Language: UR
جنگِ بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ کی سیرت و سوانح
وَلَقَدْ نَصَرَ كُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ اصحابے بدر جلد 2 سید نا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD اصحاب بدر جلد دوم (The Guiding Stars of Badr - Vol.2) (Urdu) by Hazrat Mirza Masroor Ahmad, Khalifatul-Masih V (may Allah be his Helper) First published in the UK, 2024 © Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Limited Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU99PS For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-506-4
باب بدر جلد 2 نمبر شمار پیش لفظ 111 فہرست مضامین 1.حضرت ابو بکر صدیق مضمون فہرست مضامین صفحہ نمبر ix xi 1 1 2 4 6 9 10 10 11 11 12 12 13 14 21 دیباچه نام لقب اور کنیت پیدائش اور شجرہ نسب آپ کے والدین کا اسلام قبول کرنا القاب اور ان کی وجہ واقعہ اسراء کی تصدیق و ایمان کنیت ابو بکر کی وجہ تسمیہ مہندی اور کٹم سے خضاب لگانا تجارت تعبیر الرؤیا اور حسب و نسب کے عالم خون بہا اور دیتوں کا عہدہ حلف الفضول میں شمولیت آنحضرت صلی الم سے دوستی کا تعلق شرک اور بتوں سے نفرت آپ کا قبول اسلام سب سے پہلے کون ایمان لایا؟ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17
اصحاب بدر جلد 2 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 iv آپ کے ذریعہ اسلام قبول کرنے والے اصحاب کفار مکہ کے مظالم غلاموں کو آزاد کرنا حضرت ابو بکر کی شان میں آیات کا نزول شعب ابی طالب میں حضرت ابو بکر کی موجودگی بیعت عقبہ ثانیہ ہجرت کا حکم اور مظلوم مسلمانوں کی مکہ سے ہجرت ہجرت مدینہ ابو بکر کی دو بہادر اور وفادار بیٹیاں ہجرت کے وقت کی دعائیں غار ثور غارِ ثور اور خاندان ابو بکر کے دلیرانہ کارنامے قبا میں قیام قبا سے مدینہ مسجد نبوی کی تعمیر مؤاخات مدینہ غزوہ بدر غزوة احد غزوہ حمراء الاسد غزوہ بنو نضیر غزوة بدر الموعد غزوه بَنُو مُصْطَلِق ( واقعہ افک) غزوہ احزاب غزوہ بنو قریظہ فہرست مضامین 23 24 26 28 32 38 38 42 47 48 49 56 66 69 72 73 74 81 87 88 89 91 97 98
حاب بدر جلد 2 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 صلح حدیبیه V سریہ حضرت ابو بکر بطرف بَنُو فَزَارَه غزوہ خیبر سر یہ حضرت ابو بکر بطرف تتجد غزوہ فتح مکہ غزوة حنين غزوہ طائف غزوہ تبوک حضرت ابو بکر امیر الحجاج حجة الوداع رسول اللہ صلی الم کی آخری بیماری اور وفات مسلمانوں کا پہلا اجماع وفات مسیح حضرت ابو بکر کی خلافت انتخاب خلافت کے بعد آپ کے لیے وظیفہ آغاز خلافت میں آپ کی مشکلات اور خطرات آپ کی حضرت یوشع بن نون کے ساتھ مشابہتیں لشکر اسامہ کی روانگی مانعین زکوۃ اور حضرت ابو بکر کا مشورہ شجاعت اور عزم خلافت کی برکات قیام شریعت کیا اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے؟ حضرت ابو بکر نے مرتدین کو کیوں قتل کیا مرتد باغیوں کے خلاف گیارہ مہمات کی تیاری جنگ یمامه فہرست مضامین 100 104 104 106 107 111 114 115 117 119 121 126 127 136 137 139 144 154 162 163 168 175 181 210
فہرست مضامین 291 291 294 295 297 299 303 304 308 310 312 314 315 316 319 341 341 346 347 355 358 358 359 360 صحاب بدر جلد 2 vi ایرانیوں کے خلاف کاروائیاں جنگ ذات السلاسل یا جنگ کا ظمہ جنگ ابلہ جنگ مدار جنگ وَلَجَه جنگ الیس امْغِیشیا کی فتح جنگ جیره جنگ انبار یا ذات العيون جنگ عین التمر جنگ دُومَةُ الْجَنْدَل جنگ حصید اور خنافس جنگ مصیخ جنگ فراض عراق کی فتح دمشق کا محاصرہ معركه اجنادين اجنادین کی جنگ کب ہوئی ؟ فتح دمشق ( 13 ہجری) دمشق کا دوسرا محاصرہ حضرت ابو بکر کے زمانے کی آخری جنگ خلافت عمر مشاورت اور نامزدگی اس اعتراض کا جواب کہ خلیفہ نامزد کیوں کیا؟ یہ بھی ایک رنگ میں انتخاب ہی تھا 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89
حاب بدر جلد 2 بیماری اور وصیت ازواج اور اولاد 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 vii آپ نظام حکومت کس طرح چلاتے تھے ؟ منصب خلافت کی حقیقت بیت المال کا قیام محکمہ قضا کا نظام محکمہ افتاء کتابت، لکھنے کا محکمہ فوج کا محکمہ سامان جنگ کی فراہمی سپہ سالاروں اور کمانڈروں کو دس باتوں کی نصیحت اسلامی حکومت کی مختلف ریاستوں میں عمال مقرر کرنے کے طریق ذمیوں کے حقوق جمع قرآن آپ کے زمانہ میں پورا قرآن کیوں نہ لکھا گیا؟ صحیفہ صدیقی کب تک محفوظ رہا؟ اولیات ابو بکر حضرت ابو بکر صدیق کے مناقب حلیہ مبارک خشیت الہی اور زہد و تقویٰ آپ کی کامل اطاعت و فرمانبرداری اور عشق رسول اللہ صلی علیم کے لیے غیرت فہرست مضامین 360 362 364 365 365 367 367 367 368 368 368 370 370 373 373 374 377 378 379 379 380 380 384 384
viii آنحضرت صلی الم سے عشق و محبت حضرت ابو بکر کے اشعار فہرست مضامین 389 401 401 404 408 409 411 412 417 423 424 424 433 436 436 436 437 439 440 449 آپ کی فراست تعبیر الرؤیا کا فن غلاموں کو آزاد کروانا امامت نماز شفقت اولاد واقعہ افک میں حضرت ابو بکر کا کر دار انکسار اور تواضع خدمت خلق میں بڑائی پردہ پوشی بہادری اور شجاعت مالی قربانی عاجزی اور انکساری حفظ قرآن ثانی اثنین غیر مسلم مصنفین کا خراج عقیدہ اخلاق حسنه قربانیاں اوصاف حمیده حاب بدر جلد 2 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 133
اصحاب بدر جلد 2 ix پیش لفظ پیش لفظ جنگ بدر کو تاریخ اسلام میں ایک نمایاں اہمیت اور فضیلت حاصل ہے.قرآن کریم نے اس دن کو ”یوم الفرقان“ کہہ کر اس کی تاریخی فضیلت کو دوام بخشا اور اس فضیلت اور عظمت کا تاج اپنے وفاشعار جاں نثار بدری صحابہ کے سروں پر سجاتے ہوئے آنحضرت صلی الیم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ اور تمہیں یہ کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا کہ تم جو کچھ کرتے رہو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں.(بخاری) اس جنگ میں شامل ہونے والے 313 صحابہ خود بھی اپنے آخری سانسوں تک اس سعادت اور اعزاز پر خدا کا شکر بجالاتے ہوئے فخر کیا کرتے تھے.چنانچہ ایک مشہور مستشرق ولیم میور صاحب لکھتے ہیں: بدری صحابی اسلامی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین رکن سمجھے جاتے تھے.سعد بن ابی وقاص جب استی سال کی عمر میں فوت ہونے لگے تو انہوں نے کہا کہ مجھے وہ چوغہ لا کر دو جو میں نے بدر کے دن پہنا تھا اور جسے میں نے آج کے دن کے لئے سنبھال کر رکھا ہوا ہے.یہ وہی سعد تھے جو بدر کے زمانہ میں بالکل نوجوان تھے اور جن کے ہاتھ پر بعد میں ایران فتح ہوا اور جو کوفہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر ان کی نظر میں یہ تمام عزتیں اور فخر جنگ بدر میں شرکت کے عزت و فخر کے مقابلے میں بالکل پیچ تھیں اور جنگ بدر والے دن کے لباس کو وہ اپنے واسطے سب خلعتوں سے بڑھ کر خلعت سمجھتے تھے اور ان کی آخری خواہش یہی تھی کہ اسی لباس میں لپیٹ کر ان کو قبر میں اتارا جاوے.“ (بحوالہ سیرت خاتم النبیین صفحہ 373) یہ خوش نصیب صحابہ کون کون تھے ؟ رہتی دنیا تک آسمان پر چمکنے والے یہ چاند ستارے کون تھے ؟؟ ان کے نام، ان کے والدین کے نام ان کے سوانح کیا تھے اور ان کی سیرت کے نمایاں کام اور کارنامے کیا کیا تھے.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے
اصحاب بدر جلد 2 X پیش لفظ خطبات میں بڑی تفصیل سے ان کا ذکر فرمایا ہے.گویا کہ ان صحابہ کی سوانح اور سیرت کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے.سیرت صحابہ کا یہ تاریخی بیان حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 4 مئی 2018ء کو شروع فرمایا اور پھر یہ تابناک علمی اور تحقیقی مواد خدا کے اس پیارے مقدس وجود کے لب مبارک سے ادا ہو تا رہا.آخری خطبہ 24 فروری 2023ء کو ارشاد فرماتے ہوئے کل 173 خطبات میں یہ ذکر مکمل ہوا.اور اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے آنحضرت صلی علیکم کی سیرت پر خطبات دینے کا سلسلہ شروع فرمایاجو ابھی تک جاری و ساری ہے.سیرت النبی صلی ال نیم کے یہ تمام خطبات جلد اول میں پیش کئے جائیں گے، یہ جلد خلیفہ راشد حضرت ابو بکر صدیق کی سیرت و سوانح پر مشتمل ہے، اس کے بعد اگلی جلد خلفائے ثلاثہ حضرت عمر بن خطاب، حضرت عثمانؓ اور حضرت علی کی سیرت و سوانح اور اس کے بعد اگلی دو جلدیں بدری صحابہ کی سیرت و سوانح پر مشتمل قارئین کی خدمت میں پیش ہوں گی.انشاء اللہ اس علمی و تحقیقی کام میں معاونت کرنے والے تمام افراد اور دفاتر خاص طور پر شکریہ کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزاء عطا فرمائے.فجزا ہم اللہ احسن الجزاء جولائی ۲۰۲۴ء منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنیف
اصحاب بدر جلد 2 xi دیباچه بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ دیباچه تبرک تحریر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار صحابہ کے اخلاص وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " خدا تعالیٰ نے صحابہ کی تعریف میں کیا خوب فرمایا ہے مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب : 24) مومنوں میں سے ایسے مرد ہیں جنہوں نے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے خدا تعالی کے ساتھ کیا تھا.سواُن میں سے بعض اپنی جانیں دے چکے اور بعض جانیں دینے کو تیار بیٹھے ہیں." پھر آپ فرماتے ہیں کہ " صحابہ کی تعریف میں قرآن شریف سے آیات اکٹھی کی جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی اسوۂ حسنہ نہیں." (ملفوظات جلد 7 صفحہ 431 تا 433) اور ان آیات میں صحابہ کی نیکیوں کے اور قربانیوں کے جو نمونے بیان ہوئے ہیں وہ ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہیں.چند سال قبل جب میں نے صحابہ کے حالات بیان کرنے شروع کئے تو ان میں بدری صحابہ بھی تھے اور چند دوسرے صحابہ کا بھی ذکر ہوا.لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ پہلے صرف بدر کی جنگ میں شامل ہونے والے صحابہ کا ذکر کروں.کیونکہ ان کا ایک خاص مقام ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک سلسلہ وار خطبات میں مجھے ان پاک طینت عشاق رسول الله الله السلام کا ذکر خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی.غزوہ بدر کے صحابہ وہ لوگ تھے جو غریب اور کمزور ہونے کے باوجود دین کی
صحاب بدر جلد 2 xii دیباچه حفاظت کرنے والوں میں صف اول میں تھے.وہ کبھی دشمن کی طاقت سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ ان کا تمام تر توکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا اور محبت کا عہد کیا تو اس کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا.اپنے عہد وفا کو نبھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی جنت کی بشارت دی اور ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمایا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس غزوہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " یہی وہ جنگ ہے جس کا نام قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرقان رکھا ہے اور یہی وہ جنگ ہے جس میں عرب کے وہ سردار جو اس دعوی کے ساتھ گھر سے چلے تھے کہ اسلام کا نام ہمیشہ کے لئے مٹا دیں گے خود مٹ گئے اور ایسے مٹے کہ آج ان کا نام لیوا کوئی باقی نہیں." (سیرة النبی صلی ال ، انوار العلوم جلد 1 صفحہ 610) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب اور ملفوظات میں دو بدری ادوار کا ذکر فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں: اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہو رہی ہے جو بدر کے موقع پر ہو گئی تھی جس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ ( آل عمران : 124).اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا." لیکچر لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 280) پھر آپ فرماتے ہیں " اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی اور وہ مدد اذلة کی مدد تھی جس وقت تین سو تیرہ آدمی صرف میدان میں آئے تھے اور کل تین لکڑی کی تلواریں تھیں اور ان تین سو تیرہ میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے.اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہوگی اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمعیت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا.اس وقت
باب بدر جلد 2 xiii دیباچه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر دعائى اللَّهُمَّ إِنْ أَهْلَكْتَ هُذِهِ الْعِصَابَةَ لَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا.یعنی اے اللہ ! اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا.سنو ! میں بھی یقیناً اسی طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر والا معاملہ ہے.اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت تیار کر رہا ہے.وہی بدر اور اَذِلَّةُ کا لفظ موجود ہے." (ملفوظات جلد 2 صفحہ 190-191) غزوہ بدر تاریخ اسلام کا نہایت اہم واقعہ ہے.احباب جماعت کو چاہیئے کہ اس حوالہ سے میرے خطبات کے اس مجموعے کو ضرور پڑھیں تاکہ یہ ایمان افروز واقعات ہمیشہ آپ کے ذہنوں میں مستحضر رہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بھی ہے جو تذکرہ میں یوں درج ہے: "آج رات حضرت نے خواب بیان فرمایا کسی نے کہا کہ جنگ بدر کا قصہ مت بھولو.(تذکرہ ص 668) اللہ تعالیٰ ہم میں خاص طور پر بدر کی اہمیت کا ادراک پیدا فرمائے اور ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی آمد کو سمجھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کرے کہ مسلمان امت بھی اس واقعہ بدر کی حقیقت کو سمجھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئے ہوئے مسیح موعود کو پہچانے تاکہ مسلمان دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کرنے کے قابل بن جائیں.آمین مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس عالمگیر جماعت احمدیہ 25 اپریل2024ء
اصحاب بدر جلد 2 نام لقب اور کنیت: 1 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر" کا نام عبد اللہ تھا اور عثمان بن عامر ان کے والد کا نام تھا.کنیت ابو بکر تھی اور آپ کے لقب عتیق اور صدیق تھے.پیدائش کہا جاتا ہے کہ آپ کی ولادت عام الفیل کے دو سال چھ ماہ بعد 573ء میں ہوئی.حضرت ابو بکر نکا نام جیسا کہ میں نے کہا عبد اللہ تھا.آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنوشیم بن مرہ سے تھا.جاہلیت میں آپ کا نام عبد الکعبہ تھا جسے رسول اللہ صلی علیکم نے تبدیل کر کے عبد اللہ رکھ دیا.آپ کے والد کا نام عثمان بن عامر تھا اور ان کی کنیت ابو قحافہ تھی اور والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر بن عامر تھا اور ان کی کنیت اھم الخیر تھی.ایک قول کے مطابق آپ کی والدہ کا نام لیلی بنت صفر تھا.شجرہ نسب آنحضرت صلی الم کے ساتھ حضرت ابو بکر کی شجرہ نسب ساتویں پشت میں مرہ پر جاکر رسول اللہ صلی علیم سے ملتا ہے.2 اسی طرح حضرت ابو بکر کی والدہ کا سلسلہ نسب ننھیال اور ددھیال دونوں طرف سے چھٹی پشت پر جاکر رسول اللہ صلی العلیم سے مل جاتا ہے.3 4 ابو قحافہ یعنی حضرت ابو بکر کے والد کی اہلیہ اٹھمر اخیر ان کے چچا کی بیٹی تھیں.یعنی حضرت ابو بکر کی والدہ ان کے والد کی چچا کی بیٹی تھیں.حضرت ابو بکر کے والدین حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد بھی زندہ رہے اور ان دونوں نے اپنے بیٹے یعنی حضرت ابو بکر محاور نہ پایا.حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد پہلے ان کی والدہ کی وفات ہوئی.5 اور پھر حضرت ابو بکر کے والد نے 14 ہجری میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی.6 حضرت ابو بکر کے والد اور والدہ دونوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی.
ناب بدر جلد 2 آپ کے والد ماجد کے قبول اسلام لانے کا واقعہ 2 حضرت ابو بکر صدیق الله آپ کے والد کے ایمان لانے کا واقعہ یوں ہے کہ آپ کے والد فتح مکہ تک ایمان نہیں لائے تھے.اس وقت ان کی بینائی جاچکی تھی.فتح مکہ کے وقت جب رسول کریم صلی للی یکم مسجد حرام میں داخل ہوئے تو حضرت ابو بکر اپنے والد کو لے کر رسول کریم صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے.جب نبی کریم صلی علیکم نے ان کو دیکھا تو آپ صلی الی یکم نے فرمایا.اے ابو بکر ا تم اس بوڑھے عمر رسیدہ شخص کو گھر ہی رہنے دیتے.میں خود ان کے پاس آجاتا.اس پر حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! یہ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے نہ یہ کہ آپ ان کے پاس تشریف لاتے.حضرت ابو بکر نے انہیں رسول کریم صلی المینیوم کے سامنے بٹھایا تو آپ صلی القیوم نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ اسلام لے آئیں.آپ سلامتی میں آجائیں گے.چنانچہ ابو قحافہ نے اسلام قبول کر لیا.” 7 حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ ابو قحافہ کو فتح مکہ کے دن لایا گیا تو ان کا سر اور داڑھی تعامہ کی طرح سفید ہو چکے تھے.تعامہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سفید رنگ کا ایک پھول ہو تا تھا جو پہاڑوں پر اگتا تھا.بہر حال بالکل سفید بال تھے.داڑھی بہت سفید تھی اس پر رسول اللہ صلی ہیں ہم نے فرمایا کہ اسے کسی اور رنگ سے تبدیل کر دو یعنی اس پہ خضاب لگا دو.رنگ کر دو زیادہ بہتر ہے لیکن سیاہ رنگ سے بچو.8 یہ مطلب نہیں تھا کہ سیاہ رنگ کوئی برائی ہے بلکہ شاید آپ نے خیال فرمایا ہو کہ عمر کے اس حصہ میں بالکل سیاہ رنگ کے بال چہرے پر شاید مناسب نہ لگیں تو بہر حال آپ نے کہا اس کو رنگ دینا چاہیے، خضاب لگا دینا چاہیے.シ حضرت ابو بکر پر کفار کے مظالم اور آپ کی والدہ کا اسلام قبول کرنا حضرت ابو بکر کی والدہ ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھیں.اس کا ذکر سیرت حلبیہ میں اس طرح ہے کہ جب رسول اللہ صلی علی نام دار ارقم میں تشریف لے گئے تا کہ وہاں آپ اور آپ کے صحابہ چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں اور اس وقت مسلمانوں کی تعداد اڑ تھیں 38 تھی.اس وقت حضرت ابو بکر نے رسول اللہ صلی علی یم کی خدمت میں درخواست کی کہ مسجد حرام میں تشریف لے چلیں.آپ صلی علی کرم نے فرمایا: اے ابو بکر ! ہماری تعداد قلیل ہے لیکن حضرت ابو بکر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ آنحضرت صلی علیہم اپنے تمام صحابہ کے ساتھ مسجد حرام میں تشریف لائے.وہاں حضرت ابو بکر نے لوگوں کے سامنے خطاب کیا جبکہ رسول اللہ صلی ال ولم تشریف فرما تھے.حضرت ابو بکر نے خطاب میں لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دی.اس طرح آپ رسول اللہ صلی الیکم کے بعد پہلے خطیب ہیں جنہوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا.اس پر مشرکین
صحاب بدر جلد 2 3 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر اور مسلمانوں کو مارنے کے لیے ٹوٹ پڑے اور انہیں بُری طرح مارا پیٹا.حضرت ابو بکر ھو پیروں تلے روندا گیا اور انہیں خوب مارا پیٹا گیا.عُتبہ بن ربیعہ حضرت ابو بکر کو ان جوتوں سے مار رہا تھا جس پر دوہر اچمڑا لگا ہو ا تھا.اس نے ان جوتوں سے حضرت ابو بکر کے چہرے پر اتنامارا کہ منہ سوج جانے کی وجہ سے آپ کے چہرے پر ناک کی بھی پہچان نہیں ہو پا رہی تھی.پھر بنو تیم کے لوگ بھاگتے ہوئے آئے اور مشرکین کو حضرت ابو بکر سے دور کیا.بنو تیم کے لوگوں نے آپ کو ایک کپڑے میں ڈال کر اٹھایا اور انہیں ان کے گھر میں لے گئے اور انہیں حضرت ابو بکر کی موت میں کوئی شک نہیں تھا.اس حد تک مارا تھا.اس کے بعد بنو تیم کے لوگ واپس آئے اور مسجد میں، خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور کہا خدا کی قسم! اگر ابو بکر فوت ہو گئے تو ہم ضرور عُتبہ کو قتل کر دیں گے ، جس نے زیادہ مارا تھا.حضرت ابو بکر کے عشق رسول صلی الہ یکم کا اعلیٰ مقام پھر وہ لوگ حضرت ابو بکر کے پاس واپس آئے اور آپ کے والد ابو قحافہ اور بنو تیم کے لوگ آپ سے بات کرنے کی کوشش کرنے لگے مگر آپ بیہوشی کی وجہ سے کوئی جواب نہ دیتے تھے یہاں تک کہ دن کے آخری حصہ میں آپ بولے اور سب سے پہلے یہ پوچھا کہ رسول اللہ صلی علیکم کا کیا حال ہے؟ مگر لوگوں نے ان کی بات کا جواب نہ دیا مگر آپ بار بار یہی سوال دہراتے رہے.اس پر آپ کی والدہ نے کہا.خدا کی قسم ! مجھے تمہارے ساتھی کے متعلق کچھ معلوم نہیں.حضرت ابو بکڑ نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ حضرت عمر کی بہن ام جمیل بنت خطاب کے پاس جائیں.ام جمیل پہلے ہی مسلمان ہو چکی تھیں لیکن اپنے اسلام کو چھپایا کرتی تھیں.آپ ان سے آنحضرت صلی یہ کمر کا حال دریافت کریں.چنانچہ حضرت ابو بکر کی والدہ ام جمیل کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ ابو بکر ، محمد بن عبد اللہ صلی علیکم کے بارے میں پوچھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا: میں محمد کو نہیں جانتی اور نہ ہی ابو بکر کو.پھر ام جمیل نے حضرت ابو بکر کی والدہ سے کہا کہ کیا آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کے ساتھ چلوں ؟ انہوں نے کہاہاں.پھر وہ ان کے ساتھ حضرت ابو بکر کے پاس آئیں تو اہم جمیل نے آپ کو زخموں سے چور زمین پر پڑا دیکھا تو چیخ اٹھیں اور کہا کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے وہ یقینا فاسق لوگ ہیں اور میں امید رکھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سے بدلہ لے گا.تب حضرت ابو بکر نے ان سے پوچھا کہ آنحضرت ملی یہ کام کا کیا حال ہے ؟ ام جمیل نے کہا یہ تمہاری والدہ بھی سن رہی ہیں.آپ نے کہا: وہ تمہارا راز ظاہر نہیں کریں گی.اس پر ام جمیل نے کہا کہ آنحضرت صلی الله علم خیریت سے ہیں.حضرت ابو بکر نے پوچھا کہ آپ اس وقت کہاں ہیں ؟ ام جمیل نے کہا دارِ ارقم میں.حضرت ابو بکر کے عشق رسول کے اس اعلیٰ مقام کو دیکھیں، جب یہ بات سنی تو پھر حضرت ابو بکر نے کہا خدا کی قسم! میں نہ کھانا چکھوں گا اور نہ پانی پیوں گا یہاں تک کہ پہلے میں رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوں.حضرت ابو بکر کی والدہ نے بتایا کہ ہم نے انہیں یعنی ابو بکر کو کچھ دیر روکے
حاب بدر جلد 2 4 حضرت ابو بکر صدیق رکھا یہاں تک کہ جب لوگوں کا باہر آنا جانا تھم گیا اور لوگ پر سکون ہو گئے تو ہم آپ کو لے کر نکلے.آپ میرے سہارے سے چل رہے تھے یہاں تک کہ آپ رسول اللہ صلی علی یم کے پاس پہنچ گئے تو حضرت ابو بکر پر شدید رقت طاری ہو گئی.آنحضرت صلی علیہ ہم نے جب حضرت ابو بکر کی یہ حالت دیکھی تو آنحضور صلی علی کرم آپ کو بوسہ دینے کے لیے حضرت ابو بکر پر جھکے اور مسلمان بھی آپ پر جھکے.پھر حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.مجھے کوئی تکلیف نہیں سوائے اس کے جو لوگوں نے میرے منہ پر چوٹیں لگائی ہیں اور یہ میری والدہ اپنے بیٹے سے اچھا سلوک کرنے والی ہیں.یہ مختصر سی باتیں کیں.ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے طفیل ان کو آگ سے بچالے.حضرت ابو بکر نے اپنی والدہ کے بارے میں کہا کہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے طفیل ان کو آگ سے بچالے یعنی ایمان لے آئیں.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے آپ کی والدہ کے لیے دعا کی اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دی جس پر انہوں نے اسلام قبول کر لیا.اس طرح حضرت ابو بکر کی والدہ نے شروع میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا.حضرت ابو بکر کی پیدائش کے بارے میں جو روایات ہیں ان میں اصابہ جو صحابہ کی سوانح پر ایک مستند کتاب ہے اس کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق عام الفیل کے دو سال چھ ماہ بعد پید اہوئے.10 9 تاریخ طبری اور طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ : لقب عتیق کی وجہ تسمیہ الله آپ عام الفیل کے تین سال کے بعد پیدا ہوئے.11 اسی طرح حضرت ابو بکر" کے لقب ہیں.دو لقب مشہور ہیں جو بیان کیے جاتے ہیں.ایک عقیق اور ایک صدیق.عقیق کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اس بارے میں لکھا ہے.حضرت عائشہ نے بیان فرمایا کہ حضرت ابو بکر رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا.آنْتَ عَنِيْقُ اللهِ مِنَ النَّارِ کہ تم اللہ کی طرف سے آگ سے آزاد کر دہ ہو.پس اس دن سے آپ کو عتیق کا لقب دیا گیا.12 بعض مؤرخین لقب کے بجائے حضرت ابو بکر کا نام عتیق بیان کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں یہ لقب نہیں بلکہ آپ کا نام تھا لیکن یہ درست نہیں ہے.چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں امام نودی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر کا نام عبد اللہ تھا اور یہی زیادہ مشہور اور درست ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؐ کا نام عتیق تھا لیکن درست وہی ہے جس پر اکثر علماء متفق ہیں کہ عقیق آپ کا لقب تھا نہ کہ نام.13 تھانہ سیرت ابن ہشام میں لقب عتیق کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ کے چہرے کی خوبصورتی کی وجہ سے اور آپ کے حسن و جمال کی وجہ سے آپ کو عتیق کہا جاتا تھا.14 سیرت ابن ہشام کی شرح میں عقیق لقب کی درج ذیل وجوہات بیان کی گئی ہیں.عتیق کا مطلب ہے
اصحاب بدر جلد 2 5 حضرت ابو بکر صدیق الحسَن یعنی عمدہ صفات والا.گویا کہ آپ کو مذمت اور عیوب سے بچایا گیا تھا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو عقیق اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کی والدہ کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا.انہوں نے نظر مانی کہ اگر ان کے ہاں بچہ ہوا تو وہ اس کا نام عبد الکعبہ رکھیں گی اور اس کو کعبہ کے لیے وقف کر دیں گی.جب آپ زندہ رہے اور جوان ہو گئے تو آپ کا نام عتیق پڑ گیا گویا کہ آپ موت سے نجات دیے گئے.15 ان کے علاوہ بھی لقب عتیق کی مختلف وجوہات ملتی ہیں.بعض لوگوں کے مطابق آپ کو عقیق اس لیے کہا جاتا تھا کہ آپ کے نسب میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کی وجہ سے اس پر عیب لگایا جاتا.16 عتیق کا ایک معنی قدیم یا پرانے کے بھی ہیں.اس لیے حضرت ابو بکر ھو عتیق اس وجہ سے بھی کہا جاتا تھا کہ آپؐ قدیم سے نیکی اور بھلائی کرنے والے تھے.17 اسی طرح اسلام قبول کرنے میں اور بھلائی میں پہل کرنے کی وجہ سے آپ کا لقب عتیق رکھا گیا تھا.18 لقب صدیق کی وجہ تسمیہ اور جو دوسر القب ہے صدیق اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ کیوں 'صدیق نام رکھا گیا.علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں کہ جہاں تک صدیق کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ لقب آپ کو دیا گیا تھا اس سچائی کی وجہ سے جو آپ سے ظاہر ہوتی رہی.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت علی ملی یکم آپ کو جو خبریں بتایا کرتے تھے ان کے متعلق رسول اللہ صلی علیم کی تصدیق میں جلدی کرنے کی وجہ سے آپ کا نام صدیق پڑ گیا.19 حضرت عائشہ نے بیان فرمایا کہ جب رات کے وقت نبی کریم صلی الل ولم کو بیت المقدس مسجد اقصی کی طرف لے جایا گیا یعنی واقعہ اسراء جو ہوا تھا تو صبح کو لوگ اس واقعہ کے متعلق باتیں کرنے لگے.جب آپ نے بتایا اور لوگوں میں سے بعض جو آپ پر ایمان لائے تھے اور انہوں نے آپ کی تصدیق بھی کی تھی وہ پیچھے ہٹ گئے.بعض کمزور ایمان ایسے بھی تھے.اس وقت مشرکین میں سے کچھ لوگ حضرت ابو بکر کے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے کیا آپ کو اپنے ساتھی کے بارے میں کچھ معلوم ہے کہ وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں رات کو بیت المقدس لے جایا گیا تھا.حضرت ابو بکر نے کہا کیا واقعی آپ نے یہ فرمایا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں انہوں نے کہا ہے.اس پر حضرت ابو بکڑ نے کہا اگر آپ نے یہ فرمایا ہے تو یقینا سچ کہا ہے.لوگوں نے کہا کیا تم ان کی تصدیق کرتے ہو کہ رات کو بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے ؟ کیونکہ یہ بیت المقدس مکہ سے تقریباً تیرہ سو کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے.تو حضرت ابو بکر نے کہا کہ ہاں میں اُس کی بھی تصدیق کروں گا جو اس سے بھی بعید ہے.پھر حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ میں صبح شام اترنے والی آسمانی خبر کے بارے میں بھی آپ کی تصدیق کرتا ہوں.چنانچہ اس
اصحاب بدر جلد 2 6 حضرت ابو بکر صدیق وجہ سے حضرت ابو بکر کا نام صدیق پڑ گیا، آپ کو صدیق کہا جانے لگا.20 حضرت ابو ہریرہ کے آزاد کردہ غلام ابو وہب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جس رات مجھے لے جایا گیا یعنی واقعہ اسراء میں تو میں نے جبریل سے کہا یقیناً میری قوم میری تصدیق نہیں کرے گی یعنی میری بات کو سچ نہیں مانے گی تو جبریل نے کہا.يُصَدِقكَ أَبُو بَكْرٍ وَهُوَ الصَّدِيقُ یعنی آپ کی تصدیق ابو بکر کریں گے اور وہ صدیق ہیں.یہ طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے.21 حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی روایت یہ ہے کہ جب اسراء کا واقعہ ہوا تو لوگ دوڑے دوڑے حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور ان سے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کا دوست کیا کہتا ہے ؟ انہوں نے کہا کیا کہتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ کہتا ہے کہ میں رات بیت المقدس تک ہو کر آیا ہوں.“ حضرت مصلح موعود لکھ رہے ہیں کہ ”اگر معراج کا ذکر ساتھ ہی آپ نے کیا ہوتا“ یعنی ایک ہی وقت میں بتایا ہو تا یا ایک ہی واقعہ ہو تا تو کفار اس حصہ پر زیادہ شور کرتے مگر انہوں نے صرف یہ کہا کہ آنحضرت صلی علی کرم فرماتے ہیں کہ میں رات کو بیت المقدس تک گیا تھا.پھر جب ابو بکر نے آنحضرت علی ملی یکم کی تصدیق کی تو لوگوں نے کہا: کیا آپ اس خلاف عقل بات کو بھی مان لیں گے ؟ حضرت ابو بکڑ نے کہا: میں تو اس کی یہ بات بھی مان لیتا ہوں کہ صبح شام اس پر آسمان سے کلام اتر تا ہے.22% الله سة اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ میں کیا کیا کمالات تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ ہم نے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب دیا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ میں کیا کیا کمالات تھے.آنحضرت صلی للی کم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل کے اندر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت میں حضرت ابو بکر نے جو صدق دکھایا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اس کے لئے ضروری ہے کہ ابو بکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتی المقدور دعا سے کام لے.جب تک ابوبکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جا تا صدیقی کمالات حاصل نہیں ہو سکتے.“ آپ کے دیگر القابات 2366 عتیق اور صدیق کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر کے دیگر القابات بھی تھے یعنی جیسے خَلِيفَةُ رَسُولِ اللہ.حضرت ابو بکر صدیق کو خلیفہ رسول اللہ بھی کہا جاتا تھا.چنانچہ ایک روایت میں ذکر ہے ایک آدمی نے حضرت ابو بکر سے کہا پا خلیفة اللہ ! اے اللہ کے خلیفہ تو آپ نے فرمایا خلیفتہ اللہ نہیں بلکہ خلیفہ رسول اللہ.یعنی رسول اللہ صلی علی کم کا خلیفہ ہوں اور میں اسی پر راضی ہوں.24
حاب بدر جلد 2 7 حضرت ابو بکر صدیق صحیح بخاری کے شارح علامہ بدر الدین عینی بیان کرتے ہیں کہ مؤرخین وغیرہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کا لقب خلیفہ رسول اللہ تھا.25 لیکن ظاہر ہے کہ حضرت ابو بکر کا یہ لقب آنحضرت صلی علیہ کرم کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہونے کی وجہ سے دیا گیا تھا.اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے آنحضرت صلی علیم کے زمانے کا یہ لقب ہے.بعد کی بات ہے.لوگوں نے نام رکھایا آپ نے خود اپنے لیے پسند کیا..ایک یہ بھی لقب ہے.آوان کا معنی ہے بہت ہی بردبار اور نرم دل.طبقات کبری میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر کو ان کی نرمی اور رحمت کی وجہ سے آواۃ کہا جاتا تھا.6 آواه منيب 26 آواه منیب کا مطلب ہے بہت ہی بُردبار، نرم دل اور جھکنے والا.طبقات کبریٰ میں ہے کہ میں نے حضرت علی کو سنا وہ منبر پر کہہ رہے تھے غور سے سنو.راوی نے کہا حضرت علی کو سنا وہ منبر پر کہہ رہے تھے کہ غور سے سنو کہ حضرت ابو بکر بہت ہی بردبار، نرم دل اور جھکنے والے تھے.غور سے سنو کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر کو خیر خواہی عطا کی جس کے نتیجہ میں وہ خیر خواہ ہو گئے.7 27 أمير الشاكرين یہ بھی ایک لقب کہا جاتا ہے.آمیر الشاکرین کے معنی ہیں شکر کرنے والوں کا سر دار.حضرت ابو بکر صدیق کو کثرت شکر کی وجہ سے امیر الشاکرین کہا جاتا تھا.عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کو امیر الشاکرین کے لقب سے پکارا جاتا تھا.28 ثانِي اثْنَيْنِ یہ بھی ایک لقب کہا جاتا ہے.حضرت ابو بکر صدیق کو اللہ تعالیٰ نے ثانِيَ اثْنَيْنِ کے لقب سے پکارا ہے.اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَانْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ (40) کہ اگر تم اس رسول کی مدد نہ بھی کرو تو اللہ تعالیٰ پہلے بھی اس کی مدد کر چکا ہے جب اسے ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا وطن سے نکال دیا تھا اس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا جب وہ دونوں غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے.پس اللہ نے اس پر اپنی سکینت نازل کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ”اللہ نے تکلیف دہ وقت اور مشکل حالات میں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آپ کے ذریعہ تسلی فرمائی اور الصدیق کے نام اور نبی ثقلین کے قرب مخصوص فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثانی اثنین کی خلعت فاخرہ سے فیضیاب فرمایا اور اپنے خاص
اصحاب بدر جلد 2 8 حضرت ابو بکر صدیق الخاص بندوں میں سے بنایا کیا تمہیں کسی ایسے شخص کا علم ہے جسے قاني افدین کے نام سے موسوم کیا گیا اور نبی دو جہان کے رفیق کا نام دیا گیا ہو اور اس فضیلت میں شریک کیا گیا ہو کر ان الله معنا اور اسے دو تائید یافتہ میں سے ایک قرار دیا گیا ہو.کیا تم کسی ایسے شخص کو جانتے ہو جس کی قرآن میں اس تعریف جیسی تعریف کی گئی ہو اور جس کے مخفی حالات سے شبہات کے ہجوم کو دور کر دیا گیا ہو اور جس کے بارے میں نصوص صریحہ سے نہ کہ ظنی شکی باتوں سے یہ ثابت ہو کہ وہ مقبولین بارگاہ الہی میں سے ہیں.بخدا اس قسم کا صریح ذکر جو تحقیق سے ثابت شدہ ہو جو حضرت ابو بکر صدیق سے مخصوص ہے میں نے رب بيت عتیق کے صحیفوں میں کسی اور شخص کے لئے نہیں دیکھا.پس اگر تجھے میری اس بات کے متعلق شک ہو یا تمہارا یہ گمان ہو کہ میں نے حق سے گریز کیا ہے تو قرآن سے کوئی نظیر پیش کرو اور ہمیں دکھاؤ کہ فرقان حمید نے کسی اور شخص کے لئے ایسی صراحت کی ہو اگر تم سچوں میں سے ہو.29 سر الخلافہ میں آپ نے یہ فرمایا.صاحب الرسول پھر ایک لقب صاحب الرسول بھی ہے.اس کا مطلب ہے رسول کا سا تھی.حضرت ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک جماعت سے کہا تم میں سے کون سورہ توبہ پڑھے گا.ایک شخص نے کہا میں پڑھتا ہوں.پھر جب وہ آیت اِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنُ کہ جب وہ اپنے ساتھی سے کہ رہا تھا کہ غم نہ کر، یہاں تک پہنچا تو حضرت ابو بکر رو پڑے اور فرمایا اللہ کی قسم! میں ہی آپ صلی الغیر ظلم کا سا تھی تھا.30 آدم ثانی پھر آدم ثانی ایک لقب ہے.حضرت ابو بکر کا یہ وہ لقب ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو عطا فرمایا ہے ، آپ نے حضرت ابو بکر کو آدم ثانی قرار دیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک مکتوب میں بیان فرماتے ہیں ابو بکر جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اگر دین میں سچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لئے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے.314 سر الخلافہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں :.ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ”اور بخدا آپ اسلام کے لئے آدم ثانی اور خیر الانام ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے انوار کے مظہر اول تھے.32 پھر خلیل الرسول ایک لقب ہے.سیرت کی کتابوں میں خلیل الرسول بھی حضرت ابو بکر کا لقب بیان کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد کتب حدیث میں موجود ایک روایت ہے کہ آنحضور صلی اینم نے فرمایا: اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا.چنانچہ صحیح بخاری میں ہے.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ
اصحاب بدر جلد 2 9 حضرت ابو بکر صدیق مرض الموت کے دوران آنحضور صلی الم نے فرمایا: اگر میں نے لوگوں میں سے کسی کو خلیل بنانا ہو تا تو ضرور حضرت ابو بکر کو ہی خلیل بناتا لیکن اسلام کی دوستی سب سے افضل ہے.اس مسجد میں تمام کھڑکیوں کو میری طرف سے بند کر دو سوائے ابو بکر کی کھڑکی کے.33 ہمارے ریسرچ سیل نے یہاں یہ سوال اٹھایا ہے اور سوال ان کا ٹھیک ہے کہ اس روایت سے صرف یہ ثابت ہو تا ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ تم اپنا خلیل کسی کو بناتے تو حضرت ابو بکر کو بناتے لیکن بنایا نہیں.اس بات کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی ایک جگہ فرما دی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی علیم کے اس قول کہ اگر میں کسی کو دنیا میں خلیل بناتا تو حضرت ابو بکر کو بناتا کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ”یہ جملہ بھی قابل تشریح ہے.حضرت ابو بکر کو آپ دوست تو رکھتے تھے.پھر اس کا کیا مطلب؟ بات اصل میں یہ ہے کہ خُلت اور دوستی تو وہ ہوتی ہے جو رگ و ریشہ میں دھنس جائے.وہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ اور اس کے لئے مخصوص ہے.دوسروں کے ساتھ محض اخوت اور برادری ہے.خُلّت کا مفہوم ہی یہی ہے کہ وہ اندر دھنس جاوے“ یعنی محلت کی اعلیٰ قسم کی جو پہچان ہے وہ یہ ہے.اعلیٰ مقام ہے ” جیسے یوسف زلیخا کے اندر رچ گیا تھا.بس یہی معنے آنحضرت صلی لی ایم کے اس پاک فقرہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تو کوئی شریک نہیں.دنیا میں اگر کسی کو دوست رکھتا تو ابو بکر ھور کھتا." اللہ تعالیٰ کا تو ایک مقام ہے اس جیسا مقام کسی کو نہیں مل سکتا لیکن بہر حال جو دنیا کی دوستی ہے اس میں اگر کوئی دوستی ہے تو ابو بکر کی.یعنی دوستی تو تھی لیکن اللہ تعالیٰ سے دوستی کے مقابلے میں نہیں کہا جا سکتا تھا کہ دوستی ہے.دنیا کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ جیسی دوستی کرنا ایک نبی کے لئے اور خاص طور پر آنحضرت صلی الم کے لئے تو ممکن ہی نہیں تھا یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا.اگر کوئی بات دنیاداری کے لحاظ سے ممکن تھی تو پھر آپ نے فرمایا کہ اس مقام کے سب سے زیادہ حق دار ابو بکر ہیں.34" کنیت ابو بکر کی وجہ تسمیہ آپ کی کنیت کیا تھی؟ حضرت ابو بکر کی کنیت ابو بکر تھی اور اس کی ایک سے زائد وجوہ بیان کی جاتی ہیں.بعض کے نزدیک بکر جوان اونٹ کو کہتے ہیں.چونکہ آپ کو اونٹوں کی پرورش اور غور و پرداخت میں بہت دلچسپی اور مہارت تھی اس لیے لوگوں نے آپ کو ابو بکر کہنا شروع کر دیا.بکر کا ایک معنی جلدی کرنا بھی ہے.پہل کرنے کے بھی ہوتے ہیں.بعض کے بقول یہ کنیت اس لیے پڑی کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے.إِنَّهُ بَكَرَ اِلَى الْإِسْلَامِ قَبْلَ غَيْرِہ.انہوں نے دوسروں سے پہلے اسلام کی طرف پیش قدمی کی.35 علامہ زمخشری نے لکھا ہے کہ ان کو پاکیزہ خصلتوں میں ابتکار یعنی پیش پیش ہونے کی وجہ سے ابو بکر کہا جاتا تھا.36
حاب بدر جلد 2 10 حضرت ابو بکر صدیق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے حلیہ کے بارہ میں روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک عربی شخص کو دیکھا جو پیدل چل رہا تھا اور آپ اس وقت اپنے ہودج میں تھیں.آپ نے فرمایا: میں نے اس شخص سے زیادہ حضرت ابو بکر سے مشابہ کوئی شخص نہیں دیکھا.راوی کہتے ہیں کہ ہم نے کہا کہ آپ ہمارے لیے حضرت ابو بکر کا حلیہ بیان کریں تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر گورے رنگ کے شخص تھے.دبلے پتلے تھے.رخساروں پر گوشت کم تھا.کمر ذرا خمیدہ تھی، ذرا جھکی ہوئی تھی کہ آپ کا تہبند بھی کمر پر نہیں رکتا تھا اور نیچے سرک جاتا تھا.چہرہ کم گوشت والا تھا.آنکھیں اندر کی طرف تھیں اور پیشانی بلند تھی.37 حیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا: جو غرور سے اپنا کپڑا گھسیٹ کر چلا تو اللہ روز قیامت اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گا.حضرت ابو بکر نے کہا کہ میرے کپڑے کی ایک طرف ڈھیلی رہتی ہے یعنی ایک سائیڈ جو ہے وہ ڈھیلی رہتی ہے اور نیچے آجاتی ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خاص خیال رکھوں.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا.آپ تو غرور سے ایسا نہیں کرتے.38 یہ جائز ہے.کوئی بات نہیں.حضرت ابو بکر مہندی اور کشم سے خضاب لگایا کرتے تھے.گتخر.یہ بوٹی بلند پہاڑوں پر اگتی ہے اور وسمہ کے ساتھ ملا کر لگائی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ بالوں کو سیاہ رنگت دی جاتی تھی.40 آپ کا پیشہ تجارت 39 اسلام قبول کرنے سے پہلے حضرت ابو بکر کے پیشہ اور قریش میں آپ کے مقام کے بارے میں تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر اپنی قوم میں مقبول اور محبوب تھے.آپ نرم مزاج شخص تھے.قریش کے حسب و نسب اور اس کی اچھائی اور برائی کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے.آپ تجارت کرنے والے شخص تھے اور اچھے اخلاق اور نیکیوں کے مالک تھے.آپ کی قوم کے لوگ ایک سے زائد باتوں کی وجہ سے آپ کے پاس آتے اور آپ سے محبت رکھتے تھے.یعنی آپ کے علم کی وجہ سے، آپ کے تجربات کی وجہ سے اور آپؐ کی اچھی مجلسوں کی وجہ سے.41 - محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ قریش کی ساری قوم تجارت پیشہ تھی اور اس کا ہر فرد اسی شغل میں مشغول تھا.چنانچہ ابو بکر نے بھی بڑے ہو کر کپڑے کی تجارت شروع کر دی جس میں انہوں نے غیر معمولی فروغ حاصل کیا اور ان کا شمار بہت جلد مکہ کے نہایت کامیاب تاجروں میں ہونے لگا.تجارت کی کامیابی میں ان کی جاذب نظر شخصیت اور بے نظیر اخلاق کو بھی بڑا خاصاد خل تھا.42
صحاب بدر جلد 2 11 حضرت ابو بکر صدیق رسول کریم ملی ایم کی بعثت کے وقت حضرت ابو بکر شکار اس المال چالیس ہزار درہم تھا.آپ اس میں سے غلاموں کو آزاد کرواتے اور مسلمانوں کی خبر گیری کرتے رہے یہاں تک کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو اس وقت آپ کے پاس پانچ ہزار درہم باقی تھے.43 قریش میں اعلیٰ مقام کے حامل اسلام سے قبل کے بعض واقعات ہیں.حضرت ابو بکر اپنی مالی وسعت اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے قریش میں اعلیٰ مقام کے حامل تھے.آپ رؤسائے قریش میں سے تھے اور ان کے مشوروں کے محور تھے.آپ سب سے زیادہ پاکیزہ اور نیک لوگوں میں سے تھے.آپ رئیس، معزز، سخی تھے اور بکثرت اپنا مال خرچ کیا کرتے تھے.اپنی قوم میں ہر دلعزیز اور محبوب تھے.اچھی مجلسوں والے تھے.الله تعبیر الرؤیا اور حسب و نسب کے عالم آپ تعبیر الرؤیا میں لوگوں سے زیادہ علم رکھنے والے تھے یعنی آپ کا اس بارے میں بہت علم تھا.تعبیر الرؤیا کے بہت بڑے عالم ابن سیرین کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی یکم کے بعد حضرت ابو بکر اس امت کے سب سے بڑے تعبیر الرؤیا کے عالم تھے اور آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اہل عرب کے سب و نسب کو جاننے والے تھے.جبير بن مطعم جو کہ اس فن، علم الانساب میں کمال تک پہنچے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ میں نے نسب کا علم حضرت ابو بکر سے سیکھا ہے.خاص طور پر قریش کا حسب و نسب کیونکہ حضرت ابو بکر قریش میں سے قریش کے حسب و نسب اور جو اچھائیاں اور برائیاں ان کے نسب میں تھیں ان کا آپ سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے اور آپ ان کی برائیوں کا تذکرہ نہیں کرتے تھے یعنی حضرت ابو بکر برائیوں کا تذکرہ نہیں کرتے تھے.اسی وجہ سے آپ حضرت عقیل بن ابو طالب کی نسبت ان میں زیادہ مقبول تھے.حضرت عقیل حضرت ابو بکر کے بعد قریش کے حسب و نسب اور ان کے آبا و اجداد اور ان کی اچھائیوں اور برائیوں کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے مگر حضرت عقیل قریش کو ناپسندیدہ تھے کیونکہ وہ قریش کی برائیاں بھی گنوا دیتے تھے.حضرت عقیل مسجد نبوی میں نسب ناموں، عرب کے حالات و واقعات کا علم حاصل کرنے کے لیے حضرت ابو بکر کے پاس بیٹھا کرتے تھے.اہل مکہ کے نزدیک حضرت ابو بکر ان کے بہترین لوگوں میں سے تھے چنانچہ جب بھی انہیں کوئی مشکل پیش آتی وہ آپ سے مدد طلب کر لیا کرتے تھے.44 خون بہا اور دیتوں کا عہدہ ان کے سپر د تھا مکہ میں بسنے والے تمام قبائل کو کعبہ کے مناصب کے لحاظ سے کوئی نہ کوئی منصب حاصل ہو تا تھا اور کوئی فریضہ تفویض ہو تا تھا.بنو عبد مناف کے سپر د حاجیوں کے لیے پانی کی فراہمی اور انہیں ضروری آسائشیں فراہم کرنے کا کام سونپا گیا تھا.بنو عبد الدار کے ذمہ جنگ کے وقت علمبر داری، کعبہ کی دربانی
اصحاب بدر جلد 2 12 حضرت ابو بکر صدیق 45 اور دارالندوہ کا انتظام تھا.لشکروں کی سپہ سالاری حضرت خالد بن ولید کے قبیلہ بنو مخزوم کے حصہ میں آئی تھی.خون بہا اور دیتیں اکٹھا کرنا حضرت ابو بکر کے قبیلہ بنوتیم بن مرہ کا کام تھا.جب حضرت ابو بکر صدیق جوان ہوئے تو یہ خدمت ان کے سپر د کر دی گئی.5 جب حضرت ابو بکر کسی چیز کی دیت کا فیصلہ کرتے تو قریش آپ کی تصدیق کرتے اور آپ کی دیت کا لحاظ کرتے اور اگر آپ کے علاوہ کوئی اور دیت کا فیصلہ کرتا تو قریش اس کو چھوڑ دیتے اور اس کی تصدیق نہ کرتے تھے.46 حلف الفضول میں شمولیت حلف الفضول میں حضرت ابو بکر کی بھی شمولیت تھی.یہ غریبوں کی مدد کا، مظلوموں کی مدد کا وہ خاص معاہدہ تھا جس کا ” قدیم زمانہ میں عرب کے بعض شریف دل اشخاص کو یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ باہم مل کر عہد کیا جاوے کہ ہم ہمیشہ حق دار کو اس کا حق حاصل کرنے میں مدد دیں گے اور ظالم کو ظلم سے روکیں گے اور عربی میں چونکہ حق کو فضل بھی کہتے ہیں جس کی جمع فضول ہے اس لئے اس معاہدہ کا نام حلف الفُضُول رکھا گیا.بعض روایتوں کی رو سے چونکہ اس تجویز کے محرک ایسے شخص تھے جن کے ناموں میں فضل کا لفظ آتا تھا اس لئے یہ عہد حلف الفضول کے نام سے مشہور ہو گیا.بہر حال حرب فجار کے بعد اور غالباً اسی جنگ سے متاثر ہو کر آنحضرت صلی علیہم کے چاز بیر بن عبد المطلب کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس حلف کو پھر تازہ کیا جائے.چنانچہ اس کی تحریک پر بعض قبائل قریش کے نمائندگان عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے جہاں عبد اللہ بن جدعان کی طرف سے ایک دعوت کا انتظام تھا اور پھر سب نے اتفاق کر کے باہم قسم کھائی کہ ہم ہمیشہ ظلم کو روکیں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے.اس عہد میں حصہ لینے والوں میں بنو ہاشم، بنو مطلب بنو اسد، بنوزہرہ اور بنو تیم شامل تھے.آنحضرت صلی الہیہ کم بھی اس موقعہ پر موجود تھے اور شریک معاہدہ تھے.چنانچہ آپ ایک دفعہ نبوت کے زمانہ میں فرماتے تھے کہ میں عبد اللہ بن مجدعان کے مکان پر ایک ایسی قسم میں شریک ہوا تھا کہ اگر آج اسلام کے زمانہ میں بھی مجھے کوئی اس کی طرف بلائے تو میں اس پر لبیک کہوں گا.47 ایک مصنف حضرت ابو بکر کی بھی حلف الفضول میں شمولیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس انجمن میں آنحضور علی ملی کی بھی شامل ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق بھی شامل ہوئے تھے.48 آنحضرت صلی الم سے دوستی کا تعلق بعثت سے قبل رسول کریم صلی ال نیم سے آپ کا تعلق اور دوستی کا حال یوں بیان ہوا ہے.ابن اسحاق اور ان کے علاوہ بعض اور لوگوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابو بکر بعثت سے قبل رسول اللہ صلی ال نیم کے ساتھی تھے.وہ آپ صلی علی کرم کے صدق اور امانت اور آپ کی پاک فطرت اور عمدہ اخلاق سے اچھی طرح
اصحاب بدر جلد 2 13 حضرت ابو بکر صدیق واقف تھے.ایک اور روایت میں ذکر ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی حضرت ابو بکر رسول کریم صلی الی یکم کے دوست تھے.49 سیر الصحابہ میں لکھا ہے کہ آنحضرت علی ایم کے ساتھ بچپن ہی سے ان کو یعنی حضرت ابو بکر کو خاص انس اور خلوص تھا اور آپ میلی لی ایم کے حلقہ احباب میں داخل تھے.اکثر تجارت کے سفروں میں بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہو تا تھا.50 آنحضرت صلی الل نام کا حلقہ احباب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بعثت سے قبل رسول کریم ملی ایم کے حلقہ احباب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” بعثت سے پہلے آنحضرت صلی علیہ ظلم کے دوستانہ تعلقات کا دائرہ بہت ہی محدود نظر آتا ہے.دراصل شروع سے ہی آپ کی طبیعت علیحدگی پسند تھی اور آپ نے اپنی عمر کے کسی حصہ میں کبھی مکہ کی عام سوسائٹی میں زیادہ خلا ملا نہیں کیا.تاہم بعض ایسے لوگ بھی تھے جن کے ساتھ آپ کے دوستانہ تعلقات تھے.ان سب میں ممتاز حضرت ابو بکر یعنی عبد اللہ بن ابی قحافہ تھے.جو قریش کے ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی شرافت اور قابلیت کی وجہ سے قوم میں بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.دوسرے درجہ پر حکیم بن حزام تھے جو حضرت خدیجہ کے بھتیجے تھے.یہ نہایت شریف الطبع آدمی تھے.شروع شروع میں یہ اسلام نہیں لائے لیکن اس حالت میں بھی آنحضرت صلی علی یم سے بہت محبت اور اخلاص رکھتے تھے.آخر سعادت طبعی اسلام کی طرف کھینچ لائی.پھر زید بن عمرو سے بھی آنحضرت صلی اللہ وسلم کے تعلقات تھے.یہ صاحب حضرت عمرؓ کے قریبی رشتہ دار تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں ہی شرک ترک کر رکھا تھا اور اپنے آپ کو دین ابراہیمی کی طرف منسوب کرتے تھے مگر یہ اسلام کے زمانہ سے پہلے ہی فوت ہو گئے.51 شرک اور بتوں سے نفرت بہر حال حضرت ابو بکر آنحضرت صلی علیم کے ساتھ تعلقات میں نمبر ایک پر تھے.زمانہ جاہلیت سے ہی حضرت ابو بکر کو شرک سے نفرت تھی اور اجتناب کرتے تھے.حضرت ابو بکڑ نے زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی شرک نہیں کیا اور نہ کبھی کسی بت کو سجدہ کیا چنانچہ سیرۃ حلبیہ میں لکھا ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ یقیناً حضرت ابو بکر نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا تھا.علامہ ابن جوزی نے حضرت ابو بکر کو ان لوگوں میں شمار کیا ہے جنہوں نے جاہلیت میں ہی بتوں کی عبادت سے انکار کر دیا تھا یعنی وہ کبھی بتوں کے پاس نہیں گئے.52 زمانہ جاہلیت میں آپ کو شراب سے نفرت تھی.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر نے زمانہ جاہلیت میں شراب کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا.آپ نے نہ جاہلیت میں اور نہ ہی اسلام میں کبھی شراب پی.53
حاب بدر جلد 2 14 حضرت ابو بکر صدیق ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم کے صحابہ کے مجمع میں حضرت ابو بکر سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے زمانہ جاہلیت میں بھی شراب پی.اس پر حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: آعُوذُ بِاللہ.میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں.پوچھا گیا اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت ابو بکڑ نے فرمایا میں اپنی عزت کو بچاتا تھا اور اپنی پاکیزگی کی حفاظت کر تا تھا کیونکہ جو شخص شراب پیتا ہے وہ اپنی عزت اور پاکیزگی کو ضائع کرتا ہے.راوی کہتے ہیں کہ جب یہ بات رسول اللہ صلی یہ کم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا صَدَقَ أَبُو بَكْرٍ - صَدَقَ أَبُو بَكْرٍ.یعنی ابو بکر نے سچ کہا.ابو بکر نے سچ کہا.آپ نے دو مر تبہ یہ فرمایا.54 آپ کا قبول اسلام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے بارے میں مختلف جگہوں پر روایات ملتی ہیں.بعض تفصیلی ہیں.بعض مختصر ہیں.بہر حال یہ بھی کچھ بیان کر دیتا ہوں.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میرے ماں باپ اسی دین یعنی اسلام پر تھے اور ہم پر کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ جس میں رسول اللہ صلی للی تم ہمارے پاس صبح شام دونوں وقت نہ آئے ہوں.55 حضرت ابو بکڑ کے قبولِ اسلام کے بارے میں مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں.شرح زرقانی میں حضرت ابو بکر کے قبولِ اسلام کا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن حضرت ابو بکر حکیم بن حزام کے گھر میں تھے.اس وقت ان کی لونڈی آئی اور کہنے لگی کہ تیری پھوپھی خدیجہ یہ بیان کرتی ہے کہ اس کا خاوند موسیٰ کی مانند بطور نبی بھیجا گیا ہے.اس پر حضرت ابو بکر وہاں سے چپکے سے نکلے یہاں تک کہ آپ نبی کریم صلی الیوم کے پاس آئے اور اسلام قبول کر لیا.56 سیرت ابن ہشام کی شرح الروضُ الأنف میں حضرت ابو بکر کی ایک رؤیا اور اسلام لانے کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللی کم کی بعثت سے قبل حضرت ابو بکر نے ایک خواب دیکھا.انہوں نے دیکھا کہ چاند مکہ میں اتر آیا ہے.پھر انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر مکہ کی تمام جگہوں اور گھروں میں پھیل گیا ہے.اس کا ایک ایک ٹکڑا ہر گھر میں داخل ہو گیا ہے اور پھر گویاوہ چاند آپ کی گود میں اکٹھا کر دیا گیا ہے.حضرت ابو بکر نے بعض اہل کتاب علماء سے اس خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ تعبیر بتائی کہ وہ نبی جس کا انتظار کیا جارہا ہے اس کا زمانہ آگیا ہے اور آپ اس نبی کی پیروی کریں گے اور اس وجہ سے لوگوں میں سب سے زیادہ آپ سعادت مند ہوں گے.پھر جب رسول اللہ صلی اللی کلم نے حضرت ابو بکر کو دعوت اسلام دی تو انہوں نے توقف نہ کیا.57 سبل الھدی میں حضرت ابو بکر کے قبول اسلام کے بارے میں ایک روایت یوں بیان ہوئی ہے کہ کعب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق کے اسلام لانے کا سبب آسمان سے نازل ہونے والی ایک وحی تھی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابو بکر شام میں تجارت کی غرض سے گئے ہوئے تھے.
اصحاب بدر جلد 2 15 حضرت ابو بکر صدیق وہاں آپ نے ایک رؤیا د یکھی اور اس رویا کو بھی بڑا راہب سے بیان کیا.اس پر بھی پیڑا راہب نے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ مکہ سے.اس نے پوچھا: مکہ کے کون سے قبیلہ سے ؟ آپ نے جواب دیا کہ قریش سے.اس نے پوچھا: آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تاجر ہوں.اس پر بحيرا راہب نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی رؤیا کو سچ کر دکھایا تو تمہاری قوم میں سے ایک نبی مبعوث کیا جائے گا.تم اس نبی کی زندگی میں اس کے وزیر ہو گے اور اس کی وفات کے بعد اس کے خلیفہ ہو گے.پھر حضرت ابو بکر نے اسے مخفی رکھا یہاں تک کہ نبی کریم صلی ای ام مبعوث ہو گئے تو حضرت ابو بکر نے کہا.اے محمد صلی علیکم ! آپ جو دعویٰ کرتے ہیں اس کی دلیل کیا ہے ؟ باقی جگہ تو کوئی دلیل نہیں کبھی مانگی لیکن بہر حال اس روایت میں یہ ہے.نبی کریم صلی نیلم نے فرمایا وہ خواب جو تم نے شام میں دیکھی تھی وہی دلیل ہے.اس پر حضرت ابو بکڑ نے آپ صلی الیہ کم سے معانقہ کیا اور آپ کی آنکھوں کے درمیان بوسہ لیا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.58 اس روایت میں حضرت ابو بکر کی ایک رویا کا تذکرہ ہوا ہے لیکن اس کی تفصیلات اس جگہ درج نہیں کہ اس رویا میں حضرت ابو بکر نے کیا دیکھا تھا تاہم سیرت حلبیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسی رؤیا کی طرف اشارہ ہے جس میں حضرت ابو بکڑ نے دیکھا کہ چاند ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرا ہے جس کا پہلے تذکرہ گزر چکا ہے ، پہلے بیان ہو چکا ہے.اب حضرت ابو بکر نے اس رویا کا ذکر بحیرا راہب کے سامنے کیا تھا.اسد الغابہ میں حضرت ابو بکڑ کے قبول اسلام کے واقعہ کا اس طرح ذکر ملتا ہے.59 حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی علیکم کے مبعوث ہونے سے پہلے ایک مرتبہ یمن گیا اور قبیلہ ازد کے ایک بوڑھے شخص کے پاس مہمان ٹھہرا.یہ شخص ایک عالم تھا، کتب سماویہ پڑھا ہوا تھا اور اسے لوگوں کے حسب و نسب کے علم میں مہارت حاصل تھی.اس نے جب مجھے دیکھا تو کہا میر اخیال ہے کہ تم حرم کے رہنے والے ہو.میں نے کہا ہاں میں اہل حرم میں سے ہوں.پھر اس نے کہا تم کو قریشی سمجھتا ہوں.میں نے کہا ہاں میں قریش میں سے ہوں.پھر اس نے کہا میں تم کو تیمی سمجھتا ہوں.میں نے کہا ہاں میں تیم بن مرہ میں سے ہوں.میں عبد اللہ بن عثمان ہوں اور کعب بن سعد بن تیم بن مرہ کی اولا د سے ہوں.اس نے کہا کہ میرے لیے تمہارے متعلق اب صرف ایک بات رہ گئی ہے.یہاں یہ جو عبد اللہ بن عثمان نام بتانا ہے ، میر اخیال ہے کہ اس وقت تو آنحضرت صلی اللہ کریم نے ابھی ان کا نام عبد اللہ نہیں رکھا تھا لیکن یہ روایت ہے.بہر حال اس نے کہا کہ میرے لیے تمہارے متعلق اب صرف ایک بات باقی رہ گئی ہے.میں نے کہا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا تم اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا کر دکھاؤ.میں نے کہا میں ایسانہ کروں گا یا تم مجھے بتاؤ تم ایسا کیوں چاہتے ہو.اس نے کہا کہ میں صحیح اور سچے علم میں پاتا ہوں کہ ایک نبی حرم میں مبعوث ہوں گے.ایک جوان اور ایک بڑی عمر والا شخص ان کے کام میں ان کی مدد کریں گے.
اصحاب بدر جلد 2 16 حضرت ابو بکر صدیق جہاں تک نوجوان کا تعلق ہے تو وہ مشکلات میں کو د جانے والا اور پریشانیوں کو روکنے والا ہو گا اور بڑی عمر والا سفید اور پتلے جسم والا ہو گا اس کے پیٹ پر تل ہو گا اور اس کی بائیں ران پر ایک علامت ہو گی.اس نے کہا تمہارے لیے ضروری نہیں ہے کہ تم مجھے وہ دکھاؤ جو میں نے تم سے مطالبہ کیا ہے تم میں موجود باقی تمام صفات میرے لیے پوری ہو چکی ہیں سوائے اس کے جو مجھ پر مخفی ہے.حضرت ابو بکڑ نے فرمایا: بس میں نے اس کے لیے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹایا تو اس نے میری ناف کے اوپر سیاہ تل دیکھا تو کہنے لگا کہ کعبہ کے رب کی قسم وہ تم ہی ہو ! الله سة میں تمہارے سامنے ایک معاملہ پیش کرنے والا ہوں.پس تم اس کے متعلق محتاط رہنا.حضرت ابو بکر نے کہا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ خبر دار ہدایت سے انحراف نہ کرنا اور مثالی اور بہترین راستے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور خداجو تمہیں مال اور دولت دے اس کے متعلق خدا سے ڈرتے رہنا.حضرت ابو بکر صدیق کہتے ہیں کہ میں نے یمن میں اپنا کام پورا کیا اور پھر اس بوڑھے شخص کو الوداع کہنے کے لیے اس کے پاس آیا تو اس نے کہا کیا تم میرے ان اشعار کو یاد کرو گے جو میں نے اس نبی کی شان میں کہے ہیں ؟ میں نے کہا ہاں تو اس نے چند اشعار سنائے.حضرت ابو بکر" کہتے ہیں کہ پھر میں مکہ آیا تو نبی کریم صلی علیکم مبعوث ہو چکے تھے.پھر عقبہ بن ابی معیط، شیبه، ربیعه، ابوجهل، ابو بختری اور قریش کے دیگر سردار میرے پاس آگئے.میں نے ان سے کہا: کیا تم پر کوئی مصیبت آگئی یا کوئی واقعہ ہو گیا ہے جو اکٹھے ہو کے آگئے ہو.انہوں نے کہا کہ اے ابو بکر ! بہت بڑا واقعہ ہو گیا ہے.ابو طالب کا یتیم دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے.اگر آپ نہ ہوتے تو ہم اس کے متعلق کچھ انتظار نہ کرتے.اب جبکہ آپ آچکے ہیں تو اب اس معاملے کے لیے آپ ہی ہمارا مقصود ہیں اور ہمارے لیے کافی ہیں.حضرت ابو بکر نے کہا کہ میں نے انہیں اچھے انداز سے ٹال دیا اور میں نے نبی کریم صلی لنی کیم کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا کہ آپ خدیجہ کے مکان میں ہیں.میں نے جا کر دروازے پر دستک دی.چنانچہ وہ باہر تشریف لائے.پس میں نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اپنے خاندانی گھر سے اٹھ گئے ہیں اور آپ نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے.آنحضرت صلی الیہ کم نے فرمایا کہ اے ابو بکر ! میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف بھی اور تم تمام لوگوں کی طرف بھی.پس تم اللہ پر ایمان لے آؤ.میں نے کہا اس پر آپ کی کیا دلیل ہے ؟ آنحضرت صلی علیہ ہم نے فرمایا وہ بوڑھا شخص جس سے تم نے یمن میں ملاقات کی تھی.میں نے کہا کہ یمن میں تو بہت سے بوڑھے نص تھے جن سے میں نے ملاقات کی ہے.آنحضرت صلی علی کریم نے فرمایا وہ بوڑھا شخص جس نے تمہیں اشعار سنائے تھے.میں نے عرض کیا کہ اے میرے حبیب! آپ سے کس نے یہ خبر بیان کی؟ آنحضرت صلی الم نے فرمایا اس عظیم فرشتے نے جو مجھ سے پہلے انبیاء کے پاس بھی آتا تھا.میں نے عرض کیا آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں.حضرت ابو بکر فرماتے تھے کہ پھر میں لوٹا اور میرے اسلام لانے کی وجہ سے مکہ کے دو پہاڑوں کے در میان رسول اللہ صلی علیہ کم سے زیادہ خوش کوئی اور نہ ہوا.60
حاب بدر جلد 2 17 حضرت ابو بکر صدیق اسد الغابہ کا یہ حوالہ ہے.ہو سکتا ہے کہ بعض جگہ بعض بڑھا بھی لیتے ہیں داستان کے لیے لیکن بہت ساری باتیں صحیح بھی ہوں گی.یالات رِيَاضُ النَّصِيرة میں حضرت ابو بکر کے قبولِ اسلام کا واقعہ اس طرح درج ہے.ام المومنین حضرت ام سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق آنحضور صلی علم کے گہرے اور مخلص دوست تھے.جب آپ مبعوث ہوئے تو قریش کے لوگ حضرت ابو بکرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ اے ابو بکر !تمہارا یہ ساتھی دیوانہ ہو گیا ہے (نعوذ باللہ ).حضرت ابو بکر نے کہا کہ اس کو کیا معاملہ ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ مسجد حرام میں لوگوں کو توحید یعنی خدائے واحد کی طرف بلاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ وہ نبی ہے.حضرت ابو بکر صدیق نے کہا کہ یہ بات انہوں نے کہی ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں اور وہ یہ بات مسجد حرام میں کہہ رہے ہیں.چنانچہ حضرت ابو بکر نبی کریم ملی علیہ یکم کی طرف گئے اور آپ کے دروازے پر دستک دی، آپ کو باہر بلایا.جب آپ ان کے سامنے آئے تو حضرت ابو بکر نے کہا کہ اے ابو القاسم امجھے آپ کے متعلق کیا بات پہنچی ہے ؟ آنحضور صلی للہ ہم نے فرمایا اے ابو بکر ! تمہیں میرے متعلق کیا بات پہنچی ہے ؟ حضرت ابو بکر نے کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اللہ کی توحید کی طرف بلاتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.آنحضور صلی الی یم نے فرمایا ہاں اے ابو بکر ! یقیناً میرے رب عزوجل نے مجھے بشیر اور نذیر بنایا ہے اور مجھے ابراہیم کی دعا بنایا ہے اور مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے.حضرت ابو بکر نے آپ صلی علیکم سے کہا.اللہ کی قسم ! میں نے کبھی آپ کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا.آپ یقینا اپنی امانت کی عظمت، صلہ رحمی اور اچھے افعال کی وجہ سے نبوت کے زیادہ حق دار ہیں.اپنا ہاتھ بڑھائیں تا کہ میں آپ کی بیعت کروں تو رسول اللہ صلی علیم نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور حضرت ابو بکڑ نے آپ کی بیعت کی اور آپ کی تصدیق کی اور اقرار کیا کہ آپ جو لے کر آئے ہیں وہ حق ہے.پس اللہ کی قسم ! حضرت ابو بکر نے کوئی توقف اور تردد نہ کیا جب رسول اللہ صلی علی کرم نے آپ کو اسلام کی طرف بلایا.61 ہر ایک نے تردد کیا سوائے ابو بکر کے ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی علی یکم نے فرمایا: میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اس نے ٹھو کر کھائی اور تردد کیا اور انتظار کرتا رہا سوائے ابو بکر کے.میں نے جب ان سے اسلام کا ذکر کیا تو نہ وہ اس سے پیچھے ہٹے اور نہ انہوں نے اس کے بارے میں تردد کیا.12 نبی صلی الم نے فرمایا اے لوگو! اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا اور تم نے کہا تو جھوٹا ہے اور ابو بکر نے کہا سچا ہے.اور انہوں نے اپنی جان ومال سے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا.63 یہ بخاری کی 62 روایت ہے.حضرت مصلح موعود حضرت ابو بکر کے قبول اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک جگہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی الی یکم نے جب دعویٰ نبوت فرمایا تو اس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ
حاب بدر جلد 2 18 حضرت ابو بکر صدیق کہیں باہر گئے ہوئے تھے.واپس تشریف لائے تو آپ کی ایک لونڈی نے آپ سے کہا کہ آپ کا دوست تو (نعوذ باللہ ) پاگل ہو گیا ہے اور وہ عجیب عجیب باتیں کرتا ہے.کہتا ہے کہ مجھ پر آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اسی وقت اٹھے اور رسول کریم صلی علیکم کے مکان پر پہنچ کر آپ کے دروازے پر دستک دی.رسول کریم ملی لی کہ باہر تشریف لائے تو حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ میں آپ سے صرف ایک بات پوچھنے آیا ہوں.کیا آپ نے یہ کہا ہے کہ خدا کے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں؟ رسول کریم صلی علیہم نے اس خیال سے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کو ٹھوکر لگ جائے تشریح کرنی چاہی.“ ہمارے ہاں تاریخ میں عموماً یہی روایت چلتی ہے.”مگر حضرت ابو بکڑ نے کہا.آپ تشریح نہ کریں اور مجھے صرف اتنا بتائیں کہ کیا آپ نے یہ بات کہی ہے ؟ رسول کریم صلی علیم نے پھر اس خیال سے کہ معلوم نہیں یہ سوال کریں کہ فرشتوں کی شکل کیسی ہوتی ہے اور وہ کس طرح نازل ہوتے ہیں؟ پہلے.لے کچھ تمہیدی طور پر بات کرنی چاہی مگر حضرت ابو بکر نے پھر کہا کہ نہیں نہیں! آپ صرف یہ بتائیں کہ کیا یہ بات درست ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں درست ہے.اس پر حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں.اور پھر انہوں نے کہا یارسول اللہ ! میں نے دلائل بیان کرنے سے صرف اس لئے روکا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ میرا ایمان مشاہدے پر ہو.دلائل پر اس کی بنیاد نہ ہو کیونکہ آپ کو صادق اور راستباز تسلیم کرنے کے بعد کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی.غرض جس بات کو مکہ والوں نے چھپایا تھا اسے حضرت ابو بکڑ نے اپنے عمل سے واضح کر کے دکھا دیا.64 حضرت مصلح موعودؓ نے ایک اور جگہ حضرت ابو بکر کے قبول اسلام کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے اور کیونکہ وضاحت کر رہے ہیں اس لیے کسی اور حوالے سے اس میں اس طرح بیان ہے کہ ”حضرت ابو بکر کا ایمان لانا عجیب تر تھا.جس وقت آپ کو وحی ہوئی یعنی آنحضرت صلی اللہ تم کو وحی ہوئی کہ آپ صلی علی یکم نبوت کا دعویٰ کریں.اس وقت حضرت ابو بکر مکہ کے ایک رئیس کے گھر میں بیٹھے تھے.اس رئیس کی لونڈی آئی اور اس نے آکر بیان کیا کہ خدیجہ کو معلوم نہیں کہ کیا ہو گیا ہے.وہ کہتی ہیں کہ میرے خاوند اسی طرح نبی ہیں جس طرح حضرت موسیٰ تھے.لوگ اس خبر پر ہنسنے لگے اور اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو پاگل قرار دینے لگے مگر حضرت ابو بکر جو رسول کریم ملی ایم کے حالات سے بہت گہری واقفیت رکھتے تھے اسی وقت اٹھ کر حضرت رسول کریم صلی اللی نم کے دروازے پر آئے اور پوچھا کہ کیا آپ نے کوئی دعویٰ کیا ہے؟ آپ نے بتایا ہاں ! اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اور شرک کے مٹانے کا حکم دیا ہے.حضرت ابو بکر نے بغیر اس کے کہ کوئی اور سوال کرتے جواب دیا کہ مجھے اپنے باپ کی اور ماں کی قسم ! کہ تو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں نہیں مان سکتا کہ تو خدا پر جھوٹ بولے گا.پس میں ایمان لاتا ہوں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول ہیں.اس کے بعد ابو بکر نے ایسے نوجوانوں کو جمع کر کے جو اُن کی نیکی اور تقویٰ کے 6466
اصحاب بدر جلد 2 19 حضرت ابو بکر صدیق قائل تھے “ یعنی حضرت ابو بکر کی نیکی اور تقویٰ کے قائل تھے انہیں ”سمجھانا شروع کیا اور سات آدمی اور رسول کریم علی ای ام پر ایمان لائے.یہ سب نوجوان تھے جن کی عمر 12 سال سے لے کر 25 سال تک 6566 صرف یہ دلیل تھی جس کی وجہ سے حضرت ابو بکر نے رسول کریم ملایا ہم کو انا پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے کہ ”حضرت ابو بکر نے رسول کریم ملی لی کمر کو ایک ہی دلیل سے مانا ہے اور پھر کبھی ان کے دل میں آپ کے متعلق ایک لمحہ کے لئے بھی شبہ پیدا نہیں ہوا.“ دلیل وہی چل رہی ہے.واقعات بعض دفعہ ذرا مختلف ہو جاتے ہیں اور وہ دلیل یہ تھی کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچپن سے دیکھا اور وہ جانتے تھے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا.کبھی شرارت نہیں کی.کبھی گندی اور ناپاک بات آپ کے منہ سے نہیں نکلی.بس یہی وہ جانتے تھے.اس سے زیادہ نہ وہ کسی شریعت کے جاننے والے تھے کہ اس کے بتائے ہوئے معیار سے رسول کریم صل اللہ تم کو سچا سمجھ لیا.نہ کسی قانون کے پیر و تھے.انہیں کچھ معلوم نہ تھا کہ خدا کار سول کیا ہوتا ہے اور اس کی صداقت کے کیا دلائل ہوتے ہیں.وہ صرف یہ جانتے تھے کہ رسول کریم صلی ا ہم نے جھوٹ کبھی نہیں بولا.وہ ایک سفر پر گئے ہوئے تھے جب واپس آئے تو راستہ میں ہی کسی نے انہیں کہا تمہارا دوست ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کہتا ہے کہ میں خدا کار سول ہوں.انہوں نے کہا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتا ہے ؟ اس نے کہا ہاں.انہوں نے کہا پھر وہ جھوٹ نہیں بولتا.جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے.کیونکہ جب اس نے کبھی بندوں پر جھوٹ نہیں بولا تو خدا پر کیوں جھوٹ بولنے لگا.جب اس نے انسانوں سے کبھی ذرا بد دیانتی نہیں کی تو اب ان سے اتنی بڑی بد دیانتی کس طرح کرنے لگا کہ ان کی روحوں کو تباہ کر دے.صرف یہ دلیل تھی جس کی وجہ سے حضرت ابو بکڑ نے رسول کریم ملی کم و مانا اور اسی کو خدا تعالیٰ نے بھی لیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے لوگوں کو کہہ دو فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.(یونس :17) میں ایک عرصہ تم میں رہا اس کو دیکھو اس میں میں نے تم سے کبھی غداری نہیں کی پھر اب میں خدا سے کیوں غداری کرنے لگا.یہی وہ دلیل تھی جو حضرت ابو بکرؓ نے لی اور کہہ دیا کہ اگر وہ کہتا ہے کہ خدا کا رسول ہوں تو سچا ہے اور میں مانتا ہوں.اس کے بعد نہ کبھی ان کے دل میں کوئی شبہ پیدا ہوا اور نہ ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش آئی.ان پر بڑے بڑے ابتلاء آئے.انہیں جائیدادیں اور وطن چھوڑنا اور اپنے عزیزوں کو قتل کرنا پڑا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت میں کبھی شبہ نہ ہوا.6 6666 ابو بکری فطرت کیا ہے؟ ایک دفعہ بیعت کرنے والوں کو ہدایات دے رہے تھے ، ان کو سمجھارہے تھے تو اس ضمن میں یہ بات آپ نے حضرت ابو بکر کے آنحضرت صلی علی زنم کو ماننے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمائی.
محاب بدر جلد 2 20 حضرت ابو بکر صدیق سة حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی یہ کم نے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب دیا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ میں کیا کیا کمالات تھے.آنحضرت صلی الل ولم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل کے اندر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت میں حضرت ابو بکر نے جو صدق دکھایا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ابو بکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتی المقدور دعا سے کام لے.جب تک ابو بکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جا تا صدیقی کمالات حاصل نہیں ہو سکتے.“ مرتے دم تک اسے نبھایا اور بعد مرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا پھر فرمایا کہ ”ابو بکری فطرت کیا ہے؟ اس پر مفصل بحث اور کلام کا یہ موقعہ نہیں کیونکہ اس کے تفصیلی بیان کیلئے بہت وقت درکار ہے.فرمایا کہ ”میں مختصراً ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی الیکم نے نبوت کا اظہار فرمایا.اس وقت حضرت ابو بکر شام کی طرف سوداگری کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے.جب واپس آئے تو ابھی راستے ہی میں تھے کہ ایک شخص آپ سے ملا.آپ نے اس سے مکے کے حالات دریافت فرمائے اور پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ.جیسا کہ قاعدے کی بات ہے کہ جب انسان سفر سے واپس آتا ہے تو راستے میں اگر کوئی اہل وطن مل جائے.تو اس سے اپنے وطن کے حالات دریافت کرتا ہے.اس شخص نے جواب دیا کہ نئی بات یہ ہے کہ تیرے دوست محمد صلی الم نے پیغمبری کا دعوتی کیا ہے.حضرت ابو بکر نے یہ سنتے ہی فرمایا کہ اگر اس نے یہ دعویٰ کیا ہے تو بلاشک وہ سچا ہے.اسی ایک واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ملی تم پر آپ کو کس قدر حسن ظن تھا.معجزے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ معجزہ وہ شخص مانگتا ہے جو مدعی کے حالات سے ناواقف ہو اور جہاں غیریت ہو اور مزید تسلی کی ضرورت ہو لیکن جس شخص کو حالات سے پوری واقفیت ہو تو اسے معجزے کی ضرورت ہی کیا ہے.الغرض حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ راستہ میں ہی آنحضرت صلی علیکم کا دعویٰ نبوت سن کر ایمان لے آئے.پھر جب مکے میں پہنچے تو آنحضرت صلی کم کی خدمت مبارک میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے.اس پر حضرت ابو بکر نے کہا کہ آپ گواہ رہیں کہ میں آپ کا پہلا مصدق ہوں.آپ کا ایسا کہنا محض قول ہی قول نہ تھا بلکہ آپ نے “ یعنی حضرت ابو بکر نے ” اپنے افعال سے اسے ثابت کر دکھایا اور مرتے دم تک اسے نبھایا اور بعد مرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا.6766 سب سے زیادہ ستائے گئے اور سب سے پہلے تخت نبوت پر بٹھائے گئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ رحمن کی آیت وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن.(الرحمن: 47) اور جو بھی اپنے رب کے مقام سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو جنتیں ہیں وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن جو
حاب بدر جلد 2 21 حضرت ابو بکر صدیق اپنے رب کے مقام سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو جنتیں ہیں.اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت ابو بکر کی مثال دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ “ حضرت ابو بکر صدیق کو دیکھو کہ جب وہ شام کے ملک واپس آرہے تھے تو راستہ میں ایک شخص ان کو ملا.آپ نے اس سے پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ.اس شخص نے جواب دیا کہ اور تو کوئی تازہ خبر نہیں البتہ تمہارے دوست محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے.اس پر ابو بکر صدیق نے اس کو جواب دیا کہ اگر اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ سچا ہے.وہ جھوٹا بھی نہیں ہو سکتا.اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق سید ھے حضرت نبی کریم صلی علیکم کے مکان پر چلے گئے اور آنحضرت صلی علیم کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ آپ گواہ رہیں کہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا میں ہوں.دیکھو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ وسلم سے کوئی معجزہ نہیں مانگا تھا.صرف پہلے تعارف کی برکت سے ہی وہ ایمان لے آئے تھے.یاد رکھو معجزات وہ طلب کیا کرتے ہیں جن کو تعارف نہیں ہوتا.6866 جو لنگوٹیا یار ہوتا ہے اس کے لیے تو سابقہ حالات ہی معجزہ ہوتے ہیں اس کے بعد حضرت ابو بکر ھو بڑی بڑی تکالیف کا سامنا ہوا.طرح طرح کے مصائب اور سخت درجے کے دکھ اٹھانے پڑے لیکن دیکھو اگر سب سے زیادہ انہیں کو دکھ دیا گیا تھا اور وہی سب سے بڑھ کر ستائے گئے تھے تو سب سے پہلے تخت نبوت پر وہی بٹھائے گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی ان کو انعام سے نواز دیا اور اگلے جہان میں تو ہے ہی جنت.کہاں وہ تجارت کہ تمام دن دھکے کھاتے پھرتے تھے اور کہاں یہ درجہ کہ آنحضرت صلی الیکم کے بعد سب سے اول خلیفہ انہیں کو مقرر کیا گیا.پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ سعید الفطرت ہوتے ہیں جو پہلے ہی مان لیتے ہیں.یہ لوگ بڑے ہی دور اندیش اور باریک بین ہوتے ہیں جیسے حضرت ابو بکر صدیق تھے اور ایک بیوقوف ہوتے ہیں جب سر پر آپڑتی ہیں تب کچھ چونکتے ہیں.یعنی جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں، عذاب آتا ہے تب سوچتے ہیں کہ مانا چاہیے کہ نہیں.6966 مردوں، بچوں، اور عورتوں میں سب سے پہلے کون ایمان لایا اس بارے میں بھی بحث ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی علی کم پر سب سے پہلے کون ایمان لایا؟ مؤرخین کے نزدیک اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ مردوں میں سے سب سے پہلے کون ایمان لایا تھا حضرت ابو بکر یا حضرت علی یا حضرت زید بن حارثہ.70 بعض اس کا یہ حل نکالتے ہیں کہ بچوں میں سے حضرت علی اور بڑوں میں سے حضرت ابو بکر اور غلاموں میں سے حضرت زید سب سے پہلے ایمان لائے تھے.چنانچہ علامہ احمد بن عبد اللہ ان روایات میں تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ بنت خویلد نے اسلام قبول کیا اور مردوں میں سب سے پہلے حضرت علی نے اسلام قبول کیا جبکہ وہ ابھی بچے تھے جیسا کہ ان کی عمر کے
تاب بدر جلد 2 22 حضرت ابو بکر صدیق بارے میں پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ان کی عمر دس سال تھی.وہ اپنا اسلام مخفی رکھے ہوئے تھے اور پہلے بالغ عربی شخص جس نے اسلام قبول کیا اور اپنے اسلام کا اظہار کیا وہ حضرت ابو بکر بن ابو قحافہ تھے اور آزاد کردہ غلاموں میں سے جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ حضرت زید بن حارثہ تھے.یہ متفق امر ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں.71 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس بحث کا ذکر کرتے ہوئے جو فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ آنحضرت صلی الم نے جب اپنے مشن کی تبلیغ شروع کی تو سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہ تھیں جنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی تردد نہیں کیا.حضرت خدیجہ کے بعد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے کے متعلق مورخین میں اختلاف ہے.بعض حضرت ابو بکر عبد اللہ بن ابی قحافہ کا نام لیتے ہیں.بعض حضرت علی کما یازید بن حارثہ کا لیکن آپ لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے.حضرت علی اور زید بن حارثہ آنحضرت صلی علیکم کے گھر کے آدمی تھے اور آپ کے بچوں کی طرح آپ کے ساتھ رہتے تھے.آنحضرت صلی علیہ سلم کا فرمانا تھا اور ان کا ایمان لانا تھا.جو آنحضرت صلی علیم نے فرمایا اس بات کو وہ بچوں کی حیثیت سے مانتے تھے اور ہو سکتا ہے کہ اس وقت یہ بات بھی انہوں نے اس طرح ہی مانی ہو.پھر آپ لکھتے ہیں کہ ان دونوں بچوں کو نکال دو تو حضرت ابو بکر مسلمہ طور پر مقدم اور سابق بالا یمان تھے.چنانچہ آنحضرت صلی علیم کے درباری شاعر حسان بن ثابت انصاری حضرت ابو بکر کے متعلق کہتے ہیں کہ إِذَا تَذْكُرْتَ شَجُوا مِنْ أَخِي ثِقَةٍ خَيْرَ الْبَرِيَّةِ أَنْقَاهَا وَأَعْلَلَهَا الثَّانِي الثَّالِيَ الْمَحْمُودَ مَشْهَدُهُ فَاذْكُرْ أَخَاكَ آبَا بَكْرِيمًا فَعَلَا بَعْدَ النَّبِيِّ وَأَوْفَاهَا بِمَا حَمَلًا واولَ النَّاسِ مِنْهُمْ صَدَّقَ الرُّسُلَا یعنی جب تمہارے دل میں کبھی کوئی درد آمیز یاد تمہارے کسی اچھے بھائی کے متعلق پید اہو تو اس وقت اپنے بھائی ابو بکر کو بھی یاد کر لیا کرو.اس کی ان خوبیوں کی وجہ سے جو یاد رکھنے کے قابل ہیں.وہ آنحضرت صلی ایم کے بعد سب لوگوں میں سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ منصف مزاج تھا اور سب سے زیادہ پورا کرنے والا تھا اپنی ان ذمہ داریوں کو جو اس نے اٹھائیں.ہاں ابو بکر و ہی تو ہے جو غارِ ثور میں آنحضرت صلی علیہ نام کے ساتھ دوسرا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو آپ کی اتباع میں بالکل محو کر رکھا ا تھا اور وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا تھا اسے خوبصورت بنا دیتا تھا اور وہ ان سب لوگوں میں سے پہلا تھا جو رسول پر ایمان لائے.حضرت ابو بکر اپنی شرافت اور قابلیت کی وجہ سے قریش میں بہت مکرم و معزز تھے اور اسلام میں تو اُن کو وہ رتبہ حاصل ہو ا جو کسی اور صحابی کو حاصل نہیں.حضرت ابو بکر نے ایک لمحے کے لیے بھی آنحضرت صلی ال ولیم کے دعویٰ میں شک نہیں کیا بلکہ سنتے ہی قبول کیا اور پھر انہوں نے اپنی ساری توجہ اور اپنی جان اور مال کو آنحضرت صلی للی کام کے لائے ہوئے دین کی خدمت میں وقف کر دیا.
اصحاب بدر جلد 2 23 حضرت ابو بکر صدیق آنحضرت صلی ال عالم اپنے صحابہ میں ابو بکر کو زیادہ عزیز رکھتے تھے اور آپ کی وفات کے بعد وہ آپ کے پہلے خلیفہ ہوئے.اپنی خلافت کے زمانے میں بھی انہوں نے بے نظیر قابلیت کا ثبوت دیا.حضرت ابو بکر کے متعلق یورپ کا مشہور مستشرق سپر نگر (Sprenger) لکھتا ہے کہ : ابو بکر کا آغاز اسلام میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) خواہ دھوکا کھانے والے ہوں مگر دھو کا دینے والے ہر گز نہیں تھے بلکہ صدقِ دل سے اپنے آپ کو خدا کار سول یقین کرتے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ سرولیم میور کو بھی سپر نگر کی اس رائے سے اتفاق ہے.72 حضرت ابو بکر کے ذریعہ اسلام قبول کرنے والے نمایاں اصحاب حضرت ابو بکر کو تبلیغ اسلام اور اس کے نتیجے میں کن آزمائشوں سے گزرنا پڑا.اس کے بارے میں اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ : جب اسلام آیا تو آپ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر ایک جماعت نے اسلام قبول کیا اس محبت کی وجہ سے جو اُن لوگوں کو آپ یعنی حضرت ابو بکر سے تھی اور اس میلان کی وجہ سے جو انہیں حضرت ابو بکر کی طرف تھا یہاں تک کہ عشرہ مبشرہ میں سے پانچ صحابہ نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا.73 حضرت ابو بکر صدیق کی تبلیغ سے اسلام لانے والوں میں حضرت عثمان بن عفان، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبید اللہ شامل تھے.74 اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی کتاب سیرت خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہ، حضرت ابو بکر، حضرت علیؓ اور حضرت زید بن حارثہ کے بعد اسلام لانے والوں میں پانچ اشخاص تھے جو حضرت ابو بکر کی تبلیغ سے ایمان لائے اور یہ سب کے سب اسلام میں ایسے جلیل القدر اور عالی مرتبہ اصحاب نکلے کہ چوٹی کے صحابہ میں شمار کئے جاتے ہیں.ان کے نام یہ ہیں.اول حضرت عثمان بن عفان جو خاندان بنو امیہ میں سے تھے.اسلام لانے کے وقت ان کی عمر قریباً تیس سال کی تھی.حضرت عمر کے بعد وہ آنحضرت صلی کم کے تیسرے خلیفہ ہوئے.حضرت عثمان نہایت باحیا، باوفا، نرم دل، فیاض اور دولتمند آدمی تھے.چنانچہ کئی موقعوں پر انہوں نے اسلام کی بہت بہت مالی خدمات کیں.حضرت عثمان سے آنحضرت صلی اینم کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے انہیں پے در پے اپنی دولڑکیاں شادی میں دیں جس کی وجہ سے انہیں ذوالنورین کہتے ہیں.دوسرے عبد الرحمن بن عوف تھے جو خاندان بنو زہرہ سے تھے جس خاندان سے آنحضرت صلی الله علم کی والدہ تھیں.نہایت سمجھدار اور بہت سلجھی ہوئی طبیعت کے آدمی تھے.حضرت عثمان کی خلافت کا سوال انہی کے ہاتھوں سے طے ہوا تھا.اسلام لانے کے وقت ان کی عمر قریباً تیس سال کی تھی.عہدِ
حاب بدر جلد 2 عثمانی میں فوت ہوئے.24 حضرت ابو بکر صدیق تیسرے سعد بن ابی وقاص تھے جو اس وقت بالکل نوجوان تھے یعنی اس وقت ان کی عمر انیس سال کی تھی.یہ بھی بنو زہرہ میں سے تھے اور نہایت دلیر اور بہادر تھے.حضرت عمرؓ کے زمانے میں عراق انہی کے ہاتھ پر فتح ہوا.امیر معاویہ کے زمانے میں فوت ہوئے.چوتھے زبیر بن عوام تھے جو آنحضرت صلی ال نیم کے پھوپھی زاد بھائی تھے.یعنی صفیہ بنت عبد المطلب کے صاحبزادے تھے اور بعد میں حضرت ابو بکر کے داماد ہوئے.یہ بنو اسد میں سے تھے اور اسلام لانے کے وقت ان کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی.آنحضرت صلی ا لم نے زبیر کو غزوہ خندق کے موقعے پر ایک خاص خدمت سر انجام دینے کی وجہ سے حواری کا خطاب عطا فرمایا تھا.زبیر حضرت علی کے عہد حکومت میں جنگ جمل کے بعد شہید ہوئے.پانچویں طلحہ بن عبید اللہ لہ تھے حضرت ابو بکر کے خاندان یعنی قبیلہ بنوشیم میں سے تھے اور اس وقت بالکل نوجوان تھے.طلحہ بھی اسلام کے خاص فدایان میں سے تھے.حضرت علی کے عہد میں جنگ جمل میں شہید ہوئے.یہ پانچوں اصحاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں یعنی ان دس صحابہ میں داخل ہیں جن کو آنحضرت صلی علیم نے اپنی زبان مبارک سے خاص طور پر جنت کی بشارت دی تھی اور جو صلی ایم کے نہایت مقرب صحابی اور مشیر شمار ہوتے تھے.75 کفار مکہ کے مظالم کفارِ مکہ نے اسلام قبول کرنے والوں پر طرح طرح کے مظالم کیے، نہ صرف کمزور اور غلام مسلمان ہی ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنے بلکہ خود آنحضرت ملا لیا اور حضرت ابو بکر بھی مشرکین مکہ کے مظالم سے محفوظ نہ رہے.تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انہیں بھی طرح طرح کے ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا یعنی آنحضرت صلی علی یم کو بھی اور حضرت ابو بکر کو بھی.چنانچہ سیرت حلبیہ میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت طلحہ نے جب اپنے اسلام کا اظہار کیا تو نوفل بن عدویہ نے ان دونوں کو پکڑ لیا.یہ شخص قریش کا شیر کہلا تا تھا.اس نے ان دونوں کو ایک ہی رسی سے باندھ دیا.ان کے قبیلہ بنوتیم نے بھی ان دونوں کو نہ بچایا.اسی وجہ سے حضرت ابو بکر اور حضرت طلحہ کو قریذین بھی کہتے ہیں یعنی دو ساتھ ملے ہوئے.نوفل بن عدویہ کی قوت اور اس کے ظلم کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ کم فرمایا کرتے تھے کہ اللَّهُمَّ اكْفِنَا شَرَّ ابْنِ الْعَدَوِيَّةِ کہ اے اللہ ! ابن عدویہ کے شہر کے مقابلے میں ہمارے لیے تو کافی ہو جا.76 آنحضرت صلى ال عالم کے ساتھ کفار کا بدترین سلوک اور حضرت ابو بکر کی جانثاری عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا کہ وہ بد ترین سلوک مجھے بتائیں جو مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ ہم سے کیا تھا.انہوں نے کہا کہ ایک بار نبی کریم صلی الیکم سة
حاب بدر جلد 2 25 حضرت ابو بکر صدیق 77 مسجد حرام کے حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اس نے کپڑا آپ کی گردن میں ڈال کر آپ کا گلا زور سے گھونٹا.اتنے میں حضرت ابو بکر پہنچ گئے اور آکر انہوں نے عقبہ کا کندھا پکڑا اور اسے دھکیل کر نبی کریم صلی علیم سے ہٹا دیا اور کہا: اتقتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولُ رَبِّيَ اللهُ (الو من :29) کہ کیا تم ایسے شخص کو مارتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے." ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ مشرکین نے رسول اللہ صلی الم سے کہا کہ کیا تم ہمارے معبودوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہتے.آپ صلی علیہ کم نے فرمایا کہ ہاں.اس پر وہ آپ کے گرد جمع ہو گئے اور اس وقت کسی نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ اپنے دوست کی خبر لو.حضرت ابو بکر نکلے اور مسجد حرام پہنچے.آپ نے رسول اللہ صلی علیہ کم کو اس حال میں پایا کہ لوگ آپ کے گرد اکٹھے ہیں.حضرت ابو بکر نے کہا تم لوگوں کا براہو، اتقتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَتِ من ربكم (المومن (2) کیا تم محض اس لیے ایک شخص کو قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلے کھلے نشان لے کر آیا ہے.اس پر انہوں نے آنحضرت علی ایم کو چھوڑ دیا اور حضرت ابو بکر کی طرف لیکے اور ان کو مارنے لگے.حضرت ابو بکر کی بیٹی حضرت اسمام کہتی ہیں کہ آپ ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپ اپنے بالوں کو ہاتھ لگاتے تو وہ آپ کے ہاتھ میں آجاتے اور آپ کہتے جاتے تھے کہ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ کہ اے بزرگی اور عزت والے اتو بابرکت ہے.الله ایک روایت میں آتا ہے کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی علیکم کے سر مبارک اور آپ کی ریش مبارک کو اس زور سے کھینچا کہ آپ کے اکثر بال مبارک گر گئے.اس پر حضرت ابو بکر آپ کو بچانے کے لیے کھڑے ہوئے اور وہ کہہ رہے تھے اَتَقَتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولُ رَبِّيَ اللهُ (المومن: 29) کیا تم محض اس لیے ایک شخص کو قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے.کیا تم اس شخص کو اس وجہ سے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے اور حضرت ابو بکر رو بھی رہے تھے.اس پر رسول اللہ صلی علی یم نے فرمایا.اے ابو بکر ! ان کو چھوڑ دو.اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان کی طرف بھیجا گیا ہوں تاکہ میں قربان ہو جاؤں.اس پر انہوں نے یعنی کافروں نے رسول اللہ صلی علیہ کم کو چھوڑ دیا.حضرت علی ملکا فرمانا کہ سب سے زیادہ بہادر ابو بکر نہیں حضرت علی نے ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ اے لوگو! لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین آپ ہیں.حضرت علیؓ نے فرمایا: جہاں تک میری بات ہے میرے ساتھ جس نے مبارزت کی، میں نے اس سے انصاف کیا یعنی اسے مار گرایا مگر سب سے بہادر ابو بکر ہیں.ہم نے رسول اللہ صلی الی یکم کے لیے بدر کے دن خیمہ لگایا.پھر ہم نے کہا کہ کون ہے جو رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ رہے تا آپ صلی علیہ کمر تک کوئی مشرک نہ پہنچ پائے تو اللہ کی قسم! آپ صلی علیکم کے
تاب بدر جلد 2 26 حضرت ابو بکر صدیق قریب کوئی نہ گیا مگر حضرت ابو بکر اپنی تلوار کو سونتے ہوئے رسول اللہ صلی الی تم پر کھڑے ہو گئے یعنی رسول اللہ صلی علیم کے پاس کوئی مشرک نہیں پہنچے گا مگر پہلے وہ حضرت ابو بکڑ سے مقابلہ کرے گا.پس وہ سب سے بہادر شخص ہیں.حضرت علی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کی بات ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی علیکم کو دیکھا کہ قریش نے آپ کو پکڑا ہوا ہے.کوئی آپ پر غصہ اتار تا.کوئی آپ کو تنگ کرتا اور وہ لوگ کہتے کہ تم نے تمام معبودوں کو ایک معبود بنا دیا ہے.اللہ کی قسم ! جو بھی آپ صلی علیم کے قریب آتا حضرت ابو بکر کسی کو مار کر بھگاتے.کسی کو برابھلا کہہ کر دور کرتے اور کہتے تمہاری ہلاکت ہو، انقتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولُ رَبِّيَ الله (اء من (29) کیا تم محض اس لیے ایک شخص کو قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے.پس حضرت علی نے اپنی چادر ہٹائی اور اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی تر ہو گئی.پھر فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ کیا آل فرعون کا مومن بہتر تھا یا حضرت ابو بکر.غالباً حضرت علی نے آل فرعون کے مومن کا ذکر اس لیے کیا کہ قرآن کریم میں یہ آیت آلِ فرعون کے اس شخص کی طرف منسوب ہے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا اور فرعون کے دربار میں یہ کہہ رہا تھا کہ اتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ الله اس پر لوگ خاموش ہو گئے.حضرت علی نے فرمایا اللہ کی قسم حضرت ابو بکر کی ایک گھڑی آل فرعون کے مومن کی زمین بھر کی نیکیوں سے بہتر ہے کیونکہ وہ شخص اپنے ایمان کو چھپا تا تھا اور یہ شخص یعنی حضرت ابو بکر اپنے ایمان کا اعلان کرتا تھا.78 حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”جب ہم رسول کریم علی ایم کی زندگی کے واقعات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ دعویٰ ایک حقیقت بن کر نظر آتا ہے اور ہمیں قدم قدم پر ایسے واقعات دکھائی دیتے ہیں جو آپ کی اس عظیم الشان محبت اور شفقت کا ثبوت ہیں جو آپ صلی علیہ کم کو بنی نوع انسان سے تھی.چنانچہ آپ کو خدائے واحد کا پیغام پہنچانے کے لئے سالہا سال تک ایسی تکالیف میں سے گزرنا پڑا کہ جن کی کوئی حد نہیں.ایک دفعہ خانہ کعبہ میں کفار نے آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر اتنا گھونٹا کہ آپ کی آنکھیں سرخ ہو کر باہر نکل پڑیں.حضرت ابو بکر نے سنا تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور رسول کریم صلی علیکم کو اس تکلیف کی حالت میں دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے ان کفار کو ہٹاتے ہوئے کہا.خدا کا خوف کرو.کیا تم ایک شخص پر اس لئے ظلم کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میر ارب ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”ایک دفعہ چند دشمنوں نے آپ صلی اللہ تم کو تنہا پا کر پکڑ لیا اور آپ کے گلے میں پڑک ڈال کر اسے مروڑ نا شروع کیا.قریب تھا کہ آپؐ کی جان نکل جائے کہ اتفاق سے ابو بکر آنکلے اور انہوں نے مشکل سے چھڑایا.اس پر ابو بکر کو اس قدر مارا پیٹا کہ وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑے.غلاموں کو آزاد کرنا 8066 79❝ غلاموں کو آزاد کروانے کے بارے میں حضرت ابو بکر کے بارے میں روایات میں لکھا ہے کہ
حاب بدر جلد 2 27 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکڑ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے.آپ نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور ان سات کو آزاد کروایا جن کو اللہ کی وجہ سے تکلیف دی جاتی تھی.آپ نے حضرت بلال، عامر بن فهيره زنيره نَهْدِيَّه اور ان کی بیٹی، بنی مؤمل کی ایک لونڈی اور ام عبیس کو آزاد کر وایا.81 حضرت بلال بنو مجمع کے غلام تھے اور امیہ بن خلف آپ کو شدید تکلیف پہنچایا کرتا تھا.82 ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت بلال ایمان لائے تو حضرت بلال کو ان کے مالکوں نے پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور ان پر سنگریزے اور گائے کی کھال ڈال دی اور کہنے لگے کہ تمہارا رب لات اور عزیٰ ہے.مگر آپ احد! احد! کہتے تھے.آپ کے پاس حضرت ابو بکر آئے اور کہا کہ کب تک تم اس شخص کو تکلیف دیتے رہو گے.راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے حضرت بلال کو سات اوقیہ میں خرید کر انہیں آزاد کر دیا یعنی چالیس درہم کا ایک اوقیہ ہے دو سو اسی درہم میں خریدا.پھر حضرت ابو بکڑ نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں بیان کیا تو آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابو بکر ! مجھے بھی اس میں شریک کر لو.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں نے اسے آزاد کر دیا ہے.حضرت عامر بن فهیدہ ایک سیاہ فام غلام تھے.آپ طفیل بن عبد اللہ بن سخبرہ کے غلام تھے جو کہ والدہ کی طرف سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی تھے.حضرت عامر اسلام لانے والے سابقین میں شامل تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکالیف پہنچائی گئیں.حضرت ابو بکر نے آپ کو خریدا 84 83 رض اور آزاد کر دیا.4 حضرت زیدہ رومی اسلام میں سبقت لے جانے والی خواتین میں سے تھیں.انہوں نے اسلام کے آغاز میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا.مشرکین آپ کو اذیتیں دیتے تھے.یہ کہا جاتا ہے کہ آپ بنو مخزوم کی لونڈی تھیں اور ابو جہل آپ کو اذیت دیا کر تا تھا اور کہا جاتا ہے کہ آپ بنو عبد الدار کی لونڈی تھیں.جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کی بینائی چلی گئی.اس پر مشرکین نے کہا کہ لات اور عُری نے ان دونوں کے انکار کرنے کی وجہ سے زیرہ کو اندھا کر دیا ہے.اس پر حضرت زنیرہ نے کہا کہ لات اور مغربی تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان دونوں کی عبادت کون کرتا ہے، مجھے کیا اندھا کرنا تھا.ان کو تو خود نظر نہیں آتا.یہ تو آسمان سے ہے.اللہ کی مرضی میری نظر چلی گئی اور میر ارب میری بینائی لوٹانے پر قادر ہے.یہ جواب دیا کافروں کو.اگلے دن انہوں نے اس حالت میں صبح کی، رات سوئیں اگلے دن جب اٹھیں تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی بینائی کو ٹادی تھی، نظر ٹھیک ہو چکی تھی.اس پر قریش نے کہا کہ یہ تو محمد کے جادو کی وجہ سے ہوا ہے.جب حضرت ابو بکڑ نے وہ تکالیف دیکھیں جو آپ کو پہنچائی جاتی تھیں تو آپ نے ان کو خریدا اور آزاد کر دیا.85
ناب بدر جلد 2 28 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر نے مہدیہ اور ان کی بیٹی دونوں کو آزاد کرایا.یہ دونوں بنو عبد الدار کی ایک عورت کی لونڈیاں تھیں.حضرت ابو بکر ان دونوں کے پاس سے گزرے اس وقت ان کی مالکہ نے ان کو آٹا پینے کے واسطے بھیجا تھا اور وہ مالکہ یہ کہ رہی تھی کہ اللہ کی قسم! میں تمہیں کبھی آزاد نہیں کروں گی یا جس کی بھی قسم وہ کھارہی تھی.بہر حال حضرت ابو بکڑ نے کہا اے اہم فلاں! اپنی قسم کو توڑ دو.اس نے کہا جاؤ جاؤ! تم نے ہی تو ان کو خراب کیا ہے.تمہیں اگر اتنا ہی خیال ہے تو تم ان دونوں کو آزاد کر والو.حضرت ابو بکر نے کہا کہ ان دونوں کے بدلے میں کتنی قیمت دوں ؟ اس نے کہا کہ اتنی اور اتنی.حضرت ابو بکر نے کہا کہ میں نے ان دونوں کو لے لیا اور یہ دونوں آزاد ہیں.پھر آپ نے ان سے کہا کہ اس عورت کا آٹا واپس دے دو یعنی ان دونوں کو جن کو لونڈی بنایا گیا تھا کہا کہ اس عورت کا آٹا واپس دے دو جو پسانے کے لیے لے کر جارہی تھیں.ان دونوں نے کہا اے ابو بکر ؟ کیا ہم اس کام سے فارغ ہو لیں اور اس آٹا کو واپس کر دیں ؟ یعنی جو ہمارے ذمہ کام لگایا گیا ہے وہ کر لیں اور آٹا پسوا کر چھوڑ آئیں ؟ حضرت ابو بکڑ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے.اگر تم دونوں چاہتی ہو تو ایسا ہی کر لو.حضرت ابو بکر ایک دفعہ بَنُو مُؤمل کی ایک لونڈی کے پاس سے گزرے.بَنُو مُؤَمِّلُ بَنُو عَدِي بن گغب کا ایک قبیلہ تھا.وہ لونڈی مسلمان تھی.عمر بن خطاب اس کو ایذا دے رہے تھے تاکہ وہ اسلام کو چھوڑ دے.حضرت عمرؓ اُن دنوں ابھی مشرک تھے.اسلام قبول نہیں کیا تھا اور انہیں مارا کرتے تھے یہاں تک کہ جب وہ تھک جاتے تو کہتے کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نے تمہیں صرف تھکاوٹ کی وجہ سے چھوڑا ہے.اس پر وہ کہتی کہ اللہ تمہارے ساتھ بھی اسی طرح کرے گا.پھر حضرت ابو بکر نے اسے بھی خرید کر آزاد کر دیا تھا.ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر کے والد ابو قحافہ نے ان سے کہا کہ اے میرے بیٹے ! میں دیکھتا ہوں کہ تم کمزور لوگوں کو آزاد کرا رہے ہو.اگر تم ایسا کرنا چاہتے ہو جو تم کر رہے ہو تو تم طاقتور مردوں کو آزاد کرواؤ تا کہ وہ تمہاری حفاظت کریں اور وہ تیرے ساتھ کھڑے ہوں.راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے کہا کہ اے میرے پیارے باپ! میں تو محض اللہ عزوجل کی رضا چاہتا ہوں.86 حضرت ابو بکر کی شان میں آیات کا نزول چنانچہ بعض مفسرین علامہ قرطبی اور علامہ آلوسی و غیرہ کہتے ہیں کہ درج ذیل آیات اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کے اسی عمل کی وجہ سے آپ کی شان میں نازل فرمائی ہیں کہ فَأَمَّا مَنْ اَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِرُهُ لِلْيُسْرَى وَ أَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنى وَ كَذَّبَ بالْحُسْنَى فَسَنُيَسِرُهُ لِلْعُسْرِى وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالَةٌ إِذَا تَرَدُّى إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَى وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولى فَاَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَكفى لا يَصْلهَا إِلَّا الْاَشْقَى الَّذِى كَذَّبَ وَتَوَلَّى وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَنْقَى الَّذِي يُؤْتِ مَالَهُ وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَى وَ لَسَوفَ يَرْضى.(سورة الليل 6 تا22) رو!
اصحاب بدر جلد 2 29 حضرت ابو بکر صدیق پس وہ جس نے (راہ حق میں) دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور بہترین نیکی کی تصدیق کی تو ہم اسے ضرور کشادگی عطا کریں گے.اور جہاں تک اُس کا تعلق ہے جس نے بخل کیا اور بے پروائی کی اور بہترین نیکی کی تکذیب کی تو ہم اُسے ضرور تنگی میں ڈال دیں گے اور اس کا مال جب تباہ ہو جائے گا تو اس کے کسی کام نہ آئے گا.یقیناً ہدایت دینا ہم پر بہر حال فرض ہے اور انجام بھی لازماً ہمارے تصرف میں ہے اور آغاز بھی.پس میں تمہیں اس آگ سے ڈراتا ہوں جو شعلہ زن ہے اس میں کوئی داخل نہیں ہو گا مگر سخت بد بخت.وہ جس نے جھٹلایا اور پیٹھ پھیر لی جبکہ سب سے بڑھ کر منتقی اس سے ضرور بچایا جائے گا جو اپنامال لی دیتا ہے پاکیزگی چاہتے ہوئے اور اس پر کسی کا احسان نہیں ہے کہ جس کا اس کی طرف سے بدلہ دیا جارہا ہو.یہ محض اپنے رب اعلیٰ کی خوشنودی چاہتے ہوئے خرچ کرتا ہے اور وہ ضرور راضی ہو جائے گا.87 حضرت ابو بکر نے جو غلام آزاد کیے تھے ان میں سے ایک حضرت خباب بن ارثے بھی تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت خباب بن ارث کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”ایک اور صحابی جو پہلے غلام تھے انہوں نے ایک دفعہ نہانے کے لئے کرتہ اتارا تو کوئی شخص پاس کھڑا تھا.اس نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ کا چمڑا اوپر سے ایسا سخت اور کھردرا ہے جیسے بھینس کی کھال ہوتی ہے.وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور انہیں کہنے لگا.تمہیں یہ کب سے بیماری ہے تمہاری تو پیٹھ کا چمڑا ایسا سخت ہے جیسے جانور کی کھال ہوتی ہے.یہ سن کر وہ ہنس پڑے.“ حضرت خباب ہنس پڑے اور کہنے لگے بیماری کوئی نہیں.جب ہم اسلام لائے تھے تو ہمارے مالک نے فیصلہ کیا کہ ہمیں سزا دے.چنانچہ تپتی دھوپ میں لٹا کر ہمیں مارنا شروع کر دیتا اور کہتا کہ کہو ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو نہیں مانتے.ہم اس کے جواب میں کلمہ شہادت پڑھ دیتے.اس پر وہ پھر مارنے لگ جاتا اور جب اس طرح بھی اس کا غصہ نہ تھمتا تو ہمیں پتھروں پر گھسیٹا جاتا لکھتے ہیں کہ : ” عرب میں کچے مکانوں کو پانی سے بچانے کے لئے مکان کے پاس ایک قسم کا پتھر ڈال دیتے ہیں جسے پنجابی میں بھنگر کہتے ہیں.یہ نہایت سخت گھر درا اور نوک دار پتھر ہوتا ہے اور لوگ اسے دیواروں کے ساتھ اس لئے لگا دیتے ہیں کہ پانی کے بہاؤ سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے ، یعنی دیواروں کو نقصان نہ پہنچے تو وہ صحابی کہنے لگے کہ جب ہم اسلام سے انکار نہ کرتے اور لوگ ہمیں مار مار کر تھک جاتے تو پھر ہماری ٹانگوں میں رسی باندھ کر ان کھردرے پتھروں پر ہمیں گھسیٹا جاتا تھا اور جو کچھ تم دیکھتے ہو اسی مار پیٹ اور گھسٹنے کا نتیجہ ہے.غرض سالہا سال تک ان پر ظلم ہوا.آخر حضرت ابو بکر سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی جائیداد کا بہت سا حصہ فروخت کر کے انہیں آزاد کر دیا.884 8866 پھر حضرت ابو بکر کے غلاموں کو آزاد کرانے کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرماتے ہیں کہ یہ غلام جو رسول کریم صلی علیہ ظلم پر ایمان لائے مختلف اقوام کے تھے ان میں حبشی بھی تھے جیسے بلال، رومی بھی تھے جیسے مہیب پھر ان میں عیسائی بھی تھے جیسے بخیر اور مہیب اور مشرکین بھی تھے جیسے بلال اور عمار بلال کو اس کے مالک تپتی ریت پر لٹا کر اوپر یا تو پتھر رکھ دیتے یا نوجوانوں کو
محاب بدر جلد 2 30 حضرت ابو بکر صدیق سینہ پر کودنے کے لئے مقرر کر دیتے.حضرت ابو بکر نے جب ان پر یہ ظلم دیکھے تو ان کے مالک کو ان کی قیمت ادا کر کے انہیں آزاد کر وا دیا.89 حضرت ابو بکر کی ہجرت کا ارادہ مسلمان ایک دفعہ حضرت ابو بکر نے ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا تھا.اس بارے میں آتا ہے کہ جب" بڑھ گئے اور اسلام ظاہر ہو گیا تو کفار قریش اپنے اپنے قبائل میں سے ان لوگوں کو سخت اذیتیں اور تکلیفیں دینے لگے جو اُن میں سے ایمان لاچکے تھے.ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ انہیں ان کے دین سے پھر ا دیں.اس پر رسول اللہ صلی الم نے مومنوں سے فرمایا کہ تم لوگ زمین میں بکھر جاؤ.یقینا اللہ تم لوگوں کو اکٹھا کر دے گا.صحابہ نے عرض کیا ہم کس طرف جائیں ؟ آپ نے فرمایا اس طرف اور آپ نے اپنے ہاتھ سے حبشہ کی سر زمین کی طرف اشارہ فرمایا.یہ رجب سنہ 15 نبوی کی بات ہے.آنحضرت صلی لیلم کے ارشاد پر گیارہ مر دوں اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.90 مسلمانوں کے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد حضرت ابو بکر کو بھی ایذا پہنچائی گئی جس پر انہوں نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا.چنانچہ اس بارے میں بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مسلمانوں کو تکلیف دی گئی تو حضرت ابو بکر ہجرت کرنے کی غرض سے حبشہ کی طرف چل پڑے.جب وہ بَرْك الْغِمَاد مقام پر پہنچے.بَرْك الْغِمَاد یمن کا ایک شہر ہے جو مکہ سے آگے پانچ رات کی مسافت پر سمندر سے متصل ہے.تو انہیں ابن دغنہ ملا اور وہ قارہ قبیلہ کا سر دار تھا.اس نے پوچھا اے ابو بکر ! کہاں کا قصد ہے ؟ حضرت ابو بکر نے کہا میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ زمین میں چلوں پھروں اور اپنے رب کی عبادت کر تار ہوں.ابن دغنہ نے کہا: تمہارے جیسا آدمی خود وطن سے نہیں نکلتا اور نہ اسے نکالا جانا چاہئے.تم تو وہ خوبیاں بجالاتے ہو جو معدوم ہو چکی ہیں اور تم صلہ رحمی کرتے ہو.تھکے ہاروں کا بوجھ اٹھاتے ہو.مہمان نوازی کرتے ہو اور مصائب حقہ پر مدد کرتے ہو.ایک جگہ ترجمہ اس طرح بھی کیا گیا ہے.کنگال کو کما کر دیتے رہے ہو.رشتہ داروں سے نیک سلوک کیا کرتے ہو.بیچاروں کو سنبھالتے ہو اور مہمان نواز ہو اور حق کی مشکلات میں مدد کرتے ہو.پھر اس نے کہا کہ میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں.واپس چلو اور اپنے وطن میں ہی اپنے رب کی عبادت کرو اور ابن دغنہ بھی چل پڑا اور حضرت ابو بکر کے ساتھ مکہ میں آیا اور کفار قریش کے سرداروں سے ملا اور ان سے کہا ابو بکر ایسے ہیں کہ ان جیسا آدمی وطن سے نہ نکلتا ہے اور نہ نکالا جاتا ہے.کیا تم ایسے شخص کو نکالتے ہو جو ایسی خوبیاں بجالاتا ہے جو معدوم ہو چکی ہیں اور وہ صلہ رحمی کرتا ہے.تھکے ہاروں کے بوجھ اٹھاتا ہے.مہمان نوازی کرتا ہے اور مصائب پر مدد کرتا ہے ؟ اس پر قریش نے ابن دغنہ کی پناہ منظور کرلی اور حضرت ابو بکر کو امن دیا اور ابن دغنہ سے کہا.ابو بکر سے کہو کہ وہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں ہی کیا کرے.وہیں نماز پڑھے اور جو چاہے پڑھے لیکن ہمیں اپنی عبادت اور قرآن پڑھنے سے تکلیف نہ دے اور بلند آواز سے نہ پڑھے کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے
اصحاب بدر جلد 2 31 حضرت ابو بکر صدیق بیٹوں اور ہماری عورتوں کو گمراہ کر دے گا.ابن دغنہ نے حضرت ابو بکر سے یہ کہہ دیا تو حضرت ابو بکر اپنے گھر سے ہی اپنے رب کی عبادت کرنے لگے اور اپنے گھر کے سوا کسی اور جگہ نماز اور قرآن اعلانیہ نہ پڑھتے.پھر کچھ عرصے کے بعد حضرت ابو بکر کو خیال آیا تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد یعنی نماز پڑھنے کی جگہ بنالی اور کھلی جگہ میں نکلے.وہیں نماز بھی پڑھتے اور قرآن مجید بھی اور ان کے پاس مشرکوں کی عورتیں اور بچے جمگھٹا کرتے.وہ تعجب کرتے.یعنی حضرت ابو بکر کو دیکھ کر تعجب کرتے اور حضرت ابو بکر کو دیکھتے کہ وہ بہت ہی رونے والے آدمی تھے.جب قرآن پڑھتے تو اپنے آنسوؤں کو نہ تھام سکتے.اس کیفیت نے قریش کے مشرک سرداروں کو پریشان کر دیا اور انہوں نے ابن دغنہ کو بلا بھیجا.وہ ان کے پاس آیا اور انہوں نے اس سے کہا کہ ہم نے تو ابو بکر کو اس شرط پر پناہ دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرتا رہے لیکن انہوں نے اس شرط کی پروا نہیں کی اور اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنالی ہے اور نماز اور قرآن اعلانیہ پڑھنا شروع کر دیا ہے.ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے لڑکوں اور ہماری عورتوں کو آزمائش میں ڈال دے گا.تم اس کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کرے کہ اپنے گھر کے اندر ہی رہ کر اپنی عبادت کرے تو کرے ورنہ اگر اعلانیہ پڑھنے پر مصر رہے تو اسے کہو کہ تمہارے امان کی ذمہ داری تمہیں واپس کر دے کیونکہ ہمیں یہ بُر امعلوم ہوتا ہے کہ تمہاری ذمہ داری توڑیں اور ہم تو ابو بکر کو کبھی بھی اعلانیہ عبادت نہیں کرنے دیں گے.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ابن دغنہ ابو بکر کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو اس شرط کا علم ہی ہے جس پر میں نے آپ کی خاطر یہ عہد کیا تھا.اس لیے یا تو آپ اس حد تک محدودر ہیں ورنہ میری ذمہ داری مجھے واپس کر دیں کیونکہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب یہ بات سنیں کہ جس شخص کو میں نے پناہ دی تھی اس سے میں نے بد عہدی کی ہے.حضرت ابو بکر نے کہا کہ میں آپ کی پناہ آپ کو واپس کرتا ہوں اور اللہ ہی کی پناہ پر راضی ہوں.91 92 حضرت ابو بکر نے اپنے صحن میں جو مسجد بنائی تھی اس کے بارے میں صحیح بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ یہ مسجد گھر کی دیواروں تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی.ابو بکر جیسا انسان جس کا سارا مکہ ممنون احسان تھا حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں ابو بکر جیسا انسان جس کا سارا مکہ ممنون احسان تھا.وہ جو کچھ کماتے تھے غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کر دیتے تھے.آپ ایک دفعہ مکہ کو چھوڑ کر جارہے تھے کہ ایک رئیس آپ سے راستے میں ملا اور اس نے پوچھا ابو بکر تم کہاں جارہے ہو ؟ آپ نے فرمایا اس شہر میں اب میرے لیے امن نہیں ہے.میں اب کہیں اور چارہا ہوں.اس رئیس نے کہا کہ تمہارے جیسا نیک آدمی اگر شہر سے نکل گیا تو شہر برباد ہو جائے گا.میں تمہیں پناہ دیتاہوں.تم شہر چھوڑ کر نہ جاؤ.آپ اس رئیس کی پناہ میں واپس آگئے.آپ جب صبح کو اٹھتے اور قرآن پڑھتے تو عور تیں اور بچے دیوار کے ساتھ
اصحاب بدر جلد 2 32 حضرت ابو بکر صدیق کان لگا لگا کر قرآن سنتے کیونکہ آپ کی آواز میں بڑی رفت، سوز اور درد تھا اور قرآن کریم چونکہ عربی میں تھا ہر عورت مرد بچہ اس کے معنی سمجھتا تھا اور سننے والے اس سے متاثر ہوتے تھے.جب یہ بات پھیلی تو مکہ میں شور پڑ گیا کہ اس طرح تو سب لوگ بے دین ہو جائیں گے.یعنی قرآن کریم سن کے اور آپ کی رفت بھری آواز سن کے تو یہ لوگ بے دین ہو جائیں گے.یہی حال آجکل احمدیوں کے ساتھ بعض ملکوں میں ہو رہا ہے خاص طور پر پاکستان میں کہ اگر قرآن پڑھتے اور نماز پڑھتے دیکھ لیا احمدیوں کو تو بے دین ہو جائیں گے.اس لیے احمدی کے نماز اور قرآن پڑھنے پر بڑی سخت سزائیں ہیں.بہر حال لکھتے ہیں کہ آخر لوگ اس رئیس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ تم نے اس کو پناہ میں کیوں لے رکھا ہے ؟ اس رئیس نے آکر حضرت ابو بکر سے کہا کہ آپ اس طرح قرآن نہ پڑھا کریں.مکہ کے لوگ اس سے ناراض ہوتے ہیں.حضرت ابو بکر نے فرمایا پھر اپنی پناہ تم واپس لے لو.میں تو اس سے باز نہیں آسکتا.چنانچہ اس رئیس نے اپنی پناہ واپس لے لی.93 شعب ابی طالب میں حضرت ابو بکر کی موجودگی شعب ابی طالب میں بھی حضرت ابو بکر رسول کریم صلی علی ایم کے ہمراہ تھے.قریش مکہ نے توحید کے پیغام کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی مگر جب انہیں ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو انہوں نے ایک عملی اقدام کے طور پر بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ قطع تعلقی کا فیصلہ کیا.چنانچہ اس بارے میں سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ ” قریش نے ایک عملی اقدام کے طور پر باہم مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ آنحضرت صلی یہ کم اور تمام افراد بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات قطع کر دیئے جاویں اور اگر وہ آنحضرت صلی یکم کی حفاظت سے دستبر دار نہ ہوں تو ان کو ایک جگہ محصور کر کے تباہ کر دیا جاوے.چنانچہ محرم 17 نبوی میں ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا گیا کہ کوئی شخص خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب سے رشتہ نہیں کرے گا اور نہ ان کے پاس کوئی چیز فروخت کرے گا.نہ ان سے کچھ خریدے گا اور نہ ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا اور نہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا.“ یہی سلوک آج کل بعض احمدیوں کے ساتھ بھی بعض جگہوں پر ہوتا ہے.بہر حال اس میں آگے لکھا تھا کہ ”جب تک کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے الگ ہو کر آپ کو ان کے حوالے نہ کر دیں.یہ معاہدہ جس میں قریش کے ساتھ قبائل بَنُو كِنَانَہ بھی شامل تھے با قاعدہ لکھا گیا اور تمام بڑے بڑے رؤساء کے اس پر دستخط ہوئے اور پھر وہ ایک اہم قومی عہد نامہ کے طور پر کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا.چنانچہ آنحضرت صلی میں کم اور تمام بنو ہاشم اور بنو مطلب کیا مسلم اور کیا کافر (سوائے آنحضرت صلی علی کلم کے چچا ابو لہب کے جس نے اپنی عداوت کے جوش میں قریش کا ساتھ دیا) شعب ابی طالب میں جو ایک پہاڑی درہ کی صورت میں تھا محصور ہو گئے اور اس طرح گویا قریش کے دو بڑے قبیلے مکہ کی تمدنی زندگی سے عملاً بالکل منقطع ہو گئے اور شیعب ابی طالب میں جو گویا
اصحاب بدر جلد 2 33 حضرت ابو بکر صدیق بنو ہاشم کا خاندانی درہ تھا قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیئے گئے.چند گنتی کے دوسرے مسلمان جو اس وقت مکہ میں موجود تھے وہ بھی آپ کے ساتھ تھے.944 ان مشکل ترین حالات میں بھی حضرت ابو بکڑ نے رسول کریم صلی اللہ کا ساتھ نہ چھوڑا.چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”جب قریش آنحضرت صلی للی کم کی ایذارسانی پر متفق ہو گئے اور انہوں نے ایک دستاویز لکھی تو حضرت صدیق اس تنگی کے زمانے میں آنحضرت صلی علیم کے شریک حال رہے.لہذا اس واقعہ کے بارہ میں ابو طالب نے یہ شعر کہا ہے کہ هُمْ رَجَعُوا سَهْلَ ابْنَ بَيْضَاءَ رَاضِيًّا فَسُتَرَ أَبُو بَكْرِيهَا وَمُحَمَّد اور انہوں نے سھل بن بیضاء کو خوش کرتے ہوئے واپس بھیجا تو اس پر ابو بکر اور محمد خوش ہو گئے.95 یعنی جب قریش مکہ نے آخر کار بائیکاٹ کا یہ معاہدہ ختم کر دیا تو اس پر ابو طالب نے جو اشعار کہے ان میں سے ایک یہ مذکورہ بالا شعر تھا کہ بائیکاٹ ختم ہونے پر آنحضرت صلی علیکم اور ابو بکر دونوں مسرور ہو گئے.غلبت الروم کی پیشگوئی اور اس پر حضرت ابو بکر ضیا شرط لگانا سة اس بارے میں بھی ذکر آتا ہے.اللہ تعالیٰ کے ارشاد الہ غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ کے بارے میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے.انہوں نے کہا کہ غلبت اور غلبت.وہ کہتے ہیں کہ مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہل فارس اہل روم پر غالب آجائیں کیونکہ یہ اور وہ بت پرست تھے اور مسلمان پسند کرتے تھے کہ اہل روم اہل فارس پر غالب آجائیں اس لیے کہ وہ اہل کتاب تھے.انہوں نے اس کا ذکر حضرت ابو بکر سے کیا اور حضرت ابو بکڑ نے رسول اللہ صلی علیہ کم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا وہ ضرور غالب آجائیں گے.حضرت ابو بکر نے اس کا ذکر ان سے یعنی مخالفین سے ، مشرکین سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک مدت مقرر کر لو.اگر ہم غالب آگئے تو ہمارے لیے یہ اور یہ ہو گا اور اگر تم غالب آگئے تو تمہارے لیے یہ اور یہ ہو گا.یعنی اس پر شرط لگائی.تو انہوں نے پانچ سال کی مدت رکھی اور وہ غالب نہ آسکے.انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی علیم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے اس سے زیادہ کیوں نہ رکھ لی.راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ کی مراد دس تھی.یہ ترمذی کی ابواب تفسیر کی روایت ہے.96 رسول کریم صلی ال کم کی چار پیشگوئیاں جو کہ بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئیں صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول کریم صلی للی کم کی چار ایسی پیشگوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئیں.ان پیشگوئیوں میں غلبہ کروم والی پیشگوئی بھی ہے.چنانچہ مسروق روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس تھے.انہوں نے کہا کہ نبی صلی الیم نے جب دیکھا کہ لوگ رو گردانی کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا اے اللہ ! جیسا حضرت یوسف کے وقت میں سات سالہ قحط ڈالا تھا ان پر بھی ایسا ہی قحط نازل کر.سو اُن پر ایسا قحط پڑا جس نے ہر ایک چیز کو فنا کر دیا یہاں تک کہ آخر
اصحاب بدر جلد 2 34 حضرت ابو بکر صدیق انہوں نے کھال اور مُردار اور بد بودار لاشیں بھی کھائیں اور ان میں سے کوئی جو آسمان کی طرف نظر کر تا تو بھوک کے مارے اسے دھواں ہی نظر آتا تھا.جن چار پیشنگوئیوں کا ذکر ہے ان میں سے ایک یہ واقعہ ہے.ابو سفیان آپ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ محمد (صلی الم ) آپ تو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور صلہ رحمی کا حکم کرتے ہیں اور یہ دیکھیں آپ کی قوم ہلاک ہو گئی ہے.اللہ سے ان کے لیے دعا کریں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا.پس انتظار کر اس دن کا جب آسمان ایک واضح دھواں لائے گا.ضرور تم انہی باتوں کا اعادہ کرنے والے ہو جس دن ہم بڑی گرفت کریں گے.پس یہ بڑی گرفت بدر کے دن ہوئی.چنانچہ دھوئیں کا عذاب اور سخت گرفت اور لزاما والی پیشگوئی اور روم کی پیشگوئی یہ سب باتیں ہو چکی ہیں.یہ بخاری کی روایت ہے.97 اس حدیث کی شرح میں علامہ بدر الدین عینی غلبہ کروم والی پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب اہل فارس اور اہل روم کے درمیان جنگ ہوئی تو مسلمان اہل فارس پر اہل روم کی فتح کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ اہل روم ، اہل کتاب تھے جبکہ کفار قریش اہل فارس کی فتح کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ اہل فارس مجوسی تھے اور کفار قریش بھی بتوں کی عبادت کرتے تھے.پس اس بات پر حضرت ابو بکر اور ابو جہل کے در میان شرط لگ گئی یعنی انہوں نے کسی چیز پر آپس میں چند سال کی مدت مقرر کر لی تو رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا کہ وہاں بضح کا لفظ ہے.بضع تو نو برس یا سات برس پر اطلاق پاتا ہے.پس مدت کو بڑھا دو.پھر انہوں نے ، حضرت ابو بکر نے ایسا ہی کیا.پس اہل روم غالب آگئے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- الم غُلِبَتِ الروم في أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَ يَوْمَيذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ الله (الروم :12) ترجمہ یہ ہے الم کہ انا اللهُ أَعْلَمُ.یعنی میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں.اہل روم مغلوب کیے گئے.قریب کی زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضر ور غالب آجائیں گے.تین سے نو سال کے عرصہ تک.حکم اللہ ہی کا چلتا ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن مومن بھی اپنی فتوحات سے بہت خوش ہوں گے جو اللہ کی نصرت سے ہو گی.اور شعی کہتے ہیں کہ اس وقت شرط لگانا حلال تھا.8 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس بارے میں لکھا ہے کہ اسلام سے قبل اور اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تمام متمدن دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے زیادہ وسیع سلطنتیں دو تھیں.سلطنت فارس اور سلطنت روم اور یہ دونوں سلطنتیں عرب کے قریب واقع تھیں.سلطنت فارس عرب کے شمال مشرق میں تھی اور سلطنت روم شمال مغرب میں.چونکہ ان سلطنتوں کی سرحدیں ملتی تھیں اس لیے بعض اوقات ان کا آپس میں جنگ و جدل بھی ہو جاتا تھا.اس زمانہ میں بھی جس کا ذکر آتا ہے یہ بر سر پیکار تھیں.یہ اس زمانے کی بات ہے جب پیشگوئی ہوئی اور سلطنت فارس نے سلطنت روم کو زیر کیا ہوا تھا اور اس کے کئی قیمتی علاقے چھین لیے تھے اور اسے برابر دباتی چلی جاتی تھی.قریش بت پرست تھے اور فارس کا بھی قریباً قریباً یہی مذہب تھا.اس لیے قریش مکہ فارس کی ان فتوحات پر بہت خوش تھے.مگر مسلمانوں کی سلطنت روم سے ہمدردی تھی کیونکہ رومی سلطنت عیسائی تھی اور عیسائی بوجہ اہل 98 سلطنتیں
صحاب بدر جلد 2 35 حضرت ابو بکر صدیق کتاب ہونے اور حضرت مسیح ناصری سے نسبت رکھنے کے بت پرست اور مجوسی اقوام کی نسبت مسلمانوں کے بہت قریب تھے.ایسے حالات میں آنحضرت صلی اللہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر پیشگوئی فرمائی کہ اس وقت روم فارس سے مغلوب ہو رہا ہے مگر چند سال کے عرصے میں وہ فارس پر غالب آجائے گا اور اس دن مومن خوش ہوں گے.یہ پیشگوئی سن کر مسلمانوں نے جن میں حضرت ابو بکر کا نام خاص طور پر مذکور ہوا ہے مکہ میں عام اعلان کرناشروع کیا کہ ہمارے خدا نے یہ بتایا ہے کہ عنقریب روم فارس پر غالب آئے گا.قریش نے جواب دیا کہ اگر یہ پیشگوئی سچی ہے تو آؤ شرط لگالو.چونکہ اس وقت تک اسلام میں شرط لگانا ممنوع نہیں ہوا تھا.حضرت ابو بکر نے اسے منظور کر لیا اور رؤسائے قریش اور حضرت ابو بکر کے در میان چند اونٹوں کی ہار جیت پر شرط قرار پا گئی اور چھ سال کی معیاد مقرر ہو گئی مگر جب آنحضرت علی علی کم کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے فرمایا.چھ سال کی میعاد مقرر کرنا غلطی ہے.اللہ تعالیٰ نے تو میعاد کے متعلق بِضع سنین کے الفاظ فرمائے ہیں جو عربی محاورہ کی رو سے تین سے نے کے نوتک کے لیے بولے جاتے ہیں.یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ آپ صلی علیہ کی مکہ میں ہی مقیم تھے اور ہجرت نہیں ہوئی تھی.اس کے بعد مقررہ میعاد کے اندر اندر ہی جنگ نے اچانک پلٹا کھایا اور روم نے فارس کو زیر کر کے تھوڑے عرصہ میں ہی اپنا تمام علاقہ واپس چھین لیا.یہ ہجرت کے بعد کی بات ہے.99 جس کے بعد پھر رومیوں کی فتح ہو گئی تھی.اس بارہ میں حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ” آپ ابھی مکہ میں ہی تھے کہ عرب میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دے دی ہے اس پر مکہ والے بہت خوش ہوئے کہ ہم بھی مشرک ہیں اور ایرانی بھی مشرک.ایرانیوں کا رومیوں کو شکست دے دینا ایک نیک شگون ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ مکہ والے بھی محمد رسول اللہ صلی للی کم پر غالب آجائیں گے.“یہ شگون انہوں نے نکالا مگر محمد رسول اللہ صلی علیکم کو خدا نے بتایا کہ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بضع سنین رومی حکومت کو شام کے علاقہ میں بے شک شکست ہوئی ہے لیکن اس شکست کو تم قطعی نہ سمجھو.مغلوب ہونے کے بعد رومی پھر 9 سال کے اندر غالب آجائیں گے.اس پیشگوئی کے شائع ہونے پر مکہ والوں نے بڑے بڑے قہقہے لگائے یہاں تک کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بعض کفار نے سوسو اونٹ کی شرط باندھی کہ اگر اتنی شکست کھانے کے بعد بھی روم ترقی کر جائے تو ہم تمہیں سو اونٹ دیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم ہمیں سو اونٹ دینا.بظاہر اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا امکان دور سے دور تر ہو تا چلا جارہا تھا.شام کی شکست کے بعد رومی لشکر متواتر کئی شکستیں کھا کر پیچھے ہٹتا گیا یہاں تک کہ ایرانی فوجیں بحیرہ مار مورا (Marmara Sea)...کے کناروں تک پہنچ گئیں.قسطنطنیہ اپنی ایشیائی حکومتوں سے بالکل منقطع ہو گیا اور روم کی زبر دست حکومت ایک ریاست بن کر رہ گئی مگر خدا کا کلام پورا ہو نا تھا اور پورا ہوا.انتہائی مایوسی کی حالت میں روم کے بادشاہ نے اپنے سپاہیوں سمیت آخری حملہ کے لئے قسطنطنیہ سے خروج کیا اور ایشیائی ساحل پر اتر کر ایرانیوں سے ایک فیصلہ کن جنگ کی طرح ڈالی.رومی سپاہی باوجود تعداد اور سامان میں کم ہونے کے قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق ایرانیوں پر غالب آئے.
اصحاب بدر جلد 2 36 100❝ حضرت ابو بکر صدیق ایرانی لشکر ایسا بھا گا کہ ایران کی سرحدوں سے ورے اس کا قدم کہیں بھی نہ ٹھہرا اور پھر دوبارہ رومی حکومت کے افریقی اور ایشیائی مفتوحہ ممالک اس کے قبضہ میں آگئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابو جہل سے شرط لگائی اور قرآن شریف کی وہ پیشگوئی مدار شرط رکھی کہ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ (الروم :52) اور تین برس کا عرصہ ٹھہرایا تو آپ پیشگوئی کی صورت کو دیکھ کر فی الفور دوراندیشی کو کام میں لائے اور شرط کی کسی قدر ترمیم کرنے کے لئے ابو بکر صدیق کو حکم فرمایا اور فرمایا کہ بضع سنتین کا لفظ مجمل ہے اور اکثر نو برس تک اطلاق پاتا ہے.101❝ مختلف قبائل میں تبلیغ کے لئے آنحضرت علی ایم کے ساتھ ساتھ ہونا پھر نبی کریم صلی لی نام کا قبائل کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنا یعنی اپنا دعویٰ پیش کرنا اور حضرت ابو بکر کا آپ کے ساتھ ساتھ ہونا.جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب کرنے اور اپنے نبی کو عزت و اکرام عطا فرمانے اور اپنے وعدے کو پورا کرنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللی کم حج کے ایام میں باہر نکلے اور انصار کے قبائل اوس اور خزرج سے ملاقات کی.آپ نے حج کے ایام میں اپنے آپ کو پیش کیا جیسا کہ آپ ہر سال حج کے ایام میں کیا کرتے تھے.چنانچہ ایک روایت میں مذکور ہے.حضرت علی بن ابو طالب بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی المیہ ہم کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قبائل عرب کے سامنے پیش کریں تو میں اور حضرت ابو بکر آنحضرت صلی علیکم کے ہمراہ منی کی طرف نکلے یہاں تک کہ ہم عربوں کی ایک مجلس کے پاس پہنچے.حضرت ابو بکر آگے بڑھے اور آپ حسب و نسب میں مہارت رکھتے تھے.انہوں نے پوچھا آپ لوگ کس قوم سے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ قبیلہ سے.حضرت ابو بکر نے پوچھار بیعہ کی کس شاخ سے ؟ انہوں نے کہاؤ ہل سے.پھر حضرت علی کہتے ہیں کہ ہم لوگ اوس اور خزرج کی مجلس میں گئے اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی علیم نے انصار کا نام دیا تھا کیونکہ انہوں نے آپ کو پناہ اور مدد دینا قبول کیا تھا.حضرت علی کہتے ہیں کہ ہم نہیں اٹھے یہاں تک کہ ان لوگوں نے نبی کریم صلی علیم کی بیعت کرلی.102 الله ایک اور روایت میں ہے.حضرت علی نے بیان فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی علیم کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو عرب قبائل کے سامنے پیش کریں تو آپ صلی اللہ کی اس غرض سے نکلے.میں اور حضرت ابو بکر بھی آپ کے ہمراہ تھے.ہم ایک مجلس میں پہنچے جس میں سکینت اور وقار تھا.وہ لوگ بلند مقدرت والے اور ذی وجاہت تھے.حضرت ابو بکر نے ان سے پوچھا تم لوگ کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم بنو شیبان بن ثعلبہ سے ہیں.حضرت ابو بکرؓ نے رسول کریم صلی المی کم کی طرف متوجہ
اصحاب بدر جلد 2 37 37 b حضرت ابو بکر صدیق ہو کر کہا.میرے ماں باپ آپ پر قربان ان کی قوم میں اس سے بڑھ کر کوئی اور معزز نہیں.ان لوگوں میں مفروق بن عمرو، مثلی بن حارثہ ، هاني بن قبیصہ اور نُعمان بن شریک تھے.رسول اللہ صلی اللہ ہم نے ان کے سامنے یہ آیت پڑھی کہ قُلْ تَعَالَوْا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبِّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۚ وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَضَكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (الانعام:152) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تو کہہ دے.آؤ میں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دیا یعنی یہ کہ کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہر او اور لازم کر دیا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان سے پیش آؤ اور رزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو.ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی اور تم بے حیائیوں کے جوان میں ظاہر ہوں اور جو اندر چھپی ہوئی ہوں دونوں کے قریب نہ پھٹکو اور کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرمت بخشی ہو قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ.یہی ہے جس کی وہ تمہیں تاکید کرتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو.اس پر مفروق نے کہا کہ یہ کلام زمین والوں کا نہیں.اگر یہ ان کا کلام ہو تا تو ہم ضرور جان لیتے.پھر رسول اللہ صلی العلیم نے یہ آیت تلاوت فرمائی اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِي ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النحل: 91) یعنی یقینا اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نا پسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے.وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو.یہ کلام سننے کے بعد مفروق نے کہا.اے قریشی بھائی ! اللہ کی قسم! آپ نے اعلیٰ اخلاق اور اچھے کاموں کی طرف بلایا ہے.یقیناً ایسی قوم سخت جھوٹی ہے جس نے آپ کی تکذیب کی اور آپ صلی نیلم کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی.مفتی نے کہا ہم نے آپ کی بات سنی اے میرے قریشی بھائی ! آپ نے ن گفتگو کی اور جو باتیں آپ نے کہیں انہوں نے مجھے متعجب کیا لیکن ہمارا کسری کے ساتھ ایک معاہدہ ہے کہ نہ ہم کوئی نیا کام کریں گے اور نہ کوئی نیا کام کرنے والے کو پناہ دیں گے اور غالباً جس چیز کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں یہ ان میں سے ہے جسے بادشاہ بھی نا پسند کرتے ہیں.اگر آپ چاہتے ہیں کہ عرب کے قرب وجوار کے لوگوں کے مقابلہ میں ہم آپ کی مدد کریں اور آپ کی حفاظت کریں تو ہم ایسا کریں گے.اس پر رسول اللہ صلی علی یکم نے ان سے فرمایا: تمہارے جواب میں کوئی برائی نہیں کیونکہ تم لوگوں نے وضاحت کے ساتھ سچائی کا اظہار کر دیا.اللہ کے دین پر وہی قائم رہ سکتا ہے جس کو اللہ نے ہر طرف سے گھیرے میں لیا ہو.پھر رسول اللہ صلی الم نے حضرت ابو بکر کیا ہاتھ پکڑا اور اٹھ کر روانہ ہو گئے.103 ایک روایت ہے کہ آپ صلی تعلیم نے یہ فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر تھوڑی سی مدت میں اللہ تعالیٰ تمہیں ان یعنی کسری کی سرزمین اور ملک کا وارث بنادے اور ان کی خواتین تمہارے قبضہ میں آجائیں تو کیا تم اللہ کی تسبیح و تقدیس کرو گے ؟ یہ سن کر اس نے کہا کہ الہی !ہم تیار ہیں یعنی قسم کھائی.خدا کی قدرت بہترین
اصحاب بدر جلد 2 38 حضرت ابو بکر صدیق دیکھیں کہ آنحضرت ملی ایم کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی اور وہی منی جو اس وقت کسری کی طاقت سے اتنا مرعوب تھا کہ اس کی ناراضگی کے ڈر سے اسلام قبول کرنے سے ہچکچا رہا تھا کچھ ہی دیر بعد حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت میں اسی کسری سے مقابلہ کرنے والی اسلامی فوج کے سپہ سالار یہی متقی بن حارثہ ہی 104 تھے جنہوں نے کسری کی کمر توڑ کے رکھ دی اور آنحضرت صلی الم کی بشارتوں کے مصداق بنے.4 اسی طرح ایک حج کے موقع کی روایت یوں ہے کہ جب قبیلہ بکر بن وائل حج کے لیے مکہ آیا تو رسول اللہ صلی الم نے حضرت ابو بکر سے فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس جائیں اور مجھے ان کے سامنے پیش کریں یعنی تبلیغ کریں، آپ کا دعویٰ پیش کریں.حضرت ابو بکر ان لوگوں کے پاس گئے اور نبی کریم صلی علیکم کو ان کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ ﷺ نے ان کو اسلام کی تبلیغ کی.105 بیعت عقبہ ثانیہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر نبی کریم ملی ایم کے ہمراہ حضرت ابو بکر اور حضرت علی اور نبی کریم صلی عوام کے چھا حضرت عباس تھے.حضرت عباس جو کہ اس تقریب اور میٹنگ کے گویا منتظم اعلیٰ تھے انہوں نے حضرت علی کو ایک گھائی پر بطور پہرے دار کھڑا کیا اور ایک دوسری گھائی پر حضرت ابو بکر کو ، انہوں نے پہرے اور حفاظت کے لیے کھڑا کیا تھا.106 ہجرت کا حکم اور مظلوم مسلمانوں کی مکہ سے ہجرت پھر نبی اکرم صلی یی کم کی ہجرت مدینہ جب ہوئی ہے اس میں حضرت ابو بکر صدیق کی مصاحبت کا ذکر ہے.لکھا ہے کہ کفار مکہ کا مکہ میں مقیم مسلمانوں پر ظلم و ستم مسلسل بڑھتا جار ہا تھا کہ اسی دوران آنحضرت صلی علیکم کو ایک خواب دکھایا گیا جس میں دو مسلمانوں کو وہ جگہ دکھائی گئی جدھر آپ نے ہجرت کرنا تھی.وہ جگہ شور زمین والی کھجوروں میں گھری ہوئی تھی لیکن اس کا نام نہ دکھایا گیا تھا اور نہ بتایا گیا تھا.البتہ اس کا جغرافیہ اور نقشہ دیکھتے ہوئے آنحضرت صلی الی یکم نے خود اجتہاد فرماتے ہوئے فرمایا کہ تجر یا یمامہ ہوگی جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ذکر ملتا ہے جس کے مطابق آپ نے فرمایا: فَذَهَبَ وَهَلِي إِلَى أَنّهَا الْيَمَامَةُ أَوِ الهَجْرُ، فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَترب.107 کہ میرا خیال اس طرف گیا کہ یہ جگہ یمامہ یا حجر ہے مگر کیا دیکھتا ہوں کہ وہ تو بیشر ب شہر ہے.109 108 یمامہ بھی یمن کا ایک مشہور شہر ہے.اور ھجر نام کی متعدد بستیاں عرب خطے میں پائی جاتی تھیں.بحرین کا ایک شہر اور بحرین کا ایک حصہ بھی ہجر کہلا تا تھا.بہر حال کچھ ہی عرصہ بعد حالات ایک رخ پر ہونے لگے اور مدینہ کے سعادت مند انصار نے اسلام قبول کرنا شروع کیا تو القائے ربانی سے آپ پر منکشف ہوا کہ وہ سر زمین تو یثرب کی سر زمین تھی
اصحاب بدر جلد 2 جو بعد میں مدینہ کے نام سے مشہور ہونے والی تھی.39 حضرت ابو بکر صدیق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نبی کریم صلی ا ولم کے اس اجتہاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا وہ حدیث جس کے یہ الفاظ ہیں فَذَهَبَ وَهَلِي إِلى أَنهَا الْيَمَامَةُ أَوِ الهَجَرُ، فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَثْرِبُ.صاف صاف ظاہر کر رہی ہے کہ جو کچھ آنحضرت صلی میں ہم نے اپنے اجتہاد سے پیشگوئی کا محل و مصداق سمجھا تھا وہ غلط نکلا.110 چنانچہ آنحضرت صلی علی کرم نے مکہ کے مظلوم اور ستم رسیدہ صحابہ اور مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت اور رہنمائی فرما دی جس پر مکہ کے مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کر دی.دوسری طرف بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد اس ہجرت میں بھی تیزی آگئی اور گھروں کے گھر اور محلوں کے محلے خالی ہونے لگے.اس صورتحال نے مکہ کے ظالم سر داروں کو مزید اشتعال دلا دیا اور وہ غصہ سے تلملانے لگے جس پر انہوں نے ایک اور قدم اٹھایا کہ ان مظلوموں کو ہجرت کرنے سے بھی روکا جانے لگا اور ظلم و ستم کے نت نئے طریقے نکالے جانے لگے.کبھی شوہر کو تو جانے دیا لیکن اس کی بیوی اور بچے کو اس سے چھین لیا گیا.کبھی کسی سے سرمایہ اور مال و دولت اس بہانے ہتھیا لی گئی کہ یہ تو تُو نے ہمارے شہر مکہ میں کمائی تھی.اگر یہاں سے جانا ہے تو یہ ساری دولت ہمیں دے کر جاؤ.کبھی ماں کی ممتا کا واسطہ دے کر روک لیا کہ اپنی ماں سے ملتے جاؤ اور پھر راستے میں ہی ان کو رسیوں سے باندھ کر کو ٹھڑیوں میں ڈال دیا.111 ممکن ہے اللہ تمہارے لیے ایک ساتھی کا انتظام فرمادے لیکن دولتِ ایمان سے مالا مال اور دین اسلام کی محبت میں سرشار صبر وشکر کرنے والے مومنوں کی جماعت دیوانہ وار مدینہ کی طرف مسلسل ہجرت کرتی چلی گئی.بہر حال مکہ کم و بیش ہر اس مسلمان سے خالی ہو گیا جو ہجرت کر سکتا تھا وہ ہجرت کر گیا.اب کچھ انتہائی کمزور اور بے بس مسلمان ہی پیچھے رہ گئے تھے جن کا ذکر قرآن کریم نے یوں کیا ہے کہ اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيْلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا (النساء: 99) سوائے ان مردوں اور عورتوں اور بچوں کے جنہیں کمزور بنادیا گیا تھا جن کو کوئی حیلہ میسر نہیں تھا اور نہ ہی وہ نکلنے کی کوئی راہ پاتے تھے.ان کے علاوہ آنحضرت صلی ا لم ابھی تک مکہ میں ہی اذن خداوندی کا انتظار فرمارہے تھے.حضرت علی بھی مکہ میں ہی تھے.البتہ حضرت ابو بکر صدیق ہجرت کی اجازت طلب کرنے حاضر خدمت ہوئے تو ارشاد ہوا کہ ٹھہر جاؤ.مجھے امید ہے کہ مجھے بھی اجازت دی جائے گی یا ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا کہ تم جلدی نہ کرو.ممکن ہے اللہ تمہارے لیے ایک ساتھی کا انتظام فرما دے.ہجرت کے انجانے سفر کی تیاری اس پر حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا آپ کو بھی
اصحاب بدر جلد 2 40 حضرت ابو بکر صدیق ہجرت کی اجازت مل جائے گی ؟ گویا ہجرت کی وجہ سے نبی اکرم صلی ا ہم سے جدائی کا غم جاتارہا.حضرت ابو بکر یہ نوید مسرت سن کر واپس لوٹ کر آئے اور ہجرت کا ارادہ ملتوی کر دیا البتہ انہوں نے حکیمانہ انداز میں دو اونٹنیاں خریدیں جنہیں خاص طور پر کھلا کھلا کر ہجرت کے انجانے سفر کے لیے تیار کرنے لگے.112 ان باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی علی نام اور آپ کے ساتھیوں نے ہجرت کی تیاری شروع کی.ایک کے بعد ایک خاندان مکہ سے غائب ہونا شروع ہوا.اب وہ لوگ بھی جو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا انتظار کر رہے تھے دلیر ہو گئے.بعض دفعہ ایک ہی رات میں مکہ کی ایک پوری گلی کے مکانوں کو تالے لگ جاتے تھے اور صبح کے وقت جب شہر کے لوگ گلی کو خاموش پاتے تو دریافت کرنے پر انہیں معلوم ہو تا تھا کہ اس گلی کے تمام رہنے والے مدینہ کو ہجرت کر گئے ہیں اور اسلام کے اس گہرے اثر کو دیکھ کر جو اندر ہی اندر مکہ کے لوگوں میں پھیل رہا تھا وہ حیران رہ جاتے تھے.آخر مکہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا صرف چند غلام، خو د رسول اللہ صلی الیم، حضرت ابو بکر اور حضرت علی مکہ میں رہ گئے.113 پھر آپ بیان فرماتے ہیں کہ کفار مکہ کو دوسرے لوگوں کی نسبت رسول کریم صلی ای کم سے فطرتاً زیادہ بغض و عداوت تھی کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ آپ ہی کی تعلیم کی وجہ سے لوگوں میں شرک کی مخالفت پھیلتی جاتی تھی.وہ جانتے تھے کہ اگر وہ آپ کو قتل کر دیں تو باقی جماعت خود بخود پراگندہ ہو جائے گی.اس لئے یہ نسبت دوسروں کے وہ آنحضرت مصلی یکم کو زیادہ دکھ دیتے اور چاہتے کہ کسی طرح آپ اپنے لئے بہ وہ ایم دکھ کہ دعاوی سے باز آجائیں لیکن باوجود ان مشکلات کے آپ نے صحابہ کو تو ہجرت کا حکم دے دیا مگر خودان دکھوں اور تکلیفوں کے باوجو د مکہ سے ہجرت نہ کی کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی اذان نہ ہوا تھا.چنانچہ جب حضرت ابو بکرؓ نے پوچھا کہ میں ہجرت کر جاؤں تو آپ نے جواب دیا.عَلَى رِسُلِكَ فَإِنِّي أَرْجُو آن يُؤْذَنَ لِی.آپ ابھی ٹھہریں امید ہے کہ مجھے بھی اجازت مل جائے.1146 کفار کا دارالندوہ میں جمع ہونا اور نبی اکرم صلی ا یکم کے قتل کا مشورہ دارالندوہ میں کفار نبی کریم صلی ال نیم کے خلاف خفیہ مشورہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے.اس کے بارے میں لکھا ہے کہ رؤسائے مکہ اب اس بات پر سخت غصہ میں تھے اور پیچ و تاب کھا رہے تھے کہ مسلمان ان کے ہاتھ سے بیچ کر نکل گئے ہیں اس پر اب وہ دارالندوہ میں جمع ہوئے.علامہ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب قریش نے دیکھا کہ نبی کریم صلی الیم کے ساتھ ایک گروہ اور کچھ اصحاب مل گئے ہیں جو نہ مکہ کے مسلمانوں میں سے ہیں اور نہ ہی ان کے علاقے کے ہیں.نیز قریش نے دیکھا کہ صلى الم کے صحابہ ان لوگوں کی طرف ہجرت کر کے نکل رہے ہیں تو قریش نے جان لیا کہ وہ ایک امن کی جگہ پڑاؤ کر رہے ہیں اور انہیں ان لوگوں یعنی اہل مدینہ کی جانب سے مکمل تحفظ فراہم ہو گیا ہے تو انہیں خدشہ ہوا کہ رسول کریم صلی ہی کم ہجرت کر کے ان کی طرف نہ چلے جائیں اور قریش نے جان لیا الله سة
حاب بدر جلد 2 41 حضرت ابو بکر صدیق کہ وہ لوگ قریش سے جنگ کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں.چنانچہ وہ آپ کے لیے دارالندوہ میں جمع ہوئے.یہ قصی بن کلاب کا وہ گھر تھا کہ قریش کا جو بھی فیصلہ ہوتا تھا وہ اسی میں ہو تا تھا.جب بھی انہیں آپ کے بارے میں خدشہ محسوس ہوتا تو وہ لوگ یہاں مشورہ کے لیے آیا کرتے تھے.ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے بیان کیا کہ جب وہ لوگ اس کے لیے جمع ہوئے اور انہوں نے عہد و پیمان کیا کہ وہ دارالندوہ میں داخل ہوں گے تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللی کم کے بارے میں مشاورت کریں.جس روز کا انہوں نے عہد و پیمان کیا تھا اس دن وہ لوگ گئے اور وہ دن يَوْمُ الزّخمہ کہلا تا ہے.ان کے سامنے ایک بوڑھے اور عمر رسیدہ شخص کی ہیئت میں ابلیس ظاہر ہوا.مطلب یہ ہے کہ ایسا انسان تھا جو ابلیس صفت انسان تھا.بہر حال جس نے چادر اوڑھی ہوئی تھی اور دارالندوہ کے دروازے پر کھڑا ہوا.لوگ اسے جانتے نہیں تھے.جب ان لوگوں نے اسے دروازے پر کھڑا دیکھا تو انہوں نے کہا یہ بوڑھا شخص کون ہے؟ اس شخص نے کہا کہ میں اہل مسجد میں سے ایک بوڑھا شخص ہوں اور اس نے کہا کہ میں نے وہ بات سن لی ہے جس کا تم نے عہد و پیمان کیا تھا.پس تمہارے پاس میں اس لیے آیا ہوں کہ تا کہ سن لوں کہ تم لوگ کیا کہتے ہو.امید ہے کہ تمہیں اس سے کوئی نہ کوئی رائے یا بھلائی مل جائے گی.اس نے اپنے بارے میں کہا.ان لوگوں نے کہا ٹھیک ہے اندر آجاؤ.وہ ان لوگوں کے ساتھ اندر داخل ہو گیا.وہاں قریش کے سرداران کی ایک بڑی جماعت شریک تھی جن کے نمایاں ناموں میں عُتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ، ابو سفیان بن حرب ، طعیمہ بن عَدِی اور بھی بعض لوگ تھے.ابو جہل بن ہشام، حجاج کے دو بیٹے اور بہت سارے لوگ تھے.اس کے علاوہ کچھ سردار بھی تھے جن کا شمار قریش سے نہیں ہو تا.جب سب لوگ جمع ہو گئے تو تجاویز دینے کا وقت آیا تو ایک شخص نے تجویز پیش کی کہ اسے یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو لوہے کی بیٹیوں میں جکڑ کر قید کر دو اور باہر سے دروازہ بند کرو.پھر اس پر اسی موت کے آنے کا انتظار کرو جو اس سے پہلے اس جیسے دو شعراء مثلاً زھیر اور نابغہ پر آچکی ہے.اور دیگر شعراء پر جو پہلے گزر چکے ہیں.یعنی انجام کا انتظار کرو جس طرح اس سے پہلے دو شاعروں زہیر اور نابغہ وغیرہ کا ہو چکا ہے یعنی موت ان کا خاتمہ کر دے تو جیسے ان کو موت آئی تھی آپ کے لیے بھی یہی Plan کیا گیا.اس پر اس بوڑھے مجدی نے کہا نہیں.اللہ کی قسم! میرے نزدیک یہ رائے تمہارے لیے مناسب نہیں ہے.واللہ ! اگر تم لوگوں نے اسے قید کر دیا تو اس کی خبر بند دروازے سے ر نکل کر اس کے ساتھیوں تک ضرور پہنچ جائے گی.پھر کچھ بعید نہیں کہ وہ لوگ تم پر دھاوا بول کر اس نص کو تمہارے قبضہ سے نکال لے جائیں.پھر اس کی مدد سے اپنی تعداد بڑھا کر تمہیں مغلوب کر لیں.لہذا کوئی اور تجویز سوچو.اس پر ایک شخص نے یہ تجویز دی کہ ہم اس شخص کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور اپنے شہر سے جلا وطن کر دیں پھر ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جاتا ہے اور کہاں رہتا ہے.جب وہ ہم سے غائب ہو جائے گا اور ہم اس سے فارغ ہو جائیں گے تو ہمارا معاملہ ٹھیک ہو جائے گا اور ہم پہلے جیسی حالت میں رہنے لگیں گے.اس پر بوڑھے مجدی نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! یہ رائے بھی ٹھیک نہیں.تم دیکھتے نہیں کہ اس شخص کی بات کتنی عمدہ اور بول کتنے بیٹھے ہیں اور جو کچھ لاتا ہے اس
صحاب بدر جلد 2 42 حضرت ابو بکر صدیق کے ذریعہ کس طرح لوگوں کے دلوں کو مغلوب کر لیتا ہے.اللہ کی قسم ! اگر تم نے ایسا کیا تو تم لوگ امن میں نہیں رہو گے کہ وہ عرب کے کسی قبیلہ میں اترے اور اپنی باتوں سے ان پر غلبہ حاصل کرلے اور وہ لوگ اس کی پیروی کرنے لگیں.پھر ان کے ساتھ مل کر تمہاری طرف پیش قدمی کریں اور تمہیں تمہارے ہی شہر میں روند ڈالیں اور تمہارے معاملات تمہارے ہاتھوں سے لے لیں اور پھر جیسا چاہے تم سے سلوک کریں.لہذا اس کے علاوہ کوئی اور تجویز سوچو.اس پر ابو جہل نے کہا کہ میری رائے تو یہ ہے که قریش کے ہر قبیلے سے ایک ایک نو عمر ، مضبوط اور حسب و نسب والا جو ان چنا جائے اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں تیز کاٹنے والی تلوار دے دی جائے پھر وہ لوگ اس یعنی محمد سلیم) کا قصد کریں اور ایک شخص کے حملہ کرنے کی طرح اس پر حملہ کیا جائے اور وہ اسے قتل کر دیں.یوں ہمیں اس شخص سے راحت مل جائے گی.اس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل میں منقسم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف سارے قبیلوں سے جنگ نہ کر سکیں گے.لہذا دیت لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم دیت ادا کر دیں گے.اس پر بوڑھے مجدی نے کہا.رائے ہے تو بس اس شخص کی، باقی سب فضول باتیں ہیں.غرض اس رائے پر سب اتفاق کرتے ہوئے چلے گئے.15 مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم اور حضرت ابو بکر کی مصاحبت دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ تم کو اس ساری صورت حال سے آگاہ فرما دیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے : وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ اَوْ يَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ المكرين قال :31) اور یاد کرو جب وہ لوگ جو کافر ہوئے تیرے متعلق سازشیں کر رہے تھے تاکہ تجھے ایک ہی جگہ پابند کر دیں یا تجھے قتل کر دیں یا تجھے وطن سے نکال دیں.اور وہ مکر میں مصروف تھے اور اللہ بھی ان کے مکر کا توڑ کر رہا تھا اور اللہ مکر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.اور ساتھ ہی جبریل کے ذریعہ آنحضرت صلی ایم کو ہجرت کی اجازت دے دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ کفارِ مکہ نے آنحضرت ملا لی ایم کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ جل شانہ نے اپنے اس پاک نبی کو اس بد ارادے کی خبر دے دی اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم فرمایا اور پھر بفتح و نصرت واپس آنے کی بشارت دی.بدھ کاروز اور دوپہر کا وقت اور سخت گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلا منجانب اللہ ظاہر ہوا.117 116 حضرت ابو بکر کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو ہجرت کی اجازت ملنے پر آنحضرت صلی علیہ کی پوری احتیاط کے ساتھ حضرت ابو بکر کے گھر عین دو پہر کے وقت یعنی اس وقت تشریف لے گئے کہ جس وقت میں مکہ کے باشندے عموماً اپنے گھروں میں ہی رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی طرف آنا جانا نہیں ہوتا اور مزید احتیاط یہ بھی کی کہ شدید گرمی جو تھی چنانچہ اپنا چہرہ اور سر وغیرہ بھی کپڑے سے ڈھانپے رکھا.جب آپ حضرت ابو بکر کے گھر کے قریب پہنچے تو کسی نے بتایا اور طبرانی اور فتح الباری کی روایت کے مطابق حضرت اسماء نے کہا کہ نبی اکرم صلی علیکم تشریف
اصحاب بدر جلد 2 43 حضرت ابو بکر صدیق لاتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.ابو بکر کہنے لگے کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ، اللہ کی قسم نبی صلی ا یکم جو اس گھڑی میں ہمارے پاس تشریف لائے ہیں اس کی وجہ کوئی خاص بات ہے جو پیش آئی ہے اور ساتھ ہی حضرت ابو بکر گھبر ا کر تیزی سے فدایانہ انداز میں باہر نکلے اور جب نبی اکرم صلی ا لم اندر تشریف لائے تو کمرے میں حضرت عائشہ اور حضرت اسماء تھیں.آنحضرت صلی علی کرم نے حضرت ابو بکر سے فرمایا کہ تمہارے پاس جو لوگ ہیں ان کو باہر بھیج دو جس پر حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا کہ حضور صرف یہی میری دو بیٹیاں اس وقت یہاں ہیں، اور کوئی نہیں ہے یا ایک روایت کے مطابق عرض کیا یا رسول اللہ ! صرف آپ کے گھر کے لوگ ہی یہاں ہیں اور کوئی نہیں.چنانچہ آنحضرت صلیم نے فرمایا کہ ابو بکر مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے.حضرت ابو بکر نے بے ساختہ عرض کیا یا رسول اللہ؟ آپ کی رفاقت ؟ یعنی میں بھی آپ کے ساتھ ہوں گا ؟ آپ صلی الم نے فرمایا ہاں.یہ بخاری کی روایت ہے.118 اس پر حضرت ابو بکر خوشی سے رو پڑے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ اس دن پہلی بار مجھے معلوم ہوا کہ خوشی سے بھی کوئی روتا ہے.19 حضرت ابو بکر کے گھر میں ہجرت کی منصوبہ بندی اس کے بعد وہاں ہجرت کی ساری منصوبہ بندی اور لائحہ عمل تیار کیا گیا.حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! اسی غرض کے لیے میں نے دو اونٹنیاں خریدی ہوئی تھیں.ان میں سے ایک آپ لے لیں.آپ نے فرما یا قیمت دے کر لوں گا اور آپ نے جب قیمت دینے پر اصرار کیا تو حضرت ابو بکر کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا.دو اونٹنیاں حضرت ابو بکر نے آٹھ سو درہم میں خریدی تھیں اور چار سو درہم میں ایک اونٹنی نبی اکرم صلی علیہم نے خریدی یا ایک روایت کے مطابق نبی اکرم صلی ا ہم نے یہ اونٹنی آٹھ سو درہم میں خریدی تھی.120 الله سة پھر یہ طے کیا گیا کہ پہلی منزل غارِ ثور ہو گی اور تین دن وہیں قیام کرنا ہو گا اور یہ بھی طے ہوا کہ کسی ایسے ماہر کو لیا جائے جو مکہ کے چاروں طرف کے تمام معروف اور غیر معروف صحرائی راستوں سے واقف ہو.اس کے لیے عبد اللہ بن اریقط سے بات ہوئی.یہ اگر چہ مشرک تھا لیکن شریف النفس اور ذمہ دار اور دیانت دار شخص تھا.سیرت نگار اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مسلمان نہیں ہوا تھا تاہم ایک روایت کے مطابق اس نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا.بہر حال اس کے حوالے تین اونٹنیاں کی ئیں اور طے کیا گیا کہ وہ ٹھیک تین دن بعد غار ثور پر علی الصبح چلا آئے.حضرت عبد اللہ بن ابو بکر جو ایک ہوشیار نوجوان تھے ان کے سپر د یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ روزانہ مکہ کی مجالس میں گھوم پھر کر جائزہ لیں گے کہ کیا کچھ ہو رہا ہے اور پھر رات کو وہ غارِ ثور پہنچ کر ساری رپورٹیں کریں گے.حضرت ابو بکر کے ایک دانا اور ذمہ دار غلام عامر بن فہیرہ کے سپرد یہ ڈیوٹی ہوئی کہ وہ اپنی بکریاں غار ثور کے گرد ہی
صحاب بدر جلد 2 44 حضرت ابو بکر صدیق چرائے گا اور رات کے وقت وہ دودھ دینے والی بکریوں کا تازہ دودھ فراہم کرے گا اور پھر مکہ سے نکلنے کا وقت طے کرنے کے بعد آنحضرت صلی ای کم جلد ہی حضرت ابو بکر کے گھر سے واپس اپنے گھر تشریف لے آئے.121 ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے سامنے سے نکل گئے یہاں آکر آپ نے حضرت علی کو اپنے ہجرت کے پروگرام سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے سپرد ایک جاں نثارانہ کام یہ کیا کہ آج رات وہ حضور صلی علیکم کے بستر مبارک پر وہی سبز یا ایک روایت کے مطابق سرخ رنگ کی حضر می چادر اوڑھ کر سوئیں گے جو نبی اکرم صلی کم خود لے کر سویا کرتے تھے اور اپنے اس جاں شار فدائی خادم کو خدائی تائید و نصرت کی یقین دہانی کراتے ہوئے آپ صلی الیکم نے کہا کہ فکر نہ کرنا اور بڑے آرام سے میرے بستر پر سوئے رہنا دشمن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا.نیز صادق و امین رسول خدا صلی علیہ کی کو چونکہ اہالیانِ مکہ کی دی ہوئی امانتوں کا بھی فکر اور ذمہ داری کا احساس تھا اس لیے فرمایا کہ وہ لوگوں کو امانتیں واپس کرتے ہوئے میرے پیچھے آجائیں.یعنی حضرت علی ہو فرمایا کہ امانتیں واپس کر کے پھر مدینہ آجانا.چنانچہ حضرت علی تین دن مکہ میں ٹھہرے یہاں تک کہ آپ نے رسول اللہ صلی علیکم کی طرف سے لوگوں کو امانتیں واپس کر دیں.جب آپ اس سے فارغ ہو گئے تو آپ بھی رسول کریم صلی ا ل ا م سے قبا میں جاملے.اس کے بعد آنحضرت ملا ہم اپنے گھر سے باہر تشریف لائے جبکہ کفار مکہ کے چنیدہ بہادر جن کی آنکھوں میں گویا خون اترا ہو ا تھا وہ تلواریں ہاتھ میں لیے عین نبی کریم صلی علیکم کے گھر کے باہر چاق و چوبند پہرہ دے رہے تھے کہ کب رات گہری ہو اور ہم دھاوا بول کر ایک ہی وار میں رسول اکرم صلی علیہم کا گو یا کام تمام کر دیں اور ابو جہل جو کہ گویا ان کا سرغنہ تھا بڑے تکبر اور تمسخر سے یہ کہہ رہا تھا کہ محمد یہ کہتا ہے کہ اگر تم اس کے معاملہ میں اس کی پیروی کرو گے تو تم عرب و عجم کے بادشاہ بن جاؤ گے پھر تم اپنی موت کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو تمہارے لیے اردن کے باغات کی مانند باغات بنائے جائیں گے اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تمہارے درمیان قتل و غارت گری ہو گی.آپ صلی ام باہر نکلے اور فرمایا ہاں ایسے ہی میں کہتا ہوں اور سورۃ یسین کی یہ آیات پڑھتے ہوئے که ليسَ وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا انْذِرَ أَبَاؤُهُمْ فَهُمْ غُفِلُونَ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَى أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ اغلَا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَهُمْ لا يُبْصِرُونَ (يس: 102) لیس.یا سید ! اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے سردار ! حکمتوں والے قرآن کی ف ہے تو یقینا مر سلین میں سے ہے.صراط مستقیم پر گامزن ہے.یہ کامل غلبہ والے اور بار بار رحم کرنے والے کی تنزیل ہے تاکہ تو ایک ایسی قوم کو ڈرائے جن کے آباؤ اجداد نہیں ڈرائے گئے.پس وہ غافل پڑے ہیں.یقیناً ان میں سے اکثر پر قول صادق آگیا ہے.پس وہ ایمان نہیں لائیں گے.یقینا ہم نے ان
اصحاب بدر جلد 2 45 122 حضرت ابو بکر صدیق کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں اور وہ اب ٹھوڑیوں تک پہنچے ہوئے ہیں.اس لیے وہ سر اونچا اٹھائے ہوئے ہیں اور ہم نے ان کے سامنے بھی ایک روک بنادی ہے اور ان کے پیچھے بھی ایک روک بنادی ہے اور ان پر پردہ ڈال دیا ہے اس لیے وہ دیکھ نہیں سکتے.آپ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے سامنے سے نکل گئے لیکن خدا کی قدرت کہ آپ مصلی الم جاتے ہوئے کسی کو بھی دکھائی نہ دیے بلکہ وہ لوگ گاہے گاہے اندر جھانک کر دیکھ لیتے اور اطمینان کر لیتے کہ محمد صلی اللی کم اپنے بستر پر ہی ہیں.اس واقعہ کا ذکر سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں کیا ہے کہ رات کا تاریک وقت تھا اور ظالم قریش جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اپنے خونی ارادے کے ساتھ آپ کے مکان کے گرد جمع ہو کر آپ کے مکان کا محاصرہ کر چکے تھے اور انتظار تھا کہ صبح ہویا آپ اپنے گھر سے نکلیں تو آپ پر ایک دم حملہ کر کے قتل کر دیا جاوے.آنحضرت صلی علیکم کے پاس بعض کفار کی امانتیں پڑی تھیں کیونکہ باوجود شدید مخالفت کے اکثر لوگ اپنی امانتیں آپ کے صدق و امانت کی وجہ سے آپ کے پاس رکھوا دیا کرتے تھے.لہذا آپ نے حضرت علی گو ان امانتوں کا حساب کتاب سمجھا دیا اور تاکید کی کہ بغیر امانتیں واپس کئے مکہ سے نہ نکلنا.اس کے بعد آپ نے ان سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور تسلی دی کہ انہیں خدا کے فضل سے کوئی گزند نہیں پہنچے گا.وہ لیٹ گئے اور آپ نے اپنی چادر جو سرخ رنگ کی تھی ان کے اوپر اڑھادی.اس کے بعد آپ اللہ کا نام لے کر اپنے گھر سے نکلے.اس وقت محاصرین آپ کے دروازے کے سامنے موجود تھے مگر چونکہ انہیں یہ خیال نہیں تھا کہ آنحضرت صلی علیم اس قدر اول شب میں ہی گھر سے نکل آئیں گے وہ اس وقت اس قدر غفلت میں تھے کہ آپ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر تک نہ ہوئی.وہ قریش جو آپ کے گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آپ کے گھر کے اندر جھانک کر دیکھتے تھے تو حضرت علی کو آپ کی جگہ پر لیٹا دیکھ کر مطمئن ہو جاتے تھے لیکن صبح ہوئی تو انہیں علم ہوا کہ ان کا شکار ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے.اس پر وہ ادھر ادھر بھاگے.مکہ کی گلیوں میں صحابہ کے مکانات پر تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا.اس غصہ میں انہوں نے حضرت علی کو پکڑا اور کچھ مارا پیٹا........123" حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”جب آنحضرت صلی میزکم ایک ناگہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیر لیا تب ایک جانی عزیز جس کا وجو د محبت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا جانبازی کے طور پر آنحضرت صلی علیم کے بستر پر باشارہ نبوی اس غرض سے مونہہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرت صلی ا و م کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اسی کو رسول اللہ صلی العلم سمجھ کر قتل کرنے کے لئے ٹھہرے رہیں.
محاب بدر جلد 2 46 حضرت ابو بکر صدیق عشق است که این کار بصد صدق گنانَد 124" کس بہر گسے سر نَدِ ہد جان نفشاند یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کے لیے سر نہیں دیتا نہ ہی جان چھڑکتا ہے.یہ عشق ہے جو یہ کام انسان سے بصد صدق کرواتا ہے.بہر حال یہ وقت کے بارے میں روایات ہیں.اس میں اختلاف ہے.کچھ کہتے ہیں پہلے وقت، کچھ کہتے ہیں درمیانی رات، کچھ کہتے ہیں آخری وقت.بہر حال کس وقت آنحضرت صلی می کنم اپنے گھر سے نکلے اس بارے میں جو روایات میں اختلاف ہے اس کا ذکر کر تا ہوں.ایک روایت میں ذکر ہے کہ آپ رات کی آخری تہائی میں گھر سے باہر تشریف لائے تھے.چنانچہ محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ رات کی آخری تہائی میں حضرت محمد صلی للی کم ان مشرکین کی غفلت کی وجہ سے حضرت ابو بکر کے گھر کی طرف نکلے اور وہاں سے دونوں گھر کے پچھلے دروازے سے نکل کر جنوب میں غار ثور کی طرف چل پڑے.125 پھر ایک روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ آدھی رات کے وقت نکلے.سة 127" چنانچہ دلائل النبوہ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللی کم اور حضرت ابو بکر آدھی رات کے وقت غار ثور کی طرف روانہ ہوئے تھے.126 مدارج النبوة میں لکھا ہے کہ ”جب حضور اکرم صلی للی یکم نے ارادہ فرمایا کہ صبح کے وقت ہجرت کر جائیں تو شام ہی کو حضرت علی مرتضی گرمَ اللهُ وَجْهَہ سے فرمایا کہ آج رات تم یہیں سونا تا کہ مشرکین شک وشبہ میں مبتلا ہو کر حقیقت حال سے باخبر نہ ہوں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو لکھا ہے، وہ یہ ہے کہ نبی کریم اول شب اپنے گھر سے نکلے تھے.چنانچہ اس کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ ”محاصرین آپ کے دروازے کے سامنے موجود تھے مگر چونکہ انہیں یہ خیال نہیں تھا کہ آنحضرت صلی علی کم اس قدر اول شب میں ہی گھر سے نکل آئیں گے وہ اس وقت اس قدر غفلت میں تھے کہ آپ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر تک نہ ہوئی.اب آنحضرت صلی للی کم خاموشی کے ساتھ مگر جلد جلد مکہ کی گلیوں میں سے گذررہے تھے اور تھوڑی ہی دیر میں آبادی سے باہر نکل گئے اور غار ثور کی راہ لی.حضرت ابو بکر کے ساتھ پہلے سے تمام بات طے ہو چکی تھی وہ بھی راستہ میں مل گئے.128 حضرت مصلح موعودؓ نے جو روایات سے لے کے فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ”جب مکہ کے لوگ آپ کے گھر کے سامنے آپ کے قتل کے لئے جمع ہو رہے تھے آپ رات کی تاریکی میں ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر سے باہر نکل رہے تھے.مکہ کے لوگ ضرور شبہ کرتے ہوں گے کہ ان کے ارادہ کی خبر محمد رسول اللہ صلی علیہ کم کو بھی مل چکی ہو گی مگر پھر بھی جب آپ ان کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی اور شخص ہے اور بجائے آپ پر حملہ کرنے کے سمٹ سمٹا کر
بدر جلد 2 47 حضرت ابو بکر صدیق 130❝ 129❝ آپ سے چھپنے لگ گئے تاکہ ان کے ارادوں کی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خبر نہ ہو جائے.اس رات سے پہلے دن ہی آپ کے ساتھ ہجرت کرنے کے لئے ابو بکر کو بھی اطلاع دے دی گئی تھی.پس وہ بھی آپ کو مل گئے اور دونوں مل کر تھوڑی دیر میں مکہ سے روانہ ہو گئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق نبی کریم صلی ا سلام صبح کے وقت گھر سے نکلے تھے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی یہ کام کو جاتے وقت کسی مخالف نے نہیں دیکھا حالانکہ صبح کا وقت تھا اور تمام مخالفین آنحضرت صلی نم کے گھر کا محاصرہ کر رہے تھے.سو خدائے تعالیٰ نے جیسا کہ سورۂ لیسین میں اس کا ذکر کیا ہے ان سب اشقیا کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آنحضرت ان کے سروں پر خاک ڈال کر چلے گئے.بہر حال مختلف روایتیں ہیں لیکن نتیجہ یہی ہے کہ کفار کو پتہ نہیں لگا.پھر یہ بھی مختلف روایات ہیں کہ : اپنے گھر سے نکل کر نبی اکرم ملی و کم کس طرف تشریف لے گئے.ایک روایت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آنحضرت صلی علیہ کم اپنے گھر سے نکلے ہوں گے اور حضرت ابو بکر اپنے گھر سے اور راستے میں کسی ایک جگہ پر دونوں اکٹھے ہو کر غارِ ثور کی طرف چل پڑے.ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی للی کم اپنے گھر سے غارِ ثور کی طرف نکلے اور کچھ دیر بعد ابو بکر آپ کے گھر پہنچے تو حضرت علی نے انہیں فرمایا کہ وہ تو جاچکے ہیں اور غار ثور کی طرف تشریف لے جا رہے ہیں اس لیے آپ بھی ان کے پیچھے پیچھے چلے جائیں.چنانچہ حضرت ابو بکر نبی اکرم صلی علیم کے پیچھے 131 چلے گئے.132 بہر حال یہ روایت تو بہت کمزور لگتی ہے.اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گویا نبی اکرم صلی علیکم حضرت ابو بکر سکا انتظار فرماتے رہے اور وہ لیٹ ہو گئے اور حضرت ابو بکر کو یہ بھی علم نہیں کہ نبی اکرم صلی علیکم کدھر گئے ہوں گے اور سب کچھ حضرت علی اب انہیں بتا رہے ہیں.ہجرت جیسا اہم ترین راز دارانہ سفر اور حضرت ابو بکر جیسا فہیم اور ذمہ دار شخص اس طرح کی لاپروائی کا مر تکب ہو یہ ممکن نہیں ہو سکتا.اس لیے اس روایت کی نسبت دوسری روایت جو زیادہ تر کتب میں موجود ہے وہ زیادہ درست اور قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس کے مطابق آنحضرت صلی للی علم اپنے گھر سے نکل کر سیدھے حضرت ابو بکر کے ر تشریف لے گئے اور وہاں سے حضرت ابو بکر کے ساتھ غارِ ثور کی طرف روانہ ہوئے.3 133 ابو بکر کی دو بہادر اور وفادار بیٹیاں اس موقع پر حضرت ابو بکر کی دو با وفا بہادر بیٹیوں حضرت عائشہ اور حضرت اسماء نے سفر کے لیے کھانا بھی جلدی جلدی تیار کر دیا تھا جس میں بھنی ہوئی بکری کا گوشت بھی تھا.حالات کی نزاکت اور جلدی میں کھانے کا بر تن جو چمڑے کا تھا باندھنے کو کچھ نہ ملا تو حضرت اسماء نے اپنا نطاق یعنی کمر بند کھولا اور اس کے دو حصے کیے اور کھانا باندھا.ایک سے توشہ دان اور دوسرے سے مشکیزے کا منہ باندھ دیا.134
اصحاب بدر جلد 2 48 حضرت ابو بکر صدیق نبی اکرم صلی یکم جو عشق و وفا کے ان لمحات کو بغور دیکھ رہے تھے فرمانے لگے کہ: اے آسماء! اللہ تمہارے اس نطاق کے بدلے میں تمہیں جنت میں دو نطاق عطا کرے گا.یعنی کہ کمر بند جو کپڑا کمر پہ باندھا ہوا تھا.آنحضرت صلی علیہ یکم کے اس ارشاد کی وجہ سے بعد میں حضرت اسامہ کو ذات النطاقین کہا جانے لگا.135 ہجرت کے وقت کی دعائیں ہجرت کے اس سفر میں نبی کریم صلی املی کم زیر لب اس آیت کا ورد فرماتے ہوئے چلے جارہے تھے: وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَنَّا نَصِيرًا ( بن اسرائیل:81) اور تو کہہ اے میرے رب ! مجھے اس طرح داخل کر کہ میر اداخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اور مجھے اس طرح نکال کہ میر انکلنا سچائی کے ساتھ ہو اور اپنی جناب سے میرے لیے طاقتور مدد گار عطا کر.136 اور ایسا ہی اس دعا کا بھی ذکر ملتا ہے کہ الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي خَلَقَنِي وَلَمْ أَكُ شَيْئًا، اللهُمَّ أَعِلَى عَلى هَوْلِ الدُّنْيَا، وَبَوَائِقِ الدَّهْرِ، وَمَصَائِبِ اللَّيَالِي وَالْأَيَّامِ.اللَّهُمَّ اصْحَبنِي فِي سَفَرِى وَاخْلُفْنِي فِي أَهْلِي، وَبَارِككَ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي وَلَكَ فَذَلِّلْنِي وَعَلَى صالح خَلْقِي فَقَوْمُنِي، وَإِلَى رَبِّي فَحَنِي، وَإِلَى النَّاسِ فَلَا تَكِلْنِي أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِينَ وَأَنْتَ رَبِّي أَعُوذُ يَوَجْهِكَ الْكَرِيمِ الَّذِي أَشْرَقَتْ لَهُ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ وَكُشِفَتْ بِهِ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الأولين والآخَرِينَ، أَنْ تَحِلَّ بِي غَضَبُكَ أَوْ يَنْزِلَ عَلَى سُخَطَكَ أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ وَتَحَولِ عَاقِبَتِكَ وَجَمِيعِ سُخَطِكَ لَكَ الْعُتُبِى خَيْرَ مَا اسْتَطَعْتُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ.تمام تعریفیں اللہ کے لیے جس نے مجھے پیدا کیا اور میں کچھ بھی نہیں تھا.اے اللہ ! دنیا کے خوف پر اور زمانے کے مصائب پر اور رات اور دن کے مصائب پر میری مدد فرما.اے اللہ ! میرے سفر میں تو میر اساتھی ہو جا اور میرے اہل میں میرا قائمقام ہو جا اور جو تُو نے مجھے دیا ہے اس میں میرے لیے برکت رکھ دے اور مجھے اپنے ہی تابع کر دے اور میری عمدہ تخلیق پر مجھے مضبوط کر دے اور میرے رب کا مجھے محبوب بنادے اور مجھے لوگوں کے سپرد نہ کرنا.تو کمزوروں کا رب ہے اور تو میرا بھی رب ہے.تیر اوجہ کریم جس سے آسمان و زمین روشن ہوئے اور جس سے اندھیرے چھٹ گئے اور جس سے پہلوں اور بعد میں آنے والوں کا معاملہ درست ہو گیا میں اس کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ مجھ پر تیر اغضب اترے یا مجھ پر تیری ناراضگی نازل ہو.میں تیری پناہ میں آتا ہوں تیری نعمت کے زائل ہونے سے اور تیرے انتقام کے اچانک آنے سے اور میرے بارے میں تیرے آخری فیصلے کے بدل جانے سے.شرح زرقانی میں تحولِ عَاقِبَتِكَ کی جگہ تَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ کے الفاظ بھی آئے ہیں.اس کا مطلب ہے کہ تیری عطا کردہ عافیت کے جاتے رہنے سے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے.تیری ہی رضامندی
حاب بدر جلد 2 49 حضرت ابو بکر صدیق ہے ہر اُس بھلائی میں جو میں کر سکا.نہ گناہ سے بچنے کا کوئی حیلہ ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی کوئی طاقت ہے مگر تیرے ہی ذریعہ.137 اے مکہ تو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اگر...خانہ کعبہ کے پیچھے سے گزرتے ہوئے نبی اکرم صلی للی یکم نے مکہ کی طرف اپنارخ مبارک فرمایا اور اس بستی سے یوں مخاطب ہوئے کہ : بخدا اے مکہ اتو اللہ کی زمین میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تو اللہ کی زمین میں سے اللہ کو بھی سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر تیرے باشندے مجھے زبر دستی نہ نکالتے تو میں کبھی بھی نہ نکلتا 138 غار ثور اور حضرت ابو بکر کی عاشقانہ تڑپ کا اظہار امام بیہقی نے لکھا ہے کہ غارِ ثور کے سفر کے دوران حضرت ابو بکر کبھی آنحضرت صلی الم کے آگے چلتے کبھی پیچھے اور کبھی آپ کے دائیں ہو جاتے اور کبھی بائیں.نبی اکرم صلی لی ہم نے پوچھا تو عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ ! مجھے خیال آتا ہے کوئی سامنے سے نہ آرہا ہو تو میں آپ کے آگے ہو جاتا ہوں اور جب اندیشہ ہو تا ہے کوئی پیچھے سے حملہ نہ کر دے تو آپ کے پیچھے ہو جاتا ہوں اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں کہ آپ ہر طرف سے محفوظ و مامون رہیں.ایک روایت کے مطابق غار ثور تک پہنچتے پہنچتے اس پہاڑی سفر میں نبی اکرم صلی الی ایم کے قدم مبارک زخمی بھی ہو گئے.140 139 اور ایک روایت کے مطابق راستے میں ایک پتھر سے ٹھوکر لگنے سے پاؤں مبارک زخمی ہو گیا تھا.141 جب غارِ ثور تک پہنچے تو حضرت ابو بکڑ نے رسول اللہ صلی علیم سے عرض کیا کہ آپ ابھی یہاں ٹھہریں پہلے مجھے اندر جانے دیں تاکہ میں اچھی طرح غار کو صاف کر لوں اور کوئی خطرے کی چیز ہو تو میرا اس سے سامنا ہو.چنانچہ وہ اندر گئے اور غار کو صاف کیا، جو بھی سوراخ اور بل وغیرہ تھے ان کو اپنے کپڑے سے بند کیا.پھر رسول اللہ صلی للی کم کو اندر آنے کی دعوت دی.کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی علیکم حضرت ابو بکر کی ران پر سر رکھ کر لیٹ گئے اور ایک سوراخ جس کے لیے کپڑا نہ تھا یا شاید اس وقت نظر نہ آیا ہو اس پر حضرت ابو بکڑ نے اپنا پاؤں رکھ دیا.روایت میں ہے کہ اسی سوراخ سے کوئی بچھو یا سانپ وغیرہ ڈستارہا لیکن حضرت ابو بکر اس ڈر سے کہ اگر کوئی حرکت کی تو نبی اکرم صلی علیہم کے آرام میں خلل واقع ہو گا جنبش نہ فرماتے.یہاں تک کہ نبی اکرم صلی علیل ہم نے جب آنکھ کھولی تو حضرت ابو بکر کے چہرے کی بدلی ہوئی رنگت کو دیکھ کر پوچھا کہ کیا ماجرا ہے تو انہوں نے ساری بات بتائی.آنحضرت صلی ا یکم نے اپنا لعاب مبارک وہاں
اصحاب بدر جلد 2 50 لگایا اور اس کے بعد پاؤں ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں.42 حضرت ابو بکر صدیق کفار مکہ کی حسرتناک نامرادی گھر گھر تلاش اور کھوجیوں کا غار ثور تک پہنچ جانا دوسری طرف قریش مکہ جو کہ نبی اکرم صلی یکم کے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر ایک شخص نے گزرتے ہوئے پوچھا کہ یہاں کیوں کھڑے ہو ؟ انہوں نے بتایا تو وہ آدمی کہنے لگا کہ میں نے تو محمد کو گلیوں سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے تو انہوں نے اس شخص کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ وہ تو اندر اپنے بستر پر ہیں اور ہم مسلسل ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں.پھر رات گئے اپنے پہلے سے طے کیسے منصوبے کے مطابق جب وہ ایک دم سے اندر گئے اور چادر کھینچ کر سوئے ہوئے کو دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ تو حضرت علی نہیں.ان سے پوچھا کہ محمد کہاں ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں.اس پر مشرکین 144 نے آپ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور زدو کوب کیا اور کچھ دیر محبوس رکھنے کے بعد آپ کو چھوڑ دیا.بہر حال اس روایت کے مطابق وہ لوگ حضرت علی کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے مار پیٹ کر وہاں سے غیض و غضب کی حالت میں واپس چلے آئے اور مکہ کی گلی گلی اور گھر گھر آپ کو تلاش کرنے لگے.143 اسی دوران وہ لوگ حضرت ابو بکر کے گھر بھی آئے.حضرت اسماء کا سامنا ہوا.ابو جہل آگے بڑھا اور پوچھا کہ تمہارا باپ ابو بکر کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہے ؟ اس پر اس بد باطن ابو جہل نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اس زور سے حضرت اسماء کے منہ پر طمانچہ مارا کہ ان کے کان کی بالی ٹوٹ کر گر گئی اور غصہ کی حالت میں وہ سب لوگ واپس چلے گئے.مکہ کی چھان بین سے ناکام فارغ ہوئے تو ماہر کھوجی مکہ کے چاروں طرف روانہ کر دیے.رئیس مکہ اُمیہ بن خلف وہ خود ایک ماہر کھوجی کو لے کر اپنے ساتھیوں سمیت ایک طرف نکلا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کھوجی، سراغ رساں واقعی ماہر تھا.جتنی بھی اس کی مہارت کی داد دی جائے وہ کم ہے کیونکہ یہ واحد کھوجی تھا کہ جو نبی اکرم صلی للی ایم کے قدموں کے ایک ایک نشان کو کھوج کر عین غار ثور کے دہانے تک جا پہنچا اور کہنے لگا کہ محمد کے قدموں کے نشان بس یہاں تک ہیں.اس کے آگے نہیں جاتے.علامہ بلاذری نے اس کھوجی کا نام علقمہ بن گر ز بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر اس نے اسلام قبول کر لیا تھا.غارِ ثور کے منہ پر یہ لوگ کھڑے باتیں کر رہے تھے اور دو ہجرت کرنے والے عین اسی غار میں نہ صرف اندر چھپے ہوئے تھے ان لوگوں کی باتیں سن رہے تھے بلکہ حضرت ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ میں ان کے پاؤں بھی دیکھ رہا تھا اور خدا کی قسم ! اگر ان میں سے کوئی ایک بھی اندر جھانک کر دیکھ لیتا تو ہم پکڑے جاتے لیکن خطرے اور مصیبت کی اس گھڑی میں یہ دوا کیلے نہیں تھے بلکہ تیسرا ان کے ساتھ وہ خدا تھا کہ جس کے قبضہ قدرت میں زمین و آسمان ہیں اور جو قادر مطلق تھا.5 الله 145
ناب بدر جلد 2 51 حضرت ابو بکر صدیق غار ثور اور اللہ تعالیٰ کی معجزانہ حفاظت 146 اس نے ایک طرف تو ان سراغ رسانوں کے آنے سے قبل ہی وہاں اپنی معجزانہ قدرت سے ایک درخت اُگا دیا، مکڑے کو بھیج کر غار کے منہ پر ایک جالہ بن دیا اور کبوتروں کے ایک جوڑے کو بھیجا کہ وہاں اپنا گھونسلا بنا کر انڈے بھی دے دیں.یہ روایت میں.بہر حال اس کے بعد خدا تعالیٰ کس طرح آنحضرت صلی علیم کی تسلی فرماتا ہے یا یہ ساری باتیں دیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے حضرت ابو بکر کو کس طرح تسلی دی.147 اس واقعہ کے حوالے سے جو غار ثور میں دشمن کے پہنچ جانے کا ہے قرآن کریم میں یہ آیت جو ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم اس رسول کی مدد نہ بھی کرو تو اللہ پہلے بھی اس کی مدد کر چکا ہے جب اسے ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا وطن سے نکال دیا تھا اس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا جب وہ دونوں غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ہم نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے.پس اللہ نے اس پر اپنی سکینت نازل کی اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اس نے ان لوگوں کی بات نیچی کر دکھائی جنہوں نے کفر کیا تھا اور بات اللہ ہی کی غالب ہوتی ہے اور اللہ کامل غلبہ والا اور بہت حکمت والا ہے.قرآن شریف میں غارِ ثور کے واقعہ کے حوالے سے یہ ذکر ہے.کفار مکہ غار کے دہانے پر کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ حضرت ابو بکرا نہیں سن کر گھبر اگئے کہ اگر نبی اکرم صلی علیم کو یہاں پکڑ لیا گیا تو کیا بنے گا.سارا اسلام تو گویا اسی ذات بابرکات سے وجو د باجو د تھا.نبی اکرم صلی ا م کے متعلق اس گھبر اہٹ کو جب آپ صلی الیم نے دیکھا کہ حضرت ابو بکر کو گھبراہٹ پید اہورہی ہے تو آنحضرت صلی ا ولم نے فرمایا: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا غم نہ کرو ابو بکر ! یقیناً ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے.18 148 آنحضور صلی اللی کم کا پیچھا کرتے ہوئے جب وہ لوگ غار ثور کے پہاڑ کے پاس پہنچے تو سراغ رساں نے کہا: مجھے پتہ نہیں چل رہا کہ اس کے بعد ان دونوں نے کہاں اپنے قدم رکھے ہیں اور جب وہ غار کے قریب ہو گئے تو سراغ رساں نے کہا کہ اللہ کی قسم! جس کی تلاش میں تم لوگ آئے ہو وہ یہاں سے آگے نہیں گیا.149 غار کے دہانے پر اس سراغ رساں نے جب یہ ساری بات کی اور کسی نے چاہا بھی کہ غار کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو اُمیہ بن خلف نے تلخ اور بے پروائی کے سے انداز میں کہا کہ یہ جالا ( اور درخت) تو میں محمد کی پیدائش سے پہلے یہاں دیکھ رہا ہوں (صلی اللہ علیہ وسلم).تم لوگوں کا دماغ چل گیا ہے.وہ یہاں کہاں ہو سکتا ہے اور یہاں سے چلو کسی اور جگہ اس کی تلاش کریں اور یہ کہتے ہوئے سب لوگ وہاں سے واپس چلے آئے.150
ناب بدر جلد 2 52 حضرت ابو بکر صدیق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں قریش مکہ کے اعلان اور نبی کریم صل اللی کم کا پیچھا کرنے کے بارے میں جو ذکر فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ ”انہوں نے عام اعلان کیا کہ جو کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اس کو ایک سو اونٹ انعام دیئے جاویں گے.چنانچہ کئی لوگ انعام کی طمع میں مکہ کے چاروں طرف اِدھر ادھر نکل گئے.خود رؤساء قریش بھی سراغ لیتے لیتے آپ کے پیچھے نکلے اور عین غارِ ثور کے منہ پر جاپہنچے.یہاں پہنچ کر ان کے سراغ رسان نے کہا کہ بس سراغ اس سے آگے نہیں چلتا.اس لئے یاتو محمد میہیں کہیں پاس ہی چھپا ہوا ہے ” (صلی اللہ علیہ وسلم)“ یا پھر آسمان پر اڑ گیا ہے.کسی نے کہا کوئی شخص ذرا اس غار کے اندر جاکر بھی دیکھ آئے مگر ایک اور شخص بولا کہ واہ یہ بھی کوئی معقل کی بات ہے.بھلا کوئی شخص اس غار میں جا کر چھپ سکتا ہے.یہ ایک نہایت تاریک و تار اور خطر ناک جگہ ہے اور ہم ہمیشہ سے اسے اسی طرح دیکھتے آئے ہیں.یہ بھی روایت آتی ہے کہ غار کے منہ پر جو درخت تھا.اس پر آپ کے اندر تشریف لے جانے کے بعد مکڑی نے جالا تن دیا تھا اور عین منہ کے سامنے کی شاخ پر ایک کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیئے تھے.“ مرزا بشیر احمد صاحب کے خیال میں یہ روایت تو کمزور ہے لیکن اگر ایسا ہوا ہو تو ہر گز تعجب کی بات نہیں.کمزور روایت ہے لیکن تعجب والی بات کوئی نہیں ہے کیونکہ مکڑی بعض اوقات چند منٹ میں ایک وسیع جگہ پر جالا تن دیتی ہے اور کبوتری کو بھی گھونسلا تیار کرنے اور انڈے دینے میں کوئی دیر نہیں لگتی.اس لیے اگر خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کی حفاظت کے لیے ایسا تصرف فرمایا ہو تو ہر گز بعید نہیں ہے بلکہ اس وقت کے لحاظ سے ایسا ہونا بالکل قرین قیاس ہے.بہر حال قریش میں سے کوئی شخص آگے نہیں بڑھا اور یہیں سے سب لوگ واپس چلے گئے.آگے لکھتے ہیں کہ "روایت آتی ہے کہ قریش اس قدر قریب پہنچ گئے تھے کہ ان کے پاؤں غار کے اندر سے نظر آتے تھے اور ان کی آواز سنائی دیتی تھی.اس موقعہ پر حضرت ابو بکر نے گھبر اگر مگر آہستہ سے آنحضرت صلی للی نام سے عرض کیا کہ یار سول اللہ ! قریش اتنے قریب ہیں کہ ان کے پاؤں نظر آرہے ہیں اور اگر وہ ذرا آگے ہو کر جھانکیں تو ہم کو دیکھ سکتے ہیں.آپ نے فرمایا: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا یعنی ہر گز کوئی فکر نہ کرو.اللہ ہمارے ساتھ ہے.پھر فرمایا: وَمَاظَنُّكَ يَا آبَابكر بِاثْنَيْنِ اللهُ ثَالِعُهُمَا یعنی اے ابو بکر ! تم ان دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسر ا خدا ہے.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جب قریش غار کے منہ کے پاس پہنچے تو حضرت ابو بکر سخت گھبراگئے.آنحضرت صلی الم نے ان کی گھبراہٹ کو دیکھا تو تسلی دی کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے.اس پر حضرت ابو بکڑ نے رقت بھری آواز میں کہا: إِنْ قُتِلْتُ فَأَنَارَجُلٌ وَاحِدٌ وَإِنْ قُتِلْتَ أنْتَ هَلَكَتِ الْأُمَّةُ یعنی یا رسول اللہ ! اگر میں مارا جاؤں تو میں تو بس ایک اکیلی جان ہوں لیکن اگر خدانخواستہ آپ پر کوئی آنچ آئے تو پھر تو گویا ساری امت کی امت مٹ گئی.اس پر آپ نے خدا تعالیٰ 66
حضرت ابو بکر صدیق حاب بدر جلد 2 53 سے الہام پا کر یہ الفاظ فرمائے کہ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا (سورۃالتوبہ: 40) یعنی اے ابو بکر ! ہر گز کوئی فکر نہ کرو کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہم دونوں اس کی حفاظت میں ہیں.یعنی تم تو میری وجہ سے فکر مند ہو اور تمہیں اپنے جوش اخلاص میں اپنی جان کا کوئی غم نہیں مگر خدا تعالیٰ اس وقت نہ صرف میر امحافظ ہے بلکہ تمہارا بھی اور وہ ہم دونوں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھے گا.“151 شخص یہ سیرت خاتم النبیین کا حوالہ ہے اور حضرت مصلح موعودؓ اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ”جب رسول کریم صلی علیکم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم ملا تو آپ حضرت ابو بکر کو اپنے ساتھ لے کر جبل ثور کی طرف تشریف لے گئے جو مکہ سے کوئی چھ سات میل کے فاصلہ پر ہے اور اس پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار میں چھپ کر بیٹھ گئے.صبح جب کفار نے دیکھا کہ آپ اپنے گھر میں موجود نہیں اور ہر قسم کے پہرہ کے باوجود محمد رسول اللہ صل اللیل کی کا میابی کے ساتھ نکل گئے ہیں تو وہ فوراً آپ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے مکہ کے چند بہترین کھوجی جو پاؤں کے نشانات پہچاننے میں بڑی بھاری دسترس رکھتے تھے اپنے ساتھ لئے جو انہیں جبل ثور تک لے آئے اور انہوں نے کہا کہ بس محمد رسول اللہ اگر ہیں تو یہیں ہیں.اس سے آگے اور کہیں نشان نہیں ملتا.اس وقت یہ کیفیت تھی کہ دشمن غار کے عین سر پر کھڑا تھا اور غار کا منہ تنگ نہیں تھا جس کے اندر جھانکنا مشکل ہو مگر وہ ایک فراخ منہ کی کھلی غار ہے جس کے اندر جھانک کر بڑی آسانی سے معلوم کیا جاسکتا تھا کہ کوئی اندر بیٹھا ہے یا نہیں مگر ایسی حالت میں بھی محمد رسول اللہ صلی للی کم پر کو ئی خوف طاری نہیں ہو تا بلکہ آپ کی قوت قدسیہ کی برکت سے حضرت ابو بکر کا دل بھی مضبوط رہتا ہے اور وہ موسی کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ہم پکڑے گئے بلکہ انہوں نے اگر کچھ کہا تو یہ کہ یارسول اللہ !اد ضمن اتنا قریب پہنچ چکا ہے کہ وہ اگر ذرا بھی نظر نیچی کرے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے مگر رسول کریم ملی ایم نے فرمایا: اسكت يَا آبَا بَكْرِ اثْنَانِ الله قالههها ابو بکر ! خاموش رہو.ہم اس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک تیسر ا خدا بھی ہے پھر وہ کیونکر ہمیں دیکھ سکتے ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.باوجود اس کے کہ دشمن غار کے سر پر پہنچ چکا تھا پھر بھی اسے یہ توفیق نہ ملی کہ وہ آگے بڑھ کر جھانک سکتا اور وہ وہیں سے بڑ بڑاتے واہی تباہی باتیں کرتے ہوئے واپس چلا گیا.غرض اس واقعہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ موسیٰ کے ساتھیوں نے گھبرا کر یہ کہا کہ اے موسی ہم پکڑے گئے.گویا انہوں نے اپنے ساتھ موسیٰ کو بھی لپیٹ لیا اور خیال کیا کہ اب ہم سب فرعون کی گرفت میں آنے والے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی علیکم کے توکل نے آپ کے سائے بھی ایسا اثر ڈالا کہ اس کی زبان سے بھی یہ الفاظ نہ نکلے کہ ہم پکڑے گئے.بلکہ اس نے کہا تو صرف یہ کہ دشمن اتنا قریب آچکا ہے کہ اگر وہ ہمیں دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی علیم نے اس واہمہ کو بھی برداشت نہ کیا اور فرمایا کہ ایسا خیال بھی مت کرو ہم اس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک اور بھی ہستی ہے اور وہ ہمارا خدا ہے.“152
اصحاب بدر جلد 2 54 حضرت ابو بکر صدیق حضرت مصلح موعودؓ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ” جب مکہ کے لوگوں نے رسول کریم صلی کم پر انتہا درجہ کے مظالم شروع کر دیئے اور ان کی وجہ سے دین کی اشاعت میں روک پیدا ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ مکہ چھوڑ کر چلے جائیں.آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر بھی مکہ چھوڑنے کے لئے تیار ہو گئے.اس سے پہلے کئی دفعہ انہیں جانے کے لئے کہا گیا مگر آپ رسول کریم صلی علی تم کو چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہ ہوئے.جب رسول کریم صلی اللہ کی جانے لگے تو حضرت ابو بکر کو بھی آپ نے ساتھ لے لیا.جب آپ رات کے وقت روانہ ہوئے “ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ یہ ایک جگہ جو میں نے بھی دیکھی ہے “ حج کے دوران ”پہاڑ میں معمولی سی غار ہے جس کا منہ دو تین گز چوڑا ہو گا اس میں جاکر ٹھہر گئے.جب مکہ کے لوگوں کو پتہ لگا کہ آپ چلے گئے ہیں تو انہوں نے آپ کا تعاقب کیا.عرب میں بڑے بڑے ماہر کھوجی ہوا کرتے تھے ان کی مدد سے تعاقب کرنے والے عین اس مقام پر پہنچ گئے جہاں رسول کریم صلی ال یکم اور حضرت ابو بکر بیٹھے تھے.خدا کی قدرت کہ غار کے منہ پر کچھ جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں جن کی شاخیں آپس میں ملی ہوئی تھیں.اگر وہ لوگ شاخوں کو ہٹا کر اندر دیکھتے تو رسول کریم صلی کم اور حضرت ابو بکر میٹھے ہوئے نظر آجاتے.جب کھوجی وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ یا تو وہ آسمان پر چڑھ گئے ہیں یا یہاں بیٹھے ہیں اس سے آگے نہیں گئے.خیال کرو اس وقت کیسا نازک موقع تھا.اس وقت حضرت ابو بکر گھبر ائے مگر اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ رسول کریم صلی ای کمی کے لئے.اس وقت رسول کریم ملی ای کم نے فرمایا: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا گھبراتے کیوں ہو خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اگر رسول کریم صلی الیکم خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں نہ دیکھتے تو کس طرح ممکن تھا کہ ایسے نازک وقت میں گھبرانہ جاتے.قوی سے قوی دل گردہ کا انسان بھی دشمن سے عین سر پر آجانے سے گھبر ا جاتا ہے مگر رسول کریم صلی یم کے بالکل قریب بلکہ سر پر آپ کے دشمن کھڑے تھے اور دشمن بھی وہ جو تیرہ سال سے آپ کی جان لینے کے درپے تھے اور جنہیں کھوجی یہ کہہ رہے تھے کہ یا تو وہ آسمان پر چڑھ گئے ہیں یا یہاں بیٹھے ہیں.اس جگہ سے آگے نہیں گئے.اس وقت رسول کریم صلی اللہ یکم فرماتے ہیں: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنا خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تمہیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.یہ خدا تعالیٰ کا عرفان ہی تھا جس کی وجہ سے آپ نے یہ کہا.آپ خدا تعالیٰ کو اپنے اندر دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ میری ہلاکت سے خدا تعالیٰ کے عرفان کی ہلاکت ہو جائے گی اس لئے کوئی مجھے ہلاک نہیں کر سکتا.153 الناس ہمارے نبی صلی ا ولم نے مدینہ کے سفر میں صرف ابو بکر کو ساتھ لیا ها التربة حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی رفاقت کے لئے صرف ایک ہی شخص اختیار کیا تھا یعنی دھوما کو جیسا کہ ہمارے نبی صلی الم نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے وقت صرف حضرت ابو بکر کو اختیار کیا تھا کیونکہ سلطنت رومی حضرت عیسی کو باغی قرار دے چکی تھی اور اس جرم سے پیلا طوس بھی قیصر کے حکم سے قتل کیا گیا تھا کیو نکہ وہ در پردہ حضرت عیسی کا
اصحاب بدر جلد 2 55 حضرت ابو بکر صدیق حامی تھا اور اس کی عورت بھی حضرت عیسیٰ کی مرید تھی.پس ضرور تھا کہ حضرت عیسیٰ اس ملک سے پوشیدہ طور پر نکلتے.کوئی قافلہ ساتھ نہ لیتے.اس لئے انہوں نے اس سفر میں صرف دھو ماحواری کو ساتھ لیا جیسا کہ ہمارے نبی صلی علیم نے مدینہ کے سفر میں صرف ابو بکر کو ساتھ لیا تھا اور جیسا کہ ہمارے نبی صلی الیکم کے باقی اصحاب مختلف راہوں سے مدینہ میں آنحضرت صلی الیہ ظلم کی خدمت میں جا پہنچے تھے ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے حواری مختلف راہوں سے مختلف وقتوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کی خدمت میں جا پہنچے تھے.154 ابو بکڑ نے اپنے صدق اور وفا کا وہ نمونہ دکھلایا جو ابد الآباد تک کے لئے نمونہ رہے گا پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا صدق اس مصیبت کے وقت ظاہر ہوا جب آنحضرت صلی للی کم کا محاصرہ کیا گیا.گو بعض کفار کی رائے اخراج کی بھی تھی مگر اصل مقصد اور کثرت رائے آپ کے قتل پر تھی.ایسی حالت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے صدق اور وفا کا وہ نمونہ دکھلایا جو ابد الآباد تک کے لئے نمونہ رہے گا.اس مصیبت کی گھڑی میں آنحضرت صلی علیہ کم کا یہ انتخاب ہی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت اور اعلیٰ وفاداری کی ایک زبر دست دلیل ہے.یہی حال آنحضرت صلی علیم کے انتخاب کا تھا.اس وقت آپ کے پاس ستر اتنی صحابہ موجود تھے جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے مگر ان سب میں سے آپ نے اپنی رفاقت کے لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ہی انتخاب کیا.اس میں کیا ستر ہے ؟ بات یہ ہے کہ نبی خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اس کا فہم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہی آنحضرت صلی ا علم کو کشف اور الہام سے بتا دیا کہ اس کام کے لئے سب سے بہتر اور موزوں حضرت ابو بکر ہی ہیں.ابو بکر اس ساعت عسر میں آپ کے ساتھ ہوئے.یہ وقت خطرناک آزمائش کا تھا.حضرت مسیح پر جب اس قسم کا وقت آیا تو ان کے شاگر دان کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور ایک نے لعنت بھی کی.مگر صحابہ کرام میں سے ہر ایک نے پوری وفاداری کا نمونہ دکھایا.غرض حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کا پورا ساتھ دیا اور ایک غار میں جس کو غارِ ثور کہتے ہیں.آپ جاچھے.شریر کفار جو آپ کی ایذارسانی کے لئے منصوبے کر چکے تھے تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اب تو یہ بالکل سر پر ہی آپہنچے ہیں اور اگر کسی نے ذرا پیچھے نگاہ کی تو وہ دیکھ لے گا اور ہم پکڑے جائیں گے.اس وقت آپ نے فرما یالا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا کچھ غم نہ کھاؤ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ ہم حضرت ابو بکر صدیق کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں چنانچہ فرمایا: إِنَّ اللهَ مَعَنَا - مَعَنَا میں آپ دونوں شریک ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ تیرے اور میرے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک پلہ پر آنحضرت کو اور دوسرے پر حضرت صدیق کو رکھا ہے.اس وقت دونوں ابتلا میں ہیں کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یا تو اسلام کی بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والا ہے.
اصحاب بدر جلد 2 56 حضرت ابو بکر صدیق دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں.بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشان پایہاں تک ہی آکر ختم ہو جاتا ہے لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گزر اور دخل کیسے ہو گا ؟ مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے کبوتر نے انڈے دیئے ہوئے ہیں.اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں.ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی طرح بڑھتے آئے ہیں لیکن آپ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپ اپنے رفیق صادق صدیق کو فرماتے ہیں: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں.اشارہ سے کام نہیں چلتا.باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں.اس امر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے.یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے.خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے.آنحضرت صلی یک کم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ ”اللہ جل شانہ نے اپنے نبی معصوم کے محفوظ رکھنے کے لئے یہ امر خارق عادت دکھلایا کہ باوجودیکہ مخالفین اس غار تک پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی علیہ کی مع اپنے رفیق کے مخفی تھے مگر وہ آنحضرت صلی علیم کو دیکھ نہ سکے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے ایک کبوتر کا جوڑا بھیج دیا جس نے اسی رات غار کے دروازہ پر آشیانہ بنادیا اور انڈے بھی دے دیئے اور اسی طرح اذنِ الہی سے عنکبوت نے اس غار پر اپنا گھر بنا دیا جس سے مخالف لوگ دھو کہ میں پڑ کر نا کام واپس چلے گئے.56 156" غار ثور اور خاندان ابو بکر کے دلیرانہ کارنامے 155❝ 157 پھر روایت میں آتا ہے کہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق حضرت ابو بکر کے ہو نہار صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن ابو بکر رات کو غار ثور آتے اور دن بھر کی مکہ کی ساری خبریں دیتے.ہدایات لیتے اور علی الصبح اس طور سے مکہ واپس چلے جاتے کہ جیسے رات مکہ میں ہی بسر کی ہو اور ساتھ ہی عامر بن فہیرہ کی ذہانت ہے کہ رات کو دودھ والی بکریوں کا دودھ دینے کے بعد بکریوں کے ریوڑ کو اس طرح واپس لاتے کہ حضرت عبد اللہ بن ابو بکر کے قدموں کے نشانوں کو بھی ساتھ ساتھ مٹادیا جاتا.7 بعض سیرت نگاروں نے تو یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت اسماء روزانہ کھانا لے کر آیا کرتی تھیں.لیکن یہ جو ہے بعید از قیاس بات ہے.بعضوں کی یہ رائے صحیح ہے کہ اس خطرے کے عالم میں ایک خاتون کا روزانہ ادھر آنا راز فاش کرنے کے مترادف ہے اور جبکہ عبد اللہ بن ابو بکر روزانہ آرہے تھے تو پھر حضرت اسماؤ کے کھانا لانے کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی.بہر حال اللہ بہتر جانتا ہے.لیکن تین دن اسی طرح گزر گئے.مکہ والے جب قریبی جگہوں کی تلاش سے فارغ ہو کر ناکام ہو گئے تو انہوں نے باہم 158
اصحاب بدر جلد 2 57 حضرت ابو بکر صدیق مشاورت سے ایک بہت بڑے انعام کا اعلان کرتے ہوئے ارد گرد کی بستیوں میں ڈھنڈور چی بھیج دیے جو اعلان کر رہے تھے کہ محمد (صلی ) کو زندہ یا مردہ لانے کی صورت میں ایک سو اونٹ انعام دیا جائے گا.اتنے بڑے انعام کی لالچ نے کئی لوگوں کو آنحضرت صلی علیکم کی تلاش کے لیے پھر سے تازہ دم کر دیا.159 غار ثور سے مدینہ کی طرف سفر کا آغاز دوسری طرف تین دن مکمل ہونے پر حسب وعدہ عبد اللہ بن اریقط اونٹ لے کر آگیا.صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ ذکر ہے کہ عبد اللہ بن اریقظ سے یہ وعدہ ٹھہرایا گیا تھا کہ وہ تین 161" دن کے بعد صبح کے وقت اونٹ لے کر پہنچے گا.160 اس روایت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ غارِ ثور سے مدینہ کی طرف روانگی صبح کے وقت شروع ہوئی تھی مگر بخاری کی ہی دوسری روایت میں یہ وضاحت موجود ہے کہ سفر رات کے وقت شروع ہو ا تھا.چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے عبد اللہ بن اریقط کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ نحضرت صلی علی کم اور حضرت ابو بکر نے اسے پہلے سے اپنی اونٹنیاں سپر د کر رکھی تھیں اور سمجھا رکھا تھا کہ تین رات کے بعد تیسرے دن کی صبح کو اونٹنیاں لے کر غارِ ثور میں پہنچ جائے.چنانچہ وہ حسب قرار داد پہنچ گیا.یہ بخاری کی مشہور روایت ہے مگر مؤرخین لکھتے ہیں کہ : آنحضرت صلی للہ ہم رات کو روانہ ہوئے تھے اور خود بخاری کی ہی ایک دوسری روایت میں اس کی تصدیق پائی جاتی ہے.اور قرین قیاس بھی یہی ہے کہ آپ رات کو روانہ ہوئے ہوں.رسول کریم ملی ای کم پیر کی رات یکم ربیع الاول کو غار سے نکل کر روانہ ہوئے.ابنِ سعد کے مطابق آپ ربیع الاول کی چار تاریخ کو پیر کی رات غار سے روانہ ہوئے.162 پہلی تاریخ خمیس کی روایت ہے.حیح بخاری کے شارح علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ امام حاکم نے کہا کہ اس بارے میں متواتر آرا ہیں کہ حضور علی ملی یکم کا مکہ سے نکلنا پیر کے دن تھا اور مدینہ میں داخل ہونا بھی پیر کے دن تھا سوائے محمد بن موسی خوارزمی کے جس نے کہا کہ آنحضرت صلی علیہ یکم مکہ سے جمعرات کے روز نکلے.علامہ ابن حجر ان روایات میں تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی ال نیم مکہ سے تو جمعرات کو نکلے تھے اور غار میں جمعہ ہفتہ اور اتوار ، تین راتیں قیام کرنے کے بعد پیر کی رات کو مدینہ کے لیے روانہ ہوئے.163 آنحضرت صلی لکم ایک اونٹنی جس کا نام قضوا ملتا ہے اس پر سوار ہوئے.حضرت ابو بکڑ نے اپنی اونٹنی پر اپنے ساتھ عامر بن فہیرہ کو سوار کیا اور عبد اللہ بن اریقط اپنے اونٹ پر سوار ہوا.حضرت ابو بکر کے پاس گھر میں کل سرمایہ پانچ یا چھ ہزار درہم تھا وہ بھی ساتھ لیا.بعض روایات کے مطابق عامر بن فہیرہ الله
اصحاب بدر جلد 2 58 حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت اسماء کھانا لے کر آگئیں اور جس میں بکری کا بھنا ہوا گوشت تھا لیکن یہاں پہنچ کر خیال آیا کہ کھانا اور مشکیزہ باندھنے کے لیے کوئی کپڑا وغیرہ نہیں ہے تو حضرت اسماء نے اپنا نطاق کھول کر دو حصے کیے.ایک سے کھانا اور ایک سے مشکیزے کا منہ باندھا.نبی کریم صلی ا ہم نے حضرت اسماء کو جنت میں دو نطاقوں کی بشارت دی اور ان سب کو رخصت کیا اور یہ دعا کرتے ہوئے سفر شروع کیا: اللَّهُمَّ اصْعَبنِي فِي سَفَرِى وَاخْلُفْنِي فِي أَهْلِي کہ اے اللہ ! میرے سفر میں تو میر اسا تھی ہو جا اور میرے اہل میں میرا قائم مقام ہو جا.164 سة جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ نطاق سے کھانا باندھنے کا واقعہ حضرت ابو بکر کے گھر سے چلتے وقت ہوا تھا لیکن بہر حال یہاں بھی یہ ذکر ملتا ہے.تاریخ میں دو مواقع پر یہ ذکر ملتا ہے.بعض کے نزدیک اس وقت جب نبی کریم صلی ال یہ ہجرت کے لیے مکہ میں حضرت ابو بکر کے گھر سے غارِ ثور کے لیے روانہ ہو رہے تھے اور بعض کے نزدیک اس وقت جب نبی کریم صلی اللہ تم غار ثور سے مدینہ کے لیے روانہ ہو رہے تھے.بہر حال یہ دونوں ذکر ملتے ہیں لیکن بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے سفر ہجرت کی جو تفصیل بیان فرمائی ہے اس روایت کے تسلسل سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ حضرت ابو بکر کے گھر سے روانگی کا واقعہ ہے.لہذا ابخاری کی روایت کو ترجیح دینا زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ اول تو غارِ ثور کے قیام کو جس طرح خفیہ رکھا گیا تھا وہاں حضرت اسماء کا کھانا لے کر جانا محل نظر ہو سکتا ہے جبکہ حضرت عبد اللہ بن ابو بکر اور حضرت عامر بن فہیر کا یہ دونوں مرد روزانہ چھپ کر جارہے تھے تو پھر ایک خاتون کا جانا حفاظت اور احتیاط کے تقاضوں کے منافی نظر آتا ہے.بہر حال گھر میں بھی نطاق سے کھانا باندھنے کا جو واقعہ ہے اس میں حضرت اسماء کی فدائیت اور والہانہ محبت کی جھلک بھی نمایاں ہوتی ہے کہ بجائے اس کے کہ اس وقت کھانا باندھنے کے لیے کوئی اور چیز ڈھونڈنے میں وقت ضائع کریں (اپنا کمربند کھول کر کھانا باندھ دیا).غار میں تو کہا جا سکتا ہے کہ غار میں واقعہ ہوا ہو گا کیونکہ وہاں کوئی چیز نہیں تھی لیکن گھر میں بھی یہ واقعہ ہو سکتا ہے کہ فوری طور پر کوئی چیز نہ ملی ہو اور وقت ضائع ہونے کا خدشہ ہو تو اپنا کمر بند کھول کر کھانا باندھ کر حضرت ابو بکر اور آنحضرت صلی اللی کم کو رخصت کیا.اس لیے بخاری کی روایت کے مطابق یہ زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کہ کھانا باندھنے کا واقعہ حضرت ابو بکر کے گھر سے رخصت ہونے کا ہو گا نہ کہ غارِ ثور سے مدینہ کی طرف سفر کے آغاز کا.بہر حال واللہ اعلم.حضرت ابو بکر کا سارا سرمایہ ساتھ لے کر ہجرت کرنا حضرت اسمال بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صل الی یم اور حضرت ابو بکر ہجرت کے لیے نکلے تو حضرت ابو بکڑ نے اپنا سارامال ساتھ لے لیا جو پانچ یا چھ ہزار دور ہم تھا.آپ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے دادا ابو قحافہ ہمارے پاس آئے.اس وقت ان کی بینائی جاچکی تھی.انہوں نے کہا اللہ کی قسم! میر اخیال ہے کہ وہ یعنی حضرت ابو بکر اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے مال کے ذریعہ بھی تم لوگوں کو مصیبت میں ڈال گیا ہے.اس پر حضرت اسمامہ کہتی ہیں میں نے کہا کہ نہیں دادا
تاب بدر جلد 2 59 حضرت ابو بکر صدیق جان ! ہر گز نہیں.وہ تو ہمارے لیے بہت سا مال چھوڑ گئے.آپنے فرماتی ہیں کہ میں نے کچھ پتھر لیے اور ان کو گھر کے اس روشن دان میں رکھ دیا جہاں میرے والد مال رکھا کرتے تھے اور پھر میں نے ان پر کپڑا ڈال دیا اور اپنے دادا کا ہاتھ پکڑ کر میں نے کہا دادا جان اس مال پر اپنا ہاتھ تو رکھیں.پس انہوں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا کوئی حرج نہیں اگر وہ تمہارے لیے اتنا کچھ چھوڑ کر گیا ہے تو پھر اس نے اچھا کیا ہے.حضرت اسماء فرماتی ہیں اللہ کی قسم! حضرت ابو بکر ہمارے لیے کچھ بھی چھوڑ کر نہیں گئے تھے مگر میں چاہتی تھی کہ اس بزرگ کو اس طرح اطمینان دلا سکوں.165 166" حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے غارِ ثور سے روانگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غارِ ثور سے نکل کر آپ ایک اونٹنی پر جس کا نام بعض روایات میں القضوا بیان ہوا ہے سوار ہو گئے اور دوسری پر حضرت ابو بکر اور ان کا خادم عامر بن فہیرہ سوار ہوئے.روانہ ہوتے ہوئے آپ نے مکہ کی طرف آخری نظر ڈالی اور حسرت کے الفاظ میں فرمایا: اے مکہ کی بستی اتو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے.اس وقت حضرت ابو بکر نے کہا.ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے.اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ دو دن اسی غار میں انتظار کرنے کے بعد پہلے سے طے کی ہوئی تجویز کے مطابق رات کے وقت غار کے پاس سواریاں پہنچائی گئیں اور دو تیز رفتار اونٹنیوں پر محمد رسول اللہ صلی الم اور آپ کے ساتھی روانہ ہوئے.ایک اونٹنی پر محمد رسول اللہ صلی ال یکم اور رستہ دکھانے والا آدمی سوار ہوا.“ یہ بھی ایک روایت میں آتا ہے کہ دونوں ایک سواری میں تھے.ایک میں یہ کہ تین اونٹنیاں تھیں.بہر حال اور دوسری اونٹنی پر حضرت ابو بکر اور ان کا ملازم عامر بن فہیرہ سوار ہوئے.مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے رسول کریم صلی علیہم نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا.اس مقدس شہر پر جس میں آپ پیدا ہوئے ، جس میں آپ مبعوث ہوئے اور جس میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کے زمانہ سے آپ کے آباؤ اجداد ر ہتے چلے آئے تھے آپ نے آخری نظر ڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے مکہ کی نیستی ! تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے.اس وقت حضرت ابو بکر نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا: ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے.ایک روایت کے مطابق جب جحصہ مقام پر پہنچے ، تحفہ مکہ سے تقریباً82 میل کے فاصلے پر ہے تو یہ آیت نازل ہوئی: إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَرَادُّكَ إِلى مَعَادٍ (القصص:86) یقیناً وہ جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہے تجھے ضرور ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا.168 ساری رات یہ سفر جاری رہا یہاں تک کہ جب دو پہر کا وقت ہونے لگا تو ایک چٹان کے سائے میں قافلہ استراحت کے لیے رکا.حضرت ابو بکر نے بستر تیار کیا اور نبی اکرم صلی علیم سے آرام فرمانے کی درخواست کی.چنانچہ نبی صلیا کر لیٹ گئے.پھر حضرت ابو بکر باہر نکل گئے تا دیکھیں کہ تعاقب کرنے 1676
اصحاب بدر جلد 2 60 حضرت ابو بکر صدیق والوں میں سے کوئی آتو نہیں رہا.اتنے میں ڈور سے بکریوں کا ایک چرواہا بھی سائے کی تلاش میں ادھر آ نکلا.حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے اس سے پوچھالڑ کے تم کس کے غلام ہو ؟ اس نے کہا قریش کے ایک شخص کا ہوں.اس نے اس کا نام لیا اور میں نے اس کو پہچان لیا.میں نے کہا کیا تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے.اس نے کہا ہاں.میں نے کہا کیا تم ہمارے لیے کچھ دودھ دوہو گے ؟ اس نے کہا ہاں.چنانچہ میں نے اسے دودھ دوہنے کے لیے کہا.اس نے اپنی بکریوں میں سے ایک بکری کی ٹانگ اپنی پنڈلی اور ران کے درمیان پکڑلی.پھر میں نے اس کو کہا کہ پہلے تھن کو اچھی طرح صاف کرو.پھر اپنی نگرانی میں دودھ برتن میں ڈلوایا.اس میں پانی ڈالا تا کہ دودھ کی حدت کچھ کم ہو جائے اور دودھ آنحضور صلی یی کم کی خدمت میں پیش کیا.بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت ابو بکر دودھ لے کر حاضر ہوئے تو نبی اکرم صلی الی ابھی تک سوئے ہوئے تھے.حضرت ابو بکر نے مناسب نہ سمجھا کہ آپ کے آرام میں خلل کیا جائے.چنانچہ آپ کے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگے.بیدار ہونے پر دودھ پیش کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ پیئیں.اور آپ نے اتنا یا کہ حضرت ابو بکر" کہتے ہیں کہ میں خوش ہو گیا.پھر میں نے کہا یارسول اللہ ! کوچ کا وقت آ پہنچا ہے.آپ نے فرمایا ہاں.یا ایک روایت میں یہ ذکر ہے کہ نبی اکرم صلی الم نے فرمایا کہ اب سفر دوبارہ شروع کیا جائے؟ عرض کیا گیا جی میرے آقا.چنانچہ سفر پھر شروع ہوا.169 سراقہ بن مالک کا تعاقب اس کا واقعہ یہ ہے کہ اریقط * جیسے ماہر راستہ شناس کی نگرانی میں ساحلی بستیوں کی جانب سے مدینہ کی طرف یہ سفر شروع کیا گیا تھا جو کہ مدینہ کے عمومی راستے سے مختلف روٹ (route) تھا.مکہ اور اس کے ارد گرد کی بستیوں میں سو اونٹ انعام کا اعلان عام ہو چکا تھا اور بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ یہ گراں قدر انعام انہیں ملے.سراقہ بن مالک بیان کرتے ہیں، بعد میں یہ مسلمان ہو گئے تھے اور اسلام لانے کے بعد انہوں نے خود یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ہمارے پاس کفار قریش کے ایلچی آئے.ان لوگوں نے رسول اللہ صلی علیم اور حضرت ابو بکر ہر دو کی دیت مقرر کی ہوئی تھی ان لوگوں کے لیے جو ان دونوں کو قتل کرے گا یا انہیں زندہ پکڑلے گا.سراقہ کہتے ہیں میں اپنی قوم بَنُو مُذلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کے سامنے سے آیا اور ہمارے پاس کھڑا ہوا جبکہ ہم بیٹھے ہوئے تھے.اس نے کہا کہ اے سراقہ !میں نے ساحل کی طرف کچھ سائے سے دیکھے ہیں یا کہا کہ تین افراد کا ایک قافلہ جاتے دیکھا ہے اور میر اخیال ہے کہ ہونہ ہو یہ محمد ہی ہیں.سراقہ بن مالک کہتے ہیں کہ میں جان گیا کہ واقعی یہ محمد کا ہی قافلہ ہو گا لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے ساتھ کوئی اور اس انعام میں شریک ہو.اس لیے میں نے فوراً موقع کی نزاکت کو سنبھالا اور اس بتانے والے کو آنکھ سے اشارہ کیا کہ وہ خاموش رہے اور خود میں نے کہا کہ نہیں نہیں وہ * عبد اللہ بن اریقط
اصحاب بدر جلد 2 61 حضرت ابو بکر صدیق محمد کا قافلہ نہیں ہو سکتا بلکہ جن لوگوں کا تم ذکر کر رہے ہو وہ تو ابھی ہمارے سامنے سے گزر کر گئے ہیں.وہ بنو فلاں ہیں جو اپنی گمشدہ اونٹنی کی تلاش میں جارہے تھے.سراقہ کہتے ہیں کہ میں کچھ دیر اُس مجلس میں رہا تا کہ کسی کو شک نہ گزرے اور پھر اپنی ایک خادمہ کو کہا کہ وہ میری فلاں تیز رفتار گھوڑی کو لے کر گھر کے پیچھے فلاں جگہ پر کھڑی ہو اور میرا انتظار کرے اور کچھ دیر کے بعد وہ خود وہاں پہنچ گیا اور بیان کرتے ہیں کہ میں نے فال نکالی لیکن اس سفر کے خلاف نکلی لیکن میں نے پروا نہیں کی اور گھوڑی کو ایڑھ لگا کر ہوا ہو گیا اور تیزی سے اس قافلے کا پیچھا کرنے لگا جو میں سمجھتا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ وسلم کا ہی قافلہ ہے.سراقہ کہتے ہیں کہ منزل پر منزلیں مارتے ہوئے میں جلد ہی اس قافلے کے قریب پہنچ گیا اور ابھی کچھ ہی فاصلے پر تھا کہ میری گھوڑی نے خلاف معمول ٹھو کر کھائی کہ میں اس سے گر پڑا.پھر میں اٹھ کھڑا ہوا اور میں نے فال نکالی اور فال پھر میرے ارادے کے خلاف نکلی مگر میں چاہتا تھا کہ محمد صلی علیہ ہم کو واپس لے کر جاؤں اور سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کروں.پھر میں اٹھا اور گھوڑی پر سوار ہوا اور اب میں اتنا قریب ہو چکا تھا کہ نہ صرف میں یہ پہچان چکا تھا کہ یہ محمد اور ابو بکر نہیں بلکہ مجھے محمد صلی ال نیم کے کچھ پڑھنے کی آواز بھی آرہی تھی کہ اتنے میں میری گھوڑی نے بری طرح ٹھو کر کھائی اور اس کی ٹانگیں ریت میں دھنس گئیں اور میں اس سے گر پڑا.پھر میں نے گھوڑی کو ڈانٹا اور اٹھ کھڑا ہوا یعنی گھوڑی کو بُرا بھلا کہا اور اٹھ کھڑا ہوا اور گھوڑی اپنی ٹانگیں زمین سے نکال نہ سکتی تھی.آخر جب وہ سیدھی کھڑی ہوئی تو اس کی دونوں ٹانگوں سے گر داٹھ کر فضا میں دھوئیں کی طرح پھیل گئی.اتنی دھنسی ہوئی تھی کہ جب مٹی سے یاریت سے ٹانگیں باہر نکالیں تو گر داڑی.کہتے ہیں اب میں نے دوبارہ تیروں سے فال نکالی تو وہی نکلا جسے میں ناپسند کرتا تھا.میں نے وہیں سے امان کی آواز لگائی اور کہا کہ میری طرف سے آپ لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.اس پر رسول اللہ صلی علیہ کم نے حضرت ابو بکر سے فرمایا کہ اس سے پوچھو کہ وہ کیا چاہتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں سراقہ ہوں اور آپ لوگوں سے بات کرنا چاہتا ہوں.اس پر وہ رک گئے.سراقہ بتانے لگا کہ مکہ والوں نے ان کے زندہ یا مردہ پکڑے جانے پر سو اونٹ انعام مقرر کیا ہے اور میں اسی لالچ میں آپ کا تعاقب کرتے ہوئے آیا ہوں لیکن جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے اس سے میں اس یقین پر قائم ہوں کہ میرا تعاقب درست نہیں ہے.اس نے نبی اکرم صلی یم کی خدمت میں زادِ راہ و غیرہ کی پیشکش بھی کی لیکن آپ صلی اللہ تم نے قبول نہ فرمایا.بس یہ کہا کہ ہمارے بارے میں کسی کو نہ بتانا.اس نے یہ وعدہ کیا اور ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ ایک دن بادشاہت حاصل کر لیں گے.مجھے کوئی عہد و پیمان لکھ دیں کہ اس وقت جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو مجھ سے عزت و احترام سے پیش آیا جائے.بعض روایات کے مطابق اس نے امان کی تحریر کے لیے درخواست کی تھی.چنانچہ نبی اکرم صلی علی ایم کے ارشاد پر اس کو وہ تحریر حضرت ابو بکر نے اور ایک روایت کے مطابق عامر بن فہیرہ نے لکھ کر دی اور وہ یہ تحریر لے کر واپس آگیا.0 رض 170
حاب بدر جلد 2 62 حضرت ابو بکر صدیق سراقہ ! تیرا کیا حال ہو گا جب کسری کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے سراقہ کا یہ ذکر ہوا تھا کہ وہ بھی انعام کے لالچ میں آنحضرت صلی اللی علم کو پکڑنے کی نیت سے نکلا تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے اس کے آگے روکیں کھڑی کر دیں تو اس نے اس وقت آنحضرت صلی علیکم سے درخواست کی کہ جب آپ کی حکومت ہو تو مجھے امان دیجیے اور ایک تحریر لکھوائی.اس ضمن میں بعض روایات ہیں.ایک روایت کے مطابق اس کے واپس لوٹتے ہوئے نبی اکرم صلی الہ ہم نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا سراقہ ! تیرا کیا حال ہو گا جب کسری کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے.سراقہ حیرت زدہ ہو کر پلٹا اور کہا کہ کسری بن ہرمز ؟ آپ نے فرمایا ہاں وہی کسری بن ھرمز.چنانچہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں کسری کے کنگن اور اس کا تاج اور اس کا کمر بند لایا گیا تو حضرت عمرؓ نے سراقہ کو بلایا اور فرمایا: اپنے ہاتھ بلند کرو اور انہیں کنگن پہنائے اور فرمایا کہ کہو تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے کسریٰ بن ہرمز سے یہ دونوں چھین کر عطا کیں.171 یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ سفر ہجرت کے وقت نہیں بلکہ جب رسول اللہ صلی الیم حسین اور طائف سے واپس تشریف لا رہے تھے تو سراقہ بن مالک نے جغرائہ کے مقام پر اسلام قبول کیا.اور جعرانہ مکہ اور طائف کے راستے پر مکہ کے قریب ایک کنویں کا نام ہے.آپ نے سراقہ سے فرمایا: تمہارا اُس وقت کیا حال ہو گا جب تم کسری کے کنگن پہنو گے.172 اس بارے میں سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ بھی آپ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ حضرت ابو بکر نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑا دوڑائے ان کے پیچھے آرہا ہے.اس پر حضرت ابو بکڑ نے گھبراکر کہا.یارسول اللہ ! کوئی شخص ہمارے تعاقب میں آرہا ہے.آپ نے فرمایا.کوئی فکر نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے.یہ تعاقب کرنے والا سراقہ بن مالک تھا جو اپنے تعاقب کا قصہ خود اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے کہ جب آنحضرت صلی ا کر مکہ سے نکل گئے تو کفار قریش نے یہ اعلان کیا کہ جو کوئی بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یا ابو بکر کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اسے اس اس قدر انعام دیا جائے گا اور اس اعلان کی انہوں نے اپنے پیغام رسانوں کے ذریعہ سے ہمیں بھی اطلاع دی.“ یہ سراقہ کہتا ہے.”اس کے بعد ایک دن میں اپنی قوم بنو مد لنج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ قریش کے ان آدمیوں میں سے ایک شخص ہمارے پاس آیا اور مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا کہ میں نے ابھی ابھی ساحل سمندر کی سمت میں دور سے کچھ شکلیں دیکھی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ شاید وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھی ہوں گے.سراقہ کہتا ہے کہ میں فوراً سمجھ گیا کہ ضرور وہی ہوں گے.“ پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے وہی تفصیل بیان کی ہے جو سراقہ کے تعاقب کے وقت اور فال اس کے خلاف نکلنے اور اس کے گھوڑے کے دھننے کے بارے میں بیان ہو چکی ہے.بہر حال سراقہ
ب بدر جلد 2 63 حضرت ابو بکر صدیق کہتا ہے.اس سر گذشت کی وجہ سے جو میرے ساتھ گذری تھی میں نے یہ سمجھا کہ اس شخص کا ستارہ اقبال پر ہے اور یہ کہ بالآخر آنحضرت صلی اللہ کم غالب رہیں گے.چنانچہ میں نے صلح کے رنگ میں ان سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنے یا پکڑ لانے کے لیے اس اس قدر انعام مقرر کر رکھا ہے اور لوگ آپ کے متعلق یہ یہ ارادہ رکھتے ہیں اور میں بھی اسی ارادے سے آیا تھا مگر اب میں واپس جاتا ہوں.“ اور پھر سراقہ کی جو باقی تفصیل بیان ہوئی ہے.173❝ اس کے بعد سراقہ کے کنگن پہننے کی پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اس طرح لکھتے ہیں کہ ”جب سراقہ واپس لوٹنے لگا تو آپ نے اسے فرمایا.سراقہ ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسری کے کنگن ہوں گے ؟ سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا: کسری بن ہرمز شہنشاہِ ایران؟ آپؐ نے فرمایا ہاں.سراقہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں.کہاں عرب کے صحرا کا ایک بدوی اور کہاں کسری شہنشاہِ ایران کے کنگن.مگر قدرتِ حق کا تماشا دیکھو کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایران فتح ہوا اور کسریٰ کا خزانہ غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا تو کسری کے کنگن بھی غنیمت کے مال کے ساتھ مدینہ میں آئے.حضرت عمرؓ نے سراقہ کو بلایا جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہو چکا تھا اور اپنے سامنے اس کے ہاتھوں میں کسری کے کنگن جو بیش قیمت جو اہرات سے لدے ہوئے تھے پہنائے.حضرت مصلح موعود اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں کہ ”انہوں نے “ یعنی مکہ والوں نے اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) یا ابو بکر کو زندہ یا مردہ واپس لے آئے گا اس کو سو اونٹنی انعام دی جائے گی اور اس اعلان کی خبر مکہ کے ارد گرد کے قبائل کو بھجوا دی گئی.چنانچہ اس وقت ” سراقہ بن مالک ایک بدوی رئیس اس انعام کے لالچ میں آپ کے پیچھے روانہ ہوا.تلاش کرتے کرتے اس نے مدینہ کی سڑک پر آپ کو جالیا.جب اس نے دو اونٹنیوں اور ان کے سواروں کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی الی یم اور ان کے ساتھی ہیں تو اس نے اپنا گھوڑا ان کے پیچھے دوڑا دیا.“ پھر آپ نے وہ سارا واقعہ بیان کیا ہے جو سراقہ کے گھوڑے کا ٹھو کر کھا کر گرنے کا اور فال نکالنے کا تھا.پھر آپ کہتے ہیں.سراقہ کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ کم و وقار کے ساتھ اپنی اونٹنی پر سوار چلے جا رہے تھے.انہوں نے مڑ کر مجھے نہیں دیکھا لیکن ابو بکر ( اس ڈر سے کہ رسول کریم صلی الم کو کوئی گزند نہ پہنچے بار بار منہ پھیر کر مجھے دیکھتے تھے.“ اس تعاقب کے واقعہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ..جب سراقہ لوٹنے لگا تو معا اللہ تعالیٰ نے سراقہ کے آئندہ حالات آپ پر غیب سے ظاہر فرما دیئے اور ان کے مطابق آپ نے اسے فرمایا.سراقہ ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسری کے کی کنگن ہوں گے.سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا کسری بن ہرمز شہنشاہ ایران کے کنگن ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! آپ کی یہ پیشگوئی کوئی سولہ سترہ سال کے بعد جا کر لفظ بلفظ پوری ہوئی.سراقہ مسلمان ہو کر مدینہ آگیا.
