Language: UR
حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ میں فرمایا : ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : <span class="quranic">اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ</span>۔ عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کامعاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے<span class="quranic"> اُذْکُرُوْا مَوْتیٰ بِالْخَیْرِ</span> نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے<span class="quranic"> مَوْتَاکُمْ</span> کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنی ہیں کہ آپؐ نے یہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں محترم ملک صلاح الدین صاحب نے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات شائع کئے جاتے تھے۔ رسالہ کانام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے تجویز فرمایا تھا۔ بعد ازاں بزرگانِ سلسلہ کی تجویز پر ان سوانح کو مفصل اور کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے جلسہ سالانہ میں آپ کی اس خدمت کاذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بعض ضروری نصائح فرماکر احباب جماعت کوصحابہ کرام کے حالات زندگی اور تاریخ کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ درجنوں صحابہ کے ابتدائی تعارف پر مشتمل زیر نظر یہ مجموعہ 12 جلدوں پر محیط ہے جو دیدہ زیب ٹائپ شدہ ہیں اور قریبا اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مفید سلسلہ کتب میں معزز مرحومین کی تصاویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری نقشے اور وضاحتی خاکے بھی بناکر شامل کئے گئے ہیں۔ صحابہ کی خود نوشت تحریرات یا مطبوعہ مواد پر مصنف کتاب کے شامل کردہ حوالہ جات اور ضروری وضاحتی حواشی نے کتاب کی افادیت کو اور بڑھا دیا ہے اور بلاشبہ یہ صرف صحابہ کے حالات زندگی ہی نہیں بلکہ جماعت احمد یہ کی تاریخ کا اہم ذخیر ہ ہے اور مصنف کی طرف سے جماعت کی ابتدائی تاریخ کا قیمتی خزانہ محفوظ کرنے کی ایک نہایت ہی قابل قدر سعی ہے۔
اصحاب احمد جلد هشتم مؤلّف ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے
نام کتاب: مصنف: اصحاب احمد جلد ہشتم ملک صلاح الدین ایم.اے
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَنُصْلِيُّ عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ مَعَ التَّسْلِيمِ عرض حال الحمد لله ثم الحمدللہ کہ باوجود شدید موانع کے محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اصحاب احمد جلد ہشتم کے شائع کرنے کی توفیق پارہا ہوں.اس جلد میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے سوانح شامل کرنے کا بھی پروگرام تھا اور قریباً چھ سو صفحات کا مسودہ بھی تیار تھا لیکن اس قدر ضخیم جلد کی طباعت واشاعت کے لئے بہت بڑی رقم کی ضرورت تھی ، جس کا فوری طور پر انتظام نہیں کیا جا سکتا تھا.اس لئے محترم بھائی جی کے سوانح آئیندہ جلد پر ملتوی کرنے پڑے.وعدہ کرنے والے خریداروں کی طرف سے بر وقت روپیہ آ جاتا تو مجھے یہ طریق اختیار نہ کرنا پڑتا.احباب کرام براہِ کرم دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس کام کی تکمیل کے لئے ہر قسم کے ضروری سامان فرماتا رہے اور اس کام کو قبول کر کے اپنی رضا کا موجب بنائے.آمین اعانت کا شکریہ: حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے سوا کی خاطر محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوة وتبلیغ قادیان) کی تحریک پر اخویم سیٹھ محمد معین الدین صاحب ( تاجر صدر جماعت کنٹہ ) نے تین صد روپیہ کی اعانت فرمائی.فجزاه الله احسن الجزاء علاوہ ازیں ذیل کے احباب نے معاون بننے یا خریدار بنانے میں خاص طور پر مددفرمائی.جماعت کراچی: محترم شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت کی تحریک پر برادران چوہدری احمد مختار صاحب نائب امیر ، چوہدری عبدالحق صاحب ورک زعیم اعلیٰ انصار اللہ ، -1
مولوی عبدالمالک خاں صاحب مربی، مرز امحمد لطیف صاحب مربی، مولوی عبدالباسط صاحب مربی، مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب سیکرٹری جنرل ، ڈاکٹر محمودہ نذیر صاحبہ ، مولوی بشیر احمد صاحب منیر سیال سیکرٹری تحریک جدید جماعت ڈرگ روڈ ، چوہدری سلطان احمد صاحب طاہر، مقبول احمد صاحب ٹھیکہ دار ، چوہدری محمد نصر اللہ خان صاحب ( خلف چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابق امیر جماعت احمدیہ کراچی ) چوہدری شریف احمد صاحب وڑائچ، شیخ عبدالحفیظ صاحب کراچی نمبر ۲۹، چوہدری عبدالواحد صاحب ورک ، مولوی محمد اسمعیل صاحب بقا پوری ، لطیف تا ثیر صاحب ایم آرخان صاحب ماڑی پور، استاذی المحترم ملک محمد اشرف صاحب ماڑی پور، محمود احمد صاحب مبشر ، شیخ فیض قادر صاحب ، اعجاز احمد صاحب ابن ملک فضل حق صاحب پیرالہی بخش کالونی، جمعدار برکت علی صاحب مالیر کینٹ ، چوہدری عبدالحمید صاحب (برادر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پروفیسر لنڈن) عبدالرحیم صاحب مد ہوش رحمانی ، سعید احمد صاحب و محمد الدین صاحب دارالصدر ، عبدالمجید صاحب ناصر، محمد عبد اللہ صاحب اور خاکسار کے چچا زاد بھائی ملک مبارک احمد صاحب ارشاد ( نزیل کو رنگی ) اور محمود علی حسین صاحب.- سابق پنجاب : امیر صوبائی محترم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودہا، مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ ، شیخ عبد اللطیف صاحب فاضل ، مراد کلاتھ ہاؤس لائکپور، با بو قاسم الدین صاحب امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ ، میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی، خاکسار کے برادر حقیقی ملک برکت اللہ خان صاحب بی اے (آنرز) متعلم لاء کالج لاہور.( عزیز موصوف نے کراچی اور کوئٹہ میں خریدار بنائے ) سردار بشیر احمد صاحب ایس.ڈی.اولا ہور.- کوئٹہ : به تحریک مولانا جلال الدین صاحب شمس و شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت) ڈاکٹر خواجہ احمد صاحب آف گوجرانوالہ، صوبیدار میاں عبد القیوم صاحب ایم اے (چھاؤنی ) خلیفہ عبدالرحمن صاحب جمونی ، محترمہ بیگم صاحبہ مرزا معظم بیگ صاحب صدر لجنہ اماءاللہ -۲
حلقہ مسجد احمد یہ ، مرزا بشیر احمد بیگ صاحب عارف اور عبدالرحمن خان صاحب ایجنٹ اخبارات سابق درویش.-۴ مشرقی افریقہ استاذی المحترم قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی جماعت نیروبی ، ڈاکٹر نذیر احمد صاحب چوہدری عبد الرحمن صاحب پرنسپل بمقام جنجہ (یوگنڈا).لنڈن : بابو عبد العزیز صاحب سیالکوٹی و مولوی عبدالکریم صاحب فاضل ( سابق مجاہد مغربی افریقہ).ریاستہائے متحدہ امریکہ : سید عبدالرحمن صاحب خلف سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی اور خاکسار کے برادران حقیقی حشمت اللہ صاحب و ملک ذکاء اللہ صاحب.اللہ تعالیٰ ان تمام معاونین کو اپنے فضل سے نوازے اور بہترین جزاء عطا کرے.آمین اخویم مکرم چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبشر بلا داسلامیہ حال ربوہ کی امداد و تعاون ہر جلد کے لئے حاصل ہوتا ہے.ان کے تعاون کی اہمیت کا بیان پورے طور پر ناممکن ہے.خاکسار ملک صلاح الدین ایم.اے در ولیش ناظم جائیدا دو مختار عام صدرانجمن احمد یہ قادیان) (۲۱/اکتوبر ۱۹۶۰ء)
i عنوان فهرست عناوین اصحاب احمد جلد ہشتم ا.حضرت مولانا ابوالبرکات غلام رسول صاحب را جیکی ولادت_وطن_تعلیم بیعت حضرت مسیح موعود کی مجالس میں آپ کی اہلی زندگی حضرت خلیفہ اول کی نوازشات تائید خلافت ثانیه ایک رؤیا اور آپ کی قادر الکلامی القصيدة العجيبة بالصنعة الغريبة آپ کا اضافہ علوم اعلائے کلمۃ اللہ میں انہماک اور تقاریر و مناظرات سادگی تکالیف پر صبر و ثبات اور اعلائے کلمۃ اللہ میں استقلال امراض و آلام کا شکار مبلغ قلمی خدمات دیگر بعض خدمات اور افضال الہی صفحہ نمبر ۱۹ } ۲۴ ۲۶ ۲۸ ۲۹ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۸ ۳۸
ii عنوان آپ کے شمائل کریمہ مجاہدات اور ان کے نیک اثرات.کشف والہام کی برکات حله سالانه ۱۹۵۰ء وطن ولادت چوہدری غلام محمد صاحب حصول تعلیم ، پہلی شادی ، ملا زمت، کالج میں داخلہ آپ کی روحانی زندگی حضرت مسیح موعود کا ذکر آپ تک کیونکر پہنچا زید تعلیم ہجرت قادیان اقارب کی بیعت شوری میں شمولیت اور مالی و دیگر خدمات حضرت خلیفہ اول کا وصال اور آغاز خلافت ثانیہ قادیان میں تجارت کا آغاز نصرت گرلز ہائی سکول کی کالج تک ترقی دعاؤں کی قبولیت روایات حضرت خلیفہ اول کے متعلق آبا و اجداد ۳.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب صفحہ نمبر ۳۹ ۴۳ ۴۵ ۴۵ ۵۱ ۵۲ و م م م ة صالح صالح حمام حمام ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۶ ۶۱ ۶۳ ۶۴ 수스 ۸۳
!!! عنوان سرہند شریف مولی بخش صاحب اور آپ کے خاندان میں احمدیت کا آغاز رحیم بخش صاحب آپ کی اہلیہ محترمہ صفحہ نمبر ۸۴ ۸۴ ۸۶ ۸۷ ۸۸ ۸۹ ۹۳ ۹۴ ۹۴ ۹۶ ۹۹ 1+1 ۱۰۴ ۱۰۷ 1+9 = 111 ١١٢ محتر مہ رحیم النساء صاحبہ حکیم رحمت اللہ صاحب محمد یوسف صاحب حافظ ملک محمد صاحب محمد ظہور صاحب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تاثرات حضرت اقدس کی زیارت تجارت اور حضرت اقدس کی خدمت میں تحفہ دوسری بار زیارت بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۰۷ء اس الہام کے دورس نتائج حضرت اقدس کا وصال اور حضرت خلیفہ اول کا انتخاب ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء وفات کے وقت مومنوں کی حالت اغیار اشرار کارویہ نماز جنازہ لاہور میں اور قادیان کو روانگی حضرت خلیفہ اول کا انتخاب
لا ۱۱۷ 119 صفحہ نمبر ۱۲۰ ۱۲۰ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۷ ۱۲۹ ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۳۴ ۱۳۵ ۱۳۷ ۱۳۸ ۱۴۰ ۱۴۱ iv عنوان ڈاکٹر صاحب کی اہلی زندگی تحمیل تعلیم ڈاکٹری سرکاری ملازمت اور کرنل محمد رمضان کی لجاجت حسن خداوندی کی جھلک کبر و نخوت سے بچنا چاہئے حضرت صاحبزادہ صاحب کی زیارت انجمن تشحید الا ذہان حضرت میاں صاحب کی تقریر ۱۹۰۹ء میں خلافت ثانیه تعلقات میں زیادتی اور حضور کی پٹیالہ میں آمد موٹر کا انتظام.باعث اکرام آقا وغلام اللہ تعالیٰ کے بندہ محمود کے لئے موٹر کا انتظام اور دیگر شاہانہ انتظامات ایک اور موقع خدمت گذاری بوجہ انفلوئنز احضور کی علالت افضال الہی توفیق ہجرت.حضرت کی طرف سے استقبال حضرت میاں صاحب کو کشتی چلاتے دیکھنے کی خواہش کا پورا ہونا ۱۹۱۷ء کی ایک رؤیا کا پورا ہونا سفر یورپ میں معیت، دمشق والی پیشگوئی کا پورا ہونا خدمات سلسلہ قلمی خدمات
صفحہ نمبر ۱۴۲ ۱۴۵ ۱۴۶ ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۴۸ ۱۴۸ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۲ ۱۵۳ ۱۵۳ ۱۵۵ ۱۵۷ ۱۶۷ V عنوان بیعت حضرت مرزا سلطان احمد صاحب شادی سیده سا را بیگم صاحبه ولادت مرزا حفیظ احمد صاحب پرورش مرز اخلیل احمد صاحب شادی اور وفات سیّدہ ام طاہر صاحبہ وفات حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ حضور کے بعض سفر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت سفر یورپ ۱۹۵۵ء برکات معیت موجودہ قرب و معیت التجا به درگاه الهی حوالہ جات اصحاب احمد پر تبصرے صحابہ کرام کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
حضرت مولانا ابوالبرکات غلام رسول صاحب را جیکی ولادت_وطن_تعلیم حضرت مولانا ابوالبرکات غلام رسول صاحب کی ولادت ۱۸۷۷ء اور ۱۸۷۹ء کے در میان موضع را جیکی ( ضلع گجرات) پنجاب میں ہوئی.آپ کے والد ماجد کا نام میاں کرم دین صاحب قو م ور ان اور والدہ محترمہ کا نام آمنہ بی بی صاحبہ تھا.آپ نے پرائمری تک موضع منگووال (ضلع گجرات) میں تعلیم پائی.اور مڈل کی تعلیم کے لئے قصبہ کنجاہ میں داخل ہوئے.لیکن ہنوز تعلیم مکمل نہ ہوئی تھی کہ ایک بھائی کی وفات کی وجہ سے والد صاحب نے آپ کو واپس بلالیا اور آپ نے اپنے گاؤں میں میاں محمد دین صاحب سے فارسی کی چند کتب سکندر نامہ بوالفضل پڑھیں اور مثنوی مولانا روم پڑھنے کے لئے مولا نا امام الدین صاحب سکنہ موضع گولیکی ضلع (گجرات) کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور ۱۸۹۹ء میں قادیان سے واپسی پر آپ مدرسہ رحیمیہ لاہور میں مولوی کی جماعت میں داخل ہو گئے.تصوف کی طرف رجحان ہونے کے باعث طلبہ آپ کو صوفی کے نام سے پکارنے لگے.نصف سال بعد جب مدرسہ موسمی تعطیلات کے لئے بند ہو گیا تو آپ وطن چلے گئے اور تبلیغ میں منہمک ہو گئے اور تعلیم کا خیال ترک کر دیا.موضع گولیکی میں ہی سب سے پہلے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نام اور پیغام کا علم حضور کی تصنیف ”آئینہ کمالات اسلام سے ہوا.جو حسنِ اتفاق سے ایک سپاہی لایا.جب کہ آپ مسجد میں حضرت مولانا صاحب سے سبق لے رہے تھے.سپاہی نے حضرت مولانا صاحب
کو کچھ دنوں کے لئے یہ کتاب دے دی.حضرت مولانا صاحب کے ہاں مولا نا راجیکی صاحب نے اس کتاب سے حضرت اقدس کی وہ نظمیں پڑھیں.ایک کا مطلع یہ ہے :- عجب نوریست در جان محمد عجب لعلی است در کان محمد اے اس نظم کے پڑھنے سے سوز و گداز سے آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے.جب آپ نے یہ شعر پڑھا: - بیا کرامت گر چه بے نام ونشان است بنگر ز غلمان محمد ۲ تو یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ کاش ہمیں بھی ان سے استفاضہ کا موقع ملتا.جب آپ نے یہ شعر پڑھا:- کافر و ملحد و دقبال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے سے تو آپ کو ایسے لوگوں کے متعلق بے حد تاسف پیدا ہوا.دریافت کرنے پر حضرت مولانا امام الدین صاحب نے فرمایا کہ یہ شخص مولوی غلام احمد ہیں اور مسیح و مہدی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور قادیان ضلع گورداسپور میں موجود ہیں.اس پر آپ کی زبان سے یہ فقرہ نکلا (جو کہ حضور کے متعلق آپ کا سب سے پہلا فقرہ تھا) کہ دنیا بھر میں اس شخص کے برابر کوئی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق نہیں ہوا ہوگا.آپ نے ۱۸۹۷ء میں غالباً ستمبر یا اکتوبر میں بیعت کا خط لکھ دیا.جس کا جواب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی قلم سے موصول ہوا.اس پر مولا نا امام الدین صاحب نے کہا کہ آپ نے بیعت کرنے میں جلدی کی ہے.مناسب تھا کہ آپ تسلی کے لئے پوری تحقیق کر لیتے.مولا نا راجیکی صاحب نے کہا کہ خدا کے فضل سے میری تسلی ہوگئی ہے.حضرت اقدس کی زیارت کا آپ کو ۱۸۹۹ء میں موقع ملا.اور اس وقت حضرت مولا نا امام الدین صاحب نے
بھی بیعت کی حمید مولا نا راجیکی صاحب اس پہلی ملاقات کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ مسجد مبارک کے زینہ سے چڑھتے ہوئے میں تو نذرانہ پیش کرنے کے لئے رقم نکالنے لگا اور حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں جا پہنچے.حضور نے مصافحہ کا شرف بخشتے ہی فرمایا : - وہ لڑکا جو آپ کے پیچھے آرہا تھا اس کو بلاؤ.“ چنانچه مولوی امام الدین صاحب واپس لوٹے اور مجھے کہنے لگے کہ حضور آپ کو یاد کرتے حمد سوانح اصحاب احمد میں زیادہ تر توجہ اس امر کے محفوظ کرنے کی طرف رہتی ہے کہ حضرت مسیح موعود سے وابستگی سے کیا کیا روحانی اور اخلاقی انقلاب صحابہ کرام کی زندگیوں میں رونما ہوا.گوتاریخی پہلو بھی یکسر نظر انداز نہیں ہوتا.کیونکہ ہر ایک امر کا محور حضرت مسیح موعود کی ذات ہوتی ہے اس لئے ایک مؤرخ کا فرض ہے کہ تاریخی امور پر گہری نظر ڈالے تا غلطی نہ ہو یا اگر کسی سہو ونسیان کے باعث التباس پیدا ہو چکا ہو تو اس کی تصحیح کر دی جائے.چونکہ مولا ناراجیکی صاحب اور آپ کے استاد حضرت مولا نا امام الدین صاحب کے بیعت کے متعلق بیانات میں اختلاف ہے اس لئے میں اس موقع پر مطبوعہ بیانات کی روشنی میں اپنی رائے ظاہر کرتا ہوں جس سے مقصود کسی بزرگ کی تنقیص نہیں.بلکہ محض اظہارِ حقیقت ہے اور یہ امر بھی مطلوب ہے کہ احباب میں تاریخی تحقیق کا ذوق بڑھے.اور میں نے اپنی تالیفات میں مناسب مواقع پر ایسی تاریخی تحقیق پیش کی ہے.حضرت مولانا راجیکی صاحب کا بیان متن کتاب میں درج ہو چکا ہے.یہاں حضرت مولا نا امام الدین صاحب اور آپ کے فرزند مکرم قاضی محمد ظہور الدین صاحب (اکمل ) کے دودو بیانات اور شاگرد مکرم مولوی غلام رسول صاحب وینس سکنہ لنگے (ضلع گجرات) کے بیان کے خلاصے درج کرتا ہوں :- بیان حضرت مولوی امام الدین صاحب نوٹ: ( بیان اول آپ کا مضمون جو ذکر حبیب کی مجلس کے لئے آپ نے ۳۱-۴-۱۲ کو
ہیں.میں یہ سنتے ہی حضور کی خدمت میں جا پہنچا.مصافحہ اور زیارت سے مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ میں بے ساختہ حضور کے قدموں پر گر گیا اور روتے روتے میری ہچکی بندھ گئی.حضور نے نہایت شفقت سے میرے سر پر اور میری پیٹھ پر دست مسیحائی پھیرا اور مجھے دلاسا دیا اور میں نے دوبارہ دستی بیعت بھی کی." آپ کی والدہ محترمہ احمدیت کی مصدقہ تھیں اور تکلیف کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور کی برکات کے حصول کے لئے یاد کرتی تھیں اور والد ماجد نے گو بیعت نہیں کی تھی لیکن بقیہ حاشیہ: - قلمبند فرمایا اور الحکم مورخہ ۳۵-۸-۲۱ء میں شائع ہوا.بیان دوم جو الحکم مورخہ ۳۴-۶-۷ میں شائع ہوا.) خوش قسمتی سے میرے چا زاد بھائی کے لڑکے نے حضرت مرزا صاحب کا ذکر کیا.اور باتیں سنائیں اور کتاب ازالہ اوہام دی جو صوفیانہ رنگ کی نہ پائی.اس لئے دلچسپ نہ لگی.ہاں فکر پیدا ہوا اور مخالفوں کی باتوں سے حضور کے عالم فاضل ہونے کا یقین آیا.پھر ایک ہرکارہ نے جب کہ میں ( عزیز اکمل اور تلمیذ غلام رسول را جیکی کو.بیان دوم) پڑھار ہا تھا.حضور کی کوئی کتاب ایک ماہ کے لئے دی.جس کا نام یاد نہیں.اس سے حضور کا عالم ، فاضل اور اعلیٰ مناظر ہونا دل میں آتا تھا.چا صاحب نے مجھ سے کوئی لفظ مخالفانہ و گستاخانہ.(بیان دوم) سُن لیا تو کہا کہ حضور بڑے بزرگ اور فاضل اور حامئی اسلام ہیں.کوئی کلمہ ہتک آمیز نہ کہنا.ورنہ تباہی آجائے گی.میں ڈر گیا.(میرے دل پر اثر ہوا.بیان دوم ) اور حضور کی ملاقات کا شوق پیدا ہوا.میں 1ار ربیع الثانی کو عرس پر بٹالہ پیر صاحب کے پاس آیا.(میں کسی تقریب پر ۱۸۹۶-۹۷ء میں ہمشیرہ کو امرتسر ملنے آیا اور ساتھ ہی بٹالہ پیر صاحب کو ملنے آیا.غالبا ان دنوں لیکھرام قتل ہو چکا.بیان دوم) پوچھنے پر پیر صاحب نے قادیان آنے کی اجازت دے دی.: یہ خیال کر کے کہ یہ مولوی ہے اور ہمارا معتقد ہے.مرزا صاحب کو کب ماننے لگا ہے.بیان دوم ) ظہر کے وقت قادیان پہنچا.نماز ہو چکی تھی.حاضرین نے کہا کہ حضور ظہر کی نماز پڑھ کر اندرون خانہ جاچکے ہیں.بیان دوم) چکے ہیں.اب عصر کے وقت آئیں گے.عصر کی نماز غالباً
عموماً نمازیں جماعت احمدیہ کے ساتھ شریک ہو کر ادا کرتے اور مخالفین کے اعتراضات اور مخالفت کے موقع پر احمد یوں کی ہی تائید کرتے تھے.حضرت مسیح موعود کی مجالس میں پہلی بار جب آپ کو ۱۸۹۹ء میں زیارت کی سعادت نصیب ہوئی تو آپ نے دوبارہ دستی بقیہ حاشیہ مولوی قطب الدین صاحب نے پڑھائی ( ظہر کی نماز کے بعد میں قادیان پہنچا.خدام نے کہا کہ اب حضور عصر کی نماز کے وقت باہر آئیں گے...ہاں میں نے نماز ظہر کی یا عصر کی مقتدی ہو کر پڑھی.غالباً مولوی قطب الدین صاحب یا حکیم فضل دین امام تھے.بیان دوم) میں نے ( قادیان سے باہر آ کر.بیان (دوم) نماز اس خیال سے دہرائی کہ میری نماز بحکم علمائے وقت.بیان دوم ) نہیں ہوئی.حضور سے غالبا دفتر محاسب کے قریب ملاقات ہوئی.حضور نے استخارہ کرنے کی تلقین کی اور مجھے (غالباً.بیان دوم) سلسلہ نور القرآن دلایا.یہ رسالہ ان دنوں جاری تھا.بٹالہ میں پیر جی کو سب واقعہ سنایا.مگر اپنا عند یہ بیان نہ کیا وطن جاکر استخارہ کیا.کئی خوا ہیں آتی تھیں لیکن تسلی نہ ہوتی تھی اور موافق و مخالف باتیں سننے لگا.آخر تخمیناً چار ماہ کے خواب میں حضرت اقدس ( یا کسی فرشتہ.بیان دوم) کے منہ سے یہ پُر زور اور مؤثر آواز آئی کہ جس نے آنا تھا آ گیا.اسی وحی کی تاثیر دل نشین ہوگئی اور اس کی روشنی سے شک اور و ہم کی سب تاریکی دور ہو گئی اور حضور کی صداقت کا علم بالیقین ہو گیا.لیکن بیدار ہونے پر مخالفانہ کتاب دیکھی تو اس کے جواب کو دل نے پالیا اور اکثر دوستوں اور شاگردوں کے رویا نے یقین کو ترقی دی.مولوی راجیکی صاحب نے بتایا کہ میں نے گیارہ دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مرزا صاحب کی صداقت سنی ہے.ایسے بہت سے دوستوں نے میرے یقین کی ایسے ہی رؤیا صادقہ سے امداد فرمائی.پھر میں نے غالبا ۱۹۰۵ء میں بیعت کر لی (استخارہ والا رویا غالیا ۱۸۹۷ء کا ہے.بیان دوم) بیان مکرم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل (نوٹ: بیان اول مندرجه الفضل مورخه ۴۰-۴-۲۷ - بیان دوم مندرجہ بدر مورخه
بیعت بھی کی تھی.ان ایام میں حضرت اقدس خدام کی معیت میں کھانا تناول فرمایا کرتے تھے.چنا نچہ آپ کو بھی حضور کی معیت میں کھانا کھانے بلکہ حضور کا پس خوردہ کھانا نصیب ہوا.ایک دفعہ جب آپ زیارت کے لئے قادیان حاضر ہوئے تو آپ کے پاس رقم نذرانہ کے لئے نہ تھی.آپ نے دو آنہ کے پتاشے خرید کر حضور کی خدمت اقدس میں پیش کر دیئے اور حضور نے بڑی مسرت سے قبول فرمائے اور اندرون خانہ بھجوا دئیے.جن ایام میں حضرت اقدس بڑے باغ میں ۲۶-۱۱-۵۹ ) ( بیان اول ) ۱۳۱۱ھ میں رمضان میں گرہن پر لوگوں میں ظہور مہدی کا چرچا ہونے لگا.والد صاحب اس طرف متوجہ ہوئے.گاؤں میں رہنے کی وجہ سے جہاں ڈاک بھی ہفتہ میں ایک بار پہنچتی تھی.آپ کو اس سے پہلے علم نہیں ہوا.بٹالہ کے پیر صاحب نے ایک دفعہ آپ کو بتایا کہ کوئی غوث اعظم مقرر ہوا ہے.جب پوچھا کون تو خاموش رہے.بٹالہ ہی سے والد صاحب کو قادیان کا پتہ لگا.( پیر صاحب بٹالہ بھی اپنے آپ کو اس صدی کا غوث بنے کا امیدوار سمجھتے تھے.انہوں نے والد صاحب سے کہا کہ قادیان میں ایک دنیا دار خاندان کے ایک فرد نے دعوی کیا ہے.والد صاحب کو چونکہ اہلِ اللہ کی ٹوہ رہتی تھی.اس لئے باہر نکل کر اڈہ سے پوچھ کر کہ قادیان کدھر ہے قادیان پہنچے.بیان دوم ) آپ چپ چاپ قادیان یہ غالباً ۱۸۹۴ ء تھا.حضور نے رسالہ شھادۃ القرآن دیا.بیعت کر کے ۱۸۹۵ء میں نور القرآن ساتھ لائے ( پہلی زیارت کے موقع پر غالبًا رسالہ نور القرآن ملا.اور جلد ہی بعد رویائے صالحہ کی بنا پر ۱۸۹۵ء کے آخر پر دستی بیعت کی.بیان دوم ) ایک احمدی پیادہ نے تبلیغی رنگ میں حضرت اقدس کی ایک کتاب دی تھی.( بیان دوم ) ۱۸۹۷ء میں ہم دونوں بھائیوں وغیرہ نے بیعت کی.مولوی راجیکی صاحب نے خلیفہ نور الدین صاحب کی شائع کردہ در مشین میرے میز سے لے کر پڑھی اور بہت متاثر ہوئے.والد صاحب انہیں بذریعہ دعا انکشاف مرتبہ امام مہدی کے لئے کہتے رہتے تھے.چنانچه مولوی راجیکی صاحب نے بیعت کا خط میری یاد کے مطابق ۱۸۹۹ء میں لکھا.اس کے بعد والد صاحب جب قادیان گئے تو مولوی راجیکی صاحب کو بھی ساتھ لے گئے.والد صاحب اس
خیمہ زن تھے.مولوی صاحب نے گرتہ کے بٹن کھول کر عرض کیا کہ حضور میرے سینہ پر پھونک ماریں اور دست مبارک بھی پھیریں.حضور نے از راہ کرم ایسا ہی کیا.ایک دفعہ آپ نے حضور کی خدمت میں ایک گلاس میں پانی پیش کر کے دم کرنے اور تبرک کرنے کے لئے عرض کیا.چنانچہ حضور نے دم بھی کیا اور کچھ نوش بھی فرمایا.مولوی صاحب اس تبرک کو پی رہے تھے کہ ایک اور صحابی حصول تبرک کے شوق میں جھپٹ پڑے کچھ پانی تو جھپٹا جھپٹی میں گر گیا اور کچھ اس صحابی نے نوش کر لیا.بقیہ حاشیہ: - سے تین سال پہلے بیعت کر چکے تھے.یہ کہنا غلط اور توہین آمیز ہے کہ کسی دوسرے شاگرد کے نام آنے والے لٹریچر سے جناب والد صاحب کو ہدایت نصیب ہوئی.والد صاحب کا ایک خط ملا ہے.جس پر ا ار جنوری ۱۸۹۷ء کی مُہر ہے.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے والد صاحب نے دعا کے لئے عرض کیا اور آئینہ کمالات اسلام وغیرہ کتب وی پی پی منگوائی ہیں اور حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی فضل الدین صاحب کو سلام.بیان مکرم مولوی غلام رسول صاحب و بیس (مندرجہ الحکم مورخه ۲۱ ۱۷اپریل ۱۹۳۵ء) تعطیل دسمبر ۱۸۹۵ء میں ایک صوفی منش بزرگ مولوی غلام قادر والد صاحب کے پاس آئے اور مولوی امام الدین صاحب نے ان سے ملاقات کی.احمد دین واعظ نے تعجب سے کہا کہ ایک شخص مرزا غلام قادیانی مدعی مهدویت و مسیحیت ہے اور اس کا بھائی چوہڑوں کا پیر ہے.مولوی امام الدین صاحب یہ بات سُن رہے تھے.انہوں نے اس بات کی طرف توجہ کی.میں اس وقت اُن سے سبق پڑھ رہا تھا.والد صاحب بھی سُن رہے تھے.مولوی غلام قادر نے والد صاحب سے کہا کہ حضرت مرزا صاحب عارف باللہ اور صاحب حال ہیں.ان کے متعلق آپ قاضی ضیاء الدین صاحب سے دریافت کر سکتے ہیں اور انہوں نے مرزا صاحب کی بہت تعریف کی جس نے سب کے دلوں میں حضرت مرزا صاحب کا حال دریافت کرنے کی طرف توجہ پیدا کر دی.تین چار ماہ بعد والد
اعجاز اسیح کی تصنیف کے ایام کی بات ہے کہ مولوی صاحب قادیان میں تھے.حکیم احمد دین صاحب سکنہ سیوکی ( گوجرانوالہ ) بیعت کر کے زار و قطار رونے لگے اور عرض کی کہ میری عمر ستر سال گناہوں اور غفلتوں میں گذری ہے.کیا میرے لئے بھی بخشش کی کوئی صورت ہو جائے گی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ بچے دل سے میرے ہاتھ پر تو بہ کرنے سے اللہ تعالیٰ پچھلے گناہ خواہ کیسے ہوں، بخش دیتا ہے حکیم صاحب نے عرض کی کہ میرے گناہ بہت بڑے ہیں.فرمایا کچی تو بہ سے بڑے بڑے گناہ بھی اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے.حکیم صاحب نے پھر عرض کی کہ میرے گناہ تو بقیہ حاشیہ: - قاضی صاحب کو ملنے گئے.لیکن وہ قادیان گئے ہوئے تھے.والد صاحب کے ہم جماعت چوہدری عطا محمد صاحب ذیلدار سکنہ منگووال غربی (گجرات) ۱۸۹۶ء میں لاہور میں اسلامی اصول کی فلاسفی والا لیکچرسُن کر آئے اور اس کا خلاصہ قلم بند کیا ہواسنا یا اور کہا کہ یہ مضمون سب مضامین پر غالب رہا.قاضی اکمل صاحب، مولوی راجیکی صاحب اور میں مولوی امام الدین صاحب سے تعلیم پاتے تھے.ان دنوں اخبارات میں لیکھرام کا اکثر ذکر آتا تھا.اور وہ بھی حضور کے متعلق مضامین لکھتا رہتا تھا.اور یہ اخبارات والے مضامین ہماری نظر سے گذرتے تھے.مولوی امام الدین صاحب بٹالہ میں پیر صاحب کے پاس آئے تو وہاں سے دسمبر ۱۸۹۶ء میں قادیان بھی گئے اور حضرت صاحب نے توضیح مرام، فتح اسلام اور در شین دیں.واپس بٹالہ جا کر آپ نے پیر صاحب سے قادیان جانے کا ذکر کیا تو وہ سُن کر بہت ناراض ہوئے کہ تم وہاں کیوں گئے اور کہ کر نمازیں دوبارہ پڑھوائیں.میں نے اور قاضی اکمل صاحب نے یہ کتب پڑھنی شروع کردیں اور درمشین میں اشعارے الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بُران محمد ۴ بھی پڑھے اور چونکہ لیکھرام کے حالات اخبارات میں پڑھے ہوئے تھے.اس لئے یہ کتابیں ہم نے دلچسپی سے پڑھیں اور یہ خیال ہو گیا کہ لیکھرام کی پیشگوئی کا نتیجہ دیکھنا ضروری ہے اس لئے ۱۸۹۷ء میں اس کے قتل ہونے کے بعد حضرت مرزا صاحب کی فتح اور کامیابی کی خبر
پہاڑوں اور آسمانوں سے بھی بڑے ہیں.فرمایا اللہ تعالیٰ کی مغفرت ان سے بھی بڑھ کر ہے.مولوی صاحب کی موجودگی میں حافظ امام الدین صاحب ساکن قلعہ دیدارسنگھ (گوجرانوالہ) نے حضرت اقدس کی بیعت کی.حافظ صاحب پہلے حنفی تھے.پھر وہابی اور پھر چکڑالوی ہو گئے تھے.انہوں نے حضور کی خدمت میں تبدیلی مذہب کی ساری سرگذشت عرض کی اور دریافت کیا.آیا میں نے اہلِ قرآن ہونے کی حالت میں جو نمازیں مولوی عبداللہ چکڑالوی بقیہ حاشیہ: - اخبارات میں شائع ہوئی تو ہم نے ۱۸۹۷ء میں بیعت کے خطوط لکھ دیئے.پھر تو مولانا راجیکی صاحب نے تعلیم سے بالکل توجہ ہٹالی اور صرف حضرت صاحب کی کتب پڑھتے.اس لئے ہم نے ان کا نام صوفی رکھ دیا.حضرت مولانا امام الدین صاحب نے یہ بیانات اتنی اور تر اسی سال کی عمر میں دیئے ہیں.آپ کی ولادت کا سال ۱۸۵۱ ء ہے.بہ تقاضائے ضعف پیری ضعف حافظہ کے آثار بیانات میں موجود ہیں.ذیل میں اس کی چندا مثلہ درج کرتا ہوں.بیان دوم خطوط وحدانی میں تحریر کیا ہے:.(۱) ظہر کی نماز ہو چکی تھی.نماز عصر میں نے باجماعت پڑھی.( ظہر کی نماز کے بعد میں قادیان پہنچا.حضرت اقدس نماز ظہر پڑھ کر اندرون خانہ جاچکے تھے.ہاں میں نے نماز ظہر کی یا عصر کی مقتدی ہوکر پڑھی.) (۲) نماز غالباً مولوی قطب الدین صاحب نے پڑھائی.(نماز غالبا مولوی قطب الدین صاحب یا حکیم فضل دین صاحب نے پڑھائی).(۳) احمدی ہرکارہ نے حضرت اقدس کی کتاب دی.اس کا نام یاد نہیں.(۴) حضور سے غالبا دفتر محاسب کے قریب پہلی ملاقات ہوئی.(۵) حضور نے رسالہ نور القرآن دلایا.( غالبًا رسالہ نور القرآن دلایا.) (1) بعد طویل استخاره رویا میں حضرت اقدس (یا فرشتہ ) کے منہ سے آواز آئی.(۷) غائبا ۱۸۹۵ء میں میں نے بیعت کی.( ۹۷-۱۸۹۶ء میں میں پہلی بار قادیان گیا.غالبًا ان دنوں لیکھرام قتل ہو چکا تھا.اس کے بعد قریباً چار ماہ استخارہ کر کے غالباً آغاز ۱۸۹۷ء میں ایک رؤیا دیکھی جس کے بعد بیعت کی.)
کے پیچھے ادا کی ہیں ضائع ہو گئیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہماری بیعت سے ان نمازوں کی قبولیت کا سرٹیفکیٹ مل گیا ہے.رضائے الہی کے لئے بہ اخلاص نمازوں کی ادائیگی کے باعث ہی آپ کو بیعت کی توفیق ملی ہے.پہلے جو کچھ کی با غلطی رہ گئی تھی وہ ہماری تعلیم پر عمل کرنے سے دور ہو جائیگی اور بیعت سے قبل کے رضائے الہی کے لئے کئے ہوئے عمل سے بچے مذہب کو بقیہ حاشیہ: محترم قاضی اکمل صاحب کے بیانات بعض اہم اجزاء میں حضرت مولوی صاحب کے بیانات سے مختلف ہیں.بعض امثلہ درج ہیں.جن میں قاضی صاحب کا بیان وحدانی میں درج کیا ہے :- (۱) ۱۸۹۶-۹۷ء میں (غالبا ۱۸۹۴ء میں پہلی بار زیارت قادیان ہوئی).مکرم وینیس صاحب کا بیان حضرت مولوی صاحب کی تائید کرتا ہے.(۲) چا زاد بھائی کے لڑکے سے حضرت مرزا صاحب کے متعلق باتیں معلوم ہوئیں دوسری بار اس سے حضرت اقدس کی کوئی کتاب ملی.ایک احمدی ہر کارہ نے بھی حضور کی کوئی کتاب ایک ماہ کے لئے دی.اس سے حضور کے علم و فضل اور اعلیٰ مناظر ہونے کا علم ہوا اور ایک بزرگ نے میرے منہ سے نامناسب کلمہ سُن کر حضرت کے حق میں ایسا کلمہ کہنے سے روکا اور کہا کہ تباہ ہو جاؤ گے.اس سے میں ڈرا اور حضور کی ملاقات کا شوق پیدا ہوا.( بٹالہ سے قادیان کا پتہ لگا ).مکرم و منیس صاحب کا بیان حضرت مولوی صاحب کی تائید کرتا ہے.(۳) پیر صاحب بٹالہ سے اجازت لے کر قادیان پہنچا.( پیر صاحب سے مرزا صاحب کا ذکر سُن کر والد صاحب چُپ چاپ قادیان پہنچے.) مکرم و بنیس صاحب یہ ذکر کرتے ہیں کہ واپس بٹالہ آکر حضرت مولوی صاحب نے پیر صاحب سے قادیان جانے کا ذکر کیا تو وہ سُن کر بہت ناراض ہوئے کہ تم وہاں کیوں گئے اور کہہ کرنمازیں دوبارہ پڑھوائیں.خاکسار مؤلف کے نزدیک حضرت مولوی صاحب یہ نہیں بول سکتے تھے کہ وہ پیر صاحب سے اجازت لے کر آئے تھے یا نہیں.یہاں مکرم وینیس صاحب کو سہو ہوا ہے اور واقعہ یوں معلوم
قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دیتا ہے.جیسا کہ حدیث شریف میں اسلمت بما اسلفت ۵ آتا ہے.ایک دفعہ آپ قادیان آئے تو شرمیلا پن کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ بزرگانِ سلسلہ حضور بقیہ حاشیہ ہوتا ہے کہ پیر صاحب نے قادیان جانے کی اجازت دی تھی.جیسا کہ حضرت مولوی صاحب کا بیان ہے.پیر صاحب سمجھتے تھے کہ یہ مولوی ہیں اور میرے پکے معتقد ہیں اور حضرت مرزا صاحب کو نہیں مانیں گے.لیکن پیر صاحب یہ سُن کر جل گئے کہ مولوی صاحب نے قادیان میں ایک احمدی امام کی اقتداء میں نماز ادا کر لی ہے اور ان کو خطرہ پیدا ہوا کہ احمدیت کی طرف مولوی صاحب مائل نہ جائیں.چنانچہ مولوی امام الدین صاحب کے ایک بیان میں یہ مذکور ہے کہ میں نے اس خیال سے نماز دہرالی کہ میری نماز نہیں ہوئی اور دوسرے بیان میں کہتے ہیں کہ بحکم علمائے وقت میری نماز نہیں ہوئی.اس لئے قادیان سے باہر آ کر نماز دہرالی.یہ امر پوشیدہ نہیں کہ آپ جیسے عالم کو علمائے وقت کے فتویٰ کا پہلے ہی علم ہوگا.دراصل بٹالہ آکر ہی انہوں نے پیر صاحب کے کہنے پر اور علماء کے فتویٰ کا ذکر کرنے پر نماز دہرائی ہوگی.آپ کے بیان میں یہ ذکر ہے کہ سوائے استخارہ کی بات کے باقی سارے امور میں نے پیر صاحب کو سنادیئے تھے.گویا نماز پڑھنے والی بات بھی سنائی ہو گی.خلاصہ یہ کہ مکرم و بنیس صاحب کے بیان میں خفیف سا سہو ہے.جو نا قابل توجہ ہے.واضح انکشاف بذریعہ رویا ہوا جس میں حضرت اقدس یا فرشتہ سے یہ آواز سنی کہ جس نے آنا تھا آ گیا.اس پر زور اور مؤثر آواز کی تاثیر دل نشین ہوگئی اور شک وو ہم کی ساری تاریکی دور ہوگئی لیکن پھر مخالفانہ کتاب کے مطالعہ نے دل پر اثر کیا اور دوستوں اور شاگردوں کی رؤیا نے میرے یقین کو ترقی دی.مولوی راجیکی صاحب نے بتایا کہ میں نے گیارہ بار آنحضرت صلعم سے حضرت مرزا صاحب کی صداقت سنی ہے ایسے دوستوں کی ایسی رویائے صادقہ نے میرے یقین کی امداد فرمائی تو میں نے بیعت کر لی.باوجود حضرت مولوی صاحب کے اس اقرار کے قاضی صاحب مولانا راجیکی صاحب کی بیعت حضرت مولوی صاحب کی بیعت سے تین سال
۱۲ کے ارد گرد ہوتے تھے.آپ کو دو تین دن تک حضرت اقدس سے شرف ملاقات حاصل نہ ہو سکا.چنانچہ آپ نے حضور کی خدمت میں اس بارہ میں رقعہ بھیجا.حضور مسجد مبارک میں تشریف لائے.تو آپ کو دیکھتے ہی فرمایا کیوں جی! آپ اتنے دنوں سے آئے ہوئے ہیں اور ابھی تک ملے نہیں.مولوی صاحب نے اس کی وجہ جو رقعہ میں لکھی تھی دُہرا دی.فرمایا خواہ کوئی بھی ہو آپ میرے پاس آ کر بیٹھا کریں.چنانچہ ان بزرگوں نے بھی یہ بات سُن لی اور آپ کو بھی بقیہ حاشیہ: - بعد کی بتاتے ہیں.مولانا راجیکی صاحب اپنی بیعت ۱۸۹۷ء کی بیان کرتے ہیں اور مکرم و فیس صاحب کے بیان سے اس کی تصدیق ہوتی ہے.اور مولا نا امام الدین صاحب نے مولانا راجیکی صاحب کی بیعت اپنی بیعت کے بعد ہونے کے متعلق اپنے بیانات میں کچھ نہیں کہا.بلکہ یہی تاثر دیا ہے کہ مولا نارا جیکی صاحب کو حضور کی صداقت کا پہلے ہی یقین تھا.محترم قاضی اکمل صاحب کے اپنے بیانات اہم امور میں آپس میں اختلاف رکھتے ہیں.مثلاً ( بیان دوم کا ذکر خطوط وحدانی میں کیا گیا ہے ):- (1) والد صاحب کی پہلی زیارت غالباً ۱۸۹۴ء میں ہوئی.( پہلی زیارت کے موقع پر والد صاحب کو غالبا ر سالہ نور القرآن ملا جس کے دونوں حصے ۱۸۹۵ء کی تصنیف ہیں.مولف ) (۲) پہلی زیارت کے موقع پر والد صاحب کو کتاب شہادۃ القرآن ملی.( غالبًا رسالہ نور القرآن ملا.(۳) والد صاحب بیعت کر کے رسالہ نور القرآن ساتھ لائے ( پہلی زیارت کے موقع پر والد صاحب غالبا نور القرآن لائے.جس کے بعد استخارہ کر کے بیعت کی.) (۴) مولانا امام الدین صاحب کے بیان کے مطابق ان سے پہلے مولانا راجیکی صاحب صداقت حضرت اقدس کے قائل ہو چکے تھے.بلکہ مولا ناراجیکی صاحب کی رؤیا ان کو یقین پیدا کرانے میں ان کی ممد ہوئیں.لیکن قاضی اکمل صاحب اس کی تردید کرتے ہیں.مزید کچھ بیان کرنے سے قبل میں چند امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں :- اول :- الرجنوری ۱۸۹۷ء کے خط سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس وقت حضرت مولوی امام الدین صاحب
۱۳ جرأت ہو گئی.حضور مسجد میں تشریف فرما ہوتے تو آپ عموماً حضور کے پاس بیٹھ جاتے اور حضور کا جسم مبارک دبانے لگتے.مولانا راجیکی صاحب قادیان میں تھے کہ ایک احمدی دوست کا افریقہ سے خط آیا کہ اس علاقہ میں سانپ بہت زیادہ ہیں کیا کیا جائے.حضرت اقدس نے جوا با فرمایا کہ آخری تین قل رات کے وقت پڑھ کر جسم پر پھونک لئے جائیں.بقیہ حاشیہ: - بیعت کر چکے تھے.حسن اعتقاد والا بھی ایسا خط لکھ سکتا ہے.دیگر قرائن قویہ صادقہ ہی خط کے متعلق فیصلہ کر سکتے ہیں.دوم : - مولانا امام الدین صاحب کا ایک بیان یہ ہے کہ وہ عُرس پر بٹالہ آئے اور وہاں سے پہلی بار قادیان آئے اور ایک یہ بیان ہے کہ ہمشیرہ صاحبہ سے امرتسر کسی تقریب پر ملنے آئے تو وہاں سے بٹالہ پیر صاحب کو ملنے آئے اور وہاں سے پہلی بار قادیان آئے.ان ہر دو بیانات میں کوئی اختلاف نہیں.اس ایک ہی سفر میں امرتسر کی ملاقات اور بٹالہ کا عرس دونوں مد نظر رکھے گئے ہوں گے.سوم :- حضرت مولانا امام الدین صاحب کے ایک شاگر دمکرم مولوی غلام رسول صاحب و نیس کا بیان ۳۵-۴-۲۱ کے الحکم میں درج کرتے ہوئے مکرم ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں :- باوجود کافی عمر کے آپ ابھی جوان معلوم ہوتے ہیں.اور چہرے پر ابھی تک جوانی کی لہر دوڑتی ہے.“ گویا آپ کا بیان ضعف پیری کے آثار سے مبرا ہے.حضرت مولوی امام الدین صاحب کا بیان ۱۹۳۱ء والا صرف چار سال قبل کا ہے.اور دوسرا بیان الحکم ۳۴-۶-۷ میں صرف دس ماہ قبل کا ہے.استاد و شاگرد کی عمر میں کافی فرق ہے.نیز مکرم و منیس صاحب کا بیان پڑھنے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ تمام واقعات اور تاریخیں پورے وثوق سے انہوں نے بیان کی ہیں اور ان کے بیان کے کئی اجزاء مکرم مولا نا امام الدین صاحب کے بیانات سے متفق ہیں.مولا نا امام الدین صاحب اور قاضی اکمل صاحب کے بیانات کا حال وہ ہے جو مذکور ہوا.خصوصآًمولانا صاحب کا حضرت اقدس سے اولین ملاقات کے متعلق بھی شک میں پڑنا کہ کس
۱۴ ایک دفعہ آپ اپنے گاؤں میں سارا ماہِ رمضان معتکف رہے.جس میں آپ کو بار بار مکاشفات ہوئے.اعتکاف میں آپ نے ایک عربی قصیدہ لکھا.جو ۱۹۰۵ء میں حضور کی خدمت میں بموجودگی حضرت مولوی نورالدین صاحب ( خلیفہ اوّل ) و حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سنایا.حضور نے سُن کر فرمایا کہ یہ قصیدہ کوئی دوسوشعر کا ہوگا.عرض کیا کہ حضور تین سو ☆ 9966 اشعار کا ہے اس قصیدہ کا ذکر الحکم مورخہ ۷ ارنومبر ۱۹۰۵ء میں ” کلمات طیبات ۳۰ ستمبر ۱۹۰۵ء قبل دو پہر میں یوں مرقوم ہے ”مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے اپنا بے نقطہ عربی قصیدہ 66 سنایا.(مؤلف) بقیہ حاشیہ: - مقام پر ہوئی.کس نے نماز پڑھائی اور کونسی کتاب حضور نے دلائی.حالانکہ زندگی میں جن امور سے انقلاب رونما ہو.ان کا بھول جانا سہل نہیں ہوتا.لیکن اسی اور تر اسی سال کی عمر میں ایسا ہو جانا ایک طبعی امر ہے.سو ہمیں آپ کے بیانات میں ایسے اجزاء کی جستجو ہوگی کہ جونسیان کے اثر سے پاک ہوں اور دیگر بیانات اور قرائن بھی اُن کے مصدق ہوں.سو ایسے اجزاء چار ہیں :- ۱ - آپ بٹالہ عرس پرا اور بیع الثانی کو آئے.اور وہاں سے قادیان پہلی بار آئے.۲- اس پہلی زیارت قادیان کے وقت غالبا لیکھر ام قتل ہو چکا تھا.پہلی ملاقات میں حضرت اقدس نے استخارہ کی تلقین کی.۴.واپس جا کر آپ نے قریباً چار ماہ استخارہ کیا اور رؤیا ہوئی.جس کے بعد مولانا راجیکی صاحب وغیرہ کی رویائے صالحہ سے پر یقین ہوکر بیعت کی.عرس پر آنا اور اس کی معین تاریخ اور پھر وہاں سے قادیان آنا اور حضور کا استخارہ کی تلقین فرمانا اور قریباً چار ماہ مولانا صاحب کا استخارہ کرنا اور رویا ہونا پھر احباب اور شاگردوں کی رؤیا سے یقین حاصل ہونا ایسے امور میں ضعف حافظہ کا اثر نہیں ہوتا.جیسا کہ مکرم وینیس صاحب نے بیان کیا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کے حلقہ میں لیکھرام کے متعلق اخبارات میں مضامین و اخبار کا علم تھا.علاوہ ازیں لیکھرام کے متعلق پیشگوئی کا پورا ہونا مسلم اور ہندو ہر دو اقوام کے لئے
۱۵ ایک دفعہ آپ نے ایک تائیہ قصیدہ جو ایک سو تینتیس (۱۳۳) اشعار کا تھا.مسجد مبارک میں حضور کی خدمت میں سنایا.جس کا ایک شعر حضور نے بہت ہی پسند فرمایا اور دوبارہ پڑھنے کی فرمالیش کی.وہ شعر یہ تھا:- اتؤيّدون بـحـمـقـكـم دجالـكـم بحیات عیسیٰ سیدالا مواتِ بقیہ حاشیہ: - ایک سنگِ میل کا حکم رکھتا ہے.تریسٹھ سال گذرنے پر بھی ہندو قوم پر اس نشان کی اہمیت کا گہرا اثر ہے اور وہ ہر سال سوگ مناتے ہیں اور اُسے بھلا نہیں سکے.بہر حال مولا نا امام الدین صاحب اس نشان کے پورا ہونے کا قرب نہیں بھول سکتے تھے.گو ممکن ہے یہ امر بھول گئے ہوں کہ یہ نشان اس وقت پورا ہو چکا تھا.جب آپ پہلی بار قادیان آئے یا جلد بعد پورا ہوا.آپ کا کہنا کہ غالباً لیکھرام قتل ہو چکا تھا اس نتیجہ کی طرف میری راہنمائی کرتا ہے.سونتیجہ یہ نکلا کہ:- (۱) لیکھرام کے قتل کے سال ۱۸۹۷ء میں ار ربیع الثانی کو (جو مطابق جنتری ۹ر ستمبر ہے ) آپ پہلی بار قادیان آئے.گویا 9 / یا استمبر کو قادیان آئے ہوں گے.( کیونکہ ا ر کو جمعہ تھا اور آپ کے بیانات میں ظہر کی نماز ہو چکنے کا ذکر ہے اور بظاہر یہ بھی ممکن نہیں کہ عرس پر آئے ہوں اور وہاں جمعہ ترک کر کے قادیان آگئے ہوں جہاں احمدیوں کے ساتھ نماز علمائے وقت کے نزدیک اور خود پیر صاحب بٹالہ کے نزدیک جائز نہ تھی اور نہ ہی پیر صاحب جمعہ ترک کر کے قادیان جانے کی اجازت دے سکتے تھے ) (۲) وطن واپس جا کر آپ نے قریباً چار ماہ استخارہ کیا.گویا ۱۰ یا ۱۲ ستمبر کو آپ وطن واپس پہنچے تو انداز ۱۲۴ جنوری ۱۸۹۸ء تک آپ نے استخارہ کیا.(۳) گو قریباً چار ماہ بعد جو رویا ہوئی اور اس سے شکوک رفع ہوئے لیکن مخالف کی کتاب نے دل پر اثر کیا.بہر حال اس رؤیا کے بعد گویا ۱۲ جنوری ۱۸۹۸ء کے بعد آپ نے بیعت کی لیکن رؤیا کے کتنے عرصہ کے بعد اس کا کہیں ذکر نہیں.مکرم مولوی غلام رسول صاحب نے جو قتل لیکھرام کے بعد ۱۸۹۷ء میں بیعت کا ذکر کیا ہے.وہاں حضرت مولانا امام الدین صاحب کا
۱۶ یہ موسم گرما تھا چند دن کے قیام کے بعد آپ اور آپ کے ساتھی قادیان سے جانے لگے.اور ارادہ کیا کہ رات ہی بٹالہ پہنچ کر صبح کی گاڑی سے روانہ ہوں.چنانچہ حضور کی خدمت میں اجازت لینے کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت مولوی صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا.”آپ کبھی کبھی ملا کریں.اور سب کو شرف مصافحہ عطا کر کے فرمایا اچھا خدا حافظ قادیان سے بٹالہ تک پانچ دفعہ سانپ ملے.ایک تو حضرت مولوی صاحب کے پاؤں کے اوپر بھی چڑھ گیا لیکن خدا حافظ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا.ایک دفعہ آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں مسجد مبارک میں مغرب کی نماز کے بعد اپنا ایک قصیدہ بائیہ سنایا.اگلے روز حضور نے آپ کو یاد فرمایا لیکن مولوی صاحب کہیں گئے ہوئے تھے.تیسری بار جب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد خلیفہ ثانی) مولوی صاحب کو بلانے کے بقیہ حاشیہ: ذکر نہیں بلکہ مکرم قاضی اکمل صاحب، مکرم مولانا راجیکی صاحب اور اپنا ذکر ہے.حقائق بالا سے یہ امر ثابت ہے کہ حضرت مولانا امام الدین صاحب کو استخارہ کے بعد رؤیا جنوری ۱۸۹۸ء کے قریب ہوئی.آپ کا بیان ہے کہ اس سے میرے شکوک رفع ہو گئے لیکن پھر مخالفانہ کتاب کے مطالعہ نے دل پر اثر کیا اور اکثر دوستوں اور شاگردوں کے رویا نے یقین کوترقی دی.مولانا راجیکی صاحب نے بتایا کہ میں نے گیارہ دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مرزا صاحب کی صداقت سنی ہے ایسے بہت سے دوستوں نے ایسے ہی رویائے صادقہ سے میرے یقین کی امداد فرمائی.ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ دفعہ ملاقات مولا نا راجیکی صاحب کو ایک طویل عرصہ میں ہوئی ہوگی.اس لئے مولانا راجیکی صاحب کا یہ بیان کہ حضرت مولا نا امام الدین صاحب نے ۱۸۹۹ء میں بیعت کی خودمولا نا امام الدین صاحب کے بیانات کے اجزا سے ہی بپایہ ثبوت پہنچتا ہے اور دیگر احباب کے بیانات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے.واللہ اعلم بالصواب.آخر پر پھر میں عرض کرتا ہوں کہ میری غرض کسی بزرگ کی تنقیص نہیں.صرف ایک تاریخی امر کے متعلق اپنی رائے ظاہر کی ہے.(مؤلف)
۱۷ لئے گئے تو مولوی صاحب حاضر ہوئے.حضور نے دیکھتے ہی فرمایا کہ کیا آپ کے پاس میری کتاب ”مواہب الرحمن“ ہے.عرض کیا.حضور نہیں.تو حضور نے عنایت فرمائی.پھر پوچھا.کیا آپ کے پاس اعجاز احمدی ہے.عرض کرنے پر کہ نہیں.حضور نے یہ بھی عنایت فرمائی.پھر پوچھا کیا آپ کے پاس «نسیم دعوت ہے.عرض کرنے پر کہ نہیں.حضور نے یہ بھی عنایت کی اور ساتھ ہی فرمایا کہ یہ کتابیں میں نے اپنے لئے جلد کروائی تھیں.مگر اب آپ اپنے پاس رکھیں اور مطالعہ کریں اور دیگر کتب کے متعلق بھی کہہ دیتا ہوں کہ وہ بھی آپ کو مل جائیں گی.چنانچہ حضور کے ارشاد پر وہ بھی مولوی صاحب کو مل گئیں.ایک پنجابی نظم ” جھوک مہدی والی میں آپ نے حضرت اقدس کی صداقت کے دلائل اور اپنے جذبات عقیدت منظوم کئے تھے.یہ نظم اتنی مقبول ہوئی کہ بیسیوں دفعہ طبع ہوئی.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں تشریف فرما تھے تو حضور کی خدمت میں مولوی صاحب کے برادر نسبتی میاں عبداللہ خان صاحب نے پڑھ کر سنائی.حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اُسے سن کر پسند فرمایا.جن دنوں حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید قادیان آئے.ان ایام میں حضرت مولوی صاحب بھی قادیان میں تھے.جس کمرہ میں مولوی صاحب مقیم تھے اسی میں حضرت شہید مرحوم کا قیام رہا.سفر جہلم پر مولوی صاحب کو بھی ساتھ جانے کا موقع ملا.حضرت شہید مرحوم کی واپس روانگی کے وقت کے متعلق حضرت مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو بٹالہ کی سڑک کے موڑ تک الوداع کہنے کے لئے تشریف لے گئے.مرحوم اس ملاقات کو آخری ملاقات سمجھتے ہوئے بے اختیار حضور کے قدموں پر گر پڑے اور حضور نے کمال شفقت اور محبت سے آپ کو اٹھایا اور تسلی آمیز کلمات فرمائے.بنیاد منارة امسیح کے تعلق میں جب حضرت اقدس نے دعا فرمائی اس میں بھی حضرت مولوی صاحب کو شرکت کا موقع ملا تھا.۱۹۰۴ء میں حضرت اقدس سیالکوٹ تشریف لے گئے تو ضلع گجرات سے چند اشخاص
۱۸ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.معلوم ہوا کہ زائرین کی خاطر مسجد سے ملحقہ مکان حضرت میر حسام الدین صاحب کے برآمدہ کی چھت پر حضور تشریف لائیں گے.یہ دوست وہاں پہنچے تو منتظمین لوگوں کے اثر دھام کی وجہ سے دروازہ بند کر چکے تھے.جس سے پریشانی ہوئی.مولوی صاحب نے برآمدہ کے ایک طرف کی دیوار دیکھی تو وہ بہت اونچی تھی.آپ نے کہا کہ اب تو جذ بہ عشق کی پرواز ہی کام دے سکتی ہے.چنانچہ آپ جست لگا کر دیوار پر چڑھ گئے جہاں بغیر سیڑھی کے چڑھنا ناممکن تھا اور آپ نے محترم چوہدری عبداللہ خاں صاحب بہلول پوری کو بھی کپڑا لٹکا کر اوپر کھینچ لیا.اندر جہاں حضور نے تقریر کے لئے کھڑا ہونا تھا وہاں اپنی لوئی بچھا دی.اس طرح آپ کی لوئی بھی متبرک ہو گئی.اسی سفر سیالکوٹ میں حضور کی تقریر سے ایک روز قبل ابھی کھانے کی تیاری میں کافی وقت تھا منتظمین نے چاہا کہ کوئی عالم تقریر کریں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کو کہا گیا.آپ نے سورہ فاتحہ کے معارف بیان کئے.تقریر کے بعد حضرت مولانا نورالدین صاحب نے خوش ہوکر فرمایا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ نورالدین دنیا میں ایک ہی ہے.مگر اب معلوم ہوا ہے کہ ہمارے مرزا نے تو کئی نورالدین پیدا کر دیئے ہیں.مہر غلام محمد صاحب ساکن سعد اللہ پور ( گجرات ) کے سر اور رخسار کی رگوں پر عرصہ سے ایک بیماری کی وجہ سے ٹیس اٹھنے سے سخت تکلیف ہوتی تھی اور کافی علاج کے باوجود فائدہ نہیں ہوا تھا.حضرت مولانا راجیکی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے مہر صاحب کو ایک عریضہ لکھدیا.جس کے آخر پر کچھ شعر لکھ دیئے جن میں ایک شعر یہ تھا :- نام غلام محمد میرا میں تیریاں وچ غلاماں بھر کے نظر کرم دی میں ول تکیں پاک اماماں ( یعنی میں غلام محمد آپ کا غلام ہوں.اے پاک امام ! آپ میری طرف نگاہ کرم فرما ئیں ) حضور نے عند الملاقات یہ عریضہ پڑھ کر مولا نا راجیکی صاحب سے دریافت کیا کہ کیا یہ شعر آپ نے لکھے ہیں؟ عرض کیا کہ ہاں حضور میں نے ہی لکھے ہیں.پھر حضور نے مہر صاحب
