے حیدر رکھا ہے 426 427 | _ آٹھ شادیاں رسول اللہ صلی نیم کا تبوک کے وقت علی کو اپنا قائمقام بنانا آپ کے چودہ لڑکے اور انہیں لڑکیاں حضرت علی کی روح اس رات نکلی جس رات عیسی ہی نکلی 433 اللہ اور اس کار سول اور جبرئیل تجھ سے راضی ہیں 479 تھی جس درجہ میں میں ہونگا اس میں علی اور فاطمہ ہونگے 469 جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے علی، عمار، سلمان 469 رسول اللہ صلی للہ علم کا دو دفعہ بھائی قرار دینا رسول کریم صلی اللی نام کا تہجد کی تلقین کرنا الله 410 419 حضرت علی کی مثال عیسی کی طرح ہے حضرت حسنؓ نے علی کی نماز جنازہ پڑھائی حضرت علی کا مزار قضائی فیصلے رسول کریم ملی این نیم کا علی کو خانہ کعبہ کی چابیاں نہ دینا 432 علی بن ربیعه رسول کریم صلی الہ وسلم کا علی کی شہادت کی پیشگوئی 459 علی بن محمد مدائنی صلی رسول کریم صلی اللہ نام کا متبرک مشک علی کی میت کو لگایا 465 ڈاکٹر علی محمد صلابی الله 466 466 464 476 464 465 481.480 468 339 437-297-165.44 رسول کریم ملی ام کو غسل دینا اور قبر میں اتار نا 436 عمار بن خزیمہ کے باپ کو عمر کا درخت لگانے کا حکم دینا 74 م الله رسول کریم صلی ایم کے سیکرٹری 324 حضرت عمار بن یاسر ย 469.411.327.141 33 31 27 16<12<11<4 میں علم کا شہر اور علی اس کا دروازہ 466 467 حضرت عمار بن یاسر کا باغیوں کے ساتھ مل جانا 348 رسول کریم صلی علیم کا حضرت علی کو یمن بھیجنا 434 حضرت عمر بن خطاب جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی 476 صحابہ میں سب سے دلیر حضرت ابو بکر نہیں 467،466 +65.63.56.55.48.46.44.4140-38-37.36.35.34 95.92.91 86-81-80-79-78-76-75-73-72-69.67 123 118 117 116.111.110.106.104.102.100 ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کر دیا تو حضرت علی نے 132، 165،164،162،159،158،149ء167،166، 171، اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا 136 حضرت عمر کی خلافت کمیٹی میں شامل 337،336،335 حضرت عمرؓ کو بیت المقدس جانے کا مشورہ دینا 187 حضرت عمرہ کا مدینہ کا امیر مقرر کرنا حضرت عمر کا حضرت علی کو مدینہ کا امیر بنانا 441،440 187 200-198-196 195 189.188.185.182.176.172 231 230 223 211 210 209 207 206-204-201 <246-245-244-243-241-239-238-237-236-234 <274 272 271-261-258-257-250-249-248-247 316-313-298-297-296-284-279-278-277-276 351-346-344-342-341-336-335-334-324-322 <428-427-416-414-410-381-376-369-368-367

Page 567

31 اسماء اصحاب بدر جلد 3 483-482-479-478-470-469.441.440.439 تعلق بنو عدی بن کعب بن لؤی سے تھا تاریخ پیدائش کے بارہ میں مختلف اقوال 1 1 غزوہ خیبر کے موقع پر آنحضرت نے جھنڈ ا عمر کو دیا 46 فتح مکہ کے موقع پر حضرت عمر کا ابوسفیان کی گردن مارنے والدین کا ذکر اور والدہ کی ابو جہل سے رشتہ داری 1 و جہل سے را کی آپ سے اجازت مانگنا آپ صلی الم کا آپ کو شہادت کی دعا دینا 45 کنیت ابو حفص تھی قبول اسلام کی متعد د روایات قبول اسلام کا عام اعلان اور مخالفت اسلام لانے پر قریش کا رد عمل 220 1 1367 19 15 28 256.24 اسلام قبول کرنے کا واقعہ اپنی بہن اور بہنوئی کو زدو کوب کرنا 3 13.10.9 اپنی بیٹی کے منہ سے بیت المال کا در ہم نکالنا...95،94 بیٹی حضرت حفصہ کی آنحضرت سے شادی اذان کے متعلق ایک رؤیا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے 221 رسول کریم صلی علیم کا فرمانا عالم عمر کی وفات پر روئے گا 220 اسلام لانے کے نتیجہ میں کھل کر عبادت کی جانی 19 بے آباد زمینوں کو آباد کروانا اور نہریں بنوانا 91 دارار تم میں آخری اسلام لانے والے تھے 13،11 سب سے پہلا بار یک آنا عائشہ کی خدمت میں بھیجنا 67 قبول اسلام کے وقت قبیلہ بنو عدی کے رئیس تھے 12 بچوں کا بھوک سے رونا اور عمر کا خود چیزیں اٹھا کر لانا قبول اسلام کے لئے آنحضور کی دعائیں قبول اسلام کے متعلق حضرت مصلح موعود کا ارشاد 13 کم ریٹ پر انگور بیچنے والے کو ڈانٹنا فاروق کا لقب دیا جانا، اس کا پس منظر مدینہ کی طرف ہجرت میں افراد کے ساتھ ہجرت مدینہ مدینہ میں مؤاخات حضرت ابو بکر کے ساتھ مواخات _ غزوات و سرایا میں شمولیت غزوات میں مشورہ دینا 18.7.6 42 آنحضور فوت نہیں ہوئے 71.70 99 53 22 یارسول اللہ آپ مجھے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں 22 23 آنحضرت کی وفات پر زمین پر گر جانا 24 52.51 227 اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو وصیت 410 حضرت ابو بکر کیا آپ کو بلا کر وصیت کرنا 105 25 حضرت ابو بکر مو قرآن کی ترتیب پر آمادہ کرنا 103 255 256 _ حضرت ابو بکر کی وصیت پر عمل کرنا 105 دو اصحاب کے ہمراہ جنگ بدر میں اونٹ پر باری باری حضرت ابو بکر نے اپنے بعد والے کو مشقت میں ڈال دیا سوار ہونا بدر کے موقع پر مشورہ بدر کے قیدیوں کے بارہ میں مشورہ جنگ اُحد میں کردار 25 ہے 62 25 جمع قرآن کے واقعہ کی تفصیلات اور عمر کی ابو بکڑ کے 26 ساتھ مفصل گفتگو 30 58 حضرت ابو بکر سے کسی بات پر تکرار 270،269 غزوہ اُحد میں ابوسفیان کا ابو بکر و عمر کے نام لے کر پکارنا تمہارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے صلح حدیبیہ میں حضرت عمر کا کر دار صلح حدیبیہ کے معاہدہ پر دستخط تھے 39 احد پہاڑ پر چڑھنا اور اس کا ملنا 50 220 حالت کو ترک نہ کرنا جس پر دونوں ساتھیوں کو چھوڑا 190 حسنین سے واپسی پر اعتکاف کی جاہلیت کی نذر کو پورا کرنا حفظ قرآن ثابت ہے 253 296 243.242 شاعرانہ ذوق عجز و انکسار 49.48 49 غزوہ تبوک کے موقع پر مالی قربانی

Page 568

اصحاب بدر جلد 3 32 اسماء حضرت اسامہ کے لشکر کی روانگی کے وقت ابو بکر کا عمر کو نہریں تعمیر کروائی گئیں 58 95 راشننگ سسٹم اور مردم شماری کے رواج کا آغاز 84 اپنے پاس روک لینا حضرت ابو بکر کا خلافت کے لئے ابو عبیدہ اور عمر کا نام زمانہ میں شوری کا قیام، ممبران اور انعقاد کا طریق 88 پیش کرنا 57 زمانہ میں محاصل کا نظام حضرت ابو بکر نما عثمان سے عمر کی خلافت کی وصیت لکھوانا زمانہ میں محکمہ پولیس کا اجرا 61.60 91 92 زمانہ میں مقبوضہ ممالک کی آٹھ صوبوں میں تقسیم 88 حضرت ابو بکر کا وفات کے قریب مختلف صحابہ سے عمر کی عاملین کی تقرری کا طریق اور ان کو دی جانے والی ہدایات 89 عدل و انصاف کی مثال دنیا میں بہت کم ہے خلافت کی بابت مشورہ 59 حضرت ابو بکر کی تدفین کے بعد ان کی قبر سے عمر کا مٹی محکمہ قضاء کا اجرا کرنا سب سے پہلے سکہ جاری کیا جھاڑنا 63 66 91 101 46 ابوسفیان کا مدینہ آنا اور صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید یہود خیبر کو جلا وطن کرنا چاہنا اور آنحضرت کے علاوہ ابو بکر، عمر کے پاس آنا 44 رسول کریم ملی لی نام کا جنت میں حضرت عمر کا محل دیکھنا 251 حضرت ابو عبیدہ کا حضرت ابو بکر و عمرؓ کے ہمراہ انصار کی دورِ خلافت میں ہونے والی فتوحات کی تفصیلات 104 منبر پر وہاں بیٹھنا جہاں ابو بکر کے پاؤں ہوتے تھے 64 طرف جانا، سقیفہ بنو ساعدہ کی تفصیل اسکندیہ کی لائبریری جلانے کا الزام 57 208 اگر میں دن کو سوؤں تو بار خلافت کون اٹھائے 207 ایڈورڈکسن کا حضرت عمر کی تعریف میں لکھنا 247 248 _ دودھ پیتے بچے کا وظیفہ مقرر کرنا قادسیہ کے مقام پر جنگ کا ہونا ملک فتح ہوئے آج بھی اسلام کے قبضہ میں جنگ رے ہوئی مالی قربانی 112 218 حضرت حسن اور حسین سے محبت کا اظہار محکمہ افتاء جاری کرنا، آپ کے مقرر کردہ مفتی نظام تعلیم کو ترقی دینا 251 68 87.73 92 99 21 104 98 151 ایک وقت میں عاص بن وائل کی پناہ کو رد کرنا 289 290 نماز میں میں لشکر تیار کرتا ہوں بارش کے بعد قحط زدہ کو غلہ اور سواریاں دے کر روانہ کرنا 82 _ پرائس کنٹرول کرنا، واقعات بیت المال کی سیکیورٹی کا خصوصی انتظام کرنا 93 جسر کی جنگ میں شکست سے آپ کو سخت تکلیف پہنچنا 111 حضرت حسن اور حسین کو سوار کرنا اور ان کو خطے عطا کرنا 69 رات کو ایک عورت کے عشقیہ شعر سنا اور حکم دینا کہ 193 کوئی سپاہی چار ماہ سے زیادہ باہر نہ رہے الله 74 عیسائیوں کے گرجے میں نماز نہ پڑھنا خلافت کے بارہ میں ابو بکر کی وصیت کا پڑھ کر سنایا جانا رسول کریم صلی علیم کی انگوٹھی آپ کے ہاتھ میں 373 61 62 - حضرت ساریہ کا آپ کی آواز سننا شہروں کی آباد کاری کا انتظام تاریخ تقویم ہجری کا آغاز 100 286-285 95 دور حکومت میں غیر مسلم اور غیر اقوام کے لوگ بڑے عمارتوں کی تعمیر میں کفایت شعاری سے کام لینا 93 قادسیہ میں شریک لوگوں کے زیادہ وظیفے مقرر کرنا 124 عہدوں پر فائز رہے 97 رعب سے قیصر و کسری کی حکومتیں لرزہ بر اندام رہتی تھیں 72 رقت قلبمی کی ایک مثال 4 مختلف تعمیرات بیت المال کا قیام 95 محکمہ فوج کا قیام کرنا اور اس بارہ میں اصلاحات 95 93 مدینہ میں بیٹھ کر لشکروں کی ترتیب یوں دینا جیسے اس جگہ