باب بدر جلد 2 64 رض حضرت ابو بکر صدیق رسول کریم صلی یکم کی وفات کے بعد پہلے حضرت ابو بکر پھر حضرت عمر خلیفہ ہوئے.اسلام کی بڑھتی ہوئی شان کو دیکھ کر ایرانیوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے اور بجائے اسلام کو کچلنے کے خود اسلام کے مقابلہ میں کچلے گئے.کسریٰ کا دارالامارہ اسلامی فوجوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوا اور ایران کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے.جو مال اس ایرانی حکومت کا اسلامی فوجوں کے قبضہ میں آیا اس میں وہ کڑے بھی تھے جو کسری ایرانی دستور کے مطابق تخت پر بیٹھتے وقت پہنا کر تا تھا.سراقہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے اس واقعہ کو جو رسول کریم صلی کم کی ہجرت کے وقت اسے پیش آیا مسلمانوں کو نہایت فخر کے ساتھ سنایا کرتا تھا اور مسلمان اس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ صلی علیم نے اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ سراقہ ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھ میں کسری کے کنگن ہوں گے.حضرت عمرؓ کے سامنے جب اموالِ غنیمت لاکر رکھے گئے اور ان میں انہوں نے کسری کے کنگن دیکھے تو سب نقشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا.وہ کمزوری اور ضعف کا وقت جب خدا کے رسول کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا پڑا تھا.وہ سراقہ اور دوسرے آدمیوں کا آپ کے پیچھے اس لئے گھوڑے دوڑانا کہ آپ کو مار کر یا زندہ کسی صورت میں بھی مکہ والوں تک پہنچادیں تو وہ سو اونٹوں کے مالک ہو جائیں گے اور اس وقت آپ کا سراقہ سے کہنا.سراقہ اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے.کتنی بڑی پیشگوئی تھی.کتنا مصفی غیب تھا.حضرت عمر نے اپنے سامنے کسری کے کنگن دیکھے تو خدا کی قدرت ان کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی.انہوں نے کہا سراقہ کو بلاؤ.سراقہ بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ کسریٰ کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں.سراقہ نے کہا اے خدا کے رسول کے خلیفہ ! سونا پہننا تو مسلمانوں کے لئے منع ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہاں منع ہے مگر ان موقعوں کے لئے نہیں.اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی ا تم کو تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دکھائے تھے یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا میں تمہیں سزا دوں گا.سراقہ کا اعتراض تو محض شریعت کے مسئلہ کی وجہ سے تھا ورنہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللی کم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھنے کا خواہش مند تھا.سراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لئے اور مسلمانوں نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا.1746 پھر ذکر آتا ہے کہ واپسی پر ایک قافلے نے جو قریش نے ہی آپ کی تلاش میں بھیجا تھا سراقہ سے آپ کے قافلے کے متعلق پوچھا لیکن سراقہ نے نہ صرف یہ کہ آپ صلی لی ایم کے قافلے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا بلکہ اس طرح کی گفتگو کی کہ تعاقب کرنے والے واپس لوٹ گئے.ام معبد کی روایت 175 اس سفر ہجرت میں اُمّ معبد کا ایک واقعہ ہے جس کا ذکر ملتا ہے.ہجرت کے اس سفر کے دوران ایک خیمے کے پاس سے گزرتے ہوئے زادِ راہ کی طلب میں نبی کریم صلی الی ظلم کا یہ قافلہ رکا.یہ ام معبد کا
محاب بدر جلد 2 65 حضرت ابو بکر صدیق خیمہ تھا.اُخر معبد کا نام عاتکہ بنت خالد تھا.ان کا تعلق خزاعہ کی شاخ بنو کعب سے تھا.یہ حضرت حبيش بن خالد کی ہمشیرہ تھیں جنہیں صحابی ہونے اور روایت کرنے کا شرف حاصل ہوا.اُمّ معبد کے خاوند کا نام ابو معبد تھا.کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی رسول اللہ صلی علیم سے روایت کی ہے.انہوں نے رسول اللہ صلی علیکم کی زندگی میں وفات پائی.ابو معبد کا نام معلوم نہیں.ام معبد کا خیمہ قدید مقام پر تھا.قدید مکہ کے قریب ایک قصبہ کا نام ہے جو رابغ سے چند میل کے فاصلے پر جنوب میں واقع تھا.یہیں پر مشہور بت منا نصب تھا.اہل مدینہ اس کی پرستش کیا کرتے تھے.176 أمر معبد ایک بہادر اور مضبوط خاتون تھیں.وہ اپنے خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور وہاں سے گزرنے والوں کو کھلاتی پلا تھیں.آپ اور آپ کے ساتھیوں نے اس سے گوشت اور کھجوروں کے متعلق پوچھا تا کہ یہ اس سے خرید سکیں لیکن اس کے پاس ان میں سے کوئی چیز نہ تھی.اس وقت اُمّد معبد کی قوم محتاج اور قحط زدہ تھی.اُمّ معبد نے کہا اگر ہمارے پاس کچھ ہوتا تو ہم تم لوگوں سے اسے دور نہ رکھتے.رسول اللہ صلی علیم کو خیمے کے ایک کونے میں بکری نظر آئی تو آپ نے پوچھا اے ام معبد ! یہ بکری کیسی ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ یہ ایک ایسی بکری ہے کہ جسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے رکھا ہوا ہے.یعنی اس میں اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ ریوڑ کے ساتھ باہر چرنے جا سکے.آپ صلی الیکم نے فرمایا: کیا اس میں دودھ ہے ؟ اس نے کہا: یہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے.یہ تو ممکن ہی نہیں کہ اس میں دودھ ہو.آپ صلی الی تم نے پوچھا کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دوہ لوں؟ اس نے کہا کہ اگر آپ کو اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دوہ لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے وہ بکری منگوائی اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور اللہ عزوجل کا نام لیا اور ام معبد کے لیے اس کی بکری میں برکت کی دعا کی.بکری آپ کے سامنے آرام سے کھڑی ہو گئی اور اس نے خوب دودھ اتارا اور جگالی شروع کر دی.پھر آپ نے ان سے ایک برتن منگوایا جو ایک جماعت کو سیر کر سکتا تھا.اس میں اتنادودھ دوہا کہ جھاگ اس کے اوپر تک آگئی.پھر ام معبد کو پلایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئیں.پھر آپ نے اپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ وہ بھی سیر ہو گئے.ان سب کے آخر میں آپ نے خود نوش کیا اور فرمایا: قوم کو پلانے والا آخر میں پیتا ہے.پھر کچھ وقفہ کے بعد آپ نے اس بر تن میں دوبارہ دودھ دوہا یہاں تک کہ وہ بھر گیا اور اسے اُمّ معبد کے پاس چھوڑ دیا.پھر آپ نے وہ بکری خریدی اور سفر کے لیے نکل پڑے.177 لکھا ہے کہ ایک طرف نبی اکرم صلی علیہم اور آپ کے جاں نثار رفیق سفر حضرت ابو بکر خدائی تائید و نصرت کے ساتھ گویا محافظ فرشتوں کے جلو میں عازم سفر تھے اور دوسری طرف اہل مکہ نے گویا ابھی تک ہار نہیں مانی تھی.وہ بھی مسلسل آپ کے تعاقب میں تھے.چنانچہ قریش کی طرف سے تعاقب کرنے والی ایک پارٹی
بدر جلد 2 66 حضرت ابو بکر صدیق صلی اللہ کل کو تلاش کرتے کرتے ام معبد کے خیمے تک بھی آن پہنچی اور یہ لوگ اپنی سواریوں سے اترتے ہی رسول اللہ صلی علیم کے بارے میں پوچھنے لگے.ام معبد جو تھیں وہ کچھ بھانپ گئیں اور کہنے لگیں کہ تم ایسی بات پوچھ رہے ہو کہ میں نے تو کبھی نہیں سنی اور نہ ہی مجھے سمجھ آرہی ہے کہ تم لوگ کیا چاہتے ہو اور جب ان لوگوں نے اپنے سوال میں کچھ سختی کرنا چاہی تو اس جہاں دیدہ بہادر خاتون نے کہا کہ دیکھو! اگر تم ابھی مجھ سے دُور نہ ہوئے تو میں اپنے قبیلے والوں کو آواز دے کر بلالوں گی.وہ اس خاتون کے مقام و مرتبہ کو جانتے تھے.لہذ ا عافیت اسی میں جانی کہ واپس لوٹ جائیں.8 178 رض حضرت زبیر بن العوالم کا سفر ہجرت میں ملنا رسول اللہ صلی الم ابھی راستے میں تھے کہ انہیں حضرت زبیر ملے جو مسلمانوں کے ایک قافلے کے ساتھ شام سے تجارت کر کے واپس آرہے تھے.حضرت زبیر نے رسول اللہ صلی ال یکم اور حضرت ابو بکر ھو سفید کپڑے پہنائے.179 اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں لکھا ہے کہ ”راستہ میں زبیر بن العوائم سے ملاقات ہو گئی جو شام سے تجارت کر کے مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ مکہ کو واپس جارہے تھے.زبیر نے ایک جوڑا سفید کپڑوں کا آنحضرت صلی الی یکم کو اور ایک حضرت ابو بکر کی نذر کیا اور کہا میں بھی مکہ سے ہو کر بہت جلد آپ سے مدینہ میں آملوں گا.1804 پھر بخاری کی ایک روایت ہے.کبھی ایسا بھی ہوتا کہ راہ گزرتے ہوئے کئی دوسرے قافلے والے جو کہ حضرت ابو بکر کو ان کے اکثر تجارتی سفروں کی وجہ سے انہی جگہوں پر دیکھ چکے تھے پوچھتے کہ آپ کے ساتھ یہ کون ہے؟ تو آپ کہہ دیتے کہ یہ مجھے راستہ دکھانے والے ہیں.هَذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي السَّبِيلَ یہ شخص مجھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے.لوگ سمجھتے یہ گائیڈ ہیں اور حضرت ابو بکر کی مرادراہ ہدایت سے ہوتی.181 اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ چونکہ حضرت ابو بکر بوجہ تجارت پیشہ ہونے کے اس راستہ سے بار ہا آتے جاتے رہتے تھے اس لئے اکثر لوگ ان کو پہچانتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ کل کو نہیں پہچانتے تھے.لہذا وہ ابو بکر سے پوچھتے تھے کہ یہ تمہارے آگے آگے کون ہے.حضرت ابو بکر فرماتے.هذَا يَهْدِينِي السَّبِيلَ.یہ میرا ہادی ہے.وہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ کوئی دلیل یعنی گائیڈ ہے جو راستہ دکھانے کے لئے حضرت ابو بکر نے ساتھ لے لیا ہے.مگر حضرت ابو بکر کا مطلب کچھ اور ہو تا تھا.182 قبا میں قیام منزلِ مقصود تک پہنچنے کے بارے میں لکھا ہے کہ آٹھ دن سفر کرتے ہوئے خدائی نصرتوں کے ساتھ آخر کار پیر کے دن آپ مدینہ کے راستے قبا پہنچ گئے.حدیث میں ہے کہ پیر کے دن آپ پیدا
اصحاب بدر جلد 2 67 184 حضرت ابو بکر صدیق 185 ہوئے.پیر کے دن مکہ سے نکلے اور پیر کے دن مدینہ پہنچے اور پیر کے دن آپ کی وفات ہوئی.83 قبا ایک کنویں کا نام تھا جس کی نسبت سے بستی کا نام بھی قبا مشہور ہو گیا جہاں انصار کے قبیلہ بنو عمر و بن عوف کے لوگ آباد تھے.یہ بستی مدینہ سے دو میل کے فاصلے پر تھی.بعض کے نزدیک قبا کا فاصلہ مدینہ سے تین میل تھا.اس کو عالیہ بھی کہتے ہیں.مدینہ میں مسلمانوں نے رسول اللہ صلی علی یم کی ملکہ سے روانگی کا سن لیا تھا.وہ ہر صبح حرہ تک جایا کرتے تھے اور آپ کا انتظار کرتے.مدینہ دو حروں کے درمیان ہے.حرہ سیاہ پتھریلی زمین کو کہتے ہیں.مدینہ کی مشرق کی جانب حرّة وارقم ہے جس کو حرة بنو قریظہ بھی کہتے ہیں اور دوسر احرة الوبرة ہے جو مدینہ کے مغرب میں تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے.یہاں تک کہ دو پہر کی گرمی انہیں لوٹا دیتی.صبح جاتے، انتظار کرتے اور دو پہر کو واپس آجاتے.ایک دن مدینہ والے وہ لوگ کافی دیر انتظار کے بعد لوٹے.پھر جب وہ اپنے گھر وں میں پہنچے تو ایک یہودی شخص اپنے قلعوں میں سے ایک قلعہ پر کسی کام کے لیے چڑھا تا کہ وہ اس کو دیکھے تو اس نے رسول اللہ صلی اہم اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھ لیا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے.سراب ان سے ہٹ رہا تھا.یہودی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور اس نے اپنی بلند آواز سے کہا.اے عرب کے لوگو! یہ تمہارے وہ سردار ہیں جن کا تم انتظار کر رہے ہو تو مسلمان ہتھیاروں کی طرف لپکے اور حرہ کے میدان میں رسول اللہ صلی می نام سے جاملے.آپ صلی یہ کام ان سمیت داہنی طرف مڑے یہاں تک کہ آپ بنو عمر و بن عوف کے محلے میں ان کے ساتھ اترے اور یہ سوموار کا دن تھا اور ربیع الاول کا مہینہ.حضرت ابو بکر لوگوں کے لیے کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی لیلی کلی خاموش تشریف فرما تھے اور انصار میں سے وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللیل کم کو نہیں دیکھا تھا، آئے اور حضرت ابو بکر کو سلام کرنے لگے.یہاں تک کہ دھوپ رسول اللہ صلی اللہ ظلم پر پڑنے لگی.حضرت ابو بکر آگے بڑھے اور انہوں نے آپ صلی للی کم پر اپنی چادر سے سایہ کیا.اس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی علیکم کو پہچان لیا اور رسول اللہ صلی علی کم بنو عمرو بن عوف کے محلے میں دس سے زائد را تیں یا بخاری کی ایک روایت کے مطابق چودہ راتیں ٹھہرے اور اس مسجد کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ ولیم نے نماز پڑھی.186 بخاری کی اس روایت کے مطابق رسول کریم صلی الی یکم نے دس سے زائد را تیں قبا میں قیام فرمایا.ایک روایت کے مطابق رسول کریم صلی اللہ ہم نے بنو عمر و بن عوف یعنی قبا میں سوموار ، منگل، بدھ اور جمعرات ، چار دن قیام فرمایا اور جمعہ کو مدینہ کی طرف نکلے.ایک اور روایت میں ذکر ہے کہ آپ نے بائیس را تیں قیام فرمایا.187 حضرت مصلح موعود رسول کریم کلام کی قبا میں آمد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” سراقہ کو
اصحاب بدر جلد 2 68 حضرت ابو بکر صدیق رخصت کرنے کے بعد چند منزلیں طے کر کے رسول کریم ملی ایام مدینہ پہنچ گئے.مدینہ کے لوگ بے صبری سے آپ کا انتظار کر رہے تھے اور اس سے زیادہ ان کی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی تھی کہ وہ سورج جو مکہ کے لئے نکلا تھا مدینہ کے لوگوں پر جا طلوع ہوا.جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی ال کی مکہ سے غائب ہیں.“ یعنی مدینہ والوں کو تو وہ اسی دن سے آپ کا انتظار کر رہے تھے.ان کے وفد روزانہ مدینہ سے باہر کئی میل تک آپ کی تلاش کے لئے نکلتے تھے اور شام کو مایوس ہو کر واپس آجاتے تھے.جب آپ مدینہ کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا کہ پہلے آپ قبا میں جو مدینہ کے پاس ایک گاؤں تھا ٹھہریں.ایک یہودی نے آپ کی اونٹنیوں کو آتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ قافلہ محمد رسول اللہ صلی علیکم کا ہے.وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور اس نے آواز دی.اے قیلہ کی اولاد ! (قیلہ مدینہ والوں کی ایک دادی تھی سوقیلہ کی اولاد کے نام سے بھی وہاں کے لوگوں کو پکارا جاتا تھا.” تم جس کے انتظار میں تھے آگیا ہے.اس آواز کے پہنچتے ہی مدینہ کا ہر شخص قبا کی طرف دوڑ پڑا.قبا کے باشندے اِس خیال سے کہ خدا کا نبی ان میں ٹھہر نے کے لئے آیا ہے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے.اس موقع پر ایک ایسی بات ہوئی جو رسول اللہ صلی الی یکم کی سادگی کے کمال پر دلالت کرتی تھی.مدینہ کے اکثر لوگ آپ کی شکل سے واقف نہیں تھے.جب قبا سے باہر آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بھاگتے ہوئے مدینہ سے آپ کی طرف آرہے تھے تو چونکہ رسول اللہ صلی علی کم بہت زیادہ سادگی سے بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ناواقف لوگ حضرت ابو بکر کو دیکھ کر جو عمر میں گو چھوٹے تھے مگر ان کی داڑھی میں کچھ سفید بال آئے ہوئے تھے اور اسی طرح ان کا لباس رسول اللہ صلی للی کم سے کچھ بہتر تھا، یہی سمجھتے تھے کہ ابو بکر رسول اللہ صلی علیہ کم ہیں اور بڑے ادب سے آپ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے تھے.حضرت ابو بکر نے جب یہ بات دیکھی تو سمجھ لیا کہ لوگوں کو غلطی لگ رہی ہے.وہ جھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا یار سول اللہ ! آپ پر دھوپ پڑ رہی ہے میں آپ پر سایہ کرتا ہوں اور اس لطیف طریق سے انہوں نے لوگوں پر ان کی غلطی کو ظاہر کر دیا.“ اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بخاری کا ایک حوالہ درج فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”بخاری میں براء بن عازب کی روایت ہے کہ جو خوشی انصار کو آنحضرت صلی الیکم کے مدینہ تشریف لانے کے وقت پہنچی تھی ویسی خوشی کی حالت میں میں نے انہیں کبھی کسی اور موقع پر نہیں دیکھا.ترمذی اور ابن ماجہ نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ جب آنحضرت صلی یکم تشریف لائے تو ہم نے یوں محسوس کیا کہ ہمارے لیے مدینہ روشن ہو گیا اور جب آپ فوت ہوئے تو اس دن سے زیادہ تاریک ہمیں مدینہ کا شہر کبھی نظر نہیں آیا.استقبال کرنے والوں کی ملاقات کے بعد آنحضرت صلی علیم کسی خیال کے ماتحت جس کا ذکر تاریخ میں نہیں آیا سیدھے شہر کے اندر داخل نہیں ہوئے بلکہ دائیں طرف ہٹ کر مدینہ کی بالائی آبادی میں جو 188"
اصحاب بدر جلد 2 69 حضرت ابو بکر صدیق اصل شہر سے دواڑھائی میل کے فاصلہ پر تھی اور جس کا نام قبا تھا تشریف لے گئے.اس جگہ انصار کے بعض خاندان آباد تھے جن میں زیادہ ممتاز عمر و بن عوف کا خاندان تھا اور اس زمانہ میں اس خاندان کے رئیس کلثوم بن الہدم تھے.قبا کے انصار نے آپ کا نہایت پر تپاک استقبال کیا اور آپ کلثوم بن الہدم کے مکان پر فروکش ہو گئے.وہ مہاجرین جو آپ سے پہلے مدینہ پہنچ گئے ہوئے تھے وہ بھی اس وقت تک زیادہ تر قبا میں کلثوم بن الہدم اور دوسرے معززین انصار کے پاس مقیم تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ آپ نے سب سے پہلے قبا میں قیام کرنا پسند فرمایا.ایک آن کی آن میں سارے مدینہ میں آپ کی آمد کی خبر پھیل گئی اور تمام مسلمان جوش مسرت میں بیتاب ہو کر جوق در جوق آپ کی فرود گاہ پر جمع ہونے شروع ہو گئے.1896 مسجد قبا کی تعمیر 190 مسجد قبا کی تعمیر کے بارے میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی للہ ہم نے قبامیں قیام کے دوران ایک مسجد کی بنیاد بھی رکھی جسے مسجد قبا کہا جاتا ہے.صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی علی کم بنو عمر و بن عوف کے محلے میں دس سے زائد راتیں ٹھہرے اور اس مسجد کی بنیادر کھی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی اور اس میں رسول اللہ صلی ا ولم نے نماز پڑھی.روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے بنو عمرو بن عوف کے لیے مسجد کی بنیاد رکھی.جب آپ صلی علیہ ہم نے اس کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے آپ نے قبلے کی سمت ایک پتھر رکھا.پھر حضرت ابو بکر نے ایک پتھر لا کر رکھا.پھر حضرت عمرؓ ایک پتھر لے کر آئے اور حضرت ابو بکر کے پتھر کے ساتھ رکھ دیا.پھر تمام لوگ تعمیر میں مصروف ہو گئے.جب مسجد قبا کی تعمیر ہورہی تھی تو نبی کریم صلی الی یکم ایک پتھر لاتے جسے آپ نے اپنے پیٹ کے ساتھ لگایا ہوا ہوتا.بڑا بھاری پتھر ہوتا.پھر آپ اس پتھر کو رکھتے.کوئی شخص آتا اور چاہتا کہ اس پتھر کو اٹھائے مگر وہ اٹھا نہ سکتا.اس پر آپ اسے حکم دیتے کہ اسے چھوڑ دو اور کوئی اور پتھر نے آؤ.191 مسجد قبا کے متعلق آتا ہے کہ یہی وہ مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی مگر بعض روایات میں مسجد نبوی کو وہ مسجد قرار دیا گیا ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی.سیرت حلبیہ میں ذکر ہے کہ ان دونوں اقوال میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ ان دونوں مساجد میں سے ہر ایک کی بنیاد تقویٰ پر ہی رکھی گئی.اس بات کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے.اس روایت کے مطابق ان کی رائے تھی کہ مدینہ کی تمام مساجد جس میں قبا کی مسجد بھی شامل ہے اس کی بنیاد تقویٰ پر ہی رکھی گئی ہے لیکن جس کے متعلق آیت نازل ہوئی تھی وہ مسجد قباہی ہے.قبا سے مدینہ 192 دس دن یا چودہ دن قیام کے بعد جمعہ کے دن نبی کریم صل اللہ تم ابا سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے.
اصحاب بدر جلد 2 70 حضرت ابو بکر صدیق 193 راستے میں جب بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہنچے تو جمعہ کا وقت ہو گیا.آپ صلی علیہم نے مسلمانوں کے ہمراہ وادی رانوناء کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی اور ان کی تعداد ایک سو تھی.وادی رانوناء مدینہ کے جنوب میں واقع ہے.جب آپ نے اس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی تو اس وقت سے اس مسجد کو مسجد الجمعہ کہا جانے لگا.یہ پہلا جمعہ تھا جو آپ نے مدینہ میں پڑھا تھا.ہو سکتا ہے یہ مسجد بعد میں وہاں بنائی گئی ہو.اس جگہ جمعہ پڑھنے کی وجہ سے اس کا نام رکھا گیا ہو.پھر ذکر آتا ہے کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد رسول اللہ صلی علی یکم اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے.اس وقت آپ نے حضرت ابو بکر کو پیچھے بٹھایا ہو اتھا.194 انعام کے لالچ میں بہت سے لوگوں نے آپ کا پیچھا کرنے کی کوشش کی.الله سة ایک واقعہ کتب تاریخ میں یوں بیان ہوا ہے.بريدة بن حصیب بیان کرتے ہیں کہ جب قریش نے اس کے لیے سو اونٹوں کا انعام مقرر کیا جو نبی کریم صلی میریم کا ارادہ کرے یعنی آپ کو زندہ یا مردہ پکڑ کے لائے تو مجھے بھی لالچ نے آمادہ کیا تو میں بنو سھم کے ستر لوگوں کے ساتھ سوار ہو کر نکلا اور آپ کو ملا.آپ نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ بُریدہ.اس پر آپ صلی علیکم حضرت ابو بکر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے ابو بکر ! ہمارا معاملہ ٹھنڈا اور درست ہو گیا.پھر آپ نے پوچھا تم کس قبیلہ سے ہو ؟ میں نے کہا قبیلہ اسلم سے.آپ نے فرمایا سلامتی میں رہے.پھر پوچھا کس کی اولاد سے ؟ میں نے کہا بنو سہم کی.آپ نے فرمایا اے ابو بکر تمہارا سهم یعنی تمہارا نصیبہ نکل آیا.پھر بُریدہ نے نبی کریم صلی علیکم سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپ صلی علیہ ہم نے فرمایا : میں محمد بن عبد اللہ ، اللہ کا رسول ہوں.اس پر بریدہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں.پھر بریدہ نے اسلام قبول کر لیا اور سب لوگوں نے بھی جو اس کے ساتھ تھے.بُریدہ نے کہا: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں.بنو سنہم نے دلی خوشی سے بغیر کسی جبر کے اسلام قبول کیا.جب صبح ہوئی تو بریدہ نے کہا یار سول اللہ مدینہ میں آپ کا داخلہ ایک جھنڈے کے ساتھ ہونا چاہیے.پھر اس نے اپنا عمامہ سر سے اتارا اور اسے اپنے نیزے پر باندھ دیا اور آپ کے آگے آگے چلنے لگا یہاں تک کہ مسلمان مدینہ میں داخل ہو گئے.195 حضرت ابوایوب کے گھر میں قیام صحیح بخاری میں رسول کریم صلی الم کی مدینہ آمد کے متعلق حضرت انس بن مالک کی روایت اس طرح ہے کہ نبی کریم صلی علی کم مدینہ آئے اور مدینہ کے اوپر کے حصہ میں ایک قبیلہ میں جنہیں بنو عمر و بن عوف کہا جاتا تھا اترے.نبی صلی علیکم ان میں چودہ راتیں ٹھہرے.پھر بنو نجار کو بلا بھیجا.وہ تلواریں پہنے ہوئے آئے اور یہ واقعہ مجھے ایسا یاد ہے گویا میں نبی صلی الیکم کو اب بھی اپنی سواری پر سوار دیکھ رہاہوں اور
محاب بدر جلد 2 71 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر آپ کے پیچھے سوار تھے اور بنو نجار کا جتھہ آپ کے ارد گرد تھا.آخر آپ نے حضرت ابو ایوب کے صحن میں ڈیرہ ڈالا.196 اس کا احوال بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ” قبا میں زائد از دس دن قیام کے بعد جمعہ کے روز آنحضرت صلی للی کم مدینہ کے اندرونی حصہ کی طرف روانہ ہوئے.انصار و مہاجرین کی ایک بڑی جماعت آپ کے ساتھ تھی.آپ ایک اونٹنی پر سوار تھے اور حضرت ابو بکر آپ تھے.یہ قافلہ آہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھنا شروع ہوا.راستہ میں ہی نماز جمعہ کا وقت آگیا اور آنحضرت صلی ا یم نے بنو سالم بن عوف کے محلہ میں ٹھہر کر صحابہ کے سامنے خطبہ دیا اور جمعہ کی نماز ادا کی.مورخین لکھتے ہیں کہ گو اس سے پہلے جمعہ کا آغاز ہو چکا تھا مگر یہ پہلا جمعہ تھا جو آپ نے خود ادا کیا.اور اس کے بعد سے جمعہ کی نماز کا طریق با قاعدہ جاری ہو گیا.“ ( تو یہاں سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسجد جو تھی وہ بعد میں بنائی گئی).جمعہ سے فارغ ہو کر آپ کا قافلہ پھر آہستہ آہستہ آگے روانہ ہوا.راستہ میں آپ مسلمانوں کے گھروں کے پاس سے گزرتے تھے تو وہ جوش محبت میں بڑھ بڑھ کر عرض کرتے تھے یارسول اللہ ! یہ ہمارا گھر ، یہ ہمارا مال و جان حاضر ہے اور ہمارے پاس حفاظت کا سامان بھی ہے.آپ ہمارے پاس تشریف فرما ہوں.آپ ان کے لئے دعائے خیر فرماتے اور آہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھتے جاتے تھے.مسلمان عورتوں اور لڑکیوں نے خوشی کے جوش میں اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ چڑھ کر گاناشروع کیا.طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِ مَا دَعَى لِلَّهِ دَاع یعنی آج ہم پر کوہ وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کے چاند نے طلوع کیا ہے.اس لیے اب ہم پر ہمیشہ کے لئے خدا کا شکر واجب ہو گیا ہے.مسلمانوں کے بچے مدینہ کی گلی کوچوں میں گاتے پھرتے تھے کہ محمد صلیم آگئے.خدا کے رسول آگئے.اور مدینہ کے حبشی غلام آپ کی تشریف آوری کی خوشی میں تلوار کے کرتب دکھاتے پھرتے تھے.جب آپ شہر کے اندر داخل ہوئے تو ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپ اس کے پاس قیام فرمائیں اور ہر شخص بڑھ بڑھ کر اپنی خدمت پیش کرتا تھا.آپ سب کے ساتھ محبت کا کلام فرماتے اور آگے بڑھتے جاتے تھے حتی کہ آپ کی ناقہ بنو ئجار کے محلہ میں پہنچی.اس جگہ بنو نجار کے لوگ ہتھیاروں سے سجے ہوئے صف بند ہو کر آپ کے استقبال کے لئے کھڑے تھے اور قبیلہ کی لڑکیاں دفیں بجا بجا کر یہ شعر گار ہی تھیں.نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي نَجَارِ يَا حَبَدًا مُحَمَّدًا مِنْ جَارٍ یعنی ہم قبیلہ بنو نجار کی لڑکیاں ہیں اور ہم کیا ہی خوش قسمت ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی المی کم ہمارے محلہ میں ٹھہرنے کے لئے تشریف لائے ہیں.197❝
باب بدر جلد 2 72 12 حضرت ابو بکر صدیق نبی اکرم صلی کم اور حضرت ابو بکر کے اہل و عیال کا مدینہ تشریف لانا آنحضرت صلی علیم کے اپنے اور حضرت ابو بکر کے اہل و عیال کو مدینہ بلانے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”کچھ عرصہ کے بعد آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام “ یعنی مدینہ آنے کے کچھ عرصہ بعد زید کو مکہ میں بھیجوایا کہ وہ آپ کے اہل وعیال کو لے آئے.چونکہ مکہ والے اس اچانک ہجرت کی وجہ سے کچھ گھبر اگئے تھے اس لئے کچھ عرصہ تک مظالم کا سلسلہ بند رہا اور اسی گھبراہٹ کی وجہ سے وہ رسول کریم صلی الی یکم اور حضرت ابو بکر کے خاندان کے مکہ چھوڑنے میں مزاحم نہیں ہوئے اور یہ لوگ خیریت سے مدینہ پہنچ گئے.اس عرصہ میں جو زمین رسول اللہ صلی علیکم نے خریدی تھی سب سے پہلے وہاں آپ نے مسجد کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد اپنے لئے اور اپنے ساتھیوں کے لئے مکان بنوائے.198" حضرت ابو بکر کا مدینہ میں قیام تھی.مدینہ ہجرت کے بعد حضرت ابو بکر صدیق سنح میں حضرت حبیب بن اساف کے ہاں ٹھہر.سنح مدینہ کے مضافات میں ایک جگہ ہے جو مسجد نبوی سے تقریباً دو میل کے فاصلہ پر حضرت حبیب کا تعلق بنو حارِث بن خَزرج سے تھا.ایک قول کے مطابق حضرت ابو بکر کی رہائش حضرت خارجہ بن زید کے ہاں تھی.199 بعض روایات کے مطابق حضرت ابو بکر نے سُنح میں ہی اپنا مکان اور کپڑا بنانے کا کارخانہ بنالیا 201 تھا.200 اس سے کاروبار کیا.مسجد نبوی کی تعمیر اور حضرت ابو بکر مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اکرم صلی الی تم نے سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی طرف توجہ فرمائی.چنانچہ اس بارے میں سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ : مدینہ کے قیام کا سب سے پہلا کام مسجد نبوی کی تعمیر تھا.جس جگہ آپ کی اونٹنی آکر بیٹھی تھی وہ مدینہ کے دو مسلمان بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت تھی جو حضرت اسعد بن زرارہ کی نگرانی میں رہتے تھے.یہ ایک افتادہ جگہ تھی جس کے ایک حصہ میں کہیں کہیں کھجوروں کے درخت تھے اور دوسرے حصہ میں کچھ کھنڈرات وغیرہ تھے.آنحضرت صلی ای کم نے اسے مسجد اور اپنے حجرات کی تعمیر کے لیے پسند فرمایا اور دس دینار میں ( یعنی اس وقت اس زمانے میں اس کی جو قیمت لگی وہ آپ نے یہاں روپوں میں لگائی تھی) بہر حال دس دینار میں زمین خرید لی گئی اور جگہ کو ہموار کر کے اور درختوں کو کاٹ کر مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہو گئی.آنحضرت صلی علیہم نے خود دعا مانگتے ہوئے سنگ بنیا د ر کھا اور جیسا کہ قبا کی مسجد میں ہوا تھا صحابہ نے معماروں اور مزدوروں کا کام کیا جس میں کبھی کبھی آنحضرت صلی ال یکم خود بھی شرکت
حاب بدر جلد 2 فرماتے تھے.202 73 حضرت ابو بکر صدیق 203 جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ مسجد کے لیے اور حجرات کے لیے یہ جو جگہ تھی یہ آنحضرت صلی ا ہم نے دس دینار میں خریدی تھی اور روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابو بکر کے مال سے یہ رقم ادا کی گئی تھی.13 مسجد کی تعمیر کے بارے میں مزید تفصیل یوں ملتی ہے.تعمیر شروع ہونے کے وقت آنحضرت صلی اللہ ہم نے اپنے دست مبارک سے ایک اینٹ رکھی.پھر آپ نے حضرت ابو بکر کو بلایا تو انہوں نے آپ کی اینٹ کے ساتھ ایک اینٹ رکھی.پھر حضرت عمر کو بلایا جنہوں نے حضرت ابو بکر کی اینٹ کے ساتھ ایک اینٹ رکھی.پھر حضرت عثمان آئے انہوں نے ابو پھر حضرت عمر کی اینٹ کے ساتھ ایک اینٹ رکھی.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی علی یکم نے مسجد تعمیر کی تو آپ نے بنیاد میں ایک پتھر رکھا اور حضرت ابو بکر سے فرمایا کہ اپنا پتھر میرے پتھر کے ساتھ رکھو.پھر آپ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: اپنا پتھر ابو بکر کے پتھر کے ساتھ رکھو.پھر حضرت عثمان سے فرمایا: اپنا پتھر عمر کے پتھر کے ساتھ رکھو.204 محرم 17 ہجری میں جب نبی کر یم ملی ای کم غزوہ خیر سے فاتح و کامران لوٹے تو آپ نے مسجد نبوی کی توسیع اور تعمیر نو کا ارشاد فرمایا.اس دفعہ بھی آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ مل کر مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا.205 عبید اللہ بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی علی کریم نے مدینہ میں مکانوں کے لیے زمین عطا فرمائی تو حضرت ابو بکر کے لیے ان کے گھر کی جگہ مسجد کے پاس مقرر فرمائی.06 حضرت ابو بکر کی مواخات حضرت ابو بکر کی مواخات کے بارے میں روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے حضرت ابو بکر اور حضرت خارجہ بن زید کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی.207 ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے درمیان عقدِ مواخات قائم فرمایا.208 حضرت عمرؓ کے ساتھ مؤاخات مکہ میں ہوئی تھی.اس کے بارے میں روایت آتی ہے کہ حضرت عمررؓ کے ساتھ جو مؤاخات کی روایت ملتی ہے یہ مؤاخات مکہ میں ہوئی تھی.جیسا کہ علامہ ابن عساکر لکھتے ہیں کہ مکہ میں رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر بن خطاب کے درمیان مواخات قائم فرمائی.پھر جب رسول اللہ صلی الیوم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے وہ مواخات منسوخ فرما دی سوائے دو مؤاخات کے.وہ دو مؤاخات قائم رہیں جن میں سے ایک آپ کے اور حضرت علی کے درمیان تھی اور دوسری حضرت حمزہ اور حضرت زید
اصحاب بدر جلد 2 74 حضرت ابو بکر صدیق بن حارثہؓ کے درمیان تھی.مؤاخات دو مر تبہ ہوئی 209 اس بارے میں تاریخ میں یہ ذکر ملتا ہے کہ مؤاخات دو مر تبہ ہوئی.چنانچہ صحیح بخاری کے شارح علامہ قسطلاني بیان کرتے ہیں کہ مؤاخات دو مرتبہ ہوئی ، پہلی مرتبہ ہجرت سے قبل مکہ میں مسلمانوں کے درمیان ہوئی جس میں آپ میلی لی تم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے درمیان اور حضرت حمزہ اور حضرت زید بن حارثہ کے درمیان، حضرت عثمانؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کے درمیان، حضرت الله سة زبیر اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے درمیان اور حضرت علی اور اپنے درمیان مواخات قائم فرمائی.پھر جب آپ صلی میں کم مدینہ تشریف لائے تو مہاجرین اور انصار کے درمیان حضرت انس بن مالک کے گھر میں مؤاخات قائم فرمائی.ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی میڈم نے سو صحابہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی یعنی پچاس مہاجرین اور پچاس انصار کے درمیان.غزوہ بدر اور حضرت ابو بکر 210 اس بارے میں ذکر ملتا ہے کہ غزوہ بدر رمضان 2 1 ہجری مطابق مارچ 624ء میں ہوئی.211 غزوہ بدر کے لیے روانگی کے وقت صحابہ کے پاس ستر اونٹ تھے اس لیے ایک ایک اونٹ تین تین آدمیوں کے لیے مقرر کیا اور ہر ایک باری باری سوار ہو تا تھا.حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے.212 بدر کے لیے جب آنحضرت صلی علیم نے روانگی فرمائی تو اس کے ذکر میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی علیکم ابو سفیان کے قافلے کی روک تھام کے لیے مدینہ سے نکلے جو شام کی طرف سے آرہا تھا.جب مسلمانوں کا قافلہ ذفران کی وادی میں پہنچا، یہ مدینہ کے نواح میں صفراء کے قریب ایک وادی ہے تو آپ کو قریش کے بارے میں خبر ملی کہ وہ اپنے تجارتی قافلہ کو بچانے کے لیے نکل پڑے ہیں.نبی کریم ملایا ہی ہم نے صحابہ کرام سے مشورہ طلب کیا اور ان کو یہ خبر دی کہ مکہ سے ایک لشکر انتہائی تیز رفتاری سے نکل پڑا ہے اس بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ کیا لشکر کے مقابلہ میں تجارتی قافلہ تم کو زیادہ پسند ہے ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں.یعنی ایک گروہ نے کہا ہم دشمن کے مقابلہ میں تجارتی قافلے کو زیادہ پسند کرتے ہیں.ایک روایت میں ذکر ملتا ہے کہ ایک گروہ نے کہا کہ آپ نے ہم سے جنگ کا ذکر کیوں نہ کیا تا کہ ہم اس کی تیاری کر لیتے.ہم تو تجارتی قافلے کے لیے نکلے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ کو تجارتی قافلے کی طرف ہی جانا چاہیے اور آپ دشمن کو چھوڑ دیں.اس پر رسول اللہ صلی علیہ نام کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا.حضرت ابو ایوب بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہی واقعہ ہے کہ كَمَا اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَرِهُونَ (انفال:6) کہ جیسے تیرے رب نے تجھے حق * وہاں سن 623ء لکھا ہو ا ہے جو سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.مرتب
اصحاب بدر جلد 2 75 حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا تھا حالانکہ مومنوں میں سے ایک گروہ اسے یقینانا پسند کر تا تھا.حضرت مقداد کے تاریخی فقرات اس پر حضرت ابو بکر کھڑے ہو گئے اور گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی.پھر حضرت عمرؓ گھڑے ہوئے اور گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی.پھر حضرت مقداد کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے اسی طرف چلیے.ہم آپ کے ساتھ ہیں.اللہ کی قسم ! ہم آپ سے یہ نہ کہیں گے جیسا کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا تھا کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا انا ههنا قعِدُونَ (المائدة:25) پس جاتو اور تیر ارب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے.انہوں نے کہا کہ ہم لوگ آپ کے ساتھ مل کر قتال کریں گے جب تک ہم میں جان ہے.اللہ کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث فرمایا ہے اگر آپ ہمیں برک الغماد بھی لے کر چلیں تو ہم آپ کے ہمراہ تلواروں سے لڑائی کرتے ہوئے چلتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ ہم وہاں پہنچ جائیں.برک الغماد مکہ سے پانچ رات کی مسافت پر ایک شہر ہے جو سمند ر سے متصل ہے.بہر حال حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی العلیم کے چہرہ مبارک کو دیکھا، وہ اس بات پر چمک اٹھا اور آپ اس بات پر بہت زیادہ مسرور ہوئے.پھر رسول الله صلى یک ایران سے روانہ ہوئے اور بدر کے قریب پڑاؤ کیا.پھر آپ صلی علی کم اور آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص سوار ہوا.ابن ہشام کے مطابق وہ حضرت ابو بکر تھے.ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ابو بکر کی بجائے حضرت قتادہ بن نعمان یا حضرت معاذ بن جبل تھے ، یہاں تک کہ آپ صلی علیکم عرب کے ایک بوڑھے شخص کے پاس رکے اور اس سے قریش کے متعلق اور محمد صلی الی روم اور اس کے ساتھیوں کے بارے 213 میں دریافت کیا اور یہ کہ ان کے بارے میں کیا خبر ہے ؟214 جب میدانِ بدر میں جمع ہو گئے تو وہاں آنحضرت صلی می ریم کے لیے ایک سائبان بنایا گیا تھا.اس کی تیاری کے بارے میں لکھا ہے ”سعد بن معاذر ئیس اوس کی تجویز سے صحابہ نے میدان کے ایک حصہ میں آنحضرت صلی اللی کمی کے واسطے ایک سائبان ساتیار کر دیا اور سعد نے آنحضرت صلی اللی کم کی سواری سائبان کے پاس باندھ کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ اس سائبان میں تشریف رکھیں اور ہم اللہ کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں...اور سعد اور بعض دوسرے انصار اس کے گرد پہرہ دینے کے لئے کھڑے ہو گئے.آنحضرت صلی للہ کم اور حضرت ابو بکر نے اسی سائبان میں رات بسر کی.“ ایک روایت میں ذکر ہے کہ حضرت ابو بکر سائبان میں ننگی تلوار سونت کر آپ کے پاس حفاظت کے لئے کھڑے رہے اور آنحضرت صلی الی ایم نے رات بھر خدا کے حضور گریہ وزاری سے دعائیں کیں اور لکھا ہے کہ سارے لشکر میں صرف آپ ہی تھے جو رات بھر جاگے.باقی سب لوگ باری باری اپنی نیند سولئے.215 215❝
حاب بدر جلد 2 76 حضرت ابو بکر کی بہادری...حضرت علی کی گواہی حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر صدیق کی بہادری کے بارے میں حضرت علی سے ایک روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے صحابہ کے ایک گروہ سے پوچھا کہ مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ بہادر شخص کے متعلق بتاؤ.حضرت علی نے پوچھا تو لوگوں نے جواب دیا کہ آپ یعنی حضرت علی حضرت علی نے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابو بکر نہیں.جب بدر کا دن تھا ہم نے رسول اللہ صلی علیم کے لیے سائبان تیار کیا.پھر ہم نے کہا کہ کون ہے جو رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ رہے تا کہ آپ صلی یی کم تک کوئی مشرک نہ پہنچ پائے تو اللہ کی قسم! ہم میں سے کوئی آپ صلی اسلام کے قریب نہ گیا مگر حضرت ابو بکر تلوار کو سونتے ہوئے رسول اللہ صلی اللی کام کے سر کے پاس کھڑے ہو گئے کہ رسول اللہ صلی علی کیم کے پاس کوئی مشرک نہیں پہنچے گا مگر پہلے وہ ابو بکر سے مقابلہ کرے گا.216 اس ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ صحابہ میں سب سے زیادہ بہادر اور دلیر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے اور پھر انہوں نے کہا کہ جنگ بدر میں جب رسول کریم صلی علیم کے لئے ایک علیحدہ چبوترہ بنایا گیا تو اس وقت سوال پیدا ہوا کہ آج رسول کریم صلی علیم کی حفاظت کا کام کس کے سپر د کیا جائے.اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فوراً ننگی تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس انتہائی خطرہ کے موقع پر نہایت دلیری کے ساتھ آپ کی حفاظت کا فرض سر انجام دیا.“217 خیمہ میں نبی اکرم صلی ا کرم کی مقبول دعائیں حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ نبی صلی الم نے فرمایا اور آپ بدر کے دن ایک بڑے خیمے میں تھے کہ اللهُمَّ إِنِّي أَنْشُرُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدُ بَعْدَ الْيَوْمِ کہ اے میرے اللہ ! میں تجھے تیرے ہی عہد اور تیرے ہی وعدے کی قسم دیتا ہوں.اے میرے رب ! اگر تو ہی مسلمانوں کی تباہی چاہتا ہے تو آج کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا.اتنے میں حضرت ابو بکڑ نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور انہوں نے کہا یارسول اللہ بس کیجیے.آپ نے اپنے رب سے دعامانگنے میں بہت اصرار کر لیا ہے اور آپ زرہ پہنے ہوئے تھے.آپ خیمہ سے نکلے اور آپ یہ پڑھ رہے تھے: سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّونَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ أدهى وَآمَرُ (القمر 46-47) عنقریب یہ سب کے سب شکست کھا جائیں گے اور پیٹھ پھیر دیں گے اور یہی وہ گھڑی ہے جس سے ڈرائے گئے تھے اور یہ گھڑی نہایت سخت اور نہایت تلخ ہے.218 91791 حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے مجھ سے بیان کیا کہ بدر والے دن رسول اللہ صلی الم نے مشرکوں کو دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابہ تین سو انیس تھے.اللہ کے نبی صلی ا ہم نے قبلہ کی طرف منہ کیا.پھر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور اپنے رب کو بلند آواز سے
ناب بدر جلد 2 77 حضرت ابو بکر صدیق پکارتے رہے.اللَّهُمَّ الْجِزْ لِي مَا وَعَدَتَنِي اللَّهُمَّ اِتِ مَا وَعَدَتَنِي اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ یعنی اے اللہ ! جو تو نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما.اے اللہ ! جو تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطا فرما.اے اللہ ! اگر تو نے مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک کر دیا تو زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی.قبلے کی طرف منہ کیے دونوں ہاتھ پھیلائے آپ مسلسل اپنے رب کو بلند آواز سے پکارتے رہے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گئی.حضرت ابو بکر آپ کے پاس آئے اور آپ کی چادر اٹھائی اور آپ کے کندھوں پر ڈال دی.پھر آپ رسول اللہ صلی علی کم کو پیچھے سے چمٹ گئے اور عرض کیا، اے اللہ کے نبی ؟ آپ کی اپنے رب کے حضور الحاح سے بھری ہوئی دعا آپ کے لیے کافی ہے.وہ آپ سے کیے گئے وعدے ضرور پورے فرمائے گا.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمُ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُسِدُّكُمْ بِالْفِ مِنَ الْمَلَكَةِ مُردِ فِيْنَ (انفال: 10) یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اس نے تمہاری التجا کو قبول کر لیا اس وعدے کے ساتھ کہ میں ضرور ایک ہزار قطار در قطار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا.پس اللہ نے ملائکہ کے ساتھ آپ کی مدد فرمائی.219 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بدر کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تفصیل اس طرح بیان فرمائی ہے.لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیم نے صحابہ سے مخاطب ہو کر یہ بھی فرمایا کہ لشکر کفار میں بعض ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے دل کی خوشی سے اس مہم میں شامل نہیں ہوئے بلکہ رؤساء قریش کے دباؤ کی وجہ سے شامل ہو گئے ہیں ورنہ وہ دل میں ہمارے مخالف نہیں.اسی طرح بعض ایسے لوگ بھی اس لشکر میں شامل ہیں جنہوں نے مکہ میں ہماری مصیبت کے وقت میں ہم سے شریفانہ سلوک کیا تھا اور ہمارا فرض ہے کہ ان کے احسان کا بدلہ اتاریں.پس اگر کسی ایسے شخص پر کوئی مسلمان غلبہ پائے تو اسے کسی قسم کی پر تکلیف نہ پہنچائے اور آپ نے خصوصیت کے ساتھ قسم اول میں عباس بن عبد المطلب اور قسم ثانی میں أبو البختری کا نام لیا اور ان کے قتل سے منع فرمایا مگر حالات نے کچھ ایسی ناگریز صورت اختیار کی کہ ابوالبختري قتل سے بیچ نہ سکا گوا سے مرنے سے قبل اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ آنحضرت علی تمیم نے اس کے قتل سے منع فرمایا ہے.“ صحابہ سے یہ فرمانے کے بعد..آپ سائبان میں جاکر پھر دعا میں مشغول ہو گئے.حضرت ابو بکر بھی ساتھ تھے اور سائبان کے ارد گرد انصار کی ایک جماعت سعد بن معاذ کی زیر کمان پہرہ پر متعین تھی.تھوڑی دیر کے بعد میدان میں سے ایک شور بلند ہوا اور معلوم ہوا کہ قریش کے لشکر نے عام حملہ کر دیا ہے.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رفت کی حالت میں خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے دعائیں کر رہے تھے اور نہایت اضطراب کی حالت میں فرماتے تھے کہ اللهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ اللهُمَّ ان تُبْلِكَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ.اے میرے خدا! اپنے وعدوں کو پورا کر.اے میرے مالک ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج اس میدان میں ہلاک ہو گئی تو دنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا.اور اس وقت آپ اس قدر کرب
باب بدر جلد 2 78 حضرت ابو بکر صدیق کی حالت میں تھے کہ کبھی آپ سجدہ میں گر جاتے تھے اور کبھی کھڑے ہو کر خدا کو پکارتے اور آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گر پڑتی تھی اور حضرت ابو بکر سے اٹھا اٹھا کر آپ پر ڈال دیتے تھے.حضرت علی کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ ہی کا خیال آتا تھا تو میں آپ کے سائبان کی طرف بھاگا جاتا تھا لیکن جب بھی میں گیا میں نے آپ کو سجدہ میں گڑ گڑاتے ہوئے پایا اور میں نے سنا کہ آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ يَا حَيُّ يَا قَيَوْمُ ، يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ.220% یعنی اے میرے زندہ خدا! اے میرے زندگی بخش آقا! حضرت ابو بکر آپ کی اس حالت کو دیکھ کر بے چین ہوئے جاتے تھے اور کبھی کبھی بے ساختہ عرض کرتے تھے یار سول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں.آپ گھبر ائیں نہیں.اللہ اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا.مگر اس بچے مقولہ کے مطابق کہ ہر کہ عارف تر است ترساں تر.یعنی ہر کوئی جتنی معرفت رکھتا ہے اتناہی وہ ڈرتا ہے.” آپ برابر دعا اور گریہ وزاری میں مصروف رہے.حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ”بدر کے موقع پر آنحضرت صلی الم سے جو ظہور میں آیا وہ بھی چشم بصیرت رکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لئے کافی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کا کس قدر خوف تھا.جنگ بدر کے موقع پر جبکہ دشمن کے مقابلہ میں آپ اپنے جاں نثار بہادروں کو لے کر پڑے ہوئے تھے.تائید الہی کے آثار ظاہر تھے.کفار نے اپنے قدم جمانے کے لئے پختہ زمین پر ڈیرے لگائے تھے اور مسلمانوں کے لئے ریت کی جگہ چھوڑی تھی لیکن خدا نے بارش بھیج کر کفار کے خیمہ گاہ میں کیچڑ ہی کیچڑ کر دیا اور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہو گئی.اسی طرح اور بھی تائیدات سماوی ظاہر ہو رہی تھیں لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کا خوف آنحضرت صلی العلم کے دل پر ایسا غالب تھا کہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غنا کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور بے تاب ہو کر اس کے حضور میں دعا فرماتے تھے کہ مسلمانوں کو فتح دے.چنانچہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم جنگ بدر میں گول خیمہ میں تھے اور فرماتے تھے کہ اے میرے خدا! میں تجھے تیرے عہد اور وعدے یاد دلاتا ہوں اور ان کے ایفاء کا طالب ہوں.اے میرے رب! اگر تُو ہی (مسلمانوں کی تباہی ) چاہتا ہے تو آج کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا.اس پر حضرت ابو بکڑ نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ انیس کیجئے.آپ نے تو اپنے ب سے دعا کرنے میں حد کر دی.رسول کریم صلی علیہم نے اس وقت زرہ پہنی ہوئی تھی.آپ خیمہ سے باہر نکل آئے اور فرمایا کہ ابھی ان لشکروں کو شکست ہو جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ یہ وقت ان کے انجام کا وقت ہے اور یہ وقت ان لوگوں کے لئے نہایت سخت اور کڑوا ہے.اللہ اللہ خوف خدا کا ایسا تھا کہ باوجو د وعدوں کے اس کے غناء کا خیال تھا لیکن یقین بھی ایسا تھا کہ جب حضرت ابو بکر نے عرض کی تو بآواز بلند سنا دیا کہ میں ڈرتا نہیں بلکہ خدا کی طرف سے مجھے علم ہو چکا ہے کہ دشمن شکست کھا کر ذلیل و خوار ہو گا اور ائمۃ الکفر یہیں مارے جائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.“ 221"
حاب بدر جلد 2 79 حضرت ابو بکر صدیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: قرآن شریف میں بار بار آنحضرت صلی علیہم کو کافروں پر فتح پانے کا وعدہ دیا گیا تھا مگر جب بدر کی لڑائی شروع ہوئی جو اسلام کی پہلی لڑائی تھی تو آنحضرت صلی علیم نے رونا اور دعا کرنا شروع کیا اور دعا کرتے کرتے یہ الفاظ آنحضرت صلی اللی کمی کے منہ سے نکلے.اللهم إن أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا یعنی اے میرے خدا! اگر آج تو نے اس جماعت کو (جو صرف تین سو تیرہ آدمی تھے ) ہلاک کر دیا تو پھر قیامت تک کوئی تیری بندگی نہیں کرے گا.ان الفاظ کو جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی علیم کے منہ سے سنا تو عرض کی یارسول اللہ ! صلی علیکم آپ اس قدر بے قرار کیوں ہوتے ہیں ؟ خدا تعالیٰ نے تو آپ کو پختہ وعدہ دے رکھا ہے کہ میں فتح دوں گا.آپ نے فرمایا کہ یہ سچ ہے مگر اس کی بے نیازی پر میری نظر ہے یعنی کسی وعدہ کا پورا کر ناخد اتعالیٰ پر حق واجب نہیں ہے.جب گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی تو رسول اللہ علی ایک ایک سائباں سے نیچے تشریف لائے اور لوگوں کو قتال پر ابھارا.لوگ اپنی صفوں میں اللہ کا ذکر کر رہے تھے.نبی کریم صلی علیہم نے بذات خود خوب قتال کیا اور آپ کے پہلو بہ پہلو حضرت ابو بکر صدیق قتال کرتے رہے.222" حضرت ابو بکر کی بے نظیر شجاعت حضرت ابو بکر کی بے نظیر شجاعت سامنے آئی.آپ ہر سرکش کافر سے لڑنے کے لیے تیار تھے اگر چہ آپ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو.اس معرکے میں آپ کے بیٹے عبد الرحمن کفار کی جانب سے لڑنے کے لیے آئے تھے اور عرب میں سب سے بڑے بہادروں میں سے ایک سمجھے جاتے تھے اور قریش میں تیر اندازی میں سب سے بڑے ماہر تھے.جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اپنے والد حضرت ابو بکر سے عرض کیا: بدر کے دن آپ میرے سامنے واضح نشان و ہدف پر تھے لیکن میں آپ سے ہٹ گیا اور آپ کو قتل نہ کیا تو حضرت ابو بکڑ نے فرمایا اگر تُو میرے نشانے پر ہوتا تو میں تجھ سے نہ ہٹتا.223 اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ رسول کریم صلی الیتیم کے ساتھ کھانے میں شریک تھے کہ مختلف امور پر باتیں شروع ہو گئیں.حضرت عبد الرحمن جو حضرت ابو بکر رضی اللہ کے بڑے بیٹے تھے اور جو بعد میں مسلمان ہوئے بدر یا احد کی جنگ میں کفار کی طرف سے لڑائی میں شریک ہوئے تھے.انہوں نے کھانا کھاتے ہوئے باتوں باتوں میں کہا کہ ابا جان اس جنگ میں جب فلاں جگہ سے آپ گذرے تھے تو اس وقت میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا اور میں اگر چاہتا تو حملہ کر کے آپ کو ہلاک کر سکتا تھا مگر میں نے کہا اپنے باپ کو کیا مارنا ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لئے تو بچ گیا ور نہ خدا کی قسم ! اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا.224
حاب بدر جلد 2 80 حضرت ابو بکر صدیق اسیر ان بدر کے متعلق مشاورت اور حضرت ابو بکر کی رائے آنحضور صلی الم کا غزوہ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ اور اس میں حضرت ابو بکر کی رائے کیا تھی ؟ اور اس کے بعد حضرت ابو بکر کی رائے کے مطابق ہی عمل کیا گیا.اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ”مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی ا ہم نے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے.عرب میں بالعموم قیدیوں کو قتل کر دینے یا مستقل طور پر غلام بنالینے کا دستور تھا مگر آنحضرت صلی للی کم کی طبیعت پر یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی اور پھر ابھی تک اس بارہ میں کوئی الہی احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے.حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ میری رائے میں تو ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ آخر یہ لوگ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور کیا تعجب کہ کل کو انہی میں سے فدایانِ اسلام پیدا ہو جائیں.مگر حضرت عمرؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہا کہ دین کے معاملہ میں رشتہ داری کا کوئی پاس نہیں ہونا چاہئے اور یہ لوگ اپنے افعال سے قتل کے مستحق ہو چکے ہیں.پس میری رائے میں ان سب کو قتل کر دینا چاہئے بلکہ حکم دیا جاوے کہ مسلمان خود اپنے ہاتھ سے اپنے اپنے رشتہ داروں کو قتل کریں.آنحضرت صلی الی یم نے اپنے فطری رحم سے متاثر ہو کر حضرت ابو بکر کی رائے کو پسند فرمایا اور قتل کے خلاف فیصلہ کیا اور حکم دیا کہ جو مشرکین اپنا فدیہ وغیرہ ادا کر دیں انہیں چھوڑ دیا جاوے.چنانچہ بعد میں اسی کے مطابق الہی حکم نازل ہوا.مدینہ میں حضرت ابو بکر کی بیمار ہونا اور مکہ کی یاد 22566 مدینہ میں ایک دفعہ حضرت ابو بکر اور دوسرے صحابہ بیمار ہو گئے.اس بارے میں حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے.آپ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الی یکم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر اور حضرت بلال کو بخار ہو گیا.کہتی تھیں میں ان دونوں کے پاس گئی اور پوچھا.ابا ! آپ اپنے تئیں کیسا پاتے ہیں؟ اور بلال تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو ؟ آپ کہتی ہیں کہ جب حضرت ابو بکر کو بخار ہو تا تو یہ وَالْمَوْتُ أَدْنى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ شعر پڑھتے: كُلُّ امْرِءٍ مُصَبَّحَ فِي أَهْلِهِ ہر شخص جو اپنے گھر والوں میں صبح کو اٹھتا ہے تو اسے سلامتی کی دعائیں دی جاتی ہیں اور حالت یہ ہے کہ موت اس کی جوتی کے تسمہ سے نزدیک تر ہوتی ہے.اور حضرت بلال جب ان کا بخار اتر جاتا تو بلند آواز سے رو کر بعض شعر پڑھتے تھے جس میں مکہ کی ارد گرد کی آبادیوں کا ذکر ہوتا اور اس کو یاد کر رہے ہوتے.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی علیم کے پاس آئی اور سارا احوال آپ سے بیان کیا یعنی حضرت ابو بکڑ نے کیا کہا اور حضرت بلال کیا کہتے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے دعا کی کہ اے اللہ ! مدینہ بھی ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے جیسا کہ ہمیں مکہ پیارا ہے یا اس سے بھی بڑھ کر اور اس کو صحت بخش مقام بنا اور ہمارے لیے اس کے صاع میں اور مد میں برکت دے.یہ مد اور صاع وزن کے پیمانے ہیں
محاب بدر جلد 2 81 حضرت ابو بکر صدیق اور اس کے بخار کو یہاں سے لے جا کر مخفہ کی طرف منتقل کر دے.مُخفّہ مکہ سے مدینہ کی جانب بیاسی میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے.226 غزوة احد غزوہ احد کے بارے میں روایات ہیں کہ یہ غزوہ شوال تین ہجری بمطابق 625ء * میں مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان ہوا.تین ہجری کے آخر پر قریش مکہ اور ان کے حلیف قبیلوں پر مشتمل لشکر کے مدینہ پر چڑھائی کی اطلاع ملی.نبی کریم صلی ا ہم نے مسلمانوں کو جمع کر کے قریش کے حملہ کے بارے میں آگاہ کر کے ان سے مشورہ مانگا که آیا مدینہ میں ہی رہ کر ان کا مقابلہ کیا جائے یا باہر نکلا جائے.227 اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی ا ہم نے مسلمانوں کو جمع کر کے ان سے قریش کے اس حملہ کے متعلق مشورہ مانگا کہ آیا مدینہ میں ہی ٹھہر اجائے یا باہر نکل کر مقابلہ کیا جاوے.مشورہ سے قبل آنحضرت صلی الم نے قریش کے حملے اور ان کے خونی ارادوں کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ آج رات میں نے خواب میں ایک گائے دیکھی ہے اور نیز میں نے دیکھا کہ میری تلوار کا سر ٹوٹ گیا ہے.اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ گائے ذبح کی جارہی ہے اور میں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط اور محفوظ زرہ کے اندر ڈالا ہے اور ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک مینڈھا ہے جس کی پیٹھ پر میں سوار ہوں.صحابہ نے دریافت کیا یارسول اللہ ! آپ نے اس خواب کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ آپ صلی الی تم نے فرمایا.گائے کے ذبح ہونے سے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہ میں سے بعض کا شہید ہونا مراد ہے اور میری تلوار کے کنارے کے ٹوٹنے سے میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.یا شاید خود مجھے اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حملہ کے مقابلہ کے لیے ہمارا مدینہ کے اندر ٹھہر نا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پر سوار ہونے والے خواب کی آپ نے یہ تاویل فرمائی کہ اس سے م الله سة کفار کے لشکر کا سردار یعنی علمبر دار مراد ہے جو ان شاء اللہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارا جائے گا.اس کے بعد آپ نے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا کہ موجودہ صورتحال میں کیا کرنا چاہیے ؟ بعض اکابر صحابہ نے حالات کے اونچ نیچ کو سوچ کر اور شاید کسی قدر آنحضرت صلی اللہ ظلم کے خواب سے متاثر ہو کر یہ رائے دی کہ مدینہ میں ہی ٹھہر کر مقابلہ کرنا مناسب ہے.آنحضرت صلی للی الم نے بھی اسی رائے کو پسند فرمایا اور کہا کہ بہتر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم مدینہ کے اندر رہ کر اس کا مقابلہ کریں لیکن اکثر صحابہ نے خصوصاً نوجوانوں نے ، جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اور اپنی شہادت سے خدمت دین کا موقع حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے ، بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے.ان لوگوں نے اس قدر اصرار کے ساتھ اپنی رائے پیش کی کہ آنحضرت صلی الیکم سن 624ء لکھا ہوا ہے جو سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.مرتب
اصحاب بدر جلد 2 82 حضرت ابو بکر صدیق نے ان کے جوش کو دیکھ کر ان کی بات مان لی اور فیصلہ فرمایا کہ ہم کھلے میدان میں نکل کر کفار کا مقابلہ کریں گے اور پھر جمعہ کی نماز کے بعد آپ نے مسلمانوں میں عام تحریک فرمائی کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے اس غزوہ میں شامل ہو کر ثواب حاصل کریں.اس کے بعد آپ اندرونِ خانہ تشریف لے گئے جہاں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی مدد سے آپ نے عمامہ باندھا اور لباس پہنا اور پھر ہتھیار لگا کر اللہ کا نام لیتے ہوئے باہر تشریف لے آئے لیکن اتنے عرصہ میں یہ جو نوجوان تھے ان کو بعض صحابہ کے کہنے پر اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انہیں رسول خدا صلی علیکم کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے تھا.جب یہ احساس ان کو ہوا تو اکثر ان میں سے پشیمانی کی طرف مائل تھے.جب ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللی علم کو ہتھیار لگائے اور دوہری زرہ اور خود وغیرہ پہنے ہوئے تشریف لاتے دیکھا تو ان کی ندامت اور بھی زیادہ ہو گئی اور انہوں نے قریبا یک زبان ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ! ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے آپ کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پر اصرار کیا.آپ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں اسی طرح کارروائی فرمائیں.ان شاء اللہ اسی میں برکت ہو گی.آپ صلی ا یکم نے فرمایا.خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگا کر پھر اسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے.پس اب اللہ کا نام لے کر چلو اور اگر تم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہو گی.کون ہے جو اس تلوار کا حق ادا کرے 228 غزوہ احد میں رسول اللہ صلی علیم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ کون ہے جو اس کا حق ادا کرے؟ اس موقع پر جن اصحاب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ تلوار ان کو عنایت کی جائے ان میں حضرت ابو بکر بھی شامل تھے.229 سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کا ذکر یوں فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی علی یم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کون ہے جو اسے لے کر اس کا حق ادا کرے.بہت سے صحابہ نے اس فخر کی خواہش میں اپنے ہاتھ پھیلائے.جن میں حضرت عمرؓ اور زبیر بلکہ روایات کی رو سے حضرت ابو بکرو حضرت علی بھی شامل تھے.مگر آپ نے اپنا ہاتھ روکے رکھا اور یہی فرماتے گئے.کوئی ہے جو اس کا حق ادا کرے؟ آخر ابو دجانہ انصاری نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور عرض کیا.یارسول اللہ ! مجھے عنایت فرمائیے.آپ نے یہ تلوار انہیں دے دی.230 غزوہ احد میں جب کفار نے پلٹ کر حملہ کیا اور مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی تو اس وقت رسول اللہ صلی ایم کے متعلق بھی یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی علیم کی شہادت کے اعلان اور کچھ لوگوں کے منتشر ہو جانے کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ صلی للی کم پر حضرت کعب بن مالک کی نگاہ پڑی.ان کا بیان ہے کہ میں نے خود کے درمیان میں
محاب بدر جلد 2 83 حضرت ابو بکر صدیق سے آپ کی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر بلند آواز سے پکارا اے مسلمانو ! خوش ہو جاؤ، رسول اللہ صلی علیکم ہیں.یہ سن کر رسول اللہ صلی ایم نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ خاموش رہو.جب مسلمانوں نے رسول اللہ صلی علیکم کو پہچان لیا تو آپ صلی لی لکم ان کے ہمراہ گھائی کی طرف روانہ ہوئے.آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمرؓ، حضرت علی، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت حَارِث بن صمہ وغیرہ صحابہ کرام تھے.231 احد کے دن موت پر بیعت کرنے والوں میں سے حضرت ابو بکر...رسول اللہ صلی ا لم نے احد کے دن اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی.جب بظاہر مسلمانوں کی پسپائی ہوئی تھی تو وہ ثابت قدم رہے اور اپنی جان پر کھیل کر آپ صلی اللہ نیم کا دفاع کرنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ شہید ہو گئے.ان بیعت کرنے والے خوش نصیبوں میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمررؓ، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت سہل بن حنیف اور حضرت ابو دجانہ شامل تھے.232 غزوہ احد کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مزید لکھا ہے کہ ”جو صحابہ آنحضرت صلی ایم کے گرد جمع تھے انہوں نے جو جان نثاریاں دکھائیں تاریخ ان کی نظیر لانے سے عاجز ہے.یہ لوگ پروانوں کی طرح آپ کے ارد گرد گھومتے تھے اور آپ کی خاطر اپنی جان پر کھیل رہے تھے.جو وار بھی پڑتا تھا صحابہ اپنے اوپر لیتے تھے اور آنحضرت صلی علیہم کو بچاتے تھے اور ساتھ ہی دشمن پر بھی وار کرتے جاتے تھے.حضرت علی اور زبیر نے بے تحاشا دشمن پر حملے کئے اور ان کی صفوں کو دھکیل دھکیل دیا.ابو طلحہ انصاری نے تیر چلاتے چلاتے تین کمانیں توڑیں اور دشمن کے تیروں کے مقابل پرسینہ سپر ہو کر آنحضرت صلی علیکم کے بدن کو اپنی ڈھال سے چھپایا.سعد بن ابی وقاص کو آنحضرت صلی علیکم خود تیر پکڑاتے جاتے تھے اور سعدیہ تیر دشمن پر بے تحاشا چلاتے جاتے تھے.ایک دفعہ آپ نے سعد سے فرمایا.تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں.برابر تیر چلاتے جاؤ.سعد اپنی آخری عمر تک آپ کے ان الفاظ کو نہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے.ابو دجانہ نے بڑی دیر تک آپ کے جسم کو اپنے جسم سے چھپائے رکھا اور جو تیر یا پتھر آتا تھا اسے اپنے جسم پر لیتے تھے حتی کہ ان کا بدن تیروں سے چھلنی ہو گیا مگر انہوں نے اف تک نہیں کی تا ایسا نہ ہو کہ ان کے بدن میں حرکت پیدا ہونے سے آنحضرت صلی ال نیم کے جسم کا کوئی حصہ نگا ہو جاوے اور آپ کو کوئی تیر آلگے.طلحہ نے آنحضرت علی ایم کو بچانے کے لئے کئی وار اپنے بدن پر لئے اور اسی کوشش میں ان کا ہاتھ شل ہو کر ہمیشہ کے لئے بیکار ہو گیا مگر یہ چند گنتی کے جاں شمار اس سیلاب عظیم کے سامنے کب تک ٹھہر سکتے تھے جو ہر لحظہ مہیب موجوں کی طرح چاروں طرف سے بڑھتا چلا آتا تھا.دشمن کے ہر حملہ کی ہر ہر مسلمانوں کو کہیں کا کہیں بہا کر لے جائی تھی مگر جب ذرا زور تھمتا تھا مسلمان بیچارے لڑتے بھڑتے پھر اپنے محبوب آقا کے گرد جمع ہو جاتے تھے.بعض اوقات تو ایسا خطرناک حملہ ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی علیہ کی عملاً اکیلے رہ جاتے تھے.چنانچہ ایک وقت
حاب بدر جلد 2 84 حضرت ابو بکر صدیق ایسا آیا کہ آپ کے ارد گرد صرف بارہ آدمی رہ گئے اور ایک وقت ایسا تھا کہ آپ کے ساتھ صرف دو آدمی ہی رہ گئے.ان جان شاروں میں حضرت ابو بکر، علی، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص، ابو دجانہ انصاری، سعد بن معاذ اور طلحہ انصاری کے نام خاص طور پر مذکور ہوئے ہیں.33 2336 نبی کریم صلی ال نیلم کے دندان مبارک شہید ہونا اور حضرت ابو بکر کی بے تابی غزوہ احد کے دوران جب نبی کریم صلی الی و کم کے دندان مبارک شہید ہوئے تو اس وقت کا جو نقشہ حضرت ابو بکر نے کھینچا ہے اس کے متعلق حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر جب یوم احد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ دن سارے کا سارا طلحہ کیا تھا.پھر اس کی تفصیل بتاتے کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جو احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ ملک کی طرف واپس لوٹے تھے تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی الله یم کے ساتھ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے لڑ رہا ہے.راوی کہتے ہیں کہ میر اخیال ہے کہ آپ نے فرمایاوہ آپ کو بچارہا تھا.حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے کہا کاش ! طلحہ ہو.مجھ سے جو موقع رہ گیا سورہ گیا اور میں نے دل میں کہا کہ میری قوم میں سے کوئی شخص ہو تو یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے.حضرت ابو بکڑ نے اس وقت یہ سوچا.کہتے ہیں اور میرے اور رسول اللہ صلی الیکم کے درمیان ایک شخص تھا جس کو میں نہیں پہچان سکا حالانکہ میں اس شخص کی نسبت رسول اللہ صلی الی یکم کے زیادہ قریب تھا اور وہ اتنا تیز چل رہا تھا کہ میں اتنا تیز نہ چل سکتا تھا تو دیکھا کہ وہ شخص ابو عبیدہ بن جراح تھے.پھر میں رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس پہنچا.آپ کا ر بارگی دانت یعنی سامنے والے دو دانتوں اور نوکیلے دانت کے درمیان والا دانت ٹوٹ چکا تھا اور چہرہ زخمی تھا.آپ کے رخسار مبارک میں خود کی کڑیاں دھنس چکی تھیں.رسول اللہ صلی ال یکم نے فرمایا تم دونوں اپنے ساتھی کی مدد کرو.اس سے آپ کی مراد طلحہ تھی اور ان کا خون بہت بہ رہا تھا.آنحضرت صلی ہم نے بجائے یہ کہ مجھے دیکھو فرمایا کہ طلحہ کو جاکے دیکھو.ہم نے ان کو رہنے دیا اور میں آگے بڑھا، تا خود کی کڑیوں کو رسول اللہ صلی عوام کے چہرہ مبارک سے نکال سکوں.اس پر حضرت ابو عبیدہ نے کہا کہ میں آپ کو اپنے حق کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اسے میرے لیے چھوڑ دیں.پس میں نے ان کو چھوڑ دیا اور ابو عبیدہ نے ناپسند کیا کہ ان کڑیوں کو ہاتھ سے کھینچ کر نکالیں اور اس سے رسول اللہ صلی علی یم کو تکلیف پہنچے تو انہوں نے ان کڑیوں کو اپنے منہ سے نکالنے کی کوشش کی اور ایک کڑی کو نکالا تو کڑی کے ساتھ ان کا اپنا سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا.پھر دوسری کڑی نکالنے کے لیے میں آگے بڑھا کہ میں بھی ایسا ہی کروں جیسا انہوں نے کیا ہے.حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں بھی اسی طرح دوسری کڑی نکالنے کی کوشش کرتا ہوں تو حضرت ابو عبیدہ نے پھر کہا کہ میں آپ کو اپنے حق کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اسے میرے لیے چھوڑ دیں.انہوں نے حضرت ابو بکر کو کہا تو پھر حضرت ابو بکر پیچھے ہٹ گئے تو انہوں نے پھر ویسا ہی کیا جیسا پہلے کیا تھا تو ابو عبیدہ کا سامنے کا دوسرا دانت بھی کڑی کے ساتھ ٹوٹ گیا.پس ابوعبیدہ سامنے کے ٹوٹے ہوئے دانتوں والے لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے.
اصحاب بدر جلد 2 85 حضرت ابو بکر صدیق پھر ہم رسول اللہ صلی المینیوم کے علاج معالجہ سے فارغ ہو کر طلحہ کے پاس آئے.وہ ایک گڑھے میں تھے تو دیکھا کہ ان کے جسم پر نیزے تلوار اور تیروں کے کم و بیش ستر زخم تھے اور ان کی انگلی بھی کئی ہوئی تھی تو ہم نے ان کی مرہم پٹی کی.234 حضرت ابو عبیدہ کے علاوہ حضرت عقبہ بن وھب اور حضرت ابو بکر کے بارے میں بھی روایت میں ملتا ہے کہ انہوں نے یہ کڑیاں نکالیں.235 لیکن بہر حال پہلی روایت زیادہ بہتر ہے.کیالوگوں میں ابو قحافہ کا بیٹا ہے یعنی ابو بکر ؟ الله سة غزوہ احد کے دن جب آنحضرت صلی المیہ کم صحابہ کے ساتھ پہاڑ پر چڑھ گئے تو کفار بھی آپ کے آئے.چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ابو سفیان نے تین بار پکار کر کہا: کیا ان لوگوں میں محمد ہے ) نبی صلی الم نے صحابہ کو اسے جواب دینے سے روک دیا.پھر اس نے تین بار پکار کر پوچھا: کیا لوگوں میں ابو قحافہ کا بیٹا ہے یعنی ابو بکر ؟ پھر تین بار پوچھا: کیا ان لوگوں میں ابن خطاب یعنی عمر ہے ؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور کہنے لگا ہو جو تھے وہ تو مارے گئے.یہ سن کر حضرت عمر اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بولے اے اللہ کے دشمن! بخدا تم نے جھوٹ کہا ہے.جن کا تم نے نام لیا ہے وہ سب م زندہ ہیں.جو بات ناگوار ہے اس میں سے ابھی تیرے لیے بہت کچھ باقی ہے.236 حضرت مصلح موعود آنحضرت صلی ا ظلم کے زخمی ہو کر بے ہوش ہونے اور اس کے بعد کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلیالی کم کو ہوش آگیا اور صحابہ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں.بھاگا ہوالشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ صلیالی کم نہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے.جب دامن کوہ میں بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابو سفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار دیا.رسول اللہ لی مینیم نے ابو سفیان کی بات کا جواب نہ دیا تا ایسانہ ہو دشمن حقیقت حال سے واقف ہو کر حملہ کر دے اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں.جب اسلامی لشکر سے اس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابوسفیان کو یقین ہو گیا کہ اس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابو بکر کو بھی مار دیا.رسول اللہ صلی الیم نے ابو بکر کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں.پھر ابوسفیان نے آواز دی ہم نے عمر کو بھی مار دیا.تب عمر جو بہت جو شیلے آدمی تھے انہوں نے اس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لئے تیار ہیں مگر رسول اللہ صلی علیم نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو.اب کفار کو یقین ہو گیا کہ اسلام کے بانی کو بھی اور ان کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے.اِس پر ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگا یا اُغْلُ هُبَل - اُعْلُ هُبَل.ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اس نے آج اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”وہی رسول کریم صلی ای کمر جو اپنی موت کے اعلان پر، ابو بکر کی موت کے اعلان پر اور عمر کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرما رہے تھے تا ایسانہ ہو کہ.ها الله سل
صحاب بدر جلد 2 86 حضرت ابو بکر صدیق زخمی مسلمانوں پر پھر کفار کا لشکر لوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں مارا گیا تو آپ کی روح بے تاب ہو گئی اور آپ نے نہایت جوش سے صحابہ کی طرف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے کہا یارسول اللہ ! ہم کیا کہیں ؟ فرمایا کہو الله أغلى واجَلُ اللهُ أَعْلَى وَاجَلُ.تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہبل کی شان بلند ہوئی“ یہ جھوٹ ہے تمہارا.” اللہ وحدہ لاشریک ہی معزز ہے اور اس کی شان بالا ہے اور اس طرح آپ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچادی.اس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفار کے لشکر پر اتنا گہر اپڑا کہ باوجود اس کے کہ ان کی امید میں اس جواب سے خاک میں مل گئیں اور باوجود اس کے کہ ان کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے ان کو مار دینا مادی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکے اور جس قدر فتح ان کو نصیب ہوئی تھی اسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ کو واپس چلے گئے.237" 238 اے میرے بھانجے ! تیرے آباء زبیر اور حضرت ابو بکر بھی انہی لوگوں میں سے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آیت الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمُ (آل عمران : 173) صحابہ سے متعلق ہے.کہتی ہیں کہ یہ صحابہ سے متعلق ہے یعنی جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی بعد اس کے کہ ان کو زخم پہنچے ان میں جنہوں نے نیک کام کیسے اور تقویٰ اختیار کیا ان کے لیے بہت بڑا اجر ہو گا.حضرت عائشہ نے عروہ سے کہا اے میرے بھانجے ! تیرے آباء زبیر اور حضرت ابو بکر بھی انہی لوگوں میں سے تھے کہ جب جنگ احد میں رسول اللہ صل ا لم زخمی ہوئے اور مشرکین پلٹ گئے تو آپ کو اندیشہ ہوا کہیں وہ پھر نہ لوٹ آئیں.آپؐ نے فرمایا ان کا تعاقب کون کرے گا؟ تو ان میں سے ستر آدمیوں نے اپنے آپ کو پیش کیا.عروہ کہتے تھے ان میں حضرت ابو بکر اور حضرت زبیر بھی تھے.اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ قریش کو اس موقع پر مسلمانوں کے خلاف غلبہ حاصل ہو اتھا اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے وہ اگر چاہتے تو اپنی اس فتح سے فائدہ اٹھا سکتے تھے اور مدینہ پر حملہ آور ہونے کا راستہ تو بہر حال ان کے لیے کھلا تھا مگر خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ قریش کے دل باوجود اس فتح کے اندر ہی اندر مرعوب تھے اور انہوں نے اسی غلبہ کو غنیمت جانتے ہوئے جو احد کے میدان میں ان کو حاصل ہوا تھا مکہ کو جلدی جلدی لوٹ جانا ہی مناسب سمجھا مگر بایں ہمہ آنحضرت صلی علیہ ہم نے مزید احتیاط کے خیال سے فوراستر صحابہ کی ایک جماعت جس میں حضرت ابو بکر اور حضرت زبیر بھی شامل تھے تیار کر کے لشکر قریش کے پیچھے روانہ کر دی.یہ بخاری کی روایت ہے.عام مورخین یوں بیان کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت علی بعض روایات کے مطابق سعد بن ابی وقاص کو ان کے پیچھے بھجوایا اور ان سے فرمایا کہ ان کا پتہ لاؤ کہ لشکر قریش مدینہ پر حملہ کرنے کی نیت تو نہیں رکھتا؟ آپ نے ان سے فرمایا کہ اگر قریش اونٹوں پر سوار
حاب بدر جلد 2 87 حضرت ابو بکر صدیق ہوں اور گھوڑوں کو خالی چلا رہے ہوں تو سمجھنا کہ وہ مکہ کی طرف واپس جارہے ہیں.مدینہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے اور اگر وہ گھوڑوں پر سوار ہوں تو سمجھنا کہ ان کی نیت بخیر نہیں اور آپ نے ان کو تاکید فرمائی کہ اگر قریش کا لشکر مدینہ کا رخ کرے تو فوراً آپ کو اطلاع دی جاوے اور آپ نے بڑے جوش کی حالت میں فرمایا کہ اگر قریش نے اس وقت مدینہ پر حملہ کیا تو خدا کی قسم! ہم ان کا مقابلہ کر کے انہیں اس حملہ کا مزا چکھا دیں گے.بہر حال یہ جو وفد گیا تھا جلد ہی یہ خبر لے کر واپس آگیا کہ قریش کا لشکر مکہ کی طرف جارہا ہے.غزوة حمراء الاسد 239 غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی علی ایک ہفتہ کے دن احد سے واپس تشریف لائے.اتوار کے دن جب فجر طلوع ہوئی تو حضرت بلال نے اذان دی اور بیٹھ کر نبی کریم صلی الی یکم کے باہر تشریف لانے کا انتظار کرنے لگے.اتنے میں حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عوف مزنی نبی کریم صلی ا ہم کو تلاش کرتے ہوئے آئے.جب آپ صلی علیہ کم باہر تشریف لائے تو انہوں نے کھڑے ہو کر آپ صلی میں نکم کو خبر دی کہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف سے آرہے تھے.جب وہ ملک میں تھے تو قریش نے وہاں پڑاؤ ڈالا ہو ا تھا.ملل مکہ کے راستے میں مدینہ سے اٹھائیس میل کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے.اور انہوں نے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم لوگوں نے تو کچھ نہیں کیا.تم لوگوں نے انہیں نقصان پہنچایا یعنی مسلمانوں کو نقصان پہنچایا اور تکلیف پہنچائی اور پھر تم نے انہیں چھوڑ دیا اور تباہ نہیں کیا.کفار نے کہا کہ ان مسلمانوں میں کئی ایسے بڑے بڑے لوگ باقی ہیں جو تمہارے مقابلے کے لیے اکٹھے ہوں گے.پس واپس چلو تا کہ ہم ان لوگوں کو جڑ سے اکھیڑ دیں جو اُن میں باقی رہ گئے ہیں.صفوان بن اُمیہ اس بات سے انہیں روکنے لگا یعنی کافروں میں وہ بیٹھا تھاوہ انہیں روکنے لگا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم ! ایسانہ کرنا کیونکہ وہ لوگ جنگ لڑ چکے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ جو لوگ جنگ میں آنے سے رہ گئے تھے اب وہ بھی تمہارے مقابلہ میں ان کے ساتھ جمع ہو جائیں گے.تم واپس چلو کیونکہ فتح تو تمہاری ہی ہے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اگر تم واپس گئے تو تم شکست کھا جاؤ گے.اس پر رسول اللہ صلی ا تم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو بلایا اور ان کو اس مزنی صحابی کی بات بتائی تو ان دونوں نے عرض کیا کہ یار سول اللہ صلی له م دشمن کی طرف چلیں تاکہ وہ ہمارے بچوں پر حملہ آور نہ ہوں.جب رسول اللہ صلی الیکم صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے لوگوں کو بلوایا اور آپ صلی علی کلم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ وہ یہ اعلان کریں کہ رسول اللہ تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ دشمن کے لیے نکلو اور ہمارے ساتھ وہی نکلے جو گذشتہ روز لڑائی میں شامل تھا یعنی احد کی لڑائی میں شامل تھا.آنحضور صلی ا ولم نے اپنا جھنڈا منگوایا جو کہ گذشتہ روز سے بندھا ہوا تھا.اس کو ابھی تک کھولا نہیں گیا تھا.آپ صلی الی یکم نے یہ جھنڈا حضرت علی کو دے دیا اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر کو دیا تھا.240
حاب بدر جلد 2 88 حضرت ابو بکر صدیق بہر حال مسلمانوں کا یہ قافلہ جب مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر حمراء الاسد پہنچا تو مشرکین کو خوف محسوس ہوا اور مدینہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ ترک کر کے وہ واپس مکہ روانہ ہو گئے.241 غزوہ بنو نضیر یہ 14 ہجری میں تھا.آنحضرت صلی علیم صحابہ کی ایک مختصر جماعت کے ساتھ بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے.اس بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں کہ آپ صلی یہ تم وہاں کیوں تشریف لے کر گئے.چنانچہ ایک روایت کے مطابق آپ صلی علیہ کم ان کے پاس بنو عامر کے دو مقتولوں کی دیت وصول کرنے کے لیے گئے تھے.آپ ملی ایم کے ساتھ دس کے قریب صحابہ تھے جن میں حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ اور حضرت علی بھی تھے.آنحضرت صلی علیم نے وہاں پہنچ کر ان سے رقم کی بات کی تو یہودیوں نے کہا کہ ہاں اے ابو القاسم ! آپ پہلے کھانا کھا لیجیے پھر آپ کے کام کی طرف آتے ہیں.اس وقت آنحضرت صلی علیہ نظم ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.آنحضرت صلی الله علم کو قتل کرنے کی سازش یہود کی جلا وطنی یہودیوں نے آپس میں سازش کی اور کہنے لگے کہ اس شخص یعنی آنحضرت صلی علم کو ختم کرنے کے لیے تمہیں اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا.اس لیے بتاؤ کون ہے جو اس مکان پر چڑھ کر ایک بڑا پتھر ان کے اوپر گرادے تاکہ ہمیں ان سے نجات مل جائے.اس پر یہودیوں کے ایک سردار عمر و بن بخاش نے اس کی حامی بھری اور کہا کہ میں اس کام کے لیے تیار ہوں مگر اسی وقت سلام بن مشکم نامی ایک دوسرے یہودی سردار نے اس ارادے کی مخالفت کی اور کہا یہ حرکت ہر گز مت کرنا.خدا کی قسم ! تم جو کچھ سوچ رہے ہو اس کی انہیں ضرور خبر مل جائے گی.یہ بات بد عہدی کی ہے جبکہ ہمارے اور ان کے در میان معاہدہ موجود ہے.پھر وہ شخص جب او پر پہنچ گیا یعنی پتھر گرانے والا، تا کہ آنحضرت صلی للی کم پر پتھر گرادے تو آنحضرت صلی علیکم کے پاس آسمان سے اس سازش کی خبر آئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دار کر دیا کہ یہودی کیا کرنے والے ہیں.آپ فوراً اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنے ساتھیوں کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر اس طرح روانہ ہو گئے جیسے آپ کو کوئی کام ہے.آپ تیزی کے ساتھ واپس مدینہ تشریف لے گئے.رسول اللہ صلی علیہ کم نے مدینہ پہنچنے کے بعد حضرت محمد بن مسلمیہ کو بنو نضیر کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میرے شہر یعنی مدینہ سے نکل جاؤ.تم لوگ اب میرے شہر میں نہیں رہ سکتے اور تم نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ غداری تھی.آنحضرت صلی ا ہم نے یہود کو دس دن کی مہلت دی لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم اپنا وطن ہر گز نہیں چھوڑیں گے.اس پیغام پر مسلمان جنگ کی تیاری میں لگ گئے.جب تمام مسلمان جمع ہو گئے تو آنحضرت صلی علیہ ظلم بنو نضیر کے مقابلے کے لیے نکلے.جنگی پرچم حضرت علی نے اٹھایا.آنحضرت صلی علیم نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا اور ان کی مدد کے لیے کوئی بھی نہ آیا.رسول اللہ صلی علیم نے بنو نضیر کی طرف لشکر کشی فرمائی تو عشاء کے وقت رسول کریم صلی الی نام اپنے دس صحابہ
اصحاب بدر جلد 2 89 حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ اپنے گھر واپس تشریف لے گئے.اس وقت آنحضرت صلی للی کرم نے اسلامی لشکر کی کمان ایک روایت کے مطابق حضرت علی کے سپرد فرمائی جبکہ دوسری روایت کے مطابق یہ سعادت حضرت ابو بکر کے حصہ میں آئی.ادھر آنحضرت صلی اللہ وسلم ان کا سختی کے ساتھ محاصرہ کیے رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یعنی یہودیوں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب پیدا کر دیا اور آخر کار انہوں نے رسول اللہ صلی الیم سے درخواست کی کہ ان کو اس شرط پر جلا وطن ہونے کی اجازت دے دی جائے اور جان بخشی کر دی جائے کہ سوائے ہتھیاروں کے انہیں ایسا تمام سامان لے جانے دیا جائے جو اونٹوں پر لادا جا سکتا ہے.آنحضرت صلی الم نے ان کی یہ شرط اور درخواست منظور فرمالی.ایک روایت کے مطابق آپ نے پندرہ روز تک ان کا محاصرہ کیا جبکہ بعض روایات میں دنوں کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے.رسول اللہ صلی الیم نے انصار کی اجازت سے غزوہ بنو نضیر سے حاصل ہونے والا جو سارا مال غنیمت تھا وہ مہاجرین میں تقسیم کر دیا تو حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: اے انصار کی جماعت! اللہ تمہیں جزائے خیر عطا کرے.243 غزوة بدر الموعد 242 یہ 14 ہجری کا واقعہ ہے.اس غزوہ کا سبب یہ ہے کہ ابو سفیان بن حرب جب غزوۂ احد سے واپس آنے لگا تو اس نے بآواز بلند کہا کہ آئندہ سال ہماری اور تمہاری ملاقات بدر الصفراء کے مقام پر ہو گی.ہم وہاں جنگ کریں گے.رسول اللہ صل ا لی ایم نے حضرت عمر فاروق کو فرمایا: اسے کہو ہاں ان شاء اللہ.اسی پر لوگ جدا ہو گئے.قریش واپس آگئے اور انہوں نے اپنے لوگوں کو اس وعدے کے بارے میں بتا دیا.بدر مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور کنواں ہے جو وادگی صفراء اور جاز جو مقام ہے اس کے درمیان واقع ہے.بدر مدینہ کے جنوب مغرب میں 150 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے.زمانہ جاہلیت میں اس جگہ ہر سال یکم ذیقعدہ سے آٹھ روز تک ایک بڑا میلہ لگا کرتا تھا.بہر حال جوں جوں وعدے کا وقت قریب آرہا تھا ابوسفیان رسول اللہ صلی ال یکم کی طرف نکلنے کو نا پسند کر رہا تھا.اس کو خوف پید اہو رہا تھا.وہ یہی چاہتا تھا کہ اس مقررہ وقت میں آپ سے ملاقات نہ ہی ہو.ابوسفیان ظاہر کر رہا تھا کہ وہ ایک جرار لے کر آپؐ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے تا کہ یہ خبر اہل مدینہ تک پہنچا دے کہ وہ ایک بہت بڑا لشکر جمع کر رہا ہے اور عرب کے گوشے گوشے میں خبر پھیلا دی جائے تا کہ مسلمانوں کو اس سے خوفزدہ کیا جاسکے.244 ایک روایت کے مطابق حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ بھی رسول اکرم علی ایم کی خدمت میں حاضر ہوئے.انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرے گا.اپنے نبی صلی علیہ ہم کو عزت دے گا.ہم نے قوم کے ساتھ وعدہ کیا تھا اور ہم اس کی خلاف ورزی پسند نہیں کرتے.وہ یعنی کفار اسے بزدلی شمار کریں گے.آپ صلی علی ایک وعدہ کے مطابق تشریف لے چلیں.بخدا اس میں ضرور بھلائی
صحاب بدر جلد 2 90 حضرت ابو بکر صدیق ہے.یہ جذبات سن کر آپ صلی اللی کم بہت خوش ہوئے.رسول اللہ صلی علی کریم کو جب اس بات کی خبر ملی یعنی کہ ابوسفیان وغیرہ کے لشکر کی تیاری کے بارے میں تو آپ صلی ا لم نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو اپنے پیچھے مدینہ کا امیر مقرر فرمایا.ایک روایت کے مطابق عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی بن سلول کو امیر مقرر فرمایا اور اپنا جھنڈ ا حضرت علی کو عطا فرمایا اور مسلمانوں کے ہمراہ بدر کی جانب روانہ ہوئے.آپ کے ہمراہ پندرہ سو مسلمان تھے.مسلمانوں نے بدر کے مقام پر لگنے والے میلے میں خرید و فروخت کی اور تجارت میں کافی نفع کمایا اور آٹھ روز قیام کرنے کے بعد واپس مدینہ آگئے.245 وہ میلہ جو وہاں لگا ہوا تھا مسلمانوں نے پھر اس میں تجارت بھی کی کہ اگر جنگ ہوئی تو وہ تو ہونی ہے لیکن اگر نہیں ہوتی تو کم از کم تجارت وہاں ہو جائے اور اس سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ ہوا.غزوہ احد میں ابو سفیان نے مسلمانوں کو اگلے سال دوبارہ ملنے کا جو چیلنج دیا تھا اس کی مزید تفصیل بھی ہے اور یہ تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے.لکھتے ہیں کہ غزوہ احد کے بعد ”میدان سے لوٹتے ہوئے ابوسفیان نے مسلمانوں کو یہ پینج دیا تھا کہ آئندہ سال بدر کے مقام پر ہماری تمہاری جنگ ہو گی اور آنحضرت صلی الم نے اس چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان فرمایا تھا.اس لئے دوسرے سال یعنی چار ہجری میں جب شوال کے مہینہ کا آخر آیا تو آنحضرت صلی للی کم ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمعیت کو ساتھ لے کر مدینہ سے نکلے اور آپ نے اپنے پیچھے عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی کو امیر مقرر فرمایا.دوسری طرف ابوسفیان بن حرب بھی دو ہزار قریش کے لشکر کے ساتھ مکہ سے نکلا مگر باوجود احد کی فتح اور اتنی بڑی جمعیت کے ساتھ ہونے کے اس کا دل خائف تھا اور اسلام کی تباہی کے درپے ہونے کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ جب تک بہت زیادہ جمعیت کا انتظام نہ ہو جاوے وہ مسلمانوں کے سامنے نہ ہو.چنانچہ ابھی وہ مکہ میں ہی تھا کہ اس نے ایک شخص نعیم نامی کو جو ایک غیر جانبدار قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا مدینہ کی طرف روانہ کر دیا اور اسے تاکید کی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر اور جھوٹ سچ باتیں بنا کر جنگ سے نکلنے کے لئے باز رکھے.چنانچہ یہ شخص مدینہ میں آیا اور قریش کی تیاری اور طاقت اور ان کے جوش و خروش کے جھوٹے قصے سنا سنا کر اس نے مدینہ میں ایک بے چینی کی حالت پیدا کر دی.حتی کہ بعض کمزور طبیعت لوگ اس غزوہ میں شامل ہونے سے خائف ہونے لگے لیکن جب آنحضرت صلی الیم نے نکلنے کی تحریک فرمائی اور آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم نے کفار کے چینج کو قبول کر کے اس موقع پر نکنے کا وعدہ کیا ہے اس لئے ہم اس سے تخلف نہیں کر سکتے اور خواہ مجھے اکیلا جانا پڑے میں جاؤں گا اور دشمن کے مقابل پر اکیلا سینہ سپر ہوں گا تو لوگوں کا خوف جاتارہا اور وہ بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ آپ کے ساتھ نکلنے سپر گا کاخوف اور وہ کو تیار ہو گئے.بہر حال آنحضرت صلی الی و کم ڈیڑھ ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور دوسری طرف ابوسفیان اپنے دو ہزار سپاہیوں کے ہمراہ مکہ سے نکلا لیکن خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ مسلمان تو بدر میں اپنے وعدہ پر پہنچ گئے مگر قریش کا لشکر تھوڑی دور آکر پھر مکہ کو واپس لوٹ گیا اور اس کا قصہ یوں ہوا کہ جب ابوسفیان کو نعیم کی ناکامی کا علم ہوا تو وہ دل میں خائف ہوا اور اپنے لشکر کو یہ تلقین کرتا ہوا راستہ سے
اصحاب بدر جلد 2 91 حضرت ابو بکر صدیق لوٹا کر واپس لے گیا کہ اس سال قحط بہت ہے اور لوگوں کو تنگی ہے اس لئے اس وقت لڑنا ٹھیک نہیں ہے.جب کشائش ہو گی تو زیادہ تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ کریں گے.اسلامی لشکر آٹھ دن تک بدر میں ٹھہرا اور چونکہ وہاں ماہ ذو قعدہ کے شروع میں ہر سال میلہ لگا کرتا تھا.جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ) تو ان ایام میں بہت سے صحابیوں نے اس میلہ میں تجارت کر کے کافی نفع کمایا.حتی کہ انہوں نے اس آٹھ روزہ تجارت میں اپنے راس المال کو دو گنا کر لیا.جب میلے کا اختتام ہو گیا اور لشکر قریش نہ آیا تو آنحضرت صلی علیکم بدر سے کوچ کر کے مدینہ میں واپس تشریف لے آئے اور قریش نے مکہ میں واپس پہنچ کر مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں.یہ غزوہ غزوہ بدد الموعد کہلاتا ہے.غَرْوهُ بَنُو مُصْطَلِق 247 246" غزوہ بَنُو مُصْطَلِق ایک ہے جو شعبان 15 ہجری میں ہوا.غزوہ بنو مصطلق کا دوسرا نام غزوۂ مریسیع بھی ہے.بنو مُصْطَلِق خُزاعہ کی شاخ تھی.یہ قبیلہ ایک کنویں کے پاس رہتا تھا جس کو مریسیع کہتے تھے.248 یہ فرغ سے ایک یوم کی مسافت پر تھا اور فرغ اور مدینہ کے درمیان قریباً 6 9 میل کا فاصلہ تھا.علامہ ابن اسحاق کے نزدیک غزوہ بنو مصطلق 16 ہجری میں ہوا جبکہ موسیٰ بن عقبہ کے نزدیک 14 ہجری میں ہوا اور واقدی کہتا ہے کہ یہ غزوہ شعبان 15 ہجری میں ہوا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کو 15 ہجری کا ہی لکھا ہے.بہر حال جب نبی کریم صلی علیہ کم تک یہ بات پہنچی کہ قبیلہ بنو مصطلق نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا ہے تو رسول اللہ صلی العلیم نے ان کی طرف شعبان 15 ہجری میں سات سو اصحاب کے ساتھ پیش قدمی فرمائی.آنحضرت صلی اللہ تم نے مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابو بکر کے سپرد فرمایا.ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے مہاجرین کا جھنڈا حضرت عمار بن یاسر کو دیا اور انصار کا جھنڈ ا حضرت سعد بن عبادہ کے سپر د فرمایا.واقعہ افک 249 اس کے بارے میں جو تفصیل ہے وہ اس طرح ہے کہ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر حضرت عائشہ بنت حضرت ابو بکر پر منافقین کی طرف سے تہمت لگائی گئی.250 یہ واقعہ تاریخ میں واقعہ افک کے نام سے معروف ہے.چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے.یہ روایت گو کہ ایک صحابی کے ضمن میں پہلے بیان ہو چکی ہے.لیکن یہاں حضرت ابو بکر کے حوالے سے بھی بیان کر ناضروری ہے.رسول اللہ صلی علی یکم جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو آپ اپنی ازواج مطہرات کے در میان قرعہ ڈالتے حضرت عائشہ سے یہ روایت ہے، اور پھر جس کا قرعہ نکلتا آپ اس کو اپنے ساتھ لے
حاب بدر جلد 2 92 حضرت ابو بکر صدیق جاتے.آپ نے ایک غزوہ میں ہمارے درمیان قرعہ ڈالا جو آپ صلی اللہ کریم نے کیا تھا تو حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میرا قرعہ نکلا.میں آپ کے ساتھ گئی حجاب کے حکم کے نازل ہونے کے بعد.کہتی ہیں میں ہو دج میں اٹھائی جاتی اور اسی میں اتاری جاتی.ہم چلتے رہے یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللی کام اپنے اس غزوہ سے فارغ ہوئے اور واپس تشریف لائے اور ہم مدینہ کے قریب ہوئے تو ایک رات آپ صلی علیہم نے کوچ کا حکم فرمایا.میں کھڑی ہوئی جب لوگوں نے کوچ کا اعلان کیا.پھر میں چل پڑی یہاں تک کہ لشکر سے آگے نکل گئی.پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوئی تو ہو رج کی طرف آئی اور میں نے اپنے سینے کو ہاتھ لگایا تو کیا دیکھتی ہوں کہ میرا اظفار کے نگینوں کا ہار ٹوٹ کر گر گیا ہے.بہر حال کہتی ہیں میں واپس گئی اور اپنا بار ڈھونڈنے لگی.اس کی تلاش نے مجھے روکے رکھا اور وہ لوگ آئے جو میری سواری کو تیار کرتے تھے جس پر میں ہودج میں بیٹھتی تھی.اور انہوں نے میر اہو دج اٹھایا اور اسے میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی.کہتی ہیں کہ انہوں نے سمجھا کہ میں اس میں ہوں کیونکہ عورتیں ان دنوں میں ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں اور ان پر زیادہ گوشت نہ ہو تا تھا اور وہ تھوڑا سا ہی کھانا کھایا کرتی تھیں.بہر حال لوگوں نے جب اسے اٹھایا تو ہو دج کے بوجھ کو غیر معمولی نہ سمجھا.انہوں نے اس کو اٹھایا اور میں کم عمر لڑکی تھی.انہوں نے اونٹ کو اٹھایا اور چل پڑے اور میں نے اپنا ہار پالیا بعد اس کے کہ لشکر چلا گیا.میں ان کے پڑاؤ پر آئی اور وہاں کوئی بھی نہیں تھا.پھر میں اپنے پڑاؤ کی طرف گئی جس میں میں تھی اور میں نے خیال کیا کہ وہ مجھے نہ پائیں گے تو میرے پاس واپس آئیں گے.اس حال میں کہ میں بیٹھی ہوئی تھی میری آنکھ لگ گئی اور میں سوگئی.صفوان بن مُعَظَل سُلّمي ذكواني لشکر کے پیچھے تھے.وہ صبح میرے پڑاؤ پر آئے اور انہوں نے ایک سوئے ہوئے انسان کا وجو دیکھا.وہ میرے پاس آئے اور حجاب کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا.میں ان کے انا للہ پڑھنے پر جاگ اٹھی.جب انہوں نے اپنی اونٹنی بٹھائی تو انہوں نے اس اونٹنی کا پاؤں موڑا اور جب وہ اونٹنی بیٹھ گئی تو میں اس پر سوار ہو گئی.اور میری سواری کو لے کر چل پڑے یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے بعد اس کے کہ لوگ ٹھیک دو پہر کے وقت آرام کرنے کے لیے پڑاؤ کیسے ہوئے تھے.پھر جس کو ہلاک ہو نا تھا وہ ہلاک ہو گیا اور اس افک کا بانی عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا.ہم مدینہ پہنچے.میں وہاں ایک ماہ بیمار رہی اور لوگ انک لگانے والوں کی باتوں میں لگے رہے اور میری بیماری میں یہ بات مجھے بے چین کرتی کہ میں نبی صلی الی یکم سے وہ مہربانی نہ دیکھتی جو میں آپ سے دیکھتی تھی جب میں بیمار ہوتی.آپ اندر تشریف لاتے اور سلام کہتے.پھر فرماتے تم کیسی ہو ؟ مجھے اس واقعہ کا یعنی واقعہ افک کا کچھ بھی علم نہ تھا یہاں تک کہ جب میں کمزور ہو گئی تو میں اور ام مسطح مناصبع کی طرف گئیں جو ہماری قضائے حاجت کی جگہ تھی.ہم نہ نکلتے مگر رات سے رات تک، رات کا انتظار کیا کرتے تھے، اور یہ اس سے پہلے کی بات ہے کہ ہم نے اپنے گھروں کے قریب بیوت الخلا بنائے تھے.گھروں میں اس وقت بیوت الخلا نہیں ہوتے تھے.بہر حال کہتی ہیں اس سے قبل ہماری حالت پہلے عربوں کی سی تھی جو جنگل
حاب بدر جلد 2 93 حضرت ابو بکر صدیق میں پا با ہر الگ جا کر قضائے حاجت کیا کرتے تھے.میں اور ام مسطح بنت ابورھم دونوں گئیں.ہم چل رہی تھیں کہ وہ اپنی اوڑھنی سے انکی اور اس نے کہا مسطح ہلاک ہو گیا.میں نے اسے کہا کیا ہی بری بات ہے جو تم نے کہی ہے.کیا تم ایسے شخص کو برا کہہ رہی ہو جو بدر میں موجود تھا تو اس نے کہا اے بھولی بھالی لڑکی ! کیا آپ نے سنا نہیں جو لوگوں نے کہا.تب اس نے مجھے افک والوں کی بات بتائی.اس پر میری بیماری مزید بڑھ گئی.پھر جب میں اپنے گھر واپس آئی تو رسول اللہ صلی للی کم میرے پاس تشریف لائے اور آپ نے سلام کیا اور آپ نے فرمایا تم کیسی ہو؟ میں نے عرض کیا مجھے اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں.حضرت عائشہ نے کہا کہ مجھے اجازت دیں کہ والدین کے پاس چلی جاؤں.میں اس وقت چاہتی تھی کہ میں ان دونوں یعنی اپنے والدین کی طرف سے خبر کا یقینی ہو نا معلوم کروں تو رسول اللہ صلی للی تم نے مجھے اجازت دے دی.میں اپنے والدین کے پاس آئی تو میں نے اپنی والدہ سے کہا لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ اے میری بیٹی ! اس معاملہ میں اپنی جان پر بوجھ نہ ڈالو.اللہ کی قسم ! کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کبھی کسی آدمی کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہو جس سے وہ محبت کرتا ہو اور اس کی سوکنیں ہوں اور پھر اس کے خلاف باتیں نہ کریں.میں نے کہا سبحان اللہ ! لوگ ایسی بات کا چرچا کر رہے ہیں.انہوں نے یعنی حضرت عائشہ نے بیان فرمایا کہ میں نے وہ رات اس طرح گزاری کہ صبح ہو گئی اور میرے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ مجھے ذراسی بھی نیند آئی.پھر صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے حضرت علی بن ابو طالب اور حضرت اسامہ بن زید کو بلایا.جب وحی میں تاخیر ہوئی تو آپ صلی علیہ کی ان دونوں سے اپنی بیوی کو چھوڑنے کے بارے میں مشورہ کرنا چاہتے تھے.جہاں تک حضرت اسامہ کا تعلق تھا تو انہوں نے مشورہ دیا اس کے مطابق جو وہ جانتے تھے کہ آنحضور صلی اللہ ﷺ کا حضرت عائشہ سے تعلق کیا ہے اور حضرت عائشہ کی حالت کو بھی جانتے ہوں گے کہ نیک پارسا عورت ہیں.بہر حال حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی بیوی نہیں اور اللہ کی قسم ! ہم سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں جانتے.اور جہاں تک حضرت علی بن ابو طالب کا تعلق ہے تو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ نے آپ پر کچھ تنگی نہیں رکھی اور اس کے سوا اور عور تیں بھی بہت ہیں اور اس خادمہ سے پوچھئے وہ آپ سے سچ کہہ دے گی.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے بریرہ کو بلایا اور آپ نے فرمایا اے بریرہ! کیا تم نے اس میں کوئی بات دیکھی جو تمہیں شک میں ڈالے ؟ بریرہ نے عرض کیا نہیں.اس کی قسم جس نے صل المی کم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے ان میں اس سے زیادہ کوئی اور بات نہیں دیکھی جس کو میں عیب سمجھوں کہ وہ کم عمر لڑکی ہے، گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہے.بکری آتی ہے اور وہ اسے کھا جاتی ہے تو رسول اللہ صلی علیم اسی روز کھڑے ہوئے اور عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں معذرت چاہی اور رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: کون مجھے اس شخص کے بارے میں معذور سمجھے گا جس کی ایذارسانی میرے اہل سة
حاب بدر جلد 2 94 حضرت ابو بکر صدیق کے بارے میں مجھے پہنچی ہے.اللہ کی قسم ہمیں اپنے اہل میں سوائے بھلائی کے اور کوئی بات نہیں جانتا.اور لوگوں نے ایسے شخص کا ذکر کیا ہے جس کی بابت میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتا اور میرے گھر والوں کے پاس وہ نہیں آتا تھا مگر میرے ساتھ.حضرت سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! بخدا میں اس سے آپ کو معذور ٹھہراؤں گا.اگر وہ اوس سے ہے تو ہم اس کی گردن مار دیں گے اور اگر وہ ہمارے بھائیوں خزرج سے ہے تو آپ ہمیں ارشاد فرمائیں.ہم آپ کے ارشاد کے مطابق کریں گے.اس پر حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہو گئے اور وہ خزرج کے سر دار تھے اور اس سے پہلے وہ بھلے آدمی تھے لیکن انہیں حمیت نے اکسایا اور انہوں نے کہا تم نے غلط کہا.اللہ کی قسم ! تم اسے نہیں مارو گے.یعنی آپس میں قبیلوں کی ٹھن گئی.اور نہ اس پر طاقت رکھتے ہو.حضرت اُسید بن حضیر کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا تم نے غلط کہا.اللہ کی قسم! اللہ کی قسم! ہم اسے ضرور ماریں گے.تُو فق ہے اور منافقوں کی طرف سے جھگڑتا ہے.اس پر دونوں قبیلے اوس اور خزرج بھڑک اٹھے یہاں تک کہ وہ لڑنے پر آمادہ ہو گئے اور رسول اللہ صلی علیہ کم منبر پر تھے.آپ صلی اہلیہ کی نیچے تشریف لائے.ان کو دھیما کیا یہاں تک کہ خاموش ہو گئے اور آپ بھی خاموش ہو گئے.حضرت عائشہ کہتی ہیں میں سارا دن روتی رہی.یہ واقعہ تو آپ کے علم میں آگیا لیکن اصل بات یہ تھی کہ حضرت عائشہ کہتی ہیں جو کچھ بھی ہو رہا تھا وہ تو ہو تا رہا لیکن میں سارا دن روتی رہی.نہ میرے آنسو تھے اور نہ مجھے نیند آئی.میرے ماں باپ میرے پاس آئے.میں دورا تیں اور ایک دن روئی یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ یوں رونا میرے جگر کو پھاڑ ڈالے گا.آپ نے فرمایا اس اثنا میں کہ وہ دونوں یعنی حضرت عائشہ کے والدین جو تھے، میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت چاہی اور میں نے اسے اجازت دی.وہ بیٹھی اور میرے ساتھ رونے لگی.ہم اس حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی املی کم تشریف لائے اور بیٹھ گئے.جب سے میرے متعلق کہا گیا اور جو کہا گیا آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور آپ ایک مہینہ اسی طریق پر رہے.میرے اس معاملے کے بارے میں آپ پر کوئی وحی نہیں ہوئی.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آپ صلی نیلم نے تشہد پڑھا.پھر فرمایا اے عائشہ! مجھے تمہارے متعلق یہ بات پہنچی ہے.اگر تم بری ہو تو ضر ور اللہ تعالیٰ تمہاری بریت فرمائے گا اور اگر تم سے کوئی لغزش ہو گئی ہو تو اللہ سے مغفرت مانگو اور اس کے حضور توبہ کرو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے اور پھر وہ تو بہ کرتا ہے تو اللہ بھی اس پر رجوع برحمت ہوتا ہے.جب رسول اللہ صلی علی کی اپنی بات ختم کر چکے تو میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ مجھے ان کا ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہوا اور میں نے اپنے باپ یعنی حضرت ابو بکر سے کہا کہ رسول اللہ صلی ایم کو میری طرف سے جواب دیں.انہوں نے کہا بخدا ! میں نہیں جانتا کہ میں رسول اللہ صلی الم سے کیا کہوں.پھر میں نے اپنی ماں سے کہا آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی علیم کو جواب دیں جو آپ نے فرمایا ہے.انہوں نے کہا بخدا! میں نہیں جانتی میں رسول اللہ صلی اللہ ہم سے کیا کہوں.حضرت عائشہ کہتی ہیں میں کم عمر لڑکی تھی ، قرآن زیادہ نہیں جانتی تھی تو میں نے کہا بخدا! مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ آپ لوگوں نے سنا
حاب بدر جلد 2 95 حضرت ابو بکر صدیق ہے جو لوگ باتیں کر رہے ہیں اور آپ کے دلوں میں وہ بیٹھ گئی ہے اور آپ لوگوں نے اسے درست سمجھ لیا ہے.اور اگر میں آپ لوگوں سے کہوں کہ میں بری ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں فی الواقعہ بری ہوں تو آپ لوگ مجھے اس میں سچا نہیں سمجھیں گے اور اگر میں آپ کے پاس کسی بات کا اقرار کر لوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو آپ لوگ مجھے سچا سمجھ لیں گے.اللہ کی قسم ! میں اپنی اور آپ لوگوں کی مثال نہیں پاتی سوائے یوسف کے باپ کے کہ جب انہوں نے کہا تھا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ اور اچھی طرح صبر کرنا ہی میرے لیے مناسب ہے اور جو بات تم بیان کرتے ہو اس کے تدارک کے لیے اللہ ہی سے مددمانگی جاسکتی ہے اور اس سے مدد مانگی جائے گی.قرآن میں بریت نازل ہونا پھر میں نے اپنے بستر پر رخ بدل لیا اور میں امید کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میری بریت ظاہر کرے گا لیکن بخدا مجھے گمان نہ تھا کہ وہ میرے متعلق وحی نازل کرے گا.میں اپنے خیال میں اس سے بہت اونی تھی کہ میرے معاملہ میں قرآن میں بات کی جائے گی لیکن مجھے امید تھی کہ رسول اللہ صل اللہ یکم نیند میں کوئی رویا دیکھیں گے کہ اللہ مجھے بری قرار دیتا ہے.اللہ کی قسم ! آپ اپنے بیٹھنے کی جگہ سے الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا یہاں تک کہ آپؐ پر وحی نازل ہوئی اور آپ صلی علیہ تم پر وہ شدت کی کیفیت طاری ہوئی جو وحی کے وقت آپ کو ہوا کرتی تھی.یہاں تک کہ سردی کے دن میں آپ سے پسینہ موتیوں کی طرح ٹپکتا تھا.جب رسول اللہ صلی علیم سے یہ کیفیت جاتی رہی تو آپ تبسم فرمارہے تھے اور پہلی بات جو آپ نے کی وہ آپ کا مجھے سے یہ فرمانا تھا کہ اے عائشہ! اللہ کی تعریف بیان کرو کیونکہ اللہ نے تمہاری بریت ظاہر کر دی ہے اور میری ماں نے مجھ سے کہا اٹھور سول اللہ صلی علیہ کم کے پاس جاؤ.میں نے کہا نہیں اللہ کی قسم ! میں آپ صلی علیم کے پاس نہیں جاؤں گی اور اللہ کے سوا کسی کی حمد نہیں کروں گی.تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: اِنَّ الَّذِيْنَ جَاء وَ بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ (النور:12) یقیناوہ لوگ جنہوں نے ایک بڑا اتہام باندھا تھا تمہیں میں سے ایک گروہ ہے.جب اللہ نے میری بریت میں یہ نازل فرمایا تو حضرت عائشہ کے والد حضرت ابو بکر صدیق نے کہا اور وہ مسطح بن اثاثہ کو بوجہ اس کے قریبی ہونے کے خرچ دیا کرتے تھے ، غریب آدمی تھا اس کو خرچ دیا کرتے تھے حضرت ابو بکر نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں مسطح کو کبھی خرچ نہیں دوں گا بعد اس کے جو اس نے حضرت عائشہ کے بارے میں کہا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے نازل وَ لَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسْكِينَ وَ المُهجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَ لِيَعْفُوا وَ لِيَصْفَحُوا اَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ ۖ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (النور: 23) اور تم میں سے صاحب فضیلت اور صاحب توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں.پس چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور در گذر کریں.کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.
حاب بدر جلد 2 96 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر نے فرمایا کیوں نہیں.اللہ کی قسم! میں ضرور پسند کرتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے تو انہوں نے مسطح کو دوبارہ دینا شروع کر دیا.یعنی حضرت ابو بکر جو خرچ کرتے تھے وہ خرچ دوبارہ شروع کر دیا.اللہ کی قسم ! میں نے ان میں خیر ہی دیکھی ہے حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم میرے معاملے میں یعنی حضرت عائشہ کے بارے میں حضرت زینب سے پوچھا کرتے تھے.آپ صلی ایم نے فرما یا زینب کو کہ اے زینب ! تم کیا جانتی ہو یعنی حضرت عائشہ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ تو انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنی شنوائی اور بینائی محفوظ رکھتی ہوں.اللہ کی قسم ! میں نے ان میں خیر ہی دیکھی ہے.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اب یہی زینب وہ تھیں جو میرا مقابلہ کیا کرتی تھیں اور اللہ نے انہیں پر ہیز گاری کی وجہ سے بچالیا.251 یہ صحیح بخاری کی ایک لمبی روایت ہے.اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑ نا حسن اخلاق میں داخل ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ” خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ و استغفار اور دعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں.جیسا کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہو گئے تھے.ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے دو وقتہ روٹی کھاتے تھے.حضرت ابو بکر نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا.اط اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی وَ ليَعْفُوا وَ ليَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رحیم (النور:23) تب حضرت ابو بکرؓ نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگادی.“حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ” اسی بنا پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑنا حسن اخلاق میں داخل ہے.مثلاً اگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اور تضرع پر معاف کرنا سنت اسلام ہے تا تخلق باخلاق اللہ ہو جائے مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں.ترک وعدہ پر باز پرس ہو گی مگر ترک و عید پر نہیں.یہ ایک علیحدہ مضمون ہے کہ وعدہ کیا ہے اور وعید کیا ہے اور وہ پہلے بھی ایک دفعہ بیان ہو چکا ہے.252" 253
حاب بدر جلد 2 غزوہ احزاب 97 حضرت ابو بکر صدیق بہر حال اب ذکر ہے غزوہ احزاب کا جو شوال پانچ ہجری میں ہوئی.قریش مکہ اور مسلمانوں کے مابین یہ تیسرا بڑا معرکہ تھا جو غزوہ خندق بھی کہلاتا ہے.یہ غزوہ شوال 15 ہجری میں ہوا.چونکہ قریش، یہودِ خیبر اور بہت سے گروہ اس میں جتھہ بندی کر کے مدینہ منورہ پر چڑھ آئے تھے اس لیے قرآن کریم میں مذکور نام احزاب سے بھی یہ معرکہ منسوب ہے یعنی غزوہ احزاب.جب رسول اللہ صلی الیکم نے یہود کے قبیلہ بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا تو وہ خیبر چلے گئے.ان کے اشراف اور معززین میں سے چند آدمی مکہ روانہ ہوئے.انہوں نے قریش کو اکٹھا کیا اور انہیں رسول اللہ صلی علیم کے مقابلہ کی ترغیب دی.ان لوگوں نے قریش سے معاہدہ کیا اور سب نے آپ سے جنگ پر اتفاق کیا اور اس کے لیے انہوں نے ایک وقت کا وعدہ کر لیا.بنو نضیر کے وہ لوگ قریش کے پاس سے نکل کر قبیلہ غطفان اور سکیم کے پاس آئے اور ان سے بھی اس قسم کا معاہدہ کیا اور پھر وہ لوگ ان کے پاس سے روانہ ہو گئے.قریش تیار ہو گئے انہوں نے متفرق قبائل کو اور ان عربوں کو جو ان کے حلیف تھے جمع کیا تو چار ہزار ہو گئے.ابو سفیان بن حرب ان کا سردار تھا.راستہ میں دیگر قبائل کے لوگ بھی اس لشکر سے ملتے رہے.یوں اس لشکر کی مجموعی تعداد دس ہزار ہو گئی.رسول الله صل الم کو ان لوگوں کے مکہ سے روانہ ہونے کی خبر پہنچی تو آپ نے صحابہ کرام کو بلوایا اور انہیں، صحابہ کو ، دشمن کی خبر دی اور اس معاملہ میں ان سے مشورہ کیا.اس پر حضرت سلمان فارسی نے خندق کی رائے دی جو مسلمانوں کو پسند آئی.عہد نبوی میں مدینہ کی شمالی سمت کھلی تھی.باقی تین اطراف میں مکانات اور نخلستان تھے جن میں سے دشمن گذر نہ سکتا تھا.چنانچہ کھلی سمت میں خندق کھود کر شہر کے دفاع کا فیصلہ ہوا.رسول اللہ صلی الم نے تین ہزار مسلمانوں کے ساتھ مل کر خندق کھودنی شروع کی.آنحضرت صلی علی نیم دیگر مسلمانوں کے ہمراہ خندق کھودنے کا کام کر رہے تھے تاکہ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھے.کل چھ ایام میں یہ خندق کھودی گئی.اس خندق کی لمبائی تقریباً چھ ہزار گز یا کوئی ساڑھے تین میل تھی.254 حضرت ابو بکر نبی کریم ملی ایام کے ساتھ ساتھ رہے.خندق کھودنے کے دوران حضرت ابو بکر اپنے کپڑوں میں مٹی اٹھاتے تھے اور آپ نے خندق کھودنے میں بھی باقی صحابہ کے ساتھ مل کر کام کیا تا کہ خندق کی کھدائی کا کام مقررہ وقت کے اندر جلد از جلد مکمل ہو جائے.خندق کھودنے میں کوئی مسلمان پیچھے نہیں رہا اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو جب ٹوکریاں نہ مالتیں تو جلدی میں اپنے کپڑوں میں مٹی منتقل کرتے تھے اور وہ دونوں نہ کسی کام میں اور نہ سفر و حضر میں ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے.256 255 رسول الله علی ای ایم نے خندق کی کھدائی میں سخت محنت کی.کبھی کدال چلاتے اور کبھی بیچے سے مٹی
اصحاب بدر جلد 2 98 حضرت ابو بکر صدیق جمع کرتے اور کبھی ٹوکری میں مٹی اٹھاتے.ایک دن آپ صلی اللہ ہم کو بہت زیادہ تھکاوٹ ہو گئی تو آپ صلی علیکم بیٹھ گئے.پھر اپنے بائیں پہلو پر پتھر کا سہارا لیا تو آپ صلی علیہ تم کو نیند آگئی تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر صل الل ولیم کے سرھانے کھڑے ہو کر لوگوں کو آپ صلی للی نام کے پاس سے گزرنے سے روکتے رہے کہ کہیں وہ آپ صلی ای کم کو جگانہ دیں.قریش اور اس کے حامیوں کے دس ہزار کے لشکر نے مدینہ کے مسلمانوں کا جب محاصرہ کر لیا تو اس محاصرہ کے زمانہ میں حضرت ابو بکر مسلمانوں کے لشکر کے ایک حصہ کی قیادت کر رہے تھے.بعد میں اس جگہ جہاں حضرت ابو بکر نے قیادت فرمائی ایک مسجد بنادی گئی جسے مسجد صدیق کہا جاتا تھا.8 257 غزوہ بنو قریظہ اور حضرت ابو بکڑ کی شرکت 258 غزوہ بنو قریظہ ایک غزوہ تھا.واقدی نے غزوہ بنو قریظہ میں شامل افراد کے نام درج کیے ہیں جس کے مطابق قبیلہ بنو تیم میں سے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ بھی غزوہ بنو قریظہ میں شامل ہوئے تھے.259 عبد الرحمن بن غنم روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی ال ولا بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! لوگ اگر آپ کو دنیاوی زینت والے لباس میں دیکھیں گے تو ان میں اسلام قبول کرنے کی خواہش زیادہ ہو گی.پس آپ وہ حلہ زیب تن فرمائیں جو حضرت سعد بن عبادہ نے آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا.پس آپ صلی علیہ کی اسے پہنیں تا کہ مشرکین آپ پر خوبصورت لباس دیکھیں.آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا میں ایسا کروں گا.اللہ کی قسم ! اگر تم دونوں میرے لیے کسی ایک امر پر متفق ہو جاؤ تو میں تمہارے مشورے کے خلاف نہیں کرتا اور میرے رب نے میرے لیے تمہاری مثال ایسی ہی بیان کی ہے جیسا کہ اس نے ملائک میں سے جبرائیل اور میکائیل کی مثال بیان کی ہے.جہاں تک ابنِ خطاب ہیں تو ان کی مثال فرشتوں میں سے جبرائیل کی سی ہے.اللہ نے ہر امت کو جبرائیل کے ذریعہ ہی ہلاک کیا ہے اور ان کی مثال انبیاء میں سے حضرت نوح کی سی ہے جب انہوں نے کہا رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا (ت: 27) اے میرے رب ! کافروں میں سے کسی کو زمین پر بستا ہوا نہ رہنے دے.اور ابنِ ابی قحافہ کی مثال فرشتوں میں میکائیل کی مانند ہے یعنی حضرت ابو بکر کی مثال.جب وہ مغفرت طلب کرتا ہے تو ان لوگوں کے لیے جو زمین میں ہیں اور انبیاء میں اس کی مثال حضرت ابراہیم کی مانند ہے جب انہوں نے کہا فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنَى وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (براہیم: 37) پس جس نے میری پیروی کی تو وہ یقینا مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو یقین تو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.آپ نے فرمایا اگر تم دونوں میرے لیے کسی ایک امر پر متفق ہو جاؤ تو میں مشورہ میں تم دونوں کے خلاف نہیں کروں گا.لیکن تم
اصحاب بدر جلد 2 99 حضرت ابو بکر صدیق دونوں کی حالت مشورے میں کئی طرح کی ہے جیسے جبرائیل اور میکائیل اور نوح اور ابراہیم علیہ السلام کی مثال ہے.260 نبی کریم صلی الم نے جب بنو قریظہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو اس حوالے سے ایک روایت میں مذکور ہے.عائشہ بنت سعد نے اپنے والد سے بیان کیا.وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی کم نے مجھ سے فرمایا.اے سعد ! آگے بڑھو اور ان لوگوں پر تیر چلاؤ.میں اس حد تک آگے بڑھا کہ میرا تیر اُن تک پہنچ جائے اور میرے پاس پچاس سے زائد تیر تھے جو ہم نے چند لمحوں میں چلائے گویا ہمارے تیر ٹڈی دل کی طرح تھے.پس وہ لوگ اندر گھس گئے اور ان میں سے کوئی بھی جھانک کر باہر نہ دیکھ رہا تھا.ہم اپنے تیروں کے متعلق ڈرنے لگے کہ کہیں وہ سارے ہی ختم نہ ہو جائیں.پس ہم ان میں سے بعض تیر چلاتے اور بعض کو اپنے پاس محفوظ رکھتے.261 حضرت کعب بن عمر و مازنی بھی تیر چلانے والوں میں سے تھے.وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس روز جتنے تیر میرے ترکش میں تھے وہ سارے چلائے یہاں تک کہ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو ہم نے ان لوگوں پر تیر چلانابند کر دیے.وہ کہتے ہیں کہ ہم تیر اندازی کر چکے تھے اور رسول اللہ صلی عید کی اپنے گھوڑے پر سوار تھے اور آپ صلی ا یکم مسلح تھے اور گھڑ سوار آپ کے ارد گرد تھے.پھر آپ صلی الم نے نہیں ارشاد فرمایا تو ہم اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ آئے اور ہم نے رات گزاری.اور ہمارا کھانا وہ کھجوریں تھیں جو حضرت سعد بن عبادہ نے بھیجی تھیں اور وہ کھجوریں کافی زیادہ تھیں.ہم نے رات ان کھجوروں میں سے کھاتے ہوئے گزاری.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو دیکھا گیا کہ وہ بھی کھجوریں کھا رہے تھے.رسول اللہ صلی علی کرم فرماتے کہ کھجور کیا ہی عمدہ کھانا ہے.حضرت سعد بن معاذ نے جب بنو قریظہ کے متعلق فیصلہ کیا تو رسول اللہ صلی ا ہم نے ان کی تعریف کی اور فرمایا کہ تم نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے.اس پر حضرت سعد نے دعا کی کہ اے اللہ ! اگر تو نے آنحضرت صلی علم کی قریش کے ساتھ کوئی اور جنگ مقدر کر رکھی ہے تو مجھے اس کے لیے زندہ رکھ اور اگر آنحضرت صلی اللہ یکم اور قریش کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے تو مجھے وفات دے دے.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ ان کا زخم کھل گیا حالانکہ آپ تندرست ہو چکے تھے اور اس زخم کا معمولی نشان باقی رہ گیا تھا اور وہ اپنے خیمے میں واپس آگئے جو رسول اللہ صلی علی یم نے ان کے لیے لگوایا تھا.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ال یکم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ان کے پاس تشریف لائے اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد علی ایم کی جان ہے کہ میں حضرت عمر کے رونے کی آواز کو حضرت ابو بکڑ کے رونے کی آواز سے الگ پہچان رہی تھی جبکہ میں اپنے حجرے میں تھی.یعنی اس وقت جب حضرت سعد کی نزع کی کیفیت طاری ہوئی، تو یہ دونوں رورہے تھے.میں اپنے حجرے میں تھی اور وہ ایسے ہی تھے جیسے کہ اللہ عز و جل نے فرمایا ہے رُحَمَاءُ بَيْنَهُم (30) یعنی آپس میں ایک دوسرے سے بے حد محبت کرنے والے ہیں.262
حاب بدر جلد 2 صلح حدیبیہ 100 حضرت ابو بکر صدیق صلح حدیبیہ کے حوالے سے لکھا ہے جیسا کہ گذشتہ خطبات میں ذکر ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی علیکم نے ایک خواب دیکھی کہ آپ کی تعلیم اپنے صحابہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں.اس خواب کی بنا پر آنحضرت مصلی تمیز کم چودہ سو صحابہ کی جمعیت کے ساتھ ذوالقعدہ چھ ہجری کے شروع میں پیر کے دن بوقت صبح مدینہ سے عمرے کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوئے.263 جب رسول اللہ صلی علیم کو معلوم ہوا کہ کفار مکہ نے آپ صلی یی کم کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنے کی تیاری کرلی ہے تو آپ صلی للی کرم نے صحابہ سے مشورہ طلب کیا.حضرت ابو بکر نے مشورہ دیتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم تو محض عمرے کے لیے آئے ہیں ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے.میری رائے یہ ہے کہ ہم اپنی منزل کی طرف جائیں.اگر کوئی ہمیں بیت اللہ سے روکنے کی کوشش کرے گا تو ہم اس سے لڑائی کریں گے.264 صلح حدیبیہ کے موقع پر جب قریش کی طرف سے باہم گفت وشنید کے لیے وفود کا سلسلہ شروع ہوا تو عروہ آپ کے پاس آئے اور نبی کریم صلی علی کم سے گفتگو کرنے لگے.عروہ نے کہا محمد (صلی اللیل ) ! بتاؤ تو سہی اگر تم نے اپنی قوم کو بالکل نابود کر دیا تو کیا تم نے عربوں میں سے کسی عرب کی نسبت سنا ہے جس نے تم پہلے اپنے ہی لوگوں کو تباہ کر دیا ہو؟ اور اگر دوسری بات ہو یعنی قریش غالب ہوئے تو اللہ کی قسم ! میں تمہارے ساتھیوں کے چہروں کو دیکھ رہا ہوں جو اِدھر اُدھر سے اکٹھے ہو گئے ہیں وہ بھاگ جائیں گے اور تمہیں چھوڑ دیں گے.یہ سن کر حضرت ابو بکرؓ نے عروہ بن مسعود سے نہایت سخت الفاظ میں کہا کہ جاؤ جاؤ جا کر اپنے بت لات کو چومتے پھر یعنی اس کی پوجا کرو.اس پر عروہ نے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا ابو بکر گروہ نے کہا دیکھو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہو تا جس کا میں نے ابھی تک تمہیں بدلہ نہیں دیا تو میں اس کا تمہیں جواب دیتا.حضرت ابو بکر کا احسان یہ تھا کہ ایک معاملے میں عروہ پر دیت جب واجب ہوئی تو حضرت ابو بکر نے دس گا بھن اونٹنیوں کے ساتھ اس کی مدد کی تھی.بہر حال عُروہ نے یہ کہا اور آنحضرت صلی الی ہم سے باتیں شروع کر دیں.صلح حدیبیہ اور حضرت عمرہ کی گفتگو صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت صلی علیم کے ساتھ قریش کا معاہدہ ہو رہا تھا.حضرت عمر بن خطاب کہتے تھے کہ میں نبی صلی علیکم کے پاس آیا اور میں نے کہا کیا آپ بیچ بیچ اللہ کے نبی نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں.میں نے کہا کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور ہمارا دشمن باطل پر ؟ آپ صلی الیکم نے فرمایا کیوں نہیں.میں نے عرض کیا تو پھر ہم اپنے دین سے متعلق ذلت آمیز شر طیں کیوں مانیں؟ آپ صلی علیکم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا.وہ میری مدد کرے گا.یعنی اگر میں شر طیں مان رہا ہوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں ہے.فرمایا کہ وہ میری مدد کرے گا.میں نے
اصحاب بدر جلد 2 101 حضرت ابو بکر صدیق کہا یعنی حضرت عمر نے کہا.کیا آپ صلی لی کہ ہم سے نہیں کہتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ میں پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے ؟ آپ نے فرمایا: بے شک میں نے کہا تھا اور کیا میں نے تمہیں یہ بتایا تھا کہ ہم بیت اللہ اسی سال پہنچیں گے ؟ آنحضرت صلی اللہ ہم نے پوچھا.میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ہم اسی سال بیت اللہ پہنچیں گے.حضرت عمر کہتے تھے.میں نے کہا نہیں تو آپ صلی علیم نے فرمایا تو پھر بیت اللہ ضرور پہنچو گے اور اس کا طواف بھی کرو گے.حضرت عمر کہتے تھے یہ سن کر میں ابو بکڑ کے پاس آیا اور میں نے کہا.ابو بکر ! کیا حقیقت میں آنحضرت صلی للی علم اللہ کے نبی نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں.میں نے کہا کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور ہمارا دشمن باطل پر ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں.میں نے کہا ہم اپنے دین سے متعلق ذلت آمیز شرط کیوں قبول کریں؟ اس وقت ابو بکر نے کہا اے مردِ خدا! بے شک آنحضرت صلی اللہ تم اللہ کے رسول ہیں اور رسول اپنے رب کی نافرمانی نہیں کیا کرتا اور اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا.حضرت ابو بکر نے تقریباً وہی الفاظ دہرائے جو آنحضرت صل ال کلم نے فرمائے تھے.پھر حضرت ابو بکر نے حضرت عمرہ کو فرمایا کہ آپ صلی لی کمر کے طے فرمودہ معاہدے کو مضبوطی سے تھامے رہو.اللہ کی قسم! آپ یقیناً حق پر ہیں.حضرت عمر کہتے ہیں میں نے کہا کہ کیا آپ مصلی علی کرم ہم سے نہیں کہتے تھے کہ ہم ضرور بیت اللہ میں پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے.ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا بیشک.کیا آنحضور صلی ا ہم نے یہ بھی بتایا تھا کہ تم اسی سال وہاں پہنچو گے ؟ حضرت عمر کہتے ہیں اس پر میں نے کہا نہیں.تو اس پر حضرت ابو بکر نے کہا پھر تم ضرور وہاں پہنچو گے اور اس کا طواف ضرور کرو گے.زہری نے کہا کہ حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ میں نے اس غلطی کی وجہ سے بطور کفارہ کئی نیک عمل کئے.265 یہ بخاری میں سے لیا گیا ہے.اسی صلح حدیبیہ کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ عروہ آنحضرت صلی علیہم کی خدمت میں آیا اور آپ کے ساتھ گفتگو شروع کی.آپ نے اس کے سامنے اپنی وہی تقریر دوہرائی جو اس سے قبل آپ بدیل بن ورقا کے سامنے فرماچکے تھے.عُروہ اصولاً آنحضرت صلی الم کی رائے کے ساتھ متفق تھا مگر قریش کی سفارت کا حق ادا کرنے اور ان کے حق میں زیادہ سے زیادہ شرائط محفوظ کرانے کی غرض سے کہنے لگا.اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! اگر آپ نے اس جنگ میں اپنی قوم کو ملیا میٹ کر دیا تو کیا آپ نے عربوں میں کسی ایسے آدمی کا نام سنا ہے جس نے آپ سے پہلے ایسا ظلم ڈھایا ہو لیکن اگر بات دگر گوں ہوئی یعنی قریش کو غلبہ ہو گیا تو خدا کی قسم مجھے آپ کے ارد گرد ایسے منہ نظر آرہے ہیں کہ انہیں بھاگتے ہوئے دیر نہیں لگے گی اور یہ سب لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے.حضرت ابو بکر جو اس وقت آنحضرت صلی یہ نیم کے پاس ہی بیٹھے تھے عروہ کے یہ الفاظ سن کر غصہ سے بھر گئے اور فرمانے لگے جاؤ جاؤ اور لات کو ، یعنی اُن کا بت جولات ہے ، اس کو چومتے پھرو.کیا ہم خدا کے رسول کو چھوڑ جائیں گے ؟ لات بت جو تھا وہ قبیلہ بنو ثقیف کا ایک مشہور بت تھا.حضرت ابو بکر ضیا مطلب یہ تھا کہ تم لوگ بت پرست ہو اور ہم لوگ خدا پرست ہیں تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تم تو بتوں کی
حاب بدر جلد 2 266 102 حضرت ابو بکر صدیق خاطر صبر و ثبات دکھاؤ اور ہم خدا پر ایمان لاتے ہوئے رسول اللہ صلی علیکم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں.عروہ نے طیش میں آکر پوچھا یہ کون شخص ہے جو اس طرح میری بات کا نتا ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ ابو بکر نہیں.ابو بکر کا نام سن کر عروہ کی آنکھیں شرم سے بچی ہو گئیں.کہنے لگا اے ابو بکر اگر میرے سر پر تمہارا ایک بھاری احسان نہ ہوتا.یہاں بھی یہی ذکر کیا ہے کہ حضرت ابو بکر نے ایک دفعہ اس کا قرض ادا کر کے اس کی جان چھڑائی تھی.تو خدا کی قسم میں تمہیں اس وقت بتاتا کہ ایسی بات کا جو تم نے کہی ہے کس طرح جواب دیتے ہیں.حضرت ابوجندل کاز نجیروں میں لڑکھڑاتے ہوئے آنا بخاری کے ایک حوالے میں درج ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ ظلم کے ساتھ قریش کا معاہدہ ہو رہا تھا اور شرائط طے پاچکی تھیں.اس وقت حضرت ابو جندل جو کہ سہیل بن عمرو کے بیٹے تھے اپنی زنجیروں میں لڑکھڑاتے ہوئے آئے.سہیل بن عمرو نے جو مکہ کی طرف سے بطور سفیر آئے تھے اس نے ان کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا.آنحضور صلی علی کلم نے اس کو قریش کو واپس کر دیا.267 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کی کچھ تفصیل بیان کی ہے اور اس میں اس واقعہ کا بھی ذکر ہے جو حضرت عمر نے آنحضرت صلی علیم سے بحث کرتے ہوئے کیا تھا کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں تو پھر ہم یوں نیچے لگ کر بات کیوں کریں.بہر حال اس کی تفصیل یہ ہے یعنی ابو جندل کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اس پر حضرت عمر نے یہ بات کی.مسلمان یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ” ابو جندل سے زیادتی کا “ اور مذہبی غیرت سے ان کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا مگر رسول اللہ صلی الی یکم کے سامنے سہم کر خاموش تھے.آخر حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا.وہ آنحضرت صلی الم کے قریب آئے اور کانپتی ہوئی آواز میں فرمایا.کیا آپ خدا کے برحق رسول نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں ضرور ہوں.عمر نے کہا کیا ہم حق پر نہیں اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں ضرور ایسا ہی ہے.عمرؓ نے کہا تو پھر ہم اپنے سچے دین کے معاملہ میں یہ ذلت کیوں برداشت کریں ؟ آپ نے حضرت عمر کی حالت کو دیکھ کر مختصر الفاظ میں فرمایا.دیکھو عمر ! میں خدا کا رسول ہوں اور میں خدا کی منشاء کو جانتا ہوں اور اس کے خلاف نہیں چل سکتا اور وہی میرا مددگار ہے مگر حضرت عمرؓ کی طبیعت کا تلاطم لحظہ بلحظہ بڑھ رہا تھا.کہنے لگے کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں نے ضرور کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف ضرور اسی سال ہو گا ؟ عمر نے کہا نہیں ایسا تو نہیں کہا.آپ نے فرمایاتو پھر انتظار کرو.تم ان شاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہو گے اور کعبہ کا طواف کرو گے.مگر اس جوش کے عالم میں حضرت عمر کی تسلی نہیں ہوئی لیکن چونکہ آنحضرت صلی الله کم کا خاص رعب تھا اس لئے حضرت عمر وہاں سے ہٹ کر حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور ان کے ساتھ بھی اسی قسم کی جوش کی باتیں کیں.اور حضرت ابو بکر نے بھی اسی قسم کے جواب دئے مگر ساتھ ہی حضرت ابو بکر نے نصیحت کے
اصحاب بدر جلد 2 103 حضرت ابو بکر صدیق رنگ میں فرمایا:.دیکھو عمر سنبھل کر رہو.رسولِ خدا کی رکاب پر جو ہاتھ تم نے رکھا ہے اسے ڈھیلانہ ہونے دینا کیونکہ خدا کی قسم ! یہ شخص جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے بہر حال سچا ہے.حضرت عمر کہتے ہیں کہ اس وقت میں اپنے جوش میں یہ ساری باتیں کہہ تو گیا مگر بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی اور میں تو بہ کے رنگ میں اس کمزوری کے اثر کو دھونے کے لئے بہت سے نفلی اعمال بجا لایا.یعنی صدقے کئے.روزے رکھے.نفلی نمازیں پڑھیں اور غلام آزاد کئے تاکہ میری اس کمزوری کا داغ دھل جائے.268 حضرت مصلح موعودؓ صلح حدیبیہ کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب خانہ کعبہ کے طواف کے لئے تشریف لے گئے تو کفار مکہ نے خبر پاکر اپنے ایک سردار کو آپ کی طرف روانہ کیا کہ وہ جا کر کہے کہ اس سال آپ طواف کے لئے نہ آئیں.وہ سردار آپ کے پاس پہنچا اور بات چیت کرنے لگا.بات کرتے وقت اس نے آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگایا کہ آپ اس دفعہ طواف نہ کریں اور کسی اگلے سال پر ملتوی کر دیں.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”ایشیاء کے لوگوں میں دستور ہے کہ جب وہ کسی سے بات منوانا چاہتے ہوں تو منت کے طور پر دوسرے کی داڑھی کو ہاتھ لگاتے ہیں یا اپنی داڑھی کو ہاتھ لگا کر کہتے ہیں کہ دیکھو! میں بزرگ ہوں اور قوم کا سردار ہوں میری بات مان جاؤ.چنانچہ اس سردار نے بھی منت کے طور پر آپ کی داڑھی کو ہاتھ لگایا.یہ دیکھ کر ایک صحابی آگے بڑھے اور اپنی تلوار کا ہتھا مار کر سردار سے کہا اپنے ناپاک ہاتھ پیچھے ہٹاؤ.سردار نے تلوار کا ہتھا مار نے والے کو پہچان کر کہا تم وہی ہو جس پر میں نے فلاں موقع پر احسان کیا تھا.یہ سن کر وہ صحابی خاموش ہو گئے اور پیچھے ہٹ گئے.سردار نے پھر منت کے طور پر آپ کی داڑھی کو ہاتھ لگایا.کہتے ہیں کہ ہمیں اس سردار کے اس طرح ہاتھ لگانے پر سخت غصہ آرہا تھا مگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا شخص نظر نہ آتا تھا جس پر اس سردار کا احسان نہ ہو اور اس وقت ہمارا دل چاہتا تھا کہ کاش! ہم میں سے کوئی ایسا شخص ہوتا جس پر اس سردار کا کوئی احسان نہ ہو.اتنے میں ایک شخص ہم میں سے آگے بڑھا جو سر سے پاؤں تک خود اور زرہ میں لپٹا ہوا تھا اور بڑے جوش کے ساتھ سر دار سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ہٹالو اپنانا پاک ہاتھ.یہ حضرت ابو بکر تھے.“ جنہوں نے یہ کہا تھا.”سر دار نے جب ان کو پہچانا تو کہا ہاں میں تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ تم پر میرا کوئی احسان نہیں ہے.ذوالقعدہ چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر جب صلح نامہ لکھا گیا تو اس معاہدے کی دو نقلیں تیار کی گئیں اور بطور گواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پر اپنے دستخط کیے.مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں سے حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابو عبیدہ بن جراح تھے.یہ سیرت خاتم ༡༠༡ النبیین سے ماخوذ ہے.10 270 269" رض
محاب بدر جلد 2 104 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑی کوئی اور فتح نہیں ہے.271 سریہ حضرت ابو بکر بطرف بَنُو فَزَارَه سر یہ حضرت ابو بکر بطرف بَنُو فَزَارَہ اس کے ذکر میں لکھا ہے کہ یہ سر یہ چھ ہجری میں ہوا ہے.بنو فزارہ نجد اور وادی القریٰ میں آباد تھے.272 طبقات الکبریٰ میں اور سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ یہ سر یہ حضرت زید بن حارثہ کی کمان میں بھیجا گیا تھا.273 لیکن صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد کی حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی الم نے حضرت ابو بکر کو اس سریہ کا امیر مقرر فرمایا تھا.چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ایاس بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم نے فزارہ قبیلہ سے جنگ کی اور ہمارے امیر حضرت ابو بکر تھے.آپ کو رسول اللہ صلی علیم نے ہم پر امیر بنایا تھا.274 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی اس سریہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے صحابہ کا ایک دستہ حضرت ابو بکر کی کمان میں بنو فزارہ کی طرف روانہ فرمایا.یہ قبیلہ اس وقت مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار تھا اور اس دستہ میں سَلَمہ بن اکوع بھی شامل ہوئے جو مشہور تیر انداز اور دوڑنے میں خاص مہارت رکھتے تھے.سلمہ بن اکوع بیان کرتے ہیں کہ ہم صبح کی نماز کے قریب اس قبیلہ کی قرار گاہ کے پاس پہنچے اور جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو بکر نے ہمیں حملہ کا حکم دیا.ہم قبیلہ گزارہ سے لڑتے ہوئے ان کے چشمہ تک جاپہنچے اور مشرکین کے کئی آدمی مارے گئے جس کے بعد وہ میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے اور ہم نے کئی آدمی قید کر لئے.سلمہ روایت کرتے ہیں کہ بھاگنے والے لوگوں میں سے ایک پارٹی بچوں اور عورتوں کی تھی جو جلدی جلدی ایک قریب کی پہاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی.میں نے ان کے اور پہاڑی کے درمیان تیر پھینکنے شروع کر دیئے.جس پر یہ پارٹی خائف ہو کر کھڑی ہو گئی اور ہم نے انہیں قید کر لیا.ان قیدیوں میں ایک عمر رسیدہ عورت بھی تھی جس نے اپنے اوپر سرخ چمڑے کی چادر اوڑھ رکھی تھی اور اس کی ایک خوبصورت لڑکی بھی اس کے ساتھ تھی.میں ان سب کو گھیر کر حضرت ابو بکر کے پاس لے آیا اور آپ نے یہ لڑکی میری نگرانی میں دے دی.پھر جب ہم مدینہ میں آئے تو آنحضرت صلی علیم نے مجھ سے یہ لڑکی لے لی اور اسے مکہ بھیجوا کر اس کے عوض میں بعض ان مسلمان قیدیوں کی رہائی حاصل کی جو اہل مکہ کے پاس محبوس تھے.275 جن کو اہل مکہ نے قید کیا ہوا تھا.اس لڑکی کے عوض ان کو چھڑوایا.غزوہ خیبر غزوہ خیبر کے بارے میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی للی یک ماہ محرم سات ہجری میں خیبر کی طرف
حاب بدر جلد 2 105 حضرت ابو بکر صدیق روانہ ہوئے.خیبر ایک نخلستان ہے جو مدینہ منورہ سے ایک سو چوراسی کلو میٹر شمال میں واقع ہے.یہاں ایک آتش فشانی چٹانوں کا سلسلہ ہے.یہاں یہود کے بہت سے قلعے تھے جن میں سے بعض کے آثار اب بھی باقی ہیں.ان قلعوں کو مسلمانوں نے غزوہ خیبر میں فتح کیا تھا.یہ علاقہ نہایت زر خیز اور یہود کاسب 277 276 سے بڑا مرکز تھا.آپ صلی علیہم نے اپنے بعد مدینہ پر سباغ بن عُرْفُطه غِفَارِی کو امیر مقرر کیا.خیبر میں قلعوں کا محاصرہ دس سے زائد راتیں رہا.7 حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی تعلیم کو دردِ شقیقہ ہو جاتا تھا تو آپ ایک یا دو دن باہر تشریف نہ لاتے تھے.پس جب آپ خیبر میں اترے تو آپ کو درد شقیقہ ہو گیا تو آپ لوگوں میں تشریف نہ لائے.سر درد ہوتی ہے جسے درد شقیقہ Migraine کہتے ہیں.رسول الله علی الم نے حضرت ابو بکر صدیق کو گیتہ کے قلعوں کی طرف بھیجا.پس انہوں نے رسول اللہ سلیم کا جھنڈ الیا اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئے اور سخت قتال کیا.پھر واپس آگئے اور فتح نہ ہوئی حالانکہ انہوں نے بہت کوشش کی تھی.پھر رسول اللہ صلی ال نیلم نے حضرت عمر کو بھیجا.انہوں نے بھی آپ کا جھنڈ الیا اور سخت قتال کیا اور یہ پہلے قتال سے بھی زیادہ سخت تھا.پھر آپ بھی واپس لوٹ آئے لیکن فتح نہ ہوئی.278 تاریخ وسیرت کی اکثر کتب میں یہی ملتا ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمررؓ کو یکے بعد دیگرے امیر لشکر بنایا گیا تھا لیکن ان کے ہاتھ سے قلعہ فتح نہ ہو سکا.البتہ ایک کتاب ہے جس کا نام ”سیدنا صدیق اکبر“ ہے.یہ لاہور سے فروری 2010ء میں شائع ہوئی تھی.ہماری تحقیق کرنے والوں نے اس کو دیکھ کر مجھے لکھا ہے.اس میں مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر کے ہاتھ سے وہ قلعہ فتح ہوا تھا لیکن اس نے کوئی حوالہ نہیں دیا.بہر حال مصنف لکھتا ہے کہ ایک قلعہ کی فتح کے لیے حضرت ابو بکر امیر لشکر ہو کر گئے جو آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا.دوسرے قلعہ پر حضرت عمر کو مقرر کیا گیاوہ بھی کامیاب ہوئے.تیسرے قلعہ کو سر کرنے کی مہم محمد بن مسکویہ کے سپر دہوئی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے تو حضور صلی ا ہم نے فرمایا صبح میں ایسے شخص کو امیر لشکر بنا کر علم دوں گا جو خدا اور اس کے رسول کو بہت دوست رکھتا ہے اور اس کے ہاتھ سے قلعہ فتح ہو گا.چنانچہ حضرت علی و علم عنایت ہوا اور قلع قموص فتح ہوا.279 ایک روایت غزوہ خیبر کے حوالے سے واقدی کی ہے.کیونکہ لوگ اس کی تاریخ بھی پڑھتے ہیں اس لیے ذکر کر دیتا ہوں لیکن ضروری نہیں کہ یہ سو فیصد صحیح ہو.بہر حال وہ لکھتا ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر آنحضرت علی ایم کے ایک صحابی حضرت محباب بن منذر نے آپ سے عرض کیا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایہود کھجور کے درخت کو اپنی جوان اولاد سے بھی زیادہ محبوب رکھتے ہیں.آپ ان کے کھجور کے درخت کاٹ دیں.اس پر رسول اللہ صلی علی یم نے کھجوروں کے درخت کاٹنے کا ارشاد فرمایا اور مسلمانوں نے تیزی سے کھجوروں کے درخت کاٹنے شروع کیے.یہاں تک جو یہ بیان ہے وہ سو فیصد قابل قبول نہیں
حاب بدر جلد 2 106 حضرت ابو بکر صدیق و سکتالیکن بہر حال یہ اگلا حصہ صحیح لگتا ہے.کہتے ہیں کہ اس پر حضرت ابو بکر آپ صلی الم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یقینا اللہ عزوجل نے آپ سے خیبر کا وعدہ کیا ہے اور وہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا ہے جو اس نے آپ سے کیا ہے.آپ کھجور کے درخت نہ کاٹیں.اس پر آپ صلی علیہ کم 280 نے حکم دیا اور آپ صلی ایام کے منادی نے اعلان کیا اور کھجوروں کے درخت کاٹنے سے منع کر دیا.10 جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی علیہ کم کو خیبر پر فتح نصیب فرمائی تو آپ صلی اللہ ہم نے خیبر کی ایک خاص وادی كتیبه کو اپنے قرابت داروں اور اپنے خاندان کی عورتوں اور مسلمانوں کے مردوں اور عورتوں میں تقسیم فرمایا.اس موقع پر رسول اللہ صلی علیم نے دیگر رشتہ داروں کے علاوہ حضرت ابو بکر ھو بھی ایک سو وسق غلہ اور کھجور میں عطا فرمائیں.281 ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع اڑھائی کلو کا ہوتا ہے.282 اس طرح تقریباً تین سو پچہتر من غلہ بنتا ہے جو حضرت ابو بکر کے حصہ میں آیا.سيريه حضرت ابو بکر بطرف تجد 283 اس کے بارے میں لکھا ہے کہ مجد ایک نیم صحرائی لیکن شاداب خطہ ہے.اس میں متعد د وادیاں اور پہاڑ ہیں.یہ جنوب میں یمن، شمال میں صحرائے شام اور عراق تک جا پہنچتا ہے.اس کے مغرب میں صحرائے حجاز واقع ہے.علاقہ سطح زمین سے بارہ سو میٹر بلند ہے.اس بلندی کی بنا پر اس کو نجد کہتے ہیں.83 نجد میں بَنُو كِلاب مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہوئے تو حضرت ابو بکر کو ان کی سرکوبی کے لیے رسول اللہ صلی العلیم نے وہاں بھیجا.یہ سر یہ شعبان سات ہجری میں ہوا.حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہم نے حضرت ابو بکر کو بھیجا اور ہم لوگوں پر ان کو امیر بنایا.284 ابوسفیان صلح حدیبیہ کے بعد جب مکہ آیا تو اس کے بارے میں لکھا ہے کہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جب بنو بکر نے جو قریش کے حلیف تھے ، مسلمانوں کے حدیبیہ حلیف قبیلہ بنو خُزاعہ پر حملہ کیا اور قریش نے ہتھیاروں اور سواریوں سے بنو بکر کی مدد بھی کی اور صلح بیہ کی شرائط کا پاس نہ کیا اور بڑے غرور اور تکبر سے کہہ دیا کہ ہم کسی معاہدے کو نہیں مانتے تو اس وقت ابوسفیان مدینہ میں آیا اور صلح حدیبیہ کے معاہدے کی تجدید چاہی.وہ رسول اللہ صلی علیم کے پاس گیا لیکن آپ صلی علیہم نے اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا.پھر وہ ابو بکر کے پاس گیا اور ان سے بات کی کہ وہ رسول اللہ صلی علیم سے بات کریں لیکن انہوں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا.پھر جیسا کہ حضرت عمرؓ کے ذکر میں بیان ہو چکا ہے وہ حضرت عمر کے پاس گیا انہوں نے بھی انکار کر دیا.285 بہر حال وہ ناکام لوٹا.286
باب بدر جلد 2 107 حضرت ابو بکر صدیق غزوة فتح محکمہ دو.287 غزوہ فتح مکہ ، اس غزوہ کو غَزْوَةُ الْفَتْحِ الأَعْظَم بھی کہتے ہیں.غزوہ مکہ رمضان آٹھ ہجری میں ہوا.تاریخ طبری میں بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی علیم نے لوگوں کو سفر کی تیاری کا ارشاد فرمایا تو آپ صلی علیہ ہم نے اپنے گھر والوں سے فرمایا.میر اسامان بھی تیار کر حضرت ابو بکر اپنی بیٹی حضرت عائشہ کے پاس داخل ہوئے، ان کے گھر گئے.اس وقت حضرت عائشہ رسول اللہ صلی علیم کے سامان کو تیار کر رہی تھیں.حضرت ابو بکڑ نے پوچھا اے میری بیٹی ! کیارسول اللہ صل اللوم نے تمہیں کچھ ارشاد فرمایا ہے کہ آنحضور صلی علیہ ظلم کا سامان تیار کرو؟ انہوں نے کہا جی ہاں.حضرت ابو بکر نے پوچھا تمہارا کیا خیال ہے کہ آنحضور صلی للی کم کا ارادہ کہاں جانے کا ہے ؟ حضرت عائشہ نے کہا میں بالکل نہیں جانتی.پھر رسول اللہ صلی الیم نے لوگوں کو بتا دیا کہ آپ صلی تین کم مکہ کی طرف جارہے ہیں اور آپ نے انہیں فوراً انتظام کرنے اور تیار ہونے کا ارشاد فرمایا اور دعا کی کہ اے اللہ ! قریش کے جاسوسوں کو اور ان کے مخبروں کو روکے رکھ یہاں تک کہ ہم ان لوگوں کو ان کے علاقوں میں اچانک پا لیں.اس پر لوگوں نے تیاری شروع کر دی.288 اس واقعہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے سیرت حلبیہ میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابو بکر حضرت عائشہ سے استفسار فرمارہے تھے تو اسی وقت رسول کریم صلی ہی ہم وہاں تشریف لے آئے.حضرت ابو بکر نے آپ سے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے سفر کا ارادہ فرمایا ہے ؟ آپ صلی ایم نے فرمایا ہاں.تو حضرت ابو بکر نے عرض کیا تو پھر میں بھی تیاری کروں ؟ آپ صلی الیم نے فرمایا کہ ہاں.حضرت ابو بکر نے دریافت کیا یار سول اللہ ! آپ نے کہاں کا ارادہ فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا قریش کے مقابلہ کا مگر ساتھ ہی یہ فرمایا کہ ابو بکر اس بات کو ابھی پوشیدہ ہی رکھنا.غرض آنحضرت صلی اینم نے لوگوں کو تیاری کا حکم دیا مگر آپ مصلی میں ہم نے ان کو اس سے بے خبر رکھا کہ آپ مئی میں کام کا کہاں جانے کا ارادہ ہے.حضرت ابو بکر نے آپ سے عرض کیا یارسول اللہ صلی علی کی کیا قریش اور ہمارے درمیان ابھی معاہدے اور صلح کی مدت باقی نہیں ہے.آپ نے فرمایا ہاں مگر انہوں نے غداری کی ہے اور معاہدے کو توڑ دیا ہے مگر میں نے تم سے جو کچھ کہا ہے اس کو راز ہی رکھنا.ایک روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے آپ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی علیکم کیا آپ نے کسی طرف روانگی کا ارادہ فرمایا ہے ؟ آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا ہاں.حضرت ابو بکر نے کہا شاید آپ بنو اصفر یعنی رومیوں کی طرف کوچ کا ارادہ فرمارہے ہیں؟ آپ صلی علیہ کم نے فرمایا نہیں.حضرت ابو بکر نے عرض کیا تو کیا پھر سجد کی طرف کوچ کا ارادہ ہے ؟ آپ صلی علی کریم نے فرمایا نہیں.حضرت ابو بکر نے کہا پھر شاید آپ قریش کی طرف روانگی کا ارادہ فرمارہے ہیں ؟ آپ صلی علی کرم نے فرمایا ہاں.حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! مگر آپ کے اور ان کے درمیان تو ابھی صلح نامہ کی مدت باقی ہے.آپ صلی الیہ کم صا الله سر
اصحاب بدر جلد 2 108 حضرت ابو بکر صدیق 289 شخص نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے بنو کعب یعنی بنو خزاعہ کے ساتھ کیا کیا ہے؟ اس کے بعد رسول اللہ صلی نیلم نے دیہات اور ارد گرد کے مسلمانوں میں پیغامات بھجوائے اور ان سے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے مہینہ میں مدینہ حاضر ہو جائے.پس آنحضرت صلی اللہ وسلم کے اعلان کے مطابق قبائل عرب مدینہ آنے شروع ہو گئے.جو قبائل مدینہ پہنچے ان میں بنو اسلم ، بنو غِفَار ، بنو مُزِّينَه، بنو اشجع اور بنو جهَینَہ تھے.اس وقت رسول اللہ صلی العلیم نے یہ دعا کی کہ اے اللہ ! قریش کے مخبروں اور جاسوسوں کو روک دے یہاں تک کہ ہم ان لوگوں پر ان کے علاقے میں اچانک جا پہنچیں.آنحضور صلی ہم نے تمام راستوں پر نگرانی کرنے والی جماعتیں بٹھا دیں تا کہ ہر آنے جانے والے کے متعلق پتا رہے.آپ صلی للی یکم نے ان سے فرمایا کہ جو کوئی بھی انجان تمہارے پاس سے گزرے تو اسے روک دینا تا کہ قریش کو مسلمانوں کی تیاری کا علم نہ ہو سکے.اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی الیم نے اپنی ایک بیوی سے کہا کہ میر اسامانِ سفر باندھناشروع کرو.انہوں نے رختِ سفر باند ھناشروع کیا اور حضرت عائشہ سے کہا کہ میرے لیے سٹو وغیرہ یا دانے وغیرہ بھون کر تیار کرو.اسی قسم کی غذائیں ان دنوں میں ہوتی تھیں.چنانچہ انہوں نے مٹی وغیرہ پھٹک کر دانوں سے نکالنی شروع کی.حضرت ابو بکر گھر میں بیٹی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ تیاری دیکھی تو پو چھا عا ئشہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کیارسول اللہ کسی سفر کی تیاری میں نہیں ؟ کہنے لگیں سفر کی تیاری ہی معلوم ہوتی ہے.آپ صلی یہ ہم نے سفر کی تیاری کے لیے کہا ہے.حضرت ابو بکر نے اس پر کہا کوئی لڑائی کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے تو کچھ پتہ نہیں.رسول اللہ صلی علیہ یکم نے فرمایا ہے کہ میر اسامانِ سفر تیار کرو اور ہم ایسا کر رہے ہیں.دو تین دن کے بعد آپ نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو بلایا اور کہا دیکھو تمہیں پتہ ہے خُزاعہ کے آدمی اس طرح آئے تھے اور پھر بتایا کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور مجھے خدا نے اس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی تھی کہ انہوں نے غداری کی ہے اور ہم نے ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے.اب یہ ایمان کے خلاف ہے کہ ہم ڈر جائیں اور مکہ والوں کی بہادری اور طاقت دیکھ کر ان کے مقابلہ کے لیے تیار نہ ہو جائیں.تو ہم نے وہاں جانا ہے تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت ابو بکر نے کہا.یارسول اللہ ! آپ نے تو ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے اور پھر وہ آپ کی اپنی قوم ہے.مطلب یہ تھا کہ کیا آپ اپنی قوم کو ماریں گے ؟ حضور صلی الم نے فرمایا.ہم اپنی قوم کو نہیں ماریں گے.معاہدہ شکنوں کو ماریں گے.پھر حضرت عمر سے پوچھا.تو انہوں نے کہا.بسم اللہ میں تو روز دعائیں کیا کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسول اللہ صلی الی میم کی حفاظت میں کفار سے لڑیں.رسول کریم صلی علی کرم نے فرمایا.ابو بکر بڑا نرم طبیعت کا ہے مگر قولِ صادق عمر کی زبان سے زیادہ جاری ہو تا ہے.آنحضرت صلی علی رام نے فرمایا کہ تیاری کرو.پھر آپ نے ارد گرد کے قبائل کو اعلان بھجوایا کہ ہر شخص جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں مدینہ میں جمع ہو
باب بدر جلد 2 109 حضرت ابو بکر صدیق جائے.چنانچہ لشکر جمع ہونے شروع ہوئے اور کئی ہزار آدمیوں کا لشکر تیار ہو گیا اور آپ لڑنے کے لیے تشریف لے گئے.جب رسول کریم صلی میں کم نکلے تو آپ نے فرمایا اے میرے خدا! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو مکہ والوں کے کانوں کو بہرا کر دے اور ان کے جاسوسوں کو اندھا کر دے.نہ وہ ہمیں دیکھیں اور نہ ان کے کانوں تک ہماری کوئی بات پہنچے.چنانچہ آپ نکلے مدینہ میں سینکڑوں منافق موجود تھے لیکن دس ہزار کا لشکر مدینہ سے نکلتا ہے اور کوئی اطلاع تک مکہ میں نہیں پہنچتی.290 یہ اللہ تعالیٰ کے کام تھے.طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا قافلہ عشاء کے وقت من الظهران میں اترا.مرز الظہر ان مکہ سے مدینہ کے راستے پر پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے.یعنی پچیس کلو میٹر مکہ سے دور تھا.آپ نے اپنے صحابہ کو حکم دیا تو انہوں نے دس ہزار جگہ آگ روشن کی.قریش کو آپ کی روانگی کی خبر نہیں پہنچی.وہ غمگین تھے کیونکہ انہیں یہ ڈر تھا آپ ان سے جنگ کریں گے یہ یہ خیال تھا ان کا.خبر تو نہیں پہنچی لیکن یہ خیال تھا کہ قریش کی جنگ اب ضرور ہو گی.اس بات کا ان کو غم تھا.بہر حال لگتا ہے یہاں غلط لکھا گیا ہے روانگی کی خبر ان کو پہنچ گئی.یہاں پہنچنے کے بعد خبر پہنچی ہو گی.تو جب یہ قافلہ وہاں ٹھہر گیا اور دس ہزار جگہوں پر آگ روشن ہو گئی تو قریش نے ابوسفیان کو بھیجا کہ وہ حالات معلوم کرے.انہوں نے کہا اگر تو محمد صلی اللی علم سے ملے تو ہمارے لیے ان سے امان لے لینا.ابو سفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء روانہ ہوئے.جب انہوں نے لشکر دیکھا تو سخت پریشان ہو گئے.رسول اللہ صلی علیم نے اس رات پہرے پر حضرت عمرؓ کو نگران مقرر فرمایا.حضرت عباس نے ابوسفیان کی آواز سنی تو پکار کر کہا کہ ابو حنظلہ ، یہ ابو سفیان کی کنیت ہے ، اس نے کہا لبیک.یہ تمہارے پیچھے کیا ہے ؟ ابوسفیان نے حضرت عباس سے پوچھا کہ تمہارے پیچھے کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ دس ہزار کے ساتھ رسول اللہ صلی علیہ کم ہیں.حضرت عباس نے اسے پناہ دی.اسے اور اس کے دونوں ساتھیوں کو آنحضور صلی الم کی خدمت میں پیش کیا.تینوں اسلام لے آئے.291 فتح مکہ اور حضرت ابو بکر کی ایک خواب تاریخ میں فتح مکہ کے حوالے سے حضرت ابو بکر کی ایک خواب کا ذکر ملتا ہے.چنانچہ بیان ہوا ہے کہ حضرت ابو بکر نے رسول اللہ صلی علی کم کی خدمت میں اپنا خواب بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! مجھے خواب دکھایا گیا ہے اور میں نے خواب میں آپ کو دیکھا کہ ہم مکہ کے قریب ہو گئے ہیں.پس ایک کتیا بھونکتے ہوئے ہماری طرف آئی پھر جب ہم اس کے قریب ہوئے تو وہ پشت کے بل لیٹ گئی اور اس سے دودھ بہنے لگا.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ ان کا شر دور ہو گیا اور نفع قریب ہو گیا.وہ تمہاری قرابت داری کا واسطہ دے کر تمہاری پناہ میں آئیں گے اور تم ان میں سے بعض سے ملنے والے ہو.یہ تعبیر فرمائی آنحضرت صلی ہی ہم نے.آپ نے فرمایا کہ پس اگر تم ابو سفیان کو پاؤ تو اسے قتل نہ کرنا.چنانچہ مسلمانوں
اصحاب بدر جلد 2 110 حضرت ابو بکر صدیق 292 الله سة نے ابوسفیان اور حکیم بن حزام کو مَةُ الظُّهْرَ ان کے مقام پر پالیا.ابن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ جب ابو سفیان اور حکیم بن حزام واپس جارہے تھے تو حضرت عباس نے رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں عرض کی کہ یارسول اللہ ! مجھے ابوسفیان کے اسلام کے بارے میں خدشہ ہے.یہ ذکر تفصیلی پہلے بھی ہو چکا ہے کہ کس طرح ابوسفیان نے آنحضرت صل للہ علم کی اطاعت قبول کی تھی اور اسلام کی برتری کا اقرار کیا تھا.بہر حال حضرت عباس نے کہا کہ اسے واپس بلا لیں یہاں تک کہ وہ اسلام کو سمجھ لے اور آپ صلی ایم کے ساتھ اللہ کے لشکروں کو دیکھ لے.ایک دوسری روایت میں ابنِ ابی شیبہ روایت کرتے ہیں کہ جب ابو سفیان واپس جانے لگا تو حضرت ابو بکر نے رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ! اگر آپ ابوسفیان کے بارے میں حکم دیں تو اس کو راستہ میں روک لیا جائے.ایک دوسری روایت میں ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان واپس جارہا تھا تو رسول اللہ صلی مریم نے حضرت عباس سے فرمایا: اس یعنی ابو سفیان کو وادی کی گھاٹی میں روک لو.چنانچہ حضرت عباس نے ابوسفیان کو جالیا اور روک لیا.اس پر ابوسفیان نے کہا اے بنی ہاشم ! کیا تم دھوکا دیتے ہو ؟ حضرت عباس نے فرمایا: اہل نبوت دھوکا نہیں دیتے.ایک اور روایت کے مطابق آپ نے کہا کہ ہم ہر گز دھوکا دینے والے نہیں البتہ تو صبح تک انتظار کر یہاں تک کہ تو اللہ کے لشکر کو دیکھے اور اس کو دیکھے جو اللہ نے مشرکوں کے لیے تیار کیا ہے.چنانچہ حضرت عباس نے ابوسفیان کو اس گھائی میں روکے رکھا یہاں تک کہ صبح ہو گئی.293 الله مکہ میں فاتحانہ داخلہ جب اسلامی لشکر ابوسفیان کے سامنے سے گزر رہا تھا تو اس کا ذکر کرتے ہوئے سُبُلُ الْهُدی والرشاد میں لکھا ہے کہ ابو سفیان کے سامنے رسول اللہ صلی الم کا سبز پوش دستہ نمودار ہوا جس میں مہاجرین اور انصار تھے اور اس میں جھنڈے اور پرچم تھے.انصار کے ہر قبیلے کے پاس ایک پرچم اور جھنڈا تھا اور وہ لوہے سے ڈھکے ہوئے تھے یعنی زرہ وغیرہ جنگی لباس میں ملبوس تھے.ان کی صرف آنکھیں دکھائی دیتی تھیں.ان میں گاہے بگاہے حضرت عمر کی اونچی آواز بلند ہوتی تھی.وہ کہتے تھے آہستہ چلو تا کہ تمہارا پہلا حصہ آخری حصہ کے ساتھ مل جائے.کہا جاتا ہے کہ اس دستہ میں ایک ہزار زرہ پوش تھے.رسول اللہ صلی ا یکم نے اپنا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ کو عطا فرمایا اور وہ لشکر کے آگے آگے تھے.جب حضرت سعد ابو سفیان کے پاس پہنچے تو انہوں نے ابوسفیان کو پکار کر کہا آج کا دن خونریزی کا دن ہے.آج کے دن حرمت والی چیزوں کی حرمت حلال کر دی جائے گی.آج کے دن قریش ذلیل ہو جائیں گے.اس پر ابوسفیان نے حضرت عباس سے کہا.اے عباس! آج میری حفاظت کا ذمہ تم پر ہے.اس کے بعد دیگر قبائل وہاں سے گزرے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی ملی یکم جلوہ افروز ہوئے اور آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھے اور آپ صلی ا م ، حضرت ابو بکر اور حضرت اُسید بن حضیر کے درمیان ان دونوں سے باتیں کرتے ہوئے تشریف لا رہے تھے.حضرت عباس نے ابوسفیان سے رض
محاب بدر جلد 2 111 حضرت ابو بکر صدیق کہا یہ ہیں رسول اللہ صلی ال رم 4 294 حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الم فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ عورتیں گھوڑوں کے مونہوں پر اپنے دوپٹے مار مار کر ان کو پیچھے ہٹار ہی تھیں.تو آپ صلی ایم نے مسکراتے ہوئے حضرت ابو بکر کی طرف دیکھا اور فرمایا اے ابو بکر ! حسان بن ثابت نے کیا کہا ہے ! چنانچہ حضرت ابو بکر نے وہ اشعار پڑھے کہ : عَلِمْتُ بُنَيَّتِي إِنْ لَمْ تَرَوْهَا تُثِيرُ التَّقْعَ موعدها كَدَاءُ يُنَازِعْنِ الْأَعِنَّةَ مُسْرِ حَاتٍ يُلَطِمُهُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَاءُ کہ میں اپنی پیاری بیٹی کو کھو دوں اگر تم ایسے لشکروں کو غبار اڑاتے ہوئے نہ دیکھو جن کے وعدوں کی جگہ گداء پہاڑ ہے.وہ تیز رفتار گھوڑے اپنی لگاموں کو کھینچ رہے ہیں.عور تیں انہیں اپنی اوڑھنیوں سے مار رہی ہیں.اس پر رسول اللہ صلی الیوم نے فرمایا.اس شہر میں وہاں سے داخل ہو جہاں سے حسان نے 295 کہا یعنی گداء مقام سے.گداء عرفات کا دوسرا نام ہے.ایک پہاڑی راستہ ہے جو بیرون مکہ سے اندرون مکہ کو اترتا ہے.فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی علیہ امر یہیں سے مکہ میں داخل ہوئے تھے.296 فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اللہ صلی علی کم نے امن کا اعلان فرمایا تو حضرت ابو بکر نے رسول اللہ صلی علیکم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! ابوسفیان شرف کو پسند کرتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا وہ بھی امن میں رہے گا.297 مکہ فتح کرنے کے بعد رسول اللہ صلی الی یکم نے ہبل بت کے بارے میں حکم دیا.چنانچہ وہ گرا دیا گیا اور آپ اس کے پاس کھڑے تھے.اس پر حضرت زبیر بن عوام نے ابوسفیان سے کہا.اے ابوسفیان ! ھیل کو گرادیا گیا ہے حالانکہ تو غزوہ احد کے دن اس کے متعلق بہت غرور میں تھا جب تو نے اعلان کیا تھا کہ اس نے تم لوگوں پر انعام کیا ہے.اس پر ابو سفیان نے کہا اے عوام کے بیٹے ! ان باتوں کو اب جانے دو کیونکہ میں جان چکا ہوں کہ اگر محمد صلی علیم کے خدا کے علاوہ بھی کوئی خدا ہو تا تو جو آج ہو اوہ نہ ہوتا.اس کے بعد رسول اللہ صلی علی کی خانہ کعبہ کے ایک کونے میں بیٹھ گئے اور لوگ آپ ملی لی ایم کے ارد گرد جمع تھے.حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کی فتح مکہ کے دن تشریف فرما تھے اور حضرت ابو بکر تلوار سونتے آپ کی حفاظت کے لیے آپ کے سر پر یعنی آپ کے سرہانے کھڑے 298 غزوة حنين: الله الله سة غزوہ حنین کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ غزوہ حنین جس کا دوسر انام غزوه هَوَازِن ہے نیز غزوه اوطاس بھی کہتے ہیں.محنین مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان مکہ سے تیس میل کے فاصلہ پر واقع ایک
صحاب بدر جلد 2 112 حضرت ابو بکر صدیق گھائی ہے.غزوہ حنین شوال آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ہوا تھا.بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی علیہ یکم کے ہاتھ پر مکہ فتح کر دیا تو سردارانِ هَوازن اور ثقیف ایک دوسرے سے ملے اور یہ لوگ ڈر رہے تھے کہ آنحضرت صلی علیہ یکم ان سے بھی لڑائی کریں گے.299 مالک بن عوف نضیری نے قبائل عرب کو جمع کیا.چنانچہ اس کے پاس ہوازن کے ساتھ بنو ثقیف اور بنو نضر اور بنو جشم اور سعد بن بکر اور چند لوگ بنو هلال میں سے جمع ہو گئے.300 سة یہ سب لوگ آوطاس کے مقام پر جمع ہو گئے.اوطاس، محنین کے قریب ایک وادی ہے.مالک بن عوف نے اپنے جاسوس روانہ کیے تاکہ یہ لوگ رسول اللہ صلی لیلی کیم کے متعلق خبر لائیں.جب رسول اللہ صلی ایلیم نے ان کے اکٹھے ہونے کی خبر سنی تو آپ نے اپنے اصحاب میں سے ایک شخص عبد اللہ بن ابو حند د اسلمی کو ان کی طرف خبریں معلوم کرنے کے لیے بھیجا تا کہ ان کی بھی خبر لائیں.اس کے بعد آنحضرت صلی علی کرم نے توازن کے مقابلے کے لیے کوچ کا فیصلہ کیا اور جنگ کے لیے صفوان بن امیہ اور اپنے چچازاد بھائی کو فل بن حارث سے ہتھیار ادھار لیے.اس طرح رسول کریم علی الی یکم بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ بنو ہوازن سے مقابلہ کے لیے نکلے اور علی الصبح حسین کے مقام پر پہنچے اور وادی میں داخل ہو گئے.مشرکین کا لشکر اس وادی کی گھاٹیوں میں پہلے سے چھپا ہو ا تھا.انہوں نے مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا اور اتنی شدت سے تیر مارے کہ مسلمان پلٹ کر بھاگے اور بکھر گئے جس کی وجہ سے آنحضرت صلی علیم کے پاس صرف چند صحابہ رہ گئے جن میں حضرت ابو بکر بھی شامل تھے.301 ابو اسحاق سے روایت ہے کہ ایک شخص براء کے پاس آیا اور کہا تم لوگ حُنین کے دن پیٹھ دیکھا گئے تھے.انہوں نے کہا میں نبی صلی الی یکم کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی لیکن جلد باز اور بغیر ہتھیاروں کے لوگ ہوازن قبیلہ کی طرف گئے اور وہ تیر انداز قوم تھی.انہوں نے 303 ایسے تیروں کی بارش کی گویا ٹڈی دل ہے.جس کے نتیجہ میں وہ اپنی جگہیں چھوڑ گئے.302 ایسے حالات میں مہاجرین میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رسول اللہ صلی ایم کے ساتھ ثابت قدم رہے اور آپ صلی المیہ یکم کے اہل بیت میں سے حضرت علی، حضرت عباس بن عبد المطلب اور آنحضور صلی علیم کے چازاد ابوسفیان بن حارث اور ان کا بیٹا، حضرت فضل بن عباس اور ربیعہ بن حارث، اسامہ بن زید کا ذکر ملتا ہے کہ یہ ساتھ تھے.حضرت ابوقتادہ بیان کرتے ہیں کہ جب حُنین کا وقت تھا تو میں نے مسلمانوں میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مشرک شخص سے لڑ رہا ہے اور ایک اور مشرک ہے جو دھوکا دے کر چپکے سے اس کے پیچھے سے اس پر حملہ کرنا چاہتا ہے کہ اس کو قتل کر دے.تو میں جلدی سے اس کی طرف بڑھا جو اس طرح دھو کے سے ایک مسلمان سے جھپٹنا چاہتا تھا.اس نے مجھے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا اور میں نے اس کے ہاتھ پر وار کیا اور ہاتھ کو کاٹ دیا.پھر اس نے مجھے پکڑ لیا اور اس نے مجھے زور سے بھینچا یہاں
الله سة 113 رض حضرت ابو بکر صدیق حاب بدر جلد 2 تک کہ میں بے بس ہو گیا.پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا.وہ ڈھیلا پڑ گیا اور میں نے اس کو دھکا دیا.پھر میں نے اس کو مار ڈالا.ادھر یہ حال ہوا کہ مسلمان شکست کھا کر بھاگ گئے.میں بھی ان کے ساتھ بھاگ گیا.کہتے ہیں کہ پھر لوگ لوٹ کر رسول اللہ صلی علیم کے پاس جمع ہونے شروع ہو گئے تو رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا جو شخص کسی مقتول کے متعلق یہ ثبوت پیش کر دے کہ اس نے اس کو قتل کیا ہے تو اس مقتول کا سامان اس کے قاتل کا ہو گا.میں اٹھا تا کہ اپنے مقتول سے متعلق کوئی شہادت ڈھونڈوں مگر کسی کو نہ دیکھا جو میرے لیے گواہی دے اور میں بیٹھ گیا.پھر مجھے خیال آیا اور میں نے اس مقتول کا واقعہ رسول اللہ صلی علیم سے ذکر کیا.آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اس مقتول کے ہتھیار جس کا یہ ذکر کرتے ہیں میرے پاس ہیں.اس شخص نے یعنی جس کے پاس یہ ہتھیار تھے کہا کہ ان ہتھیاروں کی بجائے آپ صلی للی کم اس کو کچھ اور دے کر راضی کر لیں.یعنی کہتے ہیں کہ جو سامان میرے پاس ہے وہ میرے پاس ہی رہنے دیں اور انہیں کچھ اور دے دیں.حضرت ابو بکر وہاں بیٹھے تھے.حضرت ابو بکر نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.آپ صلی اللہ تم قریش کے ایک بزدل کو تو سامان دلا دیں اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ دیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی علیہ یکم کی طرف سے لڑ رہا ہے.حضرت ابو قتادہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی عید کم کھڑے ہوئے اور آپ نے وہ سامان مجھے دلا دیا.میں نے اس سے کھجوروں کا ایک باغ خرید لیا اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں بطور جائیداد بنایا.حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ دیکھو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جنگ حنین کے موقع پر جب مکہ کے کافر لشکر اسلام میں یہ کہتے ہوئے شامل ہو گئے کہ آج ہم اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں گے اور پھر بنو ثقیف کے حملہ کی تاب نہ لا کر میدان جنگ سے بھاگے تو ایک وقت ایسا آیا کہ رسول کریم صلی علیم کے گرد صرف بارہ صحابی رہ گئے.اسلامی لشکر جو دس ہزار کی تعداد میں تھا اس میں بھا گڑ بچ گئی.کفار کا لشکر جو تین ہزار تیر اندازوں پر مشتمل تھا آپ کے دائیں بائیں پہاڑوں پر چڑھا ہوا آپ پر تیر برسا رہا تھا مگر اس وقت بھی آپ پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے تھے بلکہ آگے جانا چاہتے تھے.حضرت ابو بکڑ نے گھبر ا کر آپ کی سواری کی لگام پکڑ لی اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میری جان آپ پر قربان ہو یہ آگے بڑھنے کا وقت نہیں ہے.ابھی لشکر اسلام جمع ہو جائے گا تو پھر ہم آگے بڑھیں گے مگر آپ صلی ا یکم نے بڑے جوش سے فرمایا کہ میری سواری کی باگ چھوڑ دو اور پھر ایڑ لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ 304 أنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب أنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب یعنی میں موعود نبی ہوں جس کی حفاظت کا دائمی وعدہ ہے.جھوٹا نہیں ہوں.اس لیے تم تین ہزار تیر انداز ہو یا تیس ہزار مجھے تمہاری کوئی پروا نہیں.اور اے مشرکو! میری اس دلیری کو دیکھ کر کہیں مجھے خدا نہ سمجھ لینا میں ایک انسان ہوں اور تمہارے سر دار عبد المطلب کا بیٹا یعنی پوتا ہوں.آپ کے چچا حضرت عباس کی آواز بہت اونچی تھی.آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا عباس !
اصحاب بدر جلد 2 114 حضرت ابو بکر صدیق آگے آؤ اور آواز دو اور بلند آواز سے پکارو کہ اے سورہ بقرہ کے صحابیو یعنی جنہوں نے سورت بقرہ یاد کی ہوئی ہے !اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو!! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.ایک صحابی کہتے ہیں کہ مکہ کے تازہ کو مسلموں کی بزدلی کی وجہ سے جب اسلامی لشکر کا اگلا حصہ پیچھے کی طرف بھاگا تو ہماری سواریاں بھی دوڑ پڑیں اور جتنا ہم روکتے تھے اتنا ہی وہ پیچھے کی طرف بھاگتی تھیں.یہاں تک کہ عباس کی آواز میدان میں گونجنے لگی کہ اے سورہ بقرہ کے صحابیو! اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو!! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.کہتے ہیں یہ آواز جب میرے کان میں پڑی تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں زندہ نہیں بلکہ مردہ ہوں اور اشترافییل کاصور فضا میں گونج رہا ہے.میں نے اپنے اونٹ کی لگام زور سے کھینچی اور اس کا سر پیٹھ سے لگ گیا لیکن وہ اتنا بد کا ہوا تھا کہ جو نہی میں نے لگام ڈھیلی کی وہ پھر پیچھے کی طرف دوڑا.اس پر میں نے اور بہت سے ساتھیوں نے تلواریں نکال لیں اور کئی تو اونٹوں پر سے کود گئے اور کئی نے اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں اور رسول کریم صلی الم کی طرف دوڑنا شروع کر دیا اور چند لمحوں میں ہی وہ دس ہزار صحابہ کا لشکر جو بے اختیار مکہ کی طرف بھاگا جارہا تھا آپ کے گرد جمع ہو گیا اور تھوڑی دیر میں پہاڑیوں پر چڑھ کر اس نے دشمن کا تہس نہس کر دیا اور یہ خطر ناک شکست ایک عظیم الشان فتح کی صورت میں بدل گئی.15 305 غزوة طائف طائف مکہ سے مشرق کی جانب تقریبا نوے کلو میٹر پہ ایک مشہور شہر ہے اور حجاز کا پہاڑی شہر ہے.یہاں انگور اور دوسرے پھل بکثرت ہوتے تھے.اس جگہ بنو ثقیف آباد تھے.306 غزوہ طائف کے بارے میں آتا ہے کہ ہوازن اور ثقیف کے پیشتر شکست خوردہ افراد اپنے سر دار مالک بن عوف نفری کے ساتھ بھاگ کر طائف آئے تھے اور یہیں قلعہ بند ہو گئے تھے.لہذار سول اللہ صلی الل ولم نے حُنین سے فارغ ہو کر اور جعرانہ میں مالِ غنیمت جمع کروا کر تقسیم فرمایا اور اسی ماہ شوال آٹھ ہجری میں طائف کا قصد فرمایا.307 جعرانہ مکہ اور طائف کے راستہ پر مکہ کے قریب ایک کنواں کا نام ہے.مکہ سے اس کا فاصلہ ستائیس کلو میٹر تھا.308 آنحضرت صلی الم نے طائف کا کتنے روز محاصرہ کیا تھا اس بارے میں متعد دروایات ملتی ہیں.بعض کہتے ہیں دس سے کچھ زائد راتیں محاصرہ کیا.بعض کہتے ہیں آپ نے ہیں سے کچھ زائد را تیں محاصرہ کیا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میں دن محاصرہ کیا.ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے تیس کے قریب راتیں اہل طائف کا محاصرہ کیا.19 309 310 ابن ہشام کہتے ہیں کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سترہ راتیں محاصرہ کیا.0 صحیح مسلم میں حضرت انس سے روایت ہے کہ ہم نے چالیس راتوں تک ان کا محاصرہ کیا.311
محاب بدر جلد 2 115 حضرت ابو بکر صدیق جب رسول اللہ صلی علیم نے طائف میں ثقیف کا محاصرہ کر رکھا تھا تو آپ نے حضرت ابو بکر سے فرمایا اے ابو بکر ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے مکھن سے بھرا ہوا ایک پیالہ پیش کیا گیا مگر ایک مرغ نے ٹھونگا مارا تو اس پیالے میں جو کچھ تھا سب بہ گیا.حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نہیں سمجھتا کہ آپ آج کے دن ان سے جس چیز کا ارادہ رکھتے ہیں وہ حاصل کر لیں گے.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوا نہیں دیکھ رہا.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ کیا میں لوگوں میں کوچ کا اعلان نہ کر دوں ؟ رسول اللہ صلی اللہ کریم نے فرمایا کہ کیوں نہیں تو حضرت عمر نے لوگوں میں کوچ کا اعلان کر دیا.واپس جانے کا اعلان کر دیا.2 غزوہ تبوک 312 رجب 19 ہجری میں ہوا.اس کے بارے میں بیان ہے کہ تبوک مدینہ سے شام کی اس شاہراہ پر واقع ہے جو تجارتی قافلوں کی عام گزرگاہ تھی اور یہ وادی القریٰ اور شام کے درمیان ایک شہر ہے اسے اصحاب الایکہ کا شہر بھی کہا گیا ہے.اس کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے.313 حضرت ابو بکر غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی ایم کے ہمراہ تھے اور رسول اللہ صلی الم نے غزوہ تبوک میں بڑا جھنڈا آپ کو عطا فرمایا تھا.314 حضرت ابو بکر نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنا جو گل مال آنحضرت صلی کم کی خدمت میں پیش کیا تھا اس کی مالیت چار ہزار درہم تھی.315 رسول کریم صلی للہ ﷺ نے جب صحابہ کرام کو غزوہ تبوک کی تیاری کے لیے حکم دیا تو آپ صلی الی تم نے مکہ اور دیگر قبائل عرب کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ بھی آپ کے ساتھ چلیں اور آپ سی ایم نے امراء کو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور سواری مہیا کرنے کی تحریک فرمائی.یعنی آپ صلی المیہ ہم نے اس بات کا انہیں تاکیدی حکم دیا اور یہ آپ کا آخری غزوہ ہے.چنانچہ اس موقع پر جو شخص سب سے پہلے مال لے کر آیا وہ حضرت ابو بکر صدیق تھے.آپ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے جو کہ چار ہزار درہم تھا.رسول اللہ صلی علیہ یکم نے حضرت ابو بکر سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے کہ نہیں؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کار سول چھوڑ آیا ہوں.حضرت عمر بن خطاب اپنے گھر کا آدھا مال لے آئے.آنحضرت صلی ا لم نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑ کے آئے ہو ؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ نصف چھوڑ کے آیا ہوں.اس موقع پر حضرت عبد الرحمن بن عوف نے ایک سو اوقیہ پیش کیے.یہ تقریباً چار ہزار درہم بنتے ہیں.پھر آپ صلی علیہم نے فرمایا عثمان بن عفان اور عبد الرحمن بن عوف زمین پر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے خزانے نہیں جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں.انہوں نے بہت مال دیا.اس موقع پر عورتوں نے
محاب بدر جلد 2 116 حضرت ابو بکر صدیق بھی اپنے زیورات پیش کیے اور حضرت عاصم بن عدی نے ستر وسق کھجوریں پیش کیں جو تقریباً دو سو باسٹھ 316 من کے قریب بنتی ہیں.اس کی چالیس کلو کے قریب تو ایک من شمار کریں قریباً کوئی ڈیڑھ ہزار ایک ٹن سے اوپر بنتی ہیں.تقریباً ڈیڑھ ٹن کے قریب.زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی علیم نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ ہم صدقہ کریں اور اس وقت میرے پاس مال تھا.میں نے کہا آج کے دن میں ابو بکر سے سبقت لے جاؤں گا.اگر میں ان سے کبھی سبقت لے جا سکا تو آج کا دن ہے.کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کہا میں اپنا نصف مال لایا تو رسول اللہ صلی علی یم نے فرمایا تم اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ حضرت عمرؓ نے کہا میں نے عرض کیا کہ اتنا ہی اور.جتنا لایا ہوں اتنا ہی گھر والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے.پھر حضرت ابو بکر آئے تو حضرت عمر کہتے ہیں کہ وہ سب لے آئے جو اُن کے پاس تھا تو آپ صلی امی ہم نے فرمایا اے ابو بکر ! تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی غیر کم کو چھوڑا ہے.حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے کہا.اللہ کی قسم! میں ان سے کسی چیز میں کبھی بھی سبقت نہیں الله سة لے جاسکتا.317 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ الہی دین پر لوگ اپنی جانوں کو بھیڑ بکری کی طرح شار کرتے تھے.مالوں کا تو کیا ذکر ، حضرت ابو بکر صدیق نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنا گل گھر بار نثار کیا حتی کہ سوئی تک کو بھی اپنے گھر میں نہ رکھا اور ایسا ہی حضرت عمرؓ نے اپنی بساط اور انشراح کے موافق اور عثمان نے اپنی طاقت و حیثیت کے موافق على هَذَا الْقِيَاسِ عَلَى قَبْرِ مَرَاتِبِ تمام صحابہ اپنی جانوں اور مالوں سمیت اس دین الہی پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیعت کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک وہ ہیں کہ بیعت تو کر جاتے ہیں اور اقرار بھی کر جاتے ہیں کہ ہم دنیا پر دین کو مقدم کریں گے مگر مدد اور امداد کے موقع پر اپنی جیبوں کو دبا کر پکڑے رکھتے ہیں.بھلا ایسی محبت دنیا سے کوئی دینی مقصد پا سکتا ہے اور کیا ایسے لوگوں کا وجو د کچھ بھی نفع رساں ہو سکتا ہے.ہر گز نہیں ہر گز نہیں.پھر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحبون کہ جب تک مال جو تمہیں پیارا ہے اس کو خرچ نہیں کروگے اس وقت تک تمہاری نیکی نیکیاں نہیں ہیں.318 حضرت ابو بکر غیا آنحضرت علی ایم کے ساتھ مل کر ایک صحابی کو دفن کرنا: اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ تھا کہ ایک مرتبہ میں آدھی رات کے وقت اٹھا تو میں نے لشکر کے ایک طرف آگ کی روشنی دیکھی.چنانچہ میں اس کی
محاب بدر جلد 2 117 حضرت ابو بکر صدیق طرف گیا کہ دیکھوں کہ وہ کیا ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صل اللی کم حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نہیں اور میں نے دیکھا کہ حضرت عبد اللہ ذُوالبجادین مُزَنی فوت ہو گئے ہیں اور یہ لوگ ان کی قبر کھودچکے تھے اور رسول اللہ صلی علی کی قبر کے اندر تھے جبکہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمران کی میت کو آپ کی طرف اتار رہے تھے اور آپ صلی علیہ کی فرمارہے تھے کہ تم دونوں اپنے بھائی کو میرے قریب کرو.پس ان دونوں نے حضرت عبد اللہ ذوالبجادین کی میت کو رسول اللہ صلی علیہ کم کی طرف اتارا.جب آپ نے انہیں قبر میں رکھ دیا تو آپ صلی علیہم نے دعا کی.اَللهُمَّ إِنِّي أَمْسَيْتُ رَاضِبًا عَنْهُ فَارْضَ عَنْهُ که: اے اللہ ! میں نے اس حال میں شام کی ہے کہ میں اس سے راضی تھا پس تو بھی اس سے راضی ہو جا.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس وقت تمنا کی کہ کاش یہ قبر والا میں ہو تا.319 حضرت عبد الله ذُوالبجادین کا تعلق قبیلہ بنو مُزيَّنَه سے تھا.ان کے بارے میں آتا ہے کہ یہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ ان کے والد فوت ہو گئے.انہیں وراثت میں سے کچھ نہ ملا.ان کے چا مالدار تھے.اس چانے آپ کی کفالت کی حتی کہ آپ بھی مالدار ہو گئے اور انہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا تو ان کے چچانے ان سے سب کچھ لے لیا یہاں تک کہ آپ کا تہ بند بھی کھینچ لیا.پھر آپ کی والدہ آئیں اور انہوں نے اپنی چادر کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور حضرت عبد اللہ نے ایک حصہ کو بطور تہ بند استعمال کر لیا اور دوسرے حصہ کو اپنے اوپر اوڑھ لیا.پھر آپ مدینہ آئے اور مسجد میں لیٹ گئے.پھر رسول اللہ صلی علیہ کام کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی.یہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی علیکم صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تھے تو لو گوں کو غور سے دیکھتے تھے کہ کون لوگ ہیں، کوئی نیا آدمی ہے ؟ تو آپ صلی غیر کم نے حضرت عبد اللہ کی طرف دیکھا تو انہیں اجنبی سمجھا اور حضرت عبد اللہ سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ حضرت عبد اللہ نے اپنا نسب بیان کیا.ایک روایت میں ذکر ہے کہ آپ نے عرض کی کہ میرا نام عبد العزّمی ہے.اس پر آپ صلی الی یم نے فرمایا تم عبد اللہ ذوالبجادین یعنی دو چادروں والے ہو.پھر فرمایا تم میرے قریب ہی رہا کرو.چنانچہ یہ رسول کریم صلی للی کمر کے مہمانوں میں شامل تھے اور آپ انہیں قرآن کریم سکھاتے تھے یہاں تک کہ آپ نے بہت سا قرآن یاد کر لیا اور آپ بلند آواز شخص تھے.320 حضرت ابو بکر امیر الحجاج حضرت ابو بکر صدیق کی حج کے موقع پر امارت کے بارے میں ذکر ہے کہ آنحضرت صلی ہم نے 19 ہجری میں حضرت ابو بکر صدیق کو امیر امج بنا کر مکہ روانہ فرمایا تھا.اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی الل علم جب تبوک سے واپس آئے تو آپ نے حج کا ارادہ کیا.پھر آپ سے ذکر کیا گیا کہ مشرکین دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر حج کرتے ہیں.وہاں مشرکین بھی ہوں گے اور شرکیہ الفاظ
اصحاب بدر جلد 2 118 حضرت ابو بکر صدیق بھی ادا کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں.یہ بات سن کے رسول اللہ صلی علیم نے اس سال حج کا ارادہ ترک کر دیا اور حضرت ابو بکر صدیق کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا.321 حضرت ابو بکر صدیق تین سو صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور آنحضرت صلی الہ وسلم نے ان کے ساتھ ہیں قربانی کے جانور بھیجے جن کے گلے میں خود آنحضرت صلی الی یکم نے اپنے ہاتھ سے قربانی کی علامت کے طور پر گانیاں پہنائیں اور نشان لگائے اور حضرت ابو بکر خود اپنے ساتھ پانچ قربانی کے جانور لے کر گئے.322 روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی نے سورہ توبہ کی ابتدائی آیات کا حج کے موقع پر اعلان کیا.یہ روایت اس طرح ہے کہ ابو جعفر محمد بن علی سے روایت ہے کہ جب سورۃ براۃ، (سورۃ توبہ ) رسول اللہ صلی میزنیم پر نازل ہوئی تو آپ صلی یی کم حضرت ابو بکر کو بطور امیر حج بھجواچکے تھے.آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ! اگر آپ یہ سورت حضرت ابو بکر کی طرف بھیج دیں تاکہ وہاں وہ پڑھیں تو آپ صلی میں کم نے فرمایا کہ میرے اہل بیت میں سے کسی شخص کے سوا کوئی یہ فریضہ میری طرف سے ادا نہیں کر سکتا.پھر آپ نے حضرت علی کو بلوایا اور انہیں فرمایا کہ سورت توبہ کے آغاز میں جو بیان ہو ا ہے اس کو لے جاؤ اور قربانی کے دن جب لوگ منی میں اکٹھے ہوں تو اس میں اعلان کر دو کہ جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج کرنے کی اجازت نہ ہو گی، نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ہاتھ آنحضرت صلی للی کلیم نے کوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدت پوری کی جائے گی.حضرت علی بن ابو طالب رسول اللہ صلی علیکم کی اونٹنی عضباء پر سوار ہو کر روانہ ہوئے.راستے میں ہی حضرت ابو بکر سے جاملے.حضرت ابو بکر سے حضرت علی کی ملاقات عرج یا وادی ضبنان میں ہوئی.عرج مدینہ اور مکہ کے درمیانی راستہ کی ایک گھائی ہے یہاں قافلے پڑاؤ کرتے ہیں اور ضبجنان مدینہ کے راستے پر مکہ کے نواح میں ایک مقام ہے جو مکہ سے پچیس میل کے فاصلہ پر ہے.بہر حال جب حضرت ابو بکڑ نے حضرت علی کو راستے میں دیکھا تو حضرت ابو بکر نے فوراً فرمایا کہ آپ کو امیر مقرر کیا گیا ہے یا آپ میرے ماتحت ہوں گے؟ یہ عاجزی کی انتہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے بھیجا ہے تو کیا اب آپ امیر ہوں گے یا میرے ماتحت اس قافلے میں چلیں گے کام کریں گے.حضرت علی نے کہا کہ میں آپ کے ماتحت ہوں گا.پھر دونوں روانہ ہوئے.حضرت ابو بکڑ نے لوگوں کی حج کے امور پر نگرانی کی اور اس سال اہل عرب نے اپنی انہی جگہوں پر پڑاؤ کیا ہو اتھا جہاں وہ زمانہ جاہلیت میں پڑاؤ کیا کرتے تھے.جب قربانی کا دن آیا تو حضرت علی کھڑے ہوئے اور لوگوں میں اُس بات کا اعلان کیا جس کار سول اللہ صلیالم نے ارشاد فرمایا تھا اور کہا اے لوگو! جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے
اصحاب بدر جلد 2 119 حضرت ابو بکر صدیق ساتھ آنحضرت صلی سلیم نے کوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدت پوری کی جائے گی اور لوگوں کو اس اعلان کے دن سے چار ماہ تک کی مہلت دی تاکہ ہر قوم اپنے امن کی جگہوں یا اپنے علاقوں کی طرف لوٹ جائیں.پھر نہ کسی مشرک کے لیے کوئی عہد یا معاہدہ ہو گا اور نہ ذمہ داری سوائے اس عہد یا معاہدے کے جو رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس کسی مدت تک ہو.یعنی جس معاہدے کی مدت ابھی باقی ہو تو اس معاہدے کا جو آنحضرت صلی علیہ کم سے ہوا تھا اس کی مقررہ مدت تک پاس کیا جائے گا.ان معاہدوں کے علاوہ کوئی نیا معاہدہ نہیں ہو گا.پھر اس سال کے بعد نہ کسی مشرک نے حج کیا اور نہ کسی نے ننگے بدن طواف کیا.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر عرفہ کے مقام میں آئے اور آپ نے لوگوں کو خطاب کیا.جب آپ خطاب کر چکے تو میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا.اے علی ! کھڑے ہو کر رسول اللہ صل اللی کم کا پیغام پہنچاؤ.پس میں کھڑا ہو گیا اور میں نے انہیں سورہ براءت کی چالیس آیات سنائیں.پھر وہ دونوں حضرت علیؓ اور حضرت ابو بکر رسول اللہ صلی ایم کی خدمت میں حاضر ہو گئے.323 حجۃ الوداع رسول الله صلى للهم حجة الوداع کے لیے دس ہجری جمعرات کے دن جبکہ ذیقعدہ کے چھ دن باقی تھے روانہ ہوئے.ایک قول کے مطابق آپ ہفتہ کے دن روانہ ہوئے.324 بہر حال اس میں ایک روایت آتی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر بیان کرتی ہیں کہ جب آنحضرت صلی المیہ ہم نے حجۃ الوداع کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق نے عرض کی یارسول اللہ ! میرے پاس ایک اونٹ ہے ہم اس پر اپنا زادِ راہ لاد لیتے ہیں.رسول اللہ صلی علیم نے ارشاد فرمایا: ایسا ہی کر لو.چنانچہ رسول اللہ صلی علیہ کم اور حضرت ابو بکر دونوں کے سامان کے لیے ایک ہی اونٹ تھا.آپ صلی علیہ ہم نے کچھ آٹے اور کچھ ستو کا زاد راہ بنوایا اور حضرت ابو بکر کے اونٹ پر رکھ دیا.حضرت ابو بکر نے اسے اپنے غلام کے سپر د کر دیا.حضرت اسماء بنت ابی بکر بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللیل مل کے ساتھ حج کے لیے نکلے.جب ہم عرج مقام پر تھے تو رسول اللہ صل اللی کم سواری سے اترے اور ہم بھی اترے تو عائشہ رسول اللہ صلی علی نام کے ایک پہلو میں بیٹھ گئیں اور میں اپنے والد کے پہلو میں بیٹھ گئی.اور رسول اللہ صلی ا یکم اور حضرت ابو بکر نکا سامان اکٹھا ایک اونٹ پر تھا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے جو حضرت ابو بکر کے غلام کے پاس تھا.حضرت ابو بکر انتظار کرنے لگے کہ وہ آجائے.وہ غلام آگیا مگر اس کا اونٹ اس کے ساتھ نہ تھا.حضرت ابو بکرؓ نے کہا تمہارا اونٹ کہاں ہے.اس نے کہا گذشتہ رات سے میں اسے گم کر چکا ہوں.حضرت ابو بکر نے کہا کہ ایک ہی اونٹ تھاوہ بھی تم نے گم کر دیا تو حضرت ابو بکر سے مارنے کے لیے اٹھے اور رسول اللہ صلی الیم تبسم الله سة
اصحاب بدر جلد 2 120 حضرت ابو بکر صدیق فرمارہے تھے اور فرمانے لگے اس فخرفہ کو دیکھو یہ کیا کر رہا ہے ؟ ابنِ آبی رزمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم نے اس سے زائد نہیں کہا کہ اس مخرمہ کو دیکھو کیا کرنے لگا ہے اور آپ تبسم فرمانے لگے.325 بہر حال جب بعض صحابہ کو معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی علیہم کا زاد راہ گم ہو گیا ہے تو وہ حیش لے کر آئے.جیس ایک عمدہ حلوہ ہے جو کھجور اور آئے اور مکھن سے تیار کیا جاتا ہے ، اور آنحضرت صلی علیکم کے سامنے رکھ دیا.حضرت ابو بکر جو اپنے غلام پر غصہ کر رہے تھے ان سے آنحضرت صلی یہ تم نے فرمایا: اے ابو بکر ! نرمی اختیار کرو.یہ معاملہ نہ تمہارے اختیار میں ہے اور نہ ہمارے.اس غلام کی کوشش تو یقیناً یہی رہی ہو گی کہ اونٹ گم نہ ہو لیکن گم ہو گیا.بہر حال آپ نے فرمایا کہ یہ لو، یہ ہمارے لیے ایک پاکیزہ غذا آگئی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بھیجی ہے اور اس غلام کے ساتھ ہمارا جو کھانا تھا یہ اس کا بدل ہے.پھر آنحضرت صلی اللی علیم نے اور حضرت ابو بکر نے بھی وہ کھانا کھایا اور ان لوگوں نے بھی کھایا جو ان دونوں کے ساتھ کھایا کرتے تھے یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے.رض اس کے بعد حضرت صفوان بن مُعَطَّل پہنچے.ان کی ذمہ داری قافلے کے پیچھے چلنے کی تھی.ان کے سپر دیہی کام تھا جیسا کہ افک کے واقعہ میں بھی بیان ہو چکا ہے کہ پیچھے سے دیکھتے تھے کوئی چیز رہ تو نہیں گئی.326 حضرت صفوان آئے تو اونٹ ان کے ساتھ تھا اور اس پر زادِ راہ بھی موجود تھا.انہوں نے اونٹ کو آنحضرت صلی یکم کے پڑاؤ کے دروازے پر لا کر بٹھایا.تب آنحضرت صلی ا ہم نے ابو بکر سے فرمایا.دیکھو تمہارے سامان میں سے کچھ گم تو نہیں ہوا؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا سوائے ایک پیالے کے جس میں ہم پانی پیا کرتے تھے کوئی چیز گم نہیں ہوئی.اسی وقت غلام نے کہا کہ وہ پیالہ میرے پاس پہلے ہی موجود ہے.327 حضرت ابو بکر صدیق سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ رسول اللہ صلی ایم کے ساتھ حج کے لیے نکلے اور آپ کے ساتھ آپ کی اہلیہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی تھیں.پس جب وہ لوگ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو وہاں اسماء کے ہاں محمد بن ابو بکر کی پیدائش ہوئی.ذُوالخلیفہ مدینہ سے چھ سات میل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے.بہر حال حضرت ابو بکر نبی اکرم صلی مینیم کے پاس آئے اور آپ صلی علیہم کو اس بات کی خبر دی کہ اس طرح پیدائش ہوئی ہے تو رسول اللہ صلی علیکم نے آپ کو ارشاد فرمایا کہ اسماء کو کہیں کہ غسل کر لیں.پھر حج کا احرام باندھ لیں اور سب کام کریں جو دوسرے لوگ یعنی حاجی کرتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ بیت اللہ کا طواف نہ کریں.328 حضرت ہو ڈ اور حضرت صالح تلبیہ کرتے ہوئے یہاں سے گزرے تھے رسول الله صلی ا لیکن جب وادی عشقان سے گزرے تو آپ مکئی کیم نے استفسار فرمایا اے ابو بکر ! یہ کون سی وادی ہے ؟ ابو بکر نے جواب دیا یہ وادی عُسفان ہے.آپ نے فرمایا یہاں سے حضرت ہوڈ اور
حاب بدر جلد 2 121 حضرت ابو بکر صدیق حضرت صالح دو سرخ اونٹوں پر سوار جن کی مہار کھجور کی چھال کی تھی چوغہ پہنے ہوئے اور اوپر سفید اور کالی نقش دار چادر اوڑھے ہوئے تلبیہ کہتے ہوئے بیت العتیق کے حج کے لیے گزرے تھے.329 حجۃ الوداع کے سفر میں جن لوگوں کے ساتھ قربانی کے جانور تھے ان میں حضرت ابو بکر صدیق بھی شامل تھے.330 حضرت ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں دیکھا کہ سُھیل بن عمر و ذبح کرنے کی جگہ پر کھڑے ہیں اور آپ صلی لی نام کے قربانی کے جانور کو رسول اللہ صلی علیکم کے قریب کر رہے ہیں.رسول اللہ صلی الیکم نے اپنے ہاتھ سے اس کو ذبح کیا.پھر سر مونڈنے والے کو بلایا اور اپنے بال منڈوائے.کہتے ہیں کہ میں نے سُھیل کو دیکھا کہ آنحضرت صلی علیکم کے بال مبارک اپنی آنکھوں سے لگا رہا تھا.کہتے ہیں اس وقت مجھے یاد آگیا کہ یہی سھیل صلح حدیبیہ کے وقت آپ کو بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے سے روک رہا تھا جو معاہدے پہ لکھی جانی تھی.حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس نے سہیل کو اسلام کی طرف ہدایت دی.331 اور پھر جب ہدایت دی تو پھر اخلاص و وفا میں بے انتہا بڑھے.نبی کریم صلی کمی کی آخری بیماری اور حضرت ابو بکر کا نمازیں پڑھانا نبی کریم صلی ایم کی آخری بیماری کے دوران حضرت ابو بکر صدیق کے نمازیں پڑھانے کے بارے میں آتا ہے.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ا ولم نے اپنی بیماری میں فرمایا: ابو بکر سے کہو کہ وہ لو گوں کو نمازیں پڑھائیں.حضرت عائشہ نے کہا میں نے عرض کیا: حضرت ابو بکر جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو وہ رونے کی وجہ سے لوگوں کو سنانہ سکیں گے.اس لیے آپ حضرت عمر کو کہیں کہ وہ لوگوں کو نمازیں پڑھائیں.حضرت عائشہ کہتی تھیں میں نے پھر حضرت حفصہ سے کہا کہ آپ صلی علیم سے آپ کہیں کہ حضرت ابو بکر جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو سنا نہیں سکیں گے.اس لیے آپ حضرت عمرؓ سے کہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں.حضرت حفصہ نے ایسا ہی کیا تو رسول اللہ صلی یکم ناراض ہوئے کہ خاموش رہو.تم تو یوسف والی عور تیں ہو.ابو بکر سے کہو وہی لو گوں کو نماز پڑھائیں.2 وفات سے قبل جب آنحضرت صلی اللہ علم بیمار تھے تو حضرت ابو بکر کی غیر موجودگی میں حضرت بلال نے حضرت عمر کو نماز پڑھانے کے لیے کہہ دیا.جب حجرے میں رسول اللہ صلی علیکم کو حضرت عمرؓ کی آواز پہنچی تو آپ نے فرمایا ابو بکر کہاں ہیں ؟ اللہ اور مسلمان یہ بات نا پسند کرتے ہیں کہ ابو بکر کے علاوہ کوئی اور نماز پڑھائے.پھر حضرت ابو بکر کو بلایا گیا تو وہ اس وقت پہنچے جب حضرت عمر نماز پڑھا چکے تھے.اس کے بعد رسول اللہ صلی علیہ کم کی 332
اصحاب بدر جلد 2 122 حضرت ابو بکر صدیق بیماری کے دوران اور آپ کی وفات تک حضرت ابو بکر ہی نماز پڑھاتے رہے.333 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ا ہم نے اپنی بیماری میں حضرت ابو بکر سے فرمایا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں.اس لیے وہ انہیں نماز پڑھایا کرتے تھے.عروہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی علیم نے اپنی بیماری میں کچھ تخفیف محسوس کی تو آپ صلی علیہ کم باہر مسجد میں تشریف لائے.کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر آگے کھڑے ہو کر لوگوں کو نماز پڑھارہے ہیں.جب حضرت ابو بکر نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہے.اس پر آپ صلی علیہم نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر ہی رہیں اور رسول اللہ صلی اللی علم حضرت ابو بکر کے برابر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے.حضرت ابو بکر رسول اللہ صلی علیکم کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے اور لوگ حضرت ابو بکر کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے.334 یہ بخاری کی روایت ہے.صحیح بخاری میں ہی ایک اور روایت اس طرح ہے.حضرت انس بن مالک انصاری سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر نبی کریم صلی علیکم کی اس بیماری میں جس میں آپ کی وفات ہو گئی لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے یہاں تک کہ جب پیر کا دن ہوا اور وہ نماز میں صفوں میں تھے تو نبی صلی علیکم نے حجرے کا پردہ اٹھایا.آپ صلی علیہ کم ہمیں دیکھ رہے تھے اور آپ کھڑے ہوئے تھے.گویا کہ آپ کا چہرہ مبارک قرآن مجید کا ورق تھا.پھر آپ صلی اللہ ہم نے خوش ہو کر تبسم فرمایا اور ہمیں خیال ہوا کہ نبی کریم صلی الی یکم کو دیکھنے کی وجہ سے ہم خوشی سے آزمائش میں پڑ جائیں گے.اتنے میں حضرت ابو بکر اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹے تا وہ صف میں مل جائیں اور وہ سمجھے کہ نبی صلی علیہ کی نماز کے لیے باہر تشریف لا رہے ہیں مگر نبی صلی علیم نے اشارہ فرما کر یہی کہا کہ اپنی نماز پوری کرو اور پردہ ڈال دیا اور آپ اسی دن فوت ہو گئے.335 حضرت مصلح موعودہؓ پہلی روایت کے مطابق ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نماز پڑھانے پر قادر نہ تھے اس لیے آپ نے حضرت ابو بکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا.جب حضرت ابو بکڑ نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپ نے کچھ آرام محسوس کیا اور نماز کے لیے نکلے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہو گئی تو آپ نے مرض میں کچھ خفت محسوس کی.پس آپ نکلے کہ دو آدمی آپ کو سہارا دے کر لے جارہے تھے.“ کہتی ہیں کہ ”اور اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے آپ کے قدم زمین سے چھوتے جاتے تھے.آپ کو دیکھ کر حضرت ابو بکر نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ آئیں.اس ارادہ کو معلوم کر کے رسول کریم صلی اللی تم نے ابو بکر کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو.پھر آپ کو وہاں لایا گیا اور آپ حضرت ابو بکر کے پاس بیٹھ گئے.اس کے بعد رسول کریم نے نماز پڑھنی شروع کی اور حضرت ابو بکڑ نے آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی اور باقی لوگ حضرت ابو بکر کی نماز کی اتباع کرنے لگے.336
حاب بدر جلد 2 123 حضرت ابو بکر صدیق رسول اللہ صلی ایم کے چہرہ سے کپڑا ہٹایا اور آپ کو بوسہ دیا آنحضرت صلی اللہ کرم کی وفات کے بارے میں ایک جگہ اس طرح عُروہ بن زبیر نے نبی صلی الیکم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ یکم فوت ہو گئے اور حضرت ابو بکر اس وقت سنح میں تھے یعنی سُنح مضافات میں ایک گاؤں ہے.یہ خبر سن کر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے.جب آنحضرت صلی علی یم کی وفات کی خبر پہنچی تو حضرت ابو بکر تو وہاں تھے نہیں حضرت عمرؓ موجود تھے وہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی الہ یکم فوت نہیں ہوئے.حضرت عائشہ کہتی تھیں کہ حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم ! میرے دل میں یہی بات آئی تھی کہ اللہ آپ کو ضرور ضرور اٹھائے گا تا بعض آدمیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے.اتنے میں حضرت ابو بکر آگئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی علیکم کے چہرہ سے کپڑا ہٹایا اور آپ کو بوسہ دیا اور کہنے لگے میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.آپ زندگی میں بھی اور موت کے وقت بھی پاک وصاف ہیں.اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ آپ کو کبھی دو موتیں نہیں دکھائے گا.یہ کہہ کر حضرت ابو بکر باہر چلے گئے اور کہنے لگے اے سم کھانے والے ! ٹھہر جا.یعنی حضرت عمر کو کہا کہ ٹھہر جاؤ.جب حضرت ابو بکر بولنے لگے تو حضرت عمر بیٹھ گئے.حضرت ابو بکر نے حمد و ثنا بیان کی اور کہا.أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ.وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَتَّى لَا يَمُوتُ دیکھو! جو محمد صل العلم کو! کو پوجتا تھا سن لے کہ محمد تو یقینا فوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کو پوجتا تھا اسے یاد رہے کہ اللہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا اور حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھی.اِنَّكَ مَيْتَ وَإِنَّهُم مَّيْتُونَ ( از مر:31) تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں.پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ آفَابِنُ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُهُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِى الله الشكرنينَ (آل عمران: 145) کہ محمد صرف ایک رسول ہیں آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں تو پھر کیا اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو ہر گز نقصان نہ پہنچا سکے گا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا.راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر لوگ اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں.137 حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ایسا معلوم ہوا کہ گویا لوگ اس وقت تک کہ حضرت ابو بکر نے وہ آیت پڑھی جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل کی تھی.گویا تمام لوگوں نے ان سے یہ آیت سیکھی.پھر لوگوں میں سے جس آدمی کو بھی میں نے سنا یہی آیت پڑھ رہا تھا.راوی کہتے ہیں.سعید بن مُسَيِّبِ نے مجھے بتایا کہ حضرت عمر نے کہا اللہ کی قسم ! جو نہی میں نے ابو بکر کو یہ آیت پڑھتے سنا میں اس قدر گھبرایا کہ دہشت کے مارے میرے پاؤں مجھے سنبھال نہ سکے اور میں زمین پر گر گیا.جب میں نے حضرت ابو بکر کو یہ آیت پڑھتے سنا تو میں نے جان
اصحاب بدر جلد 2 124 حضرت ابو بکر صدیق لیا کہ نبی صلی علی کرم فوت ہو گئے ہیں.8 338 حضرت ابو بکر کی شجاعت کی بہت بڑی دلیل حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر حضرت عمررؓ کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ حضرت عمرؓ یہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی للی یکم فوت نہیں ہوئے اور اس وقت تک فوت نہیں ہوں گے جب تک کہ اللہ منافقوں کو قتل نہ کر دے.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ وہ یعنی صحابہ یہ سن کر خوشی کا اظہار کرتے تھے اور اپنے سروں کو اٹھاتے تھے تو حضرت ابو بکر نے فرمایا.اے شخص! یقینار سول اللہ صلی علی علم فوت ہو گئے ہیں.حضرت عمر کو مخاطب کیا اور کہا یقینار سول اللہ صلی علی کرم فوت ہو گئے ہیں.کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے که إِنَّكَ مَيِّتٌ وَ إِنَّهُمْ مَيِّتُونَ (الزمر:31) تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں اور یہ بھی کہ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرِ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ( نیا : 3) اور ہم نے کسی بشر کو تجھ سے پہلے ہمیشگی عطا نہیں کی.پھر حضرت ابو بکر منبر پر تشریف لائے اور خطاب کیا.بہر حال اس حدیث کی تشریح میں ابو عبد اللہ قرطبی بیان کرتے ہیں کہ اس بات میں حضرت ابو بکر صدیق کی شجاعت پر بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ شجاعت کی انتہا یہ ہے کہ مصائب کے نازل ہونے کے وقت دل کا ثابت قدم رہنا اور مسلمانوں پر اس وقت کوئی مصیبت نبی کریم صلی للی کم کی وفات کی مصیبت سے بڑھ کر نہ تھی.پس اس وقت آپ کی شجاعت اور علم ظاہر ہوا.339 دونوں ہی ظاہر ہوئے.بہادری بھی ظاہر ہوئی کہ صدمہ کو برداشت کیا اور قرآن کریم کی آیت کی جو تشریح کی اس سے علم بھی ظاہر ہوا.الله اگر تیری موت کا رو کنا ہماری طاقت میں ہوتا تو اپنی جانیں دے کر تیری موت کو روک دیتے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ کتب احادیث اور تواریخ میں یہ روایت درج ہے کہ رسول کریم صلی علی کرم کی وفات کا صحابہ پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ گھبر اگئے اور بعض سے تو بولا بھی نہ جاتا تھا اور بعض سے چلا بھی نہ جاتا تھا اور بعض اپنے حواس اور اپنی عقل کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بعض پر تو اس صدمہ کا ایسا اثر ہوا کہ وہ چند دن میں کھل کھل کر فوت ہو گئے.حضرت عمر پر اس صدمہ کا اس قدر اثر ہوا کہ آپ نے حضور کی وفات کی خبر کو باور ہی نہ کیا اور تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ رسول کریم صلی علی کرم فوت ہو گئے ہیں تو میں اسے قتل کر دوں گا.آپ تو موسیٰ علیہ السلام کی طرح بلائے گئے ہیں.جس طرح وہ چالیس دن کے بعد واپس آگئے تھے اسی طرح آپ کچھ عرصہ کے بعد واپس تشریف لائیں گے اور جو لوگ آپ پر الزام لگانے والے ہیں اور منافق ہیں ان کو قتل کریں گے اور صلیب دیں گے اور اس قدر جوش سے آپ اس دعوے پر مصر تھے کہ صحابہ میں سے کسی کو طاقت نہ ہوئی کہ آپ کی بات کو رڈ کرتا.اور آپؐ “ حضرت عمر کے اس جوش کو دیکھ کر بعض لوگوں کو تو یقین ہو گیا کہ یہی بات درست ہے.آنحضرت صلی علیہ یکم فوت نہیں ہوئے اور ان کے چہروں پر خوشی کے آثار
اصحاب بدر جلد 2 125 " حضرت ابو بکر صدیق ظاہر ہونے لگے.اور یا تو سر ڈالے بیٹھے تھے یا خوشی سے انہوں نے سر اٹھالئے.اس حالت کو دیکھ کر بعض دور اندیش صحابہ نے ایک صحابی کو دوڑایا کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جو اس وجہ سے کہ درمیان میں آنحضرت صلی اللہ علم کی طبیعت کچھ اچھی ہو گئی تھی آپ کی اجازت سے مدینہ کے پاس ہی ایک گاؤں کی طرف گئے ہوئے تھے جلد لے آئیں واپس بلا لائیں.بہر حال وہ چلے ہی تھے کہ حضرت ابو بکر ان کو مل گئے.واپس آرہے تھے ان کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے “ ان صحابی کے جو اطلاع دینے جا رہے تھے اور جوش گریہ کو ضبط نہ کر سکے.حضرت ابو بکر سمجھ گئے کہ کیا معاملہ ہے اور ان صحابی ہے پوچھا کہ کیا رسول کریم صلی لیکر فوت ہو گئے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت عمر کہتے ہیں کہ جو شخص کہے گا کہ رسول کریم صلی ہلم فوت ہو گئے ہیں میں اس کی گردن تلوار سے اڑا دوں گا.اس پر آپ حضرت ابو بکر آنحضرت صلی علی ایم کے گھر تشریف لے گئے.آپ صلی المی نم کے جسم مبارک پر جو چادر پڑی تھی اسے ہٹا کر دیکھا اور معلوم کیا کہ آپ فی الواقعہ فوت ہو چکے ہیں.اپنے محبوب کی جدائی کے صدمے سے ان کے آنسو جاری ہو گئے اور نیچے جھک کر آپ کی پیشانی پر “ حضرت ابو بکر نے ” بوسہ دیا اور کہا کہ بخدا اللہ تعالیٰ تجھ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا.تیری موت سے دنیا کو وہ نقصان پہنچا ہے جو کسی نبی کی موت سے نہیں پہنچا تھا.تیری ذات صفت سے بالا ہے اور تیری شان وہ ہے کہ کوئی ماتم تیری جدائی کے صدمے کو کم نہیں کر سکتا.اگر تیری موت کا روکنا ہماری طاقت میں ہو تا تو ہم سب اپنی جانیں دے کر تیری موت کو روک دیتے.م الله سة یہ کہہ کر کپڑا پھر آپ کے اوپر ڈال دیا اور اس جگہ کی طرف آئے جہاں حضرت عمر صحابہ کا حلقہ بنائے بیٹھے تھے اور ان سے کہہ رہے تھے کہ آنحضرت صلی للی نیم فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں.وہاں آکر آپ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آپ ذرا چپ ہو جائیں مگر انہوں نے ان کی بات نہ مانی اور اپنی بات کرتے رہے.اس پر حضرت ابو بکر نے ایک طرف ہو کر لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ رسول کریم صلی یم در حقیقت فوت ہو چکے ہیں.صحابہ کرام حضرت عمر کو چھوڑ کر آپ کے گرد جمع ہو گئے اور بالآخر حضرت عمر کو بھی آپ کی بات سننی پڑی.آپؐ “ حضرت ابو بکر نے فرمایا ، جس طرح پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ "وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَائِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيْتُونَ يَأَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدمَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَى لاسموٹ یعنی محمد صلی علیہ کم بھی ایک رسول ہیں آپؐ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں پھر اگر آت فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم لوگ اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے.تحقیق تو بھی فوت ہو جائے گا اور یہ الله لوگ بھی فوت ہو جائیں گے.اے لوگو! جو کوئی محمد صلی علیم کی پرستش کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد صلی علیکم فوت ہو گئے اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا اسے یادر ہے کہ اللہ زندہ ہے اور وہ فوت نہیں ہو تا.جب آئے “ حضرت ابو بکر نے مذکورہ بالا دونوں آیات پڑھیں اور لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ فوت ہو چکے ہیں تو صحابہ پر حقیقت آشکار ہوئی اور وہ بے اختیار رونے لگے اور حضرت عمر خود بیان فرماتے ہیں کہ جب
اصحاب بدر جلد 2 126 حضرت ابو بکر صدیق آیات قرآنیہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپؐ کی وفات ثابت کی تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ گویاںہ دونوں آیتیں آج ہی نازل ہوئی ہیں اور میرے گھٹنوں میں میرے سر کو اٹھانے کی طاقت نہ رہی.میرے قدم لڑکھڑائے اور میں بے اختیار شدت صدمہ سے زمین پر گر پڑا.340❝ مسلمانوں کا پہلا اجماع....وفات مسیح اسی حوالے سے مسلمانوں کا جو پہلا اجماع ہے اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ”رسول کریم صلی الیہ کم سے پہلے تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں جن میں مسیح بھی شامل ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی امیدم کی وفات پر جب مسلمان گھبر اگئے اور یہ صدمہ ان کے لیے نا قابل برداشت ہو گیا تو حضرت عمر نے اس گھبراہٹ میں تلوار کھینچ لی اور کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ رسول کریم صلی علیکم وفات پاگئے ہیں تو میں اس کی گردن کاٹ دوں گا.رسولِ کریم صلی املی کم قوت نہیں ہوئے بلکہ حضرت موسیٰ کی طرح خد ا سے ملنے گئے ہیں اور پھر واپس آئیں گے اور منافقوں کو ختم کریں گے پھر وفات پائیں گے.گویا ان کا یہ عقیدہ تھا کہ منافق جب تک ختم نہ ہوں آنحضرت صلی علی کرم فوت نہیں ہو سکتے اور چونکہ منافق آپ کی وفات تک موجود تھے اس لیے وہ سمجھے کہ آپ فوت نہیں ہوئے ہیں.حضرت ابو بکر جو اس وقت مدینہ کے پاس باہر ایک گاؤں میں گئے ہوئے تھے تشریف لائے.آنحضرت صلی ال نیم کے گھر گئے.رسولِ کریم ملی تعلیم کا جسم مبارک دیکھا.معلوم کیا کہ آپ واقع میں وفات پاچکے ہیں.اس پر پھر آپ واپس باہر تشریف لائے اور یہ کہتے ہوئے آئے کہ اللہ تعالیٰ رسولِ کریم صلی کم کو دو موتیں نہیں دے گا.یعنی ایک موت جسمانی اور دوسری موت روحانی کہ آپ کی وفات کے ساتھ ہی مسلمان بگڑ جائیں.پھر آپ سیدھے صحابہ کے اجتماع میں گئے اور لوگوں سے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.حضرت عمر تلوار لیے کھڑے تھے اور یہ ارادہ کر کے کھڑے تھے کہ اگر کسی نے محمد رسول اللہ صلی الیکم کی وفات کا اعلان کیا تو میں اس کو قتل کر دوں گا.حضرت ابو بکر کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو وہی بات کی که مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدَمَاتَ وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ لَه جو شخص محمد رسول اللہ صلی علیکم کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد لی لی کہ فوت ہو چکے ہیں اور جو کوئی شخص ط اللہ تعالیٰ کی عبادت کر تا تھا وہ خوش ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور کبھی فوت نہیں ہو گا.پھر آپ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ محمد صلى ال علم اللہ تعالیٰ کے رسول تھے اور آپ سے پہلے جتنے بھی رسول گزرے ہیں سب فوت ہو چکے ہیں.پھر آپ کیوں نہ فوت ہوں گے.اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور اسلام کو چھوڑ دو گے.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب قرآنِ کریم کی یہ آیت حضرت ابو بکر صدیق نے پڑھی تو میری آنکھیں کھل گئیں اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے اور مجھ پر ظاہر ہو گیا کہ رسول کریم صلی الیم فوت ہو
اصحاب بدر جلد 2 127 حضرت ابو بکر صدیق گئے ہیں اور میرے پاؤں کانپ گئے اور میں زمین پر گر گیا.یہ بیان کر کے حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں که یہ ایک ہی اجماع صحابہ کا ہے کیونکہ اس وقت سارے صحابہ موجود تھے اور در حقیقت ایسا وقت مسلمانوں پر پہلے کبھی نہیں آیا کیونکہ پھر کبھی مسلمان اس طرح جمع نہیں ہوئے.اس اجتماع میں حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھی کہ محمد رسول اللہ صلی علیکم صرف اللہ تعالیٰ کے ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے جس قدر اللہ تعالی کے رسول آئے ہیں وہ سب کے سب فوت ہو چکے ہیں.پس آپ کا فوت ہونا بھی کوئی قابلِ تعجب بات نہیں اور سارے کے سارے صحابہ نے آپ کے ساتھ اتفاق کیا.341 ابو بکر صدیق کا اس امت پر اتنابڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہو سکتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی حضرت ابو بکر کے حوالے سے اسی بات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہو سکتا.اگر وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں اکٹھے کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امت ہلاک ہو جاتی کیونکہ ایسی صورت میں اس زمانے کے مفسد علماء یہی کہتے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسی زندہ ہیں مگر اب صدیق اکبر کی آیت ممدوحہ پیش کرنے سے اس بات پر گل صحابہ کا اجماع ہو چکا کہ کل گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں بلکہ اس اجماع پر شعر بنائے گئے.ابو بکر کی روح پر خدا تعالیٰ ہزاروں رحمتوں کی بارش کرے اس نے تمام روحوں کو ہلاکت سے بچالیا اور اس اجماع میں تمام صحابہ شریک تھے.ایک فرد بھی ان میں سے باہر نہ تھا.اور یہ صحابہ کا پہلا اجماع تھا اور نہایت قابل شکر کارروائی تھی.اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اور مسیح موعود کی باہم ایک مشابہت ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ قرآن شریف میں دونوں کی نسبت یہ تھا کہ جب ایک خوف کی حالت اسلام پر طاری ہو گی اور سلسلہ مرتد ہونے کا شروع ہو گا تب ان کا ظہور ہو گا سو حضرت ابو بکر اور مسیح موعود کے وقت میں ایسا ہی ہوا.یعنی حضرت ابو بکر کے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صدہا جاہل عرب مرتد ہو گئے تھے.اور صرف دو مسجدیں باقی تھیں جن میں نماز پڑھی جاتی تھی.حضرت ابو بکر نے دوبارہ ان کو اسلام پر قائم کیا ایسا ہی مسیح موعود کے وقت میں کئی لاکھ انسان اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی بن گئے اور یہ دونوں حالات قرآن شریف میں مذکور ہیں یعنی پیشگوئی کے طور پر ان کا ذکر ہے.2 حضرت ابو بکر کی خلافت 342" حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں آتا ہے کہ جب صحابہ کرام کو رسول اللہ صلی یی کم کی وفات کا علم ہو گیا تو انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے.اس اجتماع میں مسئلہ خلافت پر گفتگو ہوئی.انصار خزرج کے راہنما سعد بن عُبادہ کے گرد جمع ہو گئے.343
حاب بدر جلد 2 سة 128 حضرت ابو بکر صدیق حضرت سعد بن عبادہ ان دنوں علیل تھے.انہوں نے انصار کی قربانیوں اور خدمت اسلام کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے انہیں خلافت کا حق دار قرار دیا مگر انصار نے حضرت سعد بن عبادہ کو ہی خلافت کے لیے موزوں قرار دے دیا مگر ابھی انصار نے ان کی بیعت بھی نہ کی تھی کہ ان میں سے ہی کسی نے یہ سوال کر دیا کہ اگر مہاجرین نے ان کی خلافت کو تسلیم نہ کیا تو کیا ہو گا؟ اس پر ایک آدمی نے تجویز دی کہ ایک آدمی انصار میں سے اور ایک آدمی مہاجرین میں سے خلیفہ ہو مگر حضرت سعد بن عبادہ نے اسے بنو اوس کی کمزوری قرار دیا.جب انصار سقیفہ بنو ساعدہ میں خلافت کے متعلق بحث کر رہے تھے حضرت عمر بن خطاب ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ کرام مسجد نبوی میں نبی کریم صلی الہ ظلم کے وصال کے سانحہ عظیم کے بارے میں ذکر کر رہے تھے.حضرت ابو بکر صدیق حضرت علی اور دوسرے اہل بیت رسول کریم صلی علیکم کی تجہیز و تکفین کے انتظامات میں مصروف تھے.کسی کو خلافت کے بارے میں ہوش نہ تھا اور اس بات سے بے خبر تھے کہ انصار اس مسئلہ پر غور کرنے کے لیے جمع ہو چکے ہیں اور انصار میں سے کسی کو امیر چنا چاہتے ہیں.344 طبقات کبری میں لکھا ہے کہ حضرت عمررؓ حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ کی بیعت کروں.رسول اللہ صلی علیم کی زبان مبارک سے آپ کو اس امت کا امین قرار دیا گیا ہے.اس پر حضرت ابو عبیدہ نے حضرت عمر سے کہا جب سے آپ نے اسلام قبول کیا ہے میں نے اس سے پہلے بھی آپ میں ایسی غفلت والی بات نہیں دیکھی.کیا تم میری بیعت کرو گے جبکہ تم میں صدیق اور ثانی اثنین یعنی حضرت ابو بکر موجود ہیں.345 اسی گفتگو کے دوران انہیں اجتماع انصار کی اطلاع ملی.اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر صدیق کو اندر پیغام بھیج کر بلایا کہ ایک ضروری کام ہے.حضرت ابو بکر نے تجہیز و تکفین کی مصروفیت کا عذر کر کے باہر آنے سے انکار کر دیا.اس پر حضرت عمرؓ نے دوبارہ پیغام بھیجا.ایک ایسی فوری بات پیش آئی ہے کہ آپ کی موجودگی وہاں ضروری ہے جس پر حضرت ابو بکر باہر تشریف لائے اور حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی ایم کی تجہیز و تکفین سے اس وقت اور کون سا اہم کام ہے جس کے لیے تم نے مجھے بلایا ہے ؟ حضرت عمر نے کہا آپ کو پتہ ہے کہ انصار سقیفہ بنو ساعدہ میں جمع ہیں اور ارادہ کر رہے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنادیں؟ ان میں سے ایک شخص نے یہ کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر قریش میں سے.یہ سنتے ہی حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ کے ہمراہ سقیفہ بنو ساعدہ پہنچے.وہاں ابھی بحث جاری تھی.حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ ان کے درمیان جا کر بیٹھ گئے.346 ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم انصار کی طرف چل پڑے جب ہم ان سے قریب پہنچے ان میں سے دو صالح آدمیوں غویم بن سَاعِدہ اور مغن بن عدی سے ملاقات ہوئی.ان
اصحاب بدر جلد 2 129 حضرت ابو بکر صدیق دونوں نے انصار کے عزائم سے ان کو مطلع کیا.پھر سوال کیا.آپ لوگ کہاں جارہے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہم اپنے انصاری بھائیوں کے پاس جارہے ہیں.ان دونوں نے کہا ان کے پاس جانا ضروری نہیں آپ لوگ خود معاملہ طے کر لیں.کہتے ہیں میں نے کہا اللہ کی قسم ! ہم ضرور ان کے پاس جائیں گے.347 بہر حال وہ گئے.حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم انصار کے پاس پہنچے.میں نے اپنے دل میں کچھ کہنے کے لیے ایک مضمون سوچا تھا کہ انصار کے سامنے اسے بیان کروں گا.پس جب میں ان کے پاس پہنچا اور بات شروع کرنے کے لیے آگے بڑھا مگر حضرت ابو بکڑ نے مجھ سے کہا ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ میں بات کرلوں.اس کے بعد جو تمہارا جی چاہے بیان کرنا.پھر حضرت ابو بکر نے بولنا شروع کیا اور جو بات میں کہنا چاہتا تھا وہ حضرت ابو بکر نے بیان کر دی بلکہ اس سے بھی زیادہ آپ نے کہہ دیا.348 سقیفہ بنو ساعدہ میں حضرت ابو بکر کی تقریر حضرت ابو بکر نے جو تقریر کی تھی اس کا مختصر ذکر یہ ہے.عبد اللہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے تقریر شروع کی.اللہ کی حمد وثنا کے بعد کہا یقینا اللہ نے اپنی مخلوق کی طرف محمد صلی الیم کو رسول اور اپنی امت کا نگران بنا کر بھیجا تا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کی توحید کا اقرار کریں حالا نکہ اس سے پہلے وہ اللہ کے سوا مختلف معبودوں کی عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ معبود اللہ کے حضور ان کی شفاعت کرنے والے اور نفع پہنچانے والے ہیں حالانکہ وہ پتھر سے تراشے گئے تھے اور لکڑی سے بنائے جاتے تھے.پھر حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھی کہ وَ يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللهِ (یونس: 19) اور وہ اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کے حضور ہماری شفاعت کرنے والے ہیں.مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلفی (الزمر ) کہ ہم اس مقصد کے سوا ان کی عبادت نہیں کرتے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہوئے قرب کے اونچے مقام تک پہنچا دیں.عربوں کو یہ بات گراں گزری کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے دین کو ترک کر دیں.حضرت ابو بکر نے یہ آیتیں پڑھ کے فرمایا کہ عربوں کو یہ بات گراں گزری کہ وہ اپنے آباء واجداد کے دین کو ترک کر دیں.پس اللہ نے آپ صلی علیہم کی قوم میں سے اولین مہاجرین کو رسول کریم صلی میں کمی کی تصدیق کے لیے اور آپ صلی علیہ ظلم پر ایمان لانے کے لیے اور آپ صلی اغلی یم کی غمگساری کے لیے اور آپ صلی امید کم کے ساتھ اپنی قوم کی سخت ایذا رسانی اور تکذیب کے وقت ڈٹے رہنے کے لیے خاص کر لیا.حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: حالا نکہ تمام لوگ ان کے مخالف تھے اور ان پر ظلم کرتے تھے مگر باوجود اپنی کم تعداد کے اور تمام لوگوں کے ظلم اور اپنی قوم کے ان کے خلاف اکٹھے ہو جانے کے وہ کبھی خوفزدہ نہیں ہوئے.اور وہ پہلے تھے جنہوں نے زمین
اصحاب بدر جلد 2 130 حضرت ابو بکر صدیق میں اللہ کی عبادت کی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تم پر ایمان لائے.اور وہ رسول اللہ صلی علیم کے دوست اور خاندان والے ہیں اور آپ صلی علیہم کے بعد لوگوں میں سے اس منصب کے سب سے زیادہ حق دار ہیں.اس معاملہ میں سوائے ظالم کے اور کوئی ان سے تنازعہ نہیں کرے گا.اے انصار کے گروہ ! اور تم وہ ہو جن کی دین میں فضیلت اور اسلام میں سبقت لے جانے کے متعلق ا ا ا اوراس رسول ایم مردگار کیوجہ سےاللہ تم سے ہو انکار نہیں کیا جاسکتا.اللہ کے دین اور اس کے رسول میلی لیے کم کے مدد گار بننے کی وجہ سے اللہ تم سے راضی ہو گیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ سلم کی ہجرت بھی تمہاری طرف ہی رکھی.آپ کی اکثر ازواج اور اصحاب تمہارے یہاں رہتے ہیں.مہاجرین اولین کے بعد ہمارے نزدیک تمہارے مرتبہ کا کوئی بھی نہیں.امیر ہم میں ہوں گے اور تم وزیر.ہر اہم معاملے میں تم سے مشورہ لیا جائے گا اور تمہارے بغیر اہم معاملات کے متعلق فیصلہ نہیں کریں گے.حضرت ابو بکر نے سقیفہ بنو سَاعِدہ میں جو تقریر کی تھی سیرت حلبیہ میں اس کا ذکر اس طرح ملتا ہے 349 آپ نے فرمایا:.اما بعد ! جہاں تک خلافت کا معاملہ ہے تو عرب کے لوگ اس کو سوائے قریش کے کسی دوسرے قبیلے کے لیے قبول نہیں کریں گے.قریش کے لوگ اپنے حسب و نسب کے اعتبار سے اور اپنے وطن کے اعتبار سے جو مکہ ہے سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں.ہم نسب میں تمام عربوں سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ کوئی بھی قبیلہ ایسا نہیں جو کسی نہ کسی طرح قریش سے رشتہ قرابت نہ رکھتا ہو.ہم مہاجرین وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا.ہم ہی آنحضرت صلی للی نیم کی برادری اور خاندان کے لوگ اور آپ کے رحمی رشتہ دار ہیں.ہم اہل نبوت ہیں اور خلافت کے حق دار ہیں.350 انہی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں حضرت ابو بکر کیا کر دار بیان کیا ہے اور یہ بیان کرنے کے بعد کہ حضرت ابو بکر نے آنحضرت صلی علیہم کی وفات پر آکر مسلمانوں میں تقریر کی اور آپ کی وفات کا اعلان کیا.پھر بیان ہوا ہے راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد ( تقریر کرنے کے بعد اور وفات کا اعلان کرنے کے بعد) حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما تیزی کے ساتھ سقیفہ بنو ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے یہاں تک کہ ان کے پاس پہنچے تو حضرت ابو بکر نے گفتگو شروع کی اور آپ نے قرآن کریم میں انصار کی بابت جو کچھ نازل ہوا اس میں سے کچھ نہ چھوڑا اور نبی کریم صلی علی نیم نے انصار کی فضیلت کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ سب بیان کیا.پھر حضرت ابو بکر نے فرمایا.تم لوگوں کو علم ہے کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا تھا کہ اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا.پھر حضرت سعد کو مخاطب کر کے حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ اے سعد! تجھے علم ہے کہ تو بیٹھا ہوا تھا جب رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ خلافت کے حق دار قریش ہوں گے.لوگوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ قریش کے نیک افراد کے تابع ہوں گے اور جو فاجر ہوں گے وہ
صحاب بدر جلد 2 131 حضرت ابو بکر صدیق قریش کے فاجروں کے تابع ہوں گے.حضرت سعد نے کہا کہ آپ نے سچ کہا.ہم وزیر ہیں اور آپ لوگ امراء ہیں.351 تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ اس موقع پر حضرت خباب بن مُنذ ڑ کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے گر وہ انصار ! تم اس معاملہ کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھو کیونکہ یہ لوگ اس وقت تمہارے زیر سایہ ہیں یعنی مہاجرین.کسی کو تمہاری مخالفت کی جرات نہ ہو گی اور لوگ تمہاری رائے کے خلاف نہیں جائیں گے.تم عزت والے ، دولت والے ، کثرت تعد اد والے اور طاقت و شوکت والے، تجربہ کار ، جنگجو، دلیر اور بہادر ہو.لوگ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں کہ تم کیا کرتے ہو.اب اختلاف نہ کرو ورنہ تمہاری رائے تم میں فساد پیدا کر دے گی اور تمہارا معاملہ تم پر ہی الٹ جائے گا.پس اگر یہ لوگ اس بات کا انکار کریں یعنی مہاجرین قریش اس بات کا انکار کریں جو تم نے ابھی سنی ہے تو ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر ان میں سے.اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ ناممکن ہے.دو تلوار میں ایک نیام میں جمع نہیں ہو سکتیں.اللہ کی قسم ! عرب ہر گز اس بات کو نہیں مانیں گے کہ وہ تمہیں امیر بنا دیں جبکہ ان کے نبی تمہارے علاوہ دوسرے قبیلے کے ہوں.ہاں البتہ عربوں کو یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی روک نہیں ہو گی کہ ان کا معاملہ ان کے سپر د کر دیں جن میں نبوت تھی اور اسی میں سے ان کے امیر ہونے چاہئیں اور اس شکل میں اگر عربوں میں سے کوئی اس کی امارت ماننے سے انکار کرے گا تو اس کے مقابلے میں ہمارے پاس کھلی ہوئی دلیل اور کھلا ہو ا حق ہو گا.محمد صل الی یکم کی حکومت اور امارت کے بارے میں کون ہماری مخالفت کرے گا؟ ہم ہی آپ صلی میری کمر کے دوست اور خاندان والے ہیں.سوائے احمق کے یا گناہ گار یا خود کو ہلاکت میں ڈالنے والے کے وہی اس تجویز کی مخالفت کرے گا اور کوئی نہیں کر سکتا.حباب بن منذر نے کہا اے گروہ انصار ! تم اس معاملہ کا خود تصفیہ کرو اور ہر گز اس شخص کی اور اس کے ہمراہیوں کی بات نہ ماننا.یہ تمہارا حصہ بھی ہضم کرنا چاہتے ہیں اور اگر یہ لوگ ہماری تجویز نہ مانیں تو ان سب کو اپنے علاقوں سے نکال دو اور تمام امور کی باگ اپنے ہاتھ میں لے لو کیونکہ بخدا تم اس امارت کے سب سے زیادہ مستحق اور اہل ہو.تمہاری تلواروں نے تمام لوگوں کو اس دین کا مطیع بنایا ہے جو کبھی مطیع ہونے والے نہ تھے.میں اس تمام کارروائی کے تصفیہ کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہوں کیونکہ میں اس کا پورا تجربہ رکھتا ہوں اور اس کا اہل ہوں.بخدا! اگر تم چاہو تو میں کانٹ چھانٹ کر اس کا فیصلہ کر لیتا ہوں.حضرت عمرؓ نے کہا اگر ایسا کروگے تو اللہ تم کو ہلاک کر دے گا.انہوں نے یعنی حباب نے کہا کہ بلکہ تم مارے جاؤ گے.حضرت ابوعبیدہ نے اس موقع پر کہا کہ اے گروہ انصار اتم وہ ہو جنہوں نے سب سے پہلے دین کی حمایت اور نصرت کی.اب یہ نہ
تاب بدر جلد 2 132 حضرت ابو بکر صدیق ہونا چاہیے کہ سب سے اوّل تم ہی اس میں تغیر و تبدل کرو.اس پر بشیر بن سعد نے کہا: اے گر وہ انصار ! مشرکین سے جہاد اور دین اسلام کی ابتدا میں خدمت کی جو سعادت ہمیں حاصل ہوئی اس سے ہمارا مقصد صرف اپنے پروردگار کی رضامندی اور اپنے نبی کی اطاعت تھی.ہمارے لیے یہ مناسب نہیں کہ دوسروں پر اپنی برتری جتائیں اور ہم اس کے ذریعہ سے دنیا سے کوئی فائدہ نہیں چاہتے.ہم پر اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کا ہی احسان ہے.سن لو بے شک محمد صلی علی کم قریش میں سے تھے لہذا ان کی قوم اس امارت کی زیادہ مستحق اور اہل ہے اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان سے اس معاملہ میں کبھی تنازعہ نہیں کروں گا.اللہ سے ڈروان کی مخالفت نہ کرو اور نہ اس معاملے میں ان سے تنازعہ کرو.52 الله 352 بہر حال حضرت عمرؓ نے جو تقریر کی وہ روایت دوسری جگہ سنن کبری للنسائی میں اس طرح ہے کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں جب انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک تم میں سے اس پر حضرت عمرؓ نے کہا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں تو نہیں ہو سکتیں.اس طرح وہ ٹھیک نہیں رہیں گی نیز انہوں نے ، حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر کا ہاتھ پکڑا اور عرض کیا: یہ تین خوبیاں کس کی ہیں.اِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنُ اِنَّ اللهَ مَعَنَا (التوبة:40) یعنی جب وہ یعنی رسول اللہ صلی یکم اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر.یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے.اس کا ساتھی کون تھا؟ پھر کہا کہ اِذْهُمَا فِي الْغَارِ (التوبة: 40) یعنی جب وہ دونوں غار میں تھے.وہ دونوں کون تھے ؟ پھر انہوں نے ، حضرت عمرؓ نے کہا کہ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا یعنی غم نہ کر.یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے.رسول اللہ صلی علیکم حضرت ابو بکر کے علاوہ کس کے ساتھ تھے یا کس کا ساتھ ہے.یہ کہہ کر حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی اور پھر لوگوں سے کہا تم بھی بیعت کر لو.چنانچہ لوگوں نے بیعت کر لی.353 حضرت عمرؓ کے بعد حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت بشیر بن سعد نے بیعت کی اور اس طرح تمام انصار نے بھی حضرت ابو بکر کی بیعت کی.354 یہ بیعت اسلامی لٹریچر میں بیعت سقیفہ اور بیعت خاصہ کے نام سے بھی مشہور ہے.355 بعض روایات میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے حضرت ابو بکر کی بیعت نہیں کی تھی جبکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے بھی باقی انصار کے ساتھ بیعت کر لی تھی.چنانچہ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ ساری قوم نے باری باری حضرت ابو بکر کی بیعت کی اور حضرت سعد نے بھی بیعت کی.آنحضرت ملا م کے بعد خلافت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی علیکم کے بعد خلافت ہوئی اور پھر کیسی شاندار ہوئی.آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے.اس وقت انصار نے چاہا کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو.یہ سنتے ہی حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور بعض اور صحابہ فوراً اس جگہ تشریف لے گئے جہاں انصار جمع تھے 356
باب بدر جلد 2 133 حضرت ابو بکر صدیق اور آپ نے انہیں بتایا کہ دیکھو! دو خلیفوں والی بات غلط ہے.تفرقہ سے اسلام ترقی نہیں کرے گا.خلیفہ بہر حال ایک ہی ہو گا.اگر تم تفرقہ کروگے تو تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا، تمہاری عزتیں ختم ہو جائیں گی اور عرب تمہیں تکا بوٹی کر ڈالیں گے.تم یہ بات نہ کرو.بعض انصار نے آپ کے مقابل پر دلائل پیش کرنے شروع کئے.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: میں نے خیال کیا کہ حضرت ابو بکر کو تو بولنا نہیں آتا میں انصار کے سامنے تقریر کروں گا لیکن جب حضرت ابو بکر نے تقریر کی تو آپ نے وہ سارے دلائل بیان کر دیئے جو میرے ذہن میں تھے.“ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جو میرے ذہن میں تھے.”اور پھر اس سے بھی زیادہ دلائل بیان کئے.“ کہتے ہیں ” میں نے یہ دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ آج یہ بڑھا مجھ سے بڑھ گیا ہے.آخر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ خود انصار میں سے بعض لوگ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا حضرت ابو بکر جو کچھ فرمار ہے ہیں وہ ٹھیک ہے.مکہ والوں کے سوا عرب کسی اور کی اطاعت نہیں کریں گے.پھر ایک انصاری نے جذباتی طور پر کہا اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں اپنا ایک رسول مبعوث فرمایا.اس کے اپنے رشتہ داروں نے اسے شہر سے نکال دیا تو ہم نے اسے اپنے گھروں میں جگہ دی اور خد اتعالیٰ نے اس کے طفیل ہمیں عزت دی.ہم مدینہ والے گمنام تھے، ذلیل تھے مگر اس رسول کی وجہ سے ہم معزز اور مشہور ہو گئے.اب تم اس چیز کو جس نے ہمیں معزز بنایا کافی سمجھو اور زیادہ لالچ نہ کر وایسا نہ ہو کہ ہمیں اس کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے.اس وقت حضرت ابو بکڑ نے فرمایا کہ دیکھو ! خلافت کو قائم کرناضروری ہے باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنالو.مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں.آپ نے فرمایا یہ ابو عبیدہ بن جراح ہیں.ان کو رسول کریم صلی اللہ ہم نے امین الامت کا خطاب عطا فرمایا ہے تم ان کی بیعت کر لو.پھر عمر نہیں یہ اسلام کے لئے ایک تنگی تلوار ہیں تم ان کی بیعت کر لو.حضرت عمرؓ نے فرمایا: ابو بکر ! اب باتیں ختم کیجئے.ہاتھ بڑھائیے اور ہماری بیعت لیجئے.حضرت ابو بکر کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ نے جرات پیدا کر دی اور آپ نے بیعت لے لی.سقیفہ بنی ساعدہ کی بیعت عام کے بارے میں مزید لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اینم کی وفات سوموار کو ہوئی.لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابو بکر صدیق کی بیعت میں مشغول ہو گئے.پھر سوموار کے بقیہ دن اور منگل کی صبح کو مسجد میں بیعت عام ہوئی.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب سقیفہ بنی سَاعِدہ میں بیعت ہو گئی تو دوسرے دن حضرت ابو بکر صدیق نبیٹھے تو حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور حضرت ابو بکر سے قبل تقریر کی.آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی.پھر کہا اے لوگو ! کل میں نے تم سے ایسی بات کی تھی یعنی یہ کہ آنحضرت صلی این تیم فوت نہیں ہوئے.میں نے اس کا ذکر کتاب اللہ میں کہیں نہیں پایا اور نہ ہی نبی کریم صلی علیم نے مجھے اس کی وصیت فرمائی تھی لیکن میں سمجھتا تھا کہ رسول اللہ صلی الکل ضرور ہمارے معاملے کا انتظام کریں گے.راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے کہا ہمارا خیال تھا کہ ہم پہلے فوت ہو جائیں گے اور آنحضرت صلی علیہ کم ہم میں سے آخری ہوں گے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے جس سے 357"
صحاب بدر جلد 2 134 حضرت ابو بکر صدیق اس نے رسول اللہ صلی علیم کو ہدایت دی اور اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ہدایت دے گا جیسا کہ اس نے آنحضور صلی لی تم کو ہدایت دی.اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملات کو ایک ایسے آدمی کے ہاتھوں میں دے دیا ہے جو تم میں سب سے زیادہ بہتر ہیں جو آنحضرت صلی اللہ نام کے ساتھی ہیں اور ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْهُمَا فِي الْغَارِ کے مصداق ہیں.یعنی وہ دو میں سے ایک تھا جب وہ دونوں غار میں تھے.پس اٹھو اور اس کی بیعت کرو.پس لوگوں نے بیعت سقیفہ کے بعد حضرت ابو بکر کی بیعت کی.حضرت ابو بکر صدیق نے بیعت عام والے دن ایک خطبہ ارشاد فرمایا.آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: اے لو گو ایقینا میں تم پر والی مقرر کیا گیا ہوں لیکن میں تم میں سے سب سے بہتر نہیں ہوں.اگر میں اچھا کام کروں تو میرے ساتھ تعاون کرو اور کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو.سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے.تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے جب تک میں دوسروں سے اس کا حق نہ دلا دوں.اور تمہارا قوی شخص میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق نہ حاصل کر لوں.ان شاء اللہ.جو قوم اللہ تعالیٰ کے رستے میں جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ اس کو ذلیل وخوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے.اگر میں اللہ اور رسول اللہ صلی علیکم کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر میں اللہ اور رسول اللہ صلی ایم کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں.نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ اللہ تم سب پر رحم فرمائے.الله سة 358 حضرت علی کی بیعت حضرت علی کی حضرت ابو بکر کی بیعت کے بارے میں بھی مختلف باتیں بیان کی جاتی ہیں.تاریخ طبری میں ہے کہ حبیب بن ابو ثابت سے روایت ہے یہ کہ حضرت علی اپنے گھر میں تھے جب ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہا کہ حضرت ابو بکر بیعت لینے کے لیے تشریف فرما ہیں.حضرت علی قمیص پہنے ہوئے تھے ، اس حالت میں جلدی سے باہر نکلے کہ نہ ہی اس پر ازار تھا اور نہ ہی کوئی چادر، اس امر کو نا پسند کرتے ہوئے کہ کہیں اس سے دیر نہ ہو جائے یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو بکر کی بیعت کی اور حضرت ابو بکر کے پاس بیٹھ گئے.پھر آپ نے اپنے کپڑے منگوائے اور وہ کپڑے پہنے.پھر حضرت ابو بکر کی مجلس میں ہی بیٹھے رہے.359 حضرت علی کی حضرت ابو بکر کی بیعت کرنے کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں.بعض روایات میں ہے کہ حضرت علی نے چھ ماہ تک بیعت نہیں کی اور حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد بیعت کی اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت علی نے پوری رضا اور غبت کے ساتھ فوراً حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی تھی.حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے کہ مہاجرین و انصار نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی تو حضرت ابو بکر منبر پر چڑھے تو انہوں نے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرت علی کو نہ پایا.حضرت ابو بکر نے حضرت علی کے بارے میں دریافت فرمایا.انصار میں سے کچھ لوگ گئے اور حضرت علی کو لے
حاب بدر جلد 2 360 135 حضرت ابو بکر صدیق آئے.حضرت ابو بکر نے فرمایا: رسول اللہ صلی نیلم کے چچا کے بیٹے اور آپ کے داماد ! کیا تم مسلمانوں کی طاقت کو توڑنا چاہتے ہو ؟ حضرت علی نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ صل اللی کم کے خلیفہ اگر فت نہ کیجئے پھر انہوں نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی.علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب نے نبی کریم صلی للی کم کی وفات کے بعد پہلے دن یا دوسرے دن حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی تھی.اور یہی سچ ہے کیونکہ حضرت علی نے حضرت ابو بکر ہو کبھی نہیں چھوڑا اور نہ ہی حضرت ابو بکر کے پیچھے نماز کی ادائیگی ترک کی.361 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اول اول حضرت ابو بکر کی بیعت سے بھی تخلف کیا تھا.مگر پھر گھر میں جاکر خدا جانے یک دفعہ کیا خیال آیا کہ پگڑی بھی نہ باندھی اور فوراٹوپی سے ہی بیعت کرنے کو آگئے اور پگڑی پیچھے منگائی.معلوم ہو تا ہے کہ ان کے دل میں خیال آگیا ہو گا کہ یہ تو بڑی معصیت ہے.اسی واسطے اتنی جلدی الله سة الله سة کی کہ پگڑی بھی نہ باندھی.362 اور فوراٹوپی سے ہی بیعت کرنے کو آگئے اور پگڑی پیچھے منگوائی.حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ : ”حضرت ابو بکر کو دیکھ لو.آپ مکہ کے ایک معمولی تاجر تھے.اگر محمد رسول اللہ صلی للی نام مبعوث نہ ہوتے اور مکہ کی تاریخ لکھی جاتی تو مؤرخ صرف اتنا ذکر کرتا کہ ابو بکر عرب کا ایک شریف اور دیانتدار تاجر تھا مگر محمد رسول اللہ صلی الیکم کی اتباع سے ابو بکر کو وہ مقام ملا تو آج ساری دنیا ان کا ادب اور احترام کے ساتھ نام لیتی ہے.جب رسول کریم صلی علیہ کی وفات پاگئے اور حضرت ابو بکر کو مسلمانوں نے اپنا خلیفہ اور بادشاہ بنا لیا تو مکہ میں بھی یہ خبر جا پہنچی.ایک مجلس میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے جن میں حضرت ابو بکر کے والد ابو قحافہ بھی موجود تھے.جب انہوں نے سنا کہ ابو بکر کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرلی ہے تو ان کے لئے اس امر کو تسلیم کرنا ناممکن ہو گیا اور انہوں نے خبر دینے والے سے پوچھا کہ تم کس ابو بکر کا ذکر کر رہے ہو ؟ اس نے کہا وہی ابو بکر جو تمہارا بیٹا ہے.انہوں نے عرب کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر کہنا شروع کر دیا کہ اس نے بھی ابو بکر کی بیعت کر لی ہے اور جب اس نے کہا کہ سب نے متفقہ طور پر ابو بکر کو خلیفہ اور بادشاہ چن لیا ہے تو ابو قحافہ بے اختیار کہنے لگے کہ اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَدُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ اس کے سچے رسول ہیں.“ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ”حالانکہ وہ دیر سے مسلمان تھے “ حضرت ابو قحافہ نے پہلے ہی آنحضرت صلی الم کی بیعت کر لی تھی.”انہوں نے جو یہ کلمہ پڑھا اور دوبارہ محمد رسول اللہ صلی علیکم کی رسالت کا اقرار کیا تو اسی لئے کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے سمجھا کہ یہ اسلام کی سچائی کا ایک زبر دست ثبوت ہے ورنہ میرے بیٹے کی کیا حیثیت تھی کہ اس کے ہاتھ پر سارا عرب متحد ہو جاتا.363
حاب بدر جلد 2 136 حضرت ابو بکر صدیق 364<< حضرت مصلح موعودؓ پھر ایک جگہ اس واقعہ کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ ”دیکھو! حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اسلام سے پہلے کی کیا حالت تھی.جب آپ خلیفہ ہوئے آپ کے والد زندہ تھے.کسی نے ان کو جا کر خبر دی کہ مبارک ہو ابو بکر خلیفہ ہو گیا ہے.انہوں نے پوچھا کون سا ابو بکر ؟ اس نے کہا آپ کا بیٹا.اس پر بھی انہیں یقین نہ آیا اور کہا کوئی اور ہو گا لیکن جب ان کو یقین دلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ اکبر ! محمد صلی علیم کی بھی کیا شان ہے کہ ابو قحافہ کے بیٹے کو عربوں نے اپنا سر دار مان لیا.غرض وہ ابو بکر جو دنیا میں کوئی بڑی شان نہ رکھتا تھا، محمد صلی ا ظلم کے طفیل اس قدر عزت پا گیا کہ اب بھی لاکھوں انسان اس کی طرف اپنے آپ کو فخر کے ساتھ منسوب کرتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول بیان فرماتے ہیں کہ ”یقینا سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کا احسان اپنے ذمہ نہیں رکھتا.وہ اس سے ہزاروں لاکھوں گنازیادہ دے دیتا ہے جس قدر کوئی خدا کے لئے دیتا ہے.دیکھو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں ایک معمولی کو ٹھا چھوڑا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اس کی کس قدر قدر کی.اس کے بدلہ میں اسے ایک سلطنت کا مالک بنا دیا.حضرت ابو بکر کی خلافت کے متعلق رسول کریم ملی ایم کی ایک رویا بھی ہے.اس کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی العلیم نے فرمایا: ایک خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایک کنویں پر کھڑا ڈول سے جو چرخی پر رکھا ہوا تھا پانی کھینچ کر نکال رہا ہوں.اتنے میں ابو بکر آئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول بھینچ کر اس سے اس طور سے نکالے کہ ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اور اللہ ان کی کمزوری پر پردہ پوشی کرے گا اور ان سے در گزر فرمائے گا.پھر عمر بن خطاب آئے اور وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا تو میں نے کوئی شہ زور نہیں دیکھا جو ایسا حیرت انگیز کام کرتا ہو جیسا عمر نے کیا.اتنا پانی نکالا کہ لوگ سیر ہو گئے اور اپنے اپنے ٹھکانوں پر جابیٹھے.366 365" حضرت ابو بکر کی بھی ایک رؤیا ہے.اس کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ان کے جسم پر ایک یمنی چادر کا جوڑا ہے لیکن اس کے سینے پر دو داغ ہیں.حضرت ابو بکر نے رسول اللہ صلی الی یوم کے سامنے یہ خواب بیان کیا تو آپ صلی للہ ہم نے فرمایا.یمنی جوڑے سے مراد یہ ہے کہ تمہیں اچھی اولاد ملے گی اور دو داغوں سے مراد دو سال کی امارت ہے یعنی تم دو سال مسلمانوں کے حاکم رہو گے.367 انتخاب خلافت کے بعد حضرت ابو بکر کے لیے وظیفہ مقرر کرنے کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ خلافت کے بعد آپ مدینہ تشریف لے آئے اور وہیں قیام کر لیا.آپ نے اپنے معاملات پر غور کیا اور کہا کہ بخدا تجارت کرتے ہوئے لوگوں کے معاملات ٹھیک نہیں ہو سکیں گے.اس خدمت کے لیے فراغت اور پوری توجہ کی ضرورت ہے.ادھر میرے اہل و عیال کے لیے بھی کچھ ضروری ہے اس لیے آپ نے تجارت چھوڑ دی اور بیت المال میں سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کے لیے روزانہ خرچ لینے
اصحاب بدر جلد 2 137 369 368 حضرت ابو بکر صدیق لگے.آپ کے ذاتی مصارف کے لیے سالانہ چھ ہزار درہم کی رقم منظور کی گئی.18 چنانچہ بیت المال سے حضرت ابو بکر کا اتنا وظیفہ مقرر کر دیا گیا جس سے ان کا اور ان کے اہل و عیال کا گزارہ چل سکے لیکن جب حضرت ابو بکر کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو حکم دیا کہ جو وظیفہ میں نے بیت المال سے لیا ہے وہ سارے کا سارا واپس کر دیا جائے اور اس کی ادائیگی کے لیے میری فلاں فلاں زمین بیچ دی جائے اور آج تک مسلمانوں کا جو مال میں نے اپنے اوپر خرچ کیا ہے اس زمین کو فروخت کر کے وہ پوری کی پوری رقم ادا کر دی جائے.چنانچہ جب ان کی وفات کے بعد حضرت عمر خلیفہ ہوئے اور وہ رقم ان کے پاس پہنچی تو وہ رو پڑے اور کہا اے ابو بکر صدیق ! تم نے اپنے جانشین پر بہت بھاری بوجھ ڈال دیا ہے.حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تمام عالم اسلامی کے بادشاہ تھے مگر ان کو کیا ملتا تھا.پبلک کے روپیہ کے وہ محافظ تو تھے مگر خود اس روپیہ پر کوئی تصرف نہیں رکھتے تھے.بے شک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بڑے تاجر تھے مگر چونکہ ان کو کثرت سے یہ عادت تھی کہ جو نہی روپیہ آیا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا اس لئے ایسا اتفاق ہوا کہ جب رسول کریم صلی می نم کی وفات ہوئی اور آپ خلیفہ ہوئے تو اس وقت آپ کے پاس نقد روپیہ نہیں تھا.خلافت کے دوسرے ہی دن آپ نے کپڑوں کی گٹھڑی اٹھائی اور اسے بیچنے کے لئے چل پڑے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ رستہ میں ملے تو پوچھا کیا کرنے لگے ہیں ؟ انہوں نے کہا آخر میں نے کچھ کھانا تو ہوا.اگر میں کپڑے نہیں بیچوں گا تو کھاؤں گا کہاں سے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا.اگر آپ کپڑے بیچتے رہے تو خلافت کا کام کون کرے گا؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر میں یہ کام نہیں کروں گا تو پھر گزارہ کس طرح ہو گا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ بیت المال سے وظیفہ لے لیں.حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ میں یہ تو بر داشت نہیں کر سکتا.بیت المال پر میرا کیا حق ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب قرآن کریم نے اجازت دی ہے کہ دینی کام کرنے والوں پر بیت المال کا روپیہ صرف ہو سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں لے سکتے.چنانچہ اس کے بعد بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر ہو گیا مگر اس وقت کے لحاظ سے وہ وظیفہ صرف اتنا تھا کہ جس سے روٹی کپڑے کی ضرورت پوری ہو سکے.3704 خلافت کے آغاز میں حضرت ابو بکر صدیق کی مشکلات اور خطرات حضرت ابو بکر صدیق کا دور خلافت چاروں خلفائے راشدین میں سے مختصر دور تھا جو کہ تقریباً سوا دو سال پر مشتمل تھا لیکن یہ مختصر سا دور خلافت راشدہ کا ایک اہم ترین اور سنہری دور کہلانے کا مستحق تھا کیونکہ حضرت ابو بکر کو سب سے زیادہ خطرات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور پھر خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت اور فضل کی بدولت حضرت ابو بکر کی کمال شجاعت اور جوانمردی اور فہم و فراست سے تھوڑے ہی عرصہ میں دہشت و خطرات کے سارے بادل چھٹ گئے اور سارے خوف امن میں تبدیل
اصحاب بدر جلد 2 138 حضرت ابو بکر صدیق ہو گئے اور باغیوں اور سرکشوں کی ایسی سرکوبی کی گئی کہ خلافت کی ڈولتی ہوئی امارت مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گئی.خلافت کے آغاز میں حضرت ابو بکر صدیق کو جن خطرات و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا ذکر اتم المومنین حضرت عائشہ نے بھی فرمایا ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” (حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپؐ فرماتی ہیں کہ جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے اور اللہ نے انہیں امارت تفویض فرمائی تو خلافت کے آغاز ہی میں آپ نے ہر طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیانِ نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین ہو جاتے اور فوراً گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آن پہنچی اور جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دیئے گئے.(جھوٹے نبی قتل کر دیئے گئے اور مرتد ہلاک کر دیئے گئے.) فتنے دُور کر دیئے گئے اور مصائب چھٹ گئے اور معاملے کا فیصلہ ہو گیا اور خلافت کا معاملہ مستحکم ہوا اور اللہ نے مومنوں کو آفت سے بچا لیا اور ان کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور ان کے لئے ان کے دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق پر قائم کر دیا اور مفسدوں کے چہرے کالے کر دیئے اور اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے (حضرت ابو بکر صدیق کی نصرت فرمائی اور سرکش سرداروں اور بتوں کو تباہ و برباد کر دیا اور کفار کے دلوں میں ایسار عب ڈال دیا کہ وہ پسپا ہو گئے اور (آخر) انہوں نے رجوع کر کے توبہ کی اور یہی خدائے قہار کا وعدہ تھا اور وہ سب صادقوں سے بڑھ کر صادق ہے.پس غور کر کہ کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ (حضرت ابو بکر صدیق کی ذات میں پورا ہوا.371❝ حضرت ابو بکر کو پیش آنے والے پانچ قسم کے ہم و غم اور مسائل حضرت ابو بکر کو ابتدا میں ہی درج ذیل پانچ قسم کے ہم و غم اور مسائل کا سامنا کرنا پڑان: نمبر ایک.آنحضرت صلی علیکم کی وفات اور جدائی کا غم، [ نمبر 2] انتخاب خلافت اور امت میں فتنے اور اختلاف کا خوف وخطرہ، [ نمبر 3] لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ اور نمبر چار: مسلمان کہلاتے ہوئے زکوۃ دینے سے انکار اور مدینہ پر حملہ کرنے والے جس کو تاریخ میں فتنہ مانعین زکوۃ کہا جاتا ہے اور نمبر پانچ: فتنہ ارتداد یعنی ایسے سرکش اور باغی جنہوں نے کھلم کھلا بغاوت اور جنگ کا اعلان کر دیا.اس بغاوت میں وہ شامل ہو گئے جنہوں نے اپنے طور پر نبی ہونے کا بھی دعویٰ کیا.