۱۹ کی طرف دیکھا تو اُن کی یہ بیماری اسی وقت دُور ہوگئی.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں بارہا حاضر ہونے کا موقع ملتا رہا.آپ بیان کرتے ہیں کہ ان بابرکت ایام میں نمازوں میں نمازیوں کے خشوع و خضوع ، رقت قلب اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ گڑ گڑانے اور آہ و بکا کرنے کا شور مسجد مبارک میں بلند ہوتا تھا.دُعا کرنے پر جواب بھی فورا مل جاتا.خواہ رات کو رؤیا کے ذریعہ یا کشفی طور پر بیابذریعہ الہام.آپ کی اہلی زندگی آپ کو کئی رشتے پیش ہوتے رہے لیکن استخارہ سے وہ مناسب حال معلوم نہ ہوئے اور نتیجةً بعد میں ان کے بے برکت ہونے کا یقینی علم بھی حاصل ہو گیا.ایک دفعہ آپ ایک دوست کے ساتھ موضع حافظ آباد پہنچے.حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم کے صاحبزادہ مکرم حکیم محمد حیات صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کے لئے دعا کرنے کی تحریک کی جو عرق النساء سے علیل تھیں اور بہت تکلیف میں تھیں.آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور قرآن کریم کی سورتوں سے دم بھی کیا جس سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو شفا ہوگئی.رات حکیم صاحب نے خواب دیکھا کہ اُن کے گھر میں اچانک ایک بہت بڑا چراغ روشن ہوا ہے جس کے متعلق ایک فرشتہ نے بتایا کہ یہ چراغ مولوی غلام رسول صاحب ہیں جو تمہارے گھر آئے ہیں.چنانچہ حکیم صاحب نے اپنی چھوٹی ہمشیرہ محترمہ عزیز بخت صاحبہ کا رشتہ باصرار پیش کیا.جو بعد استخارہ مولوی صاحب نے قبول کر لیا.یہ عجیب توارد ہے کہ حضرت مولانا راجیکی صاحب کی ولادت کے تعلق میں آپ کی والدہ ماجدہ نے بھی یہ خواب دیکھا تھا کہ گھر میں ایک ایسا چراغ روشن ہوا ہے کہ جس کی روشنی سے سارا گھر جگمگا اٹھا ہے.حضرت مولوی جلال الدین صاحب آپ کے رشتہ سے قبل وفات پاچکے تھے.براہین احمدیہ کی خریداری میں انہوں نے حصہ لیا تھا اور آپ کا نام خریداروں میں درج ہے.اس وقت آپ مظفر گڑھ میں ملازم تھے.حضور نے آپ کو اپنی برات میں شامل ہونے کی دعوت بھی دی تھی
لیکن کسی معذوری کی وجہ سے آپ شامل نہ ہو سکے اور دہلی نہ جاسکے.حضور کے دعوئی سے قبل آپ نے بیعت کے لئے عرض کیا تھا اور دعوئی کے بعد بیعت کی اور نہایت مخلصین میں سے ثابت ہوئے.آپ کھو کھر قوم کے زمیندار تھے اور دوصدا یکڑ اراضی کے مالک تھے.عربی اور فارسی علوم اور فن طبابت میں مہارت رکھتے تھے.اور ذاتی وجاہت اور حسنِ اخلاق کے مالک تھے.والدین کی اطاعت اور اقربا پروری کے جذبہ سے آپ سرشار تھے.چنانچہ آپ نے اپنی زرخرید جائیداد میں بھی اپنے تینوں بھائیوں کو شریک کیا.ہمدردی مخلوق کے خیال سے ایک رئیس زمیندار کے علاج کے معاوضہ میں پچپیس ایکڑ اراضی لینے کی بجائے اس سے سانپ کاٹے کے علاج کا ایک مجرب نسخہ لے لیا اور اپنے ذاتی فائدہ پر مخلوق کی خدمت کو ترجیح دی.آپ کی نظر موتیا سے بند ہوگئی تو آپ کی درخواست پر حضرت اقدس نے دعا فرمائی اور مطلع کیا کہ دوسرے دو ایسے احباب کے متعلق دعا قبول ہو گئی ہے لیکن آپ کے حق میں قبول نہیں ہوئی اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”جس شخص کی دونوں آنکھوں کی بینائی کھو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کا وارث بناتا ہے.اگر چہ آپ کے بعض احباب واقارب نے کئی دفعہ اپریشن کرانے کے لئے کہا لیکن حضرت مولوی صاحب نے حضور کے ارشاد اور منشائے ایزدی کی تعظیم کی خاطر علاج نہیں کرایا اور نہایت صبر واستقلال سے تکلیف برداشت کی.حضرت مولانا راجیکی صاحب کے ہاں دس بچے پیدا ہوئے جن میں سے ذیل کے جوانی کو پہنچے:.اقبال احمد صاحب ، صفیہ بیگم صاحبہ، مولوی مصلح الدین احمد صاحب (مدفون بہشتی مقبرہ) ربوہ.زینب قدسیہ صاحبہ، مولوی برکات احمد صاحب بی-اے ( ناظر امور عامه و خارجیہ، قادیان ) میاں مبشر احمد صاحب اور عزیز احمد صاحب.حضرت خلیفہ اول کی نوازشات حضرت اقدس کے عہد میں جب بھی مولوی صاحب قادیان آتے تو حضرت
مولا نا نور الدین صاحب آپ کو طب پڑھنے کی ترغیب دلاتے اور فرماتے کہ آپ ذہین ہیں.آپ کو جلد پڑھا دوں گا لیکن مولوی صاحب اس کی طرف رجحان نہیں پاتے کئی سال بعد ۱۹۰۸ء میں حضرت مولانا نورالدین صاحب ایک طب کی کتاب مہمان خانہ میں لائے اور فرمایا کہ اب تو میں پڑھا کر ہی چھوڑوں گا.اس پر مولوی صاحب نے سبقاً طب احسانی، میزان الطب حضرت مولوی صاحب سے پڑھیں.جس سے شوق پیدا ہو گیا.اس دفعہ نصف سال سے زیادہ حضرت را جیکی صاحب کو قادیان میں قیام کا موقع ملا.پھر طب کا شوق پیدا ہو جانے کے باعث آپ نے اپنے طور پر بیسیوں کتب پڑھیں بلکہ علم جفر، علم کیمیا، تفاسیر، احادیث، فقہ اور تصوف کے متعلق بھی ہزار ہا کتب آپ نے مطالعہ کیں اور ان کے متعلق مسائل آپ پر کھل گئے.ایک دفعہ ایک سفر میں ایک دوست نے ایک نہایت خوبصورت عصا تحفہ دیا.حضرت خلیفہ اول نے بوقت ملاقات تین دفعہ دریافت کیا.کیا یہ آپ کا ہے.مولوی صاحب نے بطور تحفہ پیش کر دیا.حضرت خلیفہ اول نے از راہ کرم قبول کر کے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے عوض میں موسیٰ کا عصا عطا فرمائے.حضرت خلیفہ اول نے آپ کو لاہور میں مقرر فرمایا.آپ نے حضور کی اجازت سے استخارہ کیا تو دیکھا کہ آپ لاہور گئے ہیں اور جماعت کی خدمت میں مصروف ہیں.اچانک خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے بھائی خواجہ جمال الدین صاحب نے جماعت کی دعوت کی.معلوم ہوا کہ عبداللہ نام ایک بزرگ بھائی کا گوشت پکایا ہے.مولوی صاحب نے یہ کہہ کر کھانے سے انکار کر دیا کہ انسان کا گوشت کھانا حرام ہے.چنانچہ اور بھی بہت سے لوگوں نے انکار کر دیا.اس رویا پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ اسی لئے تو ہم آپ کو لاہور بھیج رہے ہیں.چنانچہ وہاں چند دنوں بعد صدرانجمن کے لاہوری ممبروں نے مولا نا صاحب کو علیحدگی میں کہا کہ الوصیت میں کہاں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد صدرانجمن کے علاوہ بھی کوئی
۲۲ جانشین ہو گا.ان ایام میں اس فتنہ کی شدت کا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کے مولوی صاحب کے نام مکتوب مرقومہ تمبر ۱۹۱۳ ء کی ذیل کی عبارت سے بھی علم ہوتا ہے:.میں آپ کے لئے بہت دعا کرتا ہوں اور ایک عرصہ سے برابر کر رہا ہوں بلا ناغہ اور لاہوری فتنہ بیدار ہورہا ہے اور آگے سے بہت سختی سے.گویا کوشش کی جاتی ہے کہ اس کام کو ملیا میٹ کر دیا جائے جو حضرت صاحب نے شروع کیا تھا.آہ.آہ.آہ.اللہ تعالیٰ ہی رحم کرے اور فضل کرے.اب کہ جماعت کا کثیر حصہ ان کے ساتھ ہے میری نسبت طرح طرح کی افواہیں مشہور کی جاتی ہیں.پیغام صلح نے الفصل پر اعتراض بھی کرنے شروع کر دیئے ہیں.خلیفہ امسیح کے حکم سے ان سے جواب بھی مانگا ہے.مداہنت اور ملمع سازی کو کام میں لایا جاتا ہے.خدا تعالیٰ رحم کرے.میں ایک کمزور انسان ہوں.اس قدر فساد کا روکنا میرے اختیار سے باہر ہے.خدا کا ہی فضل ہوتو فتنہ دور ہو.یہ وقت ہے کہ جماعت کے مخلص دعاؤں سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے طالب ہوں.“ تائید خلافت ثانیه حضرت خلیفہ اول کے وصال کے وقت حضرت مولوی صاحب شدید علیل تھے.بعد میں اپنے سسرال چلے گئے.غیر مبایعین کی لاہور میں سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں اور مولوی محمد علی صاحب بھی قادیان ترک کر کے لاہور پہنچ گئے.ان دنوں ایک بد بخت عبدالمجید نامی نے پیغام صلح میں یہاں تک لکھ دیا کہ (معاذ اللہ ) مولانا راجیکی صاحب مثیل ڈوئی ہیں.اب و ہیں مفلوج ہو کر ختم ہوں گے اور لاہور واپس نہ آسکیں گے.اللہ تعالیٰ نے خلافت کے اس مخالف کو پہلے جذام سے پکڑا.پھر اس پر خان گرا اور وہ دنیا سے کوچ کر گیا.حضرت مولانا صاحب علیل ہی تھے کہ حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کی طرف سے حکم پہنچا کہ
۲۳ آپ لاہور پہنچ کر جماعت کو سنبھالیں.مولوی محمد علی صاحب خیالات فاسدہ سے نقصان پہنچا رہے ہیں.آپ وہاں پہنچے.غیر مبایعین کو معلوم ہوا کہ آپ احمد یہ بلڈنگکس میں جمعہ پڑھانے آئیں گے.چنانچہ ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب نے نوٹس کے طور پر اطلاع دی کہ یہاں کوئی مسجد نہیں بلکہ ہمارا ذاتی مکان ہے.خطبہ و نماز مولوی محمد علی صاحب پڑھائیں گے.آپ کو پڑھانے کی اجازت نہیں.مولانا راجیکی صاحب نے لکھا کہ مجھے خطیب و امام لا ہور میں حضرت خلیفہ اول نے مقرر کیا ہے.چنانچہ مبایعین کے ساتھ وہاں پہنچے.ڈاکٹر صاحب درشت کلامی سے پیش آئے اور کہا کہ یہاں کوئی مسجد نہیں.یہ ہماری جائیداد ہے.ہم اپنے مکان پر کسی کو نماز نہیں پڑھنے دیں گے.چنانچہ ایسی صورت میں کہ غیر مبایعین اس کے مسجد ہونے سے انکاری ہیں.مبایعین کے مشورہ سے مبارک منزل احاطہ حضرت میاں چراغ دین صاحب میں نمازیں ادا ہونے لگیں.چنانچہ حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور حضرت مولانا راجیکی صاحب کی تحریکوں سے یہاں مسجد تعمیر ہوگئی جوقریباً چالیس سال سے ایک مرکز کا کام دے رہی ہے.اور بیشمار دفعہ حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس میں خطبات دیئے ہیں.جنوری ۱۹۱۹ء میں حضرت مولوی صاحب نے رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک او نے سٹیج پر دیکھا کہ آپ کے سامنے مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہیں اور مولانا راجیکی صاحب نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہایت مدلل تقریر کر رہے ہیں.جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت ہی خوش ہو رہے ہیں.پھر ایک رات رؤیا میں دیکھا کہ مولا ناراجیکی صاحب کہتے ہیں کہ آؤ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تعریف قرآن مجید سے دکھاؤں اور پھر یہ الفاظ دکھائے الذين يخالفون الذين لهم ثناء من الله لا يهتدون جس کا مطلب یہ سمجھایا گیا کہ الذين يخالفون کے مصداق مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء ہیں اور الذين لهم ثناء من الله کے مصداق حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ مع خاندان و احباب ہیں اور مولانا راجیکی صاحب رؤیا میں کہتے ہیں کہ لفظ ثناء میں محمود کے الہامی نام کی طرف اشارہ ہے.ہے
۲۴ ایک رؤیا اور آپ کی قادر الکلامی ههتو، آپ نے ابتدائی ایام میں یہ رویا دیکھا تھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں بھرتی ہوئے ہیں.جو ہندوستان پر چڑھائی کرنے والا ہے.چنانچہ یہ عجیب بات ہے کہ آپ کو اعلائے کلمتہ اللہ اور جہاد کبیر کی مہم میں گذشتہ نصف صدی میں کوئٹہ سے لے کر مشرقی بنگال تک، پشاور سے لے کر کراچی تک اور کشمیر سے لے کر مدراس ، مالا بار اور بمبئی تک کے علاقوں میں پیغام حق پہنچانے اور جماعتہائے احمدیہ میں تقاریر اور اس کے ذریعہ تربیت واضافہ علوم کی توفیق ملی.اور پنجاب کا تو شاذ ہی کوئی شہر ہو گا جہاں آپ کو اس تعلق میں بار بار جانے کا موقع نہ ملا ہو اور اس علم سے جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے حاصل ہوا.آپ نے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں مثلاً مدراس، حیدر آباد ، دہلی ، کلکتہ، لاہور، کراچی سہارن پور، کانپور، پشاور، سیالکوٹ، امرتسر، لاہور میں بڑے بڑے علماء کو قرآنی حقائق و معارف عربی زبان میں بیان کرنے میں مقابلہ کے لئے للکارا لیکن اللہ تعالیٰ نے سلسلہ حقہ کا ایسا رعب قائم کیا کہ کوئی بڑے سے بڑا عالم مقابلہ نہ کر سکا اور کسی کو دعوت مبارزت قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی.آپ کا منظوم کلام عربی، اردو، فارسی اور پنجابی چاروں زبانوں میں ہے.حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد کا کہنا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد سلسلہ احمدیہ میں مولا نا راجیکی صاحب کا عربی کلام ایک نمایاں خصوصیت کا حامل ہے.آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عربی قصائد پانچ پانچ صد اشعار تک کے لکھے اور آپ کا یہ منظوم کلام عجیب عجیب صنعتوں میں منصہ شہود پر آیا.آپ نے بعض ایسے قصائد بھی رقم فرمائے جن میں ہر شعر کا پہلا مصرعہ منقوطہ اور دوسرا غیر منقوطہ ہے.اس طرح آپ نے غیر منقوطہ قصائد بھی کہے.آپ کی بعض نظمیں عربی اور فارسی کے مخلوط اشعار مشتمل ہیں.آپ کا بہت سا منظوم کلام البشری (فلسطین) جامعہ احمدیہ الفضل“ اور ” فاروق میں شائع شدہ موجود ہے.نمونہ کے طور پر ، ' آپ کا ایک غیر منقوطہ قصیدہ درج کیا جاتا ہے جو آپ نے دہلی میں غیر احمدی علماء کو چیلنج دیتے ہوئے ۱۹۳۲ء میں شائع کیا تھا.اس قصیدہ کے ساتھ ایک دوسرا قصیدہ اور سیکرٹری صاحب
۲۵ انجمن احمد یہ دہلی کا ٹریکٹ دعوۃ الی الحق بھی شائع ہوا تھا.اس ٹریکٹ میں سیکرٹری صاحب تحریر فرماتے ہیں :- ” ہم نے مناسب سمجھا کہ اپنے مخالف علمائے کرام کو احقاق حق کا موقع دیں جس کے لئے ایک ٹریکٹ میں جو عر بی نظم ونثر میں ہدیہ ناظرین ہے.علمائے کرام کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اگر حقیقی معنوں میں وہی اسلام کے علمبردار ہیں تو بھجوائے آیت کریمہ لَا يَمَسُّهِ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ہمارے علماء حضرت علامہ مولوی غلام رسول صاحب فاضل را جیکی کے پہلو بہ پہلو بیٹھ کر زبان عربی میں تفسیر نویسی میں مقابلہ کریں اور شرط یہ ہوگی کہ صرف قرآن کریم غیر مترجم اور کاغذ سفید کا دستہ اور قلم دوات پاس رکھ کر تفسیر لکھی جائے اور اس کے سوا کوئی کتاب پاس رکھنے کی اجازت نہ ہوتا کہ دنیا دیکھ لے کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف کس پر کھلتے ہیں اور کس کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہے اور ہم محض اللہ تعالیٰ کے خاص فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے قرآن کریم کے کسی رکوع کے انتخاب کا حق بھی ان مخالف علماء کو دیتے ہیں.اب سنجیدہ لوگوں اور ان حضرات سے جو خشیة اللہ رکھتے ہیں.اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مخالف علماء کو اس چیلنج کے قبول کرنے پر آمادہ کریں اور اگر وہ اب بھی آمادہ نہ ہوں تو گواہ رہیں کہ آج ہم دہلی پر اتمام محبت کر چکے.“ یہ ٹریکٹ اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہے جس میں گیارہ صفحات کا حضرت مولوی صاحب کا صداقت احمدیت کے متعلق عربی میں مضمون ہے جس کا اردو میں آٹھ صفحات میں خلاصہ درج کیا گیا ہے.
3 ۲۶ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ القصيدة العجيبة بالصنعة الغريبة الالاح امر الله وعدا مؤكدا له حل موعود وأرسـل مـوعـدا امام همام مصلح و معلّم رسول وما موروداع الى الهدا ولاح لاهل العصر علوسًا مطهما واكرمه المولى علوّ او سُؤددا هو الطوس طوس كامل لامع له لوامع اسلام أراها وحمدا له الدور دور الـسـلـم دوركـمـالـه له العهد عهد العلم ادرى مسهدا وعلمه العلامُ عِلما مرسعـا واطلعه علما على سرماهدی ومص علو ماملهما ومكلّما وكلمه المولى وأوحى وعلهدا هو الكاسر الموعود عدل لحكمه معلم اسرار المسائل للهدا وصار الصمصام الملاحم كاسرا وأعلى هدى الاسلام مما أرى العدا سوى السلم کلّ الملل اهلک کلّها سواطع اعلام أراها موحدا وحد الصوارم لامراء مكلّم وكلم الكلام احسن سلم من مدى واسرع احساسا کلام مدلل وها هو صمصام احدمع الهدى هدى الله للا سلام مرء اله الهدى ومَنْ مَّالَ للاهواء هام مرددا و دور الهدى دور السلام المسلم لعاد لأوعده الاله وهدّدا وعادٍ معاد صار للامركارها ولا ح هدى المولى أهم واوكدا
۲۷ ارى الله اعلام السداد مؤسسا لا کرام مــا مـور هـداه واسـعـدا وما هو الا للعوالم روحها وحل محل الرسل سعد او مسعدا كئوس وداد الله مِنْ مَّا ء سلمه لا عطى وأروى كل صادله الهدى هو السمـع آوای کـل صـاد وارد وواها على لا وصداه له الردى ارى الحرّ للاكرام طأطأ رأسه وكلّ عدوّ حاسد ردّ ماردا ووالاه ودأ كل حر وصالح وعاداه كالوطواط عاد والحدا الا كــل عــال صار محسود عصره وراد له الحساد سوء أ ومرصدا ورام حسود محو امر أراده وها هوو اسی مصلحًا و مسدوا ورد وا وصدوا عمرام لرامه وكدوا ومد واللسراء مكائدا وصادو او كادو اللمصائد كلها وها مواوراموا كل يوم حصائدا رمواكل سهم للسهام وكلمها ارى الحرّ مكلوم الصواكم وموعدا الا كلّ عادٍ ما رد ردّ طالحا وكلّ عدوّ ردّه الله مــــطــــردا ومَنْ مَّسَّه سوء لمولاه مسلما واكرمه المولى و اعلاه سرمدا وواها لا حـرار اطاعوار سولهم وواها على عاد لعاداه ملحدا هداه الاله الى صراط مُحَمّد وارسله المولى لأحمر اسودا واكرامه اکرام طه محمد لما صارا كراما لاحمد اوحدا وكل رسول حامد ومحمد لأغلى لواء الحمد لله احمد ولما محا اهواءه لوداده ارا احمد اسر الوصال مُحَمّدا سلام عـلـى اهل الوداد وسرهم لهم لاح لوح الدهر صرحا ممردا وأمدح محمود الاله مكرما و احمدك اللهم حمدًا على الهدى وادعولة كل المـرام اراده واعطاه مولاه المراد محمدا وصلے الا له على الرسول محمد و آل رسول الله ــــه و احـمـداً
۲۸ آپ کا افاضہ علوم مبلغین میں سے تابعین کے علاوہ سلسلہ کے مندرجہ ذیل بزرگوں کو حضرت مولوی صاحب سے استفادہ کا موقع ملا ہے.جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بالقابه ،محترم مولوی عبد الرحیم صاحب درد محترم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودہا (سابق امیر صوبائی پنجاب)، محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ (امیر راولپنڈی) اور محترم نواب اکبر یار جنگ صاحب حیدر آباد دکن.خلافت اولی میں جب آپ لاہور میں درس و تبلیغ کے لئے مقرر تھے تو صدر انجمن احمد یہ کے تین ارکان خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب بھی آپ سے تفسیر قرآن مجید، حدیث شریف اور بعض دینی عربی کتب پڑھتے رہے.افسوس کہ خلافت ثانیہ میں یہ لوگ بیعت خلافت سے محروم رہے.آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے علمی اعتبار سے جو ایک خاص امتیاز حاصل ہے اس بارہ میں سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ایک خطبہ میں فرماتے ہیں:.سے.مولوی محمد اسمعیل صاحب اور مولوی راجیکی صاحب صحابہ میں سے چوٹی کے علما ہیں اور انہوں نے سلسلہ کی مشکلات کے وقت میری اعانت بھی کی ہے اور اخلاص کے ساتھ سلسلہ کے کام کرتے رہے ہیں جس کے لئے میں جزاکم اللہ کہتا ہوں اور میرے دل سے اُن کے لئے دعا نکلتی ہے.“ ایک اور خطبہ میں حضور نے فرمایا: - میں سمجھتا ہوں کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بر کھولا ہے وہ بھی زیادہ تر اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.پہلے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی بلکہ بعد میں جیسے یکدم کسی کو پستی سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا ہے.اس طرح خدا تعالیٰ نے ان کو مقبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کر دی کہ صوفی مزاج لوگوں کے لئے ان کی تقریر
۲۹ بہت ہی دلچسپ ، دلوں پر اثر کرنے والی اور شبہات و وساوس دور کرنے والی ہوتی ہے.“ 2 اعلائے کلمۃ اللہ میں انہماک اور تقاریر و مناظرات ۱۸۹۷ء میں آپ بیعت کرتے ہی اعلائے کلمتہ اللہ کے کام میں مصروف ہو گئے اور ۱۸۹۹ء میں مسجد رحیمیہ لاہور میں نصف سال تک تعلیم کے لئے داخل ہوئے.اس کے بعد پھر آپ وطن میں جا کر تبلیغ میں ہمہ تن مشغول ہو گئے اور مخالفین نے علماء کو بلوا کر آپ پر کفر کا فتویٰ لگوا دیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اقارب میں سے آپ کے تایا حضرت میاں علم الدین صاحب مرحوم ( جو غوث اور قطب مشہور تھے ) اور چا حضرت حافظ نظام الدین صاحب مرحوم اور ان کے بیٹے میاں غلام علی صاحب مرحوم صدر جماعت سعد اللہ پورکونہ صرف احمدیت بلکہ صحابیت نصیب ہوئی.غیر احمدی اور غیر مبائع علماء ، آریہ پنڈتوں اور پادریوں سے آپ کے بار ہا مناظرات ہوئے جن میں یہ برکت حضرت مسیح موعود الہی تائید سے آپ کو کامیابی ہوتی رہی اور سینکڑوں افراد کو قبول حق کی توفیق ملی.یہ کامیابیاں ظاہری علم کی وجہ سے نہیں تھیں اور نہ ہی حضرت مولانا صاحب اپنے ساتھ کتب کے صندوق رکھنے کے عادی تھے.دعاؤں کی تاثیرات اور علم لدنی کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا تھا اور عجیب رنگ میں کرشمہ نمائی کرتا تھا اور مخالفین عاجز آجاتے تھے.ابتدا میں جب آپ اپنے علاقہ میں مصروف تبلیغ تھے.ایک قریب کے گاؤں میں احمد دین نامی ایک مولوی نے احمدیوں کے خلاف سخت اشتعال پیدا کر دیا اور اس نے کہا کہ جس گاؤں میں بھی احمدی ہیں وہ گاؤں ایسے کنویں کی مانند ہے جس میں خنزیر پڑا ہو.اگر گاؤں والے گاؤں کو پاک رکھنا چاہتے ہیں تو مرزائیوں کو نکال دیں.کئی روز کی تقریروں سے اشتعال بڑھتا گیا اور مولوی نے سمجھا کہ کوئی بھی میرا مقابلہ نہیں کر سکتا.حضرت مولوی صاحب کو بلایا گیا آپ نے آتے ہی مولوی کے نام عربی میں ایک خط لکھا.اس نے آپ کو بلوا بھیجا کہ آپ منبر پر تقریر
کریں.آپ مسجد میں پہنچے تو اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر میں کا فر کو تقریر نہیں کرنے دوں گا اور اعتراض کرنے لگا.آپ نے اس کی علمی پردہ دری کی تو اس نے آپ کو تھپڑ مارا.اس بدتمیزی پر نمبر دار وغیرہ نے مولوی کو سخت ملامت کی اور یہ مجمع منتشر ہوگیا لیکن ہزار ہا افراد جو جمع تھے ان تک حضرت مسیح موعود کے دعویٰ کا اعلان پہنچ گیا.یہ معلوم کر کے کہ مولوی ابھی گاؤں میں ہی ہے.حضرت مولوی صاحب نے نمبر دار سے کہا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو قرآن مجید اور اسلام کی رو سے سچ سمجھ کر آپ لوگوں سے الگ ہوا ہوں.اس لئے آپ مولوی مذکور سے میری گفتگو کرائیں تا لوگوں پر حق کھل جائے لیکن مولوی مذکور نے با وجود امن کی تسلی دلانے کے خطرہ کا عذر کر کے وہاں سے بھاگ جانا مناسب سمجھا اور پھر ادھر کا کبھی رُخ نہیں کیا بلکہ چند روز کے بعد ہی اس کے مرض آتشک میں گرفتار ہونے کا علم ہوا اور پھر جلد ہی مر گیا.حضرت مولوی صاحب نے اس گاؤں میں چند دن خوب تبلیغ کی لیکن لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا.آپ نے خواب دیکھا کہ طاعون نے اس گاؤں پر حملہ کیا ہے اور سخت تباہی ہوئی ہے.چنانچہ چند دن بعد ایسا ہی وقوع میں آیا اور طاعون سے قریباً گیارہ سو افراد لقمہ اجل ہوئے.سراسیمگی پیدا ہوئی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے.جب کہ اردگرد کے دیہات طاعون سے بالکل محفوظ ہیں تو ایک شخص نے کہا کہ مجھے خواب میں اس تباہی کا باعث ایک بزرگ یا فرشتہ نے وہ چھپڑ بتایا ہے جو اس گاؤں میں خدا کا حکم سناتے ہوئے خدا کے ایک بندے کو مارا گیا تھا.بمقام مڈھ رانجھا حضرت خلیفہ اول کے عہد مبارک میں مولوی شیر عالم صاحب کے ساتھ تحریری مباحثہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا را جیکی کے دل میں القاء کیا اور آپ نے پرچہ پڑھنے سے پہلے یہ دعا کی کہ اے خدا تعالیٰ اگر میرا پر چہ تیری رضا کے مطابق ہے تو سنانے سمجھانے کی توفیق دے اور حاضرین کو سننے اور سمجھنے کی اور قبول کرنے کی.ورنہ نہ مجھے سُنانے کی اور نہ حاضرین کو سننے کی توفیق ملے.چنانچہ آپ نے چار گھنٹے صرف کر کے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور وفات حضرت مسیح ناصری پر اپنا پر چہ مع زبانی تشریح کے سُنایا اور غیر احمد یوں نے خوب شوق سے سنا.غیر احمدی مولوی صاحب نے بھی حضرت راجیکی صاحب کے کہنے پر
۳۱ یہ دعا کی اور پر چہ سُنانا شروع کیا تو تمام حاضرین یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ یہ وہی پرانی باتیں ہیں جو سنی ہوئی ہیں.اور صرف مولانا راجیکی صاحب مع دو اور احباب کے رہ گئے اور مولوی مذکور نے پر چہ سُنانا بند کر دیا کہ اب کس کو سُناؤں.حضرت مولوی صاحب نے اس دعا کی طرف توجہ دلا کر کہا کہ یہ آپ کے اقارب اور دوست اور ہم مذہب تھے اور میں دوسری جگہ کا آدمی ہوں.انہوں نے میری باتیں توجہ سے سنیں اور تمہاری نہ سنیں.اللہ تعالیٰ نے یہ بھی حضرت اقدس کی صداقت کا نشان دکھایا ہے.وہ شرمندگی سے چھپ کر اپنے گاؤں چلا گیا اور آٹھ احباب نے بیعت کر لی.اس طرح کی تائید ۱۹۱۲ء میں مباحثہ مونگھیر میں ہوئی.جہاں حضرت خلیفہ اول کے حکم سے حضرات مولوی سرور شاہ صاحب ، میر قاسم علی صاحب ، حافظ روشن علی صاحب اور آر پہنچے.غیر احمدیوں نے یہ سمجھ کر کہ احمدی عربی میں مباحثہ نہیں کر سکیں گے.اصرار کیا کہ پہلا پر چہ احمدی مناظر عربی میں لکھے اور پھر مع ترجمہ پڑھے.اس موقع پر قریب ڈیڑھ صد مخالف علماء جمع تھے.فیصلہ ہوا کہ حضرت را جیکی صاحب مناظر ہوں.مجمع پندرہ ہزار افراد پر مشتمل تھا.دودو صدر فریقین کے اور ایک صدراعظم ہند و آنریری مجسٹریٹ تھے.پولیس کے اعلیٰ افسر بھی موجود تھے.مولانا راجیکی صاحب نے پرچہ مع ترجمہ لکھا اور سنانے کھڑے ہوئے تو محسوس کیا کہ کوئی چیز آسمان سے اتر کر آپ کے وجود اور حواس پر مسلط ہوگئی ہے.گویا کہ روح القدس کی تحبی ہوئی.اس وقت تائید الہی سے آواز اس قدر بلند ہو گئی کہ تمام حاضرین تک پہنچتی تھی اور خوش الحانی بھی پیدا ہو گئی.یہ دیکھ کر کہ اس کا اثر ہو رہا ہے مخالفین بلکہ ان کے صدروں نے بار بار ٹوکنا اور شور مچانا شروع کیا.بار بار صدراعظم نے ان کو روکا.اسی اثنا میں آٹھ اچھے پڑھے لکھے جن میں بعض گریجویٹ بھی تھے پیج کی طرف بڑھے اور کہا کہ ابھی قبول احمدیت کا اعلان کرنا چاہتے ہیں.ان کو ڈیرہ پر آنے کے لئے کہا گیا.صدر اعظم نے جلسہ کی برخواستگی کا اعلان کر دیا کیونکہ دراصل مخالفین کے خلاف توقع حضرت مولوی صاحب نے پر چہ عربی میں لکھ کر سنانا شروع کیا تھا.مقابل پر پروفیسر عربی کلکتہ کالج کا مناظر تھا اسے فکر ہوا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تو سبکی ہوگی.اور بھی کسی عالم کو مقابلہ کی جرأت نہ ہوئی.مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کرسی پر چڑھ کر
۳۲ نعرے بلند کرنے لگے لیکن الفاظ پورے نہ نکلے تھے کہ کرسی اُلٹی اور ان کا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہو گئیں اور پگڑی دُور جا پڑی اور ان کے ساتھیوں نے جن کو مولوی مذکور نے یہ غلط اطلاع دی تھی که قادیانی علماء عربی بالکل نہیں جانتے مولوی مذکور کی اس دروغ گوئی کے باعث مملوں اور لاتوں سے ایسی درگت بنائی کہ الامان والحفیظ.سادگی حضرت مولوی صاحب نے ظاہری اعتبار سے انتہائی سادگی میں زندگی گزاری یہاں تک کہ بادی النظر میں آپ کے لباس کو دیکھ کر جود یہاتی وضع کا ہوتا ہے کوئی آپ کے تبحر علمی کا اندازہ نہیں کر سکتا.جناب سردار دھر مانت سنگھ صاحب پر نسل سکھ مشنری کالج امرتسر نے بیان کیا کہ میں قادیان جلسہ سالانہ میں شریک ہوا.جب حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو میں نے اور میرے ساتھیوں نے آپ کی نہایت سادہ وضع قطع اور لباس کو دیکھ کر سٹیج سے باہر جانا چاہا لیکن جب ہم اُٹھ کر باہر جارہے تھے تو آپ کی تقریر کے ابتدائی فقرات ہمارے کانوں میں پڑے جو اس قدر پر تاثیر اور جاذب توجہ تھے کہ ہم رُک گئے اور آپ کی تقریر سننے کے لئے بیٹھ گئے اور آپ نے جو حقائق و معارف اپنی تقریر میں بیان فرمائے اس سے ہمیں بہت ہی لطف آیا.چنانچہ تقریر کے بعد ہم آپ کے گھر پر بھی آپ سے عارفانہ نکات سنتے رہے اور ہمیں محسوس ہوا کہ آپ کے نہایت سادہ لباس کے اندر معرفت الہی اور نور و برکت کا مجسمہ پنہاں ہے.پھر تو جب بھی ہم قادیان آتے تو حقائق و معارف سننے کے لئے اکثر آپ کے پاس حاضر ہوتے.مکرم چوہدری حسن دین صاحب باجوه ( در ولیش ) ذکر کرتے ہیں کہ جن ایام میں حضرت مولوی صاحب سے محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بالقابہ لاہور میں بعض عربی کتب پڑھتے تھے تو اس وقت میں محترم چوہدری صاحب کے ہاں ملازم تھا اور آپ نے مجھے تاکید فرما رکھی تھی کہ بوجہ حضرت مولوی صاحب کی سادگی کے آپ کے اعزاز و احترام میں میں فرق نہ آنے دوں کیونکہ آپ کا مقام بہت بلند اور عظیم القدر ہے.جلسه سالانه ۱۹۵۰ء پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے حضرت مولانا راجیکی صاحب
۳۳ کو دیکھ کر اپنے پاس کھڑے احباب سے کہا کہ مولانا راجیکی صاحب اولیاء اللہ میں سے ہیں لیکن عام لوگ ان کی سادگی کی وجہ سے ان کے مقام کو نہیں سمجھتے.سچ ہے.به نخوت ہانے آید بدست آں دامن پاکش کسے عزت از و یابد که سوز درخت عزت را آپ کے فرزند خویم مولوی برکات احمد صاحب کی شادی کے سلسلہ میں ۱۹۵۱ء میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت امیر صاحب جماعت احمدیہ قادیان کو تحریر فرمایا:- مولوی برکات احمد صاحب مخلص واقف زندگی ہیں اور ان کے والد سابقون میں سے ہیں“.تکالیف پر صبر و ثبات اور اعلائے کلمتہ اللہ میں استقلال حضرت مولوی صاحب اپنی زندگی کے اکثر حصہ میں اعصابی امراض کا شکار رہے ہیں لیکن با وجود شدید تکلیف کے آپ نے کبھی شکوہ کا لفظ زبان پر نہیں لایا اور صبر و تسلیم کے رنگ میں ہر وقت دینی امور کی سرانجام دہی کے لئے مستعد رہے.آپ نے سالہا سال تک مسجد اقصیٰ قادیان میں رمضان المبارک میں درس دیا.کئی دفعہ شدید دماغی محنت کے باعث اعصابی دورہ کا حملہ ہوجاتا اور آپ کی آنکھوں اور چہرہ پر شیخ کی کھچاوٹ پیدا ہو جاتی لیکن آپ ایسی حالت میں بھی درس القرآن میں مصروف رہتے.بعض دوست ہمدردی کے باعث آرام کا مشورہ دیتے تو آپ پنجابی زبان کی کہاوت بیان کرتے.جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر گڑ کھاتے ہوئے کسی کی موت واقعہ ہو تو ہونے دو اور فرماتے کہ اگر میری موت کلام الہی سُناتے ہوئے واقع ہو جائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہوگی.ایسی اعصابی بیماریوں میں آپ نے دور دراز کے سفر کئے اور نامساعد حالات میں تبلیغی مہمیں اختیار کیں اور ان تکالیف کو نہایت خندہ پیشانی اور صبر سے برداشت کیا.چنانچہ اس بارہ میں مکرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کا ذیل کا مضمون قابل مطالعہ ہے.
۳۴ امراض و آلام کا شکار مبلغ اب ہم ایک ایسے مبلغ کا ذکر سُناتے ہیں جو صبر کے لحاظ سے اس زمانہ کا ایوب ہے.۱۹۱۹ء کا واقعہ ہے کہ خاکسار کو ایک مبلغ کے ساتھ تبلیغی سفر کرنا پڑا.یہ سفر بہت طول طویل تھا.میں اس وقت ایک ناتجربہ کار نو جوان تھا.میرا ساتھی ایک عالم فاضل اور متقی اور باخدا انسان تھا.راستے میں دہلی کے اسٹیشن پر میرے ساتھی کو اعصابی دورے شروع ہو گئے.مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی.ان کے پٹھے بیچے جاتے تھے اور کبھی یہ عصبی دردسر اور گردن اور پٹھوں پر ہوتا اور کبھی جبڑوں کے پٹھوں پر کبھی کندھے اور باز و پر اور کبھی کسی اور جگہ میں.میں حیران تھا وو کہ ایسی حالت میں یہ تبلیغ کیا کریں گے؟ رات کے دس بجے کے قریب کا انپور پہنچے مولانا کو شدید بخار ہو گیا تھا.رات کو خان بہادر محمد حسین صاحب حج کی کوٹھی تلاش کی مگر نہ ملی.پریشان ہو کر ایک سرائے میں پناہ گزین ہوئے.گرمی کا موسم تھا.سرائے کے لوگوں سے اندیشہ تھا کہ چوری نہ کریں.اس لئے کمرے کے اندر رات گزاری، مچھروں نے بری طرح کاٹا.ادھر مولانا کو شدت بخار سے ہوش نہ رہا.صبح بمشکل کوٹھی کا پتہ ملا اور ٹانگہ پر وہاں گئے.اس بیماری کی حالت میں کوٹھی پر لوگ ملنے آئے.ہمارا مبلغ اعصابی دردوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تبلیغ کرتا رہتا.کبھی پگڑی سے سر اور منہ کو باندھتا اور کبھی ٹانگوں پر پگڑی باندھتا اور کبھی بازوؤں پر.انہی دنوں اہل حدیث کا نفرنس کانپور میں ہو رہی تھی.مولوی ثناء اللہ صاحب بھی وہاں موجود تھے اور مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی بھی تھے.کانفرنس میں ثناء اللہ نے ہمارے سلسلے کو چیلنج دیا اور ہمارے مبلغ کا نام لے کر چیلنج دیا.میں نے کہا کہ وقت دوتا کہ میں ان کو لے آؤں.
۳۵ مولوی ثناء اللہ نے آدھ گھنٹہ کا وقت دیا.جو کافی نہ تھا.اس دن ٹانگے والوں کی ہڑتال تھی مگر خدا کی قدرت کہ میں جب پنڈال سے نکلا تو ایک یکہ کھڑا تھا.اس سے پیسے پوچھے تو اس نے آٹھ آنے مانگے.میں نے منہ مانگے دام دیئے اور حج صاحب کی کوٹھی پر آیا.مولا نا کو قصہ سُنایا.وہ اس وقت اعصابی تکلیف میں مبتلا تھے.اس وقت بے اختیار ان کے منہ سے نکلا کہ پھر چلیں؟ میں نے کہا کہ ہاں.گرم کوٹ کھونٹی سے اتار کر پہن لیا اور اللہ کا نام لے کر یکے پر بیٹھ گئے اور اعصابی دردوں کی موجودگی میں پنڈال پہنچ گئے.آٹھ دس ہزار کا مجمع تھا.سامنے سے صفوں کو چیرتے ہوئے سٹیج پر چلے گئے.مولانا کو شاء اللہ نے منگوا کر کرسی دی اور پاس سٹیج پر بیٹھ گیا.اس غیرت ایمانی سے طبیعت میں ایک ایسی حالت پیدا ہوئی کہ وہ دورہ رک گیا.مباحثہ شروع ہوا دو گھنٹہ تک وہ رنگ پیدا ہوا کہ غیر احمدیوں نے ہمارے مبلغ کے ہاتھ چومے اور دعا کی درخواستیں دیں.منگلور کی بندرگاہ میں اُترے.جہاز سمندر میں دو تین میل دور کھڑا ہوا.کشتی کے ذریعہ بندرگاہ تک آنا تھا.مولانا کی حالت ایسی تھی کہ نبض گر رہی تھی.رنگ زرد اور چہرہ پر پسینہ اور آنکھیں بند تھیں اور مجھے اندیشہ تھا کہ شائد وہ زندہ کنارے تک پہنچ سکیں یا نہ.سمندر نے طوفانی رنگ اختیار کر لیا.موج پر موج اُٹھنے لگی.کشتی موج کی دھار پر پچاس فٹ اونچی چلی جائے اور کبھی دھاروں کے درمیان نیچے چلی جائے.اوپر سے خطرہ محسوس ہوتا کہ دونوں دھار میں مل جائیں گی اور سب مسافر ہمیشہ کی نیند سو جائیں گے.میرے قلب کو یہ تسلی تھی کہ ہم دین کے لئے نکلے ہیں.اگر مر گئے تو شہید ہوں گے.رنج تھا تو یہ کہ پیغام حق نہ دیا جائے گا.اس حالت میں کشتی والوں نے شور مچایا یا بخاری هیا اللہ ہمارے مبلغ کی آنکھیں کھلیں.اس کی آنکھوں میں خون اترا اور وہ خون سارے جسم میں دوڑا.اس نے کڑک کر کہا کہ یہ کیا بکتے ہو.بخاری ہمارے جیسا ایک آدمی تھا.کشتی والے سہم گئے.مولانا کے منہ سے ایک تیز فوارے کی طرح کلام جاری ہو گیا اور تو حید اور پھر رسالت اور احمدیت کا وعظ ہونے لگا.چند آدمیوں کے سوا اور کوئی سمجھتا نہ تھا.مگر آپ نے ان پر اتمام حجت کر دی.اس حالت جوش نے اعصابی دردوں میں کمی کر دی.ہم بخیریت کنارے پر پہنچ گئے.
۳۶ مولاناکے لئے مرطوب ہوا.چاول اور مچھلی نا موافق تھی.اب یہاں یہی غذا تھی.دورے بڑھ رہے تھے مگر ان دوروں میں تبلیغ جاری رہتی.کبھی ہاتھ منہ پر جاپڑتا اور کبھی کندھے پر کئی کئی آدمی دباتے مگر آرام نہ آتا.اس حالت میں مباحثات تقریری ، درس قرآن جاری رہتا.سچ تو یہ ہے کہ میں ان کی تکلیف کا نقشہ کھینچ نہیں سکتا.خدا کی آزمائش بڑھی.مولانا کے مقعد اور پیشاب کی نالی کے درمیان ایک پھوڑا نکلا.ورم سے تکلیف بڑھ گئی.بخار دن رات رہنے لگا.جب ڈاکٹر نے پھوڑا چیرا تو پیشاب اصلی جگہ کی بجائے اپریشن کی جگہ سے آنے لگا.جب پیشاب زخم کی جگہ سے آتا تو شیخ کے ساتھ بیہوش ہو جاتے.اس حالت میں بھی جب سننے والا آتا تو لیٹے ہی لیٹے تبلیغ کرنے لگتے اور کہتے کہ میں چاہتا ہوں کہ پیغام حق دیتے ہوئے جان نکلے.پہلے اعصابی دورے تھے پھر بخار ہوا، پھر یہ بیماری.اب انفلوئنزا ہو گیا.کئی کئی گھنٹہ بیہوشی رہتی.مگر جب افاقہ ہوتا تو لوگوں کو جمع کر کے سلسلہ کا پیغام دیتے.قرآن کریم کا درس دیتے.اس تکلیف میں چھ ماہ کا لمبا عرصہ گزر گیا.مگر ایک منٹ کے لئے بھی ناشکری نہ کی اور نہ سلسلہ کی تبلیغ کو چھوڑا.ان کا صبر ایوب کا صبر تھا.انہوں نے یہ بے نظیر نمونہ تبلیغ میں قائم کیا.باوجود شدت امراض کے بھی تبلیغ نہ چھوڑی.“ یہ جانباز بہادر مبلغ ہمارے مولا نا غلام رسول صاحب را جیکی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے.آمین ! معالج ڈاکٹر نے یہ کہہ دیا کہ مولانا صاحب اب بچتے نظر نہیں آتے.اس پر آپ نے یہ وصیت کی کہ اگر یہاں پر وفات ہو جائے تو میری لوح مزار پر صرف یہ شعر لکھ دیا جائے.گر نباشد دوست ره بردن شرط عشق است در طلب مُردن آپ نے خواب دیکھا کہ ملک الموت جولوگوں کو کاٹ کاٹ کر پھینکتا ہے میری منت پر اس نے مجھے گذرنے دیا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو حالات مرض کا علم ہوا تو آپ نے یہ اجازت نہ دی کہ مدراس کے ایک امریکن ڈاکٹر سے جو پہلے پادری رہ چکا تھا علاج کرایا جائے.مبادا وہ کوتاہی کرے کیونکہ ان لوگوں کو ملک کے حالات اور اہلِ مذاہب کے
۳۷ متعلق واقفیت بہم پہنچائی جاتی ہے.حضور کے ارشاد پر آپ پانی پت میں ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے پاس پہنچے.کئی دن کے معائنہ کے بعد حضرت ڈاکٹر صاحب اس نتیجہ پر پہنچے کہ ڈاکٹر نے اپریشن نہایت قابلیت سے کیا ہے لیکن دنبل کی پیپ سے پیشاب کی نالی کا نچلا حصہ کھایا جا چکا ہے.اس لئے اس میں سوراخ ہو گیا ہے.یہ حصہ نازک ہے.نہ یہاں ٹانکے لگائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی زخم کے اند مال کی کوئی اور صورت ہے اور فرمایا کہ زخم کو اسی حالت میں چھوڑ دیں شاید اللہ تعالیٰ کوئی اور صورت پیدا فرما دے.ان کوائف کی اطلاع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ آپ قادیان آجائیں.چنانچہ آپ قادیان آکر مہمان خانہ میں مقیم ہوئے.حضرت سیدہ ام المومنین علی اللہ درجاتہ فی الجنۃ نے فرمایا کہ مولانا راجیکی صاحب کی پہلی ضیافت میرے ہاں تیار ہوگی.چنانچہ آپ نے کبوتر کا گوشت اور چپاتیاں مہمان خانہ میں بھجوائیں.دو تین دن کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے حضرت مولوی صاحب لا ہو ر اپنے اہل و عیال کے پاس چلے گئے.وہاں آپ نے درس القرآن کا سلسلہ شروع کر دیا.باوجود یکہ امیر جماعت قریشی حکیم محمد حسین صاحب نے فرمایا کہ ہم تو آپ کی شدید اور پیچیدہ بیماری کے علاج کے لئے آپ کو میو ہسپتال میں داخل کرنے کا انتظام کر رہے ہیں، درس دینا آپ کے لئے سخت مضر ہے.آپ نے ایک رؤیا کی بنا پر فرمایا کہ میرا علاج میوہسپتال میں نہیں بلکہ درس سے ہوگا.چنانچہ درس شروع کرنے کے ایک ہفتہ بعد پیشاب اصل راستہ سے آنے لگا اور وہ خطرناک زخم ایک ماہ میں مندمل ہو گیا.آپ کا صبر و رضا بالقضا کا اسوہ بہت ہی عظیم الشان ہے.خاکسار مؤلف کے چھوٹے بھائی ملک برکت اللہ خاں صاحب (بی اے آنرز) نے سنایا کہ حضرت مولوی صاحب کے جواں سال اور عالم فرزند مکرم مولوی مصلح الدین احمد صاحب فوت ہوئے تو آپ کے پاس دوست تعزیت کے لئے آئے تو آپ نے فرمایا کہ جب کسی دوست کا لڑکا اپنے چچا، ماموں یا پھوپھی کے پاس جاتا ہے تو وہ فخر سے کہتا ہے کہ میرالڑ کا فلاں عزیز کے پاس گیا ہوا ہے.اب میرالڑ کا سب سے زیادہ محسن اور پیارے خدا کے پاس چلا گیا ہے اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوا ہے
۳۸ تو اس میں میرے لئے رنج کی کونسی وجہ ہے.شکر ہے کہ اس کا انجام بخیر ہو گیا اور وہ اپنے حقیقی مولا کے پاس پہنچ گیا.قلمی خدمات باوجود یکہ آپ کی زندگی کا اکثر حصہ طویل سفروں میں گذرا اور تالیف و تصنیف کے لئے جو یکسوئی درکار ہوتی ہے.میسر نہیں تھی.پھر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے منظوم کلام کے علاوہ سینکڑوں طویل مضامین آپ نے سُپر و قلم کئے.جو سلسلہ کے اخبارات میں شائع ہوئے.آپ کی اعلیٰ حقائق و معارف پر مشتمل جلسہ سالانہ کی تقاریر بھی شائع شدہ ہیں جن میں سے بعض علیحدہ کتابی صورت میں طبع ہو چکی ہیں دیگر بعض خدمات اور افضال الہی یہ امر بھی اللہ تعالیٰ کے الطاف کریمانہ میں سے ہے کہ موصی ہونے کے علاوہ آپ کو اور آپ کی اہلیہ محترمہ کو تحریک جدید دفتر اول کے پانچزاری مجاہدین میں شامل ہو کر سات صد نتیس روپے چندہ دینے کا موقع ملا.(ص ۸۷).سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کئی سال مرکزی مجلس افتاء کے رکن اور صدرانجمن احمد یہ پاکستان کے مبر مقر ر ہے.آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص طور پر بلوا کر اپنی موجودگی میں مغرب و عشاء کی نمازوں کی امامت کروائی.آپ کو یہ فخر بھی حاصل ہے بعض رسائل و کتب جن کا علم ہو سکا ہے.یہاں درج کی جاتی ہیں :- (1) گلدسته احمدی (سی حرفی در مدح حضرت مسیح موعود علیہ السلام بزبان پنجابی ) سید عبدالحی صاحب عرب قادیان نے جولائی ۱۹۰۶ ء میں شائع کی.طبع ثانی دسمبر ۱۹۵۸ء میں حکیم عبداللطیف صاحب شاہد لاہور کی طرف سے ہوئی.جس میں مرقوم ہے کہ یہ ی حرفی ۱۸۹۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سنائی گئی تھی.( طبع ثانی مشتمل بر آٹھ صفحات )
۳۹ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سلمہا اللہ تعالی کے نکاح کا خطبہ آپ نے بموجودگی سیدنا حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ و بزرگان پڑھا.حضور نے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو بھجوا کر آپ کولاہور سے اس امر کے لئے بلوایا تھا.حضرت مولوی صاحب کو اس سے قبل ایک رؤیا میں حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اول نے محترمہ صاحبزادی صاحبہ موصوفہ کے نکاح کی مبارکباد دی تھی.آپ کے شمائیل کریمہ آپ کی زندگی خلوص، قربانی، مصائب و مشکلات پر صبر، تو کل علی اللہ ، رضا بالقضا اور اللہ تعالیٰ کی محبوب و محسن ہستی کے ساتھ والہانہ عشق ، سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مقدس خلفاء کی کامل اطاعت وفرماں برداری ، بقیہ حاشیہ: - (۲) جام وحدت ( یه سی حرفی بزبان پنجابی ۴ ستمبر ۱۹۰۶ء کو سید عبدالحئی صاحب عرب نے قادیان سے شائع کی.حکیم عبداللطیف صاحب شاہد لا ہور نے دسمبر ۱۹۵۸ء میں دوسری بار طبع کی.حیات قدسی جلد ۲ ص ۲۱ پر مرقوم ہے کہ علامتی فرقہ کے ایک فقیر کی سی حرفی کے جواب میں یہ منظوم کلام لکھا گیا تھا.( طبع ثانی مشتمل بر آٹھ صفحات ) (۳) كلمة الفصل (عربی معہ اردو ترجمہ) بابت صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحات ۲۰- عبدالحی صاحب عرب نے شائع کی.سن طبع اس پر درج نہیں.(۴) اظہار حقیقت (اردو) بابت اثبات وفات مسیح از قرآن مجید شائع کردہ انجمن احمد یہ امرتسر صفحات ۳۶.سنہ طبع درج نہیں.(۵) کشف الحقائق بجواب حقائق القرآن مصنفہ ایک عیسائی جس نے فضائل مسیح بر آنحضرت از روئے قرآن مجید لکھے تھے ) شائع کردہ محمد یامین صاحب تاجر کتب قادیان صفحات ۶۴.سن درج نہیں.(1) مباحثہ لاہور ( جو ۲۶ تا ۲۸ جون ۱۹۲۱ء کو آپ کے اور منشی پیر بخش ایڈیٹر رسالہ تائید الاسلام کے درمیان ہوا تھا)
۴۰ اہلبیت سے محبت و اخلاص، انکسار اور ہر ضرورت کے موقع پر آستانہ الہی پر جھک جانا آپ کی پاک زندگی کا آئینہ ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی مضطر بانہ دعاؤں کی برکت سے آپ کو اپنا قرب اور وصال بخشا.آپ پر دینی حقائق واسرار کھولے اور انشراح صدر کی نعمت عطا فرمائی اور ایک طویل عرصہ تک آپ سے تائید دین کے لئے مقبول خدمات لیں اور اب بھی جب کہ آپ کی عمر اسی سال سے تجاوز کر چکی ہے.اس پیرانہ سالی میں بھی آپ روزانہ اپنے مکان پر بھی اور مسجد میں بھی درس و تدریس اور وعظ و تذکیر میں مصروف رہتے ہیں اور اسلام و احمدیت کی ترقی کے لئے اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اور ضرورت مند احباب کے لئے جو بکثرت آپ کی خدمت میں دعاؤں کی درخواست کے لئے حاضر ہوتے ہیں یا درجنوں خطوط اس بارہ میں آتے ہیں.آپ دعاؤں میں مصروف رہتے ہیں اور آپ کا وجود صداقت اسلام و احمدیت کا ایک درخشندہ نشان ہے.اس موقع پر میں احباب سے التجا کروں گا کہ وہ حضرت مولوی صاحب کی خود نوشت سوانح عمری بقیہ حاشیہ: - (۷) توحید باری تعالی ( تقریر بر جلسه سالانه ۱۹۳۱ء صفحات ۹۰.شائع کرده محمد امین صاحب تاجر کتب قادیان - (۸) التنقيد بجواب الخبر اصحیح عن قبر مسیح (عربی) مجھے یہ کتاب نہیں ملی.(۹) مذہب کی تعریف اور اس کی ضرورت.( مجھے یہل نہیں سکی ) (۱۰) اسوة الثقاة : مصر کے ایک مشہور لیڈر کے ایک مضمون بابت تعدد ازواج کا رسالہ البشرئ ( فلسطین ) میں جواب (11) تصدیق اسیح ( پنجابی نظم) جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں عبدالحئی صاحب عرب نے شائع کی تھی ( بحوالہ حیات قدسی حصہ چہارم ص ۱۰۳).(۱۲) جھوک مهدی والی ( پنجابی تبلیغی نظم) (۱۳) کامن احمدی.پنجابی تبلیغی نظم) (۱۴) رسالہ اب یارب
(حیات قدسی) کے پانچ حصص مطالعہ فرمائیں.یہاں آپ کے سوانح نہایت اختصار سے حصول برکت کے لئے بعض زائدا مور شامل کر کے اس کتاب میں شامل کئے ہیں.حیات قدمی سے آپ کے شمائل حسنہ پر خوب روشنی پڑتی ہے اور آپ کی علق شان کا علم ہوتا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ اللہ تعالیٰ حصہ اوّل کے متعلق رقم فرماتے ہیں:.بہت رُوح پرور مضامین ہیں.ایسی کتابوں کی احمد یوں اور غیر احمدیوں میں بکثرت اشاعت ہونی چاہئے.“ یہ سلسلہ خدا کے فضل سے بہت مفید اور روحانی اور دینی تربیت کے لحاظ سے بہت فائدہ مند ہے...روح کو جلا دینے کے لئے ایسا لٹریچر نہایت درجہ مفید ہوتا ہے.“ 66 مجاہدات اور ان کے نیک اثرات کشف والہام کی برکات جن ایام میں آپ موضع گولیکی میں زیر تعلیم تھے.باوجود یکہ آپ کی عمر ابھی بہت چھوٹی تھی.آپ اکثر صوم الوصال کے روزے رکھتے اور نماز مغرب کے بعد سورہ یس ، ملک ، مزمل سورتیں اور دروداکبر اور درود مستغاث اور درود وصال اور حضرت سید عبدالقادر جیلانی ” کے درود کبریت احمر کا وظیفہ بالالتزام کرتے تھے اور قریب کے ریگستانی ٹیلوں پر محاسبہ و مراقبہ کی غرض سے جاتے اور گھنٹوں یاد الہی میں تڑپ تڑپ کے روتے اور دعائیں کرتے تھے لیکن آپ کو ان ایام میں کسی مرد کامل کی دستگیری حاصل نہ تھی.کیونکہ اس علاقہ کے صوفی اور سجادہ نشین کے بیشتر مشاغل کشف القبور، کشف القلوب اور سلب امراض تک محدود تھے.نیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب الذکر الجمیل کے مطابق لا الہ الا اللہ کا ذکر جو نفی اثبات کے معنوں میں عام شہرت رکھتا ہے اور ایک ضربی، دوضربی اور سہ ضربی کہلاتا ہے.حضرت مولانا راجیکی صاحب یہ ذکر بھی کرتے تھے کیونکہ اس وقت تک کسی مرد کامل کی دستگیری آپ کو حاصل نہ تھی.حضرت اقدس کی بیعت کے بعد بھی آپ نے یہ وظائف جاری رکھے بلکہ نقشبندی طریق پر فنانی الشیخ کی منزل طے کرنے کے لئے آپ نے حضرت اقدس کا تصور بھی پکانا شروع کیا.چند دن بعد اچانک آپ کے دل میں یہ خیال ڈالا گیا کہ حضرت اقدس
۴۲ علیہ السلام سے اس بارہ میں استفسار کرنا چاہئے.مبادا یہ امر حضور کے منشاء کے مخالف ہو.چنانچہ حضور کی طرف سے جواب موصول ہوا کہ :- اوّل تصور مخلوق سے بجز شرک کے اور کوئی نتیجہ نہیں.دوم.اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے اللہ کا اسم ہی کافی ہے.سوم.درود وہ پڑھنا چاہئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی مہر ہو اور سب سے بہتر وہ درود ہے جو اپنی فضیلت کی وجہ سے نماز میں شامل ہے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب حضور علیہ السلام کے ارشاد پر عمل پیرا ہوئے جس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا نقش آپ کے دل و دماغ پر مستول ہوا اور دعاؤں اور جہاد فی سبیل اللہ اور تذلل اور قربانی اور خلوص کا اعلیٰ نمونہ دکھانے کی وجہ سے قبولیت دعا کے ہزار ہا ایمان افزا اور روح پرور واقعات آپ کی زندگی میں ظاہر ہوئے.جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت مسیح موعود و خلفائے کرام اور اسلام واحمدیت کے فیوض و برکات وصداقت اور زندہ خدا کی زندہ تجلیات کے ثبوت ملتے ہیں.سچ ہے.عاقل آن باشد که جوید یار را و از تذلل ها بر آرد کار را آپ کو احمدیت کی برکات کے باعث اللہ تعالیٰ نے ایک درجن بار اپنی رویت سے اور تمہیں دفعہ کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف فرمایا اور آپ پر مستقبل قریب و بعید کے بہت سے اسرار ظاہر کئے.
