Ashab-eAhmad Vol 9

Ashab-eAhmad Vol 9

اصحاب احمد (جلد 9)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

حضرت مصلح موعود  ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ میں فرمایا : ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : <span class="quranic">اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ</span>۔ عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کامعاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے<span class="quranic"> اُذْکُرُوْا مَوْتیٰ بِالْخَیْرِ</span> نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے<span class="quranic"> مَوْتَاکُمْ</span> کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنی ہیں کہ آپؐ نے یہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں محترم ملک صلاح الدین صاحب نے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات شائع کئے جاتے تھے۔ رسالہ کانام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے تجویز فرمایا تھا۔ بعد ازاں بزرگانِ سلسلہ کی تجویز پر ان سوانح کو مفصل اور کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے جلسہ سالانہ میں آپ کی اس خدمت کاذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بعض ضروری نصائح فرماکر احباب جماعت کوصحابہ کرام کے حالات زندگی اور تاریخ کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ درجنوں صحابہ کے ابتدائی تعارف پر مشتمل زیر نظر یہ مجموعہ 12 جلدوں پر محیط ہے جو دیدہ زیب ٹائپ شدہ ہیں اور قریبا اڑھائی  ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مفید سلسلہ  کتب میں معزز مرحومین کی تصاویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری نقشے اور وضاحتی خاکے بھی بناکر شامل کئے گئے ہیں۔ صحابہ کی خود نوشت تحریرات یا مطبوعہ مواد پر مصنف کتاب کے شامل  کردہ حوالہ جات اور ضروری وضاحتی حواشی نے کتاب کی افادیت کو اور بڑھا دیا ہے اور بلاشبہ یہ صرف صحابہ کے حالات زندگی ہی نہیں بلکہ جماعت احمد یہ کی تاریخ کا اہم ذخیر ہ ہے اور مصنف کی طرف سے جماعت کی ابتدائی تاریخ کا قیمتی خزانہ محفوظ کرنے کی ایک نہایت ہی قابل قدر سعی ہے۔


Book Content

Page 1

اصحاب احمد جلد نهم سیرت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مؤلف ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے

Page 2

نام کتاب: مصنف اصحاب احمد جلد نهم ملک صلاح الدین ایم اے

Page 3

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَنُصَّلِي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود مع التسليم عرض حال ( طبع اول) بفضلہ دعونہ تعالیٰ جلد نہم کے شائع کرنے اور اس میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوانح مع روایات ہدیہ ناظرین کرنے کی توفیق پارہا ہوں.فالحمد للہ علی ذلک.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طویل صحبت پانے والوں میں سے آپ آخری بزرگ تھے ان جو ہمیں 4 جنوری سال رواں داغ مفارقت دے گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.خطبہ الہامہ اور جلسہ اعظم مذاہب کے متعلق آپ کی روایات جو نہایت انمول نادر اور غیر مطبوعہ تھیں آپ نے تقسیم ملک سے قبل خاکسار کو قتل کر کے محفوظ کرنے کا موقعہ عطا کیا تھا.آپ نے اپنے قلم سے ا کی تصحیح کر کے ان پر دستخط بھی فرمائے تھے.الحکم جلد ام میں آپ کے مطبوعہ سوانح بھی آپ کو سنا کر ان کی تصحیح اور مفید ایزادی کر والی تھی.اب ان کا خلاصہ یہاں درج کر رہا ہوں.یہ کام تمبر ۱۹۲۰ء تک تکمیل پذیر ہو چکا تھا اور جلسہ سالانہ گزشتہ پر اس کے شائع کرنے کا پروگرام تھا.لیکن محترم ناشر صاحب کی طرف سے مسودہ واپس آگیا کہ اس کے لئے اخراجات کثیر درکار ہیں جو موجود نہیں.چنانچہ جلسہ کے لئے جلد جلد مجھے ایک اور مختصر کتاب دیگر صحابہ کے متعلق تیار کرنی پڑی.میں نے لاہور میں آپ کی نعش مبارک کے پاس یہ عہد کیا تھا کہ اب میں اس میں مزید التواء نہیں کروں گا.باوجود گونا گوں عوائق کے میں ایفائے عہد کے لئے کوشاں ہوں وباللہ التوفیق.

Page 4

-1 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَنُصَّلِي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود عرض حال ( طبع دوم ) اصحاب احمد جلد نم الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ حضرت بھائی حضرت عبد الرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ سابق ہریش چندر کی روایات و سوانح بسیار کوشش سے خاکسار نے تلاش کر کے طبع دوم میں شامل کی ہیں.الحمد للہ -۲- حضرت مسیح موعود و مہدی معہود امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام کے در تک بھائی جی کو کیسے حاصل ہوئی.اور کس کس رنگ میں حضور سے استفاضہ کر کے اور اخلاص و خدمت دین کی توفیق پا کر آپ نے اسلام کے دور اول کے اصحابہ کرام کی مثال پیش کی.یہ قصہ نہایت ہی ایمان فروز ہے.وَذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ یہ سرگزشت عجیب رنگ میں معرض تحریر میں آئی اور عجیب تر رنگ میں تقسیم برصغیر ہند کے انقلابات کی دستبرد سے محفوظ ہوگئی.آپ کے دل میں کیا سمائی کہ آپ نے اپنے داماد کو جو اسیران میں ملازمت کے سلسلہ میں مقیم تھے یہ سرگزشت تحریر کر کے بذریعہ خطوط بھجوائی.جو کسی وقت اتفاقاً موقر اخبار الحکم کے ایڈیٹر صاحب محترم کے ہاتھ لگ گئی.جو ہمیشہ ہی ایسے ایمان افروز مواد کو شائع کرنے کے لئے تاک میں رہتے تھے.چنانچہ یہ سرگزشت جو شائع کرنے کی غرض سے قلمبند نہیں کی گئی تھی.ہمیشہ کے لئے تاریخ سلسلہ میں محفوظ ہوگئی.- حضرت بھائی جی مئی ۱۹۴۸ء میں دور درویشی میں واپس قادیان تشریف لائے اور آپ نے دار امسیح میں دالان حضرت ام المومنین رضی اللہ عنھا میں رہائش رکھنا پسند کیا جہاں آپ ایک بار پہرہ کی خاطر سوئے ہوئے تھے اور ٹھٹھرے ہوئے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ والسلام نے یہ دیکھ کر اپنا چوغہ آپ پر ڈال دیا تھا.خاکسار کی رہائش بھی اسی دالان میں تھی.خاکسار نے اس زمانہ میں اصحاب احمد کے سلسلہ کی تالیفات کا آغاز کیا.یہ خاکسار کی عین خوش بختی تھی کہ حضرت بھائی جی سے خاکسار کوبھر پور مشفقانہ راہنمائی اور حوصلہ افزائی حاصل ہوتی رہی.فالحمد لله حمدا كثير او جزاه الله احسن الجزاء.

Page 5

" -۵- قادیان سے آپ مع اپنی رفیقہ حیات ربوہ کے جلسہ سالانہ ۱۹۶۰ء پر تشریف لے گئے جس کے اختتام پر آپ اپنے بچوں کے پاس کراچی جاتے ہوئے راستہ میں 4/ جنوری ۱۹۶۱ء کو جان بحق ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.اس سفر ربوہ سے پہلے خاکسار عرصہ تک روزانہ نماز عصر آپ کے مکان نعم البدل پر حاضر ہوتا.اور الحکم میں مطبوعہ سر گذاشت میں آپ کے بیان کو سنا تا اور استفسارات کر کے اضافہ کرتا تھا.اور بحمد للہ یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا.خاکسار مولف کے دل میں جو آپ کے اعلیٰ مقام اتقاء اور فی سبیل اللہ خدمات کے باعث گہری محبت تھی اس سے خاکسار مجبور ہوا کہ حاصل شدہ مواد جلد جماعت احمدیہ کے پیش کر دے.اور اخراجات کے میسر ہونے کا انتظار نہ کرے.بحمد للہ اس کی توفیق ملی اور اب ستائیس سال بعد مزید اضافہ سے یہ جلد قارئین کرام کے سامنے آ رہی ہے.-Y یہ ذکر کر دینا بے محل نہ ہوگا اور کسی کا شکوہ کرنا مطلوب نہیں کہ خاکسار یہ تالیفی کام قادیان میں کرتا ہے.اپریل ۱۹۸۴ء کے آرڈی نینس کے بعد سے قادیان سے احمد یہ تالیفات پاکستان بھجوانا ممکن نہیں رہا جہاں ایسی تالیفات کے پچانوے فیصدی خریدار موجود ہیں.میں ہزار روپے کی مالیت کی کتب خاکسار نے بھجوائیں جو بارڈر پر پاکستانی شعبہ کسٹمز نے اپنے قبضہ میں کر لیں جو کئی سال تک بسیار کوشش کرنے پر واپس نہیں ملیں.ادھر چھپیں ہزار روپے کی مالیت کا تالیفات کا ذخیرہ قادیان میں جمع ہے جس کی نکاسی کی کوئی صورت نہیں.پاکستان میں خریداران اصحاب احمد بیشتر حصہ کراچی کے احباب پر مشتمل ہے.انہوں نے جو کئی جلدوں کی قیمت پیشگی عنایت کی اس کی وجہ سے ۱۹۸۵ء میں تابعین اصحاب احمد کا ایک حصہ شائع کرنے کی توفیق خاکسار نے پائی ہے.فالحمد لله وجزاء هم الله.اور جلدوں کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے.مثلا سیرۃ حضرت سیدام طاہر صاحبہ احباب سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خاکسار کو اس سلسلہ میں مزید اور بھر پور اور مقبول کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سہولتیں میسر فرمائے اور خاتمہ بالخیر ہو.والسلام خاکسار ملک اصلاح الدین ( انچارج وقف جدید وصدر مجلس وقف جدید سیکرٹری کل ہند تبلیغی منصو بہ بندی کمشن وسیکرٹری صد سالانہ احمد یہ جو ہلی مرکزی کمیٹی ) بیت الدعا، دار ا صیح.قادیان ( پنجاب.بھارت )

Page 6

۵ ۹ ۱۱ ۱۱ ۱۲ ۱۶ 17 ۱۷ ۱۹ i ولادت فهرست عناوین عناوین عہد طفولیت میں اسلام کا اثر اور ابتدائی تعلیم پاک پٹن کا عجیب واقعہ تحصیل چونیاں میں بود وباش عہد طفولیت میں مذہبی سرگرمی والد ایک سادھو کے جال میں حب اسلام کا آغاز عیسائیوں اور آریوں کی سرگرمیاں اس زمانہ میں قلبی کیفیت دور ویا مسلمان طلبہ، مساجد، عید گاہوں اور اذان سے محبت اور منادر سے نفرت حضرت مسیح موعود کے متعلق کیا سنا کسوف و خسوف اور مہدی کے پالنے کے لئے دعائیں کرنا ایک نئے دور کا آغاز اور نقل مقانی بوجہ افشائے راز والد صاحب کا غضب و عتاب اور غمگسار ایک کتاب والد کی طرف سے علاج ایک دوست کا خط اور جواب میں تائید الہی جواب کے بعد شدید نا موافق حالات

Page 7

۲۰ ۲۱ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۶ ۲۹ ۲۹ ۲۳ ۳۵ کام کے کے لالے کے ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۵ ۵۹ ۵۹ ۶۱ ۶۲ ii حالات اضطراب میں تائید غیبی والدین اور بہن بھائیوں سے جدا ہونے کا المناک نظارہ اکتساب معاش کی کوشش سیالکوٹ میں ورود اور کتب حضور کے متعلق آگا ہی نماز شروع کرنا حضرت میر حامد شاہ صاحب سے ملاقات اور قادیان جانے کا مشورہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے ملاقات، مسجد مبارک میں حضرت اقدس کی ملاقات به برکت حضرت اقدس توفیق اسلام واحمدیت قادیان میں قیام و تعلیم قبول احمدیت کے مزید حالات.آپ کا اسلامی نام کس نے رکھا، عبدالرحمن نام کے احمدی قادیان میں حضرت اقدس کا سفر ڈیرہ بابا نانک (۳۰ ستمبر ۱۸۹۵) والد تلاش میں پریشان وسرگرداں.اُن کا ورود قادیان حضرت اقدس سے والد صاحب کی ملاقات اور ان کے ساتھ واپسی کا حکم قادیان سے واپسی کا منظر ایک ضروری بیان پینڈورہ سے آگے کا سفر بٹالہ سے روانگی آغاز دور مصائب والد صاحب کا علاقہ پراثر قادیان کی یاد گاؤں اور گھر میں آؤ بھگت آپ کا جذ به استقلال و استقامت

Page 8

۶۳ ۶۸ اے ۷۴ 22 ZA : ۸۲ ۸۲ ۸۶ ۸۶ M ۸۹ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۸ 1++ ۱۰۲ 三 iii اقارب کا اوچھے ہتھیار پر اتروں آنا حضرت مولوی خدا بخش صاحب کا آنا اور بفضل الہی بیچ کے جانا قادیان کی یاداور والد صاحب کا مقصود ومراد قادر و قیوم خدا کی قدرت نمائی قادیان میں مراجعت اور حضرت اقدس کی زیارت والد کی قادیان میں خفیہ آکر بھائی جی کو پکڑے جانے میں نا کامی مرزا نظام الدین صاحب کے ذریعہ کوشش ناکام اقارب کی ایک اور کوشش ناکام سمن آنے پر حضرت اقدس کا مشورہ والدین کو ہمیشہ کے لئے مایوس کرنا آپ کی شدید علالت پر والدہ صاحبہ کی قادیان میں آمد حضرت مولوی صاحب کے مکان میں منتقل ہونا والدہ محترمہ کی آمد والدہ محترمہ پر نیک اثر اور باجازت سوئے وطن سفر والدین سے حسنِ سلوک حضرت کی بھائی جی کو ان کے والد صاحب کے بارے میں نصیحت مالیر کوٹلہ میں قیام از دواجی زندگی دوسری شادی وقف و ہجرت تعمیر مکان رویت نشانات کا گواہ ہونا مکتوبات و تبرکات و غیره روایات

Page 9

۱۱۳ ۱۱۳ ۱۱۵ 117 1 117 117 لا ۱۱۸ ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۸ ۱۳۲ ۱۳۲ ۱۳۳ ۱۳۹ ۱۳۹ ۱۴۲ ۱۴۳ ۱۴۴ iv قادیان کی ابتدائی تاریخ قادیان کی گمنامی قادیان پر پہلی نظر، اس کے اردگرد کی فصیل اور اس کے اندر کی آبادی آبادی کی بیرونی فضاء تصویر کا دوسرا رخ قادیان کا عالی ہمت خاندان علماء اور صلحاء کے اجتماع کا مقام قادیان کی حالت اجڑے دو بازار، برائے نام تین دوکا نہیں افعال قبیحہ کا ارتکاب منگل سے جنگل ذرائع آمد ورفت کا فقدان برسات میں قادیان کی حالت جائیداد غیر منقولہ کی بے قدری تعلیم اور ڈاک کے احوال نیم برہنہ زبان اور کرخت زبان اُس زمانہ میں مساجد قادیان مهمان خانه لنگر خانه حضور کو کیا ورثہ ملا حضرت اقدس کے زمانہ میں قادیان مهمان خانه لنگر خانہ کا قیام وانتظام حضرت اقدس کا مہمانوں کے ساتھ شریک طعام ہونا برف سوڈا

Page 10

۱۴۵ ۱۴۵ ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۴۷ ۱۵۱ 13 ۱۵۲ ۱۵۲ ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۵۴ ۱۵۷ ۱۶۱ و H ۱۶۲ H ۱۶۲ ۱۶۲ ۱۶۳ ۱۶۳ ۱۶۴ V رتھ خانہ.پریس دیوار فصیل کی جگہ مطب حضرت خلیفہ اول گول کمرہ مسجد مبارک اور اس کے تین حصے غسل خانہ.سرخی کے نشان والا کمرہ دوشه نشین الدار کا دروازہ اذان ، نمازیں اور تہجد امامت و تلاوت مولوی عبد الکریم صاحب حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت اقدس کی نماز حضرت اقدسن کی سیر کی عادت منارة اسح بٹالہ کی یادگاریں پلیٹ فارم بٹالہ آم کا درخت سرائے مائی اچھراں دیوی ذیل گھر بٹالہ چوک فوجی سرائے ڈسٹرکٹ بورڈ ریسٹ ہاؤس حضرت اُم المومنین کے بارے میں ایک اہم روایت ۱۶۴ ܬܪܙ

Page 11

۱۶۹ ۱۷۰ 11 ۱۷۳ ۱۸۶ ۱۸۷ ١٩٠ ۲۰۳ ۲۰۴ ۲۱۸ ۲۲۴ 중국 ۲۲۹ ۲۴۶ ۲۵۱ ۲۵۱ ۲۵۴ ۲۵۵ ۲۵۵ ۲۵۶ ۲۵۷ ۲۵۷ ۲۶۱ ۲۶۳ vi حضرت اُم المومنین کے اعلیٰ روحانی اخلاق بھائی جی کو تبرک قرار دینا ڈولی اور......کونسا درود پڑھنا چاہے مقدمہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک ایک بھینسے کو مار بھگانا تفخیذ الاذہان انجمن کا قیام اور رسالہ کا اجراء پہرہ کا آغاز وانتظام مدرسہ تعلیم الاسلام کا اجراء جلسہ اعظم مذاہب لاہور عید قربان ۱۹۰۰ ء اور خطبہ الہامیہ داغِ ہجرت کا الہام سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور ایک مردانہ ہمت عورت صحابہ کی جان شاریاں فنانشنل کمشنر کی قادیان میں آمد پر استقبال حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کی طرف سے تھی تکلف سے دور ہونا دنیوی آرام کے لئے کوئی خاص رعایت نہ چاہنا مایوسی سے دشمنی حضرت اقدس کے عہد مبارک میں بعض خدمات سلسلہ اور لٹریچر میں ذکر آپ کی قلمی خدمات کلمات طیبات محفوظ کرنا ایک ابتلاء باعث اصطفاء حضرت اقدس کا آخری سفر لا ہور اور وصال تدفین

Page 12

۲۶۸ ۲۶۹ ۲۶۹ ۲۷۰ ۲۷۲ ۲۷۴ ۲۷۸ ۲۸۰ ۲۸۱ ۲۸۳ ۲۸۴ ۲۸۵ ۲۸۶ ۲۸۸ ۲۸۸ ۲۹۵ ۲۹۷ ۲۹۸ ٣٠٢ ۳۰۷ ٣٠٩ ۳۰۹ ۳۱۷ vii حضرت اقدس کی نماز جنازہ اور بیعت خلافت اولی والے مقامات عہد خلافت اولیٰ کی بعض خدمات بعد وصال ”پیغام صلح کا سُنایا جانا بعد وصال حضرت اقدس اولیں جلسہ سالانہ مناظره منصوری حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی مشایعت و استقبال تائید خلافت پیشگوئی مصلح موعودؓ کے بارے میں انکشاف خلافت ثانیہ میں بعض خدمات دہلی میں ایک عظیم الشان جلسہ تحفظ ناموس رسول الله الله مجاہد ماریشس کا استقبال بمبئی میں ایک خصوصی درس میں شمولیت ایک سیشن بنچ کے ظالمانہ فیصلہ پر تنقید حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے سفروں میں رفاقت شملہ ، سرہند ، سنور اور پٹیالہ کا سفر (۱۹۱۷ ء ) سفر بمبئی (۱۹۱۸ء) سفر ڈلہوزی (۱۹۱۸ء) سفر د هر مساله (۱۹۲۰ء) سفر کشمیر (۱۹۲۱ء) سفر لا ہو ر و مالیر کوٹلہ (۱۹۲۴ء) سفر سندھ (۱۹۳۵ء) فتنہ ارتداد ملکانہ وغیرہ میں حضرت عرفانی صاحب جائزہ اور مدح و توصیف

Page 13

viii حضرت خلیفہ ثانی کی طرف سے تحسین مردہ باد عبد الرحمن قادیانی و بھائی عبدالرحیم قادیانی ارتداد میں پھر تیزی آنا اور اعلان جہاد کیا جانا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا اولین سفر یورپ کئی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا سفر سفر کا مقصد اور اس کے متعلق مشورہ رفقائے سفر قادیان سے روانگی سے پہلے مزار حضرت اقدس پر دعا اور بیت الدعا میں دعائیں سفر بٹالہ تا بمبئی بمبئی سے روانگی کا منظر مکہ معظمہ کے بالمواجہ نوافل پڑھنا، بیت المقدس میں قبور انبیاء پر دعائیں، حیفا، دمشق اور روما جانا ۳۱۹ ۳۱۹ ۳۲۱ ۳۲۱ ۳۲۱ ۳۲۳ ۳۲۳ ۳۲۴ ۳۲۴ وکٹوریہ ٹیشن (لندن) پر استقبال، فتح اسلام اور کسر صلیب کے لئے سینٹ پال چرچ کے ۳۲۶ سامنے لمبی دعا متعدد پیغامات و خطبات ، کرنل ڈگلس ( پیلاطوس ثانی ) ویمبلے کا نفرنس میں حضور کا مضمون چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی زبانی حضور کا مسجد فضل لندن کا سنگ بنیا درکھنا ساحل انگلستان پر ولیم فاتح کے اترنے کے مقام پر عالم ربودگی میں حضور کی دعائیں حضور کا مسجد فضل میں اولین جمعہ پڑھانا دفتح انگلستان کی بنیا درکھ دی گئی ہے مراجعت سے پہلے حضور کا اظہار لندن سے بامراد مراجعت، فرانس میں تبلیغ اور سرکاری نو تعمیر شدہ مسجد میں حضور کا اولین نماز پڑھانا بمبئی میں استقبال، مفتی محمد صادق صاحب کا ایڈریس پیش کیا گیا.گاندھی جی سے امن و آزادی کے بارے میں ملاقات، بٹالہ تک جماعتوں کی ملاقاتیں ۳۲۷ ۳۳۲ ۳۳۲ ۳۳۳ ۳۳۵ ۳۳۶ ۳۳۷

Page 14

۳۳۸ ۳۴۲ ۳۴۳ ۳۴۳ ۳۴۴ ۳۴۶ ۳۵۳ ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۵ ۳۵۹ ۳۶۲ ۳۶۳ ۳۶۵ ۳۶۵ ۳۷۱ ۳۷۱ ۳۷۷ ۳۸۲ ۳۸۵ ۳۸۷ ۳۹۰ ix قادیان میں استقبال اور دعائیں اہالیان قادیان کا سپاسنامہ بزرگان وصدر انجمن احمد یہ وادارہ جات کی طرف سے سپاسنامے بھائی جی کے مکان پر نو مسلموں کی طرف سے سپاسنامہ حضرت بھائی کے کی ڈائریوں کی مقبولیت انگلستان کی فتح کی بنیا د جس کے آثار نمایاں ہورہے ہیں برطانیہ جلسہ سالانہ ۱۹۹۰ء مجالس مشاورت میں شرکت بوقت تقسیم ( بر صغیر ) صحابہ کرام کو دعاؤں کی تحریک درویشان میں آپ کی مبارک شمولیت در ویشان کے بارے آپ کے چشمد ید حالات درویشی دور میں آپ کے بعض کام حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ وارقادیان میں والہانہ محبت کا اظہار وجود معاش آپ کے معاشی حالات آمد کا اندازہ خاندان حضرت مسیح موعود کی خدمات اور متفرق خدمات مالی خدمات اللہ تعالیٰ کے افضال آپ کی وصیت وضاحتی نوٹ بھائی جی کے اہل بیت وفات بھائی جی کا قادیان سے ربوہ اور کراچی کا سفر نیز انتقال اور جنازہ

Page 15

۳۹۴ ۳۹۵ ۳۹۶ ۳۹۸ ۳۹۸ ۴۰۱ ۴۰۳ ۴۰۳ ۴۰۷ ۴۰۸ ۴۱۴ ۴۱۴ ۴۱۶ ۴۱۷ ۴۲۱ ۴۲۲ ۴۲۳ ۴۲۷ ۴۲۸ ۴۲۹ ۴۳۰ ۴۳۱ ۴۳۱ { ۴۳۳ X بعد جنازہ ربوہ سے روانگی جنازہ لاہور میں قادیان میں خبر کا پہنچنا اور تدفین کا عمل میں آنا درخواست دعا حضرت بھائی جی کو پاکستان جانے میں ہمیشہ تردد ہونا تعزیتی قرار دیں تاثرات تاثرات مولوی برکات احمد صاحب را جیکی تاثیرات مولوی برکات احمد صاحب تاثرات شیخ یوسف علی صاحب عرفانی بیان سردار عبدالرحمن صاحب تاثرات حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب محترم مرزا وسیم احمد صاحب کے تاثرات مؤلف کے تاثرات تاثرات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جماعت کو بھائی جی کی نصیحت قدیم صحابہ کرام کا عالی مقام حضرت اقدس کی تحسین آپ کی تدفین ،فضل الہی کا ایک نشان وحی میں تذکرہ اصحاب الصفہ کا اللہ تعالیٰ نے فرمایا حضرت مسیح موعود نے فرمایا قدیم صحابہ کرام کا مقام بیان حضرت خلیقہ مسیح الثانی صحابہ کرام کے مقام کی اہمیت کے بارے میں

Page 16

* سیرت حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی ولادت ☆ * والدہ محترمہ کی بیان کردہ جنم پتری کی رو سے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیان یکم جنوری ۱۸۷۹ء کو محترم مهته گوراند تامل ولد مہتہ ہیرا لال کے ہاں محترمہ پارہتی دیوی کے بطن سے اپنے دوھیال میں بمقام کنجر وڑ دتاں تحصیل شکر گڑ میں پیدا ہوئے.اس پلو ٹھے بیٹے کا نام ہریش چندر رکھا گیا.والد صاحب کے دو بڑے بھائی ہمیراج اور لال چند تھے.والد اور والدہ علی الترتیب موہیال قوم کی دت اور موہن شاخوں میں سے تھے.اس قوم کو اپنی بہادری کی روایات پر بڑا فخر ہے.اور وہ مدعی ہے کہ کبھی اس کی حکومت ہند وستان ، کشمیر اور کابل تک قائم تھی.بھائی جی کے آباء کنجر وڑ دیتاں میں ریاست ممدوٹ (ضلع فیروز پور ) سے یوں منتقل ہوئے کہ ان کو اس ریاست کے کاروبار میں بہت تصرف حاصل تھا.ان کا ایک فرد مسلمان ہو گیا جسے مطالبہ پر نواب ( ممدوٹ ) نے اس کی برادری کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا.چنانچہ ساری موہن قوم نے نواب کی افواج قاہرہ کا مقابلہ کر کے تلوار کا لقمہ بنا منظور کیا اور بوڑھے بچے اور عورتیں ترک وطن کر کے اپنی برادری کے پاس کنجر وڑ چلے آئے.عنوان ” ولادت تا عنوان’سیالکوٹ اور پھر قادیان پہنچنا اختصار ہے حضرت بھائی جی کے مضمون مندرجہ الحکم جلد ۴۱ نمبر ۱۲ تا ۱۵ مورخہ ۷ تا ۱۴ارمئی ۱۹۳۸ء کا.بوقت طبع دوم وہاں سے اس میں کچھ اضافہ کیا گیا ہے.(اضافہ بوقت طبع دوم ) ایک جگہ تاریخ ولادت کے بارے میں بھائی جی نے رقم فرمایا ہے: ماہ کا تک سمت ۱۹۳۰ بکرمی مطابق ہے محرم الحرام ۱۲۹۶ ء ہجری المقدس مطابق یکم جنوری ۱۸۷۹ء بمقام کروڑ دتاں تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور.تقسیم ملک کے بعد یہ تحصیل پاکستان میں آگئی اور ضلع سیالکوٹ میں شامل کی گئی.

Page 17

عبد طفولیت میں اسلام کا اثر اور ابتدائی تعلیم آپ ایک ماہ کے ہوں گے کہ والدہ صاحبہ ضلع گجرات میں بمقام مٹھا چک اپنے والد چوہدری گوپال داس کے ہاں آگئیں.جو وہاں پٹواری تھے.ایک رات آپ چار پائی سے گر پڑے تو ایک مسلمان معمر عورت مریم نامی نے اٹھا کر ساری رات اپنے ساتھ سلائے رکھا.بعد ازاں اسے آپ سے محبت ہو گئی اور وہ آپ کو رات کو بھی جدا نہ کرتیں.اور اکثر روزانہ آپ کو گود میں لے کر قرآن مجید کی تلاوت کرتیں اور آپ بالعموم ان کے ہاں کھا پی بھی لیا کرتے تھے.چار پانچ سال کی عمر میں آپ کے نانا نے آپ کو جکالیاں ( تحصیل پھالیہ ) کے مدرسہ میں داخل کرا دیا.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی عادات کو جو ماں مریم کی صحبت سے اسلامی رنگ میں ڈھلتی جا رہی تھیں.نانا نے بدلنے کی کوشش کی ہوگی.کیونکہ ایک روز ایک مسلمان لڑکا آپ سے چھو گیا.جبکہ آپ کے ہاتھ میں آپ کا کھانا تھا سو آپ نے کھانا پھینک دیا اور دن بھر بھوکے روتے رہے.یہ کھانا کسی ہندو ساتھی نے اٹھا کر رکھ لیا تھا اور کھانے کے وقت یہ تسلی دلا کر اسی کھانے کو کھا لینے پر اصرار کیا کہ ہم کسی کو نہیں بتلائیں گے لیکن آپ کو پانچ چھ سال کی اس ننھی سی عمر میں بھرشٹ کھانے سے موت بھلی معلوم ہوئی.چنانچہ موسم گرما کا لمبادن آپ نے پانی پی پی کر کاٹ دیا.والدین نے اظہار محبت کے لئے کانوں اور ہاتھوں میں بالیاں اور سمجھنے دار کڑے اور پاؤنٹے ڈال رکھے تھے.شدت گرما کی وجہ سے ہو کا عالم تھا.بھوک آپ کو بار بار ستاتی اور آپ بار بار کنوئیں کی طرف جاتے تھے.چنانچہ ایک مرتبہ جو گئے تو سنگدل رہٹ والے نے گلے میں کپڑا ڈال کر کھنچے کھنچتے آپ کو ایک گڑھیال کے اندر جا پٹکا اور وہ آپ کے سینہ پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا.اور آپ کے گلی کی ہنسلی نہایت بے رحمی سے کھینچ کر اتار لی اور درد کے مارے آپ کی چینیں جو نکلیں تو اس بد بخت نے آپ کا گلا اتنے زور سے دبایا کہ آپ کی آنکھیں باہر نکلنے کو آ ئیں اور آپ بیہوش ہو گئے اور ہوش آتے ہی سہم کر وہاں سے بھاگے.لڑکوں نے زیور اترے دیکھ کر ماسٹر صاحب کو بتایا.آپ سے تفصیل سن کر انہوں نے بھی اور بعد میں آپ کے نانا نے بھی موقعہ پر دریافت کیا لیکن کون اقرار کرتا ہے اس واقعہ پر آپ کے زیور ہمیشہ کے لئے اتار لئے گئے.پاک پیٹن کا عجیب واقعہ والد ماجد پاک پٹن میں بوجہ ملازمت مقیم ہوئے.مذکورہ بالا واقعہ کے باعث والدہ اپنے بچے کو

Page 18

آنکھوں سے اوجھل کرنا پسند نہ کرتی تھیں.اس لئے آپ یہاں پڑھائی سے محروم رہے.یہاں چھت سے گر کر آپ کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی.جس سے شفایاب ہونے پر ایک تالاب میں جہاں آپ والدہ کے ہمراہ گئے تھے.جوان لڑکیوں کو نہاتے دیکھ کر خطرہ نہ محسوس کرتے ہوئے آپ نے چھلانگ لگا دی.عورتوں کی چیخ و پکار پر مردوں نے آ کر آپ کو بچایا.اور آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نئی زندگی عطا ہوئی.والدہ آپ کو سناتی تھیں کہ محلہ کی عورتوں کے ساتھ میں پاک پٹن میں بابے کی خانقاہ پر نذ رعقیدت کے لئے گئی.واپسی پر ایک سفید ریش سبز عمامہ پوش بزرگ نے تمہیں اپنی طرف بلایا.لیکن میں گھبرا گئی اور تمہیں لے کر تیزی سے جانے لگی تو اس بزرگ نے جوش سے کہا کہ بیٹی ! یہ بچہ ہمارا ہے بہتر ہے خوشی سے ہمیں دے دو.اس کی پیشانی میں ایک ایسی چیز ہے جو تمہارے کام کی نہیں.مان لو تو بھلا ہو گا.ورنہ پچھتاؤ گی.میں وہاں سے تمہیں لے کر بھاگی اور پھر کبھی اس خانقاہ کا رخ نہیں کیا.میرے اسلام قبول کرنے کے بعد والدہ صاحبہ سرد آہ بھر کر فرمایا کرتیں کہ پچھن تو پہلے ہی سے ایسے تھے مگر افسوس ہم نے سمجھا نہیں تھا.تحصیل چونیاں میں بودوباش بعض مشکلات کے باعث والد صاحب تحصیل چونیاں ( ضلع لاہور ) کے دیہات دیر سنگھ والا.بھا گو والہ گجنسنگھ والا.ٹبی وغیرہ میں بطور مختار عام منتقل ہو گئے.یہ دیہات بعض سکھ سرداروں کی ملکیت تھے.یہاں آپ کی تعلیم ایک پنڈت کی زیر نگرانی ہونے لگی.جو ہندی کی تعلیم کے ساتھ بعض وید منتر بھی زبانی یاد کراتے اور آپ کی زبان کی صفائی اور روانی کی وجہ سے زیادہ تر توجہ استاد کی زبانی تعلیم پر ہی مبذول ہوگئی اور اس طرح بہت سے دید منتر آپ کو یاد ہو گئے.جو عام طور پر سکھ سردار اور بڑے بوڑھے شغل کے طور پر آپ سے سن کر خوش ہوتے تھے.وہاں کا واقعہ ہے کہ ایک روز والد صاحب نے ایک طاقچہ سے جوتا اٹھا لانے کو کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کے دماغ سے وہ طاقچہ محو کر دیا اور آپ دوسرے طاقچہ کی طرف بڑھے.وہاں پہنچنے کی دیر تھی کہ چھت بیٹھ گئی.صرف چند فٹ چھت نہ معلوم کس طرح کھڑی رہ گئی.اور آپ بچ گئے.ورنہ پہلے طاقچہ کی صورت میں ٹوٹ کر گرنے والے شہتیر سے آپ جاں بحق ہو جاتے.عہد طفولیت میں مذہبی سرگرمی آپ کے والد صاحب کا خیال آپ کی تعلیم کے متعلق تبدیل ہو گیا اور آپ کو چونیاں میں جو ان

Page 19

۴ مواضعات سے آٹھ دس میل کے فاصلہ پر تحصیل ہے مدرسہ میں داخل کرا دیا.اور آپ کی رہائش اپنی ایک ہم قوم چی صاحبہ کے ہاں رہی جو بڑھاپے اور بیوگی کے ایام صبر اور محنت ومشقت سے کاٹ رہی تھیں.آپ کے خیالات بدستور ہندوانہ تھے.دیوی دیوتاؤں کی پوجا پاٹھ اور شوالے مندروں میں جا کر گھنٹے بجانا.جگراتے اور آرتیوں میں شریک ہونا آپ کا کام تھا.سکول کو جاتے ہوئے اور واپسی پر دیوی دوارہ یا جو مندرراستہ میں پڑتا.سر جھکا کر ماتھا ٹیکے بغیر یا پرارتھنا کئے بغیر آپ ہر گز نہ گذرتے.اور اس کو آپ نیکی اور سعادت کا موجب یقین کیا کرتے تھے.آپ اپنی قومی رسوم کے نہایت سختی سے پابند تھے.اور خوشی سے ان کی پابندی کیا کرتے تھے.خواہ کتنی بھی آپ کو تکلیف کیوں نہ ہو.آپ ہر قسم کے برت رکھتے اور دیانتداری سے ان کو نبھاتے تھے.حتی کہ بعض قسم کے برت اسلامی روزہ سے بھی زیادہ لمبے ہوا کرتے تھے وہ بھی آپ رکھتے تھے.قومی رسم کے مطابق گنا کھانا ایک خاص وقت ( غالباً اسوج کے آخر یا کا تک کے شروع ) تک ممنوع تھا اور خاص پابندی تھی کہ جب تک مقررہ دن با قاعدہ دیوی دیوتا کے سامنے اپنے جسم کا خون بطور بھینٹ نہ چڑھا لیتے گنا نہ کھایا جاتا تھا.آپ باوجود بچپن کے صبر کرتے.اور اس رسم کو خوشی خوشی ادا کرنے کے بعد گنا کھانے کا نام لیتے.دیوی دیوتا کے سامنے نہایت عقیدت اور شوق سے اپنے جسم کا خون گراتے اور اس میں حوصلہ اور برداشت کا غیر معمولی نمونہ دکھایا کرتے جس سے عموماً آپ سے بڑے بھی گھبرایا کرتے تھے.آپ عموماً سردی و گرمی میں سویرے اٹھتے اور غسل کے لئے تالاب پر جایا کرتے اور وہ دید منتر (جو دیہاتی زندگی میں آپ کو پنڈت استاد نے یاد کرائے تھے اور موجودہ معمر اور مذہبی خیال کی دادی کی تربیت کے باعث وہ روح آپ میں قائم تھی ) پڑھ پڑھ کر پوجا پاٹھ اور پرارتھنا کیا کرتے تھے.یہ اس زمانہ کے حالات ہیں جبکہ آپ کی عمر نو دس یا گیارہ سال کی تھی.انہی ایام میں ایک روز آپ کے بڑے بھائیوں وغیرہ نے کچھ وعظ ونصیحت اور کچھ دھمکی سے آپ کو حقہ پلایا تا عادی ہو کر آپ اس رنگ میں بڑوں کی خدمت کر سکیں.لیکن ایک ہی کش سے آپ کی آنکھیں پھر گئیں.سر میں چکر آنے لگے اور بے ہوشی تک نوبت پہنچ گئی.چنانچہ ان لوگوں نے پشیمان ہو کر یہ کہتے ہوئے آپ کو ہمیشہ کے لئے آزاد کر دیا کہ : ” چھوڑ وا سے، یہ ہمارے کام کا نہیں.“ ایک روز ایک خالہ نے ہنسی مذاق میں آپ کو بازوؤں سے پکڑ کر چکر دیا.جس سے بُنِ ران میں شدید درد ہو گیا حتی کہ گنبھیر ہو گیا اور آپ اٹھنے بیٹھنے سے معذور ہو گئے.اور سخت تکلیف اٹھائی اور ایک سال کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا اور آپ کو شفا ہوئی.

Page 20

والد ایک سادھو کے جال میں نقل مکانی وغیرہ میں آپ کی تعلیم کے دو تین سال ضائع ہو گئے.اب والد صاحب نے فیصلہ کیا کہ آپ چونیاں میں ہی زیرتعلیم رہیں.چنانچہ جنوری یا فروری ۱۸۹۵ء تک آپ وہاں ہی تعلیم پاتے رہے.اس دوران میں کچھ عرصہ والد کسی سادھو کے ایسے گرویدہ ہو گئے کہ ملازمت ترک کر کے دور کہیں گوالیار کے پہاڑوں اور جنگلوں میں اور کہیں ہمالیہ اور اور بندھیا چل کی چوٹیوں پر بعض جڑی بوٹیوں کی تلاش میں ایسے سرگرداں رہے کہ دو تین سال تک ان کا کوئی پتہ نہ چلا اور والدہ نے گھر کا اندوختہ اور ضروریات تک اٹھا اٹھا کر بچوں کی پرورش کی اور باوجود تنگی ترسی کے بچوں کو والد کی گمنامی کا علم نہ ہونے دیا.بھائی عبدالرحمن صاحب کو علم ہو گیا تو انہوں نے اپنی مہربان والدہ سے عرض کیا کہ آپ تسلی رکھیں ، گھبرائیں نہیں.میں نے خط لکھنا تو سیکھ لیا ہے، اب سکول کو چھوڑتا ہوں اور محنت مزدوری کر کے جو کچھ حاصل کروں گا آپ کی خدمت میں حاضر کر دیا کروں گا.آپ میرے بھائی بہنوں کی اچھی طرح سے پرورش کریں اور ان کو اچھی تعلیم دلائیں.والدہ پر ان الفاظ کا ایسا اثر ہوا کہ وہ آپ کو چھاتی سے لگا کر زار و قطار رونے لگیں اور آپ کو تسلی دی کہ نہیں تمہارے ابا کا خط آ گیا ہے وہ جلد آتے ہیں....خدا کی شان کہ والدہ نے تو محض تسلی کے لئے یہ کہا تھا مگر چند ہی روز بعد والد کی طرف سے خط اور خرچ آ گیا اور اطلاع کے مطابق وہ جلد آ گئے.ان کے خیالات مہوسانہ تھے.سینکڑوں روپیہ نسخہ جات کیمیا کی نذر کر دیا اور سیکھا تو صرف یہ کہ گندھک اور پارہ کا گلاس بنا لیا کرتے تھے اور بس.آخر تنگ آ کر پھر بطور پٹواری سرکاری ملازمت حاصل کرلی.حب اسلام کا آغاز والد پرانے زمانہ کی طرز تعلیم کے باعث لائق فارسی دان قابل منشی اور خوشخط و خوشنویس تھے.تعلیم فارسی چونکہ مسلمان اساتذہ سے پائی تھی اس لئے ان کے خیالات میں کبھی کبھی اسلامی جھلک نظر آتی تھی اور ایک حد تک ان کے خیالات اپنے بیٹے کے لئے خضر راہ ہوئے.مزید یہ کہ آپ کے بیٹے نے چوتھی یا پانچویں جماعت کے نصاب میں ”رسوم ہند“ نامی کتاب بھی پڑھی.اور آپ پر اس نے ایسا مقناطیسی اثر کیا کہ آپ کی کایا پلٹ ہو گئی.آپ ظلمات کی گھٹا سے نکل کر جالے میں آگئے.اور بت برستی کے موروثی جذ بہ پر بہت شکنی و

Page 21

۶ وحدت پرستی کا فطری نور غالب آ گیا.اور آپ قید بت خانہ و بتاں سے نجات پا کر خدائے واحد دیگا نہ کا آزاد بندہ بننے لگے.آپ کے دل کی کھیتی میں حُبّ اسلام کا پہلا پاک اور مقدس تخم اسی قیمتی کتاب کے مطالعہ سے بویا گیا جس کے مصنف نے نہ معلوم کس پاک نیت اور نیک ارادے سے اس کتاب میں نور اور ظلمت کو ایسے رنگ میں یکجا جمع کر دیا.کہ فطرت سلیم اس سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتی.آپ بیان کرتے ہیں کہ قابل اور نیک دل مصنف نے بغیر اشارہ کسی اور بغیر کسی ایک بھی تبلیغی فقرہ لکھنے کے ابتداء میں ہندوؤں کے مذہبی رسوم ورواج ، ان کے اکابر کے بعض حالات اور معاشرتی آئین درج کر دیئے ہیں اپنی طرف سے نہ کوئی جرح کی ہے نہ تنقید.دوسرے حصہ میں مسلمانوں کے عقائد.رسوم و رواج اور انبیاء کے حالات درج کر کے آخر میں صرف ایک سبق آموز افسانہ لکھ دیا ہے اور بس.طرز تحریر بالکل غیر جانبدارانہ ہے اور کتاب کو ٹیکسٹ بک (نصاب تعلیم مروجہ وقت ) بنا کر اس کے واقعات مندرجہ کی صحت کی تصدیق دونوں قوموں کے نمائندوں نے کر دی تھی.کتاب کیا تھی ایک شفاف آئینہ تھا جس میں نور اور ظلمت دونوں کا فوٹو ہو بہو ( اس زمانہ کے خیالات اور تحقیق کے مطابق ) یکجا جمع تھا اور ہر فطرت اپنی استعداد و قابلیت اور مناسبت کے لحاظ سے اپنے ہم جنس کی طرف جھک جانے پر مجبور تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک زمانہ تک سینکڑوں ہی نیک فطرت انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کی عزت اس کتاب کو بخشی.مگر آخر کار متعصب اور مالدار سرکاری اداروں پر قابو یافتہ ہندوؤں کی کوشش کا شکار ہو کر نصاب تعلیم سے خارج کر دی گئی انالله وانا اليه راجعون عیسائیوں اور آریوں کی سرگرمیاں حضرت بھائی جی بیان کرتے ہیں کہ میرے خیالات کا یہ انقلاب ۱۸۸۹ء ،۱۸۹۰ ء یا زیادہ سے زیادہ ۱۸۹۱ء سے تعلق رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اسی زمانہ میں چونیاں پر عیسائی مشنریوں نے دھاوا بول رکھا تھا اور ان کے مناد نئے نئے رنگ میں لوگوں کا متاع ایمان چھین لینے اور ان کے مذہبی عقائد پر ڈاکہ ڈالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے.کبھی تو وہ اپنے خاص انداز اور شان وشوکت کی نمائش کرتے.کبھی بچوں اور نو جوانوں کے دل موہ لینے کے وسائل اختیار کرتے اور کبھی کبھی نہایت ہی خوبصورت اشیاء کی تقسیم عام کے ذریعہ سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا کرتے اور تما شا اور تصاویر دکھا کر نوجوانوں کے دل لبھانے اور طمع دے کر پھانسنے تک سے بھی دریغ نہ کیا کرتے.دوسری طرف ہندو قوم

Page 22

چونکہ بڑی ہوشیار اور موقعہ شناس واقع ہوئی ہے اس نے جب عیسائیوں کی سرگرمیوں کو دیکھا تو اپنی نئی پود کو سنبھالنے کی کوشش و فکر میں لگ گئی اور آریوں نے نت نئے جلسے جلوس اور نگر کیرتن کے رنگ جمانے شروع کر دیئے.ان کے بڑے بڑے اپریشک آتے، لیکچر ہوتے اور بحث ومباحثے کے اکھاڑے اکثر لگتے رہتے.اس طرح ہندوؤں نے تو اپنی عقلمندی سے اپنے نو جوانوں کا رخ پلٹ دیا.اور جو رنگ عیسائی منا د اختیار کرتے ہندو بھی اس سے پیچھے نہ رہتے.گانے بجانے میں تو استریوں کی شرکت کی وجہ سے آریوں کے اکھاڑے عیسائیوں سے بھی زیادہ بارونق ہو جایا کرتے.باقی رہ گئے بیچارے مسلمان جو بے سری فوج یا بغیر دولہا کے برات تھے، منتشر اور بکھری ہوئی بھیڑوں کی طرح ان کو جو چاہتا اچک لیتا تھا.نہ کوئی نگران تھا نہ پاسبان.بعض خاندانی لوگ عیسائیت کا شکار ہو گئے.اور بعض آر یہ خیالات کی وجہ سے دہر یہ بن گئے.غرض وہ زمانہ بھی عجیب کشمکش کا زمانہ تھا.اور چونیاں کا شہر ریلوے سے دور ہونے کی وجہ سے عیسائیوں اور آریوں کا ایک شکارگاہ بن رہا تھا.اور عام حالات کے لحاظ سے کہا جا سکتا تھا کہ دونوں کا حملہ اسلام کے خلاف تھا.اس زمانہ میں قلبی کیفیت آپ بیان کرتے ہیں کہ میرے قلب کی بھی عجیب کیفیت تھی اسلام کی محبت میرے دل میں گھر کر چکی تھی اور حلاوت ایمانی میرے رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی.مذہب اور خدا کا خیال میرے دل میں نمایاں جگہ لے چکا تھا.اس لئے میں عیسائیوں کے لیکچروں میں بھی چلا جاتا اور آریوں کے جلسوں اور جلوسوں میں بھی شریک ہو جایا کرتا تھا کیونکہ عیسائی خداوند خدا کے نام پر بلاتے اور آریہ بت پرستی کے خلاف اور توحید کی تائید میں گیت گاتے اور پکار پکار کر ایشور پر ما تھا اور سرب شکتی مان کے نام پر بلاتے تھے.میں خیالات کے لحاظ سے ایک طرف سے تو بالکل کٹ چکا تھا اور نیا پیوند میرا ابھی بالکل تازہ تھا.گو قلبی کیفیت کے لحاظ سے مجھے اطمینان اور تسلی تھی کہ اسلام ہی ( جسے میں ابھی تک صرف نام کے لحاظ سے ہی جانتا تھا اور اس کی تفاصیل سے نا واقف تھا ) سچا مذہب ہے.اور یہ بات میں نہیں سمجھتا کہ کیونکر میرے دل میں میخ فولاد کی مانند گڑ گئی تھی.مگر تا ہم میں آریوں اور عیسائیوں کی مجالس میں شریک ہوتا کہ شاید وہ چیز جس کی مجھے تلاش ہے انہی کے ہاں سے ملے.مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مجھے کبھی ایک لمحہ کے واسطے بھی ان دونوں خیالات کے بڑے سے بڑے لیکچراروں کے عالمانہ خطبے اور لیکچر سن کر اس چیز کی صداقت میں شک و شبہ نہ پیدا ہوا جس کو خدا نے اپنے فضل سے خود اپنے ہاتھوں میرے دل میں گاڑ دیا

Page 23

تھا.بلکہ میرا ایمان اور یقین اور بھی ترقی کرتا چلا گیا.اور اگر چہ اس روحانی پودے کی آبیاری کرنے والے کوئی بھی ظاہری سامان موجود نہ تھے.بلکہ معاملہ اس کے برعکس تھا کیونکہ مسلمانوں پر مردنی چھائی ہوئی تھی.اور وہ خواب غفلت میں پڑے تھے اور کفر موجزن تھا.مگر وہ بیج خدا سے غذا پا تا اور مضبوط تر ہوتا چلا گیا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَن هَدْنَا اللهُ - دور وياء اس وقت سے جبکہ بچپن میں آپ کا سینہ نور اسلام سے منور ہو چکا تھا آپ کو بعض خوا میں بہت صاف اور واضح آتیں جو بہت جلد یا کچھ دن بعد بعینہ پوری ہو کر آپ کی ترقی ایمان کا باعث ہوتیں.آپ ہمیشہ انہیں مخفی رکھتے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے.چنانچہ اسی زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بار یک در باریک حکمت اور مصلحت کے ماتحت یکے بعد دیگرے دو خواب دکھا کر آپ کے ایمان کو تازگی اور مضبوطی بخشی.چنانچہ پہلی رویا میں قیامت کا نظارہ دکھایا گیا.جو اپنی ساری تفاصیل اور کیفیات کے ساتھ جو آپ کے اس وقت کے خیالات اور علم و وسعت کے مطابق تھیں آپ کو ایک کمرہ کے اندر دکھایا گیا.جو بمشکل ۱۰×۰افٹ ہوگا اور وہ اس سکول کا دفتر تھا جس میں آپ تعلیم پایا کرتے تھے.ان دنوی چونیاں کا مدرسہ شہر کے جنوبی جانب واقع تھا.جو بعد میں نیلام ہو کر کنک منڈی میں تبدیل ہو گیا.اس نظارہ میں نہ کوئی آئندہ کی خبر تھی نہ علمی بات.مگر اس سے آپ کے قلب کو وہ طاقت ملی اور آپ کے ایمان میں اتنی تازگی آئی کہ آپ بیان کرتے ہیں کہ آج تک بھی میں اس اثر اور لذت اور قوت و شوکت کو محسوس کیا کرتا ہوں.اور حقیقت یہ ہے کہ واقعی وہ ایک قیامت تھی جو میرے پہلے خیالات پر آئی.آپ بیان کرتے ہیں کہ دوسرا خواب بھی قریباً اسی زمانہ میں یہ دکھایا گیا کہ ایک وسیع اور شاداب قطعہ آب میں بعض آبی جانور بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں.میں اس میں تیرتا اور غسل کرتا پھرتا ہوں.پانی زیادہ گہرا نہیں.محض شوق سے کبھی تیرتا ہوں اور کبھی کھڑا ہو جاتا ہوں.اچانک ایک مگر مجھے مجھ پر لپکا اور اس نے مجھے نگلنا شروع کر دیا.پہلے پاؤں پکڑے اور ہوتے ہوتے کمر تک مجھے نگل گیا.جب میں نے دیکھا کہ میرے جسم کا نصف حصہ ایک خطر ناک اور زبردست دشمن کے قبضہ میں ہے تو معا کسی بیرونی تحریک کے ماتحت میں نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیئے اس خیال سے کہ ایسا کرنے سے وہ اب مجھے نگل نہ سکے گا.کیونکہ اس کا منہ چھوٹا ہے اور میرے ہاتھوں کا پھیلاؤ بہت وسیع ہو گیا ہے.اور ساتھ ہی میں نے

Page 24

۹ دونوں ہاتھوں سے اس مگر مچھ کا منہ سر اور آنکھوں کو نو چنا شروع کر دیا.جس کے نتیجہ میں وہ کمر سے آگے نگل بھی نہ سکا.بلکہ مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا اور اس طرح میں اس کے پھندے سے صحیح سلامت بچ گیا.اور میرے جسم کو کوئی گزند بھی نہ پہنچا.الحمد الله، الحمد لله ـ ثم الحمد الله علی ذالک مسلمان طلبہ ، مساجد، عید گاہوں اور اذان سے محبت اور منادر سے نفرت آپ کے خیالات کی تبدیلی اور قلبی انقلاب کے نتیجہ میں آپ کو ہند و طلباء اور دوستوں کی بجائے مسلمان طلباء اور لڑکوں سے محبت ہونے لگی اور اٹھنا بیٹھنا کھیلنا کودنا ، ملنا جلنا اور چلنا پھرنا غرض عام سوسائٹی کے تعلقات کا نقشہ ہی پلٹ گیا.گویا روحانی انقلاب کے ساتھ جسمانی تعلقات میں بھی انقلاب رونما ہو گیا.مدرسہ میں آپ کی مضمون نویسی اور مباحث (Debate) میں اسلامی رنگ اور نقطہ نظر غالب ہونے لگا اور نوبت بعض اوقات یہاں تک پہنچ جایا کرتی کہ بعض متعصب لڑ کے بحث سے تنگ آ کر کھلم کھلا آپ کو مسلمان یا مسلمانوں کا طرفدار کہنے لگ جاتے.مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر اس زمانہ میں مولوی جمال الدین مولوی فاضل و نشی فاضل سکنہ للیانی متصل قصور تھے اور ان کے نائب ایک صاحب منشی یا مولوی عبداللہ صاحب تھے.جو وہ بھی غالباً اسی قصبہ للیانی ہی کے باشندے یا اس کے آس پاس کے رہنے والے تھے.اور دو استاد ہندو اور سکھ تھے.مضمون نویسی کا بچپن میں آپ کو زیادہ شوق تھا.جس کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ رسوم ہند کے مطالعہ کے نہایت گہرے اور پائیدار اثر کے ماتحت آپ مضامین میں سادگی سے اپنی قلبی کیفیات کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کیا کرتے تھے جس سے ہند و طلباء جو نہایت متعصب اور آریہ خیالات میں پرورش پاتے تھے خواہ مخواہ کھینچ تان کر آپ کو اپنا مد مقابل بنالیتے اور اس طرح بحث شروع ہو جاتی.اور یہی وجہ ہوئی کہ ہوتے ہوتے آپ کے خیالات اور بھی زیادہ وسیع اور پختہ ہوتے چلے گئے اور آپ کو ہندوؤں سے نفرت اور مسلمانوں سے محبت بڑھنے لگی.آخر آپ کی نشست و برخاست اور ربط و اختلاط مسلمانوں سے بہت بڑھ گیا.اور آپ ہندوؤں سے قریباً منقطع ہو گئے.اور اب آپ بجائے منادر اور شوالوں وغیرہ کے مساجد کے دروازوں پر جا کر کھڑے ہوتے.کبھی ان کی چاردیواری پر بیٹھ کر میں باندھے، قطار در قطار کمر بستہ کھڑے مسلم نمازیوں کو خدا کی عبادت کرتے ، اس کے حضور گرتے اور اس سے دعائیں کرتے دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں لطف اٹھاتے اور اثرات قبول کیا کرتے.خصوصاً جبکہ نماز با جماعت ہو رہی ہوتی.اور مسلمان قطار در قطار صفوں میں کھڑے ہوتے.

Page 25

1.کبھی رکوع کرتے ، اور کبھی سجدات، تو یہ نظارہ آپ کے لئے نہایت ہی دلکش اور روح پرور ہوا کرتا تھا.آپ عید کے روز عیدگاہ کی چار دیواری پر جا بیٹھتے اور جمعہ کو جمعہ پڑھنے والوں کی حرکات کو محبت بھری نگاہوں سے جامع مسجد کے صحن یا چار دیواری سے جھانک جھانک کر اپنی روحانی ترقی کے سامان اور قلبی مسرت حاصل کرتے.اور ان باتوں کے لئے کوئی بھی ظاہری محرک نہ تھا.صرف آپ کے دل کی خواہش اور روحانی تحریک ہی محرک ہوتی تھی.آپ کو بجائے بت گروں اور بت پرستوں کے مؤحدوں، خدا پرستوں اور بت شکنوں سے محبت تھی اور بجائے بت خانوں اور بت کدوں کے مساجد اور عید گاہیں آپ کی روحانی دلچسپی کا موجب تھیں.گھنٹے اور گھڑیال جومنا در و بتکدوں سے صبح و مسا بجتے اب وہ آپ کی توجہ کو پھیرنے سے قاصر تھے مگر آپ کے تیز چلتے ہوئے قدم دوڑتے ہوئے پاؤں اور بھاگتا ہوا جسم رکتا اور قدم لرزہ کھا جاتے تو اس خدائے برتر کے نام سے شروع ہونے والی آواز پر جو کہ اللہ اکبر اللہ اکبر سے شروع ہوا کرتی تھی مسجد کے صحن یا مینار سے.آپ جہاں بھی ہوتے جدھر بھی جارہے ہوتے، جس حال میں بھی ہوا کرتے اذان کے پہلے لفظ پر ہی کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور نہ چلتے اور نہ منہ پھیر تے.جب تک کہ وہ مقدس آواز پوری ختم نہ ہو جاتی.آپ اذان کے کلمات سے بھی نا آشنا اور اس کے معانی و مقاصد سے بھی ناواقف تھے مگر دل میں اس طریق پکار، طرز نداء اور نام خدا کی ایک ہیبت ، ایک ادب ، اور ایک قسم کا جوش و نشہ آ جایا کرتا کہ بغیر کسی گذرنے والے ہند وطعنہ زن کے طعنہ کی پروا کرنے کے آپ مقام ادب پر کھڑے ہو جاتے اور اس میں آپ کو ایک ایسا لطف ، لذت اور سرور ملتا تھا کہ جس کا بیان کرنا ممکن نہیں.آپ فرماتے ہیں کہ گو یہ اس وقت کے مسلمانوں کی تقلید ہی تھی مگر حق یہ ہے کہ مجھے اس راہ سے بھاری برکت ملی.مسلمانوں کا اس وقت یہ حال تھا کہ ہیڈ ماسٹر سے لے کر ہم جماعت مسلمان لڑکوں حتی کہ بعض آپ کے خاص دوستوں تک نے بھولے سے بھی آپ کو کوئی کلمہ خیر کہنے کی توفیق نہ پائی.نہ تبلیغ کی.حالانکہ آپ دن رات ان کے ساتھ رہتے تھے.بعض اوقات آپ خود بازار سے نماز کی کتاب خرید کر تنہائی میں بعض دوستوں کے گھر پر پہنچے اور چاہا کہ وہ آپ کو نماز کا سبق پڑھا ئیں.مگر انہوں نے کبھی کوئی عذر کر کے ٹال دیا اور کبھی کوئی بہانہ بنا کر معذرت پیش کر دی.راہ نجات، طریق النجات اور بعض اور ارود کتب ورسائل جن کا آپ کو پتہ ملتا.کبھی کہیں سے کبھی کہیں سے حتی کہ بعض اوقات بمبئی تک سے ٹکٹ بھیج کر منگوا کر پڑھتے اور لڑکوں میں تقسیم بھی کر دیا کرتے تھے.بعض سادات گھرانے اور قاضی فیملی شہر میں صاحب

Page 26

11 ثروت اور علم دوست بھی تھے اور آپ کے انہی لوگوں سے تعلقات محبت بھی تھے.مگر ان کی دوستی اور محبت و وفا بھی صرف دوستی تک ہی محدود تھی.روحانی بہبودی اور بھلائی کا کبھی کسی کو خیال تک بھی نہ آیا.آپ کی روحانی تربیت گوانہوں نے نہ کی مگر ان لوگوں کے تعلقات کا اثر ضرور آپ پر ہوتا چلا گیا.اور وہ بیج جو اللہ تعالیٰ نے ”رسوم ہند کے ذریعہ آپ کے دل میں خود اپنے ہاتھ سے گاڑا تھا اگ کر پودا بنتا اور صرف اسی کے فضل کی آبیاری سے سنچتا اور بڑھتا گیا.رات کو سوتے وقت آپ اس بات کا خاص اہتمام کرتے تھے کہ پاؤں قبلہ کی طرف نہ ہوں اور اگر کبھی والدہ محترمہ چار پائی اسی طرح بچھا دیتیں تو آپ کوشش کر کے بجائے مشرق کے مغرب کو سر ہانہ بنا کر سویا کرتے.بعض اوقات والدہ کے حکم سے مجبور ہو کر دوسرے رخ سوجاتے تو سوتے میں اٹھ کر غلبہ خیال کے باعث آپ پاؤں بجائے قبلہ کے مشرق کو کر لیا کرتے تھے.اور والدہ صبح کو دیکھ کر خفا ہوتیں کہ یہ کیا عادت ہے.تم سر ہانے کی بجائے پائینتی کی طرف سو جاتے ہو.حضرت مسیح موعود کے متعلق کیا سنا !! آپ بیان کرتے ہیں کہ باوجود یکہ ۹۴-۱۸۹۳ء کے زمانہ میں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا جابجا چر چا تھا.مگر چونیاں کے مسلمان کچھ ایسی حالت جمود وسکوت میں تھے کہ کم از کم میرے کانوں تک اس زمانہ میں حضور پر نور کا ذکر نہ پہنچا.البتہ ایک بات مجھے یاد ہے کہ جو میرے کان میں پڑی تھی جسے بعد میں قادیان پہنچ کر بلکہ اس سے پہلے سیالکوٹ میں سمجھا وہ یہ تھی کہ ایک لڑکے نے جو کسی تقریب پر لا ہور وغیرہ گیا تھا واپسی پر مجھ سے ذکر کیا کہ اس سفر میں ایک عجیب بات سننے میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان مولوی نے جو بڑا عالم ہے ایک انگریز کی موت کی پیشگوئی کی اور وہ پوری ہوگئی.“ اور میرے سوال پر بتایا کہ و شخص دور کہیں روس کی سرحد پر رہتا ہے.گاؤں کا نام سنا تو تھا مگر یاد نہیں رہا.“ کسوف و خسوف اور مہدی کے پالینے کے لئے دعائیں کرنا آپ بیان کرتے ہیں کہ ۱۸۹۴ء کے رمضان المبارک میں مہدی آخر الزمان کے ظہور کی مشہور

Page 27

۱۲ -1 -٢ علامت کسوف و خسوف پوری ہوگئی.وہ نظارہ آج تک میری آنکھوں کے سامنے ہے اور وہ الفاظ میرے کانوں میں گونجتے سنائی دیتے ہیں جو ہمارے ہیڈ ماسٹر مولوی جمال الدین صاحب نے اس علامت کے پورا ہونے پر مدرسہ کے کمرہ کے اندر ساری جماعت کے سامنے کہے تھے کہ ” مہدی آخر الزمان کی اب تلاش کرنا چاہئے وہ ضرور کسی غار میں پیدا ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے ظہور کی بڑی علامت آج پوری ہو چکی.“ میں بھی جماعت میں موجود تھا.وہ کمرہ ، وہ مقام اور لڑکوں کا وہ حلقہ اب تک میری نظر کے سامنے ہے وہ کرسی جس پر بیٹھے ہوئے مولانا نے یہ الفاظ کہے.وہ میز جس پر ہاتھ مار مار کر لڑکوں کو یہ خبر سنائی.خدا کے حضورضرور اس بات کی شہادت دیں گے کہ مولوی صاحب موصوف پر اتمام حجت ہو چکی.باوجو داس نشان کا اعلان کرنے کے خود قبول مہدی آخر الزمان سے محروم ہی چلے گئے.” مہدی آخر الزمان“.میرے کان ابھی تک اس نام سے نا آشنا تھے.ان کا کسی غار میں پیدا ہونا“، ان کے ظہور کی بڑی علامت یہ الفاظ میرے واسطے اور بھی اچنبھا تھے.میں مڈل میں تعلیم پاتا تھا.طبیعت میں ٹوہ کی خواہش پیدا ہوئی.استاد سے بوجہ حجاب اور ادب نہ پوچھ سکا.آخر ہم جماعتوں سے اس معمہ کا حل چاہا.جنہوں نے اپنے مروجہ عقیدہ و خیال کے مطابق سارا قصہ کہہ سنایا.میرے دل میں جو -٣ تاثرات ان قصوں کو سن کر پیدا ہوئے.اور جنہوں نے میری روحانیت میں اور اضافہ کیا وہ یہ تھے: تیرہ سو سال قبل ایک واقعہ کی اطلاع دینا جو دوست دشمن میں مشہور ہو چکی ہو.اور پھر اس کا عین وعدہ کے مطابق پورا ہو جانا.- وہ واقعہ انسانی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ آسمان پر ہوا جہاں انسان کی پہنچ نہیں اور نہ ہی انسان کا کسی قسم کا اس میں دخل ہے.مہدی آخرالزمان کی شخصیت.اس کا کفر کو مٹانا.اسلام کو بڑھانا اور اسلامی لشکر تیار کر کے کافروں کو تلوار کے گھاٹ اتارنا اور مسلمانوں کی فتوحات کے خیالات.دعا اور اس کی حقیقت.خدا کا بندوں کی دعاؤں کو سننا اور قبول کرنا.کیونکہ اولیاء امت محمدیہ مہدی آخر الزمان کے لئے دعائیں کرتے رہیں ہیں.آخر وہ قبول ہوئیں.یہ باتیں اسلام کی صداقت کی واضح اور بین دلیل ہیں اور اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو خدا کو پیارا اور خدا تک پہنچنے کا ذریعہ ہے.

Page 28

۱۳ یہ پنجگانہ امور اپنی مجمل سی کیفیت کے ساتھ میرے دل پر اثر انداز ہوئے اور اس واقعہ نے میرے ایمان میں ترقی و تازگی اور روحانیت میں اضافہ کر دیا.اور میں بھی مہدی آخر الزمان کو پانے کے لئے بیتاب ہونے لگا.جس کے حصول کے لئے مجھے دعاؤں کی عادت ہو گئی.میں راتوں کو بھی جاگتا اور دن میں بھی بے قرار رہتا اور مہدی آخرالزمان کی تلاش کا خیال بعض اوقات ایسا غلبہ پاتا کہ باوجود کم سنی کے میں دیوانہ وار ان بھیا نک کھنڈرات میں نکل جایا کرتا اور پکار پکار کر اور بعض اوقات رورو کر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور اس مقدس وجود کے پانے کے لئے التجائیں کیا کرتا تھا.ان واقعات کو سننے یا پڑھنے والے تو تعجب کریں گے ہی مگر میں خود بھی اپنے ان حالات کو سامنے رکھ کر بے حد متعجب ہوا کرتا ہوں اور حقیقت یہی ہے کہ وہ حالات تھے بھی حیرت ناک اور تعجب انگیز اور ان میں دیوانگی اور جنون کا رنگ پایا جاتا تھا.میں مجلسی زندگی سے متنفر اور تنہائی پسند ہو گیا اور آبادی کی نسبت جنگل اور ویرا نے مجھے بھانے لگے اور اسی میں میری راحت، خوشی اور سارا سامان سرور ہوا کرتا تھا.میں کھیل کود کا مشتاق تھا.میرا بدن چھریرا مگر مضبوط تھا.سکول کے جمناسٹک ماسٹر جسمانی ورزش کے کرتبوں دوڑ بھاند اور کرکٹ کی وجہ سے خوش تھے.مگر یہ ساری باتیں ایک عرصہ کے لئے مجھ سے جدا ہو گئیں اور مجھے کسی چیز سے سوائے تنہائی میں دعا کے دلچسپی باقی ہی نہ رہ گئی.اور یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ نے میری خواہش بلکہ علم کے بھی بغیر میرے سینہ و دل پر ایمان کا بیج بویا.شگوفہ نکالا.اور اس کی آبیاری فرما کر پودا بنا دیا.اسی طرح غیب ہی سے اس نے خود سارے سامان اس کی حفاظت و ترقی کے بھی جمع فرما دیئے.مجھ سے اگر کوئی دلیل کا طالب ہوتا تو میں نفی میں جواب دیتا.اور صرف یہ بتا سکتا کہ میرے دل میں ان صداقتوں کا آفتاب اور ماہتاب کے وجود کی طرح یقین ہے.اس کے سوا کوئی دلیل نہ تھی کیونکہ میں نے اس نور کو کسی دلیل سے حاصل نہ کیا تھا.بلکہ خود خدا نے مجھے وہ نور دیا تھا.ایک نئے دور کا آغاز اور نقل مکانی بوجہ افشائے راز یہ سلسلہ کم و پیش جاری ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر سید میر حیدر صاحب کو چونیاں میں پہنچا دیا.جو مکرم سید امجد علی شاہ صاحب سیالکوٹی ( خلف حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب) نے خاکسار مؤلف کے استفسار پر مکرم سید نذیر حیدر صاحب سے دریافت کر کے تحریر فرمایا ہے کہ ڈاکٹر حیدر صاحب حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب سیالکوٹی کے پھوپھی زاد بھائی تھے.طلبہ ککے زئیاں میں ان کا مکان ہے.

Page 29

۱۴ حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کے رشتہ دار تھے.آپ کے ایک صاحبزادے سید بشیر حیدر صاحب، بھائی جی کے کلاس فیلو بنے جن سے آپ کو خاص طور سے محبت تھی.اور وہ بھی رحمت و برکت کا موجب ہو گئے.اور ان کے آنے سے آپ کی زندگی کا بالکل ایک نیا دور شروع ہو گیا.سید بشیر حیدر صاحب کے بڑے بھائی سید نذیر حیدر صاحب بھی بھائی جی سے محبت اور مروت کا معاملہ فرماتے اور وہ ہر لحاظ سے تربیت کا خیال رکھتے.اور موقعہ محل پر نصیحت و خیر اندیشی کا کوئی دقیقہ نہ اٹھار کھتے.عجیب اتفاق کی بات ہے کہ اس زمانہ میں بھی آپ کے دوست آپ کو ” بھائی جی“ کے نام سے پکارتے اور عزت و محبت کی نظر سے دیکھتے تھے اور آپ عموماً اپنے دوستوں کو نیکی کی ترغیب دلاتے تھے حتی کہ اس کی خاطر بعض دفعہ آپ روزے بھی رکھتے.جس سے آپ کے دوست متاثر ہوئے اور روزے رکھنے لگے.گویا یہ سب ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے.بدیوں سے روکتے اور نیکیوں کی تحریک کرتے اور اشرار اور بدمعاشوں سے بدی مٹانے کی خاطر لڑتے.غالبا ۱۸۹۴ء کے آخر کی بات ہے کہ آپ کے چھوٹے بھائی بہاری لال کی ایک مسلمان لڑکے سے لڑائی ہوگئی.مغلوب ہونے پر مسلمان لڑکے نے اپنے بچاؤ کے لئے اس راز کو قربان کر دیا.جو آپ کے بقیہ حاشیہ: - ۱۹۰۴ء میں بمقام سمبڑیال ( ضلع سیالکوٹ) ہسپتال میں تعینات تھے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سال سیالکوٹ تشریف لائے تو واپسی پر ڈاکٹر صاحب نے بمقام سمبڑیال ہی ریل گاڑی میں بیعت کی تھی ڈاکٹر صاحب کے فرزند سید نذیر حیدر صاحب نے جو بعمر چوراسی سال بقید حیات ہیں ۱۹۰۳ء میں جہلم جا کر بیعت کی تھی جب بہ مقدمہ کرم دین حضور وہاں تشریف لے گئے تھے.ان کے دو بیٹے سید فیاض حیدر صاحب سید سجاد حید ر صاحب احمدی ہیں.سید بشیر حیدر صاحب ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر ملازمت سے سبکدوش ہو کر لاہور میں وفات پاچکے ہیں.وہ اور بھائی عبدالرحمن صاحب ہم جماعت تھے اور دونوں کی آپس میں بہت محبت تھی.اکثر اکٹھے رہتے تھے.سید نذیر حیدر صاحب کی بیوی سیّدہ نزیرہ بیگم صاحبه مدفونه بہشتی مقبره قادیان (دختر حضرت میر حامد شاہ صاحب) سے بھائی جی کچھ کچھ قرآن مجید بھی پڑھنے لگ گئے تھے اور بعض اوقات نماز بھی پڑھا کرتے تھے.ڈاکٹر صاحب چونیاں سے تبدیل ہو گئے تو سید بشیر حیدر صاحب سیالکوٹ آگئے جہاں کچھ عرصہ بعد بھائی جی بھی آگئے اور وہاں سے قادیان پہنچ گئے.سید بشیر حید ر صاحب اور ان کے ہم جماعت مولوی صدرالدین صاحب (امیر جماعت غیر مبائعین ) دونوں نے ۹۹ - ۱۸۹۸ء میں اکٹھی بیعت کی تھی.سید صاحب نے ۱۹۴۲ء میں وفات پائی.

Page 30

۱۵ خیالات کے متعلق مسلمان لڑکوں کے خاص حلقہ میں مدت سے بطور امانت چلا آ رہا تھا.اس نے کہا کہ آپ کے بڑے بھائی تو مسلمان ہیں اور مسلمانوں سے محبت و ہمدردی رکھتے ہیں مگر آپ مسلمانوں سے لڑائی کرتے ہیں.ان الفاظ نے بھائی پر بجلی کا اثر کیا اور اس کے جسم پر لرزہ آ گیا.اور اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی.بھائی حیران و ششدر رہ کر آخر جوش غیظ سے روتے گھر پہنچا اور والدہ کو بتایا کہ فلاں لڑکے نے کہا ہے کہ تمہارا بڑا بھائی مسلمان ہو گیا ہے.“ والدہ سنجیدہ اور عقلمند خاتون تھیں.انہوں نے بات کو ٹال دیا اور عزیز کے خیال کو کسی دوسری طرف لگا کر وقت گزار دیا.بچوں کی ناراضگی اور جوش وقتی ہوتا ہے، آخر وہ بات ان کے دل سے تو نکل گئی.مگر والدہ نے بغیر اس کے کہ آپ کو اس بارہ میں ایک لفظ بھی کہا ہو نہایت محتاط لب ولہجہ سے والد کو اطلاع کر دی جوان دنوں پکے ماڑی کے نہری بنگلہ پر پٹواری تھے.لائل پور بڑی نہر سے جانب غرب اور یہ بنگلہ جانب شرق واقع تھا.اور لائل پور کا شہر اس زمانہ میں ابھی آباد نہ تھا.بلکہ یہ جنگل اور بیابان تھی.آپ کا امتحان مدل قریب تھا جو کہ اس زمانہ میں لاہور جا کر دینا پڑتا تھا.اس وجہ سے والد صاحب نے وہ دن خاموشی سے گزار دیئے مگر نتیجہ نکلنے کے معا بعد غالبا فروری یا مارچ ۱۸۹۵ء میں (ان دنوں میں رمضان کا مبارک مہینہ تھا اچانک دو تین گھوڑیاں اور ایک اونٹ لے کر سارے کنبہ کو چونیاں سے لے جانے کی غرض سے آپہنچے.اب بھی والد صاحب نے آپ کو اس امر معلوم کے متعلق کچھ نہ کہا سنا.بلکہ اپنی تنہائی اور تکلیف کی وجہ بتا کر سب کو تیاری کا حکم دیا.والدہ صاحبہ کو چونکہ یقین تھا کہ ہم لوگ اب چونیاں میں نہ رہ سکیں گے لہذا انہیں نے اندر ہی اندر رخت سفر سمیٹ سنبھال کر نیم تیاری کر رکھی تھی.اس وجہ سے بالکل ہی اچانک اور غیر معمولی جلدی میں چونیاں سے روانگی ہو گئی.آپ اور آپ کے دوست ایک دن رات بعد ہونے والی جدائی کے احساس سے بے قرار تھے مگر کچھ پیش نہ جاتی تھی.امتحان مڈل میں آپ فیل تھے آپ نے کوشش کی کہ نئے سال کی جماعت بندی کی تعلیم کے حرج کے خیال کی مدد لیں مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی اور والد نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ لاہور کے ڈی اے.وی سکول میں بھیجیں گے.ان الفاظ نے بھائی جی پرا در بھی رنج والم اور یاس وقلق کا پہاڑ گرا دیا.دوستوں کے مشورے سے یہ قرار پایا کہ وہ آپ کے لئے رمضان میں دعائیں کریں گے اور خط و کتابت بحروف انگریزی ( کیونکہ والد صاحب انگریزی نہ جانتے تھے ) جاری رکھ کر تعلقات قائم رکھیں گے اسی رمضان میں سحری کے وقت سارے دوست شہر کے مختلف حصوں سے آپ کو الوداع کہنے کو پہنچے.اور رات کے

Page 31

۱۶ اندھیرے میں قریباً ایک میل دور تک آپ کے ساتھ آخری باتیں کرتے چلے گئے.طویل سفر کے بعد قافلہ پکے ماڑی یا پکی ماڑی نام بنگلہ نہر پر پہنچا.والد صاحب کا غضب و عتاب اور غمگسار ایک کتاب آپ گھر کے اندر ہی رہتے.آپ کو انجیل مقدس مل گئی جسے آپ نے کئی بار ختم کیا.لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ باوجود اداسی، تنہائی اور انہاک کے اس کتاب کا آپ کے خیالات پر کچھ اثر نہ پڑا.ایک روز ایک انگریزی الفاظ کا خط والد صاحب نے لا کر دیا.آپ نے جنگل میں بار بار پڑھا اور اس کا جواب دیا.یہ سید بشیر حیدر صاحب کی طرف سے تھا اور اس میں آپ کو اسلامی خیالات پر پختہ رہنے کی تلقین کی ہوئی تھی.عجیب بات ہے جب آپ چونیاں میں تھے تو ان احباب نے شاید ہی کبھی کوئی تبلیغ بھائی جی سے کی ہوگی لیکن اب جدائی سے ان کے قلوب میں جوش تبلیغ پیدا ہو گیا اور ہر خط اسی رنگ میں ہوتا.چنانچہ قاضی فضل الحق صاحب، سید امداد علی شاہ صاحب، سید جعفر علی شاہ صاحب پیر جہانیاں والے اور سید زین العابدین شاہ صاحب کی طرف سے بھی (جو بھائی جی کے بیان کے مطابق یہ اعلیٰ اور صاحب ثروت خاندانوں کے افراد تھے قادیان آنے پر میرا ان سے تعلق قائم نہیں رہا.) خطوط آتے.سلسلہ خط و کتابت اتنا بڑھا کہ والد نے آپ کے ذریعہ یا براہ راست ان احباب کو اس سے روک دیا جس سے بھائی جی کی بے قراری کا زمانہ پھر شروع ہو گیا.اور آپ اکثر دن بھر جنگل میں دیوانہ وار پکارتے پھرتے اور صرف رات کو گھر آتے.والد کی طرف سے علاج آپ جنگل میں پر در دوسوز اشعار مثلاً وو دلا غافل نہ ہو یکدم کہ دنیا چھوڑ جانا ہے 66 والی نظم و غیرہ پڑھتے یا دعائیں کرتے.ایسی حالت میں مہینہ ڈیڑھ مہینہ گذرا کہ والد کو کسی نے اس سے باخبر کیا.انہوں نے یہ خیال کر کے کہ بیکاری اور تنہائی اس کا موجب ہے آپ کو ایک رشتہ دار کے پاس جو اوور سیر تھے بھجوا دیا تا آپ نقشہ نویسی وغیرہ سیکھیں.یہ صاحب جس علاقہ کی پیمائش کر رہے تھے وہاں آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا.اس طرح آپ جدھر چاہتے نکل جاتے اور بلا روک ٹوک سارا سارا دن اللہ تعالیٰ کے حضور رونے اور گڑ گڑانے میں گزار دیتے.لیکن یہ نعمت صرف تین چار ہفتہ حاصل رہی.

Page 32

۱۷ کیونکہ والد ڈ چکوٹ سے تین میل کے فاصلہ پر غالبا چک ۶۲ کے حلقہ میں تبدیل کر دیئے گئے.یہ غالبا مئی ۱۸۹۵ء کی بات ہے اور آپ کو ملاقات کے لئے بلوالیا گیا.خط و کتابت بند ہونے کے وقت سے آپ سوچتے تھے کہ کسی طرح ان پابندیوں سے آزاد ہوسکیں.مدرسہ میں داخل کرنے کی تجویز بھی ٹھکرا دی جاتی.اور ملازمت کی بھی اور کہا جاتا کہ ہمیں نوکریوں کی ضرورت نہیں.ہم دوسروں کو نو کر رکھ سکتے ہیں.وجہ یہ تھی کہ لائل پور کی بار نئی زمین بڑے بڑے زمیندار، پیداوار اور آمدنی کی کوئی انتہا نہ تھی.نئے انتظام کی وجہ سے پٹواریوں کے اختیارات بہت وسیع تھے اور آمدنی کی بھی کوئی حد بست نہ تھی.آپ اچھے کھلاڑی تھے اور ٹورنا منٹوں میں آپ نے بھاری انعامات حاصل کئے تھے.آپ آسانی سے جمناسٹک ماسٹری حاصل کر سکتے تھے.لیکن ان تمام امور کا جواب اس دفعہ بھی نفی میں دیا گیا.ایک دوست کا خط اور جواب میں تائید الہی آپ بیان کرتے ہیں کہ چند روز بعد ۲۳ رمئی ۱۸۹۵ء کو سید بشیر حیدر صاحب کا خط گذشتہ مقام سے پتہ تبدیل ہو کر ہفتہ واری دورہ پر آنے والے ڈاکیہ کے ذریعہ والد کی غیر حاضری میں مجھے ملا.سید بشیر حیدر صاحب کی خوبیوں کا گننا بھی میرے لئے مشکل ہے.ان کو میرے ساتھ گویا فطری لگاؤ تھا اور ایسی پاک محبت تھی جس کی اس عمر کے نو جوانوں میں بہت کم نظیر ملتی ہے.وہ سادات خاندان کے ایک شریف ڈاکٹر کے صاحبزادہ اور معزز گھرانے کے ممبر ہونے کے لحاظ سے چونیاں کی ممتاز ہستیوں میں شمار ہوتے تھے.مگر باوجود اس کے ان کو مجھ سے ایسی محبت اور اتنا گہرا تعلق تھا کہ سکول میں ہمیشہ میرے پہلو بہ پہلو بیٹھتے یا کم از کم یہ کوشش ضرور کرتے کہ میرے بینچ پر بیٹھیں.وہ تعلیم میں ہوشیار اور لائق تھے اور میں بعض مضامین میں کمزور تھا.میری خاطر مجھے سکول کے مضامین کی تیاری کرانے کی غرض سے میرے گھر یا میری بیٹھک پر تشریف لاتے اور اپنا قیمتی وقت میرے لئے قربان کیا کرتے تھے.باوجود ان باتوں کے وہ ہمیشہ میرا ادب و احترام بھی کرتے اور مجھ سے بہت حیا کرتے تھے.اور وہاں تو ان کی بجائے میں ان کو تبلیغ کرتا تھا.مگر جدائی کے بعد انہوں نے روحانی رنگ میں میری بہت مدد کی.اور میرے اظہار اسلام میں ان کا بہت بڑا حصہ اور دخل تھا.فجزاہ اللہ تعالیٰ.اس خوف سے کہ مبادا والد صاحب آجائیں میں علیحدگی میں گھنے سایہ دار درختوں

Page 33

۱۸ تلے چلا گیا.مدت کے بعد خط آنے کی وجہ سے یا خط کے مضمون اور اس کے اثرات کے باعث میرے دل پر غیر معمولی دھڑکن اور سارے جسم پر لرزہ تھا.کانپتے ہاتھوں اور شوق بھرے دل سے خط پڑھا جس کا ایک ایک لفظ دل میں بیٹھتا گیا اور میرا دل بے قابو ہوتا چلا گیا.ابتداء میں چند جملے خط و کتابت کی روک کے متعلق بطور شکوہ شکایت کے بعد چندا شعار درج تھے جن میں انوار و برکات اسلام کے ذکر کے ساتھ ہی تبلیغ اسلام تھی.اس نظم کے ایک مصرعہ کا ایک حصہ یہ تھا ع لے پکڑ دامن رسول کا میں نہیں کہہ سکتا کہ اس نظم کہنے والے کے دل کا درد.سوز یا گداز تھا جس نے مجھے ایسا دردمند کیا اور مجھ میں ایسا سوز پیدا کر دیا جس سے میں اتنا رویا اتنا رویا کہ اس کا بیان بھی ناممکن ہے.یا وہ نظم لکھ کر بھیجنے والے کے اپنے دل کی کیفیت تھی جس نے مجھے اتنار لایا کہ اتنا رونا اس کے بعد مجھے صرف دویا تین مرتبہ ہی یاد ہے.میں پھوٹ پھوٹ کر رو لیتا اور پھر خط کو اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیتا تھا.اس کے بعد پھر وہی رقت قلب پر طاری ہو جاتی اور میں دل کھول کر جی کی بھڑاس نکال لیتا.چنانچہ اسی طرح چند مرتبہ میں نے اس نظم کو دوہرایا.اور چونکہ وقت زیادہ گذر گیا تھا.قلم اٹھا کر بے ساختہ خط کا جواب لکھنا شروع کر دیا.لکھتے لکھتے ایک مقام پر پھر قلب کی وہی کیفیت ہو گئی.اور چند منٹ تک قلم رکا رہا.وہ وقفہ کیسا تھا اور کیوں تھا اس کا پورا جواب تو اب ناممکن ہے کیونکہ نہ وہ وقت اب واپس آسکتا ہے اور نہ ہی وہ کیفیت قلم لکھ سکتا ہے نہایت ہی مجمل سابیان یہ ہے کہ میں اس آواز کے جواب میں جو مجھے خدا کے نام پر دی گئی تھی لبیک کہنا چاہتا تھا.مگر دل اس کٹھن گھائی کی مشکلات کا خیال کر کے کانپنے اور لرزہ کھانے لگتا اور ہاتھ رک جاتا تھا اور یہ ایک ایسی کشمکش اور گرداب تھا کہ جس میں سے میں اپنی طاقت اور سمجھ یا قوت بازو سے نکل سکنے کے قابل نہ تھا.آخر میں پھر رویا اور گڑ گڑایا اور خدا تعالیٰ سے امداد کا طالب اور راہنمائی کا ملتجی ہوا.جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے میرے دل کو سکون اور اطمینان اور ہاتھ کو قوت بخشی اور میں نے غیر مشروط الفاظ میں سید بشیر حیدر صاحب کی خدمت میں ان کے خط کے جواب میں لکھ دیا کہ.میں پندرہ روز کے اندر آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا.اس میں تخلف ہر گز نہ ہوگا.اور اگر میں اس عرصہ میں نہ پہنچوں تو آپ یقین کر لینا کہ ہریش چندر دنیا کے پردے پر زندہ موجود نہیں.بس والسلام.“

Page 34

۱۹ میں نے یہ لکھا اور اس قوت و اطمینان سے لکھا کہ میرے دل میں کسی قسم کا نہ شک پیدا ہوا.نہ گھبراہٹ اور خوف.بلکہ ایک تسکین تھی جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی جس سے گویا میرے دل پر سے بوجھ کے پہاڑ اتر گئے اور میں ہلکا پھلکا ہو گیا.جواب خط کے بعد شدید نا موافقت حالات میں نہ جانتا تھا کہ پندرہ روز کا وعدہ میں نے کس امید اور خیال پر کیا ہے اور نہ ہی میں نے کسی پروگرام کا نقشہ دل میں مرتب کر لیا تھا.یہ فقرہ محض بے ساختہ لکھا گیا جس کی تفصیل و کیفیت میرے ذہن میں ہرگز ہرگز نہ تھی کیونکہ میں نے سوچ سمجھ کر نہ لکھا تھا.اور خود بھی نہ لکھا تھا بلکہ مجھ سے لکھوایا گیا تھا.الغرض چند پیسے انعام کے ساتھ خط ڈاکیہ کے سپرد کیا.میں خوش تھا.اور کوئی گھبراہٹ میرے دل میں نہ تھی کہ کیوں میں نے ایسا کام کیا جس کا پورا کرنا میری طاقت میں نہیں.اور جس کے عدم ایفاء کا نتیجہ موت ہے.دل میں یہی تھا کہ جو ہوا ٹھیک ہوا اور جو ہونا تھا ہو گیا.اب ڈر اور خوف کی گنجائش ہی باقی نہیں.خط چلا گیا لیکن ایفائے عہد کا کوئی سامان پیدا ہونے کا خیال کرنا محض ایک وہم اور جنون تھا.بلکہ اس کی مخالفت خود میرے والدین کر رہے تھے.اور اپنی ساری توجہ اور پور از ور اس خیال کو میرے دل سے بالکل نکال دینے پر خرچ کر رہے تھے.بریکاری کے شکوہ پر محبت اور نرمی یا ناراضگی اور خفگی سے جواب ملتا.کہ یہ خیال دل سے نکال دو.گھر میں پر ماتما نے سب کچھ دے رکھا ہے اس کو سنبھالو اور بھائی بہنوں کے ساتھ مل کر کھاؤ پیو.اور اگر کام کا بہت ہی شوق ہے تو ہمارے کام میں ہماری مدد کرو.میں گرداوری اور پیمائش اور گشت میں ان کی مدد کرتا لیکن بعض باتوں میں ان کے نزدیک نقصان بھی کرتا اور گھر کے نفع ونقصان کو نہ سمجھ سکتا.جس سے وہ کبیدہ خاطر ہوتے مثلاً اول تو میں مویشی پکڑا ہی نہ کرتا.البتہ والد صاحب گشت میں مویشی پکڑ لاتے اور بھاری جرمانے وغیرہ وصول کرتے.میں والد صاحب کو ٹالنے کی کوشش کرتا یا والد صاحب ادھر ادھر ہوتے تو ان کو چھوڑ کر بھگا دیا کرتا تھا.کیونکہ میں اسے اکثر ظلم اور زیادتی سمجھتا تھا.جوں جوں دن گزرنے لگے میری بے قراری اور اضطراب بڑھتا جاتا اور بے چینی سے کبھی صحن میں کبھی چھت پر اور کبھی انگنائی کی چار دیواری پر بیٹھا پر سوز اور رقت آمیز لہجہ میں بعض دردناک فقرے بولا کرتا یا وہی ” دلا غافل نہ ہو یکدم کہ دنیا چھوڑ جاتا ہے.“ کی صدائیں کرتا رہتا.آنے والی خیالی مصیبت

Page 35

۲۰ کے خیال کا دل پر گہرا اثر تھا جس کی وجہ سے خوشی آہستہ آہستہ دل سے نکلتیجا رہی تھی اور اس کی بجائے غم و الم اور اداسی و افسردگی جگہ لے رہی تھی.نہ مجھے کھانے سے رغبت رہی نہ پینے کا شوق باقی رہا.گھر میں دودھ دہی کی افراط تھی.جس کا میں بچپن سے شوقین تھا.مگر اب باوجود والدہ صاحبہ کے تقاضا کے میں نہ پیتا.مرغ میں نے بکثرت جمع کر رکھے تھے وہ عدم تو جنگی کے باعث کتے بلی کا شکار ہونے لگے.رات کو مجھے چین نہ آتا.اور کروٹ لیتے یا ستارے گنتے کٹنے لگی اور ان باتوں کا اثر میری صحت پر بھی پڑنے لگا.اور میرے دلی درد کی ترجمانی میرا چہرہ اور باقی اعضا ء کرنے لگ گئے.والدہ محترمہ چونکہ گھر میں ہوتیں میری حرکات اور بے قراری و بیتابی کا معائنہ فرمایا کرتیں.اور چونکہ عورت ذات کا دل فطر تا نرم ہوتا ہے میرے ان حالات کا ان کے دل پر اثر ہوتا اور کبھی کبھی وہ والد صاحب کو میرے متعلق فرمایا کرتیں : ا سے کیا ہو گیا ہے یہ تو دن بدن کمزور ہوتا جاتا ہے.کھاتا ہے نہ پیتا ہے.بلکہ دن رات رورو کر کچھ پڑھتا رہتا ہے.اسے جہاں کہتا ہے کیوں نہ بھیج دیں.“ مگر والد صاحب توجہ نہ فرماتے اور ٹال دیتے.ہوتے ہوتے تیرہ دن گذر گئے.مگر میری مشکل کشائی کا کوئی سامان نظر نہ آیا.دن چڑھا مگر میرا دل بیٹھا ہوا تھا.گھر والوں نے ناشتہ کیا اور کھایا پکایا مگر مجھے ان چیزوں سے نفرت تھی کیونکہ آج کا دن میرے وعدہ پر پہنچ سکنے کا آخری دن تھا زمین و آسمان میرے واسطے اندھیر تھے اور اب مجھے دنیا کی کسی چیز سے وابستگی نہ رہی تھی.میں آج کسی خاص خیال سے بالکل ہی نئے رنگ کے گیت گا یا کیا.جن کو میرے سوا یا میرے خدا کے بغیر کوئی سمجھ بھی نہ سکتا تھا.اور آج میں اپنے خیال میں اپنے خدا سے بھی آخری ہی عرض معروض کر رہا تھا.دن چڑھا.دو پہر ہوئی.دن ڈھلا اور پھر شام ہوئی اور شام کے ساتھ ہی مجھے اپنی زندگی کی بھی شام نظر آنے لگی اور مجھ پر انتہائی اضطراب، بے قراری اور بے چینی مسلط ہوگئی اور ایسا ہوا کہ مایوسی کا غلبہ ہو گیا اور میں سرشام ہی چھت پر جا کر لیٹ گیا.حالت اضطرار میں تائید غیبی چند منٹ بعد ہی میرے کان میں والد صاحب کی آواز پڑی جن کے ساتھ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کوئی اجنبی گھوڑا گھوڑی ہے.والد صاحب نے گھوڑی کو باہر چھوڑا اور اندر تشریف لائے.والدہ صاحبہ نے اس گھوڑی کے متعلق پوچھا کس کی ہے اور کیوں آئی ہے؟ میں نے بھی کان لگا کر والدین کی باتوں کی سننے کی

Page 36

۲۱ کوشش کی اور میری خوشی کی کوئی انتہا باقی نہ رہی جب میرے کان میں یہ آواز پڑی کہ گھوڑی لایا ہوں.تمہارے پلو ٹھے کو نوکری کے واسطے بھیجنے کی غرض سے.اور بروالہ بھی بلایا ہے اس کے واسطے روٹی روٹی پکاؤ تا رات ہی کو بھیج دیں کیونکہ گرمی کا موسم ہے دن میں سفر نہ ہو سکے گا راستہ میں پانی بھی نہیں ملتا.“ وغیرہ میں یہ خبر سن کر اچھل پڑا.نیچے اتر آیا اور تجاہل عارفانہ کے طریق پر والد صاحب سے گھوڑی کے متعلق پوچھنے لگا جس کے جواب میں والد صاحب نے مجھے بھی وہی کچھ فرمایا.اور فرمایا ایک دو جوڑے کپڑے کے اور مختصر سا بسترہ ساتھ لے لینا کیونکہ گھوڑی پر زیادہ بوجھ نہ بندھ سکے گا.قربان جاؤں میں اپنے قادر مطلق خدا کے جو حقیقتا مقلب القلوب اور نہاں در نہاں خیالات پر بھی تصرف رکھتا ہے اور جس کے اذن کے بغیر کوئی ذرہ بھی حرکت نہیں کر سکتا.اور سچ سچ وہی پاک ذات کن فيكون کی مالک ہے مایوسی اور نا امیدی میں وہ بے سہاروں کا سہارا اور نا امیدوں کی امید بنتا اور مضطر کی التجا کوسنتا اور غیر ممکن کوممکن میں بدل دیتا ہے میرے وہم میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ کیونکر والد صاحب کے دل پر ایسا تصرف ہوا کہ کل تک جس بات سے وہ با وجود درخواستوں کے انکار اور انکار پر اصرار کرتے تھے.آج کس وجہ سے خود بخود اس کے لئے سامان کر لائے.کس چیز نے ان کے دل کو پھیرا ؟ وہ صرف اور صرف خدائے واحد ویگانہ کی قدرت کا ایک کرشمہ تھا.ورنہ اور کوئی سامان اس کے لئے ہرگز ہرگز موجود نہ تھے.والدین اور بہن بھائیوں سے جدا ہونے کا المناک نظارہ والدہ محترمہ نے جلد جلد کچھ میٹھی روٹیاں.حلوہ اور انڈے تیار کئے اور آپ بھی جلد تیار ہو گئے اور بہن بھائیوں کو ایک ایک کر کے گلے لگا کر آپ پیار کرنے لگے.آپکا دل ان خیالات کی وجہ سے جو آپکے دل میں موجزن تھے بھر گیا.جدائی بلکہ دائمی جدائی کے خیال سے آپ ایسا متاثر ہوئے کہ ضبط نہ کر سکے.اور باوجود اس خطرہ کے کہ اس وقت کی بے صبری نہ معلوم کیا بنا دے گی پھوٹ پھوٹ کر روئے.اور گھر میں ایسا کہرام مچا کہ گاؤں والے گھبرا کر خیریت پوچھنے کو دوڑے.بر والے نے آواز دی اور آپ دل کو تھام کر روتے ہوئے بھائی بہنوں اور غمگین ماں باپ کو خدا کے لئے گویا ہمیشہ کے واسطے چھوڑ کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے.تھوڑی دُور تک جا کر والد صاحب اور چھوٹے

Page 37

۲۲ بھائی نے الوداع کہی اور واپس لوٹے اور آپ جلد جلد اپنا سفر کاٹنے لگے.چلتے چلاتے رات کے بارہ بج چکے ہوں گے اور یہ رات پانچ اور چھ جون ۱۸۹۵ء کی درمیانی رات تھی.جب آپ گھر سے خدا کی رضا اور اس کے دین کی تلاش میں نکلے اور سات جون کا دن وہ آخری دن تھا جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے آپکی قلم سے آپکے ایک حقیقی دوست کے نام لکھوایا ہوا تھا.آپ جس گھوڑی پر سوار تھے وہ بہت بڑی اور تیز رفتار تھی.آپکے ساتھ کا بر والا چوکیدار ) غالباً قوم کا کشمیری ساکن بھا گووال سرداراں ضلع گورداسپور تھا.چک نمبر ۶۲ میں بھا گووال ضلع گورداسپور کے سکھ لوگ ہی جا کر آباد ہوئے تھے اور وہ گاؤں بھی بھا گو والہ ہی کہلاتا تھا.آپ کے گھر سے نکل آنے کے بعد گھر والوں پر آپکی جدائی اور رونے کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ آپکے بعد پھر گھر میں ایک گہرام مچ گیا.اور جب والد صاحب اور بھائی آپکو الوداع کہہ کر واپس گھر گئے تو والدہ نے بہت اصرار کیا کہ میرے لڑکے کو واپس لے آؤ.میں نہیں بھیجتی.مرے گا تو آنکھوں کے سامنے تو ہوگا.والد صاحب پر بھی ان کلمات کا اثر ہوا.اور انہوں نے پھر کوشش کی کہ آپکو واپس بلوالیں.مگر آپ چونکہ جلد جلد نکلنے کی فکر میں تھے اور رات بھی اندھیری تھی لوٹانے کی کوشش کرنے والا ان تک نہ پہنچ سکا اور اس طرح آپ بے روک ٹوک جلد جلد اپنا سفر کاٹتے چلے گئے.چک نمبر ۶۲ بھا گووال سے ڈ چکوٹ اور وہاں سے گوگیرہ پہنچنا تھا میلوں کا تو آپ کو حساب نہیں.مسافت دور کی تھی راستہ خطرناک تھا چوروں کا خطرہ اور پانی کی قلت تھی.کئی گھنٹے چلنے کے بعد سحر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے دونوں کو آرام کرنے پر مجبور کر دیا.چنانچہ ایک کف دست میدان میں گھوڑی کا رسہ ہاتھ میں تھام کر دونوں کمر سیدھی کر کے لیٹ گئے.شب بیداری.تکان اور اس پر ٹھنڈی ہوا کے جھونکے.آنکھ لگ گئی اور پھر اچانک گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے.چونکہ دن نکلنے اور پو پھٹنے کے آثار تھے سوار ہو کر پھر جلدی جلدی چلنے لگے.قریباً نو بجے صبح آپکے ساتھی نے چوروں کا خطرہ محسوس کیا اور آپکو بتایا کہ بہت دور سے وہ دو آدمی ہمارے ساتھ ساتھ کبھی آگے کبھی پیچھے بھی پہلو پر راستہ کاٹتے ہوئے آنکھ بچا کر آرہے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے تعاقب میں صرف موقعہ کی تلاش میں ہیں.گھوڑی بہت بڑی تھی اور قیمتی تھی اور اس علاقہ میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہ تھی.آپ نے احتیاطاً اپنے ساتھی کو گھوڑی پر بٹھا لیا اور کوشش کر کے گھوڑی کو جلدی جلدی چلاتے گئے حتی کے چند میل کے سفر کے بعد وہ لوگ ان سے پیچھے رہ گئے.چوروں

Page 38

۲۳ کے خطرہ اور منزل پر پہنچنے کے خیال سے انہوں نے آرام کئے بغیر سفر مسلسل جاری رکھا اور شدید پیاس کے با وجود پانی کی بھی تلاش نہ کی.بہت تنگ ہوئے تو راستہ میں بکریوں کا دودھ لے کر پیاس بجھانے کی کوشش کی.خُدا خدا کر کے دریائے راوی اور آبادی کے آثار نظر آئے تب جان میں جان آئی.عصر کے وقت یہ گوگیرہ کی بستی میں پہنچ گئے اور بر والے کو خرچ دے کر آپ خو د ریلوے اسٹیشن کو روانہ ہو گئے.خیال تھا کہ کوئی گاڑی جاتی ہوگی جس سے معیاد مقررہ کے اندر آپ سیالکوٹ سید بشیر حیدر صاحب کے پاس جا پہنچیں گے.لیکن اسٹیشن پر معلوم ہوا کہ گاڑی نکل چکی ہے.اور لاہور کو صبح سے پہلے کوئی گاڑی نہ جائے گی.یہ سوچ کر سخت مایوسی ہوئی کہ آپ کل شام تک سیالکوٹ نہ پہنچ سکیں گے.ساری محنت کے رائیگاں جانے کا سخت صدمہ تھا.اور کئی رات کی بے خوابی اور سفر کی کوفت بھی تھی آپ پلیٹ فارم پر لیٹ گئے.اور ایسے بیہوش ہوئے کہ صبح گاڑی کی گھنٹی بجنے پر بھی بیدار ر نہ ہوئے.آخر چوکیدار نے جگایا اور کہا کہ گاڑی آتی ہے.گھبراہٹ میں اٹھے اور سوچ ہی رہے تھے کہ کدھر جائیں کہ سیالکوٹ تو وقت پر نہیں پہنچ سکتے.اتنے میں گاڑی سامنے آ گئی.اور آپ بے تحاشا کھڑکی کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ڈالا کہ چھانگا مانگا کا ٹکٹ خرید و اور چونیاں چلو.چنانچہ گاڑی میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دستگیری کے لئے جھک گئے.چھانگا مانگا سے یکہ پر چونیاں پہنچے.یکہ سے اتر رہے تھے کہ آواز آئی.” بھائی جی خوب آئے.سید بشیر حیدر یہیں ہیں.“ سبحان الله و الحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر کوئی کیا جانے کہ بھائی جی کے دل کی اس وقت کیا کیفیت ہوئی.اور آپکے دل میں کیا کیا خیالات پیدا ہوئے.آپ کی روح پانی کی طرح خدائے بزرگ و برتر کے آستانہ پر گری اور انتہائی نیاز مندی کا جوش اور ولولہ آپ کے قلب میں پیدا ہو گیا.اور ایک لمحہ کے لئے آپ بے حس وحرکت بت بے جان بن کر کھڑے رہ گئے اور اس سکوت اور از خود رنگی سے آخر آپکے مکرم دوست سید زین العابدین شاہ صاحب کے محبت بھرے دل اور ہاتھوں نے لپٹ کر ہوشیار کیا.پہلی آواز کو آپ ایک غیبی آواز سمجھے تھے اب اپنے یقین اور دل کی تسلی کے لئے دوبارہ سہ بارہ شاہ صاحب سے دریافت کیا کہ کیا واقعی سید بشیر حیدر صاحب یہیں ہیں؟ اور جواب اثبات میں پا کر خدا کا ہزاروں ہزار شکر یہ ادا کیا.جس نے نہایت ہی ناموافق حالات میں خارق عادت رنگ میں آپ کی مدد فرمائی.اور آپ کے اس عہد کو پورا کر کے آپکونئی زندگی عطا کئی.فالحمد للہ.خدائے بزرگ نے جس طرح

Page 39

۲۴ خود ہی آپ سے پندرہ روزہ عہد کرایا تھا ویسے ہی اس پاک ذات نے اس کے ایفاء کے لئے بالکل عجیب در عجیب اور خاص الخاص سامان بھی میسر فرمائے.ورنہ آپ اگر سوچ و بچار سے جو کچھ کرتے ضروری نہ تھا کہ کامیابی نصیب بھی ہوتی.مگر جو کچھ ہوا وہ تمام ظاہری سامانوں کے سراسر خلاف ہوا اور یہی تو خدا کی خدائی اور اس کی چہرہ نمائی ہے.اس بیان میں نہ تو تصنع ہے نہ مبالغہ.خدا تعالیٰ کے اسرار کوکون سمجھ سکتا ہے.اکتساب معاش کی کوشش آپ سید بشیر حیدر صاحب سے ملے.اور دوسرے بچھڑے ہوئے دوستوں سے بھی ملاقات کی.دو تین روز کے بعد سید بشیر حیدر صاحب سیالکوٹ چلے گئے اور آپ ایک دو روز کے لئے چونیاں ٹھہرے.چونیاں میں ان کے سامان کا کچھ حصہ ابھی اسی مکان کے ایک حصہ میں متقفل پڑا تھا جس میں آپ رہا کرتے تھے اس کی چابی کسی ضرورت کے ماتحت والدہ محترمہ نے آپ کو دی تھی.مکان کو کھول کر آپ نے والد صاحب کا وہ سامان جس سے پارہ کے گلاس بنایا کرتے تھے.اس خیال سے نکال لیا کہ سفر میں کام آوے گا کیونکہ والد صاحب کو گلاس بناتے دیکھ کر آپ نے بھی پارہ کا گلاس بنانا سیکھ لیا تھا.آپ گھر سے کچھ زیادہ روپیہ نہ لائے تھے.بلکہ اس خیال سے استغنا برتا تھا کہ والدین کو آپ کی حصول ملازمت کا یقین رہے اور آپکی روانگی میں روک پیدا نہ ہو.آپ بھی دو تین روز بعد چونیاں سے روانہ ہو گئے.مگر نہ سیالکوٹ کو ، بلکہ اس خیال سے کہ ریاستوں میں روپیہ بہت ہوتا ہے پارہ کے گلاس بنا کر فروخت کروں گا.اور روپیہ والدین کو بھی بھیجوں گا.تا کہ ان کو تسلی رہے اور پھر سیالکوٹ جاؤں گا.بچپن سے آپ کی تربیت میں حیا اور غیرت ہے جس کے باعث آپ نے کسی دوست کا مہمان بن کر بوجھ بنا گوارا نہ کیا اور ماہ جون میں ہی کپورتھلہ چلے گئے.اور وہاں ایک ویران سرائے میں ٹھہرے اور پارہ کا گلاس تیار کیا اور بعض رؤسا کے ہاں لے گئے اور اس کی اصلیت کے ثبوت میں چند قطرے سیال پارہ کے گلاس میں ڈال دیتے جو بغیر سوراخ کئے دوسری طرف نکل جاتے.لوگ آپ کی کاریگری کی تعریف کرتے لیکن خریدار کوئی نہ بنتا.دراصل گلاس بنانا چنداں مشکل نہ تھا.مشکل تھا اس کا فروخت کرنا.جس کے لئے بڑی چرب زبانی اور لاف زنی اور ہوشیاری کی ضرورت تھی.بہر حال آپ کو یہ معلوم ہو گیا کہ روپیہ کمانا اتنا آسان نہیں.

Page 40

۲۵ سیالکوٹ میں ورود اور کتب سے حضور کے متعلق آگاہی آپ کا بیان : ( جو بھی آپ کا بیان براہ راست درج کیا گیا ہے وہ عبارت سے ظاہر ہے ): چند روز بعد میں کپورتھلہ سے امرتسر، بٹالہ اور ڈیرہ بابا نانک سے ہوتے ہوئے اپنے سسرال ویرم دتاں پہنچا جہاں میری بیوی تھی.اور قریباً ایک ماہ قیام کر کے پیدل سیالکوٹ پہنچ کرسید بشیر حیدر صاحب کے ہاں ان کی بیٹھک میں ٹھہر گیا.اور باوجود سید صاحب کے تقاضا کے کھانے کا انتظام الگ کیا.میری شکل و شباہت ہندوانہ تھی.میں کسی ہندو دکان سے کھانا کھا لیتا.شاہ صاحب مدرسہ جاتے اور میں اکیلے مردانہ میں رہتا.تنہائی میں کسی شغل کی تلاش ہوئی.آخر شاہ صاحب کی کتابوں کو الٹ پلٹ کر کے ایک کتاب جو اپنے نام کی وجہ سے مجھے بہت بھائی.اٹھا کر مطالعہ شروع کر دیا.کتاب کا نام تھا ” نشان آسمانی“.کتاب دلچسپ اور نہایت مناسب حال تھی.لہذا میں نے اسے ختم کئے بغیر نہ چھوڑا.جب یہ ختم ہوگئی تو ایک اور کتاب مل گئی جس کا نام تھا انوار الاسلام اسے بھی لیا اور باقساط ختم کر دیا.ان دنوں عبداللہ آتھم والی پیشگوئی کا بہت شور تھا اور سکول ٹائم کے بعد سید بشیر حیدر صاحب کے مردانہ میں اس مسئلہ پر عموماً روزانہ بحث ہوا کرتی تھی جس کو میں شوق سے سنا کرتا تھا.اوپر کی دونوں کتا بیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی تصنیف تھیں.جن میں سے انوار الاسلام میں عبد اللہ آتھم والی پیشگوئی کا ذکر تھا.اور انعامی اشتہار بھی چار ہزار روپے تک تھے.اور میں نے اس کو بڑے شوق اور توجہ سے پڑھا تھا.ایک فریق حضرت اقدس کی صداقت پر اور دوسرا مخالفت پر دلائل دیا کرتے تھے اور بعض اوقات بحث نہایت ہی پر جوش رنگ اختیار کر جایا کرتی تھی.ایک طرف صداقت کے دلائل دینے والے سادات فیملی کے نوجوان تھے جن میں سے سید بشیر حیدر صاحب سید رشید احمد صاحب اور سید محمد سعید صاحب کے نام مجھے یاد ہیں.میں بھی چونکہ پاس بیٹھا ہوا کرتا تھا.صحیح نام سید محمد رشید ہے.استفسار پر مکرم سید امجد علی صاحب نے سیالکوٹ سے خاکسار مؤلف کو تحریر فرمایا کہ آپ ڈرافٹسمین اور اوور سیئر تھے.منارة امسیح کی تیاری کا ابتدائی کام انہی کی نگرانی میں چند سال تک ہوتا رہا.بعد میں آپ نے گوجرانوالہ میں بطور ڈرافٹسمین ملازمت کی.وہیں وفات پا کر دفن ہوئے.سید محمدسعید صاحب آپ کے بھائی تھے.وہ سیالکوٹ میں اپنے خاندانی قبرستان میں دفن ہیں.

Page 41

۲۶ لہذا مصدقین حضرت اقدس کبھی مجھے بھی مخاطب کر لیا کرتے.کیوں بھائی جی ٹھیک ہے نا ؟“ میں نے چونکہ حضور کی کتاب ” انوار الاسلام پڑھی تھی اور توجہ اور شوق سے پڑھی تھی میں مصدقین کی تائید میں ہوا کرتا تھا.مگر مخالفین کو یہ پسند نہ تھا وہ مجھے یہ کہہ کر بھائی جی! یہ ہمارے مذہبی معاملات ہیں.آپ انہیں نہیں سمجھتے آپ نہ بولیں، روکنا چاہتے.مگر ایک حق بات جس کی مجھے سمجھ آ چکی تھی.کہنے سے میں نہ رکتا اور ان کو چیلنج کیا کرتا کہ مجھ سے گفتگو کر لیں.مگر وہ مجھ سے بات کرنا پسند نہ کرتے.نماز شروع کردی غرض اس طرح بالا خانے پر مجھے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الف الف الصلوۃ والسلام کا نام پہنچ گیا.اور حضور" کا کلام بھی مجھے میسر آ گیا جس کو میں نے شوق سے پڑھا اور وہ میرے دل و جان میں رچ گیا.اس سے پہلے مجھے حضور پاک کے متعلق کوئی علم و اطلاع نہ تھی.گو میرے دل میں اسلام کی محبت گھر کر چکی تھی اور ایمان میرے رگ و پے میں سرایت کر گیا ہوا تھا.مگر سیدنا مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام معجز بیان پڑھنے کے بعد میرے دل میں ایک نیا نور معرفت اور عرفان پیدا ہو گیا.ابھی تک مجھے نماز نہ آتی تھی مگر اب میں نے سبقاً سبقاً دو تین روز میں نما ز یاد کر لی اور باقاعدہ نماز پڑھنا بھی شروع کر دیا.میرے میزبان پڑھتے یا نہ پڑھتے مگر میں وقت پر نماز کے لئے کھڑا ہو جایا کرتا.حضرت میر حامد شاہ صاحب سے ملاقات اور قادیان جانے کا مشورہ روپیہ تھوڑا رہ جانے پر میں نے اس اظہار کے بغیر ہی سید بشیر حیدر صاحب سے چند روز کی اجازت چاہی اور اپنے تایا مہتہ ہیمراج کے پاس چلا آیا جو پشاور کے پاس ایک گاؤں میں بسلسلہ ملازمت پٹوار رہتے تھے.گوشاہ صاحب نے کہا بھی کہ اگر خرچ کے واسطے جاتے ہو تو نہ جاؤ.قریباً ایک ماہ بعد واپسی پر تا یا صاحب سے میں نے کچھ خرچ بھی لے لیا اور واپس سیالکوٹ آ گیا.جس کے چند ہی روز بعد میں نے سید صاحب سے کہا کہ اب میں اپنے خیالات کو چھپا نہیں سکتا اور چاہتا ہوں کہ اظہا را سلام کر دوں.یہ سن کرسید صاحب جو دل سے چاہتے تھے مگر مجھے زبانی کچھ نہ کہتے تھے خوش ہوئے اور فوراً جا کر حضرت سید میر حامد شاہ صاحب کے پاس عرض کر دیا.انہوں نے وقت دے کر مجھے بلوایا اور محبت اور اخلاص سے پیش آئے.اور میری زبان سے میری غرض و مقصد سن کر مجھے قریباً ایک گھنٹہ تک نہایت موثر پیرا یہ میں تلقین

Page 42

۲۷ فرماتے رہے اور یقین کے ہر سہ مدارج کے متعلق کھول کر سنایا.اور میرے علم میں بہت قیمتی معلومات کا اضافہ فرمایا.مگر میرے بعض رشتہ دار سیالکوٹ میں پولیس اور دوسرے محکمہ جات میں معز ز عہدوں پر مقرر تھے.اس لئے اظہار اسلام کے متعلق مجھے یہ مشورہ دیا کہ اندیشہ ہے کہ یہ لوگ روک ڈالیں گے یا شور وشر کر کے فساد برپا کریں گے بہتر ہو کہ قادیان چلے جاؤ.قادیان کا نام ان کی زبان سے نکلنا تھا کہ میرا دل سرور سے بھر گیا اور مجھے پورا انشراح ہو گیا کیونکہ اب میں قادیان کے نام سے بہت مانوس ہو چکا تھا.میں نے شاہ صاحب کی خدمت میں عرض کیا.بہت اچھا میں قادیان چلا جاتا ہوں.شاہ صاحب نے میرے واسطے ایک خط لکھنا شروع کیا.اور میں دل میں قادیان کا ایک نظارہ بنانے میں مصروف ہو گیا اور اس بات پر خوش تھا.اس وقت کے خیال کے مطابق قادیان کا نقشہ جو میں نے دل میں تجویز کیا.مسجد اقصیٰ کو بعینہ اس کے مطابق پایا.شاہ صاحب نے خط لکھ کر مجھے دیا اور دعا کر کے مجھے رخصت فرمایا اور میں اسی شام کی گاڑی سے تن کے تینوں کپڑے لے کر قادیان روانہ ہو گیا.کیونکہ میرے خیال کے مطابق وہاں صرف یہی کام تھا.کہ کوئی بزرگ ہوں گے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اظہار اسلام کر کے نذرو نیاز چڑھا کر واپس چلا آؤں گا اور پھر کوئی کام کرنے لگوں گا اور یہ خیال تھا کہ وہاں ا ظہا ر ا سلام بطور تبرک ہوگا.جس روز میں سیالکوٹ سے روانہ ہوا.جمعرات تھی.میں بٹالہ اسٹیشن سے اتر کر قادیان کے راستہ کی تلاش میں مصروف ہوا.آپ شاید تعجب کریں گے اور میرے بیان کو مبالغہ سمجھیں گے کہ مجھے اس وقت بھی بہت مشکلات کا سامنا ہوا.میں لوگوں سے قادیان کا راستہ پوچھتا.وہ میرے منہ کو تکتے اور سوچ بچار کر کہتے کہ ” کا دیں تو ایک گاؤں ہے تم جو نام لیتے ہو وہ اس نواح میں تو ہے نہیں.تھانہ سے پوچھو.شاید پتہ لگ جائے.غالبا نو بجے ٹرین بٹالہ پہنچی.بارہ بج گئے مجھے نہ قادیان کا پتہ ملا نہ راستہ حتی کہ میں گھبرا کر واپس لوٹ جانے کی فکر کرنے لگا.اسی شش و پنج میں تھا.کہ ایک شخص میرے قریب آ کر بولا.جی آپ نے قادیان جانا ہے؟“ میں افسردہ پر مژدہ ہو رہا تھا اور پریشان تھا کہ کروں تو کیا کروں؟ اس شخص کی آواز سے ڈھارس بندھی اور امید کی ایک جھلک نظر آئی.میں نے اس سے قادیان کا اتا پتا دریافت کیا تو اس نے جواب دیا.وہی نا.مرزا صاحب والی قادیان گنوار لوگ اس کو کا دیں.کا دیں کہہ کے پکارتے ہیں.میں خود قادیان کا رہنے والا ہوں.مرزا صاحب گاؤں کے رئیس اور مالک ہیں.میں آپ کو ان کے دورازہ پر جا اتاروں گا.“

Page 43

۲۸ یہ یکہ بان غالباً غفارہ کشمیری تھا.اس تسلی کے بعد میں اس کے یکہ میں بیٹھ گیا.دو آ نے کرایہ مقرر ہوا.وہ مجھ سے یہ کہہ کر بازار کو گیا کہ گھوڑے کے واسطے نہاری لے آؤں.مگر کچھ ایسا گیا کہ لوٹنے کا نام ہی نہ لیا.کم و پیش ایک گھنٹہ میں اس یکہ میں ٹنگا رہا.نہ اس کو چھوڑ سکوں نہ یکہ بان کی تلاش کر سکوں.جمعہ کا دن تھا.میں نے سیالکوٹ سے روانگی میں اسی غرض سے جلدی کی تھی کہ جمعہ کی نماز میں شریک ہو کر اس برکت سے حصہ پاسکوں گا مگر یکہ بان کی طمع نے مجھے نماز جمعہ میں شرکت کی برکت سے محروم رکھا.کیونکہ وہ دراصل نہاری کی بجائے سواری کی تلاش میں تھا.چنانچہ دو اور ہندو سواریوں کے ساتھ میں قادیان پہنچا.اس نے مجھے ریتی چھلہ کی طرف جدھر بڈھے شاہ کی دکانات ہیں اتارا.میری شکل و شباہت چونکہ ابھی ہندوانہ تھی.لہذا بازار کے لوگ جب میں ان سے مرزا صاحب کے مکان کا پتہ دریافت کرتا تعجب کرتے اور مجھے پکڑ کر بٹھا لیتے.اور غرض و غایت اور مقصد دریافت کرنے کے درپے ہو جاتے.چنانچہ بڑھے شاہ کی سہ منزلہ دکانات سے لے کر جو ہند و بازار کے شمالی سرے پر ہیں چوک تک جو اس بازار کے جنوبی سرے پر مسجد اقصی کے قریب ہے پہنچتے پہنچتے مجھے دس جگہ روکا گیا ہوگا.جہاں سے میں کسی نہ کسی طرح دامن چھڑا کر آگے ہی آگے چلتا گیا.سارے ہند و بازار میں چرچا ہو گیا اور جابجا باتیں ہونے لگیں لوگوں نے مجھے روکنے میں پورا زور صرف کیا اور بعض تو ہاتھ پکڑ کر بیٹھ رہتے تھے مگر میں جان گیا کہ یہ لوگ روکنا چاہتے ہیں.آخر زور سے پلہ چھڑا چھڑا کر خدا خدا کر کے چوک میں پہنچا جہاں میاں علی بخش اور نبی بخش دو بھائیوں کی عطاری کی دوکان تھی اس سے دریافت کیا تو انہوں نے راستہ بتا یا ور نہ ہند و کسی ایک نے بھی مرزا صاحب کے مکان کا راستہ نہ بتایا تھا.بھائی جی فرماتے ہیں کہ علی بخش نبی بخش صاحبان کی دکان مسجد اقصیٰ کے ملحق شمال کی طرف تھی.حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ فاضل (امیر مقامی قادیان) نے بتایا کہ علی بخش صاحب مرحوم حضرت اقدس علیہ السلام کے زمانے میں ہی احمدی ہو گئے تھے اور بہت مخلص تھے لیکن نبی بخش صاحب افسوس ہے کہ احمدی نہیں ہوئے تھے.نبی بخش صاحب میاں خیر الدین صاحب مرحوم وثیقہ نویس کے والد تھے.میاں خیر الدین صاحب بحمد الله تقسیم ملک کے بعد احمدی ہو گئے تھے اور عبادت گزاری اور اخلاق کا انہوں نے ایک عجیب نمونہ دکھایا تھا.چار پانچ سال ہوئے وفات پاچکے ہیں.

Page 44

۲۹ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے ملاقات میں مسجد مبارک کی کوچہ بندی کے نیچے پہنچا جہاں اوپر جانے والی سیٹرھیوں کی ڈاٹ کے نیچے ایک چارپائی پر دو شخص بیٹھے تھے ایک قرآن شریف پڑھ رہے تھے اور دوسرے پڑھا رہے تھے.جمعہ کی نماز ہو چکی تھی.مجھے حضرت میر حامد شاہ صاحب نے جو خط دیا تھا وہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب کے نام تھا.مگر مجھے ان کا حلیہ وغیرہ کوئی نہ بتایا گیا.میں نے چار پائی کے برابر پہنچ کر السلام علیکم کہا.میری آواز پر پڑھانے والے بزرگ نے توجہ کی تو میں نے وہ خط نکال کر ان کے حوالے کر دیا بغیر اس علم کے کہ وہ صاحب ہیں کون ؟ مجھ سے خط لے کر اس بزرگ نے مجھے سر سے پاؤں تک دو تین مرتبہ گھور گھور کر دیکھا اور بیٹھ جانے کا اشارہ کیا.مسجد مبارک میں حضرت اقدس کی ملاقات قرآن مجید پڑھانے والے بزرگ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب (سیالکوٹی ) تھے اور پڑھنے والے میرے محسن حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب نو مسلم.خط پڑھ کر فرمایا.میرا ہی نام عبدالکریم ہے.اتنے میں حافظ معین الدین صاحب نے جو حافظ معنا کے نام سے مشہور تھے اذان کہی اور ہم سب او پر مسجد مبارک میں چلے گئے.مجھے مولوی صاحب نے وضو کی جگہ بتائی.یہ غسل خانہ بعد میں جناب مولوی محمد علی صاحب کے لئے دفتر بن گیا تھا.( یعنی سرخی کے نشان والا کمرہ.مولف ) حضرت مولوی عبدالکریم حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب کی بیعت ۱۸۹۴ء کی ہے.جلد بعد آپ فوجی ملازمت ترک کر کے قادیان میں مقیم ہو گئے تھے.۱۹۴۷ء کے پُر آشوب زمانہ میں حکما " آپ پاکستان ہجرت کر گئے تھے.پھر ۱۹۴۸ء میں درویشی دور میں قادیان آگئے.فالج ہونے پر ۱۹۵۲ء میں سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی اجازت سے آپ ربوہ تشریف لے گئے.9 جولائی ۱۹۵۷ء کو بروز عید الفطر ربوہ میں وفات پا کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.تین سو تیرہ صحابہ میں سے تھے.نہایت متقی ، عالم باعمل اور صاحب کشف والہام بزرگ تھے.حضرت حافظ معین الدین صاحب نے اار جولائی ۱۹۱۹ء کو وفات پائی.آپ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.( مفصل حالات کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد ۱۳)

Page 45

۳۰ صاحب خود مسجد مبارک کے درمیان کمرہ میں تشریف لے گئے.ابتدائی زمانہ میں سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام اس کھڑکی سے جو بیت الذکر کو درمیانی کمرہ میں سے کھلتی ہے اور آج تک موجود ہے مسجد مبارک میں تشریف لایا کرتے تھے اور اس کھڑکی کے ساتھ ہی دیوار کے ساتھ صف اول کی دائیں طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے.میں وضو کر کے مسجد مبارک کے درمیانی کمرہ کے دروازہ پر پہنچا تو درمیانی حصہ میں آٹھ یا دس آدمیوں کا مجمع تھا.اور انہی میں سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام بھی تشریف فرما تھے.مگر میں نے حضور کو نہ پہچانا.کیونکہ مجلس میں کوئی امتیاز نہ تھا بلکہ سب کے سب برابر فرش مسجد پر ایک حلقہ کی صورت میں جمع تھے.به برکت کتب حضرت اقدس توفیق اسلام واحمدیت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے اشارہ سے مجھے آگے بلایا اور سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے مجھے سلام کرنے کو کہا تب میں نے جانا پہچانا.اور ادب سے سلام کیا جس کا سید نا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے جواب دے کر سر اٹھایا اور نیم وا چشم مبارک سے مجھ پر نظر ڈالی اس زمانہ میں عموماً حضور ا ذان سے پہلے مسجد میں تشریف لے آیا کرتے اور بعض اوقات خود حکم دے کر اذان دلوایا کرتے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ حضور اذان سے پہلے ہی مسجد میں تشریف لے آئے تھے یا کم از کم اذان ہوتے ہی آگئے تھے اور میرے وضو کر کے پہنچنے سے قبل ہی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے حضور سے میرا ذکر کر لیا تھا.حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب بھی مجلس میں موجود تھے سیدنا حضرت اقدس نے مجھ پر نظر ڈالی اور فرمایا: ”مولوی صاحب! یہ لڑکا تو ابھی بچہ معلوم ہوتا ہے.اور نا بالغ نظر آتا ہے.ایسا نہ ہو ہندو کوئی فتنہ کھڑا کر دیں.یہ لوگ ہمیشہ موقعہ کی تاک میں رہتے ہیں.“ اس پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک طرف مجھے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ میں بھی کچھ عرض کروں اور دوسری طرف حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ لڑکا ہوشیار ہے اور سوچ سمجھ کر یہاں آیا ہے اور حضرت مولانا نورالدین صاحب نے بھی مولوی صاحب کی تائید میں کوئی ایسی ہی بات عرض کی.ادھر میں کھڑا ہو گیا اور عرض کیا کہ حضور میں تو مدت ہوئی دل سے مسلمان ہوں.نماز مجھے آتی ہے اور پڑھتا ہوں.حضور کی کتاب ” انوار الاسلام“ اور ” نشان آسمانی“ میں نے اچھی طرح سمجھ کر پڑھی ہیں.مجھے

Page 46

۳۱ اسلام کا شوق ہے میں جوان ہوں نابالغ نہیں وغیرہ.اس پر اللہ تعالیٰ نے میرے آقائے نامدار کو انشراح بخشا اور حضور پر نور نے مجھے قبول فرما کر اپنی زبان مبارک سے کلمہ پڑھایا اور داخل اسلام کیا.گویا کلمہ پڑھانا ہی مجھے اسلام واحمدیت میں داخل کرنا تھا.ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت نہیں لی گئی.فالحمد لله - الحمد لله رب توفنى مسلماً والحقني بالصلحين غالبا اکتوبر ۱۸۹۵ء کا زمانہ تھا جب میں دارالامان قادیان پہنچا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل ورحم سے ہوا.میری کسی کوشش یا سعی کو اس میں کوئی بھی دخل نہ تھا.میں قادیان کے نام سے بھی نا آشنا تھا.اور نہ جانتا تھا کہ قادیان ہے کدھر.دو تین ماہ قبل کپورتھلہ سے اپنے سسرال کو جاتے ہوئے بھی بٹالہ سے ڈیرہ بابا نانک کو گیا تھا.قادیان کا کوئی علم ہوتا تو تبھی چلا آتا.سرال جانا میرا اصل مقصد تو تھا نہیں.اصل مقصد تو وہی تھا جو خدا نے اب میسر فرمایا.تاریخیں اور مہینے مجھے ٹھیک تو یاد نہیں.تخمینہ اور اندزہ سے میں سمجھتا ہوں کہ غالباً اکتوبر ہی کا مہینہ ہوگا.اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ اکتوبر کا ابتداء یا ستمبر کا آخر مگر ۱۸۹۵ء میں تو قطعا قطعا کوئی شبہ نہیں.فرق ہوگا تو دنوں یا زیادہ سے زیادہ ہفتوں کا ہوگا.اور یہ امر بھی یقینی ہے کہ اکتوبر کے ابتداء سے وہ زمانہ کسی حال میں بھی آگے نہیں جاتا کچھ پہلے ہو تو ہو * حضرت بھائی جی کے بیان میں دو قوی قرائن ہیں جن سے آپ کی تاریخ ورود قادیان کی مزید تعین ہو جاتی ہے.ایک یہ کہ سفر ڈیرہ بابا نانک کے لئے رفقائے سفر میں آپ کا نام بھی پیش ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کے گاؤں کا قرب ہے.ایسانہ ہو کہ کوئی رشتہ داران کو دیکھ کر پیچھے پڑ جائے اور ہمارے سفر کی غرض ہی فوت ہو جائے اور یہ سفر ۳۰ ستمبر ۱۸۹۵ء کو کیا گیا تھا.دوسرا قرینہ یہ ہے کہ آپ جمعہ پڑھنے کی نیت سے جمعرات کو سیالکوٹ سے روانہ ہوئے تھے لیکن یکہ بان نے سواری کی تلاش میں دیر لگا دی.اس طرح جمعہ نہ ملا.اواخر ستمبر میں ۲۷ کو جمعہ تھا.گویا ۲۷ /ستمبر تک بھائی جی ضرور قادیان پہنچ چکے تھے.۳۰ ستمبر کے سفر کے لئے بھائی جی کا بیان ہے کہ بڑی کوشش سے یکے تیار کرائے گئے رفقائے سفر میں سے تین سیالکوٹ اور لاہور میں قیام رکھتے تھے.ان کو کئی روز قبل اطلاع دی گئی ہوگی.میکوں کا انتظام بھی

Page 47

۳۲ قادیان پہنچ کر حضرت اقدس کے دربار میں حاضر ہونے میں جتنی روک مقامی بازار کے ہندوؤں کی طرف سے مجھے پیش آئی وہ مجھے کبھی نہیں بھولی.ایک انسان.ایک اجنبی اور نو وار دکو روکنے کے جس قدر بقیہ حاشیہ کم از کم دو دن پہلے شروع ہوا ہوگا.رفقائے سفر میں سے قادیان والوں کے نام ایک روز (۲۹ ستمبر کو ) بھی تجویز ہوئے ہوں تو یہ قرین قیاس معلوم نہیں ہوتا اور نہ احتیاط کا پہلو لئے ہے کہ ایک شخص جس کی شکل ہندوانہ ہے.نوعمر ہے.اس کے حالات کا عملاً قادیان میں کسی کو علم نہیں ، قبول اسلام کے دو دن بعد اس کا نام بطور رفیق سفر تجویز ہو جائے.البتہ چند دن گزرنے پر ممکن ہے.چنانچہ میرے نزدیک اس سے قبل جمعہ کے روز یعنی ۲۰ ستمبر کو بھائی جی قادیان پہنچ چکے ہوں گے اور نو دس دن میں احباب کرام بھائی جی کے حالات سے مطمئن ہو چکے تھے.اس امر پر غور کرتے ہوئے بھائی جی کی بعد کی مخلصانہ حالت مدنظر نہیں رکھنی چاہئے.بلکہ آپ کے اولین ورود کے حالات پر غور کرنا چاہئے جس سے وہی نتیجہ نکلتا ہے جو میں نے عرض کیا ہے.بھائی جی کا بیان اس بارے میں یہ بھی ہے کہ فرق ہوگا تو دنوں یا زیادہ سے زیادہ ہفتوں کا ہوگا.آپ کا بیان بہ نظر غائر دیکھنے سے بہر حال یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے ایا م ۶ ۱۳۰ ، یا ۲۰ ستمبر میں سے کسی روز آپ قادیان وارد ہوئے.اس بیان کا خلاصہ میں ذیل میں درج کرتا ہوں اور اس بیان کے مدنظر انداز أجو تاریخ بنتی ہے وہ اپنی طرف سے خطوط واحدانی میں درج کر دی ہے جس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ۶ ۱۳ یا ۲۰ ستمبر میں سے کسی تاریخ کو آپ قادیان آئے تھے.حسب وعدہ بھائی جی ۱۸ جون ۱۸۹۵ء کوسید بشیر حیدر صاحب کے پاس پہنچے اور تین روز بعد ( گویا -1 -٢ ار جون) کو کپورتھلہ چلے گئے جہاں سے چند روز بعد (انداز ا۵ ارجون کو ) سسرال چلے گئے.سسرال میں ایک ماہ ( گویا ۱۰ جولائی تک ٹھہرے.پھر ایک روز میں (گویا ا ار جولائی کو ) سیالکوٹ پہنچے.کچھ عرصہ بعد رقم ختم ہوتی نظر آئی (جسے ہم اندازا ہیں دن سمجھ لیتے ہیں گویا ۳۱ / جولائی کو ) پشاور تایا صاحب کے پاس چلے گئے اور ایک ماہ اس سفر میں خرچ ہوا.گویا ۳۱ را گست تک آپ سیالکوٹ واپس آگئے.).چند ہی روز بعد ( گویا ۵ ستمبر کے لگ بھگ ) آپ نے اظہار اسلام پر آمادگی ظاہر کی اور اسی شام کو قادیان روانہ ہو گئے.روانگی کا دن جمعرات تھا.( گویا ۶ ستمبر کو بروز جمعہ قادیان پہنچ گئے.) تفصیل سے ظاہر ہے کہ ممکن ہے حضرت بھائی جی ۶ ستمبر کو پہنچے ہوں ورنہ ۱۳ یا ۲۰ ستمبر کو.واللہ اعلم بالصواب

Page 48

۳۳ وسائل اختیار کر سکتا ہے وہ انہوں نے سارے ہی جمع کئے.پیار بھی کیا.ہمدردی بھی جتائی، خاطر و مدارات بھی کی.تواضع سے بھی پیش آئے.کھانے اور پانی کی تو نہ صرف صلح ہی کی، بلکہ تیار کرانے کو گھروں میں پیغام بھیج دیئے.اور آخر جب کام نکلتا نظر نہ آیا.تو کچھ سختی بھی استعمال کرنے کی کوشش کی.مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہی میری دستگیری فرمائی.اور دورازہ پر پہنچا کر اندر بھی داخل خود اس نے کر دیا.ورنہ میں اپنی طاقت سے ان مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کے ہرگز ہرگز قابل نہ تھا.لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار فضل ہے اس کا ور نہ من آنم کہ من دانم.قادیان میں قیام وتعلیم غرض اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز کو کفر و شرک کے اتھاہ گڑھے سے اپنا دست قدرت بڑھا کر نکالا اور اپنے پیارے صحیح کے ذریعہ مجھے قبول فرمایا.میں قادیان میں رہنے لگا.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب موصوف مجھ سے چھ سات ماہ قبل قادیان پہنچ چکے تھے.ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے میرے لئے جگہ بنا دی اور وہ میری ہر طرح کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کا خیال رکھنے اور قرآن مجید پڑھانے لگے.فجزاه الله احسن الجزاء في الدنيا والاخرة - شيخ عبدالعزيز صاحب انو مسلم * جو یاست جموں کے باشندہ تھے مجھے سے قریباً دو ہفتہ قبل قادیان میں آ کر اسلام قبول کر چکے تھے.وہ بھی میرے ساتھ تعلق محبت رکھتے اور مل جل کر رہتے تھے.نیز میں نے حضرت اقدس کی کتب کا مطالعہ شروع کر دیا.ان میں سے سب سے پہلے میں نے سرمہ چشم آریہ پڑھی جو مرزا ایوب بیگ صاحب نے مجھے ایک حد تک پڑھائی اور سمجھائی.وہ مجھ سے حضرت شیخ عبدالعزیز صاحب تقسیم ملک سے طویل عرصہ قبل وفات پاگئے تھے.تاریخ وفات معلوم نہیں ہو سکی.وہ موصی نہیں تھے.قادیان گائیڈ مطبوعہ نومبر ۱۹۰۰ء میں نو مسلمان قادیان میں تیسرے نمبر پر شیخ عبدالعزیز صوفی سابق کچھہتر سنگھ نام درج ہے (صفحہ ۹۳) گویا اس وقت تک وہ قادیان میں تھے اور زندہ تھے.* مرزا صاحب کے مفصل حالات اصحاب احمد جلد اول میں درج ہیں.

Page 49

۳۴ بہت محبت کا سلوک کرتے تھے.اس زمانے میں صرف چند لوگ قادیان میں رہتے تھے.قادیان کی پر لطف زندگی اور سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت اور حضور کے چہرہ مبارک کی محبت نے میرے دل سے واپسی کے خیالات بالکل ہی نکال دیئے اور میں نے اظہار اسلام کر کے باہر چلے جانے کی بجائے اسی زندگی کو ترجیح دے لی اور فیصلہ کر لیا کہ اب جینا مرنا یہیں ہو تو خوشی ہے.میرا سامان سیالکوٹ ہی میں رکھا تھا.میں نے چاہا کہ ایک مرتبہ سیالکوٹ جاؤں، سامان بھی لے آؤں اور سید بشیر حیدر صاحب سے ملاقات بھی کر آؤں.مگر مولوی عبد الکریم صاحب نے بجائے اس کے کہ میرے لئے حضرت اقدس سے اجازت حاصل کرتے خود ہی فرمایا کہ سیالکوٹ جانے کی ضرورت نہیں سامان ہم یہیں منگا لیتے ہیں اور بشیر حیدر بھی خود آکر مل جائے گا.میں نے عرض کیا کہ بہت اچھا جس طرح آپ فرماتے ہیں یہی ٹھیک ہے.میرے جواب سے حضرت مولوی صاحب خوش ہوئے اور مجھے دعا دی اور سامان کے واسطے اسی روز خط لکھ دیا.جونہیں معلوم کسی آنے والے کے ہاتھ یا پارسل ہو کر جلدی آ گیا.اور مجھے مل گیا.اس کے کچھ عرصہ بعد سید بشیر حید ر صاحب بھی آئے اور مل گئے.میں کچھ شرمیلا زیادہ تھا جس کی وجہ سے زیادہ میل جول کا عادی نہ تھا.تنہائی مجھے زیادہ اچھی لگتی تھی.اسی وجہ سے میرا حلقہ تعارف بہت محدود رہتا اور جن سے کسی مناسبت کی وجہ سے تعلق ہو گیا انہی کے ساتھ مل جل لیا کرتا.نمازوں اور درس، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت، مسجد اور ہمرکابی سیر کو اپنی نہایت ہی مرغوب چیز یقین کرتا تھا.نماز حضرت مولانا عبد الکریم صاحب پڑھایا کرتے جن کی قرآن خوانی کا میں بلکہ ہر ایک ہی عاشق تھا.ان کی قرات میں ایسا سوز اور گذار ہوا کرتا تھا کہ رقت پیدا ہو جایا کرتی.صبح کی نماز کی قرات سے غفلت کی نیند سونے والے جاگ اٹھا کرتے اور جن کی نیند کو موذن کی آواز کھول نہ سکتی اس قرات کی سُریلی آواز سے چونک کھڑے ہوتے تھے.مجھے ٹھیک یاد نہیں دو اڑھائی یا تین مہینے کے قریب زمانہ قادیان میں رہتے ہوا ہوگا.اور اگر چہ میری رہائش بالکل مسافرانہ تھی کیونکہ کوئی گھر تھا نہ گھاٹ.ایک الماری حضرت مولانا نورالدین صاحب کے مطب میں ملی ہوئی تھی.وہی میرا گھر تھا.تعلیم کا کوئی خاص انتظام نہ تھا.اور خوراک و پوشاک اور دوسری ضروریات کا بھی خدائے واحد ویگانہ کے سوا کوئی کفیل نہ تھا.گھر سے یا تا یا صاحب سے جو کچھ لایا تھا اسی پر ابھی گذارہ ہوتا تھا مگر باوجود ان باتوں کے میرا دل اپنے وطن اور ماں باپ کے گھر سے زیادہ مطمئن اور خوش تھا.اور قادیان سے باہر جانے کا وہم بھی مجھے نہ آتا تھا.

Page 50

۳۵ قبول احمدیت کے کچھ مزید حالات.آپ کا اسلامی نام کس نے رکھا.عبد الرحمن نام کے احمدی قادیان میں حضرت بھائی جی نے ایک طویل چٹھی دفتر بہشتی مقبرہ کو ۸رظہور ۳۱۹اهش مطابق ۸/اگست ۱۹۴۰ء کو رقم فرمائی جو مفید تاریخی امور پر مشتمل ہے.ایک حصہ یہاں درج کیا جاتا ہے:.مجھے بچپنے میں ہی اللہ کریم نے کفر سے نکال کر دولت ایمان عطا فرمائی اور میری خوش بختی کو اپنے فضل سے یوں چار چاند لگائے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں لا ڈالا اور حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو میں نے حضور پُر نور ہی کی صحبت میں سیکھا اور یہ اللہ کریم کا فضل تھا کہ اس طرح مجھے اسمی اور رسمی اسلام کے بجائے حقیقی اور صحیح اسلام کی نعمت میسر آئی.وو ۲- عبدالرحمن میرا اسلامی نام سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کی زبان مبارک سے رکھا ہوا نام ہے جو حضور پر نور نے مسجد مبارک کے وسطی حصہ میں بیٹھے ہوئے ۱۳۱۱/۱۳۱۲ ہجری المقدس کو تجویز فرمایا تھا.جبکہ اللہ کریم نے مجھے حضور کے دست مبارک پر خلعت اسلام اور سعادت بیعت سے نوازا اور سرفراز فرمایا تھا.خیمہ انجام آتھم میں حضور پر نور نے جو فہرست ۳۱۳ خدام کی شائع فرمائی اس کے ۱۰۱ نمبر پر مجھ ناکارہ کا نام درج ہے.اس زمانے میں ابھی اتنے عبدالرحمن قادیان میں نہ تھے.کہ تخصیص کی ضرورت ہوتی.جالندھری ، لاہوری، زرگر، کتھا سنگھ اور قادیانی کہلانے کا وہ زمانہ ہے جبکہ قادیان میں کئی عبدالرحمن جمع ہو گئے اور نو مسلم عبد الرحمن حضور پر نو رکوعبدالرحمن نام تجویز فرمانے کی طرف زیادہ رجحان تھا.جب کئی عبد الرحمن نو مسلم ہو گئے تو تمیز کے لئے جالندھری.لاہوری.زرگر.کتھا سنگھ اور عبدالرحمن قادیانی کے نام سے یاد ہونے لگے.یہ خدا کی دین ہے کہ مجھ نا لائق کے حصہ میں قادیانی کا نام مبارک آیا.خدا کرے یہ مبارک نام ہمیشہ ہی میرے اور میری اولاد کے حصے میں رہے.لفظاً بھی اور معنا بھی.ظاہراً بھی اور باطناً بھی.آمین.ابتدائی زمانہ کی فہرستوں میں میرا نام شیخ عبد الرحمن نومسلم قادیانی کر کے لکھا جاتارہا.یا بعض جگہ صرف شیخ عبدالرحمن قادیانی.ہم وصیت کے سلسلہ میں دوسری جگہ درج کیا گیا ہے.

Page 51

۳۶ ۵.قادیان پہنچنے سے قبل سیالکوٹ کی رہائش کے زمانہ میں جب مجھے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دو ایک کتب کا مطالعہ نصیب ہوا اور سیالکوٹ کے احمدی سادات فیملی کی مجالس میں حضور کے ذکر اذکار اور دعاوی سننے میں آئے (سیالکوٹ میں رہائش کے لئے اللہ کریم نے سکے زیاں کا وہ بالا خانہ مجھے نصیب فرمایا جس میں کبھی سیدنا حضرت اقدس بھی قیام فرما چکے تھے.اور جو آجکل مسجد سکے زئیاں بہ ککے زئیاں کے بالمقام حید ر منزل کے نام سے موسوم ہے.) تو ان دنوں میں اس خیال پر تھا کہ قادیان جا کر ا ظہا ر ا سلام کروں گا اور ان فقیر مرد بزرگ کے سامنے نذر نیاز پیش کر کے واپس چلا آؤں گا.مگر جب اللہ کریم نے اس نورانی چہرہ اور صاحب نور نبوت ورسالت کے قدموں میں لا ڈالا.صبح کی سیر، شام کا دربار.اور ظہر و عصر کی مجلس و صحبت میسر آئی.تو وہ پہلا خیال دل سے دھل گیا.اور میں دنیا جہان سے بے نیاز ہو کر اس دور کا ہو گیا.دھونی مار کر بیٹھا اور خدا نے ایسا فضل فرمایا کہ اس در کی گدائی.دنیا جہان کی دولت و ثروت سے ہزار گنا بہتر نظر آئی.اور خدا کا فضل ہوا کہ آخر میں اسی در کا ہو گیا.یہیں پرورش پائی اور اسی دروازہ سے اسلام سیکھا اور دولت ایمان پائی.فالحمد للہ.گو اس طرح میں ابتداء ہی سے اپنے آپ کو اسی در کا غلام یقین کرتارہا اور مفہوم بیعت میں ابھی اسی نظریہ پر قائم ہو گیا تھا.مگر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش پر کہ لوگ خدمت اسلام کے لئے وقف کریں اپنے آپ کو میں نے بھی لبیک کہی اور ہمیشہ اس خیال سے پڑا ر ہا.پھر خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام میں امیر المومنین حضرت اقدس خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی جب تحریک وقف کا اعلان فرمایا تو اس وقت بھی میں نے دل سے لبیک کہی.گول کمرہ میں حضور پر نور نے واقفین کو بازیابی کا شرف بخش کر ہدایات دیں اور واقفین کو قبول فرمایا.میں بھی اس زمانہ سے لبیک لبیک کہتے ہوئے وقف ہوا اور پہلے عزم، ارادہ اور نیت کو اور زیادہ پختہ کر کے جب سے اب تک اس عہد پر قائم ہوا ہوں.خدا کرے شرف قبولیت سے بھی نوازا جاؤں.آمین ثم آمین.“ حضرت اقدس کا سفر ڈیرہ بابا نانک (۳۰ ستمبر ۱۸۹۵ء) سکھوں میں تبلیغ کی طرف سید نا حضرت اقدس کی توجہ اس زمانہ میں خاص طور سے تھی اور حضور کتاب ست بچن، تصنیف فرما رہے تھے.جس کے واسطے مصالحہ جمع کرنے کے لئے سکھوں کی کتب کی چھان بین ہورہی تھی اور اسی ذیل میں حضور کو ڈیرہ بابا نانک چولہ صاحب دیکھنے کی غرض سے جانا پڑا.اس زمانہ میں

Page 52

۳۷ سواری یکوں ہی کی ہوا کرتی تھی.بڑی کوشش اور انتظام سے دویا تین یکے کرائے گئے اور سفر کی تیاری ہوئی.ساتھیوں کے نام تجویز ہونے لگے.میرا نام بھی پیش ہوا.مگر حضور پاک نے فرمایا.جس کا مفہوم میرے الفاظ میں یہ ہے کہ ان کے گاؤں کا قرب ہے ایسا نہ ہو کوئی رشتہ داران کو دیکھ کر پیچھے پڑ جائے اور ہمارے سفر کی غرض ہی فوت ہو جائے.بہتر یہی ہے کہ وہ نہ جائیں.چنانچہ اس طرح میں اس مبارک سفر میں ہمرکابی کے شرف سے محروم رہ گیا.اس سفر سے واپسی پر سید نا حضرت اقدس بہت ہی خوش تھے.اور اس تبلیغی دریافت کا ذکر اس طرح مجلس میں فرمایا کرتے جس طرح کوئی دنیا دار کسی بھاری خزانہ کے حصول سے خوش ہو.چنانچہ اکثر ایسے ہی مسائل کا چرچا ان دنوں ہوا کرتا تھا.اور قادیان کے دن اور رات تنہائی اور مجالس.تبلیغی جد و جہد اور روحانی خزائن کی دریافت و اشاعت کے لئے ہی وقف رہتے تھے.والد تلاش میں پریشان وسرگرداں ان کا ور و دقادیان اسی زمانہ کا ذکر ہے کہ ایک رات میں مطب میں سویا ہوا تھا اور صبح کو اپنی کیفیت کے مدنظر بھی یہی اندازہ کرتا ہوں کہ خاص سردی کے ایام تھے.میرے قریب مرزا محمد اشرف صاحب کے والد بزرگوار حضرت منشی جلال الدین صاحب مرحوم جو ایک نہایت ہی نیک دل پاک نفس اور عبادت گذار انسان تھے اور انہی کی تبلیغ اور صحبت میں حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب مسلمان ہوئے تھے.میرے قریب ہی ان کی چار پائی تھی.وہ چار پائی پر نماز تہجد ادا کر رہے تھے.اس رات اسی وقت میں نے ایک منذر رؤیا دیکھی جس کے اثر سے میں تڑپ کر اٹھ بیٹھا اور میری اس گھبراہٹ کا ایسا اثر ظاہر تھا کہ منشی صاحب مرحوم نے حضرت منشی جلال الدین صاحب کا نام ضمیمہ انجام آتھم میں فہرست تین سو تیرہ صحابہ میں نمبر اول پر ہے.آپ کی وفات اگست ۱۹۰۲ء میں قیام بہشتی مقبرہ سے پہلے ہوئی.معین تاریخ آپ کی اولاد کے ہاں بھی محفوظ نہیں.آپ کی شدید خواہش تھی کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے قدموں میں آپ کی وفات ہو لیکن شدید بارش ہو گئی جس کے بعد کمزوری زیادہ ہو گئی.آپ نے اپنے وطن بلانی میں وفات پائی اور و ہیں مسجد کے احاطہ میں دفن کئے گئے.اخویم مرزا محمد یعقوب صاحب کا رکن تحریک جدید ربوہ ( آپ کے پوتے ) کا بیان ہے کہ شنید ہے کہ آپ کی قبر گرنے والی ہے اور میں نے سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ سے بہشتی مقبرہ قادیان اور ربوہ میں ان کا کتبہ لگوانے کی اجازت ۱۹۵۶ء میں حاصل کر لی تھی.

Page 53

۳۸ مجھ سے فرمایا.کیوں میاں عبدالرحمن ! کیا بات ہے.مگر میں نے اصل بات بتائے بغیر ہی عرض کیا.خیر ہے نماز کے لئے اٹھا ہوں.“ خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ ایک بار یک لمبا سانپ میری طرف آ رہا ہے اور جب وہ میرے قریب آیا تو حضرت مولانا نورالدین صاحب نے ایک لاٹھی اس کو ماری مگر وہ لاٹھی کے نیچے سے بالکل صفائی کے ساتھ زندہ نکل کر سیدھا میری طرف بڑھا اور میرے جسم کے گرد لپٹ گیا.اس نظارہ اور سانپ کا میرے گرد لپٹ جانے کی وجہ سے مجھ پر ایسی گھبراہٹ اور پریشانی ہوئی کہ میں نیند سے ایسا چونک کر اٹھا کہ حضرت منشی صاحب موصوف نے بھی میری بیداری کو غیر معمولی گھبراہٹ پر محمول کیا.اٹھا،استغفار کیا.دو چار نفل پڑھے.مسجد میں صبح کی نماز ادا کی اور واپس آ کر اپنا قرآن شریف لے کر جو کہ حضرت اقدس کے کتب خانہ میں پیر جی سراج الحق صاحب کے پاس ( مطب کے شمال مشرقی کو نہ کی کوٹھڑی میں ) رکھا تھا.مطب کی چھت پر تلاوت کرنے کو تھا کہ پیر جی نے ایک منی آرڈر کر آنے کو کہا میں نے ایک دو تہی اوڑھی ہوئی تھی جس سے یقیناً سردی کا موسم معلوم ہوتا ہے.پوسٹ آفس اس حضرت پیر سراج الحق صاحب صاحب گدی نشین تھے.آپ ۱۹۸۸۲ء میں پہلی بار قادیان تشریف لائے.ازالہ اوہام حصہ دوم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے اخلاص کی تعریف فرمائی ہے.تذکرہ المہدی مطبوعہ اور قلمی میں آپ نے حضرت اقدس کے متعلق ایک قابل قدر مجموعہ روایات جمع کیا.جس کے اقتباسات ”تذکرہ میں بھی درج ہوئے ہیں.۳ /جنوری ۱۹۳۵ء کو آپ فوت ہوئے اور بلا وصیت بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کئے گئے.اللهم اغفر له و ارحمه_آمین.بقیہ حاشیہ : حضرت مرزا محمد اشرف صاحب نے ۱۸۹۵ء میں بیعت کی.۱۹۰۶ء میں ہجرت کر کے قادیان آگئے اور صدرانجمن احمدیہ کے دفاتر میں محرر، آڈیٹر اور محاسب اور ناظم جائیداد کے طور پر خدمات سرانجام دیں.آپ کے دامادا خویم مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر (ہیڈ زودنویس ربوہ ) سے معلوم ہوا کہ حضرت موصوف کا ۱۴ نومبر ۱۹۴۷ء کو بروز جمعہ ہم مقام جہلم انتقال ہوا اور آپ وہیں مدفون ہیں.آپ موصی تھے.مگر اس وقت چونکہ ابھی ہجرت کا صدمہ بالکل تازہ تھا اور جماعت کے افراد منتشر تھے.کسی کو خیال تک نہ آیا کہ نعش کو لکڑی کے بکس میں بند کر کے دفن کیا جائے.آپ کی وفات سے ایک عرصہ قبل خواب میں بتایا گیا تھا کہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب (وفات بمقام قادیان بتاریخ ۳ /جون ۱۹۴۷ء) اور حضرت مولوی شیر علی صاحب ( وفات بتاریخ ۱۳/ نومبر ۱۹۴۷ء) کی وفات کے بعد آپ کی

Page 54

۳۹ زمانہ میں لالہ بڈھا مل کی دو تین منزلہ دکان کے نچلے حصہ میں ایک آریہ سکول ماسٹر سمی سومراج کے ہاتھ میں ہوا کرتا تھا.لالہ بڈھا مل کی دو عمارتیں بالمقابل اونچی اونچی پہاڑی دروازہ کے قریب کھڑی ہیں.جو ریتی چھلہ نام میدان کی طرف ہے اور پوسٹ آفس مشرقی جانب کی دکان میں تھا.اور صبح سویرے ہی سویرے سکول جانے سے پہلے وہ ماسٹر ڈاک روانہ کر دیا کرتا تھا.میں منی آرڈر لے کر ڈاک خانہ پہنچا.اور اس کے کھلے دروازہ کے سامنے کھڑا ہوا تو دیکھتا ہوں کہ میرے والد صاحب اس آریہ ماسٹر کے پہلو میں بیٹھے ہیں.میں اس نظارہ سے جو اچانک پیش آیا ایک سکتے کے عالم میں تھا اور طبیعت نے ابھی فیصلہ نہ کیا تھا کہ قدم آگے اُٹھاؤں یا پیچھے کہ والد صاحب مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو کر میری طرف بڑھے اور مجھ سے لپٹ گئے.چھاتی سے لگایا اور پیار کیا.دلا سا دیا اور میری تسلی کے لئے فرمانے لگے.بیٹا ! تم نے جو کچھ کیا اچھا کیا.جب تمہارے دل کو یہی بات پسند ہے تو کون روک سکتا ہے خوش رہو اور جہاں چاہو رہو.مگر تم گھر سے آئے پھر اطلاع نہ دی.ہم لوگ تمہاری تلاش میں سرگرادں پھرے.سینکڑوں روپیہ بر باد ہوا.تمہاری ماں روتے روتے اندھی ہوگئی اور تمہارے عزیز بھائی بہنیں جدائی کی وجہ سے بے تاب اور نیم جان ہیں.ایک مرتبہ چل کر ماں کومل لو شاید اس کی بینائی بچ جائے اور بھائی بہنوں کو پیار کر لو کہ وہ بھی تمہارے نام کو ترستے ہیں.“ وغیرہ وغیرہ.والد صاحب بہت ہوشیار انسان تھے.اس زمانہ کے مناسب حال زبان اور اردو میں ان کو خاص مہارت تھی اور بہت اچھے منشی بلکہ خوشنویس اور انشاء پرداز بھی تھے.بعد کے حالات سے معلوم ہوا کہ والد صاحب قادیان میں ایک روز قبل کے آئے ہوئے تھے اور مقامی ہندوؤں اور آریوں سے جن میں سب سے زیادہ ڈپٹیوں کا گھرانہ جن کا مکان ان دنوں اللہ پاک کی عجیب در عجیب قدرت نمائی کا نمونہ ہو کر صدرانجمن احمدیہ کے دفاتر کی صورت میں کھڑا ہے اور غالباً یہی مدرس سومراج تھے مشورے اور منصوبے گا نٹھتے رہے تھے.اور بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں تک بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر اور کوئی صورت نہ بنی تو اس ابتدائی ڈاکخانہ کے متعلق روایات میں تفصیل دی گئی ہے اور ایک غلطی کی تصحیح بھی کی گئی ہے.بقیہ حاشیہ: - وفات ہوگی.چنانچہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ادھر لاہور میں حضرت مولوی شیر علی صاحب کا انتقال ہوا اور اُدھر دوسرے روز صبح آٹھ بجے جبکہ مرزا صاحب اخبار پڑھ رہے تھے اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے آپ کا انتقال ہو گیا.آپ صاحب کشف والہام بزرگ تھے.مگر اپنے کشف والہامات بہت کم بتانے کے عادی تھے.

Page 55

۴۰ رات کے اندھیرے میں سوتے کی چار پائی اٹھو الا ئیں گے.کوئی ہمارا مقابلہ نہ کر سکے گا.میں اچانک والد صاحب کی گرفت میں آجانے کی وجہ سے ابھی پریشان اور بالکل خاموش تھا.چند منٹ بعد سنبھلا تو عرض کیا چلیں حضرت صاحب کے ڈھیرے کی طرف تشریف لے چلیں اور ساتھ ہی پوسٹ ماسٹر کو جلدی منی آرڈر کرنے کو کہا.مگر وہ بڑا شریر آدمی تھا اس نے موقعہ کو غنیمت سمجھ کر دوسرے کام شروع کر دیئے اور میر امنی آرڈر پیچھے اٹھارکھا اس کی غرض یہ تھی کہ میرے والد صاحب اچھی طرح سے باتیں کر لیں کیونکہ عین ممکن تھا کہ اس کے خیال کے مطابق میرے والد صاحب کو پھر مجھ سے اس طرح باتیں کرنے کا موقعہ نہ ملے.غرض اس طرح چند منٹ اور دیر ہوگئی اور میں والد صاحب کے پاس بیٹھا ان کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا اور والد صاحب بھی مصلحت وقت کے ماتحت اس وقت نہایت ہی محبت، شفقت اور ہمدردی کی باتیں کرتے رہے اور ایسے واقعات سناتے رہے جن سے میرا دل پگھلے اور نرم ہوا اور والدہ اور بھائی بہنوں کی محبت میرے سینے میں جوش مار کر تازہ ہو.نہ معلوم کس طرح کسی اپنے یا بیگانے کے ذریعہ ہمارے ڈیرے میں یہ بات جا پہنچی کہ عبدالرحمن کو اس کے والد اور ہندوؤں نے پکڑ لیا ہے.اور ڈاک خانہ کے اندر روک رکھا ہے.یہ افواہ ڈیرے میں پہنچی اور فوراً ہی کسی نے اندر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تک بھی پہنچادی جس کے سنتے ہی حضور پاک فداہ روحی حرم سرا سے باہر تشریف لے آئے اور نہ معلوم حضور کی اجازت یا حکم سے یا خود بخودہی بڑے بڑے بزرگ مجھ نا کارہ و نا چیز کی امداد کے لئے ڈاک خانہ کو روانہ ہو گئے اور ڈیرے سے ڈاکخانہ تک موجود الوقت بزرگان سلسلہ کا ایک تانتا بندھ گیا.اتنے میں پوسٹ ماسٹر نے بھی مجھے فارغ کر دیا تھا اور میں نے والد صاحب کو حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہونے پر رضامند کر لیا تھا.چنانچہ والد صاحب کھڑے ہوئے تھے اور میں بازار میں اتر چکا تھا.دیکھتا کیا ہوں کہ حضرت نانا جان مرحوم.حضرت حاجی حکیم فضل الدین صاحب بھیر دی.پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی.بھائی عبدالرحیم صاحب.بھائی عبد العزیز صاحب اور بہت سے لوگ جن کے اسماء اور ان کا خیال مرور زمانہ کی وجہ سے ذہن سے اتر گیا ہے چلے آرہے ہیں کوئی آگے ہے کوئی پیچھے.کوئی تیز آ رہا ہے اور کوئی دوڑ کر.اس سچی محبت حقیقی اخلاص اور دلی ہمدردی کا اثر میرے قلب سے آج تک زائل نہیں ہوا جو اس واقعہ کی اطلاع سے ان بزرگوں میں میرے لئے پیدا ہوا تھا.میں والد صاحب کو لے کر بازار سے ڈیرے کو روانہ ہوا.میرے محسن مہربان شفیق اور دوست بھی میرے ساتھ

Page 56

ام ہی واپس ہوئے اور بازار کے ہندوؤں کو تو علم ہی تھا وہ اس نظارہ کا معائنہ کرنے دکانوں پر کھڑے ہو گئے اور اس طرح ایک بھیڑ اس اجڑے بازار میں نظر آنے لگی.مسجد مبارک کی کو چہ بندی سے نکلتے ہی میری نظر میرے آقائے نامدار فداہ روحی سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر پڑی.جبکہ حضور فصیل کے پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے.حضور پر نور کو دیکھ کر میرے دل میں جذبات محبت و شکر گذاری کا ایک سمندر موجزن ہو گیا.اور اس طرح اچانک پکڑے جانے کا جوصد مہ اور افسردگی میرے دل پر مستولی تھی دور ہو کر بشاشت، خوشی اور اطمینان مل گیا.اور میں نے والد صاحب کو دور ہی سے بتا دیا کہ وہ ہمارے حضرت صاحب ہیں.حضرت اقدس سے والد صاحب کی ملاقات والد صاحب ہوشیار آدمی تھے.اشارہ پاتے ہی سنبھل گئے اور نہایت مود بانه و نیاز مندانہ رفتار اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جیب سے کچھ روپے نکال کر مٹھی میں لے لئے.قریب پہنچ کر ہندوانہ طرز پر ہاتھ جوڑ کر سلام کر کے نذرانہ پیش کیا.حضور نے سوال کا جواب تو دیا مگر نذرانہ قبول نہ فرمایا.اور با وجود والد صاحب کے اصرار کے قبول کرنے سے انکار فرما دیا.حضور نے نہایت شفقت اور مہربانی سے اول خیریت پوچھی اور پھر آمد کا مقصد و غایت دریافت فرمائی اور ایسے طریقے سے حضور نے کلام فرمایا کہ میرے والد صاحب کا سہما ہوا دل اور مرجھایا ہوا چہرہ بشاش ہو گیا.اور اس طرح وہ کھل کر عرض حال کرنے کے قابل ہو گئے.نہ معلوم ان کے دل میں کیا کیا خیالات پیدا ہورہے تھے جبکہ وہ تنہا میرے ساتھ ہمارے ڈیرہ کی طرف آرہے تھے.اور ان کے حمایتی منصونہ باز اور سازشی لوگوں میں سے کوئی بھی ان کے ساتھ نہ ہوا.بلکہ بر خلاف اس کے وہ چاروں طرف میرے محسنوں بزرگوں دوستوں اور بھائیوں کا ہجوم دیکھتے آ رہے تھے.حضور کی محبت و شفقت اور نرمی و پاکیزہ اخلاق نے ان کی کمر ہمت باندھ دی اور اس طرح وہ آزادنہ طور پر اپنا مقصد اور دلی غرض وغایت حضرت اقدس کے حضور پیش کر سکے.قریباً نصف گھنٹہ تک حضور نے ان کے معروضات نہایت توجہ سے سنے اور دوران گفتگو میں حضور اس پلیٹ فارم پر شمالاً جنوبا ٹہلتے رہے کہیں کہیں حضور ان کی دلجوئی اور تسلی کے لئے بعض ناصحانہ فقرات فرماتے اور بعض غلط خیالات کا ازالہ بھی فرماتے رہے.جب میرے والد صاحب دل کھول کر سب کچھ عرض کر چکے تو سیدنا حضرت اقدس نے مجھے الگ لے جا کر پوچھا.”میاں عبدالرحمن ! تمہاری کیا مرضی ہے؟“

Page 57

۴۲ چونکہ والد صاحب کے ساتھ میں بھی حضرت کے ساتھ ساتھ ٹہلتا اور تمام باتیں سنتا رہا تھا اور ان کی غرض وغایت اور مقصود کا مجھے علم ہو چکا تھا.میں نے نہایت ادب سے حضرت کے حضور عرض کیا.حضور میں دل سے مسلمان ہوں اور حضور کی غلامی کی سعادت اللہ پاک نے مجھے محض اپنے فضل سے بخش دی ہے.بے شک والدین اور بھائی بہنوں کی محبت میرے دل میں بے حد ہے.مگر میں ابھی جانا نہیں چاہتا.کیونکہ میں نے اسلام کے متعلق کچھ بھی نہیں سیکھا.“ میری یہ عرض سن کر حضور نے والد صاحب کو بلا کر فرمایا: ہم ابھی عبدالرحمن کو آپ کے ساتھ نہیں بھیج سکتے.بہتر ہے کہ آپ کو اگر فرصت ہو تو ہفتہ دو ہفتہ ان کے پاس ٹھہریں اور اگر آپ ملازمت کی وجہ سے نہ ٹھہر سکیں تو ان کی والدہ اور بھائی بہنوں کو یہاں بھیج دیں وہ ان کے پاس جتنا عرصہ چاہیں ٹھہریں.ان کی آمد ورفت اور بودوباش کے اخراجات ہمارے ذمہ ہوں گے.“ حضور یہ جواب دے کر اندر تشریف لے گئے اور میں والد صاحب کو ساتھ لے کر سید نا حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب کے پاس مطب میں جا بیٹھا جہاں ان دنوں حضور کی کتاب ”ست بچن“ کی فرمہ شکنی اور مسل برداری ہو رہی تھی.والد صاحب کے دل پر حضور کے اس فیصلہ کی وجہ سے رنج وغم کا غلبہ تھا اور ان کی دلی مایوسی کا اثر ان کے چہرہ سے نمایاں ہورہا تھا.مگر میں خوش تھا اور والد صاحب کو بھی خوش کرنا چاہتا تھا.کبھی دست بچن میں سے بابا نانک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے حالات کے متعلق نظم پڑھ کر سناتا.کبھی کسی اور طریق سے خدمت کر کے ان کی دلجوئی کی کوشش کرتا.کچھ دیر بعد ایک ہند و آیا اور کھانے کے لئے والد صاحب کو ساتھ لے گیا.والد صاحب کی واپسی میں تاخیر ہوئی.دریافت سے معلوم ہوا کہ والد صاحب نے سیدنا حضرت اقدس کا فیصلہ قادیان کے آریہ لوگوں کو بتایا جس کے متعلق صلاح مشورے اور منصوبے ہوتے رہے اور اسی مصروفیت کے باعث والد صاحب جلدی واپس تشریف نہ لا سکے.والد صاحب کے ساتھ واپسی کا حکم ظہر کی اذان ہو چکی یا ہونے والی تھی میں مطب میں بیٹھا کتاب ”ست بچن کی مسل برداری کر رہا تھا

Page 58

۴۳ کہ ایک بچہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے ایک رقعہ لایا اور زبانی یہ پیغام دیا کہ : اپنے والد صاحب کے دستخطوں سے اس مضمون کی ایک نقل کروا کر ہمیں بھیج.دو اور تم اپنے والد صاحب کے ساتھ چلے جاؤ.“ بچے کے منہ سے زبانی پیغام کے الفاظ نکلے اور میرے دل و دماغ میں بیٹھے مگر میں ان الفاظ کا مطلب نہ سمجھ سکا.دوبارہ اور سہ بارہ پوچھا مگر بچے نے الفاظ ایسے رٹے ہوئے تھے کہ تینوں مرتبہ وہی الفاظ اسی ترتیب میں دہراتا رہا.آخر میں نے حضور کا وہ فرمان کھولا پڑھا اور حقیقت مجھ پر آشکار ہوئی.فرمان کا خلاصہ مطلب میرے اپنے الفاظ میں حسب ذیل تھا: میں فلاں ابن فلاں جو کہ میاں عبدالرحمن ( نو مسلم ) سابق ہریش چندر کا والد ہوں با قرار صالح پر میشور کے نام کی قسم اٹھا کر جو کہ میرا پیدا کرنے والا ہے اور جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امر کا پختہ اقرار اور پکا وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے لڑ کے عبدالرحمن سابق ہریش چندر کو دو ہفتہ کے لئے اپنے ساتھ وطن کو لے جاتا ہوں تا کہ اس کی غمزدہ والدہ اور ننھے ننھے بھائی بہنوں کو بھی جو اس کی جدائی کے صدمہ سے بے قرار اور جان بلب ہیں ملا دوں.میں پر ماتما کے نام سے یہ بھی پیمان کرتا ہوں کہ عزیز کو راستہ میں یا گھر لے جا کر کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچاؤں گا.اور دو ہفتہ کے بعد حسب وعدہ صحیح و سلامت قادیان پہنچادوں گا.دستخط مہتہ گوراند تامل موہن بقلم خود میں نے اس مضمون کو پڑھا اور بار بار پڑھا.حضرت اقدس کے پہلے فیصلہ پر میں خوش تھا.مگر اب مجھ پر اداسی اور پڑر مردگی چھا گئی.اور دل میں طرح طرح کے وساوس پیدا ہونے لگے.جی میں آیا کہ قبل اس کے کہ والد واپس آویں اور اس فیصلہ کا ان کو علم ہو میں کسی طرف نکل جاؤں کیونکہ میں جانتا تھا کہ والد صاحب مصلحت وقت کی وجہ سے نرم تھے ورنہ وہ میرے اسلام کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف میں ڈالیں گے اور میرا یہ اندیشہ اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ شاید وہ مجھے زندہ ہی نہ چھوڑیں گے اور اس خیال کی تائید میں میرے اپنے گھرانے کے بعض پرانے واقعات میرے سامنے آن موجود ہوئے.اور میں نے یقین کر لیا کہ آج ایک بھاری امتحان اور کٹھن گھاٹی میری راہ میں سد سکندری آن بنی ہے جس سے سلامت نکل جانا میری طاقت سے بالکل باہر ہے.آخر میں چند منٹ کے لئے تنہائی میں چلا گیا اور خدا کے حضور جھک کر گڑ گڑایا اور اس سے امداد چاہی جس کے نتیجہ میں میرا بیٹھا ہوا دل اور ٹوٹی ہوئی کمر قوی ہو گئے اور

Page 59

۴۴ ३ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایک سکینت اور اطمینان نازل کر دیا اور خدا کے مسیح کے فرمان کی تعمیل کے لئے دل میں قوت و طاقت پیدا ہوگئی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کروں گا.خواہ جان بھی اس راہ میں کیوں نہ دینی پڑے.میں یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ والد صاحب بھی تشریف لے آئے.میں نے ابھی تک کسی سے حضرت کے اس فیصلہ کا ذکر نہ کیا تھا مگر پیغام لانے والے بچے کے ذریعہ سے یہ بات عام ہو چکی تھی اور غالبا میرے والد صاحب کو بھی پہنچ چکی تھی جو کہ قریب ہی ڈپٹی شنکر داس کے مکان پر مقیم تھے.کیونکہ والد صاحب جب کھانے سے واپس آئے میں نے ان کے چہرہ کو زیادہ بشاش پایا جس سے میں نے محسوس کیا کہ غالبا ان تک یہ فیصلہ پہنچ چکا ہے.میں نہیں جانتا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پہلے فیصلے کی تبدیلی کے کیا اسباب ہوئے.کسی انسان نے کوئی مشورہ دیا یا خود خدائے پاک نے حضور کو پہلے فیصلہ کی تنسیخ کا ایماء والقاء یا الہام فرمایا.میرا قیاس ہے کہ آخر الذکر امر ہی اس فیصلہ کی تبدیلی کا موجب ہوا ہو گا کیونکہ حضور نے پہلا فیصلہ حالات کے مطالعہ کے بعد ہی فرمایا تھا اور وہ فیصلہ صاف اور ناطق تھا کوئی شرط اس میں نہ تھی اور نہ ہی شبہ کی کوئی گنجائش تھی.اور میرا ایمان مجھے اسی یقین کی طرف لے جاتا ہے کہ خدا کے پیارے اور بزرگ نبی اپنے فیصلے خدا کے فرمان کے سوا بدلا نہیں کرتے کیونکہ ان کے فیصلے ہر وقت حق و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی ہوا کرتے ہیں.بہر حال والد صاحب آئے.میں نے وہ فرمان ان کو دے دیا.جس کو پڑھ کر انہوں نے قلم دوات لی اور قلم برداشتہ ایک بہت مضبوط معاہدہ لکھ کر دے دیا.جو سید نا حضرت اقدس کے الفاظ سے بھی کہیں زیادہ قوی اور حلف سے موکد تھا.والد صاحب نے بجائے پر میشور کے نام کی سوگند کے الفاظ لکھنے کے شروع ہی ان الفاظ سے کیا کہ: میں فلاں بن فلاں خدائے واحد لاشریک کے نام کی قسم اٹھا کر یہ اقرار کرتا ہوں.“ وغیرہ وغیرہ والد صاحب کی یہ تحریر پختہ تھی کیونکہ وہ خود خوشنویس اور پکے منشی تھے.فارسی زبان میں ان کو خاص مہارت تھی جس کی وجہ سے مضمون نویسی اور انشا پردازی کا ملکہ ان میں تھا.ان کا تحریر کردہ معاہدہ سیدنا حضرت اقدس کے حضور پہنچا.حضور نے ملاحظہ فرما کر محفوظ کر لیا اور مجھے پھر حکم بھیج دیا کہ تم اب اپنے والد صاحب کے ساتھ چلے جاؤ.“

Page 60

۴۵ اب سب احباب کو اور حضرت مولانا نورالدین صاحب کو بھی اس فیصلہ کا علم ہو گیا.جس کا اثر ہمارے احباب میں غم اور افسردگی کے رنگ میں اور ہند و بازار اور ہندو گھرانوں میں خوشی و شادمانی کی شکل میں ظاہر ہوا.بعض دوستوں نے گھبراہٹ تک کا بھی اظہار کیا اور اس فیصلے کو اپنی شکست سمجھ کر مغموم بھی ہوئے.مگر فیصلہ چونکہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا اس وجہ سے کسی کو مجال سخن نہ ہوئی اور سب نے میرے ساتھ مل کر سر تسلیم خم کیا..ظہر کی نماز کے لئے سیدنا حضرت اقدس تشریف لائے.حضرت مولانا نورالدین صاحب اور حضرت مولانا عبدالکریم صاحب بھی حاضر تھے.نماز ادا ہو چکی اور حضور مسجد ہی میں تشریف فرما ہوئے.خاموشی کا عالم تھا اور چاروں طرف ایک سناٹا چھایا ہوا تھا.اور کسی قدر غیر معمولی طور سے حضور پر نور بھی خاموش بیٹھے رہے.حضرت مولانا نورالدین صاحب اپنی عادت کے مطابق سر جھکائے ایک کو نہ میں بیٹھے تھے.آپ کی عادت مبارک یہ تھی کہ حضور کی موجودگی میں بہت کم کلام فرماتے اور حتی الوسع کلام میں ابتدا نہ فرماتے.مگر آج غیر معمولی طور پر اس مہر خاموشی و سکوت کو آپ ہی نے ان الفاظ سے جن میں آداب و احترام اور دربار نبوت کی شان کو خاص طور سے ملحوظ رکھا گیا تھا یوں تو ڑا کہ حضور نے بھائی عبد الرحمن کو ان کے والد صاحب کے ساتھ جانے کا حکم دیا ہے.جس علاقہ میں وہ جائیں گے سکھوں اور غیر مسلموں سے گھرا ہوا ہے اور بہت دور ہے.حضور اگر پسند فرمائیں تو بھائی عبدالرحیم کو ان کے ساتھ بھیج دیا جائے تاکہ ان کی خبر و خیریت اور حال واحوال تو پہنچتا رہے اور...حضرت مولوی صاحب ابھی کچھ اور عرض کرنا چاہتے تھے کہ حضور نے فرمایا اور اس وقت حضور کا چہرہ مبارک سرخ تھا اور آواز میں ایک جلال، شوکت اور رعب تھا.نہیں مولوی صاحب !.ہمیں نام کے مسلمان کی ضرورت نہیں.اگر ہمارا ہے تو آ جائے گا ورنہ کوڑا کرکٹ جمع کرنے سے کیا حاصل ( حضرت بھائی جی رقم فرماتے ہیں کہ اگر کے لفظ کے متعلق مجھے شبہ ہے یقیں نہیں غالب یہ خیال ہے کہ ”ہمارا ہے تو آ جائے گا ) میں جن ایام میں قادیان پہنچا اس زمانہ میں حضور پر نور عموماً بہت لاغر و نحیف ہوا کرتے تھے حضور کا چہرہ مبارک زرد رہتا تھا.چنانچہ پہلے روز میں حضور کو پہچان بھی نہ سکا.جب تک حضرت مولوی عبد الکریم

Page 61

۴۶ صاحب نے مجھے یہ نہ بتایا کہ حضرت صاحب یہ ہیں.حضور کی صحت عام طور پر اس زمانہ میں زیادہ کمزور تھی.مگر جب کبھی بھی کوئی خاص بات کا موقعہ پیش آتا حضور کا چہرہ مبارک سرخ لعل کی مانند د سکنے لگا کرتا تھا.اور ایسا معلوم ہوا کرتا تھا کہ حضور سے بڑھ کر شباب اور جوانی کسی پر آئی ہی نہیں.یہی رنگ آج کی صحبت میں دیکھنے میں آیا.حضرت مولوی نورالدین صاحب جو پہلے ہی مراقبہ میں تھے حضور کے اس فرمان کی وجہ سے اور بھی جھک گئے اور ایک لفظ بھی نہ دہرایا.حضور پر نو راٹھے اور اندر تشریف لے گئے.مجھ غمزدہ کو اتنی بھی جرات نہ ہوئی کہ دست بوسی ہی کر لیتا.حضرت مولوی صاحب بھی اپنی حرم سرا کو تشریف لے گئے.میں نے ایک روز قبل جو ڈیا دیکھی تھی اس میں ایک حصہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے متعلق بھی تھا کہ انہوں نے اس سانپ کو جبکہ وہ میری طرف لپکا آ رہا تھا ایک لاٹھی رسید کی تھی مگر اس لاٹھی کا سانپ پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بیچ کر مجھ سے لپٹ گیا.میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مولانا کی وہ لاٹھی یہی تھی جو آپ نے حضرت اقدس کے حضور بھائی عبدالرحیم صاحب کو میرے ساتھ بھجوانے کی تجویز کی صورت میں چلائی تھی مگر غیر موثر ہو کر رہ گئی.قادیان سے واپسی کا منظر میں مسجد سے اترا.والد صاحب نے کہا کہ جلدی کرو.یکے والا جلدی کر رہا ہے میں نے جلد جلد اپنے چند پارچات اور قرآن کریم.حزب المقبول اور حضرت اقدس کی دوتین کتب باندھ لیں اور بزرگوں، دوستوں ، محسنوں ، بھائیوں اور رفیقوں سے وداعی سلام کرنے لگا.میں بہتوں سے ملا اور بہت سے مجھے ملنے کو تشریف لائے.آخر میں روانگی کے وقت اپنے محسن حضرت مولانا نورالدین صاحب کے در دولت پر بھی حاضر ہوا.دروازہ پر آواز دی.سلام کیا.نام پوچھا گیا.اجازت ملی.والد صاحب کی معیت میں اندر پہنچا.دیکھتا کیا ہوں کہ حضرت مولانا چار پائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور دو تین خادم حضور کو چاپی کر رہے ہیں.میں بڑھا ، جھکا اور سلام کیا.حضور نے لیٹے ہی لیٹے مجھے گلے سے لگا لیا اور پھڑ پھڑاتے ہونٹوں سے بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ میرے لئے دعائے سفر فرمائی اور مجھے دلاسا دے کر نصیحت کی کہ میاں عبدالرحمن نماز پڑھتے رہنا اور تمہارے والد تمہیں نماز سے منع نہیں کریں گے اور اللہ حافظ کہا.میں اس نقشہ کو کبھی بھی بھول نہیں سکتا.اور آج پورے چالیس سال کے بعد جب میں اس واقعہ کو حوالہ

Page 62

۴۷ قرطاس کر رہا ہوں وہ نقشہ ہو بہو میرے سامنے موجود اور وہی تاثرات آج بھی میرے دل میں موجزن ہیں ایسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ واقعہ آج ہی ہوا یا ہو رہا ہے.مکرمی مفتی فضل الرحمن صاحب والے موجودہ مکان کے دالان میں جس کے دو دروازے شمالی جانب صحن میں کھلتے تھے.غربی جانب کے دروازہ کے اندر دروازہ کو چھوڑ کر دروازہ کے مشرقی جانب آپ کا پلنگ بچھا تھا.آپ رو بقبلہ لیٹے ہوئے تھے سر مبارک شمال کی جانب تھا.میں نے محسوس کیا جب کہ حضور نے مجھے گلے لگایا کہ حضور کو شدید بخار تھا اور غمخواری کی وجہ سے آواز میں بھر بھراہٹ تھی.گویا کہ آپ بحالت تنظیم تھے.آپ کی محبت اور شفقت سے میرے پیش آمدہ غم و درد کا پیمانہ چھلک پڑا اور میں زار و قطار رونے لگا.اور یہی نہیں کہ میں روپڑا بلکہ میں نے دیکھا اور اب بھی وہ نظارہ میرے سامنے ہے کہ حضرت مولانا مرحوم و مغفور بھی چشم پر آب ہور ہے تھے.غرض ایسے ہی پُر درد اور جانگداز حالات میں سے گذرتا ہوا میں اپنے والد صاحب کے آگے لگ کر چل پڑا جن کو میں اپنا عزرائیل بھی اگر ان حالات کی موجودگی میں کہوں تو شاید گناہ نہ ہو.میں خدائے بزرگ و برتر سے ڈرتا ہوں کہ والد صاحب کی گستاخی کرنے والا گردانا جا کر معصیت کا مرتکب سمجھا جاؤں.میرے والد تھے میں ان کا فرزند.مجھے پر ان کے بے انتہا احسان ہیں اور مجھے پہلے سے بھی زیادہ ان کا احترام کرنا چاہئے.اور کرتا ہوں.ان کی زندگی میں بھی کیا اور اب بھی دل میں ہے کیونکہ اسلام نے مجھے یہی حکم دیا ہے کہ ان کی زیادہ سے زیادہ فرمانبرداری کروں اور ان کے لئے اف تک نہ کہوں.عزرائیل کا لفظ میں نے صرف واقعہ کی اصلیت اور اپنی تکلیف کی شدت کی بناء پر استعمال کیا ہے.الغرض میں اپنے آقا.اپنے ہادی ورہنما.اپنے پیشوا ومقتدا کے حکم کی تعمیل میں اپنے والد صاحب کے ساتھ قادیان کی مقدس بستی سے رخصت ہو رہا ہوں.میرا دل غمگین اور اداس ہے آنکھیں آنسو نہیں ، خون ٹپکا رہی ہیں.اور سچ سچ میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ گھر کو نہیں.ماں اور بھائی بہنوں کی طرف نہیں بلکہ موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہوں.میرے قدم لڑکھڑاتے ہیں اور بجائے آگے اٹھنے کے پیچھے کو پڑتے ہیں.میرے دوست.میرے پیارے مجھے الوداع کہنے کو میرے ساتھ آ رہے ہیں اور جہاں مجھے استقلال و استقامت کی تلقین فرماتے ہیں ساتھ ہی میرے والد صاحب سے سفارش بھی کرتے ہیں کہ ان کو جلدی بھیج دینا.تکلیف نہ دینا اور سوائے زبانی ہمدردی کے اور وہ بیچارے کر بھی کیا سکتے تھے.والد صاحب ان میں سے کسی کو یہ فرما دیتے کہ اس نے مرغ پال رکھے ہیں ان کو ختم کر کے واپس آ جاوے.کسی کو فر ما دیتے ہیں

Page 63

۴۸ کہ ان کی والدہ روتے روتے اندھی ہوگئی ہے ان کی آنکھوں کی روشنی کے لوٹتے ہی واپس آجاوے اور کسی سے کہتے کہ اس کے پیارے بھائی بہن اس کی جدائی میں روتے روتے نڈھال ہیں.میں نے ان کو جان بلب چھوڑا ہے نہیں معلوم میری واپسی تک وہ زندہ بھی ہوں گے یا نہیں.اگر وہ زندہ ہوں تو ان سے مل کر ان کو دلا سا دے کر ، ان کو چہرہ دکھا کر واپس آ جاوے.ورنہ ان کی مڑھیاں ہی دیکھ آوے تا ہمارے سینہ کی آگ تو ٹھنڈی پڑ جاوے وغیرہ وغیرہ.منظر وداع خاکروبوں کے پنڈورہ تک جہاں اس زمانہ میں مرزا نظام الدین صاحب کا آموں کا باغ تھا.بہت سے دوست اور ہم عمر مجھے رخصت کرنے گئے.جہاں کوئی اجنبی یکہ تھا.غفارہ کا ہوتا تو بٹالہ سے کوئی پیغام بھیج سکتا.یکہ بان جلد روانہ ہونا چاہتا تھا اور کہتا تھا کہ اندھیرا ہو جائے گا.تو چلنا دشوار ہوگا اور چارہ دانہ بھی نہ ملے گا.اور گھوڑا بھوکا مرے گا.اور والد صاحب اس کی پرزور تائید کر رہے تھے.تا کہ قادیان کی حدود سے جلد باہر نکل سکیں.گوان کا لب ولہجہ تلطف آمیز تھا لیکن ان کے قلبی خیالات ایسے شدید تھے کہ ان کا انعکاس میرے دل و دماغ کو بھی متاثر کر رہا تھا اور شاید اسی اثر سے متاثر ہوکر الوداع کہنے والے دوست غیر معمولی محبت کا اظہار کر رہے تھے.اور والد محترم کے حکیمانہ وعدے اور تسلی آمیز فقرات خطرہ کے احساس کو اور بھی تیز کر رہے تھے میرے خیالات میں ایک تلاطم بپا تھا اور بار بار جوش اٹھتا کہ بھاگ نکلو.کچھ دن ادھر ادھر گذار کے پھر قادیان آجانا.والد آخر سرکاری ملازم ہیں کب تک پیچھا کریں گے.لیکن حضرت اقدس کے فرمان کی یاد ایک سد سکندری کھڑی کر دیتی تھی جس کے حسن و احسان نے مجھے جکڑ رکھا تھا.جس کا جذب اس کے آستانہ پر گرنے والوں کو اسی طرح بنا دیتا تھا اور جس کی محبت دنیا جہاں کی صحبتوں کو بے لطف بنا دیتی تھی.جس کا کلام روح پرور اور ہرا دا زندگی بخش تھی.حضور کا فرمان میں نہ صرف یہ کہ توڑ نہ سکتا تھا بلکہ وہ اس زہر آلودہ پیالے کو پی جانے پر آمادہ کر رہا تھا.اسی کشمکش میں اذان کی پر ہیبت مگر سریلی صدائے تکبیر بلند ہوئی اس نے گویا جنگ کا خاتمہ کر دیا.اور یہ باغ یا تکیہ مرزا امام الدین صاحب کے نام پر معروف ہے اور باغ یا تکیہ پیڑے شاہ بھی کہلا تا ہے اور پنڈورہ خاکر وہاں کے افراد ہی اس پر قابض ہیں اور پنڈورہ سے جانب جنوب برلب سڑک واقع ہے.استفسار پر بھائی جی نے فرمایا کہ یہی باغ میری مراد ہے.