حاب بدر جلد 2 139 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر کی حضرت یوشع بن نون کے ساتھ مشابہتیں خوف کی ان سب حالتوں میں مصائب اور فتن کا قلع قمع کرنے میں جو کامیابی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کو عطا فرمائی اس کی تفصیل آگے بیان ہو گی لیکن اس سے قبل حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک تفصیلی اقتباس ہے وہ بھی پیش ہے جس میں آپ علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہلے خلیفہ حضرت یوشع بن نون کے ساتھ مشابہت دیتے ہوئے حضرت ابو بکر کو پیش آنے والے مسائل و مصائب اور فتوحات و کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ”جس آیت سے دونوں سلسلوں یعنی سلسلہ خلافتِ موسویہ اور سلسلہ خلافت محمدیہ میں مماثلت ثابت ہے یعنی جس سے قطعی اور یقینی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سلسلہ نبوت محمدیہ کے خلیفے سلسلہ نبوت موسویہ کے مشابہ و مماثل ہیں وہ یہ آیت ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قبلهم الخ (النور (56) یعنی خدا نے ان ایمانداروں سے جو نیک کام بجالاتے ہیں وعدہ کیا ہے جو ان میں سے زمین پر خلیفے مقرر کرے گا انہی خلیفوں کی مانند جو ان سے پہلے کئے تھے.اب جب ہم مانند کے لفظ کو پیش نظر رکھ کر دیکھتے ہیں جو محمدی خلیفوں کی موسوی خلیفوں سے مماثلت واجب کرتا ہے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے جو ان دونوں سلسلوں کے خلیفوں میں مماثلث ضروری ہے اور مماثلت کی پہلی بنیاد ڈالنے والا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور مماثلت کا آخری نمونہ ظاہر کرنے والا وہ مسیح خاتم الخلفاء محمد یہ ہے جو سلسلہ خلافت محمدیہ کا سب سے آخری خلیفہ ہے.سب سے پہلا خلیفہ جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہے وہ حضرت یوشع بن نون کے مقابل اور ان کا مثیل ہے جس کو خدا نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کے لئے اختیار کیا اور سب سے زیادہ فراست کی روح اس میں پھونکی یہاں تک کہ وہ مشکلات جو عقیدہ باطلہ حیاتِ مسیح کے مقابلہ میں خاتم الخلفاء کو پیش آنی چاہیے تھی ان تمام شبہات کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کمال صفائی سے حل کر دیا اور تمام صحابہ میں سے ایک فرد بھی ایسا نہ رہا جس کا گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی موت پر اعتقاد نہ ہو گیا ہو بلکہ تمام امور میں تمام صحابہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ایسی ہی اطاعت اختیار کر لی جیسا کہ حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل نے حضرت يشوع بن نون کی اطاعت کی تھی اور خدا بھی موسیٰ اور یشوع بن نون کے نمونہ پر جس طرح آنحضرت صلی علیم کے ساتھ تھا اور آپ کا حامی اور مؤید تھا.ایسا ہی ابو بکر صدیق کا حامی اور مؤید ہو گیا.“ یوشع بن نون یا یشوع بن نون ایک ہی چیز ہیں ایک ہی نام ہیں.آپ فرماتے ہیں ”در حقیقت خدا نے یشوع بن نون کی طرح اس کو ایسا مبارک کیا جو کوئی دشمن اس کا مقابلہ نہ کر سکا اور اسامہ کے لشکر کا نا تمام کام جو حضرت موسیٰ کے نا تمام کام سے مشابہت رکھتا تھا حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر پورا کیا.اور حضرت ابو بکر کی حضرت یشوع بن نون کے ساتھ ایک اور عجیب 372
ب بدر جلد 2 140 حضرت ابو بکر صدیق مناسبت یہ ہے جو حضرت موسیٰ کی موت کی اطلاع سب سے پہلے حضرت یوشع کو ہوئی اور خدا نے بلا توقف ان کے دل میں وحی نازل کی جو موسیٰ مر گیا تا یہود حضرت موسیٰ کی موت کے بارے میں کسی غلطی یا اختلاف میں نہ پڑ جائیں جیسا کہ یشوع کی کتاب باب اوّل سے ظاہر ہے.اسی طرح سب سے پہلے آنحضرت صلی علیم کی موت پر حضرت ابو بکر نے یقین کامل ظاہر کیا اور آپ کے جسدِ مبارک پر بوسہ دے کر کہا کہ تو زندہ بھی پاک تھا اور موت کے بعد بھی پاک ہے اور پھر وہ خیالات جو آنحضرت صلی ھی کم کی زندگی کے بارے میں بعض صحابہ کے دل میں پیدا ہو گئے تھے ایک عام جلسہ میں قرآن شریف کی آیت کا حوالہ دے کر ان تمام خیالات کو دور کر دیا اور ساتھ ہی اس غلط خیال کی بھی بیخ کنی کر دی جو حضرت مسیح کی حیات کی نسبت احادیث نبویہ میں پوری غور نہ کرنے کی وجہ سے بعض کے دلوں میں پایا جاتا تھا اور جس طرح حضرت يشوع بن نون نے دین کے سخت دشمنوں اور مفتریوں اور مفسدوں کو ہلاک کیا تھا اسی طرح بہت سے مفسد اور جھوٹے پیغمبر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارے گئے اور جس طرح حضرت موسیٰ راہ میں ایسے نازک وقت میں فوت ہو گئے تھے کہ جب ابھی بنی اسرائیل نے کنعانی دشمنوں پر فتح حاصل نہیں کی تھی اور بہت سے مقاصد باقی تھے اور ارد گرد دشمنوں کا شور تھا جو حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد اور بھی خطرناک ہو گیا تھا ایسا ہی ہمارے نبی صلی ایم کی وفات کے بعد ایک خطرناک زمانہ پیدا ہو گیا تھا.کئی فرقے عرب کے مرتد ہو گئے تھے.بعض نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اور کئی جھوٹے پیغمبر کھڑے ہو گئے تھے اور ایسے وقت میں جو ایک بڑے مضبوط دل اور مستقل مزاج اور قوی الایمان اور دلاور اور بہادر خلیفہ کو چاہتا تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر کئے گئے اور ان کو خلیفہ ہوتے ہی بڑے غموں کا سامنا ہوا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ بباعث چند در چند فتنوں اور بغاوتِ اعراب اور کھڑے ہو نے جھوٹے پیغمبروں کے میرے باپ پر جبکہ وہ خلیفہ رسول اللہ صلعم مقرر کیا گیا وہ مصیبتیں پڑیں اور وہ غم دل پر نازل ہوئے کہ اگر وہ غم کسی پہاڑ پر پڑتے تو وہ بھی گر پڑتا اور پاش پاش ہو جاتا اور زمین سے ہموار ہو جاتا مگر چونکہ خدا کا یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے تو شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اور دل قوی ہونے کی روح اس میں پھونکی جاتی ہے.جیسا کہ یشوع کی کتاب باب اول آیت چھ میں حضرت یشوع کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مضبوط ہو اور دلاوری کر یعنی موسیٰ تو مر گیا اب تو مضبوط ہو جا.یہی حکم قضا و قدر کے رنگ میں نہ شرعی رنگ میں حضرت ابو بکر کے دل پر بھی نازل ہوا تھا تناسب اور تشابہ واقعات سے معلوم ہو تا ہے کہ گویا ابو بکر بن قحافہ اور يشوع بن نون ایک ہی شخص ہے.استخلافی مماثلت نے اس جگہ کس کر ”یعنی واضح طور پر “ اپنی مشابہت دکھلائی ہے یہ اس لئے کہ کسی دو لمبے سلسلوں میں باہم مشابہت کو دیکھنے والے طبعاً یہ عادت رکھتے ہیں کہ یا اول کو دیکھا کرتے ہیں اور یا آخر کو مگر دو سلسلوں کی درمیانی مماثلت کو جس کی تحقیق و تفتیش زیادہ وقت چاہتی ہے دیکھنا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اول اور آخر پر قیاس کر لیا کرتے ہیں اس لئے خدا نے اس مشابہت کو جو یشوع بن نون اور حضرت ابو بکر میں ہے جو دونوں خلافتوں کے اول سلسلہ میں
صحاب بدر جلد 2 141 حضرت ابو بکر صدیق ہیں اور نیز اس مشابہت کو جو حضرت عیسیٰ بن مریم اور اس امت کے مسیح موعود میں ہے جو دونوں خلافتوں کے آخر سلسلہ میں ہیں اجلی بدیہیات کر کے دکھلا دیا.مثلاً یشوع اور ابو بکر میں وہ مشابہت در میان رکھ دی کہ گویا وہ دونوں ایک ہی وجود ہے یا ایک ہی جو ہر کے دو ٹکڑے ہیں اور جس طرح بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد یوشع بن نون کی باتوں کے شنوا ہو گئے اور کوئی اختلاف نہ کیا اور سب نے اپنی اطاعت ظاہر کی یہی واقعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پیش آیا اور سب نے آنحضرت صلی علیکم کی جدائی میں آنسو بہا کر دلی رغبت سے حضرت ابو بکر کی خلافت کو قبول کیا.غرض ہر ایک پہلو سے حضرت ابو بکر صدیق کی مشابہت حضرت یشوع بن نون علیہ السلام سے ثابت ہوئی.خدا نے جس طرح حضرت یشوع بن نون کو اپنی وہ تائیدیں دکھلائیں کہ جو حضرت موسیٰ کو دکھلایا کرتا تھا ایسا ہی خدا نے تمام صحابہ کے سامنے حضرت ابو بکر کے کاموں میں برکت دی اور نبیوں کی طرح اس کا اقبال چمکا.اُس نے مفسدوں اور جھوٹے نبیوں کو خدا سے قدرت اور جلال پا کر قتل کیا تا کہ اصحاب رضی اللہ عنہم جائیں کہ جس طرح خدا آنحضرت صلی تعلیم کے ساتھ تھا اس کے بھی ساتھ ہے.ایک اور عجیب مناسبت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حضرت یشوع بن نون علیہ السلام سے ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت یشوع بن نون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک ہولناک دریا سے جس کا نام یز دن ہے عبور مع لشکر کرنا پیش آیا تھا اور پر دن میں ایک طوفان تھا اور عبور غیر ممکن تھا اور اگر اس طوفان سے عبور نہ ہو تا تو بنی اسرائیل کی دشمنوں کے ہاتھوں سے تباہی متصور تھی اور یہ وہ پہلا امر ہولناک تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یشوع بن نون کو اپنے خلافت کے زمانہ میں پیش آیا اس وقت خدا تعالیٰ نے اس طوفان سے اعجازی طور پر یوشع بن نون اور اس کے لشکر کو بچالیا اور پر دن میں خشکی پیدا کر دی جس سے وہ بآسانی گذر گیا وہ خشکی بطور جوار بھاٹا تھی یا محض ایک فوق العادت اعجاز تھا.بہر حال اس طرح خدا نے ان کو طوفان اور دشمن کے صدمہ سے بچایا اسی طوفان کی مانند بلکہ اس سے بڑھ کر آنحضرت صلی الہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر خلیفۃ الحق کو مع تمام جماعت صحابہ کے جو ایک لاکھ سے زیادہ تھے پیش آیا یعنی ملک میں سخت بغاوت پھیل گئی اور وہ عرب کے بادیہ نشین جن کو خدا نے فرمایا تھا قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدُخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات :15) ضرور تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق وہ بگڑتے تا یہ پیشگوئی پوری ہوتی.“ یعنی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بادیہ نشین کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے تو کہہ دو تم ایمان نہیں لائے لیکن اتنا کہو کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں جبکہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.بہر حال آپ فرماتے ہیں پس ایسا ہی ہوا اور وہ سب لوگ مرتد ہو گئے اور بعض نے زکوۃ سے انکار کیا اور چند شریر لوگوں نے پیغمبری کا دعویٰ کر دیا جن کے ساتھ کئی لاکھ بد بخت انسانوں کی جمعیت ہو گئی اور دشمنوں کا شمار اس قدر بڑھ گیا کہ صحابہ کی جماعت ان کے آگے کچھ بھی چیز نہ تھی اور ایک سخت طوفان ملک میں برپا ہوا یہ طوفان اس خوفناک پانی سے بہت بڑھ کر تھا جس کا سامنا حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو پیش آیا تھا اور جیسا کہ یوشع بن نون حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد ناگہانی طور پر اس سخت ابتلا میں مبتلا ہو گئے تھے
باب بدر جلد 2 142 حضرت ابو بکر صدیق کہ دریا سخت طوفان میں تھا اور کوئی جہاز نہ تھا اور ہر ایک طرف سے دشمن کا خوف تھا.یہی ابتلا حضرت ابو بکر کو پیش آیا تھا کہ آنحضرت صلی الم فوت ہو گئے اور ارتداد عرب کا ایک طوفان برپا ہو گیا اور جھوٹے پیغمبروں کا ایک دوسر ا طوفان اس کو قوت دینے والا ہو گیا.یہ طوفان یوشع کے طوفان سے کچھ کم نہ تھا بلکہ بہت زیادہ تھا اور پھر جیسا کہ خدا کی کلام نے حضرت یوشع کو قوت دی اور فرمایا کہ جہاں جہاں تُو جاتا ہے میں تیرے ساتھ ہوں.تو مضبوط ہو اور دلاور بن جا اور بے دل مت ہو.تب یشوع میں بڑی قوت اور استقلال اور وہ ایمان پیدا ہو گیا جو خدا کی تسلی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے.ایسا ہی حضرت ابو بکر کو بغاوت کے طوفان کے وقت خدا تعالیٰ سے قوت ملی.جس شخص کو اس زمانہ کی اسلامی تاریخ پر اطلاع ہے وہ گواہی دے سکتا ہے کہ وہ طوفان ایسا سخت طوفان تھا کہ اگر خدا کا ہاتھ ابو بکر کے ساتھ نہ ہوتا اور اگر در حقیقت اسلام خدا کی طرف سے نہ ہوتا اور اگر در حقیقت ابو بکر خلیفہ حق نہ ہو تا تو اس دن اسلام کا خاتمہ ہو گیا تھا.مگر یشوع نبی کی طرح خدا کے پاک کلام سے ابو بکر صدیق کو قوت ملی کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس ابتلا کی پہلے سے خبر دے رکھی تھی.چنانچہ جو شخص اس آیت مندرجہ ذیل کو غور سے پڑھے گا وہ یقین کرلے گا کہ بلا شبہ اس ابتلا کی خبر قرآن شریف میں پہلے سے دی گئی تھی اور وہ خبر یہ ہے کہ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الفيسقُونَ (النور (56) یعنی خدا نے مومنوں کو جو نیکوکار ہیں وعدہ دے رکھا ہے جو اُن کو خلیفے بنائے گا انہی خلیفوں کی مانند جو پہلے بنائے تھے اور اسی سلسلہ خلافت کی مانند سلسلہ قائم کرے گا جو حضرت موسیٰ کے بعد قائم کیا تھا.“حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی یہ تفسیری تھوڑا سا وضاحتی ترجمہ کیا ہوا ہے.ہی.فرمایا: اسی سلسلہ خلافت کی مانند سلسلہ قائم کرے گا جو حضرت موسیٰ کے بعد قائم کیا تھا اور ان کے دین کو یعنی اسلام کو جس پر وہ راضی ہو از مین پر جمادے گا اور اس کی جڑ لگا دے گا اور خوف کی حالت کو امن کی حالت کے ساتھ بدل دے گا.وہ میری پرستش کریں گے کوئی دوسرا میرے ساتھ نہیں ملائیں گے.دیکھو اس آیت میں صاف طور پر فرما دیا ہے کہ خوف کا زمانہ بھی آئے گا اور امن جاتا رہے گا مگر خدا اس خوف کے زمانہ کو پھر امن کے ساتھ بدل دے گا.سو یہی خوف یشوع بن نون کو بھی پیش آیا تھا اور جیسا کہ اس کو خدا کی کلام سے تسلی دی گئی ایسا ہی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی خدا کی کلام سے تسلی دی گئی.3734 پہلی مشکل آنحضرت علی ایم کی وفات کا غم حضرت ابو بکر کو خلافت کے بعد جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اُن کا ذکر ہو رہا تھا.ان میں سے پہلی
اصحاب بدر جلد 2 143 حضرت ابو بکر صدیق مشکل جو بیان کی گئی تھی وہ آنحضرت علی ایم کی وفات کا غم تھا جو ہر مسلمان کو تھا لیکن سب سے بڑھ کر حضرت ابو بکر جو بچپن کے ساتھی تھے ان کو بہت زیادہ دکھ تھا اور اس کے علاوہ ان کا وفا کا جو مقام تھا اور بیعت کی گہرائی میں جا کر اس کا ادراک تھا وہ کسی اور کو تو نہیں تھا لیکن اس وقت انہوں نے بڑی جرآت کا مظاہرہ کیا، ایمان کا مظاہرہ کیا.یہ بیان ہوا ہے کہ پہلا نازک اور ہولناک مرحلہ تو آنحضرت صلی ایم کی وفات کا صدمہ تھا کہ جس سے سارے صحابہ مارے غم کے دیوانے ہو رہے تھے.موت کے اس اچانک صدمے سے کوئی سنبھل نہیں پا رہا تھا.آنحضرت صلی اللہ کم کی جدائی کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا.آپ ملی لی نام کی وفات کا حادثہ اس قدر شدید اور المناک تھا کہ بڑے بڑے صحابہ مارے غم کے حواس کھو بیٹھے تھے.حضرت عمر جیسے بہادر کا محبت کی اس دیوانگی میں اور بھی برا حال تھا.وہ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ محمد صلی علی کی وفات پاگئے ہیں تو میں اس کا سر تن سے جدا کر دوں گا اور یہ ایک ایسارڈ عمل تھا کہ مسلمان اس بات کو سن کر اس شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے تھے کہ کیا آنحضرت صلی الیکم واقعی فوت ہو گئے ہیں کہ نہیں.اور قریب تھا کہ یہ عشاق نبی اکرم صلی الم کی محبت میں توحید کے بنیادی سبق کو بھولتے ہوئے یہ کہنے لگ جاتے کہ نہیں آنحضرت ملا یہ کمی بھی فوت نہیں ہو سکتے اور نہ ہی فوت ہوئے ہیں.اس وقت حضرت ابو بکر صدیق مسجد نبوی میں تشریف لائے اور وہاں جمع شدہ سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.اے لوگو ! مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدِّمَاتَ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ الله حي لا يموت.جو شخص محمد رسول اللہ صلی الم کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد صلی ا یم فوت ہو چکے ہیں اور جو کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کر تا تھا وہ خوش ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور بھی فوت نہیں ہو گا.باوجود بے انتہا محبت کے جو آنحضرت صلی للی کمر سے آپ کو تھی جس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا لیکن توحید کا درس آپ نے دیا.الله پھر فرمایا.وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى اعْقَابِكُم (آل عمران :145) کہ محمد صلی ا یہ کام صرف اللہ کے ایک رسول تھے اور آپ سے پہلے جتنے رسول گزرے ہیں سب فوت ہو چکے ہیں.پھر آپ کیوں نہ فوت ہوں گے.اگر آپ فوت ہو جائیں گے یا قتل کیے جائیں گے تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور اسلام کو چھوڑ دو گے؟ اس طرح حضرت ابو بکر نے کمال ہمت اور حکمت سے اس وقت غم کی اس کیفیت میں صحابہ کی ڈھارس بندھائی اور غم کے مارے ان عشاق کے دلوں پر مرہم لگانے کا سبب بنے اور دوسری طرف توحید کی لرزتی ہوئی عمارت کو سنبھالا دیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق جس میں آپ فرماتے ہیں اور پھر وہ خیالات جو آنحضرت صلی علیہ یکم کی زندگی کے بارے میں بعض صحابہ کے دل میں پیدا ہو گئے تھے ایک عام جلسہ میں قرآن شریف کی آیت کا حوالہ دے کر ان تمام خیالات کو دور کر دیا اور ساتھ ہی اس غلط خیال کی بھی بیخ کنی کر دی جو حضرت مسیح کی حیات کی نسبت احادیث نبویہ میں پوری غور نہ کرنے کی وجہ سے بعض کے دلوں میں پایا جاتا تھا.374<<
تاب بدر جلد 2 144 حضرت ابو بکر صدیق دوسرا بڑا کام امت مسلمہ کو اتحاد کی لڑی میں پرونا دوسر ا بڑا کام یا صدمہ جو پہنچا، اور کس طرح آپ نے اس پر قابو پایا یا انجام دیا.وہ دوسرا بڑا کام ہے انتخاب خلافت کے وقت امت مسلمہ کو اتفاق کی لڑی میں ، اتحاد کی لڑی میں پرونا.نبی اکرم صلی ایم کی وفات کے بعد جو ایک دوسر ا ممکنہ خدشہ پیدا ہوا وہ سقیفہ بنو ساعدہ میں انصار کا اجتماع تھا جہاں ابتدا میں تو گویا یوں لگتا تھا کہ انصار کسی طور سے بھی مہاجرین میں سے کسی کو اپنا امیر یا خلیفہ تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوں گے اور مہاجرین انصار میں سے کسی کو خلیفہ بنانے پر تیار نہ ہوں گے.اور قریب تھا کہ اختلافی تقریروں سے بڑھ کر بات تلواروں تک جا پہنچتی کہ اس نازک موقع پر حضرت ابو بکر صدیق کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے وہ تاثیر پیدا کی اور دوسری طرف لوگوں کے دلوں کو حضرت ابو بکر کی طرف مائل کیا کہ یہ سارا انتشار اور اختلاف ایک بار پھر محبت و اتحاد میں تبدیل ہو گیا.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اور جس طرح بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد یوشع بن نون کی باتوں کے شنوا ہو گئے اور کوئی اختلاف نہ کیا اور سب نے اپنی اطاعت ظاہر کی یہی واقعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پیش آیا اور سب نے آنحضرت صلی کم کی جدائی میں آنسو بہا کر دلی رغبت سے حضرت ابو بکر کی خلافت کو 375" قبول کیا.لشکر اسامہ کی روانگی 376 تیسری اہم بات، اور ایسا فتنہ جس کو سنبھالنا بڑا ضروری تھا.حضرت ابو بکر نے اس کو کس طرح سر انجام دیا اور وہ بات تھی لشکر اسامہ کی روانگی.رسول اللہ صلی المی کریم نے یہ لشکر شام کی سرحد پر رومیوں سے جنگ کے لیے تیار کیا تھا.جنگ موتہ اور غزوہ تبوک کے بعد آپ صلی علی کی کو خدشہ پید اہوا کہ کہیں اسلام اور مسیحیت کے بڑھتے ہوئے اختلاف اور یہود کی فتنہ انگیزی کے باعث اہل روم عرب پر حملہ نہ کر دیں.جنگ موتہ میں حضرت زید حضرت جعفر حضرت عبد اللہ بن رواحہ مسلمانوں کے تین امیر یکے بعد دیگرے شہید ہوئے.موتہ اردن کے مشرق میں ایک زرخیز زمین میں واقع ایک شہر ہے.بہر حال اس بارے میں حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ : نبی کریم صلی علیم نے لوگوں کو حضرت زید ، حضرت جعفر اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی موت کی خبر دی پیشتر اس کے کہ لوگوں کے پاس اس سے متعلق کوئی خبر آئی.آپ صلی للہﷺ نے فرمایا: زید نے جھنڈ ا لیا اور وہ شہید ہوا.پھر جعفر نے پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گیا.پھر ابن رواحہ نے جھنڈے کو پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے.اور آپ کی آنکھیں آنسو بہارہی تھیں.پھر آپ نے فرمایا کہ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار یعنی خالد بن ولید نے جھنڈ الیا یہاں تک کہ اللہ نے اسے ان مخالفین پر فتح دی.7 377
محاب بدر جلد 2 145 حضرت ابو بکر صدیق اس کے بعد آپ صلی علی کلم بنفس نفیس مسلمانوں کو ہمراہ لے کر جانب تبوک روانہ ہوئے لیکن دشمن کو میدان میں نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہوئی اور اس نے شام کے اندرونی علاقوں میں گھس کر مسلمانوں کے حملوں سے محفوظ ہونے میں اپنی خیریت سمجھی.ان غزوات کے باعث مسلمانوں کے متعلق رومیوں کے ارادے بہت خطرناک ہو گئے اور انہوں نے عرب کی سرحد پر پیش قدمی کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں.اسی وجہ سے رسول اللہ صلی الی تم نے اسامہ کو بطور پیش بندی شام روانہ ہونے کا حکم دیا تھا.378 اور ایک مقصد جنگ موتہ کے شہیدوں کا بدلہ لینا بھی تھا.لشکر اسامہ کی تیاری رسول اللہ صلی ال نیم کی وفات سے دوروز قبل بروز ہفتہ مکمل ہوئی اور اس کا آغاز آپ کی بیماری سے قبل ہو چکا تھا.آپ صلی علیہم نے ماہ صفر کے آخر میں رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم دیا.حضرت اسامہ کو بلایا اور فرمایا اپنے والد کی شہادت گاہ کی طرف روانہ ہو جاؤ اور انہیں گھوڑوں سے روند ڈالو.میں نے تم کو اس 379 لشکر کا امیر مقرر کیا ہے.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی الی یم نے فرمایا بلقاء اور دار دوم کو گھوڑوں کے ذریعہ سے روند ڈالو.یعنی یہ لوگ ایسے ہیں جو جنگ کرنا چاہتے ہیں ان سے اچھی طرح جنگ کرو.بلقاء جو ہے وہ ملک شام میں واقع ایک علاقہ ہے جو دمشق اور وادی القری کے درمیان ہے.دارُوم کے بارے میں یہ تعارف لکھا ہے کہ مصر جاتے ہوئے فلسطین میں غزہ کے بعد ایک مقام ہے.380 بہر حال ملک شام کے لیے روانگی کا ارشاد کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.صبح ہوتے ہی اہل انٹی پر حملہ کرو.اُبٹی بھی ملک شام میں بلقاء کی جانب ایک جگہ کا نام ہے اور تیزی کے ساتھ سفر کرو تاان تک اطلاع پہنچنے سے پہلے پہنچ جاؤ.پس اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کامیابی عطا کرے تو وہاں قیام مختصر رکھنا اور اپنے ساتھ راستہ دکھانے والے لے جانا اور مخبروں اور جاسوسوں کو اپنے آگے روانہ کر دو.نبی کریم صلی علی کلم نے حضرت اسامہ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جھنڈا باندھا.پھر کہا: اللہ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کرو اور اس سے جنگ کرو جس نے اللہ کا انکار کیا.حضرت اسامہ یہ یعنی آنحضور صلی الیکم کے ہاتھ سے بندھا ہو ا جھنڈا لے کر نکلے اور اسے حضرت بریدہ بن حصیب کے سپرد کیا اور مجرف مقام پر لشکر کو جمع کیا.جرف بھی مدینہ سے تین میل شمال کی جانب ایک جگہ ہے.بہر حال مہاجرین و انصار کے معززین میں سے کوئی شخص بھی باقی نہ بچا مگر اس کو اس جنگ کے لیے بلا لیا گیا.ان میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زید، حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ، حضرت سلمہ بن اسلم رضی اللہ عنہ یہ سب بھی شامل تھے.کچھ لوگوں نے باتیں شروع کر دیں اور کہا یہ لڑکا اولین مہاجرین پر امیر بنایا جارہا ہے.اس بات پر رسول اللہ صلی املی کی سخت ناراض ہوئے.آپ نے اپنے سر کو ایک رومال سے باندھا ہوا تھا اور آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے.آپ منبر پر
حاب بدر جلد 2 146 حضرت ابو بکر صدیق چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی.پھر فرمایا اے لوگو! تم میں سے بعض کی گفتگو اسامہ کو امیر بنانے کے متعلق مجھے پہنچی ہے.اگر میرے اسامہ کو امیر بنانے پر تم نے اعتراض کیا ہے تو اس سے پہلے اس کے باپ کو میرے امیر مقرر کرنے پر بھی تم اعتراض کر چکے ہو.خدا کی قسم ! وہ امارت کے لائق تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی امارت کے لائق ہے وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور یقینا یہ دونوں ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں ہر قسم کی نیکی اور بھلائی کا خیال کیا جا سکتا ہے.پس اسامہ کے لیے خیر کی نصیحت پکڑو کیونکہ یہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ہے.یہ 10/ ربیع الاول اور ہفتے کا دن تھا یعنی آنحضور صلی للی کم کی وفات سے دو دن قبل کی بات ہے.وہ مسلمان جو لشکر میں حضرت اسامہ کے ساتھ روانہ ہو رہے تھے وہ رسول اللہ صلی ال ی م و و وداع کر کے مجرف کے مقام پر ان شامل ہونے کے لیے چلے گئے.رسول اللہ صلی للی کم کی بیماری بڑھ گئی لیکن آپ تاکید فرماتے رہے کہ لشکرِ اسامہ کو بھیجو.اتوار کے دن رسول اللہ صلی ال نیم کا درد اور زیادہ ہو گیا.حضرت اسامہ لشکر میں سے واپس آئے تو آپ صلی علیہ یکم بے ہوشی کی حالت میں تھے.اس روز لوگوں نے آپ کو دوا پلائی تھی.حضرت اسامہ نے سر جھکا کر رسول اللہ صلی علیکم کو بوسہ دیا.آپ بول نہیں سکتے تھے لیکن آپ صلی الیہ تم اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے اور حضرت اسامہ کے سر پر رکھ دیتے.حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ آپ میرے لیے دعا کر رہے ہیں.حضرت اسامہ لشکر کی طرف واپس آگئے.حضرت اسامہ سوموار کو دوبارہ رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس آئے تو آپ کو افاقہ ہو گیا تھا.آپ نے اسامہ سے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کی برکت سے روانہ ہو جاؤ.حضرت اسامہ آنحضرت علی ای کم سے رخصت ہو کر اپنے لشکر کی طرف روانہ ہوئے اور لوگوں کو چلنے کا حکم دیا.آپ نے ابھی کوچ کا ارادہ ہی کیا تھا کہ ان کی والدہ حضرت ام ایمن کی طرف سے ایک شخص یہ پیغام لے کر آیا کہ آنحضرت صلی ایم کا آخری وقت دکھائی دے رہا ہے.اس پر حضرت اسامہ رسول اللہ صلی علیہم کے پاس حاضر ہوئے اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ بھی ان کے ساتھ تھے اور آپ پر نزع کی حالت تھی.12 / ربیع الاول کو پیر کے دن سورج ڈھلنے کے بعد آپ صلی علیہ یکم نے وفات پائی جس کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر مجرف مقام سے مدینہ واپس آ گیا اور حضرت بُریدہ بن حصیب حضرت اسامہ کا جھنڈا لے کر آئے اور رسول اللہ صلی علیم کے دروازے پر گاڑ دیا.ایک روایت کے مطابق جب حضرت اسامہ کا لشکر ذی خُشب میں تھا تو رسول اللہ صلی ایم کی وفات ہو گئی.یہ ذی خُشب مدینہ سے شام کے راستے پر ایک وادی کا نام ہے.بہر حال جب حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی گئی تو حضرت ابو بکر نے حضرت بریدہ بن حصیب کو حکم دیا کہ جھنڈا لے کر اسامہ کے گھر جاؤ کہ وہ اپنے مقصد کے لیے روانہ ہوں.حضرت بریدہ جھنڈے کو لشکر کی پہلی جگہ پر لے آئے.381 اس لشکر کی تعداد تین ہزار بیان کی جاتی ہے.اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت اسامہ بن زید کو سات سو آدمیوں کے ساتھ شام کی 382
باب بدر جلد 2 147 حضرت ابو بکر صدیق طرف بھیجا گیا.ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی ایم کی وفات کے دوسرے روز حضرت ابو بکر نے منادی کرادی کہ اسامہ کی مہم پایہ تکمیل کو پہنچے گی.اسامہ کے لشکر میں سے کوئی شخص بھی مدینہ میں باقی نہ رہے مگر یہ کہ وہ سب مجرف میں ان کے لشکر سے جاملیں.آنحضرت صلی الی کمی کی وفات کے بعد تمام عرب میں خواہ کو کئی عام تھا یا خاص تقریباً ہر قبیلہ میں فتنہ ارتداد پھیل چکا تھا اور ان میں نفاق ظاہر ہو گیا تھا اور اس وقت یہود و نصاریٰ نے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیا تھا اور نبی صلی علی یکم کی وفات اور مسلمانوں کی کم تعداد اور دشمن کی کثرت کے باعث ان کی حالت بارش والی ریت میں بھیڑ بکریوں کی مانند تھی یعنی اس طرح تھے کہ بالکل بے یارو مددگار تھے اس پر لوگوں نے ابو بکر سے کہا کہ یہ لوگ صرف اسامہ کے لشکر کو ہی مسلمانوں کا لشکر سمجھتے ہیں اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں عربوں نے آپ سے بغاوت کر دی ہے.پس مناسب نہیں کہ آپ مسلمانوں کی اس جماعت کو اپنے سے الگ کر لیں یعنی اسامہ کے لشکر کو بھیجیں.اس پر حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے یقین ہو کہ درندے مجھے نوچ کھائیں گے تو کبھی میں اسامہ کے لشکر کے بارے میں رسول اللہ کے جاری فرمودہ فیصلے کو نافذ کر کے رہوں گا.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں اگر رسول اللہ صلی علیم کی ازواج مطہرات کے پاؤں کتے گھسیٹتے پھریں.میں پھر بھی اس لشکر کو جسے رسول اللہ صلی یکم نے بھیجا ہے واپس نہیں بلاؤں گا اور نہ میں اس جھنڈے کو کھولوں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ ولیم نے باندھا ہے.383 حضرت مصلح موعود اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ”جب رسول کریم صلی علیہ کی وفات پا گئے تو سارا عرب مرتد ہو گیا اور حضرت عمرؓ اور حضرت علی جیسے بہادر انسان بھی اس فتنہ کو دیکھ کر گھبر اگئے.رسول کریم صلی الیم نے اپنی وفات کے قریب ایک لشکر رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اور حضرت اسامہ ھو اس کا افسر مقرر کیا تھا.یہ لشکر ابھی روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی الیہ کی وفات پاگئے اور آپ کی وفات پر جب عرب مرتد ہو گیا تو صحابہ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ کا لشکر ابھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے مرد اور بچے اور عور تیں رہ جائیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں رہے گا.چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہ کا ایک وفد حضرت ابو بکر کی خدمت میں جائے اور ان سے درخواست کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں.چنانچہ حضرت عمر اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ درخواست پیش کی.حضرت ابو بکر نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے نہایت غصہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ : کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی للہ ﷺ کی وفات کے بعد ابو قحافہ کا بٹیا سب سے پہلا کام یہ کرے
باب بدر جلد 2 148 حضرت ابو بکر صدیق 384 کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ تم نے روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اسے روک لے ؟ پھر آپ نے فرمایا خدا کی قسم ! اگر دشمن کی فوجیں مدینہ میں گھس آئیں اور کتے مسلمان عورتوں کی لاشیں گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی علی کرم نے فیصلہ فرمایا تھا.یہ جرات اور دلیری حضرت ابو بکر میں اسی وجہ سے پیدا ہوئی کہ خدا نے یہ فرمایا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ اشدّاء عَلَى الْكُفَّارِ جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جائے تو اس میں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی علی ایم کے تعلق کے نتیجہ میں آپ کے ماننے والے بھی اشد آج علی الكفار کے مصداق بن گئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیش اسامہ کی روانگی کی بابت اپنی تصنیف ستر الخلافہ میں بیان فرماتے ہیں کہ ”ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی علی کم کا وصال ہوا اور آپ کی وفات کی خبر مکہ اور وہاں کے گورنر عتاب بن اسید کو پہنچی تو عقاب چھپ گیا اور مکہ لرز اٹھا اور قریب تھا کہ اس کے باشندے مرتد ہو جاتے اور مزید لکھا ہے کہ عرب مرتد ہو گئے.”ہر قبیلہ میں سے عوام یا خواص.اور نفاق ظاہر ہو گیا اور یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی گرد نہیں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کی اپنے نبی کی وفات کی وجہ سے، نیز اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت کی وجہ سے ایسی حالت ہو گئی تھی جیسی بارش والی رات میں بھیڑ بکریوں کی ہوتی ہے اس پر لوگوں نے ابو بکر سے کہا کہ یہ لوگ صرف اسامہ کے لشکر کو ہی مسلمانوں کا لشکر سمجھتے ہیں اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں عربوں نے آپ سے بغاوت کر دی ہے.پس مناسب نہیں کہ آپ مسلمانوں کی اس جماعت کو اپنے سے الگ کر لیں.اس پر (حضرت) ابو بکر نے فرمایا: اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا یقین بھی ہو جائے کہ درندے مجھے اچک لیں گے تب بھی میں رسول اللہ صلی الہی کے کے حکم کے مطابق اسامہ کے لشکر کو ضرور بھیجوں گا.جو فیصلہ رسول اللہ صل ال ولم نے فرمایا ہے میں اسے منسوخ نہیں کر سکتا.385 الغرض آپ نے آنحضرت صلی العلیم کے حکم کو کما حقہ قائم رکھا اور نافذ فرمایا اور جو صحابہ حضرت اسامہ کے لشکر میں شامل تھے انہیں واپس لشکر میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا.آپؐ نے فرمایا کہ : ہر وہ شخص جو پہلے اسامہ کے لشکر میں شامل تھا اور اسے رسول اللہ صلی علی کرم نے اس میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا تھا وہ ہر گز پیچھے نہ رہے اور نہ ہی میں اسے پیچھے رہنے کی اجازت دوں گا.اسے خواہ پیدل بھی جانا پڑے وہ ضرور ساتھ جائے گا.تو ایک بھی اس سے پیچھے نہ رہا.386 بہر حال لشکر ایک بار پھر تیار ہو گیا.بعض صحابہ نے حالات کی نزاکت کے باعث پھر مشورہ دیا کہ فی الحال اس لشکر کو روک لیا جائے.ایک روایت کے مطابق حضرت اسامہ نے حضرت عمر سے کہا کہ آپ حضرت ابو بکر کے پاس جا کر ان سے کہیں کہ وہ لشکر کی روانگی کا حکم منسوخ کر دیں تاکہ ہم مرتدین کے
اصحاب بدر جلد 2 149 حضرت ابو بکر صدیق خلاف نبرد آزما ہوں اور خلیفہ رسول اور حرم رسول اور مسلمانوں کو مشرکین کے حملوں سے محفو ظ ر کھیں.حضرت اسامہ کے لشکر میں شامل کچھ انصار نے حضرت عمرؓ سے یہ بھی کہا کہ خلیفہ رسول اللہ صلی علیکم حضرت ابو بکر اگر لشکر کو روانہ کرنے پر ہی مصر ہوں تو انہیں ہماری طرف سے یہ پیغام دیں اور یہ مطالبہ کریں کہ وہ کسی ایسے شخص کو لشکر کا سر دار مقرر کر دیں جو عمر میں اسامہ سے بڑا ہو.حضرت عمر حضرت اسامہ کے کہنے پر حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بتایا جو حضرت اسامہ نے کہا تھا.اس پر حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ اگر کتے اور بھیڑیے بھی مجھے نوچ کر کھائیں تو میں اسی طرح اس فیصلے کو نافذ کروں گا جیسا کہ رسول اللہ صلی الیم نے حکم فرمایا تھا اور میں اس فیصلے کو تبدیل نہیں کروں گا جو فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا تھا.اگر ان بستیوں میں میرے سوا کوئی ایک بھی باقی نہ بچا تب بھی میں اس فیصلے کو نافذ کر کے رہوں گا.پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ انصار کسی ایسے شخص کو امیر کے طور پر چاہتے ہیں جو اسامہ سے عمر میں بڑا ہو.اس پر حضرت ابو بکر جو بیٹھے ہوئے تھے کھڑے ہوئے اور حضرت عمر کی داڑھی سے پکڑا اور کہا اے ابن خطاب ! تیری ماں تجھے کھوئے !!رسول اللہ صلی اللی کرم نے اسے امیر مقرر کیا ہے اور تم مجھے کہتے ہو کہ میں اسے امارت سے ہٹا دوں.87 حضرت عمر لوگوں کی طرف واپس پہنچے تو لوگوں نے آپ سے کہا کہ کیا بنا؟ تو حضرت عمرؓ نے ان سے کہا: چلے جاؤ.تمہاری مائیں تمہیں کھوئیں.یعنی ان کو برا بھلا کہا.ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ آج تمہاری وجہ سے رسول اللہ صلی اللی ریم کے خلیفہ کی طرف سے مجھے کوئی بھلائی نہیں ملی.یعنی انہوں نے میری باتوں کا بہت بُرا منایا.جب حضرت ابو بکر کے حکم کے مطابق جیش اسامہ مجرف کے مقام پر اکٹھا ہو گیا تو حضرت ابو بکر وہاں خود تشریف لے گئے اور آپ نے وہاں جا کر لشکر کا جائزہ 388 لیا اور اس کو ترتیب دیا.روانگی کے وقت کا منظر بھی بہت حیرت انگیز تھا.اس وقت حضرت اسامہ سوار تھے جبکہ حضرت ابو بکر پیدل چل رہے تھے.حضرت اسامہ نے عرض کیا اے رسول اللہ صلی علیم کے خلیفہ ! یا تو آپ سوار ہو جائیں یا پھر میں بھی نیچے اتر تاہوں.اس پر حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا.بخدا نہ ہی تم نیچے اتر و گے اور نہ ہی میں سوار ہوں گا اور مجھے کیا ہے کہ میں اپنے دونوں پیر اللہ کی راہ میں ایک گھڑی کے لیے گرد آلود نہ کر لوں کیونکہ غزوہ میں شامل ہونے والا جب کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اس کے لیے اس کے بدلے میں سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کو سات سو درجے بلندی دی جاتی ہے اور اس کی سات سو برائیاں ختم کی جاتی 389 390 پھر حضرت ابو بکر نے حضرت اسامہ سے کہا اگر آپ مناسب سمجھیں تو حضرت عمر کو میرے کاموں میں معاونت کے لیے چھوڑ دیں تو حضرت اسامہ نے اجازت دے دی.اس کے بعد حضرت عمر جب بھی حضرت اسامہ سے ملتے یہاں تک کہ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد
اصحاب بدر جلد 2 150 حضرت ابو بکر صدیق بھی تو آپ کو مخاطب ہو کر کہتے کہ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْأَمِيرُ - حضرت عمر کیونکہ قافلے میں شامل تھے اس لیے اس وقت ان کے امیر تھے تو حضرت عمر یہ کہا کرتے تھے کہ اے امیر ! السلام علیکم.حضرت اسامہ جواب دیا کرتے تھے کہ غَفَرَ اللهُ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِین کہ اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ آپ سے مغفرت کا سلوک فرمائے.391 لشکر اسامہ کو حضرت ابو بکر کی نصائح بہر حال آگے ذکر ہے کہ سب سے آخر پر لشکر کو خطاب فرماتے ہوئے حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں: تم خیانت نہ کرنا؛ اور مال غنیمت سے چوری نہ کرنا؛ تم بد عہدی نہ کرنا؛ اور مثلہ نہ کرنا یعنی کسی کے ناک کان نہ کاٹنا آنکھیں نہ نکالنا چہرہ نہ بگاڑنا؛ اور کسی چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بوڑھے کو اور نہ ہی کسی عورت کو ؛ اور نہ کھجور کے درخت کو کاٹنا اور نہ اس کو جلانا؛ اور نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا، نہ تم کسی بکری گائے اور اونٹ کو ذبح کرنا سوائے کھانے کے لیے؛ اور تم کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہے پس تم انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا یعنی راہب، عیسائی پادری، جتنے ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا؟ اور تم ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو تمہیں مختلف قسم کے کھانے برتنوں میں پیش کریں گے تم ان پر اللہ کا نام لے کر کھانا.یہ نہیں کہ اگر انہوں نے کھانا پیش کیا تو نہ کھاؤ کہ حرام ہے، بسم اللہ پڑھ کے کھالینا؛ اور تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو اپنے سر کے بال در میان سے صاف کیے ہوں گے اور چاروں طرف پٹیوں کی مانند بال چھوڑے ہوں گے تو تلوار سے ان کی خبر لینا.یہ لوگ جو ہیں ان کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں.یہ آتا ہے کہ عیسائیوں کا ایک گروہ ایسا تھا جو راہب تو نہیں تھے لیکن مذہبی لیڈر ہوتے تھے اور وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے بھڑکاتے رہتے تھے اور جنگ میں حصہ بھی لیتے تھے.اس لیے آپ نے یہ تو فرمایا کہ جو راہب ہیں گرجوں کے اندر ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا، ان سے نہیں لڑ نا لیکن ایسے لوگ اور ان لوگوں کے پیچھے چلنے والے جو لوگ ہیں ان سے بہر حال جنگ کرنی ہے کیونکہ یہ لوگ جنگ کرنے والے بھی ہیں اور جنگ کے لیے بھڑ کانے والے بھی ہیں.فرمایا کہ اللہ کے نام سے روانہ ہو جاؤ.اللہ تمہیں ہر قسم کے زخم سے اور ہر قسم کی بیماری اور طاعون سے محفوظ رکھے.392 پھر حضرت ابو بکر نے اسامہ سے فرمایا کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے جو تمہیں کرنے کا حکم دیا تھا وہ سب 394 کچھ کرنا.رسول اللہ صلی علی یم کے احکام کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنا.393 اس کے بعد حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ کو ساتھ لے کر مدینہ تشریف لے آئے.4 حضرت ابو بکر نے اُسامہ بن زید کے لشکر کو ربیع الاول 11 ہجری کے آخر میں روانہ فرمایا.5 395
حاب بدر جلد 2 151 396 حضرت ابو بکر صدیق اور ایک روایت کے مطابق انہیں یکم ربیع الثانی گیارہ ہجری کو روانہ فرمایا.حضرت اسامہ نہیں راتوں کا سفر طے کر کے اہل انٹی کے پاس پہنچے اور ان پر اچانک حملہ کر دیا اور مسلمانوں کا شعار یا مَنْصُورُ آمِت تھا.یعنی اے منصور امار دو.یعنی جو بھی مقابلہ کرنے آیا ہے اسے مارو.جو اُن کے سامنے آیا اسے قتل کر دیا اور جس پر قابو پالیا اسے قیدی بنالیا.حضرت اسامہ نے ان کے میدانوں میں اپنے گھڑ سواروں کو گشت کرایا.اس روز جو کچھ انہیں مال غنیمت ملا اسے سنبھالنے میں مصروف رہے.حضرت اسامہ اپنے والد کے سبحه نامی گھوڑے پر سوار تھے اور انہوں نے حملہ کر کے اپنے والد کے قاتل کو بھی قتل کر دیا.جب شام ہو گئی تو حضرت اسامہ نے لوگوں کو کوچ کا حکم دیا اور اپنی رفتار تیز کر دی.آپ کو راتوں میں وادی القریٰ پہنچ گئے اور آپ نے خوشخبری دینے والوں کو مدینہ روانہ کیا کہ وہ لشکر کی سلامتی کی خبر دے.اس کے بعد انہوں نے روانگی کا قصد کیا اور چھ راتوں میں مدینہ پہنچ گئے.اس معرکہ میں مسلمانوں کا کوئی آدمی بھی شہید نہیں ہوا.جب یہ کامیاب اور فاتح لشکر مدینہ پہنچا تو حضرت ابو بکر مہاجرین اور اہل مدینہ کے ساتھ لشکر کی سلامتی پر خوش ہوتے ہوئے ان کو ملنے کے لیے باہر نکلے.حضرت اسامہ اپنے والد کے گھوڑے پر سوار ہو کر داخل ہوئے اور حضرت بریدہ بن حصیب آپ کے آگے جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے یہاں تک کہ آپ مسجد نبوی پہنچے.آپ نے مسجد میں داخل ہو کر دور کعات پڑھیں.پھر آپ اپنے گھر چلے گئے.متفرق روایات کے مطابق یہ لشکر چالیس سے لے کر ستر روز تک باہر رہنے کے بعد مدینہ واپس پہنچا تھا.398 397 399 لکھا ہے کہ غالباً یہ آنحضرت صلی علی کم سے حضرت ابو بکر کی محبت کا سبب تھا کہ اسامہ کے جس جھنڈے کو آنحضرت صلی للی یکم نے خود اپنے ہاتھ سے گرہ لگائی تھی حضرت ابو بکر نے فرمایا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابن ابو قحافہ اس جھنڈے کی گرہ کھول دے جو نبی اکرم صلی علیم نے خود اپنے ہاتھ سے لگائی ہے.چنانچہ لشکر اسامہ کی واپسی پر اس جھنڈے کی گرہ نہ کھولی گئی اور وہ جھنڈ ابعد میں بھی حضرت اسامہ کے گھر میں ہی رہا یہاں تک کہ حضرت اسامہ کی وفات ہو گئی.9 لشکر اسامہ کے اثرات کے بارے میں لکھا ہے کہ اس لشکر کے بہت ہی اہم اور دور رس اثرات ظاہر ہوئے: ایک تو یہ کہ وہ سب لوگ جو کہ پہلے بہت شدت سے قائل تھے کہ حالات کا تقاضا ہے کہ لشکر اسامہ کو ابھی نہیں بھیجنا چاہیے وہ جان گئے کہ خلیفہ کا فیصلہ کتنا بر وقت اور مفید تھا اور وہ جان گئے کہ حضرت ابو بکر بہت ہی عمیق نظر اور فہم و فراست کے حامل تھے ، نمبر دو یہ کہ اس لشکر کی روانگی سے قبل قبائل عرب میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ سوچنے لگے کہ اگر مسلمانوں کے پاس قوت نہ ہوتی تو لشکر روانہ نہ کرتے.اس کا ان پر کافی رعب پڑا؛ تیسری بات یہ کہ عرب کی سرحدوں پر نظریں لگائے غیر ملکی قوتیں خاص طور پر رومیوں پر مسلمانوں کار عب طاری ہو گیا.رومی کہنے لگے یہ کیسے لوگ ہیں کہ
حاب بدر جلد 2 152 حضرت ابو بکر صدیق 400 ایک طرف تو ان کا نبی فوت ہو رہا ہے اور پھر بھی یہ ہمارے ملک پر حملہ آور ہو رہے ہیں.مشہور برطانوی ماہر تعلیم اور مستشرق سر تھامس واکر آرنلڈ (Thomas Walker Armold) لشکر اسامہ کے بارے میں لکھتا ہے: [AFTER the death of Muhammad, the army he had intended for Syria was despatched thither by Abu Bakr, in spite of the protestations made by certain Muslims in view of the then disturbed state of Arabia.He silenced their expostulations with the words: "I will not revoke any order given by the Prophet.Medina may become the prey of wild beasts, but the army must carry out the wishes of Muhammad." This was the first of that wonderful series of campaigns in which the Arabs overran Syria, Persia and Northern Africa-overturning the ancient kingdom of Persia and despoiling the Roman Empire of some of its fairest provinces.]401 اس کا ترجمہ یہ ہے کہ محمد صلی ا یکم کی وفات کے بعد ابو بکر نے لشکر اسامہ کو روانہ کیا جسے شام کی طرف بھیجنے کا نبی کریم صلی الم نے عزم کر رکھا تھا.باوجودیکہ عرب میں اضطرابی کیفیت کے پیش نظر بعض مسلمانوں نے اس سے اختلاف کیا لیکن ابو بکر نے ان کے تر قد کو اپنے اس قول کے ذریعہ سے خاموش کر دیا کہ میں رسول اللہ صلی علیم کی طرف سے دیے گئے کسی حکم کو منسوخ نہیں کروں گا خواہ مدینہ جنگی در ندوں کا شکار بن جائے پھر بھی یہ لشکر حضور صلی الی یم کی خواہشات کی ضرور تحمیل کرے گا.یہ ان شاندار مہمات میں سے پہلی مہم تھی جس کے ذریعہ سے عرب شام، ایران اور شمالی افریقہ پر قابض ہوئے اور قدیم فارسی سلطنت کو ختم کیا اور رومی سلطنت کے پنجے سے اس کے بہترین صوبوں کو آزاد کرالیا.اسی طرح ایک اور جگہ ہے اس کا تذکرہ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں حضرت اسامہ کے ذیل میں اس طرح لکھا ہے: The newly-elected caliph Abu Bakr ordered the expedition to be resumed, in accordance with the Prophet's wishes, though the tribes were already in revolt.Usama reached the region of al-Balka in Syria, where Zayd had fallen, and raided the village of Ubna......His victory brought joy to Medina, depressed by news of the ridda, thus acquiring an importance out of proportion to its real significance, which caused it later to be regarded as the beginning of a campaign for the conquest of Syria.“ 402
محاب بدر جلد 2 153 403 حضرت ابو بکر صدیق کہ نئے منتخب ہونے والے خلیفہ ابو بکر نے حکم دیا کہ اسامہ کا لشکر نبی لی لی ایم کی خواہشات کی تکمیل کے لیے بدستور جائے گا اگر چہ قبائل میں پہلے ہی بغاوت چل رہی تھی.اسامہ ملک شام میں بلقاء کے علاقے میں پہنچے جہاں زید کو مارا گیا تھا اور اسامہ نے اُبٹی کی بستی پر حملہ کیا ان کی فتح سے اہل مدینہ جو کہ ارتداد کی خبروں کی وجہ سے شدید پریشان تھے ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.پس اس مہم نے ایک عمومی مہم کی حیثیت سے زیادہ بڑھ کر اہمیت حاصل کرلی جس کی وجہ سے اس مہم کو فتح شام کا پیش خیمہ قرار دیا گیا.پھر حضرت ابو بکر کو جو ایک اور چیلنج کا سامنا کرنا پڑا وہ تھا مانعین اور منکرین زکوۃ اور ان کا فتنہ جب رسول اللہ صلی علیم کی وفات کی خبر سارے عرب میں پھیل گئی تو ہر طرف ارتداد اور بغاوت کے شعلے بھڑ کنے لگے.علامہ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی کم کی وفات کے وقت تمام عرب نے ارتداد اختیار کر لیا ما سوائے دو مسجد والوں کے یعنی مکہ اور مدینہ کے.رسول اللہ صلی للی کم کی وفات کے بعد اہل مکہ ارتداد سے محفوظ رہے جس کی تفصیل یوں ملتی ہے کہ سہیل بن عمرو جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا وہ غزوہ بدر میں کافر ہونے کی حالت میں مسلمانوں کے قیدی بنے.انہوں نے اپنے ہونٹوں پر نشان بنارکھے تھے.حضرت عمرؓ نے اس موقع پر رسول اللہ صلی علیم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! اس کے سامنے والے دو دانت نکلوا دیں جہاں اس نے نشان بنائے ہوئے ہیں.یہ آپ صلی الی ظلم کے خلاف کبھی بھی خطاب کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہو سکے گا.آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عمر ! اسے چھوڑ دو قریب ہے کہ یہ ایسے مقام پر کھڑا ہو کہ تم اس کی تعریف کرو.حضرت عمر تو اس کو سزا دلوانا چاہتے تھے.آنحضرت صلی الم نے کہا نہیں، کچھ نہیں کہنا.ایک موقع آئے گا جب یہ اس مقام پر کھڑا ہو گا اور ایسی باتیں کرے گا کہ تم اس کی تعریف کرو گے.بہر حال وہ کہتے ہیں کہ یہ مقام اس وقت آیا جب رسول اللہ صلی الیکم کی وفات ہوئی تو مکہ والے متزلزل ہو گئے.جب قریش نے اہل عرب کو مرتد ہوتے دیکھا اور حضرت عتاب بن اسید اُموی جو کہ نبی کریم صلی علیم کی طرف سے اہل مکہ پر امیر مقرر تھے وہ چھپ گئے تو اس وقت حضرت سہیل بن عمرو خطاب کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور کہا: اے قریش کے گروہ ! آخر میں اسلام لا کر سب سے پہلے ارتداد اختیار کرنے والے نہ بننا.خدا کی قسم ! یہ دین اسی طرح پھیلے گا جس طرح کہ چاند اور سورج طلوع سے غروب تک پھیلتے ہیں.اس طرح آپ نے یعنی سہیل نے ایک طویل خطاب کیا.چنانچہ اس خطاب نے مکہ والوں کے دلوں پر اثر کیا اور رک گئے.حضرت عتاب بن اسنیڈ جو چھپ گئے تھے وہ بھی بلائے گئے اور قریش اسلام پر ثابت قدم ہو گئے.404 ارتداد کرنے والے لوگ کون تھے...الله وہ لوگ جنہوں نے ارتداد اختیار کیا تھا ان کی متعدد اقسام تھیں.ان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ابو بکر کی سیرت پر ایک لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ارتداد کی بھی مختلف شکلیں رہی ہیں.کچھ لوگوں نے تو
محاب بدر جلد 2 154 حضرت ابو بکر صدیق سرے سے اسلام چھوڑ کر وثنیت اور بت پرستی اختیار کر لی.کچھ لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا.کچھ لوگ اسلام کے معترف رہے.نماز بھی قائم کرتے رہے لیکن زکوة کی ادائیگی سے رک گئے.کچھ لوگ رسول اللہ صلی علیکم کی وفات سے خوش ہوئے اور جاہلی عادات و اعمال میں لگ گئے.کچھ لوگ حیرت و تر ڈ دکا شکار ہوئے اور اس انتظار میں لگ گئے کہ کس کو غلبہ ملتا ہے.ان تمام شکلوں کی وضاحت سیرت و فقہ کے علماء نے کی ہے.امام خطابی کہتے ہیں کہ مرتدین دو طرح کے تھے ایک تو وہ جو دین سے مرتد ہوئے.ملت کو چھوڑا اور کفر کی طرف لوٹ گئے.اس فرقے کے دو گروہ تھے ایک گروہ ان لوگوں کا تھا جو مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی پر ایمان لائے.ان کی نبوت کی تصدیق کی اور رسول اللہ صلی علی نیم کی نبوت کا انکار کیا.دوسر ا گر وہ ان لوگوں کا تھا جو دین اسلام میں مرتد ہوئے.شرعی احکام کا انکار کیا.نماز و زکوۃ وغیرہ جیسے امور کے تارک ہو کر جاہلی دین کی طرف لوٹ گئے اور مرتدین کی دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جنہوں نے نماز و زکوۃ کے درمیان تفریق کی.نماز کا اقرار کیا اور زکوۃ کی فرضیت اور اسے خلیفہ کو دینے کے وجوب سے انکار کیا.ان زکوۃ روکنے والوں میں سے ایسے لوگ بھی تھے جو زکوۃ دینا چاہتے تھے لیکن ان کے سرداروں نے ان کو اس سے روک رکھا تھا.مرتدین کی جو مختلف تقسیمیں ہیں اس تقسیم سے قریب تر قاضی عیاض کی تقسیم ہے لیکن انہوں نے تین قسمیں بیان کی ہیں: ایک وہ جنہوں نے بت پرستی اختیار کرلی؛ دوسرے وہ جنہوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کی پیروی کی، دونوں نبوت کے دعویدار تھے ، تیسرے وہ جو اسلام پر قائم رہے لیکن زکوۃ کا انکار کیا اور اس تاویل کے شکار ہوئے کہ اس کی فرضیت نبی کریم صلی ایام کے دور تک محدود تھی.پھر ایک ڈاکٹر عبد الرحمن ہیں وہ کہتے ہیں کہ مرتدین کی چار قسمیں ہیں: ایک وہ جو بت پرستی میں لگ گئے ، دوسرے وہ جنہوں نے جھوٹے مدعیان نبوت اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور سجاح کی اتباع کی؛ اور تیسرے وہ جنہوں نے وجوب زکوۃ کا انکار کیا؟ اور چوتھے وہ جنہوں نے وجوب زکوۃ کا تو انکار نہ کیا لیکن ابو بکر کو دینے سے انکار کیا.405 وہ قبائل جنہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا تھا ان میں نمایاں مدینہ کے قریبی قبائل عبس اور ذبیان تھے اور ان سے ملحقہ قبائل بَنُو كِنَانَه، غَطفان اور فزارہ تھے.406 قبیله هوازن والے متر د ر تھے انہوں نے بھی زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا تھا.407 مانعین زکوۃ اور حضرت ابو بکر ضیا مشورہ مانعین زکوۃ کے حوالے سے حضرت ابو بکر کا صحابہ سے مشورہ طلب کرنے کا ذکر ملتا ہے.حضرت ابو بکر نے کبار صحابہ کو جمع کر کے ان سے منکرین زکوۃ کے ساتھ جنگ کرنے کے متعلق مشورہ کیا.جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے لیکن زکوۃ سے انکاری تھے.حضرت عمر بن خطاب اور بیشتر مسلمانوں کی یہ
اصحاب بدر جلد 2 155 حضرت ابو بکر صدیق 408 رائے تھی کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے لوگوں سے ہر گز نہیں لڑنا چاہیے بلکہ انہیں ساتھ ملا کر مرتدین کے خلاف مصروف کار ہونا چاہیے.بعض لوگ اس رائے کے مخالف بھی تھے لیکن ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی.ایک روایت کے مطابق صحابہ نے حضرت ابو بکر کو مشورہ دیا کہ مانعین زکوۃ کو ان کی حالت پر چھوڑ دیں اور ان کی تالیف قلب کریں یہاں تک کہ ایمان ان کے دلوں میں متمکن ہو جائے پھر ان سے زکوۃ وصول کی جائے.حضرت ابو بکر نے اس کو نہ مانا اور انکار کر دیا.409 410 حضرت ابو بکر اس رائے کے حامی تھے کہ منکرین زکوۃ سے جنگ کر کے بزور ادائے زکوۃ پر مجبور کرنا چاہیے.اس امر میں ان کی شدت کا یہ عالم تھا کہ بحث کرتے ہوئے پر زور الفاظ میں فرمایا.واللہ ! اگر منکرین زکوۃ مجھے ایک رستی دینے سے بھی انکار کریں گے جسے وہ رسول اللہ صلی علیم کے زمانے میں ادا کیا کرتے تھے تو بھی میں ان سے جنگ کروں گا.0 بخاری کی ایک روایت میں اس امر کی تفصیل یوں بیان ہے.ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کہا کہ آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِتِ مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ.مجھے حکم دیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کریں اور جس نے اس کا اقرار کر لیا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان بچالی سوائے کسی حق کی بنا پر اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے.تو حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: بخدا! میں ضرور قتال کروں گا اس سے جس نے نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کیا کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے.بخدا! اگر انہوں نے بکری کا بچہ بھی مجھے نہ دیا جو وہ رسول اللہ صلی میزنم کو ادا کیا کرتے تھے تو میں اس کو روکنے پر ان سے قتال کروں گا.حضرت عمرؓ نے کہا پس اللہ کی قسم! یہ نہ ہوا مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کا سینہ کھول دیا.میں جان گیا کہ یہی حق ہے 411 یعنی حضرت عمر کو بعد میں تسلیم کرنا پڑا کہ حضرت ابو بکر صحیح فرما رہے تھے.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے حدیث عَصَمَ مِلَّى مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ کی تشریح بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ کا جملہ نفس مضمون پر اور زیادہ روشنی ڈالتا ہے.ایک مسلمان شخص لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتے ہوئے اگر اسلامی حقوق کی نگہداشت نہیں رکھتا تو وہ بھی قابل مؤاخذہ ہے.صرف ایمان لا کر وہ سزا سے نہیں بچ سکتا.بحق الْإِسْلَام کے دو طرح معنے کئے جا سکتے ہیں.ایک یہ کہ جہاں اسلامی حقوق کا تعلق ہو ”حق“ مصدر ہے جو جمع کا مفہوم بھی دیتا ہے دوسرے بہ معنی ہیں جہاں اسلام ان مالوں اور جانوں کے لینے کو ضروری قرار دیتا ہو.حَقَّ الْأَمْرَ أَثْبَتَهُ وَأَوْجَبَهُ یعنی اس کو ضروری قرار دیا.یہ متعدی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے.افرادِ امت کی سلامتی کا دارومدار حقوق کی ادائیگی ہی پر ہے.جس طرح ٹیکس کی عدم ادائیگی 412❝
حاب بدر جلد 2 156 حضرت ابو بکر صدیق......بغاوت اور مستوجب سزا ہے.اسی طرح زکوۃ کی عدم ادائیگی بھی.حضرت عمر نے پہلے حضرت ابو بکر سے اتفاق نہیں کیا مگر جب الا بحقہ کے الفاظ سے ان کا استدلال سنا تو ان کی رائے تسلیم کی.اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ صرف زبان سے لا الہ الا اللہ کہہ دینا عمل صالح نہ ہونے کی حالت میں قطعاً کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اس باب کا عنوان یہ آیت ہے فَإِنْ تَابُوا وَ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَ اتَوُا الزَّكوة فَخَلُّوا سَبِيلَهُم اس سورت میں مذکورہ بالا آیت کا مضمون دہراتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَانْ تَابُوا وَ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكوة فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ یعنی اگر توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں ان سے تعارض نہ کیا جائے.ان الفاظ سے ثابت ہو تا ہے کہ ان تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ترک کرنے والا مسلمان نہیں.اسلام کے پانچوں ارکان کی پابندی فرض ہے.خود آنحضرت صلی اللہ تم نے بھی إِلَّا يحقہ فرما کر انفاق فی سبیل اللہ کو معاشرہ کے کمزور طبقے کا حق قرار دیا ہے.یعنی ذی استطاعت لوگوں کا فرض ہے کہ احکام اسلامی کی پابندی کریں اور جو مالی حق ان پر عائد کیا گیا ہے وہ ادا کریں.اس صورت میں ان کے حقوق بھی محفوظ رہیں گے.الا بتحقہ کے الفاظ سے حضرت ابو بکر کا استدلال عمیق اور وسیع نظر پر دلالت کرتا ہے.حضرت ابو بکر کے نزدیک زکوۃ کی عدم ادائیگی بغاوت ہے اور زکوۃ نہ دینے والا معاشرہ اسلامیہ کا فرد نہیں رہتا اور یہ کہ اس کی اس بغاوت پر اس سے جنگ کرنا ضروری ہے.بیشک اسلام نے لا اکراہ فی الدِّينِ (دین میں کوئی جبر نہیں) کے ارشاد سے دین کے بارے میں آزادی دی ہے مگر جو فرد بظاہر اسلام کا دعویدار ہے اور اسلامی سوسائٹی میں شامل ہو کر اس کی پناہ میں ہے اور اس کی برکات سے مستفید اور اپنے اجتماعی حقوق سے پورے طور پر متمتع ہے مگر جو فرائض اور واجبات اسلام نے بحیثیت اسلامی معاشرہ کے فرد ہونے کی حیثیت سے اس پر عائد کیے ہیں ان کو وہ ادا نہیں کرتا تو ایسا فرد اجتماعی حفاظت اور پناہ کا حق نہیں رکھتا.دنیا میں کوئی حکومت بھی قانون شکن اور باغی افراد کو برداشت نہیں کرتی.اسلامی نظام زکوۃ و صدقات کا تعلق دراصل معاشرہ سے ہے نہ کسی ایک فرد سے.اور اس کے نتائج اور اثرات کا تعلق بھی معاشرہ ہی سے ہے فرد سے نہیں.4134 ایک روایت کے مطابق اس موقع پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں کے ساتھ تالیف قلب اور نرمی کا سلوک کریں.اس پر حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ جاہلیت میں تو تم بڑے بہادر تھے اور اسلام میں اب اس طرح بزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہو.414 تاریخ طبری میں یوں بیان ہوا ہے.اسد اور غطفان اور طیء قبائل طلیحہ بن خویلد جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اس کے ہاتھ پر اکٹھے ہو گئے سوائے چند خاص لوگوں کے.قبیلہ اسد کے
صحاب بدر جلد 2 157 حضرت ابو بکر صدیق لوگ سميراء کے مقام پر جمع ہوئے سمیراء جو ہے یہ قوم عاد کے ایک شخص کے نام پر اس مقام کا نام رکھا گیا ہے اور یہ مکہ کے راستے پر ایک قوم ہے.اس علاقے کے ارد گرد سیاہ رنگ کے پہاڑ ہیں جن کی وجہ سے اس کا یہ نام رکھا گیا ہے فَزَارَہ اور غطفان کے لوگ اپنے حلیفوں کے ساتھ طیبہ کے جنوب میں جمع ہوئے.کئی اپنے علاقے کی سرحد پر جمع ہوئے.ثَعْلَبہ بن سعد اور مرّة اور عبس میں سے ان کے حمایتی ربذہ کے مقام ابرق میں جمع ہوئے.ربذہ بھی تین دن کی مسافت پر مدینہ کی وادیوں میں سے ایک وادی ہے.ابرق الربلة قبیلہ بنو ڈ بیان کی جگہوں میں سے تھی.بنو کنانہ کے کچھ لوگ بھی ان سے آملے مگر وہ علاقے ان کے متحمل نہ ہو سکے اس لیے ان لوگوں کی دو جماعتیں ہو گئیں.ایک جماعت آئبرق میں مقیم رہی اور دوسری ذُو القصّہ چلی گئی.ذُو القصہ بھی مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے.طلیحہ نے حبال کو ان کی مدد کے لیے بھیجا.حبال طلیحہ کے بھائی کا بیٹا تھا.بہر حال اس طرح حِبال ، ذُو القصّہ والوں کا سردار بن گیا جہاں اسد اور کیث، دیل اور مدبلج قبائل میں سے ان کے حمایتی بھی تھے.عوف بن فُلان بن سنان، انبرق مقام میں موجود مُرہ قبیلہ کا سردار مقرر ہوا اور ثعلبہ اور عبس قبائل پر حارث بن فُلان سردار مقرر ہو ا جو بَنُوسُبَیع میں سے تھا.ان قبائل نے اپنے وفد بھیجے جو مدینہ آئے.یہ سب جمع ہوئے اس کے بعد ہر ایک قبیلے نے اپنا اپنا ایک وفد بنا کے بھیجا.وہ لوگ جو آئے تھے وہ عمائدین مدینہ کے ہاں فروکش ہوئے، وہاں ٹھہرے.حضرت عباس کے علاوہ سب نے ان کو اپنے ہاں مہمان بنایا اور ان کو ابو بکر کی خدمت میں اس شرط پر لے کر آئے کہ وہ نماز پڑھتے رہیں گے مگر ز کوۃ نہ دیں گے.اللہ نے ابو بکر کو حق پر راسخ کر دیا.حضرت ابو بکڑ نے فرمایا: اگر یہ اونٹ باندھنے کی رسی بھی نہ دیں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا.415 مانعین زکوۃ اور باغیوں کا مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ حضرت ابو بکر نیا موقف دیکھ کر جب مانعین زکوۃ کے وفود مدینہ سے واپس جانے لگے تو اس وقت ان لوگوں کی کیا کیفیت تھی، اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک سیرت نگار لکھتے ہیں کہ ان وفود نے جب آپؐ کا عزم دیکھا تو مدینہ سے واپس ہو گئے لیکن مدینہ سے جاتے وقت دو باتیں ان کے ذہن میں تھیں.نمبر ایک یہ کہ منع زکوۃ کے سلسلہ میں کوئی گفتگو کارگر نہیں.اس سلسلہ میں اسلام کا حکم واضح ہے اور خلیفہ کی اپنی رائے اور عزم سے پیچھے ہٹنے کی کوئی امید نہیں.خاص کر جب کہ مسلمان دلیل کے واضح ہونے کے بعد آپ کی رائے سے متفق ہو چکے ہیں اور حضرت ابو بکر کی تائید کے لیے کمر بستہ ہیں.نمبر دو بزعم خویش مسلمانوں کی کمزوری اور قلت تعداد کو غنیمت جانتے ہوئے مدینہ پر ایسا زور دار حملہ کیا جائے جس سے اسلامی حکومت گر جائے اور اس دین کا خاتمہ ہو جائے.416
حاب بدر جلد 2 158 حضرت ابو بکر صدیق یہ ان کا اپنا زعم تھا کہ اس طرح ہم قبضہ کر لیں گے.بہر حال ان لوگوں نے واپس جا کر اپنے قبائل سے کہا کہ اس وقت مدینہ میں بہت کم آدمی ہیں اور انہیں حملہ کرنے کی ترغیب دلائی جبکہ دوسری طرف حضرت ابو بکر بھی غافل نہ تھے.انہوں نے اس وفد کے جانے کے بعد مدینہ کے تمام ناکوں پر با قاعدہ پہرے متعین کر دیے.حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اس کام پر مقرر کیے گئے.ایک روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کا نام بھی آتا ہے کہ یہ بھی ناکے پر پہرے کے لیے متعین کیے گئے.اس کے علاوہ حضرت ابو بکر نے تمام اہل مدینہ کو حکم دیا کہ وہ مسجد میں جمع ہوں اور پھر ان سے فرمایا کہ تمام سر زمین کا فر ہو گئی ہے اور ان لوگوں کے وفود تمہاری قلت تعداد کو دیکھ گئے ہیں اور تم لوگ نہیں جانتے کہ وہ دن کے وقت یارات میں تم پر حملہ آور ہوں گے.ان لوگوں کی سب سے قریب جماعت یہاں سے صرف ایک برید کے فاصلے پر ہے.برید بارہ میل کے برابر ہوتا ہے کہ بارہ میل کے فاصلے پر ہے اور کچھ لوگ خواہش رکھتے تھے کہ ہم ان کی شرائط قبول کر لیں اور ان سے مصالحت کر لیں مگر ہم نے ان کی بات نہ مانی اور ان کی شرائط مسترد کر دیں.لہذا اب مقابلے کے لیے بالکل تیار ہو جاؤ.حضرت ابو بکر کا اندازہ بالکل درست نکلا اور منکرین زکوۃ کے وفد کے مدینہ سے واپس جانے کے بعد صرف تین راتیں گزری تھیں کہ ان لوگوں نے رات ہوتے ہی مدینہ پر حملہ کر دیا.اپنے ساتھیوں میں سے ایک جماعت کو وہ ذُو حِسی چھوڑ آئے تا کہ وہ بوقت ضرورت کمک کا کام دیں.ذُو حِسی بنو فزارہ کے پانیوں میں سے ایک ہے اور یہ ربذہ اور محل کے درمیان ہے.بہر حال یہ حملہ کرنے والے رات کے وقت مدینہ کے ناکوں پر پہنچے.وہاں پہلے سے جنگجو متعین تھے.ان کے عقب میں کچھ اور لوگ تھے جو بلندی پر چڑھ رہے تھے.پہرے داروں نے ان لوگوں کو دشمن کی یورش سے آگاہ کیا اور حضرت ابو بکر کو دشمن کی پیش قدمی کی اطلاع دینے کے لیے آدمی دوڑائے.حضرت ابو بکر نے یہ پیغام بھجوایا کہ سب اپنی اپنی جگہ پر جمے رہیں جس پر تمام فوج نے ایسا کیا.پھر حضرت ابو بکر مسجد میں موجود مسلمانوں کو لے کر اونٹوں پر سوار ہو کر ان کی طرف روانہ ہوئے اور دشمن پسپا ہو گیا.مسلمانوں نے اپنے اونٹوں پر ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ وہ ذُو حِسی جا پہنچے.حملہ آوروں کی کمک والا گروہ چمڑے کے مشکیزوں میں ہوا بھر کر اور ان میں رسیاں باندھ کر مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلا اور انہوں نے ان مشکیزوں کو اپنے پیروں سے ضرب لگا کر اونٹوں کے سامنے لڑھکا دیا اور چونکہ اونٹ اس سے سب سے زیادہ بد کتا ہے کہ مشکیزے، لڑھکتی ہوئی چیز آ رہی ہے اس لیے مسلمانوں کے تمام اونٹ ان سے اس طرح بدک کر بھاگے کہ وہ مسلمانوں سے جو اُن پر سوار تھے کسی طرح بھی سنبھل نہ سکے یہاں تک کہ وہ مدینہ پہنچ گئے.البتہ اس سے مسلمانوں کا کوئی نقصان نہ ہوا اور نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز آئی.مسلمانوں کی اس بظاہر پسپائی سے دشمنوں کو یہ گمان ہوا کہ مسلمان کمزور ہیں ان میں مقابلے کی
اصحاب بدر جلد 2 159 حضرت ابو بکر صدیق طاقت نہیں ہے.اس خام خیالی میں انہوں نے اپنے ان ساتھیوں کو جو ذُوالقصّہ میں فروکش تھے اس واقعہ کی اطلاع دی وہ اس خبر پر بھروسہ کر کے اس جماعت کے پاس آگئے مگر ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے ان کے متعلق کچھ اور ہی فیصلہ کیا ہے جس کو وہ بہر حال نافذ کر کے چھوڑے گا.رات بھر حضرت ابو بکر اپنی فوج کی تیاری میں مصروف رہے اور سب کو تیار کر کے رات کے پچھلے پہر پوری فوج کو ترتیب دے کر پیدل روانہ ہوئے.نعمان بن مُقَوّن میمنہ پر ، عبد الله بن مقرن میسرہ پر اور سُويد بن مقرن فوج کے پچھلے حصہ پر نگران تھے.ان کے ساتھ کچھ سوار بھی تھے.ابھی فجر طلوع نہیں ہوئی تھی کہ مسلمان اور منکرین زکوۃ ایک ہی میدان میں تھے.مسلمانوں کی کوئی آہٹ اور بھنک بھی نہ ان کو مل سکی کہ مسلمانوں نے ان کو تلوار کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا.پھر رات کے پچھلے پہر میں لڑائی ہوئی.آفتاب کی کرن نے ابھی مطلع افق کو اپنے جلوے سے منور نہیں کیا تھا کہ منکرین نے شکست کھا کر راہ فرار اختیار کی.پھر لکھا ہے کہ مسلمانوں نے ان کے تمام جانوروں پر قبضہ کر لیا.اس واقعہ میں حِبال مارا گیا.حضرت ابو بکر نے ان لوگوں کا تعاقب کیا یہاں تک کہ ذُوالقصہ پہنچ کر ٹھہرے.یہ پہلی فتح تھی جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دی.حضرت ابو بکر نے نُعمان بن مقرن کو کچھ لوگوں کے ساتھ وہیں متعین کر دیا اور خود مدینہ واپس تشریف لے آئے.یہ تاریخ طبری کا حوالہ ہے." اس جنگ کو غزوہ بدر سے مشابہت دیتے ہوئے ایک مصنف لکھتے ہیں کہ اس موقع پر ابو بکر نے ایمان ویقین، عزم و ثبات اور حزم و احتیاط کا جو مظاہرہ کیا اس سے مسلمانوں کے دل میں عہد رسول اللہ صلی ال نیم کے غزوات کی یاد تازہ ہو گئی.ابو بکرؓ کے عہد کی یہ پہلی لڑائی بڑی حد تک جنگ بدر سے مشابہ ہے.جنگ بدر کے روز مسلمان صرف تین سو تیرہ کی قلیل تعداد میں تھے جبکہ مشرکین مکہ کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی.حضرت ابو بکر کے ساتھ مخالفین سے جنگ کا جو یہ واقعہ پیش آیا اس موقع پر بھی مسلمانوں کی تعداد بہت قلیل تھی اس کے بالمقابل عبس، ڈبیان اور غطفان کے قبائل بھاری جمعیت کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے.بدر کے موقع پر انہیں اللہ نے مشرکین پر فتح عطا فرمائی.اس موقع پر ابو بکر اور آپ کے ساتھیوں نے ایمان کامل کا ثبوت دیا اور دشمن پر فتح حاصل کی.جس طرح جنگ بدر دور رس نتائج کی حامل تھی اسی طرح اس جنگ میں بھی مسلمانوں کی فتح نے اسلام کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالا.418 417 بنو ذُبيان اور بنو عبس نے اس شکست کی وجہ سے غیض و غضب میں آکر اپنے ہاں موجود مسلمانوں پر اچانک حملہ کر کے ان کو نہایت بے دردی سے طرح طرح کے عذاب دے کر شہید کر ڈالا.انہوں نے یہ بدلہ لیا کہ جو نہتے مسلمان ان کے علاقوں میں رہتے تھے ان کو مار دیا، شہید کر دیا اور ان کی تقلید میں دوسرے قبائل نے بھی ایسا ہی کیا.ان مظالم کی اطلاع پر حضرت ابو بکر نے قسم کھائی کہ وہ مشرکین کو خوب اچھی طرح قتل کریں گے اور ہر قبیلے میں سے جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا تھا انہیں
حاب بدر جلد 2 اس کے بدلہ میں قتل کریں گے.419 160 حضرت ابو بکر صدیق مختلف قبائل کاز کوۃ دینا شروع کرنا حضرت ابو بکر کی قیادت و راہنمائی میں منکرین زکوۃ کے حملوں کا سد باب ہوتے ہی دیگر کمزور اور متذبذب قبائل یکے بعد دیگرے اپنی زکوۃ لے کر مدینہ کی طرف آنے لگے.جب کمزور قبائل نے دیکھا کہ جو طاقتور قبائل ہیں ان کا یہ حال ہو گیا ہے تو جنہوں نے زکوۃ رو کی ہوئی تھی وہ زکوۃ لے کر مدینہ آنے لگے.کوئی قبیلہ رات کے پہلے حصہ میں زکوۃ لے کر آنے لگا اور کوئی رات کے درمیانی حصہ میں اور کوئی رات کے آخری حصہ میں.جب یہ لوگ مدینہ میں نمودار ہوتے تو ہر جمعیت کے نمودار ہونے کے موقع پر لوگ کہتے کہ یہ ڈرانے والے معلوم ہوتے ہیں یعنی کوئی بری خبر لانے والے ، مگر حضرت ابو بکر نے ہر وقع پر یہ کہا کہ یہ خوشخبری دینے والے ہیں.حمایت کے لیے آئے ہیں نقصان کے لیے نہیں.چنانچہ جب با قاعدہ طور پر یہ معلوم ہوا کہ یہ جماعتیں حمایت اسلام کے لیے آئی ہیں اور زکوۃ کے اموال لے کر آنے والی جماعتیں ہیں تو مسلمانوں نے حضرت ابو بکر سے کہا آپ بڑے مبارک آدمی ہیں آپ ہمیشہ سے بشارت دیتے چلے آئے ہیں.420 اس موقع پر حضرت ابو بکڑ نے یہ بھی فرمایا کہ بُری خبر اور بُرے ارادے سے آنے والے تیز تیز چلتے ہیں جبکہ خوشخبری لانے والے قافلے آرام اور اطمینان سے چلتے ہیں.میں ان کی رفتار سے اندازہ کر لیتا تھا.421 منکرین زکوۃ کے خلاف کامیابی کے بعد زکوۃ کی وصولیوں کے متعلق تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ اس زمانے میں اس قدر صدقات مدینہ میں موصول ہوئے جو مسلمانوں کی ضرورت سے بچ گئے.422 انہی فتوحات اور بشارتوں کے دوران حضرت اسامہ کا لشکر بھی کامیابی و کامرانی کے ساتھ مدینہ واپس لوٹ آیا.حضرت اسامہ کے واپس آنے کے بعد ابو بکر نے ان کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے سنان ضمری کو اپنا نائب مقرر کیا اور ان سے اور ان کی فوج سے کہا کہ سر دست تم بھی آرام کر لو اور اپنی سواری کے جانوروں کو بھی دم لینے دو اور خود ابو بکر لوگوں کے ساتھ سوار ہو کر ذُوالقصّہ روانہ ہوئے مگر مسلمانوں نے حضرت ابو بکر سے عرض کی کہ اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ سے خدا کا واسطہ دے کر درخواست کرتے ہیں کہ آپنے خود اس مہم پر نہ جائیں کیونکہ خدانخواستہ اگر آپ کو کوئی ضرر پہنچ گیا تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا.آپ کسی اور کو اس کام کے لیے بھیج دیں تا کہ اگر اس کو کوئی معاملہ پیش آجائے تو آپ کسی دوسرے کو اس کی جگہ مقرر کر سکیں.حضرت ابو بکر نے فرمایا اللہ کی قسم ہمیں ہر گز ایسا نہیں کروں گا اور میں آپ لوگوں کی غمخواری اپنی جان سے کروں گا.3 423
حاب بدر جلد 2 اہل ربذہ پر حملہ 161 حضرت ابو بکر صدیق پھر اہل ربذہ پر حملے کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر سب انتظام کر کے ذُوحِسی اور ذُو القصّہ چلے گئے.ذُوالقصّہ مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے.نعمان ، عبد اللہ اور سوید اپنی اپنی جگہ تھے یہاں تک کہ حضرت ابو بکر نے آبزق کے مقام پر اہل ربذہ کو جالیا.شدید جنگ ہوئی.بالآخر اللہ نے حارث اور عوف کو شکست دی جو مرة، ثعلبہ اور عبس قبائل کے سردار تھے اور خطیقہ زندہ گرفتار کر لیا گیا.حضرت ابو بکر نے چند روز ابرق میں قیام کیا اور آپ نے ابرق کی سرزمین کو مسلمانوں کے گھوڑوں کی چراگاہ بنا دیا.اس جنگ میں شکست کھا کر بنو عبس اور بنو ذُ بیان طلیحہ سے جا ملے جو سمیراء سے چل کر اس وقت بُزاخه پر پہنچ کر ٹھہرا ہوا تھا.بُزاخہ بھی بنو اسد کے چشمہ کا نام ہے یہاں طلیحہ اسدی کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں عظیم معرکہ ہو ا تھا.424 پھر ایک مصنف شکست خوردہ قبائل کی روش کے متعلق لکھتا ہے کہ عبس ، ڈبیان، غطفان، بنی بکر اور مدینہ کے قریب بسنے والے دوسرے باغی قبائل کے لیے مناسب تھا کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی اور بغاوت سے باز آجاتے.حضرت ابو بکر کی کامل اطاعت اور ارکانِ اسلام کی بجا آوری کا اقرار کرتے اور مسلمانوں سے مل کر مرتدین کے خلاف نبرد آزما ہو جاتے.عقل کا تقاضا بھی یہی تھا اور واقعات بھی اسی کی تائید کرتے تھے.ابو بکر کے ذریعہ سے ان کا زور ٹوٹ چکا تھا.روم کی سرحدوں پر حصولِ کامیابی کے باعث اہل مدینہ کار عب قائم ہو چکا تھا.مسلمانوں کی قوت و طاقت بڑھ چکی تھی اور اب وہ اس کمزوری کے عالم میں نہ تھے جو جنگ بدر اور ابتدائی غزوات کے ایام میں ان پر طاری تھی.اب مکہ بھی ان کے ساتھ تھا اور طائف بھی اور ان دونوں شہروں کی سیادت سارے عرب پر مُسَلَّم تھی.پھر خود ان قبائل کے در میان ایسے مسلمان کثرت سے موجود تھے جنہیں باقی کسی صورت ساتھ نہ ملا سکے تھے اور اس طرح ان کی پوزیشن بے حد کمزور ہو گئی تھی.لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی دشمنی نے ان کی آنکھیں اندھی کر دی تھیں اور سود و زیاں کا احساس دلوں سے جاتا رہا تھا.انہوں نے اپنے وطنوں کو چھوڑ دیا اور قبیلہ بنی اسد کے نبوت کے جھوٹے دعویدار طلیحہ بن خویلد سے جاملے.جو مسلمان اُن کے درمیان موجود تھے وہ انہیں ان کے ارادوں سے باز نہ رکھ سکے.ان لوگوں کے پہنچ جانے سے طلیحہ اور مسیلمہ کی قوت و طاقت میں اضافہ ہو گیا اور یمن میں بغاوت کے شعلے زور و شور سے بھڑ کنے لگے.425 بہر حال یہ ہمیشہ یاد رہنا چاہیے کہ ان لوگوں نے بغاوت کی تھی اور جنگ کی تھی.صرف کسی دعوے پر یا کسی کے دعوے پر یہ جنگ نہیں ہوئی تھی.بغاوت کا بدلہ لیا جارہا تھا اور جو جنگ تھی اس کا جواب جنگ سے دیا جارہا تھا.
اصحاب بدر جلد 2 162 حضرت ابو بکر صدیق منکرین زکوۃ پر فتح پانے اور حضرت ابو بکڑ کی شجاعت اور عزم کا ذکر کرتے ہوئے عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں.ان کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ یکم کے وصال کے بعد ہم اس مقام پر کھڑے تھے کہ اگر اللہ ابو بکر صدیق کے ذریعہ سے ہماری مدد نہ فرماتا تو ہلاکت یقینی تھی.ہم سب مسلمانوں کا اتفاق کامل سے یہ خیال تھا کہ ہم زکوۃ کے اونٹوں کی خاطر دوسروں سے جنگ نہیں کریں گے اور اللہ کی عبادت میں مصروف ہو جائیں گے یہاں تک کہ ہمیں مکمل غلبہ حاصل ہو جائے لیکن ابو بکر صدیق نے منکرین زکوۃ سے لڑنے کا عزم کر لیا.انہوں نے منکرین کے سامنے صرف دو باتیں پیش کیں، تیسری نہیں.پہلی یہ کہ وہ اپنے لیے ذلت و خواری قبول کر لیں اور اگر یہ منظور نہیں تو جلا وطنی یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں.اپنے لیے ذلت و خواری قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اقرار کریں کہ ان کے مقتول دوزخی اور ہمارے جنتی ہیں وہ ہمیں ہمارے مقتولوں کا خون بہا ادا کریں.ہم نے جو مالِ غنیمت ان سے وصول کیا اس کی واپسی کا مطالبہ نہ کریں لیکن جو مال انہوں نے ہم سے لیا ہے وہ ہمیں واپس کر دیں.اور جلاوطنی کی سزا بھگتنے کا مطلب یہ ہے کہ شکست کھانے کے بعد اپنے علاقوں سے نکل جائیں اور دور دراز مقامات میں جاکر زندگی بسر کریں.426 حضرت مصلح موعود اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ”رسول کریم صلی ایم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل عرب نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے.اس وقت حالت ایسی نازک تھی کہ حضرت عمرؓ جیسے انسان نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے نرمی کرنی چاہئے مگر حضرت ابو بکر نے جواب دیا.“ اس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا طاقت ہے کہ وہ اس حکم کو منسوخ کر دے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دیا ہے.خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ رسول کریم صلی علی یلم کے زمانہ میں اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی ایک رسی بھی زکوۃ میں دیا کرتے تھے تو میں رسی بھی ان سے لے کر رہوں گا اور اس وقت تک دم نہیں لوں گا جب تک وہ زکوۃ ادا نہیں کرتے.“ آپ نے ساتھیوں کو کہا ”اگر تم اس معاملہ میں میر اساتھ نہیں دے سکتے تو بے شک نہ دو.میں اکیلا ہی ان سے مقابلہ کروں گا.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : ”کس قدر اتباع رسول ہے کہ نہایت خطرناک حالات میں باوجود اس کے کہ اکابر صحابہ لڑائی کے خلاف مشورہ دیتے ہیں پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم کو پورا کرنے کے لئے وہ ہر قسم کا خطرہ برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.احمدیوں کو یا در کھنا چاہیے کہ زکوۃ کتنی ضروری ہے پھر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک اور جگہ لکھا ہے، بیان فرمایا ہے کہ ”حضرت ابو بکر کے زمانہ میں جب فتنہ ارتداد پھیل گیا اور صرف گاؤں میں نماز با جماعت رہ گئی اور لشکر بھی شام کو بھیج دیا گیا تو بھی آپ نے زکوۃ دینے والوں کے نام ارشاد بھیجا کہ رسول اللہ کے زمانے میں اگر کوئی رسہ دیتا تھا اور اب 427"
حاب بدر جلد 2 163 حضرت ابو بکر صدیق نہیں دیتا تو میں تلوار کے زور سے لوں گا.حضرت عمر ایسے جری و بہادر نے بھی رائے دی کہ اس وقت مصلحت وقت نہیں کہ زکوۃ پر زور دیا جائے مگر آپ نے ان کی ایک نہ مانی.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ 42866 زکوۃ کس قدر ضروری ہے.یہ بات جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمائی ہے یہ اپنی ایک تقریر کے دوران بیان فرمائی تھی جس میں تقویٰ کے مدارج بیان کیے تھے.اس میں بیان فرمارہے تھے کہ تقویٰ کے کون سے مدارج ہیں، زکوۃ کی کتنی اہمیت ہے اور تقویٰ پر چلنے والوں کے لیے یہ ضروری ہے اور آپ نے وہاں یہ بھی فرمایا تھا کہ احمدیوں کو بھی اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ زکوۃ کتنی ضروری ہے اور اس کا با قاعدہ اہتمام کرنا چاہیے.429 پھر ایک جگہ زکوۃ کے مسئلے کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ” ایک بہت اہم مسئلہ زکوۃ کا ہے لیکن لوگوں نے اس کو سمجھا نہیں.خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد اس کا حکم دیا ہے.حضرت ابو بکر نے کہا کہ میں زکوۃ نہ دینے والوں سے وہی سلوک کروں گا جو آنحضرت صلی علی کم کفار سے کرتے تھے.ایسے لوگوں کے مرد غلام بنالوں گا اور ان کی عور تیں لونڈیاں.آنحضرت صلی اللہ یکم کی وفات کے بعد ایسا ابتلا آیا تھا کہ عرب کے تین شہروں مکہ ، مدینہ اور ایک اور شہر کے علاوہ سب علاقہ عرب کامر تد ہو گیا.حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اچھا جو لوگ زکوۃ کے منکر ہیں ان سے صلح کر لیں.پہلے دوسرے مرتدین سے جنگ ہو جائے تو رفتہ رفتہ ان کی بھی اصلاح ہو جائے گی.اول ضرورت یہی ہے کہ جھوٹے مدعیان نبوت کا قلع قمع کیا جائے کیونکہ ان کا فتنہ سخت ہے.حضرت ابو بکر نے کہا اگر لوگ نبکری کا بچہ یا اونٹ کے گھٹنہ باندھنے کی رسی کے برابر بھی زکوۃ کے مال میں سے ادا نہ کریں گے جو آنحضرت صلی ا یلم کو ادا کرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا اور اگر تم لوگ مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور جنگل کے درندے بھی مرتدین کے ساتھ مل کر حملہ کریں گے تو میں ان سے اکیلا لڑوں گا.“ یہ بھی خلافت کی برکات میں سے ہے کہ شریعت کو قائم کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور خلیفہ وقت پوری کوشش کرتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ ایک اور جگہ بیان فرماتے ہیں.ایک اور اعتراض لوگ کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے اس کا جواب بھی تیرہ سو سال سے پہلے ہی دے دیا ہے.اعتراض کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ شَاوِرُهُمْ في الأمرِ تو آنحضرت صلی للہ ہم کو حکم ہے خلافت کہاں سے نکل آئی؟ خلافت کے لیے تو یہ حکم نہیں ہے.لیکن یہ لوگ یادر کھیں کہ حضرت ابو بکر پر جب زکوة کے متعلق اعتراض ہوا تو وہ بھی اسی رنگ کا تھا کہ خُذُ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تو نبی کریم صلی الم کو حکم ہے.ہاں یہ تو حکم نبی کریم صلی للی کم کو ہوا ہے.اب وہ رہے نہیں اور کسی کو حق نہیں کہ وہ صدقات وصول کرے.جسے لینے کا حکم تھا وہ فوت ہو گیا.حضرت ابو بکر نے یہی جواب دیا کہ اب میں مخاطب ہوں.یعنی حضرت ابو بکر اب مخاطب ہیں.آنحضرت صلی یہ کام فوت ہو گئے ، شریعت تو قائم ہے اس لیے اب خلیفہ وقت مخاطب ہے اور حضرت مصلح موعودؓ جب یہ تقریر فرمارہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اسی کا 430❝
اصحاب بدر جلد 2 164 حضرت ابو بکر صدیق ہم آہنگ ہو کر اپنے معترض کو میں کہتا ہوں کہ اب میں مخاطب ہوں.حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ اگر اُس وقت یہ جواب سچا تھا اور ضرور سچا تھا جو حضرت ابو بکر نے جواب دیا تو یہ بھی درست ہے جو میں کہتا ہوں کہ آج میں مخاطب ہوں اور یہی اصول ہمیشہ خلافت کے ساتھ رہے گا.یہ یاد رکھنے والی بات ہے.پھر آپ فرماتے ہیں اگر تمہارا اعتراض درست ہو تو اس پر قرآن مجید سے بہت سے احکام تم کو نکال دینے پڑیں گے اور یہ کھلی کھلی ضلالت ہے.431 یہ باتیں آپ اس وقت بیان فرما رہے تھے جب ایک تقریر آپ نے منصب خلافت کے ضمن میں کی.قومی ترقی کا راز جسے ہمیشہ یادر کھنا چاہیے پھر ایک اور موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ ” جب آپ آنحضرت صلی ال "فوت ہوئے تو بہت سے نادان مسلمان مرتد ہو گئے.تاریخوں میں آتا ہے کہ صرف تین جگہیں ایسی رہ گئی تھیں جہاں مسجدوں میں باجماعت نماز ہوتی تھی.اسی طرح ملک کے اکثر لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ رسول کریم صلی علیم کے بعد کسی کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے زکوۃ مانگے.جب یہ رو سارے عرب میں پھیل گئی اور حضرت ابو بکر نے ایسے لوگوں پر سختی کرنی چاہی تو حضرت عمر اور بعض اور صحابہ حضرت ابو بکڑ کے پاس پہنچے اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے ”انہوں نے عرض کیا کہ یہ وقت سخت نازک ہے.اس وقت کی ذراسی غفلت بہت بڑے نقصان کا موجب ہو سکتی ہے.اس لئے ہماری تجویز یہ ہے کہ اتنے بڑے دشمن کا مقابلہ نہ کیا جائے اور جو ز کوۃ نہیں دینا چاہتے ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے.حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ تم میں سے جو شخص ڈر تاہو وہ جہاں چاہے جائے.خدا کی قسم! اگر تم میں سے ایک شخص بھی میرا ساتھ نہ دے گا تو بھی میں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا اور اگر دشمن مدینہ کے اندر گھس آئے اور میرے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو قتل کر دے اور عورتوں کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں ان سے جنگ کروں گا اور اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک یہ لوگ اونٹ کا گھٹنہ باندھنے کی وہ رسی بھی جو پہلے زکوۃ میں دیا کرتے تھے نہ دینے لگ جائیں.چنانچہ انہوں نے “ یعنی حضرت ابو بکر نے ”دشمن کی شرارت کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا اور آخر کامیاب ہوئے صرف اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے.اسی لئے انہوں نے مشورہ دینے والے صحابہ کو کہہ دیا کہ تم میں سے کوئی شخص میر اساتھ دے یا نہ دے میں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا یہاں تک کہ میری جان خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائے.پس جس قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہو جائے.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : ” جس قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہو جائے وہ ہر میدان میں جیت جاتی ہے اور دشمن کبھی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا.4324 اور یہی قومی ترقی کا راز ہے جسے ہمیشہ یادرکھنا چاہیے.پھر ایک اور موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ: "رسول کریم صلی ایام کے بعد جب زکوۃ کے
حاب بدر جلد 2 165 حضرت ابو بکر صدیق الله مسئلہ کے اختلاف کی وجہ سے عرب کے ہزاروں لوگ مرتد ہو گئے اور مسیلمہ مدینہ پر حملہ آور ہوا تو حضرت ابو بکر ہو جو اس وقت خلیفہ تھے اطلاع پہنچی کہ مسیلمہ ایک لاکھ کی فوج لیکر حملہ آور ہو رہا ہے.اس وقت کچھ لوگوں نے حضرت ابو بکر کو یہ مشورہ دیا کہ چونکہ اس وقت ہم ایک نازک دور میں سے گزر رہے ہیں اور زکوۃ کے مسئلہ پر اختلاف کی وجہ سے لوگ ارتداد اختیار کرتے جارہے ہیں اور ادھر مسیلمہ ایک بہت بھاری فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا ہے اس لئے ان حالات کے پیش نظر قرین مصلحت یہی ہے کہ آپ زکوۃ کا مطالبہ سر دست نہ کریں اور ان لوگوں سے صلح کر لیں.حضرت ابو بکر نے ان خدشات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی اور ” پرواہ نہ کرتے ہوئے ان مشورہ دینے والوں سے کہا کیا تم مجھے وہ بات منوانا چاہتے ہو جو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی تعلیم کے احکام کے صریح خلاف ہے ؟ زکوۃ کا حکم خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی علیم کی طرف سے ہے.اس لئے میرا فرض ہے کہ میں خدا اور اس کے رسول صلی علیکم کے احکام کے تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش کروں.صحابہ نے پھر کہا کہ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ صلح کر لی جائے.حضرت ابو بکر نے فرمایا اگر آپ نہیں لڑنا چاہتے اور دشمن کے مقابلہ کی تاب نہیں لا سکتے تو آپ لوگ جائیں اور اپنے گھروں میں جاکر بیٹھیں.خدا کی قسم! میں دھیمین سے اس وقت تک اکیلا لڑوں گا جب تک وہ اونٹ کے گھٹنے باندھنے کی رسی بھی اگر زکوۃ میں دینی تھی اسے ادا نہیں کر دیتے اور جب تک میں ان لوگوں کو زکوۃ دینے کا قائل نہ کر لوں گا ان سے کبھی صلح نہ کروں گا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ”پس حقیقی ایمان کی یہی علامت ہوا کرتی ہے.اور پس یہی ایمان ہے.اگر ہم میں ہو گا تو ہم دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچا سکیں گے اور کامیاب ان شاء اللہ ہوں گے.پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ” آپ کی وفات کے بعد عرب کے قبائل نے بغاوت کر دی اور انہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا.وہ بھی یہی دلیل دیتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی للی کم کے سوا کسی اور کو زکوۃ لینے کا اختیار ہی نہیں دیا.چنانچہ وہ فرماتا ہے.“ یعنی اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ تم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ ” اے محمد صلی اللہ کیا تو ان کے اموال کا کچھ حصہ بطور زکوۃ لے.یہ کہیں ذکر نہیں کہ کسی اور کو بھی رسول کریم صلی علیکم کے بعد زکوۃ لینے کا اختیار ہے مگر مسلمانوں نے ان کی اس دلیل کو تسلیم نہ کیا حالانکہ وہاں خصوصیت کے ساتھ رسول کریم صلی اللی کم کو ہی مخاطب کیا گیا ہے.بہر حال جو لوگ اس وقت مرتد ہوئے ان کی بڑی دلیل یہی تھی کہ زکوۃ لینے کا صرف محمد رسول اللہ صلی علی یم کو اختیار حاصل تھا کسی اور کو نہیں.اور اس کی وجہ یہی دھوکا تھا کہ نظام سے تعلق رکھنے والے احکام ہمیشہ کے لئے قابل عمل نہیں بلکہ رسول کریم صلی ال یکم کے ساتھ وہ احکام مخصوص تھے.مگر آپ فرماتے ہیں کہ ” یہ خیال بالکل غلط ہے اور اصل حقیقت یہی ہے کہ جس طرح نماز روزہ کے احکام رسول کریم صلی للی نام تک ختم نہیں ہو گئے اسی طرح قومی یا ملکی نظام سے تعلق رکھنے والے احکام بھی آپ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گئے اور نماز باجماعت کی طرح جو ایک اجتماعی عبادت ہے ان احکام کے متعلق بھی ضروری ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں میں آپ کے نائبین کے ذریعہ ان پر عمل ہو تار ہے.434 433<< الله
اصحاب بدر جلد 2 166 حضرت ابو بکر صدیق پھر ایک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بھی فرمایا کہ جب رسول کریم صلی یم نے وفات پائی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت سارا عرب مرتد ہو گیا.سوائے مکہ اور مدینہ کے اور ایک چھوٹے سے قصبہ کے تمام لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی الم سے فرمایا تھا کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً ان کے مالوں سے صدقہ لے.کسی اور کو یہ اختیار نہیں کہ ہم سے زکوۃ وصول کرے.غرض سارا عرب مرتد ہو گیا اور وہ لڑائی کے لیے چل پڑا.صرف مرتد نہیں ہو گیا بلکہ لڑائی کے لیے چل پڑا.رسول کریم صلی علی کم کے زمانہ میں گو اسلام کمزور تھا مگر قبائل عرب متفرق طور پر حملہ کرتے تھے.کبھی ایک گروہ نے حملہ کر دیا اور کبھی دوسرے نے.جب غزوہ احزاب کے موقع پر کفار کے لشکر نے اجتماعی رنگ میں مسلمانوں پر حملہ کیا تو اس وقت تک اسلام بہت کچھ طاقت پکڑ چکا تھا گو ابھی اتنی زیادہ طاقت حاصل نہیں ہوئی تھی کہ انہیں آئندہ کے لیے کسی حملے کا ڈر ہی نہ رہتا.اس کے بعد جب رسول کریم صلی علیہ یکم مکہ فتح کرنے کے لیے گئے تو اس وقت عرب کے بعض قبائل بھی آپ کی مدد کے لیے کھڑے ہو گئے.اس طرح خدا نے تدریجی طور پر دشمنوں میں جوش پیدا کیا تا کہ وہ اتنا زور نہ پکڑ لیں کہ سب ملک پر چھا جائیں لیکن حضرت ابو بکڑ کے زمانہ میں یکدم تمام عرب مرتد ہو گیا.صرف مکہ اور مدینہ اور ایک چھوٹا سا قصبہ رہ گئے.باقی تمام مقامات کے لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور وہ لشکر لے کر مقابلہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے.صرف زکوۃ کا انکار نہیں کیا بلکہ لشکر لے کر مقابلے کے لیے نکل کھڑے ہوئے.بعض جگہ تو ان کے پاس ایک ایک لاکھ کا بھی لشکر تھا.مگر ادھر صرف دس ہزار کا ایک لشکر تھا اور وہ بھی شام کو جار ہا تھا اور یہ وہ لشکر تھا جسے اپنی وفات کے قریب رسول کریم صلی علیم نے رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا تھا اور اسامہ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا.باقی لوگ جو رہ گئے تھے وہ یا تو کمزور اور بڑھے تھے اور یا پھر گنتی کے چند نوجوان تھے.یہ حالات دیکھ کر صحابہ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ کا لشکر بھی روانہ ہو گیا تو مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں ہو سکے گا.چنانچہ اکابر صحابہ کا یہ وفد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا.پہلے بھی بیان ہو چکا ہے اور عرض کیا کہ کچھ عرصہ کے لیے اس لشکر کو روک لیا جائے.جب بغاوت فرو ہو جائے تو پھر بے شک اسے بھیج دیا جائے مگر اس وقت اس کا بھیجنا خطرہ سے خالی نہیں.حضرت ابو بکڑ نے نہایت غصہ کی حالت میں فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی المی کم کی وفات کے بعد ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی علیم نے حکم دیا تھا اسے روک لے.بہر حال آپ نے کہا یہ تو روانہ ہو گا اور میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی ا تم نے ارشاد فرمایا ہے.اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بے شک میر اساتھ چھوڑ دو.میں اکیلا تمام دشمن کا مقابلہ کروں گا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کی صداقت کا بڑا
اصحاب بدر جلد 2 167 حضرت ابو بکر صدیق ثبوت ہے.یعنی خلافت پہ قائم ہونے والے یا خلافت کے ساتھ رہنے والے یہ مومن میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور یہ وہ حالت ہے جو خلافت کے نظام کے ساتھ جاری ہے اور جاری رہے گی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ دوسرا سوال زکوۃ کا تھا.صحابہ نے عرض کیا کہ اگر آپ لشکر نہیں روک سکتے تو صرف اتنا کر لیجیے کہ ان لوگوں سے عارضی صلح کر لیں اور انہیں کہہ دیں کہ ہم اس سال تم سے زکوۃ نہیں لیں گے اور اس دوران میں ان کا جوش ٹھنڈ ا ہو جائے گا اور تفرقہ کے مٹنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے گی.لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا ہر گز نہیں ہو گا.یہ بات بھی نہیں مانی.اس پر صحابہ نے کہا کہ اگر جیش اسامہ بھی چلا گیا اور ان لوگوں سے عارضی صلح بھی نہ کی گئی تو پھر دشمن کا کون مقابلہ کرے گا؟ مدینہ میں تو یہ بڑھے اور کمزور لوگ ہیں اور یہ صرف چند نوجوان ہیں وہ بھلا لا کھوں کا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں ؟ حضرت ابو بکر نے جواب دیا.اے دوستو! اگر تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ابو بکر اکیلا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل کھڑا ہو گا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ دعویٰ اس شخص کا ہے جسے فنونِ جنگ سے کچھ زیادہ واقفیت نہیں تھی اور جس کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دل کا کمزور ہے.پھر یہ جرآت، یہ دلیری، یہ یقین اور یہ وثوق اس میں کہاں سے پیدا ہوا.اسی بات سے یہ یقین پیدا ہوا کہ حضرت ابو بکر نے سمجھ لیا تھا کہ میں خلافت کے مقام پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہوا ہوں اور مجھ پر ہی تمام کام کی ذمہ داری ہے.پس میرا فرض ہے کہ میں مقابلہ کے لیے نکل کھڑ ا ہوں.کامیابی دینایانہ دینا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اگر وہ کامیابی دینا چاہے گا تو آپ دے دے گا اور اگر نہیں دینا چاہے گا تو سارے لشکر مل کر بھی کامیاب نہیں کر سکتے.حضرت ابو بکر کے فیصلہ کے کیسے زبر دست نتائج پیدا ہوئے اس بارے میں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر نے صحابہ کی خلاف مرضی حضرت اسامہ بن زید کو لشکر سمیت مونته کی طرف روانہ کر دیا.چنانچہ چالیس دن بعد یہ مہم اپنا کام پورا کر کے فاتحانہ شان سے مدینہ واپس آئی اور خدا کی نصرت اور فتح کو نازل ہوتے سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.435 پھر اس مہم کے بعد حضرت ابو بکر جھوٹے مدعیان کے فتنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس فتنہ کی ایسی ایسی سرکوبی کی کہ اسے چل کر رکھ دیا اور یہ فتنہ بالکل ملیا میٹ ہو گیا.بعد ازاں یہی حال مرتدین کا ہو ا.اور صحابہ کبار بھی حضرت ابو بکر سے اختلاف کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ جو لوگ توحید اور رسالت کا اقرار کرتے ہیں اور صرف زکوۃ دینے کے منکر ہیں ان پر کس طرح سے تلوار اٹھائی جاسکتی ہے لیکن حضرت ابو بکر نے نہایت جرآت اور دلیری سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ اگر آج زکوۃ نہ دینے کی اجازت دے دی تو آہستہ آہستہ لوگ نماز روزے کو بھی چھوڑ بیٹھیں گے اور اسلام محض نام کا رہ جائے گا.الغرض ایسے حالات میں حضرت ابو بکر نے منکرین زکوۃ کا مقابلہ کیا اور انجام یہی تھا کہ اس میدان
محاب بدر جلد 2 168 حضرت ابو بکر صدیق میں بھی آپ کو فتح اور نصرت حاصل ہوئی اور تمام بگڑے ہوئے لوگ راہ حق کی طرف لوٹ آئے.6 حضرت ابو بکر کے زمانہ کے فتنے ارتداد و بغاوت 436 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی تصنیف سر الخلافہ میں بیان فرماتے ہیں کہ : ابن خلدون نے لکھا ہے ” عرب کے عوام و خواص مرتد ہو گئے اور بنو کلے اور بنو اسد طلیحہ کے ہاتھ پر جمع ہو گئے اور بنو غطفان مرتد ہو گئے.اور بنو ہوازن متر ڈر ہوئے اور انہوں نے زکوۃ دینی روک دی.نیز بنو سلیم کے سردار مرتد ہو گئے اور اسی طرح ہر جگہ پر باقی لوگوں کا بھی یہی حال تھا.“ ابنِ اثیر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ...عرب مرتد ہو گئے.ہر قبیلہ میں سے عوام یا خواص اور نفاق ظاہر ہو گیا اور یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی گرد نہیں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیا.اور مسلمانوں کی اپنے نبی کی وفات کی وجہ سے، نیز اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے باعث ایسی حالت ہو گئی تھی جیسی بارش والی رات میں بھیڑ بکریوں کی ہوتی ہے یعنی خوف سے ایک جگہ اکٹھی ہو جاتی ہیں اور پناہ تلاش کرتی ہیں.” اس پر لوگوں نے ابو بکر سے کہا کہ یہ لوگ صرف اسامہ کے لشکر کو ہی مسلمانوں کا لشکر سمجھتے ہیں.اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں عربوں نے آپ سے بغاوت کر دی ہے پس مناسب نہیں کہ آپ مسلمانوں کی اس جماعت کو اپنے سے الگ کر لیں.اس پر (حضرت) ابو بکر نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! اگر مجھے اس بات کا یقین بھی ہو جائے کہ درندے مجھے اچک لیں گے تب بھی میں رسول اللہ صلی علیم کے حکم کے مطابق اسامہ کے لشکر کو ضرور بھیجوں گا.جو فیصلہ رسول اللہ صلی الله یم نے فرمایا ہے میں اسے منسوخ نہیں کر سکتا.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبد اللہ بن مسعود کا حوالہ دے کے فرماتے ہیں کہ : عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم کی وفات کے بعد ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہو گئے تھے کہ اگر اللہ ہم پر ابو بکر کے ذریعہ احسان نہ فرماتا تو قریب تھا کہ ہم ہلاک ہو جاتے.آپ نے ہمیں اس بات پر اکٹھا کیا کہ ہم بنت مخاض “ یعنی ”ایک سالہ اونٹنی) اور بنت لبون (دو سالہ اونٹنی) کی (زکوۃ کی وصولی کے لئے ) جنگ لڑیں اور یہ کہ ہم عرب بستیوں کو کھا جائیں اور ہم اللہ کی عبادت کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ موت ہمیں آئے.کیا اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے؟ 437" یہ جو بحث چل رہی ہے اس میں بعض غلط فہمیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں اور یہ سوال بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے ؟ اس بارے میں مختصر بیان کر دیتا ہوں.نبی کریم صلی یکم کی وفات کے بعد جب تقریباً سارے عرب نے ارتداد اختیار کر لیا اور بعض لوگوں
ناب بدر جلد 2 169 حضرت ابو بکر صدیق نے کلی طور پر اسلام سے دوری اختیار کرلی اور بعض نے زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کیا تو حضرت ابو بکڑ نے ان سب کے خلاف قتال کیا.کتب تاریخ اور سیرت میں ایسے تمام افراد کے لیے مرتدین کا لفظ استعمال ہوا ہے.جس کی وجہ سے بعد میں آنے والے سیرت نگار اور علماء کو غلطی لگی یا وہ غلط تعلیم پھیلانے کا باعث بنے کہ گویا مرتد کی سزا قتل ہے اور اسی لیے حضرت ابو بکر نے تمام مرتدین کے خلاف اعلانِ جہاد کیا اور ایسے سب لوگوں کو قتل کروا دیا سوائے اس کے کہ وہ دوبارہ اسلام قبول کر لیں اور یوں ان مؤرخین اور سیرت نگاروں نے حضرت ابو بکر کو عقیدہ ختم نبوت کا محافظ اور اس کے ہیرو کے طور پر پیش کیا.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے اس دور میں ختم نبوت اور عقیدہ ختم نبوت کے اس طرح کے تحفظ کی کوئی سوچ یا نظریہ موجود ہی نہیں تھا اور نہ ہی ان لوگوں کے خلاف اس لیے تلوار اٹھائی گئی تھی کہ ختم نبوت کو کوئی خطرہ تھا یا مرتد کی سزا چونکہ قتل تھی اس لیے ان کو قتل کیا جائے.اس کی تفصیل تو آگے بیان ہو گی اور اس بارے میں تو بیان ہو گا کہ ان کے خلاف اعلان جنگ کیوں کیا گیا؟ لیکن اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ کیا قرآن کریم نے یا آنحضرت صلی ایم نے مرتد کی سزا قتل بیان کی ہے یا کوئی اور سزا بھی مقرر کی ہے؟ اسلامی اصطلاح میں مرتد اس کو کہا جاتا ہے جو دین اسلام سے انحراف کر جائے اور اسلام قبول کرنے کے بعد پھر دائرہ اسلام سے نکل جائے.جب ہم قرآنِ کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر مرتد ہونے والوں کا با قاعدہ ذکر تو فرمایا ہے لیکن ان کے لیے قتل یا کسی بھی قسم کی دنیاوی سزا دینے کا ذکر نہیں کیا.چنانچہ چند آیات نمونے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں.پہلی آیت یہ ہے کہ وَ مَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمْتُ وَهُوَ كَافِرُ فَأُولَبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَأُولَبِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فيهَا خُلِدُونَ (البقر 21857) یعنی اور تم میں سے جو بھی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا میں بھی ضائع ہو گئے اور آخرت میں بھی اور یہی وہ لوگ ہیں جو آگ والے ہیں.اس میں وہ بہت لمبا عرصہ رہنے والے ہیں.اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ تم میں سے جو کوئی میر تد ہو جائے اور آخر کار اسی کفر کی حالت میں مر جائے.اس سے خوب واضح ہو رہا ہے کہ مرتد کی سزا قتل نہ تھی کیونکہ اگر اس کی سزا قتل ہوتی تو یہ بیان نہ ہوتا کہ ایسا مرتد آخر کار کفر کی حالت میں مر جائے.پھر ایک جگہ فرمایا: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةً اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لابِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (الماء (557) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے تو ضرور اللہ اس کے بدلے ایک ایسی قوم لے آئے گا جس سے وہ محبت کرتا ہو اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں.مومنوں پر وہ بہت مہربان ہوں گے اور کافروں پر بہت سخت.وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہ رکھتے ہوں
حاب بدر جلد 2 170 حضرت ابو بکر صدیق گے.یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.اس جگہ بھی مرتد ہونے والوں کا ذکر فرماتے ہوئے مومنوں کو یہ خوش خبری تو دی گئی کہ ایسے لوگوں کے بدلے میں اللہ تعالیٰ قوموں کی قومیں عطا فرمائے گا لیکن کہیں یہ ذکر نہیں فرمایا کہ مرتد ہونے والوں کو قتل کر دو یا فلاں فلاں سزا دو.پھر ایک اور آیت جو کہ ہر قسم کے شکوک و شبہات اور سوالات کو ختم کر دینے والی ہے وہ سورۃ النساء کی یہ آیت ہے.فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ اَمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كَفْرًا لَمْ يَكُنِ اللهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا ( النساء: 138) یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے پھر انکار کر دیا.پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا.پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے.اللہ ایسا نہیں کہ انہیں معاف کر دے اور انہیں راستہ کی ہدایت دے.پس بڑی واضح نفی ہے اس میں کہ مرتد کی سزا قتل نہیں ہے اور یہی تشریح ہمارے لٹریچر میں بھی کی جاتی ہے اور مفسرین نے بھی اس کی وضاحت کی ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اس کی تھوڑی سی وضاحت اپنے ترجمۃ القرآن میں اس طرح فرمائی ہے کہ یہ آیت اس عقیدہ کی نفی کرتی ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے.چنانچہ فرمایا اگر کوئی مرتد ہو جائے، پھر ایمان لے آئے، پھر مرتد ہو جائے ، پھر ایمان لے آئے تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے سپر د ہے اور اگر کفر کی حالت میں مرے گا تو لازمی طور پر جہنمی ہو گا.اگر مرتد کی سزا قتل ہوتی تو اس کے بار بار ایمان لانے اور کفر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا تھا.438 اس کے علاوہ قرآن کریم میں کچھ اور آیات ہیں جو اصولی طور پر قتل مرتد کی نفی کرنے والی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّلِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَ إِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءِ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا (الف (30) اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے ہو.پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے.یقینا ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیرے میں لے لیں گی اور اگر وہ پانی مانگیں گے تو انہیں ایسا پانی دیا جائے گا جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا جو اُن کے چہروں کو جھلس دے گا.بہت ہی بُر ا مشروب ہے اور بہت ہی بُری آرام گاہ ہے.دین میں کسی قسم کے جبر کی نفی کرتے ہوئے فرمایا: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (ابق 257:7) دین میں کوئی جبر نہیں.یقیناً ہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہو چکی.پس جو کوئی شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقیناً اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں.اور
اصحاب بدر جلد 2 171 حضرت ابو بکر صدیق اللہ بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.قرآن کریم کی کچھ آیات بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں جن میں دین کے نام پر کسی بھی قسم کی سختی، جبر اور سزا کی نفی کی گئی ہے اور مرتد ہونے والوں کا ذکر کر کے کسی بھی قسم کی سزا کا ذکر نہ کرنا ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ مرتد ہونے والے کے لیے شریعت اسلامی کوئی جسمانی اور دنیاوی سزا مقرر نہیں کرتی.ای قرآنی تعلیم اور نظریہ کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ منافقین کا ذکر موجود ہے اور منافقین کی برائیاں اس قدر زور سے بیان کی گئی ہیں کہ کفار کی برائیوں کا بھی اس طرح ذکر نہیں.ان لوگوں کو فاسق بھی کہا گیا ہے.ان کو کافر بھی کہا گیا ہے.ان کے بارے میں اسلام لانے کے بعد کفر اختیار کرنے کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ایسے کسی بھی منافق کے لیے نہ تو کسی قسم کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے اور تاریخ اسلام گواہ ہے کہ نہ ہی کسی منافق کو ان کے نفاق کی بنا پر کوئی سزا دی گئی.چنانچہ منافقین کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فَسِقِينَ وَ مَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلوةَ إِلا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَرِهُونَ (التوبة: 53-54) تُو کہہ دے کہ خواہ تم خوشی سے خرچ کرو خواہ کراہت کے ساتھ ہر گز تم سے قبول نہیں کیا جائے گا.یقینا تم ایک بد کردار قوم ہو.اور انہیں کسی چیز نے اس بات سے محروم نہیں کیا کہ ان سے ان کے اموال قبول کیے جائیں سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کر بیٹھے تھے نیز یہ کہ وہ نماز کے قریب نہیں آتے تھے مگر سخت سستی کی حالت میں.اور خرچ بھی نہیں کرتے تھے مگر ایسی حالت میں کہ وہ سخت کراہت محسوس کرتے تھے.اس آیت کریمہ میں منافقین کو فاسق قرار دیا اور اللہ اور اس کے رسول کا کفر کرنے والا قرار دیا.پھر ان کے کفر کی شدت کا ذکر مزید اس آیت میں بیان کیا کہ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَ لَقَدْ قَالُوا كَلِمَةً الْكُفْرِ وَ كَفَرُوا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَهَمُوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَ مَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْلَهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ وَ إِنْ يَتَوَلَّوا يُعَذِّبُهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِي وَلَا نَصِيرِ (التوب :74) وہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کہا حالانکہ وہ یقیناً کفر کا کلمہ کہہ چکے ہیں جبکہ وہ اسلام لانے کے بعد کافر ہو گئے.اور وہ ایسے پختہ ارادے رکھتے تھے جنہیں وہ پا نہیں سکے.اور انہوں نے مومنوں سے پر خاش نہ رکھی مگر صرف اس وجہ سے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کو اپنے فضل سے مالا مال کر دیا.پس اگر وہ تو بہ کر لیں تو ان کے لیے بہتر ہو گا.ہاں اگر وہ پھر جائیں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور ان کے لیے ساری زمین میں نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ مددگار.اسی طرح سورہ تو بہ میں آیت 66 میں فرمایا.تم ایمان لانے کے بعد کا فربن گئے ہو لَا تَعْتَذِرُوا قَدُ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ کوئی عذر پیش نہ کرو.لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ کوئی عذر پیش نہ کر و یقینا تم اپنے ایمان لانے کے بعد کا فر ہو چکے ہو.
صحاب بدر جلد 2 172 حضرت ابو بکر صدیق اسی طرح منافقین کے متعلق پوری سورۃ المنافقین نازل ہوئی.اس میں فرمایا اِتَّخَذُوا أَيْمَانَهُم جُنَّةً فَصَةٌ وَا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطَبعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ (المنافقون: 3-4) انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے.پس وہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں.یقیناً بہت بُرا ہے جو وہ عمل کرتے ہیں.یہ اس لیے ہے کہ وہ ایمان لائے پھر انکار کر دیا تو ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی پس وہ سمجھ نہیں رہے.یہاں بھی ان لوگوں کے ایمان لانے اور اس کے بعد پھر کفر اختیار کرنے کا ذکر کیا ہے لیکن کسی قسم کی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی اور نہ ہی دی گئی.غرض اسی طرح کی بہت سی آیات ہیں جن میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے کہ جو ایمان لاتے ہیں اور پھر اعلانیہ یا عملی طور پر کفر اختیار کرتے ہیں.ان لوگوں کو فاسق اور کافر اور مرتد تو کہا گیا ہے لیکن ان کے لیے قتل وغیرہ کی کوئی سزا مقرر نہیں کی.آنحضرت صلی للی کم مرتد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں.قرآن کریم کے بعد اب اس بارے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جس مبارک وجود پر قرآن کریم اتارا گیا، جوكَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ كا مصداق وجود تھا، جس نے اپنے عمل سے قرآن کریم کے احکامات نافذ کرتے ہوئے اپنا نمونہ اور اسوہ پیش کیا اس مبارک ہستی نے مرتد کے حوالے سے کیا فرمایا.صحیح بخاری میں درج ذیل واقعہ اس امر کا فیصلہ کر دیتا ہے کہ مرتد کے لیے محض ارتداد کے جرم میں کوئی شرعی حد مقرر نہ تھی.اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی صلی ا یکم کے پاس آیا اور اسلام قبول کرتے ہوئے آپ سے بیعت کی.اگلے روز اعرابی کو مدینہ میں بخار ہو گیا وہ آنحضرت صلی الیکم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری بیعت مجھے واپس دے دیں.پھر وہ دوبارہ آیا اور کہنے لگا کہ میری بیعت مجھے واپس دے دیں.آپ نے تین مرتبہ انکار فرمایا.اس کا جواب نہیں دیا.پھر وہ اعرابی مدینہ سے چلا گیا.اس پر آنحضرت صلی علی کرم نے فرمایا کہ مدینہ ایک بھٹی کی طرح ہے وہ میل کو نکال دیتا ہے اور اصل پاکیزہ چیز کو خالص کر دیتا ہے.439 حضرت مولانا شیر علی صاحب نے اپنی تصنیف ” قتل مرتد اور اسلام “ ( یہ ان کی ایک کتاب تھی.یہ کتاب جو تھی یہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی نگرانی میں تیار کی گئی تھی اس) میں یہ حدیث درج کی ہے اور اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس شخص کا آنحضرت صلی اللہ نیم کے پاس بار بار آنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ مرتد کے لیے قتل کی سزا مقرر نہ تھی ورنہ کبھی آنحضرت صلی علیہ نیم کے پاس نہ آتا بلکہ کوشش کرتا کہ بلا اطلاع چپکے سے نکل جائے اور کسی پر ظاہر نہ کرتا کہ وہ ارتداد اختیار کرناچاہتا ہے.پھر لکھتے ہیں کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ارتداد کو روکنے کے لیے شریعت اسلام میں مقرر کی گئی ہے اور اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام پر رہنے کے لیے مجبور کیا جائے.اگر یہ بات سچ ہے تو آنحضرت صلی علیکم نے کیوں اس شخص کو متنبہ نہ کیا جو بار بار آپ کے پاس آرہا تھا اور کیوں یہ نہ کہہ دیا کہ یادر کھو کہ اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے.اگر تم ارتداد اختیار کرو گے تو تمہیں قتل کیا جائے گا اور جبکہ وہ بار بار ارتداد وہ
حاب بدر جلد 2 الله سة 173 حضرت ابو بکر صدیق کا ارادہ ظاہر کرتا تھا اور خوف تھا کہ وہ مرتد ہو کر چلا جائے گا.پھر ایسی صورت میں کیوں اس پر پہرہ مقرر نہ کیا گیا تا کہ اگر وہ مرتد ہو کر جانے لگے تو اس کو پکڑ لیا جاوے اور اس پر شرعی حد جاری کی جاوے.کیوں صحابہ نے اس کو یہ نہ کہا کہ میاں اگر جان کی خیر چاہتے ہو تو ارتداد کا نام نہ لو کیونکہ اس شہر میں تو یہ قاعدہ جاری ہے کہ جو شخص اسلام لا کر پھر ارتداد اختیار کرتا ہے اس کو فوراً قتل کر دیا جاتا ہے.پس اس اعرابی کا بار بار ارتداد کا اظہار کرنا اور اس کا آنحضرت صلی اللہ نیم کے پاس بار بار جانا اور آنحضرت صلی علیہ کرم کا اس کو ارتداد کے نتیجہ سے متنبہ نہ کرنا اور نہ صحابہ کو اس کے قتل کا حکم سنانا اور آخر کار اس کا بغیر کسی قسم کے تعرض کے مدینہ سے نکل جانا یہ سب امور صاف طور پر اس امر کے شاہد مبین ہیں کہ اسلام میں مرتد کے لیے کوئی شرعی حد مقرر نہ تھی.پھر آنحضرت علی علیہ کا اس کے نکل جانے پر ایک طرح کی خوشی کا اظہار کرنا اور فرمانا کہ مدینہ ایک بھٹی کی طرح ہے جو میل کچیل کو پاکیزہ جوہر سے جدا کر دیتا ہے صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپ اس اصول کے مخالف تھے کہ کسی کو جبر سے اسلام پر رکھا جاوے اور لوگوں کو جبری ذرائع اختیار کر کے ارتداد سے روکا جائے بلکہ اگر ناپاک انسان مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جاتا تو آپ اس پر ناخوش نہیں ہوتے تھے اور آپ یہ کوشش نہیں فرماتے تھے کہ اس کو اس کی مرضی کے خلاف جبر ااسلام میں رکھا جائے بلکہ ایسے شخص کا چلا جانا آپ کے نزدیک گویا خس کم جہاں پاک کے مصداق تھا.اگر آپ کا یہ اصول ہو تا کہ جو شخص ایک دفعہ اسلام میں داخل ہو جائے اس کو ہر ممکن ذریعہ سے اسلام میں رہنے کے لیے مجبور کیا جائے اور اگر وہ کسی طرح بھی نہ مانے تو اس کو قتل کیا جائے تا اس کی مثال دوسروں کے لیے عبرت ہو تو چاہیے تھا کہ آپ اس اعرابی کے جانے پر خفا ہوتے اور صحابہ کو ڈانٹتے کہ تم نے اس کو کیوں جانے دیا؟ کیوں اس کو پکڑ کر مقتل کی دھمکی نہ دی اور چاہیے تھا کہ آپ صلی علیہ کم صحابہ کو حکم دیتے کہ دوڑو اور جہاں ہو اس خبیث کو پکڑ لاؤ تا اس کو قتل کی سزا دی جائے مگر آپ نے ایسا نہ کیا بلکہ دوسرے الفاظ میں یہ فرمایا کہ اچھا ہو اوہ چلا گیا.وہ اس قابل نہ تھا کہ مسلمانوں میں رہے.خدا تعالیٰ نے خود اس کو اپنے ہاتھ سے ہم سے جدا کر دیا.غرض اس اعرابی کی مثال ایک قطعی اور یقینی ثبوت اس امر کا ہے کہ مرتد کے لیے کوئی شرعی سزا مقرر نہ تھی اور مسلمانوں میں قطعا یہ طریق جاری نہ تھا کہ وہ ہر ایک مرتد کو محض اس کے ارتداد کی وجہ سے قتل کر دیتے.440 دوسرا ثبوت اس امر کا کہ مرتد کے لیے کوئی شرعی حد مقرر نہ تھی وہ شرائط ہیں جن کے ساتھ آنحضرت صلی علیم نے مقام حدیبیہ میں مشرکین مکہ کے ساتھ صلح کی.صلح حدیبیہ کی حدیث میں لکھا.جو براء بن عازب سے روایت ہے کہ نبی صلی لی ایم نے حدیبیہ کے دن مشرکین کے ساتھ تین باتوں پر صلح کی.پہلی شرط یہ تھی کہ اگر مشرکین میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر آنحضرت صلی علیکم کے پاس جائے تو آپ اس کو مشرکین کی طرف واپس کر دیں گے.دوسری شرط یہ تھی کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص مرتد ہو کر مشرکین کی طرف چلا جائے تو مشرکین اس کو آپ کی طرف واپس نہیں کریں گے.441
" حاب بدر جلد 2 174 حضرت ابو بکر صدیق اس صلح نامہ کی دوسری شرط سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ مرتد کے لیے کوئی شرعی حد مقرر نہ تھی کیونکہ اگر ارتداد کے لیے شریعت اسلام میں یہ سزا مقرر ہوتی کہ اس کو قتل کیا جائے تو شرعی حد کے معاملہ میں بھی کبھی آپ مشرکین کی بات قبول نہ فرماتے.اس کے علاوہ بھی ایسے کئی واقعات ہیں جن سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ نبی اکرم صلی الی ایم کے عہد مبارک میں چند لوگوں نے دین اسلام سے ارتداد اختیار کیا لیکن محض ارتداد کی وجہ سے ان سے کوئی تعارض نہ کیا گیا تاوقتیکہ انہوں نے محاربت اور بغاوت جیسے افعال شنیعہ کا ارتکاب نہ کیا.حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن مجید کی ایک اور آیت سے بھی اس مسئلے کو یوں واضح فرمایا ہے کہ "وَ مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلا الْبَاغُ الْمُبِينُ “ فرمایا کہ ” اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تلوار کی بجائے تبلیغ سے کام لینا ہی ایک دیرینہ اصول ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اسی اصول کو اختیار کیا تھا.اور ان کے زمانہ کے لوگوں کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی ارشاد ہو اتھا کہ ہمارے اس رسول کا کام صرف بات پہنچا دینا ہے تلوار سے منوانا نہیں اور یہی سارے قرآن کا خلاصہ ہے کہ دلیل کے ساتھ بات منوانا مذ ہبی لوگوں کا کام ہو تا ہے.جبر سے منوانا مذہبی لوگوں کا کام نہیں.مگر افسوس ہے کہ اب تک دنیا اس مسئلہ کو نہیں سمجھی بلکہ خود مسلمانوں میں بھی قتل مرتد کو جائز سمجھا جاتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حالانکہ کسی کا عقیدہ جھوٹ ہو یا سچ، عقیدہ رکھنے والا اسے بہر حال ویساہی سچا سمجھتا ہے جیسے ایک مسلمان اپنے مذہب کو سچا سمجھتا ہے.عیسائیت جھوٹی سہی مگر سوال تو یہ ہے کہ دنیا کا اکثر عیسائی عیسائیت کو کیا سمجھتا ہے.وہ یقیناً اسے سچا سمجھتا ہے.ہندو مذہب جھوٹا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ دنیا کا اکثر ہند و اپنے مذہب کو کیا سمجھتا ہے.وہ یقیناً اسے سچا سمجھتا ہے.یہودی مذہب یقیناً اس وقت سچا نہیں.لیکن سوال تو یہ ہے کہ یہودیوں کا اکثر حصہ یہودیت کو کیا سمجھتا ہے.وہ یقیناً اسے سچا سمجھتا ہے.پس اگر اس بات پر کسی کو قتل کرنا جائز ہے کہ میں سمجھتا ہوں میر امذ ہب سچا ہے دوسرے کا نہیں.صرف یہی بات اگر ہے تو پھر ایک عیسائی کو یہ کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جس مسلمان کو چاہے قتل کر دے.ایک ہندو کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبر ادوسروں کو ہندو بنالے یا انہیں مار ڈالے.چین میں کنفیوشس مذہب کے پیروؤں کو یہ کیوں حق نہیں کہ وہ زبردستی لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل کر لیں.فلپائن میں جہاں اب بھی پندرہ بیس ہزار مسلمان ہے.“ اس زمانے میں جب آپؐ نے بیان فرمایا.اب تو زیادہ ہیں.عیسائیوں کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ مسلمانوں کو جبر اعیسائی بنالیں.امریکہ کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبر اان مسلمانوں کو جو اس کے ملک میں رہتے ہیں عیسائی بنالے.روس کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبر اسب کو عیسائی بنالے یا جبر اسب کو کمیونسٹ بنالے.اگر مسلمان دوسروں کو جبر ا اپنے عقیدہ پر لا سکتے ہیں تو ویسا ہی حق عقلاً دوسروں کو بھی حاصل ہے لیکن کیا اس حق کو جاری کر کے دنیا میں کبھی امن قائم رہ سکتا ہے.کیا اس حق کو جاری کر کے تم اپنے بیٹے کو بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ مسئلہ ٹھیک ہے یا بیوی کو بھی کہہ سکتے
حاب بدر جلد 2 175 442" حضرت ابو بکر صدیق ہو کہ یہ مسئلہ ٹھیک ہے کہ عیسائیوں کا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کو زبر دستی عیسائی بنالیں.مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ عیسائیوں کو زبر دستی مسلمان بنالیں.ایران والوں کا حق ہے کہ وہ سب حنفیوں کو زبر دستی شیعہ بنالیں اور حنفیوں کا حق ہے کہ وہ سب کو زبر دستی ستی بنا لیں.غرض یہ ایسی عقل کے خلاف بات ہے کہ کوئی انسان اس کو ایک منٹ کے لیے بھی تسلیم نہیں کر سکتا.گذشتہ انبیاء کی قوموں نے جب بھی خدائی ہدایت کو ماننے سے انکار کیا تو خدا تعالیٰ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ انْذِزِ مُكْبُوهَا وَ اَنْتُم لَهَا كَرِهُونَ (290) یعنی اگر تم خود ہدایت لینا پسند نہیں کرتے تو ہم جبر ا تمہیں ہدایت نہیں دے سکتے لیکن افسوس کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں میں اس اصل کا انکار کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں “اور اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ اکثریت مسلمانوں کی یہی کہتی ہے.”اگر دنیا اس مسئلہ کو سمجھ جائے تو یقیناً ظلم اور تعدی مذہبی اور سیاسی امور میں بند ہو جائے.نہ لوگ اپنے عقیدے لوگوں پر جبر اُٹھو نہیں اور نہ اپنے سیاسی نظام دوسرے ملکوں میں جبر آجاری کرنے کی کوشش کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.خدا تو قرآن شریف میں فرماتا ہے لا إكراه في الدین یعنی دین اسلام میں جبر نہیں.تو پھر کس نے جبر کا حکم دیا اور جبر کے کونسے سامان تھے.اور کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں ان کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے ، باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں.اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو کئی لاکھ دشمنوں کو شکست دے دیں اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لئے بھیٹروں بکریوں کی طرح سر کٹا دیں اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہریں کر دیں.اور خدا کی توحید کے پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اٹھا کر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلاویں.اور پھر ہر یک قسم کی صعوبت اٹھا کر چین تک پہنچیں نہ جنگ کے طور پر بلکہ محض درویشانہ طور پر اور اس ملک میں پہنچ کر دعوت اسلام کریں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ ان کے بابرکت وعظ سے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہو جائیں.اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں اور بہت سے حصہ آریہ ورت کو اسلام سے مشرف کر دیں اور یورپ کی حدود تک لا إلهَ إِلَّا اللہ کی آواز پہنچاویں.تم ایمانا کہو کہ کیا یہ کام ان لوگوں کا ہے جو جبر مسلمان کئے جاتے ہیں جن کا دل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے ؟ نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نورِ ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے." حضرت ابو بکر نے مرتدین کو کیوں قتل کیا 443<< ان آیات قرآنیہ اور ارشادات کی روشنی میں یہ تو ثابت ہو گیا کہ مرتد کی سزا قتل نہیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مرتد کی سزا قتل نہیں تو حضرت ابو بکڑ نے مرتدین کو کیوں قتل کیا اور قتل
حاب بدر جلد 2 176 حضرت ابو بکر صدیق کرنے کا حکم دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے بڑی آسانی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں مرتد ہونے والے صرف مرتد ہی نہیں تھے بلکہ وہ باغی تھے اور خونخوار ارادوں کے حامل باغی تھے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ ریاست مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو قتل کرنے کے بھیانک منصوبے بنائے بلکہ مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر بڑی بے رحمی سے قتل کیا.ان کے اعضاء کاٹ کر ان کو مارا گیا.انہیں زندہ آگ میں جلایا گیا.یہ مرتدین ظلم و ستم اور قتل و غارت اور بغاوت اور لوٹ مار جیسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگ تھے جس کی وجہ سے دفاعی اور انتقامی کارروائی کے طور پر ان محارب لوگوں سے جنگ کی گئی اور جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا کے تحت ان کو بھی ویسی ہی سزائیں دے کر قتل کرنے کے احکامات صادر کیے گئے جیسے جرائم کے وہ مر تکب ہوئے تھے.چنانچہ تاریخ اور سیرت کی کتابوں سے کچھ تفصیل پیش کی جاتی ہے.444 تاریخ خمیس میں لکھا ہے کہ خَارِجہ بن حضن جو مرتدین میں سے تھا اپنی قوم کے کچھ سوار لے کر مدینہ کی طرف بڑھا.وہ چاہتا تھا کہ اہل مدینہ کو جنگ کے لیے نکلنے سے قبل ہی روک دے یا انہیں غفلت میں پا کر حملہ کر دے.چنانچہ اس نے حضرت ابو بکر اور آپ کے ساتھ کے مسلمانوں پر اس وقت چھاپہ مارا جبکہ وہ لوگ بے خبر تھے.4 مرتدین نے نہ صرف مدینہ پر حملہ کیا بلکہ جب حضرت ابو بکر نے انہیں شکست دی تو انہوں نے صادق الایمان مسلمانوں کو بھی تہ تیغ کر دیا جو اُن قوموں میں بستے تھے جیسا کہ گذشتہ خطبہ میں اس کا میں ذکر کچھ کر چکا ہوں اور جو باوجود اپنی قوم کے مرتد ہو جانے کے اسلام پر قائم رہے تھے.چنانچہ علامہ طبری لکھتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر نے مختلف حملہ آور قبائل کو شکست دی تو بنو د بیان اور عبس اُن مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے جو اُن میں رہتے تھے اور اُن کو ہر ایک طریق سے قتل کیا اور ان کے بعد دیگر اقوام نے بھی انہی کی طرح کیا یعنی انہوں نے بھی ایسے لوگوں کو قتل کر دیا جو 445 اسلام پر قائم رہے.علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ عبس اور بنو ڈ بیان قبائل نے اپنے ہاں کے نہتے مسلمانوں کو بری طرح قتل کرناشروع کر دیا اور ان کی دیکھا دیکھی دوسرے قبائل نے بھی ایسا ہی کیا.اس پر حضرت ابو بکر نے قسم کھائی کہ وہ ہر قبیلے کے ان لوگوں کو ضرور قتل کریں گے جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا ہے.446 جیسا کہ بیان کیا گیا تھا کہ آنحضرت صلی علیم کی وفات پر جن قبائل نے ارتداد اختیار کیا ان کا ارتداد مذہبی اختلاف تک محدود نہ تھا بلکہ انہوں نے سلطنت اسلامی سے بغاوت اختیار کی تھی.تلوار کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا.مدینہ منورہ پر حملہ کیا.اپنی اپنی قوموں کے مسلمانوں کو قتل کیا.آگ میں ڈالا اور ان کا مثلہ کیا.جیسا کہ تاریخ طبری میں حضرت خالد بن ولید کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب اسد اور غطفان اور ہوازن اور سلیم اور کلیء کو شکست ہوئی تو خالد رضی اللہ عنہ نے ان سے معافی قبول نہ کی * علامہ ابن کثیر
اصحاب بدر جلد 2 177 حضرت ابو بکر صدیق سوائے اس کے کہ وہ آپ کے پاس ان لوگوں کو لے کر آئیں جنہوں نے مرتد ہونے کی حالت میں مسلمانوں کو آگ میں ڈال کر جلایا اور ان کا مثلہ کیا اور ان پر مظالم بر پا کیے.447 علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ جزیرہ عرب کے یہ مرتد قبائل مدینہ کا قصد کرتے ہوئے نکلے تاکہ 448 حضرت ابو بکر اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کریں.تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے عبس اور ڈبیان نے حملہ کیا.چنانچہ حضرت ابو بکر کو حضرت اسامہ کی واپسی سے قبل ان سے لڑائی کرنی پڑی.449 451 452 450 علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ ربیعہ قبیلہ نے ارتداد اختیار کر لیا اور انہوں نے مُنذر بن نعمان کو کھڑا کیا جس کا نام مغرور پڑا ہوا تھا.انہوں نے اسے بادشاہ بنا دیا.علامہ عینی جو صحیح بخاری کے شارح ہیں وہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکرؓ نے زکوۃ دینے سے انکار کرنے والوں سے صرف اس لیے قتال کیا کیونکہ انہوں نے تلوار کے ذریعہ سے زکوۃ رو کی اور امت مسلمہ کے خلاف جنگ بریا کی.علامہ شوکانی بیان کرتے ہیں کہ امام خطابی نے نبی کریم صلی ایم کی وفات کے بعد ارتداد اختیار کرنے والوں اور زکوۃ وغیرہ کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں کے بارے میں مختلف امور تحریر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ لوگ در حقیقت باغی ہی تھے اور ان کو مرتد صرف اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ یہ لوگ مرتدین کی جماعتوں میں داخل ہو گئے تھے.ایک مصنف نے بار بار اپنی کتاب میں ارتداد اختیار کرنے والوں کے لیے بغاوت اور باغی وغیرہ کے الفاظ لکھے ہیں.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی امی کم کی وفات کی خبر سارے عرب میں پھیل گئی اور ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے تو ان شعلوں کی زد میں سب سے زیادہ یمن کا علاقہ تھا.اگر چہ آگ کا بھڑ کانے والا شخص عنسی قتل ہو چکا تھا.بنو حنیفہ میں مسیلمہ اور بنو اسد میں طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کر کے ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ ملالیا اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اسد اور غطفان کے حلیف قبیلوں کا نبی ہمیں قریش کے نبی سے زیادہ محبوب ہے کیونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) وفات پا چکے ہیں اور طلیحہ زندہ ہے جب ان بغاوتوں کی خبر حضرت ابو بکر کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا چاہیے جب تک ان علاقوں کے عمال اور امراء کی طرف سے تمام واقعات کی مکمل رپورٹیں موصول نہ ہو جائیں.زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ امراء کی طرف سے رپورٹیں پہنچنے لگیں.ان رپورٹوں سے صاف ظاہر ہو تا تھا کہ باغیوں کے ہاتھوں نہ صرف سلطنت کا امن خطرے میں تھا بلکہ ان لوگوں کی جانوں کو بھی سخت خطرہ تھا جنہوں نے ارتداد کی رو میں باغیوں کا ساتھ نہیں دیا تھا اور اسلام پر قائم رہے تھے.اس صورت حال میں حضرت ابو بکر صدیق کے لیے پوری قوت سے بغاوتوں کا مقابلہ کرنا اور باغیوں کو ہر قیمت پر زیر کر کے صورت حال کو قابو میں لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا.453
حاب بدر جلد 2 178 حضرت ابو بکر صدیق ایک مصنف لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کے پیش نظر ان مرتدین کی سرکوبی تھی جو عرب کے مختلف خطوں میں بغاوت کے شعلوں کو ہوا دے رہے تھے اور ان کے ہاتھوں شمع اسلام اور ان کے 454 پروانوں کو سخت خطرہ لاحق تھا.4 پھر ایک مصنف لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم کی وفات کے بعد بہت سے سردارانِ عرب مر تذ ہو گئے اور ہر ایک اپنے اپنے علاقے میں خود مختار ہو گیا.محققین کے مطابق یہ ارتداد زیادہ تر سیاسی تھا.دینی ارتداد بہت ہی کم تھا.نبی کریم صلی للی کم کی اس دنیوی زندگی کے آخری ایام میں عرب کے کچھ قبائل 455 کے لیڈروں نے اپنی بغاوت کی سیاسی تحریک کو مذہبی رنگ دینے کے لیے نبوت کا دعویٰ کر دیا.ان تاریخی حوالوں کا خلاصہ یہی ہے کہ مرتد ہونے والے قبائل نے اموال زکوۃ روک لیے تھے یعنی حکومت کا ٹیکس جبر آروک لیا تھا.بعض جگہ سے اموالِ زکوۃ کو لوٹ لیا تھا.فوجیں تیار کیں.دار الخلافہ مدینہ پر حملے کیے.جن مسلمانوں نے ارتداد سے انکار کیا ان کو قتل کر دیا.بعض کو زندہ آگ میں جلا دیا.لہذا ایسے مرتدین حکومت کے خلاف مسلح بغاوت، حکومت کے اموال کو لوٹنے اور مسلمانوں کو قتل کرنے اور انہیں زندہ جلا دینے کی بنا پر قتل کی سزا کے مستحق ہو چکے تھے.جیسا کہ قرآن پاک فرماتا ہے جَزَاءُ سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوری:41) کہ مجرم جیسا کہ جرم کرے اس کو ویسی ہی سزا دو.ایک اور جگہ فرمایا إِنَّمَا جَزَوا الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَونَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ (المائدة:34) که جو لوگ اللہ اور رسول سے جنگ کریں یعنی جس سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ رسول اور خلیفۃ الرسول یا اسلامی حکومت کے ساتھ جنگ کریں کیونکہ اللہ کے ساتھ لڑائی نہیں ہو سکتی.اللہ کو نہ تھپڑ مارا جا سکتا ہے نہ پتھر نہ تیر نہ تلوار.اس لیے ان سے جنگ کرنے سے مراد ہے.وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ اور رسول سے جنگ سے کیا مراد ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسول سے جنگ کرتے ہیں یعنی ملک میں فساد کرتے ہیں.قتل و غارت ، ڈاکہ زنی، لوٹ مار، مسلح بغاوت کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ يُقتَلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا انہیں سختی سے قتل کیا جائے یا صلیب پر مار دیا جائے.456 مرتدین کو حضرت ابو بکر صدیق نے سزا ان کے ارتداد کی وجہ سے نہیں دی تھی بلکہ بغاوت اور جنگ کی وجہ سے ان کو جواب دیا گیا تھا.اس بارے میں زمانے کے حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی حضرت ابو بکر صدیق کے عہد خلافت میں اس ارتداد کو سرکشی اور بغاوت سے تعبیر کیا ہے.چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے کہ حضرت ابو بکر کی جرآت اور دلیری کتنی تھی آپ فرماتے ہیں کہ اہل تحقیق سے یہ امر مخفی نہیں کہ آپ کی خلافت کا وقت خوف اور مصائب کا وقت تھا.چنانچہ جب
باب بدر جلد 2 179 حضرت ابو بکر صدیق رسول اللہ صلی الیکم نے وفات پائی تو اسلام اور مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے.بہت سے منافق مرتد ہو گئے اور مرتدوں کی زبانیں دراز ہو گئیں اور افترا پردازوں کے ایک گروہ نے دعوی نبوت کر دیا اور اکثر بادیہ نشین ان کے گرد جمع ہو گئے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب جاہل اور بد کردار آدمی مل گئے اور فتنے بھڑک اٹھے اور مصائب بڑھ گئے.اور آفات نے دور و نزدیک کا احاطہ کر لیا.اور مومنوں پر ایک شدید زلزلہ طاری ہو گیا.اس وقت تمام لوگ آزمائے گئے اور خوفناک اور حواس باختہ کرنے والے حالات نمودار ہو گئے اور مومن ایسے لاچار تھے کہ گویا ان کے دلوں میں آگ کے انگارے دہکائے گئے ہوں یا وہ چھری سے ذبح کر دیئے گئے ہوں.کبھی تو وہ خَيْرُ الْبَرِيَّة (صلى الل) کی جدائی کی وجہ سے اور گاہے ان فتنوں کے باعث جو جلا کر بھسم کر دینے والی آگ کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے روتے.امن کا شائبہ تک نہ تھا.فتنہ پرداز گند کے ڈھیر پر اُگے ہوئے سبزے کی طرح چھا گئے تھے.مومنوں کا خوف اور ان کی گھبر بہت بہت بڑھ گئی تھی.اور دل دہشت اور بے چینی سے لبریز تھے.ایسے ( نازک) وقت میں (حضرت) ابو بکر رضی اللہ عنہ حاکم وقت اور (حضرت) خاتم النبیین کے خلیفہ بنائے گئے.منافقوں، کافروں اور مرتدوں کے جن رویوں اور طور طریقوں کا آپ نے مشاہدہ کیا ان سے آپ ہم و غم میں ڈوب گئے.آپ اس طرح روتے جیسے ساون کی جھڑی لگی ہو اور آپ کے آنسو چشمہ کرواں کی طرح بہنے لگتے اور آپ (رضی اللہ عنہ ) (اپنے) اللہ سے اسلام اور مسلمانوں کی خیر کی دعا مانگتے.(حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے.آپ فرماتی ہیں کہ جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے اور اللہ نے انہیں امارت تفویض فرمائی تو خلافت کے آغاز ہی میں آپ نے ہر طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیان نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین ہو جاتے اور فوراً گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا.“ حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں ” یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آن پہنچی اور جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دیئے گئے.فتنے دور کر دیئے گئے اور مصائب چھٹ گئے اور معاملے کا فیصلہ ہو گیا اور خلافت کا معاملہ مستحکم ہوا اور اللہ نے مومنوں کو آفت سے بچالیا اور ان کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور ان کے لیے ان کے دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق پر قائم کر دیا اور مفسدوں کے چہرے کالے کر دیئے.اور اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے (حضرت ابو بکر صدیق کی نصرت فرمائی اور سرکش سر داروں اور بتوں کو تباہ و برباد کر دیا.اور کفار کے دلوں میں ایسار عب ڈال دیا کہ وہ پسپا ہو گئے اور (آخر ) انہوں نے رجوع کر کے توبہ کی اور یہی خدائے قہار کا وعدہ تھا اور وہ سب صادقوں سے بڑھ کر صادق ہے.پس غور کر کہ کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ (حضرت ابو بکر ) صدیق کی ذات میں پورا ہوا.میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس تحقیق کی خاطر تمہارا سینہ کھول دے.“
حاب بدر جلد 2 180 حضرت ابو بکر صدیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ غور کرو کہ آپ کے خلیفہ ہونے کے وقت مسلمانوں کی کیا حالت تھی.اسلام مصائب کی وجہ سے آگ سے جلے ہوئے شخص کی طرح (نازک حالت میں ) تھا.پھر اللہ نے اسلام کو اس کی طاقت لوٹا دی اور اسے گہرے کنویں سے نکالا اور جھوٹے مدعیان نبوت درد ناک عذاب سے مارے گئے اور مرتد چوپاؤں کی طرح ہلاک کئے گئے اور اللہ نے مومنوں کو اس خوف سے جس میں وہ مردوں کی طرح تھے امن عطا فرمایا.اس تکلیف کے رفع ہونے کے بعد مومن خوش ہوتے تھے اور ( حضرت ابو بکر صدیق کو مبارک باد دیتے اور مرحبا کہتے ہوئے ان سے ملتے تھے.آپ کی تعریف کرتے اور رب الارباب کی بار گاہ سے آپ کے لئے دعائیں کرتے تھے.آپ کی تعظیم اور تکریم کے آداب بجالانے کے لئے لپکتے تھے.اور انہوں نے آپ کی محبت کو اپنے دل کی گہرائی میں داخل کر لیا اور وہ اپنے تمام معاملات میں آپ کی پیروی کرتے تھے اور وہ آپ کے شکر گزار تھے.انہوں نے اپنے دلوں کو روشن اور چہروں کو شاداب کیا اور وہ محبت و الفت میں بڑھ گئے اور پوری جدو جہد سے آپ کی اطاعت کی.وہ آپ کو ایک مبارک وجود اور نبیوں کی طرح تائید یافتہ سمجھتے تھے.اور یہ سب کچھ (حضرت ابو بکر صدیق کے صدق اور گہرے یقین کی وجہ سے تھا.4574 یہ ستر الخلافہ آپ کی عربی میں کتاب ہے.یہ اس عربی کا اردو ترجمہ ہے.فتنہ ارتداد اور بغاوت جب ہوا ہے تو اس کی طرف آپؐ نے بعض مہمات بھیجی تھیں جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ نبی کریم صلی علیم کی وفات کے بعد تقریباً سارے عرب نے ہی ارتداد اختیار کر لیا تھا.کچھ لوگ تو وہ تھے جنہوں نے صرف زکوۃ دینے سے انکار کیا تھا.ان کے خلاف جو کارروائیاں حضرت ابو بکر کی طرف سے کی گئیں ان کا تذکرہ پہلے بیان ہو چکا ہے.مرتد باغیوں کی سرکوبی کے لئے حضرت ابو بکر کا دلیرانہ عزم اب دوسرے گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے جنہوں نے نہ صرف اسلام سے ارتداد اختیار کر لیا تھا بلکہ بغاوت کر دی تھی اور مسلمانوں کو قتل بھی کر رہے تھے.حضرت ابو بکر نے ان کی خبر لینے کا عزم فرمایا چنانچہ بداية والنهاية میں لکھا ہے کہ حضرت اسامہ کے لشکر کے آرام کرنے کے بعد حضرت ابو بکر اسلامی افواج کے ساتھ تلوار سونتے ہوئے مدینہ سے سوار ہو کر ذوالقصہ کی طرف روانہ ہوئے جو مدینہ سے اس زمانے میں جو سفر کا ذریعہ تھا اس کے مطابق ایک رات اور ایک دن کے فاصلے پر واقع ہے.صحابہ کرام جن میں حضرت علی بھی تھے وہ آپ سے اصرار کر رہے تھے کہ آپ مدینہ واپس تشریف لے جائیں اور اعراب سے جنگ کے لیے اپنے سوا کسی دوسرے بہادر کو بھیج دیں.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ میرے والد تلوار سونتے ہوئے سواری پر سوار ہو کر روانہ ہوئے تو حضرت علی بن ابی طالب نے آ کر آپ کی اونٹنی کی مہار پکڑ لی اور عرض کیا: اے خلیفہ کر سول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ سے وہ بات کہتا
محاب بدر جلد 2 181 حضرت ابو بکر صدیق ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ کریم نے احد کے دن فرمائی تھی.آپ نے تلوار کیوں سونتی ہے ؟ ہمیں اپنی جان کی وجہ سے مصیبت میں نہ ڈالیے.حضرت علی نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ ہمیں اپنی جان کی وجہ سے مصیبت میں نہ ڈالیے.اللہ کی قسم ! اگر ہمیں آپ کی جان کی مصیبت پہنچی تو آپ کے بعد ہمیشہ کے لیے اسلام کا نظام نہ رہے گا.اس پر حضرت ابو بکر واپس تشریف لے گئے اور فوج کو بھیج دیا.8 458 مرتد باغیوں کے خلاف گیارہ مہمات کی تیاری جب حضرت اسامہ اور ان کے لشکر نے آرام کر لیا اور ان کی سواریاں بھی تازہ دم ہو گئیں اور اموال زکوۃ بھی بکثرت آگئے جو مسلمانوں کی ضرورت سے زائد تھے تو حضرت ابو بکر نے فوج کو تقسیم کیا اور گیارہ جھنڈے باندھے.1 ایک جھنڈ ا حضرت خالد بن ولیڈ کے لیے باندھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ طلیحہ بن خویلد کے مقابلے پر جائیں اس سے فارغ ہو کر بطاح میں مالک بن نویرہ سے مقابلہ کے لیے جائیں اگر اس وقت تک وہ ان کے مقابلہ پر جمار ہے.یہ سب مرتدین تھے ، جنگ کرنا چاہتے تھے.بُطاح بنو اسد کے علاقے میں ایک چشمہ کا نام ہے.اس طرف آپ نے بھیجا.2 حضرت عکرمہ بن ابو جہل کے لیے جھنڈ ا باندھا اور ان کو مسیلمہ کے مقابلے کا حکم دیا.3 تیسر ا جھنڈ ا حضرت مُهَاجِر بن ابو امیہ کے لیے باندھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ عنسی کی فوجوں کا مقابلہ کریں.پھر قیس بن مَكْشُوح اور ان اہل یمن کے مقابلہ میں جو ابناء سے بر سر پیکار تھے ابناء کی امداد کریں.ابناء بھی اہل فارس میں سے ایک قوم کی اولاد تھی جنہوں نے یمن میں سکونت اختیار کر لی تھی اور عربوں میں شادیاں کی تھیں.اور فرمایا کہ اس سے فارغ ہو کر کندہ کے مقابلے کے لیے حضر موت چلے جائیں.حضر موت بھی یمن کا ایک علاقہ ہے.چوتھے حضرت خالد بن سعید بن عاص کے لیے جھنڈ اباندھا اور ان کو حمقتین کی طرف بھیجاجو شام کی سرحد پر ہے.5 پانچویں حضرت عمرو بن عاص کے لیے جھنڈا باندھا اور ان کو قُضَاعَه وَدِيْعَہ اور حَارِث کی جمعیتوں کے مقابلے پر جانے کا حکم دیا.6 چھٹا جھنڈا حضرت حذیفہ بن مِحْصَن غَلْفَانی کے لیے باندھا اور ان کو اہل دبا کی طرف جانے کا حکم دیا.دبا بھی عمان میں عربوں کا ایک بازار تھا.عمان کا ایک قدیم اور مشہور شہر تھا.مارکیٹ لگا دیا.کتا بھی میں کرتی تھی..7 ساتواں حضرت عرفجہ بن هر قمہ کے لیے جھنڈ ا باندھا اور ان کو مَهْرَہ جانے کا حکم دیا.مہرہ یمن کے ایک علاقے کا نام ہے.حضرت ابو بکر نے ان دونوں کو فرمایا کہ ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں مگر جو
صحاب بدر جلد 2 182 حضرت ابو بکر صدیق علاقے ان کے سپر د کیے گئے ہیں ان میں وہ ایک دوسرے پر امیر رہیں گے.یعنی پہلے یمن والے اور دوسرے ان کو.پھر حضرت ابو بکر نے شرخبيل بن حَسَنَه کو حضرت عکرمہ بن ابو جہل کے پیچھے روانہ کیا اور حکم دیا کہ یمامہ سے فارغ ہو کر قضاعہ کے مقابلہ پر چلے جانا اور مرتدین سے جنگ کے موقع پر تم ہی اپنے لشکر کے امیر ہوگے.نوواں حضرت طريفه بن حاجز کے لیے جھنڈا باندھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ بنو سلیم اور هوازن کا مقابلہ کریں.10.دسواں جھنڈا حضرت سويد بن مقرن " کے لیے باندھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ یمن کے علاقے تہامہ کی طرف جائیں.11.اور گیارھواں جھنڈا حضرت علاء رضی اللہ عنہ بن حضرمی کے لیے باندھا اور ان کو بحرین جانے کا علم دیا.چنانچہ یہ اُمَر ا ذُو القَصَّہ سے اپنی اپنی سمت روانہ ہو گئے.حضرت ابو بکر نے ہر دستے کے امیر کو حکم دیا کہ جہاں جہاں سے وہ گزریں وہاں کے طاقتور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لیں اور بعض طاقتور افراد کو وہیں اپنے علاقے کی حفاظت کے لیے پیچھے چھوڑ 460 459 حضرت ابو بکر کی اس تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے ایک مصنف لکھتے ہیں کہ ذُوالقصّہ فوجی مرکز قرار پایا.یہاں سے منظم اسلامی افواج ارتداد کی تحریک کو کچلنے کے لیے مختلف علاقوں کی طرف روانہ ہوئیں.حضرت ابو بکر کے منصوبہ سے منفر د عبقریت اور دقیق جغرافیائی تجربہ کا پتہ چلتا ہے.دستوں کی تقسیم اور ان کے مواقع کی تحدید سے واضح ہوتا ہے کہ ابو بکر جغرافیہ کا دقیق علم رکھتے تھے اور زمین کے نشانات اور انسانی آبادیوں اور جزیرۃ العرب کے راستوں سے بخوبی واقف تھے.گویا کہ جزیرہ عرب مجسم شکل میں آپ کی آنکھوں کے سامنے تھا جیسا کہ دورِ حاضر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس مراکز قیادت میں ہوتا ہے.جو شخص بھی لشکروں کو روانہ کرنے ان کی جہت کا تعین کرنے، تفرق کے بعد اجتماع اور دوبارہ مجتمع ہونے کے لیے تفرق میں غور و فکر کرے گا اس کو یہ اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ یہ منصوبہ بندی پورے جزیرہ عرب پر مثالی اور صحیح انداز سے محیط تھی اور ان لشکروں کے ساتھ رابطہ بھی انتہائی دقیق تھا.ابو بکر کو ہمہ وقت اس کا پتار ہتا تھا کہ فوج کہاں ہے.اس کے تحرکات اور جملہ امور سے بخوبی واقف رہتے تھے اور یہ بھی پتار ہتا تھا کہ ان کو کیا کامیابی ہوئی اور کل کو کیا پروگرام ہے؟ مراسلات انتہائی دقیق اور تیز ہوا کرتے تھے اور میدان قتال سے خبریں برابر مدینه مرکز قیادت میں حضرت ابو بکر کو پہنچتی رہتی تھیں.پوری فوج سے برابر رابطہ قائم رہتا تھا.مرکز قیادت اور میدانِ قتال کے درمیان فوجی خبر رسانی میں ابوخَيْقمه انصاری، سلمه بن سلامه، ابوبرزہ اسلمی اور سلمه بن وقش نے نمایاں حیثیت حاصل کی.جن لشکروں کو ابو بکر نے
اصحاب بدر جلد 2 183 حضرت ابو بکر صدیق روانہ فرمایا وہ آپس میں مربوط تھے اور یہ خلافت کی اہم کامیابیوں میں سے تھا کیونکہ ان لشکروں کے اندر قیادت کی مہارت کے ساتھ حسن تنظیم بھی موجود تھا.461 مزید بر آس اس کے علاوہ قتال میں تجربہ پہلے سے تھا.رسول اللہ صلی للی نم کے دور میں غزوات و سرایا کی تحریک میں انہیں عسکری اعمال کا اچھا تجربہ ہو چکا تھا.ابو بکر کی حکومت کا عسکری نظام جزیرہ عرب میں تمام عسکری قوتوں پر فوقیت رکھتا تھا اور ان لشکروں کے قائد سیف اللہ الْمَسْلُول خالد بن ولید تھے جو اسلامی فتوحات اور حروب ارتداد میں منفر د عبقری شخصیت کے حامل تھے.اسلامی فوج کی یہ تقسیم انتہائی اہم فوجی منصوبہ کے تحت عمل میں آئی تھی کیونکہ مرتدین ابھی تک اپنے اپنے علاقوں میں متفرق تھے یعنی کہ بکھرے ہوئے تھے جمع نہیں ہوئے تھے.مسلمانوں کے خلاف ان کی جتھہ بندی عمل میں نہ آسکی تھی.بڑے قبائل دور دراز علاقوں میں بکھرے تھے.وقت اس کے لیے کافی نہ تھا کہ وہ آپس میں جتھہ بندی کر سکیں کیونکہ ارتداد شروع ہوئے ابھی تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہ گزرا تھا اور ثانیاً وہ اپنے خلاف مسلمانوں کے خطرے کو نہ سمجھ سکے.وہ یہ تصور کیے ہوئے تھے کہ چند ماہ میں تمام مسلمانوں کا صفایا کر دیں گے.اسی لیے ابو بکر نے چاہا کہ اچانک ان کی شوکت و حکومت کا صفایا کیا جائے، قبل ازیں کہ وہ اپنے باطل کی نصرت کے لیے جتھہ بندی کر سکیں.اس لیے ابو بکر نے ان کے فتنہ کے بڑھنے سے قبل ہی ان کی خبر لی اور انہیں اس بات کا موقع نہ دیا کہ وہ اپنا سر اٹھا سکیں اور اپنی زبان دراز کر سکیں جس سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچا سکیں.حضرت ابو بکر کی جانب سے قائدین کی تقرری کے حوالے سے مختلف امور کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک لکھنے والے مصنف لکھتے ہیں کہ نمبر ایک تو اس منصوبہ میں اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ لشکروں کے در میان آپس میں ربط اور تعاون برابر قائم رہے.اگر چہ ان کے مقامات اور جہات مختلف تھے لیکن سب ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں تھیں.ان کا آپس میں ملنا اور جد اہونا ایک ہی مقصد کے پیش نظر تھا اور خلیفہ کے مدینہ میں ہوتے ہوئے قتال کے جملہ امور کا کنٹرول، پاور اس کے ہاتھ میں تھا یعنی خلیفہ کے ہاتھ میں تھا.(ب) دوسرا نمبر یہ کہ صدیق اکبر نے دارالخلافہ مدینہ کی حفاظت کے لیے فوج کا ایک حصہ اپنے پاس رکھا اور اسی طرح امور حکومت میں رائے اور مشورہ کے لیے کبار صحابہ کی ایک جماعت اپنے پاس رکھی.تیسرے یہ کہ ابو بکر کو معلوم تھا کہ ارتداد سے متاثرہ علاقوں میں اسلامی قوت موجود ہے.آپ کو اس کی فکر لاحق ہوئی کہ کہیں یہ مسلمان مشرکین کے غیظ و غضب کا نشانہ نہ بنیں اس لیے قائدین کو حکم فرمایا کہ ان میں سے جو قوت اور طاقت کے مالک ہیں ان کو اپنے ساتھ شامل کر لیں اور ان علاقوں کی حفاظت کی خاطر کچھ افراد کو وہاں مقرر کر دیں.چوتھے مرتدین کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے ابو بکر نے الْحَرْبُ خُدّعَةٌ کے اصول کو اپنایا.فوج کے اہداف کچھ ظاہر کرتے حالانکہ مقصود کچھ اور ہی ہو تا.انتہائی احتیاط اور حذر کا طریقہ اختیار کیا کہ کہیں ان کا منصوبہ فاش نہ ہونے پائے.اس طرح ابو بکر کی قیادت میں سیاسی مہارت، علمی تجربہ، علم راسخ اور ربانی فتح اور نصرت نمایاں ہوتی ہیں.462
حاب بدر جلد 2 184 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر کے دو فرمان اس موقع پر حضرت ابو بکر نے دو فرمان بھی لکھے تھے: ایک عرب قبائل کے نام اور دوسرا سپہ سالاران فوج کی ہدایت کے لیے.463 یہی پہلے مصنف ڈاکٹر علی محمد صلابی جو ہیں، یہ ایک خط کے متعلق لکھتے ہیں کہ اسلامی لشکروں کی تیاری اور ٹھوس تنظیم کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ تحریری دعوت کا سلسلہ جاری رہا اور اس نے اہم کردار ادا کیا.آپ نے ایک عام خط تحریر کیا جو محدود مضمون پر مشتمل تھا.مرتدین سے قتال کے لیے افواج کو روانہ کرنے سے قبل آپ نے اس خط کو مرتدین اور ثابت قدم رہنے والے سب کے درمیان اونچے پیمانے پر ممکنہ حد تک نشر کرنے کی کوشش کی.قبائل کے پاس لوگوں کو روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہاں پہنچ کر ہر مجمع میں یہ خط سنائیں اور جس کو بھی اس خط کا مضمون پہنچے اسے حکم فرمایا کہ وہ ان لوگوں تک بات پہنچا دے جن تک نہیں پہنچی.حضرت ابو بکر نے اس خط میں عام اور خاص سب کو خطاب کیا خواہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہنے والے ہوں یا اس سے مرتد ہو جانے والے.464 حضرت ابو بکر کا وہ خط جو قبائل عرب کے نام تھا وہ سب سے زیادہ تفصیلات کے ساتھ طبری نے بیان کیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تصنیف سر الخلافہ میں اس خط کا بھی ذکر فرمایا ہے.آپ نے فرمایا کہ مناسب ہے کہ ہم یہاں وہ خط درج کر دیں جو صدیق اکبر نے مرتد ہونے والے قبائل عرب کی طرف لکھا تا کہ اس خط پر اطلاع پانے والے صدیق اکبر کی شعائر اللہ کی ترویج اور رسول اللہ صلی اللی کم کے تمام سنن کے دفاع میں مضبوطی کو دیکھ کر ایمان اور بصیرت میں ترقی کریں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ خط لکھتے ہیں جو اس طرح شروع ہوتا ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ یہ خط ابو بکر خلیفۃ الرسول صلی ہی کم کی طرف سے ہر خاص و عام کے لیے ہے.جس تک پہنچے خواہ وہ اسلام پر قائم رہا ہے یا اس سے پھر گیا ہے.ہدایت کی اتباع کرنے والے ہر شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کے بعد گمراہی اور اندھے پن کی طرف نہیں لوٹا.پس میں تمہارے سامنے اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو واحد ہے لاشریک ہے اور یہ کہ محمد صلی علی کم اس کے بندے اور رسول ہیں اور جو تعلیم آپ صلی ال کام لے کر آئے اس کا ہم اقرار کرتے ہیں اور جس نے اس سے انکار کیا اسے ہم کافر قرار دیتے ہیں اور اس سے جہاد کرتے ہیں.اما بعد واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی علیہ ہم کو اپنی جناب سے حق دے کر اپنی مخلوق کی طرف مبشر نذیر اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے اور ایک منور کر دینے والے سورج کے طور پر بھیجا تا کہ آپ صلی علیہم اسے ڈرائیں جو زندہ ہو اور کافروں پر فرمان صادق آجائے.اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو حق کے ساتھ ہدایت دی جس نے آپ صلی علیہ ہم کو قبول کیا اور جس نے آپ صلی علیہ کمی سے پیٹھ پھیر لی اس سے رسول اللہ صلی اللی رام نے اس وقت تک جنگ کی کہ وہ طوعا و کر تھا اسلام میں آگیا.پھر رسول اللہ صل الی یوم وفات پاگئے بعد اس کے کہ آپ صلی علیہ ہم نے اللہ کے حکم کو نافذ فرمالیا اور امت کی خیر خواہی کر
اصحاب بدر جلد 2 185 حضرت ابو بکر صدیق لی اور جو ذمہ داری آپ پر تھی اسے پورا کر لیا اور اللہ نے آپ پر اور اہل اسلام پر اپنی اس کتاب میں جو اس نے نازل فرمائی اس بات کو خوب کھول کر بیان کر دیا.چنانچہ فرمایا: یک إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ يَتُونَ (الزمر:31) یعنی یقینا تو بھی مرنے والا ہے اور یقیناوہ بھی مرنے والے ہیں.نیز فرمایا وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرِ مِن قَبْلِكَ الْخُلد (35:40:10) اور ہم نے کسی بشر کو تجھ سے پہلے ہمیشگی نہیں دی.اَفَابِنُ مِتَ فَهُمُ الْخَلِدُونَ (1) نبی : 35 پس اگر تو مر جائے تو کیا وہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے ؟ مزید بر آس مومنوں سے فرمایا: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَا بِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَ اللَّهَ شَيْئًا وَ سَيَجْزِي اللَّهُ الشَّكِرِينَ (آل عمران :145) اور محمد صلی یتیم نہیں ہیں مگر ایک رسول یقینا اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں.پس اگر یہ وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے ؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے گاوہ اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ یقینا شکر گزاروں کو جزا دیتا ہے.پھر آپ لکھتے ہیں.پس وہ جو محمد صلی الیکم کی عبادت کیا کرتا تھاوہ جان لے کہ محمد تو فوت ہو چکے اور وہ جو واحد و یگانہ لاشریک اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا اسے معلوم ہو کہ اللہ اس کی گھات میں لگا ہوا ہے.وہ زندہ ہے اور قائم دائم ہے.وہ نہیں مرے گا.اسے اونگھ اور نیند نہیں آتی.وہ اپنے کاموں کا محافظ ہے.اپنے دشمن سے انتقام لینے والا ہے اور اسے سزادینے والا ہے.میں تمہیں اللہ کے تقویٰ کی اور تمہارے اس بخت کی اور نصیب کے حصول کی جو اللہ کے ہاں تمہارے لیے مقرر ہے اور وہ تعلیم جو تمہار نبی صلی علیکم تمہارے پاس لے کر آیا اس پر عمل کرنے کی تمہیں تاکید کرتا ہوں اور یہ کہ تم آپ صلی الیکم کی راہنمائی سے راہنمائی حاصل کرو اور اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑے رکھو کیونکہ ہر وہ شخص جسے اللہ ہدایت نہ دے وہ گمراہ ہے اور ہر وہ شخص جسے وہ نہ بچائے وہ آزمائش میں پڑے گا اور ہر وہ شخص جس کی وہ اعانت نہ فرمائے وہ بے یارو مددگار ہے.پس جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ قرار دے وہ گمراہ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مَنْ يَهْدِ اللهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مرشد (البف :18) جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے وہ گمراہ ٹھہرادے تو اس کے حق میں کوئی ہدایت دینے والا دوست نہ پائے گا.آپ آگے لکھتے ہیں کہ اور اس کا دنیا میں کیا ہوا کوئی عمل اس وقت تک قبول نہ کیا جائے گا جب تک وہ اس دین اسلام کا اقرار نہ کرلے اور نہ ہی آخرت میں اس کی طرف سے کوئی معاوضہ اور بدلہ قبول کیا جائے گا اور مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ تم میں سے بعض نے اسلام کا اقرار کرنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیتے ہوئے اور اس کے معاملے میں جہالت برتتے ہوئے اور شیطان کی بات مانتے ہوئے اپنے دین سے ارتداد اختیار کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَ إِذْ قُلْنَا لِلْمَلَكَةِ اسْجُدُوا لِأدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقُ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ افَتَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَةً أَوْلِيَاء مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّلِمِينَ بَدَلًا (الكيف : 51) اور جب ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کے لئے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ جنوں میں سے تھا.پس وہ اپنے رب کے حکم سے روگردان ہو گیا.تو کیا تم اسے اور اس کے چیلوں کو میرے سوا دوست پکڑ کر 11
اصحاب بدر جلد 2 186 حضرت ابو بکر صدیق بیٹھو گے جبکہ وہ تمہارے دشمن ہیں.ظالموں کے لئے تو یہ بہت ہی بُرا بدل ہے.نيز فرمايا : إِنَّ الشَّيطنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوا إِنَّمَا يَدْعُوا حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَب السعير (فاطر (7) يقيناً شیطان تمہارا دشمن ہے پس اسے دشمن ہی بنائے رکھو.وہ اپنے گروہ کو محض اس لئے بلاتا ہے تاکہ وہ بھڑکتی آگ میں پڑنے والوں میں سے ہو جائیں.آپ اس خط کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اور میں نے مہاجرین انصار اور حسن عمل سے پیروی کرنے والے تابعین کے لشکر پر فلاں آدمی کو مقرر کر کے تمہاری طرف بھیجا ہے اور میں نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ نہ تو کسی سے جنگ کرے اور نہ اسے اس وقت تک قتل کرے جب تک وہ اللہ کے پیغام کی طرف بلانہ لے.پھر جو اس پیغام کو قبول کرلے اور اقرار کرلے اور باز آجائے اور نیک عمل کرے تو اس سے قبول کرے اور اس پر اس کی مدد کرے اور جس نے انکار کیا تو میں نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اس سے اس بات پر جنگ کرے اور جس پر قابو پائے ان میں سے کسی ایک کو بھی باقی رہنے نہ دے اور یا وہ انہیں آگ سے جلا ڈالے اور ہر طریق سے انہیں قتل کرے اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالے اور کسی سے اسلام سے کم کوئی چیز قبول نہ کرے.پھر جو اس کی اتباع کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے اور جس نے اسے ترک کیا تو وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکے گا اور میں نے اپنے پیغامبر کو حکم دیا ہے کہ وہ میرے اس خط کو تمہارے ہر مجمع میں پڑھ کر سنادے اور اذان ہی اسلام کا اعلان ہے.پس جب مسلمان اذان دیں اور وہ بھی اذان دے دیں تو ان پر حملہ سے رک جائیں اور اگر وہ اذان نہ دیں تو ان پر حملہ جلد کرو اور جب وہ اذان دے دیں تو جو اُن پر فرائض ہیں ان کا مطالبہ کرو اور اگر وہ انکار کریں تو ان پر جلد حملہ کرو اور اگر اقرار کر لیں تو ان سے قبول کر لیا جائے.465 بہر حال اس بارے میں جو تفصیل تھی کہ کیوں ان سے جنگ ہوئی اور کیوں سب سے یہ سلوک کیا گیا، تو یہ اس لیے کہ یہ لوگ جنگ کرنے والے تھے.مسلمانوں پر جنگ ٹھونسنے والے تھے اور نہ صرف جنگ کرتے تھے بلکہ ظلم بھی کرنے والے تھے اور جو اُن کے علاقوں میں نہتے مسلمان تھے ان پر ظلم کر رہے تھے.دوسرا خط جو حضرت ابو بکر نے ان سب امرائے لشکر جن کی تعداد گیارہ تھی کے نام تحریر فرمایا ان امر اکا ذکر ہو چکا ہے.وہ خط ان لشکروں کے امرا کے نام تھا.وہ حسب ذیل ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ یہ فرمان ابو بکر خلیفہ رسول صلی علیم کی طرف سے فلاں شخص کے لیے لکھا گیا ہے اور جب انہوں نے اسے مسلمانوں کی فوج کے ساتھ مرتدین سے لڑنے کے لیے روانہ کیا یعنی امیر کا نام اس پہ لکھا گیا تھا.انہوں نے اس امیر کو تاکیدی حکم دیا ہے کہ وہ ہر معاملے میں ظاہر اور باہر میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے جہاں تک اس کی استطاعت ہے اور اس کو اللہ کے معاملے میں جد وجہد کا اور ان لوگوں سے جہاد کا حکم دیا ہے جنہوں نے اللہ سے پیٹھ پھیر لی اور اسلام سے رجوع کرتے ہوئے شیطانی آرزوؤں کو اختیار کر لیا ہے.سب سے پہلے ان پر اتمام حجت کرے.انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں.اگر وہ اس
اصحاب بدر جلد 2 187 حضرت ابو بکر صدیق کو قبول کر لیں تو ان لوگوں سے لڑائی سے رک جائے اور اگر وہ اس کو قبول نہ کریں تو ان پر فی الفور حملہ کرے یہاں تک کہ اس کے سامنے جھک جائیں.پھر وہ ان لوگوں کو ان کے حقوق اور فرائض بتائے اور وہ ان سے وصول کرے جو اُن پر فرض ہے اور انہیں دے جو اُن کے حقوق ہیں.وہ ان لوگوں کو مہلت نہ دے یعنی ایسی مہلت جس سے وہ جنگ کے لیے تیار ہو کر مسلمانوں پر حملہ کر دیں.وہ مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے لڑائی کرنے سے نہ روکے اور مسلمان اگر سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ باز نہیں آئیں گے اور وہ لڑنا چاہتے ہیں تو ان کو جنگ سے نہ روکو.یہ حکم ان لیڈروں کو دیا جنہیں اس علاقے کے لوگ زیادہ جانتے تھے.پس جس نے اللہ عزوجل کے حکم کو قبول کیا اور اس کی فرمانبرداری کی تو اس کی یہ بات قبول کرے اور معروف طریق پر اس کی مدد کرے اور صرف اس سے جنگ کی جائے گی جس نے اس اقرار کے بعد اللہ کا انکار کیا کہ جو اللہ کی جانب سے آیا تھا.اگر وہ دعوت کو قبول کر لے تو اس پر کوئی الزام نہیں ہو گا اور اللہ اس سے حساب لینے والا ہے بعد اس کے جو اس نے چھپایا.اور جس نے اللہ کے پیغام کو قبول نہ کیا تو اس سے لڑائی کی جائے اور اس کو قتل کر دیا جائے جہاں بھی وہ ہو اور وہ خواہ کتنا ہی مال دار کیوں نہ ہو.کسی سے کوئی چیز قبول نہ کی جائے گی جو وہ دے سوائے اسلام کے.پس جس نے اسلام قبول کر لیا اور اقرار کر لیا تو اس سے قبول کیا جائے اور اس کو اسلامی تعلیمات سکھائی جائیں اور جس نے انکار کیا یعنی مسلمان ہو کے مرتد ہو گئے.پھر لڑائیاں کر رہے ہیں تو اسلامی تعلیمات کے خلاف کر رہے ہیں ان کو بتاؤ کہ اسلام کیا ہے، حقیقت کیا ہے، تم مسلمان ہونے کا دعویٰ کر کے پھر حکومت کے خلاف جنگ نہیں لڑسکتے.جس نے انکار کیا تو اس سے لڑائی کی جائے.اگر اللہ اسے ان پر فتح عطا کرے تو ان کو بُری طرح اسلحہ اور آگ کے ذریعہ قتل کیا جائے گا.پھر اللہ جو اس کو مال کے عطا فرمائے تو وہ اس کو تقسیم کر دے سوائے خمس کے.وہ ہمیں پہنچائے گا.اور وہ سپہ سالار اپنے ساتھیوں کو جلدی اور فساد سے روکے اور ان میں کوئی غیر آدمی داخل نہ کرے جب تک کہ وہ جان نہ لے کہ اس میں کیسی صلاحیت ہے.یہ نہ ہو کہ وہ جاسوس ہو.یعنی کسی شخص کو داخل کر لو اور وہ جاسوس ہو.( صحیح طرح چھان کر کے ، چھان پھٹک کر کے پھر لینا) اور ان کی وجہ سے مسلمانوں پر مصیبت آجائے.سفر اور قیام میں مسلمانوں کے ساتھ نرمی اور میانہ روی اختیار کرے اور ان کی خبر گیری کرتا رہے.لشکر کے ایک حصہ کو دوسرے سے جلدی کرنے کا حکم نہ دے.مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اور گفتار میں خوش خلقی اور ملائم لہجہ اختیار کرے.466 اب بعض باتیں ایسی بھی ہیں جن کی وضاحت کرنی پڑتی ہے لیکن وضاحت نہیں کی گئی.اس وجہ سے بعض دفعہ اسلام کا غلط تاثر بھی پیدا ہو جاتا ہے.اس کی وضاحت گذشتہ خطبہ میں میں کر چکا ہوں کہ یہ سب مرتدین ایسے تھے جنہوں نے جنگ کی، محارب تھے اور نہ صرف جنگ کی بلکہ جو مسلمان ان کے علاقوں میں تھے ان پر انہوں نے ظلم بھی کیا، ان کو مارا، ان کو جلایا.ان کے گھروں کو جلایا، ان کو خو د بھی جلا دیا.تو ان کے خلاف پھر حضرت ابو بکر نے کہا کہ ضرور بدلہ لینا ہے اور ان کو اسی طریق سے پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی خط کو Quote کیا ہے کہ اسی طریق سے پھر ان کو بھی سزا دینی ہے
ناب بدر جلد 2 188 حضرت ابو بکر صدیق کیونکہ پھر بدلہ لینے کے لیے قرآن شریف کا بھی، اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے کہ جیسا کوئی کرتا ہے اس کو ویسا ہی سزا دو.لیکن اس بات کی وضاحت ایک جگہ انہی مصنف ڈاکٹر علی محمد صلابی صاحب نے اس طرح بھی لکھی ہے کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ مرتدین باغیوں کو آگ میں جلا دیا جائے.انہوں نے لکھا ہے کہ کسی کو جلانے کی سزا دینا تو جائز نہیں ہے.ارشاد نبوی بھی ہے کہ إِنَّ النَّارَ لَا يُعَذِّبُ بِهَا إِلَّا اللهُ کہ آگ کے ذریعہ عذاب دینا صرف اللہ کا کام ہے لیکن یہاں انہیں جلانے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ ان بد معاشوں نے اہل ایمان کے ساتھ یہی برتاؤ کیا تھا لہذا یہ قصاص کے طور پر تھا.467 اسی کتاب میں حضرت ابو بکر کے اسی خط کا ذکر کرتے ہوئے جو بیان ہوا ہے یہ بھی لکھا ہے کہ جو مسلمانوں کی صف کی طرف کوٹنے سے انکاری ہو اور ارتداد پر ڈٹ جائے وہ محاربین میں سے ہے اس پر حملہ کرناضروری ہے اس کو قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے.468 اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی یہی فرمایا ہے کہ جب تمہیں مشکل میں ڈالتے ہیں تو اس کے مطابق ہی ان کو سزا دو جس طرح انہوں نے تمہارے ساتھ کیا ہے.باغیوں نے جیسا کہ پہلے میں ذکر کر چکا ہوں گذشتہ خطبہ میں بھی، ابھی بھی میں نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کو جلانے اور انہیں گھناؤنے طریقے سے قتل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا.ان کو آگ میں جلایا، ان کے گھروں کو جلایا، ان کے بچوں، بیویوں سب کو جلایا، ان کا مثلہ کیا.لہذا حضرت ابو بکر صدیق نے اسی طرح ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا کہ جو اس میں شامل تھے ان سے وہی سلوک کرنا ہے جو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا.469 پہلی مہم طلیحہ اور سجاح بنت حارث اور مسیلمہ کذاب کی طرف گیارہ مہمات بھیجی گئی تھیں.ان میں سے پہلی مہم کی تفصیل کچھ یوں ہے جو طلیحہ بن خویلد ، مالک بن نویرہ ، سجاح بنت حارث اور مسیلمہ کذاب و غیرہ باغی مرتدین اور جھوٹے نبیوں کے قلع قمع کے لیے بھیجی گئی تھی.حضرت ابو بکر صدیق نے ایک جھنڈا حضرت خالد بن ولید کے سپر د کیا اور آپ کو حکم دیا کہ طلیحہ بن خویلد کے مقابلے کے لیے جائیں اور اس سے فارغ ہو کر بکاخ میں مالک بن نویرہ سے لڑیں اگر وہ لڑائی پر مصر ہو یعنی کہ اگر لڑنے پر اصرار کر رہا ہو تو پھر لڑنا ہے.بطاح بنو اسد کے علاقے میں ایک چشمہ کا نام ہے وہاں (مقابلہ ) ہو ا تھا.ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے حضرت ثابت بن قیس کو انصار کا امیر مقرر کیا اور انہیں حضرت خالد بن ولید کے ماتحت کر کے حضرت خالد کو حکم دیا کہ وہ طلیحہ اور عُيِّينه بن حضن کے مقابلے پر جائیں جو بنو اسد کے ایک چشمہ بُزَاخَہ پر فروکش تھے.جب حضرت ابو بکر نے مرتدین سے جنگ کے لیے حضرت خالد بن ولیڈ کے واسطے جھنڈ اباندھا تو فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی علیہم کو فرماتے سنا ہے کہ خالد بن ولید اللہ کا بہت ہی اچھا بندہ ہے اور ہمارا بھائی ہے 470 471
اصحاب بدر جلد 2 189 حضرت ابو بکر صدیق 472 سة جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کفار اور منافقین کے خلاف سونتا ہے.2 حضرت ابو بکر نے حضرت خالد بن ولید کو طلیحہ اور عیینہ کی طرف بھیجا.ان دونوں مخالفین کا مختصر تعارف بھی پیش ہے.طلیحہ اسدی جھوٹے مدعیان نبوت میں سے ایک تھا جو رسول اللہ صلی المیریم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں نمودار ہوا.اس کا نام طلیحہ بن خویلد بن نوفل بن نَضْلَه اسدی تھا.عَامُ الوُفُود یعنی وفود کی آمد والے سال میں ، نو ہجری میں اپنی قوم بنو اسد کے ساتھ رسول اللہ صلی ایم کی خدمت میں حاضر ہوا اور مدینہ پہنچ کر ان لوگوں نے رسول اللہ صلی الی یکم کو سلام کیا اور احسان جتاتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں.ہم اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں.پھر آنحضرت صلی علیم سے یہ کہا کہ حالانکہ آپ نے ہماری طرف کسی کو نہیں بھیجا اور ہم اپنے پیچھے والوں کے لیے کافی ہیں.جب یہ لوگ واپس چلے تو اور کر اور گئے تو آنحضرت صلم کی زندگی میں ہی طلیحہ ارتداد کا شکار ہوا اور نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا اور سکھیراء کو اپنا فوجی مرکز بنایا.سمیراء: قوم عاد کے ایک شخص کے نام پر اس مقام کا نام رکھا گیا تھا اور مدینہ سے مکہ کی جانب ایک منزل کے فاصلے پر یہ واقع ہے.اس علاقے کے ارد گرد سیاہ رنگ کے پہاڑ ہیں جن کی وجہ سے اس کا یہ نام رکھا گیا.بہر حال اس نے جو دعویٰ کیا تھا عوام اس کے مرید ہو گئے.لوگوں کی گمراہی کا پہلا سبب یہ ہوا کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، پانی ختم ہو گیا تو لو گوں کو شدید پیاس لگی.اس نے لوگوں سے کہا کہ تم میرے گھوڑے اعلان پر سوار ہو کر چند میل جاؤ وہاں تمہیں پانی ملے گا.انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہیں پانی مل گیا.اس وجہ سے یہ دیہاتی اس فتنہ کا شکار ہو گئے.پانی کی کوئی جگہ اس نے دیکھی ہو گی پہلے ہی.بڑی ہوشیاری سے اس نے ان کو وہاں بھیجا اور اس وجہ سے جو ان پڑھ لوگ تھے وہ اس کے فتنہ کا شکار ہوئے.بہر حال اس کی بے حقیقت باتوں میں سے یہ بھی تھی کہ اس نے نماز سے سجدوں کو ختم کر دیا تھا.یعنی نمازوں میں سجدے کی ضرورت کوئی نہیں اور اس کا یہ زعم تھا کہ آسمان سے اس پر وحی آتی ہے اور مُسَجّع و مقفی عبارتیں بطور وحی کے پیش کیا کرتا تھا.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کا ہن لوگ مسجع و مقفی عبارتیں لوگوں کے سامنے پیش کر کے ان پر رعب بٹھاتے تھے.طلیحہ بھی کا ہن تھا.طلیحہ اسدی کے نفس نے اس کو دھو کا میں ڈالا.اس کا مسئلہ زور پکڑ گیا.اس کی طاقت بڑھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ ہم کو اس کے معاملے کی اطلاع ملی تو آپ نے ضرار بن ازور اسیدی کو اس سے قتال کے لیے روانہ کیا لیکن ضرار کے بس کی بات نہ تھی کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قوت بڑھ چکی تھی.خاص طور پر اسد اور غطفان دونوں حلیفوں کے اس پر ایمان لے آنے کے بعد مزید بڑھ گئی تھی.رسول اللہ صلی ال نیم کی وفات ہو گئی اور طلیحہ کے معاملے کا تصفیہ نہ ہوا.جب خلافت کی باگ ڈور ابو بکر نے سنبھالی اور باغی مرتدین کو کچلنے کے لیے فوج تیار کی اور قائدین مقرر کیے تو طلیحہ اسدی کی طرف حضرت ابو بکر نے خالد بن ولید کی قیادت میں فوج روانہ کی.473 الله
محاب بدر جلد 2 190 حضرت ابو بکر صدیق باہر 474 یہ صرف مرتد نہیں تھے یا نبوت کے دعوے دار نہیں تھے بلکہ یہ مسلمانوں سے جنگیں بھی کیا کرتے تھے اور ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتے تھے.عيينه بن حصن کون تھا؟ اس کے متعلق لکھا ہے.عُینہ وہی شخص ہے جو غزوۂ احزاب کے موقع پر بنو فزارہ کا سردار تھا.اس غزوہ کے دوران کفار کے تین لشکروں نے بنو قریظہ سے مل کر مدینہ پر زبر دست حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو ان میں سے ایک لشکر کا سر دار عیینہ تھا.غزوہ احزاب میں کفار کی شکست کے بعد بھی اس نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن رسول اللہ صلی الیکم نے شہر سے ہر نکل کر اس کے حملہ کو روکا اور اسے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا.یہ غزوہ ذی قرد کہلاتا ہے.عینہ بن حصن فتح مکہ سے پہلے اسلام لایا اور اس میں شرکت کی.فتح مکہ کے موقع پر یہ تھا.غزوہ حنین اور طائف میں بھی شرکت کی.نبی کریم صلی ا ہم نے اس کو نو ہجری میں بنو تمیم کی سرکوبی کے لیے پچاس سواروں کے ساتھ بھیجا تھا جن میں کوئی بھی انصار یا مہاجر صحابی نہ تھا اور اس سریہ کا سبب یہ ہوا تھا کہ بنو تمیم نے آنحضرت صلی علیکم کے عامل کو صدقات لے کر جانے سے روک دیا تھا.پھر عہد صدیقی میں باغی مرتدوں کے ساتھ یہ بھی فتنہ ارتداد کا شکار ہو گیا اور طلیحہ کی طرف مائل ہو گیا اور اس کی بیعت کر لی.بہر حال بعد میں پھر یہ اسلام کی طرف بھی لوٹ آیا تھا.475 مسلمان الله سة یہ لوگ پہلے بھی اسلام کے خلاف لڑتے رہے تھے.پھر مسلمان ہوئے پھر لڑائی شروع کر دی.پھر لکھا ہے کہ جب عبس اور ذُبیان اور ان کے حامی بزاخہ مقام پر جمع ہو گئے تو طلیحہ نے بنو جَدِيله اور غوث کو جو کہ قبیلہ طے کی دوشاخیں تھیں کہلا بھیجا کہ تم فوراً میرے پاس آجاؤ.ان قبائل کے کچھ لوگ فوراً اس کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے اپنی قوم والوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ ان سے آملیں.پس وہ لوگ بھی طلیحہ کے پاس آگئے.حضرت ابو بکر نے حضرت خالد بن ولید کو ذُو القصّہ سے روانہ کرنے سے قبل حضرت عدی سے کہا کہ تم اپنی قوم یعنی قبیلہ کلے کے پاس جاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ برباد ہو جائیں.جنگ کریں اور برباد ہوں.حضرت عدی اپنی قوم کے پاس آئے اور ذَر وہ اور غارِب میں ان کو روک لیا اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان کو خوف دلایا.ذَر وہ بھی غطفان کے علاقے میں ایک جگہ کا نام ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بنو مرہ میں بن عوف کے چشمہ کا نام ہے.وہ بہر حال ان کے پیچھے ہی حضرت خالد روانہ ہو گئے.حضرت ابو بکر نے ان کو حکم دیا تھا کہ پہلے وہ کے قبیلہ کے اطراف سے مہم کا آغاز کریں اور پھر بُز اخہ کا رخ کریں اور وہاں سے آخر میں بطاخ جائیں اور جب وہ دشمن سے فارغ ہو جائیں تو تاوقتیکہ ان کو جدید احکام موصول نہ ہوں وہ کسی اور جگہ حملے کا قصد نہ کریں.حضرت ابو بکرؓ نے اس امر کا اظہار کیا کہ آپ خود خیبر کی طرف روانہ ہو رہے ہیں.آپ نے یہ اظہار کر دیا.لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ حضرت ابو بکر خود خیبر کی طرف روانہ ہو رہے ہیں اور پھر
اصحاب بدر جلد 2 191 حضرت ابو بکر صدیق وہاں سے مڑ کر وہ خالد سے سلمی پہاڑ کے اطراف پر آملیں گے.دوسری روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت ابو بکڑ نے یہ تدبیر اس لیے کی تھی تاکہ جب دشمن کو یہ خبر پہنچے تو وہ مرعوب ہو جائے کہ ایک اور فوج بھی ہے حالانکہ آپ تمام لشکر حضرت خالد کے ہمراہ روانہ فرما چکے تھے.حضرت خالد روانہ ہوئے.براہ سے انہوں نے مڑ کر آجاء کا رخ کیا.اجاء اور سلمی یہ دو پہاڑ ہیں.سلمی کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے جو سمیراء کے بائیں طرف ہیں.ایک قول کے مطابق آجاء بنو ئے کا ایک پہاڑ ہے.قبیلہ طے کو قبول اسلام کی دعوت بہر حال حضرت خالد نے یہ ظاہر کیا کہ وہ خیبر کی طرف جارہے ہیں پھر وہاں سے کھلے کے مقابلہ پر پلٹیں گے.اس تدبیر سے قبیلہ کلے کے لوگ اپنی جگہ بیٹھے رہے اور طلیحہ کے پاس جانے سے رک گئے.حضرت عدی بھی کے کے پاس آئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی.انہوں نے کہا کہ ابو الفصیل کی ہر گز اطاعت نہیں کریں گے.ابو الفصیل سے ان کی مراد حضرت ابو بکر تھے.فصیل اونٹنی یا گائے کے بچے کو کہتے ہیں جو اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہو یا جس کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو.چونکہ کلمہ ہگر اور کلمہ فصیل دونوں کے معنی اونٹ کے بچے کے ہیں اس لیے بعض لوگ حضرت ابو بکر کو حقارت و توہین کی غرض سے ابو الفصیل یعنی اونٹ کے بچے کا باپ کہتے تھے.حضرت عدی نے کہا کہ تمہاری جانب ایک ایسا لشکر بڑھا چلا آرہا ہے جو تم پر ہر گزرحم نہ کرے گا اور قتل و غارت کا بازار اس طرح گرم کرے گا کہ کسی بھی شخص کو امان نہ مل سکے گی.میں نے تمہیں سمجھا دیا آگے تم جانو اور تمہارا کام.ایک اور روایت کے مطابق انہوں نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو یہ بھی کہا کہ پھر اس وقت تم حضرت ابو بکر کو فحل الاكبر کی کنیت سے یاد کرو گے.محل ہر جانور کے نر کو کہتے ہیں یعنی اب تو تم تمسخر اور حقارت سے ان کو اونٹ کا چھوٹا سا بچہ کہہ رہے ہو پھر تم ان کو مضبوط نر اونٹ کہنے پر مجبور ہو گے.قبیلہ کلے کے لوگوں نے ان کی باتیں سن کے کہا کہ اچھا تم اس حملہ آور لشکر سے جا کر ملو اور اسے ہم پر حملہ کرنے سے روکو یہاں تک کہ ہم اپنے ان ہم قوم لوگوں کو جو بزاحہ میں ہیں واپس بلا لیں.ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر ہم طلیحہ کی مخالفت کریں گے جبکہ ہمارے لوگ اس کے قبضہ میں ہیں تو وہ ان سب کو قتل کر دے گا یا ان کو یر غمال کی حیثیت سے قید کر لے گا.یہ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اپنے مخالفین کو وہ پھر چھوڑتا نہیں ہے اور کے قبیلہ کے لوگوں نے بھی کہا کہ کیونکہ ہمارے لوگ وہاں ہیں اس لیے اگر ہم آگئے یا اس کو بھنک پڑ گئی کہ یہ مسلمان ہونے والے ہیں تو یہ قتل کر دے گا.حضرت عدی نے حضرت خالد کا سُنح مقام میں استقبال کیا.سُنح بھی مدینہ کے مضافات میں ایک جگہ ہے.حضرت عدی نے کہا.خالد ! آپ مجھے تین دن کی مہلت دیں.پانچ سو جنگجو آپ کے ساتھ اکٹھے ہو جائیں گے جن کے ساتھ مل کر آپ دشمن پر حملہ کریں.یہ بات اس سے بہتر ہے کہ آپ ان کو جہنم کی آگ میں داخل کریں یعنی کے قبیلے کے لوگ آپ کے ساتھ آجائیں گے اور ان کے ساتھ
صحاب بدر جلد 2 بر سر پیکار ہو جائیں.192 حضرت ابو بکر صدیق حضرت خالد نے ان کی تجویز مان لی.حضرت عدی اپنی قوم کے پاس آئے.اس سے پہلے قبیلہ طے کے لوگ بُز احہ سے اپنی قوم والوں کو واپس بلانے کے لیے آدمی بھیج چکے تھے.قبیلے کے لوگوں نے طلیحہ کے لشکر میں اپنے آدمیوں کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ فور اواپس آجائیں کیونکہ مسلمانوں نے طلیحہ کے لشکر پر حملہ کرنے سے پہلے ان پر چڑھائی یعنی کے قبیلے پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا ہے.اس لیے وہ آئیں اور اس حملہ کو روکیں.یہ تدبیر انہوں نے چلی.چنانچہ وہ بطور کمک اپنی قوم کے پاس واپس آگئے.اگر ایسانہ ہو تا تو طلیحہ اور اس کے سا تھی انہیں زندہ نہ چھوڑتے.پھر حضرت عدی نے حضرت خالد کو آکر اپنے قبیلے کے دوبارہ اسلام لے آنے کی اطلاع دی.ایک مصنف نے لکھا ہے کہ عدی کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو اسلامی فوج میں شمولیت کی دعوت دی.بنو گے کی لشکر خالد میں شمولیت دشمن کی پہلی شکست تھی کیونکہ قبیلہ کلے کا شمار جزیرہ عرب کے قوی ترین قبائل میں ہو تا تھا.دیگر قبائل ان کو اہمیت دیتے تھے.ان کی طاقت و قوت کا اعتبار تھا.ان سے خوف کھاتے تھے.اپنے علاقے میں ان کو عزت اور غلبہ حاصل تھا.پڑوسی قبائل ان کے حلیف بننے کے لیے کوشاں رہتے تھے.476 پھر حضرت خالد نے یہاں سے جدِیلہ کے مقابلے کے خیال سے انشر کی طرف کوچ کیا.أنشر بھی قبیلہ کے کے ایک چشمہ کا نام ہے.وہاں اس چشمہ کے ارد گرد آبادی تھی.حضرت عدی نے ان سے کہا کہ قبیلہ طے کی مثال ایک پرندے کی ہے اور قبیلہ جدیلہ قبیلہ کلے کے دو بازوؤں میں سے ایک بازو ہے.آپ مجھے چند روز کی مہلت دیں.شاید اللہ تعالیٰ جدیکہ کو بھی راہ راست پر لے آئے.بغیر جنگ کے ہی یہ لوگ ٹھیک ہو جائیں جس طرح اس نے غوث یعنی قبیلہ کئے کی دوسری شاخ کو گمراہی سے نکال لیا ہے.حضرت خالد نے ایسا ہی کیا.حضرت عدی جدیلہ کے پاس آئے.حضرت عدی مسلسل ان سے بات چیت کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت عدی کی بیعت کی اور ان کے اسلام لے آنے کی بشارت حضرت عدی نے حضرت خالد گو آکر دی اور اس قبیلے کے ایک ہزار سواروں کے ساتھ مسلمانوں کے پاس آگئے.477 طلیحہ اسدی کی طرف روانگی اور حضرت عکاشہ کی شہادت حضرت خالد بن ولید قبیلہ کے کے قبول اسلام کے بعد طلیحہ اسدی کی طرف روانہ ہوئے.حضرت خالد بن ولید جب دشمن کے قریب پہنچ گئے تو آپ نے حضرت عُکاشہ بن محصن اور حضرت ثابت بن اقرم گو دشمن کی خبر لانے کے لیے آگے روانہ کیا.جب یہ دشمن کے قریب پہنچے تو طلیحہ اور اس کا بھائی سلمہ دیکھنے کے لیے اور دریافت حال کے لیے نکلے.سلمہ نے حضرت ثابت کو مہلت بھی نہ دی
اصحاب بدر جلد 2 193 حضرت ابو بکر صدیق اور انہیں شہید کر دیا اور طلیحہ نے جب دیکھا کہ اس کا بھائی اپنے مقابل سے فارغ ہو چکا ہے تو اس نے اسے اپنے مد مقابل یعنی عُکاشہ کے خلاف مدد کے لیے پکارا کہ آؤ میری مدد کرو ورنہ یہ شخص مجھے کھا جائے گا.چنانچہ ان دونوں نے مل کر حضرت عُکاشہ پر حملہ کیا اور ان کو بھی شہید کر دیا اور اپنی جگہ واپس چلے گئے.478 ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت خالد نے حضرت عکاشہ اور ثابت انصاری کو دشمن کی خبر گیری کے لیے بھیجا تو طلیحہ کا بھائی حبال ان کو ملا تو ان دونوں نے اس کو قتل کر دیا.کس حد تک اس میں صداقت ہے اللہ جانتا ہے یا اگر یہ روایت صحیح ہے تو وہ لڑائی کے لیے آمادہ ہوا تو لڑائی ہوئی تب قتل ہوا.کیونکہ بہر حال یہ لوگ تو خبر لینے کے لیے گئے تھے.لڑائی کرنے کے لیے گئے ہی نہیں تھے.جب یہ خبر طلیحہ کو پہنچی تو طلیحہ اور اس کا بھائی سلمہ نکلے.طلیحہ نے حضرت عکاشہ کو شہید کر دیا اور اس کے بھائی نے حضرت ثابت ہو اور پھر دونوں واپس چلے گئے.حضرت خالد اپنی فوج کے ساتھ آگے بڑھے یہاں تک وہ اس جگہ پہنچے جہاں حضرت ثابت مقتول ہونے کی حالت میں پڑے ہوئے تھے لیکن ان میں سے کسی کو ان کی خبر نہ تھی یہاں تک کہ اچانک کسی سواری کا ان پر پاؤں آگیا.مسلمانوں پر یہ بہت گراں گزرا.پھر جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ حضرت عُکاشہ بن محصن بھی شہید پڑے ہیں.اس سے مسلمان اور بھی غمگین ہو گئے اور کہنے لگے کہ مسلمانوں کے سرداروں میں سے دو بڑے سردار اور گھڑ سواروں میں سے دو گھڑ سوار شہید ہو گئے.تو اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت خالد فوج کو مرتب کرنے لگے.فوج کو جنگ کے لیے ترتیب دیا اور قبیلہ کے کی طرف لوٹ گئے.ایک روایت میں ہے حضرت عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت خالد بن ولید سے کہلا بھیجا کہ آپ میرے پاس آکر چند روز قیام کریں.میں کلے کے تمام قبائل کے پاس آدمی بھیجتا ہوں اور جس قدر مسلمان اس وقت آپ کے ساتھ ہیں ان سے کہیں زیادہ فوج آپ کے لیے جمع کیے دیتا ہوں اور پھر میں خود آپ کے دشمن کے مقابلے میں آپ کے ساتھ چلوں گا.پس آپ میری طرف چل پڑے یعنی اس طرف آگئے.طلیحہ سے جنگ اور اس کا فرار ایک روایت میں ہے کہ حضرت خالد نے قصبہ سلمیٰ میں اُرك مقام پر قیام کیا تھا مگر دوسری روایت کے مطابق آپ نے اجاء مقام پر قیام کیا تھا.یہاں سے حضرت خالد نے طلیحہ کے مقابلے کے لیے اپنی فوج کو مرتب کیا اور بُزاخہ پر دونوں کا مقابلہ ہوا.جب لوگوں نے لڑائی شروع کی تو عیینہ نے بنو فزارہ کے سات سو افراد کے ساتھ مل کر طلیحہ کی معیت میں سخت لڑائی کی.عیینہ اور طلیحہ اکٹھے مل گئے.انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی.طلیحہ اپنے اونی خیمے کے صحن میں چادر اوڑھے بیٹھا تھا.یہ نبی بنا ہوا تھا اس لیے یہ خیمے میں بیٹھا رہا اور غیب کی خبریں دیتا تھا.کہتا تھا تم لوگ جنگ لڑو میں یہاں سے
صحاب بدر جلد 2 194 حضرت ابو بکر صدیق تمہیں بتاتا ہوں کہ کیا نتیجہ نکلنے والا ہے جبکہ لوگ قتال میں مصروف تھے.جب عیینہ کو لڑائی میں تکلیف اٹھانا پڑی اور اس کا شدید نقصان ہوا تو وہ طلیحہ کے پاس آیا اور کہا کیا ابھی تک جبرائیل تمہارے پاس نہیں آئے ؟ جنگ میں تو مار پڑ رہی ہے تم کہتے ہو مجھے الہام ہوتے ہیں، وحی ہوتی ہے اور جبرائیل مجھے بتائیں گے کیا ہونا ہے تو بتاؤ بھی تک کچھ نتیجہ نہیں نکلا؟ جبرائیل آئے نہیں ؟ اس نے کہا نہیں.عیینہ واپس گیا پھر لڑائی میں مصروف ہو گیا.جب اس کو دوبارہ لڑائی کی شدت نے پریشان کر دیا تو وہ پھر طلیحہ کے پاس آیا اور کہا کہ تمہارا بر اہو کیا جبرائیل ابھی تک تمہارے پاس نہیں آئے ؟ اس نے کہا اللہ کی قسم نہیں آئے.عیینہ نے قسم کھاتے ہوئے کہا کب آئیں گے ؟ ہمارا تو کام تمام ہوا چاہتا ہے.وہ پھر میدانِ جنگ میں پلٹ کر لڑنے لگا اور اب جب پھر اسے ناکامی ہوئی تو وہ پھر طلیحہ کے پاس گیا اور پوچھا کیا جبرائیل تمہارے پاس ابھی تک نہیں آئے ؟ طلیحہ نے کہا ہاں آئے ہیں.عیینہ نے پوچھا پھر جبرائیل نے کیا کہا؟ طلیحہ نے کہا انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ تیری چکی بھی ان کی چکی کی طرح ہو گی اور ایک ایسا واقعہ ہو گا، تیرا ایسا بول بالا ہو گا کہ جو تم کبھی بھلا نہیں سکو گے.عیینہ نے یہ سنا تو اپنے دل میں کہا کہ اللہ جانتا ہے کہ عنقریب ایسے واقعات پیش آئیں گے جنہیں تم بدل نہیں سکو گے یا بھلا نہیں سکو گے.پھر وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور اس قوم سے کہا کہ اے بنو فزارہ! بخدا یہ طلیحہ کذاب ہے.پس تم لوگ واپس چلو.اس پر تمام بنو فزارہ لڑائی سے کنارہ کش ہو گئے اور ان لوگوں کو شکست ہوئی تو وہ بھاگے اور طلیحہ کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں.اس سے پہلے ہی طلیحہ نے اپنے لیے اپنا گھوڑا اور اپنی بیوی ٹوار کے لیے اونٹ تیار کر رکھا تھا.وہ کھڑا ہوا اور لپک کر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنی بیوی کو سوار کیا پھر اس کے ساتھ بھاگ گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میں سے جو کوئی بھی اس کی استطاعت رکھتا ہے جیسا میں نے کیا ہے وہ بھی ایسا کرے اور اپنے اہل کو بچائے.دوڑ جاؤ میدان جنگ سے.پھر طلیحہ نے محوشیہ کی راہ اختیار کی یہاں تک کہ شام پہنچ گیا.اس کی جماعت پر اگندہ ہو گئی اور اللہ نے ان میں سے بہتوں کو مار دیا.بہت سے مارے گئے.ایک روایت کے مطابق طلیحہ میدان جنگ سے بھاگ کر نفع میں بنو کلب کے پاس مقیم ہو گیا اور وہاں جا کے اسلام لے آیا.نقع بھی طائف کے اطراف میں مکہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے.اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات تک وہ بنو کلب میں ہی مقیم رہا.79 بنو عامر اپنے خاص و عام افراد کے ساتھ اس کے قریب بیٹھے ہوئے تھے اور قبائل سکیم اور ہوازن کا بھی یہی حال تھا.پھر جب اللہ نے بنو فزارہ اور طلیحہ کو بری طرح شکست دی تو وہ قبائل یہ کہتے ہوئے آئے کہ جس دین سے ہم نکلے تھے ہم پھر اسی میں داخل ہوتے ہیں.وہ خود ہی آکے اسلام میں شامل ہو گئے اور کہا ہم اللہ اور اس کے رسول صلی علیہ کم پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے جان اور مال کے متعلق اللہ اور اس کے رسول صلی علی ایم کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں.480 479
اصحاب بدر جلد 2 195 حضرت ابو بکر صدیق تاریخ طبری کی ایک روایت میں ہے کہ اہل بُرائحہ کی شکست کے بعد بنو عامر آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم دین میں داخل ہوتے ہیں جس سے ہم نکل گئے تھے.حضرت خالد نے ان سے اس شرط پر بیعت لی جو آپ نے اہل بزا حه یعنی اسد ، غطفان اور کلے سے لی تھی اور ان سب نے اسلام قبول کرنے کی شرط پر اطاعت قبول کر لی.اس بیعت کے الفاظ یہ تھے.تم سے اللہ تعالیٰ کا عہد و پیمان لیا جاتا ہے کہ تم ضرور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی علیہ تم پر ایمان لاؤ گے اور ضرور نماز کو قائم کرو گے اور ضرور زکوۃ ادا کرو گے اور اسی چیز پر تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کی طرف سے بھی بیعت کرو گے.اس پر وہ کہتے ہاں.481 حضرت خالد نے اسد ، غطفان، ہوازن ، سلیم اور کلے میں سے کسی کی بیعت قبول نہیں کی سوائے اس کے کہ وہ ان تمام لوگوں کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں جنہوں نے ارتداد کی حالت میں اپنے ہاں کے مسلمانوں کو آگ میں جلایا تھا اور ان کا مثلہ کیا تھا اور مسلمانوں پر چڑھائی کی تھی.حضرت خالد نے ان سے یہ بیعت اس صورت میں لی کہ اپنے ان لوگوں کو ہمارے سپر د کرو جنہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، قتل کیا، ان کے گھروں کو آگ لگائی.مسلمانوں کو آگ میں جلایا.پھر ان کا مثلہ کیا اور آگ میں جلایا.یہ ساری باتیں کیں.انہوں نے کہا ہمارے حوالے کرو گے پھر تمہاری بیعت قبول کی جائے گی.وہ ملزمان جو ہیں، سارے مجرم جو ہیں وہ سب پیش ہوں.پس ان تمام قبائل نے ان لوگوں کو حضرت خالد کے سپر د کر دیا تو حضرت خالد نے ان قبائل کی بیعت کو قبول کر لیا اور جن لوگوں نے مسلمانوں پر مظالم کیے تھے ظلم کرنے والے جو لوگ تھے ان کے اعضاء بھی قطع کرا دیے اور ان کو آگ میں بھی جلایا گیا.482 بہر حال جو ظلم انہوں نے مسلمانوں پر کیے تھے جیسا کہ گذشتہ خطبہ میں میں بیان کر چکا ہوں سزا کے طور پر ان سے اسی طرح سلوک کیا گیا.حضرت ابو بکر کی خدمت میں حضرت خالد کے ایک خط کا ذکر ہے.قره بن هبيره اور عیینہ بن حصن کو قید کر کے مدینہ روانہ کرنا حضرت خالد بن ولید نے قرہ بن ہبیرہ اور اس کے چند ساتھیوں کو رسیوں سے باندھ دیا اور پھر قرہ اور دوسرے قیدیوں کو حضرت خالد نے حضرت ابو بکر کے پاس روانہ کیا اور آپ کی خدمت میں لکھا کہ بنو عامر اسلام سے روگردانی اور انتظار کے بعد پھر سے اسلام میں داخل ہو گئے ہیں.جن قبائل سے میری جنگ ہوئی یا جن سے بغیر جنگ کے مصالحت ہوئی میں نے ان سب سے کسی کی بیعت قبول نہیں کی یہاں تک کہ وہ ان لوگوں کو میرے پاس لائیں جنہوں نے مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم کیے تھے.میں نے ان کو قتل کر دیا.فخرہ اور اس کے ساتھیوں کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں.حضرت ابو بکڑ نے بھی حضرت خالد کے نام ایک خط لکھا جو نافع سے مروی ہے کہ حضرت ابو بکر نے اس خط کے جواب میں حضرت خالد کو لکھا کہ جو کچھ تم نے کیا اور جو کامیابی تم کو حاصل ہوئی اللہ تم کو
اصحاب بدر جلد 2 196 حضرت ابو بکر صدیق اس کی جزائے خیر دے.تم اپنے ہر کام میں اللہ سے ڈرتے رہو.إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ (الحل : 129) یقیناً اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان کرنے والے ہیں.تم اللہ کے کام میں پوری جدوجہد کرنا اور تساہل نہ کرنا.جس شخص نے کسی مسلمان کو مارا ہو اور وہ تمہارے ہاتھ لگ جائے تو اس کو ضرور قتل کر دو اور اس طرح قتل کرو کہ دوسرے عبرت پکڑیں.وہ لوگ جنہوں نے خدا کے حکم سے نافرمانی کی ہو اور اسلام کے دشمن ہوں ان کے قتل سے اگر اسلام کو فائدہ پہنچتا ہو تو قتل کر سکتے ہو.حضرت خالد ایک ماہ بُرائہ میں فروکش رہے اور اس قسم کے لوگوں کی تلاش میں ہر طرف چھاپے مار کر ان لوگوں کو گرفتار کرتے رہے.483 اور یوں حضرت ابو بکر صدیق کی ہدایت کے مطابق ان لوگوں کو سخت سزائیں دیں.قره بن هبيره اور عیینہ بن حصن کے قید ہو کر مدینہ آنے کے متعلق تاریخ طبری میں اس طرح ذکر آتا ہے کہ حضرت خالد نے بنو عامر کے معاملے کا تصفیہ کر کے جب ان سے بیعت لے لی اور عيينه بن حصن اور قره بن شبیرہ کو قید کر کے حضرت ابو بکر کے پاس بھیج دیا اور جب یہ حضرت ابو بکر کے سامنے آئے تو قرہ نے کہا کہ اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں مسلمان ہوں.حضرت عمر و بن عاص میرے اسلام کے گواہ ہیں.جب وہ میرے پاس سفر کے دوران آئے میں نے ان کو اپنا مہمان بنایا، ان کی تعظیم و تکریم کی اور ان کی حفاظت کی.حضرت ابو بکر نے حضرت عمرو بن عاص کو بلا کر اس کی ہو.تصدیق چاہی.حضرت عمرو نے تمام واقعہ بیان کیا اور جو کچھ قرہ نے کہا تھا وہ بتایا اور جب وہ زکوۃ کے متعلق اس کی گفتگو کو بیان کرنے لگے تو قرہ نے کہا بس کیجیے آگے بیان نہ کریں.اس پر انہوں نے کہا اللہ کی رحمت حضرت عمر و نے کہا یہ نہیں ہو سکتا.میں تو پوری بات حضرت ابو بکر سے بیان کروں گا.چنانچہ انہوں نے تمام گفتگو بیان کر دی.قرہ نے زکوۃ کے حوالے سے پہلے کہا تھا کہ اس کے مطالبہ کو ختم کر دیں تو عرب بات سنیں گے یعنی زکوۃ نہ کی جائے.اس پر حضرت عمر نے کہا گو یاتم کافر ہو چکے تو نہ نے کہا پھر آپ زکوۃ کے مطالبے کا ایک وقت مقرر کر دیں تو ہم لوگ مل کر فیصلہ کر لیں گے کہ زکوۃ دینی ہے کہ نہیں دینی.حضرت ابو بکڑ نے اس سے در گزر کیا.بہر حال اس کی باتیں سننے کے باوجو د حضرت ابو بکر نے اس سے در گزر کیا اور اس کی جان بخشی کر دی.عیینہ بن حصن اس حالت میں مدینہ آیا کہ اس کے دونوں ہاتھ رسی سے اس کی گردن پر بندھے تھے.مدینہ کے لڑکے اسے کھجور کی شاخیں چھو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اے اللہ کے دشمن ! کیا ایمان لانے کے بعد تو کافر ہو گیا ہے ؟ تو اُس نے کہا بخدا ! میں آج کے دن تک کبھی اللہ پر ایمان ہی نہیں ھی لہلہ پر ایمانی ہیں لایا تھا.حضرت ابو بکر نے اس سے در گزر کیا اور اس کی بھی جان بخشی کر دی.14 ایک اور مصنف لکھتے ہیں کہ عیینہ کو خلیفہ رسول صلی علی یکم ابو بکرے کے پاس حاضر کیا گیا.اس نے حضرت ابو بکڑ سے عفو و در گزر کا ایسا برتاؤ پایا جس کا اس کو یقین نہ تھا.آپ نے اس کے ہاتھ کھولنے کا حکم 484
اصحاب بدر جلد 2 197 حضرت ابو بکر صدیق دیا.پھر اس سے تو بہ کا مطالبہ کیا تو عیینہ نے خالص توبہ کا اعلان کیا اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت پیش کی اور اسلام لا یا پھر اچھی طرح اسلام پر کار بند رہا.485 طلیحہ اسدی کا اسلام قبول کرنا ہے کہ جھوٹے مدعی نبوت اور باغی، طلیحہ اسدی نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا.اس کے بارے میں لکھا طلیحہ اسدی کے اسلام لانے کا سبب یہ ہوا کہ جب اسے اطلاع ملی کہ قبیلہ اسد ، غطفان اور بنو عامر مسلمان ہو چکے ہیں تو وہ بھی مسلمان ہو گیا.پھر وہ حضرت ابو بکر کی امارت میں عمرہ کرنے مکہ روانہ ہوا.وہ مدینہ کے اطراف سے گزرا تو حضرت ابو بکر سے عرض کیا گیا یہ طلیحہ ہے.حضرت ابو بکر نے فرمایا میں اس کا کیا کروں ؟ اس کو چھوڑ دو.یقیناً اللہ نے اسے اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہے.کا طلیحہ مکہ کی طرف گیا اور عمرہ ادا کیا.پھر حضرت عمرؓ کے خلیفہ ہونے کے بعد ان کی بیعت کرنے آیا تو حضرت عمر نے اس سے کہا کہ تم عکاشہ اور ثابت کے قاتل ہو.بخدا! میں کبھی تم کو پسند نہیں کر سکتا.طلیحہ نے کہا اے امیر المومنین ! آپ ان دو شخصوں کا کیا غم کرتے ہیں جن کو اللہ نے میرے ہاتھوں سے عزت دی.شہید ہوئے اور مجھے ان دونوں کے ہاتھوں ذلیل نہیں کیا.یعنی میں ذلیل نہیں ہوا.ان کے حملے سے مرا نہیں ورنہ میں جہنم میں جاتا اور آج میں اسلام قبول کر کے اللہ تعالیٰ کا فضل پانے والا بن رہا ہوں.حضرت عمر نے اس سے بیعت لے لی اور کہا اے دھو کے باز ! تمہاری کہانت میں سے کیا باقی ہے ؟ یعنی تم کا ہن تھے اس میں سے ابھی بھی کچھ کہانت کا کام کرتے ہو ؟ اس نے کہا کہ ایک آدھ پھونک مار لیتا ہوں.پھر وہ اپنی قوم کی قیام گاہ کی طرف آیا اور وہیں مقیم رہا.عراق کی جنگوں میں طلیحہ نے ایرانیوں کے مقابلے میں کار ہائے نمایاں انجام دیے.مسلمان ہونے کے بعد عراق کی جنگوں میں یہ لڑا اور اچھا لڑا اور جنگ نہاوند میں 21 ہجری میں شہید ہوا.487 ام قرقہ کی بغاوت اور اس کی سرکوبی 486 حضرت خالد بن ولید کا ظفر، یہ ایک علاقہ ہے اس جانب جانا اور امم زمل سلمی بنت أم قرفہ کی طرف پیش قدمی.ام زمل کا نام سلمیٰ بنت مالک بن حذیفہ تھا جو اپنی ماں اہم قرفہ بنت ربیعہ سے مشابہ تھی.وہ عزت و شہرت میں اپنی ماں جیسی تھی اور اس کے پاس اہم قرفہ کا اونٹ بھی تھا.488 ام قرفہ کا تعارف یہ ہے کہ اُم قرفہ کا نام فاطمہ بنت ربیعہ تھا اور وہ بنو فزارہ کی سردار تھی.عورت اپنی قوت اور حفاظتی انتظامات کے طور پر ایک ضرب المثل مانی جاتی تھی.اس کے گھر میں ہر وقت پچاس تلواریں آویزاں رہتی تھیں اور پچاس مردانِ شمشیر زن ہر وقت وہاں موجود ہوتے تھے.یہ سب کے سب اس کے بیٹے اور پوتے تھے.اس کے ایک بیٹے کا نام قرفہ تھا اس کی وجہ سے اس کی کنیت
صحاب بدر جلد 2 198 حضرت ابو بکر صدیق ام قرفہ تھی جبکہ اس کا اصلی نام فاطمہ بنت ربیعہ تھا.اس کا گھر وَادِی القُریٰ کی ایک جانب تھا جو مدینہ طیبہ سے سات رات کی مسافت پر تھا.89 489 ام قرفہ کی طرف ایک سریہ چھ ہجری میں وقوع پذیر ہوا.اتم قرفہ کی سرکوبی کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے مدینہ پر حملہ کرنے اور نبی کریم صلی اللہ ہم کو قتل کرنے کی سازش کی تھی.اس بارے میں ایک مصنف نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ اس نے اپنے تئیں بیٹوں اور پوتوں کا ایک دستہ تیار کیا اور کہا کہ مدینہ پر چڑھائی کرو 491 اور حضور صلی ا ہم کو قتل کرو.اس لیے مسلمانوں نے اس فتنہ باز عورت کو کیفر کردار تک پہنچادیا.490 اس کا دوسر اسبب یہ تھا کہ حضرت زید بن حارثہ تجارت کی غرض سے شام کی طرف روانہ ہوئے.ان کے پاس دیگر صحابہ کرام کے اموال تجارت تھے.جب وادی القریٰ پہنچے تو قبیلہ فزارہ کی شاخ بنو بدر کے بہت سے آدمی نکل آئے.انہوں نے حضرت زید اور ان کے ساتھیوں کو سخت مارا پیٹا اور سارا سامان بھی چھین لیا.انہوں نے واپس آکر بار گاہِ رسالت میں یہ واقعہ عرض کیا.نبی کریم صلی للہ ہم نے ایک لشکر اُن کے ساتھ بھیجا تا کہ ان لٹیروں کی گوشمالی کہ انتم قرفہ کی بیٹی اتم زمل سلمی کا واقعہ یوں ہے کہ غطفان، کے ، سلیم اور ہوازن کے بعض لوگ جنہوں نے بُزاخہ میں حضرت خالد بن ولید کے ہاتھوں شکست کھائی تھی، بھاگ کر اتم زمل سلمیٰ بنت مالک کے پاس پہنچے اور وعدہ کیا کہ اس کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کرتے ہوئے جانیں قربان کر دیں گے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے.غطفان کے شکست خوردہ لوگ ظفر میں جمع ہو گئے.یہ ظفر جو ہے بصری اور مدینہ کے راستے پر ایک مقام ہے.یہ خواب کے قریب ایک مقام ہے.حواب بھی مدینہ اور بصری کے راستے پر ایک جگہ ہے اور وہاں ایک کنواں ہے.وہاں ام زمل سلمیٰ نے ان لوگوں کو ان کی شکست پر غیرت دلائی اور جنگ کا حکم دیا اور پھر خود بھی مختلف قبائل میں بار بار چکر لگا کر ان کو حضرت خالد سے جنگ کے لیے اکسایا یہاں تک کہ وہ لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے اور جنگ کے لیے دلیر ہو گئے.یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے بھڑ کانے والی تھی اور ہر طرف سے بھٹکے ہوئے لوگ اس کے پاس آگئے.اس سے قبل اہم قرفہ کی زندگی میں یہ اتم زمل سلمی قید ہو کر حضرت عائشہ کو ملی تھی.انہوں نے اسے آزاد کر دیا تھا.یہ کچھ عرصہ ان کے پاس رہی پھر اپنی قوم میں چلی آئی.وہاں جا کے مرتد ہو گئی.493 492 تحصیل، جب حضرت خالد کو اس کی اطلاع ہوئی وہ اس وقت مجرموں کی گرفتاری، زکوۃ کی دعوتِ اسلام اور لوگوں کی تسکین میں منہمک تھے تو اُتم زمل سلمی کے مقابلہ کے لیے بڑھے جس کی شوکت اور طاقت بہت بڑھ چکی تھی اور اس کا معاملہ بہت شدت اختیار کر گیا تھا.پس حضرت خالد اس کے اور اس کی جمعیتوں سے مقابلے کے لیے آگے بڑھے.نہایت شدید جنگ ہوئی.اتم زمل سلمی اس وقت اپنی ماں کی طرح بڑی شان سے اپنی ماں کے اونٹ پر سوار تھی اور دونوں لشکروں کے درمیان
اصحاب بدر جلد 2 199 حضرت ابو بکر صدیق شدید جنگ ہوئی.اُم زمل اونٹ پر سوار اشتعال انگیز تقریروں سے برابر فوج کو جوش دلا رہی تھی.مرتدین بھی بڑی بہادری سے جان توڑ کر لڑ رہے تھے.امیر زمل کے اونٹ کے گردسو اونٹ اور تھے جن پر بڑے بڑے بہادر سوار تھے اور بڑی پامردی سے اتم زمل کی حفاظت کر رہے تھے.مسلمان شہسواروں نے اہم زمل کے پاس پہنچنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن اس کے محافظوں نے ہر بار انہیں پیچھے ہٹا دیا.پورے سو آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد مسلمان آخر کار امیر زمل کے اونٹ کے قریب پہنچے.وہاں پہنچتے ہی انہوں نے اونٹ کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اتم زمل کو قتل کر دیا.اس کے ساتھیوں نے جب اس کے اونٹ کو گرتے اور اُسے قتل ہوتے دیکھا تو اُن کی ہمت نے جواب دے دیا اور بد حواس ہو کر بے تحاشا میدان جنگ سے بھاگنے لگے.اس طرح اس فتنہ کی آگ ٹھنڈی ہو گئی اور جزیرہ نما عرب کے شمال مشرقی حصہ میں ارتداد اور بغاوت کا خاتمہ ہو گیا.494 حضرت خالد نے حضرت ابو بکر کو اس فتح کی بشارت بھیجی.15 حضرت خالد بن ولید کی مالک بن نویرہ کی طرف پیش قدمی 495 حضرت خالد بن ولید کی بطاح کے علاقہ کی جانب، مالک بن نویرہ کی طرف پیش قدمی کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے.بطاح بنو اسد کے علاقے میں ایک چشمہ کا نام ہے.مالک بن نویرہ کا تعلق بنو تمیم کی ایک شاخ بنویر بوع سے تھا.اس نے 19 ہجری میں اپنی قوم کے ساتھ مدینہ آکر اسلام قبول کیا.مالک بن نویرہ اپنی قوم کے سرداروں میں سے ایک تھا.عرب کے مشہور بہادر اور شہسواروں میں اس کا شمار ہوتا تھا.آنحضرت صلی للی کم نے اس کو اپنے قبیلہ کی زکوۃ کے اموال وصول کرنے اور جمع کرنے کی ڈیوٹی سپر د کرتے ہوئے عامل زکوۃ کے عہدے پر مقرر کیا تھا لیکن جب آنحضرت صلی کم کی وفات ہوئی اور عرب میں ارتداد اور بغاوت کی لہر اٹھی تو مالک بن نویرہ بھی مرتد ہونے والوں میں سے ایک تھا.جب رسول اللہ صلی یم کی وفات کی خبر اس کو پہنچی تو اس نے خوشی اور مسرت کا جشن منایا.اس کے گھر کی عورتوں نے مہندی لگائی، ڈھول بجائے اور خوب فرحت و شادمانی کا اظہار کیا اور اپنے قبیلے کے ان مسلمانوں کو قتل کیا جو زکوۃ کی فرضیت کے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ زکوۃ کی رقم کو مسلمانوں کے مرکز یعنی مدینہ میں بھجوانے کے بھی قائل تھے.پس یہ بھی بات یاد رکھنے والی ہے کہ ہر ایک شخص جس کو سزا دی گئی یا جس کے خلاف سختی کے اقدام کیے گئے اس نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی صرف یہی نہیں کہ مرتد ہو گئے تھے.بہر حال اس ضمن میں مزید ہے کہ اس نے ایک طرف تو زکوۃ دینے سے انکار کیا اور زکوۃ کے جمع شدہ اموال اپنی قوم کے لوگوں کو واپس کر دیے اور دوسری طرف نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والی باغیہ سیجاخ بنت حارث کے ساتھ شامل ہو گیا جو کہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے آئی 496
اصحاب بدر جلد 2 200 حضرت ابو بکر صدیق سجاح بنت حارث کی سر کوبی سجان کا تعارف یہ ہے کہ سجاح بنت حارث اس کا نام تھا.ام یاد رکنیت تھی.عرب کی ایک کاہنہ تھی اور ان چند مدعیانِ نبوت اور باغی قبائلی سرداروں میں سے تھی جو عرب میں ارتداد سے تھوڑی مدت پہلے یا اس کے دوران نمودار ہوئے تھے.سجاح قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھتی تھی اور ماں کی جانب سے اس کا نسب قبیلہ بنو تغلب سے جاملتا تھا جو اکثر مسیحی تھے.سجان خود بھی مسیحی تھی اور اپنے مسیحی قبیلہ اور خاندان کی بنا پر مسیحیت کی اچھی خاصی عالم عورت تھی.یہ عراق سے مریدوں کے ساتھ آئی تھی اور مدینہ پر حملہ کا ارادہ رکھتی تھی.بعض مورخین کا کہنا ہے کہ سجاح ایرانیوں کی سازش کے تحت عرب میں داخل ہوئی تھی تا کہ حالات کو دیکھ کر ایرانی حکومت کے زوال پذیر اقتدار کو تھوڑا سنبھالا دیا جاسکے.بہر حال سجاح ان عوامل سے متاثر ہو کر جزیرہ عرب میں داخل ہوئی.یہ طبعی امر تھا کہ وہ سب سے پہلے اپنی قوم بنو تمیم میں پہنچی.ایک گروہ زکوۃ ادا کرنے اور خلیفہ رسول اللہ کی اطاعت کرنے پر آمادہ تھا لیکن اس قبیلہ کا دوسرا فریق اس کی مخالفت کر رہا تھا.ایک تیسرا فریق بھی تھا جس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے.بہر حال اس اختلاف نے اتنی شدت اختیار کی کہ بنو تمیم نے آپس ہی میں لڑنا اور جدال اور قتال شروع کر دیا.اسی اثنا میں ان قبائل نے سجاخ کے آنے کی خبر سنی اور انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ سجاح مدینہ پہنچ کر ابو بکر کی فوجوں سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے.پھر تو اختلاف نے مزید وسعت اختیار کر لی.سبانخ اس ارادے سے بڑھی چلی آرہی تھی کہ وہ اپنے عظیم الشان لشکر کے ہمراہ اچانک بنو تمیم میں پہنچ جائے گی اور اپنی نبوت کا اعلان کر کے انہیں اپنے آپ پر ایمان لانے کی دعوت دے گی.سارا قبیلہ بالا تفاق اس کے ساتھ ہو جائے گا اور عیینہ کی طرح بنو تمیم بھی اس کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ بنویز بوع کی نبیه قریش کے نبی سے بہتر ہے کیونکہ محمد صلی اہلی کی وفات پاگئے ہیں اور سجاح زندہ ہے.اس کے بعد وہ بنو تمیم کو ہمراہ لے کر مدینہ کی طرف کوچ کرے گی، یہ اس کا پلان تھا، اور ابو بکر کے لشکر سے مقابلہ کے بعد فتح یاب ہو کر مدینہ پر قابض ہو جائے گی.بہر حال سجاح اور مالک بن نویرہ کا آپس میں رابطہ بھی ہو ا.سنجاح اپنے لشکر کے ہمراہ جب بنویر بوع کی حدود پر پہنچ گئی تو وہاں ٹھہر گئی اور قبیلہ کے سردار مالک بن نویرہ کو بلا کر مصالحت کرنے اور مدینہ پر حملہ کرنے کی غرض سے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی.مالک نے صلح کی دعوت تو قبول کر لی لیکن اس نے اسے مدینہ پر چڑھائی کے ارادے سے باز رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مدینہ پہنچ کر ابو بکر کی فوجوں کا مقابلہ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ پہلے اپنے قبیلہ کے مخالف عصر کا صفایا کر دیا جائے.سجاخ کو بھی یہ بات پسند آئی اور اس نے کہا کہ جو تمہاری مرضی ہے.میں تو بنویر بوع کی ایک عورت ہوں جو تم کہو گے وہی کروں گی.سجاخ نے مالک کے علاوہ بنو تمیم کے دوسرے سرداروں کو بھی مصالحت کی دعوت دی لیکن وکیع کے سوانسی نے یہ دعوت قبول نہیں کی.اس پر سجاح نے مالک، وسیع اور اپنے لشکر کے ہمراہ دوسرے سر داروں پر دھاوا بول دیا.گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں جانبین کی کثیر تعداد، آدمی قتل ہوئے اور ایک ہی قبیلے
صحاب بدر جلد 2 201 حضرت ابو بکر صدیق کے لوگوں نے ایک دوسرے کو گرفتار کر لیا لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد مالک اور وکیع نے یہ محسوس کیا کہ انہوں نے اس عورت کی اتباع کر کے سخت غلطی کی ہے.اس پر انہوں نے دوسرے سر داروں سے مصالحت کرلی اور ایک دوسرے کے قیدی واپس کر دیے.اس طرح قبیلہ تمیم میں امن قائم ہو گیا.اب یہاں سجاح نے جب دیکھا کہ اس کی دال گلنی مشکل ہے، جو مقصد لے کے آئی تھی وہ پورا نہیں ہو سکتا تو اس نے بنو تمیم سے بوریا بستر اٹھایا اور مدینہ کی جانب کوچ کر دیا.نبانج کی بستی میں پہنچ کر اوس بن خزیمہ سے اس کی مڈھ بھیڑ ہوئی جس میں سجاح نے شکست کھائی اور اوس بن خزیمہ نے اس طرح پر اسے واپس جانے دیا کہ اس امر کا پختہ ارادہ کرے کہ وہ مدینہ کی جانب پیش قدمی نہیں کرے گی.اس واقعہ کے بعد اہل جزیرہ کی فوج کے سردار ایک جگہ جمع ہوئے اور انہوں نے سجان سے کہا اب آپ ہمیں کیا حکم دیتی ہیں.مالک اور وکیع نے اپنی قوم سے صلح کر لی ہے.نہ وہ ہمیں مدد دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ اس بات پر رضامند کہ ہم ان کی سرزمین سے گزر سکیں.ان لوگوں سے بھی ہم نے یہ معاہدہ کیا ہے اور مدینہ جانے کے لیے ہماری راہ مسدود ہو گئی ہے.اب بتاؤ ہم کیا کریں ؟ سجاح نے جواب دیا کہ اگر مدینہ جانے کی راہ مسدود ہو گئی ہے تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں تم یمامہ چلو.انہوں نے کہا اہل یمامہ شان و شوکت میں ہم سے بڑھے ہوئے ہیں اور مسیلمہ کی طاقت اور قوت بہت زیادہ ہو چکی ہے.ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب اس کے لشکر کے سرداروں نے سجائح سے آئندہ اقدام سے متعلق دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ عَلَيْكُمْ بِالْيَمَامَهُ، وَدُفُوا دَفِيفَ الْحَمَامَهُ، فَإِنَّهَا غَزْوَةٌ صَرَّامَهُ لَا يَلْحَقُكُمْ بَعْدَهَا مَلَامَهُ كي يمامه چلو.کبوتر کی طرح تیزی سے ان پر جھپٹو.وہاں ایک زبر دست جنگ پیش آئے گی جس کے بعد تمہیں پھر کبھی ندامت نہ اٹھانی پڑے گی.یہ مُسَجّع مُقَفی عبارت سننے کے بعد جسے اس کے لشکر والے وحی خیال کرتے تھے کہ نبی ہے.اس کو وحی ہوئی ہے.اس کے لیے ان کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ تھا.اس کا حکم مانا.497 مسیلمہ کذاب کا سجاح سے شادی کرنا سجاح جب اپنے لشکر کے ہمراہ یمامہ پہنچی تو مسیلمہ کو بڑا فکر پیدا ہوا.اس نے سوچا کہ اگر وہ سجاح کی فوجوں سے جنگ میں مشغول ہو گیا تو اس کی طاقت کمزور ہو جائے گی.اسلامی لشکر اس پر دھاوا بول دے گا اور ارد گرد کے قبائل بھی اس کی اطاعت کا دم بھرنے سے انکار کر دیں گے.یہ سوچ کر اس نے سجان سے مصالحت کرنے کی ٹھانی.پہلے اسے تحفے تحائف بھیجے.پھر کہلا بھیجا کہ وہ خود اس سے ملنا چاہتا ہے.اس نے مسلمہ کو باریابی کی اجازت دے دی.مسیلمہ بنو حنیفہ کے چالیس آدمیوں کے ہمراہ اس کے پاس آیا اور خلوت میں اس سے گفتگو کی اور اس گفتگو میں مسیلمہ نے کچھ مسجع مقفی عبارتیں سجاخ کو سنائیں جن سے وہ بہت متاثر ہوئی.سجانح نے بھی جواب میں اسی قسم کی عبارتیں سنائیں.سجاح کو پوری طرح اپنے قبضہ میں لینے اور ہمنوا بنانے کے لیے مسلمہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم دونوں اپنی نبوتوں کو یکجا کر لیں اور باہم رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں ، شادی کر لیں.سجاخ نے یہ مشورہ قبول کر
حاب بدر جلد 2 202 حضرت ابو بکر صدیق لیا اور مسیلمہ کے ساتھ اس کے کیمپ میں چلی گئی.تین روز تک وہاں رہنے کے بعد یہ اپنے لشکر میں واپس آئی اور ساتھیوں سے ذکر کیا کہ اس نے مسیلمہ کو حق پر پایا ہے اس لیے اس سے شادی کر لی ہے.لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کچھ مہر بھی مقرر کیا.اس نے کہا مہر تو مقرر نہیں کیا.انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ واپس جائیں اور مہر مقرر کر کے آئیں کیونکہ آپ جیسی شخصیت کے لیے مہر کے بغیر شادی کر نازیبا نہیں.چنانچہ وہ مسیلمہ کے پاس واپس گئی اور اسے مہر کے بارے میں اپنی آمد کے مقصد سے آگاہ کیا.مسیلمہ نے اس کی خاطر عشاء اور فجر کی نمازوں میں تخفیف کر دی.یعنی کہ عشاء اور فجر کی نمازوں میں کمی کر دی اور وہ بند کر دیں.بہر حال مہر کے بارے میں یہ تصفیہ ہوا کہ مسیلمہ یمامہ کی زمینوں کے لگان کی نصف آمد سجاخ کو بھیجے گا.سجاخ نے یہ مطالبہ کیا کہ وہ آئندہ سال کی نصف آمدنی میں سے اس کا حصہ پہلے ہی ادا کر دے.اس پر مسیلمہ نے نصف سال کی آمدنی کا حصہ اسے دے دیا جسے لے کر وہ جزیرہ واپس آگئی.بقیہ نصف سال کی آمدنی کے حصول کے لیے اس نے اپنے کچھ آدمیوں کو بنو حنیفہ ہی میں چھوڑ دیا.سجاح بنت حارث کا قبول اسلام سجاخ بدستور بنو تغلب میں مقیم رہی.اس کے بارے میں یہ بھی آتا ہے کہ بعد میں اس نے توبہ کر لی اور اسلام قبول کر لیا.بعض کے نزدیک حضرت عمرؓ کے زمانے میں اس نے اسلام قبول کیا یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہ نے قحط والے سال اسے اس کی قوم کے ساتھ بنو تمیم میں بھیج دیا جہاں وہ وفات تک مسلمان ہونے کی حالت میں مقیم رہی.مالک بن نویرہ کا قتل 498 حضرت ابو بکر نے حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا تھا کہ طلیحہ اسدی کے معاملے سے فارغ ہو کر مالک بن نویرہ کے مقابلے کے لیے جائیں جو بکاخ میں ٹھہر اہو ا تھا.499 حضرت خالد جب بطاح آئے تو انہوں نے وہاں کسی کو بھی نہیں پایا.البتہ انہوں نے دیکھا کہ مالک کو جب اسے اپنے معاملہ میں تردد ہوا تو اس نے اپنے تمام ساتھیوں کو ان کی جائیداد کی دیکھ بھال کے لیے بھیج دیا اور اکٹھا ہونے کی ممانعت کی ہے.پہلے اس عورت سے علیحد گی بھی ہو چکی تھی یا شاید اس وجہ سے بھی اس میں خیال پید ا ہوا کہ مقابلہ مشکل ہے.بہر حال حضرت خالد نے مختلف فوجی دستے ادھر ادھر روانہ کیے اور ان کو ہدایت کی کہ جہاں پہنچیں وہاں پہلے اسلام کی دعوت دیں جو اس کا جواب نہ دے اسے گرفتار کر لائیں اور جو مقابلہ کرے اسے قتل کر دیں.انہی دستوں میں سے ایک دستہ مالک بن نویرہ کو جس کے ساتھ بنو ثعلبہ بن یربوع کے چند آدمی ،عاصم، عبید ، عَرِین اور جعفر تھے گرفتار کر کے خالد کے پاس ان کو لایا گیا.اس دستے کے لوگوں میں جن میں حضرت ابو قتادہ بھی تھے ان کا اختلاف ہو گیا.یہاں ایک روایت عروہ کے باپ سے ہے کہ اس موقع پر مہم کے بعد لوگوں نے تو شہادتیں دیں کہ جب ہم
محاب بدر جلد 2 203 حضرت ابو بکر صدیق نے اذان دی، اقامت کہی اور نماز پڑھی تو ان لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا مگر دوسروں نے کہا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا.حضرت ابو قتادہ نے اس بات کی شہادت دی کہ انہوں نے اذان دی، اقامت کہی اور نماز پڑھی.اس اختلاف شہادت کی وجہ سے حضرت خالد نے ان لوگوں کو قید کر دیا.مالک بن نویرہ کے قتل کے متعلق دو طرح کی روایتیں ملتی ہیں یہ روایت ہے کہ مالک بن نویرہ کو 500 قتل کیا گیا تھا.ایک روایت میں ہے کہ اس رات اس قدر شدید سردی تھی کہ کوئی چیز اس کی تاب نہیں لاتی تھی.جب سر دی اور بڑھنے لگی تو حضرت خالد نے منادی کو حکم دیا.اس نے بلند آواز سے کہا کہ أَدْفِئُوا أسترا كفر کہ اپنے قیدیوں کو گرم کرو.یعنی ان کو سردی سے بچانے کا انتظام کرو لیکن بنو کنانہ میں یہ محاورہ مختلف تھا.یہاں کے محاورے میں اس لفظ کے معنی یہ تھے کہ قتل کرو.سپاہیوں نے اس لفظ کا مفہوم مقامی محاورے کے اعتبار سے یہ سمجھ لیا کہ ان قیدیوں کے قتل کا حکم دیا گیا ہے.اس پر انہوں نے ان سب کو قتل کر ڈالا.حضرت ضرار بن ازور نے مالک کو قتل کیا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبد بن آزور اسدی نے مالک کو قتل کیا تھا.مگر کلبی کہتے ہیں ضرار بن ازور نے ان کو قتل کیا تھا.حضرت خالد بن ولید موجب شور و غل سنائی دیا تو وہ اپنے خیمہ سے باہر آئے مگر اس وقت تک سپاہی ان سب قیدیوں کا کام تمام کر چکے تھے.اب کیا ہو سکتا تھا.انہوں نے کہا اللہ جس کام کو کرنا چاہتا ہے وہ تو بہر حال ہو کر رہتا ہے.501 دوسری روایت یہ بھی ہے کہ حضرت خالد نے مالک بن نویرہ کو اپنے پاس بلایا.سجان کا ساتھ دینے اور زکوۃ روکنے کے سلسلہ میں اس کو تنبیہ فرمائی اور اسے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ زکوۃ نماز کی ساتھی ہے یعنی دونوں ایک جیسے ہی حکم ہیں اور تم نے زکوۃ کو دینے سے انکار کر دیا تھا.مالک نے کہا تمہارے صاحب کا یہی خیال تھا یعنی بجائے اس کے کہتا کہ رسول اللہ صلی الی یوم کا یہ خیال تھا.رسول کے بجائے صاحب یا سا تھی کہہ کر پکارا.حضرت خالد نے فرمایا کیا وہ ہمارے صاحب ہیں.تمہارے صاحب نہیں؟ پھر حکم دیا اے خیر ار اس کی گردن اڑا دو.پھر اس کی گردن اڑا دی گئی.مالک بن نویرہ کے قتل پر رد عمل 502 اس کے مرنے کی ایک روایت یہ ہے.تواریخ کی روایات کے مطابق اس سلسلہ میں ابو قتادہ نے خالد سے گفتگو کی اور دونوں کے درمیان بحث ہوئی اور ابو قتادہ حضرت خالد سے اختلاف کرتے ہوئے لشکر کو چھوڑ کر حضرت ابو بکر کے پاس چلے آئے اور حضرت ابو بکر سے شکایت کی کہ خالد نے مالک بن نویرہ کو قتل کروایا ہے جبکہ وہ مسلمان تھا اور پھر اس کی بیوی سے شادی کر لی ہے اور نہ ہی عرب کے لوگ دورانِ جنگ اس طرح کی شادی کو اچھی بات سمجھتے تھے.حضرت عمرؓ نے بھی ابو قتادہ کے موقف کی پر زور حمایت کی.503
ناب بدر جلد 2 204 حضرت ابو بکر صدیق 504 حضرت ابو بکر ابو قتادہ سے اس بات پر سخت برہم ہوئے کہ وہ امیر لشکر حضرت خالد کی اجازت کے بغیر لشکر کو چھوڑ کر مدینہ آئے ہیں اور ان کو حکم دیا کہ وہ حضرت خالد کے پاس واپس جائیں.چنانچہ ابو قتادہ حضرت خالد کے پاس واپس چلے گئے.تاریخ طبری میں اس کی مزید تفصیل یوں مذکور ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر کی خدمت میں عرض کیا کہ خالد ایک مسلمان کے خون کا ذمہ دار ہے اور اگر یہ بات ثابت نہ ہو سکے تو اس قدر تو ثابت ہے کہ جس سے ان کو قید کر دیا جائے.اس معاملے میں کہ قتل تو بہر حال ہوا ہے حضرت عمرؓ نے بہت اصرار کیا.چونکہ حضرت ابو بکر اپنے عمال اور فوجی افسران کو کبھی قید نہیں کرتے تھے اس لیے انہوں نے فرمایا اے عمر ! اس معاملے میں خاموشی اختیار کرو.خالد بن ولید سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے.تم ان کے بارے میں ہر گز کچھ مت کہو اور حضرت ابو بکر نے مالک کا خون بہا ادا کر دیا.حضرت ابو بکر نے خالد کو خط لکھ کر آنے کو کہا.وہ آئے اور انہوں نے اس واقعہ کی پوری تفصیل بیان کی اور معذرت چاہی.حضرت ابو بکر نے ان کی معذرت قبول کی.505 ایک روایت میں حضرت خالد کے مدینہ حاضر ہونے کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ خالد اس مہم سے پلٹ کر مدینہ آئے اور مسجد نبوی میں داخل ہوئے.جب مسجد میں آئے تو حضرت عمرؓ نے ان سے کہا تم نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا اور پھر اس کی بیوی پر قبضہ کر لیا.بخدا میں تم کو سنگسار کروں گا.خالد نے اس وقت ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت ابو بکر کا بھی یہی خیال ہے.وہ حضرت ابو بکر کے پاس چلے گئے.سارا واقعہ سنایا.معذرت چاہی اس پر حضرت ابو بکر نے ان کی معذرت قبول فرمائی.حضرت ابو بکر کی خوشنودی حاصل کر کے وہ اٹھ آئے.حضرت عمر مسجد میں بیٹھے تھے.خالد نے کہا: اے ام شملہ کے بیٹے میرے پاس آؤ.کیا کہتے ہو.حضرت عمررؓ سمجھ گئے کہ حضرت ابو بکر ان سے راضی ہو گئے ہیں جو حضرت خالد اُس طرح بات کر کے جارہے ہیں.حضرت عمر خاموشی سے اٹھ کر اپنے گھر چلے گئے اور خالد سے کوئی بات نہیں کی.ایک اور روایت کے مطابق مالک کا بھائی مستقم بن نویرہ حضرت ابو بکر کے پاس اپنے بھائی کا قصاص لینے آیا اور اس نے درخواست کی کہ ہمارے قیدی رہا کر دیے جائیں.حضرت ابو بکر نے قیدیوں کی رہائی کے لیے اس کی درخواست قبول کر لی اور حکم لکھ دیا اور مالک کی دیت ادا کر دی.حضرت عمرؓ نے حضرت خالد کے متعلق ابو بکر سے سخت اصرار کیا کہ ان کو بر طرف کر دیا جائے اور کہا کہ ان کی تلوار میں بے گناہ مسلمان کا خون ہے مگر حضرت ابو بکر نے کہا عمرا یہ نہیں ہو سکتا.میں اس تلوار کو جسے اللہ نے کفار کے لیے نیام سے نکالا ہے پھر نیام میں نہیں رکھوں گا.17 506 507 مالک بن نویرہ کا قتل اور حضرت خالد بن ولید کی بریت جب حضرت ابو بکر نے دیت ادا کر دی تو شریعت کے مطابق انصاف تو پھر قائم ہو گیا اور مزید
اصحاب بدر جلد 2 205 حضرت ابو بکر صدیق کارروائی کی ضرورت نہیں تھی اس لیے حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ اس قصے کو اب بند کر و.اس بارے میں مالک بن نویرہ کا جو قصہ ہے، اس کے قتل کی بابت جو الزام ہے اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی لکھتے ہیں.تحفہ اثنا عشریہ ان کی کتاب ہے اس میں لکھتے ہیں کہ : مة الله سة دراصل جو واقعہ پیش آیا اس کی تعبیر ان لوگوں نے صحیح بیان نہیں کی اور جب تک صحیح حالات نہ معلوم ہوں اس وقت تک اعتراض کی بے وقعتی ظاہر ہے.سیرت و تاریخ کی معتبر کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ مدعی نبوت طلیحہ بن خویلد اسدی کی مہم سے حضرت خالد جب فارغ ہو کر نواح بطاخ کی طرف متوجہ ہوئے تو اطراف اور جوانب کی طرف فوجی دستے روانہ کیے اور حضور نبی کریم صلی علیکم کے ارشاد اور طریقے کے مطابق ان کو ہدایت کی کہ جس قوم قبیلہ اور گروہ پر چڑھائی کر دوہاں سے اگر تمہیں اذان سنائی دے تو وہاں قتل و غارت گری سے باز رہو.اگر اذان سنائی نہ دے تو اسے دار الحرب قرار دے کر پوری فوجی کارروائی کرو.اتفاقاً اس دستہ میں جناب ابو قتادہ انصاری بھی تھے جو مالک بن نویرہ کو پکڑ کر حضرت خالد کے پاس لائے جس کو نبی کریم صلی یک کم کی جانب سے بطان کی سرداری ملی ہوئی تھی اور اس کے گردو نواح کے صدقات کی وصولی بھی اسی کے سپرد تھی.جناب ابو قتادہ نے اذان سننے کی گواہی دی مگر اسی دستے کی ایک جماعت نے کہا کہ ہم نے اذان کی آواز نہیں سنی مگر اس کے پیشتر گردو نواح کے معتبرین کے ذریعہ یہ بات حتمی اور ثبوتی طور پر معلوم ہو چکی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ نیلم کے وصال کی خبر سن کر مالک بن نویرہ کے اہل خانہ نے خوب جشن منایا تھا.عورتوں نے ہاتھوں میں مہندی رچائی تھی، ڈھول بجائے تھے اور خوب خوب فرحت و شادمانی کا اظہار کیا تھا اور مسلمانوں کی اس مصیبت پر خوش ہوئے تھے.پھر مزید ایک بات یہ ہوئی کہ مالک بن نویرہ سے سوال و جواب کے دوران اس کے منہ سے حضور اکرم صلی علیہم کے لیے ایسے الفاظ نکلے جس کے کفار اور مرتدین اپنی گفتگو میں عادی تھے اور استعمال کرتے تھے.یعنی قَالَ رَجُلُكُمْ أَوْ صَاحِبُكُم کہ تمہارے آدمی یا تمہارے ساتھی نے ایسا کہا.علاوہ ازیں یہ بات بھی منکشف ہو چکی تھی کہ حضور اکرم صلی نیلم کے وصال کی خبر سن کر مالک بن نویرہ نے وصول شدہ صدقات بھی اپنی قوم کو یہ کہہ کر واپس کر دیے تھے کہ اچھا ہوا اس شخص کی موت سے تم نے مصیبت سے چھٹکارا پا لیا.ان حالات اور اپنے سامنے اس کی گفتگو کے انداز سے حضرت خالد کو اس کے ارتداد کا یقین ہو گیا اور آپ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا اور جب مدینہ میں اس واقعہ کی اطلاع پہنچی اور پھر جناب ابو قتادہ بھی آپ سے ناراض ہو کر دار الخلافہ پہنچے اور قصور وار حضرت خالد کو ہی ٹھہرایا.تو ابتداء حضرت عمر فاروق کا یہی خیال تھا کہ خون ناحق ہوا ہے اور قصاص واجب ہے مگر حضرت ابو بکر نے حضرت خالد کو طلب فرما کر تفتیش حال کی.ان سے پورا واقعہ پوچھا اور حالات و واقعات کا سارا راز آپ پر منکشف ہوا تو آپ نے ان کو بے قصور قرار دے کر ان سے کچھ تعارض نہ کیا اور ان کو اسی سابقہ عہدے پر بحال رکھا.508
حاب بدر جلد 2 206 حضرت ابو بکر صدیق مالک بن نویرہ کے قتل کے متعلق ایک اور مصنف لکھتے ہیں کہ مالک بن نویرہ کے سلسلہ کی روایات میں بہت زیادہ اختلاف ہے.ان کے بارے میں جو روایات ہیں ان میں بہت اختلاف ہے کہ آیا وہ مظلوم قتل ہوا یا یہ کہ وہ قتل کا مستحق تھا.مالک بن نویرہ کو جس چیز نے ہلاک کیا وہ اس کا کبر اور غرور اور تمرد تھا.جاہلیت اس کے اندر باقی رہی ورنہ رسول اللہ صلی اللی کم کے بعد خلیفہ رسول کی اطاعت اور بیت المال کے حق زکوۃ کی ادائیگی میں ٹال مٹول نہ کرتا.یہ لکھتے ہیں کہ میرے تصور کے مطابق یہ شخص سرداری اور قیادت کا شوقین تھا اور ساتھ ہی ساتھ بنو تمیم کے سرداروں میں سے اپنے ان بعض اقارب سے اس کو خلش تھی جنہوں نے اسلامی خلافت کی اطاعت قبول کر لی تھی اور حکومت کے سلسلہ میں اپنے واجبات کو ادا کر دیا تھا.جو لوگ خلافت کی اطاعت میں آگئے تھے اور زکوۃ وغیرہ ادا کر رہے تھے ان سے اس کو خلش تھی.اس کے اقوال و افعال دونوں ہی اس تصور کی تائید کرتے ہیں.اس کا مرتد ہونا اور سجاخ کا ساتھ دینا، زکوۃ کے اونٹوں کو اپنے لوگوں میں تقسیم کر دینا، زکوۃ کا ابو بکر کو دینے سے روکنا، تمرے ڈو عصیان کے سلسلہ میں اپنے قرابت دار مسلمانوں کی نصیحتوں کو نہ سننا یہ سب اس پر فرد جرم ثابت کرتے ہیں اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ شخص اسلام کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھا.ایک طرف مسلمان کہلا تا تھا، کہلانا چاہتا تھا اور دوسری طرف کفر کے قریب تھا اور اگر مالک بن نویرہ کے خلاف کوئی حجت و دلیل نہ ہو تو اس کا صرف زکوۃ روک لینا ہی اس پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے کافی ہے.متقدمین کے یہاں یہ ایک ثابت شدہ حقیت ہے کہ اس نے زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کیا تھا.ابن عبد السلام کی كتاب طبقات محولُ الشُّعراء میں ہے کہ یہ متفق علیہ بات ہے کہ خالد نے مالک سے گفتگو کی اور اس کو اس کے موقف سے پھیرنے کی کوشش کی لیکن مالک نے نماز کو تسلیم کیا.اس نے کہا نماز تو پڑھ لوں گا اور زکوۃ سے اعراض کیا اور شرح مسلم میں امام نووی مرتدین کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ انہی کے ضمن میں وہ حضرات بھی تھے جو ز کوۃ کو تسلیم کرتے تھے اور اس کی ادائیگی سے رکے نہیں تھے لیکن ان کے سرداروں نے انہیں اس سے روک دیا.بعض لوگ چاہتے تھے کہ جن پر نمازوں کے ساتھ زکوۃ بھی فرض ہے وہ زکوۃ ادا کریں لیکن سرداروں نے اسے روک دیا اور ان کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے جیسا کہ بنویز بوع.انہوں نے اپنی زکوۃ اکٹھی کی اور اس کو ابو بکر کے پاس بھیجنا چاہتے تھے لیکن مالک بن نویرہ نے انہیں روک دیا اور ان کی زکوۃ کو لوگوں میں تقسیم کر دیا.حضرت ابو بکر نے مالک بن نویرہ کے معاملے میں پوری تحقیق کی اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ خالد بن ولید مالک بن نویرہ کے قتل کے اتہام میں بری ہیں.ابو بکر اس سلسلہ میں حقائق امور سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ واقف تھے اور گہری نگاہ رکھتے تھے کیونکہ آپ خلیفہ تھے اور تمام خبریں آپ کو پہنچتی تھیں اور آپ کا ایمان بھی سب پر بھاری تھا.خالد کے ساتھ تعامل میں آپ رسول اللہ صلی ایم کی سنت کی پیروی کر رہے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی الیم نے خالد کو جو ذمہ داری سونپی اس سے انہیں کبھی معزول نہیں کیا اور اگر چہ ان سے بعض ایسی چیز میں صادر ہوئیں جن سے آپ مطمئن نہ تھے.آپ ان کے عذر کو قبول فرماتے اور لوگوں سے فرماتے یعنی آنحضرت صلی علیم خالد کے عذر کو قبول فرماتے اور لوگوں سے فرماتے خالد کو تکلیف مت پہنچاؤ.وہ اللہ کی الله
حاب بدر جلد 2 207 حضرت ابو بکر صدیق 509 تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کفار پر مسلط کر دیا تھا.ام تمیم بنت منہال سے حضرت خالد کی شادی اور ایک اعتراض کا جواب پھر ایک اور اعتراض اسی ضمن میں آگے یہ بھی آتا ہے کہ حضرت خالد نے ائتم تمیم بنت منهال سے شادی کی تھی.حضرت خالد بن ولیڈ کے متعلق اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپ نے دوران جنگ لیلی بنت منہال سے شادی کی اور عدت گزرنے کا بھی انتظار نہیں کیا.اس شادی کے متعلق تاریخ طبری میں ان الفاظ میں ذکر ہے کہ حضرت خالد نے ام تمیم میں ہال کی بیٹی سے نکاح کیا تھا اور زمانہ طہر کو ختم کرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا کیونکہ عرب جنگ کے دوران عورتوں سے تعلقات کو برا سمجھتے تھے اور جو ایسا کرتا اسے طعنہ دیتے تھے.510 علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب وہ یعنی لیلیٰ بنت منہال حلال ہو گئی تو حضرت خالد نے اس سے شادی کی.511 علامہ ابن خل حمان لکھتے ہیں کہ ام تمیم نے تین مہینے گزار کر اپنی عدت پوری کی اور پھر حضرت خالد نے اسے نکاح کا پیغام بھیجا جو اس نے قبول کر لیا.512 حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دراصل یہ قصہ ہی من گھڑت ہے اس لیے کہ کسی مستند اور معتبر کتاب میں اس کی کوئی روایت نہیں ملتی.بعض غیر معتبر کتابوں میں یہ روایت ملتی بھی ہے تو اس کا جواب بھی ساتھ ساتھ اسی روایت میں موجود ہے کہ مالک بن نویرہ نے اس عورت کو ایک عرصہ سے طلاق دے رکھی تھی.یہ کہا جاتا ہے کہ مالک بن نویرہ کی بیوی تھی اور اس کو قتل کر کے حضرت خالد بن ولید نے شادی فوراً کر لی اور اصل میں قتل ہی اس لیے کیا تھا کہ شادی کرنا چاہتے تھے لیکن بہر حال یہ کہتے ہیں کہ مالک بن نویرہ نے اس عورت کو ایک عرصہ سے طلاق دے رکھی تھی اور اس نے جاہلیت کی پائیداری میں اسے یوں ہی گھر میں ڈال رکھا تھا.اسی رسم جاہلیت کے توڑنے پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی تھی.و إذَا طَلَقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں روکے نہ رکھو.لہذا اس عورت کی عدت تو کب کی پوری ہو چکی تھی اور نکاح حلال ہو چکا تھا.513 کیونکہ اس نے طلاق دے کر صرف اپنے گھر میں رکھا ہوا تھا.حضرت خالد کی شادی کے متعلق ایک اور مصنف لکھتے ہیں کہ ام تمیم کا نام لیلیٰ بنت سنان منہال تھا.یہ مالک بن نویرہ کی بیوی تھی.حضرت خالد کی اس سے شادی سے متعلق بڑا جدال واقع ہوا ہے.بڑی لڑائی جھگڑے ہوتے رہے ، بڑی بحثیں چلیں.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے خالد پر اتہام باندھا کہ وہ ام تمیم کے حسن و جمال پر فریفتہ تھے اور اس سے عشق رکھتے تھے اس لیے صبر نہ کر سکے اور قید میں آتے ہی اس سے شادی کر لی.
