Ashab-eAhmad Vol 7

Ashab-eAhmad Vol 7

اصحاب احمد (جلد 7)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

حضرت مصلح موعود  ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ میں فرمایا : ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : <span class="quranic">اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ</span>۔ عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کامعاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے<span class="quranic"> اُذْکُرُوْا مَوْتیٰ بِالْخَیْرِ</span> نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے<span class="quranic"> مَوْتَاکُمْ</span> کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنی ہیں کہ آپؐ نے یہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں محترم ملک صلاح الدین صاحب نے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات شائع کئے جاتے تھے۔ رسالہ کانام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے تجویز فرمایا تھا۔ بعد ازاں بزرگانِ سلسلہ کی تجویز پر ان سوانح کو مفصل اور کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے جلسہ سالانہ میں آپ کی اس خدمت کاذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بعض ضروری نصائح فرماکر احباب جماعت کوصحابہ کرام کے حالات زندگی اور تاریخ کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ درجنوں صحابہ کے ابتدائی تعارف پر مشتمل زیر نظر یہ مجموعہ 12 جلدوں پر محیط ہے جو دیدہ زیب ٹائپ شدہ ہیں اور قریبا اڑھائی  ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مفید سلسلہ  کتب میں معزز مرحومین کی تصاویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری نقشے اور وضاحتی خاکے بھی بناکر شامل کئے گئے ہیں۔ صحابہ کی خود نوشت تحریرات یا مطبوعہ مواد پر مصنف کتاب کے شامل  کردہ حوالہ جات اور ضروری وضاحتی حواشی نے کتاب کی افادیت کو اور بڑھا دیا ہے اور بلاشبہ یہ صرف صحابہ کے حالات زندگی ہی نہیں بلکہ جماعت احمد یہ کی تاریخ کا اہم ذخیر ہ ہے اور مصنف کی طرف سے جماعت کی ابتدائی تاریخ کا قیمتی خزانہ محفوظ کرنے کی ایک نہایت ہی قابل قدر سعی ہے۔


Book Content

Page 1

وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ اصحاب احمد جلد هفتم صلاح الدین ملک ایم.اے

Page 2

مصنف: ملک صلاح الدین ایم اے

Page 3

I بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عرض حال لله الحمد والمنة اصحاب احمد جلد ہفتم کی تالیف کا موقع پایا ہے جو بالخصوص حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری اور دو دیگر صحابہ کے سوانح پر مشتمل ہے.ماسٹر صاحب نے 1890ء میں اسلام واحمدیت قبول کی.آپ 313 صحابہ میں سے تھے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر کے پہرے کا انتظام کرنے حضور کی مبشر اولاد کو تعلیم دینے ، جزائر انڈیمان اور سیلون وغیرہ میں اعلائے کلمتہ اللہ کرنے کی توفیق پائی.بہت مستجاب الدعوات تھے اور آپ نے عجیب استقامت کا نمونہ دکھایا.الحمد للہ کہ ذیل کے احباب نے اصحاب احمد کی تالیف کے لئے کسی نہ کسی رنگ میں امداد کی فجزاهم الله احسن الجزاء في الدنيا والاخرة - (1) کراچی.شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت ، چوہدری بشیر احمد صاحب سابق ڈائرکٹر آف سپلائی اور ان کے بھائی چوہدری رشید احمد صاحب.ملک بشیر احمد صاحب امریکی ، ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن صاحب ( خلف حضرت مولوی شیر علی صاحب) چوہدری کرامت اللہ صاحب (خلف حضرت بابوا کبر علی صاحب) ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب آف کامٹی ، چوہدری احمد جان صاحب ڈسٹرکٹ فوڈ اینڈ سپلائی آفیسر.چوہدری نبی احمد صاحب کا ہلوں ماڈرن موٹرز ، ملک خلیل احمد صاحب ( خاکسار کے چازاد بھائی) (۲) ضلع نواب شاہ (سندھ) وغیرہ.ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب، حاجی عبدالرحمن صاحب رئیس باندھی و ہر دو برادران رئیس عبدالستار صاحب و رئیس عبداللہ صاحب، چوہدری علاؤ الدین صاحب سابق درویش گوٹھ امام بخش) و ہرسہ برادران چوہدری غلام نبی صاحب، چوہدری محمد عبداللہ صاحب و چوہدری عطا محمد صاحب.گوٹھ حاجی قمر الدین والے حاجی قمر الدین صاحب و حاجی کریم بخش صاحب، چوہدری ناصر احمد صاحب تاجر باندھی ، چوہدری محمد الحق محمد دین صاحب کریانہ مرچنٹ ،فضل الرحمن صاحب انجینئر حیدر آباد سندھ.مولوی محمد عمر صاحب بی اے مربی متعین کنری.چوہدری اسمعیل خالد صاحب حال منیجرمحمد آبا دا سٹیٹ.

Page 4

Π (۳) سابق مغربی پنجاب.مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی سابق صوبہ پنجاب (سرگودہا) میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت راولپنڈی.میاں محمد بشیر احمد صاحب امیر جماعت جھنگ صدر، چوہدری عبدالرحمن صاحب امیر ضلع ملتان، چوہدری محمد اکرام اللہ صاحب (خلف حضرت بابوا کبر علی صاحب صدر جماعت ملتان چھاؤنی.ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب معالج خاص سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ.منشی فتح دین صاحب سپرنٹنڈنٹ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ.مختار احمد صاحب ہاشمی ہیڈ کلرک دفتر خدمت درویشاں ربوہ.کیپٹن چوہدری منصور احمد صاحب سیال ( فرزند حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اصلاح و ارشاد ) ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب ڈنٹل ہاسپٹل لا ہور.ملک عبداللطیف شکوہی پیپر مرچنٹ لا ہور.(۴) بھارت.مولوی محمد اسمعیل صاحب وکیل یاد گیری اور ان کے بھائی محمد الحق صاحب سیٹھ محمد یوسف اله دین صاحب سکندر آباد دکن.سیٹھ رشید احمد صاحب مالک رشید فیکٹری حیدر آباد دکن.سیٹھ بشیر الدین صاحب آندھرا آٹو موبائل حیدر آباد دکن ( فرزند سیٹھ محمد معین الدین صاحب صدر جماعت چنت کنٹھ ) (۵) بیرونی ممالک.شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ.سید عبدالرحمن صاحب کلیولینڈ (ریاستہائے متحدہ امریکہ ) چوہدری مختار احمد صاحب ایاز ( ٹانگا مشرقی افریقہ ) اخویم نیاز احمد صاحب اکاؤنٹنگ سیکشن بحرین.میاں عبدالعزیز صاحب سیالکوٹی لنڈن.حاجی محمد شریف احمد صاحب کو بیت.علاوہ ازیں ہر کتاب کی طباعت و ترسیل وغیرہ کا اہتمام بکی اخویم چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبشر ممالک اسلامیہ حال ربوہ کر کے میرا ہاتھ بٹاتے ہیں.فجزاہ اللہ احسن الجزاء احباب کرام سے عاجزانہ التجا ہے کہ دعا فرما ئیں اللہ تعالیٰ مجھے اس کام کی تعمیل کی تو فیق عطا فرمائے اور اسے قبول کر کے اپنی رضا کا موجب بنائے.آمین یا رب العالمین ۳۱ / دسمبر ۱۹۵۹ء مسجد مبارک قادیان خاکسار ملک صلاح الدین ایم اے درویش مختار عام و ناظم جائیدادصدرا انجمن احمد یہ دممبر و آڈیٹر انجمن تحریک وقف جدید

Page 5

III عنوان فہرست عناوین اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ تعلیم و تربیت حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری اہل و عیال کو نصیحت وطن اور شکل و شباہت تلاش حق کی تڑپ اور بالآ خر حصول ہدایت حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں باریابی حضرت اقدس کی اولین زیارت اور بیعت والدین سے پہلی ملاقات دوسری ملاقات جموں میں تعلیم پانا اور حضرت اقدس کے مکتوبات میں ذکر شہر بھیرہ میں دسویں تک تعلیم ملازمت امتحان ایف اے ہجرت اور قادیان میں ملازمت شادی اہلیہ اول کی وفات دوسری اور تیسری شادی شجرہ نسب 1.۱۰ 11 عنوان صفحہ ۳۹ ۴۳ ڈاکٹر نذیر احمد کی ولادت اور ان کا عدن اور حبشہ وغیرہ میں تبلیغ کرنا قلمی جہاد فی سبیل اللہ قید ہونا، مقدمہ کی تفصیل اعلائے کلمتہ اللہ کی لگن ۱۲ دعاؤں میں انہماک ۱۵ 17 جواب کا القاء ہونا آپ کے تبلیغی کارناموں میں کامرانی ۱۹ (۱) اخویم ڈاکٹر عبدالرحمن کی قبول احمدیت ۱۹ (۲) انڈیمان میں تبلیغ ، کالا پانی سے خط ۲۰ (۳) لنکا میں تبلیغ ۲۹ (۴) مولوی ثناء اللہ صاحب سے گفتگو ۳۳ (۵) ایک آریہ سے بحث ۳۳ (۶) قادیان کے آریوں پر اتمام حجت ۳۴ (۷) سادھ سنگت ایک تبلیغی جماعت کا قیام.۵۰ ۶۰ ۶۶ ۷۳ 24 ZA ZA ۷۹ ۸۴ ۸۴ ۸۶ AL ۹۳ ۹۴ ۹۴ لا حضرت مولوی نورالدین صاحب کی فدائیت اور توکل علی اللہ ۳۵ الایمان بین الخوف والرجاء صاحب الہام و کشف ہونا ۳۷ سلسلہ کے لٹریچر میں ذکر خلافت ثانیہ سے وابستگی قادیان میں تعمیر مکان

Page 6

IV مجلس شوری عنوان ایک خاص مجلس شوریٰ کے رکن مالی خدمات سلسلہ حضرت اقدس کی مجلس میں سفر جہلم جلسہ احباب میں شمولیت حضرت اقدس کا ایک اشتہار ایک نشان کے گواہ ایک پیشگوئی کے گواہ ایک نشان کے گواہ روایات صفحہ لا ۹۸ ۹۹ شجر ونسب عنوان مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی حافظ سعداللہ صاحب ۹۹ | ولادت.خاندانی حالات ۱۰۰ آپ کا حلیہ : 1++ 1.احمدیت کا اس خاندان میں آنے کا ذریعہ بیعت سے قبل کی سرگزشت صداقت احمدیت کے متعلق رویا اور بیعت کرنا ۱۰۱ فن کتابت کا حصول ۱۰۲ ملازمت ۱۰۳ نشان الہی کا اظہار حضور کی ذاتی خدمات ، قیام دار اسح اور تعلیم صاحبزادگان کے دیانتدارانہ ملازمت صفحه ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۴۸ ۱۶۳ و کو ٹو تو شو لا ة م مالي مالي کے کیم ۱۶۲ ۱۵۱ ۱۴۷ ۱۵۷ ۱۶۳ ۱۶۳ ۱۶۴ ۱۶۴ ۱۶۶ ۱۶۸ ۱۶۸ ۱۶۸ ۱۶۸ ۱۶۹ ۱۶۹ ۱۷۰ ۱۲۶ ازدواجی زندگی ۱۳۱ خدمات سلسله و شمائل ۱۳۱ اساتذہ کی قدردانی ۱۳۳ شوری میں شمولیت ۱۳۶ بعد پنشن وقف ۱۳۶ ابناء فارس کی مجلس کا قیام ۱۳۷ امتحانات کتب سلسلہ میں شمولیت ۱۳۹ رشتہ داروں میں باہمی اتحاد کی ایک کوشش کا نمونہ ۱۳۹ علمی لٹریچر کا جمع کرنا ۱۳۱ مرکز سلسلہ سے محبت جلسہ سالانہ میں شمولیت ۱۹۴ وصیت حفاظت تحریرات بزرگان سلسله مواقع ملنا.۳۱۳ صحابہ میں شمولیت عمر میں زیادتی وفات تبرکات اسلام کے لئے انتہائی قربانی پہلی ملاقات اسلام پر فدائیت مثنوی اختتام حوالہ جات

Page 7

۲۰۵ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۰۸ ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۱۰ ۲۱۰ ۲۱۳ ۳۱۴ ۲۱۵ ۲۱۶ ۲۱۶ ۲۲۸ ۲۲۷ ۲۲۲ ۲۲۱ 국제중 중금을 ۲۲۰ صفحہ عنوان V عنوان صفحہ ڈائری میں با قاعدگی یاد داشتوں کا اہتمام.ایک ایمان افروز تاریخی یادداشت کی حفاظت مرکز سلسلہ میں تعمیر مکان تاثرات حافظ صاحب سلسلہ سے عقیدت اور تبلیغ مہمان نوازی اور غرباء پروری روایات ایک خاص برکت کا حصول وفات وتدفين حوالہ جات ۱۷۳ تحریک چندہ خاص کی کامیابی ۱۷۶ فنانشل سیکرٹری کشمیر ریلیف فنڈ ۱۷۶ صدر انجمن کا آڈیٹر مقرر ہونا ۱۷۸ دار الانوار کا سیکرٹری مقرر ہونا ۱۷۸ وکیل المال تحریک جدید مقرر ہونا ۱۷۹ اسلامی شعار اختیار کرنے کی ہدایت ۱۸۰ روزانہ رپورٹ ۱۸۳ حافظہ قوی ہو جانا ۱۹۰ | ایک کلرک کی منظوری ۱۹۱ صدر انجمن سے پنشن ۱۹۴ ۱۸۹۱ء کی پیشگوئی چوہدری برکت علی خان صاحب گڑھ شنکری یادگار طریق ولادت.وطن گڑھ شنکر میں طاعون کا زور ۱۹۵ ۱۹۶ تحریک جدید سے پنشن خلافت ثانیہ کا قیام حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب تعالیم زمانہ طالب علمی کی دعا گڑھ منکر کے السابقون الاولون بیعت زیارت حضرت مسیح موعود دستی بیعت ۱۹۷ ۱۹۸ ۱۹۸ ١٩٩ ۲۰۱ ۲۰۱ M قادیان میں تعمیر مکان آپ کی ازدواجی زندگی شجر ونسب شوری میں شمولیت قادیان سے ہجرت جائنٹ ناظر بیت المال سلسلہ کے ریکارڈ میں آپ کا نام ایک نشان کے گواہ قادیان میں رہنے کا فیصلہ اور ایڈیٹر الحکم کی طرف سے امداد وفات حضور کی پسندیدگی اختتام کتاب ہذا ۲۰۴ صدرانجمن کی ملازمت

Page 8

1 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری رضی اللہ تعالی عنہ وطن اور شکل و شباہت حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب ۱۸۷۲ء کے قریب قصبہ ڈومیلی تحصیل پھگواڑہ ( ریاست کپورتھلہ ) ضلع جالندھر میں سردار دسوندھا سنگھ صاحب ولد ساون سنگھ ولد رام گولا قوم راجپوت جٹ کے ہاں ایک سکھ خاندان میں پیدا ہوئے اس وقت آپ کا نام مہر چند یا مہر سنگھ تھا.آپ چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور والدین کے لاڈلے تھے.چہرہ قدرے لمبا ، داڑھی مشرع قد اوسط سے قدرے کم ، رنگ گندمی ،جسم گٹھا ہوا مضبوط ،لباس اور عادات سادہ سنجیدہ طبع ، ماہر تیراک تھے.گہرے سے گہرے کو ئیں کی تہہ سے سامان نکال لیتے تھے.جوانی میں آٹھ دس میل شوقیہ طور پر پیدل چل کر جالندھر یا پھگواڑہ ریل گاڑی دیکھنے کے لئے جاتے ، اپنی طالب علمی میں خاکسار مؤلف نے کئی بار آپ سے سنا کہ آپ روزانہ ڈنٹر پیلتے اور ورزش کرتے رہے ہیں.میں نے انہیں بیمار ہوتے کبھی نہیں دیکھا.تلاش حق کی تڑپ اور بالآخر حصول ہدایت ۱۸۸۴ء کے قریب آپ موضع لوٹیرہ خورد کے پرائمری سکول میں جماعت چہارم میں تعلیم پاتے تھے بچپن سے ہی سکھوں کے رسم و رواج کو آپ نا پسند کرتے اور ان پر اعتراض کرتے تھے.مرگھٹ میں مڑھیوں پر دیئے جلائے جاتے تھے.ناپسندیدگی کے باعث آپ ان کو اور مورتیوں کوتو ڑ دیتے تھے، عربی اور فارسی کا شوق تھا.آپ اس وقت کے اپنے مذہبی خیالات کے متعلق لکھتے ہیں: ایک زمانہ وہ تھا کہ یہ عاجزا اپنے حقیقی مالک ورازق سے بکلی نا آشنا اور دور پڑا ہوا تھا اور نہ جانتا تھا کہ میں اس دنیا میں کیوں پیدا ہوں اور مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا.کچھ عرصے تک میں سکھوں کے ہی مذہب پر عامل رہا.اگر سچ پوچھو تو کوئی بھی مذہب نہیں تھا.کیوں کہ ان لوگوں کی وحشیانہ زندگی اور آزادانہ طور سے حلال و حرام میں گو بعد میں آپ کی کتب وغیرہ میں سابق نام مہرسنگھ ہی درج ہے لیکن آپ نے اپنے قلمی حالات میں ہر چند یا مہر سگے دونوں نام تحریر کئے ہیں.

Page 9

2 بے تمیزی کا سمندر بہہ رہا تھا.کسی کو کوئی ممانعت نہیں.گرنتھ یہ نہیں کہتا کہ فلاں چیز حلال یا فلاں شے حرام ہے.صرف دوسروں کی طرف دیکھ کر بعض باتوں کو حلال اور بعض کو حرام تجویز کر لیا جاتا ہے.مگر بعد ازاں میں آریوں کے اصول کا پابند ہو گیا.اور اواگون ( تناسخ) کے مسئلے کا قائل.” جب میں نے اپنی قوم کو شراب خوری اور جہالت میں سرگرداں پایا اور خدا کی (1)66 معرفت سے بے نصیب دیکھا تو میرے دل میں ایک تلاش حق کا جوش پیدا ہوا.(1) میں پرائمری سکول میں تعلیم پاتا تھا اور ابھی میری عمر چودہ سال سے متجاوزہ نہ تھی کہ ایک کتاب بنام رسوم ہند میرے مطالعہ میں آئی.اس میں اول حصہ میں ہندوؤں کے بزرگوں اور دیوی دیوتاؤں کا ذکر تھا اور آخری حصے میں حضرت آدم سے حضرت محمدعلی اللہ کے حالات اور مدارج عالیہ پڑھ کر میرا دل لوٹ گیا اور تمنا کی کہ کاش پر میشر مجھے بھی ان کا مرتبہ اور قرب عطا کر دیتا.مگر معایہ خیال بھی آیا کہ اس طرح ہر ایک متنفس یہی تمنا کر سکتا ہے اور یہ خواہش کسی صورت میں پوری نہیں ہو سکتی.بعد ازاں حضرت امام مہدی جن کا ظہور آخر زمانے میں مقدر تھا ان کے حالات پڑھ کر دل میں وہی خواہش پیدا ہوئی کہ ہے زنکار یہ فضل مجھے ہی عنایت ہو جائے ، ورنہ کم از کم اتنا تو ضرور ہو جائے کہ حضرت امام مہدی کے اصحاب میں داخل ہو جاؤں اور ثواب دارین حاصل کر سکوں.الحمد للہ کہ یہ آخری دعا جو بحالت اضطراب کی گئی قبول ہو گئی.“ کتاب رسوم ہند کے مطالعہ سے دفعتاً مذہب کے متعلق یہ خیال پیدا ہوا کہ ممکن ہے کہ ہم سکھوں کا موجودہ مذہب انسان کو پر میشر تک پہنچانے کے لئے کافی نہ ہو اور گرنتھ صاحب جس میں تو حید اور چند اخلاقی باتوں کا ذکر ہے ، دوسری انسانی ضروریات کے بارے میں تمام احکام دربارہ امور کردنی و نا کر دنی پر حاوی نہ ہو اور ہم مینڈک کی طرح ایک تنگ و تاریک گڑھے میں پڑے ہوں اور اپنے حقیقی مالک و خالق سے ناواقف اور نا آشنا ہی دنیا میں آویں اور ویسے ہی بے نصیب اور محروم ہو کر اس دار فانی سے چلے جاویں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کثرتِ مطالعہ سے اور نیز غور وفکر سے میں اس امر پر بخوبی واقف ہو گیا تھا کہ ہماری قوم سکھ ) کی یہ حالت ہے کہ ان لوگوں میں علم بہت کم ہے اور روحانیت بکلی معدوم ہے اور ہزار ہا جو ان سکھ انگریزی فوج میں بھرتی ہونے اور دولت اکٹھا کرنے کو دنیا میں آنے کا مقصد ا علیٰ خیال کئے ہوئے ہیں اور لاکھوں اندھوں کی طرح ہیں اور شراب خوری اور دیگر اخلاقی کمزوریوں میں زندگی بسر کر کے اندھے ہی چلے جاتے ہیں اور اس امر سے بکلی بے خبر اور نا آشنا ہیں کہ یہاں سے شروع کر کے والدین سے پہلی ملاقات“ کے عنوان کے آخر تک اقتباسات کتاب ” میں مسلمان ہو گیا.“ (حصہ اول ص ۲۱ تا ۳۱) سے لئے گئے ہیں البتہ جو عبارت یا الفاظ خطوط وحدانی میں درج ہیں.وہ حضرت ماسٹر صاحب کے قلمی مسودہ سے لئے گئے ہیں اور تسلسل کی خاطر ان کا اندراج کر دیا گیا ہے.

Page 10

3 دنیا میں آنے کا اصل مدعا اور علت غائی کیا ہے اور مابعد الموت ہمیں کون سی ضروریات در پیش ہوں گی اور اپنے ہر ایک کردار اور گفتار کا کس طرح جواب دینا ہو گا.بعد ازاں یہ خیال پیدا ہوا کہ ممکن ہے کہ عیسائی مذہب ہی حق اور راستی پر مبنی ہو یا بدھ یا اسلام یا پارسیوں کا مذہب خدا کی طرف سے ہو اور ہم یوں ہی جیسے خالی ہاتھ دنیا میں آئے ویسے ہی حق اور روحانیت کے سرمایہ سے تہی دست ہو کر اس جہاں سے چل دیں.قصہ کوتاہ میں مذہب کے بارے میں نہایت تشویش اور گھبراہٹ میں مبتلا ہو گیا اور ایک ایک دن گزارنا دو بھر ہو گیا.مگر چونکہ میں اپنے قدیمی مذہب میں خوب سرگرم تھا اور ہر صبح کو اٹھ کر اشنان کرنا اور ذکر الہی میں ایک حد تک مصروف رہنا میری دلی خواہش اور روحانی غذا تھی اور حتی الامکان دور دور چل کر پنڈتوں اور سادھوؤں کی صحبت سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا تھا مگر تسلی اور طمانیت کہیں دستیاب نہیں ہوتی تھی اور تلاش حق میں دل ہر وقت بے قرار و مضطرب رہتا تھا مگر ہا ایں ہمہ اس غیر معمولی تلاش حق اور اضطرار کو ہر ایک سے چھپاتا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ مجھے کوئی دیوانہ یا مخبوط الحواس سمجھے اور کہے کہ اس چھوٹی عمر میں ایسے خیالات دل پر مستولی ہیں تو آئندہ کیا ہوگا.مگر میں اپنی جستجو اور تلاش حق میں مصروف رہا چنانچہ اوّل اوّل میں نے اپنی تحقیقات اور تلاش کا دائرہ صرف پنڈتوں اور سادھوؤں تک محدود رکھا اور اپنے جاہل بھائیوں کی طرح مسلمانوں اور ان کے مذہب کو نہایت نفرت سے دیکھتا تھا اور ان کو طنز مسلے مسلے کہہ کر پکارا کرتا تھا اور تحقیر اور حقارت آمیز کلمات کے استعمال سے دریغ نہ کرتا تھا مگر ایسا کرنا بھی کسی قدر ٹھیک اور بجا تھا کیوں کہ ہمارے گردو نواح میں عموماً اور ہمارے گاؤں میں خصوصاً ایسے مسلمان بود و باش رکھتے تھے جو خدا اور رسول اور اسلام کے پاک اصول سے بکلی ناواقف اور وحشیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے.نماز روزہ کا تو ذکر کیا کئی کئی دن تک اشنان کرنا اور ہاتھ منہ دھونا بھی انہیں نصیب نہ تھا.علاوہ ازیں اشیاء خوردونوش اور ان کے غلیظ برتنوں کو دیکھ کر میری نفرت اور کراہت اور بھی بڑھتی جاتی تھی اور دل میں یہی سمجھے ہوئے تھا کہ بس یہی اسلام ہے جوان لوگوں کی طرز معاشرت سے ظاہر ہوتا ہے اور یہی مسلمان ہیں اور یہی ان کے مذہب کے اصول.لیکن یہ میری بڑی بھاری غلطی تھی اور اسی غلطی میں صد ہا بلکہ ہزار ہا سکھ اور دوسرے متلاشی حق گرفتار ہیں.“ گو میرے دل میں اسلام کے ان برے نمونوں نے کئی طرح کے شبہات ڈالے مگر عنایت ایزدی نے میری دست گیری کی اور مجھ جیسے لاکھوں غلط اندازہ کرنے والوں میں سے مجھے چن لیا اور اپنی رحمت خاص سے ایک نیک مرد مدرس کی صحبت نصیب ہوئی جو ارکان اسلام کے پابند اور ظاہری و باطنی پاکیزگی میں حصہ وافر رکھتے تھے پس ان کی صحبت اور نیک نمونے سے اتنا ہوا کہ میرے دل میں جو بُرے نمونوں کو دیکھ کر بے جا کراہت اور نفرت جا گزیں تھی وہ دور ہوگئی اور دل میں کہا کہ یہ سخت نالائق حرکت اور بدبختی کے آثار ہیں کہ اسلام اور اس کے پاک اصول اور صداقت کے اصل آثار کو بغیر دیکھنے کے خود بخود فیصلہ کر لیا جائے.حق تو یہ ہے کہ ہر ایک مذہب کے

Page 11

4 اصول کی پڑتال کی جاوے بعد ازاں اس پر رائے زنی یا نکتہ چینی کرنا بجا ہے ورنہ غلط فیصلہ کر کے اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے.پس ان کی صحبت سے میرے دل پر یہ اثر ہوا کہ میں اسلام اور دیگر مذاہب کو ایک ہی نظر سے دیکھنے لگا اور کسی خاص مذہب کو کسی دوسرے پر یونہی ترجیح نہ دیتا تھا.مگر حق جوئی کا اتنا جوش اور اشتیاق موجزن تھا کہ بیان سے باہر ہے آخر کار خیال آیا کہ گھر سے ہجرت کر جاویں اور دنیا میں آزادانہ طور سے بطور خود دیکھیں کہ ہر ایک مذہب کس پایہ اور خوبی سے پر ہے.مگر ساتھ ہی خورد سالی بے سامانی اور ناتجربہ کاری کے خطرات دھمکیاں دے رہے تھے کہ باہر جا کر میں کہاں بود و باش رکھوں گا اور مصائب و شدائد میں میرا کون معین و مددگار ہوگا.اور دکھ درد کے وقت کون میراغم غلط کرے گا ؟ اور والدین اور بھائی بہنوں کی مفارقت کس طرح برداشت کر سکوں گا؟ غرض اس طرح کے وجوہات پیش کر کے دل کو بہت سمجھایا کہ چند سال کے بعد اس معاملہ میں دست درازی کرنی چاہیے.ابھی وقت نہیں لیکن میں بار بار بے اختیار ہو جاتا تھا اور دل پر یہی خیال غالب رہتا تھا کہ اگر کل موت آجاوے تو پھر کون جواب دہ ہوگا.آخر کار میں نے شرم و حیا سے کام لے کر اپنے ایک مسلمان استاد (میاں روشن دین) سے اس ہجرت کا اظہار کیا.انہوں نے زور اور تاکید سے یہی سمجھایا کہ ابھی وہ وقت اور عمر نہیں کہ ایسے کام کا اقدام کیا جاوے ( بڑی عمر میں تلاش مذہب کی طرف توجہ کرنا ) مگر پھر دل میں یہی خیال پیدا ہوا کہ عمر کا اعتبار نہیں اور ان کے مشورے پر عمل درآمد کرنا ٹھیک نہیں کیوں کہ انہیں اپنی ملازمت کے متعلق خطرہ پیدا ہو گیا تھا اور میرے رشتہ داروں کی طرف سے ایذارسانی اور مقدمات وغیرہ کا خوف دامن گیر تھا.“ قلمی مسودہ میں مندرج ہے کہ آپ نے ایک دفعہ استاد صاحب سے عرض کیا کہ آپ لوگ پانچ وقت عبادت الہی کرتے ہیں اگر ایک نماز کے پانچ نمبر بھی لیتے ہوں تو ایک دن میں پانچ وقت نماز ادا کر کے ۲۵ نمبر آپ لوگوں کے اعمال نامے میں درج ہو جاتے ہیں مگر ہمارے مذہب سکھ دھرم میں عبادت کا ایسا با ضابطہ انتظام نہیں.“ اس وقت آپ یہ سمجھ چکے تھے کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے روحانی تعلیم و تربیت کا باقاعدہ انتظام کر رکھا ہے.اور وہ ہر زمانہ میں کسی نہ کسی بزرگ کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت دینے کے لئے کھڑا کرتا ہے اس لئے اسلام قبول کر لینا مجھ پر واجب ہے اگر میں مشرف با سلام نہ ہوا تو بروز محشر اللہ تعالیٰ کے حضور کیا جواب دوں گا.“ "حاصل کلام یہ کہ اسی کش مکش میں خاکسار نے گھر سے ہجرت کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا.چنانچہ ان ہی دنوں میں جب میں ان خیالات میں محود مستغرق تھا ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں کوٹھے پر چڑھ کر بہت رویا اور بغیر بستر کے وہیں چھت پر لیٹ گیا اور دل سے مخاطب ہو کر کہا کہ اپنے پیارے والدین اور بھائی بہنوں کی جدائی اور تفرقہ سے جس قدر باہر جا کر رونا اور افسوس کرنا ہے وہ ماتم آج یہیں کر لو اور اپنے لئے ان سب کو زندہ در گور گردان کر لو

Page 12

5 کیونکہ دوبارہ ان سے ملاقات کرنا ایک امر محال ہو جاوے گا.پس آج ان مربی اور محسن لوگوں کے احسانات اور فوائد دنیوی سے بکلی ناامید ہو جاؤ.پس تو اب اپنے تئیں ایسا فرض کر لے کہ گویا تو اپنے گھر اور اپنے پیارے والدین اور پیار کرنے والی بہنوں اور دیگر خویش و اقرباء سے الگ ہو کر دور کے لق و دق جنگل میں پڑا ہے جہاں چاروں طرف سے درندوں کی خوفناک آواز میں بدن پر لرزہ ڈالتی ہیں اور کوئی صورت بچاؤ کی نظر نہیں آتی اور سوائے مالک حقیقی کے تیرا کوئی غم گسار نہیں اور اپنوں اور بے گانوں کے احسانات اور محبتوں کو یاد کر کے جس قدر جدائی کا احساس ہو سکتا ہے یہیں کر لے.ان خیالات میں ساتھ ساتھ دعا بھی کرتا تھا کہ.وو ” ہے دیا لوکر پالو انو پیم! تو مجھے اس غم سے نجات بخش جس میں تو مجھے اب مبتلا دیکھتا ہے.تیرے سوا کوئی اس امر سے واقف نہیں کوئی ایسی راہ دکھا جس سے مجھے اس غم سے رہائی حاصل ہو جاوے جس کا تیرے سوا اور کوئی چارہ گر نہیں اور تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں.“ خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر وعدہ کیا ہوا ہے کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (2) کہ ہم وصال الہی کی سچی تڑپ رکھنے والوں کوضرور ہدایت عطا کریں گے.گوماسٹر صاحب کے استاد کا جواب ناتسلی بخش اور مایوس کن تھا، وہ ذات جس نے یہ تڑپ آپ کے دل میں پیدا کی تھی اس کی نظر اعماق قلوب تک پہنچتی ہے اس نے آپ کی ہدایت کے سامان کر دیئے.ماسٹر صاحب کہتے ہیں.اس طرح درگاہ الہی میں نہایت سوز وگداز اور تضرع والتہاب سے دعائیں کرتا تھا.آخر اسی حالت میں نیند آ گئی اور خواب میں دیکھا کہ میں گھر سے بھاگا ہوں اور اپنی گلی میں جہاں جہاں قدم رکھتا ہوں قدم قدم پر آتش سوزاں کا کنواں نکل آتا ہے جس میں سے آگ کے خوفناک شعلے نکل رہے ہیں لیکن یہ عاجز مغرب کی طرف بھاگا جاتا ہے اور آٹھ کوس تک یہی حالت رہی.آخر کار یہ عاجز ایک مکان پر چڑھ گیا مگر اس کی چھت پھٹ گئی اور آتش کدہ نمودار ہو گیا.پھر میں اس مکان سے نیچے کود پڑا اور آنکھ کھل گئی.وو اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ خواب کیا ہوتا ہے اور اس کی تعبیر کیا حقیقت رکھتی ہے مگر اس خوفناک نظارے کی کیفیت میرے دل میں رہ گئی اور گھر والوں کی محبت میرے دل سے کم ہوتی گئی اور اپنے سکونتی مکان سے روز افزوں محبت سرد ہوتی گئی چند روز کے بعد اس عاجز نے پھر نہایت گریہ و بکا سے جناب الہی میں عرض کی کہ : ” ہے قادر کر تار جب تو نے یہ سوز اور جلن اور عشق میرے دل میں بھڑ کا دیا ہے تو پھر تو ہی اس کا علاج کر اور اس پیاس کو بجھا کہ تیری درگاہ میں کسی چیز کی کمی نہیں اور تیری پاک ذات میں بخل بھی نہیں.پھر تو مجھے صاف طور سے صراط مستقیم دکھا دے.میں بچے دل سے اس امر پر تیار ہوں کہ تجھے راضی کروں جس مذہب میں میں تجھے خوش اور راضی کر سکتا ہوں مجھے اس سے اطلاع بخش کہ میں تیرے لئے ہر ایک عزیز اور محبوب تعلق دار کو چھوڑنے

Page 13

6 کے لئے ہمہ تن تیار اور مستعد ہوں حتی کہ میں ان پیارے والدین کو بھی تجھ پر قربان کرنے کو تیار ہوں جن کی محبت اور احسان یاد کر کے میرا کلیجہ پاش پاش ہوتا ہے.“ اس دعا کے بعد میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ مختلف قوموں میں جو مختلف پر میشر کے نام مشہور ومعروف ہیں ان کا وظیفہ کرو.پھر جس قوم میں راستی ہوگی اور جس زبان اور قوم کے اسماء الہی بابرکت ہوں گے اسی طرف تمہیں کھینچ لیا جاوے گا.پس اس ہدایت اور ایماء الہی کے مطابق خاکسار یا پر میشر یا الہی ، یا رب یا اللہ وغیرہ وغیرہ اسماء باری تعالیٰ کا وظیفہ کرنے لگا.اکثر جنگلوں میں جا کر بالکل تنہائی میں یہ وظیفہ پڑھا کرتا تھا اور نہایت اضطرار اور دردانگیز سوز و گداز سے جناب الہی میں رو رو کر دعائیں کرتا تھا.چند روز کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ یہ عاجز اور ایک اور لڑکا ( نتھا سنگھ ) جو میرا ہم محلہ اور ہم مکتب تھا ( دونوں اپنے کماد میں حفاظت کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں ریکا یک آگ لگ گئی.دوسرے سب محافظ جو سکھ تھے جلتے گئے ) ہم دونوں خوفناک آگ سے صحیح سلامت نکل آئے ہیں.مگر ہمارے ہاں کے باقی لوگ آتش سوزاں میں ڈھیر ہو گئے ہیں.مجھے ان دنوں خواب کی حقیقت معلوم نہ تھی اور نہ اس کی تعبیر کی طرف توجہ کرتا تھا.آخر مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد جب میں نے ایک نیک مرد سے یہ خواب بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ دوسرا لڑکا بھی اسلام میں داخل ہو جائے گا.سوخدا کا شکر ہے کہ دو سال بعد وہ دوسرائر کا بھی اسلام میں داخل ہو گیا ( یعنی نتھا سنگھ ) مشرف بہ اسلام ہو کر احمدی ہو گیا ، ان کا نام حاجی عبداللہ صاحب ہے اور آج کل سیالکوٹ میں مقیم ہیں.اسی طرح ان ایام موسم گرما میں جب دمدار تارہ بوقت تہجد آسمان پر طلوع ہوتا تھا خواب دیکھا کہ جہاں میں پاؤں رکھتا ہوں آگ کا دھواں نکل آتا ہے.میں اپنے قصبے سے بھاگا بھاگا جالندھر ریلوے لائن پر پہنچا جہاں کھڑا ہوتا ہوں آگ کا کنواں نکل آتا ہے آخر ایک چھت پر چڑھ گیا.وہاں بھی یہی حال ہوا اور میں نے چھت سے چھلانگ لگائی مجھے جاگ آ گئی.اس خواب کے بعد یکا یک میرا دل اچاٹ ہو گیا اور اپنے خاندان کے انہیں افراد سے سرد ہو گیا اور اپنے گاؤں کے درودیوار پر نخوست برستی ہوئی نظر آتی تھی.میں نہایت حیران اور پریشان تھا اور نہ جانتا تھا کہ کہاں جاؤں اور کس کے پاس جاؤں.آخر کار تو کل علی اللہ میں اپنے گھر سے نکلا اور گھر کے ہر ایک خوب صورت چہرے کو حسرت آمیز نگاہوں سے دیکھتا تھا.اور اپنی زاد بوم کو چشم پر آب ہو کر الوداع کہتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مجھ میں اور میرے خویش و اقرباء میں ایسی دیوار حائل ہونے والی ہے کہ قیامت تک پھر یہ لوگ مجھ سے دور دمہجور اور نا آشنا ہوں گے اور کوئی ایک بھی میرا خیر خواہ نہ ہوگا.اس درد ناک حالت میں جب کہ میں ان سے الگ ہونے کو تھا جدائی حاجی عبداللہ نومسلم دارالرحمت قادیان نے ہمئی ۱۹۳۵ء کوحلفی بیان میں نظارت تالیف و تصنیف کو اپنے قلم سے لکھ کر دیا کہ ” میں نے ۱۸۹۲ء کے قریب بیعت کی“

Page 14

7 اور تفرقہ کے احساس سے کلیجہ منہ کو آتا تھا اور دل پر طرح طرح کے خیالات مستولی تھے جن کو میں الفاظ کا جامہ پہنانے سے عاجز ہوں ہاں اتنا لکھنا ضروری ہے کہ بظاہر تمام دنیوی امیدوں کو خاک میں ملاتا تھا اور آنکھوں سے لگا تار آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی، اور دل میں غم واندوہ کی گھٹا چھائی ہوئی تھی اور میں اپنے تئیں خستہ حال اور بے کس مظلوم کی طرح دیکھتا تھا.مگر زبان یا دل پر کسی کی شکایت نہ تھی کبھی ہجرت کرنے کی امید میں اور ثمرات دل میں جرات پیدا کرتے تھے.گاہے گھر والوں کی محبت بھری نگاہیں اور سفر و حضر کی تکالیف کلیجہ کو ہلا دیتی تھیں.اور والدہ ماجدہ جو ہم چار بھائیوں میں سے بڑھ کر مجھے خصوصیت کے ساتھ محبت اور پیار کرتی تھیں کیونکہ ان میں سے صرف میں ہی تعلیم پاتا تھا، ان کی مصیبت اور رنج کو میں تصور میں نہ لاسکتا تھا جو عنقریب میری عدم موجودگی میں ان پر آنے والا تھا.دل میں خیال آیا کہ یہ لوگ جو آج اس قدر محبت کرتے ہیں کہ مجھ کو ان سے کوئی بھی عزیز اور پیارا معلوم نہیں ہوتا.لیکن کچھ عرصے کے بعد ان سے بڑھ کر میرا کوئی دشمن اور مخالف نہ ہوگا.غرض جب میں باہر نظر ڈالتا تھا تو قدم باہر پڑتے تھے اور جب میں گھر کی طرف دیکھتا تھا تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے اور میرا ان سے الگ ہونا در حقیقت موت کے برابر تھا.قصہ کوتاہ جو حالت مجھ پر اس وقت گذری اس کی کیفیت وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھوں نے ایسی مفارقت کا تجربہ کیا ہے اور وہ مصیبت اور افسوس جو والدہ صاحبہ کو میرے لئے برداشت کرنا پڑا صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا کوئی بچہ یوں ہی گرگ وشیر کا شکار ہو گیا ہو یا کسی اور دردناک حالت میں مبتلا ہو کر راہی عالم بقا ہو گیا ہو.پس اس دردناک ماجرا کو زیادہ طول دینا ٹھیک نہیں کیوں کہ ممکن ہے کہ بہتوں کے دل دیکھیں اور بہتوں کی آنکھیں پُر آب ہوں.ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ جو چودہ سالہ بچہ اپنے بڑے کنبہ سے جبراً الگ کیا جاتا ہے.اس پر اور اس کے والدین کے دل پر کیا کیا صدمے گذرے ہوں گے اور کب تک انہوں نے رورو کر راتیں گذاری ہوں گی مگر آخر کار خدا کے فضل وکرم نے میری ایسی دستگیری کی کہ میں نے ان سب کمندوں کو توڑا اور اپنے پیارے وطن اور خولیش و عزیز کو اپنے زعم میں ہمیشہ کے لئے زندہ درگور کیا.وہ بے چارے اس سرگذشت سے بکلی بے خبر تھے اور نہ جانتے تھے کہ میں ان کے لئے رونے اور پیٹنے کا سامان تیار کر رہا ہوں اور میں خوب محسوس کرتا تھا کہ یہ لوگ عنقریب میری نسبت ایک دردانگیز حالت میں مبتلا ہو جاویں گے اور مجھے اپنے خیال میں مردہ سمجھ کر تمام خاندان کے مردوزن نوحہ میں مصروف ہو جاویں گے اور سال تک پُر درد مصیبت میں گرفتار رہیں گے.قصہ کوتاہ بڑے زور اور جبر سے اپنے دلی جوشوں اور محبتوں کود با یا اور کلیجہ کو تھاما اور گھر سے (والدہ صاحبہ سے) کچھ زادراہ لے کر روانہ ہوا اور گھر والوں کو کہہ دیا کہ میں کچھ کتب خریدنے کو جالندھر جاتا ہوں.انہوں نے حسب معمول اجازت دی.پھر میں وہاں سے روانہ ہو کر ( جالندھر گیا اور والد صاحب اور بھائیوں سے رخصت ہو کر پیدل ) بمقام کرتار پور آیا پھر دوسرے روز پا پیادہ چل کر

Page 15

8 امرتسر کے قریب آپ پہونچا.ابھی شہر دو تین میل کے فاصلے پر تھا کہ رات ہو گئی اور سخت اندھیرا ہو گیا اور بوجہ تنہائی اور غیر معمولی تاریکی کے دل پر خوف اور حزن طاری ہوا ( مبادا بھیڑیے مجھے کھا جائیں ) اور دل میں خیال آیا کہ فی الحال گھر واپس جانا قرین مصلحت ہے کیوں کہ جب پہلی مرتبہ اتنی تکلیف اور عزیزوں قریبوں سے جدائی اور مفارقت برداشت ہوگئی تو پھر دوسری دفعہ زیادہ لمبا سفر اور اس کے مشکلات کا سامنا کرسکوں گا اور خوردسالی کے خطرات بھی جاتے رہیں گے.ان ہی خیالات میں (ابھی چند قدم ہی لوٹا تھا کہ ) یکا یک میری زبان پر زور سے القا ہوا کہ کس ندیدم که گم شد از ره راست اس جملے سے میرے دل میں شرح صدر اور شبح قلب تقویت اور حوصلہ پیدا ہوگیا اور یقین ہو گیا کہ وہ خدا جس کی رضا جوئی کی خاطر میں نے یہ تکالیف اور صعوبتیں برداشت کیں اور اپنے والدین اور بھائیوں کو ایک رڈی چیز کی طرح پھینک دیا اگر وہ در حقیقت ہے اور اس جہاں کا حقیقی خالق و مالک ہے اور ہر ذرہ پر اس کا قبضہ و تصرف ہے تو مجھے ہرگز ضائع نہیں ہونے دے گا.وہ بڑا وفادار اور زبردست طاقتوں کا مالک ہے.پھر کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے بے اعتنائی کرے جس نے اس کو ہر ایک شے پر ترجیح دے کر قبول کر لیا ہے اور اس کی خاطر صدہا ہلاکتیں قبول و اختیار کر لی ہوں.وہ ہرگز مجھے نہیں چھوڑے گا.خواہ بظاہر مصائب اور تکالیف کی گھنگھور گھٹا چھائی ہوئی ہو.تھوڑی دیر کے بعد میں نے سڑک سے ایک طرف ہو کر تنگ و تاریک درختوں کے جھنڈ میں آبسیرا کیا اور درندوں اور دیگر حشرات الارض سے ڈرتے ڈرتے وہ رات کاٹی.تیسرے روز یہ عاجز بمقام لاہور پہنچا.لیکن کھانا کھانے کے بعد شہر سے دو تین میل باہر جا کر لاہور اور باغبان پورہ کے درمیان ) گیہوں کے کھیتوں میں آ سویا.کیوں کہ شہر میں کوئی واقف نہ تھا.غرض جس طرح یہ رات کائی اس کی کیفیت ہر ایک بطور خود ذہن میں لاسکتا ہے کہ ایک کمزور اور نا واقف اور ناتجربہ کارلڑکے کو جنگل میں کن کن تکلیفوں اور حاجتوں اور خوف وحزن کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، اسی طرح میں نے جوں توں کر کے چند مہینے لاہور اور میانمیر کے درمیان گیہوں کے کھیتوں میں کاٹے.محض خدا کے فضل وکرم نے ہر ایک مصیبت اور تکلیف سے بچایا ( میں تلاش حق میں سرگرداں رہتا اور مولوی اور پادریوں کے بازاروں میں وعظ سنتا.راوی پار ایک ہندو ٹھیکیدار کے پاس ملازمت کر لی ) آخر کار (ایک دو ماہ بعد میں شرقپور گیا.وہاں مسجد عالی میں) ایک نہایت معمر مسلمان مسمی مستقیم کے ہاتھ پر یہ عاجز مشرف بہ اسلام ہوا.انہوں نے میرے سر کے بال کٹوا دئے اور ان سے مجھے ) نماز وروزہ سے آگا ہی ہوگئی (انہوں نے تین چار روز بعد کہا کہ آج جمعہ ہے تم سوال کرنا ، لوگ چلے گئے.میں نے سوال نہ کیا.انہوں نے پوچھا کہ تم نے سوال کیوں نہ کیا.میں نے ٹالنے کے لئے کہا کہ میرے پاس سلیٹ.پنسل اور کتاب نہیں اس زمانہ میں امرتسر کا قرب و جواراتنا آباد نہ تھا اور جنگل کی مانند تھا.جہاں بھیڑیے بھی پائے جاتے تھے.(مؤلف)

Page 16

9 سوال کیسے کروں.انہوں نے کہا کہ تمہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ سوال کیا ہوتا ہے.میں نے کہا میں نوکری کرلوں گا.سوال نہیں کروں گا ) بعد ازاں یہ عاجز (مولوی عبد الکریم صاحب واعظ کے ساتھ ) گوجرانوالہ پہنچا اور مسجد علاؤالدین موحد میں ٹھہرا اور نماز سیکھی.میں ریل دیکھنے اکثر ریلوے سٹیشن پر آتا تھا ) چند روز قیام کرنے کے بعد مولوی خدابخش صاحب جالندھری سے ریلوے سٹیشن پر ملاقات ہوئی میں نے ہر چندان سے اپنی سکونت اور وطن کو چھپانا چاہا لیکن انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ تمہاری زبان سے معلوم ہوتا ہے کہ تم جالندھر کے گردونواح کے باشندہ ہو.آخر کار مجبوراً اپنا پورا پتہ اور تمام سرگزشت سنانی پڑی.میں نے اختفاء حال اس لئے کیا تھا مبادا میرے والدین کسی قوم فروش غدار مسلمان کو طمع دے کر مجھے واپس بلانے کی کوشش کریں.انہوں نے مجھے بار بار یقین دلایا کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا کہ ایک ادنی طمع سے ایک شخص جو اسلام میں داخل ہوا ہو اس کو پھر کفر کی طرف واپس کرا دے.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ مسیح کے حواری اس قدر بھی غیرت ایمان اور دنیا سے سرد مہری نہیں رکھتے تھے جتنی آج کل ایک ادنیٰ مسلمان رکھتا ہے.کیونکہ یہودا اسکر یوطی حواری نے مسیح کو تمیں روپے لے کر گرفتار کرا دیا تھا اور پطرس نے بوجہ خوف کے ان پر لعنت کی.حضرت عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ: ”مولوی خدا بخش صاحب جالندھری نہایت مخلص آدمی تھے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شہادت ہے، انہوں نے ۱۸۸۹ء میں ہی بیعت کی تھی اور کبھی کوئی ابتلا ان پر نہیں آیا، وہ اشاعت اسلام کے لئے بڑا جوش رکھتے تھے.ہمارے مکرم اور مخلص بھائی سردار مہر سنگھ حال ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے ان کی ابتدائی تربیت اسلام مولوی صاحب ہی کے ہاتھوں ہوئی ہے.وہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ کسی غیر مسلم کو داخل اسلام کریں اور اس کے لئے وہ کسی قسم کی محنت تکلیف اور خرچ سے کبھی مضائقہ نہ فرماتے تھے.اس قسم کی دینی خدمات کی وجہ سے وہ زیر بار ہوئے.حضرت مسیح موعود نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو مار دسمبر ۱۸۹۰ء کو ایک مکتوب صرف مولوی صاحب کی اعانت کے متعلق رقم فرمایا.جس میں تحریر فرمایا: مولوی خدا بخش حامل ہذا جو مجھ سے تعلق بیعت رکھتے ہیں.بہت نیک سرشت اور صاف باطن اور محبت صادق ہیں.مجھے ان کی تکالیف معلوم ہوگئی ہیں.وہ شاید میں آدمیوں سے زیادہ کے قرضدار ہیں اور نہایت تلخی میں ان کا زمانہ گزرتا ہے.وطن میں جانا ان کا ترک ہو گیا ہے اور میں نے دریافت کیا ہے کہ یہ سب تکالیف محض دینی ہمدردی کی وجہ سے جس میں آج تک وہ مشغول ہیں ان کو پہنچ رہی ہیں اور کوئی ان کے حال کا پرسان نہیں.لہذا اس مخدوم کو محض اس وجہ سے کہ آپ ہمدرد خلائق ہیں اور لہبی امور میں پورا جوش رکھتے ہیں تکلیف دیتا ہوں کہ اس بے چارہ بے سروسامان کے لئے کچھ بندوبست فرمائیے.اگر چندہ ہو تو میں بھی اس میں شامل ہونے کو تیار ہوں.بلکہ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ کی تحریک اور انتظام سے اور آپ کی پوری (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )

Page 17

10 حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں باریابی: پھر وہ مولوی خدا بخش صاحب مجھے مولانا محترم حکیم نورالدین صاحب عم فیضہ کے پاس لے گئے.“ اس بارہ میں آپ قلمی مسودہ میں رقم فرماتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد مولوی خدا بخش صاحب نے مجھے بھیرہ پہنچایا.وہاں صحبت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے مجھے دہلی میں ایک نومسلم مولوی محمد صاحب کے پاس متصل مسجد مولوی سید نذیر حسین صاحب شیخ الکل پہنچایا.وہاں میں ایک دو سال گلستان بوستاں پڑھتارہا.کتابت سیکھی.قرآن مجید پڑھا رات کو مولوی محمد صاحب کے ہاں سوتا تھا وہاں سرسام سے شدید بیمار ہو گیا اور معالج مایوس ہو گئے تو مشہور حکیم اجمل خاں کے علاج سے مجھے شفا ہو گئی.پھر مجھے مولوی خدا بخش صاحب را جپورہ ( پٹیالہ ) لے آئے.ہمارے قصبے کے ایک مہنت نے جو مہا راجہ پٹیالہ کا پروہت تھا مجھے پکڑ لیا اور پوچھا کہ کیا تم مہر سنگھ ہو.اس پر میں نے ایسا جواب دیا جس سے وہ حیران و ششدر ہو گیا.اس رات میں دہلی کے لئے روانہ ہو گیا.پھر مولوی صاحب مجھے جالندھر اور وہاں سے قادیان لے آئے.حضرت اقدس کی اولین زیارت اور بیعت : آپ کا بیان ہے کہ ۱۸۹۰ ء کے قریب حضرت مولوی خدا بخش صاحب مجھے قادیان لے آئے اور مجھے پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا شرف حاصل ہوا.اس زمانے میں چند افراد ہی مسجد مبارک میں بوقت نماز آتے تھے.فتح اسلام میں حضرت اقدس نے مسیح موعود ہونے کا دعوئی بیان کیا ہے، اور یہ دعویٰ ایک انقلابی رنگ رکھتا تھا.کیوں کہ حضور اس سے قبل عام مسلمانوں کے رنگ میں حیات عیسی کے قائل تھے.اب حضور پر اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر فرما دیا تھا کہ مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں اور نازل ہونے والے مسیح نے امت محمدیہ میں ہی پیدا ہونا تھا اور وہ آپ ہی ہیں.ماسٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ پہلی بار قادیان آنے پر حضرت حافظ حامد علی صاحب کو سرگوشی میں حضرت سید فضل شاہ صاحب سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ دیکھو اب تو حضرت صاحب عیسی بن گئے ہیں.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ اس وقت ابھی فتح اسلام زیر تصنیف تھی (جیسا کہ آگے بیان ہوگا ) اور ابھی اس کا اعلان نہیں ہوا تھا اس لئے حافظ صاحب نے گویا یہ خوشخبری شاہ صاحب کو سنائی ہوگی تا کہ وہ بھی انبساط وسرور میں شریک ہوسکیں.(بقیہ حاشیہ) اور کامل توجہ سے چندہ کے لئے احسن تدبیر کی جاوے اور میں اسی خط میں اپنے تمام مخلصوں کی خدمت میں محض اللہ اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ ہر ایک صاحب حتی الوسع اپنے اس چندہ میں شریک ہو.سب کے ایک ایک لقمہ دینے سے ایک کی غذا نکل آئے گی اور کسی کو تکلیف نہ ہوگی.میں نے سنا ہے کہ فریمین کا گروہ اپنے ہم تعلقوں کے ساتھ قرضہ وغیرہ کے امور میں بہت ہمدردی کرتا ہے.پس کیا مسلمانوں کا یہ پاک گروہ فریمین کے پر بدعت اور ملحد گروہ سے ہمدردی میں کم ہونا چاہیے؟ (3)

Page 18

11 ماسٹر صاحب بیان کرتے ہیں : ۱۸۹۰ء.۱۸۹۱ء تھا جب میں پہلی مرتبہ قادیان حاضر ہوا ( اس وقت حضور علیہ السلام کے پاس بہت تھوڑے آدمی ہوتے تھے اور نماز میں غالبا چار پانچ آدمی ہوتے ہوں گے ) ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ فتح اسلام کی پہلی کاپی کے پروف دیکھ رہے تھے.میں ابھی بچہ ہی تھا ( ان دنوں بیعت ہاتھ میں ہاتھ لے کر نہیں ہوتی تھی بلکہ حضور علیہ السلام بینی ( کلائی) سے ہاتھ پکڑ لیتے تھے اور پھر بیعت لیتے تھے ) آپ نے میرے دائیں ہاتھ کی کلائی پکڑ کر میری بیعت قبول فرمائی اور الفاظ بیعت بھی اس وقت بعد کے الفاظ سے مختلف تھے جن میں سے ایک فقرہ یادرہ گیا * ( جواب تک میرے کانوں میں گونج رہا ہے ) کہ میں منہیات سے بچتارہوں گا (4) ماسٹر صاحب نے بیان کیا کہ ابھی مجھے منہیات کے معنی نہیں آتے تھے گو میں اس کا مفہوم منع کی ہوئی باتیں ہی سمجھتا تھا.میاں محمد یا مین صاحب تاجر کتب والی دکان نزد مسجد مبارک کے عقب میں ایک تنور کے پاس چار پائی پر بٹھا کر میری بیعت لی تھی.والدین سے پہلی ملاقات: ☆☆ جیسا کہ آگے ذکر آئے گا آپ جموں میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کے پاس پہنچ گئے اور مدرسہ میں داخل ہوئے آپ لکھتے ہیں : ” خاکسار کی تعلیم دو سال کے وقفہ کے بعد پھر شروع ہوگئی.ادھر میں تعلیم پا تا تھا.اُدھر میرے اصلی گھر میں زور شور سے رونا پیٹنا جاری تھا.جیسے ہندوؤں اور سکھوں میں کسی عزیز کے مرنے پر عام طور سے ہوا کرتا ہے.انہوں نے خیال کیا تھا کہ یا تو اس عاجز کو بھیٹر یا اٹھا کر لے گیا ہے یا کسی ندی نالے میں ڈوب کر مر گیا ہے.میری مادر مہربان کی حالت نا گفتہ بہ ہے وہ بے چاری دیوانہ وار کلاس فیلوں کے گھروں میں پھرتی تھی اور میرے ہم مکتب لڑکوں کو طمع دیتی تھی تا کہ کسی سے میرا پتہ لگے.لیکن کسی کو میری جائے یہ خطوط واحدانی کا حصہ بیعت کے بارے میں آپ کی روایت مندرجہ الحکم سے اگست ۱۹۳۸ء سے زائد کیا ہے البتہ ابتدا خط وحدانی میں لفظ ”جو خاکسار مؤلف نے ربط کی خاطر زائد کیا ہے.ایک حلفی بیان میں بھی جو کہ ماسٹر صاحب نے اپنے قلم سے ۶ مئی ۱۹۳۵ء کو نظارت تالیف و تصنیف کو دیا تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے ۱۸۹۰ء یا ۹۱ء میں بیعت کی جب کہ فتح اسلام تالیف ہونی شروع ہوئی تھی.اس میں اور اوپر کے بیان میں کہ فتح اسلام کی پہلی کا پی کا پروف دیکھ رہے تھے کوئی تضاد نہیں.(بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر )

Page 19

12 رہائش سے مطلق اطلاع نہ تھی.مگر وہ بے چاری مامتا کی ماری ہر روز مدرسہ میں جاتی اور زار زار روتی (5) چنانچہ ماسٹر صاحب نے خطوط کے ذریعے اپنی خیریت کی اطلاع دی جس سے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پھر جلد بعد آپ نے والدین واقارب سے ملاقات کی اس اولین ملاقات کی تفصیل دوسری جگہ درج ہے.البتہ یہاں دوسری ملاقات کی تفصیل دی جاتی ہے.دوسری ملاقات : دوسری ملاقات کے متعلق آپ لکھتے ہیں ☆ ” جب میں دوسری مرتبہ اپنے والدین اور دوسرے خویش و اقربا کو ملنے کی غرض سے گھر آیا تو گھر والوں کی حالت نفرت کی طرف مائل دیکھی اور ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ جس طرح ممکن ہو سکے اس کو دوبارہ شدھ کرنے کی کوشش کی جاوے.چنانچہ بہت کچھ طمع دی گئی اور پنڈت وغیرہ بھی سمجھانے بجھانے کی غرض سے بلائے گئے تھے.چنانچہ ایک پنڈت صاحب نہایت نرمی اور محبت سے یوں سمجھانے لگے کہ ابھی تمہارا کچھ نقصان نہیں ہوا.تم ہر دوار (بقیہ حاشیہ ) مصنف کے سوا ہر ایک شخص تالیف و طباعت کو ایک ہی وقت کا کام سمجھتا ہے.سو قادیان کی آمد اور بیعت کی تعین فتح اسلام کے آغاز طباعت کی تعین سے ہوسکتی ہے.اس کا آغاز ۲۰ دسمبر ۱۸۹۰ ء سے قبل ہو چکا ہوگا.چنانچہ حضرت مسیح موعود ۱۸۹۰.۱۲.۲ کو حضرت مولوی نورالدین صاحب کو تحریر فرماتے ہیں.،، وسکتاب فتح اسلام کسی قدر بڑھائی گئی ہے اور مطبع امرتسر میں چھپ رہی ہے.(6) اور ۱۸۹۰.۱۲.۲۹ کو حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کو تحریر فرماتے ہیں؟ ایک جدید رسالہ بنام فتح اسلام تیار ہوا ہے اور مطبع میں زیر طبع ہے، (7) گویا ماسٹر صاحب کی پہلی بار قادیان میں آمد ۲۰ دسمبر ۱۸۹۰ء کے لگ بھگ ہوگی یعنی اواخر نومبر یا آغاز دسمبر ۱۸۹۰ء میں جب کہ حضور فتح اسلام کی پہلی کاپی کے پروف دیکھ رہے تھے.پہلی ملاقات کے زمانہ کی پوری تعیین نہیں ہوسکی خاکسار کے نزدیک وہ ۱۸۹۰ء میں ہوئی تھی اس لئے کہ قادیان اس سال آنے سے قلیل عرصہ قبل آپ کے قصبے کے ایک پر وہت نے آپ کو پہچان لیا تھا جس کے بعد دوسری دفعہ آپ دہلی چلے گئے اور وہاں سے جالندھر ہو کر آپ قادیان آپہنچے اور بیعت کی.البتہ دوسری ملاقات ۱۸۹۶ء میں ہوئی.کیوں کہ اس کی تفصیل میں باوا نا تک صاحب کے مسلمان ہونے اور ان کے چولے کا ذکر ہے.اور یہ کہ چولے کے متعلق ایک سال ہوا شور برپا ہوا تھا.اس میں حضرت اقدس کے ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء کو چولہ صاحب دیکھنے اور بعد ازاں اس کے متعلق اعلان کرنے کی طرف اشارہ ہے.گویا دوسری ملاقات پہلی ملاقات کے چھ سال بعد ہوئی.

Page 20

13 میں جا کر اور گنگا جی کا اشنان کر کے دو چار روز کے اندر اپنے بھائی بندوں میں مل کر بیٹھ سکتے ہو تم نے مسلمان بن کر کیا لیا ہے.میں نے کہا کہ میں تو پہلے ہی سے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا چاہتا ہوں یہ تو صرف آپ لوگوں کی طرف سے توقف اور دیر ہے یا میرے بھائیوں کی غلطی اور ستی ہے کہ وہ اس امر کے لئے تیار نہیں.پنڈت جی نے کہا نہیں مہاراج ! میں ابھی باہم صلح اور رضا مندی کرا دیتا ہوں.آپ تسلی رکھیں.میری اس نرمی پر پنڈت صاحب اور تمام رشتہ داروں کو بہت ہی امید بندھ گئی اور ہر دوار جانے کی تیاریاں کرنے لگ پڑے.جب خاکسار نے پنڈت جی سے کہا کہ مجھے پہلے بتلا دیا جاوے کہ جو کچھ ہر دوار میں جا کر مجھ سے کرانا ہے وہ مجھے یہیں بتلا دو تو پنڈت جی نے بعض فضول اور بے ہودہ اور بے سروپا رسومات کا نام لیا اور بعض نے کہا کہ گو موتر اور گو بر بھی کھلایا پلایا جاوے.میں نے ادب سے عرض کی کہ پنڈت جی مہاراج! ان رسومات کی ادائیگی سے میری روح اور چال چلن پر کیا اثر پڑے گا.میں نہیں سمجھ سکتا کہ مجھے کوئی روحانی یا جسمانی فائدہ ان رسموں کے ادا کرنے سے مترتب ہو سکے ، ہاں اگر در حقیقت اس میں خیر و برکت ہے تو چند روز آپ میرے سامنے مثلاً آپ گوموتر پی کر دکھائیے.اگر آپ کے چہرہ میں کچھ مزید رونق اور تر و تازگی نمودار ہوئی یا کوئی اور باطنی فائدہ محسوس ہوا تو مجھے ہر دوار جانے میں کوئی عذر نہیں.لیکن اگر پیشاب سے آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو کر کر یہ المنظر ہو گیا تو میں ایسے کام کو کرنے سے معذور ہوں.ہاں اگر اس میں خیر و خوبی ہے تو آپ کو اس کام کے کرنے سے لیت و لعل نہیں کرنی چاہیے.مگر افسوس کہ پنڈت جی نے اس کارخیر کے کرنے سے صاف انکار کر دیا.میں نے کہا کہ جب آپ گندگی اور نجاست سے بھاگتے ہیں تو میں اس کو دیانتداری اور نیک نیتی نہیں سمجھتا کہ جس کام سے آپ کوسوں بھاگتے ہیں مجھے اس کے کرنے پر مجبور کرتے ہیں مجھے اس میں سے شرارت کی بدبو آتی ہے.مجھے آپ معاف رکھیں کیا کبھی باوانا نک صاحب نے بھی ایسے فعل کا ارتکاب کیا ہے؟ حالانکہ وہ ایسے پکے مسلمان تھے کہ مدت العمر مسلمان بزرگوں کی صحبت میں رہے اور سالہا سال اسلامی ممالک میں عمر بسر کی اور مکہ معظمہ کا حج بھی ادا کیا اور حیات محمد خاں کی لڑکی سے انہوں نے نکاح کیا ( دیکھو سکھاں دے راجدی و تھیا صفحہ ۳ تا ۱۰) اور آج تک بخارا و خیوہ واقع ترکستان میں ان کو کروڑوں آدمی با وانا تک ہندی کہتے ہیں اور صالح اور پرہیز گار مسلمان یقین کرتے ہیں اور انہیں باوا ننو بھی کہتے ہیں.بھلا کبھی باوانا تک صاحب نے اسلامی ملکوں سے واپس آکر آپ جیسے پنڈتوں کے کہنے پر عمل کیا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ تو روضہ خواجہ عبدالشکور سلمہ علیہ الرحمۃ پر سرسہ میں دیر تک چلہ کش رہے جہاں اب تک صد ہا سکھ جاتے ہیں اور اس مکان کو متھا ٹیکتے ہیں اور نذرونیاز چڑھاتے ہیں.پس پنڈت جی ! میں نے کوئی نیا مذ ہب اختیار نہیں کیا بلکه با وانا نک صاحب کا مذہب اختیار کیا ہے جس کو میرے بھائی بند اور دیگر رشتہ دار فراموش کر بیٹھے ہیں.میں تو چاہتا ہوں کہ میں اپنے بھائی بندوں سے مل بیٹھوں لیکن میں کیا کروں میرے خویش و اقربا ان باتوں سے نفرت اور

Page 21

14 انکار کرتے ہیں جن کے باوانا نک صاحب عاشق زار تھے.وہ مدت العمر نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ اور دیگر شعائر اسلام کے پورے پابند اور پکے مسلمان تھے.لیکن اس زمانہ میں سکھوں نے اُن سے منہ پھیر لیا ہے.اتنے میں ایک سردار صاحب بولے کہ بھائی اب بہت کچھ کہا گیا ہے.اب بس کرو.میرا دل بھی نرم ہوتا جاتا ہے.ایسا نہ ہو کہ مجھے بھی مسلمان ہو کر اپنے بال بچوں سے الگ ہونا پڑے.میں نے کہا کہ یہ حق اور راستی ہے، اس کا ضرور اثر ہوگا اگر تم حق کو قبول نہ کرو گے تو ضرور ایک دن تمہاری اولا د اسلام قبول کرے گی اور دیوی دیوتاؤں کو ترک کرے گی اور ہندوؤں کی صدہا مشرکانہ رسومات جو تم لوگوں نے ہندوؤں سے سیکھ لی ہیں سب کو ترک کر دیں گی.مگر بد قسمت ہے وہ قوم جو جس غرض کے لئے دنیا میں آئی چند روزہ زندگی سے پیار کر کے اس کو اور پر میشر کو بھلا دیا اور نہ خود صراط مستقیم اختیار کیا اور نہ اپنی اولاد اور بے خبر عورتوں کو حق قبول کرنے دیا اور اپنے مذہب کے بانی مبانی باوانا تک کی تعلیم سے بر ملا انکار کیا.سردار صاحب.بے شک جو کچھ آپ نے فرمایا وہ حق ہے.یعنی با وا صاحب اکثر مسلمانوں کے ملکوں میں سیر وسیاحت کرتے رہے اور مکہ معظمہ میں بھی گئے تھے اور اکثر مسلمان فقیر اور بزرگان دین کی صحبت میں فیضیاب ہوتے رہے تھے.مگر ہم کیا کریں گورو گوبند سنگھ صاحب بھی تو قابل اطاعت اور فرماں برداری ہیں.انہوں نے کیس سر پر رکھنے کا حکم دیا اور خالصہ مذہب کی بنیاد ڈالی.مگر حق یہی ہے کہ ہمارے مذہب کے بانی مبانی تو در حقیقت با واصاحب ہی ہیں.لیکن گورو گوبند سنگھ صاحب نے ہماری قوم کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا ہے اس لئے ضرور ہے کہ ان کا نام بھی جبیں اور ان کی تعظیم بھی کریں.بتایا گیا ہے کہ گورو گوبند صاحب نے سکھوں کو باواجی کا راستہ چھڑا کر غلط راستے پر لگا دیا.صحیح راستہ وہی ہے جس کا چولہ صاحب کے اوپر ذکر موجود ہے.اسلام سے دور کرنا ظلم ہے.سردار صاحب نے اس کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ آپ خوب جانتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہو جائیں تو ہمیں پھر اپنے خویش و اقربا میں رہنا محال ہو جاوے گا اور کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہیں گے.خلاصہ ) خاکسار.سردار صاحب! جس صورت میں آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ حضرت باوا نانک صاحب اپنی طرز زندگی اور آخری وصیت سے جو متواتر چار سو سال سے آپ لوگوں کے ہی پاس رہی اپنے تئیں مسلمان ثابت کر گئے ہیں تو پھر سخت نادانی اور بے وقوفی ہوگی کہ لوگوں کے ڈر سے پرمیشر اور باوانانک کے احکام کو رڈ کیا جاوے.کیا پر میشر اور با واصاحب سے بہت ڈرنا چاہیے یا لوگوں سے؟ ایک اور سردار صاحب نے کہا کہ چولہ صاحب میں کچھ اور لکھا ہو گا تم یوں ہی ہم کو دھوکا دے رہے ہو، اس پر پہلے سردار صاحب نے کہا کہ نہیں بھائی ! سال گذشتہ میں جو چولا صاحب کے بارے میں بہت شور برپا ہوا

Page 22

15 تھا میں بھی وہاں جا کر دیکھ آیا تھا.یہ سب حق بات ہے لیکن ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ باوا صاحب کس طرح سے مسلمانوں کی سی نماز پڑھتے ہوں گے (8) جموں میں تعلیم پانا اور حضرت اقدس کے مکتوبات میں ذکر آپ بیان کرتے ہیں کہ ” پھر وہ مجھے حضرت مولانا المتر م حکیم نورالدین صاحب عم فریضہ کے پاس ( جموں ) لے گئے ( فرمایا کہ تم کو عربی پڑھا کر مولوی بنائیں گے، میں مہمانوں کی خدمت کرتا تھا، اپنی عدیم الفرصتی کی وجہ سے ) کچھ عرصے کے بعد انہوں نے مجھے مدرسہ میں (چوتھی جماعت میں ) داخل کر دیا اور خاکسار کی تعلیم دو سال کے وقفہ کے بعد پھر شروع ہوگئی (جیسا کہ تفصیل گذر چکی ہے ) ادھر میں تعلیم پاتا تھا ادھر میرے اصلی گھر (9)" میں زور شور سے رونا پیٹنا جاری تھا.“ اس وقت مدرسہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب جیسے بزرگ بھی استاد تھے جن سے ماسٹر صاحب کو ☆ شرف تلمذ حاصل ہوا.آپ جموں ۱۸۹۰ء میں پہنچے تھے.حضرت مولوی نورالدین صاحب کے نام اس عرصے کے حضرت مسیح موعود کے تین مکتوبات میں بھی ماسٹر صاحب کا ذکر آتا ہے.چنانچہ ۲۴ مارچ ۱۸۹۱ء کو حضور رقم فرماتے ہیں: در شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم لڑکا ایک ہفتہ سے میرے پاس ٹھہرا ہوا ہے.اس کی طرف سے یہ آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر دو چار روز تک آپ نے لودہانہ میں تشریف لانا ہو تو وہ اسی جگہ ٹھہر ے دور نہ جموں میں آجاوے“ ایک اور مکتوب میں حضور تحریر فرماتے ہیں: (10) عبدالرحمن نو مسلم لڑ کا اسی جگہ پر ہے اور شاید ضعف کی حالت میں ابھی سفر کرنا آں مکرم کا مناسب نہ ہو اگر ایما فرما دیں تو نام بردہ کو آپ کی طرف روانہ کیا جائے (11)661) پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ۱۸۹۰ء میں ماسٹر صاحب نے بیعت کی پھر ان ہی دنوں میں یا زیادہ سے زیادہ ۱۸۹۱ء کے آغاز میں آپ جموں چلے گئے ہوں گے.یہ امور یقینی ہیں کہ آپ چوتھی میں داخل ہوئے اور ۱۸۹۶ء میں میٹرک کا امتحان دیا اور ایک سال آپ کا بجائے جماعت پنجم کے ششم میں داخل ہو کر بچ گیا تھا.ان سب امور کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ۱۸۹ء میں آپ نے چوتھی جماعت پاس کی اور چھ سال بعد ۱۸۹۷ء میں میٹرک کرتے لیکن ایک سال بچ جانے کے باعث ۱۸۹۶ء میں کیا.گویا ۱۸۹۰ء کے اواخر میں یا آغاز ۱۸۹۱ء میں آپ حضرت مولوی صاحب کے پاس جموں پہنچ چکے تھے.اس مکتوب میں عبد الحق غزنوی اور عبدالرحمن لکھوکے کی تحریرات کا ذکر ہے اور مکتوب مورخہ ۳۹.۹ میں بھی اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مکتوب ۸۲ بھی اسی زمانے کا ہے اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب کے تعلق میں مکتوبات ۷۲، ۷۵ کے ساتھ اس کا مضمون واحد ہے.اس سے بھی اس کی تاریخ اسی عرصہ کی معلوم ہوتی ہے.☆☆

Page 23

16 ☆ مکتوب مورخه ۳۱ مارچ ۱۸۹۱ء میں تحریر فرماتے ہیں کہ عبد الرحمن لڑکا بھی آپ کے انتظار میں مدت سے بیٹھا ہے.مولوی عبدالکریم صاحب منتظر ہیں.آپ ضرور مطلع فرما دیں کہ آپ کب تک تشریف لاویں گے (12) شہر بھیرہ میں دسویں تک تعلیم : ۱۸۹۱ء میں یا اس سے اگلے سال حضرت مولوی نور الدین صاحب کی جموں والی ملازمت اختتام پذیر ہوگئی آپ ماسٹر صاحب کو بھی اپنے ہمراہ اپنے وطن بھیرہ لے گئے.جہاں آپ حضرت حکیم فضل الدین صاحب کی نگرانی میں پانچویں کی بجائے چھٹی میں داخل ہوئے اس وقت تعلیمی سال کے چھ ماہ باقی تھے.پانچ سال تک اسی شہر میں آپ نے تعلیم پا کر میٹرک کا امتحان پاس کیا.مڈل میں آپ ضلع بھر میں اول نمبر پر کامیاب ہوئے.اور چار روپے ماہوار وظیفہ حاصل کیا حالانکہ دیا رام طالب علم نے شرارت کر کے آپ کو نقصان پہنچانا چاہا.لیکن ے جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کے مصداق دیا رام نے آپ سے کتب عاریتاً لیں اور واپس نہ کیں لیکن آپ تو اول نمبر پر کامیاب ہوئے اور وہ سائنس کا پرچہ نہ دے سکا اور اس کے سات نمبر ماسٹر صاحب سے کم آئے.مڈل پاس کر کے آپ نے حضرت حکیم غلام محمد صاحب امرتسری بعض دیگر افراد اور ترجمہ حضرت شاہ رفیع الدین کی مدد سے اڑ ہائی ماہ میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ لیا.ان دنوں آپ کو کشتی اور ورزش کا شوق تھا.ایک جوان مضبوط دھوبی سے آپ کی کشتی ہوئی اور ا تفاقا اس کا ٹخنہ ٹوٹ گیا.حکیم فضل الدین صاحب نے اپنے علم کے مطابق حضرت مولوی نورالدین صاحب کو اطلاع دی کہ عبدالرحمن کھیل کود میں وقت ضائع کرتا ہے حالانکہ یہ بات درست نہ تھی.اس پر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے آپ کے کھانے کا خرچ بند کر دیا.سرکاری وظیفے میں سے اڑ ہائی روپے فیس کی ادائیگی کے بعد آپ کے پاس صرف ڈیڑھ روپیہ بچتا تھا جس میں سے نصف روپیہ سٹیشنری پر صرف ہو جاتا تھا اور بقیہ ایک روپے میں آپ دن رات میں صرف ایک وقت کھانا کھا کر گزراوقات کرتے تھے.اللہ تعالیٰ کارساز ہے.یوں ہوا کہ چند ماہ حضرت مولوی صاحب کی جموں والی ملازمت کے سال کے متعلق سیرۃ المہدی (حصہ اول.روایت (۱۰۱) میں یہی امر ☆ مذکور ہے.م در سی و یکے از ۳۱۳ صحابہ.وفات ۱۹۱۰.۴.۷ بعمر ۷۵ سال مدفون بہشتی مقبرہ قادیان.

Page 24

17 بعد ایک عیسائی استاد نے جو بنگالی تھا کل اس میں اسلام پر اعتراض کئے.آپ کے شافی اور مسکت جواب سے استاد شرمندہ ہوا، اس نے ایک غیر مسلم ایگزیکٹو انجینئر محکمہ انہار سے ذکر کیا کہ عبدالرحمن بہت ذہین ہے، اس کی مدد کرو.چنانچہ مؤخر الذکر نے آپ سے ملاقات کی.آپس میں تبادلہ خیالات ہوا.اس نے تین چار روپے ماہوار کی مدد کرنا شروع کی اور میٹرک کے داخلے کی رقم بھی عطا کی.چنانچہ آپ نے ۱۸۹۶ء میں حضرت میر محمد اسمعیل صاحب ( ابن حضرت نانا جان ) کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کر لیا.آپ کی طبیعت میں کلمہ حق کہنے سے کبھی حجاب یا خوف نہیں ہوا.چنانچہ لالہ ساگر چند جو پنجاب یونیورسٹی کے پہلے گریجویٹ تھے بطور انسپکٹر بھیرہ مدرسہ کا معائنہ کرنے آئے.طلبہ ورزش کے لئے جمع تھے کہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب نے ایک مضمون پڑھ کر سنایا جس میں حاضرین کو امور آخرت کی طرف توجہ دلائی گئی تھی اور بیان کیا تھا کہ دنیوی امتحانات کے واسطے تو ہم تیاری کرتے ہیں لیکن اُخروی امتحان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.لوگوں نے آپ سے کہا کہ ایسی جرات دکھائی.وظیفہ لگوا لیتے.آپ طالب علمی میں بازاروں میں تبلیغ کرتے تھے اساتذہ کے سوالات کے بھی جواب دیتے تھے.چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں : یہ عاجز بھیرہ ضلع شاہ پور میں تعلیم پاتا تھا اور ہمارے استاد ایک عیسائی صاحب تھے وہ اکثر لڑکوں کو کسی نہ کسی پیرایہ میں مذہبی تعلیم بھی دیتے تھے.ایک دفعہ انہوں نے لڑکوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ مسلمان ہمیشہ تادم مرگ خدا سے یہی دعا مانگتے رہتے ہیں کہ یا الہی سلامتی ایمان اور خاتمہ بالخیر ہو.اس سے معلوم ہوا کہ انہیں کامل ایمان نصیب نہیں ہوتا.اور اسی وجہ سے خاتمہ بالخیر کے بارے میں انہیں دھڑکا لگا رہتا ہے.مگر ہم لوگوں کو ایسے خطرات بالکل نہیں ہوتے کیونکہ ہم تو کفارہ مسیح پر ایمان لے آتے ہیں.اس لئے کوئی خدشہ اور خوف درباره خاتمہ بالخیر ہمارے دل میں نہیں رہتا.اس اعتراض کے جواب میں سب لڑکے لاجواب ہو گئے.انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم ہی اس کا جواب دو کیوں کہ حضرت مرزا صاحب کے مریدوں سے شیطان بھاگتا ہے.آخر کار خدا کے محض فضل سے میرے دل میں یہ جواب آیا کہ صاحب! کیا آپ کو اپنے ایمان کے کامل ہونے کا یقین ہے.انہوں نے کہا کہ ہاں.میں نے کہا کہ انجیل مصنفہ لوقا میں لکھا ہے کہ مسیح اپنے شاگردوں کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ اگر تم میں ایک رتی کے برابر بھی ایمان ہو تو تم اگر اس توت کے درخت کو حکم دو کہ دریا میں چلا جاوے تو وہ تمہاری مانے گا اور انجیل مؤلفہ متی میں لکھا ہے کہ اگر تم میں رتی کے برابر ایمان ہوگا تو تمہارے اشارہ سے پہاڑ حرکت کریں گے اور زہر کے پیالے تم پی لوتو ز ہر تمہیں اثر نہ کرے گی اور اگر سانپ تمہیں ڈسیں تو تمہیں کوئی گزند نہ پہنچے گا.پس جس صورت میں ایک ادنی عیسائی کے ایماندار ہونے کی یہ علامتیں ہیں.پھر آپ جیسے کامل ایماندار تو ضرور اس

Page 25

18 سامنے کے درخت کو اُکھاڑ کر پھینک دیں گے یا کوئی اور قابل قدر کرامت دکھا کر ہمیں اپنے ایماندار ہونے کا ثبوت دیں گے.اس جواب پر وہ نہایت شرمندہ ہو گئے.آخر جب بار بار لڑکوں نے انہیں مجبور کیا کہ آپ ضرور جواب دیں تو انہوں نے نہایت دبی زبان سے کہا کہ ہم ایمان کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں.میں نے کہا کہ ابھی آپ یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں کامل ایمان حاصل ہو گیا ہے اور کوئی شک وشبہ نہیں رہا.اب ایک رتی بھر ایمان کے لئے کوشش کرنے کا اظہار کرتے ہیں.اگر سفید ریش ہونے تک بھی کوشش کرنے سے آپ کو رتی بھر ایمان نصیب نہ ہوا تو اب کہاں امید ہوسکتی ہے کہ کامل ایمان حاصل ہو جاوے.انہوں نے کہا کہ اچھا اب جانے دو.سبق پڑھو.میں نے کہا کہ اب سبق کا مزا نہیں رہا کیوں کہ ہمیں اور فکر دامنگیر ہورہا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہم سے پوچھے گا کہ تم کس سے پڑھ کر آئے ہو تو ہمیں مجبوراً یہی جواب دینا ہوگا کہ ہم ایسے استاد سے پڑھے ہیں جو قریباً بے ایمان تھے.اس پر تمام لڑکے قہقہہ مار کر ہنس پڑے اور میں نے کہا صاحب جی ! ہم لوگوں کے ایماندار ہونے کی علامت یہ ہے کہ پیج ارکان اسلام کا پابند ہونا.اور شرک اور فسق و فجور سے بکلی متنفر اور کنارہ کش ہونا اور شفقت علی خلق اللہ تعظیم لامر اللہ کا مصداق ہونا چاہیے.سو ایسے اسلام میں ہزاروں ہیں اور وہ مزید ترقی (13) ،، اور شیطانی دستبرد سے محفوظ رہنے کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں مگر آپ لوگوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں کہ رتی بھر ایمان رکھتا ہو گویا سارے بے ایمان ہیں اسی طرح آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک یک چشم آریہ ہم جماعت نے ہنسی سے میری کتاب چھپائی.وہ تناسخ کے متعلق مجھ سے بحث کیا کرتا تھا.میں نے جماعت میں کہا کہ بعض بد کرداروں کو پر میشر گذشتہ کرموں کی پاداش میں سخت ترین سزا دیتا ہے اندھا کر دیتا ہے یا یک چشم بنا دیتا ہے ایسی سخت سزاؤں کے باوجود بھی وہ بے ایمانی سے باز نہیں آتے.اس نے ناراض ہو کر کتاب پھینک دی.میں نے کہا کہ پہلے جنم میں اس نے فسق و فجور سے زندگی بسر کی تو اسے آنکھ جیسی نعمت سے پر میشر نے محروم کیا.پھر بھی یہ باز نہیں آیا نہ معلوم اس کی بدبختی اسے کہاں تک پہنچا دے گی.اس کا ارادہ ہیڈ ماسٹر کے پاس شکایت کرنے کا تھا لیکن وہ رک گیا.ورنہ میں سمجھتا تھا کہ اس صورت میں لوگوں کو گفتگو سے مزید فائدہ بھی پہنچے گا (14) ” طالب علمی میں بھی آپ کی زندگی پاکیزگی میں اسوہ تھی.چنانچہ ایک آریہ سے گفتگو کے تعلق میں آپ لکھتے ہیں کہ بھیرہ میں میں ایک عرصے تک تعلیم پاتا رہا ہوں.وہاں کا بچہ بچہ مجھ سے واقف ہے اور کوئی ذی عزت

Page 26

19 اور نیک طینت میرے نیک چلن ہونے میں شک و شبہ ظاہر نہیں کرے گا“ ملازمت ابتداء میں آپ بمقام دکی ( بلوچستان ) میں ملازمت کے لئے آئے لیکن ایس ڈی او نے ایک ماہ کام کرا کے نوکری نہ دی.پھر گوجرانوالہ میں ایک حج کے لڑکے کو چند روپے اور کھانے پر ٹیوشن پر پڑھانے لگے.پھر راولپنڈی کے ایک رئیس آپ سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے لگے.ان دنوں ملک نور خان صاحب مرحوم ( صحابی ) آپ سے چوری چھپے رات کو پڑھنے آتے تھے.رئیس مذکور نے برا منایا اور کہا کہ آپ ہمارے شریک کو پڑھاتے ہیں.آپ نے کہا کہ میں آپ کا دن کا ملازم ہوں رات کا نہیں.ڈیڑھ دو سال تک آپ کا قیام وہاں رہا.اس دوران میں رئیس مذکور کا پیر آیا اور اس نے کہا کہ تم قرآن مجید کا ترجمہ کیوں پڑھتے ہو.یہ تو بڑا مشکل ہے.رئیس نے کہا کہ مجھے تو مجھ آتا ہے.پیر نے کہا تم کا فر ہو جاؤ گے.اس پر بحث ہونے لگی.ماسٹر صاحب نے رئیس سے کہا کہ بحث نہیں ہونی چاہیے ورنہ میرا یہاں ٹھہر نا مشکل ہو جائے گا.اس نے کہا کہ پیر صاحب شریف آدمی ہیں.ماسٹر صاحب نے کہا کہ پیر اپنے مفاد کی خاطر مخالفت کرتے ہیں.بحث ہوئی اور اس میں پیر کوسخت شکست ہوئی.اور اس نے رئیس کو حکم دے دیا کہ منشی ( یعنی ماسٹر عبد الرحمن صاحب) کو فوراً نکال دو ورنہ میں تمہیں مریدی سے خارج کر دوں گا.رئیس مذکور نے اس غم میں تین دن کھانا نہیں کھایا.لیکن وہ حکم عدولی نہیں کر سکتا تھا.بالآخر ماسٹر صاحب کو وہاں سے آنا پڑا.چنانچہ آپ لاہور میں ریلوے کے ٹرین ایگزامینر کے دفتر میں پندرہ روپے مشاہرہ پر ملازم ہو گئے اور چند ماہ بعد ۱۸۹۹ء میں ایف اے کی تیاری شروع کر دی.امتحان ایف اے اکتوبر ۱۸۹۹ء میں آپ نے ایف اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر دینے کا ارادہ کر لیا اور چھ ماہ میں نصاب کی بعض کتب پوری اور بعض قریباً نصف کتب کی تیاری کرلی.عربی نصاب بھی دیکھا اس کی تیاری بھی آپ خود ہی کرتے تھے کوئی پڑھانے والا نہ تھا.اس کا منظوم حصہ ایسا مشکل تھا کہ آپ کو سمجھ نہیں آتا تھا اور بوجہ نومسلم ہونے کے زبان عربی سے زیادہ رابطہ بھی نہیں ہوا تھا.آپ نے جناب الہی میں گریہ وزاری سے دعا کی کہ اے مولا کریم ! میں نو مسلم ہوں اکثر لوگ نو مسلموں سے نیک سلوک کرتے ہیں.منظوم عربی نصاب میں سے جو سوال آنا ہے مہربانی کر کے مجھے بتا دے.چنانچہ خواب میں آپ کو وہ پرچہ دکھایا گیا.بعد بیداری آپ کو قافیہ کے الفاظ یا درہ گئے.چنانچہ آپ نے یہ حصہ اچھی طرح از بر کر لیا بلکہ دیگر دوستوں کو بھی بتا دیا.بعد امتحان دعا کی کہ یا الہی ! میری تیاری مکمل نہ تھی از راہ کرم مجھے کامیاب کر دے تو خواب میں آپ کو آواز آئی:

Page 27

20 محمد خاں افضل خان نتیجه امتحان پھر دوسری مرتبہ الہام ہوا سبع معالقہ، جس کا آپ نے حضرت مسیح موعود سے ذکر کیا.حضور نے فرمایا تم پاس ہو جاؤ گے مگر زیر تجویز رہ کر پاس ہو گے کیوں کہ سات کا لفظ تکمیل کو چاہتا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ زیر تجویز رہ کر ایف اے میں پاس ہو گئے.امتحان کا نتیجہ لاہور سے حضرت مولوی نورالدین صاحب خود لے کر آئے تھے.ہجرت اور قادیان میں ملا زمت: میٹرک میں کامیابی پر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے آپ کو قادیان کے مدرسہ کی کا رکنیت اختیار کرنے کا مشورہ دیا.چنانچہ ایف اے کا امتحان پاس کر لینے کے بعد آپ ۱۳ مئی ۱۹۰۰ء کو میں روپے مشاہرہ پر ہائی اسکول قادیان میں ملازم ہو گئے.۱۹۰۴ء میں قادیان سے آپ نے بی اے کا امتحان دیا لیکن طویل عرصے کے بعد کامیاب ہوئے.تقسیم ملک کے بعد اجیت سنگھ ڈھلوں بی اے کے احمدی ہونے پر ان کے نام ایک مکتوب میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ماسٹر صاحب کا ذکر کر کے تحریر فرمایا کہ انکو الہاماً بتایا گیا تھا کہ آپ بی اے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن جب بھی وہ فیل ہوتے تو یہ سمجھتے کہ الہام سچا ہے میری کسی غلطی کی وجہ سے پورا نہیں ہوا.انسپکٹر مدارس کی سفارش پر ۱۹۰۷ء میں آپ کو لاہور ٹرینگ کے لئے بھیجا گیا.مدرسہ تعلیم الاسلام سے طویل عرصے کے بعد آپ کی خدمات مدرسہ احمدیہ میں منتقل ہوئیں اور بالآخر وہاں آپ پنشن تک کام کرتے رہے.بعد پنشن بھی دو دو تین تین ماہ کے لئے آپ کو مدرسہ میں لگا لیا جاتا تھا.فرماتے تھے کہ میرا عرصہ مدرسی چوالیس سال بنتا ہے.جس وقت آپ نے ہمیشہ کے لئے قادیان کے قیام کو اختیار کر لیا ، اس وقت قادیان کی کیا حالت تھی ، اس کی ایک جھلک حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کے پانچ صفحات کے ایک مفصل مضمون سے ظاہر ہے جو الحکم مؤرخه ۳۰ را پریل ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا.اس میں پیر صاحب نے ۱۸۸۲ء سے جب کہ آپ پہلی بار قادیان آئے ،۱۹۰۲ ء تک کے قادیان کا نقشہ کھینچا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ ابتدا میں قادیان میں دو چار پیسے کا مصالحہ دستیاب ہونا بھی مشکل ہوتا تھا.حلوائیوں کی دود کا نہیں تھیں جن سے شاید دو تین پیسے کی ریوڑیاں گڑ کی جن سے دانتوں کے بھی ٹوٹنے کا احتمال ہوا اگر کوئی خرید لے تو خرید لے.گھی چاول دودھ کمیاب اور اشیاء ضروری مفقود - قصائی شامت اعمال سے بکرا ذبح کر لیتا تو وبال جان ہوتا.گرمیوں میں گل سڑ کر خراب ہو جاتا اور موسم سرما میں چار پانچ روز رکھ

Page 28

21 کر دیہات میں اناج کے بدلے بمشکل تمام فروخت کرتا.پھر حضرت مسیح موعود کی برکات کا ذکر کر کے قادیان کی ترقی بیان کرتے ہیں.کس طرح عرب، طرابلس ، کابل ، غزنی، بخارا، قندھار، بغداد، چین ،لندن تک سے لوگ آرہے ہیں، جو زمین پانچ میں بھی کوئی نہیں خریدتا تھا.اب بخوشی پچاس میں خریدتے ہیں.چھاپے خانے جاری ہیں کبھی وہ وقت تھا کہ حضرت اقدس نماز پڑھایا کرتے تھے اور کبھی میں ایک ہی مقتدی ہوتا تھا اور آپ امام اور کبھی میں امام اور آپ مقتدی اور اب یہ حال ہے کہ بہت سے مبارک لوگ اپنے گھر بار ملک و املاک چھوڑ کر امام علیہ السلام کی خدمت میں رہتے ہیں.پیر صاحب نے کم و پیش تین درجن مہاجرین کے اسماء رقم کئے ہیں جن میں ماسٹر عبدالرحمن صاحب کا نام بھی درج ہے.۱۹۰۲ء کے متعلق یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ ابھی یہاں پان کی کوئی دکان نہیں اس لئے قادیان آنے والے احباب میرے لئے پان لے آیا کریں میں قیمت ادا کر دیا کروں گا.گوماسٹر صاحب کا زمانہ ہجرت ۱۹۰۰ ء ہے اور اس وقت آغا ز کی نسبت قادیان ترقی کر چکا تھا.لیکن یہ ترقی نسبتی تھی.اور اس ترقی یافتہ حالت پر بھی ایک تنعم و ترقی پسند اور دنیوی نعماء کا فریفتہ ہرگز قانع نہ ہو سکتا تھا ان ایام میں قادیان کی ملازمت فقیری اور درویشی اختیار کرنے کے مترادف تھی.آپ نے گویا دین کو دنیا پر مقدم کیا اور حد درجہ کی کفایت شعاری اور صبر وشکر سے دن گزارے.چنانچہ آپ ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: میری کفایت شعاری ( کی عادت ) ہمیشہ سے رہی ہے اسی کی بدولت میں بچوں کو میں روپے کی تنخواہ پر پالستار ہا اور تعلیم دلاتا رہا اور باہر کی نوکری پر قادیان کی نیک صحبت کو ترجیح دیتا رہا.گھر میں دوٹوٹی پھوٹی کرسیاں تھیں اور صرف ایک لوٹا تھا.تین سال سے کوئی بوٹ نہیں لیا.صرف ربڑ کے سلیپر پر گزارہ کیا.چارسال سے مکان کی سفیدی نہیں کر اسکا.کبھی جرابیں نہیں خریدیں.گھر میں صرف ایک تولیہ ہے جو مہمانوں کے لئے ہے سن لائٹ صابن کبھی کبھی منگواتے ہیں ور نہ کپڑے دھونے والا صابن ہی استعمال ہوتا ہے“ احباب کو یاد ہوگا کہ بٹالہ قادیان کی سڑک کے پختہ کرنے کے متعلق حکام سے ہمیشہ ہی درخواست کی جاتی رہی ہے چنانچہ حضرت عرفانی صاحب نے دسمبر ۱۹۰۵ء میں لکھا ہے: ” سڑک بٹالہ پرنئی مٹی ڈال دی گئی ہے.مگر جب تک اس حصہ کو پختہ اور اونچا نہ کیا جاوے گا اس کی موجودہ حالت برسات میں آرام دہ ہونے کی بجائے تکلیف دہ ہوگی، (16) جنوری ۱۹۱۲ء میں پانچ سال میں پہلی بارڈپٹی کمشنر ضلع قادیان آنے والے تھے.متوقع آمد کے پیش نظر اس امر کی طرف آپ نے پھر توجہ دلائی (17) میجر ایلیٹ ڈپٹی کمشنر کے قادیان کے دو روزہ قیام کے موقع پر حضرت عرفانی صاحب نے قادیان کی