۴۳ جلسہ سالانه ۱۹۵۰ء جلسہ سالانہ۱۹۵۰ء کے موقع پر جب آپ نے قافلہ زائرین کو تکیہ کمال الدین کے پاس ظہر وعصر کی نمازیں پڑھا ئیں تو آپ نے کشف میں حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت کی.پھر جب قادیان میں داخل ہو کر حضرت اقدس کے مزار پر قافلہ اور درویشوں سمیت آپ نے دعا کرائی تو پھر آپ نے کشف دیکھا کہ حضرت اقدس تشریف لائے ہیں اور حضور کے دست مبارک میں ایک طشت میں پلاؤ ہے اور حضور علیہ السلام نے وہ طشت آپ کو پکڑا دیا ہے.اسی طرح اس جلسہ سالانہ میں مسجد اقصیٰ میں آپ دُعا کر رہے تھے تو پھر آپ پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور آپ نے دیکھا کہ حضرت اقدس بھی دُعا میں شریک ہوئے ہیں.راقم الحروف قریباً چار سال قبل ربوہ میں اخویم مکرم چوہدری محمد شریف صاحب (سابق مبشر بلا داسلامیہ ) کے ہمراہ حضرت مولانا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اصحاب احمد کے تعلق میں شدید مالی مشکلات بیان کر کے دعا کے لئے عرض کیا.آپ نے اسی وقت دعا فرمائی اور فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے کشف میں دیکھا ہے اور روشنی دیکھی ہے اور رَبِّنَا هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنَ أَمْرِنَا وَشَداً کی دعا القاء ہوئی ہے.یہ پڑھا کرو.اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.چنانچہ چند دنوں میں ہی اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر فضل فرمایا اور خلاف توقع رقم ملنے سے قرض کا ایک حصہ ادا کرنے اور ایک جلد شائع کرنے کی توفیق حاصل ہو گئی اور اب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں.فالحمد للہ علی ذالک.میرے دو بھائی عزیزان ملک حشمت اللہ صاحب اور ملک ذکاء اللہ صاحب امریکہ میں تھے اور بعض شدید مشکلات ان کے قیام میں حائل تھیں.مالی تفکرات مزید برآں تھے.والد صاحب
۴۴ محترم حضرت مولانا صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے حاضر ہوئے.آپ نے اسی وقت دعا کی اور فرمایا کہ میں نے کشف میں شدید تاریکی میں سے روشنی نمودار ہوتی دیکھی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قلیل ترین عرصہ میں سب مشکلات رفع ہو گئیں.فالحمدللہ علی ذالک.میرے چھوٹے بھائی عزیزم ملک برکت اللہ صاحب نے بھی اپنے لئے دعا کے لئے عرض کیا.آپ نے ایک کشف دیکھا اور بشارت دی.چنانچہ امسال عزیز پنجاب یونیورسٹی کے امتحان ایف-ای- ایل میں اول آیا ہے.الحمدللہ.ایک سفر میں حضرت مولا نا راجیکی صاحب اور آپ کے بھائی میاں غلام حیدر صاحب سفر میں تھے.رات کے دس بجے بمقام کا مونکے پہنچے.بھائی صاحب کو بخار محسوس ہورہا تھا.ان کو مسجد میں جہاں ایک اور مسافر بھی تھا لٹا کر بازار گئے جو بند تھا.اس لئے کھانا نہ ملا.بھائی کا بخار تیز ہو گیا اور فکر ہوا کہ غریب الوطنی میں حالت زیادہ خراب ہو گئی تو کیا بنے گا.آپ سجدہ میں گر گئے اور گڑ گڑا کر دعا کی.ناک صاف کرنے کے لئے دروازہ کھول کر مسجد سے باہر گئے تو وہاں ایک شخص گرم گرم روٹیاں اور گرم گرم سالن اور حلوے کا طشت لئے کھڑا تھا.اس نے کہا کہ یہ آپ ہی کے لئے لایا ہوں اور پوچھنے پر کہا کہ برتن مسجد میں ہی رہنے دیں.چنانچہ تینوں نے یہ کھانا کھایا اور برتن وہیں رکھ دیئے.صبح اُٹھے تینوں وہیں تھے.کنڈی بدستور لگی ہوئی تھی لیکن برتن غائب تھے.اللہ تعالیٰ ایسے بزرگوں کو تادیر سلامت رکھے.اور ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے.آمین.وَآخِرُ دَعونَا أَنِ الْحَمْدُ اللهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ
۴۵ چوہدری غلام محمد صاحب وطن، ولادت وغیرہ چوہدری غلام محمد صاحب کے دادا چوہدری خدا بخش صاحب جو مارچ ۱۸۶۲ء میں فوت ہوئے موضع ڈھپئی متصل کو ٹلی لوہاراں شرقی ضلع سیالکوٹ کے ایک بڑے زمیندار تھے.جن کے صاحبزادہ چوہدری محمد دیوان صاحب ( متوفی ۱۹۰۶ء) کے ہاں محترمہ بی بی صاحبہ کے بطن سے چودھری غلام محمد صاحب اکتوبر۱۸۷۷ء میں پیدا ہوئے.آپ کی والدہ آپ کے طفولیت کے ایام میں ہی اس عالم فانی سے عالم جاودانی کو سر ہار گئیں.چوہدری صاحب کو ان کی شکل تک یاد نہیں.آپ کی پرورش آپ کی پھوپھی صاحبہ نے کی.والد صاحب نے دوسری شادی کر لی تھی لیکن دادا کی طرح وہ بھی اس بچے سے بہت محبت کرتے تھے اور کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے.حصول تعلیم ، پہلی شادی ، ملازمت، کالج میں داخلہ ابھی آپ پرائمری میں زیر تعلیم تھے کہ آپ کی پہلی شادی محترمہ بیگم بی بی صاحبہ بنت مہر دین صاحب سکنہ کوٹلی لوہاراں شرقی (ضلع سیالکوٹ) سے۱۸۹۳ء میں ہوئی.۱۸۹۴ء میں آپ نے پرائمری پاس کی اور مڈل میں اپنے چا محمد خان صاحب کے پاس پہلے ڈسکہ میں اور پھر پسرور میں تعلیم پا کر امتحان پاس کیا.۱۸۹۹ء میں آپ سیالکوٹ کے سکاچ مشن ہائی سکول کی ایک طویل اصرار پر آپ نے اپنے سوانح ارسال فرمائے ہیں.آپ کی روایات میں نے آپ کے الفاظ میں ہی درج کی ہیں.سوائے اس کے کہ شاذ کے طور پر اردو عبارت کی درستی کی ہے.کیونکہ آپ نے کافی حصہ کسی دوسرے سے لکھوایا ہے.(مؤلف)
۴۶ فورتھ ہائی کلاس میں داخل ہوئے اور ۱۹۰۱ء میں آپ نے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک پاس کیا.اس ہائی سکول کے ساتھ ایف اے کی کلاسز بھی تھیں.چنانچہ آپ نے ایف اے سیکنڈ ڈویژن میں ۱۹۰۳ء میں پاس کیا.پھر جے اے وی کلاس میں داخل ہو کر ۱۹۰۴ء میں اس میں کامیابی حاصل کی.آپ خوشاب، شاہ پور اور پھر ڈسکہ میں بطور مدرس ملازم رہے لیکن ۱۹۰۷ء میں استعفاء دے کر علی گڑھ کالج میں تھر ڈائیر میں داخل ہوئے اور ۱۹۰۸ء جماعت میں اول آئے ۱۹۰۹ء میں الہ آباد یو نیورسٹی کا بی.اے کا امتحان دے کر آپ قادیان چلے آئے اور صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت اختیار کر لی.جہاں سے ۱۹۳۰ء میں آپ نے پینشن پائی اور ۱۹۴۷ء میں تقسیم برصغیر کے موقع پر آپ کو قادیان سے مہاجر بن کر پاکستان جانا پڑا اور اب آپ کا قیام لاہور میں ہے.پہلی بیوی کی وفات کے بعد آپ کی شادی محترمہ امتہ الحئی صاحبہ (عرف جیواں بی بی ) دختر چوہدری لال دین صاحب سکنہ موضع شہرک تحصیل پسر ورضلع سیالکوٹ سے ہوئی.آپ کی یہ رفیقہ حیات بفضلہ تعالیٰ زندہ ہیں.آپ کی اولا د درج ذیل ہے.چوہدری غلام محمد صاحب (1) البطن اہلیہ اول (۲) ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ ربوہ چوہدری غلام احمد صاحب زوجہ ( چوہدری محمد تقی صاحب) مقیم لندن از بطن اہلیہ دوم (۳) چوہدری عبدالرحمن صاحب پرنسپل رججه یوگنڈا.مشرقی افریقہ صاحب ( یوگنڈا مری اہلیہ شیخ محمد عبداللہ صاحب (1) (۲) (۳) (۴) (۵) منظور فاطمہ صاحبہ کنیز فاطمہ صاحبہ عبداللہ عطاء الرحمن رشید احمد صاحب رفیق احمد صاحب آمنه بشری بی-اے-بی-ٹی طالب علم طالب علم مشرقی افریقہ ) لاہور لاہور سعودی عرب
۴۷ آپ کی روحانی زندگی آپ کی روحانی زندگی کا آغاز ۱۸۹۲ء سے ہوتا ہے کیونکہ اس سال آپ نے نماز پڑھنی سیکھی.آپ کی نماز کا استاد ایک نومسلم نو جوان محمد دین نامی تھا.نماز آپ نے کسی کی ترغیب کے بغیر خود اپنے شوق سے سیکھی تھی.آپ نہ صرف نماز شوق سے ادا کرتے تھے بلکہ اذان بھی دیتے تھے.آپ کے گاؤں میں جس کی آبادی ساڑھے تین صد نفوس پر مشتمل ہو گی.آپ کے سوا صرف چار دیگر نمازی تھے اور زمینداروں میں سے صرف آپ ہی نماز پڑھتے تھے.حضرت مسیح موعود کا ذکر آپ تک کیونکر پہنچا ! آپ جب غالباً تیسری یا چوتھی جماعت میں تعلیم پاتے تھے تو آپ نے مدرسہ کے پاس کچھ لوگوں کو یہ باتیں کرتے پایا کہ ایک پادری حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بے ادبی کے الفاظ بولتا تھا.اس لئے ایک مسلمان بزرگ نے اس کے متعلق پیشگوئی کی ہے کہ اگر وہ باز نہیں آئے گا تو وہ چند ماہ کے اندر مر جائے گا.آپ بیان کرتے ہیں کہ مہینوں کی تعداد مجھے یاد نہیں رہی.میرا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبد اللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی کا وہ ذکر کر رہے ہوں گے کہیں نڈل کی تعلیم کے زمانہ میں ایک پٹواری عبد الحلیم سے پہلے پہل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کا علم ہوا.جو آپ کے چچا چوہدری محمد خان صاحب کے پاس آیا کرتا تھا اور حضرت اقدس کے خلاف باتیں کیا کرتا تھا.نیز آپ بیان کرتے ہیں کہ :- ” جب میں میٹرک میں پڑھتا تھا تو اسکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ کا بورڈنگ بھا بھڑوں کے محلہ میں ہوتا تھا.اس محلہ میں ایک وکیل لالہ بھیم سین صاحب رہتے تھے.وہ کبھی کبھی بورڈنگ یہ پیشگوئی جون ۱۸۹۳ء کی ہے اور اُس کی وفات ۲۷ جولائی ۱۸۹۷ء کو واقع ہوئی تھی.(مؤلف)
۴۸ میں آکر لڑکوں کے پاس بیٹھتے تھے.انہوں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بیان کیا کہ میں اور مرزا صاحب ایک دفعہ اکٹھے مختاری کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے.میں جب کبھی آپ کے پاس جاتا تھا.وہ قرآن یا حدیث پڑھ رہے ہوتے تھے.میں نے عرض کی کہ آپ نے مختاری کا امتحان دینا ہے یا قرآن و حدیث کا.آپ نے فرمایا کہ اگر مختاری میں فیل ہو گئے تو کوئی بڑی بات نہیں مگر اس امتحان میں اگر فیل ہو گئے تو بہت بُری بات ہے.وکیل صاحب نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ امتحان دینے کے بعد آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کے سر پر سرخ پگڑی ہے اور میرے سر پر زرد رنگ کی پگڑی ہے.یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ یعنی وکیل صاحب پاس ہو جائیں گے اور میں یعنی حضرت مسیح موعود فیل ہو جاؤں گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.“ غالباً میں مڈل میں تھا.میں نے حضور کا ایک اشتہار پڑھا تھا جس میں آپ نے لکھا تھا کہ حضور نے خواب میں دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے مختلف اضلاع میں بڑی بُری شکل کے درخت لگا رہے ہیں.حضور نے دریافت فرمایا کہ یہ کیسے درخت ہیں.انہوں نے کہا کہ طاعون کے درخت ہیں.“ بعد میں ایک دو سال کے اندر ہی پنجاب کے بہت سے ضلعوں میں سخت طاعون پھیلی.۱۸۹۹ ء میں میں اسکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں داخل ہوا.اس سال مذہب کی طرف میری توجہ بہت زیادہ ہوگئی.مجھے یہ خیال پیدا ہو گیا کہ نماز پڑھنے کا مجھے کیا فائدہ ہے کیونکہ میری نماز میں کبھی کوئی توجہ نہ ہوتی تھی اور میں اسے بہت جلد جلد ادا کرتا تھا.سوچا کہ مجھے قرآن شریف با ترجمہ پڑھنا چاہئے.پھر مذہب کی صحیح سمجھ آئے گی.چنانچہ مولوی میرحسن صاحب سے جو میرے استاد تھے یہ عرض کیا کہ آپ مجھے قرآن شریف پڑھائیں لیکن انہوں نے پڑھانے سے انکار کر دیا اور عذر کیا کہ وہ قرآن شریف نہیں جانتے.بہت اصرار کرنے پر انہوں نے مجھے تفسیر حسینی لا کر دی اور فرمایا کہ اس سے قرآن شریف پڑھا تھا.تم بھی اس سے پڑھ لو.میں نے کوشش کی مگر کچھ سمجھ میں نہ آئی خصوصا آیات کا جوڑ سمجھ نہ سکا.میں نے یہ کتاب واپس کر کے میر صاحب موصوف ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے بھی استاد تھے.(مؤلف)
۴۹ پھر قرآن شریف پڑھنے پر اصرار کیا.وہ مجھے حضرت مولوی غلام حسن صاحب جو سنیاروں کے محلہ میں رہتے تھے، کے پاس لے گئے اور قرآن شریف پڑھانے کے لئے اُن کے سپر د کر دیا.چنانچہ چند ماہ پڑھتا رہا مگر آیات کا ربط مجھے سمجھ نہ آیا.ان سے بھی اس بارہ میں دریافت کیا.انہوں نے کہا کہ مصنوعی باغ میں درختوں کی ترتیب ہوتی ہے مگر قدرتی باغ یعنی جنگلوں میں کوئی ترتیب نہیں ہوتی.یہی حال مصنوعی کتب اور قدرتی کتاب یعنی قرآن شریف کا ہے.الہی کتاب میں ہمیں انسانی کتابوں کی ترتیب نہیں مل سکتی.اس جواب سے میری تسلی نہ ہوئی چنانچہ میں نے اُن سے پڑھنا چھوڑ دیا.چونکہ میں طالب علم تھا اور مذہبی مباحثوں میں میرا بہت حرج ہوتا تھا.اس لئے میں نے اس امر کو طالب علمی کے بعد کے زمانہ پر ملتوی کر دیا.۱۹۰۳ء تک مجھے مذہب میں کوئی دلچپسی باقی نہ رہی مگر پھر بھی میں نماز با قاعدہ پڑھتا رہا کیونکہ اگر میری کوئی نماز چھوٹ جاتی تھی تو جسمانی تکلیف یا مالی رنگ میں مجھے سزا ملتی تھی.اس لئے میں نماز پڑھنے میں بہت با قاعدہ تھا.۱۹۰۳ء میں جب میں ٹرینگ کالج میں پڑھتا تھا تو مجھے یہ خیال آیا کہ میں انگلستان چلا جاؤں اور وہاں اسلامی مبلغ کے طور پر زندگی بسر کروں.چنانچہ اس کا ذکر میں نے حضرت مولوی غلام حسین صاحب جھنگی ہی سے کیا.وہ بھی ان دنوں وہاں ٹریننگ کالج میں پڑھتے تھے.انہوں نے فرمایا کہ اگر تمہارا یہ خیال ہے تو حضرت مرزا صاحب کی طرف توجہ کرو.اس وقت ان کی یہ بات مجھے پسند نہ آئی." ٹرینگ کالج سے کامیاب ہو کر ۱۹۰۴ء میں آپ خوشاب مڈل سکول میں ملازم ہوئے تو پھر آپ نے مذہب کی ملتوی کردہ تحقیق کو شروع کر دیا.آپ کے دل میں خیال آیا کہ اگر مذہب میں کوئی صداقت ہے تو صرف اسلام میں ہی ہو سکتی ہے اور اگر اسلام میں کوئی صداقت المراد حضرت مولوی غلام حسین صاحب مرحوم مدفون بہشتی مقبره ربوه ( تاریخ وفات ۲۴ جنوری ۱۹۵۰ء آپ صحابی تھے اور ملازمت میں ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز سے پنشن حاصل کر کے صدر انجمن احمد یہ میں بطور ایک اعلیٰ کارکن کام کرتے رہے اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پروفیسر لنڈن کے تایا اور خسر تھے.(مؤلف)
نہیں تو پھر کوئی مذہب سچا نہیں.محض چند اخلاقی اصول سکھلا دینا کوئی بڑی بات نہیں.مذہب کا کام خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے.اور مذہب کا فرض ہے کہ وہ متلاشی کو ایسا راستہ دکھلائے جو اُسے خدا تک پہنچائے.چنانچہ آپ نے اس تحقیقات کو اس رنگ میں شروع کر دیا کہ چونکہ اسلام نماز پر بہت زور دیتا ہے تو کیا نماز واقعی کوئی حقیقت رکھتی ہے.آپ ہر مولوی سے صرف یہی ایک سوال کرتے تھے کہ کیا انہیں نماز میں کوئی لذت حاصل ہوتی ہے اور ان کی توجہ خدا کی طرف مبذول رہتی ہے.لیکن ہر ایک سے تقریبا نفی میں جواب ملتا تھا.اکثر کا جواب یہ ہوتا کہ نماز شروع کرتے اور ختم کرتے وقت اگر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہو تو نماز قبول ہو جاتی ہے لیکن اس کے قبول ہونے کا وہ کوئی ثبوت نہ دے سکتے تھے.اسی حالت میں چند ماہ گذر گئے.چنانچہ آپ کی تبدیلی شاہ پور ہوگئی وہاں مڈل سکول تھا.جو شاہ پور کچہری میں گویا شہر شاہ پور سے دو تین میل کے فاصلہ پر تھا.اس سکول کے مدرس زیادہ تر ہندو تھے اور مسلمان مدرس صرف تین چار تھے.جو باہر کے دیہات میں رہتے تھے اس لئے آپ کو یہاں بالکل تنہا رہنا پڑا.سکول کے وقت کے بعد آپ کو بالکل تنہائی حاصل تھی.آپ کو اس میں یہ خیال پیدا ہوا کہ بجائے مولویوں سے پوچھنے کے براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہی کیوں نہ دریافت کیا جائے.چنانچہ ہر نماز کے بعد یہ دعا شروع کی کہ :- ”اے میرے مولیٰ کریم میں تیرا عاجز بندہ تیرا رستہ دریافت کرنا چاہتا ہوں.تو خود بتادے کہ میں تجھے کس طرح پاسکتا ہوں اور اگر مجھے تجھ تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہ ملا تو میں مذہب بالکل چھوڑ دوں گا اور قیامت کے روز حضور سے عرض کروں گا کہ باوجود کوشش کرنے کے مجھے حضور کا راستہ نہیں ملا.چند روز دعا کرنے کے بعد آپ کی تبدیلی بمقام ڈسکہ ہوگئی.جہاں حضرت مولوی جان محمد صاحب سے آپ کے مراسم ہو گئے.حضرت مولوی صاحب آپ کے چچا چوہدری محمد خان صاحب کے دوست تھے اور اس وقت احمدی ہو چکے تھے.ایک دن سیر کے دوران میں آپ نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ میری توجہ نماز میں نہیں رہتی معلوم ہوتا ہے کہ مجھے نماز
۵۱ پڑھنی نہیں آتی.آپ مجھے نماز پڑھنا سکھا دیں.چنانچہ ان کے سکھلانے پر آپ کی توجہ نماز میں قائم رہنے لگی.حضرت مولوی صاحب نے یہ بتلایا کہ اپنی ضروریات کے متعلق نماز میں اپنی زبان میں بہت دعائیں کرنی چاہئیں اور اگر توجہ کسی کام کی طرف چلی جائے تو پھر اسی کے متعلق دعا کر لینی چاہئے.اس طرح سے نماز میں توجہ قائم رہ سکتی ہے.آپ نے مولوی صاحب کے بتلائے ہوئے طریق پر نماز پڑھنی شروع کی.گو اس طرح زیادہ وقت صرف ہوتا تھا مگر لطف خوب آتا تھا.اس بارہ میں کہ احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے.اسے آپ نے اس طرح حل کیا کہ احمدیوں سے غیر احمدیوں کے رنگ میں اور غیر احمدیوں سے ایک احمدی کے طور پر بحث کرتے.چنانچہ آپ کے دل نے بہت جلد فیصلہ کر لیا کہ احمدی حق پر ہیں اور اسلام کی خدمت اسی میں ہے کہ وفات حضرت عیسی " پر خوب زور دیا جائے.اور مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان بنانے کی کوشش کی جائے.سو جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۰۵ء کے موقع پر آپ حضرت مولوی جان محمد صاحب اور حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب کے ہمراہ قادیان آئے.قادیان میں حضرت مولوی جان محمد صاحب کے کلاس فیلو محکم دین نام جو امرتسر میں وکالت کرتے تھے.وہ آپ کو ہر روز بیعت کرنے کو کہتے بیعت کا واقعہ آپ کے الفاظ میں یوں ہے کہ:- ایک دن جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا جنازہ (قبرستان) روڑی سے بہشتی مقبرہ میں لے جانے کے لئے کھدوا ر ہے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی وہاں کچھ دوستوں کے حلقہ میں کھڑے تھے.محکم دین صاحب نے مجھے علیحدگی میں لیجا کر اور حضور کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ آپ کو اپنی وفات کے الہام ہورہے ہیں اور تم نے ضروری احمدی ہو جانا ہے.اس لئے بہتر ہے کہ تم فوراً بیعت کر لو ورنہ بعد میں پچھتاؤ گے.اس لئے میرا خیال فوراً بیعت کر لینے کا ہو گیا.اس
۵۲ لئے میں نے چوہدری مولیٰ بخش صاحب کو جن کا نام منارة امسیح کے کتبہ پر لکھا ہوا ہے کہا کہ میری بیعت کرا دیں.انہوں نے حضور کو رقعہ لکھ کر اندر بھیجا.حضور نے فوراً مجھے اندر بلالیا.آپ نے دستِ مبارک میں میرا ہاتھ لے کر میری بیعت لے لی.الحمد للہ علی ذالک.“ اس جلسہ پر میں نے حضرت مسیح موعود کی دو تقریریں سنی تھیں.ایک نئے مہمان خانہ میں اور دوسری نماز جمعہ کے بعد آریوں کے متعلق.مزید تعلیم بیعت کرنے کے بعد آپ کا یہ خیال تھا کہ آپ بی.اے پاس کرنے کے بعد قادیان چلے جائیں گے اور باقی زندگی وہیں گزاریں گے اور حضور کے حکم کے ماتحت جو خدمت ہو سکے گی کریں گے.بیعت کے بعد پھر بھی آپ کو دو دفعہ قادیان جا کر حضور کی زیارت سے مشرف ہونے کا موقع ملا.ایک دفعہ آپ چوہدری نذیر احمد صاحب ایم.اے ایل ایل بی سیالکوٹی کے والد ماجد ماسٹر سردار خان صاحب کے ہمراہ گئے تھے.چونکہ حضور کو اپنی وفات کے متعلق الہام ہو رہے تھے.اس لئے آپ نومبر ۱۹۰۷ء میں نوکری سے استعفا دے کر علی گڑھ کالج میں بی.اے کالج میں داخل ہو گئے.مئی ۱۹۰۸ء میں حضور کے وصال کی خبر سے آپ کو بہت صدمہ ہوا.اور آپ نواب وقار الملک کے پاس گئے جو اس وقت کا لج کمیٹی کے سیکرٹری تھے اور ان سے کالج کو بند کرنے کی درخواست کی.انہوں نے کہا کہ مجھے مرزا صاحب کی وفات کا بہت افسوس ہے.میں نے آپ سے عربی کی صرف و نحو پڑھی تھی مگر میں کالج بند نہیں کر سکتا.کیونکہ کالج کے بند کرنے کی شیعہ ممبر مخالفت کرتے ہیں.تاہم انہوں نے دوسرے دن احمدی طالب علموں کے لئے چھٹی کا نوٹس لگا دیا.ہجرت قادیان ۱۹۰۹ء میں جب آپ نے بی.اے کا امتحان پاس کر لیا تو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان
۵۳ کے ہیڈ ماسٹر مولوی صدرالدین صاحب نے آپ کو قادیان بلوالیا اور ۶ ارمئی ۱۹۰۹ء سے سکول کے کام پر لگا لیا.اس وقت چوہدری صاحب کا خیال تھا کہ آپ کو صرف مولوی محمد دین صاحب حال ناظر تعلیم ربوہ) کے ٹرینینگ کالج سے واپس آنے تک کے لئے کام پر لگایا گیا ہے لیکن ایک ماہ کے بعد آپ کو معلوم ہو گیا کہ انجمن نے آپ کو مستقل کر دیا ہے.گو قادیان سے باہر کے مدارس میں زیادہ تنخواہ ملتی تھی لیکن چونکہ آپ کی خواہش یہی تھی کہ آپ قادیان ہی میں مقیم رہیں.اس لئے آپ نے انکار نہیں کیا.۱۹۰۸ء میں پرانی قادیان سے باہر حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی کے سوا اور کوئی مکان نہ تھا.البتہ مدرسہ کی عمارت کے لئے اینٹیں پکانے والا بھٹہ جاری تھا.فروری ۱۹۱۰ ء میں قادیان میں طاعون پڑ جانے کی وجہ سے چوہدری صاحب بورڈنگ کے لڑکوں کو شہر سے باہر لے آئے اور مسجد نور کے قریب کے بڑ کے درخت کے پاس عارضی رہائش اختیار کی بعد میں جلد ہی بورڈنگ ہاؤس تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے چار کوارٹرزتعمیر ہو گئے.اس وقت باہر کی آبادی صرف بورڈنگ ہاؤس تعلیم الاسلام ہائی سکول ، اس کے چار کوارٹرز اور کوٹھی حضرت نواب صاحب پر مشتمل تھی.میں ہائی سکول میں اعلیٰ جماعتوں کو سائنس اور حساب پڑھا تا تھا اور بورڈ نگ میں سپر نٹنڈنٹ تھا.اقارب کی بیعت - آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ ہمارے گاؤں میں تشریف لائے ہیں اور خواب میں مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ یہ بزرگ حضرت مسیح موعود ہیں.حالانکہ میں میں نے ابھی تک آپ کو دیکھا ہوا نہیں تھا.اس وقت میں احمدی نہیں تھا بعد میں جب میں نے حضور کی زیارت کی تو آپ کی شکل مبارک بالکل ایسی ہی پائی.خواب میں میں نے ایک پلنگ پر عمدہ سا بستر کر کے آپ کو بٹھا دیا.اس خواب کی تعبیر یہ تھی کہ میرے گاؤں میں میری وجہ سے جماعت قائم ہو گی.چنانچہ میرے ذریعہ میرے خاندان کے اکثر افراد نے احمدیت قبول کی.فالحمد للہ علی ذالک.افسوس کہ یہ بڑ کا تاریخی درخت چند سال قبل معدوم ہو چکا ہے.(مؤلف)
۵۴ شوری میں شمولیت اور مالی و دیگر خدمات بطور عہدہ دار آپ کو مجلس شوریٰ میں بھی شمولیت کا موقع ملتا رہا ہے اور یہ بھی بہت بڑا اعزاز ہے.علاوہ ازیں سلسلہ کی مالی خدمات میں شریک ہونے کا بھی موقع ملتا رہا ہے.مدرسہ سے فارغ ہو کر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”آئینہ کمالاتِ اسلام کے بعض حصص انگریزی میں ترجمہ کر کے ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) میں شائع کرائے اور غالباً ۱۹۱۸ء میں آپ نے ریویو میں حضور کی کتاب ”چشمہ مسیحی کا بھی ترجمہ شائع کیا.آپ کو عربی پڑھنے کا بھی شوق ہوا.چنانچہ محترم مولوی محمد جی صاحب سے پڑھنی شروع کی حتی کہ آپ کتب دینیہ پڑھنے کے قابل ہو گئے.یہ دیکھ کر کہ عربی اردو لغات کا نہ ہونا عربی کی تعلیم میں روک ہے.آپ نے مولوی محمد جی صاحب کی مدد سے تَسْهِیلُ الْعَرَبِيَّةِ کے نام سے عربی اردو لغات تیار کر کے چھپوائی جو بہت مقبول ہوئی.خلافت ثانیہ کے آغاز میں ایک انگریز پروفیسر مارگولیتھ نامی جو انگلستان میں عربی علوم کا ایک مشہور عالم تھا اور یورپ میں اس کی اسلام کے متعلق واقفیت بہت سمجھی جاتی تھی ، قادیان آیا.چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مہمان نوازی کا انتظام میرے سپرد فرمایا.میں نے اس کو خان صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان واقعہ دار العلوم ) میں ٹھہرایا اور اس کو قادیان کی سیر کرائی.بعد دو پہر اس کو حسب الحکم حضوڑ کے پاس گول کمرہ میں لے گیا.اس کمرہ میں اس وقت میرے علاوہ محترم چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور حضرت محترم بھائی شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی تھے.پروفیسر صاحب کے سوال وجواب آپ جولائی ۱۹۱۷ء سے موصی ہیں اور تحریک جدید دفتر اول کے مجاہد ہیں.پانچبزاری کتاب صفحہ ۲۳۰ پر آپ کا نام ربوجہ راج گڑھ لاہور میں بعد ہجرت مقیم ہونے کے درج ہے.
حسب ذیل تھے :- ۵۵ پروفیسر اسلام کے سچا مذ ہب ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ حضور ہر ایک درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.اگر پھل اچھا ہو تو وہ درخت اچھا سمجھا جاتا ہے.اگر پھل خراب ہو تو خراب.اگر اس وقت عیسائی مذہب کے پیروؤں میں سے کوئی شخص وہ معجزات دکھا سکے جو حضرت عیسی نے دکھائے تھے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ عیسائی مذہب سچا ہے مثلاً اگر عیسائیوں میں سے کوئی شخص پانی پر چل سکے یا مردہ زندہ کر سکے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ عیسائی مذہب سچا ہے.اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے آدمی موجود رہتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض معجزات کو پھر دہرا سکتے ہیں اور یہی ثبوت اسلام کی صداقت کا ہے.پروفیسر: کیا آپ معجزات کے قائل ہیں؟ حضور جن معجزات کا قرآن شریف یا صحیح حدیثوں میں ذکر ہے.ہم ان کے قائل ہیں.پروفیسر : کیا یہ معجزه که قرآن شریف جیسی کتاب نہیں لکھی جاسکتی دہرایا جا سکتا ہے؟ حضور : ہاں اس چھوٹے سے گاؤں میں ایک شخص ہوا ہے جس نے عربی زبان میں کتاب لکھی ہے اور دعویٰ کیا ہوا ہے کہ اس کتاب جیسی اور کوئی کتاب کوئی شخص یا جماعت نہیں لکھ سکتی.چنانچہ اس کتاب کو لکھے ہوئے کئی سال گذر گئے ہیں اور آج تک کسی نے اس کا جواب نہیں دیا.یہ دعوئی کہ کوئی بھی اس جیسی کتاب نہیں لکھ سکے گا.کتاب لکھنے سے پہلے کیا گیا تھا اور کتاب اس وقت لکھنی شروع کی تھی.جب اکثر مخالف علماء کو اس کا علم ہو گیا تھا.مگر کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ ایسی کتاب شروع کرتا.پروفیسر: کیا آپ شق القمر کے معجزہ کو مانتے ہیں؟ حضور : ہاں کشفی نظارہ تھا.جو رسول کریم اور حضور کے ساتھیوں کو دکھایا گیا تھا.عرب لوگ قمر کو شاہی طاقت کا نشان سمجھتے تھے.چنانچہ ان کے جھنڈوں پر قمر کا نشان ہوتا تھا.جب خیبر فتح ہوا تو رسول کریم نے خیبر کے سردار کی لڑکی سے شادی کی.اس لڑکی نے دو سال پہلے یہ خواب دیکھی تھی کہ چاند اس کی جھولی میں آپڑا ہے.صبح کو جب اس
۵۶ نے یہ خواب اپنے باپ کو سنائی تو اس نے ناراضگی کے لہجہ میں کہا کہ تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے.حضور کو قمر کا دوٹکڑے ہونا کشفی دکھایا گیا.جس کا مطلب یہ تھا کہ عرب کی شاہی طاقت آپ کے ہاتھ پر دوٹکڑے ہو جائے گی اور آپ عرب کو فتح کرلیں گے.کشفی نظارے نہ صرف اہلِ کشف کو ہی نظر آتے ہیں بلکہ بعض اوقات اس کے ساتھیوں کو بھی نظر آ جاتے ہیں.چنانچہ یہ نظارہ نہ صرف حضور نے دیکھا بلکہ آپ کے ساتھیوں کو بھی دکھایا گیا.حضرت خلیفہ اوّل کا وصال اور خلافت ثانیہ کا آغاز آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات سے قریباً ایک سال قبل میں نے رویا دیکھا کہ صبح کی نماز پڑھنے کے لئے حضرت مسیح موعود کسی مسجد کی طرف جارہے ہیں اور میں آپ کے پیچھے پیچھے چل رہا ہوں.آپ کے ساتھ ہی میں بھی مسجد میں داخل ہوا.حضور نماز پڑھانے کے لئے امام کے مصلے پر کھڑے ہو گئے اور میں پیچھے کھڑا ہو گیا.اور لوگ بھی نماز میں شامل تھے ، جن کو میں نہیں جانتا تھا.نماز سے فارغ ہو کر حضور میری طرف منہ کر کے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ہم اس دنیا میں اب تھوڑے روز ہیں.میں نے سراٹھا کر آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو وہ حضرت مسیح موعود نہ تھے بلکہ حضرت خلیفہ اول تھے.چنانچہ ایک سال کے بعد آپ وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.حضرت خلیفہ اول کے عہد خلافت سے کٹ جانے والوں نے جو کچھ فتنہ وفساد پیدا کیا اس کے بارہ میں اصحاب احمد جلد دوم میں ایک طویل مضمون لکھا جا چکا ہے.محترم چوہدری صاحب کے الفاظ میں چوہدری صاحب کے خیالات دربارہ خلافت وغیرہ کا ذکر کیا جاتا ہے.۱۳ / مارچ ۱۹۱۴ء کو جمعہ پڑھ کر ہم شہر سے واپس آ رہے تھے کہ راستہ میں اطلاع ملی کہ حضرت خلیفہ اول وفات پاگئے ہیں.میں سیدھا حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر گیا اور حضور کے چہرہ مبارک کی زیارت کر کے واپس اپنے گھر آ گیا.شام کے وقت جب میں مسجد نور سے نماز پڑھ کر نکلا تو ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ مولوی محمد علی صاحب نے آپ کو بلایا ہے.
۵۷ میں آپ کی کوٹھی پر گیا.آپ کی بیٹھک کا کمرہ آدمیوں سے بھر پور تھا.مولوی محمد علی صاحب نے بیٹھے ہوئے ہی گفتگو شروع کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ فی الحال بیعت کسی کی نہیں کرنی چاہئے.حضرت خلیفہ اول کو دفنانے کے بعد جماعت کے بڑے بڑے آدمیوں کو جمع کیا جائے گا.اور جو مشورہ قرار پائے گا اس پر عمل کیا جائے گا کسی نے کوئی جواب نہ دیا.صرف میں نے یہ کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے.خلیفہ فورا چنا جانا چاہئے.اس پر ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے کہا کہ ہماری جماعت میں خلافت کے لائق صرف تین آدمی ہیں.”میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی ، مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری اور مولوی محمد علی صاحب“.میں نے کہا کہ مولوی محمد علی صاحب بہتر ہیں مگر مولوی محمد علی صاحب نے بہت حقارت آمیز لفظوں میں اس کا انکار کیا اور کسی نے کوئی بات نہ کی اور مجلس برخواست ہوئی.جب میں بورڈنگ میں واپس آیا تو اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی مجھے ملے وہ بھی اس مجلس سے واپس آرہے تھے.میں نے ذکر کیا کہ اگر خلیفہ مقرر نہ کیا جائے تو بہت فساد ہوگا.مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنے کمرہ میں چلے گئے.میں پھر مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی پر واپس چلا گیا.وہاں اس وقت مولوی صدرالدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو تار لکھ رہے تھے.میں نے پھر بڑے زور سے کہا کہ خلیفہ ضرور چلنا چاہئے.ورنہ بہت فساد ہوگا.مگر میری طرف کسی نے توجہ نہ کی اور میں واپس اپنے مکان پر چلا آیا.میرا ایک چھوٹا لڑکا فضل الہی نام چند روز سے سخت بیمار تھا.اس رات اس کو سخت تکلیف رہی.دوسرے دن صبح کو ایک لڑکا مجھے ایک ٹریکٹ دے گیا.جو مولوی محمد علی صاحب نے لکھا ہوا تھا.اس کا مضمون صرف یہی تھا کہ فی الحال کسی کی بیعت کرنی ضروری نہیں.حضرت خلیفہ اول کے دفنانے کے بعد دیکھا جائے گا.مگر اس کے دلائل بہت کمزور تھے.اپنے لڑکے کے سخت بیمار ہونے کی وجہ سے میں تمام دن باہر نہیں گیا تھا.عصر کے قریب میرے لڑکے کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی.میں بورڈنگ سے منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی کو بلانے کے لئے گیا.وہ اس وقت بورڈنگ کے شمالی کمرہ میں کچھ اور لوگوں کے ساتھ کھڑے مسجد نور کی طرف دیکھ رہے تھے.جہاں لوگ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیعت کر رہے تھے.میں نے ان کو اپنے لڑکے کی
۵۸ حالت بتائی.وہ میرے ساتھ گھر آئے تو دیکھا کہ لڑکا فوت ہو چکا تھا.میں بیوی کو یہ کہہ کر کہ لڑکے کو سنبھالو.خود باہر نکل آیا اور حضرت خلیفہ اول کے جنازہ میں شامل ہونے کے لئے چلا گیا جو سکول کی شمالی گراؤنڈ میں ہو رہا تھا.نماز جنازہ کے بعد منشی محمد اسمعیل صاحب، آپ کے بھائی غلام قادر صاحب اور چوہدری حاکم دین صاحب کو ساتھ لے کر میں گھر چلا آیا اور ہم چاروں نے بچے کی نعش کو روڑی کے قبرستان میں لے جا کر دفن کیا.دوسرے دن صبح میں مولوی محمد علی صاحب کے پاس گیا اور ان سے بیعت نہ کرنے کا سبب پوچھا.انہوں نے کہا کہ میرا صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب کے عقائد کے ساتھ اختلاف ہے.میں نے پوچھا وہ اختلاف کیا ہے.انہوں نے کہا کہ وہ غیر احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں اور میں ان کو مسلمان سمجھتا ہوں.میں نے پوچھا کہ یہ بات آپ کی بیعت میں کس طرح روک ہو سکتی ہے.انہوں نے فرمایا کہ میں مصنف ہوں اور مجھے کہیں نہ کہیں اپنے عقائد کا اظہار کرنا پڑتا ہے میں نے پوچھا اس کے سوا اور کوئی اختلاف؟ کہنے لگے اور کچھ نہیں.میں واپس چلا آیا اور منشی صاحب اور بھائی غلام قادر صاحب کو ساتھ لے کر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے آیا.راستہ میں حضرت عرفانی صاحب ملے.وہ بھی ہمارے ساتھ ہو گئے.حضور کے مکان پر پہنچ کر ہم نے حضور کو اپنے آنے کی اطلاع کی.خادمہ نے کہا کہ آپ سوئے ہوئے ہیں.میں نے کہا کہ ہم ایک ضروری کام کے لئے حاضر ہوئے ہیں.تم حضور کو جگا دو.اس نے آ کر بتایا کہ حضور کی طبیعت خراب ہے میں نے کہا کہ پردہ کرا دو اور ہمیں حضور کے پاس لے چلو.اس نے واپس آکر ہمیں ایک کمرہ میں بٹھلا دیا اور تھوڑی دیر کے بعد حضور خود تشریف لے آئے.میں نے اپنے بچے کی وفات کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا کہ ہمیں کیوں اطلاع نہ دی.ہم بھی جنازہ میں شامل ہوتے.میں نے عرض کی کہ حضرت خلیفہ اول کے جنازہ مبارک کے مقابل میں ایک بچے کا جنازہ کیا اہمیت رکھتا ہے.اس لئے میں نے کسی دوست کو اطلاع نہیں دی تھی اور عرض کیا کہ میں نے اس وقت تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آیا غیر احمدی کافر ہیں یا مسلمان کیونکہ اس مسئلہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ میرے سامنے نہیں آیا.کیا اس صورت میں میں آپ کی بیعت کر سکتا ہوں.فرمایا کہ اس مسئلہ سے یا
۵۹ کسی اور مسئلہ سے جماعت میں فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو میرا حق ہوگا کہ آپ کو اس کے بیان کرنے سے منع کر دوں.میں نے عرض کیا کہ خلیفہ کی ضرورت جماعت کے انتظام کے لئے ہے اور اس کا فرض ہے کہ جماعت میں تمام مفسدانہ تحریکات سے روکے.میں مصنف نہیں ہوں اور نہ ہی میں ایڈیٹر یا وعظ ہوں.اس لئے مجھے اس کے بیان کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی اور اگر آپ حکم دیں گے کہ میں دوستوں میں بھی اس کا ذکر کبھی نہ کروں تو میں وہ بھی نہیں کروں گا اور ممکن ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد مجھے اس مسئلہ کو سمجھ ہی آجائے.اس کے بعد آپ نے ہماری بیعت لے لی.بعد ازاں ۱۲ / اپریل ۱۹۱۴ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق شوریٰ کا اجلاس خلافت کے استحکام کے لئے منعقد ہوا اور اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجلس معتمدین کی خدمت میں ذیل کاریز ولیوشن بذریعہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب وغیرہ پیش کیا جائے اور اس کی ایک نقل مجلس کے سیکرٹری کو دی جائے کہ آئندہ کے اجلاس میں اسے پیش کریں.ریزولیوشن یہ تھا کہ قواعد صدرانجمن کی دفعہ ۱۸ میں الفاظ ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جگہ الفاظ حضرت خلیفہ اسی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی درج کئے جائیں.اس اجلاس کی اہمیت کے متعلق گذشتہ جلدوں میں تفصیل دی جا چکی ہے.اس اجلاس میں قادیان اور بیرون کے ایک سو نوے نمائندگان شامل ہوئے تھے.نمبر ۱۵۹ پر محترم چوہدری صاحب کا نام یوں درج ہے:- چوہدری غلام محمد صاحب بی.اے سپر نٹنڈنٹ بورڈنگ ہاؤس.ہائی سکول- قادیان “ !! خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کا ایک عجیب واقعہ آپ بیان کرتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شدید مصائب میں اللہ تعالیٰ کس طرح دعائیں سنتا اور دستگیری فرماتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ خلافت ثانیہ کے آغاز میں ایک گریجویٹ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تھرڈ ماسٹر اس کا ایک حصہ منشی محمد اسمعیل صاحب کے حالات میں ان کی زبانی ( اصحاب احمد جلد اوّل ص۱۸۵ پر درج ہے.(مؤلف)
مقرر ہوئے.اس غرض سے کہ میری علیحدگی سے ان کو سیکنڈ ماسٹر بننے کا موقع مل جائیگا.انہوں نے میرے متعلق یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ میں نعوذ باللہ منافق ہوں.مجھے اس سے بہت رنج ہوا.میں نے ارادہ کیا کہ سرکاری ملازمت اختیار کرلوں اور جب میں باہر سے قادیان آیا کروں گا تو پھر مجھے کوئی بھی منافق نہ سمجھے گا.چنانچہ مجھے گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر میں ملازمت مل گئی.اس پر میں نے ارادہ کیا کہ میں ہمیں روز تک دعا کر کے جانے یا رہنے کے متعلق فیصلہ کروں گا.پانچ روز دعا کرنے کے بعد میں نے خواب دیکھا کہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھا رہا ہوں اور میری دو گھنٹیاں خالی ہیں.ان میں میں ہائی سکول سے شہر قادیان چلا گیا.وہاں ایک کمرے میں دو چار پائیاں بچھی ہیں.ان میں سے ایک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کی طرف منہ کر کے چوکڑی مار کر بیٹھے ہوئے ہیں.میں دوسری چار پائی پر بیٹھ گیا.میں حضور کی گفتگو سننے میں اس قدر مشغول ہوا کہ سکول جانا بھول گیا.جب دیر کے بعد مجھے یاد آیا تو میں گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور حضور سے مصافحہ کیا.حضور نے میرے ہاتھ کو پکڑے رکھا.مجھے خیال آیا کہ جب تک دوسرا آدمی ہاتھ ڈھیلا نہ کرے.حضور ہاتھ نہیں چھوڑا کرتے اس لئے میں نے چھوڑنے کے لئے ہاتھ ڈھیلا کیا.حضور نے میرے ہاتھ کو اور مضبوطی سے پکڑے رکھا اور مجھے ٹھہرانے کے لئے اونچی آواز سے دعا کرنی شروع کی.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے خدا! اس کو قادیان رہنے کی توفیق دے.اس کے بعد حضور نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور میں سکول کی طرف روانہ ہو گیا.ریتی چھلہ میں پہنچا تو سوچا کہ میں نے قادیان سے چلا جانے کا ارادہ کیوں کیا تھا.پھر میں نے دل میں کہا کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور ان کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ ہوئے تھے.ان کی وفات پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ہوئے اور بعض لوگوں نے مجھے منافق کہنا شروع کر دیا تھا اس لئے میں نے باہر چلا جانے کا ارادہ کیا تھا.مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس آگئے ہیں اس لئے اب باہر جانے کی ضرورت نہیں.اس خواب کے بعد باہر کی ملازمت سے میں نے انکار کر دیا.اس کے قریباً دو سال کے بعد میری موجودگی میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک مجلس میں ذکر کیا کہ میری خلافت کے ابتدا میں بعض دوستوں کے متعلق مجھے کہا گیا تھا کہ وہ منافق ہیں ان کو نکال دیا
۶۱ جائے تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک عمارت کے سامنے کھڑا ہوں اور ایک شخص اس کی طرف اشارہ کر کے کہ رہا ہے کہ اگر آپ ایک ایک اینٹ کر کے اس عمارت سے نکال دیں گے تو یہ عمارت گر جائے گی.اس خواب پر میں نے ان احباب کو جماعت سے نکالنے کا ارادہ ترک کر دیا اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ دوست سجن کو منافق کہا جاتا تھا میرے مخلص احباب میں سے ہیں.حضور سے یہ سُن کر میں نے اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے فضل سے مجھے سلسلہ کی عمارت کی ایک اینٹ قرار دیا.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ مکرم چوہدری صاحب کا خواب حضور کے الہام انا المسيح الموعود مثيله و خليفة ١٣ کے مطابق ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے چوہدری صاحب کو استقامت عطا فرمائی اور لغزش سے محفوظ رکھا.قادیان میں تجارت کا آغاز احباب اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ آج سے قریباً پینتیس برس قبل مسلمان تجارت سے بالکل غافل تھے.جیسے لوہا لوہا گرم ہونے پر اپنی مرضی کے موافق ڈھال لیتا ہے اسی طرح حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے حالات پیدا ہونے پر جن کے بیان کا یہاں موقع نہیں مسلمانانِ ہند کو تجارت کی تلقین کی اور بہ تو اتر تلقین کی.جس کے شاندار نتائج جلد ہی نکلنے شروع ہو گئے تھے اور بالآخر یہ امر مسلمانوں کی تجارت کے فروغ کے ذریعہ ان کے تمول اور اقتصادی استحکام پر منتج ہونے لگا.قادیان میں اس تحریک کا آغاز سات آٹھ سال پہلے ہو چکا تھا.چنانچہ چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں کہ ابتدا میں قادیان میں ساری تجارت ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی اور احمدیوں کی صرف دو تین دو کا نہیں تھیں اور وہ بھی بہت کمزور حالت میں تھیں.میں نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمیں کوئی کو اپر سیٹ سٹور کھولنا چاہئے.جو احمدیوں کی ضروریات پورا کر سکے.حضور کے ارشاد پر میں نے قواعد بنائے.حضور کی مقرر کردہ ایک کمیٹی نے انہیں دیکھا
۶۲ اور معمولی کمی بیشی کی اور حضور نے بھی منظوری دے دی اور اس کا نام احمد یہ سٹور“ رکھا.جلسہ سالا نہ (۱۹۱۶ء یا ۱۹۱۷ء) کا قرب تھا.ایک چائے کی دکان کھولی جس سے سترہ روپے کچھ آنے منافع ہوا.اس سے وہ اخراجات پورے کئے جو جلسہ پر سٹور کے لئے اشتہاروں کے لئے کئے تھے.چنانچہ جلسہ پر سٹور کے لئے پانصد روپیہ جمع ہو گیا.حضور نے میری تحریک پر چار حصص خریدے.فی حصہ پانچ روپے قیمت تھی.میں نے دس حصص خرید کئے.اس طرح میں نے بہت سے حصص فروخت کئے اور حضور کی منظوری سے مندرجہ ذیل پانچ افراد پرمشتمل ایک کمیٹی سٹور کے انتظام کے لئے میں نے مقرر کی (۱) حضرت قاضی امیرحسین صاحب (۲) منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی (۳) شیخ نورالدین صاحب (۴) منشی نعمت اللہ صاحب کلرک بورڈنگ ہاؤس (۵) میں خود.آپ کا بیان ہے کہ دوکاندار کی تلاش تھی.کوئی دوکاندار اس امر پر راضی نہ ہوا کہ حساب کتاب با قاعدہ رکھے.چوہدری حاکم دین صاحب سے میں نے درخواست دلائی جو اکیلی درخواست تھی اور منظور ہوگئی.شیخ نور الدین صاحب کو مینجر مقرر کیا اور بعد میں چوہدری حاکم دین صاحب نے ان کو حصہ دار بنالیا.دکان کا کام پانصد روپیہ کے سرمایہ سے شروع کیا گیا.دو ماہ کے بعد دوکانداروں کی طرف سے مخالفت ہوئی.مخالفت کا سرغنہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری (بعد ازاں مخرج اور بانی فتنہ ) تھا.حضور نے فیصلہ فرمایا کہ سٹور صرف تھوک کا کام کرے پر چون کا نہ کرے اور ادھار نہ فروخت کرے.میں نے اس خیال سے کہ مصری صاحب مخالفت کریں گے.اور قاعدہ کی رُو سے جس کے حصص ایک سو روپیہ سے کم کے ہوں، ہمبر نہیں رہ سکتا اپنے حصص سوائے ایک کے فروخت کر دیئے.میرا نام فہرست میں نہ پا کر حضور نے اپنی طرف سے مجھے ممبر بلکہ سیکرٹری بھی مقرر فرمایا.میری غیر حاضری میں مصری صاحب نے جو مینجر مقرر ہوئے تھے بہت سا ایسا فضول سودا خرید لیا جو نقصان پر فروخت کرنا پڑا.بہر حال چوہدری حاکم دین صاحب اور شیخ نور الدین صاحب کی محنت اور کوشش سے سٹور چل نکلا اس کا سرمایہ نوے ہزار روپیہ کے قریب پہنچ گیا.اس کے ماتحت ایک دکان تھوک کی دود کا نہیں، پرچون کی، دیار کی لکڑی اور ایندھن کی دکان ، ایک بھٹہ اور آٹا پینے کا انجن جاری کیا گیا لیکن احمد یہ سٹور کا
۶۳ کام بالآ خر چل نہ سکا.جس کا مجھے افسوس ہے.اس کا باعث یہ امر ہوا تھا کہ میں سٹور سے الگ ہو گیا تھا اور دوسرے لوگ تجارت کے کام سے واقف نہ تھے.میں اس لئے اس کام سے الگ ہو گیا کہ یہ کام بہت بڑھ گیا تھا اور پورا وقت چاہتا تھا لیکن سکول والے مجھے نہیں چھوڑتے تھے.مجھے اس کام کی طرف منتقل کیا جا سکتا تھا لیکن جو صاحب اس بارہ میں سٹور کے افسر تھے انہوں نے ایسا نہ کیا.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی اجتماعی رنگ میں یہ پہلی کوشش تھی اور جہاں تک مجھے علم ہے بظاہر نقصان کے باوجود یہ ایک مفید تجربہ تھا جس سے اس میں کام کرنے والوں اور دیکھنے والوں نے تجربہ کے رنگ میں بہت فائدہ اٹھایا اور آئندہ زندگی میں ان کے کام آیا.نصرت گرلز ہائی سکول کی کالج تک ترقی ! نصرت گرلز ہائی سکول اور کالج اس وقت ربوہ میں اعلیٰ پیمانہ پر جاری ہیں.ان کی ترقی کے مراحل سلسلہ کی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں.اس سلسلہ میں چوہدری صاحب بیان فرماتے ہیں کہ:- ۱۹۳۵ء میں مجھے نصرت گرلز سکول میں ( بطور مینجر منتقل کر دیا گیا.اس وقت پڑھائی کا تسلی بخش انتظام نہ تھا.لڑکیاں برقع پہن کر بیٹھی ہوتی تھیں اور حافظ صوفی غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشس کتاب پڑھ کر ترجمہ کر دیتے تھے اور لڑکیاں برقعوں کے اندر کتا ہیں دیکھتی جاتی تھیں اور کبھی کسی لڑکی سے کتاب نہ پڑھواتے تھے.ایسی حالت میں پڑھوانا ممکن نہ تھا.شاف میں صرف ایک ٹرینڈ استانی تھی اور عمارت بھی سخت خراب تھی.کچے فرش والے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے.جن میں ہوا کی آمد ورفت کا کوئی انتظام نہ تھا.میں نے سوچا کہ مدرسہ کی حالت اچھی نہیں ہو سکتی جب تک اچھی عمارت اور تربیت یافتہ استانیاں نہ ہوں.اس زمانہ میں ایسی استانیاں کمیاب تھیں.سو اس کمی کو پورا کرنے کے لئے مدرسہ کو مڈل سے ہائی بنانے کی تجویز کی اور اس کے لئے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نزدیک ایک عمارت کرایہ پر لی اور حضرت مولوی محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ( حال ناظر تعلیم ربوہ ) کے مشورہ سے اور انسپکٹر مدارس کی اجازت سے لڑکیوں کی ہائی کلاسز لڑکوں کے ہائی سکول کے سیکشن کے طور پر بنادیں.