حضرت ابو بکر صدیق حاب بدر جلد 2 اس پر طعن و 208 اس کا مطلب یہ ہوا کہ نعوذ باللہ یہ شادی نہیں بلکہ زنا تھا لیکن یہ قول من گھڑت اور صریح جھوٹ ہے.اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ قدیم مراجع مصادر میں اس کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا.جو بھی روایتیں ہیں یا سورسز (Sources) ہیں ان میں کوئی ثبوت نہیں جو ثابت ہو رہا ہو.علامہ ماؤر دی فرماتے ہیں کہ خالد نے مالک بن نویرہ کو اس لیے قتل کیا تھا کہ اس نے زکوۃ روک لی تھی جس کی وجہ سے اس کا خون حلال ہو گیا تھا اور اس کی وجہ سے ام تمیم سے اس کا نکاح فاسد ہو گیا تھا اور یر تدین کی عورتوں کے سلسلہ میں شرعی حکم یہ ہے کہ جب وہ دارالحرب سے جاملیں تو ان کو قید کیا جائے قتل نہ کیا جائے.جیسا کہ امام سرخسی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے.جب ام تمیم قیدی بن کر آئی تو خالد نے اس کو اپنے لیے منتخب کر لیا اور جب وہ حلال ہو گئی تب اس نے اس سے ازدواجی تعلقات قائم کیے اور شیخ احمد شاکر اس مسئلہ پر تعلیق چڑھاتے ہوئے کہتے ہیں، مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خالد نے ام تمیم اور اس کے بیٹے کو ملک یمین کے طور پر لیا تھا کیونکہ وہ جنگی قیدی تھیں اور اس طرح کی خواتین کے لیے کوئی عدت نہیں.اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل تک اس کے مالک کا اس کے قریب ہونا حرام ہے.اگر حاملہ نہیں ہے تو صرف ایک مرتبہ حیض آنے تک دور رہے گا.پر مشروع اور جائز ہے و تشنیع کی گنجائش نہیں لیکن خالد کے مخالفین اور دشمنوں نے اس موقع کو اپنے لیے غنیمت سمجھا اور اس زعم باطل میں مبتلا ہوئے کہ مالک بن نویرہ مسلمان تھا اور خالد نے اس کو اس کی بیوی کے لیے قتل کر دیا.اسی طرح خالد پر یہ اتہام لگایا گیا کہ انہوں نے اس شادی کے ذریعہ سے عرب کے عادات و اطوار کی مخالفت کی ہے.چنانچہ عقاد کا کہنا ہے کہ خالد نے مالک بن نویرہ کو قتل کر کے اس کی بیوی سے میدانِ قتال میں شادی کی جو جاہلیت اور اسلام میں عربوں کی عادت کے خلاف اور اسی طرح مسلمانوں کی عادات اور اسلامی شریعت کے حکموں کے منافی ہے.عقاد کا یہ قول سچائی سے بالکل دور ہے.عربوں کے ہاں اسلام سے قبل بہت دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ جنگوں اور دشمنوں پر فتح یابی کے بعد خواتین سے شادیاں کرتے تھے اور انہیں اس پر فخر ہوتا تھا.ڈاکٹر علی محمد صلابی اس بارے میں لکھتے ہیں، یہ سارا واقعہ یہی بیان کر رہے ہیں کہ شرعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خالد نے ایک جائز کام کیا اور اس کے لیے شرعاً جائز طریقہ اختیار کیا اور یہ فعل تو اس ذات سے بھی ثابت ہے جو خالد سے افضل تھے.اگر خالد پر یہ اعتراض ہے کہ انہوں نے جنگ کے دوران میں یا اس کے فوراً بعد شادی کی تو رسول الله صلى اللعلم نے غزوہ مریسیع کے فوراً بعد تجویریہ بنت حارث سے شادی کر لی تھی اور یہ اپنی قوم کے لیے بڑی بابرکت ثابت ہوئی تھیں کہ اس شادی کی وجہ سے ان کے خاندان کے سو آدمی آزاد کر دیے گئے کیونکہ وہ رسول اللہ صلی ایم کے سسرالی رشتہ میں آگئے اور اس شادی کے بابرکت اثرات میں سے یہ ہوا کہ ان کے والد حارث بن ضرار مسلمان ہو گئے.اسی طرح رسول اللہ صلی الیم نے غزوہ خیبر کے فوراً بعد صفیہ بنت حُيَى بنت اخطب سے شادی کی اور جب رسول اللہ صلی للی کم کا اس سلسلہ میں اسوہ اور نمونہ موجو د ہے تو عتاب اور ملامت کی کوئی وجہ نہیں.514
حاب بدر جلد 2 209 حضرت ابو بکر صدیق حضرت خالد بن ولید کو بلا وجہ اس پر الزام لگایا جائے اس لیے یہ تفصیل میں نے بیان کی ہے کہ بعض کم علم آج کل بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں اور حضرت ابو بکر پر اصل میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اس بارے میں صحیح تھے اور حضرت ابو بکر نے نعوذ باللہ انصاف سے کام نہیں لیا اور غلط رنگ میں حضرت خالد بن ولید کی حمایت کی ہے حالانکہ یہ ساری تفصیلات جو انہوں نے دیکھیں، حضرت ابو بکر نے سارا جائزہ لیا پھر فیصلہ کیا اور اس سارے الزام سے حضرت خالد کو بری فرمایا.مسیلمہ کے مقابلہ کے لئے حضرت خالد کی یمامہ کی طرف روانگی حضرت خالد کی یمامہ کی طرف روانگی کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے حضرت خالد بن ولید کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ وہ قبیلہ اسد ، غطفان اور مالک بن نویرہ وغیرہ سے فارغ ہو کر یمامہ کا رخ کریں اور اس کی بڑی تاکید کر رکھی تھی.شریک بن عَبدَه فَزَارِی بیان کرتے ہیں.میں ان لوگوں میں سے تھا جو معرکہ بُزاخہ میں شریک تھے.حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے مجھے خالد کی طرف روانہ کیا.میرے ساتھ حضرت خالد کے نام ایک خط تھا جس میں لکھا تھا کہ اما بعد! تمہارے پیغام رساں کے ذریعہ سے تمہارا خط ملا.اس میں معرکہ بُزاہ میں اللہ کی فتح اور نصرت کا تم نے ذکر کیا ہے اور اسد وغطفان کے ساتھ جو معاملہ تم نے کیا ہے وہ مذکور ہے اور تم نے تحریر کیا ہے کہ میں یمامہ کی طرف رخ کر رہا ہوں.تمہیں میری وصیت ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک سے تقویٰ اختیار کرو اور تمہارے ساتھ جو مسلمان ہیں ان کے ساتھ نرمی بر تو.ان کے ساتھ باپ کی طرح پیش آؤ.اے خالد ! خبر دار بنی مغیرہ کی نخوت و غرور سے بچنا.میں نے تمہارے متعلق ان کی بات نہیں مانی ہے جن کی بات میں کبھی نہیں ٹالتا.لہذا تم جب بنو حنیفہ سے مقابلہ میں اتر و تو ہوشیار رہنا.یادر کھو! بنو حنیفہ کی طرح اب تک کسی سے تمہارا مقابلہ نہیں پڑا.وہ سب کے سب تمہارے خلاف ہیں اور ان کا ملک بڑا وسیع ہے.لہذا جب وہاں پہنچو تو بذاتِ خود فوج کی کمان سنبھالو.میمنہ پر ایک شخص کو اور میسرہ پر ایک شخص کو اور شہسواروں پر ایک کو مقرر کرو.اکابرین صحابہ اور مہاجرین و انصار میں سے جو تمہارے ساتھ ہیں ان سے برابر مشورہ لیتے رہو اور ان کے فضل و مقام کو پہچانو.پوری تیاری کے ساتھ میدانِ جنگ میں جب دشمن صف بستہ ہوں تو ان پر ٹوٹ پڑو.تیر کے مقابلے میں تیر ، نیزے کے مقابلے میں نیزہ، تلوار کے مقابلے میں تلوار.ان کے قیدیوں کو تلواروں پر اٹھالو.قتل کے ذریعہ ان میں خوف و ہراس پیدا کرو.ان کو آگ میں جھونکو.خبر دار میری حکم عدولی نہ کرنا.وَالسّلامُ عَلَيْكَ یہ خط جب خالد کو ملا تو آپ نے اس کو پڑھا اور کہا ہم نے سن لیا اور ہم اس کی مکمل فرمانبرداری کریں گے.خالد نے مسلمانوں کو اپنے ساتھ تیار کیا اور بنو حنیفہ یعنی مسیلمہ یا جن کی سر براہی مسیلمہ کذاب کر رہا تھا ان سے قتال کے لیے روانہ ہوئے.انصار پر ثابت بن قیس بن شماس امیر مقرر تھے.مرتدین میں سے جن سے راستہ میں واسطہ پڑتا اس کو عبرت ناک سزا دیتے.ادھر حضرت ابو بکر نے
ناب بدر جلد 2 210 حضرت ابو بکر صدیق بے سے خالد کی حفاظت کے لیے ایک بہت بڑی فوج بہترین اسلحہ سے لیس روانہ کی تاکہ لشکر خالد پر ٹی پیچھے سے حملہ آور نہ ہو سکے.خالد کا گزر یمامہ کے راستے میں بہت سے بد و قبائل سے ہوا جو مرتد ہو چکے تھے.ان سے جنگ کر کے انہیں اسلام کی طرف واپس لائے.راستہ میں سجاخ کی بچی کچھی فوج ملی ان کی خبر لی.انہیں قتل کیا اور عبرت ناک سزائیں دیں.پھر یمامہ پر حملہ آور ہوئے.515 جنگ یمامہ 517 یمامہ یمن کا ایک مشہور شہر ہے.آج کل یہ علاقہ سعودی عرب میں واقع ہے.516 یمامہ ایک انتہائی سرسبز اور زرخیز علاقہ تھا.چنانچہ یمامہ کے بارے میں لکھا ہے کہ یمامہ خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک شہر تھا اور اس میں مال، درخت اور کھجوریں بکثرت تھیں.ل ، درخت او یمامہ میں بنو حنیفہ آباد تھے جو سخت جنگجو قوم تھی.ان کے بارے میں تفسیر قرطبی میں آیت ستُدعَوْنَ إلى قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ (17) کہ تم عنقریب ایک ایسی قوم کی طرف بلائے جاؤ گے جو سخت جنگجو ہو گی.تم ان سے قتال کرو گے یاوہ مسلمان ہو جائیں گے ، کی تفسیر میں لکھا ہے کہ : حسن کہتے ہیں کہ سخت جنگجو قوم سے مراد فارس اور روم ہیں.ابن جبیر کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہوازن اور ثقیف کے قبائل ہیں.زہری اور مقاتل کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنو حنیفہ ہیں جو یمامہ میں رہنے والے ہیں اور مسیلمہ کے ساتھی تھے.رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ ہم یہ آیت پڑھتے تھے لیکن ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ یہ جنگجو قوم کون ہے.یہاں تک کہ حضرت ابو بکر نے ہمیں بنو حنیفہ سے قتال کے لیے بلایا تو ہمیں پتہ چلا کہ ان سے مراد یہ قوم ہے.518 مسیلمہ کذاب کا مدینہ میں آنا جب رسول اللہ صلی الم نے 17 ہجری کی ابتدا میں یا بعض کے نزدیک 16 ہجری میں مختلف ممالک کے بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تو ایک خط یمامہ کے بادشاہ ہوزہ بن علی اور اہل یمامہ کے نام بھی لکھا جس میں اسے اور یمامہ والوں کو اسلام کی طرف دعوت دی.جب 19 ہجری میں مختلف وفود مدینہ آئے تو یمامہ سے بنو حنیفہ کا وفد بھی آیا.اس وفد میں مُجاعہ بن مُرارہ بھی تھے جسے رسول اللہ صلی العلیم نے جاگیر میں ایک غیر آباد زمین عطا فرمائی تھی جس کی اس نے درخواست کی تھی.اس وفد میں رجال بن عُنْفُوہ بھی تھا اس کے علاوہ مسیلمہ کذاب، تمامہ بن کبیر بن حبیب بھی تھا.ابن ہشام کے نزدیک اس کا نام مسلیمہ بن ثمامہ تھا اور اس کی کنیت ابو ثمامہ تھی.بنو حنیفہ کا یہ وفد مدینہ میں انصار کی ایک عورت رنکہ
اصحاب بدر جلد 2 211 حضرت ابو بکر صدیق بنت حارث کے گھر ٹھہرا.519 الناس جب رسول کریم صلی اللہ نام کی بیعت کرنے کے لیے متواتر وفود آئے تو آنحضور صلی ا ہم نے مدینہ میں ایک گھر مقرر کر لیا تھا جہاں وفود ٹھہرتے تھے.یہ گھر رملہ بنت حارث کا تھا جو بنو نجار کی ایک خاتون کھیں.یہ ایک بہت وسیع مکان تھا.520 جب بنو حنیفہ کے یہ لوگ رسول کریم صلی یکی کم سے ملاقات کے لیے گئے تو مسیلمہ کو اپنے ساتھ لے کر نہیں گئے.اسے اپنے سامان کی حفاظت کی خاطر پیچھے چھوڑ گئے.جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو انہوں نے مسیلمہ کے بارے میں ذکر کیا اور کہا یارسول اللہ ! ہم اپنے ایک ساتھی کو پیچھے اپنے سامان اور سواریوں کے پاس چھوڑ آئے ہیں.وہ ہمارے لیے ہمارے سامان کی حفاظت کر رہا ہے تو رسول اللہ صلی علیکم نے مسیلمہ کے لیے بھی اسی قدر تحائف کا حکم دیا جس قدر لوگوں کو دینے کا ارشاد فرمایا تھا اور فرمایا: وہ مرتبہ میں تم سے کم تر نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں کے سامان کی حفاظت کر رہا ہے.پھر وہ وفد رسول اللہ صلی الی یکم کے پاس سے چلا گیا اور جو آپ صلی علیہ ہم نے مسیلمہ کے لیے دیا تھاوہ بھی لے گئے.521 اس بیان کردہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیلمہ کے علاوہ بنو حنیفہ کے وفد میں موجود تمام افراد کی رسول کریم صلی ال یکم سے ملاقات ہوئی تھی مگر بعض روایات ایسی بھی ملتی ہیں جن میں مسیلمہ کی رسول کریم صلی علیم سے ملاقات کا ذکر موجود ہے.عموماً اسی بارے میں روایات ہیں کہ مسیلمہ ملا.اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے جب دوسری دفعہ آیا ہو تب ملا ہو.بہر حال اس کی تفصیل میں مزید لکھا ہے کہ جب یہ وفد رسول کریم صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس میں مسیلمہ بھی موجود تھا جو دوسری جگہ لکھا ہے.وہ لوگ مسیلمہ کو رسول اللہ صلی اللی کمک کے پاس اس حالت میں لائے کہ اس کو کپڑوں سے ڈھانپا گیا تھا.حضور صلی اللہ ظلم صحابہ کرام میں تشریف فرما تھے.آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی.مسیلمہ نے آپ سے گفتگو کی اور کچھ مطالبات کیے.آپ نے فرمایا کہ اگر تو مجھ سے یہ کھجور کی الله سة سة شاخ بھی مانگے جو میرے ہاتھ میں ہے تو میں وہ بھی تجھے نہیں دوں گا.522 حیح بخاری میں موجود روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیلمہ رسول کریم صلی الیہ کمی سے ملاقات کے لیے نہیں گیا تھا بلکہ رسول کریم صلی اللہ ہم خود اس کے پاس تشریف لے گئے تھے.چنانچہ عبید اللہ بن الله سة عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ ہمیں یہ خبر پہنچی کہ مسیلمہ کذاب مدینہ آیا اور حارث کی بیٹی کے میں اترا اور حارث بن گریز کی بیٹی اس کی بیوی تھی اور وہ عبد اللہ بن عامر کی ماں تھی.رسول اللہ صلی علیم اس کے پاس آئے اور آپ صلی الیکم کے ساتھ حضرت ثابت بن قیس بن شماس تھے اور یہ رسول اللہ صلی علیکم کے خطیب کہلاتے تھے اور رسول اللہ صلی علیہ نام کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی.آپ مسیلمہ کے پاس کھڑے ہوئے اور اس سے گفتگو کی.مسیلمہ نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو ہمارے درمیان اور اس معاملے کے درمیان ہمیں چھوڑ دیں.پھر آپ اسے اپنے بعد ہمارے لیے مقرر کر دیں.یعنی نبوت کا جو
ناب بدر جلد 2 212 حضرت ابو بکر صدیق معاملہ ہے اس کا جو فیصلہ ہو یا آپ کے بعد نبوت ہمیں مل جائے.یہی اس کا زیادہ بڑا مطالبہ تھا.تو نبی کریم صلی الم نے فرمایا کہ اگر تم مجھے سے یہ چھڑی بھی مانگو تو میں تمہیں یہ نہیں دوں گا اور میں تجھے وہی شخص سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے خواب دکھائی گئی ہے جو مجھے دکھائی گئی.اور یہ ثابت بن قیس ہے ، وہ میری طرف سے تمہیں جواب دے گا.پھر نبی صلی اللہ علم واپس تشریف لے گئے.523 اسی طرح ایک اور روایت میں ذکر ہے حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ مسیلمہ کذاب رسول اللہ صلی علیم کے زمانے میں آیا اور کہنے لگا کہ اگر محمد صلی علی تم اپنے بعد مجھے جانشین بنائیں تو میں ان کی پیروی کروں گا.یہ پھر پہلی روایت کی وضاحت ہوتی ہے اور وہ وہاں اپنی قوم کے بہت سے لوگوں کے ساتھ آیا تھا.رسول اللہ صلی امیہ کی اس کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ نام کے ساتھ حضرت ثابت بن قیس بن اس تھے اور رسول اللہ صلی الی ایم کے ہاتھ میں کھجور کی ایک چھڑی تھی یہاں تک کہ آپ مسیلمہ کے سامنے جبکہ وہ اپنے ساتھیوں میں تھا کھڑے ہو گئے.آپ نے فرمایا اگر تو مجھ سے یہ چھڑی بھی مانگے تو میں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا اور تو اپنے متعلق ہر گز اللہ کے فیصلے سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگر تُو نے پیٹھ پھیری تو اللہ تیری جڑ کاٹ دے گا اور میں دیکھتا ہوں کہ تو وہی شخص ہے جس کے متعلق مجھے خواب میں بہت کچھ دکھایا گیا ہے.اور یہ ثابت ہیں یعنی ثابت بن قیس جو میری طرف سے تجھے جواب دیں گے.پھر آپ صلی الی تم اس کو چھوڑ کر واپس چلے گئے.یہ روایت بھی بخاری کی ہے.524 حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم کے اس ارشاد کے متعلق پوچھا کہ تم کو میں وہی شخص پاتا ہوں جس کے متعلق مجھے خواب میں وہ کچھ دکھایا گیا جو دکھایا گیا.حضرت ابوہریرہ نے مجھ سے کہا.رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا ایک بار میں سویا ہوا تھا اس اثنا میں میں نے اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے.( یہ خواب کا ذکر ہو رہا ہے) ان کی کیفیت نے مجھے فکر میں ڈال دیا.آنحضرت صلی علیکم نے فرمایا میں نے خواب میں کنگن دیکھے اس کیفیت نے مجھے فکر میں ڈالا.پھر مجھے خواب میں وحی کی گئی کہ میں ان پر پھونکوں.چنانچہ میں نے ان پر پھونکا اور وہ اُڑ گئے.میں نے ان کی تعبیر دو جھوٹے شخص سمجھے جو میرے بعد ظاہر ہوں گے.راوی عبید اللہ نے کہا.ان میں سے ایک وہ عیسی ہے جس کو فیروز نے یمن میں مار ڈالا اور دوسرا مسیلمہ کذاب ہے.یہ بھی بخاری کی روایت ہے.525 بہر حال مندرجہ بالا روایات سے یہی لگتا ہے کہ مسیلمہ کذاب ایک سے زیادہ مرتبہ مدینہ آیا تھا.ایک مرتبہ اُس وقت جب اُس کے وفد والے اسے سامان کی حفاظت کے لیے پیچھے چھوڑ گئے تھے اور اس کی ملاقات رسول کریم صلی اللہ کم سے نہ ہو سکی تھی اور دوسری مرتبہ وہ اس وقت مدینہ آیا تھا جب اس کی ملاقات رسول کریم صلی الم سے ہوئی تھی اور جس میں اُس نے رسول کریم صلی ا ہم سے جانشین بننے کا مطالبہ کیا تھا.اس حوالے سے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ مسیلمہ دو دفعہ مدینہ آیا ہو.پہلی دفعہ اس وقت جب بنو حنیفہ کارئیس اس کی بجائے کوئی اور تھا.یعنی اس وقت وہ قبیلہ کا
213 حضرت ابو بکر صدیق اصحاب بدر جلد 2 رئیس نہیں تھا.کوئی اور تھا اور یہ اس کا تابع تھا.اسی وجہ سے اسے سامان کی حفاظت کے لیے پیچھے چھوڑ گئے تھے.اور دوسری مر تبہ وہ اس وقت آیا جب لوگ اس کے تابع تھے اور اس وقت ہی نبی کریم صلی علی یکم کی اس سے گفتگو ہوئی تھی یا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی واقعہ ہو اور وہ اپنی مرضی سے اپنی حمیت اور اس بات پر تکبر کرتے ہوئے کہ وہ نبی کریم صلی الی یم کی مجلس میں حاضر ہو سامان کے پاس رک گیا ہو لیکن نبی کریم صلی ا ہم نے تالیف قلب کی عادت کی وجہ سے اس سے عزت کا سلوک کیا.پھر حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ وہ ایک بڑی تعداد کے ساتھ آیا تھا.کہا جاتا ہے کہ وہ سترہ لوگوں کے ساتھ آیا.یہ بات بھی مسیلمہ کے ایک سے زائد دفعہ مدینہ آنے کی دلیل ہے.26 مسیلمہ کذاب کا دعوی نبوت اور علم بغاوت بلند کرنا بہر حال جب یہ وفد واپس یمامہ پہنچاتو اللہ تعالیٰ کا دشمن مسیلمہ مرتد ہو گیا اور اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور کہا مجھے بھی آپ صلی ایم کے ساتھ نبوت میں شریک کر لیا گیا ہے.کیا جب تم نے رسول اللہ کے پاس میرا ذکر کیا تھا تو انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ مقام و مرتبہ کے اعتبار سے تم سے بُرا نہیں ہے ؟ آپ صلی الم نے یہ صرف اس لیے کہا تھا کہ آپ جانتے تھے کہ آنحضور صلی کم نہیں ہیں اور بنو حنیفہ جانتے تھے کہ مجھے بھی آپ کے معاملے میں شریک کر لیا گیا ہے.پھر مسیلمہ بناوٹ کر کے کلام بنانے لگا اور لوگوں کے لیے قرآن کریم کی نقل کرتے ہوئے کلام بنانے لگا اور ان سے نماز معاف کر دی.اس نے اپنی ہی شریعت شروع کر دی.نماز معاف کر دی.ایک روایت کے مطابق اس نے دو نمازیں نماز عشاء اور فجر معاف کر دی تھی اور لوگوں کے لیے شراب اور زنا کو حلال قرار دے دیا.اس کے ساتھ وہ یہ بھی گواہی دیتا کہ آنحضور صلی اللہ کم ہی ہیں.بنو حنیفہ نے ان باتوں پر اس سے اتفاق کر لیا.ایک اور سبب جس نے مسیلمہ کی طاقت بڑھائی وہ تھا رجال بن عُنْفُوَہ کا اس سے مل جانا.بڑی ہوشیاری سے اس نے ایک تو یہ کہ آسانیاں پیدا کر دیں کہ شریعت میں یہ یہ آسانیاں ہیں اور مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے وحی کی ہے اور ساتھ یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ آنحضور صلی علی میر نبی بھی ہیں تا کہ جو لوگ مسلمان ہوئے تھے ان میں کسی کو یہ احساس پیدا نہ ہو کہ ہمیں یہ آنحضرت صلی ای کم سے دور لے کے جا رہا ہے.بڑی منافقت سے اس نے یہ سارے کام کیے.بہر حال لکھا ہے کہ ایک اور سبب جس نے مسیلمہ کی طاقت بڑھائی وہ تھا رجال بن عُنقوہ کا اس سے مل جانا.یہ شخص بھی یمامہ کا ہی رہنے والا تھا اور بنو حنیفہ کے وفد کے ساتھ بھی آیا تھا.ہجرت کر کے نبی کریم صلی المیہ کم کے پاس مدینہ آ گیا تھا یہاں اس نے قرآن کریم پڑھا اور دینی تعلیم حاصل کی.سة 527 جب مسیلمہ نے ارتداد اختیار کر لیا تو نبی کریم صلی اللہ تم نے اسے اہل یمامہ کی طرف معلم بنا کر بھیجا اور لوگوں کو مسیلمہ کی اطاعت سے روکنے کے لیے بھیجا لیکن یہ مسیلمہ سے زیادہ فتنہ کا باعث ہوا.جب اس نے دیکھا کہ لوگ مسیلمہ کی اطاعت قبول کرتے جارہے ہیں تو وہ ان لوگوں کی نظروں میں اپنے آپ
ناب بدر جلد 2 214 حضرت ابو بکر صدیق کو سر خرو کرنے کے لیے ان کے ساتھ مل گیا.بھیجا تو اس لیے گیا تھا تا کہ وہاں اصلاح کرے اور فتنہ کا تدارک کرے لیکن یہ مسیلمہ کے ساتھ شامل ہو گیا اور مسیلمہ کی نبوت کا جھوٹا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی الم کی جانب سے ایک جھوٹا قول بھی منسوب کیا کہ مسیلمہ رسول کریم صلی الم کے ساتھ نبوت میں شریک کیا گیا ہے.یہ بھی اس نے مشہور کر دیا.قرآن کریم کا علم حاصل کیا تھا اس لیے لوگوں نے اس کی باتوں پر یقین بھی کر لیا.جب اہل یمامہ نے دیکھا کہ ایک ایسا شخص مسیلمہ کی نبوت کی گواہی دے رہا ہے جو کہ رسول اللہ صلی الیکم کے ساتھیوں میں سے ہے اور وہ لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم سے آگاہ کرنے والا ہے تو ان لوگوں کے لیے مسیلمہ کی نبوت سے انکار کی گنجائش نہ رہی اور لوگ جوق در جوق مسیلمہ کے پاس آکر اس کی بیعت کرنے لگے.528 مسیلمہ کا سفیر رسول مصلى العلم حضرت حبیب بن زید کو اذیت دے کر قتل کرنا مسیلمہ نے رسول اللہ صلی للی علم کی طرف ایک خط بھی لکھا جس کا متن اس طرح سے ہے کہ اللہ کے رسول مسیلمہ کی جانب سے محمد رسول اللہ کی طرف.اما بعد ، نصف زمین ہماری ہے اور نصف قریش کی مگر قریش انصاف نہیں کرتے.اس کے جواب میں رسول اللہ صلی علیم نے اسے خط لکھا کہ بسم اللہ الرحمن الرحيم محمد نبی صلی علیم کی جانب سے مسیلمہ کذاب کے نام.اما بعد ، یقین زمین اللہ ہی کی.ا ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے گا اس کا وارث بنادے گا اور عاقبت متقیوں کی ہی ہوا کرتی ہے اور اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی کرے.529 ایک روایت میں ذکر ہے کہ حضرت حبیب بن زید انصاری رسول کریم صلی للی کم کا خط لے کر مسیلمہ کے پاس گئے تھے.جب انہوں نے یہ خط مسیلمہ کو دیا تو اس نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ؟ انہوں نے فرمایا: ہاں.پھر اس نے کہا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کار سول ہوں ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں بہرہ ہوں.میں سنتا نہیں.بات ٹال دی.یہ چاہتا تھا کہ وہ تسلیم کریں کہ وہ بھی نبی ہے.مسیلمہ بار بار یہی سوال دہراتا رہا.آپ وہی جواب دیتے رہے اور ہر مرتبہ جب حضرت حبیب اس کے منشا کا جواب نہ دیتے.جب اسے منشا کا جواب نہ ملتا تو وہ ان کے جسم کا ایک عضو کاٹ دیتا.ٹارچر کرنے کے لیے کہ اب جواب ہاں میں دو.وہ ان کا کوئی نہ کوئی عضو کاٹ دیتا.حضرت حبیب صبر و استقامت کا پہاڑ بنے رہے یہاں تک کہ اس نے آپ کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے.اس کے سامنے حضرت حبیب نے جام شہادت نوش کر لیا.530 مسیلمہ نے یمامہ میں علم بغاوت بلند کر دیا تھا.اب یہ صرف نبوت کا دعویٰ نہیں ہے بلکہ ظلم بھی ہے.کس طرح اس نے اپنے آپ کو نبی نہ ماننے والوں سے سلوک کیا.مسیلمہ نے یمامہ میں علم بغاوت بلند کر دیا اور یمامہ میں سے رسول اللہ صلی علیکم کے عامل حضرت ثمامہ بن اثال کو نکال دیا.531
حاب بدر جلد 2 215 حضرت ابو بکر صدیق حضرت عکرمہ کا مسیلمہ سے مقابلہ کرنا جب نبی کریم صلی ایم کی وفات ہو گئی اور حضرت ابو بکر نے مرتدین کی طرف مختلف لشکر بھیجے تو حضرت عکرمہ کی سرکردگی میں ایک لشکر مسیلمہ کی طرف بھی بھیجا اور ان کی مدد کے لیے ان کے پیچھے حضرت شرحبيل بن حسنہ کو روانہ فرمایا.حضرت ابو بکر نے حضرت عکرمہ کو یہ تاکید فرمائی کہ شر خبیل کے پہنچنے سے پہلے مسیلمہ سے لڑائی نہ چھیڑ نا مگر حضرت عکرمہ نے جلد بازی سے کام لیا اور حضرت شر خبیل کے پہنچنے سے پہلے ہی اہل یمامہ پر حملہ کر دیا تا کہ کامیابی کا سہرا ان کے سر آئے مگر وہ مصیبت میں پھنس گئے اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا.مسیلمہ کی فوج بہت بڑی تھی.حضرت شرحبیل کو جب اس واقعہ کی خبر ملی تو وہ راستے میں ہی رک گئے اور حضرت عکرمہ نے حضرت ابو بکر کی طرف اس واقعہ کے متعلق لکھا تو حضرت ابو بکر نے ان کو لکھا کہ میں تمہاری صورت نہیں دیکھوں گا اور نہ تم مجھے دیکھنا.جو میں نے تمہیں کہا تھا تم نے اس ہدایت کی نافرمانی کی ہے.یہاں لوٹ کر مت آنا مبادالو گوں میں بزدلی پیدا ہو.تم حضرت حذیفہ اور عرفجہ کے پاس چلے جاؤ اور ان کے ساتھ مل کر عمان اور مہرہ والوں سے جنگ کرو.مہرہ بھی عرب کے جنوب میں مشرقی ساحل پر بحر ہند کے کنارے ایک علاقہ ہے اور پھر وہاں سے اپنی فوج کے ہمراہ یمن اور حضر موت میں جانا اور وہاں جا کر اسلامی لشکر سے جاملنا.حضر موت بھی یمن کے مشرق میں ایک مملکت ہے جن کی جنوبی سر حد پر سمند رہے.ایک اور روایت میں حضرت ابو بکر کے خط کے الفاظ اس طرح سے ملتے ہیں کہ استادی جانتے نہیں.شاگردی سے گھبراتے ہو.اتنا بھی تمہیں صحیح طرح پتہ نہیں.جنگوں کے جو طریقے سلیقے ہوتے ہیں اس میں جتنا ماہر ہونا چاہیے اتنے تم ہو نہیں اور سیکھنے سے گھبراتے ہو.جس دن تم مجھ سے ملو گے دیکھو تمہارے سے کیسا سلوک کرتا ہوں.تم اس وقت تک کیوں نہ ٹھہرے کہ شتر خبیل آجاتے اور ان کی مدد اور تعاون سے جنگ کرتے.اب حذیفہ کے پاس جاؤ اور مدد پہنچاؤ.تم نے اب خلیفہ وقت کے حکم کی نافرمانی کی ہے اور اپنے آپ کو بڑا استاد سمجھتے ہو اور سیکھنا نہیں چاہتے.اب یہی ہے کہ اب میرے پاس نہ آنا.جب ملو گے تو پھر میں دیکھوں گا تمہارے سے سلوک کیا کرنا ہے لیکن بہر حال فی الحال اب تمہارا (کام) یہی ہے کہ تم حذیفہ کے پاس جاؤ اور ان کی مدد کرو.ان کے ساتھ مل کر جس مہم کو وہ سر کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں اس میں ان کی مدد کرو.اگر ان کو تمہاری پشت پناہی کی ضرورت نہ ہو تو یمن اور حضر موت چلے جاؤ اور مُهَاجِر بن امیہ کی مدد کرو.حضرت ابو بکر نے مُهَاجِر بن أميه کو کندہ قبیلہ کے مقابلے کے لیے حضر موت میں بھجوایا ہوا تھا.2 532
ناب بدر جلد 2 216 حضرت ابو بکر صدیق حضرت شرحبیل نما مسیلمہ سے مقابلہ حضرت ابو بکر نے حضرت شر خبیل کو کسی دوسرے حکم کے آنے تک وہیں ٹھہرنے کا حکم دیا.پھر حضرت خالد بن ولید کو یمامہ کی طرف بھیجنے سے پہلے شر خبیل کو لکھا کہ جب خالد تمہارے پاس آئیں اور یمامہ کی مدد سے فارغ ہو جاؤ تو قضاعہ کا رخ کرنا اور حضرت عمر و بن عاص کے ساتھ ہو کر قضاعہ 534 کے ان باغیوں کی خبر لینا جو اسلام لانے سے انکار کریں اور اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوں.533 صرف انکار نہیں ہے بلکہ مخالفت بھی ہے.حضرت شرحبیل نے بھی حضرت ابو بکر کی ہدایت کے برعکس حضرت عکرمہ کی طرح جلد بازی سے کام لیا اور حضرت خالد کے ان تک پہنچنے سے پہلے ہی مسیلمہ سے لڑائی شروع کر دی مگر انہیں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا جس پر حضرت خالد نے ان سے ناراضگی کا اظہار فرمایا.حضرت ابو بکر نے حضرت خالد کی مدد کے لیے حضرت سلیط کی قیادت میں مزید کمک بھی روانہ فرمائی تاکہ وہ ان کے عقب کی حفاظت کرے.حضرت خالد بن ولید کا مسیلمہ سے مقابلہ کے لئے روانہ ہونا اور مجاعه بن مُرارہ کی گرفتاری حضرت ابو بکر نے حضرت خالد کو مسیلمہ کی طرف بھیجا اور ان کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کے لیے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت بھی روانہ فرمائی.حضرت ابو بکر نے انصار پر حضرت ثابت بن قیس اور مہاجرین پر حضرت ابو حذیفہ اور زید بن خطاب کو امیر مقرر فرمایا اور اس طرح جتنے قبائل تھے ان میں سے ہر قبیلے پر ایک آدمی کو نگران بنایا.حضرت خالد بکاخ مقام پر اس لشکر کی آمد کا انتظار کر رہے تھے.بکاخ بنی تمیم کے علاقے میں ایک جگہ.بہر حال جب یہ سب حضرت خالد کے پاس پہنچ گئے تو وہ یمامہ کی طرف روانہ ہوئے.بنو حنیفہ اس دن بہت زیادہ تھے.ان کی تعداد چالیس ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھی.یمامہ کے یہ لوگ جو مسیلمہ کے ساتھ تھے ان کی تعداد چالیس ہزار تھی یا ایک روایت کے مطابق ان کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ تھی جبکہ مسلمان دس ہزار سے زائد تھے.بہر حال وہاں جب یہ جنگ شروع ہوئی تھی تو اس بڑے معرکے سے پہلے ہی مسلمانوں نے بنو حنیفہ کے ایک سردار کو گر فتار کر لیا.چنانچہ ایک روایت میں ذکر ہے کہ مُجاعَہ بن مُرارہ جو کہ بنو حنیفہ کا ایک سردار تھا ایک گروہ کے ساتھ باہر نکلا تو مسلمانوں نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ لیا.حضرت خالد رض 535 536 نے اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیا اور مُجاعَہ کو زندہ رکھا کیونکہ بنو حنیفہ میں اس کی بہت عزت تھی.اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ حضرت خالد جب عارِض مقام پر اترے تو انہوں نے دو سو گھڑ سوار آگے بھیجے اور فرمایا جو لوگ بھی تمہیں ملیں انہیں پکڑ لیں.وہ گھڑ سوار روانہ ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے مجاعه بن مراره حنفی کو اس کے تئیں ہم قبیلہ افراد کے ساتھ پکڑ لیا جو بنو تمیر کے ایک شخص کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے.وہ باہر نکلے تھے اور انہیں خالد کے آنے کا علم نہیں تھا.مسلمانوں نے ان
ناب بدر جلد 2 217 حضرت ابو بکر صدیق سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو ؟ انہوں نے کہا ہم بنو حنیفہ سے ہیں.مسلمانوں نے سمجھا کہ وہ خالد کی طرف مسیلمہ کے ایلچی ہیں.جب صبح ہوئی اور لوگ آمنے سامنے ہوئے تو مسلمان ان لوگوں کو لے کر حضرت خالد کے پاس آئے.حضرت خالد نے جب انہیں دیکھا تو انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ وہ لوگ مسیلمہ کے اینچی ہیں.آپ نے ان سے پوچھا کہ اے بنو حنیفہ ! اپنے صاحب یعنی مسیلمہ کے بارے میں کیا کہتے ہو.انہوں نے گواہی دی کہ وہ اللہ کا رسول ہے.حضرت خالد نے مُجاعَہ سے پوچھا تم کیا کہتے ہو.اس نے جواب دیا بخدا ! میں تو بنو نُمیر کے ایک شخص کی تلاش میں نکلا تھا جس نے ہمارے قبیلہ میں قتل کیا تھا اور میں مسیلمہ کے قریبیوں میں سے نہیں ہوں.بہر حال اس وقت وہ خوف سے یا کسی وجہ سے اپنی بات سے مکر گیا.میں رسول اللہ صلی اللی علم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور میں نے اسلام قبول کیا تھا اور ابھی بھی اسی حالت پر ہوں.باقی لوگ بھی لائے گئے.حضرت خالد نے ان سب کو قتل کروا دیا یہاں تک کہ جب ساريه بن مسیلمہ بن عامر باقی رہ گیا تو اس نے کہا اے خالد ! اگر تم اہل یمامہ کے بارے میں کوئی خیر یاشر چاہتے ہو تو مجماعہ کو زندہ رکھو کیونکہ یہ جنگ اور امن کے ایام میں تمہارا مددگار ہو گا اور مجاعہ ایک سردار ہے.آپ کو ساریہ کی یہ بات پسند آئی.آپ نے اسے بھی زندہ رکھا.آپ نے اسے قتل نہیں کیا اور ان دونوں کے متعلق حکم دیا کہ انہیں لوہے کی بیڑیوں سے باندھ دیا جائے.آپ مُجاعَہ کو بلاتے تھے اور وہ بیڑیوں میں ہی ہو تا تھا اور اس کے ساتھ گفتگو کرتے.مُجاعَہ یہ سمجھتا تھا کہ حضرت خالد اس کو قتل کر دیں گے.اسی دوران جبکہ وہ دونوں باتیں کر رہے تھے کہ مُجاعَہ نے آپ سے کہا کہ اے ابن مغیرہ (یہ خالد بن ولید کی کنیت تھی) میں مسلمان ہوں.اللہ کی قسم ! میں نے کفر نہیں کیا.میں رسول کریم صلی میم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور آپ کے پاس سے مسلمان ہو کر نکلا تھا اور اب میں جنگ کے لیے نہیں نکلا.پھر نمیری کو تلاش کرنے کی بات اس نے دہرائی.حضرت خالد نے کہا قتل اور چھوڑ دینے کے درمیان تھوڑا فاصلہ ہے یعنی قید.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہماری جنگ میں فیصلہ فرمادے جس کا وہ فیصلہ کرنے والا ہے اور آپ نے اس کو اپنی بیوی کے سپرد کر دیا جس سے آپ نے مالک بن نویرہ کے قتل کے بعد شادی کی تھی.اسے حکم دیا کہ قید میں اس کا اچھا خیال رکھے.مُجاعَہ نے سمجھا کہ خالد اس کو قید کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ انہیں دشمن کا پتہ بتائے اور اس کی خبر دے.اس نے کہا آپ جانتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی اسلام پر بیعت کی.بار بار یہی بات وہ دہراتا تھا.پھر میں اپنی قوم کی طرف واپس لوٹا اور آج بھی میری وہی حالت ہے.لیکن آگے جو واقعات ہیں ان سے پتہ لگتا ہے یہ سب غلط بیانی تھی.کہتا ہے آج بھی میری وہی حالت ہے جو کل تھی.7 537
اصحاب بدر جلد 2 218 حضرت ابو بکر صدیق ماعہ کے گروہ سے فارغ ہونے کے بعد حضرت خالد یمامہ کی طرف چلے.ان کے آنے کی خبر پا کر مسیلمہ اپنے قبیلہ بنو حنیفہ کے ساتھ مقابلہ کے لیے نکلا اور عقرباء میں آکر پڑاؤ ڈالا.یہ مقام بھی یمامہ کی سرحد پر یمامہ کے کھیتوں اور سر سبز علاقے کے سامنے واقع تھا.خالد نے محکم منصوبہ بندی کا اہتمام کیا.آپ دشمن کو کبھی بھی کمزور نہیں سمجھتے تھے.میدانِ معرکہ میں ہمیشہ پوری پوری تیاری اور مکمل احتیاط کے ساتھ رہتے کہ کہیں اچانک دشمن حملہ نہ کر دے اور کوئی سازش نہ کر بیٹھے.آپ کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ آپ خود سوتے نہیں تھے ، دوسروں کو سلاتے تھے.پوری تیاری کے ساتھ رات گزارتے.آپ پر دشمن کی کوئی بات مخفی نہیں رہتی تھی.فوج کو مرتب کرنے کا وقت قریب آچکا تھا.اس معرکے میں علمبر دار حضرت عبد اللہ بن حفص بن غانم تھے.پھر یہ حضرت سالم مولی ابو حذیفہ کو منتقل ہو گیا.حضرت خالد نے اس معرکے میں حضرت شر خبیل بن حَسَنه و آگے بڑھایا اور اسلامی فوج کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا.مقدمہ پر حضرت خالد مخزومی، میمنہ پر حضرت ابوحذیفہ، میسرہ پر حضرت شجاع اور قلب پر حضرت زید بن خطاب اور شاہسواروں پر اسامہ بن زید کو مقرر فرمایا اور اونٹوں کو پیچھے رکھا جن پر خیمے لدے ہوئے تھے اور خواتین سوار تھیں اور یہ معرکہ سے قبل آخری ترتیب تھی.38 دوسری طرف مسیلمہ کذاب کی فوج بھی تیار کھڑی تھی اور مسیلمہ کے بیٹے شر خبیل نے اپنے قبیلے سے کہا اے بنو حنیفہ ! آج کا دن غیرت دکھانے کا ہے.اگر آج تم نے شکست کھائی تو تمہاری عورتیں لونڈیاں بنالی جائیں گی اور بغیر نکاح کے ان سے فائدہ اٹھایا جائے گا.لہذا آج تم اپنی عزت اور آبرو کی حفاظت کے لیے پوری جوانمردی دکھاؤ اور اپنی عورتوں کی حفاظت کرو.539 538 بہر حال اس کے بعد گھمسان کی جنگ ہوئی.وہ جنگ ایسی سخت تھی کہ مسلمانوں کو اس سے پہلے ایسی جنگ کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا.مسلمان پسپا ہو گئے.یہاں بھی پسپائی ہوئی اور بنو حنیفہ کے افراد مُجاعَہ کو چھڑانے کے لیے آگے بڑھے اور حضرت خالد کے خیمہ کا قصد کیا.حضرت خالد خیمہ چھوڑ چکے تھے اس لیے وہ مُجاعَہ تک پہنچ گئے جو حضرت خالد کی بیوی کی نگرانی میں تھا.مرتدوں نے آپ کی بیونی کو قتل کرنا چاہا مگر مُجاعَہ نے ان کو روک دیا اور کہا کہ میں اس کو پناہ دیتا ہوں.لہذا انہوں نے اس کو چھوڑ دیا.مُجاعَہ نے کہا کہ تم مردوں پر حملہ کرو.ایک طرف تو یہ دعویٰ تھا کہ میں مسلمان ہوں اور اب یہ ان مخالفین کو کہہ رہا ہے کہ تم مردوں پر حملہ کرو اور انہوں نے خیمے کو کاٹ دیا.540 جنگ یمامہ میں مسلمانوں کی قابل رشک بہادری اور ثابت قدمی لشکر اسلام کے پیچھے ہٹنے کے باوجود حضرت خالد بن ولیڈ کے عزم و ثبات اور جرآت و استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی اور انہیں ایک لمحے کے لیے بھی اپنی شکست کا خیال پیدا نہ ہوا.حضرت خالد نے پکار کر اپنے لشکر سے کہا کہ اے مسلمانو! علیحدہ علیحدہ ہو جاؤ یعنی ہر قبیلہ الگ الگ ہو کر لڑے اور
اصحاب بدر جلد 2 541 219 حضرت ابو بکر صدیق اسی حالت میں دشمن سے لڑو تا کہ ہم دیکھ سکیں کہ کس قبیلہ نے لڑائی میں سب سے اچھا بہادری کا مظاہرہ کیا ہے.اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ تمام مسلمان اپنے اپنے قبیلہ کے علم تلے لڑیں.اس سے انہوں نے تمام قبائل میں گویا ایک نئی روح پھونک دی اور اس میں اپنی انفرادیت اور بہادری ثابت کرنے کے لیے ایک جذبہ مسابقت پیدا کر دیا.مسلمانوں نے بھی ایک دوسرے کو ترغیب دلائی.چنانچہ اس کی مزید تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس نے کہا اے مسلمانوں کے گر وہ کتنی بڑی ہے وہ چیز جس کا تم نے خود کو عادی بنا دیا ہے، اگر آسانی کا عادی بنایا ہے تو یہ بہت بُری چیز ہے.صحابہ کرام ایک دوسرے کو جنگ پر ابھارنے لگے اور کہنے لگے کہ اے سورہ بقرہ والو! آج جادو ٹوٹ گیا.حضرت ثابت بن قیس نے آدھی پنڈلیوں تک زمین کھود لی اور اپنے آپ کو اس میں گاڑ لیا.آپ انصار کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور آپ نے حنوط مل لیا تھا.عرب میں یہ دستور تھا کہ بعض لوگ جو اپنے آپ کو بہت بہادر دکھانا چاہتے تھے وہ ایسا کیا کرتے تھے گویا یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ کام جو مرنے کے بعد لوگوں نے میرے ساتھ کرنا تھا وہ میں نے خود اپنے ساتھ کر لیا ہے.آدھا زمین میں گاڑ لیا گویا میں مرنے کو تیار ہوں اور حنوط چند خوشبو دار چیزوں کا ایک مرکب تھا جو کہ مردے کو غسل د.کے بعد اس پر ملتے ہیں یا وہ دوائیں جنہیں لاش پر لگانے سے وہ مدتوں گلنے سڑنے سے محفوظ رہتی ہے.بہر حال روایت ہے کہ انہوں نے کفن باندھ لیا اور دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہے یہاں تک کہ جام شہادت نوش کیا.2 انصار کا جھنڈا حضرت ثابت بن قیس کے پاس تھا اور مہاجرین کا جھنڈ ا حضرت زید بن خطاب کے پاس.حضرت زید بن خطاب نے لوگوں سے کہا.لوگو! مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ، دشمن پر ٹوٹ پڑو اور آگے قدم بڑھاؤ.پھر فرمایا اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک بات نہیں کروں گا یہاں تک کہ اللہ انہیں شکست دے دے گا یا میں اللہ سے جاملوں گا اور دلیل کے ساتھ اس سے بات کروں گا.پھر آپے بھی شہید ہو گئے.543 542 حضرت عمر کے بھائی کی شہادت اور حضرت عمر کا غم دینے حضرت زید بن خطاب کے بارے میں آتا ہے کہ آپ حضرت عمر بن خطاب کے سوتیلے بھائی تھے.قدیم الاسلام ہیں.شروع میں اسلام لانے والوں میں سے ہیں.بدر اور اس کے بعد کے غزوات میں شریک رہے.رسول اللہ صلی الیکم نے ہجرت کے بعد آپ اور معن بن عدی انصاری رضی اللہ عنہ کے در میان مواخات کرائی تھی اور دونوں ہی یمامہ کی جنگ میں شہید ہو گئے.جنگ یمامہ میں حضرت خالد نے جب لشکر کو ترتیب دیا تو ایک حصہ کا سپہ سالار حضرت زید بن خطاب کو بنایا اور اسی طرح اس جنگ میں مہاجرین کا پرچم بھی آپ کے ہاتھ میں تھا.آپؐ پر چم لیے آگے بڑھتے رہے اور بڑی بے جگری سے
اصحاب بدر جلد 2 220 حضرت ابو بکر صدیق لڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے تو پرچم گر گیا.سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہما نے پرچم تھام لیا.اس معرکے میں زید رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کے دست راست اور ایک بہادر شہسوار جس کا نام رجال بن عنفوہ تھا، اس کو قتل کیا اور آپ کو جس نے شہید کیا اس کو ابو مریم حنفی کہتے ہیں.اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا اور ایک مرتبہ جب حضرت عمرؓ نے اسے کہا کہ تم نے میرے بھائی کو قتل کیا تھا تو اس نے کہا اے امیر المومنین ! اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں زید رضی اللہ عنہ کو شرف بخشا اور ان کے ہاتھوں مجھے ذلیل نہیں کیا.یعنی وہ شہادت کی موت پاگئے اور اگر اس وقت ان کے ہاتھوں میں مارا جا تاتو ذلت کی موت مرتا.اب مجھے اسلام کی توفیق مل گئی ہے.حضرت عمر بن خطاب کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر بھی جنگ یمامہ میں شامل ہوئے تھے.وہ جب واپس مدینہ آئے تو حضرت عمرؓ نے اپنے اس شہید ہونے والے بھائی کے غم میں ان کو کہا کہ جب تمہارے چازید شہید ہو گئے تو تم واپس کیوں آگئے اور کیوں اپنا چہرہ مجھ سے چھپانہ لیا؟ جب زید کے قتل کی خبر عمر رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا: زید دو نیکیوں میں مجھ سے آگے نکل گیا تھا.یہ ذکر پہلے بھی ایک دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ مجھ سے پہلے اسلام قبول کیا اور مجھ سے پہلے شہید ہو گئے.مالک بن نویرہ کو جب حضرت خالد نے قتل کر دیا تو اس کے بھائی متشم بن نویرہ نے اپنے بھائی مالک کے قتل پر اشعار کہے.اس کو اپنے بھائی سے بہت محبت تھی اور وہ اکثر ان کی جدائی میں روتارہتا اور شعر کہتا تھا.ایک مرتبہ جب حضرت عمرؓ سے اس کی ملاقات ہوئی اور اس نے بھائی کا مرثیہ حضرت عمرؓ کو سنایا تو حضرت عمر نے ان سے کہا کہ اگر میں شعر کہنا جانتا تو تمہاری طرح میں بھی اپنے بھائی زیڈ کے لیے شعر کہتا.اس پر منیم نے عرض کیا: اگر میرے بھائی کی موت ایسی ہوتی جیسی موت آپ کے بھائی کی ہوئی ہے یعنی شہادت کی موت تو میں کبھی بھی اپنے بھائی پر عمگین نہ ہوتا.عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس خوبصورت انداز میں میرے بھائی کی تعزیت تم نے کی ہے اور کسی نے نہیں کی.حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ جب باد صبا چلتی ہے تو زید کی یاد تازہ ہو جاتی ہے.14 بہر حال جنگ کا ذکر ہو رہا ہے.مسیلمہ کذاب ابھی تک ثابت قدم تھا اور کافروں کی جنگ کا مرکز بنا ہوا تھا.حضرت خالد نے یہ تجزیہ کیا کہ جب تک مسلیمہ کو قتل نہ کیا جائے گا جنگ ختم نہیں ہو گی کیونکہ اگر کوئی بنو حنیفہ سے قتل ہوتا ہے تو اس کا ان پر یعنی مسیلمہ کے ساتھیوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا.اس لیے حضرت خالد کیلے ان کے سامنے آئے اور ایک ایک کو انفرادی جنگ کی آواز لگائی اور اپنے شعار کا نعرہ لگایا.مسلمانوں کا شعار یا محمد اہ! تھا.پس جو بھی مقابلے کے لیے نکلا حضرت خالد نے اس کو قتل کر دیا.پھر مسلمانوں نے بڑے جوش سے جنگ کی.حضرت خالد نے مسیلمہ کو مقابلے کے لیے آواز دی.اس نے قبول کر لی تو حضرت خالد نے اس پر اس کی خواہش کے مطابق چند چیزیں پیش کیں.پھر حضرت خالد اس پر حملہ آور ہوئے تو وہ بھاگ گیا اور اس کے ساتھی بھی بھاگ گئے تو حضرت خالد نے لوگوں کو ، مسلمانوں کو پکار کر کہا کہ خبر دار ! 544
اصحاب بدر جلد 2 221 حضرت ابو بکر صدیق اب کو تاہی نہ کرنا.آگے بڑھو اور کسی کو بیچ کر جانے نہ دو.اس پر مسلمان ان پر چڑھ دوڑے.مسیلمہ کذاب کا میدان جنگ سے بھاگ جانا 545 صحابہ کرام نے اس معرکے میں انتہائی صبر و استقامت کا ایسا ثبوت دیا جس کی مثال نہیں ملتی اور برابر دشمن کی طرف بڑھتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے خلاف فتح عطا فرمائی اور کفار پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے.مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا، انہیں قتل کرتے رہے اور تلواریں ان کی گردنوں پر چلاتے رہے یہاں تک کہ انہیں ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا.بنو حنیفہ کے ایک سردار محکم بن طفیل نے بھاگتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! اس باغ میں داخل ہو جاؤ.یہ بہت وسیع باغ تھا جس کے گرد دیوار میں تھیں.محکم بن طفیل نے بنو حنیفہ کا تعاقب کرنے والے مسلمانوں کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا.یہ باغ میدانِ جنگ کے قریب ہی تھا اور مسیلمہ کی ملکیت تھا.اس باغ کو حدیقۃ الرحمان کہا جاتا تھا، جس طرح مسیلمہ کو رحمان الیمامہ کہا جاتا تھا لیکن اس جنگ کے دوران اس باغ میں کثرت سے دشمنوں کے مارے جانے کی وجہ سے اس باغ کو حدیقۃ الموت یعنی موت کا باغ کہا جانے لگا.مسیلمہ کذاب بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس باغ میں چلا گیا.حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر نے دیکھا کہ بنو حنیفہ کا ایک سردار محکم خطاب کر رہا ہے.انہوں نے اس پر تیر چلا کر اس کو قتل کر دیا.بنو حنیفہ نے باغ کا دروازہ بند کر دیا اور صحابہ نے چاروں طرف سے اس باغ کا محاصرہ کر لیا.مسلمان کوئی جگہ تلاش کرنے لگے کہ کسی طرح اس باغ کے اندر جایا جا سکے لیکن یہ قلعہ نما باغ تھا.باوجود تلاش کے اس کے اندر جانے کی کوئی جگہ نہ مل سکی.آخر حضرت براء بن مالک جو حضرت انس بن مالک کے بھائی تھے.آپؐ نے غزوہ اُحد اور خندق میں رسول اللہ صلی الی ریم کے ساتھ حصہ لیا تھا.بہت بہادر تھے.آپ نے کہا کہ مسلمانو ! اب صرف ایک طریقہ ہے کہ تم مجھے اٹھا کر باغ میں پھینک دو، میں اندر جا کر دروازہ کھول دوں گا مگر مسلمان یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ ان کا ایک عالی مرتبہ ساتھی ہزاروں دشمنوں کے درمیان اپنی جان گنوا دے.انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا لیکن حضرت براء بن مالک نے اصرار کرنا شروع کیا اور کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے باغ میں دیوار کے اندر کی طرف پھینک دو.آخر مجبور ہو کر مسلمانوں نے انہیں باغ کی دیوار پر چڑھا دیا.دیوار پر چڑھ ھ کر جب حضرت براء بن مالک نے دشمن کی بڑی تعداد کو دیکھا تو ایک لمحے کے لیے رکے لیکن پھر اللہ کا نام لے کر باغ کے دروازے کے سامنے کو دپڑے اور دشمنوں سے لڑتے اور قتل کرتے دروازے کی طرف بڑھنے لگے.آخر کار آپ دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور باغ کا دروازہ کھول دیا.مسلمان باہر دروازہ کھلنے ہی کے منتظر تھے.جو نہی دروازہ کھلا وہ باغ میں داخل ہو گئے اور دشمنوں کو قتل کرنے لگے.بنو حنیفہ مسلمانوں کے سامنے سے بھاگنے لگے لیکن وہ باغ سے باہر نہیں نکل سکتے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں
اصحاب بدر جلد 2 222 حضرت ابو بکر صدیق آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے.ایک روایت یہ بھی ہے کہ صرف حضرت براء بن مالک نے نہیں بلکہ اور بھی کئی مسلمانوں نے دیوار پھلانگ کر دروازے کا رخ کیا تھا.546 مسیلمہ کذاب کا مارے جانا مسلمان مرتدین سے قتال کرتے ہوئے مسیلمہ کذاب تک پہنچ گئے.وہ ایک دیوار کے شگاف میں کھڑا ہوا تھا جیسے خاکستری رنگ کا اونٹ ہو.وہ بچاؤ کے لیے اس دیوار پر چڑھنا چاہتا تھا اور غصہ سے پاگل ہو چکا تھا.وحشی بن حرب جنہوں نے غزوہ احد میں حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا مسیلمہ کی طرف بڑھے اور آپ نے اپنا وہی بر چھا جس سے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا مسیلمہ کی طرف پھینکا اور وہ اسے جالگا اور دوسری طرف سے پار ہو گیا.پھر جلدی سے ابو دجانہ سماک بن خرشتہ اس کی طرف بڑھے.اس پر تلوار چلائی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا.قلعہ سے ایک عورت نے آواز دی.ہائے حسینوں کے امیر کو ایک سیاہ فام غلام نے قتل کر دیا.547 مسیلمہ کذاب کو کس نے جہنم رسید کیا؟ بلاذری کا بیان ہے کہ قبیلہ بنو عامر کا کہنا ہے کہ ان کے قبیلے کے ایک فرد خداش بن بشیر نے قتل کیا.ایک روایت ہے کہ انصار کے قبیلہ خزرج کے عبد اللہ بن زید نے قتل کیا.بعض نے کہا کہ حضرت ابو دجانہ نے قتل کیا.معاویہ بن ابوسفیان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس کو قتل کیا تھا.بعض کے نزدیک ہو سکتا ہے کہ سب اس کے قتل میں شریک ہوں.بعض کتب میں جس میں طبری بھی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیلمہ کو ایک انصاری اور وخشی نے مشترکہ پر قتل کیا تھا.548 وحشی بن حربے مسیلمہ کو قتل کرنے کا واقعہ خود بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غزوہ احد میں حضرت حمزہ کو شہید کرنے کے بعد جب لوگ لوٹے تو میں بھی ان کے ساتھ لوٹا اور میں مکہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی علی تم نے مکہ فتح کیا اور اس میں اسلام پھیلا تو میں طائف کی طرف بھاگ گیا.لوگوں نے رسول اللہ صلی علی یکم کی طرف اینچی بھیجے اور مجھ سے کہا گیا کہ آپ صلی علیہ کم اینچیوں سے تعریض نہیں کرتے.انہوں نے یعنی وخشی نے کہا کہ میں بھی ان کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی العلیم کے پاس پہنچا.آپ صلی علیہم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا کیا تم وخشی ہو ؟ میں نے کہا جی ہاں.آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور مجھے تفصیل سے بتاؤ کہ تم نے حمزہ کو کیسے قتل کیا تھا.تو میں نے آپ صلی علی کیم کو تفصیل سے آگاہ کیا.جب میں نے بات ختم کی تو آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا: کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ؟ وخشی کہتے ہیں کہ میں وہاں سے نکل گیا.پھر جب رسول اللہ صل العلم فوت ہوئے اور مسیلمہ کذاب نے بغاوت کی تو میں نے کہا: میں مسیلمہ کی طرف ضرور نکلوں گا تا کہ میں اسے قتل کروں تاکہ اس کے ذریعہ سے حضرت حمزہ کو قتل کرنے کا کفارہ ادا کر سکوں.بہر حال یہ کہتے ہیں کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ اس جنگ میں طور پر
اصحاب بدر جلد 2 223 حضرت ابو بکر صدیق نکلا.پھر اس کا حال ہو ا جو ہوا.آگے بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص دیوار کے شگاف میں را ہے ایسا معلوم ہو تا تھا کہ جیسے گندمی رنگ کا اونٹ ہے.سر کے بال پراگندہ ہیں.میں نے اس کو اپنا رچھا مارا اور اسے اس کی چھاتیوں کے درمیان مارا یہاں تک کہ وہ اس کے دونوں کندھوں کے درمیان سے نکل گیا.بہر حال یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد انصار میں سے ایک شخص اس کی طرف لپکا اور اس کی کھوپڑی پر تلوار کی ضرب لگائی.راوی سلیمان بن یسار نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے سنا.وہ کہتے تھے کہ جب مسیلمہ مارا گیا تو ایک لڑکی جو اس گھر کی چھت پر تھی بولی.امیر المومنین یعنی مسیلمہ کو کانے غلام نے مار ڈالا ہے.یہ بخاری کی روایت ہے.خشی کہتے ہیں کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم دونوں یعنی انصاری صحابی اور حضرت وخشی میں سے کس نے مسیلمہ کو قتل کیا لیکن اگر میں نے ہی اسے مارا ہے تو رسول اللہ صلی علیکم کے بعد سب سے بہترین یعنی حضرت حمزہ کے قتل کا ارتکاب بھی میں نے کیا تھا اور سب سے بدترین شخص کو بھی میں نے ہی مارا.549 صحیح بخاری کی روایت میں آنحضور صلی ا ہم نے وحشی کو جو یہ فرمایا تھا کہ ”کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ ؟ “ اس کی شرح میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ وختی میں جو تبدیلی پید اہوئی وہ ان کے اخلاص پر دلالت کرتی ہے.ان کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح اپنی غلطی کا کفارہ دیں.چنانچہ یمامہ کی ہولناک جنگ میں اپنی یہ خواہش اور نذر پوری کر کے سرخرو ہوئے.شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیم کے الفاظ فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُغَيْبَ وَجْهَكَ عَلَى “ 66 کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ ؟ ” بہت بلند اخلاق کے آئینہ دار ہیں“ یہ الفاظ.وحشی سے خواہش کا اظہار کیا کہ اگر تجھ سے ہو سکے تو میرے سامنے نہ آیا کرو.یہ لب ولہجہ آمرانہ نہیں بلکہ التماس کا لب ولہجہ ہے اور اس سے اس محبت و عزت کا پتہ چلتا ہے جو حضرت حمزہ کے لئے آپ کے دل میں تھی.ایک منتقم مزاج انتقام لے کر دل ٹھنڈ ا کر سکتا تھا مگر آپ نے عفو سے کام لیا.صرف اتنا چاہا کہ وہ آپ کے سامنے نہ آئے تا حضرت حمزہ کی درد ناک شہادت کی یاد سے آپ کے دل کو تھیں نہ پہنچے.550" جنگ یمامہ اور مسلمانوں کی جرآت اور دلیری اسی جنگ یمامہ کی تفصیل ایک اور جگہ بیان ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کی طرف سے جرات اور دلیری کا ذکر اس طرح بیان ہوا ہے کہ دونوں گروہوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی یہاں تک کہ دونوں گروہوں کے بہت سے لوگ قتل اور زخمی ہو گئے.مسلمانوں میں سے سب سے پہلے مالک بن اوس شہید ہوئے.مسلمانوں میں سے حفاظ قرآن بھی کثرت سے شہید ہو گئے.دونوں لشکروں میں گھمسان کارن پڑا یہاں تک کہ مسلمان مسیلمہ کے لشکر میں اور مسیلمہ کا لشکر مسلمانوں کے لشکر سے جاملا.
حاب بدر جلد 2 224 حضرت ابو بکر صدیق جب مسلمان ہٹتے تو وہ لوگ آگے بڑھتے تاکہ مُجامہ تک پہنچ سکیں.سالم مولیٰ ابو حذیفہ نے اپنی نصف پنڈلیوں تک گڑھا کھودا.ان کے پاس مہاجرین کا جھنڈا تھا اور ثابت نے بھی اسی طرح کا گڑھا اپنے لیے کھو دا.پھر ان دونوں نے اپنے جھنڈوں کو اپنے ساتھ چمٹالیا اور لوگ ہر طرف پراگندہ ہو گئے تھے.یعنی گڑھا کھود کے اس میں خود کھڑے ہو گئے اور جھنڈے اپنے ساتھ لگا لیے جبکہ سالم اور ثابت اپنے جھنڈوں کے ساتھ قائم رہے یہاں تک کہ سالم" شہید ہو گئے اور ابو حذیفہ بھی شہید ہو گئے.حضرت ابو حذیفہ کا سر سالم کے قدموں میں تھا اور سالم کا سر حضرت ابو حذیفہ کے قدموں میں تھا.جب سالم شہید ہو گئے تو جھنڈا کچھ دیر اسی طرح پڑا رہا.کسی نے اسے اٹھایا نہیں.پھر یزید بن قیس نے جو بدری صحابی تھے وہ آگے بڑھے اور انہوں نے اس جھنڈے کو اٹھا لیا یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہو گئے.پھر حکم بن سعید بن عاص نے اس جھنڈے کو اٹھایا اور اس کی حفاظت میں سارا دن لڑتے رہے.پھر وہ بھی شہید ہو گئے.وخی کہتے ہیں کہ شدید لڑائی ہوئی.تین مرتبہ مسلمانوں کے قدم اکھڑے.چوتھی مرتبہ مسلمانوں نے پلٹ کر حملہ کیا اور ان کے قدم جم گئے اور وہ تلواروں کے سامنے ڈٹ گئے.بنو حنیفہ اور ان کی تلواریں ایک دوسرے پر پڑنے لگیں یہاں تک کہ میں نے آگ کی چنگاریاں ان میں سے نکلتی ہوئی دیکھیں اور ان کی گھنٹی کی طرح کی آوازیں سنیں.اللہ تعالیٰ نے ہم پر اپنی مد د نازل کی اور بنی حنیفہ کو اللہ تعالیٰ نے شکست دی اور اللہ نے مسیلمہ کو قتل کر دیا.وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس روز اپنی تلوار خوب چلائی یہاں تک کہ وہ تلوار میرے ہاتھ میں دستے تک خون سے بھر گئی.حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمار کو ایک چٹان پر چڑھے ہوئے دیکھا، وہ پکار رہے تھے کہ اے مسلمانوں کے گروہ! کیا تم جنت سے بھاگ رہے ہو؟ میں عمار بن یاسر ہوں میری طرف آؤ.راوی کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ ان کا کان کٹ کر لٹک رہا تھا.ابو خَيْقَمَهِ نَتَجارِی کہتے ہیں جب مسلمان جنگ یمامہ کے دن پراگندہ ہو گئے تو میں ایک طرف ہٹ گیا اور میری آنکھوں کے سامنے یہ منظر ہے کہ میں اس دن حضرت ابو دجانہ کو دیکھ رہا تھا.ان کا نام سماک بن خَر شَہ تھا اور ابو دجانہ کی کنیت سے معروف تھے.یہ وہ مشہور صحابی ہیں جو آنحضرت صلی یکم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور غزوہ احد میں آنحضرت صلی اللہ کریم نے ایک تلوار ہاتھ میں لے کر کہا: اس کا حق کون ادا کرتا ہے ؟ ابو دجانہ بولے میں ادا کروں گا.آنحضرت صلی ال یکم نے ان کو وہ تلوار عنایت فرمائی اور بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے دریافت کیا کہ اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ مسلمان کو نہ مارنا اور کافر سے نہ بھاگنا.حضرت ابودجانہ نے حسب معمول سر پر سرخ پٹی باندھی اور فخریہ انداز سے اکڑتے ہوئے صفوں کے درمیان آکر کھڑے ہوئے.آنحضرت صلی الم نے فرمایا: یہ چال اگر چہ خدا کو نا پسند ہے لیکن ایسے موقع پر کچھ حرج نہیں.معرکہ کارزار میں نہایت پامردی سے مقابلہ کیا اور بہت سے کافر قتل کیے اور رسول اللہ صلی اللی علم کی حفاظت میں بہت سے زخم کھائے لیکن
حاب بدر جلد 2 225 حضرت ابو بکر صدیق میدان سے نہیں ہے.آنحضرت صلی الم کے زمانے کا یہ پچھلا واقعہ بیان ہو رہا ہے.بہر حال جنگ یمامہ کے واقعہ میں بیان ہے کہ اس میں ابو دجانہ پر بنو حنیفہ کے ایک گروہ نے حملہ کیا.اب یمامہ میں کیا ہوا.ان کے بارے میں لکھا ہے ان پر ایک گروہ نے حملہ کیا تو آپ اپنے سامنے بھی تلوار چلاتے ، اپنے دائیں بھی تلوار چلاتے اور اپنے بائیں بھی تلوار چلاتے.آپ نے ایک شخص پر حملہ کیا اور اسے زمین پر گرادیا.آپ کوئی بات نہیں کر رہے تھے یہاں تک کہ وہ گروہ آپ سے دُور ہو گیا اور واپس چلا گیا اور مسلمان قریب آگئے.بنو حنیفہ شکست کھا کر باغ کی طرف بھاگے.مسلمان ان کے پیچھے بھاگے اور انہیں باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا.ان لوگوں نے باغ کے دروازے بند کر لیے تو حضرت ابو دجانہ نے کہا مجھے ڈھال میں ڈال کر پھینک دو تا کہ میں اندر جا کر باغ کا دروازہ کھول سکوں.چنانچہ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا اور آپ باغ میں پہنچ گئے.آپ کہہ رہے تھے تمہارا بھاگنا تمہیں ہم سے بچا نہیں سکتا.آپ نے ان کے ساتھ سخت جنگ کی یہاں تک کہ دروازہ کھول دیا.راوی کہتے ہیں کہ ہم آپ کے پاس باغ میں اس وقت داخل ہوئے جب آپ شہید ہو چکے تھے.ایک اور روایت کے مطابق براء بن مالک کو باغ میں پھینکا گیا تھا لیکن پہلی روایت جو براء بن مالک والی ہے وہ زیادہ درست معلوم ہوتی ہے.551 حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ میں نے عباد بن بشر کو کہتے ہوئے سنا کہ اے ابوسعید ! جب ہم بُز اخہ سے فارغ ہوئے تو اس رات میں نے رویا میں دیکھا کہ گویا آسمان کھولا گیا ہے پھر مجھ پر بند کر دیا گیا ہے.اس سے مراد شہادت ہے.ابوسعید کہتے ہیں میں نے کہا ان شاء اللہ جو بھی ہو گا بہتر ہو گا.وہ کہتے ہیں کہ یمامہ کے روز میں آپ کو دیکھ رہا تھا اور آپ انصار کو پکار رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہماری طرف آؤ.اس پر چار سو آدمی واپس آئے.براء بن مالک اور ابودجانہ اور عباد بن بشر ان میں آگے آگے تھے یہاں تک کہ وہ سب باغ کے دروازے پر پہنچ گئے.میں نے عباد بن بشر کی شہادت کے بعد انہیں دیکھا کہ آپ کے چہرے پر بہت زیادہ تلوار کے نشان تھے میں نے آپ کو آپ کے جسم پر موجود ایک علامت سے پہچانا.حضرت ام عمارہ تاریخ اسلام کی ایک بہادر خاتون پھر حضرت ام عمارہ کا ذکر آتا ہے.ام عمارہ جو تاریخ اسلام کی بہت بہادر خواتین میں سے ایک تھیں ان کا نام نسیبہ بنت کعب تھا.یہ غزوہ احد میں بھی شریک ہوئیں اور نہایت پامردی سے لڑیں.جب تک مسلمان فتح یاب تھے وہ مشک میں پانی بھر بھر کر لوگوں کو پلا رہی تھیں لیکن جب شکست ہوئی تو آنحضرت صلی علیہ نیم کے پاس پہنچیں اور سینہ سپر ہو گئیں.کفار جب آپ صلی یکم کی طرف بڑھتے تو صحابی
اصحاب بدر جلد 2 226 حضرت ابو بکر صدیق یہ تیر اور تلوار سے روکتی تھیں.آنحضرت صلی علیم نے بعد میں خود فرمایا کہ میں احد میں ان کو اپنے دائیں اور بائیں برابر لڑتے ہوئے دیکھتا تھا.ابن قیمہ جب آنحضرت صلی میں کمر کے پاس پہنچ گیا تو ام عمارہ نے اس کو بڑھ کر روکا.چنانچہ اس کے وار سے حضرت ام عمارہ کے کندھے پر گہر از خم آیا.انہوں نے بھی تلوار ماری لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لیے کارگر نہ ہوئی.بہر حال یہ ام عمارہ کا تاریخی مقام ہے یہ بیان کرتی ہیں کہ ان کے بیٹے عبد اللہ نے مسیلمہ کذاب کو قتل کیا.حضرت ام عمارہ اس روز خود بھی جنگ یمامہ میں شامل تھیں اور اس میں ان کا ایک بازو کٹ گیا تھا.حضرت ام عمارہ کے اس جنگ میں شامل ہونے کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ ان کے بیٹے حبیب بن زید جو حضرت عمرو بن عاص کے ساتھ عمان میں تھے جب رسول اللہ صلی الیہ کم کی وفات ہوئی یہ عمان میں تھے اور یہ خبر عمرو تک پہنچی تو وہ عثمان سے لوٹے.راستے میں مسیلمہ سے ان کا سامنا ہوا.حضرت عمرو بن عاص آگے نکل گئے.حبیب بن زید اور عبد اللہ بن وہب پیچھے تھے ان دونوں کو مسیلمہ نے پکڑ لیا اور کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ عبد اللہ بن وہب نے کہا ہاں.مسیلمہ نے ان کو لوہے کی زنجیروں میں قید کرنے کا حکم دیا.ان کو یقین نہیں آیا، خیال تھا کہ شاید جان بچانے کے لیے کہہ رہے ہیں.بہر حال پھر حبیب بن زید سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں سنتا نہیں.اس نے پھر کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ نے کہا ہاں.مسیلمہ نے ان کے بارے میں حکم دیا تو ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے اور جب بھی ان سے وہ کہتا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو وہ کہتے کہ میں سن نہیں سکتا.اور جب وہ یہ کہتا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی علیکم اللہ کے رسول ہیں تو آپ کہتے ہاں.یہاں تک کہ اس نے آپ کا ایک ایک عضو کاٹ ڈالا.آپ کے ہاتھ کندھے کے جوڑ سے کاٹے گئے.آپ کی ٹانگیں گھٹنوں سے اوپر تک کاٹ دیں پھر آپ کو آگ میں جلا دیا.اس سارے واقعہ کے دوران نہ تو آپ اپنی بات سے پیچھے ہٹے اور نہ مسیلمہ اپنی بات سے پیچھے ہٹا یہاں تک کہ آپ آگ میں شہید ہو گئے.ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت حبیب مسیلمہ کے پاس جب خط لے کر گئے تو اس وقت اس نے حضرت حبیب کو اس طرح ایک ایک عضو کاٹ کے شہید کیا اور پھر آگ میں جلا دیا.جب حضرت ام عمارہ کو اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ خود مسیلمہ کذاب کا سامنا کریں گی اور یا اس کو مار ڈالیں گی یا خود خدا کی راہ میں شہید ہو جائیں گی.جب حضرت خالد بن ولید نے یمامہ کے لیے لشکر تیار کیا تو ام عمارہ حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور جنگ میں شمولیت کے لیے آپ سے اجازت طلب کی.حضرت ابو بکڑ نے فرمایا کہ آپ جیسی خاتون کے جنگ کے لیے نکلنے میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی.اللہ کا نام لے کر نکلیں.اس جنگ میں ان کا ایک اور بیٹا عبد اللہ بھی شریک تھا.وہ بیان کرتی ہیں کہ جب ہم یمامہ پہنچے تو
محاب بدر جلد 2 227 حضرت ابو بکر صدیق شدید جنگ ہوئی.انصار نے مدد کے لیے پکارا اور مسلمان مدد کے لیے پہنچے.جب ہم باغ کے سامنے پہنچے تو باغ کے دروازے پر اثر دہام ہو گیا اور ہمارے دشمن باغ میں ایک طرف تھے اور اس جانب تھے جس طرف مسیلمہ تھا.ہم اس میں زبر دستی گھس گئے اور کچھ دیر تک ہم نے ان سے جنگ کی.اللہ کی قسم! میں نے ان سے زیادہ اپنی مدافعت کرنے والا نہیں دیکھا اور میں نے دشمن خد امسیلمہ کا قصد کیا کہ اسے پاؤں اور دیکھوں.میں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میں اس کو چھوڑوں گی نہیں.اس کو ماروں گی یا خود مر جاؤں گی.لوگ آپس میں حملہ آور ہوئے ان کی تلواریں آپس میں ٹکرانے لگیں گویا کہ وہ بہرے ہو گئے اور سوائے تلوار کی ضرب کی آواز کے اور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی.یہاں تک کہ میں نے اللہ کے دشمن کو دیکھا.میں نے اس پر حملہ کر دیا.ایک مو میرے سامنے آیا اس نے میرے ہاتھ پر ضرب لگائی اور اسے کاٹ دیا.اللہ کی قسم! میں ڈگمگائی نہیں تاکہ میں اس خبیث تک پہنچ جاؤں اور وہ زمین پر پڑا تھا اور میں نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو وہاں پایا اس نے اسے مار دیا تھا.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ام عمارہ بیان کرتی ہیں کہ میرا بیٹا اپنے کپڑے سے اپنی تلوار کو صاف کر رہا تھا میں نے پوچھا کیا تم نے مسیلمہ کو قتل کیا ہے ؟ اس نے کہا ہاں اے میری والدہ.میں نے اللہ کے سامنے سجدہ شکر کیا حضرت ام عمارہ کہتی ہیں کہ اللہ نے دشمنوں کی جڑ کاٹ دی.جب جنگ ختم ہو گئی اور میں اپنے گھر واپس لوٹی تو حضرت خالد بن ولید ایک عرب طبیب کو میرے پاس لے کر آئے.اس نے ابلتے ہوئے تیل کے ساتھ میر اعلاج کیا.اللہ کی قسم! یہ علاج میرے لیے ہاتھ کٹنے سے زیادہ تکلیف دہ تھا.حضرت خالد میر ا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور ہم سے حسن سلوک کرتے تھے.ہمارا حق ہمیشہ یاد رکھتے تھے اور ہمارے بارے میں نبی کریم صلی علیم کی وصیت کا خیال رکھتے تھے.عباد کہتے ہیں میں نے کہا اے میری دادی! جنگ یمامہ میں مسلمانوں کے زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی.ان سے سوال پوچھا.انہوں نے کہا ہاں اے میرے بیٹے.اللہ کا دشمن مارا گیا اور مسلمان سب کے سب ہی زخمی تھے.میں نے اپنے دونوں بھائیوں کو اس حال میں زخمی دیکھا کہ ان میں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی.لوگ یمامہ میں پندرہ روز ٹھہرے.جنگ ختم ہو چکی تھی اور زخموں کی وجہ سے انصار اور مہاجرین میں سے بہت تھوڑی تعداد حضرت خالد کے ساتھ نماز ادا کرتی تھی.وہ کہتی ہیں میں جانتی ہوں کہ بنو طی ، اس روز اچھی طرح آزمائے گئے.میں نے اس روز عدی بن حاتم کو پکارتے ہوئے سنا، صبر کر وصبر کرو میرے ماں باپ تم پر قربان.اور میرے بیٹے زید نے اس روز بڑی بہادری سے جنگ کی.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ام عمارہ یمامہ کے روز زخمی ہوئیں.تلوار اور نیزے کے گیارہ زخم انہیں لگے علاوہ ازیں ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا.حضرت ابو بکر ان کا حال دریافت کرنے تشریف لاتے رہے.کعب بن عجرہ نے اس دن سخت جنگ کی.اس دن لوگوں کو سخت ہزیمت اٹھانی
اصحاب بدر جلد 2 228 حضرت ابو بکر صدیق پڑی اور لوگ شکست کھا کر بھاگتے ہوئے لشکر کے آخری حصہ کو بھی پار کر گئے.کعب نے پکارا.اے انصار ! اے انصار ! اللہ اور رسول کی مدد کو آؤ اور یہ کہتے ہوئے وہ محکم بن طفیل تک پہنچ گئے.محکم نے ان پر ضرب لگائی اور ان کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا.اللہ کی قسم ! کعب اس کے باوجود لڑکھڑائے نہیں اور دائیں ہاتھ سے ضرب لگاتے جبکہ بائیں ہاتھ سے خون بہ رہا تھا یہاں تک کہ وہ باغ تک پہنچے اور اس میں داخل ہو گئے.حاجب بن زید نے اوس کو پکارتے ہوئے کہا کہ اے اشمل اتو ثابت نے کہا کہو اے انصار ! وہ ہمارا اور تمہارا لشکر ہیں تو انہوں نے پکارا اے انصار ! اے انصار ! یہاں تک کہ بنو حنیفہ ان پر ٹوٹ پڑے.لوگ منتشر ہو گئے.آپ نے دودشمنوں کو قتل کیا اور خود بھی شہید ہو گئے.آپ کی جگہ عمیر بن اوس نے لی.ان پر بھی دشمنوں نے حملہ کر دیا اور وہ بھی شہید ہو گئے.پھر ابو عقیل کے بارے میں ہے کہ ابو عقیل انصار کے حلیف تھے.آپ یمامہ کے روز سب سے پہلے جنگ کے لیے نکلے.آپ کو ایک تیر لگا جو کندھے کو چیر تا ہوا دل تک پہنچ گیا آپ نے اس تیر کو کھینچ کر باہر نکالا.آپ اس زخم سے کمزور ہو گئے.آپ نے معن بن عدی کو کہتے ہوئے سنا کہ اے انصار ! دشمن پر حملے کے لیے لوٹو.ابو عمر و کہتے ہیں کہ ابو عقیل اپنے لوگوں کی طرف جانے کے لیے اٹھے میں نے پوچھا ابو عقیل آپ کا کیا ارادہ ہے ؟ آپ میں جنگ کی اب ہمت نہیں ہے بہت کمزور ہو گئے ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ پکارنے والے نے میرا نام پکار کر آواز لگائی ہے.میں نے کہا انہوں نے تو صرف انصار کا نام لیا ہے اور ان کی مراد زخمیوں سے نہیں تھی.ابو عقیل نے جواب دیا کہ میں انصار میں سے ہوں اور میں ضرور جواب دوں گا خواہ دوسرے کمزوری دکھائیں.ابن عمر کہتے ہیں کہ ابو عقیل ہمت کر کے اٹھے اپنے دائیں ہاتھ میں ننگی تلوار لی پھر پکارنے لگے اے انصار ! یوم حسین کی طرح پلٹ کر حملہ کرو.وہ سب اکٹھے ہو گئے اور دشمن کے سامنے مسلمانوں کی ڈھال بن گئے یہاں تک کہ انہوں نے دشمن کو باغ میں دھکیل دیا.وہ آپس میں مل جل گئے یعنی اندر جا کے پھر گھمسان کی جنگ ہوئی اور تلواریں ایک دوسرے پر پڑنے لگیں.میں نے ابو عقیل کو دیکھا آپ کا زخمی ہاتھ کندھے سے کٹ گیا اور آپ کا وہ بازو زمین پر گر پڑا.آپ کو چودہ زخم آئے ان سب زخموں کی وجہ سے آپ شہید ہو گئے.ابن عمر کہتے ہیں کہ میں ابو عقیل کے پاس پہنچا تو وہ زمین پر گرے ہوئے آخری سانسیں لے رہے تھے.میں نے کہا اے ابو عقیل تو انہوں نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا لبیک.پھر کہا کس کو شکست ہوئی ؟ میں نے بلند آواز سے کہا خوشخبری ہو اللہ کا دشمن مسیلمہ مارا گیا.انہوں نے الحمد للہ کہتے ہوئے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور جان دے دی.ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت عمر کو ان کا یہ سارا واقعہ بتایا تو انہوں نے فرمایا اللہ ان پر رحم کرے وہ ہمیشہ شہادت کی آرزور کھتے تھے اور میرے علم کے مطابق وہ رسول کریم صلی ایم کے چند چنیدہ صحابہ میں سے تھے اور ان میں سے قدیم الاسلام تھے.مجاعه بن مُرارہ بنو حنیفہ کا سردار تھا، اس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے.اس نے ایک روز معن بن عدی کا
حاب بدر جلد 2 229 حضرت ابو بکر صدیق ذکر کیا کہ وہ رسول کریم صلی العلیم کے زمانے میں میرے پاس آیا کرتے تھے اس دوستی کی وجہ سے جو میرے اور اس کے درمیان قدیم سے تھی.مُجاعَہ کہتے ہیں کہ جب وہ حضرت ابو بکڑ کے پاس جنگ یمامہ کے ختم ہونے کے بعد وفد میں آئے تو حضرت ابو بکر ایک روز شہداء کی قبروں کی زیارت کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جارہے تھے.میں بھی ان کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ حضرت ابو بکر اور آپ کے ساتھی ستر صحابہ کی قبروں پر گئے.میں نے عرض کیا اے خلیفہ رسول ! میں نے جنگ یمامہ میں شامل ہونے والے اصحاب سے زیادہ کسی کو تلواروں کے واروں کے سامنے ثابت قدم رہنے والا نہیں دیکھا اور نہ ان سے زیادہ شدت سے حملہ کرنے والا دیکھا ہے.میں نے ان میں ایک شخص کو دیکھا.اللہ ان پر رحم کرے.میری اور ان کی دوستی تھی.حضرت ابو بکر نے فرمایا ( پہچان گئے آپ ) کہ معن بن عدی ؟ میں نے عرض کیا ہاں اور حضرت ابو بکر میری اور ان کی دوستی کو جانتے تھے.آپ نے فرمایا اللہ ان پر رحم کرے تم نے ایک صالح شخص کا ذکر کیا ہے.میں نے کہا اے خلیفہ رسول ! گویا میں اب بھی چشم تصور میں انہیں دیکھ رہاہوں اور میں خالد بن ولید کے خیمے میں بندھا ہو ا تھا.مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور اس شدت سے قدم اکھڑے کہ میں نے سمجھا کہ اب ان کے قدم دوبارہ جم نہیں سکیں گے اور مجھے یہ ناگوار لگا.حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا بخدا! واقعی تمہیں ناگوار گزرا تھا ؟ کیونکہ یہ مرتد ہو گیا تھا اور اسی لیے قید کیا گیا تھا.بہر حال کہتے ہیں میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے یہ ناگوار گزرا.حضرت ابو بکڑ نے فرمایا کہ اس پر میں اللہ کی حمد کرتا ہوں.مُجاعَہ کہتے ہیں میں نے معن بن عدی کو دیکھا وہ سر پر سرخ کپڑا پہنے ہوئے پلٹ کر حملہ کر رہے تھے.تلوار کندھے پر رکھی ہوئی تھی اور اس سے خون ٹپک رہا تھا.وہ پکار رہے تھے اے انصار ! پوری قوت سے حملہ کرو.مُجاعَہ کہتے ہیں کہ انصار نے پلٹ کر حملہ کیا اور اتنا شدید حملہ تھا کہ انہوں نے دشمن کے قدم اکھاڑ دیے.میں خالد بن ولیڈ کے ساتھ چکر لگا رہا تھا.میں بنو حنیفہ کے مقتولین کو پہچانتا تھا.میں انصار کو بھی دیکھ رہا تھا وہ شہید ہو کر گرے ہوئے تھے.حضرت ابو بکر یہ سن کر رو پڑے یہاں تک کہ آپ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی.ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ جب ظہر کا وقت آیا تو میں باغ میں داخل ہوا اور شدید جنگ ہو رہی تھی.حضرت خالد بن ولید نے موذن کو حکم دیا اس نے باغ کی دیوار پر ظہر کی اذان دی.لوگ لڑائی کی وجہ سے مضطرب تھے یہاں تک کہ عصر کے بعد جنگ ختم ہو گئی تو حضرت خالد نے ہمیں ظہر اور عصر کی نماز پڑھائی.پھر آپ نے پانی پلانے والوں کو مقتولین کی طرف روانہ کیا.میں ان کے ساتھ چکر لگانے لگا.میں ابو عقیل کے پاس سے گزرا انہیں پندرہ زخم آئے تھے انہوں نے مجھ سے پانی مانگا میں نے انہیں پانی پلایا تو ان کے تمام زخموں سے پانی بہ نکلا اور وہ شہید ہو گئے.میں بشر بن عبد اللہ کے پاس سے گزرا.وہ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے مجھ سے پانی مانگا.میں نے انہیں پانی پلایا.وہ بھی شہید ہو گئے.
صحاب بدر جلد 2 230 حضرت ابو بکر صدیق محمود بن لبید سے روایت ہے کہ جب حضرت خالد نے اہل یمامہ کو قتل کیا تو مسلمان بھی اس جنگ میں بڑی تعداد میں شہید ہوئے یہاں تک کہ اکثر صحابہ رسول شہید ہو گئے اور مسلمانوں میں سے جو زندہ بچ گئے تھے ان میں بہت زیادہ زخمی تھے.552 مجاعہ کا فریب جب حضرت خالد کو مسیلمہ کے قتل کی خبر دی گئی تو وہ مجالئہ کو بیٹریوں میں جکڑ کر ساتھ لائے تاکہ مسیلمہ کی شناخت کروائیں.وہ لاشوں میں اسے دیکھتا رہا مگر وہاں مسیلمہ نہ ملا.پھر وہ باغ میں داخل ہو ا تو ایک پستہ قد، زرد رنگ، چپٹی ناک والے آدمی کی لاش نظر آئی تو مجاعہ نے کہا یہ مسیلمہ ہے جس سے تم فراغت حاصل کر چکے ہو.اس پر حضرت خالد نے کہا یہ ہے وہ آدمی جس نے تمہارے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے.مجلہ کیونکہ قید تھا، بنو حنیفہ کا نمائندہ تھا، سردار تھا.اس لیے ان کو بچانا بھی چاہتا تھا.مرد تو اکثر مر چکے تھے لیکن اس نے ایک چال چلی.باقی جو لوگ قلعہ میں بند تھے ان کو بچانے کے لیے اس نے فریب کیا اور حضرت خالد بن ولیڈ سے ایک صلح کا معاہدہ کیا.اس نے حضرت خالد بن ولیڈ سے کہا کہ یہ لوگ جو تمہارے مقابلے میں جنگ کے لیے نکلے تھے یہ تو صرف جلد باز لوگ تھے جبکہ قلعے تو ابھی بھی جنگجوؤں سے بھرے ہوئے ہیں.حضرت خالد نے کہا تم پر ہلاکت ہو تم یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ اس پر مُجائہ نے کہا بخدا ! جو کہہ رہا ہوں بالکل سچ کہہ رہا ہوں.پس آؤ اور میرے پیچھے موجود میری قوم کی طرف سے مجھ سے صلح کر لو.دھو کے سے اس نے یہ باتیں کیں بہر حال آگے اس کا واضح بھی ہو جائے گا.حضرت خالد اس ہولناک جنگ میں مسلمانوں کو جس قدر جانی نقصان دیکھ چکے تھے اس کے پیش نظر انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ اب جبکہ بنو حنیفہ کا سر دار اور اصل باغی سرغنہ مع اپنے ساتھیوں کے مارا جا چکا ہے تو اب مسلمانوں کا مزید جانی نقصان نہ ہی کروایا جائے تو بہتر ہے چنانچہ حضرت خالد نے صلح کے لیے رضا مندی ظاہر کر دی.حضرت خالد کی طرف سے صلح کی ضمانت لے کر مُجالہ نے کہا میں ان کے پاس جاکر ان سے مشورہ کر تا ہوں پھر وہ ان لوگوں کے پاس گیا جبکہ مُجاءَ اچھی طرح جانتا تھا کہ قلعوں میں سوائے عورتوں بچوں اور انتہائی عمر کو پہنچے ہوئے بوڑھوں اور کمزوروں کے کوئی بھی نہیں تھا.اس نے انہیں زرہیں پہنائیں اور عورتوں سے کہا کہ میری واپسی تک وہ قلعے کی دیواروں پر چڑھ جائیں.پھر وہ حضرت خالد کے پاس آیا اور کہا کہ جس شرط پر میں نے صلح کی تھی وہ اس کو قبول نہیں کرتے.جب حضرت خالد نے قلعوں کی طرف دیکھا تو وہ آدمیوں سے بھرے ہوئے نظر آئے.زرہیں پہنا کے عور تیں وغیرہ وہاں بٹھا آیا تھا.اس جنگ نے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچایا تھا اور لڑائی بہت طویل ہو گئی تھی اس لیے مسلمان یہ چاہتے تھے کہ وہ فتح حاصل کر کے واپس چلے جائیں کیونکہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے.اس لیے حضرت خالد نے نسبتا نرم شرائط پر سونے، چاندی، اسلحہ اور نصف قیدیوں پر صلح کر لی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک چوتھائی پر صلح کی تھی.جب قلعوں کے دروازے کھولے گئے تو ان میں سوائے عورتوں بچوں اور کمزوروں کے کوئی بھی نہیں تھا.اس پر حضرت خالد نے مجلہ سے کہا
صحاب بدر جلد 2 231 حضرت ابو بکر صدیق تیرا بُرا ہو تُو نے مجھے دھوکا دیا ہے.مُجاعہ نے کہا یہ میری قوم کے لوگ ہیں ان کو بچانا میرے لیے ضروری تھا.اس کے علاوہ میں اور کیا کر سکتا تھا.اس کے بعد حضرت ابو بکر کا خط حضرت خالد کو پہنچا کہ ہر بالغ کو قتل کر دیا جائے لیکن یہ خط اس وقت پہنچا کہ جب حضرت خالد ان لوگوں سے صلح کر چکے تھے اس لیے انہوں نے اپنے عہد کو پورا کیا اور بد عہدی نہیں کی.3 جنگ یمامہ کی فتح کی خبر اور حضرت ابو بکر مٹی سجدہ شکر 553 ان کی جان کی امان دے دی تھی چنانچہ حضرت خالد بن ولید نے مسلمانوں کی حالت اور صلح کی وجہ بتانے کے لیے حضرت ابو بکر کی طرف ایک خط بھیجا جس کو پڑھ کر حضرت ابو بکر مطمئن اور خوش ہو گئے.جب حضرت خالد صلح کے معاہدے سے فارغ ہوئے تو آپ نے قلعوں کے متعلق حکم دیا چنانچہ وہاں آدمی مقرر کر دیے گئے.مجلہ نے اللہ کی قسم کھائی کہ جن چیزوں پر صلح ہوئی ہے ان میں سے کوئی بھی چیز آپ سے پوشیدہ نہیں رہے گی اور جو بھی کسی پوشیدہ چیز کو جانے والا ہو گا اس کی خبر خالد تک پہنچائی جائے گی.پھر قلعے کھول دیے گئے ، بہت زیادہ اسلحہ بر آمد ہوا جسے خالد نے علیحدہ اکٹھا کر لیا اور ان قلعوں میں سے جو دینار اور درہم ملے انہیں بھی الگ جمع کر لیا گیا اور ان کی زرہیں جمع کی گئیں.پھر قیدی باہر نکالے گئے اور ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا.پھر مالِ غنیمت کی قرعہ اندازی کی گئی اور زر ہوں اور بیڑیوں اور سونے چاندی وغیرہ کا وزن کیا گیا اور خمس الگ کیا گیا.خمس کا چوتھا حصہ لوگوں میں تقسیم کیا گیا.گھڑ سواروں کے لیے دوحصے مقرر کیے گئے اور گھوڑے کے مالک کے لیے ایک حصہ مقرر کیا گیا اور ان سب میں سے بھی خمس الگ کیا گیا اور یہ سارا خمس حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں بھجوا دیا گیا.554 اس کے بعد بنو حنیفہ بیعت کرنے اور مسیلمہ کی نبوت سے لا تعلقی کا اظہار کرنے کے لیے جمع ہوئے.یہ تمام لوگ حضرت خالد بن ولید کے پاس لائے گئے جہاں انہوں نے بیعت کی اور اپنے دوبارہ اسلام لانے کا اعلان کیا.حضرت خالد بن ولید نے ان کا ایک وفد حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں مدینہ منورہ روانہ فرمایا.جب وہ لوگ حضرت ابو بکر کے پاس پہنچے تو حضرت ابو بکر نے بڑا تعجب کا اظہار کیا کہ آخر تم لوگ مسیلمہ کے پھندے میں پھنس کس طرح گئے اور گمراہ ہو گئے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے خلیفہ رسول! ہمارے تمام حال سے آپ اچھی طرح آگاہ ہیں.مسیلمہ نہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکا اور نہ اس کے رشتے داروں اور قوم کو اس سے کوئی فائدہ حاصل ہو سکا.555 حضرت ابو بکر صدیق کی ایک خواب کا ذکر ہے.حضرت ابو بکر نے جب حضرت خالد کو یمامہ کی طرف روانہ فرمایا تو آپ نے خواب میں دیکھا تھا کہ آپ کے پاس ھجر بستی ہے اس کی کھجوروں میں سے کھجور میں لائی گئیں.آپ نے ان میں سے ایک کھجور کھائی اس کو آپ نے گٹھلی پایا جو کھجور کی شکل میں تھی.بڑی سخت تھی کھجور نہیں تھی بلکہ گٹھلی تھی.کچھ دیر آپ نے اس کو چبایا پھر اس کو پھینک دیا.آپ نے اس خواب کی تعبیر یہ فرمائی، فرمایا کہ خالد کو اہل یمامہ کی طرف سے شدید مقابلے کا سامنا کرنا
حاب بدر جلد 2 232 حضرت ابو بکر صدیق 556 پڑے گا اور اللہ ضرور اس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائے گا.حضرت ابو بکر یمامہ کی طرف سے آنے والی خبروں کا بشدت انتظار فرماتے تھے اور جیسے ہی خالد کی طرف سے کوئی اپیچی آتا تو آپ ان سے خبریں حاصل کرتے.ایک روز حضرت ابو بکر دوپہر کے وقت گرمی میں نکلے.آپ صرار نامی مقام کی طرف جانا چاہتے تھے جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر تھا.آپ کے ساتھ حضرت عمرؓ، حضرت سعید بن زید، طلحہ بن عبید اللہ اور مہاجرین و انصار کا ایک گروہ تھا.آپ ابو خیمہ نجاری سے ملے جنہیں خالد نے بھیجا تھا.جب انہیں حضرت ابو بکر نے دیکھا تو فرمایا اے ابو خیثمہ ! کیا خبر ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول ! اچھی خبر ہے.اللہ نے ہمیں یمامہ پر فتح عطا فرمائی ہے.راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے سجدہ کیا.ابو خیثمہ نے کہا کہ خالد کا آپ کے نام خط ہے.حضرت ابو بکر اور آپ کے اصحاب نے اللہ کی حمد کی پھر آپ نے فرمایا مجھے جنگ کے بارے میں بتاؤ کہ کیسا رہا؟ ابو خیثمہ آپ کو بتانے لگے کہ خالد نے کیا کیا کیا تھا اور کیسے اپنے ساتھیوں کی صف آرائی کی تھی اور کس طرح مسلمانوں کو ہزیمت پہنچی اور کون ان میں سے شہید ہوئے.حضرت ابو بکر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا الَيْهِ رجِعُونَ پڑھنے لگے اور ان کے لیے رحم کی دعا کرنے لگے.ابوخیثمہ نے مزید کہا اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم بدوی ہیں.انہوں نے ہمیں شکست دی اور ہمارے ساتھ وہ کیا جو ہم اچھا نہیں سمجھتے تھے.اس کے بعد اللہ نے ہمیں ان پر فتح عطا فرمائی.حضرت ابو بکر نے فرمایا جو خواب میں نے دیکھی تھی میں اس کو سخت نا پسند کرتا تھا اور میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ خالد کو ضرور شدید جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور کاش خالد نے ان لوگوں سے صلح نہ کی ہوتی اور ان کو تلوار کی دھار پر رکھا ہوتا.ان شہداء کے بعد اہل یمامہ میں سے کسی کے زندہ رہنے کا کیا حق ہے.فرمایا کہ یہ لوگ جو اس کے ساتھی تھے اپنے اس مسیلمہ کذاب کی وجہ سے قیامت تک آزمائش میں رہیں گے سوائے اس کے کہ اللہ انہیں بچالے.اس کے بعد اہل یمامہ کا وفد حضرت خالد کے ساتھ حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوا.7 مقتولین کی تعداد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں قتل ہونے والے مرتدین کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی اور ایک روایت میں اکیس ہزار بھی بیان ہوئی ہے جبکہ پانچ سو یا چھ سو کے قریب مسلمان شہید ہوئے.بعض روایات میں جنگ یمامہ میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد سات سو، بارہ سو اور سترہ سو بھی بیان ہوئی ہے.558 557 ایک روایت کے مطابق اس جنگ میں شہید ہونے والوں میں سات سو سے زائد حفاظ قرآن 559 ان شہداء میں اکابرین صحابہ اور حفاظ قرآن بھی شامل تھے جن کا مقام اور درجہ مسلمانوں میں بے حد بلند تھا.ان کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ تھا.لیکن ان حفاظ قرآن کی شہادت ہی بعد میں جمع
اصحاب بدر جلد 2 قرآن کا باعث بنی.233 حضرت ابو بکر صدیق ان شہداء میں بعض مشہور صحابہ کے نام یہ تھے.حضرت زید بن خطاب ، حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ ، حضرت سالم مولی ابو حذیفہ ، حضرت خالد بن اُسید ، حضرت حکم بن سعید، حضرت طفیل بن عمرو دوسی، حضرت زبیر بن عوام کے بھائی حضرت سائب بن عوام، حضرت عبد اللہ بن حارث بن قیش، حضرت عباد بن حارث، حضرت عباد بن بشر ، حضرت مالک بن اوس ، حضرت سراقہ بن کعب، حضرت معن بن عدی، خطیب رسول صلی الله علم حضرت ثابت بن قیس بن شماس، حضرت ابودجانہ ، رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی بن سلول کے مومن صادق فرزند حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ اور حضرت یزید بن ثابت خزر جی 560 بعض مؤرخین کے نزدیک جنگ یمامہ ربیع الاول بارہ ہجری کو ہوئی جبکہ بعض کا قول ہے کہ یہ گیارہ ہجری کے آخر میں ہوئی.ان دونوں اقوال کی تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس جنگ کا آغاز گیارہ ہجری میں ہو ا ہو اور اس کا اختتام بارہ ہجری میں ہو اہو.561 حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ”جن لوگوں نے دعویٰ نبوت کیا اور جن سے صحابہ نے جنگ کی وہ سب کے سب ایسے تھے جنہوں نے اسلامی حکومت سے بغاوت کی تھی اور اسلامی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا.مسیلمہ نے تو خو د رسول کریم صلی علیکم کے زمانہ میں آپ کو لکھا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدھا ملک عرب کا ہمارے لئے ہے اور آدھا ملک قریش کے لئے ہے اور رسول کریم صلی علیہ یکم کی وفات کے بعد اس نے حجر اور یمامہ میں سے ان کے مقرر کردہ والی تمامہ بن اثال کو نکال دیا اور خود اس علاقہ کا والی بن گیا اور اس نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا.اسی طرح مدینہ کے دو صحابہ حبیب بن زید اور عبد اللہ بن وہب کو اس نے قید کر لیا اور ان سے زور کے ساتھ اپنی نبوت منوانی چاہی.عبد اللہ بن وہب نے تو ڈر کر اس کی بات مان لی مگر حبیب بن زید نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا.اس پر مسیلمہ نے اس کا عضو عضو کاٹ کر آگ میں جلا دیا.اسی طرح یمن میں بھی جو رسول کریم صلی الیم کے افسر مقرر تھے ان میں سے بعض کو قید کر لیا اور بعض کو سخت سزائیں دی گئیں.اسی طرح طبری نے لکھا ہے کہ اسود عنسی نے بھی علم بغاوت بلند کیا تھا اور رسول کریم ملی علیم کی طرف سے جو حکام مقرر تھے ان کو اس نے تنگ کیا تھا اور ان سے زکوۃ چھین لینے کا حکم دیا تھا.پھر اس نے صنعا میں رسول کریم صلی الم کے مقرر کردہ حاکم شھر بن باذان پر حملہ کر دیا تھا.بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا، لوٹ مار کی، گورنر کو قتل کر دیا اور اس کو قتل کر دینے کے بعد اس کی مسلمان بیوی سے جبر آنکاح کر لیا.بنو نجران نے بھی بغاوت کی اور وہ بھی اسود عنسی کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے دو صحابہ عمرو بن حزم اور خالد بن سعید کو علاقہ سے نکال دیا.ان واقعات سے ظاہر ہے کہ مدعیانِ نبوت کا مقابلہ اس وجہ سے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ رسول کریم صلی الیکم کی امت میں سے نبی ہونے کے دعوے دار تھے اور رسول کریم صلی للی نیلم کے دین کی اشاعت کے مدعی تھے
حاب بدر جلد 2 234 حضرت ابو بکر صدیق 562" بلکہ صحابہ نے ان سے اس لئے جنگ کی تھی کہ وہ شریعت اسلامیہ کو منسوخ کر کے اپنے قانون جاری کرتے تھے اور اپنے اپنے علاقہ کی حکومت کے دعوے دار تھے اور صرف علاقہ کی حکومت کے دعوے دار ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے صحابہ کو قتل کیا.اسلامی ملکوں پر چڑھائیاں کیں، قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اپنی آزادی کا اعلان کیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ”جب آنحضرت نے رحلت فرمائی...اس کے بعد بادیہ نشین اعراب مرتد ہو گئے.ایسے نازک وقت کی حالت کو حضرت عائشہ صدیقہ نے یوں ظاہر فرمایا ہے کہ پیغمبر خداصلی ملی یکم کا انتقال ہو چکا ہے اور بعض جھوٹے مدعی نبوت کے پیدا ہو گئے ہیں اور بعضوں نے نمازیں چھوڑ دیں اور رنگ بدل گیا ہے.ایسی حالت میں اور اس مصیبت میں میرا باپ آنحضرت علی علیکم کا خلیفہ اور جانشین ہوا.میرے باپ پر ایسے ایسے غم آئے کہ اگر پہاڑوں پر آتے تو وہ بھی نابود ہو جاتے.اب غور کرو کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے پر بھی ہمت اور حوصلہ کو نہ چھوڑنا یہ کسی معمولی انسان کا کام نہیں.یہ استقامت صدق ہی کو چاہتی تھی اور صدیق نے ہی دکھائی.ممکن نہ تھا کہ کوئی دوسرا اس خطرہ کو سنبھال سکتا.تمام صحابہ اس وقت موجود تھے.کسی نے نہ کہا کہ میرا حق ہے.وہ دیکھتے تھے کہ آگ لگ چکی ہے.اس آگ میں کون پڑے.حضرت عمر نے اس حالت میں ہاتھ بڑھا کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر سب نے یکے بعد دیگرے بیعت کر لی.یہ ان کا صدق ہی تھا کہ اس فتنہ کو فرو کیا اور ان موذیوں کو ہلاک کیا.مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی تھا اور اس کے مسائل اباحت کے مسائل تھے.“ اباحت جو ہے کسی چیز کا شریعت میں مباح یعنی جائز یا حلال ہونا ہے.563 لوگ اس کی اباحتی باتوں کو دیکھ دیکھ کر اس میں شامل ہو جاتے تھے.بہت ساری غلط چیزوں کو بھی وہ جائز قرار دیا کرتا تھا.پہلے اس کا بیان بھی ہو چکا ہے.بہر حال فرمایا کہ ”لوگ ابا حتی باتوں کو دیکھ دیکھ کر اس کے مذہب میں شامل ہوتے جاتے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی معیت کا ثبوت دیا اور ساری 564" مشکلات کو آسان کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں ” اہل تحقیق سے یہ امر مخفی نہیں ہے کہ آپ کی خلافت کا وقت خوف اور مصائب کا وقت تھا چنانچہ جب رسول اللہ صلی علیکم نے وفات پائی تو اسلام اور مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے.بہت سے منافق مرتد ہو گئے اور مرتدوں کی زبانیں دراز ہو گئیں اور افترا پردازوں کے ایک گروہ نے دعوی نبوت کر دیا اور اکثر بادیہ نشین ان کے گرد جمع ہو گئے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب جاہل اور بد کردار آدمی مل گئے اور فتنے بھڑک اٹھے اور مصائب بڑھ گئے اور آفات نے دور و نزدیک کا احاطہ کر لیا اور مومنوں پر ایک شدید زلزلہ طاری ہو گیا.اس وقت تمام لوگ آزمائے گئے اور خوفناک اور حواس باختہ کرنے والے حالات نمودار ہو گئے اور سو من ایسے لاچار تھے کہ گویا ان کے دلوں میں آگ کے انگارے دہکائے گئے ہوں یا وہ چھری سے ذبح
حاب بدر جلد 2 235 حضرت ابو بکر صدیق کر دیئے گئے ہوں.کبھی تو وہ خیر البریہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جدائی کی وجہ سے اور گاہے ان فتنوں کے باعث جو جلا کر بھسم کر دینے والی آگ کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے روتے.امن کا شائبہ تک نہ تھا.فتنہ پرداز گند کے ڈھیر پر اگے ہوئے سبزے کی طرح چھا گئے تھے.مومنوں کا خوف اور ان کی گھبراہٹ بہت بڑھ گئی تھی اور دل دہشت اور بے چینی سے لبریز تھے.ایسے ( نازک) وقت میں (حضرت) ابو بکر رضی اللہ عنہ حاکم وقت اور (حضرت) خاتم النبیین کے خلیفہ بنائے گئے.منافقوں، کافروں اور مرتدوں کے جن رویوں اور طور طریقوں کا آپ نے مشاہدہ کیا ان سے آپ ہم و غم میں ڈوب گئے.آپ اس طرح روتے جیسے ساون کی جھڑی لگی ہو اور آپ کے آنسو چشمہ رواں کی طرح بہنے لگتے اور آپ (رضی اللہ عنہ ) (اپنے) اللہ سے اسلام اور مسلمانوں کی خیر کی دعا مانگتے.(حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے.آپ فرماتی ہیں کہ جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے اور اللہ نے انہیں امارت تفویض فرمائی تو خلافت کے آغاز ہی میں آپ نے ہر طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیان نبوت کی سر گرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین ہو جاتے اور فوراً گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا.یہاں تک کہ اللہ کی اور نصرت آن پہنچی اور جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دیئے گئے.فتنے دور کر دیئے گئے اور مصائب چھٹ گئے اور معاملے کا فیصلہ ہو گیا اور خلافت کا معاملہ مستحکم ہوا اور اللہ نے مؤمنوں کو آفت سے بچالیا اور ان کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور ان کیلئے ان کے دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق پر قائم کر دیا اور مفسدوں کے چہرے کالے کر دیئے اور اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے ( حضرت ابو بکر صدیق کی نصرت فرمائی اور سرکش سر داروں اور بتوں کو تباہ وبرباد کر دیا اور کفار کے دلوں میں ایسار عب ڈال دیا کہ وہ پسپا ہو گئے اور (آخر) انہوں نے رجوع کر کے توبہ کی اور یہی خدائے قہار کا وعدہ تھا اور وہ سب صادقوں سے بڑھ کر صادق ہے.پس غور کر کہ کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ (حضرت ابو بکر صدیق کی ذات میں پورا ہوا.565 566 پھر حضرت خالد کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ حضرت خالد یمامہ کی مہم سے فارغ ہو کر ابھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے کہ حضرت ابو بکر نے ان کو لکھا کہ عراق کی طرف روانہ ہو جائیں.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت علاء بن حضرمی نے حضرت ابو بکر سے کمک مانگی.آپ نے خالد بن ولید کو لکھا اور یہ حکم دیا کہ یمامہ سے علاہ کے پاس بعجلت روانہ ہو جاؤ اور ان کی مدد کرو اور وہ ان کی مدد کے پاس پہنچے.عظم کو قتل کیا پھر ان کے ساتھ مل کر خط کا محاصرہ کیا.خط بھی بحرین میں قبیلہ عبد القیس کا محلہ ہے جہاں کثرت سے کھجوریں ہوتی تھیں.اس کے بعد حضرت ابو بکر نے انہیں عراق کی طرف کوچ کا حکم دیا اور انہوں نے بحرین سے ادھر کوچ کیا.567 مجاعه بن مُرارہ کی بیٹی سے حضرت خالد کی شادی کے بارے میں جو سوال اٹھتے ہیں اس بارے میں کتب تاریخ اور سیرت میں لکھا ہے کہ جنگ یمامہ کے ختم ہونے اور بنو حنیفہ کے باقی ماندہ بیچ
اصحاب بدر جلد 2 236 حضرت ابو بکر صدیق جانے والوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ ہو جانے کے بعد حضرت خالد بن ولید کی ایک شادی ہوئی تھی اس کا ذکر ملتا ہے.مؤرخین کے مطابق حضرت ابو بکر کو جب اس شادی کی خبر ملی تو حضرت ابو بکر حضرت خالد سے ناراض ہوئے لیکن جب حضرت خالد نے تفصیلی وضاحت بذریعہ خط پیش خدمت کی تو حضرت ابو بکر کی ساری ناراضگی جاتی رہی.اس کی تفصیلات کے مطابق صلح ہو جانے کے بعد خالد رضی اللہ عنہ نے مُجاءَ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کر دے.مجامعہ کو مالک بن نویرہ کی بیوی لیلی ام تمیم کا واقعہ اور حضرت ابو بکر کا حضرت خالد سے شادی کی ناراضگی کا علم تھا چنانچہ اس نے کہا کہ رک جائیے.آپ میری کمر توڑ دینے کا باعث بنیں گے اور خود بھی حضرت ابو بکر کے عتاب سے بچ نہ سکیں گے لیکن حضرت خالد نے کہا تو اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے چنانچہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کر دی.ابو بکر یمامہ کی خبروں کے برابر منتظر رہتے تھے اور آپ کو خالد کے خبر رساں کا انتظار رہتا تھا.ایک روز آپ شام کے وقت مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے ساتھ ایک مقام پر تھے کہ وہاں خالد رضی اللہ عنہ کے فرستادہ ابو خیمہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی جبکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو ان سے دریافت کیا: پیچھے کیا خبریں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ خیر ہے اے خلیفہ رسول! اللہ تعالیٰ نے ہمیں یمامہ پر فتح نصیب فرمائی ہے اور بیجیے یہ خالد رضی اللہ عنہ کا خط ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فوراً سجدہ شکر بجالایا اور فرمایا مجھ سے معرکے کی کیفیت بیان کرو کیسے ہوا.اس حوالے سے ایک پہلے بھی روایت گزر چکی ہے.بہر حال ابو خیثمہ نے معرکہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ خالد نے کیا کیا، کس طرح فوج کی صف بندی کی ، کون کون سے صحابہ شہید ہوئے اور کس طرح ہمیں دشمن کی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ہمیں ایسی چیزوں کا عادی بنا دیا جسے ہم اچھی طرح نہیں جانتے تھے.پھر حضرت خالد کی شادی کا بھی ذکر ہوا.حضرت ابو بکر نے انہیں خط لکھا کہ اے ام خالد کے بیٹے ! تمہیں عورتوں سے شادی کی سو جبھی ہے اور ابھی تمہارے صحن میں ایک ہزار دو سو مسلمانوں کا خون خشک نہیں ہوا اور پھر مخالہ نے تمہیں فریب دے کر مصالحت کر لی حالا نکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان پر مکمل قدرت عطا کر دی تھی.مجلہ سے مصالحت اور اس کی بیٹی سے شادی کی وجہ سے خلیفہ رسول ابو بکر کی طرف سے یہ عتاب خالد رضی اللہ عنہ کو پہنچا تو آپ نے جوابی خط حضرت ابو بکر کی خدمت میں روانہ کیا جس میں اپنے موقف کی وضاحت اور اس کے دفاع میں لکھا.حضرت خالد نے لکھا کہ انا بعد ! دین کی قسم ، میں نے اس وقت تک شادی نہیں کی جب تک خوشی مکمل نہ ہو گئی اور استقرار حاصل نہ ہو گیا.میں نے ایسے شخص کی بیٹی سے شادی کی ہے کہ اگر میں مدینہ سے پیغام بھیجتا تو وہ انکار نہ کرتا.معاف کیجیے ، میں نے اپنے مقام سے پیغام دینے کو ترجیح دی.اگر آپ کو یہ رشتہ دینی یا دنیاوی اعتبار سے نا پسند ہو تو میں آپ کی مرضی پوری کرنے کے لیے تیار ہوں.رہا مسئلہ مسلم مقتولین کی تعزیت کا تو اگر کسی کا حزن و غم کسی زندہ کو باقی رکھ سکتا یا مردہ کو لوٹا سکتا تو میر حزن و غم زندہ کو باقی رکھتا اور مردہ کو لوٹا
حاب بدر جلد 2 237 حضرت ابو بکر صدیق دیتا.میں نے اس طرح حملہ کیا کہ زندگی سے مایوس ہو گیا اور موت کا یقین ہو گیا اور رہا مسئلہ مخلصہ کی فریب دہی کا تو میں نے اپنی رائے میں غلطی نہیں کی لیکن مجھے علم غیب نہیں ہے.جو کچھ کیا اللہ نے مسلمانوں کے حق میں خیر کیا ہے.انہیں زمین کا وارث بنایا اور انجام کار متقیوں کے لیے ہے.جب یہ خط حضرت ابو بکر کو موصول ہوا تو آپ کا غصہ جاتا رہا اور قریش کی ایک جماعت نے اور جو حضرت خالد شکا خط لے کر آیا تھا اس نے بھی حضرت خالد کی طرف سے عذر خواہی کی تو حضرت ابو بکر نے فرمایا تم سچ کہہ رہے ہو اور حضرت خالد کی وضاحت اور معذرت قبول فرمائی.58 568 عمان کی طرف آنحضرت صلی ال عالم کا خط اور قبول اسلام کئی مہمات تھیں.پہلی مہم جو کافی لمبی تھی وہ تو بیان ہوئی، جو بقیہ دس مہمات ہیں ان میں سے دو اور تین کے ذکر میں یہ آتا ہے کہ حضرت حذیفہ اور حضرت عرفجہ کے ذریعہ سے یہ مہم سر کی گئی جو عمان کے مرتد باغیوں کے خلاف مہم تھی.عمان بحرین کے قریب یمن کا ایک شہر ہے.جو خلیج فارس اور بحیرہ عرب کے درمیان واقع ہے جس میں ان دنوں آج کے متحدہ عرب امارات کے مشرقی علاقے بھی شامل تھے.یہاں بت پرست قبیلہ ازد اور دیگر قبائل آباد تھے جو مجوسی تھے.مسقط، صُحار اور دبا یہاں کے ساحلی شہر تھے.آنحضرت صلی علی کے عہد مبارک میں عمان ایرانیوں کی عمل داری میں شامل تھا اور ان کی طرف سے جنیفر نامی شخص عامل مقرر تھا.اس علاقے میں مجوسی مذہب پھیلا ہوا تھا.رسول اللہ صلی الی یکم نے 18 ہجری میں حضرت ابو زید انصاری کو تبلیغ اسلام کی غرض سے اور حضرت عمرو بن عاص کو یہاں کے دور کیس بھائیوں جیفر بن جلندی اور عباد بن مجلندی کے نام خط دے کر بھیجا.رسول اللہ صلی اللی کام کے خط کا مضمون یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم.یہ خط محمد صلی اللی علم اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے جیفر اور عباد پسر ان جاندی کی طرف ہے.سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی.میں تمہیں اسلام لانے کی دعوت دیتا ہوں.تم اسلام قبول کر لو، محفوظ رہو گے.میں اللہ کا رسول ہوں اور ساری دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں تاکہ ہر اس شخص کو ڈراؤں جو زندہ ہے اور کافروں پر اتمام حجت کروں.اگر تم اسلام لے آؤ گے تو میں تمہیں بدستور وہاں کا حاکم رہنے دوں گا اور اگر اسلام قبول کرنے سے انکار کرو گے تو تمہاری ریاست تم سے چھن جائے گی.بعض روایات کے مطابق کافی دن کی بحث کے بعد ان بھائیوں نے اسلام قبول کیا اور ایک روایت کے مطابق عمان کے حاکم جنیفر نے کہا مجھے اسلام لانے میں تو کوئی عذر نہیں لیکن یہ ڈر ہے کہ اگر میں نے یہاں سے زکوۃ اکٹھی کر کے مدینہ بھیجی تو میری قوم مجھ سے بگڑ جائے گی.اس پر حضرت عمرو بن عاص نے اس کو پیشکش کی کہ اس علاقے سے زکوۃ کا جو مال وصول ہو گاوہ اسی علاقے کے غرباء پر خرچ کر دیا جائے گا.چنانچہ 569
اصحاب بدر جلد 2 238 حضرت ابو بکر صدیق الله سة اس نے اسلام قبول کر لیا.حضرت عمر و یہاں دو سال تک مقیم رہے اور لوگوں کو تبلیغ اسلام کرتے رہے.آپؐ کی اس کامیاب تبلیغی مساعی سے اس علاقے کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا.حضرت حذیفہ اور حضرت عرفجہ کی مہم جب آنحضرت صلی کمی کی وفات ہوئی اور عرب کے چاروں طرف ارتداد اور بغاوت پھیل گئی تو حضرت ابو بکر نے حضرت عمرو بن عاص کو عمان سے مدینہ طلب فرمالیا.دوسری طرف رسول اللہ صلی علیکم کی وفات کے بعد لقیط بن مالک از دیان میں اٹھا جس کا لقب ذو تاج تھا اور یہ دورِ جاہلیت میں شاہ عمان بلندی کے ہم پلہ سمجھا جاتا تھا.جلندی عمان کے بادشاہوں کا لقب تھا.بہر حال اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور عمان کے جاہلوں نے اس کی پیروی کی، یہ عمان پر قابض ہو گیا اور جنیفر اور اس کے بھائی عباد کو پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی اور جنیفر نے حضرت ابو بکر کو اس ساری صورت حال سے باخبر کیا اور مدد طلب کی.حضرت ابو بکر نے ان کے پاس دو امیر بھیجے ، ایک حذیفہ بن محصن عافانی حمیری کو عثمان کی طرف اور دوسرے عزفجه بن هر قمه بارقی از دی کو مہرہ کی طرف اور حکم دیا کہ وہ دونوں ساتھ ساتھ سفر کریں اور جنگ کا آغاز عمان سے کریں.مھرہ یمن کے ایک قبیلے کا نام تھا اور حکم دیا کہ جب عمان میں جنگ ہو تو حذیفہ قائد ہوں گے اور جب مھرہ میں جنگ ہو تو حذیفہ سپہ سالاری کے فرائض سر انجام دیں گے.حضرت حذیفہ اور حضرت عروہ کا تعارف یہ ہے.تاریخ طبری میں حضرت حذیفہ کا نام حذیفہ بن محصن غلفانی بیان ہوا ہے جبکہ صحابہ کے حالات پر مشتمل کتاب میں ان کا نام حذیفہ قلعانی بیان ہوا ہے.آپ حضرت ابو بکر کی وفات تک عمان کے والی رہے.صحابہ کے حالات پر مشتمل کتب میں حضرت عز فجر کا مکمل نام عرقجه بن خزیمہ بیان ہوا ہے.علامہ ابن اثیر کے نزدیک ان کے والد کا نام ھر جمہ تھا.یہ دشمن کے خلاف جنگی چالوں کے لیے مشہور تھے.حضرت ابو بکر نے ان دونوں کی مدد کے لیے حضرت عکرمہ بن ابو جہل کو روانہ کیا.اس سے پہلے جنگ یمامہ کی تفصیلات میں مسیلمہ کذاب کے ذکر میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ جب حضرت ابو بکر نے حضرت عکرمہ کو فتنہ ارتداد اور بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا اور شر خبیل بن حسنہ کو ان کی مدد کے لیے روانہ کیا تو عکرمہ کو حکم دیا تھا کہ وہ شتر خبیل کے آنے سے پہلے حملہ نہیں کریں گے لیکن انہوں نے اس کا انتظار کیے بغیر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں انہیں شکست کھانا پڑی جس پر حضرت ابو بکر ان سے ناراض ہوئے اور انہیں عمان کی طرف جانے کا حکم دیا.حضرت ابو بکر کے حکم کے مطابق عکرمہ اپنی فوج کے ساتھ عثمان کی طرف عرفجہ اور حذیفہ کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے اور قبل اس کے کہ وہ دونوں عمان پہنچتے عکرمہ عمان کے قریب ایک مقام رجام میں ان دونوں سے جاملے اور انہوں نے جنیفر اور اس کے بھائی عباد کے پاس اپنا پیغام بھیج دیا.تاریخ کی بعض کتب جیسے کامل ابن اثیر میں اس کا نام عیاذ بیان کیا جاتا ہے.رِجام عمان میں ایک طویل پہاڑی سلسلہ ہے.بہر حال مسلمان لشکر کے سرداروں کے پیغام ملنے کے بعد جنیفر اور عباد اپنی اپنی قیام گاہوں سے نکلے جو پہلے چھپ گئے تھے.اس مرتد کے نبی کے اعلان ہونے کے بعد جس نے اپنی فوج بنالی تھی اس کی
اصحاب بدر جلد 2 239 حضرت ابو بکر صدیق 570 طاقت زیادہ ہو گئی تھی تو بہر حال یہ اپنی قیام گاہوں سے نکلے اور انہوں نے صحار میں آکر پڑاؤ کیا اور حذیفہ، عرفجہ اور عکرمہ کو کہلا بھیجا کہ آپ سب ہمارے پاس آجائیں.صحار بھی عمان میں پہاڑوں سے متصل ایک قصبہ ہے.اس کے بارے میں آتا ہے کہ عمان کا ایک بازار جو رجب کے شروع میں پانچ راتوں تک یہاں لگتا تھا.چنانچہ مسلمانوں کا لشکر صحار میں جمع ہو گیا اور متصلہ علاقوں کو مرتدین سے پاک کر دیا.ادھر لقبیط بن مالک کو اسلامی لشکر کے پہنچنے کی خبر ملی تو وہ اپنی فوج لے کر مقابلے کے لیے نکلا اور دبا کے مقام پر فروکش ہو ا.اس نے عورتوں بچوں اور مال و متاع کو اپنے پیچھے رکھاتا کہ اس سے جنگ میں تقویت ملے.دبا بھی اس علاقے کا شہر تھا اور تجارتی منڈی تھی.مسلمان امراء نے لقیط کے ساتھی سر داروں کو خطوط لکھے اور اس کی ابتدا انہوں نے قبیلہ بنو جدید کے رئیس سے کی.ان کے جواب میں ان سرداروں نے بھی مسلمان امراء کو خطوط لکھے.اس مراسلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ سب سردار لقیط سے علیحدہ ہو گئے.اور مسلمانوں کے ساتھ آملے.اسی جگہ یعنی دبا کے مقام پر لقیط کی فوج کے ساتھ پھر گھمسان کی جنگ ہوئی.ابتدا میں لقیط کا پلہ بھاری رہا اور قریب تھا کہ مسلمانوں کو شکست ہو جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے احسان فرمایا اور اس نازک گھڑی میں مدد نازل فرمائی.بحرین کے مختلف قبائل اور بنو عبد القیس کی طرف سے بھاری کمک پہنچ گئی جس سے ان کی قوت اور طاقت میں اضافہ ہو گیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر لقیط کی فوج پر شدید حملہ کر دیا جس سے لقیط کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے.مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور دس ہزار مقاتلین کو تہ تیغ کیا اور بچوں اور عورتوں کو قید کر لیا.مال و بازار پر قبضہ کر لیا اور اس کا مخمس عرفجہ کے ہاتھ حضرت ابو بکر کی خدمت میں روانہ کر دیا.اس طرح عمان میں بھی اس فتنہ کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمانوں کی حکومت پائیدار بنیادوں پر قائم ہو گئی.جنگ کے بعد حذیفہ نے عمان ہی میں سکونت اختیار کر لی اور یہاں کے حالات کی درستی اور امن و امان قائم کرنے میں مصروف ہو گئے.عرفجہ تو جیسا کہ ذکر ہو امالِ غنیمت لے کر مدینہ چلے گئے اور حضرت عکرمہ اپنے لشکر لے کر مہرہ کی بغاوت کا سد باب کرنے کے لیے روانہ ہو گئے.571 حضرت عکرمہ کی مرتد باغیوں کے خلاف مہمات کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت ابو بکڑ نے ایک جھنڈ ا حضرت عکرمہ کو دیا تھا اور ان کو مسیلمہ کے مقابلہ کا حکم دیا تھا.572 حضرت ابو بکر نے عکرمہ کو مسیلمہ کے مقابلے کے لیے یمامہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے پیچھے حضرت شر خبیل بن حسنہ کو بھی یمامہ بھیجا تھا.حضرت ابو بکر نے ان دونوں کے لیے یمامہ کا نام لیا البتہ عکرمہ سے فرمایا کہ جب تک شر خبیل نہ پہنچ جائیں حملہ نہیں کرنا لیکن غیر مہ نے جلدی کی جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اور شر خبیل کے آنے سے پہلے آگے بڑھ کر حملہ کر دیا اور مسیلمہ نے ان کو پیچھے
اصحاب بدر جلد 2 240 حضرت ابو بکر صدیق دھکیل دیا.شکست کھا کر وہ پیچھے ہٹ گئے.حضرت شر خبیل بن حسنہ کو جب واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ جہاں تھے وہیں ٹھہر گئے.حضرت ابو بکر نے شر خبیل کو لکھا کہ تم یمامہ کے قریب ہی مقیم رہو یہاں تک کہ تمہیں میرا دوسرا حکم موصول ہو.573 574 اور حضرت ابو بکر نے حضرت عکرمہ کو یہ لکھا کہ میں اب تمہاری شکل نہیں دیکھوں گا، پہلے بھی بیان ہو چکا ہے ، اور نہ ہی تمہاری کوئی بات سنوں گا مگر بعد اس کے کہ تم کوئی کار ہائے نمایاں سر انجام دو.کوئی غیر معمولی کام کر کے دکھاؤ پھر ٹھیک ہے ، پھر میرے پاس آنا.پھر آپ نے فرمایا کہ تم عمان جاؤ اور اہل عمان سے لڑو اور حذیفہ اور عرفجہ کی مدد کرو.بہر حال عثمان جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ خلیج فارس کا حصہ تھا جس میں ان دنوں آج کے متحدہ عرب امارات کے مشرقی علاقے بھی شامل تھے.یہاں بت پرست قبیلہ ازد اور دیگر قبائل آباد تھے جو مجوسی تھے.مسقط، ضحار اور دبا یہاں کے ساحلی شہر تھے.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم میں ہر ایک شخص اپنے گھڑ سواروں کا سردار رہے گا البتہ جب تک تم لوگ حذیفہ کے زیر نگرانی علاقے میں رہو گے وہ تم سب کے امیر ہوں گے.جب تم لوگ فارغ ہو جاؤ تو پھر مھرہ چلے جانا، پھر وہاں سے یمن چلے جانا یہاں تک کہ یمن اور حضر موت کی کارروائیوں میں مہاجر بن ابو امیہ کے ساتھ رہنا اور عمان اور یمن کے درمیان جن لوگوں نے ارتداد اختیار کیا ہے ان کی سرکوبی کرنا اور مجھے جنگ میں تمہارے کار ہائے نمایاں کی خبر پہنچتی رہے.یہ حضرت ابو بکر نے ارشاد فرمایا.بہر حال تکریمہ کی روانگی سے قبل حضرت ابو بکر کی ہدایت کے مطابق حذیفہ بن محصن غلفانی عثمان اور عرفجہ بارقی مهرہ کے مرتدین سے لڑنے کے لیے روانہ ہو چکے تھے.حضرت ابو بکر کے حکم کے مطابق عکرمہ اپنی فوج کے ساتھ عرفجہ اور حذیفہ کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے اور قبل اس کے کہ وہ دونوں عمان پہنچتے عکرمہ ان سے جاملے.اس سے قبل حضرت ابو بکر نے ان دونوں کو یہ تاکیدی حکم دے دیا تھا کہ عمان سے فارغ ہونے کے بعد وہ غیر مہ کی رائے پر عمل کریں چاہے وہ ان کو اپنے ساتھ لے لیں یا عمان میں ٹھہرنے کا حکم دیں.بہر حال پھر جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے جب یہ تینوں امیر عمان کے قریب ایک مقام رجام میں باہم جاملے تو انہوں نے جینفر اور عباد کے پاس اپنے پیامبر بھیجے اور دوسری طرف جب لقیط کو ان کی فوج کی آنے کی خبر ہوئی تو اس نے اپنی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور دبا میں آکر پڑاؤ ڈالا.جنیفر اور عباد بھی اپنی اپنی قیام گاہوں سے نکلے.انہوں نے صحار میں آکر پڑاؤ کیا.حذیفہ ، عرفجہ اور عکرمہ کو کہلا بھیجا کہ آپ سب ہمارے پاس آجائیں.چنانچہ جیسا کہ ذکر ہوا ہے وہ سب ان دونوں کے پاس صحار میں جمع ہو گئے اور اپنے متصلہ علاقے کو مرتدین سے پاک کر دیا یہاں تک کہ اپنے قرب وجوار میں سب لوگوں سے صلح ہو گئی.نیز ان امراء نے لقیط کے ساتھی سرداروں کو خطوط لکھے.انہوں نے بنو جدید کے رئیس سے ابتدا کی.اس کے جواب میں سرداروں نے بھی مسلمانوں کو خطوط لکھے.جیسا کہ ذکر ہوا ہے اس کے نتیجہ میں سردار لقیط سے علیحدہ ہو گئے.اس کے بعد لقیط کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کی شدید لڑائی ہوئی اور اس کی تفصیل پہلے آچکی ہے.اس معرکے کے بعد غیر مہ اور
حاب بدر جلد 2 241 حضرت ابو بکر صدیق حذیفہ اس رائے پر متفق ہوئے کہ حذیفہ عثمان میں ہی قیام کریں اور معاملات کو سلجھائیں اور لوگوں کو امن دلائیں اور حضرت عکرمہ مسلمانوں کی بڑی فوج کے ساتھ دوسرے مشرکین کی سرکوبی کے لیے آگے بڑھ گئے.انہوں نے مھرہ سے اپنی جنگی کارروائی کی ابتدا کی.575 حضرت عکرمہ کی مهره قبیلہ کی طرف پیش قدمی کے بارہ میں آتا ہے کہ عمان کے مرتدین کی سرکوبی سے فارغ ہونے کے بعد عکرمہ اپنے لشکر کے ہمراہ مسجد کے علاقے مہرہ قبیلہ کی طرف روانہ ہو گئے.لکھا ہے کہ انہوں نے اہل عثمان اور عمان کے ارد گرد کے لوگوں سے اپنی اس مہم کے لیے مدد طلب کی.وہ چلتے رہے یہاں تک کہ مہرہ قبیلے کے علاقے میں پہنچ گئے.ان کے ساتھ مختلف قبائل کے لوگ تھے یہاں تک کہ عکرِ مہ نے مہرہ قبیلے اور اس کے مضافاتی علاقوں پر چڑھائی کر دی.ان کے مقابلہ کے لیے مفرہ کے لوگ دو گروہوں میں تقسیم تھے.ایک گروہ بمقام بیروت میں ایک شخص یخریت کی سر کردگی میں مورچہ زن تھا.دوسر اگر وہ نجد میں بنو محارب کے ایک شخص مُصبح کی سر کردگی میں تھا.دراصل تمام مهره اسی لشکر کے سردار کے تابع تھا سوائے شخریت اور اس کی جمعیت کے.یہ دونوں سردار ایک دوسرے کے مخالف تھے اور ایک دوسرے کو اپنی طرف بلاتے تھے اور ان دونوں فوجوں میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ ان کے سردار کو ہی کامیابی حاصل ہو.یہی وہ بات تھی جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی اور ان کو ان کے دشمنوں کے خلاف مضبوط کیا اور دشمنوں کو کمزور کر دیا.جب نگر مہ نے شیخریت کے ہمراہ تھوڑی تعداد میں لوگ دیکھے تو انہوں نے اسے اسلام کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی.یہ پہلے مسلمان تھا.اسے کہا کہ دوبارہ مسلمان ہو جاؤ اور اب مسلمانوں سے جنگ نہ کرو.چنانچہ اس ابتدائی تحریک پر ہی شیخریت نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا اور اس طرح اللہ نے مصبح کو کمزور کر دیا.پھر ٹکر مہ نے مُصبح کی طرف پیغامبر بھیجا اور ایسے اسلام کی طرف واپس آنے اور کفر سے لوٹنے کی دعوت دی مگر اس کے ساتھ لوگوں کی جو کثیر تعداد تھی اس کثرت نے اس کو دھوکا دیا.شیخریت کے اسلام لانے کی وجہ سے مُصبِّح اور شخرِیت میں دوری مزید بڑھ گئی.بہر حال عکرمہ نے اس کی طرف پیش قدمی کی اور شیخیریت بھی آپ کے ساتھ تھا.ان دونوں کا مسجد میں مُصبح کے ساتھ مقابلہ ہوا اور انہوں نے یہاں دبا سے بھی زیادہ شدید جنگ کی.اللہ نے مرتد باغیوں کے لشکر کو شکست دی اور ان کا سر دار مارا گیا.مسلمانوں نے بھاگنے والوں کا تعاقب کیا اور ان میں سے بہت سی تعداد کو قتل کیا اور بکثرت قیدی بنائے گئے اور مال غنیمت میں دو ہزار کی تعداد میں عمدہ نسل کی اونٹنیاں بھی مسلمانوں کے ہاتھ آئیں.حضرت غیر مڈ نے مالِ غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا اور شیخریت کو خمس کے ساتھ حضرت ابو بکر کی طرف روانہ کر دیا.باقی چار حصے انہوں نے مسلمانوں میں تقسیم کر دیے.اس طرح عکرمہ کا لشکر سواریوں اور مال و متاع اور ساز و سامان کی وجہ سے مزید طاقتور ہو گیا.حضرت عکرمہ نے وہیں قیام کر کے اس علاقے کے تمام لوگوں کو جمع کیا اور
حاب بدر جلد 2 242 حضرت ابو بکر صدیق ان سب نے اسلام قبول کر لیا.حضرت عکر مڈ نے اس فتح کی خوشخبری سائب نامی ایک شخص کے ذریعہ 576 حضرت ابو بکر کی خدمت میں پہنچائی.پھر حضرت عکرمہ کی یمن کی طرف پیش قدمی کا ذکر ہے.حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے خط میں جس کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے حضرت عکرمہ کو ہدایت دی تھی کہ مہرہ کے بعد یمن چلے جانا اور یمن اور حضر موت کی کارروائیوں میں حضرت مہاجر بن ابو امیہ کے ساتھ رہنا اور عمان اور یمن کے درمیان جن لوگوں نے ارتداد اختیار کیا ہے ان کی سرکوبی کرنا.577 چنانچہ حضرت فکر مڈ نے حضرت ابو بکر صدیق کے اس ارشاد کی تکمیل میں مھرہ سے نکل کر یمن کی طرف پیش قدمی کی یہاں تک کہ انین جا پہنچے.انہیں بھی یمن کی ایک بستی ہے.ان کے ساتھ ایک بہت بڑا لشکر تھا جس میں قبیلہ مھرہ اور دوسرے قبائل کے بہت سے لوگ شامل تھے.حضرت عکرمہ نے اپنا مکمل قیام جنوبی یمن میں ہی رکھا اور وہاں نفع اور جمیز کے قبائل کی سرکوبی میں مشغول رہے اور شمالی یمن کی طرف بڑھنے کی نوبت ہی نہ آئی.حضرت فگر مہ نے قبیلہ ننجح کے مفرور لوگوں کو پکڑ لینے کے بعد اس قبیلے کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ تم لوگوں کی اسلام کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ جاہلیت کے زمانے میں بھی ہم اہل مذہب تھے ، مذہب سے ہمیں لگاؤ تھا، ہم عرب ایک دوسرے پر چڑھائی نہیں کرتے تھے تو ہمارا اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم اس دین میں داخل ہو جائیں جس کی فضیلت سے ہم واقف ہو چکے ہیں اور اس کی محبت ہمارے دلوں میں داخل ہو چکی ہے ، یعنی اسلام کی محبت ہمارے دلوں میں اب داخل ہو چکی ہے.حضرت عکرمہ نے جب ان کے بارے میں تحقیقات کیں کہ دل سے یہ کہہ رہے ہیں یا صرف جان بچانے کے لیے تو معلوم ہوا کہ معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ انہوں نے بیان کیا تھا.وہ حقیقت میں صحیح بیان دے رہے تھے.ان کے عوام بدستور اسلام پر ثابت قدم رہے البتہ ان کے خواص میں سے جو مرتد ہو گئے تھے وہ بھاگ گئے.اس طرح حضرت عکرمہ نے نجع اور جمیز قبائل کو ارتداد کے الزام سے بری قرار دیا اور وہ ان کو جمع کرنے کے لیے وہیں مقیم رہے.578 آئین میں حضرت عکرمہ کی اقامت سے اسود عنسی کی باقی ماندہ جماعت پر گہرا اثر پڑا جس کی قیادت قیس بن مکشوح اور عمرو بن معدی گرپ کر رہے تھے.صنعا سے بھاگنے کے بعد قیس صنعا کے مابین چکر کاتا رہا اور عمرو بن معدی گرپ ، اسود عنسی کی تحج میں موجود پارٹی میں شامل ہوا تھا لیکن جب حضرت عکرمہ آئین پہنچے تو دونوں یعنی قیس اور عمرو بن معدی گرب آپ سے قتال کے لیے اکٹھے ہو گئے، جنگ کے لیے تیار ہو گئے، لیکن جلد ہی دونوں میں اختلاف ہوا اور ایک دوسرے سے جدا ہو گئے.اس طرح حضرت عکرمہ کے مشرق کی طرف سے آنے نے سنج میں موجود مرتدین کی جماعتوں کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیا.579
اصحاب بدر جلد 2 243 حضرت ابو بکر صدیق یمن کے ساتھ ہی کندہ قبیلہ آباد تھا جو حضر موت کے علاقے میں تھا.اس علاقے کے عامل حضرت زیاد بن لبیڈ تھے.انہوں نے زکوۃ کے بارے میں سختی کی تو ان کے خلاف بغاوت برپا ہو گئی.چنانچہ حضرت عکرمہ اور حضرت مہاجر بن ابو امیہ دونوں ان کی مدد کے لیے پہنچے.اس کی تفصیل جو ہے وہ حضرت مہاجر بن امیہ کے ضمن میں بیان ہو جائے گی.بہر حال جب حضرت عکرمہ نے مرتدین سے مہمات کے بعد مدینہ کوٹنے کی تیاری شروع کر دی تو ان کے ہمراہ نعمان بن جون کی بیٹی بھی تھی جس سے انہوں نے میدانِ جنگ میں شادی کر لی تھی.اگر چہ انہیں علم تھا کہ اس سے پہلے اتم تمیم اور مجامعہ کی بیٹی سے شادی کر لینے کے باعث حضرت ابو بکر صدیق حضرت خالد بن ولید پر سخت ناراض ہوئے تھے ، اس کا پہلے تفصیلی ذکر گذشتہ خطبہ میں ہو چکا ہے.لیکن انہوں نے یعنی حضرت عکرمہ نے اس کے باوجود اس سے شادی کر لی.اس پر حضرت عکرمہ کی فوج کے کئی افراد نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی.یہ معاملہ حضرت مہاجر کے سامنے پیش کیا گیا مگر وہ بھی کوئی فیصلہ نہ کر سکے اور یہ تمام حالات حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں لکھ کر ان سے رائے دریافت کی.حضرت ابو بکر صدیق نے تحریر فرمایا کہ فکرِ مکہ نے شادی کر کے کوئی نامناسب کام نہیں کیا.بعض لوگ جو ناراض تھے ان کی بہر حال تسلی ہو گئی.یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگ جو حضرت عکرمہ سے ناراض ہوئے تھے ان کی ناراضگی کا پس منظر یہ تھا کہ نعمان بن جون نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی علم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی تھی کہ آپ صلی للی کم اس کی بیٹی کو اپنے عقد زوجیت میں قبول فرمالیں لیکن رسول اللہ ص صلی ایم نے انکار فرما دیا اور اس کی بیٹی کو اس کے والد کے ساتھ ہی واپس روانہ کر دیا.چونکہ رسول اللہ صلی مل کر اس لڑکی کو رو کر چکے تھے اس لیے حضرت عکرمہ کی فوج کے ایک حصہ کا خیال تھا کہ صلی می ریم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے حضرت عکرمہ کو بھی اس لڑکی سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن حضرت ابو بکر صدیق نے یہ دلیل تسلیم نہیں کی.انہوں نے کہا یہ بالکل غلط ہے اور حضرت رمہ کی شادی کو جائز قرار دیا.حضرت عکرمہ اپنی بیوی کے ہمراہ مدینہ واپس آگئے اور لشکر کا وہ حصہ بھی جو ان سے خفا ہو کر علیحدہ ہو گیا تھا وہ دوبارہ ان سے آملا.اسماء بنت نعمان بین جون، جس لڑکی کا ذکر ہے اس کا مختصر تعارف یہ ہے.حضرت عکر مٹنے جس خاتون سے شادی کی تھی بخاری اور دیگر کتب احادیث میں اس کی بابت روایات مذکور ہیں.اس خاتون کا نکاح نبی کریم صلی اللہ کم سے ہوا تھا تاہم رخصتی سے قبل ہی اس سے ایسی حرکت سر زد ہوئی کہ نبی کریم صلی ا ہم نے اس خاتون کو واپس اس کے قبیلے میں بھجوا دیا.ان کے نام سمیت واقعات میں بہت اختلاف بھی ہیں.بعض نے ان کی شادی حضرت مہاجر بن ابی امیہ سے بھی بیان کی ہے.بہر حال اس واقعہ کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے کہ جب عرب فتح ہوا اور اسلام پھیلنے لگا تو کندہ قبیلہ کی ایک عورت جس کا نام اسما یا امیمہ تھا اور وہ جونیہ یا بنت الجون بھی کہلاتی تھی.اس کا بھائی لقمان رسول کریم صلی السلام کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے بطور وفد حاضر ہوا اور 580
حاب بدر جلد 2 244 حضرت ابو بکر صدیق اس موقع پر اس نے یہ بھی خواہش کی کہ اپنی ہمشیرہ کی شادی رسول کریم صلی کی کم سے کر دے اور بالمشافہ رسول کریم صلی الم سے درخواست بھی کر دی کہ میری ہمشیرہ جو پہلے ایک رشتہ دار سے بیاہی ہوئی تھی اب بیوہ ہے، نہایت خوبصورت اور لائق ہے ، آپ اس سے شادی کر لیں.رسول کریم صلی الم کو چونکہ قبائل عرب کا اتحاد منظور تھا آپ نے اس کی یہ دعوت منظور کرلی اور فرمایا ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی پر نکاح پڑھ دیا جائے.اس نے کہا یارسول اللہ ! ہم معزز لوگ ہیں مہر تھوڑا ہے.آپ نے فرمایا اس سے زیادہ میں نے اپنی کسی بیوی یالڑ کی کا مہر نہیں باندھا.جب اس نے رضامندی کا اظہار کر دیا تو نکاح پڑھا گیا اور اس نے رسول کریم صلی الم سے درخواست کی کہ کسی آدمی کو بھیج کر اپنی بیوی منگوا لیجیے.آپ صلی للی مریم نے ابواسید کو اس کام پر مقرر کیا.وہ وہاں تشریف لے گئے.جونیہ نے ان کو اپنے گھر بلایا تو حضرت ابو اسیڈ نے کہا کہ رسول کریم صلی علیکم کی بیویوں پر حجاب نازل ہو چکا ہے.اس پر اس نے دوسری ہدایات دریافت کیں جو آپ نے بتادیں اور اونٹ پر بٹھا کر مدینہ لے آئے اور ایک مکان میں جس کے گرد کھجوروں کے درخت بھی تھے لا کر اتارا.اس کے ساتھ اس کی دایہ بھی اس کے رشتہ داروں نے روانہ کی تھی.حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ جس طرح ہمارے ملک میں بھی امیر لوگ جو ہیں ایک بے تکلف نو کر ساتھ کر دیتے ہیں تاکہ اسے یعنی لڑکی کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.چونکہ یہ عورت حسین مشہور تھی اور یوں بھی عورتوں کو دلہن دیکھنے کا شوق ہوتا ہے ، مدینہ کی عورتیں اس کو دیکھنے گئیں اور اس عورت کے بیان کے مطابق کسی عورت نے اس کو سکھا دیا کہ رعب پہلے دن ہی ڈالا جاتا ہے.جب رسول کریم ملی الی یکم تیرے پاس آئیں تو کہہ دینا کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، اس پر وہ تیرے زیادہ گرویدہ ہو جائیں گے.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ اگر یہ بات اس عورت کی بنائی ہوئی نہیں ہے یعنی جس کی شادی تھی تو کچھ تعجب نہیں کہ اس طرح کا فقرہ کہلوانا کسی منافق نے اپنی بیوی یا اور کسی رشتہ دار کے ذریعہ یہ شرارت کی ہو، غرض جب اس کی آمد کی اطلاع رسول اللہ صلی علیہ کم کو ملی تو آپ اس گھر کی طرف تشریف لے گئے جو اس کے لیے مقرر کیا گیا تھا.احادیث میں لکھا ہے کہ ، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی علیکم اس کے پاس تشریف لائے تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تو اپنا نفس مجھے ہبہ کر دے.اس نے جواب دیا کہ کیا ملکہ بھی اپنے آپ کو عام آدمیوں کے سپرد کیا کرتی ہے؟ نعوذ باللہ اپنے آپ کو بڑا ظاہر کیا.ابو اسید کہتے ہیں کہ اس پر رسول کریم صلی ا لم نے اس خیال سے کہ اجنبیت کی وجہ سے گھبرارہی ہے اسے تسلی دینے کے لیے اس پر اپنا ہاتھ رکھا.آپ نے اپنا ہاتھ ابھی رکھا ہی تھا کہ اس نے یہ نہایت ہی گندا اور نامعقول فقرہ کہہ دیا کہ میں تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں.چونکہ نبی خدا تعالیٰ کا نام سن کر ادب کی روح سے بھر جاتا ہے اور اس کی عظمت کا متوالا ہوتا ہے.اس کے اس فقرے پر آپ نے فوراً فرمایا کہ تو نے ایک بڑی ہستی کا واسطہ دیا ہے اور اس کی پناہ مانگی ہے جو بڑا پناہ دینے والا ہے اس لیے میں تیری درخواست کو قبول کرتا ہوں.چنانچہ آپ اسی وقت باہر تشریف لے آئے اور فرمایا کہ اے ابواسید!
صحاب بدر جلد 2 245 حضرت ابو بکر صدیق اسے دو چادریں دے دو اور اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو.چنانچہ اس کے بعد اسے مہر کے حصہ کے علاوہ بطور احسان دور از قی چادر میں دینے کا بھی حکم دیا.بڑی اچھی سفید لمبی سوتی چادریں تھیں تا کہ قرآن کریم کا حکم وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ پورا ہو جو ایسی عورتوں کے متعلق ہے جن کو بلا صحبت طلاق دے دی جائے.اور آپ نے اسے رخصت کر دیا اور ابواسیڈ ہی اس کو اس کے گھر پہنچا آئے.اس کے قبیلے کے لوگوں پر یہ بات نہایت شاق گزری اور انہوں نے اس کو ملامت کی مگر وہ یہی جواب دیتی رہی کہ یہ میری بد بختی ہے اور بعض دفعہ اس نے یہ بھی کہا کہ مجھے ورغلایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ جب رسول کریم صلی علیہ یکم تیرے پاس آئیں تو تم پرے ہٹ جانا اور نفرت کا اظہار کرنا اس طرح ان پر تمہارا رعب قائم ہو جائے گا.معلوم نہیں یہی وجہ ہوئی یا کوئی اور ، بہر حال اس نے نفرت کا اظہار کیا اور رسول کریم صلی ال یکم اس سے علیحدہ ہو گئے اور اسے رخصت کر دیا.1 581 میں ایک صحابی حضرت اسید کے ذکر میں یہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.582 بہر حال حضرت فکر می کندہ، حضر موت سے یمن اور مکہ کے راستے واپس ہوئے.جب آپ مدینہ پہنچے تو حضرت ابو بکر نے آپ کو حکم دیا کہ خالد بن سعید کی مدد کے لیے روانہ ہو جائیں.حضرت عکرمہ نے اپنی فوج کو جس نے آپ کے ساتھ ارتداد کی جنگوں میں شرکت کی تھی چھٹی دے دی تھی.حضرت ابو بکر نے ان کے بدلے دوسری فوج تیار کی.اس لیے چھٹی دے دی کہ اب تم لوگ تھک گئے ہو گے ، کافی بڑی مہمات کر کے آئے ہو.بہر حال حضرت ابو بکر نے دوسری فوج تیار کی اور انہیں حکم دیا کہ مگر منہ کے پرچم تلے شام کے لیے روانہ ہو جائیں.583 وہاں حضرت عکرمہ نے جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیے اور بڑی دلیری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا اس کی تفصیل ان شاء اللہ شام کی مہمات میں بیان ہو جائے گی.حضرت شرحبیل بن حسنہ کی مہم پھر پانچویں مہم جو تھی حضرت بشر خبیل بن حسنہ کی مرتد باغیوں کے خلاف مہم تھی.حضرت ابو بکر نے حضرت عکرمہ کو مسیلمہ کی طرف یمامہ کے علاقے میں بھیجا اور ان کے پیچھے حضرت شر خبیل بن حسنہ کو بھی یمامہ کی طرف روانہ فرمایا.حضرت شُر خبیل بن حسنہ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ حضرت شر خبیل بن حسنہ کے والد کا نام عبد اللہ بن مطاع تھا اور والدہ کا نام حسنہ تھا.بعض لوگوں انہیں کندی اور بعض تمیمی کہتے ہیں.شر خبیل کے والد بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور یہ اپنی والد ہ حسنہ کے نام پر شر خبیل بن حسنہ کہلائے.حضرت شر خبیل ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے.آپ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور جب حبشہ سے واپس آئے تو مدینہ میں آپ بنو ز ریق کے مکانوں میں قیام پذیر ہوئے.خلافتِ راشدہ میں یہ مشہور سپہ سالاروں میں سے ایک تھے.اٹھارہ
اصحاب بدر جلد 2 246 حضرت ابو بکر صدیق ہجری میں ستاسٹھ سال کی عمر میں طاعون عمواس میں وفات پائی.84 بہر حال جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ عکرمہ نے حضرت ابو بکر کے حکم کے باوجود کہ حضرت شر خبیل کے پہنچنے سے پہلے حملہ نہ کرنا، انہوں نے جلدی کی اور حضرت شر خبیل کے آنے سے قبل ہی مسئلہ پر حملہ کر دیا تا کہ فتح کا سہرہ انہی کے سر بندھے تاہم مسیلمہ نے ان کو پیچھے دھکیل دیا اور حضرت عکرمہ نے اس ناکامی کی اطلاع جب حضرت ابو بکر کو دی تو جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے حضرت ابو بکر نے انہیں تنبیبی خط لکھا اور فرمایا کہ یہ شکست کا داغ لے کر مدینہ نہ آنا کہیں لوگوں میں بد دلی نہ پھیل جائے اور انہیں عمان کی طرف جانے کا حکم دیا.حضرت شر خبیل بن حسنہ آ بھی راستہ میں ہی تھے کہ حضرت عکر مٹہ کی شکست کی خبر ان کو موصول ہوئی.انہوں نے پیش قدمی بند کر دی اور حضرت ابو بکر کو نئی ہدایات کے لیے مرا بھیجا.حضرت ابو بکڑ نے ان کو لکھا کہ تم جہاں ہو وہیں ٹھہرے رہو.585 حضرت ابو بکر نے شر خبیل کو لکھا کہ تم یمامہ کے قریب ہی مقیم رہو یہاں تک کہ تمہیں میرا دوسرا حکم موصول ہو اور جس شخص یعنی مسیلمہ کے مقابلے کے لیے تم کو بھیجا ہے سر دست اس کا مقابلہ نہ کرو.586 پھر جب حضرت ابو بکر صدیق نے حضرت خالد بن ولید کو یمامہ کی مہم پر مامور کیا تو حضرت شر خبیل بن حسنہ کو حکم دیا کہ جب خالد بن ولید ا تم سے آملیں اور یمامہ کی مہم سے تم بخیر و خوبی فارغ ہو جاؤ تو قبیلہ قضاعہ کا رخ کرنا اور حضرت عمرو بن عاص کے ساتھ ہو کر قضاعہ کے ان باغیوں کی خبر لینا جو اسلام لانے سے انکار کریں اور اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوں.صرف انکار نہیں ہے بلکہ مخالفت بھی ہے.587 قضاعہ بھی عرب کا ایک مشہور قبیلہ تھا جو مدینہ سے دس منزل پر وادی القریٰ سے آگے مدائن صالح کے مغرب میں آباد تھا.588 بہر حال حضرت ابو بکر صدیق کے ارشاد کے مطابق حضرت شر خبیل اپنے لشکر سمیت رکے رہے تاہم مسیلمہ نے ان پر اپنے لشکر کے ساتھ چڑھائی کر دی.اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ ابھی حضرت خالد بن ولید یمامہ کے راستے ہی میں تھے کہ مسیلمہ کی فوج نے حضرت شر خبیل کی فوج سے نبرد آزمائی کی اور اسے پیچھے دھکیل دیا.کچھ مورخین یہ لکھتے ہیں کہ حضرت شرحبیل نے بھی وہی غلطی کی جو اس سے قبل ان کے پیش رو حضرت عکرمہ کر چکے تھے یعنی مسیلمہ پر فتح یابی کا مقام خود حاصل کرنے کے شوق میں آگے بڑھے لیکن انہیں بھی شکست کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا تاہم واقعہ ایسا نہیں ہے بلکہ خود یمامہ کے لشکر نے اس خیال سے کہ کہیں حضرت شر خبیل حضرت خالد سے مل کر انہیں نقصان نہ پہنچائیں آگے بڑھ کر لشکر پر حملہ کر دیا اور شکست دے کر انہیں پیچھے ہٹانے میں کامیاب رہا.دونوں میں سے کوئی بات ہوئی ہو مگر واقعہ یہی ہے کہ حضرت شر خبیل اپنے لشکر لے کر پیچھے ہٹ گئے.جب
اصحاب بدر جلد 2 247 حضرت ابو بکر صدیق حضرت خالد بن ولید کے پاس پہنچے اور تمام حالات و واقعات کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت شر خبیل کو سرزنش کی.حضرت خالد کا یہ خیال تھا کہ اگر دشمن سے ٹکر لینے کی پوری طاقت نہ ہو تو بے شک اس وقت تک اس کے مقابلے سے گریز کیا جائے جب تک کہ مطلوبہ طاقت میسر نہ ہو جائے.بجائے اس کے کہ طاقت نہ ہونے کے باوجود دشمن سے جنگ چھیڑی جائے اور اس کے نتیجہ میں شکست کھانی پڑے.589 بہر حال پھر بعد میں حضرت شر خبیل حضرت خالد بن ولید کے ساتھ جنگ میں شریک رہے.حضرت خالد بن ولید نے حضرت شر خبیل کو مقدمہ الجیش پر نگران مقرر کیا یعنی فوج کا جو اگلا حصہ تھا اس کا نگران انہیں بنایا اور میمنہ اور میسرہ دائیں اور بائیں پر زید بن خطاب اور ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ کو مقرر فرمایا.10 590 یمامہ کی مہم سے فارغ ہونے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق کے ارشاد کے مطابق حضرت ر خبیل بنو قضاعہ کے باغیوں کی خبر لینے کے لیے حضرت عمرو بن عاص سے جاملے.چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت شر خبیل اور حضرت عمرو بن عاص قضاعہ کے مرتد باغیوں پر حملہ کرنے لگے.حضرت عمرو بن عاص نے قبیلہ سعد اور بلق پر چڑھائی کی اور حضرت شر خبیل نے قبیلہ کلب اور اس کے تابع قبائل پر چڑھائی کی.591 حضرت عمرو بن عاص کی مہم 593 چھٹی مہم جو ہے یہ حضرت عمرو بن عاص کی مرتد باغیوں کے خلاف مہم تھی.حضرت ابو بکر نے ایک جھنڈا حضرت عمرو بن عاص کو دیا تھا اور ان کو تین قبائل قضاعہ ، ودیعہ اور حارث کے مقابلے پر جانے کا حکم دیا تھا.592 قضاعہ بھی ء 59 قضاعہ بھی عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے جو مدینہ سے دس منزل پر وادی القریٰ سے آگے مدائن صالح کے مغرب میں آباد ہے.حضرت عمرو بن عاص کا بھی مختصر تعارف یہ ہے کہ آپ کا نام عمر و اور کنیت عبد اللہ بن ابو عبد اللہ یا بعض کے نزدیک ابو محمد تھی.آپ کے والد کا نام عاص بن وائل، آپ کی والدہ کا نام نابغہ بنت حرملہ تھا.ایک روایت کے مطابق آپ کی والدہ کا اصل نام سلمی تھا.نابغہ ان کا لقب تھا.حضرت عمرو بن عاص نے آٹھ ہجری میں فتح مکہ سے چھ ماہ پہلے اسلام قبول کیا.رسول اللہ صلی علیہم نے آٹھ ہجری میں آپ کو عثمان کا عامل مقرر فرمایا اور آپ رسول اللہ صلی علیکم کی وفات تک اسی منصب پر رہے.اس کے بعد آپ شام کی فتوحات میں شامل ہوئے اور حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں فلسطین کے حاکم رہے.ان کے کارناموں میں سے ایک نمایاں کارنامہ مصر کی فتح بھی ہے.فتح مصر کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کو مصر کا حاکم بنا دیا.حضرت عثمان کے دور خلافت میں مصر کی حکومت سے معزول ہوئے اور فلسطین میں گوشہ نشینی اختیار کی.امیر معاویہ نے آپ کو دوبارہ مصر کا حاکم بنایا اور تاوقت وفات آپ اسی خدمت پر متعین ر جاتا ہے کہ آپ کی وفات 143 ہجری میں ہوئی، بعض کے نزدیک 147 ہجری میں ہوئی، بعض 148 کہتے
محاب بدر جلد 2 248 حضرت ابو بکر صدیق ہیں، بعض 151 ہجری میں کہتے ہیں لیکن 143 ہجری میں وفات والا قول عموماً درست تسلیم کیا جاتا ہے.594 595 حضرت عمرو بن عاص بڑے خوش گفتار اور شیریں بیان خطیب تھے.قادر الکلام مدبر تھے، سیاست دان اور سپہ سالار تھے.رسول اللہ صلی ال و نیم عسکری مہموں میں ان پر اعتماد فرماتے تھے.عمرو بن عاص، ان کے بیٹے عبد اللہ اور اتم عبد اللہ پر مشتمل خاندان کو بہترین گھرانہ قرار دیا گیا.ایک مصنف لکھتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے جو گیارہ علم تیار کرائے تھے ان میں سے ایک علم حضرت عمر و بن عاص کے لیے بھی تھا.آپ نے انہیں قضاعہ کے مرتدین سے جنگ کرنے کا کام سپر د کیا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی یی کم کی زندگی میں بھی جنگ ذات السلاسل میں قبیلہ قضاعہ سے لڑ چکے تھے اور اس قبیلہ کے تمام حالات اور تمام راستوں سے بخوبی واقف تھے.596 اہل عمان کا قبول اسلام رسول اللہ صلی الم نے حضرت عمرو بن عاص کو ذوالحجہ 8 ہجری میں عمان کے دور ئیسوں جیفر اور عباد پسر ان جلندی کے پاس ایک تبلیغی خط دے کر روانہ فرمایا تھا.یہ سفارت نہایت کامیاب رہی اور اہل عمان حضرت عمر و بن عاص کے ہاتھ پر اسلام لے آئے.رسول اللہ صلی علیم نے اظہارِ خوشنودی کے طور پر آپ کو عمان ہی میں زکوۃ کی وصولی کے کام پر مقرر فرما دیا.آپ عمان ہی میں مقیم تھے کہ آپ کو حضرت ابو بکر کے خط کے ذریعہ رسول اللہ صلی الی یوم کی وفات کی خبر ملی.آپ کی وفات کے بعد عرب کے بیشتر قبائل مرتد ہو گئے.ان کی سیر کوبی کے لئے حضرت ابو بکر نے عمرو بن عاص کو عثمان سے طلب فرمایا تو آپ حضرت ابو بکر کے حکم کی تعمیل میں عمان سے مدینہ آگئے.597 جب فتنہ ارتداد اور بغاوت کے سد باب کے لیے حضرت ابو بکر نے گیارہ امراء مقرر فرمائے تھے تب حضرت ابو بکر صدیق نے حضرت شتر خبیل بن حسنہ کو حکم دیا تھا کہ جب یمامہ کی مہم سے تم بخیر و خوبی فارغ ہو جاؤ تو قبیلہ قضاعہ کا رخ کرنا اور حضرت عمرو بن عاص کے ساتھ ہو کر قضاعہ کے ان باغیوں کی خبر لینا جو اسلام لانے سے انکار کریں اور اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوں.598 چنانچہ حضرت عمرو بن عاص اور حضرت شر خبیل دونوں نے مل کر بنو قضاعہ کے باغیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا اور ان پر چھاپے مارنے لگے.اس کی تفصیل میں ایک مصنف لکھتے ہیں کہ بنو قضاعہ خوشی سے اسلام میں داخل نہ ہوئے تھے بلکہ دیگر قبائل کی طرح انہوں نے بھی خوف کے باعث یا مال و جاہ کی طمع میں اسلام قبول کیا تھا اور ان کے دل اسلام کی محبت سے خالی تھے لہزار سول اللہ صلی ایم کی وفات کے بعد جو نہی انہیں مسلمانوں کی کمزوری کا احساس ہوا انہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا.بار گاہِ خلافت سے حکم ملتے ہی عمرو بن عاص اپنے لشکر کے ساتھ اسی رستے سے جُذام کی جانب روانہ ہوئے جس سے پہلے گئے تھے.وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ بنو قضاعہ جنگ کے لیے پوری طرح
محاب بدر جلد 2 249 حضرت ابو بکر صدیق تیار ہیں.مقابلہ شروع ہوا گھمسان کا رن پڑا.پہلے کی طرح اب بھی قضاعہ کو شکست کھانی پڑی اور حضرت عمرو بن عاص ان سے زکوۃ لے کر اور انہیں دوبارہ حلقہ بگوش اسلام بنا کر مظفر و منصور مدینه واپس آگئے.599 حضرت خالد بن سعید کی مہم ساتویں مہم جو باغیوں کے خلاف تھی اس کے متعلق جو تفصیل ہے اس کے مطابق یہ مہم حضرت خالد بن سعید بن عاص کی تھی جو مرتد باغیوں کے خلاف بھیجے گئے تھے.حضرت ابو بکر نے حضرت خالد بن سعید بن عاص کے لیے جھنڈا باندھا اور ان کو شام کے سرحدی علاقے حمقتین کی طرف بھیجا.600 حضرت خالد بن سعید بن عاص کا تعارف یہ ہے کہ آپ کا نام خالد ، کنیت ابوسعید تھی.آپ کے والد کا نام سعید بن عاص بن امیہ اور والدہ کا نام لبینہ بنت حباب تھا جو ام خالد کے نام سے مشہور 601 رض حضرت خالد بہت ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے.بعض کا بیان ہے کہ آپ نے حضرت ابو بکر کے بعد اسلام قبول کیا تھا اور آپ تیسرے یا چوتھے مسلمان تھے اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ آپ پانچویں مسلمان تھے.آپ سے پہلے ابھی تک صرف حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابو بکر، حضرت زید بن حارثہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے اسلام قبول کیا تھا.حضرت خالد کے اسلام قبول کرنے کے واقعہ کا ذکر یہ ہے کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آگ کے کنارے پر کھڑے ہیں اور ان کا باپ انہیں اس میں گرانے کی کوشش کر رہا ہے اور آپ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی یکم آپ کو کمر سے پکڑے ہوئے ہیں کہ کہیں آپ آگ میں گر نہ جائیں.حضرت خالد اس پر گھبرا کر بیدار ہوئے اور کہا اللہ کی قسم ! یہ خواب سچا ہے.پھر آپ کی ملاقات حضرت ابو بکر کے ساتھ ہوئی تو آپ نے اپنا خواب حضرت ابو بکر کو سنایا.ان سے ذکر کیا.حضرت ابو بکر نے کہا کہ تم سے بھلائی کا ارادہ کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں بچائے.یہ یعنی محمدصلی الیم اللہ کے رسول ہیں ان کی پیروی کر لو کیونکہ جب تم اسلام قبول کرتے ہوئے ان کی پیروی کرو گے تو وہ تمہیں آگ میں گرنے سے بچائے گا اور تمہارا باپ اس آگ میں پڑنے والا ہے.چنانچہ حضرت خالد آنحضرت صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ صلی علیہ کی مکہ میں اختیار مقام پر تھے.اجیاد بھی مکہ میں صفا پہاڑی سے متصل ایک مقام کا نام ہے جہاں رسول اللہ صلی للہ ہم نے بکریاں چرائی تھیں.حضرت خالد نے آپ صلی علیم سے عرض کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس کی طرف بلاتے ہیں ؟ آپ صلی الی یکم نے فرمایا خدا کی طرف بلاتا ہوں جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (صلی لیکر اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے اور یہ کہ تم ان پتھروں کی پوجا چھوڑ دو جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ کون ان کی پوجا کرتا ہے اور کون نہیں کرتا.اس پر حضرت خالد نے کہا کہ میں الله سة سة
اصحاب بدر جلد 2 250 حضرت ابو بکر صدیق گواہی دیتا ہوں کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.رسول اللہ صلی علیکم حضرت خالد کے اسلام لانے پر بہت خوش ہوئے.اسلام لانے کے بعد حضرت خالد چھپ گئے.جب ان کے باپ کو ان کے اسلام لانے کا علم ہوا تو اس نے اپنے باقی بیٹوں کو جو اسلام نہیں لائے ہوئے تھے حضرت خالد کی تلاش میں بھیجا.چنانچہ انہوں نے آپ کو تلاش کیا اور انہیں اپنے باپ کے پاس لائے.ان کا باپ حضرت خالد کو برا بھلا کہنے لگا اور مارنے لگا اور وہ سوٹا جو اس کے ہاتھ میں تھا اس کے ساتھ مارنا شروع کیا یہاں تک کہ ان کے سر پر مار مار کر توڑ دیا اور کہنے لگا کہ تم نے محمد (صلی املی کم) کی پیروی کرلی ہے حالانکہ تم اس کی قوم کی اس کے ساتھ مخالفت کو دیکھ رہے ہو اور اس کو بھی جو وہ ان لوگوں کے معبودوں کی برائیاں بیان کرتے ہیں اور ان لوگوں کے آباؤ اجداد کی برائیاں بھی.حضرت خالد نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں آپ صلی الی یکم کی اتباع کر چکا ہوں.اس پر ان کا باپ سخت غصہ ہوا اور ان کو کہا کہ اے بیوقوف! میری نظروں سے دُور ہو جاؤ اور جہاں چاہو چلے جاؤ میں تمہارا کھانا بند کر دوں گا.اس پر حضرت خالد نے کہا کہ اگر آپ میرا کھانا بند کر دیں گے تو اللہ میرے زندہ رہنے کے لیے مجھے رزق عطا فرمائے گا.چنانچہ آپ کے والد نے انہیں گھر سے نکال دیا اور اپنے بیٹوں سے کہہ دیا کہ ان میں سے کوئی اس سے بات نہیں کرے گا.چنانچہ حضرت خالد وہاں سے نکلے اور رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ ہی رہنے لگے.عمومی طور پر اپنے باپ سے چھپ کر مکہ کے نواح میں رہتے تھے کہ کہیں دوبارہ نہ پکڑلے اور پھر سختی نہ کرے.حضرت خالد کا باپ مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم و ستم کرنے والا تھا اور مکہ کے معززین میں سے تھا.ایک مر تبہ وہ بیمار ہوا تو مرض کی شدت کی وجہ سے اس نے کہا کہ اگر اللہ نے مجھے اس بیماری سے شفا دے دی.پتا نہیں اللہ کہا تھا یا اپنے معبودوں کا نام لیا تھا.بہر حال اس نے کہا کہ اگر مجھے اس بیماری سے شفا ہو گئی تو پھر ابن ابی کبشہ یعنی محمد صلی ا یکم کے خدا کی عبادت مکہ میں نہیں ہو گی.میں ایسی سختی کروں گا کہ یہاں سے سب مسلمانوں کو نکال دوں گا.جب حضرت خالد کو معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے باپ کے خلاف دعا کی کہ اے اللہ ! اس کو شفانہ دینا.چنانچہ وہ اسی بیماری میں مر گیا.جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف دوسری ہجرت کی تو حضرت خالد بھی ان کے ساتھ چلے گئے.ان کے ساتھ ان کی بیوی اُمیمه بنت خالد خُزاعیہ بھی تھی.حضرت خالد کے ایک اور بھائی حضرت عمر و بن سعید نے بھی ان کے ساتھ ہجرت کی.حضرت خالد غزوہ خیبر کے زمانہ میں حبشہ سے حضرت جعفر بن ابی طالب کے ساتھ نبی کریم صلی الی یم کی خدمت میں پہنچے.غزوہ خیبر میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن آنحضرت صلی ا ہم نے مال غنیمت میں ان کو بھی حصہ دیا.اس کے بعد عمرۃ القضاء، فتح مکہ ، غزوہ حنین، طائف اور تبوک وغیرہ سب میں آنحضرت صلی علیم کے ہم رکاب رہے.آپ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے اس محرومی پر ہمیشہ متأسف رہے.آنحضرت الله 602
محاب بدر جلد 2 251 حضرت ابو بکر صدیق سے عرض کیا یار سول اللہ ! ہم لوگ آپ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے.آپ صلی این کرم نے فرمایا کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ لوگوں کو ایک ہجرت کا شرف حاصل ہو اور تم کو دو ہجرتوں کا.603 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے دیباچہ تفسیر القرآن میں جو کاتبین وحی کے نام بیان فرمائے ہیں ان 604 میں حضرت خالد بن سعید بن عاص کا نام بھی ہے.حضرت خالد بن سعید کو رسول اللہ صل الم نے یمن کے صدقات وصول کرنے پر مقرر فرمایا تھا.سة 605 نبی کریم صلی ال نیم کی وفات تک آپ اسی منصب پر رہے.آنحضرت صلی اللہ کم کی وفات کے بعد مدینہ آگئے تو حضرت ابو بکر نے ان سے فرمایا کہ تم واپس کیوں آگئے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی الیکم کے بعد کسی کی طرف سے کام نہیں کریں گے.کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حضرت ابو بکر کی بیعت میں توقف کیا لیکن جب بنو ہاشم نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی تو حضرت خالد نے بھی حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی.پھر بعد میں حضرت ابو بکر نے انہیں مختلف مواقع پر لشکروں کا امیر بنا کر بھیجا.حضرت خالد جنگ مرنج الصفر میں حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت میں شہید ہوئے اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ جنگ مرج الصفر چونکہ 14 ہجری میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے شروع میں ہوئی تھی.کہا جاتا ہے کہ حضرت خالد ملک شام میں جنگ اجنادین میں حضرت ابو بکر کی وفات سے چوبیس دن پہلے شہید ہوئے تھے.تاریخ طبری میں حضرت خالد کی مرتدین کے خلاف مہم کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے: حضرت ابو بکر نے جب مرتدین کی سرکوبی کے لیے جھنڈے باندھے اور جنہیں منتخب کرنا تھا کر لیا تو ان میں سے ایک حضرت خالد بن سعید بھی تھے.حضرت عمر نے حضرت ابو بکر کو انہیں امیر مقرر کرنے سے منع کیا اور عرض کیا کہ آپ ان سے کوئی کام نہ لیں.حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ نہیں.حضرت عمر کی رائے سے اختلاف کیا اور حضرت خالد کو تیاء میں امدادی دستہ پر متعین کر دیا.تیاء بھی شام اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور شہر ہے.چنانچہ حضرت ابو بکر نے جب حضرت خالد بن سعید کو تیماء جانے کا حکم دیا تو فرمایا کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اور اطراف کے لوگوں کو اپنے سے ملنے کی دعوت دینا اور صرف ان لوگوں کو قبول کرنا جو مرتد نہ ہوئے ہوں اور کسی سے لڑائی نہ کرنا سوائے اس کے جو تم سے لڑائی کرے یہاں تک کہ میرے احکام پہنچ جائیں.حضرت خالد نے تیاء میں قیام کیا اور اطراف کی بہت سی جماعتیں ان سے آ ملیں.رومیوں کو مسلمانوں کے اس عظیم الشان لشکر کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے زیر اثر عربوں سے شام کی جنگ کے لیے فوجیں طلب کیں.حضرت خالد نے رومیوں کی تیاری اور عرب قبائل کی آمد کے متعلق حضرت ابو بکر کو مطلع کیا.حضرت ابو بکر نے جواب لکھا کہ تم پیش قدمی کرو.ذرامت گھبر اؤ اور اللہ سے مدد طلب کرو.حضرت خالد یہ جواب ملتے ہی دشمن کی طرف بڑھے اور جب قریب پہنچے تو دشمن پر کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ سب اپنی جگہ چھوڑ کر ادھر اُدھر منتشر ہو گئے اور بھاگ گئے.
محاب بدر جلد 2 252 حضرت ابو بکر صدیق حضرت خالد دشمن کے مقام پر قابض ہو گئے.اکثر لوگ جو حضرت خالد کے پاس جمع تھے مسلمان ہو گئے.اس کامیابی کی اطلاع حضرت خالد نے حضرت ابو بکر کو دی.حضرت ابو بکر نے لکھا کہ تم آگے بڑھو مگر اتنا آگے نہ نکل جانا کہ پیچھے سے دشمن کو حملہ کرنے کا موقع مل جائے.606 کتب تاریخ سے حضرت ابو بکرؓ کے دور میں مرتدین کے خلاف حضرت خالد بن سعید کی کارروائیوں کا صرف اتنا ہی ذکر ملتا ہے.اس کے علاوہ حضرت ابو بکر کے دور میں فتوحات شام کے تذکرے میں ان کا کردار جو ہے وہ آئندہ بیان ہو جائے گا.حضرت طریقہ بن حاجز کی مہم آٹھویں مہم حضرت طریقہ بن کا جز کی مرتد باغیوں کے خلاف مہم تھی.حضرت ابو بکر نے ایک جھنڈ ا حضرت ظریفہ بن حاجز کے لیے باندھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ بنو سلیم اور بنو ہوازن کا مقابلہ کریں.607 ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے قبیلہ بنو سلیم اور بنو ہوازن کے مقابلے کے لیے مغن ہے.608 بن حاجز کو بھیجا تھا.بہر حال علامہ ابن عبد البر نے الاستیعاب میں حضرت ظریفہ اور معن کے والد کا نام حاجز یعنی زاء کے ساتھ اور علامہ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں حاجر یعنی راء کے ساتھ لکھا.حضرت ابو بکر نے خلیفہ مقرر ہونے کے بعد حضرت ظریفہ بن حاجز کو بنو سلیم کے ان عربوں پر جو اسلام پر قائم تھے والی بنایا تھا.یہ مخلص اور جو شیلے کارکن تھے.انہوں نے ایسی مؤثر تقریریں کیں کہ بنو سلیم کے بہت سے عرب ان سے آملے.609 ایک اور روایت میں ہے.یہ روایت حضرت عبد اللہ بن ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ بنو سلیم کی.یہ حالت تھی کہ نبی کریم صلی علیہ کم کی وفات کے بعد ان میں سے بعض مرتد ہو گئے اور کفر کی طرف لوٹ گئے اور ان کے بعض افراد اپنے قبیلے کے امیر معن بن حاجز یا بعض کے نزدیک ان کے بھائی ظریفہ بن حاجز اسلام پر ثابت قدم رہے.جب حضرت خالد بن ولید ، طلیحہ کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت ابو بکر نے معن کو لکھا کہ بنو سلیم میں سے جو لوگ اسلام پر ثابت قدم ہیں ان کو لے کر حضرت خالد کے ساتھ جاؤ.حضرت معن اپنی جگہ اپنے بھائی ظریفہ بن حاجز کو جانشین مقرر کر کے حضرت خالد کے ساتھ نکل پڑے.حضرت عبد اللہ بن ابو بکر سے ہی ایک اور روایت بھی مروی ہے کہ بنو سلیم کا ایک شخص حضرت ابو بکر کے پاس آیا.اسے فجاءَہ کہا جاتا تھا.اس کا نام ایاس بن عبداللہ تھا.فجاءہ کے لفظ میں اچانک کا مفہوم پایا جاتا ہے کیونکہ یہ شخص اچانک مسافروں اور بستیوں پر حملہ کر کے انہیں لوٹ لیتا تھا اس لیے اس کا نام فجاءہ پڑ گیا تھا.بہر حال یہ حضرت ابو بکر کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں مسلمان ہوں.میں کے ساتھ اس 610
اصحاب بدر جلد 2 253 حضرت ابو بکر صدیق ان لوگوں کے خلاف جہاد کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے کافروں میں سے ارتداد اختیار کر لیا ہے.آپ مجھے سواری عطا کیجیے اور میری مدد کیجیے.حضرت ابو بکر نے اس کو سواری دی اور اسلحہ دیا.ایک جگہ اس کی تفصیل یوں ملتی ہے کہ حضرت ابو بکر نے اس کو دو گھوڑے یا دوسری روایت کے مطابق تھیں اونٹ اور تیں سپاہیوں کے ہتھیار دیے اور دس مسلمان ہتھیاروں سے مسلح ان کے ساتھ کر دیے.یہ شخص وہاں سے چلا اور جو مسلمان یا مرتد ان کے سامنے آتا ان کے اموال چھین لیتا اور جو انکار کرتا اسے قتل کر دیتا.یہ ہر ایک کے ساتھ یہی کر رہا تھا.مسلمانوں کو بھی قتل کر دیتا تھا، شہید کر دیتا تھا.اس کے ہمراہ بنو شرید کا ایک شخص بھی تھا جسے نَجبَہ بن ابو منشاء کہا جاتا تھا.ایک روایت میں ہے کہ فجاء اپنے قبیلے کی طرف چلا اور راستے میں مرتد عربوں کو اپنے ساتھ ملاتا رہا.جب اس کی جمعیت بڑھ گئی تو اس نے پہلے اپنے مسلمان ساتھیوں کو قتل کیا اور ان کا سب مال لوٹ لیا.پھر اس نے غارت گری شروع کر دی.کبھی اس قبیلے پر چھاپہ مارتا کبھی اس قبیلے پر مسلمانوں کی ایک پارٹی مدینہ جارہی تھی ان کو لوٹ کر مار ڈالا.پہلے ٹوٹا اور پھر قتل کر دیا، شہید کر دیا.حضرت ابو بکر سکو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے حضرت ظریفہ بن حاجز کو لکھا یا بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکڑ نے یہ حکم دراصل معن کو بھیجا تھا.انہوں نے اپنے بھائی ظریفہ کو روانہ کیا تھا.بہر حال حضرت ابو بکر نے تحریر فرمایا کہ دشمن خدافجاءہ میرے پاس آیا اور وہ کہہ رہا تھا کہ وہ مسلمان ہے.اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کو اسلام سے ارتداد اختیار کرنے والوں کے خلاف طاقت مہیا کروں.چنانچہ میں نے اس کو سواری دی اور اسلحہ دیا.اب مجھے یقینی طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ اللہ کا دشمن مسلمانوں اور مرتدین کے پاس گیا اور ان کے اموال لیتارہا اور جو اس کی مخالفت کرتا اسے قتل کر دیتا.لہذا تم اپنے پاس موجود مسلمانوں کو ساتھ لے کر جاؤ اور اسے قتل کر دو یا گر فتار کر کے میرے پاس بھیج دو.ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے حضرت ظریفہ کی مدد کے لیے حضرت عبد اللہ بن قیس کو بھی روانہ کیا.حضرت ظریفہ بن حاجز اس کے مقابلے پر گئے.جب دونوں گروہوں کی آپس میں مڈھ بھیڑ ہوئی تو پہلے صرف تیروں سے مقابلہ ہوا.ایک تیر نجبہ بن ابو میشاء کو لگا جس سے وہ ہلاک ہو گیا.فجاءہ نے جو مسلمانوں کی شجاعت اور ثابت قدمی دیکھی تو اس نے حضرت ظریفہ سے کہا کہ اس کام کے تم مجھ سے زیادہ حقدار نہیں ہو.تم بھی حضرت ابو بکڑ کے مقرر کردہ امیر ہو اور میں بھی ان کا مقرر کردہ امیر ہوں.بڑی چالاکی سے اس نے ان کو جنگ سے روکنے کی کوشش کی.حضرت ظریفہ نے اس سے کہا کہ : اگر سچے ہو تو ہتھیار رکھ دو.مجھے تو حضرت ابو بکڑ نے تمہیں پکڑنے کے لیے بھیجا ہے.ہتھیار رکھ دو اور میرے ساتھ حضرت ابو بکر کے پاس چلو.وہیں فیصلہ ہو جائے گا کہ تم امیر ہو کہ نہیں.چنانچہ فجاءہ حضرت ظریفہ کے ساتھ مدینہ روانہ ہوا.جب دونوں حضرت ابو بکر کے پاس آئے تو حضرت ابو بکر نے حضرت ظریفہ کو حکم دیا کہ اسے بقیع میں لے جاؤ اور آگ میں جلا ڈالو.یہ سلوک اس لیے اس سے کیا گیا
حاب بدر جلد 2 254 حضرت ابو بکر صدیق کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ یہی سلوک کرتا رہا تھا.حضرت ظریفہ اسے وہاں لے گئے انہوں نے آگ جلائی اور اس میں اسے پھینک دیا.ایک روایت میں آتا ہے کہ لڑائی کے دوران فجاءہ بھاگ گیا تو حضرت ظریفہ نے اس کا پیچھا کر کے اس کو قیدی بنالیا اور ابو بکر کے پاس بھیج دیا.جب وہ حضرت ابو بکڑ کے پاس پہنچا تو انہوں نے اس کے لیے مدینہ میں ایک آگ کا بڑا الاؤ روشن کروایا اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس میں پھینک دیا.611 حضرت علاء بن حضر می کی مہم نویں مہم جو تھی وہ حضرت علاء بن حضرمٹی کی تھی جو مرتد باغیوں کے خلاف مہم تھی.حضرت 613 ابو بکر نے ایک جھنڈا حضرت علاء بن حضرمی کو دیا اور ان کو بحرین جانے کا حکم دیا.612 بحرین یمامہ اور خلیج فارس کے درمیان واقع تھا اور اس میں موجودہ قطر اور امارت بحرین بھی جو جزیرہ ہے شامل تھے.یہ آجکل کا چھوٹا بحرین نہیں بلکہ بڑا وسیع علاقہ تھا.اس کا دارالحکومت دارین تھا.عہد نبوی صلی اللہ ہم میں یہاں مُنذر بن ساوی حکمران تھے جو حلقہ بگوش اسلام ہو گئے.ان دنوں بحرین یا سعودی عرب کو الاحساء کہتے ہیں.3 حضرت علاء بن حضرمی کا تعارف یہ ہے کہ آپؐ کا نام علاء تھا.آپ کے والد کا نام عبد اللہ تھا.آپ کا تعلق یمن کے علاقہ حضر موت سے تھا.دعوتِ اسلام کے آغاز میں مشرف بہ اسلام ہوئے.حضرت علاء بن حضرمی کا ایک بھائی عمرو بن حضرمی مشرکوں کا وہ پہلا شخص تھا جس کو ایک مسلمان نے قتل کیا تھا اور اس کا مال پہلا مال تھا جو بطور خمس اسلام میں آیا.جنگ بدر کے بنیادی اور فوری اسباب میں بھی یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک سبب یہ قتل بھی تھا.حضرت علاء بن حضر میں کا ایک بھائی عامر بن حضر می بدر کے دن بحالتِ کفر مارا گیا.جب رسول اللہ صلی علی یم نے بادشاہوں کو تبلیغی خطوط ارسال فرمائے تو منذر بن ساوی حاکم بحرین کے پاس خط لے جانے کی خدمت حضرت علاء بن حضرمی کے سپرد ہوئی.اس کے بعد رسول اللہ صلی الم نے آپ کو بحرین کا عامل مقرر فرما دیا.حضرت علاء بن حضرمی نے جب انہیں دعوتِ اسلام دی تو مندر بن ساوی نے اسلام قبول کر لیا.منذر کو جب اسلام کا پیغام ملا تو اس کا جواب یہ تھا کہ میں نے اس امر کے سلسلہ میں غور و فکر کیا ہے جو میرے ہاتھ میں ہے تو میں نے دیکھا کہ یہ دنیا کے لیے ہے.آخرت کے لیے نہیں ہے یعنی جو کچھ میرے پاس ہے یہ دنیا داری ہے.آخرت کی تو میں نے کوئی تیاری نہیں کی اور میں نے جب تمہارے دین کے بارے میں غور و فکر کیا تو اسے دنیا و آخرت دونوں کے لیے مفید پایا.لہذا دین کو قبول کرنے سے مجھے کوئی چیز نہیں روک سکتی.اسلام کی سچائی کا مجھے یقین ہو گیا ہے.اس دین میں زندگی کی تمنا اور موت کی راحت ہے.کہنے لگا کہ کل مجھے ان لوگوں پر تعجب ہو تا تھا جو اس کو قبول کرتے تھے اور آج ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو اس کو
اصحاب بدر جلد 2 255 حضرت ابو بکر صدیق رڈ کرتے ہیں.تعلیم کی خوبصورتی کا مجھے پتا لگا تو اب میری ترجیحات بدل گئی ہیں.کہنے لگا کہ آپ مکئی ایم کی لائی ہوئی شریعت کی عظمت کا تقاضا ہے کہ آپ میلی لی یم کی تعظیم و توقیر کی جائے.آنحضرت صلی للی کم کی وفات تک حضرت علاہ بحرین کے عامل رہے.بعد میں حضرت ابو بکرؓ کے عہدِ خلافت میں بھی اسی عہدے پر قائم رہے اور حضرت عمرؓ نے بھی اپنی خلافت میں انہیں اسی کام پر مقرر کیے رکھا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ان کی وفات ہو گئی.614 طبقات ابن سعد کے مطابق ایک دفعہ جب اہل بحرین نے حضرت علاء بن حضرمی کی رسول اللہ صلی ال تیم کے سامنے شکایت کی تو رسول اللہ صلی ا یکم نے انہیں معزول کر دیا اور حضرت ابان بن سعید بن عاص 615 کو والی بنادیا.5 اور آنحضرت صلی علیہ کم کی وفات کے بعد جب وہاں ارتداد اور بغاوت پھیل گئی تو حضرت ابان مدینہ واپس چلے آئے اور یہ عہدہ چھوڑ دیا اور جب حضرت ابو بکر نے انہیں دوبارہ بحرین بھیجنا چاہا تو یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ آنحضرت صلی ال یکم کے بعد اب کسی کا عامل نہ بنوں گا.اس پر حضرت ابو بکر نے پھر حضرت علاء بن حضرمی و بحرین کا عامل بنا کر بھیجا جس پر وہ اپنی وفات تک قائم رہے.حضرت علاء مستجاب الدعوات مشہور تھے.ان کے بارے میں مختلف روایات آتی ہیں.حضرت ابو ہریرہ ان کی خوبیوں اور قبولیتِ دعا کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ میں ان سے بڑا متاثر ہوں.روایت میں بیان کرتے ہیں اور بہت سی باتوں کے علاوہ یہ تھا کہ ایک مرتبہ مدینہ سے بحرین کے ارادے سے چلے کہ راستے میں پانی ختم ہو گیا.انہوں نے اللہ سے دعا کی تو کیا دیکھا کہ ریت کے نیچے سے ایک چشمہ پھوٹا اور ہم سب سیر اب ہوئے.پھر حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں علاء کے ساتھ بحرین سے لشکر کے ہمراہ بصرہ کی جانب روانہ ہوا.ہم لوگ کیاس میں تھے کہ ان کی وفات ہو گئی.کیاس بنو تمیم کے علاقے میں ایک گاؤں کا نام تھا.ہم ایسے مقام پر تھے جہاں پانی نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے ایک بادل کا ٹکٹڑ ا ظاہر کیا جس نے ہم پر بارش برسائی.ہم نے انہیں غسل دیا اور اپنی تلواروں سے ان کے لیے قبر کھو دی.ہم نے ان کے لیے لحد نہیں بنائی تھی.تب ہم واپس آئے.کچھ عرصہ کے بعد جب واپس جاکے دیکھا کہ لحد بنائیں مگر ان کی قبر کا مقام نہیں پایا.616 ان کی وفات کے متعلق بھی اختلاف ہے.بعض کے نزدیک آپ کی وفات 14 ہجری میں اور بعض کے نزدیک 121 ہجری میں ہوئی تھی.7 بحرین کے حالات کے بارے میں ذکر آتا ہے.بحرین شاہانِ حیرہ کی عمل داری میں تھا اور شاہانِ حیرہ، کسری بادشاہوں کے ماتحت تھے.حیرہ اسلام سے پہلے شاہانِ عراق کی تخت گاہ تھی.بحرین کے ساحلی اور تجارتی شہروں میں مخلوط آبادی تھی.فارسی بھی تھے، عیسائی بھی تھے ، یہودی بھی تھے ، جاٹ 617
حاب بدر جلد 2 256 حضرت ابو بکر صدیق بھی تھے اور عرب کی تجارت پر فارسیوں کا غلبہ تھا.ان علاقوں میں تاجروں کی ایک جماعت بھی مقیم تھی جو ہندوستان اور ایران سے آئے ہوئے تھے اور دریائے فرات کے دہانے سے عدن کے ساحلی علاقے تک کے درمیانی خطہ میں آباد ہو گئے تھے.ان تاجروں نے یہاں کے مقامی باشندوں سے سلسلہ 618 ازدواج بھی قائم کر لیا تھا اور ان سے جو نسل پیدا ہوئی تھی اسے ابناء کے نام سے پکارا جاتا تھا.ساحلی شہروں کے عقب میں تین بڑے قبیلے اور ان کی بہت سی شاخیں آباد تھیں.ایک بگر بن وائل، دوسر اعبد القیس اور تیسر اربیعہ.ان کے بہت سے خاندان عیسائی تھے.گھوڑے اونٹ اور بکریاں پالنا اور ر کھجوروں کے باغ لگانا ان کا خاص پیشہ تھا.ان قبائل کے ناظم الامور وہ مقامی لیڈر ہوا کرتے تھے جن کو حکومت حیرہ کا اعتماد حاصل ہو تا تھا.ان میں ایک مُنذر بن ساوی تھا وہ بحرین کے ضلع حجر میں رہتا تھا اور ھجر کے آس پاس قبیلہ عبد القیس پر اُس کی حکومت تھی.الله سة 619 قبیلہ عبد القیس کے دو و فد رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے.ایک وفد پانچ ہجری میں رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا جس میں تیرہ یا چودہ افراد شامل تھے اور قبیلہ عبد القیس کا دوسر اوفد عالم الوفود یعنی نو ہجری میں دوبارہ رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا جس میں جارُ وُد سمیت چالیس افراد شامل تھے.جاڑ ؤ د نصرانی تھا جو یہاں آکر مسلمان ہو گیا.620 ایک قول کے مطابق اس وفد نے نبی کریم ملی ایم کے پاس آنے سے قبل ہی اسلام قبول کیا ہوا تھا.621 622 ھجر کے فارسیوں ، عیسائیوں اور یہودیوں نے نہایت ناگواری سے جزیہ دینا منظور کر لیا تھا.بحرین کی باقی بستیاں اور شہر غیر مسلم رہے لیکن یہ لوگ جب بھی موقع ملتا و قتافوقتا بغاوت کرتے رہتے تھے.منذر بن ساوی کے اسلام قبول کرنے پر رسول اللہ صلی علیم نے اسے بدستور بحرین کا حاکم مقرر کیے رکھا.اسلام لانے کے بعد اس نے اپنی قوم کو بھی دین حق کی دعوت دینی شروع کی اور جار و دبن معلی کو دین کی تربیت حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں روانہ کیا.جاروڈ نے مدینہ پہنچ کر اسلامی تعلیمات اور احکام سے واقفیت حاصل کی اور اپنی قوم میں واپس جاکر لوگوں کو دین کی تبلیغ کرنے اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کا کام شروع کر دیا.رسول اللہ صلی علیم کی وفات یعنی گیارہ ہجری کے چند دن بعد منذر کا انتقال ہو گیا.اس پر عرب اور غیر عرب سب نے بغاوت کا اعلان کر دیا.قبیلہ عبد القیس نے کہا کہ اگر محمد علی میں کم ہی ہوتے تو وہ کبھی نہ مرتے اور سب مرتد ہو گئے.اس کی اطلاع حضرت جاروڈ کو ہوئی.حضرت جاروڈ اپنی قوم کے اشراف میں سے تھے ، جو تربیت حاصل کرنے مدینہ گئے تھے اور ان میں سے تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی علیکم کی طرف ہجرت کی اور ایک اچھے خطیب 623 حضرت جاروڈ نے اس بات پر ان سب لوگوں کو جمع کیا جو مرتد ہو گئے تھے کہ آنحضرت صلی الیم
اصحاب بدر جلد 2 257 حضرت ابو بکر صدیق کی وفات کیوں ہوئی اور تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے عبد القیس کے گروہ ! میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں.اگر تم اسے جانتے ہو تو مجھے بتا دینا اور اگر تمہیں اس کا علم نہیں تو نہ بتانا.انہوں نے کہا جو چاہو سوال کرو.حضرت جاروڈ نے کہا جانتے ہو کہ گذشتہ زمانے میں اللہ کے نبی دنیا میں آچکے ہیں ؟ لوگوں نے کہا ہاں.حضرت جاڑ وڑ نے کہا تمہیں ان کا علم ہے یا تم نے ان کو دیکھا بھی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، ہم نے دیکھا تو نہیں لیکن ہمیں اس کا صرف علم ہے.یہ لوگوں کا جواب تھا.حضرت جارُ وڈ نے کہا پھر انہیں کیا ہوا ؟ تو لوگوں نے کہا کہ وہ فوت ہو گئے.تو حضرت جاروڈ نے کہا اسی طرح محمد صل ا تم بھی فوت ہو گئے جس طرح وہ سب فوت ہو گئے اور میں اعلان کرتا ہوں کہ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُہ کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے اور یقینا محمد صلی ا یکم اس کے الله سة بندے اور اس کے رسول ہیں.ان کی قوم نے ان کی یہ تقریر سننے کے بعد، سوال جواب کے بعد کہا کہ ہم بھی شہادت دیتے ہیں کہ سوائے اللہ کے کوئی حقیقی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی للی کم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور ہم تم کو اپنا بر گزیدہ اور اپنا سر دار تسلیم کرتے ہیں.اس طرح وہ لوگ اسلام پر ثابت قدم رہے اور ارتداد کی و با ان تک نہ پہنچی.4 باقی عرب اور غیر عرب سب نے مدینہ کا اقتدار ختم کرنے کے لیے کمر ہمت باندھ لی.ایرانی حکومت نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور بغاوت کی کمان ایک بڑے عرب لیڈر کو سونپ دی.ھجر میں رسول اللہ صلی الم کے نمائندے ابان بن سعید بن عاص بغاوت کے سیاہ بادل اٹھتے دیکھ کر مدینہ چلے آئے.625 624 بنو عبد القیس گوبظاہر ان میں سے بعض لوگ اسلام لے آئے تھے لیکن بحرین کے دوسرے قبائل محطم بن ضبیعہ کے زیر سر کردگی بدستور حالت ارتداد پر قائم رہے اور انہوں نے بادشاہی کو دوبارہ آل منذر میں منتقل کر کے منذر بن نعمان کو اپنا بادشاہ بنالیا.ایک روایت میں ہے کہ جب انہوں نے مُنذر بن نعمان کو بادشاہ بنانے کا ارادہ کیا تو ان کے معززین اور سر داروں کی جماعت ایران کے بادشاہ کسری کے پاس پہنچی.انہوں نے اس کے رُوبر و حاضر ہونے کی اجازت چاہی.اس نے ان کو اجازت دے دی اور وہ لوگ بادشاہوں کے شایانِ شان خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے سامنے حاضر ہوئے.کسری نے کہا ! اے عرب کے گروہ! کون سی بات تمہیں یہاں لائی ہے ؟ انہوں نے کہا اے بادشاہ ! عرب کا وہ شخص فوت ہو گیا ہے جس کو قریش اور مضر کے جملہ قبائل معزز سمجھتے تھے.اس سے ان کی مرادر سول اللہ صلی علی وکیل تھے.اور پھر کہنے لگے کہ اس کے بعد ان کا جانشین ایک شخص کھڑا ہوا ہے جو کمزور بدن والا ضعیف الرائے ہے.حضرت ابو بکر کے بارے میں انہوں نے یہ رائے دی.اور اس کے عمال اپنے ساتھیوں کی طرف بغرض راہنمائی واپس چلے گئے ہیں.آج بحرین کا علاقہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے.سوائے عبد القیس کی چھوٹی سی جماعت کے کوئی بھی اب دین اسلام پر قائم نہیں ہے اور
اصحاب بدر جلد 2 258 حضرت ابو بکر صدیق ہمارے نزدیک ان کی کوئی وقعت نہیں ہے.اور ہمیں ان پر سواروں اور پیادوں کے لحاظ سے اکثریت حاصل ہے.آپ کسی آدمی کو بھیجیں جو اگر بحرین پر قبضہ کرنا چاہے تو کوئی اسے اس سے روک نہ سکے.اس پر کسری نے ان سے کہا کہ تم کسے پسند کرتے ہو جسے میں تمہارے ساتھ بحرین روانہ کروں؟ انہوں نے کہا کہ جو بادشاہ سلامت پسند کریں.کسری نے کہا کہ تم منذر بن نعمان بن منذر کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا: اے بادشاہ! ہم اسی کو پسند کرتے ہیں اور ہم اس کے علاوہ کسی اور کو نہیں چاہتے.پھر کسری نے منذر بن نعمان کو بلایا اور وہ نوجوان تھا جس کی ابھی تازہ تازہ داڑھی نکلی تھی.بادشاہ نے اس کو خلعت سے نوازا اور تاج پہنایا اور ایک سو گھڑ سوار دیے اور مزید سات ہزار پیادے اور سوار دیے.اسے قبیلہ بکر بن وائل کے ہمراہ بحرین جانے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ابو ضُبیعہ حُطم بن زید اس کا نام شریح بن ضُبَيْعَہ تھا یہ بنو قیس بن ثعلبہ میں سے تھا اور حطم اس کا لقب تھا اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد پھر ارتداد اختیار کر لیا تھا اور طبیان بن عمر و اور مسیح بن مالک بھی تھے.626 سب سے پہلے انہوں نے جھاڑ وڈ اور قبیلہ عبدالقیس کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے.اس پر حُطم بن ضُبیعہ نے طاقت کے زور سے انہیں زیر کرنا چاہا.اس نے قطیف اور ھجر میں مقیم غیر ملکی تاجروں اور ان لوگوں کو جنہوں نے اس سے قبل اسلام قبول نہیں کیا تھا.انہیں اپنے ساتھ ملالیا.627 عبدالقیس قبیلے کے لوگ اپنے سردار حضرت جاز ود بن معلی کے پاس چار ہزار کی تعداد میں اپنے حلیفوں اور اپنے غلاموں کے ہمراہ اکٹھے ہوئے اور قبیلہ بکر بن وائل اپنے نو ہزار ایرانیوں اور تین ہزار عربوں کے ساتھ ان کے قریب ہوئے.پھر فریقین کے درمیان شدید جنگ ہوئی اور قبیلہ بکر بن وائل کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا.ان میں سے اور ایرانیوں میں سے بہت سے قتل ہوئے.پھر انہوں نے دوسری مرتبہ شدید قتال کیا.اس مرتبہ عبد القیس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا.اسی طرح وہ ایک دوسرے سے انتقام لیتے رہے اور ان کے درمیان کئی دنوں تک جنگ جاری رہی یہاں تک کہ بہت سے لوگ قتل ہو گئے اور عبد القیس قبیلے کے عوام نے بکر بن وائل سے امن کی درخواست کی.اس وقت عبد القیس نے جان لیا کہ اب وہ بکر بن وائل کے خلاف کوئی طاقت نہیں رکھتے.چنانچہ انہوں نے شکست کھائی یہاں تک کہ وہ ھجر کی سر زمین میں اپنے جواثا نامی قلعہ میں محصور ہو گئے.جُوَاٹی جو اثا جو ہے یہ بھی بحرین کی وہ بستی ہے جہاں نبی صلی علیہ کم کی مسجد کے بعد سب سے پہلے جمعہ پڑھا گیا تھا.چنانچہ بخاری میں ایک یہ روایت ہے جو حضرت ابن عباس سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ إِنَّ أَوَّلَ مُجَمعَةٍ جُمِعَتْ بَعْدَ جُمعَةٍ فِي مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللهِ فِي مَسْجِدِ عَبْدِ الْقَيْسِ بِجُوَالى مِنَ الْبَحْرَيْنِ که رسول اللہ صلی المی کم کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ قبیلہ عبد القیس کی مسجد میں بحرین کی بستی جوائی میں ہو ا تھا.بنو بکر بن وائل نے اپنے ایرانی لوگوں کے ساتھ پیش قدمی کی اور ان کے قلعہ تک پہنچ گئے اور ان کا محاصرہ کر لیا اور خوراک ان سے روک لی.بنو بکر بن کلاب کے ایک شخص عبد اللہ بن عوف عبدی جس
حاب بدر جلد 2 259 حضرت ابو بکر صدیق کا نام عبد اللہ بن حذف بھی آتا ہے اس نے اس موقع پر حضرت ابو بکر اور اہالیانِ مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ اشعار کہے جن میں اپنی بے بسی اور بے چارگی اور حوصلہ اور صبر کی کیفیت کا اظہار کیا.أَلا أَبْلِغْ أَبَا بَكْرٍ رَسُولًا و فِتْيَانَ الْمَدِينَةِ أَجْمَعِيْنَا فَهَلْ لِي فِي شَبَابِ مِنْكَ أَمْسَوْا جيَاعًا فِي جَوَالى مُحْصَرِينَا كَانَ دِمَاؤُهُمْ فِي كُلِّ فَحَ شُعَاعُ الشَّمْسِ يَغْشَى النَّاظِرِينَا تحَاصِرُهُم بَنُو ذُهل وعجل و شَيْبَانَ وَ قَيْسٍ ظَالِمِينَا يَقُوْدُهُمُ الْغُرُورُ بِغَيْرِ حَقَّ لِيَسْتَلِبَ الْعَقَائِلَ وَ الْبَنِينَا فَلَمَّا اشْتَلَّ حَصْرُهُمْ وَطَالَتْ أكفُهُمُ مَا فِيْهِ بُلِيْنَا وجدنا الْفَضْلَ لِلْمُتَوَكِّلِينَا و بِالْإِسْلَامِ دِينًا قَدْ رَضِيْنَا وَ قَدْ سَفِهَتْ حُلُومُ يَنِي أَبِيْنَا تَكُونُوا أَوْ نَكُونَ النَّاهِبِيْنَا تَوَكَّلْنَا عَلَى الرَّحْمنِ إِنَّا وَ قُلْنَا قَدْ رَضِيْنَا اللَّهَ رَبَّا وَ قُلْنَا وَ الْأُمُورُ لَهَا قَرَارُ نُقَاتِلُكُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ حَتَّى بِكُلِّ مُهَنَّدٍ عَضَبِ حُسَامٍ يَقُدُّ الْبَيْضَ وَالزُّرْدَ اللَّفِيْنَا یہ تھوڑی سی لمبی نظم ہے.بہر حال اس کا جو ترجمہ ہے وہ اس طرح ہے کہ اے سننے والے ! ابو بکر اور مدینہ کے سب جوانوں کو پیغام پہنچا دے.وہ نوجوان جنہوں نے جوائی میں بھوک اور محاصرے کی حالت میں شام کی، کیا ان کے بارے میں مجھے آپ کی طرف سے مدد ملے گی؟ اور ہر راستے میں ان کے خون ایسے پڑے ہوئے ہیں کہ سورج کی کرنیں ہیں جو دیکھنے والوں کی نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہیں.بنو ڈھل اور عجل اور شیبان اور قیس قبائل نے ظلم کرتے ہوئے ان سب کا محاصرہ کر لیا ہے.ان کی قیادت غرور کر رہا ہے (غرور کا اصل نام ممنذر بن نعمان بن منذر تھا) تاکہ ناحق وہ ہماری بیویاں اور اولاد چھین لے.جب ان کا محاصرہ شدت اور طوالت اختیار کر گیا تو انہوں نے ہم پر غلبہ پا لیا جس سے ہم آزمائش میں ڈالے گئے.ہم نے رحمان خدا پر توکل کر لیا کیونکہ ہم نے اس کا فضل تو کل کرنے والوں کو ملتا ہوا دیکھا ہے.تو ہم نے کہا کہ ہم اس بات پر راضی ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اس بات پر بھی راضی ہیں کہ اسلام ہمارا دین ہے اور ہم نے کہا معاملات سنبھل ہی جاتے ہیں اور ہمارے آباء کی اولادوں کی عقلیں ماری گئی ہیں.ہم اسلام پر قائم رہتے ہوئے تم سے جنگ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یا تم مارے جاؤ یا ہم.ہر اس تیز ہندی تلوار کے ساتھ جنگ کریں گے جو تیز کاٹ رکھنے والی اور خود اور زرہ کو کاٹتی ہے.تو یہ پیغام نظم کی صورت میں ”عبدی“ نے بھجوایا.جب حضرت ابو بکر نے یہ شعر پڑھے تو عبد القیس کی حالت کا علم ہونے پر آپ کو شدید غم پہنچا.آپ نے حضرت علاء بن حضرمی کو طلب فرمایا اور لشکر کی کمان ان کے سپرد کی اور دو ہزار مہاجرین و انصار کے ساتھ بحرین کی طرف عبد القیس کی مدد کے لیے روانگی کا حکم دیا اور ہدایت فرمائی کہ عرب کے
حاب بدر جلد 2 260 حضرت ابو بکر صدیق قبائل میں سے جس قبیلے کے پاس سے تم گزرو تو اسے بنو بکر بن وائل سے جنگ کی ترغیب دلانا کیونکہ وہ ایران کے بادشاہ کسری کے مقرر کردہ منذر بن نعمان بن منذر کے ساتھ آئے ہیں.انہوں نے یعنی اس بادشاہ نے اس کے سر پر تاج رکھا ہے اور اللہ کے نور کو مٹانے کا ارادہ کیا ہے اور اولیاء اللہ کو قتل کیا ہے.پس تم لَا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا اللہ.یعنی نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکی کی طاقت ہے مگر اللہ کے ذریعہ ، پڑھتے ہوئے روانہ ہو جاؤ.628 حضرت علاء بن حضر میں روانہ ہو گئے.جب وہ یمامہ کے قریب سے گزرے تو حضرت ثمامہ بن اثال بنو حنیفہ کی ایک جماعت کے ساتھ ان سے آملے.حضرت اُثال ان سے آملے.ان کے علاوہ قیس بن عاصم بھی اپنے قبیلہ بنو تمیم کے ساتھ حضرت علاء بن حضرمی کے لشکر میں شامل ہو گئے.اس سے پہلے قیس بن عاصم منکرین زکوۃ میں شامل تھے اور انہوں نے قبیلہ کی زکواۃ مدینہ بھیجنی بالکل بند کر دی تھی اور ز کو پکا جمع شد و مال لوگوں کو واپس کر دیا تھا لیکن حضرت خالد بن ولید نے جب یمامہ میں بنو حنیفہ کو زیر کر لیا تو قیس بن عاصم نے مسلمانوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں ہی عافیت سمجھی اور اپنے قبیلے بنو تمیم سے زکوۃ اکٹھی کی اور حضرت علاء بن حضرمی کے لشکر میں شامل ہو گئے.گمشدہ اونٹوں کا معجزانہ طور پر مل جانا پانی کا چشمہ جاری ہونا 629 حضرت علاء کا لشکر دھنا کے راستے بحرین کی طرف چلا.علاء اپنے لشکر کو دھنا کے راستے بحرین کی طرف لے کر چلے.دھنا: یہ بھی دیار بنو تمیم میں بصرہ سے مکہ کے راستے میں ایک جگہ ہے.وہ کہتے ہیں جب ہم اس کے درمیان پہنچے تو انہوں نے ہمیں پڑاؤ کا حکم دیا.راوی نے کہا کہ رات کے اندھیرے میں اونٹ بے قابو ہو کر بھاگ گئے.ان میں سے کسی کے پاس نہ کوئی اونٹ رہانہ توشہ نہ توشہ دان نہ خیمہ.سب کا سب اونٹوں پر ریگستان میں غائب ہو گیا یعنی اونٹوں پر لد ا ہو اتھا.اونٹ چلے گئے تو کچھ بھی پاس نہیں رہا اور یہ واقعہ اس وقت ہوا جب لوگ سواریوں سے اتر چکے تھے لیکن ابھی اپنا سامان نہ اتار سکے تھے.اس وقت وہ رنج و غم میں مبتلا ہوئے.سب اپنی زندگیوں سے مایوس ہو کر ایک دوسرے کو وصیت کرنے لگے.اتنے میں حضرت علا کے منادی نے سب کو جمع ہونے کا حکم دیا.سب ان کے پاس جمع ہوئے.حضرت علاء نے کہا میں یہ کیا پریشانی اور اضطراب تم میں دیکھ رہا ہوں اور تم لوگ اس قدر فکر مند کیوں ہو.لوگوں نے کہا یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جس پر ہمیں مورد الزام قرار دیا جائے.ہمارے اونٹ دوڑ گئے ہیں.ہماری یہ حالت ہے کہ اگر اسی طرح صبح ہو گئی تو ابھی آفتاب اچھی طرح طلوع بھی نہیں ہونے پائے گا کہ ہم سب ہلاک ہو چکے ہوں گے.حضرت علا ٹا نے کہا: اے لوگو ! ڈرو نہیں.کیا تم مسلمان نہیں ہو ؟ کیا تم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے نہیں آئے ؟ کیا تم اللہ کے مددگار نہیں ہو ؟ سب نے کہا بے شک ہم ہیں.حضرت علاء نے کہا کہ تمہیں خوشخبری ہو کیونکہ اللہ ہر گز ایسے لوگوں کو جس حال میں تم ہو کبھی نہیں چھوڑے گا.طلوع فجر کے ساتھ صبح کی نماز کی اذان
اصحاب بدر جلد 2 261 حضرت ابو بکر صدیق ہوئی.حضرت علاء نے نماز پڑھائی.بعض لوگوں نے تیم کر کے نماز پڑھی، پانی نہیں تھا.بعض کا ابھی تک سابقہ وضو باقی تھا.جب نماز مکمل ہو گئی تو حضرت علاء اپنے دونوں گھٹنوں کے بل دعا کے لیے بیٹھ گئے اور سب لوگ بھی اسی طرح دو زانو دعا کے لیے بیٹھ گئے اور آہ و زاری کے ساتھ دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا میں لگ گئے.لوگوں نے بھی اسی طرح کیا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا.جب سورج کی تھوڑی سی روشنی مشرقی افق میں نمودار ہوئی تو حضرت علاء صف کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا کوئی.کہ جا کر خبر لائے کہ یہ روشنی کیا ہے؟ ایک شخص اس کام کے لیے گیا.اس نے واپس آکر کہا کہ یہ روشنی محض سراب ہے.جہاں روشنی پڑی وہاں چمک پید اہو رہی تھی وہ پانی نہیں تھا بلکہ سراب ہے.حضرت علا پھر دعا میں مصروف ہو گئے.دوسری مرتبہ پھر وہ روشنی نظر آئی.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سراب ہے.تیسری مرتبہ پھر روشنی نمودار ہوئی.اس مرتبہ خبر دینے والے نے آکر کہا کہ پانی ہے.حضرت علاء کھڑے ہو گئے اور سب لوگ بھی کھڑے ہو گئے اور پانی کے پاس پہنچے سب نے پانی پیا اور غسل کیا.وہاں کوئی چشمہ پھوٹ پڑا تھا.ابھی دن نہیں چڑھا تھا کہ لوگوں کے اونٹ ہر سمت سے دوڑتے ہوئے ان کے پاس آتے ہوئے نظر آئے وہ ان کے پاس آکر بیٹھ گئے.ہر شخص نے اپنی سواری کو پکڑ لیا اور ان کے سامان میں سے کسی کی کوئی چیز بھی ضائع نہیں ہوئی.دعا کا یہ معجزہ وہاں ہوا کہ پانی بھی اللہ تعالیٰ نے نکال دیا.اونٹ بھی واپس آگئے لوگوں نے ان کو بھی پانی پلایا.پھر دوسری مرتبہ خوب سیر ہو کر پانی پیا اور ان جانوروں کو بھی پلایا اور اپنے ساتھ پانی کا ذخیرہ بھی لے لیا اور پھر خوب آرام کیا.منجاب بن راشد کہتے ہیں کہ اس وقت حضرت ابو ہریرہ میرے ساتھ تھے.جب ہم اس مقام سے ذرا دور نکل گئے تو انہوں نے مجھے سے پوچھا کہ اس پانی کے مقام سے واقف ہو ؟ میں نے کہا کہ میں دیگر تمام عربوں کے مقابلے میں اس علاقے کے چپے چپے سے زیادہ واقف ہوں.حضرت ابوہریر گا نے کہا کہ تم پھر مجھے اس جگہ لے چلو.میں نے اونٹ کو موڑا اور ٹھیک اسی پانی والے مقام پر ان کو لے آیا.وہاں آ کر دیکھا کہ نہ کوئی پانی کا حوض ہے، نہ پانی کا کوئی نشان ہے.میں نے حضرت ابوہریرہ سے کہا.بخدا! اگر چہ یہاں مجھے کوئی حوض نظر نہیں آرہا تب بھی میں ضرور یہی کہوں گا کہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہم نے پانی لیا ہے.مگر آج سے پہلے کبھی میں نے اس مقام پر صاف اور شیریں پانی نہیں دیکھا تھا.حالانکہ اس وقت بھی پانی سے برتن لبریز تھے.حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ اے ابوسفم ! بخدا یہی وہ مقام ہے.اس لیے میں یہاں آیا ہوں اور تم کو لے کر آیا ہوں.میں نے اپنے بر تن پانی سے بھرے تھے اور ان کو اس حوض کے کنارے رکھ دیا تھا.میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کا معجزہ اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ رحمت ہے تو میں معلوم کرلوں گا اور اگر یہ محض بارش کا پانی ہے تو اسے بھی معلوم کرلوں گا.دیکھنے پر معلوم ہوا کہ واقعہ اللہ کا ایک معجزہ تھا جو اس نے ہمیں بچانے کے لیے ظاہر کیا تھا.اس پر حضرت ابو ہریرہ نے اللہ کی حمد کی.وہاں سے پلٹ کر پھر ہم اپنے راستے چلے اور هَجَر آکر پڑاؤ کیا.630
محاب بدر جلد 2 262 حضرت ابو بکر صدیق حضرت علاء نے حضرت ابو بکر کو ایک خط لکھا تھا جو یہ ہے کہ انا بعد اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے وادی دھنا میں پانی کا ایک چشمہ جاری کر دیا تھا.اس واقعہ کے بعد جب حضرت ابو بکر کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے یہ خط لکھا حالانکہ وہاں چشمہ کے کوئی آثار نہ تھے اور سخت تکلیف اور پریشانی کے بعد ہم کو اپنا ایک معجزہ دکھایا.حضرت علاء نے حضرت ابو بکر کو خط لکھا.اور پریشانی کے بعد ہم کو اپنا ایک معجزہ دکھایا جو ہم سب کے لیے نصیحت کا باعث ہے اور یہ اس لیے کہ اس کی حمد و ثنا کریں.لہذا اللہ کی جناب میں دعا مانگئے اور اس کے دین کے مدد گاروں کے لیے نصرت طلب کیجیے.حضرت علا پانی ملنے کے بعد ، واقعہ ہونے کے بعد حضرت ابو بکر کو یہ رپورٹ بھیجوا رہے ہیں.حضرت ابو بکر نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی.اس سے دعا مانگی اور کہا کہ عرب ہمیشہ سے وادئی دھنا کے متعلق یہ بات بیان کرتے آئے ہیں کہ حضرت لقمان سے جب اس وادی کے لیے پوچھا گیا کہ آپا پانی کے لیے اسے کھودا جائے یا نہیں تو انہوں نے اسے کھودنے کی ممانعت کی اور کہا کہ یہاں سبھی پانی نہیں نکلے گا تو اس وجہ سے اس وادی میں چشمہ کا جاری ہو جانا اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے جس کا حال ہم نے پہلے کسی قوم میں نہیں سنا تھا.631 تو اس طرح کے معجزات بھی صحابہ کے ساتھ ہوتے تھے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر مہمات پر نکلتے تھے.632 حضرت علاء نے حضرت جاروڈ کو حکم بھیجا کہ تم قبیلہ عبد القیس کو لے کر حکم کے مقابلے کے لیے ھجر سے ملحق علاقے میں جاکر پڑاؤ کرو اور حضرت علاء اپنی فوج کے ساتھ محکم کے مقابلے پر اس علاقے میں آئے.اہل دارین کے علاوہ تمام مشرکین عظم کے پاس جمع ہو گئے.اس طرح تمام مسلمان حضرت علاء بن حضرمی کے پاس جمع ہو گئے.دونوں نے اپنے اپنے آگے خندق کھود لی.وہ روزانہ اپنی خندق عبور کر کے دشمن پر حملہ کرتے اور لڑائی کے بعد پھر خندق کے پیچھے ہٹ آتے.ایک مہینے تک جنگ کی یہی کیفیت رہی.اسی اثنا میں ایک رات مسلمانوں کو دشمن کے پڑاؤ سے زبر دست شور و غوغا سنائی دیا.حضرت علاء نے کہا کوئی ہے جو دشمن کی اصل حالت کی خبر لائے ؟ حضرت عبد اللہ بن حذف نے کہا میں اس کام کے لیے جاتا ہوں اور انہوں نے واپس آکر یہ اطلاع دی کہ ہمارا حریف نشہ میں مدہوش ہے اور نشہ میں دھت واہی تباہی بک رہا ہے.یہ سارا شور اس کا ہے.جب یہ سنا تو مسلمانوں نے فوراً دشمن پر حملہ کر دیا اور اس کے پڑاؤ میں گھس کر ان کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتار نا شروع کیا.وہ اپنی خندق کی طرف بھاگ گئے.کئی اس میں گر کر ہلاک ہو گئے، کئی بچ گئے.کئی خوفزدہ ہو گئے.بعض قتل کر دیے گئے یا گرفتار کر لیے گئے.مسلمانوں نے ان کے پڑاؤ کی ہر چیز پر قبضہ کر لیا.جو شخص بیچ کر بھاگ سکا وہ صرف اس چیز کو لے جاسکا جو اس کے جسم پر تھی.البتہ انجز جان بچا کر بھاگ گیا.عظم کی خوف و دہشت سے یہ کیفیت تھی کہ گویا اس کے جسم میں جان ہی نہیں.وہ اپنے گی پنے گھوڑے کی طرف بڑھا جبکہ مسلمان مشرکین کے وسط میں آچکے تھے.اپنی بدحو اسی میں لم خود مسلمانوں میں سے فرار ہو کر اپنے گھوڑے پر سوار ہونے کے لیے جانے لگا.جیسے ہی اس نے
حاب بدر جلد 2 263 حضرت ابو بکر صدیق رکاب میں پاؤں رکھا رکاب ٹوٹ گئی.حضرت قیس بن عاصم نے اس کو واصل جہنم کیا.مشرکین کی قیام گاہ کی ہر چیز پر قبضہ کرنے کے بعد مسلمان ان کی خندق سے نکل کر ان کے تعاقب میں چلے.حضرت قیس بن عاصم انجر کے قریب پہنچ گئے مگر انجر کا گھوڑا حضرت قیش کے گھوڑے سے زیادہ طاقتور تھا.ان کو یہ اندیشہ ہوا کہ یہ کہیں میری گرفت سے نکل نہ جائے.انہوں نے انجڑ کے گھوڑے کی پیٹھ پر نیزہ مارا جس سے گھوڑاز خمی ہو گیا.بہر حال لکھا ہے کہ آنجہ بھاگ گیا، ان کے قابو نہیں آیا.ایک روایت میں ہے کہ حضرت قیس بن عاصم نے آبجز کے سر پر ضرب لگائی جو اس کے خود کو چیرتی ہوئی نکل گئی.اس کے بعد حضرت قیس نے دوبارہ ایساوار کیا کہ وہ لہو لہان ہو گیا.13 صبح کو حضرت علاء نے مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کر دیا اور ایسے لوگوں کو جنہوں نے خاص طور سے جنگ میں بہادری دکھائی تھی مرنے والے سرداروں کے قیمتی کپڑے بھی دیے.ان میں حضرت عفیف بن منذر حضرت قیس بن عاصم اور حضرت ثمامہ بن اثال کو کپڑے دیے گئے.حضرت ثمامہ کو جو کپڑے دیے گئے ان میں حکم کا ایک سیاہ رنگ کا قیمتی منقش چوغہ تھا جس کو پہن کر وہ بڑے فخر و غرور 633 سے چلا کرتا تھا.634 اس مہم کی کامیابی کی اطلاع حضرت ابو بکر کو دی گئی.حضرت علاء نے اپنے ایک خط میں حضرت ابو بکر کو خندق والوں کی شکست اور نظم کے قتل کی اطلاع دی جس کو زید اور معمر نے قتل کیا تھا اور اس میں لکھا کہ آنا بعد ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے دشمن کی عقلوں کو سلب کر لیا.ان کی قوتوں کو اس شراب کے ذریعہ جس کو انہوں نے دن کے وقت پیا تھا ختم کر دیا.ہم خندق عبور کر کے ان میں گھس گئے.ہم نے انہیں مدہوش پایا.سوائے چند ایک کے باقی سب کو ہم نے قتل کر دیا.اللہ نے خظم کا کام بھی تمام کر دیا.635 ھجر اور اس کے مضافات پر حضرت علامہ کا قبضہ ہو گیا لیکن بہت سے مقامی فارسی نئی حکومت کے مخالف رہے.وہ اکثر یہ خبر پھیلا کر لوگوں میں ہر اس پیدا کرتے کہ بس کوئی دم جاتا ہے کہ فجر میں حکومتِ مدینہ کی بساط الٹ جائے گی.مفروق شیبانی اپنی قوم تغلب اور تمیز کی فوجیں لیے چلا آ رہا ہے.حضرت ابو بکر کو یہ باتیں معلوم ہوئیں تو انہوں نے حضرت علاء کو لکھا کہ اگر تحقیق سے یہ معلوم ہو جائے کہ بنو شیبان بن ثعلبہ جس کا لیڈر مفروق تھا تم پر حملہ کرنے والے ہیں اور شر پسند عناصر یہ خبر مشہور کر رہے ہیں تو ان کی سرکوبی کے لیے فوج روانہ کرنا اور ان لوگوں کو روند ڈالنا اور ان کے عقب والے قبائل کو ایسا خوفزدہ کرنا کہ انہیں کبھی سر اٹھانے کا حوصلہ نہ ہو.36 دارین کی جنگ مر تدین دارین میں جمع ہو گئے.اس کے بارے میں بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ دارین کی جنگ
حاب بدر جلد 2 264 حضرت ابو بکر صدیق کو حضرت ابو بکر کے دورِ خلافت میں بیان کیا جاتا ہے لیکن بعض مؤرخین دارین کی جنگ کو حضرت عمر 637 کے دور میں لکھتے ہیں.بہر حال مرتدین کا اجتماع یہاں ہوا.دارین خلیج فارس کا ایک جزیرہ تھا جو بحرین کے بالمقابل چند میل کے فاصلے پر واقع ہے.وہاں پہلے سے عیسائی خاندان آباد تھے.حضرت علاء سے شکست کھانے کے بعد بچ جانے والے شکست خوردہ باغیوں کا ایک بڑا حصہ کشتیوں میں بیٹھ کر دارین چلا گیا اور دوسرے لوگ اپنے اپنے قبائل کے علاقوں میں پلٹ گئے.حضرت علاء بن حضرمی نے قبیلہ بکر بن وائل کے اُن لوگوں کو جو اسلام پر قائم تھے لکھا کہ ان کا مقابلہ کریں.نیز حضرت عتیبہ بن ناس اور حضرت عامر بن عبد الا سود کو حکم بھیجا کہ تم وہیں پر رہو جہاں پر تم ہو اور ہر راستے پر مرتدین کے مقابلے کے لیے پہرے بٹھا دو.نیز انہوں نے حضرت مشمع کو حکم دیا کہ وہ خود بڑھ کر مرتدین کا مقابلہ کریں اور انہوں نے حضرت خضہ تیمی اور حضرت مثلی بن حارثہ شیبانی کو حکم دیا کہ وہ بھی ان مرتدین کا مقابلہ کریں.بحرین میں فتنہ ارتداد کی آگ بجھانے میں مثلی بن حارثہ نے بہت بڑا کردار ادا کیا.انہوں نے اپنی فوج کے ساتھ حضرت علاء بن حضر می شما ساتھ دیا اور بحرین سے شمال کی طرف روانہ ہوئے.انہوں نے قطیف اور ھجر پر قبضہ کیا.اپنے اس مشن میں لگے رہے یہاں تک کہ فارسی فوج اور ان کے ممال پر غالب آئے جنہوں نے بحرین کے مرتدین کی مدد کی تھی.مرتدین سے قتال کے لیے ان علاقوں میں جو اسلام پر ثابت قدم رہے تھے انہیں لے کر حضرت علاء بن حضرمی کے ساتھ شامل ہو گئے.ساحل کے ساتھ شمال کی طرف بڑھتے رہے اور جس وقت حضرت ابو بکر نے حضرت مُعلی بن حارثہ شیبانی کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت قیس بن عاصم نے کہا کہ یہ کوئی غیر معروف، مجبول النسب اور غیر شریف انسان نہیں.وہ تو مٹی بن حارثہ شیبانی ہیں.چنانچہ حضرت مُعلی بن حارثہ شیبانی مرتدین کے روکنے کے لیے راستوں کے ناکوں پر کھڑے ہوئے اور مرتدین میں سے بعض نے توبہ کی اور اسلام لے آئے جسے تسلیم کیا گیا.اور بعض نے تو بہ کرنے سے انکار کر دیا اور ارتداد پر اصرار کیا.ان کو ان کے علاقے میں جانے سے روک دیا گیا.اس لیے وہ پھر اسی رستے پر پلٹے جہاں سے وہ آئے تھے یہاں تک کہ وہ بھی کشتیوں کے ذریعہ دارین پہنچ گئے.اس طرح اللہ نے ان سب کو ایک جگہ جمع کر دیا.حضرت علاء ابھی تک مشرکین کے لشکر میں ہی مقیم تھے کہ ان کے پاس بکر بن وائل، جن کو انہوں نے خط لکھے تھے، کے خطوط کے جواب موصول ہو گئے اور ان کو معلوم ہو گیا کہ وہ لوگ اللہ کے حکم پر عمل کریں گے اور اس کے دین کی حمایت کریں گے.جب حضرت علاء کو ان لوگوں کے بارے میں حسب مراد خبر مل گئی یعنی کہ وہ مسلمان ہیں اور بغاوت نہیں کر رہے اور لڑائی نہیں کریں گے اور ان کو یقین ہو گیا کہ ان کے جانے کے بعد پیچھے اہل بحرین میں سے کسی کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا تو انہوں نے کہا کہ اب تمام مسلمانوں کو دارین کی طرف چلنا چاہیے اور ان کو دارین پر پیش قدمی کی دعوت دی.