Page 569

اصحاب بدر جلد 3 وہ خود موجود ہوں ہجری کیلنڈر کا آغاز کرنا، اس کی تفصیل 33 104 _ ٹوپی کی برکت 99 حضرت سعد کو نصیحت اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود گویا ہر فتح کے وقت آپ کی دعائیں مسلمانوں کے لشکر میں موجود ہونا _ اچانک یا سَارِی الْجَبَل کی آواز دینا اسلام کے پھیلاؤ میں اہم کردار اسلامی سلطنت کا دائرہ 104 161.160.159 250-249 اسماء 287 116.115 288 آپ کے دور خلافت میں حضرت عثمان کا کر دار 333 مسلمان جنگ میں بھی تہجد پڑھتے شام جانے کی وجہ 213 187 آذربائیجان کی مہم کا جھنڈ ا عُتبہ بن فَرْقَد اور بگیر بن 212 عبد اللہ کو دیا جانا افسران کو حفاظت نہ کر سکنے کی وجہ سے جزیہ واپس کرنے _ آپ کی غیرت 152 291 کی تلقین افسروں کو اعلیٰ لباس میں دیکھ کر غصہ فرمانا اللہ کوفہ والوں کو جزائے خیر دے 175 190 فتوحات میں قانون اور انصاف سے تجاوز نہیں ہو سکتا 218 فضائل و مناقب 303-302-301.300.299 199 _ آپ کی موافقات قرآنی وحی سے اللہ کے دین میں سب سے مضبوط عمر نہیں 382،263 _ آپ میں وسعت حوصلہ امیر المؤمنین کا لقب خلیفہ وقت کے لیے اختیار کرنا 102 بازار کی قیمتیں مقرر کرنا اہل ایلیا سے صلح کرنا اہل جنت کے چراغ 191، 192 _ بچوں کی تربیت 251 بصرہ اور کوفہ آباد کرنے کا حکم اہل عجم کے بادشاہوں کا مقابلہ عربوں کے امراء اور بلال کی اذان سن کر بیتاب ہونا بادشاہوں سے کرانا 254.253 293 282 290 197 194 114 _ بیت المال کے اموال کی حفاظت و نگرانی 291 292 281 بیت المقدس تشریف لانا اولا د کارشتہ دیکھنے کے لیے آپ کا معیار اولیات فاروقی؛ یہ کہ حضرت عمرؓ نے کون کون سی باتیں جانوروں پر شفقت ورحم دلی 103101 192 295 جبلہ بن ایم کا ایک مسلمان کو حج کے دوران تھپڑ مارنا اور 77 370 شروع کیں آپ کے دور میں مسجد نبوی کی دوسری توسیع 377 عمر کا عدل و انصاف _ آپ سے ڈر کر شیطان بھی بھاگتا ہے 272 273 _ جنت کی بشارت ملنا بہتر قرآن پڑھنے والے حضرت اُبی بن کعب نہیں اور ہم جنت میں تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار 251 میں سے بہتر فیصلہ کرنے والے حضرت علی نہیں 479 _ جنگ کے لیے قادسیہ کا میدان پسند کرنا مدینہ میں بیٹھ کر لشکروں کو ترتیب دینے کی ہدایات دینا 104 _ جنگ نهاوند سے قبل مجلس مشاورت منعقد کرنا جانشین مقرر نہ کرنا 235.234 لوگوں کو عراق کی جنگوں کے لئے نام پیش کرنے کی چھیاسی ہزار درہم کا قرض 106 124 142.141 226 حبشی کے معاہدہ جو کر چکا ہے اس کو بر قرار رکھنا 139 112 حج سے واپس تشریف لانا میں اپنے لشکر کو تیار کرتا ہوں اور میں نماز میں ہوتا ہوں 104 حج کے لیے روانہ ہونا دعوت دینا آپ کا مشورہ کرنا لشکر کی کمان خود سنبھالنا ازواج و اولاد 112 247 وٹھی پر فی بِالْمَوْتِ وَاعِظَّا يَا عُمَرُ کندہ تھا 278 112 112 260 حجر اسود کو چومنا اور کہنا تو ایک پتھر ہے حضرت ام سلمہ کا اپنے بیٹے عمر کو حضرت علی کے ہمراہ 458

Page 570

اصحاب بدر جلد 3 34 حضرت ٹر اللہ بن مالک بن عمرو کی سرکردگی میں لشکر زمین پر رسول کریم صلی الیم کے وزیر اسماء بھجوانا حضرت سراقہ نیا صلح کی رپورٹ بھیجنا _ حضرت سعد بن ابی وقاص کو معزول کرنا 275 153 153 سب سے پہلی خوشخبری فتح دمشق کی ملنا 141 _ سپاہیوں کا کھانا مقرر کرنا 173 194 حضرت سعد بن ابی وقاص کا آپ کی ہدایت پر نعمان بن سپہ سالاروں سے خط و کتابت روزانہ کی بنیاد پر جاری رہنا 104 133 مقرن کو لشکر کا سردار بنانا حضرت سعد کا ہاشم بن عشبہ کو بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ طاعون کے وقت لوگوں کی جان کی فکر آپ کے حکم پر ایرانی لشکر سے مقابلے کے لیے بھیجنا 128 عاجزی اور تقویٰ کے معیار حضرت سعد بن ابی وقاص کو آپ کا ہدایت فرمانا کہ مغیره _ عاجزی و انکساری شراب کی حرمت کے بارے وحی سے موافقت 255،254 بن شعبہ کے دستہ کو اپنی کمان میں رکھنا 117 عاملین کی شکایت دور کرنے کا طریق 283.282 267 269 90 حضرت سعد بن ابی وقاص کا آپ کو خط بھیجنا 115 حضرت عباس کا واسطہ دے کر عمر کا بارش کے لئے دعا کرنا82 _حضرت سعد بن ابی وقاص کا ایرانی لشکر کی رپورٹ بھجوانا 130 _ حضرت عباس کے اسلام لانے پر عمر کا خوشی کا اظہار 45.حضرت سعد بن ابی وقاص کو آپ کا خط 116 حضرت عبد الرحمن کا آپ کو فارس جانے سے روکنا 112 حضرت عائشہ سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی حضرت عبد الرحمن کا آپ پر اپنے ماں باپ کو قربان کرنا2 11 حضرت عبد الرحمن کا آپ کو مشورہ دینا حضرت عبد الرحمن کا آپ کو حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ کو آپ کا خط عبد اللہ بن مسعودؓ سے قراءت قرآن کے حوالے سے اجازت لینا کو کمانڈر بنانے کے بارے بتانا حضرت عثمان کا آپ کو مشورہ دینا حضرت علی کا آپ کو مشورہ دینا حضرت علی کا مشورہ ماننا 226 115 142 142 143 حضرت علی کو مدینہ میں امیر مقرر کر کے روانہ ہونا اور صرار میں پڑاؤ ڈالنا 112 290 286-285 اپنے 112 149 391 عثمان اپنے غلام کے ہمراہ عالیہ مقام میں تھے کہ شدید گرمی میں ایک شخص کو دیکھا جو اونٹ ہانک رہا تھا، دیکھا تو عمر 93 حضرت عثمان اور علی ملا عمر هو القوى الامین کہنا 94 دربار میں علم رکھنے والوں کا مقام عراق میں دوسر ا فرنٹ کھولنا دریائے نیل کا جاری ہونا عرب میں چاروں طرف نقیب بھیجنا 131 112 373-251-250 دکھاوے اور شان و شوکت والے لباس کے خلاف 266 عشرہ مبشرہ میں سے رسول اللہ پر اسلام لانے کے بعد صحابہ میں تبدیلی 16 حضرت علی کا آپ کو بیت المقدس جانے کا مشورہ دینا 187 258 علیین میں سے 251 رسول کریم صلی ا ہم کو چٹائی پر دیکھ کر رونا رسول کریم صلی الم کا ادب و احترام 256 257 _ عمار بن خزیمہ کے باپ کو حضرت عمر کا درخت لگانے کا الله رسول کریم صلی ا ہم سے عاشقانہ تعلق رسول کریم صلی یم کا آپ کو محدث کہنا 252 259 حکم دینا اور خود مل کر ساتھ لگانا عمر تم کو سلام کہتا ہے 74 175 عیسائیوں کا شرط رکھنا کہ خود آکر صلح کریں 186 حضرت رفاعہ بن عبد المنذر کے ہاں عمر کا قبا میں قیام 23 _ عیسائیوں کا شہر کی چابیاں پیش کرنا روزانہ صبح قادسیہ کے بارے پوچھنا 122 فتح اسکندریہ کا سن کر سجدہ شکر 193 207

Page 571

اصحاب بدر جلد 3 فتوحات فاروقی کی وسعت ، حدود واربعہ فتوحات فاروقی کی آخری حد مکران 215 163 35 نبی کریم صلی علیم کا خواب میں بچا ہو ادودھ آپ کو دینا 263.262 اسماء فتوحات کے حوالہ سے حضرت عمرؓ کے دور کی خاص بات جو نبی کریم صلی نم کی پیشگوئی کو ظاہر ایورا کرنا 261 262 حضرت ابو بکر کے دورِ خلافت سے نمایاں تھی فلسطین پر دو حاکم مقرر کرنا قبولیت دعا کے واقعات 104 192 285 نبی کے شہر میں وفات کی دعا ہر مز ان کا دو ہنر ار وظیفہ مقرر کرنا 221 135 یا قوت، زبر جد اور بیش قیمت جو اہرات دیکھ کر رونا 129 قحط کے ایام میں عشاء کے بعد سے لے کر آخر شب تک یرموک کی خبر کے انتظار میں کئی دن نہ سونا 184 نماز پڑھتے رہتے ، پھر چکر لگاتے قحط کے خاتمہ کے لئے خواب میں ایک شخص کو نبی نے دعا کی کروائی جس کا مقصد ان کی غذا کا انتظام کرنا تھا 87،85 طرف توجہ دلائی اور حضرت عمر کا نماز استسقاء ادا کرنا 82 یورپین مصنفین کا آنحضور پر اعتراض مگر ابو بکر و عمر کے قحط کے سال سارے عرب سے لوگ مدینہ آئے اور عمر نے ذکر پر ان کی محنت اور قربانی کو تسلیم کرنا 81 یورپین لوگوں کا تسلیم کرنا کہ سب سے پہلی مردم شماری عمر نے حکم دیا کہ ان کا انتظام کریں اور انہیں کھانا کھلائیں قحط کے سال حضرت عمر کی رنگت کا سیاہ ہونا قرض کے لیے اپنے گھر کو بیچنا قیدیوں کو کہا مسلمان ہو جائیں ورنہ جزیہ رفاہ عامہ کے لئے کئے گئے کام لڑائی کی رات بے چین رہنا 66 ابتدائے اسلام میں دو بہادر سمجھے جانے والوں میں سے 81 ایک 240 207 15 اگر اللہ قحط رفع نہ کرتا تو عمر مسلمانوں کی فکر میں ہی مر جاتے 82.80 95 اگر بکری کا بچہ بھی دریائے فرات کے کنارے ضائع ہو 148 گیا تو قیامت کے دن عمر سے مؤاخذہ ہو گا 76 لوگوں کے سامنے مشورہ کو قبول کرنے کے بارے تقریر کرنا امام بخاری کا صحیح بخاری میں آپ کے متعلق لکھنا 104 115 آپ کا لشکر کو عراق روانہ کرنا 111 مدائن کی فتح کا وعدہ آپ کے دور خلافت میں حضرت آپ کا امیر لشکر کے لیے کسی دھیمے شخص کی ضرورت کا 126 اظہار کرنا 106 سعد کے ہاتھوں پورا ہوا مدینہ میں عجمی کو لانے کی ممانعت کرنا 232_ آپ کا آپ صلی علی ایم کے بزرگ صحابہ کی قدیمی خدمات اور مذہبی آزادی کے بارے محتاط ہونا 294 گذشتہ تجربات کو نظر انداز نہ کرنا 292 106 آپ کا خود کمانڈر بن کر جنگ میں جانے کا فیصلہ 111 مساوات کا قیام مسجد نبوی اور نماز کے آداب کا خیال رکھنا 289_ آپ کا لشکر کے کمانڈروں کے ساتھ رابطہ میں رہنا 104 مسجد نبوی کی توسیع کی بنیاد میں اینٹ رکھنا 375 83 آپ کے دور خلافت میں فتوحات 104 آپ کے دور میں سب سے پہلے اسلامی سکے جاری ہونا 101 _ مسجد نبوی میں توسیع مسجد نبوی میں سب سے پہلے عمرؓ نے چٹائیاں پچھوائیں 83 _ آپ کی فتوحات کے اسباب و عوامل مسجد نبوی میں نماز جنازہ ادا کی گئی معذور اور ضرورت مند لوگوں کا خیال رکھنا 279 280 281 - حضرت علی کا عمر کو اونٹ کا پالان اٹھائے دیکھنا کیونکہ مغیرہ کے غلام کا دھمکی دینا مکر ان کی زمین کے بارے استفسار کرنا 244 _ دنیا سے بے رغبتی اور زہد 229 صدقہ کا اونٹ بھاگ گیا تھا 214 265.264 76 163 - عیسائی مورخ حضرت عمر کی تعریف کرنے پر مجبور 67 میر محمود احمد ناصر کا آپ کے دور خلافت پر ایک مقالہ 104 قحط کے ایام میں قسم کھانا کہ نہ وہ گوشت چکھیں گے نہ