Page 64

۴۹ حق کی فتح ہوئی.میرا دل اللہ تعالیٰ نے مضبوط کر دیا اور اطمینان بخشا.دوستوں نے پھر ایک دفعہ مجھے جلد بھجوا دینے کی سفارش کی اور والد صاحب نے آخری فقرہ یہ کہا کہ اپنے پالے ہوئے مرغ ختم کر کے واپس آ جائے گا.ایک ضروری بیان حضرت بھائی جی بقیہ سفر کی تفصیل رقم کرنے سے پہلے تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کا بے حد افسوس اور رنج ہے کہ میں وہ چیز دنیا کو دکھانے سے قاصر ہوں جس نے مجھے مہر مادری اور شفقت پدری اور حب برادری تک بھلا دی.میری جان شار ہمشیرہ عزیزہ متھرا.میری حسین خاندان ہم عمر بیوی اور میرے رفیق دوست.معزز اور مہربان بزرگان خاندان جن کو اپنے خاندانی شرف اور شاندار روایات پر ہمیشہ فخر رہا ہے.مجھ سے چھڑا دیئے میرا خاندان ، میرا وطن عزیز اور میرا پیدائشی مذہب تک مجھ کو بھلا دیا.جس کی آواز دنیا میں آتے ہی میرے کان میں ڈالی گئی اور جس کی تلقین متواتر پندرہ سال تک مجھے خاص توجہ سے کی جاتی رہی تھی.میں شرمندہ ہوں اور اپنی کم مائیگی کا اقرار کرتا ہوں اور مجھے اعتراف ہے کہ مجھ سے حق شہادت ادا نہیں ہو سکتا جو میرے ذمہ ہے اور اگر عمر بھر با نگ دہل نقارے کی چوٹ ، گلے میں دف ڈالے دیہہ بدیہہ، شہر بشہر اور کو بکو منادی بھی کرتا پھروں تب بھی میرا ضمیر یہی کہے گا 66 حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا “ جس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے میرے سینہ کو نو ید اسلام سے منور کیا.میری آنکھوں کو بینائی بخشی.اور کفر اور ضلالت و جہالت کے اتھاہ گڑھے سے نکال کر مجھے اوج سعادت پر پہنچایا.دولت ایمانی سے مالا مال فرما کر نوازا.اس زمانہ میں تبدیلی مذہب کی وجوہات زن، زریا زور کے سوا کچھ اور سمجھی ہی نہ جاسکتی تھیں اور ہر کسی اظہار اسلام کرنے والے پر یہی شبہات کئے جاتے تھے کہ کسی مسلمان عورت سے آشنائی ہو گئی ہوگی یا (۲) کسی مسلے (مسلمان) نے دھوکہ دے کر سبز باغ دکھا کر اغوا کر لیا ہے.یا (۳) والدین کی سختی اور بدسلوکی سے تنگ آ کر بھاگ نکلا ہوگا.وغیرہ.ورنہ مذہبی صداقت اور روحانی حقانیت سے متاثر ہو جانا اور راستی کے آگے سرتسلیم خم کر کے دنیا و ما فیہا کو خیر باد کہہ دینا اور بغیر کسی مادی طمع یا خوف کے خالصتاً خدا کی رضا کی تلاش و پیاس میں کسی کا نکلنا قبول کرنے میں نہیں آتا تھا.

Page 65

مگر میں علی رؤس الاشھاد یہ اعلان کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں اگر چہ میرے والدین اس دنیا میں موجود نہیں کہ -1 وہ میرے لئے نہایت ہی شفیق واقع ہوئے تھے.وہ غیر معمولی طور پر مجھ پر مہربان تھے.ان کو مجھ سے غیر معمولی محبت تھی.مجھے ان کے گھر کے اندر ہر قسم کی فارغ البالی اور آزادی حاصل تھی.جو خوشحالی کا غالب رنگ اپنے اندر رکھتی تھی.یہی وجہ ہے کہ اسلام کی خاطر میرے گھر سے نکل آنے پر میرے والدین نے میری تلاش اور واپسی پر ہزاروں روپیہ صرف کر دیا.اور جب دیکھا کہ میں کسی رنگ میں بھی اس دولت ایمان کو ترک کرنے کو تیار نہیں تو نا چار انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے.اور خود مہینوں میرے پاس آ کر رہا کئے.جس سے ثابت ہے کہ ان کو جہاں مجھ سے نہایت درجہ محبت تھی اور وہ مان گئے تھے کہ میرے اظہار اسلام کی تہ میں کوئی طمع یا خوف نہیں بلکہ خالص روحانی تڑپ ہے.نہ صرف یہی کہ کسی مسلمان کو مجھے تبلیغ کرنے کی توفیق ہی نہیں ملی بلکہ میں نے کسی سے استفادہ بھی کرنا -۲ چاہا تو اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ تمہارے رشتہ داروں سے ہمیں خوف آتا ہے.میری بیوی میری ہم عمر اور خوش شکل ہونے کے علاوہ ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھی.اور اس کو مجھ سے گہرا تعلق تھا اور وہ میرے پاس رہتی تھی.الغرض بفضلہ تعالیٰ مجھے زمانہ کی بدمذاقی و بدشگونی سے یہ ہمہ وجوہ نجات تھی اور مجھے خود خدا تعالیٰ نے خالصتاً اپنی محبت کے لئے نوازا اور دولت ایمان اور نور اسلام سے مالا مال فرمایا ہوا تھا.اور میرے وجوہات قبول اسلام کے نہایت پاک اور زر خالص کی طرح ہر قسم کی ملونی سے مبرا تھے.حالات مذکورہ بالا میں وہ کونسی طاقت تھی جس نے ایک طرف تو میری اتنی بھاری اور پختہ زنجیروں کو توڑ دیا کہ نہایت ہی محسن اور شفیق والدین اور جان سے عزیز بھائی بہنوں اور گہرے دوستوں اور بزرگوں کی محبت کو مجھ پر ایسا سرد کر دیا کہ نہ صرف ان کی کوششوں ہی کو مجھے ٹھکرانا پڑا.بلکہ ان کی منت و سماجت سے بھی بڑھ کر التجا و لجاجت تک کا مجھ پر اثر نہ ہوا.اور میں نے ان کے ساتھ جانے تک سے انکار کر دیا.دوسری طرف وہ کون سی طاقت.کونسا جذب اور کونسی قوت مقناطیسی تھی جس میں میں جکڑا گیا.جس کو باوجود صد ہزار کوشش کے میرے والدین توڑنے یا ڈھیلا کرنے تک سے بھی عاجز آگئے.افسوس ! میں وہ دنیا کو دکھا نہیں سکتا کیونکہ وہ مادی نہیں.یہ سچ ہے کہ بچپن میں میرے دل میں تخم اسلام کاشت کر دیا گیا تھا.لیکن یہ نا قابل انکار حقیقت ہے کہ

Page 66

۵۱ اس کی آبیاری ، روحانی باغبانی آخری زمانہ کے نبی کے ہاتھوں نہ ہوتی تو یہ بیل منڈھے نہ چڑھتی.اگر یہ نوح زمان ناخدا بن کر مجھے نہ بچا لیتا تو میری کشتی ، ایمان جو بحرنا پیدا کنار کی طوفانی موجوں کے بھنور میں پڑی ٹھوکریں کھاتی تھی ہرگز کنارے نہ لگتی.میرے ایمان میں حلاوت پیدا ہوئی تو اسی مردخدا نما کے انفاس طیبہ کے طفیل سے.اور مجھے روحانی زندگی ملی تو محض اور محض اسی وجود باجود کے روحانی نفخ اور دم مسیحائی کی بدولت.ورنہ حق یہ ہے کہ میں بھی ایک رسمی مسلمان ہو کر آخر کفر میں جذب ہو گیا ہوتا.کیونکہ اس وقت زندہ ایمان اور کہیں تھا ہی نہیں.اس انسان کامل کے اوصاف حمیدہ اور کمالات روحانیہ کا بیان ہزاروں صفحات اور عمر نوح چاہتا ہے.میں کون اور میری بساط کیا کہ ان کا بیان کروں.وہ سراسر رحم اور مجسمہ رحمت، وہ پیکر حلم، خدا کی رحمت وحلم کا نمونہ، اپنے خالق و مالک کی محبت میں کھویا ہوا اور اس کے رنگ میں ایسا رنگا گیا کہ خود مظہر صفات الہیہ ہو گیا تھا.ہر قسم کی حسن و خوبی اس پر ختم تھی.مہربانی میں ہر مادر مہربان سے اور شفقت میں ہرشفیق باپ سے وہ کہیں بڑھا ہوا تھا.اتنا کہ مہربان سے مہربان مائیں اور شفیق سے شفیق باپ اس کی مہربانی اور شفقت نے لاکھوں انسانوں کو یاد سے اتار دیئے.والد صاحب کے ساتھ قادیان سے روانگی کا جو اوپر بیان لکھا جا چکا ہے اس کے بعد کی تفصیل حضرت بھائی جی نے دوسال کے وقفہ سے تحریر میں لائی ہے.اس کی وجہ آپ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:.”میرے آقا.میرے ہادی اور ہنما کی قوت قدی وجذب اور حضور پر نور کے اخلاق کریمانہ اور فیض روحانی نے میرے دل کی لوح پر وہ کچھ لکھ دیا جو پھر نہ مٹا.اور خدا کرے کہ کبھی نہ مٹے.اور ایسا ہوا کہ میں دنیا کی بادشاہی پر اس کے در کی گدائی کو عزت یقین کرنے لگا.اور یہی وجہ ہے کہ اس سے جدائی میرے واسطے ایک بھیانک موت نظر آ رہی تھی.اس وجہ سے دو سال ہوئے یکے کو خاکروبوں کے پنڈورہ پر کھڑے کئے ہوئے ہوں اور دل اس حق نما وجود اور اس کی مقدس بستی سے نکلنا پسند نہیں کرتا.پنڈورہ سے آگے کا سفر آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: میں یکہ کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تا کہ نظر قادیان کی طرف رہے.نہ معلوم کس خیال سے والد صاحب نے مجھے اپنی جگہ بٹھایا.اور یکہ جلد چلانے کو کہا.والد صاحب کی خلاف مرضی دیوانی دال کے تکیہ کے پاس گھوڑا

Page 67

۵۲ کچھ عادتا اور کچھ تھکاوٹ کے باعث رک گیا.اور میں نے بھی اتر کر نماز گذاری.اللہ کے حضور عرض حال کیا.پیش آمدہ حالات کے مدنظر دعائیں مانگیں اور فارغ ہو کر اٹھا ہی تھا کہ پھر وہی جلدی کرنے کا حکم ملا.تعمیل ارشاد کی اور یکہ بان گھوڑے کو تیزی سے ہانکنے لگا.شام قریب تھی.گھوڑا کمزور ہو رہا تھا.ابھی ساڑھے تین میل باقی تھے چلتے چلتے شام ہوگئی اور بٹالہ پہنچتے پہنچتے خاصا اندھیرا چھا گیا تھا.والد صاحب نے بٹالہ منڈی کی قدیم سرائے میں علیحدہ جگہ میں رات گزارنا پسند کیا جو ان دنوں (۱۹۳۵-۳۶ء) میں میونسپل کمیٹی بی کا دفتر ہے اور تحصیل کی عمارت کے جانب جنوب بٹالہ قادیان کی سڑک کے جنوبی کنارے پر واقع ہے.اور جس کے چاروں کونوں پر چار گول برج اور بڑا شاندار بلند و بالا دروازہ شمالی جانب بنا ہوا ہے اور اس عمارت کے جنوب میں ایک وسیع تالاب واقع ہے جو آجکل پانی سے خالی اور خشک ہے پہلے زمانہ میں عموماً بھرارہتا تھا قیام پذیر ہوئے یہ جگہ اس زمانہ میں سرائے کے طور پر استعمال ہوتی تھی.والد صاحب میرے لئے کھانا لے آئے.جس سے فارغ ہو کر ہم لوگ سور ہے.رات کے پچھلے پہر عادتا میری آنکھ کھل گئی تو میں ذکر میں مشغول ہو گیا.آہٹ پاکر والد صاحب بھی چونک پڑے اور گھبرا کر مجھے پکارا میری آواز سن کر مطمئن ہو گئے.بٹالہ سے روانگی میں نہ سمجھا کہ جب کہ بٹالہ سے گاڑی ملتی ہے.اب کیوں یکہ پر روانہ ہورہے ہیں اور رات کے اندھیرے میں کدھر جارہے ہیں.چند میل پر اجالا ہونے پر صبح کی نماز کی فکر ہوئی اور اجالا بڑھنے کے ساتھ میری گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا گیا.اور ایک جگہ لب سڑک ایک چلتا کنواں دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا اور یکہ ٹھہرانے کی درخواست کی جو والد صاحب نے منظور کر لی اور میں نے نماز ادا کی.اب میلوں کے نشانات سے معلوم ہوا کہ یہ سڑک ڈیرہ بابا نانک کو جاتی ہے اور والد صاحب نے اختتام ۱۹۶۰ء سے چند ماہ قبل اس عمارت میں میونسپل کمیٹی کے دفتر کے علاوہ ریذیڈنٹ مجسٹریٹ کی عدالت بھی تھی.اب یہ عدالت اور بٹالہ کی دیگر تمام عدالتیں ریسٹ ہاؤس کے احاطہ میں جہاں گذشتہ سال عمارات تعمیر ہوئی ہیں، منتقل ہو گئی ہیں.اب عمارت ہذا میں دفتر میونسپلٹی اور اسسٹنٹ رجسٹرار کو اپریٹو سوسائیٹیز کا دفتر گو یا دود فاتر ہو گئے ہیں.

Page 68

۵۳ احتیاطاً سیدھا راستہ چھوڑ کر چکر لگایا ہے.گویا ان کو ابھی تک یہ خطرہ باقی تھا کہ مبادا کوئی تعاقب کر کے مجھے ان کے ہاتھ سے چھڑانے کی کوشش کرے.اور اسی وجہ سے انہوں نے امرتسر کا راستہ اور ریل کی سواری چھوڑی تھی.اور کہ وہ اب مجھے ڈیرہ بابا نانک سے سیالکوٹ اور وہاں سے وزیر آباد لے جائیں گے جہاں سے انہی دنوں میں ریل لائن موجودہ لائل پور کی طرف نکل رہی تھی اور چھکڑے وغیرہ سانگلہ ہل تک چلنے لگے تھے.چلتے چلتے ڈیرہ بابا نانک آیا.راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہو کے یکہ ٹھہرایا گیا.گھوڑے کی مالش چاپی ہوئی نہاری وغیرہ دے کر اسے تازہ دم کیا گیا.اور خود ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر آگے کو روانہ ہوئے.راستہ میں دریائے راوی پڑتا تھا.تین اور بیٹری کا راستہ تھا.اور چونکہ یہ علاقہ ہمارا قدیمی وطن تھا لہذا کچھ زیادہ احتیاط اختیار کی جانے لگی.اور وضع قطع میں تغیر کے علاوہ راستہ کتر کتر کر چلنے کی کوشش کی گئی.تاکہ کنجروڑ وغیرہ اپنے دیہات کی طرف سے آنے والے واقف کاروں کے سوال جواب سے بچاؤ ہو سکے.در یا پر پہنچ کر ایسی کوشش کی گئی کہ دریا سے اس پار کی سواریاں لانے والی کشتی سے پہلے ہی پہلے دوسری ناؤ میں بیٹھ کر نکل جائیں.کیونکہ ہمارے دیہات سے لوگ عموماً پہلی ناؤ سے آتے تھے اور ان دنوں ہمارے اس علاقہ کا تجارتی مرکز ڈیرہ بابا نانک تھا.سوکسی واقف کار سے ہمارا سامنا نہ ہوا.“ سسرال پہنچ کر بیوی کو ساتھ لے جانا راقم عرض کرتا ہے: دریا پار ہو کر یکہ جلد جلد چل کر یہ قافلہ دس بجے کے قریب موضع ویرم دتاں کے قریب پہنچ گیا جہاں بھائی جی کا سسرال تھا.خیال تھا کہ بہ حالات موجودہ وہاں جانے کی بجائے موضع کنجر وڑ دتاں والا جائیں گے جہاں ددھیال کا رشتہ اور اپنے مکانات تھے.لیکن خلاف توقع موضع دیرم والد لے گئے اور ایک چوگان میں ڈیرے ڈال دیئے اور آپ کو بڑی شفقت اور نرمی سے کہا کہ یہاں تمہارے سسرال ہیں اور ہماری برادری ہے.نماز پڑھنی ہو تو کہیں تنہائی میں جا کر پڑھ لینا اور اپنے اسلام کی کسی کو خبر نہ ہونے دینا.ورنہ ہماری بے حد ذلت ہوگی.اور ہم جہاں برادری میں منہ دکھانے کے لائق نہ ہوں گے وہاں تمہاری بیوی کو ساتھ لے جانے میں بھی کامیابی نہ ہو سکے گی.آپ کے خیالات میں ایک خطر ناک جنگ چھڑ گئی.گو والد محترم کی باتوں میں لجاجت کا رنگ تھا مگر

Page 69

۵۴ آئندہ پیش آنے والی مشکلات کے متعلق آپ کا ماتھا ٹھنکا.اور آپ نے ایک دفعہ پھر اس قید و بند سے نجات پانے کی ٹھان لی.لیکن دوسری طرف ایک زبر دست قوت اور نہ مغلوب ہونے والی طاقت تھی.جو یہ تلقین کرتی تھی کہ بھاگ کر کہاں جاؤ گے؟ اس طرح اپنے آقا کے نافرمان کہلاؤ گے اور قادیان سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاؤ گے.بہتر یہی ہے کہ تعمیل ارشاد کرو اور مشکلات کا مقابلہ کرو.حضرت اقدس نے والد محترم سے ایک با قاعدہ تحریری معاہدہ لے کر والد کے ساتھ جانے کا حکم دیا ہے خلاف ورزی کر کے کس منہ سے واپس جاؤ گے اور اپنے آقا کو کیا عذر سناؤ گے.انہی خیالات میں آپ کو نیند آ گئی.بیدار ہوئے تو عزیز و بزرگ آئے بیٹھے تھے.ملاقات وشکوہ شکایت کے بعد کھانے کے لئے تقاضا ہوا.آپ نے طبیعت کی خرابی کا عذر کیا اور گھر نہ گئے نہ کھانا کھایا.اور والد صاحب نے بھی مدد کی.اور اعزہ کی توجہ دوسری طرف پھیر دی.اور ایسی حکمت عملی سے کام لیا کہ سسرال کے نام ونمود اور رسوم و قیود کے سخت پابند ہونے کے باوجود اتنے تھوڑے وقت میں لڑکی کو روانہ کرنے پر رضا مند ہو گئے.ان کی اس مصروفیت کے وقت آپ نے قریب کے گھنے درختوں کے جھنڈ میں نمازیں ادا کیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دستگیری کے لئے عرض کیا مبادا کسی غلط قدم کے اٹھانے سے آپ ہلاکت کے گڑھے میں جا پڑیں.دعا کا درواز ہ آپ پر بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کھول رکھا تھا.جس کے طفیل کفر و ضلالت سے نکال کر اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کے در پر لا کھڑا کیا تھا.اور حضور کے انفاس طیبہ اور تو جہات کریمانہ سے آپ کی معرفت و یقین میں بے حد ترقی ہوئی تھی حتی کہ جسے آپ پہلے زرخالص یا بے بہا ہیرا سمجھتے تھے اب وہ کھوٹا پیسہ یا محض ایک پتھر نظر آتا تھا.سو آپ نے حی و قیوم.اور بے آسروں کے آسرا خدا تعالیٰ کے حضور دعا کہ آپ کو وہ اس راہ پر قائم کر دے جس میں اس کی رضا ہو.ابھی آپ نے آستانہ الوہیت سے سر نہیں اٹھایا تھا کہ آسمان سے ایک نورا تر تا اور آپ پر سکینت ڈالی جاتی ہے جس سے آپ کا دل و دماغ منور ہو کر آپ کو ایک غیر معمولی طاقت وقوت مل جاتی ہے اور آپ کو کوئی خوف باقی نہیں رہتا.اور ایک مضبوط چٹان کی طرح قومی عزم اور غالب جزم عطا ہوتا ہے.اور مصائب و خطرات کی بھیانک تصویر میں جو کچھ دیر پہلے آپ کو ڈراتی اور ہلاکت آفرین منظر پیش کرتی تھیں دور اور کا فور ہوگئیں.آپ ہشاش و بشاش قیام گاہ پر واپس پہنچے.جہاں والد اور ا قارب منتظر تھے.اور یہ سب ایسے رنگ میں آپ سے ملے کہ آپ کو اپنی دعاؤں کی قبولیت کا یقین ہو گیا.

Page 70

شام کو آپ نے علیحدگی میں نمازیں ادا کیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر سو گئے.مہمان نواز وں کو لڑکی کے رخصت کرنے کے متعلق بھی مصروفیت تھی.آدھی رات کے بعد الوداع ہو کر اسی یکہ پر قافلہ روانہ ہو کر راوی کا تین ناؤ سے پار کر کے ڈیرہ بابا نا تک پہنچا اور تھوڑ اساستا کر اور گھوڑے کو تازہ دم کر کے براستہ فتح گڑھ چوڑیاں امرت سر پہنچا.جہاں یکہ بان کو والد صاحب نے علاوہ کرایہ انعام دے کر رخصت کیا اور آپ کو ساتھ رکھتے ہوئے شہر سے ضروریات خرید کیں.اس وقت تک آپ کو والد صاحب نے نماز سے نہیں روکا لیکن یہ چاہتے تھے کہ مخفی طور پر ادا کریں تا آپ کی اہلیہ کو اس کا علم نہ ہونے پائے.اور قرآن مجید وغیرہ کتب والا ٹرنک بھی مقفل رکھتے تھے اور ان کتب کا احترام مدنظر رکھتے تھے.امرتسر سے بذریعہ ریل گاڑی لاہور اور وہاں سے ملتان لائن کو روانہ ہو کر رات کو کسی اسٹیشن پر اتر پڑے جہاں ایک اونٹ اور دو گھوڑیوں کا انتظام تھا.جو والد صاحب آتے وقت اپنے ساتھ واپسی کے انتظام کے طور پر لائے تھے.راستہ پر خطر تھا بقیہ شب اور دن بھر چل کر اگلی شب کو جو نصف گذر چکی تھی.قافلہ ڈ چکوٹ پہنچا.جہاں والد صاحب کے ایک گہرے راز دار دوست پٹواری کے ہاں قیام ہوا.آغاز دور مصائب محترم بھائی جی بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب کی یہی کوشش تھی کہ اپنے ہیڈ کوارٹر میں پہنچیں جو اب صرف تین چار میل پر تھا لیکن سواریوں کے زیادہ تھک جانے کی وجہ سے مجبوراً مقام کرنا پڑا.اور یہی وہ سرزمین ہے جہاں سے میرے واسطے مصائب کا دور شروع ہو گیا.میں مشکلات میں چاروں طرف سے ایسا محصور ہوا کہ بارہا ان سے نجات کی راہ نہ دیکھ کر جان پر کھیل جانے کو جی کیا کرتا.زمین باوجو د فراخی کے مجھے پر تنگ ہوگئی اور میں باوجود بھاگ نکلنے کی سچی کوشش کے بھاگنے کی راہ نہ پاتا تھا.میری ما در مہربان اور شفیق باپ میری زندگی کو اپنے لئے ایک لعنت سمجھ کر میری موت کی تمنا کیا کرتے تھے.میرے بہن بھائی جو کبھی میرے پسینہ کی جگہ اپنا خون گرانے میں لذت محسوس کرتے تھے میرے خون کے پیاسے ہورہے تھے.اور یہ سلسلہ نہ صرف زبانی سختی اور طعن و تشنیع تک ہی محدود تھا بلکہ اس سے گذر کر ہاتھوں اور لاتوں تک اور پھر کھلتے کھلتے چھڑیوں اور لاٹھیوں کے وار اور مظاہرے بھی اکثر ہوا کئے اور ایک وقت تو حالت

Page 71

۵۶ یہاں تک پہنچ گئی کہ چھریوں اور کلہاڑیوں تک کے حملے کئے گئے اور کئی کئی نے مل مل کر مجھے گرایا اور چھاتی پر بیٹھ بیٹھ کر جان تک لینے کی کوشش کی یا خوف دلایا.اور اس طرح آٹھ نو ماہ کا طویل زمانہ میرے لئے نہایت درجہ رنج و غم اور در دوستم کا زمانہ تھا.تکلیف دینے کی کوئی بات نہ تھی جو میرے لئے روانہ تھی.اور ظلم و تشدد کا کوئی طریق نہ تھا جسے میرے بزرگوں اور عزیزوں نے آزمانے کی کوشش نہ کی ہو.میرے اس درد کی داستان بہت لمبی اور اتنی دردناک ہے کہ راجہ ہریش چندر کے مصائب و مشکلات اس کے سامنے بیچ نظر آتے ہیں.اور حقیقت رائے کے مبالغہ آمیز واقعات اس کے مقابل میں ایک افسانہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے.فرق صرف یہ ہے کہ ان لوگوں نے رائی کو لے کر پہاڑ بنا دیا اور طرح طرح کی رنگ آمیزیوں اور ملمع سازیوں سے اپنی خاص مصلحتوں کے ماتحت بعض بالکل معمولی واقعات کو مذہبی رنگ چڑھا چڑھا کر اپنی قوم کے جذبات کو دوسرے مذہب کے پیروؤں کے خلاف بھڑ کا بھڑکا کر بعض سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنالیا اور اس کام کے لئے بعض عیار لوگوں نے زندگیاں تک وقف کر دیں.اور اس پرو پیگنڈا کے لئے ملک کے طول وعرض میں گہری سازشوں کا جال بچھا دیا.مگر جو کچھ مجھ پر گذری اور میرے ساتھ بیتی وہ چونکہ میرے اپنے ہی بزرگوں، محسنوں اور عزیزوں کی طرف سے تھی کسی غیر کا اس میں دخل نہ تھا اس لئے میں نے ان کا اظہار تفصیلاً کبھی نہیں کیا.ڈ چکوٹ کے پٹوار خانہ کے پاس پہنچ کر جب ہم لوگ سواری سے اترے اس وقت والد صاحب نے مجھے الگ جا کر جو کچھ کہا اور جس رنگ میں کہا وہ جہاں میرے والد کے دلی ارادوں اور عزم کا آئینہ دار، ان کی قلبی کیفیات اور منتہائے نظر کا مظہر تھا.وہاں میرے افسردہ دل کے لئے ایسی چوٹ تھا جس سے میری ہستی کی بنیاد میں ہل گئیں مجھ پر سکتہ کا عالم طاری ہو گیا.پاؤں تلے کی زمین نکل گئی.میری زبان بند رہ گئی اور دل و دماغ ایسا بے حس ہوا کہ والد صاحب کو کوئی جواب بھی نہ دے سکا اور میرے حواس اس وقت تک بجانہ ہوئے جب تک والد صاحب کی زیادہ سخت اور کرخت آواز نے پہلے سے بھی زیادہ بختی و شدت سے اپنے مطالبہ کو نہ دہرایا.وہ الفاظ سخت اور طریق خطاب نہایت رنجیدہ تھا.ان کا خلاصہ در خلاصہ اور مفہوم نرم ترین الفاظ میں یہ تھا کہ : اب چونکہ ہمارا اپنا علاقہ آ گیا ہے جہاں ایک رنگ کی حکومت ہمیں میسر اور ہماری عزت و عظمت کا

Page 72

چرچا ہے.کسی کی مجال نہیں ہماری طرف آنکھ بھی اٹھا سکے.مگر تم نے جو کام کیا ہے اگر اس کا علم کسی کو بھی ہو گیا تو ہماری ساری عزت برباد اور رعب کا فور ہو جائے گا.ہماری ناک کٹ جائے گی اور ہم کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہیں گے.لہذا خبر دار! اب کڑی نماز اور کڑ ا قرآن پڑھنے کی اجازت نہ ہوگی.برابر تین روز سے میں تمہاری ان کرتوتوں کو دیکھتا اور خون کے گھونٹ پیار ہا ہوں.اب بھی اگر تم ان حرکات سے باز نہ آئے اور مسلمانی رنگ تمہاری کسی طرز ادا سے بھی ظاہر ہوا تو یاد رکھو کہ تمہاری جان کی خیر نہیں.تمہارا کام تو بہر حال تمام کر دیا جائے گا.پیچھے جو ہو گا دیکھا جائے گا.تمہیں خوب معلوم ہے کہ اس علاقہ میں تمہاری کوئی مدد تو کیا خبر بھی نہ پاسکے گا.کیونکہ خون کر کے کھپا دینا ہمارے واسطے یہاں کوئی مشکل نہیں.خصوصاً تمہارے جیسے نالائق اور نا نہار لڑکے کا تو ہونے سے نہ ہونا ہی اچھا ہے.تم وہاں خط و کتابت کے وعدے اور عہد و پیماں کر آئے ہو مگر میں دیکھوں گا کہ کون تمہیں لکھتا ہے اور کس کو تم جواب دیتے ہو.کسی مسلے کی مجال کیا کہ تم سے مل بھی سکے.پس اگر بھلا چاہتے ہو تو سید ھے تیر ہو جاؤ اور مسلمانی کے خیال کو بھی دل سے نکال دو وغیرہ وغیرہ.یہ وہ خلاصه در خلاصہ ہے اس خطاب کا جو والد صاحب نے انتہائی غم وغصہ اور شدت غیظ وغضب کے جوش میں اپنے جلے ہوئے دل کے پھپھولے پھوڑنے کو مجھ سے فرمایا جسے میں نے پہلی مرتبہ بھی سنا اور دوبارہ اور بھی تیز و تند الفاظ میں اور زیادہ غضب آلود لہجہ میں سنا.جس کے نتیجہ میں سچ سچ میرا سارا جسم کانپ گیا.اور دہشت کے مارے میں سہم گیا.مگر پھر بھی کوئی جواب نہ دے سکا اور خاموش کھڑا رہا.جواب کا نہ دینا اور خاموشی اختیار کئے رہنا تسلیم و رضا کی وجہ سے نہ تھا.بلکہ والد صاحب کے مقصد و منشا کے خلاف ایک خاموش احتجاج تھا.اور اسے خود والد صاحب بھی محسوس کرتے تھے.اور جانتے تھے کہ یہ خاموشی ان کی مرضی کو پورا کرنے اور ان کی خوشی کو حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ان کی مخالفت پر اصرار اور ضد تھی.چنانچہ انہوں نے مجھے جھٹک کر ایک قسم کی رنج گلو گیر کی حالت میں فرمایا.اچھا گھر چل کر دیکھا جائے گا.“ اور اس کے بعد اپنے دوست کے کمرہ میں جا داخل ہوئے اور میں بھی ان کے پیچھے پیچھے اندر چلا گیا.والد صاحب الگ ایک کمرہ میں دیر تک ان سے باتیں کرتے رہے جو زیادہ تر اسی پیش آمدہ امر کے متعلق تھیں.وہ صاحب اگر چہ والد صاحب کے گہرے دوست اور راز دار تھے.مگر میں نے محسوس کیا کہ والد صاحب نے اس امر خاص کو ان سے بھی پوشیدہ ہی رکھا.اگر چہ میری تلاش میں اپنی

Page 73

۵۸ سرگردانی و سرزنی اور بھاری اخراجات کی وجہ سے مالی نقصان اور بربادی کے واقعات کے ذکر میں کوئی اخفاء نہ رکھا مگر میرے مسلمان ہو جانے اور قادیان پہنچنے کا ذکر تک بھی نہ کیا.بلکہ اور ہی اور قصے میرے کسی چھا پہ خانہ میں ملازم ہو کر بڑا لائق کام کرنے والا اور نامور ماہر فن متصد بہن جانے کے افسانے سناتے رہے جن کے باعث کارخانہ دار مجھے چھوڑنا نہ چاہتے تھے اور کہ ان کو مجھے وہاں سے نکالنیمیں سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.اسی اخفا کے خیال سے والد صاحب نے میرے ساتھ علیحدہ زیادہ دیر تک ٹھہر نا پسند نہ کیا تھا اور جلد مکان میں آگئے تھے کہ صاحب خانہ کو شبہ نہ ہو.والد صاحب چونکہ متواتر ہفتوں سے سفر میں رہنے کی وجہ سے اور خصوصاً میرے پالینے کے بعد تین چاررات سے آرام کی نیند نہ سو سکے تھے.باتیں کرتے سو گئے.مگر مجھے اس تازہ زخم کی وجہ سے چین نہ پڑتا تھا گوتھ کان اور کوفت مجھے بھی بے حد تھی اور جسم میرا بھی آرام مانگتا تھا مگر دل کا درد بے قرار کئے دیتا تھا.کروٹیں لیتا مگر کسی پہلو آرام نہ ملتا.ع دل کی لگی بجھائے کون ؟“ خیالات کے تموج اور اجتماع سے دماغ خود پھٹنے کو تھا اس صورت میں بھلا نیند کی گنجائش کہاں ؟ اسی طرح قسماقسم کی ادھیٹر بن اور سوچ بچار میں رات کی گھڑیاں گن رہا تھا کہ پہلو کے کمرہ کے سکوت نے میرے دماغ کو کسی دوسری طرف پھیر دیا.جس کے ساتھ ہی میں لڑکھڑاتے ہوئے اٹھا اور دروازے پر ہاتھ مارا کہ کھول کر نکل جاؤں مگر وائے قسمت کہ در بند تھا اور میں محصور.ناچار کلیجہ پکڑ کر بیٹھ گیا اور سر تھام کر رہ گیا.اور لا ملجا ولا منجا منك الا الیک کے ورد میں مصروف ہو گیا اور دل دعا کی طرف جھک گیا.جس کے بغیر اور کوئی راہ کھلی نہ تھی.مرغ سحر بولے جس سے رات کی آخری گھڑیاں معلوم کر کے اس فرصت کو غنیمت جانا اور کارساز حقیقی سے نیاز اور عرض حال میں مصروف ہو گیا.سچ ہیمصیبت اور دکھ درد کی رات لمبی ہو جاتی ہے اور ختم ہونے میں نہیں آتی.مگر یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جب درد میں لذت پیدا ہو جائے.تو نہ درد در درہتا ہے اور نہ ہی اس کا زمانہ لمبا اور طویل معلوم ہوتا ہے بلکہ اس کا جلد ختم ہو جانا گونہ حسرت و تکلیف کا باعث ہوتا ہے اور ایک قسم کی پیاس اور تشنگی معلوم ہونے لگتی ہے.میں ایک قسم کے ذوق اور لذت وسرور میں تھا کہ اذان کا روح پرور نغمہ کان میں پڑا.جس سے میرے حواس میں تازگی کی لہر دوڑ گئی.میں نے بصد بجز ونیاز وقت کا فریضہ ادا کیا.اور آنے والے حالات کے لئے اپنے آپ کو تیار کر لیا.والد صاحب جاگے اور میرا دروازہ کھول

Page 74

۵۹ کر تجاہل عارفانہ کے رنگ میں دروازہ کے باہر سے بند ہو جانے پر افسوس کیا.اور صاحب خانہ کے اصرار کے باوجود اندھیرے ہی اندھیرے روانہ ہو کر سویرے ہی سویرے اپنے منزل مقصود موضع بھا گو والہ غالباً چک نمبر ۶۲ جہاں ہم نے پہنچنا تھا ، پہنچے.والد صاحب کا علاقہ پراثر یہ بھا گو والہ ضلع گورداسپور کے بھا گووال کے سکھ سردار یا زمیندار وہاں جا کر آباد ہوئے ہیں.ان کے ساتھ ساتھ بعض ان کے کام میں مدد دینے والے مسلمان بھی گئے ہیں.جن میں بعض بروالے اور چوکیدار کشمیری بھی تھے جو محترم برادران سیکھوانی کے رشتہ دار اور واقف کار بھی تھے.یہ حلقہ پٹوار پانچ دیہات پر مشتمل تھا.جو ز بر دست اور متعصب سکھوں کے تھے جن میں سے ایک دیہہ میں ایک مرکزی گوردوارہ اور ان کا مذہبی مرکز بھی قائم تھا جہاں والد بھی خاصا حصہ لیا کرتے تھے.جس کے نتیجہ میں وہاں مذہبی لحاظ سے بھی محبت و عزت کی نظر سے دیکھے جانے کے باعث ان کا دوہرا اثر ورسوخ تھا اور اس پر ان کو حد سے زیادہ ناز تھا.اور اسی کی طرف انہوں نے ڈچکوٹ پہنچ کر مجھے مخاطب کرتے ہوئے اشارہ کیا تھا.اب والد صاحب کی ہر حرکت و سکون اور طرز وادا میں اپنا علاقہ ہونے مگر زیادہ تر اپنی کامیاب واپسی پر ایک فاتحانہ شان و شوکت کا اظہار ہور ہا تھا کیونکہ نصف سال کی متواتر دوڑ دھوپ اور تگ و دو کے بعد کئی ویرانے اور جنگلوں، سنسان بیابانوں کی خاک چھاننے ، بیسیوں شہروں ، درجنوں دیہات کی چھان بین اور ہزاروں روپیہ بے دریغ بہا دینے کے بعد وہ حصول مقصد میں کامیاب ہوئے تھے.قادیان کی یاد قادیان ہاں مقدس اور پیاری بستی قادیان کی یاد کسی وقت دل سے محو نہ ہوتی تھی اور میں ہر وقت عالم خیال میں کوچہ ہائے دارالامان میں پھرتا رہتا تھا.گو میں والد صاحب کی کڑی اور نہایت کڑی نگرانی میں ایک اسیر بے دست و پا کی مثال گرفتار و محبوس تھا اور ان کی مرضی کے خلاف چار قدم بھی ادھر ادھر نہ جاسکتا تھا.ان مصائب کے پہاڑ تلے دبے ہوئے بھی میری روح اپنے آقائے نامدار کی مجلس میں پہنچ کر حضور کے کلمات طبیات سے مستفیض ہوتی اور حضور پرنور کی زبان فیض ترجمان سے

Page 75

۶۰ أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ کی سریلی اور کیف آور گونج گوش ہوش سے سن پاتی تو یقیناً اس میں زندگی کی جھلک اور امید کی لہر دوڑنے لگتی.جس سے مجھے ان مشکلات اور ابتلاؤں پر فتح پانے اور غالب آنے کی قوت وعزم میسر آ جاتا.اور دل کو غیر معمولی سکون اور ڈھارس نصیب ہوتی.دارالامان کی مختصر سی اس زندگی میں بارہا میں نے حضور کی زبان مبارک سے قرآن کریم کی یہ آیت سنی اور سن سن کر ہی یاد ہو گئی تھی.اور جس موقعہ اور محل پر حضور اس کا ذکر فرمایا کرتے اور جو مفہوم ومقصد حضور اس سے لیا کرتے تھے وہ میرے ذہن میں مستخصر ہو جاتا.اور جو مثالیں حضور اس مضمون کی تائید میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے حالات اور واقعات کا ذکر فرما کر بیان فرمایا کرتے سبھی یاد آ کر میرے دل کو قوی کر دیا کرتی تھیں.سید نا حضرت مسیح پاک علیہ الف الف صلوۃ وسلام کا ایک اور مقولہ بھی ایسے واقعات میں اکثر میری رہنمائی کیا کرتا تھا.” خدا داری چہ غم داری.“ یہ کلمات بھی حضور کی زبان مبارک سے اکثر سننے میں آیا کرتے تھے اور اسی وقت مجھے یاد ہو چکے تھے.ورنہ اس سے قبل میں نے یہ کلمات نہ کبھی سنے تھے نہ کبھی پڑھے تھے.یہ کلمات اپنے اندر جو مقناطیسی اثر رکھتے ہیں یاد آ کر لاز ما مجھ پر بھی اثر انداز ہوتے اور زندگی میں تازگی کی روح پھونک دیا کرتے تھے.قصہ مختصر جوں جوں ہمارا قافلہ اس بستی کی طرف بڑھتا اور قریب ہوتا جاتا تھا توں توں میری روح پیچھے کو بھا گئی اور اپنے آقا کے حضور فریاد کر کر کے طالب مرد و دعا ہوتی تھی.ابتداء سے انتہاء تک کے سارے حالات و واقعات آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے.-1 -۲ -٣ اول مرتبہ حضرت کے پیش ہونے کے وقت میری کم عمری اور بچپنے کی وجہ سے جو کچھ اس مرسل میز دانی نے فرمایا.والد صاحب کے قادیان پہنچ کر میرے حصول کی کوشش کرنے کے نتیجہ میں آخر جو کچھ حضور نے فرمایا.مخدومنا حضرت حکیم الامت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی درخواست پر کہ حضور نے عبد الرحمن کو والد کے ساتھ جانے کا حکم دیا ہے اگر حضور پسند فرما ئیں تو بھائی عبدالرحیم کو ان کے ساتھ بھیج دیا جائے.“ کے جواب میں جس رنگ میں اور جس جوش میں میرے آقا نے اظہار

Page 76

۶۱ خیال کیا اور جو کچھ فرمایا.یہ سب کچھ ایک طرف میرے سامنے تھے.اور دوسری طرف وہ بستی اور وہ عزیز ورشتہ دار جن کو میں ۶ جون ۱۸۹۵ء کو ہمیشہ کے لئے الوادع کہہ کر نکل کھڑا ہوا تھا اب پھر آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے.بلکہ ہر قدم مجھے ان کے قریب کرتا جا رہا تھا.ایسے نازک وقت میں میرے دل میں کیا کیا گزر رہا تھا.اور کس کس قسم کے خیالات اٹھتے اور کیا کیا اثرات پیدا کرتے تھے اور ان کا جمع کرنا اور لکھنا میرے لئے ناممکن گاؤں اور گھر میں آؤ بھگت والد صاحب ذرا پہلے پہنچ چکے تھے اس وجہ سے مرد اور عورتیں ہمیں دیکھنے کو گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور ہمیں آتا دیکھ کر جو جس کے جی میں آتا کہتا.جتنے منہ اتنی باتیں تھیں.کوئی خوشی کا اظہار کرتا تھا کوئی ملامت کر کے دکھے دل کو اور بھی دکھاتا تھا.کسی کا لہجہ مشفقانہ تھا تو کسی کا سخت وکرخت اور طعن آلود اور بیبا کا نہ.اکثر نے مصلحت اور حکمت سے نصیحت کا پہلو اختیار کیا.اس طرح مجھے تلخ و گرم اور سر دونرم میں سے گذرتے ہوئے کوارٹر تک جانا پڑا.جہاں عورتوں کا ہجوم والدہ محترمہ اور عزیزہ ہمشیرہ کو مبارکباد کہنے کی غرض سے جمع تھا.اہلیہ کی وجہ سے میرے ساتھ واجبی سلام کلام تک اکتفا رہا.اور شکوے شکایت اور غم وغصہ کے اظہار کو فی الحال ملتوی رکھا گیا اور موقعہ کے مدنظر بڑے ضبط سے کام لیا گیا.اور مستورات دیہ اور گھر والوں کی ساری توجہ انہیں کی طرف منعطف ہوگئی.بلکہ یہ سلسلہ سارا دن جاری رہنے کی وجہ سے مجھے علیحدہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض حال کرنے اور دن کے فرائض ادا کرنے کا موقعہ مل گیا.رات کو فرصت ہونے پر والدہ محترمہ ہمشیرہ عزیزہ اور میرے دونوں بھائی میرے گرد جمع ہوئے اور لگے باری باری سے اپنے دلوں کا بخار اور سینوں کی بھڑاس نکالنے.گھر والوں کو میرے اسلام کی اطلاع تھی اس وجہ سے ان کے دل بہت ہی بھرے ہوئے تھے.نہ معلوم دن بھر کس طرح ضبط سے انہوں نے کام لیا اور کیسے اتنا لمبا صبر کر سکے.اس فرصت اور نہائی میں جہاں سبھی پھوٹ پھوٹ کر روئے.وہاں والدہ محترمہ نے تو حق مادری کا بھی دل کھول کر استعمال فرمایا.اور جوش رنج میں یہاں تک بڑھ گئے کہ چاقو لے کر اپنے سینہ تک کو چاک کر کے مجھے اپنے داغہائے دل دکھانے کو آمادہ ہو گئے.اور اگر عزیزہ ہمشیرہ ہوشیاری اور ہمت سے کام لے کر ان کا ہاتھ نہ روک لیتیں تو خدا معلوم کیا ہو جاتا.میں سر ڈالے بیٹھا تھا مجھے تو خبر بھی نہ تھی.-

Page 77

۶۲ رات قریباً ایسی ہی کشمکش اور گریہ وزاری میں بیت گئی.والدہ اور ہمشیرہ نہ سوئیں اور نہ ہی انہوں نے مجھے سونے دیا.مطالبہ ان کا سخت تھا جس کے لئے انہوں نے کبھی محبت اور پیار کی انتہا کر دی تو کبھی گریہ و بکا کی کوئی حد نہ رہنے دی.کبھی قومی حمیت اور خاندانی عزت کے واسطے تو کبھی ننگ و ناموس پر جان نثار کرنے دینے والے اسلاف کے تذکرے سنا سنا کر اپنے مطلب کا بنانے کی کوشش کی.اور جان تک کا خوف دلایا تو کبھی اپنی جانوں پر کھیل جانے اور میرے سر چڑھ مرنے کی دھمکیاں دیں.آپ کا جذبہ استقلال و استقامت والد صاحب نے گو اس وقت کوئی دخل نہ دیا مگر اس ساری کارروائی کو پاس ہی لیٹے دیکھا سنا کئے.کبھی کبھی کوئی فقرہ والدہ محترمہ کی تائید یا ہمشیرہ عزیزہ کی حمایت میں فرما دیتے تھے.اور اس طرح گویا بالواسطہ وہ بھی وہی کام کر رہے تھے.مگر مطالبہ ان کا ایسا سخت اور ایسا کڑا تھا کہ اس کے مقابلہ میں ان کے سارے ہی ہتھیار کند اور سکتے اور ہر قسم کی کوششیں بے کار اور بے سود تھیں اور میں ان کو قبول کرنے کے لئے نہ انتہائی خوف کی وجہ سے تیار تھا نہ انتہائی طمع ومحبت مجھے اس کے لئے آمادہ کر سکتی تھی.اور جس غیرت وحمیت کا واسطہ مجھے دیا جاتا تھا وہی غیرت وحمیت مجھے اپنے مقام پر قائم اور ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتی اور جو کارنامے سنا سنا کر مجھے اپنے مقام سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی تھی.اس سے ہزار ہا درجہ بہتر و اعلیٰ اور حقیقی کارنامے اسلام کی خاطر قربانیاں کرنے والوں کے میرے پیش نظر تھے جن کا زندہ نمونہ اور تازہ مثالیں اللہ تعالیٰ نے مجھے دیکھنے کا نہ صرف موقعہ دیا بلکہ ان کی صحبت میں رہ کر ان کی قوت قدسی اور روحانیت سے متمتع ہونے کی سعادت نصیب کی جس کی برکت اور طفیل سے میرے بزرگوں اور محسنوں کے قومی سے قوی دلائل اور کاری سے کاری حربے بھی میرے لئے بیچ اور بے اثر تھے.والدہ اور ہمشیرہ کے جذباتی تاثرات بھی میرے قلب کے اس لذت وسرور کو دور کرنے سے عاجز تھے.گھر والے گر به کشتن روز اول“ کی فکر میں تھے.ان کو اندیشہ تھا کہ بات نکل گئی تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا.“ اور پھر اس کا کوئی علاج نہ ہو سکے گا ان کی ساری کوشش اور سعی اسی یقین، وثوق اور قوت وارادہ سے تھی.کہ وہ ضرور کامیاب ہونگے کیونکہ جس رسمی اسلام کے خلاف ان کا جہاد تھا اور جن نام کے مسلمانوں کو مد نظر رکھ کر مجھے اسلام و مسلمانی سے پھیرنے کی کوشش کر رہے تھے اس لحاظ سے ان کا گمان ایک حد تک اپنے اندر کچھ حقیقت واصلیت بھی رکھتا ہوگا.مگر وہ میرے متعلق ایک غلط فہمی کا شکار تھے اور ان کی ساری دو گربه

Page 78

۶۳ تگ ود و چونکہ امر واقعہ سے ناواقفیت پر مبنی تھی جو ابتداء سے لے کر انتہا تک متواتر کئی ماہ انہوں نے جاری رکھی اور با وجود استقلال کے وہ کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکے.وہ حقیقی اور زندہ اسلام اور اس کے اثر وجذب سے بے خبر تھے.ان کو اس بات کا علم ہی نہ تھا کہ صورت ایمان میسر آ جانے کے بعد انسان کیا سے کیا ہو جاتا ہے.ورنہ شاید نہ وہ اتنی سرگردانی کی زحمت اٹھاتے نہ اپنے مال ومنال کو یوں اڑاتے اور نہ ہی وہ مجھے طرح طرح کی اذیت پہنچا کر خون جگر کھاتے بلکہ پہلے ہی صبر کر بیٹھتے.اصلیت بھی یہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے خود ہی میری دستگیری فرما کر اس نورا اسلام سے منور نہ کیا ہوتا تو شاید ان کی ترغیب و تحریص اور مسلسل و سرگرم مساعی کا کوئی نتیجہ کسی نہ کسی رنگ میں دیکھنا ان کو نصیب ہو ہی جاتا.مگر یہاں تو مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی.“ والا معاملہ تھا.اس بیمار محبت و وفا“ کا مرض بجائے گھٹنے کے بڑھتا ہی گیا اور ان کی ساری مساعی اس کشت ایمان کو کھاد ہو کر لگتی رہیں.اقارب کا اوچھے ہتھیاروں پر اتر آنا چند روز تک والدین اور اقارب کی سرگرمیاں اور مساعی بھی جاری رہیں.کبھی نرمی ہوتی تھی اور کبھی گرمی آ جاتی تھی.کبھی پیار ومحبت بلکہ منت و سماجت سے کام لیا جاتا تھا.تو کبھی تنگ ہو کر درشتی وسختی اور ناراضگی و تشدد بھی برتا جاتا تھا.غرض چند روز متواتر یہی سلسلہ خاص اہتمام اور تسلسل سے جاری رہا.اور جب انہوں نے دیکھا کہ کامیابی کی کوئی راہ باقی نہیں اور ان کے سارے حیلے ختم ہو چکے ہیں تو مایوس ہو کر اپنے آخری اور اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے.ایک روز علی الصباح جبکہ میں حسب معمول تلاوت کے لئے قرآن شریف لینے کو اس کمرہ میں گیا جہاں میں نے اس کو الگ اور ممتاز جگہ رکھا ہوا تھا تو میں نے اس کو وہاں نہ پایا.نہ میرا قرآن شریف وہاں تھا اور نہ دوسری کتب.میں نے ادھر ادھر ہاتھ مارنے شروع کئے بعد از بسیار تلاش یہ معلوم ہوا کہ کسی نے یہ ظلم کیا ہے کہ قرآن شریف اور دوسری کتب کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور آثار سے ظاہر ہوا کہ سگندلی اور قساوت کا مظاہرہ ان مقدس کتب کو جلا دینے کے رنگ میں بھی کیا گیا تھا.میرے سینہ میں رنج و درد اور حقارت و نفرت کے جذبات سے گویا ایک قسم کی ایسی سٹیم پیدا ہو کر بھر گئی کہ اگر میں صبر وضبط سے کام نہ لیتا تو وہ گھر بھر کو جلا کر راکھ کر دیتی.یا ایسا ظلم وستم کرنے والوں اور ان کے حامیوں کے پر خچے اڑا دیتی.میری آنکھوں میں خون اتر آیا.درد دل کی شدت سے میرا سارا جسم کانپنے لگا.جوش اٹھا کہ گھر کو آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنا دوں یا کدال سے گرا کر اس کا نام ونشان

Page 79

۶۴ مٹادوں.مگر اس وقت گھر میں صرف ایک بے زبان عورت یعنی میری اہلیہ اور میری ہمشیرہ کے سوا کوئی نہ تھا.جو دونوں میری اس کیفیت سے خوفزدہ اور ہراساں تھیں.اور ممکن ہے کہ ان کو اس معاملہ کا علم ہی نہ ہو.میں نے کمرہ میں بند ہو کر روروکر دل کی بھڑ اس نکالی اور ٹھنڈا ہو گیا.یہ ظلم کرنے والوں نے تو اپنے خیال میں میرے ایمان کی عمارت ہی کو مسمار کر دیا اور میری تو جہات کے مرکزی قلعہ کو گرا کر مجھے بے سروسامان کر دیا تھا.مگر حقیقتا ان کے اس ظلم سے میرے اندر نور ایمان کی شعاعیں اور زیادہ تیز ہو کر چمکنے لگیں اور محبت و عشق اور صدق و وفا کے جذبات زیادہ مضبوطی اور تیزی سے میرے دل میں شعلہ زن ہونے لگے.جوں جوں انہوں نے مجھے دبانے اور مٹانے کی کوشش کی توں توں اللہ کریم نے مجھے اٹھنے اور ابھرنے کی توفیق بخشی اور وہ شب و روز انتہائی مظالم تک کا مجھے نشانہ بناتے رہے.قید و بند سے گذر کر انتہائی تشدد کیا جاتا رہا اور اکثر ایسا ہوا کہ جان تک لے لینے کی کوشش کی گئی.مگر اللہ کریم کی باریک در بار یک مصلحتوں کے ماتحت آخر کوئی نہ کوئی راہ میری سلامتی اور جانبری کی پیدا ہو ہی جایا کرتی رہی جس سے متاثر ہو کر گاہ بگاہ والدین کے منہ سے نکل ہی جایا کرتا تھا.پر میشور جانے یہ کیسا ہی سخت جان واقع ہوا ہے کہ نہ مارے مرتا ہے نہ کاٹے کتا ہے.“ یہ وہ رنج وغم اور درد و کرب کا زمانہ تھا کہ اس کی یاد آج بھی مجھ پر کپکپی سی پیدا کر دیتی ہے اور میں اس کو بھلا دینے کے لئے آنکھیں بند کر لیا کرتا ہوں.اسی زمانہ میں مجھے فرائض کی ادائیگی تک سے محروم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی.مجھ پر بھاری پہرہ اور کڑی نگرانی مقررتھی.اس زمانہ میں بعض اوقات کئی کئی نمازیں ملا کر یا اشاروں سے پڑھتا تھا.ایک روز علی الصبح میں گھر سے باہر قضائے حاجت کے بہانے سے گیا.گیہوں کے کھیتوں کے اندر وضو کر کے نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص کدال لئے میرے سر پر کھڑا رہا.نماز کے اندر تو یہی خیال تھا کہ کوئی دشمن ہے جو جان لینے کے لئے آیا ہے.لہذا میں نے نماز کو معمول سے لمبا کر دیا اور آخری نماز سمجھ کر دعاؤں میں لگا رہا.مگر سلام پھیرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایک مسلمان مزدور تھا.کشمیری قوم کا جو مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر بہت خوش ہوا.اور جب میں نماز سے فارغ ہوا.تو اس نے نہایت محبت اور خوشی کے جوش میں مجھ سے پوچھا.منشی جی ! کیا یہی پکی بات ہے کہ آپ مسلمان ہیں؟ تو میں نے کہا کہ ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام پر قائم ہوں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے لئے گواہ بنا کر بھیجا ہے کہ کم از کم تم میرے اسلام کے شاہد رہو گے.شاید یہی وجہ ہے کہ تم نے مجھے عین حالت نماز میں دیکھا اور نہ میں نے پوری احتیاط کر لی تھی

Page 80

کہ کوئی مجھے دیکھنے نہ پائے وہ خوشی کے مارے اچھل پڑا.حضرت مولوی خدا بخش صاحب کا آنا اور بفضل ابیچ کے جانا اسی تیرہ و تار اور پر ظلم و ظلمات کے زمانہ میں جبکہ مجھے قادیان سے آئے ہوئے عرصہ ہو گیا اور میری طرف سے کوئی خیر خیریت کی اطلاع دار الامان میں نہ پہنچی تو میرے بزرگوں اور بھائیوں کے دل میں تشویش پیدا ہوئی اور میری خبر گیری و امداد کا جوش اٹھا جس کے نتیجہ میں علاوہ دعاؤں کے جو انہوں نے میری مشکلات کے زمانہ میں میرے لئے کیں.ایک نیک دل اور پاک نفس انسان کو ( جن کا نام نامی حضرت مولوی خدا بخش صاحب جالندھری تھا.درمیانہ قد سیاہ فام عمر رسیدہ بزرگ جو اس زمانہ ہی میں حنا کیا کرتے تھے ) دریافت حال کی غرض سے میرے پیچھے بھیجا گیا.وہ بزرگ اپنے اندر تبلیغ اسلام کا ایک جوش رکھتے تھے اور عموما سیا حانہ زندگی کے عادی واعظ تھے.وہ بزرگ قریہ یہ قریہ پھرتے ہوئے طویل اور سخت سفروں کی تکالیف برداشت کرتے ہوئے ایک لمبے عرصہ کے بعد مجھ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے.اور بمشکل میرے متعلق صرف اتنی خبر پا سکے کہ عبدالرحمن زندہ ہے مسلمان ہے اور کہ انہوں نے خود عبد الرحمن کو زندہ دیکھا اور اسلام کی تصدیق کرائی ہے بس.ایک روز صبح کے وقت جبکہ سورج کچھ بلند ہو چکا تھا اور والد صاحب باہر جاچکے تھے.گھر کے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے اچانک میرے دل میں کچھ گدگدی سی ہوئی.اور از خود رفتنگی پیدا ہو کر ایک ابال اٹھا جس سے بے قرار ہو کر میں کمرہ سے نکل کر صحن میں ٹہلنے لگا.ادھر ادھر دو چار ہی چکر لگائے ہوں گے کہ منشی جی کی ایک دھیمی اور لرزتی ہوئی آواز کان میں پڑی.دل کسی ترغیب غیبی کے ماتحت پہلے ہی سے گوش ہوش بنا ہوا تھا.ادھر آواز میں ایک قسم کا تعارف اور شناسائی سی محسوس ہوئی.جھٹ دروازہ کھول کر باہر جا کھڑا ہوا.جدھر سے آواز آئی تھی آنکھیں ادھر کو گاڑ دیں مگر سامنے کوئی نظر نہ آیا.آخر چند قدم حرکت کر کے آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی بزرگ مولوی خدا بخش نامی جو ایک پہلو کے جھاڑ کی اوٹ کھڑے تھے سامنے ہو کر السلام علیکم بولے میں نے وعلیکم السلام حضرت مولوی خدا بخش صاحب کے مزید ذکر کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد ہشتم میں مندرجہ حالات ماسٹر عبد الرحمن صاحب سابق مہر سنگھ.

Page 81

۶۶ ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کے الفاظ میں جواب دیا.مگر آواز کے سنبھالنے کی بھی ساتھ ہی فکر رکھی انہوں نے ہاتھ کے اشارہ سے دور ہی دور کھڑے ہو کر خیریت پوچھ کر اسلام کا سوال کیا جس کا میں نے اشاروں ہی اشاروں میں جواب دیا اور وہ مطمئن ہو کر جلدی جلدی آگے نکل گئے.ٹھہر نا نہ انہوں نے ہی مناسب سمجھا نہ میں نے ان کو زیادہ روکنا مناسب سمجھا اور اسی دیدہ دور کو غنیمت جانتے ہوئے آن کی آن ایک دوسرے سے جدا ہو گئے اور بات ایسی معلوم دینے لگی جیسے کسی نے خواب دیکھا ہو.مولوی صاحب محترم اپنی جگہ خوفزدہ اور سہمے ہوئے تھے اور جو کچھ انہوں نے کیا اس سے زیادہ کوئی کر بھی نہ سکتا تھا.اور میں اپنی جگہ احتیاط اور افشائے راز کے خیال سے جتنا موقعہ ملا اور جو کچھ ہو سکا اس کو کافی سمجھ کر صبر کر بیٹھا.مولوی صاحب مکرم پھرتے پھراتے پوچھتے بچھاتے ہمارے ہیڈ کوارٹر سے تین چارمیل کے فاصلے پر ایک اعوان قوم کی مسلمان بستی میں شب باش ہوئے تھے.جہاں سے ضروری حالات کا علم لینے اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ کام کرنے کی ہدایت لے کر وہ علی الصبح اٹھے اور ہمارے ہاں پہنچے تھے.اور دور ہی دور سے ایک دوسرے کی خبر لینے دینے کا کام ہو سکا تھا.مولوی صاحب گاؤں کی طرف بڑھے مگر راستہ چھوڑ کر باہر ہی باہر ہو کر کھیتوں میں سے نکل گئے.جب تک وہ نظر آتے رہے میں کھڑا ان کو دیکھا کیا.ان کے آنکھوں کے اوجھل ہو جانے کے بعد کچھ سوچ اور فکر کے بعد میں گھر کے اندر چلا گیا.اور چونکہ مجھ پر اس وقت ایک خاص حالت طاری تھی سب سے جدا ہو کر لیٹ گیا اور کسی گہری سوچ میں پڑ گیا.ابھی میں اسی سوچ ہی میں تھا کہ والد صاحب محترم باہر سے جلد جلد آئے اور میرے متعلق دریافت فرمایا کہ کہاں ہے؟ اور پھر میرے پاس تشریف لا کر پوچھا.”آج کون مولوی آیا تھا.اور وہ کیا کہتا تھا.اب وہ کدھر کو گیا ہے؟‘ لب ولہجہ سے غم وغصہ عیاں تھا.میں بھانپ گیا کہ مولوی صاحب کی آمد کی اطلاع والد صاحب کو ہو گئی ہے.مگر میں نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے عرض کیا.کون مولوی صاحب آپ کی مراد ہیں؟ میں نہیں جانتا کدھر سے آئے اور کدھر کو گئے.والد صاحب پھر جلدی جلدی باہر چلے گئے اور مجھے اب یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ مولوی صاحب پکڑے گئے ہوں تو مشکلات کا ایک نیا باب میرے واسطے کھل جائے گا.اتنے میں والد صاحب نے آ کر والدہ صاحبہ کو سنایا کہ خبر ملی تھی کہ پٹوار خانہ کی طرف سے ایک اس رنگ و شکل کا مولوی گاؤں کی طرف بڑھتا ہوا دیکھا گیا تھا.مگر وہ بجائے گاؤں میں سے ہو کر جانے کے باہر باہر نکل گیا.جس سے شبہ ہوا کہ کوئی قادیان کا

Page 82

۶۷ مولوی آیا ہو گا.آدمی تلاش میں دوڑائے مگر وہ ہاتھ نہ آیا.ورنہ اس کو پتہ لگ جاتا کہ ہمارے گاؤں میں کسی مسلے کے آنے کا کیا مطلب؟ خوش نصیب تھا کہ بچ کر نکل گیا.اچھا ہے ہمیں زیادہ ہوشیار کر گیا ہے.یہ سن کر میری بھی جان میں جان آئی.اور میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ورنہ میرے واسطے سخت مشکلات کا سامنا تھا.اگر خدانخواستہ مولوی صاحب پکڑے جاتے.اور ان کے قادیان سے آنے کا علم ہو جاتا تو ان لوگوں نے ضرور ان کی توہین کرنی تھی.جس کو میں قطعا برداشت نہ کر سکتا.اور اس طرح نہ معلوم کیا نتائج نکلتے اور کیا کیا تکلیف دہ حالات پیدا ہو جاتے.یہ صحیح ہے کہ میں والد صاحب کا بہت ہی احترام کرتا تھا اور اسی احترام کے باعث میں گونہ حد سے زیادہ دبا ہوا بھی تھا اور ان کے منہ چڑھنا یا ان کا مقابلہ کرنا میرے واسطے ناممکن تھا.مگر اس میں بھی شک نہیں کہ کسی کھلی تو ہین اور علی الاعلان تذلیل کو میں کبھی برداشت نہ کر سکتا.اور یہ اللہ تعالیٰ کی ستاری تھی کہ ایسا موقعہ پیدا نہ ہونے دیا.ع رسیده بود بلائے ولے بخیر گذشت مولوی صاحب موصوف کی یہ ملاقات خواہ وہ کتنی ہی دور سے ہوئی میرے لئے بڑی قوت وسکون اور تازگی کا باعث ہوگئی اور قادیان سے دور ہونے کی وجہ سے اگر کچھ زنگ طبیعت پر لگا بھی تھا تو اس ملاقات نے صیقل کا کام دیا اور میرے دل میں اس مقدس بستی اور اس کے رہنے والوں خصوصاً اس کی روح رواں ( حضرت مسیح موعود ) کی ذات والا صفات سے وابستگی کا تعلق اور نیاز مندی کے جذبات زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو گئے.مولوی صاحب کا آنا گویا ایک قسم کی روحانی غذا تھی جو اللہ کریم نے میرے لئے غیر متوقع طور سے اس بیا با نمیں مہیا فرما دی.والدین درخت ایمان کے استیصال اور قادیان کی یاد سے محو کرنے کے لئے ایک حربہ کو غیر موثر پا کر دوسرا اختیار کر لیتے تھے.بالآخر والد صاحب نے کثرت کا ر، ہم و غم اور اپنی کمزوری کے تذکرے کان میں ڈال کر مجھے اپنے ساتھ کام میں لگا لیا.اور گرداوری.پیمائش.گشت.دارہ بندی اور ملاقات حکام سب کام میں نے سنبھال لئے.میں کام سے واپس آتا تو والدین اور بہن بھائی بھی ہاتھوں ہاتھ لیتے اور سر آنکھوں پر بٹھاتے اور خلاف معمول میری خاطر و مدارت ہونے لگی.حکام کے پاس بھی میرے کام کی تعریف و توصیف کے تذکرے پہنچے اور میں نے اسی وجہ سے انہماک

Page 83

۶۸ اور محنت کا ثبوت دیا کہ فرائض دینی کی ادائیگی کے لئے مجھے آزادی تھی.ایگزیکٹو انھیٹر کے پاس میرا امتحان دلایا جس میں میں کامیاب نکلا.عجب نہ تھا کہ شیطان اسی راہ سے کامیابی کا منہ دیکھتا اور اصل مدعا میری نظروں سے اوجھل ہو جاتا.کیوں کہ دنیا داری کا رنگ مجھ پر چڑھنے لگا تھا.اور شیطان ایسے نہاں در نہاں راہوں سے آ رہا تھا کہ ہمیشہ کی طرح اللہ تعالیٰ غیب سے دستگیری نہ کرتا تو میں اس زہر آلود انگیں کو شیریں اور شفا بخش یقین کر کے نوش کر کے ہمیشہ کی روحانی موت کی نیند سو جاتا.حضرت بھائی جی کے کام سے خوش ہو کر آپ کو جلد الگ حلقہ دلانے کا وعدہ حکام نے کیا تھا کہ اچانک والد صاحب کا تبادلہ عمل میں آیا.اور چارج کے لئے اتنا کم وقت دیا گیا کہ بھائی جی کی ملازمت کے لئے مزید کسی کوشش کا موقعہ نہ ملا.بلکہ ان کو جلد اپنے حلقہ میں پہنچ کر چارج لینا پڑا اور اہل وعیال کے لانے کا کام اپنے برادر زادہ راج کرن کے سپرد کیا جو نہایت متعصب تھے اور بات بات پر بھائی جی پر اعتراض کرتے تھے.آپ منہ دھونے بیٹھیں تو وہ جھٹ شکایت کریں کہ دیکھو مسلمانی اس کے اندر سے نہیں نکلی.مسلمانوں کی طرح دونوں ہاتھوں سے منہ دھوتا ہے.بلکہ تین تین بار دھوتا ہے.کھانے سے پہلے منہ میں گنگنا کر بسم اللہ پڑھتا ہے.نہیں تو اونچا پڑھے تو ہمارا شبہ نکل جائے.قضائے حاجت کے لئے جانے کا تو بہانہ ہوتا ہے ورنہ بھلا اتنی دیر لگا کرتی ہے.اور وہ اتنی دور کیوں نکل جاتا ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے.وہ تو پیچھے رہ کر نماز پڑھتا ہے.راج کرن اور بھائی جی کی آپس میں ہاتھا پائی اور لاٹھی سوٹے تک بھی نوبت پہنچی.بالآ خر قافلہ والد کے ہیڈ کوارٹر موضع لدھڑ میں پہنچا.پڑو پیاں.بہلول پور اور ریلوے سٹیشن سالا روالا وغیرہ اس کے حلقہ میں شامل تھے.سابقہ حلقہ کے خلاف یہ تمام مسلمانوں کے گاؤں تھے.جن کو دیکھ کر بھائی جی کو بہت خوشی حاصل ہوئی.لیکن تعارف پر معلوم ہوا کہ ان شکیل مسلمانوں کی رونق مجالس چھوڑے حقے تھے.یہ نام کے مسلمان تھے.مسجد اور ملاں کی موجودگی کے باوجود کبھی اذان نہیں سنی گئی اور یہی لوگ تھے جنہوں نے آپ کو مسلمان یقین کرتے ہوئے قادیان سے پکڑ کر دشمنان اسلام کے سپرد کرنے اور انہیں مرتد کرانے کی کوشش کی تھی.قادیان کی یاد اور والد صاحب کا مقصود و مراد حضرت اقدس اور دارالامان کے مقدسین کی یاداب پھر ستانے لگی.اور خواہش ہوتی کہ آپ اڑ کر

Page 84

۶۹ قادیان پہنچیں.آجا کے آپ کی نگاہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اٹھتی اور موقعہ ملنے پر آپ اس کے حضور گریہ و بکا کرتے قلبی کیفیت کتنی بھی چھپائیں بشر پر کچھ اثر ضرور نمایاں ہو جاتا ہے.والدین چہرہ سے آپ کی قلبی حالت کو پڑھ لیتے تھے اور دنیوی امور میں مصروف کر کے آپ کی توجہ پھیرنے کی فکر کیا کرتے تھے.مئی جون ۱۸۹۶ء میں والدہ محترمہ کے ہمراہ سانگلہ ہل اور چونیاں کے مابین آمد و رفت کا کٹھن سفر کرنے پر ایک عشرہ صرف ہوا.اس سفر کی سختی اور شدت کا اندازہ ان الفاظ سے کیا جاسکتا ہے جو والدہ محترمہ کی زبان سے نکلے ہوئے آج بھی میں اسی طرح سن رہا ہوں جس طرح ان دنوں سنتا تھا کہ ”آپے ای مرجان گے جو جیٹھ پین کے راہ.کہ جیٹھ کے مہینے کا سفر موت کے منہ میں جانے کے برابر ہوتا ہے اور اسی مقولہ سے اندازہ کیا کرتا ہوں کہ مئی جون ۱۸۹۶ء کا یہ واقعہ ہے.یہ سفر خطرناک ویرانے جنگلوں کا تھا جس میں بعض چور اور ڈاکوؤں سے بھائی جی کا مقابلہ بھی ہوا.والدہ آپ کی خدمات فرمانبرداری، جفاکشی اور دلیری سے بہت متاثر ہوئیں اور خاص شفقت کرنے لگیں اور بار باران خدمات کا ذکر کر کر کے سرد آہ بھر کر کہتیں کہ ایسا شیر بچہ کس مرض ( عشق اسلام ) میں مبتلا ہو گیا ہے.یہاں والد صاحب نے آپ کو پھر اپنے کام میں لگا لیا.ان کی خواہش تھی کہ کسی ملازمت کے جال میں پھنسا کر جکڑ دیں.اتفاقا بڑی نہر میں نا کہ پڑ گیا اور اتنا بڑھا کہ بیسیوں دیہات سے مددمنگوانا پڑی.حکام بالا کے طرف سے اطلاع ملنے پر والد، عمزاد بھائی اور آپ نے دوڑ دھوپ کر کے جلد تر اور تعداد میں زیادہ مددموقعہ پر پہنچائی اور دن بھر کی محنت سے خطرہ پر قابو پالیا گیا آپ کو کام کرتے اور کراتے دیکھ کر انگریز اور دیسی حکام نے تعجب سے دریافت کیا کہ یہ لڑکا کون ہے اور کام کے اختتام پر افسر اعلیٰ نے آپ کو دس روپے انعام دے کر خوشنودی کا اظہار کیا.والد کی نظر میں دس روپے کی رقم قابل التفات نہ تھی.البتہ اچانک تبدیلی کے باعث آپ کی ملازمت کے متعلق ان کی توقعات پوری نہ ہو سکی تھیں.اب اس واقعہ سے حکام کی نظروں میں کام چڑھ جانے سے کامیابی کی جھلک نظر آنے لگی.افسران سے سفارشات حاصل کرنے کی کوشش کی.امتحان کی شرط تھی.والد سمجھتے تھے کہ بھائی جی امتحان میں بسہولت کا میاب ہو جائیں گے.چنانچہ گوجرانوالہ میں امتحان کے لئے آپ کو بھیجا گیا.وہاں مڈل کی سند کا مطالبہ ہوا.مڈل میں آپ ناکام ہو چکے تھے.اس طرح آپ کو پٹوار کے امتحان میں شمولیت کی اجازت نہ ملی اور والد کو آپ کی ناکام واپسی ناگوار گذری.

Page 85

قادر و قیوم خدا کی قدرت نمائی آپ فرماتے ہیں کہ کائنات عالم کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور ہر شے اس کے تصرف میں ہے اور اس کے حکم وارشاد کی پابند اور وہ جو چاہے کام کر سکتا ہے حتی کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کی عزت و عظمت اس کی کبریائی اور جبروت اور اس کی قدرت و ہیبت کے سامنے ایسا ہی بے بس وتر ساں ہے جیسے ایک نھی سی چیونٹی.والدین نے میرے دل کو اسلام سے پھیر نے اور مجھے مرتد بنانے کے لئے جو کچھ کیا وہ اتنا زیادہ تھا کہ اگر انسانی کوشش ہی پر سارے تغیرات کا انحصار ہوتا تو وہ نہ صرف مجھی کو مغلوب کر کے اپنا دل ٹھنڈا کر لیتے.بلکہ بہت ممکن تھا کہ مسلمانوں سے بدلہ لینے کی غرض سے مرتدین کی ایک فوج بنالیتے.مگر حقیقت یہی ہے کہ انسانی مساعی کو باشمر و بارور کرنا اور دلوں کو کسی چیز پر قائم رکھنا یا اس سے پھیر دینا کسی بات میں اثر پیدا کر کے دلوں کو اس کے قبول کرنے کے لئے تیار کرنا یا اس کو بے اثر بنا کر لوگوں کو اس سے متنفر کر دینا، الغرض تاثیر پیدا کرنا یا غیر موثر بنانا اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے.وہی دلوں کے بار یک در باریک اور نہاں در نہاں بھیدوں سے واقف اور مصرف القلوب ہے.میرے والدین کی تمام مساعی کو اس نے بے اثر بنا کر مجھے ان کے بداثرات سے بچایا اور میرے قلب کو اسی نے وہ حلاوت ایمانی بخشی جس کے بعد ایمان کی دولت سے دور ہو جانے کی نسبت ہزار موت بھی آسان ہو جاتی ہے.ان کے سارے سامانوں کو بیکار بنایا تو اسی ذات والا صفات نے.ورنہ میں بالکل ایک کمزور بچہ تھا نہ کوئی دلیل تھی میرے پاس نہ برہان، جس سے ان کا مقابلہ کرسکتا.صرف اور صرف اسی غیب در غیب ہستی کا پوشیدہ ہاتھ تھا جس نے ہر نازک ترین مرحلہ پر خود میری حفاظت فرمائی اور دل میں وہ نور ڈالا جو حق و باطل میں تمیز کا موجب بنتا رہا اور ہر موقعہ پر مجھے تسلی و اطمینان اور قوت و ثبات بخشتا رہا.میری کوئی ذاتی قابلیت نہ تھی بلکہ سرا سر میرے آقا و مالک ہی کا فضل تھا جس نے رہنمائی بھی فرمائی اور ہمیشہ دستگیری بھی کی.اللہ تعالیٰ کی تدبیر کچھ اور چاہتی تھی.گھر کی کسی ضرورت کے لئے خاندان کی ایک بوڑھی خاتون کو لانے کی ضرورت پڑ گئی.باوجود متعصب عمزادہ کی مخالفت کے والدین اسے یا چا کو بھجوانے پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ خلاف معمول مجھے بھجوادیا.سانگلہ ہل کے ریلوے اسٹیشن سے ورے ہی میں نے ساتھی کو جو پہنچانے آیا تھا، رخصت کر دیا.تا اسے معلوم نہ ہو سکے کہ میں نے کس مقام کا ٹکٹ خریدا ہے.کیونکہ

Page 86

والدین کے فیصلہ کے ساتھ ہی میں نے بھی ایک فیصلہ کر لیا تھا.گاڑی آنے والی تھی.سیالکوٹ کا ٹکٹ لے کر بسم الله مجریھا ومرسھا کہتا ہوا سوار ہو گیا.قادیان میں مراجعت اور حضرت اقدس کی زیارت ☆ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں سیالکوٹ پہنچا اور حضرت میر حامد شاہ صاحب اور احباب سے مل کر اگلے روز تو کلاعلی اللہ قادیان دارالامان کا قصد کر کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں کم و بیش نو ماہ بعد آخر جولائی یا آغاز اگست ۱۸۹۶ء میں آپہنچا.* حمد الحکم جلد ۴۱ نمبر ۱۸ ، ۱۹ بابت ۷ ۱۴ رجون ۱۹۳۸ء کا یہ خلاصہ عنوان قادیان میں مراجعت اور حضرت اقدس کی زیارت تا عنوان ”والدین سے حسن تعلقات ( طبع اوّل صفحہ اے تا ۸۷ ) میں درج کیا گیا ہے.* بھائی جی کی ایک روایت متن میں بیان کردہ زمانہ واپسی سے مختلف ہے، جس کے متعلق اپنی رائے تحریر کرتا ہوں.اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۹۸، ۹۹ میں آپ بیان فرماتے ہیں کہ میں والدین کے پاس سے مارچ یا اپریل ۱۸۹۶ء میں واپس آ گیا تھا.کیونکہ لکڑی کے موسم کا آغاز تھا.میری واپسی کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تھے.اپنا سبق بند ہو جانے کے متعلق حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب نے لکھا تو حضرت مولوی صاحب نے ان کو وہاں منگوا لیا.پھر بھائی جی نے حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب کو لکھا کہ میرا سبق بند ہو گیا ہے تو بھائی جی کو بھی وہاں بلوالیا گیا.چنانچہ حضرت مولوی صاحب جو وہاں سخت بیمار ہو گئے یہ واقعہ بھی بھائی جی بیان کرتے ہیں میرے سامنے کا ہے.میرے نزدیک آپ کی اس روایت میں سہو واقع ہوا ہے.اس لئے کہ اپنے حالات میں جو متن میں درج ہیں آپ کی بات بتاتے ہیں کہ والدہ صاحبہ ایک معقولہ کہتی تھیں کہ جیٹھ کے مہینے کا سفرموت کے برابر ہوتا ہے.جس سے میں اندازہ کرتا ہوں کہ مئی جون کا یہ سفر ہو گا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جنتری کی رو سے ۱۸۹۶ء میں جیٹھ ۲۸ اپریل تا ۲۶ مئی تھا.اگر پہلے دس دن جیٹھ کے سفر کیا ہو تب بھی ےرمئی تک کیا.اس کے بعد نہر میں نا کہ پڑنے کا واقعہ ہوا.جس میں آپ کے کام سے انگریز اور دیسی حکام خوش ہوئے.بعد میں ان کی خوشنودی سے استفادہ کر کے افسران سے والد صاحب نے امتحان کی اجازت بھائی جی کو دلوا کر امتحان کے لئے گوجرانوالہ بھیجا لیکن امتحان کی اجازت نہ ملی.پھر والدین کے پاس واپس آئے اور والد

Page 87

۷۲ الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِى هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَنَا اللهُ - والدین نے مجھے اپنی خاص ضرورت کے ماتحت اہم اور ضروری کام کے لئے بھیجا تھا.مجھے افسوس ہے اور ہمیشہ ہی رہا ہے اور شرمندہ ہوں کہ میں نے ان کو سخت تکلیف پہنچائی جس کی تلافی میرے لئے ممکن نہیں.آڑے وقت میں میں ان کے کام نہ آسکا.اور ان کو سخت انتظار اور تکلیف میں مبتلا کرنے کا موجب بنا.مگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کوئی دنیوی طمع اس امر کا موجب نہیں ہوا.ورنہ واقعی مستوجب صد لعنت ہوتا.یہ امر ایک ایسی وارفتگی میں ہوا جس میں میری کوشش کو کوئی دخل نہ تھا.بلکہ سارے ہی سامان اس کے لئے خود اللہ تعالیٰ نے غیب سے مہیا کئے تھے.اور جس نیت سے میں نے یہ کام کیا.اس کے مقابلہ میں ہزار والدین اس کام سے روکنے والے بھی قربان کرتا تو مجھ پر الزام نہ تھا.البتہ میں نے والدین سے حسن سلوک اور خدمت کے ذریعہ ان اثرات کو مٹانے کی کوشش کی اور با وجود اتنے بھاری اختلاف اور اتنے شدید صدمہ کے والدین بعد میں مجھ سے خوش ہو کر راضی بقضا ہو گئے تھے.اور ا کثر میرے پاس آتے اور مہینوں خوشی خوشی ٹھہرتے تھے.میں قادیان پہنچا اور اس طرح پھر ایک مرتبہ مجھے میرا رب کریم میرے آقا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں لے آیا.حضور نے فرمایا تھا کہ ”ہمارا ہے تو آ جائے گا“.میں کمہاروں بقیہ حاشیہ: - اس ناکامی سے بہت افسردہ ہوئے.پھر کسی گھر یلو ضرورت کے لئے ایک بڑی بوڑھی رشتہ دار کو لانے کے لئے بھائی جی کو بھیجا گیا.آپ وہاں سے سیالکوٹ اور اس سے اگلے روز قادیان پہنچ گئے.ے رمئی کے بعد یہ سب کچھ کم سے کم دس پندرہ دن میں وقوع پذیر ہوا ہو تب بھی بھائی جی ۱۷ یا ۲۲ رمئی سے قبل قادیان نہیں پہنچے بہر حال اس قدر ثابت ہو گیا کہ یکم مئی کو آپ مالیر کوٹلہ میں نہیں تھے کیونکہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کی شدید علالت کی خبر کے بعد پھر کوئی اطلاع نہ آنے کے باعث یکم مئی کو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے خط لکھ کر نواب محمد علی خان صاحب سے استفسار کیا ہے.( خط مندرجہ جلد ۲ صفحہ ۱۰۱،۱۰۲) سومعلوم یہ ہوتا ہے کہ متن ہذا میں آپ کا بیان کہ آخر جولائی یا آغاز اگست میں آپ واپس پہنچے یہی درست ہے گویا واپس پہنچنے سے قبل حضرت مولوی نور الدین صاحب مالیر کوٹلہ جاچکے تھے اور بعد میں حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب بھی چونکہ آپ زیادہ مانوس بھائی جی سے تھے.ان کو قادیان میں نہ پا کر آپ اداس ہوئے اور اجازت منگوا کر آپ بھی مالیر کوٹلہ چلے گئے.

Page 88

۷۳ کے محلہ کے غربی جانب سڑک پر ہی یکہ سے کود پڑا.اور جلد جلد قدم اٹھاتے ہوئے مہمان خانے سے متصل موڑ پر پہنچا تھا کہ میرے بعض پرانے دوستوں اور بزرگوں نے مجھے دیکھ لیا.وفور محبت میں گلے لگایا اور لمبی جدائی کے صدموں اور مفارقت کے داغوں کو طرفین نے اپنی آنکھوں کے پانی سے دھویا.مرحبا اور جزاک اللہ کی دعائیں.شاباش اور مبارکباد کی صدائیں کچھ اس طرح فضا میں گونجنے لگیں کہ آن کی آن میں سارا ڈیرہ میرے گرد جمع ہو گیا اور ایک دوسرے سے بڑھ کر یوں اظہار محبت واخوت کرنے اور خوشی و ہمدردی بتانے لگے کہ حقیقی بھائی بہنوں میں بھی شاذ ہی ایسا نظارہ دیکھنے میں آتا ہو.اور ہر ایک نے مجھے گلے لگایا.حضرت مولانا نورالدین کو آپ کے مطب میں میرے آ جانے کی کسی نے اطلاع پہنچا دی تھی.میرے سلام کے جواب میں سروقد کھڑے ہو گئے اور نہایت شفقت سے گلے لگا کر دعائیں دیں اور محبت سے اپنے پاس بیٹھا لیا.کسی گہرے خیال اور پرانی بات کے تصور میں حضور سمیت ساری مجلس پر ایک سکتہ کا عالم تھا اور ابھی کوئی بات شروع نہ ہونے پائی تھی کہ مسجد مبارک کی بلندی سے الله اکبر اللہ اکبر کی پر جلال ندا نے اس خموشی اور سکوت کو تو ڑا اور مجلس نماز کے لئے برخاست ہوگئی.میں جلد جلد وضو کر کے مسجد مبارک میں پہنچا.ظہر کی نماز کی سنتیں ادا کیں.اتنے میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب تشریف لے آئے.میں نے سلام کیا.بہت محبت سے ملے.اور مجھے دیکھ کر اپنی عادت کے مطابق بہت ہی خوشی کا اظہار فرمایا اور کچھ ایسے رنگ میں میرے واپس آ جانے کے عمل کی تعریف فرمائی کہ اس کا ذکر کرنے سے بھی شرماتا ہوں.میرے حالات پوچھ ہی رہے تھے کہ خدا کے برگزیدہ مسیح موعود جرى الله في حلل الانبیاء بیت الفکر سے مسجد مبارک میں تشریف فرما ہوئے.میں جوش نیازمندی اور محبت وعقیدت میں آگے بڑھا.مصافحہ کیا ، ہاتھوں کو چوما اور قدموں میں گرا.حضور نے دست شفقت سے نوازا اور تلطف سے اٹھایا اور فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ آ گئے بہت اچھا ہوا.آپ کے والد صاحب نے وعدہ کا پاس نہ کیا اور آپ کو روک کر تکلیف میں ڈالا.ہمیں بہت فکر تھی مگر شکر ہے کہ آپ کو اللہ نے ثابت قدم رکھا اور کامیاب فرمایا.مومن قول کا پکا اور وفادار ہوتا ہے.نماز با جماعت شروع ہو گئی.اور حضور نماز کے بعد اندر تشریف لے گئے.پھر اسی روز یا دوسرے دن وہ کاغذ معاہدہ جو حضور نے میرے والد صاحب سے لکھوا کر مجھے ان کے ساتھ چلے جانے کا حکم دیا تھا اور حضور نے اسے محفوظ رکھا ہوا تھا نکال کر مجھے بھجوایا.جس کی غرض ظاہر ہے کہ میری تربیت فرمانا اور میرے ایمان کو زیادہ مضبوط بنانا تھی.

Page 89

۷۴ -1 -۲ حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے خاکسار مولف کو لکھوایا تھا کہ : نو ماہ کے بعد واپسی پر مجھے عبد العزیز صاحب تو مسلم سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے اس غیوبت کے دوران خواب دیکھا تھا کہ میں یعنی عبد الرحمن ( قادیانی ) آگے آگے اور میرے پیچھے میاں عبدالرحیم صاحب ہیں یعنی حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی.اور یہ خواب سنا کر حضور نے یہ تعبیر بیان فرمائی کہ میاں عبد الرحمن انشاء اللہ واپس آ جائیں گے.اسی طرح میری اس غیر حاضری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ میں عبدالرحمن قادیانی قادیان پہنچ گیا ہوں.مگر میرا لباس سیاہ ہے.حضور نے تعبیر میں فرمایا کہ انشاء اللہ میاں عبد الرحمن واپس آجائیں گے اور فرمایا کہ سیاہ لباس کی تعبیر انشا اللہ ان کے حق میں خوشکن ہوگی.والد کی قادیان میں خفیہ آکر بھائی جی کو پکڑ لے جانے میں ناکامی میں اس پیاری بستی میں خوش خوش رہنے لگا.کئی دن بلکہ اکثر حصہ راتوں کا آپ بیتی سنانے میں گذرا.پھر حالات معمول پر آ گئے.اور میرا دل بزرگوں اور احباب کے محبت بھرے سلوک اور تعلقات کے باعث مطمئن تھا.مگر مجھے والد صاحب کی طبیعت اور خاندانی حالات کے مدنظر خدشہ تھا کہ وہ پہلے سے زیادہ غضب ناک ہو کر میرا تعاقب کریں گے اور ہم سب زیادہ محتاط رہنے لگے.چند روز انتظار کے بعد گھر میں گھبراہٹ ہوئی اور موضع ظفر وال سے بھی ان کو جوابا معلوم ہو گیا کہ میں وہاں نہیں پہنچا.ادھر قادیان کے غیر مسلموں نے جو ہمیشہ اسی تاک میں رہتے تھے کہ کاری ضرب لگائیں جس سے سلسلہ احمدیہ پاش پاش ہو جائے.پہلی بار بھی والد صاحب کی امداد اور حوصلہ افزائی کی تھی.اب مجھے واپس آیا دیکھ کر ان کے سینوں پر کیونکر سانپ لوٹتے ہوں گے.انہوں نے والد صاحب کو اطلاع دی اور ان کو غیرت دلائی اور بہت کچھ سخت ست کہا.والد صاحب جس امر کو پہلے برادری سے چھپاتے تھے اب اسے علی الاعلان سنا دینے پر مجبور ہوئے.چنانچہ اکابر نے امداد کا وعدہ کیا اور قادیان کے ان خاص لوگوں سے مشورہ لینے اور ان کو امداد کے لئے تیار کرنے کے لئے والد صاحب کو قادیان بھیجا.قادیان کے ان لوگوں نے امکان بھر امداد کرنے کا وعدہ کیا اور ایسے مشورے دیئے جن سے والد صاحب کا میابی کو یقینی سمجھتے ہوئے خوش وخرم واپس گئے اور میری تعزیر کے واسطے جو کچھ انہوں نے سوچنا شروع کیا ان کا ذکر کبھی گھر میں بے ساختہ ہوا.تو والدہ صاحبہ مارے مامتا کے تڑپ اٹھیں.اور ایسے ارادوں سے باز رکھنے کی مقدور بھر کوشش کرتیں لیکن

Page 90

۷۵ والد صاحب ننگ و ناموس کے خیال سے اپنے لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنچانے پر اصرار کرتے.ایک روز شیخ عبدالعزیز صاحب نو مسلم نے مجھ سے اصرار کیا کہ چلو آج بڑی مسجد میں چل کر قرآن شریف پڑھیں.میں چونکہ ان کے ساتھ ہی رہتا سہتا تھا.ان کے تقاضا کو رد نہ کر سکا اور ان کے ساتھ مسجد اقصیٰ کو اپنا قرآن شریف لے کر چلا گیا.اور محراب کے قریب بیٹھ کر سر سے پگڑی اتاری اور اس پر قرآن شریف رکھ کر اپنی منزل کی جگہ کو تلاش کر ہی رہا تھا کہ اچانک میری نظر باہر صحن کی طرف اٹھی.کیا دیکھتا ہوں کہ میرے ایک چچا بسا کھا سنگھ یا بساکھی رام سامنے کھڑے جلدی جلدی جوتا اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں.جن کو دیکھتے ہی میرا ماتھا ٹھنکا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے میں نے فورا قرآن شریف کو بند کیا.پگڑی سر پر رکھی اور چچا صاحب کی طرف بڑھا.اتنے میں وہ بھی جو تا کھول کر صحن میں داخل ہو چکے تھے.وسط صحن تک بڑھ کر سلام کیا.انہوں نے چھاتی سے لگا کر پیار کیا اور جب انہوں نے مجھے چھاتی سے جدا کیا.میں جلد جلد مسجد کے صحن سے باہر ہو گیا.تا کہ ان سے بچ نکلوں.انہوں نے بھی جلدی تو بہت کی مگر جوتا پہنے میں لمحہ بھر دیر ہوئی.میں مسجد اقصیٰ کے دروازے کی طرف لپکا.جہاں کیا دیکھتا ہوں کہ شیروں کی مانند تین سفید پوش دراز قد مسلمان جوانمرد کو چہ میں کھڑے ہیں ان کو میں نے پہچانا اور سیڑھیوں سے اتر کر ان میں سے ایک کے ساتھ مصافحہ کیا.مگر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے محسوس کیا کہ جس شخص کو میں نے مسلمان سمجھ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ دیا تھا اس کی طرف سے مصافحہ کے جواب میں ایک سخت گرفت نمودار ہوئی جس کے ساتھ ہی مجھ پر اس سازش کا انکشاف ہوگیا.کیونکہ پاس ہی چوک میں ایک یکہ کھڑا دیکھ لیا.اس پر میں نے اس زور سے جھٹکا مارا کہ اس بھاری بھر کم جوان سورما کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی.میرا ہاتھ چھٹ گیا اور میں وہاں سے بے تحاشہ اپنے ڈیرے کی طرف دوڑنے لگا.شان ایز دی کہ میرے چچا صاحب میرے پیچھے تھے اور تین نوجوانوں نے میرا راستہ یوں روک رکھا تھا کہ ایک چوک کی طرف دوسرا ہمارے ڈیرہ کو آنے والی گلی میں اور تیسر ابالکل میرے سامنے تھا گویا میں چاروں طرف سے ایسا گھرا ہوا تھا کہ بچ نکلنا ناممکن تھا.مگر قربان جاؤں خدائے بلند و برتر پر کہ اس نے ایسے نازک مرحلہ پر غیب سے میری مدد فرمائی اور دشمن کے نرغہ سے خارق عادت رنگ میں مجھے رہائی بخشی ور نہ ان کے ارادے ظاہر تھے.یکہ تیار کھڑا تھا.پکڑنے اور اٹھا کر یکہ سے باندھ دینے کے لئے کافی سے زیادہ انتظام تھا.بازار پر دشمن کا قبضہ تھا اور حالات و اسباب کے لحاظ سے حقیقتا دشمن بالکل مکمل ساز وسامان سے آراستہ اور میں کمزور، بالکل یکہ و تنہا ، بے یار و مددگار تھا حتی کہ میری فریاد تک میرے

Page 91

۷۶ ہمدردوں تک پہنچانے والا بھی کوئی نہ تھا.مگر اس موقعہ پر جو کچھ ظاہر ہوا وہ نہایت درجہ محیر العقول تھا.نہ جانے مجھ میں اتنی قوت کہاں سے آ گئی کہ دشمن کا مکر اور گرفت میرے مقابلہ میں کمزور دو بیچ ہوگئی.اور وہ سبھی ایسے مرعوب اور ست ہو گئے کہ میں علی رغم انف ان کے ہاتھوں سے نکل گیا.اور وہ کچھ نہ کر سکے اور دوڑا اور خوب دوڑ ا.وہ بھی میرے پیچھے بھاگے اور خوب بھاگے.میرے کان آشنا ہیں کہ جب میں ڈپٹی شنکر داس صاحب کی بیٹھک کے باہر سے بھاگ نکلا اور میرے پیچھے تین چار بھاگنے والوں کی دبر دبڑ کی آواز نے گلی میں ایک شور بپا کر دیا تو اس گھر کے مکینوں نے جو موجودہ دفاتر صدرانجمن احمد یہ ملحقہ مسجد اقصیٰ والے مکان کے اس وقت کے مالک وساکنین تھے کھڑکیوں سے سر نکالے اور اس بھا گڑ کو دیکھ کر خوب ہی مذاق اڑایا.میری اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور میں ان کے ہاتھ نہ آیا.اور جب مسجد مبارک کی کوچہ بندی کے قریب پہنچا تو چا صاحب بزرگوار نے میرا نام لے کر پکارا.اور فرمایا کہ ” بات تو سن لو.“ میں نے دوڑتے ہی دوڑتے جواب میں عرض کیا.کہ چا ابا! چند قدم اور آگے آجائیں.آپ جو کچھ فرمائیں گے میں سننے کو حاضر ہوں کیونکہ اس جگہ سے آگے ہماری اپنی آبادی تھی.مگر چچا صاحب محترم نے اس وقت آگے بڑھنا مناسب نہ سمجھا اور وہیں سے بے نیل و مرام بصد حسرت واپس لوٹ گئے.شیخ عبدالعزیز صاحب میرے یوں اچانک مسجد اقصیٰ سے نکل آنے کی وجہ سے پریشان تھے اور گو میں نے چچا صاحب محترم کو پہلی نظر دیکھتے ہی ان کو کہا تھا کہ ” بھائی جی ! جلدی چلو یہاں کچھ خطرہ ہے.مگر وہ بات نہ سمجھ سکے.اور مسجد کے باہر کے واقعات کو سن کر اور بھی حیران ہوئے اور چند منٹ بعد میرے پاس آ کر سارا ماجرا سنا.اور بہت ہی تعجب کیا اور معذرت کی.ظہر کی نماز کے بعد غالبا میرے چا صاحب محترم میرے چھوٹے بھائی عزیز بابوا مرنا تھ ” کو لے کر بابوامر ناتھ صاحب حضرت اقدس کے زمانہ میں بھائی جی کے پاس قادیان گئے تھے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور یہاں کتابت سیکھی تھی.اقارب نے یہ دیکھ کر کہ دوسرا بھائی بھی ہاتھ سے جا رہا ہے بابوجی کو قادیان سے بلا لیا.دو سال ہوئے وہ جالندھر میں فوت ہو گئے.وہ روز نامہ پرتاپ“ جالندھر کے کاتب تھے اور مالکان اخبار اور عملہ میں بہت قابل عزت سمجھے جاتے تھے.مکتوبات اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ ۶۲ پر درج ہے کہ وہ ابتداء میں قادیان میں رہے.افسوس والدہ کی دلجوئی کی خاطر دوبارہ قبول اسلام سے وہ رکے رہے اور بالآخر ہمیشہ کے لئے محروم رہ گئے.تقسیم ملک کے بعد جالندھر میں اکثر ہماری ملاقات ان سے ہوتی رہی ہے.

Page 92

LL آئے.جسے وہ محض اس خیال سے ہمراہ لائے ہوئے تھے کہ اگر اور کوئی حربہ کارگر نہ ہوا تو اس ذریعہ سے مطلب براری کی کوشش کر سکیں.کیونکہ مجھے عزیز سے بہت محبت تھی.اور عزیز بھی چونکہ میری گودیوں کا پلا تھا اس کو مجھ سے بے حد انس تھا.عزیز میرے پاس آتے ہی زار و قطار رونے لگا.اور اس کی بلبلا ہٹ اور چیخ و پکار سے فطرتا میرا دل بھی بھر آیا.مگر میں نے دل کو ضبط کیا ، اپنے حواس کو سنبھالا اور دشمن کی اس چال کے شر سے بچنے کے لئے خدا سے دعا مانگی اور اللہ کا فضل تھا مگر میرے رفقاء کو اندیشہ ہوا کہ مبادا میں اس چال سے متاثر ہو کر ان کی طرف جھک جاؤں.سو انہوں نے میرے گرد بار بار چکر لگا کر ایسی آیات ، اشعار و اقوال با آواز بلند پڑھنے شروع کئے جن میں ایسے فتنہ کے مقابلہ کا ذکر اور اس کے بچنے کی تاکید و تدبیر کا ذکر تھا.تھوڑی دیر میں عزیز کی طبیعت سنبھل گئی اور میں نے اسے بہلا لیا اور وہ خوش وخرم ہو کر مجھ سے بے تکلف ہو گیا جسے دیکھ کر چا صاحب کے دل میں کوئی اور خیال آنے لگا جس کے مدنظر باوجود میرے اصرار کے انہوں نے عزیز کو میرے پاس زیادہ دیر ٹھہرنے کی اجازت نہ دی اور اسے لے کر چلے گئے.مرز انظام الدین صاحب کے ذریعہ کوشش ناکام چا صاحب پھرا کیلے ملے تاکہ میں عزیز کو ملنے کی درخواست کروں اور وہ مجھے اپنے ڈیرے میں چلنے کے لئے کہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو اطمینان و سکینت بخش دی تھی.سو میری بے رخی دیکھ کر وہ مایوس ہو گئے اور مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں چلے گئے.چونکہ دونوں رسالدار میجر رہے تھے اس لئے مرزا نظام الدین صاحب بہت اخلاق سے پیش آئے اور نہ معلوم کس کس رنگ میں باتیں چا صاحب نے کیں کہ وہ متاثر ہو گئے اور مجھے بلوا کے بہت سفارش کی کہ ان کے ساتھ چلا جاؤں اور اب کے کوئی تکلیف ہوئی تو وہ ذمہ دار ہیں.مگر میری طرف سے کو را جواب پا کر مرزا صاحب نے چچا صاحب کو صبح کے واقعہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ آپ نے مفسد لوگوں کے کہنے میں آ کر سخت غلطی کی.اب کوئی کوشش کارگر نہ ہوگی.اگر آپ میرے پاس چلے آتے تو میں شاید اس طرح بھی امداد کر سکتا کہ بھائی صاحب یعنی مسیح موعود علیہ السلام سے کہہ سن کر لڑکے کو آپ کے ساتھ بھجوا دیا اور اس طرح شاید طرفین کے تعلقات اچھے ہو سکتے.بعد میں معلوم ہوا کہ چا صاحب قادیان میں دو دن تک صلاح و مشورہ میں مصروف رہے.اور کئی قسم

Page 93

ZA کے منصوبے ہوتے رہے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں نا کام کر کے مجھے اپنی حفاظت میں رکھا.ورنہ ان کا حملہ اپنی شدت اور تنظیم کے لحاظ سے اتنا سخت اور اتنی گہری سازش کا نتیجہ تھا کہ ان کو نا کامی کا وہم تک نہ تھا.ریٹائرڈ رسالدار ہونے کی وجہ سے تدبیر اور تجربہ کی پختگی بھی تھی اور اسی زعم میں وہ گھر سے بہت بڑا بول بول کر نکلے تھے.اور اپنے ساتھی مسلمان چوہدریوں کی ہمت اور حسن تدبیر پر بھی ان کو بڑا ناز تھا.اور قادیان کے لوگوں کی بھی امدا د اور وعدوں نے گویا کامیابی کو بالکل سامنے لاکھڑا کیا تھا.چچا صاحب نا کام ہوکر والد صاحب کے پاس نہیں گئے.بلکہ سید ھے اپنے گھر چلے گئے اور ان کے ساتھی مسلمانوں سے والد صاحب کو حالات کا علم ہوا.اس دفعہ کی ساری تدبیر دراصل ہماری برادری کی سب سے پہلی مد تھی.ان حالات کا علم ہو کرا قارب نے رنگارنگ کے حیلے سوچنے شروع کئے.کسی نے نرمی سے کسی نے جھوٹے مقدمات سے، کسی نے سسرال کو اکسا کر قانونی چارہ جوئی کرانے کے ذریعہ حملہ کرنے کی تجویز کی اور جوں جوں ان لوگوں کو ناکامی ہوئی.توں توں وہ گھناؤنی سازشوں اور ناجائز وسائل کی طرف جھکتے گئے.اور ننگ وناموس کی بربادی کے خیال سے جوش انتقام میں بڑھتے گئے.لیکن حسب فرمان الہی کہ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَنِ كَانَ ضَعِيفًا - ان کے سارے منصوبے ناکام ہو کر ان کے اموال کے ضیاع اور دلوں کے حسد کا موجب بن گئے.اقارب کی ایک اور کوشش ناکام متاع اسلام کو چھیننے کی خاطر دوسرا حملہ اقارب میں سے چوہدری نتھو رام زمیندار موضع جاپو وال متصل گورداسپور کے ذریعہ کیا گیا.جو اپنی شیریں کلامی نرم طبیعت اور پر حکمت خصلت کے باعث برادری میں مسلم تھے.اور خیالات کی پختگی اور مذہبی معلومات کی وسعت کے لحاظ سے بہت ہوشیار تھے.چنانچہ وہ رخصت حاصل کر کے قادیان پہنچے اور میری طبیعت کا مطالعہ کر کے دو دن نہایت محبت کے رنگ میں میرے ساتھ گفتگو میں مصروف رہے.اول ان کی توجہ اس امر پر مبذول رہی کہ مجھے اسلامی احکام یاد کرا کے والدین واقارب کے حقوق کی ادائیگی وغیرہ اخلاق کی پابندی کرنے کی تاکید کریں اور میرے جذبات کو ابھار کر مجھ سے صرف یہ مطالبہ کرتے کہ جس صداقت کو تم نے قبول کر لیا ہے بیشک اسی پر قائم رہو.لیکن خونی تعلقات کو قطع نہ کرو اور والدین کی اطاعت کر کے ان کو خوش کرو.ورنہ تمہارا اسلام بھی قبول نہیں ہوگا.میرے دوست اور بزرگ پوری نگرانی کرتے تھے اور مناسب جواب سے میری راہنمائی کرتے

Page 94

۷۹ اور دراصل اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے بغیر ان کے اس پوشیدہ جال سے بیچ نکلنا مشکل تھا.والد صاحب کا معاہدہ میرے پاس موجود تھا ان کی خلاف معاہدہ کا رروائی چوہدری صاحب کی ساری دلیلوں کے لئے عصائے موسوی کا حکم رکھتی تھی.اس طریق کو نا کام ہوتے دیکھ کر اب انہوں نے مصلحت آمیز لباس اتار کے اپنا باطن ظاہر کیا اور بحث و مباحثہ کا رنگ اختیار کر لیا.اور عیسائی اور آریہ معاندین کے بودے ہتھیاروں سے مجھ پر حملہ آور ہوئے.عبداللہ آتھم کی پیشگوئی اور لیکھرام کے مباہلہ کو بار بار پیش کر کے غالب آنے کی کوشش کی لیکن میں حضرت اقدس کی پر نور تصنیفات کے مطالعہ کے باعث ان کو دندان شکن جواب دیتا جس سے چوہدری صاحب کو اپنی کم علمی اور مغلوبیت کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہ رہا.اور آخر فیصلہ لیکھرام والی پیشگوئی پر منحصر ٹھہرا.جس کے پورے ہونے کا ابھی انتظار تھا.بالآخر انہوں نے اپنا آخری اور اوچھا ہتھیار نکالا اور میری غیرت کو چیلنج کیا.جذبات کو اپیل کی.اور تانبے ، پیتل اور کانسی کے برتنوں مٹی کے لوٹے پھوٹے اور کنالیوں کے طعن دینے شروع کئے.کہیں مسلمانوں کی موجودہ بد عملی ، خستہ حالی اور افلاس وغربت کے تذکرے اور ہند واقوام کی بڑائی اور مالی برتری کے افسانے سنا سنا کر مجھے جوش دلانے کی کوشش کی اور کبھی خاندانی شوکت وسطوت اور بڑے بوڑھوں کے کارنامے سنا سنا کر شرم دلانے کی راہ اختیار کی اور انجام کار جب دیکھا کہ ان کے سارے حیلے بے اثر اور سارے حربے بے کا رر ہے تو یہ کہتے ہوئے مجھ سے رخصت ہو گئے کہ ٹیاں یا ہیں گل نوں ای آندیاں ہیں.یعنی مسلمانوں نے جو سبز باغ تمہیں دکھلا کر ورغلایا ہے چند روز میں ان کی حقیقت تم پر کھل جائے گی.تب تمہاری آنکھیں کھلیں گی ابھی چونکہ نئے نئے اس جال میں پھنسے ہو.آؤ بھگت ہو رہی ہے زیادہ عرصہ نہ گزرے گا کہ یہ نشہ اتر جائے گا اور تم سمجھو گے کہ کسی خیر خواہ کی نصیحت کو کس طرح رد کیا اور ٹھکرایا تھا دیکھو پھر کہتا ہوں کہ ڈلیاں بیراں دا اجے وی کچھ نہیں گیا.‘مان لو.بھلا ہوگا.ورنہ پچھتاؤ گے.میرے مکرم ایسے ہی الفاظ کہتے ہوئے مجھ سے جدا ہونے کو کھڑے ہو گئے.اگر چہ میرا دل نرم تھا اور ان کے ادب کا بھی مجھے پاس تھا مگر ان کے آخری حملہ کو بے جواب چھوڑنے کو میں نے بے غیرتی اور دون ہمتی یقین کرتے ہوئے خاموش رہنا برداشت نہ کیا.اور جاتے جاتے مخاطب کر کے بصد ادب عرض کر ہی دیا کہ اگر یہ دل صرف اور صرف خدا کے لئے آپ لوگوں سے جدا ہوا ہے تو یقینا وہ ان بازوؤں کو نہ ٹوٹنے

Page 95

۸۰ دے گا بلکہ خود غیب سے ہمیشہ میری دستگیری و امداد فرمائے گا اور میں اس یقین سے پُر ہوں کہ وہ ذات والا صفات کبھی بھی مجھے ایسے دعوے کرنے اور بڑے بول بولنے والوں کا محتاج نہ ہونے دے گی.“ میں نے یہ الفاظ چلتے چلتے بہت ادب سے ان کے گوش گزار کئے جس کے بعد وہ اپنے گاؤں کو چلے گئے اور مجھے اللہ کریم نے اپنے فضل بے پایاں سے اس مرحلہ پر بھی ثبات ونشاط بخش کر نوازا.اور دارالامان ہی میں جگہ عطا فرمائے رکھی.فالحمد للہ.آپ کی اہلیہ محترمہ بیان فرماتی ہیں کہ تقسیم ملک کے بعد بچوں کو اپنے وطن میں جدی اراضی اور مکانات دیے جانے کا حکم ہوا.حضرت بھائی جی سے بچوں نے کہا کہ آپ بھی وہاں تشریف لے چلیں.آپ نے فرمایا کہ قریبا نصف صدی قبل چوہدری نتھو رام صاحب نے کہا تھا کہ ٹوٹے ہوئے باز و گلے کو آتے ہیں.گو حالات وہ نہیں رہے لیکن میری غیرت برداشت نہیں کرتی کہ میں وہاں جاؤں گو بالاخر اس کے سوا چارہ اور ٹھ کا نہ نہیں رہا اور اس طرح ان کی بات ظاہر پوری ہو.اس پر بچوں نے بھی وہاں جانا پسند نہیں کیا.بھائی جی نے مزید بتایا کہ چوہدری صاحب سے پھر بھی ملاقات ان کے گاؤں اور گورداسپور میں ہوتی رہی.مگرلیکھرام والی پیشگوئی کے ناقابل انکار واقعہ نے ان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ پھر انہوں نے کبھی بھی مجھ سے مذہبی معاملہ میں گفتگو کرنے کی جرات نہ کی اور صداقت وحق کے سامنے یوں گردن ڈال دی کہ گویا تسلیم کے مقام پر کھڑے ہیں اور یہ بھی ان کی شرافت تھی.بعد ازاں مجھے مرعوب کرنے کی غرض سے کئی قسم کی خبریں مجھے پہنچائی جاتیں.چنانچہ والدین اور رشتہ دار میرے سسرال کو میرے خلاف مقدمات دائر کرانے کے لئے اکسایا کرتے.ان پر زور بھی ڈالا.مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے ایسی نجاست پر منہ مارنے سے عذر کر دیا کہ پہلے ہی 66 نہ معلوم کس پاپ کی سزا ہمیں بھگتنا پڑی ہے اور اپر ادھ ( ظلم ) کر کے ہمارا کہاں ٹھکا نہ ہو گا.“ مگر میرے والد صاحب اور بعض عیار رشتہ داروں کو نہ معلوم کتنی جلن لی تھی کہ ان کے غضب کی آگ بجھنے میں ہی نہ آتی تھی.اور وہ میرے در پے آزار ہی چلے جارہے تھے.سمن آنے پر حضرت اقدس کا مشورہ نہ معلوم کتنے منصوبوں اور سازشوں میں ان کو نا کامی و نامرادی کا منہ دیکھنا نصیب ہوا.اور آتش انتقام کہاں کہاں ان کو لئے پھرتی رہی.کس قدر مال و منال ایسی حیلہ سازیوں کی انہوں نے نذرکیا.

Page 96

ΔΙ اور کس کس کی در پردہ ناصیہ فرسائی کرتے پھرے.جس کے نتیجہ میں ایک روز اچانک ایک چپڑاسی میرے نام کا ایک سمن لئے میری تلاش میں پھرا کیا.اور آخر میرے تک پہنچا.اس نے مجھے سمن دکھا کر دستخط کرنے کا تقاضا کیا.میرے لئے عمر بھر میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ سرکاری کا غذ میرے نام آیا.کچھ گھبراہٹ تھی.کچھ عیار مذکورئیے کا تقاضا.آؤ دیکھا نہ تاؤ قلم دوات چپڑاسی ساتھ رکھا کرتے تھے نکال سامنے کی.اور میں نے اطلاع پائی لکھ دیا.بلکہ الفاظ بھی وہی لکھے جو چپڑاسی نے لکھائے.مجھے یہ بھی تو علم نہ تھا کہ سمن کا منی مجھے لینا چاہئے.جو کچھ ہوا اس میں پہلی بعض افواہوں اور اخبار کا بھی اثر و دخل تھا.سو جبھی تو صرف یہ کہ سیدھا اپنے آقائے نامدار سید نا حضرت اقدس مسیح موعود مهدی معہود کے در پر جا دستک دی.دریافت پر اپنا نام عرض کیا.اور حضور پر نور بہ نفس نفیس دروازہ پر تشریف لے آئے.نہایت ہی لطف و کرم سے بات پوچھی جو میں نے لرزتے کا نپتے عالم پریشانی میں ہی عرض کر دی.حضور نے توجہ سے سن کر نہایت ہی محبت آمیز لہجہ میں فرمایا.(ایک لمحہ بھر کے وقفہ کے بعد ) میاں عبدالرحمن آپ نے سمن کو پڑھا بھی تھا کہ کس مقدمہ میں حاضری مطلوب ہے اور کس تاریخ کو پیشی ہوگی ؟“ حضور نہیں ! میں نے عرض کیا.اور حضور مجھے تو سمن اور مقدمہ کے نام سے ہی ایسی گھبراہٹ ہوئی نہ کچھ سمجھا نہ بوجھا اور جو کچھ اس نے کہا میں نے لکھ کر دے دیا.فرمایا: ”میاں عبدالرحمن غلطی ہوئی ہے.جلد جاؤ اور اس کو تلاش کر کے تاریخ حاضری تو معلوم کرلو.“ بہت اچھا حضور ! عرض کر کے میں گلی بازاروں میں اس چپڑاسی کی تلاش کرنے لگا.اور آخر کم و بیش دو گھنٹہ کی تلاش اور سرگردانی کے بعد وہ مجھے مل گیا اور جس طرح حضور نے ہدایت فرمائی تھی نرمی اور حکمت سے میں نے سمن کاشنی مانگا اور حاضری کی تاریخ پوچھی.مگر میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب مجھے تاریخ حاضری کا علم ہوا.میری جان میں جان آگئی.کیونکہ جس تاریخ کے لئے مجھ پر سمن کی تعمیل کرائی گئی تھی وہ تاریخ دودن ہوئے گذر بھی چکی تھی.میں نے جھٹ اپنے دستخطوں کے نیچے وصولی سمن کی تاریخ درج کر دی.اور خود حضرت اقدس کے حضور حاضر ہو کر معاملہ عرض کیا.جس پر حضور تبسم فرماتے ” اچھا ہوا اور بہت اچھا ہوا.فرماتے ہوئے اندر تشریف لے گئے اور اسی طرح محض حضور کی توجہ کے طفیل سے

Page 97

وہی بات ہوئی کہ ع ۸۲ رسیده بود بلائے ولے بخیر گذشت پھر نہ کبھی کوئی سمن آیا نہ مجھے کسی نے طلب کیا نہ معلوم کیا تھا اور وہ معاملہ کدھر چلا گیا.والدین کو ہمیشہ کے لئے مایوس کرنا ان آئے دن کے جھگڑوں سے تنگ آ کر اور والدین کے مال کے ضیاع کا خیال کر کے اور پھر اس خیال سے بھی کہ ضرور مجھ میں کوئی نہ کوئی نقص ہے ورنہ دشمن کو مجھ سے ہمیشہ کے لئے مایوس ہو جانا چاہئے تھا اس لئے مجھے اس قضیہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دینا چاہئے.میں نے دعائیں کر کے ایک مفصل خط والدہ محترمہ کی خدمت میں لکھا جس میں یہ تحریر کیا کہ آپ خود گواہ ہیں کہ میرے اسلام لانے کی کیا وجوہات ہیں.کوئی دباؤ یا طمع یا بداخلاقی اس کی محرک نہیں بلکہ اسلام کی خوبیوں نے میرا دل فتح کر لیا ہے.اس لئے آپ زیادہ سے زیادہ میرے جسم پر قابو پاسکتے ہیں سابقہ تجربہ ہی اس امر کے سمجھنے کے لئے کافی تھا کہ آپ ہزاروں روپیہ کئی سالوں میں خرچ کرنے کے باوجود مجھ پر قابو نہیں پا سکے.اس لئے آپ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر راضی ہو رہئے.بالفرض آپ لوگ مجھے پکڑ لے جانے میں کامیاب بھی ہو جائیں اور میرے جسم کے ٹکڑے کر کے ان کا قیمہ بھی بنا دیں تب بھی ہر ذرہ سے لا اله الا الله محمد رسول الله کی صدا بلند ہوگی.اسلام میرے رگ و پے میں رچ چکا ہے.جسم مغلوب ہو سکتے ہیں مگر قلوب نہیں.خدا تعالیٰ کی قدرت کہ جب یہ خط پہنچا والد صاحب گھر پر نہ تھے اور والدہ صاحبہ نے کسی مسلمان سے خط پڑھوایا جس نے خط سنانے کا حق بھی ادا کر دیا.اور خط ایسا موثر ثابت ہوا کہ وہ زار و قطار رونے لگیں.اور اسی جگہ عہد کر لیا کہ آئندہ اس طریق کو قطعا ترک کردیں گے اور مجھے بہت معقول اور تسلی بخش جواب بھی دیا کہ اچھا بیٹا جیتے رہو.تمہاری طرف سے ٹھنڈی ہوا آتی رہے جو ہونا تھا سو ہو چکا.اب پر میشر سے تو لڑا نہیں جا سکتا.سو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ قضیہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا.آپ کی شدید علالت پر والدہ صاحبہ کی قادیان میں آمد بعد ازاں میں بیمار ہو گیا اور باوجود با قاعدہ علاج معالجہ کے جو حضرت حکیم الامت جیسے حاذق اور

Page 98

۸۳ بے نظیر ہمدرد خلائق شاہی طبیب پوری توجہ اور باقاعدگی سے کرتے رہے.بیماری بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھی کہ تپ دق بن گئی اور پہلا درجہ طے کر کے دوسرے بلکہ تیسرے درجہ تک جا پہنچی.اسی پر بس نہیں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حضرت مولانا نورالدین جیسا با کمال اور کبھی نہ تھکنے اور مایوس ہونے والا انسان بھی گھبرا گیا.اور ایک روز تو بر ملا کھلی مجلس میں میری حالت کے متعلق ایسے الفاظ حضور کی زبان سے نکل گئے کہ مجھ سے تعلق رکھنے والے بعض دوست اسی مجلس میں چشم پر آب ہو گئے جن میں سے حضرت قاضی سید امیرحسین صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ اور ایک میرے عزیز دوست شیخ احمد دین صاحب ڈنگوی جو بعد میں میرے نسبتی بھائی ہوئے، خاص طور سے مجھے یاد ہیں.وہ جب سے قادیان آئے میرے ساتھ رہتے اور مجھے سے محبت رکھتے تھے اور اس بیماری میں انہوں نے میری ایسی بے لاگ اور مخلصانہ خدمت کی جس کی یاد میرے دل سے نہ محو ہو سکتی ہے اور نہ میں ان کے اس احسان و خدمت کا کوئی صلہ دے سکتا ہوں اللہ تعالیٰ ہی ان کو جزائے خیر دے اور ان کو دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کرے.آمین.آپ کی اہلیہ محترمہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے بھائی سے حضرت قادیانی صاحب کی علالت کے حالات سنے تھے.بھائی جی نے مزید بتایا کہ بعض اوقات میں دیکھتا اور محسوس کرتا کہ وہ علیحدگی میں مجھ سے آنکھ بچا کر رو بھی لیا کرتے یا بعض دوسرے دوستوں سے جو میری عیادت کو تشریف لاتے کچھ ایسے رنگ کی باتیں کیا کرتے جس سے مجھے ان باتوں کے معلوم کرنے کی ٹوہ ہوئی اور آخر ایک روز بالکل تنہائی میں میں نے ان سے بات پوچھی جسے گوانہوں نے آج بھی ہمیشہ کی طرح مجھ سے چھپانے ہی کی کوشش کی مگر آخر میرے اصرار پر مجھے بتا دینے سے قبل خود زار و قطار رونے لگ گئے.اور بمشکل کئی وقفوں کے بعد سارا قصہ میری سمجھ میں آسکا.جس کے سننے سے گوطبعا مجھ پر گہرا اثر ہوامگر میں نے فورا عزیز کو سارا ماجرا خدا کے برگزیدہ مسیح کے حضور عرض کرنے کی تاکید کے ساتھ درخواست دعا کی غرض سے بھیج دیا.حضور نے بات سن کر افسوس کیا اور فرمایا.دو ہمیں پہلے اطلاع کیوں نہیں دی.اور ساتھ ہی دوائی بتا کر تسلی دی اور فرمایا کہ ”آپ فورا اس دوائی کو شروع کر دیں اور حالت کی اطلاع جلد جلد دیتے رہیں ہم دعا بھی کریں گے.“ وہ دوائی کیا تھی؟ صبر.فرمایا.صبر اور صبر کا مادہ ایک ہی ہے جس طرح یہ صبر نہایت تلخ چیز ہے اسی طرح صبر بھی تلخ اور مشکل ہوتا آپ کی علالت کے قریباً ایک سال بعد ہماری شادی ہوئی تھی.شادی ۱۹۰۱ء کے آخر یا ۱۹۰۲ء کے آغاز میں ہوئی تھی.

Page 99

۸۴ ہے.مگر نتیجہ دونوں کا خدا کے فضل سے مفید با برکت اور انجام بخیر ہے اس دوائی کو مکھن میں یا بالائی میں لپیٹ کر صبح و شام کھایا کریں اور ساتھ ہی مقدار بھی ایک خوراک کی الگ فرما کر بتا دی.میرا حال یہ تھا کہ میرا مکان بھی اور کھانے پینے کے برتن بھی الگ کر دیئے گئے.اور لوگوں کو میرے پاس زیادہ ٹھہر نے اور باتیں کرنے سے روک دیا گیا.حتی کہ خود شیخ احمد دین صاحب کو بھی یہ تاکید تھی کہ مجبوری اور ضرورت کے سوا زیادہ میرے قریب نہ رہیں.اور اس طرح مرض اور بیماری کے علاوہ ان کے حالات سے جو اثر میری طبیعت پر پڑنے لگا ، وہ بہت ہی تکلیف دہ ، دل شکن اور روح فرسا تھا.اولا تو مجھے علیحدہ مکان کے حصول ہی میں مشکلات کا سامنا ہوا.اور کوئی مکان اپنے حلقہ میں میسر نہ آیا.دوسرے محلوں میں جا کر رہنا زندہ درگور ہونا اور موت کے خیال سے بھی بھاری تھا.مگر ہزاروں ہزار رحمتیں نازل ہوں محترمہ خاتون فضل النساء بیگم صاحبہ مرحومہ کی روح پر جو مرزا محمد احسن بیگ صاحب کی والدہ اور رشتہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود کے خاندان اور مرز انظام الدین صاحب کی ہمشیرہ تھیں موصوفہ کے مجھ پر اور بھی بہت سے احسانات ہیں انہوں نے مجھ غریب ویکس کے حال پر رحم کھا کر اپنے اثر ورسوخ سے خان بہا در حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے مکان میں سے ایک کوٹھڑی خام دلا کر اس فکر اور تشویش سے نجات دلائی جو اس وقت موجودہ صادق لائبریری کے صحن والی جگہ کے جنوب مغربی کو نہ میں واقع تھی.(بعد بعد میں تقسیم ملک سے قبل ہی صادق لائبریری یہاں سے منتقل ہو گئی تھی.مولف ) اور اس کے غرب میں کو چہ اور کوچہ کی دوسری جانب سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا موجودہ باروچی خانہ والا کمرہ ہے.جنوبی جانب حضرت نواب صاحب قبلہ کے موجودہ بلند و بالا مکان کی حد واقع تھی.اور یہ حصے اس زمانہ میں بالکل ایک ویران چوگان کی شکل میں کھنڈر اور غیر آباد پڑے تھے.اس دوائی سے شاید ایک ہفتہ میں میری طبیعت سنبھلنے گی اور ہوتے ہوتے حضور کی تو جہات کریمانہ کے طفیل اللہ کریم نے ایسا فضل کیا کہ ایک روز جب کہ صبح حضور سیر کے واسطے جانے لگے تو میں نے دل کو مضبوط کیا اور لاٹھی کے سہارے لرزتا اور کانپتا حضور کی زیارت کے لئے بستر مرگ ہی سے گویا اٹھ کر احمد یہ چوک کی طرف بڑھا.میں موجودہ صادق لائبریری کے ریڈنگ ہال والی جگہ سے کو چہ میں پہنچا تو حضور پر نور اس وقت حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کے مطب کے پاس تھے.میں چند ہی قدم بڑھا تھا اتنے میں حضور مکرمی مفتی فضل الرحمن صاحب کے مطب کے پاس آ پہنچے.میں نے سلام عرض کیا حضور نے آواز پہچان کر جواب دیا اور ایک نظر شفقت مجھ پر ڈالی اور فرمایا.”میاں عبد الرحمن کیا

Page 100

۸۵ حال ہے؟“ جواب میں بصد ادب میں نے عرض کیا اور حضور اتنے میں میرے قریب آ کر کھڑے ہو گئے حضور موت کے بعد ایک نئی زندگی ملتی معلوم ہوتی ہے اس پر حضور نے فرمایا.ٹھیک ہے کفر کا گوشت پوست تھا وہ جا تا رہا.اب سب خیر ہے.اب اسلامی گوشت پیدا ہوگا.اور مسکراتے ہوئے معہ خدام سیر کو تشریف لے گئے.یہ کوئی لکی چھپی بات نہ تھی کہ سید نا حضرت مولانا مولوی نورالدین کو اللہ تعالیٰ نے جہاں دینی علوم میں ید طولیٰ عطا فرمایا تھا اور وہ زمانہ میں ایک عالم بے بدل مانے ہوئے تھے وہاں علم طب میں بھی ان کو کمال حاصل تھا اور ان کی تشخیص و علاج کا زمانہ بھر میں سکہ بیٹھا ہوا تھا اور چونکہ وہ نہایت درجہ بے نفس ، بے ریا اور بچے خیر خواہ خلق واقع ہوئے تھے.اکثر خدا تعالیٰ خود الہام سے بھی مددفرماتا تھا.یہی وجوہ تھے کہ ملک کے کناروں سے لوگ بیماروں خصوصا لا علاج بیماروں کو لے کر حضرت کی خدمت میں قادیان آیا کرتے تھے اور اکثر ان میں سے معجزانہ رنگ میں شفا یاب ہو کر واپس ہوا کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب چونکہ روحانیت کے لحاظ سے بھی کمال کو پہنچے ہوئے تھے کسی مرض کو لا علاج کے نام سے یاد کرنا نا پسند فرماتے اور خطر ناک سے خطرناک مریضوں کے علاج سے بھی اکتایا نہ کرتے اور دو او د عا دونوں رنگ میں پوری ہمدردی اور کوشش و توجہ سے بلا امتیاز غریب وامیر کا علاج فرماتے.حتی کے بعض لوگوں پر تو ان کی غربت و بیکسی کے باعث مفت دوائی کے علاوہ کھانے اور دیگر ضروریات کے واسطے بھی اپنی جیب سے خرچ کیا کرتے اور علاج معالجہ میں کبھی تھکا نہ کرتے تھے.ظاہر ہے کہ ایسے انسان کی زبان سے اگر کسی مریض کے متعلق ایسے الفاظ نکلیں جن کو سننے والے اس مریض پر چار آنسو بھی بہا دیں نہ معمولی سمجھ یا کمزور دل گردہ کے انسان بلکہ حضرت قاضی امیرحسین صاحب رضی اللہ عنہ جیسا جری اور باحوصلہ انسان بھی ان الفاظ سے متاثر اور ان کے نتیجہ اور مفہوم سے مریض کے انجام کا خیال کر کے رودے تو اس مریض کی حالت اور مرض کی شدت وغلبہ کا اندازہ لگا نا آسان ہو جاتا ہے.در حقیقت صحت کی نسبت موت زیادہ قریب نظر آ رہی تھی.میں چار پائی سے اٹھ کر رفع حاجت تو درکنار، پہلو بدلنے سے بھی عاجز ہو چکا تھا.اور پل پل اور گھڑی گھڑی کی خبریں منگائی جانے لگیں.اور ایک کی بجائے دو تین آدمی میری خبر گیری کے واسطے مقرر کئے گئے اور میرے انجام کے قرب کا عام چرچا ہو گیا اور کان کسی خبر کی انتظار میں رہنے لگے تھے.ان حالات میں میرا صحت پا جانا یقینا یقیناً موت کے منہ بلکہ قبر سے واپس آجانا خدا کے خاص فضل اور

Page 101

۸۶ دست قدرت کے بغیر نہ ہو سکتا تھا.اور حضرت اقدس کی تو جہات کریمانہ اور دم مسیحائی کا یہ ایسا ہی نتیجہ تھا جیسا کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے صاحبزادہ عبد الرحیم خان صاحب خالد اور حضرت مولوی شیر علی صاحب اور میاں عبدالکریم صاحب حیدر آبادی کی صحت یابی ان سب کی زندگیاں بھی حضور کے انفاس قدسیہ معجز نما تو جہات کی رہین منت تھیں.حضور کی خدمت میں روزانہ رپورٹ عرض کی جاتی رہی.اور حضور کی زبان مبارک سے جو الفاظ نکلے وہ پورے ہوئے.اور صحت بڑھنے لگی.حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب کا علاج جاری رکھو.احتیاط اور پر ہیز لازمی ہے ورنہ مرض کے عود کر آنے کا اندیشہ ہوتا ہے.حضرت مولوی صاحب کے مکان میں منتقل ہونا ایک روز میں گرتا پڑتا مطب میں پہنچا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں پہنچا تا زبانی ساری کیفیت عرض کر کے نسخہ تبدیل کر اسکوں.نیز ایک خیال جو ایک دو روز سے بڑے زور کے ساتھ میرے دل و دماغ پر مستولی تھا عرض کر کے مفید ہدایت پاسکوں.یہ آیت وَ سَكَنْتُمْ فِي مَسْكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ - کے مدنظر جہاں میں ان دنوں رہتا ہوں مجھے خوف لاحق ہے.حضرت مولوی صاحب نے یہ بات سن کر پیار سے ہاتھ بڑھایا اور میری پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے مجھے اس جگہ کو چھوڑ کر اپنے مکان کے ایک حصہ میں چلے آنے کو فرمایا.اور ساتھ ہی کہا کہ وہ جگہ بھی چھٹ جائے گی اور مجھے عیادت کا بھی موقعہ ملتار ہے گا.واقعی یہ نکتہ معرفت اور مقام خوف ہے.چنانچہ میں حضرت مولوی صاحب کے مکان میں آ گیا.جہاں مجھے زیادہ آرام کے ساتھ علاج کی بھی زیادہ سہولت میسر آ گئی.کیونکہ حضرت مولوی صاحب قریبا روزانہ ہی مجھے دیکھ لیا کرتے اور مناسب ہدایات دے دیا کرتے تھے.والدہ محترمہ کی آمد والدہ محترمہ کی خدمت میں اپنے قبول اسلام کے بواعث کے متعلق جو خط لکھا تھا اور جس سے وہ بہت متاثر ہوئی تھیں.تو انہوں نے مجھے لکھا تھا کہ اپنی خیریت کی اطلاع دیتا رہوں.چنانچہ ایسی خط وکتابت جاری ہونے کے بعد اس بیماری میں کئی ماہ تک خط نہ پہنچنے سے ان کو گھبراہٹ ہوئی اور انہوں نے جلد جلد

Page 102

AL دو تین خط لکھے.جن کے جواب میں میں نے کسی سے بیماری کا حال لکھوا دیا.اس پر وہ تن تنہا بٹالہ پہنچیں اور راستہ میں دریافت کرنے پر یکہ بان یا کسی سواری نے میری نازک حالت کا ذکر کر دیا.جس پر والدہ نے وہیں سے رونا شروع کر دیا اور سارے راستہ روتی ہی چلی آئیں.پوچھتی ہوئی گلی کوچوں سے گذر کر احمد یہ چوک میں پہنچیں جہاں سے کسی بچہ سے پوچھا اور نہ معلوم اس نے میری پہلی قیام گاہ خالی دیکھ کر کیا کہہ دیا کہ ان کا رونا آہ وفغاں اور بین کا رنگ اختیار کر گیا اور ان کے رونے چلانے پر کئی لوگ اور لڑ کے جمع ہو کر گریہ و بکا کی وجہ دریافت کرنے لگے.اور آخر کسی نے ان کو میرے زندہ سلامت ہونے کی خبر سنا کر تسلی دلائی اور میرے پاس پہنچا دیا.وہ آئیں اور مجھ سے لپٹ کر دل کا سارا ہی بخار انہوں نے نکال لیا.جس کے نتیجہ میں فطرتا مجھ پر رقت طاری ہوئی اور کچھ دیر آنسوؤں کی چھما چھم بارش جاری رہی.والدہ محترمہ پر نیک اثر اور باجازت سوئے وطن سفر والدہ محترمہ ہفتہ عشرہ میرے پاس رہیں ان کے قیام وطعام کا انتظام ان کے حسب دلخواہ علیحدہ کر دیا گیا.اس عرصہ میں انہوں نے خاص احتیاط محنت اور توجہ سے میرا علاج کروایا.اور خوراک وغیرہ بھی حسب ہدایت حضرت مولوی صاحب خود تیار کر کے مجھے کھلاتی پلاتی رہیں.اور اس طرح ان کی وجہ سے میری طبیعت جلد جلد سنبھلنے لگی.وہ خاندان حضرت مسیح موعود کی بیگمات سے بھی ملیں.اور دوسری احمدی خواتین سے بھی خلا ملا رہا.جس کے نتیجے میں وہ مانوس ہو کر خوش اور مطمئن رہیں.اور میری بیماری اور بیماری میں خبر گیری اور ہمدردی کے واقعات سن سن کر تو شکر گزاری کا جذبہ ان میں پیدا ہو گیا.اور وہ سیدنا حضرت اقدس اور حضور کے خاندان کے ساتھ ہی حضرت مولوی صاحب اور ان کے اہل بیت کی شکر گزار اور احسان مند ہوئیں.اس خلا ملا سے جہاں ان کے کئی قسم کے خوف اور غلط فہمیاں اطمینان سے بدل گئیں وہاں میرے مربیوں اور محسنوں نے والدہ کی طبیعت اور دلی کیفیت کا مطالعہ کر لیا.اور اس طرح تعلقات باہم خوشگوار ہو گئے.بھائی جی کا بیان ہے کہ حضرت اماں جان کے اخلاق عالیہ کا والدہ صاحبہ پر بہت ہی مفید اثر پڑا.لیکن یہ ملاقات کسی بعد کے موقعہ کی معلوم ہوتی ہے.آپ لکھتے ہیں:.”میری حقیقی والدہ اپنی مامتا سے مجبور ہو کر ایک سے زیادہ بار مجھے واپس لے جانے کے لئے

Page 103

۸۸ قادیان آ ئیں.لیکن مجھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کی غلامی اتنی محبوب اور دل پسند تھی کہ میں نے اس کو ہزار آزادیوں اور آراموں پر ترجیح دی اور جب ایک دفعہ میرے والد نے بڑی آہ وزاری اور الحاج سے مجھے واپسی کے لئے مجبور کرنا چاہا.تو میں ( نے ) اپنی والدہ کو یہ کہا کہ وہ ذرا اس مقدس اور پر شفقت ہستی کو تو ملے جس کی غلامی پر مومنوں کی تمام جماعت فخر کرتی ہے.چنانچہ میری والدہ میری درخواست و اصرار پر سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا سے ملاقی ہوئیں اور تھوڑے سے وقت کی ملاقات سے ہی حضرت ممدوحہ کے اخلاق کریمانہ والہ وشیدا ہو کر واپس لوٹیں.اور اس بات کا اظہار کرتی گئیں کہ اگر میرا بچہ مجھے چھوڑ کر ایک ایسی مشفقہ اور کریمہ ومحسنہ کی غلامی میں آ گیا ہے تو یہ میرے لئے اور میرے خاندان کے لئے باعث تشویش امر نہیں.بھائی جی بیان کرتے ہیں کہ ”میری حالت بہتر اور روبہ صحت دیکھ کر والدہ نے اس خواہش کا اظہار فرمانا شروع کیا کہ میں چند روز ان کے ہمرکاب وطن چلا جاؤں.اور چونکہ میں بھی اب ان کی طبیعت کا خوب اچھی طرح مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اب وہ بالکل بدل چکی ہیں اور حالات وہ نہیں رہے جن کا مجھے اندیشہ تھا.میں نے ان کی خوشی کی خاطر ساتھ وطن چلنے پر آمادگی کا اظہار کیا.مگر ساتھ ہی عرض کیا کہ میں اپنی مرضی کا مالک نہیں.چنانچہ انہوں نے میری تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے حضرت اقدس کے حضور حاضر ہوکر اپنی خواہش کا اظہار کیا.حضور پر نور نے حضرت مولوی صاحب سے مشورہ کے بعد جواب دینے کو فرمایا اور آخر میرے ساتھ شیخ احمد دین صاحب ڈنگوی کو بھیج کر مجھے والدہ سمیت لائکپور پہنچا دیا.اخراجات سفر حضور نے اپنی جیب سے مرحمت فرمائے.اور تاکید فرما دی کہ والدہ کی خوشی اور رضامندی کا خیال رکھنا اور الیسا اچھا نمونہ دکھانا کہ ان لوگوں کے دل بھی نیکی کی طرف مائل ہوں.کوئی بات مرضی کے خلاف بھی ہو تو ان کی خوشی کو مقدم کرنا.اور تکلیف اٹھا کر بھی ان کی دلجوئی کرنا.آپ کی جدائی کی وجہ سے واقعی ان کو بہت صدمہ ہے اور وہ قابل رحم ہیں.پس ان کی خدمت اور فرمانبرداری کر کے ان کی تکلیف کا ازالہ کرنے کی کوشش ضرور کرنا اور جب وہ خوشی سے اجازت دیں واپس آ جانا.“ اس طرح میری والدہ مجھے اپنے ساتھ لے جا کر ایسی خوش تھیں جس کی کوئی انتہا نہیں.سارے رنج وغم جو اس عرصہ میں ان کو پہنچے تھے آج کا فور ہو گئے اور وہ روتی ہوئی قادیان آئی تھیں مگر خدا نے ہنسی خوشی انہیں واپس جانا نصیب کیا.والد صاحب بھی پہلی مرتبہ مجھے لے کر گئے تھے اور آج والدہ محترمہ بھی مجھے

Page 104

۸۹ لے جارہی ہیں اور وہ بھی حضور کی اجازت ہی سے لے جارہی ہیں.مگر ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق اور بعد المشرقین تھا.شیخ احمد دین صاحب سامان پہنچا کر اپنے وطن چلے گئے اور میں اپنے بھائی بہنوں سمیت اسی چک متصل لائلپور میں رہنے لگا جہاں میرے وہ رسالدار چچا صاحب رہتے تھے جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے.والدہ نے مجھے اپنے گھر میں رکھا اور ہمت مردانہ سے رکھا.نہ برادری کا خوف کیا نہ کسی طعن کی پرواہ کی.نہ صرف یہی کہ نہ خود ہی مجھے کبھی میرے مذہب کے خلاف کچھ کہا یا میرے کسی عمل کو نا پسند کیا بلکہ کسی رشتہ دار یا پڑوسی تک کو بھی ایسا کرنے کی اجازت نہ دی.طبیعت میری ابھی کمزور تھی.مناسب علاج اور غذا سے نہایت ہی شفقت اور محبت سے میری پرورش کی.اور بڑے اہتمام سے میری ضروریات کا خیال رکھا.نماز میں گھر میں پڑھا کرتا تھا.نہ کبھی برا منایا نہ پیشانی پر بل آنے دیا.بلکہ جگہ وغیرہ کا خود انتظام فرما دیتیں.اور مناسب امداد خوشی سے فرماتیں.اسی سفر میں عید الاضحی آئی تو قربانی کا انتظام بھی کرادیا اور خوشی سے کھایا کھلایا.اور چونکہ اس زمانہ میں ابھی ہماری نمازیں غیر احمدیوں سے جدا نہ ہوئی تھیں گاؤں کی مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے کے لئے خوشی سے اجازت دی.اس طرح کم و بیش ڈیڑھ ماہ میں ان کے پاس رہا.والدہ محترمہ اور میرے بھائی بہنوں نے مجھ سے نہایت عزت اور محبت کا سلوک کیا اور کبھی بھی کوئی ایسی بات نہ ہونے دی کہ میں اسے نا پسند کرتا.والدین سے حسن سلوک والد صاحب بزرگوار ان ایام میں وہاں نہ تھے بلکہ میر پور چومکھ علاقہ ریاست جموں میں بسلسلہ ملا زمت مقیم تھے اور ان کو بھی میری یوں گھر آنے کی اطلاع ہو چکی تھی مگر انہوں نے بھی میری اس آمد کو برا نہ منایا بلکہ خوشنودی اور پسندیدگی کی نظر ہی سے دیکھا اور اس طرح مسلمان رہتے ہوئے میرے تعلقات اپنے والدین سے نیاز مندانہ اور والدین کے مشفقانہ ہو گئے.اور میرے آقا نامدار کی زبان مبارک پر جو یہ مقولہ الاستقامة فوق الكرامة کبھی کبھی دوران تقریر میں جاری ہونے کی عزت پایا کرتا تھا، اپنی تاثیر اور پھل کے لحاظ سے صادق ہو کر نمودار ہو گیا.فالحمد للہ.

Page 105

اسی طرح ایک لمبے عرصہ کی کشمکش اور شیطانی نزع سے طرفین کو نجات ملی.اور حضور پر نور کی تو جہات کریمانہ سے بچھڑے ہوئے مل بیٹھے اور وہ خلیج جو میرے اور میرے والدین اور رشتہ داروں میں دن بدن بڑھتی اور حائل ہوتی جارہی تھی.حضور کے انفاس قدسیہ کے طفیل پھر سے پاٹ کر یک جان کر دی گئی اور اس طرح کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے شیطان مایوس ہوا اور رحمت الہی کے فرشتے غالب آ گئے.الحمد لله ثم الحمد لله اس دفعہ والدہ محترمہ نے سنایا کہ انہوں نے تعویذ اور گنڈے کرنے میں بھی کوئی کسر نہ رکھی.ملاں ملانے اور سادھو جوگی جو بھی آیا اس کے سامنے اپنا رونا رویا.اور پھر جو کچھ بھی کسی نے بتایا مہیا کرنے کی کوشش کی.نہ خرچ سے دریغ کیا نہ دوڑ دھوپ میں کوئی دقیقہ اٹھا رکھا.سفید بے داغ مرغ پر وظیفہ پڑھنے والوں کے لئے سفید مرغوں کی تلاش کی.الٹے چرخ چلایا کئے اور الٹی چکیاں پھرایا کیں.بعض کو تو مہینوں بٹھا بٹھا کر چلے کٹائے مگر بنا کچھ بھی نہ.آخر تھک ہار کر یہ یقین کرنا پڑا کہ یہ باتیں کبھی بے اثر اور محض کھانے کے حیلے تھے.ورنہ ہماری مشکل کیوں حل نہ ہوئی.“ راقم عرض کرتا ہے کہ: قریباً ڈیڑھ ماہ کے بعد والدہ محترمہ کی اجازت سے اور ان کی خوشنودی حاصل کر کے بھائی جی قادیان واپس آگئے اور اس طرح والدین بہن بھائیوں اور آپ کے لئے آمد و رفت کا راستہ کھل گیا.اور باہمی تعلقات ایسے خوشگوار ہو گئے کہ وہ بھی آپ کے پاس آکر مہینوں ٹھہرتے.بھائی جی کا کہنا ہے کہ: واپسی پر بعض دوستوں سے معلوم ہوا کہ عید الاضحیہ کے قریب سیدنا حضرت اقدس نے تکیہ حسینا پر قادیان میں دوبارہ آمد سے یہاں تک کے حالات الحکم ۱۴۷ جون ۱۹۳۸ء سے ماخوذ ہیں اور حضرت بھائی جی کو سُنا کر تصحیح وغیرہ کرائی ہے.بھائی جی فرماتے ہیں کہ قادیان کے میراثی خاندان کی قبریں اس جگہ تھیں.ان کا کوئی جدحسین نامی تھا.اس کے نام پر تکیہ حسینا نام پڑ گیا تھا.جس وقت حضرت اقدس کے عہد میں وہاں عیدیں وغیرہ ہوتی تھیں اس وقت یہ تکیہ اجڑ چکا تھا اور میدان تھا اور اس کے شمال مغربی کونے پر ایک بڑ کا درخت تھا جس کے نیچے اور قریب عیدین اور نماز جنازہ ادا ہوتی تھی.

Page 106

۹۱ جہاں اس زمانہ میں عموماً عیدین اور نماز جنازہ ہوا کرتی تھی.کوئی جنازہ پڑھایا جس کو آپ کا جنازہ سمجھ کر پڑھا اور دعائیں کی تھیں.میں چونکہ بیماری کی حالت ہی میں قادیان سے گیا تھا بعض کو یہی خیال گذرا کہ میں فوت ہو گیا ہوں.مگر اللہ کریم اپنے فضل سے زندہ سلامت حضور کی خدمت میں لے آیا.پھر حضور نے بہت ذرہ نوازی فرمائی حتی کے آخری سفر یعنی سفر لاہور میں بھی ہمرکابی کی توفیق بخشی اور توفیق رفیق فرمائی کہ جی کھول کر خدمت کر لوں.اور اس کے فضلوں سے جھولی بھر لوں.چنانچہ میرے آقا نے بھی مجھے نوازا اور اتنا نوازا کہ ہر موئے بدن ان احسانات کے بار تلے جھکا اور سر تسلیم خم کئے ہے.ان الطاف کریمانہ اور نوازشات شاہانہ کی یاد دل کے ہر گوشہ میں تازہ اور جوش عقیدت و نیازمندی میں وفا کی تمنا سے لبریز ، خون کو پانی کی طرح بہا دینے پر کمر بستہ اور تیار رکھتا ہوں.ع این است کام دل اگر آید میسرم بقیہ حاشیہ: - ( طبع اول جلد ہذا سے دو سال پہلے بڑ کا درخت صدر انجمن احمدیہ نے فروخت کر دیا تھا.یاد گار کے طور پر صرف اس کا تنا پندرہ بیس فٹ رہنے دیا گیا تھا لیکن چند سال میں وہ انتہائی بوسیدہ ہو کر گر گیا.بھائی جی کی اہلیہ محترمہ کا بیان ہے کہ شادی ہو کر جب میں پہلی بار قادیان آئی تو اس تکیہ کے مشرقی طرف بمقابل احاطہ مکان حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب، چند قبریں نظر آتی تھیں.(از مؤلف ) تقسیم ملک سے کافی عرصہ پہلے تکیہ حسینا والے مقام پر صدرانجمن احمدیہ نے چاردیواری بنا کر اس کے جنوب مغرب میں کچھ کمرے تعمیر کئے تھے اور پہلے یہ احاطہ بطور زنانہ جلسہ گاہ کے استعمال ہوتا تھا.بعد ازاں جلسہ سالانہ کے ایام میں یہ احاطہ و غیرہ بطور لنگر خانہ اندرون شہر کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور اس کے شمالی حصہ میں تنور لگائے جاتے تھے.تقسیم ملک کے بعد ۱۹۴۸ء سے مردانہ جلسہ گاہ اسی جگہ ہوتا رہا اور زنانہ جلسہ جنوب کی طرف سڑک کے پار احاطہ میں منعقد ہوتا رہا جو مکان حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب کا شمالی حصہ ہے.طبع دوم جلد ہذا سے چند سال پہلے مغرب کی طرف حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب کا مکان ہے.اس خالی جگہ پر اب چند سال پہلے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا دفتر تعمیر کیا جاچکا ہے۱۹۹۰ء کا جلسہ سالانہ خواتین بڑے باغ میں اور مردانہ جلسہ سالانہ محلہ ناصر آباد کے مشرق کی طرف کے ملحقہ میدان میں منعقد ہوا اور پرانی جلسہ گاہ تکیہ حسینا والے مقام پر تنور لگائے گئے.

Page 107

۹۲ حضرت اقدس کی نصیحت بھائی جی کو ان کے والد صاحب کے بارے میں والدین کی دلجوئی کے بارے بھائی جی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نصیحت فرماتے تھے.چنانچہ جب ۷/ نومبر ۱۹۰۲ء کو بروز جمعہ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں حضور نے بٹالہ تشریف لے جانا تھا.اس بارے میں مرقوم ہے کہ بجے صبح کے قریب حضرت اقدس بالا خانہ سے تشریف لائے.نواب محمد علی خاں صاحب کی رتھ تیار تھی.تمام مہاجرین اور مدرسہ کے طلباء رتھ کے اردگرد جمع تھے.سوار ہونے کے لئے عرض کیا گیا.فرمایا کہ تھوڑی دور تک ہم پیدل چلتے ہیں کیونکہ یہ تمام لوگ بھی ساتھ ہیں.تمام صاحبزادگان جو کہ اپنے ابا کے ہمراہ جانے کے بہت مشتاق تھے سوار ہو گئے.اور حضرت احباب کے ساتھ پا پیادہ قصبہ کے باہر نکل کر تھوڑی دور تک گئے تو درخواست کی گئی کہ وقت تھوڑا ہے.مہمان اور احمدی احباب اور طلباء نے مصافحہ کیا اور پھر آپ سوار ہو گئے.ایڈیٹر بدر لکھتے ہیں: جن چند ایک احباب کو حضرت اقدس نے ساتھ چلنے کی اجازت فرمائی تھی.وہ تین یکوں میں سوار ہوئے.لیکن بعض نے اسی وقت رخصت حاصل کی.اور بوجہ نہ میسر ہونے یکہ کے پا پیادہ حضرت کی رتھ کے ساتھ ہم رکاب ہوئے.ان میں سے ایک شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم قادیانی مدرس مدرسه تعلیم الاسلام قادیان تھے کہ جنہوں نے میری ( یعنی ایڈیٹر کی.ناقل ) درخواست پر آج کے دن کی ڈائری مرتب کر کے مجھے عنایت کی ہے.بہت شوق ولولہ سے انہوں نے حضرت اقدس کی ہر ایک حرکت اور سکون پر محبت سے بھرے ہوئے الفاظ میں ریمارک کئے ہیں......آپ نے ایک اور طالبعلم کو جو پا پیادہ ہمراہ تھا فرمایا کہ تم کو تو یونہی تکلیف ہوئی.تھوڑی دیر شاید ٹھہرنا ہوگا.سفر کی کوفت میں تم خواہ مخواہ ہمارے شریک ہو گئے.پھر ایسی ہی دلجوئی حضرت اقدس نے میاں عبد الرحمن صاحب کی کی.انہوں نے جواب دیا کہ حضور اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعا اور برکت سے میں اچھی طرح چلنے کا عادی ہوں.حضور کے ساتھ ساتھ چلنے کی میری دلی آرزو تھی.سوخدا نے پوری کی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ مجھے بھی بہت عادت تھی مگر جب سے یہ عارضہ اور بیماریاں لاحق ہوئی ہیں.تب سے یہ امر ہی رہ گیا ہے.

Page 108

۹۳ و پھر حضرت اقدس میاں عبدالرحمن صاحب سے ان کے والد صاحب کے حالات دریافت فرماتے رہے....اور ( حضور نے ) نصیحت کی کہ ان کے حق میں دعا کیا کرو.ہر طرح سے حتی الوسع دلجوئی والدین کی کرنی چاہئے.اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھا کر اسلام کی صداقت کا قائل کرو.اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کر سکتے.بچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر ہو جاتا ہے.اور وہ ایک ممیز شخص ہوتا ہے.شاید خدا تمہارے ذریعہ سے ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈالے.اسلام والدین کی خدمت سے نہیں روکتا.دنیوی امور میں جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے.دل و جان سے ان کی خدمت بجالا ؤ.نو بجے کے قریب بٹالہ کے متصل ایک باغ میں پہنچے لوگوں کا ایک ہجوم ہو گیا.اور کچہری کا عملہ تک زیارت کے لئے آ گیا.حضرت اقدس...احباب کے حلقہ میں فرش پر تشریف فرما ہوئے.اور کھانا جو کہ ہمراہ لایا گیا تھا دستر خوان پر چنا گیا.66 " ( کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ) پھر اور لوگ ملاقات کے لئے آگئے.اور شہادت کے بارے میں کہا کہ حضور کو یونہی تکلیف ہوئی.حضرت اقدس نے فرمایا.زمین پر کچھ نہیں ہوتا جب تک آسمان پر نہ ہو.شہادت سے اظہار حق مراد ہوتا ہے.اور اگر اس سے کسی کو (غالباً فائدہ.ناقل ) پہنچے تو کیوں نہ پہنچائے.شہادت تو ایک بہانہ تھا.ورنہ اصل غرض اللہ تعالیٰ کی بعض لوگوں کو فائدہ پہنچانا تھا.سودہ پہنچ گیا.مالیر کوٹلہ میں قیام حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے عرض کرنے پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر حضرت مولوی نورالدین صاحب ۱۸۹۶ء میں مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تا کہ نواب صاحب کو قرآن مجید پڑھا ئیں.حضرت مولوی صاحب کے کئی ایک شاگرد بھی آپ کے ہمراہ وہاں رہے اور تعلیم حاصل کرتے رہے.ان میں حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب بھی تھے.بھائی عبدالرحمن صاحب والدین سے نجات حاصل کر کے قادیان آئے تھے.کمسن تھے.بھائی

Page 109

۹۴ عبدالرحیم صاحب آپ سے پدرانہ شفقت سے پیش آتے تھے اور قرآن مجید کا سبق بھی دیتے تھے.ان کے جانے سے بھائی عبدالرحمن صاحب اداس ہو گئے اور انہیں خط لکھا کہ حضرت اقدس سارا دن اندرون خانہ ہوتے ہیں.آپ کے جانے سے قرآن مجید کا سبق بھی رک گیا.بھائی عبدالرحیم صاحب نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کر کے اجازت لے کر کرا یہ بھیچ کر آپ کو منگوالیا.اس طرح کئی ماہ تک آپ کو وہاں قیام کرنے حضرت مولوی صاحب اور حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب سے فیض یاب ہونے کا موقعہ ملا.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب کی اس وقت کی شفقت کا حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کو بہت احساس تھا.چنانچہ زمانہ درویشی میں میں نے عند الملاقات بھائی جی کو بھائی عبدالرحیم صاحب سے مصافحہ کر کے بار ہا ان کے ہاتھ پر بوسہ دیتے دیکھا ہے آپ ان کی بہت تعظیم کرتے تھے.بیان حضرت بھائی صاحبان ( بحوالہ اصحاب احمد جلد دوم) کہ حصول علم کی خاطر حضرت مولانا نورالدین صاحب کے کئی شاگر د مالیر کوٹلہ آگئے تھے اور وہ قادیان کی طرح با قاعدہ حضرت مولوی صاحب کی درس و تدریس سے مستفیض ہوتے تھے.سب کے قیام و طعام کا انتظام کمال شفقت سے حضرت نواب صاحب کی طرف سے تھا.ہم سب شاگردوں کی طرح خاطر و تواضع ہوتی تھی.اور بہترین کھانے ہمارے لئے تیار ہوتے تھے.ایسی مرغن غذاؤں کے عادی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری خواہش ہوتی تھی کہ بعض اوقات دال وغیرہ ملے.اور ہم بعض دفعہ باورچیوں سے کھانا تبدیل کر لیتے تھے.لیکن حضرت نواب صاحب یہ پسند نہ کرتے تھے.کہ ان کے مہمان ان کی مہمان نوازی میں بہترین کھانے سے محروم رہیں.چنا نچہ نواب صاحب نے ایسی شدید فہمائش باورچی خانہ میں کر دی کہ ملازم باوجود ہماری منت سماجت کے ہم سے کھانا تبدیل نہیں کرتے تھے.از دواجی زندگی آپ سلسلہ کے لئے وقف ہو گئے تھے جس کا ذکر آگے آئے گا.آپ کی پہلی شادی ہندوانہ رسم کے مطابق بچپنے ہی میں ہو چکی تھی جب کہ آپ کی عمر بمشکل گیارہ بارہ سال کی تھی.اور آپ کے والدین موضع در سنگھ والا میں رہتے تھے.اور آپ دوسری تیسری جماعت میں زیر تعلیم تھے.شادی قومی رسوم و رواج کے

Page 110

۹۵ مطابق موضع و بیرم دتاں تحصیل شکر گڑھ میں ایک اچھے زمیندار اور آسودہ حال چوہدری دیوی د تیل صاحه کی دختر گیان دیوی سے ہوئی تھی.آپ کے اظہار اسلام کے بعد اور خصوصاً جب کہ آپ دوبارہ والدین کے چنگل سے نکل آنے میں کامیاب ہو گئے.آپ کے اقارب خصوصاً والدہ صاحبہ نے آپ کی بیوی کو آپ سے دور رکھنے اور الگ کرنے کی کوشش کی.اور اخراجات تک جو کہ آپ اس کے لئے گاہے گا ہے بھیجا کرتے اس کو نہ پہنچنے دیئے.بلکہ بعض عزیزوں سے معلوم ہوا کہ ان کی اطلاع تک بھی آپ کی بیوی کو نہ ہونے دی.موصوفہ ایک دو سال ہوئے جالندھر میں وفات پاگئی ہیں ان کے بطن سے صرف ایک بچی پیدا ہوئی تھی جو زندہ نہ رہی تھی.دوسری شادی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حکم اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مشورہ سے ایک راجپوت گھرانے میں محترمہ زینب بی بی صاحبہ بنت شیخ علی محمد صاحب سکنہ قصبہ ڈنگہ (ضلع گجرات) سے ۱۹۰۱ء کے اواخر یا اوائل ۱۹۰۲ء میں آپ کی شادی ہوئی اور بھائی جی کی قرابت اور اپنے حسن عقیدت کے بھائی جی کی ایک تحریر میں مرقوم ہے کہ آپ کی شادی ۱۹۰۳ء میں ہوئی اور یہ کہ آپ کے خسر صاحب اور خوش دامن صاحبہ کا خاندان ، صحابہ حضرت مسیح موعود کا ہے.جس نے ۵ ۹-۱۸۹۴ء میں حضور سے بیعت کی سعادت پائی.آپ کی اہلیہ محترمہ نے آپ کی موجودگی میں مجھ مؤلف کو بتایا کہ شادی سفر جہلم (۱۵رجنوری ۱۹۰۳ء) سے تین چار ماہ قبل ہوئی تھی اور رخصتانہ ہونے پر مجھے قادیان لایا گیا.یہ پہلی بارتھی کہ مجھے قادیان آنے کا موقع ملا.پہلے وقت کا کھانا دارا مسیح کے نچلے حصے میں سیدہ ام المؤمنین (اعلیٰ اللہ درجاتھا ) کی طرف سے کھلایا گیا تھا.(از مؤلف) تاریخ شادی کے بارے دونوں کو سہو ہوا ہے.بھائی جی کی ۱۹۰۳ء کے بارے تحریر چند سال قبل کی ہے.اس سے کم از کم تیں پینتیس سال قبل خلافت اولیٰ کے ابتدائی ایام میں مرقوم ایک خط میں بھائی جی لکھتے ہیں : ۱۹۰۲ء کے آخر میں حمل اول سے ایک لڑکی تولد ہوئی.

Page 111

۹۶ باعث سارا خاندان ۷-۱۹۰۶ء میں ہجرت کر کے قادیان چلا آیا.وقف و ہجرت آپ جو ۱۸۹۵ء میں قادیان آئے تو آپ یہیں کے ہور ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفائے کرام کے ارشادات پر ہی کہیں جانا ہوا.آپ نے مہاجرانہ زندگی بسر کی اور کسی تنگی کی پرواہ نہ کی.آپ کے وجوہ معاش کبھی بھی مستقل نہیں ہوئے.تفصیل دوسری جگہ درج کی گئی ہے.بقیہ حاشیہ:- جس سے ظاہر ہے کہ وقت شادی ۱۹۰۲ء کی سہ ماہی اوّل سے آگے نہیں جاتا.آپ کی اہلیہ محترمہ نے آپ کی موجودگی میں ذیل کا بیان لکھوایا کہ : میرے دادا میاں شاہ نواز صاحب نے جن کی سکونت قصبہ ڈنگہ میں تھی میرے والدین سمیت بذریعہ خط بیعت کی تھی.میری شادی سے ایک دو سال قبل والدہ صاحبہ نے خواب میں ایک بزرگ دیکھا جس نے ان کو انگلی سے پکڑ کے اٹھاتے ہوئے کہا کہ لنگر میں آٹا ڈالو اور نماز پڑھو.چنانچہ یہ خواب سُن کر دادا جی نے والد صاحب کو اجازت دی کہ قادیان آئیں اور آٹا پہنچائیں اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت سارے کام جو رضائے الہی کا موجب ہیں جاری کئے ہوئے ہیں اور ان میں مدد دینا موجب ثواب ہے.یہ بھی کہا کہ حضرت اقدس کی خدمت میں میرا سلام پہنچا کر عرض کرنا کہ میں بیمار ہوں.صحت ہونے پر حاضر خدمت ہوں گا لیکن دادا جی چونکہ جلد بعد وفات پاگئے اس لئے حضور کی زیارت کا موقع نہ پاسکے.دادا جی نے یہ بھی بتایا تھا کہ قادیان جانے کے لئے نارووال کی طرف سے جانا پڑے گا اور یہ کہ قادیان بوڑھاں والی یعنی بڑ کے درختوں والی کے نام سے مشہور ہے.والد صاحب آٹا لے کر روانہ ہوئے.مجھے روانگی کا نظارہ اس وقت تک یاد ہے.ہم سب فکر مند تھے کہ والد صاحب ایک لمبے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں.آپ نارووال کے راستہ پیدل، بلکہ ننگے پاؤں قادیان پہنچے.پیر کی زیارت کے لئے پیدل بلکہ ننگے پاؤن سفر کرنا ان دنوں بہت کار ثواب سمجھا جاتا تھا.جب آپ قادیان پہنچے تو حضرت اقدس کسی مقدمہ کے لئے گورداسپور گئے ہوئے تھے.والد صاحب نے بھی خواب میں حضرت اقدس کی زیارت کی تھی.حضور کو قادیان میں نہ پا کر افسردہ ہوئے.چند دن بعد حضور گورداسپور سے تشریف لے آئے اور رتھ سے اترے تو حضور کی شکل بعینہ خواب والی پا کر والد صاحب کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے ” میں نے پالیا.میں نے پالیا.لوگ حیران تھے کہ نہ معلوم اس شخص کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے.بعد نماز ظہر حضور کے

Page 112

۹۷ آپ تحریر فرماتے ہیں : سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش پر کہ لوگ خدمت اسلام کے لئے بقیہ حاشیہ مسجد مبارک میں تشریف فرما ہونے پر والد صاحب نے دادا جی کا سلام اور پیغام عرض کیا.لنگر کے لئے آٹا پیش کیا اور دستی بیعت بھی کی.ہمارے خاندان میں میرے علاوہ مندرجہ ذیل صحابہ ہیں اور ان کو بحالت ایمان حضرت اقدس کی زیارت کا موقعہ نصیب ہوا.( پہلے چھ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں اور ان کی تاریخ ہائے وفات خاکسار مؤلف نے مقبرہ کے ریکارڈ کے مطابق درج کی ہیں ): ۱- والد صاحب شیخ علی محمد صاحب ( وفات ۱۷؍ دسمبر ۱۹۱۵ء به عمر باسٹھ سال) -۲- والدہ صاحبہ اللہ جوائی صاحبہ ( وفات ۲۱ / اگست ۱۹۴۳ء بعمر نوے سال) محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو گودی کھلانے کی سعادت ان کو حاصل ہوئی تھی.-٣ چھوٹی ہمشیرہ احمد بی بی صاحبہ (وفات سے نومبر ۱۹۱۰ء بعمر پندرہ سال ) غیر شادی شده -۴- عنایت بیگم صاحبہ جو میرے بھائی شیخ احمد دین صاحب کی اہلیہ تھیں.وہ لاہور کے ایک مغل خاندان سے تھیں اور یہ رشتہ خاندان مرزا نظام الدین صاحب نے کرایا تھا.(وفات اار دسمبر ۱۹۲۸ء) -۵- میرے پھوپھا فضل الدین صاحب غیر احمدی تھے.ان کی اجازت سے ان کے بیٹے عبداللہ حضرت اقدس علیہ السلام کے عہد مبارک میں حصول علم کے لئے قادیان آگئے تھے اور پھر یہاں پر انڈے وغیرہ فروخت کرنے کی دکان کر لی تھی.( غیر شادی شده وفات ۱۶ / اکتوبر ۱۹۱۸ء) -۶- شیخ احمد دین میرے بھائی مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ ( تاریخ وفات ۳۰ ستمبر ۱۹۵۷ء ) والد صاحب نے اپنے پہلی بار قادیان آنے سے کچھ عرصہ پہلے ان کو حضرت مولوی نور الدین صاحب سے طب پڑھنے کے لئے قادیان بھیج دیا تھا لیکن بھائی کی آنکھیں کمزور تھیں.اس لئے حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ تم طب نہیں پڑھ سکتے.بھائی حضرت مولوی صاحب کے ہاں ہی ٹھہرے ہوئے تھے.حضور کے صاحبزادہ میاں عبدالحئی صاحب گود میں تھے.بھائی ان کو کھلاتے تھے.جس وقت والد صاحب پہلی بار قادیان آئے تو اس وقت بھائی قادیان میں نہیں تھے.ے رخصتا نہ ہو کر قادیان بھائی جی کے ہمراہ آنے پر میری چھوٹی ہمشیرہ کرم بی بی بھی ساتھ آئیں.سو عزیزہ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت کا موقع پایا.والدین کے ہجرت کر آنے سے پہلے عزیزہ وطن میں اندازاً پندرہ سال کی عمر میں وفات پاگئیں.ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی تھی.

Page 113

۹۸ وو وقف کریں اپنے آپ کو ( پیش کر کے ) میں نے بھی لبیک کہی اور ہمیشہ اسی خیال سے پڑا رہا.پھر خلافت ثانیہ کے قیام کے ابتدائی ایام میں امیر المومنین حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جب تحریک وقف کا اعلان فرمایا.تو اس وقت بھی میں نے دل سے لبیک کہی.گول کمرہ میں حضور پرنور نے واقفین کو بازیابی کا شرف بخش کر ہدایات دیں.اور واقفین کو قبول فرمایا.میں بھی پھر اس زمانہ سے لبیک لبیک کہتے ہوئے وقف ہوا.اور پہلے عزم ارادہ اور نیت کو اور زیادہ پختہ کر کے جب سے اب تک اسی عہد پر قائم ہوا ہوں.“ ☆366 تعمیر مکان بھائی جی نے بتایا کہ میں نے حضرت خلیفہ مسیح الاول کے مکان کے قریب اپنامکان تعمیر کرایا.لیکن فائل وصیت کی چٹھی مورخه ۸ ظهور ۱۳۱۹اهش ( مطابق ۱۸ اگست ۱۹۴۰ء میں تسلسل عبارت کے لئے پیش کر کئے“ کے الفاظ زائد کئے گئے ہیں.کیونکہ وہاں ورق دریدہ ہے.آپ اس چٹھی میں یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ میں انصار اللہ کا خادم اور وقف اوّل کے زمانہ کا واقف ہوں.چنانچہ وقف اوّل کے زمانہ کی بعض کا رروائیاں بعینہ میرے پاس محفوظ ہیں“ ( تحریر مورخہ ۳ / نومبر ۱۹۴۶ء) حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تالیف ” ذکر حبیب“ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وقف کی تحریک اکتوبر ۱۹۰۷ء میں فرمائی تھی.(صفحہ ۱۵۲) بقیہ حاشیہ :.سو اس طرح میرے خاوند.میرے بیٹے عزیز عبد القادر اور میرے سمیت ہمارے خاندان میں دس صحابہ ہیں.فالحمد اللہ علی ذالک.(از مؤلف ) بھائی جی کی موجودگی میں آپ کی اہلیہ محترمہ سے معلومات حاصل کرنے پر ذیل کے قرائن دریافت ہوئے.جن سے ان کے والد صاحب اور بھائی صاحب کی پہلی قادیان میں آمد کے سالوں کی ایک حد تک تعیین ہوتی ہے.(الف) بھائی جی کی شادی ( شادی آغاز ۱۹۰۲ء) سے ایک دو سال پہلے شیخ علی محمد صاحب قادیان آئے.گویا انداز ا۰۱-۱۹۰۲ء میں.(ب) والد صاحب سے کچھ عرصہ پہلے شیخ احمد دین صاحب قادیان آئے گویا ۱۸۹۹ ء یا ۱۹۰۰ء میں.اس وقت میاں عبدالحئی صاحب گود میں تھے اور ان کو شیخ صاحب کھلاتے تھے.( یوم ولادت میاں صاحب ۱۵ فروری ۱۸۹۹ء)

Page 114

۹۹ حضور نے مریضوں کی رہائش کے لئے آپ سے باصرار خرید لیا.اصحاب احمد جلد دوم تالیف کے دوران حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے خاکسار مولف کو سنایا چونکہ ” پیاروں کی ہر بات پیاری ہوتی ہے اس لئے اسے اصحاب احمد جلد دوم میں درج کر دیا گیا تھا کہ میں حضرت مولوی ( نورالدین ) صاحب کے گھر کے ایک حصہ میں رہتا تھا حضرت پیر منظور محمد صاحب کے مکان سے شمال مشرق کی طرف کی سڑک تک جگہ خالی تھی.ان ایام میں احباب بھرتی ڈلوا کر مکان بنا لیتے تھے.میں نے بھی ایسا ہی کیا.ایک روز میں حضرت مولوی صاحب کے پاس مطب میں بیٹھا تھا فرمانے لگے کہ یہ جگہ مجھے دیدو.مریضوں کی رہائش کے لئے درکار ہے.( یہ حضرت مولوی صاحب کے مکان کے ملحق ہے ) میں نے عرض کیا کہ جیسے آپ پسند فرمائیں.دریافت فرمانے پر کہ کتنا خرچ آیا ہے.میں نے نوے روپے گنوائے تو مجھے مطب کے مغربی دروازے سے نکل کر پچھواڑے کی طرف آنے کے لئے فرمایا اور خود مکان کے مشرق کی طرف سے آئے.اور بک ڈپو کے پچھواڑے میں کنویں کے پاس ملے اور مجھے سوروپے کا ایک نوٹ دے کر فرمایا کہ دس روپے مجھے واپس دے دینا.میں سمجھتا ہوں کہ یہ رزق غیب کی صورت ہوگی.مطب میں روپیہ رکھنے کی کوئی جگہ نہ تھی.اور اگر گھر میں کسی جگہ رکھتے تھے یا جیب میں تھے تو مجھے ایک طرف سے بھیج کر خود دوسری طرف سے آنے کی کیا ضرورت تھی.پھر بھائی جی نے ۱۹۱۱ء میں موجودہ مکان کی تعمیر شروع کی اور چونکہ اس مکان کی جائے سفید کے لئے حضرت خلیفہ اول نے نعم البدل“ کا لفظ استعمال کیا تھا اس لئے اس مکان کا نام بھی بھائی جی نے نعم البدل ہی رکھ لیا.یہ مکان سیدہ حضرت ام المومنین اعلی الله درجاتھا اور خواتیں مبارکہ کے پاک قدموں سے بار ہا مبارک ہو چکا ہے اس کی پیشانی پر ذیل کی عبارت مرقوم ہے اس میں مندرج بھائی جی کے سابق نام کے باعث یہ بحالات موجودہ تبلیغ کا رنگ پیدا ہو چکا ہے.( جس کا ہمیں علم ہوتا رہتا ہے ) ابتداء تمیر ۱۳۲۹ھ /۱۹۱۱ء توسیع بعہد خلافت ثانیه ۱۳۳۴ھ/۱۹۱۵ء بسم الله الرحمن الرحيم ماشاء الله لاقوة الا بالله ومن يها جرفى سبيل الله يجد في الارض مراغما كثيراً و سعة نعم البدل منزل ( حضرت خلیفہ المسیح اول)

Page 115

یاد جس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو ذکر جس گھر میں ہو اس کا کبھی ویران نہ ہو ( حضرت خلیفہ المسیح الثانی) عبدالرحمن قادیانی سابق ہریش چندر موہیال آف کنجر وڑ دتاں جو ۱۳۱۲ھ/۱۸۹۵ء میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر خلعت اسلام و شرف بیعت سے سرفراز ہوا.رویت نشانات کا گواہ ہونا: حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اپنی تصنیف "نزول المسیح میں ایک سو بائیس پیشگوئیاں درج کی ہیں جن کے پورا ہونے کے گواہوں کے اسماء بھی درج فرمائے ہیں چنانچہ سات ذیل کی عظیم الشان پیشگوئیوں کے گواہاں رویت میں آپ کا نام ” شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی ، یا شیخ عبدالرحمن صاحب“ مرقوم ہے: -1 پیشگوئی نمبر ۴۳ بابت ہلاکت لیکھرام.تاریخ بیان پیشگوئی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء و۲۰/فروری ۱۸۹۳ء.تاریخ ظہور پیشگوئی ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء.پانچ ہندو سکھ صاحبان سمیت بیالیس گواہان رؤیت ہیں.(صفحہ ۴ ۱۸ حاشیہ) -۲ پیشگوئی نمبر ۸۱.حضرت اقدس رقم فرماتے ہیں کہ اار اپریل ۱۹۰۰ء کو عید اضحی کی صبح کو مجھے الہام ہوا کہ کچھ عربی میں بولو.بہت سے احباب کو اس سے اطلاع دی گئی.اس سے پہلے میں نے کبھی عربی زبان میں کوئی تقریر نہیں کی تھی.لیکن اس دن میں عید کا خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ

Page 116

1+1 نے ایک بلیغ فصیح ، پر معانی کلام عربی میں میری زبان پر جاری کی.یہ کئی جز کی فی البدیہہ تقریر کتاب خطبہ الہامیہ میں درج ہے.خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی.اس کے قریبا ڈیڑھ سو آدمی گواہ ہوں گے.(حضور نے نو گواہان رؤیت کے اسماء درج فرمائے ہیں.صفحہ ۲۱۰ و حاشیہ ) حضور رقم فرماتے ہیں کہ اکتوبر ۱۸۹۷ء میں مجھے دکھایا گیا ایک گواہی کے لئے ایک انگریز حاکم کے پاس حاضر کیا گیا ہوں لیکن جیسا کہ شہادت کے لئے دستور ہے مجھے قسم نہیں دی.پھر خواب آیا کہ اس مقدمہ کا سپاہی سمن لے کر آیا ہے.یہ خواب مسجد میں عام جماعت کو سنا دی گئی.پھر سپاہی سمن لے کر آیا.ایڈیٹر اخبار ناظم الھند لاہور نے مجھے گواہ لکھوایا تھا.جس پر مولوی رحیم بخش پرائیویٹ سیکرٹری نواب بہاولپور نے لائیل کا مقدمہ ملتان میں کیا تھا.چنانچہ عدالت میں حاکم کو ایسا سہو ہو گیا کہ وہ مجھے قسم دینا بھول گیا اور اظہار ( بیان لینے ) شروع کر دیئے.(صفحہ ۲۲۱.حاشیہ میں مرقوم ہے کہ اس نشان کے گواہ ایک گروہ کثیر ہے.پانچ احباب کے اسماء حضور نے درج فرمائے ہیں.) -۴- پیشگوئی نمبر ۹۸ میں حضور بیان فرماتے ہیں کہ ”ہمارے دوست مرزا ایوب بیگ صاحب ایک مدت سے بیمار تھے.ان کی حالت بگڑ گئی.میں نے دعا کی تو خواب دیکھا کہ ایک سڑک پر جو گویا چاند کے ٹکڑوں سے بنائی گئی ہے عزیز کو ایک شخص نہایت خوش شکل لئے جارہا ہے اور وہ سڑک آسمان کی طرف جاتی ہے.تعبیر یہ تھی کہ ان کا خاتمہ بخیر ہوگا.اور وہ بہشتی ہے.اور نورانی چہرہ والا شخص ایک فرشتہ تھا.یہ خواب ان کے بھائی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو لکھ دیا تھا اور اپنی جماعت میں بھی شائع کر دیا تھا.چنا نچہ چھ ماہ بعد اس عزیز نے وفات پائی.وفات کا تار پہنچا تو تعزیتی خط لکھتے وقت الہام ہوا: مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کی راہ سے داخل ہو“ (صفحہ ۲۲۲ و حاشیہ.دس گواہان کے نام درج ہیں.) -۵ پیشگوئی نمبر ۱۰۸.حضور یہاں تحریر فرماتے ہیں کہ ہم چھوٹی مسجد ( یعنی مسجد مبارک.ناقل ) میں آمد وخرچ کا حساب کر رہے تھے کہ کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ موجودہ تحصیلدار تبدیل ہوکر دوسرا تحصیلدار آ گیا ہے.اور فتح کی بشارت ملی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.پہلا تحصیلدار یکا یک تبدیل ہو گیا.نئے تحصیلدار نے حقیقت پا کر رپورٹ کی جسے انگریز ڈپٹی کمشنر نے قبول کیا اور لکھا کہ مرزا غلام احمد صاحب کا ایک شہرت یافتہ فرقہ ہے جن کی نسبت ہم بدظنی نہیں کر سکتے.یعنی جو کچھ عذر کیا گیا ہے وہ واقعی درست

Page 117

۱۰۲ ہے.سوٹیکس معاف کر کے مسل داخل دفتر کر دی.(صفحہ ۲۲۹ و حاشیہ چھ گواہان رؤیت درج ہیں.) پیشگوئی نمبر ۱۱۰.حضور تحریر فرماتے ہیں: - ایک دفعہ ڈاکٹر نور محمد صاحب مالک کارخانہ ہمدم صحت کا لڑکا سخت بیمار ہو گیا.اس کی والدہ بہت بیتاب تھی.اس کی حالت پر رحم آیا.اور دعا کی تو الہام ہوا.اچھا ہو جائے گا.‘اسی وقت یہ الہام سب کو سنایا گیا جو پاس موجود تھے.آخر ایسا ہی ہوا کہ وہ لڑکا خدا کے فضل سے بالکل تندرست ہو گیا.“ حضور زندہ گواہان رؤیت کے بارے رقم فرماتے ہیں کہ بہت سے مرد اور عورتیں اس نشان کے گواہ ہیں.مثلاً مولوی نورالدین صاحب، مولوی شیر علی صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی و غیره (صفه ۲۳۲ و حاشیه ) -2 پیشگوئی نمبر ۱۲۰.حضور تحریر فرماتے ہیں:.ایک دفعہ مجھے الہام ہوا.رب ارنى كيف تحى الموتى رب اغفر وارحم من السماء اے میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردہ کیونکر زندہ کرتا ہے.اور آسمان سے اپنی بخشش اور رحمت نازل فرما.اس الہام میں یہ خبر دی گئی کہ کبھی ایسا موقع آنے والا ہے کہ ہمیں یہ دعا کرنی پڑے گی اور وہ قبول ہوگی.چنانچہ ایسا ہوا کہ ایک دفعہ ہمارا لڑ کا مبارک احمد الیسا سخت بیمار ہوا کہ سب نے کہا وہ مر گیا ہے.ہم اٹھے اور دعا کرتے ہوئے لڑکے پر ہاتھ پھیرتے تھے تو لڑکے کو سانس آنا شروع ہو گیا تھا.علاوہ ازیں یہ الہام اس طرح سے بھی پورا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اب تک ہمارے ہاتھ سے ہزار ہا روحانی مردہ زندہ کئے ہیں اور کر رہا ہے.“ اس نشان کے زندہ گواہان رویت میں منجملہ بہت سے مرد اور عورتوں کے بشمول حضرات مولوی نورالدین صاحب.میر ناصر نواب صاحب.مولوی عبدالکریم صاحب.منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ) میں احباب کے اسماء درج ہیں.(صفحہ ۲۳۸ و حاشیہ ) مکتوبات و تبرکات وغیره حضرت اقدس علیہ السلام کے آٹھ مکتوبات کے بارے استفسار پر آپ فرماتے ہیں : سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے خطوط و تبرکات اور عطایا میرے

Page 118

۱۰۳ پاس تھے جو افسوس ہے کہ کچھ تو میرے راجپوتانہ بھیجے جانے کے زمانہ میں جبکہ ۱۹۰۳ء کے اواخر سے دسمبر ۱۹۰۷ ء تک سید نا حضرت اقدس کے حکم سے مکر می حضرت مرزا محمد احسن بیگ صاحب کے ساتھ مجھے بھیجا گیا تھا، بعض اور سامانوں کے ساتھ ضائع ہو گئے.اور بعض بعد میں ایک چوری میں چلے گئے جو کہ حقیقتہ ایک سازش کا نتیجہ تھی جو بعض مخرجین نے کسی خاص غرض سے کی یا کرائی تھی.کیونکہ خصوصیت سے خطوط اور دستاویزات کا چن چن کر اس میں نقصان ہوا تھا.“ ( تحریر مورخہ ۳ /نومبر ۱۹۴۶ء) محترم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے ان مکتوبات کو الحکم میں درج کرتے ہوئے یہ ذکر کیا ہے.کہ دو سال پہلے بھائی جی کے ہاں چوری ہونے پر مکتوبات کا ضیاع ہوا تھا اور بھائی جی وہاں تحریر کرتے ہیں : ایک زمانہ میں مجھے مؤقر اخبار الحکم کی اسٹنٹ ایڈیٹری کی سعادت میسر تھی جس کے سلسلہ میں اکثر اوقات سید نا حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت بابرکت میں خود حاضر ہوکر یا بذریعہ تحریر حضور پرنور کے تازہ الہامات کشوف اور رویا دریافت اور صحیح کراتے رہنے کی ذیل میں اس قسم کی بیسیوں تحریر یں حضور والا شان کے دست مبارک کی رقم فرمودہ میرے پاس تھیں.جن کو میں نے تبر کا محفوظ رکھا ہوا تھا.بدقسمتی سے بعض ناگوار حادثات میں ایسی تمام تحریرات نیز بعض اور حضور کے دست مبارک کے لکھے ہوئے کاغذات محفوظ نہ رہ سکے.اور ان کے ضائع ہو جانے کے باعث میں ان تبرکات سے محروم رہ گیا.انا للہ وانا اليه راجعون.صرف ایسے چند تبرکات میری خوش نصیبی سے کسی مصلحت الہی کے ماتحت بیچ رہے.“ یہ مکتوبات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.محترم بھائی جی نے تحریر کیا: (1) بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آقائی و مولائی اید کم اللہ تعالیٰ حضور ! آپ کا ایک الہام جس کا مضمون یہ ہے.آریوں کا بادشاہ آیا.اس کے اصل الفاظ کیا ہیں؟ فقط عبدالرحمن قادیانی ۱۵ مارچ ۱۹۰۸ء

Page 119

۱۰۴ السلام علیکم.یہ مدت دراز کا الہام ہے، مجھ کو صرف اسی قدر یاد ہے.معلوم نہیں کہ یہ وہی الفاظ ہیں یا کچھ متغیر ہیں.غالبا یا دیہی پڑتا ہے کہ وہی الفاظ ہیں.واللہ اعلم.(۲) خاکسار غلام احمد محترم بھائی جی نے عرض کیا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم آقائی و مولائی اید کم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ حضور ! ۱۸ / اپریل ۱۹۰۸ء کا الہام جو حضور نے ۱۹ کو قبل ظہر بیان فرمایا تھا بغرض صحت پیش خدمت کر کے ملنجی ہوں کہ حضور ملاحظہ فرما لیں.نیز اس کے متعلق اگر کوئی تفہیم ہو یا اس کے بعد کا کوئی اور الہام قابل اشاعت ہو تو عطا فر ما یا جاوے.۱۸ را پریل زلزلة الارض حق العذاب وتدلى ترجمہ:.زمین کا ہلنا.عذاب سچ ہے اور وہ اتر پڑا.خاکسار غلام در عبد الرحمن قادیانی احمدی بشری.میرے لئے ایک نشان آسمان پر ظاہر ہوا.خیر و خوبی کا نشان.میری مرادیں پوری ہوئیں.محترم بھائی جی بیان کرتے ہیں کہ (۳) ایک زمانہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فداہ روحی نے مجھے غلام کو اپنے ایک عزیز مکرم مرزا محمد احسن بیگ صاحب رئیس کی درخواست پر ان کے زمینداری کاروبار کی خدمات کے لئے راجپوتا نہ جانے کا حکم دیا.جہاں کثرت جنگلات کے باعث وحوش اور درندوں کی بہتات تھی.اس زمانہ میں درندوں اور وحوش سے پالا پڑتا رہتا تھا جس میں پانچ سات چیتے اور ایک شیر نر کے شکار کے علاوہ بے شمار چیتل.سانبر.نیل گائے اور ہرن وغیرہ کا شکار کیا.اور یہ دو کھالیں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود

Page 120

۱۰۵ علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور پیش کرنے کو ساتھ لایا تھا.پہلے چیتل کی کھال پیش کی.اور جب اس کو شرف قبولیت مل گیا.تو چیتے کی کھال بھی پیش کر دی.نوٹ....یادر ہے کہ چیتل بارہ سنگھا کی قسم کا ایک نہایت ہی خوبصورت جنگلی جانور ہوتا ہے اور حلال جانوروں میں شمار ہوتا ہے.....محترم بھائی جی نے حضور کی خدمت میں تحریر کیا : بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم آقائی و مولائی اید کم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.حضور! یہ ایک چیتے کی کھال ہے.قبول فرمائی جاوے اور اس خاکسار غلام کے حق میں دعا فرمائی جاوے کہ اللہ تعالیٰ خادم دین بناوے.اعمال صالحات کی توفیق ہو.اور ایسی پاک زندگی میسر آ جاوے جو خدا کی رضامندی کا باعث ہو اور خاتمہ بالخیر ہو.حضور اب لاہور جانے والے ہیں.ہماری بہت ساری کمزوریاں حضور کے سایہ کی وجہ سے نظر انداز کی جاتی تھیں.اب حضور کے وجود مبارک کا سایہ جو کہ خدا کی طرف سے اس کے فضل اور رحمت کا سایہ بن کر ہماری سپر بنا ہوا تھا.حکمت الہی کی وجہ سے لاہور جاتا ہے.لہذا اب ہم لوگ حضور کی خاص دعا اور توجہ کے از بس محتاج ہیں.لہذا نہایت عاجزی سے بصد ادب التماس ہے کہ خاص خاص اوقات اس خاکسار اور حضور کی خادمہ اور بچے اور اقرباء کے واسطے ضرور دعا کی جایا کرے.فقط حضور کا خادم در عبدالرحمن قادیانی احمدی بقلم خود ۲۱ را پریل ۱۹۰۸ء السلام علیکم.کھال پہونچ گئی.جزاکم اللہ خیرا.انشاء اللہ دعا کروں گا.والسلام مرزا غلام احمد

Page 121

1+7 محترم بھائی جی نے تحریر خدمت کیا : بسم الله الرحمن الرحيم نحمده نصلى على رسوله الكريم میرے آقا اور میرے مولا! خدا آپ کا حامی و ناصر ہو.آمین السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.حضور ایک کھال چھیل کی پیش خدمت کر کے میجی ہوں کہ قبول فرمائی جاوے.اور اس خاکسار کے حق میں دعا فرمائی جاوے کہ اللہ تعالیٰ قوت ایمانی اور توفیق اعمال صالحات عطا فرما دے.حضور میں بہت ہی کمزور اور قابل رحم ہوں.اللہ میرے واسطے خاص طور سے دعا فرمائی جایا کرے.حضور ایسا ہو کہ میری زندگی دین کی خدمت میں حضور کی منشا اور رضائے الہی کے عین مطابق ہو جاوے.حضور ! میری یہ بھی خواہش ہے کہ یہ کھال حضور کی نشست گاہ میں ایسی جگہ رہے جہاں ہمیشہ میرے واسطے حضور کی خدمت میں دعاؤں کے واسطے عرض کرتی رہے.آمین.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.فقط خاکسار غلام در عبدالرحمن قادیانی احمدی ۵/اپریل ۱۹۰۸ء کھال پہونچ گئی.جزاکم اللہ خیرا.انشاء اللہ اپنے استعمال میں لائی جاوے گی.والسلام مرزا غلام احمد (۵) محترم بھائی جی نے لکھا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده صلى على رسوله الكريم آقائی و مولائی اید کم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ.حضور مبلغ ایک روپیہ پیش خدمت کر کے ملتجی ہوں کہ اللہ قبول فرمایا جاوے.اور خاکسار غلام کے حق میں دعا کی جاوے کہ اللہ تعالیٰ خدمت دین کی توفیق عطا فرما دے.اور قوت ایمانی اور اعمال صالحات کی توفیق ملے اور خاتمہ بالخیر ہو.آمین.