Page 29

22 ضروریات ان کے سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ میں نے پہلے بھی زبانی اور بذریعہ اخبار حکام کو توجہ دلائی ہے.پہلے سڑک کے پختہ کرنے کی تجاویز زیر غور ہیں لیکن بٹالہ سے ہوشیار پور کی طرف ریلوے لائن کھولنے کی تجاویز سے سڑک کی تجویز ختم ہو گئی.محکمہ ریلوے کی طرف سے ٹریفک کا اندازہ بھی کیا گیا اور کچھ حصص بھی فروخت ہوئے لیکن عملی رنگ میں یہ تجویز تکمیل کو نہ پہنچی.قادیان کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی وجہ سے یہ گمنام مقام دنیا میں شہرت پا گیا ہے.ضلع میں یہ واحد قصبہ ہے جو تعلیمی اور رفاہ عامہ کے کاموں میں ممتاز ہے.سارے ضلع میں یہاں ہی تین اخبار اور تین رسالے شائع ہوتے ہیں اور تین پریس جاری ہیں.تعلیم الاسلام ہائی اسکول صوبہ بھر میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے.اتنے بورڈ ر صوبے کے کسی مدرسہ کے نہیں ہوں گے.کشمیر، راس کماری ، بنگال بہار، پشاور تک کے طلباء تعلیم پاتے ہیں.دینیات کا بھی مدرسہ ہے افغانستان و عرب تک سے لوگ آتے ہیں.آنے والوں کی تعداد چالیس پچاس ہزار سے کم نہیں ہوتی.جماعت کے امام حضرت مولوی نورالدین صاحب چونکہ تجربہ کار شاہی طبیب اور ہندوستان میں شہرت یافتہ ہیں.اس لئے سالہا سال سے ہزار ہا مریض ان کے پاس آتے ہیں.پہلے قادیان میں ڈاک خانہ ایک مدرس کو الاؤنس دے کر قائم کیا گیا تھا.پھر مدرسے سے الگ کیا گیا اور بیس روپے ماہوار کا سب آفس جاری ہوا اور اب پچاس روپے کاسب پوسٹ ماسٹر مقرر ہے اور اس کے ساتھ ایک کلرک اور دو چٹھی رساں کام کرتے ہیں اور ایک پیکر ہے، ڈاک کی کثرت کے باعث دو دو وقت ڈاک آتی اور جاتی ہے.ہر کاروں کے ذریعے ڈاک بھجوانا نا قابل برداشت سمجھ کر اس کی آمد ورفت کا انتظام بذریعہ یکہ کیا گیا.جس کا خرچ اتنی روپے ماہوار ہے.سارے ضلع میں ڈلہوزی اور شکر گڑھ لائن کے سوا قادیان ہی ایسا مقام ہے جہاں ڈاک بذریعہ یکہ پہنچائی جاتی ہے.اب سامان تجارت بھی بکثرت آتا ہے اور بٹالہ اناج کی منڈی ہونے کے سبب علاقہ ریاڑ کی سے تمام اناج وہاں جاتا ہے.اس پر صاحب موصوف نے سڑک کو درست کرنے کے فوری احکام صادر کئے اور اسے جلد پختہ کرنے کی (18) امید دلائی.جب دو سال تک بھی اس وعدہ کا ایفا نہ ہوا تو عرفانی صاحب نے مجھے وعدہ یاد دلاتے ہوئے لکھا کہ آمد و رفت دن بدن بڑھ رہی ہے ضرورت ہے کہ اسے پختہ کیا جائے.۱۹۱۳ء میں امید تھی کہ بٹالہ قادیان سڑک کی تعمیر کا کام صوبائی فنڈ سے منظوری لینے کے بعد شروع ہو جائے جس کا بے صبری سے انتظار ہوتا رہا.(20) (19)

Page 30

23 23 (21) بٹالہ میں کھیلوں کے اجتماع میں قادیان سے بھی ٹیم شامل ہوئی اس کے ذکر میں مرقوم ہے کہ ہمارے سکول کا ایک لڑکا یکہ سے گر پڑا.سخت چوٹ آئی.ضرورت ہے کہ یہ سڑک بہت جلد بنوائی جائے ورنہ خطرہ جان ہے.مشاورت ۱۹۲۲ء میں ایک قرار داد منظور کر کے صدر ڈسٹرکٹ بورڈ گورداسپورسیکرٹری بورڈ مواصلات (23) پنجاب اور گورنر پنجاب کو بھجوائی گئی.(22) لیکن بالآخر جماعت کو بتایا گیا کہ یہ سڑک پختہ نہیں کی جاسکتی.قدرت الہی کا کرشمہ دیکھئے کہ باوجود یکہ تقسیم ملک کے بعد قادیان کی آبادی سولہ ہزار سے کم ہو کر دس ہزار تک پہنچ گئی لیکن پھر بھی ڈیڑھ دوصدد کا نہیں جاری ہیں اور اب سال گذشتہ سے بہت سے مکانات اور دکانات محکمہ کسٹودین کی طرف سے نیلام ہو رہے ہیں.گو قادیان میں ذرائع آمد پہلے سے نہیں رہے تمام کارخانہ جات ( سٹار ہوزری ورکس میکنیکل انڈسٹریز آئرن میٹل ورکس.میک ورکس وغیرہ جن میں لاکھوں روپیہ کا مال بنتا تھا ) معدوم ہو چکے ہیں.یہ کارخانے اس علاقے کے ہزار ہا غیر مسلموں کے لئے بھی اکتساب معاش کا ذریعہ تھے.جماعت احمدیہ کا ایک طبقہ دیگر اضلاع وصوبجات سے قادیان کی برکات کے حصول کے لئے ہجرت کر آتا تھا.بہت سے احباب دیگر ممالک سے بھی اہل و عیال کو بچوں کی تعلیم کی خاطر بھجواتے تھے گویا کہ ان کی آمد کے ذرائع دیگر اضلاع صوبجات یا ممالک میں ہوتے تھے.لیکن اب قادیان کی آبادی مزید کم ہونے سے رک گئی ہے.جس کا باعث قادیان کی جاذبیت ہے جو اول اس وجہ سے ہے کہ قادیان میں شہری اور دیہاتی ہر دو قسم کے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں اور شہری نقائص سے اس وقت تک بھی کافی حد تک متبرا ہے ہائی سکول کے علاوہ کالج بھی موجود ہے.دوم.مکانات بہت ہی عمدہ اور دل پسند ہیں.ہر ایک ضرورت ان میں سے پوری ہو جاتی ہے.سوم.باوجود یکہ مکانات نہایت عالی شان ہیں لیکن ان کی کثرت کے باعث اور نئے حالات پیدا ہونے کے باعث ان کے کرائے اور قیمتیں حد درجہ کم ہیں.اس لئے بہت کم کرایہ اور قیمت پر عالی شان مکان دستیاب ہو جاتے ہیں.چہارم.پختہ سڑک موضع ہر چوال تک اور کچی ہموار سڑک وہاں سے موضع بھیٹ کے پین تک بن گئی ہے، اور اس علاقہ کی منڈی قادیان بن گئی ہے.اب بھی قادیان سے کراکری ، برتن ، بزازی زیورات ، لوہے کا سامان، سیمنٹ ، پتھر کا کوئکہ دیسی اور انگریزی ادویہ ضروریات بسہولت دستیاب ہو جاتی ہیں.کچھ لوگ اپنے طویل قیام کے باعث مانوس ہونے سے یا اپنے اقارب کی وجہ سے ماحول ترک کرنا مناسب خیال نہیں کرتے.ان وجوہات کی بناء پر قادیان میں آکر بسنے والے غیر مسلم پناہ گزین اس میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں.کئی سوا افراد بھائیہ قوم کے سبزی ترکاری ، بزازی وغیرہ کئی کئی من سائیکل پر لاد کر روزانہ ہیں ہیں میل تک فروخت کر

Page 31

24 آتے ہیں.یوپی تک بزازی کی تجارت کرتے ہیں لیکن اپنے اہل وعیال انہوں نے قادیان میں ہی رکھے ہوئے ہیں.مستقل طور پر ان کو ساتھ لے جانا پسند نہیں کرتے ، غرضیکہ ان امور کی کشش غیر مسلموں کو بھی مجبور کر رہی ہے کہ یہاں مکانات اور دوکانات خریدیں ، ان کا مالک ہو جانے کی وجہ سے وہ ان کی حفاظت کے لئے ان کو مرمت کرا رہے ہیں.سفید قطعات میں نئے مکانات اور دکانیں تعمیر کر رہے ہیں.شفاخانہ، ڈاک، تار، ٹیلی فون بجلی کی تمام سہولتیں میسر ہیں.ریلوے اسٹیشن پر کئی سال سے بجلی لگ چکی ہے.ریل گاڑی موسم سرما میں چار بار اور موسم گرما میں پانچ بار جاتی ہے.چند سال سے بٹالہ سے موضع اولکھ اور بھیٹ کے پتن تک بس سروس جاری تھی لیکن بس سے قادیان کے مسافروں کو موضع کا ہلواں کے نزدیک اتر کر پیدل قادیان آنا پڑتا تھا.اب قریباً نصف سال سے تین چار بار بس سروس بٹالہ سے بطرف اولکھ اور پتین مذکور براستہ قادیان جاتی ہے اور یکم اگست سال رواں سے سرکاری بس سروس جالندھر تا قادیان براسته با با بکالا شروع ہوئی ہے جو دو بار آتی ہے.اس طرح جالندھر اور ہوشیار پور سے کام کر کے اسی روز واپس آجانا ممکن ہو گیا ہے.بٹالہ تا جالندھر یہ سروس چند ماہ قبل سے جاری تھی.اس سے پہلے جالندھر براستہ امرتسر جانے سے ایک گھنٹہ زیادہ صرف ہوتا تھا اور کرایہ بھی لازماً زیادہ دینا پڑتا تھا.قادیان میں کم و بیش پون درجن ٹانگے بھی موجود ہیں جو بٹالہ اور مضافات میں بکثرت چلتے ہیں.نصف سال سے ایک سات سواری والا سکوٹر (موٹر رکشا ) بٹالہ قادیان کے درمیان چل رہا ہے.قادیان کے شرق کی طرف بوڑھی صاحب سے درے ایک رجباہا نکالا گیا ہے جو قادیان کے کچھ حصہ کو سیراب کرتا ہے.۱۹۵۵ء میں قادیان و بٹالہ کے مابین سڑک پختہ بننے لگی اور قریبا سات میل تک تعمیر ہوگئی.پھر کچھ عرصہ التوار رہا اور آخر ۱۹۵۸ ء تک موضع ڈلہ کے موڑ تک پختہ بن گئی.اور سال رواں میں مارچ اپریل تک موضع کا ہلواں سے دارالانوار تک جونئی سڑک بنائی گئی ہے یہ موضع منگل باغباناں کے مشرق کی طرف سے گزر کر دار الانوار میں بیت الظفر کے مغرب سے باوون کے باغ سے ہوتی ہوئی دارالعلوم کے جنوبی کنارہ پر واقع مکان حضرت مولوی شیر علی صاحب کے قریب ریلوے روڈ سے جاملتی ہے.اور جو پرانا راستہ موضع ڈلّہ کے موڑ سے قادیان تک کا ہے وہ بھی اواخر جولائی تک پختہ بن چکا ہے اور محلہ دارالصحت کے بیچوں بیچ جانے کی بجائے اس کے مغرب کی طرف سے ہو کر پرانے اڈے تک پہنچتا ہے کیونکہ دارالصحت کے بیچوں بیچ گزرنے والا راستہ تنگ ہونے کے باعث وہاں سے بسیں نہیں گزر سکتیں.گویا بٹالہ سے قادیان آتے ہوئے بسیں اور ٹانگے وغیرہ ڈلہ کی طرف سے قادیان میں داخل ہوتے ہیں.اور قادیان سے موضع ہر چو وال اور اس سے آگے بھینٹ کے پین وغیرہ جانے کے لئے

Page 32

25 دارالانوار کا ہلواں والی سڑک سے جاتے ہیں.قادیان بٹالہ سڑک پختہ ہونے سے دن رات مال بردار گڈے بھی چلتے رہتے ہیں اور بٹالہ کے کارخانجات میں کام کرنے والے قادیان ومضافات کے بیسیوں افراد سائیکلوں پر صبح جاتے اور شام کو گھروں کو واپس آجاتے ہیں.اس سڑک پر اب پہلے جیسا خطرہ نہیں رہا اور نہ ہی اس کے پختہ ہو جانے کے بعد اس پر کبھی واردات ہوئی ہے ورنہ ۱۹۵۵ ء کی بات ہے کہ خاکسار مؤلف پر بھی رات کے وقت حملہ ہوا تھا جب کہ خاکسار سیلاب زدگان کی امداد کے سلسلے میں بٹالہ سے کانگریس کے اجلاس میں شمولیت کے بعد واپس آرہا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھ کو قتل ہونے سے بچا لیا تھا.بٹالہ کے راستے میں نہر کے پل پر چائے مٹھائی کی دو مستقل دوکانیں بن گئی ہیں.دوسائیکل مرمت کرنے والے بھی وہاں کام کرتے ہیں.قادیان کی منڈی سے ہزاروں من دھان اور غلہ ٹرکوں پر اور گڈوں پر بٹالہ وغیرہ جاتا ہے اس وقت اناج اور سبزی منڈی کے طور پر کام دار الفتوح ( ریتی چھلہ ) میں ڈاکخانہ کی عمارت سے شروع ہو کر سٹار ہوزری ورکس کی عمارت تک اور ڈاک خانے کے قریب عقب میں ہوتا ہے لیکن قریب میں ایک مستقل منڈی کا قیام عمل میں آنیوالا ہے جس کے لئے فی الحال حکومت پنجاب نے ۲۵ ہزار روپیہ میونسپلٹی کو دیا ہے لیکن ابھی تک اس کی جگہ کا تعین نہیں ہوا.سال رواں کے ستمبر سے حضرت عرفانی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ آف سکولنز کا دفتر کھل گیا ہے اور اس عہدہ پر سردار راجندرسنگھ صاحب کام کر رہے ہیں علاقہ سری گوبند پور تک کے پرائمری مدارس ان کے ماتحت ہیں.احمد یہ فروٹ فارم جو دارالفضل کے شمالی حصہ میں ہے قریباً گیارہ سال سے حکومت کے محکمہ زراعت کے ماتحت ہے وہاں سے آم وغیرہ کے پودے بھی فروخت کر کے سپلائی کئے جاتے ہیں این سی سی ( نیشنل کیڈٹ کور جو کالج کے طلبہ سے بنائی جاتی ہے) اور اے سی سی جو ہائی سکول کے طلباء سے بنائی جاتی ہے ان کے کیمپ بھی لگتے رہتے ہیں.تین ڈاکٹر ہیں جو پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں اور ایک درجن کے قریب طبیب وید غیرہ ہیں.ایکسرے کا انتظام بھی ہے.قادیان کے اردگرد بہت سے برانچ پوسٹ آفس کھل چکے ہیں جو قادیان سب پوسٹ آفس کے ماتحت ہیں یعنی مواضعات ہر چوال اولکھ کلاں ، پنڈاروڑی ، بھام، بھامڑی، ڈھپئی ،کھجالہ یہ سات برانچ آفس پرانے ہیں اور تقسیم ملک کے بعد مواضعات بسرائے اور بھرت نئے کھلے ہیں علاوہ ازیں مواضعات بھٹیاں جو پہلے برانچ آفس تھا اب سب پوسٹ آفس بنادیا گیا ) کوٹ ٹو ڈریل ،طغل والہ اور گھوڑے واہ کوسپ سابق قادیان کے سب پوسٹ آفس کے ذریعے ڈاک جاتی ہے گو یہ اس کے ماتحت نہیں ہیں ، قادیان کے سب پوسٹ آفس میں اب بھی ایک پوسٹ ماسٹر چار کلرک اور تین پوسٹ مین ہیں.قادیان کے بجلی کے سب ڈویژن کے ماتحت تقسیم ملک کے بعد مواضعات طغل والہ

Page 33

26 بسرائے ، ہمبو وال، ڈھینڈ سہ، بھینی بانگر ، ناتھ پورہ ، جادہ رام پور بر کلاں ، وڈالہ گرنتھیاں سٹیشن اور منگل باغباناں میں بجلی پہنچ چکی ہے اور بجلی کے کوئیں جاری.اس سب ڈویژن کے تحت تبڑا اور کاہنووان کے سب آفس ہیں اور ان کے قریب کے دیہات میں بھی بجلی جا چکی ہے.قادیان میں بجلی سے آٹا پسینے کی ۱۸ مشینیں اور آرے تین کام کرتے ہیں ایک انسپکٹر زراعت اور ایک اسٹنٹ زراعت قادیان میں احمد یہ فروٹ فارم (نزد کالج) کے لئے مقرر ہیں.یہ فارم تحقیقاتی فارم بنادیا گیا ہے اس سے حکومت کو بہت فائدہ ہے اس دفعہ نصف سال کے لئے ایک ایم ایس سی ( زراعت) کا طالب علم اس فارم کے باعث بھیجا گیا ہے یہاں کے پودے خصوصاً آم دیگر اضلاع میں جاتے ہیں.کھد ربھنڈار اور باٹا کی اعلی دکانیں جاری ہیں.کچھ عرصہ رنگائی کا کام اور عورتوں کو کٹائی کا کام سکھلانے کے عارضی مرا کز کھولے گئے.اب بھی چمڑے کے کام کی سکھلائی ہوتی ہے.ان کوائف سے ظاہر ہے کہ منشائے الہی سے یہ مقدر ہے کہ قادیان کی مقدس بستی آباد رہے اور اس کی آبادی کے لئے اللہ تعالیٰ خود ہی سامان پیدا کر رہا ہے ورنہ ایسا قصبہ جو ذ رائع آمد سے یک سرخالی تھا اجاڑ ہو جاتا لیکن اس کے مکینوں کے ہجرت کر جانے اور چلے جانے پر بھی وہ آباد ہے.سواس کی حفاظت بطور قصبہ اور بطور ظاہری اور مادی مرکز بھی نہایت ایمان افزا اور روح پرور ہے.فالحمد للہ علی ذالک.میں نے اس مرکز کے ساتھ ظاہری اور مادی الفاظ اس لئے شامل کئے ہیں کہ اس وقت میں مادی کوائف بیان کر رہا تھا.ورنہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے اس مرکز کی روحانی اور معنوی حفاظت ہر رنگ میں فرمائی.تین سو تیرہ درویشوں کی اکثریت بلا خصوصی تحریک کے قادیان میں ٹھہری رہی.صرف چند ایک کو ٹھہر جانے کا انفرادی حکم ملا تھا بلکہ بعض کو ٹھہرنے کی اجازت نہ ملی تھی لیکن انہوں نے بار بار منت کر کے اجازت حاصل کی.حالانکہ ظاہراً کسی کے زندہ رہنے تک کا امکان نہیں تھا.سب کے اقارب پاکستان جاچکے تھے، قادیان میں ٹھہرنے میں کسی دنیوی فائدہ کا ذرہ بھر بھی دخل نہ تھا.قریب سب اپنے گھروں سے محروم ہو چکے تھے.الغرض با وجود تمام مشکلات کے قادیان ایک روحانی مینار کا کام کر رہا ہے تقسیم ملک کے بعد کے کام کا خلاصہ یہ ہے: (۱) کئی درجن مبلغ تیار ہوئے جو بھارت کے گوشے گوشے میں اعلائے کلمتہ اللہ کا کام کر رہے ہیں تبلیغی دورے کرتے ہیں.علامہ نیاز توری جیسی بلند پایہ شخصیت علی الاعلان احمدیت کی صداقت کی قائل ہوگئی ہے.جماعت احمد یہ بھارت کی شاخیں جو قریب ڈیڑھ صد ہیں کم و پیش ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ مرکز میں بھجواتی ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت قادیان میں ہر قسم کے افراد ہیں.پانچ گریجویٹ نو فاضل اور

Page 34

27 مولوی فاضل گیارہ حکیم اور ڈسپنسر ہیں.تقسیم ملک کے بعد ہی ایک گریجویٹ ایک مولوی فاضل اور چھ گیانی رتن بھوشن.پر بھا کر اور بدھی اور چودہ ادیب.ادیب عالم اور ادیب فاضل بن گئے ہیں.تین لوہار اور نتجار، آٹھ معمار اور پانچ درزی اور ایک ریڈیو میکر ہیں.درویشوں کے اہل و عیال اور صدرانجمن کی ملازمت کے لئے آنے والوں اور طلباء سمیت قادیان کی احمدی آبادی قریباً آٹھ سو افراد پرمشتمل ہے.(۲) اغواشدہ مسلم و غیر مسلم مستورات کی برآمدگی کے سلسلے میں حسب توفیق خوش کن کام کیا ہے.غیر مسلموں کی کئی قسم کی امداد کی ہی ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر سیلاب ۱۹۵۵ء کے مواقعہ پر ہزار ہا روپے کی ادویہ، غذائیں اور پارچہ جات تقسیم کئے اور حکومت کے کارندوں سے پہلے پہنچ کر خدمت کا کام کیا ہے.(۳) پنجاب میں صداقت شعاری.راست گفتاری اور نیک کرداری کا اعلیٰ نمونہ قائم کیا ہے بہت سے سکھ ہمیں کہتے ہیں کہ ہماری قوم بہت بہادر ہے لیکن وہ ننکانہ صاحب جیسی پوتر بھومی کو بھی آباد نہ رکھ سکی.ہم تو درویشوں کی صرف اس خوبی کو ہی دیکھ کر حیران ہیں کہ قادیان میں دیار حبیب میں دھونی رما کے بیٹھے رہے اور اپنی جان کی بازی لگا دی.کی تبلیغ ہوئی.(۴) قطع نظر دیگر علاقوں کے صرف قادیان ہی میں ان تیرہ سالوں میں قریباً ڈیڑھ لاکھ افراد کو اسلام (۵) شری گیڈگل گورنر پنجاب ہماری طرف سے دعوت دئے جانے پر قادیان تشریف لائے اور بخوشی انہوں نے قرآن مجید کا ہدیہ قبول کیا.اور یہ فرمایا کہ سکھ نیشنل کالج میں میں نہیں گیا کیونکہ کالج والوں نے مجھے ضلع میں آنے کے بعد مدعو کیا ہے اور جماعت احمدیہ نے مجھے چندی گڑھ میں قادیان آنے کی دعوت دے دی تھی.قادیان کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ کسی گورنر کی آمد کا تھا.مشرقی پنجاب کے وزراء، احکام اور اعلیٰ طبقے میں جماعتی لٹریچر کی کافی اشاعت ہوئی ہے ، سنت و نو با بھا دے جی جو گاندھی جی کے خاص چیلے اور جانشین ہیں.دعوت دئے جانے پر اپنا پروگرام تبدیل کر کے قادیان تشریف لائے اور قرآن مجید مترجم خود خواہش کر کے لیا.سابق کمانڈر انچیف جنرل کر یا یا اپنے عہد میں اور جنرل تھمایا ( جواب چیف آف دی جنرل اسٹاف ہیں ) بھی قادیان تشریف لائے ہیں.(4) ڈاکٹر عبدالسلام صاحب احمدی جو مشہور سائنس دان ہیں اور تین چار سال سے امپیریل کالج لندن کے پروفیسر ہیں اور گذشتہ سال پاکستان سے ”ستارہ ہلال“ کا خطاب اور میں ہزار روپے کا انعام حاصل کر چکے ہیں حکومت ہند کے خرچ پر دہلی سے قادیان آئے.جب کہ وہ انڈین سائنس کانگریس کے اجلاس میں شمولیت اور بھارت یو نیورسٹیوں میں لیکچر دینے کے لئے بلائے گئے تھے.یہ امر یہاں کے باشندوں کے لئے باعث حیرانی تھا

Page 35

28 کہ ایسی قابل شخصیتیں جماعت احمدیہ میں شامل ہیں.علاوہ ازیں امریکہ فرانس ، لندن، عدن، پین، انڈونیشیا، مغربی و مشرقی افریقہ، اٹلی، سوئزرلینڈ وغیرہ کے مبلغین اور آسٹریلیا، ماریشس، برما، بورنیو اور جرمنی تک کے احمدی احباب زیارت قادیان کے لئے تشریف لائے.(۷) قادیان سے ہفتہ وار بدر آٹھ سال سے جاری ہے اور نہایت عمدہ قسم کا تبلیغی لٹریچر اردو ہندی ، گورمکھی اور انگریزی وغیرہ زبانوں میں شائع ہو رہا ہے.لڑکیوں اور لڑکوں کے مڈل سکول جاری ہیں.مدرسہ احمد یہ بھی جاری ہے.بہت سی مستورات اور نو جوانوں نے ہندی گورمکھی اور اردو کے امتحانات پاس کئے ہیں.(۸) جماعتی تنظیم کے غیر مسلم بھی ثنا خواں ہیں (۹) با وجود تنگی ترشیوں کے درویش قیام قادیان کو ہر ایک امر پر ترجیح دیتے ہیں.حالانکہ کئی ایسے ہیں کہ ان کے خاندانوں میں ان کی شدید ضرورت ہے.بعض کی بیویوں نے ان سے محض اس وجہ سے طلاق لے لی کہ وہ قادیان ٹھہرے ہوئے ہیں.بعض کے اہل و عیال یا بچے یا بچیاں پاکستان میں ہیں جن کو ہندوستان آنے کا ویز انہیں ملتا.مکرم محترم مولوی عبد الرحمن صاحب ناظر اعلیٰ کو ان کی اہلیہ اول کی وفات پر پاکستان نہیں جانے دیا گیا.ان کے بطن سے جواں سال فرزند ملک بشارت احمد صاحب کی شدید علالت پر حتی کہ یہ تار آنے پر کہ بارڈر پر آکر چہرہ دیکھ لیں پاسپورٹ نہیں دیا گیا ، خاکسار راقم کی والدہ صاحبہ شدید علیل ہوئیں حتی کہ تار آیا کہ ان کو ر بوہ لے جانے کے لئے صندوق تیار کر لیا گیا ہے تب بھی خاکسار کو پاسپورٹ نہیں دیا گیا.میری اہلیہ کا پاسپورٹ کئی دفعہ نامنظور ہو کر اب دیا گیا ہے.ہم رضائے الہی کی خاطر ان سب قسم کی تکالیف محصوریت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اللهم وفقنا لِمَا ترضى آمین * (۹) مشرقی پنجاب میں (جس میں اب پیپو ** کا ادغام ہو چکا ہے ) تقسیم ملک کے وقت قادیان سے باہر ذیل کے احمدی تھے.☆ قادیان میں تقسیم ملک سے قبل سینما اور شراب کی دکان کا امکان ہی نہیں تھا.کاش ہمارے جذبات کا خیال ہمارے توجہ دلانے پر ہی کیا جاتا.محلہ جات کے نام تبدیل کر دئے گئے.مولانا ابوالکلام آزادمرحوم ( وزیر تعلیم ) کے ذریعے حکومت پنجاب کو توجہ دلائی گئی تو یہ فیصلہ آیا کہ بعض محلہ جات کے نام بوجہ تقدس رکھے گئے ہیں ( مثلا دارالصحت ) ان کو تبدیل نہ کیا جائے ( انا للہ وانا الیہ راجعون ) بلا استثناء میونسپلٹی نے تمام نام بدل دیئے البتہ ہمارا موجودہ محلہ جو حلقہ مسجد مبارک پر مشتمل ہے.محلہ احمد یاں اور اس کا بازار احمد یہ بازار کہلاتا ہے.(Patiala and East Punjab States) کا مخفف ہے اور ریاستہائے پٹیالہ، مالیر کوٹلہ ، نابھہ اور جنید پر مشتمل تھا.

Page 36

29 29 (الف) ضلع انبالہ کے ایک گاؤں میں حکیم محمد رمضان صاحب مع اہل و عیال (ب) حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے صاحبزادہ میاں عبدالرحمن صاحب مع بیگم صاحبہ شملہ سے بیچ کر پاکستان پہنچے لیکن جلد بعد مالیر کوٹلہ اپنے وطن واپس آگئے.دو سال ہوئے وہاں وفات پاگئے.اللھم اغفر له وارحمه اس تیرہ سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی ابتدائی کام ہوا.مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبے کا استیصال اور اسلام سے محبت کرنے کی بہت کوشش کی گئی.اب تو بسا اوقات گریجویٹ از خود لٹریچر تحقیق حق کے لئے طلب کرتے ہیں.بعض افسران اور وکلا ء تک نے قرآن مجید پڑھا.یوم پیشوایان مذاہب میں تقریر کراتے ہیں اور اس کے لیے مضامین بھجواتے ہیں، غیر مسلم درویشوں سے دعائیں کراتے ہیں اور پھر تحریرا اعتراف کرتے ہیں کہ غیر معمولی حالات میں ان کے کام ہو گئے.ایک بار ایک غیر مسلم نے اسمبلی کے انتخاب میں کامیاب ہونے کے لئے سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور درویشوں سے دعا کی درخواست کی وہ کامیاب ہوئے بلکہ خلاف توقع وزیر بنائے گئے.اس وقت ان کے وزیر بننے کا کوئی امکان نہ تھا.انہوں نے پبلک میں دعاؤں کی امداد کا اعتراف کیا.اس وقت قادیان کے بارہ میل کے حلقے میں بفضلہ تعالیٰ دو ہندو اور سکھ حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں اور یہ امر جس قد رمشکل ہے ظاہر ہے، ایک صاحب جو خاکسار کے ذریعے مسلمان ہوئے ہیں اس وقت تک ایک سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں.خاکسار کے ذریعے ایک سکھ بنا ہوا مسلمان خاندان پھر مسلمان ہو چکا ہے اور اس کی لڑکی کی شادی ایک درویش سے کی جاچکی ہے.دھاریوال کے اُون کے کارخانے میں ایک انگریز کے مسلمان مالی وغیرہ دو خاندان ضلع ایبٹ آباد کے ہیں.اور قادیان سے چند میل کے فاصلہ پر موضع د یوالی میں ایک شخص محمد چراغ احمدی ہو چکے ہیں.شادی اللہ تعالیٰ نے ماسٹر صاحب کو دنیوی نعماء یعنی نیک اولا د اور اموال سے بھی حصہ وافر عطا کیا.آپ نے رضاء الہی کی خاطر اپنے جدی اقارب سے انقطاع اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے نیک صہری اقارب عطا کئے.آپ نے تین شادیاں کیں.ان کے بطن سے ایک درجن اولاد اور کئی درجن اولاد در اولا د موجود ہے.یہ حالات بھی ایمان افزا ہیں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.وَمَنْ يُهَاجِرُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدُ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيراً وُسْعَةً ) (24)

Page 37

30 دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ماسٹر صاحب کے تمام بھائی گلاب سنگھ ، پرتاب سنگھ اور میاسنگھ لا ولد ہی فوت ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ایفاء عہد کی ایک عجیب شان نظر آتی ہے.گویا دونوں فریق کی ایمانی حالت کا اندازہ لگانا دونوں کی دنیوی حالت کے آئینے میں بھی اولوالابصار کے لئے قابل فہم بنا دیا ہے.جس نے خدا تعالیٰ کی خاطر دنیا چھوڑی.اقارب اور مال و منال ترک کئے لیکن خدا تعالیٰ کو جو مالک ارض و سما ہے پالیا ہے تو وہ کس طرح نقصان میں رہ سکتا ہے.آنحضرت ﷺ کے صحابہ کرام میں بھی ہمیں یہی صورت نظر آتی ہے.جموں کے حضرت خلیفہ نورالدین صاحب نے جو ایک قدیمی اور مخلص صحابی تھے اور قوم کے لحاظ سے غوری مغل تھے اور اب بہشتی مقبرہ قادیان میں آرام فرماتے ہیں.حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کو یہ کہہ رکھا تھا کہ میری لڑکی غلام فاطمہ بڑی ہونے کو ہے.اس کے لئے موزوں اور کفو رشتہ درکار ہے.آپ خیال رکھیں.چنانچہ ایک دفعہ خلیفہ صاحب قادیان آئے ہوئے تھے تو حضرت مولوی صاحب نے ان کو کہا کہ ” یہ میاں عبدالرحمن ایک مخلص اور نیک لڑکا ہے اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے.“ خلیفہ صاحب نے کہا کہ یہ غریب آدمی ہے اس کا نہ کوئی آگا“ ہے اور نہ پیچھا نہ اس کے خاندان کا کچھ پتہ ہے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ میرے خیال میں یہ ایک نیک آدمی ہے.تبلیغ کا جوش رکھتا ہے آپ اس کے متعلق غور کر لیں.خلیفہ صاحب نے عرض کی کہ میں اپنی بیوی سے ذکر کروں گا.چنانچہ گھر میں ذکر کر کے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میری بیوی بھی یہی کہتی ہیں کہ یہ غریب آدمی ہے نہ اس کا کوئی آگا ہے نہ پیچھا.نہ گھر نہ گھاٹ.اس کے کمرہ میں صرف ایک چٹائی ایک لوٹا اور ایک چار پائی ہے.بس میری لڑکی کہاں رہے گی.حضرت مولوی صاحب نے بڑے زور سے پنجابی میں فرمایا.”میاں نورالدین صاحب ! جے تے تہاڈی لڑکی دے بھاگاں وچ کچھ ہے تے اوہ خالی گھر وچ جا کے وی اونوں بھر دیے گی.تے جے اوہدے بھاگاں وچ کچھ نہیں تے اوہ بھرے گھر وچ جا کے بھی اونوں خالی کر دیے گی.“ ☆ اس پر حضرت خلیفہ صاحب نے یہ تجویز فوراً قبول کر لی * ✰✰ یہ ۰۲.۱۹۰۱ ء کی بات ہے چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے ہی بموجودگی حضرت مسیح موعود و یہ تفصیل سردار بشیر احمد صاحب نے خلیفہ صاحب اپنے نانا جان سے اور اپنی والدہ محترمہ سے سنی تھی.مؤلف ی ہیں یہ سارا بیان سردار بشیر احمد صاحب نے اپنے والد صاحب سے لکھا تھا ( ب ) بشری صاحبہ کا نکاح قادیان کے ایک ہفت نامہ البشری کے ایڈیٹر محمد حسن صاحب تاج کے ساتھ ۱۹۱۵ء میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے پڑھا تھا.موصوفہ ۱۹۴۳ کو فیروز پور میں وفات پاگئیں (25) محمد حسن صاحب تاج بھی وفات پاچکے ہیں.

Page 38

31 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ایک سو روپیہ مہر پر نکاح کا اعلان کر دیا.چند ماہ بعد رخصتانہ لینے کے لئے ماسٹر صاحب اکیلے گئے اور اونٹ پر سفر کیا.اس کا باعث یہ امر ہو گا کہ ان دنوں پہاڑی سفر کے لئے موجودہ سہولتیں میسر نہ تھیں.آپ نے اپنی سادہ طبیعت کے موافق سیدھا پاجامہ اور تمیض اور پگڑی پہنی ہوئی تھی.خلیفہ صاحب نے نئے پار چات دئے.محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ کی عمر اس وقت تیرہ چودہ سال کی تھی.رخصتی پر دلہن کے ہمراہ خلیفہ صاحب کی اہلیہ اول اور ان کے فرزند محترم خلیفہ عبدالرحیم صاحب ( حال مہاجر سیالکوٹ ) جو اس وقت جماعت چہارم کے طالب علم تھے قادیان آئے.قادیان میں مکان نہ ملتا تھا.بالآخر سید محمد علی شاہ مرحوم نے اپنا باورچی خانہ دیا جہاں اس دولہا دلہن نے قیام کیا.اور وہیں آپ کی بڑی بچی بشری ۰۳ ۱۹۰۲ میں پیدا ہوئی.چند ماہ تک امیدواری نہ ہوئی تو فکر لاحق ہوا.آپ کی ساس صاحبہ نے غالبا تسلی دیتے ہوئے کہا ہوگا تا کہ گھبرا نہ جائیں کہ میں والدین کی شادی کے بارہ سال بعد پیدا ہوئی تھی.ماسٹر صاحب نے دعا کی تو آپ کو الہام ہوا A rid shall be reclaimed یعنی بنجر زمین کی اصلاح کر دی جائے گی.چنانچہ بشریٰ پیدا ہوئیں.اس کے بعد ایک بچہ بشارت احمد پیدا ہوا جو سوا سال کا ہو کر داغ مفارقت دے گیا.اس کی ولادت کے متعلق آپ رقم فرماتے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے جسے بطور تحدیث بالنعمة میں بیان کرنے سے رہ نہیں سکتا اور وہ یہ ہے کہ یہ عاجز بھی الہام الہی اور کشوف کا تجربہ کار ہے.چنانچہ منجملہ ان کے ایک کشف یہ ہے کہ مجھے دکھلایا گیا کہ اس عاجز کے گھر میں بیٹا پیدا ہو گا.سوخدا نے مجھے اب بیٹا عطا کیا جو تمبر ۱۹۰۴ء کو پیدا ہوا اور یہ کشف اس زمانہ میں ہوا تھا کہ میری شادی نہیں ہوئی تھی اور نہ اس کا ابھی خیال ہی تھا.(26) ،، بشارت احمد مرحوم کے بعد ڈاکٹر نذیر احمد کی ولادت ہوئی.اس کی کچھ تفصیل بعد میں آئے گی.ماسٹر صاحب کا ارادہ تھا کہ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کو بی اے کرائیں.کپورتھلہ کے کالج سے ایف اے پاس کیا تو حضرت ماسٹر صاحب کو خواب میں بتایا گیا کہ نذیر احمد کو ڈاکٹر بناؤ وہ ڈاکٹر بن جائے گا.آپ کے لکھنے پر انہوں نے کالج چھوڑا اور امرتسر میڈیکل کالج میں داخل ہونا چاہا لیکن گوایف اے میں اچھے نمبر آئے تھے لیکن میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن تھی اس لئے داخلہ نہ مل سکا اور وہ افسردہ خاطر ہوئے.آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ آپ کو ڈاکٹر بنانے کا ہے.آپ جولائی میں آگرہ کے میڈیکل کالج میں داخل ہونے کے لئے چلے جائیں لیکن انہیں وہاں بھی داخلہ نہ ملا تو ماسٹر صاحب نے لکھا کہ تم پر وفیسروں سے ملتے رہو، اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوگا خواہ اس رنگ میں کہ کوئی لڑکا فوت ہو جائے یا کسی کو کالج سے نکال دیا جائے اور جب پرنسپل نے ڈاکٹر نذیر احمد صاحب سے دریافت کیا کہ اب تم کیوں وقت ضائع کرتے ہو اب تو ویٹنگ لسٹ کا بھی موقعہ نہیں رہا تو انہوں نے کہا کہ میرے والد صاحب کو خدا تعالیٰ نے الہا ما بتایا ہے کہ میں ڈاکٹر بن جاؤں گا.گویا خواہ کوئی لڑکا نکل جاوے یا خدا کو کوئی لڑکا مارنا پڑے مجھے

Page 39

32 داخلہ ضرور مل جائے گا.پرنسپل صاحب نے حیران ہو کر پوچھا.کیا اس زمانے میں بھی الہام ہوتا ہے تو انہوں نے بتایا کہ جب کہ اللہ تعالیٰ اب بھی سنتا اور دیکھتا ہے تو وہ بولتا بھی ہے.موسم گرما کی تعطیلات میں ماسٹر صاحب نے ایک ماہ تبلیغ کے لئے وقف کیا اور سفر میں دعا کرتے رہے کہ یا الہی میں تیرا کام کرتا ہوں تو میرا کام کر دے.چنانچہ موضع کریام (ضلع جالندھر ) میں ظہر کی نماز میں کشفی حالت میں آگرہ کا ایک ہندولڑ کا سانولے رنگ کا دکھایا گیا کہ اسے پرنسپل صاحب کہتے ہیں کہ ” نکل جاؤ، ہم تمہیں نہیں مانگتا ماسٹر صاحب نے حضرت حاجی غلام احمد صاحب مرحوم ( امیر جماعت کریام) سے کشف کا ذکر کیا اور کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہندولڑ کا نکالا جائے گا اور میرالڑ کا داخل کر لیا جائے گا.چنانچہ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے اطلاع دی کہ گویا کشف والے وقت کی بات ہے کہ ایک ہندولڑ کا پرنسپل کے پاس سے گذرا.انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو.اس نے کہا کہ میں دوسہرے کی تعطیلات گزار کر گھر سے آیا ہوں.ان کے دریافت کرنے پر کہ کیا سپرنٹنڈنگ بورڈنگ ہاؤس سے اجازت لے کر گئے تھے.لڑکے نے جواب دیا کہ تعطیلات ہونے پر سب لڑکے چلے گئے اسی طرح میں بھی چلا گیا.میں کوئی قیدی تو نہیں تھا کہ سپرنٹنڈنٹ سے اجازت لے کر جاتا.اس گستاخانہ جواب سے پرنسپل صاحب نے برافروختہ ہو کر کہا ارے بے ایمان ! چلے جاؤ ہم تمہیں نہیں مانگتا.اور یہ بھی کہا کہ پہلے تمہارا قصور نہ تھا لیکن اب قصور ہو گیا ہے پھر ( ڈاکٹر ) نذیر احمد صاحب سے کہا کہ تم ابھی تک یہیں ہو.کیا آج تم ایک ہزار روپے کی ضمانت دے سکتے ہوتا کہ تمہیں داخل کر لیا جائے انہوں نے کہا دے سکتا ہوں.چنانچہ ضمانت دے کر داخل ہو گئے حالانکہ اس وقت سہ ماہی امتحان ہو چکا تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل ورحم سے خاص طور پر مددفرمائی اور اس مسبب الاسباب نے بظاہر غیر ممکن حالات میں موافق حالات پیدا کر دیئے.نہ صرف یہی بلکہ اس منبع جود وسخا اور سر چشمہ خیر و برکت نے مزید فضل پر فضل کیا ، والد کا نام دریافت کرنے پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میرے والد عبدالرحمن بی اے نو مسلم ہیں.پرنسپل صاحب کے دل میں شفقت کا سوتا پھوٹ پڑا اور کہنے لگے کہ میرا نام بھی عبدالرحمن ہے پس تم میرے ہی بیٹے ہو.چار سال کے لئے ۲۵ روپے ماہوار وظیفہ لگا دیا ہے اور کیا مانگتے ہو؟ ڈاکٹر صاحب نے عرض کی کہ ضروریات کا آپ کو بہتر علم ہوتا ہے، اس پر انہوں نے اڑھائی صد روپے کے نصاب کی کتب بھی بطور امداد دلائیں.نہ صرف آپ نے ڈاکٹری پاس کی بلکہ کچھ عرصہ وہاں اسٹنٹ لیکچرار بھی لگے رہے.بعد ازاں آپ کی دو ہمشیرگان نے بھی اسی کالج سے ڈاکٹری پاس کی جس سے اس خاندان کو نہ صرف خدمت خلق کا بہت موقع مل رہا ہے بلکہ سارے خاندان کی اقتصادی حالت بھی بہت بہتر ہوگئی اور ان سب کو بفضلہ تعالیٰ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مالی خدمات کا بھی موقع مل رہا ہے.( قلمی مسودہ ) حضرت ماسٹر صاحب

Page 40

33 دوستوں کو مشکلات کے حل کے لئے یہ واقعہ سنایا کرتے اور فرماتے کہ تم خدا کا کام ( تبلیغ ) کرو تو خدا تمہارا کام خود سنبھال لے گا.اہلیہ اول کی وفات: آپ کی اہلیہ اول محترمہ غلام فاطمہ صاحب کو سما رہے ہونے کا بلکہ دارا صبح میں قیام کرنے اور حضرت اقدس اور حضرت ام المومنین کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا.آپ کو کثرت سے کچی خوا ہیں آتی تھیں.آپ ۹ جون ۱۹۴۷ء کو قادیان میں ساٹھ سال کی عمر میں عالم جادوانی کو سدھار گئیں.مرحومہ کوسلسلے کے لئے مالی قربانی کرنے کا موقع ملا.چنانچہ منارۃ مسیح کے لئے چندہ دینے کے باعث آپ کا نام اس پر ۲۳۲ نمبر پر کندہ ہے.آپ ابتدائی موصیوں میں تھیں آپ کا وصیت نمبر ۱۶۸ ہے.آپ کو تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج میں شامل ہونے کا شرف بھی حاصل ہے.آپ کا نام صفحہ ۴۷۷ پر درج ہے.الفضل مورخہار جون ۱۹۴۷ء میں زیرہ مدینہ ایچ آپ کی وفات اور آپ کے صحابیہ ہونے کا ذکر کر کے یہ مرقوم ہے کہ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور آپ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں.دوسری اور تیسری شادی آپ نے ۱۹۲۵ء میں دوسری شادی کا ارادہ کیا اور دعا و استخارہ کیا کہ اگر میری عمر ہو تو میں شادی کروا اور تکلیف مالا بطاق نہ سہیڑ لوں.خواب میں لکھا ہوا دکھایا گیا کہ اتنے سال اور اتنے مہینے عمر کے باقی ہیں.چنانچہ آپ نے محترمہ فضل بی بی صاحبہ سے شادی کر لی.وہ ۲۴ جون ۱۹۳۰ء کو اس دار فانی سے عالم جادوانی کو سدھار گئیں اور بہشتی مقبرہ قادیان ( قطعہ ۳ حصہ ۱۷) میں مدفون ہیں.اَللَّهُمَّ اغفر لها وارحمها - مرحومہ کی یادگار ایک بچی ہے.آپ نے تیسری شادی کرنا چاہی لیکن اس کی کوئی صورت معلوم نہ ہوتی تھی.بہتیری مشکلات حائل تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہدایت کے مطابق استغفار کیا.استغفار بھی اکہتر ہزار بار کیا اور جناب الہی میں عرض کی کہ میں آہ وزاری اور منتیں کر کے اُکتا گیا ہوں اگر یہ کام نہیں ہوسکتا تو میری توجہ پھیر دے.اللہ تعالیٰ نے غیب سے سامان پیدا کر دئے اور چند روز میں ہی انتظام ہو گیا اور آپ کی تیسری شادی محترمہ مرجان صاحبہ سے ( جو بعد میں ممتاز بیگم کے نام سے موسوم ہوئیں ) ۱۹۳۴ء میں ہوئی.وہ بقید حیات ہیں اور ان کے بطن سے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں.آپ نے اپنی بیویوں میں انصاف اور عدل کرنے کی کوشش کی.یہی وجہ ہے کہ باوجو یکہ پہلی اہلیہ کی

Page 41

34 اولاد جوان تھی لیکن آپ کی حد درجہ مؤذب رہی اور آپ کی وفات کے بعد دیگر بیویوں کی اولاد سے جو کم سن تھی.بہت ہی حسن سلوک سے پیش آئی اور ان کے گزارہ اور تعلیم کا انتظام کرتی رہی.شجرہ نسب سردار دسوندھا سنگھ میاسنگھ گلاب سنگھ پرتاپ سنگھ ( لا ولد ) لا ولد ) ( لا ولد ) سردار عبدالرحمن (سابق مہر سنگھ ) از بطن اہلیہ اول از بطن اہلیہ دوم از بطن اہلیہ سوم محترمه فاطمه بیگم (صحابیه) محتر مد فضل بی بی محترمه ممتاز بیگم نصرت بیگم سردار منیر احمد سردار حفاظت احمد سردار رفیق احمد امته الرفیق بیگم ( طالب علم نیشنل کالج آف آرٹس لاہور ( طالب علم انجینئرنگ کالج.لاہور ) بشری بیگم مرحومہ ڈاکٹر نذیر احمد سردار بشیر احمد سردار بشارت احمد ڈاکٹر سعیدہ بیگم ڈاکٹرمحمودہ بیگم امتہ الحفظ بیگم امتہ الرشید بیگم (اہلیہ محمد حسن خان تاج) (مشرقی افریقہ) (ایس ڈی او.لاہور الیکٹریکل انسپکٹر مشرقی افریقہ کراچی کراچی ( صاحب اولاد ) کراچی نصیر احمد بشری بیگم امتہ الطیف - حمید شاہد سعادت احمد لیاقت احمد امتہ النصیر (لڑکی) امتہ الحی لطیف احمد امتہ الباسط انہیں احمد المتہ انصیر لمة الحميد نصیر احمد صادقه بیگم را شده بیگم حمید احمد طالب علم لندن یونیورسٹی رفیق احمد خلیل احمد رشید احمد مریم صدیقہ

Page 42

35 حضرت مولوی نورالدین صاحب کی فدائیت اور توکل علی اللہ : حضرت مولوی نورالدین صاحب کی فدائیت اور جذبہ اطاعت کے متعلق ماسٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ۱۸۹۱ء کے قریب حضرت اقدس اور مولوی نذیر حسین (صاحب) وغیرہ کے درمیان مباحثہ ہونے والا تھا.دہلی سے حضور نے بذریعہ تار حضرت مولوی نورالدین صاحب کو دہلی بلایا * اس وقت حضرت مولوی صاحب مطب میں نسخے لکھ رہے تھے تار آئی تو پوچھا کہ کیا لکھا ہے.بتایا گیا کہ آپ کو د بلی فوراً آنے کا حکم حضرت مسیح موعود کی طرف سے ہے.حضرت حکیم الامت نے وہیں نسخہ اور قلم فرش پر رکھ دیا اور جوتی پہن کر یکہ کے اڈہ کی طرف پیادہ چل پڑے.قادیان کی جانب غرب جب خاکروبوں کے محلہ (جو بعد میں دارالصحت کہلاتا تھا ) کے قریب پہنچے تو ایک یکہ بان بٹالہ سے آکر حضرت مولوی صاحب کو کہتا ہے کہ میں تحصیلدارصاحب بٹالہ کی طرف سے پیغام لے کر آیا ہوں.معلوم ہوا کہ تحصیلدار کی بیوی سخت بیمار ہے اور حضرت مولوی صاحب کو بلایا ہے.آپ بٹالہ پہنچے اور تحصیلدار سے کہا کہ میں نے اس گاڑی پر دہلی جانا ہے.تحصیلدار نے کہا کہ آپ میری بیوی کا علاج کریں نسخہ دیں جب تک آپ نہ آئیں گے گاڑی نہیں چلے گی.چنانچہ آپ نے علاج کا انتظام کیا اور تحصیلدار صاحب آپ کو ساتھ لے کر ریلوے سٹیشن بٹالہ پر پہنچے ، اور دہلی کا ٹکٹ دے کر اور یک صدر و پیر نذرکر کے آپ کو گاڑی میں بٹھا دیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب روانہ ہو گئے ( اور دہلی پہنچ کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.) حضرت مولوی صاحب نے گھر سے نہ کوئی خرج منگوایا نہ مشورہ ( کیا ) اور (نہ ) اطلاع کی مطب سے ہی دہلی کو روانہ ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی قربانی دیکھ کر وہ سلوک کیا کہ باید و شاید “ اسی طرح ماسٹر صاحب بیان کرتے ہیں : ابتدائی زمانہ میں ( قادیان میں ) نہ کوئی ہسپتال تھانہ سیونگ بینک ڈاک خانہ کا.اکثر لوگ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے پاس اپناروپیہ امانت جمع کر دیا کرتے تھے.ایک مرتبہ ایک مہمان نے کہا کہ میں نے ۴ بجے شام کی گاڑی پر وطن کو جانا ہے میرا روپیہ دیدیں.مجھے معلوم تھا کہ اس وقت آپ کے گھر میں روپیہ موجود نہیں.کیونکہ اکثر میں ہی ( گھر کے کام کاج کرتا اور ) سودا لایا کرتا تھا بلکہ برسات میں کو ٹھے پر مٹی بھی ڈالا کرتا تھا.حضرت مولوی صاحب نے اپنی صدری کی جیب میں سے دو روپے نکال کر مجھے دئے اور فرمایا کہ فلاں بیوہ کے ک ماسٹر صاحب کو یہاں سہو ہوا ہے ۱۸۹۱ء کے مباحثہ کے موقعہ پر حضرت مولوی صاحب دہلی نہیں گئے تھے.دوسرے اس روایت کی اندرونی شہادت بھی اس امر کی تردید کرتی ہے کیوں کہ قادیان میں مطب حضرت مولوی صاحب نے ہجرت کر آنے کے بعد شروع کیا اور ہجرت ۱۸۹۳ء میں کی تھی.حضرت مولوی صاحب کو یہ تار ۲۸ اکتو بر ۱۹۰۵ء کوموصول ہوا تھا اور آپ اگلے روز دہلی پہنچ گئے تھے (ب) اس روایت میں اور انگلی روایت میں خطوط وحدانی کے الفاظ خاکسار مولف کی طرف سے ہیں.

Page 43

36 گھر دے آؤ.چنانچہ میں نے تعمیل ارشاد کی پھر آپ کے مطب میں آکر بیٹھ گیا.۱۲ بجے کے قریب ایک غیر معروف شخص آیا اس نے ایک سوتر اسی روپے چاندی کے مولوی صاحب کے سامنے رکھ دئے.ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے وہ روپیہ ڈال کر چلتا ہوا.حضرت مولوی صاحب نے مجھے فرمایا کہ وہ مہمان جو روپیہ مانگتا تھا کہاں ہے میں نے عرض کی کہ مہمان خانہ میں ہے فرمایا کہ جاؤ سے بلا لاؤ.چنانچہ میں اسے بلا لیا.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ بھائی یہ اپناروپیہ لے لو اس پر مہمان نے معذرت کی کہ حضور کو تکلیف ہوئی ہوگی.آپ نے فرمایا کہ ہم نے تواللہ تعالی سے سودا کیا تھا کہ دورو پے کی مستحق بیوہ کو دے اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں یہ رو پیدا ر سال کر دیا ہے.“ ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کو روپے کی ضرورت در پیش تھی.حضرت اقدس سے آپ نے دوصد یا کم و بیش روپیہ منگوایا کچھ دنوں کے بعد اتنا روپیہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں واپس کرنے کے لئے پیش کر دیا.اس پر حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب ! کیا ہمارا اور آپ کا روپیا الگ الگ ہے آپ اور ہم دو نہیں ہیں.آپ کا روپیہ ہمارا اور ہمارا روپیہ آپ کا ہے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضور نے تو روپیہ نہیں لیا.گو ہم نے کسی اور رنگ میں دے دیا.“ خلافت ثانیہ سے وابستگی : ماسٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ: ایک دفعہ کسی نے حضرت خلیفہ امسیح اول کی خدمت میں مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے رپورٹ پیش کی کہ ہم تو صدق دل سے حضور کے خادم ہیں اس پر آپ نے فرمایا کہ صرف ظاہر داری ہے یہ مرید شرید نہیں ہیں جب لاہور سے اخبار ”پیغام صلح کا اجرا ہوا تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا یہ تو پیغام جنگ ہے (حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد ) جب مولوی محمد علی صاحب نے الگ پارٹی لاہور میں بنالی اور اکثر متلاشیان حق کو ( مولوی محمد علی صاحب وغیرہ کے پراپیگنڈہ کے زیر اثر ) بیعت کرنے میں دبد بھا تھا.میں نے ایک غیر احمدی طالب علم کو جو لاہور میں تعلیم پاتا تھا کہا کہ تم نہ تو مبایع ہونہ غیر مبالع.تم دو نفل پڑھ کر استخارہ کرو کہ فریقین میں سے کون سا گر وہ حق پر ہے.اس نے استخارہ کیا تو خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا جلوس آرہا ہے نزدیک آنے پر معلوم ہوا کہ فضل عمر اس کا امام اور لیڈر ہے اور مولوی محمد علی صاحب چھوٹے قد کے ہو کر عورت کی شکل پر ہو گئے ہیں اور ایک چادر بچھا کر بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری بیعت پانچ پیسے ادا کرنے پر ہو سکتی ہے ورنہ نہیں.“ خلافت ثانیہ کے آغاز پر اللہ تعالیٰ نے ماسٹر صاحب کو ثابت قدم رکھا اور اس کے ساتھ وابستگی اور پھر استقامت کی توفیق عطا فرمائی.آپ نے غیر مبایعین کے معتقدات کی تردید اپنی تحریرات میں کی جس کا ذکر اس

Page 44

37 کتاب میں دوسری جگہ کیا گیا ہے یعنی پیغامیوں اور مولوی محمد علی صاحب کا رد اور امامت و خلافت نیز مولوی محمد علی صاحب کی کتاب النبوۃ فی الاسلام کے متعلق ماسٹر صاحب کا ایک مفصل مضمون ختم نبوت کے بارے میں الفضل ۱۸ ؍جون ۱۹۱۸ ء میں شائع ہوا.قادیان میں تعمیر مکان : حضرت مسیح موعود کے مکتوبات سے بھی ظاہر ہے کہ قادیان میں مہاجرین کے لئے حصول مکانات میں از حد دقت تھی کچھ تو مکانات بھی کم تھے اور زیادہ تر تعصب و مخالفت کے باعث غیر مسلم کرایہ پر دیتے نہ تھے.کرایہ دینے پر بھی تنگ کرتے تھے.حضرت مسیح موعود" تحریر فرماتے ہیں.اس جگہ بڑی مشکل یہ ہے مکان نہیں ملتا اکثر لوگ شرارت سے دیتے نہیں " ☆ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ جب حضرت ماسٹر صاحب کی شادی ہوئی.مکان نہ ملتا تھا.بالآخرسید محمد علی شاہ صاحب مرحوم نے اپنا باورچی خانہ دیا اور اسی کمرے میں آپ کی بڑی بچی کی ولادت ہوئی.پھر آپ حضرت مولوی حکیم فضل الدین صاحب بھیروی والے چوبارہ میں جو مہمان خانہ کے اوپر تھا.فروکش ہوئے.ایام طاعون میں کافی عرصے تک دونوں میاں بیوی کو الدار میں رہنے کا بھی شرف حاصل ہوا.سراج منیر میں حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں کہ ۱۸۸۲ء کے قریب آپ کے پاس صرف دو تین آدمی آتے تھے اور وہ بھی کبھی کبھی ، اس وقت آپ کو الہام الہی سے حکم صادر ہوا.وَسِعُ مَكَانَكَ (27) بعد ازاں بھی کئی بار یہ الہام ہوا.اواخر ۱۹۰۷ء میں بھی ہوا.قادیان میں سلسلہ کی عمارات بلکہ احمدی مہاجرین کے مکانات کی تعمیر علاوہ ازیں ربوہ کی تعمیر اور تمام ممالک میں دیار التبلیغ اور مساجد کی تعمیر ان ہی الہامات کی تعبیر ہیں کیونکہ ان الہامات میں مقام کی کوئی قید نہیں.خلافت اولی میں محلہ دار العلوم میں حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی تعلیم الاسلام ہائی سکول، مسجد نور وغیرہ تعمیرات کا آغاز ہوا.رساله تشخیذ الاذہان بابت اکتوبر ۱۹۱۶ء میں ”ہمارے بھائیوں کے مکان دارالامان میں“ کے زیر عنوان مندرجہ ذیل کو ائف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک دارالفضل میں صرف ایک درجن مکانات تعمیر ہوئے تھے اور لکھا ہے: یہ مکتوب غالباً ۱۹۰۲ء کار قم فرمودہ ہے (بحوالہ اصحاب احمد جلد دوم ص ۳۹ حاشیہ ص ۱۴۰

Page 45

38 ”سب سے پہلے ماسٹر عبدالرحمن صاحب جو آج کل کالا پانی میں ہیڈ ماسٹر ہیں، نے زمین خریدی تھی انہوں نے ایک مکان بنایا ہے جو کفایت شعاری اور پھر فراخی وضروریات کی موجودگی میں ایک نمونہ ہے.(ص ۵۱) اس مضمون سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت دار العلوم میں ابھی تک صرف سات مکانات تعمیر ☆ ہوئے تھے اور قادیان گائیڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ دار العلوم میں کوٹھی نواب محمد علی خان صاحب.مسجد نور.ہائی سکول اور اس کے متعلقہ کوارٹرز وغیرہ کے علاوہ اکتوبر ۱۹۲۰ ء تک صرف دس مکانات اور دار الفضل میں تمہیں مکانات تعمیر ہو چکے تھے: ماسٹرعبدالرحمن صاحب بی اے سابق مہر سگ کا مکان بھی تھا.اس وقت قادیان کے احمدیوں کے کل مکانات بشمول دار مسیح اور سکول وغیرہ پونے دو صد تھے.جن میں سے نئی آبادی یعنی دار العلوم، دار الفضل اور دارالرحمت میں صرف ۲۵ مکانات تعمیر ہوئے تھے.دار الفضل میں ماسٹر صاحب نے سات آٹھ کنال اراضی خریدی تھی جس کے مالکانہ حقوق آپ نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے منتقل کر والئے تھے.آپ کے مکان کا نقشہ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی نے تیار کیا تھا اور انہی کی نگرانی میں یہ مکان تعمیر ہوا تھا.آغاز تعمیر کے وقت آپ کا مشاہرہ صرف اکاون روپے تھا اور آپ کے پاس صرف سترہ روپے نقد تھے.تو کلا آپ نے مکان کی تعمیر شروع کر دی اور مقروض ہو گئے.دعا کی تو رویا میں دیکھا کہ ایک پہاڑ ہے جو بہت بلند اور سیاہ ہے آپ اس پر چڑھ گئے ہیں.ان دنوں آپ کو سیلون برائے تبلیغ بھجوانے کی تجویز تھی لیکن ان ہی دنوں آپ کو انڈیمان والی ملازمت میسر آگئی اور سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اچھا سیلون نہ ہی انڈیمان چلے جاؤ تبلیغ بھی ہوگی اور ملازمت بھی.وہاں آپ کا مشاہرہ تین صد روپیہ مقرر ہوا.اور ایک بنگلہ بھی ملا.اور متعدد قیدی بطور ملازم اور سواری کے لئے رکشا میسر تھی.جسے آٹھ آدمی چلاتے تھے چنانچہ اس ملازمت سے یہ سارا قرض ادا ہوا بلکہ مکان میں مزید ایزادی بھی کی گئی.یہ مکان دار الفضل کا اولین مکان تھا.بعد ازاں رسائیدار خدا داد خاں صاحب.پیر محمد یوسف صاحب اور مولوی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی کے مکانات تعمیر ہوئے.در حقیقت یہ محلہ بالکل جنگل بیابان کا حکم رکھتا تھا.قادیان کی قدیم آبادی وہاں سے بہت دور تھی ، چوری چکاری کا خطرہ تو ہر وقت رہتا ہوگا.☆ محلہ جات میں ۱۹۲۰ء تک تعمیر شدہ مکانات کی فہرست قادیان گائیڈ (مطبوعہ ۲۵ نومبر ۱۹۲۰ء ) شائع کردہ میاں محمد یا مین صاحب تاجر کتب قادیان میں موجود ہے.بیان سردار بشیر احمد

Page 46

39 موقر الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر میں اور شہر سے قریب مکانات حضرت میر محمد اسمعیل صاحب اور ڈاکٹر نور بخش صاحب رضی اللہ عنہما ہیں اپریل ۱۹۲۱ء میں چوری ہوئی.خاکسار کو یاد ہے کہ غالبا ۱۹۲۷ء میں حافظ روشن علی صاحب کے داماد محترم حافظ مبارک احمد صاحب کے مکان پر دارالفضل میں چوری ہوئی اور انہیں آئندہ کے لئے محلہ کے اندرونی حصہ میں منتقل ہونا پڑا.حالانکہ اس وقت دار الفضل اور ساری قادیان کی آبادی نسبتاً پہلے سے بہت بڑھ چکی تھی.اس سے سالہا سال پہلے اور بالکل ہی قلیل آبادی کے وقت کے ساکنین جو شہر کی آبادی سے بہت دور تھے ان کا دل گردہ قابل صد ستائش ہے نہ صرف یہ کہ ان کو ہر وقت چوکس رہنا پڑتا ہوگا بلکہ سفر پیش آنے کی صورت میں ان کو اور ان کے اہل وعیال کو بہت دقت کا سامنا ہوتا ہوگا.شاید ان ہی امور کے مد نظر بعض احباب نے تعجب کا اظہار کیا تھا کہ ماسٹر صاحب نے کتنی دور مکان بنا لیا ہے اس وقت اس محلے میں آپ ہی کا مکان سب سے پہلے بنا تھا اور سارا محلہ ابھی خالی تھا.ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کا بیان ہے کہ ماسٹر صاحب کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود فرما گئے ہیں کہ یہاں آبادی ہی آبادی ہو جائے گی.تعلیم و تربیت: آپ نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص طور توجہ دی.اپنی بڑی صاحبزادی مرحومہ کو قرآن مجید مع ترجمہ، احادیث مع ترجمہ اور بعض کتب حضرت مسیح موعود کے علاوہ ۱۹۱۸ء میں برما یو نیورسٹی سے مڈل کا امتحان پاس کروایا تھا.۱۹۲۵ء میں حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں براہِ راست نگرانی میں جو مدرسہ جاری کیا تھا اس میں بھی مرحومہ پڑھتی رہیں.آپ نو جوانوں کی تربیت کی طرف بھی متوجہ رہتے تھے.ان میں اسلام اور احمدیت کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کرتے.سکول کی جماعتوں میں بھی وقت نکال کر وعظ و نصیحت کرتے.تعلیم الاسلام ہائی سکول میں صبح حاضری کے بعد دس منٹ وعظ ہوتا تھا.چنانچہ سالہا سال تک آپ وعظ کرتے رہے.آپ کا ایک مشہور وعظ یہ تھا کہ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.اگر یہ تعلق پیدا ہو جائے تو انسان کو کچھ فکر وغم نہیں ہو سکتا.اکثر فرماتے من كان الله كان اللہ لہ جو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے کام کر دیتا ہے.اخویم ڈاکٹر محمد رمضان صاحب ربوہ لکھتے ہیں: ” جب میں ۱۹۱۵ ء اور ۱۹۱۶ ء میں غیر احمدی ہونے کی حالت میں قادیان کے تعلیم الاسلام ہائی اسکول میں داخل تھا تو اس وقت حضرت ماسٹر صاحب سکول کے سٹاف میں تھے اور مجھے ان کو نزدیک سے دیکھنے کا موقعہ ملا.“

Page 47

40 (28) بخلاف آج کل کے عام استادوں کے جو صرف سطحی طور پر اپنا وقت گزار کر چل دیتے ہیں.یا بچوں کو ایسی غیر ضروری باتوں میں مشغول رکھتے ہیں.جنھیں سکول Activities کا نام دیا جاتا ہے اور جو رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ سے دوری کا باعث بن جاتی ہیں.حضرت ماسٹر صاحب مرحوم نہایت سنجیدگی اور محنت سے پڑھاتے تھے بلکہ فالتو وقت میں بھی بچوں کو سمجھاتے رہتے تھے.یہاں تک کہ آپ کو اپنے جانے اور کھانے کا بھی خیال نہ رہتا تھا.اگر کسی جگہ سے گذرتے وقت بھی ان سے کوئی سوال پوچھا جاتا تو وہیں ٹھہر جاتے اور جب تک سائل کی تسلی نہ ہو جاتی آگے نہ جاتے.آج کل سکولوں اور کالجوں میں بچوں کی اصلاح کی پرواہ نہیں کی جاتی اور عام طور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ ہمارا کام نہیں لیکن حضرت ماسٹر صاحب مرحوم ایسے درد اور انہماک سے بچوں کی اصلاح فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود کی آمد کی غرض ظاہر ہونے لگتی تھی.غرضیکہ بچوں کی صحیح تعلیم ، تربیت اور اصلاح کا بے حد جوش ان کے اندر موجود تھا.یہی وہ جوش تھا جس نے ان سے تبلیغی میدان میں بھی بہت سے کار ہائے نمایاں سرانجام دلوائے.ان کے لباس اور عادات کی سادگی بلند اور پاکیزہ خیالی اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں انہاک نیز اسی طرح بعض دوسرے بزرگان سلسلہ کے نیک خصائل ہی تھے جنہوں نے اس وقت مجھے اور بعض دوسرے غیر احمدی لوگوں کو آخر کار جماعت احمدیہ میں داخل کر دیا.الحمد للہ علی ذالک حکیم محمد سعید صاحب مبلغ سری نگر حضرت ماسٹر صاحب کے حسن سلوک کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں ۱۹۳۳ء میں ایک بزرگ کے ہاں قادیان میں رہتا تھا.ساتھ کے مکان میں ماسٹر صاحب کی دوسری اہلیہ جو کشمیری تھیں، رہتی تھیں.ماسٹر صاحب سے واقفیت ہوئی انہوں نے میرے حالات سنے اور مجھے پڑھانا منظور کر لیا اور اپنے گھر پر ہی میرے قیام کا انتظام کر لیا.آپ مدرسہ سے واپس تشریف لاتے تو دو گھنٹے متواتر مجھے پڑھاتے تا کہ میری کمی پوری ہو جائے.ایک دفعہ جو مجھے سوال نہ آیا تو آپ نے مجھے خوب مارا....اور پھر ایک دن اس گھر تشریف نہ لائے.ایسے مشفق کی جدائی مجھ پر سخت شاق گزری.میں اگلے روز دوسرے گھر کی طرف ان کے پاس جارہا تھا کہ آپ آتے ہوئے مل گئے.آپ نے سمجھا کہ میں شاید اس سزا کی وجہ سے گھر سے بھاگ چلا ہوں.اس لئے فور فر مایا.سعید میں نے محض تمہاری ہمدردی سے سزادی تھی اگر اس وجہ سے ناراض ہو کر تعلیم ترک کر رہے ہو تو مجھے معاف کر دو.آپ کے ان کلمات سے میں مرغ بسمل کی طرح تڑپتا ہوا ان کے قدموں پر جا پڑا اور ان سے معافی مانگی.اس دن سے میں ان کا اور وہ میرے ہو گئے.میں سات سال آپ کے ہاں رہا آپ نے مجھے اپنے بیٹوں جیسا عزیز رکھا اور مشفق باپ کی طرح دل و جاں سے میری خدمت کی سوائے اس کے کہ جب آپ بڑھاپا محسوس کرنے لگے تو اس گھر کا سودا سلف لانے کا کام میرے ذمہ لگا دیا اور کوئی کام مجھ سے نہیں لیتے تھے ، آپ کی حد درجہ شفقت کے باعث طلباء مجھے کہتے کہ تم ماسٹر صاحب کے بیٹے ہو.بعض کہتے تھے کہ اہلیہ اول کے بیٹے بڑے ہو کر

Page 48

41 چونکہ قادیان سے باہر تعلیم اور ملازمت کے لئے جاچکے ہیں اس لئے آپ نے مجھے اپنا بیٹا بنالیا ہے.آپ تہجد کے لئے اُٹھتے پہلے ورزش کرتے اور فرماتے تھے کہ جزائر انڈیمان میں ایک بار مجھے ملیر یا ہو گیا.تو ایک انگریز نے مجھے بتایا کہ خالی پیٹ ورزش کرنے سے کوئی بیماری نہیں آتی اب میں ساٹھ سال کا ہو گیا ہوں اس وقت تک کبھی ملیر یا وغیرہ نہیں ہوا.اسی طرح حکیم صاحب بتاتے ہیں کہ آپ مجھے بزرگوں کا اعزاز واکرام کرنے کی تاکید فرماتے.مجھے حضرات مولوی سرور شاہ صاحب، مولوی شیر علی صاحب، میر محمد الحق صاحب، مفتی محمد صادق صاحب، سید ولی اللہ شاہ صاحب، ملک مولا بخش صاحب (صدر بلدیہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب سے استفاضہ کی تاکید فرماتے اور فرماتے کہ اگر ان کے کہنے پر کوئیں سے پانی لا کر ہی پلا دو تو عین خوش بختی ہوگی.ان کے جوتے سیدھے کیا کرو.اس سے بھی برکت حاصل ہو کر علم کے لئے ذہن کھلتا ہے اور تم مبلغ بن جاؤ گے.بہت سے بزرگوں سے آپ نے خود میرا تعارف کرایا.ایک دفعہ آپ مجھے محترم چوھدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے پاس لے گئے اور میرا ان سے تعارف کرایا اور مجھ سے ان کو قرآن مجید سنوایا ، اس طرح قادیان کے اکثر بزرگوں سے میری واقفیت ہوگئی اور وہ مجھے بے تکلفی سے خدمت کا موقع عطا کرتے.میں نے دیکھا کہ ایک بار آپ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی سے بیت الدعا کے لئے وقت لینے کے واسطے عرض کرنے گئے تو حضرت مدوح کے احترام کے باعث گویا ماسٹر صاحب تھر تھر کانپتے تھے.ایک بار مجھے فرمایا کہ درمشین شاہی درباروں میں سنائی جائے گی اور جب صاحبزادگان کا نام آئے گا تو بادشاہ بھی تعظیماً سر وقد کھڑے ہو جائیں گے.اس وقت اگر کوئی ان صاحبزادگان کے دیکھنے والوں کا دیکھنے والا موجود ہوگا تو اسے بھی خوش قسمت سمجھ کر دیکھنے آئیں گے.غرض آپ اپنے حال وقال سے تربیت فرماتے تھے.حکیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ چند ماہ گھر پر تعلیم دے کر آپ مجھے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ کے پاس لے گئے اور بتایا کہ اس کی کمی کو پورا کرنے کا میں ذمہ دار ہوں.یہ میرے گھر پر رہتا ہے.یہ ضرور پڑھے گا اور خدمت دین کرے گا.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے وطن کا ہے لیکن شیخ صاحب نے مجھے مدرسہ احمدیہ میں داخل کرنے سے قطعی انکار کر دیا.ماسٹر صاحب نے کہا کہ میں ہی تمہیں داخل کروں گا چنانچہ چند روز بعد شیخ مصری قادیان سے باہر گئے ہوئے تھے تو ماسٹر صاحب نے بطور سیکنڈ ماسٹر مجھے مدرسہ میں داخل کرلیا.میں جماعت میں محترم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کے ساتھ بیٹھتا تھا.ماسٹر صاحب نے صاحبزادہ صاح ہ صاحب کو تاکید کر رکھی تھی کہ مجھے سبق یاد کرایا کریں.اکثر ہم اکھٹے سبق یاد کرتے تھے.حکیم صاحب کا بیان ہے کہ ایک بار ایک بھائی مجھے واپس لے جانے کے لئے قادیان پہنچے اور مدرسہ

Page 49

42 کے دفتر میں ماسٹر صاحب سے ملاقی ہوئے.بھائی کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ اگر سعید نہیں جائے گا تو ہم بزور لے جائیں گے.ماسٹر صاحب نے بھائی کو تو وہیں چھوڑا اور مجھے کلاس کے عقبی دروازے سے موضع پھیر و پیچی بھیج دیا اور بھائی کو دوروز گھر پر رکھ کر تبلیغ کر کے احمدیت کا قائل کر لیا اور میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے کہ اب وہ تمہیں کیا لے جائیں گے خود شکار ہو گئے ہیں.چنانچہ بھائی نے ماسٹر صاحب کا مجھ سے حسن سلوک دیکھا تو چپ کر کے واپس چلے گئے.اس حسن سلوک کے باعث جب مجھے قادیان میں والد صاحب کی وفات کی خبر پہونچی تو اس کی تکلیف مجھے محسوس نہیں ہوئی.آپ جب سکھوں کے متعلق ایک ٹریکٹ شائع ہونے پر گرفتار ہوئے تو آپ کی جدائی مجھ پر سخت شاق گذری.آپ کی رہائی پر جماعت نے آپ کا استقبال کیا اور آپ کو ہار پہنائے.تو گھر آکر آپ نے مجھے بھی ہار پہنائے.اس شفقت کا جو اثر مجھ پر ہوا میں ہی جانتا ہوں.آپ کو مجھ پر کتنا اعتبار تھا اس امر سے ظاہر ہے کہ گرفتاری سے قبل آپ نے اپنا کتب خانہ راتوں رات قادیان سے باہر محفوظ کر دیا تھا جس کا علم آپ کے علاوہ صرف مجھ کو اور بھینی کے نمبر دار کو تھا.حکیم صاحب مزید سناتے ہیں کہ جب میں نے آپ کو مہر سنگھ سے عبدالرحمن بن کر عابد زاہد ، سادہ صداقت کا پتلا بنا دیکھا تو حضرت مسیح موعود کے اس ایک معجزے سے ہی میرا سارا خاندان احمدی ہو گیا.ایک دفعہ وطن میں مولویوں نے ہم پر یلغار کی تو میرے بھائیوں نے جوا بھی احمدی نہ ہوئے تھے میری طرف سے تمام اعتراضات کے جواب دئے اور بار بار حلفاً کہا کہ ہم نے سعید کے استاد کو جو سکھوں سے مسلمان ہوا دیکھا ہے ان کو کیا ایک فرشتہ کو دیکھا ہے ایک کامل ولی کو دیکھا ہے.قطب غوث ابدال اس کے آگے کیا ہیں ہم حیران ہیں کہ اگر حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا یہ معجزہ نہیں تو اس سے بڑا اور کیا معجزہ ہوگا.مولوی باری باری اٹھتے اور الزام تراشتے لیکن میرے تینوں بھائی ان کے سامنے بار بار یہی زندہ معجزہ پیش کرتے اور عوام کو موت یاد دلا کرفتم دے کر پوچھتے کہ ماسٹر صاحب میں جو الیسا انقلاب رونما ہوا ہے اس بارہ میں خدا تعالیٰ کو کیا جواب دو گے.اس وکالت کا یہ اثر ہوا کہ بھائیوں نے سوچا کہ ہم دوسروں کو تو یہ کہتے ہیں.کہ تم خدا تعالیٰ کو کیا جواب دو گے تو ہم کیا جواب دیں گے لہذا ہمیں احمدیت قبول کر لینی چاہیے.چنانچہ ماسوا ایک کے وہ سب احمدی ہو گئے.حقیقت بھی یہی ہے کہ نسلی پیروں اور مولویوں میں تو اسلام کا نام تک موجود نہیں اور ماسٹر صاحب اسلام کی جیتی جاگتی تصویر تھے اور زندہ نمونہ تھے.ایک بھائی جو احمدی نہیں ہوا وہ مولویوں سے کہتا کہ تم مجھ سے کیا بحث کرو گے میں قادیان پلٹ (Return) ہوں.قادیان تو وہ مقام ہے جہاں سکھ جا کر بطور سکھ واپس نہیں آتا.تم بھی اگر وہاں سے احمدی ہوئے بغیر واپس آجاؤ اور قادیان کا تو ایک مرغ بھی آجائے تو تم اس سے بحث نہ کر سکو گے.ایک دفعہ میں نے اپنی آٹھ سال کی عمر کے تین خواب بیان کئے تو آپ نے قسم کھا کر کہا کہ تم مبلغ بنو گے

Page 50

43 خوب غور سے پڑھو اور مجھے تاکید کرتے تھے کہ مسجد دارالرحمت میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب (سابق مبلغ ماریشس ) کا درس سنا کرو.خود بھی سنتے.رمضان شریف میں خود بھی درس سنتے اور مجھے بھی تلقین فرماتے کہ جلدی فارغ ہو کر درس میں شامل ہو اور رات کو درس کا مجھ سے امتحان لیتے.آپ تلاوت قرآن مجید بھی مجھ سے سنتے اور آبدیدہ ہو جاتے.حضرت مسیح موعود کی نظمیں بھی سنتے.حکیم صاحب ۱۹۴۷ء میں آخری ملاقات کا حال سناتے ہیں کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے لاہور بلوایا تو وہاں ماسٹر صاحب سے بھی ملاقات ہوگئی.میری شادی ہو جانے کی خبر سے بہت خوش ہوئے اور مجھے گلے لگالیا.اور اپنے گھر میں خوشی سے سنایا کہ ہمارے اقارب میں ہی جہاں میں نے تحریک کی تھی سعید کی شادی ہو گئی اور مجھے فرمایا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ ایک روٹی کھاؤ محض اس لئے کہ تبلیغ اسلام بند نہ ہو.اب تم مبلغ بن گئے ہو.خدا کا شکر کرو.بھئی! اب پیچھے نہ ہٹنا اور میرے لئے دعا بھی فرمائی.میرے ساتھ آپ بہت بے تکلف تھے.اپنے بچوں سے بھی اتنے بے تکلف نہ تھے.مجھ پر انہوں نے احسانات کی بارش برسائی.ان کو یاد کر کے اب بھی میں گریہ و بکا کرنے سے رہ نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ ان پر اپنے فضل و انوار کی بارش برسائے اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے.آمین ثم آمین.اہل و عیال کو نصیحت : آپ نے ۱۸ جولائی ۱۹۵۰ء کو اہل وعیال کے لئے ایک وصیت تحریر کی.یہ وصیت صرف دینی امور کے متعلق ہے.آپ نے تاکید کی اگر تم لوگ صحابہ کرام کی برکات سے حصہ لینا چاہتے ہو تو ہماری طرح کشتی نوح کا مطالعہ کیا کرو.میں اب بھی سال میں دو ایک مرتبہ اسے پڑھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں ہم کشتی نوح پڑھ پڑھ کر بعض ہدایات کو خط کشیدہ کر لیتے تھے اور ہفتہ بعد دیکھتے کہ وہ نقص دور ہوایا خوبی ہم میں پیدا ہوئی یا نہیں.اسی طرح صحابہ کیا کرتے تھے اور میں خود تو اپنے بعض عیوب اور کوتاہیوں کو خط کشیدہ کر کے اصلاح کیا کرتا تھا.اسی لئے گھر میں اس کتاب کا درس دیتا تھا.( سالہا سال تک روزانہ گھر میں اکثر اس کتاب کا اور کبھی دوسری کتب حضرت اقدس کا درس ہوتا تھا اس وصیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہر بچے اور بچی کو کتاب ” نبراس المومنین دی ہوئی تھی آپ اہل وعیال پر اپنے اعمال صالحہ کا اظہار کرتے رہتے تھے تا ان کو بھی ترغیب ہو.آپ نے اپنی اولاد کو خطوط میں تحریر فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود کی تحریر کردہ دعا مانگتا ہوں کہ یا الہی مجھے صحت و فرصت اور توفیق اعمال صالحہ عنایت کر اور سنت نبوی کے مطابق استغفار کرتا ہوں اور چلتے پھرتے بھی کرتا ہوں.اگر کوئی...خدا تعالیٰ کا کام کرے (تو) اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کی حاجت پوری کر دیتا ہے.ہمسایوں کو قرآن اور دین (29)

Page 51

44 سکھاؤ تا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے خاندان کو با برکت کر دے....خدا تعالیٰ کے لئے اور اپنے ذاتی آرام اور خوش حالی کے لئے دین کی خدمت مال اور جان اور جسم سے کرو آپ نے اکتوبر ۱۹۵۰ء میں ایک مکتوب میں نصائح تحریر کیں اور ایک بچہ سے کہا کہ نقول کر کے تمام بچوں کو بھیج دے تا کہ میری ذمہ داری بحیثیت والد کے ادا ہو جائے اور میں دنیا و آخرت میں اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جاؤں.میں نے ۱۸۹۰ ء میں بیعت کی اور ۱۹۰۷ ء میں وصیت کی تہجد التزام سے پڑھتا ہوں...اس میں آپ ادعیہ ماثورہ کا ذکر کرتے ہیں جو گھر اور مسجد سے نکلنے اور داخل ہونے اور نماز کے بعد سجدہ میں.بین السجدتین، کسی بستی میں داخل ہوتے ، وقت کسی مصیبت یا مریض کو دیکھ کر سوتے وقت ، نیند سے بیدار ہونے پر صبح کے وقت اور برائے استخارہ آپ پڑھتے تھے اور ہر ایک کو پڑھنی چاہیے.ڈاکٹر نذیر احمد کی ولادت اور ان کا عدن اور حبشہ وغیرہ میں تبلیغ کرنا: ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کے تبلیغی حالات یہاں اختصار ادرج کئے جاتے ہیں.ایک اس لئے کہ الولد سر لابیہ کے مطابق اس سے حضرت ماسٹر صاحب کی تربیت کا علم ہوتا ہے.دوسرے ڈاکٹر صاحب کی ولادت کے متعلق ایک روایت کی تعبیر کے لئے ان حالات کا یہاں ذکر مناسب حال ہے.حضرت ماسٹر صاحب تحریر کرتے ہیں: بشارت احمد کی وفات کے بعد اس کی والدہ صاحبہ نے ایک خواب دیکھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی اور کچھ چندہ دیا.خواب یہ تھی کہ کوئی زور سے پکارتا ہے کہ پہلے بچے کی وفات پر غم نہ کر تمہیں خدا تعالیٰ دوسرا لڑکا دے گا اس کا نام نذیر احمد رکھنا.حضور نے فرمایا کہ جب لڑکا پیدا ہو تو میرے پاس لانا چنانچہ ۲ راکتو بر ۱۹۰۶ء کولٹر کا ( ڈاکٹر نذیر احمد پیدا ہوا وہ حضور کی خدمت میں لے گئیں اور خواب بھی سنائی.حضور نے لڑکے کو گود میں لیا اور پیار کیا اور فرمایا ایک نذیر تو دنیا سے سنبھالا نہیں جاتا ایک اور نذیر آ گیا.( قلمی مسودہ) ڈاکٹر نذیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں: اگست ۱۹۳۵ء کی بات ہے سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہتعالیٰ نے مجھے حبشہ اب سینی) میں جا کر کام کرنے کے لئے فرمایا اور فرمایا کہ وہاں اطالیہ اور حبشہ میں جنگ شروع ہے آپ نے ملٹری میں ڈاکٹر کا کام کیا ہے حبشہ میں ڈاکٹروں کی ضرورت ہوگی وہ آپ کو کام پر لگالیں گے.چنانچہ میں فرانسیسی سمالی لینڈ کی بندرگاہ جبوتی سے ادیس ابابا پہنچا.اس زمانہ میں حبشہ بالکل ابتدائی دور تہذیب میں تھا.شہنشاہ حبشہ اور اعلیٰ طبقے کے لوگ اپنی زبان تو لکھ پڑھ سکتے تھے لیکن غیر ملکی زبانوں میں سے صرف فرانسیسی زبان سے واقف تھے.“

Page 52

45 بین الاقوامی صلیب احمر ( ریڈ کر اس ) کے ادارے نے شمالی محاذ پر جہاں جنگ ہورہی تھی بھیج دیا.اس وقت جہاں حبشہ والے قریباً نہتے تھے.اطالوی افواج کے پاس ہوائی جہاز بم اور نو ایجاد مشین گنیں ، تو ہیں اور موٹریں تھیں.مجلس اقوام عالم نے سوائے ادویہ اور صلیب احمر کے اور کچھ بھی مدد نہیں کی.اطالیہ کے دولاکھ سپاہی کھلے بندوں حملہ آور تھے ،عورتوں ، بچوں، دیہات، ہسپتالوں اور گرجوں پر نہایت سفا کی سے بم باری کی گئی.زہریلی گیس پھینکی گئی.اس سے فوجیوں اور غیر فوجیوں کی آنکھیں اور چہرے اور جسم جھلس گئے.ہمارے صلیب احمر کے ہسپتال پر Ambalaqi میں روزانہ بکثرت بم باری ہوتی جس سے زخمیوں اور عملہ ہسپتال میں اموات واقع ہوئیں.حبشی جنگی لیڈر Ras Mulu Gelta اور Ra Khasa میرے ساتھ تھے.مجھے دن رات مشغول رہنا پڑتا اور قریباً انیس ہزار زخمیوں اور بیماروں کے علاج کی توفیق ملی.۱۹۳۶ء میں اطالیہ نے حبشہ کو شکست دیدی.شہنشاہ حبشہ جو بہت دلیری سے بنفس نفیس میدان جنگ میں موجود رہتا تھا زخمی بھی ہوا.اب وہ از سر نو فتح کرنے کا عزم لے کر یورپ میں پناہ گزیں ہوا اور بعد میں پھر فاتح ہوا.اطالوی فتح حبشہ کے بعد میں نصف سال تک ادیس ابابا میں مقیم رہا تا کہ جن لوگوں نے آغاز اسلام میں مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دی تھی ان کو امن و سلامتی کا پیغام پہنچاؤں.چنانچہ میں مساجد میں جاتا اور پیغام پہنچاتا.ایک روز جامع مسجد میں میں نے بزبان عربی ظہور مہدی کے متعلق قرآن مجید اور احادیث کا ذکر کے خوشخبری دی ، لوگ دشمن ہو گئے.اور مجھے وہاں سے مار کر نکال دیا اس کا اچھا نتیجہ نکلا اور بعض لوگ میرے ساتھ ہو گئے.ان دنوں از ہر یو نیورسٹی کے ایک فاضل اجل جو مصر کے علماء کبار میں سے تھے ان کا نام شیخ محمد بدیوی تھا اور وہ جامعہ اسلامیہ ادیس ابابا کے پرنسپل تھے اور آج کل بھی مصر میں طنطا وغیرہ مقامات پر کام کرتے ہیں وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور خواہش کی کہ ان کے ہاں روزانہ جا کر تبادلۂ خیالات کروں.انہوں نے احمدی مبشرین کی بعض تصانیف مطالعہ کی ہوں گی وہ مجھ سے احمدی نقطہ نگاہ کے مطابق تغییر بعض آیات کی معلوم کرتے.میں کہتا کہ انت یا شیخ عربی و انا اعجمي لا يستويان تو جواب دیتے انتم القاديانيون تفسرون القرآن حسن من تفاسيرنا وہ میری بیان کردہ تفسیر سے خوش ہوتے اور تسلی پاتے.کتب حضرت مسیح موعود پڑھ کر انہوں نے عبدالحمید ابراہیم مصری احمدی کو جوا بھی احمدی نہ تھے اور پہلے ازھر یو نیورسٹی کے طالب علم رہ چکے تھے اور اب ادیس ابابا میں تاجر تھے یہ کتب دیں تو موخر الذکر نے مطالعہ کر کے کہا کہ ان میں کوئی بات خلاف شرع نہیں.نہایت اعلیٰ عربی اور معارف قرآن مجید ہیں میری تحریک پر شیخ محمد بدیوی نے استخارہ کیا اور خواب دیکھا کہ حضرت رسول کریم له مع حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے گھر تشریف لائے ہیں اور حضرت مسیح موعود کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ذانا ئبي في الاسلام.هذا نا ئبي في الاسلام.چنانچہ ان کے سب شکوک رفع

Page 53

46 ہو گئے اور انہوں نے بیعت کر لی.السید عبدالحمید ابراہیم موصوف احمدیت کے قائل ہو گئے تھے مگر وہ خرطوم چلے گئے اور وہاں سے انہوں نے اخویم چوہدری محمد شریف صاحب مبشر بلاد اسلامیہ ( مقیم فلسطین ) سے خط و کتابت کر کے مبشر بیعت کر لی.پروفیسر ولیم ویکسن امریکن انگریزی کتب کے مطالعہ کرنے سے مسلمان ہو گئے ان کا نام فاروق رکھا گیا ۱۹۳۶ء میں ہم اکھٹے عدن گئے پھر وہ امریکہ چلے گئے.میں اپنے طور پر مصر شام اور فلسطین گیا اور ہر جگہ پیغام حق پہنچانے کی توفیق ارزاں ہوئی.ابدال الشام میں سے السید منیر اٹھنی نے دمشق و بیروت میں سے بہت سے لوگوں سے میری ملاقات کرائی اور کہا کہ احمدی نو جوانوں کا حوصلہ دیکھو کہ تمام دنیا کے سامنے اپنے روشن عقائد پیش کرنے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ، ان کے والد ماجد افسوس ہے آخر دم تک احمدیت سے محروم رہے.ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ خاکسار کے والد نے سکھ مذہب ترک کر کے اسلام قبول کیا اور ہمیشہ اشاعتِ اسلام میں حصہ لیتے رہے تو ان کے والد جوش میں آکر کہنے لگے والده خَرجَ من الكفر و دخل فى الكفر (معاذ اللہ ) اور اپنے بیٹے سے محبت کے باوجود کہتے تھے یا ابنی اذبحک کہ بیٹا تم احمدی ہو گئے ہو دل کرتا ہے کہ تمہیں ذبح کر ڈالوں.ایک دفعہ میں اور اخویم مولوی محمد سلیم صاحب ( سابق مبلغ بلا داسلامیہ حال دہلی ) دریائے اردن کے کنارے جہاں شاہ اردن امیر عبداللہ کے سیر و تفریح کے لئے خیمے لگے ہوئے تھے.ان کے ساتھ کھڑے ہو کر ہم نے فوٹو کچھوائی.انہوں نے ہماری دعوت کی اور ہم نے انہیں احمدیت کے متعلق لٹریچر پیش کیا.ایک دفعہ عمان اور بیت المقدس کے درمیان شاہ موصوف سے میری ملاقات ہوئی.سڑک خراب تھی اور وہ کار سے اتر کر اس کا معائنہ کر رہے تھے ان سے گفتگو ہوتی رہی یہ معلوم کر کے کہ میرے پاس ڈاکٹری کی ڈگری ہے انہوں نے عمان آکر ملنے کے لئے کہا اور پریکٹس کے لئے انتظام کرنے کا وعدہ کیا.لیکن ۱۹۳۶ء میں عرب اور یہود فلسطین میں نبرد آزما تھے اور بہت زیادہ سیاسی شورش تھی میں وہاں نہیں جاسکا اور اگلے سال مشرقی افریقہ واپس چلا گیا.۱۹۴۳ء میں میں عدن گیا اور عدن پر ڈٹیکٹوریٹ میں بطور میڈیکل آفیسر متعین ہوا.دورے بھی کرتا اور تبلیغ بھی کرتا اور سلسلہ کی کتابیں تقسیم کرتا.بارسوخ افراد نے اس بارہ میں گورنر سے شکایت کی اور مجھے سرکاری ملازمت سے نکلوانے کا مطالبہ کیا کہ نوجوانوں کے احمدیت میں داخل ہونے کا وہ خطرہ محسوس کرتے ہیں حتی کہ جمعہ کے روز خطیب نے خطبے میں میرا ذکر کر کے کا فرقرار دیا.عدن کی مسجد زعفران نامی میں مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا کہ میرے پیچھے کئی سو عرب اور سمالی لاٹھیاں

Page 54

47 لئے جمع ہو گئے تا کہ مجھے قتل کر دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا.عبداللہ شبوطی عدنی جو بعد میں احمدی ہو گئے ان کے بھائی سلطان شبوطی میرے ہسپتال میں کمپونڈ رتھے.“ جہاں جہاں بھی میں نے تبلیغ کی ہے لوگوں کو خوابوں کے ذریعے صداقت احمدیت کا انکشاف ہوا ہے میں نے ایک عربی عالم کو کتاب الاستفتاء دی اور تبلیغ کر کے ایک بیمار کو دیکھنے چلا گیا.واپس آیا تو وہ سو کر اُٹھا اور کہنے لگا کہ الآن رئیت مرزا غلام احمد علیه السلام جاء عندى وقال السلام عليكم ورحمة الله کہ ابھی ابھی حضرت اقدس کو خواب میں دیکھا کہ تشریف لائے ہیں اور السلام علیکم فرمایا اسی طرح ایک دوست علاءالدین کیلانی شامی نے خواب میں دیکھا اور وہ احمدی ہو گئے.“ ۱۹۴۵ء میں میں نے خواب دیکھا کہ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ حبشہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہاں چلے جاؤ.عدن کے پاس ہی تو ہے.میں نے عرض کیا کہ حضور" میں ابھی جارہا ہوں.خواب کی اطلاع دینے پر حضور نے فرمایا ٹھیک ہے حبشہ چلے جاؤ.۱۹۴۵ء میں وہاں پہنچابا وجودیکہ سرکاری ملازمت میں وہاں کوئی ہندوستانی ڈاکٹر نہیں لیا جاتا تھا.مجھے لے لیا گیا کیونکہ میں نے ۱۹۳۵ء کی جنگ میں میڈیکل خدمات سرانجام دی تھیں مجھے نو سال تک مختلف ہسپتالوں میں کام کرنے کا موقعہ ملا.افسر بھی خوش تھے.حتی کہ انہوں نے مجھے کئی ہزار رو پیدا اپنے جیسے آٹھ ڈا کٹر ہندوستان سے بلوانے کے لئے دیا اور کہا کہ ہمیں کسی پر یقین نہیں.آپ پر اعتبار ہے.چنانچہ میں نے ڈاکٹر عبد اللطیف صاحب عدن والے.ڈاکٹر محمد احمد صاحب کڑک اور ڈاکٹر رفیق احمد صاحب جگا دھری والے اور ماسٹر انعام اللہ صاحب ایم اے بی ٹی کو بلوایا.“ ابی سینیا کے دار حکومت کے علاوہ ہر ر، دیری دوا اور اسباتفری وغیرہ شہروں میں احمد یہ جماعتیں قائم ہوئیں.دواموراحمدیت کی طرف متوجہ کرنے کا موجب ہوئے.ایک یہ کہ ایک مسلمان ڈاکٹر سے شفا حاصل ہوتی تھی.کسی مسلمان ڈاکٹر کو پہلے نہیں دیکھا گیا تھا ، دوسری میری عربی زبان میں تقاریر ، مباحثات اور مقابلہ کی دعوت.میں ان کو کہتا تھا کہ اپنے علماء کو مقابلہ پر لاؤ وہ اپنے عقائد قرآن مجید سے ثابت کریں لیکن علماء بھاگتے تھے.اور اپنے لوگوں کو کہتے تھے کہ ہم پبلک مباحثہ کرنے کو تیار نہیں.سب سے کاری ہتھیار جو وہاں کام آیا تھا بیماروں کا علاج معالجہ اور نیک سلوک حضرت اقدس کی کتابوں کا تقسیم کرنا اور ان لوگوں کا دعا کرنا کہ یا الہی تو ہم پر احمدیت کے بارے میں انکشاف کردے.“ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ تقریر میں فرمایا ڈاکٹر نذیر احم کا اخلاص اس قدر ہے کہ تبلیغ میں فرشتے آسمان سے ان کی مدد کرتے ہیں.مجھے ابی سینیا سے جو خط آتے ہیں ان میں بسا اوقات

Page 55

48 (☆) لکھا ہوتا ہے کہ ہمیں خواب میں بتایا جاتا ہے (*) کہ ڈاکٹر نذیر احمد کے پاس جا کر احمدیت اور دینی مسائل کی صداقت کا پتہ کرو.ایک عرب جب میری طرف سے دی گئی حضرت اقدس کی ایک عربی کتاب اپنے گھر پر پڑھتے پڑھتے سو گیا تو خواب میں ایک فرشتے نے کہا کہ: آمِنُ ولا تشک کہ ایمان لے آؤ اور شک نہ کرو.ایک شخص کو تبلیغ کی ، وہ دوسرے شہر کو چلا گیا.واپس آنے پر اس نے سنایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک ستارہ آسمان سے اتر انیچے آتے ہوئے سورج کی طرح بہت روشن ہو گیا.بہت لوگ اس کے گرد جمع ہیں میں نے پوچھا یہ کیا ہے لوگ بولے کہ یہ وہی روشن سورج ہے جس کی طرف تم کو ڈاکٹر نذیر احمد نے کل توجہ دلائی تھی.ایک عورت نے جس کی آنکھ کا میں نے آپریشن کیا تھا، خواب دیکھا کہ گھوڑے پر سوار حضرت مسیح موعود ہیں اور دوسرے گھوڑے پر میں ہوں.تلوار حضرت اقدس کے ہاتھ میں ہے اور دنیا حضور کے پیچھے ہے ایک عرب نے دیکھا کہ سبز جھنڈا جس پر کلمہ طیبہ مرقوم ہے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں ہے اور ساتھ ہی میں بھی ہوں لوگ جم غفیر کی شکل میں حضور کے پیچھے ہیں چونکہ یہ لوگ حضرت اقدس کے ساتھ خواب میں مجھے بھی دیکھتے اس لئے ان کو یقین ہوجاتا ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہتا ہوں صحیح و درست ہے.“ اسمارا اطالوی قبضے کے وقت اریٹریا کا دارلحکومت تھا.۱۹۴۶ء میں برطانوی فوج کے چالیس ہزار کے مجمع میں میلادالنبی کے دن میں نے انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ بے شک اتحادیوں کو فتح ہو گئی ہے جو خوشی کا موجب ہے لیکن حقیقی امن و ان طائفتان من المومنين الخ قرآن مجید کے اصول پر عمل پیرا ہونے سے ہی ہوسکتا ہے ورنہ پھر جنگ ہوگی.لوگوں نے میری تقریر کو پسند کر کے مجھ سے ہاتھ ملائے اور مجھے مبارک باد دی.اس مجمع میں اطالوی ، انگریز جبش مسلمان سب موجود تھے.ماہ رمضان میں بمقام دیری دوا مسجد میں میں تلاوت کر رہا تھا.امام مسجد کے دریافت کرنے پر میں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ہندوستان میں حضرت مہدی یا نبی آگئے ہیں.بحث شروع ہوئی.ایک ہزار کا مجمع ہو گیا لوگ میرے مارنے پر تل گئے.میرے سر پر وار بھی کیا کچھ لوگ مجھے میری جان بچانے کے لئے مسجد سے باہر نکالنا چاہتے تھے لیکن دوسرے لوگ مزاحم تھے تا کہ جان سے مار ڈالیں.بہر حال یہ لوگ مجھے دھکیلتے دھکیلتے بازار لے گئے.وہاں میں ایک دکان پر کھڑا ہو گیا کہ یہ لوگ جو چاہیں کر لیں یا واپس چلے جائیں، اس دکان میں عبداللہ عبد وش اسبا تفری والے احمدی کے والد جو غیر احمدی تھے موجود تھے ، انہوں نے یہ طوفان بے تمیزی دیکھ کر بھانپ ☆ الفضل میں مرقوم ہے: ڈاکٹر نذیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عربوں اور حبشیوں کو خوابوں کے ذریعہ حضرت مہدی کے ظہور کی خبر دے رہا ہے حضور بھی ان کو خواب میں نظر آتے ہیں ڈاکٹر صاحب اپنے خرچ پر تبلیغی لٹریچر تقسیم کرتے ہیں (۳۰)

Page 56

49 لیا کہ خون ہو جائے گا ان کو طیش آیا اور ان کا چہرہ سرخ ہو گیا ، انہوں نے چند نو جوانوں کو پورے عزم سے للکار کر کہا کہ تم میں سے جس نے میری دکان میں قدم دھرا میں اسے قتل کر دوں گا.اس پر لاٹھیوں چاقوؤں سے مسلح نو جوان وہاں سے چلے گئے.” میرا مقصد یہ تھا کہ اکے دُگنے کو تبلیغ کرنے میں سالہا سال صرف ہوں گے.ایسے طریق اختیار کئے جائیں جن سے شور مچ جائے.اور تبلیغ ہو جائے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.براہ راست میرے ذریعے ستر کے قریب افراد نے بیعت کی.پھر آگے ان کے ذریعے یا خطوط کے ذریعے مزید قریباً تین صدافراد نے بیعت کی (*) چونکہ ابی سی نیا دوسرے ممالک سے الگ تھلگ ہے.دیگر ممالک کی طرح وہاں خط و کتابت اور تبلیغ کی آزادی نہیں نہ وہاں کے لئے کسی مبلغ اسلام کو پاسپورٹ مل سکتا ہے نہ ہی وہاں سے آنے والوں کو پاسپورٹ کی عام سہولت حاصل ہے.کھلا جلسہ کرنے سے لوگ ہچکچاتے ہیں.چندہ باہر بھیجنے میں مشکلات ہیں.شہنشاہ ابی سینیا سے تین مختلف مواقع پر ملاقات ہوئی اور ان کو ان کے محل میں اسلام اور ظہور مسیح موعود کا پیغام پہنچانے کا موقعہ ملا.نیز حبشہ میں اسلام کی تاریخ اور احمدیت کے نفوذ کے متعلق بھی حالات گوش گذار کئے اور کتاب ” احمدیت یا حقیقی اسلام (انگریزی ) پیش کی.حبشہ کی زبان امھاری ہے جس کی اصل عربی اور عبرانی ہے.نصف الفاظ اب بھی عربی کے ہیں.رسم الخط کسی زبان سے نہیں ملتا.قدیم یہودیوں سے ان کی وضع قطع ملتی ہے.یہودیوں اور کشمیریوں کی طرح پیٹھ پر بوجھ اٹھاتے ہیں.اپنے تئیں یہودی الاصل بتاتے ہیں.عیسائیوں کے گرجے بھی یہود کے معاہد کے مشابہ ہیں.زبور داؤد کو مقدس ترین سمجھتے ہیں.یہود کی طرح خاص ایام میں دودھ اور گھی کا استعمال نہیں کرتے ختنہ کراتے ہیں.شراب نوشی کی کثرت ہے تعدد ازدواج کے قائل ہیں.خنزیر کو نا پسند کرتے ہیں.موجودہ شہنشاہ نے اصلاحات کر کے گویا کایا پلٹ دی ہے.ملک کے طول و عرض میں موٹر اور ہوائی سروس اور شفا خانے اور مدارس جاری کروائے ہیں اول زبان ملکی اور دوسری زبان انگریزی ہے جو مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں.عربی لٹریچر کافی سے زیادہ مجھے اخویم چوہدری محمد شریف صاحب فاضل فلسطین سے بھجوا دیتے تھے علاوہ ازیں قادیان ربوہ شام سے اور حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد دکن سے میں لٹریچر قیمت پر منگوا کر بکثرت تقسیم کرتا تھا.☆ الفضل میں ” حبثہ میں تبلیغ السلام کے زیر عنوان مرقوم ہے.حبشہ سے ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے اپنی رپورٹ میں تبلیغ کی تفصیل درج کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ دس آدمی قید خانہ میں بیعت کر چکے ہیں (۳۱)

Page 57

50 50 انفرادی تبلیغ کے زیر عنوان مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ سالانہ رپورٹ میں تحریر کرتے ہیں." کینیا کالونی کے علاقہ میں ڈاکٹر نذیر احمد مگاڈی(magadi) اور نیروبی میں سکھوں انگریزوں اور افریقنوں وغیرہ کو اس عرصہ میں نہایت جوش و خلوص کے ساتھ تبلیغ کرتے رہے.ایک افریقن عیسائی مگاڑی میں مسلمان ہوا اور اس کا نام احمد رکھا گیا ہے اور کجیا ڈو میں جا کر تعلیم کرتے رہے.پھر لکھا ہے کہ (32)،، مگاڈی میں مکرم ڈاکٹر شاہ نواز صاحب اور ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی کوشش سے سیرۃ النبی کا جلسہ منعقد کیا گیا اور ان دوستوں نے اسلام و آنحضرت کی لائف پر لیکچر دئے.(33) حضرت مسیح موعود نے ڈاکٹر نذیر احمد کے متعلق جو کچھ فرمایا تھا وہ اس رنگ میں پورا ہو گیا کہ ڈاکٹر صاحب جہاں بھی گئے ان کو انذار و تبشیر کی خوب توفیق ملی اور توفیق بھی اس رنگ کی کہ عدن و حبشہ میں مخالفین اس کی تاب نہ لا سکے اور اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے.اللہ تعالیٰ ان کی مساعی حسنہ کو قبول فرمائے آمین.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا تجربہ بتاتے ہیں کہ : آگئی ہے.قلمی جہاد: بہت دفعہ ہم نے دیکھا کہ حضور نے بغیر دعا کے کوئی بات فرما دی ہے اور پھر وہ اسی طرح وقوع میں (34)..حضرت سلطان القلم کے زیر سایہ حضور کے ارشاد سے حضور ہی کے عہد مبارک میں ماسٹر صاحب کے قلمی جہاد کا آغاز ہوا.ماسٹر صاحب فرماتے تھے کہ: ۱۹۰۴ء میں میں مہمان خانے کے کچے کمرہ میں رہتا تھا.میری آنکھیں سخت دکھنے آ گئیں.شدید ٹیں پڑتی تھی کئی روز گزر گئے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو کین ڈالتے تھے اس کا اثر زائل ہونے تک آرام رہتا تھا پھر وہی شدید تکلیف.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا ”میاں خطرہ ہے تمہاری آنکھیں ضائع نہ ہو جائیں میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ تکلیف اور یہ خطرہ ہے.حضور نے فرمایا ” میں نے کہا تھا کہ نو مسلم سلسلہ کے متعلق کچھ لکھیں آپ نے کچھ لکھا کہ نہیں“ میں نے کہا حضور ! میں نے ارادہ کیا ہوا ہے اور انشاء اللہ خوب لکھوں گا.مگر اب آنکھوں میں سخت تکلیف ہے اس وقت نہیں لکھ سکتا.حضور نے فرمایا: نیت کر لوخدا توفیق دے گا اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ دعا کریں گے.آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی.“

Page 58

51 چنانچہ دو چار روز میں آنکھیں درست ہو گئیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آج ۴۳ سال ہو گئے میری آنکھیں کبھی دیکھنے نہیں آئیں.بڑا مطالعہ کیا ہزار ہزار پندرہ پندرہ سو صفحات کی کتابیں متواتر پڑھیں.بی اے پاس کیا آنکھیں خوب استعمال کیں حتی کہ آنکھیں تھک جاتی رہیں مگر دکھنے کبھی نہیں آئیں.فالحمد للہ (*) چنانچہ آپ نے سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتب لکھیں جو مسلمانوں سکھوں آریوں عیسائیوں اور غیر مبایعین کے اعتراضات و شکوک دور کرنے اور ان میں تبلیغ کرنے کے لئے بہت مفید ثابت ہوئیں اور بزرگان سلسلہ سے بھی انہوں نے خراج تحسین حاصل کیا، ان کتب میں جا بجا لطیف نکات کے انمول موتی بکھرے پڑے ہیں.الزام خصم کے طور پر بھی عجیب دلائل سے بھر پور ہیں.مثلاً لکھتے ہیں کہ مردہ کی تدفین فطری امر ہے مثلاً مرے ہوئے کوے کو دوسرے کوے دفن کر دیتے ہیں لیکن پنڈت لیکھرام نے لکھا ہے کہ تدفین کرنا چونکہ کوے کی اقتدا کرنا ہے اس لئے یہ مکروہ امر قابل عمل نہیں.ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ پنڈت جی منہ کے راستے بھوجن نہ کھاتے کیونکہ منہ سے کھانا کوے کی اقتدا کرنا ہے.5 اسی طرح آپ لکھتے ہیں کہ دیانند جی نے لکھا ہے کہ روحیں مرنے کے بعد ہوا میں مل جاتی ہیں پھر گھاس پتوں.اناج اور پانی پر گرتی ہیں اور جب عورت اور مردان اشیاء کو کھاتے ہیں تو ان کے گھر وہ روحیں دوبارہ جنم لیتی ہیں.ماسٹر صاحب لکھتے ہیں کہ دیانند جی کے جسم میں بھی ارواح داخل ہوئی ہوں گی اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے جسم میں ان اشیاء سے ارواح داخل نہ ہوئی تھیں.سود یا نند جی کے عمر بھر شادی نہ کرنے کے باعث ان ارواح نے جنم نہ لیا ور نہ دس رشی اور پیدا ہو جاتے.ان سے محرومی آریہ ورت کے لئے رونے کا مقام ہے.(6) (35) (36) ایک مقام پر آپ لکھتے ہیں کہ ایک آریہ ڈاکٹر نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ فلاں چیز کھانے سے آپ بیمار ہوئے ہیں.ماسٹر صاحب نے کہا کہ کیا پچھلے جسم کی تو سزا نہیں ملی اور پھر بتایا کہ بہتر ہے کہ آپ ڈاکٹری پیشہ ترک کر دیں.پر میشر نے تو ہر حالت میں سزا دینی ہے لیکن آپ اس میں مزاحم ہوتے ہیں اس کی سزا آپ کو ملے گی.آپ کے عقیدہ تناسخ کے مطابق چاہیے کہ تمام ہسپتال بند کر دئے جائیں.سزا بیماری کی صورت میں تو بہر حال (37) پوری ہو کر رہے گی.آپ کی جن کتب کا علم ہو سکا ہے ان کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے بعض کتب کی تصنیف یا ترجمہ آپ نے عام افادہ کی خاطر بھی کیا ہے.بعض کتب کی قیمتیں مختلف شائع ہوئی ہیں جو غالبا الگ الگ بار طبع کے لحاظ سے ہوں گی.یہ ممکن ہے کہ میں نے جس کتاب کو طبع اول سمجھا ہو وہ طبع اول نہ ہو.(۱ تا ۵) مڈل اور میٹرک کے طلباء کے لئے گریمر ، مضمون نویسی ضرب الامثال کے بارے میں ترجمہ یہ روایت ماسٹر صاحب سے سردار بشارت احمد صاحب نے لکھی تھی.