۶۴ لڑکیاں پردے میں بیٹھتی تھیں اور لڑکوں کے ہائی سکول کے اساتذہ پڑھاتے تھے.بہت سے تجارب کے بعد میں اس میں کامیاب ہو گیا کہ لڑکیاں پردے میں بیٹھ کر پڑھ سکیں.تین سال سیکشنوں والا انتظام جاری رہا.اس کے بعد ایک ہندوانسپکٹر مدارس آ گیا.جس نے لڑکوں کے سکول کے ساتھ لڑکیوں کے سیکشن رکھنے نامنظور کر دیئے.اس پر میں نے مستقل طور پر لڑکیوں کا ہائی سکول جاری کر دیا.محترمہ امۃ العزیز صاحبہ جو ایف-اے-ہے-اے-وی پاس تھیں.ملازمت میں لے لیں (جواب ربوہ میں ہیڈ مسٹریس ہیں ) بعد ازاں صدر انجمن احمدیہ نے حکیم محمدعمر صاحب والی شاندار عمارت خرید لی اور نصرت گرلز سکول اس میں منتقل ہو گیا.یہاں میں نے ایف.اے اور پھر بی.اے کی کلاس کھول لی اور ٹیچر دوستوں سے وقت لے کر اور کچھ خود پڑھا کر ایف.اے اور پھر بی.اے کلاس بھی مکمل کر لی اور ان کے امتحانات کے لئے قادیان میں سنٹر کھلوالیا.بی.اے کا امتحان یہاں کی طالبات کا میرے زمانہ کارکردگی میں ایک بار ہوا تھا.اس کے بعد میں ریٹائر ہو گیا.جس کے بعد کالج کی کلاسیں بند ہو گئیں.اب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہ سے ربوہ میں ہائی سکول کے علاوہ بی.اے تک گرلز کالج بھی جاری ہوا ہے.جو خوب کامیابی سے چل رہا ہے اور اس کی منتظمات میرے پرانے کالج کی طالبات ہیں.فالحمد للہ علی ذالک.فالحمد للہ علی ذالک دعاؤں کی قبولیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ناقابل تردید معجزہ یہ ہے کہ حضور نے اپنی جماعت میں ایک بے پناہ یقین دعاؤں میں اور ان کے قبول ہونے میں پیدا کر دیا ہے اور اس دجالی فتن کے زمانہ میں ایسا ایمان و ایقان پیدا کرنا الہی تائید کے سوا ہر گز ممکن نہیں.چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ بیعت کرنے سے قبل مجھے شاذ ہی رویائے صادقہ ہوتی تھیں لیکن بعد بیعت بکثرت ہونے لگیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے اثبات کے لئے مجھے کسی دلیل کی ضرورت نہ رہی.مجھے جب بھی کوئی تکلیف ہوئی ہے حضرت مسیح موعود خواب میں آئے ہیں اور مجھے تسلی دی ہے.
آپ کی قبولیت دعا کے بعض واقعات یہاں درج کئے جاتے ہیں کہ یہ امر بھی روح پرور.اور موجب از دیا دایمان ہے.آپ بیان فرماتے ہیں:.(۱) بیعت کے تھوڑے عرصہ بعد کی بات ہے کہ میں ڈسکہ کے مڈل سکول میں ملازم تھا اور وہاں سے ہرا تو ار کو اپنے گاؤں آ جاتا تھا.ایک دفعہ شدت گرما کے باعث میں نے گھر میں کہا کہ میں آئندہ اتوار نہیں آؤں گا.ہمارے گاؤں میں ایک میاں امام الدین حکیم امام مسجد اور میرے دوست تھے.ہفتہ کی صبح کو میں نے خواب دیکھا کہ وہ فوت ہو گئے ہیں اور میری خواب میں جب کسی مرد کو مردہ یا بیمار دیکھوں تو مراد اس کی بیوی کی تکلیف ہوتی ہے.مجھے یقین تھا کہ میری خواب کچی ہے.میں شام کو گاؤں چلا گیا.مجھے خدا تعالیٰ نے یہ علم دیا ہوا ہے کہ میری کونسی خواب کچی ہوتی ہے.استفسار پر میں نے اپنی مرحومہ بیوی کو بتایا کہ مجھے خواب میں اہلیہ میاں امام الدین کی علالت کا علم ہوا تھا.اس لئے بیمار پرسی کے لئے آ گیا ہوں.انہوں نے ہنس کر کہا کہ وہ تو بالکل اچھی بھلی ہے.مسجد میں بعد نماز مغرب مولوی صاحب موصوف سے بھی ملاقات ہوئی اور ان کے پوچھنے پر بھی میں نے یہی وجہ بتائی.تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ میری بیوی فی الحال تو اچھی ہے.بوقت عشاء وہ میرے گھر پر آئے.میں نے پوچھا کہ آپ کی بیوی گاؤں ہی میں ہے اپنے والدین کے ہاں تو گئی ہوئی نہیں.تو مولوی صاحب نے مسکرا کر کہا کہ یہیں ہے.اگر تم رہنے دو گے.ہم مسجد میں پہنچے موصوف نے نماز شروع کی.میں وضو کر رہا تھا کہ ان کا بھائی دوڑتا ہوا آیا کہ بھائی کوشش پڑ گیا ہے اور دندن پڑ گئی ہے جو کھلتی نہیں.چنانچہ ان کونماز تو ڑ کر جانا پڑا.میں بھی نماز پڑھ کر وہاں پہنچا.ابھی تک حالت بدستور تھی.چنانچہ وہاں میں نے دو نفل ادا کر کے دعا کی کہ اے مولا کریم تو اپنے فضل سے ہماری مددکر اور اسے آرام دے.میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس کے گلے پر تیل مل دیا جائے.چنانچہ ایسا کرنے سے اسے آرام آگیا.(۲) میاں امام الدین مذکور کو ایک دفعہ کھانسی ہو گئی اس نے بڑے بڑے طبیبوں سے علاج کرایا.وہ خود بھی طبیب تھا لیکن اسے آرام نہ آیا.وہ ایک دن میرے پاس آ کر رو پڑا اور کہا
۶۶ کہ میرے والد اور چچا کو پہلے کھانسی اور پھر سل ہو گئی تھی.مجھے اس پر بہت رحم آیا.میں نے دعا کی تو میرے دل میں ڈالا گیا کہ خشکی کی وجہ سے کھانسی ہے.چنانچہ میں نے گھر میں سویاں پکوائیں اور اسے بلا کر کھلائیں جس سے اسے بکلی شفا ہوگئی.(۳) میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک نہایت عمدہ گھوڑی پر سوار ہوں.میں اچانک اس گھوڑی سے نیچے اتر گیا اور باوجود یکہ اسے پکڑنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ بھاگ نکلی.میں نے سمجھا کہ یہ خواب میری اہلیہ کے متعلق ہے چنانچہ دو سال کے بعد وہ اچانک بیمار ہوگئیں اور باوجود بہت علاج کرنے کے وفات پاگئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.(۴) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے بڑے لڑکے غلام احمد کو دفنوترہ کا مرض لاحق ہو گیا.کئی ماہ عزیز نے لاہور کے میوہسپتال میں علاج کرایا.پھر اپنی ہمشیرہ ڈاکٹر غلام فاطمہ کے پاس چلا گیا.انہوں نے بھی علاج میں بہتیری کوشش کی لیکن شفا نہ ہوئی.بالآ خر عزیز قادیان چلا آیا.ایک دن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے لئے دعا کی توفیق دی اور وہ منظور ہوگئی اور یہ بات میں نے عزیز کو بتا دی اور کہا کہ شرط یہ ہے کہ جو کچھ کہوں وہی کرو اور کھاؤ.چنانچہ میں نے ایک پاؤ سبوس اسبغول اور ایک سیر کھانڈ لے دی اور صبح و شام استعمال کرنے کو کہا.بفضلہ تعالیٰ دو روز میں بکلی صحتیاب ہو گیا.(۵) نومبر ۱۹۰۹ء کا ذکر ہے کہ میری کتاب الجبرا گم ہوگئی اور چونکہ میں ابھی نیا مدرس تھا اس لئے بغیر مطالعہ کے نہیں پڑھا سکتا تھا.اس لئے مجھے بہت تکلیف محسوس ہوئی.رات کو خواب دیکھا کہ میں نے اپنی کتابوں میں اس کی تلاش شروع کی ہے.جب میں نے پہلی کتاب اٹھائی تو مجھے الجبرا کی کتاب مل گئی.صبح کی نماز ادا کر کے میں لحاف اوڑھ کر بیٹھا ہوا تھا کہ خواب یاد آئی.تو میں نے حافظ عبدالرحیم صاحب کپور تھلوی سے کہا کہ میری کتاب مل گئی ہے.انہوں نے پوچھا کہاں سے.اس پر میں نے خواب سنایا.اس پر میرے چھوٹے بھائی لال دین نے کہا کہ میں دیکھوں؟ میں نے کہا دیکھو.چنانچہ عزیز نے جب پہلی کتاب اٹھائی تو نیچے مطلوبہ کتاب پڑی تھی حالانکہ ان کتابوں کو میں کئی دفعہ دیکھ چکا تھا.
۶۷ (1) میری اہلیہ اول ۱۲ نومبر ۱۹۱۵ء کو قادیان میں داغ مفارقت دے گئیں.چونکہ ان کی وصیت آخری وقت کی تھی اس لئے منظور نہ ہو سکی.بعد جمعہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جو احباب کی کثیر تعداد کی شمولیت سے بھر گیا.حضور نے نماز جنازہ پڑھائی.جس میں بہت لمبی دعا فرمائی اور پھر جنازہ کے ہمراہ قبرستان تشریف لے گئے اور بعد تدفین بھی بہت لمبی دعا فرمائی.دوسرے دن میں نے مرحومہ کے زیورات کا حساب کر کے ان کا ایک تہائی وصیت میں حضور کے پیش کر دیا.حضور نے ایک نئے مقبرہ کی خرید کے لئے رقم داخل خزانہ کرا دی.یہ وہی مقبرہ ہے جس میں بچے اور ایسے لوگ دفن ہوتے تھے جو بغیر وصیت کے ہوتے تھے.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو الہام الہی نے دل کا حلیم قرار دیا ہے اور یہ برحق ہے.اگر ایک طرف قاعدہ کی رو سے بہشتی مقبرہ کے لئے وصیت بوجہ مرض الموت میں کی جانے کے منظور نہیں ہوسکی تو دوسری طرف حضور نے کمال حلم و شفقت سے دلداری فرماتے ہوئے مرحومہ کی مغفرت کے لئے لمبی دعا ئیں فرما ئیں اور اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب کو اپنی اور اپنی اہلیہ مرحومہ کی نیت کو عملی جامہ پہنا کر مالی قربانی کی توفیق عطا کی اور اسے موجب ثواب بنایا.(۷) ۱۹۶۰ء کا ذکر ہو گا کہ میں نے اپنے وطن میں خواب دیکھا کہ چوہدری حاکم دین صاحب جو کہ اس وقت قادیان کے بورڈنگ میں ملازم تھے آئے ہیں.چونکہ خواب سچی تھی اس لئے مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور آج آئیں گے اور اہلیہ سے کہا کہ چینی وغیرہ منگوا رکھیں.ایک مہمان نے آنا ہے.دریافت کرنے پر کہ کیا کوئی خط آیا ہے.میں نے خواب سُنا یا چونکہ وہ میری کئی خواہیں پوری ہوتی دیکھ چکی تھیں.اس لئے انہوں نے کھانا تیار کر چھوڑا.میں باہر کنوئیں پر چلا گیا.تین بجے بعد دو پہر مجھے خیال آیا کہ چوہدری صاحب ضرور آ گئے ہوں گے.چنانچہ گھر واپس لوٹا اور اہلیہ سے دریافت کیا.وہ ہنس پڑیں اور کہا کہ چوہدری صاحب آئے تھے اور کھانا کھا کر نماز ادا کرنے مسجد گئے ہیں.(۸) میں نے خواب دیکھا کہ میری بہن کی شادی میری چچا زاد بہن کے خاوند سے ہو رہی ہے اور ساتھ ہی دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ ہاتھ پاؤں کے بل میری طرف رینگتا ہوا آ رہا ہے اور
۶۸ میں نے اسے اپنی گود میں اٹھا لیا ہے.یہ رویا صادقہ تھی اور میں نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایک لڑکا عطا کرے گا لیکن شادی والے حصہ کی تعبیر سمجھ میں نہ آئی.میری اہلیہ اس وقت اپنے وطن میں رہتی تھیں.قادیان میں مکان نہیں ملتے تھے.گاؤں آنے پر معلوم ہوا کہ میری بیوی حاملہ ہے.میں نے خواب سنا کر خوشخبری دی کہ ہمیں اللہ تعالی لڑکا عطا کرے گا.میں موسم بہار کی تعطیلات میں گھر آیا تو وضع حمل کے دن نزدیک تھے.میں نے میاں امام الدین مذکور سے کہا کہ مجھے دو بکرے خرید دے اور پوچھنے پر بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹا عطا کرنا ہے.اس کے عقیقہ کے لئے درکار ہیں.وہ حیران ہو کر پوچھنے لگے کہ آپ کو یہ کس طرح معلوم ہوا کہ لڑکا پیدا ہوگا.میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ایسی خوشخبریاں دیتا ہے.دوسروں کو نہیں دیتا اور یہی ہم میں اور آپ میں فرق ہے.اگلے روز اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بچہ عطا کیا.جس کا نام حضرت خلیفہ اول نے عبدالرحمن رکھا.جو اس وقت یوگنڈا ( مشرقی افریقہ ) میں ایک معقول ملازمت پر ہے.ایک سال کے بعد میں پھر موسم بہار کی تعطیلات میں گھر آیا تو عین خواب کے مطابق بچہ کو رینگتے دیکھا.چند روز بعد اس چچیری بہن کو جس کے خاوند سے اپنی بہن کی شادی دیکھی تھی طاعون ہو گئی اور وہ فوت ہو گئی.اب مجھے تعبیر سمجھ آئی کہ میری بہن کو بھی تکلیف ہوگی اور اسے صدقہ اور دعاؤں کے لئے کہا اور خود بھی ایسا ہی کیا.اگلے سال انہی ایام میں ہمشیرہ اور اس کی ایک لڑکی طاعون سے بیمار ہو گئیں.ہمشیرہ تو بچ گئی لیکن اس کی لڑکی فوت ہوگئی.(۹) عزیزم عبد الرحمن نے دسویں جماعت کا یونیورسٹی کا امتحان دیا.میں کسی وجہ سے ناراض تھا اس کی کامیابی کے لئے دعا نہ کی.نتیجہ نکلنے کے روز مجھے خیال آیا کہ یہ میری غلطی ہے کہ دعا نہیں کی چنانچہ نواں پنڈ (احمد آباد) کے شمال میں بڑ کے درخت کے پاس تنہائی میں میں نے مغرب کی نماز پڑھی اور نہایت عاجزی سے عزیز کی کامیابی کے لئے دعا کی.میری دعا منظور ہوگئی.میں خوشی خوشی گھر آیا.تھوڑی دیر بعد ایک لڑکا آیا جو لاہور سے نتیجہ نقل کر کے لایا تھا.اس فہرست میں عزیز کا نام نہ تھا.اس نے رونا شروع کر دیا.میں نے اسے تسلی دی کہ اس پر کوئی اعتبار نہیں.کل نتیجہ آئے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ تم کامیاب ہو گے.دوسرے دن بذریعہ ڈاک نتیجہ
۶۹ مدرسہ میں موصول ہوا تو عزیز بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہونے والوں میں شامل تھا.(۱۰) ۱۹۳۷ء میں صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت سے سبکدوش ( ریٹائر ) ہوا تو مجھے پراویڈنٹ فنڈ ملا.میں نے اس رقم سے منڈی میں گندم کی تجارت شروع کر دی.میں گندم خرید کر امرتسر بھجواتا تھا اور اس وجہ سے مجھے امرتسر بھی جانا پڑتا تھا.ایک دفعہ ماہ جنوری میں میں صبح پانچ چھ بجے کی گاڑی سے امرتسر روانہ ہوا.سرد ہوا چل رہی تھی اور کچھ بوندا باندی بھی شروع تھی.میں ڈبہ میں اکیلا تھا اور سخت سردی محسوس کر رہا تھا.میں نے دعا کرنی شروع کی کہ اے میرے مولا! جب میں جوان تھا اور تکلیف برداشت کرنے کے قابل تھا تو تو نے مجھے بہت آرام سے رکھا اور تقریباً پنشن پر ہی رہا کیونکہ میں حساب کا مدرس تھا اور حساب کے مدرس کو صرف پہلے سال ہی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے پھر ہمیشہ وہی قاعدے دہرائے جاتے ہیں اور زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی.اب جب کہ میں بوڑھا اور کمزور ہوں تو تو نے مجھے محنت کے کام پر لگا دیا ہے.کرنی تو مجھے تیری ہی مرضی پڑے گی مگر احتجاج کے ساتھ کروں گا.اس دعا کے بعد مجھے تسلی ہو گئی.تیسرے دن میری لڑکی عزیزہ منظور فاطمہ نے مجھے کہا کہ میں نے آج ایک عجیب خواب دیکھا کہ میں کہیں باہر سے مکان کے اندر آئی ہوں.ہمارے برآمدہ میں چار پائی کے سرہانے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پائینتی کی طرف حضرت خلیفتہ اسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ تشریف فرما ہیں.میں نے السلام علیکم کہا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ منظور فاطمہ ! چوہدری صاحب! تمہارے ابا جب سے ملا زمت سے سبکدوش ہوئے ہیں.میرے پاس نہیں آئے.میں نے عرض کیا کہ حضور ! وہ دکان پر گاہکوں کے انتظار میں صبح سے شام تک بیٹھے رہتے ہیں.وہ آپ کے حضور کس وقت حاضر ہوں.اس پر دونوں بزرگ مُسکرائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اپنے پاس بلایا اور نہایت شفقت سے مجھے مخاطب کر کے آپ کی طرف ایک تسلی بخش پیغام پہنچانے کو دیا.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس وقت تک مجھے وہ پیغام یا دتھا لیکن اب بھول گئی ہوں لیکن تھا وہ تسلی بخش.
بعد ازاں مجلس مشاورت میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ سوال پیش کیا.جو منظور ہوا کہ ملازمین صدر انجمن احمدیہ کو جو پراویڈنٹ فنڈ حصہ صدر انجمن نہ لینا چاہیں.انہیں پنشن مل سکے لیکن یہ تو آئیندہ کے لئے تھا.میں تو پراویڈنٹ فنڈ لے چکا تھا.میں نے درخواست دی کہ ایسا ہی حق ہمیں بھی جو ریٹائر ہو چکے ہیں ملنا چاہئے.انجمن کی طرف سے یہ معاملہ پیش ہونے پر حضور نے اس کی منظوری دے دی.چنانچہ میں نے صدر انجمن کے حصہ کا فنڈ واپس کر کے پنشن لینی شروع کردی چونکہ میں نے پنشن کے لئے دعا کی تھی جو پوری ہوئی.اس لئے میں نے دکان کا کام ترک کر دیا.(11) نیز آپ بیان فرماتے ہیں کہ کالج کے پہلے سال کا امتحان میں دے چکا تھا کہ سخت طاعون پڑی.جس میں والد صاحب بھی وفات پاگئے چونکہ میں ان کی خدمت کر تا رہا تھا اور کسی قسم کی پر ہیز نہ کی تھی بلکہ گاؤں کے دیگر بیماروں کی بھی تیمار داری کرتا اور مر دے دفن کرانے میں مدد دیتا تھا.اس لئے میرے نزدیک بیماری کا مجھ میں بھی اثر ہو چکا تھا اور موت مجھے سامنے نظر آ رہی تھی.ایک دن مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ میں نے کوئی نیک عمل نہیں کیا.موت کے بعد میرا کیا حال ہوگا.یہی فکر کئی روز تک دامنگیر رہا اور میں تو بہ استغفار میں مشغول رہا.ایک دن ظہر کی نماز میں بہت ہی گڑ گڑا کر دعا کر رہا تھا کہ بہت زور سے میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ اس وقت خدا کا جو تم پر فضل ہے وہ تمہارے کس عمل کا نتیجہ ہے.اس سے میرے دل کو بہت تسکین ہوئی اور گو میں بہت کمزور ہوں لیکن آخرت کا خوف مجھے کبھی نہیں ہوا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ جو کچھ بھی وہاں ملے گا مولا کریم کے فضل سے ملے گا.
روایات (نوٹ: روایات ذیل خاکسار نے بعینہ درج کی ہیں.البتہ خطوط وحدانی والے الفاظ خاکسار مؤلف نے زائد کئے ہیں) (۱) محترم چوہدری صاحب رقم فرماتے ہیں :.ایک دفعہ میں (موضع ) منگل ( باغباناں نزد قادیان ) کی طرف ایک کنوئیں پر بیٹھ کر حقہ پی رہا تھا.میں اس زمانہ میں حقہ پیا کرتا تھا.بعد میں چھوڑ دیا کہ ایک بوڑھا زمیندار میرے پاس آبیٹھا.میں نے اس سے پوچھا کہ (وہ) کس جگہ کا رہنے والا ہے اس نے کہا کہ قادیان کا میں نے پوچھا کہ تم مرزا صاحب سے بڑے ہویا چھوٹے.اس نے کہا کہ ایک دو سال میں بڑا ہوں گا یا مرزا صاحب.میں نے اس سے کہا کہ مرزا صاحب کی کوئی بچپن کی بات سناؤ.اس نے کہا کہ بچپن میں آپ بہت سادہ لوح ہوتے تھے اور ان کو کچھ نہیں آتا تھا.کھیل کے وقت صرف ہمارے کپڑوں کی رکھوالی کیا کرتے تھے.ان کو کوئی کھیل نہ آتی تھی.اب تو آپ بہت چالاک ہو گئے ہیں.اشتہار لکھ لکھ کر آپ نے دنیا کولوٹ لیا ہے.کیا آپ کو بھی اشتہار بھیجا کرتے تھے؟ میں نے کہا ہاں بھیجا کرتے ہیں.ان دنوں میں نارووال کی طرف سے ایک مولوی آئے ہوئے تھے.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کس طرح بیعت کی.انہوں نے جواب دیا میں آیا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بحث کر کے واپس چلا جاتا تھا.جب تیسری دفعہ میں واپس گیا تو مجھے خواب میں ایک کاغذ دکھایا گیا.جس پر خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہوا تھا.سادہ لوح سے اس کی مراد سادہ طبع ہے یعنی جو چالاک نہ ہو.جیسا کہ اگلا فقرہ ظاہر کرتا ہے دیہات کے ان پڑھ لوگ ” خالص اور سادہ طبع کو سادہ لوح کہہ دیتے ہیں اور ایک حصہ کے معنی ہی مراد لیتے ہیں.(مؤلف)
۷۲ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ “ میں فوراوا پس آیا اور بیعت کر لی.(۲) جب بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی سکول تیار ہورہا تھا تو اس وقت میں نے ایک بوڑھے زمیندار کو اس کے صحن میں دیکھا.میں نے اس سے پوچھا کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں.اس نے جواب دیا کہ میں اپنے پیر کے مکانات دیکھ رہا ہوں.میں نے پوچھا کہ آپ احمدی ہیں.اس نے جواب دیا کہ حضرت مرزا صاحب کے خاندان میں ہمیشہ ایک بزرگ ہوتارہا ہے اور ہم ان کے خاندان کے پرانے مرید ہیں.میں نے اس سے پوچھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کوئی بات سناؤ.اس نے کہا کہ جب آپ کے بڑے بھائی کی شادی ہوئی تھی.آپ کے والد صاحب نے بہت سے بکرے خریدے تھے.ان کو میرا باپ چرایا کرتا تھا.ایک دن میں بھی اپنے باپ کے ساتھ ان بکروں کے پاس کھڑا تھا آپ تشریف لائے.میرے پاؤں میں جوتا نہ تھا.آپ نے فرمایا کہ تم جوتا کیوں نہیں پہنتے.میں نے کہا کہ میرا جوتا نہیں ہے.آپ نے میرے باپ کو فرمایا کہ اس کو جوتا خرید دیں.بیچارے کو کانٹے لگتے ہوں گے.میرے باپ نے کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں.آپ یہ جواب سُن کر تھوڑی دیر خاموش رہے.پھر اپنی جوتی کا ایک پاؤں اتار کر مجھے فرمایا کہ اسے پہنو.جب میں نے پہنا تو وہ مجھے پورا آ گیا.آپ نے دوسرا جوتا بھی اتار کر مجھے دے دیا اور آپ ننگے پاؤں گھر واپس چلے گئے.(۳) ایک دفعہ سیٹھ کنہیا لال نے مجھے بتایا تھا کہ میں نے حضور کو ایک دفعہ بٹالہ جانے کے لئے یکہ کرایہ پر کر دیا تھا.جب آپ نہر کے پل پر پہنچے تو آپ کو یاد آ گیا کہ آپ ایک کتاب لانی بھول گئے ہیں.آپ خود دو ہیں ٹھہر گئے اور نوکر کو کتاب لانے کے لئے واپس بھیج دیا.یکہ والے کو کوئی سواری مل گئی.وہ آپ کو چھوڑ کر چلا گیا.مجھے جب خبر ملی تو میں نے اس ٹانگہ والے کو مارا کہ وہ کیوں آپ کو چھوڑ کر چلا گیا تھا.جب آپ واپس تشریف لائے اور آپ کو میرے یکہ والے کو مارنے کا حال معلوم ہوا تو آپ نے مجھے بلا کر کہا کہ تم نے اس کو مارنے میں غلطی کی ہے.اس کا کوئی قصور نہ تھا.میری اپنی غلطی تھی کہ میں کتاب بھول گیا اور مجھے فرمایا کہ اس سے جا کر معافی مانگو.میں معافی مانگنے سے انکار کرتا تھا اور آپ معافی مانگنے کے لئے اصرار کرتے تھے “
(۴) مولوی جان محمد صاحب جوڈسکہ میں فارسی مدرس تھے انہوں نے مجھے فرمایا کہ ایک دفعہ وہ اور ان کی بیوی قادیان گئے ہوتے تھے کہ کسی نوکرانی نے چاول ( حضرت مسیح موعود ) کے گھر سے چرا لئے.جب وہ جانے لگی تو گھر کی عورتوں نے اسے پکڑ لیا اور اس کو چورنی کہہ کر جھڑ کنے لگیں.حضور آواز سُن کر (اپنے) کمرہ سے باہر تشریف لائے اور عورتوں کو منع فرمایا کہ اسے چورنی مت کہو اور فرمانے لگے کہ اگر کسی آدمی کے دو گھر ہوں اور وہ ایک گھر سے کوئی چیز دوسرے گھر میں لے جارہا ہو تو اس کو چور کہا جاسکتا ہے؟ یہ گھر اس کا اپنا ہے اور دوسرا گھر بھی اس کا ہے.یہ اپنے ایک گھر سے دوسرے گھر میں چاول لے جارہی تھی تو چور کیسے ہوئی ؟ اس نوکرانی کو کہا کہ لے جاؤ اور چاول چھوڑ کر جلد واپس آؤ اور خود اپنے دست مبارک سے وہ چاول کی گٹھڑی اس کے سر پر رکھ دی.کچھ دیر کے بعد آپ نے دریافت فرمایا کہ وہ (واپس) آئی ہے یا کہ نہیں.جب معلوم ہوا کہ نہیں آئی تو کسی کو بھیج کر واپس بلا لیا.(۵) ایک ہندو دکاندار نے جس کا نام غالباً گورداس تھا.مجھے بتایا کہ ایک دفعہ اس کی والدہ سخت بیمار ہو گئی.آپ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام بڑ ان کے راستہ میں سیر کو گئے ہوئے تھے.میں راستہ میں کھڑا رہا.جب آپ واپس آئے تو میں نے عرض کی کہ میری ماں سخت بیمار ہے.حضور اس کو دیکھیں.آپ نے تمام دوستوں کو جو آپ کے ساتھ تھے.ٹھہرنے کے لئے فرمایا اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کو ساتھ لے کر میرے ساتھ میرے گھر تشریف لے گئے اور باجود میرا گھر گندہ ہونے کے آپ نے کوئی نفرت نہ کی اور میری ماں کو اچھی طرح دیکھا اور فرمایا کہ ہمارے گھر آکر دوائی لے آنا.میں جا کر دوا لے آیا اور اس سے میری ماں تندرست ہوگئی.(۶) ۱۹۰۵ء کے جلسہ (سالانہ ) کے دنوں کی بات ہے کہ ایک دن میں مسجد اقصیٰ سے واپس آ رہا تھا.تو آپ چھوٹی مسجد کی اندرونی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر بعض دوستوں سے گفتگو فرمار ہے تھے.بیرونی سیڑھیاں ابھی نہیں بنیں تھیں.ان دوستوں میں ایک چوہدری نصر اللہ خان صاحب بھی تھے.کسی دوست نے عرض کی کہ لوگ اولاد کی خاطر روپیہ پیسہ جمع کرتے ہیں تا کہ ان کو
۷۴ خوش حال چھوڑ جائیں.یہ بات لوگوں کے وصیت کرنے میں روک ہو سکتی ہے.آپ نے فرمایا کہ ہم نے قرآن میں پڑھا ہے کہ ایک نیک آدمی کے بچوں کے گھر کی دیوار گرنے والی تھی تو خدا تعالیٰ نے دو نبی ان کی دیوار بنانے کے لئے بھیج دیئے.نیک آدمی کی اولاد کا اللہ تعالیٰ خود محافظ ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اول کے متعلق تکریم چوہدری صاحب نے حضرت خلیفہ اسی اول سے متعلق ذیل کے حالات قم فرمائے ہیں :- ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ حضرت خلیفہ امسیح اول کی سوانح عمری آپ سے حالات دریافت کر کے لکھ لئے جائیں تو بہتر ہے.میں نے اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی سے اس کا ذکر کیا انہوں نے آپ سے وقت لے کر لکھنا شروع کر دیا.جو ” نورالدین اعظم“ کے نام سے شائع ہوئی ہے.اس نام سے اس کتاب کا سنہ اشاعت نکلتا ہے.آپ کی سوانح عمری کا دوسرا حصہ بھی اکبر شاہ صاحب نے لکھا تھا.مگر وہ شائع نہ کر سکے.گو یا بفضلہ تعالی چوہدری صاحب سوانح حضرت خلیفہ اول کے محفوظ ہونے کا موجب ہوئے.(1) " میں حضرت خلیفتہ اسی اول کے بالکل ابتدائی زمانہ میں قادیان ہجرت کر آیا تھا.یہ زمانہ قادیان کا سنہری زمانہ تھا.اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد حضرت خلیفہ اول کی صحبت میں بیٹھے رہنا ہوتا تھا.ہر ایک آدمی یہی سمجھتا تھا کہ حضور اس سے زیادہ محبت کرتے ہیں.اس عرصہ میں میں نے حضرت خلیفہ اول سے قرآن شریف کے تین درس سنے اور کوئی نصف کے قریب صحیح بخاری پڑھی.اس زمانہ میں میرا دماغ مذہبی کتب کے پڑھنے اور مذہبی سوچ بچار میں بہت مشغول رہتا تھا.دنیاوی باتوں کی طرف کوئی دھیان نہ تھا.اس زمانہ کے واقعات مذہبی نقطہ نگاہ کے لحاظ سے بہت اہم تھے.ہمارا حال یہ تھا کہ اگر چند دن کے لئے ہم قادیان سے باہر جاتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے دلوں کو زنگ لگ گیا ہے اور تھوڑا سا عرصہ باہر رہنا بھی دوبھر معلوم ہوتا تھا.“ (۲) آپ بی.اے کا امتحان دینے کے بعد جلد قادیان شریف آگئے تھے چونکہ آپ کا
۷۵ انگریزی کا پرچہ کمزور ہو گیا تھا.آپ کو فیل ہونے کا ڈر تھا.آپ نے یہ طریق اختیار کیا کہ جمعہ کے روز سات دعائیہ خطوط امتحان میں کامیابی کے لئے دعا کے واسطے حضرت خلیفہ امسیح اول کی خدمت میں لکھ لیتے.روزانہ صبح کی نماز کے بعد ایک درخواست حضور کی خدمت میں بھیج دیتے.چند ہفتہ کے بعد حضور نے فرمایا کہ اب مجھے دعائیہ درخواست بھیجنے کی ضرورت نہیں.مجھے تم ہر دُعا کے وقت یاد آ جاتے ہو.نتیجہ نکلنے سے چند روز قبل میں نے خواب دیکھا کہ میں اور میرا ایک دوست چوہدری برکت علی الہ آباد کے تقسیم اسناد کے ہال میں بیٹھے ہوئے ہیں اور لاٹ صاحب طلباء کو ڈگریاں تقسیم کر رہے ہیں.جب میری باری آئی تو لاٹ صاحب نے بجائے مطبوعہ سند دینے کے ایک سفید کاغذ پر خوشخط یہ لفظ لکھ دیئے.غلام محمد گریجویٹ اور یہ کاغذ مجھے دے دیا.میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اسناد تو مطبوعہ ہوتی ہیں.مگر اس نے مجھے دستی لکھ کر دی ہیں.وہ کہنے لگا کہ اکثر مطبوعہ ہی ہوتی ہیں.مگر اگر کوئی غلطی سے رہ گئی ہو تو اس کو یہاں بھی لکھ کر دے دیتے ہیں.میں نے اس خواب کا مطلب یہ سمجھا کہ میں حضور کی دعاؤں کی وجہ سے کامیاب ہو گیا ہوں.(۳) ”میرے بڑے لڑکے عزیز غلام احمد کو کان پر توت ہو گئی.چونکہ ان دنوں میں قادیان میں کرایہ پر مکان نہیں مل سکتے تھے اس لئے میرے اہل وعیال وطن ہی میں رہتے تھے.عزیز کا سیالکوٹ کے ایک ڈاکٹر سے ڈیڑھ سال تک علاج ہوتا رہا مگر فائدہ نہ ہوا.آخر ڈاکٹر نے کہا کہ اسے قادیان میں بھیج دو.شاید حکیم نورالدین صاحب کے علاج سے اسے شفا ہو جائے.چنانچہ اس بارہ میں چچا صاحب کا خط لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.اس وقت آپ زنان خانہ میں تشریف رکھتے تھے.اطلاع کرانے پر حضرت نے مجھے اندر بلا لیا.آپ پٹھے کی چار پائی پر پائینتی کی طرف تشریف فرما تھے اور مجھے سرہانے کی طرف بیٹھنے کا اشارہ فرمایا.میں فوراً بیٹھ گیا.بعد میں حضرت مولوی شیر علی صاحب تشریف لائے.ان کو بھی آپ نے اندر بلالیا اور میرے پاس سرہانے کی طرف بیٹھنے کا ارشاد فرمایا.دوسری طرف ایک صف پڑی ہوئی تھی.مولوی شیر علی صاحب اُسے اٹھا لانے کے لئے گئے.لیکن حضور کے دوبارہ فرمانے پر میرے پاس چار پائی پر بیٹھ گئے.آپ نے چچا صاحب کا خط پڑھ کر میرے بال بچوں کے مجھ سے علیحدہ رہنے کو نا پسند
فرمایا اور حضرت رسول کریم اور حضرت مسیح موعود کا اسوہ حسنہ اس بارہ میں بیان فرمایا اور پھر بچہ کے لئے دعا فرمائی اور مجھے حکم دیا کہ وطن جا کر بیوی بچوں کو قادیان لے آؤں.چنانچہ چند دن بعد جب میں وطن پہنچا تو دیکھا کہ بچہ کا کان بالکل چنگا ہو گیا ہے.میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ اسے شفا کیوں کر ہوگئی ہے.تو انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر کا علاج بند کر دیا تھا.تو یہ خود بخود ہی ٹھیک ہو گیا.گویا یہ حضور کی دعا کا اثر تھا.بعد ازاں میں نے بال بچوں کو کبھی بھی زیادہ عرصہ کے لئے جدا نہیں کیا.(۴) ۱۹۰۹ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگا تار آٹھ روز بارش ہوتی رہی جس سے قادیان کے بہت سے مکانات گر گئے.حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم نے قادیان سے باہرنئی کو ٹھی تعمیر کی تھی.وہ بھی گر گئی.آٹھویں یا نویں دن حضرت خلیفتہ امسیح اول نے ظہر کی نماز کے بعد فر مایا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ سب لوگ آمین کہیں.دعا کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں نے آج وہ دُعا کی ہے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ کی تھی.یہ دعا بارش کے بند ہونے کی کی تھی.دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہورہی تھی.اس کے بعد بارش بند ہوگئی اور عصر کی نماز کے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی.(۵) چوہدری حاکم دین صاحب مرحوم کی بیوی کو پہلے بچہ کی پیدائش کے وقت سخت تکلیف ہوئی.آپ رات کے گیارہ بجے حضرت خلیفہ اسیح اوّل کے گھر گئے.آپ نے چوکیدار سے پوچھا کہ کیا میں حضور کو اس وقت مل سکتا ہوں.اس نے نفی میں جواب دیا لیکن اندرون خانہ میں حضور نے آواز سُن لی اور پوچھا کون ہے.چوکیدار نے عرض کی کہ چوہدری حاکم دین صاحب ملازم بورڈنگ ہیں.فرمایا آنے دو.آپ اندر چلے گئے اور زچگی کی تکلیف کا ذکر کیا.حضور اندر جا کر ایک کھجور لے آئے اور اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور چوہدری صاحب کو دے کر فرمایا کہ یہ اپنی بیوی کو کھلا دیں اور جب بچہ پیدا ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.تھوڑی ہی دیر کے بعد بچی پیدا ہوگئی.چوہدری صاحب نے سمجھا کہ اب دوبارہ حضور کو جا کر جگانا مناسب نہیں اس لئے وہ سور ہے.صبح کی اذان کے وقت آپ صحابی تھے.بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.(مؤلف)
22 وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت مولوی صاحب اس وقت وضو کر رہے تھے.چوہدری صاحب نے عرض کی کھجور کھلانے کے بعد بچی پیدا ہو گئی تھی.آپ نے فرمایا کہ بچی پیدا ہونے کے بعد تم میاں بیوی آرام سے سور ہے.اگر مجھے بھی اطلاع دے دیتے تو میں بھی آرام سے سورہتا.میں تمام رات تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا ہوں.“ (۶) ایک دن ایک یتیم لڑکے سراج دین نامی نے ایک جولا ہے کا تانا خراب کر دیا.جولاہا تا نالے کر حضرت خلیفہ اسیح اول کے پاس آیا اور آپ سے نقصان کے عوض پانچ روپیہ وصول کئے.یہ لڑکا بورڈنگ میں داخل تھا.حضور نے مجھے بلا کر فرمایا کہ سراجدین نے جولا ہوں کا تانا خراب کر دیا ہے.اسے اس کی سزا دو.میں نے عرض کی بہت اچھا.جب میں دروازہ تک پہنچا تو آپ نے مجھے واپس بلایا اور فرمایا کہ سراج دین یتیم لڑکا ہے اس کو جھڑ کنا نہیں.میں نے عرض کیا بہت اچھا اور واپس آکر میں نے اسے یہ سزا دی کہ آٹھ دن تک وہ روزانہ ایک صفحہ خوشخط لکھ کر مجھے دکھایا کرے.“ (۷) ایک دفعہ آپ نے اپنے بڑے لڑکے میاں عبدالحئی مرحوم کو بورڈنگ میں داخل کرا دیا اور مجھے لکھ بھیجا کہ میں غریب آدمی ہوں.اس لئے عزیز عبد الحئی کے خرچ میں ھتے الوسع کفایت کرنے کی کوشش کریں.میں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ اگر عبدالحئی کا کھانا گھر سے آجایا کرے تو خرچ میں بہت تخفیف ہو سکتی ہے.آپ نے فرمایا کہ میرے پاس کوئی نوکر نہیں ہے.اس لئے کھانا بھیجنا بہت مشکل ہے.نیز میری بیوی اکثر بیمار رہتی ہے.اس لئے وقت کی پابندی بھی مشکل ہے.اس لئے بورڈنگ کے خرچ میں ہی تخفیف کریں.“ حضور نے اپنے بچہ کے متعلق کفایت شعاری کے لئے اس قدر تا کید فرمائی.حالانکہ اس وقت بورڈ نگ ہاؤس میں پانچ یا چھ یتیم ایسے تھے جن کا خرچ آپ اپنی گرہ سے دیتے تھے اور ان کے خرچ میں تخفیف مد نظر رکھنے کے لئے آپ نے کبھی بھی نہیں فرمایا تھا.“ ”میاں عبدالحئی کی تعلیم کی پہلی ماہ کی رپورٹ لے کر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں میں نے لکھا تھا کہ عزیز عبد الحئی اس ماہ میں با قاعدہ نمازیں پڑھتا رہا ہے.آپ نے رپورٹ پڑھ کر اپنی جیب سے ایک روپیہ نکال کر دیا اور فرمایا کہ رسول کریم نے فرمایا ہے کہ جب
ZA کوئی خوشخبری دے تو اُسے کچھ دینا چاہئے نیز یہ بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بڑھاپے میں لڑکے دے کر اس شرک سے بھی بچالیا ہے کہ میں بچوں پر کوئی خدمت کی بھی امید رکھ سکوں نیز میرے پاس کوئی سند نہیں ہے اور جہاں تک مجھے یاد ہے میرے باپ دادا کے پاس بھی کوئی سند نہیں تھی لیکن ہم سب عزت کی روٹی کھاتے رہے ہیں.اس لئے میرے بچوں کو سندوں کی ضرورت نہیں ہے البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر ان میں سے کوئی نیک ہو جائے تو میرے لئے بعد میں دعا کر سکے.“ (۸) ایک دفعہ میں حضرت خلیفہ مسیح اول کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ نے کاغذ کے ایک چھوٹے سے پرزے پر لکھ کر دیا کہ عبد ائی انگریزی میں کمزور ہے آپ اس کے لئے کوئی ٹیوشن مقرر کر دیں.میں ماہوار ادا کر دیا کروں گا.میں نے یہ خیال کر کے کہ حضور کو اکثر مالی تنگی رہتی ہے اور ٹیوشن سے آپ پر اور بوجھ پڑ جائے گا.میں نے خود عبدالحئی کو پڑھانا شروع کر دیا.ایک دن میں حضور کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو عبد ائی نے آپ سے کہا کہ ابا جی چوہدری صاحب مجھے انگریزی پڑھا دیا کرتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ سالانہ امتحان میں اگر تم انگریزی میں اوّل آ جاؤ تو جو انعام تم پسند کرو گے یا چوہدری صاحب پسند فرما ئیں گے ان کو دیا جائے گا.سالانہ امتحان میں عزیز اپنی جماعت میں انگریزی میں اول رہا.میرا دل چاہتا تھا کہ میں حضور سے دعا کے لئے عرض کروں مگر میں جانتا تھا کہ حضور دعا کے علاوہ مالی خدمت ضرور کریں گے اور مالی بوجھ میں حضور پر ڈالنا نہیں چاہتا تھا.اس لئے یہ سمجھ کر کہ میرا خدا میری نیت کو جانتا ہے وہ ضرور بدلہ دے گا میں نے حضور کو وعدہ یاد نہ دلایا.ایک دفعہ کچھ شریر لڑ کے بورڈنگ میں داخل ہو گئے.وہ اپنی شرارتوں سے لوگوں کو تنگ کرتے تھے.میں نے حضور سے ذکر کیا حضور نے درس میں فرمایا کہ مجھے اطلاع پہنچی ہے کہ بعض لڑکے شریر ہو گئے ہیں وہ اپنی شرارتیں چھوڑ دیں ورنہ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان سے ہمارا چھٹکارا کرا دے.حضور کی دعا کے بعد دو ہفتہ کے اندر وہ تمام لڑکے جو بارہ کے قریب تھے، خود بخو د بورڈنگ سے نکل گئے.