Page 572

اصحاب بدر جلد 3 36 اسماء گھی ، یہاں تک کہ لوگ خوشحال ہو جائیں 81 فیوم کے علاقے پر فتح لوگوں کے عمر کے غصہ کا اظہار اور ابو بکر نیا جواب 63 قلعہ بالیون کی فتح کا مدینہ کے گردو نواح میں سخت قحط اور حضرت عمر کی بے بحیرہ روم اور قلزم کو آپس میں ملانے کا ارادہ فسطاط کی آبادکاری کرنا چینی اور تکلیف 79 وہ مال جو ابو بکر نے وفات کے وقت عمر کو دے دیا 62 آپ کی قیادت میں بیت المقدس کا محاصرہ آپ کے قتل کا ذکر آپ کی شہادت سازش یا ذاتی عناد آپ کی شہادت کے واقعہ کی تفصیل آپ کی شہادت 228 229-228 225.224 224 آپ صلی الم کے منبر اور روضہ کے درمیان نماز جنازہ ادا کی گئی 244 205 206 95 97 186 212-211 برقہ و طرابلس کو فتح کرنا حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان حکم مقر ر 457 238 نماز پڑھتے وقت پہرے کا انتظام کرنا عمر و بن بکیر تمیمی کی عمرو بن عاص کو قتل کرنے کی کوشش 460 عمرو بن تغلبيه، حضرت علی کا بیٹا 466 عمر و بن تبين کا جنگ نہاوند سے قبل مجلس شوریٰ میں آخری بیماری اور آنے والے خلیفہ کو نصائح 335 244 244 آنحضور صلی الم کے روضہ میں تدفین تدفین اور جنازہ آنحضور صلی ایم کے قدموں میں جگہ ملنے کی حسرت 245 وفات پر بعض صحابہ کا رویا آپ کی وفات پر صحابہ کے تاثرات 222 245 خدمات کے باوجو د اللهم لا علی ولالی کہنا 243،67،41 عمر، حضرت عثمان کے بیٹے عمر بن عبد العزيز عمر بن نافع حضرت عمران بن حصین 397 281 94 355 335 458 171.166.164 عمر بن عمیرہ، حضرت عمر کے آزاد کردہ حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن تجویز دینا عمرو بن شاس اسلمی 146 434 عمرو بن طفیل عرب میں بہادری کے لحاظ سے مشہور 182.176 عمرو بن عبدود، حضرت علی کا آپ کو قتل کرنا 423 تا425 عمر و بن عبد اللہ عمر و بن عبد اللہ جمی 372 422 عمرو بن عبد المسیح کا فرمانا کہ اللہ کے لشکر کی خواتین کو یہی زیبا ہے عمر و بن مَعْدِيُكَرِبُ 112 146.144 عمرو بن معدی کرب ، جنگ میں تین ہزار آدمیوں کے برابر 200 145 حضرت عمرو بن العاص 192.188 187.182.180.175.174.173 284-274-240-231-208 207.206.204 459456-286-294-293-292.285 احسان کے طور پر مقوقس کی لڑکی کو واپس کرنا 203 اسکندیہ کی کتابوں کو بھٹیوں پر جلانے کا الزام 209 فسطاط شہر کی وجہ تسمیہ مصر کی طرف کوچ کرنا تلبیس کو فتح کرنا فرما پر قبضہ 205 201 203.202 201 عرب کا شہسوار مگر کسی کام میں افسر نہ بننا عمرو بن میمون عمر و بن ہشام ، ( ابو جہل کا نام ) 288-225-224 18.7.6 عمر و بن هیثم جنگ نمارق میں میسرہ کی کمان کا سپر دہونا 107 عمروزی مر عمرو، حضرت عثمان کے بیٹے عمیر بن سعد انصاری عنبہ، حضرت عثمان کے بیٹے عوف بن حارث 463 397 173 397 269.79 عوف بن مالک، حضرت عمرؓ کے بارے خواب دیکھنا

Page 573

اسماء 37 اصحاب بدر جلد 3 223.222 حضرت علی کا آپ کو تفسیر دینا حضرت عوف کا بدر میں مبارزت کے لیے نکلنا 412 حضرت ساریہ والا واقعہ بیان کرنا حضرت عویم بن ساعدہ کی عمر کے ساتھ مواخات 23 سستی اور کسل مندی سے بچنے کا طریق عیاض بن غنم عیاض حضرت عمر کا بیٹا 198 247 شیعوں کی بات کارد علی متلاشیان حق کی امید گاہ 484 161 74 302-301-300 482 397 حضرت عیسی 244،216،181، 259 ،262 ، 302 فاختہ بنت غزوان، حضرت عثمان کی زوجہ صحابہ اس بات کے قائل کہ آسمان پر ان کا رفع نہیں ہوا 54:53 فاز وسفان کی حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ سے مبارزت 150 56 فاطمہ بنت اسد، حضرت علی کی والدہ آسمان پر جانے کے عقیدہ کی نفی جارج کا ابو عبیدہ سے آپ کے متعلق پوچھنا 177 178 فاطمہ بنتِ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کی مثال حضرت عیسی کی طرح ہے 476 عیینہ بن حصن غافقی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام 400 484.469-467-466-465-438-400 الله سة 200 رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جس درجہ میں میں ہو نگا اس 349 میں علی اور فاطمہ ہونگے رسول کریم صلی الم از خم دھونا 467 467 466-422414 حضرت علی سے شادی رسول کریم صلی نام کے چھ ماہ بعد وفات 437 380-367-303-299-287-286-273-261-63 <474.471.470-449-439-438-437-399.398 484.483.482.481.477.475 حضرت علی کا حضرت ابو بکر کی بیعت کرنا 436تا439 فاطمہ بنت عمر، حضرت عمرؓ کی بیٹی خلفائے ثلاثہ کو خراج عقیدت الهام فِيْكَ مَاذَةٌ فَارُ وَفِيَّةٌ 399 255.252 247 فاطمہ بنت ولید مخزومی ، حضرت عثمان کی زوجہ 397 فخر الدین رازی امام رے کے رہنے والے تھے 151 احباب جماعت کو صحابہ کی روشنی میں مالی قربانی کی طرف فرخ زاد خراسان کا گورنر توجہ دلانا 49 107 فرعون ، ابو جہل فرعون بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے 18 273 آپ کا تمام روایات کو ضعیف قرار دینا جن میں خندق کے حضرت فضل بن عباس موق پر چار نمازوں کی ادائیگی کا ذکر ہے آنحضرت کی وفات پر صحابہ کا اجماع 53،52، 259 رسول کریم صلی ا ہم کو غسل دینا اور قبر میں اتار نا 436 38 حضرت عمر کا آپ صلی للی کم کو چٹائی پر دیکھ کر رونا 258 حضرت عمرؓ کے قبول اسلام لانے کا واقعہ کا بیان 16 صلحاء کے پہلو میں دفن بھی ایک نعمت الله یر موک میں شہادت فکیه، حضرت عمر کی بیوی 186 247 244 فلپ کے.بھٹی Philip K.Hitti) کا حضرت عمر کے عثمان کو تو میں حضرت سلیمان سے تشبیہ دیتا ہوں 380 بارے لکھنا حضرت علی کا مقام و مرتبہ حضرت علی کے فضائل 483 482.481 کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک ابو بکر، عمر عثمان ، علی جیسا رنگ پیدا نہ ہو 482.398 (علی) آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت کر تا ہوں 485 حق علی کے ساتھ تھا 483 فيرزان اہل فارس کا سر دار 250 113 فیرز ان کا بوران کو معزول کر کے یزدجرد کو تخت پر بٹھانا فیروز سے ہر مران کا خنجر جس سے حضرت عمرؓ شہید ہوئے کے بارے دریافت کرنا فیروز ، حضرت عمر کا قاتل 113 137 241.136

Page 574

اصحاب بدر جلد 3 قباث بن اشیم قبیصہ بن جابر 183.176 296 38 بر اندام رہتی کارڈ مینل جیمینیز (Cardinal Jimenez) قم، حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ 460 کر زبن جابر ، مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کرنا قرطبی علامہ 388 کسری قريبه بنتِ ابو امیہ مخزومی، ایمان نہیں لائی حضرت عمر کی کعب بن عجرہ بیوی 247 کوکب ایک انصاری کا نام اسماء 280.72 211 412 213.127.86.72 342 369 قسطلانی قسطنطین بن ہر قل ہر قل کا بیٹا 198 لهیه، حضرت عمر کی بیوی مسلمانوں کے خلاف 500 بحری جہاز لے کر نکلنا 340 حضرت لوط 410،53 گین 247.209 203 لائٹنر (Dr.Leitner) سنین الاسلام کا مصنف 211 247 360.307 207 | حضرت لوط بعد حضرت عثمان پہلا شخص جس نے اہل کے 129 ساتھ ہجرت کی ہر قل کی وفات کے بعد بادشاہ قُضَاعِي بن عمر و دولي قطام بنت شجنه قطن بن عوف ہلالی 460 لیلی بنت مسعود بن خالد، حضرت علی کی زوجہ 386 | مالک اشتر حضرت قعقاع بن عمرو 121 ،198،197،145 ، 199 | مالک بن ابو عامر 130 مالک بن مغول اصلا الله سلام 307 466 447 369 263 248 خلو ان کی طرف جانا بَهُمَن جَاذْوَیہ کو آپ کا قتل کرنا 121 مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب میں پہلے نمبر پر حضرت محمد حضرت ابو بکر کا ایک قول ہے کہ وہ لشکر نا قابل شکست مصطفی صلی للی نیم کو لیا ہوتا ہے جہاں ان جیسے شخص موجو دہوں 121 مائیکل ایچ ہارٹ کا حضرت عمرؓ کے بارے لکھنا 249،248 حضرت سعد نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ ایرانیوں کے متمم بن نویرہ کے بھائی کا غلطی سے قتل 121 حضرت علی بن حارثة سفید ہاتھی سے میرا پیچھا چھڑاؤ کمک کے امیر مجو ده کے افسر قیاذبان بن ہرمزان قیس بن حجاج قيس بن مَكشُوح مُراد قیس بن ہبیرہ قیس بن ہیثم قیس قیصر روم 121 حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہونا 145 _ بشير بن خَصَاصِیہ کو اپنا جانشین مقرر کرنا 241.136 285 144 پانا جنگ نمارق میں رسالہ کے نگران 298 105 117 107 ذُوقَارُ مقام پر مسلمانوں کی کمک کا انتظار کرنا اور وفات 117 177، 183 _ رستم کا آپ کے مقابلہ کے لیے لشکر روانہ کرنا 107 قیس بن ہبیرہ عرب میں بہادری کے لحاظ سے مشہور 176 اہل فارس کی سرگرمیوں سے حضرت عمر هو مطلع کرنا 341 114.113 342 جنگ جسر میں مردانگی سے لڑنا اور زخمی ہونا 110 287-220-216 حضرت عمر کو جنگ کے بارے میں اطلاع حضرت عمرہ کی ٹوپی سے برکت لینا 287 288 _ شہدائے جنگ بویب کا جنازہ پڑھانا 111 112 حضرت عمر کے رعب سے قیصر و کسریٰ کی حکومتیں لرزہ عراق کے سرحدی مقامات سے فوج اکٹھی کرنا 111