Page 59

52 انگریزی (حصہ اول) صفحات ۶۵ قیمت 3.1/2 آنے چار آنے اور پانچ آنے.( حصہ دوم ) ترجمہ انگریزی سے اردو محاورات ( قیمت چھ آنے ) اس کا اشتہار مثلاً الفضل 6.9.20 ص ۰ اپر درج ہے.( حصہ سوم ) جواب مضمون خطوط نویسی و عرائض نویسی اس کا علم ”امامت و خلافت میں مندرج اشتہار سے ہوتا ہے.کمپوزیشن اینڈ لیٹر رائٹر ( حصہ اول دوم قیمت چھ اور دس آنے) (1) " تاریخ انگلستان بکلے کی ہسٹری آف انگلینڈ کا ترجمہ، مترجم ماسٹر عبدالرحمن صاحب ( بحوالہ تشریذ الاذهان بابت دسمبر ۱۹۱۲ء ص ۵۷۱) ضرورت زمانہ (مطبوعہ ۱۹۰۹ء کے آخر پر اس کا اشتہار موجود ہے گویا اس سے قبل یہ ترجمہ تاریخ شائع ہو چکا تھا.قیمت ایک روپیہ.(۷) سکولوں اور کالجوں کے طلباء اور ان کی حفاظت و صحت پر ہولناک اثر ہزار ہا طلباء اپنی صحتیں برباد کر لیتے ہیں ان کی اصلاح کے لئے تالیف ہوئی.صفحات ۶۰.الفضل مورخہ ۱۹۱۵-۱۰-۱۳ (ص۲) میں اس کے متعلق اشتہار موجود ہے قیمت پانچ آنے (۸) خالصہ دھرم کے گروؤں کی تاریخ و بابا نانک کا مذہب ( از روئے گرنتھ صاحب)‘“ نام سے مضمون ظاہر ہے اس میں بارہ زیر بحث مسائل کا سکھوں کی معتبر کتب سے اثبات کیا ہے سائز ۲۲/۸× ۱۸ صفحات ۱۵۴.سرورق پر مرقوم ہے کہ اردو کے علاوہ کتاب ہذا گورکھی میں بھی شائع کی گئی ہے.ملنے کا پتہ امرتسر کے ایک غیر احمدی تاجر کا درج ہے.(۹) سکھ نو مسلم کا لیکچر یا با وانانک کا مسلمان ہونا“ نام سے مضمون ظاہر ہے غالباً یہی رسالہ ہے جس کے متعلق مینیجر نے تشخیز الاذہان بات اکتوبر ۱۹۰۴ء میں اعلان کیا ہے.(ص۴۰۴) حضرت مسیح موعود اور علماء زمانہ حصہ اول ( تصنیف ۱۹۰۷-۳-۱۵) کے آخری صفحہ پر کتاب ہذا کا اشتہار موجود ہے.سو اس کی تصنیف حضرت اقدس کے عہد مبارک میں اس سے قبل ہو چکی تھی.( قیمت نصف آنہ ) ایک کتاب کے آخر میں اس کی قیمت کا ایک آنے کے متعلق اعلان ہے.(۱۰) اسلام اور گرنتھ صاحب: سرورق پر اس کا دوسرا نام ” گورو نانک صاحب کا مسلمان ہونا صرف گرنتھ صاحب سے بھی درج ہے اس نام سے ہی تفصیل ظاہر ہے.آخر پر ایسے شخص کے لئے دو ہزار روپے کا انعام درج کیا ہے جو قرآن مجید اور توریت کی طرح گرنتھ صاحب کو شریعت کی کتاب ثابت کردیں جس میں حلال و حرام اور فرائض و منہیات کا ذکر ہو

Page 60

53 ور نہ سکھ صاحبان چولہ صاحب پر لکھی ہوئی باتوں پر عمل کریں اور گرنتھ صاحب میں مذکور نماز روزہ کے احکام پر.تا گور وصاحب کے سامنے آخرت میں شرمندہ نہ ہوں.سائز ۳۰/۱۶×۲۰ صفحات ۶۴.تاریخ طبع درج نہیں اس میں اشتہار ایسی کتب کا دیا گیا ہے جو خلافت ثانیہ میں طبع ہوئیں اس لئے اس کا عرصہ تصنیف بھی یہی ہو گا.الفضل ۲۱.۷.۱۸ میں حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کا اس پر ریویو شائع ہوا ہے.اس سے قبل ایک تبصرہ الفضل ۲۱.۶-۲۰ میں درج ہے قیمت ساڑھے چار آنے.با وانا تک صاحب کا چولہ: یہ کتاب ۱۹۰۸ء کی تصنیف ہے چنانچہ مولوی محمد علی صاحب (سیکرٹری صدرانجمن) لکھتے ہیں کہ لاہور اور امرتسر سے سکھ صاحبان کے دو چیلنج شائع ہوئے ہیں کہ باوانا تک صاحب کے مسلمان ہونے کے متعلق مباحثہ کیا جائے.حضرت مسیح موعود نے نہایت تحقیق سے کتاب ”ست بچن میں یہ امر شائع کیا اور تین سال ہوئے ماسٹر عبدالرحمن صاحب نے بھی ایک کتاب باوانا تک صاحب کا چولہ لکھی حفظ امن کا انتظام کر لیا جائے وغیرہ تو ہمیں (38) مباحثہ منظور ہے (۱۲) آنحضرت کا دس کروڑ ہندوؤں پر احسان: رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ بابت ۴۳ ۱۹۴۲ء میں نظارت دعوۃ وتبلیغ نے ایسے لٹریچر کے ضمن میں جو افراد کی طرف سے شائع ہوا ایک ٹریکٹ بعنوانِ بالا ماسٹر صاحب کی طرف سے شائع ہونے کا ذکر کیا ہے.(ص۴۶) (۱۳) معیار حق یا سچے مذہب کی شناخت سن طبع نا معلوم.البتہ چونکہ حضرت مسیح موعود و علماء زمانہ حصہ اول ( تاریخ تصنیف ۱۹۰۷-۳-۱۵) کے آخر پر اس کا اشتہار ہے اس لئے اس سے قبل حضرت اقدس کے عہد مبارک میں شائع ہو چکی ہوگی.قیمت پون آنہ اور ایک آنہ.(۱۴.۱۷) اخلاق محمدی، مشتمل پر چہار حصص دیباچہ حصہ اول میں وجہ تالیف یہ مرقوم ہے کہ ہم اور ہماری اولا داخلاق اسلامی کے زیور سے آراستہ ہوں تو پھر غیر مسلموں کو اسلام میں لے آنا مشکل امر نہیں.وہ لوگ ہمارے اخلاق کو دیکھتے ہیں کہ کیسے ہیں.سو اس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے احیاء العلوم اور مذاق العارفین سے کتاب ہذا کو تیار کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ اخلاق حسنہ کیا ہیں اور اخلاق سیہ کیا ہیں.شیطان کے دھوکے سے کس طرح بچنا چاہیے.گناہ کیا ہیں وغیرہ.یہ سب کچھ آنحضر اور بزرگوں کے اخلاق کے آئینہ میں ظاہر کیا ہے.

Page 61

54 سائز ۲۶/۸ × ۲۰ حصہ اول ۱۴۲ صفحات تاریخ طبع نامعلوم.البتہ چونکہ اس کے آخر میں ”ضرورت زمانہ سن طبع ۱۹۰۹ ء اور محمد رسول اللہ اور ترجمہ انگریزی حصہ اول و دوم ( عرصہ تصنیف ۱۹۲۰ ء یا اس سے قبل ) کے اشتہار درج ہیں ظاہر ہے کہ یہ کتاب ۱۹۰۹ ء اور ۱۹۲۰ ء کے درمیانی عرصہ کی تصنیف ہے..امرتسر کے تین غیر احمدی تاجران کتب کا نام بھی درج ہے گویا اس کی اشاعت زیادہ کرنا مقصود ہوگا.حصہ دوم و سوم کا ذکر حصہ اول کے صفحہ ۱۳۹ پر ہے اور وہاں ہر حصہ کی قیمت ایک روپیہ مذکور ہے اور موخر الذکر دونوں حصص کی قیمت ایک روپیہ مذکور ہے اور موخر الذکر دونوں حصص کی قیمت بطور پیشگی طلب کی گئی ہے یہ معلوم نہیں بعد میں یہ حصص شائع ہوئے تھے یا نہیں.(۱۸ تا ۲۰) حضرت مسیح موعود وعلماء زمانه، تین حصص سائز ۲۹/۱۶ × ۲۲ اس کی اشاعت تمام کتب سے زیادہ ہوئی.غالبا سات دفعہ طبع ہوئی اس سے بہت سے افراد کو ہدایت نصیب ہوئی.سردار بشیر احمد صاحب کی روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اس پر ریویو لکھنے کا وعدہ فرمایا مگر فرصت نہ ملنے کی وجہ سے حضور نہ لکھ سکے.حصہ اول.اس میں وفات و نزول عیسی خلق طیور ، احیاء موتی ، علامات مہدی ، نشانات طاعون وعبد الله آتھم وغیرہ کے متعلق غیر احمدیوں کے اعتراضات کے مفصل جواب سوال و جواب کے انداز میں تحریر کئے ہیں.ایک نسخہ مجھے بغیر سر ورق کے ملا ہے اور وہ طبع اول معلوم ہوتا ہے.اس لئے کہ آخر پر صرف عیسائی مذہب کی حقیقت اور سکھ نومسلم کا لیکچر اور سچے مذہب کی شناخت کے اشتہار ہیں اور یہ تینوں تصانیف حضرت اقدس علیہ السلام کے عہد مبارک کی ہیں.طبع اول میں حصہ اول اور دوم یکجا بغیر کسی نئے سرورق کے ہیں یعنی حصہ دوم پہلی کتاب کے ختم ہوتے ہی اس بقیہ صفحہ پر ہی ” حصہ دوم“ لکھ کر شروع کر دیا گیا ہے اور یہ مجموعہ ۱۲۸ صفحات پر مشتمل ہے اور تاریخ تصنیف ۱۵ مارچ ۱۹۰۷ء ہے.حصہ اول - طبع سوم ۱۹۲۰ء سائز حسب سابق صفحات ۸۶.اس میں غیر مبایعین کے خیالات کی بھی تردید کی گئی ہے گویا کہ بعد میں اس کتاب میں ایزادی کی گئی ہے.حصہ اول طبع اول و سوم میں خفیف سا اختلاف بھی ہے بعض جگہ بعض سوال و جواب درج ہونے سے رہ گئے ہیں اس کے سرورق صفحہ ۲ پر مرقوم ہے کہ ایک دوست نے اطلاع دی کہ اس کتاب کی وجہ سے ایک مقام پر سات اشخاص نے بیعت کر لی.حصہ دوم طبع اول کا نسخہ دستیاب نہیں ہوا.تاریخ طبع سوم ۱۹۲۰ء صفحات ۷۶ تاریخ طبع پنجم ۲۶ نومبر ۱۹۳۳ء

Page 62

55 ایک سا ہے.حصہ سوم.تاریخ طبع سوم ۱۹۲۰ء صفحات ۸۰ حصہ اول تا سوم کے طبع اول کا ہر ایک حصہ کا سرورق طبع پنجم ایزادی کے ساتھ اار اپریل ۱۹۳۳ء کے بعد شائع ہوئی کیوں کہ اس میں اس تاریخ کے پیغام صلح کا ذکر ہے (ص ۷۵ ) صفحات ۸۲ (۲۱) تفسیر انجیل متی وصداقت اسلام “ آپ لکھتے ہیں ا تفسیر (یہ) رسالہ تیار ہو رہا ہے.۲ - ( یہ ) کتاب حضرت مولانا نورالدین صاحب کی خاص مدد سے لکھی گئی ہے اور اس میں دکھایا گیا ہے کہ عیسائی مذہب کیوں نہیں قبول کرنا چاہیے.“ (39) حضرت مولانا نورالدین صاحب کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ اس کا عرصہ تصنیف ان کی خلافت سے قبل کا ہے اور اس کی تائید مزید اس امر سے ہوتی ہے کہ حصہ دوم ( ص ۱۱۱) سے معلوم ہوتا ہے کہ ” میں مسلمان ہو گیا کا حصہ چہارم رسالہ تفسیر انجیل متی پر مشتمل ہونا تھا اور حصہ چہارم کی تاریخ تصنیف ۱۴ دسمبر ۱۹۰۵ء ہے.(۲۲) د لیکچر عیسائی مذہب کی حقیقت من تصنیف نامعلوم.چونکہ اس کے متعلق اشتہار ” حضرت مسیح موعود وعلماء زمانہ حصہ اول ( تاریخ تصنیف ۱۹۰۷-۰۳-۱۵) کے آخر پر درج ہے معلوم ہوا کہ یہ لیکچر اس سے قبل شائع ہو چکا تھا بشر طیکہ یہ اعلان طبع اول میں ہوا ہو قیمت نصف آنہ.(۲۳) عیسی کی وفات یہ سوال و جواب کے طرز پر ہے.وفات عیسی قرآن مجید و احادیث و تفاسیر سے ثابت کی ہے.سائز ۱۶/ ۳۰×۲۰ صفحات ۳۸.سن طبع اس پر مرقوم نہیں البتہ اس میں ”پیغامیوں اور مولوی محمد علی صاحب کارڈ کا اشتہار درج ہے.نیز ایک جگہ تفسیر ثنائی جلد ۳ کا ذکر آتا ہے.جلد۲ کا سن تصنیف ۱۳۳۱ھ ہے.جلد ۳ دستیاب نہیں ہو سکی.تشخیذ الاذھان بابت جون ۱۹۲۱ء میں اس کی خریداری کی تحریک اور الفضل ۲، ۶ جون ۱۹۲۱ء میں نظارت تالیف و اشاعت کی طرف سے اس رسالہ کے اختصار اور سادگی کی تعریف کی گئی ہے اور ۲۱.۷.۱۸ میں اس پر حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ( حال ناظر اعلی ربوہ ) کا تبصرہ شائع ہوا ہے.(۲۴) پیغامیوں اور مولوی محمد علی صاحب کا رڈ بطور سوال و جواب نام سے مضمون ظاہر ہے کتاب مذکورہ بالا میں خاکسار نے اس کا ذکر کیا ہے الفضل ۲۱.۸.امیں اس کا اشتہار درج ہے قیمت ۱۲ ایک نامکمل کتاب ملی ہے جوص ۳ سے شروع ہوتی ہے اس پر جو سوال و جواب درج ہے وہ مولوی محمد علی صاحب کے متعلق ہی ہے اور ساری کتاب ہی ان کے اور غیر مبایعین کے اعتراضات کے جوابات پر مشتمل ہے

Page 63

56 جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی کتاب ہے.صفحات ۳۷.سائز ۳۰/۱۶×۲۰ کتاب محمد رسول اللہ کا تفصیل سے جو آگے آتی ہے ظاہر ہے کہ کتاب ہذا ۱۵.۷.اسے قبل طبع ہو چکی تھی.(۲۵) سوال و جواب نمبر ا.امامت و خلافت صفحات ۳۰.اس میں خلافت ثانیہ کا ذکر آتا ہے چونکہ آخر پر بطور اشتہار انگریزی ترجمہ حصہ اول و سوم کا نام مرقوم ہے جس کے حصہ دوم کی تاریخ زیادہ سے زیادہ ۲۰.۹.۶ ہے سکولوں اور کالجوں کے طلباء کا اشتہار درج ہے جو ۱۵.۱۰.۳۱ کے قریب کی تصنیف ہے اس لئے یہ اس درمیانی عرصہ کی تصنیف ہوگی.(قیمت پون آنہ) اس میں یہ وعدہ درج ہے کہ نمبر ۲ ایمانیات اور نمبر ۳ نیک اعمال کے متعلق تصنیف ہوگی نہ معلوم کہ یہ حصص شائع ہوئے یا نہیں.(۲۶) احمدی یا غیر احمدی اختلافی مسائل کو مکالمہ کے رنگ میں عمدگی سے بیان کیا ہے اور غیر (40) مبایعین کے عقائد کا بطلان دکھایا ہے.(۲۷) ” کیا مسلمان قوم مٹ جانے کو ہے کتاب ” اسلام اور گرنتھ صاحب میں اس کے متعلق اعلان ہے کہ زیر طبع ہے اس میں ثابت کیا ہے کہ موجودہ قوم مسلمان ہو کر نئی شکل میں عروج کرے گی“.(ص۶۴) (۲۸) رسالہ نیوگ اس کا اعلان ” اختیار الاسلام حصہ چہارم کے آخری صفحہ پر درج ہے (۲۹) ضرورت زمانہ اس کا پورا نام ہے اسلامی سکولوں کے طالب علموں کے لئے اسلام کی دوسری کتاب یا ضرورت زمانہ اس میں عیسائیوں اور آریوں کے یک صد اعتراضات بابت طلاق ،شق القمر، حجر اسود، عرش کرسی وغیرہ کے جوابات سوال و جواب کی شکل میں تحریر کئے ہیں.الفضل نے ان جوابات کو تسلی بخش ، دل نشین و عام فہم قرار دیا ہے.(41) عام دیا ہے.دیباچہ میں لکھا ہے کہ اس کی غرض وغایت نوجوانوں کو دینی واقفیت بہم پہنچانا ہے.غالباً عام مسلمانوں میں اشاعت کی خاطر اسے ماسٹر عبدالرحمن نو مسلم متوطن ریاست کپورتھلہ اور نو مسلم لنگے منڈی.لاہور کے طور پر شائع کیا ہے.سائز ۳۰/۱۶ × ۲۰ صفحات ۲۰۰ تاریخ طبع ۱۹۰۹ ء اس کے اشتہارات تفخیذ الاذہان بابت دسمبر ۱۹۰۹ء ( آخری صفحہ ) اور دسمبر ۱۹۱۲ ء ص (۵۷۱) میں درج ہے ( قیمت نصف روپیہ و ایک روپیہ) (۳۰) محمد رسول اللہ.اس میں تورات و انجیل سے اور عقلی و نقلی دلائل سے آنحضرت کی صداقت اور کفارہ کے بطلان کا اثبات کیا ہے.صفحات ۵۰ ایک کتاب جو بغیر ابتدائی سرورق کے ملی ہے اور غالبا پیغامیوں اور مولوی محمد علی صاحب کا رد ہے اس کے آخر پر کتاب ہذا کا اشتہار درج ہے جس میں ماسٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ” ( یہ ) عیسائیوں کے دو تین رسالوں

Page 64

57 (مسیحی محمد ) کے جواب میں بحکم حضرت خلیفہ المسیح اول لکھا گیا.قیمت “ الفضل ۲۰-۸-۲۳ (ص۱۰) وغیرہ سے اس کی قیمت دو اور تین آنے معلوم ہوتا ہے.اس سے قبل الفضل ۱۵.۷.ا (ص۶) میں اس کے اشتہار میں اس کا نام ”رسالہ مسیح یا محمد ، رقم کیا اور لکھا ہے کہ دور سالوں میں بنام صحیح یا محمد کس پر بھروسہ کریں گے؟ اور ”ہمارا کوئی شفیع کامل ہوگا ؟‘ کا اس میں جواب دیا ہے قیمت نصف آنہ (۳۱ تا ۳۴) ” میں مسلمان ہو گیا یا اختیار الاسلام اس کتاب کے چہار حصص اور ایک ضمیمہ شائع ہوئے ہیں.” میں مسلمان ہوگیا نام آپ کو الہاما بتایا گیا تھا.اس کتاب میں بہت سے مسائل پر مفید بحث کی ہے مثلاً وید ابتداء آفرنیش میں نازل نہیں ہوئے.ان کی تعلیم عالمگیر نہیں.ستیارتھ پرکاش کی تعلیم بابت نیوگ کیوں لائق صد نفرین ہے.دیانند جی کی زندگی بھی وید کے مطابق نہ تھی.تناسخ کارڈ.دیانند جی کی تعلیم مردہ کو جلانے کے متعلق نا قابل عمل ہے ان کی باتوں میں تضاد ہے.نجات ابدی ہے.پر میشر قادر مطلق ہے،غربت وامارت اور نا امراض اور کیڑے مکوڑے کے ہونے کا کیا سبب ہے.ویدک دھرم کے اصول معرفت درست نہیں اور اس دھرم میں کتنی قسم کی شادی اور اولاد ہے.اس طرح کے مسائل پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالنے کے علاوہ لیکھر ام کے متعلق پیش گوئی کی خوب وضاحت کی ہے اور حضرت مسیح موعود کے منجانب اللہ اور مستجاب الدعوات ہونے کا عمدگی سے اظہار کیا ہے.حصہ دوم میں چند صفحات باوا نانک جی کے مذہب کے متعلق تحریر کئے ہیں اور کچھ صفحات مسلمانوں پر صداقت حضرت مسیح موعود آشکار کرنے کے لئے وقف کئے ہیں.ان تمام حصص میں قرآن مجید سے استدلال کے علاوہ خود ستیارتھ پرکاش اور دید انسائیکلو پیڈیا اور ہندوؤں کی تصانیف نیز آریہ مسافر میگزین کے حوالجات بکثرت دئے ہیں حق یہ ہے کہ حق توضیح وتر دید خوب ادا کیا ہے.تمام حصص کا سائز ۸/ ۲۶×۲۰ ہے.حصہ اول ۱۰۰ صفحات - تاریخ تصنیف ۲۱ نومبر ۱۹۰۴ء قیمت چار آنه تعداد طبع آٹھ صد حصہ اول ( دوسری بار اپریل ۱۹۳۰ء میں طبع کی گئی ( سرورق ص ۲۱) صفحات ۱۲۰.طبع دوم میں ماسٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ۲۶ برس سے آریہ وغیرہ با وجود انعام کثیر پیش کئے جانے کے اس امر کا جواب نہیں دے سکے کہ قرآن مجید اور وید کے کسی مضمون یا مقام کا مقابلہ کر کے دیکھ لیں کون سی کتاب کامل تعلیم پیش کرتی ہے.اور زندہ کہلانے کی مستحق ہے.مثلاً نمونہ کے طور پر اول یا آخر کے کسی حصے کے ورق کا مقابلہ کر کے دیکھ لیں یقینا قرآن مجید ہی غالب آئے گا.(سرورق ص۲)

Page 65

58 حصہ دوم.تاریخ طبع ندارد البتہ صفحہ اتا ۱۰ میں ایک اشتہار کا ذکر کر کے جو جنوری ۱۹۰۳ء میں شائع کیا گیا تھا مرقوم ہے کہ وہ اس کتاب سے ایک سال قبل شائع ہوا تھا گویا سن تصنیف اس کتاب کا ۱۹۰۴ء ہوا.خاکسار مؤلف کو طبع اول کا نسخہ نہیں مل سکا.طبع دوم اپریل ۱۹۳۰ء کے بعد ( بحوالہ حصہ اول طبع دوم - سرورق ص ۹) صفحات ۱۲۸ سائز حسب سابق لیکن مضمون میں قدرے اضافہ ہے.حصہ سوم تاریخ تصنیف ۲۷ / دسمبر ۱۹۰۴ء صفحات ۱۴۸ قیمت ساڑھے سات آنے.حصہ چہارم.تاریخ تصنیف ۴ دسمبر ۱۹۰۴ء صفحات ۸۸.اس کا نام ہے اختیار الاسلام حصہ چہارم یا تعلیم الاسلام بجواب رسالہ تہذیب الاسلام اول اس میں دھرمپال کی کتاب ” اختیار الاسلام کا جو چار صد صفحات کی تھی جواب رقم کیا ہے.کیدونكر، مَا كَانَ لِنَتِي..يثخن فِي الْأَرْضِ تَقْدِير ، عرش، آسمان، تاریخ، کیا خدا بلا وجہ جسے چاہے گا بخش دے گا.کیا عذاب دوزخ دائمی ہے کیا اللہ تعالی گمراہ کرتا ہے اور امتحان لیتا ہے اور اس کی مشیت نہیں کہ سب ایمان لائیں.مصائب کی وجہ کیا پہلے جنم کے گناہ ہیں، وغیرہ امور پر کافی وشافی روشنی ڈالی ہے.دیباچہ میں آپ لکھتے ہیں کہ تین حصص کے بعد اور کچھ لکھنے کی ضرورت نہ تھی لیکن جب لالہ دھرمپال نے نہایت بے دردی اور ظالمانہ طور سے اسلام اور بانی اسلام علیہ السلام کی تو ہین اور تکذیب کی کہ اسے پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل پاش پاش ہوتا ہے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو ڈبڈبا آتے ہیں تو لامحالہ بخوف معصیت دھرم پال کی بے جا افترا پردازیوں اور ناپاک تحریروں کا نہ صرف جواب دینا پڑا بلکہ رسالہ ہذا کا ضمیمہ تحریر کرنا از بس ضروری ہوا جس میں ان کے اصول کاذبہ اور سوامی دیانند سرسوتی کی تحریروں کا تمام تار و پود اور شیرازہ ادھیڑ دیا گیا تا کہ انہیں معلوم ہو کہ خود ان کے گھر میں کیا ہے جو دوسروں پر ناحق در انتی کی طرح زباں دراز کی جاتی ہے.“ ضمیمہ اس پر تاریخ درج نہیں لیکن حصہ چہارم کے دیباچہ میں اس کا ذکر ہے گویا کہ حصہ چہارم کے عرصہ تصنیف کے قریب یہ بھی تصنیف ہوا.ص ا پر اشتہار میں اس کا پورا نام ضمیمہ تعلیم الاسلام یا آر یہ مذہب پر اعتراضات اور ضمیمہ کے صفحرص ۳ پر اس کا نام ضمیمہ رسالہ تعلیم الاسلام یا آر یہ مذہب مرقوم ہے (۳۵) خدا کا مسیح اور اس کا وصال جیسا کہ نام سے ظاہر ہے حضرت مسیح موعود کے وصال کے بارے میں اعتراضات کے شافی جوابات پر مشتمل ہے.اعتراضات مثلاً حضور کی وفات قبل از وقت ہوئی یا وقت مقرر پر خدا تعالیٰ کو ٹھیک ٹھیک عمر کا پتہ تھا تو صحیح تاریخ وفات کی اطلاع کیوں نہ دی آپ کو چالیس سال تبلیغ کرنا تھی ابھی آپ کا کام پورا نہیں ہوا.مباہلہ میں کون کون سے نامی علماء ہلاک ہوئے اگر وہ ہلاک ہوئے تو ثناء اللہ امرتسری اور

Page 66

59 ڈاکٹر عبدالحکیم حضور کی زندگی میں کیوں ہلاک نہیں ہوئے.ایسے دشمنوں کا حضور کی زندگی میں مرنا ضروری تھا.ابھی محمدی بیگم سے حضور کا نکاح ہونا باقی تھا.ابھی آپ کی عمر اسی سال نہیں ہوئی حسب پیشگوئی صاحبزادہ مبارک احمد مرحوم کا قائم مقام پانچواں لڑکا پیدا نہیں ہوا.وغیرہ.سرورق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب’ بار شاد حضرت خلیفتہ اسی اول لکھی گئی.ہرصحہ پراسے " تمہ اسلام کی پہلی کتاب“ لکھا ہے.سائز ۲۹/۱۶×۲۲ صفحات ۲۰ - میں مسلمان ہو گیا حصہ دوم کے آخر پر ماسٹر صاحب خود لکھتے ہیں.اس خدا پاک کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس کتاب کے ہر سہ حصص کی تالیف میں بعض لطیف مضامین خاص ایماء الہی سے تحریر کئے گئے ہیں اگر ایسانہ ہوتا تو کتاب اتنا طول نہ پکڑتی کہ بجائے تعمیل ارشاد حضرت حجتہ اللہ اور ۴۰ صفحات کے قریباً ۴۰۰ صفحات کی کتاب تیار ہو جاتی...اس کار خیر کے اور ثواب عظیم کے باعث اور محرک حسب معمول ہمارے مہاتما مولوی نورالدین صاحب ہی ہوئے ہیں جو ہمیشہ ہر نیک تحریک میں سب سے آگے قدم رکھتے ہیں.میں تو منفرداً بچپن سے لے کر آج تک آپ کی ہرقسم کی پدرانہ ناز و نعمت اور لطف وکرم سے بہرہ ور ہو کر ممنون احسان ہوں.اس کتاب کی تالیف میں آپ نے بفضلہ تعالیٰ خاص مدد کی ہے اور بعض مضامین کے مد وجزر میں اپنا قیمتی وقت خرچ کر کے ہمیں ناصران دین متین میں منسلک کیا ہے.اس کتاب کے متعلق بزرگان سلسلہ کی آراء درج ذیل کی جاتی ہیں.دیگر بعض کتب کے متعلق تبصرے کتاب ہذا کے حجم کے پیش نظر ترک کر دئے ہیں.میانمیر کے مکرم میاں محمد حسین صاحب لکھتے ہیں : کتاب ” میں مسلمان ہو گیا خوب لکھی ہے.شاباش ! شاباش !! شاباش !!! مرحبا! مرحبا!! مرحبا!!! جزاک اللہ خیر الجزا.خوب ہی آریہ صاحبان کی قلعی کھولی ہے گویا آریہ مت کا بخیہ فی الواقع ادھیڑ دیا گیا ہے اس کو پڑھ کر کمال خوشی ہوئی اور ایسا دل کرتا ہے کہ اگر آپ پاس ہوں تو آپ کے ہاتھ چوم لوں...آریوں کے لئے یہ اکسیر کاحکم رکھتی ہے“ حضرت مولوی شیر علی صاحب فرماتے ہیں یہ کتاب تہذیب الاسلام ( دھرم پال) کے جواب میں ہے...میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں کہ خدا نے ان کے خیالات کو اس خوبی سے ادا کرنے اور مخالفین پر اتمام حجت کرنے والا پیدا کیا ہے.ماسٹر صاحب مصنف کو آریوں کی تردید میں خاص ملکہ حاصل ہے....کتاب ہذا اغراض مباحثہ کے لئے

Page 67

60 60 (42) نہایت مفید ہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب فرماتے ہیں: ماسٹر عبدالرحمن نے نہایت جانگداز محنت اور در دمندی سے کتاب لکھی ہے اور ہماری امیدوں سے کہیں بڑھ کر لکھی ہے اور فی الجملہ علی الجملہ بہتوں کے لئے ہدایات کا موجب ہوگی.انشاء اللہ رض حضرت مولوی نورالدین صاحب فرماتے ہیں: جہاں تک میرا فہم ہے میں جرات کر کے لکھتا ہوں کہ اختیار الاسلام سے معلوم ہو جائے گا کہ حق کی پیاس کیا چیز ہے اور اس کے نتائج کیا ہیں میں اس کتاب کو بہت پسند کرتا ہوں سلیس اور عام فہم ہے.(۳۶) حضرت بابا نا تک رحمتہ اللہ علیہ کادین دھرم چار صفحے کا پمفلٹ تفصیلی ذکر آگے آتا ہے.فی سبیل اللہ قید ہونا مقدمہ کی تفصیل : مذکورہ بالا پمفلٹ کے شائع ہونے پر حکومت کی طرف سے بھائی جسونت سنگھ علاقہ مجسٹریٹ بٹالہ کی عدالت میں حضرت ماسٹر صاحب پر مقدمہ دائر کیا گیا.آپ کی پیشی ۲۴ نومبر ۱۹۳۷ء کو بٹالہ میں ہوئی.آپ کی طرف سے شیخ ارشد علی صاحب ( حال سیالکوٹ ) چوہدری عصمت اللہ صاحب ( حال لاہور اور شیخ چراغ دین صاحب پلیڈر گورداسپور پیش ہوئے.آج ایک درخواست دی گئی جو بدیں وجہ مجسٹریٹ نے نامنظور کر دی کہ یہ بات پہلے پیش ہو چکی ہے اور میں اس پر غور کر چکا ہوں.مضمون یہ تھا کہ پمفلٹ نیوزشیٹ ہے اور بغیر اجازت شائع کیا گیا ہے استغاثہ کے نزدیک ملک معظم کی رعایا کے مختلف فرقوں میں اس پمفلٹ سے دشمنی یا منافرت پیدا ہوئی ہے لیکن اس کے ثابت ہونے سے بھی پمفلٹ کا نیوز شیٹ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا، اس لئے اس پر بحث کا موقعہ دیا جائے ، اس طرح عدالت کا قیمتی وقت اور حکومت اور مظہر کے اخراجات بھی بچ جائیں گے.نیز اس دفعہ کے ماتحت کوئی کتاب تب آتی ہے جب کہ لوکل گورنمنٹ کو معلوم ہو کہ اس سے منافرت پیدا ہونے کا امکان ہے اس کے لئے گزٹ ہونا ضروری ہے جو نہیں ہوا اس لئے دعوی قبل از وقت ہونے کے باعث خارج ہونے کے قابل ہے.اگلے روز پھر پیشی تھی لیکن کاروائی کے آغاز سے قبل ہی گیانی عباداللہ صاحب اور مہاشہ محمد عمر صاحب کو جنھوں نے وکیل کو حوالجات نکال کر دینے تھے مجسٹریٹ نے عدالت میں بیٹھنے سے روک دیا اور وہ گواہ پر جرح یہ تمام آرا.سرورق پر درج ہیں.☆

Page 68

61 (43) شروع ہونے پر الفضل کے رپورٹر کو بھی ٹھہرنے کی اجازت نہ دی اور کہا کہ الفضل کی رپورٹیں غلط ہوتی ہیں.) پہلی پیشی پر مجسٹریٹ نے شیخ چراغ دین صاحب کی جرح کے دوران میں کہا کہ اگر محمد (ﷺ) کو کوئی کہہ دے کہ وہ Infidel ( بے دین ، معاذ اللہ ) تھے تو کیا مسلمانوں کے دل اس سے نہ دیکھیں گے.شیخ صاحب نے بتایا کہ باوا نانک کے متعلق ملزم نے حضرت کا لفظ لکھا ہے گویا وہ دینی لحاظ سے واجب الاحترام ہیں اس لئے یہ مثال درست نہیں.مجسٹریٹ نے دوسری بار بھی ایسا ہی کہا.اس پر شیخ صاحب نے کہا کہ مثال کے الفاظ نہایت نا واجب اور دل آزار ہیں اور شرطیہ طور پر بھی اتنے مسلمانوں کی موجودگی میں استعمال نہیں کرنے چاہیں.الفضل نے توجہ دلائی کہ بلا وجہ دل آزاری کی گئی ہے، ہم صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں.اس امر کی تحقیق ہونی چاہیے.عدالتوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تمام پیشواؤں کے لئے عزت کے الفاظ استعمال کریں.(44) مجسٹریٹ کی اس نازیبا حرکت پر مسلمانان گورداسپور اور جماعت ہائے احمدیہ نے جلسے منعقد کر کے اور اسلامی اخبارات مثلاً ہفت روزہ اصلاح ( سری نگر ) اخبار پاسبان، روز نامہ انقلاب لا ہور اور روز نامہ زمیندار لاہور نے احتجاج کئے ، قادیان میں زیر صدارت شیخ محمود احمد صاحب عرفانی صدر نیشنل کور ایک احتجاجی جلسہ ہوا.صاحب صدر کے علاوہ مولانا عبد الرحیم صاحب نیر و دیگر مقررین نے اس بارہ میں اظہار خیالات کیا.ابتداء میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی نظم علیک الصلوۃ علیک السلام پڑھی گئی.سامعین میں بہت جوش تھا.جس کے باعث آخری بند پڑھنے میں تمام مجمع بھی شریک ہو گیا.بٹالہ کے دومسلمان وکلاء نے مجسٹریٹ مذکور اور حکومت پنجاب کو پانچ پانچ سو روپے کے ہر جانے کے نوٹس دئے.الفضل نے کئی بار حکومت کو توجہ دلائی اور افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت نے اسلامی پریس کے احتجاج کو کوئی وقعت نہیں دی اور اس امر پر بھی افسوس کیا کہ احراریوں نے مجسٹریٹ کی حمایت میں قرار داد میں منظور کر کے ملاپ اور پرتاپ ہند و اخبارات کو بھجوائی ہیں کیوں کہ مسلمان اخبارات نے انہیں منہ نہیں لگایا.قبل ازیں ایک احراری وکیل اس احتجاج کی ہم نوائی کر چکا ہے (45) غدار فطرت لوگ بھی ہوتے ہیں ایسے کسی شخص کی طرف ایک گم نام مضمون مجسٹریٹ کی ہمدردی میں ایک اخبار میں شائع کیا گیا کہ حقیقت یہ ہے کہ قادیانیوں نے کچھ عرصے سے مجسٹریٹ کے خلاف عجیب و غریب افسانے شروع کر رکھے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ضلع میں کوئی ایسا افسر رہے جو ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو اور عدالت میں شیخ چراغ دین صاحب کے احتجاج کا باعث یہ امر تھا کہ وہ حضرت امام جماعت احمدیہ کے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں گویا شیخ صاحب کی آنحضرت ﷺ سے عقیدت اس احتجاج کا محرک تھی ، اس کمینے الزام کی

Page 69

62 تردید میں شیخ صاحب نے ایک مفصل بیان شائع کیا جس میں بتایا کہ مجسٹریٹ نے یہ الفاظ محض دل آزاری کے لئے استعمال کئے اور باوجود احتجاج کرنے کے ان کا تکرار کیا.حالانکہ غیر مسلم بھی اپنے کسی مذہبی بزرگ کے لئے ایسے الفاظ استعمال پسند نہ کریں گے.امام جماعت کے مقدمات کی پیروی ( گویا مالی منفعت کا لالچ ) احتجاج کا موجب نہیں بنا.مشہور دو مقدمات عطاء اللہ بخاری میں میں جماعت احمدیہ کے مخالف فریق کی طرف سے وکیل (46) تھا.اور ربع صدی میں امام جماعت احمدیہ کے دو یا تین سے زیادہ مقدمات میں نے نہیں کئے.زیادہ تر احمد یوں کے مخالف فریقوں کی طرف سے وکالت کرتا رہا ہوں.6 اخویم شیخ ارشد علی صاحب پلیڈر ( حال مہاجر سیالکوٹ ) کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے انہوں نے اس (47) مقدمہ کا محنتانہ واپس کر دیا اور کہا کہ میں مفت پیروی کروں گا کیوں کہ یہ مقدمہ ایک ایسے امر کے متعلق ہے جو جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے جس کی اشاعت ہم پر فرض ہے.) فیصلے کے متعلق الفضل میں مرقوم ہے: بٹالہ ۱۲ار جنوری.جناب ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے نو مسلم سابق سردار مہر سنگھ کو.....زیر دفعہ ایکٹ ۲۳/ ۱۸ - ۱۹۳۱ء قید کی انتہائی سزا یعنی چھ ماہ قید سخت اور ایک سو روپیہ جرمانہ جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں ڈیڑھ ماہ مزید قید سخت کا حکم دیا.شہادت صفائی کے بعد جو آج ہی تین بجے کے قریب ختم ہوئی تھی.جناب ماسٹر صاحب نے درخواست کی کہ بحث کے لئے ایک دن کا التوا کیا جائے تا کہ باہر سے کوئی وکیل بلایا جا سکے.مگر اسے نامنظور کر دیا گیا اور بحث کے لئے صرف چند منٹ دیئے گئے.سزا کا حکم چار بجے کے قریب جب کہ (49) عدالت کا وقت ختم ہو رہا تھا سنایا گیا اور فیصلہ سنانے سے قبل عدالت نے سوائے جناب ماسٹر صاحب موصوف کے باقی لوگوں کو کمرہ عدالت سے باہر چلے جانے کے لئے کہا اور کمرہ بند کر لیا گیا.سزا کا حکم جناب ماسٹر صاحب موصوف نے نہایت بشاشت اور خوشی کے ساتھ سنا.اور جب ان کو ہتھکڑی پہنائی گئی تو انہوں نے اظہار مسرت کے لئے اسے چوما.سزا کا علم ہونے پر عدالت کے باہر مجمع نے اللہ اکبر.اسلام زندہ باد.ماسٹر عبدالرحمن صاحب زندہ باد اور حضرت بابا نانک رحمۃ اللہ علیہ کے نعرے بلند کئے اور جب ماسٹر صاحب موصوف ہتھکڑی پہنے ہوئے باہر آئے تو ان کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے.ماسٹر صاحب موصوف اس وقت بہت خوش و خرم تھے.تمام مجمع یہ نعرے لگاتا ہوا ان کے ہمراہ اس لاری تک گیا جس پر سوار کر کے پولیس انہیں گورداسپور لے گئی.معلوم ہوا ہے کہ ماسٹر صاحب نے جیل جاتے وقت نو جوانوں کو یہ

Page 70

63 پیغام دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت بابا نانک رحمۃ اللہ علیہ کے مسلمان ہونے کی جس صداقت کا اظہار فرمایا ہے اسے وہ دنیا کے سامنے پیش کرتے رہیں.مجھے اس صداقت کے اظہار پر جو سزا بھی دی جائے اسے بخوشی برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں.سزا کا حکم سنانے کے معا بعد فیصلے کی نقل کے لئے ارجنٹ درخواست دی گئی لیکن مجسٹریٹ نے کہا کہ عدالت کا وقت ختم ہو چکا ہے، اس لئے نقل نہ مل سکی.سنا گیا ہے کہ ۱۳ جنوری کو کچہری میں تعطیل ہے اس لئے آج اور کل جناب ماسٹر صاحب کی ضمانت کے متعلق کوئی کارروائی نہ ہو سکے گی.پرسوں نقل فیصلہ اور ضمانت کے لئے کوشش کی جائے گی.اس صداقت اور حقیقت کی اشاعت پر کہ حضرت بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ مسلمان تھے اور اسلام کے شیدائی.جناب ماسٹر صاحب موصوف کو جو سزا دی گئی ہے اس پر ہم انہیں مبارک باد کہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کی اس قربانی کو قبول کرے اور بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کا جو حقیقی مذہب اسلام تھا اس کی صداقت بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے اپنے آپ کو منسوب کرنے والوں پر ظاہر کر دے.حضرت مسیح موعود کا الہام ہے: صادق آن باشد که ایام گزارد اور الہام خفی کے طور پر آپ کا دل اس مضمون سے بھر گیا.(48) با محبت باوفا (49) گر قضا را عاشقه گردد اسیر بوسد آں زنجیر را کز آشنا یعنی خدا کی نظر میں صادق وہ شخص ہوتا ہے جو بلا کے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گزارتا ہے.اگر اتفاقاً کوئی عاشق قید میں پڑ جائے تو اس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہوا.سوحضرت ماسٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ۶۵ سال کی عمر میں بڑھاپے میں ایسی قربانی اور محبت و وفا اور استقامت کا نمونہ دکھانے کی توفیق عطا فرمائی و ذلك فضل الله يوتيه من يشاء - ماسٹر صاحب نے قید کی سزا سننے پر جس عزم و ثبات اور حقیقی مسرت اور بشاشت مومنانہ کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اس صداقت کے اظہار کے باعث مجھے جو بھی سزادی جائے اسے بخوشی برداشت کروں گا اس پر اساتذہ و طلباء مدرسہ احمدیہ قادیان نے نہایت محبت سے ایک قرارداد کے ذریعہ سے ہدیہ تبریک پیش کیا.(50)

Page 71

64 الفضل میں اس فیصلہ پر تعجب کیا گیا اور بتایا گیا کہ باوا نانک کے ساتھ جماعت احمد یہ ان کی نیکی کی وجہ سے الفت رکھتی ہے چنانچہ مؤقر ہفت روزہ ریاست دہلی نے بھی جو کہ خود سکھ ہیں اس فیصلہ کو بنظر استعجاب دیکھا ہے اور بتایا ہے کہ باباجی کی وفات پر ان کی تدفین اور جلانے کے متعلق جھگڑا ہو گیا تھا اور مسلمان ان کو اسلامی طریق پر دفن کرنا چاہتے تھے.چنانچہ ان کو آدھی چادر دی گئی جو انہوں نے دفن کر دی.”ریاست“ نے اس فیصلہ کو تمسخر انگیز قرار دیا اور لکھا ہے کہ ماسٹر صاحب نے تو دوسرے مسلمانوں میں بھی باواجی کی عزت قائم کرنا چاہی.جماعت احمدیہ کے مخالف مولوی ثناء اللہ صاحب نے بھی لکھا ہے کہ بابا نانک کی بہتک نہیں بلکہ بڑی عزت ماسٹر صاحب نے کی ہے اگر ماسٹر صاحب قابل تعزیر ہیں تو ” آریہ مسافر لاہور پر بھی مقدمہ چلایا جائے جس نے حضرت محمد ہے کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے آریہ برہمچاری کی طرح ۲۴ سال کی عمر میں شادی کی اور ان کی زندگی آریہ برہمنوں کی طرح نہایت سادہ اور فقیرا نہ تھی.(51) صدر میں مسل نہ پہنچنے اور ایک تعطیل کے باعث ۱۶ جنوری تک آپ کی ضمانت کے لئے کوئی کاروائی نہ ہوسکی.۲۰ جنوری کو سیشن جج گورداسپور نے آپ کی درخواست ضمانت نامنظور کردی ۱۶؍ مارچ کو اپیل کی سماعت پر اس نے فیصلہ سنایا کہ جتنی سزا ماسٹر صاحب بھگت چکے ہیں کافی ہے اور جرمانہ نصف یعنی پچاس روپے کر دیا.جرمانہ کی ادائیگی پر رہائی عمل میں آئے گی.الفضل نے یہ خوشخبری دی کہ ماسٹر صاحب ۱۹ مارچ کو میانوالی جیل سے رہا ہوں گے اور فلاں تاریخ کو فلاں گاڑی سے وارد قادیان دارالامان ہوں گے الفضل میں زیر مدینتہ اسیح “ مرقوم ہے: (52) (۲۲ مارچ ) آج ساڑھے پانچ بجے شام کی ٹرین سے جناب ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے نومسلم سابق سردار مہر سنگھ جن کو ایک تبلیغی ٹریکٹ حضرت بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کا دین و دھرم شائع کرنے کی وجہ سے مجسٹریٹ علاقہ بٹالہ بھائی جسونت سنگھ نے قید کی سزادی تھی میانوالی جیل سے رہا ہو کر تشریف لائے نیشنل لیگ کے زیر اہتمام مقامی احباب نے سٹیشن پر پر جوش استقبال کیا نیشنل لیگ کور کے والنٹیئرز باوردی موجود تھے.جناب مولوی عبد المغنی خاں صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ اور جناب خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب ناظر امور عامہ نے جناب ماسٹر صاحب کو ہار پہنائے نیشنل لیگ کو ر کی طرف سے صدر نیشنل لیگ قادیان اور سیکرٹری نیشنل لیگ نے ہار ڈالے، علاوہ ازیں مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل لوکل پریزیڈنٹ افسر جیش نیشنل لیگ کو ر اور افسران دستہ نے بھی ہار پہنائے.مختلف محلہ جات کی طرف سے بھی ہار پہنائے گئے اس کے بعد جناب ماسٹر صاحب نے احباب سے مصافحہ کیا.جناب ماسٹر صاحب کی صحت خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہے.) (53)

Page 72

65 مجسٹریٹ مذکور کے آنحضرت می ﷺ کے متعلق ہتک آمیز الفاظ استعمال کرنے پر الفضل میں جو مضامین شائع کئے گئے تھے حکومت پنجاب کی طرف سے ان کی نسبت ہائی کورٹ میں درخواست کی گئی کہ الفضل کے ایڈیٹر اور طالبع و ناشر کو قرار واقعی سزا دی جائے کیوں کہ ہتک عدالت کی گئی ہے لیکن ہائی کورٹ نے ایڈوکیٹ جنرل کی تقریرین کر یہ قرار دیا کہ یہ معاملہ ایسا نہیں کہ جس میں ہم سزا دینے پر آمادہ ہو سکیں اس لئے کسی کو طلب کئے بغیر درخواست مسترد کردی.(54) شکریہ احباب کے زیر عنوان آپ کی طرف سے ذیل کا اعلان ہوا: میرے ایک ٹریکٹ پر مقدمہ کے سلسلہ میں مجسٹریٹ نے مجھے انتہائی سزا دی تھی اس کے بعد اپیل کرنے پر سیشن جج صاحب گورداسپور نے سزا کو کم کرتے ہوئے مجھے رہا کر دیا.اس رہائی کے بعد احباب جماعت نے جس محبت بھرے اور مخلصانہ طریق سے میرا استقبال کیا میں ان کے اس اخلاص اور محبت کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہوں.میرا دل اس تشکر و امتنان سے لبریز ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہزار ہزار رحمتیں اس برگزیدہ انسان پر ہوں جس کی وجہ سے مجھے ایک ایسی پاک جماعت میسر آئی.جس کی نظیر آج دنیا میں نہیں مل سکتی.اسی طرح دوران مقدمہ میں جن احباب اور بزرگوں نے میرے ساتھ ہر رنگ میں ہمدردی کر کے اپنی لگہمی اخوت کا ثبوت دیا اور میرے لئے خدا تعالیٰ کے حضور خلوص دل سے دعائیں کیں میں ان کا تہ دل سے مشکور ہوں خصوصاً اپنے پیارے آقا و مطاع حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا جن کی دعائیں ہر حال میں میرے لئے باعث سکیت تھیں.علاوہ ازیں میں اس جگہ اس امر کا اظہار کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں جیسا کہ عرصہ دراز سے ساری دنیا کو معلوم ہے ہمارا یہ مذہبی عقیدہ ہے کہ حضرت باوانا تک رحمتہ اللہ علیہ خدا تعالیٰ کے ایک بہت برگزیدہ انسان تھے.اور آپ نے اسلام کی حقانیت کو اچھی طرح معلوم کر لیا تھا اور آپ صداقت اسلام کے قائل اور معترف تھے اور ایک پاک وصاف مسلمان اور خدا کے پیارے بزرگ تھے.یہ ہمارا مذہبی عقیدہ ہے جسے ہم کسی صورت میں ترک نہیں کر سکتے اور اس کے لئے خدا کے فضل سے ہر تکلیف و مصیبت برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں.لیکن بایں ہمہ اگر میری تحریر سے کسی بھائی کا دل دکھا ہو اور اسے رنج پہنچا ہوتو میں اس بات کا سچے دل سے اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ میرا ہر گز یہ مقصد نہیں تھا اور میں اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے ہر شریفانہ معذرت کے لئے تیار ہوں.کیونکہ اسلام ہمیں ہرگز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ دوسروں کا دل دکھایا جائے.لیکن ہمارے سکھ بھائیوں کو بھی چاہیے کہ بلا وجہ جوش میں نہ آیا کریں اور دوسرے کی نیت کو سمجھنے کی کوشش کیا کریں اور اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ ہمارے عقیدہ

Page 73

66 99 کے لحاظ سے ہمارا حضرت باوا نانک کو ایک مسلمان ولی سمجھنا عزت واحترام کے جذبات پر مبنی ہے.نہ کہ تذلیل و حقارت کی وجہ سے.خاکسار عبدالرحمن بی اے ( سابق مہرسنگھ ) (55) اعلائے کلمۃ اللہ کی لگن: ماسٹر صاحب کو نو جوانی سے ہی اعلائے کلمتہ اللہ کا بے حد شوق تھا ایسی بہت سی بحثوں کا ذکر آپ کی تصانیف میں آتا ہے.لاہور کا مندر وچھو والی ایک مرکزی حیثیت رکھتا تھا.وہاں جا کر آپ نے ایک مسئلہ پر گفتگو کی.آریوں کے ایک مجمع میں ایک بار آپ نے بحث کی () اسی طرح ۱۹۲۰ء میں سکھوں کے قادیان میں جلسہ منعقد کرنے کے ایام میں آپ نے اور بعض اور صاحبان نے تین چار روز متواتر مسجد اقصی کے قریب کے چوک میں تقاریر کیں (56) طالب علمی کے زمانہ میں بھیرہ میں اپنے عیسائی استاد کو بحث میں لاجواب کر دینے اور انسپکٹر مدارس کی موجودگی میں تمام مدرسہ کی حاضری میں امور آخرت کی طرف ان کو متوجہ کرنے کا ذ کر کیا جاچکا ہے.بھیرہ ہی میں مسئلہ گوشت خوری پر آپ کی بحث ایک پنڈت سے ہوئی.(57) آپ زبانی تبلیغ میں بھی مخالف کو لاجواب کر دیتے تھے.حل مشکلات کے لئے کوئی دعا کے لئے کہتا تو تبلیغ کرنے یا تبلیغ کا وعدہ کرنے کو آپ کامیابی کی کلید قرار دیتے تھے آپ نے تقریری اور تحریری تبلیغ کا کام سیدنا حضرت اقدس کے عہد مبارک میں ہی شروع کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمایا اور بہتوں کی ہدایت کا موجب بنا.اخبارات سلسلہ سے معلوم ہوتا ہے آپ کو قادیان سے باہر بھی تبلیغ کے لئے بھجوایا جاتا تھا.چنانچہ الحکم بابت ۷ ستمبر ۱۹۰۹ء (ص۳) میں مرقوم ہے کہ آپ مختلف مقامات پر وعظ کر کے واپس تشریف لائے.جون ۱۹۱۴ء میں بمقام کا ٹھ گڑھ ( ضلع ہوشیار پور ) مولانا عبد الرحیم صاحب نیر اور آپ کی تقاریر نمازوں کی تاکید ترک رسوم اور نکاح بیوگان کے متعلق ہو ئیں اور بہت پسند کی گئیں.اسی طرح وہاں آپ نے تقریر باوانا تک صاحب کے متعلق بھی کی تھی (**) اسی طرح حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی وغیرہ کے ساتھ آپ کو تبلیغی وفد میں شامل کر کے سیالکوٹ کے ضلع میں ۱۹۲۱ء میں بھجوایا گیا.(58) ☆ مئی ۱۹۳۸ ء و مئی ۱۹۴۴ء سے تین تین سال کے لئے آپ کا انتخاب محلہ دارالفضل میں بطور سیکرٹری ان ہر دو دفعہ کی گفتگو کا ذکر ” میں مسلمان ہو گیا حصہ سوم ص ۲۷ ۴۰۰ تا ۴۲ ۶۹ پر آتا ہے.یہ تقریر چھ کالم میں الحکم ۱۸ جون و سے جولائی ۱۹۱۴ء میں اور ان دونوں کی واپسی کا ذکر الحکم ۲۱ جون ۱۹۱۴ء میں ” قادیان کا ہفتہ کے زیر عنوان درج ہے

Page 74

دعوۃ و تبلیغ ہوا اور اس کی منظوری کا اعلان ہوا.67 (59) آپ کا معمول تھا کہ قادیان کے گرد و نواح کے دیہات میں طلباء اور نو جوانوں کو لے جا کر ان سے تقریریں کراتے تا ان میں تبلیغ کا شغف اور تقریر کا ملکہ پیدا ہو.چنانچہ احرار کی شورش کے ایام میں خاکسار اور اخویم چوہدری عبدالسلام صاحب ایم.اے ( حال ربوہ ) کو بھی موضع بھینی وغیرہ لے جاتے رہے ہیں.جس گاؤں میں آپ جاتے غیر مسلموں کے گھروں سے ان کی خیریت معلوم کرتے.دیہات میں چونکہ بالعموم طبی سہولتیں میسر نہیں ہوتیں.اور معمولی علالت کو اپنی مصروفیتوں کے پیش نظر دیہاتی لوگ چنداں اہمیت نہیں دیتے.خواہ بالآخر اس سے نا قابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو اس لئے ان کو مانوس کرنے کے لئے مثلاً آنکھوں میں ڈالنے والا محلول ( لوشن ) آپ ساتھ لے جاتے اور حسب ضرورت بچوں کی آنکھوں میں ڈالتے.طبی ضروریات پوری کرنے والوں سے جیسا گہرا رابطہ پیدا ہوتا ہے ظاہر ہی ہے اور سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی اس بارہ میں کئی دفعہ تحریک فرما چکے ہیں بلکہ مبلغین کو بھی طب پڑھائی جاتی ہے.دیہات میں ماسٹر صاحب نو جوانوں سے تقریر میں کراتے تاکہ ان کی ہچکچاہٹ دور ہو جائے اور تقریر کرنے کی مشق ہو جائے یہ بھی دیکھا ہے کہ آپ نے موٹے موٹے خط میں تبلیغی اشتہار طبع کرا کے گتوں پر انہیں چسپاں کر رکھا تھا.بٹالہ.امرتسر وغیرہ کے سفر پر جانے والوں کو تحریک کرتے کہ ایک گتا ہمراہ لے جاؤ، ریل گاڑی میں جہاں بیٹھو گے لوگ اسے پڑھیں گے اور خود بخود سلسلہ کلام شروع ہو جائے گا، اور ایک نو آموز شخص کو جو تر ڈر ہوتا ہے کہ میں کس طرح بات شروع کروں اور بسا اوقات سوچتے سوچتے ہی سفرختم ہو جاتا ہے، ایسے اشتہار ایسے تر ڈ سے قطعی طور پر نجات دے دیتے تھے چنانچہ احباب آپ سے یہ اشتہارات لے جاتے اور سفر سے واپس آکر آپ کو تبلیغی حالات سناتے اور اشتہارات واپس کر جاتے.ایسے احباب کا حوصلہ بلند ہوتا اور تبلیغ کے لئے جرات محسوس کرتے (*) اخویم حکیم محمد سعید صاحب مبلغ سری نگر جن کو سات سال ماسٹر صاحب کے گھر میں رہنے کا موقع ملا ہے.بیان کرتے ہیں کہ آپ مجھے اکثر تبلیغ کے لئے ساتھ لے جاتے.گتوں پر جلی حروف میں ” صداقت حضرت نمونہ کے طور پر آپ کے ایک اشتہار کی نقل درج کی جاتی ہے.بسم الله الرحمن الرحيم Reward Rs.20000 نحمده ونصلى على رسوله الكريم پاک محمد مصطفی نبیوں کا بادشاہ بوعدہ انعام ہیں ہزار روپے

Page 75

68 الله مسیح موعود علیہ السلام مولوی شاء اللہ کو چیلنج ” میں مسلمان ہو گیا میں سکھوں سے مسلمان ہو گیا.لکھا ہوتا.کئی (بقیہ حاشیہ) زبانی طور پر تو ۹۸ فی صدی علماء زمانہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سرور کائنات لولاک کے مصداق اور جملہ انبیاء کے سردار اور بادشاہ ہیں لیکن دل میں یہ عقیدہ رکھا ہوا ہے کہ اگر چہ موسیٰ علیہ السلام جیسے حضرت ہارون حضرت داؤد وغیرہ انبیاء کے سردار اور مطاع تھے اور توریت کے متبع تھے لیکن حضرت محمد رسول اللہ علہ صرف فوت شدہ انبیاء کے سردار ہیں اور حضور " کی شاگردی اور فیض رسانی سے کوئی نبی نہیں بن سکتا.کیونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور کسی شخص کو اس روحانی نعمت سے جو الہام اور وحی کی صورت میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر کیا کرتا ہے نہیں نوازے گا.اور حضور ( نعوذ باللہ) ابوجہل کے قول کے مطابق نہ جسمانی اولاد کے باپ ہیں اور نہ روحانی کے حالانکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ یعنی اے رسول وہ شخص تیرا دشمن ہے جو تجھے اتبر اور لا ولد کہتا ہے وہ اسلام سے انکاری ہے اور وہ ابتر رہے گا اور تیری روحانی اولا د بکثرت ہے اور ہوتی رہے گی فرمایا وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصِدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ ترجمه به برکت پیروی آنحضرت علیہ حضور کے امتی نبی صدیق، شہید صلحاء تا قیامت ہوتے رہیں گے.جو حضور کے روحانی فرزند ہوں گے لیکن مولوی صاحبان فرماتے ہیں کہ ہم رسول کریم کے روحانی فرزند نہیں ہیں اگر ہیں تو ۲ ہیں ہم ، کے لحاظ سے ہیں.آیت مذکوہ میں النبین کا لفظ غلطی سے لکھا گیا ہے کیوں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا.مزید برآں یہ بھی فرماتے (60) ہیں کہ آنحضرت ﷺ فوت شدہ نبیوں کے سردار اور بادشاہ ہیں زندہ نبیوں صدیقوں شہیدوں اور صلحاء کے بادشاہ نہیں ہیں.یہ ایسی ہی گستاخی اور ہتک حضور" کی ہے جیسے کوئی عقل کا دھنی یہ کہے کہ میرا باپ بہادر خاں مردہ نوابوں، جرنیلوں گورنروں اور دارا اور سکندروں کی مردہ فوجوں کا بادشاہ ہے جن کا اس سے کسی قسم کا تعلق اور واسطہ نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے حالانکہ يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ...أَصْحَبُ النَّارِ (61) میں فرمایا.اے بنی آدم اور آدم کی اولا داگر تم میں سے نبی آویں تو تمہارا فرض ہوگا کہ ان پر صدق دل سے ایمان لاؤ اور ان کے فرمودہ کے مطابق اعمال صالحہ بجالاؤ.وہ رسول نئی شریعت اور نئی کتاب نہ لائیں گے.ہاں زندہ نشان لائیں گے جن سے مردہ ایمان زندہ ہو جائے گا.جو لوگ ان پر ایمان لائیں گے وہ جنتی ہوں گے اور جولوگ تکذیب اور توہین سے ان کا مقابلہ کریں گے وہ دوزخی ہوں گے منکرین انبیاء کی یہی نشانی ہوا کرتی ہے کہ وہ تکذیب اور تو ہین کر کے عذاب الہی کے شکار ہو جاتے ہیں (سورۃ الاحزاب آیت ) میں آیا وَاَزْوَاجُهُ اُمَّهَاتُهُمْ یعنی حضور ﷺ کے ازدواج مطہرات مومنوں کی روحانی مائیں ہیں اور نتیجہ محمد رسول اللہ ﷺ مومنوں کے روحانی باپ قرار پائے اسی کی تائید و تشریح میں فرمایا.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمُ النَّبِيِّن ) (62) یعنی محمد رسول اللہ تم مردوں میں سے کسی کے جسمانی باپ نہیں ہیں لیکن مومنوں کے روحانی باپ ضرور ہیں بلکہ نبیوں کے بھی باپ ہیں.گذشتہ انبیاء کی شاگردی سے انسان ترقی کر کے صدیق تک بن سکتا تھا.مگر محمد رسول اللہ کی شاگردی اور اثر قدسی سے امتی نبی بھی بن سکتا ہے.(النساء: اے) قرآن میں خَاتِم نہیں بلکہ خاتم آیا ہے.جس کے معنی مہر کے ہیں یعنی حضور عملے کی تصدیقی مہر سے ہی بچے بنی کی تصدیق ہو سکتی ہے خواہ گذشتہ نبی ہو یا آئندہ نبی ہو یعنی آئندہ حضور ﷺ کے ٹائپ پر ہی نبی آسکتا ہے جو حضور کا جوڑ ابر اور اور امتی ہو.(پارہ ۵ رکوع ۹ ) ( پارہ ۸ رکوع ۴)

Page 76

69 69 دفعہ محض تبلیغ کی خاطر بٹالہ جاتے.ایک ایک گتہ میرے آگے پیچھے لٹکا دیتے.ایک گنتہ اپنے گلے میں لٹکا لیتے.لوگ پس اگر حضور کے شاگر نبوت کا انعام حاصل نہ کر سکیں جس سے حضور کی امت کی اصلاح ہوتی رہے تو مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں تعلیم و تربیت کی خاطر ۴۰۰ اسو سال تک انسپکٹر اور مجد داور صدیق آتے رہے اب جب کہ اہل اسلام بہتر فرقوں میں تقسیم ہو کر دین اسلام سے بے خبر اور نام کے مسلمان رہ گئے.تب اللہ تعالیٰ نے باغ محمد کے نشو و نما کے لئے امتی نبیوں اور صدیقوں کا سلسلہ جاری کر دیا جس سے غیر مسلم ہندو، عیسائی اور یہودی محروم اور بے نصیب ہیں پس آیات متذکرہ بالا کی رو سے ہم محمد رسول اللہ کوحقیقی معنوں میں زندہ نبیوں کا بادشاہ اور سردار کہتے ہیں.حضور کو مر دوں کا بادشاہ اور سردار قرار دینا موجب سلب ایمان ہے اسی بین ثبوت سے اسلام ہی زندہ مذہب ہے اور دوسرے مذاہب مُردہ ہیں.غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اے مولیٰ کریم ! ہمیں یہود اور نصاری کی راہ پر نہ چلائیو.کیونکہ وہ آئندہ نبیوں صدیقوں ،شہداء اور صلحا کے پاک وجودوں کے پیدا ہونے سے محروم اور بے نصیب ہو چکے ہیں.آج کل کے اسلامی علماء حال اور قال سے اعتقاد ر کھتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کی طرح ہم بھی امتی نبیوں.صدیقوں ،شہیدوں اور صلحا کے پاک وجودوں سے محروم ہو چکے ہیں کیونکہ نبوت یا رحمت کا دروازہ بند ہو چکا ہے.حق یہ ہے کہ نزول عیسی کی امید موہوم سے مسلمان نہ دین کے رہے نہ دنیا کے حالانکہ وفات عیسی قرآن میں تمہیں مرتبہ آئی ہے اگر کوئی صحیح حدیث تو کیا وضعی حدیث سے بھی عیسی کا خا کی جسم سمیت زندہ آسمان پر جانا اور کسی زمانہ میں دوبارہ زمین پر خا کی جسم کے ساتھ آنا ثابت کر دے تو اسے ہیں ہزار روپے تاوان دوں گا “.(63) بانی جماعت احمدیہ نے آج سے ۵۴ سال پہلے کا انعام مقرر کیا ہوا ہے.لیکن کسی کو حوالہ پیش کرنے کی جرات نہ ہوئی.درود شریف دوسرا جز واعظم اسلامی نظام کا درود شریف ہے جس میں ہم روزانہ ۳۰ ، ۴۰ مرتبہ یہ دعا مانگتے رہتے ہیں کہ اے مولا کریم ! جس طرح تو نے ابراہیم اور ابراہیم کی اولاد اور امت میں بے شمار نبی اور بادشاہ بنائے تھے.اسی طرح محمد ﷺ اور حضور کی امت مرحومہ میں بھی اپنے فضل و کرم سے انبیاء اور بادشاہ بناتے رہیو اور اسی روحانی اور جسمانی بارش کی تشریح قرآن کریم میں یوں آئی ہے.جَعَلَ فِيُكُمُ انْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمُ مُلُوكاً (64) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان میں بے شمار نبی اور بادشاہ بناے یعنی ابراہیم کی امت میں جب بے شمار اور بادشاہ بنائے گئے تھے اسی طرح اے مولا کریم ! مسلمانوں میں بھی انبیاء اور بادشاہ بناتے رہیو! پس صاحبواگر امت محمدیہ میں نبی اور بادشاہ نہیں ہونے تھے تو درود میں اور کون سی دعامانگتے ہو اس پاک غرض کے بغیر دروشریف بے فائدہ ہوگا.حضرت محمد ﷺ اور حضرت موسی (کونسا بڑا ہے؟) إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ...يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ اسْلَمُوا (65) سے ثابت ہے کہ موسیٰ اور توریت کے متبع ہزار ہا نبی آئے تھے.خود موسیٰ کا بھائی ہارون موسیٰ کا وزیر بھی تھا اور نبی بھی تھا.اسی طرح قرآن شریف کے پارہ ۵ رکوع ۹ سے امتی نبیوں صدیقوں کا آنا ثابت ہے جو قیامت تک آتے رہیں گے.

Page 77

70 دیکھتے کوئی مسکرا دیتا.کوئی حیران و ششدر رہ جاتا.جم غفیر ہمارے گرد جمع ہو جاتا.بعض دفعہ سکھ ان عبارتوں کو آنحضرت ﷺ اور پیشتر کے انبیاء کی طرز زندگی اور خوراک پوشاک سادہ ہوا کرتی تھی اکثر نبی جواور کھجور پر گزارہ کیا کرتے تھے.مگر زمانہ مستقبل میں آنے والے رسولوں کو فرمایا اَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ...عليمٌ (66) اے آنے والے.رسولو! تمہارے زمانے میں بے شمار پیسٹری اور مٹھائیاں اور نفیس، اکل وشرب کی تیار ہوں گی پر تم نے ان میں سے پاک اور ستھری چیزیں ہی کھایا کرنا جو کچھ تم کرو گے میں خوب جانتا ہوں اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ زمانہ مستقبل میں گونا گوں مٹھائیاں اور ٹوسٹ تیار ہوں گے.یہ حکم حضور کو حضرت آدم ، نوح “ ، ابراہیم ، یوسف اور اور لیس کے لئے نہیں دیا گیا تھا کہ قبروں سے اٹھو اور نہا دھوکر پاک طیب چیزیں کھایا کرو.کیونکہ وہ ہزاروں سال سے بہشت میں مزے کر رہے ہیں یہ حکم آنے والے امتی نبیوں کے متعلق آنحضرت میر نازل ہوا تھا.قرآن شریف میں دین اسلام مکمل ہوا جیسے دین ابراہیم الحق" پر مکمل ہوا أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (67) آیا ہے یعنی اللہ نے دین اسلام مکمل کر دیا تھا اسی طرح سورۃ یوسف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيلِ الأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى ال يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَى اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَق - (88) اللہ تعالیٰ تیرے پر اپنی نعمت پوری کرے گا اور آل یعقوب پر جیسا کہ اس نے پوری کی تھی تیرے والدین پر پہلے سے اور ابراہیم اور احق" پر بھی نعمت پوری کی تھی.شریعت اور نعمت یا نبوت الحق ، ابراہیم اور موٹی پر مکمل ہوئی تھی پھر بھی آل ابراہیم اور قوم ابراہیم میں بے شمار نبی آتے رہے.اسی طرح شریعت اسلام کے مکمل ہونے پر بھی آنحضرت ﷺ کی ماتحتی میں امتی نبی صدیق شہید آنے مقرر کر دئے لپس ہم جائز طور پر کہہ سکتے ہیں کہ محمد زندہ نبیوں کا بادشاہ ہے بھو کے بادشاہ نہیں ہیں اگر ہسپتال مکمل ہو جائے تو پھر بھی ڈاکٹروں انسپکٹروں کی ضرورت ہوا کرتی ہے؟ ورنہ بیار مہلک ادویہ پی پی کر مر جائیں گے.چودہ سو سال تک امت محمدیہ کی نگرانی کے لئے انسپکٹر اور مجدد آتے رہے.اب جب کہ مسلمان مسلمان ہی نہ رہے اور لاکھوں عیسی کو خدا کی طرح غیر فانی مان کر عیسائی ہو گئے تو ضرور تھا کہ قرآنی وعدے کے مطابق مسیح موعود آتا جو پارہ ۵ رکوع ۹ کی رُو سے امتی نبی ہے.حصول خیر و دفع شر ہم امتی نبیوں ،صدیقوں وغیر ہم کے پاک وجودوں کے انکار اور کفر سے خدا کی پناہ مانگتے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ مسلمان نماز کے حقیقی معنوں سے بے خبر ہو کر محرومی کے شکار اور عذاب پر عذاب کے سزا وار ہو رہے ہیں.ان میں بے حد اختلاف ہو چکا ہے جس سے ان کی سیاسی اور ایمانی طاقت بھی یہاں تک کمزور ہوگئی ہے کہ اسلامی ملک افغانستان بھی ہندوستان سے رشوت لے کر پاکستان پر حملہ کر رہا ہے.

Page 78

71 نا پسند کرتے ، اور گئے پھاڑ دیتے.ایک دوبار ہم پر حملے بھی ہوئے.مجھے منع کر رکھا تھا کہ ایسی بات کا گھر میں ہرگز ذکر نہ کروں.ایک دفعہ موضع کونٹ ( نزد قادیان) گئے سکھوں نے شربت سے تواضع کی.آپ نے بیان کیا کہ باوانانک جی نے مکہ مکرمہ میں جو امرت اسلام کا پی لیا تھا تو آپ اس امرت سے زندہ ہو گئے اور وطن واپس آکر اس امرت سے آپ نے اپنے ملک کو بھی زندہ کیا.یہ سن کر جاٹ سکھ یہ سمجھے کہ باواجی پہلے مر گئے تھے پھر زندہ ہوئے گویا مردہ کہہ کر ان کی توہین کی ہے.بعد مشکل ہم وہاں سے بچ کر آئے.ایک دفعہ ایک گاؤں میں یہ بتایا کہ یہ غلط ہے کہ باواجی نے مکہ ” پھیر یا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ مکہ پھر یا زیر زبر کی غلطی ہوئی ہے.مکہ پھر یا کا مطلب یہ ہے کہ مکہ شہر میں پھرے اور گھومے وبس.ہر ایک شخص شہر میں پھرا کرتا ہے سکھ اپنے گرنتھ صاحب اور ساکھیاں لے آئے.لیکن ماسٹر صاحب کی گفتگو سے خاموش ہو گئے.ایک دفعہ ایک سکھ بہت ناراض ہوا اور بات نہیں سمجھتا تھا آپ نے کہا کہ یہاں تو نہیں سمجھتے اگلے جہان میں ہی سمجھو گے.کہنے لگا کہ وہاں بھی دیکھا جائے گا.اس کے جاہلانہ جواب کا آپ ذکر کر کے ہنستے.اس بارہ میں ایک مفید کام کے زیر عنوان مکرم ایڈیٹر صاحب بدر رقم طراز ہیں: کچھ عرصہ سے ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری کی تحریک اور کوشش سے قادیان اور ارد گرد کے گاؤں میں وعظ و تبلیغ کا بہت ضروری اور مفید سلسلہ جاری ہے ، رات کے وقت بعد مغرب مختلف محلوں میں باری باری کوٹھوں پر چڑھ کر ایک یا کئی اصحاب وہاں کے مردوں اور عورتوں کو اپنے پند و نصائح سے بہرہ ور کرتے ہیں.خدا مرزا صاحب قادیانی کا بھلا کرے Though law or code is perfect yet subordinates require inspectors, Supdts for supervising and correcting 72 sects similarly Assistant prophets or Mujaddids must be obeyed otherwise 72 sects at war with one another must perish being without a Commander.نوٹ :۲ رٹکٹ بھیج کر منگوا سکتے ہیں خاکسار سردار عبدالرحمن بی اے ( مہر سنگھ ) پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ بھلوال ضلع سرگودھا ( مغربی پاکستان ) نوٹ :۵۳ء کے فسادات کے متن تحقیقاتی عدالت میں مولویوں نے یہ اشتہار پیش کر کے تمسخر کے رنگ میں اعتراض کیا تھا کہ کلوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ کے انوکھے معنی کئے گئے ہیں.اس اشتہار کا سائز اند از سولہ انچ لمبا اور گیارہ انچ چوڑا ہے اور دونوں طرف موٹے حروف میں لکھا ہوا ہے اور پنجاب الیکٹرک پریس لائل پور میں طبع ہوا ہے.مؤلف.