Page 122

1+2 حضور کی خادمہ اور ایک بچہ عبد القادر بھی دعا کے میجی ہیں.ان کے حق میں بھی سعادت دارین اور انجام بخیر کی دعا فرمائی جاوے.حضور میں بہت کمزور حالت میں ہوں.مجھے خاص خاص دعاؤں میں یاد فرمایا جاوے.والسلام السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاننہ.خاکسار عبد الرحمن قادیانی احمدی ۳ را پریل ۱۹۰۸ء مبلغ ایک روپیہ پہونچ گیا.جزاکم اللہ خیراً کیثرا.انشاء اللہ العزیز دعا کروں گا.مرزا غلام احمد نوٹ از مولف :.ایک روپیہ فارسی ہندسہ میں درج ہے.(Y) محترم بھائی جی ذیل کی تحریر درج کرنے سے پہلے تحریر کرتے ہیں کہ یہ اور اس قسم کی اور بہت سی مثالیں ہیں جن سے حضور کے اعلیٰ اخلاق کے اس پہلو پر روشنی پڑتی ہے کہ ہمارے آقائے نامدار کیسے قددان اور شکور تھے کہ حقیری رقوم اور ادنی ادنی ہدایا کو خوشی سے قبول فرماتے اور اس طرح غرباء اور کم استطاعت غلاموں کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.مبلغ آٹھ روپیہ پہونچ گئے.جزاکم اللہ خیراً.انشاء اللہ دعا کروں گا.ہمیشہ اپنے حالات خیریت سے اطلاع دیتے رہیں.والسلام نوٹ از مولف: آٹھ فارسی ہندسہ میں درج ہے.(2) مرزا غلام احمد محترم بھائی جی تحریر کرتے ہیں : سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ دستی تحریر جو مکر می حضرت قاضی سیدامیرحسین صاحب مرحوم کی درخواست دعا کے جواب میں حضور علیہ السلام نے ارقام فرمائی.مجھے قاضی صاحب

Page 123

۱۰۸ مرحوم و مغفور کے داما دسید محمد علی شاہ صاحب سے ملی جو انہوں نے اپنے نسبتی بھائی قاضی سید نذیر حسین شاہ صاحب سے بصد حرص حاصل کر کے تبر کا اپنے پاس رکھی ہوئی تھی.محترم قاضی صاحب نے تحریر خدمت کیا تھا: حضور اقدس سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.عبدالرحمن قادیانی میرالڑ کا سخت بیمار ہے.پیچش اور خون اس کو جاری ہے.کوئی دوائی اس کو فائدہ نہیں کرتی.اب اس کی والدہ دوائی سے نفرت کرتی ہیں.اور اس کو بہت اضطراب ہو رہا ہے.حضور نوازش فرما کر اگر توجہ سے دعا کریں تو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ شفا بخشے گا.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکانہ.امیر مین خدا تعالیٰ آپ کے لڑکے کو شفا بخشے اور اس کی والدہ کی بے قراری دور کرے.آمین.میں کئی دفعہ دعا کروں گا.کل مجھے اضطراری طور پر لاہور کا سفر پیش آ گیا ہے.اگر کلوراڈین کے دو قطرے دیئے جائیں تو اس سے بھی خون بند ہو جاتا ہے.بشرطیکہ بہت ضعف نہ ہو.والسلام مرزا غلام احمد * (الف) مکتوبات احمد یہ جلد ہفتم حصہ اوّل ( مطبوعہ نومبر ۱۹۵۴ء بذریعہ تاج پریس، یوسف بازار، حیدر آباد دکن ، آندھرا) میں خاکسار مؤلف ہذا نے سات مکتوبات (صفحہ ۵۸ تا ۶ میں ) اور ان کے بلاک (ضمیمہ صفحہ ۵۹ تا ۶۱ میں ) شائع کئے تھے.ذیل کے نوٹ بابت مکتوبات نمبر ۴۴٫۱ تا ۵۰/۷ کو ( ضمیمہ صفہ ہے سے ) یہاں نقل کیا جاتا ہے: کتاب ہذا کے چھپ جانے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ خطوط الحکم بابت ۷ ۴ ارجون ۱۹۳۸ء میں چر بوں سمیت شائع ہو چکے ہیں.پھر بھی کتاب ہذا میں ان کا شائع ہونا بریکارنہیں گیا.کیونکہ کتاب میں بلاک دئے گئے ہیں.دوسرے ان خطوط کی عبارت حضرت عرفانی صاحب یا حضرت بھائی جی نے پڑھ کر درج نہ کروائی تھی.اس لئے بعض الفاظ کے پڑھنے میں سہو ہو گیا.مثلاً مرزا کو خاکسار اور خیرا کو

Page 124

۱۰۹ (۸) یہ مکتوب حضور کے وصال کے تعلق میں درج ہے..وہ کرسی جس پر حضرت اقدس نے تشریف فرما ہو کر خطبہ الہامیہ دیا تھ حضرت بھائی جی نے بتایا تھا کہ یہ کرسی بازوؤں والی تھی.سیٹ اور پچھلا حصہ بید سے بنا ہوا تھا.اس پر گزشتہ سال ( یعنی غالبا وفات سے ایک سال پہلے ) یہ الفاظ لکھوائے تھے.یہ وہ مقدس کرسی ہے جس پر بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہالسلام پر خطبہ الہامیہ کا نزول ہوا تھا“.کتبہ، قاضی عبد الحمید درویش لیکن بعد میں بھائی جی سے مکرم مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی.اے درویش ( ناظر امور عامه و خارجیہ ) نے یہ ذکر کیا تھا کہ ایسی متعدد کرسیاں دارا مسیح میں ہیں.ایک کی تعین نہیں کی جاسکتی.تب بھائی جی نے تسلیم کر لیا تھا کہ میری یہ یقین سہو ہے.بقیہ حاشیہ: - کثیراً پڑھا گیا.حالانکہ انہیں اور خطوط میں مرزا کو ”مرزا‘ ہی پڑھا گیا.اصل خطوط کے ساتھ الحکم اور کتاب ہذا کی عبارات کا حضرت بھائی جی کے سامنے مقابلہ کیا تھا.حضرت بھائی جی نے کتاب ہذا کی عبارات کو درست قرار دیا ہے.البتہ مکتوب ۴۶/۳ میں القدیر‘ اور العزیز دونوں پڑھا جا سکتا ہے.حضرت بھائی جی کا رجحان "العزیز کی طرف ہے اور القدیر کی طرف ہے.اس لئے کہ حضور کا خط القدیر کے مشابہ معلوم ہوتا ہے.ان خطوط کے بلاک کتاب میں درج ہیں اور چر بے الحکم میں.ان سے احباب خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں.(باء) خاکسار مؤلف کتاب ہذا طبع دوم کے وقت (الف) والانوٹ شامل کرنے کے علاوہ ذیل کے امور بھی شامل کرتا ہے.-1 الحکم ۱۴۰۷ جون ۱۹۳۸ء کی جلد ۴۱ اور نمبر ۱۸، ۱۹ ہے.۲- تقسیم ملک تک حساب کتاب میں اور دستاویزات میں اعداد فارسی کے عام مستعمل و رائج تھے.جیسے عص، یعنی ایک اور للہ“ ضمیمہ مذکورہ (صفحہ ۶۰) میں مکتوب نمبر ۴۹.۶ کے بارے خاکسار نے (حضرت بھائی جی سے پوچھ کر یہ نوٹ دیا تھا:

Page 125

11+ - 1 • اصل مسودہ مضمون ”اسلامی اصول کی فلاسفی، جس پر سے پڑھ کر جلسہ اعظم مذاہب میں مضمون سنایا گیا تھا.یہ مسودہ تقسیم ملک سے پہلے بھائی جی نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے سپر د کر دیا تھا.ایک پوتین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو بھائی جی نے اپنی بیٹی کو دی ہوئی ہے.اور ان کے پاس -11 محفوظ ہے.-۱۲ بھائی جی تحریر فرماتے ہیں : سید نا حضرت امصلح الموعود کے سفرلندن کے آخری چند ایام میں ولیم دی کانکرڑ“ کی رؤیا کے پورا ہونے کے دن کی حضور کی دعا کے وقت کی وہ ریت سمندری بھی (جو سنگریزے ملی ہوئی تھی ) میرے پاس محفوظ ہے.جس میں حضرت اقدس نے دعا کرتے کرتے دونوں ہاتھ مارے تھے.اور جو حضرت مولانا در دصاحب نے پہلے اور میں نے پیچھے اُٹھالی تھی.اور یہ واقعہ جو خدائے علام الغیوب کے علم اور قدرت کا جہاں ایک بے نظیر اور فقید المثال کرشمہ ہے وہاں سید نا حضرت اولوالعزم فخر رسل کی صداقت ، قرب اور مقام محمود کی بھی ایک نا قابل تردید دلیل ہے.“ ( تحریر مورخہ ۳ / نومبر ۱۹۴۶ء جو مؤ لف ہذا کے پاس موجود ہے.) خطوط واحدانی کے الفاظ خاکسار مؤلف کی طرف سے ہیں.حضرت بھائی جی نے فرمایا تھا کہ تقسیم ملک کے بعد مجھے علم نہیں کہ یہ تبرک آیا بچوں کے پاس پاکستان میں محفوظ ہے یا نہیں.بقیہ حاشیہ: - " اس پر حضرت بھائی جی کے قلم کا ۲۴ را پریل ۱۹۰۸ء کا ذیل کا نوٹ درج ہے.حضرت اقدس کا پی دیکھ رہے تھے ہاتھ میں پنسل ہی تھی.حضرت اقدس کے الفاظ پنسل سے تھے.میں نے سیاہی سے اوپر فلم پھیر دی.لیکن الحکم میں تاریخ ۲۱ / اپریل ۱۹۰۸ء درج ہے.مکتوبات میں (بلاک میں) تاریخ درج نہیں.البتہ بھائی جی کے عریضہ میں ۲۴ / اپریل ۱۹۰۸ء تاریخ درج ہے.(صفحہ ۶) - الحکم میں حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب کے عریضہ میں تحریر ہے کہ ” میرالڑ کا سخت بیمار ہے“.لیکن الحکم میں حضرت اقدس کی تحریر یہ پڑھی گئی اور درج کی گئی ہے: ” خدا تعالیٰ آپ کی لڑکی کو شفا بخشے.گویا سہو ہوا ہے.یہ مکتوب ” مکتوبات“ کی جلد میں درج نہیں ہوا.دراصل اس زمانہ کی منشیانہ طرز تحریر ایسی تھی مثلاً اس مکتوب میں حضور تحریر فرماتے ہیں: کل مجھی اضطراری‘جو مجھے“ ہے.

Page 126

" آپ مزید تحریر فرماتے ہیں : - ۱۳ ☆66 سیالکوٹ کا احرار کا کارنامہ جو دس ہزار ( نام نہاد ) فرزندان تو حید نے مل کر مٹھی بھر احمدیوں کے آقا وا مام کو مغلوب کرنے خوفزدہ بنانے اور نا کام لوٹانے کی غرض سے سرانجام پہنچایا تھا جس پر ان کی نسلیں قیامت تک نادم وشرمندہ ہوا کریں گی.اور قلعہ سیالکوٹ کا وہ حصہ ان کو خون کے آنسور لایا کرے گا.اس میں مارے گئے صرف وہ پھر جو سٹیج پر آن گرے تھے وہ بھی میرے پاس محفوظ ہیں.( ۱۴ تا ۴۴) حضرت سیدہ ام المؤمنین حضرت خلیفہ المسح اول اور حضرت خلیفہ المسح الثانی کے اکتیس مکتوبات و تحریرات آپ کے پاس محفوظ ہیں.یہ سب خطوط اور بعض کے چربے مکتوبات اصحاب احمد جلد اول میں خاکسار مولف نے شائع کئے ہیں.) تحریر کا نمونہ کے بارے میں آپ کی تحریر کا چربہ یہاں دیا جاتا ہے.(صفحہ ۱۱۲ پر ) حضرت مسیح موعود السلام کے نام آپ کے ایک خط کا چربہ مکتوبات احمد یہ جلد ہفتم میں درج کیا جا چکا ہے.روایات بوقت طبع اول کتاب ہذا حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے سوا کوئی ایسا صحابی زندہ نہیں تھا جسے عقل و شعور کے زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں آپ جتنا عرصہ رہنے کا موقعہ میسر آیا ہو اور پھر تمام فتنوں میں ان کا ایمان صحیح و سلامت رہا ہو.میری مراد عرصہ صحبت سے ہے نہ کہ عرصہ صحابیت سے اور بھائی جی کو عرصہ صحبت ساڑھے سات سال سے اوپر حاصل ہوا ہے.و ذالک فضل الله يو تيه من يشاء حضرت بھائی جی بیان فرماتے ہیں : ۲۷ رمئی ۱۹۰۸ ء تک سوائے کچھ عرصہ کی مفارقت کے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں رہا.مجھے آپ کی معیت سفر میں، حضر میں، سیر کے وقت مختلف شہروں اور دیار میں.مباحثات اور مقدمات کے ہنگاموں اور رات کے وقت پر سوز دعاؤں میں حاصل رہی.اور حضور کے ی فرماتے ہیں ان میں کچھ جوتے بھی شامل ہیں اور یہ سب کچھ محفوظ ہے.(آپ کے صاحبزادہ مہتہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیں کہ یہ قادیان میں ہمارے گھر میں محفوظ پڑے ہیں ).مؤلف ہذا کے علم کے مطابق یہ پاکستان میں بچوں کے پاس محفوظ نہیں.

Page 127

١١٢ سپرائٹ خود ٹ کے احرار کا کا پجامہ جو ر بہزار خاندات توحیدے اور بھی میرا میاں کے آقا در زمان کو مصلوب کرنے خوف زدہ بنانے کاور ناکام لوٹائے کی عرب سے سوز تمام پونچایا تھا جس پر ان کی انسیس قیامت تک نادم وشرمنده سشوار کریں گی گر در قلعہ سیالکوٹ شید و سعه آئی کو کون کے آنسو رلایا کرے گا اس میں مارے گئے صرف وہ پتھر جو شیخ پر آئی کر گرے تھے وہ بھی میرے پاس محفوظ ہیں - کرور سید ناخوات المصلح الموعود کے سفہ نے کے آخری چند ایام میں ویم روی کانکور کے رویا کے پور اہونے کے دانے کی حضور کی دعا کے وقت کی وہ ریت سمندری بھی تیرے پاس محفوظ ہے جس نہیں سیز فائرت اقدس نے دعا کرتے کرتے دو کوہ تھے مارے تھے اور جو شعور سے ادرار مائے نڈن - نے پہلے اور مین نے پیچھے اٹھائی تھی سے اور یہ واقعہ جو خدائے علام الصور یہ کے علم اور قدرت کا جہان ایک بے نظیر اور فقید المثال کرشمہ ہے درمان بیوانفقت ے دور متقال محمود کی بھی ایک ناقابل

Page 128

۱۱۳ 66 رہائشی مکانات کی پاسبانی اور پہرہ داری کا بھی موقعہ ملا.“ بھائی جی کو تین لمبے وقفوں میں حضرت اقدس سے جدا ہونا پڑا تھا: -1 جب آپ کو آپ کے والد صاحب قادیان سے حضرت اقدس کی اجازت سے اپنے ہمراہ لے گئے تھے.یہ عرصہ قریباً پون سال تک ممتد رہا.- جب حضرت مولوی نورالدین صاحب با جازت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مالیر کوٹلہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کو قرآن مجید پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے تو بھائی جی بھی وہاں پانچ ماہ تک ٹھہرے.قریباً چار سال تک راجپوتانہ میں محترم مرزا محمد احسن بیگ صاحب کے پاس آپ کا قیام رہا.ضروری ذکر.حضرت بھائی جی کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ روایات یہاں جمع کرنے کی خاکسار نے کوشش کی ہے.مطبوعہ روایات کے بارے آپ سے استفسار کر کے خاکسار نے خطوط وحدانی میں اضافہ کیا ہے.آپ کی روایات ایک انوکھی شان رکھتی ہیں اور بہت ایمان افزا اور روح پرور ہیں.بعض تاریخی مضامین کا بعض مقامات پر اس کتاب میں حوالہ قارئین کے لئے دے دیا گیا ہے.(۱) قادیان کی ابتدائی تاریخ قادیان کی گمنامی" آپ تحریر فرماتے ہیں : قصبات اور شہروں سے دور گوشہ گمنامی میں مستور ایک چھوٹا سا گاؤں بلکہ موضع اور کور د یہ لاہور سے ستر میل شمال مشرقی گوشه پر ضلع گورداسپور تحصیل و تھا نہ بٹالہ کی حدود میں واقع تھا جسے قصبات وشہر تو در کنار معمولی دیہات و مواضعات ضلع و تحصیل میں بھی کوئی شہرت یا نمایاں حیثیت حاصل نہ تھی نام اس کا اس زمانہ میں کچھ اتنا غیر معروف و نا معلوم اور دنیا کے کان اس سے ایسے نا آشنا تھے کہ ۱۳۱۰ یا ۱۳۱ هجری میں جب عبد اللہ آتھم والی پیشگوئی کا چرچا ہوا تو میرے استفسار پر بتانے والوں نے جو کچھ بتایا وہ یہ تھا بھائی جی کی تقریر ” ذکر حبیب جلسه سالانه ۱۹۵۵ء ( بدر جلد ۵ نمبر ۱۰ بابت ۱۴/ مارچ ۱۹۵۶ء صفحه ۶ کالم) اس میں مختصر احضرت اقدس کی سیرۃ کا بھی ذکر ہے.

Page 129

۱۱۴ کہ دور کہیں روس کی سرحد پر کوئی گاؤں ہے جہاں کسی مولوی صاحب نے ایک انگریز کی موت کی پیشگوئی کی ہے.پھر جب ۱۳۲۱ھ کے ماہ جون میں میں کپورتھلہ ہوتا ہوا بٹالہ پہنچا تو ڈیرہ بابا نانک ، کلانور، بھا گووالہ، علی وال لنگر وال ، پنجگرائیں ، سری گوبند پور ، ہر چووال اور بھام تک کے نام تو میرے کان میں پڑے مگر قادیان کے نام سے میرے کان آشنا نہ ہوئے.گاڑی کے اسٹیشن پر پہنچتے ہی یکہ بان ، ریڑھو اور گڈہ والے کئی کھڑے چیتے پکارتے تھے.میں چند گھنٹے منڈی ، اسٹیشن اور کچہری کے آس پاس پھرا کیا مگر قادیان کا نام میں نے نہ سنا.دوبارہ جب اللہ کریم نے سیالکوٹ میں میری دستگیری کے سامان مہیا فرمائے.قادیان کا نام میں نے کتابوں میں پڑھا.” نور اسلام“ اور ”نشان آسمانی“ کا مطالعہ نصیب ہوا اور نور ایمان کی شعاعوں سے میرے دل و دماغ کو منور کیا اور میری خواہش اظہار اسلام پر محترم بزرگ میر حامد شاہ صاحب نے مجھے قادیان پہنچ کر اس شرف سے مشرف اور سعادت سے بہرہ ور ہونے کا مشورہ دیا اور میں بٹالہ اتر کر قادیان پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا.آپ شاید تعجب کریں گے اور میرے بیان کو مبالغہ سمجھیں گے کہ مجھے اس وقت بھی بہت مشکل کا سامنا ہوا.میں لوگوں سے قادیان کا راستہ پوچھتا.وہ میرے منہ کو تکتے اور سوچ بچار کر کے کہتے کہ کا دیں تو ایک گاؤں ہے تم جو نام لیتے ہوں وہ اس نواح میں تو ہے نہیں.تھانہ سے پوچھو شاید پتہ لگ جائے.نو بجے غالبا ٹرین بٹالہ پہنچی بارہ بج گئے.مجھے قادیان کا پتہ ملانہ راستہ حتی کہ میں گھبرا کر واپس لوٹ جانے کی فکر کرنے لگا.اسی شش و پنج میں تھا کہ ایک شخص میرے قریب آ کر بولا.” جی ! آپ نے قادیان جانا ہے؟“ میں افسردہ پر مردہ ہو رہا تھا اور پریشان تھا کہ کروں تو کیا ؟ اس شخص کی آواز سے ڈھارس بندھی اور امید کی ایک جھلک نظر آئی.میں نے اس سے قادیان کا اتا پتا دریافت کیا تو اس نے جواب دیا.” وہی نا مرزا صاحب والی قادیان گنوار لوگ اس کو کادیں کر کے پکارتے ہیں.میں خود قادیان کا رہنے والا ہوں.مرزا صاحب گاؤں کے رئیس اور مالک ہیں.میں آپ کو ان کے دروازہ پر جا اتاروں گا.اس تسلی کے بعد میں اس کے یکہ میں بیٹھ گیا.اور وہ مجھ سے یہ کہہ کر بازار کو گیا کہ گھوڑے کے واسطے نہاری لے آؤں.مگر کچھ ایسا گیا کہ لوٹنے کا نام ہی نہ لیا.کم و بیش ایک گھنٹہ تک میں اس یکہ میں ٹنگا رہا.نہ اس کو چھوڑ سکوں نہ یکہ بان کی تلاش کر سکوں.جمعہ کا دن تھا میں نے سیالکوٹ سے روانگی میں

Page 130

۱۱۵ اسی غرض سے جلدی کی تھی کہ جمعہ کی نماز میں شریک ہو کر اس برکت سے حصہ پاسکوں گا.مگر یکہ بان کی طمع نے مجھے نماز جمعہ میں شرکت کی برکت سے محروم رکھا.کیونکہ وہ دراصل نہاری کے بجائے سواری کی تلاش میں تھا.قصہ کو تاہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان پہنچا وہ زمانہ ۱۳۲۱ھ کا تھا.میں نے قادیان کو جس حالت میں دیکھا وہ نظارہ اپنا چشم دید لکھنے کی کوشش کروں گا.وماتو فيقى الا بالله عليه توكلت واليه انيب - قادیان پر پہلی نظر اس کے اردگرد کی فصیل اور اس کے اندر کی آبادی قادیان آتے ہوئے سڑک کے موڑ کے قریب پہنچ کر یکہ بان نے اشارہ سے بتایا کہ وہ ہے قادیان.میری پہلی نظر مسجد اقصیٰ کے خوبصورت گنبدوں اور کونوں کے مناروں پر پڑی.جن میں خدا جانے کیا تاثیر جذب اور کشش تھی کہ میرا دل ایک سکینت تسلی اور اطمینان سے بھر گیا.اور ساری کوفت اور گھبراہٹ اور بے قراری جاتی رہی.دل ایک تیز پرواز کی تمنا کرنے لگا کہ میسر آ جائے تو اڑ کر پہنچوں.قادیان پہنچ کر بڑی لمبی چوڑی فصیل پر نظر پڑی وہ تو اس کے بھلے وقتوں کے عروج واقبال اور عظمت وشوکت کی خیالی تصویر آنکھوں میں پھر گئی.کیونکہ آثار و علامات اس امر کی دلیل تھے کہ یہ مقام کبھی بھاری قلعہ اور مضبوط حصار ہوگا.بعد میں رہتے رہتے جو اچھی طرح دیکھا تو یہ دیکھا کہ بستی ایک فصیل کے اندر محدود تھی.جو جا بجاشکتہ وخستہ تھی.چوڑائی اس کی تہیں بنتیں فٹ اور اونچائی بوجہ گر جانے کے پوری معلوم نہ ہوسکی.جو دیکھی وہ بعض جگہ سے آٹھ دس فٹ ضروری تھی.آثار اس فصیل کے سوائے شمال مغرب کونہ کے چاروں اطراف میں نمایاں تھے.میں نے جو سرسری سا تخمینہ اس فصیل اور بستی کا کیا اس کے نتیجہ میں یہ لکھ سکتا ہوں کہ فصیل قریباً مستطیل شکل میں واقع تھی.جس کا طول بیرونی حدود تک کم و بیش گیارہ سوا اور عرض نوسوفٹ تھا.فصیل کے اندرونی جانب تخمیناً اٹھارہ بیس فٹ چوڑا ایک کو چہ گول سڑک کے طریق پر برابر چاروں طرف چھوڑا ہوا تھا.جو آجکل دائیں بائیں کی دست برد کا شکار ہو کر آٹھ دس بارہ اور چودہ فٹ رہ گیا ہے بلکہ بعض حصوں میں تو بالکل غائب اور ختم ہو چکا ہے، اس گول سڑک کے اندر اندر ہی اس زمانہ میں آبادی تھی.فصیل اور گول سڑک کو چھوڑ کر اصل زیر آبادی حصہ کی پیمائش تخمیناً ایک ہزار فٹ طویل اور آٹھ سوفٹ عریض تھی.

Page 131

١١٦ فصیل کے چاروں کونوں پر چار برج اور چار ہی اس میں دروازے تھے یعنی پہاڑی دروازہ بٹالوی دروازه نگلی دروازہ اور موری دروازہ فصیل کے باہر بڑے بڑے اور پرانے بولوں کا گویا ایک گھنا جنگل کھڑا تھا.جہاں دن دہاڑے خوف آتا.رات کے اندھیرے میں تو کم ہی کوئی فصیل کے باہر نکلتا ہوگا.اس خار مغیلاں کے جنگل کے بالکل ساتھ لگی ہوئی ایک کھائی یا خندق تھی.جو چاروں طرف عموماً سال بھر پانی سے بھر پور رہتی.کئی کئی میل دور سے برسات کا پانی اس نشیب میں آن جمع ہوا کرتا تھا اور گویا ایک قدرتی امداد اور غیبی تائید تھی اس قلعہ کی حفاظت کی جو اسے قدرت کی فیاضی سے مفت میں میسر تھی.آبادی کی بیرونی فضاء قصبہ کی رونق، شادابی اور خوبصورتی کے لئے قصبہ سے باہر کئی باغات تھے جو چاروں طرف دور دور تک پھیلے ہوئے بہت بڑے رقبہ میں لگائے اور سجائے گئے تھے.جن کے اثمار شیریں اور معطر ومصفا ہوا سے حاکم و محکوم برابر فائدہ اٹھایا کرتے.اس مرکز کی حفاظت اور مضبوطی کے لئے چاروں اطراف وقتی ضروریات کے مدنظر مناسب مقامات پر دور ونزدیک ایک اور معاون و محافظ قلعوں کی لائن تھی جن میں سے بسرا.کھارا ٹھیکر یوالا رسول وڈالہ کنڈیلا اور ڈھپئی کے قلعوں کے آثار تو آج تک بھی واضح اور عیاں موجود ہیں.اور بعض زمانہ کی دست برد کی نذر ہو چکے ہیں اس قلعہ بندی اور حفاظت و تنظیم پر نظر غائر ڈالنے سے مرکز کی مضبوطی شان وشوکت اور زیر نگیں ریاست کی وسعت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.تصویر کا دوسرا رخ قادیان کا عالی ہمت خاندان اس عالی ہمت ، اولوالعزم اور اقبال مند خاندان کی حسن تدبیر ، انتظامی قابلیت ، قوت عمل اور علو ہمتی کو جانچا جاسکتا ہے.جس نے ہزاروں میل سے آکر ان جنگلوں میں منگل کر دیا.اور ایک مستقل ریاست الفضل خلافت جوبلی نمبر بابت ۸ / دسمبر ۱۹۳۹ء والحکم بابت ۱۴، ۲۱ جنوری ۱۹۴۰ء سے طبع دوم میں اضافہ یا بعض الفاظ کی تبدیلی کی گئی ہے.

Page 132

112 کی بنیاد رکھی جس کے خود مختار ریس ایک ایسے خوش نصیب اور قابل رشک فارسی النسل وجود کی یادگار تھے جس کی قلبی کیفیت خالق ارض و سماء کے حضور پہنچ کر قبول ہوئی.خدا نے اس کے کسی عمل ، اس کی کسی ادا کو پسند فرمایا اور دنیا کے عظیم ترین اور مقدس ترین خدا کے مقبول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے محبت کی اور اس کو اپنے دست شفقت سے نوازا.بالکل سچ، صحیح اور راست وحق ہے ع مصفی قطره باید که تا گوہر شود پیدا خدا کے انبیاء ورسل نجیب الطرفین اور عالی خاندان ہوا کرتے ہیں تا ان کی بیعت اطاعت اور غلامی کو عار اور ذلت و تو ہین سمجھ کر لوگ ہدایت اور دولت ایمان سے محروم نہ رہ جائیں.علماء اور صلحاء کے اجتماع کا مقام حکمران خاندان کی جوانمردی، بیدار مغزی ، ہمت و استقلال اور فہم و ذکاء کے ساتھ اس کی فیاضی ، نیکی اور عدل وانصاف کا ایسا چرچا تھا کہ دور دراز سے حق و صداقت کے پیاسے اور اکثر اہل اللہ ان کی صحبت کے فیض سے مشرف ہونے کو جمع رہتے.یہاں تک کہ ان کے دستر خوان پر پانچ پانچ سو علما ، فضلاء، حفاظ اور صلحاء کا مجمع رہتا.اور اللہ اور اس کے رسول اور اقوال اعمال کے تذکرے رہتے اور دین داری اور پرہیز گاری کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی ان میں تارک نماز نہ تھا.حتی کہ پنساریاں تک تہجد گزار تھیں.القصہ بے دینی اور جہالت کے زمانہ میں یہ مقام علم وفضل اور نیک و پاک مقاصد کا مرکز تھا.طوائف الملو کی اور ضعف واد بار کے زمانہ اور تنگی و مشکلات کے ایام میں بھی ان لوگوں نے فیاضی اور عطاء دستی کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو کئی گاؤں بطور مروت دے دیئے.اور اس طرح عسر کی حالات میں بھی دل کھول کر شرفاء کی امداد کرتے رہے.ایسی ہی باتوں سے اس ظلم و فساد اور فسق و فجور کے زمانہ میں اس بستی کو لوگ اسلام پور اور مکہ کے نام سے یاد کر نے لگے تھے.کیونکہ اس بدامنی اور جھگڑے فساد کے زمانہ میں مسلمانوں کے لئے یہی قصبہ مبارکہ پناہ کی جگہ تھی.اس کے سوا ہر جگہ کفر اور فسق و فساد اور ظلم نظر آتا تھا.قادیان گویا کہ اس زمانہ میں حامیان دین، صلحاء علماء اور نہایت شریف اور جوانمر دلوگوں سے مل کر ایک ایسا باغ بنا ہوا تھا.جس کے اثمار علم و عمل، نیکی و تقویٰ یہاں سے لے کے ۳ مسجد محلہ ارائیاں تک الفضل جوبلی نمبر اور الحکم بابت ۱۴ ، ۲۱ جنوری ۱۹۴۰ء سے اضافہ کیا گیا ہے.

Page 133

۱۱۸ اور عدل وانصاف سے آس پاس کے علاقے متمتع ہوا کرتے تھے.اور اس کے حکمران اپنے اوصاف واطوار کے باعث جہاں بانی کے اہل اور حکمرانی کے مستحق یقین کئے جاتے تھے.(ماخوذ از کتاب البریہ ) یہ تو ہوا تصویر کا روشن پہلو اور مسلمان خاندان کی حکومت کے زمانہ کا نقشہ اور فوٹو.اب میں تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کرتا ہوں.جو یہ ہے کہ خدا کی باریک در باریک نہاں درنہاں حکمتوں اور مصلحتوں کے ماتحت حالات نے پلٹا کھایا.سکھوں نے غلبہ پایا اور رام گڑھیا مسل کے سکھ فریب سے قلعہ میں داخل ہو کر قابض ہو گئے.قادیان کی دولت و ثروت اور اقتدار حکومت کے زوال کے ساتھ ہی امن بر باد.علم مفقود اور نیکی اور نیکوکاری کالعدم ہو کر فساد و جہالت اور بدی و بدکاری نیز فسق و فجور کا دور دورہ ہو گیا.ذی عزت، شریف اور امن پسند لوگ رام گڑھیوں کے آتے ہی خوف و ہراس کے مارے قصبہ کو چھوڑ کر عزت و آبرو لے کر خالی ہاتھ بھاگ گئے.تباہی و بربادی کا مختصر سا نقشہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں درج کرتا ہوں جو یہ ہے: اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طرح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور ان کی مال و متاع سب لوٹی گئی.کئی مسجد میں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا اور بعض مسجدیں جن میں سے اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے دھرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنایا گیا.اس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا جس میں پانچ سو نسخه قرآن شریف کا قلمی تھا جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا.اور آ خرسکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ تمام مردوزن چھکڑوں میں بٹھا کر نکالے گئے اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزیں ہوئے.قضا و قدر کی نیرنگی اور زمانہ کی گردش نے گویا اس فارسی النسل خاندان کو پشتوں کی حکومت اور ریاست سے ایسا محروم کیا کہ خالی ہاتھ یہاں سے نکل گئے اور جو کچھ بنایا تھا.یہیں چھوڑ گئے.آنے والے لوگوں نے آتے ہی جو کچھ کیا اس کا خلاصہ آپ نے پڑھ لیا.بعد میں جو کچھ ہوا اس کا اندازہ قادیان کی حالت سے کر لیں جو میں نے بچشم خود دیکھی اور وہ یہ تھی : 66 قادیان کی حالت اجڑے دو بازار برائے نام تین دکانیں جدھر نظر اٹھاؤ ویرانہ کھنڈر ( مکانات زیادہ تر کچے ) عمارات برباد اور مکانات مسمار اور بچے کھچے

Page 134

119 اکثر مقفل و بے چراغ ، خال خال کوئی آباد اور جو آباد بھی تھے ان پر بھی ایک قسم کی اداسی برستی دکھائی دیا کرتی تھی.جیسے کسی اجڑے دیار کا سوگ منارہے ہوں.میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ گاؤں کا زیر آبادی رقبہ زیادہ سے زیادہ بائیس یا تئیس ایکڑ تھا مگر تین چوتھائی حصہ غیر آباد یا تباہ و برباد پڑا تھا.اور بمشکل ایک چوتھائی حصہ آباد جس میں زیادہ سے زیادہ پانچ سو نفوس رہتے ہوں گے.( مالکان مکان خواہش رکھتے تھے کہ مفت میں ہی کوئی ان کے مکان میں بود و باش رکھے.کیونکہ الٹا مکانات کی نگرانی پر خرچ کرنا پڑتا تھا.یہ بات کچھ عرصہ بعد کی ہے کہ غیر مسلم بوجہ تعصب احمدیوں کو مکان کرایہ پر نہیں دیتے تھے.یا احمدی کرایہ داروں کو تنگ کرتے تھے.اس زمانہ کے اجڑے دیار کے بازار ( جو صرف نام کے ) دو تھے.ایک بڑا بازار کے نام سے موسوم.دوسرا چھوٹا بازار.مگر دونوں سنسان چھوٹے بازار میں تو شاذ ہی کوئی دکان کھلی اور آدمی نظر آتا.سوائے دو منحوس اڈوں کے جو دن کے بجائے رات کو زیادہ کھلتے ہوں گے.باقی بازار بند اور گرا پڑا تھا.بڑے بازار میں چندو کا نہیں کھلی دکھائی دیا کرتی تھیں.مگر کاروبار ان کا بھی دیکھنے میں کوئی نہ آتا.خالی دکانوں پر نکھے بت بیٹھے ہوا کرتے یا دفع الوقتی کے لئے گھروں کی وحشت سے گھبرا کر بازار میں آجایا کرتے جہاں آنے جانے والوں کی شکل وصورت دیکھ لیتے یا پاسہ چوپٹ اور شطرنج وغیرہ کھیل کر دن گذار لیا کرتے.یا بعض اس ٹی کی آر میں فلاکت زدہ کسانوں اور مزدوری پیشہ محتاجوں کا خون چوسنے اور پیٹ کاٹنے کی غرض سے سودی لین دین کر لیا کرتے.بازار محض نام کو تھا، کام کوئی تھا نہ ہنر اور پیشہ.تین دکاندار تھے جو اس ویران بستی کی زینت کہلاتے.ایک بزاز دوسرا عطار تیسرا حلوائی.ایک مسلمان اور دو ہندو اور ان تینوں کی آبادی بھی صرف اس ایک گھرانے کی بدولت تھی جس کو خدا نے پھر سے نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کے لئے چن لیا تھا.عطار کا کام سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندانی کمال فن طب اور فیض کا رہین منت تھا یا حضرت نورالدین اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطب اور مریضوں کی وجہ سے اور حلوائی کا مہمانوں اور بیماروں کی آمد ورفت کے باعث اور لالہ سکھرام صاحب بزاز کی بکری بھی محض اسی گھرانے کے طفیل تھی جو عموماً یتامی و بیوگان اور غرباء کی ضروریات کے لئے خرید فرمایا کرتے مگر اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ کوئی دکا نہیں تھیں.حلوائی کی ایک دکان کی تفصیل لکھ دیتا ہوں.اس سے دوسری دکانوں کا بھی قیاس کر لیں.چار یا چھ آنے کا دودھ لے کر یہ لوگ صبح سے رات کے دس گیارہ بجے تک عموماً بیٹھا کرتے.دودھ بکتا جتنا بکتا باقی سے کھویا تیار ہوتا کبھی دہی.دہی نہ بکتا تو رات کو بھلے پکوڑیاں تیار ہوتیں.گاہک کوئی

Page 135

۱۲۰ آ گیا تو خیر ورنہ وہ بھی گھر کی مرغی دال برابر چاروناچاریوں چکادی جاتیں.یہی حال بتاشے مٹھائیوں کا ہوا کرتا ( کسی مسافر پر دیسی کو سیر بھر آٹے کی ضرورت ہوتی تو ملنا محال ہوتا کیونکہ ضرورت زندگی کی خرید وفروخت کے ذرائع بھی مفقود تھے.چکی اس زمانہ میں گھروں کی زینت اور زیور شمار ہوا کرتا تھا.آدھی رات پیچھے ہر گھر سے گھر گھر کی میٹھی اور سہانی لوری کے ساتھ کچھ گنگنانے اور گانے کی سریلی آواز میں کتنی شیریں اور بھلی معلوم دیا کرتی تھیں ) الغرض بازار نام کو تھے دو.مگر کام کی کوئی چیز یا ضرورت کا کوئی سامان قطعا میسر نہ آ سکتا تھا.بالکل معمولی معمولی ضروریات زندگی کے لئے بٹالہ امرتسر اور لاہور جانا ہوتا تھا.اور تو در کنار زمینداری ضروریات مثل بیج بنولے تک لوگ بٹالہ سے سروں پر اٹھا کر لایا کرتے.علاقہ کی پیداوار بھی بمشکل فصل کے ایام میں مل سکتی تھی.بنئے ، مہاجن اور ساہوکار شہروں کو لے جاتے تو چند ہی روز بعد پھر بیچارے کسانوں اور مزدوروں بلکہ ہر طبقہ کے لوگوں کو شہروں سے جا کر لانی پڑتی تھیں.گوشت اور سبزی کا بھی یہی حال تھا.قصاب دوسرے تیسرے روز بکرا کرتے وہ بھی نہ بکتا تو دیہات میں لے جا کر قرض دام یا غلہ نکلنے کے وعدہ پر ادھار دے آتے گوشت ایسا خراب ہوا کرتا کہ دیکھنے کو جی نہ چاہتا، قصابوں کی بڑی جائیداد کالی بھیڑیں ہوا کرتی تھیں.بکر اشاذ و نادر.افعال قبیحہ کا ارتکاب بے کاری عام تھی.کیونکہ کام کے لوگ اپنی عزت و آبرو بچانے کی غرض سے بستی کو چھوڑ کر جاچکے تھے.پیچھے بے کار یا بد قماش رہ گئے تھے یا سست اور کاہل.کام کے لوگ نکل گئے تو نکھے پڑے رہے.جس کے نتیجے میں مختلف قسم کی عادات قبیحہ اور افعال شنیعہ میں لوگ مبتلا تھے.قمار بازی کا بازار گرم رہتا جس کے کئی اڈے قائم تھے.گردونواح کے بد قماش اور آوارہ لوگ آتے.پولیس چھاپے مارتی.لوگ دیوالیہ اور کنگال ہوا کرتے تھے.رونق ہوا کرتی ٹھیکہ کی دوکانوں پر ، ام الخبائث کا ٹھیکہ موجود.بھنگ چرس گانجا کے دم لگا کرتے اور چنڈو کا استعمال ہوتا.افیون اور دھتورہ کا استعمال بھی عام تھا ( چانڈ وغیرہ کے دم لگنے عموماً سر بازار دیکھنے میں آیا کرتے تھے.( حقہ نوشی اور میکشی و میفروشی کی کوئی انتہانہ تھی اور ان کے نتائج تلخ بھی لوگوں کو چکھنے پڑا کرتے تھے.صفائی کا یہ حال تھا کہ جابجا کوڑا کرکٹ اور نجاست کے تو دے گوبر اور گندگی کے انبار لگے رہا کرتے

Page 136

۱۲۱ جن کی وجہ سے ہر گھر سنڈ اس اور کوچہ وگلی گندے نالے کا منظر پیش کرتے.کوچوں کا یہ حال تھا کہ دن کی روشنی میں بھی دشوار گذار تھے بڑے بڑے کھنگر گلی کوچوں کو نا ہموار اور نا قابل عبور بنائے ہوئے تھے.گندا پانی اور مویشیوں کا بول و براز ایسا تعفن اور عفونت پیدا کرتے کہ دماغ سڑا کرتا تھا.بعض میلے بھی ہوا کرتے جن میں جاہلیت کے کمالات اور ہنر اور جو ہروں کا ایسا مظاہرہ ہوتا کہ شرافت تو در کنار انسانیت بھی سر پیٹ لیتی اور مارے ندامت و شرمندگی کے پانی بن کر بہ نکلتی.خصوصاً میلہ قدم شریف جو کہ بستی کے بالکل متصل ہندو آبادی کے پاس لگا کرتا.ایک رات اور دن لوگ دور دور سے آ کر ا کٹھے ہوتے.رات کو آتے ہوئے مرد اور عورتوں کی ٹولیاں گند بکتیں اور جس طرح ننگے گیت گاتیں ان کے ذکر سے بھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.بستی کے گلی کوچوں میں رات بھر وہ اودھم مچا کرتا کہ الامان الحفیظ لڑائی دنگا اور فساد جو عموماً چھیڑ خوانی کے نتیجہ میں ہوا کرتا.سر پھٹول اور پکڑ دھکڑ پر منتج ہوا کرتا تھا.عرب جاہلیت کے میلے جہالت اور بدتہذیبی کے لئے ضرب المثل سنے جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ میلے ہر رنگ میں ان پر سبقت لے جایا کرتے تھے کیونکہ ان میلوں میں اکثر حصہ علم اور ادب، فصاحت اور بلاغت کے لئے وقف ہوا کرتا.جوا بھی کھیلا جاتا تو اس کی تہہ میں غریب نوازی اور خدمت خلق کا جذبہ پنہاں ہوا کرتا تھا یا اخراجات جنگ کی فراہمی مدنظر ہوا کرتی.مگر یہاں سرتا پا گالی گلوچ ، گرو اور ہنزلیات وبکواس، حیا سوز حرکات اور غیرت کش افعال جس پر طرفہ قمار بازی اور فتنہ وفساد.خدا کی پناہ.میں جس زمانہ کے چشم دید واقعات بیان کر رہا ہوں وہ ۱۳۲۱ھ یا ۱۸۹۵ء کا زمانہ ہے جبکہ یہ بستی خدا کے الہام اور کلام کے نزول اور سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد کا زمانہ ہے اور اس زمانہ میں یہ بستی قادیان کی مقدس بستی بن چکی تھی.نیک دل اور شریف تعلیم یافتہ لوگوں کا مرجع اور خداشناسی کا مرکز ہونے کی وجہ سے ترقی کی راہوں پر گامزن تھی اور بہت کچھ اصلاح بھی عمل میں آچکی تھی.باوجود اس کے ان حالات کی موجودگی بستی کی کچھ ہی عرصہ پہلے کی حالت ابتر کی مظہر ہے کہ نوبت کہاں تک پہنچی ہوگی.منگل سے جنگل گیدڑ، لومڑ اور بڑے بڑے بلے تو سر شام ہی غلاظت اور سنڈ اس کے ڈھیروں پر منڈلانے لگا کرتے تھے ان کے علاوہ بعض درندے اور وحوش رات کی تاریکی میں آتے اور بھیڑ بکری مرغی پلوں تک کو

Page 137

۱۲۲ اٹھا کر لے جاتے.احمد یہ چوک کے شمال مشرقی کو نہ کی دکان جس میں آج کل شیخ احمد دین صاحب ڈنگوی بیٹھے ہیں.کسی وقت حضرت نواب صاحب قبلہ کا باورچی خانہ تھا.جس کے آگے ایک پھاٹک لگا ہوا تھا.گوشت چونکہ عموماً یہاں خراب ملا کرتا.اور بعض اوقات ضرورت کے وقت مل ہی نہ سکتا تھا.لہذا حضرت نواب صاحب کے ہاں اس کا انتظام رہتا.ایک رات کا ذکر ہے کہ بکرا وہاں بند تھا رات کو ایک بھیڑیا آیا اس نے پھاٹک کا ایک حصہ تو ڑا اور بکرا اٹھا کر لے گیا.اس سے بھی بڑھ کر ایک اور چشم دید واقعہ سناتا ہوں.ایک روز دن دہاڑے ایک لمبے دانتوں والا جنگلی خنزیر شرقی ڈھاب میں پانی پی اور نہا کر شکتہ فصیل کی راہ سے جہاں آج کل حضرت عرفانی صاحب کا مکان اور دفتر الحکم ہے بستی میں داخل ہوا اور سیدھا ایک شخص مسمی دھتو کے گھر میں جا گھسا جہاں اس کی بیوی بیٹھی چرخہ کاٹ رہی تھی.عورت اس بدصورت خونخوار بد ( یعنی سور ) کو دیکھ کر گھبرائی.گھبراہٹ میں اور کچھ نہ بن پڑا تو ہاتھ سے دھتکارنے لگی.اس نے ہاتھ پکڑ کر چبالیا، اور پھر شور وغوغا سے خائف ہو کر گاؤں کے گلی کوچوں میں سے ہوتا ہوا بستی کے غربی جانب سے نکل کر گنے کے گیت میں جا گھسا اور آخر شکاری کتوں اور شکاریوں کا شکار ہو کر اس جرات کی پاداش کو پہنچا.بھیڑیا جسے پنجابی میں بگھیاڑ کہتے ہیں اس کثرت سے ہو گیا تھا کہ موجودہ اسیٹشن اور بستی کے درمیان ایک جو ہر کا نام ہی بگھیاڑاں والا چھپڑ مشہور تھا.نہ صرف یہی بلکہ گاؤں کے بعض حصے ویرانی و بربادی کے باعث اتنے بھیانک اور ڈراؤنے ہو چکے تھے کہ بھوت چڑیل کا مرکز کہلاتے.جہاں دن دیہاڑے لوگ جانے سے گھبرایا کرتے تھے.اس طرح گویا یہ بستی جو ایک قوم کے ذریعہ جنگل سے منگل بنی تھی دوسری قوم کے ذریعہ پھر تنزل کر کے منگل سے جنگل، آباد سے ویران اور علم و فضل ، ہنر و حکمت اور نیکی وتقوی کی بجائے جہالت اور رذالت، بیکاری و خجالت اور بدی و بد کرداری کا مرکز ہو چکی تھی.جہاں علم رہا نہ دولت، تجارت رہی نہ حرفت، زراعت رہی نہ حکمت و غفلت، ستی بریکاری و بیماری اور بدی و بدکاری کا دور دورہ اور جہالت و ضلالت کا عملی تسلط تھا.جنگلی جانوروں اور درندوں کی وجہ سے کھیتیاں برباد ہوا کرتیں.اور یہی وجہ تھی کہ شکاری لوگ اور شکاری کتے ان دنوں قادیان میں کثرت اور عزت سے پالے اور رکھے جاتے تھے.ذرائع آمد و رفت کا فقدان بات لمبی ہوتی جاتی ہے مگر بے کہے تسلی ہوتی ہے نہ حقیقت کھلتی ہے لہذا نہایت ہی اختصار سے

Page 138

۱۲۳ اشاروں پر اکتفا کرتے ہوئے کچھ عرض کرتا ہوں.سب سے پہلی مشکل اس بستی کی گمنامی کی وجہ سے اس کی تلاش کی تھی تو دوسرا بڑا بھاری مرحلہ قادیان پہنچنے کا تھا.ذرائع آمد و رفت کا اتنا فقدان تھا کہ سواری کا میسر آنا ہی مشکل ہو جایا کرتا.سواری آجا کے اس زمانہ میں ریڑھو، بیل گاڑی، گڈا اور زیادہ سے زیادہ دقیا نوسی یکہ ہوا کرتا تھا جس کی وضع قطع اور شکل و بناوٹ اس امر کی مقتضیہوا کرتی تھی کہ اسے یکہ کی بجائے شیطانی چرخہ کے نام سے پکارا جائے اور حقیقت بھی اس سواری کی اسی نام سے پوری طرح واضح ہوتی ہے.چلنے میں دھکوں کا لگنا حتی کے پسلیاں دکھ جایا کرتیں، پیٹ میں در داٹھنے لگتا اور جسم ایسا ہو جاتا کہ کسی نے اوکھلی میں دے کر کوٹ دیا ہو.اس کا چلتے چلتے سیخ پا ہو جانا، الٹ جانا ، سواریاں نیچے چرخہ اوپر.یہ باتیں خالی یکہ دیکھنے سے کیسے معلوم پڑسکتی ہیں.یکہ مل جانے کے بعد دوسری مشکل یہ ہوا کرتی کہ یکہ بان غائب.وہ نہاری لینے چلا جایا کرتا اور جب تک کوئی سواریاں ہاتھ نہ آجاتیں اس کی نہاری تیار نہ ہو سکتی.اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت یکہ بان کے انتظار یا تلاش میں ضائع ہو جایا کرتا.سڑک کی کیفیت لکھنے کی تو ضرورت نہیں کیونکہ اس کی تفصیل خود خداوند عالم الغیب نے فج عمیقی کے کلام میں فرما دی ہے.سڑک کچھی تھی مرمت کا کبھی کوئی سامان نہ ہوا کرتا تھا.غلہ وغیرہ اجناس تمام گڑوں کے ذریعہ بٹالہ جایا کرتی تھیں.جس کی وجہ سے سڑک نہایت خستہ، نا ہموار اور خراب تھی.یکہ کی ہیئت ترکیبی کچھ ایسی تھی کہ اچھے سے اچھا موٹا تازہ اور نو بہ نوگھوڑا یکہ میں لگنے کے چند ہی روز میں دُبلا پتلا اور ایسا مریل ہو جایا کرتا کہ دیکھنے والوں کے دل رحم سے بھر جاتے راستہ کا اکثر حصہ سواریاں پیدل چل کر پہنچتیں.اور برسات کے موسم میں تو خدا کی پناہ.بعض اوقات پورا پورا دن چلنے سے بھی قادیان نہ پہنچ سکتے.یکے پھنس جایا کرتے تو ایسی مصیبت ہوا کرتی جو برداشت سے باہر ہو جاتی.سامان مزدوروں کے سروں پر اٹھوا کر منگایا جا تا.سواریاں پیدل آتیں.یکہ بان مجبور ہو کر گھوڑا کھول کر لے آتا.یکہ سڑک میں کھڑا رہتا.اس کیفیت کی اگر تفصیل بیان کروں تو پوری ایک کتاب بن جائے.برسات میں قادیان کی حالت قادیان کی بستی نشیب میں واقع ہے برسات کی وجہ سے چاروں اطراف سے پانی کا سیلاب آیا کرتا جس سے گاؤں کے گرد کی ڈھا میں کھائیاں اور خندقیں بھر جایا کرتیں.اور زائد پانی ڈیڑھ میل تک قریباً

Page 139

۱۲۴ بٹالہ قادیان کی سڑک میں سے ہی گذرا کرتا جو بعض اوقات اتنا گہرا تیز اور زور سے چلتا کہ اس میں سے سلامت گذر جانا ہر کسی کا کام نہ تھا.گاؤں صحیح معنوں میں ایک جزیرہ ہو جایا کرتا.دیہات ومضافات سے آنے والے اور مسافر کیا ، عورت اور کیا مرد.کپڑے اتار کر برہنہ ہوکر گاؤں میں پہنچا کرتے اور یہ منظر نہایت ہی ناگوار اور غیرت کش ہوا کرتا تھا ( وسائل آمدروفت کی تکلیف جہاں قادیان پہنچنے میں بھاری روک ہوا کرتی وہاں آبادی کی ترقی میں بھی ایک سد سکندری تھی.) اسٹیشن دور، وسائل بار برداری کمزور، اینٹ تک بھی بٹالہ سے منگانی پڑتیں.جو علاوہ خرچ کے وقت بہت لیا کرتیں.گڈے ٹوٹ کر اور گدھے بوجھ سے تھک کر راستہ ہی میں رہ جایا کرتے.مجبوراً سامان وہیں ڈھیر کرنا پڑتا جس کی حفاظت نہ کی جائے تو آدھا پلے پڑتا.حضرت اقدس کے طفیل جب آنے والے ان مشکلات سے بھی نہ گھبرائے نہ تھکے تو اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.ایک دو میکوں کی بجائے پہلے تو یکے ہی بڑھ گئے.کمائی دیکھ کر کئی لوگوں نے یکے بنا لئے.ان کے علاوہ سواری کا رخ دیکھ کر دوسری سڑکوں کے یکے بھی قادیان کو آنے لگے.کچھ یکے کی وضع قطع اور بناوٹ میں تبدیلی ہوئی.پہلے یکہ پھر ترقی یافتہ یکہ.اس کے بعد بمبو کارٹ اور ٹم ٹم کے بعد ٹانگہ بنا.☆ جائیداد غیر منقولہ کی بیقدری اس زمانہ میں جائیداد کی کوئی قیمت تھی نہ قدر.زمین و مکان کوڑیوں کے مول بکتے کوئی خریدار تھا نہ گاہک.چنانچہ قلعہ کی فصیل جو گورنمنٹ برطانیہ کی ملکیت قرار پا چکی تھی اور کا غذات سرکاری میں نزولی رقبہ کہلا تا تھا جب حکومت نے نیلام کرنا چاہی تو کئی مرتبہ نا کامی ہوئی.اور نیلام کنندہ حکام نا کام واپس چلے گئے کیونکہ کوئی اس کے خرید نے کو تیار نہ ہوتا.آخر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ابتدائی زمانہ میں آخری مرتبہ نیلام ہوا.اور فصیل کی زمین مفت کے برابر برائے نام قیمت پر اس مضمون میں خطوط واحدانی کی شکل میں جو اضافہ کیا گیا ہے وہ الحکم بابت ۱۴۷ مئی ۱۹۳۸ء میں اندراج سے کیا گیا یا استفسار کر کے خاکسار مؤلف نے زائد کیا ہے.یہ مضمون ”ارض حرم کی ابتدائی تاریخ وغیرہ سہ گونہ سرخیوں کے ساتھ الحکم بابت ۷ ۱۴ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۳ تا ۸ میں شائع ہوا ہے.البتہ عبارت وسائل آمد و رفت کی تکلیف سے لے کر آخر پیرا تک جو الفاظ ٹمٹم کے بعد ٹانگہ بنا ، میں صفحہ اسے ماخوذ ہیں.

Page 140

۱۲۵ لوگوں کے گلے منڈھ دی گئی.مرزا محمد اسمعیل صاحب مرحوم جو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کارندہ تھے.انہوں نے بھی خاندانی مکانات کے سامنے کی زمین کی بولی دے کر بہت ارزاں خرید لی.مرحوم بیان کیا کرتے تھے کہ میں خوشی خوشی حضرت کے حضور گیا اور اپنی طرف سے بطور خوشخبری یہ خبر سنائی مگر حضرت نے فرمایا: سمعیل ! ہم نے یہ زمین کیا کرنی ہے.آپ نے بے پوچھے کیوں خرید لی؟ ہمارے کس کام کی ہے اور ہمارے پاس تو روپیہ بھی نہیں.“ مرزا اسمعیل صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ میں بولی دے چکا تھا.انکار ہوسکتا تھا نہ واپس کی جاسکتی تھی.اور نہ ہی کوئی اور اسے خریدنے کو تیار تھا.مجبوراً میں نے قرض و دام کر کے قیمت ادا کر دی مگر جب حضور کو میرے اس فعل کا علم ہوا تو حضور نے وہ ساری رقم ایک یا دو مرتبہ کر کے مجھے ادا کر دی.اور وہ زمین اس سلسلہ کی اہم ضروریات میں کام آئی.میرا اندازہ ہے کہ اگر آج یہ زمین خریدنی پڑتی تو موقعہ کے لحاظ سے کم از کم سو گنا زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی.( شکتہ فصیل کا ملبہ مدرسہ احمدیہ مہمان خانہ اور الوخانہ وغیرہ کے مقامات پر ڈھاپ پر کرنے کے لئے ڈال دیا گیا تھا.(از مؤلف ) سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جہاں آج کل مدرسہ احمدیہ ہے یہاں ایک پلیٹ فارم بنا ہوا تھا.پہلے یہاں فصیل ہوا کرتی تھی.گورنمنٹ نے اسے نیلام کر دیا.اور اس ٹکڑے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے خرید لیا.جہاں تک مجھے یاد ہے یہ ٹکڑا زمین ستر روپوں میں خریدا گیا تھا.حضرت خلیفہ اول ان دنوں جموں میں تھے جب آپ کو یہ اطلاع ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ زمین خریدنا چاہتے ہیں تو غالباً آپ نے ہی روپے بھجوائے تھے اور آپ کے روپوں سے ہی یہ زمین خرید کی گئی تھی.تعلیم اور ڈاک کے احوال گذشتہ تسلسل میں حضرت بھائی جی مزید لکھتے ہیں : تعلیم کا یہ حال تھا کہ اس خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کو الگ کر کے ( معمولی شد بد کے آدمی بھی ڈھونڈے نہ ملا کرتے تھے ) بمشکل ایک یا زیادہ سے زیادہ دو فیصدی معمولی نوشت و خواند کے آدمی مل سکتے ہوں گے.صرف ایک ہی بالکل چھوٹا سا دیہاتی پرائمری سکول تھا جو ڈسٹرکٹ بورڈ کی طرف سے چلایا

Page 141

۱۲۶ جار ہا تھا.دوسرا کوئی مکتب تھانہ مدرسہ.اسی سکول کے ایک ماسٹر کو دو چار رو پیدا الا ونس دے کر ڈاک خانہ کا انچارج یا برانچ پوسٹ ماسٹر بنا دیا جایا کرتا.جو صبح شام ایک گھنٹہ ڈاک کی آمد اور روانگی نیز دیگر کاموں کے لئے دیا کرتا.ڈاک بٹالہ سے ایک ہرکارہ کے ذریعہ ہفتہ میں ایک مرتبہ ایک چھوٹی سے تھیلی میں آیا کرتی جو تقریبا تمام کی تمام ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضور کے غلاموں کی ہوا کرتی تھی.گاؤں میں شاذ ہی کسی کا کوئی خط ہوا کرتا.اور اگر کسی کا خط آ بھی جاتا تو اس کو پڑھانے کے لئے در بدر اور کو بہ کو پھرنا پڑتا.( مجھے اکثر ڈاک اور تار لانے لے جانے کی خدمات سرانجام دینے کا موقعہ ملتا تھا.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تاروں کے آنے اور جانے میں کن مشکلات کا سامنا ہوا کرتا تھا.اکثر ایسا ہو جایا کرتا کہ کسی آنے والے مہمان نے آنے کی اطلاع میں تار دیا.مہمان پہلے آن پہنچتے اور تار بعد میں ملتا.بعض ایسے معاملات جن کا جواب بذریعہ تار مطلوب ہوتا تو خاص آدمیوں کو اس غرض کے لئے بٹالہ میں جا کر دو دودن تک رہنا پڑتا تھا.اور کئی اہم کاموں بلکہ جانوں کا بھی اس کمی کی وجہ سے وقت پر دوائی یا طبی امداد نہ پہنچ سکنے کے باعث نقصان برداشت کرنا پڑا کرتا.دوست لیٹ فی (Fee) اور قلی ہائر (Hire) ادا کر کے بھی اس زمانہ میں تار کے فوائد سے اکثر محروم رہ جایا کرتے تھے بسا اوقات چٹھیاں بھی قادیان کی بجائے بٹالہ میں ڈاک میں ڈالی جاتی تھیں.کیونکہ خطرہ ہوتا تھا کہ قادیان کے ڈاک خانہ میں ڈاک پڑھ نہ لی جائے.یا روک نہ لی جائے ).“ چونکہ بھائی جی کے حالات میں ذکر ہے کہ والد صاحب جب مجھے لینے آئے تو لالہ بڑھامل صاحب کی مشرقی بلڈنگ میں واقع ڈاک خانہ میں اچانک ملے تھے.آج ۱۲ ستمبر ۱۹۶۰ء کو خاکسار کے عرض کرنے پر موقعہ پر تشریف لے گئے.لالہ جی کی بازار کے مغربی کونے میں دومنزلہ بلڈنگ ہے اس کے بالمقابل والی عمارت ان کی نہیں.اس پر میں نے لالہ بڈھا مل جی کے فرزند لالہ واسد یوجی کو تکلیف دی.انہوں نے بہت سے حالات سنائے اور اپنے نام سے شائع کرنے کی اجازت دی.لالہ جی نے بتایا کہ میری عمر اس وقت پینسٹھ سال کی ہے میں قادیان کی آریہ سماج کا صدر ۱۹۱۳ء سے ۱۹۵۵ء تک اور دیانند آریو و یدک ہائی سکول کی منیجنگ کمیٹی کا صدر ۱۹۳۱ء سے ۱۹۵۵ء تک رہا ہوں.میرے والد صاحب ( متوفی ۱۹۳۱ء بعمر اسی سال) نے میرے بڑے بھائی لالہ درگا داس ( متوفی ) کی شادی کے موقع پر اپنی عمارت کے متصل جانب جنوب والی عمارت آریہ سماج کے مندر کے لئے دان کے طور پر دے دی تھی.اس مندر کے ملحقہ جانب جنوب کی دودکانوں میں شجھ چنک اخبار نکالنے کے لئے اس کا دفتر اور مطبع کھولا گیا تھا

Page 142

۱۲۷ اور اخبار والوں نے اسی ہند و بازار میں ایک اوشد ہالہ ( مطب ) بھی جاری کیا تھا.مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ شدید طاعون سے ( مارچ اور اپریل ۱۹۰۷ ء میں.مؤلف ) اس اخبار کا سارا عملہ اور آریہ سماج قادیان کے سارے کرتا دھرتا لقمہ اجل ہو گئے اور آریہ سماج کا کام ٹھپ ہو گیا اور اخبار بھی بند ہو گیا.لالہ ملا وامل صاحب اور لالہ شرمیت صاحب کو آریہ سماج سے کوئی ہمدردی نہ تھی کیونکہ وہ دل سے احمدی تھے اور صرف نام کے آریہ تھے.اس لئے اس کے بعد ۱۹۱۳ء میں میں نے آریہ سماج مندر کی مرمت کرائی ورنہ یہ چھ سال سے بند پڑا تھا.اور اس کی ایک دیوار بھی مہندم ہو گئی تھی.اور دیوار پھاند کر اندر سے میں نے اس کا دروازہ کھولا تھا.میں نے اور لالہ ملا وامل صاحب کے لڑکے لالہ دا تا رام صاحب نے از سر نو آریہ سماج کا کام شروع کیا.اب یہ مندرہ سال سے مقامی آریہ سماج نے پنجاب نیشنل بنک کو کرایہ پر دے رکھا ہے.مندر مسجد وغیرہ بھی کرایہ پر نہیں دی جاتیں.یہ واحد مثال ہے کہ یہ مندر کرایہ پر دیا گیا ہے.لالہ جی نے یہ بھی بتایا کہ پہلے پرائمری مدرسہ کے استاد کو آٹھ دس روپے کا الاؤنس دیا جا کر اس سے ڈاک خانہ کا کام بھی لیا جاتا تھا.بعد ازاں پچھتیں تھیں روپے تنخواہ منظور ہوئی.اور ایک سب پوسٹ ماسٹر متعین ہوا.اس وقت ہندو بازار میں جواب کر پا رام - انت رام صاحبان کی کلاسوالہ شو کمپنی کی دکان ہے (جس کا میونسپل نمبر ۳۸۲ وارڈ نمبر ۵ ہے.مولف) یہ اس وقت ڈاک خانہ تھا ( یہ دکان مذکورہ بالا آریہ سماج مندر کے قریباً سامنے بازار کی مشرقی قضا میں ہے اس مرحلہ پر حضرت بھائی جی کو یاد آ گیا کہ وہی ڈاکخانہ کا مقام ہے جو لالہ جی بتاتے ہیں نہ کہ جو بھائی جی نے اپنے حالات میں لکھا ہے.پھر حضرت بھائی جی اور خاکسار حکیم لالہ دا تا رام صاحب پسر حکیم لالہ ملا وامل صاحب سے ان کی دکان پر ملے.انہوں نے بتایا کہ میری عمر چھیاسٹھ سال کی ہے.لالہ واسد یو صاحب نے ڈاک خانہ والا مقام جو متعین کیا ہے وہ صحیح ہے.اس وقت اللہ دتہ صاحب پوسٹ ماسٹر ہمیں روپے پر متعین ہو کر آئے تھے ( یہ غیر احمدی تھے اور مارچ ۱۹۰۷ ء سے قبل قادیان سے جاچکے تھے.بحوالہ تمہ حقیقتہ الوحی نشان ۱۹۹ تا ۲۰۱.مؤلف ) کچھ عرصہ بعد یہ ڈاک خانہ چھوٹے ہند و بازار میں جوغر با شرقا ہے ) اس دکان میں منتقل ہوا جہاں جنوبی قطار میں وسط بازار سے قبل ہی حکیم اجا گر سنگھ صاحب کی دکان ہے (جس کا میونسپل نمبر ۸۲ ہے.مؤلف ).بعد ازاں مسجد اقصیٰ کے مشرق میں منتقل ہوا.جہاں کہ بعد میں صدرانجمن کا دفتر جائیداد بنا تھا.وہاں سے موجودہ عمارت میں منتقل ہوا.ان انتقالات اور مقامات کی حضرت بھائی جی نے تصدیق فرمائی اور ان دونوں ہندو دوستوں کے بیانات بھی آپ کے سامنے ہوئے اور آپ نے ان کی تصدیق فرمائی.

Page 143

۱۲۸ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کاش کے ایڈیٹر نے شجھ چنک اخبار کے جاری رکھنے کے لئے آریہ سماج کو بہت غیرت دلائی اور اپنے اخبار میں لکھا کہ اس کی خدمت کا بوجھ اپنے ذمہ لیتا ہوں لیکن ناکامی ہوئی بٹالہ پہنچ کر بھی تحریکیں کیں.آریہ گرلز سکول جو جاری کیا گیا تھا وہ بھی ختم ہوا.نیم برہنہ زبان اور کرخت زبان لباس اس علاقہ کے لوگوں کا اتنا مختصر کہ عریانی اور ستر عورت بھی نہ ہوا کرتی.نیم برہنہ کہنا گو یا لغت میں تصرف کرنا ہوگا.کیونکہ حقیقتہ عوام بالکل ننگے اور برہنہ ہوا کرتے تھے.چار انگل کی ایک لنگوٹی ان کا لباس تھا جس کو دیکھ کر بعض اوقات سیدنا حضرت نور الدین ان سے ایک سوال کیا کرتے مگر تعجب ہے کہ وہ کچھ ایسے بے حس ہو چکے تھے کہ ان کا جواب ان کے لباس سے بھی زیادہ مکروہ اور نگا ہوتا تھا.مستورات یا عورتیں جن کے نام ہی میں ستر اور پردہ لازم قرار دیا گیا تھا.عموماً بے پردہ پھرتیں.رات کو سونے میں برہنگی اور ایک نہایت ہی قبیح رسم آڈہٹر ونجا کی لعنت میں مبتلا تھیں.زبان اتنی موٹی بھری اور کرخت تھی کہ کان اس کی برداشت نہ کر سکتے تھے.گالی کے بغیر ان کی بات مکمل نہ ہوا کرتی.اور کلام میں حلاوت اور شیرینی پیدا کرنے کے لئے پھکڑ بازی لازمی تھی.بچوں کو بچپنے ہی سے اس کا مشاق بنایا جاتا.اور گالی گلوچ کی باقاعدہ تعلیم دی جایا کرتی اور جب بچہ اس علم میں طاق ہو کر باپ یا بڑے بوڑھوں کو منہ پر گالی دینے کے امتحان میں کامیاب ہو جاتا تو واہ واہ کی صدا گونج اٹھتی اور ہر طرف سے داد ملتی.غرض گالی لوگوں کی عادت اور لازمہ سخن ہو چکی تھی اور اظہار محبت و پیار کے لئے تو یہ چیز ایسی ضروری تھی جیسے کھانے میں نمک.اس زمانہ میں مساجد قا دیان -1 مسجد مبارک جو دراصل مسجد البیت تھی.جس کا نام بیت الذکر تھا.یہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے خود بنوائی تھی.-۲ مسجد اقصیٰ جو حضور پر نور کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے بنوائی.انہی کا مزار مبارک آج کل مسجد اقصیٰ کے وسط میں واقع ہے.انہوں نے یہ مسجد کن حالات اور کس نیت سے بنائی.وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور مسجد کی قبولیت سے ظاہر ہے.اور اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت سے بڑھ کر اور کیا

Page 144

۱۲۹ چیز انسانی اعمال اور اس کی قلبی کیفیت کے نیک و بد کی گواہ ہوسکتی ہے.حکم خاتمہ وانجام کی نوعیت پر لگا کرتے ہیں.کون جانتا ہے کہ اس مقدس انسان نے خاندانی ریاست اور آبائی جائداد کے حصول کی کوشش کس نیت اور ارادہ سے کی تھیں.کون سمجھ سکتا تھا کہ ان کی یہ ساری تگ و دو کن اغراض و مقاصد کے لئے تھی.کس کو اس بات کی خبر ہے کہ انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر اور نہایت قیمتی حصہ کس چیز کے حصول میں خرچ کر دیا.اس بات سے کون مطلع ہے کہ انہوں نے اپنی عمر کا سارا اندوختہ اور ستر ہزار روپیہ کس غایت ومرام کی تلاش میں اڑا دیا ؟ اور کون اس امر سے آگاہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہوئے کہ: ”ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی (مسیح موعود کی ) توجہ ہے یعنی دین کی طرف ہیچ اور سچی بات یہی ہے.ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں.“ حضور کو بھی اپنے ساتھ دنیوی کاموں میں شریک کر کے دنیا دار اور رو خلق بنا لینے کی کوشش کس خیال سے فرمایا کرتے تھے.اللہ اور صرف اللہ ہی کی ذات ہے جو ان کے قلب کی گہرائیوں اور اندرونی بھیدوں سے واقف، قلبی کیفیات سے آگاہ اور نیت کی حقیقت کا راز دان ہے.اس کی میزان صحیح اور ناپ درست.اس میں غلطی ناممکن ہے.پس خدا تعالیٰ جس طرح اپنی قدرت نمائی سے پہچانا جاتا ہے.اسی طرح اس کی مرضی اس کی فعلی شہادت سے پائی جاسکتی ہے.حضرت مرزا صاحب مرحوم کا دنیوی ناکامیوں اور نامرادیوں کے بعد مغموم ومحزون رہنا اور یہ کہتے رہنا کہ " جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا تو شاید آج قطب وقت یا غوث وقت ہوتا.“ ایک پاک تبدیلی اور تبتل الی اللہ کی دقیع دلیل اور قومی بر ہان ہے اور عـــرفــت ربـی بـفـســخ العزائم کا مقولہ ان کے نور معرفت پا جانے کا ثبوت.اس کے علاوہ عمر بگذشت و نماند است جز ایام چند به که دریاد کسے صبح کم شامے چند نیز از روئے تو اے کس ہر ہے کسے نیست امیدم که روم نا امید

Page 145

۱۳۰ اور باب دیده عشاق وخاکپائے کیسے مرادی است کہ درخون تپد بجائے کسے ان اشعار کی حقیقت سے آشنا اور جس دل سے نکالے اور بار بار پڑھے جایا کرتے تھے، اس کی کیفیت کا واقف علیم وخبیر.قادر و توانا خدا ہے.خدا تعالیٰ کے حضور خالی ہاتھ جانے کی حسرت کا احساس ، ایک سلیم دل اور قلب صافی کی سچی ٹیس.ارحم الراحمین خدا کے حضور شرف قبولیت پائے بغیر نہیں رہ سکتی.خدا نے ان کی دنیا اور دنیا کے سارے ہموم و عموم کو دین خالص اور اپنی ذات کی جستجو وطلب میں سعی و کوشش بنا کر قبول فرما لیا تھا.ان سب باتوں کیساتھ سب سے اہم اور بڑی بات سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں جو حضور ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور کیا کرتے تھے.کس اضطراب، گدازش اور سوز و نیاز سے کی جاتی ہوں گی.وہ انسان کامل نہ صرف بیگانوں اور غیروں بلکہ اپنے جانی دشمنوں تک کے لئے انتہائی در درکھتا ہو.اور ان کی بہبودی کے واسطے اپنی جان عزیز تک گداخت کر دینے کا عادی ہو.اپنے شفیق باپ کے لئے کیا نہ کرتا ہوگا.ان باتوں اور ان کے دیگر احوال کو یکجائی نظر سے دیکھنے سے ان بزرگ مرحوم و مغفور کا مقام عالی قرب اور وصال سامنے آنے لگتا ہے.اور دل ان کی محبت سے بھر جاتا ہے.ان کی عظمت سے ڈر جاتا ہے اور بے ساختہ دل سے دعائیں نکلنے لگتی ہیں.علی الخصوص جبکہ ان کے نیک انجام.خاتمہ بالخیر اور وصال الی اللہ کا سانحہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزا پرسی کے معاملہ پر غور کیا جائے.تو اس بزرگ ہستی کی قدر و قیمت اور مرتبہ و مقام کی رفعت معلوم ہوتی ہے.کتنے ہی دنیا میں ایسے انسان جن کی وفات پر خدا نے اولاد کو پیغام ہمدردی بھیجا ہو ؟ سبحان ما اعظم شانہ.ان کا آخری عمل ( تھا ) یعنی تعمیر مسجد اور آخری خواہش ( تھی) کہ اسی مسجد کے ایک کو نہ میں میری قبر ہوتا اللہ جل شانہ کا نام میرے کان میں پڑتا رہے.کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو.“ قادیان کے عروج کے زمانہ کی مساجد کے حالات اور تذکرے ان کی خوبصورت، وسعت اور شان وشوکت کی روایات اور آبادی و معموریت کی داستانیں آپ نے اپنے بزرگوں سے سنی ہوں گی.جن.میں قادیان میں آبیٹھنے والے علماء فضلاء، حفاظ اور اولیاء واقطاب کے علاوہ آس پاس کے قلعوں کے حکام وامراء، نیز افواج اور ان کے سردار ہر جمعہ کو جمع ہوتے اور نمازیں گزارا کرتے تھے.ان کی یاد کتنی دلدوز

Page 146

۱۳۱ اور روح فرسا ہوتی ہوگی.جن میں سے حضرت مرزا صاحب مرحوم نے کوئی بھی نہ دیکھی.اور جو ایک مسجد البیت دیکھی تو ایک دھر مسالہ کی شکل اور سکھوں کے قبضہ میں.کتنا درد اٹھتا ہوگا ان کے دل میں.اور کیا حالت ہوگی ان کے قلب کی؟ اپنی کوئی مسجد نہ دیکھ کر ان کے دل میں مسجد بنانے کا جوش پیدا ہوا.خدا نے توفیق بھی رفیق فرمائی اور وہ مسجد بن گئی.( یہ ) مسجد موجود ہے.اس کی شکل وصورت اور بناوٹ، خوبصورتی و مضبوطی اس عظیم انسان کے جذبات کی مظہر ہے.گئے گزرے دنوں اور عمر بھر کی ناکامیوں اور مایوسیوں کے بعد جس خاندان کے ایک فرد نے ایسی مسجد تعمیر کرائی.اس کے بر سر حکومت واقتدار بزرگوں نے کیسی خوبصورت ، وسیع اور شاندار مساجد بنائی ہوں گی ؟ لوگوں نے مقامی حالات اور بستی کے مسلمانوں کی بے دینی و جہالت کے مد نظر عرض بھی کیا کہ اتنی بڑی مسجد ( آپ ) بناتے ہیں.نمازی کہاں سے آئیں گے؟ کہتے (اس میں ) ہوگا کریں گے مگر آپ نے ایسی مسجد بنائی جسے خدا نے قبول کیا اور بڑھایا اور ا بھی بہت بڑھائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اصل مسجد کا رقبہ زیر گنبد قریباً سوا چار سو مربع فٹ مستقف اور ساڑھے تیرہ سو مربع فٹ بصورت صحن تھا.منارۃ اسیح کی بنیاد کے ساتھ ہی اس مسجد کی توسیع بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی نے کروائی.جس سے مسجد اقصیٰ کا صحن تین ہزار چار سو مربع فٹ بڑھ گیا.اول فرش صحن اور اس اضافہ کا امتیاز نمایاں موجود ہے.اور کنواں، مزار شریف، نیز منارة امسیح ، مسجد کے صحن میں شامل ہو گئے.مشرقی کو چہ کو مسقف کر کے غسل خانے اور وضو کے لئے پانی کا انتظام کر دیا گیا اور اس طرح صحن سے کئی گنا زیادہ بڑھ گیا تھا.۴۰۳ تیسری مسجد محلہ ارائیاں اور چوتھی حلقہ خوجیاں میں تھی.اور یہ دونوں بالکل چھوٹی ، ویران اور غیر آباد پڑی تھیں.ان کی بناوٹ اور وضع سے معلوم ہوتا ہے کہ پرانی اور قدیم نہیں بلکہ ایام امن اور قریب زمانہ کی بناوٹ تھیں.ایک عرصہ تک ہم لوگ عموما غسل وغیرہ کے لئے وہیں جایا کرتے کیونکہ غسل خانے صرف انہی میں تھے نوافل بھی ادا کر لیا کرتے یا بعض آس پاس رہنے والے دوست فرائض بھی ان میں پڑھا کرتے رہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانہ میں ان کی مرمت و آبادی اور ڈول رسی کے چندوں میں بھی احمدی غیر احمدی کا کوئی امتیاز نہ تھا.سبھی حسب توفیق حصہ لیا کرتے.آب نوشی اور دیگر ضروریات کے لئے کنواں صرف ایک وہی جو مسجد اقصیٰ کے صحن میں حضرت اقدس کے والد بزرگوار حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے اپنی عمر کے بالکل آخری حصہ میں بنوایا.حضور کے حصہ میں آیا دیوان خانہ میں بھی ایک

Page 147

۱۳۲ کنواں تھا مگر وہ حضور پُر نور کے بڑے بھائی کے حصہ میں چلا گیا.حضرت کے گھر اور مہمانوں کے ہاں تو ستے بہشتی جہاں سے چاہتے پانی لے آتے.مگر ہم لوگوں کو اپنی ضروریات کے لئے مسجد اقصیٰ ہی کے کنویں پر جانا پڑا کرتا تھا.کیونکہ ایک طرف تائی صاحبہ محترمہ تو دوسری طرف مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین صاحبان ڈانٹ ڈپٹ کیا کرتے اور بعض اوقات نا قابل برداشت طعن و تشنیع تک نوبت پہنچا دیتے.پس اس طرح ہمارے لئے صرف ایک خدا کے گھر کا کنواں کھلا تھا جس طرح کہ خدا عالم و عالمیاں نے اس مقدس و مقبول الهی بزرگ قطب اور غوث انسان کے دو بیٹوں میں سے ایک کو اپنے نور کا سرچشمہ اور فیوض کا منبع بنا کر ہمیں اس تک پہنچا دیا اور وہ اکیلا ہی خلق و جہاں کے ورثہ میں آیا.اسی طرح آپ کے ترکہ مادی کے دو کنوؤں میں سے ایک اور صرف ایک ہی کنواں آنے والی پیاسی دنیا کے لئے کھلا تھا جو فضل الہی سے اس نواح میں اپنے پانی کی لطافت و پاکیزگی ، صحت افزائی و تنگی نیز بعض اور خواص کے لحاظ سے بھی ممتاز ہے.مهمان خانه اس زمانہ میں ابھی کوئی نہ تھا.سید نا حکیم الامت حضرت مولانا نورالدین اعظم رضی اللہ عنہ کے مطب ہی میں آنے والے مہمان قیام کیا کرتے.اور یہی جگہ سب کے لئے کافی اور دافی ہوا کرتی تھی یا پھر حضرت اقدس کا الدار بطور مہمان خانہ استعمال ہوتا تھا.لنگر خانه لنگر خانہ بھی علیحدہ کوئی نہ تھا بلکہ حضرت اقدس کے مکان کے اندر ہی ملک غلام حسین صاحب سالن وغیرہ تیار کرتے اور روٹی خادمات تیار کر لیا کرتیں.دفتر تھا اس زمانہ میں کوئی نہ محکمہ نظارت و وزارت ، مہمان نوازی ، مسافر نوازی اور غریب نوازی.اور کیا تالیف و تصنیف ، طباعت واشاعت ، بیمار پرسی و عزا پرسی.الغرض عام دینی کام تنہا سیدنا حضرت اقدس ہی کو کرنا پڑتے.سب افکار ، سارے انتظام صرف اور صرف حضور کے ذمہ تھے جن کو نہایت خوش اسلوبی اور بطریق احسن سرانجام پہنچایا جاتا.الغرض یہ ہستی اپنے عروج و اقبال کے بعد بعض مصالح الہی کے ماتحت دوبارہ ویرانہ وجنگل میں تبدیل

Page 148

۱۳۳ ہو کر گمنامی وقعر مذلت میں غرق ہو کر بالکل ایک چھوٹی سے بستی کی شکل میں تبدیل ہو چکی تھی.جہاں کوئی پر لیس تھا نہ اخبار، کارخانہ تھا نہ تار بجلی تھی نہ فون.ریل تھی نہ ڈیزل کار.حضور کو کیا ورثہ ملا حضرت بھائی جی کے اس بیان سے پہلے خاکسار ڈاکٹر گور بخش سنگھ صاحب میونسپل کمشنر کے بھائی سردار بخشیش سنگھ صاحب ولد سردار لہنا سنگھ صاحب قوم رام گڑھیہ سکنہ قادیان کا بیان یہاں درج کرتا ہے.خاکسار کے استفسار پر بتایا گیا کہ مجھے یاد ہے (حضرت) مرزا صاحب ہمیں یہ نصیحت کرتے تھے کہ قادیان بہت آباد ہو جائے گا اور ترقی کرے گا.آپ لوگ بھی بیشک ڈھاب وغیرہ کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیں.آپ کو بہت فائدہ ہوگا اور دوسرے لوگوں کو بھی قبضہ کر لینے دیں.ہم کہتے تھے کہ ہمیں تو یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ قادیان ترقی کرے گا.اور آپ جو مدرسہ وغیرہ کی عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں ، ہماری سمجھ میں تو یہ عمارتیں بھی ویران ہو جائیں گی اور یہاں بھی گدھے وغیرہ جانور بندھا کریں گے.“ حضرت بھائی جی تحریر فرماتے ہیں: سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گاؤں کی اراضیات اور جائیداد کے علاوہ بتیس دیہات کی تعلقہ داری میں بحیثیت ایک رئیس و مالک تھے.حضور کو اپنی کسی زمین کا علم تھا نہ جائیداد کا پتہ.وہ جس کے قبضہ میں تھی وہی اس کو استعمال کرتا اور فائدہ اٹھاتا.حضور کو لینے کی بجائے دینے پڑا کرتے.خرچ آمد سے زیادہ ہو جاتا اور مالیہ ولگان حضور کو اپنی گرہ سے ادا کرنا پڑتا.اس طرح حضور اس جائیداد کے لحاظ سے مزارعین یا کارندوں کے رحم پر تھے.شرکاء حضور کے دنیوی لحاظ سے اپنے فن کے ماہر علم کے پکے اور گانٹھ کے پورے تھے.وہ برسراقتد اور تھے اور ان کا دبدبہ ولاٹھی چلتی تھی.اللہ تعالیٰ کی تجلی رجوع خلق اور حضور کے فنافی اللہ فنافی الرسول اور فنا فی الدین ہو جانے اور اپنے بیگانوں کو اسی رنگ میں رنگین کرنے کی مساعی کی وجہ سے اور استقبال الی اللہ کے باعث ان کو حضور سے خدا واسطے کا بغض قلبی عناد اور دلی عداوت تھی.حضور کا عروج ان کو ایک آنکھ نہ بھاتا.اور وہ ہمیشہ در پے آزار رہتے.ہنسی مذاق اور تمسخر و استہزاء سے بھی بہت آگے نکل جایا کرتے.زیر مسجد خرافات کا نقشہ دکھائی دیا کرتا.ان حالات کو دیکھ کر ایمان اور بھی بڑھ جایا کرتے.کیونکہ قول خداوندی ( یعنی حضرت اقدس کے

Page 149

۱۳۴ الهام الى مولف) إِذَا نَصَرَ اللَّهُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَهُ الْحَاسِدِيْنَ فِي الْأَرْضِ کی صداقت روزانہ آنکھوں سے دیکھنے کا موقعہ ملا کرتا.ملکیت کے لحاظ سے وہ تینوں بھائی مل کر بھی حضرت کی ملکیت سے تقریباً ایک تہائی پر تھے.مگر زوروجور کے لحاظ سے ایسا نظر آیا کرتا کہ گویا وہی مالک و حاکم تھے.اور تفاصیل کو چھوڑتا اور ان کی ایذا رسانی کی صرف ایک ہی مثال درج کرتا ہوں جو جماعت میں مقدمہ دیوار کے نام سے مشہور و معروف ہے.یہ کام حضور کے شرکاء نے محض حضور کو اذیت پہنچانے اور دکھ دینے کی غرض سے سینہ زوری کرتے ہوئے کیا.ورنہ ان کا قطعاً کوئی حق نہ تھا.انہوں نے ایک دیوار کھڑی کر کے مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ دونوں کا راستہ بند کر دیا.جس کی وجہ سے حضور کے خادم ، غلاموں اور مہمانوں کے علاوہ خود حضور پر نور کوسخت اذیت پہنچی.کیونکہ حضور کو اپنے دوستوں اور خدام کی تکلیف کا احساس اپنی تکلیف سے بھی کہیں بڑھ کر ہوا کرتا تھا.مساجد میں پہنچنے کے لئے ایک لمبا چکر کاٹ کر لوگوں کو جانا پڑتا.اور برسات کے ایام میں تو کیچڑ گارے کے باعث اکثر لوگ پھسلنے گرنے سے چوٹیں کھاتے تھے.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے از راہ شفقت اپنے مکان کے گول کمرہ کے دروازے کھول کر راستہ بنوایا جس سے بہت حد تک تکلیف اور مشکل میں کمی ہو گئی.مگر تا ہم یہ ایک بھاری ستم اور انتہائی ظلم تھا جو ان لوگوں نے روا رکھا.اسی پر بس نہ تھی ان شرکاء کی دیکھا دیکھی اور شہ پر بعض وہ لوگ جو کمین کہلاتے اور رذیل اور ارذل ہوا کرتے وہ بھی دلیر ہورہے تھے.اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ اگر کوئی احمدی کسی ایسے افتادہ کھیت میں بھی رفع حاجت کے لئے چلا جاتا جو ملکیت تو ان کے آقا کی تھی مگر یہ لوگ بطور مزارعہ کبھی اس میں قلبہ رانی کر چکے تھے.تو یہ بد بخت اس کو اس بات پر بھی مجبور کرتے کہ وہ غلاظت اٹھا کر لے جائے.- کہیاں ، پھاوڑے اور ٹوکریاں کام کرتے مزدوروں سے چھین کر لے جانا ایک معمولی بات ہو گئی تھی.انفرادی طور پر لڑائی جھگڑا مار پیٹ اور تذلیل و تحقیر کے سلوک کے علاوہ ایک مرتبہ تو حملہ کر کے غریب احمدیوں کے گھروں تک میں آن گھسے تھے.ان مشکلات و مصائب اور بے پناہ مظالم کے مقابلہ میں ہمیں حکم یہ تھا کہ : صبر سے سب کچھ برداشت کرو اور اف تک نہ کرو جس میں برداشت کی تاب نہیں اور اس کا نفس اس کو انتقام و مقابلے پر آمادہ کرتا ہے تو بہتر ہے کہ وہ یہاں سے چلا جائے.“ گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار

Page 150

۱۳۵ اپنوں اور رعیت و محکوم لوگوں کا یہ حال تھا تو غیروں کی مخالفت ان کے مظالم اور سلسلہ کونا بود و معدوم کر دینے کی کوششوں اور منصوبوں کا کیا حساب وشمار ہوسکتا ہے؟ * سید نا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے خاندانی ترکہ سے جو ورثہ پایا اس کا اندازہ اللہ تعالیٰ کے اس تسلی آمیز اور محبت بھرے کلام سے ہو سکتا ہے جو حضرت کو اپنے والد صاحب بزرگوار کی وفات کے باعث و تقاضائے بشریت بعض وجوہ معاش کے بند ہو جانے کے خیال سے پیدا ہونے والے فکر پر آپ کو الہام فرمایا: اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ، تر کہ مرحوم کا قادیان کی اراضیات میں تخمینا تین آنہ تھا.بارہ آنہ بعض پیچیدگیوں میں مرزا اعظم صاحب الدار کا کنواں.بھائی جی لکھتے ہیں: کنواں ہمارا صرف ایک وہی تھا جو مسجد اقصیٰ کے صحن میں بانی مسجد علیہ الرحمۃ نے بنوایا.اس کے بعد سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الزار میں بننے والے کنوئیں کی تعمیر کسی قدر تفصیل چاہتی ہے.کن حالات میں اور کس طرح وہ بنا.سیدہ النساء حضرت اُم المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طعن کیا گیا جس کے نتیجہ میں فوری احکام کے ماتحت رات دن ایک کر کے سوائے ڈیوڑھی، اجرت پر چاہ کن اور چاہ ساز مہیا کئے گئے اور ہفتوں کا کام دنوں میں پورا کر کے یہ کنواں تیار ہوا.اس کے بعد دوسرا کنواں وہ بنا جو موجودہ بلڈ پو کے مشرقی جانب ہے.اس کا پہلا نام بورڈنگ کا کنواں ہوا کرتا تھا.بدر مورخہ ۷ / جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۵ پر محترم مرزا برکت علی صاحب اسٹنٹ انجینئر ابادان ( ایران ) کا تیار کردہ نقشه الدار مع تفصیل درج ہے.ان نقشہ جات کی تیاری میں ان کے خسر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی تفصیل بتا کر مدد دیتے تھے.اس کنویں کے بارے میں وہاں لکھا ہے جو گویا بھائی جی کا بیان کردہ ہے کہ حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے بھی چک نیچے اتارنے میں حصہ لیا.اس وقت حضرت اُم المؤمنین اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چھت پر کھڑے ملاحظہ فرمارہے تھے.“

Page 151

۱۳۶ کی طرف چلا گیا.اور قریباً قریباً ایک آنہ باقی تینوں شریک بھائیوں کا تھا.* خاکسار مؤلف موقعہ کی مناسبت سے سردار کشیش سنگھ صاحب ولد سردار لہنا سنگھ صاحب قوم رام گڑھیہ ساکن قادیان مذکور کا ذیل کا بیان یہاں درج کرتا ہے.جو انہوں نے خاکسار کے استفسارات پر بیان کیا.ان کے مکانات قصر خلافت کے قریب ہیں.باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے احسانات کے اقرارات کے تاوفات مخالفت سلسلہ میں ان افراد نے کبھی کمی نہیں کی تھی.* حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب کے ترکہ کے بارہ میں مکرم حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی کا یہ بیان غلط فہمی پر مبنی اور درست نہیں.آپ کے ترکہ کے بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے سیرت المہدی حصہ اول میں تفصیلی ذکر کیا ہے.قادیان کی کل ملکیت پانچ حصوں میں تقسیم کی گئی تھی.دوحصے اولا دمرزا تصدق جیلانی کو آئے تھے اور دو حصے اولا د مرزا گل محمد صاحب کو اور ایک حصہ خاص مرزا غلام مرتضی صاحب کو بحیثیت منصرم کے آیا تھا.جو بعد میں صرف ان کی اولاد میں تقسیم ہوا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کی وفات کے بعد ہمارے بعض غیر قابض شرکاء نے مرزا امام الدین وغیرہ کی فتنہ پردازی سے ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب پر دملیابی جائداد کا دعوی دائر کر دیا اور بالآ خر چیف کورٹ سے تایا صاحب کے خلاف فیصلہ ہوا.اس کے بعد پسران مرزا تصدق جیلانی اور مرزا غلام غوث ولد مرزا قاسم بیگ کا حصہ تو اس سمجھوتے کے مطابق جو پہلے سے ہو چکا تھا.مرزا اعظم بیگ لاہوری نے خرید لیا.جس نے مقدمہ کا سارا خرچ اسی غرض سے برداشت کیا تھا اور پسران مرز اغلام محی الدین صاحب اپنے اپنے حصہ پر خود قابض ہو گئے.مرزا غلام حسین کی چونکہ نسل نہیں چلی اس لئے ان کا حصہ پسران مرز اغلام مرتضی صاحب و پسران مرزا غلام محی الدین کو آ گیا.* بھائی جی لکھتے ہیں کہ : سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضور کے مہمان اور خادم غلاموں کو نہ صرف حضور کے شر کا ء ہی ستاتے اور دُکھ دیتے اور اذیت پہنچایا کرتے تھے بلکہ رعیت اور کمین کہلانے والے لوگ بھی ان کی شہہ اور انگیخت پر اتنے دلیر اور سینہ زور ہورہے تھے کہ کسی قسم کے زور و تعدی اور جفا سے ان کو دریغ نہ تھا.( غرض انبیاء کی طرح ہر طبقہ کی طرف سے فرداً فرداً اور اجتماعاً حضور کی مخالفت ہوئی جس میں ان لوگوں نے ناجائز اور جائز کا امتیاز نہ کیا.لیکن حضور نے وہ زمانہ نہ صرف یہ کہ خود پورے صبر وشکر ،

Page 152

۱۳۷ انہوں نے بیان کیا کہ میں موجودہ میاں صاحب ( حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ ) کا ہم جماعت ہوں عمر میں ان سے دو سال کے قریب بڑا ہوں.سات آٹھ سال کی عمر میں ہم کئی بچے آپ کے گھر بقیہ حاشیہ: - عزم و استقلال سے بسر فرمایا.بلکہ اپنے خدام اور غلاموں کو بھی ہمیشہ تحمل و بردباری اور انکساری و خاکساری کے ساتھ پوری شکر گزاری اور اعلیٰ اخلاق دکھانے کی نصیحت فرمایا کرتے.آخر ( مقدمہ دیوار میں ) خدا اور خدا کے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی فتح ہوئی اور دیوار گرانے کا فیصلہ اور ڈگری مع خرچہ ہوگئی.مگر خلق مسیحائی دیکھئے کہ مدعیوں کو خرچہ کی ادائیگی کے قابل نہ پا کر لطف فرمایا اور کرم فرماتے ہوئے معاف فرما دیا.غریب احمدیوں کے گھروں پر حملہ کر کے چڑھ آنے والے دشمن جب قانونی شکنجہ میں جکڑے گئے.تکبر وخودسری کا نشہ اترا تو ہوش آیا.نادم وشرمندہ ہوئے اور گلے میں رہی ، منہ میں گھانس لے کر دربار نبوۃ میں عفو و درگزر کے لئے حاضر ہوئے.حضور نے رحم فرمایا اور لا تشریب کا نقشہ پھر دنیا کو دکھایا.دد بعض معاند جو ڈھاب سے مٹی لینے کے جرم میں اکثر احمد یوں کی ٹوکری کہیاں چھین لے جایا کرتے.کھلے کھیتوں میں رفع حاجت کرنے والوں کو غلاظت اٹھانے پر مجبور کیا کرتے تھے.خدا کی طاعونی گرفت کا شکار ہوئے تو ان کو سمجھ آئی کہ یہ عذاب الہی ہمارے اعمال بد کا نتیجہ ہے.تو خدا کے گھر کی پناہ لینے پر مجبور ہوئے.چنانچہ لا بھانا می براہمن جو شرارت کی جڑھ اور شریروں کا ایک سرغنہ تھا.طاعون میں مبتلا ہونے کے بعد مسجد اقصیٰ کے دروازہ پر پہنچا.مسجد کی سیڑھیوں پر سجدہ کر کے پکارنے لگا: ما تا کر پا کر، میں بھولا.پھر کبھی تیرے مولویوں کو دکھ نہیں دوں گا“ مگر خدا نے آلن وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ فرماتے ہوئے اسے مہلت نہ دی اور اٹھا ہی لیا.وہ اخبار شجھ چنتک اور اس کا عملہ جس نے خدا کی مقدس و محبوب ہستیوں کی توہین و تذلیل اور گالی گلوچ کی نجاست بکھیر نا اپنا فرض مقرر کر لیا تھا.خدا کو پسند نہ آیا.اس نے حضرت اقدس کے دل میں درد پیدا کیا جس کے نتیجہ میں حضور نے قادیان کے آریہ اور ہم کے نام سے ایک کتاب لکھی.خدا نے اس کے محرکوں کو جس رنگ میں اٹھا کر جوابدہی کے لئے اپنے حضور بلایا وہ واقعات نہایت ہی عبرتناک ہیں.وہ بد زبان میگھو جس کا گھر مسجد اقصیٰ کے متصل اور چھت صحن کے برابر تھی.کوئی نو وارد مہمان بھولے سے لاعلمی میں اسے صحن مسجد کا حصہ سمجھ کر کبھی چھت پر چلا جاتا

Page 153

۱۳۸ دار مسیح) میں کھیل کود کے لئے آجاتے تھے اور (حضرت) میاں صاحب کو ہم ٹوپ پہنا کر ایک کرسی پر بٹھلا دیتے اور ہم دوسرے سارے ان کی سینا (فوج) بن جاتے.آپ کی والدہ صاحبہ نے کھچڑی بنا کر رکھی ہوتی تھی یعنی بادام اور اخروٹ کے مغز ملا کر رکھے ہوتے تھے وہ ہم سب بچوں کو یہ کھچڑی کھانے کے لئے دیتیں.وہ بہت اعلیٰ اخلاق کی مالک تھیں اور بڑے مرزا صاحب (حضرت مسیح موعود ) بھی ہمیں اپنے بیٹوں جیسا عزیز سمجھتے تھے.اور فرماتے تھے کہ یہ ہماری بہن کے بیٹے ہیں.ان کی والدہ قادیان کی ہیں اس لئے ہماری بہن ہیں.” بڑے مرزا صاحب (حضرت مسیح موعود ) ہمہ صفات متصف تھے.آپ میں سراسر خوبیاں ہی خوبیاں تھیں.آپ جب باہر نکلتے تو غیر از جماعت لوگ بھی آپ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے.جو کوئی آپ سے بد معاملگی سے پیش آتا آپ اس کی بدسلوکی کو نظر انداز کرتے.آپ کے چچا زاد بھائی مرز ا نظام الدین صاحب ہمیشہ آپ کی مخالفت پر کمر بستہ رہے لیکن آپ ان سے ہمیشہ احسان سے ہی پیش آتے تھے.جب مرزا نظام الدین صاحب نے مسجد مبارک کا راستہ، دیوار تعمیر کر کے بند کر دیا.اور نمازیوں کو دور سے ہماری گلی میں سے چکر کاٹ کر مسجد تک پہنچنا پڑتا تھا.(حضرت) مرزا صاحب چاہتے تو یہ بات ان کے لئے چنداں مشکل نہ تھی کہ اس دیوار کو گرا دیتے.یا اسے بننے ہی نہ دیتے لیکن آپ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے عدالت کی طرف رجوع کر کے چارہ جوئی کرنے کے طریق کو اختیار کیا.اس زمانہ کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے سردار صاحب نے خاکسار مؤلف کو بتایا کہ (حضرت) مرزا صاحب کے ساتھیوں کی کہیاں ٹوکریاں لا بھا نا می برہمن چھین لے جاتا تھا.لا بھا کی کیا جرات تھی کہ وہ یہ کام کر سکتا.وہ مرزا نظام الدین صاحب کا آلہ کا رتھا اور یہ ساری شرارتیں ان کی شہ پر ہی کرتا تھا.بقیہ حاشیہ: - تو وہ میگھو گھنٹوں نہ صرف اس شخص کو کوستارہتا بلکہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اور حضور کے سارے خاندان کو نہایت ہی نازیبا الفاظ میں گندی گالیاں اور بددعائیں دیا کرتا تھا.چنانچہ ایک مرتبہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جبکہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ، دور و نزدیک کے کئی سو صحاب کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں موجود تھے.اس نے اپنی گندی فطرت وار بدزبانی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ الامان الحفیظ.مگر انجام کیا ہوا اور پھل کیا پایا ؟ خدا کی پناہ!

Page 154

۱۳۹ اور ٹوکریاں وغیرہ چھین کر ان کے ہاں پہنچا دیتا تھا.“ سردار صاحب نے سید احمد نور صاحب کابلی والے مشہور واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مار پیٹ ہوئی اور ہم دس بارہ غیر مسلموں پر بلوہ کا مقدمہ دائر ہوا.بلوائیوں کی فہرست میں میں اور بڑے بھائی سردار پرتاپ سنگھ صاحب کے نام بھی شامل تھے.ہماری درخواست کرنے پر ( حضرت ) مرزا صاحب نے (حضرت) شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو بلا کر ہدایت کی کہ تحصیلدار صاحب بٹالہ کے پاس جائیں اور ان سے کہہ دیں کہ ہم نے ان بلوائیوں کو معاف کر دیا ہے.حضرت عرفانی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ باوجود میرے عرض کرنے کے کہ یہ مقدمہ فوجداری ہے اور سر کا ر کی طرف سے دائر ہے اور اب صرف فیصلہ سنائے جانے کے لئے پیشی مقرر ہے حضور نے یہی حکم دیا کہ ہماری طرف سے آپ جا کر یہ کہہ دیں چنانچہ تحصیلدار صاحب نے ان بلوائیوں کو شرمندہ کیا کہ ایسے نیک شخص کو آپ لوگ تنگ کرتے ہیں کہ جس نے عین سزا سنائے جانے کے وقت بھی آپ لوگوں کو معاف کر دیا ہے.سردارصاحب مزید یہ بیان کرتے ہیں کہ سید احمد نور صاحب کا بلی والے معاملہ میں لا بھا برہمن کے بھائی کو سر پر چوٹ آئی تھی.جس کا علم ہونے پر ( حضرت ) مرزا صاحب نے ایک طرف تو سید صاحب کو بلا کر کہا کہ ان دونوں پٹھانوں کو جو اس مار پیٹ کی لپیٹ میں آگئے تھے فوراً ان کے وطن روانہ کردیں اور فرمایا یہ غیر مسلم ہمارے عزیز ہیں اور ہمارے ہم وطن ہیں ہمیں ان کا ہر طرح لحاظ ہے اور دوسری طرف ایک سوروپیہ کا نوٹ لا بھا برہمن کے بھائی کو بھجوایا کہ اسے اپنی غذا اور دوا پر صرف کریں اور مقدمہ تک نوبت نہ پہنچا ئیں.لیکن چونکہ برہمن مذکور نے دوسرے لوگوں کی شہ پر مقدمہ دائر کر دیا یا رپٹ لکھوادی اس لئے بلوہ والا معاملہ اٹھانا پڑا.خطوط وحدانی کے الفاظ خاکسار مؤلف کے ہیں) ۲- حضرت اقدس کے زمانہ میں قادیان مهمان خانه مہمان خانہ ابتداء میں کوئی خاص موجود نہ تھا نہ مقرر.آنے والے خوش نصیبوں کے ناز اس زمانہ میں

Page 155

۱۴۰ عموماً خدا کے برگزیدہ نبی ورسول علیہ الصلوۃ والسلام خود اٹھایا کرتے.ان کی مہمان نوازی کا فرض براہ راست وہ حبیب الہی ادا کیا کرتے جن کی شان یہ تھی کہ خود خدا نے اپنے عرش سے ان کی تعریف و توصیف فرمائی.يَحْمَدُكَ مِنْ عَرْشِهِ کتنے ہی خوش قسمت اور قابل رشک وہ مہمان تھے جن کا ایسا مقدس مہمان نواز ہو.میں جس زمانہ کا ذکر کر رہا ہوں ان ایام میں بعض مہمان تو حضرت مولانا نورالدین صاحب کے مطب والے دالان اور شمال مغربی کوٹھڑی میں ٹھہرا کرتے تھے.اور اکثر کو سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے الدار کے بعض حصوں میں جگہ دے دیا کرتے.حضور آپ تنگ ہولیا کرتے.تکلیف برداشت کرلیا کرتے مگر مہمانوں کے آرام کا بہر کیف انتظام فرماتے.حضور کا مکان سارے کا سارا ہی گویا ایک مہمان خانہ تھا جس کے دائیں بائیں.اندر باہر.اوپر اور نیچے.غرض ہر طرف مہمان ہی مہمان ہوا کرتے.اس زمانے کا الدار بھی آپ یہ نہ سمجھ لیں جو آجکل ہے بلکہ بہت مختصر سا مکان تھا.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی توسیع اور اتنے اضافے اس میں ہو چکے ہیں کہ پہلی حالت کا نقشہ بھی بہت مشکل سے خیال میں لایا جا سکتا ہے جس میں رہنے والے لوگوں کا اگر میں شمار لکھوں تو دنیا تعجب کرنے لگے کہ اتنے لوگ سماتے کہاں تھے.اور ان کی موجودگی میں کیونکر حضور ایسی اہم ، لطیف اور دقیق ترین علمی تصانیف فرماتے.اور مشاغل دینی کی انجام دہی سے عہدہ برآ ہوا کرتے تھے.سیدنا نورالدین وہاں رہتے اور مع اہل وعیال رہتے.حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.قبلہ حضرت نانا جان مرحوم و مغفور اور آپ کا خاندان - مرزا خدا بخش صاحب اور ان کے اہل بیت بلکہ بھانجے وغیرہ بھی.پیر جی افتخار احمد صاحب مع اہل و عیال.حافظ قدرت اللہ خان صاحب مرحوم تمام بال بچوں سمیت.میاں کرم داد صاحب مرحوم مع عیال (میاں کرم داد صاحب بطور مہمان آئے تھے.) حاجی حافظ احمد اللہ خان صاحب مرحوم و مغفور اور ان کے بیوی بچے.ملک غلام حسین صاحب رہتاسی اور ان کا سارا گھرانہ.اکبر خاں صاحب مرحوم مع اہل عیال اور بعض مقامی مغل خاندان کے یتامی و بیوگان وغیرہ وغیرہ جن کا ماوی و ملجا یہی ایک گھر تھا.سارے تو اب نہ یاد ہیں اور نہ ہی مجھے یاد کرنے سے پورے یاد ہی آتے ہیں.مولوی محمد علی صاحب آئے تو ان کو بھی حضرت اقدس نے الدار ہی کے حصہ میں پناہ دی تھی.محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت بھائی جی نے خاکسار مؤلف سے بیان کیا کہ

Page 156

۱۴۱ آہستہ آہستہ اور بتدریج اللہ کریم رجوع واقبال خلق کے ساتھ ساتھ اس کی ضروریات کے بھی سامان مہیا فرماتے گئے.موجودہ خام مہمان خانہ کی دوکوٹھڑیاں پہلے پہل حضور پر نور نے تیار کرائیں اگلا دالان جانب شمال بعد میں بنا ہے.پہلے صرف پچھلی دو کوٹھڑیاں ہوا کرتی تھیں (مہمان خانہ میں معمولی قسم کی پانچ چھ لکڑی کی کرسیاں ہوتی تھیں بید کی کرسیوں کا اس وقت عام رواج نہ تھا ) قادیان میں ان ایام میں کچھ رونق مستقل مہمانوں یعنی مہاجرین اور آنے جانے والے احباب کی رہتی تھی مگر وہ بھی ایسی نہ تھی کہ اس کے چالیس بیالیس سال بعد کی آبادی یا آنے جانے والے مہمانوں سے اسے کوئی نسبت دی جاسکتی.کیونکہ اس زمانہ میں صرف چند لوگ قادیان میں رہتے تھے.زیادہ سے زیادہ دس پندرہ یا میں مستقل مہمان اور درویش لوگ تھے اور باہر سے آنے والوں میں عموماً حضرت مفتی محمد صادق صاحب مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم اور ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور کپورتھلہ کی جماعت کے بعض پرانے بزرگ ایسے ہیں جن کے متعلق مجھے بخوبی یاد ہے کہ اکثر آتے رہتے تھے.مگر سلسلہ آمد مہمانان بہت ہی کم اور محدود تھا.( مہاجرین جن کے نام میری مطبوعہ روایت میں ہیں ان کے علاوہ حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب بھیروی حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی.حضرت پیر افتخار احمد صاحب، حضرت پیر منظور محمد صاحب، حضرت حافظ حامد علی صاحب ، حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب نو مسلم.بھائی عبدالعزیز صاحب نو مسلم اور مفتی فضل الرحمن صاحب بھی ۱۸۹۵ء میں ہجرت کر کے آچکے تھے.نیز اچھوت کہلانے والی اقوام میں سے بقیہ حاشیہ: - - حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب ان کے حصہ دار مسیح میں جو مسجد مبارک کی بالائی چھت سے ملحق ہے رہائش پذیر ہو گئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد وہاں سے منتقل ہوئے تھے.اداران محترم قدرت اللہ خان صاحب، حضرت سیدہ ام ناصر صاحب الی دار مسیح کی مغربی ڈیوڑھی پر دربان تھے اور ان کی اہلیہ صاحبہ اندرون خانہ خدمت کرتی تھیں.-۲ (ب) حضرت بھائی جی نے خاکسار مؤلف سے بیان کیا کہ محترم اکبر خاں صاحب ، حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ والی دارا مسیح کی مشرقی ڈیوڑھی پر دربان مقرر تھے اور مشرقی ڈیوڑھی اور گول کمرہ کے درمیان جو کمرہ ہے اس میں وہ اہل وعیال سمیت رہائش رکھتے تھے.زیر عنوان مهمانخانه سارابیان الحکم بابت ۱۴، ۲۱ / جنوری ۱۹۴۰ء (صفحہ۱۶،۱۵) سے ماخوذ ہے.

Page 157

۱۴۲ ایک نو جوان بنام کتھا سنگھ بھی اسلام واحمدیت قبول کر کے ہجرت کر آئے تھے جن کا نام عبدالرحمن تھا اور وہ ضلع گورداسپور کے باشندہ تھے.ان دنوں قادیان میں کوئی ذریعہ معاش نہ تھا احباب لنگر خانہ سے کھانا کھاتے تھے.کبھی کبھار کوئی کام سلسلہ کا ہوا تو کر لیا.مثلا بڑے باغ کی صفائی کر دی ورنہ ساری مشغولیت نمازوں اور دینی مصروفیات کی ہی ہوتی تھی.لنگر خانہ کا مقام وانتظام * امر واقع یہی ہے.اور حقیقت بھی یہی ہے کہ (لنگر خانہ ومهمانخانہ ) ان ہر دوا ہم ضروری اور مقدس ترین مدات کی نہ صرف داغ بیل ہی سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے خود اپنے دست مبارک ہی سے ڈالی بلکہ نہایت ہی نا موافق اور مخالف حالات ، بے سروسامانیوں اور مشکلات اور قحط وگرانیوں میں سے گذرتے ہوئے متواتر پچیں تمہیں سال تک ایسی کامیابی ، خندہ پیشانی، فراخدلی بلکہ گہرے قلبی شوق اور ذوق سے آخری وقت تک اس انبیائی خلق یعنی اکرام ضیف کی بیل کو پروان چڑھایا کہ سوائے خدا کے نبیوں اور رسولوں کے اور کے لئے ممکن ہی نہ تھا.خدا کے پیارے مسیح کا لنگر اول اول گھر کے اندر ہی جاری ہوا.وہیں کھانا تیار ہوا کرتا تھا.ابتداء میں چپاتیاں ہوا کرتیں تھیں.جو گھر کے اندر ہی خادمات پکاتی تھیں.ترقی ہوتی گئی تو توے کی بجائے لوہ پر کئی کئی عورتیں مل کر چپاتیاں پکانے لگیں.(۱۸۹۵ء میں لنگر خانہ الدار کے اس حصہ میں تھا جہاں تقسیم ملک سے قبل حرم اول سید نا حضرت خلیفہ ☆ یہ پیرا الحکم بابت ۱۴۰۷ رمئی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۲،۱۷ کی دو الگ الگ روایات کو مخلوط کر کے درج کیا گیا.اور خطوط واحدانی کی عبارت حضرت بھائی جی سے خاکسار مؤلف نے استفسار کر کے اضافہ کی ہے.شیخ عبدالرحمن صاحب قوم جٹ جو موضع بر کلاں نزد قادیان کے باشندہ تھے.حضرت اقدس علیہ السلام کے ذریعہ مسلمان ہوئے تھے.بھائی جی فرماتے ہیں کہ وہ اور کتھا سنگھ دو الگ الگ افراد تھے.نیز بھائی جی کی فائل وصیت میں بھائی جی کی چٹھی مورخہ ۸ ظہور ۱۳۱۹ ہش ( مطابق ۸ راگست ۱۹۴۰ء) میں مرقوم ہے کہ ایک نو مسلم کتھا سنگھ عبدالرحمن تھے.* لنگر خانہ کا مقام و انتظام کے زیر عنوان روایت الحکم بابت ۱۴،۷ مئی ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۷ و بابت ۱۴، ۲۱ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۶ کالم ۲۱ سے ماخوذ ہے.

Page 158

۱۴۳ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ڈیوڑھی تھی.جہاں مشرق کی طرف سے دار کے نچلے حصے میں داخل ہوتے ہیں.سالن اس ڈیوڑھی میں ملک غلام حسین صاحب پکاتے تھے * بعد ازاں لنگر خانہ اس ڈیوڑھی کے ملحقہ شمالی کمرہ میں منتقل ہو گیا.اور اب ملک صاحب موصوف نے وہاں ایک تنور لگالیا.جس میں وہ روٹیاں بھی پکانے لگے.سالن تو وہ پہلے بھی تیار کرتے تھے ) کھانے میں عموماً دال اور کبھی کبھی سبزی ،گوشت ، بعض اوقات ایک وقت دال اور دوسرے وقت (کسی سبزی کا ) سالن ہوتا تھا.دال عموماً چنے کی ایسی پیلی مگر لذیذ ہوتی تھی کہ کھانے والے پیالہ اٹھا اٹھا کر گھونٹ گھونٹ پی جایا کرتے تھے.(لنگر خانہ کے لئے آٹا دھار یوال سے یا موضع ہر چووال کی نہر کے قریب ایک گاؤں سے لایا جاتا تھا.آٹے کے انتظام کے لئے حضرت نانا جان بھی کئی بار بنفس نفیس تشریف لے جاتے تھے.آٹے کی فراہمی کا اہتمام کرنے کی سعادت حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب ( نومسلم ) حضرت میاں کرم داد صاحب سکنہ دوالمیال جب کہ وہ کافی دنوں کے لئے قادیان آئے تھے ملک غلام حسین صاحب باروچی اور خاکسار اور بعض اور احباب کو جن کے نام اب یاد نہیں ہلتی رہی ہے ) حضرت اقدس کا مہمانوں کے ساتھ شریک طعام ہونا یہی یا اس کے قریب ہی کا وہ زمانہ ہے جبکہ بعض اوقات سید نا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام خود اپنے دست مبارک سے مہمانوں کے لئے کھانا اور ناشتہ وغیرہ لا کر پیش کیا کرتے.بے وقت آنے والوں کے واسطے خاطر تواضع کا سامان مہیا فرماتے.ایسا بھی ہوا کہ حضور کے مکان میں کھانا تناول فرماتے ہوئے کسی مہمان کی ضرورت یا آنے کی اطلاع دی گئی تو اپنے سامنے کا کھانا ہی اٹھا کر اس خوش بخت کے لئے بھیج دیا.کئی سال اس حال میں گذرے.سلسلہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ لنگر نے بھی ترقی کی.گھر کی بجائے حضرت ملک غلام حسین صاحب جن کا وطن رہتاس ضلع جہلم تھا تقسیم ملک کے وقت بامر مجبوری قادیان سے نیروبی (مشرقی افریقہ) اپنے بچوں کے پاس چلے گئے جہاں ۶ جنوری ۱۹۵۴ء کو وہ وفات پاگئے.ان کی اہلیہ محترمہ وہان ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ چکی تھیں.دونوں قبرستان نیروبی میں دفن ہیں.اللهم اغفر لهما و ارحمهما - آمین

Page 159

۱۴۴ باہر الگ انتظام کرنا پڑا.روٹی کے لئے تنور کا اور دال سالن کے واسطے دیگچیوں کی بجائے دو بڑے دیگچھوں اور پھر دیگوں کا انتظام ہوا.( جو حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں مستری قطب الدین صاحب امرتسری مسگر کے ذریعہ خریدی جاتی تھیں.اور ایک سے دوسری.دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی اور پانچویں جگہ تبدیلی وانتقال کے بعد کئی منازل طے کرتے ہوئے لنگر خانہ موجودہ مقام تک پہنچا ہے.کھانا صبح کے وقت گول کمرہ میں اور شام کو موسم گرما میں مسجد مبارک کی بالائی منزل پر اور موسم سرما میں مسجد مبارک کے اندر بعد نماز مغرب کھلایا جاتا تھا.اور سید نا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام پہلے پہلے عام دستر خوان ہی پر شمولیت فرمایا کرتے تھے.ایک وقت آیا کہ بعض ناگوار واقعات مثلا بعض افراد کے کھانے کے غیر پسندیدہ طریق سے حضرت اقدس کو تکلیف ہوئی تو حضور نے عام دستر خوان پر تشریف لانا بند کر دیا.اور اس طرح دو دستر خوان الگ الگ ہو گئے اور حضور بعض خاص اصحاب اور مہمانوں کے ساتھ ( گول کمرہ کے اندر یا گول کمرہ کی چھت پر کھانا ) تناول فرمانے لگے.اور ہوتے ہوتے ایسا ہوا کہ حضور صرف شام کے دستر خوان پر شرکت فرمایا کرتے (اور وہ بھی صرف خاص اصحاب اور مہمانوں کے ساتھ ) حضور نہایت ہی کم کھاتے.چپاتی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کرتے.ننھا سا حصہ لے کر انگلیوں میں رول رول کر بعض اوقات اس میں سے بھی بعض حصہ الگ کر دیتے اور بقیہ حصہ کھایا کرتے.ایسا معلوم ہوا کرتا تھا کہ حضور محض شمولیت کی غرض سے تشریف فرما ہیں اور دوسروں کو کھلا رہے ہیں.خود برائے نام نوش فرماتے تھے.حضور کے سامنے اگر کوئی خاص چیز آتی تو حضور اسے احباب میں تقسیم فرما دیا کرتے تھے.دستر خوان پر باتیں بھی ہوا کرتی تھیں.برف سوڈا ( سیر بھر آٹا بھی قادیان سے دستیاب نہ ہوتا تھا) برف اور سوڈا اور پان وغیرہ خاندانی ضرورت اور مہمانوں کی خدمت کے لئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عموماً لاہور سے منگایا کرتے جس کے لئے محترم شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر بمبئی ہاؤس اکثر انتظام فرمایا کرتے تھے.مجھے خوب اس عنوان کی روایت الحکم بابت ۷ تا ۴ ارمئی ۱۹۳۸ ء صفحہ ۷ اسے ماخوذ ہے.خطوط وحدانی کے الفاظ حضرت بھائی جی سے خاکسار مؤلف نے استفسار کر کے اضافہ کئے ہیں.

Page 160

۱۴۵ یاد ہے کہ برف اور سوڈا واٹر کے لئے شیخ صاحب مرحوم نے الگ الگ بکس بنوارکھے تھے.جس میں ای پلومر کا سوڈا اور جنجر کبھی کیسری کا لیمن روز وغیرہ بٹالہ تک بذریعہ ریل اور بٹالہ سے قادیان ریڑھوں.یکہ یا بہلی اور رتھ کے ذریعہ آیا کرتے جو صبح کو چلی تو دس بجے دن کے قادیان پہنچتی تو بمشکل نصف یا اس سے بھی کم رہ جایا کرتی تھی.سوڈالیمن وغیرہ کی بوتلیں پھٹ کر ٹوٹ جایا کرتیں کچھ گرمی کی شدت سے تو کچھ ریڑھوں اور یگوں کے دھکوں سے.ایک زمانہ میں ( خلافت ثانیہ میں ( محترم سید عزیز الرحمن صاحب نے بھی برف وغیرہ منگانے کا انتظام کیا تھا مگر نقصان کی برداشت نہ کر سکے.آخر اس تجارت کو چھوڑ دیا.راقم الحروف عبدالرحمن قادیانی بھی متواتر کئی سال تک لاہور سے ای پلومر کا سوڈا جنجر اور کیسری کا روز لیمن منگا کر عموماً چار آنہ فی بوتل تک فروخت کرتا رہا.برف بھی منگوائی جاتی رہی.رتھ خانہ پریس پریس کی مضبوطی و خوبی کا سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خاص طور سے خیال ہوا کرتا تھا.حضور کی بڑی خواہش یہ ہوا کرتی تھی کہ اچھے سے اچھا کا تب ملے.صحیح اور بہترین لکھائی اور خوبصورت چھپائی ہو.کتا بیں جس طرح اعلی علمی اور روحانی مضامین سے مزین اور ہدایت ونور سے معمور ہوتی ہیں اسی طرح ان کی ظاہری شکل وصورت بھی دیدہ زیب.دلکش اور جاذب نظر ہوتا کہ نازک طبع اس کی ظاہری شکل ہی کی وجہ سے ان کے فیوض و برکات سے محروم نہ رہ جائیں.چنانچہ اس غرض کے لئے حضور نے اپنا ایک پریس ضیاء الاسلام نام جاری فرمایا تھا.دیوار فصیل کی جگہ احمد یہ چوک سے ( جو چوک مسجد مبارک بھی کہلاتا ہے) جانب شرق جو مکان حضرت اقدس (خلیفہ المسیح الثانی اید اللہ تعالی کے موٹر گیراج کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور اس سے قبل ( حضرت نواب محمد علی خان صاحب) کا رتھ خانہ تھا اور جس کے اوپر پیر جی سراج الحق صاحب کے مکان کا صحن واقع ہے.یہ جگہ پہلے پہل ۱۸۹۵ء میں ایک کھلے دالان کی صورت میں تھی.اور بعد میں اس میں ضیاء الاسلام پریس حضرت خطوط وحدانی کی عبارت خاکسار مؤلف نے حضرت بھائی جی سے استفسار کر کے زائد کی ہے.

Page 161

۱۴۶ اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم سے قائم کیا گیا.اس دالان کے جانب جنوب سے لے کر موجودہ مہمان خانہ تک مسلسل ایک پلیٹ فارم تھا جو دراصل شکستہ شہر پناہ یا فصیل تھی.یہ پلیٹ فارم تھیں بتیس فٹ چوڑا اور ایک سو دس فٹ لمبا تھا.مطب حضرت خلیفہ اول سید نا حضرت حکیم الامت مولانا مولوی نورالدین صاحب کا مطب اس زمانہ میں یہی دالان تھا.جو موجودہ موٹر گیراج کے جانب شمال واقع ہے.مگر یہ مطب پہلے صرف ایک لمبے دالان کی صورت میں تھا.جس کے جانب شمال دو کوٹھڑیاں تھیں جن کے دروازے جانب جنوب اس دالان میں کھلتے تھے.مشرقی کوٹھڑی میں سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کا کتب خانہ ہوا کرتا تھا.جس کے انچارج اس زمانہ میں جس کا میں ذکر کر رہا ہوں حضرت پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی تھے اور دوسرے غربی جانب کی کوٹھڑی عموماً کھلی رہتی تھی اور مسافروں یا مہمانوں کے کام آیا کرتی تھی.آجکل اس دالان کے بیچوں بیچ ایک دیوار کھڑی کر کے دوحصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا.جس کے غربی حصہ میں ان دنوں بھی مولانا مولوی قطب الدین صاحب مطب کرتے رہے ہیں.اس دالان کی دیواروں میں چند الماریاں ہوا کرتی تھیں جن میں طلباء قرآن و حدیث و طب یا بعض مستقل مہمان اپنا اپنا سامان ضروری رکھا کرتے تھے.اس دالان کے بالائی حصے پر آجکل پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی کے مکان کا صحن ہے اور شمالی جانب کی دونوں کو ٹھڑیوں کے اوپر دو کو ٹھڑیاں بغرض رہائش برائے پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی بنائی گئی تھیں جو آجکل بھی موجود ہیں یہ بالا خانہ سید نا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں حضور پاک کے ایما کے ماتحت بعض صاحب توفیق مخلصین میں تحریک کر کے امدادی چندہ سے پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی کی رہائش کی غرض سے بنایا گیا تھا.اور خود حضور نے بھی بڑی رقم اس میں لگائی تھی.اس مطلب کی جانب غرب موجودہ گلی جانب مشرق ڈھاب (ایام برسات میں ڈھاب اس دالان مطب کی مشرقی دیوار کے ساتھ آن ٹکرایا کرتی تھی.اور اکثر ان دنوں سیدنا حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب اور ہم لوگ بھی دروازہ میں بیٹھ کر یا زیادہ سے زیادہ ایک سیڑھی اتر کر وضو کر لیا کرتے تھے.) جانب جنوب موجودہ موٹر خانہ جس کے پہلے دو دروازے مطب کی طرف کھلتے تھے.جو بعد میں پریس کی گڑگڑاہٹ سے بچنے کی خطوط وحدانی کی عبارت خاکسار مؤلف نے حضرت بھائی جی سے استفسار کر کے زائد کی ہے.

Page 162

۱۴۷ خاطر حضرت مولوی صاحب کے حکم سے بند کر کے الماریوں میں تبدیل کر دئے گئے تھے اور جانب شمال دو کوٹھڑیاں جن میں سے ایک کتب خانہ اور دوسری کھلی بطور مسافر خانہ یا مہمان خانہ استعمال ہوتی تھی.غربی کوٹھڑی میں ایک کھڑ کی جانب کو چہ شارع عام لگی ہوئی تھی.اور مشرقی کوٹھڑی میں جانب مشرق ایک کھڑ کی تھی.ان کو ٹھڑیوں کے جانب شمال حضرت مولوی صاحب کا پہلا رہائشی مکان واقع تھا جس میں ان دنوں مفتی فضل الرحمن صاحب بود و باش رکھتے ہیں.گول کمره (۱۸۹۵ء میں ) گول کمرہ کا صرف وہی حصہ تھا جو گول کمرہ کی صورت میں مسقف ہے اگلے حصہ کی چار دیواری بعد میں بنائی گئی اور اب جہاں گول کمرہ کا صحن ہے یہ حصہ پہلے بالکل کھلا اور میدان میں شامل تھا (بعد میں حضرت میر ناصر نواب صاحب مع اہل و عیال اور اپنے ہمشیرہ زاد محمد سعید صاحب اس میں رہائش پذیر ہے.گول کمرہ سے ایک دروازہ دار مسیح کے نچلے حصہ میں جانب شمال کھلتا ہے اس سے دار مسیح میں آمد و رفت رہتی تھی ) ۲۳ مسجد مبارک اور اس کے تین حصے ان دنوں مسجد مبارک میں جانے کے لئے ایک ہی سیڑھی تھی.جو آج ( ستمبر ۱۹۶۰ء) تک بھی ( بعینہ ) موجود ہے اور مسجد مبارک کی کوچہ بندی میں جانب غرب اس کا دروازہ کھلا ہے اور یہ تنگ سیڑھی ایک چکر کھا کر مسجد مبارک کے تیسرے حصہ میں کھلتی تھی.سیڑھی پر چڑھیں تو اس ) کے بائیں جانب ایک غسل خانہ تھا جس میں وضو اور غسل کے لئے پانی رکھا رہتا تھا.اور مسجد مبارک کی سطح سے ان دنوں اس کی سطح نیچی تھی اور اسی غسل خانہ میں ایک لکڑی کی سیڑھی لگی تھی جس کے ذریعہ گول کمرہ کی چھت پر جاتے اور وہاں سے دوسری سیڑھی کے ذریعہ غسل خانہ کی چھت پر پہنچتے اور مسجد مبارک کی بالائی چھت دو یا تین ہی خطوط واحدانی کے الفاظ خاکسار نے بھائی جی سے پوچھ کر زائد کئے ہیں.بھائی جی کی اہلیہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ جب میں شادی ہو کر آئی اس وقت گول کمرہ کے صحن کے احاطہ کی تینوں اطراف (مشرق.مغرب اور جنوب) کی دیوار میں تعمیر ہو چکی تھیں اور اس میں حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب ضع اہلیت قیام رکھتے تھے.

Page 163

۱۴۸ سٹپس (Steps) کے برابر غسل خانہ کی چھت سے بھی اونچی تھی.( اس لئے ایک اور سیڑھی کے ذریعہ نسل خانہ کی چھت سے مسجد مبارک کی چھت پر جاتے تھے ) یہ غسل خانہ بعد میں (حضرت اقدس کے زمانہ میں ہی ) مولوی محمد علی صاحب کے لئے دفتر بن گیا.پہلے تخت پوش وغیرہ لگا کر اس کی چھت اونچی کی گئی.مگر بعد میں مستقل طور سے اسے اونچا کر دیا گیا (اور اس وقت ستمبر ۱۹۶۰ء تک اسی حالت میں ہے.) مسجد مبارک (جس کے ) اس زمانہ (یعنی ۱۸۹۵ء ) میں ( تین حصے حجرہ درمیانی کمرہ اور تیسرا کمرہ تھے ) حسب ذیل شکل میں تھی : جانب غرب ایک چھوٹا سا حجرہ جو شمالاً جنو با ۴ فٹ 4 انچ اناروں کے اندر اندر اور شرقاً غر باہم فٹ ے انچ اثاروں کے اندر اندر تھا اس حجرہ میں دو کھڑکیاں اور ایک چھوٹا سا دروازہ تھا.ایک کھڑ کی غربی دیوار میں تھی جو آجکل بھی ( ستمبر ۱۹۶۰ء میں ) اپنی اصل شکل میں موجود ہے ( مگر اس میں اتنا تغیر حضرت اقدس کے عہد مبارک میں ہو گیا تھا کہ اس میں لوہے کی سلاخیں لگا دی گئیں تا کہ بچوں کے گرنے کا اندیشہ نہ رہے اب وہاں لوہے کی خانہ دار جالی ہے معلوم ہوتا ہے بعد میں کسی وقت سلاخیں تبدیل کی گئی ہیں) اور یہ اس وقت بھی اور اب بھی مرزا گل محمد صاحب کے مکان کی چھت پر کھلتی ہے.(از مؤلف تقسیم ملک کے وقت یہاں دفتر محاسب تھا اور اب بھی بوقت طبع دوم دفتر محاسب ہے.) دوسری کھڑ کی شمالی دیوار میں تھی.اور اب بھی کسی تغیر کے ساتھ وہیں موجود ہے فرق صرف یہ واقع ہوا ہے کہ پہلے یہ کھڑ کی گلی میں کھلتی تھی.اور اس کے سامنے کوئی روک نہ تھی.مگر آج کل ۱۹۳۴ء کے جلسہ کے قریب کے زمانہ سے اس کو کسی قدر نیچا کر کے ایک راستہ کی شکل دے دی گئی ہے اور سید نا حضرت اقدس خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ کی آمد ورفت کا راستہ بنا دیا گیا ہے اس وجہ سے اب وہ گلی میں نہیں کھلتی بلکہ ایک بند گیلری میں کھل کر اندرون الدار جانے کا راستہ بناتی ہے اور عموماً بند رہتی ہے صرف ایام جلسہ میں حضور اس راہ سے تشریف لاتے لے جاتے ہیں یا اور کسی خاص ضرورت میں کام آتی ہے.مسجد میں سے حجرہ میں داخلہ کا دروازہ بھی بالکل چھوٹا سا بلکہ ایک کھڑ کی ہی کے برابر تھا.نہ دروازہ کی طرح کھلا تھا نہ اونچا.جھک کر اندر داخل ہوا کرتے تھے.یہ دروازہ یا کھڑ کی جو بھی نام رکھا جائے جنوبی کو نہ میں تھا.اور شمالی کو نہ میں اس طرح تھوڑی سی جگہ نکلتی تھی.اور یہی وہ جگہ ہے جہاں بعد میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امام کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز گزارا کرتے تھے.اسی حجرہ کے شرقی دیوار کے شرقی جانب یعنی مسجد مبارک کے حصہ اول کی طرف او پر چھت کے قریب

Page 164

اور غالیا ۱۴۹ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا إِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ : وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخُسِرِينَ ] اللهم صلى على محمد وال محمد و بارک وسلم انک حمید مجید ۲۶ مُبَارِک وَمُبَارَكٌ و كُلُّ أَمْرٍ مُّبَارَكِ يُجْعَلُ فِيْهِ ۲۷ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ | لکھا ہوا تھا.دوسرا حصہ مسجد مبارک کا اس حجرہ کی جانب شرق واقع تھا اور حجرہ اور اس حصہ کو ایک دیوار جدا کرتی تھی.اس حصہ کا طول شرقاً غرباً 9 فٹ ۱۱.انچ اور عرض شمالاً جنوباً ۷ فٹ 11.انچ تھا.اس میں دوکھڑکیاں اور دو دروازے کھلتے تھے.ایک تو وہی کھڑکی یا دروازہ جو حجرہ میں کھلتا تھا.اور دوسرا دروازہ مشرقی حصہ اور اس کی درمیانی دیوار میں تھا.ایک کھڑ کی بیت الفکر میں سے جو مسجد مبارک کے شمالی جانب ملحق ہے مسجد مبارک کے اس حصہ میں کھلتی تھی جس میں سے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تشریف لایا کرتے تھے اور یہ کھڑ کی اس وقت ( ستمبر ۱۹۶۰ ء ) تک اپنی اصل شکل میں قائم ہے اور یہ مسجد کی شمالی دیوار میں ہے.ایک کھڑ کی جنوبی دیوار میں لگی ہوئی تھی.جوان ایام میں ایک ویران خراس کے کھنڈر کی طرف کھلتی تھی.جو مرزا نظام الدین وغیرھم کی ملکیت میں تھا.اور بعد میں ۰۷-۱۹۰۶ء (میں) خرید کر حضور مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا اوپر کا حصہ مسجد میں اور نیچے کا حصہ دفاتر میں تبدیل فرما دیا.( اور اس تغیر کی وجہ سے اصلی ابتدائی مسجد مبارک کی شکل اگر چہ قائم نہیں رہی مگر اب تک دیواروں کے نشانات موجود ہیں ) مسجد مبارک کا یہی ( دوسرا حصہ ) وہ حصہ ہے جس میں ( جماعت کی صف اول کھڑی ہوتی تھی اور ابتداء سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صف اوّل میں کھڑے ہو کر صف کے بالکل دائیں جانب ( کھڑکی سے جانب غرب ذرا بڑھ کر ) دیوار شمال کے ساتھ لگ کر نماز با جماعت ادا فرمایا کرتے یا حضور کا دربار لگا کرتا تھا.میں نے اس حصہ میں سب سے اول مرتبہ حضور کی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا.جب اس صف میں حضور شامل ہونے لگے اس سے پہلے حضور کھڑکی سے قدرے جانب مشرق گو یا دوسری صف میں کھڑے ہوتے تھے لیکن قاضی یارمحمد صاحب

Page 165

۱۵۰ وکیل کا دماغی توازن خراب ہو گیا اور انہوں نے حضور کے پاؤں کے تلووں کو چھونا شروع کیا.اس طرح تکلیف پہنچنے کے باعث حضور صف اول میں کھڑے ہونے لگے پھر وہاں بھی قاضی صاحب سے تکلیف پہنچنے پر حضور حجرہ میں امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑے ہو کر نماز میں شریک ہونے لگے اور مسجد کی توسیع تک یہی طریق جاری رہا.توسیع مسجد کے بعد حضور صف میں کھڑے ہوتے تھے (نہ کہ امام کے ساتھ ) * ان دنوں اس حصہ میں عموماً دو صفیں کھڑی ہوتی تھیں اور بعد میں ضرور تا تین بھی کھڑی ہوتی رہی ہیں.تیسرے کمرہ میں بھی دو صفیں ہوا کرتی تھیں.اور ہر صف میں پتلے دبلے آدمی زیادہ سے زیادہ چھ اور بھاری بھر کم صرف چار کھڑے ہو سکتے تھے.(بعد میں جماعت احمد یہ ترقی کرتی گئی تو مسجد مبارک کے ) ہر حصہ میں بجائے دو دو صفوں کے حمد اخویم چودھری محمد اسمعیل صاحب خالد واقف زندگی ولد محترم چوہدری محمد ابراہیم صاحب ساکن اسماعیلہ ضلع گجرات ) حضرت مولوی فضل الدین صاحب کے نواسے ہیں جن کا اسم گرامی ضمیمہ انجام آتھم کی فہرست تین سو تیرہ صحابہ میں تیسرے نمبر پر ہے.خالد صاحب احمد آباد اسٹیٹ اور بشیر آباد اسٹیٹ ( سندھ) میں مینیجر رہے.بعد ریٹائرمنٹ سندھ میں قیام رکھا.ابھی وہیں قیام رکھتے ہیں.جلسہ سالانہ ۱۹۶۰ء پر حضرت بھائی جی نے خالد صاحب کو جو کچھ فرمایا خالد صاحب کے الفاظ میں یوں ہے: مجھے ساتھ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسجد میں تشریف آوری والے دروازے ( مراد کھڑ کی مؤلف) کے پاس مشرقی جانب دیوار کے ساتھ کپڑے کے ساتھ کھڑا کر کے فرمایا.حضرت مسیح پاک ایک روز یہاں سے تشریف لا کر اس جگہ کھڑے ہوئے تھے.ایک دوست نے جو مجذوب قسم کا تھا حضور کو چومنا اور پیار کرنا شروع کر دیا اور حضور کے جسم کو اور ہاتھوں کو بوسے دینے لگا.حضور کچھ دیر کھڑے رہے تو پھر اس نے پاؤں کو بھی پیار کرنا اور چومنا شروع کر دیا.اس پر حضور اس جگہ سے ہٹ کر دروازہ ( یعنی کھڑکی.مؤلف) کے ساتھ مغرب کی طرف آ کر کھڑے ہو گئے.وہ وہاں بھی آ گیا اور پھر اسی بیتابی کے ساتھ عقیدت کا اظہار کرنا شروع کر دیا.اس پر وہاں سے حضور اقدس چل کر مغرب کی طرف اسی جگہ تشریف لے آئے اور اس جگہ ان دنوں حجرہ تھا.اس لئے حضور اس کے اندر چلے گئے اور وہ آدمی باہر رہ گیا اور وہ جگہ وہ تھی جہاں حضرت بھائی صاحب مرحوم کپڑے کی گدی پر بیٹھ کر ٹیک لگائے ذکر کر رہے تھے.۲۹

Page 166

۱۵۱ تین تین صفیں بنانے سے بھی کام نہ چلا تو سید نا حضرت اقدس نے بیت الفکر کے مشرقی جانب کا صحن بھی نمازیوں کے واسطے کھلوا دیا.اور اس پر بس نہ رہی بلکہ اکثر بیت الفکر کے اندر بھی نمازی نماز ادا کر نے لگے * مسجد مبارک کا تیسرا حصہ اس (دوسرے) حصہ کے مشرقی جانب واقع تھا.اور ان دونوں حصوں کے درمیان میں ایک دیوار حائل تھی.اور ایک دروازہ جو قریباً درمیان میں تھا ان کو باہم ملا تا تھا.اس حصہ کا طول شرقا غر با ۹ فٹ ۱۴اینچ اور عرض شمالاً جنو باے فٹ ۵- انچ تھا اور اس میں ایک کھڑ کی جنوبی دیوار میں جو وہ بھی اسی ویران خراس کے کھنڈر میں کھلتی تھی.اور تین دروازے تھے جن میں سے ایک مسجد کے درمیانی حصہ میں کھلتا تھا.اور باقی دو میں سے ایک نیچے سے اوپر آنے والی سیڑھیوں کا اور دوسرا وہ تھا جو نسل خانہ میں جاتا تھا.جہاں اس زمانہ (۱۸۹۵ ء ) میں غسل اور وضو کے لئے پانی رکھا ہوتا تھا.غسل خانہ.سرخی کے نشان والا کمرہ * یہی وہ حصہ ہے جس کو یہ عزت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قلم کی سرخی کے نشانات عالم وجود میں نمودار ہو کر حضور پُر نور کے کرتے اور حضرت میاں عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم کی ٹوپی پر پڑے اور ایک سیڑھی لکڑی کی بھی اس کے مشرقی حصہ میں لگی ہوئی تھی.جو مسجد کے او پر جانے کے لئے گول کمرہ کی چھت پر کھلتی تھی اور پھر گول کمرہ کی چھت سے دوسری سیڑھی کے ذریعہ اس غسل خانہ کی چھت پر جاتے تھے اور چونکہ غسل خانہ کی چھت اصل مسجد سے بیچی تھی.لہذا ایک تیسری سیڑھی تھی.جس کے ذریعہ سے مسجد میں پہنچتے تھے مگر اب اس میں تغیرات ہو چکے ہیں مسجد مبارک کے تیسرے حصہ کی آخری دیوار پر مشرقی جانب میں غسل خانہ کی چھت سے اوپر جو حصہ دیوار تھا اس پر کشتی کی شکل بنی ہوئی تھی.اور کچھ اور بھی لکھا تھا جس میں یہ پیرا الحکم بابت ۷ ۱۴ جون ۹۳۸ صفحہ ۷ سے ماخوذ ہے اور اس پیرے کی خطوط وحدانی کی عبارت اس سے سابقہ عبارت کا خلاصہ ہے.البتہ مسجد مبارک کے متعلق بقیہ عبارت کے بارے اگلا حاشیہ دیکھئے.* عنوانات مسجد مبارک اور غسل خانہ کی روایات ما خوذ الحکم بابت ۷ ۱۴ مئی ۱۹۳۸ء صفحه ۲۳٬۱۵ میں خطوط وحدانی والی عبارات خاکسار مؤلف نے بھائی جی سے استفسار کر کے زائد کی ہیں اور شہ نشین“ کے زیر عنوان ساری عبارت خاکسار نے بھائی جی سے استفسار کر کے زائد کی ہے.

Page 167

سے ایک تو یہ لکھا تھا.۱۵۲ دوشه نشین محمد عربی کا بروئے ہر دوسرا است کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر اوست مسجد مبارک کی بالائی منزل پر دوشہ نشین تھے.ایک تو جنوبی آثار کے اوپر جیسا کہ آخری توسیع کے بعد اب بھی جنوبی طرف بنایا ہوا ہے.مگر سیخیں لگی ہوئی نہ تھیں.دوسرا شہ نشین جواب ستمبر ۱۹۶۰ ء تک بعینہ موجود ہے مغربی دیوار میں تھا حضرت اقدس عموماً نماز شام کے بعد اسی شہہ نشین پر رونق افروز ہوا کرتے تھے اور یہ حجرہ کے غربی آثار پر بنا ہوا تھا.الدار کا دروازہ آج کل جو ایک دروازہ مسجد مبارک کے بالکل مشرقی حصہ میں الدار سے کھلتا ہے یہ دروازہ پہلے نہ تھا بعد میں ( حضرت اقدس ہی کے زمانہ میں ) کھولا گیا ہے پہلے زمانہ میں اس دروازہ کے اندر کے حصہ میں ایک لکڑی کی سیڑھی ہوا کرتی تھی جس کے ذریعہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اندرون خانه سے مسجد مبارک کے بالائی حصہ میں تشریف لایا کرتے تھے.اس زمانہ میں جو دروازہ مسجد مبارک کی اصل چھوٹی سیٹرھیوں سے اندرون الدار جانے کا تھا وہ آجکل بند ہے اور موجودہ دروازہ اس کی بجائے کام دیتا ہے ( پہلا دروازہ اس چھوٹی سیڑھی میں سے مسجد مبارک میں داخل ہونے سے ایک دوسیٹرھی پہلے کھلتا تھا.دیوار میں اس کی چوکھٹ اب بھی نظر آتی ہے.ا خطوط واحدانی والی عبارت خاکسار نے بھائی جی سے استفسار کر کے زائد کی ہے.ضروری نوٹ.خاکسار اس موقع پر ریکارڈ کرنے کے لئے عرض کرتا ہے کہ گزشتہ سات آٹھ سال میں دارا مسیح میں ذیل کا اضافہ وغیرہ کیا گیا ہے: - دارالبرکات ( حضرت مرزا شریف احمد صاحب والے اوپر کے حصہ ) میں جنوبی دیوار کے پاس بیرونی دروازہ کے قریب جو سیڑھیوں کے پاس ہے.نئی تعمیر ہوئی ہے.( بوقت طبع دوم یہ ختم کر دی گئی ہے.اب نہیں رہی).-1

Page 168

۱۵۳ اذان، نمازیں اور تہجد مسجد مبارک با وجود اپنی پہلی تنگی کے ہم پر فراخ رہا کرتی تھی ، جس میں بار ہا خدا کا اولوا العزم ني جَرِيُّ اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ تن تنہا نماز کے لئے تشریف لے آیا کرتا تھا اور بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ باوجود انتظار کے جب اور کوئی نہ پہنچا تو حضور نے کسی کو بلوا کر اذان کہلوائی.بلکہ ایک مرتبہ تو مجھے یاد ہے کہ حضور نے خود بھی اذان کہی حضور کی آواز گو ہلکی تھی مگر نہایت دلکش اور سریلی آواز تھی جس میں لحن داؤدی کی جھلک اور گو یا نفخ صور کا سماں بندھ رہا تھا.نمازیں عموما اول وقت میں ہو جایا کرتی تھیں.صبح کی نماز کا تو یہ عالم تھا کہ ابھی اندھیرا ہی ہوا کرتا تھا کہ ختم بھی ہو جاتی تھی.بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ صبح کی اذان صبح ہونے سے قبل ہی ہو جاتی اور نہ صرف یہی بلکہ نماز بھی ہو جایا کرتی تھی.اور بعد میں پتہ لگتا تھا کہ ابھی تک صبح ظاہر نہیں ہوئی مگ نماز کبھی دوہرائی نہ گئی.چونکہ اذان ان دنوں عموما حافظ معین الدین صاحب (حافظ معنا ) کہا کرتے تھے اور وہ آنکھوں سے معذور تھے.نماز تہجد کا ان دنوں زیادہ التزام ہوا کرتا تھا اور قریباً سبھی لوگ نماز تہجد پڑھا کرتے تھے.تہجد کی نماز بقیہ حاشیہ: - ۲- حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ والے صحن کی جو مشرقی دیوار تھی اس میں سیخیں لگی ہوئی تھیں.اب ان کو دور کر کے کچھ وار یعنی رڈے اینٹوں کے لگادئے گئے ہیں.اس صحن میں نلکا بھی لگایا گیا ہے.دار مسیح والے کنوئیں کے قریب جو غسالخانہ تھا اب وہ نہیں رہا.( یہ معلوم نہیں کہ یہ غسلخانہ کب تعمیر ہوا تھا ) -۴- دارامان حضرت اُم المؤمنین کے صحن میں بشمول جنوبی برآمدہ پہلا فرش ہٹا کرنئی اینٹوں کا فرش کیا گیا ہے اور شمال کی طرف جو اونچا حصہ صحن کا ہے اس کا فرش الٹا کر سیمنٹ پھرا دیا گیا ہے.( یہ بات خاکسار مؤلف کو مکرم مستری محمد دین صاحب درویش نے بتائی تھی جوعرصہ درویشی میں تعمیرات میں کام کر رہے ہیں.) دار اسیح کے نچلے حصہ میں کنوئیں کے شمال کی طرف جو کمرہ ہے وہ پہلے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب والے حصہ میں شامل تھا.اس کی جنوبی دیوار میں دارا صیح میں آمد ورفت کے لئے ایک دروازہ اور دروازہ کے مغرب کی طرف ایک کھڑ کی لگا دی گئی ہے ( یعنی درویشی دور میں ).اضافہ بوقت طبع دوم.مقامات مقدسہ کے عنوان سے بھائی جی کے مضمون مندرجہ بابت ۲۰ / دسمبر -۵ - ۱۹۵۱ء صفحه ۴ ، ۵ میں الدار کی کچھ تفصیل درج ہے.

Page 169

۱۵۴ کے بعد لوگ اپنی اپنی جگہ دعا و استغفار میں مشغول رہتے.حتی کہ اذان ہو جاتی تھی اذان سن کر دورکعت سنت بھی عموما اپنے اپنے ڈیروں ہی پر پڑھ کر مسجد میں آتے اور جماعت کے انتظار میں خاموش ذکر الہی میں مصروف رہتے تھے.تہجد اور نوافل کا اتنا چرچا تھا کہ اس کی وجہ سے کئی روز تک میں ایک غلطی کا مرتکب ہوتا رہا.وہ یہ کہ چونکہ صبح کی دوسنت عموما دوست گھر میں ہی پڑھ کر آتے تھے میں باوجود اس علم کے کہ صبح کی نماز دوسنت اور دو فرض پر مشتمل ہے اس غلطی کا مرتکب رہا کہ صبح کی دوستیں نہ پڑھیں آخر ایک روز جب کوئی نئے مہمان آئے اور وہ جماعت کھڑی میں شریک ہوئے جس کی وجہ سے پہلی دوسنت نہ پڑھ سکے.انہوں نے جماعت کے بعد دوسنت ادا کیں تو مجھے حیرت اور تعجب ہوا کہ فرائض کے بعد صبح کی تو کوئی نماز نہیں یہ دوست کیوں پڑھ رہے ہیں اس پر مجھے کسی دوست نے بتایا کہ صبح کی پہلی دوسنت ان سے رہ گئی تھیں.وہ ادا کر رہے ہیں.تب جا کر مجھے ہوش آیا اور میں سنبھلا اور اپنی غلطی کا ازالہ کرنے لگا.ورنہ میں بھی تہجد کی نماز اپنی جگہ پر ادا کر لیا کرتا مگر سنن پہلے چند ایام خیال سے اتری ہی رہیں.نماز اشراق.صحی اور صلوۃ الا دابین کا بھی اس زمانہ میں خاصا چر چا تھا.امامت و تلاوت مولوی عبد الکریم صاحب نماز اس زمانہ میں حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سیالکوٹی پڑھایا کرتے تھے ( جن ) کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم سے ایک عشق عطا فر مایا تھا اور نہایت خوش الحانی اور جوش سے قرآن پڑھا کرتے تھے.ان کی آواز نہایت بلند مگر دلکش تھی.اکثر ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ ان کی قرآت سے بعض اوقات گہری نیند سوتے ہوئے دوست بیدار ہو جایا کرتے تھے.حضرت مولوی نورالدین صاحب ۳۲ سید نا حضرت مولانا مولوی نوالدین صاحب بعض اوقات صبح صادق سے پہلے ہی گھر سے باہر آ جایا کرتے اور ہم لوگوں کو صبح صادق اور صبح کا ذب میں امتیاز بتایا کرتے تھے.اور نجوم کے متعلق بھی بعض باتیں سمجھایا کرتے تھے جن کے ذریعہ سے ہمیں رات کی اندھیری گھڑیوں میں وقت کا اندازہ کرنا آسان ہوتا تھا.

Page 170

۱۵۵ حضرت اقدس کی نماز سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز با جماعت کے علاوہ سنن ونوافل اندرون خانہ ادا کرتے تھے.پہلی سنتیں عموما پڑھ کر گھر سے تشریف لاتے اور پچھلی سنتیں گھر میں تشریف لے جا کر ادا فرماتے تھے.البتہ ابتدائی زمانہ میں جبکہ حضور شام کی نماز کے بعد عشاء کی نماز تک مسجد ہی میں تشریف فرمایا کرتے تھے.حضور شام کی نماز کی سنتیں مسجد ہی میں ادا کرتے تھے.دوسنت ادا فرماتے تھے جو ہلکی ہوتی تھیں مگر سنوار کر پڑھی جاتی تھیں.کوئی جلدی یا تیزی ان میں نہ ہوتی تھی.بلکہ ایک اطمینان ہوتا تھا مگر وہ زیادہ لمبی نماز نہ ہوتی تھی.ان کے علاوہ بھی کبھی کبھار حضور کو مسجد مبارک میں سنت ادا کرتے دیکھا مگر ہمیشہ حضور کی نماز آسان اور ہلکی ہوا کرتی تھی.چند مرتبہ حضور کی اقتداء میں نماز باجماعت ادا کرنے کی سعادت بھی مجھے نصیب ہوئی.مگر وہ نماز بھی حضور کی بہت ہی پُر لطف مگر ہمیشہ ہلکی ہی ہوا کرتی تھی.ابتدا میں اکثر حضور کے ساتھ لگ کر حضور کے پہلو بہ پہلو بھی نماز با جماعت ادا کرنے کا شرف ملا ہے اور اس کے لئے ابتدائی زمانہ میں ہی ہمیں خاص اہتمام کی ضرورت پڑا کرتی تھی.اور ہم میں سے اکثر کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ حضور کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کی جگہ حاصل کریں.“ حضور کو میں نے نماز میں کبھی بھی رفع یدین کرتے نہیں دیکھا.اور نہ ہی آمین بالجہر کرتے سنا.تشہد میں حضور شہادت کی انگلی سے اشارہ ضرور کیا کرتے تھے مگر میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور نے انگلی کو ا کرایا یا پھرایا ہو.صرف ہلکا سا اشارہ ہوتا تھا جو عموما ایک ہی مرتبہ اور بعض اوقات دو مرتبہ بھی ہوتا تھا.جو میرے خیال میں امام کے تشہد کو لمبا کرنے کی وجہ سے حضور کلمہ شہادت دوہراتے ہوئے کیا کرتے ہونگے.“ حضور نماز میں ہاتھ ہمیشہ سینہ پر باندھتے تھے.زیر ناف بلکہ ناف پر بھی میں نے کبھی حضور کو ہاتھ باندھے نماز ادا کرتے نہیں دیکھا.“ حضور پُر نور خود امام نہ بنا کرتے تھے بلکہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم و مغفور کو حضور نے نمازوں کی امامت کا منصب عطا فرمایا ہوا تھا.نماز جمعہ بھی حضور خود نہ پڑھاتے تھے بلکہ عموما مولوی صاحب موصوف ہی پڑھاتے تھے.اور شاذ و نادر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھایا کرتے تھے.اور کبھی کبھی مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی بھی پڑھاتے تھے.ایک زمانہ میں دو جگہ جمعہ کی نماز ہوتی تھی.

Page 171

۱۵۶ مسجد اقصیٰ میں بھی جو کہ جامع مسجد ہے اور مسجد مبارک میں بھی.مگر دونوں جگہ امام الصلوۃ حضور نہ ہوتے تھے عیدین کی نماز بھی سوائے شاذ کے حضور خود نہ پڑھاتے تھے نماز جنازہ عموما حضور خود پڑھاتے تھے.اور حضور کو میں نے نماز جنازہ کسی کے پیچھے پڑھتے نہیں دیکھا یا کم از کم میری یاد میں نہیں.آج ۱۲ ستمبر ۱۹۶۰ء کو حضرت بھائی جی کو مسجد مبارک اور دارا مسیح دکھا کر ذیل کی مزید معلومات حاصل ہوئیں: 1- بیت الدعاء کی شمالی دیوار والی الماری اور اس کے ساتھ ملحقہ جانب مشرقی کمرہ موسومه به دالان حضرت اماں جان کی شمالی دیوار والی الماری اور اس کمرہ کی مشرقی دیوار کے شمالی حصہ میں جو کھڑ کی ہے.یہ تینوں حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے بعد لگائی گئی ہیں.-۲ -۲ بیت الدعاء کی جنوبی دیوار کا دریچہ اور اس کا مشرقی دروازہ اور دالان حضرت اماں جان کی مشرقی دیوار کے دونوں دروازے اور اس دالان سے بیت الفکر میں داخل ہونے کا دروازہ اور بیت الفکر کا مشرقی دروازہ اور بیت الفکر کی جنوبی دیوار کا دریچہ.یہ سب بعینہ اپنی اصلی حالت پر ہیں.حضرت مسیح موعود دالان حضرت اماں جان میں دونوں دروازوں میں سے بالعموم شمالی دروازے سے داخل ہوتے تھے.-- حضرت مسیح موعود موسم سرما میں الدار کے سطحی یعنی نچلے حصے میں رہائش رکھتے تھے.جب زمینہ کے ذریعہ اوپر آکر مغربی در بیچہ سے دالان حضرت اماں جان میں داخل ہونے کے لئے در بچہ کے پٹ کھولتے تو ان کی آواز سے جبکہ میں پہرہ کے لئے وہاں سوتا تھا، بیدار ہو جاتا.کبھی کبھی حضور مشرقی در بیچہ والے زینہ سے بھی دالان حضرت اماں جان میں تشریف لے آتے تھے.اب یہ دونوں دریچے اینٹوں سے بند ہیں.-۴- جب حضور مسجد مبارک میں دریچہ کے راستے آنے کے لئے بیت الدعاء اور دالان حضرت اماں جان کا درمیانی دروازہ کھولتے تو اس کی چولوں کی مخصوص آواز سے ہم مسجد میں ہوشیار ہو جاتے کہ اب حضور تشریف لارہے ہیں.( از مؤلف.بیت الدعاء سہو بیت الفکر کی بجائے طبع اول میں درج ہوا ہے.) بیان محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت بھائی جی: حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ والے صحن میں جو بیت العافیة ( حصہ الدار ) کے نیچے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مغرب کی نماز کھڑے ہو کر پڑھاتے تھے.ہم دس پندرہ مستورات حضور کی امامت میں نماز پڑھا کرتی تھیں.ایک دفعہ حضور مغرب کی نماز پڑھا چکے تھے تو پاس ہی ایک چار پائی پڑی

Page 172

۱۵۷ حضرت اقدس کی سیر کی عادت " حضور کی عادت مبارک تھی کہ صبح کی نماز کے بعد کچھ دن نکلے سیر کے واسطے تشریف لے جایا کرتے تھے.اور سیر میں جانے سے پہلے حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول کو بھی اطلاع کر دیا کرتے تھے تا کہ وہ بھی ساتھ ہوں.بعض اوقات ان کی انتظار بھی فرمایا کرتے تھے اور ان کو ساتھ لے کر جایا کرتے تھے.سیر کی عادت“ کے عنوان کے تحت خطوط وحدانی میں درج کردہ الفاظ.خاکسار مؤلف نے بھائی جی سے استفسار کر کے زائد کئے ہیں.بقیہ حاشیہ :.تھی اس پر فور لیٹ گئے.حضرت اُم المؤمنین نے ہمیں انگلی کے اشارہ سے خاموش رہنے کو فرمایا اور بتایا کہ الہام ہو رہا ہے.جب الہام کی حالت جاتی رہی تو حضور کے چہرے پر پسینہ آ گیا اور حضور ضعف محسوس کرنے لگے.حضور کا جسم دبایا گیا.اس حالت کے جاتے رہنے پر حضرت اُم المؤمنین نے دریافت کیا کہ کیا الہام ہوا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ سب باتیں بتانے والی نہیں ہوتیں.اس صحن سے بیت العافیہ پر چڑھنے کے لئے ایک سیڑھی تھی.سیڑھی کے اوپر دروازہ تھا.حضور نے اس دروازہ کو مقفل کروا دیا اور فرمایا کہ یہ دروازہ بندر ہے گا.جب میرے مولا کا حکم ہوگا تو کھولا جائے گا.ایک معمر خادمہ جن کا نام مائی تا بی تھا.حضرت اُم المؤمنین کے پٹارے سے از خود چابی لے کر اوپر جا کر اس نے دروازہ کھول دیا.ابھی زیادہ دیر نہ گزرنے پائی تھی کہ اوپر دھڑام سے کسی کے نیچے گرنے کی آواز آئی.اوپر کے مشرقی کمرہ کی جنوبی دیوار کی مغربی کھڑکی سے مائی تابی کے گرنے کی یہ آواز تھی.آواز سُن کر حضرت اقدس بھی وہاں تشریف لے آئے اور دریافت فرمایا کہ کیا ہوا.حضور نے واقعہ سن کر فرمایا کہ میرے مولا کا تو ابھی حکم نہیں ہوا تھا کہ اس دروازے کو کھولا جائے.اتنی بات فرما کر حضور اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے اور اس دروازہ کو پھر مقفل نہیں کیا گیا.مائی تابی چوٹیں آنے کی وجہ سے بہت دن چار پائی پر پڑی رہی.(از مؤلف ) ۱.اوپر کے حصے سے کسی کے گرنے کے حادثہ کی خبر الہاما حضور کو ملی ہوگی.اس کے پورا ہو جانے کے باعث دوبارہ دروازہ مقفل نہیں کیا گیا ہوگا.-۲- بیت العافیة کے نیچے حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ کا دالان ہے نہ کہ محن.خاکسار مؤلف سے طبع اوّل میں سہوا صحن کا لفظ درج ہوا ہے.

Page 173

۱۵۸ ابتداء میں حضور بٹالہ کی سڑک کی طرف سیر کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور کم از کم موڑ تک جاتے تھے.گاہ گاہ موڑ سے آگے بٹالہ کی جانب بھی تشریف لے جاتے تھے.ایک دو مرتبہ نہر تک جانا بھی حضور کا مجھے یاد ہے.اس کے علاوہ میں حضور کے ہمرکاب جانب شرق قادر آباد ( نیا گاؤں) کی طرف سے بسراواں کی طرف اور قادرآباد (نیا گاؤں) سے شمالی جانب کے راستہ سے جو قادر آباد (نیا گاؤں ) اور بھینی کے درمیان سے جاتا ہے، اس راستہ پر بھی سیر کو گیا ہوں چند مرتبہ منگل باغباناں کی جانب بھی حضور سیر کے واسطے تشریف لے گئے ہیں اور کاہلواں تک سیر فرمائی ہے.(منگل باغباناں کو بہشتی مقبرہ کے مشرق کی طرف سے گذرنے والے راستہ سے تشریف لے جاتے تھے جس کے راستہ میں باغیچہ پیر شاہ چراغ ☆ آتا تھا ) * حضرت بھائی جی نے مزید یہ تحریر فرمایا ہے کہ حضور قادیان سے شمال کی جانب موضع بوٹر کی طرف بھی سیر کے واسطے تشریف لے جایا کرتے تھے اور بعض دفعہ حضورا اپنے باغ کی طرف بھی جو شہر سے جانب جنوب واقع ہے سیر کے واسطے گئے ہیں.باغ سے آگے لیلاں کی طرف ( باغ کے مغرب کی طرف سے ) ایک رستہ جاتا ہے.اس طرف کو اور بعض اوقات حضور باغ ہی میں ٹھہر کر سیر فرماتے اور بعض پھل منگا کر خدام کو کھلاتے اور خود بھی شریک ہوا کرتے تھے خصوصا شہتوت، بیدا نہ اور آم.( از مؤلف ) بڑے باغ کے مغرب کی طرف راستہ ۱۹۶۲ء سے پہلے موضع منگل باغباناں کی اشتمال اراضی کی وجہ سے ختم ہو چکا ہے.سیر کے سلسلہ میں حضرت بھائی جی نے مزید تحریر فرمایا ہے کہ و کبھی کبھی حضور کمر میں ایک پڑکا بھی باندھا کرتے تھے ہاتھ میں حضور کے چھڑی ضرور ہوا کرتی تھی جو عموما موٹے بید کی اور کھونٹی دار ہوا کرتی تھی." ہ یا عبارت میں نیا گاؤں خطوط وحدانی میں دو بار اصل عبارت کا حصہ ہے.-۲- باغچه بطور مترو کہ جائداد تقسیم ملک کے بعد بعض پناہ گزینوں کو الاٹ ہوا.آموں کے پیر پھل دینے کے قابل نہ تھے.انہوں نے کاٹ ڈالے.۱۹۶۲ء سے چند سال پہلے حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ ( ناظر اعلیٰ وامیر مقامی ) نے یہ قطعہ ذاتی طور پر خرید لیا تھا.

Page 174

۱۵۹ حضور کوٹ پہنے بغیر سیر کے واسطے کبھی تشریف نہیں لے جاتے تھے.جوتی حضور کی ہمیشہ دیسی ہوتی تھی بوٹ میں نے حضور کو کبھی پہنے نہیں دیکھا ایک دفعہ ایک گر گاہی کسی نے حضور کے واسطے بھیجی یا پیش کی تھی مگر اس کے الٹے سیدھے کا حضور کو خیال نہ رہتا تھا اور اس وجہ سے حضور کو تکلیف ہوتی تھی آخر چھوڑ دی تھی.حضور سیر میں تشریف لے جاتے تو حضور کے ہمرکاب اکثر مقامی دوست اور مہمان ضرور ہوا کرتے تھے.حضور سیر میں دینی باتیں فرمایا کرتے تھے.بعض اوقات نئی تصانیف کے مضامین باتوں باتوں میں سنا دیا کرتے تھے.دوستوں کے سوالات کے جواب بھی دیا کرتے تھے.اور اس طرح جاتے اور آتے سارا وقت اسی قسم کی گفتگو میں خرچ ہوا کرتا تھا اور یہ ایک قسم کا شاندار در بار رواں کا نقشہ ہوا کرتا تھا.حضرت خلیفہ اول چلنے میں کمزور تھے.حضور پرنور کی رفتار تیز تھی.مگر تیزی نظر نہ آتی تھی بلکہ ایک وقار اور سنجیدگی لئے ہوئے ہوا کرتی تھی.حضرت مولوی صاحب لوگوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہولے ہولے چلا کرتے تھے اور اکثر حضور کے پیچھے رہ جاتے تھے.حضور کو معلوم ہوتا تو حضور ان کے انتظار میں ٹھہر جایا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول ہی پر کیا منحصر ہے اور بھی بعض دوست حضور کے ساتھ اور حضور کی باتیں سننے کی غرض سے بجائے چلنے کے دوڑ دوڑ کر ساتھ ہوا کرتے تھے.چند مرتبہ جانب شمال کی سیر سے واپسی پر حضور (ہندو) بازار میں سے بھی معہ خدام گذرے ہیں (جو شمالاً جنوبا ہے ) جب حضور بازار میں سے گذرتے تو دکاندار کیا ہندو اور کیا سکھ بھی حضور کے لئے ادب سے کھڑے ہو جایا کرتے تھے.اور کوئی کوئی سلام بھی کیا کرتا تھا.ایک مرتبہ حضور اڈہ خانہ والے بازار میں سے بھی ( جو شرقا غربا ہے ) گذرے تھے.اس وقت حضور کے ساتھ خدام کی بھاری تعداد تھی اور چونکہ وہ بازار ڈھلوان ہے لہذاوہ نظارہ نہایت ہی شاندار اور دلکش تھا ( یعنی حضور اپنے مکانات سے سیر کو تشریف لے جانے کے لئے اس بازار کے راستہ گئے تھے ) ایک موقعہ پر غالباً جلسہ کے ایام تھے بوٹر کی طرف حضور سیر کے واسطے تشریف لے گئے تو حضور کے ساتھ بڑی بھیڑ تھی.گردو غبار بہت اڑتا تھا.چلنا دشوار ہو گیا.حضور تھوڑی دور جا کر کھلے کھیتوں میں جہاں آجکل مسجد نور اور اس کے پاس جلسہ گاہ والا میدان ہے ) میدانی شکل تھی ، فصل نہ تھی ٹھہر گئے اور اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر بعض دوستوں نے الگ الگ حضور کی خدمت میں حاضر ہونا شروع کیا.اس دن قادیان سے شمالی جانب ایک بہت بڑی چھاؤنی کا نظارہ تھا.ایک زمانہ ایسا بھی آیا تھا کہ حضور مردوں کے ساتھ سیر کرنے کو تشریف نہ لے جاتے تھے بلکہ صرف

Page 175

17.مستورات ہی حضور کے ہمرکاب جایا کرتی تھیں.سیدۃ النساء حضرت اُم المؤمنین ہمرکاب ہوتیں اور شاہزادگان بھی.بعض خدام مستورات بھی جایا کرتی تھیں مگر یہ سیر زیادہ تر بسراواں کی طرف قادر آباد ( نیا گاؤں) سے آگے نکل کر اونچی زمین.میرا.تک ہوا کرتی تھی.بھائی جی اور آپ کی اہلیہ محترمہ بیان کرتے ہیں کہ عزیز عبد القادر کو جو ۳۰/اپریل ۱۹۰۴ء کو پیدا ہوئے تھے دروازہ پر بٹھا دیا جاتا تھا تا کہ حضرت اقدس کے سیر کے لئے تشریف لانے پر بتائے.حضور مع حضرت اماں جان تشریف لاتے تو عزیز کہتا ”حجر چھاب آگئے، یعنی حضرت صاحب آگئے.اس پر عزیز کی والدہ بھی سیر کے لئے ہمراہ چلی جاتیں اور کئی بار ایسا ہوا کہ حضور شفقت و پیار سے عزیز کے سر کے پیچھے ہاتھ رکھ کر اسے آگے آگے چلائے جاتے.اہلیہ محترمہ بھائی جی بیان کرتی ہیں کہ دس پندرہ مستورات سیر میں ساتھ ہوتی تھیں.حضرت بھائی جی مزید بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ حضور بیگمات اور خادمات کے ساتھ باغ میں تشریف فرما تھے.غالباً عصر کے بعد کا وقت تھا.باغ میں حضور سیدۃ النساء حضرت اُم المؤمنین کے ساتھ ٹہلتے پھرتے تھے کہ یکا یک حضور نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا.جلدی کرو چلو واپس گھر چلیں.سخت اندھیری اور بادل آرہا ہے.سیدۃ النساء 66 حضرت ام المومنین نے عرض کیا.کہاں ہے بادل اور کہاں کی اندھیری.کچھ بھی تو نظر نہیں آ رہا.اتنے میں ایک چھوٹی سی بدلی آسمان پر نمودار ہوئی اور حضور نے سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دکھا کر پھر جلدی واپسی کو کہا.مستورات باغ میں ادھر ادھر پھیلی ہوئی تھیں ان کے اکٹھا ہونے میں دیر لگی.ادھر بادوباراں کا ایک طوفان عظیم سامنے آگیا اور ابھی حضور خان بہادر مرز ا سلطان احمد صاحب والے باغ ہی میں تھے کہ سخت بارش اور دن کو رات بنادینے والی آندھی آن پہنچی.سیدۃ النساء حضرت اُم المؤمنین کا ہاتھ حضور پُر نور نے پکڑ رکھا تھا اور ان کو لئے آ رہے تھے.بارش کے باعث کپڑے شرابور ہورہے تھے سب سے آگے حضور پر نور تھے اور پیچھے متفرق متفرق دوسری عورتیں تھیں.چونکہ ہم لوگوں کو معلوم تھا کہ حضور بیگمات کے ساتھ سیر کے لئے باغ کی طرف تشریف لے گئے ہوئے ہیں لہذا جس کسی سے ہو سکا حضور کو لینے کے لئے باغ کی طرف بڑھے.مدرسہ کے لڑکے بھی اس کام کے واسطے دوڑے.جب میں حضور کے قریب پہنچا تو حضور نے فرمایا ہم تو اب اللہ کے فضل سے آن

Page 176

۱۶۱ پہنچے ہیں پیچھے عورتیں بہت متفرق ہیں اور خطرہ ہے کہ کوئی اندھیرے کی وجہ سے ڈھاب میں نہ گر جائے ان کی مدد کرو.چنانچہ ہم سے جو کچھ ہو سکا مستورات کی اس پریشانی میں ان کی خدمت کی کوشش کی.عورتوں کو بہت پریشانی ہوئی بعض کے برقعے اڑ گئے، زیور گر گئے راستہ بھول گئیں.میں نے حضور پرنور اور سیدۃ النساء حضرت اُم المؤمنین کو اس جگہ واپس آتے دیکھا تھا جہاں آجکل مرزا محمد اشرف صاحب کا مکان واقع ہے.حضرت نانی اماں بھی اس طوفان میں گھر گئی تھیں جن کو لے کر میری اہلیہ والدہ عزیز عبد القادر راہ بھول گئیں اور کھیتوں میں نکل گئیں.اور جب اجالا ہوا تو مولوی غلام رسول صاحب افغان والے مکان کے راستے سے ڈھاب اور کھیتوں میں ہوتے ہوئے (اپنے ) گھر لائیں.گھر لا کر ان کو کپڑے بدلوائے.بستر دے کر گرم کیا اور جو کچھ ہو سکا خدمت کی.ادھر گھر میں ان کی تلاش ہوئی.باہر نہ ملیں تو گھروں میں سے معلوم کرنا شروع کیا.آخر معلوم ہوا کہ قادیانی کے گھر میں بخیریت ہیں مگر یہ واقعہ بہت بعد کا ہے.سیر کا مذکورہ بالا واقعہ اہلیہ محترمہ بھائی جی نے خاکسار مؤلف کو ازخود سنایا تھا جس میں یہ بھی بتایا تھا کہ بچوں والی خواتین پیچھے رہ گئی تھیں ان کے کپڑے اڑ گئے زیور گم گئے.جب گھروں میں حضرت نانی جان کی تلاش ہوئی تو بھائی جی نے اپنے گھر آکر آواز دے کر پوچھا تو حضرت ممدوحہ نے کہا کہ میں یہاں موجود ہوں اور پھر فور ادار مسیح کی طرف روانہ ہو گئیں کہ میری بچی نصرت کو تشویش رہے گی.بھائی جی نے فرمایا کہ اس وقت میرا مکان حضرت خلیفہ اول کے مکان کے شمال کی طرف تھا جو حضور نے بعد میں مجھ سے خرید لیا تھا.منارة اصبح (منارہ مسیح کی بنیاد کے وقت میں حاضر تھا.دعاؤں میں شریک اور خدمات متعلقہ کی سعادت سے بہرہ ور تھا.فالحمد للہ.الحمد لله ثم الحمد لله ) منارۃ اسیح جس کی تعمیر و تکمیل کے ساتھ بہت کچھ بشارات اور ترقیات وابستہ تھیں اور جس کی بنیاد سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اپنے دست مبارک سے رکھی جو بنیاد کے علاوہ سطح صحن مسجد سے چھ فٹ اوپر تک حضور ہی کے زمانہ میں تیار ہوا.اور وہیں رکا پڑا تھا اس کی تعمیر و تکمیل بھی خلافت ثانیہ ہی میں ہوئی.منارۃ المسیح کا نقشہ اور تخمینہ سید عبدالرشید صاحب مرحوم برادر صغیر حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے بنایا.اینٹوں کے لئے

Page 177

۱۶۲ زمین میاں امام الدین صاحب عرف ما ناچنے فروش نے دی.اس کا تخمینہ دس ہزار روپیہ خرچ کا تھا.بنیاد نہایت گہری.لمبی چوڑی اور کنکریٹ وغیرہ کے ذریعہ مضبوط کرائی گئی تھی.چھ فٹ سے اوپر کی تعمیر کا کام مکرمی قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی کی زیر نگرانی ہوا.۳.بٹالہ کی یادگاریں حضرت بھائی جی نے ۳۰ جولائی ۱۹۵۳ء کو بٹالہ جا کر اکاون احباب کو جن میں خاکسار مؤلف قادیان سے باہر ہونے کی وجہ سے شامل نہ تھا ذیل کی یادگار میں دکھلائیں : ا پلیٹ فارم بٹالہ اونچے پلیٹ فارم بٹالہ کا مشرقی حصہ جو شرقی واٹر پمپ ( جہاں سے انجمن پانی لیتے ہیں ) سے کوئی پچاس فٹ مغرب کی طرف ہے یہ وہ مقام ہے جہاں بعد میں وصال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تابوت مبارک لاہور سے آنے والی گاڑی کے ڈبہ سے اتار کر رکھا گیا.تابوت ساڑھے گیارہ بجے رات گاڑی سے اتارا گیا تھا اور قریباً ایک گھنٹہ یعنی ساڑھے بارہ بجے رات تک پلیٹ فارم پر رکھا رہا.۲- آم کا درخت یہ وہ آم کا درخت ہے جس کے نیچے پلیٹ فارم سے تابوت اٹھا کر لا کر رکھا گیا تھا.یہ آم کا درخت اسٹیشن سے باہر سیڑھیاں اتر کر لب سڑک غربی جانب ہے اس درخت کے نیچے تابوت دو گھنٹے کے قریب رکھا رہا.پھر تابوت کو چار پائی پر رکھا گیا.یہیں سے قادیان سے آنے والے مسیح پاک کے پروانوں نے ہاتھوں ہاتھ کندھوں پر قادیان پہنچا دیا.اس آم کے درخت کے متعلق حضرت بھائی جی کے بیان فرمودہ کی یہ پیرا الحکم بابت ۲۰۱۴ / جنوری ۱۹۴۰ء سے اخذ کیا گیا ہے.البتہ خطوط وحدانی والی عبارت حضرت بھائی جی کی ایک قلمی تحریر سے زائد کی گئی ہے جو خاکسار مؤلف کے پاس ہے.سیّد عبدالرشید نام میں سہو ہے.اصل نام سید محمد رشید ہے.اس کتاب میں دوسری جگہ اس بارے میں قدرے تفصیل درج کی گئی ہے.قاضی صاحب کے حالات کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد ششم.