۷۹ (۹) ایک دفعہ حضرت مولوی محمد جی صاحب نے بیان کیا تھا کہ میری طالب علمی کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ عبدالحئی صاحب عرب ہر ماہ کے شروع میں آپ سے کچھ وظیفہ لیا کرتے تھے.ایک دفعہ انہوں نے عرض کی مجھے اس دفعہ چالیس روپے کی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا کہ میں چالیس روپے دے دوں گا.مگر پندرہ تاریخ کو عرب صاحب نے یہ بات مان لی اور چلے گئے.پندرہ تاریخ کو اتوار تھا.اس لئے اس روز منی آرڈر نہیں آنے تھے اور حضور کی آمدنی منی آرڈروں کے ذریعہ سے یا دستی طور پر بیماروں کے ذریعہ سے ہوا کرتی تھی.میں نے عرب صاحب سے کہا کہ حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ میری ضرورتیں پوری فرمایا کرتا ہے.اب آپ آخر وقت میں آئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضور کو خدا تعالیٰ اب کہاں سے دیتا ہے.میں نے تمام دن نگرانی رکھی.اب دیکھا کہ کسی بیمار نے آپ کو کچھ نہیں دیا.عصر کی نماز کے وقت وضو کے لئے میں نے پانی کا لوٹالا کر دیا اور حضور باہر وضو کرنے چلے گئے.اس غیر حاضری میں میں نے آپ کی واسکٹ اور کوٹ کی جیبوں کو خوب دیکھا ان میں کچھ نہ تھا.جب حضور اندر آئے اور کوٹ واسکٹ پہن کر چلنے لگے تو عبدالحئی صاحب بھی آگئے.حضور نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور چالیس روپئے نکال کر ان کو دے دئے.میں ہنس پڑا.حضور نے مجھ سے ہنسنے کا سبب پوچھا.میں نے عرض کیا میں نے آپ کے جیب دیکھ لئے تھے ان میں تو کچھ نہ تھا معلوم نہیں یہ روپے کہاں سے آگئے ہیں.آپ نے فرمایا لوگ کیا جانتے ہیں کہ میرے خدا کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے.(۱۰) ایک دفعہ میں موضع کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ میں ایک دوست حکیم خادم علی صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا.حکیم صاحب کا ایک رشتہ دار جو جموں کا رہنے والا تھا وہ بھی موجود تھا یہ دوست حضرت مولوی نور الدین صاحب کا شاگر د تھا اور آپ کے جموں کے قیام کے زمانہ میں آپ کا کمپاؤنڈ بھی رہا تھا.اس نے چند باتیں آپ کے متعلق بتا ئیں.“ (11) اس نے یہ بھی ذکر کیا کہ ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب کشمیر سے راولپنڈی کے راستہ سے واپس آ رہے تھے کہ دوران سفر میں روپیہ ختم ہو گیا.میں نے اس بارہ میں عرض کی.آپ نے فرمایا یہ گھوڑی چار پانچ صد روپیہ میں بیچ دیں گے فوراً بک جائیگی اور خرچ کے لئے روپیہ
۸۰ کافی ہو جائے گا.آپ نے یہ گھوڑی سات سو روپیہ میں خریدی تھی.تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ گھوڑی کو درد قولنج ہوا اور راولپنڈی پہنچ کر وہ مرگئی.ٹانگے والوں کو کرایہ بھی دینا تھا.آپ ٹہل رہے تھے.میں نے عرض کی ٹانگہ والے کرایہ طلب کرتے ہیں.آپ نے نہایت رنج کے لہجہ میں فرمایا کہ نورالدین کا خدا تو وہ مرا پڑا ہے.اب اپنے اصل خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں وہی کارساز ہے.تھوڑی دیر کے بعد ایک سکھ اپنے بوڑھے بیمار باپ کو لے کر حاضر ہوا.آپ نے اسے دیکھ کرنسخہ لکھ دیا اس نے ہمیں اتنی رقم دے دی کہ جموں تک کے اخراجات کے لئے کافی ہو گئی.“ (۱۲) حکیم صاحب کے اس رشتہ دار نے یہ بھی سنایا کہ میں ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب کے ساتھ لاہور آیا.آپ کے روپئے میرے پاس تھے اور آپ کے ارشاد کے مطابق خرچ کرتا تھا.حتی کہ سب روپیہ خرچ ہو گیا.رات کو آپ ایک دوست کے ہاں ٹھہرے.صبح ہوئی تو جموں واپس جانے کے لئے اسٹیشن کی طرف چل پڑے میں نے خیال کیا کہ آپ نے اس دوست سے کرایہ کے لئے رقم لے لی ہوگی.جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو آپ ایک بنچ پر بیٹھے میں نے ٹکٹ کے لئے روپئے طلب کئے آپ نے فرمایا تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ.کچھ دیر کے بعد ایک آدمی آیا اور آپ سے پوچھنے لگا آپ نے کہاں جانا ہے.آپ نے فرمایا جموں.اس نے کہا کہ آپ نے ٹکٹ لے لی ہے.فرمایا ابھی نہیں.اس نے پوچھا آپ کتنے آدمی ہیں فرمایا دو.وہ بھا گا ہوا گیا اور جموں کے دوٹکٹ لے آیا اور کہنے لگا کہ گاڑی تیار ہے.چلئے گاڑی میں وہ بھی ساتھ بیٹھ گیا اور اپنی بیماری کا حال بتا تا رہا.آپ نے اسے نسخ لکھ کر دیا اور وہ راستہ سے واپس آ گیا.“ (۱۳) حکیم صاحب کے رشتہ دار نے یہ بھی سنایا کہ ایک دن ایک مہترانی نے آ کر کہا کہ میرے لڑکے کے پیٹ میں سخت درد ہے.آپ نے پوچھا کیا وہ یہاں نہیں آ سکتا.اس نے کہا نہیں.آپ نے پوچھا تمہارا گھر کتنی دور ہے.اس نے کہا نزدیک ہی ہے.میں نے کہا یہ جھوٹ کہتی ہے.ان کی ٹھٹھی شہر سے قریباً دو میل دور ہوگی.مگر آپ اس کے ساتھ چل پڑے.جب اس کے گھر پہنچے تو وہ بہت گندہ تھا اور اس کا لڑکا چار پائی پر گندے کپڑوں میں لیٹا ہوا پڑا کراہ رہا تھا.آپ ایک پیڑھی پر بیٹھے.نسخہ لکھ کر مجھے دیا کہ شہر سے جا کر لے آؤں.ابھی میں
ΔΙ گیا نہیں تھا کہ ایک اور مہترانی آئی اور کہنے لگی کہ میرے لڑکے کو پیٹ درد ہوئی تھی تو میں نے لہسن کا پانی نکال کر دیا تھا.جس سے اس کو آرام آ گیا تھا.آپ نے مجھے ٹھہر جانے کوفر مایا اور لہسن منگوا کر اس کا پانی لڑکے کو پلایا چنانچہ اسے آرام آ گیا.واپسی پر میں نے عرض کی.آپ شاہی حکیم ہیں.آپ کو ایسے ویسے لوگوں کے گھر نہیں جانا چاہئے.آپ کسی امیر کے گھر جاتے تو آپ کو بہت نہیں ملتی.آپ نے فرمایا کہ جتنی غربا کی فیس ملا کرتی ہے اتنی امراء کی نہیں ملتی اور پھر پیٹ درد کا یہ نسخہ کو ئی کم فیس نہیں ہے.دوسرا دن اتوار تھا اور آپ نے اس روز مہندی لگائی ہوئی تھی.باہر سے اطلاع آئی کہ مہاراج صاحب تشریف لائے ہیں.آپ نے مجھے فرمایا کہ راجہ صاحب سے کہہ دو کہ میں نے مہندی لگائی ہے.اگر حکم ہو تو اسی حالت میں حاضر ہو جاؤں.مہاراجہ نے کہا کہ حکیم صاحب سے کہہ دو کہ آنے کی ضرورت نہیں آپ پرسوں والا نسخہ تیار کر دیں.ساتھ ہی مہاراج نے ایک تحصیلی روپوں کی دے دی.جب وہ روپیہ گنا گیا تو وہ روپیہ پانچ صد تھا.میں نے وہ تھیلی حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کر دی.آپ نے فرمایا کہ یہ کل والے مہتر لڑکے کی فیس ہے.میں نے کہا تھا کہ اس نسخے پر پانچ روپئے خرچ ہوں گے.“
۸۳ آبا و اجداد ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے پڑدا دا احمد خاں صاحب سرہند شہر میں سکونت پذیر تھے.یہ معلوم نہیں کہ اجداد میں سے کون اور کب یہاں اقامت پذیر ہوئے.آپ پیشہ سپاہ گری رکھتے تھے.چنانچہ گھر میں پرانی تلواریں بھی موجود تھیں.۱۸۸۷ء کے پُر آشوب زمانہ کے قریب سیف آباد عرف بہادر گڑھ اور وہاں سے پٹیالہ میں منتقل ہو گئے.اکرام ضیف کے خلق کریم سے آپ متصف تھے.پٹیالہ میں حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے متولی جو آپ کی اولاد میں سے تھے، ستر اسی کی تعداد میں پٹیالہ آئے اور ان کے قیام وطعام کا انتظام احمد خاں صاحب کے ہاں ہی ہوتا.ایسا گہرا رابطہ ظاہر کرتا ہے کہ احمد خان صاحب ضرور حضرت مجدد الف ثانی کے معتقدین میں سے ہوں گے.اپنی پڑ دادی صاحبہ کو ڈاکٹر آپ سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے معالج خصوصی ہیں.سالہا سال تک مجھے ان ایام میں جب کہ حضور کا میں پرائیویٹ سیکرٹری تھا.سفر وحضر میں حضرت ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رہنے اور آپ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.آپ کا تقویٰ ، بے لوث ہمدردی ، بر وقت نصیحت اور مدد، دیانت ، قرآن مجید اور خاندان حضرت مسیح موعود سے محبت اور دعاؤں میں شغف آپ کے خاص اوصاف ہیں.میرے عرض کرنے پر آپ نے کئی بار سوانح لکھ کر دئے.ان میں ایک خاص رنگ روحانیت کا ہے.اس لئے میں نے اکثر جگہ اختصار کرنا پسند نہیں کیا.خواہ وہ ذوقی امر ہو، کچھ حصہ میں نے اپنے الفاظ میں لکھا ہے اور اس میں آپ کی دیگر تحریرات کی روشنی میں کمی بیشی کی ہے.(مؤلف)
۸۴ صاحب نے اپنی پانچ چھ سال کی عمر میں دیکھا.نوے سال سے زیادہ عمر پائی.نہایت معتدین خاتون تھیں اور اپنے محلہ میں بزرگ خاتون کے طور پر مشہور تھیں.محلہ بلکہ دُور دُور کی مستورات اپنے بچوں کو دعا اور علاج کے لئے آپ کے پاس لاتی تھیں.سرہند شریف سرہند شریف میں ایک عظیم الشان مجدد حضرت احمد مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ہوئے ہیں.اس شہر کی تعمیر کا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ مقام جو اس وقت جنگل اور بھیڑیوں اور چیتوں کی جگہ تھی.اس میں سے شاہ وقت فیروز شاہ تغلق کا خزانہ گذر رہا تھا کہ ایک بزرگ کو کشف سے معلوم ہوا کہ یہاں گیارہویں صدی کا عظیم الشان مجدد پیدا ہوگا.چنانچہ اس کشف کا علم بادشاہ کو اور ان سے اُن کے پیر حضرت مخدوم جہانیاں کو ہوا.جن کے حسب منشاء بادشاہ نے اس مقام پر قلعہ اور شہر کی تعمیر کا حکم اپنے وزیر کو دیا.وزیر کے بھائی امام رفیع الدین اس کام کی سرانجام دہی کے لئے مقرر ہوئے.کام میں امداد کے لئے حضرت شاہ شرف بوعلی قلندر بھی آگئے اور انہوں نے بتایا کہ میں نے اس کام کی مخالفت اس لئے کی تھی کہ یہ کام آپ کے سپر دہو کر مہتم بالشان رنگ میں سرانجام پائے اور آپ یہاں آباد ہوں اور آپ کی اولاد میں سے بزرگ مجدد کے پیدا ہونے کی پیشگوئی پوری ہو.چنانچہ سرہند کا انتظام امام رفیع الدین صاحب کے ہی سپرد ہوا اور ستائیس صحیح النسب قبیلے قریش کے وہاں آباد ہوئے اور ہزاروں گھرانے مغلوں اور پٹھانوں کے.یہاں کے لوگ باعتبار شرافت و نجابت بہت معز ز شمار ہوتے تھے.حضرت مجدد صاحب نے اپنے مکتوب میں اس زمانہ کے لحاظ سے یثرب و بطحا کے بعد سرہند کی سرزمین کا درجہ قرار دیا ہے اور اپنے مکاشفہ سے ہندو قوم میں معبوث ہو چکے بعض انبیاء سابقہ کے مقابر سر ہند کے قریب دریافت کئے.مولی بخش صاحب اور آپ کے خاندان میں احمدیت کا آغاز احمد خاں صاحب کے فرزند کا نام مولی بخش تھا.غدر سے موسوم زمانہ میں مسلمانوں کے
۸۵ لئے ملازمتیں مفقود ہوگئی تھیں اور ان کی معاشی اور اقتصادی حالت حد درجہ تنگ ہو گئی تھی.اس لئے مولی بخش صاحب کو والد ماجد نے بہادر گڑھ کے قیام کے ایام میں حصول روزگار کے لئے خرادی کا کام سکھلا دیا.ڈاکٹر صاحب محترم آپ کے پوتے ( جن کو تیرہ سال کی عمر تک آپ کو دیکھنے کا موقع ملا ) حلفیہ بیان کرتے ہیں کہ آپ خوش شکل اور سفید رنگ کے بزرگ تھے علم دوست اور نماز با جماعت کے پابند تھے.پنجاب سے جو علماء وعظ وغیرہ کے لئے آتے.آپ کا باقاعدہ شغل یہ تھا کہ ان کا وعظ کرواتے اور ان کی مہمان نوازی کا اہتمام کرتے.آپ کسب حلال کا خاص خیال رکھتے اور کسی مشکوک روپیہ کو ہاتھ نہ لگاتے تھے.مولی بخش صاحب کے دو بیٹے ۱۸۹۴ ء اور ۹۶ - ۱۸۹۵ء میں احمدیت قبول کر چکے تھے اس کی تفصیل ان کے ذکر میں آگے آئے گی ) مولوی عبد القادر صاحب جمالپوری (والد مکرم حکیم محمد عمر صاحب ربوہ ) کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے اپنے ہاتھ پر بیعت لینے کی اجازت تھی.چنانچہ پٹیالہ میں ۱۸۹۹ء میں مولی بخش صاحب اور آپ کے بیٹے رحیم بخش صاحب ( والد ڈاکٹر صاحب محترم) نے بیعت کی.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اس بیعت کے وقت میں بھی موجود تھا.میری عمر بارہ سال کی تھی.ضعیف ہونے کی وجہ سے مولا بخش صاحب حضرت مسیح موعود کی زیارت نہ کر سکے اور ۱۹۰۰ء میں بعمر ۷۵ یا ۷۶ سال وفات پائی.۱۸۹۹ء میں آپ کے بیعت کر لینے پر فورا ہی آپ کے خاندان کی تین پیشنیں احمدیت میں شامل ہو گئیں اور ایسا فضل الہی ابتداء احمدیت میں کسی خاندان کو شاذ و نادر ہی حاصل ہوا ہے.ذالک فضل الله يـوتيــه من يشآء.آپ کی سب اولا د بفضلہ تعالیٰ احمدیت کے دامن سے وابستہ ہے.آپ کے بڑے بیٹے کریم بخش صاحب نے خلافت ثانیہ میں ۱۹۲۴ء میں بیعت کی.بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے.نماز با جماعت اور روزوں کے پابند تھے.ملکی روش کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکے.نہ ہی آپ کی کوئی اولادتھی.آپ نے قادیان میں وفات پائی اور سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کے جنازہ کے ساتھ قبرستان تک گئے.مرحوم
۸۶ حضور سے محبت رکھتے تھے.مرحوم قبرستان نز دمحلہ ناصر آباد میں دفن کئے گئے.اللھم اغفر لهما وارحمهما.آمین.رحیم بخش صاحب مولی بخش صاحب کے دوسرے فرزند رحیم بخش تھے.جو ۱۸۹۹ء والی بیعت میں جو مولوی عبد القادر صاحب کے ہاتھ پر کی تھی ، شامل تھے.آپ پر بیعت کا عجیب اثر دیکھا گیا.آپ حضرت مسیح موعود کی کتب کا بڑے غور سے مطالعہ فرماتے.جس کا موقع آپ کو بعد نماز تہجد ملتا.اس تھوڑے وقت کے مطالعہ میں آپ نے بہت سی کتب سلسلہ بشمول براہین احمدیہ ہر چہار حصص پڑھ لیں.۱۹۰۵ء میں اپنے بیٹے محمد ظہور صاحب کی معیت میں آپ نے بمقام لدھیانہ حضرت مسیح موعود کی زیارت کی اور حضور کے دست مبارک پر بیعت بھی کی.اگست ۱۹۰۷ء میں آپ ہیضہ سے ایک دن بیمار رہ کر عالم جاودانی کو سدھارے.آپ ساده منکسر المزاج، علم دوست اور خدمت گذار انسان تھے.تہجد اور نماز باجماعت کے بہت پابند تھے.تہجد کے بعد قرآن مجید کی بھی باقاعدگی سے تلاوت کرتے تھے.ایک بار ناظرہ اور ایک بار باترجمہ اور قرآن کریم کے ختم کرنے پر اکثر اپنے بچوں میں کچھ مٹھائی بھی تقسیم کرتے تھے.باوجود یکہ آپ کا بہت سا وقت اردو، فارسی اور حکمت کی تعلیم پر صرف ہو گیا تھا اور آپ لکڑی کے خراد کے چنداں ماہر نہ تھے.پھر بھی چھوٹے چھوٹے کام کر کے آپ کی کمائی میں برکت ہو جاتی تھی.اس طرح اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آٹھ بچوں کے بڑے کنبہ کے اخراجات برداشت کرنے کا سامان ہوتا رہا.( تین بچے بچپن میں فوت ہو گئے ) آپ بیواؤں اور یتامیٰ کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے.اور بیواؤں سے بہت دعائیں لیتے تھے اور محلہ کی حاجتمند خواتین کے کام بھی کر دیتے.اقارب کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.چنانچہ آپ کے برادر نسبتی کالے موتیا بند سے آنکھوں سے معذور ہو گئے تو آپ ان کے اہل وعیال دہلی سے واپسی پر حضور ۵/ نومبر کو لدھیانہ وارد ہوئے اور رنومبر کو وہاں سے روانہ ہوئے (مؤلف)
۸۷ کی حسب توفیق مدد کرتے رہے بلکہ ان کے ایک بیٹے کو کافی عرصہ تک اپنے گھر میں رکھا.اپنی اولاد کی پرورش کا بھی خاص اہتمام کیا.چاروں بیٹوں کو قرآن مجید پڑھانے کے علاوہ اردو اور فارسی کی تعلیم بھی دلوائی ایک کو قرآن مجید حفظ کروایا.آپ ہمیشہ سال بھر کی ضرورت کے لئے غلہ اور دوسری اجناس فصل نکلنے پر خرید لیتے اور موسم پر اچار اور مربہ بھی کافی مقدار میں تیار کر ا لیتے اور گھی وغیرہ کے لئے گائے رکھنے کا انتظام رہتا.اس طرح اہل و عیال کو ہمیشہ سہولت میسر رہتی.اپنی رفیقہ حیات اور ان کے اقارب سے بھی حسنِ سلوک آپ کا طریق تھا.آپ اپنی ہمشیرہ اور ان کی بچیوں سے بھی بہت محبت رکھتے تھے.چنانچہ مرحومہ کی بچیاں مرحوم کے بچوں سے ہی بیاہی گئیں اور بہت برکت کا موجب ہوئیں.آپ کی شفقت علی خلق اللہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ۱۸۹۵ء میں ایک شخص مسمی چھوٹو شاہ صاحب کو ایک مقدمہ کی وجہ سے دیہات سے بار بار پٹیالہ شہر میں آنا پڑتا تھا.اس لئے چاہتے تھے کہ شہر میں قیام کے لئے کوئی جگہ مل جائے.آپ نے اُن کو اپنی دکان پر ٹھہرالیا اور وہ دکان کے نیم مالک بن کر رہ گئے اور پھر ۱۹۰۳ء میں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے اور تین چارسال بعد ایک مخلص احمدی کی حیثیت میں وفات پائی.آپ کی اہلیہ محترمہ آپ کی رفیقہ حیات محترمہ بشیر اصاحب تھیں جو ریاست پٹیالہ کے قصبہ سامانہ میں پیدا ہوئیں.آپ میاں نبی بخش صاحب آہنگر ایک نیک مسلمان کی دختر تھیں.آپ بھی اس وقت احمدیت میں شامل ہوئیں.جب آپ کے رفیق حیات نے ۱۸۹۹ء میں مولوی عبد القادر صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.مرحومہ کو اپنے خاوند پر یہ تقدم حاصل تھا کہ ان سے تین سال قبل ۱۹۰۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا موقع حاصل کر سکیں.ان کو اس موقع پر اپنی بڑی بہو مرحومہ مہر النساء صاحبہ اہلیہ محمد یوسف صاحب کے ہمراہ حضور کے خاص مہمان بننے کا شرف حاصل ہوا.آپ کو اس کمرہ میں ٹھہرا دیا گیا جو حضرت حجتہ اللہ نواب محمد علی خان صاحب کے شہر والے مکان کے ملحق گلی کی چھت پر ہے اور جس میں تقسیم ملک کے وقت سیدہ ام متین صاحبہ رہائش
۸۸ رکھتی تھیں دونوں کو تین دن تک قادیان میں قیام اور تجدید بیعت کا موقع ملا.محترمہ بشیر صاحبہ نے ۱۰ اپریل ۱۹۰۸ء کو قریباً باسٹھ سال کی عمر میں اپنے خاوند کی وفات کے قریباً نصف سال بعد وفات پائی.مرحومہ بچوں کے لئے شفیق والدہ تھیں.مار پیٹ تو کیا ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کرتی تھیں.آٹے کی صفائی کا خاص خیال رکھتیں.دوسرے بچے جو کھانے کے وقت گھر پر ہوتے ان کو بھی کھانا کھلاتیں.خاوند بیوی دونوں ایک دوسرے سے حسن سلوک سے پیش آتے.آپ خاوند کا احترام کرتیں.ان کے ساتھ ہی صبح بیدار ہو کر نوافل پڑھتیں.آخری عمر میں اپنے بچوں سے قرآن شریف پڑھنا شروع کیا اور وفات تک کچھ پارے پڑھ لئے تھے.محترمہ رحیم النساء صاحبة محترمہ رحیم النساء صاحبہ مولیٰ بخش صاحب کی تیسری اولاد تھیں.آپ اور دونوں بھائی ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے.رحیم بخش صاحب تو جتنی دفعہ گھر آتے ہمشیرہ کو جن کا گھر سامنے ہی تھا ، دیکھ کر جاتے اور پھل وغیرہ لاتے تو پہلے اُن کو حصہ دیتے.ان کی شادی حکیم رحمت اللہ صاحب سے (جن کا ذکر آگے آتا ہے ) ہوئی تھی اور آپ کے بطن سے چار بچیاں خیر النساء ، مہر النساء ( صحابیہ ) ، رحم النساء اور فاطمہ امتہ الحفیظ پیدا ہوئیں.بڑی بچی کی شادی حکیم صاحب کے احمدی ہونے سے دس سال قبل ان کے بھتیجے سے ہوئی تھی جو خود احمدی نہ ہوا.اولا د سے محرومی رہی.اس بچی کی وفات ۱۹۱۱ء میں احمدیت میں ہوئی.محتر مہ رحیم النساء صاحبہ بہت عقلمند اور قرآن کریم کو اچھی طرح جاننے والی خاتون تھیں.آپ نے سینکڑوں لڑکیوں کو قرآن کریم پڑھایا.حکیم رحمت اللہ صاحب محترمہ رحیم النساء صاحبہ کے خاوند حکیم رحمت اللہ صاحب قوم کے مغل تھے.آپ کے ا قارب سہارنپور اور ریاست پٹیالہ کے ایک قصبہ رتہ کھیڑا میں بود و باش رکھتے تھے لیکن آپ
۸۹ کے والد پٹیالہ میں آکر آباد ہو گئے تھے.حکیم صاحب نے ۱۹۰۲ء میں بیعت کی اور یوں تو ان کو کئی بار قادیان جانے کا موقع ملا.مگر جن دنوں حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ قادیان تشریف لائے ہوئے تھے ، ان ایام میں حکیم صاحب کو بہت دیر تک قیام کرنے کا موقع ملا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ نے قادیان سے واپس آ کر ہمیں سنایا کہ جب صاحبزادہ صاحب یکہ پر سوار ہونے لگے اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ آخری مصافحہ کیا تو مصافحہ کی بجائے حضور کے قدموں میں گرنے لگے لیکن حضرت مسیح موعود نے صاحبزادہ صاحب کو ایسا کرنے سے روک دیا نیز یہ بھی بتایا کہ صاحبزادہ صاحب رخصت ہونے کے وقت زار زار روتے تھے کہ حضرت مسیح موعود آپ کے سر پر شفقت سے بار بار ہاتھ پھیرتے تھے.ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حکیم صاحب قادیان سے پٹیالہ واپس آئے تو آپ کو حضرت مسیح موعود کا عاشق پایا گیا.ان دنوں ہر ایک کو اپنے حلقہ میں تبلیغ کا جنون ہوتا تھا اور حضور پر کفر کے فتاویٰ کے باعث اکثر لوگ احمدیوں پر اعتراض کرتے تھے.ایک دفعہ مستری محمد صدیق صاحب عرف حاجی سکنہ ڈھک بازار نے حکیم صاحب کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود کے حق میں کچھ نازیبا الفاظ بولے تو حکیم صاحب نے غصہ میں آکر ایک طمانچہ ان کے منہ پر مارا جو ایسا با برکت ثابت ہوا کہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد حاجی صاحب نے بیعت کر لی اور پھر سلسلہ کے مخلص مرید بن گئے اور آخر دم تک احمدیت پر قائم رہے.پہلے تو صرف نام کے حاجی تھے اور پھر آپ کو مع اہلیہ صاحبہ کے حج کرنے کی توفیق ملی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں.حکیم صاحب نے ۱۹۲۷ء میں بمقام قادیان وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے.محمد یوسف صاحب رحیم بخش صاحب کے بڑے فرزند محمد یوسف صاحب غالبا ۱۸۷۵ء میں پیدا ہوئے تھے اور آپ کو اپنے خاندان میں سب سے اول احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.آپ
۹۰ ۱۸۹۴ء کے قریب گویا انیس سال کی عمر میں احمدی ہوئے.آپ کی خراد کی دکان تبلیغ کا اڈہ تھی.شیخ محمد کرم الہی صاحب کا سنہ بیعت ۱۸۹۱ء ہے.محترم محمد یوسف کو جلسہ جو بلی ملکہ وکٹوریہ پر قادیان حاضر ہونے کا موقع ملا اور آپ کے ذریعہ احمدیت سامانہ اور پٹیالہ میں بھی پھیل گئی اور آپ کے رشتہ کے ماموں اور ان کے تین جواں سال لڑکے اور چھوٹے ماموں بھی احمد بیت میں داخل ہو گئے.آپ کے ذریعہ آپ کے نھیال میں احمدیت خوب پھیلی.حضرت اقدس کے عہد مبارک میں ہی چھ افراد احمدی ہو گئے تھے جن کے ذریعہ دیگر عزیزوں میں بھی احمدیت پھیل گئی.جن کی تعداد اولاد در اولاد کی شکل میں اب ساٹھ ستر کے قریب ہوگی.آپ نے ۱۹۲۱ ء یا ۱۹۲۲ء میں قریباً سنتالیس سال کی عمر میں پٹیالہ میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے.آپ کی تعلیم اردو اور فارسی کی اچھی تھی.مدرسہ میں تعلیم نہیں پائی تھی.خراد کے کام میں خوب بابرکت رزق پاتے تھے.آپ کی شادی ۱۸۹۲ء کے قریب ہوئی تھی.اس شادی سے ایک لڑکا پیدا ہوا جو فوت ہو گیا.اہلیہ کی وفات کے بعد آپ کی دوسری شادی آپ کی پھوپھی صاحبہ کی بیٹی مہر النساء صاحبہ سے ہوئی تھی.جو غالباً ۱۹۱۴ء میں وفات پاگئیں.موصوفہ کا اپنی ساس کے ہمراہ ۱۹۰۲ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت اقدس کے گھر میں بطور مہمان خاص قیام کرنے کا ذکر او پر گذر چکا ہے.موصوفہ بیان کرتی تھیں کہ اس قیام کے وقت سیدہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا بہت شفقت سے پیش آئیں.حافظ ملک محمد صاحب محمد یوسف صاحب کی برکت سے ان کے چھوٹے بھائی حافظ ملک محمد صاحب کو ۱۸۹۶-۹۵ء میں قبول احمدیت کی توفیق ملی.آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کو پہلی بار۱۸۹۷ء میں جلسہ جو بلی ملکہ وکٹوریہ کے موقع پر میں نے دیکھا اور دیگر احباب میں شامل ہوکر مجھے حضور کے سامنے بیٹھ کر حضور کی معیت میں ایک وقت کا کھانا کھانے کا موقع ملا.میں نے دیکھا کہ حضور نے بہت کم کھانا کھایا اور میں نے دیکھا کہ حضور پلاؤ کے چاولوں میں سے گوشت کی بوٹیاں چن چن کر خواجہ کمال الدین صاحب کو پیش کرتے جاتے تھے.
۹۱ وو دونوں بھائیوں کے اسماء روئیداد جلسہ جو بلی میں اسمائے حاضرین میں یوں مرقوم ہیں :- ۸۷- محمد یوسف صاحب خراطی // ( سکونت ریاست پٹیالہ) (ایک پیسہ) ۸۸- حافظ ملک محمد صاحب 66 (آدھ آنه) “ یه اجتماع ۲۰ /جون تا ۲۲ جون ۱۸۹۷ء ہوا تھا.حضور تحریر فرماتے ہیں کہ :.ان تمام دوستوں کے نام درج کئے جائیں گے جو تکالیف سفر اٹھا کر اس جلسہ کے لئے قادیان میں تشریف لائے اور اس سخت گرمی میں اس خوشی کے جوش میں مشقتیں اٹھا ئیں.یہاں تک کہ بباعث ایک گروہ کثیر جمع ہونے کے اس قدر چار پائیاں نہ مل سکیں تو بڑی خوشی سے تین دن تک اکثر احباب زمین پر سوتے رہے.جس اخلاص اور محبت اور صدق دل کے ساتھ میری جماعت کے معزز اصحاب نے اس خوشی کی رسم کو ادا کیا میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ میں بیان کرسکوں.(ص۴۳) یہ چندہ غرباء کی دعوت وغیرہ کے لئے جمع ہوا تھا.(ص۶) حافظ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میں متعدد بار قادیان گیا لیکن اب واقعات یاد نہیں.صرف چھوٹی مسجد میں نماز پڑھنا یاد ہے.جس میں ایک صف میں بمشکل چھ آدمی کھڑے ہو سکتے تھے اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نماز پڑھایا کرتے تھے.آپ کی خوش الحانی اور آواز کی بلندی بے نظیر تھی.مہمان خانہ میں بعض سوئے ہوئے مہمان جاگ اٹھتے اور نمازوں میں شامل ہو جاتے تھے.نیز آپ بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۰۷ء کے جلسہ سالانہ پر مجھے اور بھائی محمد یوسف صاحب اور چھوٹے بھائی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو قادیان آنے کا موقع ملا.ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ ہم اپنے گھر سے اس گاڑی سے بارہ گھنٹے پہلے روانہ ہو گئے.جس گاڑی پر پٹیالہ سے راجپورہ اور راجپورہ سے امرتسر تک جایا کرتے تھے.اس لئے بفضلہ تعالیٰ ہم اس حادثہ سے بچ گئے.جو کہ دوٹرینوں کے تصادم سے لد ہو وال اسٹیشن کے قریب ہوا تھا.اس جلسہ سالانہ میں جمعہ کی نماز کے لئے مسجد اقصیٰ میں پچھلی صف قبر کے قریب ہم تینوں بھائی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک جمعه ۲۷ دسمبر ۱۹۰۷ء کو تھا.(مؤلف)
۹۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے سامنے اگلی صف میں آ کر بیٹھ گئے.اس وقت میری دلی خواہش تھی کہ حضور کو قریب سے دیکھ لوں جو پوری ہو گئی فالحمد للہ.جس وقت حضور ہمارے سامنے بیٹھے تھے تو اس وقت ہندوستان سے آنے والے مہمان دوستوں میں سے بعض نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ حضور ہم سات احمدی بھائیوں پر خاص فضل ہوا ہے وہ اس طرح کہ ہم ساتوں احمدی بھائی ہندوستان سے امرتسر کی طرف قادیان کے لئے سفر کر رہے تھے.جب ہماری گاڑی لدھیانہ پہنچی تو ہم ساتوں اس خیال سے وہاں اتر گئے کہ ہم لدھیانہ کے احباب کے ساتھ مل کر قادیان کو چلیں.ان سے پرانے واقعات معلوم ہو جائیں گے جب ہماری چھوڑی ہوئی گاڑی آگے گئی تو لد ہو وال کے اسٹیشن کے قریب ٹکراگئی اور سینکڑوں جانیں ضائع ہوگئیں.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پگڑی کا سراد بہن مبارک کے آگے کر لیا اور مسکرائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہمارے دوستوں کی حفاظت فرمائی ہیں نیز بیان کرتے ہیں کہ حضور کی بیعت کے شرف سے اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کی مسموم ہوا سے محفوظ کر لیا اور اپنے در کا گدا بنائے رکھا.غناء دی ، تکلیفوں کے اٹھانے کی ہمت بخشی.بیوی اور بچوں کی خدمت کی توفیق دی.دوستوں کے ساتھ دوستی نبھانے کی توفیق ملی.میرے دوستوں میں مندرجہ ذیل بزرگ شامل ہیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب مرحوم ، حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی، نواب اکبر یار جنگ صاحب مرحوم ، قریشی محمد افضل صاحب پٹیالوی اور خان صاحب عبدالکریم صاحب بنوڑی مدفون بہشتی مقبرہ.مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے عمر بھر تبلیغ کا موقع ملتارہا.چھ ماہ تک آنریری طور پر ملکانوں میں تبلیغ کی توفیق ملی.میرے ذریعہ بہت سے احمدی ہوئے.صرف علاقہ ملکانہ میں باون مردوزن میرے ذریعہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.ملکانوں میں تین لوگوں کو میں نے قرآن مجید بھی پڑھایا.جب میرے ذریعہ ہونے والے احمدی قادیان آتے تو مجھے کندھوں پر اخبار مارننگ پوسٹ دہلی کی خبر کی رو سے اس خوف ناک حادثہ میں جو ۲۵ دسمبر ۱۹۰۷ء کو ہوا تھا.اڑھائی صد جانوں کا اتلاف ہوا تھا.الحکم ۶ جنوری ۱۹۰۸ء ص۸،۷ (مؤلف)
۹۳ اٹھالیتے ، باوجود یکہ میری تعلیم بہت تھوڑی تھی ، احمدیت کے طفیل مجھے باعزت روزگار نصیب ہوا.ریاست پٹیالہ کے ناظم صاحب مجھ سے بہت محبت رکھتے اور مجھ پر بہت اعتبار کرتے تھے.اس لئے میری ملازمت رہی اور آمدنی بھی گذارہ کے لائق ہوتی رہی ، آپ کی شادی اپنی پھوپھی صاحبہ کی بیٹی رحم النساء صاحبہ سے ہوئی.جو احمدی تھیں.گو ان کا سنہ بیعت معلوم نہیں تقسیم ملک کے بعد ۱۹۴۷ء میں بمقام لا ہور فوت ہوئیں اور وہیں دفن ہوئیں.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ حافظ صاحب کی زندگی ہمیشہ متوکلانہ رہی ہے.آپ نے طبیعت بڑی فیاض اور دوست نواز پائی ہے.جہاں جہاں آپ کا قیام رہا لوگ آپ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے ہاں سے چلا جانے کی وجہ سے افسوس کا اظہار بھی.مثلاً پٹیالہ ، دہلی اور حیدر آباد وغیرہ کے دوست.اللہ تعالیٰ نے آپ کو تبلیغی ذوق دیا ہے.آپ کے ذریعہ کئی ایک افراد احمدی ہوئے.آپ نے ۱۹۲۳ء میں نصف سال تک علاقہ ملکانہ میں تبلیغ کی اس عرصہ میں آپ کا کاروبار جو پٹیالہ میں تھا بگڑ گیا اور آپ درویش ہو کر پیٹیالہ آبیٹھے.پھر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے منشاء سے حیدر آباد دکن چلے گئے اور دس بارہ سال وہاں قیام کیا.پھر قادیان آگئے.میں بچپن میں آپ کا مطبع اور خدمت گذار ساتھی تھا.مجھ سے بہت مروت کرتے تھے.سب سے چھوٹے بھائی محمد ظہور صاحب کو بھی بچوں کی طرح اپنے ساتھ رکھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت اسی سال کی عمر میں بھی اچھی طرح چل پھر سکتے ہیں.محمد ظہور صاحب رحیم بخش صاحب کے تیسرے فرزند ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے سوانح درج کرنے سے قبل چوتھے فرزند مکرم محمد ظہور صاحب کا ذکر کیا جاتا ہے.آپ ۱۸۹۵ء میں پیدا ہوئے.۱۸۹۹ء والی بیعت کے وقت آپ کی عمر چار سال کی تھی.گویا طفولیت کے باعث آپ اس وقت سے ہی ایک نیک احمدی گھرانہ کے فرد تھے.۱۹۰۵ء میں بمقام لدھیانہ آپ نے والد ماجد کے ہمراہ حضرت مسیح موعود کی زیارت کی اور دستی بیعت بھی کی.اس وقت آپ کی عمر قریباً دس سال کی
۹۴ تھی.آپ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم لدھیانہ پہنچے ہیں تو ہم روزہ رکھے ہوئے تھے.رمضان کا مہینہ تھا.عصر کا وقت تھا.ہمارے دریافت کرنے پر کہ ہم روزہ پورا کر لیں.حضور نے فرمایا کہ سفر میں روزہ جائز نہیں.حضور نے یہ عذر صحیح نہ سمجھا کہ دن کا تھوڑا سا حصہ باقی رہ گیا ہے.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رحیم بخش صاحب کے ہاں تیسرے فرزند ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب غالبا ۷ ۱۸۸ء میں محلہ ڈھک بازار میں ہی پیدا ہوئے.آپ کی والدہ محترمہ سناتی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب کی زبان پر پنگوڑھے میں اللہ کا لفظ آتا تھا.پانچ چھ سال کی عمر میں آپ کو اور حافظ ملک محمد صاحب کو مسجد میں قرآن مجید پڑھنے کے لئے بھیجا.دونوں کو والدہ صاحبہ نے نیلے نہ بند بنوا دئے اور بتایا کہ یہ نماز پڑھنے کی نشانی ہے.تا نمازوں کی طرف دھیان رہے.تین سال تک ڈاکٹر صاحب نے قرآن مجید اور پھر اردو فارسی کی تعلیم حاصل کی.قریباً نو سال کی عمر میں ۱۸۹۶ء میں مدرسہ میں داخل ہو کر آپ نے ۱۹۰۷ء میں دسویں جماعت میں کامیابی حاصل کی.۱۸۹۹ء میں جب آپ کے دادا جان اور والد ماجد نے مولوی عبد القادر صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.اس میں بعمر بارہ سال ڈاکٹر صاحب بھی شامل تھے.پندرہ سال کی عمر میں یہ شوق ہوا کہ حضرت مسیح موعود کے حضور سے قبول کئے جانے کی سند حاصل کی جائے.چنانچہ ۱۹۰۲ء میں آپ نے جمعیت شیخ محمد افضل صاحب پٹیالوی طالب علم خدا بخش صاحب پٹیالوی طالب علم بیعت کی درخواست بھیجی.چنانچہ بیعت کی منظوری کا اعلان الحکم میں ہو گیا ہے تاثرات آپ بیان فرماتے ہیں کہ عقل و شعور کے ابتدائی وقت میں جو چیز میرے قلب پر مستولی ہوئی حکم مورخه ۷ ارجون ۱۹۰۲ء بیعت کا اعلان یوں مرقوم ہے:.ر شیخ محمد افضل صاحب، خدا بخش خرادی پٹیالہ، حشمت اللہ صاحب طالب علم پٹیالہ ڈھک بازار.“ (ص۴۴۳) مؤلف
۹۵ وہ حضور کا مندرجہ ذیل منظوم کلام تھا.ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دینِ محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے یہ شمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام دل کو یہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے ۱۳ یہ چند شعر اس جگہ درج کئے گئے ہیں کہ دل رُک نہیں سکا.یوں نظم لمبی ہے.پھر دوسرا منظوم کلام جو یاد ہو اذیل کی فارسی نظم ہے: اے خدا اے چارہ آزار ما اے علاج گریہ ہائے زار ما اے تو مرہم بخش جان ریش ما اے تو دلدار دل غم کیش ما از کرم برداشتی هر بار ما و از تو ہر بار و بر اشجار ما و ستاری از جود و کرم بے کساں را یاری از لطف اتم بنده درمانده باشد دل طپاں ناگہاں درمان براری از میاں حافظ
۹۶ بر کسے چوں مہربانی می کنی از زمینی آسمانی ے کنی حسن و خلق دلبری بر تو تمام صحبت بعد از لقائے تو حرام ۱۴ اپنی نو عمری میں یہ دونوں نظمیں ترنم کے ساتھ پڑھا کرتا تھا.خصوصاً فارسی کی نظم رات کے پچھلے حصہ میں پُر در دلجہ میں جب پڑھنا نصیب ہوتی تو میرا دل اپنے رب کی طرف کھنچا چلا جاتا اور ایسا سرور دل میں پیدا ہوتا کہ کس اور نظارہ یاکسی مجلس یا کسی شغل میں وہ لذت ہرگز نہ پائی تھی.“ حضرت اقدس کی زیارت جب میری عمر اٹھارہ سال کی ہوئی تو میرے دل کو شوق دیدار یار ( مسیح پاک) نے پکڑ لیا اور مولیٰ کے حضور گریہ و بکا کرنے پر مجبور کر دیا.چنانچہ ایک روز اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعا کی تو کچھ دنوں بعد رویا ہوئی.”میں دیکھتا ہوں کہ میں اپنی مسجد کے حجرے میں لیٹا ہوا ہوں اور وہ ماہ خوباں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ہے.نظر پڑتے ہی فرط محبت سے چار پائی سے اُٹھ کر اپنے شفیق اور مہربان اور ماں باپ سے بھی زیادہ پیارے باپ کو لپٹ جاتا ہوں اور رونے لگ جاتا ہوں اور اس طرح پر اعلیٰ لذت اور تسکیں حاصل کرتا ہوں.“ اس پاک اور سچی رؤیا کو دیکھے ابھی ایک دو ماہ ہی گذرے تھے کہ اگست ۱۹۰۵ء میں مجھے قادیان جانا اور پہلی مرتبہ پیارے آقا کی زیارت کرنا، حضور کے دست مبارک پر بیعت کرنا اور پاؤں دبانے کی عزت حاصل کرنا اور دس روز تک وہاں قیام کرنا نصیب ہوتا ہے.یہ کوئی دعانہ تھی بلکہ نار عشق کی بھڑک تھی جس نے اس قدر اثر دکھایا کہ مجھ نا چیز وفادار کو کوچہ ء یار میں پہنچا دیا.اس بارہ میں سیرۃ المہدی حصہ سوم میں آپ کی ذیل کی روایت درج ہے:- میں ۱۹۰۵ ء کی موسم گرما کی چھٹیوں میں جبکہ ( میں ) اپنے سکول کی نویں جماعت کا طالب علم تھا.پہلی مرتبہ قادیان آیا تھا.میرے علاوہ مولوی عبداللہ صاحب عربی مدرس مهنور کالج و ہائی سکول پٹیالہ ، حافظ نور محمد صاحب مرحوم سیکرٹری جماعت احمد یہ پٹیالہ مستری
۹۷ محمد صدیق صاحب پٹیالوی جو آج کل وائسریگل لاج میں ملازم ہیں، شیخ محمد افضل صاحب جو شیخ کرم الہی صاحب کے چچا زاد بھائی ہیں اور اس وقت سکول کے طالب علم تھے، میاں خدا بخش المعروف مومن جی جو آج کل قادیان میں مقیم ہیں اس موقع پر قادیان آئے تھے.ہم مہمانخانہ میں ٹھہرے تھے.ہمارے قریب اور بھی مہمان رہتے تھے.جن میں سے ایک شخص وہ تھا جو فقیرانہ لباس رکھتا تھا.اس کا نام مجھے یاد نہیں کہ وہ ہم سے کئی روز پہلے کا آیا ہوا تھا.جس روز ہم قادیان پہنچے.اس فقیرانہ لباس والے شخص نے ذکر کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا تھا کہ میری بیعت لے لیں.آپ نے فرمایا کچھ دن یہاں ٹھہر و.بیعت کی کیا جلدی ہے ہو جائے گی.وہ شخص دو تین دن تو ڑ کا رہا لیکن جس روز ہم یہاں پہنچے تھے.اس شام یا اگلی شام کو بعد نماز مغرب یا عشاء حضور نے لوگوں کی بیعت لی.ہم طلباء نے بھی بیعت کی.اس وقت اس شخص نے بھی چپکے سے بیعت کر نیوالوں کے ساتھ ہاتھ رکھ دیا.اگلی صبح آٹھ نو بجے کے قریب حضرت مسیح موعود حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے موجودہ سکونتی مکان کی بنیادوں کا معائنہ کرنے کے لئے اس جگہ پر تشریف فرما تھے کہ ہم مہمانانِ موجود دالوقت بھی حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہو گئے.اس وقت اس مہمان نے آگے بڑھ کر کہا حضور میں نے رات بیعت کر لی ہے.حضور نے ہنس کر فرمایا بیعت کر لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ استقامت اختیار کرنا اور اعمال صالحہ میں کوشش کرتے رہنا ضروری ہے.اسی طرح کی مختصر مگر مؤثر تقریر حضور نے فرمائی.حکمت الہی ہے کہ وہ شخص اگلے روز ہی ایسی باتیں کرنے لگا کہ گویا اسے سلسلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ایک دوروز تک دشنام دہی تک نوبت آگئی اور اسی حالت میں وہ قادیان سے نکل گیا.ڈاکٹر صاحب نے خاکسار مؤلف اصحاب احمد کولکھا ہے کہ یہ نومسلم عبدالحق نام سکنہ گیا تھا روایت نمبر ۵۸۶ میں چھ ہفتہ میں آئے مولوی عبداللہ صاحب، میاں محمد صدیق صاحب، حافظ نور محمد صاحب، محمد افضل صاحب، خدا بخش صاحب، حشمت اللہ صاحب طالبعلم پٹیال.....شیخ عبدالحق صاحب نو مسلم سابق بشن داس ساکن گیا حال رحیم آباد آریہ جو دیانند کی صحبت میں
۹۸ ہمارے قیام کے دنوں میں حضور کو تازہ الہام ہوا فَزِعَ عِيْسَىٰ وَ مَنْ مَّعَهُ ۱۵.یہ الہام مجھے اسی وقت کا یاد ہے.اس کے دواڑھائی ماہ بعد حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا انتقال ہوا تو حضور نے اس الہام کو اس سانحہ غم آلود کی خبر قرار دیا ہے ہمارے قیام قادیان کے دنوں میں ایک جمعہ بھی آیا.اس وقت مسجد مبارک بہت چھوٹی تھی.ایک صف میں صرف پانچ چھ آدمی کھڑے ہو سکتے تھے.حضور نے نماز جمعہ مسجد مبارک میں ادا فرمائی اور بہت سے احباب نے جن میں زیادہ تر مہمان تھے اور اس مسجد میں سما سکتے تھے.حضور کی معیت میں نماز جمعہ اس مسجد میں ادا کی.خاکسار بھی ان میں شامل تھا.بقیہ احباب نے مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کی.مسجد مبارک میں نماز جمعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھائی.اس روایت میں محترم ڈاکٹر صاحب یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ :- ” ہمارے دوران قیام میں جو کہ دس بارہ روز کا عرصہ تھا بعض اور واقعات بھی ہوئے.ان میں سے ایک حضرت صاحب کے سر پر چوٹ لگنے کا واقعہ ہے * * حضور وضوکر کے اٹھے تھے کہ الماری کے کھلے ہوئے تختہ سے سر پر چوٹ آئی اور کافی گہرا زخم ہو گیا جس سے خون جاری اس الہام کے سنائے جانے کی تاریخ ۱۲ را گست مرقوم ہے اور یہ کہ حضرت مولوی صاحب کی وفات سے پوری ہوئی.جواا راکتو برکو واقع ہوئی.(مؤلف) لله حمير الحکم مورخہ ۸۵-۸-۲۴ میں مرقوم ہے کہ سر میں الماری کے تختہ سے چوٹ ۲۰ را گست کو لگی تھی (صاک ۳) مؤلف بقیہ حاشیہ مدت تک رہ کر اور ویدوں کے خوب مطالعہ کرنے کے بعد اور آریوں کے حالات سے اچھی طرح واقف ہونے کے بعد آخر بعمر پچاس برس مشرف باسلام ہوئے ہیں اور اب حضرت مسیح موعود کی بیعت میں داخل ہوئے ہیں.شیخ صاحب سنسکرت کے بڑے فاضل ہیں.( الحکم ۵۰-۸-۷ اص ۷ ) نیز ص ۳/۴ پہ بھی ان کا ذکر ہے.نیز بدرمورخہ ۱۴/اگست ۱۹۰۵ء میں ۱۳ اگست کی ڈائری میں گیا کے اس نو مسلم کا حضور سے ایک مسئلہ کے متعلق استفسار کا ذکر آتا ہے.
۹۹ ہوا اور بہت تکلیف پہنچی.اس کی وجہ سے مسجد میں تشریف نہ لا سکتے تھے اور ہم نے بھی اجازت اندر حاضر ہو کر لی تھی.دوسرا واقعہ یہ ہے کہ انہی دنوں حضور کو فزع عیسیٰ وَمَنْ مَّعُهُ والا الہام ہوا تھا.66 اس روایت کے آخر پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں:.الماری کے تختہ کی چوٹ کا واقعہ میرے سامنے ہوا تھا.حضرت صاحب کسی غرض کے لئے نیچے جھکے تھے اور الماری کا تختہ کھلا تھا.جب اُٹھنے لگے تو تختہ کا کونہ سر میں لگا اور بہت چوٹ آئی.یہ واقعہ اس کمرہ میں ہوا تھا.جو حجرہ کہلاتا ہے.“ جید تجارت اور حضرت اقدس کی خدمت میں تحفہ ڈاکٹر صاحب محترم ابھی دسویں جماعت میں تعلیم پارہے تھے تو اخراجات تعلیم کی فراہمی کے لئے آپ نے چند روپوں کے ٹرنک منگوا کر اپنے والد ماجد کی دکان پر رکھ لئے جو فروخت ہو جاتے تھے اور کچھ آمدنی ہو جاتی تھی.جب ۱۹۰۷ء میں آپ نے میٹرک پاس کر لیا تو اپنے مندرجہ ذیل قرائن سے ڈاکٹر صاحب اور آپ کے رفقاء کے قادیان پہنچنے کی تاریخ بیعت کی تاریخ جمعہ کی تاریخ اور قیام کے عرصہ کا تعین ہوتا ہے.جنتری کی رو سے اراور ۱۸ راگست ۱۹۰۵ء کو جمعہ تھا: - (1) فزع عیسی والا الہام اس عرصہ قیام میں ہوا یا سنایا گیا.(اس کے سنائے جانے کی تاریخ ۱۲ اگست ہے ) (۲) الماری سے سر میں چوٹ آنے کی وجہ سے اندرون خانہ حاضر ہو کر احباب نے واپسی کی اجازت حاصل کی.( یہ واقعہ چوٹ کا ۲۰ راگست کو ہوا تھا ) قرائن بالا سے ظاہر ہے کہ ۱۲ را گست کو بروز ہفتہ یہ احباب اس الہام کے سنائے جانے کے روز قادیان پہنچے اور اس روز یا اگلے روز بیعت کی اور ۱۸ اگست کا جمعہ قادیان میں پڑھا اور ۲۰ اگست کو چوٹ والے واقعہ کے روز تک قادیان میں ضرور قیام رہا ممکن ہے اس کے چند دن بعد واپسی ہوئی ہو.کیونکہ روایت میں دس بارہ دن کا ذکر آتا ہے.(مؤلف)
میلان طبع کے باعث تجارت کو ہی ذریعہ معاش بنانا اور ملازمت کی قید سے بچنا مناسب جان کر دہلی سے کچھ اور بساط خانہ کی چیزیں منگوا کر اور ایک دکان کرایہ پر لے کر آپ نے جدو جہد شروع کر دی.روپیہ بہت تھوڑا تھا.جب چیزیں بک جاتی تھیں تو بار بار دہلی جانا پڑتا تھا.ابھی یہ جد و جہد جاری ہی تھی کہ آپ کے والد ماجد ماہ اگست ۱۹۰۷ء میں وفات پاگئے.گویا ڈاکٹر صاحب، اُن کی اہلیہ صاحبہ اور والدہ صاحبہ کے کھانے پینے کے اخراجات جو والد صاحب برداشت کرتے تھے وہ ڈاکٹر صاحب پر آن پڑے.اس وجہ سے دکان کے کام میں بجائے ترقی کے تنزل شروع ہو گیا.گو آپ کو ملازمت مل سکتی تھی کیونکہ آپ سیکنڈ ڈویژن میٹرک پاس تھے لیکن آپ کی غیرت نے ادھر کا رخ نہ کرنے دیا.دینی غیرت کا ایک عجیب واقعہ ہے کہ جب آپ میٹرک پاس کر چکے تھے.والد صاحب کافی بوجھ برداشت کر چکے تھے اور اب عمر رسیدہ ہو چکے تھے.اس لئے ڈاکٹر صاحب اخراجات پورے کرنے کے لئے آمد پیدا کرنا چاہتے تھے لیکن روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے اور مال کم ہونے کی وجہ سے، بکری بھی کم ہوتی تھی.ایسی تنگی ترشی کے وقت میں ایک احمدی دوست نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اپنے محکمہ میں آپ کو ملازم کرا دوں.تو ڈاکٹر صاحب نے ان کو یہ برجستہ جواب دیا کہ موسم سرما میں دفتری اوقات دس بجے سے چار بجے تک ہوتے ہیں اور جمعہ کے روز چھٹی نہ ہونے کی وجہ سے آپ لوگ نماز جمعہ میں شامل نہیں ہو سکتے.اس وجہ سے میں تو ایسی ملازمت پسند نہیں کرتا جس کی وجہ سے نماز جمعہ ہی ترک ہو جائے.بہت سے لوگ آپ کی دکان کو کچی دکان سمجھ کر چیزیں خرید نے آتے لیکن خالی چلے جاتے اسی جد و جہد میں کئی ماہ گذر گئے آپ بیان کرتے ہیں کہ :- مارچ ۱۹۰۸ء میں مجھے خیال آیا کہ دکان میں آمدنی کچھ ایسی نہیں ہو رہی جس سے کچھ رقم نکال کر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں بھیج سکوں تو میرے دل میں تحریک ہوئی کہ اس دکان میں جو کچھ عمدہ چیزیں تحفہ کے لائق ہیں کیوں نہ بطور تحفہ حضور کی خدمت میں بھیجدوں.میں اپنے رب محسن کا بے حد شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس ناچیز کے دل میں یہ خیال ڈالا اور اسے پورا کرنے کی توفیق دی.چنانچہ سورت (بمبئی) کے بنے ہوئے چند بڑے بڑے رومال
1+1 جو دستر خوان کا کام دے سکتے تھے اور چند چھپے ہوئے تہ بند اور ایک قیمتی ترکی ٹوپی بذریعہ پارسل ڈاک میں بھیجد یں.جو حضور کو وصول ہو گئیں.مجھے اپنے اس ناچیز عمل کی اب تک خوشی محسوس 66 ہوتی ہے کیونکہ حضور اس کے صرف دو ماہ بعد ہم سے جُدا ہو گئے.“ دوسری بار زیارت بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۰۷ء آپ بیان کرتے ہیں کہ اس نار عشق کا شعلہ پھر بھڑ کا جس نے دوسال بعد ۱۹۰۷ء میں بموقع جلسہ سالانہ مجھے اپنے محبوب کے پاس پہنچا دیا.جہاں میرے جیسے سینکڑوں دیوانے موجود تھے.ایک سے ایک بڑھ کر اس نور کے پتلے پر فدا نظر آتا تھا.جہاں مجھے اپنی بے مائیگی صاف صاف نظر آنے لگی اور اپنا عشق بیچ معلوم ہونے لگا مگر وہ دادار جس کی نظر دلوں پر ہے ہر دل کی کیفیات کو خوب جانتا ہے.“ میرے دل نے خواہش کی کہ حضور سیدنا مسیح پاک کو دور سے تو دیکھ لیا ہے مگر نزدیک بیٹھ کر دیکھنے کا موقع مل جائے تو کیا ہی خوش قسمتی ہے.ابھی اس خیال ہی میں مسجد اقصیٰ کے آخری حصہ میں نماز جمعہ کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ وہ چاند سے مکھڑے والا خوشبو سے معطر دلبر آتا ہے اور عین میرے اور میرے بھائی حافظ ملک محمد صاحب کے سامنے بیٹھ جاتا ہے اور میں شکر مولیٰ میں لگ جاتا اور حیرت میں پڑ جاتا ہوں کہ یہ ناچیز بندہ اور یہ انعام الہی.یہ میرے دل کی خواہش تھی یا بجلی کی تار تھی کہ جس نے بندہ نواز کے دل پر اثر کیا اور بندہ کے پاس لا بٹھایا.مجھے اس جلسہ میں حضرت اقدس کی دونوں روز دونوں تقاریر سننے کا موقع ملتا ہے.ایک روز حضور سیر کے لئے قصبہ سے باہر تشریف لے جاتے ہیں اور بالا رادہ بڑے بازار میں سے اپنے گرد بھیٹر سمیت باہر چلے جاتے ہیں تا کہ قادیان کے ہندوں ساکنین کو یہ نظارہ دکھلایا جائے کہ یہ چھوٹا سا گاؤں اور یہ جم غفیر اور یاد کرایا جائے کہ حضور کا الہام يا تُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ ا یسی صداقت کے ساتھ پورا ہو گیا ہے.جہاں یہ دل عشق محبت سے بھر پور تھا وہاں عاجز ومسکین بھی تھا.۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے کہ صبح کے آٹھ بجے کھانا کھانے کے بعد یہ عاجز جلسہ میں تقریروں کے سننے میں لگ گیا.
۱۰۲ اسی روز مسیح پاک کی بھی تقریر سنی اور خوب سیری حاصل ہوئی.نماز مغرب و عشاء ( جمع کردہ) ادا کی اور مسجد مبارک میں حسب الارشاد مجلس معتمدین صدر انجمن کے جنرل اجلاس میں شامل ہونے کی غرض سے بیٹھ گیا کہ اجلاس کے بعد کھانا کھالوں گا.اعلان کے مطابق اس میں جماعتوں کے صدر صاحبان اور سیکرٹریوں کی شمولیت ضروری تھی.میں اس وقت کمزور تھا.بھوکا تھا کہ صبح آٹھ بجے کا کھانا کھایا ہوا تھا.دن میں اور کچھ کھانے کو میسر نہ آیا تھا.ہمیں سالہ جوان تھا.شاید ایک آدھ کے سوا باقی تمام احباب سنتوں وغیرہ سے فارغ ہو کر مسجد سے چلے گئے تھے.اس حال کے پیش نظر نفس تقاضا کرتا تھا کہ اٹھ کر چلا جا کہ غالباً اراکین صدر انجمن احمدیہ کھانا کھانے کے لئے چلے گئے ہیں اور سب لوگ لنگر میں کھانا کھا رہے ہیں.تو بھی جا کر کھانا کھا کر چلا آ.لیکن غریب دل ڈرا کہ مبادا غیر حاضر ہو جاؤں، بیٹھا رہا، بیٹھا رہا.پورے دو گھنٹے انتظار میں گزر گئے.بھوک نے بہت ستایا.قریباً پونے نو بجے معزز اراکین صدر انجمن اور چند احباب جماعتہائے بیرون تشریف لے آئے.اجلاس شروع ہو کر پونے بارہ بجے رات ختم ہوا.خواہش خوراک از خود ختم ہوگئی کہ بھڑک کی طاقت ہی باقی نہ رہی تھی.مسجد سے نیچے اترا اور طوعا وکر ہا لنگر کا رخ کیا جسے بند پایا.ناچاراپنی جائے قیام پر جو بیت المال کے کمروں میں تھی واپس آ کر سونے کو تھا کہ کسی نے دروازہ پر دستک دی کہ جس مہمان بھائی نے کھانا نہیں کھایا وہ لنگر خانہ میں جا کر کھانا کھالے.چنانچہ بندہ گیا اور جو کچھ ملا شکر کر کے کھا کر چلا آیا کہیں اگلی صبح کے نو دس بجے میں دیکھتا ہوں کہ پیارا مسیح “ پاک چھوٹی مسجد کے چھوٹے دروازہ میں گلی رُخ کھڑا ہوا ہے اور کئی ایک عشاق سامنے کھڑے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو بلائیں.چنانچہ حضرت مولوی نور الدین صاحب سامنے حاضر ہوئے تو فرماتے ہیں معلوم ہوتا خاکسار کے استفسار پر آپ بیان کرتے ہیں کہ دوبارہ لنگر کھول کر رات کے بارہ بجے منتظمین نے مجھے کھانا کھلایا تھا.جو دال روٹی پر مشتمل اور کافی ٹھنڈا تھا.یہ معلوم نہیں کہ اس وقت کون ن منتظیم لنگر خانہ اور باورچی تھے لیکن حال ہی میں حکیم حمد عمر صاحب نے مجھے بتلایا کہ وہ منتظم لنگر خانہ تھے.(مؤلف)
ہے آج رات کے کھانے کا انتظام اچھا نہ تھا کہ بعض مہمان بھوکے رہ گئے.کسی کی بھوک عرش تک پہنچی ہے اور مجھے بشدت الہام کیا گیا."يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعَتَرَّ یہ الہام رات کے دس بجے کے قریب ہوا تھا جس پر حضور والا نے باہر منتظمین کو کہلا بھیجا تھا کہ جن مہمانوں کو کھانا نہیں ملا ان کو کھانا کھلایا جائے.اسی واسطے منتظمین میں سے کسی نے میرے دروازہ پر دستک دی تھی.اگر چہ دوبارہ رات کے بارہ بجے لنگر کھلنے پر میرے سوا دویا تین احباب اور بھی تھے جنہوں نے اس وقت کھانا کھایا تھا.مگر میں اپنے دل پر نظر ڈالتے ہوئے اور اپنے مولیٰ کے اوپر بیان کردہ سلوکوں کے پیش نظر بشرح صدر کہتا ہوں کہ یہ اسی دل کی آپ تھی جس نے عرش کو ہلایا اور بشدت الہام کروایا جس کی آہ جس کی گریہ و بکا اول تو پیارے مسیح کو خواب میں ملاقات کے لئے مسجد پٹیالہ میں لے آئی.پھر سفر قادیان ۱۹۰۵ء کے سامان بہم پہنچانے کے لئے اپنے مولیٰ کی غایت کو کھینچ لائی.پھر جس کی خواہش نے مسجد اقصیٰ میں پیارے مسیح کو پاس لا بٹھایا کہ بدر مورخه ۹ / جنوری ۱۹۰۸ء ص ۳ پر جلسہ سالانه ۱۹۰۷ء کے کوائف میں مرقوم ہے کہ :- بعض مہمانوں کو ایک دن کھانا بہت دیر سے ملا.روٹی کافی تیار تھی مگر جگہ تنگ تھی اور تھوڑے آدمی ایک وقت میں کھا سکتے تھے.اس واسطے بہت دیر ہوگئی اور بعض مہمان بغیر کھانا کھانے کے سونے کے کمروں میں چلے گئے تو ان کو یہ انعام ملا کہ خود خداوند عالم نے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور براہ راست آسمان سے اللہ کے رسول کے پاس رات کو پیغام پہنچا کر اَطْمِعُوا الْجَائِعَ وَالْمُعَتَر.بھوکے اور مضطر کو کھانا کھلا.صبح سویرے حضور نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ رات کو بعض مہمان بھوکے رہے.اسی وقت آپ نے ناظمان لنگر کو بلایا اور بہت 66 تاکید کی کہ مہمانوں کی ہر طرح سے خاطر داری کی جاوے اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.“ خاکسار مؤلف اصحاب احمد یہ عرض کرتا ہے کہ اس مطبوعہ رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جگہ کی تنگی کے باعث بعض دوست کھانا کھائے بغیر سونے کے لئے چلے گئے اور یہ بھی پتہ لگا کہ حضور نے صبح کے وقت منتظمین کو مہمانوں کی خاطر داری کی تاکید کی.لیکن چند صحابہ سے زبانی یا تحریری یہ علم ہوا ہے کہ حضور کے ارشاد پر رات ہی کو مہمانوں کو جو بھوکے رہ گئے تھے کھانا کھلایا گیا.مؤلف
۱۰۴ اس الہام کے دور رس نتائج جلسہ ختم ہوا.یہ بندہ اپنے پیارے دونوں بھائیوں سمیت اپنے گھر پٹیالہ کو چلا گیا.اس وقت میٹرک پاس تھا.مگر روزگار نہ ہونے کے برابر تھا.والد صاحب کو فوت ہوئے چار مہینے ہوئے تھے.والدہ سسک رہی تھیں.اب حد درجہ کی مجبوری کے باعث روزگار کی تلاش کی گئی.ایک محکمہ میں ملازمت کی درخواست کی مگر شنوائی نہ ہوئی.ایک ماہ گذر گیا.ماہ اپریل ۱۹۰۸ء آ گیا.میرے ایک شفیق استاد نے جن سے میں نے فارسی پڑھی تھی.از راہ ہمدردی فرمایا کہ مجھے ایک اسامی ایک فوجی کرنل محمد رمضان کے ہاں خالی معلوم ہوئی ہے.اگر تم کہوتو میں کرنل صاحب سے دریافت کروں کہ وہ ملازمت تمہیں دیدے.میں تو حاجتمند تھا ہی.عرض کیا کہ ہاں مہربانی فرماویں.اس پر وہ مشفق من کرنل کے ہاں گئے.مگر اس نے ”مرزائی پنے کا سوال اٹھا دیا.وہ خاموش واپس آگئے اور مجھے قصہ بتلایا اور مجھے کچھ اس طرح کہا کہ وہ مجھے اگلے روز پھر کرنل کے پاس لے جائیں گے اور مجھے فرمایا کہ اگر کرنل احمدی ہونے کا دریافت کرے تو تم خاموش رہنا.بھلا میرا دل کس طرح یہ گوارا کر سکتا تھا.اس کے اندر سے یہ الفاظ نکلے کہ جناب عالی.یہ تو تمیں چالیس روپے کی نوکری ہے.میں پانصد روپے کی نوکری پر بھی تھوکتا نہیں کہ اپنی احمدیت چھپانی پڑے.اگلے روز حضرت مولوی عبد القادر صاحب لدھیانہ سے تشریف لے آئے انہوں نے یہ ماجری سنا اور مجھ سے کہا کرنل میرا واقف ہے.میں تمہیں اس کے پاس لے جاؤں گا.وہ مجھے جانتا ہے.وہ میرے کہنے سے ملا زمت دے دیگا.میں جانا نہ چاہتا تھا مگر حضرت مولوی صاحب کے بزرگانہ ارشاد پر اُن کے ساتھ چلا گیا.جونہی اس کرنل کے بنگلہ کے باہر کے پھاٹک کے قریب پہنچے تو کرنل نے ایک فاصلہ سے ہمیں کھڑے ہوئے دیکھ کر کہا.مولا نا ! مولا نا ! یہاں کوئی ملازمت نہیں.جب ہم ذرا قریب ہوئے تو درشتی کے لہجہ میں کہا کہ میں نے کل ایک سکھ لڑکے کو وہ نوکری دے دی ہے.مجھے کرنل کے اس عمل وسلوک سے سخت رنج پہنچا اور اسی حال میں میں واپس گھر پہنچا اور
۱۰۵ نماز مغرب ادا کرتے ہوئے پر ملال دل میں درد پیدا ہوا اور میں دعا میں لگ گیا.شدّت سے دعا کر رہا تھا تو یہ الفاظ میرے منہ سے نکلے کہ یا الہی تو مجھے ایسا رزق دے کہ میں کرنل جیسے لوگوں کا محتاج نہ بنوں.اس دعا سے اگلے روز ہی جب میں اپنی دوکان پر گیا اور اسے کھول کر بیٹھ گیا مال تھا نہیں گا ہک کہاں؟ میرے خدا نے ہاں میرے پیارے مولیٰ نے ایک ہندولڑکے کے دل کو پکڑا اور اسے اٹھائے میرے پاس لے آیا.یہ ہندولڑ کا مادھو رام نامی چند سال پہلے مڈل میں میرا ہم جماعت تھا.پھر بیماری اور جسمانی دماغی کمزوری کی وجہ سے تعلیم چھوڑ بیٹھا تھا.نیک دل لڑکا از خود بولا.یار تیری دکان پر مال تو ہے نہیں بکری کیا ہو گی اور تم کھاتے کہاں سے ہو گے؟ میں نے اس سے کہا کہ میں کروں تو کیا کروں.جوں توں کر کے میٹرک کا امتحان پاس کیا ہوا ہے.ملازمت کے لئے کوشش کی تو کوئی کامیابی نہیں ہوئی.میری یہ بات سن کر وہ دوست بولا کہ یار تو ڈاکٹڑی پڑھنے چلا جا.میں نے تعجب سے کہ جس حال میں میرے کھانے پینے کے لئے خرچ نہیں ہے.تو ڈاکٹڑی پڑھنے کس طرح چلا جاؤں؟ وہ کیا میرے مولیٰ کا بھیجا ہوا بندہ ہاں اطعموا الجائع والمعتر کا الہام بشدت کرنے والے قادر خدا کے بھیجے ہوئے بندہ نے کہا کہ بھئی ڈاکٹری کی تعلیم کے لئے ریاست کی طرف سے وظیفہ ملتا ہے.جس پر میں نے اسے جواب دیا کہ مجھے وظیفہ کس نے دینا ہے؟ مجھے معمولی نوکری کی کوشش میں بھی ناکامی ہوئی ہے.اس پر اس نے کہا کہ بھئی! میرے محلہ میں لالہ مولک رام میڈیکل محکمہ کے سیکنڈ کلرک ہیں.میں ان سے کہوں گا کہ آپ کو وظیفہ دلوا دیں.میں نے کہا کہ کہد و.چنانچہ اسی شام کو اس لڑکے نے کلرک مذکور سے کہدیا.اس نیک کلرک نے میری درخواست چیف میڈیکل آفیسر ریاست پٹیالہ کے پیش کر دینے کا وعدہ کر لیا اور درخواستوں کے پیش کئے جانے کی تاریخ بتلا دی جو چھ سات دن کے بعد کی تاریخ تھی.تاریخ مقررہ پر میں درخواست وظیفہ لے کر میجر ڈاکٹر Ainswortn آئی ایم ایس کی کوٹھی پر چلا گیا اور لالہ مولک رام نے حسب وعدہ میری درخواست آگے رکھدی.جس نے
1.7 صرف اس قدر سوال کیا Do You like to Join Medical School ?Lahore جس پر میں نے Yes Sir کے سوا کیا کہنا تھا.میرے اس جواب پر اس نے میرے کھڑے کھڑے ایک چٹھی پرنسپل میڈیکل کالج لاہور میجر ڈاکٹر سدر لینڈ کے نام لکھدی اور مجھے دے کر کہا کہ یہ چٹھی لے کر داخل ہونے کی غرض سے کل ہی لاہور کو روانہ ہو جاؤ، پرسوں داخلہ ہونا ہے.چنانچہ میں ۲۰ را پریل ۱۹۰۸ء کو میڈیکل سکول میں داخل ہو گیا.فالحمد للہ علی ذالک.اس وقت میرے دل نے رب محسن کا شکر کیا کہ کس طرح چند دن پہلے کی دعا قبول فرماتے ہوئے ایسے روزگار کے حاصل ہونے کا پہلا اور پکا زینہ دکھلایا اور میں سمجھتا ہوں کہ اطعموا الجائع والمعتر کا ظہور اس رنگ میں ہوا کہ غیر متوقع حالات میں مجھے وظیفہ ملا اور عمدہ روزگار کے سامان بنتے نظر آنے لگے.پیارے مسیح کو دیکھنے کی شدید خواہش کی وجہ سے میں نے جو دعا کی تھی اس کی قبولیت کا تیسری بار یوں ظہور ہوا کہ میرا پیارا رب اعلیٰ میرے لاہور پہنچنے کے صرف نو دن بعد حضور کو لاہور لے آیا اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سرور کا موجب بنا.؎ کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار
1.6 حضرت اقدس کا وصال اور حضرت خلیفہ اول کا انتخاب میں ۲۰ را پریل ۱۹۰۸ء میں میڈیکل سکول لا ہور میں داخل ہوا تھا.چونکہ میں لا ہور میں کسی شخص سے واقف نہ تھا اور نہ مجھے یہ معلوم تھا کہ سکول کا کوئی بورڈ نگ بھی ہے.اس لئے میں خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر رات بسر کرنے کے لئے چلا گیا کیونکہ مجھے خواجہ صاحب کے مکان کی جائے وقوع معلوم تھی.ان کے مکان پر میری سب سے پہلی ملاقات ان کے نیک دل منشی نوراحمد بلال سے ہوئی.انہوں نے میری مسافرانہ حالت اور طالب علمی کے پیش نظر مجھے اپنا بستر اپنے کمرہ میں رکھنے کی اور رات کو برآمدہ کے فرش پر جو بے چھت کے تھا ،ہونے کی اجازت دے دی تا آنکہ میں چند دن تک اپنے لئے کوئی مستقل رہائش کا انتظام کرلوں.اس طرح پر چند دن ہی گزرے تھے کہ جناب منشی صاحب نے فرمایا کہ اب تو آپ کو کسی اور جگہ انتظام کرنا پڑے گا کیونکہ ایک دو دن تک حضرت مسیح موعود مع اہل وعیال اور خد ام لاہور تشریف لا رہے ہیں اور حضور کا قیام یہاں خواجہ صاحب کے مکان پر ہوگا.خاکسار کو حضور کی آمد کی خبر سے بے حد خوشی ہوئی کہ حضور ایک ناچیز اور غریب خادم کو قادیان سے لاہور پہنچ کر زیارت کا موقع عطا فرما رہے ہیں.خوشی کی زیادتی اس وجہ سے بھی ہوئی کہ میرے والدین یہ محترم ڈاکٹر صاحب کا مضمون ہے.جو آپ نے ربوہ کے ایک جلسہ میں ۲۷ رمئی ۱۹۰۹ء میں پڑھا تھا.ابھی تک غیر مطبوعہ ہے.اس لئے کہیں قدرے اختصار کر کے یا دیگر تحریرات سے اضافہ کر کے درج کیا ہے.(مؤلف)
گذشتہ چند ماہ کے اندروفات پاگئے تھے.جن کی جدائی کا صدمہ دل پر تھا تو روحانی ماں باپ کا تشریف لا کر زیارت کروانا غم کو دور کرنے اور خوشی پہنچانے کا موجب تھا.چنانچه حضور ۲۹ را پریل کو لاہور تشریف لے آئے اور خواجہ صاحب کے مکان پر قیام پذیر ہوئے اور خواجہ صاحب کے مکان کو مرجع خلائق بنا دیا.احمدی احباب اور غیر احمدی معززین اور ہند و عورتیں حضور کی زیارت کے لئے آنے لگے.ایک غیر احمدی معزز شخص شہزادہ ابراہیم نام نے جو کابلی شہزادوں میں سے تھے ، حضور کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا.حضور نے بدیں الفاظ معذرت کر دی کہ میرا طریق لوگوں کے گھروں پر جا کر دعوتیں کھانا نہیں.اس پر شہزادہ صاحب موصوف نے پچاس روپے کی رقم بھجوادی تا حضور اپنے گھر پر ہی کھانا تیار کروا کر ان کی طرف سے دعوت کے طور پر تناول فرمالیں.حضور نے پچاس روپے اپنی طرف سے ملا کر خواجہ صاحب کو ایک سور و پیر کی رقم دی اور فرمایا کہ ایک دعوت کا انتظام کیا جائے.جس میں لاہور کے چیدہ چیدہ لوگوں کو بلایا جائے اور ان کو یہ بھی بتلایا جائے کہ کھانے سے پہلے میری ( یعنی حضرت مسیح موعود کی تقریر بھی ہو گی.جس میں میں اپنا دعوئی اور اس کی صداقت کے دلائل بھی پیش کروں گا.چنانچہ ۷ ارمئی کو ایسی دعوت کا انتظام کیا گیا اور کھانے سے پہلے حضور نے قریباً ڈیڑھ گھنٹہ کھڑے ہونے کی حالت میں تقریر کی.سامعین جو کرسیوں پر سامنے بیٹھے تھے جن کی تعداد ڈیڑھ دوسو کے قریب تھی.ایسی خاموشی سے تقریر سنتے رہے گویا اس جگہ کوئی موجود ہی نہیں.جب تقریر کو قریباً ایک گھنٹہ ہو گیا تو سامعین میں سے ایک شخص بولا کہ اب کھانے کا وقت ہو گیا ہے تو اس پر ایک دوسرا بولا کہ کھانا تو روز ہی کھاتے ہیں یہ کھانا بار بار نہیں ملا کرتا.گویا ان الفاظ میں یہ امر مستور تھا کہ حضور کی یہ آخری تقریر ہے.یہ تقریر ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کے صحن میں ہوئی تھی.اس کے بعد حضرت صاحب مع مہمانوں کے خواجہ صاحب.....کے مکان کے صحن میں جو چند قدم کے فاصلہ پر تھا ، کھانا کھانے کے لئے تشریف لے گئے.خاکسار اپنی جائے رہائش پر جو پانی کے حوض کے قریب تھی چلا گیا.حضور نے رؤساء میں جو تقریر فرمائی تھی.اس کے لئے عام داخلہ نہ تھا بلکہ طلباء کے لئے
1+9 خاص ممانعت تھی لیکن میں اشتیاق میں دروازہ کے قریب کھڑا رہا.آخر منتظمین میں سے کسی ایک نے ترس کھا کر مجھے بھی صحن کے اندر داخل کر دیا.تقریر کے دوران حضور نے دودھ کے گلاس میں سے چند گھونٹ پیئے تھے.اس طرح یہ دودھ تبرک بن گیا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے بھی اس تبرک کا حصہ مل گیا.اس وقت ایسی خوشی حاصل ہوئی گو یا بادشاہت مل گئی ہے.ایک روز غالبا وفات سے دو دن پہلے خواجہ صاحب کے مکان کے ہال کمرہ میں نماز ظہر وعصر ادا فرما کر حضور تشریف فرما ہوئے.حضور کے سامنے پندرہ میں احباب میں میں بھی حاضر تھا.اس وقت حضور نے کچھ باتیں بطور نصیحت فرمائیں.ان میں سے حضور کے یہ الفاظ مجھے آج تک خوب یاد ہیں کہ جماعت احمدیہ کے لئے بہت فکر کا مقام ہے.کیونکہ ایک طرف تو لاکھوں آدمی انہیں کافر کافر کہتے ہیں.دوسری طرف اگر یہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں مومن نہ بنے تو ان کے لئے دو ہرا گھانا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضور کی آخری نصیحت یا وصیت تھی جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا.۲۵ رمئی کی شام کو مغرب سے صرف ایک گھنٹہ پہلے حضور مع حضرت ام المومنین و بعض صاحبزادگان بذریعہ گھوڑا گاڑی سیر کو تشریف لے گئے.اس وقت حضور اندرون خانہ سے جب گاڑی پر سوار ہونے کے لئے باہر نکلے تو حضور کی رفتار میں کوئی کمزوری نہ نظر آتی تھی بلکہ رفتار اچھی تیز تھی.حضور اور حضرت ام المومنین گاڑی پر سوار ہو گئے.جب کہ کو چوان کے ساتھ والی سیٹ پر میاں شادی خاں صاحب بیٹھے تھے اور گاڑی کے پچھلے پائیدان پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بطور محافظ کھڑے تھے.گاڑی روانہ ہوگئی تو یہ عاجز بھی وہاں سے اپنی رہائش کی جگہ پر رین بسیرے کے لئے چلا گیا اور اگلے روز شام کے وقت پھر حاضر ہونے کے خیال کے ساتھ رات کو سویا.۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء صبح کالج گیا اور جب گیارہ بجے کے قریب واپس مکان پر آیا تو کسی کی زبانی سنا کہ حضرت صاحب وفات پاگئے ہیں.میں اپنی کتابوں کو کمرہ میں پھینک کر فوراً احمد یہ بلڈنگز کی طرف روانہ ہو گیا.