Page 79

72 نماز، روزہ اور اخلاق حسنہ کی تاکید کرتے ہوئے سلسلہ حلقہ کی بھی تبلیغ کرتے ہیں بہت سے ناواقف اورست پڑے ہوئے لوگوں کو بیدار کر کے انہوں نے جماعت احمدیہ میں داخل کرا دیا ہے ( آٹھ افراد کے اسماء درج کئے جاتے ہیں جو اس نیک کام میں ماسٹر صاحب کی مدد کرتے ہیں ) (69) پھر مرقوم ہے.ماسٹر عبدالرحمن صاحب اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ تقریباً ہر شب رات کو کوٹھوں پر قرآن مجید سناتے ہیں.تبلیغ کے لئے بہت عمدہ طریق ہے.باہر ارد گرد کے دیہات میں بھی جاتے ہیں (70) اخویم مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل سابق مجاہد ائلی و افریقہ حال ربوہ تحریر کرتے ہیں کہ میں نے پانچ سال تک قادیان میں تعلیم پائی اور بعد ازاں مدرسہ تعلیم الاسلام میں مجھے بطور مدرس کام کرنے کا موقع ملا.میں ۱۹۱۴ ء سے ہی حضرت ماسٹر صاحب سے پوری طرح واقف ہوں.میں اور ایک عبد اللہ غیر احمدی طالب علم (جو بعد میں مخلص احمدی ہو گئے ) احمد آباد میں رہتے تھے ماسٹر صاحب عبداللہ کو تبلیغ کرنے آتے وہ بہت مخالف تھے.گھنٹوں بحث ہوتی.وہ امرتسر سے جا کر مخالفانہ کتب لے آتے.حضرت ماسٹر صاحب نے عبداللہ موصوف کے بعض اعتراضات کا جواب اپنے ایک رسالہ میں دیا ہے (*).آپ کو تبلیغ کا جنون تھا.جب بھی آپ کے مکان پر جانے کا موقع ملا.کسی ہندو سکھ یا مسلمان کو تبلیغ کرتے ہی پایا.گھر پر وقت ضائع نہ ہونے دیتے اشتہارات رسالے وغیرہ لکھتے رہتے.جلی حرورف میں قلمی اشتہارات لکھ کر بازاروں میں اور مسجدوں میں لگا دیتے.بالعموم بعد نماز احباب کو وعظ کر کے تبلیغ کرنے کی تحریک کرتے راستہ میں بھی جومل جاتا اسے تبلیغ کرتے یا تبلیغ کرنے پر آمادہ کرتے چونکہ قادیان میں میرے ایک مکان کے کرایہ دارر ہے تھے اس لئے ۱۹۵۰ء میں جب میں نے دوسری شادی کی تور بوہ اکثر میرے گھر پر آ کر قیام کرتے.بہت محبت سے پیش آتے اور بکثرت نصائح فرماتے.تبلیغ کے لئے آپ کے دل میں جنون کی حد تک لگن تھی.طالب علمی میں ٹریننگ کالج لاہور میں قادیان ونواحی میں جزائر انڈیمان اور سیلون میں اور پاکستان میں غرضیکہ جہاں بھی آپ رہے تبلیغ اور اعلائے کلمۃ اللہ کا شدید اور پاک جذ بہ آپ کو چین نہ لینے دیتا آپ احباب کو مختلف طریقوں سے تبلیغ پر آمادہ کرتے تھے.مثلاً مکرم ماسٹر مامون خاں صاحب ڈرل ماسٹر ہائی اسکول قادیان ( حال مہاجر سندھ ) کی شادی میں بعض موانع تھے.حضرت ماسٹر صاحب کو انہوں نے دعا کے لئے کہا آپ نے فرمایا کہ آپ چالیس گاؤں میں جا کر تبلیغ کریں.میں دعا کروں گا.چنانچہ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ماسٹر مامون خاں صاحب کی شادی ہوگئی ایک اور دوست بیمار ہو کر قریب المرگ ہو گئے.زندگی کی امید باقی نہ رہی، آپ سے دعا کے لئے انہوں نے کہا.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عبدااللہ موصوف کا ذکر مسیح موعود وعلماء زمانہ کے طبع سوم کے ص ۷۳ ۴۰ ے پر آتا ہے.☆

Page 80

73 سے عہد کرو کہ صحت یاب ہو کر اپنے گاؤں کے ارد گرد تین میل تک تبلیغ کروں گا چنانچہ ان کے وعدہ کرنے پر آپ نے دعا کی اور وہ صحت یاب ہو کر سالہا سال تک زندہ رہے.ایک احمدی مدرس کئی بار بی.اے کے امتحان میں نا کام رہے.ماسٹر صاحب نے کہا کہ جو تبلیغ کرے اللہ تعالیٰ اسے برکت دیتا ہے اور وہ کسی کا قرض اپنے او پر نہیں رکھتا.آپ دس روپے کے تبلیغی پوسٹر چھپوا دیں.چنانچہ آپ نے ان کی رقم سے پوسٹر شائع کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ امتحان میں کامیاب ہو گئے.ماسٹر صاحب فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ اگر تم فریضہ تبلیغ جاری رکھ تو تمہاری عمر کو ہم بڑھا (71) دیں گے چنانچہ آپ آخر دم تک آخری ماہ تک اشتہارات شائع کرتے رہے (1) دعاؤں میں انہماک آپ کی دعاؤں کی قبولیت تبلیغ میں اغیار کا ناطقہ بند کرنے میں مد ہوتی تھی آپ لکھتے ہیں : ۱۹۰۸ء میں جب میں سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھا تو میرے ساتھ ہند و مسلمان اور چار پانچ عیسائی بھی ایس اے.وی کلاس میں ٹریننگ حاصل کرتے تھے.ان عیسائیوں میں ایک پٹھان کا لڑکا یوسف جمال الدین بی اے ہیڈ ماسٹر مشن اسکول جالندھر بھی تھا، ان عیسائیوں نے مجھے عصرانہ پر مدعو کیا اور کہا کہ آپ نے اچھا کیا کہ سکھوں کا مذہب ترک کر کے اسلام اختیار کیا.اب ایک قدم اور آگے بڑھاؤ اور عیسائی بن جاؤ.ٹرینڈ ہو کر آپ کو مسلمانوں سے کیا تنخواہ ملے گی.ہم تو جاتے ہی تین تین صد روپیہ تنخواہ پر متعین ہو جائیں گے.مسلمانوں سے آپ کو ۵۰ - ۶۰ یا سو روپیہ ماہوار ملے گا.میں نے کہا کہ میں زندہ خدا کا شائق ہوں.اگر تم زندہ خدا سے میرا تعلق پیدا کر دو تو میں عیسائی ہو جاؤں گا.یوسف جمال الدین نے پوچھا کہ زندہ خدا سے کیا مراد ہے.میں نے کہا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو کھولا جائے گا.ڈھونڈ و تو خدا کو پالو گے.اور قرآن مجید میں بھی لکھا ہے کہ بحالت اضطرار دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے اگر یہ نعمت عیسائیت میں دکھا دو تو میں عیسائی ہو جاؤں گا.طلبا نے کہا کہ وید ، انجیل اور قرآن مجید کے بعد الہام و وحی کا دروازہ بند ہے.اب الہام نہیں ہوسکتا.میرے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی سنتا اور دیکھتا تو ہے لیکن بولتا نہیں.میں نے کہا جو ذات سنتی اور دیکھتی ہے وہ بول بھی سکتی ہے.پہلے سوال کے متعلق میں نے کہا کہ ابھی اس مجلس میں مجھے الہام ہو گیا ہے کہ پہلے سوال بتا دیا جائے گا.طلباء نے کہا کہ ہم نے تو الہام نہیں سنا.میں نے کہا کہ تمہارا خون خراب ہو گیا ہے.اسے قادیان میں درست کر الوتو تم کو بھی الہام کی آواز سنائی دے گی.دوسرے تیسرے روز رات کو سونے کے لئے سرہانے پر سر رکھنے ہی لگا تھا کہ کشفی حالت میں مجھے

Page 81

74 ریاضی کا پرچہ دکھایا گیا جسے میں نے پڑھ لیا.مگر مجھے صرف پہلا سوال ہی یا د رہا.جسے میں نے نوٹ کر لیا.تین ہفتے کے بعد ہمارا سہ ماہی امتحان ہوا اور اس میں ریاضی کا پہلا سوال وہی تھا جو میں نے بتایا تھا.یہ دیکھ کر یوسف وغیرہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے.ایک شخص عبدالحمید ایم اے سکنہ کٹرہ بھنگیاں امرتسر د ہر یہ تھا وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا قائل ہو گیا.اس کی تحریر میرے پاس موجود ہے.ایک شخص ممتاز علی نے کہا کہ یہ اتفاق ہو گیا کہ آپ کو پہلے سوال کا پتہ لگ گیا ہے.میں نے کہا کہ آپ چالیس گریجویٹ ہیں اور مجھ سے لائق ترین.تین ماہ بعد پھر امتحان ہوگا سارے مل کر میری طرح پہلاسوال بتادو.وہ کہنے لگے کہ ہم چیلنج نہیں کر سکتے.میں نے کہا کہ یہی تو معجزہ ہے جسے تم چالیس افراد نوے دن میں نہیں کر سکتے.میں نے دو تین دن میں کر دکھایا.اس پر سب طلباء نے کہا اگر کوئی اور ا مرغیب ظاہر ہو جاوے تو اتفاق والا ہمارا عذر لنگ بھی جاتا رہے میں نے کہا اچھا میں دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ کوئی اور امرغیب قبل از وقت بتا دے انہیں ایام میں مجھے الہام ہوا.بچہ ہے بچہ ہے.بچی نہیں ہے یعنی امسال ہمارے گھر اللہ تعالے لڑکا عطا فرمائے گا.وہاں مکرم صوفی غلام محمد صاحب بی اے مرحوم ( بعده مبلغ ماریشس ) بھی ٹرینینگ لے رہے تھے.یوسف وغیرہ نے بالائی طور پر ان کے ذریعہ قادیان سے پستہ منگوایا تو ان کی اہلیہ صاحبہ کا خط آیا کہ ماسٹر صاحب کے ہاں ابھی دو تین ماہ کی امیدواری ہے جب لڑکا پیدا ہوگا تو اطلاع دوں گی.چنانچہ سالانہ امتحان اپریل ۱۹۰۹ء کے قریب اطلاع بھیجی چنانچہ یوسف بورڈ پر سے کارڈ لایا اور کہا کہ صوفی صاحب کی اہلیہ صاحبہ نے آپ کو دوہری مبارک باد دکھی ہے کہ لڑکا بھی پیدا ہوگیا اور پیشگوئی کا الہام بھی پورا ہو گیا.اس پر میں نے جلیبیوں کی دعوت دے کر بتایا کہ اگر تم پندرہ سال گرجے یا مندر یا ٹھا کر دوارے میں پوجا پاٹ کرتے رہو اور وہاں سے کوئی جواب نہ آئے تو تم سمجھو کہ تم خدا کی عبادت نہیں کر رہے بلکہ مصنوعی خدا کی خود ساختہ تصویر ہے جس کی عبادت کرتے ہو وہ بت ہے بت پرستی چھوڑ دو.اے مسٹر یوسف ! اگر تم پرنسپل کی کوٹھی پر جاؤ اور اسے سلام کرو تو وہ تمہیں سلام کا جواب نہ دیا کرے تو کیا پھر بھی تم اس کی کوٹھی پر سلام کرنے جایا کرو گے، اس نے کہا کہ ہر گز نہیں.میں نے کہا کہ اگر تم لوگ زندہ خدا کی عبادت کرو تو وہ ارحم الراحمین ضرور جواب دے گا.بعدا زاں میں نے یوسف مذکور اور مسٹر چیٹر جی عیسائیوں سے کہا کہ آپ لوگوں نے دو تین امور کے متعلق پیش گوئیاں پوری ہوتی دیکھی ہیں اس لئے اب حسب وعدہ مسلمان ہو جاؤ.مگر وہ عذر کرتے رہے.آخر میں نے کہا کہ کم از کم ان امور کی تحریری شہادت دے دو.انہوں نے عذر کر کے اس سے بھی انکار کر دیا اس پر میں

Page 82

75 نے کہ کہا کہ اگر تم یہ شہادت لکھ دو تو تم دونوں پاس ور نہ فیل ہو جاؤ گے یہ امر بھی الہام ہی ( کی طرح یقینی سمجھو.اللہ تعالیٰ کا کرنا کیا ہوا کہ جب نتیجہ نکلا ہم سب کامیاب اور وہ دونوں.فیل اس پر بعض غیر احمدی ہم جماعتوں نے شہادتیں تحریر کر دیں جو میرے پاس موجود ہیں.اخویم مولوی عبدالرحیم صاحب عارف ( مبلغ نظارت مقامی تبلیغ پاکستان ) بیان کرتے ہیں کہ: ہماری جماعت میں ماسٹر صاحب پڑھا رہے تھے کہ ایک خط آنے پر آپ متفکر ہو گئے اور ٹہلنے لگے اور پھر ایک کھڑکی کی طرف منہ کر کے دعا کرنے لگے.میرے دریافت کرنے پر فرمایا کہ پھر بتاؤں گا ایک مشکل ہے تم بھی دعا کرو چنانچہ چند گھنٹے بعد آپ نے مجھے دفتر میں بلایا.ڈاکیہ ایک منی آرڈر لایا ہوا تھا فر مایا کہ عزیز بشیر احمد کا مونگ رسول سے خط آیا ہے کہ آپ نے خرچ نہیں بھیجا.مجھے تکلیف ہے.کہیں سے بھی روپیہ آنے یا ملنے کی امید نہ تھی.میں نے دعا کی تھی کہ اے اللہ ! تو رازق ہے.بچہ پردیس میں ہے میرے پاس رقم نہیں.تیرے پاس بے انتہا خزانے ہیں تو کوئی سامان کر دے چنا نچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ سامان کر دیا ہے.آپ نے سردار بشیر احمد صاحب کو ۱۹۴۸ء میں تحریر کیا کہ رویا میں آپ کی والدہ کو سیاہ لباس میں ملبوس دیکھا اور وہ آپ کو چھت سے نیچے بلا رہی ہیں.مگر آپ اترے نہیں.کچھ صدقہ ضرور کر دیں سردار صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بارہ تیرہ دن بعد مجھے سرکاری حکم موصول ہوا کہ سرکاری بنگلہ خالی کر دوں تا کہ کسی دوسرے افسر کو دیا جائے.یہ بنگلہ نہایت شاندار اور پرنسپل انجینئر نگ سکول کے بنگلے سے دوسرے نمبر پر تھا اور اس کے خالی کرنے پر میری خفت تھی.چنانچہ میں اپنے موقف پر قائم رہا اور چھت سے نیچے نہ اترا اور اللہ تعالیٰ نے صدقہ اور دعا قبول فرمائی اور یہ معاملہ ٹل گیا.سردار بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی جماعت میں دوم یا سوم رہتا تھا.دسویں کا امتحان دیا تو ابا جان نے میری خاطر ایک لاکھ دفعہ استغفار کیا جس کی برکت سے میں اول درجہ پر کامیاب ہوا اور جو ہمیشہ اول آتا تھا وہ مجھ سے آٹھ نمبر کم لے کر دوم آیا.اخویم حکیم محمد سعید صاحب مبلغ سری نگر سناتے ہیں کہ زیر تبلیغ اشخاص سے بحث میں شرط لگ جاتی اور حضرت ماسٹر صاحب دعائیں کرتے اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم پانے پر یقین کے ساتھ اعلان کرتے اور ڈاک خانے میں اس بارہ میں ایک کارڈ اپنے نام اور ایک کارڈ مخالف کے نام روانہ کرتے اس طرح اپنے نام کا خط ڈاک خانے کی مہر کے ساتھی مصدقہ ثبوت بن جاتا جو مخالفوں کے لئے مسکت ثابت ہوتا.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایک خطبہ میں ماسٹر صاحب کی قبولیت دعا کی شرط

Page 83

76 مخالفین سے لگانے کا ذکر فر مایا تھا اور فرماتے تھے کہ بات پوری ہونے پر پھر یہ مخالفین آپ سے چھپتے پھرتے.2 سردار بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ جب کبھی اپنے کسی بچے کی شادی کا ارادہ فرماتے تو ایک رجسٹر پر جو اس غرض کے لئے رکھا ہوا تھا اس پر چند سطور میں مقصد لکھ کر نیچے دس پندرہ مخلصین کے اسماء درج فرماتے اور ان ناموں کے آگے دستخط کروا لئے جاتے.میں نے یہ رجسٹر دیکھا ہے.ایک دفعہ حضرت والد صاحب کا نام بھی استخارہ کے لئے حضور نے رقم فرمایا تھا.بعد استخارہ یہ اصحاب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو اپنی خواب وغیرہ سے اطلاع دیتے تھے.جواب کا القاء ہونا:.جماعت احمدیہ کا یہ تجربہ ہے کہ جو شخص حسن نیت سے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے تبلیغ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عین وقت پر جواب سمجھا دیتا ہے.ایک بحث میں حضرت ماسٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حقانیت کے متعلق ایک عجیب دلیل سمجھائی.آپ لکھتے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھے ایک آریہ مہاشہ سے مذہبی گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا.اس نے کہا کہ تم نے جو اپنا قدیمی مذہب چھوڑا ، اور اپنے والدین اور دیگر رشتہ دار اور دنیاوی وسائل منفعت ترک کئے ہیں.....اگر در حقیقت آپ کے نزدیک اسلام اور قرآن شریف صداقت کے آفتاب ہیں تو جس طرح ہم اس ظاہری آفتاب کے وجود کے قائل ہیں اسی طرح آپ بھی قرآن کریم اور اسلام کو سراجاً منیر ا مانتے ہوں گے اور ہمیں قائل کرسکیں گے....یہ اعتراض ختم نہ ہوا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایک عجیب ثبوت دربارہ حقیقت اسلام میرے دل میں ڈالا جس سے میں خود اب تک حیران ہوا کرتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ میں نے کہا کہ بے شک جس طرح دنیا آفتاب کو نافع مان رہی ہے اور کوئی اس کے وجود اور فوائد سے انکار نہیں کر سکتا اسی طرح بلا کم و کاست اسلام کی سچائی اور حقانیت بھی میرے نزدیک پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے اور کوئی اس کے نافع وجود سے انکار نہیں کر سکتا اور وہ تفصیل ذیل ہے.دیکھنا چاہیے کہ دنیا میں یوں تو ہر ایک اپنے آپ کو صراط مستقیم پر گمان کرتا ہے.پس جب خودستائی کی یہ حالت ہے تو اس کے سوا اور کوئی راہ نہیں کہ ہر ایک مدعی اپنے طریق مذہب کی حقانیت کا ثبوت اور شہادت غیر مذہب کے لوگوں سے دلاوے نہ یہ کہ اپنی ہی صداقت پر صرف اپنی یا اپنوں ہی کی گواہی اور شہادت پر......اکتفا کیا جاوے.بہتر ہے کہ ہم فلاں آریہ پنڈت صاحب سے پوچھیں کہ وہ اسلام اور عیسائیت کے بارے میں بحیثیت مجموعی کیا رائے اور فیصلہ دیتا ہے، الغرض پنڈت صاحب کی طرف سے یہ گواہی اور فیصلہ پیش ہوا

Page 84

77 کہ اگر چہ میں ہر دو مذہبوں کو باطل خیال کرتا ہوں لیکن اتنا ضرور کہنا پڑتا ہے کہ بحیثیت مجموعی اسلام کو عیسائیت پر بدر جہا فضیلت اور فوقیت حاصل ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں نے ایک کمزور انسان کے بچے کو خدا کا بچہ رَبُّ الْعَلَمِین قرار دیا ہوا ہے.حالانکہ اس نے کوئی خدائی کام نہیں کیا اور زمین نہیں بنائی اور اس کے خونِ بے سود اور کفارہ کی تعلیم نے یورپ کی اخلاقی حالت کا خون کردیا ہے مگر اسلام نے کوئی ایسا مسئلہ پیش نہیں کیا کہ جس سے اخلاقی حالت کو تنزل اور ضرر پہنچا ہو کیونکہ ہر ایک درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اس لئے کفارہ کا درخت زہر یلے ثمرات پیدا کرتا ہوا دیکھا گیا ہے.مگر اسلام کے زیر اثر لوگوں نے ہزاروں کو بت پرستی سے چھڑایا اور ہزاروں بت خانوں کو اجاڑا.بلکہ جس قدر بت پرستی، آتش پرستی ،مصر، روم ، فارس ، ہند وغیرہ سے اسلامیوں نے دور کی ہے اس کی نظیر کسی اور مذہب والوں میں تلاش کرنا عبث ہے.بلکہ اس وصف میں تو ہمیں بھی اسلامیوں کے سامنے شرمسار ہونا پڑتا ہے پس ہمیں مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کو عیسائیت پر فوقیت حاصل ہے.بعد ازاں ہم ایک پادری صاحب کے پاس گئے اور استفسار کیا کہ اگر آپ وید اور قرآن کے اصول اور مذہب کا بے لاگ موازنہ کریں تو بحیثیت مجموعی آپ کسی مذہب کو ترجیح دیں گے.اسلام کو یا ویدوں کے مذہب کو؟ پادری صاحب نے کہا کہ اگر چہ مجھے ہر دو مذہبوں کے بکنی راست اور درست ہونے میں کلام ہے لیکن اتنا کہے دیتا ہوں کہ اسلام آریہ مذہب کی نسبت بدرجہا بہتر ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل اسلام اکثر ان صداقتوں اور اصول اور انبیاء علیھم السلام پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں جن کے ہم قائل اور واعظ ہیں اور جنھوں نے وقتاً فوقتا لوگوں کو گمراہی اور شرک وغیرہ سے بچایا میں نے معترض کو بتایا کہ بیٹے کی گواہی ماں باپ کے عوض قبول نہیں کی جاتی.ہر ایک کا اپنے مذہب کو حق کہنا نا قابل قبول ہے کیوں کہ اس میں اس کی ذاتی غرض شامل ہے.اسلام عیسائت و ہند و دھرم تین بڑے مذاہب میں سے عیسائیت اور ہندو دھرم کے نمائندوں کی اسلام کی برتری کے متعلق گواہی باوجود اسلام کے مخالف ہونے کے وقعت رکھتی ہے.سوساری دنیا اسلام کی حقانیت کی قائل ہے.اب چمگادڑ دن کو رات کہے تو ایسے کور چشم کی لاف گزاف سے آفتاب کی تکذیب نہیں ہو سکتی ( خلاصتہ ) وہ اس جواب کو سن کر حیران ہو گیا اور کہا کہ بے شک آپ نے اسلام کو کچھ دیکھ کر قبول کیا ہے اور بے وجہ اپنے مذہب اور والدین کو خیر باد نہیں کہا لیکن میں کیا کروں گھر والوں اور رشتہ داروں کا فکر اور اندیشہ ہے وہ مجھے لعن طعن کریں گے اور ممکن ہے کہ بعض تکالیف بھی پہنچا وہیں اس لئے میں آپ کی طرح گھر والوں کو ترک نہیں ،، کر سکتا ، (73)

Page 85

78 آپ کے تبلیغی کارناموں میں کامرانی:.آپ کی کامیاب تبلیغی مساعی کی کچھ تفصیل ہدیہ ناظرین کی جاتی ہے.(۱) اخویم ڈاکٹر عبدالرحمن کی قبول احمدیت :.ڈاکٹر صاحب اس وقت بفضلہ تعالی حلقہ پارسی کالونی ( کراچی ) کی جماعت کے صدر ہیں اور ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف کامٹی کے نام سے معروف ہیں آپ کا سابق نام منگل سنگھ تھا.آپ کے والد ماجد سردار بڑھا سنگھ صاحب موضع کونٹ نزد قادیان کے نمبردار تھے.ان کے متعلق حضرت ماسٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے موضع بھینی بانگر ( نز د قادیان ) میں نماز پڑھی پہلی اور دوسری طرف سلام پھیرنے کے درمیان الہام ہوا کہ ایک سکھ شمال مشرق کی طرف مشرف بہ اسلام ہوگا.چنانچہ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب جو اس وقت موضع کونٹ کے (جو قادیان سے چار میل کے فاصلے پر ہے ) میری کوشش سے مسلمان ہوئے.ڈاکٹر صاحب محترم تحریر فرماتے ہیں کہ میں ماسٹر عبدالرحمن صاحب ( سردار مہر سنگھ اور شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور ( سابق سردار سورن سنگھ ) کے ذریعے مشرف بہ اسلام ہوا.میرے والد ماجد صاحب نے اپنی زندگی میں زمین دونوں بیٹوں میں تقسیم کر دی تھی اور میں بڑا لڑکا تھا.اس لئے میرے نام نمبر داری لگوادی تھی.حضرت خلیفہ اول میری تربیت خاص طور پر کرتے تھے.آپ نے میرے والد صاحب کی یہ درخواست نا پسند کی کہ میں نمبرداری کی خاطر گاؤں واپس جاؤں مُبادا زور ڈال کر مجھے اسلام سے برگشتہ کر دیں اور ارشاد فرمایا: میاں عبدالرحمن جاؤ اور فوراً ان کی نمبرداری وغیرہ واپس کر دو نورالدین کہتا ہے اللہ تعالیٰ تم کو بہت وو نمبر داریاں دے گا.‘ (74) ڈاکٹر صاحب خاکسار مؤلف کو لکھتے ہیں کہ : میں نے 1911 ء میں اسلام قبول کیا.اپنے غیر مسلم والدین واقارب کی شدید مخالفت کے خوف کے باعث میں اپنے اندر ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں پاتا تھا.حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب سے میں نے اس امر کا ذکر کیا اور اس خدشہ کا بھی اظہار کیا کہ مجھے جڑی جائیداد سے جو حق پہنچتا ہے یہ لوگ مجھے اس سے بھی محروم کر دیں گے.میں اپنی والدہ کا زیور اور نقدی بسہولت لاسکتا ہوں کیا میں ایسا نہ کروں.تا کہ اقارب سے علیحدہ ہونے پر آسانی سے گزارہ کر سکوں.ریتی چھلہ کے قریب حضرت مولوی شیر علی صاحب کے مکان والی جگہ پر یہ گفتگو ہوئی.ماسٹر صاحب نے دریافت فرمایا کہ تم اسلام کیوں قبول کرنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کی کہ رب سے تعلق جوڑنے کے لئے فرمایا ایسے خدا پر ایمان لانے کا کیا فائدہ کہ تم تو اس کی خاطر ا قارب، جائیداد وغیرہ سب کچھ چھوڑ دو لیکن وہ تمہاری اتنی بھی مدد نہ کر سکے کہ تمہاری پرورش کا سامان ہو سکے.اسلام چوری سے منع کرتا ہے اور تمہیں والدہ کا زیور

Page 86

79 وغیرہ چوری سے ہی لانا پڑے گا.اپنے سامنے تو کوئی لے جانے نہیں دے گا.چنانچہ یہ بات مجھے سمجھ آگئی اور فی الحقیقت اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ میری ربوبیت فرمائی.بہت جائیداد دی ، اولاد دی اور قابل دی اور اولا د کو صاحب جائیداد اور اولاد بنایا ( بیٹے ملٹری میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور دو بیٹیاں لائق ڈاکٹر ہیں ) فالحمد لله علی ذالک.حضرت ماسٹر صاحب تبلیغ کا جنون رکھنے والے بزرگ تھے.دوران تبلیغ میں لوگوں نے کئی بار دفعہ آپ کو مارا پیٹا.لیکن اس مرد مومن نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور درماندہ ہوئے بغیر مسلسل فریضہ تبلیغ سرانجام دیتے رہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.ان کی اولاد اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق عطا کرے.آمین (۲) انڈیمان میں تبلیغ آپ کو انڈیمان میں اعلائے کلمتہ اللہ کا موقعہ یوں ملا کہ کیپٹن ڈگلس جزائر انڈیمان کے کمشنر مقرر ہوئے.انہوں نے ۱۹۱۵ء میں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کیا کہ گورنمنٹ سکول پورٹ بلیئر میں بطور ہیڈ ماسٹر کام کرنے کے لئے کسی مخلص قابل آدمی کو بھجوائیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب ماسٹر صاحب پر پڑی.چنانچہ ماسٹر صاحب نے ارشاد پر سر تسلیم خم کیا.ڈاکٹر نذیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ دو تین اگے پر دے والے منگوائے گئے.مدرسہ تعلیم الاسلام میں تعطیل کر دی گئی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، تمام مدرسین اور قادیان کے اکثر احباب بٹالہ کی طرف روانگی کے وقت ساتھ ساتھ تیز تیز چل رہے تھے اور ان کی معیت میں ماسٹر صاحب پیدل چل رہے تھے.نہر پر ان سب نے الوداع کیا.ایک عجیب جوش اور اخلاص سب کے چہروں پر نظر آتا تھا.پورٹ بلئیر میں آپ نے سکول کا چارج لیا.تبلیغ شروع ہوئی.مسجد میں آپ سے مباحثہ ہوا.مخالفت کا طوفان برپا ہوا.چند ہفتوں میں ہی اللہ تعالیٰ نے سعید روحوں کو قبول احمدیت کی توفیق عطا فرمائی.(*) کالا پانی سے خط :.آپ کے پہلے خط سے ہی آپ کے تبلیغی جذبہ کی شدت کا علم ہوتا ہے.چنانچہ مرقوم ہے: ناظرین کرام کو غالب یاد ہوگا کہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب نومسلم بی اے باجازت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جزیرہ پورٹ بلئیر میں ایک سکول کی ہیڈ ماسٹری کے لئے گئے ہیں.اصل میں ان کے وہاں بھیجنے کی غرض و غایت تبلیغ احمدیت ہے.چنانچہ انہوں نے اس فرض کو سرانجام دینا شروع کر دیا ہے.وہ اپنے تازہ خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہاں کسی قسم کا تہوار یا میلہ نہیں ہوتا.ہائی اسکول کے تقسیم انعامات کے موقع پر آزاد شدہ مجرم الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۱۵ء میں زیر مدينة الميسح مرقوم ہے کہ ماسٹر صاحب کو قریب دوصد روپیہ پر بیرون ہند ہیڈ ماسٹری کی اسامی ملی ہے.ہفتہ عشرہ تک روانگی ہوگی.

Page 87

88 80 دیہات سے آکر میلا کرتے ہیں، جو دسمبر کے بعد ہوتا ہے.اس دفعہ جناب مسٹر ڈگلس صاحب بہادر بالقابہ بذات خود سکول میں رونق افروز ہوئے.احمدی پبلک جناب صاحب موصوف کے نام نامی اور اسم گرامی سے بہت عرصہ سے واقف ہے.کیونکہ یہ وہی صاحب ہیں.جنھوں نے حضرت مسیح موعود کے اس مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا.جو ایک عیسائی مارٹن کلارک کی طرف سے نہایت سنگین دائر ہوا تھا.“ ماسٹر عبدالرحمن صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ عالی جناب کپتان ڈگلس صاحب جواب پورٹ بلئیر میں چیف کمشنر ہیں مجھے ملے اور اس بات کو معلوم کر کے کہ میں قادیان سے آیا ہوں.فرمانے لگے کہ ہم نے تمہارا ایک مقدمہ کیا تھا.ماسٹر صاحب نے جواب میں عرض کیا کہ ہاں حضور مجھے یاد ہے ، اس وقت میں وہیں تھا، اس پر انہوں نے فرمایا کہ اس مقدمہ کی جوں جوں تحقیقات کرائی جاتی تھی مرزا صاحب کے خلاف واقعات معلوم ہوتے جاتے تھے.تاہم میرا دل اس بات کے ماننے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا کہ مرزا صاحب ایسے جرم کے مرتکب ہو سکتے ہیں.نیز ان کا چہرہ دیکھ کر مجھے اور بھی پختہ خیال ہوتا تھا کہ یہ اس کے ارتکاب کرنے والے نہیں ہیں.“ ’ماسٹر صاحب نے عرض کی کہ حضور مقدمہ واقعی پیچیدہ اور سنگین تھا.مگر اس میں شک نہیں کہ آپ نے اپنی خدا دا قابلیت اور اعلی فراست سے وہ کام کیا جس کی وجہ سے آپ ایک تاریخی انسان بن گئے ہیں اور آپ نے عدل و انصاف کے باب میں وہ امتیاز حاصل کیا ہے کہ آئندہ نسلیں آپ کا نام نہایت عزت سے لیں گی.ماسٹر صاحب لکھتے ہیں کہ میں جوں جوں اس مقدمہ کا ذکر کرتا.آپ کا چہرہ نہایت خوش ہوتا جاتا تھا اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے تھا کیوں کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی نظیر بہت کم مل سکتی ہے.ماسٹر صاحب نے چار انگریز صاحبان کو بھی تبلیغ کی جس کا ان پر اچھا اثر ہوا.ان سے اثناء گفتگو میں یہ سوال کیا گیا کہ یسوع مسیح خدا ( کا ) بیٹا کس طرح ہو سکتا ہے.ماسٹر صاحب نے ایک مفصل تقریر کے ذریعہ انہیں سمجھایا کہ اگر مسیح خدا کا بیٹا تھا تو چاہیے تھا کہ جس طرح دنیا میں ہر ایک کے اختیار میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اپنے بیٹے کی تربیت اور قابلیت کے لئے صرف کر دیتا ہے اسی طرح خدا جو ہر ایک قسم کی مقدرت رکھتا ہے.یسوع مسیح میں کچھ طاقتیں رکھ دیتا جن کی وجہ سے دیگر انسانوں اور ان میں فرق ہو جاتا.لیکن یسوع مسیح کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی دوسرے انسانوں ایسے ہی قومی رکھتے ہیں.اس پر ایک صاحب بولے کہ یسوع مسیح ہمارے شفیع ہیں اور خدا کے پاس ہیں اور ہم ایمان اور محض ایمان کی وجہ سے انہیں خدا کا بیٹا مانتے ہیں.گو ہماری عقل کو وہاں تک رسائی نہ ہو.اس کے متعلق انہیں بتایا گیا کہ یوں ایمان تو بہت سے لوگ اور انسانوں کے خدا ہونے پر بھی رکھتے ہیں حتی کہ ایسے بھی لوگ ہیں جو بے جان چیزوں مثلاً پتھروں کو خدا قرار دیتے ہیں لیکن کیا ان کا ایمان آپ کے اور ہمارے نزدیک کسی کام کا ہے ہرگز نہیں کیونکہ ایمان کے لئے دلائل اور عقلی ثبوت کی

Page 88

81 بھی ضرورت ہے نہ کہ صرف سنی سنائی بات پر ایمان رکھنے سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے اہے.اس کے بعد انہیں حضرت مسیح کی کشمیر میں قبر کے متعلق بتایا گیا اور انجیل کی رو سے ان کا صلیب پر نہ مرنا ثابت کیا گیا جسے سن کر دو انگریز صاحبان بولے کہ اصل بات یہ ہے ہم نے مذہبی تعلیم با قاعدہ نہیں پائی.ماسٹر صاحب نے کہا کہ آپ لوگوں نے بائیبل کا حصہ عہد جدید سبقاً سبقاً پڑھا ہے.اس کے سوا آپ اور کیا تعلیم پانا چاہتے ہیں.اس کے بعد ماسٹر صاحب نے خدا تعالیٰ کے حی و قیوم اور زندہ خدا ہونے کے ثبوت میں ایک تقریر کی اور بتایا کہ دوائی وہی اچھی اور عمدہ ہوتی ہے جو انسان کے جسم اور روح کو مفید ہوا ور جو تجربہ سے ایسی ثابت ہو سکے.اسی طرح سچا مذ ہب و ہی ہو سکتا ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچا کر اس سے ہم کلام کرا دے نہ کہ صرف دعوی ہی دعوی کرے اس پر ایک انگریز صاحب بولے کہ کیا تم سے خدا بول سکتا ہے.ماسٹر صاحب نے کہا ہاں کیوں نہیں بول سکتا ؟ کیا اس زمانہ میں نسل انسانی آج سے ۱۹ سو سال پہلے کی نسبت بہت کم مہذب اور کم شائستہ ہے؟ اس نے پوچھا خدا آپ سے کس طرح بولتا ہے.اس کے متعلق ماسٹر صاحب نے اپنے چند ایسے واقعات سنائے جو انہیں بذریعہ رد یا قبل از وقت بتائے گئے تھے.مثلاً بی اے کے امتحان کی تیاری کے وقت جو حساب کے پرچہ کا پہلا سوال بتایا گیا تھا اور وہی امتحان کے پرچے میں پہلا نکلا.وہ سنایا.یہ سن کر وہ حیران سا رہ گیا اور سب آئندہ پھر ملنے کا وعدہ کر کے چلے گئے.(*) آپ کتاب ” میں مسلمان ہو گیا حصہ اول میں لکھتے ہیں کہ پورٹ بلیئر کی ملازمت کے دوران میں نکو بار بر میں میں نے ایک پادری سے گفتگو کے لئے خوشی سے ایک گھنٹہ وقت دیا.پادری نے کہا کہ خدا کا احسان ہے کہ اس نے ہماری نجات کے لئے اپنا اکلوتا بیٹا کفارہ میں دے دیا.میں نے کہا کہ سب سے پہلے آپ اس کا بیٹا ہونا ثابت کریں.کہنے لگے بائیبل میں لکھا ہے.میں نے کہا کہ فنا ہونے والی اشیاء مثلاً بکری ہولی ، وغیرہ کی نسل چلتی ہے جو جلد فنا نہیں ہوتی.مثلاً سورج وغیرہ ان کی نسل نہیں ہے.خدا کون سی قسم میں سے ہے اور اسے بیٹے کی کیا ضرورت ہے.پادری نے کہا کہ ہے تو غیر قانونی لیکن اس کے مصلوب ہونے سے عدل بھی قائم رہا اور گناہوں کی سزا بھی ہوگئی.میں نے کہا بے گناہ کو مارا اور گناہگاروں کو چھوڑ دیا.نہ عدل نہ رحم بحال رہا.یہ اندھیر نگری ہے اور ظلم ہے.اس نے کہا کہ کتاب مقدس میں لکھا ہے کہ کنواری نے بچہ جنا اور وہ خدا کا بیٹا ہے.میں نے کہا کہ اگر کتاب میں لکھا ہو کہ گدھے کے سر پر سینگ ہوتے ہیں تو کیا آپ تسلیم کر لیں گے.کیا مریم خدا کی بیوی تھی.کیا تو الفضل ۲۲ فروری ۱۹۱۶ء ( ص ۷ ) ۸ جنوری کے پرچے میں ص ۲ پر مذکورہ بالا چھٹی کے آنے پر اور آئندہ شائع کرنے کا ☆ ذکر مرقوم ہے.

Page 89

82 نکاح ہوا تھا؟ اور بیوی ہم جنس ہوتی ہے کیا مریم خدا کی جنس سے ہے پھر بیٹا باپ کی صفات کا حامل ہوتا ہے.خدا عالم الغیب ہے لیکن یہود اسکر یوطی کو جو بعد میں مرتد ہو گیا بہشت کی کنجیاں دینا اور انجیر کے پاس پھل کی خاطر جانا اور پھل نہ پا کر اس پر لعنت کرنا ظاہر کرتے ہیں وہ عالم الغیب نہ تھا.وہ چھوٹی زمین اور سورج ہی پیدا کرتا اگر خدا کا بیٹا ہے تو بیٹیاں وغیرہ اقارب بھی ہونے چاہیں.میرے پون در جن بچے ہیں لیکن کروڑوں سالوں میں خدا کا ایک ہی بیٹا ہوا.بیٹا صلیب پر مر سکتا ہے تو باپ بھی مر جائے گا.پادری صاحب نے کہا میں نے ایسی باتیں کبھی نہیں سنیں اور مبہوت ہو گئے.ایک اور انگریز نے کہا کہ پادری آپ کے مقابلہ میں بے علم اور بچہ معلوم ہوتا ہے گو سفید ریش اور ایم اے ہے.اسی طرح ایک پادری سے بحث ہوئی اور اس نے کہا کہ مسیح کی کیسی فیاضانہ تعلیم ہے کہ جو کچھ کوئی تم سے مانگے اس سے زیادہ دے دو میں نے کہا کہ یہ تو بالکل ناقص تعلیم ہے آپ مہربانی کر کے مجھے کوٹھی اور فلاں کوٹ وغیرہ دے دیں تو پادری نے کہا کہ آپ تو جنسی کرتے ہیں.میں نے بتایا کہ قرآن مجید کی تعلیم اس بارہ میں بالکل کامل ہے.جس میں بتایا ہے خدا کی راہ میں کیا خرچ کرو.کتنا خرچ کرو کتنا گھر رکھ کس کو دو کس کو نہ دو کس طرح دو دکھا کر یا چھپا کر وغیرہ وغیرہ اس پر پادری دم بخود ہو گیا اور دبی زبان سے قرآن مجید کی کاملیت کا اقرار کیا.تبلیغ کے ساتھ مخلصانہ دعائیں نتیجہ خیز ہوتی تھیں آپ بیان کرتے ہیں: پورٹ بلئیر کا واقعہ ہے کہ وہاں میرے جانے کے بعد ماسٹر محمد عبدالسبحان صاحب نے سب سے پہلے احمدیت قبول کی حکومت ہند نے فیصلہ کیا کہ کوہاٹ کے ماسٹر نور احمد وہاں سکول میں تھرڈ ماسٹر بنیں.ماسٹر محمد عبدالسبحان صاحب کو صدمہ ہوا کہ مجھے مقامی باشندہ ہونے کی وجہ سے تھر ڈماسٹر نہیں بنایا گیا بلکہ ہندوستان سے منگوایا جارہا ہے.میں نے ان کے لئے درد دل سے دعا کی اور انہیں بھی کہا کہ ہر روز بعد تہجد کم از کم ایک سو بار استغفار کیا کریں.دو تین روز اس پر عمل کرنے پر ان کو ایک فرشتہ نے کہا کہ حکومت ہند کا حکم منسوخ کرنے کے لیئے ایک سو بار استغفار کافی نہیں.اگر دوصد بار کرو تو منسوخ ہو جائے گا.میں نے رویا سن کر کہا کہ اب یہ کام ضرور آپ کے حق میں سرانجام پا جائے گا چنانچہ وہ دوصد بار استغفار کرتے رہے.دو تین ہفتے کے بعد ماسٹر نوراحمد صاحب کی طرف سے اطلاع آئی کہ میرے خانگی حالات تبدیل ہو گئے ہیں.اب میں پورٹ بلئیر نہیں آسکتا اس پر یہ رپورٹ کر دی گی کہ ماسٹر محمد عبدالسبحان صاحب قابل اور محنتی ہیں.انہیں تھرڈ ماسٹر بنایا جائے.چنانچہ کمشنر کیپٹن ڈگلس کی منظوری سے وہ اس آسامی پر متعین ہو گئے اور آج تک صحیح و سلامت موجود ہیں اور ربوہ چندہ بھجواتے رہتے ہیں.(2) وہاں ماسٹر عبدالرحمن صاحب کیپٹن ڈگلس اور انگریز پادریوں کو تبلیغ کرتے رہتے تھے چنانچہ موصوف نے ی تفصیل بالفاظ دیگر ۱۹۴۹ء میں استغفار کی تلقین کرتے ہوئے سردار بشیر احمد صاحب کے نام مکتوب میں بھی آپ نے رقم فرمائی ہے.

Page 90

83 86 انگلستان میں وہاں کے مبلغ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی سے ذکر کیا کہ آپ کی جماعت کا ایک مذہبی دیوانہ ماسٹر عبدالرحمن پورٹ بلئیر میں میرے پاس تھا.ماسٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ پورٹ بلئیر کے انگریزی سکول میں جو طالب علم اول آئے اسے حکومت تکمیل تعلیم کے لئے نو صد روپے دیتی تھی.ان ایام میں بسرام اور درگا پر شاد دو طالب علم وظیفہ حاصل کرنے کے امیدوار تھے.امتحان برما یونیورسٹی کی معرفت ہوتا تھا.نتیجہ نکلا.درگا پر شاد جو گرانڈیل نو جوان تھا اول آیا اور بسرام جو ہماری کتب کا مطالعہ کرتا تھا دوم آیا.ٹیچرز کی مجلس میں نتیجہ سنایا گیا تو ماسٹر رنجیت سنگھ نے کہا کہ بسرام جو آپ کا ہم خیال اور مائل بہ اسلام ہے دوم آیا ہے ایسی دعا کریں کہ اول دوم بن جائے اور دوم اول بن جائے.بظاہر یہ ناممکن تھا ماسٹر مذکور نے پھر کہا کہ چونکہ آپ کہتے ہیں کہ ہم کرشن اوتار قادیانی کے چیلے ہیں اور ہماری دعا ضرور سنی جاتی ہے اس لئے اس بارہ میں دعا کریں چونکہ اس نے علانیہ یہ امر مجلس میں دہرایا تو میں نے بھی دعا کا وعدہ کر لیا چنانچہ میں نے ایک پہاڑی پر دست بدعا ہو کر بارگاہ الہی میں عرض کی کہ یا الہی ! تو میرے واسطے یہ پہاڑ کوہ طور بنادے.چنانچہ اسی رات مجھے خواب میں ایک بورڈ پر لکھا ہوا دکھایا گیاBisram provident مجھے تفہیم ہوئی کہ اب آسمان پر طے ہو گیا ہے کہ بسرام اول کر دیا جائے گا اور درگا پرشاد دوم ہو جائے گا.چنانچہ میں نے یہ خواب ٹیچرز کی مجلس میں بیان کر دی اور کہا کہ تم لوگوں نے ظلم کیا کہ اول کو دوم اور دوم کو اول کرا دیا بعض نے کہا جب سے سکول قائم ہوا ہے ایسا کبھی وقوع میں نہیں آیا.درگا پر شاد وظیفہ لے کر کلکتہ کے ایک ہائی اسکول میں داخل ہو گیا.لوگوں نے مہینہ بھر مجھے ہنسی محول کیا میں یہی جواب دیتا رہا کہ آسمان پر عمل درآمد ہو گیا ہے زمین پر عمل درآمد بعد میں ہوتا ہے.خدا کا کرنا کیا ہوا کہ درگا پرشاد کو ایسی مرض دامنگیر ہوگئی کہ اس نے درخواست بھیجی کہ میری ہڈیاں مادر وطن پورٹ بلئیر پہنچاؤ.چنانچہ وہ واپس آکر مل بھی ہوا کہ مریض ہونے کی وجہ سے میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں اس پر میں نے رپورٹ کی کہ لالہ بسرام کو جو دوم نمبر پر کامیاب ہوا تھا بنگال میں تعلیم نہ دلائی جائے بلکہ اسے کرشن اوتار کی سرزمین پنجاب میں تعلیم دلائی جائے.چنانچہ میں نے اسے ماڈل سکول لاہور میں تعلیم دلائی.اس دوران میں درگا پرشاد کا معمر باپ جنگل کے میوہ جات لایا اور درخواست کی کہ دعا کروں کہ درگا پر شاد فوت ہونے سے بچ جائے.چنانچہ میں نے اس کے لئے دعا کی وہ موت سے بچ گیا اور اسے ملازمت مل گئی.گذشتہ سال اس کا خط آیا کہ اب میں بمشاہرہ چار صد آٹھ روپے بطور فارسٹر متعین ہوں.اس کا معمر باپ ۱۰۲ سال کی عمر میں تقسیم ملک کے بعد فوت ہوا ہے ( قلمی مسودہ) تبلیغ اور قبولیت دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جزائر انڈیمان میں پہلے قریباً ڈیڑھ درجن اور

Page 91

84 کچھ عرصہ بعد اڑھائی درجن افراد پر مشتمل جماعت بن گئی تھی.مثلاً ماسٹر عبدالسبحان صاحب جو مقامی باشندہ ہیں.ماسٹر غلام جیلانی صاحب ہیڈ ماسٹر ( یہ امرتسر کے تھے ٹریننگ لینے کے لئے لاہور ۴ سال کے لئے آئے تھے اور ان کی جگہ حضرت ماسٹر صاحب کا تقرر ہوا تھا ) اور ڈاکٹر محمد خاں صاحب مع خاندان ڈاکٹر صاحب مدراس کے باشندے تھے.(۳) لنکا میں تبلیغ:- ایک دفعہ جب کہ سیدنا حضرت خلیفہ ایحا ضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز کشمیرمیں قیام فرما تھے آپ نے حکم بھیجا کہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب کو تبلیغ کے لئے لنکا بھیجا جائے چنانچہ تعمیل ارشاد میں آپ بمبئی اور مدراس سے ہوتے ہوئے لنکا پہنچے اور وہاں کولمبو کانڈی وغیرہ دور دور کے شہروں کے لیکچر ہالوں میں لیکچر دئے اور لارڈ بشپوں اور بدھوں کو چیلنج دیا گیا اور مباحثہ ہوا اخباروں میں ذکر آکر خوب تبلیغ ہوئی انداز النکا کے تہیں ہزار افراد کو تبلیغ ہوئی.آپ غالباً ۱۹۲۰ ء اور ۱۹۲۱ء میں وہاں تشریف لے گئے تھے وہاں کے اخبارات دستیاب ہوئے ہیں جن میں آپ کے لیکچر انگریزی میں ہونے کے متعلق اعلان اور مبسوط مضامین اسلام عیسائیت اور بدھ ازم اور حیات بعد الموت کے متعلق درج ہیں.یہ مضامین امید ہے کتابی شکل میں طبع ہو جائیں گے.(۴) مولوی ثناء اللہ صاحب سے گفتگو : مولوی صاحب مولوی فاضل تھے اور مباحثات میں ید طولیٰ رکھتے تھے.اعجاز احمدی میں حضرت اقدس نے انہیں تحقیق حق کی دعوت دی تھی لیکن وہ جنوری ۱۹۰۳ء میں بحث کے ارادے سے آئے اس موقعہ پر ماسٹر صاحب نے بھی ان سے گفتگو کی.سوال وجواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولوی صاحب آپ کے سوالات سے تنگ پڑ گئے اور براہ راست جواب دینے سے کتراتے تھے.ماسٹر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ : دو برس کا عرصہ ہوا کہ ایک...امرتسری مولوی صاحب قادیان آئے تھے اور کہتے تھے کہ میں حق و باطل میں فیصلہ کرنے کی غرض سے آیا ہوں میں نے عرض کی کہ آپ کس طرح حق و باطل میں مرزا صاحب سے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.“ مولوی صاحب! ہم جو کچھ کریں گے دیکھ لینا.خاکسار ! آپ کو حق و باطل میں جو فیصلہ کرنا یا کرانا ہے مہربانی سے ہمیں بھی کچھ بتلا دیں.ورنہ میں ایک آسان تر فیصلہ کی اقرب راہ پیش کرتا ہوں.مولوی صاحب! آپ ہی کہیں.خاکسار.مولانا ! آپ کو حق و باطل میں تصفیہ کے لئے قادیان آنے کی چنداں ضرورت نہ تھی وہیں

Page 92

85 امرتسر میں ہی بیٹھے بٹھائے فیصلہ ہو سکتا تھا اور کسی کو ایسے فیصلے میں انگشت نمائی کی گنجائش بھی نہ رہتی.اور وہ راہ فیصلہ کی یہ ہے کہ جو مولوی غلام دستگیر قصوری نے اختیار کی.پس آپ مولوی غلام دستگیر کی طرح چند سطور اشتہار میں وہی دعا شائع کر دیتے جولیکھر ام اور اسی طرح مولوی محی الدین اور چند مخالفوں نے شائع کی اور اس کا نتیجہ اسی جہان میں دیکھ لیا اور آپ بھی خدا تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار ( کرتے ) اور اس کے نتیجہ کا انجام دیکھتے یا قبولیت دعا اور قرآنی حقائق و معارف میں مقابلہ کرتے جو صلحاء اور اولیاء اللہ کی شناخت کا معیار ہے تا کہ دینی علم اور قرآن کے حقائق و معارف کا موازنہ ہو جاتا اور قبولیت دعا اور تائید الہی جو صرف راست باز فریق کے شامل حال ہوا کرتی ہے حق و باطل میں صاف فیصلہ کر دیتی.پس جب میں نے مولوی صاحب کو مولوی غلام دستگیر صاحب وغیرہ کے فیصلے اور دعا کی طرف توجہ دلائی (تو) مولوی صاحب ایسے خاموش اور گم ہوئے کہ گویا آپ قادیان یا دنیا ہی میں نہیں آئے.بعد ازاں میں نے تمام حاضرین جلسہ کی خدمت میں عرض کی کہ آپ سب صاحب فرمائیں کہ اب میں کس شخص کو ملعون اور کا ذب سمجھوں اور کس کو مقبول اور محبوب الہی قرار دوں کیونکہ ایک طرف تو مرزا صاحب ہیں جن کی دعا ئیں صد ہا ہزار ہا لکھوکھا مقامات پر قبول ہو کر تیر بہدف ثابت ہوئیں اور اس وقت امرتسری مولوی صاحب آپ کے روبرو اس ربانی فیصلے کا نام سن کر چپ اور دم بخود رہ گئے ہیں اور دوسری طرف میں ایسے لوگوں کو پاتا ہوں کہ وہ زبانی مباحثات اور تو تو میں میں کا بہانے کر کے شور و غوغا کے نامعقول ذریعہ سے ناجائز فتح ونصرت کے خواہاں ہیں اگر کہا جاوے کہ تم بہر حال مرزا صاحب کی نسبت اپنے تئیں زیادہ نیک اور پاک طینت یقین کرتے ہو پھر قبولیت دعا اور تائید الہی میں مقابلہ کرنے سے کیوں گریز کی جاتی ہے.بس اے حاضرین جلسہ آپ سب صاحب گواہ رہیں اگر خدانخواستہ بوجہ بیعت....حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب.....مجھے حشر کے روز جہنم کی طرف لے جائیں تو میں امرتسری مولوی صاحب کا دامن پکڑ لوں گا.ان کے گلے میں دوپٹہ ڈال کر دہائی دوں گا کہ الہ العلمین ! میرا کیا قصور ہے.پہلے ان کو پکڑ کہ ان لوگوں نے خوب سمجھ لیا ہے کہ مرزا صاحب خدا کے مقبول و محبوب بندہ ہیں اور بوجہ مامور من اللہ ہونے کے ہر ایک میدان و مکان میں ان کی فتح ہوتی ہے اور ان کی دعائیں مقبول اور مستجاب ہوتی ہیں اور ان کے مخالفوں کے منہ کالے ہو جاتے ہیں مگر پھر بھی دیدہ دانستہ آسمانی فیصلے سے کترا کر بحث و مباحثہ میں پبلک کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور لاکھوں کو گمراہ و بے دین کیا.مرزا صاحب نے تو انجام آتھم میں لکھا تھا کہ اگر ہزار مخالف بھی مجھ سے مباہلہ کریں تو تمام ہلاکت و نامرادی کے گڑھے میں پڑیں گے.اس کے بعد کیا ہر ایک کو حق پہنچتا ہے کہ ان کو کاذب سمجھے.کیا ان کو خدا پر بھروسہ اور امید نہیں رہی؟ کیا مفتری ایسے زبر دست دعوے کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.حالانکہ مرزا صاحب کی عمر ستر سال کے قریب ہے اور مخالفین علی العموم جوان اور مضبوط اور توانا اور

Page 93

86 عمدہ صحت کے ہیں.مولوی صاحب دھیمی اور دبی آواز سے بولے کہ امرتسر میں تین روز ہمارے پاس ٹھہریں تو ساری بات سمجھا دیں گے.خاکسار.کیا یہ مسنون طریق ہے کہ اکیلے اور تنہا کو تبلیغ کی جاوے یا کوئی راز کی بات ہے.آنحضرت یہ تو علی الاعلان اور گلی کوچوں بازاروں میں بھی تبلیغ کیا کرتے تھے.آپ براہ مہربانی یہیں سمجھا دیں باقی پھر دیکھا جاوے گا.مولوی صاحب ! تم آنحضرت ﷺ کا نام کیوں لیتے ہو؟ خاکسار! اسوۂ حسنہ کے طور پر ان کا نام نہ پیش کروں تو کیا کم بخت فرعون کا نام لوں اور اس کا طریق بد پیش کروں؟ بہتر ہے کہ آپ حاضرین کو بھی فائدہ پہنچا وہیں.مگر مولوی صاحب کی نیت بخیر نہ تھی اور (وہ) اسی طرح ٹال مٹول کرتے رہے.لیکن میں ایسی باتوں پر کب اطمینان حاصل کر سکتا تھا.پھر میں نے عرض کیا کہ مولوی صاحب ! دیکھو! میں نے اپنے خویش واعزہ واقر با سے صرف حق کی خاطر علیحدگی اختیار کی ہے اور بہت کچھ نقصان اٹھایا.آپ اللہ مجھ پر رحم کریں.آپ مولوی غلام دستگیر کی طرح چند سطور لکھ کر شائع کر دیں یا آنحضرت علی کی طرح مباہلہ کریں جیسا کہ ابو جہل نے جنگِ بدر میں کیا تھا اور اس کی بددعا غلام دستگیر کی طرح اسی پر الٹ پڑی تھی.مولوی صاحب! جھنجھلا کر! اجی تم پھر آنحضرت کا نام لیتے ہو.خاکسار ! آپ فرمائیے کہ نمرود و ہامان کا نام لوں اور ان کا طریق پیش کروں؟ آپ آنحضرت علی کے نام سے کیوں دق ہوتے ہیں.مولوی صاحب! اس میں کیا ستر ہے؟ جس صورت میں ابو جہل صادق کی بددعا اور مباہلہ سے داخل جہنم ہوگیا ، اسی طرح اب بھی جھوٹا اور کاذب اپنی پاداش کو پہنچ جاوے گا.آپ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کریں وہ اندھا دھند فیصلہ نہیں کرتا.اگر دراصل کچھ دال میں کالا ہے یا کوئی اندرونی میل مقابلہ کے لئے جرات نہیں دکھلا تا تب بھی بر ملا اس سے پبلک کو اطلاع دیں خواہ مخواہ فتنہ پردازی سے پبلک کو دھوکا نہ دیں.(۵) ایک آریہ سے بحث:.ایک آریہ سے بحث کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں کہ : (76) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آریوں کے مجمع میں ایک طوطا چشم پنڈت نے مجھ پر یہ سوال کیا تھا کہ تم خدا کو قادر مطلق مانتے ہو...کیا وہ اپنا شریک یا بھائی بہن پیدا کر سکتا ہے یا فلاں فعل کا ارتکاب کر سکتا ہے مجھے اس کے چہرہ سے معلوم ہو گیا کہ اس کا ارادہ بد ہے اور مجھے اس مجمع میں ذلیل کرنا چاہتا ہے تو میں نے چاہا کہ ایسا صاف اور

Page 94

87 صریح جواب چاہیے جس سے عوام کو فائدہ ہو جاوے اور اس بد بخت کو اپنی گستاخی کی سزا بھی ساتھ ہی ہو جاوے.میں نے اسے جواب میں کہا کہ کیا آپ جیسا کوئی جوان اور نیک پنڈت اپنی بہن سے ہم بستر ہو سکتا ہے.یا کم از کم ڈیڑھ سیر پختہ نجاست کھا سکتا ہے یا نہیں اس پر وہ بہت تلملایا.میں نے کہا کہ بے شک پنڈت صاحب ہر دو کاموں پر قادر مطلق ہیں یعنی نامرد نہیں ہیں کہ نیوگ نہ کر سکیں اور ڈیڑھ سیر نجاست کی گنجائش لمبے چوڑے پیٹ میں نہ ہو.پھر کیوں اور کس طرح کہا جاوے کہ ایسا جسیم پنڈت ان باتوں پر قادر مطلق نہیں.پس جس طرح پنڈت صاحب کی شان سے یہ حماقت بعید از قیاس ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ جو تمام صفات کا ملہ سے موصوف اور تمام M عیوب سے منزہ اور بالا تر ہے اس لئے وہ ان افعال کی طرف رجوع نہیں کرتا جو اس کی صفات کا ملہ سے منافی اور (77) مخالف پڑے ہوئے ہیں (۶) قادیان کے آریوں پر اتمام حجت : قادیان کے آریوں سے بھی آپ نبرد آزما رہتے تھے ”میں مسلمان ہو گیا“ کی تالیف کے دوران میں آپ نے لالہ شرمیت جی کو جا پکڑا اور ان کو بتایا کہ حضرت مرزا صاحب ہر مقابلہ میں مظفر ومنصور ہوئے ہیں.مثلاً حضرت مرزا صاحب صاحب اولا دو دولت ہونے کے علاوہ لاکھوں کے سردار ہیں مگر لیکھر ام کے گھر میں اُتو بول رہا ہے اگر آپ ان کو درست نہیں سمجھتے تو مرزا صاحب نے آپ کو اپنی پیشگوئیوں کے گواہ ٹھہرایا ہے اور تریاق القلوب میں لکھا ہے کہ اگر لالہ شرمیت قسمیہ بیان شائع کریں کہ میں قادر کرتارکو حاضر و ناظر جان کر مشتہر کرتا ہوں کہ مرزا صاحب نے جن پیشگوئیوں کے پورا ہونے کی شہادت میں میرا نام لکھا ہے وہ محض جھوٹ ہے.اگر میں حق پر نہیں تو اس جھوٹ کا وبال میرے پر اور میری آل اولاد پر پڑے.آپ کی کامیابی حقانیت اسلام کو رڈ کرے گی.لیکن نہ لالہ شرمیت اور نہ لالہ ملا وامل ایسی تحریر لکھنے پر آمادہ ہوئے.(78) ماسٹر صاحب بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی.بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی.شیخ غلام احمد صاحب ( واعظ ) اور سردار فضل حق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجمعین وغیر ہم نومسلموں کی طرف سے ۱۹۰۳ء میں ایک اشتہار بعنوان ” قادیان اور آریہ سماج“ شائع کیا گیا تھا.اس بارے میں ۲۱ جنوری ۱۹۰۳ء قبل از عشاء کے متعلق البدر کی ڈائری میں مرقوم ہے.حضرت اقدس نے حسب دستور نماز مغرب ادا فرما کر مجلس فرمائی.ماسٹر عبدالرحمن صاحب نومسلم نے ایک مضمون ایک اشتہار کا حضرت اقدس کو پڑھ کر سنایا جو کہ ان تمام نو مسلموں کی طرف سے جو کہ حضرت اقدس کے دست مبارک پر مشرف بااسلام ہوئے ہندو اور آریہ کے سر بر آوردہ ممبروں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے.اس میں انہوں نے استدعا کی ہے کہ اگر ان کے نزدیک یہ نومسلم جماعت مذہب اسلام کے قبول کرنے میں غلطی پر ہے

Page 95

88 تو وہ ان کے پیش کردہ معیار صداقت ( جو کہ حضرت اقدس کے مضامین مباہلہ ومقابلہ سے اخذ شدہ ہیں) کی روسے حضرت مرزا صاحب سے فیصلہ کر کے ان کا غلطی پر ہونا ثابت کر دیویں.حضرت اقدس نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور کہا کہ مذہب کی غرض یہی نہیں ہے کہ صرف آئندہ جہان میں خدا سے فائدہ حاصل ہو بلکہ اس موجودہ جہاں میں بھی خدا سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے، ان لوگوں کے صرف دعوے ہی دعوے ہیں.کوئی کام تو کل اور تقویٰ کا ان سے ثابت نہیں ہوتا.مصیبت پڑے تو ہر ایک نا جائز کام کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں.(79) اس اشتہار کے مضمون کی قدرے تفصیل درج کی جاتی ہے اس میں لکھا گیا تھا کہ ہم نے بعد تحقیق اسلام کو سچا پایا اور اسے قبول کر کے پیارے والدین اور دنیوی فوائد کو خیر باد کہا.اگر ہم غلطی پر ہیں تو آریہ سماج کے بڑے پنڈتوں اور پر چارکوں سے استدعا ہے کہ وہ ہمیں اس سے آگاہ کریں.ہمارے نزدیک اسلام میں جو فضائل ہیں دیگر مذاہب اس سے بے بہرہ ہیں مثلاً اول.مسلمانوں میں ہمیشہ ایسے افراد مدعی رہے کہ مقابلتا اللہ تعالیٰ ان کی دعا سنتا اور دوسروں کی رو کرتا ہے اور اب بھی حضرت مرزا صاحب کا یہی دعویٰ ہے کہ بے شک کئی سو مریض لے کر بذریعہ قرعہ مجھ میں اور میرے مخالفوں میں تقسیم کر دئے جائیں.میرے حصہ کے مریض دوسروں کی نسبت زیادہ تعداد میں شفایاب ہوں گے.خواہ مخالفوں کو ڈاکٹر بھی امداد دیں.دوم.اگر کوئی مخالف آریہ (خواہ ایک ہوں یا زیادہ ) ایسا اشتہار شائع کرے کہ میں مرزا صاحب کے شایع کردہ تمام دلائل بابت صداقت اسلام بغور پڑھ کر یہ اعلان کرتا ہوں (معاذ اللہ ) اسلام سچا دھرم نہیں اور نہ ہی مرزا صاحب سے پر میشر ہم کلام ہوتا ہے اور نہ وہ اس کی طرف سے مبعوث ہوئے ہیں میں دعا کرتا ہوں کہ اے پر میشر ہم دونوں میں سے جس کا مذہب جھوٹا ہے.اس پاپی کو بچے انسان سے پہلے ہلاک کرتا کہ حق و باطل میں واضح فیصلہ ہو جائے.حضرت مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ایسا شخص آسمانی بلا سے تباہ ہو گا ورنہ مجھے کا ذب سمجھا جائے.یہ شرط ہو گی کہ ایسے آریہ سماجی کو پنجاب کے نامی آریہ سماجی اپنا قائم مقام قرار دیں اور لکھ دیں کہ اس کا جھوٹا یا سچا ہونا ہمارا اور ہمارے مذہب کا صادق و کاذب ہونا تسلیم ہوگا.سوم.لاہور میں ایک جلسے میں آریہ قوم کے لیڈر اپنے مذہب کی خوبیاں ویدوں سے بیان کریں اور مرزا صاحب اسلام کی خوبیاں قرآن شریف سے بیان کریں.ایک دوسرے کے مذہب پر حملہ نہ ہو پھر جو غالب رہے اسی کا مذہب اختیار کیا جائے.امید ہے کہ والیان ریاست بھی امداد کریں گے اور ان لوگوں کا مقابلہ دیکھیں گے جو ان سے ہزار ہاروپیہ وصول کرتے ہیں ایسا موقع کھو دینا نمک حرامی کا مترادف ہوگا.

Page 96

89 ایک سماج میں اس بارے میں قرار پایا کہ حضرت مرزا صاحب اسلام کی خوبیاں بیان کرنے میں سب پر فوقیت لے جائیں گے اور دسمبر ۱۸۹۶ء کے جلسہ (دھرم مہوتسو ) کا سماں پھر عود کر آئے گا.ان کے وعظ نے جلسے کے ممبروں پر ایک عجیب ساحرانہ اثر پیدا کیا تھا.یہاں تک کہ سب سامعین نے ان کی داد دی اور کسی نے ایک سو روپیہ انعام بھی دیا تھا اور لاہور کے ایک انگریزی اخبار نے بھی ان کے مضمون کی مدح سرائی کی اب پھر موقع دینا سماج اور ویدک دھرم کی عمارت کو اپنے ہاتھوں گرانے کے مترادف ہے.ایسی تجویز کی جائے کہ بات بھی بنی رہے اور مرزا صاحب سبقت بھی نہ لے جائیں سو ایک نے تجویز پیش کی کہ اشتہار کا یہ جواب دیں کہ آریہ سماج مباحثے کے لئے نقارے کی چوٹ تیار ہے.مرزا صاحب زبانی مباحثے پر رضا مند نہ ہوں گے.اگر ہوئے بھی تو زبانی مباحثے کا اتنا برا اثر نہ پڑے گا.ایک نو آریہ نے پہلے دو معیاروں کے مطابق مقابلہ کرنے پر آمادہ کرنا چاہا تو اسے کہا گیا کہ اگر اتفاق مرزا صاحب کے حصے کے مریض شفایاب ہو گئے تو سماج کی روسیا ہی ہو گی.تم ناواقف ہو ،اس پر نو آریہ سماج سے علیحدہ ہو گیا.اس پر بھی بحث ہوئی کہ کوئی سرکردہ آریہ لیکھرام کی طرح مباہلہ کرے.لیکن اس پر بھی انشراح نہ ہوا یہی طے ہوا کہ مباحثہ بلکہ زبانی مباحثے کی طرف مرزا صاحب کو بڑے زور شور سے بلایا جائے تا کہ پہلے دو معیاروں کا ذکر تک نہ آئے".) (80) ماسٹر صاحب کا اس بارہ میں بیان ہے کہ ۱۹۰۳ء کے قریب میں نے چند نو مسلموں کی طرف سے دستخط کروا کر ایک اشتہار شائع کیا جس کا عنوان قادیان اور آریہ سماج تھا.اس اشتہار سے پنجاب میں شور پڑ گیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا الْحَرْبُ مُهَيَّجَةٌ “ یعنی جنگ کو جوش دیا گیا ہے.اس پر قادیان کے آریوں نے بھی جلسہ کیا.اس کے جواب میں حضرت صاحب نے اپنی کتاب «نسیم دعوت تالیف فرمائی.(81) ۸ فروری ۱۹۰۳ء کو الہام ہوا الْحَرُبُ مُهَيَّجَةٌ ، (82) ہوا تھا.البدر ۱۳ فروری ۱۹۰۳ء میں مرقوم ہے.( ترجمہ ) " جوش سے بھری ہوئی لڑائی (حضرت اقدس نے ) فرمایا کہ اس کا اشارہ یا تو مقدمہ کی شاخوں کی طرف معلوم ہوتا ہے یا آریہ سماج کو جو اشتہار نومسلموں نے دیا ہے اس سے جوش میں آکر وہ لوگ کچھ گندی گالیاں وغیرہ دیویں چنانچہ شام کو ایک اشتہار آریوں کی طرف سے نکل آیا جس میں ایسے گندے الفاظ تھے.“

Page 97

90 حافظ ابراہیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : حضور سیر کو جارہے تھے، اس وقت آپ نے فرمایا کہ مجھے آج الہام ہوا ہے." الْحَرَبُ مُهَيَّجَةٌ ) جس کے معنی ہیں کہ لڑائی کے لئے تیاری کرو.حضور جب سیر سے واپس تشریف لائے اور بعد میں ظہر کی نماز کے لئے آئے تو اس وقت آپ کے ہاتھ میں اشتہار تھا آپ نے فرمایا کہ یہ اشتہار بھی آریوں کی طرف سے آیا ہے جس میں بہت گالیاں لکھی ہوئی ہیں اور اس میں یہ بات بھی لکھی ہوئی تھی کہ اگر ہم سے مناظرہ و مباحثہ نہ کرو گے تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارا مذہب جھوٹا ہے اور تمہارے پاس کوئی سچائی نہیں ہے.اکثر دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ حضور صبح کو کوئی الہام سناتے تھے اور معاً اس کا ظہور ہو جاتا تھا.(83) نومسلموں کے اشتہار کے جواب میں جو اشتہار آریہ سماج کی طرف سے شائع ہوا وہ حضور کی معرکتہ الآرا کتاب و نیم دعوت (مطبوعہ ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء) کی تالیف کا باعث بنا.حضور تحریر فرماتے ہیں: آج آریہ سماج قادیان کی طرف سے میری نظر سے ایک اشتہار گزرا جس پر سات فروری ۱۹۰۳ء تاریخ لکھی ہے جس کا عنوان ہے " کا دیانی پوپ کے چیلوں کی ایک ڈینگ کا جواب‘ اس اشتہار میں ہمارے سید و مولی جناب رسول اللہ ﷺ کی نسبت اور میری نسبت اور میرے معزز احباب جماعت کی نسبت اس قدر سخت الفاظ اور گالیاں استعمال کی ہیں کہ بظاہر یہی دل چاہتا تھا کہ ایسے لوگوں کو مخاطب نہ کیا جاوے.مگر خدا تعالیٰ نے اپنی وحی خاص سے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اس تحریر کا جواب لکھ اور میں جواب دینے میں تیرے ساتھ ہوں..سو میں اپنے خدا سے قوت پا کر اٹھا اور اس کی روح کی تائید سے میں نے اس رسالہ کو لکھا..مگر اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحنا کہتا ہوں کہ جو کچھ اس اشتہار کے لکھنے والوں اور ان کی جماعت نے محض دل دکھانے اور تو ہین کی نیست سے ہمارے نبی کریم علیہ کی نسبت اعتراضات کے پیرایہ میں سخت الفاظ لکھے ہیں یا میری نسبت مال خور اور ٹھگ اور کاذب اور نمک حرام کے لفظ کو استعمال میں لائے ہیں.یا جو خود میری جماعت کی نسبت سئو راور کتے اور مردار خور اور گدھے اور بندر وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور ملیچھ ان کا نام رکھا ہے.ان تمام دکھ دینے والے الفاظ پر وہ صبر کریں اور میں اس جوش اور اشتعال طبع کو خوب جانتا ہوں کہ جو انسان کو اس حالت میں پیدا ہوتا ہے کہ جب کہ نہ صرف اس کو گالیاں دی جاتی ہیں بلکہ اس کے رسول اور پیشوا اور امام کو تو ہین اور تحقیر کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اور سخت اور غضب پیدا کرنے والے الفاظ سنائے جاتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب سے سہو ہوا ہے.کیونکہ کا پی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو حضور کے اپنے دست مبارک سے لکھی ہوئی ہے.اس میں اس الہام کی تاریخ ۸ فروری ۱۹۰۳ء ہے اور بدر۱۳ فروری ۱۹۰۳ء میں یہ الہام ۹ فروری ۱۹۰۳ ء کے تحت درج ہے.( تذکرہ جدید ایڈیشن ص۳۸۰) تاہم یہ ممکن ہے کہ حضور علیہ السلام کو یہ الہام دوبارہ ہوا ہو.حضرت حافظ صاحب کا بیان کردہ ترجمہ بھی درست نہیں.

Page 98

91 سو خبر دار ہو نفسانیت تم پر غالب نہ آوے.ہر ایک سختی کی برداشت کرو.ہر ایک گالی کا نرمی سے جواب دو تا آسمان پر تمہارے لئے اجر لکھا جاوے...اگر تم روح القدس کی تعلیم سے بولنا چاہتے ہو تو تمام نفسانی جوش اور نفسانی غضب اپنے اندر سے باہر نکال دو.تب پاک معرفت کے بھید تمہارے ہونٹوں پر جاری ہوں گے اور آسمان پر تم دنیا کے لئے ایک مفید چیز سمجھے جاؤ گے اور تمہاری عمریں بڑھائی جائیں گی...سفلہ پن اور او باش پن کا تمہارے کلام میں کچھ رنگ نہ ہوتا حکمت کا چشمہ تم پر کھلے، (*) حضور نے اس کتاب میں نومسلموں کا بار بار ذکر فرمایا ہے.ان فقرات کو مناسب حال سمجھ کر یہاں درج کیا جاتا ہے حضور فرماتے ہیں: اب ہم آریہ صاحبوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہیں جو انہوں نے اپنے اشتہار میں ہماری جماعت کے نو مسلم آریوں پر کیا ہے اور وہ یہ کہ یہ مسلمان ہونا ان کا تب صحیح ہوتا کہ اول وہ چاروں وید پڑھ لیتے اور پھر ویدوں کے پڑھنے کے بعد چاہئے تھا کہ وہ آریہ دھرم کا اسلام سے مقابلہ کرتے اور پھر اس قدر تحقیق وتفتیش کے بعد اگر اسلام کو حق دیکھتے تو مسلمان ہو جاتے.سو واضح ہو کہ ہمارے نومسلم آر یہ جہاں تک حق تحقیق کا ہے سب کچھ ادا کر کے مشرف باسلام ہوئے ہیں...افسوس کہ انہوں نے اعتراض کرتے وقت انصاف اور خداترسی سے کام نہیں لیا.بھلا اگر انہوں نے سچائی کی پابندی سے یہ اعتراض پیش کیا ہے تو ہمیں بتلادیں کہ ان میں سے وہ تمام لوگ رام رام کرنے والے جو سناتن دھرم پر قائم تھے اور پھر چند سال سے وہ آریہ بنے.انہوں نے کس پنڈت سے وید پڑھا ہے....بہر حال جو اعتراض ان آریہ صاحبوں نے نو مسلم ہندوؤں پر کیا ہے وہی اعتراض ان پر بھی ہوتا ہے.پس اگر قادیان کے آریہ سماجیوں نے نو مسلم آریوں پر اعتراض کرنے کے وقت جھوٹ اور حق پوشی سے کام نہیں لیا تو ہمیں دکھلاویں کہ ان کی جماعت آریوں میں سے کتنے وہ لوگ ہیں جن کو....وید سب کنٹھ ہیں.یہ کس کو معلوم نہیں کہ یہ تمام مجمع قادیان کے آریوں کا ایک بازاری دوکان نشینوں کا مجمع ہے...ان میں سے ایک بھی دید دان نہیں.پس کیا ان لوگوں کے مقابل پر وہ شریف نو مسلم آریہ جاہل کہلا سکتے ہیں.جو بعض ☆ ص۳ تا ۶.حضور آگے تحریر فرماتے ہیں: اس جگہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ قادیان کے آریوں کا یہ حملہ جو میرے پر کیا گیا ہے یہ ایک نا گہانی ہے.ان دنوں میں کوئی تحریر میری طرف سے شائع نہیں ہوئی اور نہ میرے قلم سے اور نہ میری تعلیم سے اور نہ میری تحریک سے کسی نے کوئی اشتہار شائع کیا.پس خواہ نخواہ مجھے نشانہ بنانا اور مجھے گالیاں دینا.اور میرے سید و مولیٰ جناب محمد مصطفی ﷺ کی نسبت توہین و تحقیر کے الفاظ لکھنا اور اس طرح پر مجھے دوہرے طور پر دکھ دینا میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس قدر نفسانی جوش کیوں دکھلایا گیا.“ (ص۶) اس سے ظاہر ہے کہ نومسلموں کا اشتہار حضور کے علم اور تحریک کے بغیر شائع ہوا تھا گویا شائع کرنے کے بعد حضور کے علم میں لایا گیا.

Page 99

92 ان کے بی اے تک تعلیم یافتہ ہیں اور انگریزی اور اردو ترجمے ویدوں کے پڑھتے ہیں اور دن رات دین کی تعلیم پاتے ہیں.(84) ،، (85) "" تم کسی شہر یا قصبہ میں چلے جاؤ اور تحقیقات کر لو کہ کس قدر اس میں آریہ سماجی ہیں اور کس قدر ان میں سے وید دان ہیں.پس جب کہ آریہ سماجی بنے کی یہ کیفیت ہے تو پھر کون ایسے تعلیم یافتہ نومسلم آریوں پر اعتراض کر سکتا ہے جو اول ہندو تھے اور پھر سناتن دھرم اور آریوں کے اصولوں کو خوب معلوم کر کے اور اس کے مقابل پر اسلام کے اصول دیکھ کر اور سچائی اور عظمت الہی اس میں مشاہدہ کر کے مشرف باسلام ہو گئے محض خدا کے لئے دکھ اٹھائے اور بیویوں بھائیوں عزیزوں سے الگ ہوئے اور قوم کی گالیاں سنیں.ان نو مسلم آریوں کے تبدیل مذہب کو غرض نفسانی پر محمول کرنا یہ طعن ہندوؤں کا کچھ نیا نہیں خود غرضی کا الزام تو بہت ہی قابل شرم ہے.کیونکہ بعض ہندو امیروں رئیسوں اور راجوں نے اسلام کے بعد کئی لاکھ روپیہ دینی امداد میں دیا ہے اور ہمارے غریب نومسلم آریہ ہمیشہ اپنی کمائی سے ہمیں چندہ دیتے ہیں.پھر تعجب کہ یہ مخالف لوگ ایسے بے جا بہتانوں سے باز نہیں آتے اور جس حالت میں اکثر آریہ اپنی عورتوں کو چھوڑ کر اسلام کی طرف آتے ہیں تو اس صورت میں پھر ان کو عورتوں کا الزام دینا کیا اس قسم کے اعتراضات دیانت کے اعتراض ہیں.“ ( ایک جاہل سے جاہل سناتن دھرم والا جب آریہ بننے کے لئے آتا ہے تو کوئی اس کو نہیں کہتا کہ اول چاروں وید پڑھ لے...خاص کر اگر کوئی دولت مند سا ہو کار ہو گو کیسا ہی جاہل ہو تو پھر کیا کہنا ہے.ایک شکار ہاتھ آ گیا اس کو کون چھوڑے.بھلا بتلائیے آپ کے لالہ بڈھا مل صاحب کتنے وید پڑھے ہوئے ہیں جو...آریہ بن گئے.ظاہر ہے کہ جو اعتراض نو مسلم آریوں پر کیا جاتا ہے وہی دراصل آریوں پر بھی ہوتا ہے.مگر یاد رکھنا چاہیے کہ جو آریہ ہند و مسلمان ہوتا ہے چونکہ اس کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو بہت سے دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا.اس لئے طبعا وہ اسی وقت مسلمان ہوتا ہے جب وہ اپنے دل میں حق اور باطل کا فیصلہ کر لیتا ہے.تبدیل مذہب کے لئے مذاہب موجودہ کا باہم مقابلہ کرنے کے وقت صرف تین باتوں کا دیکھنا ضروری ہے.اول یہ کہ اس مذہب میں خدا کی نسبت کیا تعلیم ہے.دوسرے نفس کے بارے میں اور ایسا ہی عام طور پر انسانی چال چلن کے بارے میں کیا تعلیم ہے.تیرے کہ وہ اس مذہب کو پسند کرے جس کا خدا ایک فرضی خدا نہ ہو...تبدیل مذہب کے لئے ہرگز ایسی ضرورت نہیں کہ کسی دین کے تمام فروع و اصول اور جزئیات کلیات معلوم کئے جائیں.اس صورت میں ان نو مسلم آریوں کا کیا قصور ہے جو ان ضروری امور کی تحقیق کر کے مشرف باسلام ہوئے ہیں...کل ذخیرہ آریہ مت کا بجز شاذ و نادر اشخاص کے انہی عوام الناس سے بھرا ہوا ہے تو پھر کیوں ان غریب نومسلم آریوں پر

Page 100

33 93 اعتراض کیا جاتا ہے جنھوں نے ارکان ثلاثہ پر خوب غور کر کے مذہب اسلام اختیار کیا ہے.مذکورہ بالا سارے بیان سے ظاہر ہے کہ ان مسلم بزرگوں کا اشتہار جو دراصل حضرت ماسٹر صاحب نے ہی لکھا تھا اللہ تعالیٰ کے حضور بپای قبولیت پہنچا اور اس سے تمام پنجاب کے آریہ متاثر ہوئے.ان نو مسلم بزرگوں کو دی گئی دشنام کا ثواب ملا اور صبر سے اس میں یقینا زیادتی ہوئی ہوگی.آنحضرت ﷺ پر اعتراضات اور خودان بزرگوں پر اعتراضات کے جواب دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے وحی خاص کی اور نسیم دعوت جیسی عجیب کتاب معرض وجود میں آئی علاوہ ازیں ان نو مسلم بزرگوں کی قربانی ، شرافت علم اور بے نفسی اور علی بصیرۃ اسلام قبول کرنے کا تذکرہ حضرت مسیح موعود کے قلم سے کرا دیا جو ہمیشہ یادگار رہے گا.بی اے تک تعلیم پانے کے الفاظ سے خاص طور پر ماسٹر صاحب کی طرف اشارہ ہے.(۷) سادھ سنگت ایک تبلیغی جماعت کا قیام: سادھ سنگت کے نام سے ایک انجمن قادیان میں سردار محمد یوسف صاحب (ایڈیٹر نور ) نے حضرت خلیفہ اول کے ارشاد سے قائم کی تھی تاکہ مسلمانوں اور سکھوں میں با ہمی و چار بڑھایا جائے اور بابا نانک اور دیگر عارفوں کے کلام کی اشاعت کی جائے (87).جلسہ سالانہ پر ۲۴ مارچ ۱۹۱۰ء کو ماسٹر صاحب کی تقریر اس کے اغراض و مقاصد کے متعلق ہوئی.آپ نے بتایا کہ اس کے سر پرست حضرت خلیفہ اول ہیں ٹریکٹ شائع کر کے اور تقریروں کے ذریعے تبلیغ کرنا ہمارا لائحہ عمل ہے چنانچہ سکھوں کے لئے ٹریکٹ شائع کئے گئے ہیں اور دو ماہ میں ۳۶ تقریریں قادیان کے گردو نواح میں ہوئیں.جماعتوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے ہاں ایسی انجمنیں قائم کریں اور اپنے ماحول میں آٹھ دس میل کے علاقوں میں تبلیغ کریں اور بتایا کہ اس کام کے لئے زیادہ علم کی ضرورت نہیں مما رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ کے مطابق جس قدر علم ہو اس سے تبلیغ کرے جس کو زیادہ علم نہ ہو کتاب پڑھ کر سنا سکتا ہے اور پھر بتایا کہ تبلیغ کرنے والے کو کس طرح صابر ہونا چاہیے.اور ذکر کیا کہ تبلیغ کی برکت سے اللہ تعالیٰ مصائب سے نجات دیتا ہے چنانچہ اپنا ایک واقعہ سنایا.فرماتے ہیں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہاں ایک دفعہ طاعون کا زور تھا.۲۰ آدمی ہر روز مرتے تھے.میری بنِ ران میں درد اٹھا اور طاعون کا ڈر ہوا تو میں نے محلے والی عورتوں کو بلا کر وعظ شروع کر دیا، ابھی رکوع ختم نہیں ہوا تھا کہ درد رفع ہو گیا.پس ان ایام مصائب میں اور طاعون سے محفوظ رہنے کا ایک یہ بھی مجرب اور صحیح نسخہ ہے کہ (88) مر بالمعروف و نہی عن المنکر کیا کریں حضرت خلیفہ اصبح اول کی اجازت سے سادھ سنگت کی طرف سے اسلامی ممالک میں تبلیغ کے لئے

Page 101

94 ایک عربی اشتہار بھی شائع کیا گیا تھا جس کے اخراجات کا اندازہ تین صد روپے میں تھا.آپ اس امر کی تغلیط کرتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں متعدد تحریکات چندہ کامیاب نہیں ہوسکتیں حقیقت بھی یہی ہے کہ متنوع چندہ جات کی تحریکات میں بھی کامیابی کا ایک راز ہے.ہر شخص پر اس کی میلان طبع کے مطابق تحریکات اثر انداز ہوتی ہیں کسی کو صدقات سے گہرا انس ہے اور کسی کو مساجد کی تعمیر سے اور کسی کو اشاعت کتب سے.وهلم جدا الا یمان بین الخوف والرجاء اس میں کیا شک ہے کہ الايمان بين الخوف والرجاء ہے اور اگر کوئی کلمہ اس کے خلاف نکل جائے تو اس سے رجوع عین ایمان ہے چنانچہ اختیار الاسلام (حصہ چہارم ) میں دھرم پال کو مخاطب کر کے آپ کی قلم سے یہ الفاظ نکل گئے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم دونوں میں سے کون بد فرجام اور نا مراد ہوکر مرتا ہے.“ جلد بعد ہی آپ کو احساس ہوا کہ یہ کلمہ کہنا درست نہیں اس لئے آپ نے لکھا: (89) ہم نے صفحہ ۴۲ میں کسی جگہ غلطی سے لکھا ہے کہ دیکھیں ہم دونوں میں سے کون بدفرجام ہو کر مرتا ہے.دراصل یہ جرات کا کلمہ ہے اس لئے میں ان الفاظ کو واپس لیتا ہوں کیونکہ بجز خاص اور متواتر الہامات الہیہ جو مضبوط یقین اور عرفان کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچاتے ہوں کسی کو اپنے انجام کی نسبت کو ئی کلمہ کہنار وا نہیں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے انجام کی نسبت ترساں والرزاں بین النحوف والرجاء رہنا چاہئے اس ذرہ بے مقدار انسان کی حقیقت ہی کیا ہے اسے کیا معلوم کہ کل اس کا دل کدھر گردش کر جاوے گا.صاحب الہام و کشف ہونا:.اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص فضل تھا کہ آپ صاحب کشوف والہامات تھے آپ نے اس امر کا اپنی تصانیف میں بار ہا ذ کر کیا ہے چنانچہ اس امر کا کہ الہام ووحی کا دروازہ اس زمانہ میں بھی کھلا ہے ذکر کرتے ہوئے آپ میں مسلمان ہو گیا“ میں تحریر فرماتے ہیں : میں اس بات کو بیان کرنے سے شرم نہیں کرتا بلکہ تحدیث بالعمہ کے طور پر اقرار کرتا ہوں کہ محض خدا کے فضل و کرم سے بار ہا مجھے بھی الہام ہوا.اور اس ذات پاک کی آواز سنائی دی جو زمین و آسمان کا خالق ہے میں اپنے کانوں سے اور روحانی قومی سے الہامات اور مکاشفات کو آزما چکا ہوں اس لئے مجھے الہام وغیرہ سے انکار کرنا يد الحكم ۲۱.۲۸ فروری ۱۹۱۱ء غالباً یہی عربی اشتہار ہے جو بصورت اردو میں ” میں مسلمان ہو گیا، حصہ دوم ( طبع دوم ) صفحہ ۱۱۸ پر درج ہے وہاں مرقوم ہے کہ یہ وہ اشتہار ہے جو عربی و فارسی میں لکھ کر بلا دعرب و شام و مصر ارسال کیا گیا تھا.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجہ نے مجھ سے ذکر کیا کہ ماسٹر صاحب کا شائع کردہ عربی ، انگریزی اور فارسی کا اشتہار میں نے ۱۹۱۴ء میں بیروت میں پہنچا ہوا پایا تھا.

Page 102

95 (90) ایسا ہے جیسا کہ اپنے تئیں آگ میں ڈالنا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.درحقیقت جب انسان اپنا آپ خدا کے لئے قربان کر دے تو تعجب مت کرو کہ اس سے خدا کا مکالمہ اور مخاطبہ ہوتا ہے بلکہ تعجب اس میں ہے کہ اگر ایسی بھاری قربانی اور تبدیلی کے بعد بھی خدا کی آواز نہ سنائی دے اور عجیب کرشمہ قدرت اس سے ظہور پذیر نہ ہوں.90 دھر میال کے مقابل پر بھی آپ نے اس امر کا ذکر اس کتاب کے حصہ چہارم (ص ۶۴ ) میں کیا ہے.اس بارہ میں کچھ واقعات دیگر مقامات پر درج ہوئے ہیں.چند ایک مزید یہاں بھی درج کر دیئے جاتے ہیں.حکیم مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل واقف زندگی نے حضرت ماسٹر صاحب سے کہا کہ میں مولوی فاضل کی تیاری پوری طرح نہیں کر سکا اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل صاحب نے میرا داخلہ جامعہ کی طرف سے نہیں بھیجا کیونکہ فیل ہونے سے جامعہ کا نتیجہ خراب نظر آئے گا آپ استخارہ کریں تا خواہ مخواہ داخلہ ضائع نہ ہو.میں نے دعا کی.ایک رات ابھی تکیہ پر میں نے سر نہیں رکھا تھا کہ مجھے الہام ہوا کہ اور کوئی پاس ہو یا نہ ہو مگر محمد اسمعیل صاحب ضرور پاس ہو جائیں گے چنانچہ انہوں نے داخلہ بھیج دیا.لیکن ان کے پرچے اچھے نہیں ہوئے اس لئے وہ بددل ہو کر بعد امتحان کام کاج کے سلسلہ میں قادیان سے باہر چلے گئے.نتیجہ جو یونیورسٹی کی طرف سے آیا کئی مقامات سے چکر کھا تا ہوا انہں ملا اور وہ اپنی کامیابی پر بہت حیران ہوئے.(قلمی مسودہ ) خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ حکیم صاحب مکرم خاکسار کے ہم جماعت اور دوست ہیں.جامعہ احمدیہ کے پہلے سال کا امتحان دے کر اپنے وطن انبالہ چلے گئے اور پھر آٹھ ماہ بعد دسمبر میں جلسہ سالانہ پر آئے اور میرے بار بار کے اصرار پر کہ اب صرف چند ماہ کی بات ہے اور میں پڑھائی میں مدد دوں گا وہ امتحان کی تیاری کے لئے آمادہ ہوئے.ڈیڑھ دو ماہ بعد داخلہ بھیجوانا تھا اس لئے اتنی قلیل مدت میں منطق.فلسفہ وغیرہ کی تیاری نہ ہوسکی تھی.اس لئے ان کا ارادہ تھا کہ امتحان اگلے سال دوں پھر استخارہ کے بعد انہوں نے داخلہ دے دیا اور مولوی فاضل کے قادیان کے پرائیویٹ طلباء میں حکیم صاحب اور خاکسار جامعہ میں اول اور یونیورسٹی میں غالبا دوم درجہ پر کامیاب ہوا تھا.اب حکیم صاحب جامعہ ربوہ میں پروفیسر ہیں.ایک دفعہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ماسٹر صاحب کے سپر د ایک ایسی جماعت ہوئی جو انگریزی میں بہت کمزور تھی اور آپ کو اندیشہ ہوا کہ انسپکٹر مدارس بوقت معائنہ آپ کی سروس بک میں ریمارکس نہ دیں آپ نے استغفار کر کے دعا کی تو آپ کو خواب میں بتلایا گیا کہ صرف چھبیسویں اور تیسویں سبقوں میں جماعت کا امتحان ہوگا چنانچہ ایک طالب علم جو مکان کے پاس سے گزرا تو آپ نے اس کے ذریعہ تمام جماعت کو کہلوا دیا کہ یہ اسباق

Page 103

96 اچھی طرح یاد کر لیں، ان میں سے امتحان ہوگا چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا.چھبیسواں سبق انسپکٹر صاحب نے سنا اور تیسویں سے املاء لکھوانے کو حضرت ماسٹر صاحب کو کہا.چنانچہ انسپکٹر صاحب نتیجہ سے خوش ہوئے اور آپ کے متعلق اچھے ریمارکس دئے گئے.۱۹۴۸ء میں آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے لڑکی تولد ہوئی “چنانچہ تیرہ دن بعد ۸ مئی کو آپ کی بیٹی ڈاکٹر محمودہ صاحبہ کے بچی پیدا ہوئی.اس کی ولادت کے چند دن بعد آپ نے تحریر فرمایا کہ ” آج رات کو کوئی خوش خبری دیتا ہے.میں اسے کہتا ہوں فَبِمَ تُبَشِّرُونَ ؟ یعنی کسی چیز کی خوشخبری دیتے ہو؟ ایک خوشخبری تو مئی کو پوری ہو چکی ہے اب اس کے بعد دوسری خوشخبری کس کے متعلق ہے.سردار بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے ہاں ۲۵ مئی کو لطیف احمد پیدا ہوا.یہ ایک لڑکی کے بعد میرا پہلڑ کا ہے.اس سے پہلے میرے ہاں اولا د زندہ نہ رہتی تھی.میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب زادہ مجدہ سے اس الہام کا ذکر کیا تو فرمایا کہ اس سے مراد نا مساعد حالات میں لڑکا پیدا ہونا ہے اور یہ امر ہے بھی درست کیونکہ میری شادی کے بعد تیرہ سال میں ایک لڑکی اور چارلڑ کے پیدا ہو کر وفات پاچکے تھے.اور قرآن مجید میں فَبِمَ تُبَشِّرُونَ کے بعد انا نُبَشِّرُكَ بغلام آتا ہے.سید حبیب اللہ شاہ صاحب و سید محمود اللہ شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کو سنایا کہ آپ کی ولادت کے متعلق حضرت ماسٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے الہاما اطلاع دی تھی جس پر ماسٹر صاحب نے کلاس میں یہ خوشخبری سنادی تھی اور نذیر احمد نام والی خواب (جس کا دوسری جگہ ذکر کیا گیا ہے) کی بھی بہت تشہیر ہوئی تھی.اس طرح کہ ایک دفعہ جب لڑکوں کو سبق نہ یاد کرنے کے باعث ماسٹر صاحب نے سزادی تو نذیر احمد نامی لڑکے کو سزا نہ دی.لڑکوں کے دریافت کرنے پر یہ خواب سنائی کہ اس وجہ سے میں نے اسے سزا نہیں دی کہ نذیر احمد نام الہام میں آگیا ہے.اسی طرح ایک دفعہ ایک لفافہ میں آپ نے چند باتیں لکھ کر بند کر دیں اور اعلان کیا کہ چالیس روز کے بعد یہ لفافہ کھولا جائے تو یہ سب باتیں پوری ہوں گی ان میں سے ایک بات ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی ولادت کی بھی تھی جو پوری ہوئی.ماسٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ( بنیر ۂ حضرت مسیح موعود ) نے جب دسویں کا امتحان دینا تھا تو میں ان کو گھر پر پڑھایا کرتا تھا.میں ان کے ساتھ بٹالہ گیا جہاں انہوں نے امتحان دینا تھا اوران اور ان کے امتحان کے لئے جانے سے قبل میں دو نفل پڑھتا تھا.ایک روز میں نے سلام پھیرتے ہی جلدی سے انہیں کہا کہ فلاں سوال نہیں آتا تو جلدی سے کر لو.یہ امتحان میں آئے گا.چنانچہ وہ سوال امتحان میں آگیا ان کے امتحان میں کامیاب ہونے پر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے ایک تھالی مٹھائی اور میں روپے بھجوائے.

Page 104

97 ماسٹر صاحب نے روپے لینے کے بجائے یہ پسند کیا کہ محلہ دار الفضل والی سات آٹھ کنال اراضی کے مالکانہ حقوق آپ کو منتقل کر دئے جائیں جو آپ نے خریدی ہوئی تھی.چنانچہ حضرت ممدوح نے ایسا ہی کر دیا.حضرت میاں محمد شریف صاحب اکسٹر اسٹنٹ کمشنر پنشنر لاہور حال مقیم ربوہ بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۰۶ء میں میں بھی مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں مدرس تھا.دسویں کے طلباء کو امتحان دلانے کے لئے امرتسر گیا ہوا تھا.اور حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب بھی ان دونوں اس مدرسہ کے مدرس تھے ایک روز آپ کا ایک خط مجھے بٹالہ پہنچا جس میں آپ نے مجھے تاکیدا لکھا تھا کہ یہ یہ تین سوالات بچوں کو امتحان کے کمرے میں جانے سے پہلے ضرور یاد کروادوں.امتحان شروع ہونے میں ابھی دو تین گھنٹے باقی تھے میں نے یاد کروائے.چنانچہ یہ تینوں سوالات پرچے میں آئے اور طلباء کو قبل از وقت یاد کرانے کا بہت فائدہ ہوا.مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک سوال Natural Phenomena کے متعلق تھا.* سلسلہ کے لٹریچر میں ذکر :.سلسلہ کے لٹریچر میں بے شمار مقامات پر آپ کا ذکر آتا ہے.دیگر عنوانات میں حوالہ جات درج کئے گئے ہیں.مزید چند ایک یہاں رقم کئے جاتے ہیں.(۱) الحکم ۲۴/۱۱/۰۵ ص۱) میں آپ کی علالت کا ذکر ہے.(۲) الفضل ۲۸/۷/۲۱،۲۱/۶/۲۰ آپ کو جنم ساکھی بھائی بالا وغیرہ کی ضرورت تھی.حاصل کرنے کے متعلق اعلان.(۳) الفضل ۱۰۱۱/۵۶ میں آپ کے ایک پوتے کی طرف سے مختصر حالات شائع ہوئے ہیں.(۴) زیرہ دارالامان کا ہفتہ “الحکم ۱۲/۵/۱۴ ص ۸ ک امیں مرقوم ہے کہ ماسٹر صاحب جو دو سال کی رخصت پر جموں بی اے کا امتحان دینے کے لئے گئے تھے بعد امتحان واپس تشریف لے آئے ہیں اور ۲۸ جون ، ے جولائی کے پرچے میں آپ کی کامیابی کے لئے دعا کا اعلان ہے.(۵) آپ کی اہلیہ اول کی وفات پر تعزیتی خطوط لکھنے والوں کا آپ نے شکر یہ الفضل ۲۴/۶/۴۷ میں ادا کیا (ص۴) (۶) مجلس شوری :.قرآن احکام اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے شوری کے باقاعدہ انعقاد کا انتظام ۱۹۲۴ء میں فرمایا یہ نظام جس قدر بابرکت ہے اور اس کا رکن بن کر کام کرنے کی توفیق خاکسار کو میاں صاحب نے یہ واقعہ سنایا.(مؤلف) ☆

Page 105

98 پانا جس قدر اہمیت رکھتا ہے محتاج بیان نہیں.اولین مجلس شوری میں باون بیرونی جماعتوں کے اور تمہیں قادیان کے مرکزی نمائندگان نے شمولیت کی تھی.مرکزی نمائندگان میں ماسٹر صاحب بھی شامل تھے.بعد ازاں بھی آپ بہت سی مجالس میں بطور کارکن یا بطور صحابی شمولیت کا موقع پاتے رہے.* (۷) ایک خاص مجلس شوریٰ کے رکن :.۱۹۲۴ء میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے یورپ کے تاریخی اور نہایت اہم اور موعود سفر پر تشریف لے جانے سے قبل اار جولائی کو خطبہ جمعہ میں اپنے بعد انتظام کی تفصیل بیان کی ظاہر ہے کہ یہ انتظامیہ بھی ایک خاص اہمیت کی حامل تھی.سارے ہندوستان کے لئے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو امیر اور ان کے دو نائب بطور مشیر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالیٰ اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو مقرر کیا اور فرمایا کہ: مولوی شیر علی صاحب میرے نائب کی حیثیت سے ان امور کو جو خلافت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں میرا مشورہ نہیں ہو سکتا یا مشورہ کی ضرورت نہیں ہے ان کے مشورے سے طے کریں گے.“ اس کے علاوہ ایک مجلس شوریٰ مقرر کرتا ہوں جس میں مجلس مشاورت کے وہ ممبر جو قادیان میں ہوں یا باہر سے آئے ہوں مشورہ دیں گے.اس مجلس شوریٰ میں حسب ذیل ممبر ہوں گے.مولوی سید سرور شاہ صاحب ، قاضی امیر حسین صاحب ، سید ولی اللہ شاہ صاحب، ماسٹر عبدالمغنی صاحب ، قاضی عبد اللہ صاحب، قاضی اکمل صاحب، مولوی فضل الدین صاحب، میر محمد اسحاق صاحب، مولوی محمد اسماعیل صاحب، میر قاسم علی صاحب اور شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور، ماسٹر عبدالرحمن صاحب ، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب.میرا نائب عام طور پر عام معاملات میں انہیں لوگوں سے مشورہ لے گا جیسے میں بھی مشورہ لیتا ہوں.“ ان ارکان شوری کی خصوصیات کا حضور نے ذکر کرتے ہوئے ماسٹر صاحب کے متعلق فرمایا: ماسٹر عبدالرحمن صاحب نہایت کارکن ہیں تبلیغ کا اتنا جوش ہے کہ بعض کی نظروں میں جنون ہے ایسے وجود نہایت ہی مفید ہوتے ہیں اور تمام کے متعلق فرمایا “ یہ ☆ لوگ میری نظروں میں سلسلہ کے لئے اچھا کام کر سکتے ہیں...میں ان تمام لوگوں سے یہ مشاورت کی ساری رپورٹیں دستیاب نہیں ہوئیں جو مل سکی ہیں.اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۵ء تک اور ۲۸.۱۹۲۷ء اور ۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۰ء تک (بشمول ۳۶ ء کی دونوں مشاورتوں کے ) اور ۱۹۴۳ء میں گویا کم از کم سولہ مجالس شوری میں آپ کی شمولیت کا موقع ملا.