Page 178

۱۶۳ تصدیق حضرت ڈاکٹر عطر دین صاحب نے بھی فرمائی.جو خوش قسمتی سے ۱۹۰۸ء میں بھی اس جگہ تھے.اور بٹالہ دیکھنے والے اس حالیہ قافلہ میں بھی شامل تھے.حضرت ڈاکٹر صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے ہیں.حضرت ام المومنین نور اللہ مرقدھا رتھ میں تشریف لائیں.رتھ کے ساتھ حضرت بھائی جی تشریف لائے.رتھ ساڑھے نو بجے صبح قادیان پہنچا.سرائے مائی اچھراں دیوی یہ سرائے ریلوے روڈ بٹالہ پر واقع ہے.اور رائل فونڈری بٹالہ ( کارخانہ ٹو کہ وغیرہ) کے قریب بازار کے مشرقی حصہ میں ہے.اس سرائے کے دروازے پر تحریر ہے کہ اس کی بنیا د ۱۵ اگست ۱۸۹۳ء کو رکھی گئی تھی.سرائے کا دروازہ مغرب کی طرف سڑک کی طرف کھلتا ہے دروازہ کے اندر داخل ہوتے ہی سیٹرھیاں دائیں جانب سے اوپر کو چڑھتی ہیں.ایک کمرہ کے سامنے جا کر ختم ہو جاتی ہیں جو دوسری منزل پر ہے وہی وہ کمرہ ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آخری سفرا پریل ۱۹۰۸ء میں لاہور جاتے ہوئے قیام فرمایا تھا.کمرہ تا حال وہی ہے اس میں کوئی ردو بدل نہیں کیا گیا.اس کمرہ کی لمبائی 4-11 اور چوڑائی ہے.اا ہے.اس سفر میں کل افراد حضور سمیت دس تھے.چھ افراد خاندان اور چار خدام.یہیں سے حضرت ام المومنین کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام علی وال بھی لے گئے تھے.( از مولف.حضور اور حضرت اماں جان اور پانچ اولاد گویا کل افراد سات ہوئے چھ افراد خاندان کہنے میں سہو ہوا ہے.) -۴- ذیل گھر بٹالہ اس کی نچلی منزل تا حال حسب سابق ہے.اوپر کی منزل میں نئے کمرے بن گئے ہیں.حضرت بھائی جی نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس عمارت میں بھی قیام فرمایا کرتے تھے.لیکن اس جگہ قیام فرمانا ۱۸۹۵ء سے قبل کا ہے.حضرت بھائی جی کی آمد ۱۸۹۵ء کے بعد بھی رتھ اسی مکان میں ٹھہرا کرتی تھی.نیز بھائی جی نے بتایا کہ محمد اکبر صاحب ٹھیکیدار کا نال ذیل گھر کے جنوبی جانب تھا.محمد بخش صاحب ( جنہوں نے مارٹن والے مقدمہ میں مولوی محمد حسین صاحب کے نیچے سے اپنی چادر کھینچی تھی) محمد اکبر صاحب

Page 179

۱۶۴ موصوف کے بھائی تھے ٹھیکیدا رالہ یار صاحب بھی ان کے تیسرے بھائی تھے.۵- چوک ( آر.ایم صاحب بٹالہ کی کچہری کے بڑے گیٹ کے سامنے والا ) یہ چوک وہ مقام ہے جہاں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مارٹن کلارک والے مقدمہ کی تاریخ کے روز بڑا سا جبہ پہن کر ایک ہجوم کے ساتھ (کسی برے منظر کی امید میں) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قادیان سے بٹالہ پہنچنے کے منتظر تھے.لیکن دیکھتے کیا ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یکہ سے ہنستے ہوئے اترے اور آپ کے استقبال کو کپورتھلہ کی جماعت کے افراد موجود تھے.جن میں سے چند دوست تو حضرت کو لینے بٹالہ سے با ہر قادیان کی طرف انار کلی کے قریب تک آئے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس شان سے آتے دیکھ کر مولوی محمد حسین صاحب جل بھن گئے اور اپنے ساتھیوں سمیت وہاں سے چلے گئے.فوجی سرائے یہ وہی سرائے ہے جس کے ایک حصہ میں آجکل ریذیڈنٹ مجسٹریٹ صاحب کی عدالت ہے.اور ایک حصہ میں میونسپل کمیٹی کے دفتر.اس کمیٹی کے جنوب مشرقی کونہ کے کمرے کی چھت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رات قیام فرمایا کیونکہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب بہادر نے دوسرے روز کی حضرت میاں محمد بخش صاحب کے تیسرے بھائی حضرت میاں اللہ یار صاحب ٹھیکہ دار مہاجر قادیان تھے.حضرت میاں محمد بخش صاحب کے فرزند حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی ہیں جن کو آسٹریلیا کی اولیں مسجد احمد یہ کے سنگ بنیاد رکھنے میں شرکت کی سعادت کا موقع حضرت خلیفتہ امسیح الرابع اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہاں بلوا کر بہم پہنچایا.اسی طرح حضور نے آپ کو ۱۹۸۹ء کی لندن کانفرنس پر بھی بلوایا تا احباب آپ کو دیکھ کر زمرہ تابعین میں شامل ہو سکیں.بوقت طبع دوم کتاب ہذا دیکھا گیا کہ فوجی سرائے میں میونسپل کمیٹی کا دفتر موجود ہے.البتہ ریذیڈنٹ مجسٹریٹ کا دفتر وہاں سے منتقل ہو چکا ہے جس کی جگہ اسٹنٹ رجسٹرار کو اپریٹو سوسائٹیز کا دفتر آ گیا ہے.*

Page 180

۱۶۵ تاریخ دی تھی.صاحب مجسٹریٹ کا نام ڈگلس بینگ تھا جو بعد میں سر“ بھی ہو گئے تھے.ے.ڈسٹرکٹ بورڈ ریسٹ ہاؤس (ڈاک بنگلہ ) یہ وہ عمارت ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف مقدمہ مارٹن کلارک کی دو روز پیشی ہوئی تھی.ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور اس ریسٹ ہاؤس میں قیام فرما تھے.ریسٹ ہاؤس کے مشرقی میدان میں سپر نٹنڈنٹ پولیس مع عملہ کیمپوں میں تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع اپنے خدام کے بٹالہ پہنچنے کے بعد ریسٹ ہاؤس میں تشریف لے گئے جس میں کہ مقدمہ کی پیشی تھی.پادری مارٹن کلارک پہلے ہی اندر تھے.ریسٹ ہاؤس کا وہ کمرہ عدالت کا کمرہ تھا.جو عمارت کے شمال مغربی حصہ میں ہے اور جس کمرہ کے شمال اور مغرب میں دونوں طرف برآمدہ ہے وہ اب تک اسی شکل میں ہے.حضرت بھائی جی نے بتلایا کہ لمبی میز پر کمرہ میں مسٹر ڈگلس سینگ مشرق کی طرف منہ کر کے تشریف رکھتے تھے.دو کرسیاں ڈگلس صاحب کے دائیں اور بائیں میز کے غربی جانب تھیں.دائیں طرف والی کرسی سہو ہوا ہے سر ڈگلس بینگ تقسیم ملک سے پہلے ۱۹۳۵ء کے قریب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس *.رہے ہیں.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ کی سماعت کیپٹن ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور نے بمقام بٹالہ ۱۲،۱۰ ،۱۳ اگست ۱۸۹۷ء کو کی تھی.اور ۲۳ / اگست کو فیصلہ سنا دیا تھا.وہ بعد میں کرنل ہو گئے تھے اور ۱۹۱۵ء کے لگ بھگ جزائر انڈیمان میں بطور کمشنر متعین رہے.(اصحاب احمد جلد ہشتم میں حالات حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب سابق مہر سنگھ میں انڈیمان میں تقرری کا ذکر ہے.(الفضل ۸/جنوری ۱۹۱۶ء، برصفحہ ۲ کالم ۲ میں ماسٹر صاحب کی طرف سے ان کی ملاقات کا ذکر ہے.) ۱۹۵۵ء میں ایک شدید بارش سے جو قریباً ساٹھ گھنٹے متواتر برسی تھی مذکورہ ڈاک بنگلہ کا اکثر حصہ گر گیا تھا.گرا ہوا میں نے بھی دیکھا تھا.سوا سے گرا کر قدرے جنوب کی طرف نئی اور پہلے سے وسیع عمارت تعمیر ہوئی جس میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ بٹالہ کا دفتر ہے اور اسی احاطے میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے دفتر سے شمال مغرب کی طرف تمام مجسٹریٹوں کی عدالتوں کے کمرے تعمیر کئے گئے ہیں.(از مؤلف )

Page 181

۱۶۶ پر پادری مارٹن کلارک صاحب تھے اور بائیں والی کرسی حضرت مسیح موعود کو پیش کی گئی.سب سے اوّل عبدالحمید کی گواہی ہوئی.پھر مولوی محمد حسین صاحب کو بلایا گیا.مولوی صاحب جب اندر گئے تو حضرت اقدس کو کرسی پر تشریف رکھے ہوئے دیکھ کر پھینک گئے اور صاحب مجسٹریٹ سے کرسی کی درخواست کی.پہلی دفعہ صاحب بہادر نے کوئی جواب نہ دیا تو مولوی صاحب نے پھر اصرار کیا.جس پر سخت ذلت نصیب ہوئی.اور جواب ملا کہ بک بک مت کر سیدھا کھڑا ہو جا.“ اس کے بعد مولوی صاحب نے جو گواہی دینی تھی دی اور باہر نکلے.باہر کمرہ عدالت کے شمالی برآمدہ کی غربی ڈاٹ کے نیچے ایک مسلمان بھائی محمد بخش صاحب کی چادر بچھی ہوئی تھی.مولوی صاحب جھٹ اس پر بیٹھ گئے.محمد بخش صاحب نے جب دیکھا تو چادر کھینچ لی.اور کہا ” جا مولوی میری چادر کیوں پلید کرتا ہے تو تو مسلمان کے خلاف جھوٹی گواہی پادریوں کے حق میں دے کر آیا ہے.“ جب یہاں بھی ذلت نصیب ہوئی تو پولیس کے کیمپوں کے قریب کسی اردلی کی کرسی رکھی تھی.مولوی صاحب اپنی خفت مٹانے کے لئے اس پر براجمان ہوئے.چنانچہ جب اردلی نے دیکھا کہ مولوی صاحب افسر سے کرسی کی وجہ سے جھاڑ کھا کر اس کی کرسی پر بیٹھ گئے ہیں تو اس نے بھی اٹھا دیا.اور مولوی صاحب نے حضور کے الہام إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَ إِهَانَتَكَ “ ۳۵ کے متعد د نظارے ایک قلیل مدت میں کئے.حضرت اقدس اس روز کمرہ عدالت کے اندر قریباً ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے رہے.حضور اقدس کی طرف سے وکیل مولوی فضل الدین صاحب لاہور والے تھے.پھر مقدمہ دوسرے روز پر ملتوی ہو گیا.اور پولیس کے ذریعہ سے عبدالحمید گواہ کو صحیح گواہی دینے کو کہا گیا.چنانچہ عبدالحمید نے دوسرے روز اپنی گواہی دی.اور حضرت اقدس کی معصومیت اور اپنے اور پادری مارٹن کے جھوٹا ہونے پر مہر ثبت کر دی.یہ واقعہ اگست ۱۸۹۷ء کا ہے دوسرے روز کی تاریخ پر حضرت اقدس کی بریت کی اطلاع دی گئی.بوقت طبع اول جلد ہذا اخویم چودھری عبدالقدیر صاحب درویش نے خاکسار مؤلف کو بتایا تھا کہ یہ مضمون بدر میں شائع کرنے سے پہلے میں نے دو بار حضرت بھائی جی کوسنا کر تصحیح کروائی تھی.

Page 182

۱۶۷ حضرت اُم المؤمنین کے بارے میں ا.ایک اہم روایت محترم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے اپنی تصنیف ”سیرۃ حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں“ (حصہ اول.صفحہ ۲۳۱ ) میں حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب اور حضرت ام المومنین کے بارے میں ذیل کی عجیب روایت محفوظ کی ہے: حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے مجھے حضرت میر ( ناصر نواب ) صاحب کی سیرۃ کا ایک عجیب واقعہ سنایا کہ ایک زمانہ میں میں دوکان کیا کرتا تھا.جس میں ناشتہ وغیرہ کے کیک، پیسٹری ، سوڈا برف ، دودھ وغیرہ ہوا کرتا تھا.کبھی کبھی حضرت میر صاحب میری دوکان میں تشریف لایا کرتے اور جس چیز کی خواہش کرتے وہ پیش کر دی جاتی.بھائی جی کا مذہب تو دراصل مذہب عشق تھا.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سچا عشق تھا.اس عشق کی وجہ سے خاندان مسیح موعود کے ہر فرد سے عشق تھا اور ہے.چنانچہ میں نے دیکھا کہ وہ بعض اوقات خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے چھوٹے چھوٹے نونہالوں کے ہاتھوں کو بوسہ دے دیا کرتے ہیں.کیونکہ ان کو اس درخت کے پھول اور پھل نظر آتے ہیں جو ہمیشہ ان کی محبت کا نقطہ نظر رہا.الغرض اس محبت کی وجہ سے ان کو حضرت میر صاحب کا بڑا ادب اور پاس تھا اور محبت تھی.وہ خوشی سے لبریز ہو جایا کرتے تھے جب کبھی حضرت میر صاحب دوکان میں آتے.اور اس خوشی میں ہرا چھی سے اچھی چیز اٹھا کر آگے رکھتے چلے جاتے.حضرت میر صاحب خود کھاتے اور کبھی اپنے دوستوں کو بھی کھلاتے اور کبھی کبھی موج میں آ کر فرما دیا کرتے کہ 66 ”میاں عبد الرحمن ! ہم اپنا حق سمجھ کر کھاتے ہیں اور یہ اس لئے کہ ہمارا اور آپ کا تعلق بڑھے.“ بھائی جی فرماتے تھے کہ اس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت میر صاحب مفت کھاتے تھے.بیشک وہ اس وقت عام خریداروں کی طرح قیمت ادا نہ کرتے تھے.مگر جب تک وہ دگنی تگنی خدمت دوسرے

Page 183

۱۶۸ رنگ میں نہیں کر لیتے تھے وہ مطمئن نہ ہوتے تھے.بھائی جی کے دل میں ایک سوال ہمیشہ گد گدی لیا کرتا تھا.وہ موقعہ کی تلاش میں تھے.ایک دن دکان میں تنہا تھے.حضرت میر صاحب تشریف لے آئے.ان کی طبیعت اس وقت بہت خوش تھی.بھائی جی نے جو موقعہ کی تلاش میں تھے، اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر سوال کر دیا.حضرت! یہ مقام جو آپ کو حاصل ہوا اس میں کیا راز ہے؟ وہ کون سی بات تھی جو آپ کو اس جگہ پر لے آئی.؟ حضرت میر صاحب کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے.رقت ان کے گلے میں گلو گیر ہوگئی.مگر اس بھرائی آواز میں فرمایا : ”میرے ہاں جب یہ بلند اقبال لڑکی پیدا ہوئی.اس وقت میرا دل مرغ مذبوح کی طرح تڑپا اور میں پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الہی پر گر گیا.میں نے اس وقت بہت سوز اور درد سے دعائیں کیں کہ اے خدا! تو ہی اس کے لئے سب کام بنا ئیو.معلوم نہیں اس وقت کیسا قبولیت کا وقت تھا کہ اللہ تعالیٰ اس بیٹی کے صدقے مجھے یہاں لے آیا.“ سیہ روح ہے اس جواب کی.ممکن ہے الفاظ میں مرور ایام سے کچھ فرق پڑ گیا ہو.بھائی جی جب مجھے یہ واقعہ سنا رہے تھے ان کے چہرے کی ایسی حالت تھی گویا وہ میر صاحب کو سامنے بیٹھے دیکھ رہے ہیں.اور ان کی رقت قلب ان کے قلب پر اثر کر رہی تھی.اور خود بھائی جی کی بھی اس وقت آواز بھرا آئی اور رقت سے آنکھیں لبریز تھیں.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اُم المؤمنین کی پیدائش کا واقعہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا.اس وقت کوئی خاص گھڑی تھی.دعا کی قبولیت کا خاص وقت تھا.کیونکہ ایک بڑی پاکیزہ روح آسمان سے لائی جارہی تھی.ملائکہ زمین پر اترے ہوئے تھے جو زمین کو اپنی برکتوں سے مالا مال کر رہے تھے.معلوم ہوتا ہے حضرت میر صاحب قبلہ حضرت اُم المؤمنین کے متعلق متواتر دعاؤں میں لگے رہے.کیونکہ حضرت اُم المؤمنین کی شادی سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہی لکھا کہ و, 66 دعا کرو کہ خدا تعالیٰ مجھے نیک اور صالح داماد عطا کرے.“ دعاؤں کی یہ کثرت اور میر صاحب جیسے باخدا انسان کی دن رات کی گریہ وزاری جہاں حضرت میر صاحب کی ذاتی سیرت پر ایک بین اثر ڈالتی ہے.وہاں حضرت ام المومنین کے مقام کا بھی پتہ دے رہی ہے.

Page 184

۱۶۹ حضرت اُم المؤمنین کے اعلیٰ روحانی اخلاق حضرت بھائی جی نے حضرت اُم المؤمنین کے اعلیٰ روحانی اور اخلاقی کمال کے بارے بیان کیا: میں بچہ تھا جب قادیان میں اللہ تعالیٰ مجھے لایا.اور اب پچھتر سالہ بوڑھا ہوں.میری قریباً ساٹھ سالہ زندگی "الدار کی ڈیوڑھی کی دربانی میں اور سیدۃ النساء حضرت اُم المؤمنين اعلى الله درجاتها في الجنة کے قدموں میں گذری.میں ملک کے طول و عرض میں مختلف اسفار میں حضرت ممدوحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمرکاب رہا.اس عرصہ میں جو کچھ حسن سلوک ، عطایا اور انعامات مجھ غلام پر سیدہ اطہرہ کی طرف سے ہوئے وہ میرے لئے احاطہ تحریر میں لانے نا ممکن ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے غلامی اور یتیم کی حالت میں قادیان کی بستی میں پہنچایا.لیکن حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی تو جہات کریمانہ اور احسانات بے پایاں نے مجھے سب غم بھلا دیئے.اور وہ اطمینان وسکون اور سہولت و آرام بخشا جو ایک بچہ کوحقیقی ماں کی گود میں بھی میسر نہیں آسکتا.میں نے اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں جو حضرت محدوحہ کے قدموں میں گذاری.آپ کو بہترین شفیقہ ، اعلی ترین اخلاق کی مالکہ.ہمد در و تقویٰ شعار اور خدا تعالیٰ کی راہ میں راستباز پایا اور آج جب کہ دنیا کی یہ محسنہ ہم سے جدا ہوگئی ہیں اپنے لمبے تجربہ کی بناء پر یہ کہ سکتا ہوں کہ جس طرح حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضرت کے اخلاق کا نقشہ کان خلقه القرآن کے الفاظ میں کھینچا تھا اسی طرح میں حضرت اُم المؤمنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اخلاق کا نقشہ کان خلقها كخلق المسيح الموعود کے الفاظ میں کھینچتا ہوں.یعنی حضرت ام المؤمنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے اخلاق وہی تھے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق تھے اور آپ کی عادات واطوار اور سیرت وکردار وہی تھے جو سیح پاک علیہ الف الف صلوۃ والسلام کی زوجہ محترمہ کے ہونے چاہئے تھے.جب بچپن میں خدا تعالیٰ کے خاص ہاتھ نے مجھے بت پرست قوم سے نجات دے کر نو رایمان واسلام سے منور کیا تو میری حقیقی والدہ جس نے مجھے جنا تھا.اپنی مامتا سے مجبور ہوکر ایک سے زیادہ بار مجھے واپس لے جانے کے لئے قادیان آئی.لیکن مجھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کی غلامی اتنی محبوب اور دلپسند تھی کہ میں نے اس کو ہزار آزادیوں اور آراموں پر ترجیح دی.اور جب ایک دفعہ میرے والد نے بڑی آہ وزاری والحاح سے مجھے واپسی کے لئے مجبور کرنا چاہا تو میں اس واقعہ کے

Page 185

۱۷۰ مطابق جو حضرت زید مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کے والدین کو پیش آیا تھا.اپنے مقدس آقا کو جس کی غلامی میں میں تھا چھوڑنے سے انکار کر دیا.اپنی والدہ کو یہ کہا کہ وہ ذرا اس مقدس اور پُر شفقت ہستی کو تو ملے جس کی غلامی پر مومنوں کی تمام جماعت فخر کرتی ہے.چنانچہ میری والدہ میری درخواست و اصرار پرسیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا سے ملاقی ہوئیں.اور تھوڑے سے وقت کی ملاقات سے ہی حضرت ممدوحہ کے اخلاق کریمانہ کی والہ وشیدا ہو کر واپس لوٹیں.اور اس بات کا اظہار کرتی گئیں کہ اگر میرا بچہ مجھے چھوڑ کر ایک ایسی مشفقہ اور کریمہ ومحسنہ کی غلامی میں آ گیا ہے تو یہ میرے لئے اور میرے خاندان کے لئے کوئی باعث تشویش امر نہیں.یہ تھے سیدۃ النساء کے اخلاق فاضلہ.بھائی جی کو تبرک قرار دینا اس وقت صدمہ تازہ ہے اور زخم ہرے ہیں اس لئے جذبات میں کھوئے جانے کے باعث اپنے خیالات کو مجتمع نہیں کر سکتا اور نہ ہی حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرت کے متعلق سر دست تحریر کر سکتا ہوں.ہاں ایک دو مختصر واقعات احباب کے سامنے پیش کر دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ نیز لاہور کے مقدس ایام تھے.حضور لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب کے گھر میں فروکش تھے.ایک دن بعض دوستوں نے مجھ سے حضرت اقدس علیہ السلام کا تبرک حاصل کرنے کی فرمائش کی.میں اپنے آقا کی عتبہ عالیہ پر حاضر ہوا.دستک دی اندر سے سیدۃ النساء نے فرمایا ” کون ہے عرض کی کہ حضور خادم و غلام عبدالرحمن قادیانی.آنے کی غرض دریافت فرمائی.جس پر اس عاجز نے عرض کی کہ میسیج پاک کے تبرک کے حصول کے لئے حاضر ہوا ہوں.حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے کھانا چنا ہوا تھا.اور حضور معہ اہل بیت تناول فرما رہے تھے.سیدۃ النساء نے طشت آگے سے اٹھایا اور اس حقیر خادم کو عطا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود کی موجودگی میں فرمایا کہ بھائی جی آپ تبرک ما نگتے ہیں؟ آپ تو خود ہی تبرک ہو گئے ہیں.“ اللہ ! اللہ ! حضرت ممدوحہ کی نگاہ لطف نے اس حقیر غلام کو غلام ہوتے ہوئے بھی تبرک بنا دیا.محترم قارئین کرام! میں اس موقعہ پر آپ سے التجا کرتا ہوں کہ ازارہ کرم اس نوٹ کو پڑھتے ہوئے بھی اور بعد میں بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان الفاظ کو حقیقت میں ہی بنادے.

Page 186

121 ۴.ڈولی اور بیوگی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جب حضور کا جسد اطہر بٹالہ سے قادیان لایا جا رہا تھا تو اس خادم کی ڈیوٹی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے رتھ کے ساتھ تھی.حضرت مدوحہ اس وقت خاموشی کے ساتھ ذکر واذکار اور دعاؤں میں مشغول تھیں اور صبر ورضا کا کامل نمونہ پیش فرما رہی تھیں.جب رتھ نہر کے پل پر سے گذر کر آگے بڑھی تو حضرت ممدوحہ نے ایک پُرسوز اور رقت آمیز آواز سے فرمایا.” بھائی جی! پچیس سال گذرے میری ڈولی اس سڑک پر سے گزری تھی.آج میں بیوگی کی حالت میں اس سڑک پر سے گذر رہی ہوں.یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے اور درد پیدا کر رہے ہیں.میں بچہ تھا جب والدین اور عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر قادیان پہنچا.لیکن سیدۃ النساء کی شفقت اور مہربانی کی وجہ سے میں نے اور دوسرے احمدی بھائیوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو کیلا اور یتیم نہیں سمجھا تھا.اور اس شفیق ہستی کے طفیل ہم نے سب رشتہ داروں کو بھلا دیا تھا.لیکن اب جب کہ حضرت ممدوحہ کی وفات کا عبرتناک واقعہ ہوا ہے.ہمارے دل غم سے نڈھال ہو گئے ہیں اور ہم اپنے آپ کو پھر یتیم محسوس کرتے ہیں.اے خدا! تو اس مبارک وجود کو جس کو تو نے اپنی خدیجہ اور اپنی نعمت قرار دیا.جس کو تو نے مقدس خاندان کی بانی بنایا.جس کے ذریعے سے تو نے پنجتن پاک کا ظہور فرمایا جس کو تو نے مسیح پاک اور بروز محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا فخر بخشا.اعلی علیین میں مقام بلند وارفع عطا فرما اور اس کے درجات ہر آن بلند فر ما تا چلا جا اور اس کی اولاد اور لواحقین پر بھی بے شمار رحمتیں اور فضل فرما.آمین ثم آمین ۳۸ (زیر مضمون سيدة النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کا روحانی اور اخلاقی کمال ” مرقومہ بزرگ بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی) * -۵- کونسا درود پڑھنا چاہئے آپ تحریر فرماتے ہیں کہ : حضرت بھائی کا یہ مضمون ۱۹۳۹ء میں شائع ہوا.اس لئے خطوط واحدانی میں یہ سن تحریر کر دیا گیا ہے تا ی علم میں آ جائے کہ آج کل سے کیا مراد ہے.

Page 187

۱۷۲ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے انفاس قدسیہ اور انوار سماویہ کا فیضان عام اپنے اصحاب کو مندرجہ ذیل اوقات میں پہنچاتے تھے ا سیر صبح -۲- در بارشام ۳- مجلس طعام ۴- بعد از نماز مجلس عرفان....ایک روز حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام قادیان کے شمالی جانب موضع بوٹر کی طرف مع خدام سیر کے لئے تشریف لے گئے آپ کا یہ حقیر خادم بھی ساتھ تھا.مختلف احباب اپنے اپنے سوالات پیش کر رہے تھے اور حضور اقدس علیہ السلام کے منہ سے جواباً معارف کے دریا بہہ رہے تھے.اگر چہ میں کمسن تھا.لیکن دوسروں کے سوالوں سے مجھے بھی جرات ہوگئی اور میں نے عرض کیا: حضور ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو ہم دورد پڑھتے ہیں.مگر حضور کے لئے کس طرح دعا کی جائے؟ حضور اقدس علیہ السلام نے نہایت محبت اور تلطف سے بے ساختہ فرمایا: 66 یہی درود جو نماز میں پڑھا جاتا ہے.ہمیں پہنچتا ہے.“ جواب باصواب سن کر دل کو تسلی اور روح کو اطمینان ہوا...حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عہد سعادت بیت گیا.سیدنا ومولانا حضرت نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ....حسب دستور مسجد اقصیٰ میں قرآن کریم کا درس فرما رہے تھے.غالبا سورہ جمعہ یا کسی ایسی ہی آیت مسیح موعود کی مماثلت اور مقام فنائیت فی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرمارہے تھے.میرے ذہن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مذکورہ بالا ارشاد مستحضر تھا.مجھ سے رہا نہ گیا اور بے اختیار کھڑا ہو گیا.حضرت سید نا خلیفہ اول نے میری طرف توجہ فرمائی اور میں نے مذکورہ بالا واقعہ عرض کرتے ہوئے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ یہی درود جونماز میں پڑھا جاتا ہے ہمیں پہنچتا ہے.“ دہرا دیئے.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنتے ہی فرمایا: نیک بختا! ایہہ گل کدھرے چھپوائی وی آ کہ نہیں ؟“ د یعنی بچے ! یہ ارشاد کسی اخبار میں شائع بھی کرایا ہے یا نہیں ؟ مجھے ٹھیک یاد نہیں.خیال پڑتا ہے کہ اس حکم کی تعمیل میں لکھ دیا ہوگا.ہمارے آقا سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام بے شک وہی تھا جس کا اظہار آپ نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ من فرق بينى وبين المصطفى فماعرفني ومارای.“

Page 188

۱۷۳ نیز ” وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے.-- مقدمہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نوٹ از مؤلف : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک معزز صحابی حضرت عبد الرحمن صاحب قادیانی کے قلم سے بعنوانات ذیل یہ مضمون الحلم بابت ۲۱، ۲۸ / نومبر ۱۹۳۹ء میں جو بلی کے سال میں شائع ہوا.سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا ایک قیمتی ورق ہے.آج سے ۴۳ سال قبل ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مقدمے کے چشم دید حالات اور خدا کی قدرت نمائی کے واقعات.آپ کی روایات یکجائی طور پر جمع کرنے کی خاطر اس مضمون کی ابتدائی تمہید کا خلاصہ خطوط وحدانی میں کونوا ( تا ) اوج پر جا پہنچے دیا گیا ہے.قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے كُوْنُوْا مَعَ الصُّدِقِینَ کے حکم الہی میں ہزاروں حکمتیں اور برکات ہیں.بنی اسرائیل جو اتنے کمز ور اور ذلیل، پست اخلاق اور دوں ہمت ہو چکے تھے حضرت موسیٰ کی صحبت میں بام اوج پر جا پہنچے ہمارے امام و مقند اسیدنا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ اپنے ملنے والوں دوستوں اور غلاموں کو تاکید پر تاکید فرماتے: وو بار بار قادیان آیا کریں.“ جب کوئی مہمان واپس جانا چاہتا تو فرماتے : ابھی آپ ٹھہر ہیں.ابھی اور ٹھہریں.اس صحبت کو غنیمت سمجھیں کیا معلوم پھر ملاقات نصیب بھی ہوگی یا نہیں.“ احباب اگر کسی ضرورت کا اظہار کرتے اور کہتے کہ فلاں کام ہے اور فلاں حاجت ہے تو بعض اوقات حضور فرماتے: ساری عمر دنیا کے دھندوں اور ضروریات کے حصول میں خرچ کر دی.کچھ حضرت مولوی صاحب کی جولائی ۱۸۹۸ء کی یہ تقریر سوا تین صفحات میں آپ ” عبدالرحمن قادیانی سیکرٹری انجمن ہمدرد اسلام قادیان کی قلم بند کردہ الحکم جلد اوّل نمبر ۱۸، ۱۹ بابت ۶ ۱۳ جولائی ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی.بدر جلد نمبر ۲۰ بابت ۲۸ / جولائی ۱۹۵۱ء.اس مضمون کے آغاز میں مسلمان استاد سے مہدی کے نشان گرہن کے سننے اور اپنے قادیان آنے کا بھی ذکر ہے.

Page 189

۱۷۴ عاقبت کی فکر بھی تو کرنی چاہئے.“ اجازت بھی حضور دیتے تو فرمایا کرتے اور تاکید فرماتے کہ : خط لکھتے رہیں یاد کراتے رہیں کیونکہ خط بھی نصف الملاقات ہوتا ہے.“ الغرض حضور کی دلی خواہش اور کچی آرزو ہوتی کہ لوگ کثرت سے قادیان آیا کریں حضور کی صحبت سے نور فیض پائیں نور ایمان اور معرفت و یقین حاصل کریں.خدا پر زندہ ایمان اور گناہ سوز ایمان کے حصول کا واحد ذریعہ بار بار آنا اور صحبت میں رہنا بتایا کرتے.جہاں خدا کے نشانوں کی بارش اور تازہ بتازہ کلام الہی کا نزول ہوا کرتا.خدا کا نبی علیہ الصلوۃ والسلام اکثر خدا کی وحی سنا تا.خدا کا کلام پڑھتا اور اس کی باتیں سنایا کرتا.جو بعض اوقات اسی دن بعض اوقات دو چار روز میں اور بعض اوقات کچھ عرصہ بعد پوری ہو کر مومنین کے ایمان کی زیادتی و تازگی اور یقین و عرفان کی پختگی کا موجب ہوتیں.خدا کی قدرت نمائی کے کرشمے اور علم کامل کے نشانات دیکھنے میں آتے.غیب پر مشتمل خبروں اور خدا کی بتائی ہوئی پیشگوئیوں کا پورا ہونا ایک زندہ ایمان اور پختہ یقین کا موجب ہوا کرتا ایسا کہ گویا خدا نے چہرہ نمائی فرما دی.اس کے علاوہ بے انداز فیوض ، بے حساب برکات حضور کی صحبت میں میسر آیا کرتے.مگر اس وقت میں صرف اسی خاص ایک امر کا ذکر کروں گا.۲۹ جولائی ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے کہ حضور نے خواب منذر دیکھا جو حضور کے اپنے الفاظ میں درج کرتا ہوں : ۲۹ جولائی ۱۸۹۷ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ مغرب کی طرف سے میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی آواز ہے اور نہ اس نے کوئی نقصان کیا ہے.بلکہ وہ ایک ستارہ روشن کی طرح آہستہ حرکت سے میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور میں اس کو دور سے دیکھ رہا ہوں.اور جبکہ وہ قریب پہنچی تو میرے دل میں تو یہی ہے کہ یہ صاعقہ ہے مگر میری آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا سا ستارہ دیکھا جس کو میرا دل صاعقہ سمجھتا ہے پھر بعد اس کے میرا دل اس کشف سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے الہام ہوا مَا هَذَا إِلَّا تَهْدِيدُ الْحُكَّامِ یعنی یہ جو دیکھا اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہیں کہ حکام کی طرف سے کچھ ڈرانے کی کارروائی ہوگی.اس سے ،، ۱۳۹ زیادہ کچھ نہیں ہو گا پھر بعد اس کے الہام ہوا قَدْ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ

Page 190

۱۷۵ ۲۹ جولائی کو اللہ تعالیٰ ایک کیفیت دکھاتے ہیں یکم اگست کو ڈپٹی کمشنر امرتسر ایک وارنٹ جاری کرتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنے والے واقعہ کی قبل از وقت حضور کو اطلاع دے دی تھی.حضور نے یہ رویا ء اور الہامات حسب معمول بتا دیئے.اور دوسرے معزز اصحاب واراکین کے ساتھ میں بھی ان سننے والوں میں سے ایک تھا.الہامات سنے، قبل از وقت سنے اور براہ راست خدا کے نبی و رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے سنے علی رؤس الا شہاد سنے ، آپ کے لب ہائے مبارک کو ہلتے دیکھا اور آواز کو اپنے کانوں سے سنا.ابھی چند ہی روز گذرے ہوں گے کہ گورداسپور سے چوہدری رستم علی صاحب نے کسی احمدی دوست کے ذریعہ اطلاع بھجوائی کہ: امرتسر سے حضور کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں.امرتسر کے ڈپٹی کمشنر کی طرف سے آج ایک تار ملا ہے کہ وہ وارنٹ روک لیا جائے.گو وارنٹ ابھی تک کوئی نہیں پہنچا مگر تار سے اتنا پتہ ضرور ملتا ہے کہ وارنٹ جاری کئے جاچکے ہیں کوئی انتظام کر لیا جائے.“ دوسری طرف ایک دوست نے امرتسر سے آکر حضرت کے حضور عرض کیا کہ میں نے امرتسر سے سنا کہ کسی پادری نے حضور کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کیا ہے اور کہ وہاں سے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو گئے ہیں دشمن خوشیاں منا اور حضور کی گرفتاری کا انتظار کر رہے ہیں.“ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبل از وقت رؤیا کشف والہامات کے ذریعہ ایک صاعقہ تہدید حکام اور ابتلاء کی اطلاعات کے ساتھ ہی دو مختلف مقدمات سے اپنے مخلص دوستوں کے ذریعہ اس قسم کی اطلاعات کا ملنا الہی کلام اور علام الغیوب ہستی کے قول کی تصدیق تھی.حضور پرنور نے سنت انبیاء کے مطابق ظاہری انتظامات اور ضروری سامانوں کے جمع کرنے کی طرف توجہ فرمائی.بعض خدام کو گورداسپور بھیج کر حقیقت حال اور معاملہ کی تفاصیل معلوم کرنے کا انتظام فرمایا.چوہدری رستم علی صاحب مرحوم نے امرتسر سے بھی حالات معلوم کرنے کی کوشش کی مگر کوئی تفصیلی اطلاع نہ مل سکی.جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے ہمارے محترم سیکھوانی دوست اس ذیل میں ادھر ادھر کی دوڑ دھوپ میں پیش پیش تھے.یا او جلہ کے بھائی جو گورداسپور کے قریب ہونے کی وجہ سے محترم چوہدری صاحب سے ملتے جلتے رہتے تھے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس واقعہ سے کچھ ہی روز پہلے اسی قسم کے ایک معاملہ میں مکرم چوہدری صاحب نے عزیز مکرم چوہدری غلام محمد صاحب کو جو آجکل حافظ صوفی غلام محمد صاحب آف ماریشیس کے نام سے معروف اور مسجد محلہ دار الرحمت کے امام الصلوۃ ہیں خاص طور پر ایک پیغام دے کر بھیجا تھا مگر ان کو راستہ ہی میں

Page 191

۱۷۶ روک لیا گیا.الغرض گورداسپور اور امرتسر دونوں جگہ سے باوجود کوشش کے وارنٹ کے متعلق یقینی طور پر کچھ معلوم ہو سکا اور نہ ہی یہ معمہ حل ہوا کہ وارنٹ کے اجراء کے بعد اس کے روکے جانے کے لئے امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے تارکیوں دیا؟ خبر بلا تفصیل ہم لوگوں کے لئے تو متوحش اور تشویشناک تھی مگر حضرت اقدس جن کی ذات والا صفات کے متعلق تھی.مطمئن اور حسب معمول ہشاش و بشاش نظر آتے تھے.کوئی گھبراہٹ تھی نہ پریشانی.فکر دامن گیر تھا نہ اندیشہ وملال.حضور حسب معمول مہمات دینیہ میں مصروف، نمازوں میں شریک ہوتے اور دربار بھی اسی آب و تاب سے، اسی شان و شوکت سے لگتا.سلسلہ فراہمی اسباب کی سرگرمیوں کے علاوہ اور کوئی خاص رنج و غم یا ہم وحزن کے آثار دیکھنے میں آتے نہ سننے میں بلکہ ذکر ہوتا تو یہی کہا : ”ہمارا تو ایسی باتوں سے اپنے رب کے ساتھ اور زیادہ تعلق محبت و وفا بڑھتا ہے.اس کی تائید اور نصرت کا یقین ہوتا بلکہ ہم امید وار ہوتے ہیں کہ اب ضرور کوئی نشان ظاہر ہو گا.“ اسی روز یا زیادہ سے زیادہ دوسرے ہی دن پھر ایک آدمی گورداسپور سے چوہدری صاحب مغفور کی چٹھی لے کر آیا جس میں اس امر کی وضاحت تھی کہ معاملہ کیا ہے.نیز لکھا تھا کہ وہ مقدمہ امرتسر سے گورداسپور آ گیا ہے اور کہ حضور کے نام بجائے وارنٹ گرفتاری کے سمن جاری ہو چکا ہے جو اگلے روز حضور کی بٹالہ میں حاضری کے لئے سپیشل آدمی کے ہاتھ برائے تعمیل بھیجا جا چکا ہے.مگر امرتسر سے جاری شدہ وارنٹ کے متعلق پھر بھی کوئی اطلاع نہ آئی کہ وہ کیا ہوا؟ اس تفصیلی اطلاع پر حضور نے پھر بعض دوستوں کو گورداسپور اور لا ہور بھیج کر پیروی مقدمہ کے لئے گورداسپور سے شیخ علی احمد صاحب وکیل اور لاہور سے شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کی معرفت کسی قابل قانون دان کی خدمات حاصل کرنے کا انتظام فرمایا.ادھر چوہدری صاحب کے خط کے بعد سرکاری پیادہ بھی سمن لے کر آ گیا اور اگلے دن صبح کو بٹالہ جانے کی تیاری ہونے لگی.- مقدمہ کی نوعیت یعنی اقدام قتل بجائے خود ایک خطر ناک اور مکر وہ الزام تھا جس کی مجر دخبر ہی معمولی تو در کنار بڑے بڑے دل گردہ کے لوگوں کے اوسان خطا کر دیا کرتی ہے.اور ایسے حالات میں ان کو کچھ سوجھا کرتا ہے نہ ان سے کچھ بن پڑتا ہے.اکثر حواس باختہ ہو کر پاگل ہو جاتے اور گھر ان کے ماتم کدہ بن

Page 192

۱۷۷ جایا کرتے ہیں.مگر یہ مقدمہ نہ صرف یہ کہ اقدام قتل کا مقدمہ تھا بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ اضافہ کہ ایک ایسے انگریز پادری کی طرف سے دائر کیا گیا تھا جو علاوہ اپنے اثر ورسوخ اور وسائل و اسباب کے حکمران قوم کا فرڈ پادری ہونے کے باعث اپنی قوم میں ممتاز حیثیت کا مالک اور واجب الاحترام ہستی مانا جاتا تھا.اس پر طرفہ یہ کہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہا در خصوصیت سے پادری منش مذہبی آدمی اور کٹر عیسائی مشہور تھے.ان تمام باتوں کو ملا کر یکجائی غور کرنے سے اس مقدمہ کی نوعیت کتنی مہیب خوفناک اور ڈراؤنی بن جاتی ہے؟ ظاہر ہے.مگر یہ سب کچھ انہی کے لئے ہوتا ہے جن کا اپنے خدا سے ( نہ ) کوئی تعلق ہوتا ہے نہ اس پر ایمان.جن کو خدا کی محبت و وفا کے چشمہ کا (نہ) ہوتا ہے نہ اس کی صفات کا عرفان.جن کو خدا کی قدرت پر (نہ) بھروسہ ہوتا ہے نہ نصرت کی امید.بلکہ وہ اپنی تدابیر اور کوششوں ہی کو اپنا حاجت روا اور مطلب برار سمجھ بیٹھتے.ان کی نظر زمینی اور مادی اسباب پر گڑی رہتی ہے.آسمان سے ان کا کوئی تعلق نہ آسمان والے سے سروکار ہوتا ہے.......سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے مطاع و متبوع کی کامل محبت اور کامل پیروی سے اللہ کریم نے وہ مقام عطا فرما رکھا تھا کہ حضور نہ صرف خود بھی مشکلات و مصائب کے پہاڑوں اور مخالفت وعداوت کے طوفانوں سے نہ گھبرایا کرتے تھے.بلکہ ہمیشہ دوسروں کی تسلی اور سکون وامن کا موجب بھی ہوا کرتے تھے.یقیناً ہم لوگ ایسی خبروں سے گھبراتے اور خوف کھایا کرتے تھے کیونکہ بشریت ہمارے ساتھ لگی ہوئی تھی.خدا جانے اب کیا ہوگا ؟ مگر جب حضور ہم پر جلوہ افروز ہوتے.مجلس لگتی دربار سجتا اور خدا کا کلام ہم پر پڑھا جاتا.اس کے وعدے دوہرائے جاتے اس کے حسن واحسان کے تذکرے ہوتے اس کی قدرت نمائی کی مثالیں کانوں میں پڑتیں.نشانات یاد دلائے جاتے تو ہمارے خوف امن سے ، خطرات تسلیوں سے اور رنج و غم خوشیوں میں تبدیل ہو کر ایمان کی زیادتی اور خدا کی معرفت کے دروازوں کے کھل جانے کا موجب ہوا کرتے.برسات کا موسم اور اگست کا مہینہ تھا.قادیان میں سواری کا کوئی معقول انتظام نہ تھا، بمشکل ایک یکہ کا انتظام ہوسکا.دوسرے کے لئے کوشش جاری تھی.مگر وقت پر نہ پہنچا تو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو روانہ ہو گئے تا کہ وقت پر پہنچ سکیں.حضور نے حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین اعظم کو اپنے ساتھ بٹھا لیا.تین غلام ہمرکاب تھے.شیخ محمد اسمعیل صاحب سرساوی یا حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب اور یہ عاجز راقم یعنی عبدالرحمن قادیانی.راستہ کیچڑ گارے کے باعث سخت تکلیف دہ اور رض

Page 193

KLA دشوار گزار تھا.قادیان سے سڑک تک پہنچنے میں تو یکے کو گویا دھکیل یا اٹھا کر ہی لے جانا پڑا.سڑک پر پہنچ کر یکے کو تیزی سے چلانے کی کوشش کی گئی.یکہ بان کے علاوہ ہم لوگ بھی دائیں بائیں اور پیچھے سے گھوڑے کی مدد کرتے گئے.یہ سواری جب انار کلی کے قریب پختہ سڑک پر پہنچی تو کپورتھلہ اور لاہور کے وفا کیش، جان نثا رلب سڑک منتظر دیکھے.پانچ اصحاب تھے یا سات.ایک صاحب کمزور اور معمر تھے ان کو حضرت نے یکہ میں بیٹھا لیا.اور باقی ہمارے ساتھ یکہ کے دائیں بائیں اور پیچھے دوڑے ہوئے کچھ آگے پیچھے بٹالہ منڈی میں پہنچے.حضرت کی سواری موجودہ شفا خانہ حیوانات کے برابر مقام پر تھی ( یہ شفاخانہ اب تک اسی مقام پر قادیان بٹالہ سڑک پر موجود ہے.مؤلف ) کہ سامنے کے کھلے میدان اور چوک میں جبہ پوش مولوی محمد حسین بٹالوی اپنے دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے جبہ کے نیچے کئے خاص انداز میں ٹہلتے اور ایک بھیڑ سڑک کے دونوں کناروں پر کھڑی دکھائی دی جو کسی بُرے منظر اور شیطانی وعدے کے ایفاء کے انتظار میں جمع تھے.انہوں نے وارنٹ گرفتاری کی شیطانی پیشگوئی تو سن رکھی تھی.مگر خدا کی قدرت کا ہاتھ ان کی نظروں سے اوجھل تھا.وہ اس امید پر جمع تھے کہ نعوذ باللہ حضور کو ذلت ورسوائی میں دیکھ کر خوش ہو نگے.پولیس کی حراست و نگرانی اور ہاتھوں میں کڑیاں ہوں گی.مگر جب دیکھا کہ حضور آزاد ہشاش بشاش اپنے غلاموں کے حلقہ میں یکہ سے اترے ہیں.پولیس ہے نہ کوئی اہلکار ہیں.سبھی غلام و وفا دار کوئی ساتھ آئے ہیں تو کوئی تشریف آوری کی انتظار میں تھے.ایک دوسرے سے اور دوسرا تیسرے سے بڑھ کر قربان و شار ہونے کو تیار تھا.اس نقشہ کو دیکھ کر وہ غول بیابانی کچھ اس طرح غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ.گورداسپور سے شیخ علی احمد صاحب اور لاہور سے مولوی فضل الدین صاحب وکیل آئے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب پروانہ شمع نور و ہدایت اور عاشق و فدائے احمد قادیانی جو شاذ ہی کبھی ایسے موقع کو ہاتھ سے دیا کرتے تھے.نیز فرشتہ سیرت صالح نوجوان مرزا ایوب بیگ صاحب مغفور.شیخ رحمت اللہ صاحب اور بعض اور دوست بھی پہنچے.امرتسر سے غالباً دو تین دوست آئے.جن میں محترم شیخ یعقوب علی صاحب تراب خوب یاد ہیں.قادیان سے چند احباب اور دوسرا یکہ بھی معہ سامان آ گیا تھا.حضور سواری سے اتر خراماں خراماں پورے وقار کے ساتھ حلقہ بگوش پروانوں کے حلقہ میں ٹہلتے وکلاء اور آنے والے مہمانوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ڈاک بنگلہ بٹالہ کی طرف بڑھے جہاں صاحب ڈپٹی کمشنر اترا ہوا تھا.صاحب کے اردلی نے دور ہی سے آتے دیکھ کر اندر اطلاع کی اور اس طرح فوراً ہی حضور کو اندر بلا لیا گیا.انتظار آواز بھی نہ اٹھانا پڑی.جبہ پوش مولوی جو منڈی اور اڈہ خانہ کے چوک میں ایک

Page 194

129 بھیٹر کو لئے کھڑا اور حسرت و نامرادی کے عذاب میں تلملاتا ہوا کھسک آیا تھا اب اس بنگلہ کا طواف کرتا نظر آیا اور دو دو چار چار کر کے اس کے ساتھی بھی وہیں جمع ہونا شروع ہو گئے حتی کہ ہوتے ہوتے پہلے سے بھی زیادہ بھیڑ اور تماش بینوں کا ہجوم ڈاک بنگلہ کے میدان میں جمع ہو گیا.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک پہلے سے صاحب بہادر کے کمرہ میں موجود تھا.جس کے رضا کار وکلاء مشیر قانونی حاضر اور گواہ بغض و تعصب اور خود غرضی و خودستائی کے مارے حق وصداقت اور صدق وسداد کو مٹانے کے لئے ادھار کھائے کھڑے تھے.حضور کمرہ عدالت میں داخل ہوئے جو ڈاک بنگلہ بٹالہ کے غربی جانب واقع اور جس کے شمال اور غرب میں ورانڈہ موجود ہے.کمرہ کے دروازوں پر چکیں اور پہرہ دار چپڑاسی ادھر ادھر گھومتے دکھائی دیتے تھے.حضور کے اندر داخل ہونے کے بعد ہم لوگوں کی جو حالت تھی اس کا اندازہ خدائے علیم وخبیر کے سوا کون کر سکتا ہے.دل ہمارے بیٹھے جارہے تھے.خون پانی ہوا جاتا اور جسم ہمارے بیم ورجا اور خوف وامید کے خیال سے لرزاں تھے.تضرع اور الحاح، عجز وانکسار خود بخود دعاؤں میں رقت اور سوز پیدا کر رہا تھا.اور ہر کوئی اپنی اپنی جگہ علی قدر مراتب خدا کے فضل اور اس کی رحمت کے نزول کے لئے دست دعا پھیلا رہا تھا.ہم لوگ انہی حالات میں تڑپتے اور بے قرار ہورہے تھے کہ جبہ پوش کا ہن سردار کے نام کی پکار ہوئی اور وہ بائیں ریش و عمامہ دوڑتا ہوا بصد شوق داخل کمرہ ہو گیا.اس کو داخل ہوئے ابھی چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ کمرہ عدالت ڈانٹ ڈپٹ اور ایک غضب آلود دہشتناک آواز سے گونج اٹھا جس کی وجہ سے ہمارے زخمی اور رنجور اور صدمہ خوردہ دل اور بھی بیٹھنے لگے.آہ.خداوندا یہ کیا ماجرا ہے؟ ہر کوئی گھبرا اٹھا اور ور انڈہ کے قریب ہوا.ہم لوگوں کو ورانڈہ کے قریب آتے دیکھ کر اردلی نے اشارہ سے روکا اور ساتھ ہی تسلی دی.گھبراؤ نہیں.پادریوں کے گواہ کی عزت افزائی ہو رہی ہے.قریب ہونے پر جو کچھ ہمارے کانوں نے سنا یہ تھا کہ: بک بک مت کر.پیچھے ہٹ.سیدھا کھڑا ہو.“ ارد لی لوگ مزاج شناس ہوا کرتے ہیں.حاکموں کے اشاروں پر چلتے اور مرضی و حکم کے مطابق کام کرتے ہیں.ہمیں تو اس نے تسلی دے دی اور اس کی تسلی ہی سے ہم لوگ سمجھ گئے کہ اندر جو کچھ ہوا وہ خدا اور اس کے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمن اور پادریوں کے معاون و مددگار گواہ ہی کی خاطر خدمت ہوئی ہے.کانوں سے جو کچھ سنا اس کا قرینہ بھی اس بات کا مؤید تھا کیونکہ حضرت اقدس کے بولنے کا موقعہ ہی نہ تھا نہ محل.بولا ہو گا تو وہی گواہ جس کو شہادت کے لئے اندر بلایا گیا تھا.اتنے میں اردلی نے

Page 195

۱۸۰ موقعہ نکالا.اور باہر آ کر سارا واقعہ سنا گیا.جس پر ہم لوگوں نے جہاں سجدات شکر اور کلمات حمد کے گیت گائے وہاں بعض حاضرین بھی ہم ہم آہنگ بن گئے.اور ہماری ذلت...دیکھنے کو جمع ہونے والوں کے دل خدا نے کچھ ایسے پھیر دیئے کہ وہی اس ملاں کے چیلے چانٹے اب یہ کہتے سنائی دینے لگے کہ بڑا بے ایمان اور پکا کافر ہے.ایک بزرگ مسلمان کے خلاف پادریوں کے لئے جھوٹی گواہی دینے کو آیا.تبھی یہ ذلت دیکھی.دور ہو دے ایسا مردود نا نجار.ہم تو اس کی شکل سے بیزار اور نام لینے کے روادار ہیں نہ سلام کے.اردلی نے جو کچھ بتایا محبت واخلاص اس کے محرک تھے.یا کوئی طمع وحرص.ہوا کے رخ نے اس کو جرات دلائی یا صاحب بہادر کے سلوک و طریق نے مجھے ان باتوں کا علم ہوا اور نہ ہی اس کی مجھے ضرورت تھی.جو کچھ اس نے سنایا اس کا خلاصہ مطلب یہ تھا کہ : ”مرزا صاحب جب کمرہ میں داخل ہوئے تو صاحب نے ایک خالی کرسی کی طرف اشارہ کر کے بیٹھنے کو کہا اور آپ کرسی پر بیٹھ گئے.ڈاکٹر کلارک بھی صاحب کے پاس کرسی پر بیٹھا تھا.مولوی صاحب کو جب آواز پڑی اور جلدی جلدی اندر آئے تو مرزا صاحب کو کرسی پر بیٹھے دیکھ کر جل بھن کر آگ بگولہ ہو گئے.دائیں بائیں دیکھا تو کرسی کوئی خالی نہ تھی.رہ نہ سکے اور بیساختہ صاحب بہادر سے کہنے لگے کہ مجھے کرسی ملنی چاہئے.کیونکہ میرے باپ درباری کرسی نشین تھے.اور میں بھی.ڈاکٹر مارٹن کلارک نے بھی شفارشاً کہا کہ گواہ ایک معزز مذہبی لیڈر ہے مگر صاحب بہادر نے کہا کہ ہمارے پاس ان کے باپ کے متعلق کوئی ایسی اطلاع ہے نہ ان کے اپنے متعلق.صاحب کا یہ جواب سن کر مولوی محمد حسین صاحب اور بھی جھنجلائے اور صاحب کی میز پر ہاتھ رکھ کر کسی قدر آگے کو جھکے اور پھر کرسی کے لئے اصرار کیا.صاحب بہادر کو ان کی یہ ادا ناگوار گذری.انہوں نے اسے گستاخی سمجھ کر جھڑ کیاں دے کر خاموش رہنے ، پیچھے ہٹنے اور سیدھا کھڑے ہونے کی غرض سے غصے میں کہا : وو بک بک مت کر.پیچھے ہٹ.سیدھا کھڑا ہو.“ چنانچہ اس پر مولانا ٹھنڈے ہو کر سیدھے تیر ہو گئے.ی تو وہ واقعہ تھا جس کی گونج ہم نے کانوں سنی اور تفصیل صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے اردلی کی زبانی سنی.جو موقعہ پر موجود اور چشم دید گواہ تھا.اس کے بعد جب گواہی انکی ختم ہوئی تو اردلی کی نگرانی میں باہر بیٹھنے کا حکم ہوا.مولانا کچھ وکلاء کی

Page 196

IMI جرح قدح کے بوجھ کی وجہ سے تشویش میں تھے.اور کچھ کرسی نشینی کے معاملہ کا شوق گلے کا ہار گلو گیر بن رہا تھا.گھبراہٹ میں باہر آئے.آس پاس نظر دوڑائی.کرسی وغیرہ کوئی نہ پائی.جھلا کر اردلی سے بولے: کوئی کرسی لاؤ مگر اردلی نے عذر کیا کہ کرسی خالی کوئی نہیں.ناچار مولانا نے ایک آدمی کا کپڑا لیا اور فرش پر دھرنا مار کر بیٹھ گئے.مگر وائے شومئی قسمت کہ جس کا کپڑا لے کر بیٹھے تھے اس کو کسی دوسرے نے یہ کہہ کر غیرت دلائی کہ: تم پادریوں کے ایسے گواہ کو اپنا کپڑا دیتے ہو جسے صاحب نے بھی جھڑ کیاں دے کر سیدھا کر دیا.اور ترلے کرنے کے باوجودا سے کرسی نہ دی.عیسائی اور ار د لی ہی تم سے اچھے رہے.وہ شخص چونکہ بعد میں آیا تھا اس وجہ سے اس بیچارے کو ان باتوں کا علم نہ تھا اس کی بات اس کے دل کو لگی.اور دوڑ کر مولوی صاحب کی طرف جھپٹا.اپنی چادر ان کے نیچے سے کھینچ کر بولا.”مولوی صاحب میں اپنا کپڑا پلید نہیں کرانا چاہتا.یہ چھوڑ دو.“ یہ سعید الفطرت غیرت مند شخص میاں محمد بخش نام برا در خور دمیاں محمد اکبر صاحب مرحوم ٹھیکیدار بٹالوی تھے جن کو آخر اللہ تعالیٰ نے نور ہدایت سے منور کیا اور دولت ایمان عطا فرمائی.مولانا کھسیانے ہوئے اور اس کا کپڑا چھوڑ کر کھڑے ہو گئے.اور ادھر ادھر ٹہلنے لگے.یہ واقعہ جہاں میرا چشم دید ہے.وہاں اور بھی کثرت سے اور دوستوں اپنوں اور بیگانوں کا بھی آنکھوں دیکھا سچا اور بالکل ٹھیک و صحیح واقعہ ہے.اس کے بعد مولا نا ٹہلتے ٹہلتے بنگلہ کی شرقی جانب جا نکلے جدھر کپتان پولیس کا ڈیرہ نصب تھا.کوئی خالی کرسی دیکھ کر بے اختیار لیکے.اور اس پر جابرا ہے.مگر ان کی بدقسمتی کہ کسی پولیس افسر نے دیکھ لیا.اور فوراً ہی سپاہی کو بھیج کر یہ کہتے ہوئے کرسی خالی کرالی کہ :.صاحب ضلع نے کرسی نہیں دی تو ہم کیوں دیں.صاحب بہادر دیکھ لیں تو ہمارے سر ہو جائیں.“ الغرض یہ ایک ہی دن میں ایک ہی مقام پر اور ایک ہی معاملہ میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی غیرت و گرفت کے مظاہرے اس کی قدرت و تصرف کے نمونے اور اس کے علم واقتدار کے زندہ و تازہ نشان اپنی آنکھوں دیکھے کانوں سنے اور بر سر عام دیکھے سنے.وہ جس کے علم وفضل کا شہرہ ، اثر ورسوخ کا چرچا اور رعب و داب کا غلغلہ و دھاک بندھی ہوتی تھی.وہ جو گھر سے نکلتا تو معتقدین اور نیاز مندوں کے جھنڈ اس کے گرد جمع رہتے ، چلتا تو آگے پیچھے اور دائیں بائیں عقیدت کیشوں کا ہجوم وحلقہ بنارہتا.لوگ مکانوں اور دکانوں پر کھڑے ہو ہو کر سلام و آداب بجالایا کرتے.راہر و احترام کے خیال سے راستہ چھوڑ دیا کرتے.آج

Page 197

۱۸۲ خدا کے ایک پیارے بندے کے مقابل پر آ کرکس حال کو پہنچا، کتنی ذلت اٹھانا پڑی اور کس کس رنگ میں ذلیل وخوار ہوا.خدا کی پناہ.ان واقعات کی یاد سے ہی رونگٹے کھڑے ہوتے اور جذبات رحم جوش مارنے لگتے ہیں.إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَ اهَانَتَگ کے وعدہ خداوندی کی تکمیل ظہور میں اب اگر کسی کو شک و شبہ باقی ہو تو اپنی جان پر آزما د یکھے.سنا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابل پر آکر نمرود جیسا طاقتور بادشاہ.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر فرعون جیسا متمر دحکمران اور ہمارے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابل میں کھڑے ہونے والے صنادید قریش آخر حق کے مقابلہ ومخالفت کی وجہ سے ذلیل وخوار اور تباہ و برباد ہو کر کیفر کردار کو پہنچے.مگر آج اس جری اللہ فی حلل انبیاء کے فیض صحبت نے ان تمام واقعات کو حقائق بنا کر گویا تازہ کر دکھایا.نہ صرف یہ شنید دید سے بدل گئی.بلکہ یقین عین الیقین اور حق الیقین کے مقام پر کھڑا کر کے گویا خدا دکھا دیا.علیه وعلى مطاعه الصلوة والسلام دائماً.آمین.اس دن کی کارروائی کے اختتام پر حضور پر نور سرائے میں تشریف لائے جہاں قیام کا انتظام تھا.یہ وہی سرائے ہے جس میں آج کل یعنی ۳۹ ء میں ٹاؤن کمیٹی کا دفتر اور ریذیڈنٹ مجسٹریٹ بٹالہ کی کچہری لگتی ہے.اس زمانہ میں خالص سرائے تھی.حضور پُر نور سرائے کے جنوب مشرقی کونے کی چھت پر تشریف فرما تھے.* عدالتی کارروائی کو حضور نے دو ہرایا اور اس کے ساتھ ہی مولوی محمد حسین کے مطالبہ کرسی اور صاحب بہادر کی جھڑکیوں کا ذکر تفصیل سے فرمایا.جس سے اردلی کے بیان کی من وعن تصدیق ہوئی اور اس طرح خود خدا نے نبی ورسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان مبارک سے بھی اس واقعہ کے سننے کی عزت وسعادت ہمیں نصیب ہوئی.حضور اس واقعہ کا ذکر بار بار فرماتے اور دہراتے رہے.اور ساتھ ہی تعجب فرماتے رہے کہ ” دراصل حسد اور بغض کی آگ نے اس سے یہ حرکات کرائیں.ہمارا کرسی پر بیٹھنا وہ برداشت نہ کر سکا.وہ نہ کرسی مانگتا نہ یہ کچھ ہوتا.حقیقت میں خدائی تصرف اور الہی ہاتھ نے یہ سب کام کرائے تا خدا کے منہ کی باتیں بھائی جی نے ہی مضمون میں (۱۹۳۹ ء ) اس طرح خطوط وحدانی میں دیا ہے.گویا ۱۹۳۹ء بوقت تحریر مضمون یہ صورت حال ہے.

Page 198

۱۸۳ پوری ہو کر تازہ نشانوں سے مومنوں کو قوت ونور حاصل ہو.اس موقعہ پر کمرہ عدالت سے باہر جو کچھ گذری یعنی کپڑے کا واقعہ ، پولیس کی کرسی کا معاملہ وہ احباب نے عرض کیا تو حضور مسکرائے اور پھر اتنے ہنسے کہ عادت شریف کے مطابق حضور کی آنکھوں میں پانی بھر آیا.اور سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے ہوئے إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ کے کلام الہی کو بار بار یاد فرماتے اور پھر سبحان اللہ سبحان اللہ اور سبحان اللہ کے ورد میں لگے رہے.حضرت اقدس نے ایک بات یہ بھی سنائی کہ : جرح کے دوران میں ہمارے وکیل یعنی مولوی فضل دین صاحب آف لاہور نے مولوی محمد حسین صاحب پر ایک جرح کرنی چاہی مگر ہم نے اس کی اجازت نہ دی.ہمارے وکیل نے اصرار بھی کیا اور کہا کہ وہ تو آپ کی موت کے سامان اور پھانسی کی تیاریوں میں لگا ہوا ہے اور آپ اس کی عزت بچاتے.اس پر رحم کرتے اور فرماتے ہیں کہ اس میں اس بیچارے کا کیا قصور تعجب ہے.“ مگر با وجود وکیل صاحب کے اصرار کے حضور نے اس قسم کی جرح کی اجازت نہ دی اور اس طرح جہاں مولوی محمد حسین کی ذات اور اولا دو نسل پر کبھی نہ ختم ہونے والا احسان فرمایا.وہاں آپ نے اخلاق محمدی اور خلق عظیم کی بھی ایسی بے نظیر مثال قائم کر دی جو رہتی دنیا تک چاند اور سورج کی طرح چپکتی اور سنہرے حروف سے لکھی جاتی رہے گی.مولوی فضل الدین صاحب وکیل باوجود غیر احمدی ہونے کے ہمیشہ اس امر سے اتنے متاثر رہے کہ جہاں اس واقعہ کا ذکر عموما کرتے رہتے وہاں حضرت کے خلاف کوئی کلمہ سننے کو گوارا نہ کیا کرتے تھے.ایسے ذکر اذکار سے فارغ ہو کر نمازیں پڑھی گئیں نماز سے فراغت پا کر حضور نے فرمایا: میاں عبد الرحمن ! آج رات ہم تو یہیں ٹھہریں گے.کیونکہ کل پھر مقدمہ کی سماعت ہوگی بہتر ہے کہ آپ قادیان جا کر خبر خیریت پہنچا دیں.تا کہ وہ لوگ گھبرائیں نہیں.آپ رات کو ہوشیار رہیں.ہم بھی انشاء اللہ کل فارغ ہو کر پہنچ جائیں گے.“ حکم پا کر میں نے سلام عرض کیا.دست بوسی کا شرف ملا اور میں سفر کو کا نماز مین کو لپیٹتا ہوا گو یا اڑ کر ہی قادیان پہنچا.سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خاندان کی بیگمات واراکین کی خدمت میں حاضر ہو کر آج کی تمام روئیداد تفصیلاً عرض کی اور حضرت کے ارشاد کے مطابق تسلی و اطمینان دلایا.اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے رات کے پہرہ کی خدمت کا بھی موقعہ دے کر نوازا.فالحمد للہ علی ذلک.

Page 199

۱۸۴ محترم شیخ محمد اسمعیل صاحب سرساوی فرماتے ہیں کہ وہ بھی صبح کو بٹالہ گئے اور پھر اسی روز واپس قادیان آئے تھے.مقدمہ جیسا کہ فیصلہ سے ظاہر ہے محض ایک سازش کا نتیجہ اور جھوٹ و بناوٹ کا منصوبہ تھا اور جہاں اس سے اس مقدمہ کی پیروی و تائید و حمایت و امداد کرنے والوں کی اخلاقی گراوٹ اور فطری پستی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے وہاں ان کے دین و دھرم کے بطلان ، امانت و دیانت کے فقدان اور شرافت و نجابت سے عاری ، کورے اور دیوالیہ ہونے کا بھی بین ثبوت ملتا ہے.اس سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی مظاہرہ سفاہت ویکمینگی اور رذالت و جہالت کا دنیا میں ممکن ہو سکتا ہے کہ دین و دھرم کے پیشوا اور حق و حقیقت کے مدعی الكفر ملة واحدة ایک جھوٹ بنا کر افترا کھڑا کر کے بہتان و بطلان باندھ کر مل بیٹھیں اور ایک ناکردہ گناہ معصوم و مقدس انسان کو قاتل و سفاک گرداننے کی ہر ممکن کوشش، ہر ممکن امداد حتی کہ جھوٹ تک کی نجاست پر منہ مارنے سے بھی پرہیز نہ کیا جائے.عیسائی کیا آریہ کیا اور کیا نام کے مسلمان سب مل کر ایک کمان سے تیر چلائیں.وکالت کریں تو رضا کارانہ ومفت.شہادت دیں تو بے بلائے اور عدوات وبغض کے باعث یا حسد کی جلن سے مشتعل ہو کر بلکہ بالکل مشتقمانہ رنگ وطریق سے.الامان الحفیظ.کہاں ادعائے دین و دیانت اور تقویٰ وصیانت اور کہاں ایسے مکروہ اور ننگ انسانیت افعال.یہ میں این تفاوت را از کجاست تا به کجا مسل مکمل ہو کر فتوائے موت.رسوا کن ضمانت یا کسی اور سزائے سخت کا حکم باقی رہ گیا تھا کہ ارادہ الہی اور منشائے ایزدی غالب ہوا.نیک دل ، پاک فطرت اور عادل حاکم کے دل کو تسلی نہ ہوئی.یہ پاکباز انسان اور ایسا ناپاک الزام کرسی عدالت کے صدر کی فطرت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا گیا.مفروضہ اور بھیجے گئے قاتل کو پوا در ( پادریوں ) سے لے کر معتمد افسران پولیس کے سپر د کر دیا گیا اور اس طرح ان پادریوں کے دباؤ اور طمع و خوف سے آزاد ہو کر سچابیان اور اظہار حق کر دیا.حالت نے پلٹا کھایا اور جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا | کی صداقت ظاہر ہو گئی.وہ صاعقہ ستارہ بن گئی.مومن امتحان میں کامیاب ہوئے.ایمان اور اخلاص میں ان کو ترقی ملی.جو مختلف مقامات سے آتے اور اپنی محبت و وفا ، ایمان و اخلاص کی قربانیاں اپنے آقا کے حضور پیش کرتے اور خدمت گزارتے رہے.باعزت بریت ہوئی.دشمن روسیاہ ، ذلیل وخوار اور ہمیشہ

Page 200

۱۸۵ کے لئے زیر الزام اور زیر ملامت ہوئے.اور جس طرح خدائے برتر و بالا نے قبل از وقت اپنے بندے پر اپنا کلام نازل فرمایا تھا بعینہ اسی طرح رونما و ظاہر ہوا.خدا کے علم تام اور قدرت کاملہ کے کرشمے اور عجائب در عجائب نشان و کام دیکھنے میں آئے.تہدید حکام کا معاملہ بھی پورا ہوا.جوانتظامی رنگ میں صاحب ڈپٹی کمشنر نے ایک نوٹس کی شکل میں حضور کو دیا.مگر کلام الہی ابراء بھی اپنی پوری شان و شوکت میں ظاہر ہوا.خدا وند خدا اپنی قدرتوں اور فعلی شہادتوں اور اپنے کاموں ہی سے اپنی ذات کا ثبوت اور ہستی کے دلائل دیا کرتا اور چہرہ نمائی فرمایا کرتا ہے.جو صحبت انبیاء صادقین کے سوا ممکن نہیں.ہمیں بھی جو کچھ میسر آیا ، نصیب ہوایا عطا کیا گیا.خدا کے مقدس جری اللہ فی حلل الانبیاء ہی کے قدموں کے طفیل صحبت کی برکت، انفاس قدسیہ اور تو جہات کریمانہ ہی کے صدقے سے ملا.اور فی زمانہ خدا کو پانے اور اس کی رضا کے حصول کی اگر کوئی راہ ہے تو صرف یہی ایک سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کھڑ کی کھلی ہے.نور محمدی کے ظہور اور رحمت الہی میں داخلہ کا دروازہ ہے تو بس یہی وو " ایں سعادت بزور بازو نیست ، چوہدری رام بھیج صاحب دت ایک مشہور آریہ لیڈر اور وکیل گذرے ہیں.وہ بھی عیسائیوں کی طرف سے اس مقدمہ میں مفت پیروی کیا کرتے اور خاص دلچپسی و انہماک اور جوش و سرگرمی سے عیسائیوں کی مدد کیا کرتے.میرے محترم بزرگ جی فی اللہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب جنہوں نے تراب بن کر خدا پایا.اور اس کا عرفان پا کر عرفانی کہلائے.انہوں نے چوہدری صاحب سے بے تکلفانہ سوال کیا کہ مجھے مجھ میں نہیں آیا کہ آپ کا اور پادریوں کا جوڑ کیا ؟ میں آپ کو اور آپ کی سرگرمیوں کو حیرت و استعجاب سے دیکھا کرتا ہوں.چوہدری صاحب نے جواب دیا آپ کو مجھ پر تعجب آتا ہے مگر مجھے اس سے بھی بڑھ کر آپ پر تعجب آتا ہے کہ آپ ہمارے جگر گوشے اور لعل ہم سے چھین اور جدا کر رہے ہیں پھر الٹے اس قسم کے سوال بھی کرتے ہیں.اور تعجب بھی اور یہی امر پھر ۱۹۰۸ء کے جلسہ پیغام صلح کے موقعہ پر جو لاہور یونیورسٹی ہال میں منعقد ہوا تھا.دہرایا تھا کہ صلح صلح تو آپ کہتے ہیں.مگر لخت جگرا ور نور نظر ایک ایک کر کے ہم سے لئے جارہے ہیں.ان کی واپسی اور ہمارے نقصان کی تلافی صلح کی شرط اول ہے.حقیقت یہ ہے کہ چوہدری صاحب محترم میرے بزرگ اور موہیال بھائی ہونے کے علاوہ ایک ہی بستی یعنی کنجر وڑ دتاں ہی کے رہنے والے تھے اور واقعی میرے تمام بزرگوں کو میری جدائی کا سخت رنج اور بھاری صدمہ تھا.مگر افسوس یہ ہے کہ

Page 201

IAY وہ مجھ سے کوئی بدلہ لینے کی بجائے پادریوں سے بلکہ میرے معصوم آقا پر وار کرتے رہے.گناہ گار تھا ان کا تو میں ، نہ کہ میرے آقا.میرے آقا کب مجھے لینے گئے تھے؟ مجھے لایا تھا تو حضور کے قدموں میں، میرا خدا، نہ کوئی اور.پس لڑائی ان کی بنتی تھی تو مجھ سے یا پھر خدا سے.مگر دنیا یا در کھلے اور دنیا والے بھی کان کھول کر سن رکھیں کہ فتح دنیا میں ہمیشہ صداقت و راستی اور نیکی و پاکبازی ہی کی ہوتی آئی ہے اور اسی طرح ہمیشہ ہمیش ہوتا چلا جائے گا.جھوٹ کا بت اور بطالت کا مجسمہ بھی حق وصداقت کے مقابل میں قائم رہا نہ رہ سکے گا.لوائے فتح و ظفر ہمت، صداقت و راستی کے خدمت گاروں کے سر رہا ہے.جھوٹ اور باطل کے پرستار کیا اور خدمت گذار کیا، ہمیشہ ہی ذلیل و خوار اور نگونسار ہوئے اور ہونگے کیونکہ قانون خدا ازل سے یہی مقدر ہو چکا ہے کہ كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی اور خدا سے بڑھ کر اور کون اصدق اور کس کا قول اقولی ہو سکتا ہے؟ چنانچہ اس فرمان خداوندی کی تائید و تصدیق کی بالکل ایک تازہ مثال زندہ کرامات اور چلتی پھرتی تصویر جو واقعہ مندرجہ صدر میں صاف اور سامنے کھڑی نظر آ رہی ہے، خود مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا وجود ہے.جس نے اپنے علم تیرہ، زہد خشک اور جاہ زوال پذیر کے گھمنڈ پر تعلی کی اور بڑا بول بول کر کہا کہ میں نے ہی اٹھایا اور اب میں ہی گراؤں گا.ہیں ۷- ایک بھینسے کو مار بھگانا ایک دفعہ حضرت اقدس بٹالہ تشریف لے جارہے تھے.رتھ میں آپ کے عزیز مرزا احسن بیگ صاحب مرحوم بھی ساتھ تھے.راستہ میں موضع دوانی وال کے تکیہ کے پاس حضور پیشاپ کے لئے ٹھہر گئے.حضور ابھی فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ایک بھینسے نے جو بہت جوش میں تھا ، حضور پر حملہ کرنا چاہا تو میں نے سونٹے سے مار کر اسے بھگا دیا.تقسیم ملک کے بعد حضرت مرزا احسن بیگ صاحب سے حضرت بھائی جی کی خط و کتابت رہتی تھی.مجھے بخوبی یاد ہے کہ مرزا صاحب کا نوآمدہ ایک خط بھائی جی نے خاکسار مؤلف کو دکھایا تھا جس میں بھینسے کو بھگانے کے اپنے چشم دید واقعہ کا ذکر کیا تھا.اس مضمون کا عنوان ”ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مقدمے کے چشمدید حالات اور خدا کی قدرت نمائی کے واقعات اور ” بٹالہ کی یاد گاریں“ کے عنوان کے تحت مولوی محمد حسین بٹالوی کی تذلیل کا واقعہ بہت مختصر درج ہو چکا ہے.

Page 202

۱۸۷ - تشحیذ الاذھان انجمن کا قیام اور رسالہ کا اجراء انجمن تفخیذ الاذھان کا قیام کیسے اور کن حالات میں ہوا حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی بیان کرتے ہیں کہ 1- انجمن ترقی اسلام سادھ سنگست مجلس انصار الله ومقدام الاحمد یا خدام اسی اور نیشنل لیگ کور وغیرہ تمام مجالس و تنظیمات کی ایک ہی غرض و غایت تھی کہ نوجوان احمدی طبقہ کو حکیمانہ طریق سے پرا گندگی وغیرہ سے بچا کر نیک کاموں پر لگا دیا جائے..-- انجمن تشحیذ الاذھان کا پہلا اور ابتدائی نام انجمن ہمدردان اسلام تھا.جو بالکل ابتدائی ایام اور پرانے زمانے کی یادگار ہے.جب کہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب فضل عمر بمشکل آٹھ نو برس کے تھے.آپ کے دینی شغف اور روحانی ارتقاء کی یہ پہلی سیڑھی ہے.جو حقیقتہ آپ ہی کی تحریک ، خواہش اور آرزو پر قائم ہوئی تھی.کھیل کود اور بچپن کے دوسرے اشغال میں انہماک کے باوجود آپ کے دل میں خدمت اسلام کا ایسا جوش اور جذ بہ نظر آیا کرتا تھا جس کی نظیر بڑے بوڑھوں میں بھی شاذ ہی ہوتی.آپ کی ہر ادا میں اس کا جلوہ اور ہر حرکت میں اس کا رنگ غالب و نمایاں ہے.مجھے آپ کی کھیلوں کے دیکھنے اور مشاغل کو جانچنے کا اکثر موقعہ ملتا تھا.گھنٹوں آپ مطب میں تشریف لا کر ہم میں بیٹھا کرتے کبھی ٹیمیں بنا کرتیں اور کھیلوں کی تجاویز ہوا کرتیں.کبھی فوجیں بنا کر مصنوعی جنگوں کا انتظام ہوتا.کبھی ڈاکو اور چوروں کا تعاقب ہوتا.ان کی گرفتاری کے سامان ہوتے اور مقدمات سن کر فیصلے کئے جاتے.سزائیں دی جاتیں اور کار ہائے نمایاں کرنے والوں کو انعام واکرام ملتے.تو کبھی بحث ومباحثات اور علمی مقابلوں کا رنگ جما کرتا.گرما گرم بحث ہوتی.حجز مقرر ہوتے اور فاتح ومفتوح کا فیصلہ ہوتا.الغرض ایسے ہی مشاغل اور مصروفیتوں کے نتائج میں سے ایک انجمن ہمدردان اسلام کا قیام بھی ہے جو آپ کی خواہش، مرضی اور منشاء کے ماتحت قائم کی گئی.اول اول اس کے اجلاس پرانے اور قدیم مہمان خانہ میں ہوا کرتے اور اس وقت زیادہ سے زیادہ چھ سات ممبر تھے.اور یہ زمانہ ۱۸۹۷ء کا تھا.ایک منظور کردہ تجویز کے مطابق سید نا حکیم الامت حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اس انجمن کی سر پرستی قبول

Page 203

۱۸۸ فرما ئیں.اجلاس میں شریک ہوں اور ہمیں طریق کار بتا ئیں اور نصائح فرمائیں.کرتا دھرتا ان دنوں اس شخصی سی انجمن کا راقم الحروف ہی تھا.آپ نے ہماری درخواست کو شرف قبولیت بخشا.اجلاس میں تشریف لاۓ.اور سب سے اوّل انجمن کے نام پر لطیف تنقید کی کہ تم لوگوں نے انجمن کا نام ہمدردان اسلام تجویز کیا ہے.مجھے اس سے اتفاق نہیں کیونکہ ہمددری کسی درد کو چاہتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ تم لوگ اسلام میں کسی اور درد کا اضافہ کرنا چاہتے ہو.اگر درد نہیں تو ہمددری کیسی ؟ نام کی تبدیلی کا حکم دیا.سر پرستی قبول فرمائی.اور استقلال اور شوق سے کام کرنے نیک نمونہ بن کر دکھانے اور حصول علم وغیرہ کی تاکید فرمائی.آپ نے اپنی اس تقریر میں کلمہ طیبہ کی تشریح بیان کی.اور بری باتوں سے بچنے اور رضائے الہی حاصل کر کے اعلیٰ مقام پانے کے لئے حضرت یوسف علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین فرمائی.اور یہ کہ راستباز لوگوں کی صحبت اختیار کریں.لڑائی جھگڑے سے بچیں.اتفاق سے رہیں.نماز باجماعت اور سنوار کر ادا کریں.نیز حضرت اسمعیل علیہ السلام اور حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات بیان کئے.حرص، چوری، بانکپن ، غیبت، چغلی، دوسروں کی حق تلفی، بد عملی ، شریر افراد کی صحبت سے احتراز ، ستی ، لڑائی جھگڑوں ، بازار کی مٹھائیوں ، خودروی اور خدا سے جنگ کرنے سے بچنے، سادگی اختیار کرنے حق اللہ اور حق العباد کا خیال رکھنے.عمل کی نیت سے قرآن شریف پڑھنے سننے.محنت کا عادی، با ہمت و بلند حوصلہ اور دلیر بنے اور نمونہ بنے.اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے اور دعائیں مانگنے اور اللہ تعالیٰ کو کامیاب کرنے والا یقین رکھنے، استقلال اختیار کرنے کی اور اللہ تعالیٰ سے صلح کرنے کی نصائح آپ نے فرمائیں.اسی زمانہ یا پھر کسی اجلاس میں انجمن کا نام تبدیل کر کے انجمن خادم الاسلام تجویز کر دیا گیا.حضرت مولانا صاحب! اگر چہ چھوٹے سے چھوٹے لوگوں کی بات بھی توجہ سے سنا کرتے اور مفید مشورے اور نصائح سے دریغ نہ فرمایا کرتے تھے.مگر سید نافضل عمر کی ذات والا صفات کی وجہ سے ہماری طرف خاص توجہ فرماتے.ہماری نگرانی رکھتے.اچھی باتوں کی تاکید فرماتے اور غلط راہوں ، بری صحبتوں سے بچنے کی تاکید فرمایا کرتے.ہماری انجمن کے اکثر اجلاسوں میں شریک ہو کر ہدایات دیتے.اور حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے.شروع شروع میں تو ہمارے اجلاس اسی مہمان خانہ کی کوٹھڑی تک محمد ودر ہے.مگر رفتہ رفتہ ترقی ہوئی.ممبر زیادہ ہو گئے.تجربہ کار تعلیم یافتہ کارکن شریک ہو گئے.کام کرتے کرتے کچھ تجربہ

Page 204

۱۸۹ ہو گیا اور حو صلے بھی بڑھ گئے تو اجلاس اس مجلس کے مسجد اقصیٰ میں ہونے لگے جہاں بچوں سے نکل کر بڑے لوگ بھی شریک ہوتے.ہماری تقریروں پر جرح قدح اور تنقید کر کے اصلاح کرتے.طریق تکلم اور طرز تقریر سکھایا کرتے تھے.خادم صاحب بھیروی وغیرہ وغیرہ احباء کے علاوہ حضرت مولانا مولوی شیر علی صاحب بھی ان بزرگوں میں سے ایک تھے.اس طرح جہاں ہماری اصلاح ہوئی.بیان میں روانی اور کلام میں ترتیب وقوت آئی.بزرگوں کی تو جہات کا بھی ہماری یہ انجمن مرکز بنے لگی.اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بچوں کی بجائے اب بڑے بوڑھے اور بزرگ زیادہ شرکت فرمانے لگے.انجمن کی رونق کے ساتھ ساتھ عزائم بھی بلند ہوتے گئے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسی ہماری انجمن میں ایک مرتبہ سید نا حضرت نورالدین...رضی اللہ تعالیٰ عنہ شریک تھے.ہمارے آقا نامدار سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نور نظر.لخت جگر نے جن کی شان میں ازل سے خداوند ہمارے خدا نے مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَ اللَّهَ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ کا مقام محمود لکھ رکھا تھا، تقریر فرمائی.تقریر کیا تھی علم و معرفت کا (ایک ) دریا اور روحانیت کا ایک سمند ر تھا، تقریر کے خاتمہ پر حضرت نورالدین اعظم کھڑے ہوئے.اور آپ نے تقریر کی بے حد تعریف کی.قوت بیان اور روانی کی داد دی.نکات قرآنی اور لطیف استدلال پر بڑے تپاک اور محبت سے مرحبا جزاک اللہ کہتے دعائیں دیتے، نہایت اکرام کے ساتھ گھر تک آپ کے ساتھ آ کر رخصت فرمایا.یہی وہ انجمن ہے جو ترقی کرتے کرتے آخر ایک دن اس قابل ہوگئی کہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور سے شرف باریابی نصیب ہوا اور وہ تفخیذ الاذھان کے مقدس نام سے سرفراز ہو کر نمودار ہوئی.اس کے اجلاس میں نافعے بھی ہوئے.لمبے لمبے وقفے بھی ہوئے.اور اس پر فترت کا زمانہ بھی آیا.اور (وہ) ایسی غائب ہوئی کہ گویا اس کا وجود ہی معدوم ہو گیا.مگر کسی نیک گھڑی، سعید ساعت اور مقدس ہاتھوں اس کی بنیاد رکھی گئی تھی.خدا نے اسے ضائع ہونے سے بچالیا.۱۹۰۳ عیسوی کے اواخر میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) نے مجھے اپنے ایک عزیز مرزا محمد احسن بیگ صاحب رئیس کی درخواست پر ان کے کاروبار کے ذیل میں قادیان سے باہر جانے کا حکم دیا.میری غیر حاضری میں ہماری یہ انجمن گویا معطل و کالعدم رہی.جس کا مجھے سفر میں بھی درد رہتا تھا.آخر ۱۹۰۶ء کے نصف ثانی میں مجھے وہیں کسی طرح یہ اطلاع ملی کہ ہماری اس پیاری انجمن کا سیدنا

Page 205

190 محمود کے ہاتھوں دوبارہ احیاء ہوا اور اب کے اس نام کے اس رسالہ کے اجراء کا بھی انتظام کیا گیا ہے.اور اسے حضرت اقدس مسیح موعود الصلوۃ والسلام کی منظوری وسر پرستی کا بھی شرف میسر ہے.اور کہ حضور نے ۴۴ ہی اس کا نام تفخیذ الاذھان تجویز فرمایا ہے.مجھے اس خبر سے اتنی خوشی ہوئی کہ میں باغ باغ ہو گیا اور فوراً اس کی ممبری کے لئے یہاں درخواست بھیج دی.بھائی جی نے ممبری کی درخواست بھیجوانے کے علاوہ حضرت مولانا نورالدین صاحب کی خدمت میں بھی اس بارہ میں سفارش کے لئے تحریر کیا.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے جوا با تحریر فرمایا کہ.السلام علیکم.بے ریب تشخیز الاذھان خوشی کا باعث ہے.بڑا جلسہ ہوا.آپ کو مبارک ہو.میں نے آپ کا ذکر لیکچر میں کیا تھا.بڑا لیکچر تھا.آپ کا خط میاں محمود کودے دیا ہے.داخلہ اور چندہ زیادہ رکھا تھا.۴۵ میں نے روکا ہے...نور الدین ۲۵ / دسمبر ۶۰۶ انجمن کے سیکرٹری حافظ عبدالرحیم صاحب نے اس بارے میں آپ کو تحریر کیا:.بجواب فیض شمامه آنجناب عرض ہے کہ نظامت نے بڑی خوشی سے آپ کا نام ممبروں میں درج کیا ہے.گو کمیٹی کو ضرورت پڑی ہے کہ آئندہ ممبروں کو اس نظامت کا مبر شمار نہ کرے.تاہم چونکہ پہلے بانی مبانی اس انجمن کے آپ ہی ہیں اس لئے انجمن نے خاص شکریہ کے ساتھ یہ موقع خاص آپ کو دیا ہے.( حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مکتوبات بالا کا چمہ یہ بھی اس پر چہ میں درج ہے.) پہرہ کا آغاز وانتظام نوٹ از مؤلف.الحکم بابت ۲۷ مئی ، ۷ جون ۱۹۳۹ء میں یہ مضمون زیر عنوانات (ایک مقدس خدا نما وجود ) اور ( سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) شائع ہوا.یہاں اس کی ابتدائی تمہید درج نہیں کی گئی حضرت بھائی جی تحریر فرماتے ہیں:.اس پر آشوب اور فتن زمانہ سے قبل یعنی پنڈت لیکھرام کے واقعہ قتل ( بتاریخ 4 / مارچ ۱۸۹۷ء) سے پہلے قادیان میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات اور حرم سرا پر کسی پہرہ ونگرانی کا انتظام نہ ہوا کرتا تھا.ان افواہوں اور خبروں کے باعث جو مختلف ذرائع و وسائل سے تواتر کے ساتھ

Page 206

۱۹۱ رسوا تحمد الله ان خوشی کا ایک ھے - میدارد دکار برزا خط ماست - اور کہا تھا منے روکا تھے.زیانه را کور کے عیسی عضوی ہے شخورشید اصلی وراد از اعلام محمر افراتوری که سیر کرم مرزا صاحب برزیله نسیم

Page 207

۱۹۲ ہندوؤں حضوصا آریوں کی سازشوں اور منصوبوں سے متعلق ملتی رہیں ہم لوگ بطور خود ہی چوکس و ہوشیار ہو کر حضور کے مسجد میں تشریف لانے یا سیر وغیرہ کے لئے نکلنے کے اوقات میں زیادہ محتاط رہنے لگے اور ایک قسم کے پہرہ کا سلسلہ جاری کرلیا گیا.ہوتے ہوتے ایسی خبریں زیادہ تیز اور گرم ہوتی گئیں.ملک کے طول وعرض کے حالات کی تفاصیل، خطوط اور اخبارات کے ذریعہ معلوم ہونے لگیں.اور ساتھ ہی قادیان میں اجنبی ، مشکوک اور آوارہ لوگوں کی آمد کا سلسلہ بڑھتا نظر آنے لگا.حتی کہ بعض مقامی اشرار کی ٹیڑھی ترچھی آنکھیں ان کے بدار ا دوں اور منصوبوں کی تصدیق کرنے لگیں.دوسری طرف اچانک ایک روز کپتان پولیس نے بھاری جمعیت کنسٹبلوں کے ساتھ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکانات پر گھیرا ڈال کرنا کہ بندی کر لی.کسی کو باہر جانے کی اجازت نہ تھی نہ اندر آنے کی.بہت دیر تک ہندو ساتھ ہوکر تلاشی کراتے خطوط اور مضامین پڑھتے رہے.اس موقعہ پر حضرت اقدس نے جس خندہ پیشانی اور فراخدلی سے پولیس کو اس کے کام میں خود مدددی.اور جس طرح اخلاق فاضلہ کا اسوہ حسنہ دکھایا.وہ بھی ایک معجزہ سے کم نہ تھا.غرض تلاشی کرائی.اور ان لوگوں نے کوشش کا کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑا.اور نہ صرف مخالفانہ بلکہ معاندانہ و جانبدارانہ طریق سے ناخنوں تک کا زور لگایا.مگر سوائے حرمان وحسرت اور مایوسی و نا کامی کے کچھ ہاتھ نہ آیا.اتنی گڑ بڑ اور اضطراب و ہیجان کے دنوں میں یہ واقعہ پیش آیا کہ شام کی نماز سے فراغت کے بعد جو گرمی کی وجہ سے بالائی حصہ مسجد میں ہوا کرتی تھی.پچھلی ایک دو صفوں کے نمازیوں میں بے چینی اور خلجان کے آثار پائے گئے.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سنن سے فارغ ہو کر شہ نشین پر رونق افروز ہوئے.دائیں بائیں اور سامنے حضور کے کبار صحابہ اور خدام حلقہ بنا کے بیٹھ گئے تو وہ معاملہ حضرت کے حضور پہنچا.بعض دوستوں نے بیان کیا کہ کسی نے پیچھے سے ان پر حملہ کیا اور تھپڑ یا مکہ مار کر بھاگ گیا.اور اس کے بھاگ کر سیٹرھیوں سے اتر جانے کی آواز بھی ہم نے سنی تھی وغیرہ.آثار خطرہ کے موجود تھے وجوہ اس واقعہ کی پیٹھ پر تھے.حالات اس خبر کی صداقت پر باور کرنے کے لئے کافی سے زیادہ پہلے ہی جمع ہو چکے تھے.طبائع میں تشویش موجود تھی.اس واقعہ نے سونے پر سہا گہ کا کام دیا اور متفقہ طور پر خدام وصحابہ نے حضرت اقدس کے حضور اس اہمیت پر زور دیتے ہوئے احتیاطی تدابیر کے لئے درخواست کی.

Page 208

۱۹۳ انبیاء اور خدا کے رسول علیہم الصلوۃ والسلام جو اس دنیا کے عالم اسباب اور رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا کے پر معرفت قول کے قائل اول ہوتے ہیں گو اسباب کو خدا کی مفید اور کارآمد مخلوق سمجھ کر ان کو موقعہ محل کی مناسبت سے جمع بھی کرتے ہیں مگر حقیقتا ان کا تو کل اور بھروسہ صرف اور صرف خدا پر ہوتا ہے.تائید و نصرت اور فتح و ظفر کے کھلے وعدوں کی موجودگی میں وہ اس طرح دعائیں کرتے اور گڑ گڑاتے ہیں کہ دیکھنے سننے والے ان وعدوں کے متعلق شبہات میں پڑ کر سوال کرنے لگتے ہیں.ان صالحین اور صادقین واتقیاء کے ساتھ حفاظت و سلامتی کے خدائی وعدے ہوتے ہیں مگر وہ ظاہری سامانوں سے بھی بے پروائی نہیں کرتے.کیونکہ خدا کی صفات و اسماء کا علم سب سے زیادہ انہی کو دیا جاتا ہے وہ خدا کے غناء ذاتی سے ڈرتے اور عباد شکور ہوتے ہیں.حضور پرنور نے دوستوں کی درخواست کو منظور فرماتے ہوئے اسی موضوع پر ایک مختصر مگر روح پرور تقریر فرمائی اور حکم دیا کہ بہتر ہے احتیاطاً پہرہ کا انتظام کر لیا جائے.غرض یہ ہے کہ قادیان میں پہرہ کی تاریخ اور یہ ہیں اس کے اجراء کے وجوہ جس کی ابتداء یوں ہوئی کہ پہرہ کی منظوری دینے کے بعد خود ہی حضور نے فرمایا.جولوگ اس خدمت کے لئے تیار ہوں، آگے آجائیں (یا کھڑے ہو جائیں ) ان دونوں میں سے کوئی الفاظ تھے.کئی مخلص ، سعید اور خوش بخت نوجوان آگے بڑھے کھڑے ہوئے.ہر ایک نے اخلاص سے اپنے آپ کو پیش کیا.محبت اور جوش عقیدت سے اس خدمت کا بار اپنے اوپر لیا.کئی قبول ہوئے.بعض معذور سمجھے جا کر مستحق ثواب مگر پہرہ معاف قرار پائے.ہدایات ملیں.اور نبی اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کی توجہ اور دعا نصیب ہوئی زہے نصیبہ.خوشا وقتے وخرم روز گارے.الحمد لله - الحمد لله ـ ثم الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على الانبياء والمرسلین میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان خوش قسمت قبول ہونے والوں میں سے ایک تھا.جن کو خدا کے موعود نبی مسیح الخلق جری اللہ فی حلل الانبیاء نے نظر شفقت اور محبت بھری نگاہوں سے دیکھا اور قبول فرمایا.یہ کہنا کہ میں پہلے بڑھا یا دوسرا کوئی مجھ سے پیچھے اٹھا، خطرہ سے خالی نہیں.کیونکہ یہ باتیں خدا کے فضل پر موقوف ہیں.جو دلوں کو جھانکتا اور انسانی قلوب کے نہاں در نہاں حالات کو جانتا اور اس کا فیصلہ سچا اور حقیقی ہوتا ہے.کئی چھوٹے بڑے کر دیئے جاتے ہیں اور کئی بڑے چھوٹے ہو جایا کرتے ہیں.مگر نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی ظلم ہوا.اس کے سارے کام حق اور حکمت پر مبنی اور سارے فیصلے صحیح علم اور میزان حق سے

Page 209

۱۹۴ ناپ تول کر کئے جاتے ہیں جن کا مدار سراسر فضل الہی پر ہوتا ہے.وہاں کوئی شیخی کام آسکتی ہے نہ زبانی جمع خرچ.دنیا جانتی ہے ، بھولی ہے نہ کبھی بھول سکتی ہے اس حقیقت کو کہ جس پتھر کو ردی اور نا کارہ سمجھ کر معماروں نے پھینک دیا آخر وہی خدا کا مقبول اور کونے کا پتھر بنا.پس مقام خوف ہے جس کی وجہ سے میں اس ترتیب کے ذکر کو چھوڑتا اور خدا کے سپر د کرتا ہوں کیونکہ تقدم تا خر حقیقی وہی ہے جس پر خدا کی مہر تصدیق ثبت ہو.جس کے ہاتھ میں مدارج ومراتب کا فیصلہ ہے اور عمل عامل کی حقیقت ونیت سے واقف و آگاہ ہے.کسی نعمت کے ملنے اور خدمت کی توفیق رفیق ہونے کی سعادت پا کر خدا کے حضور جھکنا اور سجدات شکر بجالانا چاہئے.کیونکہ مواقع میسر آنا اور کسی خدمت کی توفیق کا ملنا بھی سراسر فضل واحسان ہوتا ہے قُل لَّا تَمُوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَذَيكُمْ لِلْإِيْمَانِ - اس پہرہ کا انتظام ونگرانی حضور پر نور نے مجھ نا کارہ غلام کے ذمہ لگائی جس کا مقصد و مطلب میں اپنی طبیعت کی افتاد اور عقل ناقص کی وجہ سے یہ سمجھا کہ گویا یہ سارا کام تنہا مجھی کو کرنا ہو گا اگر چہ بعض احباب نے پورے اخلاص شوق اور محبت و عقیدت سے اس کام میں میرا ہاتھ بٹایا اور مدتوں میرے ساتھ مل کر اس خدمت کو بجالاتے رہے اور پھر ہم سب نے مل کر کیا.جو کچھ کہ ہم لوگ کر سکے.غرض اس دن سے ہمارا یہ پہرہ کا کام ایک نظام اور باقاعدگی کے نیچے آکر خوش اسلوبی سے چلنے لگا.اس پہرہ کی ابتدائی وجہ کے بیان میں جس واقعہ کا ذکر میں نے کیا ہے اس کی حقیقت کیا تھی ، یہ امر چند روز بعد کھلا.جب کہ ایک شام کے دربار کے موقعہ پر ایک نامعقول اتو بچے یعنی چغد نے جسے پنجابی میں چڑیل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم پر حملہ کر کے جھپٹ ماری اور صاحب ممدوح کی کلاہ نیچے مرزا نظام الدین صاحب کے مکان موجودہ دفتر نظارت بیت المال کی چھت پر گرا دی.( یہ دفتر مسجد مبارک سے ملحق جانب مغرب ہے اور بوقت طبع ثانی محاسب ہے.مؤلف ) مرزا نظام الدین صاحب کے دیوان خانے کے بڑے دروازہ کے باہر ایک بڑ کا پیٹر اور چھوٹے صحن کے انتہائی پچھلی طرف شمال مغربی کو نہ میں ایک بول کا درخت ہوا کرتا تھا.مرزا نظام الدین صاحب کے مکانات کے بعض سوراخوں میں دن بھر چھپے رہنے کے بعد اتو بچے ان درختوں کے گویا مالک ومنظم ہوا کرتے تھے اور ان کے شکار کے لئے یہ درخت مورچہ و کمین گاہ کا کام دیا کرتے تھے.اس واقعہ اور اس کی کیفیت واثر نے بزرگوں کے ذہن و خیال کا انتقال پہلے واقعہ کی اصلیت و حقیقت کی طرف پھیر دیا.جس کو

Page 210

۱۹۵ ہمارے کسی مظلوم دوست کے تخیل نے "پر کی ڈائر“ بنا کر حالات کی وجہ سے اتنا بڑھا دیا تھا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک کام کرانا اور لینا تھا جس کے لئے وہ معاملہ ایک وجہ بن گیا.ورنہ اس کی حقیقت ایک چغد یا الو بچہ کے حملہ سے زیادہ نہ تھی.مصلحت الہی کہ اس زمانہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکانات بالکل کھلے اور غیر محفوظ ہور ہے تھے.مغربی حصہ مکان کی پچاس پچپن فٹ پرانی کچی دیوار بیت الفکر سے ملحقہ شمالی دالان کے آخری شمالی حصہ سے لے کر خان بہادر مرز سلطان احمد صاحب مرحوم ریٹائر ڈ پٹی کمشنر کے مکانات کی حد تک پختہ کرنے کی غرض سے گرائی جا چکی تھی.اور وہاں دیوار کی بجائے صرف کپڑے کی چادروں کا پردہ ہوا کرتا تھا.اینٹیں چونکہ اس زمانہ میں بٹالہ کے ژادوں کے گدھوں پر آیا کرتی تھیں.اور معمار بھی قادیان میں نام ہی کو ملا کرتے تھے.اس وجہ سے پردہ وغیرہ کی تکمیل ایک لمبا عرصہ چاہتی تھی.جو آہستہ آہستہ ایک خوش نصیب مستری حسن دین صاحب مرحوم سیالکوٹی کی متواتر کئی ماہ کی تگ و دو سے جا کر کہیں پایہ تکمیل کو پہنچی.ان حالات میں ظاہر ہے کہ پہرہ و حفاظت کی کتنی شدید ضرورت تھی.جس کا اس سے پہلے قطعا کوئی انتظام نہ تھا.اور نہ ہی اس طرف چغد کے پہلے واقعہ تک کسی کی توجہ مبذول ہوئی (کل امر مرهون باوقاته ، یه ضرورت اس تحریک سے پوری ہو گئی ) ہمارے پہرہ کا دائرہ عمل اور گردش کا محور سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکانات تھے.توجہ اور زور ، شکستہ حصہ یعنی مکان کے غربی جانب کے کوچہ کی طرف تھا جو اس زمانہ میں بالکل ایک کھلی گلی تھی.موجودہ کوچہ بندی اور صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے مکانات بہت بعد میں بنے ہیں.اس گشت کا سلسلہ احمدیہ چوک چوک موجودہ شارع دار الانوار.چوک موجودہ قصر خلافت تک وسیع ہوا کرتا.جس میں بعض غیر احمدی اور غیر مسلم لوگوں کے مکانات بھی آجاتے.عمارات کے لحاظ سے آجکل اس قطعہ آبادی کی شکل اس زمانہ سے بالکل مختلف ہو چکی ہے.آریہ اور ہندوؤں کی شورش کا سلسلہ روز افزوں تھا.عید قربان قریب آتی جارہی تھی.قادیان اور مضافات میں بعض میلوں کا موسم تھا جن میں گنوار لوگ شریک ہو کر وہ اودھم مچایا کرتے کہ انسانیت مارے شرم کے پانی پانی ہو جاتی.آریوں کے کارندے دیہات کے سکھوں میں پھر کر فضا کو مکدر اور مسموم کرنے میں سرگرم تھے.چوری اور ڈاکوں کی وارداتیں ہوا کرتیں.ان مختلف حالات پر ایک اضافہ یہ ہوا کہ اخبارات اور اشتہارات میں اشارتاً اور پرائیویٹ خطوط میں صراحتاً " سید نا حضرت اقدس کی ذات والا

Page 211

١٩٦ صفات کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں آنے لگیں.حکومت کی خاموشی اور بے تو جہی یہ رنگ لائی کہ ان لوگوں کے حوصلے بڑھ گئے.اور حضور پر نور کو نعوذ باللہ قربانی کا بکرا وغیرہ ناموں سے یاد کر کے دہشت انگیزی اور درندگی کے ارادوں کا مظاہرہ کرنے لگے.حضور اقدس پر تو ان دھمکیوں اور گیدڑ بھبکیوں کا کوئی اثر ہی نہ تھا.خدا کی حفاظت اور رفاقت کے وعدوں کے پورا ہونے کے دن سمجھ کر حضور نہ صرف خود مطمئن.خوش اور ہشاش بشاش رہتے.بلکہ صحابہ، خدام اور غلاموں کو بھی تسلیاں دیا کرتے.عید قربان آئی.جو حضور نے خدام سمیت تکیہ حسیناں کی بڑ کے نیچے ادا کی.قربانیاں دیں اور مہمانوں کے واسطے عید سعید کی تقریب کے مناسب حال مختلف کھانے پکائے.نہایت محبت سے دوستوں کو کھلائے اور اس طرح ہمارے یہ دن خدا کی حمد ، عبادت اور دعاؤں میں نہایت خوشی اور اطمینان سے گذرے.دشمنوں کے منصوبوں اور سازشوں کو خدا نے ناکام کیا.يَعْصِمُكَ اللهُ وَلَوْلَمْ يَعْصِمُكَ النَّاس کے خدائی وعدے نہایت شان وشوکت اور جلال کے ساتھ پورے ہوئے.اللہ اکبر.اللہ اکبر لا اله الا الله - الله اکبر.اللہ اکبر وللہ الحمد.پہرہ تو محض ایک ذریعہ تھا ہم غلاموں کی عزت افزائی کا.وہ تو ایک زمینہ تھا ہمارے عروج اور علم ومعرفت میں ترقی اور محبت وعقیدت میں زیادتی کا.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ غفلت کی نیند سو ر ہنے اور خراٹے بھر کر رات گذار دینے سے ہزار درجہ بہتر اور مفید تر تھا ہماری بے خوابی و طواف.خدا نے اپنی حکمتوں کے ماتحت ہم لوگوں کی تربیت اور روحانی اصلاح کے واسطے یہ سامان پیدا کئے تھے ورنہ اپنے بندے کی حفاظت کے لئے نہ خدا ہی اپنی کمزور مخلوق کا محتاج تھا نہ حضور.بمفت ایں اجر نصرت ہاد ہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان است ایس بہر حالت شود پیدا خاموش سنسان اور اندھیری رات کی گھڑیوں میں اچانک کبھی وہ ماہ کنعان ،نور قادیان ، جان جہان، دنیا و مافیہا کی روح رواں، ہم پر طلوع فرماتا.میاں عبدالرحیم.میاں عبدالعزیز.میاں غلام محمد.میاں پرط عبدالرحمن نام لے کر محبت بھری نرم شیریں اور دلکش آواز سے نوازتا اور خود ہماری خبر گیری و دلجوئی فرماتا.قربان اس جان جہان کے اور فدا ہو جاؤں اس پیارے نام کے جو مخدوم ہو کر الٹا غلاموں کی خدمت ، خبر گیری کرتا.آقا ہو کر غلاموں کی فکر کرتا اور نوازتا تھا.بارہا وہ رحمت مجسم اپنے رہائشی دالان کی غربی کھڑکیوں سے جھانکتا ، نظر شفقت و رحمت سے ہمیں نواز تا اور اپنے دست مبارک سے اپنے رومال میں

Page 212

۱۹۷ لپیٹ باندھ کر شیرینی خشک پھل وغیرہ جو بھی ہوتا ہمیں عطا فرماتا.اور دیر تک مصروف گفتگو رہ کر خوش وقت فرما یا کرتا.بچوں والا گھر ، مہمانوں کی آماجگاہ، غریب اور بیکس اور یتامی و بیوگاں کی جائے پناہ خستہ وشکستہ اور مظلوم افسردہ دلوں کا ماویٰ و ملجا دنیا بھر میں یہی ایک بڑا گھرانہ (بيوت اذن الله ان تــرفـع ) تھا.بچوں کے تقاضوں.ضروریات.مہمانوں کی خدمت اور بیوگان ویتامی اور کمزور لوگوں کی دعوت کے لئے حضور پرنور کے پاس عموماً مٹھائی اور خشک و تر پھلوں کا ذخیرہ رہا کرتا تھا جواللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ يَاتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کے ماتحت دور دراز سے تحائف بھجواتے.خدام مختلف قسم کے پھل اور شیر بینیاں لاتے.بادام، کشمش، اخروٹ ، خوبانی اور مغزیات اللہ تعالیٰ بھجواتا.ہر موسم کے میوے اور پھل.حتی کے خشک پیلو کی بوریاں حضور کی خدمت میں آیا کرتیں.جن کو حضور بڑی فراخی دلی سے بانٹ دیا کرتے.عطا وسنحا میں حضور ایک ابر بہار تھے.اپنے بیگانے اور چھوٹے بڑے سبھی کو سیراب فرمایا کرتے.دریا دلی کا یہ حال تھا کہ بعض اوقات بٹالہ اسٹیشن سے بلٹی لانے والے ہی کو اس چیز کا اکثر حصہ عطا فر ما دیا کرتے.مہمان اور غلام ، خادم و خادمات ، سائل و فقیر سبھی کو حضور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں شریک فرمالیا کرتے تھے.اسی طرح ہم لوگ بھی مدتوں حضور کی تو جہات کریمانہ کے مورد بنے رہتے.ابتدا میرے محترم بزرگ و محسن حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب، بھائی عبدالعزیز صاحب اور میرے ہم نوالہ و پیالہ عزیز مکرم حافظ چوہدری غلام محمد صاحب بی.اے بعض اور دوست وراقم الحروف اس خدمت پہرہ کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے رہے.اپنا سکول کھل جانے پر بعض مخلص خاندانوں کے بچے جو طلب علم کی غرض سے والدین نے قادیان بھجوائے ہمارے ساتھ ان خدمات میں محبت واخلاص سے شریک ہوا کرتے تھے.مثلاً مکرم معظم مرزا افضل بیگ صاحب مرحوم آف قصور کے صاحبزادے عزیز مکرم مرزا محمد افضل بیگ صاحب، مرزا محمد جمیل بیگ صاحب محترم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے موجودہ ناظر اعلیٰ.مرزا سلطان احمد صاحب عزیزان راجہ محمد اسمعیل راجہ محمد اسحاق صاحبان ، شیخ احمد دین صاحب ڈنگوی، منشی قمر علی صاحب وغیرہ وغیرہ.کئی شریف سعید اور صالح نوجوان محبت بھرے دل کے ساتھ بصد شوق ان خدمات کو بجالایا کرتے تھے.پہرہ کی راتوں میں ایک چیز جو میں نے دیکھی اس کا بیان بھی میرے ذمہ ہے.وہ یہ کہ دوران پہرہ

Page 213

۱۹۸ میں اکثر ہم لوگ محسوس کیا کرتے تھے کہ حضور پر نوررات کا زیادہ حصہ ذکر وفکر اور دعا ونماز میں گذارا کرتے تھے.کیونکہ بالکل تھوڑے سے وقت کے سواعمو م ہمارے کانوں میں گریہ و بکا اور اضطراب والحاح کی آواز کبھی کچھ پڑھنے اور گنگنانے کی گنگناہٹ.کبھی نرم اور دھیمی سی آواز میں سکیاں لینے اور رقت وسوز سے بلبلانے کی آواز پڑتی رہا کرتی تھی اور بارہا مجھے یاد ہے کہ ایسے موقعہ پر ہم خود بھی کھڑے آمین آمین از ما و جملہ جہاں آمین باؤ کی صدائیں کرنے لگتے.پہرہ کا ایک دوسرا طریق جو مکانات کی تکمیل کے بعد جاری ہوا یہ تھا کہ حضور پر نور نے ہمیں اپنے مکانات کے بعض حصوں میں سورہنے کا ارشاد فرمایا.جہاں محترم حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب اور یہ خاکسار اول اول دونوں ایک ہی جگہ عشاء کی نماز کے بعد جاتے اور صبح کی نماز کے وقت وہاں سے آ جایا کرتے.بعد میں دونوں کو الگ الگ حصوں میں بھی رہ کر خدمت پہرہ کا موقعہ ملتا رہا.اور یہ تبدیلیاں مکانات کی شکست وریخت اور ترمیم و تنسیخ کی بنا پر ہوا کرتی تھیں.اور حسب ضرورت ہم لوگ مختلف حصص مکانوں میں راتوں کو کچھ جاگ کر اور زیادہ سو کر ڈیوٹی دیتے رہے.پہرہ کا یہ سلسلہ کم وبیش دو تین سال متواتر جاری رہا.اور مختلف دوست اس خدمت کی سعادت پاتے رہے.میرے اس پہرہ کا آخری زمانہ وہ تھا جبکہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے رہائشی دالان کی مرمت صفائی اور پلستروں کا کام جاری ہوا.یہی وہ دالان ہے جو بیت الفکر کے شمالی جانب دیوار بد یوار واقع ہے.اور جس کے اندر بیت الدعاء کا دروازہ کھلتا ہے بیت الدعاء دراصل اس دالان سے جانب غرب کوچہ کی طرف بڑھا کر بعد میں بنایا گیا ہے مرمت وغیرہ کی وجہ سے حضور اس دالان کو خالی کر کے نچلے حصہ میں تشریف لے گئے جس کے لئے اسی دالان کی شمالی دیوار میں سے سیڑھی کھلی تھی.اور نیچے کا یہ حصہ وہ کوٹھڑیاں اور دالان میں جوسید نا امیر المومنین حضرت اقدس خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حرم اول کے موجودہ مکان کے صحن کے نیچے واقع ہیں (۱۹۳۹ء) میں.اس دالان میں لمبے عرصہ تک سوتا رہا.حضور نمازوں کے واسطے نیچے سے اوپر پہلے اسی دالان میں تشریف لاتے اور بیت الفکر میں سے ہو کر بیت الذکر یعنی مسجد مبارک میں تشریف لے جایا کرتے تھے.سردی کا موسم تھا اور بستر میر اہلکا.اول اول تو گذر ہو جاتی رہی مگر جب سردی بڑھ گئی.دوسری طرف بھائی جی نے ہی مضمون میں (۱۹۳۹ء ) اس طرح خطوط وحدانی میں دیا ہے.گویا ۱۹۳۹ء بوقت تحریر مضمون یہ صورت حال ہے.

Page 214

۱۹۹ دالان میں کیچ کا پلستر ہوا تو کمرہ زیادہ ٹھنڈا ہو گیا.ایک رات کا ذکر ہے کہ سردی کی شدت کے باعث مجھے رات بھر نیند نہ آئی.کروٹ لے لے کر یا بیٹھے رات گزاری.پچھلا پہر تھا.کوئی دو بجے کا وقت ہو گا.جب تھک کر میں لیٹ گیا.ابھی چند ہی منٹ ہوئے کہ کھڑ کی کھلی اور سید نا حضرت اقدس دالان میں داخل ہوئے.مگر میں خلاف معمول کھڑا ہو کر سلام عرض کرنے کے بجائے سکڑا چار پائی پر پڑا رہا.پہلے عموماً میں کھڑ کی کھلنے کی آہٹ پاتے ہوشیار ہو کر اٹھ کھڑا ہوا کرتا تھا.آج غیر معمولی کوتا ہی کی وجہ سے حضور کو توجہ ہوئی.اور آپ نے میری چارپائی کے قریب ہو کر مجھے غور سے دیکھا اور آہستگی سے اپنی پوستین جو میری چار پائی کے اوپر کھونٹی پر لٹک رہی تھی اتار کر میرے اوپر ڈال دی.میں مگن پڑا رہا.ہلا جلا نہ بولا.حضور تشریف لے گئے.میں گرم ہوتے ہی گہری نیند سو گیا اور پھر صبح کی اذان ہی سے جا گا.وضو کیا اور نماز کے لئے مسجد کو جانے کے لئے تیار تھا کہ حضرت اقدس صبح کی نماز کے واسطے اسی کھڑکی سے تشریف لے آئے.میں نے سلام عرض کیا.حضور مسکراتے ہوئے میری طرف بڑھے اور فرمایا.میاں عبدالرحمن آپ نے تکلف کر کے تکلیف اٹھائی.بستر کم تھا تو کیوں ہمیں اطلاع نہ دی ؟ شرط موت کی لگانا اور رنگ اجنبیت کا دکھا نا ٹھیک نہیں.دو چار روز کی بات ہو تو اجنبیت انسان نباہ سکتا ہے.مگر عمر کی بازی لگا کر تکلف واجنبیت میں پڑے رہنا باعث تکلیف ہوتا ہے.جب آپ نے گھر بار چھوڑا.ماں باپ چھوڑے وطن اور قبیلہ چھوڑ کر ہمارے پاس آگئے تو آپ کی ضروریات ہمارے ذمہ ہیں مگر جب تک ہمیں اطلاع نہ ہو ہم معذور ہیں.کیا کر سکتے ہیں (مفہوم بالفاظ راقم ) میں نے ندامت سے گردن ڈال دی.سر جھکا لیا اور مجسم صورت سوال ہی بن کر رہ گیا.صبح کی نماز کے بعد سلام پھیرتے ہی حضرت نے حافظ حاجی حکیم فضل الدین صاحب مرحوم کو یاد فرمایا.وہ حاضر ہوئے حکم دیا کہ میاں عبدالرحمن کے پاس بستر نہیں.ان کو آج ہی بستر تیار کرا دیں.ان کو ساتھ لے جائیں جیسا پسند کریں ویسا ہی بنوادیں.معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس پہننے کے کپڑے بھی کم ہیں.ایک دو جوڑے بھی حسب ضرورت بنوا دیں.حکم کا ملنا تھا کہ حضرت حکیم صاحب نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور ساتھ ساتھ لئے پھرے.موسم سرما کی وجہ سے دکان کے کھلنے میں دیر تھی، خاص آدمی بھیج کر لالہ سکھ رام کو بلوایا.دکان کھلوائی اور لگے مجھے کپڑے پسند کرانے.عمر بھر میں میرے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ پوستن والا یہ واقعہ اختصار سے بھائی جی کی تقریر ” ذکر حبیب“ مندرجہ بدرجلد ۵ نمبر ۱۲ بابت ۲۸ / مارچ ۱۹۵۶ء صفحہ ۵ کالم ۲ میں بھی درج ہے.

Page 215

۲۰۰ میرے لباس اور بستر کا بنا میری مرضی و پسند پر رکھا گیا.اس سے قبل ماں باپ اپنی مرضی و پسند کا بنواتے اور پہناتے تھے اس لئے مجھے اپنی مرضی و پسند کا کوئی علم ہی نہ تھا.حضرت حکیم صاحب کو حکم تھا.اور اسی کی وہ تعمیل کرنا چاہتے تھے.کئی کپڑے میرے سامنے لائے گئے.اور ہر بار مجھ سے پوچھا گیا، مگر میں نے ایک چپ سادھ رکھی تھی.بار بار کے تقاضوں سے کچھ یاد آ کر میرا دل بھر آیا اور میں زار وقطار رونے لگا.یہ حال دیکھ حضرت حکیم صاحب موصوف نے مجبور ہو کر خود ہی بہترین کپڑے بہترین بستر کا انتظام کر کے فوری تیاری کی تاکید کر دی اور میری دلجوئی کرتے ہوئے واپس ساتھ لے آئے.شام سے پہلے نہایت اچھا بستر تیار ہو کر آ گیا.جو رات کو حضرت نے بھی دیکھا اور بہت خوش ہوئے.کپڑے بھی دوسرے تیسرے دن مل گئے.سیدنا حضرت اقدس اکثر نصف رات کے بعد ڈیڑھ.دو یا اڑھائی بجے کے قریب نماز تہجد کے لئے آیا کرتے اور اگر چہ حضور نہایت احتیاط کے ساتھ دبے پاؤں تشریف لاتے ، نہایت آہستگی سے کھڑ کی کھولتے ، مگر میں عموماً حضور کی تشریف آوری پر چوکس ہو جایا کرتا.چند مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ میں جاگنے کے بعد پھر سو گیا اور اذان کی آواز بھی مجھے بیدار نہ کر سکی تو حضرت نے صبح کی نماز کے واسطے آتے ہوئے مجھے بھی جگا دیا.اس زمانہ کی یاد سے میرے دل پر ایک نہایت گہرا اور پائیدار اثر یہ بھی ہے کہ حضور پر نور نہایت محنت کش واقع ہوئے تھے.علاوہ تحریر و تصنیف کے سخت دماغی کام کے عموماً حضور اپنے سارے ہی کام خود اپنے ہاتھوں کیا کرتے تھے.نہ صرف یہی بلکہ دوسروں کے کام بھی کر دیا کرتے تھے.حضور بڑے شب بیدار تھے.عشاء کے بعد بہت دیر تک میں جاگتا مجھے انتظار ہوتی کہ حضور تشریف لائیں گے.کیونکہ حضرت کا معمول تھا کہ دو ایک مرتبہ ضرور پہلے حصہ رات میں بھی اوپر تشریف لایا کرتے تھے.میں نیند سے مغلوب ہوکر سو جاتا اور حضور موم بتیاں جلا کر لکھنے میں مصروف رہتے.پھر میں ابھی غلبہ نیند سے خراٹے بھرا کرتا تھا کہ حضور بیدار ہوتے تھے خدا ہی جانے کہ حضور سوتے کسی وقت تھے.میں نے حضور کو اتنا قریب رہ کر بھی جب دیکھا جاگتے ہی دیکھا.خدا کے پیارے مسیح اور مقرب رسول سید نا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے حسن واحسان کے واقعات، پیاری ادا ئیں اور دلر با روحانی باتیں بے شمار ، بے انداز اور ان گنت ہیں جو رہتی دنیا تک بیان ہوتی لکھی اور پڑھی سنی جاتی رہیں گی.ہر دوست ، ہر مرید اور ہر خادم وغلام کے ساتھ حضور کے ایسے گہرے روحانی تعلقات تھے کہ ہم میں ہر ایک یہی سمجھتا کہ جتنا تعلق محبت ومروت

Page 216

۲۰۱ اور احسان و کرم حضور کو مجھ سے ہے دنیا میں کسی دوسرے سے نہیں.یہی وجہ تھی کہ ہر عقیدت کیش آپ کے لئے انتہائی قربانی تک کے لئے ہر وقت تیار و کمر بستہ رہتا.میں شامت اعمال سے اس مرحلہ پر اس مقدس دالان کے پہرہ کی ڈیوٹی کے دوران میں بیمار ہو گیا.بخار آنے لگا.کچھ عرصہ تو میں نے کسی پر ظاہر بھی نہ کیا.مگر جب حالت نازک ہو گئی اور میں چلنے پھرنے بلکہ اٹھنے بیٹھنے تک سے معذور ہو گیا تو اس مقدس ڈیوٹی سے بھی محروم ہو گیا.یہی وہ سخت اور شدید بیماری تھی جس کا ذکر میں اپنے ابتدائی حالات کے دوران میں کر چکا ہوں.اور جن کو موقر اخبار الحکام نے شائع کر دیا تھا.جو مجھے موت کے منہ تک لے جا چکی تھی.زندگی کی کوئی رمق باقی نظر نہ آتی تھی.اور موت میرے سر پر منڈلاتی دکھائی دے رہی تھی.آخر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تو جہات اور دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مردے کو زندہ کرنے کا معجزہ دکھایا.دنیا گواہ ہے.اپنے اور بیگانے سبھی جانتے ہیں کہ : حضور پر نور کو مہمانوں سے کس قدر محبت تھی اور حضور کتنا چاہتے تھے کہ آئے ہوئے مہمان جلد واپس نہ جائیں.بلکہ جس قدر زیادہ ممکن ہوٹھہر میں اور صحبت میں رہیں.-1 -۲ حضور کو کتنی خواہش اور تڑپ تھی کہ لوگ آئیں، حضور کی صحبت سے فیض پائیں.خدا کی باتیں سنیں اور تازہ نشان دیکھیں اور اس غرض کے لئے حضور نے ایک دعوت عام دے رکھی تھی.اخراجات سفر.اوقات کے حر جانے.اخراجات طعام و قیام کے برداشت کرنے کا اعلان بھی کر رکھا تھا.اور یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی صحت نیت اخلاص اور صاف دلی سے ہماری صحبت میں چالیس دن ٹھہرے تو ضرور وہ خدا کا زندہ نشان اور ہماری صداقت کی تازہ شہادت پائے گا.اگر نہ پائے تو وہ خدا کے حضور بری الذمہ.حضور کے مکانات صحن اور کمرے کوٹھڑیاں کس قدرصحابہ وخدام اور ان کے بیوی بچوں سے بھری رہتی تھیں اور کوئی کو نہ بھی خالی دکھائی نہ دیا کرتا تھا.گھر کے اندر گنجائش نہ رہتی تو کرایہ کے مکان مہیا فرماتے.اور ان کی ضروریات پورے تعہد والتزام کے ساتھ وہیں پہنچانے کا انتظام فرماتے.القصہ یہی وہ غرض تھی اور یہی مقصود جس کے لئے حضور پُر نور نے نور دین سے محبت کی.اس کو گھر میں رکھا اور اپنے قریب کیا.جس سے اس کے نور میں جلا پیدا ہوئی.وہ عرفان میں بڑھا اور آخر کار اس منبع نور میں غوطہ لگا کر فنافی النور اور نورعلی نور

Page 217

۲۰۲ ہو گیا اور پھر کبھی آپ سے جدا نہ ہوا.عبد کریم کو اپنا یا، نوازا اور مقام کریم پر اس کو جگہ دی.تا مادی، سفلی اور نیچر یا نہ خیالات سے آزاد، خالی اور یک سو ہو کر اپنی قیافہ شناس نظر اور دور بین نگاہوں سے اس نور الہی ، مظہر خدا اور حق نما وجود کے ظاہر و باطن اور حال وقال کا قریب ہو کر مشاہدہ کرے اور شاہد ناطق بنے.وعلی ھذا اپنوں کو بھی اور بیگانوں کو بھی، مسافروں کو بھی اور مہمانوں کو بھی کبھی اپنی خدا نما صحبت میں رکھنا چاہتے، کبھی اپنی خلوت اہلی اور پرائیویٹ زندگی اور کبھی اپنی جلوت، مجلسی اور پبلک زندگی کے حالات کے دیکھنے کے مواقع مہیا فرماتے رہتے.اپنی معاشرت کے پہلوؤں پر غور کرنے اور اپنے مختلف اخلاق پر نظر عمیق ڈال کر حقیقت حال تک پہنچنے کے سامان بہم پہنچاتے تھے کیونکہ آپ کا وجود حقیقتا خودی و دوئی سے دور ایک آلہ خدا نمائی تھا اور رضا اپنے پورے جلال کے ساتھ حضور پرنور پر سایہ الگن اور جلو ہ کناں تھا آں خدائے کہ از و خلق جہاں بے خبراند برمن او جلوه نمود است گر املی بپذیر ہمارا یہ پہرہ بھی حقیقتا اسی خدا نمائی کی کوششوں کی ایک کڑی تھی.جس کے ذریعے بیسیوں نو جوانوں کو حضور کے کمالات روحانی واخلاقی اور حضور کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی روشنی میں تعلق باللہ اور زندہ اور گناہ سوز ایمان کے حصول کی سعادت نصیب ہوئی ورنہ وہ نور خدا جو ٹھیک وقت پر آسمان سے اترا اور خدا کی وہ آخری راہ جو خدا سے خلق خدا کو ملانے کے لئے پیدا کی گئی اس کا نہ صرف خدا حافظ تھا بلکہ خدا نے اس کے وجود کو دنیا و مافیہا کی حفاظت کا موجب اور ایک تعویذ بنا کر بھیجا تھا اس کو ہم کمزور نو جوان ناتجربہ کار بچوں کی حفاظت اور پہرہ کی کیا ضرورت؟ حقیقت یہی ہے کہ حضور نے خدا نمائی کی مختلف راہوں کو اختیار کیا اور کوئی طریق نہ چھوڑا کہ دنیا محروم رہے.اپنوں کو قریب اور قریب سے قریب تر کیا.بیگانوں کو بھی بلایا اور پر زور دعوتیں دیں.اور اپنی طرف سے حق نمائی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.یہ سبھی کچھ کیا تا خلق خدا قریب سے قریب ہو کر خدائی نور اور قدرت و جلال.خدا کا تازہ کلام اور اس کے زندہ نشان دیکھے.اور زندہ ایمان حاصل کر سکے.جس کے بعد گناہ کی زندگی پر ابدی موت آتی اور انسان حیات نو پا کر يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً :

Page 218

٢٠٣ کا مورد ہو کر اپنے خدا میں گم ہو جاتا اور مقام رضا حاصل کر کے ابدی زندگی کا وارث بن جاتا ہے.اللهم صلى على محمد وعلى خلفاء محمد وبارک وسلم انک حمید مجید.از ما و جملہ جہاں امین باد ۵۲ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۳ را پریل ۱۹۰۳ء کو در بارشام میں فرمایا : ایک جانور آج کل کے موسم میں شام کے بعد مسجد مبارک کے شہ نشین احباب پر حملہ کیا کرتا ہے.اس کے متعلق فرمایا کہ کوئی ایسی تدبیر کی جاوے کہ ایک دفعہ یہ اس جگہ پکڑا جاوے.پھر ہم اسے چھوڑ ہی دیں گے.مگر ایک دفعہ پکڑا جانے سے اتنا ضرور ہو گا کہ پھر وہ کبھی آئندہ اس جگہ اس طرح حملہ کرنے کا ارادہ نہ کرے گا.ہر جانور کا یہ قاعدہ اور اس کے اندر یہ خاصیت ہے کہ جس جگہ سے اسے ایک دفعہ ٹھو کرلگتی ہے اور ( وہ ) مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے.اس جگہ کا پھر وہ کبھی قصد نہیں کرتا.“ گویا واقعہ لیکھر ام کے بعد قریب کے عرصہ کا واقعہ چند کے حملے کا ہے اور چغد کے حملے کئی سال تک ہوتے رہے.مدرسہ تعلیم الاسلام کا اجراء ١٠ - مدرس ۵۳ حضرت بھائی جی کے اس مضمون مندرجہ الحکم بابت ۷ ۱۴ار جون ۱۹۳۸ء میں آپ سے استفسارات کر کے خطوط وحدانی میں اضافہ کیا گیا ہے.(مؤلف) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ معلوم کر کے صدمہ ہوا کہ مقامی آریہ سکول میں مسلمان طلبہ کو گمراہ کرنے کے لئے اسلام پر اعتراض کئے جاتے ہیں.سو حضور نے اپنا مدرسہ جاری کرنے کا ارادہ فرمایا.اور ۵ارستمبر ۱۸۹۷ء کو اشتہار کے ذریعہ اور پھر جلسہ سالانہ پر چندہ کی تحریک فرمائی چنانچہ ۱۸۹۸ء کی ابتداء میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا اجراء عمل میں آیا.بھائی جی بیان کرتے ہیں کہ : آریہ مڈل سکول کے مدرسوں کے تعصب اور تنگ نظری سے تنگ آکر جب ہمارے بچوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا.اور وہ ہر وقت گندے اعتراضات ، دل آزار حرکات اور توہین آمیز سلوک نہ برداشت کر سکے تو حضرت اقدس کے حضور شکایت پہنچی.حضور نے تو کلاً علی اللہ دعا واستخارہ اور مشورہ کے بعد اپنا سکول کھولے جانے کا فیصلہ فرما دیا.سکول کے باقاعدہ کھلنے سے (ہفتہ عشرہ) قبل ہی میں نے ادھر ادھر سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھیر سنبھال کر بٹھانا اور پڑھانا شروع کر دیا تھا اور جو جس لائق ہوتا اس کی لیاقت

Page 219

۲۰۴ کے مطابق ہی دوسری یا تیسری جماعت اس کو پڑھانا شروع کر دیتا.اور اسطرح گویا اپنے سکول کا سب سے پہلا استاد یا ماسٹر میں بنا.سکول نے باقاعدگی اختیار کی.بڑے لڑکے بھی پڑھنے لگے.تو بڑے بڑے ماسٹر بھی آگئے ( اور میں بھی ان کے ساتھ سالہا سال تک بطور مدرس کام کرتا رہا.یہ ابتدائی مدرسہ موجودہ دفتر بیت المال والی جگہ تھا جو کہ مسجد مبارک کے مغرب کی طرف اور مسجد مبارک سے مسجد اقصیٰ کو جانے والے راستہ کے جنوب کی طرف ملحق ہے اس وقت یہ کچا مکان تھا اور مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ کی ملکیت تھا.اب یہ امر میرے علم میں نہیں کہ ان سے مدرسہ کے لئے کیونکر حاصل ہو گیا تھا.) بوقت طبع دوم کتاب ہذا دفتر بیت المال کی جگہ دفتر محاسب ہے.) (مؤلف) ۱۱- جلسہ اعظم مذاہب لاہور حضرت بھائی جی نے ذیل کا انمول مضمون تقسیم ملک سے پہلے خود خاکسار کو دیا تھا کہ اسکی نقل کر کے رکھ لوں.اور نقل کی تصحیح کر کے اور قدرے اضافہ کر کے اس پر اپنے دستخط بھی ثبت فرمائے تھے.غالباً " بعد تقسیم ملک آپ کی طرف سے یہ کسی اخبار میں شائع ہو گیا تھا.(مؤلف) -1 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر جلسہ اعظم ، مذاہب لاہور یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا.اللہ اکبر خربت خیبر‘ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جوش تبلیغ اور اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے لگن اور دھن کی کیفیت کا بیان انسانی طاقت سے باہر ہے.اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ - حضور کا منصب و کام ہی خداوند عالم نے اسلام کو تمام دوسرے مذاہب پر غالب کر دکھا نا مقرر فرمایا ہے اور جن خواص کو یہ خدمات تفویض ہوا کرتی ہیں ان کے لئے بلغ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ - کا حکم الہی ہمیشہ قائم ہوتا ہے.حضور پُر نور نے حق تبلیغ کی ادائیگی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور نہ ہی کوئی

Page 220

۲۰۵ فروگذاشت کی.دن کیا رات حضور کو یہی فکر رہتی اور حضور کوئی موقع تبلیغ کا ہاتھ سے جانے نہ دیا کرتے.اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، خلوت میں اور جلوت میں.الغرض ہر حال میں اسی فکر اور اسی دھن میں رہتے.چنانچہ حضور پر نور کے سوانح کا ہر ورق اور حیات طیبہ کا ہرلمحہ بزبان حال میرے اس بیان کا گواہ اور شاہد عادل ہے.لمبے مطالعہ اور حضور کی تصنیف کی گہرائیوں کو الگ رکھ کر اگر حضور کے صرف ایک دو ورقہ اشتہار پر ہی به نیت انصاف ، تعصب سے الگ ہو کر نظر ڈالی جائے جو حضور نے 9 ستمبر ۱۸۹۰ء کو شائع فرمایا تو یقیناً میرے اس بیان کی تصدیق کرنا پڑے گی.اور حضور کی اس بچی تڑپ اور خلوص نیت ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ بھی ہر رنگ میں آپ کی غیر معمولی تائید و نصرت فرماتا.اور غیب سے سامان مہیا فرما دیا کرتا اور حضور خدا کے اس فضل و احسان کا اکثر تحدیث نعمت کے طور پر یوں ذکر فر ما دیا کرتے کہ خدا کا کتنا فضل واحسان ہے کہ ادھر ہمارے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے یا کوئی ضرورت پیش آتی ہے اور ادھر اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرنے کے سامان مہیا کر دیتا ہے.“ ۱۸۹۶ء کے نصف دوم کا زمانہ تھا کہ اچانک ایک اجنبی انسان سادھو منش بھگوے کپڑوں میں ملبوس، شوگن چندر نام وارددار الامان ہوا.اور جلد ہی ہماری مجالس کا ایک بے تکلف رکن نظر آنے لگا.ایک آدھ دن سیدنا حضرت حکیم الامت مولانا مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں شریک ہوا.تو دوسرے ہی روز وہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دربار شام اور صبح کی سیر میں شامل ہو کر حضور کی خاص توجہات کا مورد بن گیا.کیونکہ وہ شخص اپنے آپ کو حق کا متلاشی اور صداقت کا طالب ظاہر کرتا ہوا اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لئے آسمانی پانی کی تلاش میں دور ونزدیک، قریہ بہ قریہ بلکہ کو بکو سرگرا دں پھرتا ہوا قادیان کی مقدس بستی میں اپنے مدعا و مقصود کے حصول کی امید لے کر آیا اور کچھ لے کر ہی لوٹنے کی نیت سے پہنچا تھا اور اس کی نیک نیتی ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ با وجود بالکل غیر ہونے کے بہت جلدا پنا لیا گیا.وہ صرف سادھو تھا جو بھگوے کپڑوں میں اپنا فقر و حاجات چھپائے تھا اور نہ ہی کوئی ایسا سوالی ، جس کو دام و درہم کی ضرورت اور روپیہ پیسے کا لالچ قادیان میں تقسیم ہوتے خزائن کی خبریں یہاں کھینچ لائی ہوں بلکہ وہ واقعہ میں متلاشی حق اور طالب صداقت تھا.ورنہ خدا کا برگزیدہ مسیح الزمان جس کی فراست کامل جو ہر شناس تھی اور جو خدا کے عطا فرمودہ نور سے دیکھا کرتا تھا یوں اس کی طرف ملتفت نہ ہو جاتا.شوگن چندر ایک تعلیم یافتہ اور معقول انسان تھا جو گورنمنٹ میں کسی اچھے عہدہ پر فائز تھا.بعض

Page 221

۲۰۶ حوادث نے دنیا کی بے ثباتی کا ایک نہ مٹنے والا خیال اس کے دل و دماغ پر مستولی کر دیا.اس کی بیوی اور بچے بلکہ خویش واقارب تک اس سے جدا ہو گئے اور وہ یکہ و تنہا رہ گیا.دل و دماغ میں پیدا شدہ تحریک نے اندر ہی اندر پرورش پائی.ذاتی چیزوں کے اثرات نے اس کے خیالات کی رو کارخ کسی غیر فانی اور قائم بالذات ہستی کی تلاش کی طرف پھیر دیا.جس سے متاثر ہو کر اس نے ملازمت چھوڑ کر ترک دنیا اور تلاش حق کا عزم کر لیا.اور سادھو بن کر جا بجا گھومنے اور ڈھونڈ نے میں مصروف ہو گیا.نہ معلوم کتنا عرصہ پھرا اور کہاں کہاں گیا.اور اس نے کیا کچھ دیکھا اور سنا جس کے بعد اس کو کسی نے ہمارے آقا و مولا، ہادی وراہ نمائے زمان کا پتہ دیا.اور قادیان کی نشان دہی کی جس پر وہ صدق دلانہ اخلاص وعقیدت سے پہنچ کر حصول مقصد و مدعا کی کوشش میں مصروف ہو گیا.حضور کی صحبت میں رہ کر وہ فیوض پانے لگا.اور ہوتے ہوتے ایسا گرویدہ ہوا کہ اس کی ساری خوشی تسلی و اطمینان حضور کی صحبت اور کلمات طیبات سے وابستہ ہو گئے.جس کی وجہ سے وہ یہیں تک جانے پر آمادہ ہو گیا.مگر اللہ تعالیٰ کو اس کے ذریعے اپنا ایک نشان ظاہر کرنا منظور اور ایک کرشمہ قدرت دکھانا مطلوب تھا.جس کے لئے اس ذات بابرکات نے اتنے تغیرات کئے اور ذرات عالم پر خاص تصرفات فرمائے اور اس شخص کو قادیان پہنچایا.جو کبھی لالہ پھر مسٹر اور باوا آخر سوامی شوگن چندر کے نام سے موسوم ہوا.-۴ مہمان نوازی کا خلق شیوہ انبیاء ہے اور حضور پر نور کو اس خلق میں کمال حاصل تھا.اس کے ساتھ ہی ساتھ حسن سلوک اور احسان و مروت میں حضور اپنی مثال صرف آپ ہی تھے.تالیف قلوب کے وصف عظیم کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی خلق کا جذ بہ حضور میں بے نظیر وعدیم المثال تھا اور ان تمام خصائل حسنہ اور فضائل کے علاوہ حق وصداقت اور علم و حکمت کے خزائن حضور کے ساتھ تھے جو حضور کے تعلق باللہ اور مقبول بارگاہ ہونے کی دلیل تھے اور ان حقائق کے ساتھ ہی ساتھ خدا سے ہم کلامی کا شرف اور قبولیت دعا کے نمونے ایسی نعماء تھیں جن سے کوئی بھی نیک فطرت اور پاک طینت متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا.اور در حقیقت یہی وہ چیزیں ہیں جن کو نا واقف دنیا نے جادو اور سحر کے نام لے کر حضور پر نور سے دنیا جہان کو دور رکھنے کی نا کام سعی کی ہے...سوامی شوگن چندر بھی ان کرامات کا شکار ہوئے اور جس چیز کی ان کو تلاش تھی.اور دنیا میں وہ چیز ان کو کہیں بھی نہ ملی تھی آخر خدا کی خاص حکمت کے ماتحت ان کو قادیان میں وہ کچھ مل گیا جن کی انہیں جستجو تھی اور وہ کچھ انہوں نے یہاں دیکھا جو دنیا جہان میں انہوں نے نہ دیکھا تھا نہ سنا.وہ خوش تھے اپنی خوش بختی پر کہ ان کو جس چیز کی خواہش اور تلاش تھی آخر خدا نے عطا کر دی.مگر ہمارے

Page 222

۲۰۷ آقائے نامدار اس سے بھی کہیں زیادہ خوش تھے.خدا کے اس فضل پر کہ اس نے حضور کی ایک دلی خواہش کے پورا فرمانے کے لئے سوامی شوگن چندر کا وجود پیدا فرما دیا ہے.-۵ دیرینہ خواہش تھی کہ مذاہب عالم کی ایک کانفرنس ہو جس میں حضور کو قرآن شریف کے فضائل و کمالات اور معجزات و محاسن اسلام بیان کرنے کا موقع ملے.ہر ایک مذہب کا نمائندہ اپنے مذہب کی خوبیاں بیاں کرے تا اس میدان مقابلہ میں اعلاء کلمتہ اللہ ہو.اسلام کی برتری اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اظہار ہو...سو حضور کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اللہ کریم نے سوامی صاحب کو قادیان پہنچایا.جنہوں نے حضور کی اس تجویز کو حق و باطل میں امتیاز کا حقیقی ذریعہ و سچی کسوٹی یقین کر کے اس کے انعقاد کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور پھر ہمہ تن سعی بن کر اس کام میں لگ گئے.ہندو اور پھر گیروے لباس کی وجہ سے بھی اور علم و تجربہ کے باعث بھی ان کو ہندوؤں کے ہر خیال اور ہر طبقہ میں رسوخ میسر آتا گیا.اور ان کی تجویز پر غور کیا جانے لگا.اور اس کام کے لئے ایک حرکت پیدا ہوگئی.مرکزی ہدایت.صلاح اور مشورے ان کے لئے پیش آمدہ مشکلات کا حل بنتے اور اس بیل کے منڈھے چڑھ جانے کی خاطر ان کی ہر رنگ میں مدد اور حوصلہ افزائی کی جاتی رہی.کبھی وہ خود بطریق احتیاط قادیان آتے اور کبھی خاص پیامبروں کے ذریعہ ان کی ضروریات کا انتظام کیا جاتا رہا اور اس طرح ہوتے ہوتے مطلوبہ کا نفرنس کے قیام کی جھلک نظر آنے لگی.حضور پر نور کی راہنمائی میں ایک ڈھانچہ تیار کیا گیا.اور کام کرنے والے آدمیوں اور اخراجات کے کثیر حصہ کا انتظام حضرت اقدس کی طرف سے دیکھ کر اس ڈھانچہ میں زندگی کے آثار بھی نمودار ہو گئے اور اس طرح سوامی شوگن چندر صاحب نے گویا حضور کی اس دینی خواہش کے پورا کرنے میں ایک غیبی فرشتہ کا کام کیا.- آخر خدا خدا کر کے بڑی مشکل گھاٹیوں کو عبور کرنے اور بے آب و گیاہ جنگلوں کو طے کرنے کے بعد اس جلسہ یعنی جلسہ اعظم مذاہب کے انعقاد کی تاریخوں کا بھی اعلان ہو گیا.جو ۲۶ لغایت ۲۸ / دسمبر ۱۸۹۶ء مقرر ہوئیں.اور ٹاؤن ہال لاہور میں اس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا.ایک کمیٹی معززین اور رؤساء کی جس میں علم دوست اصحاب شامل تھے.ترتیب پا چکی تو اس اطلاع پر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اتنی خوشی ہوئی جیسے دنیا جہان کی بادشاہت کسی کو مل جائے.تب حضور نے اس جلسہ کے واسطے مضمون لکھنے کا ارادہ فرمایا مگر مصلحت الہی سے حضور کی طبیعت ناساز ہوگئی اور یہ سلسلہ کچھ لمبا بھی ہوگیا مگر چونکہ جلسہ کی تاریخیں قریب تھیں اور اندیشہ تھا کہ مضمون رہ ہی نہ جائے.حضور نے بحالت بیماری

Page 223

۲۰۸ و تکلیف ہی مضمون لکھنا شروع فرما دیا.اور چونکہ حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم مغفور رضی اللہ تعالی عنہ ان ایام میں کسی ضرورت کے ماتحت سیالکوٹ جاکر بیمار ہو گئے.اور ان کی بیماری کی اطلاعات سے اندیشہ تھا کہ وہ جلسہ پر نہ پہنچ سکیں گے اس پر بھی سوچ بچار اور مشورہ کے بعد فیصلہ ہوا کہ حضور کا مضمون خواجہ کمال الدین صاحب پڑھیں چنانچہ اس فیصلہ کے ماتحت یہ تجویز کی گئی کہ (الف) حضور کا مضمون جسے محترم حضرت منشی جلال الدین صاحب نقل کرتے تھے.کتابت کے طریق پر لکھا جائے تا کہ خواجہ صاحب کو پڑھنے میں دقت نہ ہو.اور حضرت پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی کے سپرد یہ کام کیا گیا.مگر حضور پُر نور کے پھر بیمار ہونے کی وجہ سے جب مضمون کی تیاری میں وقفہ پڑ گیا تو دو اصحاب نے مل کر اس کو مکمل کیا.(ب) اس مضمون میں جس قدر آیات قرآنی احادیث یا عربی آیات آئیں وہ علیحدہ خوشخط لکھوا کر خواجہ صاحب کو اچھی طرح سے رٹا دی جائیں تا کہ جلسہ میں پڑھتے وقت کسی قسم کی غلطی یار کا وٹ مضمون کو -L بے لطف و بے اثر ہی نہ بنا دے.حضور پر نور کا یہ مضمون خوشخط لکھا ہوا صبح کی سیر میں لفظاً لفظاً سنایا جایا کرتا تھا.اور حضور کی عام عادت بھی یہی تھی کہ جو بھی کتاب تصنیف فرمایا کرتے یا اشتہار ورسائل لکھا کرتے ان کے مضامین کو مجلس میں بار بار دھرایا کرتے تھے.اتنا کہ باقاعدہ حاضر رہنے والے خدام کو وہ مضامین عموماً ازبر ہو جایا کرتے تھے.ان ایام کی سیر عموما صبح قادیان کے شمال کی جانب موضع بڑ کی طرف ہوا کرتی تھی اور اس مضمون کے سننے کی غرض سے قادیان میں موجود اصحاب و مہمان قریباً تمام ہی شوق اور خوشی سے شریک سیسر ہوا کرتے جن کی تعداد تخمیناً ہیں یا پچیس تک ہوا کرتی تھی.مضمون کے بعض حصوں کی تشریح بھی حضور چلتے چلتے فرماتے جایا کرتے تھے.یہ تحریر و تقریر نئے نئے نکات عجیب در عجیب معارف اور ایمان افروز حقائق و دلائل کی حامل ہوا کرتی تھی.ان دنوں کی سیر صبح میں جس کے لئے حضور باوجود بیماری اور ضعف کے نکلا کرتے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی کے بعض جاسوس بھی حضور کے اس مضمون کو سن کر ان کو رپورٹ پہنچایا کرتے تھے.چنانچہ حضور کے مضمون کی اکثر آیات جن کو حضور نے موقع ومحل پر موتیوں کی لڑی کی طرح سجا کر ان سے استنباط فرماتے ہیں مولوی صاحب نے اپنے مضمون میں یکجا جمع کر دی ہیں جن کا وہاں ربط ہے نہ موقع محل اور جوڑ.-^ جناب خواجہ کمال الدین صاحب مضمون کو پڑھا کرتے.پڑھنے کے طریقوں کی مشق کیا کرتے

Page 224

۲۰۹ اور انکی کوشش ہوا کرتی کہ پڑھنے کے طریق و بیان میں کوئی جدت پیدا کریں.جس سے سامعین زیادہ سے زیادہ متاثر ہوسکیں.آیات قرآنی احادیث یا عربی الفاظ وفقرات کو از برکرنے کی کوشش کیا کرتے.قدرت نے خواجہ صاحب کو جہاں اردو خوانی میں خاص ملکہ دیا تھا وہاں آیات قرآنی کی تلاوت میں باوجود کوشش کے بہت کچھ خامی پائی جاتی تھی.جسے خواجہ صاحب محنت وشوق کے باوجود پورا کرنے سے قاصر تھے.مزید برآں انہی ایام میں بعض ان کے ہمراز دوستوں کی زبانی معلوم ہوا کہ دراصل خواجہ صاحب کو مضمون کی بلند پائیگی ، کمال و نفاست اور عمدگی کے متعلق بھی شکوک تھے جن کا اثر ان کے طرز اداو بیان پر پڑنا لازمی تھا.اور عجب نہیں کہ یہ بات سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک بھی جا پہنچی ہو.جلسہ سے چند ہی روز قبل اللہ تعالیٰ نے حضور کو الہاماً اس مضمون کے متعلق بشارت دی کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا.اور اس کی مقبولیت دلوں میں گھر کر جائے گی اور یہ کہ یہ امر بطور ایک نشان صداقت ہو گا.چنانچہ حضور پر نور نے ۲۱ / دسمبر ۱۸۹۶ء کو ایک اشتہار بعنوان ” سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری لکھ کر کا تب کے حوالہ کیا اور مجھ نا چیز کو یا فرما کر یہ اعزاز بخشا اور فرمایا کہ ”میاں عبدالرحمن ! اس اشتہار کو چھپوا کر خود لاہور لے جاؤ.اور خواجہ صاحب کو ( جو کہ ایک ہی روز پہلے انتظامات جلسہ کے لئے لاہور بھیجے گئے تھے ) پہنچا کر ہماری طرف سے تاکید کر دینا کہ اس کی خوب اشاعت کریں.ضرورت ہو تو وہیں اور چھپوا لیں.ہماری طرف سے ان کو خوب اچھی طرح تاکید کرنا کیونکہ وہ بعض اوقات ڈر جایا کرتے ہیں.بار بار اور زور سے یہ پیغام پہنچا دینا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں.لوگوں کی مخالفت کا خیال اس کام میں ہرگز روک نہ بنے.یہ انسانی کام نہیں کہ کسی کے روکے رک جائے گا.بلکہ خدا کا کام ہے جو بہر حال پورا ہوکر رہے گا.“ - 1+ اشتہار قریباً آدھی رات کو تیار ہوا اور میں اسی وقت لے کر پیدل بٹالہ کو روانہ ہو گیا.۲۲ / دسمبر ۱۸۹۶ء کی دو پہر کے قریب لاہور پہنچا.جناب خواجہ صاحب اس زمانہ میں لا ہور کی مشہور مسجد مسجد وزیر خاں کے عقب کی ایک تنگ سی گلی میں رہا کرتے تھے جہاں میں ان کو تلاش کر کے جاملا اور اشتہارات کا بنڈل اور حضور کا حکم کھول کھول کر سنا دیا بلکہ بار بار دہرا بھی دیا.خواجہ صاحب نے بنڈل اشتہارات کو کھولا اور مضمون اشتہار پڑھا اور میں نے دیکھا کہ چہرہ ان کا بجائے بشاش اور خوش ہونے کے افسردہ واد اس سا ہو گیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے.

Page 225

۲۱۰ میاں ! حضرت کو کیا علم کہ ہمیں یہاں کن مشکلات کا سامنا ہورہا ہے اور مخالفت کا کتناز ور ہے.ان حالات میں اگر یہ اشتہار شائع کیا گیا تو یہ تو ایک تو وہ بارود میں چنگاری کا کام دے گا اور عجب نہیں کہ نفس جلسہ کا انعقاد ہی ناممکن ہو جائے.موقع پر موجودگی اور حالات کی پیچیدگی سے آخر ہم پر بھی کوئی ذمہ داری آتی ہے.اچھا جو خدا کرائے انشاء اللہ کریں گے.آخر بہت سوچ بچار صلاح مشوروں اور اونچ نیچ، اتار چڑھاؤ کی دیکھ بھال کے بعد دوسری یا تیسری رات کے اندھیروں میں بعض غیر معروف مقامات پر چند اشتہار چسپاں کرائے جن کا عدم ووجود یکساں تھا کیونکہ غیر معروف مقامات کے علاوہ وہ اشتہار اتنے اونچے لگائے گئے تھے کہ اول تو کوئی دیکھے ہی نہیں اور اگر دیکھ پائے تو پڑھ ہی نہ سکے.11- میں نے دیکھا اور سنا بھی کہ سیدنا حضرت اقدس کے اصل مضمون کا جو حصہ خواجہ صاحب قادیان سے اپنے ساتھ لاہور لاتے تھے اس کا مطالعہ اور آیات قرآنی کی تلاوت کی مشق کا سلسلہ بھی جاری تھا خواجہ صاحب کے لاہور چلے آنے کے بعد جو جو حصہ مضمون تیار ہوتا جاتا اس کی نقل ان کو لاہور تک پہنچائی جاتی رہی اور یہ سلسلہ ۲۵ دسمبر ۱۸۹۶ء کی شام تک جاری رہا.یا شاید ۲۶؍ دسمبر کی رات تک بھی.۱۲ جلسہ خدا کے فضل سے ہوا.بہتر جگہ اور بہتر انتظام کے ماتحت ہوا.اور واقعی سخت مخالفتوں کے طوفان اور مشکلات کی کٹھن اور خطرناک گھاٹیوں کو عبور کرنے کے بعد ہوا.بڑی بڑی روکیں کھڑی کی گئیں.طرح طرح کے حیلے اور بار یک دربار یک چالیں چلی گئیں.مگر بالاخر ہنود و یہود اور ان کے معاون و مددگاروں کا خیبری قلعہ ٹوٹا اور بعینہ وہی ہوا جس کا نقشہ الہام الہی الله اكبر خَرِبَتْ خَيْبَرُ میں بیان ہوا تھا.دشمنوں نے ٹاؤن ہال نہ لینے دیا.تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی بہتر سامان کر دیا.اور اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ دروازہ کی وسیع اور دو منزلہ عمارت لمبے چوڑے صحن ، بڑے بڑے کمروں.ہال کمرہ وگیلریوں کو ملا کر ایک بڑی عظیم الشان عمارت جو ایک بڑے اجتماع کے لئے کافی اور موزوں تھی خدا نے دلا دی.۲۶ / دسمبر کا روز جلسہ کا پہلا دن تھا.حاضری حوصلہ افزا نہ تھی.سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے مضمون کے لئے ۲۷ / دسمبر کا دن اور ڈیڑھ بجے دوپہر کا وقت مقرر تھا.خدا کی قدرت کا کرشمہ اور اس کے خاص فضل کا نتیجہ تھا کہ حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب وفور عشق و محبت سے بے تاب ہو کر والہانہ رنگ میں وقت سے پہلے لاہور پہنچ گئے.جن کی تشریف آوری سے ہم لوگوں کے لئے خاص تسکین اور خوشی کے سامان اللہ تعالیٰ نے بہم پہنچا دیئے.۱۳- حالات کی ناموافقت ، جوش مخالفت اور قسم قسم کی مشکلات نیز وقت کی ناموزونیت کے

Page 226

۲۱۱ باعث خطرہ تھا اور فکر دامن گیر تھا کہ جلسہ شاید حسب دلخواه با رونق نہ ہو سکے گا.مگرشان ایزدی که خلق خدایوں کبھی چلی آرہی تھی کہ جیسے فرشتوں کی فوج دھکیلے لا رہی ہو.اور ان کی تحریک کا اتنا گہرا اثر ہوا جس سے مخلوق کے دل بدل گئے اور ان کے قلوب میں بجائے عداوت ونفرت کے عشق و محبت بھر گئی.مخالفوں کی مخالفت نے کھا د کا کام دیا اور روکنے اور مخالفت کرنے والوں کے غوغا نے لوگوں کی توجہ کو اس طرف پھیر دیا.لوگ کشاں کشاں تیز قدم ہو ہو کر جلسہ گاہ کی طرف بڑھے اور ہوتے ہوتے آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ صحن اور اس کے تمام بغلی کمرے اور ہال بھر گیا.اوپر کی گیلریوں میں تل دھر نے کو جگہ نہ رہی اور ہجوم اس قدم بڑھا کہ گنجائش نکالنے کو سمٹنا اور سکٹر نا پڑا.دسمبر کی تعطیلات کی وجہ سے جابجا جلسے کانفرنسیں اور میٹنگیں ہورہی تھیں.لوگوں کی مصروفیات ، ان کے دنیوی کاموں میں انہماک اور مادی فوائد کے حصول کی مساعی کی موجودگی میں ایک خالص مذہبی جلسہ اور کانفرنس میں اس کثرت ہجوم کو دیکھنے والا ہر کس و ناکس اس منظر سے متاثر ہو کر اس حاضری و کامیابی کو غیر معمولی، خاص اور خدائی تحریک و تصرف کا نتیجہ کہنے پر مجبور تھا اور نہ کسی ہندو کو اس سے انکار تھا، نہ ہی سکھ اور آریہ سماجی کو.نہ مسلمان کو اس سے اختلاف تھا.عیسائی، یہودی یا دیو سماجی کو بلکہ ہر فرقہ وطبقہ کے لوگ آج کے اس خارق عادت جذب اور بے نظیر کشش سے متاثر اور دل ان کے سچ سچ مرعوب ہو کر نرم تھے.دیکھنے اور سننے میں فرق ہوتا ہے.اس تقریب کی تصویر الفاظ میں ممکن نہیں.مختصر یہ کہ وہ اجتماع اپنے ماحول کے باعث یقینا عظیم الشان بے نظیر اور لاریب غیر معمولی تھا.۱۴.مضمون کا شروع ہونا تھا کہ لوگ بے اختیار جھومنے لگے اور ان کی زبانوں پر بے ساختہ سبحان اللہ اور سبحان اللہ کے کلمات جاری ہو گئے.سنا ہوا تھا کہ علم توجہ اور مسمریزم کے ساتھ ایک معمول سے تو یہ کچھ ممکن ہوتا ہے مگر ہزاروں کے ایک ایسے مجمع پر جس میں مختلف قومی عقائد اور خیال کے لوگ جمع تھے.اس کیفیت کا پیدا ہو جانا یقیناً خارق عادت اور معجزانہ تاثیر کا نتیجہ تھا.یہ درست ہے کہ حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب کو قرآن کریم سے ایک عشق تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی آواز میں بھی لحن داؤدی کی جھلک پیدا کر رکھی تھی.نیز وہ ان آیات و مضامین کے ربط اور حقائق سے متاثر ہو کر جس رفت سوز اور جوش سے تلاوت فرماتے ، آپ کا وہ پڑھنا آپ کی قلبی کیفیات اور لذت وسرور کے ساتھ مل کر سامعین کو متاثر کئے بغیر نہ رہتا تھا.مگر اس مجلس کی کیفیت بالکل ہی نرالی تھی.اور کچھ ایسا سماں بندھا کہ اول تا آخر آیات قرآنی کیا اور ان کی تشریح و تفسیر کیا ، سارا ہی مضمون کچھ ایسا فصیح و بلیغ ، مؤثر اور دلچسپ تھا کہ نہ مولانا

Page 227

۲۱۲ موصوف کے لہجہ میں فرق آیا نہ جوش ولذت ہی پھیکے پڑے.معارف میں فراوانی کے ساتھ عبارت کی سلاست وروانی اور مضمون کی خوبی و ثقاہت نے حاضرین کو ایسا از خود رفتہ بنا دیا جیسے کوئی مسحور ہو.میں نے کانوں سنا کہ ہندو اور سکھ بلکہ کٹر آریہ سماجی اور عیسائی تک بے ساختہ سبحان اللہ سبحان اللہ پکار رہے تھے.ہزاروں انسانوں کا یہ مجمع اس طرح بے حس و حرکت بیٹھا تھا جیسے کوئی بہت بے جان ہوں اور ان کے سروں پر اگر پرندے بھی آن بیٹھتے تو تعجب کی بات نہ تھی.مضمون میں روحانی کیفیت دلوں پر حاوی تھی.اور اس کے پڑھنے کی گونج کے سوا سانس تک لینے کی آواز نہ آتی تھی.حتی کہ قدرت خداوندی سے اس وقت جانور تک خاموش تھے.اور مضمون کے مقناطیسی اثر میں کوئی خارجی آواز رخنہ انداز نہیں ہو رہی تھی.کم و بیش متواتر دو گھنٹے یہی کیفیت رہی.افسوس کہ میں اس کیفیت کے اظہار کے قابل نہیں.کاش میں اس لائق ہوتا کہ جو کچھ میں نے دیکھا اور سنا اس کے عکس کا عشر عشیر ہی بیان کر سکتا.جس سے اس علمی معجزہ ونشان کی عظمت دنیا پر واضح ہو کر خلق خدا کے کان حق کے سننے کو اور دل اس کے قبول کرنے کو آمادہ وتیار ہوتے جس سے دنیا جہان کے گناہ معاصی اور غفلتیں دور ہو کر ہزاروں انسان قبول حق کی تو فیق پاتے.۱۵.ساڑھے تین بج گئے.وقت ختم ہو گیا.جس کی وجہ سے چند منٹ کے لئے اس پر لذت وسرور کیفیت میں وقفہ ہوا.اگلا نصف گھنٹہ مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی کے مضمون کے لئے تھا انہوں نے جلدی سے کھڑے ہوکر پبلک کے اس تقاضا کو کہ ” یہی مضمون جاری رکھا جائے.‘ نیز کسی اور کی جگہ اسی مضمون کو وقت دیا جائے.اس مضمون کو مکمل اور پورا کیا جائے.‘ اپنا وقت دے کر پورا کر دیا بلکہ اعلان کیا کہ ” میں اپنا وقت اور اپنی خواہش اس قیمتی مضمون پر قربان کرتا ہوں.‘“ چنانچہ پھر وہی پیاری مرغوب اور دلکش و دل نشین داستان شروع ہوئی.اور پھر وہی سماں بندھ گیا.چار بج گئے مگر مضمون ابھی باقی تھا اور پیاس لوگوں کی بجائے کم ہونے کے بڑھی جارہی تھی.سامعین کے اصرار اور خود منتظمین کی دلچسپی کی وجہ سے مضمون پڑھا جاتا رہا حتی کے ساڑھے پانچ بجے گئے.رات کے اندھیرے نے اپنی سیاہ چادر پھیلانی شروع کر دی اور اس طرح مجبوراً یہ نہایت ہی میٹھی اور پر معرفت اور مسرت بخش مجلس اختتام کو پہنچی اور بقیہ مضمون ۲۹ / دسمبر کے لئے ملتوی کیا گیا.کوئی دل نہ تھا جو اس لذت وسرور کو محسوس نہ کرتا ہو.کوئی زبان نہ تھی جو اس کی خوبی و برتری کا اقرار واعتراف نہ کرتی اور اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان نہ تھی.ہر کوئی اپنے حال اور قال سے

Page 228

۲۱۳ اقرار و اعتراف کر رہا تھا کہ واقعی یہ مضمون سب پر غالب رہا.اور اپنی بلندی لطافت اور خوبی کے باعث اس جلسہ کی زینت وروح رواں ہے اور جلسہ کی کامیابی کا ضامن ہے.نہ صرف یہی بلکہ ہم نے اپنے کانوں سنا اور آنکھوں دیکھا کہ کئی ہندو اور سکھ صاحبان مسلمانوں کو گلے لگا لگا کر کہہ رہے تھے کہ اگر یہی قرآن کی تعلیم اور یہی اسلام ہے جو آج مرزا صاحب نے بیان فرمایا ہے تو ہم لوگ آج نہیں تو کل اس کو قبول کرنے پر مجبور ہوں گے.اور اگر مرزا صاحب کے اس قسم کے ایک دو اور مضمون سنائے گئے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام ہی ہمارا مذہب ہوگا.“ -17 ۱۶- آج کا جلسہ ۲۷ / دسمبر برخاست ہو گیا.لوگ گھروں کو جارہے تھے.جلسہ گاہ کے دروازہ پر میں نے دیکھا کہ اس کے دونوں طرف دو آدمی کھڑے سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا وہی اشتہار تقسیم کر رہے تھے جو حضور پر نور نے میرے ہاتھ خاص تاکیدی احکام کے ساتھ بھجوایا تھا تا کہ معروف مقامات پر چسپاں کیا جائے.اور جلسہ سے پہلے ہی پہلے کثرت سے شائع کیا جائے.بلکہ یہ بھی تاکید تھی کہ یہ تھوڑا ہے.ضرورت کے مطابق لاہور ہی میں اور طبع کرالیا جائے تاکہ قبل از وقت اشاعت سے اس خدائی نشان کی عظمت کا اظہار ہو.جس سے سعید روحیں قبول حق کے لئے تیار ہوں مگر ہوا یہ کہ خواجہ کمال الدین صاحب کے خوف کھانے کی وجہ سے پہلے دنیا جہان نے خدائی نشان کی عظمت کا مشاہدہ کیا اور اس کے غلبہ کا اقرار واعتراف اور بعد میں ان کو وہ اشتہار پہنچایا گیا جو کئی روز قبل چھاپا اور اچھی طرح شائع کرنے کو بھیجا گیا تھا.چنانچہ جب سید نا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کو خواجہ صاحب کی اس کمزوری وکوتا ہی کا علم ہوا تو حضور پر نور بہت خفا ہوئے اور کئی دن تک...جب بھی اس نشان الہی کا ذکر ہوا کرتا یا بیر ونجات سے اس کامیابی کے متعلق رپورٹیں ملتیں.ساتھ ہی خواجہ صاحب کی اس کمزوری پر اظہار سننے میں آیا کرتا تھا.مضمون کی قبولیت اور پبلک کے اصرار و تقاضا سے متاثر ہو کر منیجنگ کمیٹی کا اجلاس خاص منعقد ہوا.اور اس میں یہ قرارداد پاس کی گئی کہ حضرت مرزا صاحب کے مضمون کی تکمیل کے لئے مجلس اپنے پروگرام میں ایک دن بڑھا کر ۲۹ دسمبر کا چوتھا دن شامل کرتی ہے.حضور کے مضمون کی غیر معمولی قبولیت غیروں کو کب بھاتی تھی ؟ مولوی محمد عبد اللہ صاحب نے ایزاد کی وقت کی اس خصوصیت اور اہمیت کو کم کرنے کے لئے کوشش کر کے اپنے لئے بھی وقت بڑھائے جانے کی کوشش کی.چنانچہ نصف گھنٹہ ان کے لئے بھی بڑھا دیا گیا.مگر دوسرے روز خود تشریف ہی نہ لائے اور اپنا

Page 229

۲۱۴ -12 وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے لئے وقف کر دیا.جس کی وجہ سے ظاہر ہے عیاں راچہ بیاں.مگر خدا کی شان حاضری اتنی حوصلہ شکن تھی کہ جلسہ گاہ کے بھر جانے کے انتظار ہی انتظار میں وقت گذرنے لگا.نہ مجلس کل کی طرح پُر رونق ہو نہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کھڑے ہوں.آخر بہت انتظار کے باوجود جب وہ خواہش پوری ہوتی نظر نہ آئی تو بادل ناخواستہ مجبوراً کھڑے ہوئے اور جو کچھ لکھا تھا پڑھ دیا.اور زیادہ وقت لینے کے باوجود نہ خود خوش ہوئے نہ پبلک نے کوئی داد دی.- ۲۹ دسمبر کی صبح کو ساڑھے نو بجے کا روائی جلسہ شروع ہونے والی تھی.دسمبر کا اخیر، سردی کی شدت اور وقت اتنا سویرے کا تھا کہ لوگ ضرورت سے فراغت پاسکیں تو در کنار اتنی سویرے تو عام طور پر شہروں کے لوگ جاگنے کی عادی نہیں ہوتے.فکر تھی ، اندیشہ تھا کہ شاید حاضری بہت ہی کم رہے گی.اور اس طرح آج وہ لطف شاید نصیب نہ ہوگا.مگر خدا کے کام اپنے اندر ایک غیر معمولی جذب اور مقناطیسی کشش رکھتے ہیں جسے کوئی طاقت روک ہی نہیں سکتی.انسان اگر غفلت اور ستی دکھا ئیں تو وہ فرشتوں سے کام لیتا ہے.چنانچہ سویرے ہی سویرے ٹھٹھرے ہوئے اور سردی سے سمٹتے اور سکٹر تے ہوئے خلق خدا جھنڈ کے جھنڈ اور جوق در جوق اس کثرت اور تیزی سے آئی کہ ستائیس کی دو پہر بعد کا نظارہ بھی مات پڑ گیا.اور جلسہ نہایت شوکت اور عظمت اور خیر و خوبی سے جاری ساری اور پھر نہایت کامیابی وکامرانی سے اختتام پذیر ہوا.اور اس طرح حضور پر نور کا مضمون دنیا و جہان پر علی رغم انوف الاعداء اپنے غلبہ، خوبی ، کامیابی ،اور عظمت و حقانیت کا سکہ بٹھا کر علمی دنیا کے لئے ہمیشہ قائم رہنے والا نشان بن کر آسمان دنیا پر سورج اور چاند کی طرح چمکنے لگا.دوست تو در کنار دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے.اپنے اور بیگانے ، پبلک اور منتظمین غرض ہر شعبہ میں اسی مضمون کا چرچا اور زبانوں پر حق جاری تھا.اخبارات نے مقالے لکھے اور اس صداقت کا اقرار و اعتراف کیا.منتظمہ کمیٹی نے اپنی طرف سے اس اقرار کور پورٹ متعلقہ میں درج کر کے اظہار حقیقت کیا.سچ ہے چڑھے چاند چھپے نہیں رہ سکتے.اور اس کا انکار بیوقوفی اور شب کوری کی دلیل ہوتا ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اپنے مقدس و مقبول بندے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جو کچھ فرما دیا تھا وہ ہوکر رہا.خدا کی بات پوری ہوئی اور دنیا کی کوئی طاقت، کوئی تدبیر، کوئی مکر اور حیلہ خدائی کلام کے پورا ہونے میں روک نہ بن سکا.-IA رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب شائع ہوئی.اور منتظمہ کمیٹی جس کے اراکین ہر مذہب وملت کے ممبر اور اپنے طبقہ کے ذمہ دار لوگ تھے، کی طرف سے اس کے خرچ وصرف سے شائع ہوئی.تمام وہ

Page 230

۲۱۵ مضامین جو اس جلسہ میں پڑھے گئے یا اس کے واسطے لکھے گئے.اس میں من وعن درج کئے گئے تا کہ دنیا اس مذہبی دنگل اور میدان مقابلہ میں آنے والے سبھی کو یکجا دیکھ کر غور اور فیصلہ کر سکے.نیز حق و باطل میں تمیز کر سکے.مگر حقیقت یہ ہے کہ تا یہ امور قرآن کریم کی عظمت اسلام کی حقانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خدا کے مقرب و مقبول بندے اور اس کے بلائے بولنے والے اور اس کے بچے نبی ورسول ہونے کے لئے بطور شاہد قائم دائم رہیں.حضور پرنور کا یہی وہ مضمون ہے جو اردو میں اسلامی اصول کی فلاسفی کے نام سے اور انگریزی میں ٹیچنگز آف اسلام کے سرنامہ و عنوان کے ماتحت بار ہا ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوکر دنیا جہان کی روحانی لذت وسرور کے سامان اور ہدایت کے راستہ آسان کرتا اور نہ صرف یہی بلکہ دنیا کی کئی اور زبانوں میں بھی چھپ کر شائع ہوتا چلا آ رہا ہے.۱۹- یہ رپورٹ شائع ہوئی اور خدا کی خدائی گواہ ہے کہ ہزار ہا انسانوں نے جو کچھ جلسہ میں دیکھا اور سنا تھا وہی کچھ رپورٹ میں درج ہوا.وہی مضامین جو نمائندگان مذہب نے لکھے اور سنائے اور پھر انہوں نے اصل یا نقل منتظمہ کمیٹی کے حوالے کئے ٹھیک ٹھیک اور باکل وہی اور بعینہ طبع ہوئے تھے ،مگر کیا کہا جائے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اور ان کی عقل و دانش کو کہ انہوں نے رپورٹ کی اشاعت پر یہ واویلا شروع کر دیا کہ ان کے نام سے جو مضمون اس میں طبع کر دیا گیا ہے وہ درحقیقت ان کا ہے ہی نہیں.مولوی صاحب کی غرض و غایت اس الزام تراشی سے ظاہر ہے کہ مقابلہ میں شکست کی ذلت کو جو چھپانا تھی.حالانکہ ان کی یہ حرکت عذر گناہ بدتر از گناہ اور اپنے ہاتھوں اپنی خاک اڑانے کے مترادف تھی.یہ امر تنتظمین سے پوشیدہ نہ تھا.منتظمین نے مولوی صاحب کے اس واویلا اور غوغا کو درخوراعتناء ہی نہ سمجھا.اس طرح مولوی صاحب کی پردہ داری کی بجائے اور بھی زیادہ پردہ دری ہوتی.ورنہ اگر حقیقت یہی تھی جس کا ان کو گلہ تھا تو کیوں نہ اپنا اصل مضمون شائع کر کے منتظمین کے اس فریب اور دھو کہ کو الم نشرح کر دکھایا.ع بریں عقل و دانش بباید گریست -۲۰ سوا می شوگن چند ر صاحب جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان نشان صداقت کے اظہار کے سامان پیدا کئے.جلسہ کی تمام تر کاروائی کے دوران میں اور پھر رپورٹ کی اشاعت تک تو ملتے ملاتے اور آتے جاتے رہے پھر نہ معلوم وہ کیا ہوئے اور کہاں چلے گئے.گویا خدائی قدرت کا ہاتھ انہیں

Page 231

۲۱۶ اس خدمت کی غرض سے قادیان لایا تھا اور پھر پہلے کی طرح غائب ہو گئے.حضرت منشی جلال الدین صاحب بلا نوی اور حضرت پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی رضوان اللہ علیہم دونوں بزرگوں کے ہاتھ کا نقل کردہ حضرت اقدس کا وہ مضمون جن پر سے حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے اس جلسہ میں پڑھ کر سنایا تھا.آج تک میرے پاس محفوظ ہے.مگر چونکہ اس مقدس اور قیمتی امانت کی حفاظت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوں لہذا قومی امانت سمجھ کر اس کو سید نا قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ عالی مقام مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ ، ربہ کے سپرد کرتا ہوں.جو ایسے کاموں کے احق اور اہل ہیں تا کہ قائم ہونے والے قومی میوزیم میں رکھ کر اس کو آنے والی نسلوں کے ایمان وایقان کی مضبوطی و زیادتی اور عرفان میں ترقی کا ذریعہ بنا سکیں.فقط عبدالرحمن قادیانی ۲۰ جولائی ۱۹۴۲ء * بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ مکرم و محترم مہتہ شیخ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سلمکم اللہ تعالیٰ السلام عليكم و رحمة الله وبرکاته به تعمیل ارشاد روایات متعلقہ جلسہ مہوتسو رجسٹر نمبر ۱۱۴ صفحه ۱۷۸ کتب خانه صدرانجمن احمد یہ نقل کر کے حاضر خدمت ہیں.اصل کا غذات متعلقہ مورخہ ۲ /جنوری ۱۹۴۶ء کو اضافہ بوقت طبع دوم) الفضل جلد ۳ نمبر ۳۷ بابت ۶ ستمبر ۱۹۱۵ء میں ویر عنوان ” خبریں“ یہ خبر درج ہے: سوامی شوگن چندر جی اچار یہ جو ایک تعلیم یافتہ سادھو تھے.بڑے قابل ،صوفی منش، بے تعصب اور علم دوست ، افسوس کہ ۷اراگست کو دہلی میں بعمر ۶۷ (ستاسٹھ ) سال انتقال کر گئے.دھرم مہوتسو والا مشہور و معروف مضمون ”اسلام کی فلاسفی (یعنی اسلامی اصول کی فلاسفی.ناقل ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہی کی استدعا پر لکھا تھا جو خدا کے فضل سے دیگر مضامین کے مقابلہ میں سب سے زیادہ مکمل، موثر مقبول و غالب رہا.“ طبع اول میں اس مضمون کو غیر مطبوعہ بتایا گیا ہے جو سہو تھا.دراصل حضرت بھائی جی نے یہ مضمون تقسیم ملک سے پہلے نقل کر کے رکھ لینے کے لئے خاکسار کو دیا تھا اور بعد تقسیم ملک اسے شائع فرما دیا.

Page 232

۲۱۷ ریل گاڑی میں گم ہو گئے ہیں.۱۵ جلسه مہوتسو سوا می شوگن چندر کے اشتہار جو ( محمد الدین ۴۶-۶-۲۳ ) بمقام لاہور منعقد ہوا تھا.سوا می شوگن چندر رسالہ فوجی میں ہیڈ کلرک تھا اور منشی ( مرزا) جلال الدین صاحب ( کا) ہمنشیں اور صحبت یافتہ تھا.منشی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے عیال واطفال فوت ہو گئے اس لئے نوکری چھوڑ کر فقیر بن گیا.۱۶ جلسہ کا مضمون ( اسلامی اصول کی فلاسفی ) پڑھے جانے سے پہلے مخفی رکھا گیا تھا.حضرت صاحب نے منشی جلال الدین صاحب کو اس کی کاپی لکھنے پر مامور فرمایا.اور فرمایا کہ منشی صاحب کا خط ما فقر ہوتا ہے اس لئے آپ ہی اس کو لکھیں.چنانچہ منشی صاحب نے وہ مضمون اپنی قلم سے لکھا.۱۷.منشی صاحب فرماتے تھے کہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں نے اس مضمون کی سطر سطر پر دعا -12 کی ہے.۱۸.مضمون کے لکھے جانے اور پڑھے جانے کے وقت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار تھے اس لئے مضمون پڑھنے کے لئے خواجہ کمال الدین صاحب کو تیار کیا جار ہا تھا لیکن خواجہ صاحب انگریزی خواں تھے.قرآن شریف عربی لہجہ میں پڑھ نہ سکتے تھے.آخر وقت پر مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھ کر جلسہ پر لاہور میں سنایا.میں محمد دین جلسہ پر حاضر نہیں ہوسکا تھا.میرے حلقہ پٹوار میں ( تین چار حصہ میں تقسیم تھی ) چھ سات امسلمہ تقسیم زیر کار تھیں جن کی وجہ سے مجھے رخصت نہ مل سکی.اس لئے منشی جلال الدین صاحب حاضر ہوئے تھے.انہوں نے سنایا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید مجزانہ رنگ میں ہوئی.سردی کے موسم کے باوجود کسی شخص کو کھانسی یا چھینک نہ آئی.ہمہ تن گوش ہو کر لوگوں نے سنا.آخر سکھوں نے مسلمانوں کو جھا مار کر اٹھایا اور مبارکبادیں دیں.اور یہ کہا کہ ” جے کدے مرزا ایہو جیہا اک مضمون ہور دو.تاں مسلمان ہی ہونا پیو.“ (یعنی اگر مرزا ایسا ہی مضمون اور دیوے گا تو ہم کو مسلمان ہی ہونا پڑے گا ).نیز منشی صاحب نے فرمایا کہ جانو ریعنی پرندوں پر بھی الہی تصرف تھا کہ چڑیا تک کی بھی کوئی آواز سنائی نہ دی.محمد الدین ۴۶-۶-۲۳ حضرت صاحب نے اس مضمون کے متعلق ماہ اگست ۱۸۹۶ء یعنی جلسہ سے چار ماہ قبل

Page 233

۲۱۸ اشتہار دیا.خربت خیبر.بالا رائے.سب پر غالب آئے گا.الہامات شائع کئے.لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب نے تشہیر بعد میں کی جس پر حضرت صاحب ناراض ہوئے.۲۱ - اشتہار مذکور منشی جلال الدین نے اپنے ایک دوست اور ہمعصر سردار بہادر مردان علی خاں رسالدار میجر پنشنز رساله نمبر ۱۲ ساکن کو دیا.اور تبلیغ بھی کی.جب پیشگوئیوں کے وقوع اور مضمون کی کامیابی سردار مردان علی خاں نے پڑھی تو کہا.”ہن مرزے دی چڑھ بھی.“ کہ اب مرزا لوگوں پر اپنا غلبہ بڑھ چڑھ کر پیش کرے گا.اور لوگ حجت ملزمہ ) کے نام آگے سرنگون ہو جائیں گے.نقل مطابق اصل ہے ۲۶-۲۵-۶-۲۳ محمد الدین بقلم خود اشتہار تبلیغ حصہ پنچم صہ ۷۹-۷۷ کے حاشیہ میں سوا می شوگن چندر کے اشتہار کا ذکر ہے.جو غالباً اگست ۹۶ء میں سوامی صاحب نے مشتہر کیا تھا.۲۶ - ۲۲-۶-۴۵- محمد الدین ( یعنی ۱۳۲۵ھش.مؤلف ) ** -۱۲ عید قربان ۱۹۰۰ ء اور خطبہ الہامیہ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ساکن کو دیا.والا مقام اصل میں خالی ہو گا یا مؤلف ہذا سے پڑھا نہیں گیا ہو گا.مؤلف کو یاد نہیں.خطوط وحدانی کے الفاظ کا “ اور ” کی خاکسار مؤلف کی طرف سے ہیں.* یہ لفظ از خاکسار مؤلف ہے.حضرت اقدس نے ۲۱ دسمبر ۱۸۹۶ء کو جلسہ سے چند دن پہلے اشتہار دیا تھا ، نہ کہ چند ماہ پہلے.اس اشتہار میں سوامی جی کے اشتہار کا ذکر آتا ہے لیکن ان کے اشتہار کی تاریخ کا وہاں ذکر نہیں.اصل الفاظ الہامات کے لئے احباب اشتہار حضرت اقدس یا تذکرہ کی طرف رجوع فرمائیں.

Page 234

۲۱۹ ھوالناصر عید قربان ۱۹۰۰ ء اور خطبہ الہامیہ الحمد الله - الحمد الله - ثم الحمد الله الذي هدانا لهذا وما كنا لنهتدي لولا ان هدانا الله.لقد جاءت رسل ربنا بالحق.اللہ تعالیٰ کا خاص بلکہ خاص الخاص فضل ہے کہ مجھ نا کارہ نالائق کو لطف وکرم سے نوازا.اور سراسر احسان سے اٹھا کر اپنے برگزیدہ اور حبیب جری اللہ فی حلل الانبیاء کے قدموں میں لا ڈالا.۱۹۰۰ء کے مندرجہ عنوان نشان کے ظہور کے وقت بھی مجھ غلام کو حضوری کا شرف میسر تھا.اس طرح اس روز کے علمی معجزہ کو آنکھوں دیکھنے اور کانوں سننے کی سعادت نصیب ہوئی.و ذالک فضل الله علينا وعلى الناس ولكن اكثر الناس لايشكرون ۲.عید کے پہلے دن یعنی حج کے روز سید نا حضرت اقدس کی طرف سے چاشت کے وقت یہ اعلان کرایا گیا کہ قادیان میں موجود تمام دوستوں کے نام لکھ کر حضرت کے حضور پیش کئے جائیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محض فضل اور رحم سے یہ دن حضور پُر نور کے لئے دعاؤں کی قبولیت کے واسطے خاص فرما کر حضور کو اذن دیا تھا اور حضور خدا کے اس انعام میں اپنے خدام کو بھی شریک فرمانا چاہتے تھے ورنہ ۹۵ ء سے اس دن تک پانچ چھ سالہ فیض صحبت کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس دن کے سوا حضور کی طرف سے اس قسم کا اعلان پہلے کبھی ہوتا میں نے نہ دیکھا نہ سنا تھا.یوں تو دعاؤں کے لئے ہم لوگ اکثر لکھتے اور عرض کرتے رہا کرتے تھے اور بعض اصحاب حسب ضرورت وحاجت اکثر روزانه اور متواتر ہفتوں بھی حضرت کے حضور دعاؤں کی درخواستیں بھیجا کرتے تھے.حضور کی مجلس کے دوران میں بھی کبھی کبھی احباب التجاء دعا کرتے جس کے جواب میں عموما تو حضور فرمایا کرتے.انشاء اللہ دعا کروں گا یاد دلاتے رہیں.اور کئی بار ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ ادھر کسی نے دعا کے لئے عرض کیا ادھر حضور نے دست دعا اللہ تعالیٰ کے حضور بڑھا کر اس کے لئے دعا کر دی.جس میں حاضرین مجلس سبھی شریک ہو جایا کرتے.تحریری درخواست ہائے دعا کے جواب میں بعض دوستوں کو حضور خود دست مبارک سے جواب تحریراً بھی دیا کرتے تھے مگر اس یوم الج کے روز تو ضرور کوئی خاص ہی فضل الہیتھا جس میں حضور نے از راہ شفقت تمام خدام، احباب اور مہمانوں کو شامل کرنے کے لئے خاص طور سے اعلان کرایا تھا.

Page 235

۲۲۰ -٣ اس اعلان کا ہونا تھا کہ جہاں یکجائی فہرست میں ہر کسی نے دوسرے سے پہلے اپنا نام لکھانے کی کوشش کی.وہاں فرداً فرداً بھی رقعات اور عرائض بھیجنے کی سعی کی.ایک فہرست حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیر قیادت تیار ہوئی تھی.اور میرا خیال ہے کہ اسی طرح بعض دوستوں نے اور بھی دو ایک فہرستیں تیار کر کے اندر بھجوائی تھیں.کتنے رقعات اور عرائض فرداً فرداً حضرت کے حضور پہنچائے گئے ان کا حساب اللہ تعالیٰ کو ہے کیونکہ ہر شخص کی خواہش تھی کہ میرا عریضہ پہلے اور حضرت کے اپنے ہاتھ میں پہنچے.چنانچہ اس کوشش میں اس روز حضور کی ڈیوڑھی کیا اور مسجد مبارک کی طرف سے سیٹرھیاں کیا خدام سے اٹی رہیں اور بچوں اور خادمات نے بھی دوستوں کے عریضے اور خطوط پہنچانے میں جو احسان کیا وہ اپنی جگہ قابل رشک کام تھا.اس زمانہ میں عیدین کے موقعہ پر بھی دارالامان میں بیر ونجات سے آنے والے احباب کی وجہ سے خاص چہل پہل ہو جایا کرتی تھی اور جلسہ کا سارنگ معلوم دیا کرتا تھا.رقعات اور عرائض کا سلسلہ بہت زیادہ لمبا ہو گیا.اور بچوں اور خادمات کے بار بار جانے کی وجہ سے حضور کی توجہ الی اللہ میں خلل اور روک محسوس ہوئی تو حکم دیا گیا کہ اب کوئی رقعہ حضرت کے حضور نہ بھیجا جاوے.الغرض دن اونچا ہونے سے لے کر ظہر تک اور ظہر کے بعد سے عصر اور شام بلکہ عشاء کی نماز تک سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دروازے بند کئے دعاؤں میں مشغول اپنی جماعت کے لئے اللہ کے حضور التجائیں کرتے رہے اسلام کی فتح اور خدا کے نام کے جلال و جمال کے ظہور.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور احیاء وغلبہ اسلام کے لئے نہ جانے کس کس رنگ میں تنہا سوز وگداز سے دعائیں کرتے رہے.یہ امر دعائیں کرنے والے جانتے ہیں یا جس ذات سے التجائیں کی جائیں وہ جانتا ہے.لوگوں نے جو کچھ سنا وہ آگے سنا دیا.یا قیاس کر لیا ور نہ حقیقت یہی تھی کہ خدا کا برگزیدہ جانتا تھا یا پھر خود خدا جس سے وہ مقدس کچھ مانگ رہا تھا.-۴- دوسرا دن عید تھا.اللہ تعالیٰ نے کل کی دعاؤں کو سنا اور نوازا.اس روز کی تنہائی کے راز و نیاز کو قبول فرمایا.اور حضور کو بشارتیں دیں جن کے نتیجہ میں حضور کی طرف سے حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب و حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب اور بعض اور احباب خاص کو یہ ارشاد پہنچا کہ آج ہم کچھ بولیں گے اور عربی زبان میں تقریر کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عربی میں نطق کی خاص قوت عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے لہذا آپ لکھنے کا سامان لے کر مسجد میں چلیں.اس خبر سے قادیان بھر میں مسرت و انبساط کی

Page 236

۲۲۱ ایک لہر دوڑ گئی اور ہماری عید کو چار چاند لگ گئے.عید کے موقعہ پر اکثر شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم حضرت کے حضور نیا لباس پیش کیا کرتے تھے.اور مدت سے ان کا یہ طریق چلا آ رہا تھا.اس روز اس لباس کے پہننے میں کچھ تاخیر ہوگئی.یا سید نا حضرت اقدس ہی خدا کے موعود فضل کے حصول کی سعی و کوشش میں ذرا جلد تشریف لے آئے.وہ لباس آج پہنچا نہ تھا اور حضور تیار ہو کر مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے رستے اتر کر مسجد اقصیٰ کو روانہ ہو لئے تھے.مسجد مبارک کی کوچہ بندی سے ایک یا دو قدم ہی حضور آگے بڑھے ہونگے کہ وہ لباس حضرت کے حضور پیش ہو گیا.اور حضور پر نور خلاف عادت شیخ صاحب کی دلجوئی کے لئے واپس الدار کولوٹے.اندرون بیت تشریف لے جا کر یہ لباس زیب تن فرمایا.اور پھر جلد ہی واپس مسجد اقصیٰ میں پہنچ کر حسب معمول مخدومنا حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں نماز عید ایک خاصے مجمع سمیت ادا فرمائی.مگر خطبہ عید حضرت اقدس نے خود دیا.-۵- سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خطبہ اردو میں پڑھا جس کے آخری حصہ میں خصوصیت سے جماعت کو باہم اتفاق اور اتحاد اور محبت و مودت پیدا کرنے کی نصائح فرمائیں اور پھر اس کے بعد حضور نے حضرات مولوی صاحبان کو خاص طور سے بیٹھ کر لکھنے کی تاکید کی اور فرمایا کہ اب جو کچھ میں بولوں گا وہ چونکہ ایک خاص خدائی عطا ہے لہذا اس کو توجہ سے لکھتے جائیں تا کہ محفوظ ہو جائے ورنہ بعد میں میں بھی نہ بتا سکوں گا کہ میں نے کیا بولا تھا.( ما حصل فرمان بالفاظ قادیانی) چنانچہ حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو دور بیٹھے ہوئے تھے اپنی جگہ سے اٹھے اور قریب آ کر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دائیں جانب حضرت مولانا مولوی عبدالکریم رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیٹھ گئے.حضور اقدس اس وقت اصل ابتدائی مسجد اقصی کے درمیانی دروازہ کے شمالی کو نہ میں ایک کرسی پر شرق رو تشریف کبیر فرما تھے اور حاضرین کا اکثر حصہ صحن مسجد میں.مکرمی محترم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور عاجز راقم بھی پنسل کاغذ لے کر لکھنے کو بیٹھے.کیونکہ مجھے خدا کے فضل سے حضور کی ڈائری نویسی کا از حد شوق تھا اور حضرت شیخ صاحب اپنے اخبار الحکم کے لئے لکھنے کے عادی ومشاق تھے پہلی تقریر یعنی خطبہ عید حضور نے کھڑے ہو کر فرمائی تھی جس کے بعد پیرانمبر ۵ میں بدر میں عرفانی کبیر“ کے الفاظ چھوٹے ہوئے ہیں اور ان کی جگہ نقطے ڈالے ہوئے ہیں.* وہاں یہ جو الفاظ ہیں ” ڈائری نویسی کا از حد شوق تھا.بدر میں از حد کی بجائے سہواً از خود درج ہے.