Page 575

اصحاب بدر جلد 3 39 اسماء لشکر لے کر کچھ پیچھے ہٹنا اور حیرہ کو چھوڑ کر خفّان میں محمد (راوی) قیام کرنا واپس حیرہ جانا اور اپنی فوج سمیت پیچھے ہٹنا عراق کی اسلامی فوج کی کمان کرنا مدینہ تشریف لانا 107 حضرت محمد مصطفی صلی اليوم 467.474 31.20 13.10.9.8.7<3 <249.248 136.81.61.55.54.52.37.34.33.32 303-300-297-291-288-287-276-258-257.250 356-350-331-329-327-325-320 319.315.306 402-398-393.389.388.382.373 372.364.361 431 426 425 422.412.410.409-406-404-403 107 106 106 112.111 جنگ کی ترتیب اور ہدایات دینا حضرت عمر کا آپ کو بھی علاقے سے نکل کر ساحلی علاقوں میں آنے کا حکم دینا مجاشع بن مسعود اردشیر اور سابور کا جھنڈا آپ کے سپرد لشکر کے پچھلے حصہ کے نگران مجاہد بن جبر مجمع کیمی 114 341.149 149 145 حضرت ابو بکر و عمر علیین میں سے 274،251 حضرت ابو بکر عمر عثمان کو جنت کی بشارت دینا 370 ย زمین پر دو وزیر ابو بکر و عمر نہیں 275 امت میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابو بکر 382 آپ 21 سال کے تھے جب عمر پیدا ہوئے 360،359،296 حضرت عمر کو محدث کہنا 400 477 1 252 اگر میرے بعد کوئی نبی ہو تا تو عمر ہوتے 251 255 اللہ کے دین میں سب سے مضبوط عمر نہیں 382،263 محلم ، نوشیرواں کے ملبوسات اس کو پہنائے گئے 128 اللہ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر جاری کر دیا 273 محمد بن ابراہیم بن حارث محمد بن ابی بکر محمد بن ابو بکر کا باغیوں کے ساتھ مل جانا محمد بن جعفر بن زبیر محمد بن حنفیہ محمد بن حنفیه، حضرت علی کا بیٹا محمد بن سیرین محمد بن طلحہ محمد بن عبد اللہ بن زید محمد بن عبید محمد بن عمر حضرت محمد بن مسلمہ محمد بن ہلال محمد بن یحیی بن حسان محمد بن یوسف محمد حسین ہیکل 60 363.351 348 311 392 466 آپ صلی ایم کا حضرت عمر کو شہادت کی دعا دینا 220 اللہ کا عثمان کا صدقہ قبول کرنا اور جنت میں شادی کرنا 333 اگر تیسری بیٹی ہوتی تو عثمان کے ساتھ شادی کر دیتا 367،313 ام کلثوم کی حضرت عثمان کے ساتھ شادی کا ارادہ 29 آپ کے اخلاق میں سب سے زیادہ مشابہت عثمان کو ہے 381 آپ کی نظر میں حضرت عثمان کا مقام 361،99 ہجرت کے وقت حضرت علی کی قربانی 407 تا410 اللہ نے آپ صلی علیم کے ذریعہ گمراہی سے ہدایت فرمائی 190 256،24 حضرت علی کی آنکھیں ٹھیک کرنے کا معجزہ 427 تا 429 21 تبوک کے وقت حضرت علی کو اپنا قائمقام بنانا 433 443.442.358 372 ابو طالب کا آپ کی حمایت 270 تم مصر کو فتح کرو گے 385 مقوقس کا آپ کو ہدیہ بھیجنا 81 - علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض 100 286.232.191.187 2 166 حضرت عمر کی سیرت و سوانح لکھنے والے 393 404 202 203 208 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اس امت کے امین 382 ابو جہل کا رسول صلی نی یم کو گالیاں دینا اور حمزہ کا کمان مارنا حضرت عمرؓ کی مدینہ ہجرت کے بارہ میں مؤقف 22 ابو جہل کا آنحضور کے قتل کا اعلان اور انعام مقرر کرنا حضرت عمرؓ کے سفر شام پر تبصرہ محمد رضا، مصر کے عالم 189.188 229-208 ام حرام گو شہادت کی خبر دینا 17.16.7 339

Page 576

اصحاب بدر جلد 3 40 اسماء آپ صلی نیلم کی انگوٹھی پر محمد رسول اللہ نقش تھا 372 حضرت عثمان سے مواخات الله 145 حضرت عثمان کی خلافت کی بابت پیشگوئی 312 334 صلی نیلم کی آمد نے نقشہ ہی بدل دیا آپ صلی علیکم کا جانشین مقرر نہ کرنا 234 235 _ رسول کریم صلی علیکم حضرت عثمان کا بہت احترام فرمانا محرم کے مہینہ میں ہجرت مدینہ کے عزم کا ارادہ 100 آپ کے دور میں مسجد نبوی کی توسیع ہوئی 376 88 30 101 368 حقیقی حیا والے عثمان ہیں حضرت علی آپ کے سیکرٹری حضرت علی کو نماز تہجد کی تلقین حضرت علی کی شہادت کی پیشگوئی 382 324 آپ کے زمانہ میں مردم شماری آپ کی زیادہ شادیوں کی حکمت مدینہ کب تشریف لائے، مختلف آراء بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ اور آیت کا نزول 26 - حضرت علی کو جاسوس عورت سے خط لینے بھیجنا بدر کے لئے آنحضرت کی روانگی اور صحابہ سے مشورہ 25 بدر میں شاملین سے اللہ کے در گزر کرنے کا ذکر فرمانا 48 حضرت علی کی کفالت آپ کی غزوہ اُحد میں شہادت کا اعلان اور صحابہ پر اثر 31 دو دفعہ حضرت علی کو بھائی قرار دیا 371،220 _ علی کو فرمایا تم میرے بھائی اور ساتھی ہو احد پہاڑ پر چڑھنا اور اس کا ہلنا احد میں زخمی ہونا 423،422 _ حضرت علی ہو یمن بھیجنا غزوہ اُحد میں گھائی میں آنحضور کی دعا 31 32 - حضرت فاطمہ کا رشتہ رب کا حکم خندق کھودتے ہوئے پیشگوئی کرنا آخری بیماری میں حضرت علی کی خدمت 126 آنحضرت صلا ل ہم کو دکھایا گیا تھا کہ مدائن فتح ہو گا 126 فرمایا حق مہر کے لیے پہلے انتظام کرو 419 459 4320430.47 401.400 410 468 434 415 415.414 حلال و حرام کو جاننے والے حضرت معاذ بن جبل نہیں 382 حدیبیہ میں 20 روز قیام، مدینہ واپسی اور سورۃ فتح کا نزول 42 سب سے زیادہ قرآن جاننے والے ابی بن کعب ہیں 474 غزوہ بنو غطفان، حضرت عثمان کو مدینہ کا امیر بنانا 314 فرائض کو جاننے والے حضرت زید بن ثابت 382 غزوہ خیبر کے موقع پر آنحضرت نے جھنڈا عمر گو دیا 46 سفر میں آپ کا معجزہ غزوہ تبوک کے موقع پر چندے کی تحریک اور صحابہ کی سورۃ فتح کے نزول کے بعد لوگوں کا اعتراض 44،43 شادی کے بعد فاطمہ کے گھر کو برکت دینا 416،415 49 256.255 448 قربانیاں وفات کے موقع پر حضرت ابو بکر انکارد عمل 105 حضرت طلحہ کو ایک جہنمی قتل کرے گا خواب میں بچا ہوا دودھ حضرت عمر کو دینا 262 263 - عشرہ مبشرہ کی خوشخبری دینا ، حضرت عمر کا آپ صلی یکم کا ادب و احترام کرنا 256 257 - عکرمہ بن ابو جہل کے ایمان لانے سے پیشگوئی پوری ہونا 221.220 251 251 329 388 عالم عمر کی وفات پر روئے گا حضرت عمر اہل جنت کے چراغ حضرت عمر کا آپ کو چٹائی پر دیکھ کر رونا عمر کا کہنا کہ آنحضور فوت نہیں ہوئے عمر کے قبول اسلام کے لئے آنحضور کی دعائیں مکہ پر امن ارادے سے عمرہ کرنے جانا 18،10،7،6 _ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے قرآن اپنی اصلی حالت میں محفوظ 258 معاہد کا فر کو قتل کرنے والا مسلمان آپ کی خدمت میں 53 136 322 251 467.466 حضرت عثمان سے بغض رکھنے والے کا جنازہ نہ پڑھنا 393 _ میں علم کا شہر اور علی اُس کا دروازہ حضرت عثمان کے دور خلافت میں فتنہ کی بابت پیشگوئیاں - ہجرت مدینہ کے بارے میں مختلف آرا 342 _ ہر نبی کا رفیق ہوتا ہے میر ارفیق جنت میں عثمان ہے 373 حضرت عثمان سے فرشتے حیا کرتے ہیں 382 حضرت علی ہو ابو تراب بلانا 101 400

Page 577

اصحاب بدر جلد 3 واقعہ قرطاس کی تفصیل وحی نازل ہوتے وقت شدید بوجھ آپ صلی یکم کی پیشگوئی پوری ہونا 41 اسماء 50، 51 احمدی فوجیوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں 97 حضرت اقدس کا بیان تاکہ لوگوں کے ذہن سے عیسی کے 387 127 زنده آسمان پر جانے کے تصور کو ختم کیا جائے 56 آپ کی آخری بیماری میں وصیت اور صحابہ کا رد عمل 50 عمر کے گھر میں خوفزدہ ہو کر بیٹھنے والی بات صحیح نہیں لگتی 21 46 آل ذریح والی روایت اگر صحیح ہے تو کوئی کشفی نظارہ ہو گا 8 آپ کے پر چم اور جھنڈے کی تفصیلات آپ کے حکم میں حضرت ابو بکر کا ذرا تاخیر نہ کرنا 105 عمر کے قبول اسلام کی روایات پر محاکمہ آپ کی وفات کے بعد اسلام کا غیر قوموں میں پھیلنا 85 قرآن کو بیض عثمانی کہنا غلط ہے آپ نے علی سے فرمایا لکھو ہجرت کے بعد پانچواں سال مسعود بن حارثہ کا جنگ بویب میں شہید ہونا 100 | مسلمہ بن مخلد آنحضرت کا حرم میں رات کو عبادت کرنا اور عمر کا سننا اور مسور بن مخرمہ 8 35 یچ مصعب بن سعد دل پگھلنا آنحضرت کی بنو مصطلق کی طرف روانگی آنحضرت کی حضرت حفصہ سے شادی 28 29 حضرت مصعب بن عمیر مدینہ تشریف لائے تو آپ نے تاریخ لکھنے کا ارشاد فرمایا پہلے مہاجر صحابی 100 _ آپ کی شہادت 350 حبشہ کی طرف ہجرت کرنا الله سة 18 391.390 112 204 393.334.235 251 433.327 422 315.30.23 23 30 308306 حضرت ام حبیبہ کا آپ سے عشق کا واقعہ رسول اللہ پر اسلام لانے کے بعد صحابہ میں تبدیلی 15 _ آپ کا ڈیل ڈول رسول کریم سی ای ایم سے ملتا رسول اللہ کے کعبہ کی بجائے گھر میں نماز پڑھنے کی حکمت حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی عمر کا کہنا کہ کوئی شخص آپ کی نرمی اور رحمدلی تک نہیں پہنچ سکتا 315 <73 72 71.67-65-63-49-44-28-27-24-15.13.6.5 110.99.98.97.94-92-90-88-86-84.79 78.77.76 212.200.196.185.184.161.138.136.125.124 <242 241238-237-236-235-222 221 214 213 <266-265-263-261-260-259-256-254-253-244 330-328-325-296-292-287-277-276-273-268 +382-370-367-365-361-359-345-343-336-331 <423-420-419.418.409 407-406-403-389.388 <445-444-441 440-433-431-429-428-427-425 <468-466-464-463-460-456-454-448.447.446 481 480-478-477-476.474.472.471.469 15 64 یورپین مصنفین کا آنحضور پر اعتراض مگر ابو بکر و عمر کے ذکر پر ان کی محنت اور قربانی کو تسلیم کرنا محمد بن حذیفہ ، باغیوں کے ساتھ مل جانا حضرت محمود بن لبید مرحب 66 348 378.372 472 مردان شاہ کا جنگ نمارق میں ایرانی لشکر کے دونوں بازوؤں کی کمان کرنا مَرْضِي بن مُقَرن مروان بن حکم حضرت مریم مریم، حضرت عثمان کی بیٹی 107 153 378.477 178 آپ کو تاریخ پر بڑا عبور تھا اپنے خطبہ میں ایک وصیت حضرت عکرمہ کا واقعہ بیان کرنا 185 221 185 حضرت عمر کا حجر اسود کو چوم کر کہنا تو ایک پتھر ہے 260 397 حضرت عمر کی شہادت کی دعا پر تبصرہ 222.221 حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز _ خلفائے راشدین کے دور میں ہونے والی جنگوں کا ذکر پر نظر 214.213 آج کل فوجی تجارتوں میں مصروف ہیں اور ان کی پلاٹوں فتنہ کے وقت چند آدمیوں کا نماز کے وقت پہرا 238 پاکستان میں احمدیوں کو فوج سے نکالے جانے کا کہنا جبکہ