11.جب موچی دروازہ میں سے گذر رہا تھا تو وہاں کے لوگوں کوطنز کے طور پر حضور کی وفات کا ذکر کرتے سنا.جس سے معلوم ہو گیا کہ واقعی یہ خبر درست ہے.آخر جوں توں کر کے جب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر جو خواجہ صاحب کے مکان سے ملحق تھا پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضور کی وفات ہوگئی ہے.جو دس بجے کے قریب ہوئی تھی.حضور رات کو اسہال کی مرض میں مبتلا ہوئے اور باوجود ہر طرح کے علاج کے اس کی شدت بڑھ گئی اور آخر موت پر منتج ہوئی.ان الله و انا اليه راجعون حضرت اقدس نے انبیاء کی وفات پر جو حالت مومنوں اور مخالفوں کی ہوتی ہے.الوصیت میں اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے :- كتب الله لا غلبن انا ورسلى ( یعنی خدا نے لکھ رکھا ہے کہ وہ اور اس کے رسول غالب رہیں گے ) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخمریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تحمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.مکرم ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کا قادیان سے لاہور پہنچنے پر اوّل خواجہ صاحب مرحوم کے مکان پر قیام ہوا تھا اور زیادہ دن اسی مکان میں ٹھہرے تھے.لیکن وفات سے صرف دو تین روز قبل حضور ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر سکونت پذیر ہو گئے تھے اور اسی مکان میں وفات پائی تھی.(مؤلف)
غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی تب خدا تعالی گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا...سواے عزیز و ! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے.تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.دوسری قدرت کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن جب میں جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا.جو ہمیشہ تمہارے ساتھ ۱۸ رہے گی.جیسا کہ خُدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے.جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سو ضرور ہے کہ تم پر میری جُدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.‘19 وفات کے وقت مومنوں کی حالت ہم نے حضور کی وفات کے وقت اپنے آپ کو سخت حزیں پایا اور اسی کی مانند جیسا کہ حضور نے قبل از وقت فرمایا تھا.اس دن سب پر اداسی چھا جا ئیگی.‘۲۰ اس دن کا غم بے انتہا تھا.وہ پیارا باپ ہمیں یتیموں کی طرح چھوڑ کر چلا گیا.اس صدمہ کا اثر آج کے دن تک چلا آ رہا ہے.اُداسی کا وہ عالم تھا کہ وہ دن تاریک و تار ہو گیا تھا.فی الحقیقت آسمان کا سورج اس روز گرد و غبار کی وجہ سے بالکل مدھم ہو گیا تھا.الغرض میں اپنے قلب کی حالت کو دیکھ کر کچی گواہی دیتا ہوں کہ وہ دن ہمارے لئے نہایت صدمہ کا دن تھا اور اس دن سخت اداسی چھا گئی تھی کہ حاضر مومن بیٹھے کھڑے اور چلتے تو نظر آتے تھے لیکن بے زبان تھے.کوئی اونچی آواز سے بولتا سنائی نہ دیتا
۱۱۲ تھا.کوئی مجلس نہ تھی کہ جس میں لوگ بیٹھے ہوئے باتیں کرتے سنائی دیں.ہر ایک شخص اپنے قلب حزیں کو سینہ میں لئے تصویر بے جان کی طرح پھرتا نظر آتا تھا.اس احقر کو جس طرح حضور کی معیت میں خوشی کی گھڑیاں دیکھنا نصیب ہوئی تھیں.جن سے حضور کی خاص شفقت اور خاص محبت اور دلی محبت معلوم ہوتی ہے.اسی طرح ان غم کی گھڑیوں کا دیکھنا بھی مقدر تھا.ایسے موقع پر عام طور پر اعزہ واقارب ہی قریب جمع ہوتے ہیں.پھر ان کے غم واندوہ کے بھی درجات ہوتے ہیں.مگر میں اپنی نسبت تو کہتا ہوں کہ مجھے اس قد رغم واندوہ پہنچا تھا کہ شاید ہی کسی اور کو پہنچا ہوالا ماء شاء اللہ ﷺ کیونکہ میری حیثیت ایک غریب الوطن مسافر کی تھی جو نادار بھی تھا اور پہلے سے زخم خوردہ تھا کہ بالکل قریب کے عرصہ میں والدین اور اہلیہ کے گویا تین وفاتوں کے جاں گسل صدمات اٹھائے ہوئے تھا کہ پھر پیارے کے ارتحال کا ایک عظیم اور جانکاہ حادثہ برداشت کرنا پڑا.اس سانحہ کے بعد دن اور رات کے وقت میں پانی پینا یاد نہیں.کھانا تو بڑی چیز ہے.پھر میں ۲۷ مئی کی شام تک جبکہ حضور کو دفن کر دیا گیا.حضور کی حضوری میں رہا.مجھے اپنے رب محسن کا خاص احسان نظر آتا ہے کہ اس نے مجھے یہ غم کی گھڑیاں نصیب کیں.میں ان گھڑیوں کو بڑی کمائی سمجھتا ہوں.اغیار اشرار کا رویہ جہاں جماعت احمدیہ کے افراد احمد یہ بلڈنگ میں غم واندوہ میں وقت کاٹ رہے تھے دشمن ہاں شریر دشمن بھی ہنسی ٹھٹھے کو انتہا تک پہنچائے بغیر نہ رہ سکا اور اس نے قبل از وقت فرمودہ کی تصدیق پورے طور پر کر دی.چنانچہ میرے کان ان شریروں کے دکھ دینے والے الفاظ کو آج تک یادر کھے ہوئے ہیں.ایک نے کہا مرزا مر گیا ، دوسرے نے کہا مرا نہیں بھدرک کے میلہ پر گیا ہے.یہ ایک مقامی میلہ کا دن تھا.پھر میری آنکھ میں نمک چھڑ کا.ان اشرار نے حضور کا ہر صحابی یہ سمجھتا تھا کہ حضور مجھ سے زیادہ شفقت سے پیش آتے تھے.اسی طرح ہر ایک اپنے صدمہ کو زیادہ سمجھتا تھا.یہ حضور سے محبت و عشق کا طبعی نتیجہ تھا لیکن جسے پے در پے صدمات بھی پہنچ چکے ہوں لازماً یہ صدمہ اسے بہت زیادہ محسوس ہوا ہوگا.مؤلف
١١٣ مصنوعی جنازہ نکالا.یعنی ایک شخص کا مصنوعی جنازہ نکالا.یعنی ایک شخص کا منہ کالا کر کے چار پائی پر لٹایا اور اس چار پائی کو میت کی چار پائی کی شکل میں ہمارے مکان کے سامنے طرح طرح کی بیہودہ باتیں کرتے ہوئے ہمارے سامنے سے گزارا.اسی موچی دروازہ کے رہنے والے سمی محمد سعید نے جو ڈاکٹر کہلا تا تھار میلوے کے افسروں کو جھوٹی رپورٹ کر دی کہ نعوذ باللہ حضور کی وفات ہیضہ سے ہوئی ہے تاکہ ریلوے والے جنازہ کے بٹالہ تک لے جانے کے لئے ہوگی نہ دیں.جس کے لئے پرنسپل میڈیکل کالج ڈاکٹر سدر لینڈ کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا گیا کہ حضور ہیضہ سے نہیں فوت ہوئے تھے.ڈاکٹر سدر لینڈ کو علاج کی غرض سے بھی بلایا گیا تھا.ان کے سرٹیفکیٹ سے یہ روک دور ہوئی.میرے جیسے نا چیز خادم جہاں اپنی دلفگاری میں مبتلا باہر کھڑے ہوئے تلخ گھڑیاں گزار رہے تھے وہاں ان کی نظر حضرت مولوی نور الدین صاحب کی طرف بھی اُٹھ رہی تھی کہ اُن کا کیا حال ہے.وہ بھی جسم بے جان کی طرح بیٹھے ہوئے نظر آئے.ایسے حال میں ہی حضرت ام المومنین کے وہ الفاظ کان میں پڑے جو آپ نے عین اس وقت منہ سے نکالے تھے.جب کہ حضرت مسیح موعود کا دم واپسیں تھا کہ یا اللہ! یہ تو ہمیں چھوڑ رہے ہیں پر تو نہ ہمیں چھوڑ یو.ان الفاظ سے دل کو کچھ ڈھارس پہنچی کہ ہمارا یگانہ خدا ہمارا خبر گیر ہے.نماز جنازہ لاہور میں اور قادیان کو روانگی حضور کی نعش مبارک کو غسل دیا گیا اور قریب تین چار بجے بعد دوپہر کے جسد مبارک کو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کی اوپر کی منزل سے جہاں حضور نے وفات پائی تھی.نچلے صحن میں لایا گیا اور حضور کا جنازہ پڑھا گیا.جنازہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پڑھایا.ان کو امام کس نے بنایا؟ احباب حاضر نے.وہ خود بخو دامام نہ بنے تھے.پس قدرت ثانیہ کا ظہور دویم احباب جماعت کی اس فراست کی شکل میں نمودار ہوا کہ جس فراست کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کو جنازہ پڑھانے کے لئے امام چنا گیا.میں بھی اس نماز میں شریک تھا.نماز جنازہ پڑھانے کے بعد جسد مبارک بند تابوت میں ریلوے اسٹیشن لاہور لے جایا گیا
۱۱۴ اس وقت ہمراہ پانچ چھ سو افراد سے کم نہ تھے.مجھے جنازہ کو کندھا دینے کا موقع ملا.گاڑی پانچ بجے شام کے قریب بٹالہ کے لئے روانہ ہوئی اور قریب نو بجے کے بٹالہ پہنچی.جسد مبارک کے تابوت کو جس کے اندر باہر برف رکھی ہوئی تھی، ریلوے اسٹیشن بٹالہ کے پلیٹ فارم پر کھلی جگہ میں رکھدیا گیا اور لاہور سے ساتھ آنے والے احباب جن میں یہ عاجز بھی شامل تھا اور وہ احباب جو دیگر مقامات سے آگئے تھے جنازہ کے اردگرد بیٹھ رہے یازمین پر لیٹ رہے.مجھے بیٹھ کر رات گزارنے کا موقع ملا.صبح تین بجے کے قریب تابوت کو جسے چار پائی پر باندھا گیا تھا اور لمبے لمبے بانسوں کے ذریعہ کندھا دینے کا انتظام کیا گیا تھا دو ڈیڑھ سو احباب اٹھا کر قادیان کو روانہ ہوئے.خاکسار کو اپنی کمزوری اور قد چھوٹا ہونیکی وجہ سے بانسوں کے نیچے کندھا دینے کا موقع نہیں ملتا تھا.اس لئے میں نے اپنا سر چار پائی کی پچھلی پٹی کے نیچے لگا دیا اور بہت دور تک اسی حالت میں رکھے رکھا اور اپنی دلی خواہش کو پورا کیا.راستہ میں نماز فجر ادا کی گئی اور تابوت ساڑھے آٹھ بجے کے قریب قادیان پہنچایا گیا اور جسد مبارک اس مکان میں رکھا گیا جو بہشتی مقبرہ والے باغ میں بنا ہوا تھا.احباب قادیان مردوزن حضور کی آخری زیارت کرنے لگے اور یہ سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا.مجھے بھی حضور کا روئے مبارک تدفین سے پہلے آخری بار دیکھنے کا موقع ملا.الغرض مجھے غم واندوہ میں حصہ دار بنے کا موقع خاص اہتمام سے عطا ہوا اور میں نے خوب ہی غم کھایا جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا.حضرت خلیفہ اول کا انتخار بعد دو پہر دو تین بجے کے قریب میں نے دیکھا کہ ایک گروہ جس کے پیشرو خواجہ کمال الدین صاحب تھے ، حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور خواجہ صاحب نے حضرت مولوی صاحب سے درخواست کی کہ بیعت خلافت لیں.کچھ دیر قیل وقال ہوتی رہی.اس کے بعد دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب تقریر کے لئے کھڑے ہوئے ہیں جبکہ بارہ سو کے قریب افراد اس کے سننے کے لئے گرد جمع تھے.فرمایا کہ احباب مجھ بوڑھے پر خلافت کا بوجھ لا در ہے ہیں.جس کے لائق میں اپنے آپ کو نہیں پاتا.میرے نزدیک مجھ سے زیادہ لائق
۱۱۵ افراد خاندان حضرت مسیح موعود میں موجود ہیں.جیسا کہ صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب، نواب محمد علی خان صاحب، میر ناصر نواب صاحب وغیرہ.میں تو یہاں تک بھی تیار ہوں کہ اگر صاحبزادی امتہ الحفیظ کو ہی چن لیا جائے تو میں تو اس کے ہاتھ پر بھی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.مگر جماعت چونکہ مجھے مجبور کر رہی ہے.اس لئے میں بیعت لیتا ہوں.اس کے بعد حضور نے حاضرین سے بیعت لی.پھر جنازہ پڑھایا.جس میں خاکسار بھی شریک تھا.اس کے بعد جسد مبارک کو سپرد خاک کیا گیا.گویا جماعت احمدیہ کو خلیفہ کے انتخاب کا عزم کرنے کا موقع ملا اور جماعت کی نظر انتخاب حضرت مولوی نور الدین صاحب پر پڑی اور باتفاق رائے آپ کو خلیفہ مان لیا.اس میں سب سے بڑا کمال حضرت ام المومنین کا نظر آتا ہے.پھر حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا اور تمام افراد خاندان حضرت مسیح موعود کا.الغرض ۲۶ مئی کے اندوہناک دن کے بعد ۲۷ رمئی کا دن جماعت کے لئے بڑا ہی مبارک دن تھا.جس میں خلافت کی بنیاد پڑی اور ان کے ہاتھوں سے پڑی جنہوں نے بعد میں امر خلافت سے انحراف کیا.کیا ہی سچی خبر تھی قدرت ثانیہ کی آمد کے متعلق کہ ایک دن بھی پورانہ گذرا تھا کہ احباب جماعت کے قلوب کو عقل و فراست اور پاک مومنانہ روح سے بھر دیا جاتا ہے.جنہوں نے حضرت مولوی صاحب جیسے پاک وجود کو اپنا خلیفہ چن لیا.پھر تمام کی تمام جماعت نے بیعت کر لی اور اس طرح پر جماعت کی اعلیٰ درجہ کی شیرازہ بندی ہوگئی اور بدخواہ دشمن منہ دیکھتارہ گیا.حضرت مولوی صاحب کا وجود اس منصب کے لئے نہایت مناسب اور بابرکت ٹھہرا جبکہ احباب کی ارادت اور محبت قریباً اسی طرح نظر آنے لگی جس طرح حضرت مسیح موعود کے ساتھ نظر آتی تھی.پھر آپ کے وجود میں اللہ تعالیٰ نے وہ قوت بھر دی کہ جب انہی لوگوں میں سے بعض نے جو انتخاب خلافت کے وقت پیش پیش تھے ذرہ مخالفانہ سر اٹھایا تو حضور نے بآواز بلند فرمایا کہ جس طرح ابو بکر اور عمر خلیفہ ہوئے تھے اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے حضرت مرزا صاحب کے بعد خلیفہ بنایا.یاد رکھو خلافت کیسری کی دوکان کا سوڈا واٹر نہیں ہے.میری زندگی میں اب کوئی اور شخص خلیفہ نہیں بن سکتا.مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے.اب کوئی طاقت مجھے معزول نہیں
کر سکتی.دیکھو میری دعا ئیں عرش پر بھی سنی جاتی ہیں.میرے ساتھ لڑائی کرنا خدا سے لڑائی کرنا ہے.فرشتے بن کر اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرو.ابلیس نہ بنو.۲۱ الغرض ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو خلافت قائم ہوئی جو آج تک بفضلہ تعالیٰ قائم ہے اور خلافت ثانیہ کی برکات ہم سب کے سامنے ہیں.ڈاکٹر صاحب کی اہلی زندگی ڈاکٹر صاحب محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے والد ماجد کا یہ ایک خاص احسان تھا کہ باوجود کثیر العیال ہونے اور اپنے بڑھاپے کے انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی شادی چودہ سال کی عمر میں کر دی اور دونوں کا خرچ اور ڈاکٹر صاحب کی تعلیم کا خرچ چھ سال تک یعنی اپنی وفات تک برداشت کرتے رہے.۱۹۰۷ ء میں جس روز دسویں کا نتیجہ نکلا اور آپ کو کامیابی کی خوشی نصیب ہوئی.اس سے دوسرے روز ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ کی وفات ہوگئی.یہ بہت دنوں سے بیمار چلی آ رہی تھیں.ڈاکٹر صاحب امتحان کی تیاری میں مصروف تھے اور شہر سے باہر جا کر امتحان میں کامیابی اور اہلیہ کی صحت کے لئے دعا کرتے تھے.ایک روز سجدہ میں دعا کرتے ہوئے یہ آیت زبان پر جاری ہوگئ مَا نَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْ تُنْسِهَا نَاتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۲۲ اس پر آپ سمجھ گئے کہ اہلیہ وفات پا جائیں گی.گویا غم کی خبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر یا ویسی ہی رفیقہ ء حیات عطا کرنے کی خوشخبری بھی ساتھ ہی دے دی.چنانچہ ۱۹۱۰ء میں جب کہ ابھی ڈاکٹر صاحب کی ڈاکٹری تعلیم کے دو سال باقی تھے آپ کی پھوپھی صاحبہ کی صاحبزادی محترمہ فاطمہ امتہ الحفیظ صاحبہ سے شادی ہوئی.موصوفہ قرآن مجید کے ترجمہ سے واقف، کتب سلسلہ کے مطالعہ کا شغف رکھنے والی ، اقارب سے حسنِ سلوک کرنے والی ، حضرت ام المومنین اور خاندان حضرت مسیح موعود ( سیدہ ام ناصر سیدہ امتہ الحی ، سیدہ ام طاہر اور سیده ساره بیگم و دیگر افراد سے گہرا تعلق رکھنے والی ہیں اور ان سب کا بھی آپ سے محبت کا سلوک رہا ہے.اولا د کی نیک تربیت کا بوجھ آپ نے پوری طرح اٹھایا اور اس طرح حضرت ڈاکٹر صاحب کو سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی سفر و حضر میں خدمت کے لئے چالیس اکتالیس
112 سال سے فارغ رکھا.محترمہ کے والدین کا ذکر پہلے ہو چکا ہے.وہ خود احمدی تھے.باوجود اس کے آپ نے دس سال کی عمر میں خط کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کی بیعت کی تھی اور خلافت اولی اور ثانیہ کی اولین بیعت کرنے والی ہیں.موصوفہ نے چندہ مسجد برلن میں ۱۹۲۳ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی نصف لاکھ روپیہ کی تحریک پر بیس روپے ادا کئے کہ ان ایام میں روپیہ کی قیمت بہت زیادہ تھی اور کارکنان صدر انجمن احمدیہ کی حالت سخت مخدوش تھی اور گذارے نہایت قلیل تھے.کتاب تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین میں آپ کا اور محترم ڈاکٹر صاحب اور خوردسال بچگان کا چندہ تحریک جدید آپ کی بڑی صاحبزادی اور ڈاکٹر محمد احمد صاحب کے چندہ جات قریباً ساڑھے دس صد شامل کئے بغیر دو ہزار تمیں روپے نو آنے ہیں.۲۳ ظاہر ہے کہ اولاد کی تعلیم اور چندہ وصیت کے اخراجات ادا کرتے ہوئے ایسی گرانقدر رقم تحریک جدید میں بھی ادا کر نا رفیقہ ء حیات کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں.تحمیل تعلیم ڈاکٹری حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تدفین کے بعد دل یہی چاہتا تھا کہ قادیان میں رہ پڑوں اور خدمت دین پر لگ جاؤں لیکن اس وقت میرے ایک دوست ماسٹر عبدالعزیز خاں صاحب نے مشورہ دیا کہ پہلے تم اپنی تعلیم مکمل کر لو.پھر بھی خدمت دین کا موقع نکل سکتا ہے.چنانچہ میں لاہور چلا گیا.افسردہ بلکہ نیم مردہ تھا.تھوڑی دیر بھی مطالعہ کرنے کی سکت نہ تھی.ڈیڑھ دو ماہ بعد پہلے سیشن کا امتحان ہوا.ایک مضمون میں ۱۴۰/ ۴۸ اور دوسرے میں ۱۴/۱۲۰نمبر آئے.میں نے محنت جاری رکھی.مجھے بورڈنگ میں جگہ مل گئی.جہاں دیگر سہولتوں کے علاوہ دعاؤں کا موقع ملا.چنانچہ پہلے سالانہ امتحان میں زمین و آسمان کا سا فرق پیدا ہو گیا کہ میں ایک مضمون میں اول آ گیا.یہ محض تائید الہی سے ہوا.دوسرے سال ایک مضمون میں دوئم رہنے کی وجہ سے تمغہ حاصل ہوا.آپ کا وعدہ الفضل مورخہ ۲۲ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ الف کالم تین میں درج ہے.(مؤلف)
(بعت کریم بخش ( بیعت ۱۹۳۴ء) (ان کی اولاد نہیں چلی) شجرہ نسب احمد خاں سرہندی مولی بخش ( بیعت ۱۸۹۹ء ، وفات 19 ) رحیم بخش (بیعت ۱۸۹۹ء) ، وفات كواء) رحیم النساء ( بیعت ۱۹۰۲ء) زوجہ حکیم رحمت الله خیر النساء ( بیعت ۱۹۷ء) مہر النساء رحیم النساء فاطمہ امۃ الحفیظ محمد یوسف (بیعت ۱۸۹۴ء ، وفات ۱۹۲۱ء حافظ ملک محمد (بیعت ۵ یا ۱۸۰ء) ڈاکٹر حشمت اللہ بیعت ۱۸۹۹ء) محمد ظهور (بیعت ۱۹۰۵ء) زوجہ ڈاکٹر حشمت اللہ بیعت ۱۹۰۵ء عبد الحمید (ولادت ۱۹۰۳ء) ناصرہ بیگم اہلیہ شیخ محمد رفیق کا پوری تاجمر مدراس عبد القيوم عبدالرشید امة المجيد عبد الباسط لڑکا عبدالحئی) عبد الستار محمد منظور فضیه اولاد: شگفتہ، صادقه (اولاد : عبدالجبار اولاد صبیحہ امتة المنان، امۃ السلام عبدالمختار) ساجدہ، زاہدہ) حنیفہ مجید احمد رقیه عبدالشکور عبداللطیف عبدالسمیع منور احمد | اہلیہ شیخ نصیر الدین مجاہد افریقہ ) شاہد احمد ماجد احمد آنسه محمود احمد قیصر رفیع ا عبدالرحمن عبد الواحد عبد الحفيظ عبدالغفار صفیہ جوزار ڈاکٹر محمد احمد زینب بیگم بی.اے سلمہ بیگم ایم.اے کریم احمد نعیم نعیمہ بیگم ایم اے ثمینہ بیگم ایم اے (زوجہ ڈاکٹر غلام حیدر ( زوجہ ڈاکٹر عبدالرحمن بی ایس سی لیکچرار قریشی لاہور) صدیقی میر پور خاص) (بی فارمیسی) (جامعه نصرت ربوہ) (ولادت ۱۹۰۰ ء) (ولادت ۱۹۰۲ ء) اولاد : تین لڑکے اولاد: تین لڑکے اولاد المعتہ المجیدایم.اے وغیرہ (اولاد: تین لڑکے دولڑ کی) تین لڑ کے پانچ لڑکیاں ) ایک لڑکی ) عثمان وحید فریده امة العزيز امة الرفيق منعم احمد محسن احمد ایک لڑکی ) مبشر احمد منصور احمد طاہر احمد VII
۱۱۹ سرکاری ملازمت اور کرنل محمد رمضان کی لجاجت الغرض چار سالہ تعلیم با عزت حاصل کر کے اور کامیاب ہوکر ۱۲ جون ۱۹۱۲ء کو اپنے شہر پٹیالہ کے بہت بڑے ہسپتال میں متعین ہو گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرا کام افسروں اور پبلک میں مقبول ہوا اور تھوڑے ہی دنوں میں شہرت قائم ہوگئی.میرے سپر د قیمتی سامان والا بہت بڑا اپریشن روم ہوا.آنکھ کے مریضوں کی نگہداشت میرے ذمہ لگی اور پیشل وارڈ میرے سپرد ہوئے گویا زیادہ کا موں اور سامان کی ذمہ داری مجھ پر پڑی.“ چار پانچ سال بعد جب کہ میں اپریشن روم کے باہر چبوترے پر کھڑا تھا کہ دیکھتا ہوں کہ وہی کرنل محمد رمضان سامنے سے میری طرف آ رہا ہے جبکہ تقریباً اس قدر فاصلہ رہ گیا جس قدر فاصلہ سے سات آٹھ سال پہلے اس نے مجھے بری طرح دھتکارا تھا.تو اس نے جھک کر اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ جناب ڈاکٹر صاحب آداب عرض! مجھے اس وقت اپنے رب محسن کا چہرہ نظر آ گیا.جس نے اس ناچیز احمدی کے لئے اس قدر غیرت دکھلائی کہ زیادہ عرصہ نہیں گذرتا کہ ایک ایسے شخص کو آج میرے سامنے غرض مند سائل کے طور پر لا رہا ہے اور اس سے مؤدبانہ سلام کروا رہا ہے کہ جس نے فرعونیت دکھلا ئی تھی اور محض اس لئے دکھلائی تھی کہ میں احمدی تھا اور حضرت مسیح موعود کو اپنے دعوی میں سچا جان کر ایمان لائے ہوئے تھا.اس وقت میرا دل شکر رہی سے اس قدر بھر گیا کہ جی چاہتا تھا کہ شکر کرتا ہوا ز مین میں دفن ہو جاؤں یعنی اس کی خدائی پر اس ایمان پر میرا خاتمہ ہو جائے.وہ کرنل آگے بڑھا اور مجھ سے یوں ملتجی ہوا کہ ڈاکٹر صاحب! میرے فلاں بزرگ کی آنکھ کا اپریشن ہونا ہے.براہ مہربانی اس کا خیال رکھیں.میرے رب نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا محسن رب ہے مجھے توفیق دی کہ میں اس کے ساتھ نیک سلوک کروں.چنانچہ میں نے اس کو تسلی دی اور اس کے حسب منشاء کام کرنے کا وعدہ کیا.میں اپنے رب کا بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس کا گذشتہ سلوک جتلانے سے قطعاً روک دیا بلکہ احسان کرنے کی توفیق دی.واللہ الحمد.
۱۲۰ حسن خداوندی کی جھلک پھر میرے دل میں اور شکر کا جذبہ پیدا ہوا اور یہاں تک محسوس ہوا کہ یہ ناچیز کہاں تک شکریہ ادا کر سکتا ہے.اگر شکر کرتا کرتا مر بھی جائے تب بھی اس پیارے کی ایک ایک ادا کا بھی حق ادا نہیں ہو سکتا مجھے اس حسین کا حسن عجب رنگ میں نظر آیا.پہلے اس نے عیاری سے مجھے بےسروسامان بنایا، پھر ایک شخص کے مجنونانہ فعل سے مجھے دُکھ پہنچوایا اور پھر اپنے حضور رونے کا موقع عطا فرمایا اور میرے دل کو شعور بخشا کہ بادشاہوں کا بادشاہ وہی ایک ہے.پھر خود ہی دعا سکھلائی، پھر خود ہی اسے شرف قبولیت بخشتے ہوئے تین فرشتوں کو میری امداد کے لئے مقرر کیا، پھر مجھے ڈاکٹری پڑھوائی، پھر مجھے شہرت بخشی ، پھر اس فرعونیت دکھلانے والے کو حاجتمند کی حیثیت میں میرے سامنے لا ڈالا ہر تو ختم است همه شوخی و عیاری و ناز هیچ عیار نبا کہ نہ نالاں کردی ۲۴ کبر ونخوت سے بچنا چاہئے میں اس جگہ ایک بات بیان کرنے سے رک نہیں سکتا کیونکہ اگر ایسا نہ کروں تو مِمَّا رَزَقْنَاهُمُ يُنْفِقُونَ کے منشاء کو پورا نہ کرنے والا ٹھہرتا ہوں.دل کا غریب ہونا بڑی خوب روئی ہے اور اس پر غربت کا مل جانا اعلیٰ درجہ کا زیور ہے.جو خوبروئی کو اعلیٰ درجہ کا زیب بخشتا ہے.پھر ایمان کی روشنی اس کو جلا دیتی ہے پھر اس ماہ خوباں میں حسینوں کا حسین عاشق بنتا ہے اور اپنے لامتناہی نور کے بقعہ میں اسے داخل کر لیتا ہے.پھر عاشق و معشوق کی کوئی تمیز نہیں رہتی، دنیا کے نزدیک وہ زندہ درگور ہوتا ہے.مگر وہ اپنے پیارے کے پیار سے ایک جہان دیکھ رہا ہوتا ہے کہ جس کی فراخی کی کوئی حد نہیں.ایک دیوانہ اس کیفیت میں کہہ اٹھاے دیتا جھلک ہے حسن کی اپنے جو بار بار لاؤں نظر میں کیوں بھلا حسنِ قمر کو میں
۱۲۱ کبیر جی کہتے ہیں.دیتا ہے دردِ دل کو شفا خود ہی بار بار پھر کیوں بتاؤں درد نہاں چارہ گر کو میں بھلا ہوا ہم بیچ بھے ہر کو کیا سلام جے ہوتے گھر اونچ کے کہاں ملتا بھگوان یعنی کیا ہی اچھا ہوا کہ ہم پیچ ( چمار ) کہلانے والوں میں پیدا ہوئے اس کی وجہ سے ہمیں خدامل گیا.اگر ہم اونچی ذات سے ہوتے تو خدا کب ملنا تھا.لیکن یہ کسی کے بس کی بات نہیں.کوئی کسب سے غریب دل نہیں بن سکتا.پھر ایمان کی عطا بھی کسی کے اختیار میں نہیں.یہ عطا اسی جگہ ہوتی ہے جس کو قبولیت بخشنے کا اراد درب السموات والارض نے کر لیا ہوتا ہے.خود کنی ، خود کنانی کار را خود وہی رونق تو آں بازار را یہ احقر غریب ماں باپ کے ہاں غریب دل لے کر پیدا ہوا.ایک کر مک کی طرح گلی کی موریوں کے پاس تنگ مکان میں پرورش پائی.گردو پیش کی مسموم ہوا سے جسمانی اور روحانی استعداد تلف ہونے سے بچی، ایمان نصیب ہوا، دعا کا ذوق ملا، دعاؤں کی قبولیت کی چاشنی نصیب ہوئی، دعاؤں کے مانگنے میں تدریج عطا ہوئی...ہاں اس کے فضل سے صرف اسی کے فضل سے یہ ذوق ملا کہ اس کا در ہو اور یہ سر ہو اور بس.اس کی عنایات پائیں.انعامات دیکھے، آخر دل کی کیفیت بجز اس کے کچھ باقی نہ رہی کہ پکار اٹھوں، بس خطائیں میری ہیں بے حد و حساب مرجاؤں در پہ مانگتا عفو و غفر کو میں اس جگہ میں اپنے آپ کو نہایت حقیر محسوس کر رہا ہوں اور اپنی اس حالت کا گواہ اپنے ربّ
۱۲۲ محسن کو ہی ٹھہراتا ہوں ، میں دُعا کرتا ہوں کہ ” میرے مولیٰ تو میری اولا دکو بھی اس رنگ سے رنگین فرما اور پھر ان سب کو بھی جو مجھ سے محبت کرتے ہیں یہی نعمت عطا فرما.آمین.“ تکبر ایک مہیب دیو ہے جو مہ وشوں کو قریب نہیں آنے دیتا.بھلا ایک نازنین ایک ایسے شخص کے پاس کب آنے لگی.جو دعویٰ تو کرے اس کے عشق کا مگر اپنے پاس بیٹھائے بیٹھا ہو ایک دیو سیاہ روکو؟ یہی حال ہے اس حسینوں کے حسین کا ، نازکوں سے زیادہ نازک کا کہ وہ اس ولی کے قریب نہیں آتا جس پر تکبر کا بھوت سوار ہو.تمام دیو کا موجود ہونا تو دور کی بات ہے اگر اس دیو مہیب کی ایک انگلی بھی رکھی ہوئی نظر آئے گی تو بھی وہ ایسے دل کے قریب نہ آئے گا.پھر وہ حسینوں کا حسین یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کا کوئی بندہ اپنے پائے استقلال کو توڑ کر بیٹھ جائے ، اپنے چہرہ کو مایوسی کی گرد سے آلودہ کرلے اور اپنے ظن کو خراب کر کے مصفا ایمان ویقین کو پیشاب ملے دودھ کا سا بنا لے.اس خدائے علیم و برتر نے انسان کو اس لئے نہیں پیدا کیا کہ وہ تکبر کے دیو کا پرستار بنے اور نہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مایوسی اور بے یقینی کے جذام میں مبتلا ہو جائے.اگر انسان خوش قسمت بننا چاہتا ہے تو ان دونوں ہلاکت خیز باتوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھے.البتہ جدو جہد سے حصولِ مدعا کے قانون پر عمل پیرا ہونا اور تساہل وغفلت شعاری سے اجتناب کرنا لازمی ہے ورنہ نیکیوں کی تو فیق چھن جاتی ہے حضرت صاحبزادہ صاحب کی زیارت ☆ اس دعا کا ایک اور عظیم الشان نتیجہ یہ نکلا کہ ایک اور شمع ہدایت کا پتہ لگ گیا اور اس شمع ہدایت کے اعلیٰ درجہ پر روشن ہونے کے وقت پر قریب پہنچنے کی بنیاد پڑ گئی.وہ اس طرح پر کہ اس سفر ماہ اگست ۱۹۰۵ء کے دنوں میں میں اپنے ساتھیوں میاں خدا بخش صاحب مومن اور شیخ محمد افضل صاحب قریشی پٹیالوی کے ساتھ مہمانخانہ میں بیٹھا ہوا تھا تو ایک طالب علم کو دوسرے طالبعلم حضرت ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ جو نصیحت میں نے تکبر کے بارے میں لکھی ہے یہ ایک خاص حالت میں لکھی گئی ہے.جو حالت ہمیشہ میسر نہیں آتی.(مؤلف)
۱۲۳ سے کہتے ہوئے سنا کہ میاں صاحب یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کشتی چلانے کے لئے آگئے ہیں یعنی ڈھاب میں سیر کرنے کے لئے.یہ سن کر میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ چلو میاں صاحب کو دیکھ لیں.میری تحریک پر خدا بخش صاحب تو میرے پیچھے آگئے مگر دوسرے ساتھی نے کچھ التفا نہ کی.میں حضرت میاں صاحب کو ادب کی وجہ سے ذرا فاصلہ پر سے دیکھ کر چلا آیا.کمزوری طبع نے مجھے اس قدر بھی اجازت نہ دی کہ ذرا قریب ہو کر دیکھ لیتا یا کچھ باتیں سن لیتا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی جذب اور ذرہ سی محبت کے اظہار کو اللہ تعالیٰ کیونکر قبول کر لیتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ میری ہجرت کے تھوڑے عرصہ بعد میاں خدا بخش صاحب کو بھی ہجرت کی توفیق مل گئی لیکن تیسرے ساتھی کو نہیں اور مجھے حضور کے ساتھ کشتی کی سیر کے بھی مواقع حاصل ہوئے.انجمن تشحید الاذبان ۱۹۰۶ء میں حضرت میاں صاحب نے ایک انجمن بنائی جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجمن تفخیذ الا ذہان رکھا اور میں بھی اس میں شامل ہو گیا.۱۹۰۷ء کے جلسہ سالانہ پر اس کے اجلاس عام میں مجھے آپ کے قریب بیٹھنے کا موقع ملا.ایک مسکین اللہ تعالیٰ کے چھوٹے چھوٹے فضلوں کو بھی یا درکھتا ہے.اسی طرح مجھے یہ امر بھول نہیں سکتا بلکہ میں اسے فخر سے یادرکھتا ہوں کہ ایجنڈے کے ایک امر کے متعلق میری وہی رائے تھی جو حضرت صاحبزادہ صاحب نے بعد میں منظور کی.اس عظیم الشان کی رائے جو بعد میں مصلح موعود ہونے والا تھا.گو اس وقت نورالدین اپنی نورانیت سے بے روشنی اور کم روشنی والوں کو راستہ دکھلا رہا تھا لیکن شمع نمبر۲ اپنی خاص چمک کے ساتھ عشق مزاج لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی چلی جاتی تھی.فہم رسا رکھنے والے احباب جہاں نورالدین سے نور پانے کے لئے قادیان جاتے تھے.وہاں اس شمع سے بھی نفع اندوز ہونے کی کوشش کرتے.مگر یہ موقع تو صاحب حیثیت اور صاحب علم لوگوں کو ہی حاصل ہو سکتا تھا جن کو وقت نکالنے اور سفر کے اخراجات برداشت کرنے کی
۱۲۴ مقدرت حاصل تھی اور پھر عقل و شعور کے ساتھ بات کر کے فائدہ حاصل کرنے کا سلیقہ حاصل تھا میرے جیسے کم بضاعت اور کم علم اور کم گوکو یہ موقع کہاں؟ لیکن اس علیم و بصیر کی رحمت کا کرشمہ دیکھو کہ مارچ یا اپریل ۱۹۰۹ء میں ایک روز مجھے انار کلی اس وقت لے گیا.جس وقت حضرت میاں صاحب ایک ساتھی سمیت وہاں پھر رہے تھے.محبت کا بیج تو دل میں موجود ہی تھا.میں السلام علیکم کہ کر ساتھ ہولیا.حضرت میاں صاحب نے وعلیکم السلام تو کہا مگر اور کوئی بات بھی نہ کی.میں اپنی دلی کیفیت سے مجبور چار پانچ گھنٹے ساتھ ساتھ تو گارہا اور حضرت میاں صاحب نے بھی ساتھ چلنے سے نہ روکا.آپ نے کئی کتب فروشوں سے کتابیں خریدیں اور پنجاب کی سب سے بڑی یعنی پبلک لائبریری کے ممبر بنے.گویا ہونہار پر وا کے چکنے چکنے پات والا معاملہ دیکھا.حضرت میاں صاحب کی تقریر ۱۹۰۹ء میں پھر اس ۱۹۰۹ء کے ماہ اکتوبر یا نومبر میں حضرت میاں صاحب کی ایک تقریر سننے کا موقع ملا جو آپ نے احمد یہ بلڈنگکس میں اسی مضمون پر کی تھی جس پر خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور مولوی صدر الدین صاحب نے کی تھی.میرے دل نے اس وقت یہی فیصلہ کیا تھا کہ سب تقریروں میں حضرت میاں صاحب کی تقریر بالا رہی.یہ چوتھا موقع تھا کہ آپ کی محبت اور قربت میں مجھے بڑھنے کا موقع ملا.جب ۱۹۱۱ء آیا تو میں ان دنوں مجمع الاخوان کا یعنی لاہور کے احمدی طلباء کی انجمن کا ممبر بن چکا تھا.اس وقت ہماری انجمن نے جو ریزولیوشن خواجہ کمال الدین صاحب کے مداہنت والے رنگ کے خلاف پاس کیا تھا، اس میں میں بھی شامل تھا.خلافت ثانیہ پھر جب ۱۹۱۳، آیا اور حضرت خلیلة اصبح اول رضی اللہ عنہ چھ سالہ ضیا اور بزی کے بعد اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے اور شمع نمبر ۲ کے نور کی چمک کا موقع آیا تو یہ حقیر بھی پٹیالہ سے قادیان پہنچا
۱۲۵ اور بیعت خلافت کی دعوت دینے والوں میں شامل کر لیا گیا ہے اور خلافت کے استحکام کے لئے مقدور بھر کوشش کی.خلافت ثانیہ کا دور محض عشق و وفا کا دور نہیں بلکہ عمل و کردار کا دور ہے.میں سیکرٹری ہونے کے باعث گویا دوہری غلامی میں مربوط تھا اب تبلیغ کی تاکید کی قرناء سنائی دیتی تھی.چنانچہ اس عاجز کو ان گنت جلسے چند سالوں میں کروانے کی توفیق ملی.کئی بار حضرت حافظ روشن علی صاحب آئے.حضرت میر قاسم علی صاحب، حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل اور حضرت میر اسحاق صاحب آئے.حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب کئی ماہ درس قرآن کریم دیتے رہے.الغرض اس قرناء کی تعمیل سے پٹیالہ میں میدان کارزار کھل گیا.ایسا کہ امیر پیغام مع اپنے دوساتھیوں کے پٹیالہ آنے پر مجبور ہو گئے.تعلقات میں زیادتی اور حضور کی پٹیالہ میں آمد ۱۹۱۷ء میں ایک موقع پر میں قادیان آیا ہوا تھا اور ظہر یا عصر کے وقت حضور کے سامنے مسجد مبارک میں بیٹھا تھا اور اب تلک بھی آپ کے کسی مخاطبہ کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا کہ حضرت نے اس عاجز کو فرمایا ڈاکٹر صاحب! میری نبض دیکھیں کچھ حرارت رہتی ہے.چنانچہ بندہ نے نبض دیکھی اور دوائی تجویز کر دی.اگلے روز گھر کو واپس روانہ ہونے سے پہلے اوپر کے مکان میں حاضر ہو کر مزاج پرسی کی توفیق ملی تو اس عاجز کو حضور نے اندر بلا لیا اور فرمایا کہ دوائی تو کھالی تھی لیکن طبیعت ویسی ہی ہے.میں نے اس وقت یہ مشورہ پیش کر دیا کہ حضور موسم گرما میں پہاڑ پر چند ماہ گزاریں.“ الفضل مورخہ ۱۸ / مارچ ۱۹۱۴ء میں ستر بہتر بزرگان و احباب جماعت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ حضرت خلیفہ اول وفات پاگئے اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی منتخب ہوئے.قریباً دو ہزار احباب اور حضرت ام المومنین اور اہل بیت حضرت خلیفہ اول نے بیت کر لی.احباب بیعت سے مشرف ہوں.(ص۱۶) مؤلف
۱۲۶ اسی سال ۱۹۱۷ء کے اگست کے آخر میں حضرت ایدہ اللہ بنصرہ نے شملہ کو تشریف لے جانے سے قبل خاکسار کو بھی اطلاع بھجوائی کہ فلاں گاڑی سے سفر کر رہے ہیں.سو میں نے امیر جماعت پٹیالہ حضرت شیخ محمد کرم الہی کی معیت میں راجپورہ ریلوے اسٹیشن پر شرف زیارت حاصل کیا اور انبالہ چھاؤنی تک ہمسفر رہا.اس جگہ کا لکا کے لئے گاڑی کے انتظار میں حضور پلیٹ فارم پر تشریف فرما ہوئے.اس وقت حضور نے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب ! سنا ہے پٹیالہ بہت خوبصورت شہر ہے.ہم یہاں چوبیس گھنٹے کا بر یک جرنی Break Journi) کر سکتے ہیں کیوں نہ دیکھ آئیں؟ میں نے بصد شوق عرض کیا کہ بہت مبارک بات ہے.پھر سوچ کر فرمایا کہ اگر ہم اس وقت پٹیالہ ہو آئے جبکہ میاں عبداللہ صاحب سنوری موجود نہیں ہیں تو ان کو بہت صدمہ پہنچے گا کیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پٹیالہ گئے تھے تو میاں عبداللہ صاحب بھی ساتھ تھے بلکہ وہ اپنے مکان واقعہ سنور میں بھی حضرت صاحب کو لے گئے تھے.پھر فرمایا انشاء اللہ واپسی پر سہی.اس کے بعد حضور کا کا کو روانہ ہو گئے اور خاکسار پٹیالہ کو واپس روانہ ہو گیا اور نماز فجر کے وقت پٹیالہ پہنچا تو تمام رات جاگتے اور خوشی کے جذبات کے ساتھ گذری.فجر کی نماز کے بعد سب سے پہلا کام حضور کی خدمت میں شملہ خط لکھنے کا انجام دیا.خط میں لکھا کہ حضور نے آج شب انبالہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر بیٹھے جو اظہار فرمایا تھا کہ واپسی پر پٹیالہ دیکھیں گے میں اس کی یاد دہانی کرواتا ہوں اور ساتھ ہی عرض کرتا ہوں کہ جیسا کہ حضور کو مجلس مشاورت کے موقع پر خاکسار نے ہی پہاڑ پر جانے کا مشورہ دیا تھا اسی طرح اب بھی عرض کرتا ہوں کہ حضور ایک مہینہ کے لئے پٹیالہ میں قیام فرمائیں.اس پر حضور کا تربیتی رنگ کا خط جواب میں آیا کہ ابھی تو واپسی کی تاریخ مقرر نہیں ہوئی.اس لئے مقرر ہونے پر اطلاع دی جائے گی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ آپ نے جو یہ لکھا ہے کہ ایک ماہ کے لئے پٹیالہ قیام کیا جائے تو سائل کو چاہئے کہ وہ چیز طلب کرے جس کے ملنے کی امید بھی ہو.یہ جواب مجھے کیوں سننا پڑا وہ بظاہر اپنے سوال کی غلطی سے لیکن دیوانہ بکار خویش ہوشیار کے رنگ میں ایک ماہ کے قیام کا جو لکھا تھا گو وہ سچے دل سے لکھا تھا کہ دل کا یہی تقاضا تھا کہ
۱۲۷ حضور زیادہ سے زیادہ ٹھہریں لیکن اس میں یہ بات بھی مرکوز تھی کہ اگر ایک ماہ کی منظوری نہ ملے گی تو ہفتہ عشرہ کی تو مل جائے گی لیکن میری یہ تدبیر کارگر نہ ہوئی.اس پر خاکسار نے دوسرا خط لکھا که حضور کا ارشاد درست اور واجب اطاعت ہے.دراصل ایک ماہ کا جو لکھا تھاوہ اس دستور کے پیش نظر لکھا تھا کہ کسی بڑی ہستی سے جب کوئی چیز مانگی جائے تو تھوڑی نہ مانگی جائے.پس اب میں ایک ہفتہ کے قیام کی درخواست کرتا ہوں.اس پر جواب ملا کہ ہم انشاء اللہ ایک دن کے لئے آئیں گے بشرطیکہ موٹر کا انتظام ہو.مجھے اپنی نادانی کی وجہ سے موٹر کی کڑی شرط دیکھنا پڑی جبکہ موٹریں ان دنوں سارے ملک ہند میں ہی بہت کم تھیں.ٹیکسیوں یا بسوں کا تو نام ونشان نہ تھا.پھر پٹیالہ جو ریاست ہے اس میں تو اور بھی کمی تھی لیکن اس جگہ میں خدا تعالیٰ کے انعاموں کا ذکر کرتا ہوں کہ جو کاملین پر اور ان کے ادنیٰ خادموں پر ہوتے رہتے ہیں.موٹر کا انتظام باعث اکرام آقا وغلام اب یہ خط موٹر کی شرط والا مجھے اس دن ملا جس سے ایک ہفتہ پہلے ہماری ریاست کے رئیس خلیفہ ہادی حسن صاحب اپنی بندوق کے پھٹ جانے کی وجہ سے زخمی ہو گئے.یہ وزیر اعظم خلیفہ محمد حسن صاحب کے پوتے تھے.جنہوں نے اشاعت براہین احمدیہ میں کافی اعانت کی تھی یہ سول سرجن صاحب کے منشاء سے اور اپنی شہرت کے باعث یہ عاجز علاج کے لئے مقرر ہو گیا تھا اور روزانہ دو وقت ان کی دوگھوڑوں والی گاڑی پر ان کے ہاں پہنچ کر پٹی کرتا تھا.چنانچہ پہلے وقت پٹی کر کے گھر آیا تھا کہ حضور کا یہ خط ملا اور میں نے گاڑی بان کے ذریعہ خلیفہ صاحب کو کہلا بھیجا کہ دوسرے وقت میرے لے جانے کے لئے موٹر کار بھیجیں.حسن اتفاق کہ اسی روز حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری بھی میرے ہاں بطور مہمان تشریف فرما تھے.میں نے اول تو ان کو حضور کی طرف سے آمدہ خط دکھلایا اور پھر موٹر کے بارے میں ذکر کیا انہوں نے اڑھائی صد روپیہ کی اعانت اپنی طرف سے کرنے کے علاوہ چھتر روپے بابت خریداری دیگر افراد کی طرف سے بھی بھجوائے تھے.(مؤلف)
۱۲۸ اور کہا کہ دیکھیں ہماری قسمت کیا دکھاتی ہے.شام کو موٹر آتی ہے کہ نہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے موٹر پہنچ گئی اور میں اور میاں عبداللہ صاحب سنوری سیر کرتے ہوئے خلیفہ صاحب کے مکان پر چلے گئے اور مجھے موٹر میں اس دن پہلی بار بیٹھنے کا موقع ملا.جو حضرت ایدہ اللہ کے طفیل تھا.میں نے پٹی لگانے کا کام ختم کر کے خلیفہ ہادی حسن صاحب سے کہا کہ فلاں تاریخ کو ہمارے حضرت صاحب ایک دن کے لئے پٹیالہ آ رہے ہیں.براہ مہربانی ہمیں چوبیس گھنٹہ کے لئے موٹر دے دیں.یہ سن کر وہ سوچ میں تو پڑ گئے مگر میرے کہنے کو ر ڈ کرنا بھی مشکل تھا.آخر ہاں کر لی.ساتھ ہی کہا کہ پٹرول کا انتظام آپ کر لیں.میں خوشی خوشی گھر واپس آ گیا اور حضرت ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں خط لکھدیا کہ انشاء اللہ تعالی محض فضل ربی سے موٹر کا انتظام ہو جائے گا.فلاں شخص نے موٹر دینے کا وعدہ کر لیا ہے.اس پر حضور نے تشریف آوری کی اطلاع دیدی اور آٹھ اکتوبر ۱۹۱۷ ء کی رات کو دس بجے کے قریب انبالہ کی طرف سے راجپورہ اسٹیشن پر پہنچے.جہاں یہ نا چیز بندہ پٹیالہ سے موٹر لے کر حاضر تھا.جو نہی حضور کی نظر مجھے پر پڑی تو فرمایا ڈاکٹر صاحب! موٹر لے آئے ہیں؟ عرض کیا الحمد للہ لے آیا ہوں.حضور بہت خوش معلوم ہوئے.رات حضور نے ریز روڈ بے میں گزاری.صبح نماز کے ایک گھنٹہ بعد موٹر منگوائی اور فرمایا پہلے حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمۃ کے مزار پر دعا کے لئے سر ہند جائیں گے لیکن حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کا وہاں جانا پسند نہ فرماتی تھیں.غالباً اس لئے کہ یہ کابلی لوگوں کی آمد ورفت کا مقام ہے لیکن چونکہ حضرت عزم فرما چکے تھے.اس لئے جمعیت حضرت میاں شریف احمد صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر اور اس عاجز کے سرہند کو روانہ ہو گئے.حضرت مجد دصاحب الف ثانی کے مزار پر پہنچ کر حضور نے ہیں منٹ تک دعا کی.پھر حضرت کے بیٹے کے مزار پر بھی دس منٹ تک لمبی دعا کی اور وہاں کے سجادہ نشین احباب سے ملاقات کی اور بطور عطیہ کچھ رقم بھی دی.یہاں سے واپس راجپورہ پہنچے جو راستے میں آتا تھا.پھر پٹیالہ تشریف لے گئے.یہاں اول حضور نے نہایت پر معارف اور مؤثر تقریر فرمائی جو ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی جس سے
۱۲۹ سامعین بہت متاثر ہوئے.جن میں احمدیوں کے علاوہ بہت سے شہر کے تعلیم یافتہ مسلمان اور ہندو بھی تھے جو سننے کے لئے جمع تھے.ایک ہندو تو پکار اٹھا کہ یہ کوئی دیوتا معلوم ہوتا ہے.تقریر کے بعد حضور نے مغرب و عشاء دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھا ئیں.پھر کچھ دیر کے لئے مجلس آرا ہوئے جب کہ جماعت پٹیالہ کی جانب سے حضور کے سامنے غیر مقدم کے طور پر ایک نظم پڑھی گئی.نیز میرے پھوپھا حکیم رحمت اللہ صاحب نے ایک رباعی پڑھی.جو حضور کی شان کے شایاں تھی.پھر حضرت نے شام کا کھانا اس عالیشان مکان کے اندر تشریف لے جا کر کھایا جس مکان کے خوبصورت باغیچہ میں حضور ے تقریر فرمائی تھی.یہ مکان بھی اس نیک وزیر کے بھائی کا تھا.بعد تناول طعام حضور ریلوے اسٹیشن پٹیالہ پر تشریف لے گئے اور ریل پر سوار ہوکر اول را جپورہ پہنچے.پھر وہاں سے دوسری ٹرین پر گیارہ بجے شب کے قریب امرتسر کی طرف روانہ ہو گئے.تھوڑے وقت کی ملاقات سے مجھے سیری نہ ہوئی تھی.سو میں نے عزم کر لیا کہ آئندہ سال تک میں اپنی موٹر خرید لوں گا اور اپنے آقا کو کئی دنوں کے لئے پٹیالہ ٹھہرا کر سیر کراؤ نگا کیونکہ اس تھوڑے وقت میں حضور جماعتی کاموں میں ہی مصروف رہے اور حسب منشاء پٹیالہ نہ دیکھ سکے اور بعض معزز ہندو دوستوں کی خواہش کو کہ کچھ دن اور ٹھہرمیں پورا نہ فرما سکے.اللہ تعالیٰ کے بندہ محمود کے لئے موٹر کا انتظام اور دیگر شاہانہ انتظامات مندرجہ بالا قصہ میں بہت سے نشانات رحمت خداوندی نظر آتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے خاص بندوں پر خاص طور پر ہوتی ہے.چنانچہ (۱) حضرت محمود ایدہ اللہ کو تھوڑے وقت میں بہت سے کام سر انجام دینے کے لئے موٹر درکار ہوئی اور اس نے اپنے ناچیز خادم حشمت اللہ کو شملہ سے لکھا کہ ہم اس صورت میں تمہارے پٹیالہ آ سکتے ہیں کہ موٹر کا انتظام ہو.موٹر کا انتظام ہو گیا اور حضور نے اپنا پروگرام پورا فرمالیا لیکن دیکھئے کس خدائی انتظام خاص سے یہ موٹر مہیا ہوئی.ناممکن حالات میں مجھے ڈاکٹر بنایا ، شہرت بخشی ، مالک موٹر کو اپنی بندوق کے پھٹ جانے سے زخمی کر دیا اور پھر اسے میرے زیر علاج لایا اور علاج کا اس قدر گرویدہ بنایا کہ باوجود متعصب ہونے کے وہ موٹر دینے پر مجبور ہو گیا.