Page 237

۲۲۲ حضور کے لئے خاص طور سے ایک کرسی بچھائی گئی.اس پر حضور تشریف فرما ہوئے اور جب عرض کیا گیا کہ لکھنے والے حاضر و تیار ہیں تو حضور پر نور اسی کرسی پر بیٹھے گویا کسی دوسری دنیا میں چلے گئے معلوم دینے لگے حضور کی نیم وا چشمان مبارک بند تھیں.اور چہرہ مبارک کچھ اس طرح منور معلوم دیتا تھا کہ انورا الہیہ نے ڈھانپ کر اتنا روشن اور نورانی کر دیا تھا کہ جس پر نگہ ٹک بھی نہ سکتی تھی.اور پیشانی مبارک سے اتنی تیز شعاعیں نکل رہی تھیں کہ دیکھنے والی آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں.حضور نے گونہ دھیمی مگر دلکش اور سریلی آواز میں جو کچھ بدلی ہوئی معلوم ہوتی تھی.فرمایا يا عباد الله فكروا في يومكم هذا يوم الاضحى فانه اودع اسراراً لأولى النهى.لکھنے والے لکھنے لگے جن میں خود میں بھی ایک تھا مگر چند ہی فقرے اور شاید وہ بھی درست نہ لکھے گئے تھے لکھنے کے بعد چھوڑ کر حضور کے چہرہ مبارک کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھا اس تبتل وانقطاع کے نظارہ اور سریلی دلوں کے اندر گھس کر کایا پلٹ دینے والی پر کیف آواز کے لطف اٹھانے لگ گیا.تھوڑی دیر بعد حضرت شیخ صاحب بھی لکھنا چھوڑ کر اس خدا ئی نشان اور کرشمہ قدرت کا لطف اٹھانے میں مصروف ہو گئے لکھتے رہے تو اب صرف حضرت مولوی صاحبان دونوں جن کو خاص حکم تھا کہ وہ لکھیں.لکھنے میں پنسلیں استعمال کی جارہی تھیں.جو جلد جلد گھس جاتی تھیں جب ایک گھس جاتی تو دوسری اور پھر تیسری بدل بدل کر لکھا جاتا تھا.مجھے یاد ہے کہ پنسل تراشنے اور بنا بنا کر دینے کا کام بعض دوست بڑے شوق و محبت سے کر رہے تھے.مگر نام ان میں سے مجھے کسی بھی دوست کا یاد نہ رہا تھا.ایک روز اس مقدس خطبہ الہامیہ کے ذکر کے دوران میں مکرم ومحترم حضرت مولانا مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے بتایا کہ وہ بھی اس عید اور خطبہ الہامیہ کے نزول کے وقت موجود تھے اور لکھنے والوں کو پنسلیں بنا کر دیتے رہے تھے.بعض اوقات حضرت مولوی صاحبان کو لکھتے میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے یا کسی لفظ کے سمجھ نہ آنے کے باعث یا الفاظ کے حروف مثلا الف اور عین ، صادوسین یا تاء اور ط وت وغیرہ وغیرہ کے متعلق دریافت کی ضرورت ہوتی.تو دریافت کرنے پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عجیب کیفیت ہوتی تھی اور حضور یوں بتاتے تھے جیسے کوئی نیند سے بیدار ہو کر یا کسی دوسرے عالم سے واپس آکر بتائے.اور وہ دریافت کردہ لفظ یا حرف بتانے کے بعد پھر وہی حالت طاری ہو جاتی تھی.اور انقطاع کا یہ عالم تھا کہ ہم لوگ یہ محسوس کرتے تھے کہ حضور کا جسد اطہر صرف یہاں ہے روح حضور پر نور کی عالم بالا میں -2

Page 238

۲۲۳ پہنچ کر وہاں سے پڑھ یا سن کر بول رہی تھی.زبان مبارک چلتی تو حضور ہی کی معلوم دیتی تھی مگر کیفیت کچھ ایسی تھی کہ بے اختیار ہو کر کسی کے چلائے چلتی ہو.یہ سماں اور حالت بیاں کرنا مشکل ہے.انقطاع تبتل ، ر بودگی یا حالت مجذوبیت و بے خودی و وارفتگی اور محویت نامہ وغیرہ الفاظ میں سے شاید کوئی لفظ حضور کی اس حالت کے اظہار کے لئے موزوں ہو سکے.ورنہ اصل کیفیت ایک ایسا روحانی تغیر تھا جو کم از کم میری قوت بیان سے تو باہر ہے کیونکہ سارا ہی جسم مبارک حضور کا غیر معمولی حالت میں یوں معلوم دیتا تھا جیسے ذرہ ذرہ پر اس کے کوئی نہاں در نہاں اور غیر مرئی طاقت متصرف و قا بو یافتہ ہو.لکھنے والوں کی سہولت کے لئے حضور پر نور فقرات آہستہ آہستہ بولتے اور اکثر دہرا دہرا کر سناتے تھے.خطبہ الہامہ کے نام سے جو کتاب حضور نے شائع فرمائی یہ بہت بڑی ہے.۱۹۰۰ ء کی عید قربان کا وہ خاص خطبہ مطبوعہ کتاب کے ۳۸ صفحات تک ہے باقی حصہ حضور نے بعد میں شامل فرمایا.-^ یہ جلسہ اور مجلس ذکر لمبی ہوئی اور نماز کا وقت آگیا.کیونکہ حضور پر نور نے جب یہ خطبہ عربی ختم فرمایا تو دوستوں میں اس کے مضمون سے واقف ہونے کا اشتیاق اتنا بڑھا کہ حضور نے بھی آخر پسند فرمایا کہ حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب اس کا ترجمہ لوگوں کو سنا دیں.چنانچہ مولانا موصوف نے خوب مزے لے لے کر اس تمام خطبہ کا ترجمہ اردو میں اپنے خاص انداز اور لب ولہجہ میں سنا کر دوستوں کو محظوظ اور خوش وقت فرمایا اور یہ کیفیت بھی اپنے اندر ایک خاص لطف سرور اور لذت روحانی رکھتی ہے.اور ترجمہ ابھی غالباً پورا بھی نہ ہوا تھا کہ اچانک کسی خاص فقرہ سے متاثر ہوکر یا اللہ تعالیٰ کے خاص القاء کے ماتحت سید نا حضرت اقدس کرسی سے اٹھ کر سجدہ میں گر گئے.اور اسی طرح سارا مجمع تھوڑی دیر کے بعد حضور کے ساتھ خدائے بزرگ و برتر کے اس عظیم الشان نشان“ کے عطیہ کے لئے آستانہ الوہیت پر گر کر جبین نیاز ٹکائے اظہار تشکر و امتنان کرتا رہا.فالحمد لله ! الحمد لله ثم الحمد لله على ذلک.۹ - سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خواہش فرمائی کہ اس خدائی نشان کو لوگ یاد کرنے کی کوشش کریں.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں خطبہ الہامیہ کی اشاعت کے بعد بہت سے دوستوں نے اس کو یاد کرنا شروع کیا.بعض نے پورا یاد کر لیا تو بعض نے تھوڑا.مگر ان دنوں اکثر یہی شغل تھا اور ہر جگہ ہر مجلس میں اسی خطبہ یعنی خطبہ الہامیہ کے پڑھنے اور سننے سنانے کی مشق ہوا کرتی تھی.بعض روز شام کے دربار میں کوئی کوئی دوست بھری مجلس میں حضرت اقدس کے سامنے یاد کیا ہوا سنا یا بھی کرتے تھے اور اس طرح خدا کی اس نعمت کا چرچا رہتا تھا.میں نے بھی تین چار صفحات یاد کئے تھے.

Page 239

۲۲۴ - 1+ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود باجود دنیا جہان بلکہ ہفت اقالیم سے بھی کہیں بڑی نعمت، خدا کا خاص انعام اور فضل و احسان تھا.کیونکہ وہ خدا نما تھا جس کو دیکھتے ہی خدا کی عظمت و جلال کا کبھی نہ مٹنے والا اثر دل و دماغ پر ہوتا اور خدا کی خدائی پر یقین پیدا ہوا کرتا تھا.جس کی مجلس خدا کے تازہ بتازہ کلام سننے کا مقام اور اس کلام کو پورا ہوتے دیکھنے سے خدا کے کامل علم اور اس کی کامل قدرت پر یقین ہونے کی جگہ اور دلوں میں نور علم و عرفان بھرنے کا ذریعہ ہوا کرتی تھی.روح کی تازگی ایمان کی مضبوطی، قلوب کی صفائی اور اذہان کی جلا کے سامان اس مجلس میں جمع ہوا کرتے تھے.تزکیہ نفوس کے سامان اس میں ملتے اور محبت الہی کی آگ پیدا ہو کر دنیا کی محبت کو سرد کر دیا کرتی تھی.چنانچہ اس تازہ نشان نے بھی جماعت میں ایک روحانی تغیر پیدا کر دیا.اور سالکین کے لئے منازل ایقان وعرفان کو آسان کر دیا تھا.اور ایک خاص روحانی انقلاب کا یہ نشان الہی پیش خیمہ تھا.جس کی اہمیت گہرے غور وتدبر سے ہمیشہ نمایاں ہوتی رہے گی.عید کے روز حضور کے اس خطبہ یعنی خطبہ الہامیہ کے پڑھے جانے اور حضور پر نور کو نطق کی خاص طاقت وقوت عطا کئے جانے سے یوم الج کے روز کی دعاؤں کی قبولیت کا یقین گو یا مشاہدہ میں بدل گیا تھا.کیونکہ یہ دنوں چیزیں باہم بطور لازم وملزم کے تھیں.یہ عید اپنی بعض کیفیات کے لحاظ سے تاریخ سلسلہ کا ایک اہم ترین واقعہ اور ایک خاص باب ہے جس کی گہرائیوں میں جتنے بھی غوطے لگائے جائیں گے اتنے ہی زیادہ سے زیادہ قیمتی انمول اور بے مثال موتی ملیں گے.مبارک وہ جن کو ان کے حصول کی توفیق رفیق ہو.اور سلامتی ہوان پر جو ان کو حاصل کر کے خدمت سلسلہ اور خدمت خلق میں صرف کریں.اللهم صل على محمد و ال محمد و بارک وسلم انک حمید مجید عبد الرحمن قادیانی ۲۸ جولائی ۱۹۴۶ء ۱۳ داغ ہجرت کا الہام حضرت بھائی جی تحریر فرماتے ہیں: 66 امين امين ثم امين داغ ہجرت کا الہام بھی تو ہے.یہ وہ الفاظ ہیں جو میں نے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود

Page 240

۲۲۵ علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان مبارک سے بلا واسطہ، براہ راست سنے اور پچاس برس سے میرے دل ودماغ میں محفوظ و منقوش چلے آرہے ہیں.اور آج بھی جب میں عالم خیال میں اس مجلس میں ہوتا ہوں تو ان پاک کلمات کی گونج میرے کان محسوس کرنے لگتے ہیں.جب مقدمہ، دیوار والی دیوار کی وجہ سے جماعتی کاموں میں روک بڑھنے لگی مہمانوں کو مختلف قسم کی تکالیف کا سامنا ہوا.فرائض دینی کی ادائیگی میں مشکلات حائل ہوئیں.مقدمہ لمبا ہوتا گیا تو سیدنا حضرت اقدس صحیح پاک علیہ الف الف صلوۃ والسلام نے احباب سے مشورہ سے یہ تجویز فرمائی کہ ضلع کے حاکم اعلیٰ کے پاس ایک وفد بھیج کر اپنی مشکلات و تکالیف پیش کر کے ان کے ازالہ کی کوشش کی جائے.چنانچہ جماعت کے معزز احباب کی ایک فہرست مرتب کی گئی جس میں بڑے بڑے زمیندار تجار اور ملازمت پیشہ اصحاب شامل تھے.اور ان سب کو اطلاعات بھجوائی گئیں.تا کہ وہ وقت و تاریخ مقررہ پر پہنچنے کے لئے تیار ہوسکیں.حسن اتفاق سے صاحب ضلع کے دورہ کا اعلان ہوا.جس میں ایک یا دو دن کا مقام ہر چو وال متصل قادیان کے نہری بنگلہ پر مقرر تھا.علم ہونے پر حضور نے اس مقام پر وفد کے پیش ہونے کی تجویز کو پسند فرمایا.اطلاعات بھجوانے پر وفد کے احباب تاریخ مقررہ سے پہلے قادیان پہنچ گئے اور حضور سے ملاقات کی سعادت کے بعد ہدایات لے کر صاحب ڈپٹی کمشنر کی ملاقات کے لئے وفد بہ سر کردگی حضرت حافظ حاجی حکیم فضل الدین صاحب بھیروی سیکوں پر سوار ہو کر ہر چو وال کے نہری بنگلہ پر گیا.قافلہ کی ترجمانی کے لئے متفقہ طور پر محترم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر اخبار الحکم منتخب کئے گئے.جنہیں اس زمانہ میں عموما ایسی خدمات کی سرانجام دہی کا شرف میسر تھا.اور ضرورت کے وقت اعلیٰ احکام اور افسران پولیس وسول کو جماعتی و انفرادی معاملات کے سلجھانے اور بنانے بنوانے میں وہ اپنی مثال آپ ہی تھے.اور وہ گو یا وفد کی زبان تھے.وفد گیا اور غیر متوقع طور پر جلد لوٹ آیا جس کی وجہ سے اہالیان قادیان حیرت میں تھے.فوراً ہی سید نا حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور وفد کی واپسی کی اطلاع دی گئی اور حضور بہت جلد گول کمرہ میں تشریف فرما ہوئے.جہاں معزز ممبران وفد عرض حال کی غرض سے جمع تھے.میں وفد کے ساتھ نہ تھا.لہذا میں نے جو کچھ سنا اور دیکھا اس کا خلاصہ اور مفہوم یہ ہے کہ حضرت کے حضور عرض کیا گیا کہ ابھی ہم لوگ بنگلہ سے کافی فاصلہ پر تھے کہ صاحب بہادر نے دیکھ کر

Page 241

۲۲۶ بڑ بڑا نا شروع کر دیا.بہت کچھ بولا اور غیض وغضب کا مظاہرہ کیا.و تم لوگ ہم پر رعب ڈالنے آئے ہو.ہم تم کو خوب جانتے ہیں.تمہیں سیدھا کر دیا جائے گا.ابھی چلے جاؤ ورنہ گرفتار کر لئے جاؤ گئے.“ اور سپر نٹنڈنٹ پولیس کو جو ان کے ساتھ ہی دورہ پر تھا کہا کہ ان لوگوں کا انتظام ہونا چاہئے.یہ بہت دلیر ہو گئے ہیں وغیرہ وغیرہ.سید نا حضرت اقدس دستار مبارک کا شملہ دہن مبارک کے سامنے کئے یہ باتیں سنتے رہے.میں نے دیکھا کہ حضور کے رخ مبارک پر گہرے رنج کے آثار نمایاں ہو رہے تھے.افسوس کہ اس وقت کی کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں.ورنہ اس اداسی غم اور حزن کا جو نقشہ اور سماں میرے دماغ میں ہے وہ بہت زیادہ ہے.یہ سب کچھ حضور کو اپنی ذات کی وجہ سے نہ تھا.بلکہ مخلص.معزز اور پیارے مہمانوں کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ سے تھا.جو حضور کے حکم بلکہ اشارہ پر اپنے کاروبار کو چھوڑ کر لبیک کہتے ہوئے حاضر خدمت ہوئے تھے.مہمانوں کے ساتھ حضور اقدس کا حسن سلوک کوئی چھپی لکی بات نہیں.وفد کے بیانات سننے کے بعد میں نے دیکھا کہ لمحہ بھر کے لئے حضور پر نور کسی گہری سوچ میں خاموش رہے.اور پھر حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا: مولوی صاحب! اس صورت میں تو ہمارا کام رک جائے گا.کیونکہ جب ہمارے لئے امن ہی نہ ہوگا تو کام کیسے چلے گا.مہمانوں یا مذہبی تحقیق کرنے والوں کے واسطے آرام سہولت اور آزادی نہ رہی تو ہمارے ہاں آئے گا کون.کیونکہ ڈپٹی کمشنر کا ایسا رویہ ہمارے مخالفوں کو اور بھی دلیر بنا دے گا.پہلے ہی وہ ہمارے مہمانوں کو بات بات پر تنگ کرتے اور ٹوکتے رہتے ہیں.یہ تو اخلاص ہے ہمارے دوستوں کا کہ وہ مخالفوں کی بدخلقیوں اور تختیوں کو برداشت کر لیتے ہیں.اسی سلسلہ میں حضور نے ایک دلسوز اور رقت آمیز لہجہ میں فرمایا: مولوی صاحب ! داغ ہجرت کا الہام بھی تو ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لئے بھی ہجرت مقدر ہے.“ حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے ان کلمات طیبات کو سن کر حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور! بھیرہ میں ہمارے اپنے مکانات موجود ہیں.وہاں ہر طرح آرام اور سہولت رہے گی.اس طرح چوہدری حاکم علی صاحب نمبر دار چک پنیار ضلع گجرات نے بھی اپنے وطن کی پیشکش کی اور وہاں کی سہولتوں کا ذکر کیا.ایسے ہی غالباً کسی تیسرے مخلص دوست نے بھی پیش کش کی.

Page 242

۲۲۷ مگر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کسی قدرسکوت کے بعد فرمایا: اچھا جب اذن ہوگا“ اس تاریخی واقعہ پر آج نصف صدی سے زائد عرصہ گذرتا ہے جن اصحاب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے داغ ہجرت کا الہام سنا وہ اب غالبا چند ہی بزرگ زندہ ہوں گے.میر امنشاء اس تاریخی واقعہ کو بیان کرنے سے یہ ہے کہ یہ تفصیل بھی مستقل طور پر تاریخ سلسلہ میں محفوظ ہو جائے اور قادیان کے وہ احباب جن کو اس خدائی تقدیر کے ماتحت داغ ہجرت لگ چکا ہے وہ ہجرت کے اصل مقصد کو سمجھیں.بیشک الٹمی قانون من يهـا جـرفى سبيل الله يجد في الارض مراغما كثيرا وسعة ٤٢ کے ماتحت خدا تعالیٰ نے ایسے مہاجرین کے کئی قسم کی وسعت اور آرام عطا کیا ہے.لیکن ہجرت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ہمارے موعود خلیفہ اور امام کی غرض یہ نہ تھی.بلکہ اصل غرض اعلائے کلمتہ اللہ تھی.اور ان روکوں اور مشکلات کو اٹھا نا تھی جو اشاعت و ترقی دین کی راہ میں حائل تھیں.یا جن کے حائل ہونے کا امکان تھا.آئندہ اللہ تعالی زیادہ وسعتیں اور مراغماً کیثر أعطا فرمائے گا.لیکن یہ سبھی کچھ تبھی بابرکت ہوسکتا ہے جبکہ اصل غرض ہجرت یعنی اشاعت دین مدنظر رہے..اسلام کے دور اول میں انصار و مہاجرین کے اخلاص پر اللہ تعالیٰ نے رضى الله عنهم ورضواعنه کی مہر تصدیق ثبت کر دی تھی ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے.جنگ بدر کے لئے نکلتے وقت ایک انصاری نے کہا کہ یا رسول اللہ ! شاید حضور کا اشارہ اس معاہدہ کی طرف ہے جو حضور کی مدینہ میں تشریف آوری سے پہلے ہم نے کیا تھا.اس وقت ہم حضور کے مقام کو نہیں پہنچانتے تھے.یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی.آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی.اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آگے نہ بڑھے.میں بھی اس وقت کے انصار کی زبان بن کر یہ الفاظ دو ہرا تا ہوں کہ ” جب تک یہ الہی امانت ہمارے پاس رہی اور جہاں تک ہم ہے ہو سکا ہم نے خدمت کی.اب حکمت الہیہ کے ماتحت یہ امانت آپ کے سپرد ہے.نہ صرف سیدنا خلیفہ اسیح الثانی واصلح الموعود کی ذات ستودہ صفات بلکہ حضرت ام المؤمنین...نسل سیدہ خواتین مبارکہ اور جملہ افراد خاندان سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بھی اس امانت میں شامل ہیں اس کا حق ادا کرنا آپ لوگوں کے ذمہ ہے.پس دیکھنا اسے اپنی جانوں سے عزیز رکھنا اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا.“ (مختصراً آپ کا مضمون بدر جلدا

Page 243

۲۲۸ نمبر ا بابت ۷ مارچ ۱۹۵۲ء میں بھی درج ہے) ایڈیٹر بد رمحترم مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی اے نے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ایک مکتوب سے یہ اقتباس نقل کیا ہے: ” جب مرزا امام دین (صاحب) وغیرہ نے دیوار کھڑی کر دی تھی.اس وقت مقدمہ سے قبل اتفاقاً ڈپٹی کمشنر گورداسپور اور ڈی.ایس پی کا دورہ ہر چو وال میں ہوا.ان کا کیمپ نہر کو پار کر کے کوٹھی میں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک ڈیپوٹیشن ان کے پاس بھیجا.اس میں پچاس کے قریب احباب شریک تھے.حضرت حکیم فضل الدین صاحب عملاً امیر تھے.اور مجھ کو گفتگو کرنے کا ارشاد تھا.ان ایام میں حکام سے ملنے کا کام مجھ سے لیا جاتا تھا بوجہ اخبار نویس ہونے کے.( ہم ) بین الظہر والعصر وہاں گئے.اس وقت وہ اپنے کیمپ میں تھا.کوٹھی پر نہ تھا.دوسرے لوگ بھی جمع تھے.مگر وہ لوگ اہل معاملہ تھے جن کی تاریخیں تھیں.ہم سب اکٹھے ادھر کو بڑھے.میں حکیم فضل الدین، چوہدری حاکم علی صاحب اور بعض اور دوست آگے تھے باقی سب پیچھے تھے.ڈپٹی کمشنر صاحب کے قریب پہنچ کر ابھی میں نے یہ کہا تھا کہ ہم قادیان سے آئے ہیں اور کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں.اسے پہلے سے سب حالات معلوم تھے.اور دراصل یہ دیوار ایک سازشی تحریک تھی.جس میں حکومت کا ہاتھ پیچھے تھا.اس پر وہ سخت جوش میں آ کر غصہ سے بڑھا.اور کہا تم مجھ پر رعب ڈالنے آئے ہو.میں خوب جانتا ہوں.اور ابھی تمہارا انتظام کرنے والا ہوں.( میں یہ مفہوم لکھ رہا ہوں.عرفانی) اور (ڈپٹی ) سپرنٹنڈنٹ پولیس کو مخاطب کر کے کہا کہ ان لوگوں کا بندو بست کرنا چاہئے.اور بڑے جوش سے کہا: وو چلے جاؤ ورنہ گرفتار کر لئے جاؤ گے“ میں نے کہا.آپ جو ہم عرض کرنا چاہتے ہیں سن تو لیں.اس پر ( وہ ) غضبناک ہو گیا.اور ہم واپس آگئے.اور حضرت اقدس علیہ السلام سے سب قصہ کہہ دیا.آپ کو جماعت کی تکلیف کی وجہ سے تکلیف تھی.ڈپٹی کمشنر کی اس بے رخی پر افسوس ہوا.اس سلسلہ میں آپ نے اس خیال کا بھی اظہار فرمایا کہ ہم کو اگر یہاں پر امن سے کام نہ کرنے دیا جائیگا تو ہم کو تو کام کرنا ہے.( ہم کسی اور جگہ چلے جائیں گے.انبیاء کے لئے ہجرت بھی کرنی پڑتی ہے.اور ہمیں بہت عرصہ ہوا کہ ” داغ ہجرت‘ الہام ہوا تھا.شاید اس کا وقت آ گیا ہے.پھر ہجرت کے مقام پر بھی کچھ گفتگو ہوئی.مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ چوہدری حاکم علی صاحب نے اپنے گاؤں میں جانے کی تجویز کی تھی.بہر حال اس موقعہ پر داغ ہجرت کا ذکر ہوا تھا.

Page 244

۲۲۹ ڈپٹی کمشنر کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں.پچاس برس کا زمانہ گذر گیا ہے.“ محترم ایڈیٹر صاحب بدر کو حضرت منشی محمد دین صاحب ساکن کھاریاں ( درویش مقیم قادیان ) نے بھی یہ واقعہ بتایا اور بیان کیا کہ میں بھی اس وفد میں شامل تھا اور حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی بھی.-1 ۱۴ - سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ایک مردانہ ہمت عورت تیرہ کے عدد کو عام طور پر برا اور منحوس سمجھا جاتا ہے.مسلمانوں میں بھی تیرھویں صدی کے متعلق کچھ ایسی روایات اور حالات کا ذکر پایا جاتا ہے کہ ان کے خیال سے بھی دل کانپ اٹھتا ہے اور بدن پر رعشہ نمودار ہونے لگتا ہے.ان احوال کا تصور اتناز ہرہ گداز اور روح فرسا ہوتا ہے کہ خدا کے فضل کی امید اور اس کی تائید و نصرت کا سہارا نہ ہوتا تو روحانی دنیا کا تو گویا خاتمہ ہی تھا.تیرھویں صدی کا آخری نصف گویا خدا کی جگہ شیطان کی حکومت کا زمانہ اور کفر و شرک ، گناہ وفسق ، عیاری ومکاری اور روحانی فساد کا زمانہ تھا.دہریت کا غلبہ، مادیت کا زور، اور بے دینی کا چرچا تھا.شیطانی طاقتیں اپنے سارے لاؤ لشکر سمیت حق کو مٹانے ، روحانیت کو دبانے اور صداقت کو دفنا دینے پر تلی ہوئی تھیں.دجال کا ظہور ہو کر تسلط پاتا جارہا تھا.ہر جگہ اڈے قائم کر کے بندوں کو خدا سے پھیرنے کے سامان جمع کئے جاتے.مشن کھول کر دانہ بکھیر کر ایسے جال بچھائے جاتے کہ بھولے بھالے نوجوان آسانی سے ان کا شکار ہو کر متاع ایمان تک سے محروم ہو جاتے.ان کے پادری ان کے منادا اپنے رنگ میں کام کرتے تو عورتیں اپنے طریق پر.سکولوں میں ماسٹر تو ہسپتالوں میں ڈاکٹر کہیں نرسیں تو کہیں (nuns) تھیں.الغرض ہر سو چار دانگ عالم میں انہی کا شہرہ انہی کا چرچا اور انہی کا غلبہ نظر آتا تھا.کوئی شہر ان سے خالی تھانہ کوئی قصبہ باقی.بلکہ قریہ بہ قریہ اور یہ بہ د یہ یہ صیادا اپنے شکار کی تاک میں رہا کرتے.کہیں یہ شکار کے پیچھے کہیں شکار ان کے پیچھے پھرتے.کیونکہ دنیا کے کئی دکھوں کا درماں ان کے ہاں اور کئی بیماریوں کی دوا اس زمانہ میں انہی کے پاس ملا کرتی تھی.ڈنگہ نامی ایک چھوٹا سا قصبہ ضلع گجرات ( پنجاب ) میں واقعہ ہے.اکثریت مسلمانوں کی ہے جو عموماً زراعت پیشہ مزدوری پیشہ اور مفلوک الحال غربت زدہ لوگ تھے کیونکہ اس زمانہ میں اراضیات زیادہ تر بارانی و بنجر تھیں.نہر کا کوئی انتظام نہ تھا دوسرے بڑے بڑے شہروں اور قصبات و دیہات کی طرح یہ مقام بھی پوا در ومناد کی خاص تو جہات کا مرکز بنا ہوا تھا اور لوگ چونکہ اس دور کی تہذیب واخلاق اور تعلیم و مذاق

Page 245

۲۳۰ سے بے بہرہ اور کورے تھے.لہذا عیسائی مشن اور چرچ ان کو مہذب و با اخلاق بنانے ، زیور تعلیم سے آراستہ کر کے بامذاق بنانے کی غرض سے وہاں پہنچا.مشن قائم ہوا.سکول جاری کیا.ہسپتال کھولا.وعظ ونصیحت اور تبلیغ و وصیت کا سلسلہ جاری ہوا.ہوتے ہوتے اس کا سکہ جم گیا.کام چل نکلا.نو جوان طبقہ پر ڈورے ڈالے جانے لگے.کوئی دقیقہ حصول مقصد کا اٹھا نہ رکھا گیا سارے ذرائع اور تمام وسائل پوری عظمندی سے استعمال کئے جاتے رہے اور اس طرح اندر ہی اندرنئی پود پر گویا ان کا اب قبضہ و تصرف ہو گیا.نوجوانوں کو ایسی کچھ چاٹ لگی کہ خود بخود کھچے چلے آتے.بے بلائے جمع رہتے.نوبت یہاں تک پہنچی کہ رو کے نہ رکتے نہ ہٹائے ہٹتے.” جادو وہ جو سر پر چڑھ کر بولے.ایک پارٹی بن گئی جس نے والدین اور رشتہ داروں کو چھوڑ نا منظور کر لیا مگر پادری صاحبان کی کوٹھی، گھر یا مکان و بیٹھک کو چھوڑ نا پسند نہ کیا.کئی نے والدین کو کھلے نوٹس دے دیئے.کئی چپکے سے گھروں کو چھوڑ وہیں پہنچ گئے جہاں منادوں نے اشارہ کیا.بڑے بڑے معزز گھرانے بگڑنے لگے.کہیں لڑکوں کی خرابی کا رونا تھا تو کہیں لڑکیوں کے بگڑنے کا.غرض ایک طوفان تھا جس کی زد میں کئی شریف گھرانوں کی عزت و ناموس کے تابوت بہتے اور ڈوبتے دکھائی دے رہے تھے.سید مغل، پٹھان، شیخ کا استثناء تھا نہ امیر وغریب کا.کئی گھرانے میرے علم میں ہیں اور کئی نام میرے سامنے ہیں مگر میں اس وقت صرف ایک دو ہی کا ذکر کرتا ہوں.صوبیدار سردار امام بخش کے گھرانے میں بھی سیندھ لگی.نہایت ہی خفیہ رنگ میں ، نا معلوم را ہوں سے یہ دجالی کو برا ان کے خاندان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا.شاہنواز کا پوتا، علی محمدکا اکلوتا احمد دین بھی ڈس لیا گیا.زہر تیز تھا ایسا کہ اس کے اتر جانے کی کوئی امید ہی نہیں تھی.بیمار جاں بلب اور منٹوں ہی کا مہمان تھا.قافلہ تمام زنجیریں توڑ ، روکیں اٹھا، رخت سفر باندھ کر کسی جانب بھاگ نکلنے کا فیصلہ کر چکا تھا اور اس گھرانے کے جل کر تو وہ خاک ہو جانے میں کسر اب صرف ایک دیا سلائی دکھا دینے ہی کی رہ گئی تھی.خدا نے رحم کیا.کوئی نیکی آڑے آئی.کسی کے ہاتھ کا دیا کام آیا.احمد دین نے راز فاش کر دیا.سازش کا انکشاف ہو گیا جس کے نتیجہ میں یہ خود بھی بچا اور کئی ساتھوں کے بچاؤ کا موجب بنا.اگر چہ اکثر بد نصیب اب بھی نہ بچ سکے اور نکل ہی گئے.اس خاندان میں احمدیت پہنچ چکی تھی.کا سر الصلیب مسیحائے زماں نام کا سایہ اور علم کلام کا چر چا تھا.صو بیدار صاحب کے صاحبزادے شیخ مولا بخش صاحب بیعت وایمان کے زیور سے آراستہ ہو کر دارالامان سے روحانی رشتہ جوڑ چکے تھے.اور لگانے بیگانوں کو اس نور سے منور کرنے اور اس چشمہ شیر میں

Page 246

۲۳۱ پر لانے میں ساعی وکوشاں تھے.وہ جانتے تھے کہ اس زہر کا تریاق کہاں ملتا ہے اور ایسے روحانی مریضوں کو جام شفا کس جگہ سے میسر آ سکتا ہے.اس سازش کا بھانڈا پھوٹتے ہی انہوں نے اپنے عزیز کو اس مکدرفضا اور مسموم آب و ہوا سے نکال کر دار الامان پہنچایا.جہاں پہنچتے ہی زہرا تر نے لگا.بیمار چنگا ہوتا گیا اور خدا کا فضل ہے کہ آج تک زندہ سلامت نو رایمان سے منوراسی در کا گدا دھونی رمائے پڑا ہے.اللہ کرے عاقبت بھی محمود ہو.آمین.اسی محلہ میں بلکہ اسی کو چہ میں سردار صاحب کے زیر سایہ ایک شخص عبداللہ نام قوم کے مراثی اور پیشہ کے پٹواری کا بیٹا محمد دین نام بھی اس مرض میں مبتلا اور اسی صیاد کا صید ہو کر عیسائیت کے گڑھ گوجرانوالہ پہنچایا جا چکا تھا.محمد دین میں قوت دافع کی بجائے قبولیت کی استعداد اور جذب کا مادہ غالب تھا.اس نے عیسائیت کا اثر قبول کیا.اور ایسا گہرا رنگ پکڑا کہ جس کا اثر جانا کچھ آسان نہ تھا.والدین اور بھائی بہنوں سے جدا ہو کر وہ ایسا غائب ہوا کہ کچھ عرصہ تو پتہ نہ ہی چلا کہ گیا کہاں اور ہے کدھر.مدت بعد جب اس کی خبر ملی تو اس کی حقیقی ماں جو اس کے فراق میں بھی بے قرار ، اس کی جدائی سے بے چین، رات دن رونے دھونے میں بسر کیا کرتی تھی مامتا سے مجبور غیرت کے مارے مسلمانی کے نام اور ناموس کے بچانے کی نیت سے کمر ہمت باندھ نیت سادھ کر کھڑی ہوئی.خاوند سے بصد منت اجازت لے کر گوجرانوالہ پہنچی جہاں اس کا لخت جگر اور نور نظر نہ معلوم کتنے پردوں اور سخت اوٹوں کے پیچھے چھپا کر رکھا ہوا تھا.اس کی ہمت ، اس کا اصرار، اس کا استقلال، حصول مقصد میں اس کا معاون بنا.اس کے دل میں امتا اور مامتا کے ساتھ ایک درد تھا، تڑپ تھی اور ایک کچی خواہش.زبان صاف تھی.اور مافی الضمیر کے بیان پر قادر جس سے سنگدل صیاد بھی موم ہو گئے اور اس طرح وہ مدت سے بچھڑے ہوئے بیٹے کو ملنے میں کامیاب ہو گئی.در دہجر و فراق سے چور، فلاکت زدہ اور محزون ایک حقیقی ماں اور بیٹے کی ملاقات کا منظر ہر آنکھ دیکھ اور ہر دل محسوس کر سکتا ہے جس نے آغوش مادر کی لذت چکھی اور اس کی محبت اور لطف سے حصہ پایا ہو.ان تفاصیل کو چھوڑتا اور قصہ مختصر کرتا ہوں.ماں نے دل کھول کر بھر اس نکالی.گویا کلیجہ نکال کر بیٹے کے سامنے رکھ دیا اور انتہائی کوشش کی ، سارا زور لگایا.کوئی طریق نہ چھوڑا بیٹے کو سمجھانے اور اس کا دل نرم کرنے کا.مگر بے سود.یہ وہ نشہ ہی نہ تھا جسے ترشی اتار دے زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد.نا چار دل کو تھامے یوں تسلی دیتی ہوئی بولی.اچھا زندہ رہو.پھر ملوں گی.ملنے کی راہ تو کھل گئی.

Page 247

۲۳۲ یہ ملاقات ہوئی تو بے نتیجہ نکل گئی.مگر وہ مردانہ ہمت مایوس ہوئی نہ تھکی.بلکہ اس کے دل میں امید کی ایک جھلک اور کامیابی کی ایک شعاع پیدا ہوگئی.اور وہ بجائے اداس و نا شاد واپس جانے کے ایک خوشی اور امید بھرا دل لے کر واپس ہوئی.گھر پہنچی حال احوال لیا دیا.مگر گھر اسے کھانے کو دوڑتا تھا.اس کی دلچسپی کی ایک ہی چیز تھی مگر گھر اس سے بھی محروم ہو چکا تھا نا چار کچھ عرصہ بعد تھوڑا وقفہ دے کر وہ پھر وہیں پہنچی جہاں اس کی آنکھ کا تارا اور دل کا سہارا قید فرنگ میں اسیر محبوس ایک آزاد زندگی بسر کر رہا تھا.گونتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات اور امید وہی موہوم تھی.محمد دین اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ سر کا بلکہ اور زیادہ سخت اور سیاہ دل ہو کر ہدایت سے دور اور کفر سے بھر پور ہو چکا تھا.اس کے حیا کی چادر پھٹ کر پارہ پارہ اور زبان کی قینچی اور زیادہ تیز ہو گئی تھی اور اس طرح اس کی ماں اگر چہ اب کے بھی بظاہر نا کام اور بے نیل و مرام واپس ہوئی مگر اس کے دل میں ایک چیز تھی جس کی وجہ سے وہ پُر امید تھی.پھیلاں ( فضل بی بی فضل بیگم یا فضل النساء ) خود ایک سیدھی سادی مسلمان ، نماز روزہ کی پابند عورت تھی.ملکی رواج کے مطابق کچی کچی اور میٹھی روٹی کتابیں اس نے سنی ہوئی تھیں.ساتھ ہی قادیان کا نام اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام بھی شیخ مولا بخش صاحب کے ذریعہ سے اس کے کان میں پہنچ چکا تھا.شیخ احمد دین صاحب کے قادیان پہنچ کر دجالی فتنہ سے محفوظ ہو جانے کا چر چا بھی وہ سن چکی تھی.نیز دوڑ دھوپ اور کوشش کے علاوہ دُعا کا نسخہ بھی اس کو مل چکا تھا.خدا ، اس کے رسول اور اپنے دین یعنی اسلام کے لئے اس کے دل میں ایک غیرت اور حمیت موجود تھی.وہ اپنی نمازوں میں رورو کر دعائیں کرتی اور خدا سے مدد مانگنے میں مصروف رہنے لگی.کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ خدا نے اس کی سن لی.اس کی آہ وزاری اور اضطرار پر رحم کیا اور ایسے سامان پیدا کر دیئے جن سے ” پھیلاں“ کے مقصد کے حصول کی راہیں کھلی گئیں.اس کے دل کی آگ نے بخار بن کر محمد دین پر حملہ کیا.اس کی قلبی جلن اور سوزش پہلے محرقہ بن کر اسے جلاتی رہی اور آخرسل اور دق کی صورت میں اس پر مسلط ہوگئی.علاج معالجے اور ڈاکٹری تدابیر برکا رر ہیں اور جب حالت نازک سے نازک ہو گئی تو مجبور ہو کر محمد دین کی ماں کو اطلاع دی گئی.وہ پہنچی اور لڑکے کو نیم جان پایا.منت خوشامد کر کے اپنے لڑکے کو گھر لے جانے کی اجازت حاصل کی جس کے لئے مشن پہلے ہی تیار اور کسی بہانہ کے انتظار میں تھا.عورت کے سر احسان رکھا اور محمد دین کی گویا لاش ہی اس کے حوالے کی.جس کو لے کر وہ گھر پہنچی.علاج معالجہ اور مقدور بھر اس کی خدمت کی.جس سے وہ کچھ سنبھلا اور مرض میں بھی افاقہ ہوا.جب وہ

Page 248

۲۳۳ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو اس کی ماں نے شیخ مولا بخش صاحب کے پاس اس کے نشست و برخاست کا انتظام کیا.جہاں سلسلہ بحث مباحثہ اور سوال و جواب ہوا کرتے.مرض اس کے دونوں سخت تھے جسمانی بھی اور روحانی بھی.جسمانی مرض کا وقفہ عارضی اور وقتی تھا تو روحانی بیماری اس درجہ تک ترقی کر چکی تھی کہ شیخ صاحب کے بس کی نہیں تھی.حالات کا مطالعہ کر کے شیخ صاحب نے ” پھیلاں“ کو یہی مشورہ دیا کہ جس طرح ہو سکے لڑکے کو لے کر قادیان پہنچے.جہاں روحانی اور جسمانی دونوں امراض کے مکمل علاج کے اللہ کریم نے سامان مہیا کر رکھے ہیں.عورت کے دل کو لگی ہوئی تھی.ذات برادری گلی محلے بلکہ شہر بھر میں وہ منہ چھپائے پھرتی اور ذلت، بدنامی اور رسوائی کے خیال سے گھر سے نکلتی ہی کم تھی.شیخ صاحب کا مشورہ اس کے دل لگا بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے سفر کی تیاری کر کے بیٹے کو علاج کی غرض سے اس سفر کے لئے رضامند کر لیا.گاڑی میں بیٹھ ، بیٹے سمیت دوسرے ہی دن بٹالہ اور وہاں سے بذریعہ یکہ قادیان پہنچ گئی.لڑکے کو مہمان خانہ یا مطب میں ٹھہرا کر خود حضرت اقدس کے دولت سرائے میں گئی.اور ساری کہانی اپنی زبانی حضرت کے حضور بالتفصیل عرض کر کے چین لیا.مقربان بارگاہ عالی.خاصان حضرت تعالی.مقبولان حق تعالیٰ محبوبان حضرت والا جنہیں الہ العالمین اپنے علم کامل اور قدرت تام سے خلعت رسالت و نبوت عطا فرما تا تبلیغ تزکیہ اور تطہیر ان کا منصب مقرر کرتا.اور ان کو اعلی خلق عظیم قائم کر کے اعلیٰ اخلاق ، ستودہ صفات اور زیور حسنات دے کر دنیا جہان کے لئے اسوہ اور نمونہ بنا کر بھیجتا ہے ان کا ہر خلق انتہائی کمال اور ان کی ہر ادا عدیم المثال رنگ اپنے اندر رکھتی ہے.ان کی ظاہر وباطن میں یگانگت اور قول و فعل میں مطابقت ہوتی ہے.جو کچھ ان کے دل میں ہوتا ہے وہی زبان پر آتا ہے اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہی کر کے بھی دکھاتے ہیں.ان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے نہ ان کے ظاہر و باطن میں اختلاف.خدا کا وہ تعلق محبت جو ان کے دل کی گہرائیوں میں ہوتا ہے اس کا اثر ورنگ ان کے جوارح اور اعمال میں عیاں ہوتا ہے.خدا کے رسولوں کی جو محبت اور ان کی جو عزت اور عظمت ان کے قلوب میں موجزن ہوتی ہے وہ ان کی تحریر میں نمایاں اور تقریروں میں بیان ہوتی رہتی ہیں.علی ہذا خلق خدا اور بنی نوع انسان کی سود و بہبود ہمدردی و بھلائی کے لئے جو جذبات ان کے دل و دماغ میں پنہاں ہوتے ہیں اپنے عمل سے ان کو منصہ شہود پر لاتے اور معدوم کو معرض وجود میں لا کر از عمل ثابت کن آں نورے کہ در ایمان تست کی نظیر مثال اور نمونہ پہلے خود قائم کیا کرتے ہیں کیونکہ یہی

Page 249

۲۳۴ وہ لوگ ہیں جو سابق بالخیرات اور قول انا اول المئومنین کہنے میں احق اور اولی ہوتے ہیں.میرے آقاسید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فداہ نفسی نے اپنے محبوب مقتد اسید نا المصطفیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت کی ، اتنا تعلق بڑھایا، ایسی الفت کی اور اتنا پیار کیا کہ فنائیت کے مقام پر پہنچ کرد و من تو شدم تو من شدی کا مصداق بن گئے اور کامل پیروی ، کامل اطاعت کر کے اپنے آپ سے گم اور اپنے مطاع میں ایسے فنا ہوئے کہ گویا ایسی ذات بابرکات کا ظہور ہے.وہی علم ، وہی عرفان ، وہی نور اور وہی ایمان ، وہی اخلاق ، وہی اطوار اور وہی حسن ، وہی جمال.حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ۶۳ کی شان اور وہی مقام ہے.میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ وہی کہتا ہوں جو خدا نے بتایا اور رب الافواج نے آسمان سے کہا اور خدا سے بڑھ کر کون حقیقت حال سے واقف اور اپنے بندوں کے مقام سے آگاہ ہوسکتا ہے.وہی آپ کو جرى الله فی حلل الانبیاء کے نام سے یاد فرماتا ہے اور درحقیقت یہی آپ کی صحیح تعریف اور یہی آپ کا اصل مقام ہے.غرض اللہ کریم نے حضور پر نور کو اپنے آقا و مطاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و پیروی اور محبت و غلامی کے باعث اتنا منور کیا کہ نور ہی بنا دیا اور اتنا فیض بخشا کہ سر چشمہ فیوض کر دیا.آپ کا ہر خلق کامل اور ہر ادا پیاری تھی.”ز ہے خلق کامل زہے حسن تنام‘.مگر اس موقع پر میں حضور کے جس خلق اور جس ادا کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ حضور کی صفت دلجوئی و دلداری ہے جو آپ کے اوصاف میں خاص طور سے نمایاں تھی.اس کا فیض اس کثرت و وسعت سے جاری رہتا کہ حضور کی زندگی میں اس کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں مثالیں پائی جاتیں ہیں.بلکہ میں تو اس یقین پر علی وجہ البصیرت قائم ہوں کہ حضور کی صحبت کا فیض یافتہ ہر خوش نصیب حضور کی اس صفت کی زندہ دلیل اور کچی مثال ہے.کیونکہ میرے ذوق میں حضور کی مجلس کا وہ مسلم ومشہور خاصہ اثر اور نتیجہ کہ کتنا ہی کوئی رنج و غم سے چورانسان مغموم ومهموم بشر اور شدائد ومصائب کے پہاڑ تلے دبا ہوا بالکل افسردہ پر مردہ بندہ جب بھی حضرت کا چہرہ دیکھ پاتا.حضور کی مجلس میں پہنچ جاتا تو تمام رنج وغم اس کے دور اور ہم وحزن اس کے کافور ہو جاتے اور ایک سکویت ہوا کرتی تھی جو نامعلوم طریق پر افسردہ دلوں پر نازل ہو کر ان کی افسردگی کو تازگی سے بدل دیتی تھی.ایک طمانیت ہوا کرتی تھی.جواندر ہی اندر خستہ جانوں کی خستہ حالی و پستگی کو تازگی ورونق دے کر خوش حال و خورسند بنا دیا کرتی تھی.

Page 250

۲۳۵ دنیا کے ہر غم کا علاج اور ہر رنج کی دوا گویا سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دیدار صحبت اور مجلس تھی.ایسا معلوم ہوا کرتا تھا کہ حضور کا وجود باجود گویا امن و عافیت کا ایک حصار ہے جس کی پناہ لینے والا ہر خوف سے بے خوف اور ہر بلا کی زد سے محفوظ ہو گیا.حضور کی ذات والا صفات کے فیوض و برکات کی ادنی سی مثال موجودہ روشنی اور تہذیب و تمدن کی مناسبت سے یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ حضور پُر نور کی مثال ایک عظیم ترین پاور ہاؤس یا خزانہ نور کی تھی جس کے سونچ کے آف سے اون ہوتے ہی ساری ظلمتیں کا فور ہو کر نور کا ظہور ہو جایا کرتا تھا اور یہ ساری کیفیات ، ساری تاثیرات اور سارے ثمرات حضور کے اسی وصف ، اسی خلق اور اسی جذ بہ کا نتیجہ وشمرہ تھے.جو حضور کے قلب سلیم وحلیم میں خالق فطرت کی طرف سے حضور کو ودیعت کیا جا چکا تھا اور حضور نہایت فیاضی اور فراخدلی سے ابر بہار کی مانند ہمیشہ اس کا استعمال فرماتے اور فیض جاری رکھا کرتے تھے.چنانچہ حضور کی صحبت و مجلس کا یہ اثر ، مرہ اور نتیجہ اسی خلق عظیم کی لطیف روحانی برقی لہروں اور شعاعوں کا اثر تھا جو حضور کے دل سے نکل کر صحبت پانے والوں اور ہم نشینوں کو متاثر کیا کرتی تھیں.یہ تو تھا مخفی ، غیر مرئی اور نا معلوم اثر حضور کے اس خلق و جذبہ کا جو حضور کے دل کی گہرائیوں میں ایک حسن پنہاں اور لعل بدخشاں کی طرح حضور کی کان قلب میں موجود تھا.ظاہر میں اس کا کیا اثر تھا، عملاً حضور اس قوت سے کتنا کام لیتے تھے.اور خلق خدا سے کیونکر پیش آیا کرتے تھے ، افسوس میں عاجز ہوں اس کے بیان سے اور قاصر ہوں اس کے اظہار سے.گنگ محض ہوں طاقت گویا ئی نہیں کہ اس کے عشر عشیر کا بھی بیان کر سکوں کوتاہ قلم بلکہ کوتاہ دست ہوں اتنا کہ اس حقیقت و کیفیت کا شائبہ بھی سطح قرطاس پر نہیں لا سکتا.دلداری و دلجوئی کرنے میں حضور ما در مہربان سے کہیں زیادہ مہربان اور شفیق سے شفیق باپ سے کہیں بڑھ کر شفیق تھے.خلق خدا کی ایسی دلداری فرماتے اور اتنی دلجوئی کیا کرتے تھے کہ کیا کوئی ماں باپ کسی عزیز ترین اکلوتے کی بھی کر سکیں گے.دنیا میں ایسا کون ہے جو دوسروں کا غم اٹھائے.بیگانوں کا درد بانٹے اور ان کے مصائب و آلام اپنے گلے ڈال لے؟ مگر میرے آقا سچ سچ ایسا ہی کیا کرتے تھے.غمزدوں کے غم اٹھاتے رنجوروں کے رنج خود سہتے اپنی جان پر بوجھ ڈالتے اور ان کو رنج و غم سے آزاد کر دیا کرتے تھے.کتنا ہی کوئی مفلوک الحال اور در دو غم سے نڈھال ہوتا حضور اس طرح دلداری فرماتے ، ایسی دلجوئی کرتے کہ وہ رنج و غم کو بھول جاتا.غریب سے غریب اور نا تواں وکمزور بھی حضرت کو اپنا ہمدردہ غم خوار اور بہی خواہ سمجھ کر حاضر ہوتا بے تکلف عرض حال کرتا اور حضور کے لطف وکرم سے حصہ پاتا.کتنی طویل کہانی،

Page 251

۲۳۶ بے معنی قصہ بے محل راگ اور بے ہنگام بانگ کوئی کہتا چلا جاتا ،حضور سنتے اور سنتے نہ روکتے نہ ٹوکتے بلکہ اس طرح توجہ فرماتے جس سے اس کی دلداری و دلجوئی ہوتی.کتنی ہی کوئی چھوٹی چیز.ادنی سی خدمت، معمولی ساہد یہ کوئی پیش کرتا.مٹھی بھر بیر ایک دو گنے یا چند بھٹے مکی کے حتی کہ حقیر ترین رقوم کو یوں قبول فرماتے ، اتنا نوازتے اور پیش کرنے والے کا اس طرح شکر یہ ادا فرماتے جیسے کسی نے بھاری خزانہ یا نعمتوں کا انبار پیش کر دیا ہو.کیونکہ حضور کی نظر درہم و دینار اور نذرونیاز سے دور آگے نکل کر اس دل اور اس کی نیت واخلاص اور محبت و پیاس پر پڑا کرتی تھی جس سے وہ چیز پیش کی جاتی.غلطی پر گرفت وسختی کی بجائے لطف فرماتے.چشم پوشی کرتے.اور الٹا دلجوئی فرما کر نوازتے دل بڑھاتے غلطی سے کسی نے قیمتی چیز ضرورت کا سامان گراد یا پھینک دیا یا بگاڑ دیا تو ناراضگی و سرزنش کی بجائے ایسا طریق اختیار فرماتے کہ اس کو ندامت و شرمندگی سے بھی بچا لیتے اور دلجوئی و دلداری بھی فرما دیتے.میرے سامنے حقائق اور واقعات ہیں.دل و دماغ میں بکثرت اس کی مثالیں ہیں اور ان سب سے بڑھ کر میری آنکھوں میں وہ صورت اور قلب کے اندر وہ مومنی صورت جلوہ فگن ہے جو نذر ونیاز اور تحفے تحائف لے کر اتنا خوش نہیں ہوتی جتنا خلق خدا کی ضرورت میں دے کر یا اس کی حاجت پوری کر کے یا اس کی خدمت یا مدد کرنے اور سلوک فرمانے سے قیمتی سے قیمتی چیز اپنے خدا کے نام پر خالصتا اللہ ایتاء ذی القربی کے طریق پر دینے میں بھی کبھی حضور کو دریغ نہ ہوتا تھا حتی کہ کستوری اور مشک جیسی قیمتی نایاب اور اشد ضروری ادویہ جن کی موجودگی خود حضرت والا کی اپنی ذات کے لئے لازمی ہوا کرتی ، خندہ پیشانی ، فراخ دلی اور کشادہ دستی سے بلا امتیاز مذہب وملت ، بلالحاظ اپنے اور پرائے ، بغیر حساب دیا کرتے اور دے کر بے انتہا خوشی بشاشت اور مسرت پایا کرتے تھے اور ان چیزوں کا بہترین مصرف انتہائی قیمتی اور حقیقی قدر اسی عمل میں پاتے کہ وہ چیز حضور کے محبوب و مطلوب اور مقصود کی مخلوق کے کام آ گئی.اس کی حاجت روائی ہو گئی اور اس کی ضرورت پوری ہوگئی.نہ صرف اسی پر بس تھی بلکہ اکثر ایسا بھی ہوا کرتا کہ حضور کسی غلام اپنے خادم یا مخلص دوست مرید کی خواہش محسوس کر کے اس کی کسی حرکت، عمل یا طرز کلام سے خدا داد فراست اور نور علم سے یا کسی خدائی تحریک سے تصرف کے ماتحت علم پا کر بعض چیزیں بطریق دلداری و دلجوئی خود بخود ان کے پیش فرما دیا کرتے تھے.مجھے اس بات کا صدمہ اور انتہائی رنج ہے کہ میں ان ساری کیفیات کے اظہار و بیان سے عاجز ہوں،

Page 252

۲۳۷ نہ ہی مجھ میں طاقت ہے اور نہ ہی یہ مختصر مضمون ان باتوں کا متحمل.ورنہ حضور کے اخلاق کا یہ حصہ اور حضور کے حسن وخوبی کا یہ پہلو ضخیم کتاب بلکہ کئی مجلدات میں بھی نہیں سما سکتا.کیونکہ اس کے مختلف پہلوؤں میں بے انداز تفاصیل اور لا تعدا د مثالیں اور واقعات موجود ہیں.قصہ مختصر یہ کہ دل بدست آور که حج اکبر است کے مقولے کی صحیح تصویر اور عملی نقشہ آنحضرت صلی اللہ وعلیہ وسلم کے بعد اگر چہ لاکھوں کاملوں نے دنیا کے سامنے رکھا.مگر ان سب سے بڑھ کر یہی کامل و منفر د ہستی تھی.جس کی نظیر چودہ سو سال میں دوسری جگہ نظر نہیں آ سکتی.پھیلاں میاں محمد دین کی والدہ کی ہمت میں مردانگی اور جو اس میں فرزانگی تھی ، بات کرنے کا طریق، مافی الضمیر کے ادا کرنے کی توفیق اس کے رفیق تھے.اس طریق اور ایسے رنگ میں اس نے اپنی مصیبت اور درد دل کا اظہار کیا کہ حضرت کو اس کے حال پر رحم آ گیا.حضور نے اس کی دلجوئی فرمائی.سہارا اور تسلی دی جس سے اس کو ڈھارس بندھ گئی.اور مقصود سے نزدیک نظر آنے لگا.اور اب وہ دھرنا مار دھونی رما کر ہی حضور کے در پر بیٹھ گئی.حضرت نے ان کے قیام و طعام کا انتظام فرمایا.جسمانی علاج کے لئے حضرت نورالدین اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تاکید فرما دی اور روحانی مرض کے استیصال کی طرف حضور نے خود توجہ دینی شروع فرمائی.اکثر ظہر کی نماز کے بعد اور پھر شام کی نماز کے بعد دربار لگتا.میاں محمد دین کو بلوا لیا جاتا.اور ان کو اپنے اعتراض و شبہات پیش کرنے کا موقعہ دیا جاتا جن کے جوابات سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود دیا کرتے اور میاں محمد دین کو نہایت محبت نرمی اور توجہ سے حضور سمجھایا کرتے اور ان کے ایک ایک شبہ واعتراض کا حل فرمایا کرتے.اس سلسلہ نے طول پکڑا اور غالباً کئی ماہ تک نانے اور وقفوں کے ساتھ جاری رہا.مگر چند ہی روز میں یہ بات کھل گئی کہ محمد دین کی نیت بخیر نہیں اور اس میں طلب حق اور تحقیق کی خواہش بھی موجود نہیں.وہ کسی مجبوری کے ماتحت محض دفع الوقتی کرتا اور کسی موقعہ کی تاک میں رہتا ہے.ایک بات کے متعلق وہ خود اقرار کرتا ہے کہ حل ہو گئی مگر دوسرے وقت اس پراڑ بیٹھتا.صبح کو تسلیم کرتا مان لیتا اور شام کو انکار اور انکار پر اصرار کرنے لگتا.بعض اوقات اتنی ضد، ہٹ اور کج بحثی پر اتر آتا کہ صاف معلوم ہوتا کہ شرارت اور خباثت کا مظاہرہ کر رہا ہے.مگر حضور مصلحت اور حکمت سے نظر انداز کر کے چشم پوشی فرماتے اور ٹال کر گفتگو روک دیا کرتے.

Page 253

۲۳۸ اس کے دل کا زنگ اور کفر وانکار کی سیاہی اتنی سخت گہری اور میلی ہو چکی تھی جس کے دور کرنے کے لئے لمبے مجاہدہ غیر معمولی محنت اور بھاری توجہ کی ضرورت تھی.اس کے دل کی زمین اتنی خشک اور ایسی سنگلاخ ہو چکی تھی کہ کوئی دلیل کارگر ہوتی تھی نہ برہان.اس کی فطرت کج اور سینہ سیاہ تھا جس پر کوئی دوسرا رنگ چڑھ جانے کی گنجائش ہی باقی نظر نہ آتی تھی.وہ کنویں کی ایک کو ری ٹنڈ بن چکا تھا.جو کبھی ادھر لڑھک جاتی اور کبھی ادھر اور اس طرح اس کے تکلون کے باعث اس کا کوئی اعتبار ہی نہ رہا تھا.روحانی مرض کی طرح اس کے جسمانی مرض کا بھی یہی حال تھا.اس میں بھی اتار چڑھاؤ کا غیر متناہی سلسلہ اور مد و جزر رہا کرتا تھا.کبھی تو حالت اس کی سنبھل جاتی.اور وہ بھلا چنگا نظر آنے لگتا.اور کبھی وہی پہلی حالت عود کر آیا کرتی.اور وہ بالکل مردہ بن کر رہ جاتا.اور گھڑی پل کا مہمان نظر آنے لگتا.اس کی ماں نہایت ہوشیاری سے اس کی نگرانی رکھتی اور حالات کا مطالعہ کرتی رہتی تھی.اس کے تلون، کج بحثی اور ضد اور شرارت کے حالات سے متاثر ہو کر وہ گھبرا جایا کرتی.اس کے دل میں خوف و ہراس پیدا ہو جاتا کہ مبادا حضرت ناراض ہو کر تنگ آکر اس کی بدنیتی معلوم کر کے ہمیں دھتکار ہی نہ دیں.جواب ہی نہ دیدیں.اور اکثر چلایا کرتی اور رو دھو کر جہاں بیٹے کو سمجھایا کرتی وہاں وہ حضرت کے حضور بھی بصد منت والحاح درخواستیں کرتی ، التجائیں کرتی کہ حضور نے خدا کے لئے دستگیری فرمائی ہے.محمد دین کی بدزبانی ، شرارت اور سختی کو خیال میں نہ لائیں.خدا کے واسطے رحم کر کے چشم پوشی فرمائیں.درگذر کریں.اور اس کے ہاتھ نہ چھوڑیں.ایک مرتبہ کلمہ پڑھا دیں.پھر چاہے مرجائے مجھے اس کا غم نہیں.فکر ہے تو یہی کہ کافر نہ مرے.“ بات دراصل یہ تھی کہ والدہ اس کی اسے علاج کرانے کے وعدہ سے لائی تھی اور وہ بھی اسی خیال سے رضا مند ہوکر اس کے ہمراہ چلا آیا تھا کہ حضرت مولانا نورالدین اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نامی اور اسم گرامی طبی دنیا کے بلند ترین منار اور شہرت کے عالی مقام پر نمایاں طور سے کندہ ہو چکا تھا.ورنہ اگرا سے یہ و ہم بھی ہوتا کہ اس کی ماں اس کی روحانی بیماری کے علاج کو مقدم سمجھ کر قادیان لا رہی ہے تو یقیناً وہ موت کو اس پر ترجیح دیتا.اور اپنے گھر یا گوجرانوالہ سے باہر ایک قدم بھی نہ اٹھاتا.کیونکہ حقیقت یہی تھی کہ اس کفر و شرک کا زہر اس کے جسم کے رگ و پے میں اس طرح سرایت کر چکا اس کے خیالات پر قبضہ و تصرف پاچکا تھا.اور کفارہ مسیح کا خون کچھ ایسا اس کے گوشت پوست میں رچ کر جزو بدن ہو گیا تھا کہ ان چیزوں کا اس کے جسم و جان سے نکالنا یا خیالات سے دور کرنا قریب ناممکن ہی ہو چکا تھا.یہی وجہ تھی کہ جب اسے یہ علم

Page 254

۲۳۹ ہو گیا کہ اس کی جسمانی بیماری کے علاج کے ساتھ ساتھ اس کی روحانی امراض کی بیخ کنی کے بھی سامان ہیں اور دلائل اور براہین ایسے قومی ، کفر شکن اور لاجواب ہیں جن کے جواب کی اس میں تاب ہے نہ برداشت تو اس نے اس سے بچنے کی کوشش کی.کبھی اس نے بیماری کا عذر کر کے مجلس میں آنے سے گریز کیا تو کبھی ضد، کج بحثی اور بد زبانی کر کے بات سننے سے پر ہیز کیا.پہلو بدلتا رہتا.موقع ٹال دیا کرتا.اور یہاں تک بھی شرارت کرتا کہ بد زبانی گستاخی اور بے ادبی پر اتر آتا کہ شاید یہی راہ اس کی نجات اور قادیان سے بچاؤ کی ہو جائے.حضور ناراض ہو کر نکال دیں.یا کوئی طیش میں آ کر مار بیٹھے تو غرض پوری اور مدعا حاصل ہو جائے.دوسری طرف اس نے خفیہ خفیہ بٹالہ کے عیسائیوں سے جوڑ توڑ اور ساز باز کرنا شروع کر دیا.ان کی امداد کی امید پر اور زیادہ دلیر، بے باک اور نڈر ہو کر گستاخی اور شرارت میں بڑھنے لگا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ دو تین مرتبہ قادیان سے بھاگ کھڑا ہوا تا بٹالہ پہنچ کر قلعہ بند اور محفوظ ہو جائے.مگر اپنی مراد نہ ہمت ماں کی ہوشیاری ، چستی اور بہادری کی وجہ سے ہر مرتبہ اپنے مقصد میں نا کام اور حیلوں میں نا مرا در ہا.اور کبھی بھی قادیان سے باہر نہ نکل سکا.مصلحت الہی سے روحانی اور جسمانی دونوں طبیب کامل تھے.اس کی لمبی بیماری سے نہ گھبرائے نہ تھکے اس کی بے اعتدالیوں اور بد پر ہیزیوں سے اکتائے نہ مایوس ہوئے.بلکہ پورے استقلال، تحمل اور ضبط سے اس کے علاج میں لگے رہے.گالی گلوچ کی پرواہ کی.نہ شرارت و گستاخی کی.پورے صبر و چشم پوشی اور درگذر سے کام لے کر اس کے گند دھوتے ناسور صاف کرتے اور محبت سے مرہم پٹی کرتے رہے نہ کسی طمع کی امید سے نہ کسی خدمت وسلوک کے خیال اور اجر وجزا کی رجا پر محض خالص اللہ محض اس کی بھلائی کی نیت اور اس خیال سے کہ شاید چنگا ہو کر خدا کے غضب کی آگ سے نجات پا جائے.کفر و شرک کی مار اور نبیوں کی تو ہین کی لعنت سے بچ سکے.پھیلاں ، سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حسن واحسان اور عطا وسخا اور اخلاق کریمانہ کو دیکھتی اور اپنے لڑکے کی کرتوتوں کے خیال سے مری جارہی تھی.ندامت اور شرم سے اس کا سر جھکا رہتا اور ہر وقت حضور کی رحمت و شفقت کے گیت گاتی، دعائیں دیتی رہتی تھی.اس کی بے قراری واضطرار دیکھا نہ جاتا تھا.جس دلی تڑپ اور منت و سماجت سے وہ عورتوں اور مردوں اپنے اور بیگانوں سے دعاؤں کے لئے التجا کیا کرتی تھی اس کا نقش آج تک دماغ میں قائم اور دل میں موجود ہے.اس کی

Page 255

۲۴۰ تمنا، اس کی آرزو اور یہی اس کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ اس کا بیٹا تو بہ کرے اور سچے دل سے ایک بار کلمہ پڑھ لے پھر چاہے دوسرے ہی دن مر جائے.مرے تو مسلمان ہو کر.کافر نہ مرے.“ محمد دین پڑھا لکھا میٹرک پاس نو جوان تھا.قادیان میں رہتے کئی ماہ گذر چکے تھے.حضرت نورالدین اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطب میں اس کی رہائش اور نشست و برخاست تھی.جہاں ہر رنگ ہر مذاق اور ہر مذہب وملت کے لوگ آیا کرتے.امیر غریب کا کوئی امتیاز نہ تھا نہ مسلم غیر مسلم کا.ہر قسم کا کھلا درویشانہ دربار تھا.جو سبھی کے واسطے یکساں و برابر کھلا رہتا تھا.کوئی آتا کوئی جاتا کسی کو روک تھی نہ ٹوک.محمد دین کو ہر قسم کی آزادی تھی کوئی پابندی یا نگرانی جماعت کی طرف سے اس پر ہرگز نہ تھی.البتہ اس کی ماں اس کے حالات و عادات کی واقف وراز دار ہونے کی وجہ سے اس کی نقل و حرکت کی نگرانی عقلمندی و ہوشیاری سے ضرور کیا کرتی تھی.باقی بول چال گفتگو اور بات چیت کی اسے کسی سے بھی روک نہ تھی.لمبے عرصے تک رہنے کی وجہ سے نہ صرف مقامی لوگ اس سے واقف اور وہ ان سے آشنا ہو چکا تھا بلکہ مضافات قادیان اور گورداسپور بٹالہ وغیرہ کے لوگوں سے بھی اس کے تعلقات ہو چکے تھے.صحت جسمانی اس کی بہتر ہو رہی تھی بلکہ مطب میں رہ کر وہ طب کا مشتاق اور نسخہ جات کی تلاش ودھن میں رہنے لگا.اور اس طرح وہ خود نیم حکیم تو ضرور بن گیا تھا.ایک روز جون کے مہینہ میں کڑکتی دھوپ اور شدت دو پہر کے وقت جبکہ ہم دو تین آدمی موجودہ موٹر گیراج والے دالان میں جہاں اس زمانہ میں حضرت کا پریس ضیاء الاسلام نام ہوا کرتا تھا.دو پہر کی تلخی اور دھوپ کی حدت کاٹ رہے تھے ، اچانک خلاف معمول ، غیر متوقع طور پر مائی پھیلاں نہایت پریشان اور گھبراہٹ واضطرار کی حالت میں آئی.اس کا اضطراب و درد کچھ ایسا تھا کہ ہمارے دل رحم سے بھر گئے اور ہم اس کی طرف ہمہ تن گوش بن کر متوجہ ہوئے.وہ روتی جاتی تھی اور بات کے ساتھ ساتھ جلد جلد اپنے دامن کو سنبھالتی جارہی تھی.ایک کونہ کو پکڑتی اور چھوڑ دیتی پھر دوسرا پکڑ کر ٹولتی اور چھوڑ دیتی حتی کے تیسرے یا چوتھے کونہ کو ٹول کر اس نے گرہ کھولنی شروع کی.چونکہ وہ بیک وقت تین طرف متوجہ تھی.۱ گریه وزاری ، آہ و بکا ۲ - مصیبت کی کہانی کا بیان - اور دامن کی گرہ کشائی اس وجہ سے.ہمارے پلے تھوڑا ہی کچھ پڑا اور اس کی پوری بات ہماری سمجھ میں نہ آسکی.حتی کہ گرہ سے کھول کر ایک اٹھنی اس نے اپنی انگلیوں میں تھامی اور بصد لجاجت ہم میں سے ہر ایک کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ لے لو اور میرے بیٹے کو کہیں سے پکڑ لاؤ.وہ بھاگ گیا ہے.بہت تلاش کی سرمارا ، مگر وہ ہاتھ نہیں آیا.وہ گیا

Page 256

۲۴۱ بٹالے.اگر کفرستان میں پہنچنے میں وہ کامیاب ہو گیا تو میرا کوئی ٹھکانہ نہیں.میں زندہ ہی مرمٹوں گی وغیرہ.پھیلاں کی بات اب کچھ ہماری سمجھ میں آئی.مطلب اس کا سمجھ کر اسے حضرت کے حضور عرض کرنے کا مشورہ دیا گیا چنانچہ وہ دوڑی گئی.حضرت آرام فرمارہے تھے.اس کی تکلیف اور بے قراری کی تاب نہ لا کر حضور آپ بے قرار ہو کر کھڑے ہو گئے مطلب پا کر حکم بھیجا.فور آجاؤ محمد دین جہاں کہیں ملے پکڑ لاؤ.“ اور خود اس کو تسلی دی.اطمینان دلایا.حوصلہ کرو.گھبراؤ نہیں.یہ بیٹا تمہارا جا نہیں سکتا آ جائے گا.“ ہم لوگ حکم پاتے ہی کھڑے ہو گئے جو جس حال میں تھا بھاگ نکلا.کوئی سر سے نگا بھاگا، کوئی پیر سے.ہر کسی کو یہی خیال تھا کہ وہ پیچھے نہ رہ جائے.گرمی کا خیال نہ دھوپ کی پرواہ.مارا مار کرتے ہوئے دوڑے.تھوڑی دور ایک آگے لگتا اور کچھ دور جا کر دوسرا اس کی جگہ لے لیتا.اور اس طرح ادلتے بدلتے موڑ تک پہنچے.نہر پر پہنچے آخر و ڈالہ بھی آ گیا.مگر محمد دین کا پتہ نہ لگا.حکم ہمارے آقا کا تھا اور قوت بھی ہمیں وہیں سے مل رہی تھی.تکان معلوم ہوئی نہ گرمی ، بلکہ امید بھرے دل سے ہمارے قدم برا بر آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے اور زمین ہمیں لپٹتی معلوم دے رہی تھی.امیر اس قافلہ کے مخدومی محترم بھائی عبدالرحیم صاحب اور شیخ عبدالعزیز صاحب ( نومسلم) ایک صاحب چوہدری نورالدین نام اور خاکسار راقم عبدالرحمن قادیانی.یہ چار نام تو مجھے ایک اور ایک دو کی طرح یاد ہیں.ایک صاحب اور کے متعلق مجھے شبہ ہے مگر ان کا نام یاد آ تا ہے نہ اتا پتا.پورے چھ میل کی سرگرم دوڑ کے بعد جبکہ ہم لوگ وڈالہ سے اس پار کی ریت کے بلند ٹیکروں پر پہنچے امید کی شعاع اور جھلک ہمیں نظر آئی اور ایک مجسمہ کو ہم نے محمد دین فرض کر کے زیادہ تیزی سے دوڑنا شروع کیا.جوں جوں ہم اس بت کے قریب ہوتے گئے ہمارا خیال یقین سے بدلتا گیا.حتی کہ جب ہم پوری شناخت کی حدود میں داخل ہو کر حق الیقین تک پہنچ گئے اور محمد دین نے بھی تاڑ لیا کہ اب وہ پکڑا گیا.بھاگنے اور چھپ جانے کی کوئی راہ نہ پا کر سڑک چھوڑ کر ایک طرف ہو کر رفع حاجت کے طریق پر بیٹھ گیا.اور دیر تک بیٹھا رہا.غالباً اس کا گمان یہ تھا کہ ہم لوگوں نے اسے پہچانا نہیں اور اس طرح راستہ سے ایک طرف ہو کر گویا وہ ہم سے پوشیدہ ہو گیا ہے.ہم لوگ کنویں پر پہنچ کر رک گئے جہاں ایک پختہ کمرہ کے علاوہ سڑک کے کنارے اور کنویں کے گرد توت کے چند سایہ دار درخت لگے ہوئے تھے اور قادیان سے بٹالہ جانے والی سڑک کے بائیں جانب یہ

Page 257

۲۴۲ مقام واقعہ ہے نام اس کا مجھے معلوم نہیں.موقعہ کے لحاظ سے یہ جگہ دیوانی مال کے تکیہ اور وڈالہ کے قریباً وسط میں واقع ہے.ہم نے میاں محمد دین کی انتظار کی مگر وہ اٹھنے ہی میں نہ آئے.مجبور ہوکر خود حاضر ہوئے اور عرض معروض کر کے اٹھایا جہاں وہ محض بہانہ بنائے بیٹھے تھے.بہت سخت کرخت بولے اور ہم سب کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے.گالی گلوچ اور سب وشتم کے علاوہ دھمکیوں کا بھی انبار لگا دیا.مگر ہماری طرف سے نرمی ، حکمت ، منت سماجت اور خوشامد در آمد کا سلوک پا کر آخر نرم تو ہو گئے مگر لوٹنے کی بجائے آگے ہی بڑھنے پرضد اور اصرار رہا.بہزا ر منت ولحاجت، پیار سے، دلاسہ سے نرمی سے گرمی سے کہہ سن کر مٹھی چاپی اور خدمت و حکمت سے واپسی پر رضامند کیا.تو تکان کا عذر اور پیدل نہ چل سکنے کا بہانہ بنا کر بیٹھ رہا.ٹالنے اور وقت گزارنے کی کوشش کرتا رہا.اور اس دوران میں ہم نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھیں بار بار بٹالہ کی طرف اٹھتی تھیں جیسے کسی کی انتظار ہو.اس خطرہ کو بھانپ کر ہم نے اسے پیٹھ پر اٹھایا، کہیں پیدل چلایا.ایک چادر کے کونے پکڑ کر اس کے لئے سایہ اور دھوپ سے بچاؤ کا انتظام کیا اور اس طرح بصد مشکل اس کو وڈالہ تک لے چلے.پیچھے مڑ کر جو کسی نے دیکھا تو ایک یکہ آتا دکھائی دیا جس کو دیکھ کر بیم ورجا اور خوف امید یکجا جمع ہوگئیں.خطرہ یہ تھا کہ بٹالہ مشن کے ساتھ اس کی ساز باز تھی مبادا وہی لوگ اس کی تلاش اور استقبال کو آتے ہوں.کیونکہ اس کے بھاگ نکلنے کا طریق وضع اور ہئیت ترکیبی کسی منصو بہ وسازش کا پتہ بتا رہی تھیں.اسی کشمکش میں وہ یکہ قریب ہوا اور خدا کے فضل سے ہماری امید خطرہ پر غالب ہوئی.یکہ میں بمشکل ایک سواری کی گنجائش تھی.میاں محمد دین کو اس میں بٹھایا مگر چونکہ وہ لوٹنے پر رضا مند نہ تھا.اچھی طرح جم کر بیٹھتا نہ مضبوطی سے پکڑتا تھا.خطرہ اس کے گر کر چوٹ کھانے کا تھا.جس کی اس میں تاب تھی نہ سکت.ناچار یکہ والے کو کہ سن کر ایک کو اس کے ساتھ بٹھایا تا محمد دین کو تھامے رہے اور باقی پیدل یکہ کے ہمراہ خدا کے فضل سے کامیاب و با مراد خوش و خرم لوٹے.قادیان پہنچے.ماں اس کی راہیں تکتی انتظار میں تھی.خدا کا شکر بجالائی اور دوڑ کر حضرت کے حضور اس کی واپسی کی اطلاع اور خوشی کا مژدہ سنایا.حضور پُر نور خوش ہوئے.دعائیں دیں اور محمد دین کے ساتھ زیادہ نیک اور زیادہ محبت کے سلوک کی تاکید فرماتے ہوئے تشریف لے گئے.محمد دین کو ملامت کی نہ کچھ جتایا.فرمایا تو صرف یہ کہ آپ کو اگر سیر کا خیال تھا تو ہم سے کہتے ہم خود اس کا انتظام کر دیتے.آپ نے بے فائدہ تکلیف پائی اور زحمت اٹھائی.ماں کی تکلیف کا بھی آپ کو خیال نہ آیا وغیرہ.“

Page 258

۲۴۳ اس طرح پھر سے ایک مرتبہ خدا نے محمد دین کو گویا کفر کے غار سے بچا کر دارالامان پہنچا دیا.اور وہ اچھی طرح رہنے لگا.خدا کے فضل نے جوش مارا.رحمت الہی کے دروازے کھل گئے.حضرت کی تو جہات مقبول ہوئیں.دم مسیحائی میں تاثیر آئی.اس روحانی مردے کی زندگی کے سامان ہونے لگے.اس کی طبیعت نے پلٹا کھایا.کفر کا زنگ اور شرک کی میل دھلنے لگی.اور ہوتے ہوتے آخر خدا نے وہ دن دکھا دیا جب کلام ربانی أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ أَمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ کی تاثیر نے اپنا اثر دکھایا.محمد دین کے دل کے جند رے کھل گئے.خدا کے فرشتوں نے اس کے سینے کو چاک کر کے غلاظت نکال کر ایمان کا نور بھر دیا.اور اس نے صدق دل اور انشراح صدر سے خدا کی توحید اور رسول کی رسالت کا کلمہ پڑھ کر کفر سے بیزاری اور اسلام کا اعلان کر دیا.ج پھیلاں نے سجدات شکر کئے اور خدا کی حمد کے گیت گائے.ہر طرف سے مبارک صد مبارک کی صدائیں بلند ہوئیں....روحانی مردوں کے زندہ ہونے کا مطلب اور يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمُ کی عملی تفسیر اور زندہ نمونہ آنکھوں نے دیکھ لیا.مسلمان ہو کر بھی ماں بیٹا کچھ دن رہے.محمد دین نماز پڑھتا اور مسلمانی اعمال بجالاتا رہا اور وہ اب دل سے مسلمان تھا.آخر حضرت کی اجازت سے پھیلاں اسے اپنے وطن لے گئی.وہاں بھی وہ مسلمان ہی تھا.عیسائی پادری اب اس سے مایوس ہو چکے تھے.کیونکہ وہ قادیان سے روحانی زندگی اور ایمان کا نور پاچکا تھا.اس طرح کچھ عرصہ وہ خوش و خرم رہا.آخر بیماری نے پھر زور پکڑا.غلبہ کیا اور چند روز کی بیماری کے بعد وہ بحالت اسلام اس دنیا سے کوچ کر گیا.شیخ احمد دین صاحب ڈنگوی بعد میں میرے نسبتی بھائی بنے.اس طرح مجھے قصبہ ڈنگہ سے ایک تعلق ورشتہ ہو گیا.پھیلاں اور اس کا لڑکا بھی چونکہ میرے ان بزرگوں کے پڑوسی تھے اس وجہ سے ان حالات کا تفصیلی علم ہوا جسے میں نے امانت سمجھ کر پہنچا دینا ضروری سمجھ کر لکھ دیا ہے.یہ واقعہ ۱۹۰۰ عیسوی سے قبل کا ہے.ایک امر جس کا ذکر اس واقعہ کی مناسبت اور مضمون کی مطابقت کے باعث اسی جگہ مناسب وموزوں تھا مجھ سے لکھنارہ گیا ہے وہ یہ ہے کہ:

Page 259

۲۴۴ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے مشرف ہونے والے بزرگ اس امر سے واقف اور بخوبی آگاہ ہیں کہ حضور پر نور کی خدمت برکت میں جب کوئی صاحب بیعت کی نیت سے حاضر ہوتے درخواست بیعت کرتے تو عموماً حضور ان کو قبول فرما کر فوراً ہی بیعت لے لیا کرتے.مگر بعض لوگ جب حضرت کی خدمت میں پہنچتے ، بیعت کی درخواست کرتے تو حضوران کو انتظار میں رکھتے اور آپ کچھ روز ٹھہریں کچھ دن اور صبر کریں.فرما دیا کرتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا کہ حضور کو ان کے متعلق کچھ تردد ہے انشراح نہیں جس کی وجہ سے حضور ان کے اصرار کے باوجود بھی ان کا معاملہ تعویق ہی میں ڈالے رکھا کرتے تھے.اس کے علاوہ بعض واقعات ایسے بھی دیکھنے میں آیا کرتے تھے.کہ کوئی صاحب بیعت کے لئے پیش ہوئے، حضور نے ان کو قبول فرما کر بیعت لے لی اور کوئی ایسا شخص بھی اس بیعت میں شامل ہو جایا کرتا جس کو حضور نے حالت انتظار میں رکھا ہوتا.گو ایسا شخص بظاہر حضرت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر اپنے آپ کو احمدیت میں داخل بھی سمجھ لیا کرتا.مگر بعض دفعہ بعد کے واقعات سے جو کچھ ظاہر ہوا کرتا ان سے غلاموں کے ایمان میں تازگی اور عرفان میں زیادتی ہو جایا کرتی تھی.اور ہم لوگوں پر ان واقعات کے نتیجہ میں یہ اثر غالب تھا کہ حضور کا فرمان اتقوا فراسة المومن “ کن حقائق کا مظہر ہے.اور یہ حقیقت ہماری سمجھ میں آجایا کرتی تھی کہ اللہ کریم بعض اشخاص اور امور کے متعلق اپنے فضل سے حضور کو خاص طور سے علم عطا فرما دیا کرتا تھا، جس کی وجہ سے بعض لوگوں کی بیعت لینے میں تردد و تامل فرماتے ہیں.اسی طرح اسلام سے مرتد ہونے والے عیسائیوں کے متعلق جو دوبارہ اسلام کی طرف لوٹنا چاہتے یا لوٹتے حضور کا قول حضور کی رائے اور فراست کا چرچا اور شہرہ جماعت میں عام ہے.مگر بعض خوش بخت ، نیک نہاد یقیناً اس ذیل میں بھی مستثنیٰ ہیں.جن کو حضور پر نور نے قبول فرمایا اور ان کو خصوصیت سے نواز کر شرف قرب بخشا.چنانچہ انہی پاک نفسوں کی طرح اللہ تعالیٰ کے اس رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے باوجود شدید روحانی بیماری میں مبتلا ہونے اور روحانی موت مر چکنے کے محمد دین کو بھی لاعلاج نہ سمجھا اور خدا کے عطا کردہ علم سے اس کے نیک انجام سے آگاہ ہو کر ہی اس کے لئے اتنی سخت محنت لمبا مجاہدہ اور اپنا قیمتی وقت صرف کیا تھا ور نہ حضور یقیناً اس پر اپنا سارا وقت خرچ نہ کرتے جس کے لئے خود خدا فرماتا ہے.اَنتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعَ وَقْتُهُ پس حضور نے محمد دین کے انجام نیک اور اس کی سعادت ہی کی وجہ سے اس کی توجہ فرمائی.اس کے

Page 260

۲۴۵ گند دھوئے اور نور ایمان سے منور فرما کر روحانی زندگی کی نعمت سے مالا مال فرمایا تھا.اور یہی وہ احیا موتی اور مردوں کا جی اٹھنا ہے.جس کا ذکر خدا کے کلام میں انبیاء و مرسلین کی نسبت وارد ہے.بھائی جی فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ مسماۃ پھیلاں احمدی ہو چکی تھی یا نہیں.-۲ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رقم فرماتے ہیں: مخدوم و مکرم حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے بعض چشم دید حالات اخباروں میں شائع کرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی صحت اور عمر میں برکت دے اور اس نیکی کے عوض انہیں جزائے خیر دے.آمین حال میں انہوں نے اخبار الحکم میں ایک نیک اور بہادر عورت بنام پھیلاں ساکن ڈنگہ کے حالات لکھے ہیں جس کا بیٹا محمد دین عیسائی ہو گیا تھا اور وہ بڑی ہمت کر کے بیٹے کو قادیان لا ئی.وہ بھاگ جاتا پھر لے آتی.بالآخر اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق دی اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر مسلمان ہوا.ان دنوں میں میں لاہور دفتر اکا ؤنٹنٹ جنرل میں ملازم تھا.اور مزنگ میں ایک کرایہ کے مکان میں رہتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود اس محمد دین کو مسائل سمجھاتے.اور اسلام کے خلاف اس کے شبہات مٹاتے.ایک دفعہ بائیل کی کسی آیت کی تفسیر پر اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اختلاف کیا.حضور نے فرمایا اس کا فیصلہ آسان ہے.ہم مفتی صاحب کو لکھتے ہیں کہ اس آیات کی اصل عبرانی معہ لفظی ترجمہ کے ہمیں بھیج دیں.اس کے پڑھنے سے صاف ہو جائے گا کہ اس آیت کا مفہوم کیا ہے.سو حضور نے مجھے خط لکھا اور حکم فرمایا کہ اس آیت کا اصل اور لفظی ترجمہ کر کے حضور کو بھیج دوں.وہ خط مجھے دفتر میں ملا.گرمی کا موسم تھا.دفتر سے فارغ ہو کر میں شام کے قریب مکان پر پہنچا.کھانا کھا کر اور نمازیں پڑھ کر میں لیمپ روشن کر کے بیٹھ گیا.عبرانی بائیبل نکال کر اس آیت کی عبرانی لکھی.پھر ایک ایک لفظ کو لغت وغیرہ کی کتابوں سے دیکھ کر ہر لفظ کا مطلب اور مفہوم الگ الگ لکھنا شروع کیا.اور اس کام میں اس طرح لگا رہا کہ مجھے کچھ معلوم نہ ہوا کہ رات گزرگئی اور کام اس وقت ختم ہوا جب صبح اذانوں کی آواز آئی اور دفتر جا کر میں نے وہ خط ڈاک میں ڈال دیا.حضور نے مجھے یہ نہ لکھا تھا کہ محمد دین کے ساتھ ترجمہ آیت پر اختلاف ہوا ہے.صرف یہی لکھا تھا کہ

Page 261

۲۴۶ اصل عبرانی اور لفظی ترجمہ لکھ دو.اس کے بعد اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے جلد قادیان آنے کا موقعہ ملا.تب مجھے سب حال معلوم ہوا.اور یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ میری تحریر جب یہاں پہنچی کہ اس سے ثابت ہوا کہ و ہی ترجمہ اور تفسیر درست تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرتے تھے.اور اس بارے میں محمد دین کا شبہ دور ہوا اور (اس کی ) تشفی ہوگئی.اس وقت پھیلاں سے ملنے اور بات کرنے کا مجھے بھی اتفاق ہوا.اور اس کے منہ سے ایک کلمہ نکلا جس کو میں کبھی بھول نہیں سکتا.ایک دن وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اندرون خانہ سے آ رہی تھی کہ مجھے کو چہ بندی میں ملی.اس کے چہرہ پر بشاشت اور تبسم تھا اور (وہ) مجھے بے اختیار کہنے لگی : پہلے نبیوں کے جو حالات ہم سنتے ہیں مجھے تو خیال آتا ہے کہ مرزا صاحب انہی میں سے ایک نبی ہیں.ان کا خلق، ان کی باتیں، ان کا کام سب نبیوں کی طرح ہے.میں نے کہا بالکل ٹھیک ہے.وہ عورت پڑھی لکھی نہ تھی.اس نے براہین (احمدیہ ) اور دیگر کتا بیں اور الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہ پڑھے تھے.مگر زیرک اور نیک اور سلیم الفطرت تھی.حضور کے حالات مشاہدہ کر کے بے اختیار اس کی طبیعت پر یہ اثر تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک نبی کو دیکھ رہی ہوں.۱۵- صحابہ کی جان شاریاں حضرت بھائی جی لکھتے ہیں : (انبیاء سے بڑھ کر کوئی شخص صفات الہیہ سے واقف نہیں ہوتا وہ ” بر تو کل زانوئے اشتر بہ بند پر عمل پیرا ہوتے ہوئے رعایت اسباب کا پورا خیال رکھتے ہیں.خلاصہ ) یہی طریق ہمارے سید و مولیٰ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا اور اسی منہاج پر حضور ہمیشہ کار بند تھے.بیماری میں علاج معالجہ اور دوائی درمن کی فراہمی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتے.ڈاکٹر وطبیب اور دید وحکیم سے مشورہ فرماتے.پوری کوشش اور سعی بلیغ فرماتے.مقدمات میں وکیل مختار اور منشی متعدی یا دوسرے قانون دانوں سے مشورہ فرماتے اور نہایت ہوشیار جرنیل کی طرح بھروسہ ہر قسم کا کسی سفلی سامان پر تھا نہ دوائی در من پر.کسی وکیل منشی پر ہوتا نہ کسی حاذق حکیم پر.آپ جہاں موحد کامل تھے

Page 262

۲۴۷ وہاں متوکل کامل بھی.علیہ الصلوۃ والسلام عنا وعن الخلق اجمعین.آمین.مقدمہ کرم دین کے نام سے ایک مقدمہ جماعت میں معلوم ومشہور ہے.اس مقدمہ کے دوران میں منشی کرم علی صاحب کا تب کی شہادت کی ضرورت محسوس ہوئی.( جو تقسیم ملک کے بعد پاکستان میں وفات پاچکے ہیں.مؤلف ) ستمبر یا اکتو بر ۱۹۰۳ء کا ذکر ہے کہ حسب معمول نماز مغرب کے بعد حضورا اپنی کشتی نما مسجد مبارک کی بالائی چھت پر رونق افروز تھے.دربار اپنی پوری شان اور تاب پر تھا.کہارصحابہ اور خدام و غلام ہر طبقہ در طبقہ کے جمع تھے.اگلے روز مقدمہ مذکور کی تاریخ پیشی تھی.ضروریات اور انتظام سفر کے متعلق صلاح و مشورے جاری تھے کہ اچانک حضور کو کوئی خیال پیدا ہوا.منشی کرم علی صاحب کو یا د فرمایا.احباب نے عرض کی حضور وہ تو گوجرانوالہ گئے ہوئے ہیں.فرمایا: ہمیں تو ان کی ضرورت ہے کل کی پیشی میں ان کی شہادت کرانے کا خیال ہے.“ حاضرین نے عرض کیا.حضور عشاء کا وقت ہو گیا ہے.گاڑی کوئی جاتی نہیں.وہ کل نہیں پہنچ سکتے.اگلی تاریخ پر ان کی شہادت ہو جائے گی.حضور پر نور نے پھر فرمایا.کوئی صورت ان کے آنے کی ممکن ہو تو بہتر ہے وہ کل ہی پہنچ جائیں شاید حاکم پھر موقعہ نہ دے کیونکہ مخالفت پر تلا ہوا ہے.“ مگر دوستوں نے پھر وہی عرض کیا جو پہلے کہہ چکے تھے.باوجود اس کے حضور نے پھر پہلے فرمان کو دہرایا اور ضرورت کی شدت بیان فرمائی.میں ابھی بچوں میں ہی شمار ہوا کرتا تھا.حضور کا فرمان بار بار میرے کانوں میں بھی پڑا اور دل کے اندر بیٹھتا گیا.بزرگوں اور دوستوں کا جواب بھی سنا اور میں اس پر غور میں مصروف تھا.آخر تیسری مرتبہ جب حضرت نے شدت ضرورت کا اظہار فرمایا تو مجھ سے نہ رہا گیا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک بات ڈال کر مجھے انشراح بخش دیا تھا.میں نے جرأت کی اور کھڑا ہو کر عرض کیا.حضور ! منشی کرم علی صاحب پہنچ سکتے ہیں مگر بعد دو پہر پہنچیں گے.میرا کھڑا ہو کر حضور کا لفظ زبان پر لانا تھا کہ حضرت جو شاید پہلے ہی مجھے دیکھ رہے تھے میری طرف متوجہ ہو گئے اور ساری مجلس پر ایک سناٹا چھا گیا.فرمایا: ہاں میاں عبدالرحمن بیان کرو کہ وہ کیسے آسکتے ہیں؟ میں نے عرض کیا ”حضور میں ابھی بٹالہ چلا چاؤں گا وہاں سے یکہ مل گیا تو بہتر ورنہ کوشش کروں گا کہ راتوں رات امرت سر پہنچ کر وہاں سے صبح کی

Page 263

۲۴۸ نماز کے قریب لا ہور اور گوجرانوالہ کو جانے والی گاڑی میں بیٹھ کر گوجرانوالہ آٹھ بجے پہنچ جاؤں.اور اس طرح ان کو لے کر گورداسپور حاضر ہو جاؤں.میرا یہ بیان سن کر حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا.رات کا وقت ہے اکیلے جانا مناسب نہیں.میاں فتح محمد آپ میاں عبدالرحمن کے ساتھ چلے جائیں.امرتسر سے آپ لوٹ آئیں.میاں عبدالرحمن آگے اکیلے چلے جائیں گے.ذرا ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں حضور مجلس میں سے اٹھ کر نیچے تشریف لے گئے اور جلد ہی واپس تشریف لا کر مٹھی بھر روپے میرے ہاتھ میں دیئے اور فرمایا.”جاؤ اللہ حافظ ! ہم گورداسپور میں کل آپ کا انتظار کریں گے ہم نے دست مبارک کو بوسہ دیا اور آنکھوں پر رکھ کر رخصت ہوئے.چوہدری فتح محمد صاحب جو آجکل نظارت علیا پر فائز ہیں اس زمانہ میں طالب علم تھے ( بوقت طبع دوم وفات پاچکے ہیں.مئولف) مضبوط اور چست و چاق، مخلص جو شیلے اور ایک فدا کارنو جوان تھے.ہم دونوں فوراً پہلے قادیان کے ایک یکہ بان کے ہاں گئے اور کوشش کی کہ وہ ہمیں زیادہ نہیں تو بٹالہ ہی پہنچا دے مگر اس کی لیت و لعل کو ہم برداشت نہ کر سکے.کیونکہ ہمارا ایک ایک منٹ قیمتی تھا.رات اندھیری تھی.ہم دونوں پیدل بھاگتے دوڑتے قریباً ڈیڑھ گھنٹہ میں بٹالہ پہنچے.یکہ بانوں کے ساتھ بات چیت کی اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ ایک یکہ بان جو امرت سر ہی کا تھا اتفاقا مل گیا اس کے ساتھ کرایہ طے کر کے اس کو تیاری کے لئے کہا اور خود عشاء کی نماز میں مصروف ہو گئے.ہم نماز سے فارغ ہوئے اور وہ اتنے میں تیار ہو گیا.سوار ہوکر لا ۶۹ سُبْحْنَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هُذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ) پڑھتے ہوئے امرتسر کو روانہ ہوئے رات اندھیری تھی.اور یہ علاقہ خطرناک.عموماً چوری ڈاکہ کی ورا دا تیں ہوا کرتیں.یکہ بان آگے اور ہم دونوں بیٹھ جوڑ کر دائیں بائیں ہوشیار و چوکس چلتے گئے.راستہ میں دو جگہ خطرہ معلوم ہوا دائیں بائیں سے ظلماتی آدمی اٹھے اور بڑھے.مگر ہم تینوں خدا کے فضل سے چوکس تھے.گھوڑا گاڑی خاصی تیز تھی ہم تک کوئی نہ پہنچ سکا.اور ہم بخیریت وقت پر امرتسر کے اسٹیشن پر پہنچ گئے.خدا کا شکر کیا.میں ٹکٹ لے کر اندر چلا گیا.اور چوہدری صاحب محترم یکہ بان کے ساتھ شہر کو.تھوڑی دیر میں گاڑی آئی اور میں بیٹھ کر وہی قرآنی دعا پڑھتا ہوا لا ہور اور لاہور سے گوجرانوالہ پہنچا.گاڑی سے اتر دوڑتا ہوا شہر گیا.منشی صاحب کا پتہ جس مکان کا تھا وہاں گیا.مگر جواب ملا کہ وہ تو صبح ہی چلے گئے ہیں.کہاں گئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ایک دوسرے مکان کا پتہ دیا گیا.مارا مارا

Page 264

۲۴۹ وہاں پہنچا مگر افسوس ! منشی صاحب وہاں بھی نہ ملے.لوٹ کر پہلے مکان پر آیا، ماجرا بیان کیا تو انہوں نے کہا تو پھر وہ لمبانوالی چلے گئے ہوں گے.وہ کدھر ہے ؟ کیونکر پہنچوں ؟ گھر والوں نے جواب دیا.وزیر آباد یا گھڑ کو جانے والے کسی یکہ میں بیٹھ کر راہوالی کے برابر اتر جانا.وہاں سے سیدھا راستہ لمبانوالی کو جاتا ہے یہ مقام گوجرانوالہ سے براستہ سڑک چار میل ہوگا.میں نے ان کے بات سنی، کچھ نہ سنی اور یکوں کے اڈہ کو دوڑا جہاں ایک یکہ سواریاں لے کر روانہ ہو نکلا تھا.میں نے دوڑ کر اس سے کہا کہ فلاں جگہ تک مجھے بھی لے چلو.اس نے انکار کیا اور کہا کہ سواریاں پوری ہیں اور جگہ نہیں.میں نے چونکہ ضروری جانا تھا.کچھ خوشامد کی اور کہا کہ لگھڑ کا کرایہ لے لو اور لے چلو میں پڑی پر پی ٹکا کر ہی گذر کرلوں گا.پیسوں کے لالچ نے اس کو کچھ مجھ پر مہربان کر دیا.اور اس طرح میں اس یکہ میں بیٹھ کر راہوالی تک پہنچا.یکہ سے اتر کر پیسے اس کے حوالے کر دیئے.میری ایک کھونڈی (بانس کی لکڑی جس کا ایک سرگول مڑا ہوا تھا) یکہ بان کے ہاتھ میں تھی.جس سے وہ گھوڑے کو مار مار کر ہانکتا آیا تھا.بوجھ زیادہ اور گھوڑا کمزور تھا.نیز میری خاطر وہ کچھ جلدی پہنچانے کی بھی کوشش کرتا آ رہا تھا.پیسے دے کر میں نے اپنی لکڑی مانگی تو وہ اڑ گیا.لکڑی اسے پسند آگئی تھی اور نیت اس کی بدل چکی تھی.میری جلدی اور ضرورت کو اس نے بھانپ لیا تھا.اور جانتا تھا کہ یہ شخص ایک منٹ بھی اپنا وقت ضائع نہ کرے گا.میں لکڑی مانگوں وہ انکار کرے.وہ وقت ایسا تھا کہ ایک منٹ کی تاخیر بھی لاکھ کروڑ لکڑی کی قیمت سے کہیں زیادہ تھی.میری غرض اور مقصد ہی فوت ہوتا تھا.آخر میں نے اس کشمکش میں پڑ کر اس سعادت سے محروم رہنا پسند نہ کیا اور وہ پیاری لکڑی جو عموماً سفری تنہائی میں میری رفیق اور ضرورت میں بہترین ہتھیار تھا قربان کر کے لمبانوالی کو دوڑنے لگا.اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی.زمین لپیٹتی گئی یا سورج ہی تھا رہا.میں گاؤں میں پہنچا.منشی صاحب کا مکان دریافت کر کے آواز دی.منشی صاحب میری آواز پہچان کر ننگے سر اور ننگے پاؤں دروازہ پر آئے.میں نے جلدی میں مقصد و غرض بتائی اور فوراً آ جانے کو کہا.صد ہزار شاباش اور دین و دنیا میں بھلا ہو اس خوش نصیب انسان کا.شاید ایک منٹ بھی نہ لیا ہو گا کہ پگڑی جوتی اور ایک کپڑا لے کر نکل آئے اور میرے ساتھ واپس گوجرانوالہ اسٹیشن کو دوڑنے لگے.دونوں دوڑے اور خوب دوڑے.واپسی پر منشی صاحب ایک پگڈنڈی کے راستہ سیدھے اسٹیشن گوجرانوالہ کو آئے اور اللہ کا احسان ہوا کہ ادھر ہم پہنچے ادھر گاڑی

Page 265

۲۵۰ آ گئی.جلدی سے ٹکٹ لئے اور خدا کے نام پر سوار ہو کر شکر بجالاتے ہوئے گورداسپور کوروانہ ہو گئے.جہاں خدا کا اولوا العزم نبی ورسول علیہ الصلوۃ والسلام ہماری انتظار میں تھا.الحمد للہ الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ یہ مہم محض خدا کے فضل سے سر ہوئی.سیدنا حضرت اقدس کے حضور سرخروئی نصیب ہوئی.حضور خوش ہوئے اور تبسم فرماتے ہوئے جزاک اللہ، جزاک اللہ فرماتے اور دعائیں دیتے رہے.اس کے علاوہ اسی مقدمہ کے دوران میں ایک رات بعد نماز عشاء گیارہ بجے رات کو حکم ہوا تھا کہ شیخ فضل الہی صاحب نمبر دار فیض اللہ چک کی ضرورت ہے.برسات کے ایام اور اندھیری راتیں.ڈھاب، تالاب پانی سے اٹے پڑے تھے.راستے غائب، سڑکیں گم تھیں.مگر خدا تعالیٰ نے اس موقع پر بھی خارق عادت رنگ میں مددفرمائی اور شیخ صاحب کو لے کر وقت پر پہنچ گئے تھے.تعمیل ارشاد میں انہوں نے بھی جس محبت وایثار کا نمونہ دکھایا.قابل رشک صد آفرین اور لائق صد داد ہے.خدا غریق رحمت کرے.آمین ایک مرتبہ سردار فضل حق صاحب کی ضرورت پیش آئی تھی.اسی مقدمہ کی ذیل میں قادیان سے دھرم کوٹ گیا.وہ نہ ملے.بٹالہ واپس آیا نہ ملے.امرتسر گیا.وہاں بھی نہ ملے.آخر تر متارن جا کر کچہری کی ایک کوٹھڑی میں سے ہاتھ آئے.اسی طرح کے بعض اور بھی سفر ہیں.جوانشاء اللہ بھی پھر سہی.میں جہاں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے کام میں کس طرح غیر معمولی رنگ اور خارق عادت طریق پر سرانجام پہنچانے کے سامان پیدا کر دیا کرتا ہے.سورج ان کے لئے تھم جاتا تھا.اور زمین لپٹ جایا کرتی تھی.وہاں یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ حضور پُر نورکو غلام بھی خدا نے کیسے اطاعت گذار اور فدائی عطا فرمائے ہوئے تھے.جو راتوں کو بھی دن سمجھتے اور ہرلحہ تیار بر تیار رہا کرتے تھے ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ایسے موقعوں پر جبکہ اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید اور خارق عادت نصرت کے سامان ہو جایا کرتے تو حضور ا کثر بطور شکر گزاری یہ فرمایا کرتے تھے.” خدا کا کتنا فضل ہے کہ ہمیں ہر قسم کے آدمی عطا فر مار کھے ہیں.“ اور حضور سب سے بڑھ کر عبد شکور تھے.میں ہمیشہ اس واقعہ کو یاد کر کے خود بھی حیران ہوا کرتا ہوں اور جاننے سننے والے بھی تعجب ہی کیا کرتے کہ یہ ناممکن کام کیونکر ممکن ہو جایا کرتے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے: رعایت اسباب لازمی ہے مگر ان پر انحصار رکھنا شرک اور ان کو ترک کر دینا نا شکری.“ اور آپ جو

Page 266

۲۵۱ کچھ فرماتے اس کے مطابق عمل کر کے دکھا دیا کرتے تھے.اللهم صلى عليه وعلى مطاعه دائماً - آمين - فنانشل کمشنر کی قادیان میں آمد پر استقبال حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک مضمون میں روانیوں کے جمع کرنے میں خاص احتیاط کی ضرورت کے بارے توجہ دلاتے ہوئے بتایا ہے کہ ایک دوست کی روایت میں فنانشل کمشنر کو کمشنر بتایا گیا اور یہ بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود فنانشل کمشنر کے استقبال میں شریک ہوئے تھے.حالانکہ یہ درست نہیں.قادیان سے باہر استقبال کرنے کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ کو بھجوادیا تھا اور جو استقبال قادیان کے اندر یعنی ریتی چھلہ کے میدان میں ہوا تھا اس میں بھی حضرت اقدس علیہ السلام خود شریک نہیں ہوئے تھے.اس روایت کی تصحیح بعد میں مکرمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے الفضل ۳ را پریل ۱۹۴۱ء میں کر دی تھی.حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب کی طرف سے تیج -1 ایک دوست کی روایت الفضل میں شائع ہوئی اس کی تصحیح میں حضرت بھائی جی تحریر کرتے ہیں کہ فنانشل کمشنر نہ کہ کمشنر کی آمد پر حضور پرنور خود استقبال کے لئے تشریف نہیں لے گئے تھے.بلکہ اپنے خاندانی طریق کے مطابق اپنے بڑے صاحبزادے سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ کو ان کے استقبال کے لئے قادیان کی حد پر بھیجا تھا.جو مع اور چند معززین کے گھوڑوں پر سوار ہو کر تشریف لے گئے تھے.دارالفتوح.ریتی چھلہ کے بڑوالے میدان میں پہلے طلباء کی قطاریں تھیں.جن کے ساتھ ان کے اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر صاحب تھے.دروازہ کے پاس جماعت احمدیہ کے مقامی اور بیر ونجات کے شرفاء و معززین کھڑے تھے.مگر اس موقعہ پر بھی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام موجود نہ تھے.گیارہ بجے کے قریب صاحب بہادر اپنے کیمپ پر پہنچے اور صاحب بہادر کی خواہش پر عصر کے بعد حضور نے اپنے معزز مہمان کو شرف ملاقات بخشا تھا.حضور جب تشریف لے گئے تو صاحب بہادر نے خیمہ کے دروازہ پر حضور کا استقبال کیا اور حضور کی واپسی پر بھی خیمہ سے باہر تک حضور کو رخصت کرنے آئے.ان واقعات کا

Page 267

۲۵۲ میں بھی چشم دید گواہ ہوں.مفصل پھر انشاء اللہ -۲ مجوزہ بالا صحیح کے بعد ذیل کا مضمون حضرت بھائی جی نے مفصل تحریر فرمایا: صاحب موصوف ۲۱ مارچ ۱۹۰۸ء کو گیارہ بجے قبل دو پہر کے قریب اپنے کیمپ میں پہنچے جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے لئے خرید کردہ اراضی کے وسیع میدان میں لگایا اور سجایا گیا تھا.اس کام کی تکمیل، ترتیب اور خوبی کا سہرا ہمارے محترم بزرگ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم کے سر رہا.جن کو سلسلہ کی طرف سے اس خدمت پر مامور کیا گیا تھا.خیمہ گاہ کے جنوبی سرے پر ایک خوبصورت دروازہ کھڑا کیا گیا تھا اور اس پر خوش آمدید.ویلکم.لکھا گیا.یہ وہ مقام ہے جہاں ان دنوں حضرت مولانا مولوی شیر علی صاحب کا مکان واقع ہے.خیمے.سٹرکیں اور روشیں شمال کی جانب دور پرے نور ہسپتال کی جگہ تک بلکہ اس سے بھی کچھ اور آگے تک پھیلی ہوئی تھیں.” صاحب بہادر کے استقبال کے لئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی خاندانی - روایات و طریق پر اپنے بڑے صاحبزادے سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ کو بھیجا.جن کے ہم رکاب جناب خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری صدرانجمن احمد یہ اور خواجہ جمال الدین صاحب گھوڑوں پر سوار ہو کر قادیان کی حدود تک جانب مشرق گئے.اور صاحب بہادر کو اپنے ساتھ لے کر دار الفتوح کے کھلے اور وسیع میدان میں پہنچے جو اس زمانے میں ریتی چھلہ کہلاتا اور بالکل کھلا پڑا تھا.جہاں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے طلباء اپنے اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر حضرت مولوی شیر علی صاحب بی.اے کی زیر نگرانی ایک نظام و ترتیب کے ساتھ قطاروں میں اپنا جھنڈا تھا مے اور عوام اور پبلک ایک بے ترتیب ہجوم کی صورت میں جمع تھے.”جناب بہادر نے ہیڈ ماسٹر صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول سے سکول کے متعلق بعض امور دریافت فرمائے.پھر طلباء کا سلام لیتے ہوئے قطاروں میں سے خوشی و بشاشت سے گزرتے ہوئے دروازہ میں داخل ہوئے اور خیمہ کے قریب کے تیار شدہ خوبصورت چبوترہ پر پہنچے.جہاں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے معززین اور شرفاء مقامی اور بیرونی جماعتوں کے نمائندگان نے آپ کا استقبال کیا.اس موقعہ پر جناب مولوی محمد علی صاحب ایم اے ایڈیٹر ریویو آف ریچز نے تمام دوستوں کا نام بنام تعارف کرایا.جو کم و بیش ساٹھ اصحاب تھے.اس تعارف کے بعد سیکر ٹری صاحب صدر انجمن احمدیہ نے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ والسلام کی طرف سے صاحب بہادر کو پیغام دعوت دیا.

Page 268

۲۵۳ ”صاحب بہادر نے دوران گفتگو میں خود سیدنا حضرت اقدس کی ملاقات کی خواہش ظاہر کی.اور فرمایا کہ اگر مرزا صاحب کو تکلیف نہ ہو تو مجھے آپ کی ملاقات سے بہت خوشی ہوگی.حضور کو جب اس خواہش کی اطلاع پہنچی تو حضور نے فرمایا: ”وہ ہمارے مہمان بلکہ معزز و ممتاز مہمان ہیں.ان کو تکلیف اٹھانے کی 66 ضرورت نہیں.ہم خود ان کے خیمہ میں جا کر ان سے ملاقات کریں گے.“ دعوت کی قبولیت کی اطلاع بعد میں جناب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی معرفت آچکی تھی.جس کی تیاری کے انتظامات حضرت حاجی حافظ حکیم فضل دین صاحب مرحوم کے سپرد ہوئے.اور اس طرح شام کا کھانا اس سارے قافلے کا خیموں میں پہنچایا گیا.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعد نماز عصر پانچ بجے ، صاحب بہادر کی ملاقات کو تشریف لے گئے.حضور کے ہمرکاب عشاق و خدام کا ہجوم تھا.مگر منتظمین کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ ملاقات کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہو.چنانچہ حضرت اقدس کے ہمر کاب ملاقات کیلئے صرف بعض اصحاب اور بعض عزیز ہی خیمہ کے اندر گئے تھے.یہ وہی ملاقات ہے جس میں حضور اور فنانشل کمشنر کے درمیان گفتگو ہوئی تھی ( ایک سیاسی پارٹی میں شمولیت کے بارے میں لیکن حضور نے اس امر کو پسند نہ فرمایا تھا )...سیدنا امیر المومنین حضرت اقدس خلیفتہ اسیح الثانی.اس گفتگو کی تفصیل و تشریح اکثر بیان فرمایا کرتے ہیں.قبلہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو اس چشمہ نور اور شمع و ہدایت کے عاشق صادق اور پروانہ واقع ہوئے تھے حضور کے ساتھ ہی ساتھ خیمہ کے دروازہ تک جاپہنچے.مگر خیمہ میں داخل ہونے سے قبل دروازہ کے کچھ دور ہی سید نا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دست مبارک کی چھڑی جو گھر سے باہر ہمیشہ حضور کے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی حضرت مفتی صاحب کو دے دی جسے لے کر حضرت مفتی صاحب وہیں کھڑے ہو گئے.اور اس طرح اپنے آقا کے ہمرکاب اندر جانے کی زبردست خواہش کو حضور کے حکم وامر پر قربان کر کے حضور پُر نور سے بار بار سنے ہوئے منقولہ الامر فوق الادب کی تعمیل اپنے عمل سے کر دکھائی.صاحب بہادر سید نا حضرت اقدس کو خیمہ کی طرف تشریف لاتے دیکھ کر اٹھے اور دروازہ پر حضور کا استقبال کیا.پہلے حضور کو بٹھایا پھر خود بیٹھے اور سلسلہ کلام اردو میں جاری ہو گیا.اس طرح کسی ترجمان اور درمیانی واسطہ کی ضرورت باقی نہ رہی.

Page 269

۲۵۴ آدھ گھنٹہ سے زیادہ پون گھنٹہ کے قریب یہ سلسلہ گفتگو جاری رہا.جس کے بعد حضور واپس تشریف لے آئے.اور واپسی کے وقت بھی صاحب بہادر خیمہ سے باہر تک خود حضور کو پہنچانے کے واسطے نکلے اور اس طرح مہمان و میز بان خوش خوش ایک دوسرے سے رخصت ہوئے.موقر اخبار الحکم نے اس موقعہ پر ایک خاص پر چہ شائع کر کے اور بدر نے اپنی اشاعت ۲۶-۳-۱۹۰۸ میں اس تقریب کے مفصل حالات شائع کئے تھے.۱۷- تکلف سے دور ہونا خاکسار عبدالرحمن قادیانی بقلم خود (بیان بھائی جی ) حضرت اقدس کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ آپ کو تکلف اور بناوٹ سے اپنے آپ کو ممتاز ظاہر کرنے کی عادت نہ تھی.آپکی ہر حرکت وسکون سے اس بات کی شہادت ملتی تھی.ایک دفعہ آپ چولہ بابا نانک جی کے زیارت کیلئے مع چندخدام ڈیرہ بابا نانک تشریف لے گئے الفضل جلد ۲۹ نمبر ۳۲ مورخه ۹ رفروری ۱۹۴۱ء (صفحه ۵،۴) الفضل نمبر ۳۳ نمبر ۲۹ مورخہار فروری ۱۹۴۱ء (صفحہ ۶) میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی رقم کردہ تصحیح شائع ہوئی ہے.صاحب موصوف کی آمد کے بارے الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۲ مورخہ ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ء میں بھی حاکم موصوف کی آمد وغیرہ کے حالات تفصیل سے درج ہیں اس کے مطابق تحصیلدار ملک قادر بخش نے کیمپ کے انتظامات میں مدد دی تھی.ان تصیحات سے مفید ا ضافہ ہوا ہے.الحکم و بدر کے ان شماروں سے معلوم ہوتا ہے کہ فنانشل کمشنر کے ہمراہ مسٹر کنگ ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور مہتمم صاحب بند و بست.مسٹر سنگھا افسر مال ضلع گورداسپور اور تحصیلدار بٹالہ بھی آئے تھے.رسہ تعلیم الاسلام کے لئے خرید کردہ زمین کو خیموں اور ڈیروں کے لئے صاف کیا گیا.دروازہ پر سنہری حروف سے ویلکم(welcome)لکھا گیا.اور وہان سے خیمہ تک دور و یہ پھول کے گملے رکھے گئے.دوسرے روز فنانشل کمشنر صاحب کی قادیان سے روانگی ہوئی.صاحب بہادر“ کے الفاظ تقسیم برصغیر سے پہلے ہندوستانی اور برطانوی حکام کے لئے عام طور پر استعمال ہوتے تھے.اخبارات میں بھی اور سرکاری شائع کردہ اعلانات وغیرہ میں بھی.مدرسه

Page 270

۲۵۵ وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے کپڑے بچھا کر حضور مع احباب جماعت بیٹھ گئے.جب قصبہ کے لوگوں کو آپ کی آمد کا علم ہوا تو ملاقات کے لئے آئے.چونکہ آپ کی مجلس بزرگانہ سادگی کا ایک نظارہ تھی.اور آپ کے مقدس وجود کے لئے کوئی نمایاں جگہ نہ بنائی گئی تھی.اس لئے بہت سے لوگوں کو دھو کہ لگا کہ مولوی محمد احسن صاحب مسیح موعود اور پرگنہ بٹالہ کے گورو ہیں.اور وہ ان سے مصافحہ کرنے لگے.لیکن پھر مولوی صاحب کے بتانے پر وہ حضرت اقدس کی طرف متوجہ ہوئے.اس قسم کے واقعات آپ کی زندگی میں کئی دفعہ ہوئے.۱۸ دنیوی آرام کے لئے کوئی خاص رعایت نہ چاہنا بیان بھائی جی ) حضرت اقدس کی زندگی کا یہ بھی ایک نمایاں پہلو تھا کہ آپ دنیوی آرام وسہولیات میں اپنے لئے کوئی خاص رعایت نہ چاہتے تھے.ایک دفعہ قادیان کے قصابوں نے کوئی خطرناک شرارت کی.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے حکم دیا کہ ان سے اس وقت تک گوشت خرید نا بند کر دیا جائے جب تک کہ وہ اپنی اصلاح نہ کر لیں.چنانچہ اس ارشاد کے مطابق سب احباب نے گوشت ترک کر کے دال کھانا شروع کر دی.اور آپ خود بھی دال سبزی استعمال فرمانے لگے.ایک دن حضرت مولوی سرور شاہ صاحب نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک بکری ہے.حضور اس کو اپنے استعمال میں لائیں.یہ سن کر حضور نے فرمایا کہ میرا دل اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ہمارے دوست ہمارے کہنے پر دالیں کھا ئیں اور ہمارے گھر میں گوشت پکے.۱۹ مایوسی سے دشمنی ( بیان بھائی جی ) جہاں تک میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے.آپ مایوسی کے بہت بڑے دشمن تھے.آپ کی مجلس اور صحبت میں بیٹھنے والا شخص امید اور امنگ سے بھر جاتا تھا.آپ کے ہشاش بشاش چہرے کے دیکھنے سے ہی سالہا سال کے غم اور کلفتیں دور ہو جاتی تھیں.حضور فرمایا کرتے تھے کہ انسان کی فطرت میں خدا تعالیٰ نے گناہوں پر غالب آنے کا مادہ رکھا ہے.پس خواہ انسان اپنی بدیوں اور بداعمالیوں سے کیسا ہی گندہ ہو گیا ہو.اس کے لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.وہ جب بھی نیکی کی طرف جھکنا چاہے گا اس کی نیک فطرت اس کے گناہوں پر غالب آ جائے گی.جیسے پانی کے

Page 271

۲۵۶ اندر آگ کو بجھانے کی خاصیت ہے.پس پانی خود خواہ کتنا ہی گرم ہو جائے یہاں تک کہ وہ جلانے میں آگ کی طرح ہو جائے.پھر بھی اگر آگ پر ڈالا جائے تو وہ آگ کو بجھا دے گا.اس عمدہ نکتہ سے حضور نے کتنے ہی مایوسی کے شکار انسانوں کو مایوسی کے گڑھے سے نکال کر امید اور ترقی کی بلند چٹان پر کھڑا کر دیا.۲۰ حضرت اقدس کے عہد مبارک میں بعض خدمات اور سلسلہ کے لٹریچر میں ذکر اس سعادت بزور باز و نیست -1 تانه بخشد خدائے بخشنده ضمیمہ انجام آتھم میں تین سو تیرہ صحابہ میں ۱۰۱ نمبر پر شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم قادیان“ مرقوم ہے.فائل وصیت میں آپ کی ایک تحریر میں درج ہے کہ اس سے مراد میں ہوں اور خاکسار سے بھی آپ نے یہی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ابھی بعد قبول اسلام میری ڈنگہ میں شادی نہیں ہوئی تھی.شادی ہوئی ہوتی تو ممکن ہے بعض دوسروں کی طرح مع اہلیہ کا اندراج ہوتا.۲- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بمقدمہ کرم دین سفر جہلم کے رفاقت کرنے والوں میں ” ماسٹر عبدالرحمن صاحب قادیانی نو مسلم آپ کا نام درج ہے.بشمول حضرت بھائی جی نو مسلم احمدیوں کی طرف ایک اشتہار بعنوان ” قادیان اور آریہ سماج شائع کیا گیا جس کے جواب میں آریہ سماج کی طرف سے ایک گالیوں بھرا اشتہار شائع کیا گیا.یہ جوابی اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے کتاب «نسیم دعوت تصنیف کرنے کا موجب بنا.- - جلسہ آریہ سماج و چھو والی لاہور منعقدہ دسمبر ۱۹۰۷ء میں بھی آپ نے شرکت کی تھی.بعض اور خدمات کا دیگر مقامات میں ذکر ہوا ہے.ان کے علاوہ بار ہا آپ کو بٹالہ سے ڈاک تارلانے اور لے جانے لنگر خانہ کے لئے آٹا فراہم کرنے کی توفیق حاصل ہوئی.-۵

Page 272

آپ کی قلمی خدمات حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیان کی قلمی خدمات کا آغا ز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں جولائی ۱۸۹۸ ء سے ہوا ، جو آپ کی وفات تک جاری رہا.مناظرہ منصوری اور عدالتی مقدمات اور ۱۹۲۴ء کے سفر یورپ کی طویل جامع اور مستند رپورٹیں آپ کے قابل رشک قوت حافظہ پر شاہد ہیں.آپ کے سلسلہ احمدیہ کے بارے میں مضامین تاریخی ، روح پرور، بیش قیمت اور نہایت مستند ، نا قابل فراموش اور آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں.آپ کی سفر یورپ کی ڈائریاں تو بزرگان سلسلہ سے مفید خوشنودی حاصل کر چکی ہیں.آپ کا حافظہ آخر عمر تک بہت اچھا رہا.البتہ تقسیم ملک کے بعد آپ کے شائع شدہ مضامین آپ کے اپنے تحریر کردہ نہیں.بوجہ تقاضائے عمر آپ دوسروں کو تفصیل بتا کر لکھواتے رہے.اس لئے ان میں آپ کے قلمی مضامین جیسی روانی وغیرہ نہیں.حضرت اقدس علیہ السلام کے کلمات طیبات کے محفوظ کرنے کی سعادت جو وصال کے قریب آپ کو حاصل ہوئی، اس کا خصوصی ذکر یہاں کیا جاتا ہے.کلمات طیبات محفوظ کرنا (الف) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اردسمبر ۱۹۰۳ء کی تقریر آپ "ماسٹر شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی نے قلمبند کی.(البدر ۱۶/ دسمبر ۱۹۰۳ ء صفحہ ۴ ۳۷ میں شائع ہوئی) (ب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال سفر لاہور میں ہوا.(جس کا آگے ذکر آتا ہے.) حضور، بھائی جی کو ساتھ لے گئے تھے.اس سفر کے دوران آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام کے کلمات طیبات محفوظ کرنے کا موقعہ میسر آیا.آپ کچھ عرصہ اخبار الحکم کے اسٹمنٹ ایڈیٹر بھی رہے تھے.ان کلمات طیبات کی اشاعت میں ذیل کے الفاظ درج ہیں: -۲ - عبدالرحمن قادیانی سب ایڈیٹر لاہور مرتبہ عبدالرحمن قادیانی اسسٹنٹ ایڈیٹر الحکم کے اسٹنٹ ایڈیٹر کا لکھا ہوا“ عبد الرحمن قادیانی

Page 273

۲۵۸ -1 حضرت اقدس علیہ السلام کا لاہور میں وصال ہوا.سفر لاہور کے راستہ میں امرتسر ریلوے اسٹیشن پر وہاں کے احمدی احباب سے گفتگو به عنوان " کلمات طیبات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہ عنوان بالا لاہور میں ۳۰ اپریل اور یکم مئی ۱۹۰۸ء کے ملفوظات.مرکزی لائبریری -۲ قادیان میں موجود ایک جلد میں ذیل کے بہت مدھم الفاظ پڑھے جاتے ہیں.اسٹنٹ ایڈیٹر“ کلمات طیبات حضرت امام الزمان سلمه الرحمن -۲ مئی ۱۹۰۸ء کو بعد عصر مسٹر محمد علی جعفری ایم.اے وائس پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور ملاقات کے لئے آئے.حضرت اقدس نے اپنی گفتگو میں مسلمانوں کی حالت مسلمانوں اور نواب صدیق حسن خاں کے مخالفانہ سلوک اپنی صداقت تائیدات الہیہ اور حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت پر روشنی ڈالی.-✓ " کلمات طیبات ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء.ایک دہریہ سے ملاقات.-۵- کلمات طیبات ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء.اجلاس دوم.اس دہریہ سے ملاقات کے بعد ایک اور ملاقات فرمائی.پھر اپنے احباب میں حضرت اقدس آئے تو دلائل وفات مسیح کے دریافت کئے جانے پر حضور کی تقریر.-4 تحميل التبلیغ وا تمام الحجہ کے زیر عنوان حضرت بھائی جی لکھتے ہیں کہ پنجاب کے صدر مقام لا ہور کے چیدہ، معزز اور تعلیم یافتہ مسلم رؤساء کو دعوت طعام پر جمع کر کے تبلیغ کا موقعہ بہم پہنچایا گیا تھا.۶ امئی ۱۹۰۸ء کو اس تقریب سے ایک روز پہلے رات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت چند دست آ جانے سے بہت کمزور ہوگئی تھی اور یہ امید نہ رہی تھی کہ ارادہ کے مطابق حضرت اقدس تقریر فرماسکیں گے.چنانچہ حضرت اقدس نے حضرت مولانا نورالدین صاحب کو حکم دیا کہ ان معزز مہمانوں کو کچھ سنا دیں.ابھی حضرت مولانا صاحب نے اپنی تقریر کا ابتد کی حصہ شروع ہی کیا تھا کہ حضرت اقدس خود تشریف لے آئے.( آپ نے برابر ڈھائی گھنٹہ تک بڑی پُر زور، پرتا شیر اور جامع تقریر فرمائی.) ۷ ارمئی کو اس تقریر کے روز صبح جب حضور بیدار ہوئے تو یہ الہام ہوا کہ انى مع الرسول اقوم کہ میں خود اپنے رسول کے ساتھ اس کی تائید و نصرت کے واسطے کھڑا ہوں ) آدھ گھنٹہ پہلے آپ کی طبیعت کیسی تھی احباب کو معلوم ہے.واقعی آدھ گھنٹہ بعد آپ کا کھڑا ہونا اور اتنی لمبی ، جامع اور پُر جوش تقریر فرما نا خارق عادت اور خدا کی خاص تائید و نصرت ہی کا نتیجہ تھا.یہ نظارہ مومنوں

Page 274

۲۵۹ کے ایمان کی تازگی اور اخلاص کی ترقی کا موجب ہوا.یہ آخری تبلیغ تھی.( مراد جلسہ کی صورت میں پبلک تبلیغی تقریر.) بارہ بجے آپ نے فرمایا.اگر آپ لوگ چاہیں تو میں اپنی تقریر بند کر دوں.آپ کھانا کھا لیں.مگر آپ کی تقریر میں وہ دلربائی اور قوت جذب اور تاثیر خدا نے بھر رکھی تھی کہ لوگوں کو اس روحانی لذت نے جسمانی کھانے سے بھی بے پرواہ کر رکھا تھا.تمام معزز سامعین نے یک زبان ہو کر کہا کہ نہیں آپ تقریر فرماویں.ہم وہ کھانا تو روز کھاتے ہی ہیں آج روحانی غذا ہی سہی.سوحضرت اقدس نے اپنی تقریر ایک بجے کے بعد ختم کی.آخر پر حضور نے فرمایا کہ یا د رکھو جو مجھ سے مقابلہ کرتا ہے.وہ مجھ سے نہیں بلکہ اس سے مقابلہ کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے..گورنمنٹ سے (اس کے ادنی چپڑاسی کی ) ہتک کرنے والے یا ( اس کی بات ) نہ ماننے والے کو سز املتی ہے اور باز پرس ہوتی ہے تو پھر خدا کی طرف سے آنے والے کی بے عزتی کرنا ، اس کی بات کی پرواہ نہ کرنا ، ۱۸۴ کیونکر خالی جا سکتا ہے.ے.حضرت اقدس کی آخری تقریر.کلمات طیبات ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو صبح ہوا.۲۵ رمئی کو عصر سے پہلے حضرت اقدس ”پیغام صلح کے لکھنے میں مصروف تھے.اس وقت کسی دوست نے ایک غیر احمدی مولوی صاحب کا عقیدہ حضرت عیسی کی سولی کے بارے میں پیش کیا تو حضور نے اس کا مدلل جواب بیان کیا.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اس جواب کو تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” یہ حضرت اقدس کی زندگی میں آپ کی آخری تقریر ہے.جو آپ نے بڑے زور اور خاص جوش سے فرمائی.دوران تقریر میں آپ کا چہرہ اس قدر روشن اور درخشاں ہو گیا تھا کہ نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں جاتا تھا.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تقریر میں ایک خاص اثر اور جذب تھا.رعب ، ہیبت اور جلال اپنے کمال عروج پر تھا.بعض خاص خاص تحریکات اور موقعوں پر حضرت اقدس کی شان دیکھنے میں آئی ہو گی جو آج کے دن تھی.آخری وحی کے بارے میں حضرت بھائی جی کا نوٹ: -^ آخری وحی ۱۷ مئی ۱۹۰۸ء کی ہے.۸۵

Page 275

۲۶۰ - حضرت مسیح موعود کی آخری باتیں“ کے عنوان کے تحت بعض باتیں الحکم میں شائع ہوئی تھیں.ان میں سے آخری تحریر کے بارے میں ” توضیح و اصلاح حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب نے بھجوائی جو اس وقت محمود آباداسٹیٹ.ڈاکخانہ نبی سر (سندھ) میں تھے.اسے درج کرتے ہوئے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم نے تحریر کیا ہے کہ آخری تحریر کا الحکم میں ایسے طور پر ذکر ہوا ہے کہ جس سے تاریخی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے.”حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے (جو) حضرت اقدس علیہ السلام کے سفر لاہور میں الحکم کے نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے حاضر خدمت تھے.آخری تحریر کے بارے بغرض تو ضیح تحریر کیا ہے.توضیح و اصلاح آخری تحریر کے ماتحت مندرجہ سطور سے ) معلوم ہوتا ہے کہ نہ پڑھی جانے والی تحریر ۲۵ رمئی کو لکھی گئی تھی.حالانکہ وہ واقعہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کی صبح کا ہے.اور حضور کے وصال سے ایک آدھ گھنٹہ قبل کا ہے.ان سطور سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گویا حضور ۲۵ رمئی کی شام کو بیمار بھی تھے.حالانکہ اصل (بات) یہ ہے کہ سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کو وہ تکلیف جس سے حضور کا وصال ہوا ۲۵ رمئی ( کو ) بعد نماز عشاء ہوئی تھی.یہ درست ہے کہ حضور نے حالت مرض میں قلم دوات منگا کر کچھ رقم فرمایا.مگر وہ ( واقعہ ) ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء بعد نماز فجر بلکہ وصال سے ایک آدھ گھنٹہ قبل کا ہے.د میں بھی چونکہ حاضر خدمت تھا اور تکلیف کی اتبداء ہی میں حضور نے از راہ کرم و ذرہ نوازی حضرت حافظ حامد علی صاحب کے ذریعہ یاد فرما کر خدمت کا موقعہ دیا.لہذا جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے ۸۷ اور حافظہ کام کرتا ہے مجھے یہی یاد ہے.حضرت اقدس کے وصال کے ایک روز پہلے کی تکمیل کردہ تصنیف ”پیغام صلح ۲۱ جون ^^ ۱۹۰۸ء کو لاہور میں سنائی گئی.ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الاول بابت ۱۰ جون ۱۹۰۸ء.11- -۱۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 9 ستمبر ۱۹۰۱ء کو اپنے اشتہار مفید الا خیار میں توجہ دلائی تھی کہ جماعت احمد یہ میں کم از کم سو افراد ایسے اہل فضل و کمال ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کے ظاہر کردہ نشانات اور دلائل قویہ کا ان کو علم ہو اور مخالفین پر ہر ایک مجلس میں بوجہ احسن اتمام حجت کر سکیں اور ان

Page 276

۲۶۱ کے مفتریا نہ اعتراضات کا جواب دے سکیں اور ان کے وساوس سے نجات دے سکیں.سو جماعت کے تمام لائق اہل علم اور دانشمند احباب ۲۴؍ دسمبر تک تمام کتب کا مطالعہ کر کے تیاری کر لیں.ان سے دسمبر کی تعطیلات میں تحریری امتحان لیا جائے گا.اور کامیاب ہونے والے افراد اس لائق ہونگے کہ ان میں سے بعض کو دعوت حق کے لئے مناسب مقامات پر بھیجا جائے.حضرت خلیفتہ اُمسیح الاول نے ۱۶ار جولائی ۱۹۰۸ء کو درس قرآن مجید کے موقعہ پر ا حباب کو توجہ دلانے کے لئے اس اشتہار کی اشاعت کرنے کی تاکید فرمائی تا احباب دسمبر میں امتحان دے سکیں اور فرمایا: احباب توجہ کریں اور عبد الرحمن پوری توجہ کرو.۲۱- ایک ابتلاء باعث اصطفاء بیان حضرت بھائی جی: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کا ایک ممتاز پہلو یہ تھا کہ آپ اپنے خاندان کے اس حصہ کے ساتھ بھی جو ہمیشہ آپ کے مخالف اور درپے آزا رہتا تھا ،حسن سلوک اور مہر بانی فرماتے تھے.اپنے خاندان کے اس مخالف حصہ کے ایک فرد محترم مرزا محمد احسن بیگ صاحب رضی اللہ عنہ رشتہ میں حضرت اقدس کے بھانجے تھے اور بچپن میں ہی دینی رجحان اور حضرت اقدس کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے.انہوں نے جب ہوش سنبھالا تو راجپوتانہ کی ریاست کوٹہ میں اراضی خریدی.جس کی آبادی اور انتظام و انصرام کے لئے انہوں نے حضرت اقدس سے عرض کی کہ مجھے بھائی عبدالرحمن صاحب کی مدد کی ضرورت ہے.تو حضور نے مجھے فرمایا کہ آپ پانچ سال کے لئے وہاں چلے جائیے.چنانچہ دسمبر ۱۹۰۳ء میں میں والدہ صاحبہ، اہلیہ صاحبہ اور برادر نسبتی احمد دین صاحب سمیت قادیان سے کوٹہ چلا گیا.اگر چہ کوٹہ میں سیر و تفریح اور شکار کے اکثر مواقع ملتے.اور مرزا محمد احسن بیگ صاحب اور میرا بہت سارا وقت شکار گاہوں میں شیر.چیتے.بھیڑیئے.سو ر اور ہرنوں وغیرہ کے شکار میں صرف ہوتا تھا اور بیسیوں دفعہ میں نے ان کا شکار کیا.لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جدائی اور وطن والوں سے دوری بار بار مجھے بیتاب اور پریشان کرتی لیکن محترم مرز امحمد احسن بیگ صاحب کی خواہش پر اور تحریر کرنے پر حضرت اقدس علیہ السلام یہی ارشاد فرماتے کہ ”میاں عبدالرحمن ! ہماری خوشی چاہتے ہو تو وہیں بیٹھے رہو.“

Page 277

۲۶۲ سوحضور کے ارشاد کی تعمیل میں اس دور دراز علاقہ میں میں پڑا رہا.اس عرصہ میں مجھے صرف تین چار دفعہ قادیان آنے کا موقعہ میسر آیا.چار سال بعد آخر دسمبر ۱۹۰۷ء میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی تقریب پیدا کر دی جو مجھے حضرت اقدس علیہ السلام کے قدموں میں لانے اور پھر ۲۷ رمئی ۱۹۰۸ ء تک حضور اقدس کی آخری خدمت بجالانے کا موجب ہوئی.اس تقریب کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے شیر کے دو بچے پکڑ کر پال رکھے تھے جو چوپال میں پنجرے میں بند تھے.ایک روز اطلاع ملی کہ چوپال میں ایک شیر آ گیا ہے.یہ علاقہ غیر آباد جنگلات پر مشتمل تھا.ایک بھیڑ کو جو قریب تھی وہ پکڑ کر لے گیا.میں اور مرز اصاحب اس کے تعاقب میں گئے.میں نے بندوق سے جو مرزا صاحب نے مجھے پکڑا دی تھی اس پر فائر کیا جس سے اس کا دایاں بازوٹوٹ گیا.اس پر اس نے مجھ پر حملہ کر کے میری بائیں ٹانگ کو منہ میں پکڑ لیا.اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ اس کا باز و نا کارہ ہو گیا تھا.ورنہ وہ آتے ہی مجھے تھپڑ مارتا جس سے بچنا ناممکن تھا.میرا پاؤں پکڑتے ہی ہمارے شکاری کتے آن پہنچے اور انہوں نے شیر پر جھپٹا مارا اور اسی دھینگا مشتی میں اس نے میری ٹانگ کو چھوڑ دیا.اور کتوں کی طرف متوجہ ہو گیا.یہ سانحہ اس قدر اچانک ہوا تھا کہ مرزا صاحب گھبرا گئے اور ان سے فائر نہ ہوسکا.چونکہ اب بھی میں نے فوراً اُٹھ کر گولی داغی جو اس کے دماغ میں لگی اور وہ ہمیشہ کی نیند سو گیا.میری ٹانگ شدید زخمی تھی.مجھے چار پائی پر لے جانے لگے.تو میں نے بہ اصرار اسی چار پائی پر شیر کی لاش بھی رکھوالی.والدہ صاحبہ اس واقعہ کی خبر سن کر پہلے ہی حواس باختہ ہو چکی تھیں.میرے ساتھ شیر کی لاش دیکھ کر ان کے اوسان اور بھی خطا ہو گئے.لیکن میں نے ان کو تسلی دی کہ شیروں کے بچے ہی شیروں کا مقابلہ کرتے ہیں.میری اہلیہ صاحبہ اپنے وطن ڈنگہ (ضلع گجرات) گئی ہوئی تھیں.میرے برادر نسبتی احمد دین صاحب مجھے وہاں لے گئے.دو تین ماہ کے علاج سے بفضلہ تعالیٰ میں صحت یاب ہو گیا.اور میں قادیان واپس آ گیا.اس دفعہ نہ مرزا محمد احسنبیگ صاحب نے مجھے روکا اور نہ یوں ہوا کہ انہوں نے مجھے روکنا چاہا ہوا اور حضرت اقدس علیہ السلام نے مجھے وہیں ٹھہرنے کا ارشاد فرمایا ہو.میری واپسی کے بعد قریب کے عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لے گئے اور مجھے بھی ساتھ لے گئے.اور اسی سفر میں حضرت اقدس کا وصال ہوا.

Page 278

۲۶۳ محترم مرزا محمد احسن بیگ صاحب سے میرا پانچ سال کا معاہدہ ہوا تھا.اس کی رو سے میری یہ میعاد دسمبر ۱۹۰۸ء میں ختم ہوتی تھی.اگر یہ حادثہ پیش نہ آتا تو نہ اس وقت مجھے قادیان واپس آنا نصیب ہوتا.نہ حضور کے اس آخری سفر میں قرب اور خدمت کی توفیق رفیق ہوتی.ہر بلا کیں قوم را حق داده اند زیر آں حج کرم پنهاده اند ☆ ۲۲- حضرت اقدس کا آخری سفر لا ہور اور وصال و تدفین بھائی جی کا بیان جس میں خطوط وحدانی کے الفاظ خاکسار مؤلف نے آپ سے استفسار کر کے درج کئے تھے ذیل میں درج ہے: حضرت اقدس جب آخری سفر پر لاہور تشریف لے جانے لگے تو مجھے غلام کو بھی از خود ہمرکابی کا شرف بخشا.بعد میں میری اہلیہ گھر میں اکیلی تھیں ان کا خط آنے پر میں نے اجازت طلب کی تا ان کا انتظام کر آؤں لیکن حضور نے میرا جانا مناسب خیال نہ فرمایا.اس طرح حضور کے ارشاد کی تعمیل سے مجھے ایک نہایت ہی قابل رشک موقعہ مل گیا.“ بھائی جی نے اجازت کے لئے ذیل کا عریضہ لکھا تھا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده نصلى على رسوله الكريم آقائی مولائی فداک روحی اید کم اللہ تعالیٰ ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.حضور قادیان سے حضور کی خادمہ کا آج ہی خط آیا ہے کہ رات کے وقت ہمیں تنہائی کی وجہ سے خوف آتا ہے کیونکہ جس مکان میں رہتا ہوں وہ بالکل باہر ہے لہذا اگر حکم ہوا اور حضور اجازت دیں تو میں جا کر ان کو کسی دوسرے مکان میں تبدیل کر آؤں یا اگر حضور کے دولت سرائے میں کوئی کوٹھڑی خالی ہو تو وہاں چھوڑ آؤں جیسا حکم ہو تعمیل کی جاوے.حضور کی دعاؤں کا محتاج خادم در عبدالرحمن قادیانی ۱۴ مئی ۱۹۰۸ء اس پر حضور نے رقم فرمایا: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.ابھی جانا مناسب نہیں.لکھ دیں کہ کسی شخص کو یعنی کسی عورت کو رات کو تفصیل حضرت بھائی جی سے معلوم کرنے کے علاوہ الحکم جلد ۴۱ نمبر ۱۸، ۱۹ بابت ۷.۱۴ جون ۱۹۳۸ء ( صفحہ۱۹ کالم ہ۲) سے مکمل کیا گیا ہے.

Page 279

۲۶۴ سلا لیا کریں.یا مولوی شیر علی صاحب بند و بست کر دیں کہ کوئی لڑکا آپ کے گھر میں سو رہا کرے.مرزا غلام احمد مزید آپ نے بیان فرمایا: ” جب حضور کو وصال کی تیاری کا فرمان ملا.اور رحلت کا یقین ہو گیا.اس وقت بھی حضور نے ذرہ نوازی فرمائی اور نام لے کر یاد فرمایا.اور حافظ حامد علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے ذریعہ جو اس وقت پہرہ پر تھے ( رات کو مجھ نا کارہ غلام کو بازیابی کی عزت بخشی ( رات کو زیادہ تکلیف ہوگئی تھی ) رات بھر بلکہ اس وقت تک جب حضور کی روح مبارک رفیق اعلیٰ کے وصال کے لئے بے قرار ہو کر پرواز کر گئی مجھے خدمت قرب کا فخر عطا فرمایا ( اس عرصہ میں مجھے حضور کا جسم مبارک دبانے کا موقعہ ملا ) اور اس طرح اپنا بنا لینے کے بعد حضور نے مجھے نہ چھوڑا نہ جدا کیا.میری بدقسمتی کہ درد دل اور خون جگر کھانے کو پیچھے رہ گیا.اور مجھ سے حق رفاقت ادا نہ ہوسکا.انالله وانا اليه راجعون“.ایک مضمون میں آپ لکھتے ہیں : سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جب حضور کا جسد اطہر بٹالہ سے قادیان لایا جا رہا تھا تو اس خادم کی ڈیوٹی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے رتھ کے ساتھ تھی (جس میں خاندان حضرت مسیح موعود کی ایک دو اور خواتین بھی تھیں.میں بطور پہرہ دار اور خادم رتھ کے ساتھ پیدل تھا) حضرت ممدوحہ اس وقت خاموشی کے ساتھ ذکر واذکار اور دعاؤں میں مشغول تھیں اور صبر و رضا کا کامل نمونہ پیش فرمارہی تھیں.جب رتھ نہر کے پل پر سے گزر کر آگے بڑھی تو حضرت ممدوحہ نے ایک پُرسوز اور رقت آمیز آواز سے فرمایا.بھائی جی! پچیس سال گذرے میری ڈولی اس سڑک پر سے گذری تھی.آج میں ہیوگی کی حالت میں اس سڑک پر سے گذر رہی ہوں.“ ( بدر بابت ۲۸ اپریل ۱۹۵۲ء.صفحہ ۲ کالم ۶- خطوط وحدانی کے الفاظ حضرت بھائی جی سے استفسار کر کے زائد کردہ ہیں.) حضرت بھائی جی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں ایک درخواست لکھی گئی تھی کہ ان کی بطور خلیفہ بیعت کرنے کو ہم تیار ہیں.اس پر میں نے بھی دستخط کئے تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جنازہ لاتے ہوئے ریل گاڑی میں میں نے حضرت میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی کی نوٹ بک میں اس بارہ میں درخواست دیکھی جس پر

Page 280

۲۶۵ ۹۳ نو احباب کے دستخط تھے.ان میں ” عبد الرحمن صاحب کا نام شامل ہے.استفسار پر بھائی جی فرماتے ہیں کہ یہ میرا نام ہے.حضرت خلیفہ اول کے انتخاب اور نماز جنازہ کے بعد حضرت اقدس کا جسد اطہر تدفین سے پہلے آخری زیارت کے لئے اس مکان کے درمیانی کمرہ میں رکھا گیا تھا جو بہشتی مقبرہ کے شمال مغرب کی طرف ہے حضور کا چہرہ مبارک دکھانے کے لئے مجھے مقرر کیا گیا.جسد اطہر اس چار پائی پر رکھا ہوا تھا جو لاہور سے ساتھ لائی گئی تھی.اور اسی پر جسد اطہر بٹالہ سے قادیان تک لایا گیا تھا.میں اس کمرہ میں اس چار پائی کے شمال میں حضور کے سر مبارک کی طرف زمین پر بیٹھ گیا.پہلے مردوں نے اور پھر مستورات نے زیارت کی.احباب صحن کی طرف مغربی دیوار کے جنوبی حصہ میں لگے ہوئے دروازہ سے صحن میں آکر کمرہ کے اندر آتے اور زیارت کر کے کمرہ کے شمالی دروازہ سے باہر نکلتے جاتے.( از مؤلف ) آج ۱۲ ستمبر ۱۹۶۰ء کو خاکسار کے عرض کرنے پر حضرت بھائی جی ، ان کی اہلیہ محترمہ نیز مکرم مرزا مہتاب بیگ صاحب سیالکوٹی (سابق مالک احمد یہ درزی خانہ قادیان جواب پاسپورٹ پر ڈیڑھ ماہ سے آئے ہوئے ہیں ) تشریف لے گئے اور جنازہ والا کمرہ دکھایا.اہلیہ صاحبہ بھائی جی نے بتایا کہ جنازہ مبارک کمرہ کی جنوبی دیوار کے دونوں مغربی دروازوں کے درمیان رکھا ہوا تھا صحن میں داخل ہونے والا دروازہ جو مغربی دیوار کے جنوبی حصہ میں ہے.بھائی جی اور مرزا صاحب نے پہچانا آجکل ، وہ بند ہے.ڈاٹ اور دروازہ کی شکل میں موجود ہے.مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ میں جنازہ کے موقعہ پر حضرت میر حامد شاہ صاحب وغیرہ کے ہمراہ سیالکوٹ سے آیا تھا.حضرت بھائی جی کی اہلیہ محترمہ نے بھائی جی کی موجودگی میں بیان کیا کہ اس کمرہ میں حضرت اقدس کا چہرہ مبارک دکھلانے کے وقت حضرت ام المومنین اس مکان کے صحن کے جنوب مغربی حصہ میں خواتین کے مجمع میں زمین پر تشریف فرما تھیں میں وہاں پہنچی تو فرمایا بیٹی تمہیں مبارک ہو تمہارا خاندان متبرک ہو گیا ہے.تمہارے میاں کی گود میں حضرت مسیح موعود کا سر تھا حضور کی وفات ہوئی.اندر جا کر اپنے میاں کے خاکسار مؤلف نے ماسٹر عبد الرحمن صاحب سابق مہر سنگھ کے حالات میں (اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ ۱۲۰ میں ) حوالہ ہذا میں ان کو مرا دلکھا ہے جو سہو ہے جو ” جالندھری“ کے طور پر معروف تھے، نہ کہ ”قادیانی“ کے طور پر.حقیقتاً اس سے مراد حضرت بھائی جی ہیں جو قادیانی کہلاتے تھے اور ماسٹر بھی عرصہ تک رہے ہیں.

Page 281

۲۶۶ پاس بیٹھو.اس وقت مستورات زیارت کر رہی تھیں.عبد القادر کے ابا نے پردہ کی خاطر سر سے کپڑا آگے کیا ہوا تھا.میں حضور کی زیارت کر کے پھر باہر آ گئی تو پھر حضرت اماں جان نے فرمایا کہ جا کر اپنے میاں کے پاس بیٹھو.اس پر میں دوبارہ اندر گئی لیکن پھر زیارت کر کے باہر چلی آئی.اس پر حضرت اماں جان نے مجھے کہا کہ اپنے میاں سے کھانے کا پوچھو اور پاس بیٹھو.میں نے عرض کیا کہ کھانا پوچھنے کا یہ کونسا موقعہ ہے.پھر میں اندر آ گئی اور بیٹھ گئی تو عبد القادر کے ابا نے مجھے باہر حضرت اماں جان کے پاس جا کر بیٹھنے کو کہا.میں نے کہا کہ وہ آپ کے پاس بیٹھنے کو کہتی ہیں.انہوں نے کہا کہ اب تعمیل حکم میں کچھ دیر بیٹھ لیا ہے، اب آپ ان کے پاس بیٹھیں.چنانچہ میں اماں جان کے پاس چلی گئی.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ یہ امر حضرت اماں جان کے حسن اخلاق کا مظہر ہے کہ اپنے سب سے بڑے صدمہ کے وقت بھی دوسروں کی ذراسی تکلیف کا بھی خیال رکھتی ہیں.بھائی جی فرماتے ہیں کہ حضور کے وصال تک میں حضرت اقدس کے چہرہ مبارک کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہا تھا میرا دھیان ایک ہی طرف تھا اس لئے مجھے معلوم نہیں آیا بوقت وصال حضور کا سر مبارک میری گود میں تھا یا نہیں.حضرت بھائی جی مزید بیان فرماتے ہیں کہ زیارت ختم ہونے پر صحن میں جنازہ نکال کر وہاں سے صحن کے مشرقی دروازہ سے نکالتے ہوئے جائے تدفین پر لے جایا گیا.بوقت تدفین حفاظت کی خاطر قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی نے جو اس کام کے انچارج تھے پکی اینٹوں سے ڈاٹ بنوائی.حضرت خلیفتہ اسیح اول کو علم ہوا تو کچی اینٹوں کے لگانے کو آپ نے ناپسند فرمایا.لیکن چونکہ شام کا وقت ہو چکا تھا اور باغ کے گھنے، گنجان درختوں کی وجہ سے تاریکی میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا اس لئے قاضی صاحب نے اس ڈاٹ کو ویسا ہی رہنے دیا.مؤلف لاہور.تاریخ احمدیت حضرت شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگر مل نے اپنی تالیف میں ان مستری صاحبان کا بیان شائع کیا ہے جنہوں نے تدفین کا کام کیا تھا کہ پکی ڈاٹ نہیں بنائی گئی تھی.حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب نے تدفین کے بارے بیان کیا ہے کہ مزار میں ڈاٹ لگائی گئی تھی.تدفین کرنے میں عملاً شامل افراد زندہ تھے ان سے محترم مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر (ہیڈ زودنویس ربوہ ) نے مکمل تحقیقات کی تھی جس سے ثابت ہوا کہ ڈاٹ نہیں لگائی گئی تھی.اس ساری تفصیل کے لئے دیکھئے لاہور تاریخ احمدیت ( مؤلف حضرت شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل ) طبع اوّل ۱۹۶۶ء (حاشیه صفحه ۶۵ تا ۶۷)

Page 282

۲۶۷ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں: محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے اور مخلص صحابی ہیں اور حضور کے ہاتھ پر ہندو سے مسلمان ہوئے تھے ، مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آخری سفر میں لاہور تشریف لے گئے اور اس وقت آپ کو بڑی کثرت کے ساتھ قرب وفات کے الہامات ہورہے تھے تو ان دنوں میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر ایک خاص قسم کی ربودگی اور نورانی کیفیت طاری رہتی تھی.ان ایام میں حضور ہر روز شام کے وقت ایک قسم کی بندگاڑی میں جو فٹن کہلاتی تھی.ہوا خوری کے لئے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضور کے حرم اور بعض بچے بھی ساتھ ہوتے تھے جس دن صبح کے وقت حضور نے فوت ہونا تھا اس سے پہلی شام کو جب حضور فٹن میں بیٹھ کر سیر کے لئے تشریف لے جانے لگے تو بھائی صاحب روایت کرتے ہیں کہ اس وقت حضور نے مجھے خصوصیت کے ساتھ فرمایا: میاں عبدالرحمن ! اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک روپیہ ہے وہ ہمیں صرف اتنی دور تک لے جائے کہ ہم اسی روپیہ کے اندر گھر واپس پہنچ جائیں.“ روایات بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی) چنانچہ حضور تھوڑی سی ہوا خوری کے بعد گھر واپس تشریف لے آئے.مگر اسی رات نصف شب کے بعد حضور کو اسہال کی تکلیف ہو گئی.اور دوسرے دن صبح دس بجے کے قریب حضور اپنے مولیٰ اور محبوب از لی کے حضور حاضر ہو گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کے وصال کا واقعہ اس وقت پچاس سال گذرنے پر بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے گویا میں حضور کے سفر آخرت کی ابتدا اب بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں مگر اس وقت مجھے اس واقعہ کی تفصیل بتانی مقصود نہیں بلکہ صرف یہ اظہار مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیوی مال و متاع کے لحاظ سے بعینہ اس حالت میں فوت ہوئے جس میں آپ کے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تھا.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت اپنی آخری بیماری میں جو کہ مرض الموت تھی جلدی جلدی مسجد سے اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور جو تھوڑا سا مال وہاں رکھا تھا وہ تقسیم کر کے اپنے آسمانی آقا کے حضور حاضر ہونے کیلئے خالی ہاتھ ہو گئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے بھی اپنی زندگی کے آخری دن اپنی جھولی جھاڑ دی تا کہ اپنے آقا کے حضور خالی ہاتھ ہو کر حاضر ہوں.بیشک اسلام دنیا کی

Page 283

۲۶۸ نعمتیں حاصل کرنے اور ان کے لئے مناسب کوشش کرنے سے نہیں روکتا.بلکہ قرآن خود حسنات دارین کی دعا سکھاتا ہے مگر انبیاء اور اولیاء کا مقام فقر کا مقام ہوتا ہے جس میں یہ پاک گروہ صرف خدا کا نوکر بن کر قوت لا یموت پر زندگی گزارنا چاہتا ہے.اس لئے نبیوں کے سرتاج حضرت افضل الرسل خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے دین ودنیا کا بادشاہ ہوتے ہوئے بھی اپنے لئے فقر کی زندگی پسند کی اور ہمیشہ یہی فرمایا کہ الفقر فخری.یعنی فقر کی زندگی میرے لئے فخر کا موجب ہے ۲۴- حضرت اقدس کی نماز جنازہ اور بیعت خلافت اولی والے مقامات بہشتی مقبرہ کے ملحق بڑے باغ میں جس مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور جہاں حضرت حکیم نورالدین صاحب کی خلافت کی بیعت ہوئی.ان مقامات سمیت سارے قطعہ کی تعیین ایک دائرہ کی شکل میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے بعد تقسیم ملک کی تھی.آپ روزانہ کئی گھنٹے اکیلے رمبہ کے ساتھ اس قطعہ کا گھاس پھوس صاف کرتے تھے.اور اس دائرہ کو پختہ اینٹوں سے آپ نے حلقہ بند کر دیا تھا.صدر انجمن احمدیہ اور ایک ذیلی تنظیم نے حلقہ بندی کے لئے رفتی مدد کی تھی.آپ نے ایک بورڈ اس بارے میں وہاں آویزاں کیا تھا وہ تو اب باقی نہیں.اس پر قدرے زیادہ تفصیل تھی لیکن سیمنٹ کی پختہ تحریر بھی آپ نے قائم کی تھی.وہ موجود ہے جس پر رقم ہے: بروایت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مقام ظہور قدرت ثانیہ یعنی وہ مقام (نشان زدہ درختوں کے درمیان ) جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جماعت احمدیہ نے متفقہ طور پر خلافت اولیٰ کی بیعت کی تھی.حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آبادی کی بہشتی مقبرہ میں ۲۹ دسمبر ۱۹۵۰ء کو تدفین ہوئی.نماز جنازہ سے پہلے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی موسس و مدیر الحکم نے پرنم آنکھوں کے ساتھ احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.اس وقت میری آنکھوں کے سامنے ۲۷ مئی ۰۸ ء کا دن ہے جبکہ ٹھیک اسی میدان میں ہمارے آقا اور محسن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ رکھا گیا تھا اور یہی وہ میدان تھا جس میں ہم نے خلافت اولیٰ کی بیعت کی تھی..سیٹھ محمد غوث گذشتہ بیالیس سال میں وہ پہلے خوش قسمت انسان ہیں جن کا جنازہ آج ٹھیک اس جگہ اور اسی حلقہ میں پڑھا جا رہا ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جسد اطہر رکھا گیا تھا.اور جنازہ پڑھا

Page 284

۲۶۹ گیا تھا.خدا تعالیٰ کے بیشمار فضل ہوں محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی پر جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس حلقہ زمین کو محد دو کرنے کی توفیق دی.میں اس امر کی تصدیق کرتا ہوں کہ ٹھیک اسی جگہ حضور علیہ السلام کا ۹۶ جنازہ پڑھا گیا تھا.حضرت عرفانی صاحب نے ایک سٹول یا کرسی پر کھڑے ہوکر با آواز بلند یہ شہادت دی تھی.خاکسار مؤلف بھی حاضر تھا.اس وقت سے بالعموم جنازے وہیں پڑھے جاتے ہیں.عہد خلافت اولی کی بعض خدمات ا بعد وصال ”پیغام صلح کا سنایا جانا ”پیغام صلح، شام کو مکمل ہوئی اور دوسرے روز حضور کا وصال ہوا.تھوڑے دنوں بعد مسلم اور ہندو لیڈروں کے ایک اجتماع میں اس تصنیف کے سنائے جانے کی رپورٹ الحکم بابت ۱۸ جولائی ۱۹۰۸ء میں حضرت بھائی جی کی مرتبہ شائع ہوئی.بعد وصال حضرت اقدس اولیں جلسہ سالانہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ( عرفانی ) نے الحکم میں یہ تحریک کی تھی کہ اس اولیں جلسہ سالانہ کو کامیاب و مفید بنایا جائے.اجتماع کثیر ہو اور اخراجات کے لئے کافی رقم جمع کی جائے.ایک ہزار افراد پچیس روپے فی کس دیں یا جمع کریں تو بہت سی رقم جمع ہو سکتی ہے.اس تحریک پر حضرت بھائی شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی نے بھی ارادہ ظاہر کیا کہ وہ جلسہ سالانہ پر پچیس روپے جمع کر کے پیش ۱۹۸ کریں گے.( اس زمانہ کے حالات اور سکہ کی قیمت کے لحاظ سے پچیس روپے بہت بڑی رقم تھی ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد مخالفین و معاندین کا خیال تھا کہ جماعت احمد یہ انتشار و پراگندگی کا شکار ہو جائے گی.ان کو شرمندگی نصیب ہوئی.اس جلسہ سالانہ کے لئے محکمہ ریلوے کی طرف سے رعایتی ٹکٹ منظور ہونے کی وجہ سے مہمان بکثرت آئے.رعایتی ٹکٹ کے حصول کے لئے مرکز سے اڑھائی ہزار سار ٹیفکیٹ جاری ہوئے.بٹالہ اسٹیشن پر ایک استقبالیہ کمیٹی متعین کی گئی جو مہمانوں کا استقبال کر کے ان کی سواری اور سامان کی

Page 285

۲۷۰ روانگی کا انتظام کرے.اس انتظام سے مہمانوں کو بہت آرام ملا.مہمانوں کی متوقع کثرت کے مقابل مکانات کی بھاری قلت کے باعث ڈیڑھ سوفٹ لمبا اور ہمیں فٹ چوڑا ایک نیا چھپر تیار کرانا تجویز ہوا.جس کا اہتمام حافظ عبدالرحیم صاحب اور شیخ عبدالرحمن قادیانی نے جس قابلیت اور محنت سے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں کیا وہ نو جوانوں کے لئے قابل تقلید ہے.ان دونوں نو جوانوں کے سپر د مکانات کا انتظام تھا.جس دوڑ دھوپ سے انہیں کام کرنا پڑا وہ انہی کا حصہ تھا.جلسہ کی حاضری دو تین ہزار کے درمیان تھی.ضلع گورداسپور اور اردگرد کے دیہات کے لوگ اس کے علاوہ تھے.- مناظره منصوری ١٩٩١ منصوری پہاڑی بستی میں پانچ چھ افراد احمدی تھے.منشی عزیز الرحمن صاحب کی تبلیغ سے ایک مسلم تاجر کے دو بیٹے سلسلہ احمدیہ سے منسلک ہو گئے.والد نے ان بیٹوں کو ہر طرح سے تنگ کیا.دکان سے نکال دیا.وہ وہاں سے بھاگ کر اپنے وطن سہار نیپور جاپہنچے.والد نے وہاں نصف شب کو پہنچ کر لاٹھی وغیرہ سے پٹائی کی اور چھری دکھائی.ان کے استقامت دکھلانے پر والد نے کہا کہ میری ساری جائیداد لے لو.جس طرح چاہو عیش و عشرت کرو لیکن احمدی نہ بنو.گویا فسق و فجور کی ان کو اجازت دے دی لیکن وہ قادیان چلے آئے.فریقین میں مباحثہ ہونا نشی عزیز الرحمن صاحب نے نومبر ۱۹۰۹ء میں طے کیا.حضرت خلیفہ المسح اول سے عرض کیا گیا.آپ خاموش رہے.توجہ اور دُعا اور استخارہ پر حضور نے دیکھا کہ ناصر شاہ بلاتا ہے کہ میرے مکان کے اندر آ جاؤ.اور بھی کئی دوستوں نے مبشرات دیکھیں.جناب مولوی محمد علی صاحب کو امیر قافلہ بنا کر حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب کو روانگی کی ہدایت فرمائی.بدر کی رپورٹ میں درج ہے کہ حضرت سید عزیز الرحمن صاحب مہاراجہ کپورتھلہ کے ملازم ہیں اور حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر اور حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی کے خسر ہیں.محلہ دار الفضل قادیان میں سید صاحب حضرت میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والوں کے ہمسایہ تھے یعنی سید صاحب کا مکان میاں صاحب کے مکان کے متصل جانب شمال نور ہسپتال سے حضرت نواب محمد علی خان کی کوٹھی دار الاسلام کو جانے والی سڑک پر واقع تھا.منصوری سے اس خاندان کے ایک فرد کے سوا باقی سب نہایت مخلص اور سلسلہ کے وفادار ثابت ہوئے.

Page 286

۲۷۱ اور چونکہ تار آیا تھا کہ کتا بیں اور زود نو لیں ساتھ لایا جائے.اس لئے حضرت بھائی " شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی مختار عام صدرانجمن کو بھی ساتھ بھجوایا.روانگی کے وقت ملاقات کیلئے حاضر ہونے پر خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے چند قدم تک چل کر دعائے مسنون کے ساتھ مشایعت فرمائی.حضرت غلام رسول صاحب را جیکی بھی ارشاد پر حضرت حکیم محمد حسین صاحب مریم عیسی کے ساتھ پہنچے اور ارشاد کے مطابق دہلی سے حضرت میر قاسم علی صاحب بھی.مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو بلانے پر انہوں نے کہا کہ یہ غلطی کی گئی کہ وفات وحیات مسیح پر مباحثہ رکھا.ان کے مطالبہ پر تار کے ذریعہ غیر از جماعت صاحبان نے (اس زمانہ کے لحاظ سے معقول رقم ) دس روپے بھجوائے لیکن وہ نہیں آئے.احمدیوں کو منصوری کے علماء نے حقارت سے کہا کہ احمد یوں نے بی.اے، ایم اے بلا لئے.کوئی عالم بلایا ہوتا.اس پر عربی میں مباحثہ کرنے کو کہا گیا جس سے ان علماء نے انکار کیا.ان چھ علماء میں سے ایک مدرس مدرسہ مظاہر العلوم اور حضرت میر قاسم علی صاحب کے درمیان وفات وحیات مسیح پر پہلے روز مباحثہ ہوا.ان مدرس صاحب نے نصف گھنٹہ تقریر کی.اور میر صاحب نے جنہیں اسلامی اخبار ابوالمناظرین کے لقب سے ملقب کرتے ہیں، تین گھنٹے جوابی تقریر کی.دوسرے روز انہی دونوں میں صداقت مسیح موعود پر مناظرہ ہوا.معاہدہ کے مطابق فریقین نے ایک ایک زود نو لیس لانا تھا.پھر دونوں فریق کے صدر صاحبان جلسہ نے قلمبند کردہ تقریروں پر دستخط کرنے تھے لیکن غیر از جماعت کے صدر جلسہ بغیر اطلاع منصوری سے چلے گئے.اور غیر از جماعت لوگ کہنے لگے کہ ہما را از ودنویس قلمبند نہیں کر سکا تو حضرت بھائی جی کی قلمبند کردہ تحریر پر دستخط کرنے کو کہا تو ٹال مٹول کر دیا.غیر از جماعت مناظر اور ان کے ایک ساتھی عالم نے تسلیم کیا کہ بھائی جی نے تقریریں ٹھیک قلمبند کی ہیں اور ان کی تعریف کی.اس مناظر کے ایک ساتھی مولوی صاحب نے میر قاسم علی صاحب کو مخاطب کر کے اپنے مناظر کی نا اہلیت کا اقرار کیا اور میر صاحب کے بارے میں کہا کہ " آپ کی تقریر ماشاء اللہ بہت قابل تعریف تھی.آپ کا ہر لفظ لوگوں کے دلوں پر نقش ہو گیا.ایسی ہی تقریر میں سامعین کے واسطے فائدہ مند ہوسکتی ہیں.“ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بد اپنی اس رپورٹ میں تحریر کرتے ہیں کہ کسی شخص کے حقیقی

Page 287

۲۷۲ اخلاق کا علم سفر میں رفاقت سے ہوتا ہے.اپنے تمام رفقاء سفر کے حسن اخلاق کا ذکر کر کے لکھتے ہیں کہ:.شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی نہ صرف زود نویسی کے کام میں بے نظیر ثابت ہوئے ہیں، جس کے لئے انہیں ساتھ لیا گیا تھا بلکہ دیگر خدمات میں بھی انہوں نے نہایت مستعدی اور ہوشیاری سے کام کیا.اس کے علاوہ علمی ضروریات میں بھی اپنی یاد داشتوں سے مدد دی.“ ۱۹ نومبر کو نماز جمعہ سے پہلے ہم واپس آکر حضرت خلیفتہ اسیح کی خدمت میں حاضر ہو گئے.واقعات مباحثہ عرض کئے لنگر میں کھانا ہمارے واسطے تیار تھا.کھانا کھا کر نماز جمعہ میں شامل ہوئے.شام کی دعوت بھی لنگر میں تھی.دوسرے دن صبح والدہ عبدالحی ( یعنی حرم حضرت خلیفتہ امسیح الاول) نے ہماری دعوت کی.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.۴- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی مشایعت و استقبال حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب زیارت دیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ اور مصرود نیائے عرب کے نظام تعلیم کے مطالعہ کے اغراض سے باجازت حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل و حضرت اُم المؤمنین ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء کو قادیان سے روانہ ہوئے.روانگی سے ایک روز پہلے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور منشی چراغ دین صاحب کی تحریک پر ایک الوداعی جلسہ کیا گیا.اس میں احباب قادیان کے اجتماع میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی.اے ( بعدہ مجاہد ماریشس ) کی تلاوت کریم کے بعد محترم شیخ محمود احمد صاحب ( عرفانی ) نے طلباء کی طرف سے اور حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر نے اساتذہ کی طرف سے ایڈریس پیش کئے.اور دو طلباء نے اپنی نظمیں پڑھیں.جناب شیخ محمود احمد صاحب نے اس سفر کی غرض و غایت بیان کی.اور پھر حضرت نیر صاحب نے اپنی تقریر میں بتایا کہ حضرت خلیفتہ امسح الاول کے ایام علالت میں ایک دن میں نے گھبرا کر بہت دعا کی تو خواب میں حضرت خلیفہ اول کو دیکھا کہ حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب کو پکڑے ہوئے ہیں اور فرماتے ہیں کہ: یہ پہلے بھی اول تھے.اب بھی اول ہیں.تب سے ایک خاص تغییر میری طبیعت میں نیکی کا اور آپ سے تعلق پیدا کرنے کا ہے ہم سب کے لئے دعا کی درخواست ہے.

Page 288

۲۷۳ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی تقریر میں دعا سے مدد کرنے کی تاکید کی کہ یہی کامیابی کی کلید ہے.اور فرمایا کہ میرے دل میں مدت سے خواہش تھی کہ مکہ معظمہ جو خدا کے بڑے پیاروں کی جگہ ہے وہاں جا کر دعائیں کروں کہ مسلمان اس وقت بہت ذلیل ہور ہے ہیں.اے خدا اس قوم نے تجھ کو چھوڑا.نہ دین رہا نہ دنیا.ان کی اصلاح کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی.اس مقام پر تو نے حضرت ابراہیم کو وعدہ دیا تھا اور ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا.اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کو قبول کیا تھا.آج پھر وہی دعائیں ہمارے لئے قبول فرما اور اہل اسلام کو عزت اور ترقی عطا کر.جب ہماری دعا ئیں ایک حد تک پہنچیں گی تو وہ قبول ہوں گی.دشمن زبردست ہے اور ہم کمزور.مگر ہمارا محافظ بھی بڑ از بردست ہے.حضرت خلیفہ اول نے ایک مختصر تقریر میں فرمایا کہ آجکل مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑا ہے.ان میں اصلاح نہیں.خدا تعالیٰ نے بھی انہیں چھوڑ دیا ہے.اس جلسہ کا اصل مدعا یہ ہے کہ دعا بہت کی جائے...پھر اجتماعی دعا ہوئی.قادیان سے بہت سے احباب بٹالہ اور کچھ لاہور تک اور حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی اور ( حضرت شیخ عبدالعزیز صاحب ( نومسلم ) بمبئی تک مشایعت کے لئے گئے.حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب بھی وہاں پہنچ کر شریک سفر ہو گئے.حضرت صاحبزادہ صاحب مع حضرت نانا جان ۶ / جنوری ۱۹۱۳ءکو بمبئی واپس پہنچے آپ کے استقبال کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب مع محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بمبئی پہنچے.۱۲؍ جنوری کو لاہور وارد ہونے پر چھ صد کے قریب احباب لاہور نے بڑے اخلاص سے استقبال کیا.وہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور محترم شیخ محمود احمد صاحب (عرفانی) بھی پیشوائی کے لئے پہنچے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے وہاں اتحاد واتفاق کے بارے تقریر فرمائی.احباب امرتسر کے اصرار پر آپ وہاں اترے اور تقریر کی.پھر دو بجے بعد دو پہر آپ بٹالہ پہنچے.پختہ اطلاع آنے پر حضرت اُم المؤمنین دوسری بار اپنے فرزند سے ملاقات کے لئے بٹالہ تشریف لے گئیں.حضرت خلیفہ اول بے حد خوش تھے.آپ کے ارشاد پر دونوں مدارس میں تعطیل کی گئی.طلبہ اور احباب نہر تک استقبال کے لئے پہنچے.حضرت خلیفہ اول با وجود ضعف کے بیرونِ قصبہ دور تک تشریف لے گئے.آپ کے ارشاد پر احباب نے مسجد نور میں صلوٰۃ الحاجتہ ادا کر کے حضرت صاحبزادہ صاحب کے لئے

Page 289

۲۷۴ دعائیں کیں.پھر حضرت صاحبزادہ صاحب نے حالات سفر میں تبلیغی حالات بیان کئے.مشایعت کے سفر میں بھائی جی کی ہمراہی سے حضرت صاحبزادہ صاحب کو کافی سہولت میسر آئی ( بحوالہ مکتوبات اصحاب احمد جلد ا صفحه ۳۲ ۳۳) - حضرت صاحبزادہ صاحب کی مراجعت پر پیشوائی کے لئے بھی بھائی جی نے حضرت خلیفہ اول سے اجازت حاصل کر لی تھی.یہ بات پیش کر کے کہ میں وہاں سے ستا تجارتی مال خرید لوں گا.جس سے میرا کرایہ نکل آئے گا.۵ تائید خلافت -1 خلافت اولیٰ کے ایام میں ایک طبقہ نے متواتر کوشش کی کہ آئندہ خلافت کا قیام نہ ہو.خلافت اولیٰ کے دوران ہی ان صاحبان نے انجمن اشاعت اسلام قائم کر کے لاہور میں کام شروع کر دیا اور ”پیغام صلح کے نام سے وہاں سے اخبار بھی جاری کیا.حضرت خلیفہ اول نے ان کے منصوبوں کے خلاف بھر پور کام کیا تا خلافت کا نظام متحکم ہو.حضور کے وصال سے پہلے مخفی ٹریکٹ بھی اس طبقہ کی طرف سے شائع کئے گئے اور وصال کے قریب ٹریکٹ جماعتوں کو بھجوا کر انتخاب خلافت سے روکا گیا.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی خلافت کے مؤیدین میں سے تھے.اور عجیب فدائیت کا رنگ رکھتے تھے.انجمن انصار اللہ نے اس فتنہ کا مقابلہ کیا تھا.مثلاً جوابا اظہار حقیقت مورخہ ۲۸ رنومبر ۱۹۱۳ء اس انجمن کے شائع کردہ ٹریکٹ پر چالیس ممبران میں نمبر ۲۹ پر آپ کا نام ” عبدالرحمن قادیانی.قادیان مرقوم ہے.قیام خلافت ثانیہ پر مسجد نور میں اولیں بیعت ہوئی.اس موقعہ پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بھی اول المومنین میں سے تھے.ہمیشہ آپ کو استحکام خلافت ثانیہ کے لئے بھر پور گونا گوں خدمات سرانجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی.- کوئی پون صد بزرگان بشمول حضرت نواب محمد علی خاں صاحب.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی “ کی طرف سے ایک ”اعلان“ اس عنوان سے کیا گیا کہ حضرت خلیفتہ اسح الاول وفات پاگئے ہیں.دوسرے روز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ قرار پائے.قریباً دو ہزار افراد نے بیعت کی.آپ نے

Page 290

۲۷۵ مختصر تقریر فرمائی.جنازہ پڑھایا.تدفین ہوئی.جو احباب حاضر نہ تھے وہ بیعت کر لیں.تقریر اور الفاظ بیعت بذریعہ اخبارات شائع کئے جائیں گے.-۵ ۱۰۲ ایک بڑے سائز کا اشتہار بہ عنوان ” شرائط بیعت ( حضرت نواب ) محمد علی خاں“ (صاحب) اور ( حضرت مولوی ) شیر علی (صاحب) کی طرف سے ۲۱ / مارچ ۱۹۱۴ء کو غیر مبائعین کی ناجائز باتوں کی تردید میں شائع کیا گیا.ایک غلط اور نا جائز بات یہ تھی جس کی تردید میں الفاظ بیعت بھی درج کئے گئے کہ شرائط بیعت میں ایک شرط یہ ہے کہ فلاں شخص کو منافق سمجھا جائے.اس اشتہار کی پشت پر افراد خاندان حضرت اقدس.علماء.گریجویٹس.سرکاری عہدہ داران.ایڈیٹر ان.صدر صاحبان وسیکرٹری صاحبان اور معززین و تجار کی طرف سے ( نمبر ۳ بالا کی طرح) یہ اعلان درج ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے وغیرہ وغیرہ ” معززین و تجار“ کی فہرست میں شیخ عبد الرحمن صاحب" کا اسم گرامی بھی درج ہے.(اشتہار کالم ۵) ایک عجیب توارد کا ذکر کیا جاتا ہے جو ہر قسم کے تصنع اور تخیل کے اثر سے بکلی پاک ہے.آغاز خلافت ثانیہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی دار اسے میں حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ والے حصہ میں ایک کمرہ میں ڈاک ملاحظہ فرماتے تھے اور احباب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مردانہ کی طرف سے وہاں آ جاتے تھے.اس وقت وہاں سے آنے کا انتظام تھا.بعد میں نہیں رہا.( یہ جگہ ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت قادیان نے مردانہ میں خاکسار مؤلف کو دکھائی تھی ) ایک روز اس بالا خانہ میں حضور اس روز کی ڈاک ملاحظہ فرما رہے تھے.اس وقت غیر مبائعین کی کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں.حضور نے حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کا موصولہ خط بعد ملاحظہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو پڑھنے کے لئے دیا.جس میں مرقوم تھا کہ مجھے حضور کی ارفع شان کے متعلق لولاک لما خلقت الافلاک “الہام ہوا ہے.یہ بیان کر کے حضرت بھائی جی نے بتایا کہ حضرت راجیکی صاحب کا مکتوب پڑھتے ہی حضرت عرفانی صاحب نے میرا وہ رقعہ جھپٹار مار کر چھین کر حضور کی خدمت میں پیش کر دیا جو میں نے وہاں بیٹھے لکھا تھا اور عرفانی صاحب نے دیکھ لیا تھا.میں نے لکھا تھا کہ آج رات مجھے پر رعب وشوکت اور پر جلال و ہیبت آواز میں لولاک لما خلقت الافلاک “ کا الہام ہوا ہے.جس میں حضور کی طرف اشارہ تھا اور نظارہ دکھایا گیا تھا کہ تشنت وافتراق حضور کی برکت سے تغیر پذیر ہو کر کم ہو جائے گا اور مغلوب ہو جائے گا.

Page 291

۲۷۶ - قیام خلافت ثانیہ کے ایک ماہ کے اندر ۱۲ اپریل ۱۹۱۴ء کو قادیان میں جماعت کے نمائندگان کی شوری بلائی گئی.بھائی بھی بھی ان نمائندگان میں شامل تھے.اس شوری میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے خلفاء کے کام کی تفصیل بیان کی.حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وصیت کا ذکر کیا.اور معترضین کے اعتراضات کے جواب دیئے.اس فیصلہ کے متفقہ فیصلہ کے مطابق صدر انجمن احمدیہ کے ایک قاعدہ کی ترمیم مجلس معتمدین نے ذیل کے الفاظ کے ذریعہ کی : ہر ایک معاملہ میں مجلس معتقدین اور اسکی ماتحت مجلس یا مجالس اورصدرا انجمن احمد یہ اور اس کی کل شاخہائے کے لئے حضرت خلیفتہ امسیح مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ ثانی کا حکم قطعی اور ناطق ہوگا.“* اس شوری سے قبل حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے حضرت بھائی جی کو احمد ہر جماعتوں میں بھجوایا تا بعض برسراقتدار ممبران صدر انجمن احمدیہ کی پیدا کر دہ باتوں کے متعلق حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی پیش کردہ تجاویز پیش کریں اور قاعدہ کی مذکورہ بالا ترمیم کے بارے میں جماعتوں کے صدر صاحبان کی آراء مرکز میں بھجوائیں.چنانچہ بھائی جی نے پشاور تک کی تمام جماعتوں میں پہنچ کر اس خدمت کو بطریق احسن انجام دیا.اور واپس آکر جماعتوں کے اخلاص اور خلافت سے وابستگی کے حالات بھی سنائے.-2 خلافت اور تائید خلافت ثانیہ کے بارے میں حضرت بھائی جی نے متعدد مضامین رقم فرمائے.بھائی جی کا ایک مفصل مضمون ” خلافت ثانیہ کی صداقت و عظمت‘ ( اور ) ربع صدی پیشتر کا ایک غیر مطبوعہ تاریخی ورق کے دوہرے عنوانات سے الحکم جلد ۴۲ نمبر ۲۲،۲۱ بابت ۱٫۱۴،۷ اکتوبر ۱۹۳۹ء میں شائع شدہ مضمون میں لولاک لما خلقت الافلاک کے بارے عجیب تو ارد کا ذکر ہے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی صحت کی کمزوری کی وجہ سے ان کے لئے دعا کی خاطر حضرت مولوی * عبد الرحمن صاحب کی زیر صدارت یہ حصہ سنایا گیا.رپورٹ بدر ۲۷ / جولائی ۱۹۵۳ء میں درج ہے.الحکم جلد ۱۸ نمبر ۹ - ۱۰ بابت ۲۱ را پریل ۱۹۱۴ء والفضل جلد نمبر ۴۵ ( ب ) بابت ۲۰ را پریل (صفحه ۱۶،۱۵) میں مندرجہ قریباً دوصد نمائندگان کی فہرست میں بھائی جی کا نام نامی نویں نمبر پر ہے.یہ اجلاس مسجد مبارک میں زیر صدارت جناب مولوی محمد احسن ہوا تھا.اس روز کی حضور کی تقریر ” منصب خلافت“ کے نام سے طبع ہوئی اس روز کی کارروائی کی روئداد اور جماعت احمدیہ کے اس وقت کے جملہ مبلغین کی مساعی کا ذکر بھائی جی کی طرف سے اس کتاب کے سر ورق میں تین صفحات میں درج ہے.

Page 292

۲۷۷ جو نہایت مفید اور ایمان افزا ہیں اور اس بارے میں حالات پر روشنی ڈالتے ہیں مثلاً ایک دردمندانہ پکار.۱۱۰۴ ایک مقدس نما وجود.خلافت ثانیہ کی صداقت و عظمت خلافت ثانیہ کا قیام (الحکم جوبلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ء).اس کا کچھ حصہ بدر ۱۴، ۲۸ / مارچ و ۳ یا ۳۰ را پریل ۱۹۵۲ء میں شائع ہوا.پھر ۱۹۵۷ء میں خلافت ثانیہ کے خلاف خروج کے وقت یہ مضمون نظارت دعوۃ و تبلیغ قادیان نے ایک کتابچہ کی شکل میں شائع کیا.اللہ تعالیٰ ہمارے آقا کی منزل و مقصود کو قریب اور آسان کر دے.محفوظ ہوا ہے.باران رحمت مؤلف ہذا کے علم کے مطابق یہ نشان صرف حضرت بھائی جی کے ذریعہ پچاس سالہ جو بلی کے جلسہ سالانہ میں ۲۷ دسمبر ۱۹۳۹ء کو حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے چندہ تحریک جدید کے سلسلہ میں زمیندار دوستوں کو مخاطب کر کے بعض مشکلات خصوصا خشک سالی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ”زمینداروں کی حالت بھی بہتر ہو جائے گی جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بارش کی رحمت کے ساتھ مددفر مائے گا.جسے اس نے ابھی ہمارے جلسہ کی وجہ سے روک رکھا ہے.“ یہ تحریر کر کے حضرت بھائی جی بیان کرتے ہیں کہ اس وقت دنیا جنگ عظیم دوم کی ہولنا کیوں اور مصائب سے ہراساں تھی.اس پر خشک سالی اور قحط اور امساک باراں مزید برآں.ان آفتوں نے ایک ناامیدی کی حالت پیدا کر دی تھی.بارش کے کوئی آثار نہ تھے.(اس خصوصی جلسہ کے بعد ) ایک کثیر تعداد مہمانوں کی ۱۵ جنوری ۱۹۴۰ء تک ٹھہری رہی.پھر غیر متوقع طور پر بارش کے سامان ہوئے اور ۱۷ ، ۱۸ جنوری کو بارش ہو کر فصلوں کو بے حد فائدہ ہوا.اور وہ لہلہانے لگیں.گویا مردہ زمین زندہ ہو گئی.جو باران رحمت کی شکل میں چشم بینا کے لئے صداقت خلافت پر بین دلیل اور برہان سالح “ ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے آقا کی منزل مقصود کو قریب اور آسان کر دے“ کے عنوان کے مضمون زیر مدینہ اسی مرقوم ہے.-1 بابت ۱۶ جنوری ” موسم کی خشکی کی وجہ سے نزلہ، زکام اور انفلوئنزا وغیرہ کی شکایت ہے.