Page 578

اصحاب بدر جلد 3 42 اسلامی حکومت کا کام کہ ہر ایک کی روٹی کا انتظام کرے علی اور معاویہ کے درمیان ہونے والی تحکیم پر تبصرہ اسلامی حکومت کے نظم ونسق کی تبدیلیاں جے 88.86 اسماء 4570455 84 عمر کے قبول اسلام کے متعلق حضرت مصلح موعود کا 13 بدر کے قیدیوں کے فدیہ کی بابت رائے صحیح لگتی ہے 27 ارشاد نظم گئی ہے.اشاعت قرآن کے بارے تبصرہ اونٹوں کا چرانے والا شخص عظیم الشان بادشاہ بن گیا 268 قرآنی تعلیم نے ان (مسلمانوں) کے اخلاق اور ان کی _ آپ کا جنگ جسر پر تبصرہ جنگ قادسیہ کا ذکر 480-387 110 124 قاتلین عثمان کی بد تہذ یہی کا ذکر عادات میں ایک انقلاب پید ا کر دیا 365 125 مسلمانوں کا وصول شدہ ٹیکس واپس کرنا ایسا نمونہ جو کسی جنگ کے دوران مسلمانوں کے عبادت کے رنگ بادشاہ نے نہیں دکھایا مسلمانوں کی تباہی کے اسباب حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کا خط والا واقعہ _ حضرت ساریہ والا واقعہ بیان کرنا حضرت عثمان کے خلاف فتنہ 213.212 431.430 161 343 مكتف غلام کے عہد کا واقعہ بیان کرنا 185.184 449.448 139.138 مومن سے اگر کوئی چیز کھوئی جائے تو یہ دیکھا چاہئے کہ 77 حضرت عثمان کی شہادت کے بعد 446،444،443،370 کس کے لئے کھویا، پریشانی کی ضرورت نہیں حضرت عثمان حضرت عمر سے زیادہ لوگوں کو محبوب 344 نبی کریم صلی ال نیم کا تین موقع پر فرمانا عثمان نے جنت خرید حضرت عثمان کی جرات و بہادری حضرت علی کی ایک ایمان افروز داستان حضرت علی کے عمل سے عمدہ مثال حضرت عمر کے یروشلم جانے ہر تبصرہ 365 475 481 م الله لی ہجرت کے وقت حضرت علی کی قربانی 331 408.407 79 196،195 _ یورپ میں غلامی کا رواج انیسویں صدی تک رہا 222 حضرت عمر کی حضرت ابو بکر سے کسی بات پر تکرار 269 270 - حضرت عمر کی وفات پر بعض صحابہ کا رویا کارؤیا عمر کی اہل بیت سے عقیدت کے اظہار کے سبب کا بیان حضرت عمر کی شہادت کا واقعہ حضرت عمرؓ کے قبولیت اسلام کا واقعہ 237 277 67 99 130 108 حضرت عمر کی وفات پر حضرت عثمان کا خلیفہ بننا 336 لین دین کے بارہ میں اسلامی احکام کا ذکر حضرت فاطمہ لگا چکی پیستے تکلیف، غلام کا مطالبہ 418:417 مُضَارِب بن فُلان عجلى حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے تو بیمہ کی ضرورت ہی مطر بن فضہ کا جابان کو زندہ گرفتار کرنا مطرف بن عبد اللہ بن شیخ پیر کو نیشا پور کی طرف بھیجا جانا نہ رہے 86 رسول کریم صلی اللظلم سے مشورے سے قبل صدقہ کرنا 473 حضرت معاذ بن جبل رسول کریم صلی ا م کا زمانہ خوف و خطر کا زمانہ _ آپ کا سفارت کے لیے جانا حلال و حرام کو جاننے والے ہیں 265 155 284 181.176 175 165 382 284 88 92 رسول کریم صلی ا ل و نیم کی وفات پر صحابہ کا اجماع 56، 259 _ طاعون کی وجہ سے وفات شہادت عثمان سے قبل کی تفصیلات 361 _ کی مجلس شوری کے ممبر عبید اللہ بن عمر کا ہر مزان کے بیٹے کے حوالے کیا جانا حضرت عمر کے مقرر کردہ مفتی تھے 136 137 حضرت معاذ بن عفراء کی عمر کے ساتھ مواخات 24

Page 579

اصحاب بدر جلد 3 43 اسماء حضرت معاذ کا بدر میں مبارزت کے لیے نکلنا 412 206-205-203.202 حضرت معاویہ بن ابی سفیان 162 ،174،172، مقیس بن صابہ فتح مکہ کے موقع پر قتل کرنے کا حکم 327 بن صابہ محمد پر 327 <472-467-380-370-369-340-240-192.180 482.479.478.477.475 آپ کے ہاتھ قبرص کی فتح پہلی اسلامی بحری جنگ کرنے والے 339 381-380 مکر زبن حفص 320 مكنف، ایک غلام تھا جس نے ایک قوم سے معاہدہ کر لیا ملیکہ بنت جَرُ وَلُ 247 138 حضرت عثمان کو فتنہ بڑھنے کی صورت میں 4 تجاویز 366،359 مُنْذِدُ بن عَمرو، نُعيْم بن مُقَرَّن کے بھتیجے 151 حضرت علی اور معاویہ کے درمیان تحکیم 455 تا 457 مهاجر بن زیاد قیساریہ کا امیر بنایا جانا 171 مهران معبد، غزوہ حمراء الاسد کے موقع پر رئیس خزاعہ معبد کا موسیٰ بن طلحہ ابوسفیان کے دل میں رعب ڈالنا 34 موسیٰ بن محمد معقل کا فتح کے بعد حضرت نعمان کو فتح کی خوشخبری دینا حضرت موسیٰ 148 میر محمود احمد ناصر حضرت معوذ ، بدر میں مبارزت کے لیے نکلنا حضرت مغیرہ بن الاخنس 393.10 جنگ نمارق پر تبصرہ 132 112.111 372 311.305 433.403.25 132 108 104 412 _ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت پر ایک مقالہ 357 میسرہ بن مسروق، عرب میں بہادری کے لحاظ سے مشہور مغیرہ بن الاخنس کا حضرت عثمان کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونا 358 مغیرہ بن زرارہ کا بادشاہ ایران سے بات کرنا اور بادشاہ کا مٹی کا ٹوکرہ منگوا کر آپ کو دینا الله سة 118 مغيرة بن زراره یزدجرد کے دربار میں ، ہم وحشی تھے خدا نے رسول صلی الم کے ذریعے ہمیں ہدایت دی 125 حضرت مغیرہ بن شعبه 270.144.120 میکائیل میمون بن مهران 177.176 464.275 99 میناس هر قل کے بعد روم کا سب سے بڑا سپہ سالار نادر شاه حضرت نعمان کی وفات کو مخفی رکھنے کی وجہ 148،147 169 170 218 331 میںاس کا قتل ہوتا حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث" نافع 392.289.231.230 آپ کا بے قرار ہونا اهواز کو فتح کرنا آپ پر جو اخلاقی الزام لگا تھا وہ غلط ثابت ہوا دربار میں بطور ایچی جانا 147 131 131 119 نائلہ بنتِ فَرافِصَهُ بن اخوصیه حضرت عثمان کی زوجہ پر ستم کا آپ کی بات سن کر سخت برہم ہونا 119 نائلہ کی حضرت عثمان کی شہادت کے وقت انگلیوں کا کٹنا نجف میں مشہد کے مقام پر آپ کا مزار ایرانی دربار میں گفتگوں کے کیے جانا والی گوفه 466 229 145 397 365*362 نائلہ بنتِ فَرافِصَهُ بن اخوصیه پہلے نصرانی تھیں لیکن رخصتی سے پہلے اسلام قبول کیا نرسی آپ کے غلام کا حضرت عمر کو شہید کرنا 228،225 حضرت مقداد بن اسود 430،339،337،204،47 نرال بن سبره 397 109.108.107 337 حضرت مقداد 180.25

Page 580

اصحاب بدر جلد 3 44 اسماء نُسَير بن عمر و عجلی، فتح کرمان میں ہر اول دستہ کا نگران اسکندریہ کی لائبریری جلائے جانے کے اعتراض 210 161 حضرت عمر کے دربار کا واقعہ حضرت نُعمان بن مُقَرن آنحضرت صلی الم کے بزرگ صحابی 144 حضرت عثمان شائع کننده قرآن حضرت علی سے قرآن کے معارف سیکھے حضرت عمرؓ کے یروشلم جانے ہر تبصرہ نہاوند کے اہم ترین محاذ کی کمان آپ کے سپرد 144،143 145 آپ کا جاسوس بھیجنا جنگ نہاوند سے قبل مجلس شوری منعقد کرنا 146،145 حضرت عمر کا آپ کو خط اور ہدایت 144 نوشیرواں 290 397 397 196-195 215 مختلف نامی شخص کو نوشیروان کے ملبوسات پہنائے گئے 128 نوفل بن عبد اللہ ، خندق کو پار کرنے والے 423 نولڈ کے(Theodor Noldeke) کا حفاظت قرآن کا سعد بن ابی وقاص کا آپ کو خراج کی وصولی پر لگانا 144 اقرار کرنا عاشق رسول گھوڑے پر سوار ہو کر پر جوش تقریر کرنا بادشاہ ایران سے بات کرنا زخمی ہو کر گرنا شہادت کی دعا کرنا 146 147 118 نیار بن مکرم واقد بن ابو ياسر واقدی 388 369 372 340-339 147 وَالِقُ بن جیداره جنگ نمارق میں میمنہ کی کمان سپر د ہونا 147 یزدجرد کے دربار میں رسول کریم صلی ایم کی بعثت کا ذکر ولید بن عتبہ کریم کی کا کرنا شہادت پر حضرت عمر کو صدمہ 124 ولید بن عقبہ 148 ولید بن عقبہ حضرت عثمان کا بھائی حضرت مغیرہ بن شعبہ کا آپ کی وفات کو مخفی رکھنا ولید بن مغیره 148،147 ولید ، حضرت عثمان کے بیٹے میں قتل بھی ہو جاؤں تو لڑائی چھوڑ کر میرے پاس نہ آنا | ولیم ڈر پر (John William Draper) حضرت نعیم بن مقرن ، اسلامی لشکر کے مقدمہ پر مقرر ہونا 107 412 398 394.393 10 397 211 ولیم میور (William Muir) کا حفاظت قرآن کا اقرار 389.388 145 باشم بن ابی وقاص حضرت سعد بن ابی وقاص کے بھائی حضرت نعمان کے زخمی ہونے کے بعد جھنڈے کو تھامنا 147 حضرت باشم بن عتبہ 127 176.128.121 حضرت عمر کا آپ کو همدان فتح کرنے کے لیے بھیجنا حضرت باشم بن عتبہ، جلولاء کے معرکے میں امیر لشکر 150 اپنے بھائی سوید بن مُقَرِّن کو قومِیس کی فتح کے لیے باشم بھیجا 151 ہبیرہ بن ابو وہب، خندق کو یار کرنے والے پار کرنے نمرود نے حضرت ابراہیم کو کوٹی میں قید کیا 127 نمیلہ بن عبد الله ، صلح حدیبیہ کے لیے آپ کو مدینہ کا امیر بنانا حضرت مولوی نور الدین خلیفہ المسیح الاول 317 اہر قل 130 1 423 169.167.165.164 213.206.198.196.188.173 20ھ کو فوت ہونا انطاکیہ کی طرف فوج روانہ کرنا 290،267،63 _ مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری و وفات ہرمز 199 197 207 297