(۲) حضور کی آمد سے قریباً ایک ہفتہ پہلے سرکاری محکمہ کا نجات کے ایک بڑے افسر بابو عبدالعزیز کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی.جس کے علاج کے لئے پٹیالہ کے سول سرجن اس کے ہاں پہنچے اور سپلنٹ وغیرہ لگا آئے لیکن مریض کو دو دن اور دورات ذرہ چین نہ آیا.آخر اس نے اس ناچیز کو بلایا اور پھر درد کی شکایت نہ کی.حضرت کی آمد سے تین چار روز پہلے میں نے ضروری سامان حضور کی آمد کے موقع کے لئے مہیا کرنے کے لئے کہا تو اس نے سرکاری سامان میں سے مندرجہ ذیل سامان مہیا کر دیا اور تقریر کے مقام پر سامان پہنچانے اور جلسہ گاہ کو تیار کروانے کا انتظام خود ہی کروایا -1 -۲ دو گھوڑا گاڑیاں جو بر وقت جائے قیام حضور ایدہ اللہ پر موجودر ہیں.جلسہ گاہ کے فرش کے لئے دس بڑی بڑی دریاں اور چاندنیاں..ڈیڑھ سو کرسیاں -۴- تین زربفت کوچ -۵ -Y چھ بڑے بڑے گیس لیمپ، لالٹین کی شکل کے کھمبوں پر لگے ہوئے.پچاس پلنگ بڑے بڑے یہ سب سامان اس نے سرکاری آدمیوں کے ذریعہ بھجوایا اور نصب کروادیا اور واپس منگوایا.خدا تعالیٰ کی خاص نقد بر نظر آتی ہے کہ کس طرح پر وہ شخص بیمار ہوتا ہے جس کے پاس یہ سامان تھا اور پھر اس ناچیز کے ہاتھ سے ہی اس کو آرام پہنچتا ہے اور اس ناچیز کے منشاء کے مطابق وہ تمام ضروری سامان بخوشی مہیا کرتا ہے.آج کل ایسا سامان بڑے شہروں میں مہیا ہو جانا مشکل امر نہیں جبکہ ہر چیز کرایہ پر مل سکتی ہے لیکن ایسی جگہ پر جہاں یہ چیزیں کرایہ پر قطعاًنہ مل سکتی ہو.اس قدر سامان کا مہیا ہونا رحمت الہی کا نشان نہیں تو اور کیا ہے؟ اس ملاقات کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت محمود کے دل میں اس عاجز مسکین کی کچھ قدر ہوگئی.چنانچہ حضرت مولوی عبداللہ سنوری نے جو حضور کے ہمراہ پٹیالہ سے واپسی پر قادیان تک گئے تھے بتلایا کہ راستہ میں حضور نے کئی اسٹیشنوں پر پٹیالہ کے شاندار جلسہ گاہ کے انتظام اور دیگر انتظامات کی بہت تعریف فرمائی.
۱۳۱ ایک اور موقع خدمت گذاری اپریل ۱۹۱۸ء میں حضور کا ارشاد پہنچا کہ کچھ بل بھیجد میں مجھے پیچش ہے.جس کے لئے بل مفید ہوتی ہے.( بل ایک پھل ہوتا ہے جس میں سے بل گری نکلتی ہے.) یہ ارشاد دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ذریعہ بذریعہ خط پہنچا تھا.میں اس وقت بازار چلا گیا اور بل خرید لئے.چونکہ یہ بھاری ہوتی ہیں.بذریعہ ڈاک نہ بھیجے جاسکتے تھے.البتہ پسنجر ٹرین میں پارسل کئے جاسکتے تھے.اس طرح بھیجنے کی صورت میں کم از کم پانچ دن تک حضور کو مل سکتے.سو میں نے اپنے دوست میاں خدا بخش صاحب مومن کو بل دے کر اسی روز قادیان کو روانہ کر دیا.جب انہوں نے قادیان پہنچ کر بل پیش کئے تو حضور بہت خوش ہوئے خصوصاً اس وجہ سے کہ اگر کسی آدمی کے ہاتھ نہ بھجوائے جاتے تو اول تو حضور کو ملتے ہی نہ.اگر ملتے تو کم از کم پندرہ دن کے بعد.کیونکہ اگلی صبح حضور لاہور کو روانہ ہورہے تھے جہاں سے ایک دن بعد حضور نے ایک ڈیڑھ ماہ کے لئے بمبئی چلے جانا تھا.خدا بھلا کرے خدا بخش صاحب مومن کا کہ انہوں نے موقع شناسی سے کام لے کر مجھے بذریعہ تا راطلاع دے دی کہ حضور لا ہور جارہے ہیں.اگر ہو سکے تو ملاقات کے لئے لاہور پہنچ جاؤ چونکہ قادیان پہنچ کر ملاقات کرنے میں زیادہ رخصت لینا پڑتی تھی.لاہور جانے پر صرف ایک دن کی رخصت درکار تھی.میں لاہور چلا گیا اور شرف ملاقات حاصل کیا اور میرے مولیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں اپنے آپ کو مجوزہ سفر میں خدمت کے لئے پیش کروں جس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ آپ ایک مہینہ کی رخصت منظور کروالیں.اگر ہمیں ضرورت ہوئی تو تار بھیج کر بمبئی بلالیں گے لیکن بوجہ اس کے کہ حضور کے ہمراہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب تھے اور غالباً حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بھی تھے.مجھے بلائے جانے کی ضرورت پیش نہ ہوئی.)
۱۳۲ بوجہ انفلوئنزا حضور کی علالت جب اکتوبر ۱۹۱۸ء کا دوسرا ہفتہ آتا ہے تو خاکسار کو ایک روز اس مضمون کا تارا چا نک ملتا ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز انفلوئنزا کے حملہ سے سخت بیمار ہیں.آپ جلد قادیان آجائیں.میں فوراً جانے کے لئے تیار ہو گیا اور حصول رخصت کے لئے اپنے افسر سول سرجن کی کوٹھی پر گیا.اوّل تو وہ انکاری ہوا کہ وبائے انفلوئنزا کیوجہ سے ڈاکٹروں کی ہر جگہ ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے لیکن میرے اصرار پر بمشکل تمام صرف دو یوم کی رخصت منظور کی میں نے اسی کو غنیمت جان کر اسی شام کو قادیان کی راہ لی اور اگلے روز ظہر کے وقت قادیان پہنچ گیا.ایک دن کی رخصت تو سفر کی وجہ سے ختم ہوگئی تھی.اس لئے میں زیادہ سے زیادہ چوبیس گھنٹے قادیان میں ٹھہر سکتا تھا لیکن حضرت صاحب کی طبیعت متقاضی تھی کہ میں کچھ دن ٹھہر کر طبی خدمت کروں.اس وجہ سے میں نے ایک ہفتہ ٹھہرنے کی اور نیت کر لی اور ایک ہفتہ کی رخصت کی درخواست از خود بھیجدی.حضرت صاحب کو پتہ نہ دیا کہ میری رخصت صرف دو دن کی تھی.میرے پہنچنے کے تیسرے روز میرے بڑے بھائی صاحب سول سرجن کے مجبور کرنے پر مجھے واپس لے جانے کے لئے قادیان آ پہنچے مگر میں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور ان کو واپس بھیجدیا.جب ہفتہ میں سے بھی چار پانچ دن گذر گئے تو میں نے حضور کو اطلاع دی کہ رخصت کا یہ حال ہے.تب حضور نے فوراً حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کومزید رخصت کی منظوری حاصل کرنے کے لئے پٹیالہ بھجوا دیا.شیخ صاحب تین ماہ کی رخصت منظور کروانے میں کامیاب ہو گئے اور میں اطمینان سے خدمت میں لگ گیا.اس سوا تین ماہ کے کوائف یہ ہیں :- -1 میری رہائش اسی دالان میں رہی جس میں حضرت امیر المؤمنین حالت بیماری میں رہتے تھے جو حضرت اماں جان کا دالان تھا.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رہائش کا کمرہ تھا جس کے ساتھ بیت الدعاء الحق ہے.رات کو فقط میں ہی حضور کے پاس ہوتا تھا.
۱۳۳ حضور کا سب سے پہلا حکم مجھے یہ ملا تھا کہ میری اجازت کے بغیر کمرہ سے باہر نہیں جانا.-۴- میرا کھانا اُسی کمرہ میں حضور کے کھانے کے ساتھ آتا تھا اور ہم دونو اکثر دفعہ اکٹھے بیٹ کر کھانا کھاتے تھے.-۵- حضرت ام المؤمنین اس کمرہ سے ذرا فاصلہ پر ایک کمرہ میں رہتی تھیں.جس کے لئے ایک چھوٹا حسن تھا.میرے استعمال میں وہی بیت الخلاء تھا جو سیدہ ام ناصر صاحبہ اور ان کے بچوں کے لئے تھا.الغرض میں تین ماہ تک خادم بھی بنارہا.مہمان بھی بنار ہا مہمان بھی اور کنبہ کا نمبر بھی.میں یہ تو نہیں کہتا کہ میرے علاج سے ، ہاں یہ کہتا ہوں کہ میرا رب محسن میرا معین و مددگار رہا اور میرے قیام کے اس عرصہ میں حضور ایدہ اللہ کی صحت میں ترقی ہوئی اور حضور نے میری لمبی رخصت ختم ہونے پر مجھے بخوشی واپس جانے کی اجازت دی.گو جہاں تک میرا احساس ہے حضور کی خواہش یہی تھی کہ میں رہ پڑوں اور میرا دل بھی جدائی سے تکلیف محسوس کر رہا تھا.جیسا کہ ایک بچہ جس کا دودھ چھڑایا جائے ، روتا اور بلبلاتا ہے میں نے واپس روانہ ہونے سے پہلے جن دلی جذبات کا اظہار کیا.ان میں سے ایک یہ تھا کہ گو میں اس وقت حضور کے اجازت دینے پر رخصت کے ختم ہونے کی مجبوری کی وجہ سے واپس جارہا ہوں لیکن میں یہی سمجھتا ہوا جا رہا ہوں کہ جیسے حضور مجھے کسی ڈیوٹی پر بھیج رہے ہیں پھر تحریر میں میرا یہ شعر لکھنا بھی مجھے آج تک یاد ہے.یہ سراسر فضل واحساں ہے کہ میں آیا پسند ور نہ خدمت میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار حضور نے عزت افزائی فرماتے ہوئے میرے اعزاز میں ایک وسیع دعوت دی اور مجھے سوار کروانے کے لئے یگوں کے اڈے تک تشریف لے گئے.اس وقت میری اہلیہ فاطمہ امتہ الحفیظ اور دونوں بچے عزیزم محمد حمد اور عزیزہ زینب بھی ساتھ تھے کہیں الفضل میں چار ایام کی حضور کی صحت کے متعلق اطلاعت درج ہو کر یہ مرقوم ہے کہ مندرجہ بالا اطلاعیں جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب پٹیالوی کی دی ہوئی ہیں.جنہیں
۱۳۴ افضال الہی ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود کی زیارت کے لئے تضرعانہ دعا نے تین بارایسے مواقع ہم پہنچائے.حضور کے وصال کے انتہائی غم میں بھی شرکت نصیب ہوئی.اس کی قبولیت کا پیر پھلدار بنا اور یہ پانچواں پھل تھا جو مجھے نصیب ہوا کہ حضرت محمود نے اپنی علالت میں خدمت کے لئے مجھے بلایا اور روزگار اور اہل وعیال کی پرواہ کئے بغیر اور بھائیوں کی امیدوں کو خاک میں ملاتے ہوئے حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کی توفیق نصیب ہوئی اور اسی کمرہ میں لا بسایا جس میں حضرت مسیح موعود نے ایک زمانہ گزارا تھا اور یا ایها النبي اطعموا الجائع والمعتر کا الہام کرنے والے نے حضرت مسیح موعود کے فرزندار جمند کے گھر سے سوا تین ماہ تک دو وقت بلکہ چار وقت کھانا کھلوایا جبکہ کئی بار حضرت سیّدہ ام المومنین کے اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ہوتا تھا.۱۹۰۵ ء والی زیارت کے نتیجہ میں حضرت محمود کی زیارت ہوئی تھی اور اب وہ مجھے فرماتے ہیں کہ میری اجازت کے بغیر کمرہ سے نہ نکلیو اور آؤ ہم ملکر کھانا کھائیں.کیا ہی ذوالقدرة والملوکوت ہے وہ جس نے شوق دیدار پیدا کیا.یہ ہے خدا جس نے دعا کروائی.یہ ہے خدا جس نے کرنل محمد رمضان کو درشتی کے لئے کہا اور سمجھ سے زور سے دعا کروائی اور رزق خاص عطا کئے جانے کی دعا سکھائی اور قبول فرمائی.غیر معمولی حالات میں ڈاکٹر بنوایا اور پھر محبوب کے قدموں میں آپ کا اپنا بیٹا بنا کر لے آیا.پس ایسے محسن رب کا کیا کچھ شکر ادا ہوسکتا ہے سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم 66 بقیہ حاشیہ: - ان ایام میں خدا نے حضرت خلیفہ مسیح کی خدمت کا خاص موقع دیا ہے.‘ ۲۵ روانگی کے سلسہ میں زیرہ مدینہ اسی ، مرقوم ہے :- ” جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب پٹیالوی جو کئی ماہ حضرت خلیفہ المسیح ثانی ایدہ اللہ کی خدمت میں رہے رخصت ختم ہو جانے کی وجہ سے واپس تشریف لے گئے ہیں.حضور نے ان کی روانگی پر بہت سے احباب کی دعوت فرمائی اور ڈاکٹر صاحب کو قصبہ سے باہر تک وداع کرنے کے لئے تشریف لے گئے.۲۶
۱۳۵ توفیق ہجرت.حضرت کی طرف سے استقبال عشق صادق کی آزمائش کہو یا نار عشق کی بھڑک کا کرشمہ کہ مجھے پٹیالہ گئے ہوئے بمشکل دس دن گذرے ہوں گے کہ حضور کا خط ملا کہ میری طبیعت پھر خراب ہونے لگی ہے.آپ یا تو فرلو رخصت لے کر یا مستقل طور پر آجائیں اور ساتھ ہی حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو رخصت منظور کروانے کے لئے بھجوا دیا.میری چھ ماہ کی فرلو رخصت منظور ہوگئی اور صرف اور صرف تیرہ دن کے قیام کے بعد مہاجر فی سبیل اللہ ہو گیا.میں نے اپنے قادیان پہنچنے کا دن اور وقت خط میں لکھ بھیجے تھے.جب میری سواری قادیان سے قریباً ایک میل دور تھی تو میں نے دیکھا حضور ٹانگہ پر سوار میری طرف آ رہے ہیں اور اپنے ساتھ مبارک احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کو لائے ہیں.یہ غالبا ۲ رفروری ۱۹۱۹ء کا دن تھا جب سواریاں قریب ہوئیں تو میں اپنی سواری سے نیچے اتر آیا اور حضور بھی اُتر آئے.میں بعد دعائے سلام مصافحہ کرتا ہوں تو حضور مجھے اپنے ٹانگے پر بٹھا کر گھر واپس چل پڑے ہیں اور مجھے اس بابرکت مکان میں جس کا نام ہی دار البرکات ہے.جسے حضرت مسیح “ پاک نے اپنے شریف اصغر کے لئے بنوایا تھا ٹھہرا دیتے ہیں میں حضور کی طرف سے اس عاجز کا ایسے رنگ میں استقبال میرے جیسے محب کے لئے تخیلات کا ایک باب کھول دیتا ہے.میں نے سمجھ لیا کہ یہ استقبال رسمیات سے پاک تھا اور حضور نے اسے یہ رنگ دیا کہ سیر کو نکلے تھے جو میں آتا ہوا مل گیا.پھر یہ طریق ہے کہ جب کسی کو اچھی چیز 66 زیر عنوان مدینہ اسی ہفتہ مختمه ۶ فروری ۱۹۱۹ ء میں برائے الفضل مورخہ ۸/فروری ۱۹۱۸ء وارد ہو نیوالے احباب میں ” جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کا نام بھی مرقوم ہے اور اسی عنوان کے تحت الفضل مورخہار فروری ۱۹۱۹ء میں مرقوم ہے کہ خوشی کی بات ہے کہ مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب پٹیالوی کو 4 ماہ کی مزید رخصت حاصل ہوگئی ہے اور آپ حضرت خلیفہ اسی کی خدمت گزاری کے لئے یہاں تشریف لائے.
میسر آتی ہے تو لوگ اسے مبارک دیتے ہیں.سو میرے درود قادیان پر مجھے زبان سے مبارکباد کہنے کی بجائے صاحبزادہ مبارک احمد سلمہ اللہ کو ساتھ لا کر تصویری زبان میں مبارک باد دے دی اور رسمی الفاظ سے اجتناب کیا جس میں میرے لئے خیر کا پہلو تھا کہ مجھے پہلے روز ہی فخر وغیرہ مرض سے بچے رہنے کا سبق دیدیا اور یہ بھی سبق دیدیا کہ تعلقات قلبی محبت کی وجہ سے قائم رہ سکتے ہیں.اب میں چھ مہینہ کی لمبی رخصت کیوجہ اس طرح مقیم ہو گیا جیسا کہ انسان لمبے سفر کے بعد اپنے گھر میں واپس آجاتا ہے.جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازہ کے ساتھ قادیان آیا تھا تو مجھے یہ شدید خواہش پیدا ہوئی تھی کہ خدمت دین کی خاطر قادیان میں ٹھہر جاؤں سو اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش پوری کر دی.چونکہ انفلوئنزا کے حملہ کی وجہ سے حضور کو اعصابی کمزوری لاحق ہو گئی تھی.اس لئے صحت کی نگرانی زیادہ کرنی پڑی اور حضور کو بھی فکر رہتا تھا کہ تندرستی اور توانائی جلد واپس آ جائے تا کہ اپنے فرض منصبی کو کما حقہ، ادا فرما سکیں.اس لئے میرے اس لمبے قیام کے پہلے تین ماہ میں حضور اس جگہ تشریف لے آئے جہاں میں رہتا تھا اور اپنی ڈاک کا کام وہیں بیٹھ کر کرتے اور دفتری کام اور ملاقاتیں بھی وہیں فرماتے اور ایک وقت کا کھانا میرے ساتھ بیٹھ کر کھاتے.میرا کھانا حضرت سیّدہ ام ناصر کے ہاں سے آتا تھا.اس طرح پر جب تین ماہ گزر گئے اور میں نے اندازہ لگالیا کہ میرا پٹیالہ واپس جانا حضور کو پسند نہیں تو ایک روز میں نے عرض کیا کہ میں کیوں نہ استعفا دیدوں؟ تو حضور نے فرمایا ہاں بھیجد ہیں.میں نے اسی روز اسبارہ میں درخواست بھیجدی.میرے افسر سول سرجن نے میری واپسی کی بہت کچھ کوشش کی لیکن میں ٹھہر ہی گیا.میں کسی لائق نہ تھا.میرے رب محسن نے خود ہی خدمت کے لائق بنایا پھر میری تڑپ کو دیکھ کر خود ہی مجھے اس عظیم الشان موعود کی خدمت پر لگا دیا.حضرت میاں صاحب کو کشتی چلاتے دیکھنے کی خواہش کا پورا ہونا ۱۹۰۵ء میں میں قادیان آیا.یہ سن کر کہ حضرت میاں صاحب کشتی چلانے کے لئے آگئے
۱۳۷ ہیں، آپ کو دیکھنے گیا تھا.آپ اس وقت کشتی نہیں چلا رہے تھے بلکہ ڈھاب کے کنارے کھڑے ساتھیوں سے باتیں کر رہے تھے لیکن میرا پیارا رب میری اس چھوٹی سی خواہش کو بھی پورا کر دیتا ہے.چنانچہ ۱۹۱۹ء کے موسم برسات میں حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے ربڑ کی ایک نہ ہو جانے والی کشتی منگوا کر حضور کو دی.سیر کے لئے اسے تھیلہ میں سے نکال کر چھڑیوں اور پھٹیوں سے جوڑ کر اور ربڑ اور کینوس کا خول چڑھا کر پندرہ سولہ سیر وزنی کشتی تیار ہو جاتی.جس پر صرف دو آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی.یہ کشتی حضور نے میرے سپر د کر دی اور جب حضور کا منشاء ہوتا تو میں دس پندرہ منٹ میں کشتی تیار کر دیتا اور ڈھاب میں جو برسات کے دنوں میں خوب لبریز ہوتی حضور سیر کر لیتے اور اس وقت اکثر یہ عاجز ہی حضور کا ساتھی ہوتا تھا.کبھی حضور چپو چلاتے اور کبھی میں یا دونوں ہی بیک وقت چلاتے تھے.اسی طرح کی سیروں کا سلسلہ کئی سال تک موسم برسات میں جاری رہا.ایک سال تو ڈھاب میں اس قدر پانی تھا کہ ہم نے بغیر اترنے کے پانی پانی میں کشتی کے ذریعہ قادیان کا چکر کاٹ لیا.سبحان الله و بحمده سبحان الله العظیم کس عجیب رنگ میں اللہ تعالیٰ نے میری خواہش کو پورا کر دیا.۱۹۱۷ء کی ایک رؤیا کا پورا ہونا ۱۹۱۷ء میں پٹیالہ میں رویا میں نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو مع اہل وعیال اپنے غریب خانہ میں تشریف لائے دیکھا.چنانچہ 1919ء میں مجھے مستقل رہائش کے لئے وہ مکان مل گیا جو شہر میں حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کا ہے جو دارا اسے " کے ساتھ ملحق ہے.بلکہ اس کا حصہ جو ہے.جس کا تعلق ایک دروازہ کے ذریعہ دار اسیح سے ہے تو بسا اوقات حضور کی تشریف آوری میرے ناچیز کے مکان میں ہوتی رہی بلکہ بعض کاموں کی وجہ سے حضور کی آمد ان گنت بار ہوئی.حضور کے اہل بیت بھی بارہا میرے ہاں تشریف فرما ہوتے رہے اور حضور کے بچے تو گویا میرے چھوٹے بھائی تھے.یہ سب چھوٹے بڑے ایک دوسرے سے بڑھ کر مہربان بن کر ملتے تھے اور ملتے چلے آرہے ہیں.فاللہ الحمد.مجھے اس ملحقہ مکان کے باعث حضور کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کی بہت توفیق ملی.
۱۳۸ ابتدائی دو تین سال کے عرصہ میں حضور بسا اوقات میری جائے قیام پر تشریف لاتے اور گھنٹوں رونق افروز رہتے اور کبھی اپنی علالت کی وجہ سے مجھے اپنے پاس بلا لیتے.ابتداء میں دو ماہ تک حضرت سیدہ ام ناصر نے ڈاکٹر صاحب کے ہاں اپنے ہاں سے ہی کھانا بھجوایا بعد میں بھی جب ڈاکٹر صاحب کے اہل و عیال پٹیالہ جاتے واپسی پر چار پانچ روز اپنے ہاں سے ہی کھانا بھجوا تیں.اس عذر پر کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ کو صفائی وغیرہ کا موقع مل جائے.حضور کے خاندان کے ڈاکٹر صاحب کے گھرانہ سے بہت ہی کریمانہ اور مشفقانہ اور ڈاکٹر صاحب کے حضور کے خاندان سے نہایت ہی خادمانہ اور والہانہ اور منکسرانہ تعلقات ہیں.انہی تعلقات کے باعث اپنی بچی ثمینہ کی ولادت پر ڈاکٹر صاحب نے شملہ میں تمام حاضر افراد خاندان سمیت پچاس احباب کی دعوت کی خوشی حاصل کی اور ایک موقع پر کشمیر اپنے کنبہ کے آٹھ افراد کو لے گئے سفر و حضر میں ایسا قرب یقینا صدہا برکات کا موجب ہوتا ہے کیا سفر یورپ میں معیت.دمشق والی پیشگوئی کا پورا ہونا غالباً ۱۹۱۷ء میں ہجرت سے قبل میری بیوی نے رو یاد یکھا کہ میں یورپ گیا ہوں.۱۹۲۴ء میں جب حضور سفر لنڈن کی تجویز پر غور فرمارہے تھے تو خاکسار کو بھی استخارہ کا ارشاد فرمایا میں نے دعا شروع کر دی تو دوتین روز بعد میں نے رویا میں دیکھا کہ مولوی فضل الدین صاحب مشیر قانونی صدرا انجمن احمد یہ اسباب سفر باندھ رہے ہیں اور میں بھی ساتھ ہی تیاری میں مشغول ہوں اور مدد دے رہا ہوں.میں نے حضور کی خدمت میں یہ رویا لکھ بھیجی اور یہ تعبیر بھی کہ حضرت فضل عمر سفر پر گذشتہ صفحات میں ۱۹۰۵ء کے سفر قادیان کوشتی چلاتے دیکھنے جملہ تنفیذ الاذہان لا ہور میں حضور کا کتب خرید نا ، اور لاہور میں ایک جلسہ کا ایک ذکر کیا گیا ہے.یہ امور بالکل مختصراً الفضل مورخہ ۲۸-۱۲-۳۱ میں بھی مرقوم ہیں.یہاں قلمی مضمون سے ایزادی کے ساتھ درج کئے ہیں.اہلیہ محترمہ ڈاکٹر صاحب کے ایک مضمون مندرجہ الفضل ۸۸-۸-۳۰ سے بھی استفادہ کیا ہے.(مؤلف)
۱۳۹ جائیں گے اور میں ساتھ جاؤں گا میں چنانچہ ۱۲ جولائی ۱۹۲۴ء حضور مع قافلہ جس میں میں بھی شامل تھا روانہ ہوئے.اس سفر میں فرعون مصر کی لاش ، احرام مصر نیز حضرت عمرو بن العاص کی تعمیر کردہ مسجد اور اٹلی میں اصحاب کہف کے غار دیکھے.اللہ تعالیٰ کا ایک یہ فضل بھی مجھ پر ہوا کہ فرانس میں ایک رؤیا میں نے دیکھی جو صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب کی پرورش کی خدمات کے ذریعہ پوری ہوئی.بمبئی سے جس بحری جہاز میں روانگی ہوئی اس کا ڈاکٹر ایک اطالوی میگلی نامی تھا اور مجھ سے اکثر ملتا رہتا تھا.ایک روز ظہر وعصر کی نمازیں عرشہ پر حضور پڑھا کر جائے نماز پر ہماری طرف رُخ کر کے بیٹھ گئے.جب کہ ہم بارہ کے بارہ انصار حضور کے سامنے بیٹھے تھے تو ڈاکٹر مذکور نے اس نظارہ کو بغور دیکھا اور پھر اشارہ کر کے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگا Jesus christ and twelve disciples.(یعنی یسوع مسیح اور بارہ حواری) مجھے اس خدائی کرشمہ پر تعجب ہوا کہ ایک عیسائی اور وہ بھی اٹلی کا رہنے والا ہمارے امام کو عیسی اور خدام کو حواری قرار دینے پر مجبور ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ دمشق کے سفید مینارہ کے مشرق میں دو فرشتوں کے ساتھ مسیح موعود نزول فرمائیں گے اور حضرت مسیح موعود نے بھی تحریر فرمایا تھا کہ میں یا میرا کوئی خلیفہ دمشق کا سفر کرے گا.ان دوفرشتوں میں سے ایک ڈاکٹر صاحب اور دوسرے حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب تھے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک تقریر میں اس بارہ میں بیان کیا کہ:- مینارۃ البیضاء کا بھی عجب معاملہ ہوا.ایک مولوی عبدالقادر حضرت مولوی فضل الدین صاحب وکیل جو صحابی ہیں آجکل ربوہ میں قیام رکھتے ہیں اور پینشن حاصل کر چکے ہیں.ڈاکٹر صاحب کی اس خواب اور اطالوی ڈاکٹر کے قول کا ذکر ان کے مضمون مندرجہ الحکم مورخہ ۱۴ / ۷ مارچ ۱۹۴۰ء میں بھی ہے.(مؤلف)
۱۴۰ صاحب مغربی سید ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست تھے.ان سے میں نے پوچھا کہ وہ مینارہ کہاں ہے جس پر تمہارے نزدیک حضرت عیسی نے اترنا ہے.کہنے لگے مسجد امویہ کا ہے لیکن ایک مولوی صاحب نے کہا کہ عیسائیوں کے محلہ میں ہے.ایک اور نے کہا حضرت عیسی آکر خود بنائیں گے.اب ہمیں حیرت تھی کہ وہ کونسا منارہ ہے.دیکھ تو چلیں.صبح کو میں نے ہوٹل میں نماز پڑھائی.اس وقت میں اور ذوالفقار علی خاں صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے.یعنی میرے پیچھے دو مقتدی تھے.جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا سامنے منار ہے اور ہمارے اور اس کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے میں نے کہا یہی وہ منار ہے اور ہم اس کے مشرق میں تھے.یہی وہاں سفید منارہ تھا اور کوئی نہ تھا.مسجد امویہ والے منار نیلے سے رنگ کے تھے.جب میں نے اس سفید مینارہ کو دیکھا اور پیچھے دو ہی مقتدی تھے تو میں نے کہا کہ وہ حدیث بھی پوری ہو گئی.‘۲۷ خدمات سلسلہ بفضلہ تعالی آپ کو مالی قربانی بطور موصی کرنے کی توفیق حاصل ہے.ایک دفعہ منارہ مسیح کے لئے خلافت ثانیہ میں چندہ کھولا گیا تو آپ نے رویا میں دیکھا کہ آپ کہتے ہیں کہ مجھ سے بذریعہ اقساط چندہ لے لیا جائے.چنانچہ آپ نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں یہ رو یا لکھی اور ساتھ ہی پہلی قسط پانچ رو پید ارسال کی.حضور نے اقساط منظور فرمالیں اس طرح اس مبارک چندہ میں آپ کو شامل ہونے کا موقع مل گیا.۱۹۰۷ء میں اور پھر ۱۹۱۲ء سے ۱۹۱۸ء تک آپ جماعت احمدیہ پٹیالہ کے سیکرٹری رہے.قادیان آنے پر آپ کو شفا خانہ نور قادیان کے انچارج کی حیثیت سے اس کو ترقی دینے کا موقع ملا.آپ کے زمانہ میں اس کا زنانہ وارڈ قائم ہوا اور اپریشن روم کی بھی ترقی ہوئی.آپ سالانہ مجلس مشاورت میں بھی شمولیت
۱۴۱ کی توفیق پاتے رہے بعض دیگر خدمات کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے.قلمی خدمات ڈاکٹر صاحب کی قلم سے بہت سے مفید مضامین سلسلہ کے لٹریچر میں شائع ہو چکے ہیں.جن میں سے کچھ سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور بعض صحابہ کی سیرت کے متعلق ہیں مجھے ساری رپورٹ ہائے مشاورت میسر نہیں آئیں.آپ کے مشاورت ہائے ۱۹۲۳ء، ۱۹۲۷ء تا ۱۹۲۹ء،۱۹۳۲ء،۱۹۳۳ء، ۱۹۳۸ء، ۱۹۴۱ء ،۱۹۴۳ء تا ۱۹۴۵ء میں شمولیت بلکہ ۱۹۴۳ء میں سب کمیٹی امور عامہ کا ممبر مقرر ہونے کا علم متعلقہ رپورٹوں سے ہوتا ہے.شفاخانہ کی ترقی کے لئے آپ کی مساعی کی جھلک آپ کے دو مضامین مندرجہ الفضل مورخه ۲۳ رمئی ۲/۶ جون ۱۹۲۱ء میں نظر آتی ہے.(مؤلف) صرف چند ایک کے حوالے یہاں درج کرتا ہوں جو آسانی سے دستیاب ہو سکتے ہیں.(الف) الفضل ۲۸-۷-۷ ( صداقت احمدیت کے متعلق ایک ہندو رئیس کا بیان) ۲۱-۳-۳۴ ( حضرت میر محمد الحق صاحب کے متعلق ) ۵۵-۵-۳۰ ( حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے اخلاق حسنہ کے متعلق ) ۵۹-۱۲-۲۹ ( قرب الہی کے ذرائع ) ۶۰-۱-۳۱ ( ہمارا جلسہ ختم ہو گیا ) ۶۰-۴-۲۷ ( مومن کی حقیقی عید اور اس کا حصول ) ۴۰-۱۳-۱۱ ( تفصیل بیعت حضرت مرزا سلطان احمد صاحب) ۲۴-۳-۱۲ (سیّدہ ام طاہر کی سیرت کے متعلق) ۱۴-۱۲-۵۸ ( ہمارا جلسہ سالانه ) (ب) الحکم مورخہ ۲۱، ۲۸ جنوری ۱۹۳۸ء میں ڈاکٹر صاحب کی روایات درج ہیں.جن کی زیادہ تفصیل گذشتہ اوراق میں قلمی مضمون سے درج کر چکا ہوں یعنی مولوی عبد القادر صاحب کے ہاتھ پر بیعت مسجد پٹیالہ والی رویا، عبد الحق نو مسلم کی بیعت ، فزع عیسی اور یا ایها النبی اطعموا الجائع والمعتر والے الہامات ، حضور کو چوٹ لگنا،حضور کا آخری سفر، لا ہور میں سیر، شہزادہ ابراہیم والی دعوت ، آخری تقریر اور وفات حضرت مسیح موعود کے متعلق.(مؤلف)
۱۴۲ بیعت حضرت مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۰ء کو بیعت کی اور بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں دفن ہونا نصیب ہوا.اس بیعت میں محترم ڈاکٹر صاحب کا بھی حصہ ہے.لاہور میں مرزا صاحب موصوف بیمار ہوئے.لاتوں میں سختی پیدا ہو گئی تھی.کھڑا نہیں رہ سکتے تھے.لاہور کے بعد قادیان میں علاج شروع ہوا اور اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب کو آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملتا تھا اور کبھی احمدیت کا بھی تذکرہ ہوتا.ڈاکٹر صاحب نے اس سال کے رمضان المبارک میں ان دنوں کا یہ رویا سنایا کہ شور بپا ہے کہ حضرت مسیح موعود دوبارہ دنیا میں آرہے ہیں اور استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہیں.چنانچہ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ صرف اکیلے ڈاکٹر صاحب ہیں اور استقبال حضرت صاحبزادہ صاحب کو دراصل شروع ہی سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بے حد عقیدت و شیفتگی تھی اور آپ حضرت اقدس علیہ السلام کو بے مثال عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے اور آپ کے دعاوی کو برحق تسلیم کرتے تھے اور آپ کی روح تحریک احمدیت کو قبول کر چکی تھی مگر آپ کو اس کے اظہار و اعلان میں بہت تامل تھا اور اس بات کا علم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بھی تھا اور حضور ہمیشہ ان کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے اور ہر ایک درجہ کے لئے دعائیں کرتے رہتے تھے چنانچہ جون ۱۹۲۴ء میں حضور نے ان کے فرزند مرزا رشید احمد صاحب کا خطبہ نکاح پڑھا تو ایجاب وقبول کے بعد ارشاد فرمایا: ان کے خاندان میں اب ایک ہی وجود ایسا ہے جس نے ابھی تک اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام لائے.ان کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے..جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں برابر ان کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں
۱۴۳ کے لئے روانہ ہوئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لاتے نظر آئے.سفید نقاب جو پہنا تھا اتارا تو چہرہ مبارک بہت منور نظر آیا.دونوں نے مصافحہ کیا.ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ ابھی حضور کے ہاتھ میں تھا کہ حضور کی شکل میں کچھ تبدیلی نظر آئی اور حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی شبیہہ سے کچھ مشابہ ہوگئی.یہ خیال بھی آیا کہ حاشیہ: کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے.میں سنتا رہتا ہوں کہ وہ احمد بیت کو ہدایت کی راہ ہی خیال کرتے ہیں مگر کوئی روک ہے جس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس روک کو ہٹا دے.آمین الحمد للہ خدا کے خلیفہ برحق کی دعا درگاہ عالی میں مقبول ہوئی اور آخر اکتوبر ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں حضرت مرزا سلطان احمد نے اعلان احمدیت کر دیا اور اس سلسلے میں مندرجہ ذیل بیان الفضل میں شائع کرایا : تمام احباب کی اطلاع کے لئے میں یہ چند سطور شائع کرتا ہوں کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے سب دعوؤں پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے دعوی میں صادق اور راستباز تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے معمور تھے جیسا کہ میرے ان مضامین سے آپ لوگوں پر ظاہر ہو چکا ہو گا جو سلسلہ احمدیہ کی خدمات کے متعلق میں شائع کرتا رہا ہوں مگر اس وقت تک بوجہ بیماری اور ضعف کے میں ان مسائل کے متعلق پورا غور نہیں کر سکا جس کے بارے میں قادیان اور لاہوری احمدیوں میں اختلاف ہے اور اسی وجہ سے اب تک اپنی احمدیت کا اعلان نہیں کر سکا مگر اب میں نے سوچا ہے کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے میں اس امر کا سردست اعلان کر دوں کہ میں دل سے احمدی ہوں.جب مجھے اللہ توفیق دے گا تو میں اختلافی مسائل پر غور کر کے اس امر کا بھی فیصلہ کر سکوں گا کہ میں دونوں جماعتوں میں سے کس کو حق پر سمجھتا ہوں.پس سر دست اپنے احمدی ہونے کا اعلان ان چند سطور کے ذریعہ سے کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے دوسرے سوال کے متعلق بھی اپنے پاس سے ہدایت فرمائے اور وہ راہ دکھائے جو اس کے نزدیک درست ہو.آمین.(خان بہادر ) مرزا سلطان احمد (خلف اکبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
ママ مرزا سلطان احمد صاحب لاہور میں بیمار تھے.تندرست ہو کر آئے ہیں.لیکن یہ خیال زیادہ غالب نہ تھا.ڈاکٹر صاحب کو اتنی شدید خوشی پہنچی جیسا شدید غم حضرت مسیح موعود کی وفات سے پہنچا تھا.یہ رویا سن کر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب بہت مغموم ہو گئے.آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور رقب قلب سے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب میرے لئے دعا کریں کہ میں بھی بقیہ حاشیہ - اس اعلان کے علاوہ آپ نے ایک ٹریکٹ الصلح خیر نامی شائع کیا جس میں تحریر فرمایا: ” میری عقیدت حضرت مسیح موعود کے ساتھ نہ صرف اس وقت سے ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کا دعویٰ کیا بلکہ ان ایام سے میں عقیدت رکھتا ہوں کہ جبکہ میری عمر بارہ تیرہ برس کی تھی.میں تصدیق کرتا ہوں اور صدق دل سے مانتا ہوں کہ میرے والد صاحب مرحوم کی ہستی ایسی عظیم الشان تھی جو اسلام کے واسطے ایک قدرتی انعام تھا.میں اپنے والد صاحب مرحوم مرزا غلام احمد صاحب کو ایک سچا انسان اور پکا مسلمان الموسوم سیح موعود علیہ السلام سمجھتا ہوں اور ان کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اپنے آپ کو اس رنگ میں ایک احمدی سمجھتا ہوں.آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیوں حضرت مولوی نورالدین صاحب یا میاں محمود احمد صاحب یا مولوی محمد علی صاحب کی بیعت نہیں کی.اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے کبھی اپنی زندگی میں باوجود اس کے کہ میرے والد صاحب مرحوم میری بعض کمزوریوں کی وجہ سے میرے فائدہ کے لئے مجھ پر ناراض بھی تھے اور میں اب صدق دل سے یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ ان کی ناراضگی واجبی اور حق تھی.باجود ان کی ناراضگی کے بھی میں نے کبھی اخیر تک بھی ان کے دعاوی اور ان کی صداقت اور سچائی کی نسبت کبھی کوئی مخالفانہ حصہ نہیں لیا.جس کو میرے احمدی اور غیر احمدی دوست بخوبی جانتے ہیں جو قریباً ۳۰ سال سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا میری صداقت ہوگی اور بائیں حالات کون کہہ سکتا ہے کہ میں ان کا مخالف یا ان کے دعاوی کا منکر ہوں.جب یہ حالت ہے تو مجھے کوئی یہ الزام نہیں دے سکتا کہ میں ان کا منکر تھایا ہوں..بیعت کیا چیز ہے ایک یقین اور صداقت کے ساتھ ایک مقدس انسان کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اور اس کے ساتھ ہی صدق دل سے خدا کو اس امر پر شاہد کرنا.پس میں اب تک اپنے
۱۴۵ انسانوں میں داخل ہو جاؤں.ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس وقت کی انکساری قبول فرمالی اور چند ہی دن بعد اپنے اہلِ بیعت کی تحریک پر آپ بیعت کے لئے آمادہ ہو گئے.ان کے اہل بیت نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے کہا.چنانچہ حضور ایدہ اللہ میرے ہمراہ مرزا صاحب کے مکان پر تشریف لائے لیکن ابتدائی مزاج پرسی کے بعد دونوں طرف غالباً شرم و حیا سے خاموشی طاری تھی.سوڈاکٹر صاحب نے مرزا صاحب کے ہاتھ پکڑ کر کہا کہ جیسا کہ آپ ظاہر کر چکے ہیں.آپ اب ہاتھ بڑھا ئیں اور بیعت کر لیں.چنانچہ انہوں نے برضاء ورغبت ہاتھ بڑھایا اور بیعت کر لی اور یہ عجیب شان نظر آئی کہ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے تو بہ کر رہا ہے اور آئندہ ان سے اجتناب کرنے اور نیک کاموں میں حضور کی فرمانبرداری کرنے کا عہد کرتا ہے.ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس رؤیا کے بعد مدت تک مجھے حضرت مسیح موعود کا چہرہ موقع بموقع بیداری میں ہی سامنے نظر آتارہا اور یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا اور حضور کا حسن و جمال جو اس وقت نظر آیا تھا.ذرہ ہی توجہ سے اب بھی نظر آنے لگتا ہے.شادی سیده ساره بیگم صاحبه بیان ڈاکٹر صاحب) حضرت سیّدہ امتہ الحئی صاحبہ کی وفات سے جو کمی یا رکاوٹ تعلیم نسواں کے سلسلہ میں نظر آتی تھی اسے دور کرنے کے لئے حضور نے ایک علمی خاندان کی ہونہار تفصیل کے لئے ڈاکٹر صاحب کا مضمون الفضل مورخہ !ار دسمبر ۱۹۴۰ء میں دیکھئے.ان کے قلمی سوانح میں بھی اس کی کچھ تفصیل موجود ہے.(مؤلف) بقیہ حاشیہ: والد صاحب مرحوم کو سچا مسیح موعود مانتا ہوں اور میرا خدا اس پر شاہد ہے میں اعلان اور اظہار کو بیعت یقین کرتا ہوں.“ قبول احمد بیت کا اعلان کر دینے کے بعد بیعت خلافت کا جو نازک ترین مرحلہ باقی تھا وہ بفضلہ تعالی ۲۵ دسمبر ۱۹۳۰ء کو بخیر و خوبی طے ہوا.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحه ۹۲ تا ۹۴ جدید ایڈیشن)
۱۴۶ خاتون کو جو سیدہ امتہ الحی صاحبہ مرحوم کی سہیلی تھیں اپنے نکاح میں لانے کے لئے سلسلہ جنبانی کی.غالباً اسوقت جب کہ تجویز قریباً پختہ ہو گئی تو حضور نے اچانک مجھے بھاگلپور جانے کا ارشاد فرمایا اور پہنچ کر محترمہ سارہ بیگم صاحبہ ( دختر حضرت مولا نا عبدالماجد صاحب کی ) صحت جسمانی معلوم کرنے کا ارشاد فرمایا لیکن مجھ پر روشن نہ تھا کہ یہ معائنہ صحت کس غرض سے کروایا جارہا ہے میں مارچ یا اپریل ۱۹۰۵ء میں بھاگلپور پہنچا اور صحت کے اچھا ہونے کی رپورٹ دیدی.چنانچہ چند روز بعد ہی حضور نے اپنے نکاح کا اعلان فرما دیا.حضور کی دعوت ولیمہ کا انتظام میرے سپر دہوا.ولادت مرزا حفیظ احمد صاحب ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: ۱۹۲۵ء میں جب رات کے درمیانی حصہ میں صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب سلمہ اللہ کی پیدائش ہوئی.اس وقت حضور نے مجھے اپنے پاس بلالیا کہ ڈاکٹر کا پاس ہونا مفید ہوتا ہے.جب خیریت سے پیدائش ہوگئی اور میں نے اپنے گھر جانے کی اجازت مانگی تو فرمایا یہیں سو جاؤ.حضرت صاحب کے سونے کا کمرہ تو دراصل وہ تھا جہاں حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ تھیں.جہاں میاں حفیظ احمد صاحب کی پیدائش ہورہی تھی.اس وجہ سے اس شب دوسرے کمرہ میں جو چھوٹے زینہ کے ساتھ ہے.حضور کا بستر زمین پر فرشی دری پر بچھا ہوا تھا اور فراخ تھا.لحاف بھی بڑا تھا.اس لئے حضور نے اپنے ساتھ ہی سلالیا.“ پرورش مرزا خلیل احمد صاحب ” بوقت وا پسی از یورپ عدن میں بذریعہ تار حضور کو صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب کی ولادت کی خوشخبری ملی.میں نے بے تارو برقی کے ذریعہ صاحبزادہ صاحب موصوف کی والدہ ماجدہ کو مبارکباد بھیجی.آگرہ میں حضور کو سیدہ امتہ الحی صاحبہ والدہ صاحبزادہ صاحب موصوف کی شدید علالت کی وجہ سے قادیان جلد پہنچنے کا تاکیدی تار ملا کہ آگرہ میں ایک دن کا قیام ملتوی کر کے حضور قادیان آجائیں.حضور نے اپنا تو پروگرام تبدیل نہ کیا.البتہ خاکسارکوفوراً قادیان روانہ فرما دیا.چنانچہ میں حضور سے قریباً تمیں گھنٹے پہلے قادیان پہنچ گیا اور اگلے روز حضور تشریف
۱۴۷ لے آئے لیکن موصوفہ کی بیماری زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی گئی.چنانچہ حضور کی واپسی کے دس گیارہ دن بعد وہ وفات پاگئیں.انا للہ و انا الیه راجعون.حضور کو بہت بڑا صدمہ پہنچا کیونکہ حضور کو ان کے وجود کے ساتھ مستورات کی علمی ترقی وابستہ نظر آتی تھی.ایسے حال میں مجھے حضور کے صدمہ کو کم کرنے اور صحت کو بحال رکھنے کی کافی کوشش کرنا پڑی.“ والدہ کی وفات کے بعد میاں خلیل احمد صاحب نہایت نحیف تھے.ان کا وزن صرف ساڑھے تین پونڈ تھا.اپنی نانی جان کے ہاں ان کے منشاء کے مطابق چلے گئے.عزیزہ قدیر بنت میاں رحمت اللہ صاحب سنوری ( ولد حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری) ان کے لئے دودھ پلائی اور نگہبان مقرر ہوئیں اور یہ عاجز بلحاظ طب کے خادم مقرر ہوا.مجھے کم از کم ایک بار اور بعض دفعہ تین بار تک میاں صاحب موصوف کو دیکھنے کے لئے حضرت خلیفۃ اسبح اول کے مکان میں جانا پڑتا اور یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا.یہ عجیب بات ہے کہ سفر یورپ کے دوران پیرس میں میں نے رویا دیکھا تھا کہ حضرت خلیفہ اول درس قرآن کریم دے کر مسجد اقصیٰ قادیان سے اپنے گھر کو واپس آنے لگے ہیں تو حضور نے مجھے اپنی بغل میں دبا لیا ہے اور اس حالت میں اپنے مکان کے اندر پہنچ کر مجھے صحن میں چھوڑ دیا ہے.سو یہ رویا اس رنگ میں پوری ہوئی.شادی اور وفات سیّدہ ام طاہر سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ سے فروری ۱۹۲۱ء میں شادی ہوئی.نکاح فجر کی نماز کے بعد ہوا.اسی روز نماز فجر سے قبل ڈاکٹر صاحب بیدار ہوئے تو آپ کی زبان پر یہ اشعار جاری ہوئے.دل مرا کیوں آج پھر مسرور ہے رنج و غم اس.اس سے ہوا سب دور ہے صبح دم وقت سحر سے وقت طلوع نور سے آکر ملا اک نور ہے ہو رہا ہے حسنِ یوسف کا ظہور وقت وقت طور ہے لا جرم یہ
۱۴۸ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ :- ”میرے لئے یہ شادی کیسی خوش آثار تھی کہ جب حضرت محمود دلہن کو لینے کے لئے تشریف لے گئے تو اس وقت محمود نے صرف اپنے اس ایاز کو ساتھ لیا اور یہ دو شخصوں پرمش ر مشتمل برات تانگہ پر سوار ہو کر دلہن کے گھر پہنچی اور دلہن کو رخصت کر الائے.“ سیدہ مرحومہ کی آخری علالت میں ڈاکٹر صاحب کو بھی لاہور کے قیام میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل رہی.سیدہ موصوفہ کی وفات پر بعد تجہیز و تکفین جنازہ لاری میں رکھا گیا تو حضور کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ نعش کے پاس قادیان تک بیٹھیں.جو آپ نے ادا کی حمید وفات حضرت سیدہ ام ناصر حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ جس مرض سے وفات پاگئیں.شدید علالت میں حضور نے ڈاکٹر صاحب کو ان کے پاس مری بھجوا دیا تھا جو وفات کے بعد ہی وہاں پہنچ سکے.حضور کے بعض سفر سوائے شاذ کے حضور کے تمام سفروں میں ڈاکٹر صاحب کو رفاقت نصیب رہی.۱۹۲۶ء میں ڈلہوزی میں حضور کا قیام پورٹ لینڈ ہال نامی کوٹھی میں ہوا جو کہ بکر وٹہ پہاڑی کے وسط میں تھی.اس سفر کے دوران حضور اور مولوی محمد علی صاحب کے درمیان خاص شرائط کے ساتھ مصالحت ہوئی اور دعوتیں ہوئیں.پہلے مولوی محمد علی صاحب حضور کے ہاں پھر حضور ان کے ہاں کھانا کھانے کے لئے گئے لیکن یہ صلح جلد ہی ختم ہوگئی اس لئے کہ پیغام صلح میں سخت مضامین جلد ہی شائع ہونے شروع ہو گئے.حالانکہ شرائط کی رو سے مضامین میں سختی بالکل روک دی گئی تھی.ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۲۷ء میں حضور قریباً تین ماہ شملہ میں جا کھو پہاڑ پر کنگز لے ل ۵ / مارچ ۱۹۴۴ء الفضل مورخہ ۴۴-۳-۱۲ میں حضرت مدوحہ کے شامل ڈاکٹر صاحب کی قلم سے لائق مطالعہ ہیں.(مؤلف)
۱۴۹ کوٹھی میں مقیم رہے.وہاں ایک کل ہند مشاعرہ میں حضور بھی تشریف لے گئے.جس میں حافظ عبدالرحمن صاحب پشاوری نے حضور کی نظم.ساغر حسن تو ہے کوئی مے خوار بھی ہو.سنائی تھی.جو بہت پسند کی گئی.حضور شیخ پر کرسی پر رونق افروز تھے اور آپ کے قریب نواب صاحب بہاولپور تشریف رکھتے تھے حملے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت گذشتہ اوراق میں اس امر کا ذکر ہو چکا ہے کہ کس طرح قابل رشک رنگ میں ڈاکٹر صاحب کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طبی خدمات کے موقع میسر آئے.ذیل میں ایک امر درج کیا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور کے ذمہ جو فرائض ہیں علیل ہونے پر ان کی سرانجام دہی کے باعث حضور پوری طرح علاج نہیں کروا سکتے تھے.حضور کی شان یوں معلوم ہوتی ہے کہ ایک فوج دشمن سے نبرد آزما اور برسر پیکار ہو اور اس کے جرنیل کو بوجہ علالت کہہ دیا جائے کہ آپ کام نہ کریں.بھلا یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ جرنیل ایسی پابندی قبول کر لے.جب کہ اس کے احکام پر ہی ساری فوج بلکہ قوم کے مستقبل کا انحصار ہے.خواہ عدم پابندی کی صورت میں اس کی صحت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ درپیش ہو.دجالی فتنہ سے آخری لڑائی میں عہدہ برآ ہونا کوئی سہل امر نہیں.احمدیت کی حضور کے عہد میں بے مثال ترقی کا راز حضور ہی کی محنت توجہ، انہاک ، چوکسی اور تضرعات میں ہے.حضور نے جماعت کو جس رفیع مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور قربانی جیسا ذوق پیدا کر دیا ہے یہ حضور کی سیرت کا ایک درخشندہ باب ہے.پھر ایسے بیدار مغز ، ذہین و فہیم اور معروف الاوقات اور خود طب سے واقف وجود کے ساتھ جس کا معیار ہرامر میں نہایت ارفع و اعلیٰ ہے، بیالیس سال خدمت کی توفیق پانا ڈاکٹر صاحب پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے.حافظ صاحب صحابی اور درویش مقیم قادیان خلف احمد جان صاحب پشاوری (صحابی ) بیان کرتے ہیں کہ وہاں اور نظم سنانے کا بھی مقابلہ ہوا.جس پر، از نور پاک قرآں صبح صفار میده والی نظم حضرت مسیح موعود کی میں نے سنائی تھی.(مؤلف)
۱۵۰ سفر یورپ ۱۹۵۵ء ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ :- میری طبی خدمت کا سلسلہ گو اس وقت تک جاری ہے لیکن کی ذمہ داری ۱۹۵۴ء تک رہی.جب تک میں نو ر ہسپتال کا انچارج رہا.پھر مکرم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب انچارج ہو گئے.اس لئے حضور کی صحت کی نگرانی بھی لازماً آپ کے ذمہ آ گئی کیونکہ بفضلہ تعالی لائق فائق ہونے کے علاوہ حضور کے فرزندار جمند بھی ہیں اور عمر کے لحاظ سے بھی ذمہ داریوں کے کام سنبھالنے کے لائق ہیں لیکن اس کے باوجود حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت اس خاکسار کو بھی اپنے ساتھ ہی رکھا اور مئی ۱۹۵۹ء تک حضور کے علاج کے عملی حصہ میں مثلاً ٹیکے وغیرہ کرنے میں میرا ہی حصہ رہا.جب حضور ۱۹۵۵ء میں بغرض حصول طبی مشورہ یورپ تشریف لے جارہے تھے تو سفر سے دس بارہ روز قبل حضور کو علم ہوا کہ میرا پاسپورٹ تیار نہیں کرایا گیا.اس پر حضور سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اگر ان کا پاسپورٹ نہ بنا تو میں بھی نہ جاؤں گا.خواہ میرا دو لاکھ روپیہ بھی کیوں نہ خرچ ہو گیا ہو.سفر پر روانگی کے وقت قافلہ دوحصوں میں تقسیم کیا گیا.ایک حصہ سیدھالنڈن گیا جن میں حضور کے گھر کے افراد اور خاکسار تھا اور دوسرے قافلہ میں خود حضور شامل تھے ید پہلے قافلہ میں یہ افراد شامل تھے.سیدہ ام ناصر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مع بیگم صاحبہ اور صاحبزادی خورد، صاحبزادگان مرزار فیق احمد صاحب، مرزا خلیل احمد صاحب، مرزا حنیف احمد صاحب، مرزا طاہر احمد صاحب ، سید داؤد احمد صاحب خلف حضرت میر اسحاق صاحب ، صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ اور سید قمر احمد صاحب، سیدہ ام وسیم احمد صاحبہ اور صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب.دوسرے قافلہ میں حضور کے ہمراہ ذیل کے افراد تھے.سیدہ ام متین صاحبہ، صاحبزادی امتہ المتین، سیده بشری بیگم صاحبہ، صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ، صاحبزادی امتہ الجمیل بیگم اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بالقابہ ( بیان ڈاکٹر صاحب)
۱۵۱ حضور غالبا ۲۸ را پریل کو دمشق ، وہاں سے روم پھر جنیوا اور وہاں سے ۸ مئی کو زیورچ پہنچے جہاں حضور نے معائنہ اور علاج کروانا تھا.حضور نے دمشق سے ہی میرے نام ارشاد بھجوادیا کہ ۸ مئی تک زیورچ پہنچ جاؤں میں 9 کو پہنچ سکا.وہاں حضور چار ہفتے کے قیام کے بعد دیگر ممالک یورپ میں سے ہوتے ہوئے ۲ جولائی کولنڈن پہنچے.حضور نیورمبرگ جرمنی میں دو تین روز کے لئے قیام پذیر تھے کہ ایک شب حضور کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی.اس وقت میں مردانہ پارٹی میں بیٹھا شام کا کھانا کھانے لگا تھا.جس پارٹی میں ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور چوہدری عبد اللطیف صاحب مبلغ جرمنی بھی تھے.ابھی کھانا شروع ہی ہوا تھا کہ حضور نے خاکسار کو اپنے کمرہ میں جس میں حضور اور سیدہ ام متین اور سیدہ بشری بیگم بھی تھیں بلالیا اور اپنی گھبراہٹ اور بے چینی کی شکایت کی.جب میں دیکھ چکا اور دوائی دے دی تو حضور نے فرمایا کہ آپ اسی کمرہ میں میرے پاس ٹھہریں اور میرا بستر فرش پر لگوا دیا اور دونوں خواتین استراحت کرنے لگیں.چونکہ میں نے کھانا چکھا تک نہ تھا اس لئے بیرہ دو دفعہ مجھے بلانے آیا مگر میں حضور کو چھوڑ کر جانہ سکتا تھا.آخر میں نے بیرہ سے کہدیا کہ میرے لئے کچھ کھانا برآمدہ میں رکھ دو اگر موقع ملا اور حضور کو نیند آ گئی تو کچھ کھالوں گا اور نہ خیر.چنانچہ بارہ بجے رات کے قریب مجھے کھانا کھانے کا موقع مل گیا.جبکہ حضور کو نیند آ گئی میری تمام رات پاس ہی سوتے جاگتے گذری.اس وقت مجھے سمجھ آیا کہ حضور مجھے کیوں اس قدر اصرار کے ساتھ سفر پر لائے تھے.لندن کے قیام کے دنوں میں حضور کا طبی معائنہ ڈاکٹر سر چارلس سائمنڈ نے کیا اور انہوں نے یہ بتلایا کہ حضور کو Thrombosis of Carroted Artery ہوا جس سے حضور کو سخت گھبراہٹ ہوئی لیکن خاکسار نے واضح دلائل سے ثابت کیا کہ یہ تشخیص محض قیاس ہے یقینی نہیں جس سے حضور کو ایک گونہ تسلی ہوگئی.انہی ایام قیام لنڈن میں حضور کی رخسار کی ہڈیوں کے اندر درد کی تکلیف پیدا ہوگئی.ناک اور گلے کے ماہر چوٹی کے ڈاکٹر نے ایکسرے کے نتیجہ کے پیش نظر ہڈی کے اندر کے خلا سے سوا
۱۵۲ داخل کر کے اندر کے مواد کا باہر نکال لینا تجویز کیا لیکن خاکسار نے اپنے تجربہ کی بناء پر حضور کو Catarrhalvaccine کے ٹیکے کرنے شروع کر دئے.جس سے مرض میں کسی قدر کمی تو محسوس ہوئی لیکن جب کئی ڈاکٹروں نے سو ا لگوا لینے کا مشورہ دیا تو حضور نے ایک اور ماہر سے مشورہ لینا چاہا اور دوبارہ ایکسرے بھی ہوا.اس دوسرے ماہر کا بھی یہی مشورہ تھا اور یہی مشورہ مکرم ڈاکٹر محمد بشیر صاحب کا پاکستان سے آیا لیکن میں مصر تھا کہ اس تکلیف دہ علاج سے پہلے ویکسین کے ٹیکوں کا نتیجہ دیکھنا چاہئے اور دوسرے ماہر نے اس کی اجازت بھی دیدی.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹیکوں سے ہی بغیر اپریشن افاقہ ہو گیا.برکات معیت یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ ایک نہایت بابرکت وجود کی طویل معیت بے شمار برکات کا موجب ہوتی ہے.اخلاق فاضلہ سیکھنے اور برکات دیکھنے کا موقع ملتا ہے.ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ڈلہوزی میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی طرف سے جو اس وقت لنڈن میں مبلغ تھے تار آیا کہ انہوں نے وہاں مسجد کے لئے جگہ خرید لی ہے.حضور کو اس سے بڑی خوشی حاصل ہوئی اور مجلس مشاعرہ کی تجویز ہوئی اور ایک اونچے ٹیلہ پر جس کا نام ”ویان گنڈ ہے.حضور تشریف لے گئے.آپ کی معیت میں تمام اہلِ قافلہ بھی تھے اور حسب تجویز ہر ایک نے اپنی لکھی ہوئی نظم یکے بعد دیگرے پڑھ کر سنائی.۱۹۶۰ء میں حضور ڈلہوزی قیام فرما تھے.ڈاکٹر صاحب ذکر کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نے بعض ساتھیوں کو ہمراہ لے کر دو تین میل کے فاصلے پر جنگل میں جا کر دورکعت نماز با جماعت ادا کر کے دعا کی.باوجود یکہ حضور کو انفلوئنزا کے گذشتہ جملہ کی وجہ سے کمزوری لاحق تھی اور قریب میں بخار کا حملہ بھی ہو چکا تھا مگر دعا کے لئے اس قدر لمبے سجدے حضور نے کئے کہ مقتدی تھک تھک گئے.ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد وقت میں حضور نے دورکعت نماز ختم کی.