Page 293

۲۷۸ (مندرجہ بدر جلد نمبر ۲۴ بابت ۲۸ / اگست ۱۹۵۲ء) میں حضرت بھائی جی نے تحریر فرمایا ہے کہ اس عظیم الشان خلافت کے اس وقت تک کے چالیس سالہ دور میں مخالفتوں کے خطرناک طوفان اٹھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے جس نے آپ کو تخت خلافت پر متمکن کیا تھا ، ملیا میٹ کر دیا حضور نے بیان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کے ذریعہ ایک رویا میں مجھے اطلاع دی تھی کہ میرے کام کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہوں گی.مخالفتیں پیدا ہوں گی.میں خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتا آگے بڑھتا چلا جاؤں.چنانچہ رویا میں مجھے عجیب عجیب ڈراؤنی شکلیں اور بھیا نک نظارے نظر آتے ہیں.جب میں ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ پڑھتا ہوں تو وہ نظارے غائب ہو جاتے ہیں.۱۰- پیشگوئی مصلح موعود کے بارے انکشاف حضرت خلیفتہ امسیح الثانی پر جنوری ۱۹۴۴ء کے پہلے ہفتہ میں لاہور میں شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان پر یہ انکشاف ہوا کہ آپ ہی مصلح موعود کے بارے پیشگوئی کے مصداق ہیں.اس انکشاف سے احمدی جماعتوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی اور حاسدین کو بہت تکلیف ہوئی کہ جماعت مبارکباد کے تار دے رہی ہے اور خوشی منا رہی ہے.اس تعلق میں ہوشیار پور لا ہور لدھیانہ اور دہلی میں عظیم الشان جلسے منعقد کئے گئے جن میں حضور نے بنفس نفیس شرکت فرمائی.ہوشیار پور کے جلسہ میں حضور نے فرمایا کہ ” میں آج اسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ تصرف میں میری جان ہے کہ میں نے جو ر و یا بیان کی ہے وہ مجھے اسی طرح آئی ہے...میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے کشفی حالت میں کہا انا المسیح الموعود مثيله و خليفة اور میں نے اس کشف میں خدا کے حکم سے یہ کہا کہ میں وہ ہوں جس کے ظہور کی انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں.پس میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح بقیہ حاشیہ : - احباب دعا کریں.اللہ تعالیٰ موسم کے بداثرات سے محفوظ رکھے اور باران رحمت -۲ بابت ۷ ارجنوری ” ایک عرصہ کے بعد آج مطلع ابر آلود ہونے کے بعد کسی قدر ترشح ہوا.الحمد للہ.ابھی بادل چھائے ہوئے ہیں.“.

Page 294

۲۷۹ موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچانا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ میں ہی موعود ہوں اور کوئی موعود قیامت تک نہیں آئے گا.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور موعود بھی آئیں گے.اور بعض ایسے موعود بھی ہوں گے جو صدیوں کے بعد پیدا ہوں گے.بلکہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا.اور میں کسی شرک کے زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے آؤں گا.جس کے معنی یہ ہیں کہ میری روح ایک زمانہ میں کسی اور شخص پر جو میرے جیسی طاقتیں رکھتا ہوگا.نازل ہوگی اور وہ میرے نقش قدم پر چل کر دنیا کی اصلاح کرے گا.پس آنے والے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کے دعووں کے مطابق اپنے اپنے وقت پر آئیں گے.میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اسی شہر ہوشیار پور میں سامنے والے مکان میں نازل ہوئی.جس کا اعلان آپ نے اس شہر سے فرمایا اور جس کے متعلق فرمایا کہ وہ نو سال کے عرصہ میں پیدا ہو گا وہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے پوری ہو چکی ہے.اور اب کوئی نہیں جو اس پیشگوئی کا مصداق ہو سکے.“ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی میں یہ خوشخبری بھی دی گئی تھی کہ ”خدا تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.چنانچہ مبلغین احمدیت نے مختصر تقریروں میں بتایا کہ کیسی شان سے یہ پیشگوئی پوری 66 ہو چکی ہے.اختتام پر حضور نے غیر از جماعت افراد کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ مت سمجھیں کہ آپ خدا کی تقدیر کو پورا ہونے سے روک سکتے ہیں.خدا کی تقدیر ایک دن پوری ہو کر رہے گی اور یہ سلسلہ تمام زمین پر پھیل جائے گا.کوئی نہیں جو اس سلسلہ کو پھیلنے سے روک سکے.میں آسمان کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں.میں زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں.میں ہوشیار پور کی ایک ایک اینٹ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا.اگر لوگوں کے دل سخت ہوں گے تو فرشتے ان کو اپنے ہاتھ سے ملیں گے یہاں تک کہ وہ نرم ہو جائیں گے اور ان کے لئے احمدیت میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا.“ حضرت مصلح موعود کے منشاء کے مطابق حضرت صاحبزادہ بشیر احمد صاحب نے چلہ کشی والے مقدس کمرہ میں پینتیس احباب کو داخل کیا.ان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب، حضرت مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت خان محمد عبد اللہ خاں صاحب سمیت پندرہ افراد حضرت مسیح موعود

Page 295

۲۸۰ علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے شامل تھے اور حضرت مولانا شیر علی صاحب ، حضرت مولانا سید محمد سرورشاہ صاحب، حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال اور ” حضرت شیخ عبدالرحمن قادیانی صاحب“ (رضی اللہ عنھم ) بھی.حضور کا ارشاد تھا کہ.اس موقع پر کسی ذاتی غرض کے لئے دعانہ کی جائے.بلکہ صرف اسلام کی شوکت کے لئے دعا کی جائے.“ اور حضور نے ان احباب سمیت اس کمرہ میں دعا کی.اور ہم جو مکان کے بیرونی دروازہ کے سامنے اور قریب گلی میں تھے وہ بھی اس اجتماعی دعا میں شریک تھے.فالحمد للہ.خلافت ثانیہ میں بعض خدمات -1 حضرت خلیفتہ امسیح الثانی اگست ۱۹۱۴ء میں ایک ریلیف فنڈ کے جلسہ کی خاطر ہمعیت حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی و بعض دیگر احباب گورداسپور تشریف لے گئے.یکم ستمبر ۱۹۱۴ء کو حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت عبدالرحمن صاحب قادیانی اور بعض دیگر احباب سلسلہ کے کام کے لئے گورداسپور تشریف لے گئے.حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب کے تبلیغ کی غرض سے ۶ رستمبر ۱۹۱۵ء کو ولایت روانہ ہوتے وقت حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مشایعت فرمانے کیلئے مع بزرگان و خدام ڈیڑھ دو میل تک تشریف لے گئے.اور راستہ میں ہدایات دیتے رہے.اور بٹالہ کی سٹرک کے موڑ پر حضور نے ایک لمبی اجتماعی دُعا کے ساتھ انہیں رخصت فرمایا.ماسٹر عبدالرحیم صاحب و شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی امرتسر تک ساتھ گئے.“ الفضل و ر ستمبر ۱۹۱۵ء.زیر مدینتہ اسیح.ماسٹر عبدالرحیم صاحب سے مراد حضرت نیر صاحب ہیں.مؤلف ) پادری والٹر ایم.اے سیکرٹری ایم سی اے لاہور ۱۹۱۶ء میں قادیان آئے.بھائی جی بیان کرتے ہیں کہ پادری صاحب کے قیام اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی سے ملاقات کا انتظام میرے ذریعہ ہوا تھا.(مؤلف کی مرتبہ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۶۶٬۶۵ میں پادری صاحب کی آمد اور ملاقات کا ذکر ہے.)

Page 296

۲۸۱ ۵- دہلی میں ایک عظیم الشان جلسہ دہلی میں مارچ ۱۹۱۶ ء میں جماعت احمدیہ کا چار روزہ جلسہ منعقد ہوا.اس اپنی طرز کے پہلے عظیم الشان جلسہ میں بزرگان ، حافظ روشن علی صاحب ، میر محمد اسحاق صاحب، مفتی محمد صادق صاحب، چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب، میر قاسم علی صاحب، چوہدری ابوالہاشم خاں صاحب ، مولوی محمد دین صاحب، ( بی.اے ) اور شیخ عبدالخالق صاحب کے لیکچر ہوئے.اس جلسہ کی جان حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا اسلام اور دیگر مذاہب پر مضمون تھا.جو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے سنایا.جو بعد میں اردو، انگریزی اور عربی میں شائع کیا گیا.حضور نے اس مضمون کا ایک حصہ ظہر تک تحریر کر کے امیر قافلہ مولوی محمد دین صاحب کے سپرد کیا.پھر نماز جمعہ کے بعد چند اوراق شیخ عبدالخالق صاحب کے ہاتھ بھجوائے.اور دو گھنٹے بعد ایک حصہ ماسٹر عبدالعزیز صاحب نے سائیکل پر بٹالہ پہنچ کر اسٹیشن پر شیخ صاحب کے سپر د کیا اور بقیہ مضمون تین بجے رات کو بھائی عبدالرحمن صاحب لے کر د بلی روانہ ہوئے.زیر تجویز مباہلہ.جلسہ سالانہ ۱۹۱۷ ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ دہلی میں فلاں بااثر صاحب کو میں نے اپنے مضمون میں ایک ہزار افراد لے کر مباہلہ کرنے کی تجویز پیش کی ہے.'' (سوجوا حباب مباہلہ میں پیش ہونا چاہیں) وہ اپنا نام بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو لکھا دیں.“ حمد الفضل ۱۷ -۱۹۱۶ء ( صفحہ ۱۲، مارچ صفحہ ۲ ،۱۳ ) اس سفر میں دہلی میں گھنٹہ گھر کے سامنے مفتی صاحب کا ایک پادری سے مباحثہ ہوا کہ اس کے حامی مسلمانوں کا بڑا مجمع تھا.مفتی صاحب کے ساتھ صرف بھائی عبدالرحمن صاحب تھے.(صفحہ ا کالم ۳) ماسٹر عبدالعزیز صاحب سے مراد حضرت ماسٹر حکیم عبدالعزیز صاحب صحابی ہیں جنہوں نے تقسیم ملک سے چند سال پہلے محلہ دار الفضل میں احمد یہ فروٹ فارم کے قریب جانب غرب اپنے مکان میں طبیہ عجائب گھر کھولا تھا.آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ٹیچر اور ایک زمانہ میں سلسلہ کی طرف سے اردگرد کے سلسلہ کے مدارس کے انسپکٹر بھی رہے تھے.بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.شیخ عبد الخالق صاحب قبول احمدیت سے پہلے پادری تھے.پھر ساری عمر خدمت دین میں انہوں نے صرف کی.

Page 297

۲۸۲ (سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ بابت ۱۸- ۱۹۱۷ء - صفحہ ۹) بعد میں اس مذہبی لیڈر کی حالت بہت تبدیل ہوئی.کشمیر کمیٹی کے قیام میں دو لیڈر جنہوں نے اصرار کر کے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا نام صدارت کے لئے تجویز کیا ایک وہ تھے.۱۹۳۸ء کے حضور کے سیر روحانی والے سفر میں واپسی پر حضور دہلی پہنچے تو ان صاحب نے مع دیگر لیڈران کے حضور کی امامت میں اپنی جائے قیام میں نماز ادا کی.جس کے بعد دعوت کھائی.اس دعوت میں خاکسار مؤلف ( پرائیوٹ سیکرٹری ) نے بھی شرکت کی تھی.۱۹۵۲ء میں خاکسار نے ملاقات کی تو محبت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درگاہ شریف میں آمد کا ذکر کیا.نیز بتایا کہ احمدیہ جماعت کے خلاف جو فساد پاکستان میں ہوا ہے ہیں.مجھے ان سے صدمہ ہے اور پاکستان سے آنے والے ملاقاتیوں کو یہ بات میں سمجھاتا ہوں.میں بہت بیمار ہوں اور مجھے رہ رہ کر افسوس ہوتا ہے کہ جماعت را ولپنڈی میری حضرت مرزا محمود احمد ( خلفیہ ثانی ) سے ملاقات ربوہ لے جا کرانے پر تیار تھے.لیکن میں نہ جا سکا.ے.اخبار لائٹ لاہور کی طرف سے الفضل کے ایڈیٹر خواجہ غلام نبی صاحب اور پرنٹر محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی پر ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ دائر ہوا.مقدمہ کی پیروی جناب چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے کی ۱۹۶۵ء کی ہندو پاک جنگ کے بعد ایڈیٹر اخبار ” لائٹ“ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث صاحب کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر لی تھی.فالحمد للہ ہند و مسلم اتحاد اور مسلم ملی مفاد دسمبر ۱۹۲۶ء میں ایک مشہور ہندو مذہبی رہنما کے ایک مسلمان کے ہاتھوں ہلاک ہو جانے پر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ یہ طریق اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اور اس سے یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اسلام تلوار کا محتاج ہے.اس واقعہ کے نتیجہ میں ہندو شدھی سبھا کی سرگرمیاں تیز ہوگئیں.حضور کی دور بین نگاہ نے جو کچھ بھانپا اور دفاع اسلام کے لئے یقین کرتے ہوئے بیان فرمایا وہ کچھ عرصہ بعد ویسے ہی رونما ہوا کہ ”ہندوستان میں سپین کی طرح کا مشکل وقت اسلام کے لئے آیا ہوا ہے.“ حضور نے ہمیشہ ہند و مسلم اتحاد کو اہمیت دی.اس وقت بھی وائسرائے ہند لارڈ ارون کو ایک مفصل مکتوب میں اس بارے میں تجاویز پیش کیں اور لاہور میں سر محمد شفیع کی صدارت میں ایک تقریر میں اس کے متعلق نیز اس بارے میں کہ مسلمان کیا طریق اپنا ئیں، مفید و قابل عمل باتیں بیان کیں.۴ رمئی ۱۹۲۷ء کو مسلمان ، لاہور کی ایک مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہے تھے کہ ان پر حملہ ہوا.دوسرے روز ان سانحہ والے

Page 298

۲۸۳ جنازوں کو لے جاتے وقت شرارت کی گئی.اس سال حضور نے شملہ تشریف لے جا کر ان مقاصد سے چوٹی کے ہندو مسلم لیڈروں سے تبادلہ خیال کیا اور حضور کی تحریک پر مسٹر محمد علی جناح ( جو اس وقت کانگرس کے ممبر تھے ) مولانا شوکت علی.مولانا محمد علی جوہر.سر عبد القیوم خاں.پنڈت مدن موہن مالویہ.ڈاکٹر مونجے.لالہ لاجپت رائے اور سری نواس آئنگر کے اجلاس ہوئے اور مسلمانوں کو وہاں بھی اور اس سے پہلے لاہور میں بھی حضور نے بلا تمیز فرقہ اتحاد پیدا کرنے کی تلقین فرمائی.مذکورہ حملہ کے بعد ہندو مسلم فسادات برپا ہوئے.جس میں مشہور صحافی مولا نا عبدالمجید سالک کے بیان کے مطابق دو تین دن میں ہی کوئی دوسو افراد ہلاک اور تین سو سے زیادہ زخمی ہوئے.جس پر حضور نے فوراً مولانا محمد علی صاحب ومولانا شوکت علی برادران کے برادر اکبر مولانا ذوالفقار علی خاں صاحب ناظر اعلی، مفتی محمد صادق صاحب ناظرا مور عامہ کو قیام امن خدمت خلق اور امداد مظلومین کی غرض سے اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل کو مسلمانوں کی قانونی امداد کے لئے لاہور بھجوایا.حضرت خان صاحب اور حضرت مفتی صاحب نے مقتولین ان کے پسماندگان اور زخمیوں کے بارے معلومات حاصل کرنے کے لئے مسجد احمد یہ لاہور میں شعبہ اطلاعات قائم کیا.یہ دفتر روزانہ پندرہ گھنٹے کھلا رہتا تھا.فوری امداد بھی کی گئی.اور کوتوالی جا کر زیر حراست مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی اور ان کے اقارب کو تسلی دی.احمدی ڈاکٹروں کے ذریعہ ہسپتال میں زخمیوں کی دیکھ بھال کی.حضور نے ایک پوسٹر ” فسادات لاہور پر تبصرہ ، رقم فرمایا.جس کی کتابت رات اڑھائی بجے مکمل ہوئی.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کو حضور نے ہدایات دیں.وہ صبح نو بجے روانہ ہو کر اسے چھپوا کر شام کو لاہور پہنچے اور اسے تقسیم کیا اور چسپاں کیا حضور کی تقلید میں مسلم ریلیف کمیٹی اور ہندو اور سکھوں کی طرف سے بھی پوسٹر لگائے گئے جن سے مشتعل طبائع میں سکون پیدا ہوا.حکام ضلع پر حالات واضح کئے گئے.مسلم ریلیف کمیٹی نے چاہا کہ اسے مفصل کو ائف مہیا کئے جائیں سو اس کام کے لئے برکت علی ہال میں دفتر قائم کیا گیا.ان چاروں بزرگوں نے کئی ماہ تک لاہور کے مسلمانوں کی خدمت کی.و تحفظ ناموس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم -1 ایک احمدی بزرگ حضرت سید دلاور شاہ صاحب ایڈیٹر انگریزی پر چہ مسلم آؤٹ لک لاہور نے اپنے اس اخبار میں اس حج لاہور ہائی کورٹ پر شدید تنقید کی اور اسے مستعفی ہونے کے لئے کہا کہ جس

Page 299

۲۸۴ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک گندی زہر آلود کتاب شائع کرنے والے کو بری کر دیا تھا کہ وہ قانون کی زد میں نہیں آتا.لاہور ہائی کورٹ میں سید صاحب پر ہتک عدالت کا مقدمہ دائر ہوا.انہوں نے اپنی تحریر پر معذرت نہیں کی بلکہ قید وجرمانہ کی سزا کو ترجیح دی.اس سزا پر مسلمانان ہند میں ہیجان پیدا ہوا کہ مصنف شاتم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو حج مذکور نے ہتک عزت کی سزا نہ دی کہ قانون کی دفعہ میں اس کی گنجائش نہیں.لیکن حکومت کو ایسے حج کی عزت کا اس قدر پاس ہوا کہ حکومت کی مشینری حرکت میں آگئی.اخبار مسلم آؤٹ لک کے مشہور مقدمہ میں جو کارروائی عدالت عالیہ لاہور میں ہوئی.اس کی رپورٹ متعدد اردو.انگریزی روزانہ اخبار میں شائع ہو چکی ہے.لیکن ہم فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ الفضل کے خاص نامہ نگار بھائی عبدالرحمن صاحب نے جس تفصیل اور عمدگی کے ساتھ مقدمہ کی رپورٹ قلم بند کر کے بھیجی ہے.ایسی کسی اخبار نے بھی شائع نہیں کی...جناب چودھری ظفر اللہ خاں صاحب.....نے کیسی اعلیٰ قابلیت اور کتنی بڑی خوبی کے ساتھ مقدمہ کو پیش کیا اور کیسی زبر دست گفتگو ( بحث ) کی جس طرح اس مقدمہ کا فیصلہ اپنی تلخی کے لحاظ سے مسلمانان ہند کے لئے ہمیشہ باعث رنج والم رہے گا.اسی طرح جناب چودھری صاحب موصوف کا اس مقدمہ میں ایسی جرات کے ساتھ پیش ہونا اور اس قدرپر زوراورز بر دست بحث کرنا بھی یادر ہے گا.۲- تحفظ ناموس کے بارے میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے مسلسل پیہم کوشش کر کے امت مسلمہ کی رہبری کی کہ ایسی بدزبانی کے انسداد کے لئے وہ کیا کرے.چنانچہ حکومت اس بارے میں قانون بنانے پر مجبور ہوئی.(حضور کا خطبہ مندرجہ الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۲۷ء اس بارے میں بھائی جی کی نوشتہ رپورٹیں ۴ مارچ تا...جون ۱۹۳۰ء قابل مطالعہ ہیں.) 1- مجاہد ماریشس کا استقبال بمبئی میں مجاہد ماریشس حضرت حافظ صوفی غلام محمد صاحب بی.اے بارہ سال کے بعد واپس تشریف لا رہے تھے.آپ کے استقبال کیلئے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو بمبئی بھیجا گیا.بمبئی تا بٹالہ کے استقبال کے کوائف بھائی جی کے قلم بند کر دہ شائع شدہ -

Page 300

۲۸۵ ایک خصوصی درس میں شمولیت حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک خصوصی درس ۱۸اگست تا ۸ ستمبر ۱۹۲۸ مسجد اقصی میں یونس تا سورہ کہف پانچ پاروں کا دیا.جس کے لئے اعلان ہونے پر بیرون قادیان اور قادیان کے پانصد احباب نے شرکت کی.مستورات کے لئے پردہ کا انتظام تھا.چار پانچ گھنٹہ روزانہ کے درس کے لئے حضور موسم گرما کے ان ایام میں روزانہ نصف شب تک علمی تحقیقات کر کے نوٹ تیار کرتے تھے اور دن کو سلسلہ کے ضروری کام بھی سرانجام دیتے تھے.حضور نے چودہ علماء اور زود نویسوں کی ایک جماعت درس قلمبند کرنے کے لئے مقرر فرمائی تھی.ان میں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور محترم بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی بھی شامل تھے.مقصد یہ تھا کہ یہ کاپیاں بعد ازاں استفادہ کے لئے محفوظ رکھی جائیں گی.دیگر شامل ہونے والوں میں سے ایک سوسات افراد کو قریب جگہ دی جاتی تھی.ان کی حاضری لی جاتی تھی اور روزانہ ان کا امتحان لے کر حضور نتیجہ کا اعلان فرماتے تھے.حضور نے درس میں شامل ہونے والے ان احباب کو دارا صیح میں دعوت طعام دی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نونہالان نے کھانا کھلایا.۷ ستمبر کو بعض احباب بیرون مجبوراً جانے والے تھے.حضور نے ایک مختصر الوداعی تقریر میں اور خطبہ جمعہ میں بھی بیرونی احباب کو تلقین فرمائی تبلیغ کرنے ، حقائق قرآن مجید پھیلانے اور قلمی جہاد کرنے اور اپنی اپنی جماعتوں کو سنبھالنے اور ان میں زندگی کی روح پیدا کرنے کی اور قرآن مجید پر عمل کرنے اور کرانے کی کوشش کرنے کی.الوداعی تقریر کے بعد نہایت خشوع و خضوع سے حضور نے تمام احباب سمیت لمبی دعا کی.خود حضور کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.آخری روز (۱۸ ستمبر کو ) صبح سے دو بجے بعد دو پہر تک درس ہوا.پھر اجتماعی دعا ہوئی.ایک دوست کی طرف سے مٹھائی تقسیم ہوئی.حضور نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان مبارک کے دنوں میں جبکہ قرآن مجید نازل ہوتا تھا بہت صدقہ دیتے تھے میں دس روپے صدقہ دیتا ہوں.دیگر احباب بھی قادیان کے غرباء کے لئے صدقہ دیں.چنانچہ قریبا دوصد روپے جمع ہوئے.-١٢ - کشمیر کمیٹی کی زمام صدارت حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سپر د جن رہنماؤں کی طرف سے متفقہ طور پر کی گئی.اس سلسلہ میں مرکز سے جن بزرگان نے وقتاً فوقتاً سری نگر ، جموں اور میر پور میں اہم خدمات

Page 301

۲۸۶ سرانجام دیں ان میں سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ، مولانا عبدالرحیم صاحب درد اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بھی شامل تھے.حضور کے ارشاد پر بھائی جی کو اس خدمت کا موقعہ ملا تھا.آپ دورہ کر کے اہالیان علاقہ کو حوصلہ دلاتے اور ان کے حالات سے حضور کی خدمت میں اطلاع بھجواتے.حضور نے ۳۱ رمئی ۱۹۲۷ء کو بھائی جی کو رقم فرمایا: آپ کے خطوط تفصیلی ملتے ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء ۱۳.حضور نے ۳۶-۱۹۳۵ء میں بطور جائنٹ ناظر بیت المال بعض احباب سے اندرون و بیرون ہند کی جماعتوں کے چندہ کے بجٹ کی تشخیص کروائی.چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ نے قادیان و ملحقہ دیہات کی اٹھتر جماعتوں کے بجٹ کی تشخیص مکمل کی.-12 قادیان میں ۱۹۳۸ء کے ٹورنامنٹ میں لمبی چھلانگ کے مقابلہ میں بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کو جج مقرر کیا گیا تھا.۱۵- تقسیم ملک سے پہلے صحابہ قادیان کی فہرست وغیرہ کی تکمیل کے تاریخی اور اہم کام میں بھائی جی نے بھی شرکت کی تھی.۱۶- ایک سیشن جج کے ظالمانہ فیصلہ پر تنقید ایک سیشن جج نے ایک فتنہ پرداز لیڈر کے مقدمہ کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے خلاف نہایت ہی گندے اور نا قابل برداشت الفاظ استعمال کئے تھے اور دراصل اس وقت حکومت کی طرف سے خاص طور پر تنگ کیا جار ہا تھا.مرافعہ ہونے پر ہائیکورٹ کے جسٹس مسٹر کولڈ سٹریم نے ان ریمارکس کی تردید کی اور لکھا کہ اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے.۲۶ مارچ اور ۹ را پریل ۱۹۳۶ء کو پبلک جلسوں میں حضرت بھائی جی نے سیشن جج کے فیصلہ پر تنقید نہ تقاریر کیں اور جماعت کے جذبات کا واشگاف طور پر اظہار کیا.اس میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ: میں جو آج آپ میں کھڑا ہو کر بول رہا ہوں.میں نے اسلام کا چہرہ اسی پاک باز انسان کے طفیل دیکھا جس نے عیاش کہا.میں چشم دید گواہ ہوں.میں چشم بصیرت سے کہتا ہوں کہ اس کے وجود کے طفیل محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا.اور میں نے اس کے طفیل اپنے والدین، اپنے

Page 302

۲۸۷ عزیز واقارب، اپنے رشتہ دار، اپنا مذ ہب ، اپنا وطن چھوڑ دیا.میں نے اس سے بڑھ کر اس زمانے میں کسی کو راستباز نہ پایا.اس سے بڑھ کر کوئی خاکسار نہ دیکھا اور اس سے بڑھ کر کوئی حلیم نہ پایا اور نہ اس سے بڑھ کر دنیا سے کسی کو بیزار دیکھا.اور میں اس امر کا اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو شخص ہمارے مقدس امام کو، شاہزادہ امن کو جس پر ہم جان و دل سے فدا ہیں جو جان جہان ہے اور جس کے لئے ہم اپنی اولادوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ٹکڑے کروا دینا منظور کر سکتے ہیں مگر اس کی شان میں ناروا نازیبا الفاظ برداشت نہیں کر سکتے.جوان کے خلاف بدتہذیبی کے الفاظ استعمال کرے گا.ہم اس کے لئے بد تر الفاظ نہیں تو ویسے الفاظ ضرور استعمال کریں گے.ہم عیاش کہنے والے کو عیاش کہیں گے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو.اور وقت آنے پر ہم ان عیاشیوں اور رنگین مزاجیوں کو طشت از بام کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے..ہم بالکل اسی پیمانہ سے ہر انسان کو تو لیں گے جس پیمانہ سے اس زمانہ کے راستباز کوکوئی تولنے کی سعی کرے گا.(صفحہ ۱۱،۱۰) میں بچہ تھا جب خدا مجھے قادیان میں لایا.اب ساٹھ سالہ بڑھا ہوں.۱۸۹۵ء سے ان ایام تک مجھے بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خاندان کی غلامی کا شرف حاصل ہے.اسی پر میں پلا پوسا.جوان ہوا اور اب بڑھا ہوں.بوجہ پچپن کے عموما اندرون خانہ بھی خدمات کا موقعہ ملا.مجلسی حالات کا بھی مشاہدہ و مطالعہ کرنے کی عزت ملی اور سفروں میں بھی شرف رفاقت و ہمر کا بی نصیب ہوا.دوستو ! ۱۸۹۵ء سے سید نا حضرت اقدس کے وصال تک بلکہ عین آخری گھڑیوں میں بھی مجھے یہ عزت ملی کہ حضور نے اس غلام کو یا د فرمایا.خاندان کے مقدسین کی شفقت بھی ہمیشہ مجھ پر رہی.ایسا مقدس اور پاکباز انسان حضور پر نور کے بعد میں نے نہیں دیکھا.حضور کے اخلاق فاضلہ اور اوصاف حمیدہ کی تشریح و تفصیل کسی مضخیم کتاب کو چاہتی ہے.باپ سے زیادہ شفیق اور ماں سے زیادہ مہربان.ایک دو یا چند گنا نہیں بلکہ لاکھوں گنا زیادہ.رحم کے لحاظ سے سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق کا نمونہ اور حلم کے لحاظ سے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال....وہ کامل انسان خدا نہ تھا مگر خدا نما ضر ور تھا.اس کی مجلس خدا نما اور صحبت روح پرور تھی.کتنا ہی رنج و غم میں ڈوبا ہوا انسان جب اس کی مجلس میں پہنچایا اس کے چہرہ مبارک کو دیکھ پاتا.سارے غم غلط ہو جاتے اور دنیا وما فیہا کو بھول کر آستانہ الوہیت کی طرف کھنے لگتا تھا.ہفتے مہینے اور سال بھی تمام ہو جائیں.مگر اس ہمارے یوسف کے حسن و جمال کی باتیں

Page 303

۲۸۸ ختم ہونے میں نہ آویں گی.“ (صفحہ ۳۱،۳۰) دوستو ! اس چالیس بیالیس سالہ عرصہ میں میں نے کبھی کسی مجمع میں تقریر نہیں کی اور نہ میں کبھی سٹیج پر کھڑا ہوا.مگر مسٹر کے فیصلہ نے جو اصل وجہ ہے موجودہ فتن کی مجھے مجبور کر دیا کہ میں اپنے در ددل کا اظہار کر دوں.“ (صفحہ ۳۲) حضرت بھائی جی کی طرف سے ایک کتابچہ اس بارے میں شائع ہوا تھا جس کے اقتباسات اوپر دیئے گئے ہیں.یہ سیشن جج بعد تقسیم ملک چیف جسٹس بنا.لیکن ریٹائر منٹ پر اس کی ذلت کا سامان ہوا.الوداعی تقریب باوجود انتظام ہو جانے کئے اس کے ایک انٹرویو کے باعث منسوخ ہوئی.اور پھر ماتحت عدالت میں ا پر مقدمہ ایک ڈ پی ایڈوکیٹ جنرل ی طرف سے دائر ہوا.تفصیل کےلئے دیکھے احب احد جلد یاز دہم) حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سفروں میں رفاقت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ان خوش قسمت احباب میں سے ہیں جن کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے اندرون و بیرون ملک کے سفروں میں ساتھ جانے اور خدمت بجالانے کے مواقع حاصل ہوئے.جن سفروں کا علم ہو سکا ہے ان کا بیان مختصر کوائف کے ساتھ کیا گیا ہے.کوائف سے ان کی قابل رشک خوش بختی اجاگر ہوتی ہے.ا.شملہ سر ہند ،سنور اور پٹیالہ کا سفر (۱۹۱۷ء میں ) -1 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بحالی صحت کے لئے شملہ تشریف لے جانا تھا.آپ نے ایک روز پہلے ۲۹ را گست ۱۹۱۷ء کو بعد از نماز مغرب احباب کو فتنہ فساد سے بچنے اور اتحاد کے بارے تلقین کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام کے دور اول میں مسلمانوں نے اتحاد سے اور اتباع احکام سے متمدن اقوام کے مقابل کامیابی اور غلبہ حاصل کیا.نیز فرمایا کہ میں تبدیلی آب و ہوا کے لئے باہر جارہا ہوں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کہ باہر تشریف لے جاتے تو ایک نماز کا اور ایک انتظامی امور کا امیر مقرر فرماتے.مسجد مبارک کی امامت کے لئے جس کے متعلق خاص الہامات ہیں میں (حضرت) قاضی سیدامیرحسین صاحب کو اور مقامی امور

Page 304

۲۸۹ کے لئے ( حضرت ) مولوی شیر علی صاحب کو مقرر کرتا ہوں.لوگ خلیفہ وقت کی بات بیعت میں ہونے کی وجہ سے مان لیتے ہیں.لیکن امراء کی بات ماننے میں شرح صدر نہیں پاتے.حضرت رسول کریم صلی اللہ وسلم کی پیروی میں میں کہتا ہوں کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی.اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.جماعت قادیان کو دوسروں کیلئے نمونہ بننا چاہئے.جیسے تمہارے درجے بڑے ہیں ایسے ہی تمہاری ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں.ایک بد شکل کے چہرے پر مکھیاں بیٹھیں چنداں بری معلوم نہیں ہوتیں.لیکن ایک حسین چہرہ پر ایک بھی مکھی ہو تو بری معلوم ہوتی ہے.اس کے لئے برائی کا ایک چھوٹا سا دھبہ بھی بدنما ہے.اگر یہاں کا ایک مدرس اور معزز ننگے پاؤں ننگے سر پھرے تو سب سمجھنے لگیں گے کہ دیوانہ ہوگیا ہے.اس کا یہ عذر کہ دیہات میں کئی لوگ اس طرح ہوتے ہیں، نہیں سنا جائے گا.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں کھانے یا بحث کرنے کو بہت نا پسند فرماتے تھے.بازار میں ایسی بحثیں بعض اوقات فساد کا موجب بن جاتی ہیں.اس بات پر بھی عمل کرنا چاہئے.قادیان کو اللہ تعالیٰ نے مقدس قرار دیا ہے.اور اسے اسلام کی آئندہ ترقیات کے لئے مرکز بنایا ہے.اس لئے قادیان کے لوگوں کی ہر حرکت.ہر فعل اور ہر قول نمونہ ہونا چاہئے.باہم محبت والفت ہو.غمگساری ہو.جزوی اختلافات کی وجہ سے مواخات میں فرق نہ آنا چاہئے.خلیفہ وقت کا کام صرف مقامی نہیں رہا.مجھے بہت زیادہ دماغی کام کرنا پڑتا ہے.کثرت سے ڈاک آتی ہے.باہر کی تمام جماعتوں کی باگ ڈور براہ راست مجھے اپنے ہاتھ میں رکھنی پڑتی ہے.جماعت کی ترقی کی تجاویز سوچنے اور ڈاک کا جواب دیتے دلاتے اور ترجمہ کے کام میں ان گرمی کے دنوں میں میں رات ایک بجے تک کام کرتا رہا ہوں.ترجمہ کے کام کی وجہ سے میرے دماغ پر اتنا بوجھ پڑا کہ میری ایسی حالت ہوگئی کہ میں ایک سطر بھی لکھنے سے رہ گیا اور بخار ہو گیا.آرام کے لئے میں باہر جارہا ہوں.میں اپنے فرائض سے پھر بھی غافل نہیں ہوں.بعض رؤیاؤں کے مطابق سفر کے کچھ اور مصالح بھی ہیں جن کی تفصیل مجھے معلوم نہیں ہو سکی.حضور نے مع خدام دوسرے روز ۳۰ راگست کو صبح ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر عبداللہ صاحب کے مکان کے آگے سے گذر کر مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دعا کی.پھر مہمان خانہ کے راستے بیرون قصبہ پیدل تشریف لے گئے.میاں معراج الدین صاحب کے بھٹہ سے آگے گذر کر سواریاں موجود

Page 305

۲۹۰ تھیں.سب سے مصافحہ کر کے حضور تانگہ پر سوار ہو گئے.آپ کے ساتھ حرم محترم کے علاوہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ، محترم میاں عبدالسلام صاحب ابن حضرت خلیفتہ اسیح الاول محترم ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر ، محترم شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی اور محترم مولوی عطا محمد صاحب اور محترم نیک محمد خاں صاحب ( غزنوی ) وغیرہ تھے.بٹالہ سے (ٹرین پر ) سوار ہو کر قافلہ امرتسر پہنچا.جہاں پچاس کے قریب احمدی احباب اسٹیشن پر آئے.کھانے کے بعد اسٹیشن کے برآمدہ میں ظہر و عصر کی نمازیں ادا کی گئیں.چند بیعتیں ہوئیں.لاہور سے محترم چوہدری ظفر اللہ خاں اور محترم با بو عبد الحمید صاحب نے آکر ملاقات کی.بٹالہ اور امرتسر کے درمیان سیکنڈ کلاس کے ڈبہ کے خراب پنکھے کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب ٹھیک کرنے لگے تو ایک دوست نے کہا کہ جانے دیجئے.ہم نے تو ابھی امرتسر میں اتر جانا ہے.لیکن حضور نے فرمایا کہ مومن ہمیشہ وہ کام کرتا ہے جس سے مخلوق خدا کا فائدہ ہو.پنکھا ہمارا نہیں.کسی اور کے کام آجائے گا.امرتسر کے میاں غلام رسول صاحب حجام اونچے اونچے اپنے مخصوص لہجے میں باتیں کر رہے تھے.انہیں امرتسر کی جماعت نے روکنا چاہا.تو حضور نے روکنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں مجھ سے باتیں کرنے دو.ہاں ! میاں غلام رسول! آپ سنائیں.میں سنتا ہوں.رات بھر جا کر حضور نے راستہ کی جماعتوں سے ملاقاتیں کیں تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو.جالندھر اسٹیشن پر کپورتھلہ کی جماعت اور پھگواڑہ اسٹیشن پر حاجی پور کے مخلصین.پھلورا اور لدھیانہ پر وہاں کے احباب اور راجپورہ پر پٹیالہ اور سنور کی جماعتیں موجود تھیں.پٹیالہ وسنور کے دوست انبالہ تک ساتھ گئے اور کا لکا کی ٹرین میں سوار کرا کے واپس گئے.شملہ اسٹیشن پر وہاں کی جماعت موجود تھی.ایک روز جماعت شملہ کی حاضر خدمت ہونے کی خواہش تھی.اس لئے حضور سیر کو نہیں گئے.ایک غیر احمدی اور ایک غیر مبائع حاضر مجلس تھے.احباب کی خواہش تھی کہ ” صادقوں کے معیار پر حضور تقریر فرمائیں.سوحضور نے پونے دو گھنٹے اس موضوع پر تقریر فرمائی.ایک روز حضور نے جماعت شملہ کا ایڈریس سنا.حالانکہ حضور ایک روز پہلے سے بیمار تھے.ایڈریس محترم بابو برکت علی صاحب سیکرٹری جماعت نے پڑھا.جس میں ذکر تھا کہ جماعت شملہ غیر مبایع عنصر سے پاک ہوگئی ہے اور صرف مخلصین کی خالص جماعت باقی رہ گئی ہے.حضور نے اپنی جوابی تقریر میں بتایا

Page 306

۲۹۱ کہ غیر مبایعین سے فیصلہ کے دو طریق ہیں.ان کا میرے ساتھ تفسیری مقابلہ.دنیا دیکھ لے گی کہ کلام الہی سمجھنے میں کس کو تائید الہی حاصل ہے.دوسرے غیر مبایع ایک طرح ہمیں کا فرقرار دیتے ہیں.اس لئے وہ ہمیں مباہلہ کا چیلنج دے سکتے ہیں.پھر دنیا دیکھ لے گی کہ خدا کا عذاب کس پر آتا ہے اور نزول رحمت کس پر ہوتا ہے.جماعت شملہ غیر مبایعین کو تحریک کرے کہ وہ ایسے مقابلہ کے لئے اپنے سرگروہوں کو راضی کریں.- ار ستمبر کو ایک بجے رات حضور ابھی جاگ رہے تھے.فرمایا کہ میں نے غنودگی میں دیکھا ہے کہ ٹیلیفون دل سے لگا ہوا ہے اور اس کی ایک نالی کان میں دی گئی ہے اور مجھے آواز آئی چل رہی ہے نیم جو دعا کیجئے قبول ہے آج یہ وعدہ سنتے ہی مجھے حضرت مولوی ( نورالدین ) صاحب (خلیفہ اول) کی مکہ مکرمہ والی دعا یاد آگئی.اور میں نے وہی دعا کی کہ میں جو دعا کروں قبول ہو جائے.“ -Y جماعت احمد یہ شملہ کے سالانہ جلسہ میں حضور نے اسلام کے زندہ مذہب ہونے پر تقریر کرتے ہوئے تمام مذاہب کو مقابلہ کا چیلنج دیا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے.اور ایسے حالات میں قبول کرتا ہے جبکہ ظاہری سامان بالکل مخالف ہوتے ہیں اور آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعد دنشانات کا ذکر کیا.ایک روز ایک بنگالی دوست کے حضور سے سوالات کرنے پر محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے جو آئے ہوئے تھے ترجمان کے فرائض ادا کئے.جماعت کے سالانہ جلسہ میں چوہدری صاحب نے ضرورت الہام پر انگریزی میں تقریر کی.۲۷ ستمبر کو حج کے روز حضور بعد نماز عصر جلد دعا کے لئے (اندرون خانہ ) تشریف لے گئے.دوسرے روز خطبہ عید میں حضور نے سورۃ الکوثر کے وجد آفرین نکات بیان کئے.اور بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کو عیدالاضحیہ سے مشابہت دی گئی ہے.عید کے تھوڑی دیر بعد حضور نے دوسنتیں پڑھ کر مختصر خطبہ جمعہ دیا.ایک روز آریہ صاحبان نے ملاقات کی.دیر تک حضور ان کے سوالات کے جواب دیتے رہے.ے.شملہ سے مراجعت.۱/۸ کتوبر کو شملہ سے ایک بجے بعد دو پہر واپس روانگی ہوئی.مشایعت کے لئے احباب موجود تھے.شملہ سے بٹالہ تک ڈبہ ریز رو تھا.اسی رات کا لکا سے روانگی ہوئی.راستہ میں ایک مقام

Page 307

۲۹۲ پر چڑھائی چڑھنے میں ٹرین کی ناکامی پر حضرت ام المومنین اور حضور اتر آئے.پھر بعض خدام بھی.اسٹیشن قریب تھا.وہاں تک پیدل پہنچے.جماعت انبالہ نے تار کے ذریعہ کھانا پیش کرنے کی منظوری لے لی تھی.وہاں ٹرین رات نو بجے پہنچی.کھانے کے بعد چند افراد نے بیعت کی.ٹرین ۹ اکتوبر کو راجپورہ گیارہ بجے شب کے بعد پہنچی.حضور کا ڈبہ کاٹ کر شیڈ میں پہنچایا گیا.جہاں راجپورہ.سنور.پٹیالہ اور ریاست پٹیالہ کے دیگر مقامات کے احباب موجود تھے.مغرب وعشاء کی نمازیں اسٹیشن پر ادا کی گئیں.حضور نے ڈبہ میں آرام فرمایا.احباب کی درخواست پر حضور نے ایک ہی روز میں سرہند.سنور.اور پٹیالہ جانے کا پروگرام منظور فرمایا تھا.محترم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب پٹیالہ سے موٹر لائے تھے.سوحضور۱۰ اکتوبر کو صبح سوا سات بجے مع حضرت مرزا شریف احمد صاحب محترم مولوی عبدالرحیم صاحب نیر اور ڈاکٹر صاحب سر ہند تشریف لے گئے.سرہند کی دیواروں پر چسپاں اشتہاروں پر زیب عنوان ذیل کا شعر ہر شخص ذوق وشوق سے پڑھتا تھا سنو اے دوستو! ہم تم کو یہ مژدہ سناتے ہیں امیرالمؤمنین سرہند میں تشریف لاتے ہیں حضرت مجد دالف ثانی قدس سرہ کے مزار مبارک کے احاطہ سے باہر سر ہند ، خانپور، ہربنس پورہ ، ہستی وغیرہ مضافات کے احباب سوڈیڑھ سو کی تعدا میں حاضر تھے.مستورات بھی اور بریلی کے منشی سراج الدین صاحب سوداگر چرم بھی.چند غیر از جماعت معززین اور ہندو بھی.پھر حضور نے مزار مبارک پر پچیس منٹ دعا کی.ایک کمرہ میں نشست اور جماعتوں کی طرف سے چائے اور ناشتہ کا اہتمام تھا.جس سے فارغ ہو کر چند احباب کی بیعت ہوئی.درگاہ کے خدام کو حضور نے انعام دیا.پھر حضور گیارہ بجے قبل دو پہر راجپورہ پہنچے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی طبیعت ناساز ہوگئی.راجپورہ سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ساتھ ہوئے.وہاں سے حضور پٹیالہ پہنچے.جہاں سے لینڈ وگاڑی پر حضور سنور تشریف لے گئے.مرقوم ہے کہ: وو وہاں کے دوست جن میں حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری اپنی خصوصیت کے لئے خاص امتیاز رکھتے ہیں، استقبال کیلئے قصبہ سے باہر موجود تھے.حضرت پہلے میاں عبداللہ صاحب کے کنویں پر گئے.

Page 308

۲۹۳ پھر ان کی مسجد کی بنیاد رکھی.اس کے بعد ان کے مکان پر آئے.چند منٹ بیٹھے اور میاں عبد اللہ صاحب کے خوش ہو جانے کے بعد میاں قدرت اللہ صاحب سنوری کے ہاں کھانا کھایا؟“ دوسری جگہ یہ تفصیل درج ہے: جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھے تھے.اس جگہ آپ نے قیام فرمایا.میاں عبداللہ (صاحب) نے انگور کے چند دانے حضور کے سامنے پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ جب حضرت اقدس یہاں تشریف لائے تھے تو اسی جگہ میں نے اسی قدر انگور کے دانے حضور کے پیش کئے تھے.جن میں سے حضور نے ایک دانہ کھایا تھا.اس پر حضرت خلیفتہ اُسیح نے ایک دانہ لے کر اپنے منہ میں ڈالا.“ کھانے سے پہلے منشی محمدتقی صاحب حضور کو اپنے گھر لے گئے اور اپنالڑ کا حضور کی خدمت میں پیش کیا.مسجد احمدیہ میں حضور نے ظہر و عصر جمع کر کے ادا کیں.پھر تیار کردہ جلسہ گاہ میں بیعت ہونے کے بعد پروگرام کے مطابق جماعت ہائے ریاست پٹیالہ کا اجلاس ہوا.جس میں حضور نے مشورہ لیا کہ ان جماعتوں کا صدر مقام کونسا ہو.( رائے پٹیالہ شہر کے حق میں تھی.) حضور نے احباب کو نصائح کیں.پھر احباب کی دلداری کی خاطر ان کی درخواست پر حضور ان کے گھروں میں دعا کے لئے تشریف لے گئے.پٹیالہ میں ایک جلسہ کا انتظام تھا.حضور سنور سے وہاں تشریف لے گئے.اور آٹھ صد حاضرین میں جن میں اکثریت تعلیم یافتہ معززین کی تھی حضور نے ربوبیت الہی اور صداقت اسلام پر تقریر فرمائی.پھر مغرب وعشاء نمازوں کے پڑھنے کے بعد تجویز شدہ کوٹھی میں قیام کے لئے تشریف لے گئے.وہاں بیعت ہوئی.وہاں جماعت پٹیالہ کی طرف سے کھانے کا بھی انتظام تھا.پٹیالہ سے سوا نو بجے شب ٹرین میں بہت سے احباب کی معیت میں حضور راجپورہ تشریف لے گئے.اور وہاں سے رات بارہ بجے روانگی ہوئی.دو بجے رات اسٹیشن پر جماعت لدھیانہ موجود تھی.جس نے دودھ پیش کیا.جماعت بنگہ کے دو دوست لدھیانہ سے پھگواڑہ تک ساتھ آئے.جماعت امرتسر نے ۱۰ اکتوبر کو صبح اسٹیشن پر ناشتہ پیش کیا.پھر پونے دس بجے ( قبل دو پہر ) ٹرین میں روانہ ہو کر قافلہ بٹالہ پہنچا.محترم با بو فضل احمد صاحب کلرک بنوں ساکن بٹالہ نے شملہ میں ہی دعوت کی منظوری لے لی تھی.سو حضور نے مع خدام بٹالہ میں ان کی دعوت طعام کو شرف قبولیت بخشا.دو بجے نماز ظہر وعصر سے فارغ ہو کر حضور قادیان کے لئے تانگہ پر روانہ ہوئے.خدام یکوں پر سوار تھے.احباب قادیان کا ایک حصہ بٹالہ اسٹیشن پر اور ایک گروہ نماز ظہر کے بعد نہر پر پہنچا.اور ایک جماعت

Page 309

۲۹۴ جن میں حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب بھی تھے.موڑ پر جا بیٹھی.منشی عبدالعزیز صاحب نے نہر پر لبنا سائغا للشاربین پیش کیا.قدم قدم پر باگوں کو روکنا پڑتا تھا.تا کہ اصحاب مسیح مصافحہ کر لیں.* -1 ۱۲۴ بعد احباب ذکر شدہ کے بارے میں قدرے تفصیل درج ہے.حضرت مولوی عطا محمد صاحب صحابی، بعد میں بطور ہیڈ کلرک شعبہ بہشتی مقبرہ ریٹائر ہوئے.تاریخ وفات اار جنوری ۱۹۸۹ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ.۲- حضرت میاں غلام رسول صاحب حجام امرتسری صحابی.آپ کے ساتھ تقسیم ملک سے پہلے قادیان میں کسی نے تعارف کراتے ہوئے ان کے سامنے خاکسار کو بتایا تھا کہ ان کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی تبرک ہے.ان کے متعلق تاریخ احمدیت جلد چہارم طبع اول میں بیان ہوا ہے کہ وہ احمدی ہوئے تو لوگوں نے ان سے کام لینا چھوڑ دیا اور ان کو بہت تنگ کیا.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت تھی.حضور کے ناخنوں کے ترشے کپڑے میں باندھ کر رکھتے تھے کہ جب میں مروں گا تو میری آنکھوں اور چہرہ پر ڈالے جائیں گے.ان کے بیٹے کی تعلیم کا خرچ حضرت خلیفہ المسیح الاول دیتے تھے.بقایا کی وجہ سے اس لڑکے کو بورڈنگ سے نکال دیا گیا.حضور کو یہ بات ناگوار گزری.(صفحہ ۵۷۹،۵۷۸) ۲ حضرت بابو ( منشی برکت علی صاحب شملوی صحابی، آپ نے سرکاری ملازمت سے ریٹائر منٹ کے بعد مرکز قادیان میں جائنٹ ناظر بیت المال وغیرہ متعددممتاز عہدوں پر کامیاب خدمت سلسلہ بجالانے کی توفیق پائی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.آپ کے سوانح کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد سوم.حضرت منشی سراج الدین صاحب کو خاکسار مؤلف نے تقسیم ملک سے پہلے اچھی طرح دیکھا ہے.اصل حوالہ میں ان کے ایک طومار کا ذکر ہے.یہ مخالفین کے ابتدائی نایاب اشتہارات کا مجموعہ تھا.خاکسار نے دیکھا ہوا ہے.تبلیغ میں حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری اس سے استفادہ فرماتے تھے.حضرت بابو ( شیخ ) فضل احمد صاحب بٹالوی نے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد دفتر محاسب قادیان میں خدمت کی اور بوقت تقسیم ملک، ارشاد کے مطابق امانتوں کو بحفاظت قادیان سے لاہور پہنچایا.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.(سوانح کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد سوم طبع دوم ) -۶- حضرت منشی عبدالعزیز صاحب او جلوی یکے از ۳۱۳ صحابہ مراد ہیں.

Page 310

۲۹۵ ۲- سفر بمبئی (۱۹۱۸ء میں ) -1 ۱- شدید علالت کے باعث حضرت خلیفہ مسیح الثانی تبدیلی آب و ہوا کے لئے مع حضرت ام المومنین بمبئی جانے کے لئے سرمئی ۱۹۱۸ ء کو بعد نماز عصر روانہ ہوئے.آپ کے ہمراہ ڈاکٹر رشیدالدین صاحب.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب شیخ عبد الرحمن صاحب مصری اور مولوی عطا محمد صاحب تھے.۴ رمئی کو لاہور ریلوے اسٹیشن پر جماعت استقبال کیلئے موجود تھی.حضور احمد یہ ہوٹل میں فروکش ہوئے.ان طلباء کا اخلاص وارادت کا نمونہ بہت خوشکن تھا.انہوں نے چار پائیاں اور بستروں تک مہمانوں کو دے دیئے اور خودزمین پر سوئے.رات کو پہرہ بھی دیتے رہے.حضور جیسے وجود ، اخلاص سے پیش آنے والوں کی بہت قدر کرتے ہیں.کسی کی غلطی سے مہمانوں کی دل شکنی کا علم ہونے پر آپ نے اسی وقت ان کو تسلی بخش پیغام بھیجا کہ آج سے دونوں وقت آپ میرے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھایا کریں.سو حضور اس وقت تک کھانا تناول کرنے میں تو قف فرماتے جب تک سب مہمان دستر خوانوں پر بیٹھ نہ جائیں.گویا اس خاطر کہ مہمانوں کی دل شکنی نہ ہو آپ اپنے آرام کو قربان فرماتے تھے.لاہور کے ہر فرد نے اپنی ہمت سے عملاً اخلاص کا اظہار کیا.حضرت مستری محمد موسیٰ صاحب نے اخلاص و محبت سے حضور اور آپ کے خدام کی مہمان داری کا ذمہ اپنے اوپر لے رکھا ہے.اور آپ کا بقیہ حاشیہ : -۷.ڈاکٹر عبداللہ صاحب کے حالات کے لئے دیکھئے لاہور تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت شیخ عبدالقادر صاحب سابق سودا گرمل.ڈاکٹر عبد اللہ صاحب کے مکان کے پاس کے راستہ سے حضور بہشتی مقبرہ کی طرف تشریف لے گئے تھے.ڈاکٹر صاحب کے مکان اور اس راستہ کی نشاندھی کے لئے یہاں کا خاکہ دیا جارہا ہے.بڑے باغ سے آگے ملحق جانب جنوب بہشتی مقبرہ ہے اور بڑے باغ سے ملحق جانب شمال ایک وسیع ڈھاب تھی جو داکٹر صاحب کے مکان سے آگے جانب جنوب چند مکانات کے بعد شروع ہو جاتی تھی اور تقسیم ملک کے بعد تک بھی یہ ڈھاب سال کے ایک حصہ میں بالکل خشک ہو جاتی تھی اور لوگ بڑے باغ کے مغربی طرف کے ایک راستہ سے قادیان میں آمد و رفت رکھتے تھے.پہلے موسم برسات کا پانی شمال کے اطراف سے ریتی چھلہ اور قادیان کے اردگرد کی ڈھاب میں جمع ہو جاتا تھا لیکن تقسیم ملک کے بعد سرکاری طور پر نکاسی نالہ بنادیا گیا.

Page 311

۲۹۶ خاندان خدمت میں ہر وقت مستعد رہا.ان کا تہیہ ہے کہ حتی الوسع کوئی تکلیف نہ ہونے دیں گے.پہلے چار وقتوں تک بہت مسرت کے ساتھ انہوں نے ہی تمام اخراجات خوردونوش کو برداشت کیا.اس کے بعد نوجوان احمدیوں کی انجمن الاخوان نے تمام اخراجات طعام کا انتظام کیا.حضرت سید دلاور شاہ صاحب.میاں محمد شریف صاحب وکیل اور حضرت میاں چراغ دین صاحب کے خاندان کے اخلاص میں گداز افراد اور دیگر احباب نے مل کر بہت جلد کل انتظام کر لیا تا کہ جتنے بھی مہمان آئیں انہیں کوئی تکلیف نہ ہو.لیکن حضور کا پروگرام سے مئی کی شام کو لاہور سے روانگی کا تھا.حضرت حکیم محمدحسین قریشی سیکرٹری جماعت احمدیہ نے جماعت لاہور کی طرف سے ایک سو روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کیا.ریلوے اسٹیشن پر ایک جم غفیر نے الوداع کہا.حضور نے ہر ایک سے خندہ پیشانی سے مصافحہ کیا اور باتوں کو بغور سنا ۱۲۵ ۲.حضور کے بارے اطلاعات قادیان میں روزانہ ایک بورڈ پر چسپاں کی جاتی ہیں.حضور کی صحت ایسی کمزور تھی کہ محض فغسل کرنے سے بھی ضعف ہو جا تا رہا.حضور کی ایک صاحبزادی بعمر پونے دو سال بمبئی میں وفات پا گئیں.باندر اہل قبرستان میں دفن کی گئیں.حضور نے ۱۳ مئی کو تحریر فرمایا کہ امید ہے، قادیان میں ہر طرح خیریت ہوگی.یہاں آنے پر میری صحت بفضلہ تعالیٰ بہت ترقی پر ہے.ایک میل تک چل پھر سکتا ہوں.ناک اور حلق کے اپریشن کی تکلیف ابھی باقی ہے.پیچش میں قریباً آرام ہے.طاقت میں روزانہ اضافہ معلوم ہوتا ہے.۱۶ رمئی.آپ اب پیدل میل دو میل سیر کرتے ہیں.آج آپ ماتھر ان ہل پر سیر کے لئے ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی کے ہمراہ تشریف لے گئے.رات وہیں ٹھہرے.وہاں گھوڑے کی سواری کی.ناک سے کبھی کبھی خون آتا ہے.حضرت ام المومنین شدید بیمار ہو گئیں جس سے حضور کی طبیعت پر گہرا اثر ہوا.اس کے باوجود آپ نے ایک انجینئر سے ساڑھے چار گھنے تبلیغی گفتگو کی.الفضل ۷ جون میں محترم بھائی عبدالرحمن صاحب کی طرف سے موصولہ اطلاع حضرت اُم المؤمنین اور حضور کی صحت کے بارے میں درج ہے.اور الفضل ۱۴ جون میں بھائی جی کی اطلاع درج ہے کہ بزرگان مستری محمد موسیٰ صاحب، سید دلاور شاہ صاحب، حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور ممبران میاں فیملی ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب ومیاں چراغ دین صاحب یہ سب لا ہور کے چوٹی کے مخلصین میں سے تھے.رضی اللہ عنہم.

Page 312

۲۹۷ حضرت مع اُم المؤمنین واپس تشریف لا رہے ہیں.) حضور مع حضرت ام المومنین و قافلہ ۱۴ جون کو رات بارہ بجے ٹرین سے بٹالہ پہنچے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور بعض احباب بٹالہ پہنچ چکے تھے.حضور کا ارادہ براہ راست ڈلہوزی تشریف لے جانے کا تھا.لیکن حضرت عرفانی صاحب نے ادب کے ساتھ احباب قادیان کے جذبات محبت وعقیدت کی ترجمانی کی.سوحضور صبح (۱۵/ جون ) کو بٹالہ سے گھوڑی پر سوار ہوئے اور اسے دوڑائے آئے.سید اسعد علی شاہ صاحب بھی ایک گھوڑے پر ہمرکاب تھے.احباب تانگوں، سکوں اور پہلی پر تھے.اور بعض پیدل.راستہ میں احباب قادیان ملتے گئے.نہر پر جماعت قادیان نے اپنے امیر حضرت مولانا شیر علی صاحب کی معیت میں استقبال کیا.پھر حضور قادیان کے راستہ تک قریباً دو میل جماعت کے ساتھ پیدل تشریف لائے.آپ کی معمولاً تیز رفتاری کی وجہ سے اکثر احباب کو دوڑ دوڑ کر ساتھ ملنا پڑتا تھا.قادیان کے اس راستہ پر جو سڑک سے علیحدہ ہوتا ہے حضور پھر گھوڑی پر سوار ہو کر معمولی رفتار سے آئے.اور ایک ماہ بارہ دن کے بعد قادیان پہنچے.حضور جب سفر پر تشریف لے گئے تھے تو سخت ضعیف و مضمحل ہونے کی وجہ سے پالکی میں گئے تھے.۱۲۷ ۳- سفر ڈلہوزی (۱۹۱۸ء) ا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۲ جون ۱۹۱۸ء کو ڈلہوزی تشریف لے جانے کے لئے بعد نماز عصر احباب کے ساتھ بہشتی مقبرہ میں دعا کی.پھر شہر واپس ہوئے اور احمد یہ چوک سے ہو کر قصبہ سے باہر نکلے اور کھلے میدان میں مغرب و عشاء کی نمازیں ادا کیں.پھر مختصر تقریر میں بتایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایک کو کبھی دوسرے کو امیر مقرر فرماتے.ایک کی نا قابلیت کی وجہ سے نہیں بلکہ تا کہ عجب پیدانہ ہو.اور سب میں اطاعت و انکساری کا مادہ پیدا ہو.پھر حضور نے حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کو امیر قادیان مقرر فرمایا.اور سب سے مصافحہ کیا اور تانگہ پر روانہ ہو گئے.یہ سفر طبی مشورہ سے تھا کہ کسی پہاڑی مقام پر آپ تشریف لے جائیں.بٹالہ کے اسٹیشن پر ساڑھے گیارہ بجے شب قافلہ پہنچا.جماعت بٹالہ وہاں موجود تھی.ایک بجے شب کی ٹرین سے روانگی ہوئی.ٹرین میں اپنے خدام کے ساتھ مل کر آپ نے ما حضر تناول فرمایا.اور تھوڑی دیر

Page 313

۲۹۸ آرام فرمایا.صبح گاڑی مٹھان کوٹ پہنچی.نماز فجر پڑھا کر آپ نے محترم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی (ایڈیٹر الحکم ) کے ذریعہ بعض معلومات حاصل کیں.اس سفر میں حضور کے ہمراہ یہ افراد ہیں : حضرت صاحبزادگان مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت مرزا شریف احمد صاحب.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب.شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی.مولوی عطا محمد صاحب اور میاں مولا بخش باور چی.نیاز محمد خادم ۱۲۸ ڈلہوزی کی سڑک زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے یہ انتظام ہے کہ بنی کھیت بارہ بجے کے بعد نیچے سے پہنچنے والے تانگے پانچ بجے اوپر جائیں.اس لئے سواری سے اترنے کے بعد حضور، محترم ڈاکٹر صاحب اور صاحبزادگان تین میل کا فاصلہ پیدل طے کر کے ڈلہوزی پہنچے.باقی خدام سامان کے پاس ٹھہرے.سب سے مشکل کام مکان کی تلاش کا حضور نے اپنے ذمہ لیا اور جا کر اس کا انتظام کیا.حضرت عرفانی صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے حضور کو خلافت سے پہلے اور دوران خلافت دیکھا ہے اور اب ڈلہوزی میں بھی کہ آپ کو اپنے آرام سے زیادہ اپنے خدام کے آرام کا خیال ہے.حالانکہ آپ بیمار ہیں اور طبی مشورہ سے آئے ہیں.آپ کام میں برابر کا حصہ لیتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے اکثر کام کرتے ہیں اور اپنے خدام کے لئے کرتے ہیں.-۲ ملک بھر میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے ایک قیامت برپا ہے.طبی مشورہ حضور کو بھی پہاڑ سے نہ آنے کا تھا لیکن جماعتی کاموں کی وجہ سے حضور کو آنا پڑا.حضور مع خدام ۷ راگست کی شام کو قبل نماز عشاء واپس تشریف لائے.حضور نے پہلے سے ہی قادیان سے باہر نشان میل سے آگے نہ آنے سے احباب کو روک دیا تھا.اس نشان کے پاس احباب نے اپنے امیر محترم کے ساتھ حضور کا استقبال کیا.حضرت ام المومنین بھی اپنے محمود سے ملنے کے لئے باہر تشریف لائیں.ان کی ملاقات کے بعد حضور نے سب احباب سے مصافحہ کیا.مغرب کی نماز اسی میدان میں پڑھی گئی.پھر حضور شہر میں داخل ہوئے.(۴) سفر دھر مساله (۱۹۲۰ء) 1- حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے طبی مشورہ کے ماتحت ۳۱ر جولائی ۱۹۲۰ء کو دھر مسالہ کے پہاڑی

Page 314

۲۹۹ مقام پر تشریف لے جاتے ہوئے بیت الدعاء ( دارا مسیح ) میں دعا کی.احباب باہر کھڑے دعا میں شامل ہوئے.ایک دن پہلے خطبہ جمعہ میں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو امیر صلوۃ اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کو امیر انتظامیہ مقرر کرتے ہوئے آپ نے احباب کو اطاعت کی تلقین فرمائی.قافلہ میں ) جناب صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، جناب سید زین العابدین شاہ صاحب.جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب.جناب مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل.مرزا گل محمد صاحب.خلیفہ تقی الدین صاحب شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی.میاں نیک محمد پٹھان.مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے ناظر صیغہ اشاعت.چودھری علی محمد صاحب ( شامل تھے ).۲- سفر قادیان تا دھر مسالہ.اس وقت ابھی بعد کی سہولتیں میسر نہیں ہوئی تھی.قادیان سے بٹالہ تک کا سفر ٹانگے یا ٹمٹم پر ہوتا تھا.قافلہ رات گیارہ بجے بٹالہ پہنچا.تین گھنٹہ بعد قافلہ ٹرین میں سوار ہوا.گذشتہ رات سے بارش شروع تھی جو پٹھان کوٹ تک جاری رہی.پٹھان کوٹ میں ذیل گھر میں قیام ہوا.ہڑتال کے باعث کھانے وغیرہ کے انتظام میں سخت دقت ہوئی.صبح کو تو کچھ مل گیا.رات کو کچھ نہ مل سکا اور صبح کی بچی ہوئی روٹی پر گزارہ کیا گیا.۲ اگست کو دھر مسالہ کے راستہ میں بمقام نور پور دو پہر کا کھانا کھایا گیا.اور رات کا کھانا رات کے گیارہ بجے بمقام شاہ پور کھایا گیا.۳ را گست کو بعد دو پہر ایک بجے قافلہ دھر مسالہ پہنچا.بذریعہ تار وہاں اطلاع دی جا چکی تھی.جماعت نے بہت کوشش سے قیام کا انتظام کیا تھا.چودھری محمد دین صاحب سیالکوٹی ٹیلر ماسٹر نے چھاؤنی سے اپنے بیٹے محمد امین صاحب کو سات میل آگے بھیج دیا تھا تا قیامگاہ تک پہنچنے میں دقت نہ ہو.حضور پہاڑوں میں داخل ہوئے تو ایک اونچے ٹیلے پر شدید بارش میں علیحدگی میں ہاتھ اٹھا کر آپ چوہدری محمد دین صاحب قوم پال نے بعد میں رانچی (بہار ) میں ٹیلرنگ شاپ کھول لی تھی.جو جنگ عظیم دوم میں بہت چمکی.بعد تقسیم ملک ان کے بعض عزیز اسے چلا رہے ہیں.خود وہ سیالکوٹ واپس آگئے تھے اور وفات پاچکے ہیں.حضور نے ۲۶ اگست ۱۹۲۰ء کو عید قربان کا خطبہ ڈلہوزی میں کوٹھی راج محل میں دیا.تین صفحات کا خطبہ اور ۴ ار ستمبر کی ڈائری بھائی جی کے سرینگر میں ٹھہرنے کا ذکر ہے.(الحکم بابت ۲ جولائی صفحہ ۲) یہ سفر مبارک اور اس کے حالات بہت ایمان افروز تھے.

Page 315

۳۰۰ نے پندرہ منٹ تک دعا کی.بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی چھتری لے کر پیچھے پیچھے گئے.لیکن مبادا دعا میں مخل ہوں دور کھڑے آمین آمین کہتے رہے.حضور دعا سے فارغ ہوئے تو بھائی جی نے دوڑ کر آپ پر چھتری کا سایہ کر دیا.محترم بھائی جی نے نصف شب کو یہ کوائف تحریر کئے اور حضور کا ایک تازہ رویا بھی.) ۱۳۲ بھائی جی نے حضور کے ایک حرم محترم کی خدمت میں حضور کے حالات سے اطلاع دی.اس میں بتایا کہ دھر مسالہ میں کھلی ہوا ، صفائی اور پھل میسر نہیں.کانگڑہ میں جو زلزلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آیا تھا اس میں کانگڑہ میں پچانوے فیصد اور دھر مسالہ میں نوے فیصد آبادی لقمہ اجل بنی تھی.اس ہولناک عذاب کے تصور کا حضور کے دل پر گہرا اثر ہے.ان وجوہات سے حضور کسی اور پہاڑی مقام پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں.چنانچہ حضور ڈلہوزی تشریف لے گئے.۴.قادیان سے ۶ ستمبر کو یہ روح افزا خوشخبری ڈلہوزی پہنچی کہ لندن کے علاقہ پٹنی میں تعمیر مسجد احمدیہ کے لئے ایک وسیع قطعہ زمین ایک معقول مکان سمیت خرید لیا گیا ہے.اس کے سنتے ہی چہرے خوشی سے تمتما اٹھے اور دل مسرت سے اچھل پڑے اور سر سجدات شکر کیلئے خدا تعالیٰ کے حضور گر گئے.بغرض علاج و عیادت ( حضور کے ماموں ) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب تشریف لائے ہوئے تھے.خوشی منانے کیلئے جلسہ کرنے کی تحریک ان کے دل میں پیدا ہوئی.جسے حضور اور احباب نے پسند کیا اور سب نے چندہ لکھوایا.تجویز ہوئی کہ یہ خوشی بلند سے بلند تر مقام پر منائی جائے اور اچھے سے اچھا میدان اس کے لئے منتخب کیا جائے اور تمام احباب کچھ اشعار بھی کہیں.ڈائن کنڈ بلند و بالا اور سرسبز مقام تجویز شدہ بھی حضور نے منظور فرمایا.کئی دن بارش نہ ہونے سے ڈلہوزی میں گرمی ہو گئی تھی.9 ستمبر کو روانگی کے روز صبح خوب بارش برسی.اسی وجہ سے ساڑھے چار گھنٹے کی تاخیر سے ڈیڑھ بجے بعد دو پہر روانہ ہو کر قافلہ آٹھ میل کا فاصلہ طے کر کے تین ہزار فٹ بلندی پر واقع ڈائن کنڈ پہنچا.نماز ظہر اور کھانے سے فارغ ہو کر جلسہ شروع ہوا.نہایت ہی سرسبز گھاس کے ملی فرش پر پندرہ افراد کا ایک خوبصورت گول حلقہ بنایا گیا.سب سے پہلے عبدالقادر صاحب مہتہ ابن بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے اپنی نظم بڑی جرات سے پڑھی.نظم کیا اور مہتہ صاحب کی بساط کیا.صرف ایک خوشی کا اظہار تھا اور تعمیل حکم.سامعین مارے ہنسی کے لوٹے جاتے تھے.اتنے ہنسے کہ ان کے پیٹ میں بل پڑ گئے.مگر اس نے ہمت نہ ہاری.حضور نے فرمایا کہ نظم کیا خاصا

Page 316

۳۰۱ سرمن ( وعظ ) ہے.اور اس کی جرات اور جوش کی تعریف کر کے اس کا دل بڑھایا.عبدالاحد خاں صاحب کابلی نے فی البدیہ شعر پڑھے.چوہدری علی محمد صاحب.سید محمود اللہ شاہ صاحب.میاں (خلیفہ) تقی الدین صاحب اور مرزا گل محمد صاحب نے اپنی رباعیاں اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے اپنی نظم سنائی.حضور ، حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے منظوم کلام مولوی رحیم بخش صاحب نے سنائے اور اپنا کلام بھی.حضور نے مرزا گل محمد صاحب کی رباعی کے خیالات کی تعریف فرمائی.دعا پر جلسہ ختم ہوا.پھر نماز عصر ادا کر کے مخدوم وخدام نے اکٹھے کھانا کھایا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا اس موقعہ کا مظوم کلام اب معروف ہے.اس کے چند اشعار یہ ہیں : تیری محبت میں میرے پیارے ہر اک مصیبت اٹھائیں گے ہم مگر نہ چھوڑیں گے تجھ کو ہرگز ، نہ تیرے در پر سے جائیں گے ہم مٹا کے کفر وضلال و بدعت کریں گے آثار دیں کو قائم خدا نے چاہا تو کوئی دن میں ظفر کے پرچم اڑائیں گے ہم وہ شہر جو کفر کا ہے مرکز ہے جس پہ دین مسیح نازاں خدائے واحد کے نام پر اک اب اس میں مسجد بنائیں گے ہم پھر اس کے مینار پر سے دنیا کو حق کی جانب بلائیں گے ہم کلام رب رحیم و رحمن ببانگ دہل سنائیں گے ہم ۱۳۴ ۵- سات میل دور کا لاٹوپ نامی سرسبز پہاڑی پر ۱۳ ستمبر کو حضور خلاف معمول سواری پر بوجہ ضعف تشریف لے گئے.نماز ظہر کے بعد میاں نیک محمد خان صاحب کو لے کر حضور ایک تنہا پہاڑی کی چوٹی پر تشریف لے گئے اور ان سے حضور نے کہا کہ آپ اتنی دور چلے جائیں کہ ہم ایک دوسرے کو نظر نہ آئیں.پھر حضور نے دواڑھائی گھنٹے دعائیں کیں اور واپس آکر نماز عصر پڑھائی.۱۳۵ حضور مع خدام ۱۶ راگست کی رات کو قادیان واپس تشریف لائے.احباب نے بڑی سڑک پر موڑ کے پاس استقبال کیا.

Page 317

٣٠٢ ۵- سفر کشمیر (۱۹۲۱ء میں ) ۱.طبی مشورہ کے مطابق حضرت خلیفہ مسیح الثانی ۲۵ جون ۱۹۲۱ء کو کشمیر تشریف لے گئے.ایک جم غفیر نے بیرون قصبہ تک الوداع کہا.حضور کے ہمراہ حضرت ام المومنین متینوں حرم اور حرم حضرت خلیفہ المسیح اول تھیں.نیز حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب اور بعض اور خدام ہمرکاب تھے.امرتسر ریلوے اسٹیشن پر تمام جماعت موجود تھی.قافلہ ریز روگاڑی (ڈبہ ) میں سوار ہوا.لاہور ریلوے اسٹیشن پر حضرت مستری محمد موسیٰ صاحب کی طرف سے دعوت کا کھانا پہنچا.راولپنڈی تک راستہ کی جماعتوں نے استقبال کیا اور حضور سو نہ سکے.راولپنڈی میں حضور کا قیام محترم بابونورالدین صاحب سیکرٹری جماعت کے ہاں ہوا.کیمبل پور کو ہاٹ اور نوشہرہ وغیرہ کے احباب ملاقات کے لئے آئے.۲۷ / جون کو لاریوں کے ذریعہ قافلہ سری نگر کے لئے روانہ ہوا.محترم شیخ فضل احمد صاحب اور محترم ماسٹر عبدالرحمن صاحب خاکی نے موٹر کے ذریعہ آکر راستہ میں ملاقات کی اور پھر تیزی سے واپس چلے گئے تا استقبال اور کھانے وغیرہ کا انتظام کر سکیں.پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد تین بجے بعد دو پہر قافلہ مری پہنچا.حضرت شیخ مشتاق حسین صاحب کے ہمزلف محترم شیخ عبدالغنی صاحب میٹ ایجنٹ کے ہاں نہایت پر تکلف کھانے کا انتظام تھا.جو مری کے دونوں دوستوں ( شیخ فضل احمد صاحب اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب خا کی ) کے گہرے دوست تھے.مری کے احباب نے شام کے کھانے کی رسد ساتھ دے دی.ایک معزز انگریزی لیڈی نے محترم شیخ اللہ بخش صاحب کی معرفت پانچ روپے نذرانہ دیتے ہوئے کہا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات سے واقف ہوں.میرا ان پر بڑا اعتقاد ہے.یہ ان کے خلیفہ ہیں.یہ بھی ایسے ہی ہوں گے.مری سے شام ساڑھے چار بجے روانہ ہو کر کو ہالہ کے ڈاک بنگلہ میں قیام ہوا.کو ہالہ انگریزی علاقہ میں ہے اور کشمیری علاقہ کی سرحد پر ہے.صبح ساڑھے پانچ بجے روانہ ہو کر ایک سو بتیس میل کا سفر طے کر کے قافلہ ساڑھے سات بجے شام سرینگر پہنچا.جہاں حضرت خلیفہ نورالدین صاحب اور ان کے فرزند محترم خلیفہ عبدالرحیم صاحب اور ( آسنور کے ) خواجہ عبدالرحمن صاحب استقبال کے لئے موجود تھے.ایک بوٹ

Page 318

٣٠٣ ۱۳۷ ہاؤس میں قیام ہوا.۲- اس عرصہ قیام کشمیر میں حضور متعدد مقامات پر تشریف لے گئے مثلاً گاندھر بل.بیج بہاڑہ.اچھا بل.ویری ناگ.اسلام آباد کنی پورہ کا پرن.رشی نگر اور آسنور * بعض مقامات پر دیگر مقامات سے احباب ملاقات کے لئے تشریف لائے مثلاً حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کے بڑے بھائی محترم سید محمد صادق صاحب اور ( لاہور کے ) حضرت محمد موسیٰ صاحب کے فرزند محترم میاں محمد حسین صاحب - گلکت سے محترم ماسٹر غلام حسین صاحب اور بانڈی پورہ کے بعض احباب.متعدد مقامات پر بیعتیں ہوئیں.حضور نے خطبات جمعہ دیئے.تبلیغی اور تربیتی خطاب فرمائے.بعض جگہ صرف چند گھنٹے قیام رہا.۱۳۸ اس سفر کے تذکرہ میں بعض افراد کا ذکر ہوا ہے.کچھ تعارف ان کا پیش کیا جاتا ہے.۱- حضرت بابو ( ملک) نورالدین صاحب بعد ریٹائر منٹ قادیان میں آنریری معاون ناظر ضیافت کے طور پر خدمت بجالاتے رہے.آپ اور آپ کے بیٹے ملک عزیز احمد صاحب دونوں صحابی تھے.حضرت ملک عزیز احمد صاحب سابق امیر جماعت راولپنڈی نے بعد تقسیم ملک وفات پائی.لاہور میں ان کا قیام اپنے بیٹے ملک رشید احمد صاحب کے پاس تھا.-۲- حضرت شیخ مشتاق حسین صاحب (صحابی) ساکن گوجرانوالہ، جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ سابق امیر جماعت لاہور کے والد تھے.۳- حضرت مستری محمد موسیٰ صاحب ( صحابی ) نے دسمبر ۱۹۴۵ء میں وفات پائی.بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہیں.ان کے فرزند مستری محمد حسین صاحب نے ۱۶ / اکتو بر ۱۹۸۱ء کو وفات پائی.- -۴- حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے مختصر سوانح کے لئے دیکھئے تا بعین اصحاب احمد جلد سوم.-۵ ریٹائرڈ کرنل ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب برا در حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ لا ہور میں قیام رکھتے ہیں.* جناب بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بھی خدام میں تھے (الفضل بابت ۲۷ جون ۱۹۲۱ء زیر مدینہ المسیح ، گاندھر یل کے سفر میں حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے ساتھ بھائی جی کے سرینگر میں ٹھہرنے کا ذکر ہے.(الحکم بابت ۲ جولائی صفحہ ۲) یہ سفر بہت مبارک اور اس کے حالات بہت ایمان افروز تھے."

Page 319

۳۰۴ -٣ سری نگر محلہ خانیار میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے مزار پر زیارت کیلئے حضور گئے اور بہت دیر تک وہاں دعا کی.اور محافظ کو مرمت کی خاطر پانچ روپے دیئے اور اس خیال کا اظہار فرمایا کہ بہت اچھا ہو کہ ہماری جماعت کے احباب زیارت کریں تو کچھ نہ کچھ رقم مرمت اور حفاظت کے لئے دیتے رہیں.۴- اسلام آباد سے ا ر ا گست کو قریباً ساڑھے آٹھ بجے صبح ٹانگوں اور گھوڑوں پر حضور مع قافلہ آسنور کو روانہ ہوئے.موضع کنج پورہ (کنی پورہ) کے احباب کے اہتمام کی وجہ سے حضور کھانے اور تقریر کے لئے رکے.تقریر میں غیر از جماعت لوگوں کی خاصی تعداد تھی.حضور نے ایک گھنٹہ سے زیادہ کی تقریر میں انسانی پیدائش کی غرض بتائی اور مسلمانوں کے ادبار کے وجوہات اور جماعت احمدیہ کو بار بار قادیان آنے اور اپنے اندر نمایاں تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین فرمائی.آسنور کے احباب آٹھ میل آگے ڈانڈیاں لے کر آئے.آسنور سے چھ میل کے فاصلہ پر موضع کا پرن کے ذیلدار مکرم عبدالقادر صاحب بٹ نے جو جماعت میں شامل نہیں قافلہ کیلئے پر تکلف چائے کا انتظام کیا تھا حضور نے قبول کی اور ان کی درخواست پر ان کے لئے دعا کی.آٹھ بجے شام وہاں سے سوار ہوئے.جماعت آسنور نے نہایت جوش.اخلاص اور محبت سے حضور کا استقبال کیا.تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر احمدی گروہ در گروہ جمع تھے.بہت سے احباب من مشعلیں لے کر جابجا کھڑے تھے.آسنور سے دو میل ورے موضع رشی نگر میں احمدی بچوں اور نو جوانوں کی دورویہ قطار کھڑی تھی اور انہوں نے ہدیہ سلام مسنون پیش کیا.ظاہری خوشنمائی کے لحاظ سے علاقہ آسنور کشمیر کے بہترین علاقوں میں سے ہے اور اس کو خدا تعالیٰ نے باطنی حسن سے بھی متمتع فرما کر اپنی شناخت اور اپنے نبی کی آواز پر لبیک کہنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.حضور نے آسنور سے دوتین میل کے فاصلہ سے ہی دعائیں مانگنی شروع کر دی تھیں.مگر داخل ہوتے وقت مل کر سب کے ساتھ اس خشوع اور خضوع سے دیر تک دعا مانگی کہ سب پر رقت کی کیفیت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.قریباً گیارہ بجے (شب) کے بعد حضور تمام قافلہ کے ساتھ مع الخیر مکان میں اترے.۵- باوجود دو روز طبیعت ناساز رہنے کے یوم الحج کو سال گذشتہ کی طرح حضور دعا مانگنے کے لئے ایک قریب کی پہاڑی پر ایک خلوت کی جگہ تشریف لے گئے.نماز ظہر سے فارغ ہو کر تین بجے حضور نے چار نوافل باجماعت ادا کئے.بالجبر ان میں قرات کی.ان نوافل میں دو گھنٹے سے زائد وقت صرف ہوا.دو

Page 320

۳۰۵ نوافل کے بعد حضور نے درود شریف کا فلسفہ بیان کیا.بعد نماز عصر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے حضور کی موجودگی میں جناب افسر صاحب جلسہ سالانہ کی اپیل سنائی جو انہوں نے حضور کے قافلہ کے نام بھجوائی تھی.حاضرین نے اس میں حصہ لیا اور حضور نے ۱۴۲ ساڑھے بارہ من گندم کی قیمت میں ایک سو روپیہ کا مزید اضافہ کیا.پہلے یہ وعدہ پانصد روپے کا تھا.عید میں قریباً سوا تین صد احباب نے شمولیت کی.دعا کے بعد حضور نے ۲۶ / اگست کو جلسہ ء عام ہونے کا اعلان فرمایا..حضور کے ارشاد پر آسنور میں احمدیان کشمیر کا جلسہ دوروز ہوا.تعداد حاضری پانصد تھی.یہ جلسہ جناب خواجہ عبدالرحمن صاحب ڈار کے سیبوں کے باغ میں ہوا جو ایک مرتفع.نہایت ہوادار اور پر فضاء مقام ہے.حضور کی تقاریر کے علاوہ صفائی قلب کے بارے اور غیر مبائعین کے بارے حضرت حافظ روشن علی صاحب کی تقاریر ہوئیں.تلاوت ، اجلاسات میں محترم حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاب نے کی.اور نظمیں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب - محترم مرزا گل محمد صاحب - محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب محترم خواجہ غلام احمد صاحب ابن محترم خواجہ عبدالرحمن صاحب ڈار نے سنائیں.مرقوم ہے کہ اس جگہ احمدیان کشمیر کے جوش و اخلاص کا ذکر بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا.اکثر احباب بہت دور دور سے آئے ہوئے تھے اور بعض تو کئی کئی دن کی مسافت طے کر کے آئے تھے.پھر علاقہ آسنور کے احمدیوں کی ہمت بھی قابل تعریف ہے.جنہوں نے جلسہ کے انتظام اور مہمانوں کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے.ے.حضور آسنور سے گنگ وٹن گئے.دوسرے روز کوثر ناگ گئے.یہ وسیع جھیل سطح سمندر سے تیرہ ہزار فٹ بلندی پر ہے.واپسی کے وقت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد ۱۴۳ 66 صاحب بیمار ہو گئے.حضور ابھی ڈیرہ پر نہیں پہنچے تھے کہ آسنور سے ایک سوار بھائی عبدالرحمن صاحب کا خط حضور کے نام لے کر آیا کہ محترمہ والدہ صاحبہ میاں ناصر احمد صاحب کو پھر زیادہ بخار ہو گیا ہے.اس لئے جتنی جلدی ممکن

Page 321

۳۰۶ ہو سکے حضور تشریف لے آئیں شام ہو گئی تھی.اور راستہ بہت خطرناک تھا اس لئے مجبورا.....دوسرے روز بعد از نماز صبح حضور مع جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب گھوڑوں پر سوار ہوکر آسنور...بارہ بجے پہنچ گئے.( حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کا بخار اتر گیا تھا.) ۱۴۴ حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری نے تار دیا کہ میاں عبد القدیر صاحب کا ولیمہ منائیں بچیں روپے ارسال ہیں.چنانچہ دعوت ولیمہ میں آسنور اور رشی نگر کے بعض احباب شامل ہوئے.ولیمہ بمقام اہر بل کیا گیا جہاں حضور فال (Fall) ( یعنی آبشار ) دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے تھے.- ۷ ستمبر کو ساڑھے گیارہ بجے سرینگر کو روانگی کے وقت قریباً تمام گاؤں حضور کو وداع کرنے کے لئے دور تک ساتھ آیا.یاڑی پور کے احباب نے بار بار التجا کی کہ حضور ان کے گاؤں سے ہوتے ہوئے دریا کے راستہ سرینگر تشریف لے جائیں.سو حضور یاڑی پورہ کی طرف روانہ ہوئے.وہاں کے احمدی احباب دور تک استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے.گاؤں کی حد کے پاس جا کر حضور نے سب کے ساتھ مل کر دیر تک دعا کی.دوسرے روز با وجود علالت کے جماعت کی درخواست پر پونے دو گھنٹے تقریر فرمائی کہ اسلام واحمدیت کی صداقت کی کیا دلیل ہے.حضور نے پہلے سوائے تین افراد کے باقی قافلہ کو بھجوا دیا تھا.گھوڑوں پر حضور اور ساتھی اروا ئیں (آرونی) تک جا کر کشتیوں پر سوار ہو گئے.وہاں تک آنے والے آسنور کے احباب کے لئے حضور نے دعا کی اور رخصت ہونے والے احباب فرط محبت سے بے اختیار رونے لگے.چھ بجے شام روانہ ہوکر دوسرے روز اسی وقت سری نگر پہنچے.۹ - بوقت صبح ۲۹ ستمبر کو حضور قادیان میں تشریف لے آئے.حسب معمول احباب قادیان نے موڑ پر استقبال کیا.حضور کے علیل ہونے کی وجہ سے منتظمین نے احباب کو ایک صف میں کھڑا کر دیا تھا.حضور وہاں پہنچ کر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور احباب مصافحہ کرتے گئے.حضور پیدل چند قدم چلے پھر احباب کے عرض کرنے پر سوار ہو گئے.خاکروبوں کے مکانات کے پاس آکر پیدل ہو گئے.کیونکہ (حضور کے ایک استاد.مؤلف مولانا قاضی امیرحسین صاحب استقبال کیلئے وہاں کھڑے تھے.الدار میں داخل ہونے سے قبل مسجد مبارک میں نفل پڑھے.

Page 322

۳۰۷ سفر لا ہور و مالیر کوٹلہ (۱۹۲۴ء میں ) ۱- سخت اور متواتر محنت اور مصروفیت کی وجہ سے ۱۹۲۳ء سے حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی صحت متاثر تھی اور گذشتہ سال سلسلہ کے کاموں کی اہمیت کی وجہ سے طبی مشورہ کے باوجود آپ بھائی صحت کی خاطر نہ جاسکے تھے.چنانچہ ڈاکٹری مشورہ سے آپ ۱۲ رفروری ۱۹۲۴ء کو بیرون قادیان روانہ ہوئے.11 فروری کو بعد مغرب آپ نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو امیر مقرر کرنے کا اعلان فرمایا.مولوی رحیم بخش صاحب افسر ڈاک.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب.بھائی شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی.میاں نیک محمد خاں صاحب.عبدالاحد خاں صاحب افغان.چودھری علی محمد صاحب اور بیٹی خاں صاحب خدام سفر تھے.۲- رپورٹ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب: ☆ ۱- قادیان تا بٹالہ سفر تانگہ پر ہوا.چونکہ حضور نے جماعتوں کو سفر کی خبر دینے سے روک دیا تھا اس لئے خیال تھا کہ احباب امرتسر اسٹیشن پر نہیں آئیں گے.گاڑی رکی.فرمایا.ڈاکٹر صاحب! آج تو ہم آزاد ہیں چلو ہلیں.جونہی یہ جملہ ختم ہوا چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے ٹرین میں داخل ہو کر السلام علیکم کہا.اس کے بعد مصافحوں کا سلسلہ شروع ہوا.حضور نے حیران ہوکر فرمایا کہ میں ابھی ڈاکٹر صاحب سے کہہ رہا تھا کہ آج تو ہم آزاد ہیں.لاہور میں آپ لوگوں کو کس طرح علم ہو گیا.چودھری صاحب نے کہا کہ نیک محمد خاں صاحب سے پتہ لگا.شیخ عبدالحمید صاحب نے کہا کہ میں حضرت صاحب کو آج ہی خط لکھتا ہوں.کل مل جائے گا.انہوں نے کہا کہ کبھی نہ ملے گا جب تک مجھے نہ دیا جائے کیونکہ میں حضرت صاحب کے ہمراہ جارہا ہوں.پوچھنے پر ان کو بتانا پڑا.اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ کسی کو نہ بتایا جائے.میں نے کہا کہ حضرت صاحب کا یہ حکم آپ کے لئے رض ا حضرت مولوی رحیم بخش صاحب بعده مولوی عبد الرحیم صاحب درد تقسیم ملک تک پرائیویٹ سیکرٹری کو افسر ڈاک بھی کہا جاتا تھا.جلسہ سالانہ پر افسر ڈاک“ کا بیج پرائیویٹ سیکرٹری کے بازو پر لگایا جاتا تھا.-۳- اختصار روانگی کا ذکر الفضل مورخہ ۱۵ فروری میں بھی ہے.وہاں ”عبدالاحد خاں صاحب“ کا نام سہواً " عبد الواحد " درج ہوا ہے.

Page 323

۳۰۸ تھا.نہ ہمارے لئے.حضور خوب ہنسے.-۲ قافلہ لا ہور اسٹیشن سے میاں محمد شریف صاحب ای.اے سی کے مکان پر پہنچا.کھانے کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا.میں حضور کے قریب بیٹھا ہوا تھا.مجھے کچھ اونگھ آنے لگ گئی.کچھ دیر بعد حضور نے فرمایا.ڈاکٹر صاحب! با تیں ختم ہو گئی ہیں.جا گئیں اور وضو کریں.اور یہ لطیفہ سنایا کہ ایک جگہ تبلیغ کے دورہ میں حافظ روشن علی صاحب کا رات کو لیکچر تھا.جو نہی آپ نے تقریر شروع کی.سامعین کے خراٹے اس زور سے شروع ہو گئے کہ حافظ صاحب تقریر بند کرنے پر مجبور ہو گئے.مفتی محمد صادق صاحب صدر جلسہ کو بھی دیکھا کہ سو رہے ہیں.تب حافظ صاحب نے زور سے کہا کہ لوگو! جاگ اٹھو.تقریر بند ہوگئی ہے.۳ - ۱۳ فروری کو حضور جمعیت بھائی عبدالرحیم صاحب.بھائی عبدالرحمن صاحب مولوی رحیم بخش صاحب اور خاکسار ( یعنی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ) اور بعض مقامی بزرگان بعد ظہر سیر کے لئے تشریف لے گئے.حضور مالیر کوٹلہ اور پھیر و چی بھی تشریف لے گئے.واپسی کے تعلق میں مرقوم ہے:.( حضور ) ۳ / مارچ کو دارالامان تشریف لے آئے.احباب کی ایک کثیر تعداد قصبہ سے باہر قریباً میل ڈیڑھ میل تک استقبال کے لئے پہنچی ہوئی تھی." ۱۴۹ الحکم میں مراجعت کے بارے مرقوم ہے کہ حضور قبل از نماز عشاء واپس تشریف لے آئے.احباب بعد مغرب، موضع بھینی تک استقبال کے لئے پہنچے.اس سفر کا اظہار نہیں کیا گیا تھا.خبر ہونے پر احباب کثیر تعداد میں دیوانہ وار حاضر ہو جاتے ہیں.حضور کی عادت نہیں کہ جو احباب اخلاص وصدق سے آتے ہیں انہیں حاضری کا موقعہ نہ دیں.اور پھر ملاقاتوں میں تقریروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور مصروفیت بڑھ جاتی ہے اور سفر کی غرض فوت ہو جاتی.اسلئے اخبارات میں اعلان نہیں ہوا.آپ نے مالیر کوٹلہ میں بارہ ہرن اور ایک نیل گائے کا شکار بھی کیا اور قادیان والوں کو حضور نہیں بھولے اور شکار کا حصہ بھیجا.مالیر کوٹلہ سے براستہ گورداسپور پھیر و چی آکر آپ کا قیام رہا.جہاں ڈاک آتی رہی اور اہم امور کے بارے آپ ہدایات قادیان بھیجتے رہے.ایڈیٹر الحکم کو بھی تین دن کے لئے حاضری کی عزت نصیب ہوئی.اور مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب ناظر امور عامہ کو بھی شرف حاضری ملا

Page 324

۳۰۹ اور وہ حضور کے ساتھ ہی واپس آئے.۷- سفر سندھ (۱۹۳۵ء) ۱۵۰ حضرت خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ عنہ اولین بار اراضیات سندھ کے معائنہ کے لئے 9 مئی ۱۹۳۵ء کو تشریف لے گئے.خدام میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بھی شامل تھے.ارمئی کو جھڈو اسٹیشن (سندھ) پر اترے.ظہر وعصر کی نمازیں پڑھانے کے بعد.قافلہ دوحصوں میں روا نہ ہوا.قافلہ نے احمد آباد اسٹیٹ گھوڑے پر سولہ میل کا فاصلہ طے کرنا پسند کیا.حضور کے ساتھ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب.اور محترم چوہدری غلام احمد صاحب مینجر احمد آباد اسٹیٹ ہذا اور بعض افراد گھوڑوں پر تھے.موٹر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت بھائی جی.حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب - محترم شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری اور محترم نوابزادہ چوہدری محمد سعید صاحب ابن حضرت نواب چوہدری محمد دین صاحب روانہ ہوئے.منزل مقصود پر احباب نے حضور کا استقبال نعرہ ہائے تکبیر سے کیا.حضور نے حیدر آباد سندھ میں ۷ ارمئی کو جمعہ پڑھایا اور ایک پبلک لیکچر دیا.واپسی کے سفر میں ملتان چھاؤنی کے اسٹیشن پر ملتان کے اور بعض دیگر مقامات کے احباب نے حضور کی زیارت کی.ہند و مسلم اور عیسائی معززین.وکلاء و پروفیسران بڑی تعداد میں ملاقات کے لئے آگئے.حضور سیکنڈ کلاس کے ویٹنگ روم میں تشریف لے گئے.سب کا تعارف کرایا گیا.محترم شیخ فضل الرحمن صاحب اختر صدر جماعت اور بعض احباب ٹرین میں قافلہ کو کھانا کھلانے کے لئے خانیوال تک ساتھ آئے.وہاں خانیوال اور محمود آباد اسٹیٹ کے احباب نے ٹرین کی آمد و روانگی کے وقت اللہ اکبر کے نعرے بلند کئے.حضور ۱۹ رمئی کو دس بجے رات قادیان بخیر وعافیت پہنچے.احباب قادیان نے استقبال کیا اور حضور نے انہیں مصافحہ کا شرف بخشا.۱۵۳ ۱۵۲ فتنہ ارتداد علاقہ ملکانہ وغیرہ میں -1 ا علاقہ ملکانہ میں ۱۹۲۳ء میں ایک ہولناک منصوبہ کے تحت فتنہ ء ارتداد شروع ہوا.اس فتنہ کی اور

Page 325

۳۱۰ اس کے انسداد کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد پنجم میں قابل مطالعہ ہے.ہنود کی طرف سے ایک کروڑ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی سکیم ابتداء میں تھی.جسے وسیع کیا جانا تھا.۲- حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں عامتہ المسلمین کو بھی مضامین کے ذریعہ آگاہ کیا اور جماعت احمدیہ کو بھی اور مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء میں بالخصوص.مثلاً آپ کے ملفوظات میں بیان ہوا ہے کہ نیم مسلم افراد کی تعداد ایک کروڑ ہے.وہ کچھ کچھ مسلمانوں کی اور کچھ کچھ ہنود کی رسوم قبول کئے ہوئے ہیں اس وقت ڈیڑھ صد فدا کاروں کی ضرورت ہے.ہر ایک تین ماہ کے لئے اپنے خرچ پر وہاں جائے اور وہ اپنے اہل وعیال کے اخراجات کا بھی ذمہ دار ہوگا.وہاں کا کرایہ وغیرہ کا خرچ بھی وہ خود برداشت کریں گے.معمولی خرچ ڈاک اور تبلیغ کا انہیں ملے گا.ہر ایک کو اپنا کام خود کرنا پڑے گا.اگر کھانا آپ پکانا پڑے گا تو پکائیں گے.اگر جنگل میں سونا پڑے گا تو سوئیں گے.جو اس محنت اور مشقت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں وہ آئیں.ان کو اپنی عزت، اپنے خیالات قربان کرنے پڑیں گے.ایسے لوگوں کی محنت باطل نہیں جائے گی.ننگے پیروں چلیں گے.جنگلوں میں سوئیں گے.خدا ان کی اس محنت کو جو اخلاص سے کی جائے گی ضائع نہیں کرے گا.اس طرح جنگلوں میں ننگے پیروں پھرنے سے ان کے پاؤں میں جو سختی پیدا ہو جائے گی وہ حشر کے دن جب پل صراط سے گذرنا ہو گا ان کے کام آئے گی.مرنے کے بعد ان کو جو مقام ملے گا وہ راحت و آرام کا مقام ہوگا.-٣ بے جا نہ ہوگا.حضور کی تحریک کا جو اثر بڑوں اور بچوں تک پر ہوا اس کا قدرے اختصار سے یہاں ذکر کرنا ایک معمر بزرگ قاری نعیم الدین صاحب بنگالی نے ۱۰ار مارچ ۱۹۲۳ء کو جب حضور مجلس میں تشریف رکھتے تھے اجازت لے کر عرض کیا کہ اگر چہ میرے بیٹوں مولوی ظل الرحمن صاحب اور مطیع الرحمن صاحب متعلم بی.اے کلاس نے مجھ سے نہیں کہا لیکن میں نے اندازہ کیا ہے کہ حضور نے اس علاقہ میں تبلیغ کرنے کے لئے کل جو وقف زندگی کی تحریک کی ہے.اور جن حالات میں وہاں رہنے کی شرائط پیش کی گئی ہیں.شاید میرے بیٹوں کے دل میں ہو کہ اگر وہ اپنے آپ کو پیش کریں گے تو مجھے ان کے بوڑھے باپ کو تکلیف ہوگی.لیکن میں حضور کے سامنے خدا تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ مجھے ان کے جانے اور تکالیف

Page 326

۳۱۱ اٹھانے میں ذرا بھی غم ورنج نہیں.میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر یہ دونوں راہ خدا میں کام کرتے ہوئے مارے بھی جائیں تو میں ایک بھی آنسو نہیں گراؤں گا.بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر کروں گا.میرا تیسرا بیٹا بھی اگر خدمت اسلام کرتے مارا جائے.اور اگر میرے دس بیٹے اور ہوں اور وہ بھی مارے جائیں تو بھی میں کوئی غم نہیں کروں گا.میں جانتا ہوں کہ ریاء اور عجب ہلاکت کی باتیں ہیں.آپ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے دل کوریا اور عجب سے جو ایمان کے لئے زہر ہیں ، بچائے اور مجھے اخلاص عطا کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے سے ہمارے دل قوی ہو گئے ہیں.اس پر حضور نے اور احباب نے جزاک اللہ کہا.( مولوی ظل الرحمن صاحب کو اندرون ملک اور صوفی مطیع الرحمن صاحب ایم.اے کو یو.ایس امریکہ میں مخلصانہ تبلیغی خدمات بجالانے کی توفیق عطا ہوئی.مؤلف ) حضور نے ۱۳ مارچ کو بیان فرمایا کہ میں گھر میں جتنی دفعہ مستورات کے پاس سے گذرا ہوں ان میں اسی بارے گفتگو ہوتی سنی ہے کہ ہم کس طرح اس کام میں حصہ لیں.اور لجنہ اماءاللہ نے پوچھا ہے کہ ہم کس طرح اور کیا کام کر سکتی ہیں.انفراداً بھی کئی عورتوں نے باوجود بعض معذوریوں کے اس علاقہ میں پہنچ کر تبلیغ کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے.نیز فرمایا کہ بچوں میں بھی نہایت مسرت انگیز مثالیں موجود ہیں.میرے پانچ سالہ بیٹے منور احمد نے اپنی اڑھائی سالہ چھوٹی بہن سے کہا کہ بی بی! میں تو غیر مسلموں کو مسلمان بنانے جانے والا ہوں.تم بھی چلو گی.اس نے کہا.ہاں میں بھی چلوں گی.منور احمد نے کہا.اچھا پھر تیار ہو جاؤ.( حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے بیٹے ) محمد احمد عمر بارہ سال نے اپنی والدہ (حضرت نواب مبارکہ بیگم ) سے کہا کہ تبلیغ اسلام کرنا بڑوں پر ہی فرض نہیں.بلکہ ہمارا بھی فرض ہے اس لئے آپ جب جائیں مجھے بھی ساتھ لے چلیں.نہ جائیں تو مجھے ضرور بھیج دیں..حضور نے سکیم مکمل کر کے یکم اپریل ۱۹۲۳ء سے کام شروع کرنا تھا.لیکن موقعہ کی نزاکت کے پیش نظر آپ نے ۱۲ مارچ کو بعد نماز فجر احباب کو بتایا کہ رات میں نے مخالف اخبارات کا مطالعہ کیا ہے.جس سے معلوم ہوا کہ بہت سرعت کے ساتھ وہ ارتداد کے کام کو سرانجام دینا چاہتے ہیں.ہم پہلے ہی ایک ماہ پیچھے کام شروع کریں گے.اس لئے وہاں کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ (حضرت ) چوہدری فتح محمد صاحب سیال جو آج وہاں جارہے ہیں ان کے ساتھ بعض افراد کو بھجوایا جائے تا کہ وہاں کے حالات کے مطابق وہ کام کرنا سیکھ لیں.اور بعد میں جانے والوں کو دقت پیش نہ آئے.

Page 327

۳۱۲ فرمایا ستر درخواستیں وہاں کام کرنے کے لئے آئی ہیں ان میں سے جو آج ہی مجھے ظہر سے پہلے پہلے بتادیں میں انتخاب کر کے ظہر کے بعد انہیں بھجوا دوں.پہلے کام کرنے والوں کو زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا.لیکن زیادہ ثواب کا موقعہ بھی یہی ہے.چودھری صاحب کے ساتھ جانے کے لئے میاں (صوفی) محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی.میاں (صوفی ) عبد القدیر صاحب بی اے.( شیخ ) یوسف علی صاحب بی اے اور لنگر والے چودھری بدرالدین صاحب تیار ہو جائیں.ان چھ مذکورہ بالا احباب کے علاوہ چودہ احباب ظہر تک تیار ہو گئے.(ان میں سے ایک نے یوپی سے شامل ہونا تھا.اور ایک کو خود حضور نے روک لیا تھا) اس وفد میں حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم قادیانی بھی تھے.گویا آپ کو السابقون الاولون میں شامل ہونے کی توفیق عطا ہوئی.اس وفد میں پانچ گریجویٹ گئے.* نماز ظہر کے بعد ایک بڑے مجمع کے ساتھ حضور ان اصحاب کو روانہ کرنے کیلئے دو ڈیڑھ میل تک قصبہ سے باہر وہاں تک تشریف لے گئے جہاں قادیان کی سڑک بٹالہ کی سڑک سے ملتی ہے.وہاں جو کنواں ہے وہاں ان اصحاب کو سامنے بٹھا کر ایک ولولہ انگیز تقریر فرمائی اور پھر دعا کی اور سب کے ساتھ مصافحہ کر کے رخصت فرمایا.اس موقعہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ حضرت اُم المؤمنین چند مستورات کے ہمراہ پا پیادہ وہاں تشریف لائیں اور دعا کی اور اپنے فرزندوں کو اپنی آنکھوں سے اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے روانہ ہوتے ملاحظہ فرمایا.روانگی کے بعد حضرت خلیفہ ثانی تھوڑی دیر تک سیکوں کی طرف دیکھتے اور دل میں دعائیں کرتے رہے.واپسی پر ارشاد فرمایا کہ دوست ایک ترتیب سے چلیں.سو بچوں سے بوڑھوں تک سب نے پہلے دس دس کی ، پھر پانچ پانچ کی اور پھر چار چار کی قطار میں قصبہ تک مارچ کیا.۵- چند دن بعد ہی بذریعہ تار مطالبہ آیا کہ فوراً ہمیں مبلغ اور بھجوائے جائیں.چنانچہ مسجد (مبارک) میں ہی ساٹھ ستر احباب نے اپنے نام پیش کر دیئے.حضور نے ان میں سے بائیس کا انتخاب کر کے انہیں اسی روز بعد عصر روانہ کر دیا.۱۵۷ ۶ - اولین وفد کے سامنے حضور نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ۱۵۶ ان پانچ گریجوئیٹ مجاہدین میں سے صرف حضرت صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ زندہ تھے جو لنڈن کا نفرنس ۱۹۹۰ء پر پہنچے اور وہاں وفات پائی.بہشتی مقبرہ ربوہ مدفن ہوئے.

Page 328

۳۱۳ وہ دوست جو اس وقت محض رضائے الہی اور اعلائے کلمہء اسلام کے مبارک مقصد سے.خدا پر توکل کر کے جار ہے ہیں وہ بھی اور ان کو الوداع کہنے والے سورہ فاتحہ کے مضمون پر توجہ کریں جوا بھی میں نے پڑھی ہے.باوجود جماعت کی ناتوانی کے اور تعداد کی نہایت کمی کے آٹھ کروڑ مسلمانوں میں وہ جوش نہیں.مسلم اخبارات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی حالت مایوسانہ ہے.اور مخالفین کی آواز فاتحانہ ہے.ان حالات میں سورۃ فاتحہ ہماری ہمت بندھاتی ہے.جس زمانہ میں آغاز اسلام میں مسلمان مردوں اور عورتوں پر انتہائی مظالم ڈھائے جاتے تھے اور پھر حبشہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی.اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ الحمد للہ پڑھو کہ مجھے اللہ تعالیٰ میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں.میرے لئے تو خوشیاں ہی خوشیاں ہیں.کوئی رنج اور دکھ نہیں.کوئی وجہ نہیں کہ میں الحمد لله رب الـعـلـمـیـن نہ کہوں.چنانچہ بالاخر یہ ثابت ہوا کون راستی پر تھا.کس کو طاقت حاصل ہوئی.مخالفت ہیں سب اڑ گئیں.اور سکھ ، مسلمانوں کے لئے ہی رہ گیا اور روحانی راحت صرف مسلمانوں کو حاصل تھی.مسلمان اس وقت ہمارے مخالفوں کے ساتھ ہیں.ابتدائے اسلام میں جیسے مسلمان قلیل تھے تمہاری بھی یہی حالت ہے.وہ بزدل نہ تھے.مومن بزدل نہیں ہوتا.اس کے دل میں ایمان اور خدائی مدد پر بھروسہ ہوتا ہے.ایک دفعہ مخالفین کے مقابلہ میں کمک کی ضرورت تھی.مطالبہ پر حضرت عمرؓ نے ایک سپاہی بھجوایا اور لکھا کہ یہ ایک ہزار کے برابر ہے.کیونکہ بھجوانے کے لئے اور سپاہی میسر نہ تھے.مسلمانوں نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے اور بڑی خوشی سے استقبال کیا اور یقین کیا کہ اب دشمن مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکے گا.ان کی نظر اپنی تھوڑی تعداد پر نہ تھی بلکہ خدا کی طاقت پر تھی.انکسار اختیار کرو.اپنی تعداد کونہ دیکھو.خدا غیور ہے تم جو اس کے لئے نکلے ہو تمہیں تباہ نہ ہونے دے گا.وہ ہر وادی میں، ہر ایک شہر اور جنگل میں اور میدان میں تمہارے ساتھ ہوگا.اور جس کے ساتھ خدا ہو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.جو ہدایات تحریر کر کے چوہدری فتح محمد صاحب کو میں نے دے دی ہیں.ان کو پڑھو اور ان پر عمل کرو تو دیکھو گے کہ نصرت الہی تمہیں کس طرح کامیاب کرتی ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی دعا ہر بستی میں داخل ہوتے وقت پڑھو.ہمیشہ نرمی اور محبت سے کام کرو.اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ.خدا کا حق عبادت ہے اس میں سستی کو پاس نہ آنے دو.بندوں کے حقوق ادا کرو.دعاؤں پر بہت زور دو.افسر کی اطاعت کرو.اطاعت سے ذرا منہ پھیرنا

Page 329

۳۱۴ ۱۵۸ ہلاکت کا باعث ہوتا ہے.احد کا حال سب کو معلوم ہے.لباس اور خوراک میں جہاں تک ممکن ہو سادگی ہو.اعلیٰ نمونہ دکھاؤ.باہم محبت اور پیار سے رہوتا دیکھنے والوں کو معلوم ہو کہ تم ایک دوسرے پر فدا ہو.سخت کلامی مقابلہ بھی نہ کرو.ملکا نہ لوگ تمہاری باتیں سنیں یا نہ سنیں.اور ہزاروں لوگ سلسلہ میں داخل ہوں گے.جو لوگ یہاں ہیں ان کے دل میں بھی جوش ہونا چاہیے کہ وہ بھی خدمت دین کے لئے جائیں.جانے والوں کے لئے بھی دعا کرو.اسلام پر کیسا وقت ہے اس سے ایسی محبت کرو جو ماں سے بڑھ کر ہوا اور خدمت اسلام کیلئے تیار ہو جاؤ.ے.حضرت بھائی جی اور دیگر سب نے نہایت جانفشانی اور انتھک محنت سے حالات معلوم گئے.حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال امیر المجاہدین کا صدر دفتر آگرہ میں قائم ہوا.ان سب مجاہدین نے تیز ، چلچلاتی دھوپ میں کئی کئی میل روزانہ پیدل سفر کیا.کھانا تو الگ رہا بعض اوقات ان کو پانی بھی نہ مل سکا.یا بچا کھچا باسی کھانا کھاتے یا بھونے ہوئے چنے.موقعہ ملتا تو آٹے میں نمک ڈال کر روٹی پکا لیتے.جہاں موقع ملتا رات گزار لیتے.دودھ کی تواضع ملکانوں سے قبول نہ کی.بعض رؤساء نے مبلغین کے بستر اور سامان کے لئے مزدور دینا چاہئے.لیکن یہ جانباز مجاہدا پنا سامان اٹھائے پیدل سفر کرتے رہے.ایک گاؤں میں کام ختم ہونے پر اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ کیا وقت ہے یا دوسرا گاؤں کتنے فاصلے پر ہے.فوراً آگے روانہ ہو جاتے.انہوں نے بعض اوقات اندھیری راتوں میں ایسے تنگ اور پرخطر راستوں سے سفر کیا جہاں جنگلی سور اور بھڑیئے بکثرت پائے جاتے تھے.یہ مجاہدین ان لوگوں پر پانی تک کا بھی بوجھ نہ ڈالتے.اور یہ کہتے کہ ہمارے آدمی آپ لوگوں کو دین سکھانے کے لئے آئیں گے جو آپ سے کچھ نہ لیں گے بلکہ اپنا خرچ بھی آپ برداشت کریں گے.یہ لوگ چونکہ اپنے مولویوں کی شکم پروریوں کی وجہ سے بہت بدظن ہو چکے تھے اس لئے ان کے نزدیک یہ بات بہت بڑی حیرت انگیز تھی کہ ایسے خدام دین بھی موجود ہیں جو رضا کارانہ طور پر تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں.ان تمام مجاہدین نے چند دن کے اندر پانچ اضلاع اور ایک ریاست کا مکمل جائزہ پیش کیا.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب نے نہ صرف تین دن کے اندراندر ضلع ابطہ کے اکثر دیہات کا دورہ مکمل کرلیا.بلکہ ہر گاؤں کے متعلق ایسے تفصیلی کوائف بھی مہیا کئے گویا مدت سے ان دیہات میں آپ کی آمد ورفت تھی.

Page 330

۳۱۵ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال امیر المجاہدین ایک رپورٹ میں آگرہ سے تقسیم کار کے تعلق میں رقم کرتے ہیں کہ تبلیغی مرکز آگرہ میں میرے ساتھ مولوی (صوفی محمد ابراہیم صاحب بی.ایس سی اور منشی غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل کام کرتے ہیں.مولوی جلال الدین صاحب ( شمس ) مولوی فاضل اور مہاشہ محمد عمر صاحب نو مسلم سابق طالب علم گورو کل کانگڑی آریوں کے متعلق ہفتہ میں دوبار آگرہ میں لیکچر دیتے اور پبلک کو آریہ دھرم کی حقیقت بتاتے ہیں.اور باقی ایام میں اردگرد کے دیہات میں تبلیغ کرتے ہیں (وغیرہ وغیره) شیخ عبدالرحمان صاحب قادیانی نو مسلم دورہ کر کے مبلغین کو ہدایات پہنچاتے اور نئے حالات سے تبلیغی مرکز میں اطلاع دیتے اور ہرطرح کام کی نگرانی بھی کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خاص توجہ اور مجاہدین کی عظیم الشان کارکردگی کے اظہار کے لئے یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ جلد ہی مجاہدین کی تعداد نوے ہوگئی تھی جو اضلاع متھرا، فرخ آباد ، ابطہ علی گڑھ، مظفر گڑھ ، اٹاوہ اور ریاست بھرت پور میں مصروف تھے کئی مراکز بنائے گئے تھے.روزانہ رپورٹیں موصول ہوتی تھیں.حضور چودہ اصحاب کبار کے ساتھ مشاورت فرماتے تھے اور صدر دفتر آگرہ کو ہدایات -^ بھجواتے تھے.چند ماہ کے اندر مجاہدین کی مساعی مثمر ثمرات حسنہ ہو کر چھ اضلاع میں ارتداد ایک حد تک رک گیا.سینکڑوں لوگ جو کلمہ تک سے نا آشنا تھے ، اسلامی تعلیم حاصل کرنے اور نماز روزہ کی پابندی کرنے لگے.قلیل عرصہ میں ہی چھپیں مدارس کھل گئے تھے ڈیڑھ درجن غیر آباد مساجد آباد کی جا چکی تھیں.مخالفین نے لوگوں کو ورغلایا کہ احمدی مسلمان نہیں.ان کو چوپال میں ٹھہرنے سے منع کر دو.انہوں نے جواب دیا کہ جو لوگ اپنا خرچ کرتے ہیں.کھانا اپنا کھاتے ہیں.ہمارے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور انہیں دین سکھاتے ہیں.ہم ان کو کس منہ سے کہیں کہ نکل جاؤ.-۹ محترم بھائی جی کی مراجعت کے بارے مرقوم ہے کہ تیسری سہ ماہی کا دوسرا وفد جانے پر پہلے مجاہدین کا ایک حصہ اپنی سہ ماہی پوری کر کے واپس آ گیا ہے.بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی بھی آئے ہیں.آپ نے چھ ماہ ( اس ) میدان میں کام کیا ہے.بعد ازاں ایک خصوصی کام حضرت بھائی جی اور حضرت مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر کے سپر د کر کے آگرہ بھجوایا گیا.

Page 331

۳۱۶ 11- کن حالات میں میدان ارتداد میں ان مجاہدین کو کام کرنا پڑا یہ ایک طویل سرگذشت ہے.اسی طرح مسلم و غیر مسلم طبقات نے امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو کیا کیا خراج تحسین ادا کیا.یہ بھی بہت تفصیل طلب ہے.ایک دو امور کا یہاں ذکر کرنا مناسب ہے.ایک غیر از جماعت دوست ڈاکٹر محمد اشرف صاحب مراد آبادی نے اپنا واقعہ یہاں ” نقوش آپ بیتی نمبر بابت جون ۱۹۶۴ ء سے بحوالہ تاریخ احمدیت جلد پنجم.صفحہ ۳۶ یہاں درج کیا جاتا ہے ڈاکٹر صاحب نے تحریر کیا ہے کہ میں تحصیل ہا تھرس میں اپنے نھیال میں گیا.میں نے دیکھا کہ میرے نانا کی چوپال پر قادیانی مولویوں نے مدرسہ کھول رکھا ہے اور بچے قرآن پڑھ رہے ہیں.مولوی صاحب مجھے تپاک سے ملے.جب انہیں اندازہ ہو گیا کہ مجھے قادیانیوں سے کوئی تعصب نہیں تو مجھے کہا کہ اپنے نانا سے سفارش کردو کہ اس چوپال پر مدرسہ والی جگہ پر مسجد بنانے کی اجازت دے دیں یہاں روزانہ باجماعت نماز ہوتی ہے.میں نے نانا صاحب سے یہ ذکر کر دیا اور اپنی طرف سے حمایت بھی کر دی.ایک روز باہم گفتگو کر رہے تھے کہ میرے نانا آگئے اور کہا کہ مولوی ! اب تک تو میں خاموش تھا.مگر آج آپ نے مسجد کی بات شروع کی ہے تو میں بھی کہہ ڈالوں.دیکھئے جس ہفتہ آپ نے نماز پڑھنا شروع کی.میری گائے مرگئی.دوسرے مہینہ جب آپ با جماعت نماز پڑھنے لگے تو میری بڑی لڑکی بیمار پڑگئی اور وہ اب تک بیمار چلی آرہی ہے.اب آپ ہی سوچئے کہ جب خدا ہم سے ذرا دور ہے تو یہ مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور اگر اس کا گھر ہی یہاں آ گیا.( یعنی مسجد بنی ) تو پھر وہ سب کو مار ڈالے گا.ایک بھی ہم میں سے زندہ نہ بچے گا.سواس گاؤں میں مسجد اب تک نہیں ہے.چودھری افضل حق صاحب نے جو مفکر احرار سے یاد کئے جاتے ہیں.اس تحریک ارتداد کے بارے میں تحریر کرتے ہیں : مسلمان پبلک کو چاہئے کہ فتوی بازوں سے مطالبہ کریں کہ وہ غیر اقوام میں تبلیغ کر کے غیروں کو اپنا سچا ہم خیال مسلمان بنا ئیں تا کہ ان پر یہ راز کھل جائے کہ مسلمانوں کو کافر بنانا کتنا آسان اور کا فر کو مسلمان بنانا کس قدر دشوار ہے.مگر مسلمان فتنہ باز کسی کے رو کے نہیں رکتے تو انہیں اجازت دی جائے کہ جہاں وہ مسلمانوں کو کا فر بناتے ہیں وہاں کبھی کبھی غیر قوموں میں تبلیغ بھی کریں تا کہ ان کا مزاج اعتدال پر آ جائے.سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں.مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ واشاعت کا جذ بہ طلباء میں

Page 332

۳۱۷ پیدا نہیں کیا جاتا.کس قدر حیرت ہے کہ سارے پنجاب میں سوائے احمدی جماعت کے اور کسی ایک فرقے کا بھی تبلیغی نظام موجود نہیں.“ ایک شدید مخالف غیر مسلم انجمن کا ذکر کر کے لکھتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لئے اس کی وجہ سے مسلمان چوکنے ہوئے لیکن حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہو گیا.مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہوسکی.ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا.ایک مختصرسی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کیلئے بڑھا.مرزا غلام احمد اپنی جماعت میں وہ.....اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے.۱۶۴ حضرت عرفانی صاحب جائزہ اور مدح و توصیف حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مدیر الحکم نے اس علاقہ کی تبلیغ کے حالات میں بتایا ہے کہ وہاں کا قیام سخت کٹھن تھا.سخت چلچلاتی دھوپ میں سفر کرنا ہوتا.ماحول مخالف.چھوت کے باعث پانی تک کا حصول مشکل.کھانے کا انتظام خود کرنا ہوتا تھا اس لئے اکثر اوقات چنوں پر گزارہ کرنا پڑتا یا جو کے ستو پر یا زیادہ سے زیادہ چنے کی نمکین روٹی پر جسے پانی کے ساتھ کھا لیا جاتا.حضرت عرفانی صاحب نے حضرت بھائی جی کے متعلق جو کچھ دیکھا ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے: المی سلسلے اور ابتلاء اور تائیدات الہیہ لازم و ملزوم ہوتے ہیں جو مومنین کے کمالات مخفیہ کے اجاگر کرنے کا باعث بنتے ہیں.ان احمدی مجاہدین کے اخلاص کا اندازہ تو اسی ایک امر سے ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی اخراجات پر میدان عمل میں گئے ہیں اور سفر اور غریب الوطنی کی تمام صعوبتوں کو انہوں نے بلند حوصلہ سے قبول کیا.یہ ظاہر ہے کہ فضل الہی کے بغیر بڑے دل گردہ کے لوگ بھی حوصلہ ہار جاتے ہیں.حضرت امام جماعت احمدیہ کی پکار پر احباب نے شرح صدر سے لبیک کہا.پھر انہوں نے اپنے عمل سے ظاہر کر دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر نکلے ہیں.وہ میدان عمل میں پہنچے تو انہیں غریب الوطنی کے علاوہ ایک اجنبی اور جذبات عداوت سے جلد متاثر ہو جانے والی قوم میں اپنے آپ کو محصور پایا.دوسروں کی نظر

Page 333

۳۱۸ میں جو تکالیف ہیں وہ پیغام امن لے جانے والے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لئے نہیں جو مئے روحانی کے نشہ میں سرشار ہیں.مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ میں جو ایک شخص کا نام لے کر تعریف کرنے لگا ہوں وہ تعریف اس جہاد میں جانے والوں کے اخلاص وصدق و وفا کے جذبات کو ریاء سے تبدیل نہیں کرے گی.ان میں ایک ہی چیز ہے.اسی کے لئے جزا ء اور اسی کے لئے وفا.و میں نے شیخ عبدالرحمن قادیانی کو دیکھا ہے کہ زمین اس کے لئے لپیٹیجاتی تھی.لوگ اس کو مبالغہ سمجھ سکتے ہیں مگر میں کیا کروں میں نے تو جو آنکھوں سے دیکھا وہ بیان کرتا ہوں.پچھلی کہانیوں میں پڑھا کرتے تھے کہ ایک ولی اللہ ظہر کی نماز کے وقت فلاں جگہ دیکھے گئے اور عصر کے وقت فلاں جگہ پر.یہ خیالی باتیں نظر آتی تھیں مگر آج واقعات بتا رہے ہیں کہ خدا اپنے بندوں کے لئے کیا کرشمے اور عجائبات قدرت دکھاتا ہے.سمجھ میں آسکتا ہی نہیں کہ ایک شخص کس طرح پر پیادہ پا، بھوکا پیاسا دو چار نہیں پچھیں تھیں میل کا سفر چند گھنٹوں میں کرسکتا ہے.ہمارے ساتھ شیخ صاحب موصوف کو چلنا پڑا.ہم خود سوار تھے وہ ہم سے الگ ہو کر سب سے پہلے ایک مقام سے روانہ ہوتے ہیں اور کئی مقامات کا دورہ کر کے پھر ہم کو آ ملتے ہیں اور تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت چوتھا وقت ہے کہ کچھ کھایا نہیں.روٹی کا ایک لقمہ بھی اس شخص کے حلق میں نہیں اترا.کیا یہ معجزہ نہیں کہ ایک شخص شدت دھوپ میں سفر کر رہا ہے اس کو کھانے کے لئے کچھ بھی چار وقت سے نہیں مل سکا.اور آرام کرنے کا کوئی موقعہ ہی نہیں ملا.پھر اس کوفت اور سفر کی اس طوالت نے اس کے عزم اور حوصلہ میں کوئی کمی پیدا نہیں کی؟ وہ پھر بھی سارے قافلہ سے زیادہ ہوشیار اور تیز اور آگے ہے.مؤلف کے استفسار پر حضرت بھائی جی تحریر فرماتے ہیں کہ مالکانہ میں جانے والے پہلے وفد میں میں قبول کیا گیا تھا اور حضور نے خوش ہو کر میری خدمات سے مجھے تین ماہ بعد واپس بھی نہ آنے دیا.بلکہ حکم دیا کہ وہیں رہو.چنانچہ کم و بیش نو دس ماہ وہاں خدمات بجا لاتا رہا اور میری رپورٹوں کو حضور نے ایسا نوازا اور پسند فرمایا کہ نوجوان مبلغین کے لئے بطور مثال پیش فرمایا کرتے.اور نائب المجاہدین حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ حضور کا حکم خاص پہنچا تھا کہ عبد الرحمن قادیانی کی رپورٹوں کو محفوظ رکھا جایا کرے ۱۶۷

Page 334

۳۱۹ حضور نے ایک مکتوب میں بھائی جی کوتحریر فرمایا: " آپ کی تفصیلی رپوٹیں پہنچ رہی ہیں جزاکم اللہ محمد احمد صاحب پیر کو پہنچ رہے ہیں.غلام احمد صاحب آرہے ہیں اور بعض اور نو جوان بھی.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو کام کرنے کی توفیق دے اور کام میں برکت دے حضرت خلیفہ ثانی کی طرف سے تحسین "مژده باد عبدالرحمن قادیانی و بھائی عبدالرحیم قادیانی“ مژده باد...قادیانی مرقومه بالا کے زیر عنوان الحکم بابت ۷ راگست ۱۹۲۳ء میں درج ہے کہ ۳۱ / جولائی ۱۹۲۳ء کو گفتگو کے دوران میں حضرت اقدس خلیفہ ثانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہندوؤں میں سے بعض ایسے لوگ اس سلسلہ میں آئے ہیں کہ ان کی خدمات اور غیرت اسلام پر رشک آتا ہے اور وہ دوسرے دس دس ہزار مسلمانوں کے مقابلہ میں ایک ہیں.ان میں سے بھائی عبدالرحمن قادیانی اور بھائی عبدالرحیم قادیانی کا نام لیا.میں اپنے ان دونوں مخلص بھائیوں کو، جن کے ساتھ مجھے خصوصیت سے ہمیشہ سے محبت ہے.مبارکباد دیتا ہوں.وہ خدا کے رحم اور فضل سے اپنی اس ایمانی قوت میں اتنی ترقی کریں کہ دس ہزار نہیں دس لاکھ کے برا بر ہوں ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.خدا تعالیٰ ہمیں بھی ایسی ہی توفیق دے.آمین.از نعمانی * اللهم آمین و نیز مبارکباد.(صفحه ۲) ارتداد میں پھر تیزی آنا اور اعلان جہاد کیا جانا ۱۹۲۳ء والی انسداد ارتداد کی جنگی سطح کی کارروائیاں بفضلہ تعالیٰ کامیاب رہیں.غیر مسلموں اور حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع فیصل آباد ( خلف حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ) اور حضرت قاری غلام حم صاحب مراد ہیں.* نعمانی سے مراد ( حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی ہوں گے.جو شاید اس وقت کا تب ہوں.وہی اس نام سے معروف تھے.

Page 335

۳۲۰ مسلمانوں کی مخالفتیں نا کامی کا شکار ہوئیں.اس وقت کی قائم شدہ جماعتیں قائم ہیں.ان نو مسلم احمد یوں کا ایک حصہ بعد میں قادیان اب تک آتا رہا.کچھ حصہ پاکستان بننے پر پاکستان چلا گیا.وہاں کے طلباء تعلیم کے لئے قادیان آتے ہیں.وہاں کی بعض بچیوں کی شادیاں قادیان اور پاکستان میں ہوئیں.یہ قائم شدہ جماعتیں مستحکم ہیں.تقسیم ملک کے بعد حالات تبدیل ہونے پر نہ صرف ملکانہ کے علاقہ میں بلکہ یوپی کے دیگر علاقوں، راجستھان ، مغربی بنگال، مدراس اور کلکتہ کے نواح میں نیم مسلمانوں کو غیر مسلموں میں ملا لینے کی منظم کوششیں ہندو تنظیموں ہندو وشو پر شد نے برلا اور ڈالمیا جیسے اربوں پتیوں کی بھر پور مالی تعاون سے کرنا شروع کیں اور ساتھ ہی یہ پر زور پرا پیگنڈا کیا گیا کہ عرب کی پیٹر وڈالر طاقت سے مسلمان ان لوگوں کو مسلمان بنا رہے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ بعض مسلم تنظیمیں غلط کو ائف اپنی کوششوں کے عربی میں شائع کر کے ہندوستان میں مخفی رکھ کر ، سعودی عرب حکومت کو بھجوا کر بھاری رقوم حاصل کرتے ہیں.سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ تعالیٰ نے از راہ کرم ۱۹۸۶ء کی سہ ماہی اول میں خاکسار (مؤلف) کو ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا تھا.اور اس حیثیت سے خاکسار کو اس سال لندن کا نفرس میں شمولیت کا بھی ارشاد فرمایا.اختتام کا نفرنس کے بعد ایک خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا کہ ہند و تنظیمات کی طرف سے یہ فتنہ ارتداد عروج پر پہنچ چکا ہے.سو حضور نے اس کے خلاف اعلان جہاد فر مایا اور خاکسار کو اپنے ساتھی سمیت فوراً اس جہاد کے لئے واپس جانے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ ہم چند دن کے اندر واپس ہوئے.اور خاکسار نے دو ذمہ دار ا حباب مرکز کے ساتھ سانڈھن وغیرہ علاقہ ارتداد کا جائزہ لے کر صورت حالات سے حضور کی خدمت میں اطلاع دی.اور فروری ۱۹۸۷ ء سے حضور کی ہدایات کے مطابق کام شروع کیا گیا.یہ کام وقف جدید کے سپرد حضور نے فرمایا.خاکسار اس وقت ناظم وقف جدید ہے.ایک مرکز راجستھان میں ہے راجستھان اور یوپی کے لئے اور ایک مرکز حیدر آباد دکن میں ہے.ضلع دار نگل وغیرہ علاقہ کے لئے جہاں نیم ہندو مسلمان کئی اضلاع میں ہیں.اور ایک علاقہ کلکتہ کے نواح میں ہے.حضور کی ہدایات اور دعاؤں اور خصوصی توجہ سے یہ کام کامیاب ہو رہا ہے.نظارت ہائے علیا ، دعوۃ وتبلیغ اور وقف جدید کے باہم تعاون سے.فالحمد للہ ( نوٹ ستمبر ۱۹۹۰ء) خاکسار کی درخواست پر خاکسار کو جون ۱۹۸۹ء سے ناظم وقف جدید کے کام سے فارغ کر دیا گیا ہے.تا کہ خاکسار تالیف اصحاب احمد کا کام کر سکے.اب مکرم خورشید احمد صاحب انور

Page 336

۳۲۱ ناظم وقف جدید اور خاکسار آنریری صدر مجلس وقف جدید ہے.حضور کے منشاء وخصوصی نگرانی سے یہ کام بہت وسعت پذیر ہے.فالحمد لله حضرت خلیفہ مسیح الثانی کا اولین سفر یورپ (۱۹۲۴ء) ا.کئی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا سفر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا اولین سفر یورپ ۱۹۲۴ء میں ہوا جو نہایت مبارک اور کئی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا تھا.اس تاریخی سفر کے مخلص رفقاء قابل رشک ہیں اور ان کی نسلوں کیلئے یہ امر رہتی دنیا تک سرمایہ افتخار ہے.اس سفر کے حالات باعث از دیا ایمان ہیں.لیکن یہاں حضرت بھائی عبدالرحمن کے تعلق میں صرف مختصر سا تذکرہ کیا جانا مناسب ہے.۲ - سفر کا مقصد اور اس کے متعلق مشورہ ویمبلے پارک لندن میں منعقد کی جارہی مذاہب کانفرنس میں شرکت کیلئے حضور کو دعوت نامہ موصول ہوا.آپ نے احباب قادیان و بیرون سے مشورہ کیا اور استخارہ کیا اور دوسروں سے بھی استخارہ کروایا اور غور وفکر کیا.آپ نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیکچر لاہور اور براہین احمدیہ حصہ پنجم میں اپنے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں ذوالقرنین کے ذکر میں میرے متعلق پیشگوئی ہے.اور اس میں میرا نام ذوالقرنین رکھا گیا ہے.اور ذوالقرنین نے مغربی ممالک کی طرف سفر کیا تھا.سو مسیح موعود یا اس کے کسی خلیفہ کو مغربی ممالک کا سفر کرنا پڑے گا اور حدیث نزول عیسی کی پیشگوئی کے بارے حضرت اقدس نے حمامتہ البشری میں بیان فرمایا ہے کہ یسا فر المسیح الموعود او خليفة من خلفاء ه الى ارض دمشق کہ مسیح موعود یا اس کا کوئی خلیفہ دمشق کا سفر اختیار کرے گا.مزید غور کرنے پر آپ کو معلوم ہوا کہ مغربی ممالک کا سفر ذوالقرنین اسلامی انقلاب کی تبلیغی سکیم تیار کرنے کے لئے ہو گا.حضرت مسیح موعود کا ایک رویا بھی ہے کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت وائل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.اس کے بعد میں نے

Page 337

۳۲۲ بہت سے سفید رنگ کے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے تھے.خود حضرت خلیفتہ امسیح نے اس دعوت نامہ کے موصول ہونے سے پہلے کئی رویاؤں میں سفر یورپ کا نظارہ دیکھا.چنانچہ آپ نے دیکھا کہ وزیر اعظم برطانیہ نے دہشت زدہ ہو کر کہا مجھے خبر آئی ہے کہ مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی فوجیں عیسائی لشکر کو دباتی چلی آرہی ہیں.اور مسیحی لشکر شکست کھا رہا ہے.اور یہ بھی دیکھا کہ آپ بطور اولوالعزم فاتح ، انگلستان میں وارد ہوئے ہیں.سوحضور نے ایک اعلان میں فرمایا کہ ہماری جماعت کا کام ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنا ہے جس کے لئے ایک مکمل نظام تجویز کرنے کیلئے ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کا خلیفہ مغربی ممالک کی حالت اور مشکلات کو وہاں جا کر دیکھے.اس لئے میں نے باوجود بہت سی مشکلات کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سفر کو خود اختیار کروں مذہبی کا نفرس میں شمولیت کی غرض سے نہیں بلکہ مغربی ممالک میں تبلیغ کے لئے ایک مستقل سکیم تجویز کرنے کے لئے اور تفصیل سے وہاں کے حالات سے واقف ہونے کے لئے.کیونکہ مغربی ممالک ہی اسلام کے راستہ میں ایک دیوار ہیں جس دیوار کا توڑنا ہما را مقدم فرض ہے.حضور نے سفر کے دوران میں جماعت کے نام ایک مکتوب میں ایک زبر دست خطرہ کے بارے متنبہ کیا کہ مبادا یورپ اسلام کو تو قبول کرے.لیکن اسلامی تمدن اپنانے سے انکار کر دے.تب اسلام کی مسخ شدہ صورت پہلے یورپ میں اور پھر ساری دنیا میں قائم ہو جائے گی اور مسیحیت کی طرح اسلام بھی مسخ ہو جائے گا.حضور نے اس مکتوب میں رقم فر مایا کہ ”ہمارا فرض ہے کہ اس مصیبت کے آنے سے پہلے اس کا علاج سوچیں.اور یورپ کی تبلیغ کے لئے ہر قدم جو اٹھا ئیں اس کے متعلق پہلے غور کر لیں.اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہاں کے حالات کا عینی علم حاصل نہ ہو.پس اسی وجہ سے باوجود صحت کی کمزوری کے میں نے اس سفر کو اختیار کیا ہے.اے قوم ! میں ایک نذیر عیاں کی طرح تجھے متنبہ کرتا ہوں کہ اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا.اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا.جس خدا نے مسیح موعود کو بھیجا ہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات کا نکال دے گا.پس کوشش نہ چھوڑ نا.نہ چھوڑنا.نہ چھوڑنا.آہ! نہ چھوڑنا.میں کس طرح تم کو یقین دلاؤں کہ اسلام کا ہر ایک حکم نا قابل تبدیل ہے.خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا جو اس کو بدلتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے.وہ اسلام کی تبدیلی کی بنیاد رکھتا ہے.کاش وہ پیدا نہ ہوتا یورپ کے لئے تو اسلام کا قبول کرنا مقدر ہو چکا ہے.ہمارا فرض یہ ہے

Page 338

۳۲۳ کہ ہم دیکھیں کہ وہ ایسی صورت سے اسلام قبول کرے کہ اسلام ہی کو نہ بدل دے.۳- رفقائے سفر حضور کے رفقاء سفر احباب ذیل تھے : حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب.چوہدری فتح محمد صاحب سیال.مولوی عبدالرحیم صاحب درد.مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب.حافظ روشن علی صاحب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی.شیخ عبدالرحمن صاحب مصری.چودھری علی محمد صاحب.میاں رحیم دین صاحب اور چودھری محمد شریف صاحب ایڈووکیٹ بعد ہ امیر ضلع ساہیوال..( چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب پہلے ہی روانہ ہو چکے تھے.قادیان سے روانگی سے پہلے مزار حضرت اقدس پر اور بیت الدعاء میں دعائیں روانگی سے ایک روز قبل صبح کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر حضور نے لمبی دعا کی.پھر جنوب میں واقع موضع منگل میں سے گذر کر موضع کا ہلواں کی طرف سڑک پر جا کر دوسرے راستہ سے پھر بہشتی مقبرہ میں آئے اور پھر مزار حضرت اقدس پر دعا کی.مسجد اقصیٰ میں بعد عصر حضور کا رفقاء سمیت فوٹو لیا گیا.حضور کا لباس تھا سفید پگڑی.کھلے گلے کا لمبا کوٹ اور سفید شلوار اور رفقاء کا لباس تھا سبر پگڑی.کوٹ سیاہ بند گلے کا اور پاجامہ.۱۲ جولائی کو روانگی کے روز صبح ہی حضور نے مزار حضرت اقدس پر دعا کی.ایک بڑا ہجوم مسجد مبارک کے قریب جمع ہو گیا.حضور نے صبح آٹھ بجے بیت الدعاء میں لمبی دعا کی.پھر حضور پا پیادہ احباب سمیت سڑک کے موڑ تک تشریف لے گئے.اور احباب سمیت لمبی دعا کی.پھر مجمع میں.نکل کر حضرت ام المومنین کے پاس گئے.جنہوں نے دیر تک آپ کو گلے لگا کر دعائیں دیں اور رخصت کیا.پھر حضور سب احباب سے مصافحہ کر کے اپنے رفقاء سمیت موٹروں پر بٹالہ کی طرف روانہ ہو گئے.

Page 339

۳۲۴ ۵- سفر بٹالہ تا بمبئی بٹالہ سے بمبئی تک بذریعہ ٹرین سفر ہوا.راستہ کے ریلوے اسٹیشنوں پر دبلی تک ان مقامات کے علاوہ ارد گرد کے مقامات کے قریبا سات ہزار احباب نے حضور سے ملاقاتیں کیں.بمبئی پہنچنے تک دو روز حضور کی ہدایت کے مطابق رفقاء باہم انگریزی اور عربی میں گفتگو کرتے تھے.عدن سے روانگی پر پھر یہی.۱۷۲ ہدایت تھی.-۶- بمبئی سے روانگی کا منظر بمبئی سے ۱۵ جولائی کو بحری جہاز سے روانگی ہوئی.الوداع کہنے کے لئے جماعت بھاری تعداد میں موجود تھی.حضور نے لمبی دعا کی.آپ کی شفقت کا یہ نظارہ دیکھنے میں آیا کہ جہاز کا جو حصہ کنارہ پر موجود احباب کے نزدیک ہوتا حضور اس طرف دوڑ کر جاتے اور پھر دعا شروع کروا دیتے.حتی کہ احباب نظروں سے اوجھل ہو گئے.حضور دوران سفر میں رفقاء کو دعاؤں کی تاکید فرماتے تھے.جہازی بیماری (Sea Sickness) سے جہازی عملہ اور سارا قافلہ بیمار ہو گیا.خود بیمار ہونے کے با وجود حضور فرداً فرداً اپنے رفقاء کی عیادت کرتے اور ان کی دلجوئی کرتے اور نظمیں سنواتے.حضرت عرفانی صاحب لکھتے ہیں کہ سوائے چوہدری فتح ( محمد ) صاحب اور بھائی عبدالرحمن صاحب کے سب (اس مرض کا) شکار ہوئے غرض ہم تو بے دست و پا پڑے رہے.اور یہاں تک کہ اپنے مقام سے اٹھ کر پیشاب کے لئے بھی نہ جاسکتے تھے.ان ایام علالت و مجاہدہ جہازی میں بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی، چوہدری فتح محمد صاحب، ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور چوہدری علی محمد صاحب کی ہمدردی اور خدمت گذاری ایک گہرا نقش قلب پر چھوڑ رہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.انہوں نے اپنے آرام کو قربان کر کے ہم بیماروں کو آرام پہنچایا.“ وفد کی خبر گیری اور تیماداری کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ان دنوں اس سفر کے دوران میں بھائی جی اور چوہدری فتح محمد خاں صاحب نے شیروں کا کام کیا ہے.جزاهم الله احسن الجزاء - ۱۷۳

Page 340

۳۲۵ ہے.حضور نے اپنے ایک مکتوب میں اس موقعہ پر بھائی جی کو خاص طور پر خدمت کا موقع ملنے کا ذکر فر مایا ۱۷۴ مکہ معظمہ کے بالمواجہ نوافل پڑھنا بیت المقدس میں قبور انبیاء پر دعائیں حیفا.دمشق اور روما جانا ۱۷۵ جب نصف شب کو جہاز نے جدہ اور مکہ شریف کے سامنے سے گذرنا تھا تو حضور نے دو رکعت نماز باجماعت پڑھائی اور اس میں نہایت رفت سے دعائیں کیں.قبور حضرت ابراہیم.حضرت اسحق.حضرت یعقوب اور حضرت یوسف اور مقامات ولادت حضرت عیسی (علیهم السلام) وغیرہ اور وہ مقام جہاں حضرت عمرؓ نے نماز پڑھی تھی جسے بعد میں مسجد بنادیا گیا تھا.حضور نے مسلم رؤسائے فلسطین سے ملاقات کی اور انہیں مطمئن پایا کہ وہ یہود کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے.لیکن حضور کے نزدیک ان کا اطمینان بالاخر ان کی تباہی کا موجب ہونے والا تھا اور یہود نے اس ملک میں آباد ہونے میں کامیاب ہو جانا تھا.(جیسا کہ بعد میں ہو گیا.) حضور نے مسلمانوں کی ایک جائز شکایت کے بارے میں برطانوی گورنر کو توجہ دلائی جس نے اس شکایت کو صحیح فلسطین سے قافلہ براستہ حیفا دمشق پہنچا.جہاں حضور کا مع دور فقاء کے قیام ایک ایسے ہوٹل میں ہوا جس کے بارے دوسرے روز معلوم کہ المنارۃ البیضاء کے شرق میں ہے.سو حدیث شریف کی پیشگوئی پوری ہوئی.پھر حضور دمشق سے حیفا پہنچے.پھر بہائیوں کا مرکز عکہ اور ایک مقام پر بہاء اللہ کی قبر دیکھی.پھر حیفا سے پورٹ سعید جا کر برنڈ زی کے لئے روانہ ہوئے.وہاں سے بذریعہ ٹرین پوپ کے مرکز روما پہنچے.جہاں چار روزہ قیام میں پریس میں حضور کے تبلیغی انٹرویو شائع ہوتے رہے.حضور نے اٹلی کے وزیر اعظم مسولینی سے بھی ملاقات کی اور جماعت احمدیہ سے انہیں متعارف کرایا.حضور پوپ سے ملاقات کر کے تبلیغ کرنا چاہتے تھے.لیکن آپ کے ورود پر پوپ نے ملاقاتیں بند کر دیں.لیکن پوپ کو پیغام حق پہنچانے کا یہ سامان ہو گیا کہ وہاں کے سب سے مشہور کثیر الاشاعت اخبار نے انٹرویو لے کر شائع کیا.اس میں اسی سوال کا جواب بھی تھا کہ اگر آپ پوپ سے ملاقاتیں کرتے تو کیا

Page 341

۳۲۶ 144 کہتے.فرمایا کہ میں انہیں دعوت اسلام دیتا اور آپ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی.روما میں آپ نے اصحاب کہف کی غاریں دیکھیں.قافلہ روما سے پیرس پہنچا.وہاں سے کیلے اور وہاں سے جہاز کے ذریعہ رود بار انگلستان عبور کر کے ڈوور (Dover) پہنچا.حضور نے اس اخبار کے ایڈیٹر کو بتایا کہ مجھے پوپ کی طرف سے جواب ملا کہ چونکہ میرا مکان بن رہا ہے.اس لئے ان دنوں ملاقاتیں بند ہیں.اس ایڈیٹر نے لکھا کہ تعجب ہے کہ ایک قوم کا سردار آتا ہے اور پوپ سے ملنا چاہتا ہے اور پوپ کہتا ہے کہ چونکہ مکان کی مرمت ہو رہی ہے اس لئے میں مل نہیں سکتا.حضور نے بتایا کہ یہ وہاں کا سب سے بڑا اخبار ہے جس کی اشاعت آٹھ لاکھ ہے اور وہ دس شہروں سے شائع ہوتا ہے.- وکٹوریہ ٹیشن (لندن) پر استقبال فتح اسلام اور کسر صلیب کے لئے سٹیٹ پال چرچ کے سامنے لمبی دعا ڈوور سے قافلہ ٹرین پر ۲۲ اگست ۱۹۲۴ء کولندن کے ریلوے سٹیشن وکٹوریہ پر اترا جہاں اڑھائی تین صد احباب نے حضور کا استقبال کیا.اخبارات کے ایڈیٹر اور فوٹو گرافر بھی موجود تھے.سٹیشن پر اترتے ہی حضور نے قافلہ سمیت دعا کی.پھر آپ نے لڈ گیٹ پہنچ کر سینٹ پال چرچ کے دروازہ کے پاس صحن میں فتح اسلام اور کسر صلیب کے لئے لمبی دعا کی.چاروں طرف ایک ہجوم جمع ہو گیا.ان کے لئے یہ نظارہ عجیب تھا.پھر حضور اپنی جائے قیام پر تشریف لے گئے اور دعا کے بعد وہاں قیام پذیر ہوئے.برطانوی پریس میں آپ کے بارے اس قدر وسیع چر چا ہوا کہ ایک رومن کیتھولک اخبار نے لکھا کہ تمام برطانوی پریس سازش کا شکار ہو گیا ہے.اپنے ساتھیوں میں حضور نے کام تقسیم کر دیئے.چنانچہ خوردونوش کے انتظام کی زیادہ تر ذمہ داری حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے سپرد تھی.آپ اپنے اس کام کے علاوہ وقت نکال کر ہندوستان کو حالات سے آگاہ کرنے کے لئے خطوط تحریر کرتے تھے.اور حضور کی ڈاک کے لئے بھی وقت دیتے تھے.

Page 342

۳۲۷ حضرت بھائی جی کی ڈائریاں ( از مؤلف ).الفضل جلد ۱۲ نمبر ۱۹ تا۴۲ (۱۹ راگست) کے شمارہ میں آپ کی ڈائری درج کرتے ہوئے مکرم ایڈیٹر صاحب نے تحریر کیا ہے کہ بھائی جی نے باوجود مصروفیت کے نہایت تفصیل سے حالات بھیجے ہیں اور بہت سی ایسی باتیں بیان کی ہیں جن کا ذکر کسی اور رپورٹ میں نہیں.اس نمبر میں حضور کا نا تمام منظوم کلام حضور سے سن کر بھجوایا.یہ مشہور نظم ہے مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں جس کا پہلا شعر یہ ہے..صید و شکار غم ہے تو مسلم خستہ جان کیوں اٹھ گئی سب جہان سے تیرے لئے امان کیوں الفضل بابت ۲۳ / ستمبر ۱۹۲۴ء میں از مدینتہ اسی تحریر ہوا ہے حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب نے حضرت بھائی جی کی ڈائری دو دن مسجد اقصیٰ میں سنائی.- متعدد پیغامات وخطابات.کرنل ڈگلس ( پیلاطوس ثانی ) حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کی سنگساری پر احتجاج حضور کی بعض دیگر مصروفیات کا مختصر ذکر کرنا مناسب ہے تا کہ اس سفر کی اہمیت اور اس کے مقاصد کے پورا ہونے کی داغ بیل ڈالے جانے سے آگا ہی ہو.۱- حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر نے نمائندگان پریس کو ایٹ ہوم پر بلانے کا انتظام کیا.جس میں مذاہب کانفرنس کے انتظامیہ کے بعض ممبر شریک ہوئے.اہل انگلستان کے نام حضور نے ایک پیغام دیا جس کا ترجمہ فی البدیہہ جناب چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے سنایا.اس میں خاص طور پر اس امر کی طرف حضور نے توجہ دلائی کہ مشرق اور مغرب ایک دوسرے سے دور جارہے ہیں.انہیں ایک دوسرے کے قریب لانا چاہئے.پانی کو مفید طور پر استعمال کرنے سے وہ لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرتا ہے.ورنہ وہ ہزاروں گاؤں اور سینکڑوں افراد کو تباہ کر دیتا ہے.-۲ برائن کا قصبہ دوصدیوں سے شاہی خاندان کی تفریح گاہ ہے.شاہی ایوان ملکہ وکٹوریہ نے وہاں کے باشندگان کو دے دیا تھا.جنگ عظیم اول میں ہندوستانی سپاہیوں کے ہسپتال کے طور پر کام آیا.ان میں احمدی بھی تھے.وہاں کے لوگوں نے ہندوستانی زخمیوں کے علاج و آرام کے لئے اپنی آسائش و آرام کو قربان کیا.

Page 343

۳۲۸ جو سپاہی وہاں فوت ہوئے ان کی یادگار میں وہاں ایک چھتری انتیس فٹ اونچی بنائی گئی ہے اور چوالیس ایکٹر وسیع رقبہ میں کئی ایکڑ کا باغ لگایا جانا تھا.حضور مع خدام وہاں تشریف لے گئے اور حضور نے تقریر فرمائی جس کا خلاصہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر نے پریس کو بتایا.تقریر میں حضور نے بتایا کہ یہ یادگار چھوٹے سے چھوٹے رنگ میں دنیا کو ایک مقصد کے لئے جمع کرنے کا نشان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کو ایک دین پر جمع کرنے کے مقصد سے آئے تھے.اس مقصد اتحاد میں شرقیت و مغربیت کا لحاظ نہیں.تمام دنیا کو دین واحد پر جمع کرنا مقصد ہے.سو میں یہ دعا کروں گا کہ جس طرح یہ چھتری نشان ہے ان لوگوں کا جو دنیا کی ایک غرض کے لئے متحد ہوئے.اسی طرح مشرقی اور مغربی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ چھتری کے نیچے جمع ہو جائیں اور یہ حقیقی چھتری قائم ہو جائے.اس کے بعد حضور نے لمبی دعا کی.یہ سارا نظارہ سینما میں دکھایا گیا.پھر حضور ایوان شاہی میں گئے جہاں کارپوریشن کے ڈاکٹر اور دیگر ممبروں نے استقبال کیا اور سارا ہسپتال دکھایا اور جو کچھ ہندوستانی زخمی سپاہیوں کے آرام کے لئے کیا گیا تھا اس کی تفاصیل بتائیں.یہاں حضور کے پیغام کا ترجمہ جناب چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے پڑھ کر سنایا.جس کے جواب میں ڈاکٹر موصوف نے حضور کی آمد کا شکریہ ادا کیا.حضور نے اس پیغام میں برائٹن کی کارپوریشن، وہاں کے باشندگان اور سارے برطانیہ کا شکر یہ ادا کیا کہ انہوں نے ہمارے ہندوستانی زخمیوں سے برادرانہ سلوک کیا.مزید یہ بھی فرمایا کہ ہندوستان جس کا میں خود ایک باشندہ ہوں ، بلوغت کی سرحد پر کھڑا ہے.برطانوی سلطنت ایک عظیم الشان تجربہ ہے.جس کی کامیابی پر دنیا کی آئندہ ترقی کا بہت کچھ انحصار ہے.ہمیں اپنے ذاتی مفاد اور تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر اسے کامیاب بنانے کی کوشش کرنی چاہئیے.برائٹن جس نے ہندوستانی مردوں کی عظمت کی ہے اور ان کی یاد کو تازہ رکھا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ ہندوستان کے زندوں سے تعلقات بڑھانے میں وہ دوسروں سے آگے رہے گا.اس طرح وہ فی الواقع برائٹ ٹاؤن بن جائے گا اور صلح و امن کے لئے شمع بردار کا درجہ حاصل کرے گا.میں اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالی برٹش ایمپائر کو انصاف.امن اور آزادی کے قیام کی توفیق دے.-۳- برائن سے حضور ایوان شاہی کو گئے جہاں حضور نے اپنا پیغام پڑھا اور اس کا ترجمہ محترم ۱۸۲ ۱۸۳ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے سنایا.

Page 344

۳۲۹ ۴.تبلیغ کے بارے میں حضور نے ایک مجلس مشاورت منعقد فرمائی.- ۱۸۴ -۵ سپر چولر ازم سوسائٹی کے ایک جلسہ میں حضور نے شرکت کی.ایک عورت نے بیان کرنا شروع کیا کہ روحیں آرہی ہیں اور بعض روحوں کی کیفیت وہ بیان کرتی تھی.حضرت عرفانی صاحب نے بتایا کہ یہ لغویات ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو اور وہ اس سے کلام کرے اور حضور کے متعلق بتایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے کلام کرتا ہے.اس پر حضور کو گھیر لیا گیا.-۶- محترم مولانا عبد الرحیم صاحب نیر کی طرف سے ایک ایٹ ہوم کا اہتمام کر کے انگریز مردوزن.ہندوستانی طلباء اور سفارت ترکیہ کے ارکان اور مسلمان معززین کو بلایا گیا ان کو حضور کا پیغام محبت محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے سنایا.۱۸۵ ے.ایسٹ اینڈ ویسٹ یونین کے مدعو کر نے پر ان کے ایک اجلاس میں خود حضور نے اپنا انگریزی کا لیکچر پڑھا.جس میں بتایا.اس یونین کا مقصد مشرق و مغرب میں اتحاد پیدا کرتا ہے.مجھے اس مقصد سے اتفاق ہے.ہمارے بانی امام اسی مقصد سے مبعوث ہوئے تھے.اور میں آپ کی یونین کی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہوں.اس مقصد کے حصول کا ذریعہ یہ ہے کہ ہم مرکزی ہستی کی طرف بڑھیں جو تمام عالم خلق کا مرکز ہے.جتنا ہم خدا تعالیٰ کے قریب ہوں گے اور اس کی محبت کو ترجیح دیں گے اتنا ہمارا باہمی بعد دور ہوگا.یہ ہستی تمام جہتوں سے پاک ہے.اور اس سے تعلق رکھنے والے بھی مشرق و مغرب کی قید سے آزاد ہوتے ہیں.جو قومیں مذہب ، تمدن اور علم میں ترقی یافتہ ہیں ان کو دوسروں کی ترقی دینے کی کوشش کرنی چاہئے.مختلف زمانوں میں مختلف قوموں نے ترقی کی.ہر قوم دوسری قوم کی شاگرد ہے.آؤ ہم اپنے آپ کو مشرق و مغرب سے بالا کریں ورنہ یہ سوال دنیا کے امن کو برباد کر رہا ہے.- (لیگ آف نیشیز کے شعبہ مذہب و اخلاق کے سیکرٹری اور ایک اور صاحب نے حضور سے ملاقات کر کے پوچھا کہ حضور اس کام میں کس طرح مدد دے سکتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ سلسلہ احمدیہ کی اشاعت سے قیام امن میں بہت مدد ملی ہے.مثلاً یہ کہ مذہب کی اشاعت کے لئے تلوار اور جہاد منع ہے.اور اقوام عالم کے ذریعہ قرآن مجید کے بیان کردہ اصول بتائے کہ ان کے ذریعہ ہی دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے.( جس کی تفصیل حضور نے بیان کی.) - " مسیح کی آمد ثانی اور پیغام آسمانی کے بارے پورٹ سمتھ میں ہندوستانی طلباء سے حضور ۱۸۸

Page 345

۳۳۰ نے خطاب کیا.پیغام آسمانی والا مضمون اٹھائیس صفحات کا حضور نے دو گھنٹے میں تحریر کیا اور محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ساتھ ساتھ ترجمہ کرتے رہے.- 1.۱۱۸۹ مذاہب کانفرنس کے پریذیڈنٹ سرای.ڈی.راس سابق پرنسپل کالج کلکتہ سے حضور کی ملاقات ہوئی.وہ انگلستان کے نامور مستشرق ہیں.علمی باتیں ہوئیں جس سے موصوف بہت خوش ہوئے.11 سپر پچوٹل سوسائٹی کی جماعت ریفارم کلب کی درخواست پر حضور نے سٹیٹ لوکس ہال میں ”حیاة بعد الموت پر بیالیس منٹ تک تقریر فرمائی.۱۲.کرنل ڈگلس سے جماعت احمد یہ متعارف ہے کہ انہوں نے انصاف پسندی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک کا مقدمہ خارج کر دیا تھا.(کتاب البریہ میں حضرت اقدس نے اس مقدمہ کی روئداد شائع کی تھی.) وہ وقت مقررہ پر ملاقات کے لئے تشریف لائے.جب حضور آئے تو وہ تعظیماً کھڑے ہو گئے اور نہایت محبت سے انہوں نے کہا کہ آپ میرے دوست کے بیٹے ہیں.آپ کے والد شریف کو میں دوست رکھتا ہوں.موصوف کو اس مقدمہ کے واقعات اب تک یاد ہیں.اور ان کا ذکر وہ اپنے انگریز دوستوں سے کرتے رہتے ہیں.ان کے دل پر حضرت اقدس کے اخلاق اور عظمت کا خاص اثر ہے.ان سے ہندوستان کے حالات حاضرہ پر گفتگو ہوئی.۱۳ - حضرت مولوی نعمت اللہ خاں صاحب ساکن افغانستان حصول تعلیم کے لئے قادیان آئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے انہیں کابل کے احمدیوں کی تعلیم وتربیت کے لئے کا بل بھجوایا.والٹی افغانستان امیر حبیب اللہ خاں فروری ۱۹۱۹ء میں قتل کر دیئے گئے.امیر امان اللہ خاں نے حکومت سنبھال لی اور کامل مذہبی آزادی کا اعلان کر دیا.وزیر خارجہ افغانستان محمود طرزی صاحب ہندوستان آئے تو نئی حکومت کی پالیسی کے بارے تسلی کے لئے حضور نے ایک وفد ملاقات کے لئے بھیجا.احمد یہ وفد نے بوجہ احمدیت ، ترک وطن کرنے کے حالات سنائے جس سے افغانستانی وفد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.محمودطرزی صاحب اور سارے وفد نے یقین دلایا کہ کسی احمدی کو قطعا کوئی تکلیف نہ ہوگی.ظلم کا زمانہ ختم ہو چکا ہے.محمود طرزی صاحب کی واپسی پر مولوی نعمت اللہ خاں صاحب نے حضور کی ہدایت پر ملاقات کی اور

Page 346

۳۳۱ حالات بتائے.انہوں نے احمدیوں کی تکالیف کا ازالہ کر دیا.چونکہ افغانستان کے احمدیوں پر مظالم کی خبریں آرہی تھیں.اس لئے حضور نے وزارت خارجہ افغانستان اور مشہور تر کی جرنیل جمال پاشا مقیم افغانستان کو توجہ دلوائی.جس پر محمود طرزی صاحب نے وزارت خارجہ کی طرف سے جواب دیا کہ جلالت ماب جمال پاشا اور مجھے خطوط ملے.جواباً لکھا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت غازی امان اللہ خاں کے عہد حکومت میں کابل کی سرزمین میں آپ کے کسی متبع کو حکومت کی طرف سے تکلیف نہیں پہنچائی گئی.اگر افغانستان کے احمدیوں کی فہرست بھجوا دی جائے تو ممکن ہے کہ اگر انہیں کوئی تکلیف ہوئی ہو تو اس کا ازالہ کر دیا جائے.مئی ۱۹۲۳ء میں بھی ایک مراسلہ کا جواب ملا کہ احمدی امن سے اس حکومت کے ماتحت رہ سکتے ہیں.ان کو کوئی تکلیف نہیں دے سکتا.باقی وفادار رعایا کی طرح ان کی حفاظت کی جائے گی.مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو اگست ۱۹۲۴ء میں گرفتار کر لیا گیا.پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میں احمدی ہوں تو حکام نے پہلے تو انہیں رہا کر دیا لیکن پھر جلد ہی جیل میں ڈال دیا.ان کے ایک خط سے معلوم ہوا کہ کیسے فدائیت کے ان کے جذبات تھے.وہ لکھتے ہیں کہ میں ہر وقت قید خانہ میں خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ الہی اس نالائق بندہ کو دین کی خدمت میں کامیاب کر.میں یہ نہیں چاہتا کہ مجھے قید خانہ سے رہائی بخشے اور قتل ہونے سے نجات دے.بلکہ میں یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ الہی ! اس بندہ نالائق کے وجود کا ذرہ ذرہ اسلام پر قربان کر.“ محکمہ شرعیہ ابتدائیہ نے آپ کے ارتداد اور واجب القتل ہونے کا فتوی دیا.پھر عدالت مرافعہ نے ارتداد کے فیصلہ کی توثیق کر کے آپ کے قتل کی بجائے ایک بڑے ہجوم کے سامنے سنگسار کرنے کا حکم دیا.سو آپ کو پولیس نے کابل کی تمام گلیوں میں پھرایا اور اعلان کیا کہ ارتداد کی سزا میں اس شخص کو آج سنگسار کیا جائے گا.لوگ اس موقعہ پر حاضر ہوں.آپ اس وقت مسکرا رہے تھے.سنگساری سے پہلے اجازت لے کر آپ نے نماز پڑھی.پھر آپ کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا اور پتھروں کی بارش برسا کر آپ کو شہید کر دیا گیا.اخبار ڈیلی میل کے کابلی نامہ نگار نے لکھا کہ ایک بہت بڑا مجمع نظارہ دیکھنے کے لئے جمع ہو گیا تھا.مگر اپنے نہایت ہی خوفناک متوقع انجام کے باوجود یہ شخص نہایت مضبوطی اور پختگی کے ساتھ اپنے عقائد کا اظہار کرتا رہا اور اپنے آخری سانس تک اپنے عقائد کا اظہار کرتا رہا.حضور کولندن میں اس المناک سانحہ کی اطلاع ملی اور اس سے شدید صدمہ پہنچا.آپ نے اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے میں دن رات ایک کر دیا.لیگ آف نیشنز اور مختلف ممالک کو تار بھجوائے

Page 347

۳۳۲ اور احتجاجیجلسے منعقد کروائے اور ایک ایسے جلسہ میں خود بھی تقریر فرمائی.انگلستان اور ہندوستان کے پریس نے اس ظالمانہ واقعہ کے خلاف بہت کچھ لکھا جبکہ ہندوستان کے علماء کے ایک طبقہ نے امان اللہ خاں کو مبارکباد کے تار بھجوائے.۱۹۳ ۱۰ ویمبلے کا نفرس میں حضور کا مضمون چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی زبانی مذاہب کانفرنس میں ۲۳ /ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضور کا مضمون محترم چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے سنانا تھا.اس سے پہلے اڑھائی گھنٹے سے سامعین اسلام کے بارے میں دیگر مضامین سن رہے تھے.اور انگلستان کے لوگ زیادہ دیر تک بیٹھنے کے عادی نہیں ہیں.حضور کے مضمون کے وقت سارا ہال بھر گیا.کسی اور لیکچر کے وقت حاضری اس قدر نہ تھی.اجلاس کے صدر سر تھیوڈر موریسن (Sir Theodore Morrisson) نے حضور کا تعارف کرایا.حضور مع اپنے رفقاء کے سٹیج پر تشریف رکھتے تھے.آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کیا کہ اس نے بانیان کانفرنس کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ لوگ اس طریق پر مذہب کے سوال پر غور کریں.اور مختلف مذاہب کے بارے تقریریں سن کر دیکھیں کونسا مذہب قبول کرنا چاہے.مذہب کا معاملہ مرنے کے بعد دوسرے جہان تک چلتا ہے اور مذہب سے انسان کی دائمی راحت وابستہ ہے.پھر حضور نے محترم چودھری صاحب کے کان میں کہا کہ گھبرانا نہیں.میں دعا کروں گا.محترم چوہدری صاحب نے ایک گھنٹہ تک نہایت بلند.موثر اور پر شوکت لہجہ میں مضمون سنایا جس نے حاضرین پر وجد کی کیفیت طاری کر دی.مضمون ختم ہوا تو کئی منٹ تک حاضرین نے گرمجوشی سے تالیاں بجائیں پھر صدر اجلاس نے حاضرین کی ترجمانی میں حسن مضمون اور حسن خیالات اور اعلیٰ درجہ کے طریق استدلال کے لئے حضور کا شکریہ ادا کیا اور پھر حضور کو مخاطب کر کے لیکچر کی کامیابی پر مبارکباد دی.مانچسٹر گارڈین وغیرہ اخبارات نے بھی مضمون کی تعریف کی.حضور کا مسجد فضل لندن کا سنگ بنیا د رکھنا مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد حضور نے ۱۹ / اکتوبر ۱۹۲۴ء کو رکھا.جس سے پہلے حضور نے ایک مضمون

Page 348

۳۳۳ پڑھا جس میں مسجد کی غرض و غایت اسلامی نقطہ نگاہ سے بیان کی تھی.اور بتایا تھا کہ مسجد صرف اور صرف عبادت الہی کے لئے بنائی جاتی ہے.تاکہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہوا اور لوگ مذہب کی طرف متوجہ ہوں جس کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں ہو سکتی.ہم کسی شخص کو اس میں عبادت الہی سے ہرگز نہیں روکیں گے.مجھے یقین ہے کہ رواداری کی یہ روح جو اس مسجد کے ذریعہ سے پیدا کی جائے گی دنیا سے فتنہ وفساد دور کرنے اور امن و امان کے قیام میں بہت مدد دے گی.اس کے بعد حضور نے بنیادی پتھر رکھا.جس پر یہ مضمون انگریزی میں درج تھا کہ میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی امام جماعت احمد یہ خدا کی رضا کے حصول کے لئے اور اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پائیں جو ہمیں ملی ہے ، آج اس مسجد کی بنیا د رکھتا ہوں.اور دعا کرتا ہوں کہ وہ جماعت احمدیہ کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے.اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لئے اس مسجد کو نیکی.تقویٰ.انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے.اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نا ئب محمد علیهما الصلوۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لئے روحانی سورج کا کام دے.اے خدا! تو ایسا ہی کر.بنیا د رکھی جانے کے بعد جماعت احمد یہ ہندوستان کی طرف سے حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ارسال کردہ تار مبارکبادی کا مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے سنایا.پھر حضور نے لمبی دعا کی.اور اسی مقام پر نماز عصر پڑھی.بعد ازاں حاضرین نے چائے نوش کی.جو مختلف اقوام و مذاہب کے افراد اور متعددحکومتوں کے نمائندگان پر مشتمل دوسو کی تعداد میں تھی.بہت سے اخبارات نے اس اہم تقریب پر نوٹ لکھے.ساحل انگلستان پر ولیم فاتح کے اترنے کے مقام پر عالم ربودگی میں حضور کی دعائیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو ایک رویا میں دکھایا گیا کہ وہ سمندر کے کنارے ایک مقام پر اترے ہیں اور انہوں نے لکڑی کے ایک کندے پر پاؤں رکھ کر ایک بہادر اور کامیاب جرنیل کی طرح چاروں

Page 349

۳۳۴ طرف نظر کی ہے.اور آواز آئی کہ ولیم دی کانکرر.“ بھائی جی اور مولانا در دصاحب کو حضور کی رفاقت کا ایک نہایت مبارک موقعہ نصیب ہوا.جبکہ اس رویا کے پورا کرنے کے لئے آپ ۲ اکتو بر ۱۹۲۴ء کو صبح دس بجے ہر دو صاحبان اور خالد شیلڈرک کو لے کر السٹ لورن سٹیشن پر جا کر اترے.وہاں سے ایک گھوڑا گاڑی لے کر ساڑھے چار میل کے فاصلہ پر بمقام پیونسی-PEUNSI.پہنچے اور ہوٹل میں قیام کیا.کھانا کھا کر خالد شیلڈرک سے انگلستان کے حالات حاضرہ پر بہت دیر تک گفتگو فرماتے رہے اور پھر وہاں سے خلیج پیونسی کے کنارے پہنچے.اور ایک کشتی لے کر اس مقام کی طرف چلے جہاں ولیم دی کا نکر اترا تھا.کشتی کو چھوڑ کر آپ قریب ہی ایک مقام پر جس کا نام الیکرسی ( لنگر گاہ) ہے کھڑے ہوئے.گویا وہاں اترے.اور اسی شکل و ہیئت میں ایک لکڑی پر جو ایک کشتی کی تھی دایاں پاؤں رکھ کر ایک فاتح جرنیل کی طرح آپ نے چاروں طرف نظر کی.بھائی جی بیان کرتے ہیں کہ کہ اس وقت آپ کے چہرہ پر جلال اور شوکت تھی اور ر بودگی بھی.پھر آپ نے خاموشی کے ساتھ دعا کی.اس مقام کے پاس ہی ویلٹا ئیمین نام ایک برج سا ہے جس پر ایک توپ بھی رکھی ہوئی ہے.پھر آپ نے نماز قصر کر کے پڑھی اور اس میں لمبی دعا کی.اور زمین پر اکڑوں بیٹھ کر پتھر کے سنگریزوں کی مٹھیاں بھریں.اور فرمایا کہ ایران کے دربار میں ایک صحابی کو مٹی دی گئی تو اس صحابی نے مبارک فال لی کہ کسری کا ملک مل گیا اور لے کر رخصت ہوا.پھر دربار کسری کو وہم شروع ہوا اور آدمی بھیجے کہ وہ مٹی واپس لے آئیں.مگر صحابی نے واپس نہ کی اور اس نیک مبارک فال پر اللہ تعالیٰ نے وہ سرزمین صحابہ کو دے دی.” بھائی جی اور در دصاحب نے ان سنگریزوں کی دو دو مٹھیاں بھر کر جیب میں ڈال لیں.حضرت اس وقت بھی دعا میں ہی گویا مصروف تھے.اس مقام پر آپ نے کیا دعائیں کیں گو ان کی تفصیل معلوم نہیں.لیکن صاف ظاہر ہے کہ سلسلہ کی آئندہ عظمت وشان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلال کے واحد ذریعہ احمدیت کی کامیابی کی دعائیں تھیں جن کی قبولیت میں احمدیت کا مستقبل مخفی ہے.“ بھائی جی کہتے ہیں کہ جب حضرت اس سے فارغ ہوئے تو میرے دل میں ایک پُر زور تحریک ہوئی.اور میں نے بہ آواز بلند حضور کو مبارکباد دی اور بہت جوش سے دو تین بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مصرع پڑھاع وہ سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں

Page 350

۳۳۵ حضرت اس وقت ایک ربودگی کے عالم میں کھڑے تھے اور وہ محسوس کرتے تھے کہ وہ دعا میں مصروف ہیں.غرض یہ مختصر سا سفر خاص کیفیت اپنے اندر رکھتا تھا.شام کو سات بجے کے قریب حضور واپس آئے.اور قریباً بارہ بجے تک باہر سے آئے ہوئے احباب سے مصروف کلام رہے.حضور کا مسجد فضل میں اولین جمعہ پڑھانا حضور نے مسجد فضل میں ۲۴/اکتوبر کو پہلا جمعہ پڑھایا.ابھی محراب کی چھوٹی سی دیواریں ہی کھڑی الفضل جلد ۱۲ نمبر ۵۷ بابت ۲۰ / نومبر ۱۹۲۴ء (صفحه ۵) والحکم بابت ۲۱ نومبر ( صفحہ ۷،۵ ) الحکم میں بہت اختصار ہے اور بعض خلا بھی ہیں مثلاً اس مصرع وو وہ سچے وعدوں والا، ہمنکر کہاں کدھر ہیں“ اور احمد یہ مرکزی لائبریری قادیان کی ایک جلد میں جس کا لائبریری نمبر ۲۰۹۹۶ ہے یہ مصرع حضرت بھائی جی نے اپنی قلم سے تحریر کیا ہوا ہے.الحکم میں شائع شدہ بیان سُن کر بھائی جی نے فرمایا تھا کہ یہ سنگریزے ملی ہوئی ریت تھی.(اضافه بوقت طبع دوم ) بابت ولیم دی کا نکرر : شاہ ولیم اول ( ۱۰۲۸ ء - ۱۰۸۷ء) کے والد رابرٹ اول ڈیوک آف نارمنڈی (فرانس) نے اپنی ایک قسم کو پورا کرنے کے لئے زیارت ارض مقدسہ کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے ماتحت روساء سے حلف لیا کہ اگر اس کی وفات ہو جائے تو وہ اس کے سات سالہ) بیٹے ولیم کے وفادار ہیں.ولیم نہایت زیرک اور جفا کش نوجوان تھا.اس نے اپنے آپ کو اس وقت کے فرانس کا طاقتور فیوڈل لارڈ بنا لیا.اٹھائیس سال کی عمر میں اس نے صوبہ MAINE کو فتح کر کے اپنی ریاست کو خوب وسیع کر لیا.شاہ ایڈورڈ (THE CONFESSOR) نے ولیم سے تخت انگلستان کا وعدہ کیا جو پورا نہ کیا.ولیم نے بعمر قریباً اٹھتیس سال انگلستان بلکہ زیادہ تر دنیا کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کر ڈالا.اور اکتوبر ۱۰۶۶ء میں ہینگر کی جنگ میں انگلستان کو شکست دی اور تین سال کے اندر انگلستان میں اپنی حکومت کو مستحکم کر لیا.اور وہاں امن و امان قائم کر دیا.اور اس کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں نے انگلستان کی دنیوی اور مذہبی زندگی کو بدل ڈالا.۱۹۴

Page 351

۳۳۶ تھیں اور فرش بچھایا گیا تھا.خطبہ میں حضور نے بیان کیا کہ قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے کہ انبیاء نے مشکلات اور غیر موافق حالات میں بتایا کہ وہ کامیاب ہوں گے اور ایسا ہی ہوا.اسی طرح حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کی خبر دور اول میں دی گئی تھی جو پوری ہوئی.پھر یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ مسلمانوں کے زوال کے بعد پھر اسلام ترقی کرے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ وہ بیج بویا گیا.تمام قوموں اور حکومتوں نے اسکے تباہ کرنے کی کوشش کی.مگر وہ بڑھا اور پھولا.اور اب وقت آ رہا ہے کہ اس کے لذیذ اور شیریں اثمار اسلام کے کامل غلبہ کے آثار پیدا کر دیں.مغرب کا رجوع اس طرف ہو رہا ہے اور جن مسائل پر اہل مغرب کو اعتراض تھا اب خود ان کے نزدیک مسائل اسلام قابل قبول ہور ہے ہیں.سو ہمارا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں بوئے گئے بیچ سے جو درخت نکل رہا ہے اس کی غور و پرداخت کریں.اس اولین جمعہ میں معدودے چند افراد تھے.جن میں وفد میں شامل محترم بھائی عبدالرحمن صاحب بھی شامل تھے.۱۱۹۵ ۱- فتح انگلستان کی بنیا درکھ دی گئی ہے مراجعت سے پہلے حضور کا اظہار لندن سے روانگی سے پہلے حضور نے ایک مکتوب میں رقم فرمایا کہ ”میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے.آسمان پر اس کی فتح کی بنیا درکھ دی گئی ہے.اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہو جائے گا.دشمن ہنسے گا اور کہے گا (کہ) یہ بے ثبوت دعوئی تو ہر ایک کر سکتا ہے.مگر اس کو ہنسنے دو.کیونکہ وہ اندھا ہے اور حقیقت کو نہیں دیکھ سکتا.-۱۵ لندن سے مراجعت.فرانس میں تبلیغ اور سر کاری نو تعمیر شدہ مسجد میں حضور کا اولین نماز پڑھانا لندن کے واٹر لوسٹیشن سے ۲۵ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو قافلہ کا سفر مراجعت شروع ہوا.یورپین مردوزن او ہندوستانی اور افریقین لوگوں نے حضور کو الوداع کہا.ساؤتھ ٹین سے قافلہ نے جہاز پر رود بار انگلستان کو عبور کیا اور پیرس پہنچا.جہاں کئی روز کے قیام میں تبلیغ کا خوب موقعہ ملا.نمائندگان اخبارات.ایڈیٹر

Page 352

۳۳۷ لی جنرل سیکرٹری مسلم کمیونٹی اور ایک ممتاز الجیرین مسلم لیڈر ( ممبر سپریم کونسل ) نے حضور سے ملاقاتیں کیں.حضور نے اپنے ساتھیوں کو تین حصوں میں تقسیم کر کے تبلیغ کرنے کے لئے ہدایات دیں.لارڈ کر یو برطانوی وزیر سے ملاقات میں حضور نے ہندوستان کے حالات حاضرہ کے بارے گفتگو کی.وہاں کی سرکاری نو تعمیر شدہ مسجد میں پہلی نماز حضور نے پڑھائی.۱۹۷ ۱۶ - بمبئی میں استقبال مفتی محمد صادق صاحب کا ایڈریس پیش کرنا گاندھی جی سے امن و آزادی کے بارے ملاقات.بٹالہ تک جماعتوں کی ملاقاتیں حضور کا قافلہ پیرس سے وینس (اٹلی) پہنچا.جہاں سے بحری جہاز کے ذریعہ ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بمبئی پہنچا.ابھی جہاز دور ہی تھا کہ حضور نے دور بین کے ذریعہ ساحل پر منتظر احباب کو پہچان کر ان کے نام لینے شروع کئے.احباب ساحل پر بے قرار تھے.ان کی بیقراری اس وقت دور ہوئی جب چودھری علی محمد صاحب نے تختہ جہاز سے سبز جھنڈا ہلایا.اور انہیں حضور کی تشریف آوری کا یقین ہو گیا.دوسو احباب نے نہایت گرمجوشی سے حضور کا استقبال کیا جو رنگون.مالا بار.کراچی.پشاور.پنجاب.بنگال.بہار.یوپی اور سی پی سے آئے تھے.حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے ساری جماعت ہند کی طرف سے حضور کی خدمت میں خیر مقدم کا ایڈریس پیش کیا.اس وقت اور بعد میں نمائندگان اخبارات نے سفر یورپ کے بارے حضور سے انٹرویو لئے.حضور کا قیام نواب سید محمد رضوی صاحب کے ہاں ہوا.جن سے سارے قافلہ کو ہر طرح آرام ملا.یہاں گاندھی جی سے علی برادران اور مولانا آزاد کی موجودگی میں حضور کی ملاقات ہوئی جس میں ہندوستان کے امن و آزادی اور ہندو مسلم اتحاد کے بارے گفتگو ہوئی.حضور ۲۱ نومبر کو آگرہ پہنچے.وہاں یو.پی کی جماعتوں کے ایک سو نمائندے اور بعض رؤساء اور چالیس پنجابی غیر از جماعت افراد نے حضور کا استقبال کیا.مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی فاضل نے مجاہدین ملکانہ اور جماعت احمدیہ آگرہ کی طرف سے ایڈریس پیش کیا.حضور تبلیغ ملکانہ کے مشہور تاریخی مقام ساندھن تشریف لے گئے.وہاں ایڈریس پیش کیا گیا.بیعت ہوئی.وہاں سے اچھنیر ہ اسٹیشن کے ذریعہ متھرا پہنچ کر قافلہ اسی رات دہلی پہنچا.

Page 353

۳۳۸ دہلی کے اسٹیشن پر بہت سی جماعتیں آئی ہوئی تھیں.وہاں چلنے کو راستہ نہ ملتا تھا.دہلی اور شملہ کی جماعتوں نے ایڈریس پیش کیا.۲۳ نومبر کی صبح کو دہلی سے براستہ انبالہ روانگی ہوئی.وہاں کی جماعتیں ملاقات کے لئے آئیں.بعض جگہ اردگرد کے علاقہ کی جماعتیں موجود تھیں.امرتسر اسٹیشن پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی.جماعت احمدیہ کا مبارکباد اور خیر مقدم کا بلند جھنڈا لہرا رہا تھا.قائم مقام امیر جماعت احمدیہ لا ہو ر حضرت قریشی محمد حسین صاحب نے ایڈریس پڑھا.ابجے رات ٹرین بٹالہ پہنچی.جماعت قادیان کی طرف سے استقبال کا انتظام تھا.بٹالہ اور ضلع گورداسپور کے احباب بھی موجود تھے.حضور نے رات بٹالہ میں قیام فرمایا.وہاں سے حضور کا قافلہ ۲۴ نومبر کی صبح کو سات بجے موٹر پر روانہ ہو کر آٹھ بجے قادیان کے موڑ پر پہنچا.۱۷- قادیان میں استقبال اور دعائیں ۲۴ نومبر کو سورج نکلنے سے پہلے قادیان اور بیرون کے مردوزن.بچے.بوڑھے قادیان بٹالہ کے مقام اتصال پر جمع ہونے لگے.کوئیں کے پاس کھیت میں شامیانے لگائے گئے.قطعات اور جھنڈیاں لگا کے سجایا گیا.فرش اور بینچ بیٹھنے کے لئے بچھائے گئے تھے.سڑک پر ایک دروازہ بنایا گیا جس پر اھلاو سهلاً ومرحبا اور دیگر قطعات آویزاں تھے.احباب کو سڑک سے شامیانوں تک کھڑا کیا گیا تھا.سب سے آگے حضرت مولوی شیر علی صاحب (امیر جماعت احمد یہ ہند ) حضرت میر محمد اسحق صاحب اور خاندان حضرت اقدس علیہ السلام کے نونہالان کھڑے تھے.کچھ فاصلہ پر موٹر کی اور حضور نے کہلا بھیجا کہ ہر ایک شخص اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرار ہے.آہستہ آہستہ موٹر چلی.چوہدری علی محمد صاحب نے سبز جھنڈا پکڑا ہوا تھا.مجمع سے تھوڑی دور حضور موٹر سے اتر پڑے.حضور کے رفقاء دو قطاروں میں حضور کے پیچھے تھے.دروازہ کے پاس حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مصافحہ کیا اور ہار ڈالا.پھر حضرت میر صاحب نے مصافحہ اور معانقہ کیا.حضور نے خاندان حضرت اقدس علیہ السلام کے بچوں کو پیار کیا.دو ہزار احباب نے حضور سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.غیر از جماعت.آریہ سماجیوں ہندوؤں اور قادیان اور ارد گرد دیہات کے سکھوں اور ادنیٰ کہلانے والی اقوام کے افراد نے بھی.ضعیف اور بیمار افراد بھی ملاقات کیلئے پہنچے ہوئے تھے.سب کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب سے حضور نے معانقہ کیا.