Page 106

66 99 امید رکھتا ہوں کہ وہ ایسے طور پر کام کریں گے کہ لوگوں کے دلوں کو ٹھیس نہ لگئے ، (91) (۸) مالی خدمات سلسلہ :.ماسٹر صاحب کو مالی خدمات سلسلہ کا بھی موقع ملا.آپ ابتدائی موصوں میں سے تھے.آپ کا نمبر وصیت ۱۶۶ ہے.دارالفضل قادیان کی مسجد کی تعمیر کے لئے آپ نے چندہ دیا.(92) تحریک جدید سال چہارم کا چندہ یک مشت اور فوری ادا کرنے والے مخلصین میں آپ کا نام درج ہے.(93) آپ نے دار الفضل میں اپنے مکان کے قریب ریلوے روڈ پر عین لب سڑک واقع سولہ مرلہ نہایت قیمتی قطعہ زمین مسجد کے لئے وقف کر دیا.چنانچہ کاغذات مال میں خاکسار مؤلف نے دیکھا ہے کہ ” مسجد رحمانیہ" کے طور پر درج ہے.تحریک جدید کے مجاہدین میں آپ کا نام دو جگہ مرقوم ہے.ضمیمہ پانچ ہزار مجاہدین ، ص ے پر نیز اصل کتاب میں بھی آپ کا نام درج ہے.کیوں نکہ آپ کے ایک فرزند بھی آپ کی طرف سے چندہ ادا کرتے رہے ہیں.تبلیغی اشتہارات شائع کرنے کا خرچ تو عمر بھر آپ کرتے رہے ہیں.منارۃ اُسیح کے چندہ کے باعث آپ کا اور آپ کی اہلیہ اول کے نام نمبر ۲۳۱ اور ۲۳۲ پر درج ہیں.(۹) حضرت اقدس کی مجلس میں :.یکم اگست ۱۹۰۲ء بعد مغرب حضرت اقدس مجلس میں تشریف فرما ہوئے اس ضمن میں مرقوم ہے.پھر ماسٹر عبدالرحمن صاحب نے ایک لڑکے کا خواب بتلایا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہر شخص کی خواب اس کی ہمت اور استعداد کے موافق ہوتی ہے.معبرین نے یہی لکھا ہے.ضمناً میاں جان محمد صاحب مرحوم امام مسجد قادیان کی ایک رؤیا کا تذکرہ فرمایا.پھر فرمایا خدا تعالیٰ کا فیضان ظرف اور استعداد کے موافق ہوتا ہے.خدا تو ایک ہی ہے لیکن جیسے روشنی صاف اور روشن چیز پر جیسے شیشہ ہے بہت صفائی سے پڑتی ہے اسی طرح پر خدا تعالیٰ کے فیضان کا حال ہے.ہمارے نبی کریم ﷺ کی ہمت بہت ہی بلند تھی اس لئے قرآن شریف جیسا کلام آپ پر نازل ہوا.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کی صاف تصویر نظر آتی ہے اور اور کتابوں میں دھندلی سی روشنی پڑتی ہے.مسیح ہی کو دیکھ لو کہ اسرائیل کی قوم ہی پیش نظر ہے.مگر قرآن شریف کسی خاص قوم کو خطاب نہیں کرتا.شروع ہی سے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ کہتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی کیسی بلند ہمت اور عام دعوت ہے کہ کہتے ہیں يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنّى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا.مگر انجیل میں اسرائیل ہی کا ذکر ہے جو پیشگوئیاں ہیں وہ بھی ان ہی کے متعلق ہیں.اسی سبب سے یہودیوں کو ٹھو کر

Page 107

100 لگی اور خدا کے وعدوں کے مصداق اپنی ہی قوم کو سمجھ کر تمام قوموں سے بے تعلق اور غافل ہو گئے اور خدا کے وعدوں کے ایفاء کی آخری منزل اسی دنیا کو خیال کر کے قیامت سے بے خبر اور بہتیرے منکر ہوگئے.فرمایا ہمت بلند ہونی چاہیے.چنانچہ لکھا ہے (۱۰) سفر جہلم: ہمت بلند دار که را دار کردگار (94) ۱۹۰۳ء میں بمقدمہ کرم دین حضرت مسیح موعود کو جہلم کا سفر کرنا پڑا.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت قبولیت بخشی اور کثرت سے مردوں اور عورتوں نے بیعت کی سفر میں حضور کی رفاقت کرنے والے احباب میں آپ کا نام ماسٹر عبدالرحمن صاحب قادیانی نومسلم ، بھی مرقوم ہے.(۱۱) جلسہ احباب میں شمولیت:.(95) ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی جون ۱۸۹۷ء میں قادیان میں بھی منائی گئی تھی.اس میں شامل ہونے والوں کے اسماء حضرت اقدس کی طرف سے رقم ہوئے ہیں.ان میں آپ کا نام یوں درج ہے.۶۳ - شیخ عبدالرحمن صاحب.......یعنی نومسلم طالب علم قادیان) (96) ( (۱۲) حضرت اقدس کا ایک اشتہار حضرت مسیح موعود نے ایک اشتہار ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کو شائع کیا جس میں معارف قرآن میں مقابلہ کرنے کی پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور دیگر علماء کو دعوت دی ہے.اس میں حضور رقم فرماتے ہیں : چاہئے کہ اس اشتہار کے وصول ( ہونے ) کے بعد جس کو میں رجسٹری کرا کر بھیجوں گا مہر علی شاہ صاحب دس دن تک اپنی منظوری سے مجھے اطلاع دیں لیکن ضروری ہوگا کہ یہ اطلاع ایک چھپے ہوئے اشتہار کے ذریعہ سے ہو جس پر میرے اشتہار کی طرح ہیں معزز لوگوں کی گواہی ہو.ماسٹر صاحب عبد الرحمن صاحب ایف اے سیکنڈ ماسٹر ہائی سکول قادیان ماسٹر صاحب کا نام بھی بطور گواہ یوں درج ہے: (۱۳) ایک نشان کے گواہ:.ماسٹر صاحب لکھتے ہیں: (97) سید ناصر شاہ صاحب جموں سے قادیان تشریف لائے اور حضرت مسیح موعود سے عرض کی کہ کسی ایسی

Page 108

101 پیشگوئی کا الہام ہو جو میرے سامنے ہو اور وہ پیشگوئی میرے روبرو پوری بھی ہو جائے.اسی روز جب آسمان صاف تھا اور بارش کا نام ونشان نہ تھا حضور کو الہام ہوا.ے سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی، (98) چنانچہ اسی روز شام کو بارش ہوئی اور دوسرے یا تیسرے روز زلزلہ بھی آیا (*) (۱۴) ایک پیشگوئی کے گواہ:.کتاب نزول مسیح میں حضرت مسیح موعود بیان فرماتے ہیں کہ اهِدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صَرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں انعامات کی امید دلائی گئی ہے جن میں سے بزرگ تر انعام وحی الہی کا انعام ہے کیوں کہ گفتا ر الہی قائم مقام دیدار الہی ہے.ہمیشہ یقین خدا کے تازہ مکالمہ سے تازہ پیدا ہوتارہتا ہے اور جس شریعت کو خدا تعالیٰ منسوخ کر دیتا ہے اس شریعت کی پیروی کرنے والوں کے دل ممسوخ ہو جاتے ہیں اور ان میں کوئی باقی نہیں رہتا جس پر تازہ کلام وارد ہو.ایسا کلام الہی زمانہ کے لئے تازہ طور پر اُترتا ہے اور اپنی طبعی خاصیت سے ملہم اور اس کے ہم نشینوں پر ثابت کرتا ہے کہ میں یقینی طور پر خدا کا کلام ہوں اس میں ایک خارق عادت شوکت ہوتی ہے ایک لذت ہوتی ہے.اکثر سلسلہ سوال و جواب ہوتا ہے.اور جواب پانے کے وقت بندہ پر غنودگی طاری ہوتی ہے الہام کبھی ایسی زبانوں میں بھی ہوتا ہے جسے ملہم نہیں جانتا.سچا الہام غلطیوں سے نجات دیتا ہے اس میں ایک خدائی کشش ہوتی ہے.جو ہم کو عالم تفرید و انقطاع کی طرف کھینچتی ہے سچا الہام تقویٰ کو بڑھاتا ہے اور قرآن مجید کے مخالف نہیں ہوتا.آخر پر حضور نے بطور نمونہ اپنے الہامات میں سے وہ حصہ جو خوارق اور پیشگوئیوں پر مشتمل “ ہے مع اسماء گواہان رقم فرمایا ہے جن کو قبل از وقت اطلاع دی گئی تھی.پیشگوئی نمبر ۸ کے نو گواہوں کے اسماء میں آپ کا نام "ماسٹر عبدالرحمن صاحب درج ہے گواہوں میں جن کو قبل از وقوع پیشگوئی بتائی گئی تھی حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے اسماء مرقوم ہیں حضور اس پیشگوئی کے بیان کرنے کی تاریخ اور اپریل ۱۹۰۰ ء درج کر کے تحریر فرماتے ہیں.یہ الہام ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء کو ہوا تھا.ظہر کے بعد اور رات کو بارش ہوئی اور ۲ مارچ کے بعد کی رات کو زلزلہ بھی آیا چنانچہ اخبارات نے زلزلہ کی خبر شائع کی قادیان میں حاضر ایسے احباب سے دستخط لئے گئے تھے جنہوں نے یہ الہام پورا ہونے سے پہلے سنا تھا چنانچہ ان کے اسماء تتمہ حقیقت الوحی میں درج ہوئے ہیں (ص ۵۵ تا ۵۸) وہاں صرف عبدالرحمن نام بھی دو بار درج ہے.ممکن ہے ماسٹر صاحب بھی ایک جگہ مراد ہوں لیکن یہ ضروری نہیں کہ الہام سننے والے تمام افراد جن کے دستخط لئے گئے ان کے اسماء درج ہو چکے ہوں.

Page 109

102 عید الضحی کی صبح کو مجھے الہام ہوا کہ کچھ عربی میں بولو چنانچہ بہت احباب کو اس بات سے اطلاع دی گئی اور اس سے پہلے میں نے کبھی عربی زبان میں کوئی تقریر نہیں کی تھی.لیکن اس دن میں عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پر معانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی جو کتاب خطبہ الہامیہ میں درج ہے.وہ کئی جز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہو کر زبانی فی البدیہہ کہی گئی اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی.میں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہل علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہو کر کر سکے.یہ تقریر وہ ہے جس کے اس وقت قریبا ڈیڑھ سو آدمی گواہ ہوں گے.(90) (۱۳) ایک نشان کے گواہ:.ایک نشان کے گواہ کے طور پر حضرت مسیح موعود نے ماسٹر صاحب کا ذکر حقیقۃ الوحی میں نشان نمبر ۱۶۵ میں تحریر فرمایا ہے.حضور تحریر فرماتے ہیں اپریل ۱۹۰۰ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کر تمہیں قوت دی گئی اور نیز یہ الہام ہوا (100) كَلَامٌ أَفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنُ رَبِّ كَرِيمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے.چنانچہ اس الہام کو اسی وقت اخویم مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور اخویم مولوی نور دین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور ماسٹر عبد الرحمن صاحب اور ماسٹر شیر علی صاحب بی اے اور حافظ عبدالعلی صاحب اور بہت سے دوستوں کو اطلاع دی گئی.تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی.اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الہی کے بیان کر سکے.جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو کے قریب ہوگی.سبحان اللہ اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا.مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا.

Page 110

103 خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا.چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبہ الہامیہ ہے.اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہہ بیان کر سکے.یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا.(101) روایات:.روایات ذیل میں جس جگہ کسی واسطے کا یا کتاب کا حوالہ نہیں دیا گیا وہ سب حضرت ماسٹر صاحب کی قلمی موجود ہیں جو آپ نے اکتو بر ۱۹۵۱ء میں تحریر کی تھیں کہیں کہیں امر بیان کردہ معروف و مشہور ہونے کے باعث اس کا اختصار کر دیا ہے.خطوط واحدانی کے الفاظ خاکسار مولف کی طرف سے بطور تشریح درج ہوئے ہیں.زیر مدينة المسيح الفضل ومئی میں ماسٹر صاحب کی دینیات کلاس خدام الاحمدیہ میں ذکر حبیب پر تقریر کرنے کا ذکر آتا ہے لیکن یہ تقریر کسی جگہ چھپی ہوئی نہیں ملی.روایات ذیل میں نمبر ۴۱ پر جو روایت رکھی ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ صحابہ کی روایات کا مرتبہ ظاہر ہو نیز حضرت ماسٹر صاحب کا روایات کے تعلق میں مقام ظاہر ہو.(۱) نبوت حضرت مسیح موعود کے بارے میں نظارت تالیف و تصنیف کے استفسار پر ماسٹر صاحب نے اپنی قلم سے ۶/۵/۳۵ کو ذیل کا حلفیہ بیان دیا.میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں آپ کو اصلی معنوں میں نبی اور رسول یقین کرتا تھا آپ محمد اے کے علوم و فیوض روحانیت کے وارث ہو کر اپنے آئینہ میں محمدی خلق کا ایسا انعکاس کرتے تھے.کہ گویا آپ روحانی طور پر محمد ہی ہیں.آپ نے محمد میں فنافی الرسول ہو کر محمدی نبوت کی چادر اوڑھ لی محمد علیہ استاد اور آپ شاگرد ہیں جن میں دوئی نہیں تھی.آپ تمام انبیاء کے بروز ہو کر خدا کے حکم سے ایسے نبی اور رسول تھے جیسے انبیاء سابقین مگر آپ نے نبوت کا لقب اطاعت نبوی میں محو ہو کر بطور موہبت کے حاصل کیا.یعنی پورے نبی تھے مگر بغیر شریعت جدیدہ کے یعنی امتی نبی تھے.(چشمہ معرفت ) میرے اس عقیدے کی بنا’ایک غلطی کا ازالہ پر اور الہامات حقیقۃ الوحی اور خطبہ مولوی عبد الکریم پر تھی جو انہوں نے اس موضوع پر کہا اور براہین احمدیہ حصہ پنجم کی بنا پر میرا عقیدہ تھا.میرے روبرو حضرت مسیح موعود نے مسودہ ایک غلطی کا ازالہ مسجد مبارک میں بنایا اور ہم سب نے تصدیق کی ، اس وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب حکیم فضل دین صاحب حضرت خلیفتہ اسیح اول بھی موجود تھے.حضرت نے فرمایا کہ میں نے اس اشتہار میں اس قدر مسئلہ نبوت کو بار بار دوہرایا ہے کہ بلاغت کو بھی بطہ لگا دیا.

Page 111

104 (۲)۱۱ دسمبر ۱۹۰۳ء (بروز جمعہ) کے متعلق البدر میں مرقوم ہے کہ: ذیل کی تقریر ماسٹر شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی نے ضبط کر کے اندراج اخبار کے واسطے ارسال کی ہے چونکہ میں (یعنی ایڈیٹر ) ان دنوں میں بیماری کی وجہ سے بہت کم حاضر مجلس ہوتا ہوں اس لئے ان کی اس عنایت کا کمال مشکور ہوں.“ شام کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب نے کہا کہ دھرم پال (نوآریہ ) نے خلق طیور پر اور احیاء موتی پر بھی اعتراض کیا ہے اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اصل میں خلق طیور اور احیاء موتی پر ہمارا یہ ایمان نہیں ہے کہ اس سے ایسے پرندے مراد ہیں جن کا ذبح کر کے گوشت بھی کھایا جا سکے اور نہ احیائے موتی سے یہ مطلب ہے کہ حقیقی مردہ کا احیاء کیا گیا بلکہ مراد یہ ہے کہ خلق طیور اس قسم کا تھا کہ حد اعجاز تک پہنچا ہوا تھا.اور احیائے موتی کے یہ معنی ہیں کہ (۱) روحانی زندگی عطا کی جاوے.(۲) یہ کہ بذریعہ دعا ایسے انسان کو شفا دی جائے کہ وہ گویا مر دوں میں شمار ہو چکا ہو.جیسا کہ عام بول چال میں کہا جاتا ہے کہ فلاں تو مر کر جیا ہے.لیکن ان باتوں کو لکھنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ ان سے صاف طور پر پوچھا جائے کہ آیا کہ تم لوگ صورت اعجاز کے قائل ہو یا نہیں پس اگر وہ منکر ہیں تو ان کو چاہیے کہ اشتہار دید میں اور بہت صاف لفظوں میں دیں.پھر شاید اللہ تعالیٰ کوئی اور کرشمہ قدرت دکھا دے اگر چہ ایک دفعہ وہ ان کو قائل بھی کر چکا ہے.”ہم ان کی یہ باتیں فردا فردا نہیں سنتے کہ عصائے موسیٰ کیا تھا اور خلق طیور کیا تھا وغیرہ وغیرہ.خدا کا فضل ہمارے شامل حال ہے.اور وہ ہر وقت ہماری تائید کے لئے تیار ہے.وہ صورت اعجاز کا انکار شائع کر دیں پھر خدا کی تائید دیکھ لیویں.قرآن کریم میں جس قدر معجزات آگئے ہیں ہم ان کے دکھانے کو زندہ موجود ہیں خواہ قبولیت دعا کے متعلق ہوں خواہ اور رنگ کے معجزہ کے منکر کا یہی جواب ہے کہ اس کو معجزہ دکھایا جاوے اس سے بڑھ کر اور کوئی جواب نہیں ہوسکتا، (102) (۳) خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ تقسیم ملک سے دو تین سال قبل مسجد اقصیٰ میں تقریر میں ذیل کی روایت آپ سے سنی تھی جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی طفولیت کے متعلق تھی جو حضرت ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں مل گئی ہے یہ یہاں نقل کر دیتا ہوں.حضور فرماتے ہیں.

Page 112

105 ” میرے متعلق ہی آتا ہے کہ رات کو میں رو رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اٹھا لیا اور چپ کرانے کے لئے کہا دیکھو وہ تارا ہے.اس وقت میں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تارا لینا ہے (103) " (۴) سردار بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ۲۵ دسمبر ۱۹۴۷ء کو مجھے والد صاحب نے حضرت اقدس کے گھر لے جا کر حضرت ام المومنین والا صحن دکھایا جس میں مسجد مبارک سے راستہ جاتا ہے.اور بتایا کہ اس صحن میں حضور نے دونوں طرف آلوں میں یاد یوار میں دو دو دو تیں رکھی ہوئی تھیں اور ٹہلتے ٹہلتے تحریرفرمایا کرتے تھے جس طرف حضور جاتے ادھر سے قلم ڈبو لیتے.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور! ہمیں تو بیٹھ کر بھی بڑی توجہ سے محنت کر کے اور سوچ سوچ کر لکھنا پڑتا ہے.حضور چلتے چلتے کس طرح لکھتے ہیں حضور نے فرمایا کہ تبھی تو آپ لوگوں کی تحریر میں بیٹھی ہوتی ہیں.(۵) حضور علیہ السلام اکثر سکھوں کو جو حضور کے مکان کے قریب بود و باش رکھتے تھے اور ہند و بیماروں کو قیمتی ادویہ دیا کرتے تھے جن ( کی خوشبو ) سے گلی مہک جاتی تھی.(۶) جب آخری عمر میں حضور اقدس لاہور میں مقیم تھے اور مولوی محمد علی صاحب قادیان میں تھے تو مولوی صاحب نے کہا کہ لنگر خانے کا خرچ پہلے زیادہ کیا جاتا تھا اب کم ہوتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ لوگ تو میری ملاقات کے لئے لاہور آتے ہیں.قادیان میں خرچ کیسے ہو؟ (۷) ایک دفعہ الہ دین صاحب فلاسفر کی کسی حرکت پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے فلاسفر صاحب کو کچھ سزا دی.انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں شکایت کردی.حضور نے فرمایا کہ مولوی عبدالکریم صاحب الہ دین صاحب سے معافی مانگیں ورنہ ( قادیان سے) چلے جائیں (چنانچہ مولوی صاحب نے ان سے معافی مانگ لی اور انہیں خوش کر لیا.* (۸) ایک مرتبہ حضور مسجد مبارک میں چند اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے.دوران گفتگو میں یک دفعہ ہی آپ اٹھ کر باہر چلے گئے اور ڈھاب میں کوئی ڈوب رہا تھا حضور سے باہر نکال کر پھر مسجد میں تشریف لے آئے.(۹) حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) کا ایک برادر زادہ مسمی عبدالرحمن تھا وہ آزاد ( منش ) اور ملنگ اور بھنگ وغیرہ کا عادی تھا.کوئی ایسی ہی حرکت اس سے سرزد ہوئی اور بعض دوسرے افراد سے بھی ایسی کمزوریاں وقوع میں آئیں جن کی وجہ سے چند افراد کو حضور نے قادیان سے نکال دینے کا حکم دیا.مگر اس بارہ میں روایت نمبر ۸۹ سیرۃ المہدی (حصہ سوم ) اور روایت حضرت مفتی صادق صاحب مندرجہ ذکر حبیب ص ۳۲۴ احباب ملاحظہ فرمائیں.☆

Page 113

106 عبدالرحمن ( مذکور ) قادیان سے باہر نہ گیا (اس پر ) حضور نے حکم دیا کہ مولوی صاحب اپنے بھتیجے کو قادیان سے نکال دیں ورنہ خود بھی چلے جائیں سو مولوی صاحب نے ایک مکمل بستر تیار کرا کے عبدالرحمن کو ( دے کر ) قادیان سے نکال دیا.از مولف) سید نا حضرت خلیفہ محی الثانی ایدہ اللہتعالی اس بارہ میں بیان فرماتے ہیں: اس نے یہ موقع غنیمت سمجھا اور کہا کہ اگر اتنے روپے دے دو گے تو میں چلا جاؤں گا....جتنے روپے وہ مانگتا تھا اس وقت اتنے روپئے حضرت خلیفہ اول کے پاس نہ تھے.اس لئے آپ کچھ کم دیتے تھے ، اس جھگڑے میں کچھ دیر ہوگئی چنانچہ اس کی اطلاع پھر حضرت صاحب تک پہنچی کہ وہ ابھی تک نہیں گیا اور قادیان میں ہی ہے.اس پر حضرت صاحب نے حضرت خلیفہ اول کو کہلا بھیجا کہ یا تو اسے فوراً قادیان سے رخصت کر دیں یا خود بھی چلے جاویں.“ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن سخت آوارہ گرد تھا اور اس (104) کے متعلق شبہ کیا گیا تھا کہ ایسانہ ہو کہ وہ قادیان میں کسی فتنہ عظیم کے پیدا کرنے کا موجب ہو جائے.(4) (۱۰) سعد اللہ نو مسلم لدھیانوی کے متعلق جو حضرت اقدس کی توہین و تکذیب میں اول درجہ کا مخالف اور ضدی تھا اس کی گندہ دہانی کے متعلق ڈاکٹر سرمحمد اقبال نے اپنی طالب علمی میں ایک نظم لکھی تھی ( مؤلف ) سعد اللہ کے متعلق حضور نے یہ الہام شائع فرمایا تھا کہ یہ شخص ابتر ہو جائے گا.مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب وکیل نے حضور کو مشورہ دیا کہ اس کے ابتر ہونے کا الہام کتاب میں سے کاٹ دیا جاوے کیوں کہ ابھی سعد اللہ جوان ہے اور اس کا لڑکا بھی خاصی عمر کا ہے.اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ حضور پر عدالت میں دعوے دائر کر دے گا جس کا ہم دفعیہ نہیں کر سکیں گے.حضور نے فرمایا اب تو ہم لکھ چکے ہیں.اسے کاٹا نہیں جاوے گا.اس وقت حضرت حکیم الامت نے فرمایارب اشعث اغبر لواقسم على الله لابره (105) چنانچہ الہام شائع ہوا.اور سعد اللہ کے گھر بارہ سال تک کوئی بچہ پیدا نہ ہوا اور اس کا لڑکا بھی جوان ہوا اور اس کی شادی ہوئی مگر کوئی بچہ پیدا نہ ہوا.(از مؤلف ) ۲۹ ستمبر ۱۸۹۴ء کو حضرت اقدس کو سعد اللہ کے متعلق الہام ہوا تھا.إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (106) جنوری ۱۹۰۷ء میں وہ نمونیا پلیگ سے مر گیا اور اس کا اکلوتا بیٹا ۱۲ جولائی ۱۹۳۶ء کو لا ولد مر گیا.امر زیر بیان کے متعلق روایت ۴۲ مندرجہ سیرۃ المہدی (حصہ اول) نیز ذکر حبیب ص ۱۵۶ قابل ملاحظہ ہو.(11) حسین کا می ترکی سفیر نے حضور کو لکھا کہ میں قادیان آنا چاہتا ہوں.حضور نے فرمایا کہ رات کو

Page 114

107 خواب دیکھا اور معلوم ہوا کہ وہ منافق طبع ہے.وہ قادیان آیا.اس کی بڑی خاطر تواضع کی گئی (اس نے حکومت ترکیہ کے لئے دعا کی درخواست کی تو ) حضور نے پند و نصائح میں فرمایا کہ ترکی کی حالت مخدوش ہے.اس کے عمال کی ایمانی اور دینی حالت اچھی نہیں ہے.ان حالات میں ترکی حکومت کا انجام بخیر نہیں ہے ( ان باتوں کو سفیر نے برا منایا اور قادیان سے واپس جا کر حضور کے خلاف باتیں کیں ) سفیر مذکور واپس قسطنطنیہ گیا.تو ہندوستان سے وصول کرده چنده نین کرنے کے باعث سزا یاب ہوا.☆ (۱۲) کرم الدین سکنہ بھین کے مقدمہ میں حضور کو جہلم جانا پڑ اور ہزارہ لوگوں نے بیعت کی اور سٹیشن پر اس قدر جم غفیر تھا کہ پولیس کو انتظام کرنا مشکل ہو گیا ایک انگریز سٹیشن ماسٹر نے حضرت اقدس سے درخواست کر کے الگ تبادلہ خیالات کرنا چاہا اور اپنے دعاوی کے متعلق سوال کیا.حضور نے فرمایا کہ پہلے مسیح کو تو بعض لوگوں نے ملعون اور دوزخی قرار دیا اور بعض افراد نے ناکام قرار دیا یعنی یہود اور نصاری نے.لیکن میں وہ مسیح ہوں کہ کامیاب ہو کر دنیا سے جاؤں گا جس سے تمام دنیا کی اقوام فائدہ اٹھا ئیں گی.پہلے مسیح کو تو لوگوں نے دکھ دئے اور پھانسی تک چڑھانے کی سعی کی اور بعض نے اسے اپنے زعم میں مصلوب بنا کر ملعون قرار دیا.مگر میں کامیاب اور مظفر و منصور ہوکر دنیا سے جاؤں گا.(۱۳) یہ روایت میں نے حضرت علامہ جناب حافظ روشن علی صاحب مرحوم و مغفور سے سنی تھی ( آپ نے بیان کیا کہ میں اور چند اور اصحاب حضور کی خدمت میں موجود تھے کہ ) حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ایسی حالت میں تم سے گزر جاؤں گا جب کہ جماعت کی حالت ایسی ہوگی جیسی کہ ایک ماں جو سات دن کا بچہ چھوڑ کر فوت ہو جاتی ہے.جیسی حالت اس کمزور اور ناتواں بچے کی ہوتی ہے ایسی حالت میری وفات کے وقت میری جماعت کی ہوگی.مگر خدا تعالیٰ خود اس جماعت کی پرورش کرے گا اور اس کو ترقی دے گا.یہ جماعت بڑھے گی اور پھیلے گی.اللہ تعالیٰ خود اس کا محافظ ہوگا.کیونکہ یہ اس کی جماعت اور اس کا سلسلہ ہے (اس پر ہم سب لوگ آبدیدہ ہو گئے ).** (۱۴) ایک دیوانہ کتے نے مدرسہ احمدیہ کے ایک طالب عبدالکریم ( حیدر آبادی ) کو کاٹا اور اسے کسولی میں بھیج کر علاج کرایا گیا مگر واپس آکر دو تین ماہ کے اندر پھر اسے دیوانگی کا اثر محسوس ہوا اور وہ پانی سے ڈرتا تھا.۱۸۹۷ء میں سفیر مذکور قادیان آیا تھا.اشتہار حضرت اقدس ۷ جون ۱۸۹۷ء ۱۸ نومبر ۱۸۹۹ء نیز ذکر حبیب ص ۴۸ تا ۵۰ الحکم را گست ۱۹۳۸ ء.اس روایت میں خطوط واحدانی کے الفاظ خاکسار مولف نے ماسٹر صاحب کی قلمی روایات سے زائد میں تفصیل موجود ہے.کئے ہیں.

Page 115

108 حضرت اقدس کو اطلاع دی گئی.موسم جاڑے کا تھا ( کسولی والوں نے تار میں جواب دیا تھا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا ) حضور نے فرمایا کہ اس بچے کی تیمارداری کرو.میں خود بیمار ہوں.خود آ کر تیمارداری نہیں کر سکتا.میں دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ شفا بخشے گا.تیمارداروں میں میں بھی تھا.چند روز کے بعد وہ آہستہ آہستہ رو بصحت ہو گیا.* (۱۵) حضور علیہ السلام بعد نماز مغرب مسجد مبارک کی چھت پر شہ نشین پر بیٹھا کرتے تھے اور عشاء تک خدام کو زیارت کا اور ہمیں مٹھی چاپی (جسم دبانے ) کا موقع دیا کرتے تھے (ایک دفعہ ) دوران گفتگو میں خاکسار نے عرض کیا کہ بعض لوگ کم فہمی سے حضور کی پیشگوئیوں کو حالات موجودہ پر مبنی ( خیال ) کرتے ہیں.حالانکہ حضور کی دو عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں.اول یہ کہ حضور نے ۳۲ سالہ نوجوان ہٹے کٹے پنڈت لیکھرام کی موت کی ایسی پیش گوئی فرمائی جو پنڈت (مذکور ) کی صحت جسمانی کے بالکل برعکس تھی.لیکن مسٹر عبد اللہ آتھم و بچپن سالہ تھا اس کے متعلق (حضور ) نے فرمایا تھا کہ اگر چہ یہ ضعیف العمر ہے لیکن اس کے رجوع کرنے پر اس کی عمر لمبی کر دی جائے گی.مگر لیکھر ام کے متعلق حضور نے یہ پیشگوئی فرمائی کہ اگر چہ (وہ) جوان ، مضبوط اور ہر ایک قسم کی بیماری سے پاک ہے.یہ بہر حال مرے گا اور کوئی اسے بچا نہیں سکے گا.حضور نے فرمایا بے شک یہ ٹھیک ہے لیکن عبد اللہ آتھم نے مین جلسہ مباحثہ میں ہی رجوع کرتے ہوئے کانوں پر ہاتھ رکھا اور زبان منہ سے نکال کر کہا کہ میں آنحضرت کو دجال وغیرہ سخت الفاظ سے یاد نہیں کرتا.(۱۶) ایک مرتبہ حضور حسب معمول صبح کو سیر کر کے واپس آرہے تھے تو میں نے عرض کی کہ کیا غیر احمدی کا فر ہیں حضور نے فرمایا ”کفر کفر میں فرق ہوتا ہے“ (۱۷) حضرت سید فضل شاہ صاحب ابتدائی زمانہ میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں اپنی ایک پرائیویٹ غرض کے لئے چھ ماہ تک ٹھہرے رہے.حضور نے فرمایا تھا کہ چھ مہینے یہاں ٹھہریں.جب چھ مہینے پورے ہو گئے تو سید صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ اب تو چھ ماہ ہو گئے.میرا کام کب ہو گا.حضور نے فرمایا ایک رات باقی ہے.چه غم است چو شب درمیان است چنانچہ اسی روز شاہ صاحب کو (خواب میں ) ایک ہنڈیا دکھائی گئی جس میں سور کا گوشت تھا پس اس خواب کے بعد ان کا دل مطلوبہ رشتہ سے منحرف ہو گیا اور وہ ابتلا سے بچ گئے.☆ احباب عبدالکریم صاحب کے سوانح اصحاب جلد اول میں ملاحظہ فرمائیں.مؤلف روایت نمبر ۲۴ میں مزید تفصیل درج ہے.

Page 116

109 (۱۸) میاں چراغ دین صاحب چپڑاسی جو آج کل ربوہ میں مہاجر ہو کر مقیم ہیں بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۰۳ء کے قریب حضرت اقدس اپنے بچوں اور حضرت ام المومنین کو لے کر قادیان سے مشرق کی طرف سیر کے لئے جایا کرتے تھے (ایک دفعہ ) ایک بچے کو میں اٹھا کر ساتھ جا رہا تھا اس وقت حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ مشرق کی طرف سے ریلوے انجن کی سیٹی کی آواز آئی ہے.کیا تم نے بھی سنی.۲۳-۲۴ سال بعد ادھر ہی موضع بھینی کے مشرق کی طرف ریل آگئی.اور اس سے پیشتر حضور نے اپنی رویا بیان فرمائی تھی کہ میں ریل گاڑی میں سوار ہو کر قادیان آیا ہوں اور ☆ گاڑی بازار قادیان میں کھڑی ہوگئی.اس سے معلوم ہوا کہ آگے سری گوبند پور کی طرف ریل ابھی نہیں جائے گی.(۱۹) یکم اپریل ۱۹۰۴ء کو تین آریہ صاحبان حضرت اقدس کی زیارت کے لئے حاضر خدمت ہوئے.آپ نے فرمایا کہ آج کل جو آریہ سماج کا جلسہ ہوگا.اس میں کوئی ایسا صاحب بھی آیا ہے جو سنسکرت کا عالم فاضل ہو اور وید پڑھا ہوا ہو.آریہ صاحبان نے کہا کہ ابھی تک کوئی ایسا آدمی نہیں آیا لیکن کل ۲ اپریل کو اپر بیشک آویں گے ( یہ نہیں کہا کہ وید کا عالم اور سنسکرت کا فاضل آوے گا ) پھر آپ نے فرمایا کہ سچا مذ ہب وہ ہوتا ہے جس میں روحانیت اور کشش ہو اس کے بغیر کوئی مذہب قائم نہیں رہ سکتا.جب تک یہ امر کسی مذہب میں نہ ہو، اس کا قیام ایسا ہوتا ہے جیسے ایک پیج پتھر پر ڈالا جاتا ہے جو بہت جلد نیست و نابود ہو جاتا ہے ذراسی آندھی چلی اور خاک اڑی اور پیچ گیا.بیج نرم زمین میں ہو اور اس کی آب پاشی اخلاق فاضلہ سے کی گئی ہو.تب بات بنے.“ ( (108) " (۲۰) جموں میں ایک مولوی چراغ دین صاحب رہتے تھے.انہوں نے ایک لمبا چوڑا اشتہار بھی شائع کیا تھا کہ جو کوئی مسیح موعود کی بیعت کرے گا وہ طاعون سے محفوظ رہے گا.اور پھر اس نے دعوی کیا کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں اور پھر اس نے م میاں چراغ دین صاحب کی روایت بعد میں تذکر طبع ۲۰۰۴ ص ۶۹۰ پر طبع ہو چکی ہے کہ ایک دفعہ حضور میاں صاحب (یعنی حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب) کی انگلی پکڑ کر سیر کے لئے بسر اواں تشریف لے گئے جہاں پر آج کل چھپڑ ہے وہاں پہنچ کر فر مایا کہ دیکھو میاں گاڑی کی آواز آرہی ہے.پھر آپ یہ کہ کر چل دیئے خدا کے فضل سے آج کل یہاں گاڑی کی آواز سنائی دیتی ہے.(107) گو ماسٹر صاحب کی روایت میں قدرے سہو ہے لیکن اصل روایت ایک سی ہے.دو فوائد کے لئے یہاں درج کی ہے ایک تو یہ کہ گویا میاں چراغ دین صاحب بی روایت عام طور پر بیان کرتے رہے ہیں دوسرے اس میں یہ ذکر ہے کہ کس سفر میں حضور نے یہ بات بیان فرمائی تھی.

Page 117

110 حضرت مسیح موعود کی تکفیر و تکذیب میں ایک مضمون اور رسالہ شائع کیا جس میں اس نے مباہلہ کا مضمون شائع کیا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو الہام کیا کہ میں اس ( چراغ دین کو ہلاک کروں گا اگر اس نے تو بہ کر کے قدیم علماء سے معافی نہ مانگی جن پر وہ اپنی فضیلت جتلاتا تھا * * خدا کا غضب اس پر نازل ہوا کہ پہلے اس کے دولڑ کے طاعون سے مر گئے.پھر چراغ دین کو طاعون ہوگئی اور وہ بولتا تھا کہ اب تو خدا بھی میرا دشمن ہو گیا اس کی بیوی کو کوئی لے گیا، اس کا مسودہ مباہلہ لانے کے لئے حضور علیہ السلام نے مجھے جموں بھیجا اور مسودہ مباہلہ کا قادیان لایا گیا جس کا عکس حقیقۃ الوحی میں فوٹو سے لیا گیا ہے.(۲۱) ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود نے مفتی فضل الرحمن صاحب ( مرحوم ) کو کسی ضروری کام کے لئے گورداسپور بھیجا.وہ کام ختم کر کے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور اندر سے شربت وغیرہ لائے اور جب گول کمرہ میں مفتی صاحب کو دیکھا کہ سو گئے ہیں.حضور شربت وغیرہ لے کر پندرہ بیس منٹ ان کے سرہانے کھڑے رہے.جب مفتی صاحب بیدار ہوئے تو حضور کو کھڑے دیکھ کر سخت شرمندہ ہوئے بہر حال حضور اپنے خدام کی خدمت کے لئے خود دکھ اُٹھاتے تھے.(۲۲) لاہور میں ٹرینگ کالج میں ٹرینڈ ہونے کے لئے صدر انجمن نے مجھے ۱۹۰۷ء میں بھیجا تھا اور ۱۹۰۸ء میں حضور بغرض تبدیلی آب و ہوا لا ہور تشریف لائے اور قادیان سے روانہ ہوئے.اپنے مکان کے بعض یہ لفظ روایت کا حصہ ہے.مؤلف ☆ ہے ہے حضور فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق الهام هوانِى أُذِيْبٌ مَنْ يُرِيب ،،(109) میں فنا کر دوں گا.میں غارت کروں گا.میں غضب نازل کروں گا.اگر اس نے شک کیا اور اس پر ایمان نہ لایا اور رسالت اور مامور ہونے کے دعوے سے تو بہ نہ کی.اور خدا کے کے انصار سے جو سالہائے دراز سے خدمت اور نصرت میں مشغول اور دن رات صحبت میں رہتے ہیں.ان سے عفو تقصیر نہ کرائی کیونکہ اس نے جماعت کے تمام مخلصوں کی توہین کی کہ اپنے نفس کو ان سب پر مقدم کر لیا ،، (110) چراغ دین مذکور کے حالات سے اطلاع دینے اور مسودہ حاصل کرنے کا کام دراصل حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی نے سرانجام دیا تھا.۱۹۰۶ء میں حالات کے متعلق بدر میں آپ کا ایک خط شائع ہوا تھا جس میں درج تھا کہ اس کی عورت پر لوگ یاری آشنائی کا الزام لگاتے تھے ممکن ہے کہ وہ اس کی زندگی میں ہی خراب ہو اس بناء پر مخالفین نے روپیہ فراہم کیا اور بیوہ سے مقدمہ دائر کرانا چاہا لیکن جس دن مقدمہ دائر ہونا تھا اس صبح کو معلوم ہوا کہ وہ اپنے آشنا کے ساتھ غائب ہو چکی ہے.اس طرح دشمن نامراد ہوا یہ حالات مع حضرت اقدس کے ایک مکتوب کے احباب اصحاب احمد جلد ہشتم ص ۱۴۰ تا ۱۴۷ میں ملاحظہ فرمائیں.اس میں کوئی تضاد نہیں.قاضی صاحب کے حالات و کوائف بہم پہنچانے پر حضرت اقدس نے ماسٹر صاحب کو مسودہ لانے کے لئے بھجوادیا ہو گا.البتہ فراہمی قاضی صاحب کے ذریعے ہی ہوئی تھی.

Page 118

111 دروازوں پر قفل لگائے اور فرماتے تھے کہ اب ان کو خدا تعالیٰ ہی کھولے گا.جب حضور احمد یہ بلڈنگ میں مقیم تھے تو اکثر اسہال کی شکایت رہتی تھی.حضور آخری لیکچر ”پیغام صلح، تصنیف فرمارہے تھے.میری مرحومہ بیوی غلام فاطمہ بیگم نے اندرون خانہ جا کر دیکھا کہ لاہور کی بعض ہند و عورتیں زیارت کی خاطر حاضر خدمت ہوئیں یہ خیال کر کے کہ آپ کرشن اوتار ہیں بڑے ادب سے سلام کرتی تھیں اور زیارت کر رہی تھیں کہ حضور نے فرمایا کہ اب تو آپ زیارت کر چکی ہو چنانچہ ) پھر وہ عورتیں چلی گئیں.(۲۳) جب حضور کا انتقال ۲۶ مئی کو بوقت دس بجے ہو گیا تو احمد یہ بلڈنگ کے پاس شور محشر برپا ہو گیا.حضور کی نعش مبارک کو بذریعہ ریل پہنچانے کی تجویز ہوئی.مخالفین نے ہیضہ کا بہانہ بنا کر ریل پر لے جانے سے روکا مگر ایک اعلی ڈاکٹر کے سر ٹیفکیٹ کے باعث کہ وفات ہیضہ سے نہیں بلکہ پرانی اسہال سے ہوئی ہے نعش مبارک ریل کے ذریعہ بٹالہ تک لائی گئی.( از مولف) ڈاکٹر سدر لینڈ پرنسپل میڈیکل کالج لاہور کو حضرت اقدس کے آخری وقت میں بلایا گیا تھا.ان سے سر ٹیفکیٹ لے لیا گیا تھا کہ وفات ہیضہ سے نہیں بلکہ اعصابی تکان سے اسہال سے ہوئی ہے.(۲۴) ماسٹر صاحب نے بیان کیا کہ: ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں شاہ نشین پر رونق افروز تھے.میں نے عرض کی کہ بعض لوگوں نے میرے سامنے اعتراض کیا تھا کہ پنڈت لیکھرام اور عبداللہ آتھم کی پیشگوئیاں خدا کی طرف سے نہیں تھیں بلکہ انسانی دماغ اور منصوبہ کا نتیجہ تھیں.میں نے انہیں یہ جواب دیا کہ اگر یہ پیشگوئیاں ظاہری عوارض اور کمزوریوں کی بناء پر ہوتیں تو حضور اس طرح پیشگوئی کرتے کہ لیکھرام جو جوان اور مضبوط اور تندرست انسان ہے اگر یہ رجوع کر لے تو بچایا جائے گا اور یہ کہ عبداللہ آتھم جو بوڑھا اور عمر رسیدہ ہے.یہ بہر حال مرے گا مگر حضور نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان عوارض ظاہری اور تقاضائے عمر کے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کی کہ لیکھر ام اگر چہ نو جوان اور مضبوط ہے مگر وہ مر جائے گا اور عبداللہ آتھم اگر چہ بوڑھا ہے لیکن وہ اگر رجوع کرلے تو بچایا جائے گا.اس پر حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ واقعی یہ اچھا استدلال ہے پھر فرمایا کہ دراصل پیش گوئی کے اعلان کے بعد عبد اللہ آتھم نے جلسہ گاہ مباحثہ میں ہی رجوع کر لیا تھا حمد ۲۴ مئی ۱۹۰۸ ء بعد عصر کی ڈائری میں وہ وعظ بھی درج ہے جو حضور نے ان عورتوں کے اصرار اور اخلاص کے باعث فرمایا.(111)

Page 119

112 اور منہ میں انگلی ڈال کر کہا تھا کہ میں نے تو حضرت محمد ﷺ کو دجال نہیں کہا حالانکہ وہ ایسا کہہ چکا تھا، (112) (۲۵) مولوی محمد علی صاحب کے اکثر مضامین جو اسلام کی خوبیوں پر مشتمل تھے اخبار وطن میں شائع ہوتے تھے.ایڈیٹر وطن مولوی انشاء اللہ صاحب نے یہ شرط لگائی کہ حضرت مسیح موعود کا نام مضامین میں نہ آئے تو مضامین شائع کروں گا.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود سے مولوی محمد علی صاحب نے اجازت طلب کی.حضور نے مسجد مبارک میں حاضرین خدام کے رو برو فر مایا کہ اگر میرا نام نہ لو گے تو کیا مردہ اسلام دنیا میں پیش کرو گے اس وقت اللہ تعالیٰ نے اسلام کی زندگی میرے وجود کے ساتھ وابستہ کر دی ہے.(۲۶) ایک مرتبہ لنگر خانہ میں روپے کی سخت ضرورت تھی.میاں نجم دین صاحب خادم لنگر خانہ حضرت اقدس کے پاس آئے اور روپیہ مانگا حضور نے فرمایا ابھی جاؤ.ابھی روپیہ میرے پاس نہیں اللہ تعالیٰ جلد روپیہ صحیح دے گا.چنانچہ ظہر کی نماز کے وقت ایک نامعلوم شخص نے جو اجنبی اور غریب تھا اپنی پرانی لنگوٹی یا کپڑے سے ایک بوا حضور اقدس کی خدمت میں پیش کیا جس میں سونے کی مہریں تھیں اس نے یہ نہ بتایا کہ وہ کون ہے اور کیوں روپیہ دے رہا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے بعض اوقات انسان کی شکل میں متمثل ہو کر انسانی ضروریات کو پورا کر دیا کرتے ہیں جس کا مجھے دو تین مرتبہ ذاتی تجربہ ہوا ہے.(۲۷) '' مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دن جب کہ مغرب کے بعد مسجد مبارک کے شہ نشین پر رونق افروز تھے تو حضور نے اپنی بعض پیشگوئیوں اور الہامات کا ذکر فرمایا.میں کچھ فاصلہ پر کھڑا تھا.میں نہیں کہہ سکتا کہ میں نے خود حضور کی زبان مبارک سے یہ بات سنی یا دوسرے سنے والوں سے سنی لیکن یہ یقینی بات ہے کہ مجلس کے اکثر احباب اس روز نہایت سنجیدگی سے کہتے تھے کہ لاہور کے متعلق ابھی حضور نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ لوگ کہا کریں گے کہ یہاں بھی لاہور ہوتا تھا.اس کے بعد مجھے لاہور جانے کا اتفاق ہوا.ان دنوں حویلی کا بلی مل کے پاس حکیم محمد حسین صاحب قریشی اپنا عظیم الشان مکان بنوا ر ہے تھے میں نے ان سے یا ان کے رشتے داروں سے کہا کہ تم کیوں روپیہ ضائع کر رہے ہو.لاہور شہر تو اجڑنے والا ہے کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ لوگ کہا کریں گے کہ یہاں بھی لاہور ہوتا تھا اور پھر دوبارہ میں نے کہا کہ جب یہ شہر تباہ ہونے والا ہے تو آپ کیوں اپناروپیہ ضائع کر رہے ہیں اس پر حکیم محمد حسین صاحب قریشی مالک کارخانه مفرح عنبری نے کہا کہ معلوم نہیں یہ پیشگوئی کب پوری ہو.جب تک یہ شہر تباہ نہ ہو تب تک تو ہم فائدہ اٹھائیں گے، اسی طرح ایک دوسرے موقع پر حضرت مسیح

Page 120

113 موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا قہری نشان لاہور میں دکھایا گیا ہے (یعنی لیکھرام کے قتل کا نشان ) جس سے لوگوں نے فائدہ نہیں اٹھایا لیکن خدا تعالیٰ کی اس طور پر عادت جاری ہے کہ وہ سزاد ینے میں دھیما ہے جب تک پوری طرح اتمام حجت نہ ہو جائے وہ سزا کو روکے رکھتا ہے.رہے تھے نوٹ : سمیران ایام کا ذکر ہے جب حکیم محمد حسین صاحب قریشی لاہور میں اپنا عظیم الشان مکان بنوا (113) () (۲۸) حضور علیہ السلام اپنے مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے.مہمان بھی کوئی زیادہ نہیں ہوتے تھے.مگر جتنے بھی ہوتے تھے سب کے سب حضور علیہ السلام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے.کھانا گھر سے پک کر آجا تا تھا بعض اوقات حضور خود لاتے تھے.بعض دفعہ کوئی خادمہ لے آتی تھی حضور علیہ السلام کھانا نہایت آہستہ آہستہ تناول فرماتے تھے.لیکن جتنی دیر تک مہمان کھاتے رہیں حضور بھی کھاتے تھے.اس تمام عرصہ میں صرف ایک آدھی روٹی حضور کی غذا تھی.مہمان اچھی طرح سیر ہو جاتے تھے مگر حضور صرف ایک یا نصف روٹی پر ہی اکتفا فر ماتے.(۲۹) ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا ذاتی خرچ بالکل تھوڑا ہے میں ایک پیسہ روزانہ میں بھی گذارا کر سکتا ہوں زیادہ فکر مہمانوں کی ہوتی ہے.سوان کے لئے اللہ تعالیٰ خود بھیج دیتا ہے.(۳۰) ایک مرتبہ ایک شخص نے عرض کی کہ حضور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ** نے کہا ہے کہ میں تو مرزا صاحب کو کبھی نہ مانوں گا خواہ خدا بھی آسمان سے اتر کر یہ کہے کہ مرزا سچا ہے مان لوتب بھی میں نہ مانوں گا.تو حضور علیہ السلام نے فرمایا: دیکھو یہ لوگ میری مخالفت میں اندھے ہو گئے.اور میری مخالفت نے ان کی عقلوں کو بھی کند کر دیا ہے.انبیاء کا تو یہ قاعدہ ہے کہ وہ خدا کا خانہ خالی چھوڑتے ہیں.قرآن کریم میں ایک نبی کا ذکر آتا ہے کہ اس کو مخالفین نے کہا کہ ہم تجھ کو اس وقت تک تکلیف دینے سے باز نہیں آئیں گے جب تک کہ یا تو تو مر جائے یا پھر ہمارے مذہب میں واپس لوٹ آئے.دیکھو اس نبی نے یہ نہیں کہا کہ اگر خدا بھی آکر کہے تو بھی میں نہ پھروں گا بلکہ اس نے جواب میں فرمایا.الا ان يشاء الله - اچھا اگر خدا کو بھی یہی منظور ہوگا تو ایسا ہی سہی مگر یہ میرے مخالفین نبیوں سے بھی بڑے بنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر خدا بھی کہے تب بھی نہیں مانیں گے اور خدا کا خانہ بھی خالی نہیں چھوڑتے.☆ لاہور کے متعلق متعد دصحابہ کرام کی روایات مکرم مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر (حال انچارج شعبہ زود نویسی ربوہ) کی طرف سے اس پر چہ میں درج ہے.نیز ملاحظہ فرمایا جائے.تذکرہ طبع ۲۰۰۴ص۶۷۶ از مؤلف مولوی مذکور کی قبر عیسائیوں وغیرہ کے قبرستان میں تھی اب قریب کے عرصہ میں کسی جگہ بھرتی ڈالنے کے اس قبر والا لمبا چوڑا قطعہ کھود کر لے جایا گیا ہے فاعتبروا.

Page 121

114 (۳۱) ایک مرتبہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: دنیا کے کارخانہ میں دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات کام کر رہی ہے انسان یہ نہ کہے کہ میں کچھ ہوں اور میں کچھ کرلوں گا.انسان اپنی جگہ سے اٹھ نہیں سکتا.جب تک خدا تعالیٰ کا اذن نہ ہو ایک پتہ تک اپنے درخت سے بغیر حکم الہی کے جدا نہیں ہوسکتا.ہر ایک چیز پر اللہ تعالیٰ کا قبضہ (114) اور تصرف ہے.(۳۲) ” ہمارے مخدوم حضرت اقدس مہدی زمان کے نفوس قدسیہ میں خدا تعالیٰ نے ایسی تاثیر رکھی ہے کہ لوگوں نے یک لخت اپنی پرانی عادتوں اور نا پاک افعال سے ہمیشہ کے لئے توبہ کر لی ہے چنانچہ حال ہی میں ایک شخص نے حضرت اقدس سے بیعت کرنے کے بعد کہا کہ اگر آپ فرما دیں تو فلاں مقدمہ سے دست بردار ہو جاؤں جس سے میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک ہندو پر ناحق مقدمہ دائر کر کے پانسور و پیر کی ڈگری واجب الادا کرالی ہے اور پانسو روپے کو جو میرے لئے حرام ہے ترک کرتا ہوں.حضرت نے فرمایا کہ اس ہند و کو معاف کرو اور ایسی حرکات سے ہمیشہ پر ہیز کیا کرو.(15 (۳۳) پنڈت لیکھرام کی موت پر پنجاب میں بہت شور اور فساد کا خطرہ پیدا ہو گیا.انجمن حمایت اسلام کے سکول اور کالج ( واقعہ لاہور ) کی تلاشی ہوئی اسی طرح (انگریز) سپرنٹنڈنٹ پولیس مع پولیس کے قادیان میں حضور کے مکان کی تلاشی کے لئے بھی آئے اور حضور کے مکانوں کا محاصرہ کر لیا گیا.حضور نے نہایت اطمینان سے مستورات کو الگ کمرے میں بٹھا کر تلاشی دلائی.دورانِ تلاشی میں ایک کارڈ (ملا ) جو پنڈت لیکھرام کا لکھا ہوا تھا اس میں درج تھا کہ میری موت کی نسبت جو چاہو پیشگوئی شائع کر دو.میری طرف سے اجازت ہے.اس کارڈ کو دیکھنے کے بعد تلاشی بند کر دی گئی.سپرنٹنڈنٹ پولیس جب حضور کے مکان سے نکل کر باہر آنے لگا تو دروازہ پست ہونے کی وجہ سے اس (☆) انگریز کی کھوپڑی پر چوٹ آئی (*) (۳۴) ایک عرب صاحب قادیان تشریف لائے اور مسجد مبارک میں جب حضور مسجد کی چھت پر خدام میں مغرب سے عشاء تک رونق افروز ہوتے تھے.عرب مذکور نے کہا کہ حضور کی تصانیف جو عربی زبان میں شائع ☆ ی تلاشی ۱/۸ اپریل ۱۸۹۷ء کو ہوئی تھی اور کھر ام کے کئی خطوط نکل آئے تھے.بلکہ وہ معاہدہ بھی جس میں آسمانی نشانوں کے دکھلانے کے متعلق شرطیں قائم ہو کر فریقین کچی پیشگوئی کو معیار صدق و کذب ٹھہرانے پر رضامند ہوئے تھے.سپرنٹنڈنٹ مذکور نے یہ رپورٹ کی تھی کہ کوئی سازش نہیں ہوئی.سیدہ حضرت ام المومنین اعلی اللہ درجاتہا کی روایت میں یہ ذکر ہے کہ الدار کے سرد خانے میں تلاشی کے لئے جاتے ہوئے سپر نٹنڈنٹ پولیس کے سر پر چوٹ آئی تھی.(116) تلاشی سے تعلق میں سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ علی کی روایت مندرجہ الفضل ۲۲/۵۹ میں کس کمرہ کی تعین نہیں.

Page 122

115 ہوتی ہیں وہ آپ کی تالیف کردہ نہیں ہیں.کوئی اور عرب پوشیدہ ہیں جو حضور کو لکھ کر دیتے ہیں اگر یہ عربی تصانیف واقعہ میں آپ ہی کی لکھی ہوئی ہیں تو میرے رو برو تھوڑی عبارت لکھ کر دکھا ئیں میں آپ کا مرید ہو جاؤں گا.حضور نے فرمایا کہ میں اذن الہی کے بغیر ایسا نہیں کر سکتا.ممکن ہے کہ میرا ہاتھ شل ہو جائے.آپ یہاں چند روز اور ٹھہریں آپ کو خود پتہ لگ جائے گا کہ عربی تصانیف کا مصنف کون ہے (چنانچہ موصوف نے کچھ عرصہ قادیان میں قیام رکھا ) عرب صاحب نے عربی میں دو تین سوالات لکھ کر اندر حضور کی خدمت میں ارسال کئے ان کا جواب صفحہ دو دو صفحہ کا اور نہایت فصیح و بلیغ (عربی) عبارت میں لکھا ہوا آیا تب عرب صاحب حضور کے ہاتھ پر تو بہ کر کے بیعت میں شامل ہو گئے.(۳۵)۱۹۰۶ء کے قریب شیخ عبدالرشید صاحب سود اگر چرم بٹالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے باپ نے مجھے عاق کر دیا ہے یا کر دینے والا ہے جس سے میں محروم الارث ہو جاؤں گا.حضور نے شیخ صاحب موصوف کی دل جوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ گھبراؤمت.مجھے دعا کے لئے یاد (117) دلاتے رہو.خدا بہتر سامان کر دے گا.چنانچہ ہفتہ عشرہ کے بعد بٹالہ سے خبر آئی کہ شیخ صاحب کا باپ مر گیا ہے.قلمی روایات میں ماسٹر صاحب لکھتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ آپ کو گزند رض اور نقصان سے محفوظ رکھے گا.اور یہ کہ ساتویں روز ان کے والد کے فوت ہونے کی خبر آئی.اس پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا.شیخ صاحب! باپ کو مروا کر ہی سانس لیا (*) (۳۶) جب میں مڈل پاس کر کے ۱۸۹۴ء میں قادیان آیا تو اس زمانہ میں مہمان بہت ہی کم آتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم جنگل میں ہیں.۱۸۹۶ء کے قریب حضور اقدس کو الہام ہوا کہ قَدِ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ (118) یعنی مومنوں کی آزمائش ہوگی تو حضور نے فرمایا کہ کوئی ابتلا آنے والا ہے (چنانچہ ڈاکٹر مارٹن کلارک نے جو مقدمہ اقدام قتل کا حضرت اقدس پر دائر کر دیا اس سے یہ الہام پورا ہوا) اقدام قتل کا مقدمہ بڑا سنگین تھا.محمد بخش انسپکٹر پولیس سخت مخالف تھے اور عبدالحمید کو ( جسے پادریوں نے ورغلا کر یہ بیان دلا دیا تھا کہ حضرت مرزا صاحب نے مجھے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو قتل کرنے کے لئے بھیجا تھا) دن رات پختہ کرتے رہتے تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی اور لاہور کے دیگر مخالف علماء فریق مخالف کی ہر رنگ میں امداد کرتے تھے.ایک دفعہ کیپٹن ڈگلس ڈپٹی کمشنر ( گورداسپور ) بٹالہ کے ریلوے پلیٹ شیخ صاحب کی روایت مندرجہ الحکم ۲۶ مئی ۱۹۳۵ء سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ والد صاحب کی علالت میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کو قادیان سے لے جانے کے لئے کوشاں تھے.گویا مرض الموت میں ان کی خدمت کا موقعہ ملا معلوم ہوتا ہے کہ دعا کے لئے کچھ روز ٹھہر کر چلے گئے ہوں گے.اور پھر کسی وقت آنے پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے یہ بات کہی ہوگی (مؤلف)

Page 123

116 فارم پر گاڑی کے انتظار میں تھے اور سخت گھبرائے ہوئے تھے.سپر نٹنڈنٹ پولیس نے پوچھا کہ آپ کیوں پریشان اور سرگردان ہیں (1) کیپٹن ڈگلس نے کہا میں جدھر نظر کرتا ہوں مجھے مرزا غلام احمد صاحب کی صورت نظر آتی ہے جو کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں بے قصور ہوں.آخر یہ تجویز ہوئی کہ عبدالحمید کو بجائے پادریوں کے پولیس کی حوالگی میں رکھیں (ایسا کرنے کے بعد ) دوبارہ بیان لینے سے اس نے اقرار کر لیا کہ مرزا صاحب نے مجھے قتل پر مامور نہیں کیا بلکہ پادریوں نے ہی مجھے سبز باغ دکھا کر ایسا بیان دینے پر آمادہ کیا ہے اس پر مقدمہ الٹ گیا اور ڈگلس صاحب نے حضور سے کہا کہ آپ بری ہیں آپ کو قانو نا اجازت ہے کہ مارٹن کلارک پر مقدمہ دائر کر دیں.مگر حضور نے فرمایا کہ میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے میں زمینی عدالت میں مقدمہ نہیں کروں گا.اس مقدمہ میں حضور نے قادیان کے بازار سے گذرتے ہوئے فرمایا لوگ سمجھتے ہیں کہ میں سزا یاب ہو کر ذلیل ہو جاؤں گا یا قید ہو جاؤں گا ( وہ یاد رکھیں کہ ) یہ مرزا ذلیل ہونے کے لئے نہیں پیدا ہوا (**) خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ إِنِّي مُعِينْ مَّنْ أَرَادَا إِعَانَتَكَ (119) انى مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَ اهَانَتَكَ (120) مولوی فضل دین صاحب وکیل ہائی کورٹ مجھے ( ریلوے سٹیشن لاہور کے پلیٹ فارم پر ملے.فرمانے لگے کہ ہم نے ایسی بات دیکھی جو دوسرے کسی انسان میں نہیں دیکھی اور وہ یہ ہے کہ میں نے مرزا صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ عبدالحمید کے قادیان آنے کا اقرار نہ کریں پھر مقدمہ فوراً خارج ہو جائے گا.مرزا صاحب نے فرمایا کہ میں سچائی کوکسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتا.اگر تم لوگ میری وکالت نہیں کر سکتے تو نہ کرو.( از مولف) مولوی فضل دین صاحب وکیل غیر احمدی تھے.ان کا اس بارہ میں مفصل بیان الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۴ء میں مطالعہ کے قابل ہے.ایک شخص نے ایک مجلس میں حضرت صاحب کی مخالفت شروع کی تو مولوی فضل دین صاحب نے نہایت جوش میں کہا کہ میں مرزا صاحب کی عظیم الشان شخصیت اور اخلاقی کمال کا قائل ہوں.بڑے بڑے نیک لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ قانونی مشورہ پر انہوں نے اپنا بیان تبدیل کر لیا.صرف مرزا صاحب کو ہی میں نے ایسا پایا ہے کہ جنھوں نے سچ کے مقام سے قدم نہیں ہٹایا.میں نے مارٹن کلارک یہاں کچھ سہو ہے سپر نٹنڈنٹ نے نہیں بلکہ ریڈر نے پوچھا تھا.☆ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ والد صاحب نے فرمایا کہ ہندو بازار میں سے گذرتے ہوئے حضرت اقدس نے یہ بات فرمائی تھی اور لالہ ملا وامل نے ماسٹر صاحب کو یہ بات سناتے ہوئے بتایا کہ اس وقت حضور کا چہرہ مبارک ( گویا جلال کی وجہ سے ) دمک رہا تھا.

Page 124

117 کے مقدمہ میں ایک قانونی بیان تجویز کیا اور کہا کہ ملزم کا بیان حلفی نہیں ہوتا.مرزا صاحب نے بیان پڑھ کر کہا کہ اس میں تو جھوٹ ہے.خدا تعالیٰ نے تو اجازت نہیں دی کہ ملزم جھوٹ بول لے.میں نے کہا کہ آپ جان بوجھ کر اپنے آپ کو بلا میں ڈالتے ہیں.تو مرزا صاحب نے کہا کہ جان بوجھ کر بلا میں ڈالنا یہ ہے کہ میں قانونی بیان دے کرنا جائز فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے خدا کو ناراض کرلوں.یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا خواہ کچھ بھی ہو.اس وقت مرزا صاحب کے چہرے پر ایک خاص جلال اور جوش تھا.مرزا صاحب نے فرمایا کہ میں نے کبھی و ہم بھی نہیں کیا کہ آپ کی وکالت سے فائدہ ہوگا میرا بھروسہ تو خدا پر ہے جو میرے دل کو دیکھتا ہے.میرا بیان آپ کے قانونی بیان سے زیادہ موثر ہوگا.اگر بالفرض دنیا کی نظر میں انجام اچھا نہ ہو یعنی مجھے سزا ہو جائے تو میں خوش ہوں گا کہ میں نے اپنے رب کی نافرمانی نہیں کی ، خدا کی عجیب قدرت ہے کہ مرزا صاحب اپنے بیان پر بری ہو گئے.میں انہیں ایک کامل راستباز یقین کرتا ہوں اور میرے دل میں ان کی بہت بڑی عظمت ہے.حضرت ماسٹر صاحب لکھتے ہیں کہ جب میں پورٹ بلیئر (انڈیمان ) میں ہیڈ ماسٹر تھا تو کرنل ڈگلس جزائر انڈیمان اور نکو بار کے چیف کمشنر تھے بعض اوقات وہ ہمارے سکول میں آیا کرتے تھے اور فخریہ طور سے بیان کرتے تھے کہ ہم نے تمہارے مرزا صاحب کا مقدمہ (فیصل ) کیا تھا.اور الزام سے عزت کے ساتھ بری کیا تھا.میں نے عرض کیا Pilate failed but you succeeded جناب ! آپ تو کامیاب ہو گئے اور صحیح موعود کو انصاف کر کے بری کر دیا.مگر پہلا پیلا طوس نا کام اور بزدل تھا اس نے عیسی کو بے انصافی سے یہودیوں کے سپرد کر دیا.جنھوں نے عیسیٰ سے بہت برا سلوک کیا.(از مؤلف ) مکرم مولوی مبارک علی صاحب بنگالی مبلغ انگلستان نے کرنل ڈگلس صاحب سے ۲۸ جولائی ۱۹۲۲ء کو ملاقات کی تو کرنل صاحب نے اس مقدمہ کے حالات بیان کئے جس میں یہ بھی ذکر کیا کہ میرا یقین تھا کہ مرزا صاحب نیک بخت اور دیانتدار آدمی ہیں اور اسی امر کی تعلیم دیتے ہیں جس کا انہیں خود یقین ہے اور سلسلہ کی حیرت انگیز ترقی پر بڑا تعجب کیا اور کہا کہ مجھے گمان نہ تھا کہ یہ سلسلہ اتنا تر قی کر جائے گا.(121) (۳۸) ایک دفعہ میں حافظ حامد علی صاحب کے بھائی کے گاؤں میں گیا.انہوں نے ایک بچہ کو دیکھ کر کہا کہ یہ بھی خدا کا ایک نشان ہے.میں نے کہا کہ کیسے؟ کہا کہ میرے گھر میں اٹھرا کی مرض تھی.میں حضور کے پاس عشاء کے وقت گیا حضور نے فرمایا کیا بات ہے.میں نے عرض کیا کہ میری بیوی اٹھر اسے بیمار ہے.حضور نے فرمایا کہ کل جمعہ کے وقت یاد کرانا.جمعہ سے واپسی پر میں نے حضور کا دامن پکڑ لیا اور عرض کی کہ حضور دوائی دیں.حضور نے فرمایا میں دعا کرتا ہوں تم بھی ساتھ دعا کرو اور آمین کہتے جاؤ.انہوں نے کہا کہ میں تو تھک گیا مگر حضور نہ

Page 125

118 تھکے.اس دعا میں حضور کے آنسو جاری ہو گئے.حضور نے دوا بھی دی اور پھر یہ بچہ پیدا ہوا اور خدا کے فضل سے زندہ ہے.اس کے بعد لوگوں کو نسخہ دیا تو ان کو فائدہ نہ ہوا کیوں کہ دعا ساتھ نہ تھی (۳۹) حضور کو ۱۹۰۲ء میں الہام ہوا غَضِبْتُ غَضَباً شَدِيداً (123) ** فرمایا کہ: (124)(☆☆☆) طاعون زور سے پھیلے گی اور ہمارے مکان میں جو آجائیں گے.خدا تعالیٰ ان کو طاعون سے محفوظ رکھے گا.اس کے باوجود ( حضور ) برعایت اسباب کئی دفعہ مکان میں (دھونی وغیرہ کے لئے ) انگیٹھیاں سلگایا کرتے تھے.ان ایام میں حضور کے مکان کے چاروں طرف طاعونی اموات ہوتی تھیں مگر حضور کے مکانوں میں طاعون سے چوہا تک بھی نہیں مرا ۱۹۰۳ء کے قریب حضور کو الہام ہوا کہ عَفَتِ الذِيَارُ مَحَلُّهَا وَ مُقَامُهَا میں نے عرض کی کہ میرا کنبہ محلہ خواجگان میں ہے جہاں طاعون کے کیس متواتر ہورہے ہیں.حضور نے فرمایا کہ ہمارے گھر میں تو گنجائش نہیں ہے ادھر کسی مکان میں فروکش ہو جاؤ.چنانچہ میں حکیم فضل دین صاحب ( بھیروی ) مرحوم کے مکان میں مہمان خانہ کے اوپر آ گیا.ماسٹر صاحب کی ایک مطبوعہ روایت مولوی محمد علی صاحب کے متعلق نہایت ایمان افروز ہے بیان کرتے ہیں کہ: ان ہی دنوں ایک روز شام کو کسی نے آکر حضور علیہ السلام کو اطلاع دی کہ مولوی محمد علی صاحب کو طاعون ہوگئی ہے.آپ نے فرمایا کہ وہ تو ہمارے دار میں رہتے ہیں ان کو طاعون کس طرح ہو سکتی ہے.اگر مولوی محمد علی صاحب طاعون سے فوت ہو گئے تو سمجھ لو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں.☆ حضور علیہ السلام اسی وقت مولوی محمد علی صاحب کی عیادت کو تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا.دیکھو اب بخار ہے ؟ جب مولوی صاحب کو ہاتھ لگا کر دیکھا گیا تو بخار کا نام ونشان بھی نہ تھا.یہ حضور کا معجزہ ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزہ احیاء موتی کی مثل ہے.حضرت مسیح علیہ السلام اس سے بڑھ کر اور کیا مردے زندہ مکرم محترم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت و ناظر اعلیٰ قادیان نے خاکسار مؤلف کے استفسار پر فرمایا کہ حضرت حافظ صاحب اور ان کے سارے برادران کی سکونت ایک ہی گاؤں موضع تھے غلام نبی کی تھی اور یہ روایت گو میں نے پہلے نہیں سنی لیکن شیخ زین العابدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ ( مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) سے متعلق معلوم ہوتی ہے کیوں کہ ایک تو حضرت حافظ صاحب اور حضرت شیخ صاحب دو ہی بھائیوں کا حضرت مسیح موعود سے ابتداء میں گہرا تعلق تھا.دوسرے بھائیوں کا تعلق بعد میں ہوا دوسرے یہ مرض انہی کی اہلیہ محترمہ کو تھی غالباً اس دعا سے ان کا بڑا بچہ بشیر احمد پیدا ہوا ہو گا جو اس وقت بھی زندہ ہیں.یہ الہام ۱۹۰۲ میں ہوا.دافع البلاء ص ۶ تا ۸ میں مندرجہ الہامات میں درج ہے اور طاعون کا وہاں ذکر موجود ہے.یہ الہام پہلی اور دوسری بار جون ۱۹۰۴ء میں ہوا تھا اور زلزلہ کے بارے میں تھا.چنانچہ ۱۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو ضلع کانگڑہ میں زلزلہ سے ہزار ہا مکانات اور جانیں تلف ہونے سے پورا ہوا.ماسٹر صاحب نے اسے طاعون کے بارے میں سمجھا ہوگا.

Page 126

119 کیا کرتے ہوں گئے.(125) ماسٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ : مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو بلا کر اپنے متعلقہ دفاتر کا چارج دینے کا ارادہ کر لیا تھا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب اس بارہ میں رقم فرماتے ہیں کہ : مولوی محمد علی صاحب کو بخار ہوگیا.انہوں نے ھبرا کر یہ سمجھا کہ انہیں طاعون ہو گیا ہے...ان کے بدن سے سخت تپش آ رہی تھی.میں نے کھڑکی میں سے ہاتھ اندر کر کے ان کے بدن پر لگایا تو بخار بہت شدید معلوم ہوا.وہ وصیت کی باتیں کرنے لگے.اسی اثناء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے آپ نے ایک جذبے کے ساتھ اپنا ہا تھ مولوی محمد علی صاحب کے بازو پر مارا اور ہاتھ کو اٹھا کر نبض پر ہاتھ رکھا اور فرمایا آپ گھبراتے کیوں ہیں آپ کو تو بخار نہیں ہے.اگر آپ کو طاعون ہو جائے تو میرا سلسلہ ہی جھوٹا سمجھا جائے.چونکہ حضرت صاحب ایسا الہام شائع کر چکے تھے کہ اس گھر میں رہنے والے سب طاعون سے محفوظ رہیں گے.سوائے ان کے جو متکبر ہوں اور مولوی محمد علی صاحب اس وقت گھر کے اندر رہتے تھے اس واسطے ضرور تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں طاعون سے محفوظ رکھے.حضرت صاحب کے ایسا فرمانے پر میں نے تعجب کے ساتھ پھر کھڑکی میں سے ہاتھ بڑھایا تو دیکھا کہ فی الواقع بخار اتر ا ہوا تھا ، (126) ذیل ہے.ماسٹر صاحب کی اسی طرح ایک اور روایت حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کے متعلق درج طاعون کے ایام میں ہی ایک روز حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کو بخار ہو گیا.یہ اس وقت کا ذکر ہے جب کہ قادیان میں ۲۴-۲۴ آدمی روز طاعون سے ہلاک ہوتے تھے اور جہاں کسی کو بخار ہوا سب نے یہی سمجھا کہ طاعون ہوگئی.میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع دی کہ مولوی فضل الدین صاحب بہت گھبرا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے طاعون ہو گئی ہے.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ: ”ہمارے گھر میں تو اب بالکل جگہ نہیں ہے.چھوٹے سے گھر میں کئی خاندان گذر کر رہے ہیں آپ ان 66 کو کہیں کہ مسجد مبارک بھی ہمارے دار ہی میں شامل ہے.اس میں آکر ڈیرہ لگالیں.میں اسی وقت حکیم صاحب کے پاس گیا اور ان کا بستر وغیرہ خود اٹھا کر لے آیا وہ مسجد میں آکر لیٹ رہے.قریباً عشاء کے وقت ان کو نیند آگئی اور وہ سو گئے.صبح کو بخار کا نام ونشان نہ رہا اور حکیم صاحب تندرست ہو گئے.یہ حضور کے احیاء موتی کی ایک اور مثال ہے جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی.( (127)

Page 127

120 ماسٹر صاحب نے بیان کیا حضور نے فرمایا: طاعون بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے آئی ہے.دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ہمارے گھر کو بالکل طاعون سے محفوظ رکھا اور ایک چوہا تک طاعون سے بیمار نہیں ہوا.حالانکہ ہمارے گھر کے چاروں طرف طاعون کے کیس ہورہے ہیں.حضور علیہ السلام کے گھر میں ان دنوں ایک سو بیس سے لے کر ایک سو پچاس تک افرا در ہتے تھے، اردگرد کے گھروں میں جہاں تین تین چار چار نفوس رہتے تھے ان میں سے کسی گھر سے ایک اور کسی گھر سے دو افراد طاعون سے مر گئے.غرض شمال جنوب ، مشرق و مغرب چاروں طرف طاعون نے ہلاکت اور تباہی مچائی ہوئی تھی (128) ماسٹر صاحب کے قلمی مسودہ میں اس بارہ میں مزید مرقوم ہے کہ: شمال کی طرف مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا مکان ہے اس طرف بھی طاعون کا کیس ہوا اور ساتھ کے سکھوں کے مکانوں میں بھی طاعون کے کیس ہوئے اور غرب میں ہندو ڈ پٹی کے مکان میں اور دیگر ملحقہ مکانات میں طاعون کی واردات ہوئی.مگر اللہ تعالیٰ نے حضور کے مکان کو کشتی نوح کی طرح طاعون سے بچائے رکھا.(۴۰) ماسٹر صاحب بیان کرتے تھے : ے، یا ۱۹۰۶ ء کا واقعہ ہے کہ آریوں کا ایک اخبار شبھ چنتک“ قادیان سے شائع ہوتا تھا.اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کثرت کے ساتھ دل آزار مضامین شائع ہوتے تھے.ہمیں اس اخبار کو پڑھ کر از حد غصہ آتا تھا.مگر حضرت صاحب نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس کا جواب نہ دے.ہم خود جواب لکھیں گے.چنانچہ حضرت صاحب نے رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم تالیف فرمایا.اس رسالہ میں اپنے نشانات پیش کر کے لالہ ملا وامل اور لالہ شرمیت کو چیلنج دیا کہ وہ میرے ان نشانات کے گواہ ہیں اگر یہ نشانات برحق نہیں تو حلفیہ انکار کر کے اشتہار شائع کر دیں پھر دیکھو کہ عذاب الہی کس طرح ان پر مسلط ہوتا ہے آپ نے فرمایا کہ یہ تو ممکن ہے کہ یہ لوگ حق کو ٹالنے کے لئے بغیر الفاظ مباہلہ یا قسم کے ایسا اشتہار دیدیں.مگر یہ ممکن نہیں کہ مؤکد بعذاب قسم کے ساتھ انکار کر کے کوئی اشتہار شائع کریں.آپ نے فرمایا کہ اللہ جل شانہ نے ان دونوں

Page 128

121 ( یعنی لالہ ملاوامل اور شرمیت کو ) کو اولاد بھی دی ہوئی ہے.اس لئے کہ اگر یہ قسم کھا کر اشتہار دیں گے تو ان کی اولاد پر بھی عذاب نازل ہوگا “.(129) (از مؤلف ) اس اخبار نے لکھا تھا کہ ہم پندرہ سال سے اس قصبہ میں رہتے ہیں.ہمارے علم میں (معاذ اللہ ) مرزا صاحب مگار، خود غرض ، عشرت پسند، بد زبان ہیں اسی طرح فاجر ، فاسق نفس پرست شکم پرور، شہرت کا خواں، بداخلاق وغیرہ الفاظ لکھے.حضرت مسیح موعود نے ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے قادیان کے آریہ اور ہم “ رسالہ میں یہ شعر بھی لکھا لیکھو بڑی کرامت ہے سمجھتے نہیں تہ شامت ہے میرے مالک تو ان کو خود سمجھا آسماں سے پھر ایک نشاں دکھلا اسی طرح یہ شعر بھی لکھے یہ بھی لکھا: شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں ان کے ہرگز وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہا یہی ہے ہم نے ہے جس کا مانا قادر ہے وہ توانا اس نے ہے کچھ دکھانا اس سے رجا یہی ہے مجھ کو ہو کیوں ستاتے کیوں افترا بناتے بہتر تھا باز آتے، دوراز بلا یہی ہے جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دکھانا گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے حضور نے یہ بھی لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کے لئے غیرتمند ہے ضرور اس کا فیصلہ کرے گا وہ ضرور اپنے نبیوں کے لئے کوئی ہاتھ دکھلائے گا.خدا ان کا اور ہمارا فیصلہ کرے.سو یہ لوگ طاعون سے ہلاک ہو گئے بلکہ

Page 129

122 ان کے اہل وعیال بھی.منشی اللہ دتا صاحب نے جو قادیان میں پوسٹ ماسٹر رہ چکے تھے یہ شہادت دی کہ اچھر چند مذکور سے گفتگو کرتے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب (عرفانی) نے بتایا کہ حضرت مرزا صاحب کا طاعون سے محفوظ رہنا ایک نشان ہے اس پر اچھر چند نے کہا تھا کہ لو میں مرزا صاحب کی طرح دعوی کرتا ہوں کہ میں طاعون سے نہیں مروں گا جس پر اسے کہا گیا کہ تو ضرور طاعون سے ہلاک ہوگا * ☆ ماسٹر صاحب نے بیان کیا: حضور نے مجھے قادیان کے ” آریہ اور ہم رسالہ کے چند نسخے دیئے کہ آریوں اور ہندوؤں کی دکانوں پر یہ رسالے تقسیم کر آؤں.چنانچہ میں نے یہ رسائل آریوں کو دیئے اور دوکانوں پر بھی ڈال آیا.اللہ تعالیٰ کا قہر اس طرح سے نازل ہوا کہ اخبار مذکور کا ایڈیٹر سو مراج اور مینجر اور سب ایڈیٹر کو طاعون ہو گئی اور ادھر حضرت اقدس کو الہام ہوا لَا تَنْفَكَا مِنْ هَذِهِ الْمَرْحَلَةِ * * چنانچہ سو مراج ایڈیٹر * اور اس کے بچے اور بیوی اور بھگت رام اور اچھر چند جو اخبار مذکور کے افراد عملہ تھے سب طاعون میں مبتلا ہو گئے اور یکے بعد دیگرے سب مر گئے.اس اخبار کا کا تب ایک غیر احمدی (مسلمان ) تھا.وہ قادیان سے بھاگ کر بٹالہ چلا گیا.اس کے پیچھے پیچھے طاعون گئی اور وہ بٹالہ میں طاعون کا شکار ہو گیا اس یک لخت تباہی سے بعض احمدی اصحاب خوش ہوئے کہ ان مفسدوں کا قلع قمع ہو گیا ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ غضب میں ہے.کسی قسم کی شوخی ہماری طرف سے نہیں ہونی چاہیے.اس زمانہ میں نواحی علاقہ میں طاعون کا بہت زور تھا اور بعض دیہات میں لوگ کتوں کی طرح مرتے تھے اور ہماری مساجد میں دعا.استغفار اور ذکر الہی کا زور تھا.ان دنوں حضور نے (تریاق الہی ) دوائی برائے علاج طاعون بھی تیار کرائی تھی.اس کی تفصیل حقیقۃ الوحی ( تتمہ ) ص ۵۲ او ما بعد میں مرقوم ہے.پورے الفاظ ہیں.اَحَقَّ اللَّهُ أَمْرِى وَلَا تَنْفَكَامِنُ هَذِهِ الْمَرْحَلَةِ.(130) ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے میری بات کو سچا کر دیا اور تم دونوں اس مرحلہ سے نہیں چھوٹو گے.یہ الہام ۲۹ مارچ ۱۹۰۷ء کا ہے.جس کے بعد یہ لوگ طاعون سے ہلاک ہو گئے.ایڈیٹر شبھ چنتک کے بارے میں ایک روایت حضرت منشی ظفر احمد صاحب اصحاب احمد جلد ۴ ص میں قابلِ مطالعہ ہے.

Page 130

123 ماسٹر صاحب بیان کرتے ہیں : ان ایام میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب کو بھی جو ابھی بچے تھے طاعون کی گلٹیاں نکل آئیں.اس پر حضرت اقدس کو سخت اضطراب ہوا، حضور نے ان کے لئے دعا کی اور دوائی دی تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ میر صاحب دوسرے لڑکوں کے ساتھ ادھر اُدھر بھاگتے پھرتے ہیں اور کھیل رہے ہیں“ از مؤلف - حضرت مسیح موعود" تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے کئی دفعہ ایسی منذ ر خوا ہیں دیکھیں.کہ میر ناصر نواب صاحب جو میرے خسر ہیں ان کے عیال کے متعلق کوئی مصیبت آنے والی ہے.وہ اتفا قامع اپنے بیٹے اسحاق اور گھر کے لوگوں کے لاہور جانے کو تھے.میں نے ان کو.لاہور جانے سے روک دیا.دوسرے دن میر صاحب کے بیٹے اسحاق کو تیز تپ چڑھ گیا اور سخت گھبراہٹ شروع ہوگئی اور دونوں طرف بنِ ران میں گلٹیاں نکل آئیں اور یقین ہوگیا کہ طاعون ہے کیونکہ اس ضلع کے بعض مواضع میں طاعون پھوٹ پڑی ہے یہ خیال آیا کہ اگر خدانخواستہ ہمارے گھر میں کوئی طاعون سے مرگیا تو ہماری تکذیب میں ایک شور قیامت برپا ہو جائے گا.غرض اس وقت جو کچھ میرے دل کی حالت تھی میں بیان نہیں کر سکتا.میں فی الفور دعا میں مشغول ہو گیا اور بعد دعا کے عجیب نظارہ قدرت دیکھا کہ دو تین گھنٹہ میں خارق عادت کے طور پر اسحق کا تپ اُتر گیا اور گلٹیوں کا نام ونشان نہ رہا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ پھرنا.چلنا.کھیلنا.دوڑنا شروع کر دیا گویا کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی تھی یہی ہے احیائے موتی.میں حلفاً کہتا ہوں کہ حضرت عیسی کے (131) احیائے موتی میں اس سے ایک ذرہ کچھ زیادہ نہ تھا“.(1) اسی طرح حضرت مسیح موعود د فرماتے ہیں کہ: (۱۴مئی ۱۹۰۵ ء ) ” میاں محمد اسحق حضرت میر ناصر نواب صاحب کا چھوٹا صاحبزادہ بیمار تھا ڈاکٹر صاحب کی رائے میں حالت اچھی نہ تھی.فرمایا میں نے دعا کی اور دعا کی اصل وجہ تو شماتت اعدا تھی ، دور نہ اولا د ہویا کوئی اور عزیز موت فوت تو ساتھ ہی ہے.غرض جب میں دعا کر رہا تھا تو یہ الہام ہوا: (1) سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِيمٍ (۲) پر خدا کا رحم ہے، کوئی بھی اس سے ڈر نہیں ) (132) ۲۴ مئی کو بیان کیا کہ کئی روز ہوئے جب اسحق بیمار تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت

Page 131

124 سے مردار خوار جانورلم ڈھینگ ہیں اور پاس ہی ایک مُردار پڑا ہوا ہے اس رویا کے بعد اس جگہ کو بدل دیا وہ معاً اچھا ہو گیا پہلے اس کے متعلق الہام ہوا تھا سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِيمٍ (133).حضرت میر صاحب اس کے بعد ۳۹ سال زندہ رہ کر بتاریخ ۱۷ار مارچ ۱۹۴۴ء وفات پا کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے سلام کا اسمیہ جملہ دائمی سلامتی چاہتا ہے جو ان کی عاقبت محمود ہونے سے ظاہر ہوگئی اور عجیب قدرت الہی ہے کہ آخری وقت میں آپ کی روح قفس عنصری سے اس وقت پرواز کر گئی.جب قرآن مجید سنانے والے نے سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِیم پڑھا.(۴۱) سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ میں بیان فرمایا کہ اس امر میں علماء سلسلہ میں اختلاف ہوا ہے آیا حضرت یحی شہید ہوئے تھے یا نہیں.اور فرمایا کہ خلفاء کرام کے زمانہ میں صحابہ جمع ہوتے اور تبادلہ خیالات کرتے اور بالآخر ان کی اکثریت تسلیم کر لیتی کہ فلاں بات صحیح ہے یا کہ روایات دونوں درست ہیں مگر پہلے آنحضرت ﷺ نے یوں فرمایا اور بعد میں یوں فرمایا.سواگر صحابہ کی شہادتوں پر مسائل مختلفہ کے تصفیہ کی بنیاد نہ اٹھائی جائے تو انبیاء کی صحبت میں لمبے عرصہ تک رہنے کی کوئی غرض ہی نہیں رہتی.سو اس طریق پر صحابہ کا جس امر پر اجماع ہوگا تو وہ بہر حال صحیح ہوگا اور صحابہ کی طبیعت پر جو مجموعی اثر نبی کی صحبت کا ہوتا ہے وہ غلط نہیں ہوسکتا کیونکہ تاثر سنت کا رنگ رکھتا ہے اگر صحابہ سے فائدہ نہیں اٹھایا تو ایک ایسی غلط بنیاد قائم ہو جائے گی جو سلسلہ کے لئے آئندہ نہایت خطرناک اور تباہ کن نتائج کی حامل ہوگی.حضور نے حضرت بیٹی کی شہادت کے متعلق متواتر تین خطبات اور خطبات بھی بہت طویل دیئے جس سے اس امر کی اہمیت کا علم ہوتا ہے اس بارہ میں اپنی اور دیگر صحابہ کی روایات بیان کی ہیں.حضور فرماتے ہیں: یہ صرف میری روایت ہی نہیں بلکہ بعض اور صحابہ کی بھی ہے چنانچہ ابھی جب کہ میں جمعہ پڑھانے کے لئے آرہا تھا ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں مجھے ایک رقعہ دیا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ : میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دومرتبہ مسجد مبارک میں فرمایا ( گویا کہ میں اب بھی آپ کو بولتے سنتا ہوں ) کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ محمدیہ کو سلسلہ موسویہ کے تقابل کے طور پر قائم کیا ہے سلسلہ موسویہ کے اول نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں اور ان کے آخری خلیفہ صلى الله حضرت عیسی علیہ السلام ہیں.اسی طرح سلسلہ محمدیہ کے بانی حضرت نبی ﷺہے ہیں اور آپ کا آخری خلیفہ

Page 132

125 مسیح موعود ہے.پس ایسے سلسلہ کا اول نبی اور اس کا آخری خلیفہ قتل نہیں ہوسکتا اور نہ حق مشتبہ ہو جائے.ہاں درمیان میں اگر کوئی نبی قتل ہو بھی جائے تو اس سے لَو تَقَوَل کے اصل پر کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتاز د نہیں پڑتی اور فرمایا کہ ایک امر تشبیہ کا یہ بھی ہے کہ جس طرح حضرت یحیی علیہ السلام سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ حضرت عیسی سے پیشتر قتل ہوئے ہیں اسی طرح میری بعثت یا آمد سے پیشتر حضرت سید احمد صاحب بریلوی شہید ہوئے.پھر فرمایا: کہ حضرت سید احمد صاحب بریلوی اور اسمعیل شہید میرے لئے بطور ار ہاص تھے.جیسے حضرت یجیے حضرت عیسی کے لئے بطور ا رہاص تھے.“ یہ بعینہ وہی روایت ہے جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سنی اور یہ بھی میرے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے طور پر انہوں نے لکھ کر بھیجی ہے ) ۹ ستمبر ۱۹۳۸ء کے خطبہ میں حضرت بیٹی کی شہادت کے متعلق سید نا حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ الہ تعلی (134) (135) نے ماسٹر صاحب کی روایت اور دیگر روایات کا پھر ذکر فرمایا ہے.سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ذیل کا مکتوب امر بالا کے متعلق اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا تھا.معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ سے قبل ابھی حضرت ماسٹر صاحب کو نہیں پہنچا تھا، اور انہوں نے کسی اور سے کوئی ذکر سن کر روایت حضور کی خدمت میں بھجوا دی.حضور نے تحریر فرمایا تھا: مکرمی شیخ عبدالرحیم صاحب المعروف بھائی جی و میر مہدی حسن صاحب و ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری، مفتی محمد صادق صاحب شیخ محمد اسمعیل صاحب سرساوی.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبر کاتہ.آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت ملی ہے.میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کبھی کسی تقریب پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں حضرت نیٹی کے قتل کا ذکر ہوا ہے اور اگر ہوا ہے تو آپ کو یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے قتل کا ذکر کیا یا ان کے زندہ بچ جانے کا.یعنی یہ کہا کہ حضرت بیٹی کی نسبت جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ قتل ہوئے غلط کہتے ہیں.اصل میں وہ زندہ بچ گئے تھے.یا کبھی آپ کو یاد ہے کہ حضور کی مجلس میں ایسا کوئی ذکر ہوا اور آپ نے دونوں میں سے کسی خیال کی تائید کی.آپ کا بیان حلفیہ ہونا چاہیے کیونکہ اس بارہ میں اختلاف ہو گیا ہے اور اپنے حافظہ پر پورا زور دے کر بیان لکھا ئیں.خاکسار مرز امحموداحمد * (136)

Page 133

126 حضور کی ذاتی خدمات قیام دار امسیح اور تعلیم صاحبزادگان کے مواقع ملنا ملے.سچ ہے حضرت ماسٹر صاحب اور آپ کی اہلیہ محترمہ کو حضرت اقدس کی بعض خدمات سرانجام دینے کے مواقع این سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشنده الہام فرمایا تھا دونوں کو دار ایسے میں قیام کا شرف حاصل ہوا.ہاں اس گھر میں جس کے متعلق حضرت باری تعالیٰ نے إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ (137) حضرت مثیل محمد ، موعود اقوام عالم، نبی آخر الزمان ﷺ کے قرب میں اور حضور کے گھر میں قیام اور آپ کی ذریت طیبہ کو تعلیم دینے اور اس وجہ سے خاص دعائیں لینے کا موقع ملنا بہت بڑی برکات اور شرف وعزت کا باعث تھا.آپ کی اہلیہ محترمہ بیان کرتی تھیں کہ میں نے اور ماسٹر صاحب (میرے خاوند ) نے ایام طاعون میں کئی ماہ حضرت ام المومنین اعلی اللہ در جانتہا کے قدموں میں گزارے.ان ایام میں حضور کے گھر کے گرد نالیوں میں صفائی کی خاطر فینائل بہت استعمال ہوتی تھی.مجھے گھر میں صفائی کرنے اور روٹیاں پکانے کی سعادت حاصل ہوئی میں آپ کا کھانا پکایا کرتی تھی اور اسے عظیم الشان کار ثواب سمجھتی تھی.بے شمار دفعہ مجھے اور ماسٹر صاحب کو حضرت مہدی زماں اور حضرت امیر المومنین کا پس خوردہ کھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانے کے مواقع حاصل ہوئے.حضرت مسیح موعود میری پکائی ہوئی روٹیاں پسند فرماتے اور کھاتے ہوئے ظرافت طبع کے طور پر فرماتے تھے آج خلیفی کی پکائی ہوئی روٹیاں ہیں.مسیح موعود سونف کا اور ہینگ کا استعمال فرمایا کرتے تھے.فرماتے تھے کہ لوگ ہینگ کی بوکو پسند نہیں کرتے دراصل اس کے اندر کستوری کے خواص ہیں) مفتی فضل الرحمن مرحوم نے بیان کیا: (☆☆) ۱۸۹۷ء میں...مجھے ٹائیفائیڈ ہوا اور ایک دن عشاء کے بعد مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب.مؤلف ) مجھے دیکھنے کے لئے تشریف لائے (اور ) مولوی قطب الدین صاحب کو کہا کہ اس کے اس مکتوب کا بلاک خاکسار کی طرف سے رسالہ اصحاب احمد بابت جولائی ۱۹۵۵ء میں طبع ہو چکا ہے یہ مکتوب حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے پاس محفوظ ہے.اس ساری روایت کا حصہ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی طرف سے الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۵۲ء میں شائع ہوا ہے بقیہ انہوں نے مجھے تحریر کر کے ارسال کیا ہے ہر دوکو خاکسار نے یہاں مخلوط کر دیا ہے.

Page 134

127 بچنے کی اب کوئی امید نہیں ہے.میری ساس سن رہی تھی وہ دوڑی دوڑی حضرت صاحب کے پاس گئی کہ فضل الرحمن آج بہت بیمار ہے.حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب سے کہو کہ توجہ سے علاج کریں.وہ کہنے لگی کہ مولوی صاحب تو نا امید ہیں.حضور نے فرمایا ابھی تو میں نے اس سے بہت کام لینے ہیں.میں دعا کرتا ہوں وہ اچھا ہو جائے گا تو سراٹھاؤں گا.صبح کے وقت حضور نے ماسٹر عبدالرحمن صاحب کو بھیجا کہ جاؤ فضل الرحمن کا پتہ لاؤ مجھے تسلی دی گئی ہے کہ اچھا ہے ماسٹر صاحب نے مجھے دیکھا تو ان کو بتایا گیا کہ خون کے دست آئے ہیں مگر میں حضور کی دعا سے اچھا ہو گیا ہوں کیا کہ: (138) حضرت اقدس کے آپ سے مشفقانہ سلوک کا اندازہ آپ کی دو روایات سے ہوتا ہے.آپ نے بیان ایک دفعہ مجھے خواب آئی کہ ایک پلیٹ میں کچھ کچا گوشت ہے.وہ ہوا میں ادھر ادھر ملتی ہلاتی رہی پھر میرے پیٹ میں گھس گئی.بعد ازاں مجھے سخت بخار آیا اترنے میں نہ آتا تھا.میں نے جموں جا کر معائنہ کرایا.ڈاکٹر نے کہا کہ پھیپھڑے درست ہیں.وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب سے نسخہ منگوایا.اس سے آرام آگیا.لیکن قادیان آنے پر پھر طبیعت خراب ہوگئی.میں نے حضرت اقدس سے ذکر کیا ، ان دنوں حضرت اُم المومنین بیمار اور کمزور تھیں.حضور کو الہامی طور پر بتلایا گیا کہ ان کے لئے قرابا دین قادری کا نسخہ بنایا جائے.چنانچہ حضور نے وہ نسخہ تیار کرایا اس میں سے مجھے بھی دواڑ ہائی پاؤ دیا.اس کے استعمال سے میں ٹھیک ہو گیا.ا لحمد للہ.۱۹۰۵ء میں طاعون کا سخت زور تھا.میں گلگت ہاؤس کی طرف رہتا تھا.وہاں چاروں طرف طاعون کے کیس ہوئے.ایک شخص کے چار جوان لڑکے ایک ہی روز میں فوت ہو گئے.مجھے بُن ران میں در دمحسوس ہوا.میں نے کہا کہ اگر وعظ ونصیحت کی جائے اور خدا تعالیٰ کا کام کیا جائے تو خطرہ ٹل جاتا ہے چنانچہ چند عورتیں ہی مل سکیں ان کو جمع کر کے وعظ ونصیحت شروع کر دی.خدا تعالیٰ کے فضل سے شام تک درد جاتی رہی.الحمد للہ.اسی مکان میں مجھے ایک متوحش خواب آئی.میں اپنی بیوی اور بشارت احمد مرحوم اپنے بچے کو لے کر محاسب کے دفتر والے کمرہ میں آگیا.وہاں رات کو میری بیوی کو خواب میں کسی نے کہا تم یہاں کہاں آگئیں.یہاں تو وہ آکر رہے سب بچے مروادینے ہوں.میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کے پاس گیا اور ماجرا عرض کیا.انہوں نے فرمایا تم وہاں کیوں چلے گئے.اس گھر کی تو اینٹ سے اینٹ بجنے والی ہے.چنانچہ میں حضرت مسیح موعود کے پاس گیا اور قصہ عرض کیا.حضور نے از راہ نوازش اپنا فراخ خیمہ عطا کیا میں نے اس جگہ پر لگا لیا جہاں دارا الانوار میں

Page 135

128 (☆) مولانا عبدالرحیم صاحب درد کی کوٹھی ہے اور میں اس میں اکیلا رہا.دوسرے روز منشی غلام محمد صاحب اور ماسٹر سکنہ علی صاحب مدرسین ہائی اسکول بھی میرے پاس آگئے.ایک روز صبح کی نماز کے بعد میں چار پائی پر بیٹھا قرآن مجید پڑھ رہا تھا کہ چار پائی ملنے لگی میں نے کہا کہ کون چار پائی ہلا رہا ہے.مگر معلوم ہوا کہ زلزلہ آیا.سخت جھٹکے آئے.ڈھاب کا پانی باہر آ کر مچھلیاں باہر آگئیں.بڑ کا درخت یوں ہلتا تھا جیسے ایک شاخ ہلائی جاتی ہے.قادیان میں مکان کوئی نہیں گرا ( بواسطه سردار بشیر احمد صاحب) (*) ماسٹر صاحب کو الزار کے پہرے کا انتظام کرنے کا بھی شرف حاصل ہے چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں: جن ایام میں پیر مہر علی گولڑوی کو حضور نے مقابلہ تفسیر نویسی * لکھنے کا چیلنج دیا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا کہ بعض لوگ حضور کی جان پر حملہ کرنے کو آئیں گے.چونکہ میں حضرت اقدس کے مکانات کے پہرہ کا انتظام کیا کرتا تھا.مجھے پتہ لگا کہ ضلع راولپنڈی کے دو تین اشخاص جو پیر مہر علی شاہ کے فرستادہ معلوم ہوتے (7) سردار بشیر احمد صاحب کہتے ہیں کہ محترمہ والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ اس وقت باغ بادیان کے اوپر چڑیاں اور کوے کائیں کائیں کرتے اڑتے تھے.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ دو تین سال ہوئے باووں کا باغ، باغیچی شاہ چراغ اور بڑے باغ کے جانب جنوب مغرب آموں کا باغ سب کاٹ کر کھیت بنائے جاچکے ہیں.دفتر محاسب والے کمرہ سے وہ حصہ مراد ہے جو مرزا امام الدین کمال الدین صاحبان کا تھا.اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کے مکان کی جانب جنوب گلی کے پار ہے اور جس میں ایک عرصہ دراز تک دفتر نظارت بیت المال رہا ہے تقسیم ملک سے قبل اس میں دفتر محاسب منتقل ہو گیا تھا.۱۸۸۶ء میں حضرت مسیح موعود کی ایک وحی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (139)..ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی ، اگر وہ تو بہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا.اسی طرح ۱۸۸۸ء میں محمدی بیگم کے تعلق میں اقارب کی سرکشی کے سب اللہ تعالیٰ نے وحی ک میں نے ان کی نافرمانی اور سرکشی کو دیکھا ہے.میں ان پر طرح طرح کی آفات ڈال کر انہیں آسمان کے نیچے سے نابود کر دوں گا.میں ان کی عورتوں کو بیوہ ، ان کے بچوں کو یتیم اور ان کے گھروں کو ویران کر دوں گا.میں انہیں ایک دم ہلاک نہیں کروں گا بلکہ تدریجا پکڑوں گا.تا کہ انہیں رجوع اور تو بہ کا موقعہ ملے.میری لعنت ان پر ، ان کے گھروں پر ، ان کے چھوٹوں اور بڑوں پر ان کی عورتوں پر اور مردوں پر.اور ان کے اس مہمان پر جو ان کے گھر میں داخل ہوگا ، پڑے گی اور ان تمام پر لعنت بر سے گی.(140) (ترجمہ) موصوفہ کی خواب میں اسی امر کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ ان شدید اور مورد غضب اقارب کے مکانات میں ایک متوقع عذاب الہی کے موقعہ پر قیام نہیں کرنا چاہیے.