Page 581

اصحاب بدر جلد 3 هرمزان 45 242،241،232،231، 266 267 | خاقان سے امداد کی درخواست کرنا اسلام قبول کرنے سے پہلے خُوزستان صوبہ کا گورنر 131 - ہمسایہ ممالک کو مدد کے لیے بلانا اسماء 155 156 ایرانیوں کا آپ کی قیادت میں رامهرمز میں جمع ہو نا 133 حاکم چین کا مسلمانوں کی خصوصیات کے بارے اقرار 57 شکست کھا کر نشتر کی طرف بھاگنا عبید اللہ بن عمر کا آپ کو قتل کرنا ہونا 133 230 ہر سال فوج کو بھیج کر جنگ کی آگ بھڑکانا 149 اگر قاصدوں کو قتل کرنا ممنوع نہ ہو تا تو تم سب کو قتل کر اسلام قبول کرنا اور مدینہ میں رہائش اختیار کرنا دیتا 135 136 _ ایران کا بادشاہ 118 118 آپ کا گرفتار ہو کر حضرت عمرؓ کے دربار خلافت میں پیش بڑی سر گرمی سے مسلمانوں کے مقابلے کے لیے لشکر جمع 134 135 حضرت عمر کی آپ سے گفتگو حضرت عمر کو دیکھ کر کہنا کہ یہ شخص نبی معلوم ہوتا ہے تر بازی 141 خوف کے مارے حاکموں سے امداد کی درخواست کرنا 134 رستم کو بلانا اور اس کا بہانے کرنا ایک شبہ کہ حضرت عمر کی شہادت میں ھرمز ان کا ہاتھ رستم کو جنگ کرنے کی تاکید کرنا حضرت عمر کی شہادت میں ملوث ہونے کا شبہ 136 155 118 119 133 216 لوگوں کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے غیرت دلانا 228، 230،229 | یزدگرد مسلمانوں کے ساتھ وفا کے بندھن توڑنا ہشام بن عاصی حضرت ہشام بن عامر 154 184 حضرت یزید بن ابو سفیان 355 _ دمشق جانا اور وفات 263 386 طاعون کی وجہ سے وفات 194.190.183.182-180-175-174.168 171 284 ابوسفیان کا آپ کو شجاعت دکھانے کی نصیحت 183 ہشام بن عروہ ہشام ہلال ہند ابوسفیان کو غیرت دلانا ہند کی بہادری ہند زوجہ ابوسفیان ہیڈن (Haydn) یحیی بن سعید بن مسیب یحیی ابن عبد الرحمن يحيى بن يعمر ئیر فا، حضرت عمر کا غلام يَزْدَجَرُد حضرت نعمان بن مقرن خسرو پرویز کا پوتا عرب وحشی اور مردار خور قوم ہے 122، 385،313 - حضرت ابو عبیدہ کار مشق پر آپ کو اپنا قائم مقام بنانا 181 181 180 211 یزید بن ابو عبید یزید بن ثابت یزید بن رومان 288،78 یزید اسلام کی تاریخ میں جو بد نام یزید 381.267 يوحنا النحوى 468 | یوسف بن يعقوب 164 255 47 305 168 209.208 290 295،81 يوليوس قيصر، (جولیس قیصر، جولیس سیزر) 210,200 196.154.132 124 124 124 156.155 احنف بن قیس سے مقابلہ اور شکست

Page 582

اصحاب بدر جلد 3 46 مقامات 340 ایران مقامات 111 105 104.67 288.76 الي سينيا 308 143139 131.129.125.118.116.113 441-340-262-249-217-216.154.149 ابی ورد 340 ایشیائے کوچک اثریب احد پہاڑ 205 ایلہ 220 ایلیا احمر ( بحيرة) 311،308 | آذربائیجان 218.212 264 194 193 192 191 189.187.171 387.153 152.150.149.104 اذرعات 264 آرمینیا 104 ، 153 ،387،340،338،212،174 ارد شیر اردن (دریا) اردن 305.188.175.166 165 164.97 ارض سواد ار من از یکیه اساوده اسکندریہ ام دنین امریکہ 339-294-211 210 209 208 207 155.154 218.159.158.149.133 216.154.150.149.141.131 311،308،212 بر صغیر پاک و ہند ) 249 341 338 341.340.213 311.308 205-204-203 479 اصبهان اصطخر اصفهان افریقہ افریقہ (شمالی) افریقیه افغانستان اکسوم 149 بابلیون با قسیات باب بایل باؤئیں باروسا باز نطین 203،198،196، 205، 206، بغنيه بحر الکاہل بحرین بخارا بدر 175.164 109 153 203 339 206-205-204-202 109 153 126 341 109.108 207 164 212 477-332-93.85 بصره بصری بطی بطحان 213.155 424-412-314-312-291.32.25 342.341.298 211 131 109 107 102 97 96.95.89.88 458.451.449-363-355-349.197.142.141.133 اندلس 338 339 340 | بعلبک انطاکیہ 197،196،188،184174،173،170،169 اہواز ایتھوپیا 139.132.131 308 بغداد بقاع 131 416.288 38.37 164.163 457 128 127.113.107 164.163 465.275

Page 583

اصحاب بدر جلد 3 بلبیں بلیغ (دریا) 47 204 203 202 جر میذان 341 | الجزائر 7341-340-339.162.156 155 تلقاء بلوچستان بنوطی 165 342.163.104 جسر جعرانہ 433 جلولاء بنی ساعده بهر سير بویب بیت اللہ بیت المقدس 56 127 111 جندی سابور جور جوزجان جوسیه 430-429-324-322-320«317-316-260.43.41.21 جیحون (دریا) مقامات 152 339.338 220 199 198 197 196 174.88 111 260 141.133.130.129.128 282،201،195،192،189،188،187،186،8 | جیرفت بیروت بیسان پاکستان پلوزی تبوک تربه ترکمانستان ترکی تقل میں تکریت تیونس تھانہ ثمخُ جابیہ جبال جبل احمر جده جرجان 164 166 342.97 چیزه چین حاضر 138 158 340.339 167 155.150 212.156.155 161 102 208.157.155 169 311 310.309.308-307-306-272-142.5.4 0 200 411 371.305.283.142.34 316.279.43.42 <41.40 حجاز حد يله 331-322-321-320.318 470 198 70 324-323-321.318.8 275 70.69 حرا پہاڑ ) حران حرة الوبره حرم حرمین حرة واقیم 70 حیہ واقم کو حرہ بنو قریظہ بھی کہتے ہیں 196.188.169.166.164 196.168 34.33 166 164 163.97 حلب حماة حمراء الاسد حمص 410 164 45 340 249 266.229.133 153 113 212 163 81 199.198.195.191 190 189.188 154 204 184.175 174 173.170.169 168 167 95 220 199.198.197.196.188 151.141

Page 584

اصحاب بدر جلد 3 حنین حوران حیرہ خانہ کعبہ 48 48 ذی امر مقامات 164 رامهرمز 233-230.111.107 15،14،8،2، 16، 17، رقہ 296 195 77.64‹44.41.39.22.21.19.18 314 133 201 198 282.192.171 34 430 340.338 215 214.182.174.171 روم 478-349-294-263-258-216 432-408-327.320.317.309 روحاء خراسان خفان خلیج تراجان خوزستان 104، 107، 128 ، 141، 149، روضه خاخ 341-340-338.162.156 155.154.151 107 203 138 133 131.104 روم ( بلاد ) روم ( بحيرة) خیبر 426،371،289،218،47،46،45تا467،429 | رے دارا بتجرد دار ارقم دار الامارة دار الدقيق دار الاسلام دجله دجله (دریا) دریائے عتیق وستي دمشق 286.159.149 305.140*10.3 رهاء زرقاء 465 | ترنج 70 10 127.113.107 95 122.120 148 زنجان زوراء ساباط سابور سائپرس سبستيه 97، 101، 163، 164، 165، 166، سپین 379-249-217-175 174 173.168.167 دنیاوند دوزخ دیبل دینواری قم وفران ذو خشب و الكلاع ذو قار ذو الحلیفہ ذو المروة 151.141 454.358.18 163 141 25 444 167 117 317 444.411 سجستان 203.200.95 196.154.151.150.132.130 198.188.167 305 162 154 394 119.113 467.149 338 171 339-338-211.200 342.162.149 اس سجستان کو ایرانی سیستان کہتے ہیں برانی سیستان رخس رغ سلی سفوان سقاطیه سلطیں سلميه سمر قند 162 340.155 283 200 412 108 206 168 155 51

Page 585

اصحاب بدر جلد 3 سندھ سندھ (دریا) سواد عراق شوس سویت رشیا شام ( صحرائے) شام 49 341 163 162.141 212 129.113 132 87 203.95 188 مین طخارستان طرابلس طر نوط طوس عالیہ عدوا مقامات 162 340.339.156 212-211 206 340 93 308 116 116 8، 77، 88،86 ، 89، 91، 93، 104، 106 ، عذیب القوادس ب الصحانات 111، 120، 126، 142، 143، 164، 166 ، 167 ، 168، عذیب 170، 171، 173، 182،177،175، 184، 187 تا190، | عراق 113.111.107.106 105 104.91 140 139 131 128 127 126.124.121 264.263.249 223 218 216.202-200 **196 217 198 197 196 167.154.149.143 339.333.332.330.305285 283 280 <266 454.405-388-387-295-249-224-220-219 458.454-446-441-388-387-366-359-355-341 شراف شعیبه ستان صغر صفا( پیار ) صفراء (وادی) صفین صنعاء صواری صور ضحنان طالقان طائف بیرستان طبرية یری (بحیرہ) طبسان <46.34.28.27.13.6.4 عرب 117 116 115 112 111 103 102 101.96.82.78 47 176 175 174.156.145.143.122.114 <232 <223 216 200 190 180.179.178.358.350.346 317 308 298 249 ‹246 308 358 155 161 441 440-423-405-398-390-368-367 467.159 218 296 201 317.42 411 83 4 143 285-283-282 205 164 408 211 173.171 131.126.114.105.104 217 216 215 214 165.159.158.155 467-354-349-294-258-249-220-218 عربسوس عرفات عريش عسفان حقیق عكاظ عمان مینا عموا للشمس عين الشهداء غار ثور غرناطه غزه فارس 168 357 114.71 70 155 10 25 455.454 126 339.338 218 267 340.339.156 389-305-289-260 339 338.151.141 166.164 164 155 155