Page 354

۳۳۹ پھر حضور نے مجمع کے ساتھ دعا کی اور فرمایا کہ اب میں پیدل ہی قادیان جاؤں گا.لیکن قادیان داخل ہونے سے پہلے میں مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جا کر دعا کروں گا اور ( نانا جان ) حضرت میر ناصر نواب صاحب کا جنازہ بھی پڑھنا ہے.صرف میرے ہم سفر میرے ساتھ جائیں گے.پھر ہم مسجد مبارک میں نماز پڑھیں گے.جو احباب ہمیں مکان تک چھوڑنے جانے کی خواہش رکھتے ہیں وہ احمد یہ چوک میں ٹھہرے رہیں.نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کر دیئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام آج پورا ہورہا ہے.درحقیقت وہ الہام کئی واقعات کے متعلق ہے جو آپ کے ایک بیٹے سے تعلق رکھتے ہیں.اس کے کئی نشان آپ نے بیان فرمائے ہیں مثلاً یہ کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.اس ذکر میں یہ بھی الہام ہے کہ دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ اوور یہ اس طرح پورا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور منشاء کے ماتحت بغیر خیال وارادہ کے ہمیں دوشنبہ کے دن یہاں پہنچنے کا موقعہ ملا ہے.اس پر احباب نے اللہ اکبر کے نعرے بلند کئے.حضور مع رفقاء ایک حلقہ میں پیدل قادیان کی طرف روانہ ہوئے منتظمین نے یہ اچھا کام کیا تھا کہ ایک روز پہلے سڑک پر پانی چھڑکوا دیا تھا.حضور نے قصبہ کے قریب پہنچ کر فرمایا کہ اب ہم بہشتی مقبرہ کی طرف جاتے ہیں.احباب مسجد (مبارک) کے پاس گلی اور چوک میں ٹھہریں.ہم وہاں آکر مل جائیں گے.اس پر چودھری فضل احمد خاں صاحب نے جو ہجوم کے اگلے حصہ کے منتظم تھے مجمع کی ترجمانی میں عرض کیا کہ ہم حضور کو لانے کے لئے گھروں سے نکلے ہیں اجازت دی جائے کہ ہم اسی جگہ ٹھہر میں اور حضور کو ساتھ لے کر شہر میں داخل ہوں.حضور نے منظور فرمایا.کہ ہم بہشتی مقبرہ سے ہوکر یہیں آکر مل جائیں گے.چنانچہ حضور رفقاء سمیت کھیتوں میں سے گذر کر بہشتی مقبرہ کی طرف چلے گئے.مجمع سے الگ ہو کر حضور نے الفضل کا خیر مقدم نمبر دیکھنا شروع کیا جو مصافحہ کے وقت پیش کیا گیا تھا.اور فرمایا ” دوشنبہ مبارک دوشنبہ کا الہام تو الفضل نے پہلے ہی پیش کر دیا ہے.نیز فرمایا کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ جلد سے جلد قادیان پہنچیں.اور دینیس سے اطلاع بھی دے دی تھی کہ میں راستہ میں کسی جگہ ٹھہر نا نہیں چاہتا.صرف یہ خیال تھا کہ اگر گاندھی جی بمبئی یا اس کے قریب ہوں تو ان سے مل لوں گا.بمبئی آکر معلوم ہوا کہ وہ ۲۰ نومبر کو آرہے ہیں اس لئے ٹھہر نا پڑا.پھر ساندھن سے

Page 355

۳۴۰ دعوت عدن پہنچی.وہاں بھی جانا پڑا.باغ ( متصل بہشتی مقبرہ) میں پہنچ کر حضور نے ہارا تار دیئے اور مقبرہ بہشتی کے کوئیں سے آپ نے مٹی کے لوٹے سے پانی پیا اور وضو کیا.پہلے مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آپ نے اکیلے دعا کی.پھر اپنے رفقاء کو بلا کر سب نے مل کر دعا کی.پھر حضور نے حضرت میر ناصر نواب صاحب کی قبر پر کھڑے ہوکر نماز جنازہ پڑھی.پھر حضرت چوہدری فتح محمد خاں صاحب کے گھر سے چائے آئی اور حضور نے ان کے مکان کے دروازہ پر کھڑے کھڑے نوش فرمائی.پھر حضور مجمع میں پہنچے اور قصبہ میں داخل ہوتے وقت آپ کے ارشاد پر حضرت حافظ روشن علی صاحب نے شہر میں داخل ہونے کی دعا پڑھی اور سب احباب اسے بلند آواز سے پڑھتے رہے.مہمان خانہ کے قریب مہتم لنگر خانہ حضرت میر محمد اسحق صاحب نے لنگر خانہ حضرت مسیح موعود کی طرف سے خیر مقدم کیا.جو نظارہ انہوں نے پیش کیا اس سے میر صاحب بھی خوشی کے آنسو روئے اور دوسروں کو بھی رلایا.ایک دروازہ بنایا گیا جس کے دونوں ستون برتنوں کے تھے.اور ہار مرچوں وغیرہ کے.دروازہ پر مٹی کے آبخوروں سے انگریزی میں ویلکم (Welcome ) اور نیچے جلی قلم سے کپڑے پر لکھ کر آویزاں تھا حضور اور حضور کے رفقاء کی اس وقت کی دعوت خاکسار کے ہاں ہے.خاکسار لنگر خانہ حضرت مسیح موعود حضور اس دروازہ کے پاس کھڑے ہو گئے اور اس وقت دعائیہ کلمات ( یعنی واپسی کی دعا) آئبون تائبون عابدون لربنا حامدون_صدق الله وعده ونصر عبده و هزم الاحزاب وحده نہایت بلند آواز سے کہے جانے لگے.اور آواز میں رفت پیدا ہوگئی.تھوڑی دور آگے لنگر خانہ کی طرف ایک اور دروازہ تھا جس پر لکھا ہوا تھا.یہ نان تمہارے لئے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے.اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود کے اس کشف کے ظاہری نظارہ کو دیکھنے والوں کے آنسو رواں ہو گئے.تریاق القلوب میں مرقوم ہے کہ عرصہ قریبأستائیس برس کا گذرا ہے کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک وسیع جگہ میں ہوں.اور وہاں ایک چبوترہ ہے کہ جو متوسط قد کے انسان کی کمر تک اونچا ہے.اور چبوترہ پر ایک لڑکا بیٹھا ملا جس کی عمر چار پانچ برس کی ہوگی اور وہ لڑکا نہایت خوبصورت ہے.اور چہرہ اس کا چمکتا ہے.اور اس کے چہرہ پر ایک

Page 356

۳۴۱ ایسا نو ر اور پاکیزگی کا رعب ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان نہیں ہے.اور معاد یکھتے ہی میرے دل میں گذرا کہ وہ فرشتہ ہے.تب میں اس کے نزدیک گیا.اور اس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو پاکیزگی اور صفائی میں کبھی میں نے دنیا میں نہیں دیکھا اور وہ نان تازہ بتازہ تھا اور چمک رہا تھا.فرشتہ نے وہ نان مجھ کو دیا اور کہا یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے.ایک نہایت خوبصورت اور چمکتا ہوا نان طشت میں رکھ کر حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب کے صاحبزادہ میاں عباس احمد کی طرف سے جو کمر تک اونچے چبوترے پر بٹھائے گئے حضرت میر محمد الحق صاحب نے با چشم پر نم یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ.دو ” یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے“ اس خوبصورت لڑکے کی طرف سے.اس وقت اور بہت سوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے.حضور نے وہ نان اٹھا لیا اور اپنے رفقاء میں جو پاس تھے تقسیم کر کے باقیوں کے لئے رکھ لیا.جلوس پھر بلند آواز سے دعا پڑھتا ہوا آگے بڑھا.مدرسہ احمدیہ کے دروازوں اور احمد یہ بازار کی دکانوں میں سجاوٹ تھی.قطعات آویزاں تھے.احمد یہ چوک تک حضور خود بلند آواز سے الفاظ کہتے اور سارا ہجوم انہیں دہراتا.احمد یہ چوک میں کھڑے ہو کر سارے مجمع کے ساتھ دعا پڑھی.اس وقت کا نظارہ نہایت ہی رقت آمیز اور موثر تھا.حضور کی آواز میں رقت اور آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے.احباب پھوٹ پھوٹ کر رور ہے تھے اور بعض کی چھینیں نکل رہی تھی.اس رفت خیز حالت میں حضور نے ڈبڈبائی آنکھوں اور دردناک لہجہ میں چند الفاظ فرمائے کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا کیسی لطیف ہے.جس کا نظارہ آج ہم دیکھ رہے ہیں.یہی جگہ.یہی مقام اور یہی گھر ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعوی کیا تو آپ اکیلے اور تن تنہا تھے.کوئی ساتھی اور کوئی مددگار نہ تھا.اس وقت چاروں طرف سے آوازیں آئیں کہ نعوذ باللہ یہ فریبی ہے.یہ جھوٹا ہے.دغا باز ہے.اور دشمن کہتے کہ ہم اسے کیڑے کی طرح مسل دیں گے.لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق آپ کی تائید اور نصرت کی.اور آج اسی کمند کے جکڑے ہوئے ہم اس قدر لوگ یہاں جمع ہیں.آپ ہی کے طفیل ہمیں خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں فتح دی.اسی کے ذریعہ اور اسی کے وعدوں کے مطابق خدا تعالیٰ نے ہمیں وہ عزتیں دیں.جو درحقیقت اسی کے لئے آئیں اور خدا تعالیٰ نے ہمیں ان انعامات کا وارث بنایا جن کا وعدہ آپ سے کیا گیا.اور اگر حقیقت اور سچائی کو

Page 357

۳۴۲ مدنظر رکھا جائے تو سچ یہ ہے کہ ساری بڑائیاں حضرت مسیح موعود کے لئے ہیں.محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے لئے ہیں.مسجد مبارک کے نیچے ایک دروازہ بنا کر سجایا گیا تھا.حضور مع رفقاء اس میں سے گذر کر مسقف گلی کے رستہ مسجد مبارک میں تشریف لے گئے.اس مسجد مبارک کے ابتدائی حصہ میں حضور نے دو نفل باجماعت پڑھائے.پھر حضور نے مسجد مبارک کے دروازے پر کھڑے ہو کر احمد یہ چوک کی طرف جھانکا اور مجمع کو السلام علیکم کہا.جوابا مجمع کی طرف سے السلام علیکم ورحمته الله وبركاته رکاته کانعرہ بلند ہوا.اور پھر حضور نے فرمایا.اب ہم گھر جاتے ہیں.اور آپ نے دارا مسیح میں داخل ہوتے وقت اپنے رفقائے سفر سے کہا کہ میں اندر جا کر حضرت ام المومنین کو اطلاع دیتا ہوں.آپ یہاں کھڑے رہیں.چنانچہ حضرت اُم المؤمنین دروازے کے پاس تشریف لائیں اور سب نے السلام علیکم اور مبارکباد عرض کی.اور پھر سب اپنے اپنے گھر چلے گئے.لنگر خانہ کی طرف سے صبح ہی ہر ایک گھر میں کھانا بھجوا دیا گیا تھا.موڑ پر استقبال میں طلبائے مدرسہ احمدیہ میں خاکسار مؤلف بھی شامل تھا.جس کی عمر پونے بارہ سال کی تھی اور کوئیں کے پاس جو سڑک کے شمال کی طرف ہے.وفد سے خاکسار نے بھی ملاقات کی تھی.اور ایک روز پہلے جو کچی سڑک پر پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا تھا.اور طلباء اور دیگر احباب نے کام کیا تھا.طلباء میں خاکسار بھی شامل تھا.-1 ۲ - الفضل میں درج ہے کہ ابتدائی قافلہ سفر یورپ کے علاوہ بھی چند احباب نے باجماعت نفل میں شرکت کی تھی ان میں حضرت بھائی جی کے فرزند مہتہ عبد القادر صاحب بھی شامل تھے.محترم چوہدری فضل احمد خاں صاحب مرحوم ساکن سروعہ ضلع ہوشیار پور تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ٹیچر تھے.اور حضرت چوہدری چھجو خاں صاحب مرحوم کے بھائی.۱۸- اہالیان قادیان کا سپاسنامه مسجد اقصیٰ میں حضور نے نماز عصر پڑھائی.پھر اہالیان قادیان کی طرف سے سپاسنامہ پیش کیا گیا.حضور مع رفقاء کرسیوں پر جلوہ افروز ہوئے.سب کو ہار پہنائے گئے.رفقاء کو بھی ”الفضل خیر مقدم نمبر دیا گیا.

Page 358

۳۴۳ تلاوت قرآن مجید کے بعد حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی نظمیں جو الفضل خیر مقدم نمبر میں شائع ہوئی تھیں علی الترتیب ملک عبد العزیز صاحب طالبعلم مدرسه احمدیہ اور سید عبدالغفور صاحب ابن محترم میر مہدی حسن صاحب نے خوش الحانی سے پڑھیں.پھر حضرت مولوی شیر علی صاحب نے سپاسنامہ پڑھا.اور حضور نے حالات سفر کے بارے مفصل تقریر فرمائی.۱۹ بزرگان وصدر انجمن احمد یہ وادارہ جات کی طرف سے سپاسنامے اساتذہ وطلبائے مدرسہ احمدیہ و تعلیم الاسلام ہائی سکول.دونوں مدارس کے اولڈ بوائز.صیغہ جات صدرانجمن احمدیہ و نظارت دکانداران قادیان اہالیان محلہ دارالفضل.پریس قادیان.طلبائے سماٹرا.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب.واقفین زندگی.ساکنان محلہ دارالرحمت.حضرت مفتی محمد صادق صاحب.احمد یہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور اور احمدی افغانان کا بل مقیم قادیان کی طرف سے حضور کو مع رفقاء مدعو کر کے سپاسنامے پیش کیے گئے.اور حضور نے ہر موقعہ پر جوا با سفر یورپ کے ایمان افزا حالات بیان فرمائے.اور جماعت کو ان کے فرائض سے آگاہ کیا.اولڈ بوائز تعلیم الاسلام سکول کی طرف سے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی دارالسلام کے باغ میں گارڈن پارٹی دی گئی.انگریزی زبان کے ایڈریس کے جواب میں حضور نے ایک گھنٹہ تک روانی سے انگریزی میں جواب دیا.مزید تقریر نماز مغرب کے قرب کی وجہ سے جاری نہ رکھی گئی.-۲۰ بھائی جی کے مکان پر نو مسلموں کی طرف سے سپاسنامہ ۲۷ نومبر ۱۹۲۴ء کو قادیان کے نومسلم طبقہ کی طرف سے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے مکان پر دعوت چائے دی گئی.تلاوت ونظم کے بعد مہاشہ محمد عمر صاحب نے ہندی میں ایڈریس پڑھا.جس ملک عبدالعزیز صاحب ( ابن حضرت ملک غلام حسین صاحب باورچی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) نے مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پائی اور مولوی فاضل کیا.پھر طویل عرصہ نیروبی ( کینیا کالونی.مشرقی افریقہ ) میں بسلسلہ ملازمت مقیم رہے.ان علاقوں کی آزادی کے بعد دیگر ہندوستانی لوگوں کی طرح انگلستان منتقل وگئے.جہاں آپ نے دینی تعلیم کا کام ممتاز طور پر کیا.چند سال پہلے آپ نے وفات پائی.آپ کی جنوری ۱۹۴۰ء کی چٹھی میں درج ہے کہ ایک عزیز کی تعلیم کے لئے گیارہ سو روپیہ قرض لیا گیا تھا.ہو

Page 359

۳۴۴ میں ہنود میں تبلیغ اسلام کرنے کی بھی درخواست کی گئی.حضور نے جواب میں تقریر فرمائی اور تبلیغ کے اس پہلو پر بھی توجہ کرنے کا وعدہ فرمایا.۲۰۴ ۲۱- حضرت بھائی جی کی ڈائریوں کی مقبولیت سفر یورپ ۱۹۲۴ء کے بارے میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں کہ: مجھے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا اور سعادت وعزت میسر آئی.ڈائری نویسی میرا فرض منصبی نہ تھا.بلکہ محض شوق ذاتی کی وجہ سے اور احباب تک ان کے محبوب کے بعض حالات پہنچانے کی سعی میں کچھ لکھتا رہتا تھا.جو ابتداء اپنے بڑے لڑکے عزیز عبد القادر کے نام بھیجتا تھا.مگر جب میرا لکھا ہوا پہلا خط ہی قادیان پہنچا اور وہ عزیز نے بعض احباب اور بزرگوں کو بھی دکھایا تو قادیان سے تقاضا ہوا اور امیر صاحب جماعت قادیان کی طرف سے حکم پہنچا کہ میں ایسے خطوط براہ راست ان کی خدمت میں بھیجا کروں.تا کہ تمام دوست اپنے مقدس و محبوب آقا کے حالات سے مستفیض ہوسکیں اور کہ میرے خطوط جب پہنچتے ہیں تو باقاعدہ اعلان کر کے احباب کو جمع کر کے مجمع عام میں سنانے کا انتظام کیا گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ میں نے لندن دیکھا ہی نہیں کہ ہے کدھر اور ہے کیسا کیونکہ میں اپنی ڈیوٹی سے وقت بچا کر ڈائری لکھنے اور پہنچانے ہی میں سارا سرور اور ساری لذت محسوس کیا کرتا تھا.کیونکہ یہ حس خدا تعالیٰ نے خاص طور سے ودیعت فرما رکھی ہے کہ اپنے محبوب آقا کی جدائی کا صدمہ میرے لئے نا قابل برا دشت ہوا کرتا ہے سو اسی حس کی وجہ سے میں اپنے بھائیوں کی تڑپ اور پیاس کا اندازہ کر کے یہ خدمت بجالایا کرتا تھا.سوحضور کی معیت میں اگر کہیں جانے کا موقعہ مل گیا تو گیا مگر چلتے ہوئے بھی عمارتوں، بازاروں اور بلند و بالا ایوانوں کی بجائے میری نظر اور میرا دھیان کاغذ اور اس کی تحریر ہی پر ہوا کرتا تھا.افسوس ہے کہ بعض ڈائریاں تقسیم ملک کی نذر ہو گئیں.( تحریر ۳ نومبر ۱۹۴۶ء) ان ڈائریوں کی مقبولیت کے بارے میں خاکسار اپنی مؤلفہ کتاب ”سفر یورپ طبع اول مطبوعه دسمبر ۱۹۵۶ء ( صفحہ ۴ تا ۵ ) سے بعض بزرگوں کے خطوط کے چندا قتباسات پیش کرتا ہے: ۱- منجانب حضرت مولوی شیر علی صاحب ( جو سارے ہندوستان کے اس وقت امیر تھے ): ”آپ کی ڈائریاں اور خط پہنچے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزائے خیر دے.لوگ بڑے شوق سے

Page 360

۳۴۵ آپ کی ڈائریوں کا انتظار کرتے ہیں.اور ڈاک کے آنے کے دن اول تو دفتر میں بہت سے لوگ جمع ہو جاتے ہیں سننے کیلئے.اس کے بعد آپ کے خطوط اور حضرت صاحب کے مضامین مسجد اقصیٰ میں بعد عصر سنائے جاتے ہیں.آپ کی اس مبارک سفر میں شرکت پر آپ کو مبارکباد عرض کرتا ہوں.آپ سے دعاؤں کی درخواست کرتا ہوں.“ ( مرقومہ ۷ اکتوبر ۱۹۶۴ء) ۲- حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: آپ کا خط مجھے بھی باقاعدہ ملتا ہے.اس کا شکریہ علاوہ ڈائری کے ہے“.( رقم کر دہ ۱۷۱۴ کتوبر ۱۹۶۴ء) ایک شہادت کیلئے آپ جہلم گئے تھے وہاں سے تحریر فرمایا : ” آپ کی ڈائری اور خط پہنچا.جزاکم اللہ.یہ خط عدن میں آپ کو ملے گا.پورٹ سعید بلکہ جہاز پر سوار ہوتے ہی غالبا آپ کو ڈاک بھیجنی بند کرنی پڑے گی.کیونکہ آپ بھی قریباً ڈاک کے ساتھ ساتھ ہی آئیں گے.اور ہمیں آپ کے قادیان آنے سے پہلے ۲۰ / اکتو بر ( ا ) ۱۷ رنومبر کی ڈاک مل سکتی ہے....چونکہ سفر کے سارے حالات معلوم ہونے ضروری ہیں اس لئے عدن سے بعد کے جو حالات ہوں آپ ان کی ڈائری بناتے جائیں وہ بمبئی اور قادیان میں آپ سے دستی لے کر پڑھی جائیں گی.یہ نہ خیال فرماویں کہ چونکہ اب ڈائری نہیں پہنچ سکتی اور ہم خود سنا دیں گے اس لئے لکھنا فضول ہے.پس ضرور تمام سفر کے حالات آخر تک مرتب فرما دیں.آپ کی محنت کے ہم سب مشکور ہیں.اللہ تعالیٰ آپ پر راضی ہو اور آپ اس سے راضی ہوں ہم تو یہاں پر اہل قافلہ میں سے ) ہر ایک کے لئے نام بنام دعا کرتے ہی رہتے ہیں...( محرره بتاریخ ۲۳ را کتوبر ۱۹۶۴ء) ۳- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۲۶ اکتوبر کو رقم فرماتے ہیں: آپ کی ڈائریاں قادیان میں جس شوق سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں اس کی اطلاع آپ تک پہنچ چکی ہوگی.واقعی آپ نے یہ خدمت سرانجام دے کر قادیان والوں بلکہ تمام جماعت پر ایک بڑا احسان کیا ہے.جزاک اللہ...احباب کی ایک اور خدمت بھی حضرت بھائی جی نے کی کہ جن احباب نے حضور کی خدمت میں دعاؤں کے لئے رقعہ جات دیئے تھے.حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے آپ نے ان کی فہرست تھے.حضور کی خدمت مرتب کر لی تھی.

Page 361

۳۴۶ ۲۲- انگلستان کی فتح کی بنیاد جس کے آثار نمایاں ہورہے ہیں تین امور نے ۱۹۲۴ء میں حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ المسی الثانی اور جماعت کی نیک نامی کو چار وانگ عالم میں چار چاند لگا دیئے تھے.اول یہ کہ جماعت احمدیہ نے اپنے وطن میں دجال کی ایک جمعیت ( ہنود ) کو شکست پر شکست دے دی تھی.اور اپنی مجاہدانہ سرفروشیوں والہانہ قربانیوں اور فدا کاریوں کا ایک نادر موقع پیش کر دیا تھا.دوم اس سال موعو د سفر ذوالقرنین وقوع پذیر ہوا.اور مذاہب عالم کے پہلوانوں کا بہ دلائل مقابلہ ہوا.اور قلب مملکت دجال میں اسلام کے بطل جلیل نے من یحیی عن بيئة کا بین منظر پیش کیا.اور نہ صرف یہ کہ اعداء اللہ کو شکست فاش دی بلکہ مستقل طور پر اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے وہاں اللہ تعالیٰ کے گھر کی بنیا درکھ دی.سوم اس سفر کے ایام میں سر زمین افغانستان میں حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا محض اور محض احمدیت کی خاطر ناحق اور مظلومانہ طور پر خون بہائے جانے سے اس امر کے ثبوت میں شور بر پا ہوگیا کہ مخالف دلائل کے میدان میں عاجز آ کر قتل و خون آشامی جیسے اوچھے ہتھیار پر اتر آتے ہیں اور جماعت کے افرادصبر و شکیب اور استقلال و استقامت کے قابل صد رشک مقام پر فائز ہیں.گویا ان سه گونہ امور نے جو جماعت کے لئے ایک عظیم الشان سنگ میل کا حکم رکھتے تھے.جماعت کے نہایت اہم امتیاز اور ناموری کا ببانگ دہل اعلان کر دیا تھا.اسی سہ گونہ کامیابی کے متعلق حضرت اقدس کے ۹ جنوری ۱۹۰۴ء کے ذیل کے الہام میں تین الفاظ استعمال ہوئے تھے.الحمد للہ یہ الہام اپنی پوری شان اور آب و تاب سے پورا ہوا.الہام یہ ہے : فرمایا کہ نصرت و فتح و ظفر تا بست سال “ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے ۱۹۲۴ء میں سفر انگلستان سے واپسی سے پہلے اپنے ایک مکتوب میں رقم ”میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے.اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر ہو جائے گا.دشمن ہنسے گا اور کہے گا (کہ) یہ بے ثبوت دعوئی تو ہر ایک کر سکتا ہے.مگر اس کو ہنسنے دو.کیونکہ وہ اندھا ہے اور حقیقت کو نہیں دیکھ سکتا.

Page 362

۳۴۷ اس کے بعد مصری وغیرہ فتنے رونما ہوئے.۱۹۳۴ء میں احرار نے برطانوی گورنر پنجاب اور پنجاب کی وزارت کی پشت پناہی سے مرکز جماعت اور پنجاب کی احمدی جماعتوں کو متزلزل کرنا چاہا لیکن ناکام ہوئے.تقسیم برصغیر کے وقت ۱۹۴۷ء میں حضور انور اور خصوصاً پنجاب کی تمام احمد یہ جماعتوں کو مجبوری حالات پاکستان منتقل ہونا پڑا.حضور نے نہایت محنت کے ساتھ طیور ابرا ہیمی کو پھر ربوہ میں ایک نیا مرکز قائم کر کے مجتمع کیا اور سارا نظام اس بے آب و گیاہ مقام پر مستحکم کیا.دشمنان احمدیت کو جماعت کا شیرازہ یکجا ہونا ایک آنکھ نہ بھایا اور احرار و اسلامی گروہوں نے ۱۹۵۳ء میں قتل و غارت کرائی اس میں مغربی پنجاب کی حکومت بھی پوری طرح شریک تھی.حضور کی اولوا العزمی نے نہایت پامردی سے اس بھاری فتنہ کا مقابلہ کیا.۱۹۵۴ء میں حضور پر قاتلانہ حملہ ہوا.ان ناموافق حالات میں بھی حضور نے دنیا بھر میں تبلیغی مساعی جاری رکھیں اور حضور ۱۹۵۵ء میں جب جماعتی مشورہ سے علاج کے لئے یورپ تشریف لے گئے تو آغاز سفر سے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی صحت سے نوازا اور انگلستان میں حضور نے دنیا بھر اور خصوصاً یورپ، امریکہ وغیرہ میں تبلیغی سرگرمیوں کو تیز تر کرنے کے لئے کئی روز جناب چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور مبلغین کی معیت میں پروگرام طے کئے اور ان پر عمل شروع کر دیا.حضور نے مشرقی و مغربی افریقہ کی طرف بھی خاص توجہ مبذول فرمائی.رابطہ عالم اسلامی کے جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلوں کی تنفیذ سعودی عرب کے شاہ فیصل کے ۱۹۷۴ء میں پاکستان آنے پر پاکستان میں شروع کرائی گئی.اور حکومت کی ملی بھگت سے انہی دونوں گروہوں اور علماء نے قتل وغارت شروع کرائی.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے بہ تائید الہی نہایت دانشمندی اور پامردی سے مقابلہ کیا اور جماعت میں صبر کی روح پھونک دی اور مطابق بیان حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفہ رابع ) لوگ لٹ پٹ کر روتے آتے تھے اور حضور سے ملاقات کر کے نیا جوش و ولولہ لے کر ہنستے ہوئے نکلتے تھے.حضور نے مغربی افریقہ کے ممالک کے لئے نصرت جہاں سکیم جاری کر کے شفا خانے ، مدارس اور کالج جاری فرمائے.فضل عمر فاؤنڈیشن قائم فرمائی.لنڈن مشن اور دیگر مشنوں کو تقویت دی.قرآن مجید کی اشاعت کا غیر معمولی کام کیا.قریباً ساڑھے پانصد سال سپین سے اسلامی سلطنت کے مٹ جانے پر گذر چکے تھے کہ حضور نے وہاں اولین مسجد احمد یہ کا سنگ بنیاد رکھا.

Page 363

۳۴۸ ایک اہم مسئلہ میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے دائگی طور پر مسیحیت کو شکست دی.۱۹۷۵ء میں آپ نے لندن میں حضرت مسیح کی مصلوبیت سے نجات کے بارے ایک کانفرنس منعقد فرمائی.دوران اجلاس ایک مسیحی تنظیم نے اس بارے میں مباحثہ کی دعوت دی جس کو حضور نے قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ جس ملک میں اور جب چاہیں ہم تیار ہیں.بار بار توجہ دلانے پر بھی یہ تنظیم اور دیگر مسیحی فرقے اب تک مہر بلب ہیں.ضیاء والا فتنہ خلافت رابعہ میں جاری ہوا.اپریل ۱۹۸۴ء میں ایک آرڈی نینس جاری کر کے مساجد میں اذان.نماز میں اور مساجد کی تعمیر اور احمدیوں کو اپنے تئیں مسلمان کہلا نا ممنوع قرار دیا.بعد میں معلوم ہوا کہ ضیاء کے عزائم تھے کہ حضور کو گرفتار کر کے جیل میں موت سے ہمکنار کر دیا جائے اور پھر خلافت کا انتخاب نہ ہونے دیا جائے.اس طرح جماعت احمدیہ تتر بتر ہو جائے گی.یہ تائید الہی حضور لنڈن تشریف لے گئے.حضور نے ۱۹۸۹ء کی لنڈن کا نفرنس میں بیان فرمایا کہ جماعت احمدیہ کے خلاف ایک گہری سازش کے نتیجہ میں ۱۹۸۴ء میں میرا بیرون پاکستان آنا ایک مجبوری تھی.لیکن اس میں اللہ تعالیٰ کو یہ مقصود تھا کہ پاکستان اور دیگر ملوث طاقتوں کو یہ بتا دے کہ تم جتنا چاہوز ور لگاؤ.جماعت احمدیہ کی ترقی کی راہیں روکنے کی بجائے تمہارا ہر قدم تمہاری تدابیر کو الٹا دے گا.اور ہر وہ نتیجہ نکلے گا جو تمہارے دل کو اور زیادہ جہنم کی آگ میں مبتلا کر دے گا.حضور کا اس وقت تک کا دور خلافت فتح و کامرانیوں سے بھر پور ہے.جماعت احمدیہ پاکستان صبر آزما گھڑیوں میں صبر واستقامت کی تصویر ہے.حضور نے اس وقت تک یورپ، آئر لینڈ ، پرتگال ،مشرقی و مغربی افریقہ، ماریشس ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، پنجی ، جاپان، کینڈا ،امریکہ کے دورے فرمائے.۱۹۸۲ء میں مسجد سپین اور ۱۹۸۹ء میں مسجد آسٹریلیا اور مسجد گوئٹے مالا ( وسطی امریکہ ) کے افتتاح حضور نے فرمائے.گوئٹے مالا میں بوقت افتتاح کوئی احمدی نہیں تھا.لیکن اسی وقت وہاں کے بعض معززین نے یہ اظہار کیا کہ وہاں بہت جلد عظیم الشان جماعت قائم ہو جائے گی.جلد بعد یہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں کے لوگ احمدیت قبول کرنے لگے ہیں.پاکستان میں اعلان کئے گئے تھے کہ ہم تمام دنیا میں احمدیت کا تعاقب کریں گے.اور اس کو نیست و نابود کر دیں گے.مغربی افریقہ کے ایک اعلیٰ رہنما نے وہاں صد سالہ جشن تشکر کے موقعہ پر اپنی تقریر میں کیا ہی مبنی بر حقیقت بات کہی کہ جماعت احمد یہ تمام دنیا میں اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ دنیا کی کوئی

Page 364

۳۴۹ طاقت نہیں جو اس کا گھیراؤ کرنا تو در کنار اسکا تعاقب بھی کر سکے.اب یہ دنیا کی طاقتوں کی حدود سے آگے نکل چکی ہے.ضیاء کی نام نہاد محافظ اسلام حکومت کے دور میں جو خدمات اسلام کے نام پر کی گئیں وہ مظالم ہیں جو اسلام پر کئے گئے ان کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں کلمہ طیبہ کے بیج لگانے یا مساجد پر لکھنے اور اذان دینے اور نماز پڑھنے اور لٹریچر تقسیم کرنے اور شعائر اسلام اختیار کرنے مثلاً السلام علیکم کہنے کے جرائم کی وجہ سے احمدیوں پر سترہ سو چھتیں مقدمات دائر کئے گئے.ایک سو اٹھارہ مساجد سے کلمہ طیبہ مٹایا گیا.انیس مساجد سر بمہر کی گئیں.اٹھارہ مساجد نذرآتش کی گئیں.پچھیں احمدیوں کو شہید کیا گیا.انہیں احمدیوں کی نعشیں قبریں اکھیڑ کر باہر پھینک دی گئیں.کئی صد احمدی قید و بند کی صعوبتیں سالہا سال تک جھیلتے رہے ہیں.( محترمہ بے نظیر بھٹو اوائل اگست ۱۹۹۰ ء میں عہدہ وزیر اعظم سے برطرف ہو چکی ہیں.ہمیں ماہ پہلے برسر اقتدار آنے پر موصوفہ نے اپنے اختیار سے بالا ہو کر اور بغیر منظوری صدر پاکستان قیدیوں کی ایک کثیر تعداد قید و بند سے آزاد کر دی.بقول اخبارات یہ جائزہ بھی نہ لیا گیا کہ ان میں سے کون سے حقیقی مجرم ہیں جن کو آزاد کرنا کسی طرح ملک کے مفاد میں نہیں.البتہ معصوم احمدی قیدی چھ سال سے اوپر عرصہ سے قید میں ہیں.توجہ دلانے پر بھی توجہ نہیں کی جاتی.کیونکہ جماعت احمدیہ سے امن شکنی کا خطرہ نہیں.) چھ سال سے زائد عرصہ سے احمدی قیدی سنت یوسفی کے مطابق عبادت و تبلیغ میں منہمک ہیں.ان کے ذریعہ جیلوں میں بھی قیدی احمدیت قبول کر کے اس کے نور سے منور ہوتے ہیں.۱۹۸۹ء میں ننکانہ صاحب میں ڈی.ایس.پی اور پولیس نے مظالم ڈھائے.احمدی گھروں کو لٹوایا اور نذر آتش کروایا.چک سکندر ضلع گجرات میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس نے بہ معیت ایس.پی اور ڈی.سی ایک سو مکانات کولٹوایا.ایک سو جانوروں کو ہلاک کیا اور احمدی احباب کو نہتا کر کے ایک دس سالہ لڑکی سمیت تین احمدیوں کو شہید کر دیا.بعض احمدی احباب کو قید کر لیا.مرکز ربوہ سے بہتر تاریں دیئے جانے اور وفود بھجوانے کے باوجود حکومت نے جواب تک نہیں دیا.۱۹۹۰ء میں ایک مقدمہ تمام اہالیان ربوہ پر دائر کیا گیا.محترم ناظر اعلیٰ صاحب و دیگر متعد د اعلی عہدہ داروں کو خصوصاً اس مقدمہ میں ملوث کیا گیا.راولپنڈی میں خاکسار مؤلف کی موجودگی میں ایک فوجی افسر کے بیٹے کی وفات ہوئی تو قبرستان میں تدفین کی ملٹری آفیسر نے اجازت نہ دی.ایک جمعہ پڑھ کر مسجد احمد یہ راولپنڈی سے بعض احباب نکلے تو محض ایک مولوی کی نشاندہی پر جس نے وہیں ایک موٹر سائیکل کا نمبر لکھ لیا تھا، بتانے پر کہا کہ اس احمدی نوجوان نے آدھی رات کو مجھ پر حملہ کیا

Page 365

fo تھا.اور دو اڑھائی ہفتے بعد بڑی تگ ودو سے آخری سال کے اس میڈیکل سٹوڈنٹ کی ضمانت ہوئی.عید الاضحیٰ اسے قید و بند میں گزارنا پڑی.یہ خاکسار کی موجودگی کی بات ہے.حضور انور نے لنڈن کا نفرنس ۱۹۸۹ء میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے گذشتہ ایک سال میں جو برکات عطا کی ہیں ان کے شمار کرنے سے میں عاجز آ گیا ہوں.یہاں ان کا مشخص پیش کیا جاتا ہے : گذشتہ چارسالوں میں ایک ہزار تین سو آٹھ جماعتوں کا اضافہ ہوا.پانچ سال میں چھ سو ساٹھ مساجد کا تعمیر کرنے سے اور دوسو ایک مساجد کا قبضہ میں آجانے سے اضافہ ہوا.( مطابق رپورٹ شیخ مبارک احمد صاحب انچارج مبلغ امریکہ وہاں امریکہ کے احمدیوں نے پچپن لاکھ ڈالر سے جو پاکستانی تیرہ کروڑ روپے کے مساوی ہے پانچ سال میں کئی مساجد تعمیر کی ہیں.مرتب ) اس سال کے آخر تک پچاس سے زائد زبانوں میں تراجم قرآن مجید مکمل ہو جائیں گے.ایک سو پندرہ زبانوں میں منتخب آیات قرآنیہ کے تراجم ایک سو بارہ زبانوں میں منتخب احادیث کے تراجم اور ایک سو سات زبانوں میں منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تراجم ہو چکے ہیں.جو کام قرآن مجید و احادیث کے تراجم کا چودہ سو سال میں کل عالم اسلام نہ کر سکا.اس چھوٹی سی جماعت احمدیہ کو چند سال کے اندر اس کے کرنے کی توفیق ملی.احمدیت کی دوسری صدی کی ضروریات کے لئے تحریک وقف نو میں قریباً پونے تین ہزار بچے آچکے ہیں.بعض کو معجزانہ رنگ میں خوراک اور شفا حاصل ہوئی.لائبریا میں ایک داعی الی اللہ کی کوشش سے پینتیس چالیس ہزار افراد نے احمدیت قبول کی.انگولا کے ایک احمدی دوست گذشتہ سال کی لنڈن کا نفرنس کی ویڈیو کیسٹ وہاں لے گئے جوٹی.وی افسران کو اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اسے بار بار ٹیلی کاسٹ کیا جس سے لوگوں کو توجہ ہوئی اور اب وہاں سے مبلغ بھجوانے کا مطالبہ ہو رہا ہے.افریقہ کے مختلف ممالک میں نصرت جہاں سکیم کے ماتحت ہسپتالوں ، مدارس اور کالجوں کے ذریعہ کثرت کے ساتھ خدمت ہوئی ہے.اب نصرت جہاں سکیم نو جاری کی گئی ہے کہ ان ممالک سے احمدی تجارت کر کے اپنی آمد و ہیں خرچ کریں تا کہ یہ ممالک اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں.بہت سے احباب نے اس خاطر اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اور بعض ممالک سے تجارتیں شروع ہوگئی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس سکیم میں برکت ڈالی ہے.میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ افریقہ کے لئے جو وقت اور مال خرچ کیا جائے گا.دنیا و آخرت میں اس کی جزا ضرور ملے گی.یہ لوگ چونکہ ذہین ہیں اور سچائی کو جلد پالیتے ہیں اس لئے ان ممالک میں بڑی تیزی کے ساتھ روحانی انقلاب برپا ہو جائے گا.

Page 366

۳۵۱ چوبیسویں لنڈن کا نفرنس منعقدہ بماہ اگست ۱۹۸۹ء کے مختصر کوائف یہ ہیں کہ : اس کانفرنس میں چھیاسٹھ ممالک سے چودہ ہزار افراد نے شرکت کی.امسال بھی محترم ہدایت اللہ صاحب بنگوی افسر جلسہ سالانہ تھے.رہائش.ٹرانسپورٹ.ضیافت و استقبال.صفائی.آب رسانی بجلی گمشدہ اشیاء وغیرہ کے شعبے قائم کئے گئے.ہوائی اڈوں سے مہمانوں کو Receive کیا جاتا.مختلف مقامات سے اسلام آباد کی آمد ورفت کیلئے سات ڈبل ڈیکر بسیں،نوکوچز ، تیرہ ویگن اور دس کاریں دن رات مصروف رہیں.حکومتوں کے نمائندگان کو اعلیٰ درجہ کے ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا.مہمانوں کے لئے Surrey یونیورسٹی سے گیارہ ڈیپارٹمنٹ اور کرایہ پر مسجد احمدیہ سے ملحقہ وائٹ لین کالج میں ایک سو کمرے لئے گئے.اسلام آباد میں بے شمار خیموں اور بیرکس میں الگ الگ مرد و خواتین کے لئے انتظام کیا گیا.قریبی قصبات و دیہات میں بھی فلیٹ کرایہ پر لئے گئے.اسلام آباد اور لندن کے تمام احمدیوں کے گھروں میں پندرہ تا تمیں افراد اتارے گئے.کھانے کا انتظام ایسا عمدہ تھا کہ مہمانوں کو انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا.ٹھنڈے اور گرم پانی کا انتظام تھا اور کئی درجن مزید لیٹرین اور فغسل خانوں کا بھی انتظام کیا گیا تھا.بازار بھی اسلام آباد میں منظم کیا گیا.جس میں الگ الگ پندرہ پندرہ دکانیں مردوں اور عورتوں کے لئے مناسب قیمتوں پر کھانے کی تھیں.کتب و رسائل بھی وہاں مل سکتے تھے.شعبہ آڈیو ویڈیو کے کارکنان ساتھ کے ساتھ کیسٹس تیار کر کے دیتے تھے.مرکزی وکالت اشاعت کے زیر اہتمام ایک نہایت اعلیٰ نمائش کا انتظام کیا گیا تھا جس میں قرآن مجید، منتخبہ آیات و احادیث کے تراجم مختلف زبانوں کا لٹریچر.مساجد اور مشنز.قادیان اور ر بوہ.اسیران راہ مولا اور مختلف جماعتوں کی تصاویر اور نوادرات اور مختلف تقاریب کی جھلکیوں کی تصاویر رکھی گئی تھیں.محمود ہال (لنڈن ) میں بھی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا.روز نامہ ملت نے دو دفعہ اور دی ٹائمنز نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ کی تصاویر کے ساتھ ایک مضمون شائع کیا اور حضور کا صد سالہ جو بلی کا پیغام من وعن شائع کیا.گارڈین “ اور ” یو.کے پریس گزٹ بھی خبریں شائع کرتے رہے.بی بی سی ورلڈ سروس نے بھی خبر نشر کی.بی بی سی افریقین سروس.کاؤنٹی ساؤنڈ ریڈیو ٹلفورڈ اور ایشین ٹائمنز کے نمائندگان نے حضور کا انٹرویوریکارڈ کیا.اس کا نفرنس میں ماریشس، لائبریا اور گیمبیا کے ایک ایک وزیر اور سیرالیون کے دو وزراء.غانا کے

Page 367

۳۵۲ اٹارنی جنرل.لائبریا کے براڈ کاسٹنگ کے اسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل.کینیڈا کے دو ممبران پارلیمینٹ اور تنزانیہ کے ایک ممبر پارلیمینٹ اور نیوزی لینڈ کے موری قبیلہ کے چیف نے اور انگلستان کے متعد دمیرز نے شرکت کی.حضور نے فرمایا کہ باوجودیکہ جماعت احمدیہ کی حکومت نہیں.نہ ملک ہے.تب بھی ان مختلف ممالک کے نمائندگان نے شرکت کی ہے.جلسہ گاہ کے قریب ایک سو بیس ممالک کے جھنڈے لہرا رہے تھے.جن کے وسط میں علم احمدیت تھا جس کی پرچم کشائی حضور نے فرمائی تھی.حضور نے اپنے خطاب میں بیان فرمایا کہ جشن صد سالہ کے سلسلہ میں ملک سیرالیون نے ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا ہے.دورہ والے تمام ممالک میں حکومت.اعلیٰ طبقہ اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن والے نہایت اعزاز و تکریم کا سلوک کرتے ہیں.کینیڈا کے مختلف شہروں کے مئیرز نے تو صرف دنوں کو ہی نہیں بلکہ ہفتوں کو جماعت احمدیہ کا قرار دیا اور ان کے اعلان شائع کر کے اس کے سرٹیفکیٹ جماعت کو دیئے.میں نے جشن تشکر پر روپیہ خرچ کر کے پبلسٹی کرنے کی اجازت نہ دی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی حیرت انگیز قدرت نمائی کے نشان ظاہر ہوئے.کینیڈا کے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ایک تہائی آبادی یعنی اسی ہزار افراد تک اور دنیا کے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ انداز دنیا کی ایک چوتھائی آبادی تک احمدیت کا پیغام پہنچا ہے.(حضور نے افریقین ممالک اور بھارت کے خدمت کے کاموں کے لئے پانچ کروڑ روپے کے چندہ کی تحریک فرمائی ہے.) انگلستان میں علاقہ سرے (Surrey) میں وسیع و عریض قطعہ خریدا گیا جس میں کئی سال سے سالانہ لنڈن کانفرنس منعقد ہوتی ہے.جس کے لئے حکومت ،میئرز ، ذرائع ابلاغ (پریس.ریڈیو اور ٹیلی ویژن ) بھر پور تعاون دیتے ہیں.اس وسیع قطعہ (اسلام آباد) میں بہترین ماڈرن چھاپہ خانہ بھی لگایا گیا ہے جہاں سے دنیا بھر میں کتب مختلف زبانوں میں مہیا کی جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رویا کے مطابق سفید (پاک) پرندے بھی انگلستان میں آغوش احمدیت میں آنے لگے ہیں.جلسه سالانه ۱۹۸۹ء: قادیان کے جلسہ سالانہ ۱۹۸۹ء میں بکثرت غیر ممالک سے احمدی احباب نے شرکت کی.جلسہ سالانہ مردانہ محلہ ناصر آباد کے مغرب کی طرف کے ملحقہ کھیل کے میدان میں منعقد ہوا اور خواتین کا جلسہ بہشتی مقبرہ کے ملحقہ باغ کی پارک میں جو شمال کی طرف ہے.قیام وطعام کا بفضلہ تعالیٰ بہترین انتظام تھا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تک ربوہ میں جلسہ سالانہ منعقد

Page 368

۳۵۳ نہیں ہوسکتا.اس وقت تک قادیان کا جلسہ سالانہ اصل ہوگا اور ۶ ۲ تا ۲۸ دسمبر تاریخ ہائے انعقاد ہوں گی.برطانوی جلسه سالانه ۱۹۹۰ء ( بحوالہ ہفت روزہ لاہور بابت ۱۸ اگست ۱۹۹۰ء) اواخر جولائی ۱۹۹۰ء میں برطانیہ کی پچیسویں احمدیہ کا نفرنس بمقام اسلام آباد ( تلفورڈ ) میں منعقد ہوئی جس میں پچپن ممالک کے دس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی.حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے تین مبسوط لیکچروں کے علاوہ جماعت خ احمدیہ کے علماء اور سکالرز نے بھی خطاب کیا اور کینیڈا، سیرالیون اور برطانیہ کی حکومتوں کے نمائندوں نے بھی اظہار خیال کیا.سال بھر کا جائزہ.سال گذشتہ میں جماعت احمدیہ کی رفتار ترقی یوں رہی: چار نئے ممالک میں جماعت کے مشن قائم ہوئے.اس طرح مشنوں کی کل تعداد ایک سو چوبیں -1 ہوگئی.-۲ گیارہ سو سینتیس نئی جماعتیں قائم ہوئیں.- تین سو چونتیس نئی مساجد تعمیر کی گئیں.۴ - ۸۴ - ۱۹۸۳ء کے مقابل بجٹ دگنا ہو گیا.۵- ایک لاکھ تئیس ہزار بیعتیں ہوئیں.- چھتیس ممالک کے ریڈیوز اور اٹھائیس ٹیلی ویژن اسٹیشنوں سے جماعت احمدیہ کے بارے پروگرام - نشر ہوئے.ے.دنیا بھر کے پندرہ سواڑتالیس اخبارات نے جماعتی سرگرمیوں سے متعلق خبریں تبصرے، اداریے اور انٹرویو شائع کئے.- فروغ احمدیت کے سلسلہ میں دنیا بھر میں ایک سوستاسٹھ نمائشوں کا اہتمام کیا گیا اور چارسو اٹھہتر بک سٹال لگائے گئے.چودہ نئے جماعتی جرائد و رسائل جاری ہوئے.۱۰- افریقی ملکوں میں جدیدترین پریس قائم کئے گئے.اپنے افتتاحی خطاب میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں ہونے

Page 369

۳۵۴ والے مظالم کا بھی ذکر کیا.اور اپنے اختتامی خطاب میں جماعت احمدیہ کو روس میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچانے اور تعلیمات پھیلانے کے لئے اپنی سرگرمیاں تیز تر کر دینے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ ہم روس کو نئی زندگی دینے والے ہوں گے.اور یہ روحانی فتح محبت ، دعا اور دلائل کے ہتھیاروں سے حاصل ہوگی.اس وقت جماعت احمدیہ کے روشنی کے مینار حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی کا قیام انگلستان میں ہے جہاں سے ساری دنیا کو منور کیا جا رہا ہے اور اس کا اثر براہِ راست بھی اور بالواسطہ بھی برطانیہ پر پڑ رہا ہے.برطانیہ کے اصل باشندے سفید پرندے بھی آغوش احمدیت میں آرہے ہیں.امریکہ، کینیڈا، مغربی جرمنی وغیرہ ممالک احمدی مظلومین سے متاثر ہورہے ہیں.اس سے برطانیہ بھی متاثر ہورہا ہے اور اس کے مئیرز اور اعلیٰ طبقہ کے لوگ جماعتی اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں اور جماعت احمدیہ کی تعریف کرتے ہیں.اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے اس قول کی صداقت کے آثار تیزی سے رونما ہورہے ہیں کہ ” میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیا درکھ دی گئی ہے.“ مجالس مشاورت میں شرکت الحمد الله وصدق الله وعده حضرت خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مجلس مشاورت کا با قاعدہ آغا ز ۱۹۲ء میں ہوا.کم از کم آٹھ مجالس میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب نے بھی شمولیت کرنے کی سعادت پائی تھی.چنانچہ مجالس مشاورت کی رپورٹیں سرسری دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ۱۹۳۲ء،۱۹۳۶ء اجلاس اول، ۱۹۳۸ء تا ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۲ء تا ۱۹۴۴ء کی مجالس میں آپ نے شرکت کی تھی پھر بعض میں بطور صحابی آپ کے شامل کئے جانے کا ذکر ہے.متعدد بار حضور نے اس مجلس کی اہمیت بیان فرمائی.چنانچہ ۱۹۴۱ء کی شوریٰ میں فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا مقام امام حضرت ابوحنیفہ سے بہت بڑا تھا.اسی طرح گوآئندہ بڑے بڑے فقہاء پیدا ہوں گے.پھر بھی احمدیت کو جو مقام حاصل ہونے والا ہے اس کے باعث آپ نمائندگان کی حیثیت بعد کے فقہاء وعلماء سے ہمیشہ بڑی سمجھی جائے گی.مشاورت کے فیصلے یہاں تک ہی

Page 370

۳۵۵ ۲۰۸ محدود نہیں رہ سکتے.بلکہ یہ دنیا کی رہنمائی کیلئے ستارے ہیں.ہماری آج کی باتوں سے بھی آئندہ نسلیں اور فقہاء بڑے بڑے مسائل کا استنباط کریں گے.مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء میں حضور نے فرمایا کہ ”ہماری مجلس شوری کی عزت...اس مقام کی وجہ سے ہے جو خداتعالی کے نزدیک اسے حاصل ہے.....وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب دنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمیٹوں کے ممبروں کو وہ درجہ حاصل نہ ہوگا جو اس (شوری) کی ممبری کی وجہ سے حاصل ہوگا.اس مجلس کی ممبری اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بادشاہ کو ملتی تو وہ بھی اس پر فخر کرتا.اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اس پر فخر کریں گے.بوقت تقسیم (برصغیر ) صحابہ کرام کو دعاؤں کی تحریک تقسیم برصغیر ہونے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۹ / اگست ۱۹۴۷ء کو مسجد مبارک میں خطبہ جمعہ میں اس وقت کے حالات کے پیش نظر ہدایات میں یہ بھی تلقین فرمائی کہ دعاؤں میں کمی نہ آنے دی جائے.اسی روز ہی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اکتیس صحابہ کو جن میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بھی شامل تھے.خاص طور پر تحریک فرمائی کہ وہ حضرت مصلح موعود، مرکز سلسلہ اور جماعت کی حفاظت کیلئے دعائیں کریں اور آگے دوسرے اصحاب اور اپنے اہل وعیال میں بھی یہی تحریک کریں اور اگر کوئی امر ظا ہر ہو تو مطلع فرمائیں.درویشان میں آپ کی مبارک شمولیت -1 الدا..تقسیم برصغیر کے حالات میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی مرکز قادیان کو آباد و فعال رکھنا چاہتے تھے.چنانچہ آپ نے ایک تقریر میں فرمایا کہ مشرقی پنجاب سے اسلام کا نام مٹادیا گیا ہے.ہزاروں ہزار مسجد میں آج بغیر نمازیوں کے ویران پڑی ہیں جن میں جوئے کھیلے جاتے ہیں.شرا ہیں پی جاتی ہیں.بدکاریاں کی جاتی ہیں.ہمارا فرض ہے کہ جب تک جان میں جان ہے مشرقی پنجاب میں قادیان کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند رکھیں.ہماری بدقسمتی ہوگی.اگر ہم اپنے ہاتھوں سے اسلام کا جھنڈا چھوڑ کر بھا گئیں.میں اگر قادیان سے باہر ہوں تو صرف اس لئے کہ جماعت نے کثرت رائے سے یہ فیصلہ کیا تھا.ہمارا باہر آنا اپنی جانوں

Page 371

۳۵۶ کو بچانے کیلئے نہیں بلکہ سلسلہ کو چلانے کیلئے ہے.اگر تم میں سے بعض کے لئے قید و بند یا قتل مقدر ہے تو خدا تعالیٰ تمہیں ابدی زندگی بخشے گا.اور اپنے خاص شہداء میں جگہ دے گا.اور کون کہہ سکتا ہے کہ اس کی ایسی موت اس کی زندگی سے زیادہ شاندار نہیں ؟“ -۲ اس دور درویشی کے ابتدا میں مرکز میں ٹھہرنے والے تقریباً تمام افراد ہی جوان طبقہ کے تھے لیکن حضور نے کمال فراست سے بوڑھوں کو بھی تبادلہ کے وقت بھجوایا جن میں ایک درجن صحابہ تھے جن میں تین سو تیرہ صحابہ کرام میں سے حضرات بھائی عبدالرحیم صاحب، بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اور منشی محمد الدین صاحب واصل باقی شامل تھے.مساجد سے دل معلق رکھنا، نوافل کی ادائیگی، تہجد گزاری ،حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام سے والہانہ عشق اور انفاق اموال کے بارے میں خصوصا ان تینوں بزرگان کا اسوہ قابل تقلید تھا.غیر مسلموں اور غیر از جماعت مسلمانوں تک نے قادیان میں مقیم درویشاں کے کردار کو قابل تحسین و توصیف پایا.چنانچہ ا- احراری اخبار آزاد نے اپنی ۲۶ رمئی ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں لکھا کہ مشرقی پنجاب کے ( مسلم ) عوام تو خیر مجبور تھے.لیکن جس بزدلی سے مسجدوں کے اماموں، خانقاہوں کے مجاوروں اور ایسں شریف و آں شریف کے سجادہ نشینوں نے فرار اختیار کیا.وہ اسلام کے صریحاً خلاف ہوا.تمام عمر اوقاف کی کمائی اپنے نفس پر صرف کر کے شعائر اللہ و...( اغیار ) کے حوالہ کر دینا اور خود بھاگ نکلنا قابل شرم فعل ہے....فلاں خانقاہ) کے سجادہ نشین صاحب جو اس مقدس تربت کی کمائی تمام عمر بھر کھاتے رہے، یوں بھاگے کہ بستی کے لوگوں سے فرمایا.حضرت صاحب نے خواب میں حکم دیا ہے کہ میں پاکستان جارہا ہوں تم بھی چلو دہلی میں سندھ کے متولیوں کا ایک پوسٹر آیا که خواجه.....( صاحب) کا عرس دار الکفر کی بجائے دار الاسلام میں منایا جا رہا ہے.ان گنت مساجد اپنی حرمت کھوکر ( غیر مسلم عبادت گاہوں ، گھروں اور بہت سی اصطبلوں اور پاخانوں میں بدل.دی گئی ہیں.ان سطروں کے لکھنے کی ضرورت اس لئے لاحق ہوئی کہ لاہور کے روز نامہ ) انقلاب کی تازہ اشاعت میں ایک قادیانی ملک صلاح الدین ایم.اے کا ایک مکتوب چھپا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آج بھی مرزا غلام احمد کے مزار کی حفاظت کیلئے وہاں جاں نثار مرزائی موجود ہیں.اور اب بھی وہاں کی مسجدوں

Page 372

۳۵۷ میں اذان دی جاتی ہے.ایک طرف نبوۃ باطلہ کے پیروؤں کا اعتقاد دیکھئے کہ وہ اپنے ”مقدس مقام کی حفاظت کیلئے اب تک ڈٹے ہوئے ہیں.اور اپنی مسجدوں کی آبرو کو بچائے رکھا ہے.لیکن ذرا ان سے بھی پوچھئے جو سینکڑوں اہل اللہ کے مقبروں کی آمدنی ڈکارتے رہے اور اب دارالکفر کی بجائے دارالاسلام میں عرس منا کر ضعیف الاعتقاد مریدوں کی جیبیں ٹٹول رہے ہیں.“ پھر انقلاب“ میں شائع شدہ مکتوب درج کیا ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ پہلے درویشوں کو موت کے گھاٹ اتار دئے جانے کا خطرہ ہر وقت لاحق رہتا تھا.اذان کی آواز سن کر بھی اغوا شدہ مسلم عورتیں ہمارے حلقہ میں آجاتی ہیں.ایسی عورتوں کو برآمد کر کے اور دیگر مسلمانوں کو جو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ہم پاکستان بھجوا دیتے ہیں.پھر یہ احراری اخبار لکھتا ہے: کیا اس خط کے بعد مشرقی پنجاب کے سجادہ نشین اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ ان کے دل میں بھی اسلام ہے.اس مسلمان سے سو بار ہے کافر اچھا جس مسلمان کے پیش نظر اسلام نہ ہو ۲۱۲ -۲- سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون نے اپنے اخبار ”ریاست“ دہلی کے دسمبر ۱۹۵۷ء کے شمارہ میں لکھا کہ یہ واقعہ انتہائی دلچسپ ہے کہ جب مشرقی پنجاب میں خونریزی کا بازار گرم تھا.مسلمانوں کا مسلمان ہونا ہی نا قابل تلافی جرم تھا.مشرقی پنجاب پر کسی مقام پر بھی کوئی مسلمان باقی نہ رہا تو قادیان میں چند درویش صفت احمدی تھے جنہوں نے اپنے مقدس مذہبی مقامات کو چھوڑنے سے انکار کر دیا.اور...نگ انسانیت مظالم برداشت کئے اور جن کو بلا خوف تردید مرد مجاہد قرار دیا جاسکتا ہے.اور جن پر آئندہ کی تاریخ فخر کرے گی.ان لوگوں کو انسان نہیں فرشتہ قرار دیا جانا چاہئے جو اپنی جان کو تھیلی پر رکھ کر اپنے شعار پر قائم رہیں اور موت کی پرواہ نہ کریں.اب بھی قادیان کے درویشوں کے اسوہ حسنہ کا خیال آتا ہے تو عزت و احترام کے جذبات کے ساتھ گردن جھک جاتی ہے.اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ ایسی شخصیتیں ہیں جن کو آسمان سے نازل ہونے والے فرشتے قرار دینا چاہئے.6 ۳- رسالہ چٹان لاہور نے ۱۹۶۱ء میں قادیان اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کے پٹھان کوٹ ضلع

Page 373

۳۵۸ وو - لد ۲۱۳ گورداسپور میں قائم کردہ مرکز جماعت اسلامی دار السلام کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ہم عاجز ہیں لیکن اتنے بھی ہے نہیں کہ جماعت اسلامی کے ارکان کو اولیاء اللہ کی صف میں جگہ دیں.آدمی تو ہر شخص اکٹھا کر لیتا ہے.مرزا غلام احمد نے بھی جمع کر لئے تھے.فضلاء کی ایک بڑی جماعت ان کی جاں نثار ہے.پھر یہ واقعہ نہیں ؟ کہ دار السلام کے چابی برداروں میں اکثر برقع پہن کر بھاگ نکلے تھے.مگر مرزا غلام احمد کے پیرو آج تک قادیان کی حفاظت تین سو تیرہ کی جتھہ بندی سے کر رہے ہیں.۴ - جماعت اسلامی کا تر جمان المنبر لائل پورے / مارچ ۱۹۵۶ء کی اشاعت میں لکھتا ہے: ی وہ واحد جماعت ہے جس کے ۳۱۳ افراد تقسیم کے لمحہ سے آج تک قادیان میں موجود ہیں.اور وہاں اپنے مشن کیلئے کوشاں بھی ہیں اور منظم بھی.“ حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء میں تحریک فرمائی کہ عشاق احمدیت قادیان کے مقامات کو آباد کرنے کیلئے اپنے تئیں پیش کریں.اس آواز پر لبیک کہنے والے ایک خوش نصیب پینتیس احباب پر مشتمل قافلہ کو آغا ز ماہ مئی ۱۹۴۸ء میں حضور نے شرف مصافحہ بخشا اور اجتماعی دعا کے ساتھ الوداع کہا.اس قافلہ میں بارہ صحابہ تھے.جن میں حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب (امیر قافلہ ) اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی جیسے قدیم و ممتاز صحابہ بھی شامل تھے.یہ قافلہ ٹرکوں کے ذریعہ قادیان پہنچا.ملٹری چوکی کے افسران نے اس قافلہ کی اسم وار فہرست تیار کی.پھر یہ قافلہ مجسٹریٹ صاحب، ملٹری پولیس کی کافی تعداد، چند سائیکل سواروں اور ایک دو شہسواروں کے جھرمٹ میں محلہ دارالشکر ہوتے اور (احمدیہ ) فروٹ فارم ، اسٹیشن اور کوٹھی حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال (کے پاس) سے گذرتے ہوئے دارلانوار کی بڑی سڑک سے شہر میں داخل ہوا.اور حضرت مولوی عبدالمغنی خاں صاحب اور نیک محمد خاں صاحب غزنوی کے مکان پر جا کر رکا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ کے نام ایک خصوصی مکتوب میں اس واقعہ پر یہ بھی رقم فرمایا کہ ۲۱۴ جملہ درویشوں کو میری طرف سے بعد سلام یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ ان بزرگوں کی آمد کو ایک خدائی نعمت سمجھتے ہوئے ان کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اور ان کے علم و عمل کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں.صحابہ کا مقدس گروہ دن بدن کم ہوتا جارہا ہے.باوجود اس کے ہم انہیں اپنے

Page 374

۳۵۹ آپ کو ان کی صحبت سے محروم کرتے ہوئے آپ کے پاس بھجوائے جار ہے ہیں.پس اس نعمت کی قدر کریں اور دعاؤں اور نوافل پر پہلے سے بھی زیادہ زور دیں.اور باہم اتحاد اور تعاون اور بزرگوں کے ادب کا وہ نمونہ قائم کریں جو اسلام آپ سے چاہتا ہے ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا پیارا مرکز ہمیں کب واپس ملے گا.مگر جب تک ہمیں وہ واپس نہیں ملتا.ان بزرگوں کا وجود اور ان کے ساتھ آپ جیسے مخلص اور جاں شار درویشوں کا وجود اس شمع کا حکم رکھتا ہے جو ایک وسیع اور تاریک میدان میں اکیلی اور تن تنہار وشن ہو کر دیکھنے والوں کیلئے نور ہدایت کا کام دیتی ہے.اگر آپ خلوص نیت اور سچی محبت اور پاک جذ بہ ء خدمت کے ساتھ قادیان میں ٹھہریں گے اور اپنے آپ کو احمدیت کا اعلیٰ نمونہ بنائیں گے.تو نہ صرف خدا کے حضور میں آپ کی یہ خدمت خاص قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی بلکہ آنے والی نسلیں بھی آپ کے اس نمونہ کو فخر کی نظر سے دیکھیں گی.درویشاں کے بارے آپ کے چشم دید حالات حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ۱۲ مئی ۱۹۴۸ء کومستقل طور پر دوبارہ قادیان واپس تشریف لائے.آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مفصل مکتوب ۳۱ رمئی کو تحریر کیا جس میں درویشان کے لیل و نہار کا نقشہ کھینچا: قادیان پہنچے ہیں روز ہوئے ہیں.پہلا ہفتہ قریباً آٹھ ماہی جدائی کی حسرت وحرمان کی تلافی کی کوشش میں گزر گیا.اور ماحول کی طرف نظر اٹھانے کی بھی فرصت نہ ملی دوسرے ہفتہ کچھ حواس درست ہوئے تو دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں کہ ایک نئی زمین اور نئے آسمان کے آثار نمایاں ہیں.ایک تغیر ہے عظیم ، اور ایک تبدیلی ہے پاک، جو کہ یہاں کے ہر درویش میں نظر آتی ہے.چہرے ان کے چمکتے.آنکھیں ان کی روشن.حو صلے ان کے بلند پائے.نمازوں میں حاضری سو فیصدی.نمازیں نہ صرف رسمی بلکہ خشوع خضوع سے پُر دیکھنے میں آئیں.رقت وسوز، یکسوئی و ابتال محسوس ہوا.مسجد مبارک دیکھی تو پر.مسجد اقصیٰ دیکھی تو بارونق.مقبرہ بہشتی کی نئی مسجد جس کی چھت آسمان اور فرش زمین ہے.وہاں گیا تو ذاکرین و عابدین سے بھر پور پائی.ناصر آباد کی مسجد ہے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے آباد ہے.اذان واقامت برابر پنجوقتہ جاری.مساجد کی یہ آبادی اور رونق دیکھ کر الہی بشارت کی یاد سے دل سرور سے بھر گیا.اور امید کی روشنی دکھائی دیتی ہے، نہ صرف یہ کہ فرائض کی پابندی ہے، بلکہ نوافل میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے

Page 375

یہی کثرت ، ہجوم اور انہماک پایا.مقامات مقدسہ کے کونہ کونہ کے علم پانے کا عموماً ان نو جوانوں کو حریص دیکھا اور پھر عامل بھی.حتی کہ حالت یہ ہے کہ اس تین ہفتہ کے عرصہ میں میں نے بارہا کوشش کی کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے بیت الدعاء میں کوئی لمحہ تنہائی کا مجھے بھی مل سکے.مگر ابھی تک یہ آرزو پوری نہیں ہوئی.جب بھی گیا نہ صرف یہ کہ وہ خالی نہ تھا.بلکہ تین تین چار چار نو جوانوں کو وہاں کھڑے اور رکوع و سجود میں روتے اور گڑ گڑاتے پایا.اسی پر بس نہیں.بلکہ متصلہ دالان اور بیت الفکر تک کو اکثر بھر پور اور معمور پایا.تہجد کی نماز چاروں مساجد میں برابر با قاعدگی اور شرائط کے ساتھ باجماعت ادا ہوتی ہے.اور بعض درویش اپنی جگہ پر بعض اپنی ڈیوٹی کے مقام پر ادا کرتے ہیں.کھڑے کھڑے چلتے پھرتے بھی ان کی زبانیں ذکر الہی سے نرم اور تر ہوتی دیکھی اور سنی جاتی ہیں.اور میں یہ عرض کرنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ نمازوں میں حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے سو فیصدی ہے.درس تدریس اور تعلیم و تعلم کا سلسلہ دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے.ہر مسجد میں ہر نماز کے بعد کوئی نہ کوئی درس ضرور ہوتا ہے.اس طرح قرآن ،حدیث اور سلسلہ کے لٹریچر کی ترویج کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس کی بنیاد صحیح اور نیک نیت پر شوق اور لذت کے ساتھ اٹھائی جارہی ہے.عام علوم کے درس اس کے علاوہ ہیں.اور روزانہ وقار عمل تعمیر ومرمت.صفائی ولپائی مکانات، مساجد اور مقابر، راستے اور کوچہ ہا بلکہ نالیوں تک.اس کے علاوہ خدمت خلق بڑی بشاشت اور خندہ پیشانی سے کی جاتی ہے.جس میں ادنیٰ سے ادنی کام کو کرنے میں تکلیف، ہتک یا کبیدگی کی بجائے بشاشت ولذت محسوس کی جاتی ہے.گہیوں کی بوریاں ،آٹے کے بھاری تھیلے اور سامان کے بھاری صندوق ، بکس اور گٹھے یہ سفید پوش، خوش وضع اور شکیلے نو جوان.جس بے تکلفی سے ادھر سے اُدھر گلی کو چوں میں جہاں اپنے اور پرائے ، مرد اور عورت اور بچے ان کو دیکھتے ہیں.لئے پھرتے ہیں، قابل تحسین وصد آفرین ہے.اور ان چیزوں کا میرے دل پر اتنا گہرا اثر ہے جو بیان سے بھی ظاہر ہے.یہ انقلاب ، تغیر اور پاک تبدیلی دیکھ کر میرے آقا ! بے ساختہ زبان پر جاری ہوا.ہر بلا کیں قوم را حق داده اند خدا کرے کہ ایسا ہی ہو زیر آن گنج کرم پنهاده اند خدمت خلق کے سلسلہ میں ہمارا ہسپتال جو خدمت بجالا رہا ہے.وہ بھی اپنی مثال آپ ہے.

Page 376

۳۶۱ بلا تمیز و تفریق مذہب وملت.عورت، مرد اور بچے بیشمار (افراد) روزانہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.اور عزیز مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب جو ان دنوں انچارج اور چند نو جوان ان کی زیر قیادت ان خدمات پر مامور ہیں.جس کے نتیجہ میں رجوع خلق میں روز افزوں ترقی واضافہ نظر آتا ہے.اور اب ڈاکٹر عطرالدین صاحب کے آجانے پر ایک وٹرنری ہسپتال بھی جاری کر دیا گیا ہے.مقبرہ بہشتی کی ہر قبر بلکہ ہر قبر کے ایک ایک کونہ اور گوشہ میں روشوں اور نالیوں اور پودوں اور درختوں کی جو خدمت اس محصور خلق خدا نے کر دکھائی ہے....قابل رشک ہے.جس کو دیکھ کر میں ششدر ہو گیا.اور مرحبا اور صد آفرین کی صدا از خود دل کی گہرائیوں سے بلند ہونے لگی.مقبرہ کے گرد چار دیواری جس محنت اور جانفشانی سے ان ہونہاروں نے تیار کی ، وہ بے مثال ہے.جنوبی جانب، جنوب مشرقی اور جنوب مغربی دونوں کونوں میں دو کوارٹروں میں پانچ پانچ نوجوان دن رات رہتے ہیں.اس طرح مزار سید نا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی چار دیوار کے شمال مشرقی کو نہ پر بھی ایک دو منزلہ کوارٹر بنایا گیا ہے.اور ایک کوٹھڑی جو پہلے سے جنوب مغربی کو نہ ء چار دیواری کے باہر تھی.اس کو بھی بغرض حفاظت دومنزلہ بنا دیا گیا ہے.اور آج کل تمہیں نوجوان صرف مقبرہ بہشتی کی حفاظت پر مامور ہیں.جو وقار عمل کے وقت دوسرے درویشوں کے ساتھ مل کر بھی کام کرتے ہیں الغرض....یہ تو ہے ایک مختصر سا خاکہ.یہ سب کچھ کھو کر بھی...اگر خدا مل جائے.اس کی رضا حاصل ہو جائے.اور حضور کے زیر قیادت و ہدایت یہ را ہیں ہمارے لئے آسان ہوتی جائیں اور صبر و استقلال سے تحصیل علوم دینیہ ،عبادت و ذکر الہی ، خدمت خلق اور روحانی ترقیات کے سامان میسر رہیں.نیتیں نیک اور اعمال ہمارے صالح ہوں تو عجب نہیں کہ وہ مقام عالی حضور کے غلاموں کو اس محاصرہ کی حالت اور مشکلات کے دور میں میسر آجائے تو یہ سودا بہت سستا اور مفید ہے.آقا ! ہماری جس تبدیلی کے لئے حضور ہمیشہ تحریکیں فرماتے چلے آئے ہیں.اور رات اور دن حضور کے، اسی کوشش اور فکر میں گزرتے چلے آئے ہیں.کیا عجب کہ وہ اس قیامت ہی سے وابستہ ہوں.اور قضاء وقدر کا قانون خاص ہی حضور کے ان مقاصد کی توفیق جماعت کو عطا فرمادے اور پاک تبدیلی اسی قانون پر منحصر ہو.خدا کرے ایسا ہی ہو.دنیا تو گئی اگر خدامل جائے تو پھر کوئی خسارہ ہے نہ گھاٹا.نو جوانوں کی کایا پلٹ ہوگئی ہے یا کم از کم ہورہی ہے خدا کرے کہ اس حرکت میں برکت ہو.اور

Page 377

۳۶۲ اس قدم کے اٹھانے میں اللہ تعالیٰ دوڑ کر ہماری طرف آئے.دستگیری فرمائے اور اٹھا کر زمینی سے آسمانی بنادے.” میرے آقا! قصہ کوتاہ.یہ وقت ایک خاص وقت ہے.اور میں محسوس کرتا ہوں کہ مصلحت الہی اور منشاء ایزدی نے اس انقلاب کے ساتھ جماعت میں اس پاک تبدیلی کو وابستہ کر دکھایا ہے.جو حضور ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں.اور یہ وقت ہے جس میں خدا کا قرب پانے کے مواقع میسر ہیں.درویشی دور میں آپ کے بعض کام حضرت خلیفہ لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے منشا کے مطابق حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب بھی مئی ۱۹۴۸ء میں قادیان واپس تشریف لائے.آپ نے زبانی بیان کیا تھا کہ بوقت روانگی حضور نے مجھے فرمایا کہ قادیان کے حالات براہ راست حضور کو تحریر کرتا رہوں.آپ کا قادیان میں قیام سلسلہ کے لئے اور سب درویشان کے لئے بہت مبارکباد ثابت ہوا.بعض امور کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے : ا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی طرف سے مجلس کار پرداز مصالح قبرستان (بہشتی مقبرہ قادیان ) میں ذیل کے ارکان مقرر ہوئے.حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب ( ناظر اعلیٰ )،حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی ، حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی، ناظر بیت المال ( محترم شیخ عبدالحمید صاحب عاجز) اور خاکسار ملک صلاح الدین ( سیکرٹری بہشتی مقبرہ ) سیکرٹری.۲- جلسه قادیان پر ۲۸ / دسمبر ۱۹۵۰ء کا ایک اجلاس آپ کی صدارت میں منعقد ہوا.- حضرت ام المومنین رضی اللہ عنھا کی وفات پر آپ کے مناقب کے بارے مسجد اقصیٰ میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت بھائی جی کی بھی تقریر ہوئی.۴- حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی کی غیوبت کے دوران حضرت بھائی جی ان ۲۱۹ ۲۲۰ دونوں عہدہ ہائے جلیلہ کے لئے قائم مقام، حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے مقرر ہوئے تھے.- حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی طرف سے بقایا چندہ تحریک جدید کی جلد ادائیگی کی تحریک ہوئی.اس بارے میں زیر صدرات حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب ایک جلسہ منعقد ہوا.آپ نے بروقت ادائیگی کی کوشش کے لئے حضرت بھائی جی محترم قریشی عطاء الرحمن صاحب درویش معاون ناظر بیت المال اور محترم چودھری محمود احمد صاحب عارف سیکرٹری تحریک جدید مقامی پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی.می

Page 378

٣٦٣ حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ وار اور قادیان میں والہانہ محبت کا اظہار -1 ۱۰ مارچ ۱۹۵۴ء کو جب حضرت مصلح موعود ربوہ میں مسجد مبارک میں نماز عصر پڑھا کر واپس جانے لگے تو ایک غیر از جماعت ناہنجار نوجوان نے حضور کی شہ رگ پر چاقو سے قاتلانہ حملہ کر دیا.یہ خبر دوسرے روز صبح ریڈیو پاکستان سے سنی گئی.یہ خبر کیا تھی.ایک صاعقہ تھی.ایک بجلی تھی جو آنا فانا گری اور اس نے درویشوں کے حلقہ میں کہرام مچا دیا.اور ان کے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا.اس خبر کے ملتے ہی سب دیوانہ وار مسجد مبارک اور دارا مسیح کی طرف دوڑے.ہر درویش پریشان تھا کہ اب کیا کیا جائے.ہر شخص چاہتا تھا کہ کاش اس کو قوت پرواز نصیب ہو تو وہ اڑ کر اپنے امام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے.اور حضور کے درد و کرب میں شریک ہو کر اپنے آپ کو اپنے پیارے امام پر سے قربان کر سکے.بیت الدعاء اور دالان حضرت اُم المؤمنین میں حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے اشکبار آنکھوں اور غمزدہ دل کے ساتھ نہایت سوز وگداز سے اجتماعی دعا کرائی.دعا کے وقت حشر سا بپا تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اکثر درویشوں کی آہ و بکاہ عرش الہی تک پہنچ رہی ہے.پھر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور محترم صاحبزادہ مرزا و تیم احمد صاحب کے مشورہ سے چودھری عبدالقدیر صاحب درویش کو (جو بعد میں ناظر بیت المال خرچ مقرر ہو گئے تھے ) کو تفاصیل معلوم کرنے کیلئے بھجوایا گیا.اور وہ ۱۳ مارچ کو واپس آگئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا تار بھی موصول ہو چکا تھا حملہ کے بارے اور حملہ آور کی گرفتاری کے بارے تار میں دعائیں کرنے کی تلقین کی گئی تھی.حملہ سے زخم تین انچ لمبا اور پون انچ گہرا تھا.ہدایت کے مطابق تمام درویشان مسجد مبارک میں جمع ہوئے اور خواتین بیت الفکر میں.تار، تین بار سنایا گیا.پھر حضرت بھائی جی نے دو نوافل باجماعت پڑھائی.جو رقت الحاح اور تضرع کا ایک خاص رنگ لئے ہوئے تھے.تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی اس نماز میں حضور کی صحت عاجلہ و کاملہ اور درازی عمر کیلئے دعائیں کی گئیں.بعدہ صدقہ کی تحریک کی گئی.دو قربانیاں کی گئیں اور بقیہ رقم بیوگان اور مساکین میں تقسیم کی گئی.۱۲۲ خاکسار مؤلف حضور کے ارشاد پر سلسلہ کے ایک کام کیلئے سری نگر گیا ہوا تھا.حضور کے احسانات کی وجہ سے وہاں غیر از جماعت کشمیریوں نے بھی اس صدمہ کو بہت محسوس کیا اور شام کو کھانا نہیں کھایا.خاکسار

Page 379

۳۶۴ کی دوسرے روز خطبہ جمعہ میں تحریک پر احباب نے صدقہ کیا.ایک احمدی دوست اس وقت بہائیت کے زیر اثر آگئے تھے.چند روز پہلے خاکسار اور مبلغ سری نگر حکیم محمد سعید صاحب نے ان کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی.بعد میں ان صاحب نے اپنی بیوی کو شدید مار پیٹ کی کہ تمہاری جماعت سے وابستگی ان دونوں کے آنے کا باعث بنی ہے.بیوی علیحدگی لینے پر مصر تھی.خاکسار کے سمجھانے پر رک گئی.ان صاحب پر اس حملہ کی خبر کا ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے جمعہ میں صدقہ بھی پیش کیا.چاول پکوا کر صدقہ کے طور پر خود بانٹے.ان کو تو بہ کی توفیق ملی اور وفات سے پہلے سالہا سال تک وہ تبلیغ میں منہمک رہے اور خاتمہ بالخیر ہوا.فالحمد للہ.۲- حضرت مصلح موعود کے استفسار پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے تحریر کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک رؤیا سنائی تو حضور نے معا بڑے جوش سے فرمایا.دعا کرو.اور آپ نے بڑی لمبی دعا کی.اور پھر حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کے متعلق اپنے بعض خواب سنائے.جن میں یہ بھی تھا کہ حضور نے ایک دفعہ صاحبزادہ صاحب کے کپڑوں پر خون کے دھبے یا چھنٹے دیکھے.نیز فرمایا کہ خوابوں کی تعبیر اپنے وقت پر ہوتی ہے اور جو لوگ بڑے ہوتے ہیں ان کے دشمن بھی بہت ہوتے ہیں.اس لئے میں نے دعا کی ہے کہ ہر امر برکات کا موجب ہو.حضرت عرفانی صاحب نے یہ بھی لکھا کہ مجھے یہ وہم کبھی کم نہ ہوا کہ آپ پر قاتلانہ حملہ ہوگا.سو میں (عرفانی) مخفی طور پر نگرانی کرتا رہا.خلافت اولیٰ میں آپ شکار کو اکیلے چلے جاتے تھے.سو میں نے اور مفتی فضل الرحمن صاحب نے عرض کر کے ساتھ جانے کی اجازت لے لی.ایک فتنہ کے وقت اپنے بیٹے (شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ) کومخفی دشمنوں کی سازشوں کی حرکات و سکنات کا علم رکھنے کو مقرر کیا.جب میں دکن چلا آیا تو دشمنوں کی کارستانیوں کا علم ہونے پر میں نے مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو لکھا کہ آپ خاص طور پر حضرت صاحب کی نگرانی رکھیں.باڈی گارڈ کے بھروسہ پر رہ کر غافل نہ ہوں.۲۲۳

Page 380

۳۶۵ وجوہ معاش ۲۲۴ حضرت بھائی جی تحریر کرتے ہیں: ”میرے وجوہ معاش کبھی بھی مستقل اور معین نہیں ہوئے.نہ میں مستقل تاجر رہا.نہ ہی مستقل ملازم.وجہ یہ کہ نیت ہمیشہ یہ رہی ہے کہ کسی طرح سے کبھی کوئی خدمت خاندان پاک کی مجھ سے ہو جائے.اس نیت سے دکان کی تو عارضی.تا کہ وقت پر آسانی سے چھوڑی جاسکے.اور کام کیا تو ایسا کہ مجھے اصل غرض سے محروم نہ کر سکے.“ ( چٹھی ۲۸ نومبر ۱۹۲۹ء فائل وصیت ) آپ نے کبھی دکان کر لی.کبھی ملازمت.کبھی کسی کے ساتھ دکان کی شراکت کر لی.آپ لمبے عرصہ تک شدید مالی مشکلات سے دو چار رہے.حضرت مصلح موعودؓ ان مالی تفکرات سے آپ کو آزاد کرانے کی کوشش کرتے رہتے تھے.چنانچہ حضور نے بعض دفعہ آپ کو ملازمت کیلئے توجہ دلائی.حضور بعض دفعہ بحالی صحت کیلئے علاقہ بیٹ میں تشریف لے جاتے تھے.ایک دفعہ موضع عالمہ سے جو قادیان سے چند میل کے فاصلہ پر ہے بھائی جی کو لکھا کہ کاروبار کے لئے میں نے پانچ صد روپیہ آپ کو مہیا کرنا تھا.ساڑھے چار صد روپیہ کا انتظام ہو گیا ہے.تین سال کے لئے آپ اسے امانت یا قرض تصور کریں.بعد اختتام مدت یہ سرمایہ آپ کا ہو جائے گا.اس بات سے بھی جماعت کی مالی حالت کا علم ہوتا ہے کہ حضور کو با وجود امام جماعت ہونے کے ایک بزرگ کی خاطر پانچ صدر وپیہ کی رقم کے مہیا کرنے میں کتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا.جس نیت سے آپ نے مستقل کاروبار نہ کیا اور پھر اس نیت پر جس عزم بالجزم سے آپ عمل پیرار ہے اور نہ صرف آپ نے بلکہ آپ کے اہلبیت نے بھی ان صبر آزما حالات میں آپ کا ساتھ دیا.ایسی استقامت اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں.اسکی کچھ تفصیل الگ بیان کی جائے گی.آپ کے معاشی حالات ۲۲۵ آپ کے معاش کی صورت حال ذیل کے کوائف سے واضح ہوتی ہے.کسی کام کو آپ نے عار نہیں

Page 381

خیال کیا: ۳۶۶ ۱ ابتدا ۱۸۹۸ء سے کئی سال تک آپ تعلیم الاسلام سکول میں ٹیچر رہے.-۲- محمد اسمعیل و ماسٹر عبدالرحمن صاحب قادیانی کی طرف سے اعلان ہوا کہ ہم پانچ سالہ بچوں کو چھ ماہ میں قرآن مجید پڑھا سکتے ہیں.بچے اس عرصہ میں ہر ایک اعراب والی کتاب کو صحت سے پڑھ سکیں گے.آخر پر تصدیق ( حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب ہے کہ ”جہاں تک میرا تجربہ اور علم ہے مجھے یقین ہے کہ دونوں صاحب بہت نیک ہیں.انشاء اللہ بچوں کے لئے ان کے مساعی مشکور ہوں گے.“ البدر ۱۸ مئی ۱۹۰۳ء.صفحہ ۱۲۷.محمد اسمعیل صاحب سے مراد محمد اسماعیل صاحب سرساوی مدرس مدرسه تعلیم الاسلام ہیں.“ - آپ اواخر ۱۹۰۳ ء تا اواخر ۱۹۰۷ء حضرت مرزا محمد احسن بیگ صاحب کے پاس راجپوتانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر ٹھہرے تا کہ ان کی اراضی کی آباد کاری میں مددد ہیں.- حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مالک وایڈیٹر اخبار الحکم نے بتایا کہ بھائی جی کو اس اخبار میں ۱۹۰۸ء میں مقرر کیا گیا تھا.خصوصاً حضرت اقدس کے آخری سفر لاہور سے پہلے.آپ ۱۷ / اگست ۱۹۰۸ ء تک اس اخبار میں کام کرتے رہے.الحکم کی مالی تنگی کے باعث آپ وہاں سے فارغ ہوئے تو دکان کرنے کی طرف توجہ کی.۵.آپ کے یکم ستمبر ۱۹۱۰ء کے خط کے مطابق آپ مقروض تھے.- وو سال ۱۹۱۰۱۱ میں بکڈپو کی فروخت کتب کا انتظام شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی دکاندار کے سپرد کیا گیا ہے.۲۲۷ 66 ے.دکان میں آپ کی کسی کے ساتھ شراکت تھی.۸- بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں آپ نے ۱۹۱۷ء میں دکان کھول لی تھی.۲۲۹ ۹ - آپ کا ۲۰ جنوری ۱۹۱۸ ء تا ۲۸ / ستمبر ۱۹۲۰ء دوکان کا روز نامچہ خاکسار مؤلف کو اتفاقاً ایک جگہ ردی کا غذات سے مل گیا.جس سے معلوم ہوا کہ اسوقت آپ اندرون شہر دکان کرتے تھے.۱۹۲۰ء میں آپ کی سوڈا برف کی دکان تھی.( مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۶۸ کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے آپ نے اس کام کے

Page 382

۳۶۷ کرنے کی اجازت غالبا اس سال کے موسم کے لئے درخواست کی تھی ) ۱۰- آپ کے ۲۷ اپریل ۱۹۲۷ء وبعد کے خطوط سے آپ کے مقروض ہونے کا علم ہوتا ہے.۲۱ اکتوبر ۱۹۲۸ء کی آپ کی تنظیمیں مرقوم ہے کہ پون سال سے آپ کسی دفتر میں کام کر رہے ہیں لیکن آپ کو معاوضہ نہیں ملا.اور اس بارے میں دفتر کی تصدیق آپ کے وصیت کے فائل میں موجود ہے اس کا باعث صدر انجمن احمدیہ کی اپنی مالی مشکلات تھیں اور اس زمانہ میں معاوضے کئی کئی ماہ تاخیر سے ملتے تھے.اس فائل سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی جو کچھ پونچھی جمع ہوئی تو وہ بھی خدمت سلسلہ میں صرف ہوگئی.مثلاً علاقہ ملکانہ میں قریباً ایک سال بھر آپ جہاد تبلیغ میں مصروف رہے.وہاں ہر ایک کو اپنا خرچ کرنا پڑتا تھا اس طرح وہاں کے اور گھر کے اخراجات میں آپ کی ساری پونچی صرف ہوگئی.۱۹ جون ۱۹۲۹ء کی آپ کی چٹھی سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ ملکانہ کے بعد سے آپ بریکار چلے آرہے تھے.۱۹۳۳ء میں سندھ میں آپ نے نصف سال کام کیا.دوسرے سال آپ نے ساٹھ روپے مشاہرہ پر سات ماہ کام کیا.لیکن علالت کے باعث آپ کو محمود آباد اسٹیٹ (سندھ سے واپس بلا لیا گیا.۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء کے دوسالوں میں قریبا چھ ماہ اور ۱۹۳۷ء میں سندھ میں بمقام میر پور خاص تین ماہ کام کیا.11- ۱۱- قادیان گانڈ مرتبه محترم محمد یامین صاحب تاجر مطبوعه نومبر ۱۹۲۰ء احمدی بازار کے پچپیس تاجران کے نام مع کام کے درج ہیں.( ناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد مبارک کے قرب وجوار کے بازار کو احمدی بازار لکھا ہے.وہاں درج ہے.” بھائی عبدالرحمن صاحب.کیک سکٹ“.(صفحہ ۱۰۹) آپ کی دکان کے روز نامچہ سے علم ہوتا ہے کہ آپ برف سوڈا، کوکونٹ ، پیسٹری، کیک، بند، رس، ڈبل روٹی، بسکٹ اور سبزی ، پھل وغیرہ کا ملا جلا کام کرتے تھے.پیسٹری وغیرہ کی تیاری میں آپ کی اہلیہ محترمہ مدد کرتی تھیں اور وہ اس کام سے واقف ہو گئی تھیں.اسوقت قریب ترین ریلوے اسٹیشن ( جہاں عام آمد و رفت تھی اور امرتسر اور لاہور کے راستہ میں) بٹالہ کا ریلوے اسٹیشن تھا جو گیارہ میل کے فاصلہ پر ہے.سارا ضلع گورداسپور اسوقت بے حد پسماندہ علاقہ تھا.قادیان اور اس کا ماحول دیہاتی رنگ رکھتا تھا.ضروریات کم اور محدود تھیں ان میں بہت سادگی تھی اس کا اور کئی اور مفید باتوں کا علم اس روز نامچہ سے ہوتا ہے.سادگی دیکھئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے جناب چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی آمد پر ۱۸ راپریل ۱۹۱۹ء اور ۱۴ را پریل ۱۹۲۰ء کو دس آنے اور آٹھ آنے کی اشیاء مہمان نوازی کے لئے خرید کی

Page 383

۳۶۸ گئیں.بالعموم احباب ادہار سودا خریدتے تھے کیونکہ عوام کی اقتصادی حالت اچھی نہ تھی.کئی برسوں تک سلسلہ کے کارکنان کا یہ حال رہا کہ کئی کئی ماہ تاخیر سے تنخواہیں تقسیم ہوتی تھیں.اور اس کا اثر دکانداروں وغیرہ پر بھی پڑتا تھا.ایسی صورت میں یہ کارکنان اور غریب مہاجرین بمشکل ضروریات زندگی ہی خرید سکتے تھے.ایک ایک دو دو پیسے کے ادہار کے اندراجات یہی حقیقت ظاہر کرتے ہیں.سو کاروبار کا میدان بہت ہی محدود تھا.اس روز نامچہ کے مطابق اونچے گھرانے بھی ادہار سودا لیتے تھے.ان کا مقصد یہ ہوتا ہوگا کہ ہر ماہ یکمشت ادا ئیگی کر دی جائے.روز نامچہ کے کام کے زمانہ میں قریباً پچیس ماہ میں برف بشمول کلفہ کی بکری کے علاوہ پھل سبزی اور متفرقات کی ادبار فروخت جو کہ دراصل پچاس ساٹھ فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ ادہار ہی ہوتی تھی ، چھ روپے ماہوار سے زیادہ نہ تھی.سوڈا برف کا کام تو بالکل عارضی اور دواڑھائی کا ہی کام ہوتا تھا.درمیان میں آپ سفروں پر سلسلہ کی خاطر چلے جاتے تھے.ایک دفعہ آپ قریباً چار ماہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ساتھ سفر میں رہے.تو برف کا کام دو اور اشخاص نے شروع کر دیا روز نامچہ کے عرصہ بنتیں ماہ آٹھ دن میں سے آپ نے سات ماہ دس دن ،سولہ سفروں میں گزارے.قادیان گائڈ میں ” قابل قدر نوٹ میں شیدائی“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے: حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے خدام اور شیدائی یوں تو آپ کے سب کے سب مبایعین ہیں.لیکن سب سے زیادہ خدمت کرنے والے بعض یہ ہیں.مثلاً شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی مطبوعه نومبر ۱۹۲۰ء.صفحہ۱۱۲.آپ کے نام کے بعد تین اور نام بھی درج کئے ہیں.) آپ کا شیدائی ہونا تو ثابت ہے کہ جب ارشاد ہوا کاروبار اور گھر میں تکلیف کا خیال کئے بغیر تیل کے لئے حاضر و مستعد.ریل سے دور ہونے کے باعث اور پھر سامان تھوڑی مقدار میں لانے کی وجہ سے لازماً اس پر کافی خرچ اٹھتا تھا.مثلاً یکم جولائی ۱۹۱۹ء کے روز نامچے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو نصف رو پیدا جرت پر بٹالہ آپ نے بھیجا.یکہ کا آمد ورفت کا کرایہ دوروپے دس آنے دیا.برف ساڑھے تین روپے کی منگوائی.لیکن قادیان پہنچنے پر برف ساڑھے تین سیر نکلی.برف کا کام رمضان المبارک موسم گرما میں واقع ہونے کی وجہ سے ہوتارہا.گو عام ایام میں برف چار آنے سے ایک روپیہ فی سیر کے حساب سے فروخت ہوتی تھی اور اعلی گھرانے بھی اس زمانہ میں شاذ ہی

Page 384

۳۶۹ ایک سیر سے زیادہ کی خریداری کرتے تھے.۱۹۲۰ء میں رمضان المبارک آیا.بھائی جی ایک ماہ کے لئے ساٹھ روپے ایک یکہ والے سے کرایہ طے کر کے برف چھ من پختہ روزانہ منگواتے رہے جو بٹالہ کے کارخانے سے دو روپے فی من کے حساب سے ملتی تھی گویا برف بارہ روپے اور کرا یہ دوروپے کے ساتھ روزانہ چودہ روپے صرف ہوتے.وہ دو آنے فی سیر کے حساب سے آپ فروخت کرتے تھے.اندراجات سے یہ بھی نظر آتا ہے کہ چند ایک پھل اور چند ایک سبزیاں بھی آپ بعض دفعہ رکھتے تھے.گو پیسٹری وغیرہ کی دکان سے سبزیوں کا دور کا بھی واسطہ نہیں.اس سے یہ ظاہر ہے کہ سبزیوں کے استعمال کا عام رواج نہ تھا تبھی ۲۱ ستمبر ۱۹۱۹ء کولنگر خانہ کو آپ کی دکان سے دوسیر ٹینڈے خرید نے پڑے.اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بکری کم ہونے کی وجہ سے آپ کو سبزی وغیرہ بھی رکھنی پڑتی تھی.کباب صرف ایک دفعہ درج ہیں.قیمت ساڑھے تین روپے کے کسی اور جگہ درج نہیں.اندازہ ہوتا ہے کہ کسی گاہک کو آپ نے کسی اور دکان سے حاصل کر کے مہیا کئے ہوں گے.ایک کا رک سکریو (SCREW) ایک چمپنی اور ایک دیچی.یہ تینوں چیزیں قریباً چار روپے کی فروخت کرنا بھی درج ہے.معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے آرڈر پر آپ نے منگوائی یا لائی ہوں گی.روز نامچہ کے کل عرصہ کی فروخت کردہ اشیاء کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے.اس سے تین باتیں سامنے آتی ہیں.ایک بکری کی کمی.دوسری عام افراد کی قوت خرید کی کمی.تیسری عام صورت حال.نام نرخ فروخت کل فروخت کیلئے باره آنه در جن تین روپے نصف آنہ ایک روپیہ فی سیر فلمی آم فی دانہ دو سے چار آنہ تک قریباً پانچ روپے انہتر روپے امرود پون روپیه چار آنے مٹر ٹینڈے چار آنے فی سیر گیارہ آنے توری چار آنے فی سیر تین روپے ٹماٹر سوا نو آنے شیر مال ( دوخریداروں کو دیا گیا ) سوا پانچ روپے نمبر شمار -1 -۲ -Y -2 -^ -9

Page 385

-1° -11 -١٢ -١٣ -10 کیک خورد ایک روپیہ کیک کلاں ڈیڑھ روپیہ کوکونٹ سوا آنه بسکٹ دوروپے سیر -۱۵ -17 برف کا کلفه سالم تین تا ساڑھے چار روپے سوڈا برف چار سے چھ آنے تک انڈے.چائے فی انڈہ ایک آنہ دودھ.فرنی.کافی چائے کی پیالی ایک آنہ ترین روپے روز نامچہ میں فالودہ.کافی اور خشک چائے کا صرف ایک ایک اندراج ہے.فرنی کا بھی صرف چند بار کا اندراج ہے.روز نامچہ سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ چائے انڈہ کا انتظام صرف جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہوتا تھا.-12 پان باره آنه فی سینکڑہ کل فروخت قریباً سواد وروپیه پان کی فروخت کا ذکر صرف تین دنوں میں ہے.ان تین دنوں میں پان دوگھروں میں بھیجے گئے.ایک دارا مسیح میں اور دوسرے مرزا گل محمد صاحب کے ہاں ( جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی مرزا نظام الدین صاحب کے بیٹے تھے اور انہوں نے احمدیت قبول کر لی تھی.اور حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی ہمشیرہ محترمہ عزیزہ رضیہ صاحبہ سے ان کی شادی ہوئی تھی) روزنامچہ کے عرصہ میں قادیان میں پان کا رواج عام نہیں تھا.صرف تین دنوں میں اس کی فروخت کے اندراجات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں گھرانے بالعموم پان اپنے طور پر قادیان کے باہر سے منگوا لیتے ہوں گے.بلکہ دیگر ضروریات بھی یہ گھرانے باہر سے منگوا لیتے ہوں گے یا اپنے سفروں میں خرید لیتے ہوں گے.عام خریدار اپنی مالی حالت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے ادھار لیتے تھے.اور یہ حالت بھائی جی کے ۱۹۱۸ کے روز نامچہ میں تیار کردہ گوشوارہ سے بھی ثابت ہے جس کے مطابق اس بہت معمولی سی دکان کا خریداروں کے ذمہ تین سو بارہ روپے ادہار تھا.ابتدائی مجالس مشاورت کی رپورٹوں میں بھی بالوضاحت اس صورت حال کا ذکر آتا ہے.

Page 386

۳۷۱ خاکسار مؤلف هذا ۱۹۲۲ء میں مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پانے کے لئے داخل ہوا.اس وقت حضرت بھائی جی کی دکان مسجد مبارک کے سامنے موجودہ آہنی گیٹ کے متصل ایک چھوٹی دکان کے متصل جانب جنوب بڑی دکان تھی.نمازوں کے لئے گزرتے ہوئے ہم دیکھتے تھے کہ چند دانے آم کے پڑے ہوتے تھے.اس زمانہ میں قلمی آموں کا رواج بہت شاذ ہوگا تخمی آم پنجاب میں بکثرت ہوتے تھے.بہت سالوں بعد کوٹھی دار السلام اور احمد یہ فروٹ فارم واقع محلہ دارالفضل میں قلمی آم لگائے گئے اور کوٹھی دار الحمد میں بھی.احمد یہ فروٹ فارم میں ترانوے قسم کے قلمی آم کے تین سو چونسٹھ پیر موجود ہیں.تقسیم ملک سے پہلے احمد یہ فروٹ فارم کے آم مقابلہ میں سندات پاتے رہے.کمشنر صاحب کے عرصہ درویشی میں آنے پر خاکسار نے وہ سندات دکھا ئیں تو انہوں نے دیگر افراد سے اس کا قبضہ محکمہ زراعت کو دلا دیا.اس طرح خاکسار کے عرض کرنے پر یہ برباد ہونے سے محفوظ رہا.اس سے ہمیشہ ہی سینکڑوں من آم اترتے ہیں.آمد کا اندازہ حضرت بھائی جی کی حقیقی آمد کا تعین آپ کے حصہ آمد کے چندوں سے ہوتا ہے.جن کے بعض اندراجات ملتے ہیں.فروری ۱۹۱۸ء تا مارچ ۱۹۱۹ یعنی چودہ ماہ کا حصہ آمد ( دسواں حصہ ) آپ نے پندرہ روپے ادا کیا.گویا آمد ڈیڑھ سو روپیہ چودہ ماہ کی ہوئی.گویا دس روپے ایک آنہ کے قریب ماہوار.اس وقت آپ کے کاروبار پر دس گیارہ سال گزر چکے تھے.ظاہراً آپ کے کاروبار کے فروغ پانے کی کوئی صورت نہ تھی.آپ خدمت دین کے لئے کاروبار کے نقصان کی پرواہ نہیں کرتے تھے.۱۹۳۸ء میں آپ نے چار ماہ کا چندہ حصہ آمد صرف ایک روپیہ پیش کیا تھا.پھر اسی سال میں تین روپے قرض لے کر آپ نے حصہ آمد دیا.بار بار اپنے مکان کے کچھ حصے یکے بعد دیگرے رہن رکھ کر تعلیم وغیرہ کا انتظام کرنے پر آپ مجبور ہوتے رہے.اس بارے تفصیل کے ساتھ ذکر اور جگہ کیا گیا ہے.خاندان حضرت مسیح موعود کی خدمات اور متفرق خدمات سفر و حضر میں آپ کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام وسلسلہ احمدیہ کی خدمات کی سعادت حاصل ہوتی رہی.متعدد امور کا ذکر اس کتاب میں کسی نہ کسی جگہ پر ہے.

Page 387

۳۷۲ -1 ایک نہایت اہم کام صحابہ قادیان کی فہرست مع مختصر کوائف کے تیار کرنا تھا جو آپ نے زیر نگرانی نظارت تالیف و تصنیف سرانجام دیا: ٢٣٠ ۲- جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ۱۹۱۲ میں حج وغیرہ کے لئے تشریف لے گئے تو بھائی جی آپ کو بمبئی تک چھوڑنے گئے جس سے آپ کو بہت سہولت میسر آئی.جنوری ۱۹۱۳ میں آپ کی واپسی پر بمبئی میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور بھائی جی نے استقبال کیا.( الحکم نے ۱۴؍ جنوری ۱۹۱۳ء ) اس موقعہ پر بھائی جی نے یہ عرض کر کے حضرت خلیفہ اول سے اجازت لے لی تھی کہ میں وہاں سے سنتا تجارتی مال خرید لوں گا.جس سے میرا کرایہ نکل آئے گا.- پادری والٹر ایم.اے سیکرٹری وائی.ایم ہی.اے لا ہور ۱۹۱۶ء میں قادیان آئے.اور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے انہوں نے ملاقات کی.بھائی جی بیان کرتے ہیں کہ پادری صاحب کے قیام اور حضور سے ملاقات کا انتظام میرے ذریعہ سے ہوا تھا.کھانا پکوا کر یتامی و مساکین میں تقسیم کرنا اور کسی قرض خواہ کی فوری امداد کرنا.خرید اشیاء کے اور بٹالہ سے بلٹی لانے کے بعض نجی کام حضور کی طرف سے بھائی جی کے سپر د ہوتے رہے.۵- جب حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خاکسار مؤلف خدمت پر تھا تو ۱۹۳۸ یا ۱۹۳۹ میں حیدر آباد دکن سے ایک کمپنی کے ایک ذمہ دار شخص نے حضور سے ملاقات کر کے بتایا کہ آلہ وکٹو گراف آپ اور آپ کے گھروں میں اور نیچے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں لگانے سے بہت سا وقت آپ کا بچ سکتا ہے اور آپ جس سے چاہیں بات کر سکیں گے.سو حضور نے ان سب مقامات پر اور نظارت علیا میں بھی لگوانے کا آرڈر دیا تا کہ اگر ضرورت ہوتو حضور صدرانجمن کو بھی مخاطب فرما سکیں.ان صاحب کے ساتھ پیمائش کے وقت خاکسار کو دارامسیح میں حضور نے بھجوایا.اور ہرحرم کے قیامگاہ میں جگہیں متعین فرما دیں.جب اس آلہ کے اور اس کی تاروں کے لگانے کا موقعہ آیا تو دار مسیح کے اندر کام کرانے کی نگرانی حضور نے بھائی جی کے سپر دفرمائی تھی.۲۳۳ ۶- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب و حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے سفر لاہور میں بھی بھائی جی ان کے ہمرکاب رہے..آپ لکھتے ہیں.لاہور بغرض تلاش مکان برائے حضرت خلیفہ امسیح وخرید ادویہ دو پل ے.چلا گیا.( روز نامچه دوکان بتاریخ ۲۶ را پریل ۱۹۱۸ء)

Page 388

- روز نامچہ میں ۳۰ را پریل ۱۹۱۸ کو آپ تحریر کرتے ہیں : بحکم حضرت خلیفہ ثانی بغرض تلاش مکان کراچی گیا.کراچی میں بوجہ پلیگ مکانات کی دقت تھی.نیز پلیگ کی ترقی ہورہی تھی.لہذا بذریعہ تار واپس لاہور آنے کا حکم پہنچا.اور لاہور سے حضرت کے ہمراہ بمبئی چلا گیا جہاں سے ۱۸.۶.۱۵ کو حضرت کے ہمراہ واپس قادیان پہنچا اور بوجہ رمضان شریف سر دست کام دکان نہیں کرسکتا.برف کا کام اس سال میری غیر حاضری کی وجہ سے میاں عبدالمجید کباب فروش وعبداللہ پٹھان نے شروع کر دیا.لہذ اس سال کام برف بھی اب نہیں ہو سکتا.ان الله هوالرزاق ذو القوة المتين.عبد الرحمن قادیان ۱-۶-۱۵ - حضرت خلیفہ اسیح الثانی بوجہ شدید علالت طبی مشورہ کے مطابق ساحل سمندر پر تبدیلی ، آب و ہوا کے لئے ۳ رمئی ۱۹۱۸ء کو بمبئی تشریف لے گئے.( الفضل ۴ رمئی وا ارمئی ۱۹۱۸ء) حضرت ام المومنین بھی شدید علیل تھیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی وہاں تشریف لے گئے.بھائی جی نے حسب وعدہ ، صحت اور دیگر کوائف کے متعلق روزانہ اطلاع دینی شروع کردی.جو الفضل بابت ۱، ۱۱،۸ جون میں درج ہیں.ایک دفعہ تار کے ذریعہ بھی اطلاع بھجوائی.حضور مع قافلہ ۱۵ جون کو مراجعت فرما ہوئے.۹- آپ لکھتے ہیں : ۷ ارا گست ۱۸ء کی شام کو حضرت سفر ڈلہوزی سے واپس تشریف لائے.آتے ہوئے مجھے ٹمٹم کے پہیہ کے پاؤں سے گزر جانے سے سخت چوٹ آگئی.( روز نامچہ دکان ) ۱۰ - ۳-۱-۱۹ تا ۱۳ پھیر و چی کا سفر - ( روز نامچہ) حضور کے موضع پھیر و چی نزد دریا جہاں حضور کی مملوکہ اراضی تھی یعنی را جپورہ میں ۴ / جنوری ۱۹۱۹ کو جانے اور اور ارجنوری کو جمعہ کے لئے واپس آنے کا ذکر الفضل ۷ ۱۴۷ جنوری میں ہے.شاید حضور کا پھر واپس جانے کا ارادہ ہو گا جس کی وجہ سے بھائی جی ۱۳ / جنوری تک وہاں ٹھہرے ہوں گے لیکن پھر کسی وجہ سے حضور نے ارادہ ترک کر دیا ہوگا.۱۱- روز نامچہ سفر لاہور تا ۲۷ فروری ۱۹۱۹ ہمر کاب حضرت خلافت مآب - الفضل ۱۵ / فروری و ۴ مارچ ۱۹۱۹ کے مطابق حضور کا قیام لاہور میں ۱۲ تا ۷ارفروری رہا.۱۲ روز نامچه ۱۵ را پریل ۱۹۱۹ کو حسب الحکم حضرت خلافت ماب گاڑی کے بند ہو جانے کی وجہ سے وفد صاحب چیف سیکرٹری کی ملاقات کو روک لیا گیا اور میں مع نیک محمد خاں ومحمد الیاس لاہور گیا.مارشل لاء جاری تھا.واپسی کے واسطے مشکلات تھے.۱۵ تا ۲۰ لاہور میں رہا.( محترم نیک محمد خان 11-

Page 389

۳۷۴ صاحب غزنوی حال مقیم ربوہ اور محمد الیاس صاحب افغان مرحوم مراد ہیں ).آپ تحریر فرماتے ہیں.۲۲ اپریل (۱۹۱۹).ناقل ) بغرض درخواست برآمدگی اپیل ہبہ را جپورہ گورداسپور گیا.واپس آیا اور۱۳ کو (پھر.ناقل ) گیا (حسب الارشاد حضرت خلیفہ اسیح).(۱۵،۱۴) آپ لکھتے ہیں.۶ اکتوبر (۱۹۱۹.ناقل ) بحکم حضرت خلیفتہ امسیح لا ہور بغرض خریدا دو یہ و سامان متفرق و پار جات برائے رخصتانہ مرزا گل محمدگیا اور اراکتو برکو واپس آیا.۱۴ اکتو بر بحکم حضرت خلیفہ مسیح بغرض بعض سامان و پار چات متعلق شادی مرزا گل محمد لا ہور گیا اور ۱۹ را کتوبر کو واپس قادیان آیا.“ ۱۶ روز نامچه ۱۵ نومبر کی شام کو نشی عبدالرحیم ملازم سٹور، بٹالہ سے آتے ہوئے وڈالہ کے قریب ڈاکوؤں کے ہاتھ آگئے.جنہوں نے ان سے کل نقدی احمد یہ سٹور قادیان جو بصورت نوٹ اور نقد ان کے پاس تھی یعنی مبلغ آٹھ سو روپیہ سوا چھ آنہ چھپن لی اور بھاگ گئے.جس کی اطلاع کے واسطے بحکم خلافت ماب بوساطت حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب ایم.اے ناظر امور عامه مع حضرت مفتی فضل الرحمن صاحب بٹالہ گیا اور دوسرے دن صبح کو ا ا بجے واپس قادیان پہنچا.۱۷- روز نامچہ ۱۹-۱۱-۲۷ تا ۱۹-۱۱-۳۰ لاہور بغرض تیاری ایڈریس وانتظام وغیرہ گیا“.۲۷ فروری ۱۹۱۹ میں ” برائے وفد ایڈریس لاہور کچھ خوردنی اشیاء دینے جانے کا بھی ذکر ہے.الفضل بابت ۲۲ دسمبر ۱۹۱۹ کے مطابق ۱۷ دسمبر ۱۹۱۹ کو امیر وفد حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ اکاون احباب کے وفد نے لیفٹیننٹ گورنر صاحب پنجاب کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا.۱۸ روز نامچه ۲ / دسمبر (۱۹۱۹ ناقل) کو بغرض ڈیکلیریشن” رفیق حیات گورداسپور بحکم ناظر امور عامہ گیا.مگر قانونی نقص کی وجہ سے واپس آنا پڑا.قادیان گائڈ کے مطابق یہ طبی رسالہ حکیم عطا محمد صاحب لاہوری نے ۱۹۱۸ء میں جاری کیا تھا.(صفحہ ۳۸) ۱۹ - روز نامچه ۲۰-۱-۸ تا ۲۰-۱-۱۶ بغرض تحریک چنده مسجد لندن لاہور و بغرض ادخال ڈیکلیریشن ”نور“ گورداسپور گیا.کھا را بعد عصر بمعیت سید ولی اللہ شاہ صاحب پندرہ روزہ اخبار ” نور“ حضرت شیخ محمد یوسف صاحب نو مسلم مالک وایڈیٹر نے ۱۹۱۰ میں قادیان سے جاری کیا تھا.

Page 390

۳۷۵ موضع کھارا ریلوے سٹیشن قادیان سے شمال کی طرف ایک سوا ایک میل پر واقع ہے.۲۰ روز نامچه - ۱۳ / فروری ۲۰ تا ۲۳ ، حضرت کے ہمرکاب.لاہور.امرتسر الفضل بابت ۱۶ / فروری یکم مارچ ۱۹۲۰ء کے مطابق حضور طبی مشورہ کے لئے ۱۳ / فروری کو لاہور تشریف لے گئے اور ۲۴ فروری کو مراجعت فرما ہوئے.رفقاء سفر میں ” عبدالرحمن قادیانی بھی تھے.۲۱ - روز نامچه ۲۷ فروری ۲۰ سے ۲۷ / مارچ ۲۰ ء تک حضرت کے ہمرکاب پھیرو چی ، گورداسپور، پٹھانکوٹ ،سجانپور، مادھو پور، شاہ پور، نور پور، دوالمیال وغیرہ.یہ تفصیل صرف یہاں مرقوم ہے.الفضل سے تو یکم مارچ پھیر و چی جانے.ایک دفعہ جمعہ کے لئے آنے.پھر وہاں جانے اور وہاں سے گورداسپور اور پھر پٹھانکوٹ جانے اور ۲۷ / مارچ کو قادیان واپس آنے کا ذکر ہے.-۲۲ کشمیر دھر مسالہ، مالیر کوٹلہ وغیرہ بہت سے مقامات پر بھائی جی کے ساتھ جانے کا ذکر دوسری جگہ موجود ہے.-۲۳ بھائی جی کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ ایک دفعہ سیدہ حضرت ام المومنین کو کار بنکل نکل آنے پر تبدیلی آب وہوا کے لئے کہیں باہر لے جانے کی تجویز تھی.جس کی تیاری کے لئے لاہور جانے کی ضرورت تھی.حضور نے بھائی جی کو بھجوا دیا.چند گھنٹے بعد میرا لڑکا عبدالسلام بعد عشاء پیدا ہوا.حضور کو علم ہوا تو حضرت اماں جان سے ذکر کیا کہ بھائی جی زچگی کے قرب کا ذکر کرتے تو میں ان کو لاہور نہ بھیجوا تا.تو اماں جان نے فرمایا کہ بھائی جی کی اہلیہ، اسلام کی خدمت اور سلسلہ کے کاموں سے روکنا پسند نہیں کرتیں اور وہ بھی انہیں جانے کو کہتیں.صبح حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ تشریف لائیں اور تعجب سے کہا کہ بھائی جی نے حضور کو بتا کیوں نہ دیا.میں نے کہا کہ ایسے موقعہ پر میں انہیں خدمت سے روک دیتی تو کیا معلوم اس کا کیا نتیجہ نکلتا.اب وہ خدمت سلسلہ کے لئے گئے ہیں تو بچے کو زندہ سلامت دیکھ لیں گے.۲۵- آپ نے یہ بھی سنایا کہ ایک دفعہ میری انگلی کے جڑ دار پھوڑے کا اپریشن ہوا.میں گھر پر ابھی بیہوش ہی تھی کہ حضور کی طرف سے پیغام ملا کہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا تبادلہ ہو گیا ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ بھائی جی آکر میرے اہل و عیال کو قادیان لے جائیں.بھائی جی مجھے بچوں کے سپر د کر کے روانہ ہو گئے.اس رات چار چور ہمارے مکان میں آئے.مکان کے ایک الگ حصہ میں آپ کا ایک شاگر در ہتا تھا.اس نے مقابلہ کیا تو ہم نقصان سے محفوظ رہے.

Page 391

آپ نے یہ بھی سنایا کہ حضور اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ سفر میں بھجواتے تھے.محترمہ صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ کے جہیز کے لاہور سے خریدنے میں ہم دونوں میاں بیوی کو خدمت کا موقعہ دیا گیا تھا.۲۷- روایات وغیرہ کے بارے حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے متعدد قلمی رجسٹرات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے پاس محفوظ کر لئے تھے کہ یہ بہت قیمتی ہیں.ایک دفعہ محترم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی درویش نے دو ایک رجسٹرات عاریتہ حاصل کردہ خاکسار مؤلف کے ذریعہ واپس بھجوائے تھے.رجسٹر نمبر۳ میں حضرت مولانا نے رقم فرمایا ہے کہ حضرت سیّدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کا اعلان نکاح میرے ذریعہ کرانے کے لئے حضور نے بھائی جی کو لاہور بھجوا کر مجھے بلوایا تھا.(صفحہ ۲۱۲) مالی خدمات طویل عرصہ کی شدید مالی تنگی کے باوجود جس کا تفصیلی تذکرہ آپ کی وصیت کے سلسلہ میں آگے آتا ہے، آپ نے مالی خدمات سلسلہ میں اپنی طاقت و وسعت سے بڑھ کر حوصلہ دکھایا.اور تنگی ترشی سے گذر اوقات میں آپ کی رفیقہ ء حیات کا بھر پور تعاون آپ کو حاصل تھا.ارتداد ملکانہ کے جہاد میں آپ نے طویل عرصہ تک اپنے خرچ پر شرکت کی.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سوانح میں ۲۳۸ يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ.اور باوجود تنگی کے مٹھی بھر جو یا کھجور میں جو انہیں میسر آتیں فی سبیل اللہ دے دینے کے نظارے دنیا نے دیکھے یہ اصحاب الصفہ ابتغاء لمرضاة الله ہر قسم کی مصائب جھیلتے ہوئے در یار پر دھونی جمائے بیٹھے تھے.یہی نظارہ حضرت بھائی جی جیسے صحابہ کی زندگی میں نظر آتا ہے.انما الاعمال بالنیات.قربانی کا جذبہ ایک قلبی کیفیت ہے.مال و منال کی مقدار سے اسے تو لانا پا نہیں جاسکتا.اس موقعہ پر یہ بات بیان کی جانی مناسب معلوم ہوتی ہے.قادیان سے ایک دوست حج کے لئے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں.ان کی بھی مالی حالت اچھی نہیں.بھائی جی اور آپ کی اہلیہ محترمہ کے قلوب میں یہ جذبہ موجزن ہوتا ہے کہ یہ دوست دیار محبوب کی زیارت کے لئے جاتے ہیں.ہم بھی کسی طرح اس کار ثواب میں شرکت کر کے اپنے

Page 392

۳۷۷ لئے اور اپنی اولاد کیلئے ثواب کمالیں.مقدار رقم سے صرف اور صرف یہی نیت نظر آتی ہے.آپ حضرت خلیفہ مسیح الاول کی خدمت میں تحریر کرتے ہیں: اس کی زادراہ میں امداد کے واسطے میری اہلیہ نے روپیہ اور میں نے اپنی طرف سے (اور ) بچوں کی طرف سے موازی ۸ ( آٹھ آنے ) دینے کی نیت کی تھی.۲۴۰ چونکہ وہ دوست نہ جا سکے تو آپ نے یہ رقم حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں پیش کر دی.بھائی جی تو کمانے والے فرد تھے.اگر ان کی توفیق نصف روپیہ پیش کرنے کی تھی تو آپ کی اہلیہ محترمہ نے نہ معلوم کتنی مدت میں پس انداز کر کے یہ روپیہ جمع کیا ہوگا.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ حضرت بھائی جی کو جب بھی کچھ مالی سہولت ملی ہے تو آپ نے فراخدلی سے چندہ دیا ہے.حقائق اس کے شاہد ہیں.مثلاً ا.آپ نے چندہ منارہ اُسیح دیا.چنانچہ آپ کا نام نامی شیخ عبدالرحمن قادیان ۱۶۲ نمبر پر منارة المسیح پر رقم ہے.۲.سفر کشمیر ۱۹۲۱ء میں چندہ جلسہ سالانہ کی تحریک پہنچنے پر آپ نے ایک من آٹے کی قیمت آٹھ ۲۴۱ روپے کا وعدہ کیا.- تحریک تعمیر مسجد برلن میں خصوصا خواتین قادیان نے غیر معمولی قربانی کا نمونہ دکھلایا تھا.حضرت بھائی جی کی اہلیہ محترمہ نے ایک سو روپیہ چندہ دیا تھا.تحریک جدید کی ربانی تحریک میں دفتر اول میں گویا السابقون الاولون میں آپ شامل تھے.اس - ۲۴۲ ۲۴۳ دور کے انیس سالوں میں آپ نے مع اہلیہ محترمہ ایک ہزار ایک سوا کا نوے روپے دیئے.۵- بیٹوں نے آپ کو پانصد روپیہ دیا.(جو اس زمانہ میں روپیہ کی قیمت کے لحاظ سے ایک خطیر رقم تھی.خاکسار مؤلف کو بخوبی یاد ہے کہ آپ نے یہ ساری رقم کسی کار خیر میں پیش کر دی تھی..خاکسار مؤلف کے پاس آپ کی ایک تحریر ہے جس میں آپ لکھتے ہیں کہ چندہ مسجد لندن اور چنده تراجم القرآن حتی الامکان ہر تحریک میں حصہ لینے کی آپ کو سعادت میسر آئی ہے.اللہ تعالیٰ کے افضال حضرت بھائی جی نے وطن اقارب.ورثہ کے حقوق اور دوست ترک کئے تو محض رضائے الہی کے

Page 393

۳۷۸ لئے.اللہ تعالیٰ صادق الوعد ہے.غیور ہے.آپ نے اپنے مکان کی پیشانی پر یہ آیت کریمہ رقم کروائی تھی جو کتاب ہذا کی طبع ثانی کے وقت بھی موجود ہے کہ ۲۴۴ وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدُ فِي الْأَرْضِ مُرغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةٌ - گویا اس پر آپ کو یقین کامل تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلکہ آپ کی اولا د کو بھی صالح اور مومن اقارب دیئے.آپ کو بہترین رفیق دیئے.اولاد کے مستقبل کے سود و بہبود کیلئے مال مطلوب ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان کر دیئے کہ آپ کے دو بیٹے انجینئر ہو گئے اور ساری اولا دہی آپ کی زندگی میں خوشحال ہو گئی.اور پھر ان کی وجہ سے بھی آپ کو انفاق فی سبیل اللہ کے مواقع حاصل ہو گئے.فالحمد لله علی ذالک.آپ کی وصیت حضرت بھائی جی کی وصیت کے متعلق دفتر بہشتی مقبرہ کے ریکارڈ سے ضروری حصہ پیش کیا جاتا ہے.آپ تحریر کرتے ہیں: جس زمانہ میں ” الوصیت“ شائع ہوئی، میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم کے ماتحت قادیان سے باہر تھا.الوصیت مجھے وہیں حضور پر نور نے بھجوائی اور میں نے اسے پڑھتے ہی تعمیل کی اور وصیت لکھ کر اس میں ا حصہ آمد اور کا حصہ جائداد متروکہ کی وصیت کر دی.الوصیت سے میں نے جو کچھ سمجھا وہ یہی تھا کہ حصہ آمد اور جائیداد دونوں ( کی ) ہی وصیت لازمی ہے.میں نے مبلغ ایک سور و پیہ نقد بھی اسی ابتدائی زمانہ میں وصیت کے ساتھ بھیج دیا تھا.چونکہ (اس زمانہ ) میں صدرانجمن احمد یہ کے سیکرٹری اور کرتا دھرتا جناب مولوی محمد علی صاحب ہی تھے.لہذا میں نے وصیت اور رقم انہی کے (نام)...مگر مولوی صاحب نے اسے روکے رکھا اور روپیہ امانت میں جمع کرا دیا.کیونکہ ان کے خیال میں میری وصیت کے متعلق (بعض).قابل دریافت تھے.اس طرح میری وصیت باوجود بالکل ابتدائی وصایا میں سے ہونے کے ۱۴۹ نمبر پر جا پڑی.میں واپس ( آیا ) جب جا کر میں نے روپیہ اور وصیت داخل کرائی.اسی سنہ و سال میں یعنی ۱۹۰۶ء میں.اس وجہ سے میری وصیت کا نمبر اتنی دور ہو گیا.“ آپ کی یہ چٹھی ۸ / ظهور ۱۳۱۹ ھش ( مطابق ۸/اگست ۱۹۴۰ء) کی ہے.۱.قریباً اڑتالیس سالہ پرانی اس تحریر کے اوراق مرور زمانہ سے بہت بوسیدہ ہو گئے ہیں.ایک ورق -1

Page 394

٣٧٩ کے ایک کنارہ سے ایک حصہ الگ ہو چکا ہے.چار جگہ الفاظ کا کچھ حصہ باقی ہے وہاں اندازہ سے وہ الفاظ نمبر ۱ تا ۴ ڈال کر خطوط وحدانی میں درج کرائے ہیں.جہاں ورق کا حصہ الگ ہو کر ضائع ہو چکا ہے وہاں نقطے ڈال دیئے گئے ہیں.عبارت سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کیا الفاظ وہاں ہوں گے.۲.پہلی وصیت کے گواہان حضرت ماسٹر محمد اسمعیل صاحب سرساوی اور حضرت با بوفقیر اللہ صاحب ہیڈ کلرک میگزین تھے اور دوسری وصیت مطبوعہ فارم پر ۲۸ اکتوبر ۱۹۰۸ء کو لکھوائی گئی تھی.اس پر ( حضرت ) چوہدری برکت علی خاں صاحب محرر دفتر محاسب قادیان ( بعدہ فنانشل سیکرٹری تحریک جدید - یہ عہدہ اب وکیل المال تحریک جدید کہلاتا ہے ) اور ( حضرت مرزا محمد اشرف صاحب ہیڈ کلرک دفتر محاسب کی شہادتیں ثبت ہیں.اس مطبوعہ فارم پر نمبر وصیت ۱۴۹/۶۷ مرقوم ہے.گویا پہلے وصیت کا نمبر ۶۷ تھا.تاخیر ہو جانے پر نمبر وصیت ۱۴۹ ہو گیا.گویا پیچھے جا پڑا.بھائی جی نے اس دوسری وصیت میں تحریر کیا ہے کہ میری ملکیت ایک قطعہ زمین ہے جس کے شمال میں سڑک.جنوب میں مکان ( حضرت ) پیر منظور محمد صاحب غرب میں مکان حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب اور جانب شرق گلی اور مکان و سفید زمین ( حضرت حکیم ) مولوی قطب الدین صاحب ہے.قطعہ وصیت کردہ طول میں قریباً چالیس فٹ اور عرض میں قریباً نصف کے انتیس فٹ اور نصف کے چالیس فٹ ہے.وصیت میں خاکہ بھی درج کیا ہے.جاری شده سند پر بطور میر مجلس و سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ قادیان علی الترتیب حضرت مولوی - لد نورالدین صاحب اور ( حضرت شیخ ) یعقوب علی صاحب کے دستخط ثبت ہیں.-۵ معلوم ہوتا ہے کہ معمول کی کارروائی کی تکمیل کے لئے مطبوعہ فارم پر حضرت بھائی جی کے بارے تصدیق محترم شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے چاہی گئی.شیخ صاحب نے بھائی جی کے بارے ۲۰ / جون ۱۹۲۹ء کو رقم فرمایا : (1) " سلسلہ کے کاموں میں نہایت اخلاص سے بڑھ چڑھ کر اپنی طاقت سے حصہ لیتے رہتے ہیں (۲) خلیفہ وقت کے ساتھ خاص الخاص محبت اور اخلاص کا تعلق ہے جس کا ظہور وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے.“ (۱) مطالبہ بقایا حصہ آمد پر آپ نے دفتر کو اپریل ۱۹۲۷ء میں تحریر کیا کہ میں ایک لمبے عرصہ سے بالکل بیکار بے روزگار پڑا ہوں.قرض دام سے بسر اوقات ہو رہی ہے.کوئی آمد نہیں جس کا حصہ آمد ادا کروں.“

Page 395

۳۸۰ وصیت میں نے ابتغاء بوجہ اللہ کی ہے.جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے وصیت پر قائم ہوں.مگر بصورت نہ ہونے کسی آمد کے میں حصہ آمد کس چیز کا ادا کروں“.میں نے مکرمی محرر صاحب دفتر کی خدمت میں زبانی عرض بھی کیا تھا.مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا منشاء بھی میرے ان حالات کو بصورت تحریر دیکھنے ہی کا ہے.میں چاہتا تھا کہ اپنے حالات سے کسی کو آگاہ نہ کروں.مگر مجبوراً ان مطالبات کے جواب میں مختصر عرض کرنا پڑا ہے.کیونکہ ایسے مطالبات کے جواب سے پہلو تہی بھی ایک قسم کا گناہ ہے.اس وجہ سے یہ کچھ عرض کرنا پڑا جو کراہتہ عرض کیا گیا ہے.امید کہ اگر (اللہ تعالیٰ) کوئی راہ کھول دیں گے تو حصہ آمد کی ادائیگی سے ہرگز دریغ نہ ہوگا.“ کیا کہ -۲ اس زمانہ میں سلسلہ شدید مالی بحران میں مبتلا تھا.چنانچہ آپ نے اکتوبر ۱۹۲۸ء میں دفتر کو تحریر ایک عرصہ سے میں اپنی وصیت میں کچھ ادا نہیں کر سکا.(نو) ماہ سے میں دفتر میں کام پر ہوں.مگر میرا بجٹ ہی پاس ہونے میں نہیں آتا.“ آپ مزید تحریر کرتے ہیں کہ طلباء کے معائنہ ، صحت اور خاموش ورزش کی جو مشین بہت مفید ہے.پینتیس روپے میں مجھ سے تعلیم الاسلام ہائی سکول نے خرید لی تھی.میرے پاس ایسی دو مشینیں ہیں جو مدارس کو ساٹھ روپے میں دی جاسکتی ہیں اور یہ رقم مارچ تا دسمبر ۱۹۲۸ء کے عرصہ کے لئے میرے حصہ آمد میں جمع کر لی جائے.محترم ہیڈ ماسٹر صاحب گرلز سکول نے ایک مشین لے کر چار اقساط میں رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا.چندہ ماہ بعد دفتر بہشتی مقبرہ نے پہلی قسط (ساڑھے سات روپے ) کا مطالبہ کیا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے تحریر کیا کہ وو وہ مشین میں واپس کرنے ہی والا تھا کیونکہ ہمارے پاس روپیہ نہیں ہے.نہ ہماری اپنی تنخواہ ملتی ہے.سائر بل تو الگ رہا.اگر آپ قیمت ۱۰ روپیہ کر دیں تو وہ بھی اگلے سال کے سائز میں ادا ہو سکے گی.ورنہ مہربانی فرما کر اپنا آدمی بھیجیں کہ وہ مشین ہمارے ہاں سے لے جاوے.“ آپ نے جون ۱۹۲۹ء میں دفتر کو تحریر کیا کہ ”میرے پاس کبھی روپیہ جمع نہیں ہوا.مکان بنا تو خدا نے دیا.سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی کی خاص توجہ اور عطا کا اس میں نمایاں حصہ ہے.(میرے) روپیہ سے یہ مکان نہیں بنا.اب میں چونکہ ایک لمبے عرصہ سے بیکار ہوں.اس مکان کی اینٹیں ہی میرے گزارہ کا ذریعہ ہیں اور

Page 396

۳۸۱ سرسری حساب کرنے سے ستائیس سور و پیران اینٹوں پر قرض ہو چکا ہے اور یہ دن بدن بڑھ رہا ہے.”میرے دل میں بارہا آیا کہ عرض کروں کہ اس کی بازاری قیمت کا اندازہ کر کے ابھی کچھ رقم اپنے حصہ کی مقرر کر لیں تا ایسا نہ ہو کہ سارے کا سارا مکان ہی کھا جاؤں مگر بعض امیدوں کی بنا پر رکا رہا.مزید یہ تاکید کرتے ہوئے کہ مکان کی قیمت جلد لگوا دی جائے تا کہ آپ اس کا حصہ جائدادا دا کرسکیں آپ نے یہ بھی تحریر کیا کہ ”میری اہلیہ کے پاس بھی آج کل کوئی جائداد...نقد نہ زیور، زمین نہ مکان...نہیں ہے.اور وہ بھی میری طرح ایسی تحریک کے جواب میں خون جگر کھانے کے سوا کچھ کر نہیں سکتیں.انا للہ وانا اليه راجعون.-۴- نومبر ۱۹۲۹ء میں آپ نے دفتر کو تحریر کیا کہ آپ کے اعلان پر میں نے چھ ماہ پہلے عریضہ پیش کیا تھا کہ میں بے کار محض ہوں.نہ میری کوئی آمد ہے نہ ذریعہ معاش.اگر کہیں مزدوری بھی کی تو بعض وجوہ سے معاوضہ نہیں ملا.-۵ پھر آپ نے جنوری ۱۹۳۰ء میں دفتر کو اپنے بیکار محض ہونے اور مکان کی اینٹیں کھانے کا اور مکان کا بار روز بروز بڑھتے جانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ میں نے آپ کی تحریک پر عرض کیا تھا کہ میں زندگی میں حصہ جائداد ادا کرنا چاہتا ہوں.میرے پاس آ جا کے ایک مکان ہے اس کی قیمت کا تخمینہ کر کے کوئی رقم معین کر دیں تا کہ میں اس معین رقم کی ادائیگی کی فکر کروں.ورنہ بصورت موجودہ و بحالات پیش آمدہ کچھ دور نہیں کہ میں سارا مکان ہی پیٹوں کے گھاٹ اتار جاؤں.“ فروری ۱۹۳۰ء میں افسر تعمیر حضرت سید ناصر شاہ صاحب کے پیش کردہ اندازہ مالیت کا لشخص یہ ہے: ا.انیس مرله رقبه مع درختان شمر دار و غیره نرخ پچاس روپے فی مرلہ = ۹۵۰ ( ساڑھے نوسو) ب.دو ہزار ستر مربع فٹ مکانیت نچلی منزل نرخ فی ستر مربع دوروپے ج.رقبہ مکانیت برآمده چوبارہ پانصد باون مربع فٹ = ۴۱۴۰ ( چار ہزار ایک سو چالیس ) = ۵۵۲ ( پانچ صد باون)

Page 397

۳۸۲ نرخ ایک روپیہ فی مربع فٹ = ۵۵۲ (پانچ صد باون) میزان وضاحتی نوٹ = ۵۶۴۲ ( پانچ ہزار چھ سو بیالیس روپے ) بظاہر دور سے دیکھنے میں مکان پختہ نظر آتا ہے.لیکن اندر سے مکان کی حالت بہت اچھی نہیں.جابجا سے دیوار میں پھٹی ہوئی ہیں.بہت سا حصہ چنائی کا روڑہ اینٹ سے تیار ہوا ہے اس لئے تخمینہ کرنے میں ہر ایک بات کا مدنظر رکھنا ضروری تھا.“.آپ نے اپریل ۱۹۳۵ء میں دفتر کو یہ تحریر کیا کہ دسمبر ۳۴ ء سے میں بوجہ بیماری محمود آباد سندھ سے جہاں پر مجھے چند ماہ سے ساٹھ روپیہ ماہوار گزارہ ملتا تھا واپس بلوالیا گیا ہوں اور بالکل بیکار ہوں.کوئی آمد نہیں بلکہ قرض دام کر کے گزر کر رہا ہوں جس کا بار میرے مکان پر پڑ رہا ہے اور مکان پر پہلے قرضہ کے ساتھ اور بار بڑھتا جارہا ہے.“ میں نے وصیت کی ہوئی ہے اور انہی وجوہات سے میرا خانہ وصیت خالی یا زیادہ تر خالی پڑا ہوگا.آجا کے میرے پاس ایک مکان ہے.جو زیادہ تر میں نے اپنے بیوی بچوں کی شرکت میں ہاتھوں کی محنت سے بنایا اور خدا کے فضل نے اسے کھڑا کیا ہوا ہے.عیالداری کی ضروریات کے لئے آخر کوئی راہ پیدا کرنا ہی پڑتی ہے.جو قادیان میں میرے لئے قریباً ناممکن سی ہوگئی ہے.پونچی نہیں کہ تجارت کروں.ایسی صورت نہیں کہ ) نوکری کرسکوں.عمر کا تقاضا نہیں کہ اب قادیان سے باہر روٹی کے لئے نکلوں.لہذا مجبوراً اس مکان کی اینٹوں پر گزر کرنا پڑتا ہے.اور یہ اینٹ پتھر زیر بار ہوتے جارہے ہیں.آپ کا اعلان پڑھ کر عرض کیا تھا کہ اندازہ کرا کے اس کی قیمت کا فیصلہ کرا لیں.تا کہ اگر نقدی نہیں تو کچھ اینٹ پتھر ہی اس راہ میں ہاتھ سے نکل جائیں.مگر آپ نے توجہ نہ فرمائی اور اس عرصہ میں قریباً پانصد روپیہ کا اور بار اس مکان پر پڑ کر) رقم قرض بجائے ۲۷۰۰ ( ستائیس صد ) کے ۳۲۰۰ ( بتیس سو ) ہو چکی ہے.میں نہیں جانتا یہ مشت خاک کہاں پھینکی جائے گی.موت کے بعد مردہ بدست زندگان.جہاں چاہیں پھینکیں.مجھے تو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے احکام کا احترام تھا کہ وصیت لکھ کر پیش کی اور چاہتا ہوں کہ اس عہد کی ذیل میں کچھ تو ہاتھ سے نکل جائے.لہذا بہتر

Page 398

٣٨٣ ہو کہ جناب خاص توجہ فرما کر میری درخواست پر کوئی کارروائی فرمائیں.“ آپ نے ستمبر ۱۹۳۶ء میں دفتر کو تحریر کیا کہ مکان پر جو بارسات آٹھ سال سے ہے اس میں مزید ڈیڑھ ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے.میری کوئی معین آمد نہیں.جب سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کوئی کام دے کر مقرر فرماتے ہیں تو کچھ آمد ہو جاتی ہے جس کا عشر میں باقاعدہ ساتھ ساتھ ادا کرتا رہا.مجھے ۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۶ء جو کام ملا وہ یوں ہے: -1 ۱ - ۱۹۳۳ء میں چھ ماہ اراضیات سندھ میں ۲ - ۱۹۳۴ء میں سات ماہ ۳ - ۱۹۳۵ء میں ایک سو بیس دنوں میں سے پچاس دنوں کا حساب مجھے ملا ہے.۱۹۳۶ء میں اٹھاون دن کام پر رہا.اور ایک دن مطبع کے کام کے لئے گورداسپور گیا.اور بھی -✓ شاید ایک دو چھوٹی موٹی رقوم ملی تھیں جن کا عشر ادا کیا جا چکا ہے.ان چار سالوں میں قریباً گیارہ سو روپیہ آمد ہوئی.جس میں حصہ آمد اور دیگر چندوں کے علاوہ تخمینا چار صد روپیه چندہ تحریک جدید دیا.باقی ماندہ رقم ہم میاں بیوی اور تین زیر تعلیم بچوں کے گزارہ کیلئے بالکل نا کافی ہونے کی وجہ سے مکان پر بار بڑھتا رہا.آپ نے فروری ۱۹۳۶ء میں دفتر کوتحریر کیا کہ مئی ۱۹۳۵ء سے میرا گذارہ مقرر کر کے چار ماہ کام لیا گیا لیکن ابھی تک مجھے کچھ نہیں ملا.دراصل قرض دام پر گزر اوقات کر رہا ہوں.سندھ سے بوجہ بیماری بلائے جانے کے بعد سے اب بالکل بیکار ہوں بلکہ قرض پر گذر کر رہا ہوں.جس کا بوجھ میرے مکان پر پڑ کر بار بڑھتا جارہا ہے.۹ - آپ نے مارچ ۱۹۳۷ء میں میر پور خاص (سندھ) سے بیس روپے تین ماہ کا حصہ آمد بھجوایا.-1° اپریل میں آپ نے دفتر کو اطلاع دی کہ میں بیمار اور بیکار ہوں.قرض دام پر گزارہ ہورہا ہے.-۱ اپریل ۱۹۳۸ء میں بھی آپ نے دفتر کو اطلاع دی کہ بیکار ہونے کی وجہ سے میں قرض لے کر گزارہ کر رہا ہوں.سال بھر کے چندہ کے طور پر تین روپے کی حقیر رقم قرض لے کر دے رہا ہوں.پھر اگست میں بیماری کا ذکر کر کے ایک روپیہ چندہ آپ نے دیا.۸ / ظهور ۱۳۱۹ هش ( مطابق ۱/۸ اگست ۱۹۴۰ء) کو آپ نے دفتر کو تحریر کیا کہ -11

Page 399

۳۸۴ گذشتہ پانچ سال سے میں بیمار چلا آرہا ہوں.اور دائم المریض کی سی زندگی بسر کرتا چلا آرہا ہوں.کبھی چار دن افاقہ ہوتا ہے تو پندرہ دن بیماری میں بسر ہو جاتے ہیں.ملیر یا اور بعض دیگر عوارض نے بے جان سا کر رکھا ہے.پٹھے ست اور ہڈیاں کھوکھلی ہو چکی ہیں.خصوصا ٹانگوں کے پٹھے بریکار ہیں جن میں عموما ہر وقت ہی درد اور رعشہ سا رہتا ہے.’بیماری اور لمبی بیماری کے نتیجہ میں بریکاری گلے کا ہار ہے.وجوہ معاش بند اور گزارہ تنگ ہے.مکان جو کبھی میرے آقا سیدنا امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نظر عنایت سے بن گیا تھا.حضور نے ایک بھاری رقم قبلہ حضرت نانا جان محترم مرحوم سے بطور قرض دلائی تھی.جس سے یہ بن سکا تھا.وہ رقم تھوڑی تھوڑی کر کے حسب وعدہ ادا کر دی گئی.یہ سہولت نہ میسر آتی تو مجھ سے کہاں بنتا تھا.اس کو کھاتا چلا آرہا ہوں.اور اس طرح اب تو اس مکان پر بھی اتن بار ہو چکا ہے کہ اگر اچھی قیمت پر فروخت ہوگیا تو بار اتر سکے گا.عزیز کی تعلیم کے اخراجات بھی اسی مکان پر بار ہیں..ان حالات میں میں نہایت ادب سے عرض کرنے کی جرات کرتا ہوں کہ موجودہ ایام میں بیماری اور بیکاری کے باعث میری کوئی آمد نہیں اور بالکل نہیں ہے.میں بالکل خالی ہاتھ ہوں.مال ہے نہ دولت عمل ہے کوئی نہ نیکی محض اور محض خدا کی آس اور اسی کے رحم کا آسرا ہے.اس کی بخشش وسیع اور رحمت ہر چیز پر محیط ہے.اور میں اس سے اس کی بخشش اور رحمت ہی کا امیدوار ہوں...آخر پر آپ نے لکھا ہے کہ یہ پختہ عہد ہے کہ آمد ہوئی اور مکان قرض کے بارے سے سبکدوش ہو گیا تو ہر ایک کے بارے میں بخوشی میں وصیت ادا کروں گا.66 ۱۲ - آپ کا حصہ جائداد۱۹۴۴ء میں ساڑھے چار صد روپیہ قابل ادا تھا.آپ اپنے مکان کی ایک دکان جو برلب سٹرک تھی کفالت میں دینا چاہتے تھے.اور دفتر نے اس پیشکش کو قبول کر لیا تھا.لیکن پھر آپ کے بعض عزیزان نے کسی طرح انتظام کر کے نقد رقم ادا کر دی تھی.آپ کی طرف سے تقسیم برصغیر سے پہلے حصہ جائداد اس ادا ئیگی سمیت چھ صدادا ہو چکا تھا.اللہ تعالیٰ نے سامان فرما دیا.ورنہ ادا ئیگی سے پہلے آپ نے بتایا تھا کہ اس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی..کیونکہ میں عرصہ قریباً سات آٹھ سال سے بیماریوں کا تختہ مشق بنتا چلا آرہا ہوں.جس کا نتیجہ بریکاری اور مال کی تنگی میرے شامل ہیں.کوئی وجہ معاش یا آمد کا ذریعہ نہیں.“ گویا اس مکان پر جو قرض لیا تھا اس کے قطع نظر اور اسے منہا کئے بغیر آپ نے حصہ جائداد کی

Page 400

۳۸۵ ادائیگی فرمائی.-١٣ دسمبر ۱۹۴۶ء سے ایک حصہ ء مکان تمہیں روپے ماہوار پر کرایہ پر چڑھا.اس کے علاوہ آپ کی کوئی آمد نہ تھی.ایسی تنگ دستی کی حالت میں بھی مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اضافہ وصیت کی تحریک سن کر آپ نے دو بار دفتر متعلقہ کو اطلاع دی کہ آپ نے حصہ آمد کی وصیت ۱/۱۰ کی بجائے ۱/۸ کر دی ہے.آپ نے اپنے مکان نعم البدل اور اس کے شمال اور شرق کی طرف کی سفید زمین کے بارے بعد تقسیم ملک مطلع کیا کہ حصہ جائیداد کے پانچویں حصہ کی وصیت ان جائدادوں پر بھی حاوی ہے.اور آپ کے پاس نقدی کوئی نہیں.خاکسار مؤلف اس وقت کے مختار عام صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید انجمن احمدیہ کی تحریک پر آپ نے حالات کے مدنظر خاکسار کے ذریعہ مارچ ۱۹۵۹ء میں اپنی یہ جائدادصدرانجمن احمدیہ کے نام ہبہ کرنے کی تحریر دی اور قبضہ بھی دے دیا.( جب آپ کی اہلیہ محترمہ قادیان میں آکر عرصہ درویشی میں ٹھہریں تو میاں بیوی کا قیام اپنے اسی مکان میں رہا.) بھائی جی کے اہلبیت حضرت بھائی جی کی شادی ہونے پر آپ کی رفیقہء حیات ۱۹۰۲ء میں قادیان آئیں تقسیم برصغیر سے پہلے بھائی جی کے طویل مالی تنگی کے دور میں بھی آپ نے پورا تعاون دیا.بھائی جی ہمیشہ خدمات سلسلہ کے لئے تیار رہتے تھے.ادھر حکم ملا اور ادھر آپ نے کاروبار بند کیا.کسی بات کو روک نہ سمجھا.خواہ گھر میں زچگی متوقع ہے.یا گھر والے بیہوش پڑے ہیں.آپ کی اہلیہ محترمہ کبھی مانع نہیں ہوئیں.بھائی جی ان کو سپر دخدا کرتے تھے.بھائی جی کی موجودگی میں آپ کی اہلیہ محترمہ نے خاکسار مؤلف کو سنایا: ایک دفعہ سیدہ حضرت ام المومنین کو کار بنکل نکل آیا اس وجہ سے آپ کو تبدیلی آب و ہوا کے لئے کہیں باہر لے جانے کی تجویز کے باعث تیاری کے لئے لاہور جانے کی ضرورت تھی.حضور نے بھائی جی کو بھجوا دیا.چند گھنٹے بعد ، بعد عشاء میرالڑ کا عبد السلام پیدا ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو علم ہوا تو حضور ہوا.نے حضرت اماں جان سے ذکر کیا کہ بھائی جی زچگی کے وقت کے قرب کی بابت اظہار کرتے تو میں ان کو لا ہور نہ بھجوا تا.اماں جان نے فرمایا کہ بھائی جی کی اہلیہ ، خدمت اسلام اور سلسلہ کے کاموں سے بھائی جی

Page 401

۳۸۶ کو روکنا پسند نہیں کرتیں.اور وہ بھی کہتیں کہ آپ چلے جائیں.صبح حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ میرے پاس تشریف لائیں اور تعجب سے کہا کہ بھائی جی نے حضور کو بتا کیوں نہ دیا.میں نے کہا کہ ایسے موقع پر میں خدمت سے روک دیتی تو نہ معلوم اس کا نتیجہ کیا نکلتا.اب وہ خدمت سلسلہ کے لئے گئے ہیں تو آکر بچے کو زندہ سلامت دیکھ لیں گے.“ آپ سناتی تھیں کہ ایک دفعہ میری انگلی کے جڑ دار پھوڑے کا اپریشن ہوا.میں گھر پر بھی بیہوش پڑی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی طرف سے پیغام ملا کہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا تبادلہ ہو گیا ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ بھائی جی آکر لے جائیں.سو بھائی جی مجھے بچوں کے سپر د کر کے روانہ ہو گئے.اس رات چار چور ہمارے مکان میں آئے.مکان کے ایک الگ حصہ میں بھائی جی کا ایک شاگر در ہتا تھا.اس نے چوروں کا مقابلہ کیا تب ہم نقصان سے محفوظ رہے.آپ نے یہ بھی بتایا کہ محترمہ صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ کا جہیز، لاہور سے خریدنے کے لئے بھائی جی اور مجھے خدمت کا موقع دیا گیا.عرصہء درویشی میں آپ کو قادیان میں قیام کرنے کا موقعہ ملا.ابتدا میں ایک ہی ویزا پر آٹھ بارسفر کیا جاسکتا تھا.اور ہر دو ماہ بعد باڈر پار کرنا ضروری ہوتا تھا.بارڈر پار کر کے اس وقت واپس آنے کی بھی اجازت تھی.ایک دفعہ خاکسار مؤلف نے بھائی جی سے شام کو پوچھا کہ اماں جی واپس نہیں آئیں.انہوں نے تو بارڈر عبور کر کے اسی وقت واپس آنا تھا.فرمایا.وہ اسی نیت سے قادیان سے روانہ ہوتی ہیں لیکن بارڈر عبور کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے محبت کا جذبہ ابھر آتا ہے.اور وہ ان کی ملاقات کرنے کے لئے آگے چلی جاتی ہیں.سو اس وجہ سے آپ بے چین ہو جاتیں اور بغیر ملاقات کے واپس نہ آتیں.حضرت بھائی جی کی وفات کے بعد آپ ایک دفعہ زیارت قادیان کے لئے تشریف لائیں.ان چند روزہ قیام میں خاکسار مؤلف کے گھر بھی آئیں اور خاکسار کے گھر میں بتلایا کہ ہمارا مکان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بہت دور اور الگ سمجھا جاتا تھا.(اس وقت مکان حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مکان کے شمال میں قصر خلافت والے چوک کے قریب تھا ) اور یہ مکان غیر محفوظ تھا.بھائی جی کی عدم موجودگی میں چور متواتر آتے تھے.اور بعض دفعہ ایک سے زیادہ ہوتے تھے.یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ میں جاگ رہی ہوں کبھی میں زور زور سے چرخہ کاتنے لگتی.کبھی کسی برتن میں روڑے پھینک کر زور سے آواز پیدا کرتی.میں ان کو باتیں کرتے سنتی کہ یہ عورت سوتی ہی نہیں.ہمیشہ بیدار رہتی ہے کبھی میں ان

Page 402

۳۸۷ کو روڑے مار کر زخمی کرتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال والے سفر میں بھائی جی نے حضور کی خدمت میں تحریراً عرض کیا کہ حضور کی خادمہ کا خط آیا ہے کہ رات کے وقت ہمیں تنہائی کی وجہ سے خوف آتا ہے.کیونکہ جس مکان میں میں رہتا ہوں وہ بالکل باہر ہے.حضور نے حفاظت کے انتظام کی ایک تجویز رقم فرمائی.وفات آپ کی وفات پر الفضل بابت ۲۸ / اپریل ۱۹۷۵ء میں مرقوم ہوا: محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی وفات پاگئیں انا لله وانا اليه راجعون افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہا ۲۳ را پریل ۱۹۷۵ء کو سات بجے صبح بمقام کراچی حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے مختصر علالت کے بعد تقریباً ۹۵ سال کی عمر میں وفات پاگئیں.انا للہ وانا اليه راجعون.مرحومہ اپنی آخری علالت میں اپنے پوتے مکرم عبد الباسط صاحب مهته (ابن مکرم عبدالرزاق صاحب مہتہ ) کے پاس فروکش تھیں جنہوں نے خود اور ان کی والدہ محترمہ نے جانفشانی کے ساتھ حق خدمت ادا کیا.جنازہ بذریعہ ہوائی جہاز لائکپور اور وہاں سے ربوہ لایا گیا.رات نو بجے بعد نماز عشاء نماز جنازہ محترم صوفی غلام محمد صاحب ناظر بیت المال (خرچ) نے پڑھائی جس کے بعد مرحومہ کا جسد خا کی مقبرہ بہشتی ربوہ میں سپردخاک کر دیا گیا.تدفین مکمل ہونے پر محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے دعا کرائی.مرحومہ موصیبہ اور صحابیہ تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ بڑی اچھی طرح اپنی آنکھوں سے دیکھا.حضور علیہ السلام اپنے اہل بیت کے ہمراہ جب صبح سیر کو جایا کرتے تھے تو حضرت اماں جان کے ہمراہ مرحومہ بھی شریک سیر ہوتی تھیں.اپنے بزرگ شوہر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ کے دوش بدوش سلسلہ کی خدمات کے لئے کمر بستہ رہتی تھیں.فریضہ حج بھی ادا کر چکی تھیں.سب سے چھوٹے بیٹے مکرم عبدالسلام صاحب ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے وفات کے وقت حاضر نہ ہو سکے.اکلوتی بیٹی امتہ الرحیم خانم صاحبہ آخری وقت پہنچ گئیں.

Page 403

۳۸۸ احباب جماعت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے.آمین کتبہ پر مرقوم ہے: مزار الحاجہ زینب بی بی صاحبہ زوجہ بھائی جی عبد الرحمن صاحب قادیانی ساکن ربوہ ولادت ۱۸۸۰ء بیعت ۱۹۰۳ء وفات ۱۹۷۵-۴-۲۳ عمر ۹۵ سال وصیت نمبر ۳۳۹ الخدر ثم الخدر حضرت بھائی جی ذیل کی نصیحت تحریر فرماتے ہیں.جس سے آپ کے ایمان و عرفان پر روشنی پڑتی ہے.دھو کہ خوردہ ہوگا وہ انسان اور شیطان کی زد کے نیچے ہو گا وہ بد قسمت شخص جو خدا کے کسی فضل یا انعام کو ، اس کی کسی رحمت یا احسان کو اپنے کسی عمل کے نتیجہ، کوشش کا ثمرہ یا جد و جہد کا پھل سمجھ کر اکڑنے یا اترانے لگے اور بجائے اس کے کہ شکر نعمت کے لئے سجدات میں گر کر اپنے نفس کو پہچانے ، خودی و خودستائی کو چھوڑ کر اپنے اوپر ایک ایسی موت وارد کرے اور اس کی مرضی کے سامنے یوں گردن ڈال کر اپنے آپ سے اس طرح کھویا جائے کہ وَمَا تَشَاءُ وَنَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ * ۲۴۵ کا مقدس مقام اسے میسر آجائے اور خدا کے عرفان میں ترقی کر جائے.الٹا اباء واستکبار کرے.احسان فراموش بنے اور محسن حقیقی سے اس طرح دور و مہجور ہو جائے.خدا کی عطا کو اپنی کرتوت کا پھل سمجھنے والا بے وقوف بجائے مقرب ہونے کے ملعون اور بجائے مقبول ہونے کے مردود ہوگا.اور اس ذات والا صفات کی موہبت اور بخشش کو اپنی کمائی کا نتیجہ سمجھنے والا خود پسند اور نفس پرست کبھی اس کی چوکھٹ تک بھی رسائی نہیں پاسکتا.وہی اس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں

Page 404

۳۸۹ نہیں رہ اس کی عالی بارگاہ تک خود پسندوں کو خدا کی کبریائی، جبروت و عظمت ، اس کی عزت و جلال اور شوکت، اس کا کمال سطوت و ہیبت ، جن مقدس ترین ہستیوں پر ظاہر ہو کر جلوہ گر ہوا اور چمکا وہ تو با وجود باکمال اور مظہر جمال و جلال ہونے کے بے اختیار پکار اٹھے کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار اور چونکہ عارفین و کاملین کا یہ اعتراف حقیقت پر مبنی ، ان کے دل کی گہرائیوں کا آئینہ دار اور ہر قسم کی بناوٹ اور ریا کی ملونی سے کلیۂ منزہ تھا.علام الغیوب راز داں ہستی نے ان کے دلوں کو جھانکا اور ان کے اندرونہ دل کی نہاں در نہاں کیفیتوں پر نظر کر کے خود اپنے ہاتھ سے ان کو اٹھا کر نوازا اور اَنْتَ وَجِيَّة فِي حَضْرَتِي اخْتَرُ تُكَ لِنَفْسِي ۲۴۶ کا خطاب دیا.اور اس طرح دنیا جہان کے لئے ایک اسوہ قائم کر کے یہ عقدہ حل فرما دیا کہ جو میرے لئے موت اختیار کرتے ہیں ان کو ایسی حیات بخشتا ہوں.جس کے بعد پھر موت نہیں اور جو میرے لئے ذلت قبول کرتے ہیں میں ان کو ایسی عزت عطا کرتا ہوں جس کے بعد کوئی ذلت نہیں.غرض خدا کی کسی نعمت کو بھی چھوٹا سمجھ کر غفلت کرنا اور شکر نعمت میں ہر وقت سرشار نہ رہنا ایک روحانی موت کا مقام ہے.اور اس کی کسی عطا، انعام و دین کو اپنے کئے کا پھل محنت کی کمائی یا علم و ہنر کا نتیجہ سمجھنا یقینا بدنصیبی اور محرومی کا مترادف ہے میں نے جو کچھ بھی لکھا اور ظاہر کیا کانپتے ہوئے دل اورلز رتے ہوئے ہاتھوں سے ڈرتے ڈرتے خدا کی بے نیازی اور نکتہ گیری سے کانپتے کانپتے کیا ہے.ورنہ من آنم کہ من دانم والی بات ہے.کہاں میں کہ کفر و شرک کے اتھاہ گڑھے اور ظلمت وضلالت کے بے پناہ سمندروں میں غرق ، کہاں یہ فضل کہ نور ایمان عطا فرمایا.نعمت اسلام بخشی اور ایسا نوازا.ایسا نوازا کہ اس بزرگ و برتر ہستی کے قدموں میں لا ڈالا.اس کی زیارت کے لئے لاکھوں نہیں کروڑوں صلحاء اور اولیاء امت ترستے ترستے ہی کوچ کر گئے.یہ فضل ، یہ کرم یہ ذرہ نوازی یقینا یقیناً سراسر احسان ، سرتا پا فضل ، اور ابتداء تا انتہاء موہبت اور بخشش ہی کا رنگ رکھتی ہے.جس کے لئے میری روح آستانہ ءالوہیت پر ۲۴۷ سر بسجود ہے.

Page 405

۳۹۰ بھائی جی کا قادیان سے ربوہ اور کراچی کا سفر نیز انتقال اور نماز جنازہ قادیان سے جلسہ سالانہ ربوہ میں شمولیت کے لئے ۲۴ دسمبر ۱۹۶۰ء کوایک بڑا قافلہ روانہ ہوا.اس میں بھائی جی.آپ کی اہلیہ محترمہ اور آپ کی بہو اہلیہ محترمہ مہتہ عبدالرزاق صاحب جو پاکستان سے قریب میں آئی تھیں ) بھی شامل تھے.آپ کی بہو بیان کرتی ہیں کہ جلسہ سالانہ ربوہ کے بعد ۳ / جنوری کو کراچی کے سفر کے لئے تیاری کی جارہی تھی بھائی جی نے نہایت ہی رقت آمیز لہجے میں سینکڑوں دفعہ یہ شعر پڑھا اے ربوہ کی بستی تجھ پر سلام ہووے تجھ پر خدا کی رحمت ہر دم مدام ہووے اور مجھے دو تین دفعہ فرمایا کہ بچی ! روانگی سے قبل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے نہیں ملا.تم نے مجھے کراچی سے واپس ربوہ پہنچانے کا انتظام کرنا ہوگا.دس بجے کے قریب پیدل بس کے اڈہ پر پہنچے اور ہر آنے جانے والے سے السلام علیکم کہتے ، گلے ملتے.اور ایک گھنٹہ تک جو بس کے انتظار میں بیٹھنا پڑا.اس وقت بھی اور وہاں سے روانگی کے وقت بھی یہی شعر نہایت رقت اور دردمندانہ آواز سے بہ آواز بلند پڑھتے رہے.چار بجے شام لاہور میں مکرم قریشی محمود احمد صاحب (ایڈووکیٹ ) کے ہاں پہنچے جہاں آپ ہمیشہ آمد ورفت کے وقت قیام کرتے تھے.رات کو بارہ بجے یکدم تکلیف شروع ہوئی.سینہ میں آگ لگ گئی.تمام گرم کپڑے اتار دیئے.دروازہ کھلوا کر باہر جانا چاہا.قریشی صاحب کی طرف سے ہر ممکن علاج کیا گیا جس سے قدرے سکون ہوا.۴ /جنوری کو دو بجے بعد دو پہر پھر سر اور سینہ میں شدید تکلیف ہوئی جس سے بے چین ہوکر اٹھتے بیٹھتے لیٹتے مگر کسی کروٹ چین نہ پڑتا.اسی حالت میں ظہر وعصر ادا کیں.تکلیف کے دوران میں یہ شعر پڑھتے تھے اب کچھ نہیں ہے باقی دے شربت تلاقی پلا ساقی.پلا ساقی

Page 406

۳۹۱ مغرب کے بعد تکلیف کافی کم ہو گئی.آپ کو اطلاع دے کر میں نے ۳۰-۹ بجے رات کراچی میں آپ کی شدید علالت کی اطلاع فون پر کر دی ۵/ جنوری کی صبح کو آپ نے دریافت فرمایا کہ میں نے کراچی عبدالرزاق کو فون کیا تھا؟.میں نے عرض کیا.یہ کہ اباجی کی طبیعت خراب ہے.فرمایا یہ کہنا تھا کہ حالت اچھی نہیں ہے.میں نے کہا کہ اگر طبیعت اچھی نہ ہوئی تو صبح فون کر دوں گی آپ لاہور پہنچ جائیں.فرمایا نہیں.آج ہم خود کراچی جا رہے ہیں.آپ نے اپنے سامنے بستر بندھوایا.اور پگڑی اور سوٹی لے کر خود ہی باہر صحن میں جا کر دھوپ میں لیٹ گئے.شام کو لاہور اسٹیشن پر بوجہ کمزوری کرسی پر بٹھا کر گاڑی میں سوار کرایا گیا.اس موقعہ پر ایک آیت پڑھی اور فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! ہمارا سفر آسان اور کم کر دے.عزیز عبدالہادی کو جو ایک روز پہلے روانہ ہونا تھا آپ کی علالت کے باعث روک کر ساتھ ہی رکھا تھا آپ کی کمزوری کے باعث تیز گام کی سیٹیں منسوخ کرا کے کراچی ایکسپریس میں سیکنڈ کلاس کی سیٹیں لی گئیں.محترمہ بیان کرتی ہیں کہ گاڑی کی روانگی سے قبل میں نے آپ کے کمپارٹمنٹ میں جا کر دیکھا کہ آپ کو جگہ ٹھیک مل گئی ہے.فرمایا بہت اچھی جگہ ہے جزاک اللہ اور دعائیں دیں اور سر پر ہاتھ پھیرا.رات کو پونے بارہ بجے کے قریب عزیز عبدالہادی نے بتایا کہ ابا جی کی طبیعت بہت خراب ہے.اس اطلاع کے دوران آپ خود اٹھے.پیشاب کیا ، طہارت کی.اپنی سیٹ پر بیٹھے اور اماں جی سے پانی مانگ کر پیا.اماں جی نے پاؤں سہلائے اور جسم کو مزید گرم کپڑوں میں لپیٹا.بدر ) فرمایا.بہت خدمت کی ہے جزاک اللہ.اور خاموش ہو گئے.اتنے میں عزیز عبدالہادی صاحب بھی آگئے.دوائی پلانے کی کوشش ناکام رہی دوتین لمبے سانس لیتے ہوئے آپ اپنے مولا حقیقی سے جاملے.انالله و انا اليه راجعون ۲۴۸ تھوڑی دیر بعد خانیوال اسٹیشن آ گیا.اور وہاں یہ سب اتر پڑے اور رات کے ۳۰.۲ بجے عبدالہادی صاحب نے اپنے والد صاحب کو فون پر اس واقعہ کی اطلاع دی.جنہوں نے اپنے بیٹے کو مقامی جماعت سے رابطہ پیدا کرنے کو کہا.چنانچہ وہ ایک قلی کی راہ نمائی میں احباب جماعت کی تلاش میں نکلے اور جلدی مقامی جماعت کے متعدد افراد اسٹیشن پر آجمع ہوئے.مہتہ عبد القادر صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں فون پر اطلاع دی.آپ نے فرمایا.ہم اماں جی (یعنی حضرت بھائی جی کی اہلیہ محترمہ) کو کہہ رہے تھے کہ بھائی جی کو نہ لے کر جائیں اچھا.....انا لله وانا اليه راجعون“

Page 407

۳۹۲ بعد میں حضرت میاں صاحب نے ذکر فرمایا کہ فون برآمدہ میں ہے میں اس وقت جاگ رہا تھا.ورنہ ممکن ہے اندر مجھے گھنٹی سنائی نہ دیتی.مہتہ صاحب نے اپنے بھائی عبد السلام صاحب کو منگلا ڈیم اطلاع کر دی نیز انڈین ہائی کمشنر سے رات کے تین بجے جنازہ کو قادیان لے جانے کی اجازت کے حصول کے لئے بات کی.انہوں نے ہمدردانہ تعاون کا وعدہ کیا.چنانچہ اس وعدہ کی اطلاع فون پر حضرت میاں صاحب کو مہتہ صاحب نے پہنچائی تو فرمایا: الحمد للہ یہ تو بہت ہی اچھا ہوا.بھائی جی نے اپنی قبر کا مقام منتخب کر کے حضرت صاحب سے اس جگہ کو اپنے لئے ریز رو کر والیا ہوا ہے.آپ کی خواہش تھی میں قادیان میں دفن کیا جاؤں.یہ تو بہت ہی اچھا کام ہوا.اس طرح بھائی جی کی خواہش پوری ہو جائے گی.نیز فرمایا.حضرت صاحب کو بھی اطلاع دے رہا ہوں.حضور یہ سن کر خوش ہوں گے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے ۶ /جنوری کو اعلان ہوا کہ : 66 آج رات کے ساڑھے تین بجے کراچی سے عبد القادر صاحب مہتہ نے فون پر اطلاع دی ہے کہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی لاہور سے کراچی جاتے ہوئے خانیوال میں وفات پاگئے ہیں.انا لله وانا اليه راجعون.حضرت بھائی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیم ترین صحابیوں میں سے تھے.اور ان کو یہ غیر معمولی امتیاز بھی حاصل تھا کہ جبکہ ابھی حضرت بھائی صاحب بالکل نو جوان بلکہ گویا بچہ ہی تھے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیک وقت ہندو مذہب ترک کر کے اسلام قبول کرنے اور احمدیت کی نعمت حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر ایک بہت لمبا عرصہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کا موقعہ میسر آیا.چنانچہ جب ۱۹۰۸ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لاہور میں وصال ہوا تو اس وقت بھی حضرت بھائی صاحب حضور کے ساتھ تھے اور بالآ خر ملکی تقسیم کے بعد حضرت بھائی جی کو قادیان میں درویشی زندگی کی نعمت نصیب ہوئی.آجکل چند دن کے لئے پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے اور ربوہ کے قیام کے بعد اپنے بچوں کو ملنے کے لئے کراچی جارہے تھے کہ راستے میں ہی خدا کو پیارے ہو گئے.وفات کے وقت عمر غالباً پچاسی چھیاسی سال کی تھی.نہایت مخلص اور محبت کرنے والے فدائی بزرگ تھے.بیعت غالباً ۱۸۹۵ء کی تھی.جنازہ لاہور کے راستہ ربوہ لایا جارہا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت بھائی صاحب کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کی اہلیہ صاحبہ نے اپنی ضعیفی کے باوجود حضرت بھائی صاحب کی بڑی خدمت

Page 408

۳۹۳ سرانجام دی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور احمدیت کے نوخیز جوانوں کو صحابہ کرام کا بابرکت درجہ پانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اب تو یہ مبارک گروہ بہت ہی کم رہ گیا ہے.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ - ۲۵۰ نوٹ بعد میں حضرت بھائی صاحب کے چھوٹے لڑکے مہتہ عبدالسلام صاحب کا فون آیا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ بھائی جی کے جنازے کو قادیان لے جانے کی اجازت مل جائے.اگر یہ اجازت مل گئی تو بہت اچھا ہوگا.کیونکہ حضرت بھائی صاحب مرحوم کی شدید خواہش تھی کہ وہ قادیان میں دفن ہوں اور اسی وجہ سے وہ ہمیشہ پاکستان آتے ہوئے گھبراتے تھے کہ کہیں میری وفات قادیان سے باہر نہ ہو جائے.۲۵ فون پر مہتہ عبدالقادر صاحب کو خانیوال سے معلوم ہو گیا کہ اسٹیشن پر بہت سے احمدی دوست آگئے ہیں اور جنازہ ربوہ لے جارہے ہیں.صبح دفتر انڈین ہائی کمشنر والے بہت حسن سلوک سے پیش آئے.نصف گھنٹہ کے اندر فرسٹ سیکرٹری نے ایک خط لکھ کر دیا.جو دونوں بارڈروں پر بہت کام آیا.ہائی کمشنر صاحب نے بعد از وقت ویزا فارم قبول کر کے پندرہ منٹ میں ویزوں کی تعمیل کرا کے دے دیئے مہتہ صاحب اور ان کی بچی ہوائی جہاز میں ۱۵- ۵ بجے شام لاہور پہنچ گئے.اور فون پر حضرت میاں صاحب سے معلوم کر لیا کہ جنازہ ربوہ پہنچ گیا ہے.اور تابوت بنا لیا گیا ہے.اور تجہیز و تکفین کے انتظامات بھی کر دیئے گئے ہیں (بقیہ افراد خاندان ٹرین کے ذریعہ لاہور پہنچے.بدر ) حضرت مرحوم کی بہو بیان کرتی ہیں کہ جماعت خانیوال نے پوری مدد کی اور ٹرک جنازہ لے کر صبح نو بجے روانہ ہوکر ساڑھے تین بجے بعد دو پہر ربوہ پہنچا.محترم نیک محمد خان صاحب سڑک پر منتظر تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اطلاع پاتے ہی تشریف لے آئے اور جنازہ کو خو داتر وایا.اور بیت الضیافت کے اس کمرہ میں رکھوایا جہاں حضرت بھائی جی قیام کیا کرتے تھے.رکھوانے کے بعد اماں جی سے فرمایا.میں آپ کو ایک خوشخبری سناؤں؟ فرمایا.بھائی جی کا جنازہ قادیان جارہا ہے آپ کے لڑکوں نے انتظام کر لیا ہے.الحمد لله ثم الحمد الله اس خوشی میں اماں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر میں گر گئیں.جنازہ کی آمد کی خبر فوراً پھیل گئی.حرم محترم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ، بیگمات، صاحبزادیاں، اور دیگر افراد خاندان حضرت مسیح موعود اور تمام احباب و بزرگوں کے آنے اور ہمدردی -

Page 409

۳۹۴ کرنے سے اقارب کے زخمی دلوں کو صبر و سکون میسر آیا.مستورات ربوہ نے بھی غمخواری کی.حضرت میاں صاحب سے سید مبارک احمد صاحب خلف حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب نے نہایت ہی محبت وخلوص سے غسل دینے کی اجازت طلب کر کے حاصل کی.بعد غسل تابوت دارالضیافت کے دوسرے کمرہ ۲۵۲ میں رکھا گیا.مہتہ عبدالرزاق صاحب کے جنوری کو صبح 4 بجے ربوہ پہنچے.حضرت میاں صاحب نے شرف بازیابی بخشا اور نہایت ہی شفقت ، ہمدردی ، افسوس اور محبت بھرے الفاظ میں نوازتے ہوئے حالات دریافت فرمائے اور فرمایا کہ حضرت بھائی صاحب کیسے خوش قسمت ہیں کہ زندگی میں بھی ربوہ جلسہ سالانہ میں پہنچ کر دوستوں سے ملے ملائے اور وفات کے بعد بھی اہل ربوہ کو اپنے آخری دیدار کا موقعہ دیا.آپ کے تین حاضر جنازے پڑھے جاویں گے.ایک ربوہ، دوسرے لاہور، تیسرے قادیان.بعد جنازہ ربوہ سے روانگی ر بوہ ۷ جنوری.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیمی اور مخلص صحابی حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ کا جنازہ صبح ساڑھے نو بجے کے قریب بذریعہ ایمبولینس کار لاہور روانہ ہو گیا.۵ اور ۶ /جنوری کی درمیانی شب خانیوال میں وفات ہوئی.جنوری جنازہ بذریعہ ٹرک ۹ بجے صبح روانہ ہو کر ساڑھے تین بجے سہ پہر ربوہ پہنچا.جہاں اسے مہمان خانہ میں رکھا گیا.رات گئے تک احباب مہمان خانہ میں آکر حضرت بھائی جی کے چہرہ کی زیارت کرتے رہے.دریں اثناء ان کے فرزندان میں سے مکرم عبد القادر صاحب مہتہ اور مکرم عبد الرزاق صاحب مہتہ کراچی میں انڈین ہائی کمشنر کے دفتر سے جنازہ قادیان لے جانے کی منظوری لے کر بذریعہ ہوائی جہاز لاہور ہوتے ہوئے ربوہ پہنچ گئے.پروگرام کے مطابق آج صبح نو بجے مہمان خانے سے جنازہ اٹھایا گیا.احباب کندھا دینے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے بھی دور تک کندھا دیا.جنازہ بہشتی مقبرہ کے میدان میں لا کر رکھا گیا.جہاں حضرت میاں صاحب مدظلہ العالی نے نماز جنازہ پڑھائی.نماز جنازہ میں ربوہ کے احباب ہزار ہا کی تعداد میں شریک ہوئے.بعد ازاں جنازہ لاہور روانہ ہوگیا......حضرت بھائی جی نے ذوق و شوق ، خدمت و فدائیت اور ولولہ عشق کی شاندار روایات کے علاوہ چار

Page 410

۳۹۵ فرزند ، ایک صاحبزادی اور دو درجن پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں اپنی یادگار چھوڑی ہیں.احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضرت بھائی جی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور آپ کی اہلیہ صاحبہ محترمہ اور اولاد کا دین ودنیا میں حامی و ناصر ہو.آمین.جنازہ لاہور میں 66 ۲۵۴ جنازہ ۱۲:۳۰ بجے لاہور پہنچا.قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ نے ایمبولینس کار کا ایکسپورٹ پرمٹ ، میڈیل سر ٹیفکیٹ اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سرٹیفکیٹ کے حصول اور ضروری کاغذات کی تکمیل میں پوری مدد کی.جو دھامل بلڈنگ میں دو بار جنازہ پڑھا گیا دوسری بار مکرم میاں محمد یوسف صاحب (صحابی ونائب امیر جماعت) نے جنازہ پڑھایا.ایک سالم بس لے کر تمیں چالیس دوست بارڈر تک گئے.حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے از راہ شفقت حضور ایدہ اللہ کی ایک کا ر بھی جنازہ والی ایمبولینس کے ساتھ ربوہ سے اس ہدایت کے ساتھ بھجوا دی تھی کہ جنازہ بارڈر عبور کر جائے تب واپس آکر تفصیل سے مطلع کرنا ہے.* خاکسار کو اپنے بھائی کی ملاقات کے لئے جو نو سال کے بعد امریکہ سے آئے ویزا ملا جس میں صرف چھ دن میں پاکستان میں ٹھہر سکا.4 جنوری کو صبح ربوہ پہنچ کر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے پہلی بات جو کی وہ یہ تھی کہ حضرت بھائی جی کی وفات واقع ہوگئی ہے اور آپ نے اس پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا کہ نامعلوم اب جنازہ قادیان جا سکے گا یا نہیں.میں نے عرض کیا کہ بھائی جی ہندوستانی باشندہ تھے اُمید ہے کہ جا سکے گا.اسی شام کو لاہور جانا ملتوی کیا.جنازہ کے انتظار میں خاکسار ٹھہرا رہا.رات کو جنازہ کی زیارت کی اور پھر ہم دونوں نے صبح پونے چار بجے دیدار کیا اور ہم لاہور پہنچے.وہاں جنازہ کا انتظار نصف روز کیا.ربوہ میں جنازہ کی نماز ہوئی پھر لاہور میں دوبارہ جو دھامل بلڈنگ کے صحن میں نماز جنازہ ہوئی.دوسری بار خاکسار کو بھی شرکت کا موقع ملا.دوسری بار جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے نماز جنازہ پڑھائی تھی.بعض اقارب سے تیرہ سال بعد ملاقات ہوئی تھی اور بعض گھر یلو معاملات طے کرنے تھے اور دوسرے روز قادیان وا پسی تھی.پاسپورٹ صرف چند روز کا ملا تھا اور صرف چھ روز ہی خاکسار پاکستان میں رہ سکا تھا.اس زمانہ میں پاسپورٹ کا حصول ہمارے لئے کٹھن معاملہ تھا

Page 411

۳۹۶ معلوم ہوتا ہے کہ بارڈر پر پاکستانی چیک پوسٹ کو علم ہو چکا تھا.جنازہ پہنچتے ہی پولیس اور سول حکام سب ہی خاص ہمدردی سے پیش آئے.اور انہوں نے پورا تعاون کیا.اور اپنے خاص اختیارات سے بسوں سمیت احباب کو باؤنڈری لائن تک آنے کی اجازت دے دی.قادیان کی پارٹی بھی دواڑھائی بجے ایک ٹرک لے کر بارڈر پر پہنچ گئی.۳۰ ۴ بجے جنازہ پاکستانی بارڈر پر پہنچنے کی اطلاع ملنے پر ہندوستانی حکام کی اجازت سے ٹرک کو بارڈر لائن کے قریب لے گئے.ادھر سے ایک نوجوان نے آکر وہاں السلام علیکم کہا اور مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو مخاطب کر کے کہا.میں فاروق مہتہ ہوں ہم آپ کی امانت لے آئے ہیں.آپ ہم سے یہ امانت لے لیں.یہ کہہ کر ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی.اور وہ کچھ اور نہ بول سکے.محترم صاحبزادہ صاحب نے سلام کا جواب دے کر صبر کی تلقین کی.پاکستانی احباب نے بارڈر لائن سے کچھ فاصلہ پر ایمبولینس کا رسے تابوت اتارا اور کندھوں پر اٹھا کر آگے بڑھے.ہندوستانی حدود میں احباب قادیان تھے.سب پر رقت طاری تھی.جنازہ کے آگے آگے محترمہ اماں جی ، اور ان کے دو بیٹے مکرم مہتہ عبد القادر صاحب و مکرم مہتہ عبدالرزاق صاحب اور اہلیہ محترمہ مہتہ عبد السلام صاحب بارڈر عبور کر کے بڑھے اور کہا.لیجئے میاں صاحب.ہم آپ کی امانت لے کر حاضر ہوئے ہیں.آپ اپنی امانت ہم سے وصول کرلیں.اور دونوں طرف کے احباب کی بے اختیار چیخیں نکل گئیں.اس حالت میں کہ ابھی جنازہ پاکستانی احباب کے کندھوں پر تھا دوستوں کی درخواست پر مکرم صاحبزادہ صاحب نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی.اور پھر احباب ایک دوسرے کی طرف بڑھے اور احباب قادیان نے جنازہ اٹھا کر ٹرک میں رکھ لیا.اور پاکستانی احباب تھوڑی دیر بعد واپس چلے گئے.ہندوستانی بارڈر کے عملہ نے بھی بڑی ہمدردی دکھائی اور پوری طرح تعاون کیا.ضابطہ کی کارروائی کی تکمیل کے بعد ۱۵.۶ بجے بارڈر سے قادیان کے لئے روانگی ہوئی.امرتسر سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں ایکسپریس تار دینے پر بیس پچیس منٹ صرف ہوئے.قادیان میں خبر کا پہنچنا اور تدفین کا عمل میں آتا ی اندوہناک خبر ۶ /جنوری کو صبح مہتہ عبد الرزاق صاحب کی تار سے ملی.جسے سنتے ہی جملہ درویشوں

Page 412

۳۹۷ میں گہرے رنج و افسوس کی لہر دوڑ گئی.غمناک دلوں اور اداس چہروں کے ساتھ وہ ایک دوسرے سے تعزیت کرتے ہوئے حضرت بھائی جی کی بلند پایہ شخصیت اور حضرت مسیح موعود کی پاک صحبت سے آپ کے فیض یاب ہونے کی سعادت کے تذکرے کرنے لگے.بلاشبہ آپ روحانی لحاظ سے ایک بڑا سہارا تھے.درویشوں کو اس امر کا بھی صدمہ تھا کہ وہ اپنے اس بزرگ کی آخری زیارت سے بھی محروم رہ گئے.اگلے روز صبح حضرت میاں صاحب کا تار موصول ہوا کہ جنازہ ربوہ سے براستہ لاہور قادیان آ رہا ہے یہ خبر مجروح دلوں کے لئے مرہم ثابت ہوئی.اس میں یہ بھی ارشاد تھا کہ ایک پارٹی بارڈر پر لینے کے لئے پہنچ جائے.پونے 9 بجے رات کے قریب جنازہ قادیان پہنچا.مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت درویشوں کی ایک کثیر تعداد کے ہمراہ احمد یہ چوک میں موجود تھے.باقی افراد کو گھنٹی بجا کر اطلاع کر دی گئی تھی احتیاطاً قبر کھد والی گئی تھی.اور محلہ سے جنازہ گاہ تک اور وہاں سے بہشتی مقبرہ تک روشنی کا بھی انتظام کیا جا چکا تھا.لیکن صبح کو دفن کرنے کا فیصلہ ہوا اور رات کو ہی اس کا اعلان کر دیا گیا.اور جنازہ خزانہ دفتر محاسب کے پہرہ داروں کی تحویل میں دفتر بیت المال کے برآمدہ میں رکھا گیا.قریباً نو بجے صبح تابوت مہمان خانہ خاص نمبر ۳ کے صحن میں رکھا گیا جہاں عورتوں بچوں اور مردوں نے بزرگ در ولیش بھائی کے نورانی چہرے کی آخری زیارت کی.اس کے بعد ایک الفی جو حضرت بھائی جی نے امانتاً دفتر بہشتی مقبرہ میں دیر سے رکھوائی ہوئی تھی.آپ کو پہنائی گئی.( فائل وصیت کے مطابق مکہ مکرمہ کی مٹی بھی آپ نے اس الفی کے ساتھ رکھوائی تھی.دفتر سے معلوم ہوا کہ یہ مٹی الفی کے ایک سرے پر بندھی تھی اور الفی پہناتے وقت اسی طرح بندھی رہنے دی گئی.دس بجے کے قریب تابوت جنازہ گاہ لے جایا گیا.جنازہ گاہ میں بھائی جی کی روایت اور نشاندہی کے مطابق جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازہ کی چار پائی رکھی گئی تھی.اسی مقام پر آپ کی چار پائی رکھی گئی.پانچ صفیں بنائی گئیں اور محترم امیر صاحب نے لمبی نماز جنازہ پڑھائی.جس میں پانچ تکبیریں کہی گئیں.بعد نماز جنازہ درویش باری باری کندھا دیتے ہوئے شاہ نشین کے پاس پہنچے.تو مکرم امیر صاحب مقامی کے حکم سے تھوڑی دیر کے لئے چار پائی کو شاہ نشین کے اندر رکھا گیا.جہاں حضرت اقدس اپنے صحابہ کرام کی معیت میں تشریف فرما ہوتے تھے.اس کے بعد مزار مبارک کی چار دیواری کے گیٹ کے عین سامنے غربی جانب کے قطعہ نمبر ۳ میں تیار شدہ قبر کے پاس چار پائی رکھی گئی اور احباب نے آخری بار آپ کے مبارک چہرہ کی زیارت کی اور

Page 413

۳۹۸ تابوت کو بند کر کے مسنون دعاؤں اور آنسوؤں کے ساتھ قبر میں اتار دیا گیا.اور قبر تیار ہونے پر مکرم امیر صاحب نے قبر پر دعا کروائی.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر بھی اجتماعی دعا ہوئی.احباب اس بزرگ صحابی کے سے متاع عزیز کے چھن جانے سے لٹے ہوئے قافلہ کی طرح لوٹے.۲۵۵ انا بفراقك لمحزونون ولا نقول الا ما يرضى به ربنا اللهم اغفر له وارحمه وارفع درجاته في اعلی علین.آمین یارب العلمین.درخواست دعا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے جنازہ کے لاہور پہنچنے سے قادیان میں تدفین تک کے بارے مختصر نوٹ شائع ہوا.جس میں دونوں طرف کے بارڈر کے حکام کے شریفانہ سلوک کی آپ نے تعریف فرمائی.نیز احباب کو تحریک فرمائی کہ درویشوں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.حضرت بھائی جی کو پاکستان جانے میں ہمیشہ تر درد ہونا ۲۵۶ حضرت بھائی جی کی اہلیہ محترمہ پاکستانی شہری ہیں.اور انہوں نے اس بناء پر ہندوستانی شہریت حاصل نہیں کی کہ میں اپنے خاوند کی خدمت کے لئے قادیان میں مقیم رہوں گی.اگر ان کا انتقال ہو گیا تو قادیان میں بچوں کی عدم موجودگی کے باعث میرا یکہ و تنہا مقیم رہنا حد درجہ تکلیف دہ ہوگا.اس لئے وہ بی ویزا پر جس میں بہ یک وقت دو ماہ کے قیام کی اور ایک سال میں آٹھ دفعہ آمد ورفت کی اجازت ہے آتی تھیں.دو ماہ کے بعد لازم بارڈر عبور کرنا پڑتا تھا.اس لئے کئی بار جب ان کا ارادہ کراچی جانے کا ہوتا یا نیا ویزا لینے کی ضرورت ہوتی تو سید نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے اجازت منگوا کر بھائی جی کو بھی ہمراہ لے جاتیں تا کہ بھائی جی کی صحت پر اچھا اثر پڑے.بغیر اجازت کے حضرت بھائی کبھی بھی پاکستان نہ جاتے تھے.بعض اوقات تار کے ذریعہ بھی اجازت موصول ہوتی تھی.یہ امر واقعہ ہے کہ محترمہ آپ کی بہت خدمت کرتی تھیں.تہجد کے وقت سے جبکہ بھائی جی چائے پیتے تھے.رات تک پورے انہماک اور وقت کی پابندی سے غذا کا خیال رکھتیں.اور بھائی جی بھی ان کا پورا احترام فرماتے اور خیر کم خیر کم لاهله کا نمونہ دکھاتے.البتہ پاکستان جانے سے سخت گھبراتے تھے.جب بھی آپ کو لے جانا ہوتا تو اماں جی ( آپ کی اہلیہ محترمہ ) ایک طویل عرصہ کبھی دو دو ماہ قبل سے

Page 414

۳۹۹ تیار کرنا شروع کرتیں.اور بھائی جی کا انشراح صدر نہ ہوتا.فرمایا کرتے کہ میں شروع سے قادیانی کہلاتا ہوں.تقسیم ملک کے وقت مجبوراً اور حکماً قادیان سے جانا پڑا.شکر ہے کہ پھر دیار محبوب میں آنے کا موقعہ ملا.موت کا کوئی وقت مقرر نہیں.اگر پاکستان میں آخری وقت آجائے.اور میں قادیان میں دفن ہونے سے محروم رہ جاؤں تو میں کیونکر قادیانی ہوا.مجھ پر ایک دائمی داغ لگار ہے گا کہ عمر بھر قادیانی کہلا کر اور ایسا کہلانے کو قابل فخر سمجھتا ہوا بالآ خر قادیانی بننے سے محروم رہا.اور آپ سخت ہچکچاہٹ محسوس فرماتے.اماں جی حضرت صاحب اور حضرت میاں صاحب سے خطوط منگواتیں کہ بھائی جی بچوں کو مل آئیں ان کو اجازت ہے بچوں کا بھی حق ہے اس پر بھائی جی استخارہ فرماتے اور بہت ہی تلملا ہٹ کے ساتھ اور روانگی کے وقت بار بار یہ کہتے ہوئے کہ دعا کریں خیریت سے واپس آؤں.روانہ ہوتے.مجھے یاد ہے کہ ایک ڈیڑھ ماہ قبل کی بات ہے کہ سامان سفر باندھنے اور کھانا تیار ہوجانے کے بعد روانگی کے وقت آپ نے جانے سے نہایت سختی سے انکار کر دیا کہ مجھے انشراح نہیں.اگر میری موت وہاں واقع ہوگئی تو کیا ہوگا.آپ کی اہلیہ محترمہ نے بہتیری منت سماجت کی.دوسروں سے بھی کہلوایا لیکن آپ نے اس بارہ میں کسی کی بات ماننے سے انکار کر دیا.آپ جو اپنی رفیقہ حیات کی ہر بات ماننے کو ہمہ تن تیار ہوتے اس جذبہ کے مد نظر بات تک سننا پسند نہ کرتے.نہ اماں جی کے کہنے پر ہم میں سے کسی کی سفارش قبول کرنے پر آمادہ ہوتے.ادھر اماں جی سارے جتن لگاتیں اور فوائد بتلائیں کہ بچوں میں دل پہلے گا.بچے ملاقات سے خوش ہوں گے.آب و ہوا تبدیل ہو کر صحت درست ہوگی.لیکن بھائی جی پر کسی بات کا اثر نہ ہوتا.البتہ آپ ہمیشہ اس بات سے متاثر ہو کر تشریف لے جاتے کہ حضرت صاحب نے اجازت دی ہے.اس لئے آپ اس امر کا احترام فرماتے.قریباً نصف سال سے جیسے کہ رٹ لگائی جاتی ہے.آپ بار بار اور ہر ایک کو یہ فرماتے کہ دعا کرو میرا انجام بخیر ہو.الحمد للہ کہ نہ صرف انجام نہایت قابل رشک طور پر بخیر ہوا.بلکہ آپ کی دیرینہ خواہش کہ قادیان کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہوں ایک کرامت کے رنگ میں پوری ہوئی.اگر آپ قادیان میں ہی فوت ہوتے تو اس کا کچھ اور رنگ ہوتا.اب تو یوں نظر آتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ دیکھو بھائی جی کی سچی تڑپ اور شدید خواہش کس قدر تھی کہ قادر و قیوم اور مسبب الاسباب خدا نے ان کی سچی تڑپ کی قدر کی اور اس کے پورا کرنے کے تمام سامان کر دیئے دونوں طرف کی حکومتوں کے حکام نے بھی میرے اشارہ پر ہر طرح کی امداد کی.ورنہ کتنے درویش جو ہندوستانی شہری تھے.پاکستان میں فوت ہوئے لیکن کسی

Page 415

۴۰۰ کا جنازہ قادیان نہ آسکا.اور اس کرامت کا ایک خاص نشان یہ بھی ہے.کہ آپ کی اہلیہ محترمہ کا ویزا ایک ماہ سے ختم تھا ان کو بھی اس کا علم نہ تھا.وہ جنازہ کے ساتھ قادیان آئیں اور پھر واپس گئیں یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ آپ کا جنازہ قادیان پہنچ سکا.الحمد لله ثم الحمد لله.آپ کی شدید خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب ترین دفن ہوں.قطعہ خاص صحابہ میں آپ کی قہر والی جگہ سے اور کوئی جگہ قریب ترین نہ تھی.۱۹۵۲ء میں آپ کی خواہش پیش ہونے پر سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ذیل کے مبارک الفاظ میں اجازت عنایت کی: اللہ تعالی لمبی عمر عطا فرما دے.مگر جب بھی وفات ہو وہاں دفن کیا جاوے.“ مرز امحمود احمد ( فائل وصیت ) آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل پر اس جگہ دفن ہونے کا بہت یقین تھا.( چوہدری محمد اسمعیل صاحب خالد مینجر احمد آباد، سندھ نے گذشتہ جلسہ سالانہ پر اس جگہ بیٹھے دیکھا.آپ نے فرمایا کہ یہ میری قبر کی جگہ ہے.الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۶۱ ء ) اللہ تعالیٰ نے انا عند ظن عبدی بی کا ایک عجیب نظارہ دکھایا.اور حضرت مسیح موعود کی بات پھر ایک دفعہ نہایت شان کے ساتھ پوری ہوئی کہ ہمارا ہے تو آ جائے گا.“ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنا.ان کی اجابت کا کسی کو انکار نہیں.آپ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں: اے میرے آقا و مالک اور میرے ہادی و رہنما ! جس طرح تو نے خود اپنے ہاں اپنے ہی ہاتھ سے مجھ ناکارہ انسان، انسان نہیں انسانوں کی بھی عار بلکہ محض ایک کرم خاکی کو بچپن اور کم عمری میں نوازا.اور خود میرے دل میں تخم ایمان بو کر اس کی آبیاری فرمائی.اسے پودا بنایا اور ہر قسم کی بادصر صر اور مخالف ہواؤں سے محفوظ رکھتے ہوئے وحوش او درندوں کی پامالی سے بچا کر اس باغ احمد میں پہنچایا اور اس گلستان میں اپنے محض فضل سے ایسی جگہ دلائی جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتی تھی اور جہاں میرے خواب و خیال کو بھی رسائی نہ تھی.اے میرے پیارے اور میری جان کی جان ! جس طرح یہ سب کچھ آپ نے خود کیا اسی طرح بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر آئندہ بھی میرے ساتھ معاملہ فرمائیو.اور طرفته العین کے لئے بھی مجھے میرے نفس کے سپرد نہ کر یو.بلکہ میرا کھانا اور پینا، سونا اور جاگنا، میرا اٹھنا اور بیٹھنا، میرا جینا اور مرنا سب کچھ ہی آپ اپنی رضا کے مطابق کر دیں.آمین اے حی و قیوم وقدیر تیری عطاؤں کو کوئی روکنے والا نہیں جبکہ جسے تو رڈ کر دے کوئی بچانے والا بھی

Page 416

۴۰۱ نہیں.میں تجھے تیری کبریائی ، عظمت و جبروت کا واسطہ دے کر پکارتا ہوں اور تیرے آستانہ پر گر کر التجا کرتا ہوں کہ مجھے ایک خاک آلودہ بیج کی طرح اپنی ربوبیت کے طفیل اتنا بڑھا.پھیلا اور پھلدار بنا...میرے اثمار اور پھلوں میں اپنے کرم سے ایسی شیرینی ، لطافت اور نفاست بھر دے کہ دنیا ان کی طلب گار ہو اور ان کو پاکر سیری حاصل کرے اور روحانی حاجات اور جسمانی ضروریات میں وہ حاجت مندوں کی مراد بنیں آمین اے ستار و غفار ہستی ! میری پردہ پوشی فرما اور میرے گناہوں اور معاصی کو معاف فرما اور ایسا ہو کہ میری کوئی غلطی ، معصیت یا گناہ میری دعاؤں کی قبولیت میں روک نہ بن سکے.انما الاعمال بالنیات.نیک دل پر اللہ تعالیٰ کی نظر کرم ہوتی ہے سو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل ورحم سے آپ کی دعاؤں کو قبولیت بخشی.تعزیتی قرار دادیں ۲۵۸ آپ کے اقارب اور احباب قادیان کو تعزیتی خطوط موصول ہونے کے علاوہ بہت سی جماعتوں نے تعزیتی قرار دادیں ارسال کیں مثلاً قادیان کی مقامی جماعت اور ذیلی تنظیمات اور جماعت ہائے لاہور، میر پور ( کشمیر ) ، کوئٹہ، پشاور، گنج مغلپورہ، سلمی مجلس مقامی ربوہ، الجميعة العلمية جامعہ احمدیہ ربوہ ، مجالس خدام الاحمدیہ راولپنڈی و جھنگ صدر اور مدراس ، حیدر آباد دکن ، یاد گیر (کرناٹک) اور ساندھن (یو پی) نے ایسی قرار دادیں پاس کیں.آپ کی مدح و توصیف ۲۵۹ ( از محترم اختر صاحب گوبند پوری) عالم جاوداں میں جا پہنچے وہ کہ جو خلد کے نشانی تھے خدمت دین جن کا مسلک تھا بھائی رحمان قادیانی تھے آپ نے روح کی بصیرت سے دین اسلام جب قبول کیا

Page 417

۴۰۲ کے دل کے گوشہ گوشہ میں رحمت پاک نے نزول کیا دین کی سربلندیوں کے لئے عمر بھر کار خیر کرتے رہے جن میں انسانیت کی خوشبو تھی کرتے رہے یسے پھولوں کی سیر کرتے کے فیض فکر حق میں سے کے چراغ روشن تھے عظمتوں کے پریقین سینہ میں آپ بے خودی کے ایاغ روشن تھے رخصت ہوئے خدا حافظ ہم ہم دعا گو ہیں رب اکبر خلد میں آپ کو مقام ملے روح دھل جائے آب کوثر سے ایسے عظمتوں زندگی ہر تجلی انسان بزم ہستی کو نکھار دیتے ہیں کے حریم آسماں پر بھائی رحمان اتار وہ تیره میں دیتے ぢぢぢぢぢ ہیں جلوہ افشاں ہیں اختر جاں جاں ہیں

Page 418

۴۰۳ تاثرات تاثرات مولوی محمد عمر صاحب مالا باری بوقت تحریر تا ثرات ، آپ احمد یہ مدرسہ قادیان کے طالب علم تھے.بوقت طبع دوم آپ انچارج مبلغ کیرالہ ہیں.آپ لکھتے ہیں : قریباً ڈیڑھ سال سے خاکسار کو حضرت بھائی جی کی خاص طور پر خدمت کرنے کی سعادت خدا تعالیٰ نے بخشی تھی.آپ کے ارشاد کے مطابق خاکسار روزانہ صبح و شام آپ کے گھر حاضر ہوتا.آپ اور اماں جی ( آپ کی اہلیہ محترمہ ) اس ناچیز سے والدین کی طرح محبت و شفقت سے پیش آتے تھے اس وجہ سے میں آپ کو ابا جی کہہ کر یا د کرتا تھا.چنانچہ جب میں میٹرک میں اپنی کامیابی کی خبر سنانے گیا.تو آپ نے لپک کر مجھے سینے سے لگا لیا اور دیر تک لگائے رکھا اور پیشانی پر بوسہ دیا اور اپنی قیمتی دعاؤں سے نوازا.آپ کی وفات کے بعد میں اپنے تئیں حقیقتا یتیم سمجھتا ہوں.آپ اپنے اسلام قبول کرنے کے ایمان افروز حالات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے واقعات سنایا کرتے تھے.قبول احمدیت کے بعد اپنے والدین اور عزیز واقارب کو چھوڑ کر قادیان میں ہجرت کر کے آنے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ b ۲۶۱ وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدُ فِي الْأَرْضِ مُرغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً - یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں ہجرت اختیار کرتا ہے وہ زمین میں کئی پناہ گاہیں اور کشائش پالیتا ہے.میرے حق میں اپنے پوری شان و شوکت کے ساتھ پورا ہوا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود کے قدموں کی غلامی کی خاطر میں نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا.خدا تعالیٰ نے اس کے عوض مجھے سب کچھ عطا فرمایا.قادیان میں اس نے مجھے بہترین گھر دیا.نیک اولا د بھی عطا کی.آپ حضرت مسیح موعود کا یہ کلام پڑھتے.