حاب بدر جلد 2 265 حضرت ابو بکر صدیق یہ واقعہ جس کی تفصیل آگے آئے گی، اس واقعہ کو جس طرح بیان کیا گیا ہے وہ بظاہر ناممکن نظر آتا ہے کہ کس طرح انہوں نے سمندر کو عبور کیا.اس کے بیان میں ہو سکتا ہے کچھ حد تک صداقت بھی ہو اور کچھ مبالغہ سے بھی کام لیا گیا ہو.بہر حال اگر اس میں کچھ صداقت ہے تو اس کی وضاحت کیا ہے؟ اس کی وضاحت آخر میں بیان کر دوں گا.بہر حال بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس کشتیاں وغیرہ نہیں تھیں جن پر سوار ہو کر وہ جزیرے تک پہنچتے.یہ دیکھ کر حضرت علاء بن حضر میں کھڑے ہوئے اور لوگوں کو جمع کر کے ان کے سامنے تقریر کی جس میں کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے شیاطین کے گروہوں کو جمع کر دیا ہے اور جنگ کو سمندر میں دھکیل دیا ہے.وہ پہلے خشکی میں تمہیں اپنے نشانات دکھا چکا ہے تاکہ ان نشانات کے ذریعہ سمندر میں بھی تم سبق سیکھو.اپنے دشمن کی طرف چلو.سمندر کو چیرتے ہوئے اس کی طرف پیش قدمی کرو کیونکہ اللہ نے انہیں تمہارے لیے اکٹھا کیا ہے.ان سب نے جواب دیا کہ بخدا! ہم ایسا ہی کریں گے اور وادی دُھنا کا معجزہ دیکھنے کے بعد ہم جب تک زندہ ہیں ان لوگوں سے نہیں ڈریں گے.طبری میں یہ روایت لکھی ہوئی ہے.وہ معجزہ پہلے بیان ہو چکا ہے جس میں مسلمانوں کے بھاگے ہوئے اونٹ بھی واپس آگئے تھے اور پانی کا چشمہ بھی جاری ہوا تھا.اس کے بارے میں انہوں نے حوالہ دیا کہ وہ معجزہ ہم دیکھ چکے ہیں تو سمندر کے پانی پہ بھی ہم چلنے کا معجزہ دیکھ لیں گے.حضرت علاء اور تمام مسلمان اس مقام سے چل کر سمندر کے کنارے آئے.حضرت علاء اور آپ کے ساتھی خدا کے حضور یہ دعا کر رہے تھے کہ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ يَا كَرِيمُ يَا حَلِيمُ يَا أَحَدُ يَا صَمَدُ يَا حَيُّ يَا مُحْيِيَ الْمَوْتِ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ يَا رَبَّنَا.اے رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ! اے کریم ! اے بہت ہی بُردبار ! اے وہ جو اکیلا ہے ! اے بے نیاز !اے وہ جو زندہ ہے جو دوسروں کو زندگی بخشنے والا ہے اور اسے مردوں کو زندہ کرنے والے ! اے وہ جو زندہ ہے اور دوسروں کو زندگی بخشنے والا ہے ! اے وہ جو قائم ہے اور دوسروں کو قائم کرنے والا ہے ! اے ہمارے رب ! تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.بہر حال بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت علاء نے لشکر کے تمام افراد کو کہا کہ یہ دعا کرتے ہوئے سمندر میں اپنی سواریاں ڈال دیں.چنانچہ تمام مسلمان اپنے سپہ سالار حضرت علاء بن حضرمی کی پیروی کرتے ہوئے ان کے پیچھے اپنے گھوڑوں، گدھوں، اونٹوں اور اپنے خچروں پر سوار ہوئے اور انہیں سمندر میں ڈال دیا اور پھر اللہ کی قدرت ! اس خلیج کو بغیر کسی نقصان کے عبور کر لیا.ایسا معلوم ہو تا تھا کہ نرم ریت جس پر پانی چھڑ کا گیا ہے اس پر چل رہے ہیں کہ اونٹوں کے پاؤں تک نہ ڈوبے اور سمندر میں مسلمانوں کی کوئی چیز غائب نہ ہوئی.ایک چھوٹی سی گٹھڑی کے غائب ہونے کا ذکر ہے.اس کو بھی حضرت علاء اٹھا لائے تھے.بہر حال ساحل سے دارین تک کا سفر بیان کیا جاتا ہے کہ کشتیوں کے ذریعہ ایک دن اور ایک رات میں طے ہو تا تھا لیکن اس قافلے نے ایک ہی دن کے بہت ہی تھوڑے وقت میں یہ فاصلہ طے کر لیا.638
حاب بدر جلد 2 266 حضرت ابو بکر صدیق تاریخ طبری میں اس طرح اس کی یہ تفسیر بیان کی گئی لیکن موجودہ زمانے کے بعض مصنف سمندر عبور کرنے کے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اس وقت خلیج فارس میں جزر آیا ہویا روایات میں مبالغہ ہو اور در حقیقت مسلمانوں کو مقامی باشندوں کے ذریعہ سے کشتیاں دستیاب ہو گئی ہوں جن پر سوار ہو کر انہوں نے سمندر عبور کیا ہو.لیکن بہر حال روایت میں اس تفصیل کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے.مختلف لوگوں نے یہ روایت لکھی ہے.انہوں نے عبور کرنے کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ مسلمان دارین پہنچ گئے تھے.639 کس طرح پہنچے اللہ بہتر جانتا ہے.باقی رہا معجزات کے بارے میں تو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی ایک تفسیر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے جو اصولی راہنمائی کی ہے وہ بیان کر دیتا ہوں.حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہجرت کے وقت سمندر کے پھٹنے والے واقعہ کی تفسیر اور وضاحت کرتے ہوئے بیان فرمایا جو قرآن شریف میں آیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق واقعہ کی کیفیت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل ارض مقدس کے ارادے سے چلے جارہے تھے کہ پیچھے سے فرعون کا لشکر آپہنچا.اسے دیکھ کر بنی اسرائیل گھبر ائے اور سمجھے کہ اب پکڑے جائیں گے لیکن خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی معرفت ان کو تسلی دلائی اور حضرت موسیٰ سے کہا کہ اپنا عصا سمندر پر ماریں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سمندر میں ایک راستہ ہو گیا اور وہ اس میں سے آگے روانہ ہوئے.ان کے دونوں طرف پانی تھا جو ریت کے ٹیلوں کی مانند یعنی اونچا نظر آتا تھا.لشکر فرعون نے ان کا پیچھا کیا مگر بنی اسرائیل کے صحیح سلامت پار ہونے پر پانی پھر کوٹا اور مصری غرق ہو گئے.اب لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے سمجھنے کے لیے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق تمام معجزات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور کسی انسان کا اس میں دخل اور تصرف نہیں ہوتا.پس حضرت موسیٰ کا عصا اٹھانا اور سمندر پر مار نا صرف ایک نشانی کے لیے تھانہ اس لیے کہ حضرت موسی الکا یا عصا کا سمندر کے سمٹ جانے میں کوئی دخل تھا.اس عصا کا سمندر کے سمٹ جانے میں کوئی دخل تھا.اسی طرح یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم کے الفاظ سے ہر گز ثابت نہیں کہ سمندر کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے اور اس میں سے حضرت موسی نکل گئے تھے بلکہ قرآن کریم میں اس واقعہ کے متعلق دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں، ایک فرق اور ایک اِنْفَلَقَ کا، جن کے معنی جدا ہو جانے کے ہیں.پس قرآن کریم کے الفاظ کے مطابق اس واقعہ کی یہی تفصیل ثابت ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کے گذرنے کے وقت سمندر جدا ہو گیا تھا یعنی کنارے سے ہٹ گیا تھا اور جو خشکی نکل آئی تھی اس میں سے بنی اسرائیل گزر گئے تھے اور سمندر کے کناروں پر ایسا ہو جایا کرتا ہے.چنانچہ نپولین کی ( زندگی ) لائف میں بھی لکھا ہے کہ جب وہ مصر پر حملہ آور ہوا تو وہ بھی اپنی فوج کے ایک حصہ سمیت بحیرہ احمر کے کنارے کے پاس جزر کے وقت گزرا تھا اور اس کے گزرتے گزرتے مڑ کا وقت آگیا اور مشکل سے بچا.اس واقعہ میں معجزہ یہ تھا یعنی حضرت موسیٰ والے واقعہ میں جو معجزہ تھا یہ تھا
حاب بدر جلد 2 267 حضرت ابو بکر صدیق کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایسے وقت میں سمندر کے سامنے پہنچایا جبکہ جزر کا وقت تھا اور حضرت موسیٰ کے ہاتھ اٹھاتے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پانی گھٹنا شروع ہو الیکن فرعون کا لشکر جب سمندر میں داخل ہوا تو ایسی غیر معمولی رو کیں اس کے راستے میں پیدا ہو گئیں کہ اس کی فوج بہت سست رفتاری سے بنی اسرائیل کے پیچھے چلی اور ابھی سمندر ہی میں تھی کہ مذ آگئی اور دشمن غرق ہو گیا...سمندر میں مڈو جزر پید اہو تا رہتا ہے اور ایک وقت میں پانی کنارے پر سے بہت دور پیچھے ہٹ جاتا ہے اور دوسرے وقت میں وہ خشکی پر اور آگے آجاتا ہے.سمندر پھاڑنے کے واقعہ کا اسی مدوجزر کی کیفیت سے تعلق ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام ایسے وقت میں سمندر سے گزرے جبکہ جزر کا وقت تھا اور سمند ر پیچھے ہٹا ہو اتھا اور اس کے بعد فرعون پہنچا.وہ بوجہ اس کے کہ کم سے کم ایک دن بعد حضرت موسیٰ کے چلا تھا وہ مارا مار کرتا ہوا جس وقت سمندر پر پہنچا ہے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سمندر کے اس خشک ٹکڑے کا جس سے وہ گزر رہے تھے اکثر حصہ طے کر چکے تھے.فرعون نے ان کو پار ہوتے دیکھ کر جلدی سے اس میں اپنی رتھیں ڈال دیں مگر سمندر کی ریت جو ٹیلی تھی اس کی رتھوں کے لیے مہلک ثابت ہوئی اور اس کی رتھیں اس میں پھنسنے لگیں اور اس قدر دیر ہو گئی کہ مذ کا وقت آگیا اور پانی بڑھنے لگا.اب اس کے لیے دونوں باتیں مشکل تھیں.نہ وہ آگے بڑھ سکتا تھا نہ پیچھے.نتیجہ یہ ہوا کہ سمندر نے اسے درمیان میں آلیا اور وہ اور اس کے بہت سے ساتھی سمندر میں غرق ہو گئے اور چونکہ مڈ کا وقت تھا، سمندرکا پانی جو کنارے کی طرف بڑھ رہا تھا اس نے ان کی لاشوں کو خشکی کی طرف لا پھینکا.بہر حال مسلمان دارین کسی طرح پہنچ گئے تھے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اور وہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسی طرح کا مد و جزر والا کوئی واقعہ ہوا ہو.دارین پہنچ کر وہاں مسلمانوں کا اور مرتد باغیوں کا مقابلہ ہوا اور نہایت ہی خونریز جنگ ہوئی جس میں وہ سب مارے گئے یعنی باغی مارے گئے.کوئی خبر دینے والا بھی نہ بچا.مسلمانوں نے ان کے اہل و عیال کو لونڈی یا غلام بنا لیا اور ان کی املاک پر قبضہ کر لیا.ہر ایک شہ سوار کو چھ ہزار اور ہر پیادے کو دو ہزار درہم غنیمت میں ملے.مسلمانوں کو ساحل سمندر سے ان تک پہنچنے اور ان کے مقابلے میں پورا دن صرف ہو گیا.ان سے فارغ ہو کر وہ پھر واپس آگئے.640 حضرت ثمامہ بن اثال کی شہادت حضرت تمامہ بن اثال کی شہادت کا واقعہ لکھا ہے کہ حضرت علاء بن حضرمی تمام لوگوں کو واپس لے آئے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے وہیں پر قیام کرنے کو پسند کیا.حضرت ثمامہ بن اثال بھی واپس آنے والوں میں تھے.عبد اللہ بن حذف کہتے ہیں کہ ہم بنو قیس بن ثعلبہ کے ایک چشمہ پہ تھے.لوگوں کی نظر حضرت ثمامہ پر پڑی اور انہوں نے نظم کا چوغہ آپ کے جسم پر دیکھا.م کا یہ وہی چوغہ تھا جو اس کے قتل ہونے کے بعد مالِ غنیمت میں حضرت ثمامہ کو دیا گیا تھا.انہوں نے ایک شخص کو دریافت کے لیے بھیجا، یعنی اس قبیلے والوں نے اور اُسے کہا کہ جا کر حضرت محمامہ سے دریافت کرو کہ یہ
محاب بدر جلد 2 268 حضرت ابو بکر صدیق چوغہ تمہیں کہاں سے ملا ہے اور حکم کے متعلق دریافت کرو کہ کیا تم نے ہی اسے قتل کیا تھا ( منظم ان کا لیڈر تھا) یا کسی اور نے ؟ اس شخص نے آکر حضرت ثمامہ سے چونہ کے متعلق پوچھا.انہوں نے کہا کہ یہ مجھے مالِ غنیمت میں ملا ہے.اس شخص نے کہا کہ تم نے نظم کو قتل کیا ہے ؟ حضرت ثمامہ نے کہا کہ نہیں.اگر چہ میری تمنا تھی کہ میں اس کو قتل کرتا.اس شخص نے کہا کہ یہ چوغہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے ؟ حضرت محمائمہ نے کہا اس کا جواب میں تمہیں پہلے ہی دے چکا ہوں کہ مالِ غنیمت میں ملا ہے.تو اس قبیلے کے اس شخص نے آکے اپنے دوستوں کو اپنی ساری گفتگو کی اطلاع دی.وہ سب پھر حضرت ثمامہ کے پاس اکٹھے ہو کے آئے اور ان کو آکر گھیر لیا.ان سب نے کہا کہ تم حظم کے قاتل ہو.حضرت ثمامہ نے کہا کہ تم جھوٹے ہو.میں اس کا قاتل نہیں ہوں.البتہ یہ چونہ مجھے مال غنیمت میں بطور حصہ کے ملا ہے.انہوں نے کہا کہ حصہ تو صرف قاتل ہی کو ملتا ہے حضرت ثمامہ نے کہا کہ یہ چوغہ اس کے جسم پر نہیں تھا بلکہ اس کی سواری یا اس کے سامان سے ملا ہے.لوگوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو.پھر ان کو شہید کر دیا.641 حضرت سوید بن مقرن کی مہم 643 دسویں مہم کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ حضرت سوید بن منقرین کی مرتد باغیوں کے خلاف مہم تھی.حضرت ابو بکڑ نے ایک جھنڈ ا حضرت سوید بن مقرن کو دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ یمن کے علاقے تہامہ کو جائیں.642 لغت میں تہامہ کے معنی شدت گرمی اور ہوا کے رک جانے کے بھی ہیں.اسی طرح لغت میں اس کے ایک معنی نشیب کے بھی ہیں.3 یمن کے مغرب اور جنوب میں بحر قلزم کے ساحل پر نشیبی اراضی کی ایک پٹی ہے جسے تہامہ کہتے ہیں.اس اراضی میں بہت سی پیچی لیکن تہ بہ تہ پہاڑیاں پائی جاتی ہیں.تہامہ کی شمالی سرحد مکہ کے قریب پہنچتی تھی اور جنوبی یمن کے پایہ تخت صنعاء سے کوئی ساڑھے تین سو میل کے فاصلے پر ختم ہوتی تھی.تہامہ یمن کا ایک ضلع تھا جس میں بہت سے گاؤں اور قصبے تھے.644 یہ تو تہامہ یمن کا مختصر تعارف ہے.حضرت سوید بن مقرین کا تعارف یہ ہے کہ حضرت سوید کے والد کا نام مقرن بن عائذ تھا.ان کا تعلق مزینہ قبیلہ سے تھا.ان کی کنیت ابوعدی تھی.ابو عمرو بھی کنیت بیان کی گئی ہے.پانچ ہجری میں انہوں نے اسلام قبول کیا.انہوں نے جنگ خندق میں آنحضرت صلی الیکم کے ساتھ شمولیت کی.پھر اس کے بعد تمام غزوات میں آنحضرت صلی علیکم کے ساتھ رہے.آپ حضرت نعمان بن مقرن کے بھائی تھے جنہوں نے ایرانی فتوحات میں کار ہائے نمایاں سر انجام دیے تھے.645 تاریخی کتب میں حضرت سویڈ کے تہامہ جانے اور وہاں ان کے مرتدین کے خلاف کارروائیوں کی
اصحاب بدر جلد 2 269 حضرت ابو بکر صدیق تفصیل نہیں ملتی تاہم کتب تاریخ میں اہل تہامہ کے ارتداد اور بغاوت کے حالات و واقعات یوں بیان ہوئے ہیں کہ نبی کریم علی علیم نے دس ہجری میں حجتہ الوداع کے بعد یمن میں محصلین زکوۃ مقرر فرمائے.آنحضرت صلی علیم نے یمن کو سات حصوں میں تقسیم فرمایا تھا.تہامہ پر طاہر بن ابو ہالہ کو عامل مقرر فرمایا ورض 647 646 تھا.تہامہ میں ادنیٰ درجہ کے عربوں کے علاوہ دو بڑے اور اہم قبیلے تھے.ایک ٹک اور دوسرا لن تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے حضرت عتاب بن اسید اور حضرت عثمان بن ابو العاص نے حضرت ابو بکر کو لکھا کہ ہمارے علاقے میں مرتدین نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا ہے.مرتدین صرف مرتدین نہیں تھے بلکہ جیسا کہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں یہ لوگ مسلمانوں پر حملے بھی کرتے تھے.یہاں بھی یہی صور تحال تھی.تو حضرت عتابے نے اپنے بھائی حضرت خالد بن اُسیڈ کو اہل تہامہ کی سرکوبی کے لیے بھیجا جہاں بنو مدلج کی ایک بڑی جماعت اور خُزاعہ اور کنانہ کی مختلف جماعتیں بنو مڈ لج کے خاندان بنو شنوق کے جندب بن سلمی کی سرکردگی میں مرتد ہو کر مقابلہ کے لیے جمع تھیں.دونوں حریفوں کا مقابلہ ہوا اور حضرت خالد بن اُسیڈ نے ان کو شکست دے کر پراگندہ کر دیا اور بہت سارے افراد کو قتل کر دیا.اس میں بنو شنوق کے افراد سب سے زیادہ مارے گئے.اس واقعہ کے بعد ان کی تعداد بہت کم رہ گئی.اس واقعہ نے حضرت عثا ہے کے علاقے کو فتنہ ارتداد سے پاک صاف کر دیا اور جندب بھاگ گیا.پھر کچھ عرصہ بعد اس نے دوبارہ اسلام قبول کر لیا.7 ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی الل ولم کے وصال کے بعد تہامہ میں سب سے زیادہ قبیلہ عک اور اشعر نے بغاوت کی اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب ان کو نبی کریم صلی ایم کی وفات کی اطلاع ملی تو ان میں سے متفرق لوگ جمع ہوئے اور پھر خَضَمُ قبیلہ کے لوگ بھی ان کے ساتھ جاملے.انہوں نے ساحل سمندر کی جانب اغلاب مقام میں اپنا پڑاؤ ڈالا اور ان کے ساتھ وہ سپاہی بھی آملے جن کا کوئی سر دار نہ تھا.اغلاب جو ہے یہ بھی مکہ کے ساحل کے درمیان قبیلہ تک کا علاقہ ہے.حضرت طاہر بن ابو ہالہ نے حضرت ابو بکر کو اس کی اطلاع دی اور خود ان کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے اور اپنی روانگی کی اطلاع بھی انہوں نے حضرت ابو بکر کو لکھ دی.حضرت طاہر کے ساتھ مسروق علی اور قبیلہ ملک میں سے ان کی قوم کے وہ افراد تھے جو مرتد نہیں ہوئے تھے.یہاں تک کہ مقام اغلاب میں ان لوگوں سے جاملے اور وہاں ان سے شدید جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ، دشمنوں کو شکست دی.مسلمانوں نے ان کو بے دریغ قتل کیا.تمام راستوں میں ان کے مقتولین کی بدبو پھیل گئی اور مسلمانوں کو ایک شاندار فتح حاصل ہوئی.تہامہ میں ارتداد کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ایک مصنف نے لکھا ہے کہ تہامہ کے ارتداد کو کچلنے میں سر فہرست طاہر بن ابی ہالہ تھے جو رسول اللہ صلی علی کم کی جانب سے تہامہ کے لیے تہامہ کے حصہ پر والی تھے جو قبیلہ عک اور اشعریوں کا وطن تھا.پھر ابو بکر نے عکاشہ بن ثور کو حکم دیا کہ وہ تہامہ میں اقامت پذیر ہوں اور اپنے پاس اس کے باشندوں کو اکٹھا کر کے حکم کا، حضرت ابو بکر کے حکم کا انتظار
حاب بدر جلد 2 270 حضرت ابو بکر صدیق کریں.حضرت عکاشہ نبی کریم صلی ا کرم کی وفات کے وقت حضر موت کے دو علاقوں سكلسك اور سکون پر عامل مقرر تھے اور بجیلہ قبیلہ کے پاس حضرت ابو بکر نے جریر بن عبد اللہ بجلی کو واپس بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کے ثابت قدم رہنے والے مسلمانوں کولے کر اسلام سے مرتد ہونے والوں سے قتال کریں اور پھر قبیلہ خشم کے پاس پہنچیں اور ان کے مرتدین سے قتال کریں.جریر اپنی مہم پر روانہ ہوئے اور صدیق اکبر نے جو حکم دیا تھا اس کو بجالائے اور تھوڑے سے افراد کے علاوہ ان کے مقابلے میں کوئی نہ آیا.آپ نے ان کو قتل کیا اور انہیں منتشر کر دیا.648 حضرت مہاجر بن ابو امیہ کی مہم گیارھویں مہم کے بارہ میں لکھا ہے کہ یہ مہم مہاجر بن ابو امیہ کی یمن کے مرتد باغیوں کے خلاف تھی.حضرت ابو بکر نے ایک جھنڈا حضرت مہاجر بن ابو امیہ کو دیا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اسود عنسی کی فوج کا مقابلہ کریں اور ابناء کی مدد کریں جن سے قیس بن مكشوح اور دوسرے اہل یمن بر سر پیکار تھے.اس وقت یمن میں دو اہم طبقے تھے.ایک اصلی باشندے جن کا تعلق سبا اور جمیر کے خاندان سے تھا اور دوسرے فارسی آباء کی نسل جن کو ابناء کہتے تھے.یہ ابناء اس وقت یمن کی سب سے مقتدر اقلیت تھے.ایک عرصہ سے یمن کا حاکم کسریٰ کی حکومت کے ماتحت تھا.اس لیے حکومت کے اکثر عہدے ابناء کو حاصل تھے.بہر حال لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر نے حضرت مہاجر کو ہدایت دی کہ فارغ ہو کر کندہ قبیلے کے مقابلے کے لیے حضر موت چلے جانا.649 حضر موت یمن سے مشرق کی طرف ایک وسیع علاقہ ہے جس میں بیسیوں بستیاں ہیں.حضر موت اور صنعاء کے درمیان 216 میل کا فاصلہ ہے.651 650 کندہ یمن کے ایک قبیلہ کا نام ہے.حضرت مہاجر کے تعارف کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ کا نام مہاجر بن ابو امیہ بن مغیرہ بن عبد اللہ تھا.حضرت مہاجر بن ابو امیہ ام المومنین حضرت ام سلمہ کے بھائی تھے.آپ غزوہ بدر میں مشرکین کی طرف سے شامل ہوئے اور اس دن آپ کے دو بھائی ہشام اور مسعود قتل ہوئے.آپ کا اصل نام ولید تھا جس کو نبی اکرم صلی لی ہم نے تبدیل کر دیا تھا.652 الله سة ایک روایت میں ہے کہ مہاجر غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے.جب رسول اللہ صلی اللہ کی اس غزوہ سے واپس تشریف لائے تو آپ صلی الیہ ہم ان سے ناراض تھے.ایک روز حضرت ام سلمہ آنحضور صلی علیہ ظلم کا سر دھو رہی تھیں تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی بھی چیز کس طرح فائدہ پہنچا سکتی ہے جبکہ آپ میرے بھائی سے ناراض ہیں؟ جب حضرت ام سلمہ نے آپ صلی للی تم میں کچھ نرمی اور شفقت کے آثار دیکھے تو انہوں نے اپنی خادمہ کو اشارہ کیا اور وہ مہاجر کو بلا لائی.مہاجر مسلسل اپنا عذ ربیان کرتے رہے یہاں تک کہ
اصحاب بدر جلد 2 271 حضرت ابو بکر صدیق رسول اللہ صلی علیم نے ان کا عذر قبول فرمالیا اور ان سے راضی ہو گئے اور ان کور کندہ کا عامل مقرر فرما دیا مگر وہ بیمار ہو گئے اور وہاں نہ جاسکے تو انہوں نے زیاد کو لکھا کہ وہ ان کی خاطر ان کا کام بھی سر انجام دیں.پھر جب انہوں نے بعد میں شفا پائی تو حضرت ابو بکر نے ان کی امارت کے تقرر کو پورا کیا اور انہیں نجران سے لے کر یمن کے آخری حدود تک حاکم مقرر کیا اور قتال کا حکم دیا.153 اسود عنسی ضحاك بن فیروز کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یمن میں رسول اللہ صلی الی ظلم کے زمانے میں ارتداد شروع 657 655 ہو ا جس کا بانی ذُو الخمار عبلہ بن کعب تھا جو اسود عنسی کے نام سے مشہور ہوا.654 اسود عنسی یمن کے قبیلہ بنو عنس کا سر دار تھا.سیاہ فام ہونے کی وجہ سے اَسود کہلاتا تھا.5 ایک روایت میں اس کا نام عبلہ بن کعب کی بجائے عیله بن كعب بن عوف عنسی بیان ہوا ہے.اسود عنسی کا لقب ذُو الحمار تھا کیونکہ وہ ہر وقت کپڑا لپیٹے ہوئے رہتا تھا.656 اور بعض کے نزدیک اس کا لقب ذوالحمار یعنی نشہ میں مست رہنے والا بھی ملتا ہے.بعض روایت میں اس کا لقب ذُو الحمار بیان کیا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اسود کے پاس ایک سدھایا ہوا گدھا تھا.یہ جب اس کو کہتا کہ اپنے مالک کو سجدہ کرو تو وہ سجدہ کرتا.بیٹھنے کو کہتا تو بیٹھ جاتا.کھڑے ہونے کو کہتا تو کھڑ ا ہو جاتا.8 بعض کے نزدیک اس کو ڈوالحمار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ کہتا تھا کہ جو شخص مجھ پر ظاہر ہوتا ہے وہ 659 658 گدھے پر سوار ہوتا ہے.بہر حال لکھا ہے کہ اسود نے اپنا لقب رَحْمَانُ اليَمَن رکھا جیسے مسیلمہ نے اپنا لقب رَحْمَانُ اليمامه رکھا تھا.اس نے یہ بھی کہا کہ اس پر وحی آتی ہے اور اسے دشمنوں کے تمام منصوبوں کا علم قبل از وقت ہو جاتا ہے." 660 اسود شعبدہ باز تھا اور لوگوں کو عجیب و غریب شعبدے دکھاتا تھا.دو جھوٹے مدعیان نبوت اور آنحضرت علی الم کی رویا 661 بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی علیہ کم کو خواب میں پہلے سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ دو جھوٹے مدعیان نبوت خروج کریں گے.چنانچہ حضرت ابوہریرہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ : قَالَ رَسُولُ اللهِ بَيْنَا أَنَا نَائِمَّ أُتِيْتُ بِخَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَ فِي كَفَى سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ فَكَبُرَا عَلَى فَأَوْحَى اللهُ إِلَى أَنِ انْفُحْهُمَا، فَنَفَخْتُهُمَا فَذَهَبًا، فَأَوَلَمُهُمَا الْكَذَابَيْنِ اللَّذِيْنِ أَنَا بَيْنَهُمَا صَاحِبَ صَنْعَاءَ وَصَاحِبَ اليَمَامَةِ - 662
اصحاب بدر جلد 2 272 حضرت ابو بکر صدیق رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اس دوران کہ میں سویا ہوا تھا رویا میں مجھے زمین کے خزانے عطا کیے گئے اور میرے ہاتھ میں دو سونے کے کڑے رکھے گئے تو مجھ پر گراں گزرا.اس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی کہ میں ان دونوں پر پھونک ماروں.میں نے ان پر پھونک ماری تو وہ غائب ہو گئے.میں نے اس سے مراد دو جھوٹے لیے جن کے درمیان میں ہوں.صنعاء والا اسود عنسی، یمامہ والا مسیلمہ کذاب بخاری میں ہی ایک اور روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی ال نیم کی رویا بتائی گئی.آپ صلی سلیم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ مجھے دکھایا گیا کہ میرے دونوں ہاتھوں پر دوسونے کے کڑے رکھے گئے ہیں جس پر میں گھبر اگیا اور ان کو بر اجانا.مجھے کہا گیا تو میں نے ان دونوں پر پھونک ماری تو وہ اُڑ گئے یعنی اللہ کی طرف سے کہا گیا.میں نے ان کی تعبیر کی کہ دو جھوٹے ہیں جو میرے خلاف نکلیں گے.راوی عبید اللہ نے کہا کہ ان دو میں سے ایک تو عنسی تھا جسے یمن میں فیروز نے قتل کیا اور 663 دوسر ا مسیلمہ کذا جب رسول اللہ صلی للی یکم نے ایرانی بادشاہ کیری کو دعوتِ اسلام کا خط لکھا تو اس نے غضبناک ہو کر اپنے ماتحت عامل یمن باذان بعض اس کا نام بدھان بھی بیان کرتے ہیں، اس کو حکم دیا کہ وہ اس شخص کا یعنی رسول اللہ صلی علیکم کا سر لے کر دربار میں پہنچے.باذان نے دو آدمی آپ صلی علیکم کی طرف روانہ کیسے مگر آپ نے فرمایا : میرے اللہ نے مجھے بتایا ہے کہ تمہارے بادشاہ کو اس کے بیٹے شیرویہ نے ہلاک کر دیا ہے اور اس کی جگہ خود بادشاہ بن بیٹھا ہے اور ساتھ ہی باذان کو دعوتِ اسلام دی اور فرمایا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلے گا تو اسے بدستور یمن کا حاکم رکھا جائے گا.یہ سن کر دونوں اشخاص واپس چلے گئے.باذان کو ساری بات بتائی اور اسی دوران باذان کو یہ خبر بھی مل گئی کہ واقعی ایسا ہوا کہ کسری کو اس کے بیٹے شیرویه نے ہلاک کر دیا ہے اور اس کی جگہ خود بادشاہ بن گیا ہے.باذان نے جب آپ صلی غیر کم کی اس بات کو پورا ہوتے دیکھ لیا تو اس نے نبی کریم ملی ایم کی دعوت اسلام قبول کر لی اور آپ صلی اللہ ہم نے اسے حاکم یمن بر قرار رکھا.664 اس خط کے بارے میں اور دعوتِ اسلام کے بارے میں اور جو کسری نے کہا تھا اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ایک جگہ لکھا ہے.کہتے ہیں کہ ”عبد اللہ بن حذافہ کہتے ہیں کہ جب میں کسری کے دربار میں پہنچا تو میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی جو دی گئی.جب میں نے بڑھ کر رسول اللہ صلی الم کا خط کسری کے ہاتھ میں دیا تو اس نے ترجمان کو پڑھ کر سنانے کا حکم دیا.جب ترجمان نے اس کا ترجمہ پڑھ کر سنایا تو کسری نے غصہ سے خط پھاڑ دیا.جب عبد اللہ بن حذافہ نے یہ خبر آکر رسول اللہ صلی ال نیم کو سنائی تو آپ نے فرمایا.کسری نے جو کچھ ہمارے خط کے ساتھ کیا خدا تعالیٰ اس کی بادشاہت کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا.کسری کی اس حرکت کا باعث یہ تھا کہ عرب کے یہودیوں نے ان یہودیوں کے ذریعہ سے جو روم کی حکومت سے بھاگ کر ایران کی حکومت میں چلے گئے تھے اور بوجہ رومی حکومت کے خلاف سازشوں
وو 273 حضرت ابو بکر صدیق اصحاب بدر جلد 2 میں کسری کا ساتھ دینے کے کسری کے بہت منہ چڑھے ہوئے تھے ، کسری کو رسول اللہ صلی الم کے خلاف بہت بھڑ کا ر کھا تھا.جو شکایتیں وہ کر رہے تھے اس خط نے کسریٰ کے خیال میں ان کی تصدیق کر دی اور اس نے خیال کیا کہ یہ شخص میری حکومت پر نظر رکھتا ہے.یعنی آنحضرت صلی علیم کسری کی حکومت پر نظر رکھتے ہیں یہ اس کا خیال تھا.چنانچہ اس خط کے معا بعد کسری نے اپنے یمن کے گورنر کو ایک چٹھی لکھی جس کا مضمون یہ تھا کہ قریش میں سے ایک شخص نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے اور اپنے دعوؤں میں بہت بڑھتا چلا جاتا ہے.تو فوراً اس کی طرف دو آدمی بھیج جو اس کو پکڑ کر میری خدمت میں حاضر کریں.اس پر باذان نے جو اس وقت کسریٰ کی طرف سے یمن کا گورنر تھا ایک فوجی افسر اور ایک سوار رسول اللہ صلی علیکم کی طرف بھجوائے اور ایک خط بھی آپ کی طرف لکھا کہ آپ اس خط کے ملتے ہی فوراً ان لوگوں کے ساتھ کسری کے دربار میں حاضر ہو جائیں.وہ افسر پہلے مکہ کی طرف گیا.طائف کے قریب پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ آپ صلی علیہم مدینہ میں رہتے ہیں.چنانچہ وہ وہاں سے مدینہ گیا.مدینہ پہنچ کر اس نے رسول اللہ صلی املی کام سے کہا کہ کسری نے باذان گور نریمن کو حکم دیا ہے کہ آپ کو پکڑ کر اس کی خدمت میں حاضر کیا جائے.اگر آپ اس حکم کا انکار کریں گے تو وہ آپ کو بھی ہلاک کر دے گا اور آپ کی قوم کو بھی ہلاک کر دے گا اور آپ کے ملک کو برباد کر دے گا.اس لئے آپ ضرور ہمارے ساتھ چلیں.رسول کریم صلی ہی ہم نے اس کی بات سن کر فرمایا.اچھا کل پھر تم مجھ سے ملنا.رات کو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور خدائے ذوالجلال نے آپ کو خبر دی کہ کسری کی گستاخی کی سزا میں ہم نے اس کے بیٹے کو اس پر مسلط کر دیا ہے.چنانچہ وہ اسی سال جمادی الاولیٰ کی دسویں تاریخ پیر کے دن اس کو قتل کر دے گا اور بعض روایات میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا آج کی رات اس نے اسے قتل کر دیا ہے ممکن ہے رات وہی دس جمادی الاولیٰ کی رات ہو.جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللی کرم نے ان دونوں کو بلایا اور ان کو اس پیشگوئی کی خبر دی.پھر رسول اللہ صلی علی یم نے باذان کی طرف خط لکھا کہ خد اتعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ کسری فلاں تاریخ فلاں مہینے قتل کر دیا جائے گا.جب یہ خط یمن کے گورنر کو پہنچا تو اس نے کہا اگر یہ سچا نبی ہے تو ایسا ہی ہو جائے گاور نہ اس کی اور اس کے ملک کی خیر نہیں.تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایران کا ایک جہاز یمن کی بندر گاہ پر آکر ٹھہرا اور گورنر کو ایران کے بادشاہ کا ایک خط دیا جس کی مہر کو دیکھتے ہوئے یمن کے گورنرنے کہا.مدینہ کے نبی نے سچ کہا تھا.ایران کی بادشاہت بدل گئی اور اس خط پر ایک اور بادشاہ کی مہر ہے.جب اس نے خط کھولا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ باذان گورنریمین کی طرف ایران کے کسری شیرویہ کی طرف سے یہ خط لکھا جاتا ہے.میں نے اپنے باپ سابق کسری کو قتل کر دیا ہے اس لئے کہ اس نے ملک میں خونریزی کا دروازہ کھول دیا تھا اور ملک کے شرفا کو قتل کر تا تھا اور رعایا پر ظلم کرتا تھا.جب میرا یہ خط تم تک پہنچے تو فوراً تمام افسروں سے میری اطاعت کا اقرار لو اور اس سے پہلے میرے باپ نے جو عرب کے ایک نبی کی گرفتاری کا حکم تم کو بھجوایا تھا اس کو منسوخ سمجھو.یہ خط پڑھ کر بازان اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت وہ اور اس کے کئی ساتھی اسلام لے آئے اور اس نے رسول اللہ صلی علی یکم کو اپنے اسلام کی اطلاع دے دی.665% ہے وہ
حاب بدر جلد 2 274 حضرت ابو بکر صدیق دیباچہ تفسیر القرآن میں یہ تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے لکھی ہے.جب باؤ ان کا انتقال ہو گیا تو اس کے بعد رسول اللہ صلی علی کرم نے اپنے امراء کو یمن کے مختلف علاقوں پر عامل مقرر فرمایا اور مُعاذ بن جبل یمن اور حضر موت کے ان تمام علاقوں کے معلم تھے.لہذاوہ ان سب مقامات کا دورہ کرتے رہتے تھے.اسود جو کہ ایک کا ہن تھا اور یمن کے جنوبی حصہ میں رہتا تھا اس نے شعبدہ بازی اور مُسَجّع اور لی گفتگو کی وجہ سے بہت جلد لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور اس نے نبوت کا دعویٰ بھی کر دیا.وہ لوگوں پر یہ ظاہر کرتا کہ اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے جو ہر بات اس کو بتا دیتا ہے اور اس کے دشمنوں کے منصوبے اور راز فاش کر دیتا ہے جس پر سادہ اور جاہل لوگوں کی بہت بڑی تعد اد اس کے گرد اکٹھی ہو گئی.دراصل اسود عنسی نے یہ نعرہ بھی لگایا کہ یمن صرف یمنیوں کا ہے تو یمن کے باشندے قومیت کے اس نعرے سے بہت متاثر ہوئے.یہ نعرہ بڑا پرانا ہے آج بھی یہی استعمال ہوتا ہے اور دنیا میں جو فساد پھیلا ہوا ہے اسی وجہ سے ہے.بہر حال کیونکہ یمن میں اسلام ابھی پوری طرح لوگوں میں راسخ نہیں ہوا تھا اس لیے ان لوگوں نے اجنبی تسلط سے آزاد ہونے کے لیے اسود کی قومیت کے نعرے پر لبیک کہا اور اس کے ساتھ مل گئے.جب یہ تشویشناک اطلاعات مدینہ پہنچیں تو رسول اللہ صل اللہ ولی غزوہ موتہ کے شہداء کا انتقام لینے اور شمالی جانب سے حملوں کی روک تھام کے لیے حضرت اسامہ بن زید کے لشکر کی تیاریوں میں مشغول تھے.آپ صلی اللہ تم نے یمن کے سرداروں کے نام پیغام بھیجا کہ وہ اپنے طور پر آسود کا مقابلہ جاری رکھیں اور جو نہی اسامہ کا لشکر فتح یاب ہو کر لوٹے گا تو اسے یمن کی جانب روانہ کر دیا جائے گا.اسود عنسی کی فوج میں سات سو گھڑ سوار تھے.اس نے بڑی فوج بنائی تھی اور اونٹ سوار اس کے علاوہ تھے.بعد میں اس کا اقتدار مضبوط ہوتا گیا.قبیلہ مذحج میں اس کا قائم مقام عمر و بن مغدی گرب تھا.عمرو بن مغدِی گرب یمن کا مشہور شہسوار تھا، شاعر تھا اور مقرر تھا.اس کی کنیت ابو ثور تھی.دس ہجری میں اس نے اپنے قبیلہ بنو زبید کے وفد کے ساتھ آنحضرت صلی الم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا تھا.پھر آپ صلی یی کم کی وفات کے بعد یہ مرتد ہو گیا لیکن بعد میں پھر حق کی طرف رجوع کر لیا اور جنگ قادسیہ میں کار ہائے نمایاں انجام دیے اور حضرت عمر کی خلافت کے آخری ایام میں اس کا انتقال ہوا.667 666 بہر حال لکھا ہے کہ اسود عنسی نے پہلے اہل نجران پر حملہ کر کے حضرت عمر و بن حزم اور حضرت خالد بن سعید کو وہاں سے نکال دیا.اس کے بعد اس نے صنعاء پر چڑھائی کی.وہاں حضرت شھر بن باذان نے اس کا مقابلہ کیا لیکن وہ شہید ہو گئے.حضرت معاذ بن جبل ان دنوں صنعاء میں ہی تھے مگر اس صور تحال کے پیش نظر حضرت ابو موسی کے پاس تارب چلے گئے جہاں سے وہ دونوں حضر موت چلے گئے.اس طرح اسود عنسی یمن کے تمام علاقے پر قابض ہو گیا.اسود عنسی نے حضرت شہر بن باذان کی
اصحاب بدر جلد 2 275 حضرت ابو بکر صدیق شہادت کے بعد ان کی بیوی سے زبر دستی شادی بھی کر لی تھی جس کا نام ”مرزبانہ “ یا بعض کتب کے مطابق ”آزاد“ تھا.اسی اثناء میں حضر موت اور یمن کے مسلمانوں کی طرف رسول اللہ صلی علیکم کا خط پہنچا جس میں ان کو اسود عنسی کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا گیا تھا.لہذا اس مقصد کے لیے حضرت معاذ بن جبل کھڑے ہوئے اور اس سے مسلمانوں کے دل مضبوط ہو گئے.جِشْنَش دیلمی کہتے ہیں کہ وَبَر بن يحيش رسول اللہ صلی للی کم کا خط لے کر ہمارے پاس آئے.جشنسُ دَيْلَمِی کا نام بعض جگہ جُشَيْف دَيْلَمِی بھی بیان ہوا ہے.بہر حال یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں نبی کریم صلی علیہم نے اسود عنسی کے قتل کے لیے یمن میں خط لکھا تھا اور انہوں نے فیروز اور دَاذُ وَیہ کے ساتھ مل کر اسے قتل کیا تھا.وبر بن يُحنس کا نام و بُرہ بن يُحيش بھی بیان ہوا ہے.وہ ابنائے یمن میں سے تھے اور دس ہجری میں آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا تھا.وہ بیان کرتے ہیں کہ اس خط میں آپ صلی علیہم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم اپنے دین پر قائم رہیں اور لڑائی یا حیلے سے آسود کے خلاف جنگی کارروائی کریں نیز ہم آپ صلی علیہم کے پیغام کو ان لوگوں کو بھی پہنچائیں جو اس وقت اسلام پر راسخ ہوں اور دین کی حمایت کے لیے آمادہ ہوں.ہم نے عمل کیا مگر ہم نے دیکھا کہ اسود کے خلاف کامیاب ہونا بہت 669 668 دشوار ہے.جفنش دیلمی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں ایک بات معلوم ہوئی کہ انور اور قیس بن عبد يغوث کے درمیان کچھ پر خاش پیدا ہو چکی ہے.آپس میں پھوٹ پڑ گئی ہے یا کم از کم کچھ رنجشیں پیدا ہو گئی ہیں الہذا ہم نے سوچا کہ قیس کو اپنی جان کا خطرہ ہے.قیس بن عَبْدِ يَغُوث کے نام اور نسب کے بارے میں اختلاف ہے.ایک قول کے مطابق اس کا نام بيره بن عَبْدِ يَغُوث تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عَبْدِ يَغُوث بن ہبیرہ تھا.بہر حال ابو موسیٰ کا کہنا ہے کہ یہ قیس بن عَبْدِ يَغُوث بن مکشوح تھے.ایک قول کے مطابق یہ صحابی نہ تھے جبکہ دوسرے قول کے مطابق ان کو نبی کریم صلی یہ کم سے ملاقات اور آپ صلی ہی کم سے روایت کرنے کا اعزاز حاصل ہے.یہ اسود عنسی کو قتل کرنے والوں میں شامل تھے اور عمر و بن مَعْدِی گرب کے بھانجے تھے.یہ یمن میں مرتد ہونے والوں میں سے تھے لیکن بعد میں اسلام کی طرف لوٹ آئے اور فتح عراق اور جنگ قادسیہ میں ان کا بہت نمایاں نام آتا ہے.یہ جنگ نهاوند میں شریک تھے اور جنگ صفین میں حضرت علی کی ہمراہی میں شہید ہوئے.اسود عنسی کا قتل جفتش دیلمی کہتے ہیں کہ ہم نے قیس کو اسلام کی دعوت دی اور اس کو آنحضرت ملا یہ کہ کا پیغام پہنچایا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا ہم آسمان سے اترے ہیں.اس لیے اس نے فوراً ہماری بات مان لی اور اسی طرح ہم نے دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی خط و کتابت کی.مختلف قبائلی سردار بھی آئود کے مقابلے
ناب بدر جلد 2 276 حضرت ابو بکر صدیق الله سة کے لیے تیار ہو چکے تھے.انہوں نے ہم سے خط کے ذریعہ مدد کا وعدہ کیا.ہم نے جواب میں لکھا کہ جب تک ہم آخری فیصلہ کر کے ان کو جواب نہ دیں وہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کریں کیونکہ رسول اللہ صلی علیکم کے پیغام کے موصول ہونے کی وجہ سے آئسود کے خلاف کارروائی کرناضروری ہو گیا تھا.اسی طرح رسول صلی تعلیم نے نجران کے تمام باشندوں کو اسود کے معاملہ کے متعلق لکھا تھا.انہوں نے آپ کی بات مان لی.جب یہ اطلاع اسود تک پہنچی تو اسے اپنی ہلاکت نظر آنے لگی.جِشْنَس دَيْلَمی کہتے ہیں کہ مجھے ایک ترکیب سو جھی.میں آسود کی بیوی آزاد کے پاس گیا جو شَهْرِ بن بَاذَان کی بیوہ تھی اور اس سے آسود نے شہر بن باذان کو قتل کرنے کے بعد شادی کر لی تھی.میں نے اسے اسود کے ہاتھوں اس کے پہلے خاوند حضرت شهرِ بنِ باذان کی شہادت، اس کے خاندان کے دیگر افراد کی ہلاکت اور خاندان کو پہنچنے والی ذلت اور مظالم یاد دلائے اور اسے اَسود کے خلاف اپنی مدد کے لیے کہا تو وہ بڑی خوشی سے تیار ہو گئی اور اس نے کہا کہ بخدا! میں آسود کو اللہ کی تمام مخلوق میں سب سے بڑا جھتی ہوں.یہ اللہ کے کسی حق کا احترام نہیں کرتا اور نہ اللہ کی کسی حرام کردہ شے سے اجتناب کرتا ہے.پس جب تمہارا ارادہ ہو مجھے مطلع کرنا.میں اس معاملہ کی تدبیر کروں گی اور آخر کار ایک مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اسود عنسی کی اسی بیوی کی تائید کے ساتھ اسود عنسی کو ایک رات اس کے محل میں داخل ہو کر قتل کر دیا گیا اور جب صبح ہوئی تو قلعہ کی دیوار پر کھڑے ہو کر اس امتیازی نشان کے ساتھ آواز لگائی گئی کہ مرتد باغی اسود اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے تو مسلمان اور کافر قلعہ کے ارد گرد جمع ہو گئے.پھر انہوں نے صبح کی اذان دی اور کہا اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی علیم اللہ کے رسول ہیں.أسود عنسی جھوٹا ہے پھر اس کا سر ان لوگوں کے سامنے پھینک دیا.اس طرح یہ فتنہ تین ماہ تک اور ایک قول کے مطابق چار ماہ کے قریب بھڑک کر ٹھنڈا ہو گیا اور تمام عمال اور امراء وغیرہ اپنے اپنے علاقوں میں حسبِ معمول مصروف عمل ہو گئے اور حضرت معاذ بن جبل ان لوگوں کی امامت کراتے تھے.اسود عنسی کے قتل، اس کی فوج کی شکست اور اس کے فتنے کے اختتام کی خبر آنحضرت صلی علیہ علم کو جب بھیجی گئی تو اس سے پہلے آپ کا وصال ہو چکا تھا.یہ بھی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الی کم کو وصال سے قبل اسود عنسی نے قتل کی خبر بذریعہ وحی اسی رات دے دی تھی جس رات وہ قتل ہو اتھا.چنانچہ آپ نے اگلی صبح اس کی اطلاع صحابہ کو بھی دے دی اور یہ بھی بتا دیا کہ اسے فیروز نے قتل کیا ہے.حضرت ابو بکر کو خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد ملنے والی سب سے پہلی خوش خبری اسود عنسی کے قتل کی خبر تھی.اسود کے قتل کی خبر جس رات رسول اللہ صلی علیم کو پہنچی اس کی صبح کو آپ کا وصال ہو گیا اور ایک روایت کے مطابق جب آسود کے قتل کی خبر لانے والا مدینہ آیا تو اس وقت آنحضرت صلی علی کیم کو دفن کیا جا رہا تھا اور ایک روایت یہ ہے کہ اسود کے قتل کی خبر آنحضرت صلی اللہ کم کی وفات کے دس بارہ دن بعد مدینہ پہنچی جب حضرت ابو بکر خلیفہ منتخب ہو چکے تھے.اس بارے میں مختلف روایتیں ہیں لیکن بہر حال یہ انہی دنوں کی، آٹھ دس دن پہلے یا بعد کی بات ہے.اسود کے قتل کے بعد صنعاء میں پہلے کی طرح مسلمانوں کی حکومت
محاب بدر جلد 2 قائم ہو گئی.10 670 277 حضرت ابو بکر صدیق لیکن یمن میں ایک دفعہ پھر بغاوت اٹھی.رسول اللہ صلی ا یکم کی وفات کا جب یمن میں چرچا ہوا تو سدھر تے حالات پھر خراب ہو گئے.قیس بن عَبدِ يَغُوث جو نیز وز اور دا ذُویہ کو ملا کر آئؤد سے باغی ہو گیا تھا اور جس نے ان کے تعاون سے اَسود کو قتل کیا تھا اب پھر اسلام کی وفاداری سے منحرف ہو گیا.لائق اور اولو العزم آدمی تھا.قومی عصبیت سے سرشار تھا.یمن میں فارسیوں کا اقتدار اسے ہمیشہ سے کھٹکتا رہتا تھا.اس کے خاتمہ کے بعد وہ ابناء کی خوشحالی اور ان کی اجتماعی اور اقتصادی برتری کو خاک میں ملانا چاہتا تھا.ایک کامیاب فوجی لیڈر وہ پہلے سے تھا اس نے آسود کے فوجی لیڈروں سے ساز باز کی اور ابناء کو ملک سے نکالنے کا منصوبہ بنالیا.فیروز اور داد و یہ دونوں سے اس نے تعلقات خراب کر لیے.دا ذُویہ کو دھوکا سے قتل کر دیا.فیروز قتل ہوتے ہوتے بچ گیا.فیروز نے حضرت ابو بکر کو اپنی اور ابناء کی وفاداری سے مطلع کر کے درخواست کی کہ ہماری مدد کیجیے.ہم اسلام کے لیے ہر قربانی کرنے کو تیار ہیں.671 صا الله لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو حضر موت کے علاقوں پر آپ صلی علیہم کے عامل زیاد بن لبید تھے.حضرت زیاد بن لبید صحابی رسول صلی لنی کیم تھے.حضرت زیاد کا ایک بیٹا عبد اللہ تھا.عقبہ ثانیہ میں ستر اصحاب کے ساتھ آپ صلی ایم کے پاس حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا تھا.اسلام قبول کرنے کے بعد جب مدینہ واپس آئے تو انہوں نے آتے ہی اپنے قبیلے بَنُو بَيَاضَہ کے بت توڑ دیے جو بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے.پھر آپ رسول اللہ صلی الیہ نیم کے پاس مکہ چلے گئے اور وہیں مقیم رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی الم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ نے بھی ہجرت کی.اس لیے حضرت زیاد کو مہاجر انصاری کہا جاتا ہے.مہاجر بھی ہوئے اور انصاری بھی تھے.حضرت زیاد غزوہ بدر، احد ، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صل الیم کے ہمرکاب تھے.آنحضور صلی علیہ کی ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور قبیلہ بنوبیاضہ کے محلہ سے گزرے تو حضرت زیاد نے اھلا و سھلا کہا اور قیام کے لیے اپنا مکان پیش کیا تو آنحضور صلی یم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو آزاد چھوڑ دو.یہ خود منزل تلاش کرلے گی.محرم نو ہجری میں آپ صلی الم نے صدقہ و زکوۃ وصول کرنے کے لیے الگ الگ محصلین مقرر فرمائے تو حضرت زیاد کو حضر موت کے علاقے کا محصل مقرر فرمایا.حضرت عمرؓ کے دور تک آپ اسی خدمت پر مامور رہے.اس منصب سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ نے کوفہ میں سکونت اختیار کر لی اور وہیں اکتالیس ہجری میں وفات پائی.672 پھر حضرت مہاجر کی نجران کی طرف روانگی کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کے تشکیل کردہ گیارہ لشکروں میں سے سب سے آخر میں حضرت مہاجر بن ابو امیہ کا لشکر مدینہ سے یمن کے لیے روانہ ہوا.یمن کے ساتھ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کا ایک دستہ بھی تھا.یہ لشکر مکہ مکرمہ سے گزرا
اصحاب بدر جلد 2 278 حضرت ابو بکر صدیق تو عتاب بن اُسید کے بھائی خالد بن اسید امیر مکہ بھی ساتھ ہو لیے.جب یہ لشکر طائف سے گزرا تو عبد الرحمن بن ابی العاص اپنے ساتھیوں سمیت اس لشکر میں شامل ہو گئے.اسی طرح راستے میں مختلف قبائل کے لوگ آپ کے لشکر میں شامل ہوتے گئے.673 عمرو بن معدی کرب کی گرفتاری الله سة تو یہ کافی بڑا لشکر آگے چلتا گیا.عمر و بن مغدِی گرب اور قیس بن مكشوح کی گرفتاری کے بارے میں لکھا ہے.جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ عمرو بن معدی گرب نے اپنی بہادری اور طاقت کے زعم میں اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور قیس بن عَبدِ يَغُوث کو بھی ساتھ ملا لیا تھا.یہ دونوں ہر قبیلے میں جاتے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر علم بغاوت بلند کرنے پر آمادہ کرتے.نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے نجران کے عیسائی باشندوں کے جنہوں نے رسول اللہ صلی علیم سے عہد مودت باندھا تھا اور حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں بھی اپنے معاہدے پر بدستور قائم رہے، باقی تمام قبائل نے عمر و بن مغدِی گرب کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے.خدا کی قدرت کہ اہل یمن کو جب حضرت مہاجر کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ یمن کی طرف آمد کی اطلاعیں ملنی شروع ہو ئیں تو اہل یمن شش و پنج میں مبتلا ہو گئے کہ وہ حضرت مُہا جڑ کے لشکر کا سامنا کرنے کی تاب نہیں لا سکیں گے ! یہ لوگ ابھی اسی کیفیت میں تھے کہ ان کے سرداروں میں اور عمر و بن مَعْدِی گرب میں پھوٹ پڑ گئی اور اس کے باوجود کہ انہوں نے حضرت مہاجر سے مقابلہ کرنے کا عہد کیا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کو زک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہو گئے اور آخر عمرو بن معدی گرب نے مسلمانوں کے ساتھ مل جانے کا فیصلہ کیا اور ایک رات اس نے اپنے آدمیوں کے ساتھ قیس کی رہائش گاہ پر حملہ کیا اور اسے گرفتار کر کے حضرت مہاجر کے سامنے پیش کر دیا لیکن حضرت مہاجر نے صرف قیس کو ہی گرفتار کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی عمر و بن مغدِی گرب کو بھی قید کر لیا اور ان دونوں کے حالات حضرت ابو بکر کی خدمت میں لکھے اور ان دونوں کو حضرت ابو بکر کی خدمت میں بھیج دیا.نہیں اور عمرو بن معدی گرب حضرت ابو بکر کے پاس لائے گئے.حضرت ابو بکر نے قیس سے فرمایا: کیا تم اللہ کے بندوں پر ظلم و زیادتی کرتے ہوئے انہیں قتل کرتے رہے ہو اور تم نے مومنین کو چھوڑ کر مشرکوں اور مرتد باغیوں کو دوست بنالیا ہے.اگر اس کا کوئی واضح جرم مل جاتا تو حضرت ابو بکر نے اسے قتل کرنے کا ارادہ کر لیا تھا.میں نے ڈاڈ ویہ کے قتل کی سازش اور اس میں شرکت سے صاف انکار کر دیا اور یہ ایسا عمل تھا کہ جو خفیہ طور پر سر انجام دیا گیا تھا اور اس بارے میں قیس کے خلاف کوئی واضح ثبوت نہ مل سکا.لہذا حضرت ابو بکر نے اسے چونکہ ثبوت کوئی نہیں تھا قتل کرنے سے اعراض کیا اور اس کو چھوڑ دیا.پھر دوسرے کی باری آئی اور حضرت ابو بکر نے عمرو بن مغدِی گرب سے کہا کہ تمہیں رسوائی محسوس نہیں ہوتی کہ ہر روز تم شکست کھاتے ہو یا تمہارے گرد گھیراتنگ ہو جاتا ہے.اگر
اصحاب بدر جلد 2 279 674 حضرت ابو بکر صدیق تم اس دین کی مدد کرو تو اللہ تم کو بلند مراتب سے نوازے گا.پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسے بھی آزاد کر دیا اور ان دونوں یعنی عمر و اور قیس کو ان کے قبائل کے سپرد کر دیا.عمرو نے کہا یقیناً میں اب امیر المومنین کی نصیحت کو ضرور قبول کروں گا اور ہر گز یہ غلطی دوبارہ نہیں کروں گا.چونکہ واضح ثبوت نہیں تھے تو دونوں کو ان کی سرداری کی وجہ سے اور ان کے علم کی وجہ سے معاف کر دیا.ان لوگوں کی معافی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ابو بکر کے متعلق ایک اور سیرت نگار نے لکھا ہے کہ ابو بکر بڑے دُور اندیش، گہری بصیرت کے مالک اور انجام کار پر نگاہ رکھتے تھے.جہاں سختی کی ضرورت ہوتی سختی کرتے.جہاں عفو و در گزر کی ضرورت ہوتی عفو و در گزر سے کام لیتے.آپ قبائل کے بکھرے ہوئے لوگوں کو اسلام کے پرچم تلے جمع کرنے کے حریص اور شوقین تھے.آپ کی حکیمانہ سیاست یہ تھی کہ مخالف زعمائے قبائل کو حق کی طرف لوٹ آنے کے بعد در گزر کر دیا جائے.جس وقت آپ نے یمن کے مرتد قبائل کو تابع کیا انہیں اسلامی سلطنت کے سطوت و غلبہ اور مسلمانوں کی عزت و فتح مندی کی قوت اور ان کی عزیمت کی پیش قدمی کا مشاہدہ کرایا تو قبائل نے اعتراف کر لیا اور اسلامی حکومت کے تابع ہو گئے اور خلیفہ رسول کی اطاعت قبول کر لی.ابو بکر نے یہ مناسب سمجھا کہ ان زعمائے قبائل کے ساتھ تالیف کی جائے اور سختی کی بجائے نرمی اور رفق کا برتاؤ کیا جائے.چنانچہ ان سے سزائیں اٹھا لیں.ان سے نرم گفتگو کی اور قبائل کے اندر ان کے نفوذ واثر کو اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیا.آپ نے ان کی لغزشوں کو معاف کیا.ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے.قیس بن عَبْدِ يَغُوث اور عمر و بن مَعْدِی گرب کے ساتھ یہی بر تاؤ کیا.یہ دونوں عرب کے بہادروں اور عقلمندوں میں سے تھے.ان کو ضائع کرنا ابو بکر کو اچھانہ لگا.آپؐ نے اس بات کی کوشش کی کہ انہیں اسلام کے لیے خالص کر لیں اور اسلام اور ارتداد کے در میان تردد سے ان کو نکال باہر کریں.ابو بکر نے عمرو بن معدی گرب کو رہا کر دیا.پھر اس دن کے بعد عمرہ کبھی مرتد نہ ہوا بلکہ اسلام قبول کیا اور اچھی طرح مسلم بن کر زندگی گزاری.اللہ نے اس کی مدد کی اور اس نے اسلامی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا.قیس بھی اپنے کیے پر نادم ہوا.ابو بکرؓ نے اسے بھی معاف کر دیا.عرب کے ان دونوں سورماؤں کو معاف کر دینے سے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوئے.ابو بکر نے اس طرح ان لوگوں کے دلوں کو جوڑا جو ارتداد کے بعد خوف یالالچ میں اسلام کی طرف واپس ہوئے اور آپ نے اشعث بن قیس کو معاف کر دیا.اس طرح صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے دلوں کو اسیر کیا اور ان کے دلوں کے مالک بن بیٹھے اور مستقبل میں یہ لوگ اسلام کی نصرت اور مسلمانوں کی قوت کا ذریعہ بنے.یعنی کوئی زبر دستی نہیں تھی بلکہ دل سے انہوں نے اسلام قبول کیا اور حضرت ابو بکر کی اطاعت کی.حضرت مُہاجر نجران سے کیجیے علاقے کی طرف روانہ ہوئے اور جب گھڑ سواروں نے ان لوگوں 675
اصحاب بدر جلد 2 280 حضرت ابو بکر صدیق کے گروہ کو گھیر لیا تو انہوں نے امان کی درخواست کی مگر مہاجر نے ان کو امان دینے سے انکار کر دیا.اس پر لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے.ان میں سے ایک گروہ سے حضرت مہاجر کا عجیب مقام پر مقابلہ ہوا.عجیب جو ہے یہ یمن میں ایک جگہ ہے.حضرت مہاجر کے دیگر گھڑ سواروں نے حضرت عبد اللہ کی قیادت میں اخاہث کے رستے میں ان لوگوں کا مقابلہ کیا اور بھاگنے والے دشمن ہر رستے پر قتل کیے گئے.676 677 یمن کے علاقے اغلاب میں بنو عک نے جب بغاوت کی تو انہیں آخابت کا نام دیا گیا اور جس راستے پر ان بد باطن اور خبیث فطرت لوگوں سے جنگ ہوئی اسے بعد میں طریق الاحایث کا نام دیا گیا.حضرت مہاجر کے صنعاء پہنچنے کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت مُہاجر عجیب سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ صنعاء پہنچ گئے تو آپ نے فرار ہونے والے متفرق قبائل کا تعاقب کرنے کا حکم دیا.مسلمانوں نے ان میں سے جس پر قابو پایا اسے اچھی طرح قتل کیا اور کسی سرکش کو معاف نہیں کیا گیا.البتہ سرکشوں کے علاوہ جنہوں نے توبہ کی ان لوگوں کی توبہ قبول کی گئی.جو جنگ کرنے والے تھے ، کرنے والے تھے ان کو تو معاف نہیں کیا لیکن باقیوں کو معاف کر دیا اور ان کے گذشتہ حالات کے مطابق ان سے سلوک کیا گیا اور ان کی طرف سے اصلاح کی امید تھی.کندہ اور حضر موت کے باغیوں کے خلاف کاروائیاں 678 حضرت مہاجر اور حضرت عکرمہ کی رکندہ اور حضر موت کے علاقوں میں مرتدین کے خلاف جو کارروائیاں تھیں اس میں مزید بیان ہوا ہے کہ جب صنعاء میں حضرت مُہاجر کو استقرار حاصل ہو گیا، پاؤں تک گئے تو آپ نے حضرت ابو بکر کو خط کے ذریعہ سے اپنی تمام کارروائیوں سے مطلع کیا اور جواب کا انتظار کرنے لگے اور اسی وقت معاذ بن جبل اور یمن کے دیگر عمال نے جو رسول اللہ صلی علی کیم کے دور سے چلے آرہے تھے حضرت ابو بکر کو خطوط ارسال کیے اور مدینہ واپس آنے کی اجازت طلب کی تو حضرت ابو بکر نے معاذ بن جبل اور ان کے ساتھ دیگر عمال کو اختیار دیا کہ چاہیں تو یمن میں رہیں اور چاہیں تو مدینہ واپس آجائیں لیکن اپنی جگہ کسی کو مقرر کر کے آئیں.اختیار ملنے کے بعد تمام ہی لوگ مدینہ واپس آگئے اور حضرت مہاجر کو حکم ملا کہ عکرمہ سے جاملو.پھر دونوں مل کر حضر موت پہنچو اور زیاد بن لبید کا ساتھ دو اور ان کو ان کے عہدے پر باقی رکھتے ہوئے حکم فرمایا کہ تمہارے ساتھ مل کر جو لوگ مکہ اور یمن کے در میان جہاد کرتے رہے ہیں انہیں کوٹنے کی اجازت دے دو، واپس آنا چاہیں تو واپس آجائیں مگر یہ کہ بذات خود جہاد میں شرکت کو ترجیح دیں.679 سوائے اس کے کہ خود لوگ کہیں کہ ہم جہاد میں شامل ہونا چاہتے ہیں.عکرمہ کو حضرت ابو بکر کا خط موصول ہوا.اس میں انہیں حکم دیا گیا تھا کہ مہاجر بن ابو امیہ سے جاملو جو صنعاء سے آرہے ہیں اور
حاب بدر جلد 2 281 حضرت ابو بکر صدیق 680 پھر دونوں مل کر کندہ قبیلے کا رخ کرو.یہ خط پا کے عکرمہ مھرہ سے نکلے اور آنٹین میں قیام پذیر ہو کر مہاجر بن ابو امیہ کا انتظار کرنے لگے.انین بھی یمن کی ایک بستی کا نام ہے.کندہ قبیلہ کے مرتدین کے خلاف کارروائیوں کے متعلق تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ ہے کہ ارتداد سے پہلے جب کندہ اور حضر موت کا سارا علاقہ اسلام لے آیا.ان سے زکوۃ وصول کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی الم نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ حضر موت میں سے بعض لوگوں کی زکوۃ کندہ میں جمع کی جائے اور بعض اہل کندہ کی زکوۃ حضر موت میں جمع کی جائے یعنی ان کو وہاں بھجوا دی جائے، ایک دوسرے پر خرچ ہو اور اہل حضر موت میں سے بعض کی زکوۃ سکون میں جمع کی جائے اور بعض اہل سکون کی زکوۃ حضر موت میں جمع کی جائے.اس پر کندہ کے بعض لوگوں نے کہا یار سول اللہ ! ہمارے پاس اونٹ نہیں ہیں.اگر آپ صلی اللہ یکم مناسب خیال فرمائیں تو یہ لوگ سواری پر ہمارے پاس اموالِ زکوۃ پہنچا دیا کریں.رسول اللہ صلی الی یمن نے ان لوگوں سے کہا یعنی حضر موت والوں سے کہ اگر تم ایسا کر سکتے ہو تو اس پر عمل کرنا.انہوں نے کہا ہم دیکھیں گے.اگر ان کے پاس جانور نہ ہوئے تو ہم ایسا کریں گے.پھر جب رسول اللہ صلی الی یوم کی وفات ہو گئی اور زکوۃ وصول کرنے کا وقت آیا تو زیاڈ نے لوگوں کو اپنے پاس بلایا.وہ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور بنو ولیعہ یعنی اہل کندہ نے کہا کہ تم نے جیسا کہ رسول صلی اللی کم سے وعدہ کیا تھا اموال زکوۃ ہمارے پاس پہنچا دو تو انہوں نے کہا تمہارے پاس بار بر داری کے جانور ہیں؟ اپنے جانور لاؤ اور اموال زکوۃ لے جاؤ.انہوں نے خود اموالِ زکوۃ پہنچانے سے انکار کر دیا اور کندی اپنے مطالبہ پر مصر رہے.پھر وہ لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے.ان کا طرز عمل متذبذب ہو گیا.ایک قدم آگے بڑھاتے اور دوسرا پیچھے ہٹاتے اور زیاد، مہاجر کے انتظار میں ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے رکے رہے یعنی جو زکوۃ دینے سے انکاری تھے ان سے کوئی کارروائی نہیں کی حتی کہ حضرت مہاجر آجائیں.جب حضرت ابو بکر نے مہاجر اور حضرت عکرمہ کو یہ خط بھیجا کہ تم دونوں حضر موت روانہ ہو جاؤ اور زیاد کو ان کی ذمہ داری پر بر قرار رکھنا، مکہ سے لے کر یمن تک کے درمیانی علاقے کے جو لوگ تمہارے ساتھ ہیں ان کو واپس جانے کی اجازت دے دو سوائے ان لوگوں کے جو اپنی خوشی سے جہاد میں شریک ہونا چاہیں اور عبیدہ بن سعد کو زیاد کی مدد کے لیے روانہ کرو.چنانچہ حضرت مہاجر نے اس ارشاد پر عمل کیا.وہ صنعاء سے حضر موت کے ارادے سے روانہ ہوئے اور عکرمہ انین سے حضر موت کے ارادے سے روانہ ہوئے اور مارب مقام پر دونوں مل گئے.ان دونوں نے صُهَيْد صحرا کو پار کیا یہاں تک کہ حضر موت پہنچ گئے.جب کندی حضرت زیاڈ سے خفا ہو کر واپس چلے گئے تو حضرت زیاد نے بنو عمرو سے زکوۃ کی وصولی اپنے ذمہ لے لی.کنڈہ کے ایک نوجوان نے حضرت زیاد کو غلطی سے اپنے بھائی کی اونٹنی زکوۃ کے لیے پیش کر دی.حضرت زیاڈ نے اس کو آگ سے داغ کر زکوۃ کا نشان لگا دیا.مہر لگادی کہ یہ بیت المال کی ہے اور زکوۃ کا مال ہے اور جب اس
صحاب بدر جلد 2 282 حضرت ابو بکر صدیق لڑکے نے اونٹنی بدلنے کا کہا کہ غلطی سے ہو گیا تھا تو حضرت زیاد سمجھے کہ یہ بہانے بنارہا ہے.اس لیے آپ راضی نہ ہوئے.اس پر انہوں نے یعنی اونٹنی دینے والوں نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو اور ابو سمیط کو مدد کے لیے پکارا.ابو سمیٹ نے جب حضرت زیاڈ سے اونٹنی بدلنے کا مطالبہ کیا تو حضرت زیاڈ اپنے موقف پر مصر رہے.ابو سمیط کو غصہ آیا.اس نے زبر دستی اونٹنی کھول دی جس پر حضرت زیاڈ کے ساتھیوں نے ابو سمیط اور اس کے ساتھیوں کو قید کر لیا اور اونٹنی کو بھی قبضہ میں لے لیا.ان لوگوں نے ایک دوسرے کو مدد کے لیے پکارا.چنانچہ بنو مُعاویہ ابو سمیط کی مدد کے لیے آگئے.بنو مُعاویہ وہ لوگ ہیں جو بنو حارث بن مُعاویہ اور بنو عمر و بن مُعَاوِیہ ، قبیلہ کندہ کی شاخیں ہیں.انہوں نے حضرت زیاڈ سے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا لیکن حضرت زیاد نے ان کے منتشر ہونے تک قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا.انہوں نے کہا اس طرح نہیں، تم لوگ چلے جاؤ پھر میں دیکھوں گا.جب یہ لوگ منتشر نہ ہوئے تو حضرت زیاد نے ان پر حملہ کر کے ان کے بہت سے آدمیوں کو قتل کر دیا اور کچھ لوگ وہاں سے فرار ہو گئے.حضرت زیاڈ نے واپس آکر ان کے قیدی بھی رہا کر دیے مگر ان لوگوں نے واپس جا کر جنگ کی تیاری شروع کر دی.چنانچہ بنو عمر و، بنو حارِث اور اشعث بن قیس اور سمط بن اسود اپنے اپنے مورچوں میں چلے گئے اور انہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور ارتداد اختیار کر لیا جس پر حضرت زیاد نے فوج جمع کر کے بنو عمر و پر حملہ کر دیا اور ان کے بہت سے آدمی قتل ہوۓ اور جو بھاگ سکتے تھے وہ بھاگ گئے اور ایک بڑی تعداد کو حضرت زیاد نے قید کر کے مدینہ روانہ کر دیا.راستے میں اَشعَثُ اور بنو حارث کے لوگوں نے حملہ کر کے مسلمانوں سے اپنے قیدی چھڑوا لیے.اس واقعہ کے بعد اطراف کے کئی قبائل بھی ان لوگوں کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے بھی ارتداد کا اعلان کر دیا.اس پر حضرت زیاڈ نے مدد کے لیے حضرت مہاجر کی طرف خط لکھا.حضرت مہاجر نے حضرت عکرمہ کو اپنا نائب بنایا اور خود اپنے ساتھیوں کو لے کر کندہ پر حملہ آور ہوئے.کندہ کے لوگ بھاگ کر نجیر نامی اپنے ایک قلعہ میں محصور ہو گئے.یہ بھی یمن کا ایک قلعہ تھا حضر موت کے قریب.اس قلعہ کے تین راستے تھے.ایک راستے پر حضرت زیاد اتر گئے.دوسرے پر حضرت مہاجر نے ڈیرہ ڈال لیا اور تیسر اراستہ کندہ ہی کے تصرف میں رہا یہاں تک کہ حضرت عکرمہ پہنچے اور اس راستے پر قابض ہو گئے.حضرت زیاد اور حضرت مہا جرھما لشکر پانچ ہزار مہاجرین اور انصار صحابہ اور دیگر قبائل پر مشہ مشتمل تھا.اشعث کی گرفتاری اور حضرت ابو بکر کا اس کو معاف کرنا جب قلعہ مجید کے محصورین نے دیکھا کہ مسلمانوں کو برابر امداد پہنچ رہی ہے تو ان پر دہشت طاری ہو گئی.اس وجہ سے ان کا سردار اشعث فوراً حضرت عکرمہ کے پاس پہنچ کر امان کا طالب ہوا.حضرت عکرمہ اشعث کو لے کر حضرت مُہاجر کے پاس آئے.اشعث نے اپنے لیے اور اپنے ساتھ نو افراد کے لیے اس شرط پر امان طلب کی کہ وہ مسلمانوں کے لیے قلعہ کا دروازہ کھول دیں گے.حضرت
تاب بدر جلد 2 283 حضرت ابو بکر صدیق مہا جڑ نے یہ شرط تسلیم کرلی.جب اشعث نے نو افراد کے نام لکھے تو جلد بازی اور دہشت کی وجہ سے اپنا نام لکھنا بھول گیا.پھر حضرت مہاجر کے پاس تحریر لے کر گیا جس پر انہوں نے مہر ثبت کر دی.پھر اَشُعَث واپس چلا گیا.جب اس نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا تو مسلمان اس میں داخل ہو گئے.فریقین کی لڑائی میں سات سو کندی قتل کر دیے گئے.قلعہ والوں نے بھی آگے سے مقابلہ کیا اور لڑائی کی.بہر حال ان کے آدمی قتل کیے اور ایک ہزار عورتوں کو قید کر لیا گیا.اس کے بعد حضرت مہاجر نے امان نامہ منگوایا اور اس میں درج تمام لوگوں کو معاف کر دیا مگر اس میں اشعث کا نام نہ تھا.اس پر حضرت مہاجر نے ان کے قتل کا ارادہ کر لیا مگر حضرت عکرمہ کی درخواست پر اسے باقی قیدیوں کے ساتھ حضرت ابو بکر کی خدمت میں روانہ کر دیا کہ اس کے بارے میں بھی حضرت ابو بکر ہی فیصلہ فرمائیں.جب مسلمان فتح کی خبر اور قیدیوں کے ساتھ حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اشعث کو طلب کیا اور فرمایا تم بنو ولیعہ کے فریب میں آگئے اور وہ ایسے نہیں کہ تم انہیں فریب دے سکو اور وہ بھی تمہیں اس کام کا اہل نہیں سمجھتے تھے.وہ خود ہلاک ہوئے اور تمہیں بھی ہلاک کیا.کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تمہیں رسول اللہ صلی العلوم کی بددعا کا ایک حصہ پہنچا.دراصل آنحضرت صلی علیکم نے کندہ قبیلے کے چار سرداروں پر لعنت کی تھی جنہوں نے اشعث کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا پھر مرتد ہو گئے.حضرت ابو بکڑ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ اشعث نے آپ کی کہ کر کہا مجھے آپ کی رائے کا علم نہیں.حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ میرے خیال میں تمہیں قتل کر دینا چاہیے.اس نے کہا میں وہ ہوں جس نے اپنی قوم کے دس آدمیوں کی جان بخشی کا تصفیہ کرایا ہے.میرا قتل کیسے جائز ہو سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ کیا مسلمانوں نے معاملہ تمہارے سپر د کیا تھا؟ اس نے کہا جی ہاں.تو حضرت ابو بکر نے فرمایا: جب انہوں نے معاملہ تمہارے سپر د کیا اور پھر تم ان کے پاس آئے تو کیا انہوں نے اس پر مہر ثبت کی تھی.اس نے کہا جی ہاں.آپؐ نے فرمایا کہ تحریر پر مہر ثبت ہونے کے بعد صلح اس کے مطابق واجب ہو گئی جو اس میں تحریر تھا.اس سے پہلے تم صرف مصالحت کی گفتگو کر رہے تھے.جب اشعث ڈرا کہ وہ مارا جائے گا تو اس نے عرض کیا کہ اگر آپ مجھ سے کسی بھلائی کی توقع رکھتے ہیں تو ان قیدیوں کو آزاد کر دیجیے اور میری لغزشیں معاف فرمائیے اور میرا اسلام قبول کر لیجیے اور میرے ساتھ وہی سلوک روار کھیے جو مجھ جیسوں کے ساتھ آپ کیا کرتے ہیں اور میری بیوی میرے پاس واپس کوٹا دیجیے.لکھا ہے کہ اس واقعہ سے قبل ایک مرتبہ اشعث رسول اللہ صلی ای کم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا.اس نے حضرت ابو بکر کی بہن اُتم فروہ بنت ابو قحافہ کو پیغام نکاح دیا تھا.حضرت ابو قحافہ نے اپنی لڑکی اس کی زوجیت میں دے دی تھی اور رخصتی کو اشعث کی دوبارہ آمد پر اٹھا رکھا تھا کہ دوبارہ آئے گا تو رخصتی ہو جائے گی.ایک مصنف نے ام فروہ کو حضرت ابو بکر کی صاحبزادی بھی قرار دیا ہے.بہر حال پھر رسول اللہ صلی علیہ کی وفات پاگئے اور اشعث مرتد اور باغی ہو گیا.اس لیے اسے اندیشہ ہوا کہ اس کی بیوی اس کے حوالے نہ کی جائے گی.اشعث نے حضرت ابو بکر سے عرض کیا کہ آپ مجھے اللہ کے دین کے لیے اپنے علاقے کے بہترین لوگوں میں پائیں گے.اس پر حضرت ابو بکر نے اس کی جان بخش دی
اب بدر جلد 2 284 حضرت ابو بکر صدیق اور اس کا اسلام قبول کر لیا اور اس کے گھر والے اس کے سپر د کر دیے.نیز فرمایا: جاؤ اور مجھے تمہارے متعلق خیر کی خبریں پہنچیں.اسی طرح حضرت ابو بکر نے تمام قیدیوں کو بھی آزاد کر دیا اور وہ سب اپنے ا.علاقوں میں چلے گئے.581 ایک روایت کے مطابق اپنی قوم سے بد عہدی کرنے کے باعث اشعث اپنے قبیلے میں واپس جانے کی جرات نہ کر سکا اور قید سے چھوٹنے کے بعد ام فروہ کے ساتھ مدینہ میں قیام پذیر رہا.حضرت عمرؓ کے عہد میں جب عراق اور شام کی جنگیں پیش آئیں تو وہ بھی اسلامی فوجوں کے ہمراہ ایرانیوں اور رومیوں سے جنگ کرنے کے لیے باہر نکلا اور کار ہائے نمایاں انجام دیے جس کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں اس کا وقار پھر بلند ہو گیا اور اس کی گم گشتہ عزت پھر واپس مل گئی.الغرض جب تک پوری طرح امن و امان قائم نہ ہو گیا اور اسلامی حکومت کی بنیادیں مستحکم نہ ہو گئیں حضرت مہاجر اور حضرت عکرمہ اس وقت تک حضر موت اور کنڈہ میں ہی مقیم رہے.مرتد باغیوں کے ساتھ یہ آخری جنگیں تھیں.ان کے بعد عرب سے بغاوت کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا اور تمام قبائل حکومت اسلامیہ کے زیر نگیں آگئے.حضرت مہاجر نے اس علاقے میں امن و امان قائم رکھنے اور بغاوت اور سرکشی کے اسباب کے مکمل طور پر نابود کرنے کے لیے اسی سختی سے کام لیا جس سے وہ یمن میں کام لے 682 چکے تھے.2 حضرت ابو بکر نے حضرت مُہاجر کو یمن اور حضر موت میں سے کسی ایک علاقے کو اختیار کرنے کے بارے میں لکھا تو انہوں نے یمن کو اختیار کر لیا.اس طرح یمن پر دو امیر مقرر ہوئے.حضرت ابو بکر نے مرتدین اور باغیوں کے خلاف کام کرنے والے عمال کو تحریر فرمایا: انا بعد ! میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ امر یہ ہے کہ آپ لوگ حکومت میں صرف انہی اشخاص کو شریک کریں جن کا دامن ارتداد اور بغاوت کے داغ سے پاک رہا ہو.بے شک وہ واپس آگئے ہیں لیکن یہ دیکھو ان میں وہ شامل تو نہیں جو پہلے ارتداد اختیار کر چکے ہیں یا بغاوت کر چکے ہیں.پھر فرمایا کہ آپ سب اسی پر عمل کریں اور اسی پر کار بند رہیں.فوج میں جو لوگ واپسی کے خواہاں ہوں ان کو واپسی کی اجازت دے دو اور دشمن سے جہاد کرنے میں کسی مرتد باغی سے ہر گز مدد نہ لو.683 مدعیان نبوت کے خلاف جہاد ان کی بغاوت و سرکشی کی وجہ سے تھا اکثر مصنفین اور خاص طور پر اس زمانے کے سیرت نگار عموماً حضرت ابو بکر کی ان جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ گویا جن لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا ان کے خلاف یہ سارا جہاد کیا گیا اور تلوار کے زور سے ان کا قلع قمع کیا گیا کیونکہ یہی ان کی شرعی سزا تھی لیکن تاریخ و سیرت کا مطالعہ کرنے والا ہر گز اس بات کی تائید نہیں کر سکتا.جیسا کہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی ایم کے مبارک طرز عمل اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نہ تو آنحضرت صلی ہم نے کبھی
تاب بدر جلد 2 285 حضرت ابو بکر صدیق محض نبوت کا دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی فرمائی اور نہ ہی حضرت ابو بکر کی یہ جنگی مہمات صرف اس وجہ سے تھیں کہ جھوٹے مدعیان نبوت کا قلع قمع کیا جاتا بلکہ اصل سوچ ان لوگوں کی باغیانہ روش تھی.چنانچہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ مدعیانِ نبوت سے صحابہ نے کیوں جنگیں کیں حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے کہ مولانا مودودی صاحب کا یہ لکھنا کہ صحابہ نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے آنحضرت صلی ایام کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا صحابہ کے اقوال کے خلاف ہے.مولانا مودودی صاحب کو یاد رکھنا چاہیے.(اس وقت ان کی زندگی کی بات ہے) کہ رسول کریم صلی علیکم کے بعد جن لوگوں نے دعوی نبوت کیا اور جن سے صحابہ نے جنگ کی وہ سب کے سب ایسے تھے جنہوں نے اسلامی حکومت سے بغاوت کی تھی اور اسلامی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا.آپؐ فرماتے ہیں کہ مولانا کو اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا بہت بڑا دعویٰ ہے.کاش وہ اس امر کے متعلق رائے ظاہر کرنے سے پہلے اسلامی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، سجاح بنت حارث اور طلیحہ بن خویلد اسدی یہ سب کے سب ایسے لوگ تھے جنہوں نے مدینہ کی حکومت کی اتباع سے انکار کر دیا تھا اور اپنے اپنے علاقوں میں اپنی حکومتوں کا اعلان کر دیا تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ تاریخ ابن خلدون کو اگر غور سے پڑھتے تو یہ واضح ہو جاتا کہ مولانا صاحب کا جو نظریہ ہے وہ غلط ہے.چنانچہ وہاں لکھا ہے کہ تمام عرب خواہ وہ عام ہوں یا خاص ہوں ان کے ارتداد کی خبریں مدینہ میں پہنچیں.صرف قریش اور ثقیف دو قبیلے تھے جو ارتداد سے بچے اور مسیلمہ کا معاملہ بہت قوت پکڑ گیا اور کے اور اسد قوم نے طلیحہ بن خویلد کی اطاعت قبول کر لی اور غطفان نے بھی ارتداد قبول کر لیا اور ہوازن نے بھی زکوۃ روک لی اور بنی سکیم کے امراء بھی مرتد ہو گئے اور رسول کریم صلی علیم کے مقرر کردہ امراء یمن اور یمامہ اور بنی اسد اور دوسرے ہر علاقہ اور شہر سے واپس کوٹے اور انہوں نے کہا کہ عربوں کے بڑوں نے بھی اور چھوٹوں نے بھی سب کے سب نے اطاعت سے انکار کر دیا ہے.حضرت ابو بکر نے انتظار کیا کہ اسامہ واپس آئے تو پھر ان کے ساتھ جنگ کی جائے لیکن عبس اور ڈبیان کے قبیلوں نے جلدی کی اور مدینہ کے پاس آئرش مقام پر آکر ڈیرے ڈال دیے اور کچھ اور لوگوں نے ذُوالقصّہ میں آکر ڈیرے ڈال دیے.ان کے ساتھ بنی اسد کے معاہد بھی تھے اور بنی کنانہ میں سے بھی کچھ لوگ ان سے مل گئے تھے.ان سب نے حضرت ابو بکر کی طرف وفد بھیجا اور مطالبہ کیا کہ نماز تک تو ہم آپ کی بات ماننے کے لیے تیار ہیں.مدینہ کے ارد گرد جمع ہو گئے اور یہ بات کی کہ نماز تک تو بات ماننے کے لیے تیار ہیں لیکن زکوۃ ادا کرنے کے لیے ہم تیار نہیں لیکن حضرت ابو بکر نے ان کی اس بات کو رد کر دیا.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ صحابہ نے جن لوگوں سے لڑائی کی تھی وہ حکومت کے باغی تھے.انہوں نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا اور انہوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا تھا.مدینہ کے ارد گرد جمع ہو گئے تھے کہ اگر یہاں بات نہ مانی تو ہم حملہ کریں گے.مسیلمہ نے تو خود رسولِ کریم صلی الم کے زمانہ میں آپ کو لکھا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدھا ملک عرب کا ہمارے لیے ہے
اصحاب بدر جلد 2 286 حضرت ابو بکر صدیق الله اور آدھا ملک قریش کے لیے ہے.اور رسول کریم صلی ایم کی وفات کے بعد اس نے حجر اور یمامہ میں سے ان کے مقرر کردہ والی تمامہ بن اثال کو نکال دیا اور خود اس علاقہ کا والی بن گیا تھا.اور اس نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا.اسی طرح مدینہ کے دو صحابہ حبیب بن زید اور عبد اللہ بن وہب ہو اس نے قید کر لیا اور ان سے زور کے ساتھ اپنی نبوت منوانی چاہی.جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ عبد اللہ بن وہب نے تو ڈر کر اس کی بات مان لی مگر حبیب بن زید نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا.اس پر مسیلمہ نے ان کا عضو عضو کاٹ کر آگ میں جلا دیا.اسی طرح یمن میں بھی جو رسول کریم صلی اللہ ولیم کے افسر مقرر تھے ان میں سے بعض کو قید کر لیا اور بعض کو سخت سزائیں دی گئیں.اسی طرح طبری نے لکھا ہے کہ اسود عنسی نے بھی علم بغاوت بلند کیا تھا اور رسولِ کریم صلی علی کمی کی طرف سے جو حکام مقرر تھے ان کو اس نے تنگ کیا تھا اور ان سے زکوۃ چھین لینے کا حکم دیا تھا.پھر اس نے صنعاء میں رسولِ کریم ملی ایم کے مقرر کردہ حاکم شہر بن بادان پر حملہ کر دیا.بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا، لوٹ مار کی، گورنر کو قتل کر دیا اور اس کو قتل کر دینے کے بعد اس کی مسلمان بیوی سے جبر انکاح کر لیا.بنو نجران نے بھی بغاوت کی اور وہ بھی اسود عنسی کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے دو صحابہ عمرو بن حزم اور خالد بن سعید کو علاقہ سے نکال دیا.ان واقعات سے ظاہر ہے کہ مدعیانِ نبوت کا مقابلہ اس وجہ سے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ رسول کریم صلی الم کی امت میں سے نبی ہونے کے دعویدار تھے اور رسول کریم ملی ایم کے دین کی اشاعت کے مدعی تھے بلکہ صحابہ نے ان سے اس لیے جنگ کی تھی کہ وہ شریعت اسلامیہ کو منسوخ کر کے اپنے قانون جاری کرتے تھے اور اپنے علاقہ کی حکومت کے دعویدار تھے اور صرف علاقہ کی حکومت کے دعویدار ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے صحابہ کو قتل کیا، اسلامی ملکوں پر چڑھائیاں کیں، قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اپنی آزادی کا اعلان کیا.ان واقعات کے ہوتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی صاحب کا یہ کہنا کہ رسول کریم صلی علیکم کے تمام صحابہ نے مدعیان نبوت کا مقابلہ کیا، یہ جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے ؟ اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ صحابہ کرام انسانوں کے قتل کو جائز قرار دیتے تھے تو کیا یہ محض اس وجہ سے ٹھیک ہو جائے گا کہ مسیلمہ کذاب بھی انسان تھا اور اسود عنسی بھی انسان تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ: جو لوگ توڑ مروڑ کر اسلام کی تاریخ پیش کرتے ہیں وہ اسلام کی خدمت نہیں کر رہے.اگر ان کے ر نظر اسلام کی خدمت ہے تو وہ سچ کو سب سے بڑا مقام دیں اور غلط بیانی اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے کلی طور پر احتراز کریں.184 بغاوتوں کا خاتمہ اور بیرونی دشمنوں کا تعاقب بہر حال سر زمین عرب سے ان سب کے ختم ہونے کی وجہ سے بغاوتوں کا مکمل خاتمہ ہو گیا.ایک تاریخ نگار نے لکھا ہے کہ اب عرب کی تمام بغاوتوں کا خاتمہ ہو چکا تھا اور تمام مرتدین کی سرکوبی کی جاچکی تھی.حضرت ابو بکر نے اس ملک گیر فتنہ کا جس منصوبہ بندی اور سرعت کے ساتھ قلع قمع کیا وہ آپ کی
اصحاب بدر جلد 2 287 حضرت ابو بکر صدیق صاف کہ کس طرح قدم قدم پر آپ کو الہی تائید و نصرت اعلیٰ صلاحیتوں کا آئینہ دار سمجھ کر دی اور بغاوت پر قابو بال عرب پر اسلام سال ارتداد کی حاکمیت کو دوبارہ قائم کر دینا ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے.حضرت ابو بکر صدیق کو اسلام کے غلبہ سے بے حد خوشی تھی لیکن اس مسرت میں غرور اور تکبر کا نام تک نہیں تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے ہوا.ان کی یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ مٹھی بھر مسلمانوں کے ذریعہ سے سارے عرب کے مرتدین کی جرار فوجوں کا مقابلہ کر کے انہیں شکست دے کر اسلام کا علم نہایت شان و شوکت سے دوبارہ بلند کر سکتے.حضرت ابو بکر صدیق کے سامنے اب یہ مسئلہ تھا کہ وحدتِ دینی کو تقویت دینے اور اسلام کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے جائیں.حضرت ابو بکر صدیق کی سیاست کا محور صرف اور صرف رعب اسلام تھا اور یہی خواہش ہر لحظہ ان کے دل و دماغ میں رہتی تھی.685 ہر چند کہ مرتد باغیوں کا قلع قمع کرنے کے بعد ہر شخص کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب خلیفہ رسول صل العلم کے سامنے کوئی فتنہ پرداز جسم نہیں سکتا لیکن عام لوگوں کی طرح حضرت ابو بکر کسی خوش فہمی کا شکار نہ تھے.آپ جانتے تھے کہ بیرونی طاقتیں ارتداد اور بغاوت کے فتنہ خوابیدہ کو پھر سے بیدار کر کے بدامنی پھیلانے کا موجب بن سکتی ہیں.یہ فتنہ عارضی طور پر نہ سو گیا ہو.بیرونی طاقتیں جو مخالف ہیں اسلام کی وہ بڑی بڑی حکومتیں تھیں، وہ عرب کی سرحدوں پر دوبارہ بد امنی پھیلا سکتی ہیں اس لیے وہ کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھے.عرب قبائل کی اس متوقع شورش انگیزی سے بچنے کے لیے مناسب سمجھا گیا کہ عرب قبائل کی توجہ ایران اور شام کی طرف منعطف کی جائے تاکہ انہیں حکومت کے خلاف فساد برپا کرنے کا موقع نہ مل سکے اور اس طرح مسلمانوں کو اطمینان نصیب ہو اور وہ دلجمعی سے احکام دین پر عمل پیرا ہو سکیں.چنانچہ عرب کی سرحدوں کے دفاع اور اسلامی ریاست کو اپنے مضبوط حریفوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ ان طاقتور قوموں تک اسلام کا پیغام پہنچایا جائے تاکہ یہ قومیں اسلام کے عالمگیر پیغام کو تسلیم کر کے یا سمجھ کر خود بھی امن و سلامتی کے ساتھ اپنی زندگیاں بسر کریں اور دوسرے بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ اور مامون ہو کر امن اور سلامتی کے ساتھ آزادانہ طور پر اپنے اپنے دین و مذہب پر کار بند ہو سکیں.بہر حال اس کے لیے حضرت ابو بکر نے کیا طریق اور حکمت عملی اختیار کی.اس بارے میں تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ مرتد باغیوں کی جنگوں اور مہمات کے ختم ہونے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق آئندہ کے اقدامات کے متعلق غور و فکر میں مشغول تھے کہ عرب اور اسلام کی دیر مینہ دشمن ایران اور روم کی سلطنتوں سے مستقل طور پر محفوظ رہنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے.کیونکہ آنحضرت صلی علم کی حیات مبارکہ میں بھی یہ دونوں طاقتیں عرب کو اپنے زیر نگیں رکھنا چاہتی تھیں اور جب آپ صلی علیہ کم کی وفات ہو گئی اور بہت سے علاقوں اور قبائل میں ارتداد اور بغاوت کی 686
صحاب بدر جلد 2 288 حضرت ابو بکر صدیق آگ نے ریاست مدینہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو بعض جگہوں پر اس کے پیچھے ایک ہاتھ انہی طاقتوں کا بھی تھا اور اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہر قل کی فوجیں شام میں اور ایران کی فوجیں عراق میں جمع ہونے لگیں.اس لیے ممکن ہی نہ تھا کہ حضرت ابو بکر جو آنحضرت صلی ایم کے ارشادِ مبارک کی تعمیل میں سب سے پہلے رومیوں کے خلاف پہلا لشکر حضرت اسامیہ کی قیادت میں بھیج چکے تھے وہ ان غاصب اور جابر طاقتوں سے بے خوف ہو کر بے فکر رہ سکتے لیکن قبل اس کے کہ آپ انھی کوئی لائحہ عمل سب کے سامنے رکھتے ، آپ کو خبر ملی کہ حضرت مثنی بن کار ﷺ جنہوں نے بحرین میں مرتد باغیوں کی بغاوت کو ختم کرنے میں مدد کی تھی انہوں نے اپنے ساتھیوں کو ہمراہ لیا اور خلیج فارس کے ساحل کے ساتھ ساتھ شمال کی جانب عراق کی طرف پیش قدمی شروع کر دی.آخر وہ ان عربی قبائل میں جا پہنچے جو دجلہ اور فرات کے ڈیلٹائی علاقوں میں آباد تھے.حضرت مقلی بن حارثہ بحرین کے ایک قبیلہ بکر بن وائل سے تعلق رکھتے تھے.بحرین کا علاقہ یمامہ اور خلیج فارس کے درمیان واقع تھا اور اس میں موجودہ قطر اور امارت بحرین کے جزیرے بھی شامل تھے.اس کا دارالحکومت دارین تھا.بہر حال حضرت مقفیٰ بن حارثہ حضرت علاء بن حضرمی کے ساتھ مل کر باغیوں سے بھی جنگ کر چکے تھے اور بحرین اور اس کے نواح میں جو لوگ اسلام پر قائم رہے تھے اور جنہوں نے اسلامی فوجوں کے ساتھ مل کر باغیوں کی جنگوں میں حصہ لیا تھا حضرت منفی ان کے سردار تھے.حضرت ابو بکر آئندہ اقدام کے متعلق ابھی فیصلہ کرنے نہ پائے تھے کہ حضرت مقلی خود مدینہ آگئے اور حضرت ابو بکر کو عراق کے حالات سے متعلق آگاہ کیا کہ جو عرب قبائل دجلہ اور فرات کے ڈیلٹائی علاقوں میں آباد ہیں وہ وہاں کے مقامی باشندوں کے ہاتھوں مصیبت میں ہیں، ان کو تنگ کیا جا رہا ہے.عرب زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں اور جب فصل پک جاتی ہے تو مقامی لوگ لوٹ لیتے ہیں.چنانچہ حضرت مقلی بن حارثہؓ نے عرض کی کہ اسلامی فوجیں روانہ کر کے ان لوگوں کو مصیبت سے نجات دلائی جائے.حضرت ابو بکر نے مدینہ کے اہل الرائے اصحاب سے مشورہ کیا اور حضرت متقی بن حارثہ کی تجویز سامنے رکھی.چونکہ مدینہ کے لوگ عراق کے حالات سے ناواقف تھے اس لیے مشورہ دیا کہ حضرت خالد بن ولید کو بلا کر سارا معاملہ ان کے سامنے پیش کیا جائے، ان سے مشورہ لیا جائے.حضرت خالد بن ولید ان دنوں یمامہ میں موجود تھے.چنانچہ حضرت ابو بکرؓ نے انہیں مدینہ طلب فرمایا.حضرت خالد بن ولید کے مدینہ پہنچنے پر جب حضرت ابو بکر نے عراق پر فوج کشی کی، حضرت مٹی کی تجویز ان کے سامنے رکھی ، تو حضرت خالد بن ولید کا بھی یہ خیال تھا کہ حضرت مفتی نے حدودِ عراق میں ایرانیوں کے خلاف جو کارروائی شروع کی ہے اگر خدانخواستہ وہ ناکام ہو گئی اور حضرت مٹی کی فوج کو عرب کی جانب پسپا ہونا پڑا تو ایرانی حکام اور دلیر ہو جائیں گے.وہ صرف حضرت مثٹی کی فوج کو عراق کی حدود سے باہر نکالنے پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ بحرین اور اس کے ملحقہ علاقوں پر دوبارہ اثر ورسوخ رض
حاب بدر جلد 2 289 حضرت ابو بکر صدیق قائم کرنے اور تسلط بٹھانے کی بھی کوشش کریں گے اور ایسی صور تحال میں اسلامی حکومت کو خطرہ پیدا ہو جائے گا.لہذا انہوں نے بھی یہ کہا کہ اس خطرہ سے بچنے کے لیے حضرت مقلی کو قرار واقعی امداد مہیا کی جائے.وہاں فوج بھیجی جائے اور ایرانیوں کو عرب کی حدود میں اثر ورسوخ جمانے کی بجائے مزید پسپائی پر مجبور کیا جائے تاکہ ان کی جانب سے آئندہ کبھی عرب کو کوئی خطرہ باقی نہ رہے.حضرت خالد بن ولید نے اپنی یہ رائے پیش کی تو آپ کی یہ رائے سن کے دیگر اصحاب نے بھی حضرت مشکی کی تجاویز قبول کر لیں اور حضرت ابو بکر نے حضرت مشکلی کو ان لوگوں کا سردار مقرر کر دیا جنہیں ہمراہ لے کر انہوں نے عراقی حدود میں پیش قدمی کی تھی اور حکم دیا کہ فی الحال وہاں کے عرب قبائل کو ساتھ ملانے اور اسلام قبول کرنے پر آمادہ کریں اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جلد ہی مدینہ سے ایک لشکر بھی ان کی امداد کے لیے روانہ کر دیا جائے گا جس کی مدد سے وہ مزید پیش قدمی جاری رکھ سکیں گے.بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ نہ مشکلی امداد کی درخواست کرنے کے لیے مدینہ گئے اور نہ حضرت ابو بکر سے ان کی ملاقات ہوئی بلکہ وہ اپنے لشکر کے ہمراہ ڈیلٹائی علاقے میں پیش قدمی کرتے ہوئے بہت دور نکل گئے اور آگے جا کر ایرانی سپہ سالار ہر مز کی افواج کا سامنا کرنا پڑا.ھرمز اس وقت سر حدی افواج کا افسر تھا اور کسری کے نزدیک جو سب سے بڑا درجہ کیسی شخص کو مل سکتا تھا ہر مز کا شمار ان لوگوں میں ہو تا تھا.ابھی هُرمز اور متلی کے درمیان جنگ جاری تھی کہ حضرت ابو بکر کو ان واقعات کی خبر ہو گئی.وہ اس وقت منی کے نام سے بالکل بے خبر تھے.ان خبروں کے پہنچنے پر جب انہوں نے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ منی نے ارتداد اور بغاوت کی جنگوں کے دوران بحرین کے اندر متعد د کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں.حضرت ابو بکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ حضرت مثلی کی مدد کے لیے ایک لشکر کے ہمراہ عراق جائیں اور ھر مز پر فتحیاب ہو کر حیرہ کی جانب کوچ کریں.حیرہ بھی کوفہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک شہر ہے.بہر حال ساتھ ہی حضرت عیاض بن غَنْم کو حکم دیا کہ وہ دُوْمَةُ الْجَنْدَل جائیں.دُومَةُ الْجَندَل شام اور مدینہ کے درمیان ایک قلعہ اور بستی ہے جو مدینہ سے اس زمانے کے طریقہ سفر کے مطابق پندرہ سولہ دن کی مسافت پر تھا اور وہاں کے جو سر کش اور مرتد باشندوں کو مطیع کر کے چیرہ پہنچیں.حضرت عیاض بن غنم رسول کریم علی تعلیم کے صحابی تھے.آپ نے صلح حدیبیہ سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور اس میں شامل بھی ہوئے تھے.حضرت ابو عبیدہ نے اپنی وفات کے وقت انہیں شام میں اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا.حضرت عمرؓ نے انہیں اس منصب پر قائم رکھا اور فرمایا کہ میں اس امیر کو تبدیل نہیں کروں گا جسے حضرت ابو عبیدہ نے امیر مقرر کیا ہے.بہر حال حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عیاض بن غنم میں سے جو پہلے حیرہ پہنچ جائے کو میں ہو اسی کو اس علاقے میں جنگی کارروائی کرنے والی فوج کی قیادت حاصل ہو گی.687 ایک روایت کے مطابق حضرت خالد بن ولید جب یمامہ سے فارغ ہو گئے تو حضرت ابو بکر نے انہیں لکھا کہ فَرْجُ الهند یعنی ابلہ سے آغاز کریں اور عراق کے بالائی علاقے سے عراق پہنچیں اور
صحاب بدر جلد 2 290 حضرت ابو بکر صدیق لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دیں.اگر وہ اسے قبول کر لیں تو ٹھیک ورنہ ان سے جزیہ وصول کریں اور اگر وہ جزیہ دینے سے انکار کریں تو پھر ان سے قتال کریں اور حکم فرمایا کہ کسی کو اپنے ساتھ قتال کے لیے نکلنے پر مجبور نہ کریں اور اسلام سے مرتد ہونے والے کسی بھی و مدد نہ لیں خواہ وہ بعد میں اسلام میں واپس بھی آچکا ہو اور جس مسلمان کے پاس سے گزریں تو اسے اپنے ساتھ ملالیں.پھر حضرت ابو بکر حضرت خالد کی امداد کے لیے لشکر کی تیاری میں لگ گئے.688 حضرت خالد بن ولید نے یمامہ سے عراق کی طرف کوچ کے وقت اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور سب کو ایک ہی راستے پر روانہ نہیں کیا تھا بلکہ حضرت ممثٹی کو اپنی روانگی سے دوروز قبل روانہ کیا.ان کے بعد عدی بن حاتم اور عاصم بن عمرو کو ایک ایک دن کے فاصلے سے روانہ کیا.سب کے بعد حضرت خالد بن ولید خود روانہ ہوئے.ان سب سے حفیر پر جمع ہونے کا وعدہ کیا تا کہ وہاں سے ایک دم اپنے دشمن سے ٹکرائیں.حفیر بصرہ سے مکہ کی طرف جاتے ہوئے پہلی منزل ہے.اور یہ لکھا ہے کہ یہ سر حد فارس کی تمام سر حدوں میں شان و شوکت کے لحاظ سے سب سے بڑی اور مضبوط سرحد تھی اور اس کا حاکم ھر ھر تھا.یہاں کا سپہ سالار ایک طرف خشکی میں عربوں سے نبرد آزما ہو تا تھا اور دوسری طرف سمندر میں اہل ہند سے.689 بہر حال حضرت خالد کے لشکر کی تعداد بہت کم تھی کیونکہ ایک تو اس کا بہت حصہ جنگ یمامہ میں کام آپکا تھا.دوسرے حضرت ابو بکڑ نے انہیں ہدایت کی تھی کہ اگر کوئی شخص عراق نہ جانا چاہے تو اس پر زبر دستی نہ کی جائے اور اس کے ساتھ ہی ایک نہایت ہی اہم ہدایت یہ بھی دی کہ اس کے علاوہ کسی سابق مرتد کو جو دوبارہ اسلام لے بھی آیا ہو اس وقت تک اسلامی لشکر میں شامل نہ کیا جائے جب تک خلیفہ سے خاص طور پر اجازت حاصل نہ کر لی جائے.حضرت خالد نے حضرت ابو بکر کی خدمت میں مزید کمک بھیجنے کے لیے لکھا تو انہوں نے صرف ایک شخص قعقاع بن عمرو کو ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا.لوگوں کو بہت تعجب ہوا اور انہوں نے عرض کیا آپ خالد کی مدد کے لیے صرف ایک شخص کو روانہ کر رہے ہیں حالانکہ لشکر کا بیشتر حصہ اب ان سے علیحدہ ہو چکا ہے، الگ ہو چکا ہے.حضرت ابو بکر نے جواب دیا جس لشکر میں قعقاع جیسا شخص شامل ہو وہ کبھی شکست نہیں کھا سکتا.پھر بھی قعقاع کے ہاتھ آپ نے خالد کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا کہ وہ ان لوگوں کو اپنے لشکر میں شامل ہونے کی ترغیب دیں جو رسول اللہ صلی علیکم کے بعد بدستور اسلام پر قائم رہے اور جنہوں نے مرتدین کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا.یہ خط موصول ہونے پر حضرت خالد نے اپنے لشکر کو ترتیب دینا شروع کر دیا.0 عراق کے کاشتکاروں کے سلسلہ میں حضرت ابو بکر نے جو وصیت کی تھی اور جو حکمت عملی تھی اس کے بارے میں لکھا ہے کہ عرب عراق کی سرزمینوں میں بطور کاشتکار کام کرتے تھے.فصل تیار 690
صحاب بدر جلد 2 291 حضرت ابو بکر صدیق ہونے پر انہیں بٹائی کا بہت تھوڑا حصہ ملتا تھا.اکثر حصہ ان ایرانی زمینداروں کے پاس چلا جاتا تھا جو ان زمینوں کے مالک تھے.یہ زمیندار غریب عربوں پر بے حد ظلم توڑتے تھے اور ان کے ساتھ غلاموں سے بھی بد تر سلوک کیا کرتے تھے.حضرت ابو بکر نے عراق میں اپنے سالاروں کو حکم دے دیا کہ جنگ کے دوران میں ان عرب کاشتکاروں کو کوئی تکلیف نہ دی جائے اور نہ انہیں قتل کیا جائے اور نہ قیدی بنایا جائے.غرض ان سے کسی قسم کی بدسلو کی نہ کی جائے کیونکہ وہ بھی ان کی طرح عرب ہیں اور ایرانیوں کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں.انہیں اس بات کا احساس دلانا چاہیے کہ یہاں عربوں کی حکومت قائم ہونے سے ان کی مظلومانہ زندگی کے دن ختم ہو جائیں گے اور اب وہ اپنے ہم قوم لوگوں کی بدولت حقیقی عدل و انصاف اور جائز آزادی اور مساوات سے بہرہ ور ہو سکیں گے.حضرت ابو بکر کی اس حکمت عملی نے مسلمانوں کو بے حد فائدہ پہنچایا.ان کی فتوحات کے راستے میں آسانیاں پید اہو گئیں اور انہیں یہ خدشہ نہ رہا کہ پیش قدمی کرتے وقت کہیں پیچھے سے حملہ ہو کر ان کا راستہ مسدود نہ ہو جائے.جب حضرت خالد بن ولید نے نتائج میں پڑاؤ ڈالا تو حضرت مُتقی اس وقت اپنی فوج کے ساتھ خَفَّان میں موجود تھے.نتاج، بصرہ اور یمامہ کے درمیان ایک مقام ہے.خفان کوفہ کے قریب ایک جگہ ہے.691 حضرت خالد نے حضرت مشکی کی طرف ایک خط لکھا کہ وہ آپ کے پاس آئیں اور اس کے ساتھ حضرت ابو بکر کا وہ خط بھی بھیجا جس میں حضرت ابو بکر نے حضرت مثلی بن حارثہ کو حضرت خالد کی اطاعت کا حکم دیا تھا.692 یہ ساری تاریخ طبری کی روایت ہے.پہلے تو وہ تھی پھر یہ تھا کہ خالد کو حضرت ابو بکڑ نے خود بھیجا تھا.بہر حال پھر جنگیں ہوئیں.693 ایرانیوں کے خلاف کارروائیاں جنگ ذات السلاسل یا جنگ کا ظمہ ایک جنگ جو ہوئی اسے جنگ ذات السلاسل یا جنگ کاظمہ کہتے ہیں.یہ جنگ محرم الحرا 12 ہجری میں ہوئی.یہ جنگ تین ناموں سے معروف ہے.جنگ ذات السلاسل، جنگ کا ظمہ اور جنگ حَفِیر.اس جنگ کو ذَاتُ السّلاسل یعنی زنجیروں والی جنگ اس لیے کہا جاتا ہے کہ عربی میں سلسلة زنجیر کو کہتے ہیں جس کی جمع سلاسل ہے.کیونکہ اس جنگ میں ایرانی فوج نے اپنے آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ لیا تھا تا کہ کوئی شخص جنگ سے بھاگنے نہ پائے.جنگ ذات السلاسل کی اس روایت کو بعض مؤرخین تسلیم نہیں کرتے.یہ جنگ مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان حاظمہ مقام کے قریب لڑی گئی تھی اس لیے اسے جنگ کا ظمہ کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں.کاظمہ بصرہ سے بحرین
اصحاب بدر جلد 2 جاتے ہوئے سیف البحر پر ایک بستی ہے.694 292 حضرت ابو بکر صدیق حفیر علاقہ میں ہونے کی وجہ سے اس جنگ کو جنگ حفیر بھی کہا جاتا ہے.695 مسلمانوں کی طرف سے اس جنگ کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید تھے اور ایرانیوں کی جانب سے سپہ سالار کا نام ھرمز تھا.مسلمانوں کے لشکر کی تعداد اٹھارہ ہزار تھی.696 جیسا کہ گذشتہ خطبات میں بیان ہو چکا ہے کہ ھرمز ایرانیوں کی جانب سے اس علاقے کا حاکم تھا جو حسب و نسب اور شرف و عزت میں اکثر امرائے ایران سے بڑھا ہوا تھا.ایرانی معززین کی عادت تھی کہ وہ معمولی ٹوپیوں کی بجائے قیمتی ٹوپیاں پہنتے تھے اور حسب و نسب اور شرف و عزت میں جو شخص جس مرتبے کا ہو تا تھا اس مناسبت سے قیمتی ٹوپی پہنتا تھا.سب سے بیش قیمت ٹوپی کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ در ہم کی ہوتی تھی جسے وہی شخص پہن سکتا تھا جو شرف و عزت اور توقیر و وجاہت میں کمال درجہ پر پہنچا ہوا ہو اور ھرمز کے مرتبے کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ اس کی ٹوپی کی قیمت بھی ایک لاکھ درہم ایرانیوں کے نزدیک تو اس کی وجاہت مسلم تھی لیکن عراق کی حدود میں بسنے والے عربوں میں اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ ان عربوں پر تمام سرحدی امراء سے زیادہ سختی اور ظلم کرتا تھا.عربوں کی نفرت اس حد تک پہنچی ہوئی تھی یعنی غیر مسلمان عرب جو تھے کہ وہ کسی شخص کی 697 شخص تو خباثت کا ذکر کرتے ہوئے گھر ٹمز کا نام بطور ضرب المثل لینے لگے تھے.چنانچہ کہتے تھے کہ فلاں ھرمز سے بھی زیادہ خبیث ہے.فلاں ہر مُز سے بھی زیادہ بد فطرت اور بد طینت ہے.فلاں شخص هرمز سے بھی زیادہ احسان فراموش ہے.اور اسی وجہ سے ھرمز کو عربوں کے پے در پے چھاپوں اور جھڑپوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا اور دوسری طرف ہرمز کی جھڑ ہیں ہندوستان کے بحری قزاقوں سے بھی ہوتی رہتی تھیں.بہر حال حضرت خالد بن ولید نے یمامہ سے روانگی سے قبل ہر مز کو خط لکھا تھا.انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ اما بعد! فرمانبرداری اختیار کر لو، تم محفوظ رہو گے یا اپنی اور اپنی قوم کے لیے حفاظت کی ضمانت حاصل کر لو اور جزیہ دینے کا اقرار کرو ورنہ تم بجز اپنے آپ کے کسی اور کو ملامت نہیں کر سکو گے.میں تمہارے مقابلے کے لیے ایسی قوم کو لایا ہوں جو موت کو یوں پسند کرتی ہے جیسے تم زندگی کو پسند کرتے ہو.698 جب حضرت خالد کا خط هرمز کے پاس پہنچا تو اس نے ارد شیر شاہ کسریٰ کو اس کی اطلاع دی اور اپنی فوجیں جمع کیں اور ایک تیز رو دستے کو لے کر فوراً حضرت خالد کے مقابلے کے لیے کاظمہ پہنچا اور اپنے گھوڑوں سے آگے بڑھ گیا مگر اس نے اس راستے پر حضرت خالد بن ولید کو نہ پایا اور اس کو یہ اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا لشکر حفیر میں جمع ہو رہا ہے.اس لیے پلٹ کر حفیر کی طرف روانہ ہوا.حفیر بصرہ سے مکہ کی طرف جاتے ہوئے پہلی منزل تھی.وہاں پہنچتے ہی اپنی فوج کی صف آرائی کی.ہر مز نے اپنے دائیں بائیں
حاب بدر جلد 2 293 حضرت ابو بکر صدیق دو بھائیوں کو مقرر کیا.ان میں سے ایک کا نام قباؤ اور دوسرے کا نام انوشجان تھا.ایرانیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں میں جکڑ لیا تھا.اس روایت میں تو یہی بیان ہوا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس پر وہ لوگ جن کی رائے اس کے خلاف تھی جب انہوں نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ تم لوگوں نے دشمن کے لیے خود ہی اپنے آپ کو زنجیروں میں جکڑ لیا ہے.ایسا نہ کرو.یہ بری فال ہے.اس کا انہوں نے جواب دیا جو اس حق میں تھے کہ زنجیروں سے جکڑا جائے کہ تمہارے متعلق ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تم بھاگنے کا ارادہ رکھتے ہو.جب حضرت خالد کو ہرمز کے حضیر پہنچنے کی اطلاع ملی تو آپ اپنے لشکر کو لے کر کاظمہ کی طرف مڑ گئے.ہر مز کو اس کا پتا چل گیا تو وہ فورا کاظمہ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں پڑاؤ کیا.ہر مُز اور اس کے لشکر نے صف آرائی کی اور پانی پر ان کا قبضہ تھا.جب حضرت خالد بن ولید آئے تو ان کو ایسے مقام پر اترنا پڑا جہاں پانی نہیں تھا.لوگوں نے آپ سے اس کی شکایت کی.آپ کے منادی نے اعلان کیا کہ سب لوگ اتر پڑیں اور سامان نیچے اتار لیں اور دشمن سے پانی کے لیے لڑائی کریں کیونکہ بخدا پانی پر اسی جماعت کا قبضہ ہو گا جو دونوں گروہوں میں سے زیادہ ثابت قدم رہے گی اور دونوں لشکروں میں زیادہ معزز ہو گی.اس پر سامان اتار لیا گیا.سوار فوج اپنی جگہ کھڑی رہی.پیدل فوج نے پیش قدمی کی اور دشمن پر حملہ آور ہوئی.دونوں طرف لڑائی شروع ہوئی تو اللہ نے ایک بدلی بھیجی.مسلمانوں کی صفوں کے پیچھے بارش ہوئی.مسلمانوں کو اس سے قوت ملی.ہر مُز نے حضرت خالد کے لیے ایک سازش تیار کی.اس نے اپنے دفاعی دستے سے کہا کہ میں حضرت خالد کو مبارزت کی دعوت دیتا ہوں اور اس دوران کہ میں ان کو اپنے ساتھ مصروف رکھوں گا تم لوگ اچانک چپکے سے حضرت خالد پر حملہ کر دینا.اس کے بعد ہر مُز میدان میں نکلا.حضرت خالد اپنے گھوڑے سے اتر پڑے.ہر مُز بھی اپنے گھوڑے سے اترا اور اس نے اتر حضرت خالد کو مقابلے کی دعوت دی.حضرت خالد چل کر اس کی طرف آئے اور دونوں میں مقابلہ ہوا.دونوں طرف سے وار ہونے لگے.حضرت خالد نے ہر مز کو بھینچ لیا.اس پر ہرمز کے دفاعی دستے نے خیانت سے کام لیتے ہوئے حضرت خالد پر حملہ کر دیا اور انہیں گھیرے میں لے لیا.جب اس طرح ایک ایک کی لڑائی ہو رہی ہو تو پھر دوسرے حملہ نہیں کرتے لیکن بہر حال ان کی فوج نے ان پر حملہ کر دیا.اس کے باوجو د حضرت خالد نے ہر مز کا کام تمام کر دیا.حضرت قعقاع بن عمر ڈنے جیسے ہی ایرانیوں کی یہ خیانت دیکھی تو ہر مز کے دفاعی دستے پر حملہ کر دیا اور انہیں گھیرے میں لے کر موت کی نیند سلا دیا.ایرانیوں کو شکست فاش ہوئی اور وہ بھاگ گئے.بھاگنے والوں میں قباد اور انوشجان بھی تھے.مسلمانوں نے رات کے اندھیرے میں ایرانیوں کا تعاقب کیا اور دریائے فرات کے بڑے پل تک جہاں آج کل بھرہ آباد ہے انہیں قتل کرتے چلے گئے.جنگ کے اختتام پر حضرت خالد نے مالِ غنیمت جمع کرایا.اس میں ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر زنجیریں بھی تھیں.ان کا وزن ایک ہزار کل تھا یعنی زنجیروں کا تقریبا تین سو پچھتر کلو.جو مالِ غنیمت حضرت ابو بکر کی طرف بھیجا
ناب بدر جلد 2 294 حضرت ابو بکر صدیق 699 گیا اس میں ہر مز کی ایک ٹوپی بھی تھی جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی اور وہ جواہرات سے مرضع تھی.حضرت ابو بکر نے یہ ٹوپی حضرت خالد بن ولید کو عطا فرما دی تھی.حضرت خالد نے فتح کی خوشخبری، مال غنیمت میں سے تخمیس اور ایک ہاتھی مدینہ روانہ کیا اور ہر طرف اسلامی لشکر کی فتح کا اعلان کر دیا.زیربن کلیب خمس اور ہاتھی کو لے کر مدینہ پہنچے.اہل مدینہ کو اس سے قبل ہاتھی دیکھنے کا کبھی اتفاق نہ ہو ا تھا.مدینہ والوں کا تو ذکر ہی کیا، عرب کے کسی اور باشندے نے بھی ابرہہ کے ہاتھیوں کے سوا آج تک ہاتھی کی صورت نہ دیکھی تھی.جب لوگوں کو دکھانے کے لیے اس کو سارے شہر میں گشت کرایا گیا تو بوڑھی عورتیں اس ہاتھی کو دیکھ کر بہت متعجب ہوئیں اور کہنے لگیں جو ہم دیکھ رہی ہیں کیا یہ خدا کی تخلیق میں سے ہے؟ وہ یہ سمجھیں کہ کوئی بناوٹی چیز ہے.اس ہاتھی کو حضرت ابو بکڑ نے زر کے ساتھ ہی حضرت خالد کے پاس واپس بھیج دیا.9 اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح کی ایک بڑی وجہ حضرت ابو بکر کی وہ پالیسی بھی تھی جو انہوں نے عراق کے کاشتکاروں کے بارے میں وضع کی تھی اور جس پر خالد نے سختی سے عمل کیا تھا.اس پالیسی کے تحت انہوں نے کاشتکاروں سے مطلق تعرض نہ کیا.جہاں جہاں وہ آباد تھے انہیں وہیں رہنے دیا اور جزیہ کی معمولی رقم کے سوا اور کسی قسم کا تاوان یا ٹیکس ان سے وصول نہ کیا.700 معرکہ ذات السلاسل میں جنگ میں شامل ہونے والے سوار کو ایک ہزار درہم کا حصہ دیا گیا اور پیدل کو اس کا ایک تہائی دیا گیا.701 جنگ کا ظمہ دور رس نتائج کی حامل ثابت ہوئی.اس لڑائی نے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں اور انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ ایرانی جن کی سطوت کا شہرہ ایک عرصہ سے سننے میں آرہا تھا اپنی پوری طاقت کے باوجود ان کی معمولی فوج کے مقابلے میں بھی نہ ٹھہر سکے.اس جنگ میں مالِ غنیمت کی جو مقدار ان کے ہاتھ لگی اس کا وہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے.702 جنگ ابله پھر جنگ ابله کا ذکر ہے جو بارہ ہجری میں لڑی گئی.حضرت ابو بکر نے حضرت خالد کو ہدایت کی تھی کہ وہ عراق میں جنگ کا آغاز ابلہ سے کریں جو خلیج فارس پر ایک سر حدی مقام تھا.ہند وستان اور سندھ کو جو تجارتی قافلے عراق سے آتے تھے سب سے پہلے اللہ میں قیام کرتے تھے.اللہ کی فتح کے متعلق دور وایتیں مذکور ہیں.ایک یہ کہ مسلمانوں نے اللہ کو سب سے پہلے حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں فتح کیا لیکن بعد میں یہ دوبارہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا اور حضرت عمر بن خطاب کے زمانے میں مسلمان اس پر پوری طرح قابض ہوئے.دوسری روایت یہ ہے کہ اس کی فتح حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوئی.703
محاب بدر جلد 2 295 حضرت ابو بکر صدیق بہر حال علامہ طبری نے اپنی کتاب میں حضرت ابو بکر کے دور خلافت میں اس جنگ کا مختصر تذکرہ کیا ہے تاہم اس کے بعد وہ یہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکڑ کے دور خلافت میں اللہ کی فتح کا قصہ عام سیرت نگاروں اور صحیح روایات کے خلاف ہے کیونکہ اللہ کی فتح حضرت عمرؓ کے عہد میں چودہ ہجری میں حضرت عتبہ بن غزوان کے ہاتھ سے عمل میں آئی تھی.رض 705 704 تاریخ کی اور کتابوں میں جنگ اہلہ کا ذکر اس طرح آیا ہے.بعض مؤرخین اس کو پہلی بار حضرت ابو بکرؓ کے عہد مبارک میں ہونا بیان کرتے ہیں اور بعض اس کی تردید کرتے ہیں کہ یہ جنگ حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں نہیں بلکہ حضرت عمرؓ کے عہد میں ہوئی تھی لیکن کتب تاریخ میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ اور دونوں کے عہد مبارک میں جنگ اہلہ اور اللہ کی فتح کا ذکر ملتا ہے.معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس کی پہلی بار فتح حضرت ابو بکرؓ کے عہد مبارک میں ہوئی تھی لیکن بعد میں ایرانیوں کی بحری امداد کے بل بوتے پر اہل اللہ نے بغاوت کر کے آزادی حاصل کر لی.پھر حضرت عمرؓ کے عہد مبارک میں یہ دوبارہ فتح ہوا.بہر حال اللہ کی جنگ کی تفصیل کچھ یوں ہے.جنگ ذات السلاسل کے اختتام پر حضرت خالد بن ولید نے حضرت مٹی کو ایرانیوں کے شکست خوردہ لشکر کے تعاقب میں بھیجا اور ساتھ ہی حضرت معقل کو ابلہ بھیجا کہ وہاں پہنچ کر مال غنیمت جمع کر لیں اور قیدیوں کو گر فتار کر لیں.چنانچہ مغقل وہاں سے روانہ ہو کر اللہ پہنچے اور مالِ غنیمت اور قیدی جمع کر لیے.16 بعد میں حضرت عمرؓ کے عہد مبارک میں اس کی فتح کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت عتبہ بن غزوان کو چودہ یا سولہ ہجری میں بصرہ کی طرف روانہ فرمایا.حضرت عتبہ وہاں ایک مہینہ رہے.اہل ابلہ ان کے مقابلے کے لیے نکلے.یہ پانچ سو بھی سپاہی تھے جو اللہ کی حفاظت پر مامور تھے.حضرت عتبہ نے ان لوگوں سے لڑائی کی اور انہیں شکست دی یہاں تک کہ ایرانی شہر کے اندر گھس گئے اور حضرت عقبہ اپنے لشکر میں لوٹ آئے.اللہ نے فارسیوں کے دل میں رعب ڈال دیا، وہ شہر سے نکل گئے اور تھوڑا بہت سامان لے کر کشتیوں میں بیٹھے اور دریا عبور کر کے چلے گئے.اس طرح پورا شہر خالی ہو گیا.مسلمان شہر میں داخل ہو گئے یہاں پر مسلمانوں کو کافی سامان ہتھیار اور دیگر مختلف چیزیں ہاتھ آئیں اور قیدی بھی ملے.اس سارے سامان کا خمس نکال کر باقی مالِ غنیمت مجاہدین میں تقسیم کر دیا گیا.مسلمانوں کی تعداد تین سو تھی.17 جنگ مدار 707 706 پھر ایک جنگ مَذَارُ ہے.جنگ مَذَارُ : یہ معرکہ صفر بارہ ہجری میں ہوا.جنگ بارہ ہجری میں لڑی گئی.708 مَذَارُ، میسان کا قصبہ ہے.مذاڑ اور بصرہ کے در میان چار دن کی مسافت کے برابر فاصلہ ہے.709
ہے محاب بدر جلد 2 296 حضرت ابو بکر صدیق اس واقعہ کے روز لوگوں کی زبان پر یہ فقرہ تھا کہ صفر کا مہینہ آگیا ہے اور اس میں ہر ظالم سرکش قتل ہو گا جہاں دریا اکٹھے ہوتے ہیں.ہر مُز ذات السلاسل کی جنگ میں حضرت خالد بن ولید کے مد مقابل تھا اس نے اپنے بادشاہ کو مدد کے لیے لکھا تھا.بادشاہ نے اس کی مدد کے لیے قارن کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا مگر وہ لشکر ابھی مذاز کے مقام پر پہنچا تھا کہ اس کو جنگ ذات السلاسل میں ہر مز کی شکست کی اور اس کے مارے جانے کی اطلاع ملی اور ساتھ ہی ہر مز کی فوج کے شکست کھائے ہوئے دستے بھی مذاز میں قارن سے آملے اور ان میں سے بعض دستوں کے سپاہیوں نے دوسرے دستوں کے سپاہیوں سے کہا کہ اگر آج تم متفرق ہو گئے تو پھر بھی جمع نہیں ہو سکو گے.اس لیے ایک دم واپسی کے لیے اکٹھے ہو جاؤ.وہ دوڑی ہوئی فوج جو تھی وہ بھی اور جو نئی کمک آرہی تھی یا نئی فوج جو ایران سے آرہی تھی دونوں مل گئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو اس بات پر جوش دلایا کہ جنگ ہونی چاہیے.جو دوڑے ہوئے تھے انہوں نے کہا یہ بادشاہ کی مدد پر مشتمل نیا لشکر آن پہنچا ہے.اور یہ اس کا سپہ سالار قارن ہمارے ساتھ ممکن ہے کہ خدا ہمیں غلبہ عطا کرے اور ہمارے دشمن سے ہمیں نجات عطا فرمائے اور ہم اپنے نقصانات کی کسی قدر تلافی کر لیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے مذاز میں پڑاؤ ڈال دیا.قارن نے ہر اول دستے پر قباذ اور آنُوشجان کو مقرر کیا جو جنگ ذات السلاسل میں فرار ہو گئے تھے.دوسری طرف دشمن کی اس تیاری کی اطلاع حضرت متلی اور حضرت معلٰی نے حضرت خالد بن ولید ھو بھیج دی.حضرت خالد نے قارن کی اطلاع پاتے ہی معرکہ ذات السلاسل میں حاصل ہونے والا مالِ غنیمت انہی مجاہدین میں تقسیم کر دیا جن کو خدا نے وہ مال غنیمت دیا تھا اور مخمس میں سے مزید جس قدر چاہا دیا اور معرکہ ذات السلاسل میں حاصل ہونے والا باقی مال غنیمت اور اس معرکے میں جو فتح ہوئی تھی اس کی خوشخبری حضرت ابو بکر کی خدمت میں بھجوا دی اور اس امر سے بھی مطلع کر دیا کہ معرکہ ذات السلاسل میں دشمنوں کی ہزیمت خوردہ افواج اور قارن کی سربراہی میں آنے والا نیا لشکر ایک جگہ جمع ہو رہے ہیں.چنانچہ حضرت خالد روانہ ہوئے اور مذاز میں قارن کی فوج کے مقابلے پر آئے اور اپنی فوج کی صف آرائی کی.دونوں طرف سے مقابلہ ہوا.دونوں حریفوں کی نہایت غیظ و غضب کی حالت میں مدھ بھیڑ ہوئی.قارن مبارزت کے لیے میدان میں نکلا.دوسری طرف سے اس کے مقابل کے لیے حضرت خالد اور حضرت معقل بن آغشئی آگے بڑھے.دونوں قارن کی طرف لیکے مگر حضرت معقل نے حضرت خالد سے پہلے قارن کو جالیا اور اسے قتل کر دیا.حضرت عاصم نے انوشجان کو اور حضرت عدی نے قباذ کو قتل کر دیا.ان تینوں سرداروں کے مارے جانے سے ایرانی حوصلہ ہار بیٹھے اور میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے.اس جنگ میں اہل فارس کی بہت بڑی تعد اد ماری گئی اور جو لوگ پسپا ہوئے وہ اپنی کشتیوں میں سوار ہو کر بھاگے.حضرت خالد نے مدار میں قیام کیا اور ہر مقتول کا سامان خواہ وہ کسی قیمت کا ہو اسی مجاہد کو عطا کیا جس نے اسے قتل کیا تھا اور مال فے کو بھی ان میں تقسیم کیا نیز خمس میں سے ان لوگوں کو حصہ دیا
اصحاب بدر جلد 2 297 حضرت ابو بکر صدیق 710 جنہوں نے نمایاں کارنامے سر انجام دیے تھے اور خمس کے باقی حصہ کو ایک وفد کے ساتھ حضرت سعید بن نعمان کی سرکردگی میں مدینہ روانہ کر دیا.ایک روایت کے مطابق اس جنگ میں تیس ہزار ایرانی قتل ہوئے اور یہ ان کے علاوہ ہیں جو نہر میں ڈوب کر مر گئے اور کہا جاتا ہے کہ اگر یہ پانی مانع نہ ہو تا توان میں سے ایک بھی نہ بچتا.پھر بھی جو لوگ بچ کر بھاگے وہ بہت پراگندہ حال اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگے.جنگ کے بعد لڑائی میں حصہ لینے والوں اور ایرانی فوج کی حمایت کرنے والوں کو مع اہل و عیال کے قید کر لیا گیا.ان قیدیوں میں ابو الحسن بصری بھی شامل تھے.ابوالحسن بصری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امام حسن بصری کے والد تھے جو کہ بصرہ کے مشہور واعظ اور صوفی تھے، مسلمان ہوئے.کہا جاتا ہے کہ ابو الحسن بصری کو قید کرنے کے بعد مدینہ لایا گیا جہاں ان کی مالکہ نے انہیں آزاد کر دیا تھا.10 اس فتح کے بعد عام رعایا سے بے حد نرمی کا سلوک کیا گیا.کاشتکاروں اور ان تمام لوگوں کو بغیر کسی قسم کی تکلیف پہنچائے جزیہ کی ادائیگی پر آمادہ کر دیا گیا اور انہیں ان کی زمینوں اور جگہوں پر بر قرار رکھا گیا.ان ابتدائی امور سے فراغت حاصل کر کے حضرت خالد نے مفتوحہ علاقے کے نظم ونسق کی طرف توجہ کی.جزیہ وصول کرنے کے لیے جابجا مثال مقرر کیے گئے.مفتوحہ علاقے کی حفاظت کے لیے انہوں نے حفیر اور جسرِ اعظم یعنی سب سے بڑے پل پر فوجیں متعین کر رکھی تھیں.ان کا انتظام اور بہتر بنایا گیا اور فوجوں کے تمام دستوں کو مختلف افسروں کے زیر نگرانی دے کر انہیں دشمنوں کی خفیہ اور اعلانیہ سرگرمیوں سے خبر دار رہنے اور موقع پڑنے پر ان کا مقابلہ کرنے کا حکم دے دیا گیا.خالد کی جنگی مہارت کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ سرزمین ایران میں ان کی پیش قدمی کے آغاز ہی سے کسریٰ کی طاقتور فوجیں مغلوب ہونی شروع ہو گئیں اور ان کے دم خم ، حوصلے اور ولولے سب سرد پڑ گئے.جنگ مدار ، حیرہ سے کچھ ہی فاصلے پر ہوئی تھی.حیرہ خلیج اور مدائن کے تقریباً 711 درمیان میں واقع ہے.اس جنگ کے بعد کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد حضرت خالد بن ولید دشمن کی نقل و 712 حرکت کی خبروں کی جستجو میں لگ گئے.تا کہ دیکھیں دشمن کی کیا موومنٹ ہے.وہ دوبارہ اسلام کے خلاف اکٹھے تو نہیں ہو رہے؟ جنگ و تجه جنگ و تجہ ایک جنگ ہے.جنگ و تجہ.صفر بارہ ہجری میں ہوئی.وَلَجہ، گنگر کے قریب خشکی کا علاقہ ہے.جنگ مزار میں ایرانیوں کو جس شرمناک شکست کا سامان کرنا پڑا کہ اس میں ان کے بڑے بڑے سردار بھی مارے گئے تھے.اس پر ایرانی شہنشاہ نے ایک اور حکمت عملی طے کرتے ہوئے اور زیادہ تیاری کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کی.چنانچہ ایرانی حکومت نے عراق میں
حاب بدر جلد 2 298 حضرت ابو بکر صدیق بسنے والے عیسائیوں کے ایک بہت بڑے قبیلہ بکر بن وائل کے سر کردہ لوگوں کو دربار ایران میں بلایا اور ان کو مسلمانوں کے ساتھ لڑنے پر آمادہ کر کے ایک لشکر ترتیب دیا اور اس لشکر کی قیادت ایک مشہور شہسوار اندرز عز کے ہاتھ میں دی اور یہ لشکر ولجہ کی طرف روانہ ہو گیا.عراق میں عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ بکر بن وائل آباد تھا.شہنشاہ اردشیر نے انہیں طلب کیا اور ان کی ایک فوج مرتب کر کے انہیں مسلمانوں سے معرکہ آرائی کے لیے ولجہ کی جانب روانہ کر دیا.حیرہ اور گشگر کے نواحی علاقوں کے لوگ اور کسان بھی اس لشکر کے ساتھ مل گئے.حیرہ کو فہ سے تین میل جنوب مغرب میں ایک شہر ہے.گشگر کوفہ اور بصرہ کے درمیان ایک قصبہ تھا.بہر حال لیکن اس خیال سے کہ مسلمانوں پر فتح یابی کا فخر مکمل طور پر عیسائی عربوں کے حصہ میں نہ آئے اپنے ایک بڑے سپہ سالار بهمن جَاذْوَیہ کو بھی ایک بھاری لشکر کے ساتھ ان کے پیچھے ہی روانہ کر دیا.713 جب اس فارسی سردار کو یہ محسوس ہوا کہ ان کی فوج بہت بڑی ہو گئی ہے تو اس نے حضرت خالد بن ولید پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا.جب حضرت خالد بن ولید کو فارسی فوج کے وَلَجہ میں جمع ہونے کی خبر ملی اس وقت آپ بصرہ کے قریب تھے.آپ نے مناسب سمجھا کہ فارسی فوج پر تین جہات سے حملہ کریں تاکہ ان کی جمعیت منتشر ہو جائے اور اس طرح اچانک حملے سے فارسی فوج پریشانی کا شکار ہو جائے.714 چنانچہ آپ نے سوید بن مقرن کو قائمقام مقرر کیا اور انہیں حفیر میں ہی قیام پذیر ہونے کا حکم دیا اور ان لوگوں کے پاس پہنچے جن کو دجلہ کے زیریں جانب چھوڑا ہو ا تھا.ان کو حکم دیا کہ دشمن سے ہر وقت چوکنے رہیں اور غفلت اور فریب میں مبتلا نہ ہوں اور اپنی فوج کو لے کر وتجہ کی طرف پیش قدمی کی اور دشمن کے لشکر اور اس کی معاون جماعتوں کے مقابلے پر اترے اور شدید ترین جنگ ہوئی.حضرت خالد بن ولید نے فوج کے دونوں طرف مجاہدین کے ذریعہ گھات لگارکھی تھی.آخر کار گھات لگائے ہوئے دونوں دستے دونوں طرف سے دشمن پر حملہ آور ہوئے.ایرانیوں کی فوجیں شکست کھا کر بھاگیں مگر حضرت خالد بن ولید نے سامنے سے اور گھات لگائے ہوئے دونوں دستوں نے پیچھے سے ان کو ایسا گھیرا کہ وہ بوکھلا گئے یہاں تک کہ کسی کو اپنے ساتھی کے قتل کی بھی پروانہ رہی.دشمن فوج کا سپہ سالار ہزیمت خوردہ ہو کر بالآخر مارا گیا.کاشتکاروں کے ساتھ حضرت خالد بن ولید نے وہی سلوک کیا جو ان کا طریق تھا یعنی ان میں سے کسی کو قتل نہیں کیا.صرف جنگجو لو گوں کی اولاد اور ان کے معاونین کو گرفتار کیا اور عام باشندگان ملک کو جزیہ دینے اور ذقی بن جانے کی دعوت دی جس کو ان لوگوں نے قبول کر لیا.5 715
ناب بدر جلد 2 جنگ الیس 299 حضرت ابو بکر صدیق پھر جنگ الیس کا ذکر ہے.جنگ الیس ماہ صفر بارہ ہجری میں ہوئی.انیس بھی عراق میں انبار کی بستیوں میں سے ایک بستی تھی.حضرت خالد کے ہاتھوں وَ لَجہ کے دن قبیلہ بکر بن وائل اور ایرانیوں کو پہنچنے والی ایک اور عبرتناک شکست سے ان کے ہم قوم عیسائی غضبناک ہو گئے.انہوں نے ایرانیوں کو اور ایرانیوں نے ان کو خطوط لکھے اور انیس کے مقام پر سب جمع ہو گئے.ان کا سردار عبد الأسود عجلی مقرر ہوا.اسی طرح ایرانی بادشاہ نے بہمن جَاؤُویہ کو خط لکھا کہ تم اپنے لشکر کو لے کر الیس پہنچو اور فارس اور عرب کے نصاریٰ میں سے جو لوگ وہاں جمع ہیں ان سے جاملو لیکن بہ فمن جادویه خود تو تو لشکر کے ساتھ نہ گیا البتہ اس نے اپنی جگہ ایک اور نامور بہادر جابان کو روانہ کیا اور اس کو حکم دیا کہ لوگوں کے دلوں میں جنگ کا جوش پیدا کرو مگر میرے آنے تک دشمن سے لڑائی شروع نہ کرنا سوائے اس کے وہ خود پہل کریں.جابان الیس کی طرف روانہ ہوا.بہمن جَاؤُو یہ خود ایرانی بادشاہ اردشیر کے پاس گیا تا کہ اس سے مشورہ کرے مگر یہاں آکر دیکھا کہ بادشاہ بیمار پڑا.اس لیے بہن جادویہ تو اس کی تیمار داری میں لگ گیا اور جابان کو کوئی ہدایت نہ بھیجی.جابان اکیلا لشکر کے ہمراہ محاذ جنگ کی طرف روانہ ہو کر ماہ صفر میں الیس پہنچا.716 مختلف قبائل اور جیزہ کے نواحی علاقوں کے عرب عیسائی جابان کے پاس جمع ہو گئے.حضرت خالد کو جب ان عیسائی گروہوں کے اکٹھا ہونے کی اطلاع ملی تو آپ ان کے مقابلے کے لیے نکلے مگر آپ کو معلوم نہ تھا کہ جابان بھی قریب آگیا ہے.حضرت خالد صرف ان عربوں اور نصرانیوں سے لڑنے کے ارادے سے آئے تھے مگر اُنیس میں جابان سے سامنا ہو گیا.جب جانان الیس پہنچا تو اس موقع پر عجمیوں نے جابان سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے.آیا پہلے ہم ان کی خبر لیں یا لو گوں کو کھانا کھلا دیں.یعنی جنگ شروع کریں یا پہلے کھانا کھا لیں اور پھر کھانے سے فارغ ہو کر ان سے جنگ کریں.جانان نے کہا کہ اگر دشمن تم سے کوئی تعرض نہ کریں تو تم بھی خاموش رہو لیکن میر اخیال ہے کہ وہ تم پر اچانک حملہ کریں گے اور تمہیں کھانا نہیں کھانے دیں گے.ان لوگوں نے جابان کی بات نہ مانی.دستر خوان بچھائے.کھانا چنا گیا اور سب کو بلا کر کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے.717 حضرت خالد دشمن کے مقابل پر پہنچ کر ٹھہر گئے.سامان اتارنے کا حکم دیا.اس کام سے فراغت ہوئی تو دشمن کی طرف متوجہ ہوئے.حضرت خالد نے اپنے عقب کی حفاظت کے لیے محافظ دستے مقرر کیے اور دشمن کی صف کی طرف بڑھ کر للکارتے ہوئے کہا.ابجد کہاں ہے ؟ عبد الاسود کہاں ہے ؟ مالک بن قیس کہاں ہے ؟ مالک کے علاوہ باقی سب بزدلی کی وجہ سے خاموش رہے.مالک آپ کے مقابلے کے لیے نکلا.حضرت خالد نے اس سے کہا: ان سب میں سے تجھے میرے مقابل پر آنے کی کس بات نے جرآت
محاب بدر جلد 2 300 حضرت ابو بکر صدیق دلائی ہے؟ تجھ میں میر امقابلہ کرنے کی طاقت کہاں ! یہ کہہ کر آپ نے اس پر وار کیا اور اسے قتل کر دیا اور عجمیوں کو قبل اس کے کہ وہ کچھ کھائیں، دستر خوان پر سے اٹھا دیا.جابان نے اپنے لوگوں سے کہا کیا میں نے تم سے پہلے نہیں کہا تھا کہ کھانا شروع نہ کرو.بخدا! مجھے کسی سپہ سالار سے ایسی دہشت نہیں ہوئی ہے جیسی کہ آج اس لڑائی میں ہو رہی ہے.جب وہ لوگ کھانا کھانے پر قادر نہ ہو سکے تو اپنی بہادری جتانے کے لیے کہنے لگے کہ کھانے کو فی الحال ہم چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ ہم مسلمانوں سے فارغ ہو لیں پھر ہم کھانا کھا لیں گے.جانان نے کہا کہ بخد امیر المان یہ ہے کہ تم نے یہ کھانا دشمن کے لیے رکھ چھوڑا ہے.یہ نہ سمجھو کہ تم لوگ جیت جاؤ گے اور پھر کھا لو گے بلکہ مجھے لگتا ہے یہ کھانا تو تمہارا دشمن ہی کھائیں گے یعنی مسلمان ہی کھائیں گے جبکہ تم شعور نہیں رکھتے.تو پھر اس نے لوگوں کو کہا میری بات مانو تو یہ ہے کہ کھانے میں زہر ملا دو.اگر تمہاری فتح ہوئی تو یہ نقصان بہت کم ہے کھانا ضائع ہونے کا اور اگر فتح دشمن کی ہوئی تو تم کوئی ایسا کام کر چکے ہو گے جس سے دشمن زہریلا کھانا کھانے کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا ہو گا.مگر وہ لوگ جو تھے ان کو تو اپنی فتح کا پختہ یقین تھا.ان لوگوں نے کہا کہ نہیں اس کی ، زہر ملانے کی ضرورت نہیں ہے.ہم آرام سے جنگ جیتیں گے اور پھر کھانا کھائیں گے.حضرت خالد نے اپنی فوج کی صف آرائی اس طرح کی جیسا کہ اس سے پہلے کی لڑائیوں میں کر چکے تھے.شدید ترین لڑائی ہونے لگی.ایرانیوں کو بہمن جادویہ کے آنے کی توقع تھی اس لیے خوب جم کر بڑی شدت سے لڑے کیونکہ جابان ان کو امید دلار ہا تھا کہ وہ ایک بڑا لشکر لے کر چل پڑا ہے اور ابھی پہنچنے ہی والا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ بہن کو تو ایرانی بادشاہ کے بیمار ہونے کی وجہ سے نہ تو بادشاہ سے صورتحال ذکر کرنے کا موقع ملا اور نہ ہی وہ خود لشکر لے کر آسکتا تھا بلکہ اس کا جابان سے کسی قسم کا رابطہ بھی نہ رہا تھا.بہر حال اس جنگ میں مسلمان بھی ان کے خلاف خوب جوش اور غضب میں آئے بڑی سخت جنگ ہوئی.میدان جنگ میں حضرت خالد بن ولید کی دعا 718 ایرانی فوج کے جوش و جذبہ اور مسلمانوں کی کمزور پڑتی حالت کا ذکر کرتے ہوئے ایک سیرت نگار لکھتا ہے کہ ایرانی لشکر میں سے پہلے عیسائیوں نے حملہ کیا لیکن ان کا سر دار مالک بن قیس مارا گیا.اس کا مارا جانا تھا کہ ان کی ہوا اکھڑ گئی اور وہ بد دل ہو گئے.یہ دیکھ کر جابان نے ایرانی فوج کو آگے جھونک دیا.ایرانی اس امید پر کہ ابھی بہن نئی کمک لے کر آیا چاہتا ہے خوب دلیری سے لڑے.مسلمانوں نے بار بار حملے کیے لیکن ہر بار ایرانیوں نے کمال پامردی اور مستقل مزاجی سے حملے کو ناکام بنا دیا.بالآخر حضرت خالد بن ولید نے مادی اسباب و ذرائع کو ناکافی ہوتا دیکھ کر بڑی عاجزی سے ہاتھ اٹھا کر دعامانگی اور عرض کی کہ اے اللہ ! اگر تو مجھے دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے گا تو میں کسی ایک دشمن کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا اور یہ دریا ان کے خون سے سرخ ہو جائے گا.بعض کتب میں ہے کہ حضرت خالد نے قسم کھائی تھی یا نذر مانی تھی کہ اگر اس جنگ میں فتح ہو گئی تو کسی بھی دشمن جنگجو کو زندہ نہیں چھوڑوں گا.بہر حال اس کے بعد
اصحاب بدر جلد 2 719 301 حضرت ابو بکر صدیق حضرت خالد نے جنگی چال چلتے ہوئے فوج کو دائیں اور بائیں جانب سے ایرانی لشکر کے عقب پر حملہ کرنے کا حکم دیا.اس حملے سے ایرانی لشکر تتر بتر ہو گیا اور اسے بھاگنے یا ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت نظر آئی.حضرت خالد نے حکم دیا کہ دشمن کو پکڑ کر قیدی بنالو اور مقابلہ کرنے والوں کے سوا کسی کو قتل نہ کرو.صرف ان کو قتل کرنا جو مقابلہ کرتے ہیں.اس بارے میں ریسرچ سیل کا ایک نوٹ ہے اور میں نے بھی دیکھا ہے.یہی بات صحیح لگتی ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے تاریخ طبری سمیت اکثر سیرت نگاروں اور مورخین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت خالد نے اپنی اس دعا میں جو عہد کیا تھا اس کے مطابق ایک دن اور ایک رات ان قیدیوں کو قتل کر کے نہر میں ڈالا گیا تا کہ اس کا پانی خون سے سرخ ہو جائے یعنی انہوں نے نہ صرف جنگ کرنے والوں سے جنگ لڑی بلکہ قیدیوں کو بھی قتل کر دیا اور اس وجہ سے یہ نہر آج تک نفرُ الله یعنی خون کی نہر کے نام سے مشہور ہے.720 لیکن بہر حال یہ حقیقت نہیں لگتی کہ قیدیوں کو قتل کر کے پھر نہر میں خون پھینکا گیا ہو اور سیرت نگاروں نے اس میں کچھ تساہل یا مبالغہ سے کام لیا ہے یا عین ممکن ہے کہ وہ ذہن جو اسلامی جنگوں میں جان بوجھ کر ظلم و بربریت کی جھوٹی کہانیاں شامل کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے تھے انہوں نے جہاں موقع ملا اپنی طرف سے ایسے واقعات کو شامل کر دیا تھا.تاریخ نگاروں میں بعض دشمن بھی تھے تو ایسے دشمنی رکھنے والے یا کینہ رکھنے والے جو مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی ایسی بات لکھ دیا کرتے تھے انہوں نے لکھ دیا ہو کہ قیدیوں کو قتل کر کے نہر میں بہا دیا لیکن بظاہر یہ لگتا ہے کہ بہر حال ایسی کوئی بات شامل کی گئی ہے تاکہ دجل اور فریب سے لوگوں کے سامنے یہ پیش کریں کہ دیکھیں کس طرح مسلمانوں نے ظلم و ستم کیے اور نہتے قیدیوں کو قتل کیا گیا.ہر چند کہ اول تو قیدیوں کو قتل کرنا اس وقت کے قواعد وضوابط اور جاری جنگی اصولوں کی رو سے کوئی قابل اعتراض امر بھی نہیں تھا لیکن اسلامی جنگوں نے خصوصاً آنحضرت علی ایم کے عہد مبارک اور عہد خلافت راشدہ کی جنگوں میں واقعہ ایسا ہوا بھی نہیں کہ قیدیوں اور میں واقعہ ہوا کہ کو اس طرح قتل کیا گیا ہو.ہر چند کہ ان جنگوں میں ہزاروں لاکھوں تک مقتولین کی تعداد ملتی ہے لیکن یہ سب وہ تھے کہ جو حالت جنگ میں مارے گئے تھے.حضرت خالد بن ولید جیسے سپہ سالار کی جنگوں کا مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے بھی جہاں تک ممکن ہو ا میدان جنگ میں بھی ہر اس شخص کی جان بخشی ہی کی ہے جس نے ہتھیار پھینک دیے یا اطاعت قبول کر لی اور جس کو بھی قتل کیا باوجو د تاریخ نگاروں کی افسانہ طرازی کے تحقیق کرنے پر اس کے قتل کی ٹھوس وجوہ اور اسباب موجود پائے گئے ہیں.بہر حال اس واقعہ کو دیکھا جائے تو یہ بھی کچھ بناوٹی قصہ زیادہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ مورخین اور سیرت نگار جو کہ ان جگہوں کی تمام تر تفصیلات بیان کرتے ہیں اور بیان کرتے ہوئے ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی ذکر کرتے ہیں ان میں سے بعض نے اس واقعہ کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ
اصحاب بدر جلد 2 302 حضرت ابو بکر صدیق بنائی گئی باتیں ہیں.اور ایک مصنف نے جو بہت آزادانہ رائے رکھتے ہوئے تاریخ کو بیان کرتے ہیں اور قابل اعتراض حد تک ایسی باتیں بھی بیان کر جاتے ہیں کہ جس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا وہ بھی اس واقعہ کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ راویوں نے یہ روایت بیان کر کے مبالغہ آرائی کی انتہا کر دی ہے.اتنا یقینی ہے کہ خالد نے قتل دشمنانِ اسلام میں اتنا تشد د برتا تھا کہ اسے دیکھ کر قعقاع اور اس کے ساتھیوں سے رہا نہ گیا.721 اسی طرح ایک مصنف نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے.یعنی سختی تو کی تھی قیدیوں پر لیکن قتل کرنا یہ غلط ہے.اسی طرح ایک مصنف نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عملاً یا حقیقی طور پر ایرانیوں کو نہر میں قتل کر کے پھینکا نہیں گیا تھا.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ حضرت خالد نے پھرتی سے حملے کر کے عیسائیوں کو اس طرح کاٹنا اور ایرانی صفوں کو زیر و زبر کرنا شروع کیا جیسے وہ مٹی کے بنے ہوئے ہوں اور گوشت پوست کے انسان نہ ہوں.چونکہ ایرانی لمبائی میں دور تک پھیلے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے ہلالی صورت میں آدھا دائرہ بنالیا تھا اور بڑھ کر مسلمانوں کو نرغے میں لے لیا.اب صورت یہ ہو گئی کہ مسلمانوں کے چاروں طرف ایرانی اور عیسائی عرب چھا گئے اور بڑے جوش سے لڑنے لگے لیکن جس جوش و خروش سے مسلمان لڑ رہے تھے وہ عیسائیوں میں نہیں تھا.ہر مسلمان خونخوار شیر بن گیا اور زور دار حملے کر کے عیسائیوں کو گھاس پھوس کی طرح کاٹ رہا تھا.اگر چہ ایرانی بھی مسلمانوں کو شہید اور زخمی کر رہے تھے لیکن مسلمان بہت کم گر رہے تھے اور جو زخمی ہوتا وہ اور بھی جوش کے ساتھ لڑنے لگتا تھا.ایرانی اس کثرت سے مر رہے تھے کہ ان کی لاشوں سے میدان اٹا پڑا تھا اور جو ایرانی زخمی ہو جاتا تھا وہ میدان جنگ سے ہٹ جاتا تھا.مسلمانوں نے اس قدر خونریزی کی کہ ان کے کپڑوں پر خون کے دھبے جم گئے.خالد بن ولید کے کپڑوں کا بھی یہی حال تھا.ایرانیوں کے خون سے زمین سیراب ہو گئی اور فالتو خون پانی کی طرح بہنے لگا.آخر ایرانیوں کو ہر سمت ہوئی اور وہ بدحواس ہو کر بھاگے.مسلمان ان کے پیچھے لگ گئے اور دور تک انہیں قتل اور گرفتار کرتے چلے گئے اور ایرانی ایسے بدحواس ہو کر بھاگے کہ ان کے ہزاروں سپاہی دریا میں گر کر ڈوب گئے.جب ایرانی دور نکل گئے تب مسلمان واپس لوٹے.اس لڑائی میں ستر ہزار ایرانی مارے گئے.مسلمان ایک سواڑ تمیں شہید ہوئے.بہر حال مورخین کو اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے ایرانیوں کی اتنی بڑی تعداد کو کیسے مار ڈالا.722 ایک تاریخ نگار نے یہ لکھا ہے.اس حوالے سے صاف نظر آتا ہے کہ اگر نہر کے پانی کے سرخ ہو جانے والے واقعہ کو درست تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ لوگ جن کی وجہ سے نہر خون سے سرخ ہو گئی وہ انہیں زخمی سپاہیوں کے ڈوبنے کی وجہ سے بھی تو ہو سکتی تھی.لہذا کہا جا سکتا ہے کہ ایسے واقعات میں مبالغہ آرائی کی آمیزش بھی کسی حد تک شامل ہو گئی جس کی بنا پر اسلامی جنگوں اور حضرت خالد بن ولید کی ذات پر رکیک حملے کرنے والوں کو مواقع ملے.یا جنگوں میں مسلمانوں پر وحشیانہ طرز اختیار کرنے کا
حاب بدر جلد 2 303 حضرت ابو بکر صدیق الزام لگایا گیا.بہر حال اللہ بہتر جانتا ہے لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ صرف الزام لگایا گیا.بہر حال جب دشمن ہزیمت اٹھا چکا اور اس کی فوج پراگندہ ہو گئی اور مسلمان ان کے تعاقب سے فارغ ہو کر واپس آ گئے تو حضرت خالد کھانے کے پاس آکر کھڑے ہوئے اور کہا یہ میں تم لوگوں کو دیتا ہوں یہ تمہارے لیے ہے کیونکہ رسول اللہ صلی الی یکم غزوات میں جب میدان چھوڑ کر بھاگنے والے دشمن کا تیار کھانا پاتے تو اس کو اپنی فوج میں تقسیم کر دیتے تھے.چنانچہ مسلمان رات کے کھانے کے طور پر اسے کھانے لگے اُنیس کی جنگ میں دشمن کے ستر ہزار آدمی ہلاک ہوئے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے.723 امْغِيشِیا کی فتح آمْغیشیا کی فتح کے بارے میں لکھا ہے.آمْغِیشیا کو اللہ نے صفر بارہ ہجری میں جنگ کے بغیر ہی فتح کرا دیا تھا.آمغیشیا عراق میں ایک جگہ کا نام ہے.جب حضرت خالد آلیس کی فتح سے فارغ ہو گئے تو آپ نے تیاری کی اور آمغیشیا آئے مگر آپ کے آنے سے قبل ہی وہاں کے باشندے جلدی سے بستی چھوڑ کر بھاگ گئے اور سواز میں منتشر ہو گئے.عراق میں وہ بستیاں جن کو مسلمانوں نے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں فتح کیا تو وہاں کھیتوں میں سر سبزی کی وجہ سے اسے سواد کا نام دیا گیا.حضرت خالد نے أَمْغِیشیا اور اس کے قرب وجوار میں جو کچھ بھی تھا اسے منہدم کرنے کا حکم دیا.آمْغِيشِيَا جِيرَہ کے برابر کا شہر تھا.اُنیس اس مقام کی فوجی چوکی تھی.مسلمانوں کو آمغیشیا سے اس قدر مال غنیمت حاصل ہوا کہ ذات السلاسل سے لے کر اب تک کسی جنگ میں حاصل نہیں ہوا تھا.اس جنگ میں گھڑ سواروں کا حصہ پندرہ سو درہم تھا اور یہ حصہ ان اموال غنیمت کے علاوہ تھا جو کار ہائے نمایاں انجام دینے والوں کو دیا گیا تھا.انیس اور انفیشیا کی فتح کی اطلاع حضرت خالد نے بنو عجل کے ایک جنگل نامی شخص کے ذریعہ روانہ کی تھی جو ایک بہادر گائیڈ کے طور پر مشہور تھے.انہوں نے حضرت ابو بکر کی خدمت میں پہنچ کر الیس کی فتح کی خوشخبری، مال غنیمت کی مقدار ، قیدیوں کی تعداد، مخمس میں جو چیزیں حاصل ہوئی تھیں اور جن لوگوں نے کار ہائے نمایاں انجام دیے تھے.ان سب کی تفصیل اور خاص طور پر حضرت خالد کی بہادری کے کارنامے بہت عمدگی سے بیان کیے.حضرت ابو بکر کو ان کی شجاعت، پختہ رائے اور فتح کی خبر سنانے کا یہ انداز بہت پسند آیا یعنی جو نمائندہ بھیجا تھا اس کا جو طریق تھا اور اس کی بہادری کے قصے تھے اور جو انداز بیان تھا اس کا ، وہ حضرت ابو بکر کو بڑا پسند آیا.آپ نے اس سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا میرا نام جندل ہے.آپ نے فرمایا بہت خوب جندل.اور پھر آپؐ نے اس کو مالِ غنیمت میں سے ایک لونڈی دینے کا حکم دیا جس سے اس کے ہاں اولاد پیدا ہوئی.اسی طرح اس موقع پر حضرت ابو بکڑ نے فرمایا: اب عور تیں حضرت خالد بن ولید جیسا شخص پیدا نہیں کر سکیں گی.724
حاب بدر جلد 2 جنگ چیره 304 حضرت ابو بکر صدیق جنگ جیره، ربیع الاول بارہ ہجری کے اوائل میں حضرت خالد نے آمغیشیا سے حیرہ کی طرف کوچ کیا.725 اس کے بارے میں یہ ہے کہ حضرت خالد نے آمغیشیا سے دریائے فرات کے قریب، حیرہ کی طرف کوچ کیا.حیرہ عیسائی عربوں کا قدیم مرکز تھا اور اس وقت حیرہ کا حاکم ایک ایرانی تھا.حیرہ کے حاکم کو اندازہ تھا کہ اب خالد کی فوجوں کا رخ اس کی طرف ہو گا اس لیے اس نے حضرت خالد سے جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں اور اس نے یہ اندازہ بھی کر لیا کہ خالد ادھر آنے کے لیے دریائی راستہ اختیار کریں گے اور کشتیوں پر سوار ہو کر پہنچیں گے.اس نے اپنے بیٹے کو دریائے فرات کا پانی روکنے کا حکم دیا تا کہ خالد کی کشتیاں دلدل میں پھنس جائیں اور خود اس کے پیچھے چلا اور حیرہ کے باہر اپنے لشکر کو ٹھہرایا.جب حضرت خالد آمغِیشیا سے روانہ ہوئے اور سامان اور مالِ غنیمت کے ساتھ فوج بھی کشتیوں میں سوار کرا دی گئی تو پانی کی کمی کی وجہ سے کشتیاں زمین کے ساتھ لگنے کی وجہ سے حضرت خالد کو بڑی پریشانی ہوئی.ملاحوں نے کہا کہ اہل فارس نے فرات کا پانی اس طرف آنے سے روک کر نہروں کو کھول دیا ہے.تمام پانی دوسرے راستوں کی طرف یہ رہا ہے.جب تک نہریں بند نہ ہوں گی ہمارے پاس پانی نہیں آسکتا.اس پر حضرت خالدہ فور أسواروں کا ایک دستہ لے کر حاکم کے بیٹے کی طرف بڑھے.راستے میں دریائے عقیق کے کنارے پر لشکر کے ایک حصہ سے حضرت خالد کی مڈھ بھیڑ ہوئی.حضرت خالد نے ان پر اچانک حملہ کر دیا جبکہ وہ بالکل غافل تھے.حضرت خالد نے ان سب کا خاتمہ کر دیا.پھر آگے بڑھے اور دیکھا کہ حاکم چیزہ کا بیٹا در پا کا رخ پھیرنے کے کام کی نگرانی کر رہا ہے.انہوں نے اچانک اس پر حملہ کر کے اس کو اور اس کی فوج کو قتل کر دیا اور بند توڑ کر دریا میں دوبارہ پانی جاری کروا دیا اور پھر خود وہاں کھڑے ہو کر اس کام کی نگرانی کرتے رہے یہاں تک کہ کشتیوں نے دوبارہ سفر شروع کر دیا.اس کے بعد حضرت خالد نے اپنے تمام سرداروں کو جمع کیا اور خورنق کے مقام پر پہنچ گئے.خورنق حیرہ کے قریب ایک قلعہ تھا مگر جب حاکم کو معلوم ہو گیا کہ ارد شیر مر گیا ہے اور خود اس کا بیٹا بھی جنگ میں مارا جا چکا ہے تو وہ بغیر لڑے دریائے فرات عبور کر کے بھاگ گیا لیکن حاکم کے بھاگ جانے کے باوجود اہل حیرہ نے ہمت نہیں ہاری اور وہ قلعہ بند ہو گئے.یہاں چار قلعے تھے اور چاروں قلعوں میں محصور ہو کر لڑائی کی تیاری کرنے لگے.لکھا ہے کہ حضرت خالد بن ولید نے قلعوں کا محاصرہ مندرجہ ذیل طریقہ سے کیا.ضرار بن ازور قصر ابیض کے محاصرہ کے لیے مقرر ہوئے.اس میں ایاس بن قبیصہ طائی پناہ گزین تھا.ضرار بن خطاب قصر عدسپین کے محاصرے کے لیے مقرر ہوئے.اس میں عدی بن عدی پناہ گزین تھا.ضرار بن مقرن قصر بنی مازن کے محاصرہ کے لیے مقرر ہوئے اس میں ابن اشکال پناہ گزین تھا.مثلی بن حارثہ
اصحاب بدر جلد 2 305 حضرت ابو بکر صدیق قصر ابن بقیلہ کے محاصرہ کے لیے مقرر ہوئے اس میں عمر و بن عبد المسیح پناہ گزین تھا.حضرت خالد نے اپنے امرا کے نام یہ فرمان جاری کیا کہ وہ پہلے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں.اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ان کے اسلام کو مان لیں اور اگر وہ انکار کریں تو انہیں ایک دن کی مہلت دیں اور انہیں حکم دیا کہ دشمن کو موقع نہ دیں بلکہ ان سے قتال کریں اور مسلمانوں کو دشمن سے قتال کرنے سے نہ رو لیں.دشمن نے مقابلہ آرائی کو اختیار کیا اور مسلمانوں پر پتھر برسانے شروع کر دیے.مسلمانوں نے ان پر تیروں کی بارش کی اور ان پر ٹوٹ پڑے اور محلات اور قلعوں کو فتح کر لیا.وہاں جو پادری موجود تھے ان پادریوں نے آواز لگائی کہ اے محل والو! ہمیں تمہارے سوا کوئی قتل نہ کرنے پائے.ان کو جوش دلانے کی کوشش کی.محل والوں نے آواز دی.اے عربو! ہم نے تمہاری تین شرطوں میں سے ایک کو قبول کر لیا ہے لہذا تم رُک جاؤ.جب انہوں نے وہاں دیکھا کہ عرب مسلمان غالب آرہے ہیں تو انہوں نے شرطوں پر قلعے کھولنے کا خیال ظاہر کیا.ان محلات کے سردار باہر نکلے.پھر حضرت خالد نے ان محل والوں سے الگ الگ ملاقات کی اور ان کے اس فعل پر ملامت کی.726 اور ملامت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پر افسوس ! تم نے اپنے آپ کو کیا سمجھ کر ہم سے مقابلہ کیا! اگر تم عرب ہو تو کس وجہ سے تم اپنے ہی ہم قوم لوگوں کا مقابلہ کرنے پر آمادہ ہو گئے اور اگر تم بھی ہو تو کیا تمہارا خیال ہے کہ تم ایک ایسی قوم کے مقابلے میں جیت جاؤ گے جو عدل و انصاف میں نظیر نہیں رکھتی ! سر داروں نے جزیہ دینے کا اقرار کر لیا.خالد کو امید تھی کہ ہم قوم ہونے کی وجہ سے یہ عراقی عرب ضرور اسلام قبول کر لیں گے لیکن انہیں بے حد تعجب ہوا جب انہوں نے بدستور عیسائی رہنے پر اصرار کیا.اہل حیرہ کے ساتھ معاہدہ بہر حال حضرت خالد نے اہل حیرہ اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ لکھا جو یہ تھا.بسم اللہ الرحمن الرحیم.یہ وہ معاہدہ ہے جو خالد بن ولید نے عدی بن عدی، عمر و بن عدی، عمرو بن عبد المسیح، ایاس بن قبیصہ اور جیری بن اشکال سے کیا ہے.یہ اہل حیرہ کے سردار ہیں اور حیرہ والے اس معاہدے پر راضی ہیں اور انہوں نے اس کا انہیں حکم دیا ان سے ایک لاکھ نوے ہزار درہم پر معاہدہ کیا ہے جو ہر سال ان سے ان کی حفاظت کے عوض وصول کیا جائے گا.یعنی مقامی لوگوں کی حفاظت کے لیے یہ جزیہ لگایا کہ جو دنیاوی مال و متاع ان کے قبضہ میں ہے خواہ وہ راہب ہوں یا پادری لیکن جن کے پاس کچھ نہیں، دنیا سے الگ ہیں، اس کو چھوڑ چکے ہیں، یہ معاہدہ ان کی حفاظت کی شرط پر ہے.اور اگر وہ ان کی حفاظت کا انتظام نہ کر سکیں تو ان پر کوئی جزیہ نہیں یہاں تک کہ وہ یعنی حاکم ان کی حفاظت کا انتظام کرے.اگر انہوں نے اپنے کسی فعل یا قول کے ذریعہ سے غداری کی تو یہ معاہدہ فسخ ہو جائے گا.یہ معاہدہ ربیع الاول بارہ ہجری میں لکھا گیا.
حاب بدر جلد 2 306 حضرت ابو بکر صدیق یہ تحریر اہل جیزہ کے حوالے کر دی گئی اور جب حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد اہل سواد مرتد ہو گئے تو ان لوگوں نے اس معاہدے کی توہین کی اور اس معاہدے پر عمل نہ کیا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ انہوں نے بھی کفر کا ارتکاب کیا اور لوگوں پر اہل فارس کا تسلط ہو گیا.جب حضرت مثلی نے حضرت عمر کے دور خلافت میں حیرہ کو دوبارہ فتح کیا تو ان لوگوں نے اسی معاہدے کو پیش کیا مگر حضرت منلی نے اس کو قبول نہیں کیا اور ان پر دوسری شرط عائد کی.پھر جب حضرت مثلی بعض مقامات میں مغلوب ہو گئے.جنگوں میں ان کو بھی کچھ پیچھے ہٹنا پڑا تو ان لوگوں نے دوبارہ لوگوں کے ساتھ مل کر کفر اختیار کیا.باغیوں کی اعانت اور معاہدے کی توہین کی اور اس معاہدے پر عمل نہ کیا.پھر جب حضرت سعد نے حیرہ کو فتح کیا تو ان لوگوں نے سابقہ معاہدے پر تصفیہ چاہا تو حضرت سعد نے کہا ان دونوں میں سے کوئی ایک معاہدہ پیش کرو مگر وہ لوگ پیش کرنے سے قاصر رہے.اس پر حضرت سعد نے ان پر خراج عائد کیا اور ان کی مالی استطاعت کی تحقیقات کرنے کے بعد علاوہ موتیوں کے چار لاکھ کا خراج عائد کیا.جب تیرہ فتح ہو گیا تو حضرت خالد نے نماز فتح پڑھی جس میں آٹھ رکعات ایک سلام سے ادا کیں.یعنی اکٹھی آٹھ رکعات پڑھیں.اس سے فارغ ہو کر آئے تو کہا جنگ موتہ میں جب میں نے لڑائی کی تھی تو اس وقت میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹی تھیں.میں نے کبھی کسی قوم سے جنگ نہیں کی جیسی اس قوم سے جنگ کی ہے جو اہل فارس میں سے ہیں اور میں نے اہل فارس میں سے کسی سے جنگ نہیں کی جیسی اہل 727 الیس سے کی.پھر لکھا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت خالد کی خدمت میں تحائف بھی بھیجے تھے لیکن حضرت خالد نے فتح کی خوشخبری کے ساتھ وہ تحائف بھی حضرت ابو بکر کی خدمت میں بھیج دیے.حضرت ابو بکر نے بھی عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار کا سبق دیتے ہوئے ان سب تحائف کو جزیہ میں شمار کر کے قبول کر لیا اور حضرت خالد کو لکھا کہ یہ تحائف اگر جزیہ میں شامل ہیں تو خیر ، ورنہ تم ان کو جزیہ میں شامل کر کے بقیہ رقم وصول کرو.یعنی تحفہ کے طور پر یہ چیزیں وصول نہیں کیں بلکہ جزیہ کے طور پر کیں.مسلمانوں نے حیرہ کے مقامی باشندوں کے ساتھ بڑی کشادہ دلی کا معاملہ کیا.یہ سلوک دیکھ کر گر دو نواح کے زمینداروں اور رئیسوں نے بھی جزیہ دینا قبول کر کے مسلمانوں کی ماتحتی اختیار کرلی.8 فتح حیرہ عظیم جنگی اہمیت کی حامل ثابت ہوئی.اس سے مسلمانوں کی نگاہ میں فتح فارس کی امیدیں بڑھ گئیں کیونکہ عراق اور فارسی سلطنت کے لیے جغرافیائی اور ادبی حیثیت سے اس شہر کی بڑی اہمیت تھی.اس کو اسلامی فوج کے سپہ سالار اعظم نے اپنا مرکز اور صدر مقام قرار دیا جہاں سے اسلامی افواج کو ہجوم و دفاع اور نظم و امداد کے احکام جاری کیے جاتے تھے اور قیدیوں کے امور کے نظم و ضبط سے متعلق تدبیر وسیاست کا مرکز بنایا اور وہاں سے حضرت خالد نے خراج اور جزیہ کو وصول کرنے کے لیے مختلف صوبوں پر عامل مقرر کیے اور اس طرح سرحدوں پر امراء مقرر کیے تاکہ دشمن سے حفاظت ہو 728
اصحاب بدر جلد 2 307 حضرت ابو بکر صدیق سکے اور خود یہاں ٹھہر کر نظام امن و استقرار بحال کرنے میں لگ گئے.آپ کی خبریں جاگیر داروں اور سرداروں کو ملیں.وہ آپ سے مصالحت کے لیے آگے بڑھے.جب انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ فتح پا رہے ہیں تو انہوں نے مصالحت کر لی.سواد عراق اور اس کے اطراف میں کوئی باقی نہ رہا جس نے مسلمانوں کے ساتھ مصالحت یا معاہدہ نہ کر لیا ہو.حضرت خالد ایک سال تک حیرہ میں مقیم رہے اور شام کی طرف روانگی سے قبل اس کے بالائی اور زیر میں علاقوں میں دورے کرتے رہے اور اہل فارس بادشاہ بناتے رہے اور معزول کرتے رہے.730 ایرانی بادشاہ کے نام حضرت خالد کا ایک خط 729 یعنی اس کے مقابلے میں اہل فارس نے کیا کیا وہاں صرف بادشاہ بنتے رہے اور معزول ہوتے رہے.جب عراق کی فضا سازگار ہو گئی اور جیزہ و دجلہ کے درمیان عرب علاقوں سے فارسی حکومت کے ختم ہو جانے سے پیچھے سے خطرہ باقی نہ رہا تو حضرت خالد نے براہ راست ایران پر حملہ آور ہونے کا عزم کر لیا اور اس دوران میں اردشیر کسری کے مر جانے سے ایرانی حکومت خلفشار کا شکار ہوئی.ان کے در میان اس کے جانشین کے انتخاب کے سلسلہ میں سخت اختلاف رونما ہوا.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت خالد نے ان کے بادشاہوں اور امراء و خاص لوگوں کو خط لکھے.ان بادشاہوں کو تحریر کرتے ہوئے فرمایا: خالد بن ولید کی جانب سے بادشاہان فارس کے نام.اَمَّا بَعْدُ ! اللہ ہی کے لیے تمام حمد ہے جس نے تمہارے نظام کو توڑ دیا.تمہاری چال ناکام کر دی.تمہارے اندر اختلاف بر پا کر دیا.تمہاری قوت کمزور کر دی.تمہارے مال چھین لیے.تمہارے غلبہ و عزت کو خاک میں ملا دیا.لہذا جب تمہیں میرا یہ خط ملے اسلام قبول کرو، محفوظ و مامون رہو گے یا پھر معاہدہ کر کے جزیہ دینے پر راضی ہو جاؤ.اگر اسلام قبول نہیں کرنا تو صلح کا معاہدہ کر لو اور جزیہ دینے پر راضی ہو جاؤ اور اگر ایسا کروگے تو ہم تمہیں اور تمہارا علاقہ چھوڑ کر دوسری طرف چلے جائیں گے.ورنہ اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں ایسی فوج لے کر تمہارے پاس آؤں گا جو موت سے ایسی ہی محبت کرتی ہے جس طرح تم زندگی سے محبت رکھتے ہو اور آخرت میں اتنی ہی رغبت رکھتے ہیں جتنی رغبت تمہیں دنیا سے ہے.اور ایرانی عمال و امرا کو خط تحریر کرتے ہوئے فرمایا.خالد بن ولید کی طرف سے فارس کے امراء کے نام.یہ خط خالد بن ولید کی طرف سے ایرانی عمال و امرا کے نام ہے تم لوگ اسلام قبول کر لو سلامت رہو گے یا جزیہ ادا کرو ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے ورنہ یاد رکھو کہ میں نے ایسی قوم کے ساتھ تم پر چڑھائی کی ہے جو موت کی اتنی ہی فریفتہ ہے جتنا تم شراب نوشی کے.حیرہ کی فتح سے عراق کو فتح کرنے اور اس کو اسلامی سلطنت کے تابع کرنے سے متعلق حضرت ابو بکر کی آرزوؤں کا ایک حصہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا جو ایران پر براہ راست حملہ آور ہونے کی تمہید تھی.حضرت خالد نے اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری اچھے طریقے سے ادا کی اور تھوڑی ہی مدت میں حیرہ تک
حاب بدر جلد 2 308 حضرت ابو بکر صدیق پہنچ گئے کیونکہ عراق کے خلاف آپ کی مہم کا آغاز محرم بارہ ہجری میں معرکہ کاظمہ سے ہوا اور اسی سال ربیع الاول بارہ ہجری میں جیزہ فتح ہو گیا.جنگ انبار یا ذات العيون پھر اس کے بعد جنگ انبار یا ذات العیون کا ذکر ہے جو بارہ ہجری میں ہوئی.ایرانی فوج حیرہ کے بالکل قریب انبار اور عین التمر میں خیمہ زن ہو چکی تھی.انبار بھی بغداد کے قریب ایک شہر ہے.انبار کی وجہ تسمیہ میں لکھا ہے کہ عربی زبان میں انبار غلہ و سامان رکھنے کی کو ٹھڑی کو کہتے ہیں اور اس شہر کو انبار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہاں کھانے پینے کی چیزیں بکثرت موجود تھیں.عین التمر انبار کے قریب کوفہ کے مغرب میں واقع ایک شہر ہے.لکھا ہے کہ اسلامی فوج کو ان مقامات میں ایرانی فوج کی موجودگی سے سخت خطرہ پید اہو چکا تھا.ان حالات میں اگر حضرت خالد بن ولید خاموشی سے حیرہ میں بیٹھے رہتے اور باہر نکل کر ایرانی فوجوں کے خلاف کارروائی نہ کرتے تو اندیشہ تھا کہ مسلمان اس علاقے یعنی حیرہ جسے مسلمانوں نے فتح کیا تھا اس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جو انتہائی مشقت کے بعد ان کے ہاتھ آیا تھا.چنانچہ حضرت خالد بن ولید نے فوج کو تیار ہونے کا حکم دیا.31 چیزہ اور اس کے گرد و نواح میں جب حالات قابو میں آگئے اور امن بحال ہو گیا تو حضرت خالد نے حیرہ پر حضرت قعقاع بن عمر و تمیمی کو اپنا نائب مقرر کر کے خود حضرت عیاض بن غنم کی امداد کے لیے روانہ ہوئے.حضرت عیاض بن غنم کو حضرت ابو بکر صدیق نے شمال سے عراق کی فتح کے لیے روانہ کیا تھا اور انہیں حضرت خالد بن ولید سے جاملنے کا حکم دیا تھا.انبار کے لشکر کا سپہ سالار ساباط کا رئیس شیر زاد تھا.وہ اپنے زمانے میں بڑا عقل مند ، معزز اور عرب و عجم میں ہر دلعزیز جمی تھا.ساباط بھی مدائن میں ایک مشہور جگہ کا نام ہے.بہر حال لکھا ہے کہ اہل انبار قلعہ بند ہو گئے اور ان لوگوں نے قلعہ کے ارد گرد خندق کھو دی ہوئی تھی جس کو پانی سے بھر دیا گیا تھا اور یہ خندق قلعہ کی دیوار کے بہت قریب تھی.کوئی بھی مسلمان اگر اس کے قریب بھی ہوتا تو قلعہ کی دیواروں میں متعین مخالف سپاہی زبر دست تیر اندازی سے مسلمانوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتے.وہ لوگ اسی حالت میں تھے کہ حضرت خالد اپنے لشکر کے اگلے حصہ کو لے کر وہاں پہنچے.انہوں نے خندق کے اطراف ایک چکر لگایا، قلعہ کے دفاعی انتظامات کا جائزہ لیا اور اپنی خداداد فراست سے ایک منصوبہ بنایا.حضرت خالد اپنے تیر اندازوں کے پاس گئے اور ایک ہزار تیر انداز منتخب کیسے جو بہت اچھے نشانہ باز تھے اور ان کو ہدایت کی اور کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ اصولِ جنگ سے بالکل نا آشنا ہیں.تم لوگ صرف ان کی آنکھوں کو اپنے تیروں کا نشانہ بناؤ اور اس کے سوا کہیں اور نہ مارو.چنانچہ ان 732
حاب بدر جلد 2 309 حضرت ابو بکر صدیق رض لوگوں نے ایک ساتھ تیر چلائے اور اس کے بعد کئی دفعہ ایسا ہی کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس روز تقریباً ایک ہزار آنکھیں پھوٹ گئیں.اسی لیے یہ جنگ ذات العیون کے نام سے بھی مشہور ہے یعنی آنکھوں والی جنگ.دشمنوں میں شور مچ گیا کہ اہل انبار کی آنکھیں جاتی رہیں لیکن اس پر بھی حاکم انبار نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے سے پس و پیش کی تو حضرت خالد بن ولید اپنی فوج کے کچھ کمزور اور نڈھال اونٹ لے کر خندق کے تنگ ترین مقام پر آئے.پھر اونٹوں کو ذبح کر کے اس خندق میں ڈال دیا جس سے وہ بھر گئی اور ان جانوروں سے ایک پل بن گیا.اب مسلمان اور مشرکین خندق میں ایک دوسرے کے سامنے تھے.یہ دیکھ کر دشمن پسپا ہو کر قلعہ بند ہو گیا.چنانچہ حاکم انبار شیر زاد نے پھر حضرت خالد بن ولید سے صلح کے لیے مراسلت کی اور درخواست کی کہ مجھ کو سواروں کے ایک دستے کے ساتھ جن کے ساتھ سامان وغیرہ کچھ نہ ہو یہاں سے نکلنے اور اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کی اجازت دی جائے.حضرت خالد بن ولید نے اس کو منظور کر لیا.یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جو مؤرخ اور سیرت نگار حضرت خالد پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ حضرت خالد وحشت و بربریت کا بازار گرم رکھتے تھے اور قتل و غارت گری کیسے جاتے تھے ان کے لیے قابل غور ہے کہ سخت ترین جنگ کرنے اور بار بار صلح کی پیشکش کو بھی قبول نہ کرنے کے باوجود اس پر، دشمن پہ غلبہ پا لیا اور اس نے جب یہاں سے جانے کی اجازت مانگی تو پھر تین دن کا سامان رسد ساتھ لے کر جانے کی اجازت بھی دے دی اور کسی قسم کا تعرض نہیں کیا.پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ پر یہ الزام ہے کہ آپ ظلم کیا کرتے تھے.جب شیر زاد یہاں سے جان بچا کر بہن جا ذویہ کے پاس پہنچا اور اس کو واقعات سے مطلع کیا تو اس نے شیر زاد کو ملامت کی اور اس پر شیر زاد نے کہا کہ میں وہاں ایسے لوگوں میں تھا جو عقل سے عاری تھے اور جو عربوں کی نسل سے تھے.اس کا مسلمانوں کی طرف اشارہ نہیں تھا بلکہ اہل انبار میں سے عرب قبیلے کے لوگوں کی طرف اشارہ تھا جن کو کچھ پتہ نہیں تھا.شیر زاد نے کہا میں نے سنا کہ مسلمان اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر ہم پر حملہ آور ہیں اور جب بھی کوئی قوم اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر کام کرے تو فتح اس پر واجب ہو جاتی ہے.چنانچہ جب ان سے ہماری فوج کا مقابلہ ہوا تو انہوں نے ہمارے قلعہ اور زمینی لشکر میں سے ایک ہزار آنکھیں پھوڑ ڈالیں.اس سے مجھے معلوم ہوا کہ صلح کرنا ہی بہتر ہے.جب حضرت خالد بن ولید کو رسب مسلمانوں کو انبار کے حالات کے بارے میں اطمینان ہو گیا اور اہل انبار بھی بے خوف ہو کر باہر آگئے تو حضرت خالد بن ولید نے دیکھا کہ وہ لوگ عربی زبان لکھتے پڑھتے ہیں.تو حضرت خالد نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہم عرب کی ہی ایک قوم ہیں اور ہم یہاں ان عربوں کے پاس آکر اترے تھے جو ہم سے پہلے یہاں آباد تھے اور وہ پہلے عرب بخت نصر کے عہد میں آئے تھے جب اس نے عربوں کو آباد ہونے کی اجازت دی تھی اور پھر یہیں رہ پڑے.حضرت خالد نے پوچھا تم نے لکھنا کس سے سیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے لکھنا عربی قبیلہ بنو ایاد سے سیکھا ہے.اس کے بعد حضرت
اصحاب بدر جلد 2 310 حضرت ابو بکر صدیق خالد نے انبار کے اطراف کے لوگوں سے بھی صلح کر لی.733 جنگ عین التمر پھر جنگ عین التمر بھی بارہ ہجری میں لڑی گئی، اس کا ذکر ہے.جب حضرت خالد انبار کی فتح.فارغ ہوئے اور وہ مکمل طور پر آپ کے قبضہ میں آ گیا تو آپ نے اس کے قریبی علاقہ عین التمر کا قصد کیا جو عراق اور صحرائے شام کے درمیان صحرا کے کنارے واقع ہے.انبار سے عین التمر تک پہنچنے میں تین دن لگے.ایرانیوں کی طرف سے وہاں کا حاکم مہران بن بہرام تھا.وہ عجمیوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ وہاں موجود تھا.ایرانی فوج کے علاوہ عرب کے مختلف بدوی قبائل بھی وہاں موجود تھے جن کا سر دار عقہ بن ابی عقہ تھا.جب ان لوگوں نے حضرت خالد کے متعلق سنا تو عقہ نے مہران سے کہا عرب عربوں سے جنگ کرنا خوب جانتے ہیں.پس ہمیں اور خالد کو چھوڑ دو.اس کو یہ زعم تھا کہ ہمیں پتا ہے ہم ان سے کس طرح جنگ کریں گے.مہران نے کہا تم نے ٹھیک کہا ہے کہ عربوں سے لڑنے میں تم ایسے ہی ماہر ہو جیسے ہم عجمیوں سے لڑنے میں ماہر ہیں.اس طرح اس نے عقہ کو دھوکا دیا اور اس کے ذریعہ اپنا بچاؤ کیا اور اس نے کہا: تم ان سے لڑو اگر تمہیں ہماری ضرورت ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے.جب عقہ حضرت خالد کے مقابلے کے لیے چلا گیا تو عجمیوں نے عقہ کے متعلق انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے مہران سے کہا.تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا کہ تم اس سے یہ بات کرو.اس نے کہا تم مجھے چھوڑ دو.میں نے وہی چاہا جو تمہارے لیے بہتر اور مسلمانوں کے لیے برا ہے.یقینا تمہارے پاس وہ بندہ آ رہا ہے جس نے تمہارے بادشاہوں تک کو قتل کر دیا ہے، حضرت خالد بن ولید کے بارے میں کہا، بڑے زبر دست سپہ سالار ہیں اور تمہاری شوکت و سطوت کو روند کر رکھ دیا ہے.پس میں نے تو عقہ کو ان کے مقابلے میں بطور ڈھال استعمال کیا ہے.اگر ان کو خالد کے مقابلے میں فتح حاصل ہوئی تو یہ فتح تمہاری ہو گی اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہوا تو تم مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں جاؤ گے مگر اس حال میں کہ وہ کمزور پڑ چکے ہوں گے.پھر ہم ان سے جنگ کریں گے تو ہم طاقتور اور وہ کمزور ہوں گے.یہ بات سن کر انہوں نے مہران کی رائے کی برتری کا اعتراف کر لیا.مہران و ہیں عین التمر میں مقیم رہا اور عقہ نے حضرت خالد کے مقابلے کے لیے راستے میں پڑاؤ ڈال لیا.734 عقہ ابھی اپنے لشکر کی صفیں ہی درست کر رہا تھا کہ حضرت خالد نے بذات خود اس پر حملہ کر دیا اور اسے قید کر لیا اور اس کا لشکر بغیر لڑائی کے ہی شکست کھا کر بھاگ گیا اور ان میں سے اکثر کو قید کر لیا گیا.جب یہ خبر مہران تک پہنچی تو وہ اپنے لشکر کو لے کر فرار ہو گیا اور انہوں نے قلعہ چھوڑ دیا.جب شکست کھانے والے اس قلعہ تک پہنچے، اس میں پناہ لی اور حضرت خالد نے ان کا محاصرہ کر لیا جس پر انہوں نے حضرت خالد سے امان طلب کی مگر آپ نے انکار کر دیا.انہوں نے آپ کا فیصلہ قبول کرتے
اصحاب بدر جلد 2 311 حضرت ابو بکر صدیق ہوئے ہتھیار ڈال دیے اور آپ نے انہیں قیدی بنالیا اور عقہ اور جو لوگ اس کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شامل تھے ان سب کو قتل کر دیا اور جو قلعہ میں تھے ان کو قید کر لیا اور جو سامان قلعہ میں موجود تھا اس کو بطور غنیمت لے لیا.آپ نے ان کے کلیسیا کے اندر چالیس لڑکوں کو پایا جنہیں عیسائیوں نے گروی بنا لیا تھا.یہ لڑ کے بیشتر عربی نژاد تھے.ان لڑکوں کو اسلامی تاریخ میں اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ ان کی اولاد میں سے ایسے بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اس عہد میں اور بعد کے عہد کی تاریخ پر گہرے اور ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں.ان لڑکوں میں محمد بن سیرین کے والد سیرین، موسیٰ بن نصیر کے والد نصیر اور حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام حمران بھی شامل تھے.سیرین عراق کے رہنے والے تھے.معرکہ عین التمر میں قیدی ہوئے اور حضرت انس بن مالک کے غلام بنے.وہ بہت بڑے صناع تھے.انہوں نے حضرت انس سے مکاتبت کرتے ہوئے آزادی حاصل کر لی تھی.ان کے بیٹے کا نام محمد بن سیرین تھا جو مشہور تابعی تھے اور تفسیر اور حدیث اور فقہ اور تعبیر الرؤیا وغیر ہ فنون میں امام تھے.یہ محمد بن سیرین ان کے بیٹے تھے جو جنگ میں قیدی بنائے گئے تھے اور پھر بعد میں انہوں نے آزادی لے لی.پھر نصیر تھے یہ موسیٰ بن نصیر کے والد تھے.یہ بنو امیہ کے قیدیوں میں سے تھے.بنو امیہ کے کسی شخص نے انہیں آزاد کروایا تھا.یہ اپنے بیٹے موسیٰ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں.موسیٰ بن نصیر نے شمالی افریقہ میں شہرت پائی اور طارق بن زیاد کے ساتھ مل کر سپین میں اسلامی حکومت قائم کرنے میں بہت بڑا کر دار ادا کیا تھا.پھر حمران بن ابان بھی معرکہ عین التمر کے قیدیوں میں سے تھے.یہ یہود میں سے تھے.انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا.حضرت عثمان نے انہیں آزاد کر وا دیا.حضرت عثمان کا خاص قرب پانے والے تھے.اکتالیس ہجری میں یہ کچھ عرصہ کے لیے بصرہ کے حاکم بنے اور بعد میں بنو امیہ کی حکومت میں بڑا نام پیدا کیا.حضرت خالد نے فتح کی خوشخبری اور خمس حضرت ابو بکر کی خدمت میں بھیج دیا.انبار اور عین التمر کی فتح کے بعد خالد نے ولید بن عقبہ کو خمس دے کر فتح کی خوشخبری کے ساتھ حضرت ابو بکر کی خدمت میں بھیجا.انہوں نے مدینہ پہنچ کر انہیں تمام حالات سے آگاہ کیا اور بتایا 735 کہ خالد نے ان کے احکام نظر انداز کرتے ہوئے حیرہ اس لیے چھوڑا اور انبار اور عین التمر پر اس.چڑھائی کی کہ انہیں جیزہ میں قیام کیے ہوئے پورا ایک سال ہو گیا تھا.حضرت ابو بکڑ نے ہدایت دی تھی وہاں حیرہ میں انتظار کرنا لیکن بہر حال انہوں نے یہ کیا.ان حالات میں اسی کو بہتر سمجھا اور عیاض کا کچھ پتا نہ تھا کہ وہ کب دومة الجندل سے فارغ ہو کر خالد کی مدد کے لیے حیرہ پہنچتے ہیں.دیر ہو گئی تھی.عیاض وہاں پہنچ نہیں رہے تھے.حضرت ابو بکر بھی عیاض کی ست روی سے تنگ آچکے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ مسلمانوں کے حوصلے پست کر رہے ہیں.اگر دشمن کو خالد کے ان کارناموں کی اطلاعات ملتی رہتیں جو انہوں نے عراق میں انجام دیے تھے تو یقیناً وہ عیاض کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو سخت زک پہنچاتے.736
حاب بدر جلد 2 312 حضرت ابو بکر صدیق جنگ دُومَةُ الْجَنْدَل 737 پھر جنگ دُوْمَةُ الْجَندَل ہے.یہ بھی بارہ ہجری کی ہے.دُوْمَةُ الْجَنْدَل دمشق سے پانچ راتوں اور مدینہ سے پندرہ راتوں کی مسافت پر ایک شہر ہے.یعنی اس زمانے کے جو سفر کے ذرائع تھے اس کے مطابق.شام کا یہ شہر مدینہ کے سب سے زیادہ قریب ہے.حضرت عیاض بن غنم جنہیں حضرت ابو بکر نے دومہ کی طرف بھیجا تھا انہیں طویل مدت تک دشمن کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اس لیے وہ حضرت خالد سے نہ مل سکے.جب حضرت خالد نے ولید بن عقبہ کو عین التمر کی فتح کی خبر دے کر حضرت ابو بکر کی خدمت میں روانہ کیا تو حضرت ابو بکر کو عیاض کے بارے میں پریشانی ہوئی.چنانچہ آپ نے ولید بن عقبہ کو عیاض کی مدد کے لیے بھیج دیا.جب ولید بن عقبہ حضرت عیاض کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت عیاض نے دشمن کو گھیر رکھا ہے اور دشمن نے انہیں گھیر رکھا ہے اور ان کا راستہ بھی روک رکھا ہے.ولید بن عقبہ نے حضرت عیاض سے کہا کہ بعض اوقات فوج کی کثرت تعداد کے مقابلے میں ایک عقل کی بات زیادہ کار گر ہوتی ہے.آپ حضرت خالد بن ولید کے پاس قاصد بھیجیے اور ان سے مدد طلب کیجئے.حضرت عیاض کے لیے ولید کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ انہیں دومۃ الجندل پہنچے ہوئے سال بھر ہو چکا تھا اور ابھی تک فتح کی کوئی شکل نہ نظر آتی تھی.حضرت عیاض نے ایسا ہی کیا.جب ان کا قاصد مدد طلب کرنے کے لیے حضرت خالد کے پاس پہنچا تو اس وقت عین التمر فتح ہو چکا تھا.انہوں نے حضرت عیاض کے نام ایک مختصر خط دے کر قاصد کو فوراً واپس کر دیا کہ ان کی پریشانی کچھ کم ہو جائے.خط میں لکھا تھا کہ تھوڑا ٹھہریں.سواریاں آپ کے پاس پہنچ رہی ہیں جن پر شیر سوار ہوں گے اور تلواریں چمک رہی ہوں گی لشکر فوج در فوج پہنچ رہے ہوں گے.پھر حضرت خالد بن ولید کی دومۃ الجندل روانگی کے بارے میں آتا ہے کہ جب حضرت خالد عین التمر کی فتح سے فارغ ہوئے تو اس میں عویم بن کاہل اسلمی کو نگران مقرر کیا اور خود اپنی فوج کو جو عین التمر میں تھی لے کر دومۃ الجندل کی طرف روانہ ہوئے.تین سو میل کا یہ فاصلہ حضرت خالد بن ولید نے دس روز سے بھی کم عرصہ میں طے کیا.اہل دومہ کو حضرت خالد کے آنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنے حلیف قبائل سے مدد طلب کی.یہ قبائل اپنے ساتھ کئی اور قبائل کو ملا کر دُومة الجندل پہنچے اور ان کی تعداد اس وقت سے کئی گنا زیادہ تھی جب ایک سال قبل حضرت عیاض ان کی سرکوبی کے لیے پہنچے تھے.دُوْمَةُ الجندل کی فوج دو بڑے حصوں میں منقسم تھی.فوج کے دو سر دار تھے.ایک اکیلا بن عبد الملک اور دوسرا جودی بن ربیعہ.جب ان کو حضرت خالد کی آمد کی اطلاع ملی تو ان میں اختلاف پیدا ہو گیا.اکیدر نے کہا کہ میں خالد کو خوب جانتا اور 738
حاب بدر جلد 2 313 حضرت ابو بکر صدیق 739 ہوں اس سے بڑھ کر کوئی شخص اقبال مند نہیں ہے اور نہ اس سے زیادہ کوئی جنگ میں تیز ہے.جو قوم خالد سے مقابلہ کرتی ہے خواہ وہ تعداد میں کم ہو یا زیادہ ضرور شکست پاتی ہے.تم لوگ میرے مشورے پر عمل کرو اور ان لوگوں سے صلح کر لو مگر انہوں نے اس کا انکار کر دیا اس پر اکیدر نے کہا میں خالد کے ساتھ لڑنے میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا.تم جانو اور تمہارا کام جانے.یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دیا.اس کی اطلاع حضرت خالد کو ہو گئی.انہوں نے اس کا راستہ روکنے کے لیے عاصم بن عمرو کو بھیجا.صلح کے لیے راضی نہیں ہوا تھا بلکہ وہاں سے چھوڑ کے چلا گیا، اپنے علاقے کی طرف جارہا تھا.عاصم نے اکیدر کو جا پکڑا.اس نے کہا تم مجھے اپنے امیر خالد کے پاس لے چلو.جب وہ حضرت خالد کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اکیدر کو قتل کروادیا اور اس کے تمام سامان پر قبضہ کر لیا.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اکیدر کو قید کرنے کے بعد کیوں قتل کیا گیا تھا تو اس کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ حضرت خالد کو غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی الیم نے اکیدر کی طرف روانہ کیا تھا.آپ اس کو قید کر کے رسول اللہ صلی یکم کی خدمت میں لے آئے تھے.رسول اللہ صلی الیم نے اس پر احسان کر کے اسے چھوڑ دیا تھا اور اس سے معاہدہ لکھوایا تھا لیکن اس نے اس کے بعد بد عہدی کی اور اس نے مدینہ کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی.جس وقت اکیدر کو حضرت خالد کے دومۃ الجندل آنے کی اطلاع ملی تو یہ اپنی قوم کا ساتھ چھوڑ کر نکل گیا.حضرت خالد کو دومۃ الجندل کے راستے میں اس کی خبر ملی جیسا بیان ہوا ہے.آپ نے عاصم بن عمرو کو اس کے گرفتار کرنے کے لیے روانہ کیا.انہوں نے اسے گرفتار کر لیا اور اس کی سابقہ خیانت کی وجہ سے حضرت خالد نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اس کو قتل کر دیا گیا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی خیانت اور غداری کی وجہ سے اسے ہلاک کیا.بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسے قید کر کے مدینہ بھیج دیا گیا تھا اور حضرت عمرؓ کے عہد میں اسے رہائی ملی اور وہ مدینہ سے عراق چلا گیا.وہاں عین التمر کے مقام دومہ ہی میں قیام پذیر ہوا 741 740 اور آخر تک وہیں رہا.742 یہ دو روایتیں ہیں.بہر حال اہل دومہ سے لڑائی کا جو واقعہ ہے اس بارہ میں لکھا ہے کہ حضرت خالد آگے بڑھ کر دومہ پہنچے.حضرت خالد نے دومہ کو اپنی اور حضرت عیاض کی فوج کے وسط میں لے لیا.نصرانی عرب جو اہل دومہ کی امداد کے لیے آئے تھے وہ قلعہ کے اطراف میں بیرونی جانب تھے کیونکہ قلعہ میں ان کی گنجائش نہیں تھی.جب حضرت خالد اطمینان سے صف آرائی کر چکے تو دومہ کے سر داروں نے قلعہ سے نکل کر حضرت خالد پر حملہ کر دیا.دونوں فریقوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی.بالآخر حضرت خالد اور حضرت عیاض نے اپنے مد مقابل کو شکست دی.حضرت خالد نے ایک سردار جو دی اور حضرت اقرع بن حابس نے ودیعہ کو گرفتار کر لیا جو قبیلہ کلب کا سر دار تھا.باقی لوگ پسپا ہو کر قلعہ بند ہو گئے مگر قلعہ میں کافی گنجائش نہیں تھی.جب قلعہ بھر گیا تو اندر والوں نے بہت سے لوگوں کو
اصحاب بدر جلد 2 314 حضرت ابو بکر صدیق باہر چھوڑ کر قلعہ کا دروازہ بند کر لیا جس کی وجہ سے باہر کے لوگ حیران و پریشان پھرنے لگے.عاصم بن عمرو نے کہا اے بنو تمیم ! اپنے حلیف قبیلہ کلب کی مدد کرو اور ان کو پناہ دو کیونکہ تمہیں ان کی امداد کا ایسا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا.یہ سن کر بنو تمیم نے ان کی مدد کی.اس روز عاصم کے امان دینے کی وجہ سے کلب قبیلہ کی جان بچ گئی.حضرت خالد نے قلعہ کی طرف پسپا ہونے والوں کا پیچھا کیا اور اتنے آدمی قتل کیے کہ ان کی لاشوں سے قلعہ کا دروازہ مسدود ہو گیا.پھر جو دی اور اس کے ساتھ باقی قیدیوں کو بھی قتل کر دیا.صرف کلب کے قیدی بچ گئے کیونکہ عاصم اور اقرع اور بنو تمیم نے کہہ دیا تھا کہ ہم نے ان کو امان دی ہے.پھر حضرت خالد قلعہ کے دروازے پر مسلسل چکر لگاتے رہے یہاں تک کہ اس کو توڑ کر دم لیا.مسلمان قلعہ میں گھس گئے.جنگجوؤں کو قتل کیا گیا اور نو عمروں کو قیدی بنالیا گیا.743 فتح کے بعد حضرت خالد نے اقرع بن حابس کو انبار واپس جانے کا حکم دیا اور خود دومۃ الجندل میں قیام کیا.744 دومة الجندل کے فتح ہونے سے مسلمانوں کو جنگی اعتبار سے بڑا اہم مقام حاصل ہو گیا کیونکہ دومۃ الجندل ایسے راستے پر واقع تھا جہاں سے تین سمتوں میں اہم راستے نکلتے تھے.جنوب میں جزیرہ نمائے عرب اور شمال مشرق میں عراق اور شمال مغرب میں شام.طبعی طور پر یہ شہر حضرت ابو بکر اور آپ کی فوج کی توجہ اور اہتمام کا مستحق تھا جو عراق میں بر سر پیکار تھی اور شام کی سرحدوں پر کھڑی تھی.یہی سبب تھا کہ حضرت عیاض نے دُومة الجندل سے حرکت نہ کی بلکہ وہاں ڈٹے رہے اور حضرت خالد کے وہاں پہنچنے کا انتظار کیا.اگر دُومة الجندل مسلمانوں کے قبضہ میں نہ آتا تو عراق میں مسلم فوجوں کے لیے خطرات کا سامنا تھا.5 جنگ حصید اور خنافس 745 پھر جنگ حصید اور خنافس کا ذکر ہے.حصید کو فہ اور شام کے درمیان ایک چھوٹی سی وادی ہے.خنافس عراق کی طرف انبار کے قریب ایک جگہ ہے.لکھا ہے کہ حضرت خالد بن ولید دومۃ الجندل میں مقیم تھے اور عجمی بدستور حضرت خالد کے خلاف، مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے.عقہ کے انتقام کے جوش میں جزیرے کے عربوں نے عجمیوں سے ساز باز کر لی تھی.چنانچہ بغداد سے زر مہر اور اس کے ساتھ روز بہ انبار کی طرف روانہ ہوئے اور دونوں نے حصید اور خنافس پر ملنے کا وعدہ کیا.حیرہ میں حضرت خالد بن ولید کے نائب حضرت قعقاع بن عمرو نے یہ خبر سنی تو آپ نے اعبد بن فد کی کو حصید کی طرف پہنچنے کا حکم دیا اور عروہ بن جعد کو خنافس کی طرف روانہ کیا.حضرت خالد بن ولید دومہ سے جیزہ واپس آئے تو آپ کو بھی اس کی اطلاع ملی.حضرت خالد م کا مدائن پر چڑھائی کا ارادہ تھا مگر یہاں پہنچ کر جب ان واقعات کا علم ہوا تو آپ نے حضرت قعقاع بن عمرو اور ابولیلی کو روز بہ اور زر مہر کے
حاب بدر جلد 2 315 حضرت ابو بکر صدیق مقابلے کے لیے بھیج دیا.حضرت خالد بن ولیڈ کے پاس امراء القیس کلبی کا خط آیا.یہ قبیلہ قضاعہ اور کلب پر رسول اللہ صلی علیم کے عامل تھے.حضرت ابو بکر کے دورِ خلافت میں یہ اسلام پر ثابت قدم رہے تھے.ان کا خط آیا کہ ھذیل بن عمران نے مصیح میں اور ربیعہ بن بجید نے شنی اور بشر میں فوجیں جمع کی ہیں یہ لوگ عقہ کے انتقام کے جوش میں روز بہ اور زر مہر کے پاس جا رہے ہیں.یہ معلوم ہوتے ہی حضرت خالد بن ولید نے حیرہ پر حضرت عیاض بن غنم کو اپنا نائب مقرر کیا اور خود وہاں سے روانہ ہوئے.آپ نے خنافس جانے کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جس سے قعقاع اور ابو سیلی گئے تھے.آپ عین التمر میں ان دونوں سے مل گئے.یہاں آکر آپ نے حضرت قعقاع کو امیر فوج بنایا اور ان کو حصید کی طرف روانہ کیا اور ابولیلی کو خنافس کی طرف بھیجا اور ان دونوں کو حکم دیا کہ دشمن اور ان کے بھڑ کانے والوں کو گھیر کر ایک جگہ جمع کرو اور اگر وہ جمع نہ ہوں تو اسی حالت میں ان پر حملہ کر دو.حضرت قعقاع نے جب دیکھا کہ زر مہر اور روز بہ کوئی حرکت نہیں کر رہے تو انہوں نے حصید کی طرف پیش قدمی کی.اس طرف کی عربی و عجمی فوجوں کا سر دار روز بہ تھا.جب اس نے دیکھا کہ قعقاع اس کی طرف آرہے ہیں تو اس نے زر مہر سے مدد طلب کی.زر مہر نے اپنی فوج پر نائب مقرر کیا اور بذات خود روز بہ کی مدد کے لیے آیا.حصید میں دونوں فریقوں کا مقابلہ ہوا.بڑی شدت کی جنگ ہوئی.اللہ نے عجمیوں کی بہت بڑی تعداد کو قتل کرایا.قعقاع نے زرمھر کو قتل کیا اور روز بہ بھی مارا گیا.اس جنگ میں کثیر مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا.حصید کے بھاگے ہوئے لوگ خنافس میں جا کر جمع ہو گئے.جنگ خنافس کے بارے میں لکھا ہے کہ ابولیلی اپنی فوج اور جو کمک ان کے پاس آئی تھی ان کو لے کر خنافس کی طرف نکلے.حصید کا شکست خوردہ لشکر زر مہر کے نائب کے پاس پہنچا.جب اس کو مسلمانوں کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ خنافس چھوڑ کر سب کے ساتھ مصیح بھاگ گیا.وہاں کا افسر ھذیل تھا.خنافس کی فتح کے لیے ابولیلی کو کچھ دشواری پیش نہ آئی.ان تمام فتوحات کی اطلاع حضرت خالد بن ولید کی خدمت میں بھیج دی گئی.46 جنگ مصیخ 746 جنگ مصیخ.حضرت خالد بن ولید کو اہل حصید اور اہل خنافس کے بھاگنے کی اطلاع ہوئی تو آپے نے حضرت قعقاع، ابولیلی اعبد اور عروہ کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے ان کو ایک رات ایک وقت مقرر کر کے مصیح پر ملنے کا وعدہ کیا.مصیح خوران اور قلت کے درمیان واقع ہے.حوران بھی دمشق کے قریب ایک وسیع علاقہ ہے جہاں بیشمار بستیاں اور کھیت ہیں.حضرت خالد بن ولید عین التمر سے مصیخ روانہ ہوئے اور مقررہ رات کو طے شدہ وقت کے مطابق حضرت خالد بن ولید اور ان کے افسروں نے مصیخ پر ایک دم حملہ کر دیا اور ھذیل اس کی فوج اور تمام پناہ گزینوں پر تین اطراف سے حملہ کر دیا اور ھذیل چند لوگوں کے ساتھ جان بچا کر بھاگ گیا.747
اصحاب بدر جلد 2 316 حضرت ابو بکر صدیق اس جنگ کے دوران دو ایسے مسلمان اسلامی فوج کے ہاتھ مارے گئے جو مصبح میں مقیم تھے اور جن کے پاس حضرت ابو بکر صدیق کا عطا کیا ہوا امان نامہ بھی تھا.جب حضرت ابو بکر صدیق کو ان کے مارے جانے کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کا خون بہا ادا کر دیا.حضرت عمرؓ نے اصرار کیا کہ حضرت خالد بن ولید گو ان کے اس فعل کی سزاملنی چاہیے.حضرت عمر بڑے پر جوش تھے کہ کیوں مسلمانوں کو قتل کیا لیکن حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ جو مسلمان دشمن کی سرزمین میں دشمن کے ساتھ قیام پذیر ہوں گے ان کے ساتھ ایسی صور تحال پیدا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے.اس طرح ہو جاتا ہے.تاہم حضرت ابو بکر نے ان کی اولاد کی پرورش اور ان کا خیال رکھنے کے متعلق وصیت بھی فرمائی.748 شنی اور زمیل کا واقعہ.زمیل ایک مقام ہے.اس کا نام بشر بھی آتا ہے.یہ منی مقام کے ساتھ ہے.عقہ جو معرکہ عین التمر میں مارا گیا تھا اس کے انتقام کے جوش میں ربیعہ بن بجیر اپنی فوج کو لے کر شنی اور بشر میں اترا اور حضرت خالد نے مصیح کے معرکہ کو سر کر کے قعقاع اور ابو لیلیٰ کو اپنے آگے روانہ کر دیا اور ایک رات مقرر کر کے طے کیا کہ ہم سب مصیح کی طرح یہاں بھی تین مختلف سمتوں سے دشمن پر حملہ کریں گے.اس کے بعد حضرت خالد مصیح سے چل کر مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے زمیل آئے.حضرت خالد نے شنی سے آغاز کیا.یہاں ان کے دونوں ساتھی بھی ان سے مل گئے.ان تینوں نے رات کے وقت تینوں اطراف سے ربیعہ کی فوج پر اور ان لوگوں پر جو بڑی شان سے لڑنے کے لیے جمع ہوئے تھے شب خون مارا اور تلواریں سونت کر ان کا ایسا صفایا کیا کہ کوئی بھاگ کر کہیں خبر بھی نہ دے سکا.ان کی عورتیں گرفتار کر لی گئیں.بیت المال کا خمس حضرت ابو بکر کی خدمت میں بھیج دیا گیا اور باقی مال غنیمت مسلمان لشکر میں تقسیم کر دیا گیا.ہذیل جس نے جنگ مصیح میں بھی شکست کھا کر جان بچائی تھی وہ حسب وعدہ ربیعہ بن بجیر کی فوج میں شامل ہو ا.اب پھر اس نے بھاگ کر ز میل میں عتاب کے پاس پناہ لی.عتاب ایک عظیم الشان لشکر کے ساتھ بشر میں قیام پذیر تھا.اس سے پہلے کہ اس تک ربیعہ کے خاتمہ کی خبر پہنچتی حضرت خالد نے اس پر بھی تین اطراف سے حملہ کر دیا.اس معرکہ میں بھی کثرت سے آدمی قتل ہوئے اور بے شمار مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا.حضرت خالد نے مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دیا اور خُمس حضرت ابو بکر کی خدمت میں بھیج دیا.حضرت خالد بشر کے قریب ایک مقام رضاب کی طرف مڑے.وہاں کا افسر ہلال بن عقہ تھا.اس کی فوج کو جب حضرت خالد کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ اس سے الگ ہو گئی.مجبور ہلال وہاں سے بھاگ نکلا اور مسلمانوں نے بغیر کسی دقت کے رضاب کو اپنے قبضہ میں کر لیا.پھر جنگ فراض کے بارے میں آتا ہے.فراض بصرہ اور یمامہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے.یہاں شام، عراق اور جزیرے کے راستے آکر ملتے ہیں.یہ معرکہ مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان ذی قعدہ بارہ ہجری میں فراض کے مقام پر ہوا.اسی نسبت سے یہ جنگ جنگ فراض کے نام سے مشہور ہوئی.749
اصحاب بدر جلد 2 317 حضرت ابو بکر صدیق حضرت خالد بن ولید رضاب پر قبضہ کر کے فراض پہنچے.اس سفر میں حضرت خالد کو بہت سی لڑائیاں پیش آئیں.یہاں حضرت خالد رمضان کے روزے بھی نہ رکھ سکے.خالد کے ان اچانک حملوں اور قبائل کے ان کے مقابل پہ عاجز رہنے کی خبریں عراق بھر میں پھیل چکی تھیں اور صحرا میں رہنے والے تمام قبائل خوفزدہ ہو چکے تھے.انہوں نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور ان کی اطاعت قبول کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی.حضرت خالد بن ولید نے اپنی فوجوں کے ہمراہ دریائے فرات کے ساتھ ساتھ شمالی علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور وہ جہاں بھی پہنچتے وہاں کے باشندے ان سے مصالحت کر لیتے اور ان کی اطاعت کرنے کا اقرار کرتے.آخر وہ فراض پہنچ گئے جہاں شام عراق اور الجزیرہ کی سرحدیں ملتی تھیں.فراض عراق اور شام کے انتہائی شمال میں واقع ہے.اگر عیاض بن غنم کی قسمت ساتھ دیتی اور وہ ابتدا ہی سے دومۃ الجندل فتح کر لیتے تو غالباً خالد یہاں تک نہ پہنچتے کیونکہ حضرت ابو بکر کا منشا سارے عراق اور شام کو فتح کرنے کا نہ تھا.وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ان دونوں ملکوں کی سر حدوں پر جو عرب سے ملتی ہیں امن و امان قائم ہو جائے اور ان اطراف سے ایرانی اور رومی عرب پر حملہ آور نہ ہو سکیں لیکن اللہ کو یہی منظور تھا کہ یہ دونوں مملکتیں مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں آ جائیں اس لیے اس نے ایسے اسباب پیدا کر دیے کہ خالد عراقی قبائل کو مطیع کرنے کی غرض سے انتہائی شمال تک چلے گئے اور اس طرح مسلمانوں کے لیے بالائی جانب سے شام پر حملہ کرنے کا راستہ کھل گیا.ایرانی سرحدوں سے رومیوں پر حملہ کا رستہ کھل جانا ایک ایسا معجزہ تھا جس کا خیال حضرت ابو بکر کو بھی نہیں آسکا اور یہ کارنامہ ایسے شخص کے ہاتھوں رونما ہوا جس کی نظیر پیدا کرنے سے عرب اور عجم کی عورتیں واقعی عاجز رہیں جیسا کہ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا تھا.فراض میں خالد کو کامل ایک مہینے تک قیام کرنا پڑا.یہاں بھی انہوں نے ایسی جرات اور عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا کہ وہ اپنی نظیر آپ ہے.وہ چاروں طرف سے دشمن میں گھرے ہوئے تھے.مشرقی جانب ایرانی تھے جو ان کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے.مغربی جانب رومی تھے جن کا یہ خیال تھا کہ اگر اس وقت خالد کی جمعیت کو تباہ و برباد نہ کیا تو پھر یہ سیلاب روکے نہ رکے گا.رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان صرف دریائے فرات حائل تھا.ان کے علاوہ چاروں طرف بدوی قبائل آباد تھے جن کے بڑے بڑے سرداروں کو قتل کر کے خالد نے ان کے دلوں میں انتقام کی ایک نہ ختم ہونے والی آگ بھڑکا دی تھی.اس نازک صورتحال سے خالد لا علم نہ تھے.اگر وہ چاہتے تو حیرہ واپس آکر اپنی قوت و طاقت میں اضافہ کرتے ہوئے پھر رومیوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہو سکتے تھے.انہوں نے ایسا نہ کیا کیونکہ دشمن کو سامنے دیکھ کر خالد کے لیے صبر کرنا ناممکن ہو جاتا تھا.طبیعت ایسی تھی ان کی.ان کی نظروں میں کیا ایرانی اور کیا اہل باد یہ سب قابل تسخیر تھے.ان کی عظیم الشان فوجوں کو وہ نہ پہلے کبھی خاطر میں لائے اور نہ آئندہ خاطر میں لانے کو تیار تھے ، اس لیے وہ بڑے اطمینان سے لڑائی کی تیاریوں میں مشغول رہے.ادھر رومیوں کو ابھی تک خالد سے
صحاب بدر جلد 2 318 حضرت ابو بکر صدیق واسطہ نہ پڑا تھا اور وہ ان کے حملے کی شدت سے ناواقف تھے.جب اسلامی فوجیں فراض میں اکٹھی ہو گئیں اور برابر ایک مہینے تک ان کے سامنے ڈیرے ڈالے پڑی رہیں تو انہیں بہت جوش آیا اور انہوں نے اپنے قریب کی ایرانی چوکیوں سے مدد مانگی.ایرانیوں نے بڑی خوشی سے رومیوں کی مدد کی کیونکہ مسلمانوں نے انہیں ذلیل ورسوا کر دیا تھا اور ان کی شان و شوکت کو تہ و بالا کر کے ان کا غرور خاک میں ملا دیا تھا.ایرانیوں کے علاوہ تغلب، ایاداور نمر کے عربی النسل قبائل نے بھی رومیوں کی پوری پوری مدد کی کیونکہ وہ اپنے رؤوسا اور سر بر آوردہ اشخاص کے قتل کو بھولے نہیں تھے.چنانچہ رومیوں، ایرانیوں اور عربی النسل قبائل کا ایک بہت بڑا لشکر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے روانہ ہوا.دریائے فرات پر پہنچ کر انہوں نے مسلمانوں کو کہلا بھیجا کہ تم دریا کو عبور کر کے ہماری طرف آؤ گے یا ہم دریا کو عبور کر کے تمہاری طرف آئیں.حضرت خالد نے جواب دیا تم ہی ہماری طرف آجاؤ.تم لڑنے آئے ہو تو ادھر آ جاؤ.چنانچہ دشمن کا لشکر دریا عبور کر کے دوسری جانب اترنا شروع ہوا.اس دوران میں حضرت خالد بن ولید نے اپنے لشکر کی اچھی طرح اور باقاعدہ صفیں قائم کر کے انہیں دشمن سے لڑنے کے لیے پوری طرح تیار کر دیا.جب لڑائی شروع ہونے کا وقت آیا تو رومی لشکر کے سپہ سالار نے فوج کو حکم دیا کہ تمام قبائل علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تاکہ معلوم ہو سکے کس گروہ نے زیادہ شاندار کارنامہ انجام دیا ہے چنانچہ ساری فوج اپنے اپنے سر داروں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ہو گئی.لڑائی شروع ہوئی تو حضرت خالد بن ولید نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ چاروں طرف سے دشمن کو گھیر لیں اور انہیں ایک جگہ جمع کر دیں.اس طرح پے در پے حملے کریں کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اسلامی دستوں نے رومی لشکر کو گھیر کر ایک جگہ جمع کر دیا اور ان پر پر زور حملے شروع کر دیے.رومیوں اور ان کے حلیفوں کا خیال تھا کہ وہ قبائل کو علیحدہ علیحدہ مسلمانوں کے مقابلے میں بھیج کر لڑائی کو زیادہ طول دے سکیں گے اور جب مسلمان تھک کر چور ہو جائیں گے تو ان پر بھر پور حملہ کر کے انہیں مکمل طور پر شکست دے دیں گے لیکن ان کا یہ خیال خام ثابت ہوا اور ان کی تدبیر خود ان پر الٹ پڑی.جب مسلمانوں نے انہیں ایک جگہ جمع کر کے ان پر حملے شروع کیے تو وہ ان کی تاب نہ لا سکے اور بہت جلد شکست کھا کر میدان جنگ سے فرار ہونے لگے لیکن مسلمان انہیں کہاں چھوڑنے والے تھے، انہوں نے ان کا پیچھا کیا اور دور تک انہیں قتل کرتے چلے گئے.تمام مؤرخین اس امر پر متفق ہیں کہ اس معرکہ میں میدانِ جنگ اور بعد ازاں تعاقب میں دشمن کے ایک لاکھ آدمی کام آئے.فتح کے بعد حضرت خالد نے فراض میں دس دن قیام کیا اور پھپیں ذی قعدہ بارہ ہجری کو انہوں نے اپنی فوج کو واپس حیرہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا.750 ایک مصنف اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے حضرت ابو بکرؓ کے عہدِ خلافت میں پہلی مرتبہ روم و ایران کی دونوں سپر طاقتوں اور ان کے ہمنوا عرب فوجوں کا مقابلہ کیا.اس
صحاب بدر جلد 2 319 حضرت ابو بکر صدیق کے باوجود مسلمانوں کو زبر دست فتح حاصل ہوئی اور بلاشبہ یہ معرکہ تاریخی اور فیصلہ کن معرکوں میں سے رہا.اگر چہ اس کو وہ شہرت حاصل نہ ہوئی جو دیگر بڑے معرکوں کو حاصل ہوئی لیکن بہر حال اس سے کفار کی اندرونی قوت ختم ہو گئی خواہ وہ ایران سے تعلق رکھتے ہوں یا روم سے یا عرب اور عراق سے.عراق میں خالد سیف اللہ نے جو معرکے سر کیے یہ اس کی آخری کڑی تھی.اس معرکہ کے بعد ایرانیوں کی شان و شوکت خاک میں مل گئی.پھر اس کے بعد ان کو ایسی جنگی قوت حاصل نہ ہو سکی جس سے مسلمان خوفزدہ ہوں.751 ایک مورخ نے جنگ فراض کی اہمیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ الیس میں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایرانی لشکر کی کمر ٹوٹ گئی.حضرت خالد بن ولید نے پیش قدمی جاری رکھی اور بالترتیب امغیشیا، حیرہ، انبار ، عین التمر اور دومۃ الجندل کو فتح کر لیا اور بالآخر فراض کے مقام تک جاپہنچے.فراض دریائے فرات پر واقع ایک شہر تھا جو کہ سلطنت روم کی سرحد سے بہت نزدیک تھا.یہاں رومیوں، ایرانیوں اور عیسائی قبائل کا متحدہ لشکر مسلمانوں سے نبرد آزما ہوالیکن حضرت خالد بن ولید نے کفار کی اس بھاری جمعیت کو بھی شکست فاش دی.فاتح عراق سید نا خالد بن ولید نے عراق کو ایک سال دو ماہ میں فتح کر لیا.ان کے ساتھ کل دس ہزار فوجی تھے اور تقریباً اتنے ہی فوجی دیگر اسلامی سپہ سالاروں کے ساتھ تھے.اتنی قلیل فوج نے اس مدت میں جو شاندار کارنامے سر انجام دیے وہ تاریخ میں بے مثال ہیں.حضرت خالد بن ولید مہر معرکہ میں شامل ہوئے، انہیں کسی موقع پر بھی شکست کا منہ نہ دیکھنا پڑا.دربار رسالت صلی العلیم سے آپ کو سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب ملا تھا اور آپ نے اس خطاب کا حق ادا کر دیا.پھر آپ نے جو علاقے فتح کیے ان میں اتنا عمدہ بند وبست کیا کہ لوگ ایرانی حکومت کے مقابلے میں عرب حکومت کو پسند کرنے لگے.بہر حال عراق کی آخری فتح فراض مقام کی فتح تھی.حضرت خالد دس روز تک فراض میں قیام پذیر رہے.پھر نصف لشکر لے کر شام کے محاذ پر روانہ ہو گئے.عراق کی فتح پر ایک نظر ڈالتے ہیں.اس بارے میں لکھا ہے کہ عراق پر چڑھائی بہت بڑی کامیابی کی علامت تھی.وہاں مسلمانوں نے فارسی افواج کو جو ان سے تعداد اور سامان حرب میں کہیں زیادہ طاقتور تھیں پے در پے تباہ کن شکستیں دیں.یادر ہے کہ فارسی لشکر اپنے وقت کا سب سے مہلک جنگی لشکر تھا.عہد صدیقی کا یہ ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے.اس میں شک نہیں کہ عسکری میدان میں تمام تر کامیابی خالد بن ولید اور ان کے رفقاء وسپہ سالاروں کی مرہون منت ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان فتوحات اور کامیابیوں کو حضرت ابو بکر جیسی عظیم شخصیت کی سر پرستی حاصل تھی.تاریخ گواہ ہے کہ کسی فوج کا کوئی بڑے سے بڑا باصلاحیت سپہ سالار ایسے تیقین اور یکسوئی اور وفاداری اور خلوص کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جب تک اسے سر براہ مملکت کی ذاتی خوبیوں اور اعلیٰ کردار نے متاثر نہ کیا ہو.