Page 586

اصحاب بدر جلد 3 50 339 340 کریون 167،166،164 کسکر 76، 107، 109، 110، کوئی مقامات 206 144.108.107 127 فرات 455.277.120.118.111 فرما فا فسطاط.107.102.97.96.91.90.89.88 کوفہ 143 142 141 133.117.113.111.109 229 199 198 197 156 155.149.144 202 201 200.95 286.159.149 478.477.465-460-458-455-405-355-349 206 205.202.102.97.96.95 فلسطین 97،88، 164، 171، 174 ، لاذقیه 249-201.196.195.192.189 فیروزان فيوم قادسیه 220.217.141.126.124.120.123.119 لان 154 لد 205 ماسبذان 113، 116 117 118، کاحسین مدائن 169.168 153 192.171 141.130 141 118 117.113.110.68 قادیان قاہرہ 77 203 408-23 قدمیں قرسیسیا قزوین قصر شیریں قطر قلزم ( بحيرة) 130 128 127 126 125.119 44.37.35-34-33-32-29-28-25-23-22-20 84.83 82 81.79.75.73.72-70-6867.51.47 104 102 101 100 99 98 97.95.93.88.85 124 123.116.114.111.110.107 106 105 149.148.144.141.136 135 134 131 128 204 199 198 197 195 188 187.161.160 230-229-228-227-225-224-222-221-219-207 <250-248-241-240-239-236-235-233-232-231 <290-288-285-284-283-282-281-280-274-267 317 316 315 314 313 312 311 307<304 347 345 344 337 333 332 326 324 321 +362 359 357 356 355 353 351 350 349 395 394 390 389 375 371 370 366 363 <434-433-432-428-423-412-411.410.408-407 154 339.338 94 120 198 154.151 340.189.207.184.174 130 477 264.95 141 196.170.169 قوادس محمدمس تو میں 113 151.141 151 469-467-465-449-446-445-444-443-441.440 مرار قیساریہ کامل 170 171 172 173 مر الظهران 341 مريج الروم گراع العمیم 42 گرمان 386.162.161.154.149.104 کیرمان شاه 141 مروروز مر وشاه جهان 71 339.338.211 44 168.167 156.155.154.141 340-338-156-155 155

Page 587

اصحاب بدر جلد 3 مریسیع مسجد اقصیٰ مسجد حرام مسجد نبوی 443-379375.349.289.247 مشهد النجف 51 35 193 نمارق مقامات 108.107 نهاوند 220،150،149،148،145،144،141،140 432،380،260،43،42،13،4،2 نہر ابو موسی 89،83، 244،207،195 ، نہر امیر المؤمنین 95 95 132 هر تيرى 466.465 نہر سویز 88، 95، 97، 104، نهر معقل 200 تا207، 209، 211، 212، 216، 217، 238 ، نهروان 95 95 458.457 212 355-349-341-286-285.249 معان مغيثه مکران مکه 305 116 341.163.162.149.104 نوبه نیشاپور 156.155.151 نیل (دریا) 200،95، 203 289،286،285،205،204 ہرات 15،14،13،10،6،5، 18، 20، 23، همدان 45،44،43،42،41،40،39،35،34،33،27،25 ، | همدان 248،215،114،102،101،95،88،76،70،47، همذان 341.339.155 141 480.434 155.154.150.148.141 (307 306 305 304 283 <275 <274 <267 319 318 317 316 311 310.309.308 321 322 323 324 325 326 327 328 ، هدف 353350،346، 389،355، 398، 401، 404، | ہندوستان 406، 407، 408، 410، 411، 412، 425، 426، وادی القریٰ وادی تبوک 460.450.449.446-433-432-431.430 مناذر منوف منوفیه منی مهرجان قذق موصل موقان مسنون نابلس نصيبين نقیوس 341 163 130 210 371.274 283 132 205 205 واسط 457.131.107 یافا یرموک 429،346،288،76 یروشلم 155 149.113.102.97 154.153 163 171 440-389-326-314.115.93 100.78 466.465 پیمامه یمن 171 217 216.184.176.175 379.249.196.195.184 440.252 100.99.79.78.69.8 434-390.389.329.142.126 ينبغ یورپ 467.411 268-221-200.79 340 198 206

Page 588

اصحاب بدر جلد 3 52 کتابیات کتابیات ابن اثیر 224،209،188،110،109، تفسیر کبیر (امام رازی) تفسیر کبیر 465.457.455.450 اخبار الطوال الاستيعاب اسد الغابہ 148.133.106 372 تفسیر حضرت مصلح موعود( غیر مطبوعہ ) دلائل النبوة 245، 402 دی کر ان (القرآن) 28 98 27 159 388 الاكتفاء اسلامی جنگوں پر مشتمل ایک کتاب ہے 201 ڈکشنری (dictionary of dates relating to all ages) الا کھیل البدایہ والنھایہ بیاض عثمانی البیان و ایین بھگوت پستک تاریخ ابن خلدون تاریخ ابن عبد الحکم 100 339.245.229 399.390 298 210 210 339.209.192.109 209 رامائن سبل الھدی والرشاد سر الخلافة سنن ابن ماجه سنن الترمذي سنن الكبرى للبيهقي سنن نسائی 211 210 100 438 342 343-342-254.245 437.161 328.327 211 تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر ( مقاله سید میر محمود احمد ناصر صاحب) سنین الاسلام 104 سید نا عمر بن خطاب شخصیت اور کارنامے از صلابی 297 245 السيرة النبوية لابن كثير 106، 109، 131، سیرۃ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب سیرة النبی (شیلی) تاریخ الخلفاء تاریخ بلاذری 209.191 184.171.163.150.132 تاریخ طبری 107،106،82،60، سیرت ابن ہشام 109، 110، 114، 116،115، 117، 122 ، 127، سیرت حلبیہ 144،136،132،131، 145، 148، 150، 159، سیرت خاتم النبيين 230 224 209.191.188 187.184.163 438.437 437 28 57.37.23.22 8.7 416.408-405-315.126.42-37.36.29 231، 241، 286، 339، 344، 347، 348، 370، سیرت عمر فاروق از محمد رضا 480.453.446.441.436.404.401 تاریخ عمر و بن عاص تحفہ غزنویه تصدیق براہین احمدیہ تفسير الجامع الاحكام للقرطبي تفسیر طبری 229-208 100 255.253 56.50.38.36.28.20.12.11 الشروط صحاح ستہ صحیح البخاری 209 55 253.228 227 226 225 224.145.104.99.78 210 <309 290 283 272 263 262.258.257.255 388 396 395 394.392 375-335-328-326-313 27

Page 589

کتابیات 53 اصحاب بدر جلد 3 437-436-435-420-418-410-400 صحیح مسلم 26، 254،253،245،235،234،50،36، 427-426-418-396-382-346-328-271.255 الطبقات الكبرى العقد الفريد 7 135 226 298 171 101.98 78.39 133 395.394 410.53 341 387-296-290.94.51 209 210 211 389 210 210 208 435.411.38 475 53 210 395 239 209 عمدة القارى الفاروق (شبلی) فتح الباری فتوح البلدان فقہ احمدیہ قسطلانی شرح بخاری کتاب الخراج کتاب اللہ کندی گیتا لائف آف سیزر لائف آف محمد لنگ پران مار کنڈی مختصر الدول مسند احمد بن حنبل مسند البزار ملل والنحل مہا بھارت نعمۃ الباری وفاء الوفاء باخبار المصطفى یعقوبی 211 Conflict between religion and science 250 248 History of the Arabs The Hundred

Page 590

اصحاب بدر جلد 3 54 میلیوگرافی ببلیوگرافی 1 اٹلس سیرت نبوی از ڈاکٹر شوقی ابوخلیل ترجمہ حافظ محمد امین مطبوعہ دار السلام الریاض 1424ھ 2 الاخبار الطوال از ابی حنیفہ احمد بن داؤد الدینوری، مطبوعہ دار الكتب العلمية بیروت لبنان 2001ء 3 اردو دائرہ معارف اسلامیہ زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب لاہور مطبوعہ عالمین پبلیکیشنز پر لیس ہجویری پارک لاہور 2002ء 4 اردو لغت ( تاریخی اصول پر ) زیر اہتمام ترقی اردو لغت بورڈ کراچی 2006 ء 5 6 ارشاد الساری شرح بخاری از ابو العباس شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی، دار الفکر بیروت 2010ء ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اردو ترجمہ اشتیاق احمد قدیمی کتب خانه آرام باغ کراچی 7 الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب از ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر قرطبی، دار الکتب العلمیة بیروت 2002ء *2010/ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ از عز الدین بن الاثیر ابو الحسن علی بن محمد جزری، دار الفکر بیروت، 2003ء / دار الكتب العلمية بیروت،2003ء/2008ء/2016ء و الاصابۃ فی تمییز الصحابة از شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی، مطبوعہ دار الفکر بیروت 2001ء / دار الكتب العلمیہ بیروت 2005ء 10 الاكتفاء بما تضمنه من مغازی رسول الله والثلاث: الخلفاء از ابوالربیع سلیمان بن موسیٰ کلاعی اندلسی، مطبوعہ عالم الكتب بیروت 1997ء 11 انسائیکلوپیڈیا سیرت صحابہ کرام از مطبوعہ دار السلام ریاض سعودی عرب 1438ھ 12 انوار العلوم، از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانی و المصلح الموعود، شائع کر وہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ ، رقیم پر لیس ، اسلام آباد ٹلفور ڈیو کے 13 البداية والنهاية از حافظ عماد الدین ابی الفداء اسما عیل بن عمر بن کثیر القرشي الدمشقی، مطبوعہ دار ہجر بیروت 1999ء / دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2001ء 14 برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش از محمد اسحاق بھٹی، مطبوعہ مکتبہ السلفیہ لاہور 1990ء 15 تاج العروس من جواہر القاموس از محب الدین ابی فیض محمد مرتضی حسینی، دار الفکر بیروت 1994ء 16 تاریخ ابن خلدون ( اسمی کتاب العبر و دیوان المبتد اواخر فی ایام العرب والعجم والبربر) از عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون، دار الکتب العلمیة بیروت 2016 ء / مترجم اردو دار الاشاعت کراچی 2003ء 17 تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ از مکرم سید میر محموداحمد ناصر صاحب غیر مطبوعہ مقالہ 18 تاریخ اسلام کی بہادر خواتین از شاء الله سعد شجاع آبادی، مکتبہ عمر فاروق شاہ فیصل کالونی کراچی 2011 ء 19 تاریخ الخلفاء از عبد الرحمن بن ابو بکر جلال الدین السیوطی، مطبوعہ دار الکتاب العربی بیروت 1999ء / مترجم از اقبال الدین احمد ، مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی 1983ء 20 تاریخ الخلفاء الراشدين الفتوحات والانجازات السیاسیة از محمد سهیل طقوش، دار النفائس بیروت 2011ء 21 تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس از حسین بن محمد بن الحسن دیار بکری، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2009ء 22 تاریخ الطبری ( تاریخ الامم و الملوک) از ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، دار الکتب العلمية بيروت 1987ء/ 2012 / دار الفکر بیروت 2002 ء / مترجم اردو از عبد الله العمادی، دار الاشاعت کراچی 2003 ء