Page 419

۴۰۴ سب کام تو بنائے لڑکے بھی تجھ سے پائے سب کچھ تری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے تو نے ہی میرے جانی خوشیوں کے دن دکھائے روز کر مبارک سبحان من میرانی اپنے پیارے اور محبوب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسم مبارک زبان پر آتے ہی آپ پر رقت طاری ہو جاتی اور آپ بے قرار ہو کر رونے لگتے تھے.ایسے مواقع پر ایک روحانی فضاء پیدا ہو جاتی.اور قلب پر ایک روحانی کیفیت طاری ہوتی تھی.آپ کو حضرت امیر المومنین اطال اللہ عمرہ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے انتہا محبت وعقیدت تھی.اور ہمیشہ انہیں اپنے محسن کے نام سے یاد فرماتے.آپ کی خواہش کے مطابق روزانہ بلاناغہ حضرت امیر المومنین کی صحت کے متعلق الفضل کی رپورٹ آپ کو سنا تا تھا.آپ ہمیشہ نصیحت فرماتے کہ خاندان مسیح پاک کے ساتھ سچی محبت اور عزت واحترام اپنے دل میں پیدا کرنے اور ہمیشہ ان کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کی کوشش کروں کیونکہ اسی میں خیر و برکت اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی ہے اور یہ کہ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کو زیر مطالعہ رکھوں کہ ان کتابوں میں نور بھرا ہے جو دلوں کو منور کرتا ہے اور اس نور کے بغیر خدا تعالیٰ کی رضامندی حاصل نہیں ہوتی.سفر ر بوه گذشتہ جلسہ سالانہ ربوہ کے سفر میں حضرت بھائی جی اور اماں جی کی خواہش کے مطابق میں قادیان سے ربوہ تک ان کے ساتھ رہا اور ان کی خدمت کی خوب توفیق پائی.فــالـحـمـد لله عـلـى ذالک.ہندوستان بارڈر سے پاکستان بارڈر عبور کرنے کے لئے قریباً ایک میل چلنا پڑتا ہے چونکہ آپ کی صحت اس وقت بھی ناساز تھی اور طبیعت میں بے حد کمزوری تھی.اس لئے میرے کندھے کا سہارا لیتے ہوئے بہت مشکل سے چلتے رہے اور بار بار یہ کہتے رہے کہ یا! پروردگار! تو جلدی مجھے حضرت اقدس کے قدموں تک پہنچا اور پھر جلد ہی دارالامان میں واپس لے آ.راستہ میں کمزوری کی وجہ سے آپ کو کئی دفعہ بیٹھنا پڑا.حتی کہ ایک سکھ بھائی کہنے لگے کہ بابا جی! اس کمزوری اور ضعیف العمری میں آپ کیوں یہ مصیبت مول لے رہے ہیں آپ کو گھر میں ہی بیٹھے رہنا چاہئے تھا.گو اس وقت آپ نے کوئی جواب نہیں دیا.لیکن بعد میں

Page 420

۴۰۵ مجھ سے فرمانے لگے کہ بچے ! ان لوگوں کو کیا معلوم ! میں تو اس نورانی چہرہ (حضرت امیر المومنین ) کو دیکھنے کے لئے جا رہا ہوں جس کے لئے میری روح تڑپ رہی ہے اور دل بے تاب ہو رہا ہے.“ تمام راستہ میں اور پھر ربوہ میں آپ قادیان کی جدائی بہت ہی محسوس کرتے رہے اور بار بار آپ یہ شعر پڑھتے تھے زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق ޏ ارض حرم ہے قافلہ کے افراد واراکین کی باہم محبت اور ان کے جذبہ و اطاعت کو دیکھ کر کئی دفعہ آپ نے فرمایا کہ یہ سب حضرت مسیح پاک کی برکت کا نتیجہ ہے ورنہ یہ اطاعت و محبت دنیا میں کہیں نظر نہیں آئے گی.قافلہ کی وجہ سے جو سہولتیں سفر میں میسر آئیں ان کا ذکرتے ہوئے فرمایا کہ واقعی ید الله عـلـى الجماعة كا نظاره جماعت احمدیہ سے بڑھ کر اور کہاں نظر آئے گا.چونکہ سفر کی کوفت اور سردی کی شدت اور طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے آپ جلسہ میں شریک نہ ہو سکے اس لئے میں حسب ارشاد روزانہ شام کو جا کر آپ کی خدمت میں جلسہ کی کارروائی سنایا کرتا تھا.۲۹ / دسمبر کو قادیان کو واپس آتے وقت حضرت بھائی جی کی خدمت میں حاضر ہوکر جب میں نے اجازت مانگی تو آپ نے بہت درد بھرے لہجہ میں فرمایا کہ مجھے یہاں پر چھوڑ کر جارہے ہو.دعا کرو کہ خدا تعالیٰ مجھے جلد ہی اپنے پیارے محبوب کے مسکن میں لے جائے.حضرت بھائی جی سے اس وقت رخصت ہوتے وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ سے یہ میری آخری ملاقات ہے.آپ صحیح معنوں میں ایک عاشق قرآن تھے جس کی ہر آیت سے آپ کو بے انتہا انس تھا.آپ کی خواہش پر نصف سال سے روزانہ بعد نماز فجر آپ کو قرآن پاک سنا تا تھا.کیونکہ آپ کی نظر کی کمزوری کی وجہ سے خود تلاوت قرآن نہیں کر سکتے تھے.فجر کی نماز سے فارغ ہو کر قرآن کریم اپنے سینہ پر رکھ کر لیٹ جاتے اور میرا انتظار فرمایا کرتے تھے.کوئی دن ایسا نہیں گذرا کہ تلاوت کے وقت آپ پر رقت طاری نہ ہوتی ہو.تلاوت کیا تھی وہاں پر ایک روحانی سماں بندھ جاتا تھا.خشیت ومحبت الہی سے بعض اوقات آپ بے اختیار رو پڑتے تھے.ہدایت یافتہ لوگوں کے ذکر پر فرماتے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدْنَا اللهُ - اور ان لوگوں پر خدا کی رحمت و نعمت کا ذکر آتے وقت کئی دفعہ کہہ اٹھتے کہ ۲۶۲

Page 421

۴۰۶ اللهم اجعلنا منهم اللهم اجعلنا منهم اسی طرح جب مغضوب علیہم اور ان پر خدا تعالیٰ کے قہر و غضب کا ذکر آتا تو آپ بے قرار ہو کر استغفار پڑھنے لگتے.اور ساتھ ہی نہایت تذلل اور انکسار سے دعا کرتے کہ اللهم لاتجعلنا منهم اللهم لاتعجلنا منهم تلاوت قرآن کے بعد جزاكم الله احسن الجزاء في الدارین خیراً کہتے ہوئے میرے لئے بہت دیر تک دعا فرماتے رہتے.چنانچہ کئی دفعہ فرمایا کہ ” میرے پیارے بچے! آپ روزانہ میرے کانوں میں خدا تعالیٰ کی آواز پہنچاتے ہیں اس وجہ سے آپ کے لئے جو دعائیں نکلتی ہیں ، وہ میرے دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہیں.کوئی رسمی دعا ئیں نہیں آپ صرف میرے لئے ہی نہیں بلکہ میرے والدین اور اساتذہ کے لئے بھی دعا فرماتے.آپ کی وفات کے بعد محترمہ اماں جی نے یہ قرآن کریم خاکسار کو بطور تبرک عطا فرمایا ہے فجزاها الله احسن الجزاء.حضرت بھائی جی دنیائے احمدیت کا ایک قیمتی جو ہر تھے اور اپنے محبوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجسم عاشق تھے.آسمان احمدیت سے غروب ہونے والے یہ روشن ستارے نونہالان جماعت کے لئے کامل رہنما تھے اسلام کے فدائی احمد کے خاص پیارے اب رہ گئے ہیں ایسے جیسے سحر کے تارے جیسا کہ سیدنا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے اعلیٰ مرتبہ کا ذکر کرتے فرمایا ہے کہ ایک مجذوب نے حضرت جنید بغدادی کی وفات پر ذیل کے شعر کہے تھے حضرت بھائی جی بھی ان کے مصداق ہیں ولم اسفى على فراق قوم والمدن والمزن والرواسي ثم تتغير لنا الليالي فكل جمر لنا قلوب هم المصابيح والحصون والخير والدين والسكون حتی تو فهم المنون وكل ماء لنا عيون یعنی ہائے افسوس! قوم کے ان قیمتی وجودوں کی جدائی پر ! یہ لوگ روشن چراغ اور مضبوط قلعے

Page 422

۴۰۷ تھے.یہی لوگ ہمارے شہر، روحانی بارش برسانے والے بادل اور دین کے پہاڑ تھے.یہی خیر و برکت کے موجب اور مجسم دین وسکون تھے.جب تک موت ان کو نہیں لے گئی.حوادث ومصائب زمانہ نے ہم پر کوئی اثر نہیں ڈالا.ان کی جدائی کے سبب ہمارے قلوب انگاروں کی طرح تپ رہے ہیں اور ہم ان وجودوں کی جدائی پر اتنے آنسو بہاتے ہیں کہ اس کے چشمے ہی پھوٹ پڑتے ہیں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان قیمتی وجودوں کے تاقیامت زندہ رہنے والے نمونوں کو اپنانے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.تاثرات مولوی برکات احمد صاحب محترم مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی.اے در ولیش ناظر امور عامه وخارجہ قادیان رقم فرماتے ہیں: زمانہ درویشی میں چار قدیمی اور نہایت مخلص صحابہ کا وجود قادیان میں نمایاں حیثیت کا حامل تھا.یعنی حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی حضرت منشی محمد دین صاحب واصل باقی نویس.حضرت بابا صدرالدین صاحب قادیانی اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی.یہ سب اپنے اپنے رنگ میں روشنی کے مینار تھے.اور ان کا وجود درویشوں کے لئے بہت ہی بابرکت تھا.حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا حضرت اقدس مسیح موعود اور آپ کے مقدس اہل بیت سے والہانہ عشق و محبت تھا.نہ صرف یہ کہ آپ کا قلب ان مقدسین کی محبت اور احترام کے جذبہ سے سرشار تھا.بلکہ عملی رنگ میں آپ کی والہانہ شیفتگی کا اظہار ہر حرکت وسکون سے ہوتا تھا.جب آپ حضرت اقدس مسیح موعود اور سیدۃ النساء حضرت ام المومنین اور خاندان اہل بیت کے کسی فرد کا ذکر کرتے تو آپ کی حالت مجسم عشق اور ممنونیت کی ہوتی.اور آپ نہایت دلچسپ اور روح افزاء انداز میں ان مقدسین کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بیان کرتے اور احسانات کو یاد کرتے ہوئے چشم پر آب ہو جاتے اور بار بار اسی بات کا اظہار کرتے کہ ہم کچھ نہ تھے اس مقدس خاندان کی غلامی میں اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دیا اور اتنا دیا کہ اس کا شکر ادا کرنا بھی ممکن نہیں.یہ اسی محبت اور احترام کا تقاضا تھا کہ حضرت بھائی جی کو بارہا مسجد مبارک کے دروازہ پر حضرت اقدس مسیح موعود کے ایک نونہال کے جوتوں کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کرتے دیکھا گیا.ایسی خدمات میں آپ

Page 423

۴۰۸ فخر محسوس کرتے تھے.سوائے آخری دو تین سال کے باوجود ضعیف العمری کے آپ کا حافظہ بہت باریک اور پختہ تھا اور آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام، حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک زمانوں کے حالات و کوائف پوری تفصیلات سے ازبر تھے.اسی طرح قادیان کے مقدس مقامات کے متعلق تفصیلات بھی یاد تھیں.اور آپ نہایت پُر جوش اور رقت آمیز لہجہ میں اور انتہائی عقیدت و محبت کے ساتھ ان تفصیلات کو بیان کرتے تھے.بٹالہ اور گورداسپور میں جن مقامات پر حضرت مسیح موعود قیام پذیر ہوئے تھے وہ بھی آپ کے ذہن میں گہرے طور پر مرتسم تھے.آپ نے حضرت اقدس کی جنازہ کی جگہ کی نشاندہی کی تھی تو وہاں سردی کی شدت کے باوجود نلا ئی کرنا.گھر پے سے روشوں کو درست کرنا محبت و عشق والی محنت و مشقت کی ایک زریں مثال ہے.آپ کی ایک اور نمایاں خوبی یہ تھی کہ جب آپ پر سلسلہ کی طرف سے کوئی ذمہ داری عائد کی جاتی تھی تو آپ اس کو نبھانے کے لئے پورے طور پر احساس کرتے.چنانچہ موجودہ دور میں بارہا دیکھا گیا کہ آپ علالت یا ضعف سے نڈھال ہونے کے باعث گھر میں چار پائی پر دراز ہیں.لیکن دفتر سے یہ اطلاع ملنے پر کہ آپ کو قائم مقام امیر مقامی یا ناظر اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے تو آپ فوراً کمر بستہ ہو جاتے.اور یوں معلوم ہوتا کہ آپ کے ناتواں اور سال خوردہ جسم میں یکدم طاقت اور چستی پیدا ہوگئی ہے اور آپ حتی المقدور کام سرانجام دیتے اور ہر کام میں ذاتی دلچسپی لیتے اور جس کا رکن کے ذمہ کام ہوتا اس کے پاس پہنچ کر اس کی سرانجام دہی کے لئے تاکید فرماتے.یہی وہ فرض شناسی کا جذبہ تھا جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی اور نجی کاموں کی سرانجام دہی اور اس کی وجہ سے تقرب کا موقعہ ملا.بلکہ ۱۹۲۴ء کے سفر یورپ میں بھی ہمسفر ہونا نصیب ہوا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.اور ان بزرگوں کے نیک نمو نے ہماری زندگیوں میں منعکس فرمائے.اور ہمیں اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کرے.آمین.تاثرات شیخ یوسف علی صاحب عرفانی اخی المکرم شیخ یوسف علی صاحب عرفانی الاسد می مقیم بمبئی ابن حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تحریر کرتے ہیں کہ

Page 424

۴۰۹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ خصوصاً قدیم صحابه روحانی طور پر زندہ جاوید ہیں.اور ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ان کی وفاداری اور قربانیوں کے علم سے ہمیں یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کا مقام کس قدر عظمت کا حامل تھا.حضرت بھائی جی کو میں اپنے بچپن سے جانتا ہوں.ابتداء میں جبکہ ابھی آپ کا مکان تعمیر ہوا تھا.تو آپ ہمارے پڑوس میں یعنی تراب منزل کے ساتھ والے مکان میں قیام رکھتے تھے.اس وقت ابھی آپ کے دو بچے تھے یعنی بڑے لڑکے اور آپ کی بیٹی.مجھے آپ کو عرصہ دراز تک نہایت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا.وَالْعَدِيتِ ضَبْحًا کے رنگ میں آپ ایسے ہی انسان تھے جو تھک جانے کے باوجود تازہ دم کی طرح ہر وقت مستعد اور چاق و چوبند رہتے تھے وہ سلسلہ کے کاموں کے لئے اور سید نا حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے کاموں کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے اور تھکنا نہیں جانتے تھے.ان کے لئے فرائض کے انجام کی خاطر دن رات یا گرمی سردی کا سوال کوئی اہمیت نہ رکھتا تھا.جب کوئی کام جس کے لئے سفر ضروری ہوتا نکل آتا تو سواری یا پیدل کا سوال آپ کے لئے کبھی روک نہیں بنتا تھا.اور یہ چستی و چالا کی آپ کی فطرت میں اس قدر زیادہ تھی کہ آپ نے اپنی رفیقہ حیات ( جنہیں ہم پنجابی زبان میں ماسی جی کہتے ہیں) کو بھی اپنی طرح کبھی آرام نہ کرنے والا بنا لیا تھا.بلکہ یہ خوبی آپ کی تمام اولاد میں بھی موجود ہے مومن خود نشیط اور مستقیظہوتا ہے اور دوسروں کو چست و چالاک اور بیدار رہنے والا بنے کی تلقین کرتا ہے.بعض اوقات ہمارے گھر میں کوئی بیمار ہو جاتا تو آپ ماسی جی کو بار بار بھیجتے کہ جاؤ خبر لے کر آؤ.اور بسا اوقات رات کے وقت ماسی جی ہاتھ میں لالٹین لے کر تنہا آجاتیں.اور فرما تھیں کہ امتہ الرحیم کے ابا تقاضا کر رہے تھے کہ جاؤ خبر لے کر آؤ.اخی المکرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم کی علالت پر دن کے علاوہ رات کو اکثر بھائی جی اور ماسی جی لالٹین ہاتھ میں لے کر شدید سردی میں آتے جب تک وہ ایسا نہ کر لیتے ان کو اطمینان سے نیند نہیں آتی تھی یہ اس امر کی دلیل تھی کہ جہاں آپ حقوق ہمسایہ ادا کرنے میں کوتا ہی نہ فرماتے وہاں ان کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رفاقت اور پاک صحبت میں رہنے والے دوسرے صحابیوں کا جذبہ ء احترام و عزت بدرجہ اتم موجود تھا.اور بدیں وجہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الاسدی کے مقام کا جو ادب اور احترام حضرت بھائی جی کے دل میں تھا.اسی

Page 425

۴۱۰ - بناء پر آپ ہمارے خاندان کے ہر فرد سے محبت اور شفقت کا برتاؤ کرتے تھے اس سے اندازہ کیا جاسکتا کہ حضرت بھائی جی کا جذبہ محبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے کس قدر گہرا اور شدید ہوگا.آپ عالم شباب سے ادھیڑ عمر تک ہنس مکھ اور ہشاش بشاش اور چست و چالاک تھے آپ کی پیشانی پر کبھی بل نہیں پڑتا تھا.وہ بات بھی ہمیشہ ہنس کر کرتے تھے.قادیان کی تمدنی زندگی اس وقت ایسی ہی تھی جیسی کسی نہایت چھوٹے سے غیر متمدن گاؤں کی.راتوں کو چوریوں کی وارداتیں بھی ہوتیں.ایک مرتبہ چوریوں کی وارداتیں روزانہ سننے میں آئیں.چوری ہوتی یا نہ ہوتی.مگر چور آتے ضرور.اور لوگ ہوشیار ہو جاتے.حضرت بھائی جی ان ایام میں راتوں کو تنہا ہا تھ میں ایک لمبا سا لٹھ لے کر نکلتے ، محلے کے دوستوں کو پکارتے.بعض گھروں کا دروازہ بھی کھٹکھٹاتے.خصوصا ہمارے اور محترم مولوی رحمت علی صاحب مبلغ انڈونیشیا کے گھر کا.صاحب خانہ دریافت کرتا کہ کون ہے تو جواب میں پہلے فرماتے عبدالرحمن.پھر السلام علیکم اور بعد میں تاکید فرماتے کہ ہوشیار رہنا اور چلے جاتے.یہ ان کی عادت تھی کہ جب بھی وہ کسی کے مکان پر دستک دیتے تو عام طور پر بہت زور دار آواز میں.” میں عبد الرحمن ہوں اور پھر السلام علیکم کہہ دیا کرتے تھے ورنہ عام طور پر لوگ کسی کے مکان پر دستک دیتے ہیں تو صاحب خانہ کے دریافت پر دستک کنندہ کہتا ہے ” میں ہوں “ جو آداب اور اخلاق کے لحاظ سے غلط ہے.آپ خشک مزاج مولویوں کی طرح نہ تھے.بلکہ زندہ دل اور ہشاش بشاش تھے آپ کا مزاح نہ بلا وجہ ہوتا اور نہ ہی اس میں تکدر اور پھیکا پن ہوتا.آپ میں کھلاڑیوں کی سی روح( Sportman's Spirit حد درجہ موجود تھی.آپ سپاہیانہ زندگی کے خوگر تھے.قادیان میں ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ کے درمیان اکثر مقابلے اور ٹورنا منٹ ہوا کرتے.جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی خصوصیت سے حصہ لیتے تھے.یا یوں کہئے کہ ان کی سر کردگی اور اہتمام میں یہ مقابلے اور ٹورنامنٹ وغیرہ سرانجام پاتے اور بسا اوقات حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی دیکھنے کے لئے تشریف لے جاتے.ان کھیلوں میں سے مثلاً گولہ پھینکنا اور اونچی چھلانگ وغیرہ کے مقابلوں میں بھائی جی حصہ لیا کرتے تھے.اور اس وقت بھی میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر ہے.مسجد نور اور بورڈنگ ہاؤس کے سامنے والے میدان میں بڑ کے درخت کے قریب اونچی چھلانگ میں آپ سفید شلوار پہنے ہوئے اور شلوار کو کمر بند میں سمیٹ کر ٹانگا ہوا، جسم نگا ، لمبا سا بانس ہاتھ میں لے کر چھلانگ لگا رہے ہیں.

Page 426

۴۱۱ یہ واقعہ میری شادی کا ہے ہم لوگ جب رخصتانہ کرا کے واپس قادیان آئے تو دریائے بیاس عبور کر کے بھٹیاں کے پتن کی طرف سے آنا ہوا.ہم قادیان پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا اور راستے میں پہلے حضرت بھائی جی کا گھر تھا.آپ کو چونکہ ہماری آمد کی اطلاع تھی.لہذا آپ اپنے مکان کے باہر کھڑے تھے جو نہی ہمارے ٹانگے آپ کے گھر کے پاس پہنچے تو آپ نے ہمیں وہیں اترنے کا حکم دیا.اور یہ غیر متوقع بات تھی.کچھ تعجب بھی ہوا.مگر آخر ہم سب اتر کر آپ کے گھر میں چلے گئے ادھر ہمارے گھر پر عورتیں دلہن کی آمد کے لئے جمع تھیں.بھائی جی نے تمام عورتوں کو اور ہمارے خاندان کی مستورات کو بھی بلا بھیجا.چنانچہ شادی کی چہل پہل اس وقت ہمارے گھر کی بجائے آپ کے گھر میں نظر آنے لگی.بھائی جی ایسے پھر رہے تھے جیسے خود ان کے بیٹے عبد القادر کی شادی ہے.اس وقت آپ کے گھر پر بیکری کا کام ہوتا تھا.لہذا آپ نے باہر تمام مردوں کو اور اندر عورتوں کو خوب سیر چشمی سے چائے سے تواضع کی.جس کے ساتھ دستر خوان پر ڈھیروں ڈھیر پیسٹری اور کیک رکھے گئے تھے.یہ اس لئے کیا گیا تھا کہ پرانے زمانے میں پنجاب میں یہ ایک رسم تھی.کہ تعلقات بہت زیادہ مضبوط بنانے کے لئے شادی کے موقع پر دلہن کی آمد پر دلہن کے سسرال کے گھر اترنے سے قبل وہ اپنے گھر میں اتار لیتے تھے اور پھر اپنے گھر سے اس کو رخصت کیا جاتا تھا.اس کو دھرم اتارنا کہا جاتا تھا گویا بیٹی بنانا.اس طرح پر حضرت بھائی جی نے اللہ ان کی روح پر بڑی بڑی رحمتیں نازل فرمادے میری بیوی کو اپنی بیٹی بنایا.یہ بات بظاہر ایک واقعہ ہے جو ایک دلچسپ یاد ماضی کے سوا شاید کچھ نہ ہو مگر اس واقعہ میں تعلقات کو نباہنے اور خانہ ء واحد کا سارنگ پیدا کرنے کی ایک پُر لطف مثال نظر آتی ہے.اور اس میں ایک بزرگ انسان کی محبت صادق و پر خلوص کا ایک سمندر موجزن دکھائی دیتا ہے.مشعل لے کر تلاش کرنے نکلے مگر آپ ایسے پر خلوص اور محبت کرنے والے بزرگ اور پڑوسی نہ پائیں گے.گویا حضرت مسیح موعود کے یہ سچے عاشق حضور کی وجہ سے ایک مسلک میں منسلک ہو چکے تھے.اور باہمی جذبہ محبت کو زیادہ سے زیادہ پرورش کرنے کے ذرائع استعمال میں لاتے تھے.میری آخری ملاقات حضرت بھائی جی سے اکتوبر ۱۹۵۸ء میں قادیان میں آپ کے مکان پر اسی کمرے میں ہوئی.تو میں نے یہ واقعہ آپ کو یاد دلایا.تو آپ نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے فرمایا.ہاں اب وہ دن پھر کبھی نہیں آئیں گے.اکتوبر ۱۹۵۸ء میں عزیزم مکرم شیخ داؤ د احمد صاحب عرفانی اور میں حضرت والد صاحب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر و موسس الحکم کی نعش والا تابوت بہشتی مقبرہ میں دفن کرنے کے لئے لے کر قادیان میں

Page 427

۴۱۲ ہاں اپنی مادر وطن اور جائے ولادت میں بطور مہمان و مسافر وارد ہوئے.حضرت بھائی جی کو جب ہماری آمد کا علم ہوا تو آپ با وجود کافی کمزوری اور ضعیفی کے خود ہی تشریف لے آئے.حالانکہ ہم نے تو بھائی جی کے پاس جانا ہی تھا.مگر بھائی جی نے انتظار نہ فرمایا.خود چلے آئے اور چھاتی سے لگا کر لمبا معانقہ کیا اور چونکہ تقسیم ملک کے بعد پہلی بار ملاقات ہوئی تھی اس لئے بڑی مسرت کا اظہار فرمایا.اگر بھائی جی کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا.تو وہ یہ کہتا کہ واہ میں خود کیوں جاؤں وہ بچے ہیں ان کا فرض ہے وہ خود مجھے ملنے کے لئے آئیں.مگر حضرت مسیح موعود کے اصحاب ان تکلفات اور ظاہر داریوں سے قطعی پاک تھے اور سادہ زندگی اور بے لوث محبت کے خوگر تھے.حضرت والد صاحب کی تدفین کے وقت حضرت بھائی جی پر رقت طاری تھی اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہے اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ان کو چلتے پھرتے نظر آرہے تھے.میرے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے بھائی جی آہستہ آہستہ جارہے تھے.تدفین کا پورا منظر بڑے صبر سے دیکھا تدفین کے بعد دعا وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد احباب واپس لوٹ رہے تھے اس وقت آپ میرے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آگے بڑھے اور اس زمین کے پاس آکر رک گئے جو ان کی قبر کے لئے ان کی زندگی میں مخصوص کر دی گئی تھی.یہاں چند منٹ کے لئے رک گئے اور زمین پر ایک نظر ڈالی مجھ پر بھی اس کا اثر تھا.تاہم وہاں سے چل پڑے جس قد ر ا حباب آئے تھے وہ آگے نکل گئے اور حضرت بھائی جی اور میں ہی پیچھے رہ گئے.آپ پر رقت طاری تھی.گویا کسی عذر کی تلاش میں تھے کہ جس پر آنسو بہر نکلیں.میرے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ بھائی جی اگر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں زید بن حارثہ کو بلند مقام حاصل ہوا.تو حضرت مسیح موعود کے اصحاب میں بھی یہ نظیر ملتی ہے میری بات ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ بھائی جی نے ایک دلدوز چیخ ماری اور پھوٹ پھوٹ کر روئے اور مجھے بھی رلایا.اس طرح سے وہ آنسو جو انہوں نے روک رکھے تھے.بہائے میں واپسی سے قبل آپ سے ملاقات کرنے گیا تو آپ نے آخری نصیحت مجھے کی اور بڑی شفقت سے پُر اثر آواز میں کہا کہ بچے! ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنا اور خاندان مسیح موعود سے محبت اور ان کی عزت و تکریم کرنا.ان کے یہ الفاظ سن کر میں چونک پڑا.اور مجھے کچھ بنی بھی آئی.کیونکہ یہی الفاظ حضرت والد صاحب بار بار ہم سب سے فرما چکے تھے مجھے جنسی اس لئے آئی کہ حضرت اقدس کے صحابہ میں سے ایک کی زبان سے

Page 428

۴۱۳ جو بات نکلتی ہے وہی دوسرے کی زبان پر جاری وساری ہے.میں نے حضرت بھائی جی کو یقین دلایا.اور کہا کہ بھائی جی ایسا ہی ہوگا.خواہ کوئی اور کرے یا نہ کرے.بھائی جی نے فور میری بات کاٹتے ہوئے بڑے لطیف پیرائے میں فرمایا کہ نہیں ایسا مت کہو بلکہ یہ کہو کہ انشاء اللہ میں ایسا ہی کروں گا.اس واقعہ کو میں جب دھیان میں لاتا ہوں اور غور کرتا ہوں تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کے اصحاب رضی اللہ عنہم جسمانی طور پر الگ الگ وجو د تھے.مگر ان کی رگوں میں ایک ہی خون جاری و ساری تھا یا وہ ایک آواز تھی جو ریکارڈ کی گئی ہو.جس کا ایک ریکار ڈ امریکہ میں اور ایک مصر میں بج رہا ہو.تو دوسرا لندن میں اور تیسرا کینیڈا میں مگر آواز ایک الفاظ ایک،صرف ریکارڈوں کے ٹکڑے یا حصے الگ الگ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ؎ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس ޏ بہتر غلام احمد ہے اس کے اور مفہوم کے علاوہ میری ناقص عقل میں یہ بات آئی کہ حضرت مسیح کے حواریوں کا احوال ہمارے سامنے ہے وہ بھی حواری تھا جس نے مسیح کے ساتھ غداری کی.اور حضرت مسیح موعود کی شان کس قدر بلند اور اعلیٰ نظر آتی ہے کہ آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم زندگی میں پروانہ وار جان چھڑ کتے ر ہے.وفات کے بعد حضرت اقدس کا ذکر ان کی زندگی کی نشو و نما کرنے کا باعث تھا.اور حضرت یعقوب کی طرح جیسے ان کو حضرت یوسف کی خوشبو آتی تھی.اسی طرح مسیح دوراں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کے اصحاب کو حضرت اقدس کی اولادوں اور نسلوں کے پسینے سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خوشبو آتی اور وہ ان کی پیشانیوں پر اپنے آقا کے نور کی ضیا پاتے تھے اور پاتے ہیں انہیں آپ کی اولادوں اور نسلوں کی پشت پر حضرت مسیح موعود کی مہر ثبت نظر آتی تھی اور پھر مرنے کے بعد اولو العزم اور برگزیدہ ہستی کے قدموں میں دفن ہونے کے لئے دنیا کے کناروں سے بھی ان کے تابوت آجاتے ہیں.انہوں نے زندگی میں دل و جان اور مال سب کچھ نچھاور کیا بعد مردن اپنی خاک اس کے مرقد مبارک کے پاس محفوظ کر دینے کی وصیت کر کے رخصت ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے مردہ جسموں کو مسیح پاک کے پاس پہنچا دیا اس مناسبت سے بھی حضرت مسیح موعود کا مقام حضرت مسیح ناصری سے بدرجہ اتم اعلیٰ وارفع نظر آتا ہے.

Page 429

۴۱۴ بیان سردار عبد الرحمن صاحب سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کوحضرت بھائی جئی بھی بہت عزیز تھے.اور حضور ان کے احساسات کا بہت خیال رکھتے تھے اس بارہ میں سردار عبدالرحمن صاحب ( مقیم بمقام کنری ضلع تھر پا کر سندھ ) سناتے ہیں کہ غالبا آغاز ۱۹۳۷ء میں حضور تفریح کے لئے دریا کی طرف جانے والے تھے.ان دنوں حضرت بھائی جی علیل تھے.قصر خلافت سے حضور انور نے اپنی بندوق اور رائفل موٹر میں رکھنے کے لئے مجھے دیں.میرے دریافت کرنے پر کہ حضور کے اسلحہ کی دیکھ بھال کون کرتا ہے فرمایا بھائی جی کرتے ہیں.مجھے خیال آیا کہ میں اپنے تئیں اس خدمت کے لئے پیش کر دوں اور عرض کیا کہ حضور ! بھائی جی تو اب بوڑھے ہو چکے ہیں.اس خدمت کے لئے میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں.حضور جو کہ بندوق مجھے دے کر واپس جارہے تھے فوراً مڑے اور فرمایا : ہیں کیا کہا ؟ اگر بھائی جی کو اس بات کا علم ہو جائے کہ یہ کام میں ان سے واپس لینا چاہتا ہوں.لیتا نہیں صرف لینا چاہتا ہوں.تو وہ رو رو کر مر جائیں.“ اور کچھ توقف کے بعد فرمایا: و تم کہتے ہو وہ بوڑھے ہو گئے ہیں گو آجکل ان کی صحت خراب ہے تاہم وہ ایسے اخلاص اور دلجوئی سے کام کرتے ہیں کہ بعض اوقات میں خود گھبرا جاتا ہوں کہ کیسے ان کو منع کروں تا ان کی صحت پر برا اثر نہ پڑے.“ تا ثرات حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کل شام جب میں نے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی میت پر حاضر ہوکر آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھا تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ آپ کی یہ خاموشی محض ہمارے لئے ہے ورنہ آپ اب بھی اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ہمیشہ تن مصروف ہیں.میری آنکھیں اس نظارہ کو نہیں بھولتیں جب ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء کی شام کو آپ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی معیت میں گھوڑا گاڑی کے پیچھے پائدان پر چاق و چو بند کھڑے تھے اور بیدار خادم اور بیدار محافظ نظر آ رہے تھے یہ میری پہلی ملاقات تھی جو میں نے محض اپنی آنکھوں کے ذریعہ کی تھی.آج تک

Page 430

۴۱۵ که قریباً ترین سال گذر چکے ہیں آپ کا گرویدہ چلا آرہا تھا مجھے بہت ہی خوشی ہے کہ آپ کی زیارت کا آپ کی زندگی کے آخری دنوں میں بھی مجھے موقعہ نصیب ہوا.میرا دل محبت کے جوش سے ان کے حجرہ میں لے گیا جبکہ آپ مہمانخانہ ربوہ میں قادیان کی واپسی کی تیاری کر رہے تھے ( پہلے کراچی جا کر ) میں نے شکر ربی کیا کہ عین وقت پر ملاقات نصیب ہوئی.جبکہ آں محترم نے ایک گھنٹہ بعد واپسی کے سفر پر روانہ ہو جانا تھا.یا یوں کہو کہ داغ مفارقت دے جانا تھا.اس وقت کی ملاقات کے وقت جو کچھ یہ عاجز گویا ہوا وہ یہ تھا: ” بھائی جی میں ابھی ابھی ۱۴ / جولائی ۱۹۰۸ء کا الحکم پڑھ کر آرہا ہوں.اس اخبار میں آپ کی ضبط کردہ تقریر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رؤسائے لاہور میں ۷ ارمئی کو فرمائی تھی درج ہے.اس تقریر کو پڑھ کر میرے دل سے آپ کے لئے بہت دعائیں نکلیں.“ میری یہ ملاقات قریباً پانچ منٹ رہی.اس سے زیادہ کی گنجائش نہ تھی کہ آپ کا سامان سفر باندھا جا رہا تھا.جب کل مجھے آپ کی وفات کا علم ہوا تو اگر چہ آپ کی جدائی شاق تھی.لیکن دوسری طرف میں اپنی خوش بختی پر نازاں بھی تھا.اس عاجز کو جس طرح ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء کی شام کے وقت سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت وفات سے صرف بارہ تیرہ گھنٹے پہلے نصیب ہوئی تھی اسی طرح حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی زیارت بھی اپنی دلی محبت کی بناء پر وفات سے صرف دوروز پہلے نصیب ہوئی.ذالک فضل اللہ.حضرت بھائی صاحب جیسا کہ آں محترم کے صفاتی نام سے عیاں ہوتا ہے واقعی جماعت احمدیہ کے مرکز کے ساکنین کے لئے بھائی ہی تھے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت کرنا عین سعادت سمجھتے تھے اور نہایت تندہی سے یہ کام سرانجام دیتے تھے.علاوہ اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آخری سفر لاہور میں آں محترم کو حضور کی معیت حاصل تھی جو آپ کی خدمت گزاری کی قدر کا ثبوت ہے.آپ حضرت خلیفہ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بہت سے ابتدائی سفروں میں شامل ہوئے.۱۹۲۴ ء کے سفر یورپ میں بھی بھائی صاحب شامل تھے.۱۹۵۵ء میں بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آں محترم کو ساتھ لے جانے کا ارادہ رکھتے تھے مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے بھائی صاحب نہ جاسکے.

Page 431

۴۱۶ آپ نے اپنے نام کے ساتھ جو قادیانی کا لقب لگایا اس کو پورے طور پر نباہا.پارٹیشن کے بعد آپ برضا ورغبت درویشوں میں شامل ہو گئے.قادیان سے باہر آنے سے ہمیشہ گھبراتے تھے مگر شوق دیدار حضرت مصلح موعود آپ کو پاکستان لے آتا تھا.آپ کا یہ آخری سفر آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سچا خادم ہونے کی دلیل بن جاتا ہے.جبکہ ہمیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ سفر کے لئے قادیان سے باہر نکلنا نہ چاہتے تھے.لیکن اپنی اہلیہ محترمہ کے منشاء کے ساتھ اتفاق کرتے ہوۓ خیر کم خیر کم لاهله کا ثبوت بہم پہنچاتے ہوئے سفر کی صعوبت اختیار کرلی.حضور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی آخر سفر لا ہور کے لئے اول اول تیار نہ تھے.لیکن حضرت ام المومنین کی خواہش کے مطابق آپ نے سفر لاہور اختیار کر لیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لاہور میں وفات پا کر اپنے مخلصین کو آخری خدمت کا بہت موقعہ دیا.حضور کا جسد اطہر بٹالہ سے قادیان کندھوں پر لے جایا گیا.اور لاہور کے احمدی احباب کو نماز جنازہ پڑھنے کی توفیق ملی.اسی طرح حضرت بھائی صاحب نے بھی بہت سے احباب کو اپنی میت کے لے جانے میں خدمت کا موقعہ عطا فرمایا.اور آپ کا جنازہ شاندار طریق پر ربوہ میں پڑھا گیا اور پھر قادیان میں بھی پڑھا جائے گا.انشاء اللہ.خاکسار راقم کو آپ کی جدائی کا بہت صدمہ ہے خصوصاً اس وجہ سے کہ وہ ہمارے سفر یورپ ۱۹۲۴ء کے بارہ ساتھیوں میں سے ایک ساتھی تھے جو ہم سے جدا ہو گئے“.محترم مرز او سیم احمد صاحب کے تاثرات سید نا حضرت خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لخت جگر محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ قادیان نے اپنی مصروفیات کے باعث مختصر البعض امور تحریر کئے ہیں اس اختصار کو ہی بابرکت اور موثر پاکر میں نے یہاں درج کرنا مناسب سمجھا ہے گو انہوں نے اجازت دی تھی کہ میں اس کی تفصیل تیار کرلوں.آپ رقم فرماتے ہیں کہ تقسیم ملک کے بعد قادیان میں بہت سے ایسے احباب قیام پذیر ہوئے جن کو اس سے قبل قادیان آنے کا بہت کم موقعہ ملا.یا وہ پہلی دفعہ قادیان آئے تھے.ان کے قلوب میں شعائر اللہ کی عظمت ، ان کا احترام، ان کی حفاظت اور ان کی صفائی کا خیال بہت گہرے طور پر حضرت بھائی

Page 432

۴۱۷ عبدالرحمن صاحب نے ہی پیدا کیا تھا.تاریخ سلسلہ کے متعلق آپ کو بہت واقفیت تھی.خصوصاً دار امسیح کے بارے میں کہ کہاں کہاں حضور علیہ السلام رہائش رکھتے رہے.تصنیف فرماتے رہے.ٹہلتے رہے.نیز اس بارہ میں کہ خطبہ الہامیہ حضور نے کہاں دیا تھا.حضور کے جنازہ گاہ کی تعیین کہ کس مقام پر بڑے باغ میں جنازہ پڑھا گیا تھا.جنازہ گاہ کی حفاظت اور خوبصورتی کے لئے آپ نے انتھک کوشش اور محنت کی.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر فرد کے ساتھ خواہ وہ عمر کے لحاظ سے چھوٹے سے چھوٹا ہو.آپ غایت درجہ احترام ، انکساری اور محبت سے پیش آتے تھے.چنانچہ اس امر سے بھی ان کی محبت ظاہر ہے کہ جب میں باہر سفر پر جاتا تو میرے بیوی بچوں کا حال روزانہ دریافت فرماتے کبھی خود آ کر اور کبھی اماں جی ( اپنی اہلیہ محترمہ کو بھیج کر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ مساجد مبارک واقصی میں جس جگہ حضور کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے رہے تھے بھائی جی کا تعہد تھا کہ آپ جلد پہنچ کر اسی جگہ مصلی بنا ئیں.آپ نماز با جماعت کا آخر عمر تک شدت سے اہتمام کرتے تھے.آپ کا یہ طریق تھا کہ مسجد میں جو دوست آتا آپ بلند آواز سے اس کے سلام کا جواب دیتے.نیز صاحبزادہ صاحب محترم یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ بھائی جی قادیان سے کبھی بھی سید نا حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت حاصل کئے بغیر تشریف نہ لے جاتے.آپ کی طبیعت نہایت درجہ سادہ تھی.آپ سلسلہ کا کام پڑنے پر خطرات کی پر کاہ پروانہ کرتے تھے.چنانچہ انگریزی راج کے زمانہ میں بعض کا رہائے پر خطر جو خاص ذمہ داری کے کام تھے.آپ کو سلسلہ کی طرف سے مقرر کیا گیا جو آپ نے نہایت دلیری اور باحسن طریق سرانجام دیئے.مثلاً انگریز گورنر کے ایک حکم کے خلاف لکھنو جا کر وہاں بعض ٹریکٹ آپ نے طبع کروا کے وہیں سے مختلف مقامات کے لئے ڈاک میں روانہ کئے.اللهم اغفر له و ارحمه و ادخله برحمتك في جنة النعیم - آمین مؤلف کے تاثرات ہم درویشوں کی انتہائی خوش بختی ہے کہ ہمیں قریباً پونے تیرہ سال تک حضرت بھائی جی کی صحبت میں رہنے کا موقعہ ملا.اور آپ کی نظر شفقت اور محبت بھری دعائیں ہمیں حاصل ہوتی رہیں مجھے ان کی شفقت کے بہت سے واقعات جو میرے ساتھ گزرے ہیں بار بار سامنے آ کر اور گذرے ہوئے ایام کی سہانی یاد دلا کر تڑ پاتے ہیں.میرے ساتھ اور میرے اہل وعیال کے ساتھ اپنے بچوں کا سا سلوک فرماتے اور

Page 433

۴۱۸ باوجود انکار کرنے کے اور عدم ضرورت کا اظہار کرنے کے چائے وغیرہ سے تواضع کر کے خوشی محسوس کرتے.۱۹۵۵ء میں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سفر یورپ پر بغرض علاج تشریف لے جانے کے لئے کراچی پہنچ چکے تھے کہ حضرت بھائی جی کو وہاں بلوایا تا پہلے سفر یورپ کی طرح ساتھ لے جاسکیں.اور حضور کے حکم سے آپ کا بین الاقوامی پاسپورٹ تیار کرایا گیا.لیکن غالباً آپ کی ضعیف العمری کے باعث اس ارادہ میں تبدیلی فرمالی.اس موقعہ پر بھائی جی سے کوئی بات حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے میرے کام کے تعلق میں بہت خوشکن بیان فرمائی.آپ پھولے نہ سمائے اور فوراً مجھے بذریعہ خط اس کی اطلاع دی.اس سے مجھے آپ کی شدید محبت کا احساس ہوا.الحمد للہ کہ مجھے بھی آپ کی بہت سی خدمت کرنے کا موقعہ ملا ہے.اور بہت سے اور درویشوں کو بھی.اصحاب احمد کے کام میں آپ نے ہمیشہ بیش قیمت مشورے دیئے اور اس بارہ میں نظر ثانی وغیرہ کے لئے آپ ہمیشہ آمادہ رہتے تھے.اور خوشی محسوس کرتے تھے.چنانچہ جلد اول کا سارا مسودہ آپ نے اپنا قیمتی وقت صرف کر کے سنا.اسی طرح جلد دوم کی بہت سی روایات کے متعلق میں نے مشورے کئے.جلد اول میں مقامات مقدسہ کے جو نقشے درج کئے گئے ہیں وہ آپ ہی کی زیر نگرانی تیار ہوئے تھے.آپ اس امر کے لئے ہمیشہ مستعد رہتے تھے.اور اس میں بہت لذت وسرور محسوس کرتے تھے کہ احباب وزائرین کو مسجد مبارک اور دارا مسیح دکھائیں.اور بتائیں کہ حضور بیت الفکر سے مسجد مبارک میں اس کھڑکی سے داخل ہوتے.کس کس مقام پر کھڑے ہو کر حضور نے نمازیں ادا کیں.اور حضور کی نشست کہاں ہوتی تھی.مسجد اقصیٰ میں کس مقام پر حضور نے خطبہ الہامیہ دیا وغیرہ.بہت کچھ تفصیل بیان فرماتے تھے تا آئندہ نسلیں ان باتوں کو محفوظ رکھ سکیں.نو دس سال قبل آپ نے بڑے باغ کے شمالی حصہ میں اس جگہ کی نشان دہی کی تھی جہاں حضرت خلیفہ اول کا انتخاب عمل میں آیا.اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جنازہ مبارک رکھا گیا.اور جہاں حضور کی نماز جنازہ ادا کی گئی.چنانچہ ایک جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ایک جنازہ کی نماز سے قبل اس جنازہ گاہ میں مختصر کلمات میں حضرت عرفانی صاحب نے بھی اس نشاندہی کی تصدیق کی تھی خاکسار اس موقعہ پر موجود تھا.بھائی جی نے اس جگہ کو گول چکر کی شکل میں بنوا کر وہاں پودے لگوائے اور مہینوں کئی کئی گھنٹے اکیلے یا کسی کو خود تحریک کر کے اپنے ساتھ لے جا کر وقار عمل کرتے.جگہ ہموار کرتے مٹی اٹھا اٹھا کر ڈالتے.پودے لگاتے ، گھاس صاف کرتے اور پانی ڈالتے اور بار بار دیکھنے میں آیا کہ ضعیف العمری میں ایسی مشقت کرنے سے

Page 434

۴۱۹ آپ کو بخار آجاتالیکن باوجود اصرار اور منت سماجت کے اس کام سے نہ رکتے.آپ کی سالہا سال کی منفر دانہ توجہ سے بحمد اللہ یہ یاد گار قائم ہو چکی ہے.اور حضرت مسیح موعود کی اس یادگار کے ساتھ حضرت بھائی جی کا نام بھی وابستہ رہے گا.آپ کو حضرت مسیح موعود کے خاندان کے تمام افراد سے بہت محبت تھی اور تمام افراد اس محبت کو محسوس کرتے تھے چنانچہ مجھے محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نبیرہ ( پوتا ) حضرت مرز اسلطان احمد صاحب نے تحریر کیا ہے کہ بچپن سے حضرت بھائی جی سے میرے وابستگی تھی.اور آپ خاص سلوک محبت سے پیش آتے تھے حضرت مسیح موعود کے خاندان کے کسی نو نہال سے ملاقات ہوتی تو آپ کے روئیں روئیں سے محبت پھوٹ کر ظاہر ہوتی.آپ فرط انبساط سے ان کے ہاتھ پر بوسہ دیتے.ان کے دکھ درد کو اپنا درد اور ان کی خوشی کو اپنی بہترین خوشی سمجھتے.حضور کا خاندان اور احباب جماعت آپ سے بہت محبت رکھتے تھے.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قدردانی کرتے ہوئے ۱۹۵۰ء سے مجالس صدرانجمن احمد یہ وانجمن تحریک جدید قادیان کا ممبر بھی اور بعد ازاں قائم مقام ناظر اعلی و قائم مقام امیر مقامی بھی مقرر فر مایا تھا.اور ۱۹۵۵ء سے آپ کے لئے ایک سو روپیہ ماہوار کا وظیفہ بھی جاری کیا تھا.حضور یا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے کوئی ارشاد موصول ہوتا تو ہمہ تن نیاز ہو جاتے اور وہ امرجس فرد یا افسر سے متعلق ہوتا با وجود بڑھاپے کے فوراً اس کے پاس پہنچتے.اور باوجود عرض کرنے کے کہ آپ ہمیں اپنے پاس بلایا کریں.آپ کیوں تکلیف فرماتے ہیں.آپ اپنی تکلیف یا علو مرتبت کا کبھی خیال نہ کرتے.گویا جہاں آپ کی طبعیت میں خود داری تھی وہاں حد درجہ انکساری بھی تھی.کوئی امر قابل دعا ہوتا یا کوئی خوشی یا رنج کی خبر ہوتی تو بہت سے احباب سے انفراداً ذکر کر کے بزرگان کی خوشی یا رنج میں شریک کرتے.خوشی کی خبر پر با آواز بلند الحمد للہ کہنا اذان سنتے ہوئے مسنون طریق اختیار کرنا مسجد میں آنے والے ہر فرد کو مکمل جواب وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ کہنا ہمارے کانوں میں گونجتا ہے.آپ نہایت با قاعدگی سے تہجد اور باجماعت نماز ادا کرنے والے بزرگ تھے.اکثر دیکھنے میں آتا کہ آپ علالت کے باوجود با جماعت تہجد اور نماز میں تشریف لاتے.حالانکہ آپ میں چلنے کی طاقت بھی نہ ہوتی.اور آپ کسی درویش کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گھر واپس پہنچتے.مسجد مبارک میں نماز با جماعت کے وقت سے بہت پہلے تشریف لاتے.اور سنن و نوافل میں دیر تک مصروف رہتے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ

Page 435

۴۲۰ کا قلب صافی کلام اللہ اور مسجد سے معلق اور وابستہ ہے.کیونکہ آپ تلاوت اور نماز با جماعت میں اپنی طاقت سے بڑھ کر کوشاں نظر آتے تھے.آپ کو یہ امر حد درجہ مرغوب تھا.اور اس کے لئے آپ کوشاں رہتے تھے کہ بیت الفکر اور مسجد مبارک کی درمیانی کھڑکی کے مغرب کی طرف اس جگہ بیٹھیں اور سنن ونوافل ادا کریں جہاں حضرت مسیح موعود مجلس میں تشریف فرما ہوتے تھے.یا نماز ادا فرماتے تھے.اسی طرح دیگر ایسے مقامات پر بھی باجماعت نماز کے وقت کھڑے ہوتے تھے جہاں حضور نے نمازیں پڑھی تھیں.اور اس خاطر آپ نماز کے ابتدائی وقت میں مسجد میں تشریف لاتے تھے.آپ کا سر نیاز دعاؤں کے لئے ہمیشہ درگاہ الہی پرخم رہتا.آپ ہمارے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ تھے.ہم آپ کی خدمت میں دعاؤں کے لئے عرض کرتے اور ہمیں اطمینان ہوتا.مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور آپ کی بیگم صاحبہ محترمہ دعاؤں کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور دیگر افراد خاندان حضرت اقدس اور جماعت کے بلا مبالغہ ہزار ہا خطوط آپ کی خدمت میں پہنچے.اور جب تک آپ کی صحت اچھی رہی.تو ابتداء اپنے قلم سے اور بعد ازاں کسی دوسرے کے ذریعہ جواب بھجوا دیتے.آپ نہایت رقیق القلب تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام سے شدید عشق تھا.ان کے ذکر پر آپ کی آواز بھرا جاتی.اور آپ آبدیدہ ہو جاتے اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تکلیف کا علم ہونے پر آپ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے.۱۹۴۸ء میں حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب اور آپ جیسے بزرگوں کو جنہیں تقسیم ملک کے وقت حکماً قادیان سے نکلنا پڑا تھا.قادیان بھجوانے کا مقصد حضور کے پیش نظر یہی ہوگا.کہ ان بزرگوں کے تقوی ، تہجد گزاری ، عبادات میں انہماک ، رجوع الی اللہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود سے عشق ، اسلام پر فدائیت ، خلافت سے وابستگی وغیرہ کا اسوہ حسنہ درویشوں کے سامنے رہے اور قولاً اور فعلاً اپنے بلند معیار کے ذریعہ ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہوں.اور در حقیقت ان کا ایسا ہی مقام تھا.اور حضور کے دل میں ان کا حد درجہ احترام تھا.چنانچہ مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے نام ایک مکتوب میں حضور نے ان دونوں بزرگوں کو سلام لکھا.( بحوالہ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۴۶) ۱۹۵۳ء والے خلاف احمدیت فسادات سے بہت قبل سید نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی دور بین نگاہ سے آئندہ پیش آنے والے حالات کو بھانپ لیا تھا.چنانچہ حضور نے ان دونوں کو اپریل ۱۹۵۰ء میں ذیل کا مکتوب بذریعہ رجسٹری ارسال کیا تھا:

Page 436

۴۲۱ مکرمی شیخ عبدالرحیم صاحب و بھائی عبد الرحمن صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.آج کل کچھ ذاتی پریشانیوں اور کچھ سلسلہ کی پریشانیوں کی وجہ سے طبیعت پر بہت بوجھ ہے.یہ پریشانیاں بہت سخت ہیں اور سلسلہ کے کام کو سخت دھکا لگنے کا احتمال ہے اس لئے یہ خط تحریر ہے کہ آپ اور دوسرے ایسے احباب جو دعائیں کرنے کے عادی ہیں بیت الدعاء.مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ اور مقبرہ بہشتی میں جا کر جب موقعہ ملے اور صحت اجازت دے، دعائیں کریں کہ ان ذاتی اور جماعتی پریشانیوں کو (وہ) دور فرمائے.اور سلسلہ کو نقصان عظیم اور پراگندگی سے محفوظ رکھے.اور دعا کے علاوہ استخارہ بھی کریں.کہ شاید اللہ تعالیٰ کوئی تسلی بخشے اور کوئی راہ اور طریق بلیات سے نجات کا تجویز کرے.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد ۲۶۵ لاکھوں کی جماعت میں آپ مسلم و محترم بزرگ تھے.آنکھیں ترسیں گی لیکن ایک ہاتھ میں عصا تھامے اور دوسرے ہاتھ سے کسی درویش کے کندھے کا سہارا لئے اور سر پر روئی دار گدی رکھے (جسے آپ نماز کی جگہ فرش کی سختی سے بچنے کے لئے رکھتے تھے ) آپ کو نہ دیکھ پائیں گی آپ نے حضرت مسیح موعود کے مبارک عہد میں بھی اور درویشی کے خاص دور میں بھی ایک ہی جتنا عرصہ پایا.یعنی بارہ سال آٹھ ماہ کے قریب آپ کی زندگی نہایت قابل رشک تھی.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات اعلیٰ علیین میں بلند فرمائے.اور ہمیں بھی آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے.آمین یا رب العالمین.تاثرات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے خاکسار کے عرض کرنے پر ذیل کا مختصر نوٹ ارسال کیا ہے.اور فرمایا ہے کہ کام کی بڑی کثرت اور ضروری یکسوئی حاصل نہیں.فرماتے ہیں: حضرت بھائی صاحب کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ خلافت ثانیہ کی ابتداء میں حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو سفر بھی فرماتے تھے اس میں لازماً حضرت بھائی صاحب کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور حضرت بھائی صاحب بڑی محبت اور جانفشانی سے ضرورت خدمت بجالاتے تھے ایسے سفروں میں عموماً نیک محمد خانصاحب غزنوی بھی ساتھ ہوتے تھے.چونکہ حضرت بھائی صاحب کی طبیعت بہت حساس تھی اس لئے حضور ان کی دلداری کا بہت خیال رکھتے تھے.جب حضرت بھائی صاحب نے قادیان

Page 437

۴۲۲ میں جا کر درویشی زندگی اختیار کی تو حضور نے اس زمانے میں ان کو صدرانجمن احمد یہ قادیان کا ممبر بھی مقرر فرما دیا.جو ایک طرف ان کے علو مرتبت اور دوسری طرف ان پر حضرت صاحب کے اعتماد کی ایک دلیل ہے.حضرت بھائی صاحب بہت محبت کرنے والے بزرگ تھے.اور خاندان حضرت مسیح موعود کے ساتھ بڑا اخلاص رکھتے تھے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ نصیحت فرماتے رہتے تھے کہ مرکز اور خاندان حضرت مسیح موعود کے تعلق میں کبھی غفلت نہ کرنا.ایک دفعہ حضرت بھائی صاحب اوائل زمانہ میں اجازت کے ساتھ وسط ہند میں مرزا احسن بیگ صاحب مرحوم کے پاس کچھ عرصہ جا کر ٹھہرے تھے اس زمانے میں جنگل میں ایک دفعہ ایک چیتے نے حضرت بھائی صاحب پر حملہ کیا تھا جس کی وجہ سے حضرت بھائی صاحب کی ایڑی پر زخم آیا تھا.مگر خدا کے فضل سے جلد آرام آ گیا.مرزا صاحب ہمارے پھوپھی زاد بھائی تھے ان کی والدہ مرحومہ حضرت مسیح موعود کی چچا زاد بہن تھیں.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مرحوم کے ساتھ حضرت بھائی صاحب کے خاص تعلقات تھے کیونکہ ہر دو کی طبیعت بے حد جذباتی تھی.اور غالباً کچھ عرصہ حضرت بھائی صاحب نے الحکم کے عملہ میں بھی کام کیا تھا.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جن دوستوں نے حضرت مسیح موعود کی وفات پر حضور کو غسل دیا ان میں حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی بھی شامل تھے.اور چونکہ لا ہور اس آخری سفر کے دوران میں حضرت بھائی صاحب بھی حضرت مسیح موعود کے ساتھ تھے.اس لئے حضرت بھائی صاحب کو حضرت مسیح موعود کے آخری سفر اور وفات اور جنازہ اور تدفین وغیرہ کے واقعات خوب یاد تھے.اللہ تعالیٰ بھائی صاحب کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کی اہلیہ اور اولاد کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.فقط والسلام جماعت کو بھائی جی کی وصیت خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۱-۱-۲۵ داغ ہجرت والے الہام کا واقعہ بیان کر کے حضرت بھائی جی بیان کرتے ہیں کہ جن صحابہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مہاجرین وانصار ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ،

Page 438

۴۲۳ ہمارے ان اسلاف کا اسوہ کیا تھا؟ ایک زخمی صحابی جو جان تو ڑ رہے تھے اقارب کے لئے پیغام پوچھے جانے پر پیغام دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم ایک خدائی امانت ہیں جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اس کی حفاظت کی اب یہ مقدس امانت تمہارے سپرد ہے.اس لئے اسے اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھنا اور اس کی خاطر کسی قربانی سے بھی دریغ نہ کرنا.ایک مشورہ کے موقعہ پر دریافت کرنے پر ایک انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ صلعم ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی.آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی.اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آگے نہ بڑھے.انہی قربانیوں کے نتیجہ میں ان کو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کا سرٹیفکیٹ ملا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلائے کلمتہ اللہ کی خاطر ہی ہجرت کر جانیکا ارادہ فرمایا تھا.ہمارے پیش نظر بھی یہی مقصد ہونا چاہئے.نائب الرسول آپ میں مہاجر بن کے آیا.روحانی ترقیات کے لئے اس کی آواز پر مال جان اور وقت قربان کرنا آپ پر لازم ہے.پس ایک عزم صمیم لے کر آگے بڑھو.آپ لوگوں کے سپر د ایک بہت بڑا کام ہے جو مسلسل محنت اور پہیم جدو جہد کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا.پس مہاجرین وانصار کی روح آپ کے رگ وپے میں جاری ہونی چاہئے ”آج میں بھی ان انصار کی زبان بن کر انہیں الفاظ کو دہراتے ہوئے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ جب تک یہ الہی امانت ہمارے پاس رہی اور جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے خدمت کی اب حکمت الہیہ کے ماتحت یہ امانت آپ کے سپرد ہے نہ صرف سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کی ذات ستودہ صفات بلکہ نسل سیدہ وخواتین مبارکہ اور جملہ اراکین خاندان سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بھی اس امانت میں شامل ہیں اس کا حق ادا کرنا آپ لوگوں کے ذمہ ہے.پس دیکھنا اسے اپنی جانوں سے عزیز رکھنا اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا“.hhd قدیم صحابہ کرام کا عالی مقام ۲۶۷ ۱ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اصحابی کا لنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم کہ میرے صحابہ ( آسمان روحانیت کے ) ستارے ہیں ان میں سے جس کی بھی تم پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور ایک اور بزرگ کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے دیگر دس ہزار مسلمانوں کے برابر قرار دیا آپ حدیث یوضع له القول في الارض کا اعلیٰ

Page 439

۴۲۴ مصداق تھے.لاہور میں بعض احباب کے مطالبہ پر حضرت بھائی جی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تبرک اپنی طرف سے مانگا.حضرت ام المومنین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے سے وہ طشت اٹھایا جس سے حضور مع اہلبیت کھانا تناول فرما رہے تھے اور بھائی جی کو دیتے ہوئے حضور کی موجودگی میں فرمایا: بھائی جی! آپ تبرک مانگتے ہیں.آپ تو خود ہی تبرک ہو گئے ہیں بدر ۲۸ را پریل ۱۹۵۲ء) حضرت ام المومنین نے دو مکتوبات میں آپ کو تحریر فرمایا کہ میں آپ کے لئے برابر دعا کرتی ہوں ہر نماز میں، ہر وقت.- حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ذیل کا مکتوب اپنے دستخط سے آپ کو بھجوایا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم DP11262 8-2-53 مکرمی.السلام عليكم ورحمته الله وبركاته آپ کا خط مورخہ ۲ فروری ملا.دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو کامل صحت بخشے.آپ لوگ گویا صف اول 112 12 8-2-53 محمد کا اعلی نے گولہ الکریم سم المر اور پر است هیم گرمی - اسلام میکنم درجه اسد در باند به آپ کا خشک می شد ۲ فروری ملا دیا ہے.اسیر تعالی آپ کی کامل صحت کیجئے.آپ لوگ گویا صف اول ۴ سیاہی ہیں 4 اند تعالٰی آپ کے ساتھ ہوا وسم بخدمت عالی عید ارکان کتاب تاریانی در رای از فاریان ضلع گورد ریپور، مشرقی پنجاب فاکار دا الدار

Page 440

۴۲۵ کے سپاہی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار مرز امحموداحمد 7-2-53 خلیفه لمسیح الثانی بخدمت بھائی عبدالرحمن صاحب قا دیانی دار امسیح قادیان ضلع گورداسپور.مشرقی پنجاب حضور کا یہ وتخطی مکتوب مرزا فتح دین صاحب کا تحریر کردہ ہے.) حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں خاکسار مؤلف نے ۱۹۳۷ء کے وسط میں مرزا صاحب کو وہاں کارکن دیکھا جب خاکسار اس دفتر میں اسسٹنٹ سیکرٹری مقرر ہوا اور بعد میں پرائیویٹ سیکرٹری ہوا.نہایت قابل اعتماد سنجیدہ محنتی، کام میں ماہر ، خاموش طبع تقسیم ملک کے بعد خلافت ثالثہ میں ان کا تبادلہ بطور نائب ناظر بیت المال ہوا.اس دفتر کی رفاقت ہماری آپس میں اخوت میں تبدیل ہوئی.خاکسار کا اصحاب احمد کا سارا حساب ربوہ میں ان کے پاس ہوتا تھا.بے حد امین اور ہمدرد تھے.دونوں میاں بیوی وفات پاچکے ہیں.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.غالباً اہلیہ محترمہ بھی.رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ.اس مکتوب کا چر بہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.حضرت چودھری برکت علی خاں اولین وکیل المال ( فنانشل سیکرٹری ) تحریک جدید کی بیٹی کے اعلان نکاح کے خطبہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے فرمایا: وو چودھری برکت علی خاں.ان چند اشخاص میں سے ہیں جو محنت ، کوشش اور اخلاص سے کام کرنے والے ہیں اور جن کے سپر د کوئی کام کر کے پھر انہیں یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی.ایک اور ) حافظ عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلوی مرحوم تھے.میرا ان کے متعلق ہمیشہ یہ تجربہ رہا کہ جس کام پر بھی لگے اسے اس تندہی اور انہماک سے کیا کہ اس طرح اپنا کام بھی کم لوگ کرتے ہیں...( وہ ) کام خوب سرگرمی سے کرتے.دوسرے اس رنگ میں کام کرنے والے شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی ہیں.رفاہ عام کا کوئی کام ہونہایت بشاشت استقلال اور شوق سے کرتے ہیں

Page 441

۴۲۶ - لد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بمقام ڈلہوزی ۲۲ / جولائی ۱۹۴۴ء کو چند دن پہلے کا ذیل کا رویا بیان فرمایا: ایک شخص نے آکر مجھ سے کہا کہ جب آپ کی سواری کسی موڑ یا پل پر سے گزرتی ہے تو بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور ایک اور شخص وہاں بھرا ہوا پستول لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب سواری گزر جاتی ہے تو پھر بھاگ کر اگلے پل یا موڑ پر چلے جاتے ہیں.یہ خبر رساں جو مخلص معلوم ہوتا ہے اس غلط فہمی میں مبتلا نظر آتا ہے کہ یہ دونوں صاحبان مخالف ہیں اور گویا ارادہ رکھتے ہیں اور مجھ پر حملہ کرنے کے لئے ہر موڑ اور پل پر جا پہنچتے ہیں.پھر وہ مجھ سے کہتا ہے کہ شاید وہ جن ہیں کہ اس قدر تیز رفتاری سے پہنچ جاتے ہیں.میں رویا میں سمجھتا ہوں کہ میرا کام ہی یہ ہے کہ میں ریل پر سوار ہو کر دورہ کرتا ہوں.اور ریل گویا موٹر کی طرح ہے.کہ جہاں چاہتا ہوں اسے لے جاتا ہوں.اور یہ دونوں ایسے تیز رفتار ہیں کہ جب میں ایک موڑ یا پل پر سے گزر جاتا ہوں تو یہ بھاگ کر اگلے موڑ یا پل پر جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں.اس وقت میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اس دوست کو غلطی لگی ہے کہ یہ جن ہیں اور مخالف ہیں.بلکہ یہ دوفرشتے ہیں جن میں سے ایک کی شکل بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سے ملتی ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کے لئے مقرر کیا ہے.جو ہر موڑ اور پل پر جو خطرہ کی جگہیں ہوتی ہیں دوڑ کر جا پہنچتے ہیں اور بھرے ہوئے پستول سے پہرہ دینے لگتے ہیں.حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی وفات پر جو خطبہ دیا تھا اس میں ان جیسے صحابہ کو حصن حصین قرار دیا تھا.ممکن ہے کہ اس رویا میں حضرت بھائی جی کے اس رنگ کے اخلاص کی طرف اشارہ ہو کہ وہ اپنی مخلصانہ دعاؤں اور سرگرمیوں اور مساعی کی وجہ سے اسی گروہ میں شامل ہیں.حضور نے ۱۹۵۲ میں اس وقت کے پاکستان میں مخالف احمدیت حالات کے مدنظر حضرت عبدالرحیم صاحب قادیانی اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو دعا کے لئے مشتر کا ایک مکتوب تحریر فرمایا تھا.جس سے ہر دو کے بلند مقام کا علم ہوتا ہے.-۵ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت منشی ظفر احمد کپور تھلوی کے بارے ایک تاریخی خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ میں خدمات کی ہیں، ایسی ہستیاں ہیں جو دنیا کے لئے ایک تعویذ اور حفاظت کا ذریعہ ہیں.جو برکات نبی پر نازل ہوتی ہیں ان کے ۲۷۱

Page 442

۴۲۷ گہرے دوست بھی ان برکات سے حصہ لیتے ہیں.یہ لوگ خدا کی طرف سے ایک حصن حصین ہوتے ہیں اور دنیا ان کی وجہ سے بہت سی بلاؤں اور آفات سے محفوظ رہتی ہے یہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ کے انبیاء کی صحبت حاصل ہوتی ہے خدا تعالیٰ کے نبیوں اور اس کے قائم کردہ خلفاء کے بعد دوسرے درجہ پر دنیا کے امن اور سکون کا باعث ہوتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ خطیب ہوں یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ پھر پھر کر لوگوں کو تبلیغ کرنے والے ہوں.ان کا وجود ہی لوگوں کے لئے برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہوتا ہے.ان کی والہانہ محبت کے نظارے دنیا صدیوں دکھانے سے قاصر رہے گی.عشق کی گرمی نے گویا ویلڈنگ کر کے ان کو خدا تعالیٰ سے جوڑ دیا.اب انہیں خدا سے اور خدا کو ان سے کوئی چیز جدا نہیں کر سکتی.یہ لوگ حضرت مسیح موعود کے ہزاروں نشانوں کا چلتا پھرتا ریکارڈ تھے.ان ہزاروں نشانات کے چشمدید گواہ تھے.جو حضرت مسیح موعود کے ہاتھ ، زبان ، کان اور پاؤں سے ظاہر ہوئے.ایسا ایک ایک صحابی جو فوت ہوتا ہے وہ ہمارے ریکارڈ کا ایک رجسٹر ہوتا ہے جسے ہم زمین میں دفن کر دیتے ہیں اگر ہم نے ان رجسٹروں کی نقلیں کرلی ہیں تو یہ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے اور اگر ہم نے ان کی نقلیں نہیں کیں تو یہ ہماری بدقسمتی کی علامت ہے ان لوگوں کی قدر کر و اور ان کے نقش قدم پر چلو.“ حضرت اقدس کی تحسین حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مجلس میں فرمایا: پادریوں نے ہندوستانیوں کے اخلاق خراب کر دئے ہیں اور ان کو مذہب فروش بنا دیا ہے کئی عیسائی دیکھے ہیں کہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مسلمان یا ہندو ہونے کو تیار ہیں.لیکن عیسائی لوگ ہم کو اس قدر تنخواہ دیتے ہیں، تم کیا تنخواہ دو گے؟ جدھر سے زیادہ تنخواہ کی امید ہوا دھر ہی جھک پڑتے ہیں.اور بسا اوقات کبھی ادھر سے اور کبھی ادھر سے بطور نیلام کے اپنی قیمت کے بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور یہ بد اخلاقی ہندوستان میں پادریوں نے ہی پھیلائی ہے.ایک انسان کو ) چاہئے کہ جب ایک مذہب کو سچا سمجھ کر قبول کرے تو پھر اس پر استقامت دکھلائے.خدا تعالیٰ رازق ہے.وہ خود تمام سامان مہیا کر دے گا.جب انسان خدا تعالیٰ کے واسطے کوئی

Page 443

۴۲۸ کام کرتا ہے تو پھر اس کو موت کی پرواہ نہیں رہتی اور نہ اسے خدا تعالیٰ ضائع کرتا ہے.اندرونی تقوی اور طہارت کا خیال کرنا چاہئے جن لوگوں کے دل اور دماغ میں صرف دنیا ہی رہ جاتی ہے وہ کس کام کے آدمی ہیں.جو لوگ سچے دل کے ساتھ ، خلوص نیت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں، خدا تعالیٰ ان کی دستگیری کرتا ہے.اس قسم کے عیسائی نو مسلموں کی نسبت تو ہم نے ان لوگوں کو بہت ثابت قدم دیکھا ہے جو ہندوؤں میں سے مسلمان ہوکر ہمارے پاس آتے ہیں جیسا کہ شیخ عبدالرحیم صاحب.سردار فضل حق صاحب ہیں.شیخ عبدالرحمن صاحب شیخ عبد العزیز صاحب ہیں.ان لوگوں نے اسلام کی خاطر بہت دکھ اٹھائے مگر اپنے ایمان پر قائم رہے.جب سردار فضل حق صاحب مسلمان ہوئے تو ان کو قتل کرنے کے واسطے کئی ان کے ہم قوم ) یہاں آئے تھے.مگر خدا تعالیٰ نے ان کو بچایا.اور سردار صاحب نے کسی کا خوف نہ کیا.ایسا ہی شیخ عبدالرحیم صاحب کے چہرے سے نیک بختی کے آثار نمایاں ہیں.شیخ عبدالرحمن صاحب کو ایک دفعہ ان کے رشتہ دار دھوکے سے لے گئے تھے اور وہاں لے جا کر ان کو قید کر دیا تھا.مگر خدا تعالیٰ نے ان کو بچالیا.اور (وہ) خود بخود یہاں چلے آئے.آپ کی تدفین فضل الہی کا ایک نشان تین سو تیرہ اصحاب بدر اور اصحاب الصفہ اصحابی کالنجوم کے مصداق آسمان روحانیت کے درخشاں و تاباں ستارے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن صحابہ کو ان کے مثیل زمروں میں شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی.وہ عجیب شان کے قومی الایمان تھے.ان کا مقام نہایت ارفع و اعلیٰ اور درخشندہ و تابندہ تھا اور وہ تا ابد الاباد زندہ و پائیندہ ہوئے ان میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب بھی شامل ہیں.آپ نے تاریخ احمدیت کے زریں اوراق میں مقام پالیا.ایس سعادت بزور تا نہ بخشد بازو نیست خدات بخشنده آپ عمر بھر دربار پر دھونی رمائے ، نہایت جاں شاری سے خدمت کی بجا آوری کے لئے ہمہ وقت پا بہ رکاب رہے.اشارہ پاتے ہی یہ جا اور وہ جا.اللہ تعالیٰ علیم بذات الصدور ہے اس نے غیر معمولی حالات پیدا کئے کہ آپ کو راجپوتانہ سے ایسے وقت میں قادیان لے آیا کہ حضرت اقدس علیہ السلام وصال والے

Page 444

۴۲۹ سفر لا ہور میں آپ کو ساتھ لے گئے جہاں حضور نے آپ کو بہت سے مواقع خدمت کے عطا فرمائے.اور وصال کی گھڑیوں میں اپنے اس فدائی کو اپنے پاس بلوالیا.اور وصال تک بلکہ آخری دیدار کرانے تک بھائی جی کو معیت کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت اقدس کی اجازت سے بھائی جی کو ان کے والد دو ہفتوں کے لئے ساتھ لے گئے.متوقع خطرات کے مدنظر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے عرض کیا کہ اگر حضور پسند فرمائیں تو بھائی عبدالرحمن صاحب کے ساتھ بھائی عبد الرحیم صاحب کو بھجوا دیا جائے.وہاں کے حالات سازگار نہیں.حضرت اقدس نے پر جلال و پر شوکت آواز میں فرمایا: دد نہیں مولوی صاحب! ہمیں نام کے مسلمانوں کی ضرورت نہیں اگر ہمارا ہے تو آ جائے گا.“ جلد یہ کرشمہ رونما ہوا کہ نصرت الہی نے دستگیری کی اور بھائی جی وہاں سے رہائی پا کر حضرت اقدس کے قدموں میں آپہنچے.پھر مزید ابتلاؤں کی کٹھائی سے آپ کندن بن کر نکلے.کراچی کے سفر میں راستہ میں آپ کی وفات خانیوال میں ہوئی اب پھر اور فوراً یہ نشان الہی ہماری آنکھوں نے دیکھا کہ کیسی جلدی پاکستان سے آپ کی نعش قادیان پہنچ پائی اور مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چاردیواری کے باہر حضور کے قریب ترین مقام پر آپ کی تدفین عمل میں آئی.اگر ہمارا ہے تو آجائے گا یہ دوہرا کرشمہ اس شہادت پر دوامی مہر ثبت کر گیا کہ آپ حضرت مسیح موعود کے تھے یعنی حضور کے جان نثار اور فدائی - وذلك فضل الله يوتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم وحی میں تذکرہ اصحاب الصفہ کا جماعت احمدیہ کے قیام سے سات سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وحی الہی سے یہ بشارت مل چکی تھی کہ وقت آتا ہے کہ آپ کے مقام تبشیر پر فائز ہونے کی وجہ سے استفاضہ کے لئے بکثرت لوگ آپ کی طرف رجوع کریں گے اور آپ کی تبشیر و تذکیر سے مومنین کی ایک ایسی جماعت آپ کو عطا ہوگی جو اعلیٰ مقامات صدق وصفا کی حامل ہوگی.اور ایک طبقہ آپ امام وقت کے در پر اصحاب الصفہ کے رنگ میں دھونی رما کر بیٹھ جائے گا.اصحاب الصفہ کے بارے میں پہلی وحی ۱۸۸۲ء کی یوں ہے: وَلَا تُصَعِرُ لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَسْتَمُ مِنَ النَّاسِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ -

Page 445

۴۳۰ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ مَّا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ أَصْحَابُ الصُفَّةِ - وَمَا أَصْحَابُ الصُّفَّةِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ يُصَلُّونَ عَلَيْكَ دوسری بار کی وحی میں یہ کلمات بھی ہیں: رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَا دِيَايُنَادِى لِلِايْمَان ربنا امنا فاكتبنامع الشاهدين تیسری با روحی جولائی ۱۹۰۶ میں ہوئی جس میں کچھ کمی بیشی کے ساتھ یہ الفاظ بھی ہیں وَوَسِعُ مَكَانَكَ أَصْحَابُ الصُفَّةِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا أَصْحَابُ الصُفُّةِ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا - قدرے تشریح کے ساتھ ان تینوں کا یکجائی ترجمہ یہ ہے: یا درکھ کہ وہ وقت آتا ہے کہ لوگ تیری طرف کثرت سے رجوع کریں گے.سو تجھے چاہئے کہ مخلوق الہی کی کثرت ملاقات کے وقت چیں بہ چیں نہ ہو اور تھک نہ جائے.اور تجھے لازم ہے کہ اپنے مکانوں کو وسیع کرے اور تو ان لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری سنادے.اور ان کو وہ سنادے جو تیرے رب کی طرف سے تجھ پر وحی ہوئی.اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے تیرے حجروں میں آکر آباد ہوں گے.وہی ہیں جو اللہ کے نزدیک اصحاب الصفہ کہلاتے ہیں.اور تو کیا جانتا ہے کہ وہ کس شان اور کس ایمان کے لوگ ہوں گے جو اصحاب الصفہ کے نام سے موسوم ہیں.وہ بہت قوی الایمان ہوں گے.تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے.وہ تیرے پر درود بھیجیں گے.اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا! ہم نے ایک منادی کرنے والے کی آواز سنی ہے.جو ایمان کی طرف بلاتا ہے.اور وہ ایک چمکتا ہوا چراغ ہے.اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے.پس ہمیں بھی گواہوں میں رکھ.اللہ تعالیٰ نے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو : میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا.اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا.اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور علی حسب

Page 446

الا خلاص اپنا اجر پائیں گئے“.۲۷۴ حضرت مسیح موعود نے فرمایا مبارک ۴۳۱ وہ ایمان لایا صحابه ނ ملا جب مجھ کو پایا وہی مے ان کو ساقی نے پلادی فسبحان الذى اخزى الاعادي اللهم صل على محمد وال محمد وبارک وسلم انک حمید مجيد واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين قدیم صحابہ کرام کا مقام حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی، صحابہ کرام رضی الله عنهم ورضوا عنہ اور حدیث يـوضـع لــه القبول فی الارض کا ایک قابل رشک اعلیٰ نمونہ تھے.اور ان صحابہ کرام کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان روحانیت کے ستارے قرار دیا ہے.ممان ا.اس بارے میں سید نا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے خطبہ کا ملخص درج ذیل ہے: - وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ میں خدمات سرانجام دی ہیں ایسی ہستیاں ہیں جو دنیا کے لئے ایک تعویذ اور حفاظت کا ذریعہ ہیں.جو برکات نبی پر نازل ہوتی ہیں ان کے گہرے دوست بھی ان برکات سے حصہ لیتے ہیں.یہ لوگ خدا کی طرف سے ایک حصن حصین ہوتے ہیں.اور دنیا ان کی وجہ سے بہت سی آفات سے محفوظ رہتی ہے.یہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ کے انبیاء کی صحبت حاصل ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے نبیوں اور اس کے قائم کردہ خلفاء کے بعد دوسرے درجہ پر دنیا کے امن اور سکون کا باعث ہوتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ خطیب ہوں.یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ پھر پھر کر لوگوں کو تبلیغ کرنے والے ہوں.ان کا وجود ہی لوگوں کے لئے برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہوتا ہے.ان کی والہانہ محبت کے نظارے دنیا صدیوں دکھانے سے قاصر رہے گی.عشق کی گرمی نے گویا ویلڈنگ کر کے ان کو خدا تعالیٰ سے جوڑ دیا.اب انہیں خدا سے اور خدا کو ان سے کوئی چیز جدا نہیں کر سکتی.

Page 447

۴۳۲ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہزاروں نشانوں کا چلتا پھرتا ریکارڈ تھے.ان ہزاروں نشانات کے چشمدید گواہ تھے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ ، زبان ، کان اور پاؤں سے ظاہر ہوئے.ایسا ایک ایک صحابی جو فوت ہوتا ہے وہ ہمارے ریکارڈ کا ایک رجسٹر ہوتا ہے جسے ہم زمین میں دفن کر دیتے ہیں.اگر ہم نے ان رجسٹروں کی نقلیں کرلی ہیں تو یہ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے.ان لوگوں کی قدر کرو اور ان کے نقش قدم پر چلو.

Page 448

۴۳۳ بیان حضرت خلیفہ المسیح الثانی صحابہ کرام کے مقام کی اہمیت کے بارے میں ڈلہوزی میں جب حضور بوجہ علالت اگست ۱۹۲۰ء میں قیام فرما تھے.صحابہ کرام کے تعلق میں بیان فرمایا کہ صحابہ (حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے (اس اصول کو ) سمجھا تھا ( کہ ) سورج اپنے Satellites کے ساتھ اچھا لگتا ہے.چاند کی شان اس کے ارد گرد گھومنے والے ستاروں کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے.اسی طرح شمع پروانہ سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہم کتنی بھی تعریف کرتے چلے جائیں.لوگ کتنی بھی تعریف کرتے چلے جائیں.لوگ یہی سمجھیں گے کہ مبالغہ ہے.لیکن ان کے خدام کے حالات سنائے جائیں اور بتایا جائے کہ ان کو حضور کے ساتھ کس قسم کا تعلق تھا تو وہ خواہ خواہ دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جھوٹ نہیں ہوسکتا.ضرور کچھ بات ہوگی.“ ایک معترض سے میں نے کہا کہ جس نے خود اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود کو دیکھا اور وہ چیز پالی ہو جس کی اس کو تلاش تھی تو وہ خواہ اس کو ہزار دلیل دی جاتی اس کی کیا پرواہ کر سکتا ہے.ہم نے اس کی آنکھوں میں وہ نور دیکھا ہے جو ہمارے دل کے اندر سے ہر گز نہیں نکل سکتا.اور ہم کسی طرح بھی اس سے دور نہیں ہو سکتے.۲۷

Page 449

۴۳۴ شمال ++ مشرق.جنوب خاکہ بلا پیمائش رنت بطرف دار الحت راسته بجانب غرب مسجد اقصیٰ چوک مسجد راسته بطرف ڈھاب ملحقہ بڑا بانغ مسجد اقصیٰ دفاتر صدر انجمن احمدیه دارا مسیح - مسجد مبارک فضل راسته -1 -٢ دامه مدرسہ احمدیہ بورڈنگ احاطه مکان حضرت ڈاکٹر مهمان خانه غلام غوث صاحب سه تعلیم الاسلام و لنگر خانه راسته بطرف مکان حضرت مفتی محمد صادق صاحب مسجد فضل (المعروف بہ مسجد ارائیاں) مکان حضرت مرزا صفدر علی صاحب ( یکے از تین سو تیرہ صحابہ ) ان کے فرزند محترم مرزا صالح علی صاحب ( صحابی ) نے بطور مہاجر غالبا کراچی میں وفات پائی.مکان ڈاکٹر عبداللہ صاحب ۴/۱ گلی مکان حضرت حافظ سلطان حامد صاحب جن سے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ لمسیح الثالث) نے قرآن مجید حفظ کیا.اس مکان کے باہر شمال مشرقی کو نہ میں کنواں تھا جو بعد تقسیم ملک باہر نہیں رہا.-4 مکان میاں عبداللہ صاحب جلد ساز مکان حضرت خان بہادر غلام محمد صاحب گلگتی موسومه به ” گلگت ہاؤس“

Page 450

۴۳۵ مہتہ بیر الال مهند لال چند متوفی راج کرن (متوفیه) رام سرن (متوفی) ہراج ( متوفی ) ایشرادیوی (متوفیه ) حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی متھرادیوی ایک لڑکا (متوفیه) (متوفی) مہتہ گوراند تابل مہتہ بہاری لال بابو امر ناتھ جمنا د یوئی مقیم امرتسر (متوفی) ( بیوه چوہدری منگترام دت) و میرا دیوی رام رین شانتی لڑکا صوبیدار تر اوک نا تھلہ متعین قلعہ دہلی (میم جالندھر) (متیم امرتسر ) ہری کشن ( منگی ) رام راکی عام شن (متوفی) لیلا ونتی (اہلیہ سنت رام ) ( ان کی اولا د تین لڑکے اور ایک لڑکی ) ( ایک لڑکا ) میلا دیوی (متوفیه ) کیوں کرشن ( متوفی) حکیم اوم پرکاش اہلیہ پیارے لال لاولد ) ( بھنڈاری محلہ بٹالہ ) ( ان کی دو بچیاں ہیں ) دینا ناتھ (متوفی ) وو یادی (شاید مقیم جالندھر ) سکھ دیو سنگھ پر کاش وتی بلد یو سنگھ مہدیو سنگھ جگہ یو سنگھ (متوفی) خوشی رام ان کی اولاد موجود ہے) (مقیم جالندھر) ( مقیم جالندھر ) مہتہ عبد القادر کراچی حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی المة الرحيم عبد الرزاق عبد الخالق عبد السلام ولادت ۰۴-۴-۳۰) (اہلیہ مرزا برکت علی صاحب انجینئر (پریس فوٹوگرافر.(انجینئر متعین ڈھاکہ) (انجینئر متعین منگلا ڈیم اولاد بمقام نعمانیہ.عراق ) اولاو آصفہ خانم.عبد العلیم فاروق امتہ الکریم.امتہ الحبیب ثریا خانم.عبدالہادی الطاف احمد امۃ الجمیل حسنات احمد عبدا نیع.نجمہ خانم کرامات احمد.امۃ اللطیف لمعات احمد اکرام احمد کراچی) اولاد اولاد عبد الباسط عبدائی عبدالرشید افتخار عفت انوار رفعت صحیح نہ بہت مغربی پاکستان ) اولاد ( لا ولد ) اہلیہ پنڈت مدن لال تاجر ) سب انسپکٹر پولیس مقیم پھلور راشن انسپکٹر امرتسر لا ولد ) ( جھیٹھ منڈی.امرتسر ) رکیش کمار جو گیش کمار راجیش کمار اشوک کمار اشتنی مار شیلاوتی کرن جیت اندرجیت تر پتا کماری دلجیت کمار پر بھا دیوی رنجیت کمار سکھد ادیوی روی کمار

Page 451

ا : الاعراف: ۴۴ العنكبوت :٢ : الاعراف: ۴۴ : النساء: ۷۷ ۴۳۷ حوالہ جات ابراہیم : ۴۶ بدر بابت ۵۲-۴ - ۲۸ صفحه ۴ ك البدر جلد نمبر ۳ بابت ۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ء ( صفحه ۲۳) نمبر ۴ بابت ۲۱ نومبر ( صفحه ۲۶) اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۹۸ تا ۱۰۲ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول.مکتوب نمبر ۳۳٫۲۶ صفحه ۳۵ اصحاب احمد جلد دوم حاشیه صفحه ۱۰۲ ۱۰۳ ال کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴ ۱۷۵،۱۷ حاشیہ الحکم بابت ۲۱، ۲۸ ستمبر ۱۹۴۲ء صفحه ۱ ۱۳: الحکم ۰۷-۶- ۱۰ صفحه ۸ الحكم بابت ۱۴-۲۱ جنوری ۱۹۴۰ء صفحه ۱۴ ۱۵ : تذکره صفحه ۴۵ طبع ۲۰۰۴ء ۱۶: تذکره صفحه ۲۰ طبع ۲۰۰۴ء یونس:۹۲ : تذکره صفحه ۴۴۱ طبع ۲۰۰۴ء

Page 452

۴۳۸ 6 ۲۰۱۹: الحکم بابت ۲۱/۱۴ / جنوری ۱۹۴۰ صفحه ۱۸ ۲۱ ۲۲ : الحکم بابت ۷-۱۴ رمئی ۱۹۳۸ء صفحه ۱۹ ۲۳ : الحکم ۱۴۷ مئی ۱۹۳۸ صفحه ۱۶ ۲۴ : تذکره صفحه ۸۲ طبع ۲۰۰۴ء ۲۵: آل عمران : ۲۰ ۲۶ : ال عمران : ۸۶ ۲۸ ۲۹ : تذکره صفحه ۸۳ طبع ۲۰۰۴ء البقره : ۲۰۲ الفضل ۱۹؍ جنوری ۱۹۶۱ء صفحه ۵ الحکم بابت ۱۴۰۷ مئی ۱۹۳۸ صفحه ۲۳ : تذکره صفحه ۶۳ طبع ۲۰۰۴ء ۳۲ : الحكم بابت ۷ ۱۴ رمئی ۱۹۳۸ء صفحه ۲۲ ۲۳ ۳۳ : الحکم بابت ۷ ۱۴ مئی ۱۹۳۸ صفحه ۲۳ ۳۴: الحکم بابت ۷ ۱۴ رمئی ۱۹۳۸ صفحه ۲۳ ۲۴ ۳۵ : تذکره صفحه ۲۷ طبع ۲۰۰۴ء ۳۶ : بدر ۳ / اگست ۱۹۵۳ء ۳۷ : مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر ۲۴۶۴۵ ۳۸ : بدر ۲۸ / اپریل ۱۹۵۲ء ۳۹ تذکره صفحه ۲۵۴ طبع ۲۰۰۴ء ۴۰ : تفسیر ابن کثیر قول امام عبداللہ شافعی زیر آیت لکم دینکم ولی دین بنی اسرائیل :۸۲ ۳۲ : المجادلہ:۲۲ ۴۳ : تذکره صفحه ۱۱۰ طبع ۲۰۰۴ء ۴۴ : الحکم ۷-۱۴ / اکتوبر ۱۹۳۹ ء وجوبلی نمبر ۴۸ / دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۶۳-۶۴

Page 453

: ۲۵ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۳۰ ۴۶ : الحکم ۷-۱۴ اکتوبر ۱۹۳۹ء ۴۷ : ال عمران : ۱۹۲ الحجرات : ۱۸ : آرکا تذکره صفحه ۴۴۱ طبع ۲۰۰۴ء ۵۰: تذکره صفحه ۳۹ طبع ۲۰۰۴ء 10: الفجر: ۲۹،۲۸ ۵۲: الحکم بابت ۲۸ رمئی، ۷ جون ۱۹۳۹ء ۵۳ : الحکم جلدے، نمبر ۱۴ بابت ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ء - صفحہ ۷ ۵۴ : تذکره صفحه ۲۴۰ طبع ۲۰۰۴ء :۵۵: تذکره صفحه ۲۴۱ طبع ۲۰۰۴ء ۵۶: الانعام : ۱۲۵ ۵۷ : المائده : ۶۸ ۵۸ : تذکره صفحه ۲۴۰ طبع ۲۰۰۴ء ۵۹ : تذکره صفحه ۲۴۱ طبع ۲۰۰۴ء مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحه ۶۱۵ ال: تذکره صفحه ۲۱۸ طبع ۲۰۰۴ء ۱۲: النساء : ١٠١ : تذکره صفحه ۶۳ - طبع ۲۰۰۴ء ۶۴: الحديد : ۱۷ ۱۵: الانفال: ۲۵ hh: تذکرہ صفحه ۳۰۴ طبع ۲۰۰۴ء ۱ : الحکم ۲۸،۲۱ اکتوبر ۱۹۳۹ء ۲۸ : الفضل جلد ۲۷نمبر ۲۵۹ بابت ۱۰ار نومبر ۱۹۳۹ ز یر عنوان ذکر حبیب...ایک سلیم الفطرت کی قلبی کیفیت لدلم

Page 454

۴۴۰ ۱۹ : الزخرف : ۱۴ ٤٠: الحديد :٢٢ ا : الحکم ۷ ۱۴ نومبر ۱۹۳۹ء ۷۲ : الفضل ۴ فروری ۱۹۴۱ء ۷۳ : آپ کی تقریر ذکر حبیب مندرجہ بدر ۲۸ مارچ ۱۹۵۶ء صفحه ۵ کالم ۱ ۴ ہے : آپ کی تقریر ذکر حبیب“ مندرجہه بدر ۲۸ مارچ ۱۹۵۶ء صفحه ۵ کالم۱ ه بدر ۲۸ / مارچ ۱۹۵۶ء البدر ۲۳ تا ۳۰ / جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۲ کالم ۳ نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۶۳ : الحکم ۶ را گست ۱۹۰۸ء - صفحه ۲ تا ۴ ول : الحکم ۳۰ را گست ۱۹۰۸ء صفحه ۴۰۳ : الحکم ۱۸ جون ۱۹۰۸ء.صفحہ ۵ تا ۷ : الحکم ۶ راگست ۱۹۰۸ ء - صفحه ۲ تا ۴ ۸۲ : ۱۴ / اگست ۱۹۰۸ء : تذکره صفحه ۳۲۱ طبع ۲۰۰۴ء ۱ : الحکم ۳۰ مئی ۱۹۰۸ ء - صفحہ او۴ ارجولائی.بارہ صفحات میں تقریر، صفحہ ۱ تا ۱۲ : الحکم ۱۸ جولائی ۱۹۰۸ء.صفحہ ۸،۷ ۸۶ : الحکم ۳۰ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحه ا تاکہ : الحکم ۱۴ جون ۱۹۳۴ ء صفحه ۴.خطوط وحدانی کے الفاظ مئولف کے ہیں.) : الحکم ۱۸ جولائی ۱۹۰۸ء.صفحہ ۲ تا ۶ : الحکم ۱۰ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۴۱۳ : الحکم ۱۸ جولائی ۱۹۰۸ء.صفحہ ۱ الحکم ۴ - ۱۴رجون ۱۹۳۸ء و مکتوبات احمد یہ جلد ہفتم.صفحہ ۶ ، ۶۱ الحکم ۷ ۱۴ جون ۱۹۳۸ء

Page 455

۴۴۱ بدر۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحه ۵ کالم ۳ : ۹۴ : تحفۃ الاحوذی جزے صفحہ ۱۷ ۹۵: الفضل ۱۸؍ جنوری ۱۹۶۱ء ۹۶ الفضل جلد ۳۹/۵۹ نمبر ۶ بابت ۷/جنوری ۱۹۵۱ء صفحه ۳ ۹۷ ۲ / اگست ۱۹۰۸ء ۹۸: الحکم ۲۲ را گست ۱۹۰۸ء ۹۹ : الحکم ۷ جنوری ۱۹۰۹ ء صفحہ ۹۸ بدر بابت ۲۵ / نومبر ۱۹۰۹ء ۱۰: الحکم ۲۱، ۲۸ جنوری ۱۹۱۳ء ١٠٢ : الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۴ ء.آخری صفحہ ۱۰۳ اصحاب احمد جلد دوم - صفحہ ۳۷۸ حاشیہ ۱۰۴: الحکام ۷ ۴ ارجون ۱۹۳۸ء ۱۰۵: الحکم ۲۷ رمئی ، ۷ جون ۱۹۳۹ء ۱۰۶: الحکم ۱۴۷ اکتوبر ۱۹۳۹ء بدر ۲۱ / جولائی ۱۹۵۲ء ۱۰۷ : بدر ۲۸ اگست ۱۹۵۲ء ۱۹۸ : الحکم ۲۸ / جنوری ۱۹۴۰ء ۱۰۹: الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۴۰ء ۰ : الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۴۰ء ال الفضل ۱۹ر فروری ۱۹۵۶ء : ۱ : الفضل ۲۴، ۲۵ فروری ۱۹۴۴ء ۱۱۳ : الفضل ۳۰ راگست ۱۹۱۴ء زمیر دینی مسیح : الفضل ۳ /ستمبر ۱۹۱۴ء.زیر مدینتہ اسیح ۱۱۵: الفضل ۲۱ رستمبر ۱۹۲۸ء الفضل اار مارچ ، ۶ و ۲۴ مئی اور ۱۶ رستمر ۱۹۲۷ءر پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ صفحه ۱۹ وغیرہ

Page 456

۴۴۲ لا : الفضل یکم جولائی ۱۹۲۷ء : الفضل ۱۱ مارچ ۱۹۲۷ء میر دین مسیح ۲۲ مارچ ۱۱۹ الفضل ۱۴ راگست ۱۹۲۸ء، ۱۷ اگست ،۱۴،۱۱ ستمبر ۱۲۰ اکتوبر ،اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم - صفحه ۴ ۵ ۱۲۰ تاریخ احمدیت جلد ششم - صفحه ۴۷۴،۴۷۳ : ۱۲۱ مکتوبات احمد یہ جلد اول - صفحہ ۶۹ ۱۲۲ : سالانہ رپورٹ ،صدر انجمن احمد یه بابت ۳۶-۱۹۳۵ء صفحه ۱۹۴ تا ۱۹۶ ۱ : الفضل ۲۹ جون ۱۹۳۸، صفحه ۲ کالم۱ :۱۲: الفضل یکم ستمبر تا ۱۳ اکتوبر ۱۹۱۷ء ۱۲۵: الحکم ۴ امئی ۱۹۱۸ء ۱۲۶ : الفضل ۲۱، ۲۸ مئی ۱۹۱۸ء ۱۲۷: الحکم ۲۱ جون ۱۹۱۸ء ۱۲۸ : الحکم ۲۸ / جون ۱۹۱۸ء ۱۲۹: الحکم ۱۴؍ جولائی ۱۹۱۸ء ۱۳۰ : الحکم ۲۱،۱۴ اگست ۱۹۱۸ء ۱۳۱: الحکم ۷ راگست ۱۹۲۰ ء زیر سلسلہ کا ہفتہ ۱۳۲ : الحکم ۲ جولائی ۱۹۲۰ء : احکم ۲۱ ستمبر صفحی ، الفضل ۲۶ اگست زیر مدینه المسح ۱۳۴ : الحکم ۲۱ ستمبر ۱۹۲۰ء - صفحه ۱۱ تا ۱۵ ۱۳۵ : احکام ۲۱ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحه ا ١٣٦ : الفضل ۲۷ ستمبر زمیر مدینه المسیح ۱۳۷: الفضل ۴ / جولائی ۱۹۲۱ء.رپورٹ رقم کردہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ۱۳۸: الفضل ۱۸ اگست ۱۹۲۱ ء.رپورٹ مرتبہ سید محمود اللہ شاہ صاحب برا در حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ ۱۳۹ ، ۱۴۰: الفضل ۲۲ /اگست ۱۹۲۱ء.رپورٹ مرتبہ سید محمود اللہ شاہ صاحب ۱۳۱ مطابق الفضل ۱۵ ستمبر

Page 457

۴۴۳ ۱۴۲: الفضل ۲۵ /اگست ۱۹۲۱ء.رپورٹ مرتبہ سید محموداللہ شاہ صاحب ۱۴۳: الفضل ۵ ستمبر ۱۹۲۱ء.رپورٹ مرتبہ خلیفہ تقی الدین احمد صاحب ۱۴۴: الفضل ۱۹ ستمبر ۱۹۲۱ء ۱۳۵: الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۲ء.رپورٹ سید محموداللہ شاہ صاحب ١٤٦: الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۲۱ء زیر مدینه امسیح ۱۴۷: الحکم ۱۴ فروری ۱۹۲۴ء.صفیم ، الفضل ۱۵ فروری ۱۳۸ : الفضل ۲۲ فروری ۱۹۲۴ء صفحه ۲۰۱ ١٤٩ : الفضل ۷ مارچ ۱۹۲۴ ء زیر مدینہ مسیح ۱۵۰: الحکم ۷ / مارچ ۱۹۲۴ء - صفحه ۸ اها : الفضل ۱۱ مئی ۱۹۳۵ء - صفحها ۱۵۲ : الفضل ۱۸ مئی ۱۹۳۵ء صفحه ۲ ۱۵۳: الفضل ۲۱ مئی ۱۹۳۵ء صفحه ا ۱۵۴ : ریویو آف ریچز اردو بابت اپریل ۱۹۲۳ء.صفحہ ۴۷، ۴۸ ۱۵۵: الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحه ۱۲۱۱ ۱۹۶ : الفضل ۱۲، ۱۵ مارچ ۱۹۲۳ ، ریویو آف ریلجز اردو بابت اپر یل ۱۹۲۳ء - صفحه ۴۷، ۴۸ ۱۵۷: الفضل ۲۶ / مارچ زیر مدینتہ المسیح ۱۵۸ : الفضل ۱۹/ مارچ ۱۹۲۳ء ۱۵۹ : تاریخ احمدیت حصہ پنجم صفحہ ۳۴۲،۳۴۱ ( یہاں صرف بھائی جی کے بارے حصہ درج کیا گیا ہے.) الحکم ۱۴ را پریل ۱۹۲۳ء - صفحه ۹ کالم ۳ ال ریویو آف ریلیجنز اردو بابت مئی ۱۹۳۶ء - صفحه ۴۱ و بابت جون صفحه ۴۶، ۴۷ : ۱۹۲ : الفضل ۲۸ ستمبر۱۹۲۳ء زیر مدینتو مسیح ۱۹۳ : ايضا ۲ نومبر ۱۹۲۳ء.زیر مدینتہ اسیح ۱۹۴ : فتنہ ارتداد اور پولیٹکل قلابازیاں“ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد پنجم.صفحہ ۳۷۵ ۱۹۵ : الحکم ۷ جون ۱۹۲۳ء صفحه ۲

Page 458

۴۴۴ ۱۹۶ : الحکم ۷/ جون ۱۹۲۳ء صفحه ۲ ۱۹۷ : چٹھی ۳ نومبر ۱۹۳۷ء بحوالہ مکتوبات اصحاب احمد صفحہ ۶۹ ۱۲۸ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول.صفحہ ۲۹ ۱۹۹ : الفضل جلد ۱۲ بابت ۲۰ مئی ۱۹۲۴ء (صفحه ۱) ، ۱۶ را گست (صفحه ۸،۳) ۲۴ جون (صفحه ۶،۵) ۱۶ را گست صفحه ۷ ل : الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۸ الحل : الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۲۴ء.صفحہ ۱ ۲ ۱۷۲ : عنوان نمبر ۵ نمبر ۱۰۶ - الفضل ۲۲٬۱۸ جولا ئی ،۲، ۹ راگست ۱۹۲۴ء : الفضل ۲۳ را گست ۱۹۲۴ء.صفحہ ۷ کالم ۳ ۱۷۴ : الحکم ۲۸ /اگست ۱۹۲۴ء - صفهیم ۱۷۵ : الفضل ۲۱ ،۳۰ اگست ۱۹۲۴ء را ا : الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۲۴ء - صفحه ۶ کل : الفضل ۱۳ ستمبر صفحه ۷-۲۳ / ستمبر صفحه ۴،۳ ۱۹۲۴ء ۱۷۸ : الفضل ۱۴ دسمبر - صفحہ ۵ کالم۲ ۱۹ : الفضل ۲۳ /ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵ ۱۸۰ الفضل بابت ۲۳ را گست - الحکم بابت ۲ ستمبر ۱۹۲۴ء ۱ : الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۲۴ ء - صفحه ۴ ۱۸۲: الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۲۴ ء - صفحه ۶، ۷ ۱۸۳ ، ۱۸۴ ، ۱۸۵: الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۲۴ء ۱۹۶ : الفضل ۴ اکتو بر ۱۹۲۴ء ١٨٧ : الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۶،۵ ۱۸۸ ، ۱۸۹: الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۴ء 190، اور : الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۲۴ء - صفحه ۳ ۱۹۲ الفضل ۱۲۱ کتوبر ۱۹۲۴ء - صفحه یم

Page 459

۴۴۵ ۱۹۳ : الفضل ۱۴ جون ۱۱ ستمبر تا ۲۸ /اکتوبر ۱۹۲۴ء.نیز روز نامہ زمیندار لا ہور بابت ۲۱ ستمبر ۱۹۴ : انسائیکلو پیڈیا بریٹینی کا زیر لفظ ” ولیم دی کانکر“ ۱۹۵ : الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳، ۵ ١٩٦ : الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۲۴ ء - صفحه ۳ کالم ۳ ۱۹۲۴ء.کالم۳ ۱۹۷ : الفضل ۲۹ / نومبر صفحه ۶، ۱۸؍ دسمبر صفحه ۶۷۵ ۱۹۲۴ء ۱۹۸ : الفضل ۶ / دسمبر ۱۹۲۴ء - صفحه ۲ :199 : تذکره صفحه ۱۱۰ طبع ۲۰۰۴ء ۲۰۰ : تذکره صفحه ۱۴ طبع ۲۰۰۴ء ۲۰۱: الفضل ۲۹ / نومبر ۱۹۲۴ء.صفحہ ۱ ۲، ۸،۷ ۲۰۲ : الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۸ ۲۰۳ : الفضل ۲۹ نومبر ، ۴، ۱۱،۹،۶ دسمبر ۱۹۲۴ء ۲۰۴ : الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۲۴ء ۲۰۵ : الحکم ۲۱ /اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۵ ۲۰۶ : الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۲۴ء ۲۰۷ : الفضل شمارہ جات بابت جولا ئی واگست ۱۹۸۹ء ۲۰۸ : رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء.صفحہ ۱۳ تا ۱۶ : ۲۰۹ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء صفحه ۱۵ ۲۱۰ : تاریخ احمدیت جلد دہم.صفحہ ۷۳۲ ۷۳۳ ۲۱۱ : الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء ۲۱۲ : بحواله الفضل ۲۸ مئی ۱۹۴۸ء ۲۱۳ : جلد ۱ ۱ شماره ۱۴ ۲۱۴ : تاریخ احمدیت جلد سیزدہم (صفحہ ۷۹ ) بحوالہ الفضل ۱۲ ، ۱۸مئی ۱۹۴۸ء ان ۲۱۵ : الفضل ۱۸ مئی ۱۹۴۸ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد سیز دہم.صفحہ ۸۰ ٢١٦ : الفضل ۸/جون ۱۹۴۸ء صفحه ۴، ۵

Page 460

۴۴۶ 1 : ریزولیوشن صدرا انجمن احمدیہ قادیان نمبر ۳۷.غ.م مورخہ یکم اکتو بر ۱۹۵۰ء : ۲۱۷ : ۲۱۸ الفضل ۶ /جنوری ۱۹۵۱ء ۲۱۹ : بدر ۲۸ /اپریل ۱۹۵۲ء ۲۲۰ : بدری / نومبر ۱۹۵۲ء - صفحه ۱ ۲۲۱ : بدر ۲۸ / نومبر ۱۹۵۲ء صفحه ۲۲۲ : بدر قادیان ۱۴-۱۶ / مارچ ۱۹۵۴ء - بحواله تاریخ احمدیت جلد سینز دهم صفحه ۲۴۰ - ۲۴۱ ۲۲۳ : تاریخ احمدیت جلد جفتہ ہم.ہفتہ ہم صفحہ ۱۷ تا ۱۹ ۲۲۴ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۷۰.اے ۲۲۵ مکتوبات اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ ۷۰ ۲۲۶ : مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحه ۲۴ ۲۵ جوال قلمی مکتوبات حضرت خلیفہ اسیح الثانی ۲۲۷ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول - صفحه ۳۲ و حاشیه صفحه ۳۳ : ۲۲۸ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ بابت ۱۱.۱۹۱۰ء صفحه ۴۰ : : ۲۲۹ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ بابت ۱۱.۱۹۱۰ء صفحہ ۶۶، ۶۷ ۲۳۰ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۳۳،۳۲ ۲۳۱ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحه ۶۵ - ۶۶ ۲۳۲ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۶۱ ۷۱،۶۲ : ۲۳۳ : الفضل ۳ را پریل ۱۹۱۵ ۲۳۴ : الفضل ۱۸؍جون ۱۹۱۸ء ۲۳۵ : الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۱۹ء.زیر مدینہ المسح ۲۳۶ : قادیان گائڈ صفحہ ۳۷ ۲۳۷ : الفضل ۲۹،۱۱،۴ / مارچ و یکم اپریل ۱۹۲۰ء ۲۳۸ : سورة الحشر :۱۰ : ۲۳۹ : صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ۲۴۰ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول - صفحه ۳۴

Page 461

۴۴۷ ۲۴۱ : الفضل ۲۵، ۲۹ را گست ۱۹۲۱ء ۲۴ : الفضل ۵/ مارچ ۱۹۲۳ صفحه اکالم ۱ ۲۴۳ : تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین.صفحہ ۱۳۰، ۱۳۱ ۲۴۴ : النساء : ۱۰۱ ۲۴۵ : الدھر: ۳۱ ۲۴۶ : تذکره صفحه ۵۲ طبع ۲۰۰۴ء ۲۴۷ : الحکم ۱۴۰۷ را گست ۱۹۳۸ء ۲۴۸ : الفضل ۶۰-۱-۲۶ ۲۴۹ : بدر ۱۲ / جنوری ۱۹۶۱ء ۲۵۰ : الرحمان : ۲۷، ۲۸ ۲۵۱ : الفضل ۷ جنوری ۱۹۶۱ء ۲۵۲ ، ۲۵۳ : الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۶۱ء ۲۵۴ : الفضل ۸جنوری ۱۹۶۱ء ۲۵۵ : بدر ۱۲ جنوری والفضل ۲۶ / جنوری ۱۹۶۱ء ۲۵۶ : الفضل ۱۱،۱۰ جنوری ۱۹۶۱ء ۲۵۷ : سنن الترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبی ۲۵۸ : الحکم ۱۴۰۷ رمئی ۱۹۳۸ صفحه ۱۶ ۲۵۹ : الفضل ۱۴، ۱۶، ۱۹ ، ۲۴ / جنوری ۱۹۶۱ ء و بدر ۱۲ جنوری تا ۲ فروری ۲۶۰ : الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۶۱ء ۳۶۱ : النساء : ١٠١ ۲۶۲ : الاعراف: ۴۴ ۲۶۳ : العادیات : ۲ ۲۶۴ : الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۶۱ء ۲۶۵ : مکتوبات اصحاب احمد جلد اول - صفحہ ۵۷

Page 462

۴۴۸ ۲۶۶ : بدر / مارچ ۱۹۵۲ء ۲۶۷ : تفسیر الرازی - تفسیر سورۃ السجدہ.زیر آیت نمبر ۲۵ - وجعلنا منهم ائمة يهدون بامرنا ۲۶۸ : صحیح البخاری - کتاب بدء الخلق باب ذكر الملائكة ۲۶۹: مکتوبات اصحاب احمد جلد اول.طبع اول صفحہ ۲۱ ۲۷۰ : الفضل ۷ ارجون ۱۹۳۴ء ۲۷ : الفضل ۳ /اگست ۱۹۴۴ صفحه ا ۲۷۲ : الحکم ۱۱ را گست ۱۹۰۷ ء و بدر ۸/ اگست ۲۷۳ : تذکره صفحه ۴۰ ۴۱ طبع ۲۰۰۴ء ۲۷۴ : مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۹۷ ۲۷۵ : الفضل جلد ۲۹ نمبر ۱۹۶ بابت ۲۸ را گست ۱۹۴۱ الفضل ۲۰ را گست ۱۹۲۰ء - صفحه ۲ :

Page 463

3 4 5 6 18.......اشاریہ اصحاب احمد جلد نهم مرتبہ: عبدالمالک کی آیات قرآنیہ احادیث نبوی الہامات حضرت مسیح موعود اسماء مقامات

Page 464

البقره: ۲ 3 آیات قرآنیہ الانفال: ۸ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ال عمران ۳ ۱۴۹ إذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ج التوبة: و وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ ۲۴۳ ۱۷۳ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا النساء: ۴ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَنِ كَانَ ضَعِيفًا وَمَنْ يُهَاجِرُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدُ فِي الْأَرْضِ مُرغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةٌ المائده : ۵ ۱۴۹ ۱۴۹ ۱۹۳ ZA ۴۰۳،۳۷۸،۲۲۷ بَلغُ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَانْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ الانعام: 4 ط ۲۰۴ ۲۵۰ يونس : آلن وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ ابراهيم: ۴۶ ۱۳۷ وَسَكَنْتُمْ فِي مَسْكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا انْفُسَهُمْ بنی اسرائیل : ۱۷ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا المومنون: ٢٣ ۸۶ ۱۸۴ رَبِّ اغْفِرُ وَارْحَمُ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ العنكبوت: ۲۹ أَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا أَمَنَّا ۴۲۵ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ الاعراف: ۷ ۲۰۴ وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ الزخرف: ٤٣ ۶۰ الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا سُبْحَنَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدُنَا اللهُ ۴۰۵،۷۲،۸ مُقْرِنِينَ ۲۴۸

Page 465

الرحمن: ۵۵ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ ة الحديد: ۵۷ ۳۹۳ الَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ المجادلة: ۵۸ كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي الحشر : ۵۹ يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ الدهر: ۷۶ وَمَا تَشَاءُ وَنَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ الفجر: ٨٩ ۲۴۳ TAY ۳۸۸ يايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً قَرْضِيَّةً البينة: ٩٨ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ العديت : ١٠٠ ۲۰۲ ۴۲۳ وَالْعَدِيتِ ضَبْحًا ۴۰۹ 4 احادیث نبوی ركم خيركم لاهله انا عند ظن عبدی بی ۴۱۶،۳۹۸ ۴۰۰ ? انما الاعمال بالنيات ۴۰۱ اصحابی کا لنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم ۴۲۳ يوضع له القول في الارض ۴۳۱،۴۲۳

Page 466

5 الہامات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عربی جرى الله في حلل الانبياء زلزلة الارض حق العذاب وتدلى ۱۵۳۲۳۴۷۳۰ ۱۰۴ رب ارنى كيف تحى الموتى رب اغفر وارحم السماء من 1+5 إِذَا نَصَرَ اللهُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَهُ الْحَاسِدِينَ فِي الأرضِ أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ - وَاتْلُ عَلَيْهِمْ مَّا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ أَصْحَابُ الصُفّةِ - وَمَا أَصْحَابُ الصُّفَةِ تَرَى أَعْيُنَهُمُ تَفِيضُ ۴۳۰ مِنَ الدَّمْعِ يُصَلُّونَ عَلَيْكَ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَا دِيَاتِنَادِى لِلِايْمَانِ ربنا امنا فاكتبنامع الشاهدين.۴۳۰ وَوَسِعُ مَكَانَكَ أَصْحَابُ الصُفَّةِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا أَصْحَابُ الصُفُّةِ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا - اُردو، فارسی يَحْمَدُكَ مِنْ عَرْشِهِ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۱۳۴ ۱۳۵ ۱۴۰ ۱۴۹ مُبَارِكٌ وَّ مُبَارَكٌ وَ كُلُّ أَمْرٍ مُّبَارَكِ يُجْعَلُ فِيْهِ مبارک وہ جو اس دروازے کی راہ میں داخل ہو ۴۳۰ 1+1 ۱۰۲ اچھا ہو جائے گا ۱۴۹ إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ مَا هَذَا إِلَّا تَهْدِيدُ الْحُكام قَدْ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ ۱۸۳،۱۸۲،۱۶۶ ۱۷۴ ۱۷۴ ۱۹۶ يَعْصِمُكَ اللهُ وَلَوْلَمْ يَعْصِمُكَ النَّاسُ يَاتِيكَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ الله اکبر خربت خیبر ۱۹۷ ۲۱۸،۲۱۰،۲۰۴ أَنتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعَ وَقْتُهُ ۲۴۴ اني مع الرسول اقوم ۲۵۸ آریوں کا بادشاہ آیا زمین کا ہلنا.عذاب سچ ہے اور وہ اتر پڑا یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا میں لندن شہر میں ایک منبر پر کھڑا ہوں داغ ہجرت دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ نصرت و فتح و ظفر تا بست سال ۱۰۳ ۱۰۴ ۲۱۸،۲۰۹ ۳۲۱ ۲۲۸،۲۲۷ ،۲۲۴ ۳۳۹ ۳۴۶ أَنْتَ وَجِيَّةٌ فِي حَضْرَتِي اِخْتَرُ تُكَ لِنَفْسِي ۳۸۹ یہ نان تمہارے لئے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہیں وَلَا تُصَعِرُ لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَسْتَمُ مِنَ النَّاسِ وَبَشِّرِ ۳۴۰

Page 467

٣٠٢ ۹۷ ۱۳۲ CO اسماء ۷۹،۲۵ ۳۳۷ اللہ بخش، شیخ اللہ جوائی امام الدین ؛ مرزا امام الدین عرف ماٹا ۱۶۲ امان اللہ (امیر افغانستان) ۳۳۲،۳۳۱،۳۳۰،۳۲۹ امة الحفیظ بیگم؛ سیده امۃ الرحیم خانم (حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کی بیٹی ) ۴۰۹،۳۸۷ امۃ القیوم ؛ صاحبزادی امجد علی شاہ سیالکوٹی، سیّد ۲۵،۱۳ امداد علی شاہ ۳۲۵ ،۲۸۷ ،۱۸۲ ۲۸۱ ۱۶۳ ۱۴۰ ۹۷ الف.آ ۹۷،۸۹،۸۸۰۸۴،۸۳ ۱۳۹ آتھم آزاد؛ ابوالکلام ابراہیم علیہ السلام ابوالہاشم؛ چوہدری اچھراں دیوی؛ مائی احمد اللہ خان ؛ حاجی حافظ احمد بیا بی احمد دین ڈنگوی، شیخ احمد نور کابلی ؛ سید اختر گوبند پوری ( حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب کی مدح میں نظم ) اسحق علیہ السلام اسعد علی شاہ ؛ سیّد اعظم بیگ ؛ مرزا افتخاراحمد؛ صاحبزادہ پیر افضل حق (مفکر احرار ) اکبر خان الہ یار ٹھیکیدار ۴۰۱ ۳۲۵ ۲۹۷ ۱۳۹،۱۳۵ ۱۴۱ ،۱۴۰ ۳۱۶ ۱۴۱ ،۱۴۰ ۱۶۴ ۱۶ ام ناصر ؛ سیده ۳۸۶،۳۰۶،۳۰۳،۱۵۷،۱۵۶،۱۵۳،۱۴۱ آپ کی بیماری کی اطلاع امیرحسین ؛ سید قاضی انت رام ایڈورڈ ؛ شاہ ایوب بیگ ؛ مرزا ۳۰۵ ، ۱۰۸ ۱۰۷ ،۸۵،۸۳ ۳۰۶،۲۹۴،۲۸۸ ،۱۱۰ ۱۲۷ ۳۳۵ ۱۷۸،۳۳ آپ کی وفات کے متعلق حضرت اقدس کا ایک کشف ۱۰۱ با بوامر ناتھ ( حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کا بھائی) ۷۶

Page 468

۳۲۵ ۳۴۹ بہا اللہ بے نظیر بھٹو پرت.ٹ پاریتی دیوی ( حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کی والدہ) چھتر سنگھ ۳۳ ۱۳۹ ۳۲۶ ۱۵۷ ۱۳۶ ۳۰۳،۳۰۱،۲۹۹ ۳۳۲ ۱۶ ۳۷ ۳۱۵ ۳۳۱ σ ۱۲ ۴۰۶ ۲۹۶ ۳۴۲ پرتاپ سنگھ ؛ سردار پیلاطوس ثانی تابی ؛ مائی ( حضرت اقدس کی ایک خادمہ ) تصدق جیلانی، مرزا تقی الدین ؛ خلیفہ ڈاکٹر تھیوڈرمور لیسن جعفر علی شاہ سید جلال الدین بلانی ہمنشی ج - چ جلال الدین شمس 7 ۱۳۹،۱۳۳ ۳۱۲ ۱۲۶،۳۹ ۲۸ ۴۰۷ ،۳۷۶،۱۰۹ ۲۹۴،۲۹۰ ۴۲۵،۳۷۹ ۱۳۵ ۳۲۰ ۷۵ ۳۶۱ ۳۹۵،۳۰۳ بخشیش سنگھ ؛ سردار بدرالدین؛ چوہدری بڑھامل؛ لالہ بڑھے شاہ برکات احمد را جیکی ، مولوی برکت علی ؛ با بو برکت علی خان ؛ چوہدری برکت علی ؛ مرزا بر لا (سرمایه دار ) بسا کھا سنگھ (بساکھی رام ) ( حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا چچا) بشیر احمد ، ڈاکٹر بشیر احمد؛ شیخ ( ایڈووکیٹ) بشیر احمد؛ صاحبزادہ مرزا ،۲۸۰،۱۳۶،۱۱۰ ،۳۵۸،۳۵۵،۳۳۸ ،۳۰۹ ،۳۰۱،۲۹۸ ،۲۹۲،۲۸۵ ،۳۹۱،۳۹۰،۳۷۶،۳۷۴،۳۷۳،۳۷۲،۳۶۲ ۴۲۱،۴۱۰،۳۹۸ ،۳۹۶،۳۹۴،۳۹۳ جمال پاشا ( ترک جرنیل) حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی ڈائری نویسی کی تعریف ۳۴۵ جمال الدین مولوی فاضل حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی وفات کے متعلق اعلان ( حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کے استاد ) بشیر حیدر ؛ سید ۳۹۲ ،۲۳،۱۷ ،۱۶ ،۱۴،۱۳ ۳۴،۳۲،۲۶،۲۵ ،۲۴ بہاری لال ( حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے بھائی) مہدی آخر الزمان کی تلاش جنید بغدادی چراغ دین؛ میاں چھجو خان ۱۴

Page 469

۳۲۳۳۰۸،۲۸۳ ۳۳۵ ۶۸ ذوالفقار علی خاں ؛ مولانا رز رابرٹ اول راج کرن راس ؛ سرڈی.ای ( مذاہب کانفرنس کے صدر) ۳۳۰،۳۲۹ ۱۸۵ ۱۷۸،۱۷۶،۱۴۴ رام بھیج ؛ چوہدری رحمت اللہ ، شیخ رحیم بخش ایم.اے؛ مولوی ( مولا نا عبدالرحیم درد ) ۳۰۸،۳۰۷ ،۳۰۱ ،۲۹۹ ،۱۰۱ ۳۲۳ ۱۷۵ ۲۵ ٣٠٣ ۲۹۸،۲۹۵،۲۸۰ ۳۷۰ ،۳۰۵،۳۰۳،۳۰۲،۲۸۱ ۳۴۰،۳۲۳۳۰۸ 12.۲۹۹،۲۸۶،۲۳،۱۶ 8 00 رحیم دین؛ میاں رستم علی ، چوہدری رشید احمد سید رشید احمد؛ ملک رشیدالدین؛ ڈاکٹر خلیفہ رضیہ روشن علی؛ حافظ زید ( صحابی رسول ) زین العابدین ولی اللہ شاہ سید زینب بی بی (حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی دوسری اہلیہ ) ۳۸۸،۹۵ ۳۸۷ ۱۴ آپ کی وفات سیش سجاد حیدر ؛ سید حـخ ۱۶۱،۱۱۴،۲۹،۲۶،۱۴۱۳ ۱۴۱ ۳۳۰،۳۲۹ ۱۳ حامد شاہ؛ میر حامد علی؛ حافظ حبیب اللہ ( امیر افغانستان ) حسام الدین حکیم میر حسین حشمت اللہ ، ڈاکٹر ،۳۰۲،۳۰۱،۲۹۹،۲۹۲ ۴۱۴،۳۲۴،۳۰۹،۳۰۸ ،۳۰۷ ، ۳۰۶،۳۰۵ حیدر؛ ڈاکٹر سید میر ۱۳ خدا بخش ؛ مولوی خدا بخش ؛ مرزا ۱۴۰ خديجه ( أم المؤمنين ) خصیات علی شاہ ؛ سیّد ۱۳ خورشید احمد انور ( ناظم وقف جدید) ۳۲۰ ۲۸ ۱۲۷ ۴۱۱ ۲۹۶،۲۸۳ ۳۵۷ ۵۱ ۹۵ ۳۲۰ خیر الدین؛ میاں ( وثیقہ نویس) ویڈیو ۳۳۰،۳۲۹،۳۲۷ ،۱۶۵ دا تا رام ؛ لاله داد واحمد عرفانی دلاور شاہ؛ سید (ایڈیٹر آؤٹ لک ) دیوان سنگھ مفتون دیوانی لال دیوی دیل؛ چوہدری ڈالمیا ( سرمایہ دار ) ڈگلس سنگ (مجسٹریٹ)

Page 470

۳۸۷،۳۴۷ ۴۲۷ ،۴۲۶،۳۱۹،۱۰۲ ۳۱۱،۳۱۰ ۱۶۹ ۳۴۱ ۳۰۷ ،۳۰۱ ۳۸۷ ۱۶۶ ۲۹۰ ۱۰۹ ۲۸۳ ۳۶۲ ۳۷۳ ۹۷ طح ظ طاہراحمد ؛ مرزا ( حضرت خلیفہ المسح الرابع) ظفر احمد کپورتھلوی بنشی ظل الرحمن عائشہ ( أم المؤمنين ) عباس احمد؛ صاحبزادہ میاں 9 ۳۱۹،۱۴۶،۱۴۵،۱۴۱ ،۴۰،۳۸ ۲۹۴،۲۹۲ ۲۸۳ ۴۱۹ ،۱۶۰،۱۵۳۸۴ ۴۳۴ ۳۹ ۹۶ سراج الحق نعمانی؛ پیر سراج الدین بنشی سری نواس؛ آئنگر سلطان احمد؛ صاحبزادہ مرزا سلطان جاوید؛ حافظ سومراج شاہنواز ؛ میاں شریف احمد؛ صاحبزادہ مرزا مخلوق خدا کی خدمت شنکر داس؛ ڈپٹی شوکت علی ، مولانا ،۲۹۹،۲۹۸ ،۲۹۲،۱۵۲ ۳۷۲،۳۲۳۳۰۵،۳۰۱ ۷۶ ۲۸۳ عبدالاحمد خاں عبدالباسط ؛ مہتہ عبدالحمید ، بابو عبدالحمید شیر علی ، مولانا ۲۹۴،۲۸۹،۲۸۰،۲۷۰،۱۰۲،۳۹،۳۸، عبدالحمید در ولیش؛ قاضی ،۳۷۴،۳۷۲،۳۴۳،۳۳۸ ،۳۳۳،۳۰۷ ،۲۹۹،۲۹۷ عبدالحمید سالک عبدالحمید؛ شیخ حضرت عبد الرحمن صاحب قادیانی کی ڈائری نویسی کی تعریف عبدالحمید ( کباب فروش) عبدالحی ، میاں (حضرت خلیفہ اول کے صاحبزادے ) عبدالخالق ، شیخ ۲۸۱ عبدالرحمن قادیانی ؛ حضرت بھائی ۴۳،۴۱،۴۰،۲۹،۱۳،۱، ۳۴۴ ۴۳۴ ۱۴ ،۱۳۵،۱۰۸،۱۰۲،۱۰۰ ، ۹۹ ،۹۴،۸۴ ،۷ ۴،۶۵ ، ۶۰ ، ۴۵ ،۲۸۰،۱۷۷ ،۱۷۳،۱۷۱ ، ۱۷۰ ، ۱۷ ، ۱۴۵ ،۱۴۲ ،۱۴۱ ، ۱۳۶ ،۲۹۸ ،۲۹۶،۲۹۵،۲۹۰،۲۸۶،۲۸۵،۲۸۴،۲۸۲،۲۸۱ ،۳۲۳،۳۱۴،۳۱،۳۰۹،۳۰۸،۳۰۵،۳۰۳،۳۰۰،۲۹۹ ،۳۵۹،۳۵۸،۳۵۶،۳۵۵،۳۴۴ ،۳۴۳،۳۳۶،۳۲۴ ،۳۸۸،۳۷۵،۳۷۳،۳۶۸،۳۶۷ ،۳۶۶،۳۶۴،۳۶۲ ۴۰۷ ۴۳۴ ۳۶۲،۳۵۶ ۳۴۹،۳۴۸ صیض صالح علی؛ مرزا صدرالدین ؛ مولوی (امیر جماعت غیر مبائعین ) صدرالدین قادیانی ؛ بابا صفدر علی ؛ مرزا صلاح الدین ایم.اے؛ ملک ضیاءالحق ، جنرل

Page 471

۱۰۳ ۱۰۵ = ۱۱۵ ۲۸۸ ۳۱۸ ۳۱۹ ۳۵۴ ۳۶۲ ۳۶۵ ۳۷۲ ۳۷۷ ۳۸۷ ۳۹۱ ۳۹۴ ۳۹۹ ۴۰۵ ۴۱۸ ۴۱۴ حضرت اقدس کا آپ کے نام مکتوب چیتل اور چیتے کی کھال حضرت اقدس کو پیش کرنا حضرت سیدہ ام المؤمنین حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفہ ثانی کے مکتوبات کا تبرک قادیان پر پہلی نظر حضرت خلیفہ ثانی کے ہمراہ اسفار میں شرکت 10 10 آپ کا عزم وحوصلہ حضرت خلیفہ ثانی کی طرف سے مبارکباد سفر یورپ میں انتظام خوردنوش کی ذمہ داری مجالس مشاورت میں شرکت حضرت سیدہ ام المؤمنین کے مناقب پر جلسہ میں تقریر آپ کے وجوہ معاش خاندانِ اقدس کی خدمات منارة امسیح کے لئے چندہ آپ کی وصیت آپ کی اہلیہ کی وفات آپ کی وفات آپ کے تابوت کی قادیان روانگی آپ کی قادیان میں تدفین.ایک کرامت آپ کا عشق قرآن حضرت اقدس کی جنازہ گاہ کی تعیین عبدالرحمن، ماسٹر عبدالرحمن ؛ سردار عبد الرحمن جٹ مولوی فاضل ؛ مولوی ،۱۵۸ ،۲۸ ۳۹۷ ،۳۶۲،۳۵۸ ،۲۸۶ ،۴۲۸ ،۴۲۶،۴۲۲،۴۲۱ ،۴۱۷ ، ۴۱۵ ، ۴۱۴ ،۴۱۰ ، ۴۰۷ ۴۳۱،۴۲۹ ۴ ۱۱۵ ง ۳۸۰۸ ۱۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۳۱ ۳۵ ۹۸،۳۶ ۳۹ ۴۲ ३ ۴۴ ۵۶،۵۵ ۶۲ ۷۵ ΔΙ ۸۷ ۹۲ ۹۳ ۹۳ بچپن میں معجزانہ طور پر آپ کی جان بچنا ہندووانہ قومی رسوم کی پابندی کتاب رسوم ہند کا مطالعہ اور اس کا اثر اسلام کی سچائی کا معترف ہونا آپ کے خواب و رویا قبل از اسلام آپ کے اخلاق حضرت اقدس کی کتب کا مطالعہ نماز شروع کرنا قادیان روانگی آپ کی بیعت عبدالرحمن نام کے اشخاص قادیان میں خدمت اسلام کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا آپ کے والد کی قادیان آمد والد کے ساتھ جانے سے انکار حضرت اقدس کی اطاعت اہلِ خانہ کے آپ پر ظلم وستم آپ کی اسلام پر مستقل مزاجی آپ کے اغواء کی کوشش حضرت اقدس کی توجہ کا اثر آپ کی والدہ کی قادیان آمد حضرت اقدس کی ڈائری مرتب کرنا آپ کو حضرت اقدس کی نصائح آپ کی مالیر کوٹلہ روانگی

Page 472

عبدالقادر ؛ مہتہ (حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے بیٹے) عبدالقدیر ؛ میاں ( حضرت محمد عبد اللہ صاحب سنوری کے بیٹے ) ۳۱۲۳۰۶ ٣٦٣،١٦٦ ۲۸۳ ،۴۵،۳۰،۲۹ ۱۴۱ ،۱۴۰،۱۰۲،۷۲ ۱۵۴،۳۴ ܬܙ ۹۷ ۴۳۴ ۴۳۴۲۹۵،۲۸۹ عبدالقدیر در ولیش؛ چوہدری عبدالقیوم خاں ؛ سر عبدالکریم سیالکوٹی ؛ مولوی آپ کی قرآن خوانی نمازوں کی امامت عبداللہ 11 ۳۰۲ ۳۰۵،۳۰۲ ۳۲۳ ٣٠٢ ۴۲۵ ۳۷۴ ۳۳۳،۳۲۳،۲۸۶،۱۱۰ عبدالرحمن خا کی ؛ ماسٹر عبدالرحمن ، خواجہ عبدالرحمن مصری عبدالرحیم ؛ خلیفہ عبدالرحیم مالیر کوٹلوی؛ حافظ عبدالرحیم بنشی عبدالرحیم درد ؛ مولانا عبدالرحیم نو مسلم ، حضرت بھائی شیخ ۳۳،۲۹، ۴۰،۳۷، ،۳۰۸،۱۷۷ ،۱۴۳،۱۴۱ ،۹۴ ،۹۳ ، ۷۴ ۷۲،۶۰،۴۶۰۴۵ ۴۲۹،۴۲۸ ،۴۲۱ ،۴۰۷ ،۳۶۲،۳۵۸ ،۳۵۶ ۳۲۸،۳۲۷ ،۲۹۲،۲۹۰،۲۸۰ عبدالرحیم نیر ؛ ماسٹر عبدالرزاق ؛ مهته ۷ ۳۸ ، ۳۹۱،۳۹۰،۴۸۴، ۳۹۶،۳۹۴ عبد اللہ پٹھان عبدالرشید؛ سید ( حضرت میر حامد شاہ صاحب کے بھائی) ۱۶۲،۱۶۱ عبداللہ جلد ساز عبداللہ ؛ ڈاکٹر عبداللہ مولوی ( حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے استاد ) عبدالمغنی ، مولوی ۹ ۳۵۸،۳۲۷ ،۹۱ عبدالواحد ۳۰۷ عبدالهادی ۳۹۱ عزرائیل ۴۷ عزیز احمد ملک (با بونو ر الدین صاحب کے فرزند ) ٣٠٣ عزیز الرحمن ؛ سید ۱۴۵ عطا محمد ، مولوی ۲۹۸،۲۹۵،۲۹۴ ،۲۹۰ عطا محمد ، حکیم ۳۷۴ ۳۶۲ عطاء الرحمن قریشی عبدالسلام ؛ مہتہ ۳۹۳،۳۹۲،۳۸۷ ،۳۸۵،۳۷۵ عبد السلام ؛ میاں (حضرت خلیفہ اول کے بیٹے ) ۲۹۰ عبدالعزیز اوجلوی منشی عبدالعزیز؛ ماسٹر عبدالعزیز ؛ ملک عبدالعزیز نومسلم ، شیخ ۲۹۴ ۲۸۱ ۳۴۳ ۱۴۱ ،۷۶،۷۵ ، ۷۴،۴۰،۳۳ عبد الغفور ؛ سید ۳۴۳ ۹۸ ۲۹۵ ۳۰۴ عبد القادر عبد القادر ، شیخ ( سابق سوداگر مل) عبد القادر بٹ

Page 473

۱۴۳،۱۴۰ ۱۴۴ ۱۵۳ ۱۶۳ ۱۷۲ ۳۶۴،۳۴۰،۳۲۱ ،۱۷۴ ۳۱۷ ۴۱۸ ۳۳۷ ۳۰۵ ۳۱۹ ٣٠٣ آپ کی مہمان نوازی آپ کی خوراک آپ کی آواز کی دلکشی علی وال کا سفر جو در و دنماز میں پڑھا جاتا ہے ہمیں پہنچتا ہے آپ کے رویا جماعت میں اشاعتی تڑپ پیدا کرنا آپ کی جنازہ گاہ کی تعیین غلام احمد بد و ماهوی ؛ مولوی غلام احمد ، خواجه غلام حم ؛ قاری غلام حسین ؛ ماسٹر غلام حسین ؛ ملک ۳۴۳،۱۴۳،۱۴۰،۱۳۲ غلام حسین ؛ مرزا غلام رسول افغان ۱۶۱ غلام رسول حجام غلام رسول را جیکی ۲۹۴۲۹۰ غلام غوث ؛ مرزا ۱۳۶ غلام قادر ؛ مرزا ( حضرت اقدس کے بڑے بھائی ) غلام محمد ؛ صوفی ( مبلغ ماریشس) ۱۳۶ ۳۸۷،۲۸۴،۱۷۵ گلا غلام محمد ملتی ؛ خان بہادر ؛ ۴۳۴ غلام محی الدین ؛ مرزا غلام مرتضی ؛ مرزا ( حضرت اقدس کے والد ) ۱۳۶،۱۳۱،۱۲۸ غلام نبی؛ خواجہ ۲۸۲ 12 ۱۶۲ ۱۶۳ ۱۷۸ ،۱۷۶ ۲۸ ۳۳۷ ،۳۰۷ ،۳۰۱،۲۹۹ ۳۳۸،۳۳۷ ،۳۲۴،۳۲۳ ۹۷،۹۵ ۳۲۵،۳۱۳ ۹۷ ۳۲۵ ۴۸،۲۸ عطر دین عطر دین؛ ڈاکٹر علی احمد ، شیخ (وکیل) علی بخش ؛ میاں (عطار ) علی برادران علی محمد ؛ چوہدری علی محمد ؛ شیخ عمر (امیر المؤمنین ) عنایت بیگم عیسی علیہ السلام غ غفاره کشمیری ( یکه بان) غلام احمد؛ حضرت مرزا ( حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) ۴۱۹،۳۵۸،۳۵۶،۱۰۱ ،۷۴ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی بیعت لینا خدمت اسلام کے لئے وقف کی تحریک ۳۱ ۳۶ ۳۷ ۴۴ ۷۲،۴۵ ۹۳ ۱۰۳ ۱۱۴ 112 ۱۳۴ سفر ڈیرہ با بانک حضرت بھائی صاحب کو اپنے والد کے ساتھ جانے کا ارشاد ”اگر ہمارا ہے تو آ جائے گا“ حضرت بھائی صاحب کو نصائح حضرت بھائی صاحب کے نام مکتوبات قادیان کے رئیس اور مالک آپ کے خاندان کے اخلاق و شمائل آپ کو شر کاء کا دکھ و ایذاء دینا

Page 474

کینگ کتھا سنگھ ۱۴۲ کر پارام کرم بی بی لا لاي کرم داد ؛ میاں ۱۴۳،۱۴۰ کرم دین ۱۴ کریو؛ لارڈ کسری ۳۳۷ ۳۳۴ کمال الدین ؛ خواجه 12.کولڈ سٹریم ( جسٹس) ۲۸۶ گاندھی گل محمد گل محمد ؛ مرزا ۳۳۹،۳۳۷ ۳۷۴ ۳۷۰،۳۰۱،۲۹۹،۱۴۸ گوپال داس؛ چوہدری (حضرت بھائی صاحب کے نانا) ۲ گوراند بیل ( حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیان کے والد ) گور بخش سنگھ ، ڈاکٹر ۴۳۱ ۱۳۳ گیان دیوی (حضرت بھائی صاحب کی اہلیہ ) ۹۵ ل لا بھا ( برہمن ) لاجپت رائے ؛ لالہ ۱۳۹،۱۳۸ ٢٨٣ لال چند ( حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا بھائی ) 1 لائیل لہنا سنگھ، سردار 1+1 ۱۳۹،۱۳۳ 13 ۳۱۵ ۳۹۶ ۴۲۵ غلام نبی بنشی فاروق مهته فق ،۳۱۴،۳۱۳،۳۱۱ ،۳۰۹،۲۸۰ ۳۵۸،۳۴۰،۳۲۴،۳۲۳،۳۱۵ ۱۸۲ ۳۴۲ ۲۹۳ ۳۰۲،۲۹۴ ۱۴۱ ،۴۰ فتح دین؛ مرزا فتح محمد سیال ؛ چوہدری فرعون فضل احمد خاں ؛ چوہدری فضل احمد کلرک فضل احمد ؛ شیخ فضل الدین ، حکیم فضل الدین ؛ مولوی (وکیل) فضل الرحمن ، مفتی فضل الرحمن اختر فضل النساء بیگم فضل حق ؛ سردار ۳۱۵،۲۸۳،۱۸۳،۱۷۸ ،۱۶۶،۱۵۰ ۳۷۴،۳۶۴،۱۴۷ ، ۱۴۱ ،۸۴ ،۴۷ ٣٠٩ ۸۴ ۴۲۸ ٣٧٩ ۱۴ ۳۴۷ ۱۳۶ ۲۸۱ ۱۴۱ ۱۴۴ ۳۷۹ فقیر اللہ بابو فیاض حیدر ؛ سیّد فیصل ؛شاہ قاسم بیگ، مرزا قاسم علی ؛ میر قدرت اللہ خان ( دربان ) قطب الدین مس گربه مستری قطب الدین ؛ مولوی

Page 475

لیکھرام؛ پنڈت ۸۰۷۹ مبارک احمد ، مولانا شیخ ( مبلغ امریکہ ) مبارک احمد؛ صاحبزادہ مرزا مبارکہ بیگم ؛ سیدہ نواب ۳۵۰ ۱۰۲ ۳۴۳۳۱۱ متھرا ( حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کی ہمشیرہ) ۴۹ مجددالف ثانی محمد ابراہیم ؛ چوہدری محمد ابراہیم بی ایس سی ، صوفی محمد احمد ؛ نواب محمد احمد مظہر ، شیخ ۲۹۲ ۱۵۰ ۳۱۵،۳۱۲ ۳۱۱ ۳۱۹ محمد احسن بیگ مرزا ۳۶۶،۱۸۶،۱۱۳،۱۰۴۱۰۳٬۸۴ محمد الحق میر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا منفرداستقبال ۳۳۸،۲۸۱ ۳۴۰ محمد اسمعیل؛ ڈاکٹر میر ،۳۰۲،۳۰۱،۳۰۰،۲۹۶،۲۹۵ ۳۸۶،۳۷۵،۳۴۳،۳۳۸ ،۳۰۵،۳۰۳ حضرت بھائی صاحب کی ڈائری نویسی کا شکریہ ۳۴۵ محمد اسمعیل ؛ مرزا محمد اسمعیل خالد ؛ چوہدری محمد اسمعیل سرساوی، شیخ محمد اسمعیل فاضل محمد اشرف مرزا ۱۲۵ ۱۵۰ ۳۷۹،۳۶۶،۱۸۴،۱۷۷ ۲۹۹ ۳۷۹،۱۶۱،۳۸،۳۷ محمد اشرف ؛ ڈاکٹر (غیر از جماعت ) محمد اکبر ٹھیکیدار محمد الیاس افغان ۳۱۶ ۱۸۱،۱۶۳ ۳۷۴،۳۷۳ 14 محمد بخش، میاں مولوی محمد حسین بٹالوی کے نیچے سے چادر کھینچنا محمد تقی ، منشی ۱۶۴ ۱۸۱،۱۶۶،۱۶۳ ۲۹۳ محمد حسین ، مولوی ( حضرت میاں محمد بخش صاحب کے فرزند ) ۱۶۴ محمد حسین ؛ میاں (مستری محمد موسیٰ صاحب کے فرزند ) ۳۰۳ محمد حسین ، حکیم ۲۹۶ محمد حسین قریشی ۳۳۸ محمد حسین بٹالوی ، مولوی ،۱۶۶،۱۶۴،۱۶۳ ۱۸۶،۱۸۳،۱۷۸ بک بک مت کر، پیچھے ہٹ ،سیدھا کھڑا ہو ۱۸۱،۱۸۰ محمد دین ؛ مولوی محمد دین ؛ چوہدری نواب محمد دین سیالکوٹی محمد دین در ولیش، مستری محمد الدین و الباقی بنشی محمد رشید ؛ سید محمد رضوی؛ سید محمد سرورشاہ ؛ مولانا سیّد ۲۸۱ ۲۹۹ ۱۵۳ ۴۰۷ ،۳۵۶ ۱۶۲،۲۵ ۳۳۷ ،۲۹۷ ،۲۸۵،۲۸۰،۳۸ ۳۷۷ ،۳۰۳،۲۹۹ محمد سعید؛ سید محمد سعید ( حضرت نانا جان کے ہمشیرہ زاد) محمد سعید؛ چوہدری محمد سعید حکیم ( مبلغ سری نگر ) محمد شفیع ؛ سر ۲۵ ۱۴۷ ۳۰۹ ۳۶۴ ۲۸۲

Page 476

محمد یوسف ؛ میاں (امیر جماعت لاہور ) محمود احمد ، حضرت مرزا ( حضرت خالی المسیح الثانی) ۳۹۵ خدمت اسلام کے لئے وقف کی تحریک ولیم دی کانگرر جلسہ دہلی میں آپ کا مضمون ۴۲۵،۴۲۱ ،۴۰۰،۳۷۲،۳۳۳،۲۹۳۲۸۲،۱۳۷ ۹۸،۳۶ 11 + ۲۸۱ ۲۸۹ ۲۹۱ ۳۰۱ اطاعت امیر آپ کی رؤیا آپ کا منظوم کلام حضرت مسیح ناصری کے مزار کے محافظ کو پانچ روپے دینا ۳۰۴ ۳۰۸ ۳۲۲ ۳۲۳ ۳۳۴ ۳۳۵ ۳۴۶ ٣٦٣ ۳۶۴ ۳۷۵ ۳۹۵،۳۹۰ ۳۳۰،۳۲۱ ۳۶۲ ہرن اور نیل گائے کا شکار یورپ کے لئے اسلام مقدر ہو چکا ہے آپ کے رفقائے سفر یورپ آپ کا ایک الہام مسجد فضل لنڈن میں پہلی نماز انگلستان کی فتح آپ پر قاتلانہ حملہ آپ کے متعلق حضرت اقدس کا خواب ۴۰۹،۳۶۴،۱۶۷ ،۱۰۳ ۳۰۵،۳۰۳،۳۰۱ علاج کے لئے سفیر لاہور محمود احمد قریشی محمود طرزی (افغان وزیر خارجه ) محمود احمد عارف محمود احمد عرفانی ، شیخ محمود اللہ شاہ ؛ سید 15 محمد شریف وکیل ؛ میاں محمد صادق ؛ سید (سید محمد سرور شاہ صاحب کے بھائی ) ۳۲۳،۳۰۸،۲۹۶ ٣٠٣ محمد صادق مفتی محمد ظفر اللہ خان ؛ چوہدری ،۲۸۱،۲۸۰،۱۷۸ ،۱۴۱ ،۹۸ ۴۳۴،۳۴۳،۳۳۷ ،۳۰۸،۲۸۳ ،۲۹۰،۲۸۴،۲۸۲۲۸۱ ،۳۳۰،۳۲۹،۳۲۸ ،۳۲۷ ،۳۲۳،۳۰۷ ،۲۹۱ ۳۶۷ ،۳۴۷ ،۳۳۲ ۹۱ ۳۰۶،۲۹۳،۲۹۲۱۵۱ ۳۱۸،۲۸۰ ۳۴۱،۲۸۰ ۱۰۸ ۱۴۰،۲۹ ۲۸۳ ۲۸۳ ،۱۲۲،۹۳ ،۹۲،۷۲ ۳۴۳،۳۳۸ ،۳۱۱،۱۴۵ ۹۴ ۴۰۳ ۳۴۳،۳۱۵ ۳۰۳،۳۰۲،۲۹۵ ۳۶۷ ۳۷ ۳۸ ۳۷۴ محمد ظہور الدین؛ قاضی محمد عبد اللہ سنوری محمد عبد اللہ ؛ قاضی محمد عبداللہ خاں ؛ نواب محمد علی شاہ، سید محمد علی ؛ مولوی محمد علی جناح ( قائد اعظم ) محمد علی جو ہر ؛ مولانا محمد علی خاں ؛ نواب آپ کی مہمان نوازی محمد عمر مالا باری ؛ مولوی محمد عمر ، مہاشہ محمد موسی با مستری محمد یامین محمد یعقوب؛ مرزا محمد یعقوب طاہر ( زود نویس) محمد یوسف نو مسلم ، شیخ

Page 477

۳۸۴ ۲۸ < حضرت بھائی صاحب کو تعمیر مکان کے لئے قرض دینا نبی بخش عطار ۸۰۷۸ ۱۴۱۳ ۱۰۸ ۱۴ نتھورام ؛ چوہدری نزیر حیدر ؛ سید نزیر حسین شاہ ؛ سید نزیرہ بیگم ؛ سیده نصرت جہاں بیگم ؛ سیدہ (حضرت ام المؤمنین ) ،۱۶۹،۱۶ ،۱۶۱ ۱۶۰ ۱۵۶،۱۳۵ ،۹۵،۸۴ ۳۸۵،۳۷۵،۳۴۲،۳۱۲،۳۰۲،۱۷۰ آپ کے اخلاق حضرت اقدس کے ساتھ علی وال جانا حضرت اقدس کے تابوت کے ساتھ قادیان آمد ۱۶۳ ۱۶۳ آپ کے لئے حضرت میر ناصر نواب صاحب کی دعائیں آپ کی بیماری سفر یورپ کے لئے حضرت خلیفہ ثانی کو الوداع کرنا حضرت بھائی صاحب کو تبرک کا خطاب دینا ۱۶۸ ۲۹۶ ۳۲۳ ۴۲۴ ،۹۷ ،۸۴،۷۷ ، ۴۸ ۳۷۰،۱۴۹،۱۳۲ ۱۳۸ ،۳۳۰،۳۲۹،۳۲۷ ۳۴۶،۳۳۱ ۳۱۰ نظام الدین؛ مرزا حضرت اقدس کی مخالفت نعمت اللہ ، مولوی ( شہید کابل) نعیم الدین بنگالی ؛ قاری 16 ۲۹۴ ۲۸۳ ۳۰۳۳۰۲ ۳۱۱،۳۱۰ ۲۹ ۱۲۷ ۳۰۵ ۳۷۹،۱۴۱ ،۹۹ ۳۱۱ ۳۵۷ ۱۸۲ ۲۹۸ ۲۸۳ ۳۴۳ ۱۳۷ ۴۳۴،۳۰۵،۲۸۰ ۳۴۷ ۳۴۸ ۳۸۱ مختار احمد شاہجہانپوری مدن موہن مالویہ پنڈت مریم مشتاق حسین ، شیخ مطیع الرحمن معین الدین ؛ حافظ ملا وامل ؛ لاله منصور احمد؛ صاحبزادہ مرزا منظور محمد ؛ پیر منور احمد مودودی موسیٰ علیہ السلام مولا بخش باور چی مونجے ،ڈاکٹر مهدی حسن ؛ میر مہر سنگھ (حضرت بھائی صاحب کا اصل نام ) میگھو ( بدزبان) ن ناصراحمد ؛ حضرت مرزا (خلیفه امسح الثالث ) ۱۹۷۴ء کے حالات کا پامردی سے مقابلہ ۳۳۹،۱۶۷ ،۱۴۷ ،۱۴۰،۱۰۲،۴۰ مسیحیت کو شکست ناصر شاہ ؛ سید ناصر نواب ؛ میر حضرت ام المؤمنین کے متعلق آپ کی دعائیں ۱۶۸ اولاد کی دین کی خاطر قربانی

Page 478

17 نمرود ۱۸۲ ویمبلے نورالدین، حکیم مولوی ( حضرت خلیفۃ المسیح الاول) ہدایت اللہ بنگوی ،۸۶،۸۵،۸۴،۷۳ ۷۲،۶۰ ، ۴۶،۴۵ ،۴۲،۳۸ ،۳۴،۳۰ ،۱۵۵،۱۵۴،۱۴۶،۱۴۱ ،۱۴۰ ،۱۳۲،۱۲۸ ، ۱۰۲،۹۷ ،۹۵،۹۴ ۴۲۹،۳۸۷ ،۳۷۹،۳۶۶،۱۷۷ ، ۱۷۲ ہریش چندر ( حضرت بھائی صاحب کا سابقہ نام ) ۳۳۲ ۳۵۱ ۱۰۰،۵۶،۴۳،۱ ہنری مارٹن ؛ ڈاکٹر پادری ،۱۶۶،۱۶۵،۱۶۴ ۱۶۳ مالیرکوٹلہ روانگی حضرت بھائی صاحب کی صحت سے مایوسی خرید زمین کے لئے حضرت اقدس کو روپے دینا نورالدین؛ بابو نورالدین جمونی؛ خلیفہ نور محمد ؛ ڈاکٹر (مالک کارخانہ ہمدم ) نیک محمد خان غزنوی نیاز محمد اے ۳۳۰،۳۲۹،۱۸۶،۱۸۰،۱۷۹،۱۷۳ ۸۳ ہیرالال؛ مہتہ 1 ۱۲۵ ہیمراج ( حضرت بھائی صاحب کا بھائی) ۲۶،۱ ۳۰۳۳۰۲ ی ۳۰۲ یار محمد ؛ قاضی ۱۴۹ ۱۰۲ ی خاں ، ۳۰۷ ،۳۰۱ ،۲۹۹،۲۹۰ ۳۹۳،۳۷۳۳۵۸ یعقوب علیہ السلام ۳۰۷ ۴۱۳،۳۲۵ یعقوب بیگ ؛ مرزا 1+1 ۲۹۸ یعقوب علی عرفانی، شیخ ۲۹۷،۱۸۵،۱۷۸،۱۳۹،۱۲۲، ،۳۶۶،۳۶۴،۳۲۸ ،۳۲۴،۳۲۳،۳۱۷ ،۲۹۸ ۴۲۲،۴۱۲،۴۱۱ ،۴۰۹،۴۰۸ ،۳۷۹ ۲۸۱ ۳۲۵ ۴۰۸ ۳۱۲،۳۰۹ جلسہ دہلی میں حضرت خلیفہ ثانی کا مضمون پڑھنا یوسف علیہ السلام یوسف علی عرفانی یوسف علی، شیخ ۱۲۷ ،۱۲۶ ۳۷۲،۲۸۰ 0-9 واسد یوجی؛ لالہ (لالہ بڈھا مل کا بیٹا) والٹرایم اے؛ پادری ۴۲۰،۴۱۶،۳۹۶،۳۶۳ ۳۲۷ ۳۷۴ ۳۳۵ وسیم احمد؛ صاحبزادہ مرزا وکٹوریہ؛ ملکہ ولی اللہ شاہ ؛ سید ولیم اول؛ شاہ ولیم فاتح

Page 479

،۳۰۷ ،۳۰۲،۲۹۳،۲۹۰،۲۵۸،۲۵۰، ۲۴۸ ۲۴۷ ۳۹۶،۳۷۵،۳۶۷ ،۳۳۸ ۴۱۳،۳۹۵،۳۵۰ ،۳۴۸ ،۳۴۷ ،۳۱۱ ۳۳۸،۲۹۲،۲۹۰ ۱۶۵ ۳۵۰ ۱۷۵ ۳۰۶ ۳۳۴،۱۳۵ ۲۹۶ ٣٠٣ 18 مقامات امریکہ انبالہ انڈیمان؛ جزائر انگولا اوجله اہریل ایران باند را بل بانڈی پورہ بٹالہ ۱۳۵ ۳۴۸،۱۶۴ الف - آ آبادان آسٹریلیا آسنور آگرہ ۳۰۶،۳۰۵،۳۰۴،۳۰۳۳۰۲ ۳۳۷،۳۱۵،۳۱۴ ۱۰۸ ۳۴۸ ۳۱۵،۳۱۴ ۳۱۵ ،۳۳۷ ،۳۲۵ ٣٠٣ ۳۳۷ ، ۱۱۴،۱۱۳٬۹۳۹۲،۸۷ ، ۵۲،۴۸ ،۳۱ ،۲۷ ،۲۵ ،۱۷۱ ،۱۶۵،۱۶۴،۱۶۲،۱۶۳،۱۵۸،۱۴۵ ،۱۲۸ ،۱۲۶،۱۲۴ ،۲۳۳،۲۰۹،۱۹۷ ، ۱۸۶،۱۸۴،۱۸۲،۱۷۹،۱۷۸ ،۱۷۶ ،۲۶۴،۲۵۶،۲۵۵ ،۲۵۰، ۲۴۸ ،۲۴۷ ،۲۴۲ ،۲۴۱ ،۲۳۹ ،۲۹۳،۲۹۱،۲۹۰،۲۸۴،۲۸۱،۲۸۰،۲۷۳،۲۷۰،۲۶۵ ،۳۶۷ ،۳۳۸،۳۳۷ ،۳۲۴،۳۲۳،۳۱۲،۳۰۷ ،۲۹۷ ۴۰۸ ،۳۷۴،۳۶۹،۳۶۸ ۴۰۰،۳۰۹،۱۵۰ ۳۰۶ ۳۰۴،۳۰۳ ۳۵۳،۳۵۲،۳۵۱ ۱۴۲ ۳۲۷ بٹر کلاں برائٹن آندھرا آئرلینڈ اٹاوہ اٹلی اچھابل اچھنیرہ احمد آبا دا سٹیٹ اروائیں (آرونی) اسلام آباد (کشمیر) اسلام آباد (لندن) اسماعیلہ افریقہ یہاں مال خرچ کرنے کی جزا ۳۴۸،۳۴۷ ،۳۴۳،۱۴۳ ۳۵۰ ۳۴۶،۳۳۱،۳۳۰،۳۲۹ ،۱۷۸ ،۱۷۶،۱۷۵،۵۵،۵۳،۲۵ افغانستان امرتسر

Page 480

۳۰۸،۱۵۸ ۳۲ ):| ،۳۲۰،۲۸۲،۲۴۷ ، ۱۱۱ ،۱۱۰،۲۹،۱ بھینی ، موضع پاک پیٹن پاکستان ۳۹۸،۳۹۵،۳۹۳،۳۹۰،۳۶۳،۳۵۷ ،۳۵۶،۳۴۷ ۳۴۹ ۳۷۵ ۳۴۸ ۳۰۰ ۲۹۳،۲۹۲،۲۹۰،۲۸۸ ۴۰۱،۳۳۷ ،۳۲۲۶ ۱۶،۱۵ ،۳۴۷ ،۳۳۷ ،۳۱۷ ،۲۵۸ ،۲۲۹ ۴۲۵،۳۷۴،۳۷۱،۳۵۷،۳۵۵ ۱۱۴ ۵۱۰۴۸ ،۳۴۵،۳۲۸،۳۲۵ ۲۹۳،۲۹۰ ۲۹۰ ۳۷۵،۳۷۳،۳۰۸ ۱۶ ۳۳۷،۳۳۶،۳۲۶ ۳۳۱ ۲۵۰ 19 احمدیوں پر مقدمات پٹھانکوٹ پرتگال چینی پٹیالہ پشاور پکے ماڑی پنجاب پنجگرائیں پنڈورہ خاکروباں پورٹ سعید پھالیہ پھگواڑہ پھلور پھیرو، چی پیر جہانیاں پیرس ترکی نرفتارن ،۳۱۲،۳۰۰،۱۶۴۱۲۴ برطانیہ ( لندن انگلستان) ،۳۳۱،۳۳۰،۳۲۸ ،۳۲۷ ،۳۲۶،۳۲۲،۳۲۱،۳۲۰ ،۳۵۰،۳۳۶،۳۴۷ ،۳۴۶،۳۴۴ ، ۳۴۳۳۳۵ ،۳۳۳ ۳۷۷ ،۳۷۴،۳۵۴،۳۵۳،۳۵۲،۳۵۱ ۳۳۲ ۳۲۵ ۲۹۲ ۱۵۸ ۳۷ مسجد فضل کی بنیاد برنڈزی بریلی بسراء بسراواں بشیر آبا دا سٹیٹ بلانی بمبئی بندھیا چل بنگال ،۳۳۷ ،۳۲۴،۲۹۵،۲۸۴ ،۲۷۳،۱۴۴،۱۰ ۴۰۸،۳۷۳،۳۷۲،۳۴۵،۳۳۹ ۳۳۷،۳۲۰ ۲۹۳ ۲۹۳ ۱۷۲،۱۵۹،۱۵۸ ۳۳۷ ،۲۹۹ ۲۲ ۱۱۴،۵۹،۲۲،۳ ۱۱۴ 1+1 ۳۱۵ ۳۶۵ ۳۰۳ بنوں بوٹر ، موضع بہار بھا گووال سرداراں بھا گووالہ بهام بہاولپور بھرت پور یج بہاڑہ

Page 481

۷ ۲۳ ۳۱۳ ۴۰۱،۳۷۲،۳۲۰،۱۰۸ ۳۰۹ ۳۲۵ ۲۹۲ عیسائیوں اور آریوں کی شکارگاہ چھانگا مانگا جبشه حیدر آباد دکن حیدر آباد حيفا ۳۰۴ ۴۲۹،۳۰۹،۳۹۴،۳۹۳،۳۹۲،۳۹۱ ۳۶۴ ۳۲۵ ۳۷۵،۱۴۳ ۳۵۶،۳۳۸،۳۳۷ ،۲۸۲،۲۸۱،۲۷۸ ،۲۷۱ ۳۷۵،۳۰۰،۲۹۸ ۹۴،۳ ۵۹،۵۶،۲۲،۱۶ ۳۷۳،۳۰۰،۲۹۹ ،۲۹۸ ،۲۹۷ ۲۶۲،۲۵۶،۲۴۳۲۲۹ ،۹۶ ۹۵ ۳۲۶ 117 ۲۵۴،۵۵،۵۳،۵۲،۳۶،۳۱،۲۵ ۴۲۹،۳۶۶،۲۶۱ ،۱۱۳ ۳۷۴،۳۷۳۲۹۳،۲۹۲ ۳۲۰ 20 20 خانپور خانیار خانیوال دکن دمشق دوالمیال دہلی دھر مساله دیر سنگھ والا ؛ موضع ڈائن کنڈ ڈ چکوٹ ڈلہوزی ڈنگہ ڈوور ڈیرہ بابا نانک راجپوتانہ را جپوره را جستهان ۴۹ ۹۱،۹۰ ۲۴۲ ۳۵۲ ۴۱۴ ۱۳ ۳۵۳ 117 ۳۴۸ ۲۹۰،۹۵،۷۶ ۳۲۵ ۳۵۴ ان ۲۸۵،۱۲۵،۳۳ ۳۰۹ ۳۴۵،۲۵۶۰۹۵،۳۸،۱۴ ۴۰۱ ۵۹،۱۶ ۲۲۶ تکیہ پیڑے شاہ تکیه حسینا تکیه دیوانی مال تنزانیہ تھر پارکر طبہ ککے زئیاں ٹی ٹلفورڈ ٹھیکر یوالہ جاپان جاپووال جالندھر جده جرمنی جگالیاں جموں جھڈو جہلم جھنگ چک نمبر ۶۲ چک پنیار ان چک سکندر ( احمدیوں کی شہادت ) ۳۴۹ ،۱۷ ،۱۶،۱۵،۱۳،۱۱،۸،۶،۵،۳ ۶۹،۲۴،۲۳ چونیاں

Page 482

۴۰۱ ۳۳۷ ۳۴۳ ۱۴ ۴۱۴ ،۴۰۰،۳۵۶،۳۰۹،۳۶۷ ،۳۸۳،۳۸۲ ۲۹۲،۲۹۰،۲۸۸ ۲۷۰ سلامی سی.پی 21 سماٹرا سمبر یال سندھ سنور سہارنپور سیالکوٹ سیرالیون شاہ پور شکر گڑھ شملہ ،۲۸ ،۲۷ ،۲۶ ۲۵ ۲۴ ۲۳،۱۴،۱۱،۱ ۲۹۹،۲۰۸،۱۱۴،۱۱۱،۷۲،۷۱،۵۳،۳۶،۳۴،۳۲،۳۱ ۳۵۳،۳۵۲،۳۵۱ ۳۷۵ ۹۵،۱ ۳۳۸،۲۹۳،۲۹۱،۲۹۰،۲۸۸،۲۸۳ ۳۶۵ ۳۴۵،۳۴۰،۳۲۴ ۳۲۰،۲۷۲ ۳۲۵ ۳۱۵ ۱۶۳،۱۱۴ ۳۵۱ ۵۵ ۳۴۸ ۳۳۶،۳۳۵ ۳۱۵ ع غ عالمہ ، موضع عدن عرب نکہ (بہائیوں کا صدر مقام) فق علی گڑھ علی وال غانا فتح گڑھ چوڑیاں مجی فرانس فرخ آباد ۲۹۹ ۴۰۱،۳۴۹،۳۰۳،۳۰۲،۲۸۲ ۲۴۹ برانچی راولپنڈی را ہوالی ربوه ،۲۹۴،۲۸۲،۲۶۶۰۹۷ ،۳۸ ،۳۷ ،۲۹ ،۳۹۳،۳۹۲،۳۹۰ ،۳۸۷ ،۳۶۳،۳۵۲،۳۴۹ ،۳۱۲ ۴۲۵،۴۱۵ ،۴۰۵ ، ۴۰۴ ،۴۰۱ ، ۳۹۷ ،۳۹۵،۳۹۴ ١١٦ ۳۰۶،۳۰۴،۳۰۳ ۳۳۷ ۳۵۴،۱۱ ۳۲۶،۳۲۵ رسول وڈالہ رشی نگر رنگون روس روما رہتاس ۱۴۳ ریتی چھلہ ۲۵۲،۲۵۱،۳۹،۲۸ سیش ساندھن ۴۰۱،۳۳۹ سانگلہ ہل ۷۰،۶۹،۵۳ ساؤتھ ٹین ساہیوال سپین سجانپور سر ہند کرے ۳۳۶ ۳۲۳ ۳۴۸ ،۲۸۲ ۳۷۵ ۲۹۲۲۸۸ ۳۵۲،۳۵۱ سری گوبند پور ۱۱۴ سری نگر ۳۶۴،۳۰۶،۳۰۴،۳۰۲،۲۹۹،۲۸۵ سر وعہ ۳۴۲ ۳۴۷ ،۳۲۰ سعودی عرب

Page 483

བ ۱۱۹ ۱۲۰ ۱۲۳ ۱۲۸ ۱۳۹ ۹ ۳۵۹ ۳۴۳،۳۳۱،۳۲۹،۱ ۳۰۴،۳۰۳ ۳۰۱ ۲۹۱،۲۹۰ ۳۰۰ ۳۲۳،۱۵۸ بازاروں کی حالت افعال قبیحہ اور گندگی سواری کا فقدان لوگوں کا رہن سہن ، لباس قادیان حضرت اقدس کے زمانہ میں درویشان کا طرز رہائش قصور ۲۹۰،۲۷۰،۱۷۸ ،۱۱۴،۳۲،۳۱،۲۵ ،۳۹۲،۳۹۱،۳۹۰ ،۳۸۷ ،۳۷۳،۳۳۷ ۴۳۴۴۲۹،۴۱۸ ،۴۱۵،۳۹۸ ،۳۹۴ ۴۰۱ ،۳۰۵،۳۰۳،۳۰۲،۲۸۵ ،۲۸۲،۱ ۴۰۱،۳۷۷ ،۳۷۵ ۱۱۴ ۳۳۰،۳۲۰ ۳۰۴ ۱۸۵،۵۳،۱ ١١٦ ۴۱۴ کابل کا پرن کالاٹوپ کا لکا کانگڑہ کا ہلواں کپورتھلہ کراچی کرناٹک کشمیر کلانور کلکتہ کنج پوره ؛ موضع کنجر وڑ دتاں کنڈیلہ کنری 22 ۳۲۵ 1 فلسطین فیروز پور قادر آباد قادیان ۱۵۸ ،۳۱،۲۹،۲۸ ،۲۷ ،۱۶ ،۱۴،۱۱،۱ ،۴۶،۴۵ ، ۴۳ ۴۰ ،۳۹،۳۸ ،۳۷ ،۳۶،۳۴،۳۳،۳۲ ،۶۷ ،۶۶،۶۵،۶۰،۵۹،۵۸،۵۴، ۵۲ ۵۱۰ ۴۸ ، ۴۷ ،۸۸،۸۵،۸۳٬۸۲ ،۷۸ ،۷۷ ، ۷۴ ،۷۲ ،۷۱،۶۹،۶۸ ،۱۱۶،۱۱۵،۱۱۴ ۱۱۳ ۱۱۱ ،۹۷ ،۹۶،۹۵ ، ۹۴ ۹۳ ۹۱،۹۰ ،۱۳۶،۱۳۵،۱۳۳،۱۳۰ ،۱۲۷ ،۱۲۶،۱۲۴ ،۱۲۱ ، ۱۱۹ ۱۱۷ ،۱۶۳،۱۶۲،۱۵۹،۱۵۸ ،۱۴۵، ۱۴۳،۱۴۲،۱۴۱،۱۳۸ ،۱۳۷ ،۱۹۲،۱۸۹،۱۸۴ ،۱۷۸ ،۱۷۷ ، ۱۷۴ ، ۱۷۲ ۱۷۱ ، ۱۶۹ ،۱۶۴ ،۲۲۸،۲۲۵ ،۲۲۰،۲۱۹،۲۰۸،۲۰۷ ،۲۰۶ ۲۰۵ ،۱۹۷ ، ۱۹۵ ،۲۴۵،۲۴۳،۲۴۲،۲۴۱،۲۳۹،۲۳۸ ،۲۳۳،۲۳۲،۲۲۹ ،۲۶۱،۲۵۸،۲۵۶ ۲۵۵۰ ۲۵۲ ۲۵۱،۲۵۰، ۲۴۸ ،۲۴۶ ،۲۸۱،۲۷۵،۲۷۳،۲۷۲،۲۷۰،۲۶۵،۲۶۴۰۲۶۳۲۶۲ ،۳۰۰،۲۹۸،۲۹۷ ،۲۹۶،۲۹۴ ،۲۹۳،۲۸۵،۲۸۷ ،۲۸۶ ،۳۲۱،۳۲۰،۳۱۲،۳۰۹،۳۰۷ ،۳۰۶،۳۰۵،۳۰۳،۳۰۱ ۳۴۳،۳۴۲،۳۳۹ ،۳۳۸ ،۳۳۵ ،۳۳۰،۳۲۹ ،۳۲۳ ،۳۵۸،۳۵۷،۳۵۶،۳۵۵،۳۵۳،۳۵۲،۳۴۵ ،۳۴۴ ،۳۷۴،۳۷۳،۳۷۲،۳۷۰،۳۶۸ ،۳۶۷ ،۳۶۵،۳۶۲ ،۳۹۲،۳۹۰،۲۸۶،۳۸۵ ،۳۸۲،۳۷۹،۳۷۶،۳۷۵ ،۴۰۰،۳۹۹،۳۹۸،۳۹۷ ،۳۹۶،۳۹۵،۳۹۴ ،۳۹۳ ،۴۱۹ ،۴۱۶،۴۱۵ ، ۴۱۱ ، ۴۰۸ ، ۴۰۵ ، ۴۰۴ ، ۲۴۰۳،۴۰۱ ۴۲۹،۴۲۵،۴۲۲،۴۲۱ ۱۱۳ ۱۱۸ ابتدائی تاریخ قادیان کی حالت

Page 484

۴۲۵،۴۰۸ ،۳۷۵،۳۷۴ ۳۱۵ ۲۳۲۲ ۳۴۸ ۳۵۱ ۳۵۲،۳۵۱،۳۵۰ گور وکل کانگڑی گوگیرہ گوئٹے مالا گیمبیا لائبریا لائل پور (فیصل آباد) ۳۱۹٬۸۹،۸۸،۵۳،۳۹،۱۷،۱۵ ،۹۱،۵۵،۳۹،۳۱ ،۲۳،۱۵،۱۴،۳ لاہور 23 ۳۰۴،۳۰۳ ۳۰۵ ۲۶۱ ۳۱۲ ٣٠٢ ۴۰۱ ۳۷۵،۳۷۴،۱۱۶ ۲۲۹ ۴۰۳ کنی پوره کوثر ناگ کوہاٹ کو ہالہ اریم کھارا کھاریاں کیرالہ ،۱۸۳،۱۷۸،۱۷۶ ، ۱۷۰ ، ۱۶۵ ،۱۴۴ ، ۱۱۳، ۱۰۸ ، ۱۰۵ ،۹۷ ، ۲۵۶ ،۲۴۸ ،۲۴۵ ،۲۱۸ ،۲۱۷ ، ۲۱۰ ، ۲۰۹ ، ۲۰ ۴،۱۸۵ ،۲۸۰،۲۷۸،۲۷۳۲۶۵،۲۶۳۲۶۲۲۶۰،۲۵۸ ۲۵۷ ،۳۰۳،۳۰۲۲۹۶،۲۹۵،۲۹۴ ،۲۹۰،۲۸۴،۲۸۳ ،۲۸۲ ،۳۶۷،۳۶۶،۳۵۷ ، ۳۵۶،۳۵۳،۳۳۸ ،۳۰۸۳۰۷ ۳۲۶ ٣٠٢ ۴۱۳،۳۵۴،۳۵۳،۳۵۲،۳۴۸ ۳۴۳ کیلئے کیمبل پور کینڈا کینیا گ گاندھریل گجرات ۳۴۹،۲۶۲،۲۲۹،۲۲۶،۱۵۰،۹۵،۲ ،۳۹۱،۳۹۰،۳۸۵،۳۷۶،۳۷۵،۳۷۴ ،۳۷۳،۳۷۲ ٣٠٣ ۴۱۹،۴۱۵ ،۴۰۱ ،۳۹۸،۳۹۷ ،۳۹۵،۳۹۴،۳۹۳،۳۹۲ ۶۸ ۲۹۳،۲۹۰،۲۷۸ لدھڑ ؛ موضع لد ہیانہ ۴۱۷ ۲۴۹ ۱۱۴ لکھنؤ للیانی لمبانوالی لنگروال م ۳۰۳،۲۴۹،۲۴۸ ،۲۴۷ ، ۷۱ ، ۶۹ ، ۲۵ ۲۳۱ ۲۴۹ ۴۳۴،۳۰۳ ۴۰۱ ۳۰۵ گوجرانوالہ عیسائیت کا گڑھ گکھڑ گلگت گنج مغلپوره گجن سنگھ والا گنگ وٹن ۳۷۵ ۳۵۱،۳۴۸،۲۸۴،۲۷۲۱۷۵ ۳۳۷ مادھوپور ماریشس مالا بار ۵ ،۱۱۳،۹۶،۸۰،۷۸ ،۵۹ ،۲۲،۱ گوالیار گورداسپور ،۳۶۷ ،۲۷۰،۲۵۰، ۲۴۸ ،۱۷۸ ،۱۷۶ ، ۱۷۵ ،۱۶۵،۱۴۲

Page 485

۳۷۵ ٣٠٢ ۳۴۳،۱۴۳ ۳۵۲،۳۴۸ ۳۳۶ ۲۴۲۲۴۱ ۲۴۹،۵۳ ۹۵،۵۳،۳۵ ۳۳۹،۳۳۷ ۳۱۶ ۲۹۲ ۲۲۸،۲۲۵،۱۱۴ نورپور نوشہرہ نیروبی نیوزی لینڈ و.ہ.ی ۳۴۴،۳۳۷،۳۳۲،۳۲۸ ،۳۲۰،۲۸۲،۱ ۳۴۲،۲۷۹،۲۷ ۴۰۱ ٣٠٦ ۴۰۱ ،۳۳۷ ،۳۲۰،۳۱۲ 24 واٹرلو وڈالہ وزیر آباد ویرم دتاں وئیس ہا تھرس ہربنس پورہ ہر چووال ہمالیہ ہندوستان ہوشیار پور بادگیر یاری پورہ یو.پی یورپ ہو.کے ،۳۴۳،۳۴۲،۳۳۷ ،۳۲۵،۳۲۲،۳۲۱،۲۵۷ ۴۱۸ ،۴۱۶،۳۴۸ ،۳۴۷۳۴۴ ۳۵۱ مالیر کوٹلہ ا۷ ۷۲ ۹۳، ۹۴، ۳۷۵،۳۰۸،۳۰۷ ۳۳۲ ۲ ۳۳۷،۳۱۵ ۳۸۲،۳۶۷،۳۰۹ ۴۰۱ ،۳۲۰ ۳۰۲ ۴۱۳،۲۷۲ ۳۱۵ ۳۶۷ ،۳۳۷،۳۱۸،۳۰۹ ۳۹۷ ،۳۲۵،۲۷۳ ۳۰۹،۱۰۱،۵۵ 1 ۳۹۲ ۳۸۳،۳۶۷ ۴۰۱،۲۸۵ ۳۳۵ ۳۴۹ ۱۵۸ ۳۲۳ اد مانچسٹر متھرا مٹھا چک محمود آبا داسٹیٹ مدراس مری مظفر گڑھ ملکانه مکہ معظمہ ملتتان ممدوٹ منگلا میر پور خاص میر پور نارمنڈی ننکانہ منگل باغباناں منگل موضع

Page 485