Page 136

129 تھے لوگوں سے حضرت مسیح موعود کی بود و باش.رہائش مکان اور اندر باہر آنے جانے کی جستجو کرتے تھے.میں نے حضرت اقدس کو اطلاع کر دی حضور نے حاکم علی سپاہی کے ذریعہ ان لوگوں کو بٹالہ پہنچادیا.“ کرم دین والا مقدمہ جو اواخر ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۴ ء تک گورداسپور میں جاری رہا.اس کے متعلق ماسٹر صاحب بیان فرماتے ہیں : جن دنوں حضور پر مقدمات دائر تھے اور حضور کو اکثر گورداسپور میں ہی رہنا پڑتا تھا تو آپ کی غیر حاضری میں مکانات مقدسہ کی میں ہی نگرانی اور پہرہ کا انتظام کیا کرتا تھا.ایک دفعہ حضور نے لکھا کہ بیت الفکر جو...مسجد سے بجانب شمال ملحقہ کمرہ ہے اس میں پہرہ داران کو سُلانے کا انتظام کروں اور عموماً یہی ارشاد ہوا کرتا تھا ( قلمی مسوده) (*) سردار بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب ذکر کرتے تھے کہ میں بورڈنگ کے لڑکے یا مہمان خانہ کے آدمی پکڑ پکڑ کر پہرہ پر لگا دیا کرتا تھا اور خود بھی حضور کے گھر سوتا تھا.انہی ایام میں حضرت اقدس نے ماسٹر صاحب کو پہرہ کے متعلق ذیل کا مکتوب ارسال فرمایا جس میں حضور نے ہدایات بھی دی ہیں.مکتوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماسٹر صاحب پہرہ کے انتظام کے متعلق کارگزاری کی اطلاع حضرت اقدس کی خدمت میں بھجواتے تھے.بسم اللہ الرحمن الرحيم محمدہ ونصلی مکتوب گرامی تھی اخویم ماسٹر عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کے سب خطوط پہنچے جزاکم اللہ خیرا.مگر میرے نزدیک سب پہرہ چوکی بے فائدہ ہے جب تک مسجد کے اندر اور بیت الفکر کے اندر دو تین آدمی نہ سلائے جائیں سو یہ کوشش کریں کیونکہ گھر کے لوگ سب باہر کے دالان میں رہتے ہیں اور دالان خالی رہتا ہے.بہت تاکید ہے.والسلام خاکسار میرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ آپ کو حضرت اقدس کی اولاد کو تعلیم دینے اور حضور سے اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے دعائیں لینے کا موقع ملا.آپ تحریر فرماتے ہیں تفسیر نویسی کے دعوت مقابلہ کا زمانہ ۱۹۰۲ء کا ہے روایت میں خطوط واحدانی کے الفاظ خاکسار مؤلف کی طرف سے ہیں.

Page 137

130 جب حضور فصیح و بلیغ عربی میں تفسیر قرآن علما کے مقابلہ میں لکھ رہے تھے تو حضور نے فرمایا کہ ان دنوں میں بچوں کو پڑھا کر ہمارے گھر میں ہی سو جایا کرو چنا نچہ اس موسم سرما میں دار مقدس میں شب باش ہوتے رہنے کا فخر رکھتا ہوں‘ ( قلمی مسودہ ) بروایت سردار بشیر احمد صاحب) حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالیٰ کو بھی آپ تعلیم دیتے رہے ہیں.سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں.میں آنکھوں کی تکلیف کی وجہ سے خود نہیں پڑھ سکتا تھا.ماسٹر عبدالرحمن صاحب مجھے سناتے جاتے تھے اور میں سنتا تھا.اس بات کو سترہ سال کے قریب ہو گئے ہیں.مگر اس وقت کے مجھے فقرے کے فقرے ابھی تک یاد ہیں.(141)<< ماسٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں: میں حضرت مسیح موعود کی ذریت طیبہ کو نہ صرف اسکول میں بلکہ اندرون خانہ بھی تعلیم دیا کرتا تھا.ایک دفعہ میں صبح کے وقت حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو بیت الدعا میں کچھ پڑھا رہا تھا اور حضور لوٹا لئے ہوئے قضاء حاجت کے لئے بیت الدعا میں سے گذرے.حضور نے فرمایا کہ ان بچوں نے قوموں کا سردار بننا ہے.ان کو بڑی محنت اور اخلاص سے پڑھایا کرو“.میں نے عرض کی کہ میں تو اخلاص اور محبت سے تعلیم دیا کرتا ہوں.حضور میرے لئے اور میری اولاد کے لئے بھی دعا کریں.حضور نے ( پنجابی میں ) فرمایا جسنی کہو ایسی ہی دعا کروں گا.یعنی جتنی کہ اتنی ہی دعا کروں گا.یہ حضور کی دعا ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میری اولا د کو ایسی نافع تعلیم دلائی کہ میری دولڑ کیاں ڈاکٹر ہیں اور ایک لڑکا میڈیکل آفیسر ہے.( قلمی مسودہ) ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کو حبشہ وغیرہ میں تبلیغ اسلام کے مواقع ملے نیز دیگر مالی خدمات کے علاوہ تمام اولاد کو تحریک جدید کی خدمات کی توفیق مل رہی ہے مثلاً ڈاکٹر صاحب نے ہزار قرش چندہ تحریک جدید میں ادا کیا اور سردار بشارت احمد خان صاحب اور ان کے اہل و عیال نے قریباً چار ہزار شلنگ.(142) ڈاکٹر محمودہ بیگم صاحبہ سلسلہ کی تحریکات میں ہمیشہ فراخدلی سے حصہ لیتی ہیں اور فضل عمر ڈسپنسری کراچی میں روزانہ کچھ وقت دیتی ہیں.حضرت مسیح موعود کی کون سی ادا پیار لگی“ کے عنوان کے تحت ماسٹر صاحب لکھتے ہیں: میں سکھ سے مسلمان ہوا میرا دل اسی محبت کا شکار ہوا جو حضور اپنے خدام سے فرمایا کرتے تھے وہ ایسی

Page 138

131 محبت تھی کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ حضور کس سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۳۱۳ صحابہ میں شمولیت: (143) ،، آپ کو نہ صرف قدیم صحابہ بلکہ ۳۱۳ صحابہ میں شمار ہونے کا اعزاز وافتخار بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا کیا ہے.۳۱۳ صحابہ کے اسماء حضرت رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی پورا کرتے ہیں آپ کا نام یوں درج ہے.۲۵۵ - شیخ عبدالرحمن صاحب نومسلم ( یعنی بھیرہ) (144) عمر میں زیادتی جیسا کہ دوسری تیسری شادی کے تعلق میں ذکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بقیہ عمر کی مدت سے اطلاع دی تھی.جب یہ مدت پوری ہونے کو آئی تو ماسٹر صاحب نے جناب الہی میں گریہ و بکا کر کے دعا کی کہ یا الہی ابھی میرے بچوں کی تعلیم و تربیت مکمل نہیں ہوئی بہت سی ذمہ داریاں میرے سر پر ہیں میری عمر میں اضافہ فرمایا جائے.ابھی دومنٹ ہی دعا میں گزرے ہونگے کہ آپ کو الہام ہوا وَامَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسِ فيمكث في الارض یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی عمر میں اضافہ کر دیا کرتا ہے جو لوگوں کے لئے نافع وجود بن جائیں.اس پر آپ نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ کو تبلیغ احمدیت بہت پسند ہے اس لئے آپ نے تبلیغی اشتہارات شائع کئے اور روزانہ تبلیغ کرنے لگے اور پہلی بار جو مدت عمر بتائی گئی اس سے کئی سال زیادہ گزرگئی.اس تعلق میں آپ مزید تحریر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کئی مہمان ( بڑے) باغ میں آئے اور حضور کے کلمات طیبہ سے مستفید ہوئے تھے.ایک مرتبہ ان مہمانوں کی پھل فروٹ سے حضور نے دعوت کی.میں بھی ان میں شریک تھا.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ بعض صحابہ آنحضرت ﷺ کی بہت لمبی عمریں ہوگئی تھیں جن میں (وہ) اشاعت اسلام کرتے رہے.اسی طرح جو شخص اپنی عمر لمبی کرانا چاہتا ہے وہ تبلیغ میں میرا دست و باز و بن جائے.میں نے اس نسخے سے بہت فائدہ اٹھایا اور اٹھا رہا ہوں.“ ☆ (☆)66 آپ کی طرز تحریر محفوظ کرنے کے لئے روایت بالا کا چہ بہ اگلے صفحہ پر دیا جاتا ہے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۴ء میں فرمایا ”اگر انسان چاہتا ہے کہ لبی عمر پائے تو اپنا کچھ وقت اخلاص کے ساتھ دین کیلئے وقف کرے خدا کے ساتھ معاملہ صاف ہونا چاہیے وہ دلوں کی نیت کو جانتا ہے.دراز کی عمر کے واسطے یہ مفید ہے کہ انسان دین کا ایک وفا دار خادم بن کر کوئی نمایاں کام کرے.(145)

Page 139

132 جربه ایک مرتبہ کی مہمان جاتے میں آتے اور حضور کلمات طیبات سے مستفید ہوتے تھے ایک فرشتہ ان مہمانوں کی کلیول فورت حضور کے دعوت کی میں بھی ان معنی شریک تھا حصہ علیہ سلام نے فرما یار کا وہ بعض صحابہ کی بہت کمی کرد ہوگئی تھیں نہیں میں اشاعت اسلام کرتے ہے اس روح جو تھے شخص اپنی عمر بھی اپنا چاہتا و دور تبلیغ میں میرا ہمت باند بتجارت میں نے سر نیچے سے بہت کا نہ اٹھایا اور اٹھار یا خصت یا

Page 140

133 ماسٹر صاحب نے ۱۴/۱/۴۸ کے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا کہ ۸/جنوری کو رویا میں دیکھا کہ میرے لیمپ میں ایک یا دو ماشہ کے برابر تیل رہ گیا ہے اس کے معابعد میں نے دیکھا کہ کچھ تیل یا پیٹرول میرے لیمپ میں ڈال دیا گیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے میری عمر میں اضافہ کر دیا ہے.وفات چنانچہ اس کے بعد قریباً چار سال زندہ رہنے کے بعد آپ کا انتقال ہوا.(☆) سردار صاحب کی وفات پر آپ کے صاحبزادہ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے ذیل کا مضمون لکھا (*) ” میرے والد محترم سردار عبدالرحمن صاحب بی اے سابق مہر سنگھ رضی اللہ عنہ " جون کو مختصرسی بیماری کے بعد فوت ہو گئے اور اپنے حقیقی مولا کو جاملے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّيَبْقَى وَجُهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ “ ( جزائر انڈیمان میں کرنل ڈگلس سے اکثر ملاقات کرتے تھے.انہوں نے لنڈن جا کر بیان کیا کہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب مذہبی دیوانے ہیں.ماسٹر غلام جیلانی بی اے بی ٹی امرتسری سابق ہیڈ ماسٹر پورٹ بلیئر آپ ہی کے ہاتھ سے احمدی ہوئے.آپ پانچوں نمازیں آخر عمر تک مساجد میں ادا فرماتے رہے لوگوں کو الصلواۃ فی المسجد کی بہت تاکید کرتے تھے.تجد قریبا بلاناغہ ادا فرماتے تھے.کتابیں لکھیں.اور خفیف لاگت پر انہیں فروخت کر کے تمام ادیان میں فریضہ تبلیغ ادا کیا.آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اگرتم فریضہ تبلیغ جاری رکھ تو تمہاری عمر کو ہم بڑھاد میں گے چنانچہ آپ نے آخر عمر تک آخری مہینے تک اشتہارات شائع کرنے نہ چھوڑے....خاکسار ۱۵ برس سے آپ کے نقش قدم پر ملک ابی سینیا میں آنریری مبلغ کا کام کر رہا ہے.یہاں میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت والد صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی (46) اخویم مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوئی زودنویس ربوہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت ماسٹر صاحب فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں شدید بیمار ہوا بچنے کی کوئی امید نہ تھی.میں نے اپنی بیوی بچوں کی طرف نظر کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ اے اللہ ! تو ہر چیز پر قادر ہے مجھ جیسے مردہ انسان کو از سرنو زندہ کرنا تیری قدرت میں تکرار سے بچنے کے لئے آپ کی معیت ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف کامٹی کے متعلق الہام ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی پیدائش کے متعلق خوشخبری انڈیمان میں ملازمت وغیرہ کے متعلق حصے حذف کر دیئے ہیں.(مؤلف)

Page 141

134 ہے.میرے اہل وعیال کو ابھی میری زندگی کی ضرورت ہے ان کی پرورش اور تعلیم میرے ذمہ ہے تو مجھے صحت عطا فرما.میں عہد کرتا ہوں کہ میں احمدیت و اسلام کی تبلیغ میں کوئی کوتا ہی نہیں کروں گا اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور میں اس عہد پر حتی المقدور عامل ہوں.اخویم موصوف کا بیان ہے کہ اپنی طالب علمی کے زمانہ کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ ہر جمعرات کو طلباء کے تبلیغی وفود اساتذہ کرام کی قیادت میں مضافات میں باقاعدگی کے ساتھ جاتے تھے.اور ان وفود کو بھیجے جانے کا موجب حضرت ماسٹر صاحب تھے جن کا اثر طلباء اور اساتذہ پر بھی تھا.اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو آپ کے ریٹائر ہونے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا آپ اکثر مواضعات نت موکل.کھجالہ، بیری اور بھٹیاں کی طرف تشریف لے جاتے.میرے بھائی مولوی محمد عبد اللہ صاحب جو ان دنوں مدرسہ احمدیہ کے طالب علم تھے ساتھ جاتے رہے ہیں.کھجالہ میں انتہائی تعصب پایا جاتا تھا.ایک دفعہ وہاں کے لوگوں نے ماسٹر صاحب کو مسجد میں گھیر لیا اور سونٹوں سے پیٹا.مولوی صاحب اور ایک دو طلباء نے مجمع میں جا کر آپ کی حفاظت کی.مخالفین راستہ میں پھر لاٹھیوں سے حملہ آور ہوئے اور مولوی صاحب کو بھی ایک لاٹھی پڑی جس کی تکلیف ایک لمبے عرصہ تک رہی.باوجود اس کے ماسٹر صاحب کے جوش تبلیغ میں کوئی کمی نہیں آئی اور آپ اس علاقہ میں تبلیغ کے لئے تشریف لے جاتے.آپ قادیان سٹیشن پر جاتے.اور کسی واقف یا شاگرد کو سفر پر جاتا دیکھتے تو منت خوشامد کر کے تبلیغی چارٹ ساتھ لے جانے پر آمادہ کرتے اور تاکید فرماتے کہ منزل مقصود پر پہنچ کر آپ اسے کسی ایسی اچھی جگہ لٹکائے رکھیں جہاں ایک کثیر تعداد اسے پڑھ سکے.آپ کو کوئی نہ کوئی نیک بخت انسان چارٹ لے جانے والا مل ہی جاتا.حضرت ماسٹر صاحب کی قبولیت دعا کے باعث آپ کے شاگرد بہت ڈرتے تھے اور امتحان کے قریب اپنی کوتاہیوں کی معافی طلب کر کے دعا کے لئے عرض کرتے اور آپ وسعت قلبی سے معاف کر کے خود بھی دعا کرتے اور لڑکوں کو بھی خصوصاً دعا کر کے سونے کی نصیحت کرتے اور فرماتے کہ دوسری دعاؤں کے علاوہ یا خبیر اخبرنی کی دعا تین بار کر کے سونے پر خدا تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعے امتحان میں آنے والے بعض سوالات سے بھی آگاہ کر دیتا ہے.ضروری ہے کہ دعا کرنے والا قلم کا غذ اور روشنی کا انتظام رکھے تا بعد میں فوری طور پر ضبط تحریر میں لاسکے چنانچہ کچھ طلباء اس گر سے بہت مستفید ہوئے.مکرم راجہ محمد یعقوب صاحب کارکن خلافت لائبریری ربوہ نے بتایا کہ ایک دفعہ ہماری جماعت میں آپ اپنے ساتھ وہ رجسٹر لائے جس میں قبولیت دعا کے واقعات درج تھے.لڑکوں نے آپ کا یہ مقام دیکھا تو بہت خوف زدہ ہوئے اور آپ کی شان میں کوئی بات کرنے سے محتر ز رہنے کا عہد کیا ( بیان اخویم موصوف ) آپ کے منہ سے نکلی ہوئی عام باتیں بھی پوری ہو جاتی تھیں بعض لڑکوں کو آپ کہتے ” کا کا تو گنے بیچ.کا کا تم کوئی موٹا کام کرو.وغیرہ.گویا تم سے پڑھائی نہیں ہوسکتی.چنانچہ یہ

Page 142

135 لڑکے تعلیم مکمل نہیں کر سکے اور ایک حد تک انہوں نے وہ کام بھی کئے جو ماسٹر صاحب کی زبان سے نکلے تھے.آپ کو گورمکھی سکھانے کا بہت شوق تھا.چنانچہ میری درخواست پر آپ نے اس کے قاعدے منگوا کر مفت تقسیم کئے اور ہمیں مدرسے کے وقت کے بعد گورکھی پڑہاتے رہے.موسمی تعطیلات پر جانے سے قبل طلباء کو نصائح فرماتے جن میں تعلیمی وتبلیغی نصائح کے علاوہ حفظان صحت سے متعلق نصائح بھی شامل ہوتیں آپ فرماتے کہ سونے سے قبل تیل مل کر سونا چاہیے اس طرح مچھر نہیں کا تھا.صبح سویرے سیر اور ورزش کرنا سو بیماریوں کا علاج ہے.میں ہر روز ورزش کرتا ہوں اس میں ناغہ نہیں کرتا اور سال میں دوبار جلاب لیتا ہوں.مجھے بیس سال سے بخار نہیں ہوا ( بیان اخویم مولوی سلطان احمد صاحب) ماسٹر صاحب نے سنایا کہ ایک دفعہ میں قادیان کے ہند و بازار میں سے گزرا.بے پناہ گرمی پڑ رہی تھی.چند ہندوؤں نے کہا کہ آپ ہر روز دعا کی برکات بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے، آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آج بارش بر سادے تا گرمی دور ہو.آپ نے ان کی طنزر وتمسخر کو بری طرح محسوس کیا اور آپ کی غیرت جوش میں آئی.آسمان بالکل صاف تھا.آپ مسجد اقصیٰ میں جا کر اس وقت تک دعا میں مصروف رہے جب تک بارش کی وجہ سے آپ کے کپڑے گیلے نہ ہو گئے.فرماتے تھے کہ میں ہندوؤں سے جب بھی اس نشان کا ذکر کرتا تو وہ شرمندہ ہو کر آنکھیں نیچی کر لیتے.(بیان اخویم موصوف ) (بیان اخویم موصوف ) فرماتے تھے کہ میری بڑی بیوی شدید بیمار ہوگئیں اور ان کی زندگی کی امید باقی نہ رہی تو میں نے دعا کی کہ میری بیٹیاں قابل شادی ہیں، اگر ان کی والدہ کی موت مقدر ہے تب بھی تو ان کی شادیوں تک تو اسے ٹال دے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا عطا کر دی اور بچیوں کی شادیاں ہونے کے بعد وفات ہوئی.اس بارہ میں سردار بشیر احمد صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب نے مجھے لکھا کہ دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا و املیت لها وهي رميم كہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری والدہ کو مہلت دی ہے حالانکہ ان کا جسم اور ہڈیاں کھوکھلی ہو چکی ہیں.آپ کے جوش تبلیغ کے متعلق کیپٹن ڈگلس کی رائے بہت وقیع ہے انہوں نے ماسٹر صاحب کے پرسنل رجسٹر میں سالانہ رپورٹ میں یہ الفاظ لکھے تھے.He is an able teacher but fanatic“ کہ آپ قابل مدرس ہیں لیکن آپ کو مذہبی جنون ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ رقم فرماتے ہیں.(ماسٹر صاحب ) خدا کے فضل سے تبلیغ کے نہایت دلدادہ ہیں ابھی گذشتہ ایام میں انہیں اس بات کے لئے جیل خانے میں جانا پڑا کہ انہوں نے با وانا تک صاحب کو مسلمان لکھا تھا.مگر انہوں نے اس تکلیف کو نہایت

Page 143

136 بشاشت اور خوشی سے برداشت کیا (147) گویا فی سبیل اللہ تکالیف برداشت کرنے کو آپ باعث صد برکات یقین کرتے تھے.اسی فلسفہ کو حضرت مسیح موعود کے ذیل کے الہام میں بیان کیا گیا ہے.صادق آن باشد که ایام بلا می گذارد با گذارد با محبت با وفا را عاشقی گردد اسیر گر قضا بوسد آں زنجیر را کز آشنا (148) جیل سے ماسٹر صاحب نے ایک خط میں مذکورہ بالا الہامی اشعار لکھ کر تحریر فرمایا کہ ہتھکڑی لگتے وقت میں نے یہ شعر پڑھے تھے اور ہتھکڑی کو بوسہ دیا تھا.تبركات آپ کے متعلق سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں و تبلیغ کا اتنا جوش ہے کہ بعض کی نظروں میں جنون ہے.ایسے وجود نہایت ہی مفید ہوتے ہیں (149)..حضرت ماسٹر صاحب کے پاس حضرت مسیح موعود کے مندرجہ ذیل تبرکات تھے جو اس وقت ان کی اولاد کے پاس موجود ہیں.(۱) حضرت اقدس کا ایک مکتوب ماسٹر صاحب کے نام بابت پہرہ جو دوسری جگہ نقل کیا گیا ہے (۲) کشتی نوح، آریہ دھرم اور عربی اشعار وغیرہ کے اصل مسودات کے قریب سوا در جن صفحات فل سکیپ سائز (۳) کف قمیض اسلام کے لئے انتہائی قربانی حضرت ماسٹر صاحب کی فقید المثال قربانی کا ذکر آپ پڑھ چکے ہیں آپ کا ذیل کا بیان بھی اس تعلق میں قابل مطالعہ ہے.آپ جب پہلی بار تلاش مذہب کے لئے نکلے تو ایک سال بعد والدین کی ملاقات کے لئے واپس آئے.اس کا نقشہ آپ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں.”میرے اصلی گھر میں زور وشور سے رونا پیٹنا جاری تھا جیسے ہندوؤں اور سکھوں میں کسی عزیز کے مرنے

Page 144

137 پر عام طور سے ہوا کرتا ہے.انہوں نے خیال کیا تھا کہ یا تو اس عاجز کو بھیڑ یا اٹھا کر لے گیا ہے یا کسی ندی نالے میں ڈوب کر مر گیا ہے.میری مادر مہربان کی حالت نا گفتہ بہ ہے.وہ بیچاری دیوانہ وار کلاس فیلوں کے گھروں میں پھرتی تھی اور میرے ہم مکتب لڑکوں کو طمع دیتی تھی تا کہ کسی سے میرا پتہ لگے لیکن کسی کو میری جائے رہائش سے مطلق اطلاع نہ تھی.مگر وہ بے چاری مامتا کی ماری ہر روز مدرسہ میں جاتی اور زار زار روتی اور جہاں میں بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا وہ غم کی ماری اس جگہ کو اپنے لخت جگر سے خالی دیکھ کر آہیں بھر کر اور کلیجہ دونوں ہاتھوں سے تھام کر رہ جاتی تھی مگر کچھ نہ بنتا تھا.غرض اس طرح محبت و مامتا کی گرفتار رات دن رونے پیٹنے میں گزارتی تھی اور قریب تھا کہ صدمات ہموم و عموم سے دماغ میں فتور آجاوے کہ میرا خط جا پہنچا جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ آپ کسی طرح کا فکر اور اندیشہ نہ کریں میں خیریت سے ہوں مگر مسلمان ہو گیا ہوں.اس خط خیریت خط کے پہنچنے سے والدہ صاحبہ کی جان میں جان آگئی اور سال بھر کا دکھ درد جو رونے پیٹنے سے ان کو پہنچا تھا وہ سب خواب و خیال ہو گیا اور بڑی خوشی و شادمانی منائی گئی اور تمام رشتہ داروں کو جو دور ونزدیک رہتے تھے کہلا بھیجا کہ مردہ پھر زندہ ہو گیا ہے اور اتنی خوشی وخرمی حاصل ہوئی کہ میرے مسلمان ہونے کے صدمے کو بالکل محسوس و مشہود نہ کیا بلکہ سارا کنبہ جو تعداد میں انہیں مرد اور عورتیں تھیں سب کے سب خوش ہو گئے.مگر تیسرے چوتھے روز کے بعد یاد آیا کہ خط کو پھر دوبارہ پڑھ کر معلوم کرو کہ یہ عاجز کہاں بود و باش رکھتا ہے.لیکن اس عاجز نے ارادتا اپنا پورا پتہ تحریر نہ کیا تھا کیونکہ اس میں مصلحت یہی تھی کہ کسی موزوں موقع پر ملاقات کے لئے ان کو اتار چڑھاؤ دے کر راضی کریں تا کہ وہ جبر اور اکراہ سے اس عاجز کو تنگ نہ کر سکیں.آخر کار دو سال کے بعد جناب مکرم مولوی خدا بخش صاحب کی معرفت ایک عہد نامہ ہوا جس کی رو سے یہ قرار پایا کہ اگر والدین کسی طرح اس عاجز کو کفر کی طرف واپس کرنے کے لئے مجبور نہ کریں گے اور جہاں چاہے اس کو رہنے کی اجازت دیں گے اور جس مذہب میں رہنا پسند کرے اس میں اس کو رہنے کی مخالفت نہ کریں گے تو یہ عاجز گھر والوں کی ملاقات کے لئے آسکتا ہے ورنہ تمام عمر کسی رشتہ دار کومنہ دکھانے کاروادار نہ ہوگا.پہلی ملاقات جب یہ بات پخت و پز ہو چکی تو میں گھر آیا.ابھی یہ عاجز گھر سے ڈیڑھ میل پر ہی تھا کہ جناب والدہ صاحبہ بوجہ کمال شفقت مادری کے وہیں مجھے ملنے کے لئے تشریف لائیں اور گلے لگا کر اس قدر روئیں کہ آنسوؤں سے ان کا کرتہ تر ہو گیا اور میری آنکھوں سے بھی آنسو نکل پڑے اور میں نے کہا کہ اب تم کیوں روتی ہو.جس کی تم خواہش کرتی تھی وہ آخر حاصل ہوگئی.اب رونے سے کیا فائدہ؟ مگر اس بات کا ان پر کیا اثر ہوسکتا تھا.آخر میں گھر پر گیا اور بھائی اور بہنیں رورو کر ملیں.یہ ایسا دردناک نظارہ تھا کہ اس کو یاد کر کے اب بھی دل میں درد پیدا ہو جاتا ہے اور چشم پر آب ہو جاتی ہیں.اس ملاقات میں کوئی بحث اور مباحثہ پیش نہیں آیا صرف نرمی اور نیک اخلاق کے

Page 145

138 ساتھ دوسروں کی معرفت مجھے کفر کی ترغیب دی گئی.آخر کار تیسرے روز میں گھر سے رخصت ہوا.لیکن ماں کی عجیب محبت ہوتی ہے اور حیرت آتی ہے کہ والدہ صاحبہ مجھے رخصت کرتے کرتے پانچ کوس تک برابر ساتھ ساتھ چلی آئی اور نہ چاہتی تھی کہ رخصت ہو.آخر دل سے آہ کھینچ کر مجھ سے رخصت ہوئی (150) ” صاحبان یہ وہ باتیں ہیں جنھوں نے مجھے گھر سے بے گھر کر دیا اور گھر سے بجبر گھسیٹ کر سفر پر حذر میں رلایا اور اپنی پیاری والدہ کی چھاتی سے توڑ کر بیگانوں کے دروازوں پر در بدر کیا اور بجائے پدرانہ ناز ونعمت اور مادری شفقت کے بیگانوں کے جور و ستم کا تختہ مشق بنایا اور بے چاری عمر رسیدہ ضعیفہ والدہ ماجدہ کے آخری عمر کے گھنٹوں اور آرام طلب دموں کو درد انگیز آہوں اور فراق سے تلخ کیا اور اس کے سینہ بریاں اور چشم گریاں سے نہایت بے باکی کے ساتھ خون کے آنسو بہائے.میں (نے) ان تمام امور اور شکایتوں کو جو لکھی گئیں اور آئندہ دو حصوں میں بفضلہ لکھی جاویں گی بہتوں کے پیش کیا اور بہتیری سماجوں میں اپنے والدین اور خویش و اقربا کے ان پر درد حالات کا جن کے تصور سے بھی انسان کا کلیجہ پاش پاش ہوتا ہے اور بدن پر لرزہ پڑتا ہے واسطہ ڈال کر بھی ان امور اور اپنے مافی الضمیر کی عقدہ کشائی کرانی چاہی.مگر میں نہایت تندی اور ترش روئی سے ہر ایک طرف سے راندہ گیا اور ہر ایک سماج سے دھکیلا گیا.اور بعد ازاں بحالت مایوسی بایں غرض کہ کسی طرح اپنے والدین کے ملاپ سے ان کے کلیجہ میں ٹھنڈک پڑ جائے ہر ایک گلی میں گزرنے والے کے آگے اپنے آہ و نالہ کا دفتر کھول بیٹھتا اور ہر ایک گھر میں گھسنے والے کے خوفناک دہن کو ترساں لرزاں ہو کر پکڑ بیٹھتا اور اپنی مذکورہ بالا چند مشکلات اور باقی چند مسائل اور احقاق حق اور ابطال باطل کی خاطر نہایت تذلل و عجز انکساری اور فروتنی سے اس کی گرامی توجہ کو مبذول کرنا چاہتا.مگر بجائے جواب باصواب کے ہر ایک سینہ پر کینہ سے درشتی اور طعنہ و تشنیع ( بیہودہ اعتراضات بر اسلام از کتب غیر مستند ) کے بد بودار الفاظ کا ہدیہ لے کر تشنہ آپ کی طرح اپنے والدین کے ملاپ کو دور سے مایوس ہو کر سراب کی طرح دیکھتا اور رنج والتہاب سے ہر ایک عزیز واقارب کے پر جوش محبت کے سیلاب کو محسوس کر کے اپنا کلیجہ تھام تھام کر سہارا دیتا اور بناوٹ سے بمشکل اپنی رونی صورت کو دور کر کے لوگوں میں بیٹھنے کے قابل ہوتا.اور اپنی قوم کی حالت پر ملالت دیکھ دیکھ کر خود ہی رولیتا اور پاس بیٹھنے والوں کو اپنی چشم پر آب دکھا کر رلاتا.اور اپنا دردناک قصہ سنا کر ان کے آنسو بہاتا اور ظالمانہ طور سے ان کے کلیجوں کو گویا قصابوں کی چھری سے چھیلتا تھا اور بعض اوقات ہندنی ماؤں کو اپنا حال سنا کر اور ان کی پوری محبت کو جوش میں لاکر ان کے پیار اور دلاسہ کو حاصل کرتا اور انہیں روتے ہوئے گھر بھیجتا مگر اپنے مقصود و مطلوب کو نہ پاتا.میں اب اپنی اس حالت کو کہ آنکھوں.سے آنسو جاری ہیں اور دل پر ہر طرح کے خیالات مستولی ہیں زیادہ طول نہیں دینا چاہتا کیونکہ ممکن ہے کہ بہتوں کے دلوں کو درد پہنچے اور ان کی آنکھیں خون روئیں اور بجائے فائدہ کے نقصان اٹھائیں اور بہت سی مائیں اس پر

Page 146

139 درد ماجرے کی کہانی موسم سرما میں چولہوں کے پاس بیٹھ بیٹھ کر آدھی آدھی رات تک سننے والیوں کو سنائیں اور انجام کاران کو روتے ہوئے بستروں پر پہنچا ئیں اور حال سے بے حال ہو کر اپنے بال نوچیں اور گریبان پھاڑ میں اور ظالموں کے حق میں کچھ کا کچھ کہیں.(151) اسلام پر فدائیت اسلام پر آپ فدا تھے.آپ فرماتے ہیں.”ہم نے اسلام کو غور سے دیکھا اور تجربہ سے معلوم کیا.بے شک اسے خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنے والا پایا اور خدا کو عملی اور مشہود اور محسوس طریق سے حی و قیوم اور متکلم پایا.یہی وجہ ہے کہ ہم کسی طرح سے اسلام کو ترک نہیں کر سکتے.( اول تو خدا آزمائش میں نہ ڈالے مگر بفضله و بتوفیقه اسلام کو ترک کرنے سے آگ میں زندہ جلایا جانا آسان سمجھتے ہیں إِلَّا أَنْ يَشَا الله اس بات کے ثبوت میں ہمارا یہ کہنا کافی ہے کہ ہم نے اپنے پیارے اور مہربان والدین اور بھائی بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کو صرف اسلام کی خاطر چھوڑا نہ کسی اور غرض کے لئے.ہر ایک دانشمند جانتا ہے کہ وطن سے بے وطن یا اپنی جائے سکونت سے الگ ہو کر کالے پانی (عبور دریائے شور ) جانا اور اپنی جائیداد اور املاک منقولہ و غیر منقولہ سے دست بردار ہونا آسان کام نہیں ہے.جو اپنے والدین کو ہمیشہ کے لئے ترک کرتا ہے جو کچھ اس کے دل پر گذرتا ہے وہی اس امر سے واقف ہے اور دوسروں کے لئے تو یہ صرف ایک کہانی ہو جاتی ہے.مثنوی رقم کروں رنج اور غم کو میں کیا که خاموش ہے یاں زبان قلم ہوا جب کہ ماں باپ سے میں جدا نہ تھا کوئی میرا خدا کے سوا مری کس مپرسی کی حالت نہ پوچھ وہ تکلیف اور وہ صعوبت نہ عزیزوں کی فرقت کا تھا ایک عم ہوئی اس غربت ستم پر ستم کروں تنگ دستی کا میں ذکر کیا کہ تھا مفلسی کا مجھے آسرا

Page 147

140 پیاسے تھے اپنے ہی جب خون کے تو امید رکھتا میں کیا غیر فراق وطن اور غم اقرباء کے لئے گوارا کیا خدا کیا ترک سب عیش و آرام کو چھوڑا مگر دین اسلام کو وہ دیں جس کو لائے تھے خیر الانام سچائی میں جس کی نہیں کچھ کلام (152) سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ میں تعلق باللہ کی اہمیت پر زور د دیتے ہوئے ذکر الہی سے رویا و کشوف کی عظیم الشان نعمت حاصل کرنے کی تلقین فرمائی.اور فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھ لو آپ اس امر پر کتنا زور دیا کرتے تھے کہ پرانے نبیوں کی باتیں اب قصوں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں.اگر تم تازہ نشان دیکھنا چاہتے ہو تو میرے پاس آؤ اور میرے نشانات کو دیکھو.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لوگ نئے نشانات کے محتاج تھے تو اب بھی محتاج ہیں اور اگر ایسے نوجوان ہماری جماعت میں ترقی کرتے چلے جائیں اور بیسیوں سے سینکڑوں اور سینکڑوں سے ہزاروں ہو جا ئیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے.“ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالند ہری کی یہ عادت ہوا کرتی تھی کہ ذرا کسی آریہ یا کسی مخالف سے بات ہوئی تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نقل میں بڑی دلیری سے کہہ دیتے کہ اگر تمہیں اسلام کی صداقت میں شبہ ہے تو آؤ اور مجھ سے شرط کر لو.اگر پندرہ دن کے اندراندر مجھے کوئی الہام ہوا اور وہ پورا ہو گیا تو تمہیں مسلمان ہونا پڑے گا اور پھر اشتہار لکھ کر اس کی دکان پر لگا دیتے چنانچہ کئی دفعہ ان کا الہام پورا ہو جا تا اور پھر وہ آریہ ان سے چھپتا پھرتا کہ اب یہ میرے پیچھے پڑ جائیں گے اور کہیں گے کہ مسلمان ہو جاؤ.تو اگر یہ نمونے قائم رہیں تو غیر مذاہب پر ہمیشہ کے لئے اسلام اور احمدیت کی فوقیت ثابت ہو سکتی ہے اور اگر یہ نمونے نہ رہیں یا ہماری جماعت کے دوست اس عارضی دھکہ کو جو میری بیماری کی وجہ سے انہیں پہنچا ہے اپنی مستقل نیکی اور توجہ الی اللہ کا ذریعہ نہ بنا ئیں تو ہو سکتا ہے کہ اس میں وقفہ پڑ جائے جیسے رسول کریمہ کے بعد وقفہ پڑا اور اسلام لوگوں کو صرف ایک قصہ نظر آنے لگا.لیکن اگر انہوں نے اس انعام کو مستقل بنالیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ برکات جاری رہے گا اور ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک یہ سلسلہ اسی طرح پہنچے گا.(153)

Page 148

141 اختتام پیارے بھائیو! آپ سے رخصت ہونے سے قبل حضرت ماسٹر صاحب کی سیرت کے متعلق آپ کی توجہ اس طرف منعطف کرتا ہوں کہ ایک بارہ چودہ سالہ طفل مکتب کے ننھے دل میں وصال الہی کا کس قدر جوش ہوگا کہ جس نے آپ سے ایسی عدیم المثال قربانی کرائی کہ جس کے تصور سے بے اختیار صد مرحبا اور صد آفرین کے کلمات نکلتے ہیں.لائق تحسین ہے ایسے نوجوان کی فراست اور عقل سلیم.آپ نے قناعت ، صبر و رضا اور انفاق فی سبیل اللہ ، شب زندہ داری ، دعاؤں میں انہماک کے شاندار نمونے دکھائے.آپ اپنی عادات ولباس گویا ہر رنگ میں بہت سادگی پسند اور نام و نمود سے کوسوں دور رہنے والے درویش صفت بزرگ تھے.آپ صاف دل تھے اور آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے جو سفرة كرام بر رہ تھے مثیل اور رُبّ اشعث اغبر لو اقسم على الله لابرہ (154) کے مصداق تھے.آپ کی استقامت فوق الکرامت تھی ، آپ ۳۱۳ صحابہ میں شامل ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو علی بصیرۃ اور ضروری امور کی تحقیق کر کے مشرف بہ اسلام ہونے والا اور شریف “ اور ” دن رات دین کی تعلیم پانے والا اور محض اللہ تعالیٰ کی خاطر اقارب سے علیحدہ ہونے والا قرار دیا اور فرمایا کہ ان کا قبول اسلام نفسانی غرض سے پاک ہے.آپ کو بعض عظیم الشان پیش گوئیوں کے گواہ کے طور پر پیش کیا.اپنی اولاد کی تعلیم پر مقرر کیا اور اپنے دار مقدس کے پہرہ کا انتظام بھی ایک عرصہ تک آپ کے سپر درکھا ے ایں سعادت زور بازو نیست بخشد خدائے بخشنده اے واسع المغفرہ خدا تو ہمیں بھی اپنی رحمت کے سایہ تلے ڈھانپ لے اور اس مقدس گروہ صحابہ کے نقش قدم پر چلا.آمین یا رب العلمين.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمّدٍ وعلى ال محمدٍ وَبَارِک و سلّم انک حمید مجيد وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين -

Page 149

142 حوالہ جات 2 3 + 5 6 7 8 میں مسلمان ہو گیا حصہ اول صا العنكبوت : ۷۰ 24 النساء: ١٠١ 25 میں مسلمان ہو گیا حصہ دوم ص ۴۱.حاشیہ مکتوبات احمدیہ جلد نمبر ۵ نمبر ۲ مکتوب نمبر ۵۹ 26 الفضل زیر مدینہ مسیح ۵ دسمبر ۱۹۱۵ء ۷ ستمبر ۱۹۴۳ ص ۶ سيرة المہدی حصہ سوم.روایت ۶۷۶ میں مسلمان ہو گیا حصہ اول ص ۳۱ 27 تذکره ص ۴۱، ۳۹۵، ۶۲۴،۵۴۱ طبع ۲۰۰۴ 28 الفضل ۲ اپریل ۱۹۵۹ء ص ۵ مکتوبات احمدیہ جلد نمبر ۵ نمبر ۲ مکتوب نمبر ۶۰ 29 الفضل ۳۰ اکتوبر ۱۹۵۸ء ص ۵ مکتوبات احمدیہ جلد نمبر ۵ نمبر ۵ مکتوب نمبر ۱۰۴/۳۳ 30 الفضل ۵ جنوری ۱۹۵۲ء ص ۲ 31 الفضل ۶ مئی ۱۹۵۲ ء ص ۲ میں مسلمان ہو گیا حصہ اول ص ۳۳ تا ۳۵ میں مسلمان ہو گیا حصہ اول ص ۳۱ 10 مکتوبات احمد یہ جلد نمبر ۵ نمبر۲ مکتوب نمبر ۷۲ 32 رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن ۳۸.۱۹۳۷ء ص ۶۸ احمدیہ 11 مکتوبات احمد یہ جلد نمبر ۵ نمبر ۲ مکتوب نمبر ۸۲ 33 رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدرانجمن احمدیہ 12 مکتوبات احمد یہ جلد نمبر ۵ نمبر۲ مکتوب نمبر ۷۵ 13 3 ± 5 6 7 15 ۳۸.۱۹۳۷ء ص ۷۲ میں مسلمان ہو گیا حصہ اول ص ۳۸ ۳۹ 34 اصحاب احمد جلد چہارم ملخص.میں مسلمان ہو گیا حصہ سوم ص ۵۶،۵۵ شخص میں مسلمان ہو گیا حصہ سوم ص ۳۰ ملحض.میں مسلمان ہو گیا حصہ اول ص ۸۲ 36 مشخص.میں مسلمان ہو گیا حصہ سوم ص ۴۷۴۶ 37 مشخص.میں مسلمان ہو گیا حصہ سوم ص ۵۶ - ۵۷ 16 الحکم ۷ دسمبر ۱۹۰۵ء ص ۴ 17 الحکم ۲۸ جنوری ۱۹۱۲ء ص ۳ 18 الحکم سے فروری ۱۹۱۲ء 19 الحکم ۲۸ فروری ۱۹۱۴ ء ص ۱۱ 20 الفضل 3 ستمبر ۱۹۱۳ء ص ۱ 21 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۱۳ ء ص ۱ 22 رپورٹ مشاورت ۱۹۲۲ء ص ۵۲ 23 رپورٹ مشاورت ۱۹۲۳ء ص ۳۲ 38 الحکم ۴ امئی ۱۹۱۱ء ص ۱۰ 39 ملخص.میں مسلمان ہو گیا حصہ سوم ص ۱۰۸ 40 الفضل ۵ جنوری ۱۹۲۰ ص ۱۱ 41 الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۱۵ ء ص ۴ 42 خدا کا مسیح اور اس کا وصال ص ۱۹ 43 شخص - الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۳۷ء ص ۱۲ 44 الفضل ۵ دسمبر ۱۹۳۷ء ص ۱

Page 150

45 143 الفضل ۸ دسمبر ۱۹۳۷ء ۱۳ دسمبر تا ۱۵ دسمبر ۱۹۳۷ء ، 67 المائدة : ۱۴ دسمبر ۱۹۳۸ء 46 الفضل ۷ دسمبر ۱۹۳۷ء 46 ۱۷ 47 الفضل ادسمبر ۱۹۳۷ء ص ۷ 48 الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۳۸ء 49 تذکره ص ۲۵۵ طبع ۲۰۰۴ء 50 الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۳۸ء ص ۸ 51 68 یوسف:۷ 69 بدر ۲۵ اگست ۱۹۱۰ء 70 بدر ۱۳ اکتوبر ۱۹۱۱ ء ص ۲ 71 الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۵۲ء ص ۵ 72 الفضل ۲۴ جون ۱۹۵۲ء 73 میں مسلمان ہو گیا حصہ دوم ص ۴۴ تا ۴۸ شخص میں مسلمان ہو گیا حصہ اول ص ۱۱۳ تا ۱۱۶ ریاست ۱۷ جنوری.اہلحدیث ۲۱ جنوری.74 حیات فیض ملخص ص ۵۲ تا ۵۵ الفضل ۲۶،۲۰ جنوری ۱۹۳۸ء 52 الفضل ۲۲،۱۸،۱۴ جنوری ۱۹۳۸ء ۲۲،۱۸ مارچ ۱۹۳۸ء 76 شخص.میں مسلمان ہو گیا حصہ اول ص ۹۲ تا ۹۴ 53 الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۳۸ء ا ما 54 الفضل امئی ۱۹۳۸ء 55 الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۳۸ء 56 الفضل ۲۹ مارچ ، یکم اپریل ۱۹۲۰ء 77 مشخص.میں مسلمان ہو گیا حصہ دوم ص ۵۴،۵۳ 78 ملخص.میں مسلمان ہو گیا حصہ سوم ص ۱۰۹ تا ۱۱۱ 79 البدر ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء ص ۳۴ 80 ملخص.میں مسلمان ہو گیا حصہ دوم ص ۲ تا ۵ 57 میں مسلمان ہو گیا حصہ اول ص ۳۹ تا ۴۲ 81 سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۶۷۷ الفضل ۱۸اگست ۱۹۲۱، زیر مدینہ المسیح 2 تذکره ص ۳۸۰ طبع ۲۰۰۴ 58 59 60 61 62 الفضل ۳ مئی ۱۹۳۸ء ص ۸، ۱۷ جون ۱۹۴۴ء ص ۴ 83 سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۶۶۲ النساء: ۷۰ 84 نسیم دعوت ص ۷ تا ۹ الاعراف: ۳۷۳۶ 5 نسیم دعوت ص ۱۰۹ الاحزاب : ۴۱ 86 نسیم دعوت ص ۱۱ تا ۱۴ 63 ملخص.کتاب البریہ ص ۲۲۵.حاشیہ 87 اظہار حق.سرورق ۳۲ 49 64 65 56 المائدة : ۲۱ المائدة: ۴۵ 66 المومنون : ۵۲ 88 الحکم ۲۸ مارچ تا ۷ اپریل ۱۹۱۰ء ص ۴ 89 میں مسلمان ہو گیا.حصہ چہارم ص ۶۸.حاشیہ 90 میں مسلمان ہو گیا.حصہ اول ص ۵۳

Page 151

144 91 الحکم ۲۱ جولائی ۱۹۲۴ء 92 الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۳۰ء ص ۳ ص۳ 93 الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۳۸ء ص ۷ک ۳ 94 الحکم ۱۰اگست ۱۹۰۲ ص ۱۰۹ 95 البدر ۲۳ تا ۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء 96 جلسه احباب ص ۱۹ 97 تبلیغ رسالت جلد نہم ص ۷۲۷۱ 98 تذکر و ص ۵۹۱ طبع ۲۰۰۴ء 99 نزول المسیح ص ۲۱۰ 100 تذکره ۵۸،۵۰۸،۲۹۰ ۵ طبع ۲۰۰۴ء 101 حقیقۃ الوحی ص ۳۶۲-۳۶۳ 102 البدر ۱۶ دسمبر ۱۹۰۳ء ص ۳۷۴ 116 سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر ۲۳۸ 117 سیرت المہدی حصہ سوم.روایت نمبر ۷۵۲ 118 تذکرہ ص ۱۶۱.۳۷۱ - ۴۴۱۴۰۷ طبع ۲۰۰۴ء 119 تذکرہ ص ۲۷ - ۱۵۸-۷۳۱۶۱ اطبع ۲۰۰۴ء 120 تذکره ص ۲۵۷،۲۵۴، ۳۰۷ طبع ۲۰۰۴ء 121 سیرت المہدی حصہ اول روایت ۲۴۵ 122 الحکم ۲۶ رمئی ۱۹۳۵ء ص ۶ ک ۲ 123 تذکره ص۳۳۳-۲۴۵ طبع ۲۰۰۴ء 124 تذکره ۴۳۳۴۳۲-۵۵۶ طبع ۲۰۰۴ء 125 الحکم ۷ اگست ۱۹۳۸ء 126 ذکر حبیب ص ۱۲۴۱۲۳ 127 الحکم ۷ اگست ۱۹۳۸ء 103 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء ص ۹۶ 128 الحکم ۷ اگست ۱۹۳۸ء 104 سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر ۲۷۴ 129 سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۷۵۱ 105 مجمع الزوائد للهيثمي - كتاب الزهد باب فيمن لا يوايه 130 تذکره ص ۲۰۰ طبع ۲۰۰۴ء 106 تذکره ص ۲۱۹ ۲۲۰ طبع ۲۰۰۴ء 107 بحوالہ رجسٹر روایات صحابہ جلد ۴ ص ۵۶ 108 میں مسلمان ہو گیا حصہ سوم ۱۴۳ ۱۴۴ 109 تذکرہ ص ۳۴۷ طبع ۲۰۰۴ء 110 دافع البلاء ص ۲۴ 131 حقیقة الوحی ص ۳۲۷ تا ۳۲۹ 132 تذکره ص ۴۶۳۴۶۲ طبع ۲۰۰۴ء 133 تذکره ص ۴۶۳۴۶۲ طبع ۲۰۰۴ء 134 الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۸ء 135 الفضل ۷ استمبر ۱۹۳۸ء 111 الحکم ۶ جون ۱۹۰۸ء 136 مکتوبات اصحاب احمد جلد اول ص ۷۳ 138 الحکم ۱۴ جولائی ۱۹۳۵ء ص ۵ک ۲ 112 سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۷۹۳ 137 تذکره ۴۰۵،۳۵۵،۳۵۰،۳۴۹ طبع ۲۰۰۴ء 113 الفضل ۳۰ جون ۱۹۴۷ء 114 روایت ۲۸ تا ۳۱ ذکرِ حبیب تقریر مندرجہ 139 تذکرہ ص ۱۱۱ ۱۲ اطبع ۲۰۰۴ء الحکم ۷ اگست ۱۹۳۸ء 140 تذکرہ ص ۱۲۱۱۱ اطبع ۲۰۰۴ء 115 میں مسلمان ہو گیا حصہ دوم ص ۳۶ حاشیہ 141 الفضل ۳۰ جون ۱۹۲۱ء ص ۹

Page 152

145 142 پانچ ہزاری مجاہدین ۴۷۴۴۷۷ 143 الحکم ۲۶ مئی ۱۹۳۵ء ص ۲۴ 144 ضمیمہ انجام انتقم 145 ذکر حبیب ص ۱۱۶.۱۱۷ 146 الفضل ۹ ۱ جولائی ۱۹۵۶ء 149 الحکم ۲۱ جولائی ۱۹۲۴ء 150 میں مسلمان ہو گیا حصہ اول ص ۳۰-۳۱ 151 میں مسلمان ہو گیا حصہ اول ص ۸۹ تا ۹۱.حاشیہ 152 میں مسلمان ہو گیا حصہ اول ص ۱۰.۱۱ 153 الفضل ۲۳ جون ۱۹۵۶ء 147 سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۶۷۶ 154 مجمع الزوائد للهيثمی.کتاب الزهد باب فيمن لابوايه 148 تذکره ص ۲۵۵ طبع ۲۰۰۴ء

Page 153

146 مولوی عبد اللہ صاحب ہوتا لومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بوتالوی رضی آپ کے سوانح کا اکثر حصہ خود آپ کا نوشتہ ہے.جس کا ایک حصہ الفضل مورخہ ۱۴ رمئی ۱۹۵۲ء میں شائع ہو چکا ہے.خاکسار مؤلف ممنون ہے کہ آپ کے صاحبزادہ اخویم مولوی عبدالرحمن صاحب انور (اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کے تعاون سے مجھے مواد حاصل ہوا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء شجرہ نسب آپ نے اپنے شجرہ نسب کے متعلق قوم ریحان کے ایک بڑے اجتماع کے موقعہ پر جس میں اس علاقہ کے سر آوردہ لوگ بھی شامل ہوئے تھے.شجرہ نسب اس قوم کے جدی میراثی کی تصدیق سے حسب ذیل لکھا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکرم حافظ سعد اللہ صاحب جو بوتالہ میں اس خاندان کے مورث اعلیٰ تھے.وہ سیاحت کے طریق پر ضلع جھنگ کے علاقہ کا لو وال ریحاناں اور چھنی محمد قاضی سے نکل کر ضلع گوجرانوالہ میں گئے اور وہاں ہی آباد ہو گئے.اسی طرح شجرہ نسب حسب ذیل لکھا ہے.محمد عبد اللہ ولد محمد الدین ولد صدرالدین ولد نیک بخت ولد عابد ولد اسلم ولد حافظ سعد اللہ ولد محمد یار ولد عیسی ولد قائم ولد جہانا ولد جھام ولد قاسم ولد دراج ولد مرید ولد شبدین ولدا ہر دلاالپاولد کا نگھی ولد سلار وولدر یحان ولد رتن پال ولد سانڈ رولد بھر تھے ولد گور اولد چت ولد کوٹ ولد بجن ولد کھوکھر ولد قطب شاہ.حافظ سعد اللہ صاحب بوتالہ جھنڈا سنگھ والا میں حافظ سعد اللہ صاحب کی خانقاہ خاص شہرت رکھتی ہے اور بہت سے لوگ وہاں چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور اس قبرستان کے گھاس کو جانوروں کی بعض تکالیف کے موقعہ پر بطور علاج استعمال کرتے ہیں، ان کے تقویٰ اور طہارت کی وجہ سے سکھوں کی حکومت کے زمانہ میں قریبی گاؤں نت کے زمینداروں نے حافظ سعد اللہ صاحب کی اولاد کے گزارہ کے لئے کئی گھماؤں زمین اسی قبرستان کے نام لگا دی تھی.جواب تک تقسیم ہو کر ان کی اولاد کے نام کا غذات سرکاری میں منتقل ہوتی جاتی ہے.ان کے اعلیٰ مقام کا خیال کرتے ہوئے ہی....والد ماجد نے اپنے ایک بچے کا نام سعد اللہ رکھا تھا جو طفولیت میں ہی وفات پا گیا اور آپ نے حافظ سعد اللہ صاحب کے حافظ قرآن ہونے کی وجہ سے اپنے ایک بیٹے حافظ قدرت اللہ صاحب ( مجاہد انڈونیشیا و ہالینڈ ) کو قرآن کریم حفظ کرایا.

Page 154

147 ولادت ، خاندانی حالات: آپ تحریر فرماتے ہیں: خاکسار کی پیدائش بتاریخ ۲۰ ماه مئی ۱۸۸۱ء بمقام موضع بوتالہ جھنڈا سنگھ ضلع گوجرانوالہ ہوئی.میرے والد صاحب کا نام ( مولوی ) محمد دین صاحب مرحوم اور دادا صاحب کا نام صدر الدین تھا اور میری قوم ریحان راجپوت ہے.موضع بوتالہ میں میری قوم کے دس بارہ گھر آباد ہیں جو سب کے سب قریبا نا خواندہ ہیں اور کاشتکاری کا کام کرتے ہیں.میرے دادا صاحب صرف سادہ قرآن شریف پڑھے ہوئے تھے اور کا شتکاری کا کام کرتے تھے.میری دادی صاحبہ ایک ذی علم خاندان سے آئیں جو کہ بھٹی راجپوت تھے.لیکن چند پشتوں سے عالم ہونے کی وجہ سے قاضی کے نام سے مشہور ہو گئے تھے.چنانچہ ان میں سے قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوئی بھی تھے جو کہ ہمارے ننھیال میں سے ( بلکہ شاید سارے ضلع گوجرانوالہ میں سے) پہلے احمدی ہوئے ہیں اور ان کے دو بیٹے قاضی عبدالرحیم صاحب اور قاضی عبداللہ صاحب مہاجر قادیان میں مقیم ہیں (*) میری دادی صاحبہ ان کی چچا زاد ہمشیرہ تھیں اور وہی ہمارے خاندان میں علم کو لانے کا ذریعہ ہوئیں چنانچہ انہوں نے اپنی اولاد کو علم پڑھایا.ان کے چار بیٹوں میں سے سب سے بڑے میرے والد صاحب تھے جو اس وقت کے علوم مروجہ و فارسی و قرآن و حدیث کے عالم تھے اور خوش نویسی کا پیشہ اختیار کر کے گھر میں ہی رہ کر کتابت کا کام کرتے رہے اور ۷ار مارچ ۱۸۹۶ء کو جب کہ میری عمر بھی پورے پندرہ سال بھی نہیں ہوئی تھی فوت ہو گئے.” میرے والد صاحب بوجہ عالم ہونے کے اپنے گاؤں کے خطیب بھی تھے اور بباعث عالم ہونے اور آسودہ حال اور مستفیانہ زندگی بسر کرنے کے اپنے گاؤں اور گردو نواح میں نہایت معزز سمجھے جاتے تھے.“ آپ کا حلیہ متوسط قد ، گندمی رنگ، کتابی چہرہ مہندی وسمہ سے مختصب مشرع داڑھی ، مہندی وسمہ کا اہتمام با قاعدگی سے آخر تک رہا.چہرہ سے انکسار، تواضع اور متانت عیاں.خاکسار مؤلف کا بارہ سالہ تجربہ ہے کہ ان کے اقارب سے کسی شخص کا کتنا ہی شدید نزاع بھی ہو مولوی صاحب اقارب والے معاملات کا اپنے دل پر اثر نہ ہونے دیتے، نہایت خندہ پیشانی انکسار اور متانت سے پیش آتے ، بُردباری آپ کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب اور ان کی اولاد کے سوانح اصحاب احمد جلد ششم میں شائع ہو چکے ہیں.حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب ہجرت کر کے ربوہ آگئے تھے اور اب وفات پاچکے ہیں اور حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب ( سابق مجاہد انگلستان اور ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان اور ناظر ضیافت ) اب ربوہ میں قیام رکھتے ہیں.مؤلف

Page 155

148 مجھے اس کا پورا تجربہ ہے.احمدیت کا اس خاندان میں آنے کا ذریعہ فرماتے ہیں احمدیت کے ہمارے خاندان میں آنے کا اصل ذریعہ قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم ہوئے ہیں جو کہ بوجہ قریب سکونت رکھنے اور تعلق رشتہ داری اور عالم اور اہل حدیث فرقہ کے باعث میرے والد صاحب کے ساتھ ہم عقیدہ ہونے کے باعث میرے والد صاحب سے اکثر ملتے جلتے تھے، اور باہم خوب محبت رکھتے تھے.یہاں تک کہ جب قاضی صاحب مرحوم کو نواب صدیق حسن خاں کی تصانیف کا پتہ لگا.تو انہوں نے بہت سی کتابیں بصیغہ مفت بطور وقف مال کے منگوائیں تو میرے والد صاحب کو بھی اس علمی خزانہ کے تقسیم ہونے سے اطلاع دی جس پر میرے والد صاحب نے بھی کئی ایک کتا بیں نواب صاحب کی شائع کردہ منگوائیں جو کہ ہمارے گھر میں موجود ہیں.میں اپنے والد صاحب کی زندگی میں اگر چہ خورد سال تھا.لیکن مجھے مدرسہ کی تعلیم پاتے ہوئے دینی معلومات حاصل کرنے کا بھی بہت شوق تھا.چنانچہ اس زمانے کے بعض حالات و خیالات جو مجھے معلوم ہوتے رہے اور جن کا سلسلہ احمدیہ کی تاریخ سے دور یا نزدیک کا تعلق ہے ،متفرق طور پر تحریر کئے دیتا ہوں.(۱) '' ایک دفعہ قاضی ضیاء الدین صاحب کی معرفت میرے والد صاحب کے پاس حضرت مسیح موعود یہ السلام کے ارسال کردہ فارم بمع ایک مطبوعہ مضمون کے اس غرض کے لئے موصول ہوئے کہ لوگوں کو وہ مضمون سنا کر فارموں پر ان کے دستخط کرائے جائیں.وہ مضمون بطور میموریل کے تھا جو مسلمانوں کی طرف سے ان کے دستخط کرا کے گورنمنٹ میں بھیجا جانا تھا کہ گورنمنٹ ہم مسلمانوں کے لئے جمعہ کے دن مدرسوں اور کچہریوں اور دفتروں میں تعطیل کیا کرے کیونکہ جمعہ کا دن مسلمانوں کے لئے خاص عبادت کے واسطے ضروری ہے چنانچہ مجھے یاد ہے کہ میرے والد صاحب نے ہمارے گاؤں میں مسجد میں جمعہ کے دن لوگوں کو اکٹھا کر کے حضرت صاحب کا وہ مضمون نہایت ذوق اور شوق سے سنایا اور لوگوں کے العبد تحریر کرائے اور حضرت صاحب کی اس خدمت اسلامی کی نہایت ہی عقیدتمندانہ تعریف کی (3) (۲) میں قلعہ دیدارسنگھ کے مڈل سکول میں تعلیم پایا کرتا تھا جب کہ وہ دن آیا جو کہ آٹھم کی موت یا رجوع بحق ہونے کی پندرہ ماہ کی معیاد کا آخری دن تھا.جب وہ دن گذر گیا اور آتھم نہ مرا تو قلعہ دیدارسنگھ کے بازاروں اور نظر گاہ عوام میں وہاں کے عیسائیوں نے بڑے طمطراق سے منظوم اشتہار اسی خوشی میں لگائے کہ دیکھو (☆) یہ میموریل سروس وائسرائے کی خدمت میں یکم جنوری ۱۸۹۶ء کو حضرت اقدس نے بھیجا تھا.(مؤلف)

Page 156

149 مرزا صاحب نے اس کے متعلق کہا تھا کہ اگر آئتم فلاں تاریخ تک نہ مرا تو میرے گلے میں رسی ڈال دینا ، مجھے پھانسی چڑھا کر مار دینا اور آگے پھر اسی سلسلہ میں ایک شعر کا مصرعہ یہ بھی تھا.کئی مرزا ترے الہام کی دُم وغیرہ وغیرہ من الخرافات.اگر چہ اس وقت میں احمدی نہیں تھا لیکن چونکہ میرے سامنے قاضی صاحب ہمارے گھر میں آکر حضرت مرزا صاحب کا ذکر بڑی تعریف سے کیا کرتے تھے اور میرے گھر کے دیگر احباب ان سے متاثر ہو کر حضرت مرزا صاحب میں ایک طرح کی عقیدت رکھتے تھے اس لئے مجھے اس اشتہار کو پڑھ کر بہت ندامت ہوئی اور افسوس اور صدمہ بھی ہوا کہ کیوں ایسا ہوا اور حضرت مرزا صاحب کی پیش گوئی پوری نہ ہوئی.چنانچہ میں اس اشتہار کی ایک کاپی ہمراہ لے آیا اور اپنے والد صاحب کو دکھائی.وہ بھی حیران اور ششدر ہی ہو گئے آخر جلدی ہی قاضی صاحب ہمارے گھر تشریف لائے اور ہم نے ان سے اس کی بابت دریافت کیا تو قاضی صاحب نے پیشگوئی کے الفاظ کی طرف توجہ دلائی اور پھر آتھم کے رجوع بحق ہونے کے قرائن بیان کئے جس سے ہمارا اطمینان ہو گیا کہ پیشگوئی درست نکلی.اس کے بعد قاضی صاحب نے وہ تمام اشتہار جو یکے بعد دیگرے آتھم کے خلاف انعامی ایک ہزار دو ہزار تین ہزار اور چار ہزار کے نکالے تھے وہ بھی ہمارے پاس پہنچائے تو معاملہ بالکل واضح ہو گیا.(3) (۲) ” میرے والد صاحب کی زندگی میں مولوی امام الدین صاحب ساکن بھڑی شاہ رحمان ضلع گوجرانوالہ نے بھی حضرت مرزا صاحب کی بیعت کی تھی.چونکہ ہمارے والد صاحب بھی دراصل حضرت صاحب کے دل سے معتقد ہو چکے تھے اس لئے مولوی امام الدین صاحب کے ساتھ بھی ان کا دوستانہ تعلق ہو گیا تھا اور مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ مولوی امام الدین صاحب موضع کوٹ بھوانی داس میں ایک مناظرے میں شریک ہونے کے واسطے جا رہے تھے تو راستہ میں ہمارے گھر میں ٹھہرے.یہ مناظرہ فیما بین اہلحدیث و حنفی علماء کے تھا.اہل حدیث کے مناظر حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی تھے اور ان کے معاونین مولوی عبد القادر صاحب و مولوی عبد العزیز وغیرہ پسران مولوی غلام رسول صاحب قلعه مهمان سنگھ والے اور مولوی احمد علی اور مولوی زین العابدین مدرس مدرسه عربیہ حمید یہ لاہور تھے.دوسری جانب آتھم والی پندرہ ماہ کی میعاد۵ ستمبر۱۸۹۴ء کوختم ہوئی تھی ( مولف)

Page 157

150 کا مناظر مولوی غلام قادر ہیڈ ماسٹر تھا جس کے معاونین مولوی غلام حسین احمدی گئی مسجد لاہور والے اور حکیم فضل الہی صاحب احمدی لا ہور محلہ ستھان والے ) اور قاضی ضیاء الدین صاحب احمدی اور مولوی امام الدین صاحب احمدی تھے.اہل حدیث کا دعوی یہ تھا کہ الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہنا شرک اور نا جائز ہے.دوسری طرف حنفی علماء اس کو ذوق اور شوق سے پڑھنے کے مجوز تھے.اہل حدیث کہتے تھے کہ یا ندا حاضر کے لئے ہے اس لئے اس کا استعمال نا جائز ہے.حنفی علماء أيُّها النبی کی مثال دے کر جواز ثابت کرتے تھے.اس مناظرہ میں حنفی فریق جس کی تائید میں متذکرہ صدر چار احمدی علماء تھے غالب رہے اور ان کو کھلی کھلی فتح نصیب ہوئی افسوس کہ آج کل مولوی امام الدین کی اولاد میں احمدیت نہیں رہی کیونکہ ان کی وفات کے وقت اولاد ان کی صغیر سن تھی جس کی تربیت بعد میں احمدیت کے رنگ میں نہ ہوئی لیکن مولوی صاحب کی نیکی اور تقویٰ اور طہارت کے اثر سے ان کے گاؤں کے کئی ایک آدمی احمدی ہو گئے.چنانچہ بھڑی شاہ رحمن میں اب بھی احمدی جماعت موجود ہے.(۴) ”ہمارے ضلع کے ایک مولوی سید احمد صاحب کو لوتار تحصیل حافظ آباد بھی میرے والد صاحب کے حین حیات میں قادیان گئے اور سلسلہ احمدیہ کی بیعت کر کے واپس آتے ہوئے ہمارے گھر میں رات رہے اور قادیان کے حالات میرے والد صاحب مرحوم ان سے نہایت ذوق و شوق سے سنتے رہے.چنانچہ ان کی گفتگو میں نے بھی خوب کان لگا کر سنی.منجملہ دیگر باتوں کے جو اس وقت مجھے پوری پوری یاد نہیں رہیں.یہ بات مجھے اب تک یاد ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ واپسی کے وقت میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے اپنی تصنیف کردہ کچھ کتابیں عنایت فرمائیں.اس پر حضرت ممدوح نے فرمایا کہ جو جو کتاب آپ کو مطلوب ہے وہ نوٹ کر دیو ہیں.چنانچہ مولوی صاحب نے جس قدر کتابوں کے نام لکھ دئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ سب کتا ہیں ان کے حوالے کر دیں.چنانچہ ان کی آوردہ کتب کو میں نے ملاحظہ کیا.یہ مولوی صاحب اس قدر علم دوست اور دیانتدار تھے کہ روانگی کے وقت انہوں نے میرے والد صاحب سے تفسیر ترجمان القرآن کے قریباً ۱۳ پاروں کی جلد مطالعہ کے واسطے عاریتالی جس کے بعد جلد ہی مارچ ۱۸۹۶ء کو والد صاحب فوت ہو گئے چونکہ وہ اپنی کتابیں اکثر لوگوں کو مطالعہ کے واسطے دیتے رہتے تھے اس لئے ان کے کتب خانے کا کافی حصہ ان کی وفات کے بعد لوگوں کے پاس ہی رہا اور ہمیں واپس نہ ملا.لیکن یہ کتاب جس کے متعلق مجھے بھی کوئی علم نہ تھا کہ مولوی سید احمد ☆ مولوی غلام حسین صاحب اور حکیم فضل الہی صاحب ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے ضمیمہ انجام آتھم میں علی الترتیب ۱۳۳ اور ۲۱ نمبر پر ان کے اسماء درج ہیں (مولف)

Page 158

151 صاحب کے پاس ہے، میرے والد صاحب کی وفات کی خبر سننے کے بعد مولوی صاحب نے خاص آدمی کے ہاتھ میرے پاس پہنچا دی.حالانکہ کولو تارڑ ہمارے گاؤں بوتالہ سے قریباً ۶ اکوس کے فاصلے پر ہے.مجھے یہ واقعہ اس لئے خاص طور پر یاد رہا ہے کہ میں نے اکثر علماء کو کتابوں کی واپسی کے بارہ میں غیر محتاط پایا ہے مولوی سید احمد صاحب کی وفات کے بعد ان کے ایک بیٹے کو میں نے نہایت مخلص احمدی پایا ہے، جن کا نام شاید حافظ محمد اسحاق تھا لیکن ان کا دوسرا بیٹا مولوی محمد حسین مولوی فاضل جو آج کل زندہ ہے سلسلہ کا شدید مخالف اور مناظر ہے جس کی وجہ یہ ہوئی کہ مولوی سید احمد صاحب نے بوجہ اہلحدیث ہونے کے اس کو مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا ہوا تھا.اور مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنی ایک لڑکی بھی اسی کے ساتھ بیاہ دی تھی.یہ دونوں تعلق ( شاگردی اور دامادی ) اس کی روحانی ہلاکت کا موجب ہوئے.مولوی سید احمد صاحب کی وجہ سے موضع کولو تارڑ میں احمد یہ جماعت کا وجود قائم ہو گیا ہوا ہے.“ بیعت سے قبل کی سرگذشت اگر چہ مجھ پر جو واقعات گذرے ہیں وہ کوئی خاص یا نرالے نہیں ہیں لیکن اسی خیال سے کہ شاید بعد میں آنے والے لوگوں کی نکتہ رس اور مشتاق نگاہیں ان سے کوئی فائدہ حاصل کر سکیں ، اس لئے ان کو حوالہ قلم کر کے محفوظ کر دینا مناسب سمجھتا ہوں.ایک دفعہ ہمارے گاؤں کا ایک باشندہ ستمی حسین شاہ جو کہ پٹواری تھا اور اہل حدیث خیالات رکھتا اور سلسلہ کے ساتھ شدید مخالفت رکھتا تھا.وہ اپنے ہمراہ ایک مولوی کو جس کا نام نور احمد تھا اور جو حافظ محمد صاحب لکھو کے کے خاندان میں سے تھا گاؤں میں لے آیا.ان دنوں میں میرے خیالات احمدیت کی طرف مائل تھے.لیکن اسی حالت میں بھی مسمی حسین شاہ مذکور گاؤں کے لوگوں کو میرے خلاف اکساتا رہتا اور مخالف مولویوں کو لا کر سلسلہ کے خلاف وعظ کرواتا رہتا تھا تا کہ لوگوں پر احمدیت کا اثر نہ ہو جائے.مولوی نور احمد کے پاس ایک نوٹ بک تھی جس پر وہ ایسے لوگوں سے دستخط کراتا اور تحریر میں حاصل کرتا رہتا تھا جنہوں نے اس کے وعظ سے متاثر ہوکر سلسلہ احمدیہ سے بے زاری یا انحراف کیا چنانچہ وہ لوگوں کو اپنا یہ کارنامہ دکھا کر متاثر کرتا تھا.اس نے میرے سامنے بھی اپنے رطب و یا بس دلائل بیان کئے لیکن ان کا مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا.چونکہ ان دنوں میں احمدیت میں داخل کرنے کا بڑا ذریعہ مسیح کی وفات کو ثابت کرنا اور احمدیت سے برگشتہ کرنے کے لئے بڑے سے بڑا حربہ مخالف مولوی کے پاس مسیح کی حیات ثابت کرنا ہی ہوتا تھا.اس لئے مولوی نور احمد نے ہمارے گاؤں کے ایک کھلے میدان میں بھاری جمع کر کے مسیح کی حیات کا مسئلہ ہی بیان کیا اور آیت مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ) میں جو

Page 159

152 ترتیب موت کی رفع سے پہلے ہونے کی آیت میں موجود ہے اس کے برخلاف اس نے بیان کیا کہ اگر چہ یہاں پر وفات کا لفظ پہلے اور رفع کا بعد میں ہے لیکن در حقیقت رفع پہلے ہوا ہے اور بعد میں وفات کا واقعہ ہوگا.جب مسیح دوبارہ آسمان سے نازل ہوگا تو زندگی بقیہ گزار کر فوت ہوگا اور یہ کوئی ضروری امر نہیں ہے کہ جس ترتیب میں قرآنی الفاظ ہوں واقعہ بھی اسی ترتیب کے ساتھ ہو.بلکہ بعض اوقات واقعات کے لحاظ سے قرآنی ترتیب کو بدلنا پڑتا ہے.تب معنی درست ہوتے ہیں اور یہی صورت حال یہاں پر ہے.چنانچہ ترتیب قرآنی کو الٹنے کی مثال میں اس نے سورہ توبہ کی یہ آیت پڑھی فَاقْتُلُو الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ (۳) حالانکہ اگر قتل کرنے کا فعل پہلے واقعہ ہو جائے تو پھر پکڑنے کا اور اس کے بعد گھیرنے کا اور گھات میں بیٹھنے کا کام لغو اور بے مطلب ہو جائے گا.اس لئے اس کے معنی الٹی طرف سے کئے جائیں گے.تب درست بیٹھتے ہیں کہ مشرکوں کے لئے پہلے گھات لگاؤ پھر گھیر لو، پھر پکڑ لو، پھر ان کو قتل کر دو.مجھے مولوی نوراحمد کی یہ دلیل لا جواب معلوم ہوئی اور مجھے اسی وقت اس کے سامنے ماننا پڑا کہ ہاں ترتیب کو الٹانے کے بغیر آیت کے معنی حل نہیں ہو سکتے ، اسی پر مولوی نور احمد نے اپنی اس کتاب میں میرے رجوع کا حال بھی تحریر کر دیا جس کا مجھے کو سخت صدمہ ہوالیکن چونکہ اس کی دلیل کا میرے دل پر تسلی وہ اثر نہ تھا.اس لئے میں اسی جستجو میں رہا آخر احمدی علماء سے دریافت کرتے کرتے مجھے معلوم ہو گیا کہ اس کا استدلال بمثل سراب ایک قسم کا دھوکا تھا.اول اس وجہ سے کہ یہاں آیت کا یہ منشا نہیں ہے کہ جن کو قتل کر دیا گیا ہے انہی کو پکڑنا ہے اور پھر گھیرنا ہے.بلکہ مشرکین کا گر وہ جو تم نے پکڑ لیا ہے اس کو تو قتل کر دو جو بھاگ رہا ہے اس کو پکڑ لو ، پھر جن کوگھیر نے کی ضرورت ہے، ان کو گھیر واور جو چھپے بیٹھے ہیں ان کے لئے گھات لگاؤ، گویا مختلف حالات کے ماتحت مختلف حکم ہے دوسرے اگر غیر طبعی ترتیب معلوم ہونے کی وجہ سے مولوی صاحب کے خیال میں ترتیب الٹنے کی ضرورت ہے تو پھر مُتَوَفَّيْكَ وَرَافِعُكَ کی ترتیب میں تو کوئی ایسا اشکال ہی نہیں ہے کہ اس کو الٹنے کی ضرورت ہو.بلکہ عام قانون الہی تو اسی ترتیب کو چاہتا ہے.اسی واقعہ سے مولویوں کی قیل وقال کے متعلق مجھے تجربہ ہوگیا.ب.ایک دفعہ موضع بوتالہ کے نزدیک موضع نت میں جہاں کہ کشمیری قوم کے لوگ عموماً احمدی تھے اور مالکان اور زمینداران وغیرہ سب کے سب اہل حدیث اور سلسلہ کے مخالف تھے وہاں مولوی زین العابدین (اہل حدیث ) ساکن کوٹ بھوانی داس نے آکر زمینداروں کو وعظ کیا ( یہ مولوی زین العابدین لاہور کے مدرسہ حمیدیہ میں عربی کا مدرس اور فاضل آدمی تھا ) دوران وعظ میں بیان کیا کہ لوگو آگے تو مرزا نبی بنتے تھے اب انہوں نے خدائی کا دعویٰ بھی کر دیا ہے، اس پر ان زمینداروں نے جن کی قوم نت تھی.کشمیریوں کو بلایا اور مولوی صاحب کے پیش کیا

Page 160

153 وہ بے چارے سب کے سب ان پڑھ تھے.ہاں بعض ان میں سے پکے احمدی تھے اور دوسرے بوجہ قومیت کی حمایت کے ان احمدیوں کے موید تھے.اور جہاں نت قوم کے لوگوں سے ان کے دنیوی جھگڑے مقدمے ہوتے رہتے تھے وہاں احمدیت کے اختلاف کی وجہ سے وہ دونوں قومیں پارٹی بازی کی صورت میں ایک دوسرے کے مخالف صف آراء ہوا کرتی تھیں.کشمیری لوگ اگر چہ زمین کے مالک نہ تھے لیکن مزدوری پیشہ اور آسودہ حال تھے اس لئے وہ زمینداروں سے دیتے نہ تھے وہ مولوی صاحب کا بیان سن کر ششدر سے ہو گئے.گوان کا دل نہ مانتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب نے ایسا دعویٰ کیا ہو لیکن مولوی صاحب نے چونکہ اس بات کا ذمہ لیا کہ میں یہ دعویٰ ان کی کتاب سے دکھا دوں گا اس لئے ان کو کہنا پڑا کہ اگر ایسا ثابت ہوا تو ہم مرزا صاحب کو چھوڑ دیں گے.چنانچہ اس امر کا تصفیہ کرنے کے واسطے آئندہ جمعہ کے دن کی تاریخ مقرر ہوئی.کشمیری احمدی قاضی ضیاء الدین صاحب کے پاس کوٹ قاضی میں گئے تمام ماجرا بیان کیا چونکہ اس وقت تک ایسا اعتراض حضرت مرزا صاحب پر نہیں کیا گیا تھا، اس لئے قاضی صاحب بھی حیران ہوئے کہ یہ دعوئی وہ کہاں سے دکھائے گا.قاضی صاحب نے تاریخ مناظرہ سے پہلے ہر چند کوشش کی کہ مولوی زین العابدین اپنے بیان کی بنا بتائے.لیکن اس نے نہ بتانا تھا نہ بتایا اور یہ سانپ اس نے میدان مناظرہ میں ہی نکالنے کے لئے رکھا ہوا تھا.قاضی صاحب کو چونکہ ایسا کوئی حوالہ یاد نہ آتا تھا اس لئے وہ کوئی تیاری نہ کر سکے.آخر جمعہ کے دن حضرت صاحب کی جس قدر کتابیں ان کے پاس تھیں لے کر موضع نت میں پہنچ گئے.اس وقت تک نماز با جماعت کی علیحدگی کا کوئی فیصلہ حضرت صاحب کی طرف سے نہ ہوا تھا اور احمدی غیر احمدیوں کی اقتداء میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے چنانچہ جب نماز پڑھانے کا سوال پیدا ہوا تو مولوی زین العابدین نے پیش امام اور خطیب بنا چاہا لیکن قاضی صاحب نے از راہ غیرت اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کیا، ان دنوں میں خاکسار نے بیعت تو نہیں کی ہوئی تھی لیکن میں سلسلہ احمدیہ کے مصدق اور مؤید تھا اور قاضی صاحب کو یہ حال معلوم تھا.قاضی صاحب نے تجویز کی کہ اگر محمد عبداللہ کو بوتالہ سے بلا لیا جائے تو ہم اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے اس پر فریق مخالف بھی راضی گیا.چنانچہ خاص آدمی میری طرف بھیجا گیا لیکن میرے آنے میں دیر ہونے کی وجہ سے بعد میں گاؤں کے امام مسجد ( میاں غلام مصطفیٰ ) پر فریقین کا اتفاق ہو گیا کیوں کہ وہ امام مسجد سارے گاؤں کا مشترکہ تھا.دوسرے احمدیوں کے خلاف نمایاں طور پر حصہ نہیں لیا کرتا تھا چنا نچہ خاکسار مع گاؤں کے ایک اور آدمی کے موضع نت میں ایسے وقت میں پہنچا جب کہ جمعہ کی نماز پڑھائی جارہی تھی.نماز جمعہ کے بعد مناظرہ شروع ہوا، اردگرد کے دیہات کے بہت سے لوگ اکٹھے ہوئے ہوئے تھے.اور یہ مباحثہ اپنی نوعیت کا پہلا مباحثہ تھا کیونکہ اس سے پہلے لوگوں نے کبھی اجتماع کیا ہی نہ تھا.مولوی زین العابدین نے تقریر شروع کی اور بہت سا وقت

Page 161

154 تمہید میں لگا کر اس بات پر زور دیتا رہا کہ مَنْ يَّقُلْ مِنْهُمُ انّى الة...الخ) (۳) جو شخص خدا ہونے کا دعویٰ کرے وہ ایسا ہوتا ہے ویسا ہوتا ہے اصل بات کی طرف نہ آیا ، احمدی جماعت کے لوگ گھبرا گئے کہ اصل بات کیوں نہیں بتاتا کہ کیا دعویٰ حضرت مرزا صاحب نے کیا ہے لیکن قاضی ضیاء الدین صاحب نے اس کو روکنا مناسب نہ سمجھا.بڑی دیر کے بعد اس نے حضرت صاحب کے کشف کو عربی عبارت میں پڑھنا شروع کیا کہ وہ کہتے ہیں.رَتَنِي فِي الْمَنَامِ عَيْنَ اللَّهَ (*) اور عین اللہ پر بار بارز ور دیتا اور تشریح یہ کرتا تھا وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ہی زمین کو اور آسمان کو بنایا وغیرہ وغیرہ.قاضی صاحب نہایت خوش ہوئے اور انہوں نے جھٹ وہی کتاب نکال رکھی.چنانچہ قاضی صاحب نے اصل کتاب سے حضرت صاحب کی اپنی عبارت جو بطور تشریح بیان کی ہے پڑھی اور يتـقـرب الـيَّ عبدي بالنوافل (۴) والی حدیث سے تشریح کی اور پھر بایزید بسطامی اور منصور کا قول انا الحق اسی رنگ میں بیان کیا تو وہاں جس قدر حنفی لوگ تھے وہ جواب کی تصدیق کے لئے پر زور نعرے مارنے لگ گئے اور مولوی زین العابدین اور اس کے ساتھیوں کے متعلق اظہار نفرت کرنے لگ گئے کہ یہ وہابی لوگ اولیاء اللہ کے منکر ہیں اس لئے ایسے خشک اعتراض کرتے ہیں غرضیکہ اسی طرح سے مولوی زین العابدین جس نے یہ شرارت اٹھائی تھی اس کی نمایاں ذلت ہوئی اور وہ اس کا کوئی بھی جواب نہ دے سکا.غرضیکہ قاضی صاحب نہایت فتح اور خوشی کے ساتھ واپس گئے.اس مناظرہ کے موقع پر جب قاضی صاحب کے ساتھیوں نے فتح کی خوشی میں ان کو یہ کہا کہ چلو اب چلیں تو قاضی صاحب نے ایک حکمت کا نکتہ یہ بیان کیا کہ مناظرہ کے بعد میدان پہلے نہیں چھوڑ نا چاہیے.کیونکہ مخالف یہ شور مچادیتے ہیں کہ دیکھو یہ لوگ بھاگ گئے اور اس طرح سے فتح شکست سے تبدیل ہو جاتی ہے.چنانچہ قاضی صاحب تھوڑی دیر بیٹھے رہے اور مخالفین کے روانہ ہونے کے بعد اطمینان کے ساتھ میدان مناظرہ سے روانہ ہوئے اور خدا کے فضل سے ہر رنگ میں فاتحانہ طور پر کامیاب واپس آئے.یہ پہلا مناظرہ تھا جو میں نے اپنی عمر میں احمدی جماعت کے ساتھ ہوتا ہوا دیکھا اور سنا.اس مناظرہ کا اثر میری طبیعت پر یہ ہوا کہ مجھے مخالف علماء سے نفرت بڑھ گئی اور مجھے واضح ہو گیا کہ یہ لوگ حضرت صاحب کے منشاء کے خلاف ان کی عبارتوں کو توڑ موڑ کر غلط طریق پر پیش کرتے ہیں اور اس طرح سے اپنی کمزوری کو چھپاتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے اور دھوکا دیتے ہیں اور دن بدن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صدق و دعوی کا خیال ترقی کرتا گیا.حتی کہ جوں جوں مخالفوں سے اعتراضات سنے اور ان پر غور کرنے کا موقع ملاتوں توں حضور کی صداقت آئینہ کمالات اسلام ص ۵۶۴ میں اس رویا کا زکر ہے (مؤلف)

Page 162

155 پر میرا یقین اور ایمان بڑھتا گیا.ج : چنانچہ اسی قسم کا ایک اور واقعہ بھی مجھے جنوری ۱۹۰۱ء میں پیش آیا کہ وہی حسین شاہ پٹواری کہیں سے ایک اشتہار مطبوعہ لے آیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام کی عبارتوں کو آگے پیچھے سے کاٹ چھانٹ کر ان کے مفہوم اور منشا کو بگاڑ کر اسی غرض سے شائع کیا گیا تھا کہ لوگوں کو حضرت صاحب کے عقائد کے متعلق غلط فہمی میں ڈالا جائے اور خلاف اسلام عقائد حضرت صاحب کی طرف منسوب کئے جائیں.غالباً وہ اشتہار ملک محمد دین صاحب تاجر کتب لاہور نے چھپوایا ہوا تھا.حسین شاہ پٹواری نے وہ اشتہار ہمارے گاؤں کی مسجد میں اور ادھر ادھر تر کھانوں اور موچیوں وغیرہ کی دوکانوں پر جہاں لوگوں کا مجمع مل جاتا سنانا شروع کیا.یہاں تک کہ میرے کانوں تک بھی وہ باتیں پہنچائی گئیں.اگر چہ مجھے گزشتہ تجربہ کی بناء پر یہ بھی خیال آتا تھا کہ اس میں کوئی نہ کوئی عقدہ اور پیچیدگی ہوگی جس سے یہ لوگ غلط فہمی پیدا کر لیتے ہیں.لیکن چونکہ ان عبارتوں کے ساتھ کتاب کا صفحہ وغیرہ بھی حوالہ کے طور پر تحریر کیا ہوا تھا.اس لئے حیرانی اور تعجب ضرور ہوالہذ اقرار پایا کہ یہ حوالے اصل کتاب سے نکال کر دیکھے جائیں چنانچہ خاص آدمی کوٹ قاضی میں قاضی ضیاء الدین صاحب کے پاس بھیج کر ازالہ اوہام منگوائی گئی اور مسجد میں ایک بڑے مجمع کے روبرو اس اشتہار کو پڑھا گیا اور اس میں درج شدہ حوالہ جات اصل کتاب سے نکال کر پڑھے گئے تو صاف ظاہر ہو گیا کہ مشتہر نے از راه خیانت و افتراء مفہوم کو تبدیل کر کے غلط فہمی پیدا کی ہے لیکن اس گفتگو اور تحقیقات سے جاہل پبلک پر الٹا اثر ہوا اور وہ اصلیت سے قطع نظر کر کے میرے متعلق صرف یہ خیال لے کر اٹھے کہ یہ شخص اب پکے طور پر مرزائی ہو گیا ہے اور اب اس کو کچھ سمجھا نالا حاصل ہے.اس کے بعد انہوں نے ایک جمعہ کے دن میری عدم موجودگی میں قریب کے ایک گاؤں کوٹ بھوانی داس سے ایک اہل حدیث مولوی احمد علی کو بلایا اور گاؤں کے باہر کھلی جگہ میں کئی ایک دیہات کے لوگوں کو اکٹھا کر کے بھاری مجمع کے ساتھ مولوی مذکور سے جمعہ پڑھوایا.اثناء وعظ میں اس مولوی نے لوگوں کو علماء اسلام کا ایک مطبوعہ فتویٰ پڑھ کر سنایا اور اخیر پر مولویوں کی مہریں لگی ہوئی دکھلا کر کہا کہ دیکھو جس شخص پر اس قدر مولویوں نے کفر کا فتویٰ لگایا ہو وہ یا اس کی پیروی کرنے والا کب مسلمان ہو سکتا ہے.یہ کہہ کر لوگوں کو پیغام سلام کے ترک کرنے کی تاکید کی اور ہر طرح کے تعلقات قطع کر دینے کا فیصلہ سنا دیا جب میں شام کو گاؤں میں واپس آیا تو میں نے سب لوگوں کے طور بدلتے ہوئے دیکھے اور جن لوگوں کے ساتھ آباء اجداد سے ہمارے گہرے تعلقات رہ چکے تھے ان کی آنکھیں پھری ہوئی ملاحظہ کیں.ہمارا پانی بھرنے والے ماشکیوں کو پانی بھرنے سے روک دیا گیا اور ہر طرح کا بائیکاٹ کر کے تکلیف دینا چاہا حتی کہ ایک دن جب کہ میں کہیں باہر گیا ہوا تھا.گاؤں کے چند معتبر اشخاص کا ایک مجمع ہمارے گھر پر آیا اور ہماری ڈیوڑھی میں بیٹھ کر اندر سے میری والدہ صاحبہ مرحومہ کو بلایا.وہ دروازے کے نزدیک آکر

Page 163

156 کھڑے ہو گئے.ان میں سے ایک شخص جو ہم پر بہت امید رکھتا تھا یوں گویا ہوا، بے بے جی ! آپ کے خاندان کا ہمیں بہت لحاظ ہے لیکن آپ کے بیٹے نے پرانے طریقے کو چھوڑ کر نیا طریقہ اختیار کر لیا ہے وہ آپ کی بہت مانتا ہے اس لئے ہم آپ کو کہتے ہیں کہ اسے سمجھا ئیں اور اسے باز رکھیں.اس پر میری والدہ صاحبہ نے نہایت جرات اور دلیری سے جواب دیا کہ اگر میرا بیٹا کوئی عیب کرے یا اس میں کوئی برائی پیدا ہوگئی ہو و ہیں اس کو روک سکتی ہوں لیکن مجھے اس کے عقیدے اور عمل میں کوئی برائی معلوم نہیں ہوئی اس لئے میں کیوں اس کو منع کروں.اب تو جدھر اس کا راستہ ہے ادھر ہی ہمارا راستہ ہے.یہ کھر کھرا جواب سن کر وہ سب اپنا سا منہ لے کر واپس چلے گئے اور یہ لفظ کہتے ہوئے باہر نکلے کہ مائی تو بڑی پکی ہے.غرضیکہ اس کے بعد لوگوں کے مقاطعہ سے میرے دل کو بہت صدمہ ہوا.گو ظاہری طور پر تو میرا وہ کوئی نقصان نہ کر سکے اور نہ ہی مجھے کوئی تکلیف دے سکے لیکن دوستوں اور آشناؤں کا خشک اور روکھا سلوک میرے جذبات کو بہت ہی صدمہ پہنچانے کا موجب ہوا اور میں ہر وقت اسی سوچ بچار میں افسردہ خاطر رہتا تھا کہ الہی یہ کیا ماجرا ہے، کیا تھا اور کیا ہو گیا.چنانچہ اسی افسردگی اور پژمردگی کی حالت میں سخت اُداس ہو کر میں نے اپنے بڑے چچا مولوی احمد الدین صاحب کو جو بھیرہ ضلع شاہ پور میں مدرس تھے اور جو میرے خسر بھی تھے ایک خط لکھا اس میں میں نے چند پنجابی اشعار میں اپنے درد دل کا حال ظاہر کیا.جان بیچاری کرماں ماری دکھاں دے منہ آئی میں غم کھانواں غم مینوں کھاوے فرق نہ اس وچ کائی روز ازل توں اللہ کو لوں قسمت ایہو لکھائی جمندیاں نال غماں دی گڑھتی دائی گھول پلائی یارا تے غم خوار تمامی چھوڑ گئے اشنائی جنھوں بلانواں میری طرفوں جاندا کنڈ بھنوائی میں ہرگز نال کسے دے رہا کیتی نہیں بُرائی پر انیویں جانی دشمن بن گئے رب دی بے پرواہی والد محترم جد کی تاج مبارک میرے کیتی سروں جدائی تختوں لیہ کے وختاں اندر عاجز جندڑی آئی

Page 164

157 صداقت احمدیت کے متعلق رویا اور بیعت کرنا بیعت سے قبل رویا ہونے اور بیعت کرنے کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حسب ذیل بیان جہاں تک کہ مجھے یاد ہے اپنے حافظہ اور یادداشت کی بناء پر صحیح صیح بلاکم وکاست اس غرض سے تحریر کرتا ہوں کہ بطور تاریخ سلسلہ محفوظ رہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا موجب ہو.والله على ما اقول شهید.شروع ماہ نومبر ۱۹۰۵ء میں بمقام بوتالہ جھنڈا سنگھ جب کہ خاکسار درباره دعویٰ حضرت مسیح موعود تحقیقات و دریافت کر رہا تھا اور کچھ کچھ بیعت کرنے کی طرف بھی راغب ہو چکا تھا.مجھے ایک نہایت ہی معنی خیز اور پُر از معارف رویا دکھایا گیا جس کا تصور کر کے خاکسار اب بھی لذت وسرور سے معمور ہوجاتا ہے.وہ رویا میں نے انہی دنوں میں اپنی ایک ڈائری میں قلم بند کر دیا تھا.چنانچہ اب میں اس ڈائری کو سامنے رکھ کر یہ مضمون تحریر کر رہا ہوں.(۱) میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں گیا ہوں.وہاں ایک مسجد اس قدر اونچی جگہ پر بنی ہوئی ہے کہ گویا وہ مکانوں کی چھت پر بنی ہوئی ہے.میں سیڑھیوں کے ذریعہ جو اس مسجد کی شمالی جانب ہیں چڑھ کر مسجد میں پہنچ گیا ہوں.اس وقت ایسا معلوم ہورہا ہے کہ رات کا وقت ہے.چاند کی چاندنی ہے.بہت سے لوگ جمع ہیں.حضرت مرزا صاحب کھڑے ہو کر قرآن شریف ہاتھ میں لے کر وعظ فرما رہے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد وعظ ختم ہو گیا اور لوگ سیڑھیوں کے راستے نیچے اترنے لگ گئے.جب حضرت مرزا صاحب بھی اترنے کے لئے سیڑھیوں کے قریب آئے تو اس وقت میں نے انہیں السلام علیکم کہا.حضور نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو.میں نے جواب عرض کیا.جس پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام بہت خوش ہوئے.اس وقت میرے سر پر سبز پگڑی تھی اور حضرت مرزا صاحب کے اوپر سبز رنگ کی لوئی تھی.جس کو حضور علیہ السلام نے خوش طبعی کے طور پر (جیسا کہ مجھے اس وقت محسوس ہوا ہے ) میرے اوپر ڈال دیا اور میرے سر اور منہ اور جسم پر لپیٹ دیا جس سے میں ڈھانپا گیا اس کے بعد پھر وہ لوئی اتار لی.اس وقت حضور ( علیہ السلام ) ہنس رہے تھے.پھر میں حضرت ممدوح کے ساتھ ہی سیڑھیوں سے نیچے اتر کر باہر آ گیا ، اور ایک بازار میں جو شرقاً غرباً ہے مشرق کے رخ حضور کے ہمراہ چلنے لگ گیا.چلتے وقت حضور نے میرے پنجے میں پنجہ ڈالا ہوا ہے اور چلے جارہے ہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے بیعت کرنی ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ کون سی بیعت کرنی ہے.اس سوال کو سن کر میں متحیر سا ہو گیا کہ کیا جواب دوں.آخر میں نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا کہ محمدی بیعت کرنی ہے کیونکہ ہم سب اُمتِ محمدی ہیں اور یہ بیعت بھی

Page 165

158 سنت محمدی ہے اور آپ بھی خلیفہ محمدی ہیں.میرے اس جواب پر حضور علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور خوشی کے رنگ میں میرا وہ پنجہ جو حضور کے ہاتھ میں تھا.قدرے دبایا.چلتے چلتے آگے ایک اور اونچی جگہ پر ہم جاچڑ ھے جو بیٹھک کی شکل پر معلوم ہوتی ہے.اس کی جانب جنوب تین دریچے ہیں.وہ وقت دن کا معلوم ہوتا ہے.ان در بیچوں میں کسی قدر دھوپ بھی اس کمرہ کے اندر آرہی ہے.وہاں جا کر حضرت صاحب جانب غرب دوزانو ہو کر مشرق کی طرف منہ کرتے ہوئے بیٹھ گئے میں حضور کے سامنے مغرب کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا ہوں.حضور نے ایک تنکا اٹھا کر میرے ہاتھ کی پشت پر ایسے طور سے پھیرا کہ اس سے پانچوں انگلیوں کی پشت کی جانب سفید سی لکیر پڑ گئی جیسا کہ خشک چمڑے پر لکیر پڑ جاتی ہے.اس لکیر کی شکل کی طرف اشارہ کر کے حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ دیکھا یہ کیا لکھا گیا ہے.یہ اللہ کا لفظ ہے.اور خدا تعالیٰ نے ہاتھ کو بھی اسی شکل پر بنایا ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوقَ أَيْدِيهِمُ (4) اور اس طرح سے مجھ پر یہ امر واضح فرمایا ہے کہ میرے ہاتھ پر بیعت کرنا گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیعت کرنا ہے.اس رویا کے دیکھنے کے وقت میں نے قادیان کو دیکھا ہوا نہ تھا اور نہ ہی مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک کی شکل اور ہیئت اور جائے وقوع سے آشنا تھا بلکہ اس کے پانچ سال بعد جب کہ خاکسار نے دستی بیعت کا شرف خود قادیان میں آکر حاصل کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ پہلی مسجد جو کہ چھت کے قریب اونچی جگہ پر تعمیر شدہ دیکھی تھی اور جس کے صحن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وعظ کرتے ہوئے دیکھا تھاوہ مسجد اقصیٰ تھی جس کا نقشہ مجھے پانچ سال قبل دکھایا گیا اور وہ دوسری جگہ جو بیٹھک کے طور پر تھی جس کے جانب جنوب تین دریچے دیکھے گئے تھے اور جس میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاکسار کی بیعت لی تھی اور بیعت کی حقیقت بھی مجھے سمجھائی تھی وہ در اصل مسجد مبارک کا نقشہ تھا جو اس زمانے میں بیٹھک کے اندازہ کے برابر ہی تھی اور خاکسار کو دستی بیعت خدا کے فضل و کرم سے اکیلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اسی مسجد مبارک میں جب کہ حضور مسجد کے مغرب کی جانب بطرف مشرق رخ کر کے بیٹھے ہوئے تھے نصیب ہوئی تھی.غرضیکہ وہ نقشہ مقامات کا قریب وہی تھا جو خاکسار کو بذریعہ رؤیا پہلے دکھایا گیا تھا.۲.اس سے قبل فروری ۱۹۰۰ء میں بمقام بھیرہ خاکسار کورویا میں دکھلایا گیا تھا کہ میں قادیان میں گیا ہوں اور حضرت مرزا صاحب کا گھر پوچھ رہا ہوں.آخر ایک گھر میں داخل ہو کر ایک شخص سے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب کا گھر یہی ہے اس نے کہا کہ ہاں پھر انہوں نے میرا اسباب لے کر اندر رکھ لیا اور میں پاس کی ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز ظہر ادا کرنے کے لئے چلا گیا وہاں جا کر مجھے خیال آیا کہ (حضرت ) مرزا صاحب کے خاندان

Page 166

159 والے لوگوں کے تو یہاں پر بہت گھر ہوں گے اور وہ سب کے سب ہی میرزا کہلاتے ہوں گے کہیں میں غلطی سے کسی اور گھر میں تو نہیں چلا گیا.اس پر میں نے واپس آکر اپنا اسباب مانگا جو مجھے مل گیا چنانچہ اپنا اسباب اٹھا کر ایک گلی میں جا کر پوچھا کہ (حضرت) مرزا صاحب کا مکان کدھر ہے جس پر ایک شخص نے مجھے بتایا کہ تو تو اس مکان کے پاس ہی کھڑا ہے ذرا ادھر تو دیکھو.چنانچہ میں نے دیکھا کہ وہاں پر بہت سے لوگ جمع ہیں اور ہر ایک کے پاس قرآن شریف ہے اور وہ لوگ قرآن ( کریم ) کی تلاوت کر رہے ہیں جن میں موضع بوتالہ کے دو آدمی میاں جلال الدین اور علم الدین ترکھان بھی ہیں.آگے (حضرت) مرزا صاحب ایک لکڑی کے تخت پوش پر بیٹھے ہوئے کسی آدمی سے باتیں کر رہے ہیں.جب حضور فارغ ہوئے تو خاکسار نے آگے ہو کر السلام علیکم کہا.حضور نے سلام کا جواب دے کر خاکسار سے مصافحہ بھی فرمایا.مصافحہ کا کرنا ہی تھا کہ مجھ پر رقت طاری ہوگئی اور میں زار وزار رونے لگ گیا اور بہت رویا.جس کے بعد مجھے عالم رویا میں ہی یہ خیال آیا کہ میں جو بیعت کرنے کے لئے یہاں آیا تھا تو وہ بیعت یہی ہوگی جو میں نے حضور سے مصافحہ کی صورت میں کر لی ہے.اس خیال کی وجہ سے پھر میں نے اور کچھ عرض نہ کیا.یہ رویا اس زمانہ کی ہے جب کہ خاکسار بیعت سلسلہ کرنے کے لئے آمادہ تو تھا لیکن ابھی تک تحقیقات کا سلسلہ شروع تھا اور کبھی کبھی یہ خیال بھی آجاتا تھا کہ کہیں غلطی میں ہی مبتلا نہ ہو جاؤں.اس رویا میں مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ اس سلسلہ حلقہ کے لوگوں کا ایمان قرآن شریف پر ہے اور جو دو آدمی جلال الدین اور علم الدین مجھے دکھائے گئے یہ سلسلہ کے مخالف اور معاند تھے اور اب وہ اسی حالت میں فوت ہو چکے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ناموں کا تعبیر سے یہ تعلق ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی جماعت میں ہی دین کا جلال اور دین کا علم ہے.واللہ اعلم بالصواب.مورخہ ۸ فروری ۱۹۰۱ ء کی رات کو رویاء میں بمقام بھیرہ دیکھا کہ میں مدینہ منورہ میں گیا ہوں اور شہر میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا کہ نہایت ہی ٹھنڈی اور دل خوش کن ہوا چل رہی ہے.جس سے دل بہت خوش ہوا آسمان کی طرف دیکھا تو نور ہی نور نظر آیا.لیکن وہ نور صرف اتنی ہی جگہ پر تھا جتنا کہ شہر مدینہ تھا باقی تمام آسمان پر کالی کالی گھٹاسی نظر آتی تھی اور مدینہ شریف والی جگہ ایسی معلوم ہوتی تھی جیسے بادل والے دن کوئی جگہ خالی از ابر ہوتی ہے اور اس میں سے دھوپ کی چمک باہر نکل آتی ہے.“ اس رؤیا کے بعد خاکسار نے بیعت میں التوا کرنا نا مناسب سمجھ کر اگلے ہی دن مؤرخہ 9 فروری ۱۹۰۱ء کو ایک مفضل عریضه بطور درخواست بیعت بخدمت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر کر دیا جس میں اس

Page 167

160 رڈیا کا بھی ذکر کیا جو مجھے بیعت کی حقیقت بتانے والی تھی اور جس کو نمبر شمار (۱) پر درج کیا گیا ہے (6) ”میری بیعت اخبار الحکم نمبر ۶ جلد ۵.۷ افروری ۱۹۰۱ء کے صفحہ ۸ پر شائع ہوئی ہے علاوہ اس کے تاریخ ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء پیر سراج الحق صاحب نعمانی قادیانی کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط خاکسار کو ملا.جس میں انہوں نے تحریر فرمایا کہ آپ کا بیعت کا خط حضرت صاحب کی خدمت میں سنایا گیا.حضور نے بیعت کو منظور فرمایا ہے اور استغفار اور درود شریف کی مدوامت کا ارشاد فرمایا ہے اور نیز دوسرے تین آدمیوں کی بھی بیعت جن کا نام آپ نے تحریر کیا ہے منظور فرمایا ہے جن کے نام حسب ذیل ہیں مولوی محمد حسین صاحب پھلو کے اور رحیم بخش صاحب و نظام الدین صاحب ساکن پچھلو کے (*) فن کتابت کا حصول اور اس کا بابرکت ہونا آپ کے والد ماجد خوشنویسی کا کام کرتے تھے اور آپ کا خط بھی بہت اچھا تھا.اس وجہ سے والد ماجد کی وفات کے بعد ہمدردا حباب کے مشورہ سے آپ نے فن کتابت سیکھنے کا فیصلہ کیا تا کہ گذارہ میں دقت پیدا نہ ہو.چنانچہ آپ نے جنڈیالہ میں قاضی امام الدین صاحب سے فن کتابت سیکھا اور پھر لاہور میں حسام الدین صاحب اور بعض خاص اساتذہ سے اس فن کی تکمیل کی اور پھر اس فن کو اپنے تک ہی آپ نے محدود نہیں رکھا بلکہ بہت سے نو جوانوں کو سکھلایا چنا نچہ وہ لوگ کتابت کے ہی ذریعہ اپنا اپنا گزارہ بہت اچھی طرح کر رہے ہیں.چنانچہ آپ کے خاص شاگر د حسب ذیل ہیں.(۱) منشی عطاء اللہ صاحب ساکن ملک پور حال لاہور (۲) منشی یوسف علی صاحب حال لاہور (۳) منشی گل محمد صاحب سرگودہا (۴) بشیر احمد صاحب سرگودہا اس فن کی وجہ سے ملازمت میں بھی آپ نے افسران سے اچھے ریمارکس حاصل کئے.علاوہ ازیں حضرت خلیفتہ امسیح اول کی خاص مرغوب کتاب وفتح الخیر تکملہ کتاب فوزا الكبير للامام الجليل العظیم شاہ ولی اللہ ابن عبدالرحیم جو 29 صفحات پر مشتمل ہے آپ نے حضرت ممدوح کے لئے قلمی لکھی.آپ بیان کرتے تھے کہ حضرت محروح نے متعدد مرتبہ بوقت ملاقات فرمایا کہ جب میں آپ کی لکھی ہوئی کتاب دیکھتا ہوں تو بے اختیار میرے منہ سے آپ کے لئے دعا نکلتی ہے.بیعت الحکم پر چہ مذکور میں یوں مرقوم ہے.محمد عبدالله خوش نویس بوتالہ سردار جھنڈا سنگھ گوجرانوالہ حال بھیرہ مولوی محمد حسین صاحب پھلو کے.مولوی رحیم بخش صاحب پھلو کے.مولوی نظام الدین صاحب پھلو کے.