Page 591

اصحاب بدر جلد 3 55 ببلیوگرافی 23 تاریخ المسعودی مروج الذہب و معادن الجواہر از ابوالحسن بن حسین بن علی المسعودی کا اردو ترجمہ از پروفیسر کو کب شادانی، ناشر نفیس اکیڈمی کراچی نومبر 1985ء 24 تاریخ دمشق الکبیر از ابو عبد الله علی عاشور الجنوبی (ابن عساکر) مطبع دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء 25 تذکرہ مجموعہ الہامات، کشوف ورؤیا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، ضیاء الاسلام پریس ربوہ ایڈیشن چہارم 2004 ء 26 تفسیر الطبری (جامع البیان عن تأویل آی القرآن از ابی جعفر محمد بن جریر طبری، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان 2001ء 27 تفسیر القرآن العظیم از عماد الدین ابی الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت لبنان $1998 28 تفسیر کبیر از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ السیح الثانی و المصلح الموعود، شائع کر دہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لندن 2023ء 29 التفسير الكبير أو مفاتیح الغیب از امام فخر الدین محمد بن عمر بن حسین بن حسن بن علی التمیمی البکری الرازی الشافعی، مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت 2004 ء 30 تفسیر القرطبی (الجامع لاحکام القرآن) از علامہ ابو عبد الله محمد بن احمد انصاری قرطبی مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2004 ء 31 جستجوئے مدینہ از عبد الحمید قادری مطبوعہ اور مینٹل پبلی کیشنز لاہور پاکستان 2007ء 32 حقائق الفرقان، از حضرت مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفہ المسیح الاول مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ پاکستان 33 حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء از حافظ ابو نعیم احمد بن عبد اللہ اصفہانی، مکتبۃ الایمان المنصورہ 2007ء 34 خطابات طاہر ( تقاریر جلسہ سالانه قبل از خلافت) از حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ پاکستان خطبات طاہر از حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسح الرابع شائع کر دہ ظاہر فائونڈیشن ربوہ پاکستان 36 خطبات محمود، از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی و المصلح الموعود، شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن مطبوعہ ضیاء الاسلام پر میں ربوہ پاکستان 37 خطبات ناصر از حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث مشائع کردہ نظارت اشاعت ربوه 38 الخلفاء الرشدون از محمد رضا، ناشر دار الكتاب العربی بیروت لبنان 2004 ء 39 خلفائے راشدین از حکیم محمود ظفر، مطبوعہ تخلیقات اکرم آرکیڈ لاہور 1998ء 40 دلائل النبوة از ابی بکر احمد بن حسین بیہقی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان، 1988ء/2002ء 41 رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمدیہ از سیکرٹری مجلس مشاورت شائع کردہ صدرانجمن احمدیہ 42 روحانی خزائن از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود ، شائع کر دہ نظارت اشاعت، مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 43 الرياض النضرة في مناقب العشرة از شیخ احمد بن عبد الله ، الشهير بالحب طبری، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2014ء 44 سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد از محمد بن یوسف صالحی الشامی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 1993ء 45 سر الخلافہ از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود، مترجم اردو شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 46 سنن ابن ماجه از ابو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجه قزوینی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 2009ء 47 سنن ابو داؤد از ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 2009ء

Page 592

اصحاب بدر جلد 3 56 ببلیوگرافی 48 سنن الترمذی الجامع الصحیح از ابو عیسی محمد بن عیسی بن سورۃ، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت لبنان، 2002ء 49 السنن الکبری از ابی بکر احمد بن حسین خراسانی بیہقی، مطبوعہ مکتبة الرشد ناشرون 2004ء 50 سنن النسائی از ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب ابن علی بن سنان النسائی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 2009ء 51 سید نا حضرت عمر فاروق اعظم از محمد حسین ہیکل ترجمه حبیب اشعر اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور 52 سیر اعلام النبلاء از شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذہبی، مطبوعہ الرسالۃ العالمیۃ دمشق2014ء 53 سیر الصحابہ ( خلفائے راشدین) از معین الدین ندوی، مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور 54 السيرة الحلبية ( انسان العيون في سيرة الامين والمأمون) از ابی الفرج نور الدین علی بن ابراہیم بن احمد حلبی الشافعی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2002ء / 2008ء / اردو ترجمہ از محمد اسلم قاسمی، دار الاشاعت کراچی 1999ء 55 السيرة النبوية لابن كثير از ابی الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، دار الكتب العلمیة بیروت 2005ء 56 السيرة النبوية لابن ہشام از ابی محمد عبد الملک بن ہشام بن ایوب حمیری معافری مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت لبنان 2001ء / دار ابن حزم بیروت لبنان 2009ء 57 سیرۃ امیر المومنین عمر بن خطاب شخصیتہ و عصرہ از ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی، دار المعرفہ بیروت لبنان 2007ء / اردو ترجمه از شمیم احمد خلیل سلفی، مکتبہ الفرقان خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان 58 سیرة امیر المؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ و عصره از ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی، دار المعرفہ بیروت لبنان 2006 ء 59 سیرۃ امیر المومنین علی بن ابی طالب شخصیتہ و عصره از ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی، مطبوعہ دار المعرفۃ بیروت لبنان 2006ء 60 سیرت النبی صلی الم از علامہ شبلی نعمانی ناشر مکتبہ رحمانیہ مطبع لٹل سٹار پر نثر زلاہور 61 سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ اسلام آباد ٹلفورڈیو کے 1996ء 62 سیرت خلفائے راشدین از محمد الیاس عادل مطبوعہ ، مشتاق بک کارنر لاہور 63 سیرت عمر فاروق از محمدرضا اردو ترجمه از محمد سرور گوہر ، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ لاہور 2010ء 64 شرح العلامة الزرقانی علی المواهب اللدنية بالمخ المحمدیۃ از علامہ قسطلانی، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت 1996ء 65 صحیح البخاری از ابو عبد الله محمد بن اسماعیل بخاری ،جعفی، مطبوعہ دار السلام ،ریاض، 1999ء / مترجم اردو شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ پاکستان 66 صحیح مسلم از ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری، ناشر دار السلام ریاض،2000ء / مترجم اردو، شائع کر دہ نور فاؤنڈیشن ربوہ پاکستان 67 الطبقات الکبری از محمد بن سعد بن منيع الہاشمی النصری المعروف بابن سعد مطبوعہ دارالکتب العلمية بيروت 1990ء/ 2012 / 2017ء / دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء / مترجم اردو از عبد العمادی نفیس اکیڈمی کراچی 68 عمدة القاری شرح صحیح البخاری از بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد العینی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء / داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 2003 ء 69 عون المعبود شرح سنن ابی داؤد از ابی الطیب محمد شمس الحق عظیم آبادی، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت لبنان 2002ء 70 غزوات و سر ایا از محمد اظہر فرید شاہ، ناشر فرید یہ پبلشر ز ساہیوال 2018 ء 71 الفاروق سوانح عمری حضرت عمر فاروق از شبلی نعمانی، مطبوعه اداره اسلامیات 2004ء / مکتبۃ الحرمین اردو بازار لاہور 1437ھ / دار الاشاعت کراچی 1991ء

Page 593

اصحاب بدر جلد 3 57 ببلیوگرافی 72 الفاروق عمر از محمد حسین ہیکل، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت لبنان 2007ء 73 فتح الباری شرح صحیح البخاری از احمد بن علی بن حجر عسقلانی، مطبوعہ دار الریان للتراث قاہرة 1986ء / قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی 74 فتوح البلدان از احمد بن یحیی بن جابر البلاذری، مطبوعہ مؤسسة المعارف بیروت 1987ء / دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2000ء 75 فتوحات شام از مولانا فضل محمد یوسف زئی ناشر مکتبہ ایمان ویقین 2011ء 76 فتوح الشام از محمد بن عمر بن واقد السہمی ابو عبد اللہ الواقدی، مطبوعہ المکتبة التوفيقية مصر 2008ء / اردو ترجمہ غلام نصیر الدین گولڑوی، ناشر مکتبہ اعلیٰ حضرت در بار مارکیٹ لاہور ستمبر 2008ء 77 فرهنگ سیرت از سید فضل الرحمن ناشر زوار اکیڈمی پبلیکیشنز کراچی 2003ء 78 فقہ احمدیہ (حصہ عبادات) پیشکش تدوین فقہ کمیٹی، مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ پاکستان 79 فیروز اللغات اردو از مولوی فیروز الدین، نظر ثانی، ادارہ تصنیف و تالیف فیروز سنز مطبوعہ فیروز سنزلاہور پانچویں اشاعت 2012ء 80 الکامل فی التاریخ از عز الدین ابی الحسن علی بن محمد ابن اثیر جزری مطبوعہ دار الكتاب العربی بیروت 1997ء / دار الكتب العلمیة بیروت 2003ء / 2006ء 81 كتاب الخراج از قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم، مطبوعہ المكتبه التوفيقيه 2013ء 82 کتاب العقد الفرید از احمد بن محمد بن عبد ربه اندلسی، مطبوعہ دارار تم بیروت لبنان 1999ء 83 کتاب المغازی از ابو عبد الله محمد بن عمر بن واقد الواقدی، مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت 2004ء/2013ء 84 کنز العمال فی سنن الا قوال و الافعال از علاء الدین علی بن حسام الدین الہندی، مطبوعہ مؤسسة الرسالة 1985ء / دار الكتب العلمية بيروت 2004ء 85 لسان العرب از ابو الفضل جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور افریقی ،مصری، مطبوعہ مؤسسة الاعلمی للمطبوعات بیروت لبنان 2005 ء 86 لغات الحدیث از وحید الزمان مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور 2005 ء 87 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد از نور الدین علی بن ابی بکر بن سلیمان الہیثمی المصری مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء 88 مجموعه اشتہارات، از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود، شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 89 المستدرک علی الصحیحین از ابو عبد الله محمد بن عبد اللہ الحاکم نیشاپوری، مطبوعہ دار الکتب العلمية بيروت 1990ء / مكتبه نزار مصطفى الباز الرياض 2000ء 90 مسند الامام احمد بن حنبل) از امام احمد بن حنبل، مطبوعہ عالم الكتب 1998ء / دارالحدیث قاہرہ 2012ء 91 المصنف لابن ابی شیبه از ابی بکر عبد بن محمد بن ابراہیم ابی شیبہ العصبی، الفاروق الحدیثہ قاہرہ 2008ء / مترجم محمد اویس سرور مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور 2014ء 92 معجم البلدان از شهاب الدین ابی عبد اللہ یا قوت بن عبد اللہ الحموی الرومی البغدادی، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت لبنان / دار صادر بیروت 1977 ء / المكتبة العصرية بيروت لبنان 2014ء 93 المعجم الکبیر از ابی القاسم سلیمان بن احمد طبرانی، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی 2002ء 94 مکتوبات احمد از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود، شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ پاکستان

Page 594

اصحاب بدر جلد 3 58 ببلیوگرافی 95 ملفوظات از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود، شائع کردہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لندن 2022ء 96 مناقب امیر المؤمنین عمر بن الخطاب از ابی الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی ناشر دار الكتاب العربی بیروت لبنان 2004ء از 97 المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم از ابی الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد ابن الجوزی ، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت لبنان $2012 98 المنهاج بشرح صحیح مسلم بن حجاج از محی الدین بن یحی بن شرف النووی، مطبوعہ دار ابن حزم بیروت لبنان 2002ء 99 کتاب الموطا از امام مالک بن انس مطبوعہ دار الفکر بیروت لبنان 2002ء 100 کتاب مقدس یعنی پرانا اور نیا عہد نامه از پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور پاکستان 2019ء 101 النجوم الزاهرة في ملوك مصر و القاهرة از جمال الدین ابی المحاسن یوسف، دار الكتب المصرية بالقاهره 1929ء 102 نعمۃ الباری فی شرح صحیح البخاری از غلام رسول سعیدی، ناشر فرید بک سٹال اردو بازار مطبع رومی پبلی کیشنز اینڈ پر نٹرز لاہور 2013ء 103 وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی از علامہ نور الدین علی بن احمد السمہودی، مطبوعہ مکتبۃ الحقانیہ پشاور پاکستان 104 History of The Arabs by Philip K.Hitti, 10th edition, Machillan Education LTD.London 1989 105 The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History by Michael H.Hart, Golden Books centre SDN.BHD.2008 106 The Decline and Fall of the Roman Empire.by Edward Gibbon.Everyman's Library London 1910

Page 594