اصحاب بدر جلد 2 320 حضرت ابو بکر صدیق منکرین اور ارتداد اور بغاوت کی جنگوں سے لے کر فتح عراق کے تمام مراحل کے دوران جس ذاتی نمونے، حسن انتظام اور استقلال کا مظاہرہ حضرت ابو بکر صدیق نے پیش کیا اس نے امت مسلمہ کے دلوں کو بڑی سے بڑی قربانی کے لیے گرمائے رکھا.جہاں ان کے تمام احکامات اور ہدایات جامعیت اور فہم و فراست سے لبریز تھے وہاں ان کا ذاتی کردار ان سے کہیں زیادہ ممتاز تھا.کوئی راہنما استقلال اور اولوالعزمی کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا پیش کر سکتا ہے کہ ابتدا سے انتہا تک کوئی ایسا موقع نظر نہیں آیا جہاں انہوں نے اپنے جاری کردہ احکام اور ضوابط کو ذاتی و قار یا کسی شخصی دباؤ کے سامنے جھک کر تبدیل کیا ہو.یہی نہیں بلکہ باصلاحیت ماتحتوں کی کارگزاری کے لیے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے کے لیے اور ایثار و قربانی کے جذبے کو فزوں تر کرنے کے لیے جس حسن ظن اور اعتماد کا نمونہ حضرت ابو بکر نے پیش کیا اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی.کیا کوئی ماتحت ایسے راہنما کے احکام کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر اٹھا رکھے گا جو بذات خود اپنے راہنما کے ارشادات و فرمودات اور اقدار کی خاطر انتہائی وفاداری اور بے دریغ قربانی پیش کرنے کا زندہ نمونہ ہو جیسا کہ صدیق اکبر خود تھے.سیدنا حضرت خالد کی عسکری قابلیت بجا طور پر ان کو دنیا کے عظیم سپہ سالاروں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیتی ہے اپنے مخالفین کے مقابلے میں جن حکمت حرب کے اصولوں کو سید نا خالد نے اپنا یا بلکہ یہ کہناز یادہ مناسب ہو گا کہ سید نا خالد نے جن اصولوں کو مرتب کیا وہ عسکری تاریخ کے درخشندہ باب ہیں.سید ناخالد کی ہمت طلب منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے مسلمانوں کی جنگی صلاحیت اور ان کی فوج کی مسلسل حرکت ان کے سب سے اہم وسیلے تھے.ان دونوں چیزوں سے سید نا خالد نے قوت برداشت کی آخری حد تک استفادہ کیا اور یہ صرف اس لیے ممکن تھا کہ انہوں نے اپنے سپاہ کو کبھی ایسی مشکل میں نہیں ڈالا جس کو انہوں نے خود نہ جھیلا ہو.جہاں خلیفہ اول کو تاریخ اسلام میں ایک ممتاز ترین مقام حاصل ہے وہاں پر سید نا خالد بھی ان نامور سپہ سالاروں میں سے سب سے پہلے تھے جو بیرونی علاقوں کو فتح کرنے اور دنیا کے سیاسی و مذہبی نقشے کو نئی شکل دینے میں حضرت ابو بکر صدیق کے دست راست تھے.جس طرح ہر مسلمان حضرت ابو بکر صدیق کی سیاسی و روحانی راہنمائی میں اور سید نا خالد کی عسکری قیادت کے ذریعہ عراق کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک تند طوفان کی طرح چھا گئے اب وہ اسی طرح ایک دوسری سلطنت پر دھاوا کرنے والے تھے اور وہ مشرقی روما تھا.752 شام کی طرف پیش قدمی حضرت ابو بکر صدیق باغی مرتدین کی سرکوبی سے فارغ ہو گئے اور عرب مستقام ہو گیا تو آپ نے بیرونی جارحیت کے مرتکب مخالفین میں سے اہل روم سے جنگ کرنے کے متعلق سوچا؛ مگر ابھی تک کسی کو اس سے آگاہ نہیں کیا تھا.یہ لوگ جارح قوم تھے.مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے.ملک شام کی
محاب بدر جلد 2 321 حضرت ابو بکر صدیق حکومت کو، جو آج کل شام ہے، سلطنت روم کہا جاتا تھا.وہاں کے بادشاہ کو قیصر روم کے لقب سے پکارا جاتا تھا.ایک اہم خواب آپ شام پر آپ ابھی اسی غور و فکر میں لگے ہوئے تھے کہ اسی دوران حضرت شتر خبیل بن حسنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے پاس بیٹھ گئے اور عرض کیا، اے رسول اللہ صلی علیم کے خلیفہ ! کیا لشکر کشی کے بارے میں سوچ رہے ہیں ؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ ہاں ارادہ تو ہے لیکن ابھی کسی کو مطلع نہیں کیا.تم نے کس وجہ سے یہ سوال کیا ہے ؟ حضرت شرحبیل نے عرض کیا کہ جی ہاں اے رسول اللہ صلی علیم کے خلیفہ ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشوار گزار پہاڑی راستے پر چل رہے ہیں.پھر آپ ایک بلند چوٹی پر چڑھ گئے اور لوگوں کی طرف دیکھا اور آپ کے ساتھ آپ کے ساتھی بھی ہیں.پھر آپ اس چوٹی سے اتر کر ایک نرم زرخیز زمین میں آگئے جس میں فصلیں، چشمے ، بستیاں اور قلعے موجود ہیں اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ مشرکین پر حملہ کر دو.میں تمہیں فتح اور مالِ غنیمت کے حصول کی ضمانت دیتا ہوں.اس پر مسلمانوں نے حملہ کر دیا اور میں بھی جھنڈے کے ساتھ اس لشکر میں شامل تھا.میں ایک بستی کی طرف گیا تو اس کے رہنے والوں نے مجھ سے امان طلب کی.میں نے انہیں امان دے دی.پھر میں آپ کے پاس واپس پہنچا تو آپ ایک عظیم قلعہ تک پہنچ چکے تھے.آپؐ کو فتح عطا کی گئی.انہوں نے آپ سے صلح کی درخواست کی.پھر آپ کے لیے ایک تخت رکھا گیا.آپ اس پر تشریف فرما ہو گئے.پھر آپ سے ایک کہنے والے نے عرض کیا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح سے نوازا ہے اور آپ کی مدد کی ہے لہذا آپ اپنے رب کا شکر ادا کریں اور اس کی اطاعت کرتے رہیں.پھر اس شخص نے ان آیات کی تلاوت کی کہ اِذا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوا با یعنی جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی اور تو لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں.پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر اور اس سے مغفرت مانگ.یقیناً وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے.کہتے ہیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.یہ لمبی خواب تھی.اس پر حضرت ابو بکر نے یہ خواب سن کے فرمایا کہ تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں.تم نے اچھا خواب دیکھا ہے اور اچھا ہی ہو گا ان شاء اللہ.پھر حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ اس خواب میں تم نے فتح کی خوشخبری اور میری موت کی اطلاع بھی دی ہے یہ بات کہتے ہوئے حضرت ابو بکر کی آنکھوں میں آنسو آگئے.آپ نے فرمایا، رہاوہ پتھریلا علاقہ جس پر چلتے ہوئے ہم پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تھے اور وہاں سے نیچے جھانک کر لوگوں کو دیکھا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس لشکر کے معاملہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان لشکر والوں کو بھی مصیبت جھیلنی پڑے گی.اس کے بعد پھر ہمیں غلبہ اور استحکام
حضرت ابو بکر صدیق اصحاب بدر جلد 2 753 322 حاصل ہو جائے گا اور جہاں تک ہمارا پہاڑ کی چوٹی سے اتر کر زرخیز زمین کی طرف جانے کا تعلق ہے جس میں سر سبز و شاداب فصلیں، چشمے ، بستیاں اور قلعے تھے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ آسانی پائیں گے جس میں خوشحالی اور فراخی ہو گی اور ہمیں پہلے سے زیادہ زرخیز زمین میسر آئے گی.جہاں تک میر امسلمانوں کو یہ حکم دینے کا تعلق ہے کہ دشمن پر حملہ کرو، میں فتح اور مال غنیمت کی ضمانت دیتاہوں تو اس سے مراد میرا مسلمانوں کو مشرکین کے ممالک کی طرف بھیجنا اور انہیں جہاد پر ابھارنا ہے.اور جہاں تک اس جھنڈے کا تعلق ہے جو تمہارے پاس تھا جس کو تم لے کر ان بستیوں میں سے ایک نبستی کی طرف گئے اور اس میں داخل ہوئے اور وہاں کے لوگوں نے تم سے امان طلب کی اور تم نے انہیں امان دے دی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس علاقے کو فتح کرنے والے امر امیں سے ایک ہوگے اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں فتح دے گا اور رہا وہ قلعہ جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے فتح کرایا تو اس سے مراد وہ علاقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ میرے لیے فتحیاب کرے گا اور جہاں تک اس تخت کا تعلق ہے جس پر تُو نے مجھے بیٹھا ہوا دیکھا تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے عزت ورفعت سے نوازے گا اور مشرکین کو ذلیل ورسوا کرے گا.اور جہاں تک اس آدمی کا تعلق ہے جس نے مجھے نیک اعمال اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیا اور میرے سامنے سورہ نصر کی تلاوت کی تو اس طرح اس نے مجھے میری موت کی خبر دی ہے.یہی سورت جب نبی کریم صلی علیکم پر نازل ہوئی تو آپ کو علم ہو گیا تھا کہ اس سورت میں آپ کی وفات کی خبر دی جارہی ہے.تو یہ تعبیر حضرت ابو بکر نے اس خواب کی فرمائی.پر لشکر کشی کے لئے مشاورت بہر حال جب حضرت ابو بکر نے شام کی فتح کے لیے لشکر تیار کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے مشورے کے لیے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور اہل بدر میں سے کبار مہاجرین و انصار نیز دیگر صحابہ کو طلب کیا.جب یہ اصحاب آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا اللہ کی ستیں بے شمار ہیں.اعمال ان کا بدلہ نہیں ہو سکتے.اس بات پر اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد کرو کہ اس نے تم پر احسان کیا اور تمہیں ایک کلمہ پر جمع کیا اور تمہارے درمیان صلح کروائی.تمہیں اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور تم سے شیطان کو دور کیا.اب شیطان کو تمہارے شرک میں مبتلا ہونے اور خدا کے سوا کسی اور کو معبود بنانے کی امید نہیں رہی.آج عرب ایک امت ہیں جو ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں.میری رائے یہ ہے کہ میں ان کو رومیوں سے جنگ کے لیے شام بھجواؤں.جو ان میں سے مارا گیا وہ شہید ہے.اللہ تعالیٰ نے نیک کام کرنے والوں کے لیے بہترین بدلہ تیار کر رکھا ہے.اور ان میں سے جو زندہ رہاوہ دین اسلام کا دفاع کرتے ہوئے زندہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ سے مجاہدین کے اجر و ثواب کا مستحق ہو گا.یہ میری رائے ہے.اب آپ لوگوں میں سے ہر شخص اپنی رائے کے مطابق مشورہ دے.حضرت ابو بکر شام
حاب بدر جلد 2 323 حضرت ابو بکر صدیق نے ان سے مشورہ مانگا.اس پر حضرت عمر بن خطاب کھڑے ہوئے.انہوں نے کہا: سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے خیر و برکت سے نوازتا ہے.اللہ کی قسم !بھلائی کے جس معاملے میں بھی ہم نے آپ سے آگے بڑھنا چاہا آپ اس میں ہمیشہ ہم پر سبقت لے گئے.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے.اللہ کی قسم! میں آپ سے اسی مقصد کے لیے ملاقات کر نا چاہتا تھا جو آپ نے ابھی بیان کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ میں یہ بات آپے سے کر نہ سکا حتی کہ آپ نے خود ہی اس کا تذکرہ کر دیا.یقینا آپ کی رائے صحیح ہے.اللہ نے آپ کو صحیح راہ کا ادراک عطا فرمایا ہے.عام لوگوں سے حضرت ابو بکر کا خطاب پھر حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت عثمان بن عفان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت ابو عبیدہ ، حضرت سعید بن زید، حضرت علی اور دیگر تمام حاضرین مجلس مہاجرین اور انصار نے آپ کی رائے کی تائید کرتے ہوئے عرض کیا ہم آپ کی بات بھی سنیں گے اور اطاعت بھی کریں گے.ہم آپ کی حکم عدولی نہیں کریں گے اور آپ کی تحریک پر لبیک کہیں گے.پھر حضرت ابو بکر لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے دوبارہ کھڑے ہوئے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ اہل ہے اور نبی کریم صلی الی کم پر درود و سلام بھیجا.پھر فرمایا: اے لوگو ! بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی نعمت دے کر تم پر بڑا احسان کیا.تمہیں جہاد کے ذریعہ سے معزز کیا.تمہیں دین اسلام کے ذریعہ دوسرے ادیان پر فضیلت دی.لہذا اللہ کے بندو! ملک شام میں رومیوں سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ.اب میں تمہارے امرا مقرر کرنے والا ہوں اور انہیں تمہارا کمانڈر بنانے لگا ہوں.تم اپنے رب کی اطاعت کرنا، اپنے امرا کی خلاف ورزی نہ کرنا اور اپنی نیت رضائے الہی کے لیے خالص رکھنا.سیرت و کردار بہتر سے بہتر بنانا اور کھانا پینا صحیح رکھنا.اللہ تعالیٰ پر ہیز گاروں اور احسان کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے.حضرت ابو بکر نے حضرت بلال کو حکم دیا تو انہوں نے لوگوں میں اعلان کر دیا کہ اے لوگو! اپنے رومی دشمن سے جنگ کے لیے شام کی طرف نکلو اور مسلمانوں کے امیر حضرت خالد بن سعید ہوں گے.154 حضرت خالد بن سعید کی روانگی ملک شام کی فتوحات کے سلسلہ میں حضرت ابو بکر صدیق نے سب سے پہلے حضرت خالد بن سعید کو روانہ فرمایا چنانچہ ایک روایت کے مطابق حضرت ابو بکر جب حج کر کے واپس مدینہ تشریف لائے تو تیرہ ہجری میں آپ نے حضرت خالد بن سعید کو ایک لشکر کے ہمراہ شام کی طرف روانہ فرمایا جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس وقت حضرت ابو بکر نے خالد بن ولید کو عراق کی طرف روانہ فرمایا تھا اسی وقت حضرت خالد بن سعید کو شام کی طرف روانہ فرمایا تھا.لہذا سب سے پہلا جھنڈا جو شام کی فتح
ناب بدر جلد 2 324 حضرت ابو بکر صدیق کے لیے لہرایا گیا وہ حضرت خالد بن سعید کا تھا.755 الله اس کے علاوہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت ابو بکر نے مرتدین کے خلاف گیارہ لشکر تیار کر کے روانہ فرمائے تھے تو اس وقت ہی آپ نے حضرت خالد بن سعید کو شام کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تیاء جانے کا حکم دیا تھا اور ہدایت فرمائی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا.اطراف کے لوگوں کو اپنے سے ملنے کی دعوت دینا اور صرف ان لوگوں کو بھرتی کرنا جو مرتد نہ ہوئے ہوں اور صرف ان سے جنگ کرنا جو تم سے جنگ کریں یہاں تک کہ میری طرف سے کوئی اور حکم آجائے.تیماء بھی شام اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور شہر ہے.حضرت ابو بکر نے رومیوں کے خلاف جنگ کے لیے اہل مدینہ کے علاوہ دیگر علاقوں کے مسلمانوں کو بھی تیار کرناشروع کیا اور انہیں جہاد میں شامل ہونے کی ترغیب دلائی.چنانچہ آپ نے اہل یمن کی طرف بھی ایک خط لکھا جس کا متن اس طرح سے ہے کہ رسول اللہ صلی علیم کے خلیفہ کی طرف سے اہل یمن میں سے مومنین اور مسلمانوں کے ہر فرد کے لیے جس پر یہ پڑھا جائے، تم پر سلامتی ہو.میں تمہارے سامنے اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جہاد فرض کیا ہے اور انہیں حکم دیا ہے کہ وہ اس کے لیے تھوڑی تیاری یا بھر پور تیاری کر کے نکلیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ (التوبہ: 41) اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو.پس جہاد لازمی فریضہ ہے اور اللہ کے ہاں اس کا اجر عظیم ہے اور ہم نے مسلمانوں کو شام میں رومیوں سے جہاد کے لیے تیاری کا حکم دیا ہے.ان کی نیتیں اچھی اور مرتبہ بلند ہے.پس اے اللہ کے بندو! اپنے رب کے فرض اور اس کے نبی کی سنت اور دو میں سے ایک نیکی کی طرف جلدی کرو؛ یا تو شہادت یا پھر فتح اور مال غنیمت ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی بے عمل باتوں سے راضی نہیں ہوتا اور نہ اس کے دشمنوں سے جہاد ترک کرنے سے راضی ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ حق کو قبول کر لیں اور قرآن کریم کے حکم کو مان لیں.اللہ تمہارے دین کی حفاظت کرے اور تمہارے دلوں کو ہدایت دے اور تمہارے اعمال کو پاک کر دے اور تمہیں صبر کرنے والے مجاہدین جیسا اجر عطا کرے.حضرت ابو بکر نے یہ خط حضرت انس بن مالک کے ہاتھ بھیجا تھا.حضرت انس کہتے ہیں کہ میں یمن پہنچا اور ایک ایک محلے اور ایک ایک قبیلے سے آغاز کیا.میں ان کے سامنے حضرت ابو بکر کا خط پڑھتا تھا اور جب میں خط پڑھنے سے فارغ ہو تا تھا تو کہتا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ، اللہ کے رسول ہیں، صلی اللہ علیہ وسلم.میں رسول اللہ صلی الیکم کے خلیفہ اور مسلمانوں کا پیغام رساں ہوں.غور سے سنو! میں نے مسلمانوں کو اس حالت میں چھوڑا ہے کہ وہ ایک لشکر کی صورت میں جمع ہیں.انہیں اپنے دشمن کی طرف روانہ ہونے سے صرف تمہارا (یعنی مدینہ آمد کا انتظار روکے ہوئے ہے.پس تم جلدی سے اپنے بھائیوں کی طرف کوچ کرو.اے مسلمانو ! اللہ تم پر رحم کرے.756
اصحاب بدر جلد 2 325 حضرت ابو بکر صدیق حضرت انس مدینہ واپس پہنچے اور حضرت ابو بکر کولوگوں کی آمد کی خوشخبری سناتے ہوئے عرض کیا کہ یمن کے بہادر، دلیر اور شہوار پراگندہ بالوں والے اور گرد و غبار سے بھرے ہوئے آپ کے پاس پہنچنے والے ہیں.وہ اپنے مال و اسباب اور بیوی بچوں کے ساتھ نکل چکے ہیں.جيش البدال 757 دوسری طرف حضرت خالد بن سعید تیماء پہنچ کر وہیں مقیم ہو گئے اور اطراف کی بہت سی جماعتیں ان سے آملیں.رومیوں کو مسلمانوں کے اس عظیم لشکر کی خبر ہوئی تو انہوں نے اپنے زیر اثر عربوں سے شام کی جنگ کے لیے فوجیں طلب کیں.حضرت خالد بن سعید نے حضرت ابو بکر کو رومیوں کی اس تیاری کے متعلق لکھا.حضرت ابو بکر نے جواباً لکھا کہ تم پیش قدمی کرو اور ذرامت کھبر اؤ اور اللہ سے مدد طلب کرو.اس پر حضرت خالد بن سعید رومیوں کی طرف بڑھے مگر جب آپ ان کے قریب پہنچے تو وہ ادھر اُدھر منتشر ہو گئے اور انہوں نے اپنی جگہ کو چھوڑ دیا.حضرت خالد بن سعید اس جگہ پر قابض ہو گئے اور اکثر لوگ جو آپ کے پاس جمع تھے مسلمان ہو گئے.حضرت خالد بن سعید نے حضرت ابو بکر کو اس کی اطلاع دی.حضرت ابو بکر نے لکھا کہ تم آگے بڑھو مگر اتنا آگے نہ نکل جانا کہ پیچھے سے دشمن کو حملہ کرنے کا موقع مل جائے.حضرت خالد بن سعید ان لوگوں کو لے کر چل پڑے یہاں تک کہ ایک مقام پر پڑاؤ کیا.وہاں ان کے مقابلے پر ایک رومی پادری باهان نامی آیا.حضرت خالد بن سعید نے اسے شکست دی اور اس کے میں سے بہتوں کو قتل کیا اور بابان نے فرار ہو کر دمشق کی طرف پناہ لی.حضرت خالد بن سعید نے اس کی اطلاع حضرت ابو بکر کو دے کر مزید کمک طلب کی.اس وقت حضرت ابو بکر کے پاس سیمین سے جہادِ شام کی غرض سے ابتدائی طور پر کوچ کر کے آنے والے لوگ موجود تھے.اس کے علاوہ مکہ اور یمن کے درمیان کے لوگ بھی آئے ہوئے تھے.ان لوگوں میں حضرت ذُو العلاع " بھی تھے.نیز حضرت عکرمہ بھی مرتدین کے خلاف جنگ سے کامیاب ہو کر حضرت ابو بکرؓ کے پاس واپس لوٹے تھے جن کے ساتھ کچھ علاقوں کے اور لوگ بھی تھے.ان سب کے متعلق حضرت ابو بکر نے امرائے صدقات کو لکھا کہ جو لوگ تبدیلی کے خواہاں ہوں ان کو تبدیل کر دو تو سب نے تبدیل ہو نا چاہا اور ان سب کو بدل کر ایک نیا لشکر تیار کیا گیا.اس لیے اس لشکر کا نام جیش النبرال پڑ گیا.یہ فوجیں حضرت خالد بن سعید کے پاس پہنچیں.اس کے بعد بھی حضرت ابو بکر لوگوں کو شام کی جنگ کے لیے ترغیب دلاتے رہے.حضرت ابو بکر نے حضرت ولید بن عقبہ کو حضرت خالد بن سعید کی طرف شام پہنچنے کا ارشاد فرمایا.وہ جب خالد بن سعید کے پاس پہنچے تو انہوں نے انہیں بتایا کہ اہل مدینہ اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے بے تاب ہیں اور حضرت ابو بکر فوجیں بھیجنے کا بندوبست کر رہے ہیں.یہ سن کر حضرت خالد بن
حاب بدر جلد 2 326 حضرت ابو بکر صدیق سعید کی خوشی کی انتہانہ رہی اور انہوں نے اس خیال سے کہ رومیوں پر فتح یابی کا فخر انہی کے حصہ میں آئے حضرت ولید بن عقبہ کو ساتھ لے کر رومیوں کی عظیم الشان فوج پر حملہ کرنا چاہا جس کی قیادت ان کا سپہ سالار بابان کر رہا تھا.758 رومیوں کے سپہ سالار بابان سے مقابلہ اور وقتی ناکامی کا سامنا گویا حضرت خالد بن سعید نے رومی لشکر پر حملہ کرتے وقت حضرت ابو بکر کی اس ہدایت کو نظر انداز کر دیا کہ تم اتنا آگے نہ نکل جانا کہ پیچھے سے دشمن کو حملہ کرنے کا موقع مل جائے اور بہر حال وہ اپنی پشت کے دفاع سے غافل ہو گئے اور دیگر امرا کے پہنچنے سے پہلے ہی رومیوں سے جنگ شروع کر دی.بابان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کے سامنے سے ہٹ کر د مشق کی طرف نکل گیا.باھان کا پیچھے ہٹنا اصل میں ایک چال تھی.وہ مسلمانوں کو گھیرے میں لے کر پیچھے سے ان پر حملہ کرنا چاہتا تھا.اس خطرے سے حضرت ابو بکر نے انہیں خبر دار کیا تھا لیکن کامیابی کے جذبے نے حضرت خالد بن سعید کو خلیفہ وقت کی اس تنبیہ سے غافل کر دیا اور آگے بڑھنے پر اکسا دیا.حضرت خالد بن سعید دشمن کی فوج میں آگے گھستے گئے.اس وقت ان کے ہمراہ حضرت ولید بن عقبہ کے علاوہ حضرت ذوالکلاع اور حضرت عکرمہ بھی تھے.وہاں حضرت خالد بن سعید کو باہان کی فوجی چوکیوں نے ایک ساتھ مل کر محصور کر لیا اور ان کے راستے روک لیے.حضرت خالد کو اس کی خبر تک نہ ہوئی.اس کے بعد باہان نے پیش قدمی کی اور ایک جگہ حضرت خالد کے بیٹے سعید کو کچھ لوگوں کے ساتھ پانی کی تلاش میں گھومتے ہوئے پالیا اور ان سب کو قتل کر دیا.حضرت خالد بن سعید کو اس کی خبر ہوئی یعنی ان کے بیٹے اور ان کے ساتھیوں کے قتل ہونے کی، شہید ہونے کی خبر ہوئی، تو سواروں کے ایک دستہ کے ساتھ وہاں سے فرار ہو گئے اور بجائے اس کے کہ مقابلہ کرتے وہاں سے چھوڑ کے چلے گئے.ان کے بعد بہت سے ساتھی بھی گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہو کر اپنے لشکر سے منقطع ہو گئے.خالد شکست کھاتے ہوئے ذُو الْمَرُ وہ تک پہنچ گئے مگر حضرت عکرمہ اپنی جگہ سے نہ ہٹے بلکہ مسلمانوں کی مدد کرتے رہے.ذوالمر وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان مدینہ سے کوئی چھیانوے میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے.بہر حال حضرت عکرمہ نے بابان اور اس کی فوجوں کو حضرت خالد کا تعاقب کرنے سے باز رکھا.اس کی اطلاع جب حضرت ابو بکر کو ہوئی تو آپ نے حضرت خالد سے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی.البتہ بعد میں جب انہیں مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی تو انہوں نے حضرت ابو بکر سے اس فعل پر معافی مانگی.59 چار رلشکروں کی روانگی حضرت خالد بن سعید کی اس ناکامی کے باوجو د حضرت ابو بکر صدیق کے عزم وحوصلہ میں ہر گز فرق نہ آیا.جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ حضرت عکرمہ اور حضرت ذُو الكلاع “اسلامی لشکروں کو رومیوں کے
اصحاب بدر جلد 2 327 حضرت ابو بکر صدیق چنگل سے بچا کر واپس شام کی سرحدوں پر لے آئے ہیں اور وہاں مدد کے منتظر ہیں تو حضرت ابو بکر صدیق نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کمک بھیجنے کا انتظام شروع کر دیا.حضرت ابو بکر صدیق نے اس سلسلہ میں چار بڑے لشکر تیار کیے جنہیں شام کے مختلف علاقوں کی جانب روانہ کیا.ان کی تفصیل اس طرح ملتی ہے.ایک لشکر جو پہلا تھا یزید بن ابوسفیان کا تھا.یہ حضرت معاویہ کے بھائی تھے اور ابوسفیان کے خاندان میں بہترین آدمی تھے.بطور کمک بھیجے جانے والے ان چار لشکروں میں سے یہ پہلا لشکر تھا جو شام کی طرف آگے بڑھا.حضرت ابو بکر نے اس لشکر کا امیر حضرت یزید بن ابو سفیان کو بنایا.ان کے ذمہ دمشق پہنچ کر اس کو فتح کرنا اور دیگر تین لشکروں کی بوقت ضرورت مدد کرنا تھا.اس لشکر کی تعداد ابتدا میں تین ہزار تھی.پھر حضرت ابو بکر نے مزید امداد بھیجی جس سے ان کی تعداد تقریباً سات ہزار ہو گئی.حضرت یزید بن ابو سفیان کے اس لشکر میں مکہ کے لوگوں میں سے شکیل بن عمر و اور ان جیسے اور ذی مرتبہ لوگ بھی شریک تھے.سہیل بن عمر وزمانہ جاہلیت میں قریش کے سر کردہ لوگوں اور زیرک سر داروں میں سے تھے اور صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول کریم صلی المی ریم کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے انہوں نے کفار مکہ کی نمائندگی کی تھی.یہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے.760 جب حضرت ابو بکر نے حضرت یزید بن ابو سفیان کے لیے جھنڈ ا باندھا تو ربیعہ بن عامر کو بلایا اور ان کے لیے بھی ایک جھنڈا باندھا اور انہیں فرمایا کہ تم یزید بن ابوسفیان کے ساتھ جاؤ گے.ان کی نافرمانی اور مخالفت نہ کرنا.پھر آپ نے حضرت یزید بن ابو سفیان سے فرمایا اگر تم اپنے مقدمتہ الجیش کی نگرانی ربیعہ بن عامر کے سپر د کرنا مناسب سمجھو تو ضرور ایسا کرنا.ان کا شمار عرب کے بہترین شہسواروں اور تمہاری قوم کے صلحاء میں سے ہوتا ہے اور میں بھی امید رکھتا ہوں کہ یہ اللہ کے نیک بندوں میں سے ہیں.اس پر حضرت یزید نے عرض کیا کہ ان کے بارے میں آپ کے حسن ظن اور ان کے متعلق آپ کی امید نے میرے دل میں ان کی محبت کو اور زیادہ بڑھا دیا ہے.پھر حضرت ابو بکر ان کے ساتھ پیدل چلنے لگے تو حضرت یزید نے کہا کہ اے خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں یا مجھے اجازت دیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ پیدل چلنا شروع کر دوں کیونکہ میں ناپسند کرتاہوں کہ خود تو سوار ہوں اور آپ پیدل چلیں.اس پر حضرت ابو بکڑ نے فرمایا: نہ تو میں سوار ہوں گا اور نہ ہی تم سواری سے نیچے اترو گے.میں اپنے ان قدموں کو اللہ کی راہ میں اٹھتے ہوئے سمجھتا ہوں.پھر آپ نے حضرت یزید کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اے یزید ! میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے ، اس کی اطاعت کرنے ، اس کی خاطر ایثار کرنے اور اس سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں.جب دشمن سے تمہاری مڈھ بھیڑ ہو اور اللہ تمہیں فتح نصیب کرے تو تم خیانت نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا یعنی لوگوں کی، مقتولوں کی شکلیں نہ بگاڑنا اور تم بد عہدی نہ کرنا اور نہ ہی بزدلی دکھانا اور کسی چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بوڑھے کو اور نہ ہی کسی عورت کو اور نہ کھجور کے درخت کو جلانا اور نہ ہی انہیں تباہ و
اصحاب بدر جلد 2 328 حضرت ابو بکر صدیق برباد کرنا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا.تم کسی جانور کو ذبح نہ کرنا سوائے کھانے کے لیے.بلاوجہ جانوروں کو بھی ذبح نہیں کرنا یا مار نا نہیں.اور تم کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اللہ کے لیے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہو گا، پس تم انہیں اور اس چیز کو جس کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہو گا چھوڑ دینا.یعنی جو راہب ہیں، گرجوں کے پادری ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا اور تم کچھ ایسے لوگوں کو بھی پاؤ گے کہ شیطان نے ان کے سر کے بال در میان سے صاف کیسے ہوں گے.ان کے سروں کا درمیانی حصہ اس طرح ہو گا جیسے تیتر نے انڈے دینے کے لیے زمین میں گڑھا کھودا ہو.ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو اپنے سر کے بال در میان سے صاف کیے ہوں گے اور چاروں طرف سے پیٹیوں کی مانند بال چھوڑے ہوں گے.پس تم ان کے سروں کے صاف کیے ہوئے حصوں پر تلوار سے ضرب لگانا.ان لوگوں کو جو مارنے کا حکم ہے ، ان لوگوں کے بارے میں مختلف روایات ہیں.کہا جاتا ہے کہ یہ عیسائیوں کا ایک گروہ تھا جو راہب تو نہیں تھے لیکن مذہبی لیڈر تھے جو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے بھڑکاتے رہتے تھے اور جنگ میں حصہ بھی لیتے تھے.اس لیے حضرت ابو بکر نے یہ تو فرمایا کہ جو راہب ہیں، گرجوں کے اندر ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا لیکن ایسے لوگ اور ان لوگوں کے پیچھے چلنے والے وہ لوگ ، جو جنگ کے لیے بھڑ کاتے ہیں اور مسلمانوں سے جنگ کرتے ہیں، ان سے بہر حال جنگ کرنی ہے کیونکہ یہ لوگ جنگ کرنے والے بھی ہیں اور جنگ کے لیے بھڑ کانے والے بھی ہیں.فرمایا کہ ان سے جنگ کرنی ہے یہاں تک کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں یا بے بس ہو کر جزیہ دیں.جو اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ غیب سے اس کی مدد کرتا ہے.اور میں تمہیں سلام کہتا ہوں اور اللہ کے سپر د کر تا ہوں.761 ہر عہدیدار اور لیڈر کے لئے لائحہ عمل ایک اور روایت میں ان کے علاوہ مزید ہدایت کا بھی ذکر ملتا ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر نے حضرت یزید بن ابو سفیان کو فرمایا میں نے تمہیں والی مقرر کیا تا کہ تمہیں آزماؤں، تمہارا تجربہ کروں اور تمہیں باہر نکال کر تمہاری تربیت کروں.اگر تم نے اپنے فرائض بحسن و خوبی ادا کیے تو تمہیں دوبارہ تمہارے کام پر مقرر کروں گا اور تمہیں مزید ترقی دوں گا.اگر تم نے کو تاہی کی تو تمہیں معزول کر دوں گا.اللہ کے تقویٰ کو تم لازم پکڑو.وہ تمہارے باطن کو اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح ظاہر کو دیکھتا ہے.فرمایا کہ لوگوں میں خدا کے زیادہ قریب وہ ہے جو اللہ سے دوستی کا سب سے بڑھ کر حق ادا کرنے والا ہے اور لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ شخص ہے جو اپنے عمل کے ذریعہ سب سے زیادہ اس سے قربت حاصل کرے.میں نے خالد بن سعید کی جگہ تم کو مقرر کیا ہے.جاہلی تعصب سے بچنا.اللہ کو یہ باتیں اور ایسا کرنے والا انتہائی ناپسند ہیں.جب تم اپنے لشکر کے پاس پہنچو تو ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا.
اصحاب بدر جلد 2 329 حضرت ابو بکر صدیق ان کے ساتھ خیر سے پیش آنا اور ان کو خیر کا وعدہ دلانا اور جب انہیں وعظ و نصیحت کر ناتو مختصر کرنا کیونکہ بہت زیادہ گفتگو بہت سی باتوں کو بھلا دیتی ہے.تم اپنے نفس کو درست رکھو، لوگ تمہارے لیے درست ہو جائیں گے.لیڈر اپنے آپ کو ٹھیک رکھیں تو لوگ خود درست ہو جائیں گے.اور نمازوں کو ان کے اوقات پر رکوع و سجود کو مکمل کرتے ہوئے ادا کرنا، ان میں خشوع و خضوع کا مکمل اہتمام کرنا اور جب دشمن کے سفیر تمہارے پاس آئیں تو ان کا اکرام کرنا.سفیر آتا ہے تو اس کی عزت کرنی ہے.انہیں بہت کم ٹھہرانا اور تمہارے لشکر سے جلد نکل جائیں تا کہ وہ اس لشکر کے بارے میں کچھ جان نہ سکیں.یہ بھی حکمت ہے کہ سفیر آئیں تو ان کو کم سے کم ٹھہراؤ اور جلدی رخصت کر دو.اور اپنے امور پر ان کو مطلع نہ ہونے دینا کہ انہیں تمہاری خرابی کا پتہ چل جائے اور وہ تمہاری معلومات حاصل کرلیں.انہیں اپنے لشکر کے جمگھٹے میں رکھنا.اپنے لوگوں کو ان سے بات کرنے سے روک دینا.جب تم خود ان سے بات کرو تو اپنے بھید کو ظاہر نہ کرنا ورنہ تمہارا معاملہ خلط ملط ہو جائے گا.جب تم کسی سے مشورہ لینا تو بات سچ کہنا، صحیح مشورہ ملے گا.مشیر سے اپنی خبر مت چھپانا اور نہ تمہاری وجہ سے تمہیں نقصان پہنچے گا.یہ بھی ایک اصول ہے کہ جس سے مشورہ لینا ہے اس کو پھر ہر بار یک بات بھی بتانی پڑتی ہے تاکہ وہ صحیح مشورہ دے سکے اور کم سے کم نقصان ہو.رات کے وقت اپنے دوستوں سے باتیں کرو تمہیں بہت سی خبریں مل جائیں گی اور رات کو معلومات اکٹھی کرو تو پوشیدہ باتیں تم پر ظاہر ہو جائیں گی.حفاظتی دستہ میں زیادہ افراد کو رکھنا اور انہیں اپنی فوج میں پھیلا دینا اور اکثر بغیر اطلاع دیے اچانک ان کی چوکیوں کا معائنہ کرنا.جسے اپنی حفاظت گاہ سے غافل پاؤ اس کی اچھی طرح تادیب کرنا اور سزا دیتے ہوئے افراط سے کام نہ لینا.رات میں ان کی باریاں مقرر کرنا.اول شب کی باری آخری شب سے لمبی رکھنا کیونکہ دن سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ باری آسان ہوتی ہے.شروع رات کی جو ڈیوٹی ہے وہ لبی رکھو کیونکہ اس میں جاگنا آسان ہے اور آخری رات کی جو ڈیوٹی ہے وہ ذرا کم ہو.سزا کے مستحق کو سزا دینے سے مت ڈرنا.اس میں نرمی نہ کرنا.سزا دینے میں جلدی نہ کرنا اور نہ بالکل نظر انداز کرنا.پھر فرمایا کہ اپنی فوج سے غافل نہ رہنا کہ وہ خراب ہو جائیں اور ان کی جاسوسی کر کے ان کو رسوا نہ کرنا.ان کی راز کی باتیں لوگوں سے نہ بیان کرنا.ان کے ظاہر پر اکتفا کرنا.بریکار قسم کے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھنا.سچے اور وفادار لو گوں کے ساتھ بیٹھنا.دشمن سے مڈھ بھیڑ کے وقت ڈٹ جانا.بزدل نہ بنناور نہ لوگ بھی بزدل ہو جائیں گے.مالِ غنیمت میں خیانت سے بچنا یہ محتاجی سے قریب کرتی ہے اور فتح و نصرت کو روکتی ہے.تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہو گا.پس تم انہیں اور جس کام میں انہوں نے اپنے آپ کو مشغول رکھا ہو گا اسے چھوڑ دینا.12 تو یہ ایک مکمل لائحہ عمل ہے جو ہر لیڈر کے لیے، ہر عہدے دار کے لیے، کام کرنے کے لیے، عمل کرنے کے لیے بڑا ضروری ہے.اس کے بعد حضرت ابو بکر نے حضرت یزید کا ہاتھ پکڑا اور انہیں الوداع کرتے ہوئے فرمایا: تم پہلے شخص ہو جسے میں نے مسلمانوں کے معززین پر امیر مقرر کیا ہے جو نہ تو 762
ناب بدر جلد 2 330 حضرت ابو بکر صدیق کم حیثیت کے لوگ ہیں نہ کمزور نہ گھٹیا، نہ مذہبی تشد درکھنے والے ہیں.پس تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا اور اپنا بازو ان پر جھکائے رکھنا اور ان سے اہم معاملات میں مشورہ کرنا، حسن سلوک کرنا.اللہ تمہارے لیے تمہارے ساتھیوں کو حسن سلوک کرنے والا بنائے.اور پھر فرمایا کہ ہماری خلافت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مدد فرمائے.حضرت ابو بکر کی صبح و شام کی دعا پھر حضرت یزید اپنے لشکر کو لے کر شام کی طرف روانہ ہو گئے.حضرت ابو بکر ہر صبح شام نماز فجر اور عصر کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ !تو نے ہمیں پیدا کیا ہم کچھ بھی نہ تھے.پھر تُو نے اپنی جناب سے رحمت اور فضل نازل کرتے ہوئے ہماری طرف ایک رسول بھیجا.پھر تُو نے ہمیں ہدایت دی جبکہ ہم گمراہ تھے اور تو نے ہمارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی جبکہ ہم کافر تھے.ہم تعداد میں تھوڑے تھے اور تو نے ہمیں زیادہ کیا.ہم پراگندہ تھے، تو نے ہمیں اکٹھا کر دیا.ہم کمزور تھے ، تو نے ہمیں طاقت بخشی.پھر تو نے ہم پر جہاد فرض کیا اور ہمیں مشرکین سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیں اور وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور وہ بے بس ہو چکے ہوں.یا تو مسلمان ہو جائیں یا اگر مسلمان نہیں ہوتے تو پھر جزیہ ادا کریں.اے اللہ ! ہم تیرے اس دشمن سے جہاد کے بدلے تیری خوشنودی کے خواہاں ہیں جس نے تیرے ساتھ شریک ٹھہرایا اور تیرے سوا اور معبودوں کی عبادت کی.اے اللہ ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں.ظالم جو کہتے ہیں تیری شان اس سے بہت بلند ہے.اے اللہ ! اپنے مشرک دشمنوں کے مقابلے میں اپنے مسلمان بندوں کی مدد فرما.اے اللہ! انہیں آسان فتح نصیب فرما اور ان کی بھر پور مدد کر.ان میں سے جو کم ہمت ہیں انہیں بہادر بنا دے اور ان کے قدموں کو ثبات بخش اور ان کے دشمنوں کو لڑکھڑا دے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان کو تباہ و برباد کر دے اور انہیں جڑ سے کاٹ ڈال اور ان کی کھیتیوں کو تباہ کر دے اور ہمیں ان کی زمینوں، ان کے گھروں، ان کے اموال اور ان کے نشانات کا وارث بنا اور تُو ہمارا ولی اور ہم پر مہربان ہو جا.اور ہمارے معاملات کو درست کر دے.تیری نعمتوں سے حصہ پانے کے لیے ہمیں شکر گزار لوگوں میں سے بنادے.تو ہمیں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بھی بخش دے.ان میں سے جو زندہ ہیں ان کو بھی اور جو وفات پاچکے ہیں ان کو بھی.اللہ ہمیں اور تمہیں دنیا اور آخرت میں قول ثابت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا رہنے والا بنائے.یقیناًوہ مومنوں کے ساتھ بہت مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے.دوسر الشکر جو تھا میر حبیل بن حسنہ کا تھا.حضرت شرحبیل بن حسنہ کے والد کا نام عبد اللہ بن مطاع اور والدہ کا نام حسنہ تھا.آپ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور حضرت شرحبیل کے والد ان کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور یہ اپنی والدہ حسنہ کے نام پر شر صبیل بن حسنہ کہلائے.حضرت شرحبیل 763
اصحاب بدر جلد 2 331 حضرت ابو بکر صدیق ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے.خلافت راشدہ میں یہ مشہور سپہ سالاروں میں سے ایک تھے.اٹھارہ ہجری میں سڑسٹھ سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.764 حضرت شرحبیل بن حسنہ کی روانگی کے لیے حضرت ابو بکر نے حضرت یزید بن ابو سفیان کی روانگی کے تین دن بعد کی تاریخ مقرر فرمائی.جب تیسرا دن گزر گیا تو آپ نے حضرت شرحبیل کو الوداع کہا اور فرمایا، اسے شہر حبیل! کیا تم نے یزید بن ابو سفیان کو جو وصیت میں نے کی اس کو نہیں سنا.انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں.پہلے میں نے سنی ہیں (جو نصیحتیں میں نے پڑھی ہیں ) اس پر حضرت ابو بکر نے فرمایا، میں تمہیں اسی کی مانند وصیت کرتا ہوں اور ان باتوں کی بھی وصیت کرتا ہوں جن کا ذکر یزید کو کرنا بھول گیا تھا.میں تمہیں نماز وقت پر ادا کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور جنگ کے روز ثابت قدم رہنے کی یہاں تک کہ تم فتح حاصل کر لو یا شہید ہو جاؤ اور مریضوں کی عیادت کرنے اور جنازوں میں شامل ہونے اور ہر حال میں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے کی وصیت کرتا ہوں.ابوسفیان نے آپ سے عرض کیا کہ یزید ان صفات پر پہلے ہی کار بند ہے اور شام جانے سے قبل ہی اس پر دوام اختیار کیے ہوئے تھا.اب وہ اس کو زیادہ لازم کر لے گا ان شاء اللہ.حضرت شرحبیل نے جواب دیا: اللہ سے مدد مانگتے ہیں جو اللہ چاہے گا وہی ہو گا.پھر حضرت ابو بکر کو الوداع کہا اور اپنے لشکر کے ساتھ جانب شام روانہ ہو گئے.حضرت شرحبیل کے لشکر کی تعداد تین ہزار سے چار ہزار تک تھی.آپ کو یہ حکم فرمایا کہ تبوک اور بلقاء جائیں اور پھر بضری کا رخ کریں اور یہ آخری منزل ہو.بصر کی شام کا ایک قدیم اور مشہور شہر ہے.حضرت شرحبیل بلقاء کی طرف روانہ ہو گئے.کوئی قابل ذکر مقابلہ نہ ہوا.بلقاء بھی شام کے علاقہ میں واقع ہے آپ کا لشکر حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے بائیں اور لشکر عمرو بن عاص کے دائیں جانب چلتے ہوئے بلقاء پہنچا اور اندر کھس گیا اور بصری پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا لیکن فتح حاصل نہ ہو سکی کیونکہ یہ رومیوں کے محفوظ اور مضبوط مراکز میں سے تھا.تیسر الشكر ابو عبیدہ بن جراح کا تھا.حضرت ابو عبیدہ بن جراح کا نام عامر بن عبد اللہ تھا اور ان کے والد کا نام عبد اللہ بن جراح تھا.حضرت ابو عبیدہ اپنی کنیت کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں جبکہ آپ کے نسب کو آپ کے دادا جراح سے جوڑا جاتا ہے.آپ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی العلیم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی.جنہیں عشرہ مبشرہ کہتے ہیں.ان کی وفات اٹھارہ ہجری میں ہوئی.اس وقت ان کی عمر اٹھاون سال تھی.766 تیسر ا لشکر جو حضرت ابو بکر نے شام کی جانب روانہ کیا جیسا کہ میں نے کہا اس کے امیر حضرت ابو عبیدہ تھے.ان کو حمص کی جانب روانہ فرمایا ہے.حمص بھی دمشق کے قریب شام کا ایک قدیم شہر ہے 765
حاب بدر جلد 2 332 حضرت ابو بکر صدیق اور بڑا شہر تھا.حضرت ابو عبیدہ کے لشکر کی تعداد سات ہزار تھی جبکہ ایک روایت کے مطابق آپ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سے چار ہزار تک تھی.حضرت ابو عبیدہ راستے میں گزرتے ہوئے بلقاء کی ایک بستی آب کے پاس سے گزرے.یہ کوئی شہر نہیں تھا بلکہ خیموں کی ایک بستی تھی.وہاں کے لوگوں سے آپ کی جنگ ہوئی مگر پھر ان لوگوں نے آپ سے صلح کی درخواست کی جس پر آپ نے ان کے ساتھ صلح کر لی.یہ سب سے پہلی صلح تھی جو شام کے علاقے میں ہوئی.767 حضرت ابو بکر نے حضرت ابو عبیدہ کے ساتھ قیس بن ہبیرہ کو بھی روانہ فرمایا تھا.حضرت ابو بکر نے ان کے متعلق ابو عبیدہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: تمہارے ساتھ عرب کے شہسواروں میں سے ایک عظیم شرف و منزلت کا شخص ہے.میں نہیں سمجھتا کہ جہاد کے معاملے میں اس سے بڑھ کر کوئی نیک نیت ہو.اس کی رائے اور مشورے سے اور جنگی قوت سے مسلمان بے نیاز نہیں ہو سکتے.اس کو اپنے سے قریب رکھنا اور اس کے ساتھ لطف و کرم کا بر تاؤ کرنا اور اسے یہ محسوس کرانا کہ تم اس سے بے نیاز نہیں ہو.اس سے تمہیں اس کی خیر خواہی حاصل رہے گی اور دشمن کے مقابلے میں اس کی کوششیں تمہارے ساتھ ہوں گی.حضرت ابو عبیدہ وہاں سے چلے گئے تو حضرت ابو بکر نے قیس بن بیروہ کو بلایا اور فرمایا تمہیں ابو عبیدہ امین امت کے ساتھ بھیج رہا ہوں.ان پر اگر ظلم کیا جائے تو وہ اس کے بدلے میں ظلم نہیں کرتے اور اگر ان کے ساتھ بدسلوکی کی جائے تو معاف کر دیتے ہیں اور ان سے تعلق توڑا جائے تو اس کو جوڑنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں.مومنوں کے ساتھ بڑے رحیم ہیں اور کفار کے مقابلے میں سخت ہیں.تم ان کی حکم عدولی نہ کرنا اور یہ تمہیں خیر ہی کا حکم دیں گے.میں نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ تمہاری بات سنیں.لہذا تم انہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے مشورہ دینا.ہم سنتے آئے ہیں کہ تم شرک اور دور جاہلیت میں جنگ کے تجربہ کار سردار ہو جبکہ جاہلیت میں گناہ اور کفر پایا جاتا تھا.لہذا تم اپنی قوت اور بہادری کو اسلام کی حالت میں کافروں اور ان لوگوں کے خلاف استعمال میں لاؤ جنہوں نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اجر عظیم اور مسلمانوں کے لیے عزت و غلبہ رکھا ہے.یہ نصیحت سن کر قیس بن هبيرہ نے عرض کیا، اگر آپ زندہ رہے اور میں بھی زندہ رہا تو آپ کو میرے بارے میں مسلمانوں کی حفاظت اور مشرکوں کے خلاف جہاد کی ایسی خبریں پہنچیں گی جو آپ کو پسندیدہ ہوں گی اور آپ کو خوش کر دیں گی.حضرت ابو بکر نے فرمایا تم جیسا شخص ہی ایسا کر سکتا ہے اور جب ابو بکر کو جابیہ میں (رومیوں کے ) دو کمانڈروں کے ساتھ ان کی مبارزت اور ان دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا قیس نے بیچ کر دکھایا اور اپنا وعدہ پورا کر دیا.768
حاب بدر جلد 2 چوتھا لشکر 333 حضرت ابو بکر صدیق حضرت عمر و بن عاص کا تھا.اس کے بارے میں لکھا ہے کہ: حضرت ابو بکر نے ایک لشکر حضرت عمرو بن عاص کی قیادت میں شام کی طرف روانہ کیا تھا.حضرت عمرو بن عاص شام جانے سے قبل قضاعہ کے ایک حصہ کے صدقات کی تحصیل کے لیے مقرر تھے.جبکہ قضاعہ کے دوسرے نصف حصہ کی صدقات کی تحصیل کے لیے حضرت ولید بن عقبہ مقرر کیے گئے تھے.جب حضرت ابو بکر نے شام کی جانب مختلف لشکر روانہ فرمانے کا ارادہ فرمایا تو ان کی خواہش تھی کہ حضرت عمرو بن عاص کو شام کی طرف بھیجیں لیکن ان کے کارناموں کی وجہ سے، حضرت عمرو کے کارناموں کی وجہ سے جو انہوں نے فتنہ ارتداد کو ختم کرنے کے لیے انجام دیے تھے حضرت ابو بکر نے انہیں یہ اختیار دیا کہ خواہ وہ قضاعہ میں ہی مقیم رہیں یا شام جا کر وہاں کے مسلمانوں کی تقویت کا باعث بنیں.769 چنانچہ حضرت ابو بکر نے حضرت عمر و بن عاص کو خط لکھا کہ : اے ابو عبد اللہ ! میں تم کو ایک ایسے کام میں مصروف کرنا چاہتا ہوں جو تمہاری دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بہترین ہے سوائے اس کے کہ تمہیں وہ کام زیادہ پسند ہو جو تم انجام دے رہے ہو.اس کے جواب میں حضرت عمرو بن عاص نے حضرت ابو بکر کو یہ لکھا کہ : میں اسلام کے تیروں میں سے ایک تیر ہوں اور اللہ کے بعد آپ ہی ایک ایسے شخص ہیں جو ان تیروں کو چلانے اور جمع کرنے والے ہیں.آپ دیکھیں کہ ان میں سے جو تیر نہایت سخت، زیادہ خوفناک اور بہترین ہو اسے اس طرف چلا دیجیے جس طرف آپ کو کوئی خطرہ نظر آئے.یعنی کہ میں تو ہر قسم کے خطرے میں جانے کے لیے ہر طرح تیار ہوں.770 جب حضرت عمر و بن عاص مدینہ آئے تو حضرت ابو بکر نے انہیں حکم دیا کہ مدینہ سے باہر جاکر خیمہ زن ہو جائیں تاکہ لوگ آپ کے ساتھ جمع ہوں.اشراف قریش میں سے بہت سے لوگ آپ کے ساتھ شامل ہوئے.جب فیصلہ ہو گیا کہ شام کی طرف جانا ہے تو پھر حضرت عمرو بن عاص کو مدینہ بلایا گیا.آپ وہاں آئے اور پھر یہاں حضرت ابو بکر نے آپ کو اپنے ساتھ لشکر تیار کرنے کے لیے فرمایا کہ مدینہ کے باہر خیمہ زن ہو جائیں تاکہ لوگ آپ کے پاس آئیں.جب آپ نے روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابو بکر آپ کو رخصت کرنے نکلے.فرمایا: اے عمرو! تم رائے اور تجربہ کے مالک ہو اور جنگی بصیرت رکھتے ہو.تم اپنی قوم کے اشراف اور مسلم صلحاء کے ساتھ جارہے ہو اور اپنے بھائیوں سے ملو گے.لہذا ان کی خیر خواہی میں کو تاہی نہ کرنا اور ان سے اچھے مشورے کو نہ روکنا کیونکہ تمہاری رائے جنگ میں قابل تعریف اور انجام کار بابرکت ہو سکتی ہے.اگر کوئی مشورہ دے تو ان سے اچھے مشورے کو نہ روکنا، اگر تمہارے پاس کوئی تجویز ہے تو اس کو بے شک استعمال کرنا.حضرت عمرو بن عاص نے
حاب بدر جلد 2 334 حضرت ابو بکر صدیق عرض کیا کتنا بہتر ہے میرے لیے کہ میں آپ کے گمان کو سچ کر دکھاؤں اور آپ کی رائے میرے بارے میں خطانہ کرے.حضرت عمرو بن عاص اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہو گئے.آپ کی فوج چھ سات ہزار کے درمیان تھی اور ان کی منزل مقصود فلسطین تھی.حضرت عمرو نے ایک ہزار مجاہدین پر مشتمل دستہ تیار کیا اور حضرت عبد اللہ بن عمر کی قیادت میں روم کی جانب پیش قدمی کے لیے روانہ کیا.یہ دستہ رومیوں سے جا ٹکرایا اور دشمن کی قوت کو پارہ پارہ کر کے ان پر فتح حاصل کی اور بعض قیدیوں کے ساتھ واپس ہوا.حضرت عمرو بن عاص نے ان قیدیوں سے پوچھ گچھ کی جس سے پتہ چلا کہ رومی فوج روئیں کی قیادت میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کرنے کی تیاری میں ہے.ان معلومات کی روشنی میں حضرت عمر نے اپنی فوج کو منظم کیا.جب رومی حملہ آور ہوئے تو مسلمان ان کا حملہ روکنے میں کامیاب ہو گئے اور رومی فوج کو واپس ہونے پر مجبور کر دیا اور اس کے بعد ان پر جوابی حملہ کر کے دشمن کی قوت کو تباہ کر دیا اور راہِ فرار اختیار کرنے اور میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا.اسلامی فوج نے ان کا پیچھا کیا اور روم کے ہزاروں فوجی مارے گئے اور اسی پر یہ معرکہ ختم ہو گیا.771 ان لشکروں کو روانہ کر کے حضرت ابو بکر نے اطمینان کا سانس لیا.انہیں کامل امید تھی کہ اللہ ان فوجوں کے ذریعہ سے مسلمانوں کو رومیوں پر غلبہ عطا فرمائے گا.وجہ یہ تھی کہ ان میں ایک ہزار سے زیادہ مہاجر اور انصار صحابہ شامل تھے جنہوں نے ہر موقع پر انتہائی وفاداری کا ثبوت دیا تھا اور ابتدائے اسلام میں رسول اللہ صلی الیکم کے دوش بدوش لڑائیوں میں حصہ لیا تھا.ان میں وہ اہل بدر بھی شامل تھے جن کے متعلق آپ ، یعنی آپ صلی لی ہم نے اپنے رب کے حضور یہ التجا کی تھی کہ اے اللہ ! اگر آج تو نے اس چھوٹی سی جماعت کو ہلاک کر دیا تو آئندہ پھر کبھی زمین پر تیری پرستش نہیں کی جائے گی.172 ہر قل کی جو شیلی تقریر پھر لکھا ہے کہ شاہ روم ہر قل ان دنوں فلسطین میں تھا.جب اسے مسلمانوں کی تیاریوں کی خبریں ملیں تو اس نے علاقے کے سرداروں کو جمع کیا اور ان کے سامنے جوشیلی تقریریں کر کے انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا.اس نے مسلمانوں کے متعلق کہا کہ یہ بھو کے ننگے ، غیر مہذب لوگ صحرائے عرب سے نکل کر تم پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں.تم انہیں ایسا منہ توڑ جواب دو کہ پھر یہ کبھی تمہاری طرف دیکھنے کی بھی جرات نہ کر سکیں.سامان حرب اور فوجیوں کے ذریعہ سے تمہاری پوری مدد کی جائے گی.جو امر ا تم پر مقرر کیے گئے ہیں تم دل و جان سے ان کی اطاعت کرو.فتح تمہاری ہو گی.رقل نے وہاں کے لوگوں کو یہ تقریر کی عربوں کے خلاف ابھارنے میں، مسلمانوں کے خلاف ابھارنے میں.فلسطین کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف آمادہ پیکار کر کے ہر قل دمشق آیا.وہاں سے حمص اور
ناب بدر جلد 2 335 حضرت ابو بکر صدیق انطاکیہ پہنچا اور فلسطین کی طرح ان علاقوں میں بھی اس نے جو شیلی تقریریں کر کے وہاں کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا.خود انطاکیہ کو ہیڈ کوارٹر بنا کر مسلمانوں سے مقابلے کی تیاریاں کرنے لگا.3 773 روم کی شام میں دو افواج تھیں.ایک فلسطین میں اور دوسری انطاکیہ میں اور ان دونوں افواج نے درج ذیل مقامات پر اپنے مراکز بنارکھے تھے.نمبر ایک انطاکیہ : یہ رومی سلطنت کے دور میں شام کا دارالسلطنت تھا.دوسر اقنسرین: یہ شام کی سرحد ہے جو شمال مغرب میں فارس کے مقابل پڑتی ہے.تیسر ا حمص : یہ شام کی سرحد ہے جو شمال مشرق میں فارس کے مقابل پڑتی ہے.چو تھا.عمان: بلقاء کا صدر مقام یہاں مضبوط اور محفوظ قلعہ تھا.پانچواں اجنادین: یہ فلسطین کے جنوب میں روم کا عسکری مرکز تھا جو بلاد عرب کی مشرقی اور مغربی سرحدوں اور حدود مصر سے ملتا تھا.چھٹا قیساریہ: یہ فلسطین کے شمال میں حیفا سے تیرہ کلو میٹر پر واقع ہے اور اس کے کھنڈر ابھی تک باقی ہیں.رومی ہائی کمان کا مرکز انطاکیہ یا حمص تھا.774 ایک روایت میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ جب ہر قل کو اسلامی لشکروں کی آمد کی خبر ملی تو اس نے پہلے اپنی قوم کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ میری رائے ہے کہ تم مسلمانوں سے صلح کر لو.خدا کی قسم ! اگر ان سے شام کی نصف پیداوار پر صلح کرو گے اور تمہارے پاس نصف پیداوار اور روم کا علاقہ رہا تو وہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ شام کے تمام علاقے اور روم کے نصف علاقے پر قابض ہو جائیں مگر اہل روم اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے اس کی بات نہیں مانی.اس لیے وہ انہیں اکٹھا کر کے حمص لے گیا اور وہاں اس نے فوجیوں اور لشکروں کو تیار کرناشروع کیا.حمص کے بعد ہر قل انطاکیہ گیا.چونکہ اس کے پاس فوج بہت زیادہ تھی اس لیے اس نے یہ ارادہ کیا کہ مسلمانوں کے ہر لشکر کے مقابلے میں الگ الگ لشکر بھیجے تا کہ مسلمانوں کے لشکر کے ہر حصہ کو اپنے مد مقابل کے ذریعہ کمزور کر دے.چنانچہ اس نے اپنے بھائی تذارق کو نوے ہزار فوج دے کر حضرت عمرو کے مقابلے میں بھیجا اور جرجہ بن تور کو حضرت یزید بن ابو سفیان کے مقابلے کے لیے بھیجا.اسی طرح قیقار بن نَسْطوس کو ساٹھ ہزار فوج دے کر حضرت ابو عبیدہ کی طرف روانہ کیا اور حضرت شر خبیل بن حسنہ کے مقابلے کے لیے ڈر اقض کو بھیجا.775 حضرت ابوعبیدہ بن جراح جب جابیہ کے قریب تھے تو ان کے پاس ایک آدمی خبر لے کر آیا کہ ہر قل انطاکیہ میں ہے اور اس نے تمہارے مقابلے کے لیے اتنا بڑا لشکر تیار کیا ہے کہ اس سے قبل ایسا لشکر اس کے آباؤ اجداد میں سے بھی کسی نے تم سے پہلی قوموں کے مقابلے کے لیے تیار نہیں کیا تھا.اس پر حضرت ابو عبیدہ نے حضرت ابو بکر کو خط لکھا کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ شاہ روم ہر قل شام کی ایک بستی جسے انطاکیہ کہتے ہیں وہاں آکر قیام پذیر ہوا ہے اور اپنی سلطنت کے لوگوں کی طرف آدمی
ناب بدر جلد 2 336 حضرت ابو بکر صدیق بھیجے کہ انہیں جمع کر کے لائیں.چنانچہ لوگ ہر مشکل اور آسان راستوں سے ہوتے ہوئے ہر قل کی طرف آئے.لہذا میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کو اس کی اطلاع بھیج دوں تا کہ اس بارے میں آپ فیصلہ کر سکیں.حضرت ابو بکر نے حضرت ابوعبیدہ کی طرف جو ابا لکھا کہ تمہارا خط مجھے ملا میں نے اس کو سمجھا جو تم نے شاہ روم ہر قل کے متعلق تحریر کیا ہے.پھر فرمایا کہ انطاکیہ میں اس کا قیام کرنا اس کی اور اس کے ساتھیوں کی شکست اور اس میں اللہ کی طرف سے تمہاری اور مسلمانوں کی فتح ہے ، گھبرانے کی کوئی بات نہیں.تم نے جو ہر قل کے اپنے مملکت کے لوگوں کو جمع کرنے اور کثیر تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے سے متعلق تحریر کیا ہے تو یہ ہم اور تم پہلے سے جانتے ہیں کہ وہ ایسا کریں گے کیونکہ کوئی قوم بغیر قتال کے اپنے بادشاہ کو نہ چھوڑ سکتی ہے اور نہ اپنی مملکت سے نکل سکتی ہے.پھر آپ نے لکھا کہ الحمد للہ ! مجھے یہ معلوم ہے کہ ان سے لڑنے والے بہت سے مسلمان موت سے اسی قدر محبت رکھتے ہیں جس قدر دشمن زندگی سے محبت رکھتا ہے اور اپنے قتال میں اللہ سے اجر عظیم کی امید رکھتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اس سے زیادہ محبت رکھتے ہیں جتنی انہیں کنواری عورتوں اور قیمتی مال سے ہوتی ہے.ان میں سے ایک مسلمان جنگ کے وقت ہزار مشرکین سے بہتر ہے.تم اپنی فوج کے ساتھ ان سے ٹکراؤ اور جو مسلمان تم سے غائب ہیں اس کی وجہ سے پریشان نہ ہو.یقینا اللہ جس کا ذکر بہت بلند ہے وہ تمہارے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میں تمہاری مدد کے لیے لوگوں کو بھیج رہا ہوں یعنی اور فوج بھی بھیج رہا ہوں جو تمہارے لیے کافی ہو گی اور مزید کی ان شاء اللہ خواہش نہ رہے گی.والسلام 776 اسی طرح حضرت عمرو بن عاص کا بھی خط حضرت ابو بکر کو ملا.حضرت ابو بکر نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ تمہارا خط مجھے موصول ہو ا جس میں تم نے رومیوں کے فوج اکٹھی کرنے کا ذکر کیا ہے تو یاد رہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی الیم کے ساتھ کثرت فوج کی بنا پر ہمیں فتح و نصرت نہیں عطا کی.ہماری تو حالت یہ تھی کہ ہم رسول اللہ صلی الیتیم کے ساتھ جہاد کرتے اور ہمارے پاس صرف دو گھوڑے ہوتے اور اونٹ پر بھی باری باری سواری کرتے.احد کے دن ہم رسول اللہ صلی ال نیم کے ساتھ تھے اور ہمارے پاس صرف ایک ہی گھوڑا تھا جس پر رسول اللہ صلی الی و کم سوار تھے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما تا اور ہماری مدد کر تا تھا.آپ نے فرمایا کہ عمر و! یاد رکھو اللہ کا سب سے بڑا مطیع وہ ہے جو معصیت سے سب سے زیادہ بغض رکھے.خود بھی اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے ساتھیوں کو بھی اطاعت الہی کا حکم دو.777 حضرت یزید بن ابو سفیان نے بھی حضرت ابو بکر کو خط میں وہاں کے حالات لکھتے ہوئے مدد طلب کی جس کے جواب میں حضرت ابو بکر نے لکھا کہ جب ان سے تمہارا مقابلہ ہو تو اپنے ساتھیوں کو لے کر ان پر ٹوٹ پڑو اور ان سے قتال کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں رسوا نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے
محاب بدر جلد 2 337 حضرت ابو بکر صدیق کہ اللہ کے حکم سے چھوٹا گر وہ بڑے گروہ پر غالب آجاتا ہے اور اس کے باوجو د میں تمہاری مدد کے لیے مجاہدین پر مجاہدین بھیج رہا ہوں یہاں تک کہ تمہارے لیے کافی ہو جائیں گے اور مزید کی حاجت نہ محسوس کرو گے.ان شاء اللہ.والسلام.حضرت ابو بکر نے دستخط فرمائے.حضرت ابو بکر نے یہ خط حضرت عبد اللہ بن قرط کو حضرت یزید کی طرف لے جانے کے لیے دیا اور حضرت عبد اللہ آپ کا خط لے کر روانہ ہوئے یہاں تک کہ حضرت یزید کے پاس پہنچے اور یہ خط مسلمانوں کے سامنے پڑھا جس سے مسلمان بہت خوش ہوئے.778 حضرت ابو بکر نے ہاشم بن عتبہ کو بلایا اور ان سے فرمایا اے ہاشم ! یقینا تمہاری سعادت مندی اور نیک بختی ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جس سے امت اپنے دشمن مشرکین کے خلاف جہاد میں مدد حاصل کر رہی ہے اور جس کی خیر خواہی، صحت رائے، پاکدامنی اور جنگی صلاحیت پر حاکم کو اعتماد اور بھروسا ہے.حضرت ابو بکر نے انہیں یعنی ہاشم کو فرمایا کہ مسلمانوں نے مجھے خط لکھ کر اپنے دشمن کفار کے مقابلے میں مدد طلب کی ہے تو تم اپنے ساتھیوں کو لے کر ان کے پاس جاؤ.میں لوگوں کو تمہارے ساتھ جانے پر تیار کر رہا ہوں.تم یہاں سے روانہ ہو جاؤ یہاں تک کہ ابوعبیدہ سے جاملو.حضرت ابو بکر لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی.اور فرمایا.اما بعد ! یقینا تمہارے مسلمان بھائیوں میں سے کچھ خیر وعافیت سے ہیں.کچھ زخمی ہیں جن کا دفاع کیا جا رہا ہے اور ان کی دیکھ بھال کی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ نے دشمن کے دلوں میں ان کا رعب بٹھا دیا ہے.انہوں نے اپنے قلعوں میں پناہ لے کر ان کے دروازے بند کر لیے ہیں.مسلمانوں کی طرف سے پیغام رساں یہ خبر لائے ہیں کہ شاہ روم ہر قل نے ان کے سامنے سے بھاگ کر شام کے کنارے ایک بستی میں پناہ لے لی ہے.انہوں نے ہمیں یہ خبر بھیجی ہے کہ ہر قل نے اس جگہ سے بہت بڑی فوج مسلمانوں سے مقابلے کے لیے روانہ کی ہے.میرا ارادہ ہے کہ تمہارے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے تمہاری فوج روانہ کروں.اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے ان کی پشت مضبوط کرے گا یعنی اس فوج کے ذریعہ سے مسلمانوں کی پشت مضبوط کرے گا اور دشمن کو ذلیل کرے گا اور ان کے دلوں میں اس کا رعب ڈال دے گا.اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے.ہاشم بن عتبہ کے ساتھ تیار ہو جاؤ اور اللہ سے اجر و خیر کی امید رکھو.اگر تم کامیاب ہوئے تو فتح و غنیمت حاصل ہو گی اور اگر ہلاک ہوئے تو شہادت و کرامت حاصل ہو گی.پھر حضرت ابو بکر اپنے گھر آئے اور لوگ ہاشم بن عتبہ کے پاس جمع ہونے لگے یہاں تک کہ ان کی تعداد بڑھ گئی.جب ایک ہزار ہو گئے تو حضرت ابو بکر نے انہیں کوچ کرنے کا حکم دے دیا.ہاشم نے حضرت ابو بکر کو سلام کیا اور الوداع کہا.حضرت ابو بکڑ نے ان سے فرمایا اے ہاشم ! ہم بڑے بوڑھے کی رائے، مشورہ اور حسن تدبیر سے استفادہ کیا کرتے تھے اور نوجوانوں کے صبر ، قوت اور شجاعت پر بھروسا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر یہ سب خصائل جمع کر دیے ہیں.تم ابھی نو عمر اور خیر
حاب بدر جلد 2 338 حضرت ابو بکر صدیق کی طرف بڑھنے والے ہو.جب دشمن سے مڈھ بھیڑ ہو تو ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور صبر کا مظاہرہ کرنا اور یاد رکھو اللہ کی راہ میں جو قدم بھی تم اٹھاؤ گے ، جو خرچ بھی کرو گے اور جو پیاس تھکاوٹ اور بھوک تمہیں لاحق ہو گی اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہارے نامہ اعمال میں عمل صالح لکھے گا.اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا.ہاشم نے عرض کیا کہ اگر اللہ نے میرے ساتھ خیر خواہی چاہی تو مجھے ایسا ہی کرے گا اور میں ایسا ہی کروں گا.قوت و طاقت اللہ ہی عطا کرنے والا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر میں مارا نہ گیا تو میں ان سے لڑوں گا.پھر ان سے لڑوں گا پھر ان سے لڑوں گا.پھر کہا کہ مجھے امید ہے کہ اگر میں قتل نہ کیا گیا تو میں ان سے بار بار لڑائی کروں گا یا انہوں نے یہ کہا کہ میری خواہش ہوگی کہ میں قتل کیا جاؤں اور بار بار قتل کیا جاؤں.یہ دو روایتیں ہیں.پھر ان سے ان کے چچا حضرت سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ اے بھتیجے ! تم جو بھی نیزے چلاؤ اور جو ضرب بھی لگاؤ اس سے مقصود اللہ کی رضا ہو اور جان لو کہ تم بہت جلد دنیا سے رخصت ہونے والے ہو اور عنقریب اللہ کی طرف لوٹنے والے ہو اور دنیا سے لے کر آخرت تک تمہارے ساتھ سچائی کا قدم ہو گا جو تم نے اٹھایا ہو گا یا عمل صالح ہو گا جو تم نے کیا ہے.ہاشم نے کہا: چا جان! آپ میری طرف سے اس بارے میں بالکل بے خوف رہیں.اگر میر اقیام و سفر ، صبح شام کی نقل و حرکت، کوشش کرنا اور لشکر کشی کرنا اور اپنے نیزے سے زخم لگانا اور اپنی تلوار سے ضرب لگانالوگوں کو دکھانے کے لیے ہو تو پھر میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا.یعنی کہ میر اہر عمل تو اللہ کی خاطر ہو گا لوگوں کے لیے نہیں.پھر حضرت ابو بکر کے پاس سے روانہ ہوئے اور حضرت ابو عبیدہ کا راستہ اختیار کیا یہاں تک کہ ان کے پاس آگئے.ان کے پہنچنے سے مسلمان خوش ہو گئے اور ایک دوسرے کو ان کی آمد کی خوشخبری سناتے.حضرت سعید بن عامر بن حِذْيَہ کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت ابو بکر انہیں جہاد شام پر بھیجنا چاہتے ہیں.حضرت ابو بکر یہ ایک اور لشکر تیار کر رہے تھے.حضرت سعید کا خیال تھا کہ یہ ان کی سرکردگی میں جائے گا.بہر حال ان کو یہ خبر پہنچی لیکن جب حضرت ابو بکر نے کچھ تاخیر کر دی اور کچھ دن ان سے ذکر کرنے سے رکے رہے تو حضرت سعید حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور عرض کیا اے ابو بکر اللہ کی قسم مجھے یہ خبر ملی تھی کہ آپ مجھے رومیوں کی جانب بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر پھر میں نے دیکھا کہ آپ نے خاموشی اختیار کر لی.میں نہیں جانتا کہ میرے بارے میں آپ کے دل میں کیا خیال آیا ہے اگر آپ میرے علاوہ کسی اور کو امیر بنا کر بھیجنا چاہتے ہیں تو مجھے اس کے ساتھ بھیج دیں.میرے لیے اس سے بڑھ کر کوئی خوشی والی بات نہیں ہو گی.اور اگر آپ کسی کو بھی بھیجنا نہیں چاہتے تو میں جہاد کا شوق رکھتا ہوں آپ مجھے اجازت دیں کہ میں مسلمانوں سے جاملوں.اللہ آپ پر رحم فرمائے.میرے سامنے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ رومیوں نے بہت بڑا لشکر جمع کیا ہے.اس پر حضرت ابو بکر نے فرمایا: اے سعید بن عامر اتمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا تم پر رحم کرے.جہاں تک میں تمہیں جانتا ہوں تمہارا شمار
محاب بدر جلد 2 339 حضرت ابو بکر صدیق تواضع اختیار کرنے والوں، صلہ رحمی کرنے والوں، صبح کے وقت تہجد ادا کرنے والوں اور بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے ہوتا ہے.تو حضرت سعید نے آپؐ سے عرض کیا کہ اللہ آپ پر رحم کرے اللہ کے مجھ پر اس سے بڑھ کر احسانات ہیں.اسی کا فضل اور احسان ہے.بخدا جہاں تک میں آپ کو جانتا ہوں آپ حق کو کھل کر بیان کرنے والے، انصاف کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہونے والے ، مومنوں کے ساتھ بہت رحم کرنے والے، کافروں کے مقابلے میں انتہائی سخت ہیں.آپ عدل کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں اور مال کی تقسیم کے وقت کسی کو ترجیح نہیں دیتے.اس پر حضرت ابو بکڑ نے انہیں فرمایا: بس کر والے سعید ! بس کرو.اللہ آپ پر رحم کرے.جاؤ اور جنگ پر جانے کی تیاری کرو.میں شام میں موجود مسلمانوں کی طرف ایک لشکر بھیجنے والا ہوں اور اس پر تمہیں امیر مقرر کرتا ہوں.پھر آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کریں.انہوں نے اعلان کیا.مسلمانو! حضرت سعید بن عامر بن جذیم کے ساتھ شام کی مہم کے لیے تیار ہو جاؤ.چند دن میں ان کے ساتھ سات سو افراد تیار ہو گئے اور جب حضرت سعید نے کوچ کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت بلال حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ: اے رسول اللہ کے خلیفہ! اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر آزاد کیا تھا تا کہ میں اپنے نفس کا مالک رہوں اور نفع بخش چیز کے سلسلہ میں نقل و حرکت کروں تو آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے رب کی راہ میں جہاد کروں.مجھے بیٹھے رہنے سے جہاد زیادہ محبوب ہے.حضرت ابو بکر نے فرمایا: اللہ گواہ ہے کہ میں نے تمہیں اسی کی خاطر آزاد کیا تھا اور میں تم سے اس کے بدلہ کسی قسم کی جزا اور شکریہ کا طلبگار نہیں ہوں.یہ زمین بہت وسیع ہے پس جس رستے کو تم پسند کرو اس پر چلو.حضرت بلال نے عرض کیا.اے صدیق ! شاید آپ نے میری اس بات کا بُرا منایا ہے اور آپ مجھ سے ناراض ہیں.حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: نہیں بخدا! میں اس بات سے ناراض نہیں ہوں.میں چاہتا ہوں کہ تم میری خواہش کی وجہ سے اپنی خواہش کو ترک مت کرو کیونکہ تمہاری خواہش تمہیں اللہ کی اطاعت کی طرف بلاتی ہے.حضرت بلال نے عرض کیا اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپ کے پاس رک جاتا ہوں.حضرت ابو بکر نے فرمایا: اگر تمہاری خواہش جہاد کرنے کی ہے تو میں تمہیں ٹھہرنے کا حکم کبھی نہیں دوں گا.میں تمہیں صرف اذان کے لیے چاہتا ہوں اور اے بلال! مجھے تمہاری جدائی سے وحشت محسوس ہوتی ہے لیکن ایسی جدائی ضروری ہے جس کے بعد قیامت تک ملاقات نہ ہو گی.اے بلال ! تم عمل صالح کرتے رہنا.یہ دنیا سے تمہارا زاد راہ ہو، عمل صالح اور جب تک تم زندہ رہو گے اس کی وجہ سے اللہ تمہارا ذکر باقی رکھے گا اور جب وفات پاؤ گے تو اس کا بہترین ثواب عطا کرے گا.حضرت بلال نے آپ سے عرض کیا: اللہ آپ کو اس دوست اور بھائی کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے.بخدا! آپ نے جو ہمیں اللہ کی اطاعت پر صبر اور حق اور عمل صالح پر مداومت کا حکم فرمایا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور میں رسول اللہ صلی علیم کے بعد کسی کے لیے اذان نہیں دینا چاہتا.
اصحاب بدر جلد 2 340 779 حضرت ابو بکر صدیق پھر حضرت سعید بن عامر کے ساتھ حضرت بلال بھی روانہ ہو گئے.یہ بھی درخواست کی کہ اگر صرف اذان کے لیے روکنا ہے تو میری خواہش یہی ہے کہ میں اذان نہ دوں کیونکہ دل نہیں مانتا کہ میں رسول اللہ صلی ا یکم کے بعد کسی کے لیے اذان دوں.اس کے بعد حضرت ابو بکر کے پاس اور لوگ جمع ہو گئے.آپ نے حضرت معاویہ کو ان پر امیر بنایا اور انہیں ان کے بھائی حضرت یزید سے مل جانے کا حکم دیا.حضرت معاویہ روانہ ہو کر حضرت یزید سے جاملے.جب حضرت معاویہ کا گزر حضرت خالد بن سعید کے پاس سے ہوا تو ان کی فوج کا بقیہ حصہ بھی حضرت معاویہؓ کے ساتھ ہو گیا.780 پھر حمزہ بن مالک ہندانی ایک لشکر لے کر حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوئے.اس لشکر کی تعداد ایک ہزار کے قریب یا اس سے بھی زیادہ تھی.جب حضرت ابو بکر نے ان کی تعداد اور تیاری دیکھی تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا : مسلمانوں پر اللہ کے اس احسان پر تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں.اللہ ہمیشہ ان لوگوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کر کے ان کی راحت کے سامان مہیا کر تا رہتا ہے.اس کے ذریعہ مسلمانوں کی پشت کو مضبوط کرتا ہے اور ان کے دشمن کی پشت کو توڑ کر رکھ دیتا ہے.پھر حمزہ نے حضرت ابو بکر سے عرض کیا: کیا آپ کے علاوہ مجھ پر کوئی اور بھی امیر ہو گا؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا : ہاں ہم نے تین امیر مقرر کیے ہیں تم ان میں سے جس کے ساتھ چاہو حاملو.پھر جب حمزہ مسلمانوں سے ملے اور ان سے دریافت کیا کہ ان امرا میں سے کون سا امیر سب سے افضل اور نبی کریم صلی الم کی صحبت کے لحاظ سے سب سے بہترین ہے تو انہیں بتایا گیا کہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح.چنانچہ وہ ان سے جاملے.یہ بھی ان لوگوں کا عشق رسول صلی اللہ علم کا اظہار تھا کہ جو آنحضرت صلی الم کے قریب رہا میں اس کے ساتھ رہوں.جہادی وفود کے آنے کا سلسلہ مدینہ میں جاری رہا اور حضرت ابو بکر انہیں مہمات پر روانہ کرتے رہتے.دوسری طرف حضرت ابوعبیدہ برابر حضرت ابو بکر کو لکھتے رہے.رومی اور ان کے حاشیہ نشین قبائل مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بھاری تعداد میں اکٹھے ہو رہے ہیں اس لیے مجھے ارشاد فرمائیں کہ اس موقع پر کیا کرنا چاہیے.781 حضرت ابو عبیدہ کے پے در پے خطوط کے نتیجہ میں حضرت ابو بکر نے حضرت خالد بن ولید کو شام بھیجنے کا فیصلہ کیا.حضرت ابو بکر نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں ضرور خالد بن ولید کے ذریعہ رومیوں کو ان کے شیطانی وسوسے بھلا دوں گا.حضرت خالد اس وقت عراق میں تھے جس وقت حضرت ابو بکر نے حضرت خالد کو شام جانے اور وہاں اسلامی افواج کی امارت سنبھالنے کا حکم دیا تو حضرت ابوعبیدہ کو لکھا: اما بعد ! میں نے شام میں دشمنوں سے جنگ کی قیادت خالد کو سونپ دی ہے.تم اس کی مخالفت نہ کرنا.ان کی بات سننا اور ان کے حکم کی تعمیل کرنا.میں نے ان کو تمہارے اوپر اس لیے مقرر نہیں کیا کہ تم
اصحاب بدر جلد 2 341 حضرت ابو بکر صدیق میرے نزدیک ان سے افضل نہیں ہو لیکن میرے خیال میں جو جنگی مہارت انہیں حاصل ہے تمہیں نہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے لیے خیر کا ہی ارادہ کرے.والسلام.782 حضرت خالد کی عراق سے شام کی طرف روانگی کے بارے میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابو بکر کا خط حضرت خالد کو ملا تو اس کی مختلف روایات ہیں کہ وہ آٹھ سو یا چھ سو یا پانچ سو یا ہر اروں میں بھی ہیں، نو ہزار تک بھی ہے یا چھ ہزار کی بھی.یہ جمعیت لے کر شام کی طرف روانہ ہو گئے.کچھ روایتوں میں سینکڑوں میں بات آتی ہے ، کچھ میں ہزاروں میں.بہر حال وہ شام کی طرف روانہ ہو گئے.جب حضرت خالد بن ولید قراقر مقام پر پہنچے تو آپ نے وہاں کے لوگوں پر حملہ کیا اور پھر وہاں سے صحرا کو عبور کرتے ہوئے انتہائی پر صعوبت سفر طے کرنے کے بعد اپنا سیاہ رنگ کا جھنڈا لہراتے ہوئے دمشق کے قریب ثَنِيَّةُ الْعُقَاب پہنچے.اس کے بارے میں، اس جھنڈے کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی الی و کم کا جھنڈ ا تھا جس کا نام عقاب تھا.اس جھنڈے کی وجہ سے اس گھاٹی کا نام بھی ثَنِيَّةُ الْعُقَاب پڑا 783 دمشق کا محاصرہ اس کے بعد دمشق کے مشرقی دروازے سے ایک میل کے فاصلے پر حضرت خالد نے ایک جگہ قیام فرمایا.بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت ابو عبیدہ آپ کو یہیں ملے تھے اور دشمن کا محاصرہ اصل میں اسی روز شروع ہو ا تھا.بعض روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت خالد نے دمشق کے سامنے زیادہ دن تک قیام نہ کیا بلکہ آگے بڑھ کر قاة بضری پہنچے.جب حضرت خالد بن ولید مسلمانوں کے ساتھ بھری پہنچے تو تمام لو یہاں جمع ہو گئے اور سب نے یہاں کی جنگ میں انہیں اپنا امیر بنالیا.انہوں نے شہر کا محاصرہ کیا.بعض کہتے ہیں کہ اس جنگ کے قائد حضرت یزید بن ابو سفیان تھے کیونکہ یہ دمشق کی عملداری میں تھا جس کے وہ والی اور قائد تھے.یہاں کے باشندوں نے اس پر صلح کی کہ مسلمانوں کو جزیہ دیں گے اور مسلمان ان کی جانوں اور ان کے اموال اور ان کی اولاد کو امان دیں گے.پھر معرکہ اجنادين یا اجنادین ہے.دونوں لکھے ہیں.اس کے بارے میں لکھا ہے کہ فلسطین کے نواحی علاقوں میں سے یہ ایک معروف بستی کا نام ہے.185 بصری کی فتح کے بعد حضرت خالد ، حضرت ابو عبیدہ ، حضرت شرحبیل اور حضرت یزید بن ابو سفیان کو ساتھ لے کر حضرت عمرو بن عاص کی مدد کے لیے فلسطین کی طرف روانہ ہوئے.حضرت عمر ہو اس وقت فلسطین کے نشیبی علاقوں میں مقیم تھے.آپ اسلامی لشکروں سے آکر ملنا چاہتے تھے مگر رومی لشکر ان کے تعاقب میں تھا اور اس کوشش میں تھا کہ انہیں جنگ پر مجبور کر دے.رومیوں نے 784
باب بدر جلد 2 342 حضرت ابو بکر صدیق 786 مسلمانوں کی آمد کے متعلق سنا تو وہ اجنادین کی طرف ہٹ گئے.حضرت عمرو بن عاص نے جب اسلامی لشکروں کے متعلق سنا تو وہ وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ اسلامی لشکروں سے جاملے اور پھر سب اجنادین کے مقام پر جمع ہو گئے اور رومیوں کے سامنے صف آرا ہو گئے.دوسری روایت یہ بھی ہے کہ اس کے مطابق اجنادین جانے سے قبل حضرت خالد بصری کی بجائے دمشق کا محاصرہ کیسے ہوئے تھے اور حضرت ابو عبیدہ بھی ان کے ہمراہ تھے.اس محاصرے کے دوران ہر قل نے اہل دمشق کی مدد کے لیے ایک لشکر بھی بھیجا تھا جس کے ساتھ مسلمانوں کی جھڑپ ہوئی تھی جو بعد میں دمشق کی فتح کے ذیل میں بیان ہو جائے گی.بہر حال دمشق کے محاصرے کے دوران حضرت خالد اور حضرت ابوعبیدہ کو معلوم ہوا کہ حمص کے حاکم نے ایک لشکر اکٹھا کیا ہے تاکہ حضرت شرحبیل بن حسنہ کا راستہ کاٹے جو کہ اس وقت بصری میں تھے اور یہ کہ رومیوں کا ایک بڑا لشکر اجنادین کے مقام پر اترا ہے.787 اس خبر نے حضرت خالد اور حضرت ابو عبیدہ کو پریشان کر دیا کیونکہ آپ اس وقت اہل دمشق سے جنگ میں مصروف تھے.اس پر حضرت خالد اور حضرت ابو عبید گانے باہم مشورہ کیا.حضرت ابو عبیدہ نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہم یہاں سے چلیں اور حضرت شرحبیل نیتک پہنچ جائیں اس سے قبل کہ دشمن ان تک پہنچ جائے.حضرت خالد نے کہا کہ اگر ہم حضرت شرحبیل کی طرف گئے تو اجنادین میں موجو د رومی لشکر ہمارا پیچھا کرے گا اس لیے میری رائے یہ ہے کہ ہم اسی بڑے لشکر کا قصد کریں جو کہ اجنادین میں موجود ہے اور حضرت شرحبیل کی طرف پیغام بھیج دیں اور انہیں دشمن کی ان کی طرف ہونے والی حرکت سے آگاہ کر دیں اور انہیں کہیں کہ وہ اجنادین میں ہمارے ساتھ آملیں.اسی طرح ہم حضرت یزید بن ابو سفیان اور حضرت عمرو کو بھی کہلا بھیجیں کہ وہ ہم سے اجنادین میں آکر مل جائیں پھر ہم اپنے دشمن سے مقابلہ کریں.اس پر حضرت ابو عبیدہ نے کہا کہ یہ رائے بہت عمدہ ہے اللہ اس میں برکت رکھے.اس پر عمل کریں.ایک روایت کے مطابق حضرت ابو عبیدہ نے حضرت خالد کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ہمارالشکر نے شام میں متفرق مقامات پر منتشر ہے.لہذا ان تمام کو خط لکھا جائے کہ وہ ہمیں اجنادین کے مقام پر آکر ملیں چنانچہ جب حضرت خالد نے دمشق سے اجنادین کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو تمام امرا کو خط لکھ کر اجنادین میں جمع ہونے کا ارشاد فرمایا.حضرت خالد اور حضرت ابو عبیدہ بھی لوگوں کو لے کر دمشق کا محاصرہ چھوڑ کر اجنادین والوں کی طرف سرعت کے ساتھ نکل پڑے.حضرت ابوعبیدہ لشکر کے پچھلے حصہ میں تھے.اہل دمشق نے تعاقب کر کے حضرت ابو عبیدہ کو جالیا اور ان کا گھیر اؤ کر لیا.آپ دو سو آدمیوں کے ساتھ تھے.دراصل یہ عورتوں بچوں اور مال و اسباب پر مشتمل قافلہ تھا.ایک روایت کے مطابق ان کی نگرانی اور حفاظت کے لیے ایک ہزار سوار بھی موجود تھے.جبکہ اہل دمشق بہت بڑی تعداد میں
حاب بدر جلد 2 343 حضرت ابو بکر صدیق 788 تھے.بہر حال حضرت ابو عبیدہ نے ان سے شدید لڑائی کی.جب اس کی اطلاع حضرت خالد نیتک پہنچی جو کہ سواروں کے ساتھ لشکر کے اگلے حصہ میں تھے تو آپ واپس لوٹے اور آپ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی لوٹے.پھر سواروں نے رومیوں پر حملہ کر دیا اور انہیں ایک دوسرے پر گراتے ہوئے تین میل تک پیچھے دھکیل دیا یہاں تک کہ وہ واپس دمشق میں داخل ہو گئے.دوسری طرف اجنادین میں مقیم رومی فوج نے اپنے دوسرے لشکر کی جانب خط روانہ کیا اور انہیں بھی اجنادین آنے کی ہدایت کی.رومیوں کا یہ لشکر حضرت شرحبیل پر حملہ کی غرض سے بصری کی طرف جارہا تھا چنانچہ وہ لشکر بھی اجنادین آگیا.اسی طرح حضرت خالد کی ہدایت پر تمام اسلامی لشکر بھی اجنادین میں جمع ہو گئے.رومی سپہ سالار نے مسلمانوں کو کچھ دے دلا کر واپس بھیجنا چاہا کیونکہ ایرانیوں کی طرح اس کا بھی یہی خیال تھا کہ یہ بھوکے ننگے لوگ ہیں.اپنے غریب ملک سے لوٹ مار کے لیے نکلے ہیں.وہ صدیوں کے غیر متمدن جاہل مفلس اور بے سر و سامان صحرانشین عربوں سے کسی اعلیٰ مقصد کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا.چنانچہ حضرت خالد کو ایک پیشکش کی کہ اگر وہ اور ان کی فوج واپس چلے جائیں تو ہر سپاہی کو ایک دستار ایک جوڑا کپڑا اور ایک طلائی دینار دیا جائے گا.سپہ سالار کو دس جوڑے کپڑے اور ایک سو طلائی دینار اور خلیفہ کو ایک سو جوڑے کپڑے اور ایک ہزار دینار.تو یہ انہوں نے کہا کہ یہ ڈاکو لٹیرے ہیں.ان کو اتنا دو اور رخصت کر دو.حضرت خالد نے یہ سناتو یہ پیشکش بڑی حقارت سے ٹھکرا دی اور انتہائی سخت الفاظ میں کہا کہ رومیو! ہم تمہاری خیرات کو حقارت سے ٹھکراتے ہیں کیونکہ جلد ہی ہم تمہارے مال و دولت، تمہارے کنبوں اور تمہاری ذاتوں کے مالک بن جائیں گے.789 رومیوں کی ایک لاکھ فوج سے مقابلہ اور ان کو شکست جب دونوں لشکر قریب ہو گئے تو رومیوں کے ایک سردار نے ایک عربی شخص کو بلا کر کہا کہ تم مسلمانوں میں داخل ہو جاؤ.وہ عربی مسلمان نہیں تھا اور ان میں ایک دن رات ٹھہر و.پھر میرے پاس ان کی خبریں لاؤ.وہ شخص لوگوں میں جا گھسا.عربی شخص ہونے کی وجہ سے کسی نے اس کو اجنبی نہ سمجھا وہ مسلمانوں کے درمیان ایک دن اور ایک رات مقیم رہا.پھر جب رومی سردار کے پاس واپس آیا تو اس نے پوچھا: کیا خبر لائے ہو ؟ اس نے کہا خبر کا پوچھتے ہو تو پھر خبر یہ ہے کہ رات کو یہ عبادت گزار ہیں، رات کی عبادت کرنے والے ہیں اور دن کو شہسوار.اپنے درمیان انصاف کو قائم رکھنے کی خاطر اگر ان کے بادشاہ کا بیٹا بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے ہیں اور اگر زنا کرے تو اس کو سنگسار کر دیتے ہیں.رومی سردار نے اسے کہا کہ اگر تم مجھ سے سچ کہہ رہے ہو تو سطح زمین پر ان سے مقابلہ کرنے کی نسبت زمین کے اندر سما جانا بہتر ہے.میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھ پر بس اتنی عنایت کرے کہ مجھے اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دے نہ ان کے خلاف میری مدد کرے اور نہ ہی میرے خلاف ان کی.790 تاریخ طبری میں یہ لکھا ہے.
حاب بدر جلد 2 344 حضرت ابو بکر صدیق بہر حال صبح کے وقت لوگ ایک دوسرے کے قریب ہو گئے تو حضرت خالد نکلے اور لشکر کو ترتیب دیا.حضرت خالد لوگوں کے درمیان انہیں جہاد کی ترغیب دلاتے ہوئے چلتے جاتے تھے اور ایک جگہ نہ رکھتے تھے اور آپ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ وہ مضبوطی سے ڈٹی رہیں اور لوگوں کے پیچھے کھڑی ہو جائیں.اللہ کو پکاریں اور اسی سے فریاد کرتی رہیں اور جب کبھی مسلمانوں میں سے کوئی آدمی ان کے پاس سے گزرے تو وہ اپنے بچوں کو ان کی طرف بلند کریں اور ان سے کہیں کہ اپنی اولاد اور عورتوں کو بچانے کے لیے جنگ کرو.حضرت خالد شہر دستے کے پاس ٹھہرتے اور فرماتے: اے اللہ کے بندو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کے راستے میں اور ان لوگوں سے جنگ کرو جنہوں نے اللہ کا انکار کیا ہے اور اپنی ایڑیوں کے بل پھر نہ جانا اور تم اپنے دشمن سے مرعوب نہ ہو نا بلکہ شیروں کی طرح پیش قدمی کرو یہاں تک کہ رعب چھٹ جائے اور تم آزاد معزز لوگ ہو.تمہیں دنیا بھی دی گئی ہے اور آخرت کا بدلہ بھی تمہارے لیے اللہ کے ذمہ واجب قرار دیا گیا ہے.دشمن کی کثرت جو تم دیکھ رہے ہو تمہیں خوف میں مبتلا نہ کرے.یقینا اللہ اپنا عذاب اور سزا نازل کرنے والا ہے.حضرت خالد نے لوگوں سے فرمایا کہ جب میں حملہ کروں تو تم بھی حملہ کر دینا.791 اس کے بعد دونوں لشکروں میں شدید لڑائی ہوئی.حضرت سعید بن زید نے مسلمانوں کو اس طرح نصیحت کر کے جوش دلایا کہاے لوگو! اللہ کے سامنے اپنی موت کو یاد رکھو اور جنگ سے بھاگ کر جہنم کے مستحق مت بنو.اے دین کی حفاظت کرنے والو! اور اے قرآن کی تلاوت کرنے والو! صبر سے کام لو، صبر سے ! جب جنگ ہوئی اور سخت جنگ ہوئی تو رومیوں نے بھاگ کر جان بچائی.جب اپنے مقام پر پہنچ گئے تو وردان نے اپنی قوم کے سامنے تقریر کی اور کہا کہ اگر یہی حالت رہی تو یہ ملک و دولت تم سے چلی جائے گی.بہتر ہے کہ اب بھی اپنے دلوں کے زنگ کو دھو ڈالو.ہمارے دلوں میں خیال تک نہیں گزرا تھا کہ یہ چرواہے اور یہ بھوکے ننگے غلام عرب ہم سے لڑیں گے.ان کو قحط و خشک سالی نے ہماری طرف روانہ کیا اور اب انہوں نے یہاں آکر پھل کھائے، میوے کھائے، جو کی جگہ گندم کی روٹی مل گئی.سرکہ کی جگہ شہد کھا رہے ہیں.انجیر، انگور اور عمدہ اشیاء سے لطف اٹھارہے ہیں.پھر اس نے کچھ سر داروں سے رائے طلب کی تو ایک سردار نے یہ مشورہ دیا کہ اگر مسلمانوں کو شکست دینا چاہتے ہو تو ان کے امیر کو کسی حیلے اور بہانے سے دھوکے سے بلا کر قتل کر دو تو باقی سب لوگ بھاگ جائیں گے.تم پہلے قوم کے دس سپاہیوں کو بھیجو کہ وہ گھات لگا کر بیٹھ جائیں اور پھر مسلمانوں کے امیر کو اکیلے گفتگو اور مذاکرات کے لیے بلاؤ.جب وہ بات چیت کی غرض سے آئے تو گھات لگائے ہوئے سپاہی دھاوا بول کر اسے قتل کر دیں.چنانچہ رومیوں کے امیر نے ایک فصیح و بلیغ شخص کو حضرت خالد کے پاس بھیجا.قاصد جب مسلمانوں کے پاس پہنچا تو زور سے آواز دی کہ اے عرب! کیا خونریزی اور اس قتل پر بس نہیں کرتے
اصحاب بدر جلد 2 345 حضرت ابو بکر صدیق ہو.ہم نے صلح کی ایک تجویز سوچی ہے.لہذا مناسب ہے کہ تمہارا سر دار مجھ سے گفتگو کے لیے آگے آ جائے.حضرت خالد آگے آئے اور اسے کہا کہ تو جو پیغام لایا ہے اسے بیان کر مگر سچائی کو مد نظر رکھنا.اس نے کہا کہ میں اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ ہمارا امیر خونریزی کو پسند نہیں کرتا.اب تک جو لوگ قتل ہوئے ہیں ان کو اس پر غم ہے.اس لیے ان کی یہ رائے ہے کہ تم لوگوں کو کچھ مال دے کر ایک معاہدہ کریں تا کہ جنگ بندی ہو جائے.دورانِ گفتگو اللہ تعالیٰ نے جو قاصد آیا تھا اس کے دل میں ایسار عب ڈالا کہ اس نے حضرت خالد سے اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے بدلے اپنے سردار کا پورا منصوبہ حضرت خالد کے سامنے بیان کر دیا.سارا منصوبہ جو اس کو پتہ تھا کہ کس طرح چھپ کر حضرت خالد پہ حملہ کرنا ہے.حضرت خالد نے فرمایا کہ اگر تم نے غداری نہیں کی تو میں تجھے اور تیرے اہل و عیال کو امان دیتا ہوں.پھر وہ واپس چلا گیا اور اپنے سردار کو جا کر بتایا کہ حضرت خالد ان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں.وہ بہت خوش ہوا اور جو جگہ بات چیت کے لیے معین کی گئی تھی وہاں اپنے دس سپاہیوں کو ایک ٹیلے کے پیچھے چھپا کر گھات لگانے کا حکم دیا.حضرت خالد جیسا کہ اس نے بتادیا تھا اس کے منصوبے کو جان چکے تھے.چنانچہ آپ نے حضرت ضرار سمیت دس مسلمانوں کو اس مقام کی طرف بھیجا جہاں دشمن گھات لگائے ہوئے تھا.مسلمانوں نے اس جگہ پہنچ کر رومی سپاہیوں کو جالیا اور سب کو قتل کر کے خود ان کی جگہ بیٹھ گئے.حضرت خالد رومیوں کے امیر سے بات چیت کے لیے چلے گئے.دونوں طرف کی فوجیں بالکل ایک دوسرے کے مقابل تیار کھڑی تھیں.رومی امیر بھی وہاں پہنچ گیا.حضرت خالد نے اس سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا.اگر تم اسلام قبول کر لو تو تم ہمارے بھائی بن جاؤ گے ورنہ جزیہ دو یا لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ.رومی امیر کو گھات لگائے ہوئے سپاہیوں پر بھر و سا تھا.چنانچہ وہ ایک دم حضرت خالد پر تلوار سے حملہ آور ہوا اور آپ کے دونوں بازوؤں کو پکڑ لیا.حضرت خالد نے بھی اس پر حملہ کیا.رومی امیر نے اپنے آدمیوں کو آواز دی کہ جلدی دوڑو، میں نے مسلمانوں کے امیر کو پکڑ لیا ہے.ٹیلے کے پیچھے سے صحابہ کرام نے یہ آواز سنی تو تلوار میں سونت کر اس کی طرف لپکے.وردان پہلے تو یہ سمجھا کہ یہ میرے آدمی ہیں مگر جب حضرت ضرار پر نظر پڑی تو بد حواس ہو گیا اس کے بعد حضرت خیر اثر اور دوسرے سپاہیوں نے مل کر اس کا کام تمام کر دیا.جب رومیوں کو اپنے امیر کی موت کی خبر ہوئی تو ان کے حوصلے پست ہو گئے.792 اس کے بعد لوگ ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے اور لڑائی شروع ہو گئی.رومیوں کے ایک اور سردار نے مسلمانوں کی لڑائی کا حال دیکھا تو اپنے لوگوں سے کہا کہ میرے سر کو کپڑے سے باندھ دو.انہوں نے اس سے پوچھا کیوں؟ اس نے کہا کہ آج کا دن بڑا منحوس ہے میں اس کو دیکھنا نہیں چاہتا.میں نے دنیا میں آج تک ایسا سخت دن نہیں دیکھا.راوی کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے اس کا سر قلم کیا تو وہ کپڑے میں لپٹا ہو ا تھا.793
محاب بدر جلد 2 346 حضرت ابو بکر صدیق اس جنگ میں رومیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی.794 796 مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار.795 اور ایک روایت کے مطابق پینتیس ہزار تھی.اس جنگ میں تین ہزار رومی مارے گئے اور ان کا شکست خوردہ لشکر دیگر کئی شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوا.797 اجنادین کی فتح کے بعد حضرت خالد بن ولید نے حضرت ابو بکر کو ایک خط کے ذریعہ یہ خوشخبری سنائی.اس کا متن اس طرح ہے کہ السلام علیکم.میں آپ کو خبر دے رہا ہوں کہ ہماری اور مشرکین کی جنگ ہوئی اور انہوں نے ہمارے مقابلے میں بڑے بڑے لشکر اجنادین میں جمع کر رکھے تھے.انہوں نے اپنی صلیبیں بلند کی ہوئی تھیں اور کتابیں اٹھائی ہوئی تھیں اور انہوں نے اللہ کی قسم کھار کھی تھی کہ وہ فرار اختیار نہیں کریں گے یہاں تک کہ ہمیں فنا کر دیں یا ہمیں اپنے شہروں سے نکال باہر کریں اور ہم بھی اللہ پر پختہ یقین اور اس پر تو کل کرتے ہوئے نکلے.پھر ہم نے کسی قدر ان پر نیزوں سے وار کیا پھر ہم نے تلواریں نکالیں اور ان کے ذریعہ دشمن پر اتنی دیر تک ضر میں لگائیں جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے تیار کیا جاتا ہے.پھر اللہ نے اپنی مدد نازل کی اور اپنا وعدہ پورا کر دیا اور کافروں کو شکست دی اور ہم نے انہیں ہر کشادہ راستے، ہر گھائی اور ہر نشیبی جگہ پر موت کے گھاٹ اتارا.اپنے دین کو غلبہ عطا کرنے اور اپنے دشمن کو ذلیل کرنے اور اپنے دوستوں سے عمدہ سلوک کرنے پر تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں.جب یہ خط حضرت ابو بکڑ کے سامنے پڑھا گیا تو اس وقت آپ مرض الموت میں مبتلا تھے.آپ کو اس فتح نے خوش کر دیا اور آپ نے فرمایا الحمدللہ ! تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مسلمانوں کی مدد کی اور اس سے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کر دیا.798 اجنادین کی جنگ کے بارے میں یہ بھی ابہام ہے کہ یہ کب ہوئی؟ بعض کے نزدیک تو یہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوئی تھی.اس بارے میں جو ایک وضاحت ہے یہ بھی بیان کر دیتا ہوں.جیسا کہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کب ہوئی ؟ تو مختلف روایات ہیں.ایک روایت کے مطابق یہ 799 800 جنگ تیرہ ہجری میں حضرت ابو بکر کی وفات سے چوبیس دن یا بیس دن یا چونتیس دن پہلے لڑی گئی.19 اور بعض مؤرخین کے زمانے میں یہ جنگ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں پندرہ ہجری میں لڑی گئی.0 بہر حال ہمارے جو تحقیق کرنے والے ہیں ان کی جو تحقیق ہے اور ان کا یہ خیال ہے اور یہ خیال صحیح لگتا ہے کہ غالب امکان یہی ہے کہ اجنادین کے مقام پر دو مر تبہ جنگ ہوئی ہو.پہلی بار حضرت ابو بکر کے دورِ خلافت میں اور دوسری بار حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں، کیونکہ بعض کتب تاریخ میں دونوں مواقع پر اسلامی افواج الگ الگ بیان ہوئی ہیں.تیرہ ہجری میں ہونے والی جنگ کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید تھے اور پندرہ ہجری میں ہونے والی جنگ کے سپہ سالار حضرت عمرو بن عاص تھے.بہر حال
اصحاب بدر جلد 2 اللہ بہتر جانتا ہے، واللہ اعلم فتح دمشق ( تیرہ ہجری) 347 801 حضرت ابو بکر صدیق یہ آخری جنگ تھی جو حضرت ابو بکر صدیق کے زمانے میں ہوئی.دمشق کے محل وقوع کے بارے میں ہے کہ یہ قدیم دمشق شام کا دارالحکومت اور تاریخی روایات کا حامل شہر تھا.ابتدا میں یہ بت پرستی کا بہت بڑا مرکز تھا لیکن جب عیسائیت آئی تو اس کے بت کدے کو کلیسیا بنا دیا گیا.یہ ایک اہم تجارتی مرکز تھا.یہاں عرب بھی آباد تھے اور مسلمانوں کے تجارتی قافلے یہاں آتے رہتے تھے اور اسی وجہ سے انہیں یہاں کے بارے میں معلومات حاصل تھیں.دمشق ایک قلعہ نما فصیل بند شہر تھا.حفاظت اور پائیداری کی وجہ سے اسے امتیازی حیثیت حاصل تھی.اس کی فصیل بڑے بڑے پتھروں سے بنائی گئی تھی.فصیل کی اونچائی چھ میٹر تھی.اس میں انتہائی مضبوط دروازے لگائے گئے تھے.فصیل کی چوڑائی تین میٹر تھی.دروازے مضبوطی سے بند کیے جاتے تھے.فصیل کے چاروں طرف گہری خندق تھی جس کی چوڑائی تین میٹر تھی.اس خندق کو دریا کے پانی سے ہمیشہ بھر کر رکھا جاتا تھا.اس طرح دمشق کافی مضبوط اور محفوظ حیثیت رکھتا تھا جس میں داخل ہونا آسان نہ تھا.802 جب حضرت ابو بکر نے شام کی جانب مختلف لشکر روانہ فرمائے تو حضرت ابو عبیدہ کو ایک لشکر کا 803 امیر بنا کر حمص پہنچنے کا حکم دیا.حمص دمشق کے قریب شام کا ایک قدیم مشہور اور بڑا شہر تھا.حضرت ابو بکر کے ارشاد پر حضرت خالد بن ولید نے دمشق پہنچ کر دوسرے اسلامی لشکر کے ساتھ اس کا محاصرہ کر لیا.اہل دمشق قلعہ کی دیوار پر چڑھ کر مسلمانوں پر پتھر اور تیر برساتے تھے.مسلمان چمڑے کی ڈھالوں سے اپنے آپ کو بچاتے.موقع پا کر مسلمان بھی ان کو تیر مارتے.اس طرح بیس دن کا عرصہ گزر گیا لیکن کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوا.اہل دمشق قلعہ میں محصور ہونے کی وجہ سے سخت تنگی میں تھے.قلعہ میں رسد بھی ختم ہونے والی تھی.اس کے علاوہ اہل دمشق کے کھیت قلعہ سے باہر تھے لہذا ان کی کاشتکاری کے کاموں کو نقصان ہو رہا تھا.قلعہ میں غلہ نہیں آسکتا تھا.اشیائے صرف کی بھی قلت تھی.محاصرے کی طوالت کی وجہ سے وہ سخت پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہو گئے تھے.اسی دوران جبکہ دمشق کے محاصرے کو بیس دن گزر چکے تھے مسلمانوں کو خبر ملی کہ ھر قل بادشاہ نے اجنادین کے مقام پر رومیوں کا بھاری لشکر جمع کیا ہے.یہ خبر سنتے ہی حضرت خالد باب شرقی سے روانہ ہو کر باب جابیہ پر حضرت ابو عبیدہ کے پاس آئے اور یہ صورتحال سے مطلع کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی کہ ہم دمشق کا محاصرہ ترک کر کے اجنادین میں رومی لشکر سے نپٹ لیں اور اگر اللہ نے ہمیں فتح دی تو پھر یہاں واپس لوٹ آئیں گے اور دمشق کا مسئلہ حل
ناب بدر جلد 2 348 حضرت ابو بکر صدیق کریں گے.حضرت ابو عبیدہ نے کہا کہ میری رائے اس کے بر عکس ہے کیونکہ میں دن تک قلعہ میں محصور رہنے کی وجہ سے اہل دمشق تنگ آگئے ہیں اور ہمارا رعب ان کے دلوں میں سما گیا.اگر ہم یہاں سے کوچ کر گئے تو ان کو راحت حاصل ہو گی اور وہ کھانے پینے کی چیزیں قلعہ میں کثیر تعداد میں ذخیرہ کر لیں گے اور جب ہم اجنادین سے یہاں واپس آئیں گے تو یہ لوگ طویل عرصہ تک ہمارا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے.حضرت خالد نے حضرت ابو عبیدہ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے محاصرہ جاری رکھا اور دمشق کے قلعہ کے متفرق دروازوں پر مسلمانوں کے تمام متعین سرداروں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی طرف سے حملہ میں شدت اختیار کریں.حضرت خالدہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر جانب سے اسلامی لشکر نے شدید حملے شروع کیے.اس طرح دمشق کے محاصرے پر اکیس دن گزر گئے.حضرت خالد نے مسلمانوں کو حملہ کی شدت بڑھانے کی ترغیب دیتے ہوئے خود باب شرقی سے سخت حملے جاری رکھے.اہل دمشق اب بالکل تنگ آگئے تھے اور ھر قل بادشاہ کی مدد کے منتظر تھے.حضرت خالد نے پے در پے حملے جاری رکھے.وہ اسی طرح مصروف جنگ تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ قلعہ کی دیوار پر جو رومی تھے وہ دفعہ تالیاں بجا کر ناچنے کو دنے لگے اور خوشی کا اظہار کرنے لگے.مسلمان حیرت سے ان کو دیکھنے لگے.حضرت خالد بن ولید نے ایک جانب دیکھا تو ایک بڑا غبار اس طرف اٹھتا ہوا نظر آیا.اس کی وجہ سے آسمان تاریک نظر آتا تھا.دن کے وقت میں بھی اندھیرا چھایا ہوا دکھائی دیتا تھا.حضرت خالد "فورا سمجھ گئے کہ اہل دمشق کی مدد کے لیے بھر قل بادشاہ کا لشکر آرہا ہے.تھوڑی ہی دیر میں چند مخبروں نے اس خبر کی تصدیق بھی کر دی کہ ہم نے پہاڑ کی گھائی کی طرف ایک لشکر جرار دیکھا ہے اور وہ بے شک رومیوں کا لشکر ہے.حضرت خالدہ فوراً آئے اور حضرت ابو عبیدہ کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ تمام لشکر لے کر ھر قل بادشاہ کے بھیجے ہوئے لشکر سے مقابلہ کے لیے جاؤں.لہذا اس امر میں آپ کا مشورہ کیا ہے؟ حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا کہ یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر ہم نے اس جگہ کو چھوڑ دیا تو اہل دمشق قلعہ سے باہر آکر ہم سے جنگ کریں گے.ایک طرف سے ھر قل کا لشکر حملہ آور ہو گا اور دوسری طرف سے اہل دمشق حملہ کریں گے.ہم رومیوں کے دو لشکروں کے درمیان مصیبت میں پھنس جائیں گے.حضرت ضرار بن ازور اس پر حضرت خالد نے کہا پھر آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا تم ایک جری اور شخص کا انتخاب کرو اور اس کے ساتھ ایک جماعت کو دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ کرو.چنانچہ حضرت خالد بن ولید نے حضرت ضرار بن ازور کو پانچ سو سواروں کا لشکر دے کر رومی لشکر سے مقابلے بہادر
ناب بدر جلد 2 کے لیے روانہ کیا.349 حضرت ابو بکر صدیق 804 ایک دوسری روایت میں حضرت ضرار کے لشکر کی تعداد پانچ ہزار بھی بیان ہوئی ہے.1001 بہر حال حضرت ضرار پانچ سو سپاہیوں کو لے کر یا جو بھی لشکر تھا اس کو لے کر رومی لشکر کی جانب روانہ ہو گئے.چند سپاہیوں نے رومیوں کا لشکر دیکھ کر آپ سے کہا کہ یہ لشکر بہت بڑا ہے اور ہم صرف پانچ سو ہیں.بہتر یہی ہے کہ ہم واپس چلیں اور اپنے لشکر کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کریں.حضرت خیر اڑ نے کہا دشمن کی کثرت سے مت گھبر اؤ.خدا نے بہت دفعہ قلت کو کثرت پر غالب کیا ہے.وہ اب بھی ہماری مدد کرے گا.ساتھیو ! واپس جانا تو جہاد سے فرار ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں.کیا تم عرب کی بہادری اور جاں نثاری کو داغ لگاؤ گے ؟ جسے واپس جانا ہو چلا جائے.میں تو لڑوں گا.اسلام کے نام کو بلند کروں گا.خدا مجھے بھاگتے ہوئے نہ دیکھے.تمام مسلمان یک زبان ہو کر بولے کہ ہم اسلام پر شار ہوں گے.شہادت کا مرتبہ پائیں گے یعنی کہ ہم تیار ہیں جنگ کے لیے.حضرت ضر الا خوش ہو گئے.حکم دیا کہ دشمن پر ایک ہی بار حملہ کر کے اسے تہس نہس کر دو.مسلمان اور حضرت ضراڑ نے رومی لشکر پر مسلسل وار کیے اور بہادری سے لڑائی کی.رومی سپہ سالار کے بیٹے نے حضرت ضرار پر حملہ کیا اور آپ کے بائیں بازو پر نیزہ مارا جس کی وجہ سے خون تیزی سے بہنے لگا.ایک لمحہ کے بعد آپ نے اسی کے دل پہ نیزہ مار کر اسے قتل کر دیا.آپ کا نیزہ اس کے سینے میں پھنس گیا اور اس کا پھل ٹوٹ گیا.رومی فوج نے آپ کا نیزہ خالی دیکھا تو آپ کی طرف ٹوٹ پڑے اور آپ کو قید کر لیا.805 کیونکہ ہاتھ میں ہتھیار نہیں تھا.خولہ بنت ازوڑ کی شجاعت صحابہ کرام نے جب دیکھا کہ حضرت ضرار قید ہو گئے ہیں تو بہت غمگین اور پریشان ہو گئے.انہوں نے کئی دفاعی حملے کیے مگر ان کو چھڑانہ سکے.حضرت ضرار کی گرفتاری کی خبر جب حضرت خالد کو پہنچی تو آپ بہت پریشان ہوئے اور ساتھیوں سے رومی لشکر کے متعلق معلومات لے کر حضرت ابو عبیدہ سے مشورہ کیا اور حملے کے متعلق رائے لی.حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ دمشق کے محاصرہ کا معقول انتظام کر کے آپ حملہ کر سکتے ہیں.کمانڈر کیونکہ اس وقت حضرت ابو عبیدہ تھے.حضرت خالد نے محاصرہ کا انتظام کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن کا تعاقب کیا اور ان کو ہدایت کی کہ جیسے ہی دشمن ملے اس پر اچانک حملہ کرنا.اگر ضرار کو ان لوگوں نے قتل نہ کیا ہو تو شاید ہم ضرار کو چھڑا لائیں گے اور اگر غیر ار کو شہید کیا ہو تو بخدا ہم ان سے بھر پور انتقام لیں گے.تاہم مجھے امید ہے کہ اللہ ہم کو ضرار کے متعلق صدمہ نہیں دے گا.اسی دوران حضرت خالد نے ایک شہسوار کو سرخ عمدہ گھوڑے پر دیکھا جس کے ہاتھ میں لمبا چمکدار نیزہ تھا.اس کی وضع قطع سے بہادری، دانائی اور جنگی مہارت نمایاں تھی.زرہ
محاب بدر جلد 2 350 حضرت ابو بکر صدیق شخص کے اوپر لباس پہن رکھا تھا.پورا بدن اور منہ چھپا ہوا تھا اور فوج کے آگے آگے تھا.حضرت خالد نے تمنا کی کہ کاش! مجھے معلوم ہو جائے کہ یہ شہسوار کون ہے.واللہ ! یہ نہایت دلیر اور بہادر معلوم ہوتا ہے.سب لوگ اس کے پیچھے پیچھے جارہے تھے.لشکر اسلام جب کفار کے قریب پہنچا تو لو گوں نے اس شہسوار کو رومیوں پر ایسے حملہ کرتے دیکھا جس طرح باز چڑیوں پر جھپٹتا ہے.اس کا ایک حملہ تھا جس نے دشمن کے لشکر میں تہلکہ ڈال دیا اور مقتولین کے ڈھیر لگا دیے اور بڑھتے بڑھتے دشمن کے لشکر کے درمیان میں پہنچ گیا.وہ چونکہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال چکا تھا اس لیے دوبارہ پلٹا اور کافروں کے لشکر کو چیرتا ہوا اندر گھستا چلا گیا.جو سامنے آیا اس کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا.کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ شخص حضرت خالد ہی ہو سکتے ہیں.رافع نے حیرانگی سے خالد سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے؟ حضرت خالد نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں.میں خود حیران ہوں کہ یہ کون ہے.حضرت خالد لشکر کے آگے کھڑے تھے کہ وہی سوار دوبارہ رومیوں کے لشکر سے نکلا.رومیوں کا کوئی بھی سپاہی اس کے مقابل نہیں آرہا تھا اور یہ تنہا کئی آدمیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے رومیوں کے کے نہیں آرہا تھا ئی میں درمیان لڑ رہا تھا.اسی دوران حضرت خالد نے حملہ کر کے اسے کفار کے گھیرے سے نکالا اور یہ شخص لشکر اسلام میں پہنچ گیا.حضرت خالد نے اسے کہا: تو نے اپنے غصہ کو اللہ کے دشمنوں پر نکالا ہے.بتاؤ تم کون ہو ؟ اس سوار نے کچھ نہ بتایا اور پھر جنگ کے لیے تیار ہو گیا.حضرت خالد نے فرمایا اللہ کے بندے ! تو نے مجھے اور تمام مسلمانوں کو بے چینی میں ڈال دیا ہے.تو اس قدر بے پروا ہے.آخر تو کون ہے! حضرت خالد کے اصرار پر اس نے جواب دیا کہ میں نے نافرمانی کی وجہ سے اعراض نہیں کیا، یہ نہیں کہ میں نافرمان ہوں اس لیے تمہیں جواب نہیں دے رہا بلکہ مجھے شرم آتی ہے کیونکہ میں مرد نہیں ہوں، ایک عورت ہوں.عورتیں بھی اس بہادری کا نمونہ دکھاتی تھیں.مجھے میرے دردِ دل نے اس میدان میں اتارا ہے.خالد نے پوچھا کہ کون سی عورت ؟ اس عورت نے عرض کیا کہ ضرار کی بہن خولہ بنت ازور ہوں.بھائی کی گرفتاری کا پتہ لگا تو میں نے وہی کیا جو آپ نے دیکھا.حضرت خالد نے یہ سن کر کہا کہ ہم سب کو متفقہ حملہ کرنا چاہیے.اللہ سے امید ہے کہ وہ ضرار کو قید سے رہائی دلا دے گا.حضرت خولہ نے کہا کہ میں بھی حملہ میں پیش پیش رہوں گی.پھر خالد نے بھر پور حملہ کیا.رومیوں کے پیرا کھڑ گئے اور رومیوں کا لشکر تتر بتر ہو گیا.حضرت رافع نے شجاعت کے جوہر دکھائے.مسلمان ایک بار پھر بھر پور حملے کے لیے تیار ہوئے تھے کہ اچانک کفار کے لشکر سے کچھ سوار اس طرف تیزی سے امان مانگتے ہوئے آگئے.حضرت خالد نے فرمایا ان کو امان دے دو اور فرمایا میرے پاس لے آؤ.پھر خالد نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو.انہوں نے کہا کہ ہم روم کی فوج کے لوگ ہیں اور حمص کے رہنے والے ہیں اور ضلح چاہتے ہیں.حضرت خالد نے فرمایا کہ صلح تو حمص پہنچ کر ہو گی.یہاں پر قبل از وقت ہم صلح نہیں کر سکتے البتہ تم کو
حاب بدر جلد 2 351 حضرت ابو بکر صدیق امان ہے.جب اللہ فیصلہ کرے گا اور ہم غالب آئیں گے تب وہاں پر بات ہو گی.ہاں یہ بتاؤ کہ ہمارے ایک بہادر جس نے تمہارے سردار کے لڑکے کو قتل کیا تھا اس کے متعلق تم کو کچھ معلوم ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ شاید آپ ان کے متعلق پوچھتے ہیں جو ننگے بدن تھے اور جنہوں نے ہمارے بہت سے آدمیوں کو مارا اور سردار کے بیٹے کو قتل کیا تھا.خالد نے فرمایا ہاں وہی ہے.انہوں نے کہا جس وقت وہ قید ہوئے اور ورُ دَان کے پاس پہنچے تو وژدان نے اس کو سو سواروں کی جمعیت میں حمص روانہ کیا تا کہ بادشاہ کے پاس پہنچایا جائے.یہ سن کر خالد بہت خوش ہوئے اور حضرت رافع کو بلا کر فرمایا کہ تم راستوں کو اچھی طرح جانتے ہو.اپنی مرضی کے جوانوں کو لے کر حمص پہنچنے سے پہلے حضرت ضرار کو چھڑاؤ اور اپنے رب کے ہاں اجر پاؤ.حضرت رافع نے ایک سو جوانوں کو چن لیا اور ابھی جانے ہی والے تھے کہ حضرت خولہ نے منت سماجت کر کے حضرت خالد سے جانے کی اجازت حاصل کر لی اور سب لوگ حضرت رافع کی سر کردگی میں حضرت ضرار کی رہائی کے لیے حمص روانہ ہو گئے.حضرت رافع تیزی سے چلے اور ایک مقام پر پہنچ کر آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ خوش ہو جاؤ.دشمن ابھی آگے نہیں گیا اور وہاں پر اپنے ایک دستے لو چھپا دیا.یہ لوگ اسی حالت میں تھے کہ غبار اڑتا ہوا دکھائی دیا.حضرت رافع نے مسلمانوں کو چوکنا بہنے کا حکم دیا.مسلمان تیار بیٹھے تھے کہ رومی پہنچ گئے.حضرت خیر اثر ان کی قید میں تھے اور در دبھرے لہجے میں اشعار پڑھ رہے تھے کہ ”اے مخبر ! میری قوم اور خولہ کو یہ خبر پہنچا دو کہ میں قیدی ہوں اور مشکوں میں بندھا ہوا ہوں.شام کے کافر اور بے دین میرے گرد جمع ہیں اور تمام زرہ پہنے ہوئے ہیں.اے دل ! تو غم و حسرت کی وجہ سے مرجا اور اسے جوانمردی کے آنسو! میرے رخسار پر بہ جا.“ یہ شعر پڑھ رہے تھے ، ان کے معنی یہ ہیں.حضرت خولہ نے زور سے آواز دی کہ تیری دعا قبول ہو گئی.اللہ کی مدد آگئی.میں تیری بہن خولہ ہوں اور یہ کہہ کر اس نے زور سے تکبیر بلند کر کے حملہ کر دیا اور دیگر مسلمان بھی تکبیر کہتے ہوئے حملہ آور ہوئے.مسلمانوں نے اس دستے پر قابو پالیا.سب کو قتل کر دیا گیا.حضرت ضرار کو اللہ تعالیٰ نے رہائی دلائی اور مالِ غنیمت مسلمانوں کو مل گیا.حضرت خولہ نے اپنے ہاتھوں سے بھائی کی رسیاں کھول دیں اور سلام کیا.حضرت ضر اڑ نے اپنی بہن کو شاباش دی اور خوش آمدید کہا.ایک لمبا نیزہ ہاتھ میں لیا اور ایک گھوڑے پر سوار ہوئے.خدا کا شکر ادا کیا.یہاں یہ خوشی ہوئی اور وہاں دمشق میں حضرت خالد نے سخت حملہ کر کے وزدَان کو شکست فاش دی.وہ لوگ بھاگ گئے اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا.وہاں حضرت ضرار اور دیگر مسلمانوں سے ملاقات ہوئی.فتح کی خبر حضرت ابو عبیدہ کو بھیج دی.اب مسلمانوں نے یقین کر لیا کہ دمشق فتح ہونے والا ہے.دوسری طرف اسلامی لشکر دمشق میں مقیم تھا اور قلعہ کا محاصرہ جاری تھا کہ بصری سے حضرت 806
حاب بدر جلد 2 352 حضرت ابو بکر صدیق 807 عباد بن سعید حضرت خالد کے پاس آئے اور اطلاع دی کہ رومیوں کا نوے ہزار کا لشکر بمقام اجنادین جمع ہوا ہے.حضرت خالد نے حضرت ابو عبیدہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا لشکر ملک شام میں متفرق مقامات میں منتشر ہے.لہذا ان تمام کو خط لکھ دو کہ وہ ہمیں اجنادین میں آملیں اور ہم بھی اب قلعہ دمشق کا محاصرہ ترک کر کے اجنادین کی جانب کوچ کریں گے.هر قل کو وردان کی شکست کی خبر پہنچ چکی تھی نیز اس کے بیٹے کے قتل ہونے کا مفصل حال معلوم ہو چکا تھا.لہذا ہر قل نے اس کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ ننگے بھوکے عربوں نے تجھے شکست دے دی ہے اور تیرے بیٹے کو قتل کیا ہے.نہ مسیح نے اس پر رحم کیا اور نہ تم پر.اگر تیری بہادری اور شمشیر زنی کا چرچا نہ ہوتا تو میں تجھے قتل کر دیتا.خیر آب جو ہوا سو ہوا میں نے اجنادین کی طرف نوے ہزار کی فوج روانہ کی ہے تجھے اس کا سر دار مقرر کرتا ہوں.808 حضرت خالد نے دمشق کا محاصرہ ختم کر کے اجنادین کی طرف لشکر کو روانہ ہونے کا حکم دیا.حکم ملتے ہی مسلمانوں نے فوراً خیمے اکھیڑ کر باقی مال اسباب اونٹوں پر لادنا شروع کیا.مالِ غنیمت کے اونٹوں کو اور مال و اسباب کے اونٹوں کو عورتوں اور بچوں کے ساتھ لشکر کے پیچھے کی جانب رکھا اور باقی سواروں کو لشکر کے آگے رکھا.حضرت خالد بن ولید نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ میں عورتوں اور بچوں کے قافلہ کے ساتھ لشکر کے پیچھے رہوں، حضرت ابو عبیدہ کو کہا، اور آپ لشکر کے آگے رہیں.حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ وز دان اپنا لشکر لے کر اجنادین سے دمشق کی طرف روانہ ہو اہو اور اس سے آمنا سامنا ہو جائے.اگر تم لشکر کے آگے رہو گے تو تم ان کو روک سکو گے اور مقابلہ کر سکو گے.لہذا تم آگے رہو اور میں پیچھے رہتا ہوں.حضرت خالد نے کہا آپ کی رائے مناسب ہے.میں آپ کی رائے اور تجویز کے خلاف نہیں کروں گا.جب اسلامی لشکر دمشق کا محاصرہ ترک کر کے روانہ ہوا تو لشکر کو کوچ کرتے دیکھ کر اہل دمشق خوشی سے اچھلنے کودنے لگے اور تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگے.اسلامی لشکر کے کوچ کے متعلق اہل دمشق نے مختلف آرا ظاہر کیں.کسی نے کہا کہ اجنادین میں ہمارے عظیم لشکر کے جمع ہونے کی خبر سن کر مسلمان ملک شام میں اپنے دوسرے لشکر کے پاس جمع ہونے گئے ہیں.کسی نے کہا کہ محاصرہ سے تنگ آکر کسی اور مقام پر لشکر کشی کرنے جا رہے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک کہا کہ ملک حجاز کی طرف بھاگ کر جارہے ہیں ، واپس جارہے ہیں.809 اہل دمشق جتنے بھی لوگ تھے وہ ایک شخص کے پاس جمع ہو گئے جس کا نام بولص تھا.اور وہ اس سے قبل کسی بھی جنگ میں صحابہ کے سامنے نہیں آیا تھا.یہ شخص ھر قل کا نہایت معتمد اور اعلیٰ درجہ کا تیر انداز تھا.اہل دمشق نے اس کو امیر بنایا اور ہر قسم کا لالچ دے کر جنگ کے لیے آمادہ کیا.نیز انہوں نے اس بات کی قسمیں کھائیں کہ وہ میدانِ جنگ چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے اور جو بھی ان میں سے میدان چھوڑے گا تو آپ کو اختیار ہو گا کہ اسے اپنے ہاتھ سے قتل کر دیں.یہ عہد و پیمان جب مکمل ہو گیا اور
حاب بدر جلد 2 353 حضرت ابو بکر صدیق بولص گھر میں داخل ہو کر زرہ پہنے لگا تو بیوی نے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو.بولص نے کہا کہ دمشق والوں نے مجھے اپنا امیر بنایا ہے.اب عربوں کے ساتھ لڑنے جارہا ہوں.بیوی نے اس سے کہا کہ ایسا مت کرو بلکہ گھر میں بیٹھے رہو.تم میں عربوں سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے.ان سے خواہ مخواہ مت لڑو.میں نے آج ہی خواب میں دیکھا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں کمان ہے اور ہوا میں چڑیوں کا شکار کر رہے ہو.بعض چڑیاں زخمی ہو کر گر گئیں مگر پھر اٹھ کر اڑنے لگیں.میں تعجب میں پڑ گئی کہ خواب میں ہی دیکھا کہ اچانک اوپر سے عقاب آگئے.ایک نہیں کئی عقاب آگئے اور تم اور تمہارے ساتھیوں پر ایسے ٹوٹ پڑے کہ سب کو نیست و نابود کر دیا.بولص نے کہا تو نے مجھے بھی خواب میں دیکھا تھا.اس نے کہا ہاں.عقاب نے زور سے تجھے ٹھونگ ماری اور تو بیہوش ہو گیا تھا.بولص نے اس کی باتیں سن کے اپنی بیوی کو تھپڑ مارا اور کہا کہ تیرے دل میں عربوں کا خوف بیٹھ گیا ہے.خواب میں بھی وہی خوف ہے.گھبر اؤمت! میں ابھی ان کے امیر کو تیر ا خادم اور اس کے ساتھیوں کو بکریوں اور خنزیروں کا چرواہا بنا دوں گا.بولص نہایت تیزی سے چھ ہزار سوار اور دس ہزار پیدل لشکر لے کر مسلمانوں کے پیچھے ان کے مقابلہ کے لیے نکل گیا اور اسلامی فوج کی عورتوں، بچوں، مال مویشی اور ابو عبیدہ کے ایک ہزار لشکر کا تعاقب کیا.مسلمان بھی مقابلے کے لیے تیار ہو گئے.دیکھتے ہی دیکھتے کفار پہنچ گئے.بولص سب سے آگے تھا.اس نے ایک دم چھ ہزار سپاہیوں کے ساتھ ابو عبیدہ پر حملہ کیا.بولص کا بھائی بطرس پیدل فوج کے ساتھ عورتوں کی طرف بڑھا اور کچھ عورتیں گرفتار کر کے دمشق کی طرف واپس پلٹا.ایک جگہ پر پہنچ ک اپنے بھائی کے انتظار میں بیٹھ گیا.حضرت ابو عبیدہ نے یہ مصیبت نا گہانی دیکھ کر فرمایا کہ خالد کی رائے صحیح تھی کہ وہ لشکر کے پیچھے رہیں گے.ادھر عورتیں اور بچے چلا رہے تھے.اُدھر ایک ہزار مسلمانوں نے بہادری سے مقابلہ کیا.بولص نے حضرت ابو عبیدہ پر بار بار حملہ کیا.آپ نے بھی شدید مقابلہ کیا.حضرت سہل تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر حضرت خالد کے پاس پہنچے اور سارا قصہ سنایا.حضرت خالد نے انا للہ پڑھا.آپ نے حضرت رافع اور عبد الرحمن بن عوف کو ایک ایک ہزار لشکر دے کر روانہ کیا تاکہ بچوں اور عورتوں کی حفاظت ہو جائے.اس کے بعد حضرت ضرار کو ایک ہزار سوار دے کر رخصت کیا اور خود بھی لشکر لے کر دشمن کی طرف چلے.ادھر حضرت ابو عبیدہ بولص کے ساتھ مصروفِ جنگ تھے.اتنے میں مختلف علاقوں سے آنے والے مسلمانوں کے لشکر پہنچ گئے.انہوں نے ایسا حملہ کیا کہ دمشق سے آکر حملہ کرنے والے رومیوں کو اپنی ذلت و خواری کا یقین ہو گیا.حضرت ضر الر آگ کے شعلوں کی طرح بولص کی طرف بڑھے.اس نے جب آپ کو دیکھا تو کانپ اٹھا اور پہچان لیا.بولص گھوڑے سے اتر کر پیدل بھاگنے لگا.حضرت خیر اڑ نے بھی اس کا تعاقب کیا اور اس کو زندہ پکڑ لیا اور قید کر لیا.اس جنگ میں کفار کے چھ ہزار آدمیوں میں سے بمشکل سو آدمی زندہ بچے تھے.حضرت ضیر اٹر پریشان تھے کیونکہ حضرت خولہ بھی قید ہو چکی تھیں.حضرت خالد نے کہا کہ گھبراؤ نہیں ہم نے
اصحاب بدر جلد 2 354 حضرت ابو بکر صدیق ان کے ایسے آدمی پکڑے ہوئے ہیں جن کے بدلے میں وہ ہمارے قیدی آسانی سے رہا کر دیں گے.حضرت خالد نے دو ہزار سپاہیوں کو اپنے ساتھ لیا اور باقی تمام افواج کو حضرت ابو عبیدہ کے حوالے کر دیا تا کہ عورتوں کی حفاظت ہو جائے اور خود قیدی خواتین کی تلاش میں نکل گئے.آپ جلدی جلدی چل کر اس جگہ پہنچے جہاں پر دشمن مسلمان عورتوں کو قید کر کے لے گئے تھے.آپ نے دیکھا کہ غبار اڑ رہا ہے.آپ کو تعجب ہوا کہ یہاں لڑائی کیوں ہو رہی ہے.پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ بولص کا بھائی بنظرس عورتوں کو گرفتار کر کے نہر کے پاس بھائی کے انتظار میں رک گیا تھا اور اب وہ عورتوں کو آپس میں بانٹنے لگے تھے.بطرس نے حضرت خولہ کے بارے میں کہا کہ یہ میری ہے.انہوں نے عورتوں کو ایک خیمہ میں قید کر دیا اور خود آرام کرنے لگے اور انہیں بولص کا انتظار بھی تھا.ان عورتوں میں سے اکثر بہادر اور تجربہ کار شہسوار عورتیں بھی تھیں.وہ ہر قسم کی جنگ جانتی تھیں.یہ آپس میں جمع ہوئیں اور حضرت خولہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے قبیلہ حمیر کی بیٹیو! اور اے قبیلہ تبع کی یاد گارو! کیا تم اس پر راضی ہو کہ رومی کفار تم کو لونڈیاں بنائیں ؟ کہاں گئی تمہاری شجاعت اور کیا ہو ئی تمہاری وہ غیرت جبس کا ذکر عرب مجلسوں میں ہوا کرتا تھا؟ افسوس! میں تمہیں غیرت سے علیحدہ اور شجاعت و حمیت سے خالی پا رہی ہوں.اس آنے والی مصیبت سے تو تمہاری موت افضل ہے.یہ سن کر ایک صحابیہ نے کہا اے خولہ آتو نے جو کچھ بیان کیا ہے بے شک درست ہے لیکن یہ بتاؤ کہ ہم قید میں ہیں.ہمارے ہاتھ میں نیزہ تلوار نہیں ہے.ہم کیا کر سکتی ہیں ! نہ گھوڑا ہے نہ اسلحہ ہے کیونکہ اچانک ہم کو قید کر لیا گیا ہے.حضرت خولہ نے فرمایا کہ ہوش کرو.خیموں کے ستون تو موجود ہیں.ہمیں چاہیے کہ انہیں اٹھا کر ان بد بختوں پر حملہ کریں.آگے مدد اللہ فرمائے گا.یا ہم غالب آجائیں گے ورنہ شہید تو ہو جائیں گی.اس پر ہر خاتون نے خیمہ کی ایک ایک لکڑی اٹھائی.حضرت خولہ ایک لکڑی کندھے پر رکھ کر آگے ہوئیں.حضرت خولہ نے اپنے ماتحت خواتین سے فرمایا کہ زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک ساتھ ہو جاؤ.متفرق نہ ہوناور نہ سب قتل ہو جاؤ گی.اس کے بعد حضرت خولہ نے آگے بڑھ کر ایک رومی کا فر کو مار کر قتل کیا.رومی لوگ ان عورتوں کی جرات و بہادری دیکھ کر حیران ہو گئے.بطرس نے کہا بد بختو! یہ کیا کر رہی ہیں.ایک صحابیہ نے جواب دیا کہ آج ہم نے ارادہ کر لیا ہے کہ ان لکڑیوں سے تمہارے دماغ درست کر دیں اور تمہیں قتل لیا کر کے اپنے اسلاف کی عزتوں کی حفاظت کریں.بُطرس نے کہا کہ ان کو زندہ پکڑ لو اور خولہ کو زندہ پکڑنے کا خاص خیال رکھو.چاروں طرف سے تین ہزار رومی حلقہ باندھ کر کھڑے تھے مگر کوئی شخص عورتوں تک نہیں آسکتا تھا.اگر وہ آگے بڑھتا تو یہ عورتیں ان کے گھوڑوں اور پھر ان کو مار دیتی تھیں.اس طرح تمیں سواروں کو ان عورتوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا.بطرس یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا.گھوڑے سے نیچے اترا.اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہو کر تلواروں
صحاب بدر جلد 2 355 حضرت ابو بکر صدیق سے حملہ آور ہوا مگر یہ عور تیں ایک جگہ اکٹھی ہوئیں اور سب کا مقابلہ کیا اور کوئی قریب نہ آسکا.حضرت خولہ کو مخاطب کرتے ہوئے بطرس نے کہا کہ اے خولہ ! اپنی جان پر رحم کرو.میں تمہاری قدر کرتا ہوں.میرے دل میں بھی تیرے لیے بہت کچھ ہے.کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ میں بادشاہ جیسا آدمی تیرا مالک بنوں اور میری ساری جائیداد تمہاری جائیداد ہو جائے.حضرت خولہ نے فرمایا اے کا فر بد بخت ! خدا کی قسم ! اگر میر ابس چلے تو ابھی تیر اسر لکڑی سے توڑ دوں.واللہ ! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ تو میری بکریاں اور اونٹ چرائے چہ جائیکہ تو میری برابری کا دعویٰ کرے.اس پر بطرس نے لشکر سے کہا کہ ان سب کو قتل کر دو.لشکر والے نئے سرے سے تیار ہو رہے تھے اور ابتدائی حملہ کرنے والے تھے کہ مسلمان حضرت خالد کی سر کردگی میں وہاں پہنچ گئے.آپ کو تمام حالات و واقعات کا علم ہوا.عورتوں کی بہادری اور مقابلے سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور پھر پورے لشکر نے کفار کے ارد گرد دائرہ ڈال دیا اور ایک ساتھ حملہ کیا.حضرت خولہ نے چلا کر کہا اللہ کی مدد آگئی ہے ! اللہ نے مہربانی کر دی ہے ! جب بطرس نے مسلمانوں کو دیکھا تو پریشان ہو گیا اور بھاگنے لگا مگر بھاگنے سے پہلے اس نے دو مسلمان شہسواروں کو اپنی طرف آتے دیکھا.ان میں سے ایک خالد اور دوسرے حضرت ضر اڑا تھے.ضرار نے اس کو ایک نیزہ مارا.وہ گھوڑے سے گرتے گرتے بچا.پھر ضرار نے دوسر اوار کیا اور وہ ڈھیر ہو گیا.مسلمانوں نے بہت سے رومیوں کو قتل کیا.جو بچ گئے وہ دمشق بھاگ گئے.جب حضرت خالد واپس لوٹے تو بولص کو بلایا اور اس کو اسلام پیش کیا اور فرمایا اسلام قبول کرو ورنہ تیرے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو تیرے بھائی کے ساتھ کیا گیا.بولص نے کہا میرے بھائی کے ساتھ کیا ہوا ہے.خالد نے فرمایا اس کو قتل کیا ہے.بولص نے اپنے بھائی کا انجام دیکھ کر کہا کہ اب زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے.مجھے بھی بھائی کے ساتھ ملادو.چنانچہ اسے بھی قتل کر دیا گیا.810 811 بہر حال اسلامی لشکر پھر اجنادین کے مقام پر جمع ہو گئے.یہ تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے.دمشق کا یہ دوسرا محاصرہ ہوا.پہلے تو چھوڑ آئے تھے.اب اس جنگ کے بعد دوبارہ دمشق کے محاصرے کے بارے میں لکھا ہے کہ اجنادین کی فتح کے بعد حضرت خالد نے اسلامی لشکر کو دمشق کی جانب دوبارہ کوچ کرنے کا حکم دیا.اہل دمشق کو اجنادین میں رومی لشکر کی شکست کی اطلاع پہلے ہی مل چکی انب دوباره وت مهد خبر ملی کہ اسلامی لشکر اب دمشق کی طرف آرہا ہے تو وہ بہت گھبر ائے.دمشق کے اطراف میں بسنے والے بھاگ کر قلعہ میں پناہ گزین ہو گئے اور قلعہ میں کافی تعداد میں غلہ اور اشیائے صرف جمع کر لیں تاکہ اگر اسلامی لشکر کا محاصرہ لمبا ہو جائے تو ذخیرہ ختم نہ ہو.اس کے علاوہ ہتھیار اور سامانِ جنگ بھی اکٹھا کر لیا.قلعہ کی دیواروں پر منجنیق ، پتھر ، ڈھال، تیر ، کمان وغیر ہ سامان پہنچا دیا تا کہ قلعہ کی دیوار سے محاصرہ کرنے والوں پر حملہ کیا جائے.اسلامی لشکر نے دمشق کے قریب
صحاب بدر جلد 2 356 حضرت ابو بکر صدیق پڑاؤ کیا.پھر اسلامی لشکر نے آگے بڑھ کر قلعہ کا محاصرہ کر لیا.حضرت خالد نے دمشق کے تمام دروازوں پر سر داروں کو ان کے لشکر سمیت متعین کر دیا.812 اس وقت دمشق کا حاکم تو ما تھا.دمشق کے رؤساء امرا اور دانشمند لوگوں نے تو ما کو مشورہ دیا کہ ہمارے پاس اسلامی لشکر سے مقابلے کی طاقت نہیں.اس لیے یا تو ھر قل سے مدد طلب کرو یا پھر مسلمانوں سے مصالحت کر لو.جو وہ طلب کریں انہیں دے کر اپنی جان بچاؤ.اس پر ٹوٹا نے تکبر اور غرور سے کہا کہ میں عربوں کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتا.میں ھر قل اعظم کا داماد اور جنگ کا ماہر ہوں.میرے ہوتے ہوئے مسلمانوں کو شہر میں پاؤں رکھنے کی جرات نہ ہو گی.رؤسا کے سمجھانے پر توما نے یہ کہہ کر انہیں تسلی دی کہ عنقریب ھر قل کی طرف سے ایک بڑا لشکر ہماری مدد کے لیے آرہا ہے.تو مانے ہر طرف سے مسلمانوں پر شدت سے حملے کا حکم دیا.ان حملوں کے دوران کئی مسلمان زخمی اور شہید ہوئے.حضرت ابان بن سعید کو بھی ایک زہر آلود تیر لگا.تیر نکالنے کے بعد انہوں نے زخم پر عمامہ باندھ لیا لیکن تھوڑی ہی دیر میں زہر ان کے جسم میں سرایت کر گیا اور وہ غش کھا کر گر گئے اور وہیں کچھ دیر بعد جام شہادت نوش کر گئے.حضرت ابان کا نکاح اجنادین کی جنگ کے دوران حضرت اُم آبان سے ہو ا تھا اور ان کے ہاتھ کی مہندی کا رنگ اور سر میں عطر کی خوشبو باقی تھی یعنی بالکل تازہ شادی تھی.حضرت ام ابان کا شمار عرب کی ان بہادر خواتین میں ہو تا تھا جو جہاد کرنے میں پیش پیش رہتی تھیں.جب ان کو اپنے خاوند کی شہادت کی اطلاع ملی تو وہ بھاگتی ہوئی اور ٹھوکریں کھاتی ہوئی آئیں اور اپنے خاوند کی لاش کے پاس صبر و استقلال کا ایک پیکر بن کر کھڑی ہو گئیں.اپنی زبان سے ناشکری کا ایک کلمہ بھی نہ نکالا اور اپنے خاوند کی جدائی میں چند اشعار کہے.حضرت خالد بن ولید نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی.تدفین کے بعد حضرت ام آبان اپنے خیمے کی طرف ایک عزم محکم اور پختہ ارادے کے ساتھ گئیں.اپنے ہتھیار تھامے اور اپنے چہرے پر کپڑا باندھا اور باب تؤا پر پہنچ گئیں جہاں ان کے خاوند شہید ہوئے تھے.باب ٹو کا پر اس وقت سخت لڑائی جاری تھی.حضرت ام آبان ان مسلمانوں میں شامل ہو کر سخت لڑائی لڑتی رہیں اور اپنے تیروں سے کئی رومیوں کو زخمی اور موت کے گھاٹ اتار دیا اور بالآخر لڑائی کے دوران موقع پا کر گویا کے محافظ کا نشانہ لیا جس کے ہاتھ میں صلیب اعظم تھی.یہ صلیب سونے کی بنی ہوئی تھی اور اس میں قیمتی جواہر جڑے ہوئے تھے.صلیب اعظم اٹھانے والا شخص رومیوں کو جنگ کی ترغیب دیتا تھا اور صلیب کے وسیلے سے فتح وکامیابی کی دعا مانگتا تھا.حضرت ام ابان کا تیر جیسے ہی اس کو لگا اس کے ہاتھ سے صلیب گر گئی اور مسلمانوں کے ہاتھ لگ گئی.ٹوٹا نے جب دیکھا کہ صلیب مسلمانوں کے قبضہ میں چلی گئی ہے تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کو واپس لینے کے لیے نیچے اتر آیا اور دروازہ کھول کر مسلمانوں سے مقابلہ شروع کر دیا.اس دوران قلعہ کے اوپر سے رومیوں نے بھی سخت حملے کرنے شروع کر دیے.اس دوران حضرت ام ابان نے موقع دیکھ کر
اصحاب بدر جلد 2 357 حضرت ابو بکر صدیق ٹوٹا کی آنکھ کا نشانہ لے کر تیر چلایا اور اس کی آنکھ ہمیشہ کے لیے اندھی کر دی.اس پر تو ما کو اپنے ساتھیوں سمیت پیچھے ہٹنا پڑا اور انہوں نے قلعہ میں داخل ہو کر دروازے بند کر لیے.ٹوٹا کی یہ حالت دیکھ کر اہل دمشق نے کہا کہ اس لیے ہم نے کہا تھا کہ ان عربوں سے مقابلہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں.اس لیے عربوں سے مصالحت کی کوئی صورت اختیار کرنی چاہیے.اس پر تو ما مزید غضبناک ہو گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اپنی آنکھ کے بدلے میں ان کی ایک ہزار آنکھیں پھوڑ ڈالوں گا.3 815 813 اہل دمشق کو حمص سے ہیں ہزار فوج کی مدد آنے کی توقع تھی.814 مگر اسلامی فوج نے یہ تدبیر کی کہ فوج کے ایک دستے کو دمشق کے راستے پر مقرر کر دیا.اس طرح حمص سے آنے والی فوج کو وہیں روک لیا گیا.مسلمانوں نے دمشق کا سخت محاصرہ کیے رکھا.اس میں حملوں، تیر اندازی اور منجنیقوں سے دشمن کو خوب پریشان کرتے رہے.اہل دمشق کو جب یقین ہو گیا کہ ان کو امداد نہیں پہنچ سکتی اور ان میں کمزوری اور بزدلی پیدا ہو گئی تو انہوں نے مزید جد وجہد ترک کر دی اور مسلمانوں کے دلوں میں ان کو زیر کرنے کا جذبہ بڑھ گیا.5 اہل دمشق کا خیال تھا کہ سردیوں کی شدت میں مسلمان طویل محاصرہ کی تکلیفوں کو برداشت نہیں کر سکیں گے لیکن مسلمانوں نے حالات کا نہایت بہادری سے مقابلہ کیا.دمشق کے اطراف کے خالی مکانات کو مسلمانوں نے راحت و آرام کے لیے استعمال کیا.ہفتہ واری انتظام کے مطابق باری باری جو فوج محاذ پر ہوتی وہ آکر آرام کرتی اور جب وہ چلی جاتی تو دوسری فوج آکر آرام کرتی اور دروازوں پر متعین ان فوجی دستوں کے پیچھے ان کی حمایت اور نگرانی کے لیے دوسری فوج مقرر ہوتی.اس طرح طویل سے طویل محاصرے پر بھی قابو پانا آسان ہو گیا لیکن مسلمانوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ دشمن کی منظم رکاوٹوں کو توڑنے کے لیے ان کی میدانی تحقیقات اور جنگی چالیں اپنا کام کرتی رہیں اور رکاوٹوں کے اس منظم اور طویل سلسلہ میں حضرت خالد بن ولید ایک ایسے مناسب مقام کے انتخاب میں کامیاب ہو گئے جہاں سے دمشق میں داخل ہونا ممکن تھا.یہ دمشق کا سب سے بہتر خطہ تھا.اس مقام پر خندق کا پانی کافی گہر ا تھا اور وہاں سے داخل ہونا کافی دشوار طلب کام تھا.حضرت خالد بن ولید نے دمشق میں داخل ہونے کی تدبیر یہ نکالی کہ چند رسیوں کو اکٹھا کیا تا کہ فصیل پر چڑھنے اور دمشق میں اترنے کے لیے ان میں پھند الگا کر سیڑھیوں کا کام لیا جا سکے.حضرت خالد بن ولید کو کسی ذریعہ سے یہ خبر مل گئی تھی کہ دمشق کے بطریق، رومی فوج کے دس ہزاری لشکر کے قائد کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے ، ایک کمانڈر کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے اور سارے لوگ جن میں اس کے محافظ سپاہی بھی تھے دعوت میں مشغول ہیں.چنانچہ وہ سب خوب کھا پی کر مست ہو کر سو گئے اور اپنی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو گئے.اسی دوران حضرت خالد بن ولید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مشکیزوں کے سہارے خندق عبور کر
حاب بدر جلد 2 358 816 حضرت ابو بکر صدیق کے فصیل تک پہنچ گئے اور رسیوں کے پھندے لگا کر انہیں بطور سیڑھی کے فصیل پر مضبوطی سے پھنسا دیا اور متعد درسیاں فصیل سے لٹکا دیں.اس پر رسیوں کے سہارے کافی زیادہ تعداد میں مسلمان فصیل پر چڑھ گئے اور اندر اتر گئے اور دروازوں تک پہنچ گئے.دروازوں کی کنڈیوں کو تلوار سے کاٹ کر الگ کر دیا.اس طرح اسلامی فوجیں دمشق میں داخل ہو گئیں.حضرت خالد کی فوج مشرقی دروازے پر قابض ہو گئی تو رومیوں نے گھبراہٹ میں حضرت ابو عبیدہ سے مغربی دروازے پر صلح کی درخواست کی حالانکہ پہلے مسلمانوں کی طرف سے صلح کی درخواست کو مستر د کر چکے تھے اور جنگ پر بضد تھے.حضرت ابو عبیدہ نے خوش دلی سے صلح کو منظور کر لیا.اس پر رومیوں نے قلعہ کے دروازے کھول دیے اور مسلمانوں سے کہا کہ جلد آؤ اور ہمیں اس دروازے کے حملہ آوروں یعنی حضرت خالد سے بچاؤ.نتیجہ یہ ہوا کہ تمام دروازوں سے مسلمان صلح کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے اور حضرت خالد اپنے دروازے سے لڑائی کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے.حضرت خالد اور باقی چاروں اسلامی امراء شہر کے وسط میں ایک دوسرے سے ملے.حضرت خالد بن ولید نے اگر چہ دمشق کا کچھ حصہ لڑ کر فتح کیا تھا لیکن چونکہ حضرت ابو عبیدہ نے صلح منظور کر لی تھی اس لیے مفتوحہ علاقے میں بھی صلح کی شرائط تسلیم کی گئیں.817 یہاں یہ واضح ہو کہ دمشق کی فتح کو بعض مورخین حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں بیان کرتے ہیں لیکن دمشق کا یہ معرکہ حضرت ابو بکر صدیق کے عہد خلافت میں شروع ہو چکا تھا.البتہ اس کی فتح کی خبر جب مدینہ بھیجی گئی تو اس وقت حضرت ابو بکر کی وفات ہو چکی تھی.تو یہ حضرت ابو بکڑ کے زمانے کی ہو بکڑ آخری جنگ تھی.818 خلافت عمر مشاورت اور نامزدگی جب حضرت ابو بکر کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کو بلایا اور فرمایا مجھے عمر کے متعلق بتاؤ تو انہوں نے یعنی حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا.اے رسول اللہ کے خلیفہ ! اللہ کی قسم وہ یعنی حضرت عمر آپ کی جو رائے ہے اس سے بھی افضل ہیں سوائے اس کے کہ ان کی طبیعت میں سختی ہے.حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ سختی اس لیے ہے کہ وہ مجھ میں نرمی دیکھتے ہیں.اگر امارت ان کے سپر د ہو گئی تو وہ اپنی بہت سی باتیں جو اُن میں ہیں اس کو چھوڑ دیں گے کیونکہ میں نے ان کو دیکھا ہے کہ جب میں کسی شخص پر سختی کرتا تو وہ مجھے اس شخص سے راضی کرنے کی کوشش کرتے اور جب میں کسی شخص سے نرمی کا سلوک کرتا تو اس پر مجھے سختی کرنے کا کہتے.اس کے بعد حضرت ابو بکر نے حضرت عثمان بن عفان کو بلایا اور ان سے حضرت عمرؓ کے بارے میں دریافت فرمایا.حضرت عثمان نے کہا ان کا باطن ان کے ظاہر سے بھی بہتر ہے اور ہم میں ان جیسا کوئی نہیں.اس پر حضرت ابو بکڑ نے
اصحاب بدر جلد 2 359 حضرت ابو بکر صدیق 819 دونوں اصحاب سے فرمایا جو کچھ میں نے تم دونوں سے کہا ہے اس کا ذکر کسی اور سے نہ کرنا.پھر حضرت ابو بکڑ نے فرمایا کہ اگر میں حضرت عمر کو چھوڑتا ہوں تو میں عثمان سے آگے نہیں جاتا اور ان کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ تمہارے امور کے متعلق کوئی کمی نہ کریں.اب میری یہ خواہش ہے کہ میں تمہارے امور سے علیحدہ ہو جاؤں اور تمہارے اسلاف میں سے ہو جاؤں.حضرت ابو بکر کی بیماری کے دنوں میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ حضرت ابو بکڑ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ نے حضرت عمر کو لوگوں پر خلیفہ بنا دیا ہے حالا نکہ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی موجودگی میں لوگوں سے کس طرح سلوک کرتے ہیں اور اس وقت کیا حال ہو گا جب وہ تنہا ہوں گے اور آپ اپنے رب سے ملاقات کریں گے اور وہ آپ سے رعیت کے بارے میں پوچھے گا یعنی اللہ تعالیٰ آپ سے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھے گا.حضرت ابو بکر لیٹے ہوئے تھے.آپؐ نے فرمایا مجھے بٹھا دو.جب اُن کو بٹھایا گیا اور وہ سہارا لے کر بیٹھے تو آپ نے کہا: کیا تم مجھے اللہ سے ڈراتے ہو ؟ جب میں اپنے رب سے ملوں گا اور وہ مجھ سے پوچھے گا تو میں جواب دوں گا کہ میں نے تیرے بندوں میں سے بہترین کو تیرے بندوں پر خلیفہ بنایا ہے.حضرت مصلح موعود اس بارے میں تاریخ کی کتب کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کی وفات جب قریب آئی تو آپ نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ میں کس کو خلیفہ مقرر کروں.اکثر صحابہ نے اپنی رائے حضرت عمرہ کی امارت کے متعلق ظاہر کی اور بعض نے صرف یہ اعتراض کیا کہ حضرت عمر کی طبیعت میں سختی زیادہ ہے.ایسا نہ ہو کہ لوگوں پر تشدد کریں.آپؐ نے فرمایا یہ سختی اسی وقت تک تھی جب تک ان پر ذمہ داری نہیں پڑی تھی اب جبکہ ایک ذمہ داری ان پر پڑ جائے گی تو ان کی سختی کا مادہ بھی اعتدال کے اندر آجائے گا.چنانچہ تمام صحابہ حضرت عمر کی خلافت پر راضی ہو گئے.آپ کی، حضرت ابو بکر کی صحت چونکہ بہت خراب ہو چکی تھی، اس لیے حضرت ابو بکر نے اپنی بیوی اسماء کا سہارا لیا اور ایسی حالت میں جبکہ آپ کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے ، ہاتھ کانپ رہے تھے آپ مسجد میں آئے اور تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بہت دنوں تک متواتر اس امر پر غور کیا ہے کہ اگر میں وفات پا جاؤں تو تمہارا کون خلیفہ ہو.آخر بہت کچھ غور کرنے اور دعاؤں سے کام لینے کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا ہے کہ عمر کو خلیفہ نامزد کر دوں.سو میری وفات کے بعد عمر تمہارے خلیفہ ہوں گے.سب صحابہ اور دوسرے لوگوں نے اس امارت کو تسلیم کیا اور حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ کی بیعت ہو گئی.820 پھر اس بارے میں مزید ایک جگہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ نامزد کیوں کیا، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ "اگر کہا جائے کہ جب قوم کے انتخاب سے ہی کوئی خلیفہ ہو سکتا ہے تو حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو نامزد کیوں کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے یونہی نامزد نہیں کر دیا بلکہ صحابہ سے آپ کا مشورہ لینا ثابت ہے.فرق ہے تو صرف اتنا کہ اور خلفاء کو خلیفہ کی وفات کے بعد منتخب کیا گیا اور حضرت عمر کو حضرت ابو بکر کی موجودگی میں ہی منتخب کر لیا گیا.پھر آپ نے اسی پر بس
حاب بدر جلد 2 360 حضرت ابو بکر صدیق نہیں کیا.“ یعنی حضرت ابو بکر نے یہیں پر بس نہیں کیا، اس کو کافی نہیں سمجھا کہ چند صحابہ سے مشورہ لینے کے بعد آپ نے حضرت عمر کی خلافت کا اعلان کر دیا ہو بلکہ باوجو د سخت نقاہت اور کمزوری کے آپ اپنی بیوی کا سہارا لے کر مسجد میں پہنچے اور لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! میں نے صحابہ سے مشورہ لینے کے بعد اپنے بعد خلافت کے لیے عمر کو پسند کیا ہے کیا تمہیں بھی ان کی خلافت منظور ہے ؟ اس پر تمام لوگوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا.پس یہ بھی ایک رنگ میں انتخاب ہی تھا.حضرت ابو بکر صدیق کی بیماری اور وصیت 821" تاریخ طبری میں مزید لکھا ہے حضرت ابو بکر کی علالت اور وفات کا ذکر یوں بیان ہوا ہے کہ حضرت ابو بکر کی بیماری کا باعث یہ ہوا کہ سات جمادی الآخر سوموار کے دن آپ نے غسل کیا.اس روز خوب سر دی تھی.اس وجہ سے آپ کو بخار ہو گیا جو پندرہ روز تک رہا.یہاں تک کہ آپ نماز کے لیے باہر آنے کے قابل نہ رہے.آپ نے حکم دے دیا کہ حضرت عمر نماز پڑھاتے رہیں.لوگ آپ کی عیادت کے لیے آتے تھے مگر روز بروز آپ کی طبیعت خراب ہوتی گئی.اس زمانے میں حضرت ابو بکر اس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے جو اُن کو رسول اللہ صلی الہ ہم نے عنایت فرمایا تھا اور جو حضرت عثمان بن عفان کے مکان کے سامنے واقع تھا.علالت کے زمانے میں زیادہ تر آپ کی تیمار داری حضرت عثمان کرتے رہے.822 آپ پندرہ روز تک بیمار رہے.کسی نے آپ سے کہا آپ طبیب کو بلا لیں تو اچھا ہے.آپ نے فرمایا: وہ مجھے دیکھ چکا ہے.لوگوں نے پوچھا کہ اس نے آپ سے کیا کہا ہے.آپ نے فرمایا اس نے یہ کہا ہے کہ إِنِّي أَفْعَلُ مَا أَشَاءُ ، میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں.823 ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب حضرت ابو بکر بیمار ہوئے تو لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہم آپ کے لیے طبیب کو بلالیں تو حضرت ابو بکر نے فرمایا اس نے مجھے دیکھ لیا ہے اور کہا ہے کہ إِنِّي فَعَالُ لِمَا أُرِيدُ کہ میں جو چاہوں گا ضرور کروں گا.824 بہر حال آپ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کا اب یہی ارادہ ہے کہ مجھے اپنے پاس بلا لے اور کسی طبیب کی ضرورت نہیں ہے.حضرت ابو بکر نے منگل کی شام کو بتاریخ بائیس جمادی الآخر تیرہ ہجری کو تریسٹھ سال کی عمر میں انتقال فرمایا.آپؐ کا عہد خلافت دو سال تین مہینے دس روز رہا.5 حضرت ابو بکر صدیق کے لبوں سے جو آخری الفاظ ادا ہوئے وہ قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ تھی که تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الْحِقْنِي بِالصّلِحِينَ (یوسف : 102) یعنی مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زمرے میں شمار کر.826 825 حضرت ابو بکر صدیق کی انگوٹھی کا نقش نِعْمَ الْقَادِرُ اللہ تھا:
اصحاب بدر جلد 2 361 حضرت ابو بکر صدیق 827 یعنی کیا ہی قدرت رکھنے والا ہے اللہ تعالیٰ.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر نے فرمایا.میری تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر دیکھنا کہ کوئی اور چیز تو نہیں رہ گئی.باقی چیزیں تو حضرت عمر کو دے دی تھیں.اگر ہو تو اس کو بھی حضرت عمرؓ کے پاس بھیج دینا.تجہیز و تکفین کے متعلق فرمایا.اس وقت جو کپڑا بدن پر ہے اسی کو دھو کر دوسرے کپڑوں کے ساتھ کفن دینا.حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یہ تو پرانا ہے.کفن کے لیے نیا ہونا چاہیے.فرمایا زندے مردوں کی بہ نسبت نئے کپڑوں کے زیادہ حقدار ہیں.828 جو نیا کپڑا ہے وہ کسی زندہ کو پہنا دو زیادہ بہتر ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر نے وصیت کی تھی کہ آپ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیں آپ کو غسل دیں.حضرت ابو بکر کے صاحبزادے حضرت عبد الرحمن نے ان کے ساتھ معاونت کی.آپ کا کفن دو کپڑوں پر مشتمل تھا.ان میں سے ایک کپڑا غسل کے لیے استعمال ہونے والا تھا.یہ بھی روایت ہے کہ تین کپڑوں میں کفن دیا گیا.پھر آپ کو نبی کریم ملی میں کم کی چار پائی پر رکھا گیا.یہ وہ چار پائی تھی جس پر حضرت عائشہ سویا کرتی تھی.اسی چارپائی پر آپ کا جنازہ اٹھایا گیا اور حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی الم کی قبر اور منبر کے درمیان آپ کا جنازہ پڑھایا اور آپ کو رات کے وقت اسی حجرے میں رسول اللہ صلی علیکم کی قبر کے ساتھ دفن کیا گیا.آپ کا سر رسول اللہ صلی یم کے کندھوں کے مقابل میں رکھا گیا.829 تدفین کے وقت حضرت عمر بن خطاب، حضرت عثمان بن عفان، حضرت طلحہ بن عبد اللہ اور 830 حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر قبر میں اترے اور تدفین کی.ابنِ شہاب سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر کو رات کے وقت دفن کیا.حضرت سالم بن عبد اللہ اپنے والد کا یہ قول بیان کرتے ہیں کہ : حضرت ابو بکر صدیق کی وفات کا سبب رسول اللہ صلی للی کم کی وفات کا غم تھا کیونکہ آنحضور صلی کم کی وفات کے بعد آپ کا جسم مسلسل کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہو گیا.31 بعض سیرت نگاروں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ : 831 آپ کی وفات کا باعث وہ کھانا تھا جس میں کسی یہودی نے زہر ملایا تھا لیکن عموماً سیرت نگاروں نے اس روایت کی تردید بھی کی ہے.832 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابو بکر کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے پوچھا یہ کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے کہا سوموار.حضرت ابو بکر نے کہا اگر آج میں فوت ہو جاؤں تو کل کا انتظار نہ کرنا کیونکہ مجھے وہ دن یارات زیادہ محبوب ہے جو رسول اللہ صلی نیلم کے زیادہ قریب ہو.3 یعنی تدفین وہاں ہو جائے تو زیادہ بہتر ہے.833
باب بدر جلد 2 362 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر نے اپنے ترکے کی بابت فرمایا کہ میرے بعد قرآنی احکام کے مطابق اسے تقسیم کر دیا جائے.834 اسی طرح ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنے متر و کہ مال میں سے رشتہ داروں کے لیے جو وارث نہیں تھے پانچویں حصہ کی وصیت کی تھی.835 حضرت ابو بکر کی ازواج اور اولاد کے بارے میں ذکر ہے کہ آپ کی چار بیویاں تھیں.نمبر ایک قتیله بنت عَبْدُ الْعُری.ان کے اسلام لانے کے بارے میں اختلاف ہے.یہ حضرت عبد اللہ اور حضرت اسماء کی والدہ تھیں.حضرت ابو بکر نے انہیں زمانہ جاہلیت میں طلاق دے دی تھی.یہ ایک مرتبہ مدینہ میں حضرت اسماء یعنی اپنی بیٹی کے پاس کچھ گھی اور پنیر بطور ہدیہ لے کر آئی تھیں مگر حضرت اسماء نے وہ ہدیہ لینے سے انکار کر دیا اور انہیں گھر میں داخل بھی نہیں ہونے دیا اور حضرت عائشہ کو کہلا بھیجا کہ اس بارے میں رسول اللہ صلی علیم سے دریافت کریں.حضرت عائشہ سے کہا کہ ذرا پوچھ کے بتائیں کہ میری ماں اس طرح آئی ہے اور تحفہ لائی ہے.میں نے تو انہیں گھر میں داخل نہیں ہونے دیا.کیا ارشاد ہے ؟ اس پر آپ صلی علیہ ہم نے فرمایا کہ ان کو گھر میں آنے دو اور ان کا ہد یہ قبول کرو.نمبر دوجو اہلیہ تھیں وہ حضرت ام رومان بنت عامر تھیں.آپ کا تعلق بنو کنعانہ بن خُزیمہ سے تھا.آپ کے پہلے خاوند حارث بن سخی بر کا مکہ میں فوت ہو گئے اس کے بعد حضرت ابو بکر کے عقد میں آگئیں.آپ ابتدا میں اسلام لے آئیں اور رسول اللہ صلی میریم کی بیعت کی اور مدینہ کی طرف ہجرت کی.آپ کے بطن سے حضرت عبد الرحمن اور حضرت عائشہ کی ولادت ہوئی.آپ کی وفات چھ ہجری میں مدینہ میں ہوئی.نبی اکرم صلی الی یکم خود ان کی قبر میں اترے اور ان کی مغفرت کی دعا فرمائی.تیسری حضرت آسمان بنت تخمیس بن معبد بن حارث تھیں.آپ کی کنیت ام عبد اللہ ہے.آپ مسلمانوں کے دار ارقم میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسلام قبول کر کے رسول اللہ صلیالی کمی کی بیعت کر چکی تھیں.آپ ابتدائی ہجرت کرنے والی تھیں.آپ نے اپنے خاوند حضرت جعفر بن ابو طالب کے ساتھ پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں سے سات ہجری میں مدینہ تشریف لائیں.آٹھ ہجری میں جنگ موتہ میں جب حضرت جعفر شہید ہو گئے تو آپ حضرت ابو بکرؓ کے عقد میں آگئیں.آپ کے بطن سے محمد بن ابو بکر پید ا ہوئے.چوتھی بیوی حضرت حبیبہ بنت خَارِجہ بن زید بن ابوزھیر تھیں.ان کا تعلق انصار کی شاخ خزرج سے تھا.حضرت ابو بکر مدینہ کے مضافاتی علاقے سُنخ میں آپ کے ساتھ رہا کرتے تھے.آپ کے بطن سے حضرت ابو بکر کی صاحبزادی ام کلثوم پیدا ہوئیں جن کی ولادت حضرت ابو بکر کی وفات کے ام کچھ عرصہ بعد ہوئی.اولاد میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں.پہلے بیٹے حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر.آپ حضرت
ناب بدر جلد 2 363 حضرت ابو بکر صدیق ابو بکر کے سب سے بڑے بیٹے تھے.آپ حدیبیہ کے دن مسلمان ہوئے اور پھر اسلام پر ثابت قدم رہے.آپ کو رسول اللہ صلی للی علم کی صحبت حاصل رہی.آپ شجاعت اور بہادری میں بہت مشہور تھے.اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کا قابل تعریف موقف رہا.دوسرے حضرت عبد اللہ بن ابو بکر تھے.آپ کا رسول اللہ صلی علیکم کی ہجرت مدینہ کے موقع پر اہم کردار تھا.آپ تمام دن مکہ میں گزارتے اور مکہ والوں کی خبریں جمع کرتے اور پھر رات کے وقت چپکے سے غار میں پہنچ کر وہ خبریں رسول اللہ صلی علیہ کم اور حضرت ابو بکر کو سناتے اور صبح کے وقت واپس مکہ میں آجاتے.طائف کی جنگ میں آپ کو ایک تیر لگا جس کا زخم ٹھیک نہ ہوا اور آخر کار اسی کی وجہ سے حضرت ابو بکر کی خلافت میں آپ نے شہادت پائی.محمد بن ابو بکر تیسرے بیٹے تھے.آپ حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے پیدا ہوئے.جمعۃ الوداع کے موقع پر ذوالحلیفہ میں آپ کی ولادت ہوئی.حضرت علی کی گود میں آپ نے پرورش پائی اور حضرت علیؓ نے اپنے دور میں آپ کو مصر کا گورنر مقرر فرمایا.آپ وہیں مارے گئے.بعض روایات میں حضرت عثمان کو قتل کرنے والوں میں ان کا نام بھی لیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ان کو قتل کیا گیا.واللہ اعلم.آپ کے بچوں میں سے چوتھی حضرت اسماء بنت ابو بکر ہیں.آپ ذات النطاقین کے نام سے مشہور ہیں.آپ حضرت عائشہ سے عمر میں بڑی تھیں.رسول اللہ صلی علیم نے آپ کو ذات النطاقین کے لقب سے نوازا تھا کیونکہ ہجرت کے موقع پر انہوں نے رسول اللہ صلی علی کم اور اپنے والد کے لیے توشہ تیار کیا اور پھر اس کو باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو اپنے کمر بند کو پھاڑ کر تو شہ باندھ دیا.کھانے کا جو انتظام کیا تھا وہ کھانا کمر کے کپڑے سے باندھ کر دے دیا.حضرت زبیر بن عوام سے آپ کی شادی ہوئی اور بحالت حمل آپ نے مدینہ ہجرت کی.ہجرت کے بعد آپ کے بطن سے حضرت عبد اللہ بن زبیر پیدا ہوئے جو ہجرت کے بعد پیدا ہونے والے سب سے پہلے بچے تھے.حضرت اسماء نے سو سال عمر پائی.آپ کی وفات مکہ میں تہتر ہجری میں ہوئی.پانچواں بچہ ام المومنین حضرت عائشہ بنت ابو بکرہ تھیں.آپ نبی کریم صلی یک کم کی زوجہ مطہرہ تھیں.آپ خواتین میں سب سے بڑی عالمہ تھیں.رسول اللہ صلی علیم نے آپ کو ام عبد اللہ کی کنیت عطا فرمائی.رسول اللہ صل اللہ ہم کو آپ کے ساتھ مثالی محبت تھی.امام شعبی "بیان کرتے ہیں کہ جب مسروق حضرت عائشہ سے کوئی روایت بیان کرتے تو کہتے مجھ سے صدیقہ بنت صدیق نے بیان کیا جو اللہ کے محبوب کی محبوبہ ہیں اور جن کی بریت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے.آپ کی وفات تریسٹھ سال کی عمر میں ستاون ہجری میں ہوئی.ایک روایت کے مطابق آپ کی وفات اٹھاون ہجری میں ہوئی.چھٹی اولاد ام کلثوم بنت ابو بکر تھیں.آپ حضرت حبیبہ بنت خارجہ انصاریہ کے بطن سے پیدا
صحاب بدر جلد 2 364 حضرت ابو بکر صدیق ہوئیں.وفات کے وقت حضرت ابو بکر نے حضرت عائشہ سے فرمایا یہ تمہارے دونوں بھائی اور دونوں بہنیں ہیں.حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ یہ میری بہن اسماء ہیں انہیں تو میں جانتی ہوں مگر میری دوسری بہن کون ہے ؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا جو خارجہ کی بیٹی کے بطن میں ہے.یعنی ابھی پیدا نہیں ہوئی، جو پید اہونے والی ہے وہ بیٹی ہو گی.انہوں نے کہا کہ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ ان کے ہاں لڑکی ہو گی چنانچہ ایسا ہی ہوا.حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد ام کلثوم کی ولادت ہوئی.ام کلثوم کی شادی حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے ہوئی جو جنگ جمل میں شہید ہوئے.836 بعض روایات کے مطابق حضرت ابو بکر کی ایک بیٹی کی شادی حضرت بلال سے ہوئی تھی اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ بیٹی آپ کی چار بیویوں میں سے کسی بیوی کے پہلے خاوند سے تھی.837 نظام حکومت کے بارے میں کہ کس طرح آپ نظام حکومت چلاتے تھے لکھا ہے کہ جب حضرت ابو بکر کو کوئی امر پیش آتا تو پھر جہاں مشورے کی ضرورت ہوتی اور اہل الرائے لوگوں کی ضرورت ہوتی، اہل فقہ کا مشورہ لینا چاہتے تو آپ مہاجرین و انصار میں سے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت کو بھی بلاتے.838 یا بعض اوقات زیادہ تعداد میں مہاجرین اور انصار کو جمع فرماتے.حضرت مصلح موعودؓ شاور ھم (آل عمران :160) کی تشریح کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ : اس ایک لفظ پر غور کرو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ لینے والا ایک ہے دو بھی نہیں اور جن سے مشورہ لینا ہے وہ بہر حال تین یا تین سے زیادہ ہوں.پھر وہ اس مشورے پر پر غور کرے.پھر حکم ہے فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله.(آل عمران:160) جس بات پر عزم کرے اس کو پورا کرے اور کسی کی پروانہ کرے.یعنی مشورہ لینے والا مشورہ لے، اس کے بعد، مشورہ لینے کے بعد سارا تجزیہ کر کے اس پر پر عمل کرے اور پھر کسی کی پروانہ کرے.آپ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کے زمانے میں اس عزم کی خوب نظیر ملتی ہے.جب لوگ مرتد ہونے لگے تو مشورہ دیا گیا کہ آپ اس لشکر کو روک لیں جو اسامہ کے زیر کمان جانے والا تھا مگر انہوں نے جواب دیا کہ جو لشکر آنحضرت صلی اللہ ہم نے بھیجا ہے میں اسے واپس نہیں کر سکتا.ابو قحافہ کے بیٹے کی طاقت نہیں کہ ایسا کر سکے.پھر بعض کو رکھ بھی لیا.چنانچہ حضرت عمر بھی اس لشکر میں جارہے تھے ان کو روک لیا.پھر ز کوۃ کے متعلق کہا گیا کہ مرتد ہونے سے بچانے کے لیے ان کو معاف کر دو.حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ اگر یہ رسول اللہ صلی علی یم کو اونٹ باندھنے کی ایک رستی بھی دیتے تھے تو وہ بھی لوں گا اور اگر تم سب مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور مرتدین کے ساتھ جنگل کے درندے بھی مل جائیں تو میں اکیلا ان
حاب بدر جلد 2 365 حضرت ابو بکر صدیق سب کے ساتھ جنگ کروں گا.یہ عزم کا نمونہ ہے.پھر کیا ہو ا تم جانتے ہو.یہ عزم تھا حضرت ابو بکر کا اور لوگوں کے مشورے اور تھے لیکن کیا ہوا.جس عزم کا نمونہ آپؐ نے دکھا یا خدا تعالیٰ نے آپ کے عزم کی وجہ سے فتوحات کا دروازہ کھول دیا.یاد رکھو! جب خدا سے انسان ڈرتا ہے تو پھر مخلوق کا رعب اس کے دل پر اثر نہیں کرتا.839 یہ ہے منصب خلافت کی حقیقت.بیت المال کا قیام رسول اکرم کے عہد مبارک میں غنیمت، خمس، ئے ، زکوۃ وغیرہ کے جو اموال آتے تھے آپ اسی وقت سب کے سامنے مسجد میں بیٹھ کر تقسیم کر دیتے تھے اور یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس رنگ میں بیت المال کا شعبہ عہد نبوی میں موجود تھا.البتہ حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں فتوحات کی وجہ سے دوسری مدات کے علاوہ غنیمت اور جزیہ کی آمدنی بھی کافی زیادہ آنی شروع ہو گئی، اس میں اضافہ ہوا.حضرت ابو بکر کو ایک بیت المال قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ تقسیم اور خرچ ہو جانے تک مال وہاں رکھا جاسکے.چنانچہ انہوں نے اکابر صحابہ کے مشورہ سے ایک مکان اس کے لیے مختص کر دیا لیکن یہ بیت المال برائے نام ہی رہا کیونکہ حضرت ابو بکر کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ نقد اور جنس آنے کے ساتھ ہی تقسیم کر دیا جائے.بعض روایات کے مطابق محکمہ مال کی ذمہ داری حضرت ابو عبیدہ کے سپرد ہوئی.840 آغاز میں حضرت ابو بکر نے وادی سنح میں بیت المال بنایا ہوا تھا اس کے لیے کوئی محافظ مقرر نہ تھا.شیخ مدینہ کے مضافات میں مسجد نبوی سے تقریب دو میل کے فاصلے پر ایک جگہ تھی.ایک مرتبہ کسی نے کہا آپ بیت المال کی حفاظت کے لیے کوئی محافظ کیوں مقرر نہیں فرماتے ؟ آپ نے جواب دیا اس کی حفاظت کے لیے ایک قفل کافی ہے یعنی تالا لگا ہوا ہی کافی ہے کیونکہ جو کچھ بھی بیت المال میں جمع ہوتا تھا آپ اسے تقسیم فرما دیتے تھے ، اکثر خالی ہی رہتا تھا یہاں تک کہ وہ بالکل خالی ہو جاتا.پھر جب آپ منتقل ہو گئے تو بیت المال اپنے گھر میں ہی منتقل کر لیا.آپ کا طریق یہ تھا کہ جو مال بیت المال میں مد بینہ ہو تا لوگوں کو تقسیم کر دیا کرتے حتی کہ وہ خالی ہو جاتا اور تقسیم کرنے میں ہر ایک کو برابر دیا کرتے تھے اور اسی مال سے آپ اونٹ، گھوڑے اور ہتھیار خرید کر اللہ کی راہ میں تقسیم کر دیتے.ایک دفعہ آپ نے بدوؤں سے چادر میں خرید کر مدینہ کی بیواؤں میں تقسیم کیں.تقسیم تو کئی دفعہ کی ہوں گی لیکن بہر حال یہ ذکر روایت میں ایک دفعہ کاریکارڈ ہوا ہے.841 حضرت ابو بکر کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جانا اس کے بارے میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابو بکر خلیفہ منتخب ہوئے تو ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی بیت المال سے ہی وظیفے کا انتظام کیا گیا.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت ابو بکر صدیق خلیفہ ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ میری قوم کو علم ہی ہے کہ میرا پیشہ ایسانہ تھا جس سے میں
حاب بدر جلد 2 366 حضرت ابو بکر صدیق اپنے گھر والوں کی خوراک مہیانہ کر سکتا.میری آمدنی اتنی تھی کہ آرام سے میں گھر چلا رہا تھا مگر اب میں مسلمانوں کے کاموں میں مشغول ہو گیا ہوں.سو ابو بکر کے اہل و عیال اب بیت المال سے کھائیں گے اور وہ یعنی ابو بکر مسلمانوں کے لیے اس مال میں کاروبار کرے گا اور تجارت سے ان کا مال بڑھا تا رہے 842-6 چنانچہ مسلمانوں نے آپ کے لیے سالانہ چھ ہزار درہم مقرر کیے.بعض کہتے ہیں کہ آپ نے اتنا منظور کیا تھا جتنا آپ کی ضرورت کے لیے کافی ہو.آپ پہلے والی تھے یعنی حکومت کے سر براہ تھے جس کی رعایا نے آپ کے مصارف منظور کیے.843 844 ایک روایت میں اس طرح ذکر ملتا ہے کہ جب حضرت ابو بکر خلیفہ بنائے گئے تو ایک روز صبح کے وقت آپ بازار کی طرف جارہے تھے.ان کے کندھے پر وہ کپڑے تھے جن کی وہ تجارت کیا کرتے تھے.آپ کو حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح ملے.انہوں نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ ! کہاں کا ارادہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ بازار جا رہا ہوں.انہوں نے کہا: یہ آپ کیا کرتے ہیں حالانکہ آپ مسلمانوں کے امور کے والی ہیں.آپؐ نے فرمایا تو میں اپنے عیال کو کہاں سے کھلاؤں گا.تو وہ آپ کو اپنے ساتھ یہ کہہ کرلے گئے کہ ہم آپ کا حصہ مقرر کرتے ہیں.4 چنانچہ سالانہ تین ہزار درہم وظیفہ مقرر ہوا.بعض روایات کے مطابق چھ ہزار درہم جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے وظیفہ مقرر ہوا اور بعض کے مطابق کل عہد خلافت میں چھ ہزار درہم دیے گئے.اسی طرح سیرت کی کتب میں تقریباً بالاتفاق یہ ملتا ہے کہ اگر چہ حضرت ابو بکڑ نے بیت المال سے اپنی اور اہل و عیال کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وظیفہ لیا مگر وفات کے وقت تمام رقمیں واپس کر دیں.چنانچہ ایک روایت ہے کہ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت فرمائی کہ آپ کی زمین فروخت کر کے اس کی قیمت سے وہ رقم ادا کی جائے جو آپ نے بیت المال سے اپنے ذاتی مصارف کے 845 لیے لی تھی.ایک اور روایت میں اس طرح ذکر ملتا ہے کہ جب حضرت ابو بکر کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ جب سے ہم خلیفہ ہوئے ہیں میں نے قوم کا کوئی دینار و درہم نہیں کھایا بلکہ معمولی کھانا اور موٹا لباس پہنتا رہا نیز مسلمانوں کے مالِ غنیمت میں صرف یہ چیزیں ہیں؛ غلام، اونٹ اور چادر.لہذ ا میرے مرنے کے بعد ان تمام چیزوں کو عمر کو بھجوا دینا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں جب آپ کی وفات ہوئی تو میں نے وہ چیزیں حضرت عمرؓ کے پاس بھیج دیں.حضرت عمر چیزیں دیکھ کے رونے لگے یہاں تک کہ ان کے آنسو زمین پر گرنے لگے اور حضرت عمر یہی فرمارہے تھے کہ اللہ ابو بکر پر رحم فرمائے انہوں نے اپنے بعد کے لوگوں کو مشقت میں ڈال دیا.جب حضرت ابو بکر نے وفات پائی تو حضرت عمرؓ نے چند صحابہ کو بلا کر بیت المال کا جائزہ لیا تو حضرت 846
حاب بدر جلد 2 367 حضرت ابو بکر صدیق عمر نے اس میں کوئی چیز نہ در ہم نہ دینار پایا.847 کچھ بھی نہیں تھا، خالی تھا، سب تقسیم کر دیا تھا.محکمہ قضا کا نظام آپ نے جاری کیا.حضرت ابو بکر کے دور میں اگر چہ محکمہ قضا کو باقاعدہ طور پر منظم نہیں کیا گیا تھا تاہم آپ نے قضا کا محکمہ حضرت عمرؓ کے سپر د کر رکھا تھا.848 849 ایک روایت میں ذکر ہے کہ جب حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں آپ کی طرف سے عدالت کی خدمات انجام دوں گا.حضرت عمر ایک سال تک منتظر رہے مگر اس عرصہ میں کوئی دو شخص بھی آپ کے پاس قضیہ لے کر نہیں آئے.کوئی لڑائی جھگڑا ہی نہیں ہو تا تھا.کوئی مسائل نہیں پیدا ہوتے تھے.مقدمات کی تعداد بہت کم تھی.اگر کوئی مقدمہ آ بھی جاتا تو حضرت ابو بکر خود اس کے لیے وقت نکال لیتے تھے ، خود ہی حل کر دیا کرتے تھے.محکمہ قضا کے سر براہ حضرت عمرؓ تھے اور آپ کی مدد کے لیے درج ذیل اصحاب مقرر تھے : حضرت علی، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب ، حضرت زید بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ 850 حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ اس وقت امن و امان اور دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ مہینہ مہینہ گزر جاتا اور دو آدمی بھی فیصلہ کرانے کے لیے میرے پاس نہ آتے تھے.محکمہ افتاء 851 کے بارے میں لکھا ہے کہ نئے نئے قبائل اور آبادیاں حلقہ اسلام میں داخل ہو رہی تھیں اور حالات کے پیش نظر بعض نئے نئے فقہی مسائل بھی پیدا ہو رہے تھے.اس لیے حضرت ابو بکر نے عام مسلمانوں کی سہولت اور راہنمائی کے لیے محکمہ افتا قائم کیا اور حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت علیؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت ابی بن کعب، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت زید بن ثابت کو فتویٰ دینے پر مامور کیا کیونکہ یہ حضرات تفقہ فی الدین اور علم و اجتہاد کے لحاظ سے دوسروں سے ممتاز تھے.ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بھی فتویٰ دینے والے ان اصحاب میں شامل تھے.ان کے علاوہ کسی دوسرے کو فتویٰ دینے کی اجازت نہ تھی.ایک مؤرخ نے لکھا ہے کتابت، لکھنے کا جو محکمہ تھا اس کے بارے میں لکھنے والا لکھتا ہے کہ عہدِ جدید کی اصطلاح میں کاتب کو حکومت کا سیکرٹری کہنا چاہیے.یعنی سیکرٹری جو نوٹس لیتا ہے، میٹنگز کے منٹس (Minutes) سناتا ہے.حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت میں یہ نظام دیوان قائم نہ ہوا تھا لیکن سرکاری احکام کی تحریر ، معاہدوں کی ترقیم، ان کو لکھنا اور دوسرے تحریری کاموں کے لیے کچھ حضرات مخصوص تھے.کتابت کی خدمت پر حضرت عبد اللہ بن ارقم عہدِ نبوی سے مامور تھے.چنانچہ عہد 852
اصحاب بدر جلد 2 368 حضرت ابو بکر صدیق صدیقی میں بھی ان کے سپر د یہ خدمت تھی.3 853 ایک روایت کے مطابق حضرت ابو بکرؓ کے دور خلافت میں حضرت زید بن ثابت نے محکمہ کتابت سنبھالا تھا اور بسا اوقات آپ کے پاس موجود دیگر صحابہ جیسے حضرت علی یا حضرت عثمان اس ذمہ داری کو نبھاتے تھے.854 پھر فوج کا محکمہ ہے.اس بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر کے دور میں کوئی باقاعدہ فوجی نظام نہ تھا.جہاد کے وقت ہر مسلمان مجاہد ہو تا تھا.فوج کی تقسیم قبائل کے مطابق ہوتی تھی.ہر قبیلے کا امیر الگ الگ ہو تا تھا اور ان سب پر امیر الامراء کا عہدہ ہو تا تھا جو کہ حضرت ابو بکر کی ایجاد تھی.855 حضرت ابو بکر نے سامانِ جنگ کی فراہمی کے لیے یہ انتظام فرمایا تھا کہ مختلف ذرائع سے جو آمدنی ہوتی تھی اس کا ایک معقول حصہ فوجی اخراجات کے لیے علیحدہ نکال لیتے تھے جس سے اسلحہ اور بار برداری کے جانور خریدے جاتے تھے.مزید جہاد کے اونٹوں اور گھوڑوں کی پرورش کے لیے بعض چرا گا ہیں مخصوص کر دی تھیں.856 ایک سیرت نگار لکھتا ہے کہ حضرت ابو بکر کی عسکری حکومت کا نظام اس بدوی طریق کے زیادہ قریب تھا جو رسول اللہ صلی علیم کے عہد سے بھی پہلے قبائل عرب میں رائج تھا.اس وقت حکومت کے پاس کوئی با قاعدہ منظم لشکر موجود نہ تھا بلکہ ہر شخص اپنے طور پر جنگی خدمات کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا تھا.جب لڑائی کا اعلان کر دیا جاتا تو قبائل ہتھیار لے کر نکل پڑتے اور دشمن کی جانب کوچ کر دیتے.سامان رسد اور اسلحہ کے لیے قبائل مرکزی حکومت کی طرف نہ دیکھتے تھے بلکہ خود ہی ان چیزوں کا انتظام کرتے تھے.حکومت کی طرف سے انہیں تنخواہ بھی ادا نہ کی جاتی تھی بلکہ وہ مالِ غنیمت ہی کو اپنا حق الخدمت سمجھتے تھے.میدان جنگ میں جو مال غنیمت حاصل ہو تا تھا اس کا 4/5 حصہ جنگ میں حصہ لینے والوں کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا تھا اور پانچواں حصہ خلیفہ کی خدمت میں دارالحکومت میں ارسال کر دیا جاتا تھا جسے وہ بیت المال میں جمع کر دیتا تھا.خمس کے ذریعہ سے سلطنت کے معمولی مصارف پورے کیے جاتے تھے.857 جنگوں میں سپہ سالارانِ جنگ کو ، جو جنگوں کے امیر الامراء بنائے جاتے تھے ، ان کو حضرت ابو بکر نے جنگ کے بارے میں جو ہدایات دیں، ان کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر جنگ پر جانے والے سپہ سالاروں اور کمانڈروں کو بھی ہدایات دیتے تھے.حضرت اسامہ کے لشکر کو خطاب فرماتے ہوئے حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں.تم خیانت نہ کرنا اور مالِ غنیمت سے چوری نہ کرنا.تم بد عہدی نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا اور کسی چھوٹے
اصحاب بدر جلد 2 369 حضرت ابو بکر صدیق بچے کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بوڑھے کو اور نہ ہی کسی عورت کو اور نہ کھجور کے درخت کاٹنا اور نہ اس کو جلانا اور نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا.نہ تم کسی بکری گائے اور اونٹ کو ذبح کرنا سوائے کھانے کے لیے.جب ضرورت ہو کرو نہیں تو نہیں.اور تم کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہے.پس تم انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا انہیں کچھ نہیں کہنا جو راہب ہیں.اور تم ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو تمہیں مختلف قسم کے کھانے برتنوں میں پیش کریں گے.تم ان پر اللہ کا نام لے کر کھانا.اور تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو اپنے سر کے بال درمیان سے صاف کیے ہوں گے اور چاروں طرف پٹیوں کی مانند بال چھوڑے ہوں گے تو تلوار سے ان کی خبر لینا کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف بھڑ کانے والے اور جنگیں کرنے والے لوگ ہیں.اللہ کے نام سے روانہ ہو جاؤ.اللہ تمہیں ہر قسم کے زخم سے اور ہر قسم کی بیماری اور طاعون سے محفوظ رکھے.858 اسی طرح حضرت ابو بکر نے حضرت یزید بن ابو سفیان کو شام کی جنگ کے لیے بھیجتے ہوئے فرمایا.اس کا ذکر میں پہلے بھی پچھلے خطبہ میں کر چکا ہوں.بعض اہم باتوں کا خلاصہ دوبارہ بیان کر دیتا ہوں.یہ بڑی ضروری باتیں ہیں.یاد رکھنے والی ہیں.ہر عہدیدار کے لیے یادرکھنے والی ہیں.آپ نے کہا کہ میں نے تمہیں والی مقرر کیا تا کہ تمہیں آزماؤں.تمہارا تجربہ کروں اور تمہیں باہر نکال کر تمہاری تربیت کروں.اگر تم نے اپنے فرائض بحسن و خوبی ادا کیے تو تمہیں دوبارہ تمہارے کام پر مقرر کروں گا اور تمہیں مزید ترقی دوں گا اور اگر تم نے کوتاہی کی تو تمہیں معزول کر دوں گا.اللہ کے تقویٰ کو تم لازم پکڑو وہ تمہارے باطن کو اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح ظاہر کو دیکھتا ہے.لوگوں میں خدا کے زیادہ قریب وہ ہے جو اللہ سے دوستی کا سب سے بڑھ کر حق ادا کرنے والا ہے اور لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ شخص ہے جو اپنے عمل کے ذریعہ سب سے زیادہ اس سے قربت حاصل کرے.پھر فرمایا.جاہلی تعصب سے بچنا.اللہ کو یہ باتیں انتہائی نا پسند ہیں.پھر فرمایا تم اپنے لشکر کے ساتھ اچھا بر تاؤ کرنا.ان کے ساتھ خیر سے پیش آنا.جب انہیں وعظ و نصیحت کرنا تو مختصر کرنا کیونکہ بہت زیادہ گفتگو بہت سی باتوں کو بھلا دیتی ہے.تم اپنے نفس کو درست رکھو لوگ تمہارے لیے درست ہو جائیں گے.لیڈر اپنے درست رکھیں.عہدیدار اپنی حالت درست رکھیں تو لوگ خود بخود درست ہو جاتے ہیں.اور نمازوں کو ان کے اوقات پر رکوع اور سجود کو مکمل کرتے ہوئے ادا کرنا.نمازوں کی پابندی بڑی ضروری ہے.پھر فرمایا کہ جب دشمن کے سفیر تمہارے پاس آئیں تو ان کا اکرام کرنا، عزت کرنا.انہیں بہت کم ٹھہر انا.تمہارے پاس زیادہ دیر نہ ٹھہریں اور وہ تمہارے لشکر سے جلد نکل جائیں.لشکر میں زیادہ دیر نہ رہیں جلدی نکل جائیں تاکہ وہ اس لشکر کے بارے میں کچھ جان نہ سکیں.ان کو اپنے کاموں کے بارے میں مطلع نہ کرنا.بڑی مختصر باتیں بتانا.فرمایا کہ اپنے لوگوں کو ان سے بات کرنے سے روک دینا.ہر ایک کو ان سفیروں سے ملنے نہ دینا.یہ نہیں کہ جہاں چاہیں وہ چلے جائیں اور ملتے چلے جائیں.نہیں.یہ
اصحاب بدر جلد 2 370 حضرت ابو بکر صدیق صرف جن سے ملنا ہے جن سے بات کرنی ہے ان سے بات کریں.وہ عوام میں نہ گھس جائیں.جب تم خود ان سے بات کرو تو اپنے بھید کو ظاہر نہ کرنا.خود بھی سفیروں سے بڑی احتیاط سے بات کرنا.پھر مشورہ کے بارے میں بتایا کہ جب تم کسی سے مشورہ لینا تو بات سچ کہنا، صحیح مشورہ ملے گا.ساری بات بتا کے پھر مشورہ لینا.مشیر سے اپنی خبر مت چھپاناور نہ تمہاری وجہ سے تمہیں نقصان پہنچے گا.سارے دن کی معلومات حاصل کرنے کے بارے میں کہ کس طرح معلومات حاصل کی جائیں.کس طرح عہدیدار کو ، لیڈر کو، کمانڈر کو انفارمیشن معلوم ہو تو فرمایا کہ رات کے وقت اپنے دوستوں سے باتیں کرو.شام کے وقت بیٹھو ان میں سے لوگ چنوان سے باتیں کرو تمہیں خبریں مل جائیں گی.اکثر بغیر اطلاع دیے ہی اچانک ان کی چوکیوں کا معائنہ کرنا.نگرانی بھی ضروری ہے.جسے اپنی حفاظت گاہ سے غافل پاؤ اس کی اچھی طرح تادیب کرنا.پھر فرمایا کہ سزا دینے میں جلدی نہ کرنا اور نہ بالکل نظر انداز کرنا.دونوں چیزیں ضروری ہیں، نہ سزادینے میں، فیصلہ کرنے میں جلد بازی کرنی ہے.نہ یہ کہ بالکل غافل ہو جاؤ کچھ کہو ہی نہ.اپنی فوج سے غافل نہ رہنا.ان کی جاسوسی کر کے ان کو رسوا نہ کرنا.ہر وقت جستجو، اپنے لوگوں کی جاسوسی نہ کرتے رہنا کیونکہ اس طرح ان کی رسوائی ہوتی ہے.ان کے راز کی باتیں لوگوں سے نہ بیان کرنا.جو راز تمہیں پتہ لگے کسی اور سے نہ بیان کرنا.بریکار قسم کے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھنا.سچے اور وفادار لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرنا.بزدل نہ بننا ور نہ لوگ بھی بزدل ہو جائیں گے.مالِ غنیمت میں خیانت سے بچنا یہ محتاجی سے قریب کرتی ہے اور فتح و نصرت کو روکتی ہے.1859 یہ بہت سی باتیں ہیں جو میں نے نئی بیان کیں.ان میں سے بعض باتیں جیسا کہ میں نے پہلے کہا علاوہ فوجی افسروں کے ہمارے عہدے داروں کے لیے بھی ضروری ہیں جس کا انہیں خیال رکھنا چاہیے تبھی کام میں برکت پڑے گی.یہ خلاصہ میں دوبارہ جیسا کہ پہلے کہا ہے اس لیے بیان کر رہا ہوں تاکہ عہدیداروں کو یادر ہے.اسلامی حکومت کی مختلف ریاستوں میں تقسیم کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت میں بلادِ اسلامیہ کو مختلف ریاستوں میں تقسیم کیا گیا.ان ریاستوں میں آپ نے امراء اور گورنر مقرر کیے.مدینہ ان کا دارالخلافہ تھا.یہاں حضرت ابو بکر بحیثیت خلیفہ تھے 860 عمال مقرر کرنے کے طریق کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر شما طریق کار یہ تھا کہ آپ نبی کریم صلی یہ یکم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کسی قوم پر گورنر مقرر کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھتے کہ اگر اس قوم کے افراد میں نیک و صالح افراد ہوتے تو انہی میں سے گورنر مقرر فرماتے.طائف اور بعض دیگر قبائل پر انہی میں سے گورنر مقرر فرمایا اور جب آپ کسی شخص کو بحیثیت
حاب بدر جلد 2 371 حضرت ابو بکر صدیق گورنر مقرر کرتے تو اس علاقے پر اس کی گورنری کا عہد نامہ تحریر کر ا دیتے اور اکثر اوقات اس علاقے تک پہنچنے کا راستہ بھی اس کے لیے متعین فرما دیتے.اور اس میں ان مقامات کا ذکر کرتے جہاں سے ان کو گزرنا ہو تا تھا.خاص کر جب یہ تقرری ان علاقوں سے متعلق ہوتی جو ابھی فتح نہیں ہوئے ہوتے تھے اور اسلامی خلافت کے کنٹرول سے باہر ہوتے.فتوحات شام اور عراق اور مرتدین کے خلاف جنگوں میں یہ چیزیں بالکل نمایاں نظر آتیں اور بسا اوقات آپ بعض ریاستوں کو دوسروں کے ساتھ ضم کر دیتے، خاص کر مرتدین سے قتال کے بعد یہ عمل میں آیا.چنانچہ حضرت زیاد بن لبیڈ جو حضر موت کے گورنر تھے ان کی نگرانی میں کندہ کو بھی شامل کر دیا اور اس کے بعد وہ حضر موت اور کندہ دونوں کے گورنر رہے.861 حضرت ابو بکڑ کے دور میں عاملین کے انتخاب میں اولیت اسلام کو دیکھا جاتا نیز ایسے شخص کو مقرر کیا جاتا جو درسگاہ نبوت سے تربیت یافتہ ہو.جن کو آنحضرت صلی اللی علم کی صحبت ملی ہو ان کو عامل مقرر کیا جاتا.پہلی preference وہ تھی، پہلی ترجیح وہ تھی.اس سلسلہ میں آپ کا معیار یہ تھا کہ جس شخص کو حضور ملی یہ کام جس کام کے لیے مقرر فرما گئے تھے آپ اس میں ہر گز رد و بدل نہ فرماتے تھے.مثلاً حضور صلی ال یکم نے حضرت اسامہ کو لشکر کا امیر مقرر فرمایا تھا.بعد میں بعض لوگوں نے مصلحت کے پیش نظر کسی بزرگ صحابی کو اس عہدے پر متمکن کرنے کا مشورہ دیا لیکن آپ نے حضرت اسامہ گوہی بر قرار رکھا.اسی طرح آپ یہ بھی دیکھتے تھے کہ کسی شخص نے حضور صل اللہ ہم سے زیادہ فیض حاصل کیا ہے.یہی وجہ ہے کہ آپ اکثر و بیشتر مختلف ذمہ داریاں ان لوگوں کے سپر د کیا کرتے تھے جو فتح مکہ سے قبل مسلمان ہوئے تھے.اس سلسلہ میں آپ نے کبھی قبائلی عصبیت یا اقر بانوازی کارویہ اختیار نہیں کیا.اسی سخت اصول اور بلند معیاری کا نتیجہ تھا کہ آپؐ کے مقرر کردہ عمال و حکام نے ہمیشہ اپنی بہترین صلاحیتیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے استعمال کیں.862 حضرت ابو بکر صدیق تعمال کی تقرری میں اہل علاقہ کی رائے کا بھی احترام کرتے تھے چنانچہ حضرت علاء بن حضر می عہد نبوی میں بحرین کے گورنر رہے بعد میں کسی وجہ سے ان کو وہاں سے کہیں اور بھجوا دیا گیا.پھر حضرت ابو بکر کے دورِ خلافت میں اہل بحرین نے حضرت ابو بکر کو درخواست کی کہ حضرت علامہ کو ان کے پاس واپس بھجوا دیا جائے تو حضرت ابو بکر نے حضرت علاء بن حضر می گو بحرین کا گورنر بنا کر ان کے پاس بھجوا دیا.663 عاملین کو بھی آپ نے ہدایات دیں.اس کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر حکام کے تقرر کے موقع پر خود ہدایات دیتے تھے چنانچہ تاریخ طبری میں ہے کہ عمرو بن عاص اور ولید بن عقبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.ظاہر و باطن میں خدا سے ڈرتے رہو.جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے رہائی کا راستہ پیدا کر دیتا ہے اور اس کو ایسے ذریعہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے ملنے کا اس کو گمان
اصحاب بدر جلد 2 372 حضرت ابو بکر صدیق بھی نہیں ہو تا.جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے یعنی اللہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اس کو بڑھا کر اجر دیتا ہے.خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا ان سب میں بہتر ہے جس کی خدا تعالیٰ کے بندے ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں.تم خدا کے راستوں میں سے ایک راستے پر جارہے ہو لہذا جو امر تمہارے دین کی قوت اور تمہاری حکومت کی حفاظت کا موجب ہو اس میں تمہارا کو تاہی کرنا نا قابلِ معافی جرم ہے.پس تمہاری طرف سے سستی اور غفلت ہر گز نہیں ہونی چاہیے.864 حضرت مستورد بن شداد بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی علیکم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص ہمارا عامل ہو وہ ایک بیوی رکھ لے اور اگر اس کے پاس خادم نہ ہو تو وہ ایک خادم رکھ لے.اگر اس کے پاس رہائش کے لیے مکان نہ ہو تو رہائش کے لیے ایک مکان رکھ لے.مستورد نے کہا حضرت ابو بکر نے فرمایا جو شخص ان اشیاء کے علاوہ کچھ بھی لے تو وہ خائن ہے یا فرمایا کہ وہ چور ہے.866 865 عمال کا محاسبہ کس طرح ہوتا تھا؟ حضرت ابو بکر عمال و حکام کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتے تھے.چونکہ یہ لوگ آنحضور صلی علی علم کا فیض صحبت حاصل کر چکے تھے اس لیے حضرت عمرؓ کے بر عکس حضرت ابو بکران کی معمولی بھول چوک سے در گزر فرماتے تھے.نظر رکھتے تھے کہ کیا کر رہے ہیں لیکن معمولی باتوں کو در گذر فرماتے تھے.تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت ابو بکر اپنے عمال اور آدمیوں کو قید نہیں کرتے تھے لیکن جب کوئی سخت غلطی کرتا تو آپ اس کو مناسب تنبیہ ضرور فرماتے تھے خواہ وہ عہدے کے اعتبار سے کتنا بڑا کیوں نہ ہو.حضرت مہاجر بن امیہ کے بارے میں آپ کو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک ایسی عورت کے دانت اکھڑ وادیے ہیں جو مسلمانوں کی ہجو کرتی ہے تو اس پر آپ نے فوراً حضرت مہاجر کو سر زنش کا خط لکھا.حتی کہ اگر آپ کو حضرت خالد بن ولیڈ کی کسی کو تاہی کا علم ہو تا تو آپ ان کو بھی سرزنش کرنے میں تامل نہ فرماتے.امراء اور گورنروں کی ذمہ داریوں کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر نے مختلف علاقوں، شہروں اور قصبوں میں جو گورنر اور امراء مقرر کیے تھے ان کی مختلف ذمہ داریاں اور ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں.امراء اور ان کے نائبین کی مالی ذمہ داریاں بھی تھیں.وہ اپنے اپنے علاقے میں علاقے کے دولتمندوں سے زکوۃ وصول کر کے غرباء میں تقسیم کرتے تھے اور غیر مسلموں سے جزیہ لے کر بیت المال میں جمع کراتے تھے.ان کی یہ ذمہ داری عہد نبوی سے چلی آرہی تھی.رسول کریم صلی ا ظلم کے عہد میں ہونے والے معاہدوں کی تجدید کی گئی.نجران کے والی نے رسول کریم صلی للی کم اور اہل نجران کے در میان کیے گئے معاہدے کی تجدید کی تھی کیونکہ اہل نجران کے عیسائیوں نے اس کا مطالبہ کیا تھا.امراء اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں کو دینی تعلیم دینے اور اسلام کی تبلیغ و دعوت اور نشر و اشاعت میں بھر پور کر دار ادا کرتے تھے.ان میں سے اکثر مساجد میں حلقہ بنا کر لوگوں کو قرآن اور اسلامی احکام اور آداب
باب بدر جلد 2 373 حضرت ابو بکر صدیق سکھاتے تھے.وہ ایسار سول کریم صلی اللی کم کی سنت کی پیروی میں کرتے تھے.یہ ذمہ داری رسول کریم صلی علیکم اور ان کے خلیفہ حضرت ابو بکر کی نظر میں سب سے اہم شمار ہوتی تھی.اس لیے حضرت ابو بکر کے امراء اور گورنروں نے اس ذمہ داری کو خوب نبھایا اور اچھی طرح نبھا یا حتی کہ ایک مؤرخ حضرت ابو بکر کے حضرموت میں مقرر کردہ امیر زیاد بن لبید کے بارے میں لکھتا ہے کہ جب صبح ہوتی تو زیاد لوگوں کو قرآن پڑھانے کے لیے تشریف لے آتے جیسا کہ وہ امیر بننے سے پہلے قرآن پڑھانے آیا کرتے تھے.اسی طرح تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے ان امراء نے اپنے علاقوں میں اسلام کی نشر و اشاعت میں بڑا اہم کردار ادا کیا.مفتوحہ علاقوں اور مرتد اور باغی ہو جانے والے علاقوں میں اسی تعلیم کی بدولت اسلام مضبوط ہوا.ایسے علاقے جہاں ان کے باسی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور دینی احکام سے بے خبر تھے ان علاقوں میں اس تعلیم کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا جبکہ اسلام کے مضبوط مراکز مثلا مکہ مکرمہ ، طائف اور مدینہ منورہ میں بھی ایسے معلمین مقرر تھے جو لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے تھے.یہ سب کچھ اس کے خلیفہ یا امیر کے حکم پر ہو تا تھا یا جنہیں خلیفہ خاص طور پر مختلف علاقوں میں تعلیم کے لیے متعین کر تا تھا وہ یہ فریضہ سر انجام دیتے تھے.علاقے کا امیر یا گورنر اپنے صوبے کے انتظامی امور کا براہ راست ذمہ دار ہو تا تھا.اگر اسے کسی سفر پہ جانا ہو تا تو وہ اپنا نائب مقرر کر تا تھا جو کہ اس کی واپسی تک انتظامی امور کی نگرانی کرتا تھا.اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت مہاجر بن ابی امیہ کو رسول کریم صلی علیم نے کندہ کا گورنر مقرر فرمایا.آپ صلی الہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر نے بھی انہیں اسی عہدے پر بر قرار رکھا.مہاجر اپنی بیماری کی وجہ سے یمن نہیں جاسکے وہ مدینہ میں رک گئے اور اپنی جگہ زیاد بن لبید کو روانہ کیا کہ ان کی شفایابی اور یمن تشریف آوری تک ان کے فرائض انجام دیں.حضرت ابو بکر نے بھی اس امر کی اجازت دے دی.اسی طرح عراق کی گورنری کے دوران حضرت خالد بن ولید حیرہ میں اپنی واپسی تک اپنا نائب مقرر کر دیتے تھے.867 دمیوں کے حقوق ذقی وہ لوگ تھے جو اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر کے اپنے مذہب پر قائم رہے اور اسلامی حکومت نے ان کی حفاظت کا ذمہ لیا.یہ لوگ مسلمانوں کے بر عکس فوجی خدمت سے بری تھے اور زکوۃ بھی ان پر عائد نہیں ہوتی تھی.اس لیے ان کے جان و مال اور دوسرے انسانی حقوق کی حفاظت کے بدلے ان سے ایک معمولی ٹیکس وصول کیا جاتا تھا جسے عرف عام میں جزیہ کہتے ہیں.اس کی مقدار صرف چار درہم فی کس سالانہ تھی اور یہ صرف بالغ ، تندرست اور قابل کار افراد سے وصول کیا جاتا تھا.بوڑھے ، اپاہج ، نادار، محتاج اور بچے اس سے بری تھے بلکہ معذوروں، محتاجوں کو اسلامی بیت المال سے مدد دی جاتی تھی.عراق اور شام کی فتوحات کے دوران میں
حاب بدر جلد 2 374 حضرت ابو بکر صدیق متعدد قبائل اور آبادیاں جزیہ کی بنیاد پر اسلامی رعایا بن گئے.ان سے جو معاہدے ہوئے ان میں اس قسم کی شقیں بھی رکھی گئیں کہ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کیے جائیں گے اور نہ ان کا کوئی ایسا قلعہ گر ایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلے میں قلعہ بند ہوتے ہوں.ناقوس بجانے کی ممانعت نہ ہو گی اور نہ تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے سے روکے جائیں گے.868 یعنی وہ صلیب کا جلوس بھی نکال سکتے ہیں.حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت میں اہل حیرہ کے ساتھ حضرت خالد بن ولید نے جو معاہدہ صلح کیا تھا اس میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی عہد کیا گیا تھا کہ ایسا بوڑھا آدمی جو کام سے معذور ہو جائے یا اس پر کوئی مرض یا مصیبت آن پڑے یا جو پہلے مالدار ہو اور پھر ایسا غریب ہو جائے کہ اس کے ہم مذہب اسے خیرات دینے لگیں تو اس کے سر سے جزیہ ساقط کر دیا جائے گا یعنی ختم کر دیا جائے گا اور جب تک وہ دارالہجرت اور دار الاسلام میں رہے گا، جہاں اسلامی حکومت ہے وہاں رہے گا اس کے اور اس کے اہل و عیال کے مصارف مسلمانوں کے بیت المال سے پورے کیے جائیں گے.البتہ اگر ایسے لوگ دارالہجرت اور دارالاسلام چھوڑ کر باہر چلے جائیں، دوسرے ملکوں میں چلے جائیں تو ان کے اہل و عیال کی کفالت مسلمانوں کے ذمہ نہیں ہو گی.869 870 ایک روایت کے مطابق اہل حیرہ کے ساتھ حضرت خالد بن ولید کے معاہدہ میں درج تھا کہ محتاجوں، اپاہجوں اور تارک الدنیارا ہیوں کو جزیہ معاف ہو گا.پھر ایک جمع قرآن کا بہت بڑا کام ہے جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ہوا.جمع قرآن حضرت ابو بکر صدیق کے عہد زریں کا بے مثال اور عظیم کارنامہ ہے.اس کا پس منظر مسیلمہ کذاب سے ہونے والی جنگ یمامہ سے متصل ہے.جنگ یمامہ میں بارہ سو مسلمان شہید ہو گئے اور ان میں کبار صحابہ اور حفاظ قرآن کی بھی ایک واضح اکثریت تھی اور ایک روایت کے مطابق حفاظ شہداء کی تعداد سات سو تک بیان ہوئی ہے.871 چنانچہ اس صورتحال میں حضرت عمرؓ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے لیے انشراح صدر عطا فرمایا.آپ نے حضرت ابو بکر سے اس کا تذکرہ کیا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں یوں بیان ہوئی ہے : عبید بن سباق بیان کرتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت نے بتایا کہ اہل یمامہ سے جنگ کے بعد حضرت ابو بکڑ نے انہیں بلایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عمر بن خطاب بھی آپ کے پاس بیٹھے ہیں.حضرت ابو بکر نے فرمایا عمر میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یمامہ کی جنگ میں قرآنِ کریم کے بہت سے حفاظ شہید ہو گئے ہیں اور میں ڈرتا ہوں کہ مختلف جنگوں میں بہت سے قاری یا حفاظ قرآن شہید ہو جائیں گے جس کے نتیجہ میں قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے.اس لیے حضرت عمر نے کہا کہ میری رائے میں آپ جمع قرآن کا حکم دیں.
تاب بدر جلد 2 375 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر نے حضرت زید کو فرمایا کہ میں نے عمرؓ سے کہا ہے کہ تُو وہ کام کیسے کرے گاجور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو عمرؓ نے کہا کہ اس کام میں بخدا خیر ہی خیر ہے.عمرؓ نے یہ بات مجھ سے اتنی بار کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے مجھے انشراح صدر عطا فرما دی اور میری بھی عمر کی مانند رائے حضرت زید کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے فرمایا اے زید ! یقینا تو ایک جوان اور عقلمند آدمی ہے اور ہم تجھے کسی الزام یا عیب سے پاک سمجھتے ہیں.تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی بھی لکھا کرتے تھے.پس اب تم قرآن شریف کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اسے جمع کرو.حضرت زید کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! اگر وہ کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ذمہ داری میرے سپر د کرتے تو وہ میرے لیے قرآن کریم کے جمع کرنے کے حکم سے زیادہ گراں نہ ہوتی.یہ تو بہت بڑا کام تھا جو میرے سپر د کیا.میں نے عرض کیا آپ لوگ وہ کام کیسے کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا.حضرت ابو بکر نے فرمایا بخدا! یہ کام سراسر خیر ہے.حضرت ابو بکر نے اتنی بار یہ بات دہرائی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کام کے لیے انشراح صدر عطا فرما دیا جس کے لیے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو انشراح صدر عطا فرمایا تھا.پس میں نے قرآنِ کریم کی تلاش شروع کر دی اور اسے کھجوروں کی شاخوں اور سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے اکٹھا کیا.یہاں تک کہ سورہ توبہ کا آخری حصہ مجھے حضرت ابو خزیمہ انصاری سے ملا جو اُن کے سوا کسی اور سے نہیں ملا جو یہ ہے : لقد جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ ( 1280) یہاں سے لے کر سورہ تو بہ کے آخر تک.پھر قرآن کریم کے تحریری صحیفے حضرت ابو بکر کی وفات تک انہی کے پاس رہے.پھر حضرت عمر کی زندگی میں ان کے پاس رہے.اس کے بعد حضرت حفصہ بنت عمرؓ کے پاس رہے.872 امام بغوی اپنی کتاب شرح السنہ میں جمع قرآن کی احادیث پر حاشیہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس قرآن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا تھا اسے صحابہ کرام نے من و عن بغیر کسی کمی بیشی کے مکمل جمع کر دیا تھا اور صحابہ کرام کا قرآن مجید کو جمع کرنے کا سبب حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ پہلے قرآن مجید کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلیٹوں، سلوں اور حفاظ کرام کے سینوں میں بکھر اہو ا تھا.صحابہ کرام کو خدشہ ہوا کہ حفاظ کرام کی شہادت سے قرآن مجید کا کچھ حصہ ضائع نہ ہو جائے اس لیے وہ حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرنے کا مشورہ دیا.یہ کام سب بہ کرام کے اتفاق سے ہوا لہذا انہوں نے قرآن مجید کو بلا تقدیم و تاخیر جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ٹھیک ٹھیک اسی طرح مرتب کر دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو قرآن مجید سناتے تھے اور انہیں بالکل اسی ترتیب سے قرآن سکھاتے تھے جس طرح یہ اب ہمارے سامنے مصاحف میں موجود ہے.یہ ترتیب جبرئیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی تھی.وہ آپ کو ہر آیت کے نزول پر بتاتے تھے کہ اس آیت کو فلاں سورۃ میں فلاں آیت کے بعد لکھوائیے.873 صحاب
تاب بدر جلد 2 376 حضرت ابو بکر صدیق 874 قرآن کریم کے جمع کرنے کا کام حضرت ابو بکڑ کے دور میں ہوا.حضرت علی اس کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابو بکر صدیق پر رحمت نازل فرمائے.وہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے قرآن مجید کو کتابی صورت میں محفوظ کیا تھا.4 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع قرآن کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”جو بات اس وقت تک نہ ہوئی تھی وہ صرف یہ تھی کہ ایک جلد میں قرآن شریف جمع نہیں ہوا تھا.جب یہ پانچ سو قرآن کا حافظ اس لڑائی یعنی جنگ یمامہ ” میں مارا گیا.تو حضرت عمر حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور انہیں جاکے کہا کہ ایک لڑائی میں پانچ سو حافظ قرآن شہید ہوا ہے اور ابھی تو بہت سی لڑائیاں ہمارے سامنے ہیں.اگر اور حفاظ بھی شہید ہو گئے تو لو گوں کو قرآن کریم کے متعلق شبہ پیدا ہو جائے گا اس لیے قرآن کو ایک جلد میں جمع کر دینا چاہئے.حضرت ابو بکر نے پہلے تو اس بات سے انکار کیا لیکن آخر آپ کی بات مان لی.حضرت ابو بکڑ نے زید بن ثابت کو اس کام کے لیے مقرر کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن کریم لکھا کرتے تھے اور کبار صحابہ ان کی مدد کے لیے مقرر کیے.گو ہزاروں صحابہ قرآن شریف کے حافظ تھے لیکن قرآن شریف کے لکھتے وقت ہزاروں صحابہ کو جمع کرنا تو ناممکن تھا اس لیے حضرت ابو بکر نے حکم دے دیا کہ قرآن کریم کو تحریری نسخوں سے نقل کیا جائے اور ساتھ ہی یہ احتیاط کی جائے کہ کم سے کم دو حافظ قرآن کے اور بھی اس کی تصدیق کرنے والے ہوں.چنانچہ متفرق چمڑوں اور ہڈیوں پر جو قرآن شریف لکھا ہوا تھا وہ ایک جگہ پر جمع کر دیا گیا اور قرآن شریف کے حافظوں نے اس کی تصدیق کی.اگر قرآن شریف کے متعلق کوئی شبہ ہو سکتا ہے تو محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور اس وقت کے درمیانی عرصہ کے متعلق ہو سکتا ہے مگر کیا کوئی عقلمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ جو کتاب روزانہ پڑھی جاتی تھی اور جو کتاب ہر رمضان میں اونچی آواز سے پڑھ کر دوسرے مسلمانوں کو حفاظ سناتے تھے اور جس ساری کی ساری کتاب کو ہزاروں آدمیوں نے شروع سے لے کر آخر تک حفظ کیا ہوا تھا اور جو کتاب گو ایک جلد میں اکٹھی نہیں کی گئی تھی لیکن بیسیوں صحابہ اس کو لکھا کرتے تھے اور ٹکڑوں کی صورت میں لکھی ہوئی وہ ساری کی ساری موجود تھی ایسے ایک جلد میں جمع کرنے میں کسی کو دقت محسوس ہو سکتی تھی.اور پھر کیا ایسے شخص کو دقت ہو سکتی تھی جو خو د رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کی کتابت پر مقرر تھا اور اس کا حافظ تھا اور جب کہ قرآن روزانہ پڑھا جاتا تھا کیا یہ ہو ہو سکتا تھا کہ اس جلد میں کوئی غلطی ہو جاتی اور باقی حافظ اس کو پکڑ نہ لیتے.اگر اس قسم کی شہادت پر شبہ کیا جائے تو پھر تو دنیا میں کوئی دلیل باقی نہیں رہتی.حق یہ ہے کہ دنیا کی کوئی تحریر ایسے تواتر سے دنیا میں قائم نہیں جس تواتر سے قرآن شریف قائم ہے.8756
اصحاب بدر جلد 2 377 حضرت ابو بکر صدیق بعد میں آپ یہ دلیل فرمارہے ہیں کہ قرآن کریم اصلی حالت میں ہے اور کوئی اس میں رد و بدل نہیں ہے جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ تبدیلی ہوئی، اور یہ تھا، اور وہ تھا.آج کل بھی اعتراض اٹھتے ہیں اس کا یہ جواب ہے.حضرت مصلح موعودؓ ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورا قرآن نہ لکھا گیا تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست نہیں ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں یقیناً سارا قرآن لکھا گیا تھا.یہ جو کہتے ہیں نہیں لکھا گیا یہ غلط ہے.لکھا گیا تھا.جیسا کہ حضرت عثمانؓ کی روایت ہے کہ جب کوئی حصہ نازل ہو تا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے والوں کو بلاتے اور فرماتے اسے فلاں جگہ داخل کرو.جب یہ تاریخی ثبوت موجود ہے تو پھر یہ کہنا کہ قرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت پورا نہ لکھا گیا تھا بے وقوفی ہے.رہا یہ سوال کہ پھر حضرت ابو بکر کے زمانہ میں کیوں لکھا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن اس طرح ایک جلد میں نہ تھا جس طرح اب ہے.حضرت عمرؓ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قرآن محفوظ نہیں.اس لیے انہوں نے اس بارے میں حضرت ابو بکر سے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ ائی آری اَنْ تَأْمُرَ جَمَعَ الْقُرْآنِ.میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کرنے کا حکم دیں.یہ نہیں کہا کہ آپ اس کی کتابت کرالیں.پھر حضرت ابو بکڑ نے زید کو بلا کر کہا کہ قرآن جمع کرو چنانچہ فرمایا اجمعہ.اسے ایک جگہ جمع کر دو یہ نہیں کہا کہ اسے لکھ لو.غرض الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اس وقت قرآن کے اوراق کو ایک جلد میں اکٹھا کرنے کا سوال تھا لکھنے کا سوال نہ تھا.8764 حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت میں قرآن کریم ایک جلد میں جمع کر دیا گیا اور بعد میں حضرت عثمان کے عہد خلافت میں مزید پیش رفت یہ ہوئی کہ تمام عرب بلکہ تمام مسلم دنیا کو ایک قراءت پر جمع کر دیا گیا.چنانچہ حضرت عثمان کے دور میں قرآن کریم کی اشاعت کے حوالے سے حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کے بعد حضرت عثمان کے زمانے میں شکایت آئی کہ مختلف قبائل کے لوگ مختلف قراء توں کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھتے ہیں اور غیر مسلموں پر اس کا برا اثر پڑتا ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی نسخے ہیں.اس قراءت سے مراد یہ ہے کہ کوئی قبیلہ کسی حرف کو زبر سے پڑھتا ہے دو سر از یر سے پڑھتا ہے تیسر ا پیش سے پڑھتا ہے اور یہ بات سوائے عربی کے اور کسی زبان میں نہیں پائی جاتی.اس لیے عربی نہ جاننے والا آدمی جب یہ سنے گا تو وہ سمجھے گا کہ یہ کچھ کہہ رہا ہے اور وہ کچھ کہہ رہا ہے حالانکہ کہہ وہ ایک ہی بات رہے ہوں گے.پس اس فتنہ سے بچانے کے لیے حضرت عثمان نے یہ تجویز فرمائی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں جو نسخہ لکھا گیا تھا اس کی کا پیاں کر والی جائیں اور مختلف ملکوں میں بھیج دی جائیں اور حکم دے دیا جائے کہ بس اسی قراءت کے مطابق قرآن پڑھنا ہے
اصحاب بدر جلد 2 378 حضرت ابو بکر صدیق اور کوئی قراءت نہیں پڑھنی.یہ بات جو حضرت عثمان نے کی بالکل معیوب نہ تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب لوگ قبائلی زندگی بسر کرتے تھے یعنی ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے الگ رہتا تھا اس لیے وہ اپنی اپنی بولی کے عادی تھے.یعنی اپنا اپنا ان کا بولنے کا انداز تھا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر جمع ہو کر عرب لوگ متمدن ہو گئے اور ایک عامی زبان کی بجائے عربی زبان ایک علمی زبان بن گئی.کثرت سے عرب کے لوگ پڑھنے اور لکھنے کے علم سے واقف ہو گئے جس کی وجہ سے ہر آدمی خواہ کسی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اسی سہولت سے وہ لفظ ادا کر سکتا تھا جس طرح علمی زبان میں وہ لفظ بولا جاتا تھا جو در حقیقت ملک کی زبان تھی.پس کوئی وجہ نہ تھی کہ جب سارے لوگ ایک علمی زبان کے عادی ہو چکے تھے انہیں پھر بھی اجازت دی جاتی کہ وہ اپنے قبائلی تلفظ کے ساتھ ہی قرآن شریف کو پڑھتے چلے جائیں اور غیر قوموں کے لیے ٹھوکر کا موجب بنیں.اس لیے حضرت عثمان نے ان حرکات کے ساتھ قرآن شریف کو لکھ کر جو مکہ کی زبان کے مطابق تھا سب ملکوں میں کاپیاں تقسیم کر دیں اور آئندہ کے متعلق حکم دے دیا کہ سوائے مکی لہجہ کے اور کسی قبائلی لہجہ میں قرآن شریف نہ پڑھا جائے.اس امر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یورپ کے مصنف اور دوسری قوموں کے مصنف ہمیشہ یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے کوئی نیا قرآن بنادیا تھا یا عثمان نے کوئی نئی تبدیلی قرآن کریم میں کر دی نیا تھی لیکن حقیقت وہ ہے جو بیان کی گئی ہے.877 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” قرآن بلا شبہ وحی متلو ہے اور پورے کا پورا یہاں تک کہ نقطے اور حروف بھی قطعی متواتر ہیں اور اللہ نے اسے کمال اہتمام کے ساتھ فرشتوں کی حفاظت میں نازل فرمایا ہے.پھر اس کے بارے میں تمام قسم کے اہتمام کرنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا اور آپ نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک ایک آیت جیسے وہ (قرآن) نازل ہوتا رہا لکھنے پر مداومت فرمائی.یہاں تک کہ آپ نے اسے مکمل طور پر جمع فرمایا اور بنفس نفیس آیات کو ترتیب دیا اور انہیں جمع کیا اور نماز میں اور نماز سے باہر اس کی تلاوت پر مداومت فرمائی.یہاں تک کہ آپ دنیا سے رحلت فرما گئے اور اپنے رفیق اعلیٰ اور محبوب رب العالمین سے جاملے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”پھر اس کے بعد خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تمام سورتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ترتیب کے مطابق جمع کرنے کا اہتمام فرمایا.پھر (حضرت) ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد اللہ نے خلیفہ ثالث ( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) کو توفیق عطا فرمائی تو آپ نے لغت قریش کے مطابق قرآن کو ایک قراءت پر جمع کیا اور اسے تمام ملکوں میں پھیلا دیا.878 یہ سوال ہے کہ صحیفہ صدیقی جو حضرت ابو بکر صدیق نے لکھوایا تھا، کب تک محفوظ رہا اس بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے حضرت زید بن ثابت کے ذریعہ جس قرآن کریم کو ایک
اصحاب بدر جلد 2 379 حضرت ابو بکر صدیق جلد میں مرتب کروایا اس کو صحیفہ صدیقی کہا جاتا ہے.یہ حضرت ابو بکر صدیق کے پاس آپ کی وفات تک رہا.اس کے بعد حضرت عمرؓ کے پاس آگیا اور حضرت عمرؓ نے ام المومنین حضرت حفصہ کے سپر د کر دیا اور یہ ارشاد فرمایا کہ کسی شخص کو نہ دیا جائے.البتہ جس کو نقل کرنا یا اپنا نسخہ صحیح کرنا ہو وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.چنانچہ حضرت عثمان نے اپنے عہد خلافت میں حضرت حفصہ سے عاریتا لے کر چند نسخے نقل کروائے اور وہ نسخہ حضرت حفصہ کو واپس لوٹا دیا.جب مروان مدینہ کا حاکم ہو ا تو اس نے اس نسخہ کو حضرت حفصہ سے لینا چاہا لیکن حضرت حفصہ نے انکار کر دیا.حضرت حفصہ کے انتقال کے بعد مروان نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے لے کر اس کو ضائع کر دیا لیکن حضرت عثمان اس کو پہلے محفوظ کروا چکے تھے.879 حضرت ابو بکر صدیق نے سب سے پہلے جو کام سر انجام دیے یا جو کارنامے سب سے پہلے ان کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں اولیات ابو بکر کا نام دیا گیا ہے.مختلف باتیں ہیں جو اُن کے کام تھے جو سب سے پہلے انہوں نے انجام دیے.آپ سب سے پہلے اسلام لائے.دوسرے یہ کہ مکہ میں آپ نے اپنے گھر کے سامنے سب سے پہلے مسجد بنائی.پھر تیسرا یہ کہ مکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں سب سے پہلے قریش مکہ سے قتال کیا.چوتھا یہ کہ سب سے پہلے متعدد غلاموں اور باندیوں کو جو اسلام لانے کی پاداش میں ظلم و ستم کا شکار تھے خرید کر آزاد کیا.پانچواں یہ کہ سب سے پہلے قرآن کریم کو ایک جلد میں جمع کیا.چھٹا یہ کہ سب سے پہلے انہوں نے قرآن کا نام مصحف رکھا.ساتواں یہ کہ سب سے پہلے خلیفہ راشد قرار پائے.آٹھواں یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سب سے پہلے امیر امج مقرر ہوئے.نواں یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سب سے پہلے نماز میں مسلمانوں کی امامت کی.دسواں یہ کہ اسلام میں سب سے پہلے بیت المال قائم کیا.گیارہ یہ کہ اسلام میں سب سے پہلے خلیفہ ہیں جن کا مسلمانوں نے وظیفہ مقرر کیا.بارھواں یہ کہ سب سے پہلے خلیفہ جنہوں نے اپنا جانشین نامزد کیا.حضرت عمررؓ کو آپ نے نامز د فرمایا تھا.تیر ھواں یہ کہ وہ پہلے خلیفہ ہیں جن کی بیعت خلافت کے وقت ان کے والد حضرت ابو قحافہ زندہ تھے.چودھواں یہ کہ وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہیں اسلام میں کوئی لقب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا.پندرھواں یہ کہ سب سے پہلے شخص جن کی چار پشتوں کو شرف صحابیت حاصل ہے.ان کے والد صحابی حضرت ابو قحافہ ، حضرت ابو بکر خود صحابی، ان کے بیٹے حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر اور ان کے پوتے حضرت محمد بن عبد الرحمن بن ابو بکر یہ سب صحابہ تھے.10 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب کے بارے میں لکھا ہے: 880
باب بدر جلد 2 حلیہ مبارک 380 حضرت ابو بکر صدیق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں مروی ہے یعنی ان کے حوالے سے بات کی گئی ہے کہ انہوں نے ایک عربی شخص کو دیکھا جو پیدل چل رہا تھا اور آپ اس وقت اپنے ہودج میں تھیں.آپ نے فرمایا میں نے اس شخص سے زیادہ حضرت ابو بکڑ سے مشابہ کوئی شخص نہیں دیکھا.راوی کہتے ہیں ہم نے کہا حضرت عائشہ سے پوچھا کہ آپ ہمارے لیے حضرت ابو بکر نما حلیہ بیان کریں تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر گورے رنگ کے شخص تھے.دبلے پتلے تھے رخساروں پر گوشت کم تھا.کمر ذرا خمیدہ تھی ، ذرا جھکی ہوئی تھی کہ آپ کا تہ بند بھی کمر پہ نہیں رکتا تھا اور نیچے سرک جاتا تھا.چہرہ کم گوشت والا تھا.چہرہ زیادہ بھر اہوا نہیں تھا.آنکھیں اندر کی طرف تھیں اور پیشانی بلند تھی.881 ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے پوچھا کہ حضرت ابو بکر خضاب لگاتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا ہاں مہندی اور کشم سے رنگ لگاتے تھے اپنے بالوں پر ، داڑھی پر.کتم ایک بوٹی کا ہے.882 خشیت الہی اور زہد و تقویٰ کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ربیعہ بن جعفر اور حضرت ابو بکر کو کچھ زمین عطا فرمائی.دونوں میں ایک درخت کے لیے اختلاف ہو گیا.حضرت ابو بکر نے بحث کے دوران کوئی سخت بات کہہ دی لیکن بعد میں اس پر نادم ہوئے اور کہار بیعہ تم بھی مجھے کوئی ایسی سخت بات کہہ دو تا کہ وہ اس کا قصاص ہو جائے.جس طرح میں نے سختی سے بات کی تم بھی مجھے بات کہہ دو لیکن حضرت ربیعہ نے انکار کر دیا.وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے سارا واقعہ بیان کیا.اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ربیعہ تم سخت جواب نہ دو لیکن یہ دعا دو غَفَرَ اللهُ لكَ يَا آبَا بَكْرٍ اے ابو بکر ! اللہ تم سے در گذر فرمائے.اس پر انہوں نے ایسا ہی کیا.حضرت ابو بکر نے یہ بات جب سنی تو اس کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ زار و قطار روتے ہوئے واپس لوٹے.883 ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے ایک پرندہ دیکھا جو ایک درخت پر تھا.آپ نے کہا اے پرندے اتجھے خوشخبری ہو.اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میں تمہاری مانند ہوتا.تم درخت پر بیٹھتے ہو اور پھل کھاتے ہو اور پھر اڑ جاتے ہو.تم پر کوئی حساب ہو گا اور نہ ہی کوئی عذاب.اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میں راستے کے ایک جانب ایک درخت ہو تا اور اونٹ میرے پاس سے گزر تا اور مجھے پکڑتا اور اپنے منہ میں ڈال لیتا اور مجھے چبا ڈالتا پھر وہ مجھے جلدی سے نگل لیتا پھر اونٹ مجھے مینگنی کی صورت میں باہر نکالتا اور میں انسان نہ ہوتا.4 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ النبا کی آیت نمبر 41 وَيَقُولُ الْكَفِرُ لَيْتَنِي كُنْتُ 884
اصحاب بدر جلد 2 381 حضرت ابو بکر صدیق تربا اور کافر کہے گا اے کاش! میں خاک ہو چکا ہوتا، کی تفسیر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ : بعض مسلمان فرقے صحابہ کے بغض میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر موت کے وقت یہی فقرہ کہتے تھے پس ان کا کفر ثابت ہے.یعنی کیونکہ حضرت ابو بکر یہ پڑھا کرتے تھے وَيَقُولُ الْكَفِرُ لَيْتَنِي كُنتُ تُربا تو اس لیے وہ کافر ہوئے نعوذ باللہ.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ”حالانکہ اگر یہ روایت ثابت ہو“ اگر یہ سچی بات ہے اور یہ آیت حضرت ابو بکر کے متعلق ہو تو ابو بکر کے ایمان کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ کفار کی باتوں کا منکر یعنی ابو بکر یہ کہے گا کہ کاش! میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا معاملہ ایسا ہی ہو تا کہ نہ وہ میرے نیک اعمال کا بدلہ دیتا اور نہ میری غلطیوں کی سزا دیتا.اور یہ فقرہ ایک مومن کامل کا فقرہ ہے.حدیثوں میں تو خو در سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے اعمال کی وجہ سے بخشا نہیں جاؤں گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخشا جاؤں گا.کافر کا لفظ اس جگہ طنزاً استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اسے کافر کہتے ہیں جو جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہو تا تھا اور جس نے اپنا سارا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا تھا اور گیارہ سال کی بیٹی آپ سے بیاہ دی تھی جبکہ آپ کی عمر چون پچپن سال کی تھی اور ہجرت میں آپ کے ساتھ تھا جبکہ سارے مکہ کے مقابلہ میں آپ صرف ابو بکر کو ساتھ لے کر کھڑے ہو گئے تھے.قرآن کریم طنز آ کہتا ہے کہ یہ قربانیاں دینے والا شخص تو کافر ہے.اگر یہ سمجھا جائے کہ ابو بکر کے متعلق بھی یہ آیت ہے تو یہ طنز الفظ استعمال ہوا ہے کہ یہ قربانیاں دینے والا شخص تو کافر ہے مگر وہ لوگ جنہوں نے اس کے اعمال کے مقابلہ میں کوئی نسبت بھی عمل کی نہیں دکھائی وہ مومن بنتے ہیں.حضرت ابو بکر کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے حضرت عائشہ سے فرمایا اے میری بیٹی ! تو جانتی ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اور عزیز مجھے تم ہو اور میں نے اپنی فلاں جگہ کی زمین تمہیں ہبہ کی تھی.اگر تم نے اس پر قبضہ کیا ہوتا اور اس کے نفع سے استفادہ کیا ہو تا تو وہ یقیناً تمہاری ملکیت میں تھی لیکن اب وہ میرے تمام وارثوں کی ملکیت ہے.میں پسند کرتا ہوں کہ تم وہ واپس لوٹا دو.وہ ہبہ واپس لوٹا دو کیونکہ اس پر تم نے قبضہ نہیں کیا اور میری زندگی میں وہ زمین میرے استعمال میں ہی رہی تاکہ وہ میری ساری اولاد میں اللہ کی کتاب کے مطابق تقسیم ہو جائے اور میں اپنے رب سے اس حالت میں ملوں کہ میں نے اپنی اولاد میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں دی ہو گی.اس پر حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ کے حکم کی حرف بہ حرف تعمیل کی جائے گی.186 ذیل کا جو واقعہ میں بیان کرنے لگا ہوں یہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے لیکن آپ کے مناقب کے ضمن میں بھی یہاں دوبارہ ذکر کر تا ہوں.جب خلافت کی ردا آپ کو اللہ تعالیٰ نے پہنائی تو اس وقت کا ذکر ہے کہ اگلے دن حضرت 887 88566
حاب بدر جلد 2 382 حضرت ابو بکر صدیق ابو بکر جو کپڑے کی تجارت کرتے تھے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد حسب معمول کندھے پر کپڑوں کے تھان رکھ کر بازار کی طرف روانہ ہوئے.راستے میں حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ سے ملاقات ہوئی.انہوں نے کہا اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کہاں تشریف لے جا رہے ہیں.حضرت ابو بکر نے فرمایا بازار.انہوں نے کہا آپ مسلمانوں کے حاکم ہیں چلیے ہم آپ کے لیے کچھ وظیفہ مقرر کر دیں.آپ واپس چلیں، وظیفہ مقرر کر دیں گے.تجارت کی کوئی ضرورت نہیں.888 علامہ ابن سعد نے وظیفہ کی تفصیل یہ بیان کی ہے کہ ان کو دو چادر میں ملتی تھیں.جب وہ پرانی ہو جاتی تھیں تو انہیں واپس کر کے دوسری لیتے تھے.سفر کے موقع پر سواری اور خلافت سے پہلے جو خرچ تھا اسی کے موافق اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے خرچ لیتے تھے.889 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ”حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام عالم اسلامی کے بادشاہ تھے مگر ان کو کیا ملتا تھا.پبلک کے روپیہ کے وہ محافظ تو تھے مگر خود اس روپیہ پر کوئی تصرف نہیں رکھتے تھے.بے شک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بڑے تاجر تھے مگر چونکہ ان کو کثرت سے یہ عادت تھی کہ جو نہی روپیہ آیا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا اس لیے ایسا اتفاق ہوا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ خلیفہ ہوئے تو اس وقت آپ کے پاس نقد روپیہ نہیں تھا.خلافت کے دوسرے ہی دن آپؐ نے کپڑوں کی گٹھڑی اٹھائی اور اسے بیچنے کے لئے چل پڑے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رستہ میں ملے تو پوچھا کیا کرنے لگے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ آخر میں نے کچھ کھانا تو ہوا.اگر میں کپڑے نہیں بیچوں گا تو کھاؤں گا کہاں سے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا اگر آپ کپڑے بیچتے رہے تو خلافت کا کام کون کرے گا؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اگر میں یہ کام نہیں کروں گا تو پھر گزارہ کس طرح ہو گا؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپ بیت المال سے وظیفہ لے لیں.حضرت ابو بکڑ نے جواب دیا کہ میں یہ تو برداشت نہیں کر سکتا، بیت المال پر میرا کیا حق ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا جب قرآن کریم نے اجازت دی ہے کہ دینی کام کرنے والوں پر بھی بیت المال کا روپیہ صرف ہو سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں لے سکتے.چنانچہ اس کے بعد بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر ہو گیا مگر اس وقت کے لحاظ سے وہ وظیفہ صرف اتنا تھا جس سے روٹی کپڑے کی ضرورت پوری ہو سکے.“ ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کے ہاتھ سے اگر لگام چھوٹ کر گر جاتی تو آپ اپنی اونٹنی کو بٹھاتے اور وہ لگام اٹھاتے.ان سے کہا گیا کہ آپ نے ہمیں کیوں حکم نہیں دیا تا ہم آپ کو پکڑا دیتے.حضرت ابو بکر فرماتے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس بات کا حکم دیا تھا کہ میں 89066
ناب بدر جلد 2 383 حضرت ابو بکر صدیق 892" لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں.891 اس حد تک احتیاط کرتے تھے.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک دفعہ مسجد میں بعض لوگوں کی آواز سنی کہ ابو بکر کو ہم پر کون سی زیادہ فضیلت حاصل ہے.جیسے نیکی کے کام وہ کرتے ہیں اسی طرح نیکی کے کام ہم کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا اے لوگو! ابو بکر کو فضیلت نماز اور روزوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس نیکی کی وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے.یعنی جو اُن کے دل میں نیکی ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت ہے اور اللہ تعالیٰ کا جو خوف ہے اور جو خشیت ہے وہ اس معیار کی ہے کہ تب ان کو تمہارے پہ فضیلت ہے اور اس کے مطابق پھر ان کا عمل بھی ہے.صرف دل میں نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک آیت قرآنی کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے حضرت ابو بکر کا مقام و مرتبہ یوں بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ تو عبادت کرتارہ جب تک کہ مجھے یقین کامل کا مر تبہ حاصل نہ ہو اور تمام حجاب اور ظلماتی پر دے دُور ہو کر یہ سمجھ میں آجاوے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو پہلے تھا بلکہ اب تو نیاملک ، نئی زمین ، نیا آسمان ہے اور میں بھی کوئی نئی مخلوق ہوں.یہ حیاتِ ثانی وہی ہے جس کو صوفی بقاء کے نام سے موسوم کرتے ہیں.جب انسان اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالی کی روح کا نفخ اس میں ہوتا ہے.ملائکہ کا اس پر نزول ہوتا ہے.یہی وہ راز ہے جس پر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت فرمایا کہ اگر کوئی چاہے کہ مردہ میت کو زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو وہ ابو بکر کو دیکھے اور ابو بکر کا درجہ اس کے ظاہری اعمال سے ہی نہیں بلکہ اس بات سے ہے جو اس کے دل میں ہے.حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر پر روانہ ہوئے اور جب پڑاؤ کیا تو مختلف ٹولیوں میں تقسیم ہو گئے.کوئی کسی کے ساتھ کوئی کسی کے ساتھ.حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکر کی رفاقت میں پڑاؤ کیا.ہمارے ساتھ بادیہ نشینوں میں سے ایک دیہاتی آدمی بھی تھا.ہم بادیہ نشینوں کے جس گھر میں ٹھہرے ان کی ایک عورت امید سے تھی.اس بدوی نے اس عورت سے کہا کہ کیا تمہاری خواہش ہے کہ تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہو.اگر تُو مجھے ایک بکری دے دے تو تمہارے ہاں بیٹا پید اہو گا.اس عورت نے اس کو بکری دے دی.اس بدوی نے ایک وزن کے کئی ہم قافیہ الفاظ اس کے سامنے پڑھے.کوئی اپنا جنتر منتر پڑھا اس کے سامنے.پھر اس نے بکری ذبح کی اور جب لوگ کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک آدمی نے کہا کہ کیا آپ کو معلوم بھی ہے کہ یہ بکری کیسی ہے.پھر اس نے اس کا سارا قصہ سنایا.کس طرح اس عورت سے اس نے یہ کہہ کے بکری لی تھی کہ میں اس پر دعا پڑھوں گا تو تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہو گا.89366
محاب بدر جلد 2 384 حضرت ابو بکر صدیق راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکر کو دیکھا آپ بھی وہاں تھے ، کھانا کھانے والوں میں شامل.آپؐ سخت بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے حلق میں انگلیاں ڈال کر اس کو نکال رہے 894 یعنی قے کر کے کھانا نکال رہے تھے ، ایسا کھانا جو شرک کا ذریعہ بنا ہو وہ میں نہیں کھا سکتا.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان فرمایا کہ حضرت ابو بکر کا ایک غلام تھا وہ انہیں کمائی لا کر دیتا تھا اور حضرت ابو بکر اس کی کمائی سے کھایا کرتے تھے.ایک دن وہ کوئی چیز لایا حضرت ابو بکر نے اس 896 895 سے کھایا.غلام نے ان سے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے.حضرت ابو بکر نے پوچھا کیا ہے ؟ اس نے کہا میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کے لیے کہانت کی تھی اور میں کہانت کا علم اچھی طرح نہیں جانتا سوائے اس کے کہ میں نے اس کو دھوکا دیا.وہ مجھ کو ملا تو اس نے مجھے اس کے بدلے کچھ دیا تھا.سو یہ وہ ہے جس سے آپ نے کھایا ہے.تحفہ لے آیا تھایا پکا کے کبھی کبھی چیز لے آیا کرتا تھا.تو حضرت ابو بکڑ نے اپنا ہاتھ گلے میں داخل کیا اور جو کچھ پیٹ میں تھا سب قے کر دیا.انہوں نے کہا ایسا حرام کھانا میں نہیں کھا سکتا.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو غرور سے اپنا کپڑا گھسیٹ کر چلا تو اللہ روز قیامت اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گا.حضرت ابو بکڑ نے کہا کہ میرے کپڑے کی ایک طرف ڈھیلی رہتی ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خاص خیال رکھوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو غرور سے ایسا نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن کا تہہ بند نیچے کو ڈھلکتا ہے وہ دوزخ میں جائیں گے.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر رو پڑے کیونکہ ان کا تہ بند بھی ویسا تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو ان میں سے نہیں ہے.غرض نیت کو بہت بڑا دخل ہے اور حفظ مراتب ضروری شئے ہے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور فرمانبر داری اور عشق رسول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غیرت کا ذکر ہے.ایک دن حضرت عائشہ گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابالیعنی حضرت ابو بکر تشریف لائے.یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لیے آگے بڑھے کہ تم خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھتے ہی باپ بیٹی کے درمیان حائل ہو گئے اور حضرت ابو بکر کی متوقع سزا سے حضرت عائشہ کو بچالیا.جب حضرت ابو بکر چلے گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے ازراہ مذاق فرمایا.دیکھا! آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا.کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکر دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت عائشہ ہنسی خوشی باتیں کر رہی تھیں.حضرت ابو بکر کہنے لگے کہ دیکھو تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی 8976
حاب بدر جلد 2 385 حضرت ابو بکر صدیق 898 شریک کر لو.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے شریک کیا.حضرت عقبہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکر کو دیکھا انہوں نے حضرت حسن کو اٹھایا اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ میرا باپ تجھ پر قربان.یہ تو نبی کی شکل و شباہت ہے، علی کی شکل و شباہت نہیں ہے اور حضرت علی یہ سن کر ہنس رہے تھے.99 حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب کی بیٹی حضرت حفصہ حضرت خنیس بن حذافہ سہمی کے فوت ہونے پر بیوہ ہو گئیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے.جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے.مدینہ میں انہوں نے وفات پائی تھی تو حضرت عمر بن خطاب کہتے تھے میں عثمان بن عفان سے ملا، ان کے پاس حفصہ کا ذکر کیا اور کہا اگر آپ چاہیں تو حفصہ کا نکاح آپ سے کر دوں.انہوں نے کہا میں اس معاملے پر غور کروں گا چنانچہ میں کئی روز تک ٹھہر ا رہا.پھر عثمان نے کہا مجھے یہی مناسب معلوم ہوا ہے کہ میں ان دنوں شادی نہ کروں.حضرت عمرہ کہتے تھے پھر میں حضرت ابو بکر سے ملا اور کہا اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ کا نکاح آپ سے کیے دیتا ہوں.حضرت ابو بکر خاموش ہو گئے اور مجھے کچھ جواب نہ دیا.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ عثمان کی نسبت میں ان سے زیادہ رنجیدہ خاطر ہوا.پھر میں کچھ راتیں ٹھہرا رہا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسہ نے حفصہ سے نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا نکاح کر دیا.پھر حضرت ابو بکر مجھ سے ملے اور کہا شاید آپ مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں.جب آپ نے حفصہ کا ذکر کیا اور میں نے کچھ جواب نہ دیا.میں نے کہا کہ ہاں اس طرح ہی ہے.تو انہوں نے کہا کہ دراصل جو بات آپ نے پیش کی تھی اس کی نسبت آپ کو جواب دینے سے نہیں روکا تھا مگر اس بات نے کہ مجھے علم ہو چکا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں اور میں ایسا نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا ظاہر کرتا یعنی آپ کو بتاتا کہ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا ہے.اس لیے میں چپ ہو گیا یا انکار کر دیا اور آگے کہتے ہیں اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس رشتہ کو چھوڑ دیتے تو میں ضرور آپ کی بیٹی کا رشتہ قبول کر لیتا.200 حضرت علی کا حضرت ابو بکر کو خراج عقیدت پیش کرنا اس کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جنہوں نے حضرت عمر بن خطاب کی وفات کے بعد ان کے لیے دعا کی جبکہ انہیں تختے پر رکھ دیا گیا.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص نے میرے پیچھے سے آکے اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھ دی.کہنے لگا اللہ تم پر رحم کرے.مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تمہیں بھی ہمارے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی دفن کرے گا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بہت سنا تھا کہ میں اور ابو بکر و عمر فلاں جگہ تھے اور میں نے اور ابو بکر و عمر نے یہ کیا.میں اور ابو بکر و عمر چلے گئے.اس لیے میں یہ امید رکھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی ان دونوں کے ساتھ ہی رکھے گا.میں
صحاب بدر جلد 2 386 حضرت ابو بکر صدیق 901 نے جو مڑ کر دیکھا تو حضرت علی بن ابی طالب تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آیت الذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمُ (آل عمران :173) کہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کو لبیک کہا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے ان میں سے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے.اس کے بارے میں انہوں نے عروہ سے فرمایا کہ اے میری بہن کے بیٹے ! تیرے والد حضرت زبیر اور حضرت ابو بکر ان میں سے تھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احد کے دن جو تکلیف پہنچی وہ پہنچی اور مشرکین چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ واپس آئیں گے.آپؐ نے فرمایا ان کے پیچھے کون جائے گا تو اُن میں سے ستر آدمیوں نے اپنے آپ کو پیش کیا.عروہ کہتے تھے ان میں حضرت ابو بکر اور حضرت زبیر بھی تھے.902 ابوسفیان جب جنگ احد کے خاتمے کے وقت درے میں تھا اور اس نے کہا آئندہ سال انہی ایام میں بدر کے مقام پر پھر جنگ کا وعدہ رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا تو ابوسفیان جلدی سے اپنے لشکر کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گیا.اس سے آگے کے واقعات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں بیان کیے ہیں کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید احتیاط کے خیال سے فوراستر صحابہ کی ایک جماعت جس میں حضرت ابو بکر اور حضرت زبیر بھی شامل تھے تیار کر کے لشکر قریش کے پیچھے روانہ کر دی.یہ بخاری کی روایت ہے.عام مؤرخین یوں بیان کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت علی یا بعض روایات کی رُو سے حضرت سعد بن ابی وقاص کو قریش کے پیچھے بھجوایا اور ان سے فرمایا کہ اس بات کا پتہ لاؤ کہ لشکر قریش مدینہ پر حملہ کرنے کی نیت تو نہیں رکھتا اور آپ نے ان سے فرمایا اگر قریش اونٹوں پر سوار ہوں اور گھوڑوں کو خالی چلا رہے ہوں تو سمجھنا کہ وہ مکہ کی طرف واپس جارہے ہیں، مدینہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے اور اگر وہ گھوڑوں پر سوار ہوں تو سمجھنا ان کی نیت بخیر نہیں.اور آپ نے ان کو تاکید فرمائی کہ اگر قریش کا لشکر مدینہ کا رخ کرے تو فوراً آپ کو اطلاع دی جاوے اور آپ نے بڑے جوش کی حالت میں فرمایا کہ اگر قریش نے اس وقت مدینہ پر حملہ کیا تو خدا کی قسم !اہم ان کا مقابلہ کر کے انہیں اس حملہ کا مزا چکھا دیں گے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے آدمی آپ کے ارشاد کے ماتحت گئے اور بہت جلد یہ خبر لے کر واپس آگئے کہ قریش کا لشکر مکہ کی طرف جارہا ہے.حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ حضرت ابو بکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمر سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن کی طرف چلیں.ہم ان کی زیارت کریں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے.انہوں نے یعنی حضرت انس نے کہا کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں.ان دونوں نے کہا کہ آپ کیوں روتی ہیں؟ جو بھی اللہ کے 903❝
حاب بدر جلد 2 387 906❝ حضرت ابو بکر صدیق 904 پاس ہے وہ اس کے رسول کے لیے بہتر ہے.وہ کہنے لگیں کہ مجھے معلوم ہے کہ جو بھی اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسول کے لیے بہتر ہے لیکن میں اس لیے روتی ہوں کہ اب وحی آسمان سے منقطع ہو گئی ہے.حضرت انس کہتے ہیں کہ اُم ایمن نے ان دونوں کو بھی رُلا دیا.وہ دونوں بھی ان کے ساتھ رونے لگے.4 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا اور تم نے کہا تو جھوٹا ہے اور ابو بکر نے کہا سچا ہے اور انہوں نے اپنی جان ومال سے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا.905 حضرت مصلح موعودؓ اس بات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ صرف ”حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ایسے تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک نے میرا انکار کیا مگر ابو بکر ایسا تھا جس میں میں نے کوئی نجی نہیں دیکھی.صلح حدیبیہ کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش مکہ کے درمیان صلح کا معاہدہ ہو رہا تھا اور ابو جندل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کی شرائط کے مطابق واپس کر دیا تو اس وقت صحابہ بہت جوش میں تھے.اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ: مسلمان یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور مذہبی غیرت سے ان کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا مگر رسول اللہ کے سامنے سہم کر خاموش تھے.آخر حضرت عمر سے نہ رہا گیا.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے اور کانپتی ہوئی آواز میں فرمایا کیا آپ خدا کے برحق رسول نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں ضرور ہوں.عمر نے کہا کہ کیا ہم حق پر نہیں اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں ضرور ایسا ہی ہے.عمرؓ نے کہا تو پھر ہم اپنے سچے دین کے معاملہ میں یہ ذلت کیوں برداشت کریں؟ آپ نے حضرت عمر کی حالت کو دیکھ کر مختصر الفاظ میں فرمایا.دیکھو عمر ! میں خدا کار سول ہوں اور میں خدا کے منشا کو جانتا ہوں اور اس کے خلاف نہیں چل سکتا اور وہی میر امدد گار ہے.مگر حضرت عمر کی طبیعت کا تلاطم لحظہ بہ لحظہ بڑھ رہا تھا.کہنے لگے کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں نے ضرور کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف ضرور اسی سال ہو گا؟ عمر نے کہا کہ نہیں ایسا تو نہیں کہا.آپ نے فرمایا تو پھر انتظار کرو تم ان شا اللہ ضرور مکہ میں داخل ہو گے اور کعبہ کا طواف کرو گے.مگر اس جوش کے عالم میں حضرت عمر کی تسلی نہ ہوئی لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص رعب تھا اس لئے حضرت عمر وہاں سے ہٹ کر حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور ان کے ساتھ بھی اسی قسم کی جوش کی باتیں کیں.حضرت ابو بکر نے بھی اسی قسم کے جواب دیئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیئے تھے مگر ساتھ ہی حضرت ابو بکر نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا دیکھو عمر ! سنبھل کر رہو اور رسولِ خدا کی رکاب پر جو ہاتھ تم نے رکھا ہے اسے ڈھیلا نہ ہونے دو کیونکہ خدا کی قسم ! یہ شخص جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے بہر حال سچا ہے.