Page 168

161 یہ کتاب خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے اس کے آخر پر آپ نے مندرجہ ذیل عبارت تحریر کی تھی.الحمد للہ کہ رسالہ ہذا سمی به فت الخبیر حسب الارشاد فیض بنیاد حضرت سیدنا ومولانا و مرشد نا خلیفہ اسیح والمهدی حضرت حاجی حافظ مولوی نورالدین صاحب ادام اللہ فیوضہ وایدہ اللہ بنصرہ از دست ذرہ بے مقدار خاکسار محمد عبداللہ عفاہ اللہ ساکن بوتالہ ضلع گوجرانوالہ بتاریخ ۹ را پریل ۱۹۱۲ء با تمام رسید.ہر کہ خواند دعا طمع دارم بازاں کہ من بنده گنہ گارم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب سے آپ کے خاص محبت کے تعلقات تھے چونکہ حضرت میر صاحب اکثر بیمار رہتے تھے اور اکثر تیم کی ضرورت ہوتی تھی اور وقت پر پاک مٹی کا تلاش کرنا ایک خاص مرحلہ ہوتا ہے اس لئے میر صاحب نے ایک چھوٹا سا ڈبہ بنوایا تھا جس طرح کہ سنا رلوگ ہار وغیرہ احتیاط سے رکھنے کے لئے چھوٹا سا بکس بناتے ہیں.اس کا سائز اس قدر تھا کہ اگر اسے کھول کر میز پر رکھا جائے تو ایک طرف دایاں ہاتھ اور دوسری طرف بایاں ہاتھ بیک وقت نہایت آسانی سے کھول کر رکھے جاسکیں اور کسی جگہ سے پاک مٹی لے کر اسے بار یک چھان کر تھیلوں میں بھر کر بکس کے دونوں جانب تھیلے رکھ دیئے تھے کہ بکس کو بند کرنے کی صورت میں بھی مٹی گرے نہیں.البتہ دونوں ہاتھ اس پر مارنے پر کچھ مٹی چھن کر باہر نکل آئے اور ہاتھوں کر لگ جائے جس سے تیم کیا جائے اس بکس پر سرخ ریشمی غلاف مڑھا ہوا تھا اس پر فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا (7) خوش خط لکھنے کے لئے میر صاحب نے آپ کے پاس بھجوایا.غرض یہ تھی کہ بکس کی غرض کا اوپر سے دیکھنے سے ہی علم ہو جائے.چنانچہ آپ کو یہ الفاظ اس بکس پر خوش خط لکھنے کی خدمت کا موقع بھی ملا.ملازمت بوتالہ میں مخالفت کے تیز تر ہو جانے پر آپ کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی چنانچہ آپ بھیرہ چلے آئے اور وہاں سے پٹوار کا امتحان پاس کر کے نزدیک ہی موضع چاوہ میں آٹھ روپے ماہوار پر پٹواری لگ گئے.اسی زمانہ کا ایک واقعہ آپ کا بیان کردہ سیرۃ حضرت مولوی شیر علی صاحب میں یوں درج ہے.ایک دفعہ موضع چاوہ میں جہاں مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نہر کے پٹواری تھے.حکیم صاحب موصوف ( حکیم شیر محمد صاحب جو مولوی شیر علی صاحب کے چچا تھے ) اپنی زمین دیکھنے کے سلسلہ میں گئے اور بوتالوی صاحب کو تبلیغی شوق کے نشہ میں چور ہو کر احمدیت کے مسائل نہایت عمدگی سے سمجھانے لگے (حکیم صاحب کو یہ علم نہیں تھا کہ کہ مولوی بو تالوی صاحب احمدی ہیں ) جب واپس جانے لگے تو مولوی صاحب ان کی مشایعت کے لئے چند قدم آگے تک گئے اور اس حقیقت کو ظاہر کیا کہ میں تو خدا کے فضل سے پہلے ہی احمدی ہوں.آپ کی

Page 169

162 تبلیغ کے دوران میں اس لئے چپ رہا تا کہ دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے اور آپ کے خاص رنگ سے خدا ان کے سینوں کو کھول دے.اس پر حکیم صاحب بے حد خوش ہوئے اور مولوی صاحب سے بغل گیر ہوکر رخصت ہوئے.(۸) آپ کی تحریرات سے آپ کی ملازمت کے متعلق ذیل کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے.۱۹۰۲ء پٹواری نہر مستقل ہوئے حلقہ چاوہ سیکشن بھیرہ وغیرہ ۱۹۰۵ء حلقه مانگووال منشی کے عہدے پر ترقی پاکرسوات (صوبہ سرحد ) نہر پر گئے.۱۹۰۷ ء سرگودھا میں تبدیل ہوئے ۱۹۰۷ء حلقہ کوٹ مومن ۱۴ء تا ۱۶ محافظ دفتر کڑا نہ سب ڈویژن ہوئے اور سرگودھار ہے.۲۰ تا ۳۰ ء نا ئب اہلمد ہوکر سرگودھار ہے.۲۸ ء تا ۱۳۰ء ہلمد ہوکرسرگودھار ہے.۳۳ء میں ہیڈ منشی رہے.۲۹/۱۰/۳۵ کو ریٹائر ہوئے نشان الہی کا اظہار اس فن کتابت کے تعلق کی وجہ سے جب کہ ایک دفعہ مکرم مولوی صاحب جنڈیالہ گئے ان دنوں قاضی ظفر الدین صاحب پر و فیسر اور نیل کالج لاہور فوت ہو چکے تھے.ان کے لڑکے فیض اللہ سے ان کی وفات کا افسوس کرنے گئے باتوں باتوں میں قاضی ظفر الدین صاحب کے لڑکے نے ذکر کیا کہ ان کی وفات سے ایک مضمون ہی ادھورہ رہ گیا جسے وہ لکھ رہے تھے.اس سے توجہ پیدا ہوئی کہ دیکھیں وہ کیا مضمون تھا تو ان کے لڑکے نے بتایا کہ مرزا صاحب کی ایک کتاب کا جواب لکھ رہے تھے.دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کا شکار ہوئے کہ من قام للجواب و تنمر.فسوف يرى انه تندم و تذمر (9) چنانچہ اس کا علم پا کر مکرم والد صاحب نے اس امر کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دی اور اس طرح سے ایک نشان الہی کے ظاہر کرنے کا موجب ہوئے جو خفی ہو چلا تھا جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب تتمہ حقیقۃ الوحی ص ۱۶۵ میں مختصر طور پر فرمایا * ☆ (☆) اس کا تفصیلی ذکر احباب اصحاب احمد جلد شم میں ملاحظہ فرمائیں (مؤلف)

Page 170

163 دیانتدارانہ ملازمت سروس بک میں سکھ اور انگریزی افسران نے آپ کے محنتی اور دیانتدار ہونے کے ریمارک لکھے اور یہاں تک مقبول ہوئے کہ ریٹائر ہونے سے قبل آپ سارے پنجاب کے منشیان ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے حتی کہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی آپ دو مرتبہ صدر منتخب ہوتے رہے اور دیگر منشیان کو اصرار تھا کہ مزید عرصہ کے لئے بھی آپ اس عہدہ پر کام کرتے رہیں لیکن چونکہ قادیان ہجرت کر آنے کی وجہ سے زیادہ وقت باہر کے کاموں کے لئے نہ نکل سکتا تھا اس لئے آپ نے معذرت کر دی.از دواجی زندگی آپ کی یاد داشتوں میں آپ کے نکاح کے متعلق ذیل کا نوٹ درج ہے: نکاح خاکسار را قم محمد عبد اللہ ہمراہ امتہ العزیز بنت عموی مولوی احمد دین صاحب مہر یک صد روپے ۱۳ جمادی الثانی ۱۳۱۵ھ مور محه ۱۲۱ اکتوبر ۴۰۶۹۸ کتک سمه ۱۹۵۵ بکرمی بروز پنجشنبہ بمقام بوتالہ مسجد میں بوقت صبح بعد نماز پڑھا گیا.نکاح خوان مولوی علاؤ الدین صاحب اہل حدیث گوجرانوالہ تھے." آپ کی اولاد کے اسماء یہ ہیں.(۱) مولوی عبدالرحمن صاحب انور اسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹی سینا حضرت خلیفہ اسی الثانی ای باله تعالی) (۲) حافظ قدرت اللہ صاحب ( مبلغ لندن انڈونیشیا و ہالینڈ ) (۳) عنایت اللہ صاحب سلیم اسٹنٹ سپر نٹنڈنٹ اریکیشن سیکرٹریٹ لاہور (۴) امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ خانصاحب قاضی محمد رشید صاحب ریٹائرڈ آرڈی ننس آفیسر و سابق وکیل المال تحریک جدید حال ربوہ.(۵) سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری.خدمات سلسلہ و شمائل آپ نے دوران ملازمت اور بعد پنشن خدمات سلسلہ کی بہت توفیق پائی.ان کا نیز آپ کے شمائل و اخلاق حسنہ کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے.(۱) ملازمت کی وجہ سے اکثر آپ سرگودھا میں متعین رہے وہاں صدر اور پھر امیر جماعت کے طور پر خدمات کا موقع ملتا ر ہا.(۲) مئی ۱۹۳۸ء میں محلہ دارالفضل قادیان کے سہ سالہ انتخابات میں آپ سیکرٹری امور عامہ منتخب

Page 171

164 ہوئے (۱۰) اس وقت محلہ دار البرکات کے مکانات واقعہ ریلوے روڈ سہولت انتظام کی خاطر دارالفضل کے ساتھ شامل تھے.(۳) حضرت مسیح موعود کی وفات کی خبر ملنے پر انجمن سرگودہانے جلسہ کر کے حضور کے مناقب بیان کئے اور حضور کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے ساڑھے سترہ روپے چندہ جمع کر کے قادیان بھجوایا اس میں ایک روپیہ مولوی صاحب کی طرف سے تھا (1) آپ اس وقت امین نہر کوٹ مومن تھے غالبا اس طریق کے اختیار کرنے میں یہ جماعت میں منفرد تھی.(۴) موصی ہونے کے علاوہ آپ تحریک جدید کے دفتر اول کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل ہوئے اور والدین اہلیہ محترمہ اور اپنی طرف سے ہر سال اضافے کے ساتھ شرکت کرتے ہوئے پانصد چون روپے ادا کئے (12) قادیان سے ہجرت کرتے ہوئے آپ دس سالہ سر ٹیفکیٹ بحفاظت اپنے ساتھ لائے تھے.اساتذہ کی قدر دانی آپ ہمیشہ اپنے اساتذہ اور مہربانوں کا جنھوں نے کسی وقت امداد کی تھی ذکر نہایت ہی محبت اور عزت سے کیا کرتے تھے.مکرم مولوی محمد حسین صاحب ساکن پھلو کے ( ضلع گوجرانوالہ ) سے آپ نے کسی حد تک فن حکمت سیکھا تھا.اس لئے ان کے فوت ہو جانے پر باوجودیکہ اپنا گزارہ معمولی تھا ان کے لڑکے کو اپنے خرچ پر قادیان میں تعلیم دلانے کی کوشش کی تاکہ کسی حد تک ان کے احسان کا بدلہ دے سکیں.فن کتابت جن اساتذہ سے سیکھا تھا ان کی دی ہوئی اصلاحوں کو آپ نے نہایت محفوظ رکھا ہوا تھا اور بچوں کو دکھلاتے رہتے تھے.شوری میں شمولیت آپ جس جماعت میں بھی قیام رکھتے تھے سلسلہ کے کاموں میں دلچسپی لینے کے باعث شوری میں شمولیت کے لئے منتخب ہوتے تھے.جب آپ پنشن لے کر قادیان آئے تو تحریک جدید دار الصناعۃ کے سپرنٹنڈنٹ ہونے کے باعث تحریک جدید کی طرف سے بطور نمائندہ شامل کئے جاتے رہے.اور ربوہ ہجرت کرنے کے بعد بوجہ صحابی ہونے کے آپ کو شمولیت کا موقع ملتا ہا.سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۲۲ء میں شوریٰ کے باقاعدہ انعقاد کی بنیاد ڈالی.اس لئے اس سال کی شوری بہت اہمیت کی حامل تھی.اس میں آپ کو نہ صرف بطور نمائندہ شریک ہونے کا موقع ملا.بلکہ جیسا کہ سرورق (ص۲) میں مکرم سیکرٹری صاحب مشاورت نے ذکر کیا ہے مکرم منشی غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل کو شوری کی کاروائی قلمبند کرنے اور ترتیب دینے اور آپ کو اور مکرم منشی محمد دین صاحب محرر کو اس کے مسودہ

Page 172

165 کے صاف کرنے میں بہت محنت کرنی پڑی.آپ ۱۹۲۳ء کی شوریٰ میں بھی شریک ہوئے اس کی رپورٹ سے آپ کی ایک عمدہ تجویز کا علم ہوتا ہے جو کہ منظور کی گئی تھی چنانچہ ”سب کمیٹی تالیف واشاعت کی رپورٹ میں مندرج ہے.(۵) الف.مولوی عبداللہ صاحب بوتالوی کی تجویز کہ ہر غیر احمدی کام کرنے والے سے (ارتداد ملکانہ میں ) جو ہمارے ساتھ کام کرنا چاہے ایک تحریری معاہدہ لیا جائے کہ وہ ان شرائط کی پابندی کرے گا جو حضرت خلیفہ اسیح کی تجویز کردہ ہیں فیصلہ ہوا کہ منظور ہے (۶) مولوی عبداللہ صاحب بوتالوی نے تجویز پیش کی کہ اس امر کا اعلان عام طور پر کیا جائے کہ استعداد کے آدمی بھی اس خدمت میں حصہ لے سکتے ہیں.عالم ہونا ضروری نہیں کیونکہ ممکن ہے بعض لوگ اس وجہ سے رکے ہوئے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی خدمت کے قابل نہیں.یہ اعلان بذریعہ اشتہارات بھی ہو اور بذریعہ زبانی اعلان کے بھی ہو.فیصلہ ہوا کہ منظور ہے“ ۱۹۲۳ء کے بعد کی شوری ہائے کی جور پورٹیں دستیاب ہوسکی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ (الف) ۱۹۳۰ء کی شوریٰ میں آپ شامل ہوئے.(ب ) ۱۹۳۳ء میں بھی شامل ہوئے اس وقت آپ اہلمد محکمہ نہر سرگودھا‘ تھے (رپورٹ مشاورت ) چنانچہ اس شوریٰ میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۳۴ ۱۹۳۳ء کے لئے ایک سب کمیٹی مال مقرر فرمائی اس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت میر محمد الحق صاحب اور محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب جیسے ممتاز افراد بھی شامل ہوئے.فرمایا کہ دوران سال میں کئی بار اجلاس ہوں گے جن میں میں بھی شامل ہوں گا.حسب توفیق حاضری ضروری ہوگی اور اس میں شمولیت کے لئے استعفیٰ پیش کر دینے سے نیچے نیچے دیانتداری سے ہر کوشش کر کے شامل ہوں.اس سب کمیٹی کے ایک ممبر مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی بھی تھے (13) (ج) ۱۹۳۴ء کی شوری میں سب کمیٹی دعوۃ تبلیغ کے آپ ممبر مقرر ہوئے (14) اس وقت آپ ”اہلمد محکمہ نہر سرگودھا تھے.(۱) ۱۹۳۵ء میں آپ سرگودہا کی طرف سے شامل ہوئے اور سب کمیٹی نظارت اعلیٰ و بہشتی مقبرہ کے

Page 173

166 آپ ممبر مقرر ہوئے (15) (ہ) اپریل ۱۹۳۶ء میں سب کمیٹی دعوۃ و تبلیغ وسب کمیٹی تعلیم و تربیت کے ممبر مقرر ہوئے.اکتوبر ۱۹۳۶ء کی شوریٰ میں قادیان کی طرف سے شامل ہوئے.(ر) ۱۹۳۷ء و ۱۹۳۸ء کی شوریٰ میں آپ کا نام علی الترتیب یوں درج ہے.مولوی محمد عبد اللہ صاحب انچارج دار لصناعة تحریک جدید ( نمبر ۴۵ ) (16) مولوی محمد عبد اللہ صاحب سپر نٹنڈنٹ بورڈ نگ دار الصناعة قادیان ( نمبر ۳۸) (ز) ۱۹۳۸ء میں بطور سپرنٹنڈنٹ بورڈ نگ دار الصناعت شریک ہوئے (نمبر ۳۸) ( ح )۱۹۴۱ء ۱۹۴۳ء ۱۹۴۴ء میں بھی آپ قادیان کی طرف سے شریک شوری ہوئے.۱۱۴ ۵ ۲۵ ،۸۳ نمبر پر متعلقہ رپورٹوں میں آپ کا نام درج ہے ) بعد پنشن وقف جب آپ ۱۹۳۵ء میں پنشن لے کر قادیان آئے تو تحریک جدید کے مطالبہ نمبر۱۲ ( کہ پنشنران اپنی زندگیاں وقف کریں اور چھوٹی سرکار سے تنخواہ لیں اور بڑی سرکار کا کام کریں ) کے ماتحت اپنے آپ کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کے قدموں میں لا ڈالا اور اپنے آپ کو پیش کیا حضور نے سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ دار الصناعۃ کے کام پر آپ کو مقرر فرمایا.بالآخر نصف سال گزرنے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انچارج تحریک جدید مولوی عبد الرحمن صاحب انور آپ کے فرزند سے دریافت فرمایا کہ جن کے ماتحت یہ ادارہ تھا کہ مولوی محمد عبداللہ صاحب کے لئے کیا الاؤنس مقرر کیا گیا ہے.انہوں نے عرض کیا کہ والد صاحب نے پنشنران کے وقف کے تحت اپنے تیں پیش کیا ہے اس پر حضور نے فرمایا کہ نہیں ان کو ضرور الاؤنس دینا چاہئے.ان کے عرض کرنے پر کہ پھر کس قدر الاؤنس دیا جائے میرے لئے بوجہ ان کا بیٹا ہونے کے کچھ تجویز کرنا مناسب نہیں ہے اس پر حضور نے غالباً ۲۵ کا : روپے الاؤنس تجویز فرمایا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ جس تاریخ سے ان کو کام پر لگایا گیا ہے اس تاریخ سے یہ الاؤنس دیا جائے آپ نے اس الاؤنس کو حضور ایدہ اللہ بنصرہ کی طرف سے بطور انعام منظور کر لیا کہ انکار کرنا سوء ادبی ہے اور اپنے فرائض کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲ مارچ ۱۹۳۶ء کو دار الصناعۃ کا افتتاح کیا تھا.(17) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لکڑی وغیرہ جو افتتاح کے وقت تراشی تھی یہ سب کچھ شیشے میں بطور یادگار دار الصناعۃ میں رکھا ہوا تھا.نہ معلوم یہ یادگار محفوظ رہی یا نہ رہی.

Page 174

167 پاکستان آنے کے بعد ابتداء میں جب کہ دفتر بیت المال میں (جس میں قادیان ہی میں دار الصناعۃ کے ختم ہو جانے کے بعد کام کرنا شروع کیا تھا) کام کی مقدار زیادہ نہ تھی یہ محسوس کیا کہ بغیر کام کرنے کے صدر انجمن احمدیہ سے تنخواہ لینا دیانتداری نہیں ہے فراغت کی اجازت حاصل کرلی اور سرگودہا میں ملازمت کے خیال سے آگئے.اور دو چار دن میں ہی پھر سابقہ دفتر میں جس میں ان کے وہ افسرا بھی موجود تھے جن کے ماتحت کام کا موقع پہلے مل چکا تھا.انہوں نے آپ کو بہت ہی خندہ پیشانی سے فوراہی کام پر لگا لیا اور جب ربوہ میں کام باقاعدہ شروع ہوا.تو ربوہ میں خدمت کے لئے آپ نے اپنے تئیں پیش کر دیا آپ کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک درخواست دعا درج کی جاتی ہے اس سے آپ کی خدمت سلسلہ کے متعلق قلبی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم بحضور سید نا واما منا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.نہایت ادب و انکسار سے یہ عاجز عرض گزار ہے کہ یہ خادم اب اپنی عمر کے آخری ایام میں پہنچ چکا ہے.لیکن یہ خدا کا شکر ہے کہ جہاں اعضاء وقویٰ میں کمزوری پیدا ہوگئی ہے وہاں خدمتِ سلسلہ کا شوق کم نہیں ہوا بلکہ عمر کے ان آخری لمحات میں گذشتہ کوتاہیوں کی تلافی کرنے کا خیال معاش کی نسبت معاد کے فکر میں زیادہ مبتلا کرتارہتا ہے.از راہ کرم خاص دعا فرمائی جاوے کہ اللہ تعالی خاتمہ بالخیر فرمائے اور جس طرح اس نے آج سے پچاس سال قبل اپنے مامور اور مرسل کی تصدیق کی توفیق عطا فرمائی تھی اسی طرح عاقبت میں بھی اپنے ان پیاروں کی معیت کی توفیق عطا فرمائے اور میری اولاد کو بھی ہر ایک غلطی اور کمزوری سے محفوظ رکھ کر صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور بیش از پیش دینی خدمات سرانجام دینے اور ہر ایک امتحان میں کامیاب کر کے آگے ہی آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرما دے.اور سلسلہ کا وفادار خادم بناوے کیونکہ میں نے ان کو پیدائش سے ہی سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کیا ہوا ہے.دیتے رہے.این است کام دل اگر آید میسرم عریضہ ، نیاز خاکسار محمد عبد اللہ عفی اللہ عنہ (بوتالوی ) مہاجر قا دیان حال مقیم ربوه ۲۶/۱/۵۲ چنانچہ ۱۹۵۲ء میں ہی آپ ربوہ واپس آگئے اور بطور سٹور کیپر اپنے فرائض کو نہایت محنت سے سرانجام

Page 175

168 ابناء فارس کی مجلس کا قیام قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے بچوں کی تربیت کے پیش نظر ایک مجلس قائم کی گئی تھی جس میں والد صاحب ہر جمعہ کو نہایت با قاعدگی سے شامل ہو کر ان کا اجلاس کرایا کرتے تھے اور اس کام میں انتہائی خوشی محسوس کرتے تھے کہ صاحبزادگان کی اس طور پر خدمت کا موقع میسر آیا.امتحانات کتب سلسلہ میں شمولیت قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے جو مختلف امتحانات ہوئے ان میں بھی با قاعدگی سے شامل ہو کر اچھے نمبر حاصل کرتے رہے چنانچہ ان امتحانات میں پاس ہونے پر سندات دی جاتی تھیں.ان سندات کو محفوظ رکھا چنانچہ حسب ذیل کتب کے امتحانات میں شامل ہو کر پاس ہوئے.لیکچر سیالکوٹ.۴۲/۵۰ سراج منیر۰ ۴۸/۵ فتح اسلام ۳۶/۵۰ رشتہ داروں میں باہمی اتحاد کی ایک کوشش کا نمونہ رشتہ داروں میں باہمی بے تکلفی اور محبت کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے متعدد مرتبہ یہ انتظام کیا کہ عصر کے وقت ان کے ہاں اطلاع بھجوادینی کہ آج شام کا کھانا سب مل کر کھائیں گے اس لئے جو کچھ بھی اپنے اپنے گھر میں کھانا تیار ہے بغیر کسی قسم کے تکلف کے اسے لے کر تشریف لے آئیں تا کہ بے تکلفی سے سب عزیزان کچھ وقت مل کر گزار ہیں.اس طریق سے بغیر کسی بوجھ اور تکلف کے باہمی تعلقات محبت میں اضافہ ہوتا تھا.علمی لٹریچر کا جمع کرنا ہر علم کی کتب کو نہایت احتیاط اور ترتیب سے لائبریری کے طریق پر رکھنے کا خاص اہتمام تھا اور ہر ایک کتاب کے متعلق رجسٹر میں تفصیلات درج ہوتی تھیں کہ کس کی تصنیف کردہ ہے.کس مضمون پر ہے.حجم کس قدر ہے.کس زبان میں ہے.کس قیمت پر کس جگہ سے خریدی.اور کتابوں کے لئے باقاعدہ لکڑی کی الماریاں تیار کرا کے ان میں ان کو محفوظ رکھا ہوا تھا.البدر الحکم وغیرہ اور الفضل کے تو باقاعدہ خریدار رہے تھے.اور تشحیذ الا ذہان.ریویو اردو اور الفرقان کے فائل بھی سب اکٹھے کئے ہوئے تھے جس فائل میں جو جو پر چہ کم تھا اس کی یادداشت اپنی کاپی میں رکھی ہوئی تھی تاکہ جہاں سے بھی میسر آئے حاصل کر لیا جائے اور پھر جلد مکمل ہونے پر اس کی جلد کر کے اسے محفوظ رکھا کرتے تھے چنانچہ کتب کی جلد بندی بھی خود اپنے ہاتھ سے نہایت احتیاط سے مضبوط کرتے تھے تا کہ ضائع نہ ہو جائے.فارسی زبان سے خاص دلچسپی تھی اور خواہش رکھتے تھے کہ کوئی ان سے کچھ سیکھے.علم کا شوق اور پیچیدہ علمی

Page 176

169 باتوں کو حل کرنے کا شوق بچپن سے ہی تھا چنانچہ آپ کے گھر میں ایک کتاب طب کی قلمی تھی جو فارسی زبان میں تھی لیکن کسی کسی نسخے میں ہندی کی زبان سے ملتی جلتی کسی زبان میں کسی خاص دوائی کا نام لکھا ہوا تھا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب وہ آٹھویں جماعت میں قلعہ دیدار سنگھ ضلع گوجرانوالہ میں پڑھا کرتے تھے تو ان کے استاد کے پاس ایک کتاب اس غرض سے آئی کہ اس کا کچھ معاوضہ مل سکے.یہ کتاب ایک شاہی حکیم کا بیاض تھا جسے وہ بہت عزیز رکھتا تھا، اس کی وفات کے بعد اس کی بیوی نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ایک نہایت قیمتی کتاب ہے جس کی معقول قیمت مل سکے گی اس نے کئی حکیموں کو دکھایا.لیکن اس زبان کے نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے نسخہ نامکمل رہتا تھا اس لئے اس کا معاوضہ اس عورت کو کچھ نہ مل سکا.لیکن یہ کتاب حل کرنے کی غرض سے استاد موصوف کے پاس بھی آئی.چونکہ کتاب کی جلدی واپسی کا تقاضہ تھا اس لئے انہوں نے یہ تجویز کی کہ اپنے شاگردوں کو دے کر فوری طور پر اس کی نقل کر لیں چنانچہ آپ نے بھی اسے نقل کیا.اس عرصہ میں ان کے استاد کا انتقال ہوگیا اور یہ نقل آپ کے پاس ہی رہی اسے آپ نے آخر حل کر ہی لیا.ان کا ارادہ تھا کہ اس کا ترجمہ کر کے کسی طبی رسالہ میں قسط وار شائع کرایا جائے لیکن بوقت تقسیم ملک صرف ایک جلد گھر سے لائی جا سکے دوسری جلد نہ مل سکی اس واقعہ سے بھی آپ کے علمی شوق کا اندازہ ہوتا ہے.مرکز سلسلہ سے محبت جلسہ سالانہ میں شمولیت: صحیح اور پوری دیانتدارانہ ملازمت سرکاری بجالانے اور ملا زمت کے بھی معمولی ہونے اور عیالداری کے باعث آپ تنگی سے گزارہ کرتے تھے لیکن باوجود اس کے آپ نہایت با قاعدگی سے جلسہ سالانہ پر مرکز سلسلہ کی محبت کے باعث شامل ہوتے اور سادے کاغذوں کی کاپی تیار کر کے ساتھ لاتے تھے اور جملہ تقاریر کے با قاعدہ نوٹ لیتے تھے اور واپس جا کر احباب جماعت کو بھی ان تقاریر کے مضامین سے آگاہ کرتے تھے اور نوٹ لینے میں اس قدر مشق ہو گئی تھی کہ آپ کا شکستہ خط بھی نہایت صاف ہوتا تھا چنانچہ آپ نے قادیان میں ان سب کا پیوں کو نہایت حفاظت سے رکھا ہوا تھا اور وقتاً فوقتاً آپ ان کو دیکھ کر یا دتازہ کرتے تھے جب فونٹین پن کا رواج نہ تھا تو اودی پنسل سے لکھا کرتے تھے جب پین کا رواج ہوا تو ابتداء سے ہی قلم سے نوٹ لکھا کرتے تھے تا کہ دوبارہ محنت نہ کرنی پڑے.۱۹۱۳ء میں وصیت کی تھی.وصیت کا نمبر ۶۵۶ تھا اور آپ کی اہلیہ صاحبہ کا وصیت نمبر ۶۵۷ تھا چنا نچہ اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت ہے باوجود یکہ مکرم مولوی صاحب اور ان کی اہلیہ مکرمہ کی وفات میں تقریباً پونے دو سال کا

Page 177

170 فرق ہے لیکن پھر بھی قبریں ساتھ ساتھ ہیں اور وصیت کی اہمیت کی وجہ سے وصیت کے سرٹیفکیٹ کو نہایت حفاظت سے رکھا حتی کہ ۴۷ء میں قادیان سے آتے وقت جو چند کاغذ ساتھ لائے تھے ان میں سے ایک کا غذا اپنی وصیت کا سر ٹیفکیٹ تھا اور ایک مکرمہ اہلیہ صاحبہ کی وصیت کا سر ٹیفکیٹ تھا.اس سر ٹیفکیٹ پر بطور میر مجلس صدرا انجمن احمدیہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کے دستخط ہیں اور بطور افسر مقبرہ بہشتی کے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے دستخط ہیں.حفاظت تحریرات بزرگان سلسله بزرگوں کی تحریرات کو محفوظ رکھنے کے شوق کے باعث ۱۹۴۷ء میں قادیان سے ہجرت کے وقت جو چند کاغذ آپ ساتھ پاکستان لے گئے ان میں حسب ذیل تحریرات بھی تھیں.یہ تحریرات بطور تعویذ تھیں جن کے طفیل اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر موقع پر محفوظ رکھا.تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۱) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته اجازت ہے.خدا تعالیٰ آپ کے ترددات معاش دور کرے اور ہر طرح کامیابی نصیب کرے.آمین.باقی خیریت ہے.(۲) اشیاء خریدنی.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ سوڈا سیلی سلات.لائکو آرسنگ (چار آنے ).پان.(ایک روپیہ) مالٹا جو بڑا ہوتا ہے (ایک روپیہ) کولو وائن ( تین روپے آٹھ آنے) پلومر کی دکان سے کولو وائن کی بوتل شربتی رنگ صراحی کی شکل پر ہوتی ہے یادر ہے کولو وائن چاہیے کو کو نہیں چاہیے.اور سوڈا سیلی سلات.چمکدار.پانی پینے پر شیریں معلوم ہوتا ہے.ذیا بیطس کا علاج شیشی میں لاویں.عزیزی میر محمد اسمعیل صاحب.السلام علیکم حامل ہذا کومحمود احمد کی خیر و عافیت کی دریافت کے لئے بھیجا جاتا ہے.اور احتیاطاً دس روپے محمود احمد کے لئے بھیجے جاتے ہیں اگر کولو وائن کی قیمت میں کمی ہو تو دس روپے میں سے دیدیں باقی خیریت ہے.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 178

171 مکرر یہ ہے کہ محمود احمد کی والدہ چاہتی ہیں کہ ایک دن کے لئے محمود احمد کی خبر لے آویں.مناسب ہے کہ میاں معراج دین صاحب کو اطلاع دے چھوڑیں کہ ایک دن کے لئے اپنا حصہ مکان جہاں پہلے رہی تھیں خالی کرا دیں صرف ایک رات رہیں گی ابھی یہ بات ایسی پکی نہیں ہے مگر شاید وہ روانہ ہوں.محمود احمد کو بہت یاد کرتی ہیں اور بے قرار ہیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ اس چٹھی پر ذیل کی یادداشت درج ہے.یہ رقعہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب کے دست مبارک کا لکھا ہوا ہے جو کہ فاطمہ بنت قاضی ضیاء الدین صاحب کے پاس سے ملا ہے اور تبر کا اس کو اپنے پاس رکھتا ہوں.فقط محمد عبد اللہ احمدی بوتا لوی.“ (۳) تحریر حضرت ام المومنین.مبارک بسکٹ مانگتا ہے.اے میرے اے میرے خدا محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ بنت قاضی ضیاء الدین صاحب کے متعلق جلد ششم میں لکھا جا چکا ہے کہ ان کو عرصہ دراز تک حضرت ام المومنین کی خدمت میں دارا مسیح میں رہنے کا موقع ملا.موصوفہ سے مولوی عبداللہ صاحب بوتالوی روایت کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المومنین نے تحریر بالا تین سطروں میں لکھی اور دوات میں ڈوبا لگانے کی وجہ سے سطریں بھی سیدھی نہ آئیں.اس عبارت کے علاوہ بھی حضرت ام المومنین نے ایک کاغذ پر یہ فقرہ لکھا تھا کہ محمود میرا پیارا بیٹا ہے کوئی اسے کچھ نہ کہے.لیکن یہ کاغذ امتہ الرحمن صاحبہ سے گم ہو گیا اور یہ دوسرا کا غذ محفوظ رہا.ان فقرات میں والدہ کی اپنے بچوں سے محبت کی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تحریر لکھی وہ یہ تھی کہ انسان کو چاہیے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور پنجوقتہ اس کی خدمت میں حاضری دیتا رہے.یہ کاغذ دستیاب نہیں ہوا.اس عبارت سے بھی جو گھر میں عام بے تکلفانہ کیفیت میں لکھی گئی.یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ سے کیسی گہری محبت تھی کہ ہر وقت اس خیال میں متفرق رہتے.تحریرات حضرت خلیفہ امسیح اول: (1) مولوی صاحب نے جب ایل الصحضرت طلیقہ ایسی اول کی خدمت میں لکھی حضرت خلیفہ اسیح صاحب دام الطافلم.

Page 179

172 السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے بعد عرض ہے کہ میرے حقیقی چچا صاحب بعارضہ چشم بیمار ہیں اور لاہور میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے علاج کرانے کے واسطے آئے ہوئے ہیں.انہوں نے مجھے بڑی الحاج سے امداد کے واسطے ایک دن کے لئے بلایا ہے.براہ مہربانی ایک دن کی اجازت فرمائی جاوے اور ڈاکٹر صاحب کے نام سفارش بھی فرمائی جاوے کہ ان کے حال پر خاص نظر رکھیں.الراقم خاکسار محمد عبد الله عفی عنہ بو تالوی ۱۴؍ مارچ ۶۱۲ حضرت خلیفہ مسیح او رضی اللہ عنہ نے ملحقہ دوسرے ورق پر کالی سیاہی سےتحریرفرمایا.عزیز مکرم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.محمد عبد اللہ بہت مخلص آدمی ہے.مجھے سفارش کے لئے ( کہتے ہیں اشفعوا توجرو پر عمل کر کے اس کے چچا صاحب کے لئے سفارش کرتا ہوں.والسلام نورالدین ۱۴ / مارچ ۱۲ء (۲) بحضور سید ناومولا نا حضرت خلیفہ مسیح ادا اللہ فیوضکم اسی رام السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ) ا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضور کو سنگری کی ضرورت ہے میں نے شیخ یعقوب علی صاحب کے کہنے پر سید گلزار حسین مرحوم کے واسطے جمع کرائی تھی مگر ان کی وفات کے باعث بھیجی نہ جاسکی.اگر ضرورت ہو تو بھیج دوں اور آئندہ بھی اس کے فراہم کرنے کا خیال رکھوں.۲.میرا اور بابو محمد فاضل صاحب کا ارادہ ہے اپنے گھر بوتالہ میں جا کر ہندو اور مسلمانوں کو کچھ تبلیغ کرنے کا ہے کیونکہ جب سے میں سلسلہ میں داخل ہوا ہوں عموما وطن میں کم ہی رہا ہوں.ان لوگوں کو کچھ مجھ پر پرانا حسن ظن بھی ہے آرزو ہے کہ کلمہ حق سنا کر کچھ اہل وطن کا حق ادا کروں.براہ مہربانی دعا بھی فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دیوے اور میری کوشش کو باور فرمادے اور اس بارہ میں مناسب ہدایت بھی فرمائی جاوے.والسلام.خاکسار محمد عبدالله عفی عنہ بو تالوی.استمبر۱۳ اس چٹھی پر نوٹ از حضرت خلیفتہ امسیح اول ( کالی سیاہی سے ) بہتر ہے جانا مبارک ہو اور سنگری کی مجھے ضرورت تو بہت ہے اللہ تعالیٰ فضل سے میسر کر دے.“ (۵) نقل چٹھی حضرت نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ جس کی دوسری طرف حضرت

Page 180

173 ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آنکھیں بند کر کے لکھی ہوئی تحریر ہے.و بسم اللہ الرحمن الرحیم سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالی السلام علیکم.مبلغ 60 روپے بذریعہ دادی صاحبہ پہنچ گئے حسب الحکم حضور بہت جلد مکان تیار کر دیا جائے گا لکڑی باہر سے منگوانی پڑے گی اس لئے دو چار روز کا وقفہ شاید ہو جائے میں کل ہی لکڑی کے لئے آدمی بھیج دوں گا لکڑی پہنچی اور کام شروع ہوا.اگر ابتداء سے لکڑی کی ضرورت نہ ہوتی تو معمار کل ہی کام شروع کر دیتے.ڈائری میں با قاعدگی راقم محمد علی خاں آپ روزانہ ڈائری لکھنے میں بہت با قاعدہ تھے.چنانچہ اپنی وفات سے ایک دن پہلے تک کی ڈائری با قاعدگی سے لکھی.ڈائری لکھنے میں جو طریق اختیار کیا تھا اس کی کچھ جھلک دکھانے کے لئے چند خاص خاص مواقع کی ڈائریوں کا نمونہ درج ذیل ہے.' (ڈائری ۴/اکتوبر ۴۷ ۶) ہجرت از خانه خود، ہم تو رات کو آرام سے بے کھٹکا ریڈیو پر احباب کے پیغامات سنتے رہے اور بے فکر رہے لیکن معلوم ہوا کہ رات کو باقی محلہ جات والے سب کے سب بورڈنگ میں جمع ہو گئے حتی کہ مولوی ابوالعطاء صاحب ہمارے متعلق بہت مضطرب رہے اور ملٹری کے ایک ٹرک پر سوار ہو کر ہمارے مکان پر آئے اور آوازیں دیتے رہے لیکن ہم دروازے بند کر کے ریڈیو سنتے رہے اور وہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے.کرفیو کے خیال سے ۱۲ بجے تک ہم پھر اطمینان سے گھر میں ہی رہے اس عرصہ میں سید احمد شاہ ( آف گوجرہ) تو گھبرا کر بورڈنگ میں چلے گئے اور ہمارے لئے مولوی صاحب نے دس روپے فی کس یعنی کل ۳۰ روپے دے کر ایک سوک گارڈ کا مسلح سپاہی لے کر محمد نواز واقف کے ہمراہ ایک بجے کے قریب بھیجا کہ وہ ہمیں نکال لائے چنانچہ نہایت جلدی میں انور صاحب اور میں معمولی سامان لے کر اپنے مکان کو آخری الوداع کہہ کر بورڈنگ میں آگئے اور بورڈنگ کے قریب ایک مکان سفینہ صادق“ میں ٹھہر گئے.جہاں عطاء الحق پر منشی عبد الحق صاحب کا تب نے ہمیں کھانا پیش کیا“ ڈائری ۱۶ را کتوبر ۱۹۴۷ء اطلاع ہوئی کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ۲۰ سال سے کم اور ۵۵ سال سے زیادہ عمر

Page 181

174 کے مرد اور تمام عورتیں قادیان سے جانے کے لئے تیار ہو جائیں اور ٹرک ریلوے لائن پر بھٹہ کے پاس کھڑے ہوں گے وہاں سے ہی سوار ہونا پڑے گا.چنانچہ ہم کھانا کھا کر اسباب سائیکل پر لاد کر باہر نکلے.راستہ میں سکھوں کے ڈاکہ مارنے کا خوف تھا لیکن پہنچ بہ سلامت گئے.سنا گیا کہ ایک پناہ گزین سے راستہ میں بستر سکھوں نے چھین لیا جو بعد میں شور کرنے سے ملٹری والوں نے لے دیا.ٹرک پر خورشید احمد صاحب بیٹھے تھے انہوں نے کہا کہ لاری کے ڈرائیور سے ایک روپیہ فی سائیکل مقرر کر کے لاہور تک لے جانے کا وعدہ کیا گیا ہے.تین سائیکل ان کے تھے ایک میرا بھی چھت کے اوپر لاد دیا گیا.میجر آیا اس نے ٹرکوں کو جانے سے روک دیا تا وقتیکہ ایک سو آدمی اور سوار نہ کرایا جائے.چنانچہ بابا غلام فرید صاحب ایم اے پچاس مسافر لے آئے لیکن میجر راضی نہ ہوا اور اس نے خود جا کر بورڈنگ سے زبر دستی کوئی اور پچاس آدمی نکال لائے اور سوار کر وائے.یہ بھی سنا گیا کہ دوملٹری پاکستان کے ٹرک حفاظت قادیان کے لئے آئے تھے.لیکن قادیان کی ملٹری والوں نے ان کو واپس بھیج کر کہا کہ گورداسپور جا کر وہاں سے اجازت حاصل کرو چنانچہ وہ چلے گئے.ایک بجے کے قریب ہمارے ٹرک روانہ ہوئے.دعا سے رخصت ہوئے قادیان کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھ کر الوداع کہا.راستہ میں پہلے گے گذرے قافلوں قتل وغارت کی علامات ( بد بو اور چیتھڑوں کی صورت میں) دیکھنے میں آئیں.مغربی پنجاب سے آئے ہوئے ہندوؤں اور سکھوں کے پیدل قافلے ملے جو نہایت سہولت سے جارہے تھے.گڑوں پر اسباب لادے ہوئے تھے.اناج اور گھر کا سامان چار پائیاں وغیرہ لادی ہوئی تھیں.کچھ پیدل اور کچھ گڑوں پر سوار تھے.واہگہ کے مقام پر ٹرک ٹھہرے لیکن ہمارے سامان کی تلاشی کسی جگہ بھی نہ ہوئی، دونوں حکومتوں کی سرحد پر تمام سواریوں کو ہیضہ کا ٹیکا لگایا گیا ایک کارڈ حوالہ کیا گیا جس میں پتہ وغیرہ اور آنے والوں کی تفصیل تحریر کر دی جانی ضروری تھی ، علاوہ ازیں انہوں نے پانی پلایا.ایک ایک روٹی خواہشمندوں کو تقسیم کی.بعض کو چائے پلائی، آزادی اور امن کی ہوا آئی اور پاکستان میں داخل ہوئے.خدا کا شکر ادا کیا گیا لاہور پہنچنے پر ٹرک سے اترے اور سائیکل کا کرایہ ۵ روپے ڈرائیور کو ادا کیا گیا.عزیزان...وغیرہ آملے اور او پر مکان جو دھامل بلڈنگ میں لے گئے سب کو بخیریت پا کرخدا کا شکر ادا کیا.ڈائری ۲۰ستمبر ۴۸ سویرے میں مسجد میں گیا.مرزا صاحب ( مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت سرگودہا) کا درس سنا گیا.وہاں بابو فضل دین صاحب اوورسیئر ملے.جو کسی زمانہ میں قادیان کی کمیٹی میں ملازم رہ چکے تھے اور میرے مکان کی دوکانوں وغیرہ کا نقشہ ایام فسادات سے ذرا پہلے بنایا تھا.آج کل احمد نگر کی جدید آبادی کے کام پر متعین ہیں اور یہاں کسی کام کے لئے آئے ہیں.کھانا کھا کر دفتر کو روانہ ہوا، راستہ میں دوکان موسومہ بہ الاحمر پر شیخ بشیر احمد صاحب پراچہ نے اطلاع دی کہ سنا ہے کہ آج خلیفتہ اسیح نے چنیوٹ کی جدید عمارت کا

Page 182

175 (☆) افتتاح کرنے کے لئے آنا ہے ) اور وہاں نمازیں بھی پڑھانی ہیں.مجھے تنگ وقت میں اس اطلاع کے ملنے سے جانے کا شوق لاحق ہوا اور اپنے متعلق سوچنا شروع کیا.راستہ میں کچہریوں میں چودھری غلام احمد صاحب نائب تحصیلدار مل گئے.ان سے حضور کی تشریف آوری کا ذکر کر کے کہا کہ مرزا عبدالحق صاحب وکیل کو بتادیں کہ وہ اس خبر کی تحقیق کر کے اگر موقعہ لگے تو چنیوٹ جانے کا بندوبست کریں چنانچہ میں نے دفتر میں جا کر پہلے تو نقشہ بونس مکمل کیا اور حوالہ شیخ رحمت اللہ صاحب کر کے کہا کہ میں آج چنیوٹ جانا چاہتا ہوں.اگلے دن ۲۱/۹ کی رخصت کے لئے درخواست دے کر ڈیڑھ بجے کے قریب روانہ ہوا.کچہری سے ہو کر اڈا موٹراں پر گیا.معلوم ہوا کہ وہاں چنیوٹ جانے کے لئے قافلہ تیار کھڑا ہے اور ایک چھوٹے سائز کی لاری شیخ محمد اقبال صاحب پراچہ نے تیار کی ہوئی ہے گھر جانے کا وقفہ نہ تھا.میں پراچہ صاحب کے چپراسی کے حوالے اپنا سائیکل کر کے سوار ہو گیا.ڈھائی بجے کے قریب اس میدان میں پہنچ گئے جہاں نئے مرکز کے لئے نئی زمین ملی ہے.سائبان لگے ہوئے تھے موٹریں ٹانگے وغیرہ کھڑے تھے.حضرت صاحب بعد فراغت نماز ظہر تقریر فرمارہے تھے جس میں اس مرکز کے تعمیر کرنے کی ضرورت اور اہمیت اور اشاعت احمدیت کی غرض وغایت پر روشنی ڈالی پھر لمبی دعا کی گئی جس میں بہت رقت پیدا ہوئی پھر اسی سائبان کے نیچے نماز عصر حضرت صاحب کے پیچھے پڑھی گئی.پھر بہت سے لوگوں نے بیعت کی پھر حضور قربانی کرنے کے لئے شمال مغربی کونے کی طرف گئے اور وہاں اپنے ہاتھ سے ایک بکری سیاہ رنگ کی ذبح فرمائی جس کے بعد رَبَّنا تقبل منا انك...الخ) (18) بلند آواز سے پڑھی اور واپس آئے.حکم فرمایا کہ باقی چار جانور دوسرے احباب یعنی صحابیوں سے ذبح کروائے جائیں کل پانچ جانور ذبح ہوئے ایک حضور نے خود کیا جو کہ درمیان والا تھا.باقیوں میں سے ایک جانور خاکسار نے بحکم اختر صاحب (عبدالسلام صاحب نائب ناظر تعلیم و تربیت) ذبح کیا ایک عبدالرحیم صاحب درد نے اور ایک چوہدری برکت علی صاحب وکیل المال تحریک جدید نے اور ایک اور کسی صاحب نے.شکر ہے کہ خدا تعالیٰ نے عزیزم انور صاحب کی کوشش اور تحریک سے مجھے بھی اسی خاص دن ایک جانور کی قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائی.حضور نے ایک خیمہ میں کھانا کھایا جو چنیوٹ سے پک کر آیا اور چائے پی جو جماعت احمد نگر نے پیش کی.پھر حضور موٹر پر سوار ہو کر اللہ اکبر کے نعروں سے روانہ لا ہور ہو گئے.اس موقع پر مولوی محمد ابراہیم صاحب سابق کلرک بیت المال اور وکیل المال سے اور اختر صاحب سے اور چودھری عبدالحمید صاحب SE محکمہ بجلی لاہور سے ملاقات ہوئی، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور مرزا عزیز احمد صاحب سے ملاقات ہوئی.حضرت صاحب سے بمشکل مصافحہ کیا اور نذرانہ پیش کیا گیا ربوہ کی تعمیر مراد ہے(مؤلف) ☆

Page 183

176 یاد داشتوں کا اہتمام وفات کے ایام میں ربوہ میں اسٹور کیپر تھے تو جو آخری دنوں میں بعض رقوم کی رسیدات کاٹیں اور ریزگاری کے نہ ہونے کی وجہ سے جو قلیل رقوم بعض اشخاص کی قابل ادا تھیں ان کو اسی رسید پر ہی درج کیا جن کی ادا ئیگی اس یادداشت کی بناء پر متعلقہ احباب کو کر دی گئی.اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے متعلقہ اہم واقعات کی تاریخوں کو مفصل ایک علیحدہ کاپی میں لکھا.جیسے وفات.نکاح.تاریخ پیدائش وغیرہ.بطور نمونه، یادداشت وفات قاضی ضیاء الدین صاحب تحریر فرمایا.قاضی ضیاء الدین صاحب مورخه ۱۵ رمئی ۱۹۰۴ء بروز سوموار بوقت شام بمقام قادیان دارالامان فوت ہو کر گاؤں کے مشرق والے ایک قبرستان میں دفن ہوئے.پختہ چار دیواری والی خانقاہ کے عین متصل جانب جنوب نز د دروازہ مطابق ۳ جیٹھ سمہ ۱۹۶۱ء بکرمی.“ نمونہ تقریب رخصتانہ عزیزہ حلیمہ سعدیہ کا رخصتانہ ہمراہ محمد عابدر یجان مؤرخہ ۱۰/۴۹/ ۲۰ کو بمقام ربوہ ہوا جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے شمولیت اختیار کی اور دعا فرمائی.حضور کی شمولیت اور رخصتانہ اور دعا کار بوہ میں یہ پہلا واقعہ ہے.کوئی چائے یا دعوت نہ دی گئی حسب منشاء حضرت صاحب.“ ایک ایمان افروز تاریخی یادداشت کی حفاظت قاضی ضیاء الدین صاحب جب پہلی مرتبہ قادیان تشریف لائے تو انہوں نے مسجد اقصیٰ کی چونے گچ دیوار پر کالی سیاہی سے فارسی میں اپنی دلی کیفیت لکھ کر اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ کاش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر اس پر پڑ جائے اور حضور ان کے لئے دعا فرماویں کہ وہ قادیان کے ہی ہو جائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کو نوازا اور حضور علیہ السلام کی نظر اس تحریرہ پر پڑی اور حضور نے دعا فرمائی اس موقع کو تلاش کر کے سفیدی کو ہٹایا تو وہ عبارت اب بھی پڑھی جاتی ہے وہ عبارت حسب ذیل ہے.منقول از بیاض قلمی تحریر کردہ قاضی ضیاء الدین صاحب احمدی مرحوم نقل کتبه طاقچه مسجد جامع قادیان کہ راقم الحروف مسکین ضیاءالدین عفی عنہ.بتاریخ ۷ فروری ۱۸۸۵ء بار اول کے در آن جا رسید حسب حال خود نوشته بود فی الحال ۱۳ / جنوری (19) ۱۸۹۶ نقل ازاں برداشته شد و هو هذا قال الله تبارک و تعالیٰ وَاتَّقُو اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ.مصداق این آیتہ شریفہ فی الوقت ذات بابرکات جناب مرزا غلام احمد صاحب است سلمہ اللہ الصمد حقیر یه روز بخدمتش مستفیض ماند.ہر روز در ایمان خودنورے تازہ مشاہدہ کر د علم ایں معلوم بہ بصارتے کہ کل متابعت

Page 184

177 شریعت حقهم لتحل است مفہوم اما بعد بیچاره معتقد تربات صوفیه این زمان از میں دولت محروم.ذات مبارک کش مصداق ے حسن و خوبی دلبری بر تو تمام صحبت بعد از لقائے تو حرام حقیر را اگر خیال پائمال عیال و لحاظ بیماری والدہ ضعیفه خود عائد حال نشد ے گا ہے فرقت ایں آستاں مفیض نشاں برخود گوارا نکر دے ضرورت است وگر نہ خدائے می داند که ترک صحبت جاناں نہ اختیار من است خداوند بطفیل اخلاص این مرد بر راقم آثم ہم نصیبہ از اخلاص خاص عنایت کن - اگر در دعا خود نا خلصم تا نظر مرزا صاحب بریں رقیمہ انداز تا اخلاص از ذات واحد تو برائے حقیر طلب کنید.بملا زمان سلطان که رساند این دعا را کہ زشکر پادشاہی زنظر مراں گدا را راقم الحروف قاضی ضیاءالدین عفی عنہ از کوٹ قاضی تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ محره ۷ فروری ۱۸۸۵ء بارے الحمد لله ثم الحمد للہ کہ حسب رضائے قلبی عاجز چند بار نظر حضرت ممدوح بریں رقیمه سوزناک افتاده چنانچہ از زبان بعض احبائے بوضوح پیوسته و این شمه از اخلاص که به نسبت شرائع احکام در دل خود مشاهده می رود برکت ہماں تو جہات عالیه است.در مجالس متعددفرمودند که ما اور ا ا کثر یاد می داریم از دوست ماست.بریں مثر ده گر جاں فشانم روا است که این مرده آسایش جان ماست (☆) الحمد للہ علی احسانہ (*) ڈائری نویسی اور تقریروں کے قلمبند کرنے کے شوق کے باعث حضرت اقدس کا ایک الہام آپ کے واسطے سے تذکرہ طبع ثانی میں محفوظ ہوا ہے (ص۷۸۲) علاوہ ازیں حضرت خلیفتہ اسیح اول اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے کچھ ملفوظات کے محفوظ کرنے میں بھی شریک ہوئے (7) اصحاب احمد جلد ششم ص ۷، ۸ پر یہ تحریر وغیرہ درج کی گئی ہے.حضرت خلیفہ المسیح اول کے ملفوظات آپ کی طرف سے بدر مورخہ ۲۶/۹/۱۲۸/۱۲ میں اور حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ کے ملفوظات الفضل مورخ ۲۲/۵/۲۲٬۱۵/۵/۲۲،۴/۵/۲۲ میں شائع ہوئے ان میں حضور ایدہ تعالیٰ کی تین رؤیا بھی درج ہیں.

Page 185

178 مرکز سلسلہ میں تعمیر مکان مرکز سلسلہ کی آبادی اور وہاں ہجرت کرنے کے پروگرام کے ماتحت آپ نے عزیزان واقارب کو تحریک کر کے اکٹھیز مین لے کر اس میں ۱۹۲۵ء میں مکان تعمیر کیا اور اس کا نام برکات منزل رکھا.یہ محلہ بعد میں دار البرکات کے نام سے موسوم ہوا اور پاکستان میں آنے کے بعد بھی ربوہ میں اپنے عزیز ان کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی اور محلہ دارالرحمت میں اپنے قریب نو رشتہ داروں کو اکٹھا کر کے زمین کے حاصل کرنے میں امداد کی اور پھر اپنا مکان بھی تعمیر کیا.تاثرات حافظ صاحب: آپ کے صاحبزادہ حافظ قدرت اللہ صاحب مجاہد ہالینڈ کے تاثرات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.آپ بیان کرتے ہیں.والد صاحب محترم کے وہ آخری الفاظ جو انہوں نے ۵۲ ء میں میرے انڈونیشیا روانہ ہوتے وقت فرمائے مجھے کبھی نہ بھولیں گے.آپ نے فرمایا کہ اب تم اپنے اہل وعیال کے ساتھ تبلیغ کے لئے ہم سے جدا ہو رہے ہو اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو ( آمین ) پھر فرمایا کہ تم جب یورپ گئے تھے تو تمہارے اہل وعیال پیچھے ہمارے پاس بطور امانت تھے ہم سے جہاں تک ہو سکا ہم نے ان کی نگہداشت کی اب تم ان بچوں کو اپنے ساتھ لئے جاتے ہو، زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.یہ بھید اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے ممکن ہے ہم ایک دوسرے سے پھر نہ مل سکیں اور سیہ ملاقات ہماری آخری ملاقات ہو.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا ہر آن نگہبان ہو.آپ کے جذبات نے میرے دل پر ایک گہرا اثر چھوڑا اور میری بیوی نے بھی اسے شدت کے ساتھ محسوس کیا لیکن چونکہ والد صاحب محترم کی صحت ابھی کافی اچھی تھی.اس لئے طبیعت ان الفاظ کو واقعی طور پر تسلیم کرنے سے انکار ہی کرتی رہی، اور دل اس سے گریزاں ہی رہا.مگر آخر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے.اتفاق کچھ ایسا ہوا کہ ادھر ہم انڈونیشیا پہنچے اور ادھر والد صاحب کی وفات حسرت آیات کی خبر موصول ہوئی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور قرب میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے.مجھے اپنے والد صاحب محترم کی معیت اور صحبت میں کوئی بہت زیادہ عرصہ گزارنے کا موقع نہیں ملا تا ہم آپ کی نیک اور پاک زندگی کا جواثر میری طبیعت پر ہے میں اسے نہایت اختصار کے ساتھ اپنے ناقص الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں.آپ کی ملازمت محکمہ نہر کی ملازمت تھی اور اس ملازمت کا ایک بہت لمبا عرصہ آپ نے سرگودھا کے

Page 186

179 علاقہ میں ہی گزارا.اس زمانے میں خاکسار کے بڑے بھائی مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب انور اور ان کے بعد یہ عاجز تعلیم دینی کی غرض سے اپنے والدین سے جدا ہو کر قادیان میں ہی رہے.محترم والد صاحب سنایا کرتے تھے کہ تمہارے دادا کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے دو بیٹوں کو ( یعنی والد محترم اور ان کے چھوٹے بھائی مکرم سعد اللہ صاحب) کو دینی تعلیم دلوائیں.ایک کو مولوی بنائیں اور ایک کو حافظ قرآن.مگر افسوس کہ وہ اپنی زندگی میں اس خواہش کو پورا نہ کر سکے.اب میری خواہش ہے کہ تم اپنے دادا کی اس نیک خواہش کو پورا کرو.چنانچہ اسی غرض کے لئے انہوں نے ہمیں قادیان بھجوایا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس خواہش کو صحیح معنوں میں پورا کرنے والے بنیں.سلسلہ سے عقیدت اور تبلیغ میں جب والد صاحب محترم کی زندگی پر نظر کرتا ہوں تو علاوہ دیگر بہت سے اوصاف کے ایک چیز آپ میں بہت نمایاں نظر آتی ہے اور وہ ان کا سلسلہ کے ساتھ عقیدتمندانہ تعلق ہے.آپ جہاں جہاں بھی اپنی ملازمت کے دوران میں رہے.احمدیت کا بیج بھی ساتھ ساتھ بکھیر تے گئے.اپنے قول سے بھی لوگوں کے لئے ایک نمونہ بنے.نہر کا محکمہ رشوت کے سلسلہ میں کافی بدنام ہے مگر جن لوگوں کے ساتھ بھی آپ نے کام کیا ہے وہ اس بات کے زندہ گواہ رہیں گے کہ آپ نے کبھی بھی رشوت نہیں لی بلکہ اسے ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا.والد صاحب محترم نے مجھے ایک دفعہ سنایا کہ ایک موقع پر کسی نے زبر دستی آپ کی جیب میں کچھ روپے ڈال دیے تو آپ نے غصہ کے ساتھ تمام لوگوں کے سامنے وہ روپے نکال کر باہر پھینک دیے جس سے وہ شخص بہت ہی نادم ہوا.یہی آپ کی دیانت تھی کہ آپ اپنے سارے محلے میں عزت اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.آپ کی اس صفت کا اظہار ایک دفعہ کھلے بندوں محکمہ نہر کے ایک ماہوار رسالہ میں ہوا.جس میں ذکر تھا کہ سرگودھا ڈویژن کو بجا طور پر اپنے دو ملازمین پر فخر ہے جو اپنی دیانت اور امانت میں جواب نہیں رکھتے ایک نام ان میں سے والد صاحب محترم کا تھا.بہر حال دیانت اور امانت کے لحاظ سے آپ نے اپنی زندگی میں جس اعلیٰ کردار اور اخلاق کا مظاہرہ کیا وہ حقیقتاً احمدیت کی ایک عملی تبلیغ تھی جو ایک بہت بڑی خصوصیت تھی.خصوصاً اس وجہ سے کہ آپ کی احمدیت کوئی چھپی ہوئی بات نہ تھی.ہر شخص جو آپ کے نام سے واقف تھا وہ اس بات کو بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ آپ احمدی ہیں اور اسی کو اپنا دین وایمان یقین کرتے ہیں.آپ نے سرگودھا شہر میں ایک لمبا عرصہ باقاعدہ طور پر جماعت کی خدمت کے فرائض انجام دیئے.پہلے آپ کچھ وقت پریذیڈنٹ رہے اور پھر جب جماعت کو امارت کی سعادت نصیب ہوئی تو یہ اعزاز بھی آپ کو آپ کے وہاں قیام تک حاصل رہا.چنانچہ آپ کا دن رات خدمت دین کے ہی ماحول میں

Page 187

180 بسر ہوا.جو محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اور اسی کی دین ہے.اسی ملازمت کے دوران میں آپ کو کچھ وقت سرگودھا کے قریب ایک گاؤں چک ۴۶ شمالی میں بھی رہنے کا موقع ملا.یہ گاؤں شہر سے کچھ فاصلے پر ہے.آپ سائیکل پر دفتر آیا جایا کرتے تھے دفتر کے بعد آپ کا سارا وقت اس گاؤں کی جماعت کی بہبودی میں صرف ہوتا.ان ایام میں مجھے بھی کچھ وقت آپ کی معیت میں رہنے کا اتفاق ہوا.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ آپ کے وجود سے اس جماعت میں ایک بڑی برکت نظر آتی تھی.باوجود اقلیت میں ہونے کے اس جماعت کا سر گاؤں میں بلند تر تھا اور یہ جماعت قلیل عرصہ میں کافی ترقی کر گئی تھی.چندوں میں آپ بہت ہی با قاعدہ تھے بلکہ کوئی تحریک مرکز ایسی نہ ہوتی جس میں آپ حصہ نہ لیتے بلکہ اپنے جملہ متعلقین کو اس کی تحریک فرماتے.آج ۱۹ سالہ تحریک جدید میں اس عاجز گناہگار کا بھی نام آیا ہے.مگر یہ سب دراصل والد صاحب محترم ہی کے طفیل ہے.تحریک کے ابتدائی سالوں کا چندہ آپ ہی کے نیک جذبات اور تحریکات کا مرہونِ منت ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہتر جزا عطا فرمائے.مہمان نوازی اور غربا پروری والد صاحب محترم کی زندگی بہت سادہ تھی اور غریبانہ رنگ میں ہی بسر ہوتی تھی مگر اس کے باوجود خدا تعالیٰ کی برکت ایسی تھی کہ کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی بلکہ تمام ضروریات اللہ تعالیٰ کے فضل سے باحسن رنگ پوری ہوتی رہتی تھیں اور بڑی عزت کے ساتھ گذر ہوئی.مہمان نوازی آپ کی طبیعت کا خاصہ تھا مجھے اکثر دیکھنے کا اتفاق ہوا کہ مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد مسجد سے جب آپ گھر تشریف لاتے تو کوئی نہ کوئی مہمان بھی آپ کے ساتھ ہوتا بعض دفعہ تکلیف کے خیال سے مہمان معذرت پر آمادہ ہوتا تو آپ یہی کہتے کہ بھائی جو ماحضر ہوگا اس میں آپ بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں ہم کوئی خاص تکلف نہیں کریں گے، پھر سونے کے لئے بعض دفعہ مہمان کو چار پائی اور بستر بھی دیا جاتا.ایک دو دفعہ تو مجھے یاد پڑتا ہے ایسا بھی ہوا کہ مہمان صاحب رات کے وقت بستر بھی لے کر چلتے بنے.مگر ایسے واقعات کے باوجود بھی آپ کے جذ بہ مہمان نوازی میں کوئی خاص فرق نہ آتا.میں جب آپ کی زندگی پر غور کرتا ہوں تو ایسے افراد کی تعداد مجھے کافی نظر آتی تھی جن پر آپ نے بڑے احسانات کئے ان کو آپ نے گھر رکھ کر اور تمام اخراجات خود برداشت کر کے کتابت وغیرہ کا کام سکھایا یا اپنے محکمہ میں انہیں چھوٹی موٹی ملازمت دلوائی صرف یہی نہیں بلکہ ایسی متعدد مثالیں ہیں کہ بعضوں کے رشتے اور شادیاں خود کرائیں اور ان کی تمام تر ذمہ داریوں کو اپنے اوپر لیا اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ ان تمام نیکیوں کو جتانا

Page 188

181 آپ کی طبیعت میں نہ تھا.بلکہ جب ایسے لوگ آسودہ حال ہو گئے تب بھی ان سے کوئی ایسی غرض وابستہ نہ رکھی محض خدا کے لئے یہ کام کئے.یہی وجہ ہے کہ آپ کے تعلق دار اور احسان مند آپ کو آج تک نہایت متشکرانہ جذبات کے ساتھ یاد کرتے ہیں.قادیان کے ساتھ والہانہ محبت بھی ایمان ہی کا نتیجہ ہے اس جذبہ میں بھی والد صاحب محترم پیش پیش نظر آتے ہیں.جلسہ سالانہ پر ضرور تشریف لاتے اور جب کہ مشاورت میں آپ سب کمیٹی کے ممبر بنائے جاتے تو آپ کے جذبات بہت شکر و امتنان کے ہوتے کہ آپ کو اس خاص خدمت کے لئے حضور اقدس نے از راہ نوازش منتخب فرمایا.نیز آپ اکثر اس امر کا اظہار فرمایا کرتے کہ احمدیت کے طفیل خدا تعالیٰ نے ہمارے خاندان پر کتنا بڑا فضل کیا ہے ورنہ ہمارے دوسرے تعلق دار اور رشتہ دار جنھیں اس نعمت سے حصہ نہیں ملا وہ اب تک بھی اسی طرح اس اندھیرے میں ہیں کہ جہاں روشنی کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آتی ، نہ ان کے پاس علم ہے نہ عزت اور نہ اور کوئی قابل ذکر چیز.والد صاحب محترم کی سکول کی تعلیم، کوئی زیادہ نہ تھی.پرانے زمانے کے مڈل پاس ہی تھے مگر اس کے باوجود آپ کے علمی مذاق پر مجھے ہمیشہ رشک ہی آیا ، آپ کی دینی معلومات کافی وسیع تھیں اور تمام ضروری مسائل کے متعلق خاصی واقفیت تھی.قرآن کریم کے ساتھ آپ کو ایک خاص تعلق تھا.اپنی گفتگو اور تقاریر وغیرہ میں اکثر آپ آیات قرآنیہ کو بیان فرماتے اور ان ہی سے راہنمائی تلاش کرتے.یہ روشنی اور یہ ذوق آپ کو سراسر اس تعلق اور صحبت پاک کے نتیجے میں حاصل ہوا جو حضرت مسیح موعود کی وابستگی میں آپ کو ملا.حقیقت یہی ہے کہ جس نے عقیدت اور محبت کے جذبات کے ساتھ کچھ لحات بھی حضرت مسیح موعود کی صحبت میں گزارے اس کو وہ جلا اور روشنی حاصل ہوئی کہ اس کی ساری زندگی ہی بدل گئی.یہی کیفیت والد صاحب محترم کی تھی مجھے علم نہیں کہ آپ نے با قاعدہ طور پر دینی علوم پڑھے ہوں.مگر حالت یہ تھی کہ ادق مسائل دینیہ پر بھی آپ خوش اسلوبی سے اظہار خیال فرما لیتے اور یہ محض اسی صحبت پاک کا اثر تھا جو بھی آپ کو اس روحانی وجود کی حضوری سے حاصل ہوئی.عربی کے علاوہ آپ کو فارسی زبان سے بھی مس تھا بلکہ فارسی زبان پر تو آپ کو کافی عبور حاصل تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ کو فارسی زبان سے عشق ہے.گلستان بوستان آپ کو قریباً از بر ہی تھیں.اکثر شیخ سعدی کی سبق آموز داستانیں اور حکایات اور اشعار ہمیں سنایا کرتے غرض فارسی اشعار کا ایک اچھا خاصہ ذخیرہ آپ کے پاس تھا جن کا اظہار وقتافوقتا ہوتارہتا.مجھے بھی آپ نےکئی دفعہ فرمایا کہ میں بھی آپ سے کچھ فاری سیکھ لوں.حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الاول کے زمانہ میں بھی آپ متعدد بار قادیان

Page 189

182 آکر آپ کے درس قرآن سے فیض یاب ہوتے رہے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے آپ خوشنویس بھی تھے.اسی تعلق میں ایک واقعہ کا ذکر مناسب خیال کرتا ہوں.یہ امر محتاج ذکر نہیں کہ حضرت خلیفتہ امسیح اوّل کو علمی کتب کا بڑا شوق تھا جہاں بھی آپ کو کسی خاص علمی کتاب کا علم ہوتا آپ اسے بڑی قیمت دے کر بھی حاصل کرتے.چنانچہ آپ کے اس شوق کے پیش نظر یا آپ کی ظاہر کردہ خواہش کے پیش نظر ایک نایاب کتاب جو آپ کو بہت پسند تھی اس کا قلمی نسخہ نہایت خوش خط لکھ کر والد صاحب نے تیار کیا اور آپ کی خدمت میں پیش کیا جسے دیکھ کر حضرت خلیفہ اول نہایت خوش ہوئے اور بڑی قدر دانی کے جذبات کے ساتھ اسے قبول فرمایا.مرکز کے ساتھ آپ کو جو انس تھا وہ آپ کے اس عمل سے ظاہر ہے کہ باوجود اس کے کہ عرصہ دراز تک آپ کی ملازمت سرگودھا میں ہی رہی اور یہ مقام اب گویا گھر کی طرح تھا.مگر قادیان کے ہوتے ہوئے کبھی یہ خیال بھی نہ آیا کہ سرگودھا میں کوئی مستقل رہائش کی جگہ بنائیں.آپ نے اگر کوئی مکان بنایا تو وہ قادیان ہی میں بنایا.یہ زمانہ ۲۵ ء کا تھا.آپ کا عرصہ ملازمت ابھی کافی باقی تھا مگر اس خیال سے کہ قادیان ہی ہماری زندگی کا محور ہے اپنی اور اپنی اولاد کی مستقل رہائش کی طرح وہیں ڈال دی.اس زمانہ میں جو جگہ آپ نے مکان کے لئے خریدی وہاں کوئی آبادی نہ تھی سارے محلہ دارالبرکات میں کل دو تین ہی مکان تھے.باقی سب جگہ خالی پڑی تھی یا کھیتی باڑی کے کام آتی تھی.ایسے حالات میں وہاں کی رہائش خطرہ سے خالی نہ تھی اور بہت دفعہ ان مشکلات کا سامنا بھی ہوا.مگر خدا کے وعدوں پر آپ کو کامل یقین تھا کہ وہ وقت دور نہیں ہے کہ یہ سب جگہ احمدیت کے پروانوں سے آباد ہو جائے گی اس لئے ایسا قدم اٹھانے میں آپ نے ذرا تامل نہ کیا.اسی طرح ہجرت کے بعد پاکستان میں بھی جب یہ مسئلہ ان کے سامنے پیش آیا کہ اب رہائش کس جگہ اختیار کی جائے اس وقت بھی آپ کے ان ہی اندرونی جذبات نے کام کیا.بہت بے سروسامانی کا عالم تھا کافی بھاگ دوڑ کی بہت سے پرانے تعلق داروں سے اور رشتہ داروں سے ملاقات کی.کئی ہمدردوں نے ہر قسم کی سہولت کے سامان بھی پیش کئے مگر مرکز سے دور کسی جگہ طبیعت کو سکون نہ ملا اور آخر کار اپنے آقا کے قدموں میں ہی رہائش کو تر جیح دی.” مومن کی ایک شان یہ ہوتی ہے کہ اس کا دل مسجد میں گھبا ہوتا ہے.یہی کیفیت آپ کی تھی تمام نمازوں کے لئے حتی الوسع آپ مسجد تشریف لے جاتے اور بہت کم گھر میں نماز ادا کرتے.مسجد میں اگر صبح یا شام کے وقت کوئی درس کا سلسلہ ہوتا تو اس میں ضرور شامل ہوتے.طبیعت کے لحاظ سے آپ بہت سادہ اور متحمل مزاج تھے دینی غیرت آپ میں بہت تھی مگر ویسے کسی کو غصہ ہوتے بہت کم دیکھا گیا، اللہ تعالیٰ کے احسانات پر ہمیشہ قانع

Page 190

183 اور مطمئن نظر آتے تھے.عام زندگی آپ کی کوئی ایسی آسودہ حال والی تو نہ تھی مگر بڑے ہی سکون والی تھی آپ اکثر اپنی والدہ محترمہ کا ذکر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری والدہ اکثر یہ دعا کیا کرتیں کہ خدایا کسی چیز کی ” تھوڑ (کمی) نہ دکھانا.چنانچہ فرماتے کہ ہمارے ساتھ خدا تعالیٰ کا سلوک کچھ ایسا ہی رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ ہماری ہرضرورت کو پورا کیا اور اچھے رنگ میں پورا کیا اور اس طرح ہمیں کبھی بھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی.نیز فرمایا کرتے کہ ہمیں اس امر کی بھی خوشی ہے کہ خدا تعالیٰ نے حق حلال کی کمائی سے ہمیں حصہ دیا ہے اور اسی میں خدا تعالیٰ ہمیشہ برکت دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی آپ کے ساتھ نرالا ہی تھا اور اس کے انعامات آپ پر اور آپ کے خاندان پر بے شمار ہیں.آپ کا وجود ایسا تھا جیسے آپ خاندان کا ستون ہیں جس کے گرد جملہ افراد خاندان متحد ہوئے بیٹھے تھے.نئے اور پرانے تعلقات کا آپ ایک سنکھم تھے.اب آپ کے وجود کی حقیقی قدر اور برکت زیادہ واضح ہو کر سامنے آنے لگ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو غریق رحمت فرمائے اور نیکی کے اس بیج کو ترقی دے جو آپ کے ذریعہ سے بویا گیا.آپ نے اپنے اقربا کو آرام پہنچانے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اب اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان کی نیک خواہشات اور نیک ارادوں کو پورا کرنے والے ہوں.احمدیت کی عزیز ترین نعمت ہمیں آپ ہی کے طفیل میسر آئی.خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم اس جھنڈے کو مضبوطی کے ساتھ بلند کئے رکھیں جسے وہ زندگی بھر ہر قیمت پر بلند کئے رہے.احمد بیت ان کا ایمان اور ان کی جان تھی.خدا کرے اس پر ہمارا بھی خاتمہ بالخیر ہوآمین یارب العالمین.آپ تحریر فرماتے ہیں: روایات (۱) خاکسار جب قادیان آیا تو میرے ایام قیام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر سے مسجد مبارک میں تشریف لائے.حضور کے گردا گرد حاضرین کا مجمع استادہ تھا.حضور بھی ان کے درمیان کھڑے تھے اس وقت حضور نے کھڑے کھڑے فرمایا کہ شاید کسی دوست کو یاد ہو ہم نے ایک دفعہ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں دکھلایا گیا ہے کہ اس چھوٹی مسجد (مبارک) سے بڑی مسجد اقصی ) تک مسجد ہی مسجد ہے، اس پر حاضرین میں سے دو تین

Page 191

184 اصحاب نے کہا کہ ہاں.حضور ہمیں یاد ہے کہ حضور نے اس طرح فرمایا تھا.خاکسار کو ان میں سے ایک کا نام تو یاد ہے کہ وہ شیخ یعقوب علی صاحب تھے باقیوں کے متعلق یاد نہیں کہ وہ کون کون صاحب تھے.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اب مجھے پھر یہی دکھایا گیا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک مسجد ہی مسجد ہے.(۲) قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے سنایا کہ سردار فضل حق صاحب (*) ساکن دھرم کوٹ کے اسلام لانے کا واقعہ ہمارے سامنے ہوا تھا جب سردار صاحب عید کے دن قادیان آکر مسلمان ہوئے اور اس کے بعد کچھ دن قادیان ٹھہرے تھے ان کے دیگر رشتہ داران اس عرصہ میں چڑھائی کر کے آئے اور ان کو اسلام سے ہٹا کر واپس سکھ مت میں لانے کی کوشش کرتے رہے.چنانچہ ایک دن ایک جتھہ سکھوں کا آیا جس میں بوڑھے بوڑھے اور اپنے مذہب کے واقف لوگ بھی تھے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں فروکش تھے.وہ لوگ بھی مسجد مبارک میں ہی آگئے اور غیظ و غضب سے بھرے ہوئے معلوم ہوتے تھے.انہوں نے اسلام پر اعتراض کرنے شروع کر دیئے.چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ مر جاجی ! ہمیں یہ بتاؤ کہ جس ملک میں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے وہاں مسلمان کیا کریں گے اور چھ مہینے کا روزہ کس طرح رکھ سکیں گے اور نمازوں کے وقت کس طرح معلوم کریں گے.یہ سوال انہوں نے اپنے خیال میں عقدہ لا یخل سمجھ کر پیش کیا.لیکن حضرت اقدس نے نہایت آسانی کے ساتھ فوراً جواب دیا کہ اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں کہ جو انسانی طاقت سے باہر ہو.لہذا اگر انسان چھ مہینے کا روزہ نہیں رکھ سکتا تو نہ رکھے.اس صورت میں اس پر کوئی گناہ نہیں.رہا نماز کے وقتوں کا سوال.سو آج کل تو گھڑیوں کے ذریعہ نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں اور دن اور رات کا اندازہ بھی اس مقام پر مشرق اور غرب کے لحاظ سے کیا جاسکتا ہے.اس پر وہ سکھ خاموش اور لا جواب ہو گئے اور جو اعتراض کا پہاڑ بنا کر وہ لائے تھے وہ حضور نے ذراسی پھونک سے ہی اڑا دیا.(20) (۳) قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے مجھ سے ذکر فرمایا کہ اگر چہ حضرت مولوی نورالدین صاحب علم طب میں بہت کمال رکھتے تھے لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات کسی طبی مسئلہ میں ان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اختلاف ہو جاتا تو تبادلہ خیال کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دلائل کے لحاظ سے مولوی صاحب پر غالب ہی آجاتے تھے اور مولوی صاحب کو لا جواب ہو کر آخر کا ر قائل ہی ہونا پڑتا تھا.2 (21) ☆ (22) (از مؤلف ) سردار صاحب کا پہلا نام سند رسنگھ تھا اور وہ ۱۲/ نومبر ۱۸۹۹ء کو اسلام قبول کر کے جماعت میں داخل ہوئے رض تھے.

Page 192

185 (۴) قاضی ضیاء الدین صاحب احمدیت سے پہلے اہل حدیث کا عقیدہ رکھتے اور مولوی عبداللہ صاحب غزنوی اور ان کی اولاد سے عقیدت رکھتے تھے.ان کے ذریعہ سے ان کے گاؤں کے مالکان بھی اہل حدیث ہو گئے تھے.چنانچہ قاضی صاحب ہی ان کے امام اور استاد اور طبیب بھی تھے اور اس وجہ سے وہ لوگ ان کی بہت عزت اور خدمت کرتے تھے احمدیت کی وجہ سے وہ لوگ سخت مخالف ہو گئے اور قاضی صاحب سے اپنے تمام تعلقات قطع کر لئے.جب قاضی صاحب نے اس طور کے مقاطعہ کا اظہار حضرت اقدس سے کیا تو حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ قاضی صاحب اچھا ہوا کہ یہ بھی ایک بت تھا جو ٹوٹ گیا.(۵) مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی لکھتے ہیں.قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے خاکسار راقم سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم مہمانان قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستر خوان پر حضور کے ہمراہ کھانا کھا رہے تھے.مولوی برہان الدین صاحب جہلمی جو کہ نہایت اعلیٰ درجہ کے فاضل تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا کر اخلاص میں بہت ہی بڑھ گئے ہوئے تھے وہ بھی اس دستر خوان پر کھانا کھا رہے تھے.چونکہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کے دانت نکل چکے ہوئے تھے.اس لئے کسی قدر تکلیف سے کھانا کھاتے تھے اور میں بھی دانت نکل جانے کی وجہ سے تکلیف سے روٹی کھا رہا تھا.حضور نے ہم دونوں کی اس تکلیف کو دیکھ کر کھانا پکانے والے خادم سے جو د ہیں موجود تھا فرمایا کہ قاضی صاحب کو روٹی چبانے میں تکلیف ہورہی ہے.اس لئے ایسے مہمانوں کے لئے چاولوں کا یا نرم روٹی کا انتظام کر دیا کریں اور ساتھ ہی مولوی برہان الدین صاحب کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مولوی صاحب کے بھی دانت تو نہیں لیکن یہ تجربہ کار معلوم ہوتے ہیں اور اپنے تجربہ کے ذریعہ سے کسی قدر سہولت پیدا کر لیتے ہیں.لیکن قاضی صاحب ابھی نا تجربہ کار ہیں.مولوی محمد عبد اللہ صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ اس واقعہ سے ایک تو یہ پایا جاتا ہے کہ حضرت اقدس کو اپنے مہمانوں کی خاطر مدارت اور ان کی ذرا ذراسی تکلیف کا کس قدر احساس ہوتا تھا کہ بغیر کسی کے اظہار تکلیف کے خود بخود ان کی آسانی اور آرام کا انتظام فرما دیتے.دوسرے یہ کہ مولوی برہان الدین صاحب چونکہ خوش طبع انسان تھے.اس لئے ان کی تکلیف کا اظہار بھی خوش طبعی کے رنگ میں فرمایا اور بعض اوقات ( حضور ) اپنے احباب کے ساتھ بے تکلفانہ مذاق کر کے ان میں بھی شگفتگی پیدا کر دیتے تھے.(23) (۶) بیان کیا خاکسار سے میری والدہ صاحبہ مکرمہ (مرحومہ) نے جن کا نام مہتاب بی بی تھا اور جنھوں نے مئی ۱۹۰۷ء میں قادیان آ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت کی تھی اور جو دسمبر ۱۹۲۷ء میں فوت

Page 193

186 ہو کر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ازار بند میں چابیوں کا گچھا لٹکتا ہوا ہم نے دیکھا تھا.ہماری موجودگی میں کسی نے باہر سے لنگر کے واسطے روپیہ مانگا تو حضور نے اٹھ کر ازار بند والے گچھے کی چابی لگا کر ایک ٹرنک کا تالا کھولا اور روپے نکال کر اس کے حوالے کر دیئے.اس سے حضور کی ایک تو یہ احتیاط ظاہر ہوتی ہے کہ سلسلہ کے روپے کو حضور باوجود اس قدر مصروف الخاطر ہونے کے کس طرح محفوظ اور مقفل رکھتے اور لینے اور دینے کی تکلیف برداشت کرتے تھے.یہاں تک کہ اس کی چابی کو سنبھالنے کا بوجھ بھی حضور نے اپنے ہی ذمہ لیا ہوا تھا.دوسرے حضور کی سادگی اور حسن ظنی اور اعتماد کا حال بھی اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضرورت کے وقت لنگر خانہ کا آدمی آتا ہے اور حسب ضرورت دستی روپیہ حضور سے مانگ لیتا حضور حسن ظنی اور اعتماد سے کام لیتے ہوئے رو پیہ حوالہ کر دیتے اور پھر اس کام سے بے فکر ہو جاتے ہیں.“ (۷) حضرت اقدس کی ایک وحی مولوی محمد عبداللہ صاحب کے ذریعے پہلی بار شائع ہوئی ہے گو بعد ازاں اس سے قبل کی ایک تحریر اس کی تائید میں مل گئی ہے جسے خاکسار نے اصحاب احمد جلد ششم میں شائع کیا ہے.تذکر طبع ثانی میں صفحہ ۷۸۲ پر مرقوم ہے کہ : حضرت مولوی شیر علی صاحب کی ایک روایت بوساطت مولوی محمد عبد اللہ بوتا لوی لکھی ہے.قاضی ضیاء الدین صاحب ساکن کوٹ قاضی نے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک عریضہ نہایت انکساری کے الفاظ میں دعا کی درخواست کرتے ہوئے لکھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے خط پہنچنے کے بعد دعا کی اور آپ کو رات کے وقت جواب ملا.وو وہ بے چارہ فوت ہو گیا ہے“ آپ نے صبح حاضرین سے کہا کہ میں نے اس طرح دعا کی تھی اور یہ جواب ملا ہے تھوڑی دیر بعد ڈاک میں خط آیا کہ قاضی صاحب فوت ہو گئے ہیں.) (24) (۸) جب خاکسار ۲۹ مئی ۱۹۰۷ء کو مع اپنی والدہ صاحبہ اور اہل وعیال خود کے قادیان آیا تو اس وقت میری بڑی لڑ کی حمیدہ بیگم اہلیہ خاں صاحب قاضی محمد رشیدی.جی.اوسکندرآباد * خوردسالہ اور شیر خوار تھی جو اپنی والدہ کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان میں گئی اور اس حالت میں حضور نے ایک گلاس میں لسی پی ☆ تذکره ص ۶۶۹ طبع ۲۰۰۴ء ملاحم حال مقیم ربوہ (مؤلف)

Page 194

187 جس کا کچھ تھوڑا سا حصہ گلاس کے نیچے بچا رہا جو حضور نے اسی طرح اپنے پاس رکھ دیا.جس کو میری لڑکی نے جھٹ اٹھا کر منہ سے لگالیا اور پی گئی.یہ حقیقی تبرک تھا جو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری لڑکی کو از خود میسر آ گیا اور جسے اس نے بلا تکلف خود ہی حاصل کر لیا.سوخدا کے فضل سے اس تبرک کے طفیل میں اس میں رشد اور ہدایت اور تقویٰ اور طہارت کے آثار نمایاں طور پر موجود پاتا ہوں.“ (۹) خاکسار نے بچشم خود دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے جب رسالہ ضرورۃ الامام ڈیڑھ دن میں لکھ کر اور طبع کرا کے شائع فرمایا تو اس کے پہلے صفحہ (ٹائیٹل پیج ) پر اپنے قلم سے قلمی دستخط ” مرزا غلام احمد عفی عنہ کے کئے ہوئے تھے اور ایک مہر ہلالی شکل کی بھی لگوائی تھی جس میں الیس الله بکاف عبدہ حسب ذیل شکل میں لکھا ہوا تھا.چنانچہ ایسا ایک نسخہ خاکسار کو بھی قاضی ضیاء الدین صاحب کی معرفت ملا تھا.“ (۱۰) حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے اور دیگر کئی ایک احمدی احباب کو بمقام سرگودھا ایک واقعہ سنایا تھا جو میں اپنی یادداشت کی بناء پر حوالہ قلم کرتا ہوں ایک دفعہ ایک ملنگ فقیر جس نے نیلے رنگ کا تہ بند باندھا ہوا تھا ہمارے سامنے قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرنے کا خواہشمند ہوا حضور کا یہ عام معمول تھا کہ اس قسم کی درخواست کو فوری منظور نہ فرماتے بلکہ کچھ نہ کچھ تامل اور توقف فرماتے.لیکن اس کی درخواست پر حضور حجھٹ بیٹھ گئے اور اسی وقت اس کی بیعت لے لی.اس کے بعد اس نے کہا کہ حضور میں نے اب واپس جاتا ہے.اس بات کو بھی حضور نے اپنی عادت کے خلاف جھٹ منظور فرما لیا اور اجازت دے دی بلکہ خود ہی اس سے پوچھا کہ آپ کو کرایہ وغیرہ کے لئے خرچ کی ضرورت ہوگی.اس نے کہا ہاں ضرورت ہے جس پر حضور نے اپنے پاس سے کچھ نقدی اس کے حوالے کر دی اور الوداعی مصافحہ فرما کر اس کو رخصت کر دیا.اس پر حاضرین کو بہت تعجب ہوا کہ یہ کیسا آدمی ہے جو آتے ہی بیعت کر کے بغیر کچھ عرصہ قیام کرنے کے رخصت ہو گیا ہے چنانچہ اس پر حاضرین سے طرح طرح کے سوالات ہونے شروع ہو گئے.اور خاص کر مرزا خدا بخش صاحب نے تو اصرار کے ساتھ کہا کہ میاں اگر تم نے یہاں ٹھہر نا نہ تھا تو پھر تم آئے کس غرض کے لئے ہو.اس نے نہایت سادگی سے پوچھا کہ بیعت تو کر لی ہے اب کس غرض کے لئے اور ٹھہروں.مرزا خدا بخش (صاحب) نے کہا کہ حضور کی صحبت اختیار کر کے روحانی فیض حاصل کرو، اس نے پوچھا کہ وہ روحانی فیض کیا ہوتا ہے جس کے

Page 195

188 جواب میں بتایا گیا کہ روحانی فیض کشف اور الہامات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.اس نے کہا کہ یہ الہام اور کشف وغیرہ تو مجھے پہلے ہی حاصل ہیں اس پر اسے کہا گیا کہ اگر تجھے یہ کمالات پہلے ہی حاصل ہیں تو پھر یہاں کس غرض سے آئے ہو.اس نے جواباً پنجابی زبان میں آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ” بیعت نہ کریئے تو اتوں جُتیاں پینید یاں نے.“ یعنی اگر اس امام کی بیعت نہ کی جائے تو عالم بالا سے جوتے پڑتے ہیں اور خدا کی درگاہ میں رسائی اور قبولیت نہیں ہوتی " (۱۱) سید عبدالحی صاحب عرب جو عرب سے آکر بہت دنوں تک قادیان میں بغرض تحقیق ٹھہرے رہے اور بعد میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی انہوں نے خاکسار سے اپنی بیعت کرنے کا حال اس طرح بیان کیا تھا.فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فصیح و بلیغ تصانیف کو پڑھ کر اس بات کا دل ہی دل میں قائل ہو گیا تھا کہ ایسا کلام سوائے تائید الہی کے اور کوئی لکھ نہیں سکتا.لیکن یہ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کلام خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے.اگر چہ مجھے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور دیگر علماء اس بات کا یقین دلاتے اور شہادت دیتے تھے.لیکن میرے شبہ کو ان کا بیان دور نہ کر سکا اور میں نے مختلف طریقوں سے اس بات کا ثبوت مہیا کرنا شروع کر دیا کہ آیا واقعی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا ہی کلام ہے اور کسی دوسرے کی امداد اس میں شامل نہیں چنانچہ میں عربی میں بعض خطوط حضرت اقدس کی خدمت میں لکھ کر ان کے جواب عربی میں حاصل کرتا.اور پھر اس عبارت کو غور سے پڑھتا اور اس کا مقابلہ حضور کی تصانیف سے کر کے معلوم کرتا تھا کہ یہ دونوں کلام ایک جیسے ہیں لیکن پھر بھی مجھے کچھ نہ کچھ ان میں فرق ہی نظر آتا جس کا جواب مجھے یہ دیا جاتا کہ حضرت اقدس کا عام کلام جو خطوں وغیرہ کے جواب میں تحریر ہوتا ہے اس میں معجزانہ رنگ اور خاص تائید الہی نہیں ہوسکتی چونکہ عربی تصانیف کو حضرت صاحب نے متحد یا نہ طور پر خدا تعالیٰ کے منشا اور حکم کے ماتحت اس کی خاص تائید سے لکھا ہے.اس لئے ان کا رنگ جدا ہوتا ہے اور جدا ہونا چاہیے.ورنہ عام لیاقت اور خاص تائید الہی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا.بہر حال میں قادیان میں اس بات کی تحقیقات کے واسطے ٹھہرارہا تا کہ میں بھی کوئی اس قسم کی تائید الہی کا وقت بچشم خود ملاحظہ کروں.چنانچہ خطبہ کے نزول کا وقت آگیا اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس الہامی اور مجزا نہ کلام کے نزول کو دیکھا اور خود کانوں سے سنا کہ بلا امداد غیرے کس طرح وہ انسان روز روشن میں تمام لوگوں کے سامنے ایسا فصیح و بلیغ کلام سنارہا ہے لہذا میں نے اس خطبہ کو سننے کے بعد شرح صدر سے بیعت کر لی.