۱۵۳ موجودہ قرب ومعیت یورپ سے واپسی پر (اواخر ۱۹۵۵ء) ڈاکٹر مرزا منوراحمد صاحب دیگر ڈاکٹروں کے مشورہ سے حضور کا علاج کرتے ہیں اور سفر و حضر میں میری معیت کو بھی انہوں نے جاری رکھا ہے.مئی ۱۹۵۹ء سے خاکسار حضور کی رہائش کے ساتھ والے کمرہ میں قصر خلافت میں ہی دن رات چوبیس گھنٹے گزارتا ہے اور یہ سوانح بھی اس جگہ ضبط تحریر میں لایا ہوں.گویا اکتوبر ۱۹۶۰ء میں جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے مجھے اکسٹھ سال اور خدمت گذاری میں بیالیس سال ہو جاتے ہیں.ذالک فضل الله يوتيه من يشاء التجا به درگاه الهی ”حضرت ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ میری بس یہی تمنا ہے کہ مولیٰ راضی ہو جائے اور انجام بخیر ہو.میری اس دعا کی خواہش چھٹین کی ہے جب کہ میں غالباً چھٹی جماعت کا طالب علم تھا.اس وقت کا واقعہ ہے کہ ایک روز میرے ایک ہم عمر ساتھی نے جن کا نام محمد افضل صاحب قریشی پٹیالوی حال علی پور ضلع مظفر گڑھ ہے اور ہم دونوں حضرت سعدی علیہ الرحمۃ کی کتاب گلستان ایک استاد سے پڑھا کرتے تھے کہا کہ چلو مشاعرہ کریں اور کسی جگہ سے پڑھا ہوا طرح مصرعہ دیا.ہم غریبوں پر تری اک مہربانی چاہئے نہ معلوم میرے ساتھی نے کیا شعر کہے لیکن میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل شعر ڈالے جو اس کا خاص فضل تھا جو بطفیل غلامی حضرت مسیح موعود علیہ السلام حاصل ہوا.یہ چند ٹوٹے پھوٹے بے قاعدہ سے شعر چھوٹی عمر میں زبان سے نکلنا اور ایک مضمون ایسا ہونا کہ آج بھی دل سے یہی نکلتا ہے.تصرف الہی ہے.ہم تو بندے ہیں ترے عاجز ، غریب وبے نوا ہم غریبوں پر تری اک مہربانی چاہیے
۱۵۴ کوئی بھی بچتا نہیں یاں گردشِ ایام سے فضل کی تیرے ہی برکت شامل آنی چاہیے اس جہانِ فانی سے کچھ بھی ہے نہیں لے جانا ساتھ اک سند تیری رضا کی ہم کو پانی چاہیے کچھ نہیں مقصود یاں اس تنگنائے دہر میں اک جھلک تیری نگاہ کی ہم کو آنی جب کہ گذری ہو گناہوں میں میری یہ سب عمر چاہیے کیوں نہ تیری ذات سے پھر شرم آنی چاہیے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان پر خاتمہ فرمائے اور جس طرح اس دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی اور حضرت مصلح موعود کی معیت حاصل رہی اگلے جہان میں بھی.زیارت اور یہ معیت حاصل رہے اور پھر ان ہر دو وجودوں کے طفیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ رب اعلیٰ اور وحی و قیوم کا دیدار نصیب رہے اور انہی انعامات کا میری اولاد در اولا دکو تا قیامت وافر حصہ ملتا رہے.آمین.میں اپنے مشاہدہ اور تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمداً عبده ورسوله.اللہ تعالیٰ میرا خاتمہ اس کلمہ پر کرے.آمین یا ارحم الراحمین.66
۱۵۵ ا : حوالہ جات آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۹ آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۹ آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۵ آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۹ صحیح مسلم باب بیان حکم عمل الكافراذا اسلم بعده : سنن الترمذی کتاب الذھد.باب ماجاء فی ذهاب البصر ے: الفضل ۱۸/جنوری ۱۹۱۹ء صفحه ۲ : الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۳۸ء و الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۴۰ء : الحکم ۷ ستمبر ۱۹۲۴ء !!: الحکم ۲۱ اپریل ۱۹۱۴ء ۱۲: رؤیا کشوف سید نامحمود صفحه ۱۹ ۱۳ آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۴ براہین احمدیہ حصہ چہارم - روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲۶ ۱۵: تذکره صفحه ای ۵ طبع ۲۰۰۴ء : تذکره صفحه ۳۹ طبع ۲۰۰۴ء کا تذکرہ صفحه ۶۳۱ طبع ۲۰۰۴ء كا
۱۵۶ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴ ۳۰ - ۳۰۵ 19: الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵-۳۰۶ ۲۰: تذکره صفحه ۴۹۶ طبع ۲۰۰۴ء بدر ۱۱؍ جولائی ۱۹۱۲ء صفحریه ک۳ ۲۲: البقره : ۱۰۷ ۲۳ تحریک جدید کے پنج ہزاری مجاہدین صفحہ ۶۸ - ۶۹ ۲۴: البدر ۱۶ اپریل ۱۹۰۴ء صفحه ۵ ۲۵: الفضل ۲ نومبر ۱۹۱۸ء ۳۶: الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۱۹ء ۲۷: الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۲۴ء
۱۵۷ اصحاب احمد پر تبصرے ذیل میں بزرگان کرام سے لے کر سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ تک کے تبصرے درج کئے جاتے ہیں.اخویم شیخ مبارک احمد صاحب رئيس التبلیغ مشرقی افریقہ اخویم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق امام مسجد لنڈن ، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجہ ربوہ کے تبصرے مجھے افسوس ہے کہ محفوظ نہیں رکھ سکا اور محترم میجر شیم احمد صاحب سابق قائد مجلس خدام الاحمدیہ کراچی ) کا ایک مبسوط اور مفید تبصرہ اصلح کراچی بابت ۲۳ /ستمبر ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا تھا.جو قلتِ گنجائش کی وجہ سے یہاں درج نہیں کیا جاسکا.اصحاب احمد کی ایک سابقہ جلد میں درج کر چکا ہوں.(1) حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت سابق صوبه سرحد آپ تحریر فرماتے ہیں :- وو.....حالات مختصر صورت میں جمع کرنے میں کاوش طبع سے کام لیا ہے.سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم یعنی میرے اصحاب ستارے ہیں.ان میں سے جس کی اقتدا کرو گے.ہدایت پاؤ گے.اسی طرح حضرت احمد قادیانی نے فرمایا ہے:..صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا.پس ان حالات کا جمع کرنا اور شائع کرنا جماعت احمدیہ کی آنے والی نسلوں کے واسطے موجب ازدیاد ایمان عرفان ہوں گے اور دعوت وتبلیغ میں مد ہو نگے.اس کمی کو پورا کرنے کا عملی ثبوت ملک صلاح الدین صاحب نے دیا.جزاہ اللہ احسن الجزاء...دار مسیح اور مساجد قادیان
۱۵۸ وغیرہ کے نقشوں نے کافی محنت لی ہے اور ایک ضروری ریکارڈ محفوظ کر لیا ہے.موقع بر موقع صحابہ کی تصاویر بھی شامل ہیں.جن پر ضرور بڑا خرچ آیا ہے.کتاب کو پڑھ کر دل مسرور اور محفوظ ہوا اور بے اختیار ملک صاحب موصوف کے حق میں دعا نکلی اللہ تعالیٰ ان کو عمر دراز صحت کامل اور ہمت عالیہ دے کہ وہ اس سلسلہ کو تکمیل تک پہنچاسکیں (از جلد۲) (۲) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی آپ تحریر فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.تصنیف کے بعض پہلوؤں کے لحاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے اس کارخیر میں بہت ہی بڑی محنت اور جدو جہد سے کام لیا ہے.“ ( از جلد۲) (۳) حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہان پوری آپ نے تحریر فرمایا: - میں اس نہایت مفید تالیف پر بڑی مسرت سے آپ کو مبارک باد دیتا ہوں.اللہ کرے زور قلم اور زیادہ بعض صاحبوں نے اس کی ترتیب کے متعلق مجھ سے کلام کیا ہے....بڑی ہستیوں کے حالات لکھنے پر تو بہتوں کو توجہ ہو سکتی ہے.مگر جو لوگ زیادہ شہرت نہیں رکھتے ان کی طرف توجہ کرنے والے بھی کم ہوتے ہیں اور ان کے حالات کا علم بھی کم لوگوں کو ہوتا ہے.اگر ان کے حالات نہ محفوظ کر لئے جائیں تو اکثر رہ جاتے اور پھر محفوظ نہیں کئے جاسکتے.( از جلد۲) (۴) حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب معالج خصوصی سید نا حضرت خلیفہ مسیح لثانی ایدہ اللہتعالی دو خطوط میں تحریر فرماتے ہیں:.” اصحاب احمد کی جلد ہفتم موصول ہوئی جزاک اللہ اللہ تعالیٰ آپ کے کاموں میں برکت دے.موجب فلاح دارین بنائے.“
۱۵۹ (۵) اخویم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ تحریر فرماتے ہیں:.سید نا حضرت مسیح موعود کے مقدس صحابہ کے حالات جمع کر کے محفوظ کرنا اتنا عظیم المرتبہ کام ہے کہ جس کے باعث آپ کا نام قیامت تک عزت کے ساتھ لیا جائے گا.مبارک ہو.مبارک ہو.“ (۶) حضرت سید و نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ آپ تحریر فرماتی ہیں :- یہ کام آپ کا تاریخ احمدیت میں قیامت تک یادر ہے گا.اس سے فائدہ اٹھانے والے آپ کو مسلسل ثواب پہنچانے والے ثابت ہوں گے.انشاء اللہ.اس قسم کی کتب جو دراصل تاریخ ہیں.آئندہ نسلوں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوہرا اجر دینا ہے.انشاء اللہ.ایک تو قادیان کی بابرکت رہائش اور پھر اس ضمن میں یہ شاندارخدمات.جزاکم اللہ احسن الجزاء‘( جلد۲) (۷) حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ آپ نے تحریر فرمایا: - اللہ تعالیٰ آپ کے کام اور محنت اور ارادوں میں برکت دے اور یہ مبارک کام اس کی نصرت سے احسن طور پر آپ کے ہاتھوں سے انجام کو پہنچے اور ہمیشہ ہمیش تک دنیا کے لئے بابرکت اور آپ کے لئے ثواب خیر کا موجب ہو.آمین.“ (۸) مؤقر روزنامه «الفضل یہ روز نامہ رقمطراز ہے:- اب تک احمد یہ لٹریچر میں کوئی ایسی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی.جس میں حضرت
۱۶۰ مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے سوانحی حالات ایک جگہ مرتب کئے گئے ہوں.اس ضرورت کو ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ناظر تعلیم و تربیت قادیان نے محسوس کیا اور عرصہ دراز کی محنت و کاوش کے بعد اصحاب احمد کے نام سے صحابہ مسیح موعود کا تذکرہ بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا.یہ اس مقدس تذکرہ کی پہلی جلد ہے.جس میں چودہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مفصل و مکمل حالات، آٹھ عدد تصاویر، قادیان کے مقدس مقامات کے پندرہ نقشے اور حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز و حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے کئی خطوط کے عکس شامل ہیں.بحیثیت مجموعی کتاب نہایت دلچسپ اور سبق آموز ہے.یہ عظیم الشان کام اگر اس وقت نہ کیا جاتا تو پھر کبھی اس کے ہونے کی امید نہ تھی.اللہ تعالیٰ ملک صلاح الدین صاحب کو جزائے خیر دے.جنہوں نے اس کی ترتیب و تالیف میں پہلے کافی محنت برداشت کی اور پھر بڑی مشکلات اٹھا کر دو ہزار روپیہ اس کی طباعت اور تیاری میں خرچ کیا.جب جا کر یہ نایاب چیز زیور طبع سے آراستہ ہوسکی.اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر احمدی کے گھر میں یہ کتاب ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس صحابہ کے ذاتی حالات سے ہر شخص نصیحت اور سبق حاصل کرے اور ان کی زندگیوں کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائے.“ (الفضل ۲۱ ؍ جولائی ۱۹۵۱ء) (۹) حضرت مولانا شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی آپ تحریر فرماتے ہیں :- 66 " مجھے یہ معلوم کر کے از بس مسرت ہوئی کہ عزیز مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے مولوی فاضل نے حالات صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اشاعت کا آغاز کیا ہے.جزاہ اللہ احسن الجزاء‘“ میری ہمیشہ سے خواہش رہی کہ حالات صحابہ قلمبند ہوں.میں اس کی تحریک ۱۸۹۸ء سے کرتا آیا ہوں اور یہ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ چاہتے تھے اور میں
۱۶۱ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات کو پڑھتا اور ان کے محفوظ رکھنے میں ہمارے اسلاف نے جو کوشش کی ہے اس کو دیکھتا تو میں شرمندہ ہوتا کہ اس زمانہ میں جب کہ پریس اور اشاعت کی سہولتیں نہ تھیں.انہوں نے کسی محنت اور کوشش سے حالات کو جمع کیا اور محفوظ کر دیا.اس زمانہ میں جب کہ ہر قسم کی سہولتیں میسر ہیں ہم اس کام کو نہ کر سکے.اگر چہ میں اپنے قلب میں گونہ مسرت و اطمینان پاتا ہوں کہ الحکم کے ذریعہ اور الفضل میں بھی میرے قلم سے جلیل القدر صحابہ کے حالات شائع ہوئے ہیں.اگر چہ وہ بطور مواد کے ہیں اور میں چاہتا تھا اور چاہتا ہوں کہ بعض اکابر صحابہ کے تفصیلی حالات لکھوں.اس لئے میں ہر اس کوشش کا احترام کرتا ہوں جو اس راہ میں کی جاوے.میں عزیز مکرم ملک صلاح الدین صاحب میں اس کی اہلیت کو محسوس کرتا ہوں اور ان میں اس جذ بہ اور جوش کو پاتا ہوں.علاوہ ازیں وہ نوجوان ہیں.فاضل اجبل ہیں.ریسرچ کا شوق ہے.وہ اس کام کو خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتے ہیں.میں پسند کرتا کہ اس مجموعہ کو طباعت سے پہلے مجھے بھی دکھا دیتے لیکن بایں ہمہ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنی انتہائی محنت سے حالات کو جمع کیا ہوگا اور مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ انہیں الحکم سے بھی استفادہ کا موقع ملا.اس کو مبارک سمجھتا ہوں کہ میں اس ثواب میں انشاء اللہ شریک ہوں گا.میں اللہ تعالیٰ سے ان کی صحت و توانائی اور اس کام کے لئے توفیق اور کامیابی کی دعا کرتا ہوں اور احباب جماعت سے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میرا بھی کوئی حق ان کو کہنے کا ہے اور شکر گذار جماعت اس کو مجھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے لئے وہ نعمت مہیا کرنے کا شرف دیا جو ایک بے نظیر روحانی دولت ہے تو میں ان سے اور صرف ان سے جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہتا ہوں کہ اس نوجوان کی ہمت افزائی کریں اور اس سلسلہ حالات صحابہ کی اشاعت میں اس کے معاون ہوں.یہ سلسلہ کا کام ہے اور علمی کام ہے اور میں ایک بصیرت کے ساتھ سمجھتا ہوں کہ صلاح الدین اس کا اہل ہے.اللہ کرے کہ میری آواز بیدار دلوں تک پہنچے اور ان میں قوت عمل پیدا ہو.صلاح الدین صاحب اپنی ہمت بلند کریں اور اس کام کو اس نیت سے کریں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
۱۶۲ کی ایک خواہش کو پورا کرنا ہے.میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس خصوص میں میرا دماغی فکر ملک صلاح الدین صاحب نے کم کر دیا ہے.جزاہ اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والآخرہ.“ سلسلہ عالیہ احمدیہ کا قدیم خادم شیخ یعقوب علی مؤسس الحکم ( از اصحاب احمد جلد اوّل) اصحاب احمد جلد دوم کے متعلق آپ نے رقم فرمایا:- اصحاب احمد کی پہلی جلد کی اشاعت پر میں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا.میں نے اس ضرورت کو ہمیشہ محسوس کیا مگر میرے مختلف مشاغل اور عوائق نے اس سلسلہ کو تعویق میں رکھا.اگر چہ الحکام کے ذریعہ بہت سے صحابہ کے حالات قلم بند بھی ہوئے مگر ضرورت تھی کہ مستقل طور پر ایک سلسلہ تالیفات اس خصوص میں ہو.میں جب ائمہ سلف کی خدمتوں اور کوششوں کو دیکھتا تو میر اسرندامت سے جھک جاتا کہ انہوں نے باوجود ہر قسم کی مشکلات کے صحابہ کرام کے حالات کو محفوظ کیا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ملک صلاح الدین صاحب کو نوازے کہ انہوں نے میرے قلب پر جو بوجھ تھا اسے دُور کر دیا.میں نے ان کے ساتھ تعاون کو خوش قسمتی اور سعادت یقین کیا.میں یقین رکھتا ہوں کہ مجھے اس نیت کا جو پہلے سے حالات صحابہ کے جمع کرنے اور شائع کرنے کی رکھتا آیا ہوں.اجر ملے گا.مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے عملاً ( خواہ کتنا ہی خفیف ہو ) حصہ لینے کا موقع مل گیا.جلد دوم کے مسودہ جات کی میں نے نظر ثانی محبت اور اخلاص سے کی اور مفید مشورے اور معلومات دینے میں لذت محسوس کی.میں تالیف کی مشکلات سے خوب واقف ہوں اس لئے کہ عمر گذری ہے اسی دشت کی سیاحی میں جیسا کہ عزیزم مکرم ملک صاحب نے مشکلات کا اظہار کیا ہے.یہ حقیقت ہے.اس قسم کے کام قومی تعاون اور فراخدل دوستوں کی اعانت سے آسان ہوتے ہیں.مگر یہاں تالیف ہی نہیں.اس کی طباعت کے اخراجات کا فکر سب سے زیادہ ہوتا ہے.میں اس کتاب کے پڑھنے والوں کو کہوں گا کہ اس کام میں دلچسپی لیں.اول تو خود صدرانجمن کے صیغہ تالیف واشاعت کو
۱۶۳ سر پرستی کرنی چاہئے لیکن احباب کو اس امید پر نہیں رہنا چاہئے جیسا کہ ملک صاحب نے لکھا ہے کتاب کی پوری فروخت بھی سرمایہ کا ذریعہ نہیں ہوسکتی.اس لئے اس کے لئے خاص طور پر ضرورت ہے کہ وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے دل دیا ہے اور پھر مال بھی دیا ہے وہ اس مقصد کے لئے آگے بڑھیں.میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ملک صاحب کو اس کام کے لئے فارغ کر دیا جائے اور دوسرے کام کسی اور صاحب کے سُپر دہوں.بہر حال میں ملک صاحب کی کوشش اور محنت کا عینی گواہ ہوں اور میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس وقت اس کام کو وہی خوش اسلوبی سے کر سکتے ہیں.ان میں مذاق تحقیق ہے مجھے اس سے بھی خوشی ہوئی کہ انہوں نے بعض غیر مطبوعہ مکتوبات کو جمع کیا ہے.ان کے عکس دینے کا کام بہت پسندیدہ ہے.میرے زیر نظریہ تھا.چنانچہ الحکم جو بلی نمبر میں اس کی طرف اشارہ بھی تھا.میں تو چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی جس قدر تحریریں مل سکتی ہیں ان سب کے فوٹو لے کر بلاک بنوائے جائیں.میں نے لنڈن کے میوزیم میں پرانے مخطوطات کے فوٹو ز دیکھے.ایک علم نواز علم دوست قوم کے لئے یہ چیزیں ضروریات زندگی میں سے ہیں.بالآخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے محترم ملک صلاح الدین صاحب کو صحت و توانائی دے اور اشاعت حالات صحابہ کے لئے ہر روک کو دُور کر دے.میں اپنی ہر اعانت کے لئے خوشی محسوس کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر کہ میری دیرینہ آرزو اس رنگ میں پوری ہو رہی ہے اور میں اس طرح پر دوسری تالیفات کے لئے وقت دے سکوں گا.وباللہ التوفیق.“ از صحاب احمد جلد دوم ) مکتوبات اصحاب احمد کے تعلق میں آپ نے رقم فرمایا: - مجھے یہ معلوم کر کے از بس خوشی ہوئی کہ ملک صلاح الدین صاحب نے اصحاب احمد کے تذکروں کے سلسلہ میں اکابر صحابہ کے مکتوبات کو جمع کر کے شائع کرنے کا انتظام کیا ہے جزاہ اللہ احسن الجزاء.جیسے صحابہ کے تذکروں کی تدوین اور اشاعت ضروری ہے.ان کے مکتوبات ( جو اہم دینی مسائل اور بعض خاص واقعات کے امین ہیں ) کی حفاظت اور اشاعت
۱۶۴ بھی نہایت ضروری ہے.اس قسم کی دستاویزات سلسلہ کی بہت بڑی مقدس امانت ہیں.چنانچہ مکتوبات اصحاب احمد کی پہلی جلد تیار ہے اور کچھ تعجب نہیں کہ اصحاب احمد جلد دوم کے ساتھ شائع ہو جائے.میں نے اس کے بعض پروف دیکھے ہیں بالکل نایاب مکتوبات ہیں.حضرت خلیفہ اسی اول حضرت حجتہ اللہ نواب محمد علی خاں صاحب ، حضرت ام المومنین نور اللہ مرقدہا، حضرت مخدوم الملتہ مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطوط ہیں اور بعض کے چربے بھی دیئے گئے ہیں.یہ جماعت کا تاریخی سرمایہ ہے.اس کی حفاظت اور اشاعت بہت بڑا کام ہے.میں اس کی قدرو قیمت کو سمجھتا ہوں اور ہمیشہ میں نے یہ کوشش کی کہ جہاں تک ممکن ہو تاریخ سلسلہ کے قیمتی اوراق کو محفوظ کیا جاوے.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے عزیز ملک صلاح الدین صاحب کو.انہوں نے بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے ان قیمتی اور اق اور نایاب جواہرات کو جمع کیا ہے.ہر جماعت کو اس کی متعدد کا پیاں خرید کر محفوظ کرنی چاہئیں.میں نے جب سب سے اول سالانہ جلسہ ۱۸۹۷ء کی رپورٹ شائع کی.جس میں حضرت اقدس اور بزرگانِ سلسلہ کی تقریر یں تھیں تو حضرت چوہدری رستم علی خاں صاحب نے اس کی غالباً میں جلد میں خرید کر تقسیم کیں اور لکھا: ؎ جمارے چند دادم جان خریدم بحمد الله عجب ارزان خریدم آج ان خطوط کی قیمت کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا جو چند سکوں میں جماعت کو مل رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایک نوجوان کو یہ جوش عطا کیا ہے.جماعت کو چاہئے کہ اس کی حوصلہ افزائی کرے تا کہ یہ کام جاری رہے بالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عزیز موصوف کی عمر علم اور قوت عمل میں برکت دے اور اسے ایسے سامان مہیا کر دے کہ یہ کام تکمیل پاتار ہے.التھم آمین ) مکتوبات اصحاب احمد جلد اوّل)
(۱۰) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب آپ نے اصحاب احمد جلد اول کے متعلق تحریر فرمایا :- کتاب بہت خوب ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاص اور محنت کو قبول فرمائے اور اس کی اشاعت کو مثمر ثمرات حسنہ بنائے.آمین.(ماخوذ از جلد دوم) پھر تحریر فرمایا : - ”آپ کی تصنیف اصحاب احمد مجھے مل گئی ہے.جزاکم اللہ بہت اچھی اور محنت سے لکھی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس محنت کا اجر عطا فرمائے.(ماخوذ از جلد دوم) آپ نے ذیل کے مکتوب بھی ارسال فرمائے:.بسم الله الرحمن الرحيم مکرمی محترمی ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا مرتب کردہ رسالہ اصحاب احمد جلد چہارم ملا.وہ اتنا دلچسپ اور ایمان افروز تھا کہ میں اسے ختم کرنے کے بعد سویا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کے حالات زندگی اور روایات بہت ہی دلکش اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اخلاق حسنہ پر غیر معمولی روشنی ڈالنے والے ہیں.اس میں بعض روایات حضرت عرفانی صاحب مرحوم کی بھی ہیں.اُن کے قریب وفات کی وجہ سے اس حصہ کی تاثیر اور بھی زیادہ ہوگئی ہے.میرے خیال میں اس رسالہ کی وسیع اشاعت ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائے.فقط.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد - ربوه - (۱۰؍ دسمبر ۱۹۵۷ء )
۱۶۶ (۱۱) سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۵۵ء کے جلسہ سالانہ میں فرمایا:- صحابہ فوت ہو رہے ہیں.پچھلے لوگوں کو دیکھو.باوجود یکہ ان لوگوں میں اتنا علم نہیں تھا.انہوں نے اس چیز کی بڑی قدر کی اور صحابہ کے حالات پر بڑی بڑی ضخیم کتا بیں دس دس جلدوں میں لکھیں.ہمارے ہاں بھی صحابہ کے حالات محفوظ ہونے چاہئیں.ملک صلاح الدین صاحب لکھ رہے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں.میں مقروض ہو گیا ہوں لیکن کم سے کم احمدیوں کو چاہئے تھا کہ اپنے آباء کے نام یاد رکھتے.آپ لوگ تو قدر نہیں کرتے.جس وقت یورپ اور امریکہ احمدی ہوا تو انہوں نے آپ کو بُرا بھلا کہنا ہے کہ حضرت صاحب کے صحابہ اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے حالات بھی ہمیں معلوم نہیں.وہ بڑی بڑی کتابیں لکھیں گے جیسے یورپ میں بعض کتابوں کی ہیں ہیں چالیس چالیس پونڈ قیمت ہوتی ہے اور بڑی بڑی قیمتوں پر لوگ ان کو خریدیں گے.مگر ان کا مصالحہ ان کو نہیں ملے گا اور وہ غصہ میں آکے تم کو بددعائیں دیں گے کہ ایسے قریبی لوگوں نے کتنی قیمتی چیز ضائع کر دی.بہر حال سوانح محفوظ رکھنے ضروری ہیں جس جس کو کوئی روایت پتہ لگے اس کو چاہئے کہ لکھ کر اخباروں میں چھپوائے.کتابوں میں چھپوائے اور جن کو شوق ہے ان کو دے تا کہ وہ جمع کریں اور پھر وہ جو کتابیں چھپوا ئیں ان کو ضرور خرید لے اور اپنے بچوں کو پڑھائے.“ الفضل ۱۲ فروری ۱۹۵۶ء)
۱۶۷ صحابہ کرام کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد حضرت طلیقہ اسی ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمع فرمود و ۵ ار جولائی ۱۹۴۹ء میں بمقام کوئٹہ فرمایا :- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.اذكروا موتاكم بالخير " عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مردوں کی برائی نہیں بیان کرنی چاہئے.وہ فوت ہو گئے ہیں اور ان کا معاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے.یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن در حقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے.آپ نے اذکروا الموتى بالخیر نہیں فرمایا بلکہ آپ نے ”موتاکم“ کا لفظ استعمال کیا ہے.یعنی اپنے مردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو.جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے یہ صحابہ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے.دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں:.أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِاَ يَهِم اقْتَدَ يُتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ، میرے سب صحابی ستاروں کی مانند ہیں.تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جاؤ گے.کیونکہ صحابہ میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی خدمت دین کا ایسا موقع ملا ہے جس میں وہ منفرد نظر آتا ہے.اس لیے آپ نے ”مو تا کم “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ تم ان کو ہمیشہ یا درکھا کرو تا تمہیں یہ احساس ہو کہ ہمیں بھی اس قسم کی قربانیاں کرنی چاہئیں اور تا نو جوانوں میں ہمیشہ قربانی، ایثار اور جرأت کا مادہ پیدا ہوتا رہے اور وہ اپنے بزرگ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہیں.“ (الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۹ء)
! الف - آ اشاریہ اصحاب احمد جلد هشتم مرتبہ عبد المالک امام الدین: حکیم ام متین: سیده آمنہ بی بی (مولانا راجیکی صاحب کی والدہ) 1 ۶۸،۶۵ ۱۵۱،۱۵۰،۸۷ ۱۴۸،۱۴۶،۱۳۶،۱۳۳۱۱۶ ۶۲ ۳۵ ٣٣،٢٠ ۴۴۳۷ ۸۸،۸۷ ۱۶۵،۱۶۰،۹۹ ،۹۷ ،۴۱ ۱۵۱ احمد جان پیشاوری ۱۴۹ ام ناصر احمد خان ( ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے پڑدادا) ۸۴،۸۳ امیرحسین : قاضی احمد دین: حکیم احمد دین مولوی ۲۹ اقبال احمد ۲۰ بخاری برکات احمد : راجیکی اکبر شاہ خاں نجیب آبادی.حضرت خلیفہ المسح اول کی برکت اللہ ملک سوانح عمری لکھنا اکبر یار جنگ بہادر امته الباسط: صاحبزادی امت الجمیل: صاحبزادی ۷۴ ۹۲،۲۸ بشيراً بشیر احمد : صاحبزادہ مرزا بشری بیگم : سیده بھیم سین لاله امته الحفیظ بیگم : سیده امته التی: سیده ۱۵۰ ۱۵۹،۳۹ ۱۴۶،۱۴۵،۱۱۶ ۴۷ بیگم بی بی (چوہدری غلام محمد صاحب کی اہلیہ اول) ۴۵ امتہ الحی ( چوہدری غلام محمد صاحب کی اہلیہ ثانی) ۴۶ پیر بخش بنفشی (ایڈیٹر رسالہ تائید الاسلام ) امۃ العزیز (ہیڈ مسٹریس) ام طاہر امام الدین : حافظ ۶۴ ۱۴۷ ،۱۱۶ امام الدین : مولانا ( مولانا راجیکی صاحب کے استاد) ۱۶،۱۵،۱۲،۱۱،۸،۷ ،۲،۳،۲،۱ شاء اللہ امرتسری شمینہ ( ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی بیٹی ) جان محمد مولوی ج - چ ۳۹ ۳۵،۳۴ ۱۳۸ ۷۳،۵۱،۵۰
ii جلال الدین: مولوی ( مولانا راجیکی صاحب کے سر ) حضرت خلیفہ ثانی کے علاج کے لئے قادیان روانگی جمال الدین : خواجہ جیواں بی بی چراغ دین: میاں چارلس سائمنڈ : ڈاکٹر سر چھوٹو شاہ ۲۰،۱۹ ۲۱ ۴۹ ۱۵۱ ۲۳ ملازمت سے استعفیٰ ۱۳۶ حضرت خلیفہ ثانی کے ساتھ کشتی رانی کرنا ۱۳۷ حضرت مسیح موعود کے دوبارہ دنیا میں آنے کے متعلق رویا ۱۴۲ سفر لندن کے لئے پاسپورٹ آپ کے پچپن کی ایک نظم خ ۱۵۴ ۱۵۳ حاکم دین : چوہدری حامد شاہ: میر حسام الدین: پیر ح حسن دین با جوه (دریش قادیان) حشمت اللہ ملک حفیظ احمد : صاحبزادہ مرزا حنیف احمد : صاحبزاہ مرزا ۷۶،۶۷ ،۶۲۵۸ ۵۷ ۱۸ ۳۲ ۴۳ ۱۴۶ ۱۵۰ حشمت اللہ : ڈاکٹر ۹۱،۸۹،۸۳ ۹۳ ۱۱۶،۹۷،۹۴، ۱۱۷ ۱۵۸،۱۵۰،۱۴۷ ، ۱۴۰ ،۱۳۹،۱۳۵ ،۱۳۴،۱۳۳،۱۲۳ آپ کی پیدائش اور بیعت آپ کی رؤیا آپ کی غیرت دینی ملازمت کی کوشش میڈیکل میں داخلہ حضور کا تبرک پینا کرنل محمد رمضان کی لجاجت ۱۲۵ ۱۱۹ 1+9 ۱۰۵ ۱۰۴ 7 1++ ۹۶ خدا بخش پٹیالوی ۱۳۱،۱۲۳،۱۲۲،۹۷ ،۹۴ خدا بخش چوہدری ( چوہدری غلام محمد صاحب کے دادا) ۴۵ خلیل احمد : صاحبزادہ مرزا خیر النساء واو واحمد سید دھر مانت سنگھ : سردار دیانند , - , ڈوئی ذکاء اللہ : ملک ذوالفقار علی خان : مولوی رحمت الله : شیخ رحمت اللہ : حکیم رحمت اللہ شسنوری رحم النساء رحیم النساء حضرت خلیفہ ثانی کے لئے پہلی دفعہ دوائی تجویز کرنا ۹۳ حضرت خلیفہ ثانی کو پٹیالہ آنے کی دعوت حضرت خلیفہ ثانی کو قادیان بل (ایک پھل ) بھیجنا ۱۳۱ رحیم بخش ۱۵۰،۱۴۷ ،۱۴۶،۱۳۹ ۸۸ ۱۵۰ ۳۲ ۹۷ ۲۲ ۴۳ ۱۴۰،۱۳۹ ۵۴ ۱۲۹ ،۸۸ ۱۴۷ ۹۳٬۸۸ ۸۸ ۹۴ ،۹۳،۸۹،۸۸۰۸۶
ص - ض - ط صفیہ بیگم (مولانا راجیکی صاحب کی بیٹی ) صدرالدین: مولوی ۱۲۴،۵۷ ،۵۳ صلاح الدین ملک ۱۶۰ ۱۶۱ ۱۶۲ ۱۶۳ ۱۶۴ ۱۶۵ ضیاء الدین قاضی طاہراحمد : مرزا ( حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ) ۱۵۰ ۱۴۱ ،۹۷ ۲۸ ۴۷ عبد الحق نومسلم عبدالحق ایڈووکیٹ عبدالحلیم پٹواری عبد الحی (حضرت خلیفہ اول کے بیٹے) عبدالحئی عرب 27.22 ۷۹،۴۰،۳۹،۳۸ ۶۸ عبدالرحمن ( چوہدری غلام محمد صاحب کا بیٹا ) ۱۰۹،۵۴،۳۹ ۶۲ ۱۴۹ ۲۸،۲۴ ۶۶ ۱۲۸ ۴۹ ۱۱۷ ۱۳۰ عبدالرحمن قادیانی : بھائی عبدالرحمن مصری عبدالرحمن پشاوری عبدالرحیم درد: مولانا عبدالرحیم کپورتھلوی: حافظ عبدالرحیم نیر عبدالسلام: ڈاکٹر عبدالعزیز خان عبدالعزیز بابو عبدالقادر جمالپوری ۹۴،۸۷،۸۶،۸۵ ۱۴۲،۱۴۱،۱۰۴ ام ۱۳۹ عبدالقادر جیلانی عبدالقادر : مولوی iii 1 ۱۶۴ ۱۴۲ ۱۳۱ ۸۴ ۱۲۵ ،۹۲،۳۱ ۱۵۷ ،۱۴۰ رستم علی چوہدری رشید احمد : صاحبزادہ مرزا رشید الدین خلیفه رفیع الدین روشن علی حافظ روم مولانا زین العابدین ولی اللہ شاہ زینب (ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی بیٹی ) زینب قدسیہ ( مولانا راجیکی صاحب کی بیٹی ) ۱۳۳ ۲۰ س - ش ساره بیگم : سیده سدر لینڈ : ڈاکٹر ۱۴۶،۱۴۵،۱۱۶ ١١٣،١٠٦ سراج دین 22 سردار خان: ماسٹر ۵۲ ۳۱ ۱۵۳ ۱۴۲،۱۴۱ ۱۴۴ ۱۴۳ 1+9 ۸۴ ۱۲۸ ۱۵۷ ۱۰۸ ۳۰ ۷۵ سرور شاہ سید سعدی سلطان احمد : صاحبزادہ مرزا آپ کا اعلان احمدیت شادی خان : میاں شاہ شرف بوعلی قلندر شریف احمد : صاحبزادہ مرزا شمیم احمد : میجر شہزادہ ابراہیم شیر عالم : مولوی شیر علی مولوی
۱۰۳٬۹۹ ،۹۸ ،۹۲،۸۹،۶۹،۶۰،۵۶۰۵۳،۵۲،۴۹ ۱۳۲،۱۰۹،۱۰۸ iv عبدالکریم سیالکوٹی: مولوی ۹۱،۵۱،۱۴۰۲، ۱۶۴۹۸ عبدالکریم بنوڑی: خانصاحب ۹۲ عبداللطیف ( مبلغ جرمنی) عبداللطیف شاہد: حکیم عبد اللطیف شہید: صاحبزادہ سید عبد الماجد: مولانا ۱۵۱ 16 ٣٩،٣٧ ۸۹،۱۷ ۱۴۶ سچی توبہ سے بڑے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں سانیوں کے کاٹے کا علاج Δ ۱۳ مولا نا راجیکی صاحب کو اپنی تصنیف کردہ کتب دینا ۱۷ درود وہ پڑھنا چاہئے جس پر رسول کریم کی سنت کی مہر ہو عبدالمجید.مولانا راجیکی صاحب کو مثیل ڈوئی کہنے کا لالہ بھیم سین کی کامیابی کے متعلق آپ کی رؤیا عبداللہ عبدالله (عربی مدرس) ۲۲ ۲۱ ۹۶ ۴۷ ۴۸ نیک آدمی کی اولاد کا اللہ تعالیٰ خود محافظ ہوتا ہے ۷۴ سفر میں روزہ جائز نہیں ۹۴ صرف بیعت کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ استقامت اختیار ۹۷ 1+2 ۱۰۹ ۵۷ عم ة ا لا لا ۱۵۱ کرنا.....ضروری ہے آپ کی لاہور آمد جماعت احمدیہ کے لئے مقام فکر ۹ ۱۸ عبد اللہ آتھم عبداللہ چکڑالوی عبداللہ خان: چوہدری عبداللہ خان: میاں (مولانا راجیکی صاحب کے برادر نسبتی ) غلام حسن پیشاوری: مولوی عبداللہ سنوری: میاں عزیز احمد ۱۴۷ ،۱۳۰،۱۲۷ ،۱۲۶ ۱۷ غلام حسن : مولوی غلام حسین جھنگی غلام حیدر ( مولا نا راجیکی صاحب کے بھائی) ۱۸،۱۶،۱۵،۱۴،۱۱،۸،۶،۴،۳،۱ غلام رسول گرا جیکی آپ کی دستی بیعت ۱۵۷ ،۹۲،۴۴ ،۴۱ ،۳۳،۳۱،۲۵،۲۴۲۳،۲۲،۲۰ 2 ۱۲ حضرت اقدس کا دم کردہ پانی پینا خواہ کوئی بھی ہو آپ میرے پاس بیٹھا کریں عزیز بخت ( مولانا راجیکی صاحب کی ہمشیرہ) عطا محمد: چوہدری ۱۹ علم الدین : میاں ( مولا ناراجیکی صاحب کے تایا ) عمرو بن العاص عیسی علیہ السلام Δ ۲۹ ۱۳۹ ۱۴۱،۱۴۰،۱۳۹،۵۷ غ حضرت اقدس کا آپ کو اپنی تصنیف کردہ کتب دینا ۱۷ غلام احمد چوہدری غلام محمد صاحب کالڑکا) ۷۵،۶۶ آپ کی ولادت سے پہلے آپ کی والدہ کی رویا غلام احمد : مرزا ( حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) حضرت خلیفہ امسیح الاول سے طب پڑھنا ۱۹ ۲۱ ۳۰ آپ کو تھپڑ مارنے والے کا انجام ۴۷ ، ۴۳،۳۹،۲۳،۲۱،۲۰،۱۸،۱۶ ،۱۵،۱۴،۱۲،۷ ،۳،۲
۱۵۲ ۱۳۹ لندن میں برائے مسجد زمین کی خرید فرعون فضل الدین حکیم V ۳۲ ۳۶ ۳۷ آپ کی سادگی آپ کا صبر حضرت ام المومنین کے ہاں آپ کی دعوت جلسہ سالانہ کے موقع پر نماز مغرب و عشاء کی امامت ۳۸ فضل الدین: مولوی (مشیر قانونی صدرانجمن حمدیہ ۱۳۹،۱۳۸ سیده امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کا اعلان نکاح کشف میں حضرت اقدس کی زیارت غلام رسول و فیس ۳۹ ۴۳ ۱۵،۱۴،۱۳،۱۰ ،۷،۳ فضل الدین : مولوی فضل الہی فیروز شاہ تغلق غلام علی: میاں ( مولانا راجیکی صاحب کے چچازاد بھائی )۲۹ قاسم علی: میر ۹،۷ ۵۷ ۸۴ ۱۲۵،۳۱ قدیر ( صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب کی دودھ پلائی ) ۱۴۷ ۶۶ غلام فاطمه غلام قادر غلام قادر : مولوی غلام محمد: چوہدری آپ کی اولاد آپ کی بیعت عربی لغت کا تیار کرنا قادیان رہنے کے متعلق آپ کا خواب احمد یہ سٹور کے لئے قواعد بنانا اپنی اہلیہ کی وفات کے متعلق خواب ۵۸ 2 ۶۲۵۹،۴۵ ۴۶ ۵۱ ۵۴ ۶۰ ۶۱ ۶۶ حضرت خلیفہ ایسی اول کی سوانح عمری لکنے کی تحریک کرناہے حضرت خلیفتہ ایسی اول کی خدمت میں دعائیہ خطوط ۷۵ قطب الدین: مولوی كبير ک - گ کرم دین ( مولانا راجیکی صاحب کے والد ) کریم بخش ۹،۵ ۱۲۱ 1 ۸۵ کمال الدین خواجه ۲۱، ۹۰،۲۸، ۱۲۴،۱۱۴،۱۱۰،۱۰۸،۱۰۷ کنہیالال : سیٹھ گورداس ۷۲ ۷۳ لال دین ( چوہدری غلام محمد صاحب کے بھائی) ۲۶ حضرت خلیفہ اسیح اول کے بیٹے کو انگریزی پڑھانا ۷۸ لیکھرام: پنڈت غلام محمد : صوفی ( مبلغ ماریشس ) غلام محمد : مولانا ف - ق فاطمه اعة الحفيظ فتح محمد سیال ۶۳ ۱۸ ۱۳۳،۱۱۶،۸۸ ۵۴ مادھورام مارگولیتھ (انگریز پروفیسر ) مبارک احمد : شیخ ( مبلغ مشرقی افریقہ) مبارک احمد : صاحبزادہ مرزا ۱۵،۱۴،۱،۸ ۱۰۵ ۵۴ ۱۵۰،۱۳۶،۱۳۵
1 ۶۳،۵۳ ۱۳۴،۱۱۹،۱۰۴ ۴۳ ۹۲ ۹۷ ۸۹ ۱۵۱،۱۵۰،۵۱ ،۳۲،۲۸ ۹۳۸۶ محمد دین مولوی vi ۱۵۹ مبارکہ بیگم : صاحبزادی نواب مبشر احمد میاں ( مولانا راجیکی صاحب کا بیٹا) ۲۰ محمد دین : میاں محمد رمضان: کرنل محمد شریف - مبلغ بلاد اسلامیہ محمد صادق مفتی محمد صدیق پٹیالوی محمد صدیق: مستری محمد ظفر اللہ : چوہدری محمد ظہور الدین اکمل : قاضی ۱۳:۱۲،۱۱،۱۰،۸،۵،۴۳ ظہورالدین : محمد علی خان نواب ۱۱۵،۸۷،۵۹،۵۶،۵۳، ۱۶۴،۱۳۷ ۱۴۸،۵۸،۵۷،۵۶،۲۳،۲۲ ۱۰۲،۸۵ ۱۲۶،۹۷ ،۹۰ ۴۰ ۹۱،۹۰،۸۹،۸۷ ۱۵۷ ۳۲ محمد علی : مولوی محمد عمر : حکیم محمد کرم الہی : شیخ محمد یا مین.تاجر کتب محمد یوسف محمد یوسف : قاضی محمود احمد عرفانی ۸۴،۸۳ ۵۱ ۹۵،۷۵،۵۵،۴۷ ،۳۹،۲۴ ۱۳۳۱۱۷ ۱۲۵ ۳۴،۳۱ ۱۴۱،۱۲۵ ۱۳۱،۳۷ ۱۲۵،۲۸ ۶۲۵۹،۵۸،۵۷ ۱۵۳،۱۲۲،۹۷ ،۹۴ ،۹۲ ۴۸ ۳۹ ۱۵۲ ۷۹،۵۴ ۱۲۷ محمود احمد: مرزا ( حضرت خلیفہ المسیح ثانی) ۱۶، ۲۳۱۷ ۱۲۳،۱۱۵،۸۵،۶۹ ،۶۷ ،۶۰ ، ۵۹ ،۵۸،۵۷ ،۳۶،۳۲ ۱۶۰،۱۵۲،۱۵۱ ۱۵۰ ، ۱۴۸ ،۱۴۴ ،۱۳۴،۱۳۲،۱۲۵ ۳۵،۳۴ ۳۷ ،۲۳ ۱۱۳،۱۱۰،۱۰۸،۲۸ ،۲۳ ۲۲ ۲۸ ۶۲ ۱۲۳ مولا نا راجیکی صاحب کے نام مکتوب مولانا راجیکی صاحب کے بارہ میں ایک ارشاد ۱۵۹ ۱۹ مجددالف ثانی محاکم دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمد احمد : ڈاکٹر محمد ابراہیم : حافظ محمد ابراہیم سیالکوٹی: مولوی محمد اسحاق : میر محمد اسماعیل : ڈاکٹر میر محمد اسماعیل: مولوی محمد اسماعیل سیالکوٹی بنشی محمد افضل پٹیالوی محمد اقبال: علامہ محمد امین تاجر کتب محمد بشیر : ڈاکٹر محمد جی مولوی محمد حسن: خلیفہ محمد حسین خان بہادر (حجج) محمد حسین قریشی حکیم محمد حسین شاہ: ڈاکٹر سید محمد حنیف شیخ محمد حیات حکیم محمد خان (چوہدری غلام محمد صاحب کے چچا ) ۴۵ ، ۵۰،۴۷ احمد یہ سٹور کی منظوری محمد دین (چوہدری غلام محمد صاحب کے استاد) ۴۷ انجمن تفخیذ الاذہان کی بنیاد
نصرت جہاں سیدہ (حضرت ام المومنین) ۱۰۹۹۰ ۱۶۴،۱۳۴،۱۳۳،۱۳۲،۱۲۸ ،۱۲۵،۱۱۶،۱۱۵،۱۱۳ ۳۷ ۷۳،۵۱ ۲۹ ۶۲ ۱۵۰ ۱۰۷ ۱۴۷ ،۶ مولا نا راجیکی صاحب کی دعوت نصر اللہ خان : چوہدری vii ۱۲۶ ۱۲۷ ۱۲۸ آپ کا سفر شملہ پٹیالہ آمد کے لیے موٹر کی شرط حضرت مجددالف ثانی کے مزار پر دعا پٹیالہ سے روانگی ۱۲۹ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو مستقل طور پر قادیان بلوانا ۱۳۵ نظام الدین: حافظ نعمت اللہ بخشی نعیم احمد : صاحبزادہ مرزا نوراحمد بلال بنشی نورالدین حکیم ( حضرت خلیفتہ امسیح اول) ۱۱۵،۱۱۳،۱۰۲،۸۰ ، ۷۵ ، ۷۴ ۷۳،۵۶،۳۱،۱۸،۱۷ ۱۴۷ ، ۱۴۴ ، ۱۲۵ ،۱۲۴،۱۲۳ ۲۱ 22 ZA ง ۷۹ ΔΙ ۱۱۴ ۹۶ ۵۲ ام ۲۷ ۵۷ ،۲۸ راجیکی صاحب کو طب پڑھانا آپ کا وصال بارش رکنے کی دعا کرنا آپ کی کفایت شعاری خوشخبری سنانے والے کو کچھ دینا چاہئے آپ کا خدا سے تعلق آپ کی غرباء سے ہمدردی آپ کا بطور خلیفہ انتخاب نور محمد : حافظ و - ه - ی وقار الملک: نواب ولی اللہ محدث دہلوی) ہادی حسن : خلیفہ یعقوب علی بیگ : ڈاکٹر مرزا ۱۴۲ ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۵۸ ۸۴ صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب کا خطبہ نکاح سیدہ سارہ بیگم صاحبہ سے نکاح ۳۷،۲۰ ۱۰۱ ،۹۴ ،۹۱،۹۰ سیدہ امِ طاہر صاحبہ سے نکاح مختار احمد شاہجہانپوری مخدوم جہانیاں مشتاق احمد باجوه ( سابق امام مسجد لندن) مصلح الدین را جیکی ملک محمد حافظ منظور فاطمہ ( چوہدری غلام محمد صاحب کی بیٹی ۶۹ منور احمدہ : ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا ۱۵۳۱۵۱،۱۵۰ ۱۰۵ ۸۸٬۸۶،۸۵،۸۴ ۵۲ ۹۰،۸۸ ۴۸ ۱۳۹ ۱۱۵ AL مولک رام : لاله مولی بخش مولی بخش: چوہدری مہر النساء میرحسن (علامہ اقبال کے استاد ) میگلی (اطالوی ڈاکٹر ) ن ناصر نواب : میر نبی بخش نزیر احمد.ایم.اے.ایل.ایل- بی : چوہدری ۵۲ یعقوب علی عرفانی ۱۶۵،۱۶۱،۱۶۰،۱۳۵،۱۳۲٬۵۸،۳
ix مقامات الف - آ آگرہ احمد آباد اٹلی افریقہ ۱۳۹ ۱۵۷ ،۱۳ پسرور پشاور ۱۰۵،۱۰۴ ،۹۷ ،۹۶ ،۹۳ ،۹۱،۹۰ ۱۳۰،۱۲۹،۱۲۷ ،۱۲۶ ،۱۲۵،۱۲۴،۱۱۹ ۱۴۶ ۱۴۱،۱۴۰،۱۳۷ ، ۱۳۶ ،۱۳۵،۱۳۲ ۶۸ ۴۶،۴۵ ر - ز را جپوره را جیکی راولپنڈی ۱۲۹،۱۲۸ ،۱۲۶،۹۱ 1 ۸۰۷۹ ،۲۸ ۲۴ ربوه ۷۶،۶۴،۶۳،۵۳،۴۹،۴۳ پنجاب ۲۴۱، ۲۸، ۱۲۴۸۵،۴۶ الہ آباد ۵۷ امرتسر ۱۲۹٬۹۱،۶۹،۶۰،۳۲،۲۴،۴ ج - ح - خ رحیم آباد امریکہ انبالہ انگلستان ۱۶۰،۴۳ ۱۲۸،۱۲۶ ۵۴۴۹ جرمن جموں ۱۵۱ ۸۰۷۹ زیورچ ۱۵۷ ،۱۳۹٬۸۵ ۹۷ ۱۵۱ س - ش جنیوا 16 ۱۵۱ سامانه ۹۰،۸۷ حافظ آباد ۱۹ سرگودھا ۲۸ حیدر آباد ۹۳،۲۴ بٹالہ ۵،۴، ۷۲،۱۵،۱۴،۱۱،۱۰،۸ برلین بطحا بمبئی ۱۳۹،۱۳۱،۱۰۰،۲۴ بنگال ۲۴ } بہادر گڑھ ۸۵ بھاگلپور ۱۴۶ بہاولپور پاکستان پٹیالہ ۱۴۹ ۱۵۲۴۶ ۸۹،۸۸،۸۷،۸۵،۸۳ سرہند ۱۲۸ ،۸۴،۸۳ خوشاب ۴۹ ،۴۶ ۱۱۷ خیبر に مشق دہلی ڈسکہ ڈلہوزی ڑھئی ۱۵۱،۱۳۹،۱۳۸ ۹۲،۸۶،۳۴،۲۵،۲۴،۲۰ ۱۰۰،۹۳ ۷۳،۶۵،۵۰،۴۶،۴۵ ۱۵۲،۱۴۸ ۴۵ سعد اللہ پور سعودی عرب سنور سہارنپور ۲۹،۱۸ ۴۶ ۱۲۶ ۸۸،۲۴ سیالکوٹ ۲۴،۱۸،۱۷، ۴۶،۴۵ ۷۹ ،۴۸ ، ۴۷ سیف آباد سیو کی شاہ پور ۸۳ ۵۰،۴۶
شمله شهرک موضع عدن عرب علی پور احد الله له المهم الله علی گڑھ ف - ق فرانس فلسطین ۴۶ ۱۴۶ ۵۶ ۱۵۳ ۵۲،۴۶ الله 6 کوٹلی لوہاراں گجرات گوجرانوالہ گورداسپور گولیکی گیا X 1 ۷۹،۴۵ ۱۵۹،۲۴ ۱۸،۱۷،۸،۳،۱ σ الله لدا ۹۸،۹۷ ۳۲،۲۹،۲۴،۲۳،۲۲،۲۱،۱ لاہور ۸۰،۶۸،۵۴،۴۶،۳۹،۳۸،۳۷ ۱۳۱،۱۲۴،۱۱۷ ،۱۱۳،۱۱۰،۱۰۸،۱۰۷ الدله الدله الداء الله ۱۰۴ ،۹۴ ،۹۲،۸۶ ۹۱ لدھیانہ ۲۴ قادیان ۸،۶،۵،۴،۳، ۱۱،۱۰،۹ ۳۷ ،۳۲،۲۱،۲۰ ،۱۷ ،۱۶ ،۱۵،۱۴،۱۳ ۵۴۵۳،۵۲،۵۱،۴۶،۴۰،۳۹،۳۸ ۸۵،۷۶،۷۴ ۷۳ ۷۱،۶۷ ،۶۰،۵۹ ۹۹ ،۹۸ ،۹۷ ،۹۶ ، ۹۲ ۹۱ ۹۰ ۸۹ ۱۲۳،۱۱۷ ،۱۱۳،۱۱۰ ، ۱۰۷ ، ۱۰۳،۱۰۱ ۱۳۹۶،۱۳۵،۱۳۲،۱۳۱،۱۳۰،۱۲۵،۱۲۴ الله والده الدله الله الله الله قلعہ دیدارسنگھ کامونکے ک - گ کانپور کراچی کشمیر کلکتہ ۱۶۰،۱۴۸ ۹ لدلد ۳۴ ۱۵۷ ،۲۴ ۱۳۸،۷۹،۲۴ الد لد ہووال لکھنؤ لندن لنگے مالابار مدراس مڈھ رانجھا مری مصر مظفر گڑھ ۲۴ ۱۵۱،۱۵۰،۱۳۸،۴۹ ،۴۶ ۱۵۷ ،۱۵۲ ۲۴ ۲۴ الله ما لده الد ۱۵۳ ملکانه منگلور منگووال موگھیر نارووال منگل باغباناں نواں پنڈ نیورمبرگ ہندوستان ن اد ه - ی یثرب یورپ یوگنڈا ۹۳ ۹۲ ۳۵ ۸،۱ ۳۱ Vh 17 17 ۱۵۱ لد حاله له له ۱۶۰،۱۵۳،۱۵۰،۱۳۸ ۶۸،۴۶