محاب بدر جلد 2 388 حضرت ابو بکر صدیق حضرت عمر کہتے ہیں کہ اس وقت میں اپنے جوش میں یہ ساری باتیں کہہ تو گیا مگر بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی اور میں تو بہ کے رنگ میں اس کمزوری کے اثر کو دھونے کے لئے بہت سے نفلی اعمال بجالایا یعنی صدقے کئے، روزے رکھے ، نفلی نمازیں پڑھیں اور غلام آزاد کئے تاکہ میری اس کمزوری کا داغ 907< دھل جائے.“ اس واقعہ کا تذکرہ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ”ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تم کو بہت حکم دیئے مگر میں نے تم سے مخلص ترین لوگوں کے اندر بھی بعض دفعہ احتجاج کی روح دیکھی مگر ابو بکڑ کے اندر میں نے یہ روح کبھی نہیں دیکھی.چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا انسان بھی گھبر ا گیا اور وہ اسی گھبراہٹ کی حالت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں گئے اور کہا کہ کیا ہمارے ساتھ خدا کا یہ وعدہ نہیں تھا کہ ہم عمرہ کریں گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں خدا کا وعدہ تھا.انہوں نے کہا کہ کیا خدا کا ہمارے ساتھ یہ وعدہ نہیں تھا کہ وہ ہماری تائید اور نصرت کرے گا؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہاں تھا.انہوں نے کہا تو پھر کیا ہم نے عمرہ کیا؟ حضرت ابو بکڑ نے کہا عمرا خدا نے کب کہا تھا کہ ہم اسی سال عمرہ کریں گے ؟ پھر انہوں نے کہا کہ کیا ہم کو فتح و نصرت حاصل ہوئی؟ حضرت ابو بکر نے کہا کہ خدا اور اس کا رسول فتح و نصرت کے معنے ہم سے بہتر جانتے ہیں مگر عمر کی اس جواب سے تسلی نہ ہوئی اور وہ اسی گھبراہٹ کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! کیا خدا کا ہم سے یہ وعدہ نہ تھا کہ ہم مکہ میں طواف کرتے ہوئے داخل ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں.انہوں نے عرض کیا کہ کیا ہم خدا کی جماعت نہیں اور کیا خدا کا ہمارے ساتھ فتح و نصرت کا وعدہ نہیں تھا؟ آپ نے فرمایا ہاں تھا.حضرت عمرؓ نے کہا تو یا رسول اللہ ! کیا ہم نے عمرہ کیا.آپ نے فرمایا کہ خدا نے کب کہا تھا کہ ہم اسی سال عمرہ کریں گے.یہ تو میر اخیال تھا کہ اس سال عمرہ ہو گا.خدا نے تو کوئی تعیین نہیں کی تھی.انہوں نے کہا تو پھر فتح و نصرت کے وعدہ کے کیا معنی ہوئے ؟ آپ نے فرمایا نصرت خدا کی ضرور آئے گی اور جو وعدہ اس نے کیا ہے وہ بہر حال پورا ہو گا.گویا جو جواب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا تھا وہی جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا.دونوں روایتوں میں صرف فرق یہ ہے کہ ایک یہ بھی روایت ہے کہ حضرت عمر پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے پھر حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور حضرت مصلح موعود نے جو بیان فرمایا ہے بات وہی ہے لیکن یہ ہے کہ پہلے حضرت ابو بکر کے پاس گئے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا.ایک آدمی 908❝
اصحاب بدر جلد 2 389 حضرت ابو بکر صدیق مسلمانوں میں سے تھا اور ایک آدمی یہود میں سے تھا.مسلمان نے کہا اس کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں پر فضیلت دی تو یہودی نے کہا اس کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی.اس پر مسلمان نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور یہودی کے منہ پر تھپڑ مارا.وہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کو بتایا جو اس کے اور مسلمان کے درمیان معاملہ ہوا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کو بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کے متعلق دریافت کیا.اس نے آپ کو بتایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موسیٰ پر مجھے فضیلت نہ دو.909 اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ جس مسلمان نے یہودی کو تھپڑ مارا تھاوہ حضرت ابو بکر تھے.910 یہ بخاری کی روایت ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اس طرح فرمایا ہے کہ: آپ غیر مذاہب والوں کے احساسات کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ حضرت ابو بکر کے سامنے کسی یہودی نے کہہ دیا کہ مجھے موسیٰ کی قسم جسے خدا نے سب نبیوں پر فضیلت دی ہے.اس پر حضرت ابو بکر نے اسے تھپڑ مار دیا.جب اس واقعہ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر ملی تو آپ نے حضرت ابو بکر جیسے انسان کو زجر کی.“ ڈانٹا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : غور کرو مسلمانوں کی حکومت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰ کو ایک یہودی فضیلت دیتا ہے اور ایسی طرز سے کلام کرتا ہے کہ حضرت ابو بکر جیسے نرم دل انسان کو بھی غصہ آجاتا ہے اور آپ اسے طمانچہ مار بیٹھتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ڈانٹتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا.اسے حق ہے کہ جو چاہے عقیدہ رکھے.911 اگر یہ اس کا عقیدہ ہے تو وہ بول سکتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابو بکرؓ کے عشق و محبت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ہے.مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ : ”حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشقیہ تھا.جب آپ مدینہ میں داخل ہونے کے لیئے مکہ سے نکلے تو اس وقت بھی آپ کا تعلق عاشقانہ تھا اور جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو اس وقت بھی تعلق عاشقانہ تھا.چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ توابا کی وحی قرآنی نازل ہوئی جس میں مخفی طور پر آپ کی وفات کی خبر تھی تو آپ نے خطبہ پڑھا اور اس میں اس سورت کے نزول کا ذکر فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اپنی رفاقت اور دنیوی ترقیات میں سے ایک کے انتخاب کی اجازت دی اور اس نے اللہ تعالیٰ رفاقت کو ترجیح دی.اس سورت کو سن کر سب صحابہ کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے اور سب اللہ تعالیٰ کی تکبیر کرنے لگے اور کہنے لگے کہ الحمد للہ ! اب یہ دن آ رہا ہے مگر جس وقت باقی سب لوگ خوش تھے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چیخیں نکل ئیں اور آپ بے تاب ہو کر رو پڑے اور آپ نے کہا یار سول اللہ ! آپ پر ہمارے ماں باپ اور بیوی بچے سب قربان ہوں.آپ کے لئے ہم ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.
محاب بدر جلد 2 390 حضرت ابو بکر صدیق گویا جس طرح کسی عزیز کے بیمار ہونے پر بکر اذبح کیا جاتا ہے اسی طرح حضرت ابو بکڑ نے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی قربانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش کی.آپ کے رونے کو دیکھ کر اور اس بات کو سن کر بعض صحابہ نے کہا دیکھو ! اس بڑھے کو کیا ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ کو اختیار دیا ہے کہ خواہ وہ رفاقت کو پسند کرے یا دنیوی ترقی کو.اور اس نے رفاقت کو پسند کیا.یہ کیوں رو رہا ہے ؟ اس جگہ جو اسلام کی فتوحات کا وعدہ پیش کیا جا رہا ہے، حتی کہ حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی نے بھی اس کا اظہار حیرت کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اس استعجاب کو محسوس کیا اور حضرت ابو بکر کی بیتابی کو دیکھا اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا کہ ابو بکر مجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہو تا تو میں ان کو خلیل بناتا “ پھر آگے فرمایا مگر اب بھی یہ میرے دوست اور صحابی ہیں.پھر فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ آج سے سب لوگوں کے گھروں کی کھڑکیاں جو مسجد میں کھلتی ہیں بند کر دی جائیں سوائے ابو بکر کی کھڑکی کے اور اس طرح آپ کے عشق کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے داد دی کیونکہ یہ عشق کامل تھا جس نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتا دیا کہ اس فتح و نصرت کی خبر کے پیچھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ہے اور آپ نے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی جان کا فدیہ پیش کیا کہ ہم مر جائیں مگر آپ زندہ رہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بھی حضرت ابو بکر نے اعلیٰ نمونہ عشق کا دکھایا.غرض حضرت ابو بکر نے غارِ ثور میں اپنی جان کے لئے گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیا اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص طور پر تسلی دی.“12” ہر مقام پر جہاں بھی اظہار کیا وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی وجہ سے کیا.حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ”حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر اور حضرت ابو بکر کی کسی بات پر تکرار ہو گئی.یہ تکرار بڑھ گئی.حضرت عمرؓ کی طبیعت تیز تھی.اس لئے حضرت ابو بکر نے مناسب سمجھا کہ وہ اس جگہ سے چلے جائیں تاکہ جھگڑا خواہ مخواہ زیادہ نہ ہو جائے.حضرت ابو بکر نے جانے کی کوشش کی تو حضرت عمر نے آگے بڑھ کر حضرت ابو بکر ٹکا کر نہ پکڑ لیا کہ میری بات کا جواب دے کر جاؤ.جب حضرت ابو بکر اس کو چھڑا کر جانے لگے تو آپ کا کرتہ پھٹ گیا.آپ وہاں سے اپنے گھر کو چلے آئے لیکن حضرت عمر کو شبہ پیدا ہوا کہ حضرت ابو بکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری شکایت کرنے گئے ہیں.وہ بھی پیچھے پیچھے چل پڑے تا کہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا عذر پیش کر سکوں لیکن راستے میں حضرت ابو بکر حضرت عمر کی نظروں سے اوجھل ہو گئے.حضرت عمر یہی سمجھے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کرنے گئے ہیں.وہ بھی سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا پہنچے.وہاں جا کر دیکھا تو حضرت ابو بکر موجود نہ تھے لیکن چونکہ ان کے دل میں ندامت پیدا ہو چکی تھی اس لئے عرض کیا یارسول اللہ ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں ابو بکر سے سختی سے پیش آیا ہوں.حضرت ابو بکر کا کوئی قصور
ناب بدر جلد 2 391 حضرت ابو بکر صدیق نہیں میرا ہی قصور ہے.جب حضرت عمر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابو بکر کو جا کر کسی نے بتایا کہ حضرت عمر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی شکایت کرنے گئے ہیں.حضرت ابو بکر کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مجھے بھی اپنی براءت کے لئے جانا چاہئے تاکہ یک طرفہ بات نہ ہو جائے اور میں بھی اپنا نکتہ نظر پیش کر سکوں.جب حضرت ابو بکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے تو حضرت عمر عرض کر رہے تھے کہ یارسول اللہ ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے ابو بکر سے تکرار کی اور ان کا کرتہ مجھ سے پھٹ گیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو غصہ کے آثار آپ کے چہرہ پر ظاہر ہوئے.آپ نے فرمایا اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے جب ساری دنیا میرا انکار کرتی تھی اور تم لوگ بھی میرے مخالف تھے اس وقت ابو بکر ہی تھا جو مجھ پر ایمان لایا اور ہر رنگ میں اس نے میری مدد کی.پھر افسردگی کے ساتھ فرمایا کیا اب بھی تم مجھے اور ابو بکر کو نہیں چھوڑتے ؟ آپ یہ فرما ر ہے تھے کہ حضرت ン ابو بکر داخل ہوئے.“ اس کی انگلی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر جب داخل ہوئے تو انہوں نے کیا رویہ اختیار کیا اس کی تمہید حضرت مصلح موعود باندھ رہے ہیں کہ ”یہ ہوتا ہے سچے عشق کا نمونہ کہ بجائے یہ کہ عذر کرنے کے کہ یارسول اللہ ! میرا قصور نہ تھا عمر کا قصور تھا آپ نے جب دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خفگی پید اہو رہی ہے آپ سچے عاشق کی حیثیت سے یہ برداشت نہ کر سکے کہ میری وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو.آتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! عمر کا قصور نہیں تھا میر ا قصور تھا.دیکھو حضرت ابو بکر کس قدر سچے عاشق تھے کہ آپ یہ برداشت نہ کر سکے کہ آپ کے معشوق کے دل کو تکلیف ہو.آپ یہ دیکھ کر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمرہ پر ناراض ہوئے ہیں.“ حضرت ابو بکر اس پر خوش نہیں ہوئے.عام طور پر لوگوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے مد مقابل کو جھاڑ پڑتی دیکھتے ہیں ”ڈانٹ پڑتی دیکھے “ تو خوش ہوتے ہیں کہ خوب جھاڑ پڑی لیکن اس سچے عاشق نے یہ پسند نہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو تکلیف ہو خواہ کسی وجہ سے ہو.آپ نے کہا میں مجرم بن جاتا ہوں لیکن میں اپنے معشوق کا دل رنجیدہ نہیں ہونے دوں گا اور نہایت لجاجت سے عرض کیا یا رسول اللہ ! عمر کا قصور نہیں تھا میرا قصور ہے.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”اگر حضرت ابو بکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کے ملال کو دور کرنے کی خاطر مظلوم ہونے کے باوجو د ظالم ہونے کا اقرار کرتے ہیں تا آپ کے دل کو تکلیف نہ پہنچے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مومن بندہ اپنے خدا کی خوشنودی کے لئے وہ کام نہ کرے جو اسے خدا تعالیٰ کی رضا کے قریب کر دے.“ مومن کی بھی یہی نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کام کرے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو.اس حوالے سے اپنی مثال دی ہے.913<
اصحاب بدر جلد 2 392 حضرت ابو بکر صدیق پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ فرماتے ہیں: ”حضرت عمر ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر آئے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ ! یہ تورات ہے.آپ ان کی بات سن کر خاموش ہو گئے مگر حضرت عمرؓ نے تو رات کھول کر اسے پڑھنا شروع کر دیا.914<< اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ بات دیکھی تو وہ حضرت عمر پر ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بر امنا رہے ہیں! ان کی بات سن کر حضرت عمر کو بھی توجہ پیدا ہوئی اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کو دیکھا اور جب انہیں بھی آپ کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار دکھائی دیئے تو انہوں نے معذرت کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی طلب کی.حضرت مصلح موعودؓ نے یہ واقعہ ایک آیت کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ناراضگی حضرت عمر کے تورات کی اس آیت پڑھنے پر تھی جو اسلامی تعلیم سے مختلف ہے، اس کی وجہ سے تھی نہ یہ کہ تورات کیوں پڑھی.اگر کسی کو اس کی تفسیر پڑھنے میں دلچسپی ہے تو تفسیر کبیر جلد 6 میں سورہ نور کی آیت تین کے ضمن میں اس کی باقی تفصیل بھی لکھی ہوئی ہے.وہاں سے دیکھ سکتے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت صحابہ جس طرح کیا کرتے تھے اس کا ثبوت حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک واقعہ سے مل سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل عرب نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے.اس وقت حالت ایسی نازک تھی کہ حضرت عمر جیسے انسان نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے نرمی کرنی چاہئے مگر حضرت ابو بکر نے جواب دیا.ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا طاقت ہے کہ وہ اس حکم کو منسوخ کر دے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا ہے.خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی ایک رسی بھی زکوۃ میں دیا کرتے تھے تو میں وہ رستی بھی ان سے لے کر رہوں گا اور اس وقت تک دم نہیں لوں گا جب تک وہ زکواۃ ادا نہیں کرتے.“ یہ بخاری کی روایت ہے.حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ "اگر تم اس معاملہ میں میر ا ساتھ نہیں دے سکتے تو بیشک نہ دو.میں اکیلا ہی ان کا مقابلہ کروں گا.کس قدر اتباع رسول ہے کہ نہایت خطرناک حالات میں باوجود اس کے کہ اکابر صحابہ لڑائی کے خلاف مشورہ دیتے ہیں پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کو پورا کرنے کے لئے وہ ہر قسم کا خطرہ برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.اسی طرح لشکر اسامہ کو روک لینے کے متعلق بھی صحابہ نے بہت زور لگایا مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر دشمن اتنا طاقتور ہو جائے کہ وہ مدینہ پر فتح پائے اور مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے
ناب بدر جلد 2 393 حضرت ابو بکر صدیق گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھجوانے کے لئے تیار کیا 915❝❝ تھا روک نہیں سکتا.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے پاس بحرین کا مال آیا تو میں تمہیں اتنا اتنا اور اتنا دوں گا.ہاتھ کے اشاروں سے بتایا.مگر وہ مال اس وقت آیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تھے.جب بحرین کا مال آیا تو حضرت ابو بکر نے منادی کو حکم دیا، اعلان کر وایا اور اس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ جس کا کوئی قرضہ یا وعدہ ہو وہ ہمارے پاس آئے.یہ سن کر یہ کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے پاس گیا اور میں نے کہار سول اللہ صلی اللہ علیہ نے مجھ سے ایسا ایسا وعدہ فرمایا تھا تو حضرت ابو بکر نے تین کپ بھر کر دیے.علی بن مدینی کہتے تھے کہ سفیان دونوں ہاتھ اکٹھے کر کے آپ بھرتے کہ یوں اٹھا کے تین دفعہ اس طرح دیا تھا.916 حضرت ابو سعید خدری نے بیان کیا کہ جب بحرین سے مال آیا تو میں نے حضرت ابو بکر کے منادی کو یہ آواز دیتے ہوئے سنا کہ جس شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وعدہ کیا ہو تو وہ آئے.لوگ حضرت ابو بکڑ کے پاس آئے تو وہ انہیں دیتے تھے.پھر حضرت ابو بشیر مازنی آئے.انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو بشیر ! جب ہمارے پاس کچھ آئے تو ہمارے پاس آنا.اس پر حضرت ابو بکر نے انہیں دو یا تین کپ بھر کر دیا جس کو انہوں نے چودہ سو درہم میں پایا.7 917 آپ کا مطلب ہے کہ دونوں ہاتھوں سے پورا بھر کے.حضرت ابو بکر صدیق صحابہ کرام سے محو گفتگو تھے کہ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے اپنے غلام سے کہا کہ پانی پلاؤ.غلام کچھ دیر کے بعد مٹی کے برتن میں پانی لایا.حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بر تن کو پکڑا اور پیاس بجھانے کے لیے اپنے منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ آپ نے دیکھا کہ برتن تو شہد سے بھرا ہوا ہے جس میں پانی بھی ملا ہوا ہے.آپ نے وہ برتن رکھوا دیا اور وہ پانی نہیں پیا.پھر غلام کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے.غلام نے کہا کہ پانی میں شہد ملایا ہے.حضرت ابو بکر صدیق بر تن کی طرف غور سے دیکھنے لگے.چند لمحات ہی گزرے تھے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہنے لگا.حضرت ابو بکر صدیق ہچکیاں باندھ باندھ کر رونے لگے.روتے روتے.آپ کی آواز اور بلند ہو گئی اور آپ پر شدید گر یہ طاری ہو گیا.لوگ متوجہ ہوئے اور تسلی دینے لگے کہ اے خلیفہ رسول ! آپ کو کیا ہو گیا ہے.آپ اس قدر شدید کیوں رو رہے ہیں ؟ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ سسکیاں بھر کر کیوں رو رہے ہیں لیکن حضرت ابو بکر صدیق نے رونا بند نہ کیا بلکہ آس پاس کے تمام لوگوں نے بھی آپ کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا اور رورو کر وہ خاموش بھی ہو گئے لیکن حضرت ابو بکرہ مسلسل روتے جارہے تھے.جب آپ کے آنسو
محاب بدر جلد 2 394 حضرت ابو بکر صدیق ذرا تھے تولوگوں نے آپ سے رونے کا سبب پوچھا کہ اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ رونا کیسا ہے.آخر کس چیز نے آپ کو رلایا.حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے کپڑے کے کنارے سے آنسو پونچھتے ہوئے اور اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے فرمایا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کے ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا.میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اپنے ہاتھ سے کچھ چیز دور کر رہے ہیں لیکن وہ چیز مجھے نظر نہیں آرہی تھی.آپ کمزور آواز میں فرما رہے تھے کہ مجھ سے دُور ہو جاؤ، مجھ سے دُور ہو جاؤ.میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر کچھ نظر نہیں آیا.میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ کسی چیز کو اپنے سے ہٹا رہے تھے جبکہ آپ کے پاس کچھ نظر نہیں آ رہا تھا.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہ در حقیقت دنیا تھی جو اپنی تمام آرائش و نعمت کے ساتھ میرے سامنے آئی تھی.میں نے اس سے کہا تھا کہ دُور ہو جاؤ.ایک کشفی کیفیت آپ پر طاری ہوئی تھی.پس وہ یہ کہتی ہوئی دور ہو گئی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چھٹکارا پا لیا تو کیا ہوا.جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آئیں گے وہ مجھ سے کبھی نہیں بچ سکیں گے.حضرت ابو بکر صدیق نے پریشانی میں اپنا سر ہلایا اور غمزدہ آواز میں فرمایا لوگو مجھے بھی اس شہد سے ملے پانی کی وجہ سے ڈر لاحق ہوا کہ کہیں اس دنیا نے مجھے آگھیرا نہ ہو اس لیے میں سسکیاں بھر کر رویا.1918 تنی خشیت تھی اللہ تعالیٰ کی.فتوحات عراق میں ایک قیمتی چادر حاصل ہوئی.حضرت خالد نے اہل لشکر کے مشورہ سے اس چادر کو حضرت ابو بکر صدیق کے پاس بطور تحفہ بھجوایا اور لکھا کہ اسے آپ لے لیجیے.آپ کے لیے روانہ کیا جارہا ہے لیکن حضرت ابو بکر نے اسے لینا گوارا نہیں فرمایا اور نہ اپنے رشتہ داروں کو دیا بلکہ اسے حضرت امام حسین کو مرحمت فرما دیا.919 حضرت ابو بکر صدیق کا مقام یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے بارے میں کیا سمجھتے تھے یا آپ کو کیا مقام دیتے تھے اس بارے میں بعض روایات ہیں.حضرت ابو بکر صدیق کو یہ سعادت اور فضیلت حاصل ہے کہ مکی دور میں حضرت ابو بکر کے گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ ایک دو دفعہ تشریف لے جاتے تھے.920 حضرت عمر و بن عاص نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ذات السلاسل کی فوج پر سپہ سالار مقرر کر کے بھیجا اور کہتے ہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.میں نے کہا لوگوں میں سے کون آپ کو زیادہ پیارا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا عائشہ میں نے کہامر دوں میں سے؟ آپ نے فرمایا ان کا باپ.میں نے کہا پھر کون؟ آپ نے فرمایا پھر عمر بن خطاب اور آپ نے اسی طرح چند مردوں کو شمار کیا.921
حاب بدر جلد 2 395 حضرت ابو بکر صدیق 922 حضرت سلمہ بن اکوع بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر سب لوگوں سے افضل اور بہتر ہے سوائے اس کے کہ کوئی نبی ہو.حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اُمت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا ابو بکر ہے.923 حضرت ابوسعید نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یابلند درجات والے جو اُن کے نیچے والے ہیں وہ ان کو دیکھیں گے جس طرح تم طلوع ہونے والے ستارے کو دیکھتے ہو یعنی بلند درجات والے ایسے بلند درجہ پر ہوں گے کہ جو نیچے درجے کے ہوں گے وہ ان کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم طلوع ہونے والے ستارے کو آسمان کی طرف دیکھتے ہو ، آسمان کے افق میں دیکھتے ہو.اور ابو بکر و عمران میں سے ہیں.یعنی وہ بلند ہیں.ان کو لوگ اس طرح دیکھیں گے جس طرح بلند ستارے کو دیکھا جاتا ہے.آپ نے فرمایا اور وہ دونوں کیا ہی خوب ہیں.حضرت ابوہریرہ نے بیان کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کسی کا ہم پر کوئی احسان نہیں مگر ہم نے اس کا بدلہ چکا دیا سوائے ابو بکر کے.اس کا ہم پر احسان ہے اور اس کو اس کا بدلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دے گا.925 924 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری بیماری میں فرمایا: لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جو بلحاظ اپنی جان اور مال سے مجھ پر ابو بکر بن ابو قحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو.اگر میں لوگوں میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ضرور ابو بکر کو ہی خلیل بناتا لیکن اسلام کی دوستی سب سے افضل ہے.اس مسجد میں تمام کھڑکیوں کو میری طرف سے بند کر دو سوائے ابو بکر کی کھڑکی کے.926 یہ صحیح بخاری کی روایت ہے.ی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا.ابو بکر مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں.ابو بکر دنیاو آخرت میں میرے بھائی ہیں.927 سنن ترمذی کی روایت یہ ہے کہ : حضرت انس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے بارے میں فرمایا یہ دونوں سردار ہیں اہل جنت کے.اہل جنت کے بڑی عمر والوں کے پہلوں میں سے اور آخرین میں سے سوائے نبیوں اور رسولوں کے.اے علی ! ان دونوں کو نہ بتانا.928 راوی کہتے ہیں کہ جب آپ نے یہ روایت کی تو حضرت علی کو بتانے سے روک دیا.حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین اور انصار میں سے اپنے صحابہ کے پاس باہر تشریف لاتے اور بیٹھے ہوتے اور ان میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ہوتے.تو ان میں سے کوئی بھی اپنی نظر آپ کی طرف نہ اٹھاتا سوائے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے.وہ دونوں آپ کی طرف دیکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھتے اور وہ آپ کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور
حاب بدر جلد 2 396 حضرت ابو بکر صدیق آپ ان دونوں کو دیکھ کر مسکراتے.29 929 930 حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکڑ سے فرمایا تم حوض پر میرے ساتھی ہو اور غار میں میرے ساتھی ہو.حضرت جبیر بن مطعم نے بیان کیا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ سے کسی چیز کے بارے میں بات کی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کوئی ارشاد فرمایا.اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کا کیا خیال ہے اگر میں آپ کو نہ پاؤں یعنی آپ کے بعد ، وفات کے بعد اگر مجھے ضرورت ہو تو آپ نے فرمایا اگر مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس آنا.131 931 وہ تمہاری ضرورت پوری کر دے گا.حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز باہر تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ان دونوں میں سے ایک آپ کے دائیں جانب تھا اور دوسرا آپ کے بائیں جانب اور آپ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور فرمایا.اس طرح ہم قیامت کے روز اٹھائے جائیں گے.رض 932 حضرت عبد اللہ بن حنطب سے مروی ہے کہ: 933 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو دیکھا اور فرمایا یہ دونوں کان اور آنکھیں ہیں یعنی میرے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں.حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے آسمان والوں میں سے دو وزیر ہوتے ہیں اور زمین والوں میں سے بھی دو وزیر ہوتے ہیں.آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر جبرئیل اور میکائیل ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابو بکر اور عمر ہیں.934 پھر آپ کو جنت کی بشارت بھی دی.سعید بن مسیب نے کہا حضرت ابو موسیٰ اشعری نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا.پھر باہر نکلے اور کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لگا رہوں گا اور آج سارا دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہوں گا.یعنی وہ دن انہوں نے آپ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا.انہوں نے کہا کہ وہ مسجد میں آئے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پوچھا.لوگوں نے کہا کہ باہر نکلے ہیں اور اس طرف گئے ہیں.کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا گیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق پوچھتا بچھا تارہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بئر آریس (مسجد قبا کے قریب ایک کنواں تھا) میں داخل ہو گئے.میں دروازے کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں کا تھا.جب رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور میں اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا تو کیا دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بئر آریس پر بیٹھے ہیں اور اس کی منڈیر کے وسط میں تھے اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھائے ہوئے
اصحاب بدر جلد 2 397 حضرت ابو بکر صدیق تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کو کنویں میں لٹکائے ہوئے تھے یعنی اپنے دونوں پاؤں لٹکائے ہوئے تھے.میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا.پھر واپس مڑا اور دروازے پر بیٹھ گیا.میں نے کہا آج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان بنوں گا.اتنے میں حضرت ابو بکر آئے اور انہوں نے دروازے کو دھکیلا.میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا ابو بکر.میں نے کہا ٹھہر یے.پھر میں نے جا کر کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو بکر نہیں جو اجازت چاہتے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اجازت دو اور ان کو جنت کی بشارت دو.میں آیا یہاں تک کہ میں نے حضرت ابو بکر سے کہا اندر آ جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو جنت کی بشارت دیتے ہیں.حضرت ابو بکر اندر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منڈیر پر بیٹھ گئے.انہوں نے بھی اپنے پاؤں کنویں میں لڑکا دیے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا.پھر میں واپس آیا اور بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی کو چھوڑ کر آیا تھا کہ وضو کر کے مجھ سے آملے.میں نے دل میں کہا کہ اگر اللہ فلاں کے بارے میں بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے ، ان کی مراد اپنے بھائی سے تھی.تو وہ اس کو لے آئے گا.کیا دیکھا کہ کوئی انسان دروازے کو ہلا رہا ہے.میں نے کہا یہ کون ہے ؟ اس نے کہا عمر بن خطاب.میں نے کہا ٹھہر یے.پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور میں نے کہا عمر بن خطاب ہیں.وہ اجازت چاہتے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اجازت دو اور ان کو جنت کی بشارت دو.میں آیا.میں نے کہا اندر آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے.وہ اندر آئے اور منڈیر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا دیے.پھر میں لوٹ آیا اور بیٹھ گیا.میں نے کہا اگر اللہ نے فلاں کی بہتری چاہی تو اس کو لے آئے گا.دوبارہ اپنے بھائی کے بارے میں سوچا.اتنے میں ایک آدمی آیا.وہ دروازے کو ہلانے لگا.میں نے کہا یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا عثمان بن عفان.میں نے کہا ٹھہریے.میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو اجازت دو اور ان کو جنت کی بشارت دو.اور حضرت عثمان کے بارے میں ساتھ یہ بھی فرمایا کہ باوجود اس ایک بڑی مصیبت کے جو انہیں پہنچے گی ان کو جنت کی بشارت دو.میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا اندر آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے باوجود ایک بڑی مصیبت کے جو آپ کو پہنچے گی.وہ اندر آئے اور دیکھا کہ منڈیر کا ایک کنارہ بھر گیا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوسری طرف بیٹھ گئے.حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم احد پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان تھے تو وہ ملنے لگا.آپ نے فرمایا احد! ٹھہر جا.میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا پاؤں بھی مارا کیونکہ تم پر اور کوئی نہیں صرف ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں.136 935
محاب بدر جلد 2 398 رض حضرت ابو بکر صدیق حضرت سعید بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں نو لوگوں کے بارے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر دسویں کے بارے میں بھی یہی کہوں تو گنہ گار نہیں ہوں گا.انہوں نے کہا کیسے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے تو وہ ملنے لگا.پہلی روایت بخاری کی تھی یہ ترمذی کی ہے اور اس میں حرا کا ذکر ہے.اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھہرارہ اسے حرا! یقیناً تجھ پر ایک نبی یا صدیق یا شہید ہیں.کسی نے پوچھا: وہ دس جنتی لوگ کون ہیں.حضرت سعید بن زید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ ، زبیر ، سعد اور عبد الرحمن بن عوف ہیں اور کہا گیا کہ دسواں کون ہے تو سعید بن زید نے کہا وہ میں ہوں.7 یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ اس روایت میں ان دس عظیم المرتبت صحابہ کا ذکر ہے جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دے دی تھی.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب بھی تھے اور مشیر بھی تھے جن کو سیرت کی اصطلاح میں عشرہ مبشرہ کہتے ہیں یعنی دس وہ لوگ جنہیں جنت کی بشارت دی گئی تھی لیکن یہ مد نظر رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دس کے بارے میں ہی جنت کی بشارت نہیں دی تھی بلکہ اس کے علاوہ بھی متعدد ایسے 937 صحابہ اور صحابیات ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی خوشخبری دی تھی.چنانچہ ان دس کے علاوہ کم و بیش پچاس کے قریب صحابہ و صحابیات کے ناموں کا ذکر بھی ملتا ہے.اس کے علاوہ جنگ بدر میں شامل ہونے والوں جو کہ تین سو تیرہ کے قریب تھے اور جنگ احد میں شامل ہونے والوں اور بیعت رضوان صلح حدیبیہ کے موقع پر شامل ہونے والوں کے متعلق بھی جنت کی خوشخبری دی گئی تھی.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے آج کون روزہ دار ہے ؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ میں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون تم میں سے آج جنازے کے ساتھ گیا؟ حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا کہ میں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کس نے آج کسی مسکین کو کھانا کھلایا؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں نے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کس نے آج کسی مریض کی عیادت کی ؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ میں نے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جس آدمی میں یہ سب باتیں جمع ہو گئیں وہ جنت میں داخل ہو گیا.938 یہ صحیح مسلم کا حوالہ ہے.حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جبریل میرے پاس آیا اور اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہو گی.حضرت ابو بکر نے عرض کیا کاش! میں بھی آپ کے ساتھ ہوتا تاکہ میں بھی اسے دیکھتا تو آپ نے فرمایا: اے ابو بکر ! تم میری اُمت میں سے سب سے پہلے ہو جو جنت میں داخل ہو گے.939
ناب بدر جلد 2 399 حضرت ابو بکر صدیق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی بات کو بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مجلس میں تشریف رکھتے تھے اور آپ کے ارد گرد صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے یہ ذکر کرنا شروع کر دیا کہ جنت میں یوں ہو گا، یوں ہو گا اور پھر ان انعامات کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مقدر فرمائے ہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو فرمانے لگے یا رسول اللہ ! دعا کیجئے کہ جنت میں میں بھی آپ کے ساتھ ہوں.( بعض روایتوں میں ایک اور صحابی کا نام آتا ہے اور بعض روایتوں میں حضرت ابو بکر کا نام آتا ہے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں امید کرتاہوں کہ تم میرے ساتھ ہو گے اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتاہوں کہ ایسا ہی ہو.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تو قدرتی طور پر باقی صحابہ کے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں کہ ہمارے لئے بھی یہی دعا کی جائے.پہلے تو وہ اس خیال میں تھے کہ ہمارے یہ کہاں نصیب ہیں کہ ہم جنت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں مگر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ یا بعض روایتوں کے مطابق کسی اور صحابی نے یہ بات کہہ دی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا بھی فرمائی تھی تو اب انہیں نمونہ مل گیا اور انہیں پتہ لگ گیا کہ یہ عمل نا ممکن نہیں بلکہ ممکن ہے.چنانچہ ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ ! ے لئے بھی دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ جنت میں مجھے آپ کے ساتھ رکھے.آپ نے فرمایا: خدا تعالیٰ تم پر بھی فضل کرے مگر جس نے پہلے کہا تھا اب تو وہ دعالے گیا.حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ : ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جو شخص فلاں عبادت میں زیادہ حصہ لے گا وہ جنت کے فلاں دروازہ سے گزارا جائے گا اور جو فلاں عبادت میں زیادہ حصہ لے گا وہ فلاں دروازہ سے گزارا جائے گا.اسی طرح آپ نے مختلف عبادات کا نام لیا اور فرمایا: جنت کے سات دروازوں سے مختلف اعمال حسنہ پر زیادہ زور دینے والے لوگ گزارے جائیں گے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی اس مجلس میں بیٹھے تھے.انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! مختلف دروازوں سے تو وہ اس لئے گزارے جائیں گے کہ انہوں نے ایک ایک عبادت پر زور دیا ہو گا لیکن یارسول اللہ ! اگر کوئی شخص ساری عبادتوں پر ہی زور دے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا.آپ نے فرمایا: وہ جنت کے ساتوں دروازوں سے گزارا جائے گا اور اے ابو بکر میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی انہی میں سے ہو گے.941 آپ حسب و نسب کے ماہر تھے اور شعری ذوق بھی رکھنے والے تھے.لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق لوگوں میں سب سے زیادہ اہل عرب کے حسب و نسب کو جاننے والے تھے.جبیر بن مطعم جو کہ اس فن یعنی علم الانساب میں کمال تک پہنچے ہوئے تھے انہوں نے کہا میں نے نسب کا علم حضرت ابو بکر سے سیکھا ہے.خاص طور پر قریش کا حسب و نسب کیونکہ حضرت ابو بکر قریش 940❝
اصحاب بدر جلد 2 400 حضرت ابو بکر صدیق میں سے قریش کے حسب و نسب اور جو اچھائیاں اور برائیاں اُن کے نسب میں تھیں ان کا آپ سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے اور آپ اُن کی برائیوں کا تذکرہ نہیں کرتے تھے.اسی وجہ سے آپ حضرت عقیل بن ابو طالب کی نسبت ان میں زیادہ مقبول تھے یعنی قریش میں زیادہ مقبول تھے.حضرت عقیل حضرت ابو بکر کے بعد قریش کے حسب و نسب اور ان کے آباؤ اجداد اور ان کی اچھائیوں اور برائیوں کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے.مگر حضرت عقیل قریش کو ناپسندیدہ تھے کیونکہ وہ قریش کی برائیاں بھی گنوا دیتے تھے.حضرت عقیل مسجد نبوی میں نسب ناموں، عرب کے حالات و واقعات کا علم حاصل کرنے کے لیے حضرت ابو بکر کے پاس بیٹھا کرتے تھے.اہل مکہ کے نزدیک حضرت ابو بکر ان کے بہترین لوگوں میں سے تھے چنانچہ جب بھی انہیں ابو کوئی مشکل پیش آتی تو آپ سے مدد طلب کرتے تھے.942 بیان ہوا ہے کہ حضرت ابو بکر کو انساب عرب بالخصوص قریش کے نسب کا علم سب سے زیادہ ہے.چنانچہ جب قریش کے شعراء نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار کہے تو حضرت حسان بن ثابت کے سپرد یہ خدمت ہوئی کہ وہ اشعار میں ہی ان کے ہجو کا جواب دیں.حضرت حسان جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ تم قریش کی ہجو کیسے کہو گے جبکہ میں خود بھی قریش میں سے ہوں.اس پر حضرت حسان نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو ان سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے سے بال یا مکھن سے بال نکال لیا جاتا ہے.اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ تم حضرت ابو بکڑ کے پاس جاؤ اور ان سے قریش کے نسب کے بارے میں پوچھ لیا کرو.حضرت حسان کہتے تھے کہ پھر میں اشعار لکھنے سے پہلے حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوتا اور وہ میری قریش کے مر دوں اور عورتوں کے بارے میں راہنمائی فرماتے.چنانچہ جب حضرت حسان کے اشعار مکہ جاتے تو مکہ والے کہتے کہ ان اشعار کے پیچھے ابو بکر کی راہنمائی اور مشورہ شامل ہے.943 حضرت ابو بکر علم الانساب کی طرح ایام عرب یعنی عربوں کی باہم جنگوں کی تاریخ کے بھی بہت بڑے عالم تھے.اسی طرح حضرت ابو بکر گو کہ با قاعدہ شاعر تو نہ تھے لیکن شعری ذوق خوب تھا.حضرت ابو بکر صدیق کے سیرت نگاروں نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ آپ نے باقاعدہ طور پر شعر کہے تھے یا نہیں اور کچھ سیرت نگاروں نے نفی کی ہے کہ آپ نے اشعار کہے ہوں گے البتہ بعض سیرت نگاروں نے حضرت ابو بکر کے کچھ اشعار کا بھی ذکر کیا ہے.اسی طرح حضرت ابو بکر کے اشعار پر مشتمل، پیچیں قصائد پر مشتمل ایک مخطوطہ جو کہ ترکی کے کتب خانے سے دستیاب ہو ا ہے وہاں پڑا ہوا ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت ابو بکر کے اشعار ہیں.اس میں کسی لکھنے والے نے یہاں تک لکھا ہے کہ مجھے ان اشعار کی حضرت ابو بکر کی طرف نسب کی تصدیق الہامی طور پر ہوئی ہے.طبقات ابن سعد اور سیرت ابن ہشام
اصحاب بدر جلد 2 401 حضرت ابو بکر صدیق نے یہی لکھا ہے کہ حضرت ابو بکڑ نے کچھ اشعار کہے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر آپ کی تدفین کے بعد حضرت ابو بکڑ کے اشعار یہ بیان کیسے جاتے ہیں یعنی ترجمہ یہ ہے کہ اے آنکھ اتجھے سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر رونے کے حق کی قسم اتو روتی رہ اور اب تیرے آنسو کبھی نہ ھمیں.اے آنکھ اخندف یعنی قبیلہ قریش کے بہترین فرزند پر آنسو بہا جو کہ شام کے وقت لحد میں چھپا دیے گئے ہیں.پس بادشاہوں کے بادشاہ، بندوں کے والی اور عبادت کرنے والوں کے رب کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ہو.پس حبیب کے بچھڑ جانے کے بعد اب کیسی زندگی.دس جہانوں کو زینت بخشنے والی ہستی کی جدائی کے بعد کیسی آراستگی.پس جس طرح ہم سب زندگی میں بھی ساتھ ہی تھے ، کاش موت بھی ہم سب کو ایک ساتھ گھیرے میں لے لیتی.944 یہ اشعار کا ترجمہ ہے.آپ کی فراست کے بارے میں آتا ہے کہ بہت صاحب فراست تھے.حضرت ابوسعید خدری نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دیا ہے دنیا کا یا اس کا جو اللہ کے پاس ہے.تو اس نے جو اللہ کے پاس ہے اسے پسند کیا ہے.اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رو پڑے تو میں نے اپنے دل میں کہا اس بزرگ کو کیا بات ڈلا رہی ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے بندے کو دنیا یا جو اس کے پاس ہے پسند کرنے کے متعلق اختیار دیا ہے تو پھر اس نے جو اللہ عزو جل کے پاس ہے اسے چن لیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ بندے تھے اور حضرت ابو بکر ہم سب سے زیادہ علم رکھتے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو بکر امت رو.آگے ان کی روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر امت رو.یقینا تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر مجھ سے اپنی رفاقت اور اپنے مال کے ذریعہ نیکی کرنے والا ابو بکر ہی ہے.اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بنانے والا ہو تا تو میں ابو بکر کو بناتا لیکن اسلام کی برادری اور محبت ہی ہے.مسجد میں کوئی دروازہ نہ رہے مگر بند کر دیا جائے سوائے ابو بکر کے دروازے کے.فراست کے حوالے سے یہ حوالہ دوبارہ پیش کیا.یہ دروازوں کا جو حوالہ ہے پہلے بھی کہہ چکا ہوں.اس کی ایک تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمائی ہے جو آگے بیان کروں گا.بہر حال حضرت مصلح موعود اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام آئے تو ایک دن آپ تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا.اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہے اس کو اس کے خدا نے مخاطب کیا اور کہا اے میرے بندے! میں تجھے اختیار دیتا ہوں کہ چاہے تو دنیا میں رہ اور چاہے تو میرے پاس آجا.اس پر اس بندے نے خدا کے قرب کو پسند کیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تو حضرت ابو بکر رو پڑے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں “ یہاں حضرت عمرؓ کے حوالے سے بات ہو رہی ہے.”حضرت عمر کہتے ہیں کہ مجھے 945
اصحاب بدر جلد 2 402 946" حضرت ابو بکر صدیق ان کا رونا دیکھ کر سخت غصہ آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو کسی بندے کا واقعہ بیان فرمارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دیا کہ وہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو خدا تعالیٰ کے پاس چلا جائے.اور اس نے خدا تعالیٰ کے قرب کو پسند کیا، یہ بڑھا کیوں رو رہا ہے؟ مگر حضرت ابو بکر کی اتنی ہچکی بندھی، اتنی ہچکی بندھی کہ وہ کسی طرح رکھنے میں ہی نہیں آتی تھی.“ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو بکر سے مجھے اتنی محبت ہے کہ اگر خدا کے سوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہو تا تو میں ابو بکر کو بناتا.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں کے بعد وفات پاگئے تو اس وقت ہم نے سمجھا کہ ابو بکر شکار و نا سچا تھا اور ہمارا غصہ بیوقوفی کی علامت تھا.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر جن کو قرآن مجید کا یہ فہم ملا تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدہ 4) پڑھی تو حضرت ابو بکر رو پڑے.کسی نے پوچھا کہ یہ بڑھا کیوں روتا ہے ؟ تو آپ نے یعنی حضرت ابو بکر نے کہا کہ مجھے اس آیت سے پیغمبر خدا، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی بو آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہ السلام بطور حکام کے ہوتے ہیں جیسے بند وبست کا ملازم جب اپنا کام کر چکتا ہے تو وہاں سے چل دیتا ہے.اسی طرح انبیاء علیہم السلام جس کام کے واسطے دنیا میں آتے ہیں جب اس کو کر لیتے ہیں تو پھر وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں.پس جب الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لکم دینکم کی صدا پہنچی تو حضرت ابو بکر نے سمجھ لیا کہ یہ آخری صدا ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر کا فہم بہت بڑھا ہو ا تھا اور یہ جو احادیث میں آیا ہے کہ مسجد کی طرف سب کھڑکیاں بند کی جاویں.یہ کھڑ کی کی وضاحت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما دی کہ کھڑ کیاں بند کرنے سے کیا مراد ہے.فرمایا کہ یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ مسجد کی طرف سب کھڑکیاں بند کر دی جاویں مگر ابو بکر کی کھڑ کی مسجد کی طرف کھلی رہے گی اس میں یہی سر ہے کہ مسجد چونکہ مظہر اسرار الہی ہوتی ہے اس لیے حضرت ابو بکر صدیق کی طرف یہ دروازہ بند نہیں ہو گا.اللہ تعالیٰ کے اسرار ، راز، باتوں میں گہرائی، اللہ تعالیٰ کی باتوں میں جو حکمت ہے وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہمیشہ کھلی رہے گی.بعد میں بھی کھلتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام استعارات اور مجاز سے کام لیتے ہیں.جو شخص خشک ملاؤں کی طرح یہ کہتا ہے کہ نہیں ظاہر ہی ظاہر ہوتا ہے وہ سخت غلطی کرتا ہے.مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے سے یہ کہنا کہ یہ دہلیز بدل دے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سونے کے کڑے دیکھنا وغیرہ امور اپنے ظاہری معنوں پر نہیں تھے بلکہ استعارہ اور مجاز کے طور پر تھے.ان کے اندر ایک اور حقیقت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ غرض مدعا یہی تھی کہ حضرت ابو بکر کو فہم قرآن سب سے زیادہ دیا گیا تھا اس لیے حضرت ابو بکر نے یہ استدلال کیا.آپ فرماتے ہیں کہ میر اتو یہ مذہب
حاب بدر جلد 2 403 حضرت ابو بکر صدیق ہے کہ اگر یہ معانی بظاہر معارض بھی ہوتے تب بھی تقوی اور دیانتداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ ابو بکر ہی کی مانتے یعنی لوگ انہی کی بات مانتے مگر یہاں تو ایک لفظ بھی قرآن مجید میں ایسا نہیں ہے جو حضرت ابو بکر کے معنوں کا معارض ہو.آپ فرماتے ہیں کہ مولویوں سے پوچھو کہ ابو بکر دانشمند تھے کہ نہیں.کیا وہ ابو بکر نہ تھے جو صدیق کہلایا.کیا یہی وہ شخص نہیں جو سب سے پہلے خلیفہ رسول اللہ کا بنا.جس نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی کہ خطرناک ارتداد کی وبا کو روک دیا.فرماتے ہیں: اچھا اور باتیں جانے دو.یہی بتاؤ کہ حضرت ابو بکر کو منبر پر چڑھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی.پھر تقویٰ سے یہ بتاؤ کہ انہوں نے جو مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران :145) پڑھا تو اس سے استدلال تام کرنا تھا یا ایسا ناقص کہ ایک بچہ بھی کہہ سکتا کہ عیسی کو موتی سمجھنے والا کافر ہو جاتا ہے.947 یعنی مکمل یہ آیت پڑھنے کا مطلب ہی یہ تھا کہ ایک بڑا واضح اور ٹھوس دلیل دی جائے نہ کہ ناقص دلیل.وو پھر ایک اور موقع پر اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں که " الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینگھ کی آیت دو پہلو ر کھتی ہے.ایک یہ کہ تمہاری تطہیر کر چکا.دوم کتاب مکمل کر چکا.کہتے ہیں جب یہ آیت اتری تو ابو بکر رو پڑے.کسی نے کہا اے بڑھے.کیوں روتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی بو آتی ہے.کیونکہ یہ مقرر شدہ بات ہے کہ جب کام ہو چکتا ہے تو اس کا پورا ہونا ہی وفات پر دلالت کرتا ہے.جیسا دنیا میں بند وبست ہوتے ہیں اور جب وہ ختم ہو جاتا ہے تو عملہ وہاں سے رخصت ہو تا ہے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر والا قصہ سنا تو فرمایا سب سے سمجھدار ابو بکر ہے اور یہ فرمایا کہ اگر دنیا میں کسی کو دوست رکھتا تو ابو بکر کو رکھتا اور فرمایا.ابو بکر کی کھڑ کی مسجد میں کھلی رہے باقی سب بند کر دو.کوئی پوچھے کہ اس میں مناسبت کیا ہوئی اس سے کیا مراد ہے کہ دوست رکھتا، پھر کھڑ کی کھلی رہے گی.آپ مناسبت بیان فرمارہے ہیں کہ ”تو یاد رکھو کہ مسجد خانہ خدا ہے جو سر چشمہ ہے تمام حقائق و معارف کا.اس لئے فرمایا کہ ابو بکر کی اندرونی کھڑ کی اس طرف ہے تو اس کے لئے یہ بھی کھڑ کی رکھی جاوے.یہ بات نہیں کہ اور صحابہ محروم تھے.“ ان میں بھی بڑے بڑے فراست والے تھے لیکن سب سے زیادہ حضرت ابو بکر میں تھی بلکہ ابو بکر کی فضیلت وہ ذاتی فیر است تھی جس نے ابتداء میں بھی اپنا نمونہ دکھایا اور انتہاء میں بھی.گویا ابو بکر کا وجود مَجْمُوعَةُ الْفِرَاسَتَيْن تھا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” (حضرت ابو بکر صدیق صاحب تجربہ اور صاحب فراست لوگوں میں سے تھے.آپ نے بہت سے پیچیدہ امور اور ان کی سختیوں کو دیکھا اور کئی معرکوں میں شامل ہوئے اور ان کی جنگی چالوں کا مشاہدہ کیا.اور آپ نے کئی صحر او کو ہسار روندے اور کتنے ہی ہلاکت کے مقامات تھے جن میں آپ بے دریغ گھس گئے.اور کتنی سج راہیں تھیں جن کو آپ نے سیدھا کیا.اور کئی جنگوں میں آپ نے پیش قدمی کی اور کتنے ہی فتنے تھے جن کو آپ نے نیست و نابود کیا
تاب بدر جلد 2 404 حضرت ابو بکر صدیق اور کتنی ہی سواریاں تھیں جن کو آپ نے سفروں میں دبلا کیا“ یعنی بے شمار سفر کیسے کہ سواریاں تھک جاتی تھیں ” اور بہت سے مراحل طے کئے یہاں تک کہ آپ صاحب تجربہ و فراست بن گئے.آپ مصائب پر صبر کرنے والے اور صاحب ریاضت تھے.پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی آیات کے مورد صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لئے چنا اور آپ کے صدق و ثبات کے باعث آپ کی تعریف کی.یہ اشارہ تھا اس بات کا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیاروں میں سے سب سے بڑھ کر ہیں.آپ حریت کے خمیر سے پیدا کئے گئے اور وفا آپ کی گھٹی میں تھی.اس وجہ سے آپ کو خوفناک اہم امر اور ہوش ربا خوف کے وقت منتخب کیا گیا اور اللہ علیم و حکیم ہے.وہ تمام امور کو ان کے موقع و محل پر رکھتا اور پانیوں کو ان کے ( مناسب حال) سرچشموں سے جاری کرتا ہے.سو اس نے ابن ابی قحافہ پر نگاہ التفات ڈالی اور اس پر خاص احسان فرمایا.اور اسے ایک یگانہ روز گار شخصیت بنا دیا.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور وہ بات کرنے والوں میں سب سے سچا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا اور اللہ تعالیٰ بات کرنے والوں میں سے سب سے سچا ہے.کیا فرمایا.” إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَانْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ ادَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حکیم (سورۃ التوبہ آیت 40) اگر تم اس (رسول) کی مدد نہ بھی کرو تو اللہ (پہلے بھی) اس کی مدد کر چکا ہے جب اسے ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا ( وطن سے) نکال دیا تھا اس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا.جب وہ دونوں غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے.پس اللہ نے اس پر اپنی سکینت نازل کی اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے کبھی نہیں دیکھا اور اس نے ان لوگوں کی بات نیچی کر دکھائی جنہوں نے کفر کیا تھا اور بات اللہ ہی کی غالب ہوتی ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے.حضرت ابو بکر کو تعبیر الرؤیا کا فن بھی بہت آتا تھا.لکھا ہے کہ : 9496 علم تعبیر میں حضرت ابو بکر صدیق "بڑا ملکہ رکھتے تھے.علم تعبیر میں آپ کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل تھی.یہاں تک کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں آپ خوابوں کی تعبیر بتایا کرتے تھے.امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت 950 ابو بکر صدیق نسب سے بڑے معتر تھے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ چند خوابوں کی تعبیریں بیان کی جاتی ہیں.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ احد سے واپسی کے موقع پر ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یارسول اللہ ! میں نے خواب میں ایک بادل دیکھا ہے جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ لوگ اپنے ہاتھوں میں اس سے لے رہے تھے.کوئی زیادہ لینے والا کوئی تھوڑا لینے والا
اصحاب بدر جلد 2 405 حضرت ابو بکر صدیق اور میں نے ایک رسی دیکھی جو آسمان تک پہنچی ہوئی تھی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اسے پکڑا اور اس کے ذریعہ اوپر چلے گئے.اس کے بعد ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اس کے ذریعہ اوپر چلا گیا.اس کے بعد ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا.پھر اس کے بعد ایک اور شخص نے اس رسی کو پکڑا اور وہ ٹوٹ گئی.پھر اس کے لیے جوڑ دی گئی اور وہ اس کے ذریعہ اوپر چڑھ گیا.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس کی تعبیر کرنے دیجیے.اجازت ہو تو میں تعبیر کروں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی تعبیر کرو تو حضرت ابو بکر نے کہا کہ سایہ کرنے والا بادل تو اسلام ہے اور جو شہر اور گھی اس میں سے ٹپک رہا تھا وہ قرآن ہے.اس کی شیرینی اور اس کی لطافت اور لوگ اس سے جو شہد اور گھی لے رہے ہیں اس سے مراد قرآن حاصل کرنے والا ہے.یعنی قرآن کریم کا علم حاصل کرنے والا زیادہ یا تھوڑا.اور وہ رسی جو آسمان تک پہنچی ہوئی ہے تو وہ حق ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لیا اور اس کے ذریعہ آپ بلند ہو گئے.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کو ایک اور آدمی لے گا اور اس کے ذریعہ بلند ہو گا.پھر ایک اور ، وہ بھی اس کے ذریعہ بلند ہو گا.پھر ایک اور ، اور وہ منقطع ہو جائے گی.پھر اس کے لیے جوڑی جائے گی اور وہ اس کے ذریعہ بلند ہو گا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے کچھ صحیح کہا اور کچھ غلطی کی ہے.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یار سول اللہ ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دیتا ہوں آپ مجھے ضرور بتائیے جو میں نے ٹھیک کہا اور جو میں نے غلطی کی ہے.نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو بکر قسم نہ دو.951 یعنی آپ نہیں چاہتے تھے کہ جو صحیح تعبیر ہے وہ اس وقت واضح طور پر بتائی جائے.اس لیے آپ نے فرمایا کہ قسم نہ دو.بس ٹھیک ہے جتنی تم نے کر دی ہے وہی کافی ہے.ابن شہاب سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب دیکھا.اس خواب کو حضرت ابو بکر کے سامنے بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ جیسے میں اور تم ایک زینے پر چڑھے ہوں اور میں تم سے اڑھائی زینے آگے بڑھ گیا ہوں.انہوں نے کہا خیر ہے یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ آپ کو اس وقت تک باقی رکھے گا کہ آپ اپنی آنکھوں سے وہ چیز دیکھ لیں جو آپ کو مسرور کرے اور خوش کرے اور آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے.آپ نے ان کے سامنے اسی طرح تین مرتبہ دہرایا.تیسری مرتبہ فرمایا کہ اے ابو بکر ! میں نے خواب دیکھا کہ جیسے میں اور تم ایک زینے پر چڑھے.میں تم سے اڑھائی سیڑھی آگے بڑھ گیا.انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ آپ کو اپنی رحمت اور مغفرت کی طرف اٹھالے گا اور میں آپ کے بعد اڑھائی سال تک زندہ رہوں گا.952 حضرت ابو بکر نے اس کی یہ تشریح کی اور اسی طرح ہوا.
محاب بدر جلد 2 953 406 حضرت ابو بکر صدیق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے خواب میں اپنے حجرے میں تین چاند گرتے ہوئے دیکھے تو میں نے اپنی خواب اپنے والد حضرت ابو بکر صدیق کے سامنے بیان کی.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین حضرت عائشہ کے حجرے میں عمل میں آئی تو حضرت ابو بکر نے آپؐ سے کہا یہ تمہارے چاندوں میں سے ایک ہے اور یہ ان میں سے بہترین ہے.3 حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ کالی بکریوں کا ریوڑ میری پیروی کر رہا ہے اور ان کے پیچھے خاکستری رنگ کی بکریوں کا ریوڑ ہے.اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ عرب آپ کی پیروی کریں گے اور پھر عجم ان کی پیروی کریں گے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے نے بھی یہی تعبیر کی ہے.954 یہ تو خوابوں کا ذکر تھا.اب یہ ذکر ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے مسلمان کون تھا؟ تو اس بارے میں یہی ہے کہ حضرت ابو بکر کیا ہی کہا جاتا ہے.حضرت عمار بن یاسر کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ابتدائی زمانے میں دیکھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف پانچ غلام اور دو عور تیں اور حضرت ابو بکر تھے.955 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تصنیف سیرت خاتم النبیین میں تفصیلی نوٹ لکھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں اور انہوں نے یہ بحث کی ہے کہ سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کون ایمان لایا تھا؟ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے مشن کی تبلیغ شروع کی تو سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہ تھیں جنہوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی تردد نہیں کیا.حضرت خدیجہ کے بعد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے کے متعلق مورخین میں اختلاف ہے.بعض حضرت ابو بکر عبد اللہ بن ابی قحافہ کا نام لیتے ہیں.بعض حضرت علی کا جن کی عمر اس وقت صرف دس سال کی تھی اور بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ کا.مگر ہمارے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے.حضرت علی اور زید بن حارثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے آدمی تھے اور آپ کے بچوں کی طرح آپ کے ساتھ رہتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا تھا اور ان کا ایمان لانا.( یعنی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا اس پر ان کو یقین تھا اور ایمان تھا اس لیے یہ کہنا کہ آپ ایمان لائے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کیونکہ ان کی عمر چھوٹی تھی اور گھر کے فرد تھے) بلکہ ان کی طرف سے تو شاید کسی قولی اقرار کی بھی ضرورت نہ تھی.پس ان کا نام بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں اور جو باقی رہے ان سب میں سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمہ طور پر مقدم اور سابق بالا یمان تھے.رض
حاب بدر جلد 2 407 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر اپنی شرافت اور قابلیت کی وجہ سے قریش میں بہت مکرم و معزز تھے اور اسلام میں تو اُن کو وہ رتبہ حاصل ہوا جو کسی اور صحابی کو حاصل نہیں تھا.حضرت ابو بکر نے ایک لمحہ کے لیے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ میں شک نہیں کیا بلکہ سنتے ہی قبول کیا اور پھر انہوں نے اپنی ساری توجہ اور اپنی جان اور مال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی خدمت میں وقف کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں ابو بکر کو زیادہ عزیز رکھتے تھے اور آپ کی وفات کے بعد وہ آپ کے پہلے خلیفہ ہوئے.اپنی خلافت کے زمانہ میں بھی انہوں نے بے نظیر قابلیت کا ثبوت دیا.حضرت ابو بکر کے متعلق یورپ کا مشہور مستشرق سپر نگر لکھتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آغاز اسلام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خواہ دھوکا کھانے والے ہوں مگر دھوکا دینے والے ہر گز نہیں تھے بلکہ صدق دل سے اپنے آپ کو خدا کا رسول یقین کرتے تھے.اور سرولیم میور کو بھی سپر نگر کی اس رائے سے کلی اتفاق ہے.حضرت خدیجہ ، حضرت ابو بکر، حضرت علی اور زید بن حارثہ کے بعد اسلام لانے والوں میں پانچ اشخاص تھے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ سے ایمان لائے اور یہ سب کے سب اسلام میں ایسے جلیل القدر اور عالی مرتبہ اصحاب نکلے کہ چوٹی کے صحابہ میں شمار کیے جاتے تھے.ان کے نام یہ ہیں.اوّل حضرت عثمان بن عفان.دوسرے عبد الرحمن بن عوف.تیسرے سعد بن ابی وقاص.چوتھے زبیر بن عوام.پانچویں طلحہ بن عبید اللہ.یہ پانچوں اصحاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں یعنی ان دس اصحاب میں داخل ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے خاص طور پر جنت کی بشارت دی تھی اور جو آپ کے نہایت مقرب صحابی اور مشیر شمار ہوتے تھے.956 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک موقع پر جماعت کو مالی تحریک کر رہے تھے تو اس میں آپ نے اس کو اس واقعہ کے ساتھ بھی جوڑا.آپ لکھتے ہیں کہ ”مومن ایسی تحریکوں پر گھبراتا نہیں“ یعنی مالی تحریکوں پر یا قربانی کی تحریکوں پر ”بلکہ خوش ہوتا ہے اور اس کو فخر ہوتا ہے کہ تحریک سب سے پہلے مجھ تک پہنچی.وہ ڈرتا نہیں بلکہ اس پر اس کو ناز ہوتا ہے اور خد اتعالیٰ کا وہ شکر یہ ادا کرتا ہے اور سب سے زیادہ اس کی راہ میں قربانی کرتا ہے اور درجہ بھی سب سے بڑھ کر پاتا ہے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ جو جو قربانیاں حضرت ابو بکر نے کیں یا جس جس خدمت کا ان کو موقع حاصل ہوا ہے وہ آرزو کرتے تھے کہ مجھے سب سے پہلے ان قربانیوں کا کیوں موقع ملا.کبھی سوچا ہو گا، خواہش کی ہوگی کہ کیوں مجھے موقع ملا.”انہوں نے بڑی خوشی کے ساتھ اپنے آپ کو خطرات میں ڈالا اور خدا کی راہ میں تکلیفیں اٹھائیں.اس لئے انہوں نے وہ درجہ پایا جو حضرت عمر بھی نہ پاسکے.کیونکہ جو پہلے ایمان لاتا ہے اس کو سب سے پہلے قربانیوں کا موقع ملتا ہے حالانکہ خطرات حضرت عمرؓ کے ایمان لانے کے وقت بھی تھے.تکلیفیں دی جاتی تھیں.نمازیں نہیں پڑھنے دیتے تھے.صحابہ وطنوں سے بے وطن ہو رہے تھے.پہلی ہجرت حبشہ جاری تھی.ترقیوں کا زمانہ ان کے ایمان لانے کے بہت بعد شروع ہو ا مگر پھر بھی جو مر تبہ حضرت ابو بکر
حاب بدر جلد 2 408 حضرت ابو بکر صدیق کو ابتداء میں ایمان لانے اور ابتداء میں قربانیوں کا موقع میسر آنے کی وجہ سے حاصل ہوا، حضرت عمر اس کی برابری نہ کر سکے.یہی وجہ ہے ایک دفعہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فما اختلاف ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ جس وقت اسلام سے انکار کر رہے تھے اس وقت ابو بکر نے اسلام کو قبول کیا اور جس وقت تم اسلام کی مخالفت کر رہے تھے اس نے اسلام کی مدد کی اب تم اس کو کیوں دکھ دیتے ہو.تو ان کے پہلے ایمان لانے اور قربانیوں کا اظہار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حالانکہ تکلیفیں حضرت عمر نے بھی اٹھائیں اور قربانیاں انہوں نے بھی کی تھیں.پس حضرت ابو بکر کو اس سبقت پر فخر حاصل تھا.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابو بکر یہ چاہتے ہوں گے کہ کاش ! فتح مکہ کے وقت ان کو ایمان لانے کا موقع ملتا بلکہ اگر دنیا کی بادشاہت کو بھی ان کے سامنے رکھ دیا جاتا تو حضرت ابو بکر اس کو نہایت حقیر بدلہ قرار دیتے اور منظور نہ کرتے بلکہ وہ اس مرتبہ کے معاوضہ میں دنیا کی بادشاہت کو پاؤں سے ٹھو کر مارنے کی تکلیف بھی گوارا نہ کرتے.پس یہ ان کی قربانیوں کا صلہ تھا اور اس طرح اللہ تعالٰی درجہ بہ درجہ صلہ دیتا ہے.غلاموں کے آزاد کروانے کے بارے میں لکھا ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے کہ ابو بَكْرٍ سَيْدُنَا وَاعْتَقَ سَيْدَنَا يَعْنِى بِلَالًا - 8 ابو بکر ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار کو آزاد کیا.ان کی مراد حضرت بلال سے تھی.حضرت ابو بکر صدیق نے آغاز اسلام میں اپنے مال سے سات غلاموں کو آزاد کروایا جنہیں اللہ کی وجہ سے تکلیف دی جاتی تھی.ان غلاموں کے نام یہ ہیں.حضرت بلال رضی اللہ عنہ.عامر بن فھیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ.زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا.نَهْدِیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کی بیٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کی بیٹی بنی مؤمل کی ایک لونڈی اور اُم عُبَیس.957" 958 959 مخالف بھی حضرت ابو بکر کی نیکی اور اخلاق فاضلہ کے قائل تھے چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ”ابو بکر جیسا انسان جس کا سارا مکہ ممنون احسان تھا.وہ جو کچھ کماتے تھے غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کر دیتے تھے.آپ ایک دفعہ مکہ کو چھوڑ کر جارہے تھے کہ ایک رئیس آپ سے راستہ میں ملا اور اس نے پوچھا ابو بکر تم کہاں جارہے ہو آپ نے فرمایا اس شہر میں اب میرے لئے امن نہیں ہے میں اب کہیں اور جارہا ہوں.اس رئیس نے کہا تمہارے جیسانیک آدمی اگر شہر سے نکل گیا تو شہر برباد ہو جائے گا.میں تمہیں پناہ دیتا ہوں تم شہر چھوڑ کر نہ جاؤ.آپ اُس رئیس کی پناہ میں واپس آگئے.آپ جب صبح کو اٹھتے اور قرآن پڑھتے تو عور تیں اور بچے دیوار کے ساتھ کان لگا لگا کر قرآن سنتے کیونکہ آپ کی آواز میں بڑی رفت، سوز اور درد تھا اور قرآن کریم چونکہ عربی میں تھا ہر عورت، مرد ، بچہ اس کے معنی سمجھتا تھا اور سننے والے اس سے متاثر ہوتے تھے.جب یہ بات پھیلی تو مکہ میں شور پڑ گیا کہ اس طرح تو سب لوگ بے دین ہو جائیں گے.آخر لوگ اُس رئیس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ تم نے اس کو پناہ میں کیوں لے رکھا ہے.اس رئیس نے آکر
بدر جلد 2 409 960❝ حضرت ابو بکر صدیق آپ سے کہا کہ آپ اس طرح قرآن نہ پڑھا کریں.مکہ کے لوگ اس سے ناراض ہوتے ہیں.حضرت ابو بکر نے فرمایا پھر اپنی پناہ تم واپس لے لو میں تو اس سے باز نہیں آسکتا.چنانچہ اس رئیس نے اپنی پناہ واپس لے لی.یہ آپ کے تقویٰ اور طہارت کا کتنا ز بر دست ثبوت ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ لوگ شدید دشمن تھے اور آپ کو گالیاں بھی دیا کرتے تھے لیکن ابو بکر کی پاکیزگی کے وہ اتنے قائل تھے کہ اس رئیس نے کہا آپ کے نکل جانے سے شہر برباد ہو جائے گا.امامت نماز کے بارے میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں جن چند احباب کو مسجد نبوی میں نماز پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی ان میں حضرت ابو بکر بھی ہیں اور حضرت ابو بکر کی ایک خصوصی سعادت یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں تو بالخصوص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق نمازیں پڑھانے کی سعادت میسر آئی.اس بارے میں متفرق روایات ہیں.حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یاوہ لوگ جن میں ابو بکر ہوں ان کے لیے مناسب نہیں کہ ان کے علاوہ کوئی اور ان کی امامت کروائے.اسود بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھے کہ اتنے میں ہم نے نماز پر باقاعدگی اور اس کی عظمت کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بیماری سے بیمار ہوئے جس میں آپ فوت ہو گئے تھے تو نماز کا وقت ہوا اور اذان دی گئی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو آپ سے عرض کیا گیا کہ ابو بکر رقیق القلب ہیں.جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو وہ لوگوں کو نماز نہیں پڑھا سکیں گے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر وہی عرض کیا گیا کہ رقیق اقب میں تو آپ نے تیسری مرتبہ پھر فرمایا اور کہ تم یوسف والیاں ہوں.یعنی اس طرح کی باتیں کر رہی ہو.ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں.961 تب حضرت ابو بکر نماز پڑھانے کے لیے نکلے.نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ افاقہ محسوس کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ کو دو آدمیوں کے در میان سہارا دیا جارہا تھا.وہ کہتی ہیں مجھے یہ ایسا ہی یاد ہے گویا کہ میں اب بھی دیکھ رہی ہوں کہ آپ کے پاؤں بیماری کی وجہ سے زمین پر لکیریں ڈال رہے تھے یعنی صحیح طرح چل نہیں سکتے تھے.پاؤں اٹھا نہیں سکتے تھے تو پاؤں زمین میں گھسٹ رہے تھے.حضرت ابو بکر نے جب آپ کو اس طرح آتے ہوئے دیکھا تو چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر ہی رہیں.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لایا گیا یہاں تک کہ آپ حضرت ابو بکر کے پہلو میں بیٹھ گئے.اعمش سے کہا گیا اور کیا نبی نماز پڑھا رہے تھے اور حضرت ابو بکر آپ کی نماز کی اقتدا میں پڑھتے تھے اور لوگ حضرت ابو بکر کی نماز کی اقتدا میں پڑھتے تھے تو انہوں نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر کے بائیں طرف بیٹھے اور حضرت ابو بکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے.2 962
محاب بدر جلد 2 410 رض حضرت ابو بکر صدیق حضرت انس بن مالک انصاری نے ، یہ راوی کہتے ہیں کہ مجھے بتایا.انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اور خدمت کی اور آپ کی صحبت میں رہے.پھر بتایا کہ ابو بکر اُن لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری میں جس میں آپ کی وفات ہو گئی یہاں تک کہ جب پیر کا دن ہوا اور وہ نماز میں صفوں میں تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے کا پردہ اٹھایا.آپ ہمیں دیکھ رہے تھے اور آپ کھڑے ہوئے تھے.گویا کہ آپ کا چہرہ مبارک قرآن مجید کا ورق تھا.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر تبسم فرمایا اور ہمیں خیال ہوا کہ ہم نبی کو دیکھنے کی وجہ سے خوشی سے آزمائش میں پڑ گئے ہیں.اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی ایڑھیوں کے بل پیچھے ہٹے تا وہ صف میں مل جائیں اور وہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لا رہے ہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی نماز پوری کرو اور پردہ ڈال دیا اور آپ اسی دن فوت ہو گئے.963 ایک روایت میں ہے کہ انہی دنوں میں ایک مرتبہ حضرت عمر نے نماز پڑھائی تھی.اس کی تفصیل یوں ملتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زمعہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدید ہو گئی اور میں مسلمانوں کی ایک جماعت میں آپ کی خدمت میں موجود تھا.حضرت بلال نے آپ کو نماز کے لیے بلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کو کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے.حضرت عبد اللہ بن زمعہ باہر نکلے تو دیکھا حضرت عمر لوگوں میں تھے اور حضرت ابو بکر موجود نہ تھے.کہتے ہیں میں نے کہا کہ اے عمر! کھڑے ہو جائیں اور لوگوں کو نماز پڑھائیں.وہ آگے بڑھے اور اللہ اکبر کہا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آواز سنی، (حضرت عمر کی آواز بلند آواز ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو بکر کہاں ہیں ؟ اللہ اس کا انکار کرتا ہے اور مسلمان بھی.اللہ اس کا انکار کرتا ہے اور مسلمان بھی.آپ نے حضرت ابو بکر کو بلا بھیجا.وہ آئے اور بعد اس کے کہ حضرت عمر نماز پڑھا چکے تھے پھر انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی.یہ بھی ایک روایت ہے.ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کی آواز سنی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے یہاں تک کہ آپ نے اپنا سر مبارک اپنے حجرہ سے بلند کر کے دیکھا.پھر فرمایا: نہیں.نہیں.نہیں.چاہیے کہ ابن ابی قحافہ لوگوں کو نماز پڑھائیں.964 رض آپ نے یہ ناراضگی سے فرمایا.اس روایت کی مزید تفصیل مسند احمد میں یہ ملتی ہے کہ جب حضرت عمرؓ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زمعہ سے جنہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا تھا کہ آپ نماز پڑھائیں کہا کہ میں نے تو سمجھا تھا کہ تمہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے نماز پڑھانے کا کہا جائے وگرنہ میں کبھی بھی نماز نہ پڑھاتا.تو اس پر انہوں نے ، عبد اللہ بن زمعہ نے کہا کہ نہیں.میں نے جب دیکھا کہ حضرت ابو بکر نظر نہیں آرہے تو خود ہی یہ سوچا کہ اس کے بعد آپ ہی نماز پڑھانے کے اہل ہیں.اس لیے میں نے خود آپ کی خدمت میں نماز پڑھانے کی درخواست کی تھی.مجھے براہ راست نہیں
اصحاب بدر جلد 2 411 حضرت ابو بکر صدیق کہا گیا تھا.یہ مسند کی روایت ہے.965 آپ کی شفقت اولاد کے بارے میں لکھنے والے لکھتے ہیں ، ایک مصنف نے لکھا ہے کہ: حضرت ابو بکر ھو اپنی اولاد سے بہت محبت تھی.اپنے قول و عمل سے وہ اکثر اس بات کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے.بڑے صاحبزادے حضرت عبد الرحمن الگ مکان میں رہتے تھے لیکن ان کے گھر کا خرچ حضرت ابو بکر نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا.حضرت ابو بکر کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء کی شادی حضرت زبیر بن عوام سے ہوئی تھی.وہ شروع شروع میں بہت تنگدست تھے.گھر میں کوئی خادم یا خادمہ رکھنے کی مقدرت نہ تھی اس لیے حضرت اسمان کو بہت کام کرنا پڑتا.وہ آٹا گوندھتی تھیں.کھانا پکاتی تھیں.پانی بھرتی تھیں.ڈول سیتی تھیں اور کافی فاصلے سے کھجور کی گٹھلیاں سر پر لاد کر لاتی تھیں یہاں تک کہ گھوڑے کو چارہ بھی کھلاتی تھیں.حضرت ابو بکر صدیق موجب ان حالات کا علم ہوا تو انہوں نے ایک خادم بھیجاجو گھوڑے کو چارہ کھلاتا اور اس کی دیکھ بھال کر تا تھا.حضرت اسما کہتی ہیں کہ خادم بھیج کر گویا ابا جان نے مجھے آزاد کر دیا.ایک اور واقعہ لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن ابو بکر کو اپنی بیوی عاتکہ سے محبت تھی.اس کی وجہ سے انہوں نے جہاد پر جانا چھوڑ دیا تھا.حضرت ابو بکر یہ برداشت نہ کر سکتے تھے.انہوں نے حضرت عبد اللہ کو حکم دیا کہ تم نے بیوی کی وجہ سے جہاد پر جانا چھوڑ دیا ہے تو اسے طلاق دے دو.تو انہوں نے اس حکم کی تعمیل تو کر دی لیکن عاتکہ کے فراق میں بڑے پر درد اشعار کہے.حضرت ابو بکر کے کانوں تک یہ اشعار پہنچے تو ان کا دل پسیج گیا اور انہوں نے حضرت عبد اللہ کو رجوع کرنے کی اجازت دے دی.967 966 حضرت بر او نے بیان کیا کہ میں حضرت ابو بکر کے ساتھ ان کے گھر والوں کے پاس اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ان کی بیٹی حضرت عائشہ لیٹی ہوئی ہیں.انہیں بخار ہو گیا تھا.میں نے دیکھا کہ انہوں نے یعنی حضرت ابو بکر نے حضرت عائشہؓ کے رخسار پر بوسہ دیا اور ان کی طبیعت پوچھی کہ اے میری بیٹی ! تم کیسی ہو ؟968 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت ابو بکر صدیق کا جو مر تبہ تھا اس بارے میں پہلے بھی بیان ہو چکا ہے.مزید بھی بیان ہوا ہے.اس سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اپنا جانشین نامزد کرنا چاہتے تھے بلکہ یہ اشارہ دیا کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابو بکر ہی کو آپ کے بعد خلیفہ اور جانشین بنائے گا.چنانچہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں مجھ سے فرمایا کہ ابو بکر اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تا کہ میں ایک تحریر لکھ دوں.مجھے ڈر ہے کہ کوئی خواہش کرنے والا خواہش کرے یا کوئی کہنے والا کہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں لیکن اللہ اور مومن تو سوائے ابو بکر کے کسی اور کا انکار کریں گے.969 یعنی کوئی اور اگر کہے تو اس کا انکار
محاب بدر جلد 2 412 حضرت ابو بکر صدیق 971 ہو گا.حضرت ابو بکر ہی جانشین بنیں گے.پھر حضرت حذیفہ بن یمان کی بھی ایک روایت ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میں نہیں جانتا کہ میرے لیے تم میں باقی رہنا کب تک ہے.پس تم میری پیروی کرو اور ان کی جو میرے بعد ہیں.اور آپ کا اشارہ ابو بکر اور عمر کی طرف تھا.970 حضرت ابوہریرہ کہتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ ایک بار میں سویا ہوا تھا.میں نے اپنے تئیں ایک کنویں پر دیکھا جس پر ایک ڈول تھا.میں نے اس کنویں میں سے جتنا اللہ نے چاہا کھینچ کر پانی نکالا.پھر ابن ابی قحافہ نے وہ ڈول لے لیا اور اس سے پانی کا ایک ڈول یا دو ڈول کھینچ کر نکالے اور ان کے کھینچنے میں کچھ کمزوری تھی اور اللہ ان کی اس کمزوری پر پردہ پوشی فرماتے ہوئے ان سے درگزر کرے گا.پھر وہ ڈول ایک چر سا ہو گیا یعنی چمڑے کا ایک بڑا ڈول بن گیا اور ابنِ خطاب نے اس کو لیا تو میں نے کبھی لوگوں میں ایسا شہ زور نہیں دیکھا جو اس طرح کھینچ کر پانی نکالتا ہو جس طرح عمر نکالتے تھے.اتنا نکالا کہ لوگ خوب سیر ہو کر اپنے اپنے ٹھکانوں میں جابیٹھے.یعنی حضرت ابو بکر اور عمر دونوں کے بارے میں آپ نے بتایا کہ آپ کے بعد جانشین ہوں گے.واقعہ افک میں حضرت ابو بکر کا کردار اور آپ کے فضائل جو ہیں اس کی تفصیل تو پہلے صحابہ میں بیان ہو چکی ہے.یہاں صرف ایک مختصر حصہ پیش کرتا ہوں جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عائشہ پر اتنابڑا الزام لگایا گیا گویا ایک پہاڑ ٹوٹ گیا لیکن حضرت عائشہ کے والدین کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام بیٹی کے پیار سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا تھا کہ انہوں نے اس سارے عرصہ میں دیر تک اپنی بیٹی کو اسی حالت میں رہنے دیا کہ جس حالت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھنا مناسب سمجھا یہاں تک کہ ایک مرتبہ جب حضرت عائشہ اپنے والدین کے گھر تشریف لائیں تو حضرت ابو بکر نے انہیں اسی وقت واپس ان کے گھر بھیج دیا.چنانچہ بخاری میں ہے کہ واقعہ افک کے دوران حضرت عائشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ایک خادم کے ساتھ اپنے والدین کے گھر تشریف لے گئیں.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ میں گھر میں داخل ہوئی اور میں نے اپنی والدہ ام رومان کو مکان کے نچلے حصہ میں اور حضرت ابو بکر کو گھر کے بالا خانے میں پایا.وہ قرآن پڑھ رہے تھے.میری ماں نے کہا اے میری پیاری بیٹی ! کیسے آئی؟ میں نے انہیں بتایا اور وہ واقعہ ان سے بیان کیا.کہتی ہیں میں کیا دیکھتی ہوں کہ اس سے انہیں وہ حیرت نہیں ہوئی جس قدر مجھے ہوئی میرا جو خیال تھا کہ واقعہ سن کر وہ پریشان ہوں گی لیکن ان کو کوئی حیرت نہیں ہوئی.حضرت عائشہ کی والدہ کہنے لگیں کہ اے میری پیاری بیٹی ! اپنے خلاف ہونے والی اس بات کو معمولی سمجھو کیونکہ اللہ کی قسم ! کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کوئی خوبصورت عورت کسی شخص کے پاس ہو جس سے وہ محبت رکھتا ہو.اس کی سوننیں ہوں مگر وہ اس سے حسد کرتی ہیں اور اس کے متعلق باتیں بنائی جاتی ہیں.حضرت عائشہ کہتی ہیں میں کیا دیکھتی ہوں کہ اس کا ان پر وہ اثر نہیں جو مجھ پر ہے.میں نے کہا کہ میرے والد بھی یہ
اصحاب بدر جلد 2 413 حضرت ابو بکر صدیق جانتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں.پھر حضرت عائشہ نے کہا، اپنی والدہ سے پوچھا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ انہوں نے کہاہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جانتے ہیں.حضرت عائشہ کہتی ہیں اس بات پر میرے آنسو جاری ہو گئے اور میں رونے لگی.حضرت ابو بکر نے میری آواز سنی اور وہ گھر کے بالا خانے میں قرآن پڑھ رہے تھے.وہ نیچے آئے اور میری ماں سے کہا اسے کیا ہوا ہے ؟ انہوں نے کہا اسے وہ بات پہنچی ہے جو اس کے متعلق کہی جارہی ہے تو حضرت ابو بکر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.کہنے لگے اے میری پیاری بیٹی ! میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم اپنے گھر لوٹ جاؤ.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں واپس آگئی.972 واقعہ افک کے تذکرہ میں اس گھناؤنی سازش اور حضرت ابو بکر کے مناقب بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ بیان فرمایا کہ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بد نام کرنا منافقوں کے لیے یا ان کے سرداروں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے.حضور فرماتے ہیں کہ ایک ادنی تدبر سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی.ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ.کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی تھیں.یہ دونوں وجو د ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی یا اقتصادی لحاظ سے یادشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کے لیے فائدہ بخش ہو سکتی تھی یا بعض لوگوں کی اغراض ان کو بد نام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں.ورنہ خود حضرت عائشہ کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی تھی.زیادہ سے زیادہ آپ سے سوتوں کا تعلق ہو سکتا تھا.یعنی دوسری بیویاں تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شائد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے حضرت عائشہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں سے گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کے لیے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے اس معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حضرت عائشہ کا اپنا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے جس بیوی کو میں اپنا رقیب اور مد مقابل خیال کیا کرتی تھی وہ حضرت زینب تھیں.ان کے علاوہ اور کسی بیوی کو میں اپنار قیب خیال نہیں کرتی تھی مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں زینب کے اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگایا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کا انکار کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینب ہی تھیں.پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو وہ ان کی سوتوں کو ہی ہو سکتی تھی اور وہ اگر چاہتیں تو اس میں حصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کی عزت بڑھ جائے.مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں دخل ہی نہیں دیا یعنی دوسری بیویوں نے.اور اگر کسی سے پوچھا گیا تو اس نے حضرت عائشہ کی تعریف ہی کی.
صحاب بدر جلد 2 414 حضرت ابو بکر صدیق چنانچہ ایک اور بیوی کے متعلق ذکر آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس معاملے کا ذکر کیا تو اس نے کہا میں نے تو سوائے خیر کے عائشہ میں کوئی چیز نہیں دیکھی.تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی دشمنی نکالنے کا امکان اگر کسی کی طرف سے ہو سکتا تھا تو ان کی سوتوں کی طرف سے مگر ان کا اس معاملے میں کوئی تعلق ثابت نہیں ہو تا.اسی طرح مردوں کی عورتوں سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی.پس آپ پر الزام یارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی وجہ سے لگایا گیا یا حضرت ابو بکڑ سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے.انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں.اور وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکر ہی ہے.پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہ پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کے گر جانے کی وجہ سے حضرت ابو بکر کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا ر ہے اور مسلمان آپ سے بدظن ہو کر یعنی حضرت ابو بکر سے بد ظن ہو کر اس عقیدت کو ترک کر دیں جو انہیں آپ سے تھی اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہو جائے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں جس طرح حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں پیغامیوں کا گروہ مجھ پر اعتراض کرتا رہتا تھا اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا.پس یہی وجہ تھی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عائشہ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا.حدیث میں صریح طور پر آتا ہے کہ صحابہ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکر کا ہی مقام ہے.پھر حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا یار سول اللہ ! آپ میری فلاں حاجت پوری کر دیں.آپ نے فرمایا اس وقت نہیں، پھر آنا.وہ بدوی تھا اور تہذیب و شائستگی کے اصول سے ناواقف تھا.اس نے صاف کہہ دیا کہ آخر آپ انسان ہیں.اگر میں پھر آؤں اور آپ اس وقت فوت ہو چکے ہوں تو میں کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں دنیا میں نہ ہوا تو ابو بکرؓ کے پاس چلے جانا، وہ تمہاری حاجت پوری کر دے گا.اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا.اے عائشہ میں چاہتا تھا کہ ابو بکر کو اپنے بعد نامزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اس کے سوا اور کسی پر راضی نہیں ہوں گے اس لیے میں کچھ نہیں کہتا.غرض صحابہ یہ قدرتی
اصحاب بدر جلد 2 415 حضرت ابو بکر صدیق طور پر سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان میں سے اگر کسی کا درجہ ہے تو ابو بکر کا اور وہی آپ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں.نمی زندگی تو ایسی تھی کہ اس میں حکومت اور اس کے انتظام کا سوال ہی پیدا نہ ہو تا تھا لیکن مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد حکومت قائم ہوگئی اور طبعاً منافقوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونے لگا کیونکہ آپ کی مدینہ میں تشریف لانے کی وجہ سے ان کی کئی امیدیں باطل ہو گئی تھیں.عبد اللہ بن ابی بن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اسے سخت غصہ آیا اور گو وہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام میں رخنے ڈالتا رہتا تھا.اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لیے اس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیدا ہو سکتی تھی تو یہی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن مسلمانوں میں جو نہی بادشاہت قائم ہوئی اور ایک نیا نظام انہوں نے دیکھا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دیے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے ؟ آپ کے بعد اسلام کا کیا حال ہو گا اور اس بارے میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟ عبد اللہ بن ابی بن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اسے خوف پید اہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا.یعنی عبد اللہ کا کوئی حصہ نہ ہو گا.وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا.اور اس کے لیے جب اس نے غور کیا تو اسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کر سکتا ہے تو وہ ابو بکر ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نظر اسی کی طرف اٹھتی یعنی حضرت ابو بکر کی طرف اور وہ اسے سب دوسروں سے معزز سمجھتے ہیں.پس اس نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ ان کو بد نام کر دیا جائے اور لوگوں کی نظروں سے حضرت ابو بکر کو گرا دیا جائے بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے بھی گرا دیا جائے اور اس بد نیتی کے پورا کرنے کا موقع اسے حضرت عائشہ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپ پر گندا الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں اشارہ بیان کیا گیا ہے اور حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے.عبد اللہ بن ابی بن سلول کی اس میں یہ غرض تھی کہ اس طرح حضرت ابو بکر لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہو جائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خراب ہو جائیں گے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑ جائے گا جس کا قائم ہونا اسے لابدی نظر آتا تھا، نظر آرہا تھا کہ لازمی یہ ہو گا.اور جس کے قائم ہونے سے اس کی امیدیں تباہ ہو جاتی تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکومت کے خواب صرف عبد اللہ بن ابی بن سلول ہی نہیں دیکھ رہا تھا بعض اور لوگ بھی اس مرض میں مبتلا تھے.چونکہ منافق اپنی موت کو ہمیشہ دُور سمجھتا ہے اور وہ دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہے اس لیے عبد اللہ بن ابی بن سلول بھی اپنی موت کو دُور سمجھتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا.وہ یہ قیاس
اصحاب بدر جلد 2 416 حضرت ابو بکر صدیق آرائیاں کرتارہتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں عرب کا بادشاہ بنوں گا.لیکن اب اس نے دیکھا کہ ابو بکر کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابو بکر آپ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فتویٰ پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تو مسلمان ابو بکر سے فتویٰ پوچھتے ہیں.یہ دیکھ کر عبد اللہ بن ابی بن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی امید لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا اور اس نے چاہا کہ اس کا ازالہ کرے.چنانچہ اس امر کا ازالہ کرنے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہرت اور آپ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہ سے گرانے کے لیے اس نے حضرت عائشہ پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ سے نفرت پیدا ہو اور حضرت عائشہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ حضرت ابو بکر کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہو جائے اور ان کے آئندہ خلیفہ بنے کا امکان نہ رہے چنانچہ اسی امر کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر فرمایا ہے ، فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ جَاءُو بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنكُمْ کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا ہے وہ تم لوگوں میں سے ہی مسلمان کہلانے والا ایک جتھا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لکھ.تم یہ خیال نہ کرو کہ یہ الزام کوئی بُرا نتیجہ پیدا کرے گا بلکہ یہ الزام بھی تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہو جائے گا.چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے او آب ہم خلافت کے متعلق بھی اصول بیان کر دیتے ہیں اور تم کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ یہ منافق زور مار کر دیکھ لیں.یہ ناکام رہیں گے اور ہم خلافت کو قائم کر کے چھوڑیں گے کیونکہ خلافت نبوت کا ایک جزو ہے اور انہی نور کے محفوظ رکھنے 973 ย کا ایک ذریعہ ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ”اب دیکھو ! سورہ نور کے شروع سے لے کر اس کے آخر تک کس طرح ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے.پہلے اس الزام کا ذکر کیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر لگایا گیا تھا اور چونکہ حضرت عائشہ پر الزام لگانے کی اصل غرض یہ تھی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ذلیل کیا جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے جو تعلقات ہیں وہ بگڑ جائیں اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی نگاہ میں بھی ان کی عزت کم ہو جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ خلیفہ نہ ہو سکیں.کیونکہ عبد اللہ بن ابی بن سلول یہ بھانپ گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نگاہ اگر کسی پر اٹھنی ہے تو وہ ابو بکر ہی ہے اور اگر ابو بکر کے ذریعہ سے خلافت قائم ہو گئی تو عبد اللہ بن ابی بن سلول کی بادشاہی کے خواب کبھی پورے نہ ہوں گے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس الزام کے ذکر کے معابعد خلافت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ خلافت بادشاہت نہیں ہے.وہ تو نور الہی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اس لئے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.اس کا ضائع ہونا
صحاب بدر جلد 2 417 حضرت ابو بکر صدیق تو نورِ نبوت اور نورِ الوہیت کا ضائع ہونا ہے.پس وہ اس نور کو ضرور قائم کرے گا اور نبوت کے بعد بادشاہت ہر گز قائم نہیں ہونے دے گا اور جسے چاہے گا خلیفہ بنائے گا بلکہ وہ وعدہ کرتا ہے کہ مسلمانوں سے ایک نہیں متعد دلوگوں کو خلافت پر قائم کر کے نور کے زمانہ کو لمبا کر دے گا.یہ مضمون ایسا ہی ہے جیسے کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں کہ جس کا جی چاہے پی لے.اسی طرح فرمایا تم اگر الزام لگانا چاہتے ہو تو بے شک لگاؤ نہ تم خلافت کو مٹا سکتے ہو نہ ابو بکر و خلافت سے محروم کر سکتے ہو کیونکہ خلافت ایک نور ہے.وہ نور اللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹا سکتا ہے.پھر فرماتا ہے کہ اسی طرح خلافت کا یہ نور چند اور گھروں میں بھی پایا جاتا ہے اور کوئی انسان اپنی کوششوں اور اپنے مگروں سے اس نور کے ظہور کو روک نہیں سکتا.974 بہر حال یہ خلافت کے بارے میں ایک مضمون ہے.اس پہ آپ نے خطبہ دیا تھا.اس سے ( پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت ابو بکر کا ایک مقام تھا اور پھر اللہ تعالیٰ کی جو فعلی شہادت تھی اس سے بھی ثابت ہو گیا کہ نبوت کے فوراً بعد جو خلافت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق جاری رہنا تھا وہ جاری رہا اور اس کے بعد اگر بادشاہت آئی تو وہ بعد کی باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے وہ نظام (اب) پھر قائم ہوا.پھر حضرت ابو بکر کے انکسار اور تواضع کے بارے میں آتا ہے.حضرت سعید بن مسیب روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند اصحاب کے ہمراہ ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص حضرت ابو بکر کے ساتھ جھگڑ پڑا اور آپ کو تکلیف پہنچائی.اس پر حضرت ابو بکر خاموش رہے.اس نے دوسری مرتبہ تکلیف پہنچائی جس پر حضرت ابو بکر پھر خاموش رہے.اس نے تیسری مرتبہ تکلیف دی تو حضرت ابو بکر نے بدلہ لیا.جب حضرت ابو بکر نے بدلہ لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں ؟ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آسمان سے ایک فرشتہ اترا جو اس بات کی تکذیب کر رہا تھا جو وہ تیری نسبت بیان کر رہا تھا.جب تو نے بدلہ لیا تو شیطان آگیا اور میں اس مجلس میں نہیں بیٹھنے والا جس میں شیطان پڑ گیا ہو.975 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو بکر ! تین باتیں ہیں جو سب بر حق ہیں.کسی بندے پر کسی چیز کے ذریعہ ظلم کیا جائے اور وہ محض اللہ عزوجل کی خاطر اس سے چشم پوشی کرے تو اللہ اسے اپنی نصرت کے ذریعہ سے معزز بنا دیتا ہے.وہ شخص جو کسی عطیے کا دروازہ کھولے جس کے ذریعہ اس کا ارادہ صلہ رحمی کرنے کا ہو تو اللہ اس کے ذریعہ اسے مال کی کثرت میں بڑھا دیتا ہے.تیسری بات یہ ہے کہ وہ شخص جو سوال کا دروازہ کھولے جس کے ذریعہ اس کا ارادہ مال کی کثرت کا ہو تو اللہ اسے اس کے ذریعہ رض
اصحاب بدر جلد 2 418 حضرت ابو بکر صدیق قلت اور کمی میں بڑھا دیتا ہے.976 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ابو بکر کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”آپ رضی اللہ عنہ معرفتِ تامہ رکھنے والے عارف باللہ ، بڑے حلیم الطبع اور نہایت مہربان فطرت کے مالک تھے اور انکسار اور مسکینی کی وضع میں زندگی بسر کرتے تھے.بہت ہی عفو و در گزر کرنے والے اور محبتم شفقت ورحمت تھے.آپ اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے جاتے تھے.آپ کا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا تعلق تھا اور آپ کی روح خیر الوریٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی روح سے پیوست تھی اور جس نور نے آپ کے آقا و مقتدا محبوب خدا کو ڈھانپا تھا اسی نور نے آپ کو بھی ڈھانپا ہوا تھا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے نور کے لطیف سائے اور آپ کے عظیم فیوض کے نیچے چھپے ہوئے تھے.اور فہم قرآن اور سید الرسل، فخر بنی نوع انسان کی محبت میں آپ تمام لوگوں سے ممتاز تھے.اور جب آپ پر اخروی حیات اور الہی اسرار منکشف ہوئے تو آپ نے تمام دنیوی تعلقات توڑ دیئے اور جسمانی وابستگیوں کو پرے پھینک دیا اور اپنے آپ اپنے محبوب کے رنگ میں رنگین ہو گئے اور واحد مطلوب ہستی کی خاطر ہر مراد کو ترک کر دیا اور تمام جسمانی کدورتوں سے آپ کا نفس پاک ہو گیا.اور نیچے یگانہ خدا کے رنگ میں رنگین ہو گیا اور رب العالمین کی رضا میں گم ہو گیا اور جب سنچی الہی محبت آپ کے تمام رگ و پے اور دل کی انتہائی گہرائیوں میں اور وجود کے ہر ذرہ میں جاگزین ہو گئی.اور آپ کے افعال و اقوال میں اور برخاست و نشست میں اس کے انوار ظاہر ہو گئے تو آپے صدیق کے نام سے موسوم ہوئے اور آپ کو نہایت فراوانی سے تر و تازہ اور گہرا علم تمام عطا کرنے والوں میں سے بہتر عطا کرنے والے خدا کی بارگاہ سے عطا کیا گیا.صدق آپ کا ایک راسخ ملکہ اور طبعی خاصہ تھا اور اس صدق کے آثار و انوار آپ میں اور آپ کے ہر قول و فعل، حرکت و سکون اور حواس و انفاس میں ظاہر ہوئے.ہی ظاہر ہوئے.آپ آسمانوں اور زمینوں کے رب کی طرف سے منعم علیہ گروہ میں شامل کئے گئے.آپ کتاب نبوت کا ایک اجمالی نسخہ تھے.اور آپ ارباب فضیلت اور جوانمردوں کے امام تھے اور نبیوں کی سرشت رکھنے والے چیدہ لوگوں میں سے تھے.“ پھر آپ فرماتے ہیں تو ہمارے اس قول کو کسی قسم کا مبالغہ تصور نہ کر اور نہ ہی اسے نرم رویے اور چشم پوشی کی قسم سے محمول کر اور نہ ہی اسے چشمہ کمحبت سے پھوٹنے والا سمجھ بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جو بارگاہ رب العزت سے مجھ پر ظاہر ہوئی.“ آپ نے حضرت ابو بکر نیا جو مقام بیان کیا ہے، آپ کے خواص، آپ کے مناقب اور جو اتنی تعریفیں کی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر براہ راست ظاہر فرمائی ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں ” اور آپ رضی اللہ عنہ کا مشرب رب الارباب پر توکل کرنا اور اسباب کی طرف کم توجہ کرنا تھا اور آپ تمام آداب میں ہمارے رسول اور آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے بطور ظل کے تھے اور آپ کو حضرت خیر البریہ سے ایک ازلی مناسبت تھی اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو حضور
حاب بدر جلد 2 419 حضرت ابو بکر صدیق کے فیض سے پل بھر میں وہ کچھ حاصل ہو گیا جو دوسروں کو لمبے زمانوں اور دُور دراز اقلیموں میں حاصل نہ ہو سکا.9774 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چودہ ساتھیوں میں شمولیت اس کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ حضرت علی بن ابو طالب نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.یقینا ہر نبی کو سات نجیب سا تھی دیے گئے یا فرمایا سا تھی.صرف ساتھی کہا اور مجھے چودہ دیے گئے ہیں.ہم نے انہیں کہا وہ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا میں اور میرے دونوں بیٹے اور حضرت جعفر اور حضرت حمزہ اور حضرت ابو بکر یعنی حضرت علی اور ان کے دونوں بیٹے حضرت جعفر، حضرت حمزہ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ، حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت بلال اور حضرت سلمان اور حضرت عمار اور حضرت مقداد اور حضرت حذیفہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود - 978 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حضرت ابو بکر صدیق کو جج کی امارت بھی دی گئی تھی.اس بارے میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 19 ہجری میں حضرت ابو بکر صدیق ہو امیر الج بنا کر مکہ روانہ فرمایا تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ کیا.پھر آپ سے ذکر کیا گیا کہ مشرکین دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر حج کرتے ہیں اور شرکیہ الفاظ ادا کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال حج کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور حضرت ابو بکر صدیق کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا.979 حضرت ابو بکر صدیق تین سو صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ میں قربانی کے جانور بھیجے جن کے گلے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے قربانی کی علامت کے طور پر گانیاں پہنائیں اور نشان لگائے.حضرت ابو بکر خود اپنے ساتھ پانچ قربانی کے جانور لے کر گئے.980 روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی نے سورہ توبہ کی ابتدائی آیات کا اس حج کے موقع پر اعلان کیا تھا.اس کی تفصیل تو حضرت علی کے ذکر میں اور پھر حضرت ابو بکر کے ذکر میں شروع میں ایک دفعہ خطبہ میں میں بیان کر چکا ہوں.981 بہر حال مختصر آ یہاں بیان کرتا ہوں کہ جب سورت براءت یعنی سورت توبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر کو بطور امیر حج بھجواچکے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ! اگر آپ یہ سورت حضرت ابو بکر کی طرف بھیج دیں تا کہ وہاں پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اہل بیت میں سے کسی شخص کے سوا کوئی یہ فریضہ میری طرف سے ادا نہیں کر سکتا.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو بلوایا اور انہیں فرمایا کہ سورت تو بہ کے آغاز میں جو بیان ہوا ہے اس کو لے جاؤ اور قربانی کے دن جب لوگ منی میں اکٹھے ہوں تو ان میں
اصحاب بدر جلد 2 420 حضرت ابو بکر صدیق اعلان کر دو کہ جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج کرنے کی اجازت نہ ہو گی.نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدت پوری کی جائے گی.حضرت علی اس فرمان کے ساتھ روانہ ہوئے.راستے میں حضرت ابو بکر سے جاملے.جب حضرت ابو بکر نے حضرت علی کو راستے میں دیکھا یا ملے تو حضرت ابو بکر نے حضرت علی سے پوچھا کہ آپ کو امیر مقرر کیا گیا ہے یا آپ میرے ماتحت ہوں گے ؟ حضرت علی نے کہا کہ آپ کے ماتحت.پھر دونوں روانہ ہو گئے.آپ کے ماتحت ہوں گا لیکن یہ آیات جو ہیں وہ میں پڑھوں گا.بہر حال حضرت ابو بکڑ نے لوگوں کی حج کے امور پر نگرانی کی اور اس سال اہل عرب نے اپنی انہی جگہوں پر پڑاؤ کیا ہوا تھا جہاں وہ زمانہ جاہلیت میں پڑاؤ کیا کرتے تھے.جب قربانی کا دن آیا تو حضرت علی کھڑے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق لوگوں میں اس بات کا اعلان کیا جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا.جیسا کہ میں نے کہا کہ اس کی تفصیل میں پہلے بیان کر چکا ہوں.982 حضرت ابو بکر قریش کے بہترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے ان کی خدمتِ خلق اور محتاجوں کو کھانا کھلانے وغیرہ کے بارے میں ملتا ہے کہ اسلام قبول کرنے سے قبل بھی حضرت ابو بکر قریش کے بہترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے اور لوگوں کو جو بھی مشکل پیش آتی تھی اُن میں وہ لوگ اُن سے مدد لیا کرتے تھے.مکہ میں وہ اکثر مہمان نوازی کرتے اور بڑی بڑی 983 دعوتیں کیا کرتے تھے.دورِ جاہلیت میں حضرت ابو بکرؓ کو قریش کے سرداروں اور ان کے اشراف و معزز لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا.حضرت ابو بکر کو اس معاشرے میں شرفائے قریش میں شمار کیا جاتا تھا، افضل ترین لوگوں میں شمار ہو تا تھا.لوگ اپنے مسائل و معاملات میں ان سے رجوع کیا کرتے تھے.مکہ میں ضیافت و مہمان نوازی میں انفرادی حیثیت کے مالک تھے.984 پھر لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر غریبوں اور مسکینوں پر بے حد مہربان تھے.سردیوں میں کمبل خریدتے اور انہیں محتاجوں میں تقسیم کر دیتے.985 ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے ایک سال گرم اونی چادر میں خریدیں یعنی کمبل جو دیہات سے لائی گئی تھیں اور سردی کے موسم میں مدینہ کی بیوہ عورتوں میں یہ چادریں تقسیم کی 986 بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے ایک روایت ہے کہ خلافت کے منصب پر متمکن ہونے سے پہلے آپ ایک لاوارث کنبہ کی
حاب بدر جلد 2 421 حضرت ابو بکر صدیق بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے.جب آپ خلیفہ بن گئے تو اس کنبہ کی ایک بچی کہنے لگی کہ اب تو آپ ہماری بکریوں کا دودھ نہیں دوہا کریں گے.یہ سن کر حضرت ابو بکر نے فرمایا کیوں نہیں.اپنی جان کی قسم! میں تمہارے لیے ضرور دو ہوں گا اور مجھے امید ہے کہ میں نے جس چیز کو اختیار کیا ہے وہ مجھے اس عادت سے نہ روکے گی جس پر میں تھا.چنانچہ آپ حسب سابق ان کی بکریوں کا دودھ دوہتے رہے.جب وہ بچیاں اپنی بکریاں لے کر آتیں تو آپ از راہ شفقت فرماتے دودھ کا جھاگ بناؤں یا نہ بناؤں ؟ اگر وہ کہتیں کہ جھاگ بنا دیں تو برتن کو ذرا ڈور رکھ کر دودھ دوہتے حتی کہ خوب جھاگ بن جاتی.اگر وہ کہتیں کہ جھاگ نہ بنائیں تو برتن تھن کے قریب کر کے دودھ دوہتے تاکہ دودھ میں جھاگ نہ بنے.آپ مسلسل چھ ماہ تک یہ خدمت سر انجام دیتے رہے یعنی خلافت کے بعد چھ ماہ تک.پھر آپ نے مدینہ میں رہائش اختیار کرلی.پہلے حضرت ابو بکر کے دو گھر تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک گھر باہر تھا وہاں باہر رہا کرتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوٹی کے قریب، اپنے گھروں کے قریب بھی ان کو ایک جگہ دی تھی وہاں بھی انہوں نے گھر بنایا تھا.اس کے علاوہ بھی ایک گھر تھا.مدینہ میں بھی دو گھر تھے لیکن پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں زیادہ وقت یہ جو مضافات میں گھر تھا وہاں رہا کرتے تھے.خلافت کے بعد پھر مدینہ شفٹ ہو گئے.جب تک مدینہ نہیں آئے ان بچیوں کی جو ڈیوٹی اپنے ذمہ آپ نے لی ہوئی تھی وہ مسلسل ادا کرتے رہے.967 حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ کے کنارے پر رہنے والی ایک بوڑھی اور نابینا عورت کا خیال رکھا کرتے تھے.آپ اُس کے لیے پانی لاتے اور اُس کا کام کاج کرتے.ایک مرتبہ آپ جب اُس کے گھر گئے تو یہ معلوم ہوا کہ کوئی شخص آپ سے پہلے آیا ہے جس نے اس بڑھیا کے کام کر دیے ہیں.انگلی ، آیا دفعہ آپ اس بڑھیا کے گھر جلدی گئے تاکہ دوسرا شخص پہلے نہ آجائے.حضرت عمر چھپ کر بیٹھ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ حضرت ابو بکر نہیں جو اس بڑھیا کے گھر آتے تھے اور اُس وقت حضرت ابو بکر خلیفہ تھے.اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! یہ آپ ہی ہو سکتے تھے.88 یعنی اس نیکی میں میرے سے بڑھنے والے آپ ہی ہو سکتے تھے.ایک روایت موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کی ہے کہ معتمر نے اپنے باپ سے روایت کی اور بتایا کہ ابو عثمان نے ہم سے بیان کیا کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے انہیں بتایا کہ صفہ والے محتاج لوگ تھے اور ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو لے جائے اور جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں کو لے جائے یا چھٹے کو یا ایسے ہی کچھ الفاظ فرمائے، یعنی وہ غریب لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے لوگ ان کو اپنے گھروں میں لے جائیں اور کھانا کھلائیں.
حاب بدر جلد 2 422 حضرت ابو بکر صدیق حضرت ابو بکر تین آدمیوں کو لے آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس کو لے گئے.اور گھر میں حضرت ابو بکر اور تین اور شخص تھے.حضرت عبد الرحمن " کہتے تھے کہ میں ، میرا باپ اور میری ماں.راوی نے کہا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ آیا عبدالرحمن نے یہ بھی کہا کہ میری بیوی یا میر ا خادم جو کہ ہمارے اور حضرت ابو بکر کے گھر میں مشترکہ تھا.اور ایسا ہوا کہ حضرت ابو بکر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں شام کا کھانا کھایا پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی پھر واپس آگئے.مہمانوں کو گھر لے گئے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرے رہے اور وہیں کھانا کھا لیا اور پھر واپس آئے.بیان کرتے ہیں کہ وہاں اتنی دیر ٹھہرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہوں نے شام کا کھانا کھایا اور اتنی رات گزرنے کے بعد آئے جتنا کہ اللہ نے چاہا.اُن کی بیوی نے ان سے کہا کس بات نے آپ کو اپنے مہمانوں سے یا کہا مہمان سے روکے رکھا؟ یعنی آپ نے دیر کیوں لگائی.حضرت ابو بکڑ نے کہا: کیا تم نے انہیں کھانا نہیں کھلایا؟ وہ کہنے لگیں کہ انہوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکار کر دیا تھا.مہمانوں نے کہا ہم نہیں کھائیں گے جب تک حضرت ابو بکر نہیں آتے.انہوں نے تو اُن کو کھانا پیش کر دیا تھا، ان کی اہلیہ کہنے لگیں میں نے تو کھانا پیش کر دیا تھا مگر مہمانوں نے اُن کی پیش نہ چلنے دی.حضرت عبدالرحمن کہتے تھے کہ میں جا کر چھپ رہا.میں اُن سے اس لیے چھپ گیا کہیں مجھے حضرت ابو بکر سے ڈانٹ نہ پڑے کہ کیوں مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا.پھر حضرت ابو بکر نے کہا اے بیوقوف ! اور انہوں نے مجھے سخت سست کہا، عبدالرحمن ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے مہمانوں سے کہا کہ کھانا کھائیں اور خود حضرت ابو بکر نے قسم کھالی کہ میں ہر گز نہیں کھاؤں گا.حضرت عبد الرحمن کہتے تھے کہ اللہ کی قسم اہم جو بھی لقمہ لیتے اس کے نیچے سے اس سے زیادہ کھانا بڑھ جاتا.اور انہوں نے اتنا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے.اور جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا.مہمانوں کو کھانا کھلایا.مہمان کھانا کھاتے جاتے تھے لیکن کہتے ہیں کہ وہ کھانا اتنا ہی رہتا تھا بلکہ بڑھ جاتا تھا.اور سب نے پیٹ بھر کے کھایا.حضرت ابو بکر نے جب یہ دیکھا کہ کھانا تو ویسے کا ویسا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ تھا تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا بنی فیر اس کی بہن! یہ کیا ہے ؟ ان کی بیوی بولیں کہ قسم میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی ! یہ تو اب اُس سے تین گنا زیادہ ہے جتنا پہلے تھا.یعنی اتنا بڑھ گیا ہے کھانا.حضرت ابو بکر نے بھی اس سے کھایا اور کہنے لگے وہ تو صرف شیطان تھا یعنی اس کی تحریک پر میں نے نہ کھانے کی قسم کھائی تھی.پہلے کہا تھا ناں، قسم ہے کہ میں نہیں کھاؤں گا لیکن جب دیکھا کھانے میں برکت پڑ رہی ہے تو آپ نے کہا وہ قسم میرے سے شیطان نے کہلوائی تھی لیکن یہ برکت والا کھانا ہے، اس سے میں بھی کھاؤں گا.پھر اس میں سے ایک لقمہ حضرت ابو بکڑ نے کھایا.اس کے بعد وہ کھانا اٹھا کر
محاب بدر جلد 2 423 حضرت ابو بکر صدیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں صبح تک رہا.کھانا وہاں صبح تک رہا.کہتے ہیں ہمارے اور ایک قوم کے درمیان ایک عہد تھا اور اس کی میعاد گزر گئی تھی.ہم نے بارہ آدمیوں کو الگ الگ بٹھایا اور ان میں سے ہر ایک آدمی کے ساتھ کچھ لوگ تھے.اللہ بہتر جانتا ہے یعنی کہ ان معاہدہ کرنے والوں کے بارہ آدمی تھے اور ہر ایک کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے.کہتے ہیں کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہر آدمی کے ساتھ کتنے تھے مگر اس قدر ضرور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آدمیوں کو لوگوں کے ساتھ بھیجا یعنی قابل ذکر تعداد تھی.حضرت عبد الرحمن کہتے تھے تو ان سب نے اس کھانے میں سے کھایا یا کچھ ایسا ہی کہا.تو 989 یہ برکت اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کے کھانے میں بھی ایک دفعہ ڈالی.حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ہے جس نے آج کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہو ؟ حضرت ابو بکر نے کہا میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک سائل نے سوال کیا.میں نے عبدالرحمن کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا پایا.وہ میں نے اس سے لے لیا اور وہ اس سائل کو دے دیا.990 اس طرح سوال کرنے والے نے سوال کیا تھا.میرے بیٹے کے ہاتھ میں روٹی تھی تو میں نے اس سے لے کے پھر اس سوالی کو دے دی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت ابو بکر کے بیٹے عبد الرحمن بھی خلافت کے لائق تھے اور لوگوں نے کہا بھی کہ ان کی طبیعت حضرت عمرؓ سے نرم ہے اور لیاقت بھی ان سے کم نہیں.ان کو آپ کے بعد خلیفہ بننا چاہئے لیکن حضرت ابو بکر نے خلافت کے لئے حضرت عمر کو ہی منتخب کیا باوجودیکہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طبائع میں اختلاف تھا.پس حضرت ابو بکر نے خلافت سے ذاتی فائدہ کوئی حاصل نہیں کیا بلکہ آپ خدمت خلق میں ہی بڑائی خیال کیا کرتے تھے.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ”صوفیاء کی ایک روایت ہے.(واللہ اعلم کہاں تک درست ہے ) کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر کے غلام سے پوچھا کہ وہ کون کون سے نیک کام تھے جو تیرا آقا کیا کرتا تھا تا کہ میں بھی وہ کام کروں.منجملہ اور نیک کاموں کے اس غلام نے ایک کام یہ بتایا کہ روزانہ حضرت ابو بکر روٹی لے کر “ کھانا لے کر ”فلاں طرف جایا کرتے تھے اور مجھے ایک جگہ کھڑا کر کے آگے چلے جاتے تھے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس مقصد کے لئے اُدھر جاتے تھے.چنانچہ حضرت عمرؓ اس غلام کے ہمراہ اس طرف کو کھانا لے کر چلے گئے جس کا ذکر غلام نے کیا تھا.آگے جاکر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک غار میں ایک اپانی اندھا جس کے ہاتھ پاؤں نہ تھے بیٹھا ہوا ہے.حضرت عمرؓ نے اس اپانچ کے منہ میں ایک لقمہ ڈالا تو وہ رو پڑا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ ابو بکر پر رحم فرمائے.وہ بھی کیا نیک آدمی تھا.حضرت عمرؓ نے کہا بابا! تجھے کس طرح پتہ چلا کہ ابو بکر فوت ہو گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ میرے منہ میں
اصحاب بدر جلد 2 424 حضرت ابو بکر صدیق دانت نہیں ہیں اس لئے ابو بکر میرے منہ میں لقمہ چبا کر ڈالا کرتے تھے آج جو میرے منہ میں سخت لقمہ آیا تو میں نے خیال کیا کہ یہ لقمہ کھلانے والا ابو بکر نہیں ہے بلکہ کوئی اور شخص ہے اور ابو بکر تو ناغہ بھی کبھی نہ کیا کرتے تھے اب جو ناغہ ہوا تو یقیناً وہ دنیا میں موجود نہیں ہیں.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ پس وہ کون سی شے ہے جو بادشاہت سے حضرت ابو بکر نے حاصل کی ؟“خلافت یا بادشاہت جو اُن کو ملی اس سے تو کچھ نہیں حاصل کیا.کیا سر کاری مال کو اپنا قرار دیا انہوں نے ”اور حکومت کی جائدادوں کو اپنا مال قرار دیا؟ ہر گز نہیں.جو اشیاء ان کے رشتہ داروں کو ملیں وہ ان کی ذاتی جائداد سے تھیں.صرف ایک امتیاز جو ان کو تھا وہ تو خدمت تھی جو انہوں نے کی.حضرت ابو بکڑ نے ایک بڑھیا کو ہمیشہ حلوہ کھلانا وطیرہ کر رکھا تھا 992❝ 991" حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ”یہ دو ٹکڑے شریعت کے ہیں حق اللہ اور حق العباد.“ یہ دو چیزیں ہیں.اللہ تعالیٰ کا حق اور حق العباد.فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھو کہ کس قدر خدمات میں عمر کو گزارا.اور حضرت علی کی حالت کو دیکھو کہ اتنے پیوند لگائے کہ جگہ نہ رہی.حضرت ابو بکر نے ایک بڑھیا کو ہمیشہ حلوہ کھلانا وطیرہ کر رکھا تھا.غور کرو کہ یہ کس قدر التزام تھا.جب آپ فوت ہو گئے “ یعنی حضرت ابو بکر فوت ہو گئے تو اس بڑھیا نے کہا کہ آج ابو بکر فوت ہو گیا.اس کے پڑوسیوں نے کہا کہ کیا تجھ کو الہام ہو ا یا وحی ہوئی ؟ تو اس نے کہا نہیں آج حلوا لے کر نہیں آیا اس واسطے معلوم ہوا کہ فوت ہو گیا یعنی زندگی میں ممکن نہ تھا کہ کسی حالت میں بھی حلوا نہ پہنچے.دیکھو! کس قدر خدمت تھی.ایسا ہی سب کو چاہئے کہ خدمت خلق کرے.“ آپ کا پردہ پوشی کا معیار کیا تھا، اس بارے میں روایت ہے.حضرت ابو بکر فرماتے تھے کہ اگر میں چور کو پکڑتا تو میری سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی کہ خدا اس کے جرم پر پردہ ڈال دے.بہادری اور شجاعت کے بارے میں لکھا ہے.حضرت ابو بکر شجاعت اور بہادری کا مجسمہ تھے.بڑے بڑے خطرے کو اسلام کی خاطر یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عشق کی بدولت خاطر میں نہ لاتے تھے.مکی زندگی میں جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لیے کوئی خطرہ یا تکلیف کا موقع دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت و نصرت کے لیے دیوار بن کر سامنے کھڑے ہو جاتے.شعب ابی طالب میں تین سال تک اسیری اور محصوری کا زمانہ آیا تو ثابت قدمی، استقلال کے ساتھ وہیں موجو د رہے.پھر ہجرت کے دوران انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و معیت کا اعزاز ملا حالا نکہ جان کا خطرہ تھا.جتنی بھی جنگیں ہوئیں حضرت ابو بکر نہ صرف یہ کہ اُن میں شامل ہوئے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے فرائض آپؐ سرانجام دیتے.آپؐ کی اسی جرآت اور بہادری کو سامنے رکھتے ہوئے 993
حاب بدر جلد 2 425 حضرت ابو بکر صدیق حضرت علی نے ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ اے لوگو! لوگوں میں سے سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین! آپ ہیں.حضرت علی نے فرمایا : جہاں تک میری بات ہے میرے ساتھ جس نے مبارزت کی میں نے اس سے انصاف کیا یعنی اسے مار گرایا مگر سب سے بہادر حضرت ابو بکر نہیں.ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بدر کے دن خیمہ لگایا.پھر ہم نے کہا کہ کون ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ؟ تا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی مشرک نہ پہنچ پائے تو اللہ کی قسم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کوئی نہ گیا مگر حضرت ابو بکر اپنی تلوار کو سونتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے.یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مشرک نہیں پہنچے گا مگر پہلے وہ حضرت ابو بکڑ سے سب مقابلہ کرے گا.پس وہ سب سے بہادر شخص ہیں.اسی طرح جنگِ اُحد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلی تو سہ سے پہلے حضرت ابو بکر ہجوم کو چیرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے.کہا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت صرف گیارہ صحابہ کرام موجود تھے جن میں حضرت ابو بکر، حضرت سعد اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور حضرت ابو دجانہ کا نام بھی آتا ہے.جنگ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے میں گھاٹی پر موجود چند جاں نثاروں میں حضرت ابو بکر بھی ایک تھے.جنگ خندق میں حضرت ابو بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے اور خندق کی کھدائی کے وقت آپ کپڑے میں مٹی اٹھا کر پھینکنے والوں میں شامل تھے.صلح حدیبیہ کے موقع پر جان نچھاور کرنے کے لیے بیعت کرنے والوں میں تو آپ شامل تھے ہی لیکن جو معاہدہ لکھا گیا تو جس ایمانی جرآت اور استقلال اور فراست اور اطاعت و عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ حضرت ابو بکر نے پیش کیا حضرت عمرؓ اپنی بعد کی ساری زندگی اس کو نہیں بھولے.غزوہ طائف میں بھی حضرت ابو بکر شامل تھے اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن ابو بکر بھی شامل تھے.حضرت ابو بکر کے یہ جوان بیٹے اس غزوہ میں شہید * ہو گئے تھے.994 غزوہ تبوک میں ایک جھنڈ ا حضرت ابو بکر کو دیا گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تیس ہزار کا لشکر لے کر غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سپہ سالار مقرر فرمائے اور انہیں جھنڈے عطا فرمائے.اس موقع پر سب سے بڑا جھنڈا حضرت ابو بکر کو عطا کیا گیا.95 995 حضرت سلمہ بن اکوع بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں سات غزوات میں شرکت کی اور جو جنگی مہمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمائیں ان میں سے نو طائف کی جنگ میں تیر لگنے سے زخمی ہوئے اور حضرت ابو بکر کی خلافت کے زمانہ میں اسی زخم کی وجہ سے وفات ہوئی (دیکھیں صفحہ 63 3 کتاب بذا)
حاب بدر جلد 2 426 حضرت ابو بکر صدیق مہمات میں مجھے شامل ہونے کا موقع ملا اور ان میں کبھی تو ہماری کمان حضرت ابو بکر کے پاس ہوتی تھی اور کبھی حضرت اسامہ بن زید کے پاس.996 اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب سارا عرب ہی گویا مرتد ہو گیا ان حالات میں جس جرات و شجاعت کا عملی مظاہرہ حضرت ابو بکڑ نے فرمایاوہ اپنی مثال آپ ہے.اس کا تفصیلی ذکر پہلے ہو چکا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ”ایک دفعہ کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گلے میں پڑکا ڈال کر زور سے کھینچنا شروع کیا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور آپ نے ان کفار کو ہٹایا اور فرمایا اے لوگو! تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا کہ تم ایک شخص کو محض اس لیے مارتے پیٹتے ہو کہ وہ کہتا ہے اللہ میر ارب ہے.وہ تم سے کوئی جائیداد تو نہیں مانگتا پھر تم اُسے کیوں مارتے ہو ؟ صحابہ کہتے ہیں ہم اپنے زمانہ میں سب سے بہادر حضرت ابو بکر کو سمجھتے تھے کیونکہ دشمن جانتا تھا کہ اگر میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مار لیا تو اسلام ختم ہو جائے گا اور ہم نے دیکھا کہ ہمیشہ ابو بکر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوتے تھے تا کہ جو کوئی آپ پر حملہ کرے اس کے سامنے اپنا سینہ کر دیں.چنانچہ جب بدر کے موقع پر کفار سے مڈھ بھیڑ ہوئی تو صحابہ نے آپس میں مشورہ کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عرشہ تیار کر دیا اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ اس عرشہ پر تشریف رکھیں اور ہماری کامیابی کے لیے دعا کریں دشمنوں سے ہم خود لڑیں گے.پھر انہوں نے کہا یار سول اللہ ! ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ گو ہمارے اندر بھی اخلاص پایا جاتا ہے مگر وہ لوگ جو مدینہ میں بیٹھے ہیں وہ ہم سے بھی زیادہ مخلص اور ایماندار ہیں.انہیں پتا نہیں تھا کہ کفار سے جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ لوگ بھی اس لڑائی میں ضرور شامل ہوتے.جنگ بدر کا پہلے باقاعدہ پتہ نہیں تھا تو وہ بھی شامل ہو جاتے.یار سول اللہ ! اگر خدانخواستہ اس جنگ میں ہمیں شکست ہو تو ہم نے ایک تیز رفتار اونٹنی آپ کے پاس باندھ دی ہے اور ابو بکر کو آپ کے پاس کھڑا کر دیا ہے.ان سے زیادہ بہادر اور دلیر آدمی ہمیں اپنے اندر اور کوئی نظر نہیں آیا.یار سول اللہ ! آپ فوراً ابو بکر کے ساتھ اس اونٹنی پر بیٹھ کر مدینہ تشریف لے جائیں اور وہاں سے ایک نیالشکر کفار کے مقابلہ کے لیے لے آئیں جو ہم سے بھی زیادہ مخلص اور وفادار ہو گا.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : اس واقعہ سے اندازہ لگالو کہ ابو بکر کتنی قربانی کرنے والا انسان تھا.997 پھر ایک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”ایک دفعہ بعض لوگوں نے صحابہ سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سب سے زیادہ دلیر اور بہادر کون شخص تھا.جس طرح آج کل
427 حضرت ابو بکر صدیق تاب بدر جلد 2 شخص کی شیعہ سنی کا سوال ہے اسی طرح اس زمانہ میں بھی جس کسی کے ساتھ تعلق ہو تا تھا لوگ اس کی تعریفیں کیا کرتے تھے.جب صحابہ سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم میں سے سب سے بہادر وہ شخص سمجھا جاتا تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہو تا تھا.یہ نکتہ ایک جنگی آدمی ہی سمجھ سکتا ہے دوسرا آدمی نہیں سمجھ سکتا.جس کو جنگ کا صحیح پتہ ہو اور جنگ کے خطرات کا پتہ ہو اسی کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ بہادری کیسی ہے جہاں سب سے زیادہ خطرہ ہو وہاں کھڑے ہو نا.تو فرماتے ہیں کہ ”بات یہ ہے کہ جو شخص ملک اور قوم کی روح رواں ہو دشمن چاہتا ہے کہ اسے مار ڈالے تا کہ اس کی موت کے ساتھ تمام جھگڑا ختم ہو جائے.اس لئے جس طرف بھی ایسا آدمی کھڑا ہو گا دشمن اس طرف پورے زور کے ساتھ حملہ کرے گا“ جو مرکز ہو کسی چیز کا اسی کی طرف دشمن زیادہ حملہ کرتا ہے اور ایسی جگہ پر وہی کھڑا ہو سکتا ہے.“ یعنی اس کی حفاظت کے لیے، اس مرکز کی حفاظت کے لیے وہی شخص کھڑا ہو سکتا ہے جو سب سے زیادہ بہادر ہو.پھر صحابہ نے کہا کہ آپ کے پاس اکثر حضرت ابو بکر کھڑے ہوا کرتے تھے اور ہمارے نزدیک وہی سب سے زیادہ بہادر تھے 998 پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ بنی اسرائیل کی دوسری آیت کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ”یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اسلامی بعبدہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چلانے والا کوئی دوسرا تھا.اور اس میں چلنے والے کا اپنا اختیار نہ تھا.ہجرت کا واقعہ بھی اسی طرح ہوا کہ آپ رات ہی کو نکلے.اور یہ نکلنا اپنی مرضی سے نہ تھا بلکہ اس وقت مجبور ہو کر آپ نکلے جبکہ کفار نے آپ کے قتل کرنے کے لئے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا.پس اس سفر میں آپکی مرضی کا دخل نہ تھا بلکہ خدا تعالیٰ کی مشیت نے آپ کو مجبور کیا تھا یعنی آپ کو چلانے والا، آپ کو باہر نکالنے والا، آپ کو ہجرت کی طرف لے جانے کے لیے کہنے والا اللہ تعالیٰ تھا اور اس کی مشیت کی وجہ سے آپ مجبور ہو کر نکلے تھے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ” پھر جس طرح رویا میں جبریل بیت المقدس کے سفر میں آپ کے ساتھ تھے ہجرت میں ابو بکر آپ کے ساتھ تھے جو گویا اسی طرح آپ کے تابع تھے جس طرح جبریل خدا تعالیٰ کے تابع کام کرتا ہے.اور جبریل کے معنے خدا تعالیٰ کے پہلو ان کے ہوتے ہیں.حضرت ابو بکر بھی اللہ تعالیٰ کے خاص بندے تھے اور دین کے لئے ایک نڈر پہلوان کی حیثیت رکھتے تھے.999 پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ایک جگہ کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام پر ایمان کے ہوتے ہوئے انسانی قلب میں مایوسی پیدا ہی نہیں ہو سکتی.“ اللہ تعالیٰ کے اوپر ایمان کامل ہو تو دل میں کبھی مایوسی پیدا نہیں ہو سکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حالت مثلاً غار ثور میں ہوئی اس کے بعد کون سی امید کی حالت باقی رہ جاتی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کی تاریکی میں اپنے گھر کو چھوڑ کر غارِ ثور میں جا چھپے.ایک ایسی غار میں جس کا منہ بہت بڑا کھلا تھا اور ہر انسان آسانی سے اس کے اندر جھانک سکتا تھا اور گود سکتا تھا.صرف ایک ساتھی آپ کے ہمراہ تھا اور پھر دونوں بغیر ہتھیاروں
حاب بدر جلد 2 428 حضرت ابو بکر صدیق اور بغیر کسی طاقت کے تھے.مکہ کے مسلح لوگ آپ کے تعاقب میں غارِ ثور پر پہنچے اور ان میں سے بعض نے اصرار کیا کہ ہمیں جھک کر اندر بھی ایک دفعہ دیکھ لینا چاہئے تا کہ اگر وہ اندر ہوں تو ہم ان کو پکڑ سکیں.دشمن کو اتنا قریب دیکھ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ ! دشمن تو سر پر پہنچ گیا ہے.آپ نے اس وقت بڑے جوش سے فرما یالَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ابو بکر ڈرتے کیوں ہو خدا ہمارے ساتھ ہے.دیکھو گھبراہٹ کے لحاظ سے کتنی انتہائی چیز اس وقت آپ کے سامنے آئی اور اس واقعہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل یا آپ کی گرفتاری میں کون سی کسر باقی رہ گئی تھی.مگر باوجود اس کے کہ دشمن طاقتور تھا، سپاہی اس کے ساتھ تھے ، ہتھیار اس کے پاس موجود تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالکل نہتے صرف ایک ساتھی کے ساتھ غار میں بیٹھے تھے.نہ ہتھیار آپ کے پاس تھا نہ حکومت آپ کی تائید میں تھی.نہ کوئی جتھا آپ کے پاس تھا.آپ کثیر التعداد دشمن کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھنے کے باوجود فرماتے ہیں لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا تم کیوں یہ کہتے ہو کہ دشمن طاقتور ہے.کیا وہ خدا سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟ جب خدا ہمارے ساتھ ہے تو ہمارے لئے گھبراہٹ کی کون سی وجہ ہے.حضرت ابو بکر کی یہ گھبراہٹ بھی اپنے لئے نہیں تھی بلکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تھی.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ” بعض شیعہ لوگ اس واقعہ کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ ابو بکر نعوذ باللہ بے ایمان تھا.وہ اپنی جان دینے سے ڈر گیا.حالانکہ تاریخوں میں صاف لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یالا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا تو حضرت ابو بکر نے کہا یارسول اللہ میں اپنی جان کے لئے تو نہیں ڈرتا.میں اگر مارا گیا تو صرف ایک آدمی مارا جائے گا.میں تو آپ کے لئے ڈرتا ہوں.کیونکہ اگر آپ کو نقصان پہنچا تو صداقت دنیا سے مٹ جائے گی.“ 1000 خدا کی قسم! جتنی دلیلیں میں نے سوچی تھیں وہ سب کی سب حضرت ابو بکڑ نے بیان کر دیں پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بات انبیاء سے ہی مخصوص نہیں بلکہ ان سے اتر کر بھی اپنے اپنے زمانے میں ایسے لوگ ملتے ہیں کہ جو کام انہوں نے اس وقت کیا وہ ان کا غیر نہیں کر سکتا تھا.مثلاً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کو لے لو.حضرت ابو بکر کے متعلق کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ بھی کسی وقت اپنی قوم کی قیادت کریں گے.عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ آپ کمزور طبیعت، صلح کل اور نرم دل واقع ہوئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی جنگوں کو دیکھ لو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بڑی جنگ میں بھی حضرت ابو بکر کو فوج کا کمانڈر نہیں بنایا.بے شک بعض چھوٹے چھوٹے غزوات ایسے ہیں جن میں آپ کو افسر بنا کر بھیجا گیا مگر بڑی جنگوں میں
ناب بدر جلد 2 429 حضرت ابو بکر صدیق ہمیشہ دوسرے لوگوں کو ہی کمانڈر بنا کر بھیجا جاتا تھا.اسی طرح دوسرے کاموں میں بھی آپ کو انچارج نہیں بنایا جاتا تھا.باقی قرآن کریم کی تعلیم ہے یا قضا و غیرہ کا کام ہے یہ بھی آپ کے سپرد نہیں کیا گیا.(حضرت ابو بکر کے سپرد نہیں کیا گیا) لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ جب ابو بکر کا وقت آئے گا تو جو کام ابو بکر کرلے گاوہ اس کا غیر نہیں کر سکے گا.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوئے اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ کون خلیفہ ہو اس وقت حضرت ابو بکر کے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ خلیفہ ہوں گے.آپ سمجھتے تھے کہ حضرت عمر و غیر ہ ہی اس کے اہل ہو سکتے ہیں.انصار میں جو جوش پیدا ہوا اور انہوں نے چاہا کہ خلافت انہی میں سے ہو کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے اسلام کی خاطر قربانیاں کی ہیں اور اب خلافت کا حق انصار کا خیال تھا کہ ہمارا ہے اور ادھر مہاجرین کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ایک جھگڑا برپا ہو گیا.انصار کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو اور مہاجرین کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو.آخر انصار کی طرف سے جھگڑا اس بات پر ختم ہوا کہ ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو اور ایک خلیفہ انصار میں سے ہو.اس جھگڑے کو دُور کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائی گئی.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت میں نے سمجھا کہ حضرت ابو بکر بے شک نیک اور بزرگ ہیں لیکن اس گتھی کو سلجھانا ان کا کام نہیں ہے.یہ بہت مشکل کام ہے ان کے لیے ) اس گتھی کو اگر کوئی سلجھا سکتا ہے تو حضرت عمر نے کہا کہ وہ میں ہی ہوں.یہاں طاقت کا کام ہے.نرمی اور محبت کا کام نہیں.(اور حضرت ابو بکر تو نرمی اور محبت دکھانے والے ہیں) چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں میں نے سوچ سوچ کر ایسے دلائل نکالنے شروع کیے جن سے یہ ثابت ہو کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے اور یہ کہ ایک خلیفہ انصار میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے یہ بالکل غلط ہے.آپؐ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے دلائل سوچے اور پھر اس مجلس میں گیا جو اس جھگڑے کو نپٹانے کے لیے منعقد کی گئی تھی.حضرت ابو بکر بھی میرے ساتھ تھے.میں نے چاہا کہ تقریر کروں اور دلائل سے جو میں سوچ کر گیا تھا لو گوں کو قائل کروں.میں سمجھتا تھا کہ حضرت ابو بکر اس شوکت اور دبدبے کے مالک نہیں کہ اس مجلس میں بول سکیں لیکن میں کھڑا ہونے ہی لگا تھا ( حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں کھڑ ا ہونے ہی لگا تھا) کہ حضرت ابو بکر نے غصہ سے ہاتھ مار کے مجھ سے کہا بیٹھ جاؤ اور خود کھڑے ہو کر تقریر شروع کر دی.حضرت عمر فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! جتنی دلیلیں میں نے سوچی تھیں وہ سب کی سب حضرت ابو بکر نے بیان کر دیں اور پھر اور بھی کئی دلائل بیان کرتے چلے گئے اور بیان کرتے چلے گئے یہاں تک کہ انصار کے دل مطمئن ہو گئے اور انہوں نے خلافت مہاجرین کے اصول کو تسلیم کر لیا.یہ وہی ابو بکر تھا جس کے متعلق حضرت عمر خود بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ کسی جھگڑے پر بازار میں حضرت ابو بکر کے کپڑے پھاڑ دیے اور مارنے پر تیار ہو گئے تھے.یہ وہی ابو بکر تھا
تاب بدر جلد 2 430 حضرت ابو بکر صدیق جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابو بکر سکا دل رقیق ہے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو وفات سے قبل آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ) حضرت عائشہ سے فرمایا کہ میرے دل میں بار بار یہ خواہش اٹھتی ہے کہ میں لوگوں سے کہہ دوں کہ وہ میرے بعد ابو بکر کو خلیفہ بنالیں لیکن پھر رک جاتا ہوں کیونکہ میر ادل جانتا ہے کہ میری وفات کے بعد خدا تعالیٰ اور اس کے مومن بندے ابو بکر کے سوا کسی اور کو خلیفہ نہیں بنائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا آپ کو خلیفہ منتخب کیا گیا.آپ رقیق القلب انسان تھے اور اتنی نرم طبیعت کے تھے کہ ایک دفعہ آپ کو مارنے کے لیے بازار میں حضرت عمرؓ آگے بڑھے اور انہوں نے آپ کے کپڑے پھاڑ دیے لیکن وہی ابو بکر جس کی نرمی کی یہ حالت تھی ایک وقت ایسا آیا کہ حضرت عمر آپ کے پاس آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ تمام عرب مخالف ہو گیا ہے.صرف مدینہ ، مکہ اور ایک چھوٹی سی بستی میں نماز با جماعت ہوتی ہے.باقی لوگ نمازیں پڑھتے تو ہیں لیکن ان میں اتنا تفرقہ پیدا ہو چکا ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں اور اختلاف اتنابڑھ چکا ہے کہ وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں.عرب کے جاہل لوگ جو پانچ پانچ چھ چھ ماہ سے مسلمان ہوئے ہیں مطالبہ کر رہے ہیں کہ زکوۃ معاف کر دی جائے.حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ لوگ زکوۃ کے مسئلہ کو سمجھتے تو ہیں نہیں.اگر ایک دو سال کے لیے انہیں زکوۃ معاف کر دی جائے تو کیا حرج ہے؟ گویا وہ عمر جو ہر وقت تلوار ہاتھ میں لیے کھڑا رہتا تھا اور ذرا ذراسی بات بھی ہوتی تھی تو کہتا تھا یار سول اللہ ! حکم ہو تو اس کی گردن اڑا دوں وہ ان لوگوں سے اتنامر عوب ہو جاتا ہے، اتنا ڈر جاتا ہے، اتنا گھبرا جاتا ہے کہ ابو بکر کے پاس آکر ان سے درخواست کرتا ہے کہ ان جاہل لوگوں کو کچھ عرصہ کے لیے زکوۃ معاف کر دی جائے ہم آہستہ آہستہ انہیں سمجھا لیں گے.مگر وہ ابو بکر جو اتنار قیق القلب تھا کہ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ انہیں مارنے کے لیے تیار ہو گیا تھا اور بازار میں ان کے کپڑے پھاڑ دیے تھے.اس نے اس وقت نہایت غصہ سے عمر کی طرف دیکھا یعنی جب حضرت عمر نے یہ بات ان سے کہی کہ لوگوں سے کچھ نہ کہا جائے جو باغی ہو رہے ہیں، دو سال تک نہ زکوۃ لیں ہم آگے سمجھا لیں گے.جب حضرت عمرؓ نے یہ بات کی تو حضرت ابو بکڑ نے نہایت غصہ سے عمر کی طرف دیکھا اور کہا عمر اتم اس چیز کا مطالبہ کر رہے ہو جو خدا اور اس کے رسول نے نہیں کی.حضرت عمرؓ نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن یہ لوگ حدیث العھد ہیں.دشمن کا لشکر مدینہ کی دیواروں کے پاس پہنچ چکا ہے.کیا یہ اچھا ہو گا کہ یہ لوگ بڑھتے چلے آئیں اور ملک میں پھر طوائف الملو کی کی حالت پیدا ہو جائے یا یہ مناسب ہو گا کہ انہیں ایک دو سال کے لیے زکوۃ معاف کر دی جائے.یا طوائف الملو کی ہے یا یہ ہے کہ کسی طرح صلح کرلی جائے.حضرت ابو بکر نے فرمایا خدا کی قسم ! اگر دشمن مدینہ کے اندر گھس آئے اور اس کی گلیوں میں مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دے اور عورتوں کی لاشوں کو کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں انہیں زکوۃ معاف نہیں کروں گا.
اصحاب بدر جلد 2 431 حضرت ابو بکر صدیق خدا کی قسم ! اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں یہ لوگ رسی کا ایک ٹکڑا بھی بطور زکوۃ دیتے تھے تو میں وہ بھی ان سے ضرور وصول کروں گا.پھر آپ نے فرمایا: عمر اگر تم لوگ ڈرتے ہو تو بے شک چلے جاؤ.میں اکیلا ہی ان لوگوں سے لڑوں گا اور اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک یہ اپنی شرارت سے باز نہیں آجاتے.چنانچہ لڑائی ہوئی اور آپ فاتح ہوئے یعنی حضرت ابو بکر فاتح ہوئے اور اپنی وفات سے پہلے پہلے آپ نے دوبارہ سارے عرب کو اپنے ماتحت کر لیا.حضرت ابو بکڑ نے اپنی زندگی میں جو کام کیا وہ انہی کا حصہ تھا.کوئی اور شخص وہ کام نہیں کر سکتا تھا.1001 حضرت ابو بکر کے سوا اور کسی میں یہ جرآت نہیں تھی کہ اس کے ہاتھ کو روک سکے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مکہ کے رؤساء کو لوگوں میں سے اس قسم کی عزت اور عظمت حاصل تھی کہ لوگ ان کے سامنے بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے اور ان کے احسانات بھی لوگوں پر اس کثرت کے ساتھ تھے کہ کوئی شخص ان کے سامنے آنکھ تک نہیں اٹھا سکتا تھا.ان کی اس عظمت کا پتہ اس وقت لگ سکتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جس سردار کو مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرنے کے لیے بھیجا اس نے باتوں باتوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا دیا.یہ دیکھ کر ایک صحابی نے زور سے اپنا تلوار کا کندہ، جو دستہ ہوتا ہے تلوار کا اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا اپنے ناپاک ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو مت لگاؤ.اس نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تا کہ معلوم کرے کہ یہ کون شخص ہے جس نے میرے ہاتھ پر تلوار کا دستہ مارا ہے.صحابہ چونکہ خود پہنے ہوئے تھے اس لیے ان کو صرف آنکھیں اور ان کے حلقے ہی دکھائی دیتے تھے.وہ تھوڑی دیر غور سے دیکھتا رہا.پھر کہنے لگا کیا تم فلاں شخص ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں.اس نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں میں نے فلاں فلاں موقع پر تمہارے خاندان کو فلاں مصیبت سے نجات دی اور فلاں موقع پر تم پر فلاں احسان کیا.کیا تم میرے سامنے بولتے ہو ؟ حضرت مصلح موعود اس احسان کا ، اس بات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آج کل ہم دیکھیں تو احسان فراموشی کا مادہ لوگوں میں اس قدر عام ہو چکا ہے کسی پر شام کو احسان کرو تو صبح کو وہ بھول جاتا ہے اور کہتا ہے کیا میں اب ساری عمر اس کا غلام بنار ہوں ؟ ہرے پر احسان کر دیا تو کیا ہو گیا وہ ساری عمر کی غلامی چھوڑ ایک رات کے احسان کی قدر تک بر داشت نہیں کر سکتا مگر عربوں میں احسان مندی کا جذبہ بدرجہ کمال پایا جاتا تھا.اب یہ ایک نہایت ہی نازک موقع تھا مگر جب اس نے اپنے احسانات گنوائے تو اس صحابی کی نظریں زمین میں گڑ گئیں اور شر مندہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا.احسان کی اتنی قدر ہوتی تھی.اس پر پھر اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنی شروع کر دیں اور کہا میں عرب کا باپ ہوں.میں تمہاری منت کرتا ہوں کہ تم اپنی قوم کی عزت رکھ لو اور دیکھو یہ جو تمہارے ارد گرد جمع ہیں یہ تو مصیبت آنے پر فوراً بھاگ جائیں گے اور تمہارے کام آخر تمہاری قوم ہی آئے گی.پس کیوں اپنی قوم کو ذلیل کرتے ہو میں عرب کا باپ ہوں.
اصحاب بدر جلد 2 432 حضرت ابو بکر صدیق وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار یہی کہتا تھا کہ میں عرب کا باپ ہوں.تم میری بات مان لو اور جس طرح میں کہتا ہوں اسی طرح عمرہ کیے بغیر واپس چلے جاؤ.اسی دوران میں اس نے اپنی بات پر زور دینے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منوانے کی خاطر آپ کی ریش مبارک کو پھر ہاتھ لگا دیا اور گو آپ کو ، آپ کی ریش مبارک کو اس کا ہاتھ لگانا لجاجت کے رنگ میں تھا، بڑی منت کے رنگ میں کہنا چاہتا تھا اور اس لیے تھا کہ آپ سے وہ اپنی بات منوائے مگر چونکہ اس میں تحقیر کا پہلو بھی پایا جاتا تھا اس لیے صحابہ اسے برداشت نہ کر سکے اور جو نہی اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کو ہاتھ لگایا پھر کسی نص نے زور سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا اپنے ناپاک ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کی طرف مت بڑھا.اس نے پھر آنکھیں اٹھائیں اور غور سے دیکھتا رہا کہ یہ کون ہے جس نے مجھے روکا ہے اور آخر پہچان کر اس نے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں.اس شخص نے جو کافروں کا نمائندہ بن کے آیا تھا جب اس نے پہچانا اس شخص کو تو آنکھیں نیچی کر لیں.دیکھا یہ تو ابو بکر ہیں تو کہنے لگا ابو بکر میں جانتا ہوں کہ تم پر میرا کوئی احسان نہیں تم ایسے شخص ہو جس پر میں نے کوئی احسان نہیں کیا.پس وہ دوسروں پر اس قدر احسانات کرنے والی قوم تھی کہ سوائے حضرت ابو بکر کے جس قدر انصار اور مہاجر وہاں تھے ان سب پر اس ایک رئیس کا کوئی نہ کوئی احسان تھا اور حضرت ابو بکڑ کے سوا اور کسی میں یہ جرات نہیں تھی کہ اس کے ہاتھ کو روک سکے.1002 و ہی واحد شخص تھے جن پر اس شخص کا کوئی احسان نہیں تھا.خدا کا بنایا ہوا خلیفہ کس قدر جرآت اور دلیری رکھتا ہے پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ زکوۃ تو ایسی ضروری چیز ہے کہ جو نہیں دیتا وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر کے زمانہ میں جب کچھ لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهَرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ( 103) اس میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ تو لے.اب جب کہ آپ نہیں رہے تو اور کون لے سکتا ہے ؟ نادانوں نے یہ نہ سمجھا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام ہو گا جو لے گا لیکن جہالت سے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے.ادھر تو لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور ادھر فساد ہو گیا قریباً سارا عرب مرتد ہو گیا اور کئی مدعی نبوت کھڑے ہو گئے.یوں معلوم ہو تا تھا کہ نعوذ باللہ اسلام تباہ ہونے لگا ہے.ایسے نازک وقت میں صحابہ نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ آپ ان لوگوں سے جنہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا ہے فی الحال نرمی سے کام لیں.حضرت عمر جن کو بہت بہادر کہا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ گو میں کتنا ہی جری ہوں مگر ابو بکر جتنا نہیں کیونکہ میں نے بھی اس وقت یہی کہا کہ ان سے نرمی کی جائے.پہلے کافروں کو زیر کر لیں پھر ان کی اصلاح کر لیں گے لیکن ابو بکر نے کہا ابن مقحافہ کی کیا حیثیت ہے؟ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
صحاب بدر جلد 2 433 حضرت ابو بکر صدیق 1003<< دیئے ہوئے حکم کو بدلائے میں تو ان سے اس وقت تک لڑوں گاجب تک کہ یہ لوگ پوری طرح زکوۃ نہ دیں اور اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اونٹ باندھنے کی ایک رسی جو دیتے تھے “ وہ بھی نہ دیں ” وہ بھی ادانہ کر دیں.اُس وقت صحابہ کو پتہ لگا کہ خدا کا بنایا ہوا خلیفہ کس قدر جرآت اور دلیری رکھتا ہے آخر حضرت ابو بکر نے اُن کو زیر کیا اور اُن سے زکوۃ لے کر چھوڑی.حضرت ابو بکر کی مالی قربانی کے بارے میں آتا ہے، ایک مصنف لکھتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق جب ایمان لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم کی خطیر رقم موجود تھی اور ظاہر ہے کہ مالِ تجارت، اسباب و املاک اس کے علاوہ تھے.بلکہ ایک روایت کے مطابق تو ان کے پاس ایک ملین یعنی دس لاکھ درہم کی رقم موجود تھی.مکہ میں عام مسلمانوں کی اعانت اور غریب مسلمانوں کی کفالت پر ہزار ہا درہم خرچ کر د.دیے تاہم جب انہوں نے ہجرت کی تو پانچ چھ ہزار درہم نقد ساتھ تھے.ایک روایت کے مطابق وہ یہ ساری رقم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات کے لیے بچا کر رکھتے گئے اور بوقت ہجرت مدینہ لے کر آئے تھے.اسی رقم سے انہوں نے ہجرت کے دوران سفر کے اخراجات کے علاوہ بعد ہجرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خاندان میں سے بعض کے سفر کے اخراجات دیے تھے اور مدینہ میں مسلمانوں کے لیے کچھ زمین بھی خریدی تھی.حضرت ابنِ عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں کہ جس میں آپ کی وفات ہوئی آپ باہر تشریف لائے اور آپ نے اپنا سر ایک کپڑے سے باندھا ہوا تھا.آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جو بلحاظ اپنی 1004 جان اور مال کے مجھ پر ابو بکر بن ابو قحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو.1005 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کسی مال نے کبھی وہ فائدہ نہیں پہنچایا جو مجھے ابو بکر کے مال نے فائدہ پہنچایا ہے.راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر یہ سن کے رو پڑے اور عرض کیا یارسول اللہ ! میں اور میر امال تو صرف آپ ہی کے لیے ہیں اے اللہ کے رسول ! 1006 آج بھی مجھ سے ابو بکر بڑھ گئے....حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ”ایک جہاد کے موقع کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں مجھے خیال آیا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ مجھ سے بڑھ جاتے ہیں.آج میں ان سے بڑھوں گا.یہ خیال کر کے میں گھر گیا اور اپنے مال میں سے آدھا مال نکال کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے لے آیا.وہ زمانہ اسلام کے لئے
اصحاب بدر جلد 2 434 حضرت ابو بکر صدیق انتہائی مصیبت کا دور تھا.لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا سارا مال لے آئے“ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ”حضرت ابو بکر اپنا سارا اثاثہ حتی کہ لحاف اور چار پائیاں بھی اٹھا کر لے آئے.“ بہر حال ” اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا.“ سارا مال.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ابو بکر اگھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا.اللہ اور اس کا رسول.حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.یہ سن کر مجھے سخت شرمندگی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ آج میں نے سارا زور لگا کر ابو بکڑ سے بڑھنا چاہا تھا مگر آج بھی مجھ سے ابو بکر بڑھ گئے.“ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ ممکن ہے کوئی کہے کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا سارا مال لے آئے تھے تو پھر گھر والوں کے لئے انہوں نے کیا چھوڑا؟ اس کے متعلق یادرکھنا چاہئے کہ اس سے مراد گھر کا سارا اندوختہ تھا.وہ تاجر تھے اور جو مال تجارت میں لگا ہوا تھا وہ نہیں لائے تھے اور نہ مکان بیچ کر آگئے تھے.007 ابلکہ وہ گھر کا سامان لے کے آئے تھے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دو کمال ظاہر ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ قربانی میں سب سے آگے بڑھ گئے اور دوسرے یہ کہ باوجود اپنا سارا مال لانے کے پھر سب سے پہلے پہنچ گئے اور جنہوں نے تھوڑا دیا تھا وہ اس فکر میں ہی رہے کہ کتنا گھر میں رکھیں اور کتنا لائیں.مگر باوجود اس کے حضرت ابو بکر کے متعلق یہ کہیں نہیں آتا کہ انہوں نے دوسروں پر اعتراض کیا ہو.“ سارا کچھ لے آئے لیکن یہ نہیں ہوا کہ انہوں نے اعتراض کیا.دیکھو میں لے آیا ہوں اور وہ دوسرے نہیں لے کے آتے.1008 ”حضرت ابو بکر قربانی کر کے بھی یہ سمجھتے تھے کہ ابھی خدا کا میں دیندار ہوں اور میں نے کوئی اللہ تعالیٰ پر احسان نہیں کیا بلکہ اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی ہے.پس حضرت مصلح موعود اس ضمن میں بیان فرما رہے ہیں کہ مالی قربانی کرنے والوں کو اپنا دیکھنا چاہیے.ان منافقوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو خود بھی چندہ نہیں دیتے اور اگر تھوڑا سا دے دیں تو دوسروں پہ اعتراض کرتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے کم دیا اور فلاں نے اتنا دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ”صحابہ کی تو وہ پاک جماعت تھی.جس کی تعریف میں قرآن شریف بھرا پڑا ہے.کیا آپ لوگ ایسے ہیں ؟ جب خدا کہتا ہے کہ حضرت مسیح کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے.جو صحابہ کے دوش بدوش ہوں گے.صحابہ تو وہ تھے.جنہوں نے اپنا مال، اپنا وطن راہِ حق میں دے دیا.اور سب کچھ چھوڑ دیا.حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اکثر سنا ہو گا.ایک دفعہ جب راہ خدا میں مال دینے کا حکم ہو اتو گھر کا کل اثاثہ لے آئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ گھر میں کیا چھوڑ آئے تو فرمایا کہ خدا اور رسول کو گھر میں چھوڑ آیا ہوں.رئیس مکہ ہو اور کمبل پوش.غربا کالباس پہنے.یہ سمجھ لو کہ وہ لوگ تو خدا کی راہ میں شہید ہو گئے.
اصحاب بدر جلد 2 435 حضرت ابو بکر صدیق ان کے لئے تو یہی لکھا ہے کہ سیفوں (تلواروں) کے نیچے بہشت ہے.، 1009 یعنی تلواروں کے نیچے بہشت ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ”صحابہ کی حالت دیکھو ! جب امتحان کا وقت آیا تو جو کچھ کسی کے پاس تھا.اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا.حضرت ابو بکر صدیق سب سے اول کمبل پہن کر آگئے.پھر اس کمبل کی جزا بھی اللہ تعالیٰ نے کیا دی یعنی کہ سب کچھ لے آئے اور صرف ایک لمبل اوڑھ لیا اپنے اوپر.اللہ تعالیٰ نے کیا جزا دی کہ سب سے اول خلیفہ وہی ہوئے.فرمایا ” غرض یہ ہے کہ اصلی خوبی یعنی سب سے اول کام کرنا.کہ ”خیر اور روحانی لذت سے بہرہ ور ہونے کے لئے وہی مال کام آسکتا ہے.جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے.1010 ان کا لوگوں میں سب سے بہتر اور محبوب ہونے کے بارے میں لکھا ہے.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم لوگوں میں سے ایک کو دوسرے سے بہتر قرار دیا کرتے تھے.مقابلہ ہو تا تھا کہ کون بہتر ہے دوسرے سے.اور اس وقت سمجھتے تھے کہ حضرت ابو بکر شسب سے بہتر ہیں، پھر حضرت عمر بن خطاب، پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم.1011 حضرت جابر بن عبد اللہ نے بیان کیا: حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ اے لوگوں میں سب سے بہتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ! حضرت عمر نے حضرت ابو بکر کی تعریف کی تو حضرت ابو بکڑ نے کہا کہ اگر تم ایسا کہتے ہو تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سورج طلوع نہیں ہو ا کسی آدمی پر جو عمر سے بہتر ہو.1012 یعنی آپ نے فوراً اپنی عاجزی کا اظہار فرمایا کہ مجھے کہتے ہو تم بہتر ہو حالا نکہ میں نے تو تمہارے بارے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا ہے کہ تم بہتر ہو.عبد اللہ بن شفیق نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھا تو انہوں نے فرمایا حضرت ابو بکر میں نے کہا پھر کون؟ فرمایا حضرت عمرؓ میں نے کہا پھر کون؟ فرمایا پھر حضرت ย ابو عبیدہ بن جراح.وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا پھر کون؟ پھر آپ خاموش رہیں.1013 محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں اس شخص کے بارے میں گمان نہیں کر تاجو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی تنقیص بیان کرتا یعنی ان میں نقص نکالتا ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہو.1014 اور پھر یہ بھی ساتھ دعویٰ ہو کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے.حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ ہمیں نقص نکالنے کے بعد یہ دعویٰ غلط ہے کہ پھر ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے کیونکہ یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے پیارے تھے.
محاب بدر جلد 2 436 حضرت ابو بکر صدیق حضرت عائذ بن عمرو سے روایت ہے کہ حضرت سلمان، حضرت صہیب اور حضرت بلال چند لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوسفیان آئے.اس پر اُن لوگوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اللہ کی تلواروں نے اللہ کے دشمن کی گردن کے ساتھ ابھی تک اپنا حساب چکتا نہیں کیا.یعنی صحیح طرح جو بدلہ لینا چاہیے تھا وہ نہیں لیا.راوی کہتے ہیں یہ سن کر حضرت ابو بکر نے کہا: کیا تم قریش کے بڑے سر داروں کے بارے میں اس طرح کہہ رہے ہو ؟ ابو سفیان بھی قریش کے سرداروں میں سے ہیں.تم کہہ رہے ہو کہ ان سے ہم نے بدلہ نہیں لیا.پھر حضرت ابو بکر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا کہ اے ابو بکر !شاید تم نے ان لوگوں یعنی سلمان، صہیب اور بلال کو ناراض کر دیا.اگر تم نے انہیں ناراض کیا تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے رب کو ناراض کیا.اس پر حضرت ابو بکر ان تینوں حضرات کے پاس آئے اور کہا: پیارے بھائیو ! کیا میں نے آپ کو ناراض کر دیا؟ بڑے معذرت خواہانہ انداز میں یہ کہا.تو انہوں نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے اے ہمارے بھائی! اللہ آپ کو معاف کرے.1015 بہر حال یہاں یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ حضرت ابو بکر کی عاجزی کس قدر تھی.ایسے لوگ جن کو آپ نے غلامی سے آزاد بھی کروایا ہوا ہے اس کے باوجود ان کے پاس آتے ہیں اور ان سے معافی مانگتے ہیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اطاعت کا کیا معیار تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی کہ تم نے ناراض کر دیا.یہ نہیں فرمایا کہ جا کے معافی مانگو لیکن آپ فورا خود گئے اور اُن سے معافی مانگی.یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے شرح میں لکھا گیا ہے واقعہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کی جنگ بندی کے معاہدہ کے بعد کا ہے جب ابوسفیان ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے.اس وقت مسلمانوں کا خیال تھا کہ کیوں نہ ہم نے ان کو پہلے ہی مار دیا ہوتا.1016 حفظ قرآن کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی تاریخ کے حوالے سے باتیں فرمائی ہیں.فرماتے ہیں کہ ”ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہ میں سے مندرجہ ذیل کا حفظ ثابت ہے.ابو بکر عمر عثمان علی.طلحہ.سعد ابن مسعودؓ.حذیفہ.سالم.ابوہریرہ عبد اللہ بن ائب عبد اللہ بن عمرؓ عبد اللہ بن عباس.اور عورتوں میں سے عائشہ.حضرت حفصہ اور حضرت ام سلمہ.ان میں سے اکثر نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قرآن شریف حفظ کر لیا تھا اور بعض نے آپ کی وفات کے بعد حفظ کیا.1017 ثانی اثنین کے بارے میں حضرت ابو بکر کی اپنی روایت یوں ہے.حضرت انس نے حضرت ابو بکر سے روایت کی.وہ کہتے
محاب بدر جلد 2 437 حضرت ابو بکر صدیق تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اور میں اس وقت غار میں تھا ( یعنی حضرت ابو بکر نے کہا جبکہ وہ غار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ) کہ اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں کے نیچے نگاہ ڈالے ( یعنی کافر جو باہر کھڑے تھے اگر نیچے دیکھے ) تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو بکر آپ کا کیا خیال ہے ان دو شخصوں کی نسبت جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہو.1018 بخاری کی روایت ہے یہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : بھی ہے کہ ( حضرت ابو بکر صدیق کے محاسن اور خصوصی فضائل میں سے ایک خاص بات مخص" ، سفر ہجرت میں آپ کو رفاقت کے لئے خاص کیا گیا اور مخلوق میں سے سب سے بہترین شخص “ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مشکلات میں آپ ان کے شریک تھے اور آپ مصائب کے آغاز سے ہی حضور کے خاص انیس بنائے گئے تھے “ یعنی خاص دوست بنائے گئے تھے ” تاکہ محبوبِ خدا کے ساتھ آپ کا خاص تعلق ثابت ہو اور اس میں بھید یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ خوب معلوم تھا کہ صدیق اکبر صحابہ میں سے زیادہ شجاع، متقی اور ان سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور مردِ میدان تھے اور یہ کہ سید الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا تھے.آپ یعنی حضرت ابو بکر ”ابتدا سے ہی حضور کی مالی مدد کرتے اور آپؐ کے اہم امور کا خیال فرماتے تھے.سو اللہ نے تکلیف دہ وقت اور مشکل حالات میں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آپ کے ذریعہ تسلی فرمائی اور الصدیق کے نام اور نبی ثقلین کے قرب سے مخصوص فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثانِيَ اثْنَيْنِ کی خلعت فاخرہ سے فیضیاب فرمایا اور اپنے خاص الخاص بندوں میں سے بنایا.غیر مسلم مصنفین کا حضرت ابو بکر کو خراج عقیدت 1019❝ الجیریا کا بیسویں صدی کا ایک مورخ ہے آندرے سرویئر (André Servicer) وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ابو بکر کا مزاج سادہ تھا.غیر متوقع عروج کے باوجود انہوں نے غربت والی زندگی بسر کی.جب انہوں نے وفات پائی تو انہوں نے اپنے پیچھے ایک بوسیدہ لباس، ایک غلام اور ایک اونٹ ترکہ میں چھوڑا.وہ اہل مدینہ کے دلوں پر سچی حکومت کرنے والے تھے.ان میں ایک بہت بڑی خوبی تھی اور وہ تھی قوت و توانائی.لکھتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس خوبی کے ذریعہ غلبہ حاصل کیا تھا اور جو آپ کے دشمنوں میں کمیاب تھی وہ خوبی حضرت ابو بکر میں پائی جاتی تھی اور وہ کیا خوبی تھی، غیر متزلزل ایمان اور مضبوط یقین اور ابو بکر صحیح جگہ پر صحیح آدمی تھا.پھر لکھتا ہے کہ اس معمر اور نیک سیرت انسان نے اپنے موقف کو اختیار کیا جبکہ ہر طرف بغاوت برپا تھی.آپ نے اپنے مومنانہ اور غیر متزلزل عزم سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو از سر نو شروع کیا.1020
محاب بدر جلد 2 438 حضرت ابو بکر صدیق پھر ایک برطانوی مورخ ہے جے جے سانڈرز (J.J.Saunders) وہ لکھتا ہے کہ: پہلے خلیفہ کی یاد مسلمانوں میں ہمیشہ ایک ایسے انسان کے طور پر جاگزیں رہی ہے جو کامل وفادار ، لطف و کرم کا پیکر تھا اور کوئی سخت سے سخت طوفان بھی ان کی مستقل متحمل مزاجی کو ہلا نہ سکا.ان کا عہدِ حکومت اگر چہ مختصر تھا لیکن اس میں جو کامیابیاں حاصل ہوئیں وہ بہت عظیم تھیں.ان کی طبیعت کے ٹھہر اؤ اور ثبات و استقلال نے ارتداد پر قابو پا کر عرب قوم کو دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل کر دیا اور ان کے تسخیر شام کے مصمم ارادے نے عرب دنیا کی سلطنت کی بنیا درکھ دی.پھر ایک اور انگریز مصنف ہے ایچ جی ویلز (H.G.Wells) یہ کہتا ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی سلطنت کی اصل بنیا د رکھنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ابو بکر تھے جو آپ کے دوست اور مدد گار تھے.خیر یہ تو مبالغہ کر رہا ہے یہاں.بہر حال یہ لکھ رہا ہے.1021 پھر آگے لکھتا ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متزلزل کردار کے باوجود ابتدائی اسلام کا دماغ اور تصور تھے.( العیاذ باللہ ، نعوذ باللہ) تو ابو بکر اس کا شعور اور عزم تھے.جب کبھی محمد متزلزل ہوتے (صلی اللہ علیہ وسلم) تو ابو بکر ان کی ڈھارس بندھاتے تھے.بہر حال یہ باتیں تو اس کی فضول گوئی اور لغو باتیں ہیں جس میں کوئی سچائی نہیں ہے لیکن یہ آگے جو صحیح بات لکھ رہا ہے وہ یہ لکھ رہا ہے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو ابو بکر آپ کے خلیفہ اور جانشین بنے اور پہاڑوں کو بھی ہلا دینے والے ایمان کے ساتھ انہوں نے بڑی سادگی اور سمجھداری سے تین یا چار ہزار عربوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی سی فوج کے ساتھ ساری دنیا کو اللہ کے تابع فرمان بنانے کا کام شروع کیا.122 بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ مصنف نے حضرت ابو بکر کی بعض خوبیوں کا ذکر کیا ہے جو بلاشبہ اُن میں موجود تھیں لیکن چونکہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلیٰ و ارفع مقام نبوت کی حقیقت کا ادراک اور شعور نہیں رکھتے تھے اس لیے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر و غیرہ کی تعریف میں اس حد تک مبالغہ آمیزی سے کام لے جاتے ہیں کہ جو کسی بھی طور پر درست نہیں ہو سکتا حالانکہ حضرت عمرؓ ہوں یا حضرت ابو بکر یہ سب اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار اور کامل متبع اور عاشق تھے.یہ لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شعور نہ تھے بلکہ خادمانہ رنگ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہاتھ اور پاؤں تھے.ایسا ہی دین اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دماغ کا نام یا کام نہ تھا جس طرح اس نے یہ لکھا ہے کہ اسلام جو تھا اس کا دماغ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے بلکہ سراسر خدائی راہنمائی اور وحی الہی کے نتیجہ میں ایک کامل اور مکمل شریعت اور دین کا نام اسلام ہے اور نہ ہی کسی بھی گھبراہٹ یا تزلزل کے موقع پر حضرت ابو بکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھارس بنے بلکہ اول تو اس المجمع الناس،
اصحاب بدر جلد 2 439 حضرت ابو بکر صدیق جری اور بہادر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں ہم کبھی کسی گھبراہٹ یا تزلزل کو دیکھ نہیں سکتے اور اگر کوئی پریشانی کا موقع آیا بھی ہو تو خدائے قادر و توانا ان کے لیے ڈھارس بنتا رہا.مصنف نے تو لکھا ہے کہ ابو بکر آپ کی ڈھارس بندھاتے تھے جبکہ اس کے بالکل الٹ ہم نے دیکھا ہے کہ اگر حضرت ابو بکر کی زندگی میں کسی پریشانی یا گھبراہٹ کا وقت آیا بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے ڈھارس بنا کرتے تھے جیسا کہ ہجرت کے موقع پر جب حضرت ابو بکر سخت پریشان ہوئے اور گھبر ائے.بے شک یہ گھبر اہٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی تھی لیکن حضرت ابو بکر کی اس گھبراہٹ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ڈھارس بنے.جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر سے یہ کہا کہ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا : :(40) کہ اے ابو بکر ! تم گھبراؤ نہیں.اللہ ہمارے ساتھ ہے.اور جیسا کہ ابھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حضرت ابو بکر نے خود بیان فرمایا جب یہ گھبراہٹ تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلی دلائی.پس یہ ایک واقعہ ہی آپ کے عزم، توکل اور اللہ تعالیٰ کے خاص نبی ہونے کی واضح دلیل ہے لیکن بہر حال یہ عقل کے اندھے اگر ایک بات سچ کہنے میں مجبور ہوتے ہیں تو کچھ نہ کچھ بیچ میں گند ملانے کی ضرور کوشش کرتے ہیں.پھر ایک اور برطانوی مستشرق ہے ٹی ڈبلیو آرنلڈ (T.W.Armold) کہتا ہے کہ : وہ (ابوبکر) ایک دولت مند تاجر تھے.اعلیٰ کردار اور اپنی ذہانت اور قابلیت کی بنا پر ان کے ہم وطن ان کی بہت عزت کرتے تھے.اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ اُن مسلمان غلاموں کو خریدنے پر صرف کر دیا جنہیں کفار ان کے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر ایمان لانے کے سبب اذیتیں دیتے تھے.پھر سکاٹ لینڈ کا ایک مستشرق اور برطانوی ہندوستان میں شمال مغربی صوبوں کا لیفٹیننٹ گورنر سرولیم میور (Sir William Muit) ہے یہ لکھتا ہے کہ: حضرت ابو بکر کا عہد حکومت مختصر تھا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام ابو بکر سے زیادہ کسی اور کا ممنون نہیں.یعنی محمد کے بعد ابو بکر سے زیادہ اسلام کی خدمت کسی اور نے نہیں کی.حضرت ابو بکر کے اخلاق حسنہ کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ : ”کیا یہ سچ نہیں کہ بڑے بڑے زبر دست بادشاہ ابو بکر اور عمر بلکہ ابوہریر کا نام لے کر بھی رضی.1023 1024 اللہ عنہ کہہ اٹھتے رہے ہیں اور چاہتے رہے ہیں کہ کاش ان کی خدمت کا ہی ہمیں موقعہ ملتا.پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ ابو بکر اور عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے غربت کی زندگی بسر کر کے کچھ نقصان اٹھایا.بے شک انہوں نے دنیاوی لحاظ سے اپنے اوپر ایک موت قبول کر لی.لیکن وہ موت ان کی حیات ثابت ہوئی اور اب کوئی طاقت ان کو مار نہیں سکتی.وہ قیامت تک زندہ رہیں گے.1025
اصحاب بدر جلد 2 440 حضرت ابو بکر صدیق پھر فرماتے ہیں کہ : ”ابو بکر کو اللہ تعالیٰ نے محض اس لئے ابو بکر نہیں بنایا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے.عمر کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے عمر کا درجہ عطا نہیں کیا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں پید اہو گئے تھے.عثمان اور علی کو محض اس لئے خدا تعالیٰ نے عثمان اور علی کا جو مرتبہ ہے وہ عطا نہیں کیا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دامادی کے مقام پر پہنچ گئے تھے یا طلحہ اور زبیر کو محض اس لئے کہ وہ آپ کے خاندان یا آپ کی قوم میں سے تھے اور آپ کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے عزتیں اور رتبے عطا نہیں کئے.بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی قربانیوں کو ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا تھا کہ جس سے زیادہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آتا.1026 پس یہ قربانیاں ہیں جو انسان کو مقام دلاتی ہیں.پھر حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی کتنی عزت ہمارے دلوں میں ہے مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ عزت اُن کی اولاد کی وجہ سے ہے ؟ ہم میں سے تو اکثر ایسے ہیں جو جانتے تک نہیں کہ حضرت ابو بکر کی نسل کہاں تک چلی اور ان کی نسل کے حالات ہی محفوظ نہیں ہیں.آج بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جو اپنے آپ کو حضرت ابو بکر کی اولاد ظاہر کر کے اپنے آپ کو صدیقی کہتے ہیں.لیکن اگر ان سے کوئی کہے کہ تم قسم کھاؤ کہ واقعی تم صدیقی ہو اور تمہارا سلسلہ نسب حضرت ابو بکر نیک پہنچتا ہے ؟ تو وہ ہر گز قسم نہیں کھا سکیں گے اور اگر وہ قسم کھا بھی جائیں تو ہم کہیں گے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں اور بے ایمان ہیں.اِس کی وجہ یہی ہے کہ حضرت ابو بکر کی نسل کے حالات اتنے محفوظ ہی نہیں ہیں کہ آج کوئی اپنے آپ کو صحیح طور پر ان کی طرف منسوب کر سکے.پس ہم حضرت ابو بکر کی عزت اس لئے نہیں کرتے کہ ان کی نسل کا کام عالی شان ہے ، ہم حضرت عمرؓ کی عزت اس لئے نہیں کرتے کہ ان کی نسل کا کام نہایت اعلیٰ پایہ کا ہے، ہم حضرت عثمان کی عزت اس لئے نہیں کرتے کہ اُن کی نسل کا رہائے نمایاں کر رہی ہے اور ہم حضرت علی کو اس لئے نہیں یاد کرتے کہ ان کی نسل میں خاص خوبیاں ہیں.( حضرت علی کا تو سلسلہ نسب بھی اب تک چل رہا ہے مگر ان کی عزت اس لئے نہیں کی جاتی کہ ان کی نسل اب تک قائم ہے) باقی بھی جتنے صحابہ تھے ان میں سے کوئی ایک بھی تو ایسا نہیں جسے اس کی نسل کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہو.پس حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کو ان کی ذاتی قربانیوں کی وجہ سے یاد کرتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں.پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کو دیکھ لو.آپ مکہ کے ایک معمولی تاجر تھے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوتے اور مکہ کی تاریخ لکھی جاتی تو مؤرخ صرف اتنا ذکر کرتا کہ ابو بکر عرب کا ایک شریف اور دیانت دار تاجر تھا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی 1027"
حاب بدر جلد 2 441 حضرت ابو بکر صدیق اتباع سے ابو بکر کو وہ مقام ملاتو آج ساری دنیا اُن کا ادب اور احترام کے ساتھ نام لیتی ہے.جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور حضرت ابو بکر کو مسلمانوں نے اپنا خلیفہ اور بادشاہ بنا لیا تو مکہ میں بھی یہ خبر جا پہنچی.ایک مجلس میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے جن میں حضرت ابو بکر کے والد ابو قحافہ بھی موجود تھے.جب انہوں نے سنا کہ ابو بکر کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرلی ہے تو ان کے لئے اس امر کو تسلیم کرنانا ممکن ہو گیا اور انہوں نے خبر دینے والے سے پوچھا کہ تم کس ابو بکر کا ذکر کر رہے ہو ؟ اس نے کہا.وہی ابو بکر جو تمہارا بیٹا ہے.انہوں نے “، ان کے والد نے، حضرت ابو بکر کے والد ابو قحافہ نے عرب کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر کہنا شروع کر دیا کہ اس نے بھی ابو بکر کی بیعت کر لی ہے ؟“ پھر پوچھنا شروع کیا کہ یہ جو بڑے بڑے قبائل ہیں کیا انہوں نے ابو بکر کی بیعت کر لی ہے ؟ ہر ایک کا نام لے لے کر پوچھا.” اور جب اس نے کہا کہ سب نے متفقہ طور پر ابو بکر کو خلیفہ اور بادشاہ بنا لیا ہے تو ابو قحافہ بے اختیار کہنے لگے کہ اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ اس کے سچے رسول ہیں.“ فرماتے ہیں کہ ”حالانکہ وہ دیر سے مسلمان تھے.“ ابو قحافہ فتح مکہ کے بعد یا شاید اس سے پہلے مسلمان ہو گئے تھے.انہوں نے جو یہ کلمہ پڑھا.اور دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کیا تو اسی لئے کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے سمجھا کہ یہ اسلام کی سچائی کا ایک زبر دست ثبوت ہے 1029❝ ورنہ میرے بیٹے کی کیا حیثیت تھی کہ اس کے ہاتھ پر سارا عرب متحد ہو جاتا.1028 پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لو.انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ملکہ کا ایک لیڈر تھا اب ذلیل ہو گیا مگر اسلام سے پہلے اُن کی اِس سے زیادہ کیا عزت ہو سکتی تھی کہ دو سویا تین سو آدمی ان کا نام عزت سے لیتے ہوں گے.لیکن اسلام کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں خلافت اور بادشاہت کی برکت سے نوازا.اور انہیں دنیا بھر میں دائمی عزت اور ایک لازوال شہرت کا مالک بنا دیا.کہاں ایک قبیلہ کی لیڈری اور کہاں یہ کہ تمام مسلمانوں کا خلیفہ اور مملکت عرب کا بادشاہ ہونا جس نے ایران اور روم سے ٹکر لی اور انہیں نیچادکھایا.پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ”دیکھو بادشاہت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ہی نہیں آپ کے خادموں کے قدموں پر بھی آگری لیکن آپ نے نہ اُس وقت خواہش کی جب آپ کو ابھی بادشاہت نہیں ملی تھی اور نہ اس وقت بادشاہت کی خواہش کی جب آپ کو بادشاہت مل گئی.نہ حضرت ابو بکر نے بادشاہت کی خواہش کی، نہ حضرت عمرؓ نے بادشاہت کی خواہش کی ، نہ حضرت عثمان نے بادشاہت کی خواہش کی اور نہ حضرت علی نے بادشاہت کی خواہش کی بلکہ ان میں بادشاہت کے آثار پائے ہی نہیں جاتے تھے حالانکہ وہ دنیا کے اتنے زبر دست بادشاہ تھے جن کی تاریخ میں مثال ہی نہیں
اصحاب بدر جلد 2 442 حضرت ابو بکر صدیق ملتی.ان کی طبائع اتنی سادہ تھیں، ان کی ملاقاتیں اتنی سادہ تھیں، ان میں تواضع اس قدر پایا جاتا تھا کہ ظاہری طور پر یہ بھی معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ بادشاہ ہیں.ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میری حکومت ہے، میں بادشاہ ہوں.ان میں سے کوئی شخص بھی کبھی اس بات پر آمادہ نہیں ہوا کہ وہ اپنی بادشاہت کا اظہار کرے اور نہ ہی وہ اس بات کی کبھی خواہش کرتے تھے.در حقیقت جو خد اتعالیٰ کے ہو جاتے ہیں دنیا خود ان کے قدموں پر آگرتی ہے.لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہتوں سے انہیں مدد ملے گی لیکن جو خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں بادشاہتیں سمجھتی ہیں کہ انہیں ان کی غلامی سے عزت ملے گی.0 1030❝❝ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بادشاہ مقرر ہوئے تھے پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ”دیکھو! ابو بکر بادشاہ بن گئے.لیکن ان کا باپ یہ سمجھتا تھا کہ ان کا بادشاہ ہونا ناممکن ہے.کیونکہ انہیں بادشاہت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی تھی.اس کے مقابلہ میں تیمور بھی ایک بڑا بادشاہ تھا لیکن وہ اپنی دنیوی تدابیر کی وجہ سے بادشاہ ہوا تھا.نپولین بھی بڑا بادشاہ تھا لیکن وہ اپنی محنت اور دنیوی تدابیر سے بادشاہ بن گیا تھا.نادر شاہ بھی بڑا بادشاہ تھا لیکن اسے بھی بادشاہت اپنی ذاتی محنت اور کوشش اور دنیوی تدابیر سے ملی تھی.پس بادشاہت سب کو ملی.لیکن ہم کہیں گے تیمور کو بادشاہت آدمیوں کے ذریعہ ملی.لیکن ابو بکر کو بادشاہت خدا تعالیٰ سے ملی.کہیں گے نپولین کو بادشاہت دنیوی تدابیر سے ملی تھی لیکن حضرت عمر کو بادشاہت خدا تعالیٰ سے ملی.ہم کہیں گے چنگیز خان کو بادشاہت دنیوی ذرائع سے ملی تھی لیکن حضرت عثمان کو بادشاہت خدا تعالیٰ نے دی.ہم کہیں گے نادر شاہ دنیوی تدابیر سے بادشاہ بنا تھا لیکن حضرت علی کو بادشاہت خدا تعالیٰ نے دی.پس بادشاہت سب کو ملی، دنیوی بادشاہوں کا بھی دبدبہ تھا، رُعب تھا.اُن کا بھی قانون چلتا تھا اور خلفاء کا بھی.بلکہ ان کا قانون ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے زیادہ چلتا تھا.لیکن یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بادشاہ مقرر ہوئے تھے “ یعنی یہ چاروں ” اور وہ آدمیوں کے ذریعہ بادشاہ ہوئے تھے.“ جو دنیا دار بادشاہ تھے.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی اہم کام سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتا بشیر اللہ کی برکات کا آپ یہاں ذکر فرمارہے ہیں ”اسے برکت نہیں مل سکتی.تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اپنے مقصد میں ناکام رہتا ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ اسے وہ مقصد خدا تعالیٰ سے نہیں مل سکتا.جو بادشاہت خدا تعالیٰ کے ذریعہ ملنے والی تھی وہ حضرت ابو بکر عمر، عثمان اور علی کو ملی.ان کے سوا دوسرے لوگوں کو نہیں ملی.دوسروں کو جو بادشاہت ملی وہ شیطان سے ملی یا انسانوں سے ملی.ورنہ لین، سٹائن اور مالنکوف نے بشیر اللہ نہیں پڑھی لیکن بادشاہت ان کو بھی ملی.روز ویلٹ، ٹرومین اور آئزن ہاور نے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی لیکن بادشاہت ان کو بھی ملی.وہ
حاب بدر جلد 2 443 حضرت ابو بکر صدیق بشیر اللہ کو جانتے بھی نہیں اور نہ بشیر اللہ کی ان کے دلوں میں کوئی قدر ہے.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بسم اللہ پڑھنے کے بغیر برکت نہیں ملتی تو اس کا یہ مطلب تھا کہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے کچھ نہیں ملتا.خدا تعالیٰ کی طرف سے صرف اسی کو ملتا ہے جو ہر اہم کام سے پہلے بسمہ اللہ پڑھ لیتا ہے.اب ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی چیز زیادہ برکت والی ہوتی ہے یا بندوں سے ملنے والی چیز زیادہ برکت والی ہوتی ہے.انسانی تدابیر سے حاصل کی ہوئی بادشاہت بند بھی ہو سکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بادشاہت بند نہیں ہو سکتی.“ کاش کہ یہ نکتہ مسلمانوں کو بھی آج سمجھ آ جائے.گو بسم اللہ پڑھتے بھی ہیں لیکن وہ بھی لگتا ہے صرف ظاہری منہ سے ادا ئیگی ہو رہی ہے اور دل سے نہیں.ہمارے مسلمان لیڈروں کے لیے، بادشاہوں کے لیے سبق پھر لکھتے ہیں کہ یزید بھی ایک بادشاہ تھا اُسے کتنا غرور تھا.اُسے طاقت کا کتناد عویٰ تھا.اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو تباہ کیا.بظاہر اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا تھا.”اس نے آپ کی اولاد کو قتل کیا اور اس کی گردن نیچے نہیں ہوتی تھی.بڑا اکٹڑ کے رہتا تھا وہ سمجھتا تھا کہ میرے سامنے کوئی نہیں بول سکتا.حضرت ابو بکر بھی بادشاہ ہوئے لیکن ان میں عجز تھا، انکسار تھا.آپ فرماتے تھے مجھے خدا تعالیٰ نے لوگوں کی خدمت کے لیے مقرر کیا ہے.اور خدمت کے لیے جتنی مہلت مجھے مل جائے اس کا احسان ہے.لیکن یزید کہتا تھا مجھے میرے باپ سے بادشاہت ملی ہے.میں جس کو چاہوں مار دوں اور جس کو چاہوں زندہ رکھوں.بظاہر یزید اپنی بادشاہت میں حضرت ابو بکر سے بڑھا ہو اتھا.وہ کہتا تھا میں خاندانی بادشاہ ہوں.کس کی طاقت ہے کہ میرے سامنے بولے.لیکن حضرت ابو بکرؓ فرماتے تھے کہ میں اس قابل کہاں تھا کہ بادشاہ بن جاتا.مجھے جو کچھ دیا ہے خدا تعالیٰ نے دیا ہے.میں اپنے زور سے بادشاہ نہیں بن سکتا تھا.میں ہر ایک کا خادم ہوں.میں غریب کا بھی خادم ہوں اور امیر کا بھی خادم ہوں.اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو تو مجھ سے اس کا ابھی بدلہ لے لو.قیامت کے دن مجھے خراب نہ کرنا.حضرت ابو بکر کے بارے میں ایک سننے والا کہتا ہو گا کہ یہ کیا ہے.اسے تو ایک نمبر دار کی سی حیثیت بھی حاصل نہیں.لیکن وہ یزید کی بات سنتا ہو گا تو کہتا ہو گا یہ باتیں ہیں جو قیصر و کسریٰ والی ہیں.“ یہ بادشاہوں والی باتیں ہیں جو یزید کر رہا ہے.لیکن جب حضرت ابو بکر فوت ہو گئے تو ان کے بیٹے ، اُن کے پوتے اور پڑ پوتے پھر پڑ پوتوں کے بیٹے اور پھر آگے وہ نسل جس میں پوتا اور پڑپوتا کا سوال ہی باقی نہیں رہتا وہ برابر ابو بکر سے اپنے رشتہ پر فخر کرتے تھے.پھر اُن کو بھی جانے دو.وہ لوگ جو ابو بکر کی طرف منسوب بھی نہیں، جو آپ کے خاندان کو بھی کبھی نہیں ملے وہ بھی آپ کے واقعات پڑھتے ہیں تو آج تک ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں.ان کی محبت جوش میں آجاتی ہے.کوئی شخص آپ کو برا کہہ دے تو ان کا خون کھولنے لگتا ہے.غرض اولاد تو الگ رہی غیر بھی اپنی جان ان پر نثار کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں.ہر کلمہ گو جب آپ کا نام سنتا ہے تو کہتا ہے رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ
اصحاب بدر جلد 2 444 حضرت ابو بکر صدیق مگر وہ فخر کرنے والا یزید جو اپنے آپ کو بادشاہ ابنِ بادشاہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا تھا جب فوت ہوا تو لوگوں نے اس کے بیٹے کو اس کی جگہ بادشاہ بنادیا.جمعہ کا دن آیا تو وہ منبر پر کھڑا ہوا اور کہا کہ اے لوگو ! میرا دادا اُس وقت بادشاہ بنا جب اُس سے زیادہ بادشاہت کے مستحق لوگ موجود تھے.میرا باپ اس وقت بادشاہ بنا جب اُس سے زیادہ مستحق لوگ موجود تھے.اب مجھے بادشاہ بنا دیا گیا ہے حالانکہ مجھ سے زیادہ مستحق لوگ موجود ہیں.اے لوگو! مجھ سے یہ بوجھ اٹھایا نہیں جاتا.میرے باپ اور میرے دادا نے مستحقین کے حق مارے ہیں لیکن میں اُن کے حق مارنے کو تیار نہیں.تمہاری خلافت یہ پڑی ہے جس کو چاہو دے دو.میں نہ اس کا اہل ہوں اور نہ اپنے باپ دادا کو اس کا اہل سمجھتا ہوں.انہوں نے جابرانہ اور ظالمانہ طور پر حکومت پر قبضہ کیا تھا.میں اب حقداروں کو ان کا حق واپس دینا چاہتا ہوں.یہ کہہ کر گھر چلا گیا.اس کی ماں نے جب یہ واقعہ سنا تو کہا.کمبخت !تو نے اپنے باپ دادا کی ناک کاٹ دی.اس نے جواب دیا.ماں! اگر خدا تعالیٰ نے تجھے عقل دی ہوتی تو تو سمجھتی کہ میں نے باپ دادا کی ناک نہیں کائی.میں نے ان کی ناک جوڑ دی ہے.اس کے بعد وہ اپنے گھر میں گوشہ نشین ہو کر بیٹھ گیا اور مرتے دم تک گھر سے باہر نہیں نکلا.“1031 پس یہ بادشاہت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اس کا حق بھی ادا کیا جاتا ہے.یہ بھی ہمارے مسلمان لیڈروں کے لیے، بادشاہوں کے لیے سبق ہے.حضرت مصلح موعودؓ پھر بیان فرماتے ہیں : ” اسلام کی خدمت اور دین کے لئے قربانیاں کرنے کی وجہ سے آج حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جو عظمت حاصل ہے وہ کیا دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل ہے ؟ آج دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اتنی عظمت حاصل ہو جتنی حضرت ابو بکر کو حاصل ہے بلکہ حضرت ابو بکر تو الگ رہے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی اتنی عظمت حاصل نہیں جتنی مسلمانوں کے نزدیک حضرت ابو بکر کے نوکروں کو حاصل ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ ہمیں حضرت ابو بکر کا کتا بھی بڑی بڑی عزتوں والوں سے اچھا لگتا ہے.اس لئے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا خادم ہو گیا.فرماتے ہیں: ”وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا غلام ہو گیا تو اس کی ہر چیز ہمیں پیاری لگنے لگ گئی اور اب یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اس عظمت کو ہمارے دلوں سے محو کر سکے.“ 1032 ہمارے پہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں لیکن ہمارے یہ خیالات ہیں.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے جو دیر کے بعد اسلام میں داخل ہوئے تھے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے مختلف باتیں ہو رہی تھیں کہ وہ باتوں باتوں میں حضرت ابو بکر سے کہنے لگے ابا جان ! فلاں جنگ کے موقع پر میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا.آپ میرے سامنے سے دو دفعہ گزرے.میں اگر اس وقت چاہتا تو آپ کو مار
اصحاب بدر جلد 2 445 حضرت ابو بکر صدیق دیتا مگر میں نے اس خیال سے ہاتھ نہ اٹھایا کہ آپ میرے باپ ہیں.ابو بکر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے میں نے تجھے اس وقت دیکھا نہیں اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو چونکہ تو خدا کا دشمن ہو کر میدان میں آیا تھا اِس لئے میں تجھے ضرور مار دیتا.1033 حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اخلاق فاضلہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ”ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ تھا جس کی فطرت میں سعادت کا تیل اور بیٹی پہلے سے موجود تھے.“ یعنی اس میں چلنے کی صلاحیت تھی، روشن ہونے کی صلاحیت تھی.” اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم نے اس کو فی الفور متاثر کر کے روشن کر دیا.اس نے آپ سے کوئی بحث نہیں کی.کوئی نشان اور معجزہ نہ مانگا.معاسن کر صرف اتنا ہی پوچھا کہ کیا آپ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہاں.تو بول اٹھے کہ آپ گواہ رہیں.میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ سوال کرنے والے بہت کم ہدایت پاتے ہیں.ہان حسن ظن اور صبر سے کام لینے والے ہدایت سے پورے طور پر حصہ لیتے ہیں.اس کا نمونہ ابو بکر اور ابو جہل دونوں موجود ہیں.ابو بکڑ نے جھگڑا نہ کیا اور نشان نہ مانگے.مگر اس کو وہ دیا گیا جو نشان مانگنے والوں کو نہ ملا.اس نے نشان پر نشان دیکھے.اور خود ایک عظیم الشان نشان بنا.ابو جہل نے حجت کی اور مخالفت اور جہالت سے باز نہ آیا.اس نے نشان پر نشان دیکھے مگر دیکھ نہ سکا.آخر خود دوسروں کے لئے نشان ہو کر مخالفت ہی میں ہلاک ہوا.1034 کمال دو قسم کے ہوتے ہیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”مکہ کی مٹی ایک ہی تھی جس سے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو جہل پیدا ہوئے.مکہ وہی مکہ ہے جہاں اب کروڑوں انسان ہر طبقہ اور ہر درجہ کے دنیا کے ہر حصہ سے جمع ہوتے ہیں.اسی سر زمین سے یہ دونو انسان پیدا ہوئے.جن میں سے اول الذکر اپنی سعادت اور رشد کی وجہ سے ہدایت پاکر صدیقوں کا کمال پا گیا.اور دوسرا شرارت، جہالت، بے جا عداوت اور حق کی مخالفت میں شہرت یافتہ ہے.یاد رکھو! اکمال دو ہی قسم کے ہوتے ہیں.ایک رحمانی، دوسرا شیطانی رحمانی کمال کے آدمی آسمان پر ایک شہرت اور عزت پاتے ہیں.اسی طرح شیطانی کمال کے آدمی شیاطین کی ذریت میں شہرت رکھتے ہیں.غرض ایک ہی جگہ دونو تھے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کچھ فرق نہیں کیا.جو کچھ حکم اللہ تعالیٰ نے دیا وہ سب کا سب یکساں طور پر سب کو پہنچا دیا.مگر بد نصیب بد قسمت محروم رہ گئے.اور سعید ہدایت پاکر کامل ہو گئے.ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے بیسیوں نشان دیکھے.انوار و برکاتِ الہیہ کو مشاہدہ کیا.مگر اُن کو کچھ بھی فائدہ نہ ہوا.“1035
اصحاب بدر جلد 2 446 حضرت ابو بکر صدیق پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: ” دیکھو مکہ معظمہ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو ابو جہل بھی مکہ ہی میں تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی مکہ ہی کے تھے لیکن ابو بکر کی فطرت کو سچائی کے قبول کرنے کے ساتھ کچھ ایسی مناسبت تھی کہ ابھی آپ شہر میں بھی داخل نہیں ہوئے تھے.راستہ ہی میں جب ایک شخص سے پوچھا کہ کوئی نئی خبر سناؤ اور اُس نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو اسی جگہ ایمان لے آئے اور کوئی معجزہ اور نشان نہیں مانگا اگر چہ بعد میں بے انتہا معجزات آپؐ نے دیکھے اور خود ایک آیت ٹھہرے.لیکن ابو جہل نے باوجود یکہ ہزاروں ہزار نشان دیکھے لیکن وہ مخالفت اور انکار سے باز نہ آیا اور تکذیب ہی کر تا رہا.اس میں کیا سر تھا؟ کیا بھید تھا؟ ” پیدائش دونوں کی ایک ہی جگہ کی تھی.ایک صدیق ٹھہرتا ہے اور دوسر ا جو ابو الحکم کہلا تا تھا وہ ابو جہل بنتا ہے.اس میں یہی راز تھا کہ اس کی فطرت کو سچائی کے ساتھ کوئی مناسبت ہی نہ تھی.غرض ایمانی امور مناسبت ہی پر منحصر ہیں.جب مناسبت ہوتی ہے تو وہ خود معلم بن جاتی ہے اور امور حقہ کی تعلیم دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہل مناسبت کا وجود بھی ایک نشان ہوتا ہے.1036" پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”میرے رب نے مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ صدیق اور فاروق اور عثمان (رضی اللہ عنہم ) نیکوکار اور مومن تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے چن لیا اور جو خدائے رحمن کی عنایات سے خاص کئے گئے اور اکثر صاحبانِ معرفت نے ان کے محاسن کی شہادت دی.انہوں نے بزرگ و بر تر خدا کی خوشنودی کی خاطر وطن چھوڑے.ہر جنگ کی بھٹی میں داخل ہوئے اور موسم گرما کی دو پہر کی تپش اور سردیوں کی رات کی ٹھنڈک کی پرواہ نہ کی بلکہ نو خیز جوانوں کی طرح دین کی راہوں پر محو خرام ہوئے اور اپنوں اور غیروں کی طرف مائل نہ ہوئے اور اللہ رب العالمین کی خاطر سب کو خیر باد کہہ دیا.اُن کے اعمال میں خوشبو اور اُن کے افعال میں مہک ہے اور یہ سب کچھ ان کے مراتب کے باغات اور ان کی نیکیوں کے گلستانوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ان کی بادِ نسیم اپنے معطر جھونکوں سے ان کے اسرار کا پتہ دیتی ہے اور ان کے انوار اپنی پوری تابانیوں سے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں: ” بخد ا ، اللہ تعالیٰ نے سیخین“ یعنی ” ( ابو بکر و عمر کو اور تیسرے جو ذوالنورین ہیں “ یعنی حضرت عثمان ”ہر ایک کو اسلام کے دروازے اور خیر الانام (محمد رسول اللہ) کی فوج کے ہر اول دستے بنایا ہے.پس جو شخص ان کی عظمت سے انکار کرتا ہے اور ان کی قطعی دلیل کو حقیر جانتا ہے اور ان کے ساتھ ادب سے پیش نہیں آتا بلکہ ان کی تذلیل کرتا اور اُن کو بُرا بھلا کہنے کے درپے رہتا اور زبان درازی کرتا ہے مجھے اس کے بد انجام اور سلب ایمان کا ڈر ہے.اور جنہوں نے ان کو دکھ دیا، اُن پر لعن کیا اور بہتان لگائے تو دل کی سختی اور خدائے رحمن کا غضب ان کا انجام ٹھہرا.میر ابار ہا کا تجربہ ہے اور میں اس کا کھلے طور پر اظہار بھی کر چکا ہوں کہ ان سادات سے بغض و کینہ رکھنا 1037"
صحاب بدر جلد 2 447 حضرت ابو بکر صدیق برکات ظاہر کرنے والے اللہ سے سب سے زیادہ قطع تعلقی کا باعث ہے اور جس نے بھی ان سے دشمنی کی تو ایسے شخص پر رحمت اور شفقت کی سب راہیں بند کر دی جاتی ہیں اور اس کے لئے علم و عرفان کے دروازے وا نہیں کئے جاتے.10380 پھر آپ فرماتے ہیں: ”تم ایسے شخص پر کیسے لعنت کرتے ہو جس کے دعویٰ کو اللہ نے ثابت کر دیا.بعض لوگ، فرقے بھی ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو غلط ہیں.آپ نے فرمایا کہ ”ایسے حص پر کیسے لعنت کرتے ہو جس کے دعویٰ کو اللہ نے ثابت کر دیا اور اس نے اللہ سے مدد مانگی تو اللہ نے اس کی مدد کی اور اس کی نصرت کے لئے نشانات دکھائے اور بد اندیشوں کی تدبیروں کو پارہ پارہ کر دیا.اور آپ “ یعنی ” ( ابو بکر نے اسلام کو شکستہ کر دینے والی آزمائش اور جور و جفا کے سیلاب سے بچایا، اور پھنکارنے والے اثر دھا کو ہلاک کیا.آپ نے امن و امان قائم کیا اور اللہ رب العالمین کے فضل سے ہر دروغ گو کو ناکام و نامراد کیا.اور حضرت ابو بکر صدیق کی اور بہت سی خوبیاں اور بے حساب و بے شمار برکتیں ہیں اور مسلمانوں کی گردنیں آپ کے زیر بار احسان ہیں اور اس بات کا انکار صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اول درجہ کا زیادتی کرنے والا ہو.جس طرح اللہ نے آپ کو مومنوں کے لئے موجب امن اور مرتدوں اور کافروں کی آگیں بجھانے والا بنایا اسی طرح اس نے آپ کو اول درجہ کا حامی کفر قان اور خادم قرآن اور اللہ تعالیٰ کی کتاب مبین کی اشاعت کرنے والا بنایا.پس آپ نے قرآن جمع کرنے اور رحمان خدا کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کی بیان کردہ ترتیب دریافت کرنے میں پوری کوشش صرف فرما دی.اور دین کی غمخواری میں آپ کی آنکھیں ایک چشمہ جاری کے بہنے سے بھی بڑھ کر اشکبار ہوئیں.پھر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: ” عجیب بات یہ ہے کہ شیعہ حضرات “ بعض لوگ جو شیعہ ہیں یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ (حضرت) ابو بکر صدیق دشمنوں کی کثرت کے ایام میں ایمان لائے اور آپ نے ابتلاء کی سخت گھڑی میں (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اختیار کی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ) سے نکلے تو آپ بھی کمال صدق وصفا سے حضور کی معیت میں نکل کھڑے ہوئے اور تکالیف برداشت کیں اور وطن مالوف اور دوست احباب اور اپنا پورے کا پورا خاندان چھوڑ دیا اور خدائے لطیف کو اختیار فرمایا.پھر ہر جنگ میں آپ شریک ہوئے.کفار سے لڑے اور نبی (احمد) مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی.پھر آپ اُس وقت خلیفہ بنائے گئے جب منافقوں کی ایک جماعت مرتد ہو گئی اور بہت سے کا ذبوں نے دعویٰ نبوت کر دیا جس پر آپ ان سے جنگ و جدال کرتے رہے یہاں تک کہ ملک میں دوبارہ امن و امان ہو گیا اور فتنہ پردازوں کا گر وہ خائب و خاسر ہوا.پھر آپ فوت ہوئے اور سید الانبیاء اور معصوموں کے امام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی قبر کے پہلو میں دفن کئے گئے اور آپ خدا کے حبیب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہ ہوئے.نہ زندگی 1039❝
اصحاب بدر جلد 2 448 حضرت ابو بکر صدیق میں اور نہ موت کے بعد.معد ودے چند ایام کی مفارقت کے بعد آپس میں مل گئے اور محبت کا تحفہ پیش کیا.انتہائی تعجب کی بات یہ ہے کہ بقول ان (شیعہ حضرات) کے “ یعنی اعتراض کرنے والوں کے ”اللہ نے نبی کے مرقد کی تربت کو خاتم النبیین اور دو کافروں، غاصبوں اور خائنوں کے درمیان مشترک کر دیا.اور اپنے نبی اور حبیب کو ان دونوں ( ابو بکر اور عمر کی ہمسائیگی کی اذیت سے نجات نہ دی.بلکہ ان دونوں کو دنیا اور آخرت میں آپ کے اذیت رساں رفقاء بنا دیا اور (نعوذ باللہ) ان دونوں ناپاکوں سے آپ کو دُور نہ رکھا.ہمارا رب ان کی بیان کر دہ باتوں سے پاک ہے.“ جو یہ کہتے ہیں یہ غلط کہتے ہیں.یہ ایسا نہیں ہے جیسا بیان کیا جاتا ہے بلکہ اللہ نے ان دونوں پاکبازوں کو “ یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ ہو ان دونوں پاکبازوں کو پاکبازوں کے امام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملا دیا.یقیناً اس میں اہل بصیرت کے لئے نشانات ہیں.“ 1040<< پھر آپ متعصب شیعوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”اگر متعصب شیعوں سے یہ پوچھا جائے کہ مخالف منکروں کی جماعت سے نکل کر بالغ مردوں میں سے اسلام لانے والا پہلا شخص کون تھا ؟ تو انہیں یہ کہنے کے سوا چارہ نہیں کہ وہ حضرت ابو بکر تھے.پھر جب یہ پوچھا جائے کہ وہ کون تھا جس نے سب سے پہلے حضرت خاتم النبیین کے ساتھ ہجرت کی اور تمام تعلقات کو پس پشت ڈالا اور وہاں چلے گئے جہاں حضور گئے تھے تو ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا کہ وہ کہیں کہ وہ حضرت ابو بکر تھے ! پھر جب یہ پوچھا جائے کہ بفرض محال غاصب ہی سہی تاہم خلیفہ بنائے جانے والوں میں سے پہلا کون تھا ؟ تو انہیں یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہ ہو گا کہ ابو بکر.پھر جب یہ پوچھا جائے کہ ملک ملک میں اشاعت کے لئے قرآن کو جمع کرنے والا کون تھا ؟ تو لا محالہ کہیں گے کہ وہ (حضرت) ابو بکر تھے.پھر جب یہ پوچھا جائے کہ خیر المرسلین اور سید المعصومین کے پہلو میں کون دفن ہوئے تو یہ کہے بغیر انہیں کوئی چارہ نہ ہو گا کہ وہ ابو بکر اور عمر نہیں.تو پھر کتنے تعجب کی بات ہے کہ (معاذ اللہ) ہر فضیلت کافروں اور منافقوں کو دے دی گئی اور اسلام کی تمام تر خیر و برکت دشمنوں کے ہاتھوں سے ظاہر ہوئی.کیا کوئی مومن یہ خیال کر سکتا ہے کہ وہ شخص جو اسلام کے لئے خشت اول تھا وہ کافر اور لیم تھا؟ پھر وہ کہ جس نے فخر المرسلین کے ساتھ سب سے پہلے ہجرت کی وہ بے ایمان اور مرتد تھا؟ اس طرح تو ہر فضیلت کافروں کو حاصل ہو گئی.یہاں تک کہ سید الابرار کی قبر کی ہمسائیگی بھی 104141 شیخین (یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) جیسا میں نے کسی کو نہ پایا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”سچ تو یہ ہے کہ (ابو بکر صدیق اور (عمر) فاروقی دونوں اکابر صحابہ میں سے تھے.ان دونوں نے ادا ئیگی حقوق میں کبھی کو تاہی نہیں کی.انہوں نے تقویٰ کو اپنی راہ اور عدل کو اپنا مقصود بنالیا تھا.وہ حالات کا گہرا جائزہ لیتے اور اسرار کی کنہ تک پہنچ جاتے تھے.دنیا کی خواہشات کا حصول کبھی بھی ان کا مقصود نہ تھا.انہوں نے اپنے نفوس کو اللہ کی اطاعت میں لگائے
حاب بدر جلد 2 449 حضرت ابو بکر صدیق رکھا.کثرت فیوض اور نبی الثقلین کے دین کی تائید میں شیخین (یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) جیسا میں نے کسی کو نہ پایا.یہ دونوں ہی آفتاب ائم و ملل (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اتباع میں ماہتاب سے بھی زیادہ سریع الحرکت تھے اور آپ کی محبت میں فنا تھے.انہوں نے حق کے حصول کی خاطر ہر تکلیف کو شیریں جانا اور اس نبی کی خاطر جس کا کوئی ثانی نہیں، ہر ذلت کو برضاور غبت گوارا کیا.اور کافروں اور منکروں کے لشکروں اور قافلوں سے مٹھ بھیڑ کے وقت شیروں کی طرح سامنے آئے.یہاں تک کہ اسلام غالب آگیا.اور دشمن کی جمعیتوں نے ہزیمت اٹھائی.شرک چھٹ گیا اور اس کا قلع قمع ہو گیا اور ملت و مذہب کا سورج جگمگ جگمگ کرنے لگا اور مقبول دینی خدمات بجالاتے ہوئے اور مسلمانوں کی گردنوں کو لطف و احسان سے زیر بار کرتے ہوئے ان دونوں کا انجام خیر المرسلین کی ہمسائیگی پر منتج ہوا.“ پھر آپ فرماتے ہیں: اللہ اکبر ! ان دونوں (ابو بکر و عمر) کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے.وہ دونوں ایسے (مبارک) مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو بصد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے لیکن یہ مقام محض تمنا سے تو حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ صرف خواہش سے عطا کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو بار گاہ رب العزت کی طرف سے ایک ازلی رحمت ہے.“ 1042 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: "بلا شبہ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق اس کارواں کے امیر تھے جس نے اللہ کی خاطر بلند چوٹیاں سر کیں اور انہوں نے متمدن اور بادیہ نشینوں کو حق کی دعوت دی یہاں تک کہ ان کی یہ دعوت دُور دراز ممالک تک پھیل گئی.اور ان دونوں کی خلافت میں بکثرت ثمرات اسلام ودیعت کئے گئے اور کئی طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ کامل خوشبو سے معطر کی گئی.اور اسلام حضرت صدیق اکبر کے زمانہ میں مختلف اقسام کے (فتنوں کی) آگ سے الم رسیدہ تھا اور قریب تھا کہ کھلی کھلی غارت گریاں اس کی جماعت پر حملہ آور ہوں اور اس کے کوٹ لینے پر فتح کے نعرے لگائیں.پس عین اس وقت حضرت ابو بکر صدیق کے صدق کی وجہ سے رب جلیل اسلام کی مدد کو آپہنچا اور گہرے کنویں سے اس کا متاع عزیز نکالا.چنانچہ اسلام بد حالی کے انتہائی مقام سے بہتر حالت کی طرف لوٹ آیا.پس انصاف ہم پر یہ لازم ٹھہراتا ہے کہ ہم اس مددگار کا شکریہ ادا کریں اور دشمنوں کی پرواہ نہ کریں.پس تو اس شخص سے بے رخی نہ کر جس نے تیرے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور تیرے دین ودر کی حفاظت کی اور اللہ کی خاطر تیری بہتری چاہی اور تجھ سے بدلہ نہ چاہا.تو پھر بڑے تعجب کا مقام ہے کہ حضرت صدیق اکبر کی بزرگی سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے؟ اور یہ حقیقت ہے کہ آپ کے اوصاف حمیدہ آفتاب کی طرح درخشندہ ہیں اور بلاشبہ ہر مومن آپ کے لگائے ہوئے درخت کے پھل کھاتا اور آپ کے پڑھائے ہوئے علوم
اصحاب بدر جلد 2 450 حضرت ابو بکر صدیق سے فیض یاب ہو رہا ہے.آپ نے ہمارے دین کے لئے فرقان اور ہماری دنیا کے لئے امن و امان عطا فرمایا.اور جس نے اس سے انکار کیا تو اُس نے جھوٹ بولا اور ہلاکت اور شیطان سے جاملا.“ فرماتے ہیں اور جن لوگوں پر آپ کا مقام و مرتبہ مشتبہ رہا، ایسے لوگ عمد أخطا کار ہیں اور انہوں نے کثیر پانی کو اور قلیل جانا.پس وہ غصے سے اٹھے اور ایسے شخص کی تحقیر کی جو اول درجہ کا مکرم و محترم تھا.“ فرمایا ” اور حضرت صدیق کی ذاتِ گرامی رجاء و خوف خشیت و شوق اور انس و محبت کی جامع تھی اور آپ کا جوہر فطرت صدق و صفا میں اتم و اکمل تھا اور حضرت کبریاء کی طرف بکمال منقطع تھا.ور نفس اور اس کی لذات سے خالی اور ہو اوہوس اور اس کے جذبات سے کلیۂ دور تھا اور آپ حد درجہ کے متبتل تھے اور آپ سے اصلاح ہی صادر ہوئی اور آپ سے مومنوں کے لئے فلاح و بہبود ہی ظاہر ہوئی.آپ ایذا اور دکھ دینے کی تہمت سے پاک تھے.اس لئے تو داخلی تنازعات کی طرف نہ دیکھ بلکہ انہیں بھلائی کی طرز پر محمول کر.کیا تو غور نہیں کرتا کہ وہ شخص جس نے اپنے رب کے احکامات اور خوشنودی سے اپنی توجہ اپنے بیٹے بیٹیوں کی طرف نہیں پھیری تاکہ وہ انہیں مالدار بنائیں یا انہیں اپنے عمال میں سے بنائیں اور جس نے دنیا سے صرف اسی قدر حصہ لیا جتنا اس کی ضرورتوں کے لئے کافی تھا تو پھر تو کیسے خیال کر سکتا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ظلم روارکھا ہو گا.1043 آپ بلاشبہ اسلام اور مرسلین کے فخر ہیں پھر آپ فرماتے ہیں: ”اللہ صدیق (اکبر) پر رحمتیں نازل فرمائے کہ آپ نے اسلام کو زندہ کیا اور زندیقوں کو قتل کیا اور قیامت تک کے لئے اپنی نیکیوں کا فیضان جاری کر دیا.آپ بہت گریہ کرنے والے اور متبتل الی اللہ تھے اور تضرع، دعا، اللہ کے حضور گرے رہنا، اس کے در پر گریہ وعاجزی سے جھکے رہنا اور اس کے آستانے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا آپ کی عادت میں سے تھا.آپ بحالت سجدہ دعا میں پورا زور لگاتے اور تلاوت کے وقت روتے تھے.آپ بلاشبہ اسلام اور مرسلین کے فخر ہیں.آپ کا جو ہر فطرت خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ہر فطرت کے قریب تر تھا.آپ نبوت کی خوشبوؤں کو قبول کرنے کے لئے مستعد لو گوں میں سے اول تھے.حاشر (صلی اللہ علیہ وسلم) سے قیامت کی مانند جو حشر روحانی ظاہر ہوا آپ اس کے دیکھنے والوں میں سر فہرست تھے.اور ان لوگوں میں سے پہلے تھے جنہوں نے میل سے آئی چادروں کو پاک و صاف پوشاکوں سے تبدیل کر دیا اور انبیاء کے اکثر خصائل میں انبیاء کے مشابہ تھے.ہم قرآن کریم میں آپ کے ذکر کے سوا کسی اور (صحابی) کا ذکر بجز ظن و گمان کرنے والوں کے ظن کے قطعی اور یقینی طور پر موجود نہیں پاتے.اور ظن وہ چیز ہے جو حق کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اور نہ ہی وہ (حق کے متلاشیوں کو سیراب کر سکتا ہے.اور جس نے آپ سے دشمنی کی تو ایسے شخص اور حق کے درمیان ایک ایسا بند دروازہ حائل ہے جو کبھی کبھی صدیقوں کے سردار کی طرف رجوع کئے بغیر نہ کھلے گا.1044
اصحاب بدر جلد 2 451 حضرت ابو بکر صدیق پھر آپ فرماتے ہیں: ” صدیق کی تخلیق مبدء فیضان کی طرف متوجہ ہونے اور رسولِ رحمن صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کرنے کی صورت میں ہوئی.آپ صفات نبوت کے ظہور کے تمام انسانوں سے زیادہ حق دار تھے اور حضرت خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بننے کے لئے اولی تھے اور اپنے متبوع کے ساتھ کمال اتحاد اور موافقت تامہ استوار کرنے کے اہل تھے.نیز یہ کہ وہ جملہ اخلاق،صفات و عادات اپنانے اور انفسی اور آفاقی تعلقات چھوڑنے میں آپ کے (ایسے کامل) مظہر تھے کہ تلواروں اور نیزوں کے زور سے بھی ان کے درمیان قطع تعلق واقع نہ ہو سکے.اور آپ اس حالت پر ہمیشہ قائم رہے اور مصائب اور ڈرانے والے حالات، نیز لعنت ملامت میں سے کچھ بھی آپ کو بے قرار نہ کر سکے.آپ کی روح کے جوہر میں صدق و صفا، ثابت قدمی اور تقویٰ شعاری داخل تھی.خواہ سارا جہاں مرتد ہو جائے آپ ان کی پرواہ نہ کرتے اور نہ پیچھے ہٹتے بلکہ ہر آن اپنا قدم آگے ہی بڑھاتے گئے.اور اسی وجہ سے اللہ نے نبیوں کے فوراً بعد صدیقوں کے ذکر کو رکھا اور فرمایا: فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ انْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِين (النساء:70) اور اس (آیت) میں صدیق (اکبر) اور آپ کی دوسروں پر فضیلت کے اشارے ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ میں سے آپ کے سوا کسی صحابی کا نام صدیق نہیں رکھا تا کہ وہ آپ کے مقام اور عظمت شان کو ظاہر کرے.لہذا غور و فکر کرنے والوں کی طرح غور کر.اس آیت میں سالکوں کے لئے کمال کے مراتب اور ان کی اہلیت رکھنے والوں کی جانب بہت بڑا اشارہ ہے.اور جب ہم نے اس آیت پر غور کیا اور سوچ کو انتہا تک پہنچایا تو یہ منکشف ہوا کہ پہ آیت ( ابو بکر صدیق کے کمالات پر سب سے بڑی گواہ ہے اور اس میں ایک گہرا راز ہے جو ہر اس شخص پر منکشف ہوتا ہے جو تحقیق پر مائل ہوتا ہے.پس ابو بکر وہ ہیں جنہیں رسولِ مقبول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان (مبارک) سے صدیق کا لقب عطا کیا گیا اور فرقانِ (حمید) نے صدیقوں کو انبیاء کے ساتھ ملایا ہے جیسا کہ اہل عقل پر پوشیدہ نہیں.اور ہم صحابہ میں سے کسی ایک صحابی پر بھی اس لقب اور خطاب کا اطلاق نہیں پاتے.اس طرح صدیق امین کی فضیلت ثابت ہو گئی کیونکہ نبیوں کے بعد آپ کے نام کا ذکر کیا گیا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: ”ابن خلدون کہتے ہیں کہ ”جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف بڑھ گئی اور آپ پر غشی طاری ہو گئی تو آپ کی ازواج اور دیگر اہل بیت، عباس اور علی آنحضرت کے پاس جمع ہو گئے.پھر نماز کا وقت ہوا تو آپ نے فرمایا: ابو بکر سے کہہ دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں.الجزء الثانی صفحہ (۶۲) آپ فرماتے ہیں کہ ”ابن خلدون کہتے ہیں کہ ”پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت کرنے کے بعد فرمایا: ابو بکر کے دروازے کے سوا مسجد میں کھلنے والے سب دروازے بند کر دو! 1045<< کیونکہ میں تمام صحابہ میں احسان میں کسی کو بھی ابو بکر سے زیادہ افضل نہیں جانتا.(الجزء الثانی صفحہ ۱۶۲) پھر آپ فرماتے ہیں کہ ”ابن خلدون نے ذکر کیا ہے کہ ”حضرت ابو بکر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ کے چہرے سے چادر ہٹائی اور آپ کو بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ نے جو موت آپ کے لیے مقدر کی تھی اس کا مزہ آپ نے چکھ لیا.لیکن اب
حاب بدر جلد 2 452 حضرت ابو بکر صدیق اس کے بعد کبھی آپ پر موت نہیں آئے گی.الجزء الثانی صفحہ ۶۲) فرماتے ہیں کہ اللہ کے لطیف احسانات میں سے جو اس نے آپ پر فرمائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال قرب کی جو خصوصیت آپ کو حاصل تھی، جیسا کہ ابن خلدون نے بیان کیا ہے وہ یہ تھی کہ ابو بکر اسی چارپائی پر اٹھائے گئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھایا گیا تھا.اور آپ کی قبر کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرح ہموار بنایا گیا.اور (صحابہ نے ) آپ کی لحد کو نبی کریم کی لحد کے بالکل قریب بنایا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے متوازی رکھا.آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو آخری کلمہ ادا فرمایا وہ یہ تھا کہ (اے اللہ !) مجھے مسلم ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین میں شامل فرما.(صفحہ ۷۶) 1046 ابو بکر ایک نادر روز گار، باخدا انسان تھے پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ابو بکر ایک نادر روز گار ، باخدا انسان تھے.جنہوں نے اندھیروں کے بعد اسلام کے چہرے کو تابانی بخشی اور آپ کی پوری کوشش یہی رہی کہ جس نے اسلام کو ترک کیا آپ نے اس سے مقابلہ کیا.اور جس نے حق سے انکار کیا آپ نے اس سے جنگ کی.اور جو اسلام کے گھر میں داخل ہو گیا تو اس سے نرمی اور شفقت کا سلوک کیا.آپ نے اشاعت اسلام کے لیے سختیاں برداشت کیں.آپ نے مخلوق کو نایاب موتی عطا کئے.اور اپنے عزم مبارک سے بادیہ نشینوں کو معاشرت سکھائی.اور ان شتر بے مہاروں کو کھانے پینے ، نشست و برخاست کے آداب اور نیکی کے راستوں کی تلاش اور جنگوں میں بہادری اور جوش کے ادب سکھائے اور آپ نے ہر طرف مایوسی دیکھ کر بھی کسی سے جنگ کے بارے میں نہیں پوچھا بلکہ آپ ہر مد مقابل سے نبرد آزما ہونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے.ہر بزدل اور بیمار شخص کی طرح آپ کو خیالات نے بہکایا نہیں.ہر فساد اور مصیبت کے موقع پر ثابت ہو گیا کہ آپ کوہ رضوی ( یہ مدینہ کا ایک پہاڑ ہے) سے زیادہ راسخ اور مضبوط ہیں.آپ نے ہر اس شخص کو جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہلاک کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی خاطر تمام تعلقات کو ، پھینک دیا.آپ کی تمام خوشی اعلائے کلمہ اسلام اور خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تھی.پس اپنے دین کی حفاظت کرنے والے حضرت ابو بکر کا دامن تھام لے اور فضول گوئی چھوڑ دے.فرمایا کہ اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ خواہشات نفس کی پیروی کرنے والے شخص کی طرح یا آباؤ اجداد کے خیالات کی تقلید کرنے والے کی طرح نہیں کہا بلکہ جب سے میرے قدم نے چلنا اور میرے قلم نے لکھنا شروع کیا مجھے یہی محبوب رہا کہ میں تحقیق کو اپنا مسلک اور غور وفکر کو اپنا مقصود بناؤں.میں نے پوری تحقیق کی ہے.فرمایا کہ چنانچہ میں ہر خبر کی چھان بین کرتا اور ہر ماہر علم سے پوچھتا.پس میں نے صدیق اکبر کو واقعی صدیق پایا اور تحقیق کی رو سے یہ امر مجھ پر منکشف ہوا جب میں نے آپ کو تمام
صحاب بدر جلد 2 453 حضرت ابو بکر صدیق اماموں کا امام اور دین اور امت کا چراغ پایا تب میں نے آپ کی رکاب کو مضبوطی سے تھام لیا اور آپ کی امان میں پناہ لی اور صالحین سے محبت کر کے اپنے رب کی رحمت حاصل کرنی چاہی.پس اس خدائے رحیم نے مجھ پر رحم فرمایا.پناہ دی.میری تائید فرمائی اور میری تربیت کی اور مجھے معزز لوگوں میں سے بنایا اور اپنی رحمت خاص سے اس نے مجھے اس صدی کا مجدد اور مسیح موعود بنایا اور مجھے سہمین میں سے بنایا.مجھ سے غم کو ڈور کیا اور مجھے وہ کچھ عطا کیا جو دنیا جہان میں کسی اور کو عطا نہیں کیا اور یہ سب اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُمّی اور ان مقربین کی محبت کے طفیل حاصل ہوا ہے.اے اللہ ! تو اپنے افضل الرسل اور اپنے خاتم الانبیاء اور دنیا کے تمام انسانوں سے بہتر وجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیج.بخدا حضرت ابو بکر حرمین میں بھی اور دونوں قبروں میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں.اس سے میری مراد ایک تو غار کی قبر ہے جس میں آپ بحالت اضطرار وفات یافتہ شخص کی طرح پناہ گزین ہوئے اور پھر دوسری وہ قبر جو مدینہ میں خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ ملی ہوئی ہے.اس لیے صدیق اکبر کے مقام کو سمجھ اگر تو گہری سمجھ کا مالک ہے.اللہ نے آپ کی اور آپ کی خلافت کی قرآن میں تو صیف فرمائی اور بہترین بیان سے آپ کی ستائش کی ہے.فرمایا: بلاشبہ آپ اللہ کے مقبول اور پسندیدہ ہیں اور آپ کی قدر و منزلت کی تحقیر کسی سر پھرے شخص کے سوا کوئی نہیں کر سکتا.آپ کی خلافت کے ذریعہ اسلام سے تمام خطرات دور ہو گئے.فرماتے ہیں : اور آپ کی رافت سے مسلمانوں کی خوش بختی پایہ تکمیل کو پہنچی.اگر خیر الانام کا صدیق، صدیق اکبر نہ ہو تا تو قریب تھا کہ اسلام کاستون منہدم ہو جاتا.آپ نے اسلام کو ایک ناتواں اور بیکس اور نحیف و نزار ماؤف شخص کی طرح پایا تو آپ ماہروں کی طرح اس کی رونق اور شادابی کو دوبارہ واپس لانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک لئے ہوئے شخص کی طرح اپنی گم شدہ چیز کی تلاش میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ اسلام اپنے مناسب قد، اپنے ملائم رخسار، اپنی شادابی جمال اور اپنے صاف پانی کی مٹھاس کی طرف لوٹ آیا اور یہ سب کچھ اس بندہ امین کے اخلاص کی وجہ سے ہوا.آپ نے نفس کو مٹی میں ملایا اور حالت کو بدلا اور رحمان خدا کی خوشنودی کے سوا کسی صلہ کے طالب نہ ہوئے اور اسی حالت میں شب و روز آپ پر آئے.آپ بوسیدہ ہڈیوں میں جان ڈالنے والے، آفتوں کو دور کرنے والے اور صحرا کے میٹھے پھل والے درختوں کو بچانے والے تھے.خالص نصرت الہی آپ کے حصہ میں آئی اور یہ اللہ کے فضل اور رحم کی وجہ سے تھا.اور اب ہم خدائے واحد پر توکل کرتے ہوئے کسی قدر شواہد کا ذکر کرتے ہیں تاکہ تجھ پر یہ بات ظاہر ہو جائے کہ کیونکر آپ نے تند و تیز آندھیوں والے فتنوں اور جھلسانے والے شعلوں کے مصائب کو ختم کیا اور کس طرح آپ نے جنگ میں بڑے بڑے ماہر نیزہ بازوں اور شمشیر زنوں کو ہلاک کر دیا.اس طرح آپ کی باطنی کیفیت آپ کے کارناموں سے ظاہر ہو گئی اور آپ کے اعمال نے آپ کے اوصاف حمیدہ کی حقیقت پر گواہی دی.اللہ
حاب بدر جلد 2 454 حضرت ابو بکر صدیق آپ کو بہترین جزا عطا کرے اور متقین کے ائمہ میں آپ کا حشر ہو اور اللہ اپنے ان محبوبوں کے صدقے ہم پر رحم فرمائے.اے نعمتوں اور عنایات کے مالک خدا! میری دعا قبول فرما.تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور تُور حم کرنے والوں میں سے سب سے بہتر ہے.1047 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نمونہ ہمیشہ اپنے سامنے رکھو پھر آپ فرماتے ہیں: ”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نمونہ ہمیشہ اپنے سامنے رکھو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زمانہ پر غور کرو کہ جب دشمن قریش ہر طرف سے شرارت پر تلے ہوئے تھے اور انہوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ کیا.وہ زمانہ بڑا ابتلا کا زمانہ تھا.اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو حق رفاقت ادا کیا اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی.یہ طاقت اور قوت بجز صدق ایمان کے ہر گز نہیں آسکتی.آج جس قدر تم لوگ بیٹھے ہوئے ہو.اپنی اپنی جگہ سوچو کہ اگر اس قسم کا کوئی ابتلا ہم پر آجائے تو کتنے ہیں جو ساتھ دینے کو تیار ہوں.مثلاً گورنمنٹ کی طرف سے ہی یہ تفتیش شروع ہو جائے کہ کس کس شخص نے اس شخص کی بیعت کی ہے تو کتنے ہوں گے جو دلیری کے ساتھ یہ کہہ دیں کہ ہم مبائعین میں داخل ہیں.میں جانتا ہوں کہ یہ بات سن کر بعض لوگوں کے ہاتھ پاؤں سُن ہو جائیں گے اور ان کو فوراً اپنی جائدادوں اور رشتہ داروں کا خیال آجائے گا کہ ان کو چھوڑنا پڑے گا.“ آپ فرماتے ہیں کہ ” مشکلات ہی کے وقت ساتھ دینا ہمیشہ کامل الایمان لوگوں کا کام ہوتا ہے.اس لئے جب تک انسان عملی طور پر ایمان کو اپنے اندر داخل نہ کرے محض قول سے کچھ نہیں بنتا اور بہانہ سازی اس وقت تک دور ہی نہیں ہوتی.عملی طور پر جب مصیبت کا وقت ہو تو اس وقت ثابت قدم نکلنے والے تھوڑے ہی ہوتے ہیں.حضرت مسیح ناصرٹی کے حواری اس آخری گھڑی میں جو ان کی مصیبت کی گھڑی تھی انہیں تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلے اور بعض نے تو منہ کے سامنے ہی آپ پر لعنت کر دی.“ پھر آپ فرماتے ہیں.غرض حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا صدق اس مصیبت کے وقت ظاہر ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محاصرہ کیا گیا.گو بعض کفار کی رائے اخراج کی بھی تھی مگر اصل مقصد اور کثرت رائے آپ کے قتل پر تھی.ایسی حالت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے صدق اور وفا کا وہ نمونہ دکھلایا جو ابد الآباد تک کے لئے نمونہ رہے گا.اس مصیبت کی گھڑی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انتخاب ہی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت اور اعلیٰ وفاداری کی ایک زبر دست دلیل ہے.دیکھو! اگر وائسرائے ہند کسی شخص کو کسی خاص کام کے لئے انتخاب کرلے تو اس کی رائے صائب اور بہتر ہو گی یا ایک چوکیدار کی؟“ وائسرائے اگر انتخاب کرے تو اس کی رائے صائب ہو گی یا ایک عام چوکیدار کی.فرماتے ہیں کہ ”ماننا پڑے گا کہ وائسرائے کا انتخاب بہر حال موزوں اور مناسب ہو گا کیونکہ جس حال میں کہ وہ سلطنت کی وو
اصحاب بدر جلد 2 455 حضرت ابو بکر صدیق طرف سے نائب السلطنت مقرر کیا گیا ہے اور اس کی وفاداری، فراست اور پختہ کاری پر سلطنت نے اعتماد کیا ہے تب ہی تو زمام سلطنت اس کے ہاتھ میں دی ہے.پھر اس کی صائب تدبیری اور معاملہ فہمی کو پس پشت ڈال کر ایک چوکیدار کے انتخاب اور رائے کو صحیح سمجھ لینا نا مناسب امر ہے.یہی حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب کا تھا.اس وقت آپ کے پاس 70-80 صحابہ موجود تھے جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے مگر ان سب میں سے آپ نے اپنی رفاقت کے لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ہی انتخاب کیا.اس میں ستر کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ نبی خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اس کا فہم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کشف اور الہام سے بتا دیا کہ اس کام کے لئے سب سے بہتر اور موزوں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہیں.ابو بکر اس ساعت عسر میں آپ کے ساتھ ہوئے.یہ وقت خطر ناک آزمائش کا تھا.“ فرماتے ہیں...غرض حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کا پورا ساتھ دیا اور ایک غار میں جس کو غار ثور کہتے ہیں آپ جا چھپے.شریر کفار جو آپ کی ایذارسانی کے لئے منصوبے کر چکے تھے تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اب تو یہ بالکل سر پر ہی آپہنچے ہیں اور اگر کسی نے ذرا بھی نیچے نگاہ کی توہ دیکھ لے گا اور ہم پکڑے جائیں گے.اس وقت آپ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا (التو به 40) کچھ غم نہ کھاؤ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق ہو اپنے ساتھ ملاتے ہیں.چنانچہ فرمایا.لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا مَعَنَا میں آپ دونو شریک ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ تیرے اور میرے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک پلہ پر آنحضرت کو اور دوسرے پر حضرت صدیق تصور کھا ہے.“ ترازو کے دو پلڑے ہوتے ہیں ایک پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رکھا.دوسرے پر حضرت ابو بکر صدیق اور کھا.” اس وقت دونو ابتلا میں ہیں کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یا تو اسلام کی بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والا ہے.دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہے.؟ ہیں.بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشان پا یہاں تک ہی آکر ختم ہو جاتا ہے...لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گذر اور دخل کیسے ہو گا ؟ مکڑی نے جالا تنا ہوا.کبوتر نے انڈے دیئے ہوئے ہیں.اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں.ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی ہیں کہ وہ اور طرح بڑھتے آئے ہیں لیکن آپ کے کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپ اپنے رفیق صادق صدیق کو فرماتے ہیں لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں.اشارہ سے کام نہیں چلتا.باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں.اس امر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن
تاب بدر جلد 2 456 حضرت ابو بکر صدیق لیں گے.یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے.خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے...ابو بکر صدیق کی شجاعت کے لئے ایک دوسرا گواہ اس واقعہ کے سوا اور بھی ہے.“ فرماتے ہیں: ”جب آنحضرت نے رحلت فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار کھینچ کر نکلے کہ اگر کوئی کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا ہے تو میں اسے قتل کر دوں گا.ایسی حالت میں حضرت ابو بکر صدیق نے بڑی جرات اور دلیری سے کلام کیا اور کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا.مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران:145) یعنی محمد بھی اللہ تعالیٰ کے ایک رسول ہی ہیں اور آپ سے پہلے جس قدر نبی ہو گزرے ہیں.سب نے وفات پائی.اس پر وہ جوش فرو ہوا.اس کے بعد بادیہ نشین اعراب مرتد ہو گئے.ایسے نازک وقت کی حالت کو حضرت عائشہ صدیقہ نے یوں ظاہر فرمایا ہے کہ پیغمبر خدا صلعم کا انتقال ہو چکا ہے اور بعض جھوٹے مدعی نبوت کے پیدا ہو گئے ہیں اور بعضوں نے نمازیں چھوڑ دیں اور رنگ بدل گیا ہے.ایسی حالت میں اور اس مصیبت میں میراباپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ اور جانشین ہوا.میرے باپ پر ایسے ایسے غم آئے کہ اگر پہاڑوں پر آتے تو وہ بھی نابود ہو جاتے.1048❝ اب غور کرو کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے پر بھی ہمت اور حوصلہ کو نہ چھوڑنا یہ کسی معمولی انسان کا کام نہیں.یہ استقامت صدق ہی کو چاہتی تھی اور صدیق نے ہی دکھائی.ممکن نہ تھا کہ کوئی دوسرا اس خطرہ کو سنبھال سکتا.تمام صحابہ اس وقت موجود تھے.کسی نے نہ کہا کہ میر احق ہے.وہ دیکھتے تھے کہ آگ لگ چکی ہے.اس آگ میں کون پڑے.حضرت عمرؓ نے اس حالت میں ہاتھ بڑھا کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر سب نے یکے بعد دیگرے بیعت کر لی.یہ ان کا صدق ہی تھا کہ اس فتنہ کو فرو کیا اور ان موذیوں کو ہلاک کیا.مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی تھا اور اس کے مسائل اباحت کے مسائل تھے.لوگ اس کی اباحتی باتوں کو دیکھ دیکھ کر اس کے مذہب میں شامل ہوتے جاتے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی معیت کا ثبوت دیا اور ساری مشکلات کو آسان کر دیا.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: میں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سارنگ پیدا نہ ہو.وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں.پھر فرمایا: ”اللہ کی قسم صدیق اکبر وہ مرد خدا ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختصاص کے کئی لباس عطا کئے گئے.“ بہت ساری خصوصیتیں عطا کی گئیں.اور اللہ نے ان کے لئے یہ گواہی دی کہ وہ خاص بر گزیدہ لوگوں میں سے ہیں اور اپنی ذات کی معیت کو آپ کی طرف منسوب کیا اور آپ کی 1049❝
حاب بدر جلد 2 457 حضرت ابو بکر صدیق تعریف و توصیف کی اور آپ کی قدر دانی کی اور یہ اشارہ فرمایا کہ آپ ایسے شخص ہیں کہ جنہیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی گوارا نہ ہوئی.ہاں آنحضرت کے علاوہ دیگر عزیز واقارب کی جدائی پر آپ راضی ہو گئے.آپ نے اپنے آقا کو مقدم رکھا اور ان کی طرف دوڑے چلے آئے.پھر بکمال رغبت آپ نے اپنے تئیں موت کے منہ میں ڈال دیا اور ہر نفسانی خواہش کو اپنی راہ سے ہٹا دیا.رسول نے آپ کو رفاقت کے لئے بلایا تو موافقت میں لبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور جب قوم نے حضرت (محمد) مصطفی کو نکالنے کا ارادہ کیا تو بزرگ و برتر اللہ عز و جل کے محبوب نبی آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ہجرت کروں اور تم میرے ساتھ ہجرت کرو گے اور ہم اکٹھے اس بستی سے نکلیں گے.پس اس پر حضرت صدیق نے الحمد للہ پڑھا کہ ایسے مشکل وقت میں اللہ نے انہیں مصطفی کار فیق بننے کی سعادت بخشی.وہ پہلے ہی سے نبی مظلوم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نصرت کے منتظر تھے.یہاں تک کہ جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو آپ نے پوری سنجیدگی اور عواقب سے لا پرواہ ہو کر ھم و غم میں آپ کا ساتھ دیا اور قاتلوں کے قتل کے منصوبہ سے خوفزدہ نہ ہوئے.پس آپ کی فضیلت حکم سریع اور نص محکم سے ثابت ہے اور آپ کی بزرگی دلیل قطعی سے واضح ہے اور آپ کی صداقت روزِ روشن کی طرح درخشاں ہے.آپ نے آخرت کی نعمتوں کو پسند فرمایا اور دنیا کی ناز و نعمت کو ترک کر دیا.دوسروں میں سے کوئی بھی آپ کے ان فضائل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا.“ فرماتے ہیں کہ ”اگر تم یہ پوچھو کہ اللہ نے سلسلہ خلافت کے آغاز کے لئے آپ کو کیوں مقدم فرمایا اور اس میں رب رؤوف کی کیا حکمت تھی؟ تو جاننا چاہئے کہ اللہ نے یہ دیکھا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وارضی ایک غیر مسلم قوم میں سے بکمال قلب سلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے ہیں اور ایسے وقت میں ایمان لائے جب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یک و تنہا تھے اور فساد بہت شدید تھا.پس حضرت صدیق اکبر نے اس ایمان لانے کے بعد طرح طرح کی ذلت اور رسوائی دیکھی اور قوم ، خاندان، قبیلے ، دوستوں اور بھائی بندوں کی لعن طعن دیکھی، رحمان خدا کی راہ میں آپ کو تکلیفیں دی گئیں اور آپ کو اسی طرح وطن سے نکال دیا گیا جس طرح جن و انس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا گیا تھا.آپ نے دشمنوں کی طرف سے بہت تکلیفیں اور اپنے پیارے دوستوں کی طرف سے لعنت ملامت مشاہدہ کی.آپ نے بارگاہ رب العزت میں اپنے مال و جان سے جہاد کیا.آپ معزز اور ناز و نعم میں پلنے کے باوجود معمولی لوگوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے.آپ راہ خدا میں (وطن سے) نکالے گئے.آپ اللہ کی راہ میں ستائے گئے.آپ نے راہ خدا میں اپنے اموال سے جہاد کیا اور دولت و ثروت کے رکھنے کے بعد آپ فقیروں اور مسکینوں کی طرح ہو گئے.اللہ نے یہ ارادہ فرمایا کہ آپ پر گزرے ہوئے ایام کی آپ کو جز اعطا فرمائے اور جو آپ کے ہاتھ سے نکل گیا اس سے بہتر بدلہ دے اور اللہ کی رضامندی چاہنے کے لئے جن
ب بدر جلد 2 458 حضرت ابو بکر صدیق مصائب سے آپ دوچار ہوئے ان کا صلہ آپ پر ظاہر فرمائے اور اللہ محسنوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا.لہذا آپ کے رب نے آپ کو خلیفہ بنا دیا اور آپ کے لئے آپ کے ذکر کو بلند کیا اور آپ کی دلجوئی فرمائی اور اپنے فضل ور حم سے عزت بخشی اور آپ کو امیر المومنین بنادیا.ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدم ثانی ہیں 1050❝ پھر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: ” یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاروق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی تضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ.سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے.ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اگر دین میں بچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لئے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے.“1051 پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ”حضرت ابو بکر اسلام کے آدم ثانی ہیں اُس زمانہ میں بھی مسیلمہ نے اباحتی رنگ میں لوگوں کو جمع کر رکھا تھا.ایسے وقت میں حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو انسان خیال کر سکتا ہے کہ کس قدر مشکلات پید اہوئی ہوں گی.اگر وہ قوی دل نہ ہوتا اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کا رنگ اس کے ایمان میں نہ ہوتا تو بہت ہی مشکل پڑتی اور گھبر اجاتا لیکن صدیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم سایہ تھا.ہم سایہ تھا یعنی جس طرح آپ کا سایہ تھا اسی طرح وہ تھے.” آپ کے اخلاق کا اثر اس پر پڑا ہوا تھا اور دل نور یقین سے بھرا ہوا تھا.اس لیے وہ شجاعت اور استقلال دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کی نظیر ملنی مشکل ہے.ان کی زندگی اسلام کی زندگی تھی.یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر کسی لمبی بحث کی حاجت ہی نہیں.اس زمانہ کے حالات پڑھ لو اور پھر جو اسلام کی خدمت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کی ہے اس کا اندازہ کر لو.میں سچ کہتا ہوں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس اسلام کے لئے آدم ثانی ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلعم کے بعد ابو بکر گیا وجو د نہ ہو تا تو اسلام بھی نہ ہو تا.ابو بکر صدیق کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اسلام کو دوبارہ قائم کیا.اپنی قوتِ ایمانی سے کل باغیوں کو سزادی اور امن کو قائم کر دیا.اسی طرح پر جیسے خدا تعالیٰ نے فرمایا اور وعدہ کیا تھا کہ میں بچے خلیفہ پر امن کو قائم کروں گا.یہ پیشگوئی حضرت صدیق کی خلافت پر پوری ہوئی اور آسمان نے اور زمین نے عملی طور پر شہادت دے دی.پس یہ صدیق کی تعریف ہے کہ اس میں صدق اس مرتبہ اور کمال کا ہونا چاہئے.نظائر سے مسائل بہت جلد حل ہو جاتے ہیں.1052 پھر آپ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ہزاروں آدمی مرتد ہو گئے حالانکہ آپ کے زمانہ میں تکمیل شریعت ہو چکی تھی.یہا تک اس ارتداد کی نوبت پہنچی کہ صرف دو
تاب بدر جلد 2 459 حضرت ابو بکر صدیق مسجدیں رہ گئیں جن میں نماز پڑھی جاتی تھی.باقی کسی مسجد میں نماز ہی نہیں پڑھی جاتی تھی.یہ وہی لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَ لكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا ( الجرات:15) مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ دوبارہ اسلام کو قائم کیا اور وہ آدم ثانی ہوئے.میرے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت بڑا احسان اس امت پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ہے کیونکہ ان کے زمانہ میں چار جھوٹے پیغمبر ہو گئے.مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی ہو گئے تھے اور ان کا نبی ان کے درمیان سے اٹھ گیا تھا مگر ایسی مشکلات پر بھی اسلام اپنے مرکز پر قائم ہو گیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تو بات بنی بنائی ملی تھی.پھر وہ اس کو پھیلاتے گئے.یہاں تک کہ نواح عرب سے اسلام نکل کر شام و روم تک جا پہنچا اور یہ ممالک مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ والی مصیبت کسی نے نہیں دیکھی نہ حضرت عمرؓ نے نہ حضرت عثمان نے اور نہ حضرت علی نے 1053 پھر آپ فرماتے ہیں کہ ”جو خدا تعالیٰ کے لئے ذلیل ہو وہی انجام کار عزت و جلال کا تخت نشیں ہو گا.ایک ابو بکر ہی کو دیکھو جس نے سب سے پہلے ذلت قبول کی اور سب سے پہلے تخت نشین ہوا.“ فرمایا: ”کیا دنیا میں ایسی کم مثالیں اور نظیریں ہیں کہ جو لوگ اس کی راہ میں قتل کئے گئے.ہلاک کئے گئے ان کے زندہ جاوید ہونے کا ثبوت ذرہ ذرہ زمین میں ملتا ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی دیکھ لو کہ سب سے زیادہ اللہ کی راہ میں برباد کیا اور سب سے زیادہ دیا گیا.چنانچہ تاریخ اسلام میں پہلا خلیفہ حضرت ابو بکر ہی ہوا.فرمایا: بہت کا یہ بھی خیال ہو گا کہ کیا ہم انقطاع الی اللہ کر کے اپنے آپ کو تباہ کر لیویں ؟ مگر یہ ان کو دھوکا ہے.کوئی تباہ نہیں ہو گا.حضرت ابو بکر کو دیکھ لو.اس نے سب کچھ چھوڑا پھر وہی سب وو 1055❝ سے اوّل تخت پر بیٹھا.پھر آپ فرماتے ہیں: ” جہاں تک تم پر اس دلیل کی وضاحت کے لئے تفصیل کا تعلق ہے تو اے اہل دانش و فضیلت ! جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمان مردوں اور عورتوں سے ان آیات میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے فضل اور رحم سے ان میں سے بعض مومنوں کو ضرور خلیفہ بنائے گا.“ آیتِ استخلاف کے بارے میں فرما رہے ہیں ” اور ان کے خوف کو ضرور امن کی حالت میں بدل دے گا.اس امر کا اتم اور اکمل طور پر مصداق ہم حضرت صدیق اکبر کی خلافت کو ہی پاتے ہیں.کیونکہ جیسا کہ اہل تحقیق سے یہ امر مخفی نہیں کہ آپ کی خلافت کا وقت خوف اور مصائب کا وقت تھا.چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اسلام اور مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے.“ فرماتے ہیں : ” بہت سے منافق مرتد ہو گئے اور مرتدوں کی زبانیں دراز ہو گئیں اور افترا پردازوں کے ایک گروہ نے دعوئی نبوت کر دیا اور اکثر بادیہ نشین ان کے گرد جمع ہو گئے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ ط
اصحاب بدر جلد 2 460 حضرت ابو بکر صدیق کے قریب جاہل اور بد کردار آدمی مل گئے اور فتنے بھڑک اٹھے اور مصائب بڑھ گئے اور آفات نے دور و نزدیک کا احاطہ کر لیا اور مومنوں پر ایک شدید زلزلہ طاری ہو گیا.اس وقت تمام لوگ آزمائے گئے اور خوفناک اور حواس باختہ کرنے والے حالات نمودار ہو گئے اور مومن ایسے لاچار تھے کہ گویا ان کے دلوں میں آگ کے انگارے دہکائے گئے ہوں یا وہ چھری سے ذبح کر دیئے گئے ہوں.کبھی تو وہ خیر البریہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جدائی کی وجہ سے اور گاہے ان فتنوں کے باعث جو جلا کر بھسم کر دینے والی آگ کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے روتے.امن کا شائبہ تک نہ تھا.فتنہ پرداز گند کے ڈھیر پر اگے ہوئے سبزے کی طرح چھا گئے تھے.مومنوں کا خوف اور ان کی گھبر بہٹ بہت بڑھ گئی تھی اور دل دہشت اور بے چینی سے لبریز تھے.ایسے ( نازک) وقت میں (حضرت) ابو بکر رضی اللہ عنہ حاکم وقت اور (حضرت) خاتم النبیین کے خلیفہ بنائے گئے.منافقوں ، کافروں اور مرتدوں کے جن رویوں اور طور طریقوں کا آپ نے مشاہدہ کیا ان سے آپ ہم و غم میں ڈوب گئے.آپ اس طرح روتے جیسے ساون کی جھڑی لگی ہو اور آپ کے آنسو چشمہ کرواں کی طرح بہنے لگتے اور آپ (رضی اللہ عنہ ) (اپنے) اللہ سے اسلام اور مسلمانوں کی خیر کی دعا مانگتے یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آن پہنچی اور جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دیئے گئے.فتنے دُور کر دیئے گئے اور مصائب چھٹ گئے اور معاملے کا فیصلہ ہو گیا اور خلافت کا معاملہ مستحکم ہوا اور اللہ نے مومنوں کو آفت سے بچالیا اور ان کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور ان کے لئے ان کے دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق پر قائم کر دیا اور مفسدوں کے چہرے کالے کر دیئے اور اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے (حضرت ابو بکر صدیق کی نصرت فرمائی اور سر کش سر داروں اور بتوں کو تباہ و برباد کر دیا اور کفار کے دلوں میں ایسار عب ڈال دیا کہ وہ پسپا ہو گئے اور (آخر) انہوں نے رجوع کر کے توبہ کی اور یہی خدائے قہار کا وعدہ تھا اور وہ سب صادقوں سے بڑھ کر صادق ہے.پس غور کر کہ کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ (حضرت ابو بکر صدیق کی ذات میں پورا ہوا.“ فرماتے ہیں: " غور کرو کہ آپ کے خلیفہ ہونے کے وقت مسلمانوں کی کیا حالت تھی.اسلام مصائب کی وجہ سے آگ سے جلے ہوئے شخص کی طرح ( نازک حالت میں ) تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو اس کی طاقت لوٹا دی اور اسے گہرے کنویں سے نکالا اور جھوٹے مدعیان نبوت درد ناک عذاب سے مارے گئے اور مرتد چوپاؤں کی طرح ہلاک کئے گئے.“ آپ فرماتے ہیں: ” اور اللہ نے مومنوں کو اس خوف سے جس میں وہ مردوں کی طرح تھے امن عطا فرمایا.اس تکلیف کے رفع ہونے کے بعد مومن خوش ہوتے تھے اور (حضرت ابو بکر صدیق کو مبارکباد دیتے تھے اور رحبا کہتے ہوئے ان سے ملتے تھے وہ آپ کو ایک مبارک وجود اور نبیوں کی طرح تائید یافتہ سمجھتے تھے اور یہ سب کچھ (حضرت ابو بکر صدیق کے صدق اور گہرے یقین کی وجہ سے تھا.1056
محاب بدر جلد 2 461 حضرت ابو بکر صدیق پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام کی کیا حالت تھی اور اس میں حضرت ابو بکر صدیق کے خصائل کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید فرمایا: ” آپ نبی تو نہ تھے مگر آپ میں رسولوں کے قولی موجود تھے.آپؐ کے اس صدق کی وجہ سے ہی چمن اسلام اپنی پوری رعنائیوں کی طرف لوٹ آیا اور تیروں کے صدمات کے بعد بارونق اور شاداب ہو گیا اور اس کے قسم قسم کے خوشنما پھول کھلے اور اس کی شاخیں گردو غبار سے صاف ہو گئیں.جبکہ اس سے پہلے اس کی حالت ایسے مردے کی سی ہو گئی تھی جس پر رویا جا چکا ہو اور (اس کی حالت) قحط زدہ کی سی تھی اور مصیبت کے شکار کی سی اور ذبح کئے گئے ایسے جانور کی سی جس کے گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہو ، ہو گئی تھی.اور (اس کی حالت) قسما قسم کی مشقتوں کے مارے ہوئے اور شدید تپش والی دو پہر کے جلائے ہوئے کی طرح تھی.پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ان تمام مصائب سے نجات بخشی اور ان ساری آفات سے اسے رہائی دلائی اور عجیب در عجیب تائیدات سے اس کی مدد فرمائی یہاں تک کہ اسلام اپنی شکستگی اور خاک آلودگی کے بعد بادشاہوں کا امام اور گردنوں (عوام الناس) کا مالک بن گیا.پس منافقوں کی زبانیں گنگ ہو گئیں اور مومنوں کے چہرے چمک اٹھے.ہر شخص نے اپنے رب کی تعریف اور صدیق اکبر کا شکریہ ادا کیا.1057<< پھر آپ فرماتے ہیں: حضرت ابو بکر صدیق نے اسلام کو ایک ایسی دیوار کی طرح پایا جو اشرار کے شر کے باعث گراہی چاہتی تھی.تب اللہ نے آپ کے ہاتھوں اسے ایک ایسے مضبوط قلعہ کی طرح بنا دیا جس کی دیواریں لوہے کی ہوں اور جس میں غلاموں کی طرح فرمانبر دار فوج ہو.پس غور کر کیا تو اس میں کوئی شک پاتا ہے؟ یا پھر اس کی مثال تو دوسرے گروہوں میں سے پیش کر سکتے ہو ؟ 1058 پھر آپ فرماتے ہیں کہ ”آپ رضی اللہ عنہ معرفتِ تامہ رکھنے والے عارف باللہ ، بڑے حلیم الطبع اور نہایت مہربان فطرت کے مالک تھے اور انکسار اور مسکینی کی وضع میں زندگی بسر کرتے تھے.بہت ہی عفو و در گزر کرنے والے اور مجسم شفقت ورحمت تھے.آپ اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے جاتے تھے.آپ کا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا تعلق تھا اور آپ کی روح خیر الوریٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی روح سے پیوست تھی اور جس نور نے آپ کے آقا و مقتدا محبوب خدا کو ڈھانپا تھا اسی نور نے آپ کو بھی ڈھانپا ہوا تھا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے نور کے لطیف سائے اور آپ کے عظیم فیوض کے نیچے چھپے ہوئے تھے اور فہم قرآن اور سید الرسل، فخر بنی نوع انسان کی محبت میں آپ تمام لوگوں سے ممتاز تھے.اور جب آپ پر اخروی حیات اور الہی اسرار منکشف ہوئے تو آپ نے تمام دنیوی تعلقات توڑ دیئے اور جسمانی وابستگیوں کو پرے پھینک دیا اور آپ اپنے محبوب کے رنگ میں
صحاب بدر جلد 2 462 حضرت ابو بکر صدیق رنگین ہو گئے اور واحد مطلوب ہستی کی خاطر ہر مراد کو ترک کر دیا اور تمام جسمانی کدورتوں سے آپ کا نفس پاک ہو گیا.اور سچے یگانہ خدا کے رنگ میں رنگین ہو گیا.اور رب العالمین کی رضا میں گم ہو گیا اور جب کچی الہی محبت آپ کے تمام رگ و پے اور دل کی انتہائی گہرائیوں میں اور وجود کے ہر ذرہ میں جاگزین ہو گئی اور آپ کے افعال و اقوال میں اور برخاست و نشست میں اس کے انوار ظاہر ہو گئے تو آپ صدیق کے نام سے موسوم ہوئے اور آپ کو نہایت فراوانی سے تر و تازہ اور گہر اعلم ، تمام عطا کرنے والوں میں سے بہتر عطا کرنے والے خدا کی بارگاہ سے عطا کیا گیا.صدق آپ کا ایک راسخ ملکہ اور طبعی خاصہ تھا.اور اس صدق کے آثار و انوار آپ میں اور آپ کے ہر قول و فعل، حرکت و سکون اور حواس و انفاس میں ظاہر ہوئے.آپ آسمانوں اور زمینوں کے رب کی طرف سے منعم علیہ گروہ میں شامل کئے گئے.آپ کتاب نبوت کا ایک اجمالی نسخہ تھے اور آپ ارباب فضیلت اور جواں مردوں کے امام تھے اور نبیوں کی سرشت رکھنے والے چیدہ لوگوں میں سے تھے.“ فرماتے ہیں: ”تو ہمارے اس قول کو کسی قسم کا مبالغہ تصور نہ کر اور نہ ہی اسے نرم رویے اور چشم پوشی کی قسم سے محمول کر اور نہ ہی اسے چشمہ محبت سے پھوٹنے والا سمجھ بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جو بار گاہِ رب العزت سے مجھ پر ظاہر ہوئی اور آپ رضی اللہ عنہ کا مشرب رب الارباب پر توکل کرنا اور اسباب کی طرف کم توجہ کرنا تھا اور آپ تمام آداب میں ہمارے رسول اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بطور ظل کے تھے اور آپ کو حضرت خیر البریہ سے ایک ازلی مناسبت تھی.اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو حضور کے فیض سے پل بھر میں وہ کچھ حاصل ہو گیا جو دوسروں کو لمبے زمانوں اور دور دراز اقلیموں میں حاصل نہ ہو سکا.تو جان لے کہ فیوض کسی شخص کی طرف صرف مناسبتوں کی وجہ سے ہی رخ کرتے ہیں اور تمام کائنات میں اسی طرح اللہ کی سنت جاری و ساری ہے.پس جس شخص کو قتسام (ازل) نے اولیاء اور اصفیا کے ساتھ ذراسی بھی مناسبت عطانہ کی ہو تو یہی وہ محرومی ہے جسے حضرت کبریاء کی جناب میں شقاوت و بد بختی سے تعبیر کیا جاتا ہے.اتم و اکمل خوش بخت وہی شخص ہے جس نے حبیب خدا کی عادات کا احاطہ کیا ہو یہاں تک کہ الفاظ، کلمات اور تمام طور طریقوں میں آپ سے مشابہت پیدا کر لی ہو.بد بخت لوگ تو اس کمال کو سمجھ نہیں سکتے.جس طرح ایک پیدائشی اندھار نگوں اور شکلوں کو دیکھ نہیں سکتا ایک بدبخت کے نصیب میں تو پر رعب اور پر ہیبت (خدا) کی تجلیات کے سوا کچھ نہیں ہو تا کیونکہ اس کی فطرت رحمت کے نشانات نہیں دیکھ سکتی.اور جذب اور محبت کی خوشبو کو نہیں سونگھ سکتی اور یہ نہیں جانتی کہ خلوص، خیر خواہی، اُنس اور فراخی قلب کیا ہیں کیونکہ وہ (فطرت) تو ظلمات سے بھری پڑی ہے.“ یعنی جو اندھا ہے.” پھر اس میں برکات کے انوار اتریں تو کیسے؟ بلکہ بدبخت شخص کا نفس تو ایک تند و تیز آندھی کے تموج کے طرح موجیں مارتا ہے اور اس کے جذبات حق اور حقیقت دیکھنے سے اسے روکتے ہیں.اس لئے وہ سعادت مندوں کی طرح معرفت میں راغب ہوتے ہوئے (حق) کی طرف نہیں آتا.جبکہ صدیق کی تخلیق مبدء فیضان کی طرف متوجہ ہونے اور رسول رحمن صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ
محاب بدر جلد 2 463 حضرت ابو بکر صدیق کرنے کی صورت میں ہوئی.آپ صفات نبوت کے ظہور کے تمام انسانوں سے زیادہ حقدار تھے اور حضرت خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بننے کے لئے اولیٰ تھے اور اپنے متبوع کے ساتھ کمال اتحاد اور موافقت تامہ استوار کرنے کے اہل تھے.نیز یہ کہ وہ جملہ اخلاق، صفات و عادات اپنانے اور انفسی اور آفاقی تعلقات چھوڑنے میں آپ کے (ایسے کامل) مظہر تھے کہ تلواروں اور نیزوں کے زور سے بھی ان کے درمیان قطع تعلق واقع نہ ہو سکے.اور آپ اس حالت پر ہمیشہ قائم رہے.اور مصائب اور ڈرانے والے حالات، نیز لعنت ملامت میں سے کچھ بھی آپ کو بیقرار نہ کر سکے.آپ کی روح کے جوہر میں صدق و صفاء ثابت قدمی اور تقویٰ شعاری داخل تھی خواہ سارا جہاں مرتد ہو جائے آپ ان کی پرواہ نہ کرتے اور نہ پیچھے ہٹتے بلکہ ہر آن اپنا قدم آگے ہی بڑھاتے گئے.1059 یہ تھے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کر دیا تھا.1060
اصحاب بدر جلد 2 464 حوالہ جات 1 حوالہ جات ا استیعاب جلد 3 صفحہ 91-92، طبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 90، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 204، اصابہ جلد 4 صفحہ 145 3 2 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحه 57 مترجم سید نا ابو بکر صدیق کی زندگی کے سنہرے واقعات صفحہ 29 الروض الانف جلد اول صفحہ 430 اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 314-315 6 اصابہ جلد 3 صفحہ 424 9 اصابہ جلد 4 صفحہ 374-375 صحیح مسلم حدیث 11 39 متر جم جلد 11 صفحہ 198-199 السيرة الحلميه جلد اول صفحہ 418-419 10 اصابہ جلد 4 صفحہ 145 11 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ ، تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 348 12 سنن الترمذی حدیث 3679 13 تاریخ الخلفاء صفحہ 27 14 ابن ہشام صفحه 117 15 روض الانف جلد 1 صفحہ 430 16 استیعاب جلد 3 صفحہ 963 17 اصابہ جلد 4 صفحہ 146 18 19 عمدة القاری جلد 16 صفحہ 260 تاریخ الخلفاء صفحہ 28-29 20 مستدرک جلد 3 صفحہ 81 حدیث 4458،اٹلس سیرت نبوی صفحہ 136 21 طبقات الكبرى جزء 3 صفحه 127 22 تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 271 23 ملفوظات جلد 1 صفحہ 372 تا 373 24 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 137 25 عمدۃ القاری جلد 16 صفحہ 260 26 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 127 27 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 127 28 عمدۃ القاری جلد 16 صفحہ 260 سر الخلافة ار دو ترجمہ صفحہ 63،60تا64 29 30 ماخوذ از السیرة الحلمية جلد 2 صفحہ 56 31 مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 151 مکتوب نمبر 2 سر الخلافۃ اردو ترجمہ صفحہ 51-52 33 صحیح البخاری حدیث: 467 32
محاب بدر جلد 2 34 ملفوظات جلد 8 صفحہ 277 35 ماخوذ از عشرہ مبشرہ صفحہ 41 20 السيرة الحلبية جلد اول صفحہ 390 الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 140 36 37 38 صحیح بخاری حدیث: 3665 39 صحیح مسلم حدیث: 6073 40 لسان العرب زیر مادہ ”کتم 41 تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 540-541 42 حضرت ابو بکر صدیق اکبر همتر جم صفحه 41 43 اصابہ جلد 4 صفحہ 148 السيرة الحلمه جلد 1 صفحہ 390 44 45 حضرت ابو بکر صدیق مترجم صفحہ 59 46 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 311 47 سیرت خاتم النبیین صفحه 104-105 48 49 465 سید ناصدیق اکبر کے شب و روز از محمد حذیفہ لاہوری صفحه 19 البدایۃ والنھایہ جلد 2 جزء 3 صفحہ 29و32 50 سير الصحابة جلد اول حصہ اول صفحہ 56 ا سیرت خاتم النبيين مصفحہ 114 51 52 السيرة الحلمية جلد 1 صفحہ 384-385 53 کنز العمال جزء 12 صفحہ 490 حدیث 35609 54 تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحه 30 5 صحیح بخاری حدیث: 2297 56 شرح زرقانی جلد 1 صفحہ 447-448 57 الروض الانف جلد اول صفحہ 431 58 سبل الهدی جلد 1 صفحہ 124 59 60 حوالہ جات 5 السيرة الحلبية جلد 1 صفحہ 391 خطبہ جمعہ 3 دسمبر 2021ء، الفضل انٹر نیشنل 24 دسمبر 2021ء صفحہ 5 تا10 جلد 28 شماره 103) اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 312،313 61 الریاض النضرة جلد 1 صفحہ 84-85 62 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 205-206 63 بخاری حدیث 3661 64 تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 559 65 انوار العلوم جلد 8 صفحہ 543-544 66 انوار العلوم جلد 6 صفحہ 76-77 67 ملفوظات جلد 1 صفحہ 372 تا 374
68 69 70 محاب بدر جلد 2 6 ملفوظات جلد 10 صفحہ 78-79 ملفوظات جلد سوم صفحہ 261 466 سبل الهدی والرشاد جلد 2 صفحہ 300-304، تاریخ الطبری جلد 1 صفحہ 537 تا540 71 الرياض النضرة جلد 1 صفحه 89 72 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين تصفحہ 121-122 73 ماخوذ اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 205 74 76 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 166 75 سیرت خاتم النبین صفحہ 122-123 7 السيرة الحلمية جلد اول صفحه 395 صحیح البخاری حدیث: 3856 77 78 ابو بکر الصدیق شخصیتہ و عصرہ صفحہ 38 19 تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 316 80 چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 257-258 81 اصابہ جلد 3 صفحہ 247 82 اسد الغابہ جلد اوّل صفحہ 283 83 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 175 ، لغات الحدیث جلد اوّل صفحہ 82 84 اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 31 حوالہ جات 85 اسد الغابہ جلد 6 (النساء) صفحه 127 ( خطبه جمعه بیان فرمودہ 10 دسمبر 2021ء ، الفضل انٹر نیشنل 28 دسمبر 2021 تا 3 جنوری 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 28 شماره 104-105) 86 ابن ہشام صفحہ 236 87 ماخوذاز سید نا ابو بکر صدیق، شخصیت اور کارنامے ، اردو ترجمہ صفحہ 74، الجامع لاحکام القرآن جلد 2 صفحہ 3330 88 81 خطبات محمود جلد 22 صفحہ 546-547 89 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 193-194 20 شرح الزرقانی جلد اول صفحہ 503-504 90 ا صحیح بخاری حدیث : 2297، صحیح البخاری مترجم جلد 4 صفحہ 276، فرہنگ سیرت صفحہ 57 92 93 94 عمدة القاری جلد 12 صفحہ 185 حدیث: 2297 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 15 صفحه 127 سیرت خاتم النبيين تصفحہ 166 95 ازالة الاخفاء اردو ترجمہ جلد 3 صفحہ 39-40، سید ناصدیق اکبر کے شب و روز صفحہ 30 96 97 سنن ترمذی حدیث: 3193 صحیح بخاری حدیث: 1007 98 ماخوذ از عمدة القاری جلد 7 صفحہ 46 حدیث: 1007 الله سة 99 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صلى الله علم صفحہ 216-217 100 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 445 101 ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 310-311
حاب بدر جلد 2 102 شرح الزرقانی جلد 2 صفحہ 72 تا 74 467 103 معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم جزء4 صفحہ 309-310 روایت نمبر 6382 104 ماخوذ از سید نا ابو بکر صدیق، شخصت اور کارنامے ، اردو ترجمہ صفحہ 82،84 حوالہ جات 105 السيرة الحلمیہ جلد 2 صفحہ 7 ( خطبہ جمعہ 17 دسمبر 2021ء الفضل انٹر نیشنل 7 جنوری 2022، صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 2) 106 السيرة الحلمة جلد 2 صفحہ 21 107 صحیح البخاری نمبر 3622 108 فرہنگ سیرت صفحہ 321 109 معجم البلدان جلد 5 صفحہ 452 110 ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 472 111 ماخوذ از سبل الهدی والرشاد جلد 3 صفحہ 224 تا 227 112 ماخوذ از صحیح البخاری حدیث 2297، الخلیفۃ الاول ابو بکر الصدیق صفحہ 45 113 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 222 114 انوار العلوم جلد 1 صفحہ 489 ابن ہشام صفحہ 340 تا342 115 116 117 سبل الھدی والرشاد جلد 3 صفحہ 232 سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 64 حاشیہ 118 صحیح بخاری روایت 2138 3905، فتح الباری جلد 7 صفحہ 277 119 ابن ہشام صفحه 343 120 صحیح بخاری روایت 3905 ، طبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 382، شرح الزرقانی جزء 2 صفحہ 105 106 121 ماخوذ تاریخ انمیں جلد 2 صفحہ 7، الرحیق المختوم صفحه 165 ، شرح الزرقانی جلد 2 صفحہ 129 ابن ہشام صفحہ 348،342 ، محمد رسول اللہ والذین معہ جلد 3 صفحہ 74 ، طبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 176 122 123 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 236-237 124 سرمه چشم آریہ ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 64-65 حاشیہ 125 حياة محمد صفحہ 223-224 126 دلائل النبوة للبیھقی جلد 2 صفحہ 466،465 127 مدارج النبوة مترجم جلد 2 صفحہ 83 سیرت خاتم النبيين صفحه 237 128 129 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 222-223 130 سرمه چشم آریہ ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 66 حاشیہ 131 ماخوذ از تاریخ طبری جلد اوّل صفحہ 568 132 السيرة الحلميه جزء 2 صفحہ 47 133 ابن ہشام صفحه 343 134 صحیح بخاری روایت نمبر 2979، شرح زرقانی جزء 2 صفحہ 107 135 سبل الھدی والرشاد جلد 3 صفحہ 239 136 الخليفة الاول ابو بکر الصدیق صفحہ 47
حاب بدر جلد 2 468 137 سبل الهدی والرشاد جلد 3 صفحہ 243، شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 110 138 محمد رسول اللہ والذین معہ جلد 3 صفحہ 59 139 سبل الهدى والرشاد جلد 3 صفحہ 240 140 محمد رسول اللہ والذین معہ جلد 3 صفحہ 59 141 تاریخ طبری جلد اول صفحہ 568 شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 121 تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 10 ابن ہشام صفحہ 344 * 142 143 144 145 سبل الہدی والرشاد جلد 3 صفحہ 241، ماخوذ از صحیح بخاری کتاب روایت 3653 146 147 المواهب اللد نبیہ جلد 1 صفحہ 292-293 خطبہ جمعہ بیان فرموده 24 دسمبر 2021ء الفضل انٹر نیشنل 14 جنوری 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 4 148 ماخوذ از شرح زرقانی جزء 2 صفحہ 122-123 149 تاریخ انمیں جلد 2 صفحہ 15 150 المواهب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 292-293 151 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 237 تا 239 152 تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 417،416 153 انوار العلوم جلد 11 صفحہ 223-224 154 ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 402 155 ملفوظات جلد 1 صفحہ 376 تا378 156 سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 66 حاشیہ 157 صحیح بخاری حدیث: 3905، ابن ہشام جزء 1-2 صفحہ 289 158 السيرة الحلميه جزء 2 صفحه 54 151 السيرة الحلمه جلد 2 صفحہ 58 160 ابن ہشام صفحہ 344، صحیح بخاری حدیث : 3905، فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد 7 صفحہ 238 161 سیرت خاتم النبيين صفحه 239-240 162 تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 18 163 فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد 7 صفحہ 299 164 محمد رسول اللہ والذین معہ جلد 3 صفحہ 61، ابن ہشام صفحہ 345 165 ابن ہشام 345 166 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 240 167 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 223-224، ابن ہشام صفحہ 344 168 محمد رسول اللہ والذین معہ جلد 3 صفحہ 64، شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 172 یح بخاری حدیث : 3652، سبل الهدی والرشاد جلد 3 صفحہ 243-244 حوالہ جات حیح البخاری حدیث: 3906، سبل الهدی والرشاد جلد 3 صفحہ 248، محمد رسول اللہ والذین معہ جلد 3 صفحہ 64-65) خطبہ جمعہ مؤرخہ 31 دسمبر 2021ء الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 6)
حاب بدر جلد 2 171 محمد رسول اللہ والذین معہ جلد 3 صفحہ 65 469 172 بخاری بشرح الکرمانی جزء 14 صفحہ 178، فرہنگ سیرت صفحہ 88 سیرت خاتم النبيين مصفحه 240 242 173 174 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 224 تا 226 175 ماخوذ از سبل الهدی والرشاد جلد 3 صفحہ 249 176 الروض الانف جلد 2 صفحہ 325، فرہنگ سیرت صفحہ 232 177 سبل الهدی والرشاد جلد 3 صفحہ 244-245 178 محمد رسول اللہ والذین معہ جلد 3 صفحہ 67 صحیح البخاری حدیث: 3906 179 180 سیرت خاتم النبيين مصفحہ 242 181 صحیح بخاری حدیث: 3911 182 سیرت خاتم النبین صفحہ 242 183 سبل الهدی والرشاد جلد 3 صفحہ 253، ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 243 184 معجم البلدان جلد 4 صفحہ 377 زیر لفظ "قبا 185 فرہنگ سیرت صفحہ 230 186 صحیح بخاری حدیث 428 و حدیث 3906، فرہنگ سیرت صفحہ 101-102 187 السيرة الحلمية جلد 2 صفحہ 75 188 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 226-227 پیرت خاتم النبیین صفحہ 264-265 189 190 صحیح بخاری حدیث: 3906 191 الروض الانف جلد 2 صفحہ 332 192 المسيرة العلمية جلد 2 صفحہ 75 193 السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 81 ، ابن ہشام صفحہ 349، اٹلس سیرت نبوی صفحہ 168 194 شرح زرقانی جزء 2 صفحہ 157 195 شرح زرقانی جزء 2 صفحہ 148، السيرة الحلمية جلد 2 صفحہ 71 196 صحیح بخاری حدیث:428 197 سیرت خاتم النبیین صفحه 266-267 198 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 230 199 200 ابن ہشام صفحہ 348 مقالات سیرت جلد 3 صفحہ 131 201 خطبہ جمعہ مورخہ 14 جنوری 2022ء ، الفضل انٹر نیشنل 4 فروری 2022، صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 10 202 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 269 203 المواہب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 316 204 السيرة الحلمه جلد 2 صفحہ 90 2 ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 446 205 حوالہ جات
محاب بدر جلد 2 206 طبقات الكبرى جزء 3 صفحہ 93 207 اصابہ جلد 2 صفحہ 190 208 طبقات الکبریٰ جزء3 صفحہ 93 470 209 تاریخ دمشق الكبير لابن عساکر جلد 16 جزء 32 صفحہ 63 210 ماخوذ از ارشاد الساری شرح صحیح بخاری جزء 7 صفحہ 133 حدیث:3937 201 سیرت خاتم النبيين صفحه 349 212 2 ماخوذاز السيرة الحلمه جلد 2 صفحہ 204 213 السيرة الحلمه جلد 2 صفحہ 205-206، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 475 214 ابن ہشام صفحہ 421، السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 207 215 سیرت خاتم النبیین صفحہ 357، نتبل الهدی جلد 11 صفحہ 398 216 السيرة الحلمه جلد 2 صفحہ 214 2 تفسیر کبیر جلد 10 صفحه 67 217 218 صحیح بخاری حدیث:2915 219 صحیح مسلم کتاب الجہاد والسير حدیث: 4588 220 سیرت خاتم النبيين صلى الله علم صفحہ 360-361 221 انوار العلوم جلد 1 صفحہ 466-467 222 2 براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 255-256 223 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے صفحہ 108-109 224 تفسیر کبیر جلد 14 صفحہ 276 پیرت خاتم النبیین صلى ل لم صفحہ 367-368 225 الله سة 226 صحیح البخاری حدیث : 3926، شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 172 227 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 483-484 228 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 484 تا 486 229 شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 404 230 سیرت خاتم النبيين صفحه 489 231 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 3 صفحه 70 232 اصابه جزء 3 صفحہ 431 233 سیرت خاتم النبيين صفحہ 495-496 234 سبل الہدی جلد 4 صفحہ 199-200، لغات الحدیث زیر لفظ رباعی * 235 شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 425 236 صحیح بخاری حدیث: 3039 237 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 52 تا 253 238 صحیح بخاری حدیث: 4077 حوالہ جات 239 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 499-500 خطبہ جمعہ مؤرخہ 21 جنوری 2022ء الفضل انٹر نیشنل 11 فروری 2022ء صفحہ 5 تا 10 جلد 29 شمارہ 12)
حاب بدر جلد 2 471 240 سبل الہد کی جلد 4 صفحہ 308-309، معجم البلد ان جلد 5 صفحہ 225 241 سید نا ابو بکر شخصیت اور کارنامے مترجم اردو صفحہ 113 242 ماخوذ از السيرة الحلبيه جلد 2 صفحہ 357 تا 361 243 سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 325 244 سبل الہدی والرشاد جلد 4 صفحہ 337، اٹلس سیرت نبوی صفحہ 216 245 سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 337 ، ماخوذ از طبقات الکبری جلد 2 صفحہ 46 246 سیرت خاتم النبیین صفحه 529-530 247 کتاب المغازى للواقدی جلد 1 صفحہ 341 248 طبقات الکبری جزء 2 صفحہ 48، المنجد زیر ماده برد 249 البداية والنهاية جلد 4 صفحہ 169-170 250 252 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 دسمبر 2018ء حضرت مسطح بن اثاثہ کے تذکرہ میں 251 صحیح البخاری حدیث: 2661 ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 181 253 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2018ء حضرت مسطح بن اثاثہ کے تذکرہ میں 2 ماخوذ از طبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 50-51، اٹلس سیرت نبوی صفحہ 278 254 255 الخلیفۃ الاول ابو بکر الصدیق صفحہ 65-66 256 سبل الھدی والرشاد جلد 4 صفحہ 365 سبل الهدی والرشاد جلد 4 صفحہ 367 257 سا حوالہ جات 258 سید ناصدیق اکبر صفحہ 41 ( خطبہ جمعہ مؤرخہ 28 جنوری 2022ء ، الفضل انٹر نیشنل 15 تا21 فروری 2022 ء خصوصی اشاعت برائے یوم مصلح موعود ) صفحه 5 تا 9 جلد 29 شماره 13-14) 259 کتاب المغازی الواقدی جلد دوم صفحه 4 260 کنز العمال جلد 7 صفحہ 10 روایت: 36132 201 کتاب المغازی جلد 2 صفحہ 6 262 ماخوذ از مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 256تا259روایت:25610 263 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 749-750 264 2 ماخوذ از سبل الھدی والرشاد جلد 5 صفحہ 37 265 ماخوذ از صحیح بخاری حدیث: 2731-2732، ماخوذ از عمدۃ القاری جلد 14 صفحہ 16 206 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحہ 757،756 26 ماخوذاز صیح بخاری حدیث:2731-2732 268 سیرت خاتم النبین صفحہ 767-768 269 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 560 270 ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صفحه 769 271 سبل الهدی والرشاد جلد 5 صفحہ 64 272 2 فرہنگ سیرت صفحہ 64 273 ماخوذ از طبقات الکبری جزء 2 صفحہ 69، ماخوذ از ابن ہشام صفحہ 875
حاب بدر جلد 2 274 صحیح مسلم حدیث: 4573، سنن ابي داؤد حدیث : 2697 275 سیرت خاتم النبيين صفحه 716-717 472 276 تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 144، اٹلس سیرت نبوی صفحه 330، فرہنگ سیرت صفحہ 117 27 المواهب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 517 278 سبل الهدی والرشاد جزء 5 صفحہ 124 279 سید ناصدیق اکبر صفحہ 49 280 کتاب المغازی جلد 2 صفحہ 120 281 ماخوذ از ابن ہشام صفحہ 707 282 لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 487 و جلد 2 صفحہ 648 283 فرہنگ سیرت صفحہ 297 284 سبل الهدی والرشاد جلد 6 صفحہ 131 285 خطبہ جمعہ 11 جون 2021ء 286 ماخوذ از سیرت ابن ہشام صفحہ 734-735، شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 379-380 287 شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 386 288 تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 166 سیرت حلبیہ، جلد 3 صفحه 107-108 ماخوذ از انوار العلوم جلد 24 صفحہ 260 تا 262 289 290 حوالہ جات 291 طبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 102-103 ، اٹلس سیرت نبوئی صفحہ 396 (خطبہ جمعہ مؤرخہ 4 فروری 2022ء الفضل انٹر نیشنل 25 فروری 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 16) 29 دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 5 صفحہ 48 293 25 ماخوذ از سبل الہدی جلد 5 صفحہ 218 294 سبل الہدی جلد 5 صفحہ 220-221 295 سبل الهدی والرشاد جلد 5 صفحہ 227 ، شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 415 296 فرہنگ سیرت صفحہ 242 297 شرح زرقانی جزء 3 صفحہ 421 298 سبل الہدی جلد 5 صفحہ 235 299 السيرة الحلمه جلد 3 صفحہ 151، اٹلس سیرت نبوئی صفحہ 409 300 ابن ہشام صفحہ 761 301 ماخوذ از السیرة الحلمه جلد 3 صفحہ 151 تا154، فرہنگ سیرت صفحہ 49 302 303 304 صحیح مسلم کتاب الجھاد والسير حدیث 4616 سیرت ابن ہشام صفحہ 764 صحیح بخاری حدیث: 4322 305 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحه 625-626 306 فرہنگ سیرت صفحہ 178 307 الرحيق المختوم صفحه 567
حاب بدر جلد 2 308 فرہنگ سیرت صفحہ 88 309 ماخوذ از سبل الھدی والرشاد جلد 5 صفحہ 388 310 ابن ہشام صفحہ 792 صحیح مسلم حدیث: 2442 311 312 ابن ہشام صفحه 793 313 معجم البلدان جلد 2 صفحہ 14 314 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 131 315 3 شرح علامہ زرقانی جلد 4 صفحہ 69 473 316 السيرة الحلبیہ جلد 3 صفحہ 183-184، لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 82، جلد 2 صفحہ 648، جلد 4 صفحہ 487 317 سنن الترمذی حدیث: 3675 318 ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 40 حاشیہ ابن ہشام صفحہ 822 319 320 ماخوذ از سبل الهدی والرشاد جلد 5 صفحہ 459-460، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 229 321 الروض الانف جلد 4 صفحہ 318-19 ، عمدۃ القاری جلد 9 صفحہ 384 322 السيرة الحلبيه جلد 3 صفحہ 295 حوالہ جات 323 سیرۃ ابن ہشام صفحہ 832، سبل الہدی جلد 12 صفحہ 73، البدایہ والنھایہ جزء7 صفحہ 228-229، معجم البلد ان جلد 3 صفحہ 515، فرہنگ سیرت صفحہ 198 (خطبہ جمعہ 11 فروری 2022ء الفضل انٹر نیشنل 4 مارچ2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 18) 324 السيرة الحلمية جلد 3 صفحہ 361 325 ماخوذ از سبل الهدی والرشاد جلد 7 صفحه 12-13 ، ماخوذ از سنن ابو داؤ د حدیث:1818 326 خطبہ جمعہ 15 نومبر 2019ء حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی بن سلول کے تذکرہ میں 327 السيرة الحلميه جلد 3 صفحہ 365، فرہنگ سیرت صفحہ 110 328 سنن نسائی حدیث : 2664، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 339 329 سبل الھدی والرشاد جلد 8 صفحہ 461 330 السيرة الحلمية جلد 3 صفحہ 369 331 سبل الھدی والرشاد جلد 5 صفحہ 64 332 صحیح بخاری حدیث: 679 333 ماخوذ از الاستیعاب جلد 3 صفحہ 97،96 334 صحیح بخاری حدیث: 683 335 صحیح بخاری حدیث: 680 336 انوار العلوم جلد 1 صفحہ 507506 337 صحیح بخاری حدیث 3668-3667 338 صحیح بخاری حدیث : 4454 339 المواهب اللدنية جزء 4 صفحہ 547 340 انوار العلوم جلد 7 صفحہ 345 تا 347 341 انوار العلوم جلد 23 صفحہ 327-328
حاب بدر جلد 2 342 474 ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 285-286 حاشیہ 343 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے صفحہ 174 344 صدیق اکبر مترجم صفحہ 85،86 345 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 135 346 347 حضرت سید نا ابو بکر صدیق صفحہ 87،86، سید ناصدیق اکبر از الحاج حکیم غلام نبی صفحہ 72-73 ماخوذ از صحیح بخاری حدیث: 6830، صحیح بخاری حدیث: 4021 348 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 242 349 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 243،242 350 السيرة الحلبه جلد 3 صفحہ 504-505 حوالہ جات 351 مسند احمد بن حنبل حدیث : 18 ، جلد 1 صفحہ 159،158 (خطبہ جمعہ مؤرخہ 25 فروری 2022ء ،الفضل انٹر نیشنل 18 تا 24 مارچ2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 22-23) 35 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 243 353 سنن الکبری للنسائی حدیث نمبر 7119 جلد 4 صفحہ 264 354 ماخوذاز الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 193 ، ماخوذ السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 506 355 تاریخ الخلفاء الراشدین صفحہ 367،22 356 357 تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 266 انوار العلوم جلد 25 صفحہ 402-403 358 البدایة و النهایة جزء 6 صفحہ 298-299 تاریخ الطبری جزء 3 صفحه 257 360 سيرة امیر المومنین علی بن ابی طالب از صلابی صفحہ 119، السيرة النبوية لابن كثير صفحہ 693 361 السيرة النبوية لابن كثير صفحه 694 362 ملفوظات جلد 10 صفحہ 183 363 تو تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 368-369 364 انوار العلوم جلد 4 صفحہ 425 365 حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 244 366 صحیح البخاری حدیث 3682 36 کنز العمال جلد 3 جزء5 صفحہ 253 حدیث 14111 368 3 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 354 369 حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحه 122 370 تفسیر کبیر جلد 12 صفحہ 135 371 سر الخلافة مترجم صفحہ 49-50- روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 335 372 قاموس الكتاب صفحه 1144 زیر لفظ يوشَعُ 373 تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 183 تا 189 (خطبه جمعه بیان فرمودہ 4 مارچ 2022ء، الفضل انٹر نیشنل مورخہ 25 مارچ 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 24) 374 تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 184
حاب بدر جلد 2 375 3 تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 186 475 حوالہ جات 376 ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل مترجم شیخ محمد احمد پانی پتی صفحہ 123، اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 21 صفحہ 731 377 صحیح البخاری حدیث 3757 378 379 ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل متر جم شیخ محمد احمد پانی پتی صفحہ 124 فتح الباری لابن حجر جلد 8 صفحہ 192 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 224، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 579، فرہنگ سیرت صفحہ 119 طبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 146-147 ، البدایۃ والنھایۃ جلد 3 جزء 6 صفحہ 302 ، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 101، فرہنگ سیر ت صفحہ 114،87 382 شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد 4 صفحہ 155 383 385 البدایہ والنھایة جلد 3 جزء 6 صفحہ 302، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 244، الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 199 384 انوار العلوم جلد 22 صفحہ 593-594 اردو ترجمه سر الخلافۃ صفحہ 188-189 حاشیہ 386 شرح الزرقانی علی المواہب اللہ نیہ جلد 4 صفحہ 155 387 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 199-200 386 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحه 246 ، ماخوذاز السيرة الحلمية جلد 3 صفحہ 293 389 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 200 390 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 246 391 السيرة الحلمية جلد 3 صفحہ 294 392 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 246 393 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 246 394 سیرت سید نا حضرت ابو بکر صدیق، مترجم مولفہ عمر ابو النصر صفحہ 561 395 البدایۃ والنھایۃ جلد 3 جزء 6 صفحہ 302 396 ماخوذ از طبقات الکبری جلد 2 صفحہ 147 397 طبقات الکبری جلد 2 صفحہ 147 398 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 200 399 المسيرة الاسلامیہ لجيل الخلافة الراشدة جلد اوّل ص34-35 400 سیدنا ابو بکر صدیق از صلابی صفحه 258،268 401 The Preaching of Islam By T.W.Arnold.Chapter III.Page 41.London Constable and Company Ltd.1913 402 The Encyclopaedia of Islam vol.10 Page913 Under Usama Printed by Leiden brill 2000 403 البدایة و النهایة جلد 3 جزء 6 صفحہ 309 404 405 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 585 ماخوذ از سید نا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی متر جم صفحہ 272-273 406 ماخوذ از حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحه 101 40 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 254
حاب بدر جلد 2 408 476 ماخوذ از حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 135 409 البدایہ والنھایہ جلد 3 جزء 6 صفحہ 308 110 ماخوذ از حضرت سید نا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 135 136 411 صحیح بخاری حدیث نمبر 1400،1399 412 صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 65 413 صحیح بخاری کتاب الزکوۃ مترجم جلد 3 صفحہ 15،14 414 حوالہ جات ماخوذ از مشکوۃ المصابیح جلد 2 صفحہ 492 كتاب الفضائل و شمائل حدیث 6024 (خطبه جمعه بیان فرموده 11 مارچ 2022 ء، الفضل انٹر نیشنل مورخہ یکم اپریل 2022ء صفحہ 5 تا 10 جلد 29 شماره 26) 415 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 254-255 ، السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 434 حاشیہ، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 89 جلد 3 صفحہ 290،67، فرہنگ سیرت صفحہ 236 416 ماخوذ از سید نا ابو بکر شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 278 417 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 255-256 ، البدایہ والنھایہ جلد 3 جزء 6 صفحہ 308، المنجد زیر ماده برد، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 297 ” الحساء“ 418 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم اردو شیخ محمد احمدپانی پتی صاحب صفحہ 150-151 415 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 256 420 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 256 421 المسيرة الاسلامیه از منیر محمد عصبان صفحه 50 422 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257 423 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 256،253، سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت و کار نامے از صلابی متر جم صفحه 282 424 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 256، فرہنگ سیرت صفحہ 236، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 484-485 425 حضرت ابو بکر صدیق کے فیصلے از عبد اللہ مدنی صفحہ 173-174 426 ماخوذ از حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحه 118 427 تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 160-161 428 انوار العلوم جلد 1 صفحہ 382-383 429 ماخوذ از انوار العلوم جلد 1 صفحہ 383 430 انوار العلوم جلد 2 صفحہ 222-223 431 ماخوذ از انوار العلوم جلد 2 صفحه 59-60 432 انوار العلوم جلد 19 صفحہ 75 76 433 انوار العلوم جلد 18 صفحہ 458 434 انوار العلوم جلد 15 صفحہ 31،30 435 ماخوذ از انوار العلوم جلد 15 صفحہ 543 تا 545 436 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 15 صفحه 325-326 (خطبه جمعه بیان فرموده 18 مارچ 2022ء، الفضل انٹر نیشنل مورخہ 8 اپریل 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شمارہ 28) سر الخلافہ اردو ترجمہ صفحہ نمبر 189،188 حاشیہ 437 438 قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ صفحہ 158 حاشیہ
حاب بدر جلد 2 439 440 441 صحیح البخاری حدیث 1883 477 ماخوذ از قتل مرتد اور اسلام از مولوی شیر علی صاحب صفحہ 109 تا 111 صحیح البخاری حدیث 2700 442 تفسیر کبیر جلد 10 صفحه 367-368 443 444 445 م صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 468-469 تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 173 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 256 446 البدایہ والنھایہ لابن کثیر جلد 3 جزء 6 صفحہ 310 447 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 265 تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 436 448 449 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 254 450 451 تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 439-440 عمدۃ القاری جلد 24 صفحہ 122 452 نیل الاوطار لعلامة محمد الشوكاني كتاب الزكاة صفحه 724 453 ماخوذ از حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحه 131 454 ماخوذ از سید نا ابو بکر از ابو النصر مترجم صفحہ 603 455 ماخوذ از خلفائے راشدین از حکیم محمود ظفر صفحہ 58 456 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ یکم اپریل 2022ء ، الفضل انٹر نیشنل 22 اپریل 2022، صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 32 457 سر الخلافہ اردو ترجمہ عربی عبارت صفحه 47 تا51 458 البدایۃ والنھایۃ جلد 3 جزء 6 ص 311-312 459 حوالہ جات منجم الوسیط زیر مادہ ”بنی“، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257، ماخوذ از سید نا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے صفحہ 288، منجم البلدان جلد 1 صفحہ 527، جلد 2 صفحہ 496،311،270 460 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257 461 ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم صفحہ 288 تا290 462 ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق از صلابی متر جم صفحه 297-298 463 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط مولفه خورشید احمد فاروق صفحه 22 464 ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق از صلابی مترجم صفحه 290-291 465 ماخوذ از سر الخلافۃ اردو ترجمہ عربی عبارت صفحہ 190 تا 194 حاشیہ 466 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 258-259 467 ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے صفحہ 293 468 ماخوذ از سید نا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے صفحہ 294-295 469 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 15 اپریل 2022ء ، الفضل انٹر نیشنل 6 مئی 2022ء صفحہ 5 تا8 جلد 29 شماره 36 470 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 527 471 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 260
حاب بدر جلد 2 478 حوالہ جات 472 البدایة و النهاية جلد 3 صفحہ 313 473 سید نا ابو بکر صدیق از صلابی مترجم صفحہ 316-318، اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 94، معجم البلد ان جلد 3 صفحہ 290 سید نا حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل متر جم صفحه 139 474 475 اصابه جزء4 صفحہ 639، ضیاء النبی جلد 4 صفحہ 566-567 476 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 260، عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2-3 صفحہ 92، سید نا حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 138 و صفحہ 157، سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از صلابی مترجم صفحه 324، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 119 جلد 3 صفحہ 6، المنجد صفحہ 585 زیر لفظ فصل، صفحہ 570-571 زیر لفظ فل، فرہنگ سیرت صفحہ 157 4 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 260، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 314 477 478 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 261-262، الکامل جلد 2 صفحہ 208-209 47 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 261-264،262، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 215، جلد 5 صفحہ 346 480 481 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 260 تا 262 الكامل في التاريخ جلد 2 صفحہ 210-211 482 الاستقصالاخبار دول المغرب الاقصی جزء 1 صفحہ 76 483 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 265 484 تاريخ الطبری جلد 2 صفحہ 263-264 485 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی متر جم صفحہ 326 486 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 264 487 حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 144، الاصابہ جزء 3 صفحہ 441 488 491 لم الله سة تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 265 489 پیغمبر اسلام اور غزوات وسر ایا از حکیم محمود احمد ظفر صفحه 447 490 ضیاء النبی صلی اینم از پیر محمد اکرم شاہ الازہری جلد 4 صفحہ 121 11 ضیاء النبی صلی نیم از پیر محمد اکرم شاہ الازہری جلد 4 صفحہ 120 492 سیرت سید ناصدیق اکبر منسوب به استاذ عمر ابو النصر، صفحه 610 493 الکامل جلد 2 صفحہ 211، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 360 جلد 4 صفحہ 68 194 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل.اردو ترجمہ ص 156-157 تاریخ الطبری جلد 2 صفحه 265 ( خطبه جمعه بیان فرمودہ 6 مئی 2022 ء، الفضل انٹر نیشنل مورخہ 24 تا 30 مئی 2022 ء خصوصی اشاعت برائے یومِ خلافت صفحه 5 تا 9 جلد 29 شماره 41-42) 496 اصابہ جلد 5 صفحہ 560، سیرت سیدنا صدیق ابو بکر از ابو النصر مترجم صفحہ 713،598، فرہنگ سیرت صفحہ 63، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 527 497 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحه 193 تا 198 ، اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 10 صفحہ 738 498 حضرت ابو بکر صدیق، از محمد حسین ہیکل ص 198-199، تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 271، البدایة و النهایة جلد 7 صفحہ 259 499 تتاریخ طبری جلد 2 صفحہ 257 500 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 272 273 501 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 274،273 502 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی متر جم صفحہ 332
حاب بدر جلد 2 503 504 505 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 273-274 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 273 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 273 506 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 274 507 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 273 508 479 51 تحفہ اثنا عشریہ اردو صفحہ 517-518 مترجم خلیل الرحمٰن نعمانی 509 ماخوذ سید نا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی متر جم صفحه 333تا3379334 510 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 273 511 البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر جلد 3 صفحہ 318 512 وفیات الاعیان جزء 5 صفحہ 10 513 تحفہ اثنا عشریہ مترجم خلیل الرحمان نعمانی صفحہ 518 514 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم صفحہ 334 تا 336 515 حوالہ جات سید نا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم صفحہ 353-354(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 13 مئی 2022ء، الفضل انٹر نیشنل مورخہ 3 جون 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 44) انٹر 511 فرہنگ سیرت صفحہ 321، اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 23 صفحہ 311 517 معجم البلد ان جلد 5 صفحہ 506 زیر لفظ یمامہ 518 الجامع لاحکام القرآن صفحہ 2850-2851 زیر آیت سورۃ الفتح آیت 16 519 ماخوذ از فتوح البلدان صفحه 59 ماخوذ از السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 852 520 المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام از جواد علی جزء 5 صفحہ 258 521 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 852 522 سبل الہدی والرشاد جلد 6 صفحہ 326 523 بخاری روایت نمبر 4378 524 بخاری روایت نمبر 4373 525 بخاری روایت نمبر 4374و4379 526 ماخوذ از فتح الباری جلد 8 صفحہ 112 روایت 4373 527 ماخوذ از سبل الهدی والرشاد جلد 6 صفحہ 326 ، ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 271 528 ماخوذ از حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل (مترجم) صفحہ 187-188، تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 437-438 529 فتوح البلد ان صفحه 59-60 530 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از صلابی صفحہ 349 531 حضرت ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل صفحه 101، تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 81 532 سيرة خليفة الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب الہاشمی صفحه 204، اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 8 صفحہ 408 زیر لفظ حضر موت و جلد 21 صفحہ 898 زیر لفظ مہرہ، حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 24، ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257، ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 218-219 533 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 275 534 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 219
محاب بدر جلد 2 480 535 البدایۃ والنھایہ جلد 3 جزء 6 صفحہ 267، فرہنگ سیرت صفحہ 58 536 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 219-220، تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 278 الاكتفاء جزء 2 صفحہ 120،119 537 538 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد الصلابی صفحہ 357 358 539 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 278 540 الکامل جلد 2 صفحہ 221 541 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل ( مترجم ) صفحہ 195-196 حوالہ جات 542 البدایہ والنھایہ جلد 3 جزء 6 صفحہ 320، فیروز اللغات اردو صفحہ 609 زیر لفظ حنوط (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 20 مئی البد الفضل انٹر نیشنل مورخہ 10 جون 2022ء صفحہ 5 تا 8 جلد 29 شمارہ 46) 1-2022 543 البدایہ والنھایہ جلد 3 جزء 6 صفحہ 320 544 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے صفحہ 362-363 از علی محمد الصلابی، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 280 ، الاكتفاء 11127 545 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 221 546 اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 363-364، حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 200-201، البدایۃ والنھایة جلد 3 جزء 6 صفحہ 321، وجلد 7 صفحہ 256، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 268 547 البدایہ والنھایہ جلد 3 جزء 6 صفحہ 321، السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 528 548 الصدیق، از پروفیسر علی محسن صدیقی، صفحہ 102-103 549 السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 528، صحیح البخاری روایت نمبر 4072 حیح البخاری مترجم جلد 8 صفحہ 198-199 55 الاكتفاء جزء 2 صفحہ 121 تا 126 ، صحیح مسلم حدیث 6353، کنز العمال جزء4 صفحہ 339 حدیث 10792 (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 3 جون 2022ء ، الفضل انٹر نیشنل مورخہ 24 جون 2022ء صفحہ 5 تا7 جلد 29 شماره 50) 152 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 57 تا 66، سیر الصحابیات صفحہ 122 ، سید نا ابو بکر صدیق از صلابی صفحه 349 553 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 222-223 554 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 70-71 555 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 206 556 الاكتفاء جلد 2 جزء1 صفحہ 72 557 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 72-73، فرہنگ سیرت صفحہ 172 558 البدایہ والنھایہ جلد 3 جزء 6 صفحہ 321، فتوح البلد ان صفحہ 63 559 عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 20 صفحہ 23 560 561 5 فتوح البلد ان صفحہ 124 تا 126 البدایۃ والنھایہ جلد 3 جزء 6 صفحہ 322 562 انوار العلوم جلد 24 صفحہ 12 تا14 اردو لغت تاریخی اصول پر زیر لفظ اباحت 563 564 ملفوظات جلد 1 صفحہ 378-379 5 سر الخلافہ اردو ترجمہ صفحہ 47 تا 50 565
محاب بدر جلد 2 566 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 307 481 567 فتوح البلدان مترجم صفحہ 135، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 433 حوالہ جات 568 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 69-70، سیدنا ابو بکر صدیق از صلابی، اردو ترجمہ صفحہ 368،367 (خطبه جمعه بیان فرموده 10 جون 2022ء الفضل انٹر نیشنل یکم جولائی 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 52) 569 نبوی صلی اليوم صفحہ 68 سیرت حضرت عمرو بن العاص صفحہ 49 ، فتوح البلد ان صفحہ 103-104، فرہنگ سیرت صفحہ 209، اٹلس سیرت 570 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 21-22 المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام جلد 4 صفحہ 329، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 291-292، سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از صلابی صفحہ 338، معجم البلدان جلد 5 صفحہ 270 ، جلد 3 صفحہ 31، فرہنگ سیرت صفحہ 170 571 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از صلابی مترجم صفحہ 338-339، حضرت ابو بکر صدیق از ہیکل صفحہ 244-245 572 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257 573 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 291 574 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 291، اٹلس سیرت نبوی صلی للی نیم صفحہ 68 575 576 577 578 579 580 581 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 292 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 292-293 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 291 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 298، حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از ہیکل مترجم صفحہ 233، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 109 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از صلابی متر جم صفحہ 304 حضرت سید نا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 242،243 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 377 تا 379 582 مخطبہ جمعہ 13 جولائی 2018ء حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ الساعد مٹی کے تذکرہ میں 583 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از صلابی مترجم صفحہ 433 حاشیہ 584 ماخوذاز اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 619-620 585 586 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 43 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 291 587 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 24 588 فرہنگ سیرت صفحہ 237 589 حضرت سید نا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحه 190 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم صفحہ 355 590 591 تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 440 592 593 594 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257 5 فرہنگ سیرت صفحہ 237 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 232 تا234 595 اٹلس سیرت نبوی صفحہ 386 596 فاتح اعظم حضرت عمر و بن العاص مترجم صفحہ 109 597 ماخوذ از سیرت حضرت عمرو بن العاص مترجم صفحہ 49 تا 53
حاب بدر جلد 2 482 حوالہ جات 598 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 43 599 فاتح اعظم حضرت عمرو بن العاص مترجم صفحه 109 (خطبہ جمعہ بیان فرموده 17 جون 2022ء الفضل انٹر نیشنل 8 جولائی 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شمارہ 54) 600 601 602 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 124، مستند رک جزء5 صفحہ 1896 حدیث 5081 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 124-125، فرہنگ سیرت صفحہ 30 603 طبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ 75 604 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 425 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 125 605 606 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 331-332، فرہنگ سیرت صفحہ 78 607 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257 608 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 208، استیعاب جلد 2 صفحہ 326، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 73 609 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 33 610 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 266 61 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 266، حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 33-34، فتوح البلد ان مترجم صفحہ 152 12 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257 613 اٹلس سیرت النبی صلی اللہ تم صفحہ 68 614 اسدال ر الغابه جلد 4 صفحہ 71، سیر الصحابہ جلد 4 صفحہ 397-398، سید نا ابو بکر صدیق، از صلابی، اردو تر جمه صفحه 339 615 طبقات الکبری جلد 4 صفحہ 266 616 طبقات ابن سعد ( مترجم ) جلد 4 صفحہ 377،375، الأعلام للزر کلی جلد 4 صفحہ 245 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 71 617 618 حضرت ابو بکر صدیق، از محمد حسین ہیکل، اردو ترجمہ صفحہ 237، فرہنگ سیرت صفحہ 110 619 620 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 48 اٹلس سیرت نبوی صفحہ 438 621 زرقانی جلد 5 صفحہ 141 622 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 48، ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 4 صفحہ 398 623 البدایۃ والنھایۃ جلد 9 صفحہ 475-476 624 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 285 625 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 49 626 کتاب الردة للواقدی صفحه 147 تا 149 627 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 238-239 628 ماخوذ از کتاب الردة للواقدی صفحہ 152-154 ، صحیح بخاری حدیث 892، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 286 629 ماخوذ از حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 239 630 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 286 تا 288، فرہنگ سیرت صفحہ 123 31 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 290
حاب بدر جلد 2 483 حوالہ جات 632 خطبه جمعه بیان فرموده 24 جون 2022ء الفضل انٹر نیشنل 15 جولائی 2022ء صفحہ 5 تا 10 جلد 29 شماره 56 33 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 288-289، الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 227، کتاب الردة اللواقدی صفحہ 163 634 طبری جلد 2 صفحہ 289 35 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 290-291 636 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 49، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 291 637 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 285، فتوح البلد ان صفحہ 117 638 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 289، سید نا حضرت ابو بکر صدیق از صلابی صفحه 344-345، حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 241-242 639 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل، اردو ترجمه صفحه 242 640 ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 36 تا 40 641 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 289 تا290 642 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257 643 لسان العرب زیر مادہ: تہم 644 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 40-41 645 اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 600 ماخوذ از طبقات الکبری جلد 1 صفحہ 222 جلد 6 صفحہ 97 646 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 41 647 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 294، الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 230 648 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 294-295، الکامل جلد 2 صفحہ 230، سیدنا ابو بکر صدیق از صلابی مترجم صفحه 303، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 263 ( خطبہ جمعہ یکم جولائی 2022ء الفضل انٹر نیشنل 22 جولائی 2022ء صفحہ 5 تا 8 جلد 29 شمارہ 58) 649 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257، حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 59 650 معجم البلدان جلد 2 صفحہ 311، فرہنگ سیرت صفحہ 226 651 6 فرہنگ سیرت صفحہ 248 652 اسد الغابہ جزء 5 صفحہ 265، اصابہ جزء6 صفحہ 180 653 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 300 654 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 224 655 سیرت سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از ابوالنصر مترجم صفحہ 570 656 64 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 201 657 سیرت سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از ابوالنصر مترجم صفحه 570 658 الاتساب لصحاری جزء 1 صفحہ 387 659 مداراج النبوة مترجم جلد 2 صفحہ 481 660 سیرت سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از ابوالنصر مترجم صفحہ 571 661 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 201 662 صحیح بخاری روایت نمبر 4375 663 صحیح البخاری حدیث 4379 664 حضرت ابو بکر صدیق (مترجم) از محمد حسین ہیکل صفحہ 117-118
حاب بدر جلد 2 665 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 317 تا319 667 484 حوالہ جات 666 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 201 ، سیرت سید نا حضرت ابو بکر صدیق از ابو النصر مترجم صفحہ 571 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 202، 166، تاریخ ادب عربی مترجم صفحه 67-68 668 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 201، 202، اسد الغابہ جزء 1 صفحہ 535، جزء 2 صفحہ 643، مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 474 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 248، طبقات الکبریٰ جزء 6 صفحہ 62-63، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 408 670 ماخوذ از اصابہ جلد 5 صفحہ 404-405، حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 60، ماخوذ از الکامل فی التاريخ جلد 2 صفحہ 201-204، سیدنا ابو بکر الصدیق از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 301 669 671 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط صفحہ 60-61 672 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 302، پچاس صحابه صفحه 557 تا 559 673 ماخوذ از سید نا ابو بکر الصدیق از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 305 مترجم 674 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 299، حضرت ابو بکر صدیق ( مترجم ) از محمد حسین ہیکل صفحه 253-254 675 سیدنا ابو بکر صدیق، از ڈاکٹر علی محمد صلابی، اردو ترجمہ صفحہ 313-314 676 677 678 679 6 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 299، معجم البلد ان جلد 4 صفحہ 99 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 294-295 تاریخ الطبری جلد 2 صفحه 299 ) خطبه جمعه بیان فرمودہ 8 جولائی 2022ء الفضل انٹر نیشنل 26 جولائی تا 8 اگست 2022ء(سالانہ نمبر بعنوان خلافت احمدیہ..دنیا کی راہنما ) صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شمارہ 59 تا62) سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 305 680 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 305 681 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحه 300 تا 304، حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 240-241، جمھرۃ انساب العرب صفحہ 425، سیدنا ابو بکر الصدیق از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 537-538، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 109، جلد 5 صفحہ 315، مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 575-576 روایت نمبر 19675، طبقات الکبری جلد 5 صفحہ 8-9 682 حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحه 241 683 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 305 684 انوار العلوم جلد 24 صفحہ 11تا14 685 حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 243-244 686 180 سید ناصدیق اکبر از حکیم غلام نبی ایم اے صفحہ 178 687 ماخوذ از حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 261 تا 266، اٹلس سیرت النبی صلی الی صفحہ 68، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 376، فرہنگ سیرت صفحہ 123، اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 315 688 السيد اية والنهاية جلد 3، جزء6 صفحہ 338 * 690 689 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 309، معجم البلدان جلد 2 صفحہ 319، الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 239 حضرت ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل مترجم صفحه 268 691 حضرت ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل مترجم ، صفحہ 267-268 692 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 308، فرہنگ سیرت صفحہ 296، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 434 693 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 201 (خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 2022ء الفضل انٹر نیشنل 26 جولائی تا 8 اگست 2022ء (سالانہ نمبر بعنوان خلافت احمدیہ..دنیا کی راہنما ) صفحہ 11 تا 15 جلد 29 شماره 59 تا62)
694 محاب بدر جلد 2 485 حوالہ جات سیرت سید ناصدیق اکبر از استاذ عمر ابو النصر صفحہ 664، ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 239، ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 272، معجم البلدان جلد 4 صفحہ 488 695 الصديق صفحه 127 696 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 309 697 حضرت ابو بکر صدیق، از بیکل، مترجم، صفحه 269-270 698 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 309 699 سیدنا ابو بکر صدیق از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 405،404، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 309-310، حضرت ابو بکر صدیق اکبر از ہیکل صفحہ 271 تا 273، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 319، لغات الحدیث زیر لفظ ر ظل جلد 2 صفحہ 121 700 حضرت ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل صفحہ 272 مترجم 201 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 311 702 حضرت ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل صفحہ 272 مترجم 703 حضرت ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل صفحہ 269 مترجم 704 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 310 705 الصديق الصفحه 128 706 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 310 707 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 335 70 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 311 709 معجم البلد ان جلد 5 صفحہ 104 ، المذاز 710 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 312،311 ، ماخوذ از اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 8 صفحہ 262 711 حضرت ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل صفحہ 275 مترجم 712 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 312 713 تاریخ طبری جلد دوم صفحہ 312، حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 287-288 714 سیدنا ابو بکر صدیق از ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم صفحہ 406 715 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 312 716 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 313، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 294 717 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 241 718 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 313 719 سیرت سید ناصدیق اکبر از ابوالنصر، مترجم صفحہ 671-672، تاریخ طبری اردو جلد 2 صفحہ 564 720 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 314 حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت فاروق اعظم از ڈاکٹر طہ حسین، صفحہ 85-86 721 722 حضرت خالد بن ولید از صادق حسین صدیقی صفحہ 161-162 723 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 314 724 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 314-315، حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از هیکل صفحہ 312، معجم البلد ان جلد 1 صفحہ 301 و جلد 3 صفحہ 309 (خطبہ جمعہ 22 جولائی 2022 ء الفضل انٹر نیشنل 9 تا 15 اگست 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 63-64) 725 ماخوذ از سیرت سید ناصدیق اکبر از عمر ابو النصر صفحہ 672 مترجم
حاب بدر جلد 2 486 حوالہ جات 726 معجم البلدان جلد 2 صفحہ 459، سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از علی محمد صلابی مترجم اردو صفحہ 410، حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 315، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 315 727 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 316 تا 319 728 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 318-319 729 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از صلابی متر جم صفحہ 412 730 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 321 731 ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از صلابی مترجم صفحہ 413، حضرت ابو بکر صدیق اکبر صفحہ 287 از ہیکل مترجم، الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 245 ماخوذ از المنجد زیر لفظ نبر، معجم البلدان جلد 1 صفحہ 305، جلد 4 صفحہ 199 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت اور کار نامے از الصلابی متر جم صفحہ 416 732 733 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 322 323، معجم البلد ان جلد 3 صفحہ 209 734 ماخوذ از حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحه 288-289، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 324 735 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 246، سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 277-278، فتوح البلدان مترجم صفحه 346،325 ، مرآة الزمان فی تواریخ الاعیان، جزء 6 صفحہ 228، تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 524،169 736 حضرت ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل صفحہ 325 737 ابو بكر الصديق اول الخلفاء الراشدین از محمد رضا صفحه 124 738 ماخوذ از حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 290-291، تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 324-325، سیدنا ابو بکر صدیق از صلابی مترجم صفحه 418 739 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 325 740 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 327-328 741 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی متر جم صفحہ 419 742 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحه 328 743 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 325.744 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحه 293 745 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم صفحہ 419-420 746 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 325-326، معجم البلد ان جلد 2 صفحہ 446،307، الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 205 747 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 326، فرہنگ سیرت صفحہ 109 748 حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از بیکل صفحه 311، تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 327 749 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 327-328، معجم البلدان جلد 3 صفحہ 170 750 حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از بیکل مترجم صفحہ 312 تا315، تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 328، معجم البلدان جلد 4 صفحہ 276 751 752 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از صلابی صفحه 423 ย رت سیدنا صدیق اکبر از ابو النصر مترجم صفحه 679-681 (خطبه جمعه بیان فرمودہ 29 جولائی 2022ء، الفضل نیشنل مورخہ 19 اگست 2022ء صفحہ 5 تا 11 جلد 29 شمارہ 66) 753 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 109 - 110، تاریخ دمشق الكبير جلد 1 جزء 2 صفحه 44، مردان عرب حصہ 1 صفحہ 108-109 انٹری 754 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 110 تا114 755 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 252، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 332، فرہنگ سیرت صفحہ 78
حاب بدر جلد 2 756 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 115-116 758 487 حوالہ جات 757 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از علی محمد الصلابی، مترجم صفحہ 439 کامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 252، 253، البدایہ والنھایہ جلد 4 جزء 7 صفحہ 4 ، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 332 ، حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 340-341 ماخوذ از تاریخ الطبری جزء 2 صفحہ 333-334، ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیق از بیکل صفحه 341، فرہنگ سیرت صفحہ 269956 760 سید نا ابو بکر صدیق از صلابی، مترجم صفحہ 441، تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 333، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 585-586 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 117-118، ماخوذ از تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 246 761 762 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 253-254 763 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 118-119 76 ماخوذ از اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 619-620 765 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از علی محمد الصلابی، مترجم صفحہ 446-447، الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 120، فرہنگ سیرت صفحہ 61،58 766 اصابہ جزء 3 صفحہ 475، اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 126، استیعاب جلد 2 صفحہ 343 767 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 341،333 ، سیدنا ابو بکر صدیق از صلابی صفحه 447 768 تاریخ دمشق الكبير جزء 52 صفحہ 336-337 ( خطبه جمعه بیان فرموده 19 اگست 2022ء الفضل انٹر نیشنل 9 ستمبر 2022 ء صفحه 5 تا 9 جلد 29 شماره 72) 769 770 البدایۃ والنھایة جلد 4 جزء 7 صفحہ 3 ماخوذ از حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحه 340 تاریخ الطبری جزء 2 صفحہ 332 771 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از علی محمد الصلابی، مترجم صفحہ 448-449 حضرت ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل صفحہ 322.772 773 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحه 347 774 سیدنا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از علی محمد الصلابی، مترجم صفحہ 450 775 الکامل في التاريخ جلد 2 صفحہ 255، حضرت ابو بکر صدیق از بیکل صفحہ 347 776 تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 212 تا213 777 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے از علی محمد الصلابی، مترجم صفحہ 452-453 778 ماخوذ از تاریخ اعمیں جلد 3 صفحہ 213 779 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 130 تا132 780 تاریخ الطبری جزء 2 صفحہ 333 781 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 133 تا 136 782 الاكتفاء جلد 2 جزء 1 صفحہ 148، تاریخ انمیں جلد 3 صفحہ 220 783 ماخوذ الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 256-258، حضرت ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل صفحه 350 784 فتوح البلد ان للبلاذری صفحہ 174، حضرت ابو بکر صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل صفحہ 351 785 معجم البلدان جلد 1 صفحہ 129 786 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 346-347، ماخوذ از الخلیفۃ الاول ابوبکر الصدیق شخصیتہ و عصره للصلابی صفحه 312 787 ماخوذ از حضرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 379-380
حاب بدر جلد 2 488 788 ماخوذ از تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 228 تا 230، مردان عرب صفحہ 216،214 عشره مبشره از بشیر ساجد صفحه 156-157 *789 790 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 347 791 ماخوذ از تاریخ انمیں جلد 3 صفحہ 230-231 792 ماخوذ از فتوحات شام صفحه 97 تا104 793 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 347 794 فتوح البلد ان صفحہ 74 195 الخلیفۃ الاول ابو بکر الصدیق شخصیتہ و عصره لعلی محمد الصلابی صفحہ 312 *796 عشره مبشره از بشیر ساجد صفحه 805 797 تاریخ انمیں جلد 3 صفحہ 231 798 تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 231-232 799 تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 232، فتوح البلد ان صفحہ 74 800 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 266 801 خطبه جمعه بیان فرمودہ 26 اگست 2022ء الفضل انٹر نیشنل 16 ستمبر 2022ء صفحہ 5 تا 10 جلد 29 شماره 74 802 ماخوذ از سید نا عمر بن خطاب از علی محمد الصلابی صفحہ 725 803 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 333، فرہنگ سیرت صفحہ 106 804 ماخوذ از مردان عرب حصہ اول صفحہ 203-204، فتوح الشام از واقدی جلد 1 صفحہ 48 805 ماخوذ از اسلامی جنگیں صفحہ 123 تا 125 ، ماخوذ از مردانِ عرب حصہ 1 صفحہ 206 ماخوذ از فتوحات شام از فضل محمد یوسف زئی صفحه 75-81 806 807 ماخوذ از مردانِ عرب حصہ اوّل صفحہ 214 808 ماخوذ از فتوحات شام صفحه 81 809 ماخوذ از مردان عرب حصہ 1 صفحہ 216-217 810 ماخوذ از فتوحات شام صفحه 82 تا 89 81 خطبہ جمعہ 26 اگست 2022ء حضرت ابو بکر کے تذکرہ میں 12 ماخوذ از مردان عرب حصہ 1 صفحه 247 813 ماخوذ از مردان عرب حصہ 1 صفحہ 248 تا254 814 سید نا عمر بن خطاب از علی محمد الصلابی صفحہ 724 815 ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 357-358 816 سید نا عمر بن خطاب از علی محمد الصلابی صفحہ 727-728 817 81 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 357-358، الفاروق از شبلی نعمانی صفحه 106-107 818 خطبه جمعه بیان فرموده 2 ستمبر 2022ء الفضل انٹر نیشنل 23 ستمبر 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 76 819 81 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 272 تا 273 820 ماخوذ از انوار العلوم جلد 15 صفحہ 483-484 821 انوار العلوم جلد 15 صفحہ 555 822 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 348 حوالہ جات
حاب بدر جلد 2 823 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 347 824 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 148 825 ماخوذ از طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 151 826 ابو بکر الصدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 478 827 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 158 الصحابہ جلد اوّل صفحہ 50 828 سیر 829 متدرک جزء 3 صفحہ 66 حدیث نمبر 4409 830 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 156 831 متدرک جزء 3 صفحہ 66 حدیث نمبر 4410 489 832 سیرت سید ناصدیق اکبر از عمر ابوالنصر (مترجم) صفحہ 726 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 88 حدیث 45 833 834 سیرت خلفائے راشدین از محمد الیاس عادل صفحه 152 835 ابو بکر الصدیق از محمد حسین ہیکل صفحه 475 حوالہ جات 836 ماخوذ از سید نا ابو بکر از صلابی مترجم صفحہ 48 تا 52، البدایۃ والنہایہ جلد 8 صفحہ 99، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 98، اصابہ جلد 8 صفحہ 392 837 سیرت سید ناصدیق اکبر، از عمر ابوالنصر (مترجم) صفحه 647 838 طبقات الکبری جلد 2 صفحہ 267 839 ماخوذ از انوار العلوم جلد 2 صفحہ 58 840 عشره مبشره از بشیر ساجد صفحه 181 841 تاریخ الخلفاء صفحہ 63-64، فرہنگ سیرت صفحہ 157 842 صحیح البخاری حدیث نمبر 2070 843 ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 272 844 ماخوذ از طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 137 845 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 272، طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 143 846 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 271 847 تاریخ الخلفاء صفحہ 64 848 سید ناصدیق اکبر از ابوالنصر مترجم صفحه 699 840 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 351 850 سید ناصدیق اکبر از ابوالنصر مترجم صفحہ 699-700 851 طبقات الكبرى جزء 3 صفحه 137 852 عشره مبشره از بشیر ساجد صفحه 182 ، سید ناصدیق اکبر از ابو النصر مترجم صفحہ 700 853 الصديق صفحه 194 854 ابو بکر الصدیق از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 162 855 سید ناصدیق اکبر از ابو النصر مترجم صفحہ 701 856 کمانڈر صحابہ از علامه محمد شعیب چشتی صفحه 87-88
حاب بدر جلد 2 490 857 ماخوذ از ابو بکر الصدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 456-457 858 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 246 859 الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 253-254 860 خلاصہ از ابو بکر الصدیق از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 176 180 181 861 ابو بکر الصدیق از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 179 862 سید ناصدیق اکبر از ابو النصر مترجم صفحہ 693 863 ماخوذ از فتوح البلدان صفحه 131 864 تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 332 ابی داؤد حدیث 2945 865 866 سید ناصدیق اکبر از ابو النصر مترجم صفحہ 695 حوالہ جات 867 حضرت ابو بکر کی زندگی کے سنہرے واقعات صفحه 188، 189 (خطبه جمعه بیان فرمودہ 9 ستمبر 2022ء الفضل انٹر نیشنل 30 ستمبر 2022ء صفحہ 5 تا 10 جلد 29 شماره 78) 86 عشرہ مبشرہ صفحہ 183 869 کتاب الخراج صفحہ 148 870 ابو بکر الصدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحه 318 871 حضرت ابو بکر از محمد حسین ہیکل صفحہ 393، قرآن کیسے جمع ہوا؟ صفحہ 58 872 صحیح البخاری کتاب حدیث نمبر 4986 873 شرح السنة روایت 1232 جلد 2 صفحہ 484-485 874 مصنف ابن ابی شیبہ روایت نمبر 30856 متر جم جلد 8 صفحہ 827 875 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 432-433 876 انوار العلوم جلد 10 صفحہ 514-515 877 ماخوذ از انوار العلوم جلد 20 صفحہ 433-434 878 حمامة البشرکی مترجم صفحہ 101-102 879 الصحابہ جلد 1 صفحہ 44، فتح الباری جلد 8 صفحہ 636-637 880 الصديق صفحہ 381-382 881 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 140 صحیح مسلم جلد 12 صفحہ 248-249 مع حاشیہ 882 883 فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 31 حدیث 3661 884 کنز العمال جزء 12 صفحہ 237 حدیث:35694 885 تفسير صغير ، سورۃ النبازیر آیت 41 صفحہ 798 حاشیہ 886 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 145-146، تاریخ الخلفاء (مترجم) صفحه 89 887 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2022ء حضرت ابو بکر کے تذکرہ میں 888 889 890 سیر الصحابہ جلد اول صفحہ 77 الصحابہ جلد اوّل صفحہ 82 تفسیر کبیر جلد 12 صفحہ 135
حاب بدر جلد 2 891 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 92 حدیث 65 خطبات محمود جلد 19 صفحہ 765 892 893 ملفوظات جلد 2 صفحہ 98 491 894 مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 19-20 حدیث نمبر 11420 895 صحیح بخاری حدیث 3842 صحیح بخاری حدیث 3665 896 897 ملفوظات جلد 7 صفحہ 25 سنن ابی داؤد حدیث 4999 بخاری حدیث: 3750 صحیح البخاری حدیث 4005 898 899 900 حوالہ جات 901 صحیح بخاری حدیث 3677 ( خطبه جمعه بیان فرمودہ 16 ستمبر 2022ء الفضل انٹر نیشنل4 تا 13 اکتوبر 2022ء(خصوصی اشاعت بابت سیرت النبی صلی اللی) صفحه 5 تا 9 جلد 29 شماره 79-81) 902 صحیح البخاری روایت نمبر 4077 903 سیرت خاتم النبيين صفحه 499-500 904 سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1635 905 صحیح البخاری حدیث 3661 906 خطبات محمود جلد 26 صفحہ 277-278 907 908 909 سیرت خاتم النبیین تصفحہ 767-768 خطبات محمود جلد 20 صفحہ 382 صحیح البخاری حدیث نمبر 2411 910 عمدۃ القاری جزء12 صفحہ 351 91 تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 149-150 911 خطبات محمود جلد 16 صفحہ 814-815 913 خطبات محمود جلد 27 صفحہ 313 تا314 9 تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 429 911 914 915 تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 160-161 916 صحیح البخاری حدیث نمبر 3137 مترجم اردو جلد 5 صفحہ 485-486 917 طبقات الکبری جلد 2 صفحہ 243 918 حضرت ابو بکر صدیق کے 100 قصے صفحہ 68 تا 70، حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء جلد 1 صفحہ 30-31 سیدنا صدیق اکبر کے شب وروز صفحہ 107 (خطبه جمعه بیان فرموده 23 ستمبر 2022ء الفضل انٹر نیشنل 14 اکتوبر 919 2022ء صفحہ 5 تا 8 جلد 29 شمارہ 82) 920 صحیح بخاری حدیث نمبر 3905 921 صحیح بخاری حدیث نمبر 3662 922 کنز العمال جلد 6 جزء 11 صفحہ 248 روایت نمبر 32548 923 سنن الترمذی روایت 3790
حاب بدر جلد 2 924 ترمذی روایت نمبر 3658 925 ترندی روایت نمبر 3661 صحیح بخاری حدیث نمبر 467 926 927 کنز العمال جلد 6 جزء 11 صفحہ 248 حدیث نمبر 32547 928 ترندی روایت نمبر 3664 929 ترمذی روایت نمبر 3668 930 ترندی روایت نمبر 3670 931 ترمذی روایت نمبر 3676 492 حوالہ جات 932 ترندی حدیث نمبر 3669 933 ترمذی حدیث نمبر 3671 934 ترندی حدیث نمبر 3680 935 صحیح بخاری حدیث نمبر 3674، فرہنگ سیرت صفحہ 70 936 صحیح بخاری حدیث 3699 237 ترمذی حدیث 3757، اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 478 938 صحیح مسلم مترجم اردو جلد 13 صفحہ 7 939 کنز العمال جلد 6 جزء 11 صفحہ 544 حدیث نمبر 32551 940 خطبات محمود جلد 19 صفحہ 428،427 941 942 خطبات محمود جلد 18 صفحہ 624 (خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2022ء الفضل انٹر نیشنل 18 نومبر 2022ء صفحہ 5 تا 7 جلد 29 شماره 92) سيرة حلبیہ جلد 1 صفحہ 390 943 ماخوذ از سیرت سید ناصدیق اکبر از عمر ابو النصر صفحہ 817-818 سیرت سید ناصدیق اکبر از عمر ابو النصر صفحہ 818-822 944 945 946 صحیح بخاری روایت نمبر 466 انوار العلوم جلد 17 صفحہ 102 947 ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 441-442 948 ملفوظات جلد 8 صفحہ 399-400 949 سمر الخلافه مترجم صفحه 60-62، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 339 950 حضرت ابو بکر صدیق از محمد الیاس عادل صفحه 174 95 سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 3918 952 طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 132 953 موطا حدیث نمبر 546 954 مصنف ابن ابی شیبہ جلد 10 صفحہ 125 حدیث 31101 955 صحیح بخاری حدیث نمبر 3660 956 ماخوذ از سیرت خاتم النبيين صفحه 121 تا 123 957 انوار العلوم جلد 9 صفحہ 30-31 صحیح بخاری حدیث نمبر 3754 958
محاب بدر جلد 2 959 الاصابہ جلد 3 صفحہ 247 960 تفسیر کبیر جلد 15 صفحہ 127-128 961 سنن الترمذی 3673 صحیح بخاری حدیث نمبر 664 صحیح بخاری 680 962 963 964 سر 965 سنن ابو داؤد حدیث نمبر 4660-4661 493 مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 412-413 حدیث نمبر 19113 966 صحیح بخاری حدیث نمبر 5224 967 968 969 970 971 سيرة خليفة الرسول صلى المليم سيدنا حضرة ابو بکر صدیق صفحہ 349 تا 351 حوالہ جات حیح بخاری حدیث نمبر 3918 (خطبہ جمعہ 11 نومبر 2022 ء الفضل انٹر نیشنل 2 دسمبر 2022ء صفحہ 5 تا 9 جلد 29 شماره 96) صحیح مسلم حدیث نمبر 6181 ا سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 97 صحیح البخاری حدیث نمبر 3664 972 صحیح البخاری روایت نمبر 4757 973 ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحہ 451 تا455 974 خطبات محمود جلد 18 صفحہ 457 975 سنن ابی داؤ د حدیث نمبر 4896 976 مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 247 حدیث 13698 977 سر الخلافة، اردو ترجمه صفحه 101 تا 103 ؛ سنن الترمذی حدیث نمبر 3785 978 سر 979 الروض الانف جلد 4 صفحہ 318، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 9 صفحہ 384 حدیث 1622 980 981 982 السيرة الحلميه جلد 3 صفحہ 295 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 2020ء حضرت علی کے تذکرہ میں سیرۃ ابن ہشام صفحہ 832 (خطبہ جمعہ 18 نومبر 2022 الف ء الفضل انٹر نیشنل 9دسمبر 2022ء صفحہ 5 تا 8 جلد 29 شماره 98) 983 سيرة الحلمه جلد 1 صفحہ 390 984 حضرت ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے مترجم صفحہ 52 تا54 985 حضرت ابو بکر صدیق کے فیصلے صفحہ 378 986 کنز العمال جلد 3 جزء 5 صفحہ 245 حدیث 14076 987 طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 138-139 988 تاريخ الخلفاء صفحہ 64 989 حیح بخاری حدیث 3581 99 سنن ابی داؤد حدیث 1670 991 خطبات محمود جلد 17 صفحہ 495،494 992 ملفوظات جلد 6 صفحہ 54 993 طبقات الکبری جلد 5 صفحہ 9
محاب بدر جلد 2 494 حوالہ جات 994 سیرت سید ناصدیق اکبر مترجم صفحہ 376،369،367،354، سید ناصدیق اکبر شخصیت اور کارنامے مترجم صفحہ 107 996 997 995 سیرت سید ناصدیق اکبر ، مترجم صفحه 381 سیرت سید ناصدیق اکبر مترجم صفحه 356 94 خطبات محمود جلد 39 صفحہ 220-221 998 تفسیر کبیر جلد 15 صفحہ 181-182 999 تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 284-285 خطبات محمود جلد 28 صفحہ 416-417 1001 ماخوذ از خطبات محمود جلد 30 صفحہ 198 تا200 1000 1002 ماخوذ از خطبات محمود جلد 20 صفحہ 484-485 1003 انوار العلوم جلد 5 صفحہ 452 1004 مقالات سیرت جلد 2 صفحہ 433-434، طبقات الکبری جلد 3 صفحہ 128 1005 صحیح بخاری روایت نمبر 467 1006 سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 94 1007 انوار العلوم جلد 11 صفحہ 577، خطبات محمود جلد 37 صفحہ 134-135 1008 خطبات محمود جلد 17 صفحہ 580 1009 ملفوظات جلد 1 صفحہ 43 1010 ملفوظات جلد 1 صفحہ 210-211 ( خطبه جمعه بیان فرموده 25 نومبر 2022ء الفضل انٹر نیشنل 16 دسمبر 2022ء صفحہ 5 تا 10 جلد 29 شماره 100) 1011 صحیح بخاری حدیث 3655 ترمذی حدیث 3684 1012 € 1013 1014 ترمذی حدیث 3657 1015 زندی حدیث 3685 سلم حدیث 6412 1016 صحیح مسلم بشرح النووی جزء 16 صفحہ 96 1017 انوار العلوم جلد 20 صفحہ 429-430 1018 صحیح بخاری حدیث 3653 1019 سر الخلافه مترجم صفحه 59-60، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 338-339 1020 Islam and the Psychology of the Muslim by André Servier page:51 1021 1022 A History of Medieval Islam by J.J.Saunders page 44-45 London 2002 A Short History Of the World by H.G.Wells page 76 1023 The Preaching of Islam by T.W.Arnold page 10 Archibald constable & co 1896 1024 *The Caliphate its rise, decline and fall by Sir William Muir.P.86 The religious tract society 1892 1025 انوارالعلوم جلد 2 صفحہ 74 1026 خطبات محمود جلد 26 صفحہ 384-385 1027 خطبات محمود جلد 27 صفحہ 657
محاب بدر جلد 2 1028 تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 369 1029 تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 350 انوار العلوم جلد 21 صفحہ 99 محمود جلد 34 صفحہ 86 تا88 خطبات محمود جلد 19 صفحہ 681 1030 1031 1032 خطبات 1033 خطبات محمود جلد 16 صفحہ 621-622 1034 ملفوظات جلد 2 صفحہ 165 1035 ملفوظات جلد 2 صفحہ 164 1036 ملفوظات جلد 5 صفحہ 11-12 سر الخلافه مترجم صفحہ 25-26 1037 1038 1039 1040 سر الخلافه مترجم صفحہ 28-29 سر الخلافه مترجم صفحه 57-58 سر الخلافه مترجم صفحه 72-73 1041 سمر الخلافه مترجم صفحه 75-76 495 حوالہ جات 1042 سر الخلافه مترجم صفحه 77-78، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 345-346 (خطبہ جمعہ بیان فرموده 2 دسمبر 2022 ء الفضل انٹر نیشنل 23 دسمبر 2022ء صفحہ 5 تا10 جلد 29 شماره 102) 1043 سر الخلافہ (مترجم) صفحہ 79 تا 82 1044 سمر الخلافہ (مترجم) صفحه 99-100 1045 سمر الخلافہ (مترجم) صفحہ 104 تا 107 سر الخلافہ (مترجم) صفحہ 189-190 حاشیہ 1047 ماخوذ از سر الخلافہ ( مترجم ) صفحه 185 تا 187 حاشیہ 1046 1048 ملفوظات جلد 1 صفحہ 374 تا 379 لیکچر لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 294 1049 1050 سر الخلافة (مترجم) صفحہ 63 تا 66 1051 مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 151 مکتوب نمبر 2 1052 ملفوظات جلد 1 صفحہ 380-381 1053 ملفوظات جلد 8 صفحہ 277-278 1054 ملفوظات جلد 7 صفحہ 41 1055 ملفوظات جلد 6 صفحہ 19 مع حاشیہ 1056 سمر الخلافہ (مترجم) صفحہ 47ت51 1057 سمر الخلافہ (مترجم) صفحہ 52 1058 سمر الخلافہ (مترجم) صفحه 54 سر الخلافہ (مترجم) صفحہ 101 تا 105 1059 1060 (خطبہ جمعہ 9 دسمبر 2022ء الفضل انٹر نیشنل خصوصی اشاعت بابت دورہ امریکہ 2022ء (27دسمبر 2022ء تا 2 جنوری 2023ء) صفحہ 5 تا 11 جلد 29 شماره 103 تا104)
اصحاب بدر جلد 2 آیات قرآنیه.احادیث نبویہ مضامین.اسماء..مقامات کتابیات ببلیوگرافی انڈیکس 3.5................7.13.................34................39..........40.انڈیکس
اصحاب بدر جلد 2 انڈیکس
حاب بدر جلد 2 3 آیات سورة البقرة آیات سورة التوبه وَ مَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتُ وَ هُوَ كَافِرُ ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْهُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنُ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (218) 169 إِنَّ اللهَ مَعَنا (40) 455.439.404.132.7 لا إكراه في الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرُ جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (41) 324 بالطَّاغُوتِ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (257) 170 قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَن يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ (54453) 171 سورة آل عمران يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَ لَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ (74) 171 وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (145) خُذُ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً (103) 432 456،185،143،123 لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُ مِنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ (128)375 الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ.أَجْرٌ عَظِيمٌ (173) 386،86 سورة النساء فأولَيكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ (70) إلا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ (99) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ أَمَنُوا (138) سورة المائدة سورۃ یونس فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (17)19 451 وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ (19) 129 39 170 سورة هود وو انلز مُكْبُوهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كَرِهُونَ (29) سورة يوسف 175 402 تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ (102) 360 اليومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (4) فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلا.قعِدُونَ (25) 75 سورۃ ابراہیم إِنَّمَا جَزَوا الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ (34) 178 فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّى وَمَنْ عَصَانِي (37) مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ (55) سورۃ الانعام 169 قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ (152) 37 سورۃ الانفال 74 كما اخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ (6) إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ (10) 77 سورة النحل 98 37 إنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (91) إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُونَ (129)196 سورۃ بنی اسرائیل وَقُلْ رَّبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَنَا نَصِيرًا (81) 48 وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ (31) 42
محاب بدر جلد 2 سورة الكهف 4 سورة الشورى مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ (18) 185 | جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (41) وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنُ (30) 170 وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَكَةِ اسْجُدُ والأَدَمَ فَسَجَدُوا (51) 85 سورة الانبياء وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرِ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلد (35) 185،124 سورة الفتح سَتَدْعَوْنَ إلى قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ (17) مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ (30) سورة الحجرات آیات 178 10 148.99 قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا (15) 459،141 سورة النور إِنَّ الَّذِينَ جَاء وَ بِالإفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ (12) 95 وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا (23)95 91991 دردور سَيُهزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ (46-47) سورة الرحمن 76 وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن (47) للَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ (56) سورة القصص 142.139 إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ (86)59 سورة الروم الم غُلِبَتِ الرُّومُ فى أدنى الْأَرْضِ (2 تا 6) 36،34 سورة المنافقون 20 اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللهِ (43) 172 سورة نوح رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا (27) 98 سورة فاطر إِنَّ الشَّيْطنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا (7) ا سورۃ لیس 86 سورة الليل فَأَمَّا مَنْ اَعْطى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنى..ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الأَعْلَى وَلَسَوْفَ يَرْضى (226) 28 الا سورة النصر ليسَ وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ..وَمِن إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ خَلْفِهِمْ سَنَّا فَأَغْشَيْنَهُمْ فَهُمْ لا يُبْصِرُونَ ( 2 تا 10 44 - إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ( 1 تا 3) 389 سورة الزمر ما تَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلفى (4) 29 إِنَّكَ مَيِّتَ وَ إِنَّهُمْ مَيِّتُونَ (31) 185،124،123 سورة المؤمن ا تَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولُ رَبِّي اللَّهُ (29) 26.25
اصحاب بدر جلد 2 5 احادیث أُتِيْتُ بِخَزَائِنِ الْأَرْضِ أَسْكَتْ يَا أَبَا بَكْرِ اثْنَانِ اللَّهُ قَالِعُهُمَا احادیث 271 مال نے فائدہ پہنچایا ہے 433 52 اگر کوئی چاہے کہ مردہ میت کو زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو وہ اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدُ بَعْدَ الْيَوْمِ 76 ابو بکر کو دیکھے 383 اللَّهُمَّ الْجِزْلِيْ مَا وَعَدْتَنِياتِ مَا وَعَدُتَنى 77،76 جن کا تہہ بند نیچے کو ڈھلکتا ہے وہ دوزخ میں جائیں گے 384 أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَنْتَ عَتِيقُ اللهِ مِنَ النَّارِ غَفَرَ اللهُ لَكَ يَا آبَابَكْرِ فَذَهَبَ وَهَلِى إِلى أَنهَا الْيَمَامَةُ أَوِ الهَجَرُ.هذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي السَّبِيلَ يُصَدِقُكَ أَبُو بَكْرٍ وَهُوَ الصَّدِّيقُ احادیث بالمعنى 155 4 جنت کے سات دروازوں سے مختلف اعمال حسنہ پر زور دینے والے لوگ گزارے جائیں گے 380 خالد بن ولید اللہ کا بہت ہی اچھا بندہ ہے 38 66 6 خالد کو تکلیف مت پہنچاؤ 399 188 206 بلند درجات والے اپنے سے نیچے والوں کو دیکھیں گے 395 میں چاہتا تھا کہ ابو بکر کو اپنے بعد نامزد کر دوں 414 سورج طلوع نہیں کسی آدمی پر جو عمر سے بہتر ہو 435 ابو بکر سب لوگوں سے افضل اور بہتر ہے سوائے اس کے میں نے خواب میں کنگن دیکھے جو غرور سے اپنا کپڑا گھسیٹ کر چلا 395 کہ کوئی نبی ہو سب سے زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا ابو بکر ہے 395 اگر تو مجھ سے یہ چھڑی بھی مانگے.اگر مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس آنا تم میری امت میں سے سب سے پہلے ہو جو جنت میں داخل ہو موسیٰ پر مجھے فضیلت نہ دو گے 396 398 212 384.10 212 اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کر کے بھیجا 387،17 389 یہ دونوں ( ابو بکر، عمر ) میرے کان اور آنکھیں ہیں 396 اگر میں اپنی اُمت میں سے کسی کو خلیل بنانے والا ہوتا تو میں ہر نبی کے آسمان والوں میں دو وزیر ہوتے ہیں 401.395.9.8 396 آنحضور صلی الم کا حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت ابو بکر کو بناتا مسجد میں کوئی دروازہ نہ رہے مگر بند کر دیا جائے سوائے ابو بکر عثمان کو جنت کی بشارت دینا کے دروازے کے 401 409 397.396 اللہ نے ایک بندے کو دنیا کا یا اس کا جو اللہ کے پاس ہے وہ لوگ جن میں ابو بکر ہوں ان کیلئے مناسب نہیں کہ ان کے اختیار دیا تو اس نے جو اللہ کے پاس اسے پسند کیا 401 علاوہ کوئی اور ان کی امامت کرے میں نہیں جانتا میرے لئے تم میں رہنا کب تک ہے پس تم لوگوں میں سے کوئی نہیں جو بلحاظ اہنی جان اور مال کے مجھ پر ابو بکر میرے پیروی کرو اور ان کی جو میرے بعد ہیں 412 بن ابو قحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو 433 ہر نبی کو سات نجیب سا تھی دئے گئے اور مجھے چودہ 419 آنحضور صلی الم کا غار ثور میں پناہ کے وقت حضرت ابو بکر کو 397 اے احد ٹھہر جا مجھے کسی مال نے کبھی وہ فائدہ نہیں پہنچایا جو مجھے ابو بکر کے تسلی دینا 455.439.428.54.51
اصحاب بدر جلد 2 6 احادیث وہ ضرور غالب آجائیں گے (اہل روم) لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں 383.382 386.385 اے اللہ ! جیسا حضرت یوسف کے وقت میں سات سالہ قحط میں اور ابو بکر و عمر فلاں جگہ تھے اور میں نے اور ابو بکر و عمر ڈالا تھا ان پر بھی ایسا ہی قحط نازل کر 33 34 نے یہ کیا ممکن ہے اللہ تمہارے لیے ایک ساتھی کا انتظام فرمادے 40 میرے پاس بحرین کلمال آیا تو میں تمہیں اتنا تنا اور اسنادوں گا 393 مجھے امید ہے کہ مجھے بھی اجازت دی جائے گی 39 کون آپ کو زیادہ پیارا ہے؟ آپ نے فرمایا عائشہ 394 تمہارے پاس جو لوگ ہیں ان کو باہر بھیج دو 42 43 ہم نے سوائے ابو بکر کے سب کے احسان کا بدلہ چکا دیا 395 نبی نے ہجرت کے لئے حضرت ابو بکر سے اونٹنی خریدی 43 ابو بکر مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ابو بکر دنیا و آخرت نبی صلی ا یکم بنو عمرو بن عوف میں 14 راتیں ٹھہرے 71،70 میں میرے بھائی ہیں مدینہ بھی ہمیں پیار بنادے جیسا کہ مکہ پیارا ہے 81،80 | یہ دونوں سر دار ہیں اہل جنت کے واقعہ افک 413 412.9691 تم حوض پر اور غار میں بھی میرے ساتھی ہو 395 395 396 ابو بکر و عمر جبریل اور میکائیل کی مانند ہیں 98 99 اس طرح ہم قیامت کے روز اٹھائے جائیں گے 396 101.100 حضرت ابو بکر عشرہ مبشرہ میں سے ہیں 398 398 410 صلح حدیبیہ اور حضرت عمر کا غم معاہدہ حدیبیہ کے دوران حضرت ابو جندل کی آمد 102 تم میں سے آج کون روزہ دار ہے؟ اے ابو بکر !تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ 16 ایک شخص کا خواب اور حضرت ابو بکر کی تعبیر 405،404 تبسم فرمایا کہ اس محرم کو دیکھو یہ کیا کر رہا ہے ؟ 119، 120 میں نے دیکھا کہ کالی بکریوں کا ریوڑ میری پیروی کر رہا ہے 406 اسماء کو کہیں کہ غسل کر لیں پھر حج کا احرام باندھ لیں 120 اللہ اس کا انکار کرتا ہے اور مسلمان بھی ابو بکر سے کہو کہ وہ نمازیں پڑھائیں 121 122، 409 ابو بکر اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تا کہ میں ایک تحریر لکھ دوں 411 خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایک کنویں پر کھٹر اڈول سے آسمان سے ایک فرشتہ اتر اجو اس بات کی تکذیب کر رہا تھا جو چرخی پر رکھا ہوا تھا پانی کھینچ کر نکال رہا ہوں 412،136 جو وہ تیری نسبت بیان کر رہا تھا یمنی جوڑے سے مراد تمہیں اچھی اولاد ملے گی اور دو جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو لے جائے 423،421 داغوں سے مراد دو سال کی امارت ہے 136 | تم میں سے کوئی ہے جس نے آج مسکین کو کھانا کھلایا؟423 الله سة 435 417 زید نے جھنڈا لیا اور وہ شہید ہوئے پھر جعفر نے پھر ابن نبی صلی عوام کو سب سے زیادہ محبوب ابو بکر تھے رواحہ نے جھنڈے کو پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے 144 مدینہ ایک بھٹی کی طرح ہے وہ میل کو نکال دیتا ہے 172 اے ابو بکر ! شاید تم نے ان لوگوں یعنی سلمان، صہیب اور کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ ؟ 222 بلال کو ناراض کر دیا یہ چال خدا کو نا پسند ہے لیکن ایسے موقع پر کچھ حرج نہیں 224 ابو بکر آپ کا کیا خیال ہے ان دو شخصوں کی نسبت جن کے آپ نے کندہ قبیلے کے چار سر داروں پر لعنت کی تھی 283 ساتھ تیسرا اللہ ہو 372 جو شخص ہمارا عامل ہو وہ ایک بیوی رکھ لے دیکھا! آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا 84 میرے محبوب صلی اللہ وسلم نے مجھے اس بات کا حکم دیا تھا کہ میں 436 437.436
اصحاب بدر جلد 2 7 مضامین آگ مضامین فرمان اور ان کی تفصیل 184 باغیوں کو قتل کرنے اور آگ میں جلانے کا حکم اور اس کی ابو بکرؓ کے عہد میں مر تدریاست کے باغی تھے 187،76 مرتد باغیوں کے خلاف ابو بکر کی تیاری، جنگی مہمات اور ان کے خلاف ابو بکر وجہ اتحاد 87 کی تفصیل 286180 امت مسلمہ کو اتحاد کی لڑی میں پرونا 144 حضرت ابو بکر کا ایک باغی سردار کے ساتھ حیرت انگیز عفو اجماع مسلمانوں کا پہلا اجماع، وفات مسیح پر احمدیت 126 واحسان کا سلوک 196 عہد ابو بکر میں عرب میں بغاوت کا خاتمہ اور بیرونی دشمنوں کا تعاقب 286 جماعت احمدیہ میں خلافت جاری رہنے کی دلیل 163 مدعیان نبوت کے خلاف جہاد ان کی بغاوت و سرکشی کی وجہ زکوۃ کی اہمیت، اسکا با قاعدہ اہتمام کرنا چاہئے، احمدیوں کو سے تھا نصیحت ارتداد 284-233 163 حضرت ابو بکرؓ کے عہد کے فتنے، ارتداد اور بغاوت 168 بیعت 38 آنحضرت کی (وفات کے بعد) ارتداد اختیار کرنے والے 153 بیعت عقبہ ثانیہ حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں مرتد ہونے والے ریاست کے حضرت ابو بکر کا خلیفہ ہونا اور لوگوں کا بیعت کرنا 132 187،176 حضرت علی کا حضرت ابو بکر کی بیعت کرنا باغی تھے حضرت ابو بکر کے ارتداد اختیار کرنے والوں کو قتل کرنے بیماری 175 حضرت ابو بکر کی بیماری اور وصیت کی وجہ اسلام میں ارتداد کی سزا.قتل نہیں حضرت ابو بکرؓ کے عہد کے فتنے ، ارتداد اور بغاوت 168 حضرت ابو بکر کی تجارت اور کامیاب تاجر ہونا امت 1750168 تجارت امت میں مردوں، بچوں، عورتوں میں سب سے پہلے ایمان تعبیر الرؤیا لانے کی بحث اور فیصلہ امت مسلمہ کو اتحاد کی لڑی میں پرونا 144 پیشگوئی 21 134 360 10 382 حضرت ابو بکر کپڑے کی تجارت کرتے تھے حضرت ابو بکر یا علم تعبیر الرؤیا میں ماہر ہونا 404،11 اولیات ابو بکر حضرت ابو بکر کی اولیات آنحضرت کی چار پیشگوئیاں جو بڑی شان سے پوری ہو ئیں 33 379 | تبلیغ ایمان حقیقی ایمان کی علامت جو قومی ترقی کا راز ہے 165 بادشاہت آنحضرت کی عرب قبائل میں تبلیغ اور حضرت ابو بکر کا بادشاہت کا حق ادا کیا جائے، یہ ہمارے مسلمان لیڈروں اور غزوہ تبوک کے سفر میں آپ کا حضرت ابو بکر کے ساتھ مل بادشاہوں کے لئے سبق ہے بغاوت 443 کر ایک صحابی کی تدفین کرنا 87 ترقی 116 165 باغیوں کو قتل کرنے کا حکم اور اس کی وجہ حقیقی ایمان کی علامت جو قومی ترقی کا راز ہے حضرت ابو بکر کے مرتد باغیوں کے بارہ میں دو سرکاری قومی ترقی کا راز جسے ہمیشہ یادر کھنا چاہئے.عزم 164 ساتھ ہونا تدفین 36
اصحاب بدر جلد 2 مضامین آنحضرت کا فرمانا کہ حضرت صالح اور حضرت ہوڈ تلبیہ غزوہ خیبر کہتے ہوئے حج کے لئے گزرے تھے پہلا جمعہ جو مدینہ میں پڑھایا گیا حسب و نسب عرب میں حسب و نسب کے ماہرین...120 70 11 حضرت ابو بکر کا حسب و نسب میں ماہر ہونا 399،11 حج حجۃ الوداع اور اس کی تفصیلات 119 غزوہ فتح مکہ فتح مکہ اور حضرت ابو بکرم کا ایک خواب غزوہ حنین غزوہ طائف غزوہ تبوک سرایا سریہ بنو فزارہ سریه بطرف نجد سورۃ توبہ کی آیات کاحج کے موقعہ پر اعلان کیا جانا 118 مہمات امیر الحجاج حضرت ابو بکر کو آنحضرت نے مقرر فرمایا 117 لشکر اسامہ کی روانگی لشکر اسامہ کے اثرات حکومت اسلامی حکومت کی مختلف ریاستوں میں تقسیم حضرت ابو بکر کا نظام حکومت حلف الفضول 370 لشکر اسامہ کو حضرت ابو بکر کی نصائح 104.100 104 107 109 111 114 115 104 106 144 151 150 364 عہد ابو بکر نیں ایرانیوں کے خلاف مہمات کی تفصیل 291 تا320 شام پر لشکر کشی اور ابو بکر کی مشاورت اور عام خطاب 322 پر اس معاہدہ کی وجہ تسمیہ اور اہمیت، آنحضرت اور حضرت حضرت ابو بکر کی لشکروں کی روانگی کے وقت نصائح ، جو ہر ابو بکر کی اس میں شمولیت جزیہ 12 عہدیدار اور لیڈر کے لئے لائحہ عمل ہیں 328،327 حضرت ابو بکرکی مرتد باغیوں کے خلاف 11 مہمات مفتوح قوم کے تحائف ابو بکر کا جزیہ میں شمار کر کے عدل و مرتد باغیوں کے خلاف پہلی مہم کی تفصیل انصاف کی مثال قائم کرنا جنگ فتح دمشق، عہد ابو بکر کی آخری جنگ 306 دوسری مہم کی تفصیل تیری مہم کی تفصیل 358،347 _ چو جنگ انبار میں خالد بن ولید پر وحشت و بربریت کا الزام لگانے والوں کو ایک جواب.309 تفصیل جو تھی مہم کی س مہم کی و چھٹی مہم کیلو مدعیان نبوت کے خلاف جہاد ان کی بغاوت و سرکشی کی وجہ ساتویں سے تھا غزوات (جن کا اس جلد میں ذکر ہے) جنگ بدر جنگ اُحد غزوہ حمراء الاسد غزوة بنو نضیر غزوة بدر الموعد غزوہ بنو مصطلق اور واقعہ افک غزوہ احزاب / خندق غزوة بنو قریظہ 284 لتفصيل تفصیل مجری تفصیل نویں مہم کی تف دسویں مہم کی تفصیل 81تا 87 _ گیارہویں فہم کی تفصیل آٹھویں ہم تفصیل 74 تا 80 188 237 237 239 245 247 249 252 254 87 حضرت ابو بکر کے دور میں ہونے والی ایرانی فتوحات 88 پہلی جنگ ذات السلاسل یا جنگ کا ظمہ 89 ایرانی جنگوں کے سلسلہ میں جنگ اہلہ کا ذکر 9691 97 98 جنگ نذار کا ذکر جنگ ولجہ کا ذکر جنگ اُلیس کا ذکر 268 270 291 294 295 297 299
اصحاب بدر جلد 2 _جنگ امغیشیا کا ذکر جنگ حیرہ کا ذکر _جنگ انبار / ذات العیون کا ذکر جنگ عین التمر کا ذکر جنگ دومۃ الجندل کا ذکر جنگ حصید اور خنافس کا ذکر جنگ مصیح کا ذکر جنگ شنی اور زمیل کا ذکر جنگ فراض کا ذکر 9 مضامین 299 مالک بن نویرہ کی بیوہ سے شادی پر حضرت ابو بکر کا خط 236 304 حضرت علامہ کے نام حضرت ابو بکر کے خطوط 308 حضرت ابو بکر کے نام علاء کا خط 310 مہاجر کے حضرت ابو بکر کے نام خطوط 262 263 280 281 292 312 مہاجر اور عکرمہ کے نام حضرت ابو بکر کا خط 314 خالد بن ولید کا ہر مز کے نام خط 315 فتح حیرہ کے بعد خالد بن ولید کا ایر فی امراء و عمال کو خط 307 316 حضرت ابو بکر کا شام میں جہاد میں شمولیت کے لئے اہل یمن 316 کے نام ایک خط 324 336.333 333 336 حضرت ابو بکر کے دور میں ہونے والی شامی فتوحات حضرت ابو بکر کا عمر و بن عاص کو خط شامی جنگوں کے سلسلہ میں جیش البدال 325 حضرت ابو بکر کا ابو عبیدہ کو خط شام کی طرف بطور کمک چار لشکروں کی روانگی 326 حضرت ابو بکر کا یزید بن ابو سفیان کو خط | پہلا لشکر یزید بن ابو سفیان کا تھا، تفصیلات 327 ایک خط، حضرت ابو بکر کا دستخط فرمانا دوسر الشکر شرحبیل بن حسنہ کا تھا، تفصیلات 330 خالد بن ولیڈ کے عراق سے شام منتقل ہوتے وقت ابو بکر کا تیسر الشکر ابو عبیدہ بن جراح کا تھا، تفصیلات 331 ان کے نام خط چوتھا لشکر عمرو بن عاص کا تھا، تفصیلات معرکہ اجنادین کا ذکر دمشق کے محاصرہ کا ذکر فتح دمشق کا ذکر خضاب 337 341 333 فتح اجنادین کی خوشخبری کی اطلاع بذریعہ خط ابو بکر کو ہونا 346 341 حضرت ابو بکر کو مہاجر" کے نام سرزنش پر مشتمل خط 372 341 خلافت 347 آنحضرت کے بعد خلافت اور صحابہ کا باہم یہ اختلاف کہ دو خلیفے ہوں لیکن....آنحضرت کا حضرت ابو بکر کے والد کو خضاب لگانے کا ارشاد 2 حضرت ابو بکر کی خلافت کا انتخاب خط سقیفہ بنو ساعدہ میں بیعت خلافت 132 127 133 آنحضرت کا یمامہ کے والی اور اہل یمامہ کے نام تبلیغی خط 210 انتخاب خلافت ابو بکر کے موقعہ پر سقیفہ بنو ساعدہ میں عمر کی 214 | تقریر 132 مسیلمہ کے نام آنحضرت کا خط آنحضرت کا ایرانی بادشاہ کسری کو خط، تفصیل 272 خلافت کے انتخاب کے موقعہ پر حضرت ابو بکر کی تقریر 129 جلندی کے دو بیٹوں کے نام آپ کا خط 248،237 خلافت کے جماعت احمدیہ میں جاری رہنے کی دلیل 163 حضرت ابو بکر کے مرتد باغیوں کے متعلق دو خطوط 184186 یہ اعتراض که شاورهم فی الامر تو آپ کے لئے حکم تھا، خالد بن ولیڈ کے جنگ میں مفتوحین کو قتل کرنے پر ابو بکر اس میں خلافت کہاں سے نکل آئی، کا جواب 195 خلافت کی برکات، شریعت کے قیام کے لئے خلیفہ وقت 163 163 کا ان کے نام خط مالک بن نویرہ کے قتل پر حضرت ابو بکر کا خط 204 پوری کوشش کرتا ہے جنگ یمامہ میں خالد بن ولید کے نام حضرت ابو بکر شما خط 209 خلافت کے آغاز میں حضرت ابو بکر کی مشکلات 137 مسیلمہ کے خلاف شکست پر عکرمہ کے نام حضرت ابو بکر کا خلافت عمر، مشاورت اور نامزدگی تنبیهی خط 359.358 215، 246 اس اعتراض کا جواب کہ حضرت عمرؓ کو حضرت ابو بکر نے حضرت ابو بکر کا ایک جنگ میں بالغوں کو قتل کرنے کا حکم نامز د کیوں کیا ایک خط میں لکھ کر بھیجوانا 359 231 خلافت نبوت کا ایک جزو ہے اور الہی نور کے محفوظ رکھنے کا خالد کا بذریعہ خط یمامہ کی فتح کی خوشخبری دینا 232 | ذریعہ ہے ، منافق اور مخالف ناکام رہیں گے 416
اصحاب بدر جلد 2 خواب 10 زكوة مضامین آنحضرت کی بعثت کی بابت حضرت ابو بکر کے خواب 15،14 زکوۃ کی اہمیت، اسکا با قاعدہ اہتمام کرنا چاہئے ، احمدیوں کو اسکا باقا غزوۂ احد سے قبل آنحضرت کا خواب 81 نصیحت آنحضرت کا بیت اللہ کے طواف کا خواب دیکھنا اور صلح یہ اعتراض کہ زکوۃ کا حکم صرف آنحضرت کے لئے تھا، حدیبیہ کا واقعہ ، تفصیل 100 اس کا جواب 163 166163 دو جھوٹے مدعیان نبوت اور آنحضرت کا رویا 212 271 مانعین زکوۃ اور حضرت ابو بکر کی شجاعت و عزم 154 آنحضرت اور حضرت ابو بکر کے خواب 136 سجده شکر عمر کی جانشینی کے بارہ میں آپ کی خواب 412 جنگ یمامہ کی فتح کی خبر اور حضرت ابو بکر کا سجدہ شکر 231 حضرت ابو بکر کی فتح مکہ کے حوالہ سے خواب آپ کا غزوہ طائف کے موقع پر خواب اور حضرت ابو بکر کا حضرت ابو بکر کی جرات، دلیری 115 جنگ بدر میں ابو بکر کی بے نظیر شجاعت 74 تا 76، 79 108 شجاعت 4330424.167 اس کی تعبیر بیان کرنا حضرت ابو بکر نے جب خالد بن ولید کو بیمامہ کی طرف روانہ ایک بہادر خاتون خولہ بنت از وڑ کی شجاعت 231 ام عمارہ کی شجاعت کے واقعات 349 225 33 فرمایا تو ایک خواب دیکھا...حضرت ابو بکر کا خالد بن سعید کی خواب کی تعبیر کرنا 249 شرط حضرت ابو بکر گا یمامہ کی فتح سے قبل خواب دیکھنا 231 غلبت الروم کی پیشگوئی پر حضرت ابو بکر کا مشرکین مکہ عہد ابو بکر میں شام کی طرف پیشقدمی اور ایک اہم خواب 321 سے شرط لگانا بولص کی بیوی کا خواب اور بولص کا ابو عبیدہ کی فوج پر حملہ شعر اور اس کا بعد میں قتل کیا جانا خالد بن سعید ابتدائی اسلام لانے والوں میں اور ان کا بعض مسلمانوں کا ایک قلعہ میں محصور ہونا اور حضرت ابو بکر خواب میں آگ کنارے کھڑے دیکھنا...249 کی خدمت میں اشعار بھیجنا اور حضرت ابو بکر ا...258 عائشہ کا حجرہ میں تین چاند گرنے کا خواب 406 | شیعه خندق 355،353 حضرت ابو بکر کا شعری ذوق......399 شیعہ احباب کا اقرار کہ حضرت ابوبکر دشمنوں کی کثرت کے مدینہ کے گرد خندق کھودنا، آنحضرت سمیت صحابہ کی محنت 97 وقت ایمان لائے، ان کی قبر کا آپ کے پہلو میں ہونا 448،447 دعا ہجرت کے وقت کی دعائیں بدر کے موقعہ پر آنحضرت کی دعائیں صحابہ 48 مدینہ کے گرد خندق کھودنا، آنحضرت سمیت صحابہ کی محنت 97 76 | ظلم حضرت ابو بکر شما شام کی طرف لشکر روانہ کرنا اور صبح شام نماز فجر کفار مکہ کے آنحضرت اور حضرت ابو بکر پر مظالم 25،24 حضرت ابو بکر هو مشرکین کا مار پیٹ کرنا یہاں تک کہ ان کا اور عصر کے بعد دعا کرنا.330 میدانِ جنگ میں خالد بن ولید کی دعا اور ایک تاریخی غلطی کی بے ہوش ہو جانا اصلاح زمی ذمیوں کے حقوق، عہد ابو بکر میں رونا 300 373 عبادت 3 رومیوں کے جاسوس کی مسلمانوں کے لشکر کے بارہ میں رائے کہ رات کو عبادت گزار اور دن کو شہسوار ہیں 343 عزم حضرت ابو بکر کا خوشی سے رونا اور حضرت عائشہ کا فرمانا 43 عزم، قومی ترقی کار از جسے ہمیشہ یا در کھنا چاہئے ریسرچ سیل 301.9 164 عمال حضرت ابو بکر کی عامل کی تقرری کے وقت ترجیحات 371
اصحاب بدر جلد 2 عمال کا محاسبہ 373 11 فیصلہ مضامین عہد عہد ابو بکر حضرت ابو بکر کے فیصلہ کے زبر دست نتائج اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑنا حسن قتل اخلاق میں ہے 96 167 کفار مکہ کا دارالندوہ میں آپ کے قتل کا مشورہ کرنا 40 حضرت ابو بکرؓ کے عہد کے فتنے ، ارتداد اور بغاوت 168 قرآن کریم عہد ابو بکر میں عرب میں بغاوت کا خاتمہ اور بیرونی دشمنوں جمع قرآن اور اس کا پس منظر کا تعاقب 286 جمع قرآن، عہد صدیقی کا ایک کارنامہ عہد ابو بکر میں بیرونی دشمنوں کا تعاقب اور اس کی وجوہات و قوم پس منظر ذمیوں کے حقوق، عہد ابو بکر میں 287 حقیقی ایمان کی علامت جو قومی ترقی کا راز ہے تی جو کا 233 3790374 165 373 قومی ترقی کا راز جسے ہمیشہ یادر کھنا چاہئے.عزم.164 عہد ابو بکر میں شام کی طرف پیشقدمی اور ایک اہم خواب 321 مفتوحہ قوموں اور علاقوں سے نرمی کا سلوک 294 تا 297 عہد ابو بکر میں ایرانیوں کے خلاف مہمات کی تفصیل 291 تا320 کنگن فتح دمشق، عہد ابو بکر کی آخری جنگ 358،347 پیشگوئی سراقہ کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن عہدیدار هجور عہدیدار اپنی حالت درست رکھیں تو لوگ خود بخود درست کھجور کے درخت کاٹے جانا ہوتے جاتے ہیں دراسات نور کے 369 تشکر 62 105 ہر عہدیدار کے لئے یا درکھنے والی باتیں 369 حضرت ابو بکر کی لشکروں کی روانگی کے وقت نصائح ، جو ہر حضرت ابو بکر کی لشکروں کی روانگی کے وقت نصائح جو ہر عہدیدار اور لیڈر کے لئے لائحہ عمل ہیں 327 328 عہدیدار اور لیڈر کے لئے لائحہ عمل ہیں 327 328 شام کی طرف حضرت ابو بکر کے چار لشکر روانہ کرنا 327 لشکر کشی ، حضرت ابو بکر کی مشاورت اور عام خطاب 322 غار ثور شام : ہجرت کے وقت آپ کا اس میں قیام اور حضرت ابو بکر کا لقب والہانہ انداز غار ثور اور اللہ تعالیٰ کی معجزانہ حفاظت غزوہ (دیکھئے ”جنگ“) غلام 49 51 حضرت ابو بکر کے القاب اور ان کی تفصیل لیڈر 904 بادشاہت کا حق ادا کیا جائے ، یہ ہمارے مسلمان لیڈروں اور بادشاہوں کے لئے سبق ہے 443 غلاموں پر مظالم اور حضرت ابو بکر کیا انہیں آزاد کرنا 26 تا 29 حضرت ابو بکر کی لشکروں کی روانگی کے وقت نصائح ، جو ہر عہدیدار اور لیڈر کے لئے لائحہ عمل ہیں حضرت ابو بکر کو پیش آنے والے پانچ قسم کے ہم و غم 138 مالی قربانی فتح 328.327 غزوہ تبوک کے موقعہ پر صحابہ کی مالی قربانی اور ایثار 115 حضرت ابو بکر کا منشاء سارے عراق، شام کو فتح کرنا نہ تھا حضرت ابو بکر کی مالی قربانیاں لیکن مصلحت خداوندی 317 محاسبه 433 373 عمال کا محاسبہ حضرت ابو بکر کے عہد کے فتنے ، ارتداد اور بغاوت 168 بیت المال کا قیام اور حضرت ابو بکر کا بیت المال سے وظیفہ کا اور فطرت لینا ابو بکری فطرت سے کیا مراد ہے؟ 20.19 محکمہ قضاء کا قیام 365 367
اصحاب بدر جلد 2 12 مضامین محکمہ افتاء سیکرٹری (کاتب) کا تقرر فوج کا محکمہ مشابہت 367 سے تھا 284-233 367 دو جھوٹے مدعیان نبوت اور آنحضرت کار و یا 271 369 نفاق خلافت نبوت کا ایک جزو ہے اور الہی نور کے محفوظ رکھنے کا حضرت ابو بکر کی یوشع بن نون کے ساتھ مشابہتیں 13 ذریعہ ہے ، منافق اور مخالف ناکام رہیں گے مسجد قبا کی تعمیر مسجد نبوی کی تعمیر مشوره نماز 416 69 آنحضرت کی آخری بیماری اور حضرت ابو بکر کا نمازیں 72 پڑھانا نمازوں کی پابندی کی اہمیت 121 369 اعتراض کہ شاور ھم فی الامر تو آپ کے لئے حکم تھا، اس حیرہ کی فتح کے بعد حضرت خالد کا نماز فتح پڑھنا 306 163 80 واقعہ افک غزوہ بنو مصطلق اور واقعہ افک 96091 میں خلافت کہاں سے نکل آئی، اس کا جواب اسیر ان بدر اور آنحضرت کی مشاورت کفار مکہ کا دارالندوہ میں آپ کے قتل کا مشورہ کرنا 40 واقعہ افک میں حضرت ابو بکر کا کر دار اور فضائل 412 خلافت عمر، مشاورت اور نامزدگی 358 359 | وعید پر لشکر کشی ، حضرت ابو بکر کی مشاورت اور عام خطاب 22 اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑنا حسن شام مصنفین اخلاق میں ہے غیر مسلم مصنفین کا حضرت ابو بکر کو خراج عقیدت 437 وصیت معافی حضرت ابو بکر کی بیماری اور وصیت حضرت ابو بکر کا ایک باغی سردار کے ساتھ حیرت انگیز عفو وفات واحسان کا سلوک 96 360 196 آنحضرت کی وفات، تجہیز و تکفین اور ابو بکر کا جرآت حضرت ابو بکر کا دو عرب سرداروں کو معاف کرنا اور اس مندانہ کردار کے حیرت انگیز فوائد وبرکات 278 | حضرت ابو بکر کی وفات معاہدہ اہل حیرہ کے ساتھ معاہدہ معجزه ہجرت 123 360 305 حضرت ابو بکر کا مظالم سے تنگ آکر ہجرت کے ارادہ سے مکہ چھوڑنا 30 38 معجزات کے بارہ میں ایک اصولی رہنمائی 266 مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کی اجازت، تفصیل ایک مہم کے دوران اسلامی لشکر کا خدائی نصرت کے ساتھ آنحضرت کی ہجرت مدینہ اور حضرت ابو بکر کی تیاری اور سمندر کو بغیر کشتیوں کے اونٹوں پر پار کرنا 265،263 رفاقت ایک مہم کے دوران اسلامی لشکر کے اونٹ گم ہونا اور ہجرت کے وقت کی دعائیں معجزانہ طور پر ان کا مل جانا مواخات 260 مؤاخات دو مر تبہ ہوئی، ایک بار مکہ میں اور پھر مدینہ میں 73 نی خلافت نبوت کا ایک جزو ہے اور الہی نور کے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے ، منافق اور مخالف ناکام رہیں گے مدعیان نبوت کے خلاف جہاد ان کی بغاوت و سرکشی کی وجہ 416 ہجرت مدینہ اور سراقہ کا تعاقب ہجرت کے دوران آپ کا قبا میں قیام 71039 48 660
اصحاب بدر جلد 2 13 اسماء ا، آ حضرت ابان بن سعید بن عاص آپے بحرین کے والی مقرر کئے گئے آپ کا بغاوت دیکھ کر مدینہ چلے جانا 255 اسماء ابن مغیرہ ( خالد بن ولید کی کنیت) ابن ہشام ابو اسحاق 217 210.114.75 112 256 حضرت ابو اسید کا جو نیہ کو اسکے قبیلہ پہنچا دینا 245،244 آپ کی زہر والے تیر سے شہادت، ان کی شادی جنگ ابو البختری اجنادین میں ہوئی ایجر ایجز ابرہہ ابن ابی رزمه ابن ابی شیبہ ابن ابی کبشہ ابن ابی ملیکہ ابن اثیر ابن اسحاق ابن جبیر علامہ ابن جوزی این حجر عسقلانی ابن خلدون ابن خلکان 356 ابو البختری کے قتل سے آپ کا منع فرمانا 299 ابو الحسن بصری کا قید میں آنا 262 263 ابوالحکم (ابو جہل کی کنیت) 294 ابو الفصیل (حضرت ابو بکر کی کنیت) 119 حضرت ابو ایوب انصاری آپ کے گھر آپ کا قیام 250 ابو برزہ اسلمی 109 16 77 297 446 191 74 70 182 382 ابو بشیر مازنی کا ابو بکر سے آپ کے وعدہ کے مطابق مال لینا 393 238،176،168،148 | حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ 109،82،40 _ حضرت ابو بکر عبد اللہ بن ابی قحافہ 210 حضرت ابو بکر کا جاہلیت میں نام عبد الکعبہ تھا 22.4.1 1 13 _ آپ کی پیدائش عام الفیل کے دوسال چھ ماہ بعد ہوئی 1 57 - حضرت ابو بکر کا حلیہ مبارک 452.451.177.168 ابن دغنہ کا حضرت ابو بکر کو پناہ دینا....علامه ابن سعد ابن سیرین ( دیکھئے محمد بن سیرین) 380.10 5 حضرت ابو بکر کا نام آپ نے صدیق رکھا، حکمت 449 207 آپ کی والدہ کا نذرمانا کہ میر ایچہ زندہ رہاتو 30 حضرت ابو بکر کی کنیت ابو الفصیل اور محل الاکبر 191 حضرت ابو بکر کی کنیتیں اور وجہ تسمیہ 191،9،1 382.74.57 حضرت ابو بکر کے القاب 405،361،210 _ قریش میں آپ کا مقام اور پیشہ 252 90*6.5.4.1 11.10 آپ کی مکہ میں چاند اترنے کی رؤیا اور اسلام قبول کرنا14 _ آپ کی حلف الفضول میں شرکت 206 _ آپ کی آنحضرت سے بعثت سے قبل دوستی تھی ابن شہاب زہری ابن عباس ( دیکھئے عبد اللہ بن عباس) ابن عبد البر ابن عبد السلام ابن عساکر ابن قمته ابن کثیر 207،135 | _ آپ کے ذریعہ اسلام لانے والے نمایاں اصحاب 23 73 آپ کی شرک اور بتوں سے نفرت 225 _ آپ کا قبول اسلام 12 12 13 14
اصحاب بدر جلد 2 آپ پر کفار کے مظالم آپ کی جاشاری آپ کا غلاموں کو آزاد کروانا آپ کی شان میں آیات کا نزول آپ کا ہجرت کا ارادہ 14 24 غزوہ طائف اور حضرت ابو بکر 24 غزوہ تبوک اور حضرت ابو بکر 26 حضرت ابو بکر بطور امیر الحجاج 28 حجۃ الوداع اور حضرت ابو بکر 30 نبی کی آخری بیماری اور آپ کا نمازیں پڑھانا اسماء 114 115 117 119 121 آپ کی شعب ابی طالب میں موجودگی 32 نبی کی وفات اور چہرہ کا بوسہ لینا، صحابہ کا اجماع 123 آپ کی غلبت الروم کی پیشگوئی پر شرط آپ کی بیعت عقبہ ثانیہ میں شرکت _ آپ کی مدینہ ہجرت کی تفصیلات 33 سقیفہ بنو ساعدہ کی تفصیلات مختلف قبائل میں تبلیغ کے وقت آپ کے ہمراہ ہونا 36 علی کا حضرت ابو بکر کی بیعت کرنا 38 حضرت ابو بکر کے لئے وظیفہ کا انتظام مسجد قبا کی تعمیر میں آپ کی شرکت مکہ سے اہل و عیال کو منگوانا مدینہ میں آپ کا قیام مسجد نبوی کی میں مسجد نبوی کی تعمیر میں آپ کی شرکت آپ کی مؤاخات غزوہ بدر اور حضرت ابو بکر 129 134 136 38 خلافت کے آغاز پر حضرت ابو بکر کو مشکلات 137 حضرت ابو بکر کی یوشع بن نون سے مشابہتیں 139 69 72 لشکر اسامہ کی روانگی 72 حضرت ابو بکر کی مانعین زکوۃ کے خلاف کارروائیاں 72 144 432-430-392-285.160 154 287188 73 مرتد باغیوں کے خلاف 11 مہمات 74 جنگ یمامہ کی تفصیلات اسیران بدر کے متعلق آپ کی رائے 80 اسود عنسی کے خلاف جنگ اور اس کا قتل آپ کا مدینہ میں بیمار ہونا غزوہ احد اور حضرت ابو بکر غزوہ حمراء الاسد اور حضرت ابو بکر غزوہ بنو نضیر اور حضرت ابو بکر غزوہ بدرالموعد اور حضرت ابو بکر 81 209 271 80 _ آپ کے دور میں ہونے والی ایرانی فتوحات 291 تا317 آپ کے دور میں ہونے والی شامی فتوحات 326 تا347 87 آپ کی بیماری اور وصیت کی تفصیلات 88 آپ کا وفات کے قریب عائشہ کو ہبہ کی ہوئی زمین واپس - 89 کرنے کا کہنا 360 381 غزوہ بنو مصطلق اور واقعہ افک میں ابو بکر کا کردار 91 _ آپ کا وفات کے وقت سب کچھ بیت المال واپس لوٹانے 97 کی وصیت کرنا 98 137 حضرت ابو بکر کا وفات کے وقت عائشہ کو اپنی ہونے والی غزوہ احزاب اور حضرت ابو بکر غزوہ بنو قریظہ اور حضرت ابو بکر _ صلح حدیبیہ اور حضرت ابو بکر 100 بہن کی خوشخبری دینا 364 104 حضرت ابو بکر کا وفات کے وقت مختلف صحابہ سے عمر کی سریہ حضرت ابو بکر البطرف بنو فزارہ غزوہ خیبر اور حضرت ابو بکر مر یہ حضرت ابو بکر بطرف مسجد 104 بابت مشورہ کرنا اور صحابہ کی آراء 106 358 حضرت ابو بکر کے آپ سے عشقیہ تعلق کا ذکر 389 صلح حدیبیہ کے بعد ابوسفیان کا مدینہ آکر حضرت ابو بکر.حضرت ابو بکر کی اپنے ترکہ کی بابت وصیت 362 سے ملاقات کرنا غزوہ فتح مکہ اور حضرت ابو بکر غزوہ حنین اور حضرت ابو بکر 106 حضرت ابو بکر کی آپ کی وفات کے قریب والے دن 107 فوت ہونے کی خواہش 111 حضرت ابو بکر کے آخری الفاظ 361 360
اصحاب بدر جلد 2 15 اسماء حضرت ابو بکر کی تریسٹھ سال کی عمر میں وفات 360 | حضرت ابو بکر کے مناقب و محاسن آپؐ کی تدفین کے وقت قبر میں اترنے والے صحابہ 361.آنحضرت کی نظر میں ابو بکر کا مقام ومرتبہ آپ کی اپنے مسل دینے کے بارہ میں وصیت 361 361 399394-384-383-380-136.98.17.9.6 435.417.411.408 حضرت ابو بکر کی قبر کا مقام حضرت ابو بکر کی وفات کی ایک وجہ زہر کا کھانا تھی 361 - حضرت اقدس کی تحریرات کی رو سے آپ کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد اہل سواد کا ارتداد اور حیرہ کی عمرہ کے زمانہ میں دوبارہ فتح 306 4630445 حضرت مصلح موعودؓ کی تحریرات کی رو سے آپ کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ حضرت ابو بکر کی وفات کے وقت بیت المال کی حالت 367 غیر مسلم مستشرقین کا آپ کو خراج تحسین آپ کی چار پائی پر ابو بکر کا جنازہ اٹھایا گیا 361 361 _ آپ کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ _ آپ کو جنت کی بشارت ، واقعات حضرت ابو بکر یا کفن حضرت ابو بکر کی انگوٹھی کا نقش نعم القادر اللہ تھا 360 _ آپ کی خشیت الہی اور زہد و تقویٰ حضرت ابو بکر کی ازواج و اولاد کی تفصیل حضرت ابو بکر کی اولا د سے شفقت 362 439 437 439 3990396 380 حضرت علی کا آپ کو خراج عقیدت پیش کرنا 385 411 آنحضرت سے آپ کا عشق و محبت 1 389 حضرت ابو بکر نے 14 ہجری میں وفات پائی حضرت علی کا ابو بکر و عمر کو خراج تحسین پیش کرنا 385 آپ کی فراست حضرت ابو بکر مو غیر مسلم مصنفین کا خراج عقیدت 437 _ آپ کا فن تعبیر الرؤیا میں ماہر ہونا آپ سب سے زیادہ عربوں کا حسب نسب جانتے تھے 399 401 404 بڑوں میں سب سے پہلے ایمان لائے 448،406،21 408 نظام حکومت حضرت ابو بکر کے نظام حکومت کا بیان 364_ آپ کا غلاموں کو آزاد کروانا حضرت ابو بکر کی 15 اولیات مخالف بھی آپ کی نیکی اور اخلاق فاضلہ کے قائل تھے 408 حضرت ابو بکر کے دور میں بیت المال کا سچ میں قیام اور آنحضرت کی غیر موجودگی میں نماز کی امامت کروانا 409 اس کا بالعموم خالی رہنا 379 حضرت ابو بکر کے دور میں فوج کا محکمہ حضرت ابو بکڑ کے دور میں ذمیوں کے حقوق آپ کے دور میں کاتب یا حکومت کا سیکرٹری 367 حضرت ابو بکر کے دور میں محکمہ افتاء حضرت ابو بکڑ کے دور میں محکمہ قضا آپ کی شفقت اولاد کا ذکر 365 368 373 واقعہ افک میں آپ کا کردار آپ کا انکسار اور تواضع آنحضرت کے چودہ ساتھیوں میں شمولیت قریش کے بہترین لوگوں میں آپ کا شمار 411 412 443.436.417 419 420 367 367 _ آپ کا پردہ پوشی کا معیار 424.124.76.25 370 _ آپ کی مالی قربانی خلیفہ مقرر ہونے کے بعد خدمت خلق کے واقعات 420 حضرت ابو بکر کے دور میں اسلامی حکومت کی مختلف آپ کی بہادری اور شجاعت ریاستوں میں تقسیم آپ کا عمال مقرر کرنے کا طریق اور ہدایات 370 371 لوگوں میں سب سے بہتر اور محبوب تھے آپ کا یزید کے لشکر کو شام کرتے وقت پیدل چلنا اور.آپؐ کا قرآن کا حافظ ہونا 327 328 _ آپ کا ثانی اثنین ہونا انہیں نصائح حضرت ابو بکر کا عمال کے محاسبہ کا طریق 372 ابو ثمامه 424 433 435 436 436 210 (حضرت ابو بکر کے خطوط کے لئے دیکھئے مضامین میں ”خط ابو ثور ( حضرت عمرو بن معدی کرب کی کنیت) 274 ابو جعفر محمد بن علی 118
اصحاب بدر جلد 2 16 اسماء حضرت ابو جندل کا زنجیروں میں لڑکھڑاتے آنا 102 ، 387 | ابو عمرو 44،41،16 | ابو عمرو ( سوید کی کنیت) ابو جہل بن ہشام ابو جہل کا نشانات کے باوجود تکذیب کرنا 446 | حضرت ابو قتادہ انصاری حضرت اسماء کے منہ پر ابو جہل کا طمانچہ مارنا 228 268 205.112 ایک جنگ کے دوران مسلمانوں سے اختلاف کہ انہوں حضرت ابو حذیفہ بن عقبہ بن ربیعہ اور جنگ یمامہ 247،218 نے اذان دی اور نماز پڑھی 202 حضرت ابو حذیفہ کا جنگ یمامہ میں شہید ہونا 224، 233 اختلاف پر حضرت خالد سے الگ ہونا اور حضرت ابو بکر نا اور ابو 108 کے پاس اگر شکایت کرنا اور ان کی ابو قتادہ سے ناراضگی 203 85 1 ابو حنظلہ، ابوسفیان کی کنیت حضرت ابو خیثمہ انصاری 224،182 ، 232 236 ابو قحافہ حضرت ابودجانہ سماک بن خرشہ اور غزوہ احد ،82، 222، 425 _ آپ حضرت ابو بکر کے والد تھے حضرت ابو دجانہ اور جنگ یمامہ 233،224 ابوقحافہ پے ابو قحافہ اور اسماء کا...جب اسماء نے روشن دان میں پتھر 249 رکھے جنہیں ان کے دادا نے پیسے سمجھا ย حضرت ابو سعید ( خالد بن سعید کی کنیت) آپ کا جنگ یمامہ میں زخمیوں کو پانی پلانا ابوسفیان بن حارث، آپ کے چچازاد 58 28 حضرت ابو سعید خدری 401،393،383،134 ابو قحافہ کا بو بکر کو غلاموں کے آزاد کروانے پر ایک مشورہ 229 _ ابو قحافہ کا اپنے بیٹے کے خلیفہ مقرر ہونے پر بے اختیار کلمہ 112 شہادت پڑھنا 441.135 2 ابوسفیان بن حرب 109،74،41 111 ، 436،327 _ ابو قحافہ کا اپنی بیٹی کی شادی اشعث بن قیس سے کرنا 283 ابوسفیان اور غزوہ احد 38690،89،85 - ابو قحافہ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ابو سفیان کا دس ہزار کے لشکر کو لے کر مدینہ آنا 97 ابولیلی اعبد ابو سفیان کا صلح حدیبیہ کے بعد معاہدہ کی تجدید کے لئے ابو محمد (عمر و بن عاص کی کنیت) مدینہ آتا اور ناکام ہونا ابوسميط 106 316-315-314 247 65 275 274 ابو معبد 282 حضرت ابو موسی اشعری ابوضبیعہ ( حطم بن زید کی کنیت) حضرت ابو طالب ابو عبد اللہ قرطبی حضرت ابو عبیدہ بن جراح 258 33 124 436-382-366-128 مارب میں ہونا حضرت ابو ہریرہ 433-412-398-388-255-212.155.111 کا لئے ان کا سارا دن آپ کی خدمت کے لئے وقف کرنا 396 436 آپ کے دو دانت آپ کے دانت نکالتے ہوئے گرنا 84 - قرآن حفظ کرنے والوں میں سے تھے آپ کے صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں دستخط تھے 103 حضرت علامہ کی دعا کے نتیجہ میں پانی کے چشمے پر دوبارہ جانا 145 اور وہاں پانی کا نام و نشان نہ پانا 261 6 آپ لشکر اسامہ میں شامل تھے حضرت ابو عبیدہ اور سقیفہ بنو ساعدہ 131،128 | ابو وہب، حضرت ابو بکر کے آزاد کردہ آپ کی حضرت خالد سے دمشق کے محاصرہ میں ملاقات 341 حضرت ابی بن کعب 352 حضرت ابو بکر جن سے مشورہ لیتے ان میں سے تھے 364 بولس کا حملہ اور سخت جنگ شام پر لشکر کشی کے لئے مشورہ 322 ، 323 | حضرت ابو بکر کے دور میں قاضی تھے آپ کی شامی فتوحات میں شرکت 331 تا 352 حضرت ابو بکر کے دور میں محکمہ افتاء میں تھے ابو عثمان ابوعدی (سوید کی کنیت) ابو عقیل کی جنگ یمامہ میں شہادت حضرت عمر کی ابو عقیل کے بارہ میں رائے 421 احمد بن حنبل ، امام 268 احمد شاکر شیخ 228 228 ارد شیر 367 367 130 208 299-298
اصحاب بدر جلد 2 اردشیر کا مارا جانا 17 304 اکیدر بن عبد الملک اسماء 313 اردشیر کی موت سے ایرانی حکومت خلفشار کا شکار ہوئی 307 _ آپ کا اکیدر پر احسان کرتے ہوئے اسے چھوڑنا اور اس کا اریقط ( دیکھئے عبد اللہ بن اریقط ) حضرت اسامہ بن زید آپ کے لشکر کی روانگی اور اس کا مقصد بد عهدی کرتے ہوئے بغاوت کرنا 313 168 177 اکیدر کے قتل اور زندہ رہنے کے بارہ میں روایات 313 114 حضرت ام ابان کی جنگ اجنادین میں حضرت ابان حضرت اسامہ بن زید اور جنگ یمامہ 218 سے شادی اور دمشق کے محاصرہ میں تیر اندازی 356 426 حضرت ام الخیر، حضرت ابو بکر کی والدہ کی کنیت 1 حضرت اسامہ بن زید سرایا کے امیر حضرت اسامہ سے آپ کا واقعہ افک میں مشورہ کرنا 93 حضرت ام ایمن کا اُسامہ کو آپ کی وفات کی اطلاع دینا 146 حضرت اسامہ کی غزوہ حنین میں ثابت قدمی 112 لشکر اسامہ اور اس کی تفصیلات ย آپ کی وفات کے بعد ابو بکر اور عمر کا ام ایمن سے ملنے جانا اور اُن کا رونا 386 146تا151، 160 180 ،371274 ام تمیم بن منہال سے خالد کی شادی پر اعتراض کا جواب 207 حضرت خالد کی ام تمیم اور مجاعہ کی بیٹی سے شادی پر ابو بکر کی حضرت اسعد بن زرارة اسما ( کندہ قبیلہ کی خاتون) حضرت اسماعیل حضرت اسماء بنت ابو بکر 72 243 59 ناراضی ام جمیل، حضرت عمر کی بہن 243 ام خالد (حضرت خالد بن سعید کی والدہ کی کنیت) 249 411،362،119،58،56،50،47،43 | حضرت ام رومان بنت عامر آنحضرت کی اسمان کو جنت کی خوشخبری 58،47 _ ام رومان اور واقعہ افک حضرت اسماء بنت عمیس بن معبد بن حارث ام زمل سلمی 362،361،359 _ ام زمل کی سرکوبی اور اس کا قتل ان کے ہاں حجتہ الوداع کے سفر میں بیٹے کی پیدائش 120 قید سے آزاد ہونے پر اسکامر تد ہو جانا اسماء بنت نعمان بن جون کا تعارف 243 حضرت ام سلمہ 463،233،212،181،177،154 _ قرآن حفظ کرنے والوں میں سے تھیں 362 412 197 198 198 17 436 3 اسود عنسی اسود عنسی کے بارہ میں تعارفی نوٹ 271 تا 286 آپ کا سر دھونا اور اپنے بھائی مہاجر کی سفارش کرنا جس حضرت اسید بن حضیر اشعث بن قیس 245،110،94 سے حضور ناراض تھے 282 ام شمله اشعث بن قیس کی ابو بکر کی بہن سے شادی 283 ام صادر (سجاح بنت حارث کی کنیت ) اشعث بن قیس کی گرفتاری اور اپنے ہمراہ 9 افراد کی ام عبد اللہ معافی طلب کرنا اور ابو بکر کا معاف کرنا 282 283 ام عبد اللہ (حضرت عائشہ کی کنیت ) 279 حضرت ام عبیس کو ابو بکر نے آزاد کروایا اشمل اشعث بن قیس کی معافی اشعث کا مدینہ میں ہی قیام اعبد بن فد کی حضرت اقرع بن حابس 270 204 200 248 363 408.27 284 حضرت ام عمارہ کا تعارف اور اُحد میں شرکت، بہادری اور 228 اپنے بیٹے کے ہمراہ جنگ یمامہ میں شرکت 314 | _ جنگ یمامہ میں 11 ز خم لگے ، ہاتھ کٹا 314،313 | _ حضرت ابو بکر کا حالت دریافت کرنے آنا 225 227 227
اصحاب بدر جلد 2 18 اسماء حضرت خالد کا طبیب سے زخموں کا علاج کروانا 227 باذان کو کسریٰ نے آپ کا سر لانے کا کہا 283 _ باذان کا اسلام قبول کرنا ام فروہ بنت ابو قحافہ ام ربیعہ ام قرفہ بنت ربیعہ کی بغاوت اور اس کی سرکوبی 197 بابان پادری کا خالد بن سعید کے بالمقابل نکلنا بابان سے شکست اور وقتی ناکامی 197 ام قرفہ کا تعارف ام قرفہ کی جانب سے آنحضرت کی قتل کی سازش 198 بحیرا کے پاس ابو بکر شکار و یا دیکھنا ام قرفہ کے خلاف جنگ اور اس کی شکست م کلثوم بنت ابو بکر کا تعارف ام مع بنت ابور ہم ام معبد کا سفر ہجرت والا واقعہ 198 بخت نصر 363-362 93.92 64 علامہ بدرالدین عینی بدیل بن در قاء بدهان (یمن کا عامل) کے خیمے تک قریش کے تعاقب کرنے والوں کا پہنچنا 66 حضرت براء بن عازب امراء القیس کلبی امیمہ (کندہ قبیلہ کی خاتون) امیہ بن خلف کا بلال پر ظلم 315 حضرت براء بن مالک 243 27 272 273 325 326 15 309 177.34.7 108.101 272 173.68 411.112 جنگ یمامہ میں باغ میں پھینکا جانا اور ان کا اندر سے دروازہ کھولنا امیہ بن خلف کا کھوجی کے ہمراہ غار ثور پہنچنا 51،50 حضرت بریدہ بن حصیب اندرز غر، ایران کا مشہور شہسوار حضرت انس بن مالک 298 انعام کے لالچ میں آپ کا تعاقب 225 105 70 114،70 ، 122 ، لشکر اسامہ والا جھنڈا آپ کے دروازہ پر گاڑ دینا 146 436-410.397395-386-380-144 حضرت بریرہ سے آپ کا واقعہ افک میں گواہی لینا 93 انس بن مالک سے سیرین کا مکاتبت کرنا 311 حضرت بشر بن عبد اللہ کی جنگ یمامہ میں شہادت 229 انس بن مالک کے گھر مواخات کا ہونا انس کا یمن کی طرف ابو بکر کا خط لے کر جانا انوشجان 74 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے 324 296-293 68.66.63.62.59.57.52.34.32.23.22.13 102 101 91 90 86.82.80.77.72.71 406.132.104 اوس بن خزیمہ کا سجاح پر فتح پانا ایاس بن سلمہ ایاس بن عبد اللہ ( دیکھئے فجاءه) ایاس بن قبیصہ طائی ایچ جی ویلز 201 104 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی 59.53.46.40.35.31.29.26.19.18.176 113.108 103.85.83 79.78.76-67-63 162.147.137.135.132.126.124.122 285 <272 266 251.233.174.172 163 +387 383 381 377 376 364.359 <259 408 407.401.399.392 391.389.388 444-443-442-439-433-427-426-423.413 305.304 438 276 آزاد، شہر بن باذان کی بیوی جس سے اسود نے شادی کی 275 آزاد کی اسود عنسی کے قتل میں شمولیت آلوسی، علامه آندرے سروبیر آئزن ہاور ب، پ، ت،ٹ،ث باذان 28 بطرس 437 442 بغوی، امام بلاذری حضرت بلال 3550353 375 222 436.121.87.29 آپ کو عطا کر دہ چودہ نجیب ساتھیوں میں سے تھے 419
اصحاب بدر جلد 2 19 اسماء 393 آپ سے ابو بکر کی ایک بیٹی کی شادی ہوئی 364 پھر آپ کے بعد ابو بکر کا اسی طرح دینا حضرت بلال کا ابو بکر سے شام کے جہاد میں شمولیت کی حضرت جارود بن معلی کا مدینہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی 339 قوم میں تبلیغ کرنا اور ارتداد میں ان سب کا ثابت قدم رہنا 256 اجازت طلب کرنا آپ کے بعد اذان کو دل نہیں مانتا مدینہ پہنچنے پر بیمار ہونا 340 80 410 جاروڈ کے قبیلہ عبد القیس اور قبیلہ بکر بن وائل کے در میان شدید جنگ 258 علاء کا جاروڈ کے ساتھ مل کر حطم کا مقابلہ کرنا 262 حضرت ابو بکر نے آزاد کروایا، ان پر ہونے والے مظالم 27 حضرت جبیر بن مطعم نماز پڑھانے کے لئے حضرت عمر کو بلانا حضرت عمر کا حضرت بلال کو ہمار ا سر دار کہنا عمررؓ بلال کو ہمارا 408 _ فن علم انساب میں ماہر تھے بنت الجون ( دیکھئے اسماء بنت نعمان ) جرجہ بن توذر بہن جادویہ 299.298 بہن جادویہ کی شیر زاد پر ملامت 396.29 399.11 335 جریر بن عبد اللہ بجلی کا اپنی قوم کے مرتدین سے لڑائی کرنا 270 309 جنس دیلمی بولص کی بیوی کا خواب اور بولص کا ابو عبیدہ کی فوج پر حملہ جشیش دیلمی اور اس کا بعد میں قتل کیا جاتا 355،353 حضرت جعفر بن ابو طالب 276-275 275 202 بولص کے پاس اہل دمشق کا جمع ہو کر اسے سردار بنانا 352 _ آپ کو عطا کردہ چودہ نجیب ساتھیوں میں سے تھے 419 بیقی، امام پیلاطوس قیصر کے حکم سے قتل کیا گیا 49 اپنی بیوی کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت 54 غزوہ خیبر کے وقت حبشہ سے آنا تذارق کا نوے ہزار رومیوں کے ہمراہ جنگ کرنا 335 آپ کی جنگ موتہ میں شہادت 356 جلال الدین سیوطی تو ما دمشق کا حاکم، ہر قل کا داماد تھا تو ما کی آنکھ کا ام ابان کے تیر سے پھوٹنا 357 جلندی 362 250 144 5.4 248.238.237 تیم بن مرہ تھا مس واکر آرنلڈ، سر، مشہور مستشرق 152 جندل کا فتح مغیشیا اور الیس کی اطلاع مدینہ پہنچانا اور ابو بکر 15 جندب بن سلمی کا ارتداد اور جنگ کے بعد بھاگنا 269 ٹرومین ٹی ڈبلیو آرنلڈ 442 کا اسے لونڈی دینا جس سے اس کے اولاد ہوئی 439 جودی بن ربیعہ حضرت ثابت بن اقرم کی شہادت 197،192 جونیہ (دیکھئے اسماء بنت نعمان) حضرت ثابت بن قیس بن شماس 188، 1،209 21، 216، 228 | جویریہ بنت حارث سے آپ کی شادی آپ کا جنگ یمامہ میں ابھارنا اور اپنے آپ کو آدھا زمین جے جے سانڈرز میں گاڑ لینا اور شہید ہونا 224،219، 233 | جیفر بن جلندی حضرت ثمامہ بن اثال 233 ،260، 267،263، 286 | جیفر، عمان کا عامل تمامه بن کبیر بن حبیب ج، چ، ح، خ جابان حضرت جابر بن عبد الله 210 چنگیز خان حاجب بن زید 299 حاجر 26 435 172.2 آپ کا جابر سے فرمانا اگر بحرین سے مال آیا تو اتنا دوں گا، حارث (رملہ کا والد ) 303 313 208 438 248-240-238-237 237 442 228 252 252 211
اصحاب بدر جلد 2 حارث بن سخبره 20 362 حضرت حکیم بن حزام حارث بن صمہ اُحد کے روز گھاٹی میں آپ کے ساتھ تھے 83 آنحضرت کی قبل از بعثت دوستی تھی حارث بن ضرار حارث بن کریز 208 حضرت حکیم بن حز اللہ کے گھر میں ابو بکر کا ہونا 211 حمران بن ابان ( عثمان کے آزاد کردہ) اسماء 108 13 14 311 حضرت حباب بن منذر کا غزوہ خیبر میں یہود کے کھجور کے حضرت حمزہ اور حضرت زید بن حارثہ کی مؤاخات 73 105 _ آپ کو عطا کر دہ چودہ نجیب ساتھیوں میں سے تھے 419 درخت جلانے کا مشورہ دینا حضرت حباب بن مندر کی سقیفہ بنو ساعدہ میں تقریر 1 13 حضرت حمزہ کی شہادت حبال ( طلیحہ بن خویلد کا بھائی) حضرت حبیب بن زید کو مسیلمہ کا شہید کرنا 222 193 حمزہ بن مالک جدانی کا لشکر لے کر شام جانا اور ابو بکر کی خوشی 340 حیری ابن اکال 386،233،226،214 | خارجہ بن حصن حبیبہ بنت خارجہ بن زید بن ابو زہیر 362 363 حضرت خارجہ بن زید اور ابو بکر کی مؤاخات حضرت حبیش بن خالد حجاج 65 | حضرت خالد بن اسید 41 حضرت خالد بن سعید 305.304 176 73 277.269.233 حضرت حذیفہ بن محصن 237،215،191، 412،238 _ آپ کا تعارف، ان کی باغیوں کے خلاف مہم 251،249 حضرت حذیفہ بن یمان 412 436،419 _ حضرت ابو بکر کی ہدایت پر عمل نہ کرنا، ان کو شکست، بیٹے 238 کا قتل ، لشکر سے بھاگنا، بعد میں معافی ملنا حذیفہ قلعانی 111 326 حضرت خالد بن سعید کو اسود کا نجران سے نکالنا 274 حضرت حسان بن ثابت حضرت حسان بن ثابت کے ابو بکر کی نسبت اشعار 22 _ خالد بن سعید کو باغیوں کے خلاف تیاء بھجوایا 325،324 حضرت حسان کا قریش کی ہجو کرنا حسن بصری، امام حضرت حسن 400 297 210 خالد بن سعید کی حبشہ کی طرف ہجرت خالد بن سعید کے خلاف بغاوت 250 286 خالد بن سعید کی فوج کا معاویہ کے ساتھ ملنا 340 امام حسن کو ابو بکر کا اٹھا کر کہنا اس کی شباہت نبی سے ہے خالد بن ولید علی سے نہیں حسنہ ( شرحبیل کی والدہ) 385 245 330 12 217 خالد بن ولید کی کنیت، ابن مغیرہ خالد اور عیاض کو ابو بکر کا حیرہ روانہ کرنا 289 خالد بن ولید کا بنو سلیم سے مدد طلب کرنا 252 حضرت امام حسین کو ابو بکر کا ایک چادر تحفہ دینا 394 خالد بن ولید کا جنگ موتہ میں مسلمان لشکر کو بچانا144 حطم بن ضبیعہ عظم کے چونہ کی وجہ سے تمامہ کی شہادت عظم کے مقابلہ کے لئے علاہ کا جارود کو کہنا 256 _ طلیحہ اور مالک بن نویرہ کی سرکوبی 267 191.188.181 خالد کا مالک بن نویرہ کی سرکوبی اور اسکا قتل 202،199 262 خالد پر مالک بن نویرہ کے قتل کے الزام کا جواب 205 حضرت حفصہ قرآن حفظ کرنے والوں میں سے تھیں 436 حضرت ابو بکر کا معذرت قبول کرنا 204 حضرت حفصہ کا بیوہ ہونا اور آپ سے شادی والا واقعہ 385 اہل حیرہ کے ساتھ معاہدہ میں ذمیوں کے حقوق کا پاس 374 حضرت حفصہ کے پاس صحیفہ صدیقی کا آنا حضرت حکم بن سعید کا جنگ یمامہ میں شہید ہو نا 224، 233 | خالد م کا ابان بن سعید کی نماز جنازہ پڑھانا 379 خالد پر وحشت و بربریت کے الزام کی نفی 309 356
اصحاب بدر جلد 2 195.176 177 21 خطابی، امام اسماء 407.406 264 177 خالد کا ام زمل سلمی کی سرکوبی کرنا اور اس کا قتل 198 سب سے پہلے ایمان لانے والی تھیں خالد بن ولید کا بعض قبائل کی معافی قبول نہ کرنا اور انہیں خصفہ تیمی آگ میں جلانا، اس کی وجہ ایرانی جنگ میں دو مسلمانوں کے مارے جانے پر حضرت حضرت خنیس بن حذافہ سہمی کا مدینہ میں فوت ہونا 385 عمر کی خالد کو سزا دینے کی رائے اور ابو بکر کا فیصلہ 316 حضرت خولہ بنت ازور جنگ میں فتح کے بعد کھانا فوج میں تقسیم کرنا 303 خولہ بن ازوڑ کی شجاعت 351 354.349 ایک رومی سپہ سالار کی مال کی پیشکش کو ٹھکرانا 343 خولہ کا جنگ میں قید ہونا اور بطرس کی رائے 353 د، ذ، ر، ز دا ذویہ کا قتل طبیب سے ام عمارہ کے زخموں کا علاج کروانا 227 جنگ عین التمر میں قلعہ سے چالیس عرب نژاد بچوں کو آزاد دازویہ کروانا جن کی اولاد سے بلند مرتبہ لوگ پیدا ہوئے 311 حیرہ کی فتح پر آٹھ رکعات ایک سلام سے ادا کرنا 306 دازویہ کے قتل کی سازش کا الزام ام تمیم اور مجامعہ کی بیٹی سے شادی، ابو بکر کی ناراضگی اور دراقص ، رومی کمانڈر اس کا دور ہونا 235 243،236 ذو الحمار عہلہ (اسود عنسی کا نام ) ン」 275 277 278 336 271 325 210 ام تمیم بن منہال سے شادی پر اعتراض کا جواب 207 ذوالکلاح کا اسلامی لشکر کو رومیوں کے چنگل سے بچانا 326 بنو حنیفہ کو زیر کرنے پر قیس بن عاصم کا سر تسلیم خم کرنا.ذوالکلاغ کا یمن سے شام پہنچنا اور اپنے قبیلہ بنو تمیم سے زکوۃ اکٹھی کرنا 260 حضرت رافع بن خدیج جنگ الیس میں ایک دعا، دریا دشمنوں کے خون سے سرخ - حضرت رافع اور عبد الرحمن بن عوف اور ضر اڑ کا ابو عبیدہ قیدیوں کے قتل میں مبالغہ کے الزام کی وضاحت 300 کی مدد کے لئے جانا حضرت خالد کی کو تاہی پر ابو بکر کی سرزنش 372 رومیوں کے خلاف شجاعت کے جوہر ربیعہ حضرت خالدہ کے ہاتھوں ام قرفہ کا شکست کھانا 198 حضرت ابو بکر کا حضرت خالد گوہر مز کی ٹوپی عطا کرنا294 ربیعہ بن بجیر 193 353 350 16 316.315 حضرت ابو بکر کی فوجوں کے قائد تھے عورتیں خالد جیسا شخص پیدا نہیں کر سکیں گی 303 اختلاف اور آپ کا ربیعہ کو دعا سکھلانا حضرت ربیعہ بن جعفر اور حضرت ابو بکر کے درمیان کچھ حضرت خالد نے عراق کو ایک سال دوماہ میں دس ہزار فوجیوں کے ساتھ فتح کیا 319 380 حضرت ربیعہ بن حارث کی غزوہ حنین میں ثابت قدمی 112 ربیعہ بن عامر 327 رجال بن عنفوہ، مسیلمہ کی طاقت بڑھانے کا ایک سبب تھا 213 حضرت خالد کی باغیوں کے خلاف مہم 187 تا 209 رجال کا مدینہ آکر اسلام قبول کرنا، آپ کا اسے اہل یمامہ کی 232218-209 طرف معلم بنا کر بھیجنا، اس کا ارتداد اختیار کرنا.213 حضرت خالد اور جنگ یمامہ حضرت خالد کے عراق میں معرکوں کی تفاصیل 289 تا320 رملہ بنت حارث کے گھر وفود کا ٹھہرنا حضرت خالد کے شام میں معرکوں کی تفاصیل 340 تا 358 روز بہ ، ایرانی کمانڈر حضرت خالد مخزومی اور جنگ یمامہ 218 روزویلٹ حضرت خباب بن ارث پر مظالم اور ابو بکر کا آزاد کروانا 29 روئیں، رومی کمانڈر حضرت خدیجہ بنت خویلد عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لائیں 18.16.14 211.210 315.314 442 334 حضرت زبیر بن عبد المطلب کے دل میں تحریک اور حلف 21 الفضول کا احیاء 12
اصحاب بدر جلد 2 حضرت زبیر بن عوام حضرت زبیر بن عوام کو حواری کا خطاب ملنا حضرت زبیر اور غزوہ اُحد 24 22 حضرت ابو بکر کے دور میں قاضی تھے اسماء 367 حضرت ابو بکر کے دور میں محکمہ افتاء میں تھے 367 425،86،83،82 حضرت زید بن حارثہ آل عمران 173 اور 176 کے مصداق 386،86 _ سب سے پہلے ایمان لانا حضرت زبیر بن عوام سے حضرت اسمائہ کی شادی 363 جنگ موتہ میں شہادت حضرت زبیر بن عوام کا سفر ہجرت میں ملنا ہبل بت کے حوالہ سے ابو سفیان پر طنز حضرت زبیر کا قبول اسلام عشرہ مبشرہ میں سے ایک تھے 66 249 198 104.72.22 407.406-21 144 زید بن خطاب اور جنگ یمامہ 247،233،220،218 111 زید بن عمر و سے آنحضرت کی قبل از بعثت دوستی تھی 13 407،23 زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب 223.155 398 حضرت زینب کو حضرت عائشہ اپنا رقیب خیال کرتی تھیں، عمدینہ کے پہرہ پر ابو بکر فی متعین کرنا 158 ان کا عائشہ پر احسان زرین کلیب زر مهر، ایرانی کمانڈر زلیخا زمخشری 413 294_ آپ کی حضرت عائشہ کے بارہ میں خیر کی گواہی 96 315.314 9 9 س، ش، ص، ض ساریہ بن مسیلمہ بن عامر حضرت سالم بن عبد اللہ 217 361 حضرت زنیر ہا کو حضرت ابو بکر کا آزاد کروانا 27 ، 408 حضرت سالم مولی ابو حذیفہ کا نصف پنڈلیوں تک جنگ یمامہ میں گڑھا کھودنا اور ان کا شہید ہونا زہری ( دیکھئے ابن شہاب زہری) زہیر (شاعر) 41 233.224 حضرت سالم قرآن حفظ کرنے والوں میں سے تھے 436 حضرت زیاد بن لبید حضر موت کے عامل ان کا تعارف 277 حضرت سائب بن عوام کا جنگ یمامہ میں شہید ہونا 233 کنندہ میں زکوۃ میں سختی کرنا تو بغاوت برپا ہونا، عکرمہ اور مسجد کی فتح کی خوشخبری حضرت ابو بکڑ کے پاس لانا 241 243 سباع بن عرفطہ غفاری، خیبر کے دوران مدینہ میں امیر تھے 105 مہاجر کا کمک کے طور پر آنا مہاجر کی بیماری کے باعث یمن میں زیاد بن لبید کو گورنر سپر نگر، مشہور مستشرق مقرر کرنا 373 سٹالن 407.23 442 285-210199.188.154 حضرت زیاد بن لبید کے ساتھ مل کر مہاجر کو لڑنے کا حکم 280 سجاح بنت حارث مرتدین کا حملہ اور ان کا مہاجر کو مدد کے لئے خط لکھنا 282 حضرت سراقہ بن مالک کندہ قبیلہ سے زکوۃ طلب کرنا، ان کا ٹال مٹول کرنا اور سفر ہجرت میں تعاقب، تفصیل زکوۃ کی وصولی میں سختی زیاد بن لبید کالو گوں کو قرآن پڑھانا زیاد بن لیبد کندہ اور حضر موت کے گورنر زید (حطم کا قاتل) زید بن اسلم حضرت زید بن ثابت کو جمع قرآن کا حکم 282،281 _ جنگ یمامہ میں شہید ہونا 373 کسری کے کنگن پیشگوئی اور اس کا پورا ہونا 60 233 62 370 حضرت سعد بن ابی وقاص 398،338،306،249،145 ابو بکر کی تبلیغ سے اسلام قبول کیا 263 116 حضرت سعد اور غزوہ اُحد حضرت زید بن ثابت کتابت کی خدمت پر مامور 368 - حضرت سعد اور بنو قریظہ کا محاصرہ 407.23 425.86.83 99 374 - حضرت سعد گو مدینہ کے پہرہ پر ابو بکر کا متعین کرنا158 حضرت ابو بکر جن سے مشورہ لیتے ان میں سے تھے 364 حضرت سعد کے صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں دستخط 103
اصحاب بدر جلد 2 23 اسماء حضرت سعد کے ہاتھ عراق کی فتح ہوئی 24 حضرت سہل بن بیضاء 72.33 آپ سے شام پر لشکر کشی کے لئے مشورہ 322 323 حضرت خالد کو بولص کے حملہ کی اطلاع دینا 353 حضرت ابو بکر و عمر کا سعد کی وفات کے وقت رونا 99 حضرت سہیل حضرت سعد بن عبادہ 130.110.99.98.94.91 حضرت سعد بن عبادہ اور سقیفہ بنو ساعدہ حضرت سعد بن معاذ اور غزوہ بدر حضرت سعد بن معاذ اور بنو قریظہ اُحد کے روز موت پر بیعت کی 127 حضرت سہیل بن عمرو 99 75 آپ کے بالوں کو اپنی آنکھوں سے لگانا شام کے جہاد میں شمولیت 72 83 102 121 327 حضرت سعد بن معاذ کی واقعہ افک کی موقع پر دلیری 93 _ آپ کی وفات کے بعد اہل مکہ کا ارتداد سے محفوظ رہنا اور حضرت سعید بن زید شام پر لشکر کشی کے لئے مشورہ 322 حضرت ابو بکر کے ہمراہ صرار مقام پر ہونا 232 عشرہ مبشرہ میں سے ہونا معرکہ اجنادین میں جوش دلانا لشکر اسامہ میں شامل تھے سعید بن عاص بن امیہ _حضرت سہیل بن عمرو کا کر دار 153 298.161.159 268 311 218 241 حضرت سوید بن مقرن آپ کا تعارف اور باغیوں کے خلاف مہم سیرین شخریت کا عکرمہ کے مقابل مورچہ زن ہونا 398 344 145 249 حضرت شجاع اور جنگ یمامہ شخریت کو شمس کے ساتھ ابو بکر کی خدمت میں بھیجنا 241 سعید بن عامر بن حدیث کی خواہش کہ ان کی سرکردگی میں شرحبیل (ابن مسیلمہ کذاب) شام لشکر بھیجا جائے سعید بن مسیب سعید بن نعمان 338 417.396.123 297 436 97 218 حضرت شرحبیل بن حسنہ 238،218،215،182، شریح بن ضبیعہ شریک بن عبدہ فزاری شعبی حضرت سلمان فارسی خندق کھودنے کی رائے 343 342 341.336-330-248 258 209 363 192 233 ان کو شہید کر کے ان کی بیوی سے اسود کا شادی کرنا286،274 آپ کو عطا کر دہ چودہ نجیب ساتھیوں میں سے تھے 419 شہر بن باذان پر اسود عنسی کا حملہ سلمہ ( طلیحہ بن خویلد کا بھائی) حضرت سلمہ بن اسلم شکر اسامہ میں شامل تھے 145 شہر بن باذان کی بیوہ کی اسود عنسی کے قتل میں شمولیت 276 حضرت سلمہ بن اکوع 425،395،106،104 شوکانی سلمه بن و قش سلمی (حضرت عمرو بن عاص کی والدہ) سلمی بنت ام قرفه (ام زمل کا نام) سلمیٰ بنت صخر بن عامر، ابو بکر کی والدہ حضرت سلیط سلیمان بن یسار 182 247 197 شیبہ بن ربیعہ شیر علی، حضرت مولانا شیر زاد، انبار کے لشکر کا سپہ سالار 1 شیرویہ کا کسری کو ہلاک کرنا 216 صاح کا وادی عسفان میں تلبیہ کرتے گزرنا 223 صفوان بن امیه حضرت سماک بن خرشہ (دیکھئے ابو دجانہ ) 224 حضرت صفوان بن معطل ذکوانی سمط بن اسود 282 _ آپ کی قافلہ کے پیچھے چلنے کی ڈیوٹی 177 41.16 172 309.308 272 120 112 92 120
اصحاب بدر جلد 2 حضرت صفیہ بنت حیی بنت اخطب حضرت صہیب رومی ضحاک بن فیروز حضرت ضرار بن ازور اسدی 24 208 | عاص بن وائل اسماء 247 436،29 عاص بن وائل کے مسلمانوں پر مظالم اور اس کی وفات 250 271 عاصم (بنو ثعلبہ کا شخص) 202 حضرت عاصم بن عدی کی تبوک کے موقع پر قربانی 115 355،353،351،348،345،304،203،189 عاصم بن عمرو 314-313-296.290 ضرار بن خطاب کا قصر عدسیین کا محاصرہ کرنا 304 عامر بن حضرمی کا بدر کے روز کفر کی حالت میں مارا جانا 254 ضرار بن مقرن کا قصر بنی مازن کا محاصرہ کرنا 304 حضرت عامر بن عبد الاسود طارق بن زیاد ط، ظ، ع، غ 264 حضرت عامر بن فہیرہ 408،61،59،56،43،27 311 حضرت عائذ بن عمرو حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابح حضرت عائشہ ارتداد کی سزا قتل کی نفی طاہر بن ابو ہالہ تہامہ پر عامل تھے 170 436 96.95.86.80.58.47.43.30-13.10.654 362 361 180 123 122 121.108.107 414 411 409-386-384-380-366360 268 طاہر کا اپنے علاقہ میں ابو بکر کوارتداد کی خبر دینا 269 طبری، علامه 295.233.184.176 طریقہ بن حاجرہ کو بنو سلیم کی طرف بھیجا جانا طریفہ بن حاجز کی باغیوں کے خلاف مہم طعیمہ بن عدی طفیل بن عبد اللہ بن سخبره 182 252 41 27 363 حضرت عائشہ کی کنیت ام عبد اللہ حضرت عائشہ لوگوں میں سب سے زیادہ آپ کو پیاری 435.394 تھیں اور مردوں میں اس کے باپ...حضرت عائشہ پر افک کے اتہام کی تفصیل 412،91 حضرت عائشہ قرآن حفظ کرنے والوں میں سے تھیں 436 حضرت عائشہ کا اپنے والد کی خلافت کے آغاز میں ابتلاؤں حضرت طفیل بن عمرو دوسی کا جنگ یمامہ میں شہید ہونا 233 کا تذکرہ کرنا حضرت طلحہ بن عبید اللہ پر قریش کے مظالم حضرت ابو بکر کی تبلیغ سے اسلام قبول کرنا آپ اُحد کے روز آپ کے ساتھ رہے آپ کے ہاتھ کا احد کے روز بیکار ہونا 24 407 425.82 83 456.234.179.140.137 حضرت عائشہ کا ام زمل کو آزاد کرنا اور اس کا مرتد ہو جانا 198 حضرت عائشہ کا آپ سے تیز تیز بولنا اور ابو بکر کا انہیں مارنے کے لئے لپکنا اور آپ کا بچانا 384 حضرت عائشہ کا حجرہ میں تین چاند گرنے کا خواب 406 آپ نے اُحد کے روز موت پر آپ کی بیعت کی 83 حضرت عائشہ کی حجۃ الوداع میں شرکت أحد كا روز تو سارے کا سارا طلحہ کا تھا 84 119 حضرت ابو بکر کا وفات کے قریب حضرت عائشہ کو ہبہ کی حضرت طلحہ بن عبید الله 158،98،23 ،358،322،232 ہو ئی زمین واپس کرنے کا کہنا ہوئی عشرہ مبشرہ میں سے تھے 398 436 361 قرآن حفظ کرنے والوں میں سے تھے آپ کا ابو بکر کی قبر میں اترنا طلیحہ بن خویلد عاتکہ زوجہ عبد اللہ بن ابو بکر 285.197.193.189.181 181.177.161.156 411 65 عاتکہ بن خالد ، ام معبد کا نام 381 99 حضرت عائشہ بنت سعد حضرت عباد بن بشر کی جنگ یمامہ میں شہادت عباد بن جلندی حضرت عباد بن حارث کا جنگ یمامہ میں شہید ہونا 233 225 248-240-238-237 352 77 عباد بن سعید حضرت عباس بن عبد المطلب حضرت عباس آپ کی وفات کے وقت پاس تھے 451
اصحاب بدر جلد 2 حضرت عباس کا ابو سفیان کو پناہ دینا 25 اسماء 108 | حضرت عبد اللہ بن ارقم کتابت کی خدمت پر مامور 367 حضرت عباس کا ابو سفیان کو گھائی میں روکے رکھنا 110 عبد اللہ بن اریقط 43 57 حضرت عباس کا بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر ہونا 38 عبد اللہ بن اریقط کا حسب وعدہ اونٹنیاں لانا سفر ہجرت میں عمومی راستے سے ہٹ کر آپ کو لے کر جانا 60 عبد الاسود بجلی حضرت عباس کا غزوہ حنین میں صحابہ کو پکارنا عبد الرحمن ، ڈاکٹر عبد الرحمن بن ابن ابی لیلی 113 299 حضرت عبد اللہ بن حارث بن قیس معما جنگ یمامہ میں شہید 233 154 حضرت عبد اللہ بن حذافہ کا کسری کی طرف خط لے کر جانا 272 406 حضرت عبد اللہ بن حذف 267-262 حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر 421،411،361،221،79 _ حضرت ابو بکر اور اہالیان مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے 277 بے بسی پر مشتمل اشعار کہنا عبد الرحمن بن ابی العاص حضرت عبد الرحمن بن عوف 103،74،23، 115، حضرت عبد اللہ بن حفص بن غانم 407-398-367-364-358-353-322-158 حضرت عبد الرحمن بن غنم عبد العزیٰ (عبد اللہ ذوالبجادین کا نام ) حضرت عبد اللہ ، ابو بکر کا نام عبد العزیز دہلوی، شاہ 98 117 207.205 4 حضرت عبد اللہ بن حنطب 259 218 396 حضرت عبد اللہ بن رواحہ غزوہ بدر الموعد کے موقع پر مدینہ کے امیر مقرر ہوئے 90 حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی جنگ موتہ میں شہادت 144 حضرت عبد اللہ بن زبیر ہجرت کے بعد پہلا پیدا ہونے والا بچہ 363 حضرت عبد اللہ کا احابث مقام پر جنگ کرنا 280 حضرت عبد اللہ بن زمعہ عبد الله (ام عمارہ کا بیٹا جو ) جنگ یمامہ میں شریک ہوا اور حضرت عبد اللہ بن سائب حافظ قرآن تھے اس کا مسیلمہ کے قتل میں حصہ دار ہونا 226 حضرت عبد اللہ بن شفیق 277 | حضرت عبد اللہ بن عباس عبد اللہ بن زیاد بن لبید) عبد اللہ ( عمرو بن عاص کا بیٹا ) عبد الله ( والد علامہ بن حضرمی) عبد اللہ ابن ابی بن سلول عبد اللہ بن ابو بکر عبد اللہ بن ابو بکر کا تعارف 248 410 436 435 77 76 69.41.8 451.436-433-404-385-272-212.123 254 حضرت عبد الله بن عبد اللہ بن ابی بن سلول 233 جنگ یمامہ میں شہید ہونا 252 حضرت عبد اللہ بن عثمان ( ابو بکر کا نام ) عبد اللہ بن ابو بکر کا غار ثور جا کر مکہ کی خبریں بتانا 56 90 233 15 334.228.223.220.136.124.111.87.10 362 363 حضرت عبد اللہ بن عمر 411 عبد اللہ بن عمرو بن عوف مزنی عبد اللہ بن ابو بکر کی اپنی بیوی سے محبت ، ابو بکر کا طلاق کا کہنا، پھر رجوع کی اجازت دینا 436-435-396-384-379 87 عبد اللہ بن ابو بکر کی غزوہ طائف میں شمولیت 425 عبداللہ بن عوف عبدی کے ابو بکر اور اہالیان مدینہ کو 112 مخاطب کرتے ہوئے بے بسی پر مشتمل اشعار کہنا 258 337.116.75.33.15 عبد اللہ بن ابو حدرد اسلمی عبد اللہ بن ابو عبد الله (عمرو بن عاص کی کنیت) 247 عبد اللہ بن قرط عبد اللہ بن ابی بن سلول کو بادشاہ نہ بننے پر غصہ اور اس کی حضرت عبد اللہ بن مسعود حضرت ابو بکر اور ان کے خاندان کے بارہ میں سازش 415 158،117 ،436،419،367،168،162 عبد اللہ بن ابی بن سلول، واقعہ افک کا بانی مبانی 92 عبد اللہ بن مطاع 330-245
اصحاب بدر جلد 2 حضرت عبد اللہ بن مقرن حضرت عبد اللہ بن وہب حضرت عبد اللہ ذوالبجادین بیلی عبد يغوث بن ہبیرہ عبید بن سباق عبید 26 161،159 | عرین 286-233-226 117 275 374 حضرت عفیف بن منذر عقاد عقبہ بن ابی معیط عقبہ بن حارث 202 حضرت عقبہ بن وہب عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ 272،212،211،73 عبیده بن سعد عتاب بن اسید عقبہ بن ربیعہ 316-277-269.153 اسماء 202 263 208 310-25.24.16 385 84 316-315 400.11 281 حضرت عقیل بن ابو طالب عکاشہ بن ثور کی حضر موت میں باغیوں کے خلاف کارروائی 269 41،3 حضرت عکاشہ بن محصن کی شہادت 197.192 295 حضرت عکرمہ بن ابو جہل حضرت عقبہ بن غزوان کے ہاتھوں اہلہ کی فتح حضرت عتیبہ بن نهاس 263 325-282-280-246240.182.181 حضرت عثمان بن عفان 311،115،103،74،73 ابو بکر سے ڈانٹ کھانا 435-385-377-367-364-363-361-358 239-238-215 حضرت علاء بن حضر میا کا تعارف 267،263،254 قبول اسلام جنت کی بشارت قرآن حفظ کرنے والوں میں سے تھے اسلام میں بچے امین تھے آپ کا بادشاہ بن جانا بحرین میں کارروائی باغیوں کے خلاف مہم 371-288-182 254 آپ کے معجزات 265،263،262،260،255 حضرت علی 180،158،50،46،38،36،26،24 23 407.398.397 436 458 442 440-385-376-367-364363.322.249 سب سے پہلے ایمان لانا اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کی ہوئی تھی 456 407.406.21 آپ نے وہ مصیبتیں نہ دیکھیں جو ابو بکر نے دیکھیں 459 - آپ کو عطا کر دہ چودہ نجیب ساتھیوں میں سے تھے 419 نیکوکار اور مومن اور آپ کی فوج کا ہر اول دستہ تھے 446 حضرت عثمان بن ابو العاص حضرت عثمان بن عامر ، ابو بکر کا نام 269 1 حضرت عدی بن حاتم 190، 191، 227،193، 296،290 عدی بن عدی حضرت عرفجہ بن خزیمہ کا تعارف حضرت عرفجہ بن ہر ثمرہ عروه عروہ ( خالد کا ان کے نام خط) عروه بن جعد حضرت عروہ بن زبیر حضرت عروہ بن مسعود 305 238 239 237 215.191 386.202.86 315 314 123 102.101.100 اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کی ہوئی تھی 456 وہ ہ مصیبتیں نہ دیکھیں جو ابو بکر نے دیکھیں 459 چند لوگوں کے ہمراہ ہجرت کے وقت مکہ رہنا 40 ہجرت کی رات حضور کے بستر پر لیٹنا 44 73 آپ کی مواخات آپ کے سپر د غزوہ بدرالموعد کے موقع پر جھنڈا ہوا 90 386-86-83.82 آپے اور غزوہ اُحد آپ کو غزوہ حمراء الاسد کے روز جھنڈا دیا جانا 87 آپ کو قریش کے لشکر کے پیچھے بھجوایا جانا 386 آپ اور بنو نضیر _ آپ اور واقعہ افک 88 93 آپ کا سورۃ توبہ کی ابتدائی آیات کاحج کے موقع پر اعلان کرنا، تفصیل 413.118
اصحاب بدر جلد 2 27 اسماء آپ کے ہاتھوں خیبر میں قلعہ قموص کی فتح ہوئی 105 گھر کا آدھا غزوہ تبوک کے موقع پر لائے 433،115 آپ کی غزوہ حنین میں ثابت قدمی آپ عشرہ مبشرہ میں سے تھے آپ قرآن حفظ کرنے والوں میں سے تھے _ آپ کی وفات کے وقت پاس تھے آپ کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہونا 112 _ نماز پڑھانے پر آپ کی ناراضگی 410.121 398 حضرت عمر کی آپ کی وفات کے وقت حالت غیر 436 451 128 456.126.124.123 آپ کی وفات کے بعد ام ایمن سے ملنا اور اُن کارونا386 حضرت عمرؓ اور واقعہ سقیفہ بنو ساعدہ آپ کا حضرت ابو بکر کی بہادری کا تذکر ہ 25 ،76، 425 _ حضرت عمر اور لشکر اسامہ آپ کا ابو بکر کی بیعت کرنا، تفصیلات آپ کا بادشاہ بن جانا علی محمد صلابی 134 442 429.128 149.147.145 حضرت ابو بکر کے دور میں مشاورت اور کردار 392-367-366-322-316-163.154 188،184، 208 _ حضرت ابو بکر کی بیماری میں نمازیں پڑھانا 360 ย 205-203 372 220 حضرت عمار بن یاسر 419،406،224،91،29 | _ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عمر حضرت عمر بن خطاب 3 ، 13 ، 23، 69، 76 ، 89، 108 ، _ حضرت عمر کا عمال کے محاسبہ کا طریق 294،277،251،232،228،197،117، 312،303، _ اپنے بھائی زید بن نفیل کی شہادت پر غم 436،423،419408،402،392،390،379 _ جنگ یمامہ کے بعد جمع قرآن کی طرف توجہ دلانا374 حضرت عمرؓ کے متعلق آپ کی رؤیا 136 ،412 حضرت ابو بکر کے زمانہ میں دارین کی جنگ ہوئی یا حضرت 397 398 عمر کے دور میں ، مؤرخین کا اختلاف ہے جنت کی بشارت حضرت عمر اور حضرت ابو بکر کی مؤاخات _ حضرت عمر اور غزوہ بدر الموعد 264 73 حضرت ابو بکر کے زمانہ میں معرکہ اجنادین ہوا یا عمر کے 89 دور میں ؟ اس کی بابت روایات 346 آپ کا غزوہ حمراء الاسد کے موقع پر مشورہ کرنا 87 حضرت عمر کے عہد میں دمشق کی فتح ہوئی یا ابو بکرڑ کے عہد اسیر ان بدر کے متعلق رائے حضرت عمر اور غزوہ اُحد 80 میں؟ اس بارہ میں روایات 85.83.82 358 حضرت ابو بکر کا وفات کے وقت حضرت عمر کی خلافت کی 88 بابت مشوره 358 حضرت عمر اور بنو نضیر کے دو مقتولوں کی دیت حضرت حفصہ کی شادی حضرت عثمان، حضرت ابو بکر سے حضرت ابو بکر کی وفات پر ان کے بارہ میں رائے 366،137 کروانے کا ارادہ حضرت عمر کا خندق کھودنا حضرت عمر اور صلح حدیبیہ 385 حضرت عمر کا حضرت ابو بکر کی قبر میں اترنا 97 387.103.100 361 حضرت علی کا حضرت عمر کو خراج تحسین پیش کرنا 385 حضرت ابو بکر و عمر کا حضرت سعد کی وفات کے وقت رونا 99 حضرت عمرؓ کے پاس مدینہ آکر ابو سفیان کا معاہدہ کی تجدید کسری کے کنگن کی پیشگوئی آپ کے ذریعہ پوری ہوئی 62 106 حضرت عمرؓ کے مناقب کا تذکرہ کے لئے ملنا اور ناکام ہونا حضرت عمر کو غزوہ خیبر کے دوران کتیبہ کے قلعوں کی 98، 156، 306، 364، 394 تا 396، 408، 421، 105 459.448.442.440.435 طرف بھیجا گیا حضرت عمر کا مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت اینٹ رکھنا 73 نیکو کار اور مومن اور آپ کی فوج کا ہر اول دستہ تھے 446 کارواں کے امیر ، ان کی خلافت میں ہونے والی ترقیات 449 حضرت عمر کا مر الظہران میں پہرہ دینا حضرت عمر کی غزوہ حنین میں ثابت قدمی 108 112 اسلام میں بچے امین تھے 458
اصحاب بدر جلد 2 28 اکابر صحابہ میں سے تھے ، ادا ئیگی حق میں کو تاہی نہ کی 448 | احسان، صحابہ کا اجماع مستشرقین کا ابو بکر و عمر کی تعریف میں مبالغہ کرنا حالانکہ مینی ( دیکھئے بدر الدین عینی) وہ دونوں آپ کے وفادار ، کامل متبع تھے 438 اسماء 127 عیہلہ بن کعب بن عف عنسی (اسود عنسی کا نام) 271 حضرت عمرو بن حزم کو اسود کا نجران سے نکالنا 274 عیینہ بن حصن کا تعارف حضرت عمرو بن حزم کے خلاف بغاوت 286 190 عیینہ بن حصن کو بطور اسیر مدینہ بھجوایا جانا اور ابو بکر کا اس عمرو بن حضرمی پہلا مشرک جس کو کسی مسلمان نے قتل کیا 254 کی جان بخشی کرنا 196 حضرت عمرو بن سعید کی حبشہ کی طرف ہجرت 250 عیینہ کا طلیحہ کی جنگ میں مدد کرنا، اور اپنی قوم بنو فزارہ کو حضرت عمرو بن عاص 181 ، 196 ، 226، 237، 238، لے کر پھر الگ ہو جانا، اس کی تفصیل 394-371-346-342-341-336-331-246 حضرت عمرو بن عاص کا تعارف.آپ کی سر کر دگی لشکر شام کی روانگی آپ کی باغیوں کے خلاف مہم آپ کا 247 333 247 عمروبن و پورے ھر انہ کو بہترین گھرانہ قرار دینا 248 عمرو بن عدی عمر و بن عوف عمرو بن معدی کرب کا تعارف 305 305 69 274 غرور 194.193 259 حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلاة والسلام 437-384-383-143-79-56-55-54.47.36 حضرت ابو بکر کی انکساری، مسکینی، عفو و در گزر کا ذکر 418 حضرت ابو بکر کے بڑھیا کو حلوہ کھلانے کا تذکرہ 424 حضرت ابو بکر کی خلافت کا وقت خوف اور مصائب کا تھا 234 حضرت ابو بکر کے دور میں جمع قرآن کا ذکر 378 حضرت ابو بکر کے زمانہ کے ارتداد و بغاوت کا ذکر 168 حضرت ابو بکر کے عہد میں ارتداد کو بغاوت قرار دینا 178 یمن میں گرفتاری اور ابو بکر کے سامنے لایا جانا 278 حضرت ابو بکر کے فہم قرآن اور مسجد کی کھڑکی 403،402 اسود عنسی کی باقی ماندہ جماعت کی قیادت قیس بن مکشوح گھر کا سارا مال لانے والے واقعہ کا ذکر اور عمرو بن معدی کرب کر رہے تھے منی ( دیکھئے اسود عنسی) حضرت عویم بن ساعدہ عویم بن کاہل اسلمی عیاد (عباد بن جلند ی کا نام) حضرت عیاض بن غنم 463 128 313 238 317.315 434 حضرت ابو بکر کی یوشع بن نون کے ساتھ مشابہتیں 139 ارتداد کی سزا قتل کے عقیدہ کی نفی 175 آپ کی تحریرات کی روشنی میں حضرت ابو بکر کے اخلاق فاضلہ کا تذکرہ آپ نے ابو بکر کو آدم ثانی کا لقب دیا آنحضرت اور ابو بکر پر مظالم کا ذکر آنحضرت کے ابو بکر کو صدیق کہنے میں حکمت 4630445 8 26 6 39 آپ شمالی عراق کی طرف بھجوائے گئے آپ کو دومۃ الجندل جانے کا حکم 308 289 آنحضرت کی اجتہادی غلطی کا ذکر آپ کو دومۃ الجندل میں بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا 312 _ آنحضرت کے فرمان 'اگر میں خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا، آپ کی سست روی سے حضرت ابو بکر کا تنگ آنا 311 کی حضرت اقدس کے الفاظ میں تشریح عیاض، قاضی عیسی علیہ السلام ( نیز دیکھئے 'مسیح ابن مریم) 154 ثانی اثنین کی تشریح 9 184 7 باغیوں کے خلاف ابو بکر کے خط کا ذکر حضرت علی کے حضرت ابو بکر کی بیعت کا ذکر فرمانا 135 عیسی کا اپنی رفات کے لئے دھوما کو اختیار کرنا 54 ابو بکرم کا عیسی کی وفات کے حوالہ سے امت پر بہت بڑا لشکر اسامہ کے بھجوائے جانے کی تفصیلات کا بیان 148
اصحاب بدر جلد 2 29 اسماء وعیدی پیشگوئی تو بہ ،استغفار، دعا،صدقہ سے ٹل جاتی ہے 96 قیس بن عاصم کا اپنے قبیلہ کے ساتھ علاء سے جاملنا260 وفات مسیح کے حوالہ سے صحابہ کا اجماع اور امت پر ابو بکر خالد کے بنو حنیفہ کو زیر کرنے پر قیس بن عاصم کا سر تسلیم خیم کرنا اور اپنے قبیلہ بنو تمیم سے زکوۃ اکٹھی کرنا 260 کے احسان کا تذکرہ ابو بکری فطرت کی وضاحت فرمانا صحابہ کی مالی قربانیوں کا تذکرہ 127 20 116 قیس بن عبد یغوث اور اسود میں رنجش قیس بن عبد یغوث کی یمن میں بغاوت حضرت علی کے ہجرت کے وقت آپ کے بستر پر لیٹنے کا ذکر 45 _ دادویہ کے قتل کی سازش کا الزام قیس بن مکشوح فق، ک 275 276 278 270.181 فاطمہ بنت ربیعہ (ام قرفہ کا نام) 197 قیس بن مکشوح کی یمن میں گرفتاری اور ابو بکر کے سامنے فجاءہ کا ارتداد اختیار کرنا، مسافروں کو لوٹنا، طریقہ کو اس کی لایا جانا 278 طرف بھیجنا اور اس کا آگ میں جلایا جانا 254،253 اسود عنسی کی باقی ماندہ جماعت کی قیادت قیس بن مکشوح 191 اور عمرو بن معدی کرب کر رہے تھے محل الاکبر (ابو بکر کی کنیت) فرعون کی آل میں سے ایک شخص کا ذکر 26 قیس بن ہبیرہ کے متعلق ابو بکر کی وصیت 463 332 443.54 موسیٰ کا سمندر پار کرنا اور فرعون کا غرق ہونا 266 قیصر | حضرت فضل بن عباس کی غزوہ حنین میں ثابت قدمی 112 قیقار بن نسوط کی 60 ہزار کی فوج کے ساتھ چڑھائی 335 فیروز فیروز کا وفاداری کی اطلاع ابو بکر کو دینا قارن کا ہر مز کی مدد کے لئے آنا قباذ حضرت قتادہ بن نعمان قتادہ بن نعمان لشکر اسامہ میں شامل تھے قتیلہ بنت عبد العزیٰ قرطبی (دیکھئے ابو عبد اللہ قرطبی) قرطبی، علامه قرفه 275 443-272-270-255-37 277 کسری کے خزانوں کا مسلمانوں کو ملنا اور سراقہ کو کنگن 296 296-293 75 145 362 28 197 پہنائے جانا حضرت مثنی ابن حارثہ کا کسری کی کمر توڑنا 64062 38 منذر بن نعمان کو کسری کا بحرین کا بادشاہ بنانا 256 کعب بن عجرہ کی جنگ یمامہ میں بہادری کعب (راوی) کعب بن سعد بن تیم بن مرہ کعب بن عمر ومازنی کعب بن مالک كلثوم بن الهدم ل، م، ن، و، هه ی لبینہ بنت حباب قرہ بن ہبیرہ کو بطور اسیر مدینہ بھیجوایا جانا اور ابو بکر کا اس کی کلبی جان بخشی کرنا قسطلانی، علامہ قصی بن کلاب قعقاع بن عمر و تمیمی 195 74 41 316 315 314.308 14 15 227 99 9 203 69 249 قعقاع بن عمرو کا ہر مز کے دفاعی دستہ پر حملہ 293 لقمان (نعمان بن جون کا بیٹا) کا وفد کے ہمراہ آپ کی قعقاع بن عمرو کو بطور کمک عراق بھجوایا جانا 290 خدمت میں آنا، ہمشیرہ کی شادی کی درخواست کرنا.243 قیس بن عاصم 264 حضرت لقمان قیس بن عاصم کا ایجر کو لہولہان کرنا 263 لقیط بن مالک از دی کی عمان میں بغاوت 262 238
اصحاب بدر جلد 2 30 القط بن مالک کا مسلمان لشکر سے مقابلہ 239 240 پہلے کون ایمان لایا؟ اس پر نوٹ لیلی ام تمیم لیلی بنت سنان مهنال لیلیٰ بنت صخر ، ابو بکر کی والدہ کا نام لینن 236 اسماء 21 آنحضرت سے عقبہ بن ابی معیط کا بدترین سلوک اور 207 حضرت ابو بکر کی جانثاری 1 442 25.24 آنحضرت کے ارشاد پر مسلمانوں کی حبشہ کی طرف ہجرت 30 آنحضرت اور شعب ابی طالب 32 حضرت مالک بن اوس کا جنگ یمامہ میں شہید ہونا 233.آنحضرت کی چار پیشگوئیاں جو بڑی شان سے پوری ہو ئیں 33 جنگ یمامہ میں پہلے مسلمان شہید مالک بن عوف نصری مالک بن قیس 223 112 آنحضرت کا مختلف قبائل میں تبلیغ کے لئے جانا 36 آنحضرت اور بیعت عقبہ ثانیہ 38 299 _ آپ کے اسراء کی طرف ہجرت کا سفر بھی اپنی مرضی 427 مالک بن نویرہ 236،220،217،205،203،181 سے نہ تھا آپ کی وفات کی خبر سن کر مالک بن نویرہ کے قبیلہ کی آپ کے قتل کا مشورہ اور قریش کا دارالندہ میں اجتماع 40 عورتوں کا مہندی لگانا، ڈھول بجانا اور خوشی کا اظہار کرنا 199 _ آپ کے سفر ہجرت کی تفصیلات مالتكوف ماوردی، علامه متمم بن نویرہ 442 208 220 69038 آنحضرت کا قبا 14 روز کا قیام اور مسجد کی بنیاد رکھنا 69،67 آپ کی مدینہ آمد ، رہائش، پہلا جمعہ، مسجد نبوی کی تعمیر 70 تا73 آنحضرت کا زید کو اہل کو مکہ سے لانے کے لئے بھیجوانا 72 متم بن نویرہ کا ابو بکرؓ کے پاس اپنے بھائی کے قصاص کا _ آپ کا سو صحابہ کے درمیان مواخات کرانا 74 مطالبہ اور قیدیوں کی رہائی کے لئے آنا حضرت مثنی ابن حارثہ 204 آنحضرت اور غزوہ بدر آنحضرت اور غزوہ احد 306،304،295،290،288،38،37 _ آنحضرت اور غزوہ حمراء الاسد مثنی ابن حارثہ کا بحرین میں ارتداد کی آگ بجھانے میں بڑا آنحضرت اور غزوہ بنو نضیر 264آنحضرت اور غزوہ بدر الموعد کردار تھا 74 81 87 88 89 مجاعه بن مراوہ 223،218،216، 235،230،229 236 آنحضرت اور غزوہ بنو مصطلق اور واقعہ افک 91 محکم (بنو حنیفہ کا سر دار ) محکم بن طفیل حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم آنحضرت کا اجیاد مقام پر بکریاں چرانا 221 228 249 آنحضرت اور غزوہ احزاب آنحضرت اور غزوہ بنو قریظہ آنحضرت اور صلح حدیبیہ آنحضرت اور غزوہ خیبر 97 98 173.100 104 73 107 12 غزوہ خیبر سے واپسی پر مسجد نبوی کی توسیع آنحضرت کی معاہدہ حلف الفضول میں شرکت یمن میں ایک شخص کا کہنا کہ ایک نبی دعوی کرے گا.15 آنحضرت اور فتح مکہ حضرت ابو بکر کی آنحضرت سے دعوی سے قبل دوستی 12 _ آپ کا سورۃ براۃ کی ابتدائی آیات کے نزول پر حضرت آنحضرت کا دعویٰ اور حضرت ابو بکر نیا فوراماننا 14 علی کو حضرت ابو بکڑ کے پیچھے مکہ روانہ کرنا 419،118 آنحضرت کا دعویٰ نبوت اور قریش کے سرداروں کا آنحضرت کے حجۃ الوداع کی تفصیلات حضرت ابو بکر کے پاس آنا 16 لشکر اسامہ کی روانگی کی تفصیلات آنحضرت پر مردوں، بچوں اور عورتوں میں سب سے _ آپ کا مرض الموت میں اپنے سے کسی چیز کو ہٹانا جو 119 144
اصحاب بدر جلد 2 دراصل دنیا تھی...تقبسم فرمانا 394 31 اسماء آپ کا اکیدر پر احسان کرتے ہوئے اسے چھوڑنا اور اس کا آنحضرت کا آخری بیماری میں صحابہ کو نماز پڑھتے دیکھ کر بد عہدی کرتے ہوئے بغاوت کرنا 313 122، 410 _ آنحضرت کا وحشی سے فرمانا کہ کیا ممکن ہے کہ تم میرے 223 آنحضرت کی دو جھوٹے مدعیان نبوت کے بارہ میں رویا آپ کی آخری بیماری اور ابو بکر 121 ، 395، 433،409 سامنے نہ آؤ؟ اس کی تشریح آپ کا فرمانا اللہ نے اپنے بندے کو اختیار دیا.401 آنحضرت کی وفات، ابو بکر کا بوسہ، اجماع صحابه...123،4 اور ان کی تاویل 271.212 آپ کی وفات، ابو بکر کا بوسہ دینا، آپ کی تدفین 451 450 آنحضرت کی بعثت کی بابت ابو بکر کے خواب 15،14 401 _ آپ کے خواب اور ابو بکر کا ان کی تعبیر کرنا 405 آپ کی وفات پر ابو بکر کے اشعار آنحضرت کی آخری بیماری اور ابو بکر نما نمازیں پڑھانا 121 آپ سب سے بڑے مجبر تھے آپ کی وفات پر ارتداد اور صرف دو مسجدوں کا ہونا 458 _ آپ کا گورنر مقرر کرنے کا طریق آپ کی وفات کے بعد ارتداد، تفصیلات آپ کا یمن کو سات حصوں میں تقسیم فرمانا 127، 153 ،172، 177 ، 199، 281،269 _ آپ کو عطا فرمودہ چودہ نجیب سا تھی آنحضرت کی وفات پر صرف تین جگہ باجماعت نماز ہوتی _ آپ کے زمانہ کے حفاظ صحابہ 404 370 268 419 436 166،164،163 _ آپ نے اسامہ کے جھنڈے کی گرہ لگائی، وہ ابو بکڑ نے نہ آپ کی وفات کے بعد ابو بکر کی خلافت پر مسلمانوں کا کھولی، بعد میں وہ اسامہ کے گھر میں رہا 127 آنحضرت کی اسمان کو جنت کی خوشخبری اتفاق، سقیفہ بنو ساعدہ کی تفصیلات آنحضرت کی وفات کا ابو بکر و غم آنحضرت کے تبلیغی خطوط _ آپ کا حاکم بحرین کی طرف خط 151 58.47 142 _ آپ نے پچاس کے قریب صحابہ کو جنت کی خوشخبری دی398 210 آپ کے عزم، توکل کی دلیل، غار ثور کا واقعہ 439 آنحضرت کا جنگوں کے دوران شادی کرنا 208 254 آپ کا کسری کی طرف خط 272.آپ جنگ میں فتح کے بعد کھانا فوج میں تقسیم کر دیتے 303 مسیلمہ کا مدینہ آنا اور آپ سے ملاقات کرنا، تفصیلات 210 آنحضرت کی رومیوں کے فارس پر غلبہ کی پیشگوئی 33 آپ کی وفات کے بعد مسیلمہ کے ارتداد کی تفصیل 213.آنحضرت کی قتل کی سازش ام قرفہ کی جانب سے 198 _ آپ کے سفیر کو مسیلمہ کا قتل کرنا 214 آنحضرت کی نوفل بن عدویہ کے شر سے بچنے کی دعا 24 آنحضرت کی نظر میں ابو بکر کا مقام و مرتبہ 136،9،6 محمد بن ابو بکر کا تعارف 394،383،380تا411،397 417 _ حجۃ الوداع کے سفر میں محمد بن ابو بکر کی پیدائش 120 متفرق 363.362 10 435.404.380.311.11 محمد بن حسین ہیکل آنحضرت کے دعویٰ کے وقت ابو بکر کے پاس آکر محمد بن سیرین لوگوں کا کہنا کہ یہ شخص دیوانہ ہو گیا ہے.....17 حضرت محمد بن مسلمه هما بنو نضیر کو مدینہ سے نکلنے کا کہنا 88 آنحضرت نے محض نبوت کے دعونی پر کسی کے خلاف آپ کے سپر د خیبر میں ایک قلعہ کو فتح کرنے کی ذمہ کوئی کارروائی نہیں کی 285 داری ہوئی آپ کی جویریہ بنت حارث سے شادی 208 محمد بن موسی خوارزمی آپ کا اسماء کی والدہ کو مدینہ گھر آنے اور ان کا ہد یہ قبول محمد حسین ہیکل 362 محمود بن لبيد کرنے کا ارشاد 105 57 46 230
اصحاب بدر جلد 2 32 اسماء مرزبانہ، شہر بن باذان کی بیوی جس سے اسود نے شادی کی 275 _ مسیلمہ کذاب کے بارہ میں آپ کی رؤیا 272،212 مروان کا صحیفہ صدیقی کو ضائع کرنا مسیلمہ کذاب کی سجاح سے شادی، اس کی تفصیل 201 مستورد بن شداد 379 372 - مسیلمہ کی مدینہ آمد 285 212 211 210 حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ.مسلیمہ کے ساتھ ایک لاکھ لوگوں کا جامنا 459،179 مسیلمہ کے مقابلہ کے لئے خالد کی یمامہ روانگی 209 تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت ابو بکر نے یزید کو جو نصائح لشکر کی روانگی کے وقت کیں.مسلمہ کے قلع قمع کے لئے بھیجی جانے والی مہم 188 مسیلمہ کا حبیب بن زید گو شہید کرنا 286،233،214 مسیلمہ کا میدانِ جنگ سے ایک باغ میں بھاگنا اور وہاں ان میں ہر لیڈر، عہدیدار کے لئے مکمل لائحہ عمل ہے 329 حضرت اسمان کا غار ثور روزانہ کھانا لانا اور اس پر حضور انور اس کی ہلاکت مسیلمہ کے قتل میں حصہ دار کی رائے 56 221 222 پاکستان میں احمدیوں پر نماز اور قرآن پڑھنے پر سخت سزا حضرت مصعب بن عمیر آپ کو عطا کردہ چودہ نجیب کا ذکر فرمانا 32 ساتھیوں میں سے تھے 419 حضرت خالد پر وحشت و بربریت کے الزام کی نفی 309 حضرت معاذ بن جبل 367،364،280،276،274،75 حضرت خالد کی ایک جنگ میں دعا اور قیدیوں کے قتل میں مبالغہ کی بابت وضاحت 301 امیر معاویة معتمر シ خلافت کی برکت ہے کہ شریعت کو قائم کرنے کی کوشش معقل بن اعشی کرنی چاہئے ، خلیفہ وقت پوری کوشش کرتا ہے 163 معمر ( حطم کا قاتل) حضرت علاہ کے اونٹوں پر سمندر عبور کرنے کے بارہ میں حضرت معن بن حاجر رائے 267.266 340-327-202.24 421 296.295 263 252 حضرت معن بن عدی 228،219،128، 229، 233 مستشرقین کا ابو بکر و عمر کی تعریف میں مبالغہ کرنا حالانکہ مغرور ( منذر بن نعمان کا نام ) وہ دونوں آپ کے وفادار ، کامل متنبع تھے ہجرت کے لئے حضور کب نکلے، ان پر محاکمہ 438 47 مفروق بن عمرو 177 37 مفروق شیبانی کے مقابلہ کے لئے اسلامی فوج کا جانا 263 ہم میں حقیقی ایمان ہو گا تو دنیا میں حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا مقاتل سکیں گے اور کامیاب ہوں گے 165 حضرت مقداد وادی را نو ناء میں آپ نے جس مسجد میں جمعہ ادا کیا ہو سکتا مقرن بن عائذ ہے بعد میں یہ مسجد بنائی گئی ہو مسروق مسروق علکی حضرت مسطح بن اثاثہ مسیح ناصری (نیز دیکھئے (عیسی) 70 363 269 95 264 34 210 419.75 268 261 256.254 260-256259.177 منجاب بن راشد منذر بن ساوی منذر بن نعمان بن منذر حضرت مہاجر بن ابو امیہ 284282،280،270،243 حضرت مہاجر بن ابو امیہ کو عنسی کے مقابل بھیجا جانا 181 ایک عورت کے دانت اکھٹروانا اور ابو بکر کی سرزنش 372 مسیلمہ بن ثمامہ 272،241،230،221،210،161،154 | حضرت ام سلمہ کا آپ سے اپنے بھائی حضرت مہاجر کی مسیلمہ کا ارتداد، نبوت کا دعویٰ اور بغاوت کرنا 458.285.213.177 سفارش کرنا مهران بن بہرام ، عین التمر کا حاکم 270 310
اصحاب بدر جلد 2 مودودی، مولانا موسی بن اسماعیل موسیٰ بن نصیر 33 285 بذیل بن عمران 421 ہذیل کا بھاگنا 311 ہرثمہ اسماء 315 316 238 حضرت موسیٰ علیہ السلام 14، 18، 141،140،139 ہر قل356،352،347،342،337،335،334،288 حضرت موسیٰ کا سمندر پار کرنا اور فرعون کا غرق ہونا، ہرمز 296 292-289 معجزہ کی تفصیل نابغه (شاعر) نابغہ بن حرمله نادرشاه نافع نپولین نجیبہ بن ابو یشاء نصیر نعمان بن جون نعمان بن شریک نعمان بن مقرن 266 ہلال بن عقہ 316 41 247 442 195 442.266 253 311 243 37 حضرت ہود کا وادی عسفان میں تلبیہ کرتے گزرنا 120 واقدی و بر بن بجنس وبره بن یجنس وحشی کا اپنا اُحد والا واقعہ تفصیل سے سنانا 105 275 275 222 وحشی کے بقول جنگ یمامہ میں تین مرتبہ مسلمانوں کے قدم اکھڑے 224 آنحضرت کا وحشی سے فرمانا کہ کیا ممکن ہے کہ تم میرے 223 268.161.159 سامنے نہ آؤ؟ اس کی تشریح ودیعہ، کلب کا سردار و کسیع ( بنو تمیم کا سردار) نعیم کو ابوسفیان کا مسلمانوں میں بے چینی پیدا کرنے کے وردان 313 352 351.345.344 لئے مدینہ بھیجنا اور اس کا ناکام ہونا نمیری نہدیہ کو ابو بکر نے آزاد کروایا نوار ( طلیحہ کی بیوی) 90 217 408.28.27 194 حضرت شاہ ولی اللہ ولید بن عقبہ ولیم میور، سر 201-200 33 371 325 312.311 439.23 444.443 حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح الاول یزید بن امیر معاویہ) حضرت ابو بکر کی قربانی اور خلافت عطا ہونے کا ذکر 136 یزید بن ابو سفیان 340،336،335،327تا369،342 آپ کی زندگی میں پیغامیوں کا حضرت مصلح موعودؓ پر حضرت یزید بن ثابت کا جنگ یمامہ میں شہید ہونا 233 حضرت یزید بن قیس کا جنگ یمامہ میں شہید ہونا 233 اعتراض کرنا خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں نوفل بن حارث، آپ کے چچازاد نوفل بن عدویہ نووی 413 417 112 24 4 يشوع بن نون ( دیکھئے یوشع بن نون ) حضرت یوسف علیہ السلام 409.121.95.33.9 یوشع بن نون کے ساتھ ابو بکر کی مشابہتیں Andre Servier H.G.Wells حضرت ابو بکر میں حضرت ابو عبیدہ کے پاس جاملنا اور باشم بن عقبہ کا شام J.J.Saunders ہانی بن قبیصہ ہبیرہ بن عبد يغوث Sir William Muir 338.337 Sprenger | 37 T.W.Armold Thomas walker Arnold 275 139 437 438 438 439 23 439 152
اصحاب بدر جلد 2 34 مقامات ابرق مقامات 285،161،157 باب شرقی الله 295.294.289 اپنی 153.151.145 بحر ہند بحرین 347 215 <237.235.38 امین اجاء 281.242 193.191 260-259.258.257 256.255.254.239 393.371 291.289.288.264 اجنادین 335، 341 342 343، 346، 347، بحیرہ عرب 355-352 351.348 بدر اجیاد احد ( پہاڑ ) 249 | بدر الصفراء 397 برگ الغماد احد الاحساء احمر ( بحیرہ) اخابث...طريق الا خابث اردن ارک اعلاب افریقہ افریقہ (شمالی) اليس امارت امریکہ امغيشيا انبار انطاکیہ اوطاس ایران 87.86 254 266 280 144.44 193 280.269 175 311.152 319.303-299 288.254 463-274 319.304.303 بزاخه بشر بصره بصری 237 386-91.90.89-78-7775 74 89 75.30 190 188 161 225 209.198.196.193.192.191 316-315 293 290 260.255 316 311 298.297.295 351 343 342.341.331.198 بطاع 216،205،202،199،190،188،181 بغداد بلقاء بنو اسد بنو کلب بنویر بوع بنی اسد 319،314،311،310،308،309،299 | بیت العتیق 335 336 بیت اللہ 100 ، 101 ، 420،387،120،118،102 314.308 335-332-331.153.145 199.188 181.161 194 200 285 121 112 بیت المقدس 35 ، 63، 64، بزار میں 272،260،257،256،175،152، 288،287،273، پاکستان 441-319-318-307-298-297-292 ایشیا ایشیائی ساحل باب تو ما 103 35 356 شبوک تهامه 427.6.5 396 32 419-331-145.117.115 325-324-251 269-268-182 316
اصحاب بدر جلد 2 ثمنية العقاب جابیہ جابیہ (باب) جار جبل ثور جرف جذام الجزيرة الجيريا 35 341 335-332 47 حنین ين حوران 89 حوشیہ حیرہ 53 149.147 146 145 248 317 437 مقامات 249.181 112.111.62 315 194 297 289 256.255 308 307 306 305 304 303 <299.298 374-373-319-318-317-315.314.311 حيفاء خط جزيرة العرب 314،200،199،192،183،182،177 | خلیج فارس 335 235 جزیره 316.202 جعرانہ جحفہ 114،62 | خنافس 81،59 | خورنق 297 294-288-266-264-254.240.237 315.314 304 جوائی / جواثا 258 259 | خیبر 191 190 106 105 104.97 جیروت 241 دار ارقم 362.3.2 چین 174 175 | دار الندوہ جبشه حجاز 362،250،245،30، 407 | داروم 352،114 | روم 41.40.12 145 459.441 حجاز ( حديديه حديقة الموت 106 173.114 221 دارین 288-267-266-265-264-263-254 وہا دجله حديقة الرحمن 221 دجله (دریا) حرا( پہاڑ ) 398 دریائے عقیق 241.240.239.237.181 307.298 288 304 حرة الوبره حرم حرہ واقم اس کو حرہ بنو قریظہ بھی کہتے ہیں حصید 67 15 67 67 315.314 دریائے فرات 319،318،317،304،293،288،256 دمشق دومۃ الجندل 319،317،314،313،312،311،289 دھنا 334 331.327325.315.312.145 358 355-353351-348-347.3430341 حضر موت 181، 215، 240، 242، 243 ، 245، 254، ذروه 373،371،284،282،281،280،277،275،274،270 ذفران حفیر حمراء الاسد 293،292،290، 298 | زواحسی 88 ذوالحلیفہ 265.262.260 190 75.74 161.158 120 حمص 357،351،350،347،342،335،334،331 | ذوالقصہ 285،190،182،180،161،160،159،157
مقامات 36 326 146 65 158.157 240-238 317.316 174 316 308 311 254-210 334 232 249 74 <268 242 <233 286-281-280-276-274-272-271.270 281 118 161.114.111.62 373-370-363-278-273.222.194 صحرائے عرب مرار صفا پہاڑ ) صفراء صنعاء مهید (صحرا) ضحنان طائف اصحاب بدر جلد 2 ذوالمروه ذی خشب رائغ ربزه رجام رضاب روس زمیل ساباط سپین سعودی عرب سقیفہ بنی ساعدہ سکاسک سکاٹ لینڈ سکون سلمی سميراء خ سندھ سواد سواد عراق سیف البحر 144،134،133،132،130129،128،127 | عارض 157 198.197 216 67 280 256 <284 275 235 200 197 106.24 270 439 عالیہ 281،270 | عدن 193.191 عراق <299 298 297 294 292 291 290 289.288 191.189.161.157 316 314 313-311-310-308-307-306-303 394-373-371-341-340-323-320.319.317 37 36 35 34 <31 <29 عرب 130.112.89.80.79.75.67.63.54.44.41.38 147.145.144.142 141 140 135.133.131 365 362.191.123.72 294 303 307 292.168.166 165 164 163.153 152 151.148 شام <215.208.203.200.199.184.180.178.177 146 145 144.115.74-66-3521 20.15.14 <259.257 256 248 246 244 243 233 219 249 247 245 198.194.181166.153.152 <294 289 288 287 286 285 279 273 272 314 312.307.289 288 287 284.252.251 <327 322 320 319 318 317.310-307-299 325 324 323 322 321 320 319.317.316 <399.392-378-377-368-354-349-335-332 339 338 337 335 333 332 331 330.327 459.441.440.438.432.431.400 459-438-373-371-369-352-347-342.341.340 119.118 111 119 عرج عرفات عرفه 424-32 240-239-237 310.106 شعب ابی طالب صحار صحرائے شام
اصحاب بدر جلد 2 عسفان عقرباء عمان 37 120 218 مقامات قناة بصری مفسرین 341 335 181، 215، 226، 237 238، قیساریہ 335-248-247-246-242-241.240.239 کاظمہ عین التمر 319،315،313،312،311،310،308 کتیبه 22، 51،50،49،47،46،43، كداء غار ثور 455.428.427.59 58 57 56.54.52 190 145 190 غارب غره غطفان فارس کسکر 335 293-292-291 106.105 111 298.297 <11.5.3 419.387 117.111.103 102.49.32.26.16 کنده 33، 34، 210،35، 272، کوفہ 350-337-336-335-321-319-318-287 کوه و داع فرات (دریا) 319،318،317،304،293،288،256 کو رضوی (مدینہ کا ایک پہاڑ) فراض فرج الهند فرع قلیائن فلسطین قبا (مسجد) قبا قدید قراقر 319 318 317.316 289 91 174 341-335-334.247.145 396.72.69 مأرب 373-371-282-281-280-271.245 314-308-298.291.289.277 71 452 242 279 255 332 281.274 240-237 314.308.297 69،68،67،66،44، 71 متحدہ عرب امارات 65 341 مدائن قسطنطنیہ قصر ابن بقيلة قصر ابيض قصر عد سیتین قصر بنی مازن قضاعه قلزم (بحیرہ) قلع قموس 63.60.59.58.5755-54-44.42.40.39.38.11 81 80 74 73 72 71 70‹‹69 ‹68 -67‹66-64 105 104 100.97.92 91 90 89.88.87.86 133.126 125.120.118.117.109.108.106 152 151 150 148 147 146 145.138.136 164 163.161.160.159.158.157.154 153 182 180 178 177 176.173 172 167 166 201 200 199 198 197 196.190.189.183 233 232.220.213 212 211 210 205 204 <247 246 245 244 243 239 238 237 236 258 257 256 255 254 253 251.249248 <284 282 280 277 276 274 273 263 260 313 312 311.297 294-289-288-286-285 35 305 304 304 304 333-247-246-216.182.181 288.254 264-258 315 268 105
مقامات 38 اصحاب بدر جلد 2 241.107 106.104 +363 362 358.340.333.326 325 324 323 372-279-278-277-276-274.271 01 419-415-392-389-385-379-373-370-365 158 194 233.231.39.38 محل ہجر 286-264-263-262-261-258-257-256 439-294-292.256.175 89 247-246-198.151.145.115.104 70 298.297 38 141 ہندوستان وادى الصفراء وادي القرى وادی رانوناء ولجه یثرب پردن (دریا) یمامہ 38، 39، 182، 201، 214،213،210،209،202، <233 232.231.227.226.225.223.219.218.216 <260.254.248 247 246 245-240-239-236-235 453.433.430.426.421.420 247-246 296-295 109 91 5 مدائن صالح مذار مرة الظهران مریسیع مسجد اقصیٰ 25.24.17.2 مسجد حرام 98 127.73.72.69.11 مسجد صدیق مسجد نبوی 421 409-400-365-204-151.143.128 240-237 363-335-266.247.145 316.315 مسقط مصیخ مکه مکرمه 374-316-292-291-288-290-286-285-272-271 106 38.30-16.15 یمن 217.233.215.212.210.182.181.177.161 <270 269 268 254 251 245 242 241 240 33.32 31 30 24.20.18.16.15.14.13.10.2 52.50.49.47 46 45 44 43 42.40.39.38.35 67.66.65.63.62 61 60 59 58 57 56.54.53 91.90.89.88.87.86.81.80.75.74.73.72.68 110.109.108 107 106 104.102.100.97 280 279 278 277 275 274 273 272 271 133.130.118 117.115.114.113.112.111 373 325-324-286-285-284-282-281 407.378.175.23 152 152 152 152 یورپ Northern Africa Persia 189 166 163.161.157.153.148.136.135 <260 250 249 247 245 222.197.194.190 292 290 281 280 278 277 273-269-268 386 381 379 373 363 362.327 326 325 <430-428-420 419 409 408 400 389 388 446-445-441-440-434-433.431 Syria Ubna 87 92 420.118.36 ملل مناصح منی 167.144 295 281-242-241-240-239-238-215.181 291.201 موتہ میسان نباج
کتابیات 130.107.69.24.15.2 39 کتابیات سیرت حلبیہ 252 252.23.17.15 اصحاب بدر جلد 2 استیعاب اسد الغابہ اصابہ، صحابہ کی سوانح پر ایک مستند کتاب 4 سیرت خاتم النبيين" انسائیکلو پیڈیا آف اسلام تاریخ ابن خلدون 152 285 شرح الزرقانی 406.103.82.72.62.53.52.45.32.23 48.14 375 شرح السنة حیح بخاری 4 تاریخ الخلفاء تاریخ طبری 58.57.43.38 34 33 31.30.17.10.8.7 101.96.91.86-85-74.70 69 68.67.66 223 212 211.177.172.155.122.102 392.389.386 ‹274 272 271.258.243 437-412-398.395 398.114.104 206 379.378.159.157.156.134.132.131.107.10.4 <238 207 204 196 195 177 176.160 360 343 301 291 281 269 266-251 372.371 205 392 46.10 صحیح مسلم 46 صحیح مسلم بشرح النووى صحیفہ صدیقی تحفہ اثنا عشریہ تفسیر کبیر حضرت ابو بکر صدیق (بیکل) دلائل النبوه للمبيحقى یہ تفسیر القرآن دیباچه 104.6.4 206 7 212.42 172 170 46 410 طبقات الکبریٰ طبقات فحول الشعراء عمدة القاری 274-251 14 17 110.14 184،168،184،148،8 | فتح الباری قتل مرتد اور اسلام قرآن کریم اردو ترجمہ مدارج النبوة مسند احمد بن حنبل 104 68 398-395-68-33 132 الروض الانف ریاض النضره سبل الهدی والرشاد سر الخلافہ سنن ابی داؤد سنن ابن ماجہ سنن الترمذی سنن الكبرى للنسائی سید نا ابو بکر صدیق شخصیت اور کارنامے 208،188،184 105 13 207.135 سید ناصدیق اکبر سیر الصحابه السيرة النبوية لابن كثير السيرة النبوية لابن ہشام 400.210.114.104.75.14.4
اصحاب بدر جلد 2 40 ببلیوگرافی ببلیوگرافی 1 ابو بکر الصدیق اول الخلفاء الراشدین از محمد رضا مطبوعه داراحياء الكتب العربية 1950ء ابو بکر الصدیق شخصیته و عصره از دکتور علی محمد محمد الصلابی»، دارابن کثیر دمشق بیروت 2003 ء 3 اٹلس سیرت نبوی از ڈاکٹر شوقی ابوخلیل ترجمہ حافظ محمد امین مطبوعہ دار السلام الریاض 1424ھ اردو دائرہ معارف اسلامیہ زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب لاہور مطبوعہ عالمین پبلیکیشنز پریس ہجویری پارک لاہور 2002ء ارشاد الساری شرح بخاری از ابو العباس شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی مطبوعہ دار الفکر بیروت $2010 ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اردو ترجمہ اشتیاق احمد قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی 7 الاستقصالاخبار دول المغرب الاقصیٰ از ابو العباس احمد بن خالد الناصری، مطبوعہ دارالکتاب 1997ء الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب از ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر قرطبی، دارالکتب العلمية بیروت 2002ء /2010ء اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ از عز الدین بن الاثیر ابو الحسن علی بن محمد جزری، دارالفکر بیروت، 2003ء دار الكتب العلمیة بیروت، 2003ء/2008ء/2016ء 10 اسلامی جنگیں از رفیق انجم / شفیقی عہدی پوری، مکی دار الکتب لاہور 2007ء 11 الاصابۃ فی تمییز الصحابہ از شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی، مطبوعہ دارالفکر بیروت 2001ء / دارا الكتب العلمیہ بیروت 2005 ء 12 الاعلام از خیر الدین (بن محمود) زر کی دمشقی، مطبوعہ دارالعلم للملا بین بیروت لبنان 2002ء 13 الاكتفاء بما تضمنه من مغازى رسول الله والثلاثه الخلفاء از ابو الربیع سلیمان بن موسیٰ کلاعی اندلسی، مطبوعہ عالم الكتب بيروت 1997ء 14 الاتساب از ابی المندر سلمہ بن مسلم بن العوتبي الصحارى الطبعہ الرابعہ 2006 ء 15 انوار العلوم، از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی و المصلح الموعود ، شائع کرد اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ، رقیم پریس، اسلام آباد ٹلفورڈیو کے 16 بخاری بشرح الکرمانی (الكواكب الدراری) مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1981ء 17 البداية والنهاية از حافظ عماد الدین ابی الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشي الدمشقی، مطبوعہ دار ہجر
اصحاب بدر جلد 2 41 بیروت 1999ء / دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2001ء ببلیوگرافی 18 سرور کائنات کے پچاس صحابہ از طالب الہاشمی مطبوعہ البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور 2006ء 19 پیغمبر اسلام صلی کم اور غزوات و سرایا از حکیم محمود احمد ظفر مطبوعہ شفیق پر یں، باہتمام نشریات اردو بازار لاہور 2014ء 20 تاریخ ابن خلدون (المسمی کتاب العبر و ديوان المبتد أواخر فی ایام العرب والعجم والبر بر) از عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون ، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت 2016ء 21 تاریخ ادب عربی از احمد حسن زیات، اردو ترجمه از عبد الرحمن طاہر سورتی مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشر زلاہور 1961ء 22 تاریخ الخلفاء از جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی ترجمہ اقبال الدین احمد نفیس اکیڈمی کراچی $1983 23 تاریخ الخلفاء از جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، ناشر دارالکتاب العربی بیروت 1999ء 24 تاریخ الخلفاء الراشدين الفتوحات والانجازات السیاسیة از محمد سهیل طقوش، مطبوعہ دار النفائس بیروت 25 $2011 تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس از حسین بن محمد بن الحسن دیار بکری، مطبوعہ دارالکتب العلمية بیروت لبنان 2009ء 26 تاریخ الطبری ( تاریخ الامم والملوک) از ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، دارالکتب العلمية بيروت 1987ء / 2012ء / دار الفکر بیروت 2002ء / مترجم اردو از عبد الله العمادی، دارالاشاعت کراچی 2003ء 27 تاریخ دمشق الکبیر از ابو عبد الله علی عاشور الجنوبی (ابن عساکر) مطبع داراحیاء التراث العربی بیروت $2001 28 تحفہ اثنا عشریه از شاه عبد العزیز محدث دہلوی، ترجمه اردو خلیل الرحمان نعمانی مظاہری، ناشر دارالاشاعت کراچی 1982ء 29 تفسیر صغیر، از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی والمصلح الموعود، شائع کردہ ادارۃ المصنفین ربوہ ضلع جھنگ 30 تفسیر کبیر، از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی والمصلح الموعودؓ ، شائع کردہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لندن 2023ء 31 تفسیر القرطبی (الجامع لاحکام القرآن) از علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی مطبوعہ دار ابن حزم
اصحاب بدر جلد 2 بیروت 2004ء 42 ببلیوگرافی 32 جستجوئے مدینہ از عبد الحمید قادری مطبوعہ اور مینٹل پبلی کیشنز لاہور پاکستان 2007ء 33 جمهرة انساب العرب از ابو محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم الاندلسی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت $2007 34 حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط از خورشید احمد فارق، کتاب میلہ مطبع جاوید بٹ پریس 2020ء / ادارہ اسلامیات لاہور 1978ء / مطبوعہ ندوۃ المصنفین دہلی 35 حضرت ابو بکر صدیق کے فیصلے از عبد اللہ مدنی، مشتاق بک کارنر لاہور 36 حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل، ترجمه انجم شہباز سلطان بک کارنر جہلم پاکستان / ترجمه شیخ محمد احمد پانی پتی، علم و عرفان پبلشر زلاہور 2004ء 37 حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت فاروق اعظم از ڈاکٹر طہ حسین ترجمہ شاہ حسن عطا، ناشر نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی حضرت ابو بکر صدیق کے 100 قصے، از شیخ محمد صدیق منشاوی متر جم خالد محمود، بیت العلوم لاہور حضرت خالد بن ولید از صادق حسین صدیقی، مطبع زاہد بشیر پر نظر زلاہور ناشر بک کارنر شوروم ج 40 حقائق الفرقان، از حضرت مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفتہ المسیح الاول مطبع ضیاء الاسلام پر میں ربوہ پاکستان 41 حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء از حافظ ابو نعیم احمد بن عبد اللہ اصفہانی مطبوعہ مکتبۃ الایمان المنصوره $2007 42 حیات محمد علی الم از محمد حسین ہیکل مترجم ابو افضال شہزاد محمد خان، بک کارنر شوروم بالمقابل اقبال لائبریری جہلم پاکستان 2013ء 43 خطبات محمود، از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانی و المصلح الموعود ، شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن مطبوعہ ضیاء الاسلام پر یس ربوہ پاکستان 44 خلفائے راشدین از حکیم محمود ظفر، ناشر تخلیقات اکرم آرکیڈ لاہور 1998ء 45 الخلیفۃ الاول ابو بکر الصدیق شخصیته و عصره از دکتور علی محمد محمد الصلابی، دارالمعرفۃ بیروت، 2006ء 46 دلائل النبوۃ از ابو بکر احمد بن حسین بیہقی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان، 1988ء/2002ء 47 الرحیق المختوم از صفی الرحمن المباركفوری ، مطبوعه المکتبہ السلفیہ لاہور 2000 ء / دار الغد الجديد القاہرہ2018ء 48 روحانی خزائن از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود، شائع کردہ نظارت اشاعت، مطبوعہ ضیاء
اصحاب بدر جلد 2 الاسلام پر میں ربوہ 43 ببلیوگرافی 49 الروض الانف فی تفسیر السيرة النبوية لابن ہشام از ابی القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن احمد بن ابی الحسن خشمی سهیلی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت طبع اوّل الرياض النضرۃ فی مناقب العشرة از شیخ احمد بن عبد اللہ ، الشہیر بالحب طبری، مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت لبنان2014ء 51 سبل الهدی والرشاد في سيرة خير العباد از محمد بن یوسف صالحی الشامی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 1993ء 52 سر الخلافہ از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود، مترجم اردو شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 53 سنن ابن ماجه از ابو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجه قزوینی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 2009ء 54 سنن ابو داؤد از ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 2009ء سنن الترمذى الجامع الصحیح از ابو عیسی محمد بن عیسی بن سورۃ، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت لبنان، 2002ء 56 سنن النسائی از ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب ابن علی بن سنان النسائی، مطبوعہ دار السلام ریاض، $2009 57 سید نا ابو بکر صدیق شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمد محمد صلابی مترجم شمیم احمد خلیل سلفی مکتبه الفرقان مظفر گڑھ پاکستان 58 سیدنا ابو بکر صدیق کی زندگی کے سنہرے واقعات از عبد المالک مجاہد مطبوعہ دارالسلام ریاض ، لاہور، کراچی،اسلام آباد 1432ھ 59 سید ناصدیق اکبر از الحاج حکیم غلام نبی ایم اے مطبوعہ ادبیات لاہور 2010ء 60 سید ناصدیق اکبر کے شب و روز از محمد حذیفہ لاہوری ناشر مکتبہ یاد گار شیخ اردو بازار لاہور 1437ھ 61 سیر الصحابیات از سعید انصاری مطبوعه اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور 62 سیر الصحابه از معین الدین ندوی، مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء 63 السيرة النبوية لابن کثیر از ابی الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت $2005 64 السيرة النبوية لابن ہشام از ابی محمد عبد الملک بن ہشام بن ایوب حمیری معافری مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2001ء / دار ابن حزم بیروت لبنان 2009 ء 65 السيرة الحلبيه (انسان العيون فی سیرۃ الامین والمامون) از ابی الفرج نور الدین علی بن ابراہیم بن احمد حلبی الشافعی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2002ء / 2008ء
اصحاب بدر جلد 2 44 ببلیوگرافی 66 سيرة امير المومنین علی بن ابی طالب شخصیته و عصره از علی محمد محمد الصلابی، مطبوعہ دار المعرفۃ بیروت لبنان 2006ء 67 سيرة خليفة الرسول على رم سید نا حضرة ابو بکر صدیق از طالب الہاشمی مطبوعہ حسنات اکیڈمی لاہور $1990 سیرت حضرت عمرو بن العاص فاتح مصر) از ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن، اردو ترجمہ شیخ محمد احمد پانی پتی مطبوعہ مکتبہ جدید انار کلی لاہور 1956ء 69 سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ اسلام آباد ٹلفورڈیو کے 1996ء 70 سیرت خلفائے راشدین از محمد الیاس عادل مطبوعہ ، مشتاق بک کارنر لاہور 71 سیرت سیدنا صدیق اکبر منسوب به استاذ عمر ابوالنصر ترجمه محمد وسیم اکرم قادری مشتاق بک کارنر اردو بازار لاہور 2020ء 72 سیرت حضرت ابو بکر صدیق از محمد الیاس عادل مطبوعہ مشتاق بک کار نزار دو بازار لاہور 73 شرح العلامة الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ از علامہ قسطلانی، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت 1996ء 74 شرح السنته از حسین بن مسعود بغوی، مکتب الاسلامی دمشق بیروت 1983ء 75 صحیح البخاری از ابو عبد الله محمد بن اسماعیل بخاری جعفی، مطبوعہ دار السلام ریاض، 1999ء 76 صحیح مسلم از ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری نیسابوری، ناشر دار السلام ریاض، 2000ء / مترجم اردو، شائع کردہ نور فاؤنڈیشن ربوہ پاکستان 77 المنهاج بشرح صحیح مسلم بن حجاج از محی الدین بن یحیی بن شرف النووی، مطبوعہ دار ابن حزم بیروت لبنان 2002ء 78 الصدیق از پروفیسر علی محسن صدیقی مطبوعہ قرطاس کراچی 2002ء 79 ضیاء النبی صلی ای از پیر محمد کرم شاہ الازہری مطبوعہ تخلیق مرکز پرنٹر ز لاہور 1420ھ / مطبوعہ ضیاء الم القرآن پبلی کیشنز لاہور 2015ء 0 الطبقات الکبری از محمد بن سعد بن منبع الہاشمی النصری المعروف بابن سعد مطبوعہ دارالکتب العلمية بیروت 1990ء / 2012 / 2017 / دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء / مترجم اردو از عبد العمادی نفیس اکیڈمی کراچی 1 عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے از سید مرتضی عسکری، مترجم سید قلبی حسین رضوی مطبوعه
اصحاب بدر جلد 2 مجمع جهانی اہل بیت 1427ھ 45 82 عشره مبشره از بشیر ساجد ناشر البدر پبلیکیشنز لاہور پاکستان 2000ء ببلیوگرافی 83 عمدة القاری شرح صحیح البخاری از بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد العینی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت 84 2001ء / داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 2003ء فاتح اعظم حضرت عمرو بن العاص از محمد فرج مصری مترجم شیخ محمد احمد پانی پتی، مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی 1962ء الفاروق از شبلی نعمانی پبلشر زادارہ اسلامیات 2004ء 86 فتح الباری شرح صحیح البخاری از احمد بن علی بن حجر عسقلانی، مطبوعہ دار الريان للتراث قاہر 19860ء/ قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی 87 فتوح البلدان از احمد بن یحی بن جابر البلاذری، مطبوعہ مؤسسة المعارف بيروت 1987ء / دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 2000ء 88 فتوحات شام از مولانا فضل محمد یوسف زئی ناشر مکتبہ ایمان ویقین 2011ء 89 فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمن ناشر زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، کراچی 2003ء 90 فیروز اللغات اردو از مولوی فیروز الدین، نظر ثانی، ادارہ تصنیف و تالیف فیروز سنز مطبوعه فیروز سنز لاہور پانچویں اشاعت 2012ء 91 قاموس الکتاب از ایف ایس خیر اللہ ، ناشرین مسیحی اشاعت خانہ فیروز پور روڈ لاہور 2005ء 92 قتل مرتد اور اسلام از مولوی شیر علی صاحب بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان مطبوعہ وزیر ہند پر لیس امر تر 1925ء 93 قرآن کریم اردو ترجمه از حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ یو کے 2002ء 94 قرآن کیسے جمع ہوا؟ از مولانا محمد احمد اعظمی مصباحی مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور 2008ء 95 الکامل فی التاریخ از عز الدین ابی الحسن علی بن محمد ابن اثیر جزری مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت 1997ء / دار الكتب العلمية بيروت 2003ء /2006ء 96 کتاب الخراج از قاضی ابویوسف یعقوب بن ابراہیم، مطبوعہ المکتبہ التوفیقیہ 2013ء 97 كتاب الردة مع نبذة من فتوح العراق وذكر المثنى بن حارثه الشیبانی از محمد بن عمر بن واقد الواقدی، مطبوعہ دار الغرب الاسلامی بیروت 1990ء 98 کتاب المغازی از ابو عبد الله محمد بن عمر بن واقد الواقدی، مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت 2004ء /
اصحاب بدر جلد 2 $2013 46 ببلیوگرافی 99 کمانڈر صحابه از محمد شعیب چشتی ناشر ممتاز اکیڈمی اردو بازار لاہور 100 کنز العمال فی سنن الا قوال و الافعال از علاء الدین علی بن حسام الدین الہندی، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ 1985ء / دار الكتب العلمية بيروت 2004ء 101 لسان العرب از ابوالفضل جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور افریقی مصری، مطبوعہ مؤسسة الاعلمی للمطبوعات بيروت لبنان 2005ء 102 لغات الحدیث از وحید الزمان ناشر نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء 103 مثنوی مولوی معنوی از مولانا جلال الدین رومی مترجم قاضی سجاد حسین، الفیصل ناشران غزنی سٹریٹ لاہور 2006ء مجمع الزوائد ومنبع الفوائد از نور الدین علی بن ابی بکر بن سلیمان الہیثمی المصری مطبوعہ دارالکتب العلمية بیروت 2001ء 105 مجموعه اشتہارات، از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسح الموعود ، شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 106 محمد رسول اللہ والذین معہ از عبد الحميد جودة السحار مطبوعه مكتبة مصر 107 مدارج النبوت از شیخ محمد عبد الحق محدث دہلوی اردو ترجمه از مفتی غلام معین الدین نعیمی، مطبوعه ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور 2005 ء / ناشر شبیر برادرز اردو بازار لاہور 2004ء 108 مرآة الزمان فی تاریخ الاعیان از شمس الدین ابو المظفر یوسف بن قزاو علی بن عبد اللہ سبط ابن الجوزی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2013ء 109 مردانِ عرب از عبد الستار ہمدانی ، ناشر اکبر بک سیلرز لاہور 2013 ء 110 المستدرک علی الصحیحین از ابو عبد الله محمد بن عبد اللہ الحاکم نیشاپوری، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت 1990ء / مکتبہ نزار مصطفى الباز الرياض 2000ء 111 مسند ( الامام احمد بن حنبل) از امام احمد بن حنبل، مطبوعہ عالم الكتب 1998ء/ دارالحدیث القاہرہ 112 113 $2012 المسيرة الاسلامية لجميل الخلافة الراشدة از منیر محمد الغضبان، مطبوعہ دار السلام 2015ء مشکوۃ المصابیح از ابو عبد الله محمد بن عبد الله خطيب التبریزی، مطبوعہ شرکتة دار الارقم بن ابی الار قم بیروت لبنان 1996ء 114 المصنف لابن ابی شیبته از ابی بکر عبد بن محمد بن ابراہیم ابی شیبہ العبسي، الفاروق الحدیثہ قاہرہ 2008ء / مترجم محمد اولیس سرور مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور 2014ء
اصحاب بدر جلد 2 47 ببلیوگرافی 115 معجم البلدان از شهاب الدین ابی عبد اللہ یا قوت بن عبد اللہ الحموی الرومى البغدادی، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان / دار صادر بیروت 1977ء/المكتبة العصرية بيروت لبنان2014ء 116 المعجم الوسيط از مجمع اللغة العربية مطبوعہ دارالدعوۃ استانبول ترکیہ 1410ھ 1989ء 117 معرفۃ الصحابہ از ابی نعیم احمد بن عبد اللہ بن احمد بن اسحاق بن مہران اصبہانی دارالکتب العلمیة بیروت $2002 118 المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام از دکتور جواد علی، مطبوعہ مکتبة جرير 2006ء 119 مقالات سیرت از ڈاکٹر محمد یسین مظہر صدیقی مرتبہ ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ پر نٹنگ پریس لاہور 2015ء 120 مکتوبات احمد از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسح الموعود، شائع کر دہ نظارت اشاعت ربوہ پاکستان 121 ملفوظات از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود، شائع کردہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنزلندن $2022 122 المنجد فی اللغۃ از لویس معلوف، مطبوعہ انتشارات اسلام، تہران ایران 1388ھ 123 المواہب اللدنية بالمخ المحمدیۃ از احمد بن محمد قسطلانی، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت 2004ء 124 کتاب الموطا از امام مالک بن انس مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2002ء 125 نیل الأوطار من اسرار منتقی الاخبار از علامہ محمد بن علی بن محمد الشوکانی، مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت $2004 126 وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان از ابی العباس احمد بن محمد بن ابراہیم بن ابی بکر بن خلکان دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 1998ء 127 A History of Medieval Islam by J.J.Saunders, The Taylor & Francis e-Library, London 2002 128 A Short History Of the World by H.G.Wells, J.J.Little & Ives Company New York USA1922 129 Islam and the Psychology of the Muslim by André servier, Chapman & Hall LTD.1924 130 The Caliphate its rise, decline and fall by Sir William Muir.The Religious Tract Society 1892 1896 13 1 The Encyclopaedia of Islam Printed by Leiden brill Natherland 2000 The Preaching of Islam by T.W.Arnold, Archibald constable & co.Constable & Company Ltd.London 1913