Page 196

189 (۱۲) مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتا لوی تحریر کرتے ہیں.قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے خاکسار سے خطبہ الہامیہ کے سنانے کا واقعہ اپنے مشاہدہ کی رو سے مفصل سنایا تھا.اگر چہ یہ واقعہ مشہور ہے اور روز روشن میں کئی لوگوں کے سامنے ظہور میں آچکا ہے لیکن ہر ایک دیکھنے اور سننے والا اپنے مذاق کے مطابق اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور پھر اپنے مذاق کے رنگ میں ہی دوسروں کے آگے بیان کرتا ہے.اس لئے قاضی صاحب مرحوم کا بیان کردہ حال جہاں تک میرے ذہن میں محفوظ ہے اس جگہ تحریر کر دیتا ہوں ممکن ہے کہ کوئی حصہ اس کا شائع شدہ حالات سے زائد ہو اور اس کا اظہار دوسروں کے لئے مفید ہو.قاضی صاحب نے فرمایا کہ وہ واقعہ عید الاضحیٰ کا تھا جس کی وجہ سے ہم اور کئی دیگر مشتاقین حضور کی زیارت اور ارشادات سے فیضیاب ہونے کے لئے دور دور سے آئے ہوئے تھے.اگلے دن عید تھی لیکن حضرت اقدس اچانک دورہ اسہال سے سخت بیمار ہو گئے.احباب جماعت کو بہت فکر تھا کہ حضرت اقدس کی بیماری کی وجہ سے ہمیں حضور کی صحبت اور ارشادات سے محروم نہ رہنا پڑے.چنانچہ رات کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت اقدس کی عیادت اور مزاج پرسی کے واسطے اندر تشریف لے گئے تو انہوں نے آئے ہوئے مہمانوں کے جذبات اور اشتیاق کی ترجمانی کرتے ہوئے عرض ( کر کے دریافت ) کیا کہ کیا حضور کل عید پر تشریف لے جائیں گے، اس پر حضور نے فرمایا کہ مفتی صاحب آپ دیکھ رہے ہیں کہ بیماری کے دورہ سے کس قد رضعف ہو رہا ہے اس حالت میں میں کس طرح جا سکتا ہوں.چنانچہ جب حضرت مفتی صاحب نے حضرت اقدس کا یہ حال اور یہ فرمان باہر آ کر مشتاقین اور منتظرین کو سنایا تو سب پر افسردگی چھا گئی اور حضرت اقدس کی صحت وعافیت کے لئے دعائیں ہونے لگ گئیں رات گذرگئی.اگلے دن یعنی عید کی صبح کو جب حضرت مفتی صاحب کو حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا تو حضور نے ان کو دیکھتے ہوئے نہایت خوشی کے لہجہ میں فرمایا کہ مفتی صاحب ہم نے تو کل آپ کو جواب ہی دے دیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی درخواست کو منظور فرمالیا ہے اور ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے الہاماً ارشاد ہوا ہے کہ اس موقع پر ہم کچھ تقریر کریں.سواگر چہ اس وقت تک ہم اپنے ضعف کی وجہ سے اس قابل نہیں ہیں کہ باہر جاسکیں یا کچھ نا سکیں لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے.اس لئے ہمیں یقین ہے کہ وہ اس کی طاقت اور توفیق بھی عطا کر دے گا.” جب حضرت مفتی صاحب باہر تشریف لائے تو انہوں نے حاضر آمدہ مہمانان کو حضرت اقدس کی طرف سے یہ بشارت سنادی اور لوگوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی.اس کے بعد جب حضور مسجد اقصیٰ میں عید کی نماز کے لئے تشریف لے گئے تو ضعف کی وجہ سے احباب کے سہارا دینے سے حضور نے راستہ طے کیا.لیکن خطبہ پر کھڑا ہوتے ہی حضور کو اللہ تعالیٰ نے خاص طاقت اور توانائی عطا فرمائی.چنانچہ حضور نے پہلے اردو میں تقریر

Page 197

190 فرمائی.اس وقت گاؤں کے کچھ ہندو اور آریہ بھی آکھڑے ہوئے تھے.اس لئے حضور نے اپنی تقریر میں ان کو بھی تبلیغ فرمائی.اس کے بعد فرمایا کہ اب ہماری حالت الہام کی طرف منتقل ہونے لگی ہے اس لئے دو اصحاب کا غذ اور قلم دوات لے کر بیٹھ جائیں اور جو کچھ ہم بولتے جائیں وہ لکھتے جائیں.اگر کوئی لفظ پوچھنا ہو تواسی وقت پوچھ لیں پھر نہیں بتایا جا سکے گا.چنانچہ حضرت اقدس نے عربی زبان میں فصیح و بلیغ تقریر کرنی شروع کر دی اور حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب لکھنے لگ گئے ، اور جہاں کہیں کسی لفظ کا اشتباہ ہوتا تھا ہرا کر پوچھ لیتے تھے.اور حضرت اقدس انہیں بتلا کر پھر آگے اصل مضمون بیان کرنا شروع کر دیتے تھے.قاضی صاحب کا بیان ہے کہ مولوی عبدالکریم صاحب کو زیادہ الفاظ پوچھنے پڑتے تھے اور مولوی نورالدین صاحب کو ان کی نسبت کم الفاظ دریافت کرنے کی ضرورت پڑتی.لیکن باوجود اس قدر علم وفضل کے بعض ایسے الفاظ بھی انہوں نے دریافت کئے کہ مثلاً یہاں س ہے یا ص.زہے یاظ وغیرہ وغیرہ لیکن حضرت اقدس اس طرح آسانی کے ساتھ بتاتے جاتے تھے کہ گویا حضور کے سامنے لکھا ہوا موجود ہے، اور حضور اس کو پڑھتے جارہے ہیں.حضور کا چہرہ اس وقت نہایت تاباں و درخشاں تھا اور جلال آگیا تھا وہ بیماری کا ضعف اور رنگ کی زردی دور ہو گئی تھی جب خطبہ ختم ہوا تو حضور اس طرح بیٹھے کہ جیسے ایک کمزور اور ضعیف انسان تھک کر بیٹھتا ہے اور حضور کے جسم کو دبانا شروع کیا گیا.حضور کی وہ حالت ربودگی اور بے خودی کا رنگ رکھتی تھی اور حضوڑ بے اختیار ہوکر بول رہے تھے.یہاں تک کہ حضور نے خاتمہ تقریر کے بعد اس لکھی ہوئی تقریر کو ملاحظہ کے واسطے طلب فرمایا اور نہایت خوشی سے اس کو دوبارہ پڑھا اور اس کو خوشخط لکھوانے اور کوشش سے چھپوانے کے واسطے انتظام فرمایا.چنانچہ غالبًا صفحہ ۳۸ تک کا حصہ مطبوعہ خطبہ میں وہی ہے جو اس وقت حضرت اقدس نے کھڑے ہو کر بصورتِ الہام فرمایا اور اما بعد سے آگے کا حصہ تصنیف بعد میں تحریر فرمایا.(25) ایک خاص برکت کا حصول آپ نے حضرت خلیفہ اصبح اول کے ملفوظات قلمبند کر کے بدر میں شائع کئے جو ایک خاص موقع سے متعلق تھے اور وہ درج ذیل کئے جاتے ہیں.مؤرخہ مارچ ۱۹۱۲ء نماز مغرب کے بعد حسب معمول صاحبزادہ حضرت خلیفہ المسیح میاں عبدالحی صاحب قرآن شریف کا سبق پڑھ رہے تھے اور ایک کثیر تعداد دیگر طالب علموں کی بھی موجود تھی جو کہ روزانہ درس میں شامل ہوا کرتے تھے.اثنائے درس میں میاں شریف احمد صاحب صاحبزادہ خورد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی ضرورت کے واسطے باہر جانے لگے تو حضرت خلیفہ اسیح نے فرمایا کہ جلدی واپس آنا پھر فرمایا ایک شاہ

Page 198

191 عبدالرحیم بزرگ تھے ان کو خدا تعالیٰ نے توجہ دلائی کہ گنو اس وقت کتنے آدمی موجود ہیں انہوں نے گن لئے.پھر الہام ہوا کہ آج عصر کی نماز جس قدر لوگ تمہارے پیچھے پڑہیں گے سب جنتی ہوں گے.ایک آدمی سے وہ خوش نہ تھے جب انہوں نے نماز پڑھنی شروع کی تو وہ آدمی موجود تھا.جب نماز ختم کی تو دیکھا کہ وہ آدمی پیچھے نہیں ہے.آدمی گنے تو پورے تھے.پوچھا کہ ان میں کوئی اجنبی آدمی آ کر شامل ہوا ہے.آخر ایک اجنبی آدمی پایا گیا اس سے پوچھا کہ تم کس طرح شامل ہو گئے اس نے کہا میں جارہا تھا اور میرا اوضو تھا.جماعت کھڑی ہوئی دیکھی.میں نے کہا کہ میں بھی شامل ہو جاؤں.پھر وہ دوسرا آدمی آگیا اس سے پوچھا کہ تم کہاں چلے گئے تھے، اس نے کہا کہ میرا اوضو ٹوٹ گیا تھا اور میں وضو کرنے گیا تھا مجھے وہاں دیر ہوگئی اتنے میں نماز ختم ہوگئی یہ معاملہ ہمارے درس سے بھی کبھی کبھی ہوتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے ہم نے آج ایک دعا کرنی ہے، وہ دعا بڑی لمبی ہے.مگر سب دعا اس وقت نہیں کریں گے.ہمارا دل چاہتا ہے کہ جس قدر لوگ اس وقت درس سن رہے ہیں اللہ تعالیٰ ایسا کرم کرے کہ اس دعا سے کوئی محروم نہ رہے.خوب یا درکھو کہ اللہ ایک ہے اور وہ سب صفات کاملہ سے موصوف اور سب برائیوں سے منزہ ہے.اس کا نام اللہ ہے رب ہے رحمن ہے رحیم ہے.مالک یوم الدین ہے ان اسماء کاملہ سے وہ موسوم ہے عبادت کے لائق صرف وہی ہے.بندگی صرف اسی کی چاہیے، اور ملائکہ پر ایمان لاویں.وہ اللہ کی مخلوق ہیں وہ مومنوں کو نیک تحریکیں دیا کرتے ہیں ہم کو چاہیے کہ ان کی نیک تحریکوں کو مانا کریں.شیاطین بدی کی تحریک کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے داؤ سے محفوظ رکھے.اللہ کی کتاب پر ہمارا خاتمہ ہو نبی سب بچے ہیں.جزا سزا کا معاملہ سچا ہے.ہمیں اپنا مال خدا کی راہ میں لگانا چاہیے.ہمیں چاہیے کہ نمازیں پڑھیں.روزے رکھیں بدیوں سے بچتے رہیں، دین کے خادم ہوں اللہ کی تعظیم میں ہم چست ہوں اور اس کی مخلوق کا اکرام کرنے اور بھلائی کرنے میں چست ہوں ہم کسی کے ساتھ عداوت کر کے گمراہ نہ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ تم کو توفیق دے کہ اللہ کی باتیں اور اس کے دین کو دنیاوی لالچ سے خراب نہ کر اور اللہ تعالی پرتوکل کرو.میرا وہ مطلب حاصل ہو گیا ہے الحمد للہ کہ راقم الحروف حسن اتفاق سے اس میں شامل تھا.اللہ تعالیٰ عاجز کے حق میں بھی حضرت خلیفہ اسیح کی دعا کو منظور فرمائے آمین.(26) وفات و تدفین آپ اکثر یہی دعا فرمایا کرتے تھے اور عملاً یہی طریق رکھا ہوا تھا کہ بغیر اشد ضرورت کے کسی کو کوئی کام نہیں کہتے تھے بلکہ خود ہی سرانجام دے لیتے تھے.حتی کہ اپنے بچوں سے کوئی خدمت لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے اور ان کی پیشکش پر بھی فرمایا کرتے تھے کہ جب تک ہاتھوں اور پاؤں میں طاقت ہے ان سے کام لینے دیں جب

Page 199

192 کسی کام یا چیز کی ضرورت ہوگی خود کہہ دیں گے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں تو یہی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس چلتے پھرتے ہی چلے جائیں اور کسی کے محتاج نہ ہوں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعا کو بھی قبول فرمایا.جمعرات کے روز حسب معمول ڈائری کو مکمل کیا.جمعہ کے دن عام کاموں کو معمول کے مطابق سرانجام دیا.صرف اس قدر معلوم ہوا کہ عصر کے قریب کچھ گھبراہٹ کا اظہار کیا کہ دل بے چین ہے اس لئے عشاء کی نماز گھر پر ہی ادا کی.نماز کے بعد چار پائی پر لیٹ گئے جب تہجد کے وقت آپ کی اہلیہ محترمہ تہجد کے لئے اٹھیں تو آپ کو اس خیال سے نہ جگایا کہ رات کو طبیعت خراب تھی لیکن جب وہ تہجد سے فارغ ہوئیں تو پھر صبح کی نماز بھی پڑھ لی اور آپ بالکل سکون کی حالت میں چادر اوڑھے لیٹے رہے تو انہوں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر بلایا تا کہ اٹھائیں تو یہ معلوم کر کے گھبرا گئیں کہ وہ ملتے ہی نہیں اور روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی ہوئی ہے.تو گھبرا کر مولوی عبدالرحمن صاحب انور کو بھجوایا جو ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب کو لے کر گئے لیکن جا کر معلوم ہوا کہ رات کے کسی حصہ میں اس زندگی کا سفر ختم ہو چکا ہے.وفات سے چند دن پہلے جب حضرت سیدہ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوئی تو اس صدمے کو آپ نے بہت محسوس کیا اور قادیان جلد از جلد پہنچنے میں دیر کا احساس پیدا ہوا کہ اب واپسی جلدی نظر نہیں آتی.چنانچہ اپنی ڈائری میں بھی اس امر کا ذکر کیا ہے کہ شدت غم سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی سے جب اس دن مصافحہ کیا تو کوئی بات نہ کر سکے.حضرت اماں جان کی وفات کے بعد بزرگان سلسلہ کے مابین یہ تجویز بھی سنی گئی تھی کہ جن صحابہ کی بیعت ۱۹۰۴ء سے پہلے کی ہے ان کی خصوصیت کے پیش نظر حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گردان کو فن کیا جائے لیکن ابھی عمل اس کے مطابق شروع نہ ہوا تھا.مولوی عبد الرحمن صاحب انور نے حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی خدمت میں یہ درخواست پیش کی کہ چونکہ مکرم والد صاحب کی بیعت ۱۹۰۱ء کی ہے اس لئے اگر اس تجویز پر عمل کیا جانا ہے تو قطعات کی نشان دہی کر کے اگر مکرم والد صاحب کو بھی حضرت اماں جان کے گرد دفن ہونے کا موقع مل سکے تو زہے خوش نصیبی چنانچہ حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو قطعات کے نشان لگوانے کے لئے ارشاد فرمایا.سوفوراہی حضرت اماں جان کے مزار کے قریب قطعات کی تعیین ہوگئی اور سب سے پہلے آپ کو حضرت اماں جان کے گرددفن ہونے کا موقع ملا.فالحمد للہ علی ذالک دوسرا اتفاق یہ ہوا کہ آپ کی اہلیہ محترمہ کی وفات پونے دو سال بعد ہوئی یعنی ۲۹ دسمبر ۵۳ ، کولیکن آپ کی قبر کے بالکل جانب جنوب از خود ہی قبر کی جگہ خالی تھی.جہاں ان کو دفن ہونے کا موقع ملا اس طرح اللہ تعالیٰ نے دونوں کی قبروں کو بھی ساتھ ساتھ رکھنے کا سامان کر دیا.

Page 200

193 مکرم مولوی صاحب کی وفات کے بعد احمدیوں اور ان سے تعلقات رکھنے والوں کے ۲۵۰ کے قریب خطوط موصول ہوئے.بہت سے غیر احمدی بھی تعزیت کیلئے ربوہ تشریف لائے.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاکرام الفضل میں مرقوم ہے کہ: آج ٹھیک چھ بجے صبح سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی ایدہ الہ تعالی نے حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب ریحان بوتالوی رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی.حضور نے اپنی علالت کے باوجود لمبی دعا فرمائی.نماز جنازہ کے بعد حضرت مولوی صاحب کی نعش کو جماعت کے مجمع کثیر نے کندھا دیتے ہوئے بہشتی مقبرہ ربوہ میں پہنچایا.دردمند دلوں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انہیں سپردخاک کر دیا گیا.قبر کی تکمیل کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے آخری دعا فرمائی.حضرت مولوی صاحب مرحوم کو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے لئے بہشتی مقبرہ کے مخصوص قطعہ میں جگہ دی گئی اور اس قطعہ میں آپ کی پہلی قبر ہے.یہ قبر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مزار کے قریب ہے.( آپ ) ۲۰ رمئی ۱۸۸۱ ء کو پیدا ہوئے تھے اور ۱۷ فروری ۱۹۰۱ء کو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی تھی اور کل مورخہ ۳ رمئی بروز ہفتہ نماز فجر سے پہلے اے سال کی عمر میں آپ نے جان آفریں کو جان سونپ دی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.حضرت مولوی صاحب کی وفات نا گہانی طور پر حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ہوئی ہے.حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پرضر بتہ الشمس کا حملہ ہوا ہے اور آپ نے اسے سرسری سمجھتے ہوئے اس کی زیادہ پروانہ کی حتی کہ اپنے عزیزوں اور بچوں تک کو اپنی تکلیف سے آگاہ نہ کیا.۲ مئی کی رات کو افاقہ محسوس کرتے ہوئے معمولی کھانے کے بعد سو گئے.مگر یہ نیند آخری نیند ثابت ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.تھوڑی ہی دیر میں احباب کا جم غفیر جمع ہو گیا اور ہر شخص حضرت مولوی صاحب کے عمدہ اخلاق کا ثنا خواں تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے رشتہ داروں کے آنے تک نعش کو رکھنے کے بارے میں مشورہ کیا گیا غرض ( جنازہ میں ) حضرت مولوی صاحب کے جملہ قریبی رشتہ دار موجود تھے صرف مجاہد بھائی اور حضرت مولوی صاحب کے منجھلے بیٹے عزیزم حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ انڈونیشیا یہاں موجود نہ تھے انہیں وکالت تبشیر نے جکارتہ میں بذریعہ تا راس سانحہ سے اطلاع کر دی ہے.(27)

Page 201

1 2 3 آل عمران : ۵۶ التوبة : ۵ الانبياء:۳۰ 194 حواله جات 15 16 17 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء ص ۲۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء ص۱۹۳ الحکم ۲۸ فروری، ۷ مارچ ۱۹۳۶ء، الفضل ۵/ مارچ ۱۹۳۶ء 5 6 7 8 9 صحیح البخاری.کتاب الرقاق باب التواضع مسند احمد بن حنبل جلد ۶ ص ۲۵۶ الفتح : بشارات رحمانیہ جلد اول ص ۱۷۰ تا ۱۷۴ النساء:٤٤ سیرت مولوی شیر علی صاحب ص۳۲ اعجاز مسیح ص سرورق 10 الفضل ۳ مئی ۱۹۳۸ء ص ۹ بدرا ارجون ۱۹۰۸ء ص ۸ 18 19 20 البقرة : ۱۲۸ التوبة : ۱۲۰ اصحاب احمد جلد ششم ص ۱۱۲ ۱۱۳ 21 الحکم ۷ ارنومبر ۱۸۹۹ء ص ۶ 22 اصحاب احمد جلد ششم ص ۱۱۳ 23 2 1 اصحاب احمد جلد ششم ص ۱۱۳-۱۱۴ 11 24 الحکم ۱۴ تا ۲۱ فروری ۱۹۳۹ء 25 اصحاب احمد جلد ششم ص ۱۱۵ ۱۱۶ 12 تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین ص ۱۱۷ 26 البدر ۲ مئی ۱۹۱۲ء 13 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء ص۱۲۰ 14 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء ص ۲۵ له یه 27 الفضل ۶ مئی ۱۹۵۲ء

Page 202

195 گڑ رضی چوہدری برکت علی خان صاحب گره مشتری یا امین اللہ تعالی عنہ ولادت.وطن D حضرت چوہدری برکت علی خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ محترمہ لکھاں بی بی دختر چوہدری ستھے خان صاحب کے بطن سے چوہدری میراں بخش صاحب کے ہاں بمقام گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پورے ۸.۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئے.والدین راجپوت نسل سے تعلق رکھتے تھے.آپ اکلوتی اولاد تھے.نہ آپ کا کوئی بھائی تھا اور نہ کوئی بہن.آپ کے والد ماجد ان پڑھ ، خاموش طبع اور نہایت سادہ زندگی بسر کرنے والے تھے.غیر احمدی ہونے کی حالت میں بھی وہ نماز با جماعت مسجد میں آکر پڑھنے کے پابند تھے.ان کے ایک غیر احمدی دوست تھے جن کے ساتھ انہیں بہت محبت تھی وہ پکے نمازی تھے جب کبھی رشتہ داروں کے ہاں جانا ہوتا تو اکٹھے جاتے دونوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خاکسار مؤلف نے پندرہ سال تک چوہدری صاحب سے سوانح قلم بند کر دینے کا مطالبہ جاری رکھا وہ اپنے حد درجہ ☆ انکسار کے باعث اس سے احتراز کرتے تھے حتی کہ لمبے عرصہ تک کبھی تصویر بھی نہ کھنچوائی تھی.بحمدللہ بالآخر کامیابی ہوئی اور جولائی سال گذشتہ میں آپ نے میری عرض قبول کر کے حالات تحریر کر کے ارسال فرمائے.احباب دیکھیں گے کہ مرحوم کے بعض ہم وطن بزرگوں کا بھی ان میں ذکر ہے جن کے متعلق مزید تفصیل خاکسار کے مطالبہ پر آپ نے رقم فرمائی اور غالبا ان بزرگوں میں سے اکثر کے متعلق مزید حالات کہیں سے بھی دستیاب نہ ہوسکیں گے خاکسار نے بالعموم آپ ہی کے الفاظ میں حالات درج کئے ہیں تا ان کی تاثیر قائم رہے آپ کی اجازت سے شاذ کے طور پرا کاد کا لفظ تبدیل کیا ہے یا اختصار کیا ہے.آپ نے حالات ارسال کرتے ہوئے اپنے مکتوب مورخہ ۱٫۷٫۵۹ میں تحریر فرمایا.آپ بڑے استقلال اور پختہ عزم کے ساتھ ایک بہت بڑے لمبے عرصے سے مجھے توجہ دلاتے آرہے تھے کہ میں اپنے حالات لکھ کر آپ کے پیش کروں میں اپنے آپ کو اس قابل ہر گز نہ پاتا تھا کہ میرے حالات سے بھی کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے.کیوں کہ میں ایک مستور اور نا قابل ذکر شخص ہوں.اور گو میرے پر یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل واحسان ہوا ہے کہ میں ایک عرصہ تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک صحبت میں رہا ہوں مگر مجھے نہایت افسوس اور رنج ہے کہ میں اس زمانہ کی حضور کی باتیں یاد نہیں رکھ سکا.کیونکہ میرا وہ بچپن کا زمانہ تھا اور میں سمجھ رہا تھا کہ سب کچھ تو حضور کے پاکیزہ کلمات کا حصہ الحکم میں آجاتا ہے.اس لئے میں کیا لکھوں مگر آپ کے مستقل اصرار نے مجبور کیا کہ میں اپنے حالات جو بھی ہیں ان کو اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں آپ کے پیش کر دوں...میری غلطی سے چشم پوشی کر کے ان کو درست کر لیں.بشرطیکہ آپ میرے ان حالات کو اصحاب احمد ( میں ) شائع کرنا پسند فرماویں.اگر آپ کو پسند نہ آئے تو مجھے کوئی تکلیف نہ ہوگی اور نہ آپ پر ذرہ بھر شکوہ ہوگا.کیوں کہ میرے حالات ہی قابل اشاعت نہ تھے.میں آپ سے استدعا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ میرے لئے انجام بخیر کی دعا فرمائیں اور دوسرے دروایشان سے بھی اگر فرما دیں تو مزید احسان ہوگا.اللہ تعالیٰ ہی ہم سب اور آپ سب کے ساتھ ہو.آمین

Page 203

196 کے زمانہ میں ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۸ء تک ( جب کہ چوہدری برکت علی خان صاحب قادیان میں ہجرت کر کے مقیم تھے ) تین چار دفعہ قادیان آئے اور کئی کئی دن ٹھہرے.حضور اقدس کے ساتھ مسجد مبارک میں نمازیں بھی پڑھیں.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو خوب غور سے دیکھا بھی.مگر اس وقت بیعت نہیں کی والد صاحب کو یہ خیال غالب رہا کہ جب میرے دوست بھی بیعت کریں تو اکٹھے بیعت کریں چنانچہ بالآخر آپ نے اکیلے ہی خلافت ثانیہ میں بیعت کی.انہوں نے اپنے دوست سے کہا کہ آپ کی بیعت کی خاطر میں نے بہت لمبا عرصہ انتظار میں گزارا.مگر اب بیعت کرتا ہوں، آپ نمازوں کے پہلے بھی پابند تھے مگر بیعت کے بعد بھی آپ نے بالتزام مسجد میں آکر نماز تہجد پڑھنی شروع کر دی خواہ کوئی تکلیف بھی ہو مگر نماز تہجد ضرور مسجد ہی میں آکر ادا فرماتے.آپ قادیان سے جانے کے قریباً ایک ماہ بعد گڑھ شنکر میں بیمار ہوئے اور چند دن کے اندر وفات پاگئے انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ کی وفات پر قریباً بیس سال کا عرصہ گذر چکا ہے اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے.آمین.والدہ صاحبہ ۱۹۰۵ء میں فوت ہوئیں.احمدیت کا ان کو علم نہ تھا.گڑھ شنکر میں طاعون کا زور محترم چوہدری صاحب تحریر فرماتے ہیں.۱۸۹۸ء میں جب میں پرائمری کا سرٹیفکیٹ لے کر اپنے گھر گڑھ شنکر آیا تو اس کے چند دن بعد گڑھ شنکر کے ایک حصہ میں طاعون زور سے پھوٹ پڑی.حکومت نے حسب معمول فیصلہ کیا کہ شہر خالی کر دیا جائے قریباً پونے تین سال کے بعد خاکسار مؤلف کو دو ہفتے کے لیئے پاسپورٹ ملا.ایک روز کے لیئے ۲۰ مارچ ۱۹۶۰ء کور بوہ جانے اور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور بزرگان کی زیارت و ملاقات کا موقع ملا.چوہدری صاحب کی علالت کی خبر دیر سے آرہی تھی.آپ کی ملاقات سے محرومی مجھے گوارا نہ تھی کہ خدا معلوم پھر ملاقات نصیب ہو یا نہ ہو.خاکسار عشاء کے قریب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.ایک ہفتہ سے آپ کی علالت شدت پکڑ چکی تھی.ایسے انتھک کام کرنے والے بزرگ کو ایک مشت استخواں کی شکل میں فریش دیکھ کر شدید صدمہ ہوا.اور مجھے نظر آیا کہ آپ مرض الموت میں ہیں اور صرف چند دن کے مہمان ہیں.آپ کے ایک صاحبزادہ آپ کو ٹیکہ لگارہے تھے.حضرت چوہدری صاحب کے ہوش وحواس درست تھے، آپ نہایت محبت اور گرم جوشی سے ملے.خاکسار نے آپ سے برکت لینے اور آپ کو شادمانی پہنچانے کے لیئے عرض کیا کہ آپ کے حالات مرتب ہو چکے ہیں اور جلد ہفتم میں ہی طبع ہوں گے اور اس جلد کی کتابت ہورہی ہے.آپ کی علالت کے مد نظر زیادہ بیٹھنا مناسب نہ تھا.اس لیئے دعا کے لئے عرض کر کے اجازت لے کر چلا آیا.رخصت ہوتے وقت اور پھر وفات کی اطلاع آنے پر میرے دل پر صدمہ کا جو کوہ گراں رگرا.اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرما کر اعلی علیین میں جگہ عطا کرے اور ہمارا بھی ان جیسا انجام بخیر کرے.آمین ثم آمین.“

Page 204

197 اور لوگ باہر کی کھلی آب و ہوا میں کچھ دن کاٹیں.جب اللہ تعالی طاعون سے امن بخشے اور شہر میں صفائی وغیرہ ہو جائے تب شہر میں واپس آئیں.دوسرے حصہ میانہ کے سر بر آوردہ لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہماری طرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور باہر جانے سے ہمیں تکلیف ہوگی.اس لئے ہمیں شہر میں رہنے دیا جائے.حکومت نے ہر چند تسلی دی کہ آپ لوگوں کے پردہ اور آرام و آسائش کا کافی سامان کیا گیا ہے.باہر جانے میں کوئی تکلیف نہ ہوگی مگر ہمارے بزرگوں نے نہ مانا اور اپنی بات پر مصرر ہے آخر کار حکومت نے مجبور ہو کر ملٹری کا پانچ سو مسلح جوان منگوایا اور ایک دن اعلان کیا کہ سارا شہر خالی کر دیا جائے ورنہ فوج کے ذریعہ خالی کرایا جائے گا....لیکن باوجود اس کے ہمارے بزرگوں نے نہ مانا حتی کہ نوبت لڑائی تک پہنچی.میں بھی جو اس وقت بچہ تھا اس لڑائی میں شامل ہوا.رعایا کے پاس لاٹھی اینٹ اور پتھر وغیرہ تھے اور فوج کے پاس گولی بارود.جب لوگوں کی طرف سے اینٹ پتھر وغیرہ کی بوچھاڑ ہوئی تو مجبور ہو کر فوج نے اپنے افسروں سے گولی چلانے کی اجازت چاہی.افسروں نے ان کو خالی فائر کرنے کی اجازت دی تا لوگ ڈر کر بھاگ جائیں مگر لوگوں نے شور کیا کچھ نہیں.خالی فائر ہیں.ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں اپنا کام جاری رکھو.آخر کار افسروں نے جب دیکھا کہ لوگ مقابلہ کرتے ہیں تو گولی چلانے کا حکم دیا، اس پر جب چند آدمی گولی سے مارے گئے تو لوگ بھاگے اور میں بھی مجمع سے نکل کر اپنے گھر آ گیا.اس کے بعد فوجی لوگوں نے گلی گلی پھر کر یہ اعلان کیا کہ لوگو! باہر چلے جاؤ.وہاں آپ لوگوں کے لئے آرام کا سامان ہو چکا ہے اس پر شام تک سارا شہر خالی ہو گیا اور خالی شہر پر فوجی پہرہ لگایا گیا تا شہر میں کوئی داخل نہ ہو اور لوگوں کے کیمپوں سے نصف میل کے فاصلے پر بھی لوگوں کی حفاظت کے لئے پہرہ کا انتظام کر دیا گیا.اس طرح یہ انتظام تقریباً تین ماہ تک رہا اور جب اللہ تعالیٰ نے طاعون سے امان بخشی اور سرکار کی طرف سے شہر کی صفائی کا انتظام بھی ہو چکا تو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی.حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں صاحب رض میں اگر چہ بچہ تھا مگر میں نے دیکھا کہ ایام طاعون میں اکثر لوگ کیمپ میں نماز پڑھنے لگ گئے.میری جائے رہائش ایک کنوئیں کے قریب تھی جہاں ایک چھوٹی سی مسجد بنالی تھی اور میں اس میں اذان دیتا تھا.میری آواز بفضل خدا تعالیٰ بہت بلند اور اچھی تھی.ارد گرد کے لوگ وہاں آ جاتے.اور نماز ادا کرتے.ا بھی میں احمدیت سے بالکل ناواقف تھا.مسجد میں ایک بہت بوڑھے نابینا بزرگ آتے تھے جو احمدی تھے اور نماز عام طور پر الگ پڑھتے.ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ بچے ! تم مجھے دوسرے تیسرے دن ہسپتال میں ڈاکٹر صاحب کے پاس چھوڑ آیا کرو.ان ایام میں ڈاکٹروں کی نسبت عام طور پر مشہور تھا کہ دوائی دے کر مار دیتے

Page 205

198 ہیں اس لئے ڈاکٹری علاج نہیں کرانا چاہتے.میں نے اس بزرگ حضرت چوہدری امیر خان صاحب مرحوم سے کہا کہ میں تو آپ کو ہسپتال چھوڑنے نہیں جاؤں گا، آپ کسی اور کے ساتھ جائیں کیونکہ مجھے ڈاکٹر پکڑ لے گا انہوں نے مجھے بہت تسلی دی.آخر کار میں نے ان کے اصرار پر کہا کہ میں آپ کو ہسپتال کی دیوار تک چھوڑ آیا کروں گا اس سے آگے آپ کو ہسپتال کا کوئی ملا زم لے جائے.اس طرح کچھ عرصہ میں ان کو ہسپتال تک چھوڑ آتا.وہ وہاں اخبار الحکم سننے جاتے تھے، اس وقت حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں صاحب آف گوڑیانی ضلع گوڑ گاؤں ہسپتال کے انچارج تھے، آپ بڑے بھاری بھر کم اور بڑے قد و قامت والے تھے اور بفضل خدا تعالیٰ سلسلہ احمدیہ کے بچے اور پکے (فدائی) اور عاشق صادق تھے.آپ نے عملاً اپنا سب کچھ سلسلہ کے لئے قربان کر رکھا تھا.آپ تہجد کے بھی پابند اور شب بیدار تھے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت سوز وگداز سے دعائیں کرنے والے تھے اور مخلوق خدا کی خدمت میں اس قدرا نہاک و شغف تھا کہ بغیر کسی فیس کے خیال کے مریضوں کو ان کے گھروں پر جا کر دیکھ آتے تھے.“ ”میں نے پانچویں جماعت پرائمری تک تعلیم اپنے نتھیال میں اپنے ماموں چوہدری عالمگیر خاں صاحب مرحوم اور چوہدری بشارت علی خاں صاحب کے زیر سایہ بمقام سڑوعہ تحصیل گڑھ شنکر میں پائی بعد ازاں ور نیکٹر مڈل تک اپنے وطن میں.میں نے ۱۹۰۰ء میں ور نیکٹر عمل کا امتحان دیا تو اس میں فیل ہو گیا اگر چہ اس زمانہ میں تعلیمی اخراجات برائے نام تھے اور حکومت تعلیم میں بہت رعایت کرتی تھی مگر میرے والدین اتنے غریب تھے کہ ان کو معمولی تعلیمی اخراجات کی برداشت کی بھی طاقت نہ تھی اس لئے میں والدین کے اشارہ پر تعلیم بند کرنے پر مجبور ہوا.“ زمانہ طالب علمی کی دعا جب طاعون کے بعد شہر میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی تو میں چھٹی جماعت میں داخل ہو گیا.میرے گھر سے سکول فاصلہ پر تھا.اگر چہ میں نماز کا زیادہ پابندنہ رہا تھا مگر میں سکول جاتے وقت دل میں یہ دعا کرتا تھا.یا اللہ مجھے ایسا رہنما اور پیشوا ملادے جو مجھے قدم قدم پر نیکی کی طرف توجہ دلائے اور بدی کے کاموں سے روکے.“ آخر کار خدا کا کرنا یہ ہوا کہ میں نے ۱۹۰۰ء میں ور نیکر مڈل کا امتحان دیا لیکن اس میں فیل ہو گیا.میرا کچھ لگاؤ حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں صاحب گوڑیا نوی سے ہو گیا تھا.اس لئے امتحان کے بعد ان کے پاس جاتا اور وہاں اخبار الحکم پڑھنا شروع کر دیا.اس میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کلمات طیبات ، در بارشام، سیر کے کوائف اور حضور کے الہامات باقاعدہ شائع ہوتے تھے جن کے پڑھنے سے دل کو اطمینان اور تسلی ہوتی اور میرا دل کہتا کہ ایسے شخص پر تو اپنا سب کچھ قربان کر دینا چاہیے.

Page 206

199 گڑھ شنکر کے السابقون الاولون خاکسار کے لئے یہ امر باعث ثواب ہے کہ گڑھ شنکر کے ان بزرگوں کا بھی کچھ تذکرہ کرے جو خاکسار کے بیعت کرنے سے بہت پہلے احمدی ہوئے تھے.گڑھ تشکر میں پٹھانوں کے زمانہ کی بنی ہوئی ایک مسجد ہے جو کالی مسجد کے نام سے جغرافیہ میں بھی مشہور ہے.احمدی احباب اس مسجد میں غیر احمدی ہونے کی حالت میں نماز پڑھتے تھے.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حکم احمدیوں کو الگ نماز پڑھنے کا ہوا تو کبھی احمدی الگ پہلے نماز پڑھ لیتے.کبھی غیر احمدی.(1) حضرت چوہدری امیر خاں صاحب آپ راجپوت قوم کے فرزند تھے.اوپر آپ کا ذکر ہو چکا ہے بوجہ بڑھاپے کے آخر میں ان کی نظر اتنی کمزور ہو گئی تھی کہ ان کو صرف کچھ راستہ نظر آتا تھا.یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں ایسا چور تھا کہ مسجد میں سوٹے کے سہارے پہنچ جانا حتی کہ یہ نابینا شخص نماز تہجد مسجد میں آکر ادا کرتا.اور حضور علیہ السلام کے کلمات طیبات سنے کا اتنا عاشق کہ حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں صاحب مرحوم کے پاس گڑھ شنکر کے ہسپتال میں ضرور پہنچتا.جب تک اخبار الحکم سن نہ لیتا اسے چین نہ پڑتا.میں جب ۱۸۹۸ء میں پرائمری پاس کر کے گڑھ شنکر آیا تو اس وقت یہ احمدی تھے مجھے ان کے بیعت کرنے کا سنہ معلوم نہیں، اور ان کی وفات ۸۰ ( اتنی ) سال کی عمر میں ۱۹۰۰ ء کے لگ بھگ ہوئی تھی.(۲) حضرت شیخ برکت علی صاحب مرحوم و مغفور ولد شیخ کرم بخش صاحب راہوں ضلع جالندھر کے باشندہ تھے.مگر انہوں نے عرائض نویسی کے سبب ساری عمر گڑھ شنکر میں گذاری ان کی بیعت بھی کب کی ہے.مجھے معلوم نہیں.میں جب ۱۸۹۸ء میں اپنے نھیال سے آیا تو آپ اس وقت احمدی تھے، ان کی وفات ۳۰ رمئی ۱۹۳۳ء کو ہوئی اور آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.آپ کی ساری اولاد در اولاد بفضلہ تعالیٰ احمدی اور خلافت سے وابستہ ہے.آپ مؤلف اصحاب احمد کے دادا جان تھے.() آپ جس مکان میں رہتے تھے اس کی چھت پر نماز تہجد پڑھتے اور پھر نماز فجر کے بعد نہایت بلند آواز سے بلا ناغہ قرآن کریم کی منزل پڑھتے ، ان کی آواز بہت دور تک پہنچتی تھی.آپ غربا کی عرضی دعوی مفت لکھ دیتے اور علاقہ کے لوگ اکثر ان سے اپنی درخواستیں لکھواتے کیونکہ آپ تھوڑی اجرت پر کام کر دیتے تھے.اس وجہ سے آپ کے گرد تحصیل میں سائلوں کا زیادہ ہجوم رہتا تھا.(۳) حضرت حکیم چوہدری الہی بخش صاحب آپ کی قوم راجپوت تھی.اس زمانہ میں احمدیوں کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ چلتے پھرتے آتے جاتے تبلیغ کی طرف راغب رہتے.چنانچہ حکیم صاحب کا معمول تھا کہ (۱) آپ گلے زئی قوم سے تعلق رکھتے تھے جو شیخ ملک اور بعض جگہ چوہدری کہلاتی ہے.ہمارے اقارب میں شیخ اور ملک دونوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں (مؤلف)

Page 207

200 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے جو اشتہار یا کتاب آتی.اسے اپنی پگڑی میں رکھتے اور جہاں کہیں دو چار آدمی بیٹھے پاتے وہاں جا کر بیٹھ جاتے اور حضور کی تحریر سناتے.چونکہ اس زمانہ میں لوگ ڈاکٹری سے گھبراتے تھے اور دیسی علاج پسند کرتے تھے اور لوگ حکیم صاحب موصوف کے حسن اخلاق اور حکمت کے قائل تھے اس لئے ان کی بات سنی جاتی تھی.حکیم صاحب کی بیعت کا سنہ تو ۱۸۹۸ء سے قبل کا ہے اور وفات ۱۹۰۰ء کے لگ بھگ ۸۵ سال کی عمر میں ہوئی.واللہ اعلم بالصواب.آپ کے دو بیٹے عبداللہ خان وعبد الواحد خاں دونوں احمدی تھے ( اول الذکر والد کی زندگی میں وفات پاگئے تھے اور موخر الذکر نے خلافت ثانیہ کے زمانہ میں وفات پائی.انا للہ وانا الیہ راجون.(۴) چوہدری غلام نبی خاں صاحب آپ قوم راجپوت کے فرد تھے ، انہوں نے بھی ۱۸۹۸ء سے پہلے بیعت کی تھی وہ تھے تو بہت غریب مگر احمدیت کے شیدا تھے اور نماز مسجد میں آکر ادا کرنے کے سخت پابند تھے بلکہ تجد بھی مسجد میں آکر ادا کرتے تھے.ان کا ایک لڑکا غلام رسول نام احمدی تھا جو باپ کی طرح سلسلہ کا خادم تھا.مجھے یاد ہے ۱۸۹۸ء کی لڑائی میں اس نے ایک فوجی کو جس نے اسے گالی دی تھی زمین پر گرا کر اس کا ایک انگوٹھا نکال دیا تھا.غلام رسول کو اس کیس میں ایک سال کی قید ہوئی تھی.سنا تھا کہ وہ قید میں بھی نمازوں کی پابندی کے علاوہ تبلیغ کرتا رہتا تھا.وہ قید سے آکر کچھ عرصہ بعد فوت ہو گیا.چوہدری غلام نبی خاں صاحب کی ایک لڑکی عمداں بیگم صاحبہ تھیں جو ایک لمبا عرصہ قادیان میں اپنا اور اپنی لڑکی کا گزارہ معمولی دکان کر کے کرتی تھیں.مرحومہ بھی باپ کی طرح بہت غیرتمند اور اپنے والد کی طرح کچی احمدی تھیں.ابھی جون ۱۹۵۹ء میں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئی ہیں، ان کے خاوند چوہدری ہادی خاں صاحب مرحوم تھے ان کے نرینہ اولاد نہ تھی (7) ☆ خاکسار کے استفسار پر آیا دونوں صحابی تھے.چوہدری برکت علی خاں صاحب نے تحریر فرمایا کہ عبداللہ خاں نے بیعت خط کے ذریعہ کی اور عبدالواحد خاں نے بعد میں کی ہے.و خاکسار کے استفسار پر آیا مائی عمداں بیگم صاحبہ کے خاوند صحابی تھی.چوہدری برکت علی خاں صاحب نے تحریر فرمایا کہ چوہدری ہادی خاں صاحب نے قادیان آ کر بیعت نہیں کی خط سے کی (ب) خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ مائی مرحومہ دار الفضل قادیان میں ہمارے بالکل قریب رہتی تھیں.واقعی نہایت صابر وشاکر اور دین سے محبت رکھنے والی خاتون تھیں.آپ کی ایک لڑکی ہے جس کی شادی نہیں ہوسکی.مرحومہ نے ایک بچہ مسمی ناراحمد پالا تھا.مرحومہ خاکسار کے دادا جان کی بیٹی بنی ہوئی تھیں.الفضل میں آپ کی تدفین کی رپورٹ شائع ہو چکی ہے.( ج ) چوہدری برکت علی خان صاحب لکھتے ہیں کہ : چوہدری غلام نبی خاں صاحب کے خاندان میں ایک صاحب چوہدری سلطان بخش صاحب غالباً ۱۹۰۴ء میں احمدی ہوئے جو غیرت والے اور بہت رعب والے احمدی تھے ان کے زمانہ میں احمدیت کا چرچا گڑھ شنکر میں بہت تھا.مگر ان کی زندگی نے وفانہ کی آپ غالباً ۱۹۰۵ ء یا ۱۹۰۶ء میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.گڑھ شنکر میں ایک حاجی نبی بخش صاحب سڑ وعد والے تھے جو بہت نیک اور پکے نمازی تھے.مجھے ان کے مزید حالات کچھ معلوم نہیں.“

Page 208

201 گڑھ شنکر کے ان بزرگوں کو جو غالباً ۹۷-۱۸۹۶ء سے احمدی تھے تعلق باللہ اور حضرت رسول کریم اللہ کے ساتھ عشق اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بے حد محبت نے بھی خاکسار کو بیعت کرنے پر مجبور کیا کہ جس شخص کے پیرو اسلام کے ایسے شیدائی اور تقومی شعار ہیں وہ خود کس پا یہ کا ہوگیا یقینا وہ اللہ تعالیٰ کا ایک برگزیدہ اور رسول ہے.اور اخبار الحکم کے ملفوظات پڑھ کر تو میں بے اختیار ہو گیا کہ مجھے فوراً بیعت کر لینی چاہیے.کیونکہ زندگی کا کیا اعتبار ہے اس وقت تک میرے خاندان میں سے کوئی احمدی نہ ہوا تھا.والد صاحب نے خلافت ثانیہ میں بیعت کی میرے ماموں چوہدری عالم گیر خاں صاحب مرحوم نے ۱۹۳۸ء میں بیعت کی اور ۱۹۴۱ء میں وفات پائی.البتہ میرے ایک ماموں چوہدری بشارت علی خاں صاحب کی (جو کہ بقید حیات ہیں ) بیعت ۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء کی ہے.میں نے اس زمانہ میں ان لوگوں کا نیک نمونہ دیکھا اور اخبار الحکم پڑھا تو میرے دل نے کہا کہ مجھے جس پیشوا کی ضرورت ہے اور جس کے لئے میں طالب علمی کے زمانہ میں دل میں دعا کرتا تھا وہ یہی شخص ہے جس کی مجھے بیعت کرنا چاہیے.چنانچہ ۱۹۰۲ء میں ایک دن میں نے حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم سے عرض کیا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں آپ میری بیعت کا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھ دیں.ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ تمہاری راجپوتوں کی قوم بہت سخت ہے شاید وہ تمہیں روکیں اور تکالیف دے کر چاہیں کہ تم بیعت چھوڑ دو.میں نے اسی وقت کہا کہ مجھے اپنی قوم کی پرواہ نہیں اور نہ میں ان کی تکلیف دہی سے ڈرتا ہوں.اگر وہ اس راہ میں مجھے جان سے بھی ماردیں تو میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا.اس پر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے میری بیعت کا خط لکھ دیا اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستخط سے بیعت کی منظوری کی اطلاع ملی.خط ملنے پر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی.الحمد للہ ثم الحمد للہ.زیارت حضرت مسیح موعود بیعت کی منظوری آنے کے ایک مہینے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ میں قادیان جا کر دستی بیعت بھی کرنا چاہتا ہوں مگر میں کبھی گڑھ شنکر سے باہر نہیں گیا.نہ ریل کبھی دیکھی.مجھے قادیان کا راستہ بتا دیں.آپ نے کہا یہاں سے بنگہ پہنچو.وہاں میاں رحمت اللہ صاحب مرحوم " باغانوالہ کی دکان پر جا کر ان سے کہنا کہ پھگواڑہ ریلوے سٹیشن تک کا بکہ کرا دیں اور ریل میں سوار ہو کر امرتسر گاڑی بدل کر بٹالہ دس بجے رات پہنچ (۱) میاں رحمت اللہ صاحب ایک مخلص صحابی تھے.وفات پا کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.

Page 209

202 جاؤ گے.بٹالہ میں ٹھہرنے کی معین جگہ تو ہے نہیں.سٹیشن پر یا کسی اور جگہ ٹھہر جانا.بٹالہ سے قادیان کو کچی سڑک جاتی ہے.نماز فجر کے بعد قادیان چلے جانا.میں روانہ ہوا اور جب بٹالہ ٹیشن سے نکلا تو سڑک پر ایک چھوٹی سی مسجد نظر پڑی.میں نے کہا کہ مسجد میں ہی رات کا بقیہ وقت گزار کر صبح قادیان کی طرف جانا چاہیے.مسجد میں گئے ابھی تھوڑا وقت ہی ہوا تھا کہ ایک صاحب نے آکر کہا کہ تم کون ہو.میں نے کہا.میں مسافر ہوں قادیان جانا ہے اس نے گالی دیتے ہوئے سختی سے کہا کہ خبیث مرزائی آکر مسجد کو خراب کر جاتے ہیں.صبح مسجد دھونی پڑے گی.تم یہاں سے نکل جاؤ.میں نے کہا میں تو کبھی یہاں آیا نہیں.نہ کسی کو جانتا ہوں.خدا کے گھر سے کیوں نکالتے ہو؟ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا.اس پر وہ گالیاں دیتا اور سخت ست کہتا بڑ بڑا تا ہوا چلا گیا.میں صبح فجر کی نماز پہلے وقت پڑھ کر قادیان کے لئے روانہ ہوا اور یہ مسافت پیدل طے کی.“ مجھے معلوم نہ تھا کہ قادیان میں حضرت اقدس کے مکان کدھر ہیں.میں محلہ کمہاراں میں پہنچا.اور ایک گلی کی طرف گیا جو سیدوں کے مکانات کی طرف جاتی ہے تو مجھے محسوس ہوا کہ ان میں تو کوئی روحانیت نہیں اور یہ مکان حضرت صاحب کے نہیں.میں نے ایک لڑکے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اس راستہ سیدھا جاؤ.آگے مہمان خانہ آجائے گا.تب میری جان میں جان آئی اور میں مہمان خانہ پہنچا.اس وقت میاں اللہ دین صاحب فلاسفر مرحوم مہمان خانہ میں داخل ہوتے ہی ملے.انہوں نے پوچھا لڑکے! کہاں سے آئے ہو؟ میں نے ڈاکٹر صاحب کا ذکر کر کے کہا کہ انہوں نے مجھے بیعت کرنے کے لئے بھیجا ہے.وہ بہت خوش ہوئے ایک چار پائی دی اور کہا کہ اس پر آرام کرو.تھوڑی دیر بعد کہا کہ چلونگر خانہ میں روٹی کھالو.پھر نماز ظہر کے لئے مسجد مبارک میں جانا ہے.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائیں گے.مسجد مبارک میں پہنچنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک کھڑکی میں سے مسجد مبارک میں تشریف لائے.میں نے جب حضور کو دیکھا تو بے اختیار میری زبان سے نکلا کہ یہ تو سراپا نور ہی نور ہے.یہ تو بچوں اور راستبازوں کا سا چہرہ ہے.یہ وہی شخص ہے جس کی بابت اخبار الحکم میں ” کلمات طیبات حضرت امام الزمان سلمہ الرحمن پڑھا کرتا تھا اور جس مقدس وجود باجود کی مجھے تلاش تھی الحمد للہ.دستی بیعت مغرب کی نماز کے بعد جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام شہ نشین پر جلوہ فرما ہوئے تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرا بازو پکڑ کر حضور کے پیش کیا اور فرمایا کہ حضور ! یہ لڑکا بیعت کرنا چاہتا

Page 210

203 ہے حضور نے نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا کل بیعت کر لینا.میں نے اس وقت دیکھا کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب ثم عرفانی ایڈیٹر الحکم ایک ٹمٹماتے چراغ کی بہت مدہم سی روشنی میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان مبارک سے جو کلمہ نکلتا ہے کھڑے کھڑے پنسل سے نوٹ کر رہے ہیں.بعد فرمایا.دوسرے دن جب نماز مغرب کے بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام شہ نشین پر جلوہ افروز ہوئے تو تھوڑی دیر بیعت کرنے والے آگے آجائیں“ آپ شہ نشین سے اتر کر مسجد کے فرش پر تشریف فرما ہوئے اور بیعت ہوئی.میرے ساتھ دو اور دوست بیعت کرنے والے تھے.بیعت کے بعد حضور علیہ الصلوٰہ والسلام نے مع جماعت دعا فرمائی اور حضرت ایڈیٹر صاحب الحکم نے اپنی نوٹ بک میں ہر سہ کے نام لکھ لئے.اس وقت بیعت کنندگان کے نام اخبار الحکم میں شائع ہوتے تھے.میرا نام اگست ۱۹۰۲ء کے الحکم میں شائع ہوا * بیعت کے بعد قریباً ایک ہفتہ قادیان میں حضور کی صحبت میں رہ کر بعد اجازت گڑھ منکر واپس آیا.قادیان میں رہنے کا فیصلہ اور ایڈیٹر الحکم کی طرف سے امداد گھر آنے کے بعد ہر وقت دل میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش مجھے قادیان میں حضرت مسیح موعود کی علیہ السلام کی خدمت میں رہنے کا موقع ملتا.سال ڈیڑھ سال بعد دل نے فیصلہ کیا کہ میں قادیان میں رہوں گا.خواہ وہاں فاقہ کرنا پڑے یا محنت مزدوری کر کے گزارہ کرنا ہومگر رہوں گا قادیان میں.چنانچہ ۱۹۰۴ء میں میں قادیان میں آگیا.ایڈیٹر الحکم چونکہ میرے ہموطن تھے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا کہ وہ مجھے کوئی کام دیں انہوں نے فرمایا اخبار الحکم کا کام کریں.اخبار کی دستی لکھنا.چٹیں بنانا.ان کو اخبار پر لگانا اور ٹکٹ وغیرہ لگا کر ڈاک خانہ پہنچانا آپ کا کام ہوگا.میں نے کہا کہ الحمد للہ میں اسے بخوشی کروں گا.انہوں نے کہا کہ میں اس کے لئے صرف پانچ روپے ماہوار دوں گا.میں نے کہا الحمد للہ کہ قادیان رہنے کا سامان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے.غالباً دوسرے مہینے شیخ صاحب نے سات روپے دینا شروع کئے.میں نے الحکم ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۸ء تک کام کیا ۱۹۰۸ء کے آخر میں حضرت شیخ صاحب نے فرمایا کہ احکام کی آمد کم ہوگئی ہے اس میں آپ کے رکھنے کے لئے گنجائش نہیں.☆ آپ کی بیعت کا اندراج الحکم ۲۴ را گست ۱۹۰۲ء میں صفحہ ۱۶ کالم ۲ پر یوں موجود ہے.”میاں برکت علی خاں صاحب گڑھ شنکر.ہوشیار پور

Page 211

204 صدرانجمن کی ملازمت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم کے ساتھ ایک اور دروازہ میرے لئے کھول دیا وہ یہ کہ دفتر محاسب صدر انجمن احمدیہ میں ہیڈ کلرک حضرت منشی مرزا محمد اشرف صاحب * تھے.انہوں نے مجھے فرمایا کہ اگر الحکم سے فارغ ہو گئے ہو تو میرے پاس محر رسوم کی جگہ ہے.انشاء اللہ تعالیٰ بارہ روپے ماہوار مل سکیں گے.آپ کل سے کام شروع کر دیں.چنانچہ میں ارجنوری ۱۹۰۹ ء سے حاضر ہو گیا اور بخوشی کام کرنے لگا.صدرانجمن احمدیہ نے چھ ماہ بعد جولائی ۱۹۰۹ء میں مجھے پندرہ روپے ماہوار محر رسوم کے گریڈ ۱۵.۱.۲۰ میں مستقل کر دیا فالحمدللہ.پندرہ روپے لیتے ہوئے ابھی دس ماہ گذرے تھے کہ دوروپے ماہوار ترقی دے کر سترہ روپے ماہوار پر مجھے دفتر تعمیر میں تبدیل کر دیا گیا اس وقت دفتر تعمیر کا کام بہت وسیع پیمانے پر ہورہا تھا کیونکہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت بن رہی تھی اور ہائی سکول کے بورڈنگ کے سامنے کا ونگ (Wing) اور کواٹر ز کارکنان بھی بن رہے تھے.ادھر اپنا بھٹہ بھی چل رہا تھا.غرض پندرہ بیس ہزار روپے ماہوار کا خرچ تھا.اس کی تقسیم حسابات رکھنے وغیرہ کا کام میرے سپر د ہوا.سات آٹھ ماہ گذرنے کے بعد ایک دن مہتم تعمیر حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب ** بھٹی نے مجھے شام کے وقت کہا کہ بٹالہ عدالت میں ایک مقدمہ کل پیش ہونا ہے.اس میں مجھے دفتر تعمیر کا ایک رجسٹر پیش کرنا ہے مگر وہ رجسٹر محرر نے ایسا مسخ اور کانٹ چھانٹ کر دیا ہے کہ اسے پیش کرنے پر ہم ہی الٹاز میر الزام آئیں گے.اس لئے آپ آج ساری رات اس کام پر لگا دیں اور راتوں رات رجسٹر کی نقل دوسرے رجسٹر پر کر دیں تا میں کل اسے عدالت میں پیش کر سکوں.میں نے کہا کہ میں حکم کی تعمیل میں حاضر ہوں.چنانچہ میں نے مغرب وعشاء جمع کر کے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر شروع کر دیا اور جب نماز فجر کی اذان ہوئی تو میں رجسٹر مکمل کر چکا تھا جون جولائی کے سخت گرم موسم کا یہ واقعہ ہے عدالت میں رجسٹر پیش ہوا، اور ڈگری فریق مخالف پر ہوگئی.مقدمہ یہ تھا کہ ۱۹۱۰ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کا عالی شان بورڈنگ اور کواٹرز وغیرہ تعمیر ہورہے تھے.اور اس وقت اینٹوں کے بنانے کے لئے صدر انجمن احمد یہ نے اپنا ایک بھٹہ جاری کر رکھا تھا.اس میں پتھر سے اینٹ بنانے والے بہت سا روپیہ پیشگی لے کر کام کرتے تھے ایک پتھیر پانچ سوروپے سے اوپر رقم لے کر دو چار دن بعد بھاگ گیا.اس پر مہتم تعمیر نے بٹالہ میں مظفر خانصاحب پٹھان کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا.یہ مجسٹریٹ قانونی تھا.خراب دستاویز یا رجسٹر کٹا ہوا ☆ حضرت منشی محمد جلال الدین صاحب بلانوی کے صاحبزادے (جن کا اسم گرامی ۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں پہلے نمبر پر درج ہے ) پاکستان میں وفات پا کر جہلم میں مدفون ہوئے (مؤلف) ان کے اور ان کے والد ماجد بھائی اہلیہ محترمہ بھاوجہ اور ہمشیرہ (کے جو سب صحابی ہیں ) حالات پر اصحاب احمد جلد شن مشتمل ہے(مولف)

Page 212

205 پھینک دیتا اور مقدمہ خارج کر دیتا تھا." کچھ دنوں کے بعد افسر تعمیر نے فرمایا کہ میں رات کے کام کا انعام دینا چاہتا ہوں.میں نے ان سے عرض کیا کہ اس صورت میں آپ مجھے محر رسوم کے گریڈ سے ترقی دے کر محر ر دوم کے گریڈ ۲۲۰-۳۰ میں مستقل کرا دیں.چنانچہ میرے بارہ میں حسن کارگردگی کی رپورٹ پر صدر انجمن نے اس امر کی منظور فرما دی.گویا قریباً سولہ ماہ کے اندراندر مجھے بارہ روپے ماہوار سے ہیں روپے ماہوار ملنے لگے.ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ (1) محرر دوم کرنے پر مجھے پھر دفتر محاسب میں تبدیل کر دیا گیا جہاں محر ر اول حضرت منشی مرزا محمد اشرف صاحب تھے.میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ مجھے خزانہ کا کام سکھا دیں.مرزا صاحب موصوف مجسم خدمت خلق اور خیر خواہ تھے فرمایا آپ کام سیکھ لیں.ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنے سے آیا کرتا ہے.اس لئے دفتر کا اپنا فرض منصبی پورا کرو اور ساتھ خزانہ کا بھی کچھ کام کرو.میں فرض منصبی کا کام رات کو یا دن کو جب وقت ملتا کرتا اور دن کے وقت عام طور پر خزانہ کا کام کرتا اور پھر منشی صاحب روزانہ میرا کام دیکھ کر اصلاح فرماتے ، جب میں خزانہ کا کام اچھی طرح سیکھ گیا تو کچھ عرصہ کے بعد صدر انجمن نے منشی صاحب کو محاسب کے عہدے پر مقرر فر مایا اور مجھے تین ماہ کے لئے عارضی طور پر محر ر اول کا قائم مقام بنا کر کہا گیا کہ تین ماہ کے بعد میرا کام دیکھ کر مجھے مستقل محرر اول کیا جاسکتا ہے.چنانچہ تین ماہ گزرنے پر خود سیکرٹری مجلس نے ایک دن اچانک صبح آکر میرا کام دیکھا تو اسے تسلی بخش پایا اور مجھے محر ر اول کر دیا گیا.مگر میرے الاؤنس اور گریڈ محرر اول میں جو ۳۰-۳-۴۵ تھا بہت فرق تھا.مجلس نے فیصلہ فرمایا کہ میں اپنے محرر دوم کے گریڈ کو دگنی ترقی سے طے کروں چنانچہ اسی طرح عمل میں آیا.“ تحریک چندہ خاص کی کامیابی صدر انجمن نے ۱۹۲۳ء میں مجھے دفتر نظارت بیعت المال میں تبدیل کر دیا.جہاں حضرت مولوی عبدالمغنی خاں صاحب ناظر تھے.غالباً ۱۹۳۰ء میں صدر انجمن کی مالی حالت بہت نازک ہوگئی تو سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک تحریک خاص چندہ کی فرمائی.اس پر حضرت مولوی صاحب مرحوم نے خاکسار کو فرمایا کہ اس تحریک کو کامیاب کرنے میں پوری کوشش سے کام کیا جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں اور ہدایات کے ساتھ تحریک کامیاب ہوگئی.“ فنانشل سیکرٹری کشمیر ریلیف فنڈ 66 ۱۹۳۱ء میں سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کشمیر کمیٹی کے صدر مقرر ہوئے اور سیکرٹری حضور نے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد کو مقر فر ما یا شاید حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب نے

Page 213

206 حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کیا ہو کہ چندہ تحریک خاص کے کامیاب بنانے میں خاکسار کا بڑا حصہ ہے.ممکن ہے یہ امر اس کا باعث ہوا ہو کہ حضور نے خاکسار کو کشمیر ریلیف فنڈ کا فنانشیل سیکرٹری مقرر فرمایا.خاکسار نے حضور کی ہدایت کے ماتحت کام شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ہزاروں ہزار روپیہ کشمیر ریلیف فنڈ میں عطا فر مایا اور خرچ ہوا.صدرانجمن کا آڈیٹر مقرر ہونا ۱۹۳۲ء میں سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدر انجمن کو حکم دیا کہ خاکسار کو آڈیٹر اور حضرت مرزا محمد شفیع صاحب پنشنز پوسٹل انسپکٹر کو محاسب مقرر کیا جائے اور حضرت منشی محمد اشرف صاحب کو پنشن دی جائے چنانچہ اس کی تعمیل ہوئی.اور منشی صاحب کو حضور نے بعد پنشن احمد آباد محمود آبادسنڈیکیٹ کا سیکرٹری مقرر فرما دیا جنھوں نے اپنی عادت مستمرہ کے مطابق سندھ میں جماعت کے لئے حصول اراضی میں بہت کوشش کی اور اس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیاب فرمایا دار الانوار کا سیکرٹری مقرر ہونا ۲ فروری ۱۹۳۳ء کو حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب در دمرحوم تبلیغ اسلام کے لئے لندن بھیجے جارہے تھے اور آپ دارالانوار کمیٹی کے سیکرٹری بھی تھے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک روز قبل بعد مغرب خاکسار کو فر مایا کہ آپ ابھی جا کر دار الانوار کمیٹی کا چارج در د صاحب سے لے لیں وہ صبح ولایت جارہے ہیں.چنانچہ خاکسار نے حضور کے حکم کی فورا تعمیل کی اور چارج لے لیا.چارج میں میں نے دیکھا کہ دارالانوار کا سارار یکار ڈمکمل تھا اور مجھے اس میں ذرا دقت نہیں ہوئی.مجھے اس کام میں جب بھی کوئی مشکل محسوس ہوئی اسی وقت حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر ہدایت حاصل کی اور کام ہو گیا.اس وقت میرے ذمے تین کام ہو گئے.بطور آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ ، فنانشیل سیکرٹری کشمیر ریلیف فنڈ اور سیکرٹری دار الانوار کمیٹی الحمد للہ.سیکرٹری دارالا نوار کے فرائض اب تک میں ادا کر رہا ہوں اس کا فنڈ اب تک محفوظ ہے.وکیل المال تحریک جدید مقرر ہونا ۲۳ نومبر ۱۹۳۴ء کو حضور نے ایک خطبہ کے ذریعے تحریک جدید کا آغاز فرمایا اور اس کے دوسرے دن صبح ہی حضور لا ہور تشریف لے جارہے تھے.احمد یہ چوک حضور کے انتظار میں کھچا کھچ احباب کرام سے بھرا ہوا تھا کہ حضور مسجد مبارک کی چھوٹی سیڑھیوں سے جو دفتر محاسب کے قریب کھلتی ہیں تشریف لائے.خاکسار دفتر

Page 214

207 محاسب کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا.خاکسار نے السلام علیکم عرض کر کے مصافحہ کیا تو حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا : آپ تحریک کا کام شروع کر دیں اور ایک ہزار احباب کے پتے نکالیں.خاکسار نے دل میں آمنا وصدقنا کہا.حضور لاہور سے جمعرات کے دن واپس تشریف لائے تو خاکسار نے ایک ہزار کی فہرست پیش کر دی.اس تحریک کے وعدوں کے خطوط آرہے تھے حضور نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کو حکم دیا کہ وہ ان کا حساب بنا کر پیش کریں.مگر دفتر جو حساب پیش کرتا وہ حضور کے اپنے ذہنی حساب سے نہ ملتا.اس پر ایک جمعرات کی نماز مغرب کے بعد خاکسار کو فر مایا کہ آپ وعدوں کے تمام خطوط دفتر سے لے کر ان کا حساب بنا کر کل دس بجے قبل جمعہ پیش کریں.میں اس بارہ میں اعلان کرنا چاہتا ہوں میں اسی وقت دفتر پہنچا دیکھا تو میز پر خطوط پڑے تھے.دفتر والوں نے کہا یہی سارے خط ہیں آپ لے لیں.میں نے گنے تو پانصد خطوط تھے.میں اسی وقت پہلے محلہ دارالسعہ گیا.وہاں میں نے خواجہ معین الدین صاحب اور قاری محمد امین صاحب کو ڈیڑھ ڈیڑھ سو خط دے کر کہا کہ آج ساری رات کام کرنا ہے تا صبح ہی حساب مل جائے انہوں نے خوشی سے کہا کہ جب تک ہم یہ کام پورانہ کر لیں آرام نہ کریں گے.اور دو سو خط میں نے اپنے واسطے رکھے.صبح جب میں ان کے پاس پہنچا تو دونوں نے حساب تیار کر لیا ہوا تھا.مجھے دے دیا.میں نے یکجائی حساب بنایا تو ساڑھے سولہ ہزار کے وعدے ہوئے میں ساڑھے نو بجے محلہ دارالفضل سے اپنے گھر سے شہر کو آرہا تھا کہ خان میر خاں صاحب حضور کے باڈی گارڈ ملے.انہوں نے کہا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کو یا دفرماتے ہیں.میں نے پیش ہو کر عرض کیا کہ حضور ساڑھے سولہ ہزار وعدوں کی میزان ہے.حضور نے فرمایا درست معلوم ہوتی ہے میرے ذہنی حساب سے ملتی ہے.خاکسار نے عرض کیا کہ حضور نے ایک مطالبہ ساڑھے سترہ ہزار کا فرمایا تھا.کل اور آج کی ڈاک حضور کے پاس ہے اس میں ایک ہزار سے اوپر کے ہی وعدے ہوں گے، اس لئے ساڑھے سترہ ہزار کا اعلان فرمائیں.فرمایا میں نے جو حساب ابھی نہیں دیکھا اس کا اعلان کس طرح کرسکتا ہوں.میں نے جود یکھ لیا ہے اس کا ہی اعلان کیا جا سکتا ہے.جود دیکھا نہیں اس کا اعلان نہیں ہوسکتا.چنانچہ حضور نے خطبہ میں ساڑھے سولہ ہزار کا ہی ذکر فرمایا.اللہ تعالیٰ کا خاکسار پر کتنا بڑا فضل و احسان ہوا کہ مجھے ایک ساتھ چار کام کرنے کا موقع عطا فرمایا.کشمیر فنڈ اور دالانوار کے کام کے لئے مجھے دومددگار بھی مل گئے تھے.لیکن آڈیٹر اور تحریک جدید کا کام خاکسارا کیلا ہی کر رہا تھا.حضور کی خدمت میں روزانہ رپورٹ پیش کرنے کے لئے حسابات بنانے اور خطوط کی منظوری کی روزانہ اطلاع دینے اور تحریک جدید کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد مزید تکمیل کے لئے دفتر کی پابندی کا سوال ہی

Page 215

208 نہ رہا اور نہ ہی میں نے ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۸ء اور پھر ۱۹۰۹ء سے اب تک اس کا خیال کیا کہ دفتر کا وقت ختم ہو گیا چلو گھر چلیں.بلکہ یہ بات گھٹی میں پڑی ہوئی تھی کہ جب روزانہ کا کام ختم نہ ہو دفتر بند نہ ہوا اگر ضرورت پڑے تو گھر لے جا کر روزانہ کام ختم کرو.پس میں نے دفتر کے وقت کا خیال نہیں رکھا بلکہ روزانہ کام ختم کرنا اصول بنایا.اتفاق کی بات ہے کہ تحریک جدید کا دفتر حضور کے قصر خلافت میں تھا.خاکسار تو رات کے دس بجے یا کبھی بارہ بجے تک کام کرتا.مگر حضور ایک دو بجے تک عموماً اور بعض دفعہ ساری رات بھی کام کرتے اور نماز فجر پڑھانے کے لئے تشریف لے جاتے.جب خاکسار کا آقا ساری ساری رات کام کرتا تھا تو میرے لئے کیا عذر تھا کہ زیادہ وقت لگا کر کام پورا نہ کروں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جہاں وعدوں کے ہر خط پر رقم اور جزاکم اللہ احسن الجزاء اپنی قلم سے ارقام فرماتے وہاں اس کے متعلق اور بھی کوئی بات ہوتی تو اسے بھی خاکسار کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے لکھ دیتے تا خاکسار صحیح طریق اختیار کر سکے.اسی طرح عام ڈاک میں بھی ہر خط پر حضور کا نوٹ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی ہدایت کے لئے ہوتا.تحریک جدید کے خطوط کے نوٹ تو میں نے نہایت احتیاط سے محفوظ رکھے تھے کیونکہ خاکسار نے پانچویں سال میں ہی ارادہ کر لیا تھا کہ حضور کے ارشاد کسی نہ کسی طرح ضرور شائع کروں گا انشاء اللہ تعالی مگر مرضی مولی از ہمہ اولی وہ تمام ذخیرہ پاکستان آتے وقت ساتھ نہ لا سکا.سوائے تحریک جدید کے رجسٹروں کے.اسلامی شعار اختیار کرنے کی ہدایت جنوری ۱۹۳۵ء کا ذکر ہے کہ تحریک جدید کے بارے میں ایک دوست کو میں نے خط لکھا.ایک لفظ مجھ سے نادانستہ ایسا لکھا گیا جس سے اس دوست نے میرے لہجہ کو حاکمانہ سمجھ کر حضور کی خدمت میں میری شکایت کی اس وقت تحریک کی ساری خط و کتابت حضور کی خدمت میں آتی تھی.حضور نے خاکسار کو بلا کر پوچھا کہ کیا آپ نے کسی کو یہ لفظ لکھا تھا.میں نے معا عرض کیا کہ حضور ! لکھا تھا اس پر حضور نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ: یہ تو حاکمانہ طریق ہے میرے ساتھ جس نے کام کرنا ہے اسے اسلامی شعار اختیار کرنا ہوگا.کیونکہ میرا کام اسلام کا استحکام اور اس کا مضبوط کرنا ہے.“ پس اس دن سے میں نے حضور کے ارشادات کی روشنی میں تعمیل کرنا اپنا طریق بنایا اس جگہ میں تمام احباب اور خصوصاً کارکنان سے عرض کروں گا کہ وہ بھی اس کو اپنا دستورالعمل بنا ئیں.

Page 216

209 روزانہ رپورٹ مجھے خوب یاد ہے کہ پہلے سال کے وعدوں کی آخری میعاد پندرہ جنوری ۱۹۳۵ء یعنی کل ڈیڑھ ماہ اور وعدوں کے خطوط ۲۳ جنوری تک آئے جن کی میزان ایک لاکھ دس ہزار ہوئی جو تحریک کے مطالبہ ساڑھے ستائیس ہزار سے چار گنا تھی.یہ جماعت کے اخلاص اور حضور کی دعاؤں کا نتیجہ تھا.خاکسار جو روزانہ تفصیلی رپورٹ دیتا تھا.۲۳ جنوری کے بعد اسے خاکسار نے بند کر دیا اور یہ خیال کیا کہ اب صدر انجمن احمد یہ کے قواعد کے مطابق ہفتہ واررپورٹ پیش کیا کروں گا.تین دن متواتر رپورٹ نہ ملنے پر حضور نے خاکسار کو بلا کر پوچھا کہ رپورٹ تین دن کیوں نہیں دی.خاکسار نے عرض کیا کہ اب وعدے آچکے ہیں.خاکسار آئندہ به طریق صدر انجمن ہفتہ وار رپورٹ پیش حضور کرے گا.اس پر فر مایا کہ ” میرے ساتھ کام کرنے والے کو روزانہ رپورٹ مجھے پہنچا کر دفتر بند کرنا ہوگا.“ پس اس دن سے آج کا دن ہے کہ خاکسار بلا ناغہ تفصیلی رپورٹ روزانہ بہ توفیق الہی حضور اقدس کی خدمت میں پیش کرتا رہا ہے.فالحمد للہ.حافظہ قوی ہو جانا مجھے جس وقت تحریک جدید کا کام تفویض ہوا.اس وقت میرا حافظہ اتنا کمزور تھا کہ میں بات کرتے کرتے بھول جاتا تھا.اس وقت میں نے دعا کے لئے عرض کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ ریکارڈ سے متعلق کام کے سوا بہت سا را دفتری کام یادداشت پر کرتا ہوں اور خطوط کے جواب میں اپنی قلم سے بوا ایسی زبانی اسی وقت لکھ دیتا ہوں.ایک کلرک کی منظوری میں تین ماہ سے اکیلا ہی کام کر رہا تھا.ایک دن حضور نے فرمایا کہ چونکہ آپ کا دفتر قصر خلافت کے ایک کمرے میں ہے اس لئے میں نے دیکھا ہے کہ آپ اکیلے ہی کام کرتے ہیں.آپ ایک کلرک رکھ لیں اسے تنخواہ میں تحریک جدید سے دوں گا.چنانچہ میں نے پٹیالہ کے ایک پوسٹل کلرک کو رکھ لیا.وہ بڑے محنتی اور شوق سے کام کرنے والے تھے.میرے ساتھ بڑی رات تک کام کرتے تھے.رخصت پر گھر گئے اور وہاں جا کر بیمار ہوکر وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت کے سایہ میں رکھے.آمین.اس کے بعد میں نے چودھری عبدالرحیم صاحب چیمہ کو پندرہ روپے ماہوار پر رکھا ان کو اللہ تعالیٰ نے حافظہ ایسا عطا فرمایا ہے کہ وہ تحریک جدید کا دفتری کام اکثر یادداشت سے کرتے.بسا اوقات دوست دفتر میں آکر چوہدری صاحب سے اپنا حساب وعدہ و وصولی دریافت کرتے تو آپ زبانی ہی بتا دیتے اور اگر بعض اصرار کرتے

Page 217

210 کہ ریکارڈ دیکھ کر بتاؤ تو ان کو رجسٹر سے حساب دکھا کر مطمئن کر دیتے.بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب نے اپنے ہاتھ سے سارا ریکارڈ رکھا ہوتا تھا اور پھر آمدہ خطوط کے وعدوں کی منظوری دی ہوتی تھی اور وہ کام کو نہایت سرگرمی اور تندہی سے پورا کرتے.دفتر بند نہ ہوتا جب تک کام ختم نہ کر لیتے.اگر کام زائد ہوا تو گھر لے جا کر پورا کرتے.بہر حال وہ نہایت بہترین رنگ میں کام سرانجام دینے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ان کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین.صدرانجمن احمدیہ کا آڈٹ کا کام بھی میں اکیلا کر رہا تھا.ایک دن حضور نے فرمایا کہ آپ آڈیٹر کے کام کے لئے ایک کلرک رکھ لیں.تنخواہ اسے میں تحریک جدید سے دوں گا.چنانچہ میں نے چوہدری امیر محمد خاں صاحب کو نہیں روپے ماہوار پر رکھا وہ صدر انجمن میں کام کر چکے تھے اور پٹوار اور اشتمال اراضی کے کاروبار سے بھی خوب واقف تھے.“ صدرانجمن سے پنشن میں نے آڈٹ صدر انجمن اور تحریک جدید کا کام پانچ سال تک مشتر کہ کیا تھا.صدرانجمن نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ہمارا آڈٹ کا کام پورا نہیں ہورہا صرف بل پاس ہوتے ہیں، دفاتر کی پڑتال نہیں ہوتی یا تو مجھے واپس دے دیا جائے یا صدرانجمن کو دوسرا شخص مقرر کرنے کی اجازت ہو.اس پر حضور نے فرمایا کہ آپ دوسرا آدمی رکھ لیں.جب تک تحریک جدید کو ضرورت ہے وہ ان سے کام لے گی ورنہ آپ کو انہیں واپس کر دیا جائے گا.چنانچہ اس پر صدر انجمن نے سید محمد اسمعیل صاحب مرحوم کو آڈیٹر مقررفرمایا.چونکہ خاکسار کو آڈیٹر کی تنخواہ صدر انجمن سے ملتی تھی.جب انہوں نے الگ آڈیٹر رکھ لیا تو اب حضور نے خاکسار کا الاؤنس تحریک جدید سے منظور فرما دیا.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جس وقت حضور نے خاکسار کو تحریک جدید میں لیا اس وقت صدر انجمن میں خاکسار کی ملازمت ساڑھے ۳۱ سال پوری ہو چکی تھی.صدر انجمن نے اسی وقت سے مجھے پنشن دے کر مزید احسان فرمایا.جزاهم الله احسن الجزاء.۱۸۹۱ء کی پیشگوئی ۱۹۳۸ء کا واقعہ ہے کہ تحریک جدید کے چار سال پورے ہو چکے تھے اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ حسب معمول نومبر کے آخری ہفتے میں پانچویں سال کا اعلان فرمانے والے تھے تو 4 نومبر کے الفضل میں حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کا ایک نوٹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ۱۸۹۱ء کے ایک کشف کے بارہ میں شائع ہوا.جس میں ذکر ہے فتح اسلام کے لئے ایک لاکھ فوج کی ضرورت محسوس ہورہی ہے مگر پانچ ہزار کی

Page 218

211 منظوری ہوئی اور ساتھ ہی بشارت دی گئی کہ اگر چہ یہ قلیل ہے مگر کثیر گروہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے غالب آئے گا.قاضی صاحب نے لکھا کہ میرے نزدیک چھت سے قریب اور آسمان کی طرف یعنی عالم بالا کے فیوض سے معمور خلافت ثانیہ کا وجود مسعود ہے جسے کشف میں دوسرے شخص سے تعبیر کیا گیا ہے چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پانچویں سال کے اعلان میں فرمایا.قاضی اکمل صاحب ( قاضی ظہور الدین اکمل ) کا ایک مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پیشگوئی کے متعلق شائع ہوا ہے وہ دراصل ایک پرانا کشف ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے دیکھا آپ فرماتے ہیں.کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے تب میں نے اس شخص کو جوز مین پر تھا مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر وہ چُپ رہا اور اس نے کچھ بھی جواب نہ دیا تب میں نے اس دوسرے کی طرف رخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اسے میں نے مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے وہ میری اس بات کو سن کر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا تب میں نے اپنے دل میں کہا اگر چہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی كَمُ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ (2) اب قاضی صاحب کے مضمون سے جو اعداد و شمار سے مرتب کیا گیا ہے مجھے وہ پرانا خیال یاد آ گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ در حقیقت انہی لوگوں کے متعلق یہ کشف ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کئی سال سے میرا خیال ہے کہ یہی وہ فوج ہے جس کے ملنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوخبر دی گئی تھی اور اسی فوج کے ذریعہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسلام کی فتح کے لئے ایک مستقل اور پائیدار بنیاد قائم کرے اور یہ فوج اپنا ایک ایسا نشان چھوڑ جائے جس کے ذریعہ ہمیشہ دنیا میں اسلام کی تبلیغ ہوتی رہے ہے.پھر عجیب بات ہے کہ ادھر الفضل میں یہ مضمون شائع ہوا اُدھر چند دن پہلے میں یہ سوچ رہا تھا کہ تحریک جدید میں آخر تک قربانی کرنے والوں کو آئندہ نسلوں کے لئے بطور یادگار بنانے کے لئے کوئی تجویز کروں.جب یہ کشف میرے سامنے آیا تو اس نے میرے اس خیال کو اور زیادہ مضبوط کر دیا اور میں نے چاہا کہ وہ

Page 219

212 لوگ جو اس تحریک میں آخر تک استقلال کے ساتھ حصہ لیں ان کے ناموں کو محفوظ رکھنے کے لئے اور اس غرض کے لئے کہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کرتی رہیں کوئی یاد گار قائم کروں.....میں نے اپنے دل میں کہا وہ جنھوں نے خدا تعالیٰ کے دین کے احیاء اور اس کے جھنڈے کو بلند رکھنے کے لئے اس تحریک میں حصہ لیا ہے ان کے نام آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ رکھنے کی خاطر کیوں نہ کوئی تجویز کی جائے چنانچہ اس کے لئے میں نے ایک نہایت موزوں تجویز سوچی ہے جسے اپنے وقت پر ظاہر کیا جائے گا.غرض اس مضمون کو پڑھنے کے بعد میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جسے خدا نے اپنا لشکر قرار دیا ہے اور جس کے ذریعہ اسلام کی فتح کا سامان دنیا میں ہونے والا ہے اس جماعت کو کون مٹا سکتا ہے.یقینا کوئی نہیں جو مٹا سکے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ ان پانچ ہزار سپاہیوں کی کوئی مستقل یادگار قائم کریں کیونکہ وہ سب لوگ جو اس جہاد کبیر میں آخر تک ثابت قدم رہیں گے ان کا حق ہے کہ اگلی نسلوں میں ان کا نام عزت سے لیا جائے اور ان کا حق ہے کہ ان کے لئے دعاؤں کا سلسلہ جاری رہے.اور اس کے لئے جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ایک نہایت موزوں تجویز میں نے سوچ لی ہے.میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے ہرشخص اپنے عمل سے ثابت کر دے کہ جب امتحان کا وقت آیا تو تم نے اسلام اور احمدیت کے لئے وہ قربانی کی جس قربانی کا اسلام تم سے مطالبہ کرتا تھا.اور تم اپنے ایمان اور اپنے عمل اور اپنی قربانیوں کے لحاظ سے گذشتہ جماعتوں سے پیچھے نہیں رہے.بلکہ ان سے آگے بڑھے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جماعت کے دوستوں کے دلوں کو کھولے تا وہ اس پانچ ہزار سپاہیوں کے لشکر میں شمولیت کا فخر حاصل کر سکیں جس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک کشف کے ذریعہ خبر دے چکے.اللهم امين امين (3) حضور نے ایک بار فرمایا و بعض نیکیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا ہمیشہ موقع ملتا رہتا ہے لیکن بعض نیکیوں کا موقع صدیوں میں ملتا ہے اور جو اس سے محروم رہ جاتے ہیں وہ ندامت کا شکار ہوتے ہیں.تحریک جدید کا حصہ نیک نام رکھنے کی بہ فضل خدا ضمانت ہے...میں سمجھتا ہوں کہ تحریک جدید کا کام ان مستقل تحریکات میں سے ہے جن میں حصہ لینے والے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اس طرح مستحق ہوں گے جس طرح بدر کی جنگ میں شامل ہونے والے صحابہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کے مورد ہوئے.“

Page 220

213 حضور نے ۱۹۳۶ء کی مشاورت میں فرمایا ( میں ) اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ لصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں.میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمد یہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جائے.جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے بھی روز روز نہیں آتے.* (4) یادگار طریق حضور نے ۱۹۳۸ء کے جلسہ سالانہ پر اعلان فرمایا کہ چندہ تحریک جدید میں چندہ دینے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پانچ ہزار والی پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں اس لئے ان کی یاد گار قائم رکھنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا جائے گا کہ تحریک جدید کے چندہ سے تبلیغ کے لئے ایک مستقل انتظام کیا جائے گا اور یہ صدقہ جاریہ کے طور پر ہوگا.اور چندہ میں حصہ لینے والوں کو دوگروہوں میں تقسیم کر کے ان کی فہرستیں بنائی جائیں گی.اس ارشاد کے مطابق چوہدری صاحب نے یہ تجویز کی کہ جن احباب نے پانچ سال تک متواتر حصہ لیا ہے ان کی ایک فہرست اخبار الفضل میں شائع کر دی جائے.تا دفتر کو معلوم ہو کہ پانچ ہزار ہیں اور بقایا داروں کو توجہ دلائی جائے.۱۹۴۰ء کے الفضل میں اس فہرست کا بڑا حصہ شائع ہوا.چوہدری صاحب چونکہ مفصل رپورٹ روزانہ پیش کرتے تھے.اس فہرست کو ملاحظہ فرما کر ان بقایا داروں کو ان الفاظ میں حضور ایدہ اللہ نے توجہ دلوائی فرمایا.میں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں خصوصاً ان لوگوں کو جو نا دہند ہیں اور ان کی ☆ طرف تحریک جدید کا کئی کئی سال کا بقایا ہے.ان کے لئے راستہ کھلا تھا کہ وہ اس میں شامل نہ ہوں ، تو وہ کیوں شامل ہوئے اور جب ان کے لئے اس بات کا راستہ کھلا ہے کہ وہ اپنا نام کٹوا لیں تو وہ اپنا نام کیوں نہیں کٹواتے.ہمیں اس تحریک کے متعلق یہ نظر آتا ہے کہ اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد پانچ ہزار کے ارد گرد چکر کھا رہی تھی.گویا اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد اتنی ہے جتنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کشف میں بیان ہوئی ہے...پس آج میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں کے ذمہ تحریک جدید کا گذشتہ سالوں میں چوہدری صاحب نے بطور وکیل المال ۶۴ صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ جانی و مالی قربانیوں کے مطالبات مرتب کر کے ۱۹۳۸ء میں شائع کیا تھا.اس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات ۱۹۳۴ ء تا ۱۹۳۸ء کے اقتباسات جمع کئے گئے ہیں.

Page 221

214 سے ایک یا ایک سے زیادہ سالوں کا چندہ واجب الادا ہے وہ یا تو اپنے وعدوں کو جلد سے جلد باور کر لیں یا ہم سے معافی لے لیں یا اپنے نام فہرست سے کٹوا لیں تا کہ نہ تو خود گنہ گار ہوں اور نہ صیح لسٹ کے متعلق ہمیں دھوکا لگئے.چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس اعلان کے ہونے پر اکثر احباب نے اپنے وعدے پورے کر دیئے اور فہرست پانچ ہزار پوری ہوگئی.حضور نے فرمایا کہ بقایا کی وصولی کے لئے ایک کلرک رکھ لوں.چنانچہ میں نے سید منم الحسن صاحب کو رکھ لیا جنہوں نے خدا تعالیٰ کی توفیق سے بقایا کی وصولی میں دل و جان سے کوشش کی اور جب چندہ تحریک جدید انہیں سال تک بڑھا دیا گیا تو وصولی کے لئے جد و جہد کرتے رہے حتیہ آخر پر میں نے ان کو انیس سالہ رجسٹر مکمل کرنے کے لئے مقرر کیا.انہوں نے اس کی تکمیل کے ساتھ بقایا صحیح طور پر نکالنے اور اس کی وصولی کے لئے بڑی محنت سے کام کیا اور انیس سالہ کتاب کی اشاعت میں میری بہت مدد کی.الحمد للہ کہ کتاب میں ۶۲۰ ۵ ( پانچ ہزار چھ سو بیس ) احباب کے نام شائع ہوئے.اللہ تعالیٰ ان کو ان کی اس محنت اور کارکردگی کا اجر عظیم عطا فرمائے.آمین تحریک جدید سے پینشن : چوہدری صاحب ۱۹۵۸ء میں تین ماہ تک سخت بیمار رہے.محترم وکیل اعلیٰ نے ۲۹ مارچ ۱۹۵۸ء کو حضور ایدہ اللہ کی خدمت میں رپورٹ پیش کی اور ذیل کا فیصلہ مجلس تحریک جدید میں ہوا.رپورٹ وکیل اعلی کہ مکرم چوہدری برکت علی خاں صاحب وکیل المال ایک عرصہ سے بیماری کی وجہ سے رخصت پر ہیں ان کی عمر بھی ریٹائرمنٹ کی عمر سے زیادہ ہو چکی ہے اس لئے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منظور فرمایا ہے کہ ان کو ۵۸-۴.اسے ریٹائر کر دیا جائے.“ مکرم چودھری صاحب آخر ۱۹۳۴ ء سے تحریک جدید کا کام کر رہے ہیں اور قواعد کے مطابق ان کو /۷۲/۸ روپیہ پنشن مل سکتی ہے لیکن ان کی خدمات کے پیش نظر حضور نے منظور فرمایا ہے کہ ان کو ایک سور و پیہ پنشن دے دی جائے مجلس میں ریکارڈ کے لئے پیش ہے ان کا پراویڈنٹ فنڈ مع منافع ان کو ادا کر دیا جائے.“ محترم چوہدری صاحب تحریک جدید کے شروع سے ہی تحریک جدید کا کام کر رہے ہیں.انہوں نے جس تندہی سے کام کیا ہے وہ عیاں ہے.یقیناً ان کی بیماری اس محنت شاقہ کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جلد سے جلد صحت کامل اور لمبی عمر عطا فرمائے.ان کی خدمات قابل صد شکر یہ ہیں اور مجلس اپنے اس اعتراف کو

Page 222

215 ریکارڈ کرتی ہے.فیصلہ مجلس و حضور کی منظوری ریکارڈ کی جاتی ہے.“ تحریک جدید کی طرف سے آپ کو الوداعی پارٹی دی گئی * اور مکرم وکیل اعلیٰ صاحب نے بتایا کہ انیس سالہ کتاب کی اشاعت کا کام چوہدری صاحب ہی کریں گے.کیونکہ ایک موقع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ انیس سالہ کتاب کی اشاعت کا کام چوہدری صاحب سے ہی لیا جائے تاکہ ان کے دل کو اطمینان ہو کہ انہوں نے جو کام شروع کیا تھا اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورا کر دیا.چوہدری صاحب نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور نصرت اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کے ساتھ السابقون الاولون کی پہلی انیس سالہ کتاب شائع کر دی ہے.آپ بجذ بہ شکر دامتنان درخواست کرتے تھے کہ احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے اسے اجر عظیم اور حسنات دارین کا موجب بنائے اور انجام بخیر ہو.خلافت ثانیہ کا قیام خلافت ثانیہ کے قیام پر غیر مبایعین نے مخالفت میں جس قدر ایڑی چوٹی کا زور لگایا.اس کا کس کوعلم نہیں.بے بنیاد اتہامات نشر کئے گئے.ان میں سے ایک یہ تھا کہ حضرت خلیفہ اسی اول نذر کا روپیہ صدرانجمن کے خزانہ میں داخل فرما دیتے تھے اور اس میں سے ایک پیسہ یا کوڑی بھی آپ نے لینا گوارا نہ کیا.لیکن حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نذر کا روپیہ خزانہ صدر انجمن میں داخل نہیں فرماتے (5) الفضل نے حضرت منشی مرزا محمد اشرف صاحب جیسے ثقہ متدین اور امین‘ کارکن انجمن کی شہادت اس کی تردید میں شائع کی.پھر الحکم نے انجمن کے ایک کارکن اور مسلم امین کارکن منشی برکت علی خاں صاحب کی شہادت درج کی جنھوں نے نومبر ۱۹۱۲ء سے دفتر محاسب کا چارج لیا تھا اور اس سے پہلے بھی اس دفتر میں کئی دفعہ سیکنڈ کلرک کے عہدے پر کام کرتے رہے تھے اور پھر ہیڈ کلرک مقرر ہوئے تھے.انہوں نے شہادت دی کہ حضرت خلیفہ اول نذرانہ کی رقوم پر دستخط کر کے وصول فرماتے تھے اور جہاں چاہتے صرف کرتے تھے البتہ جب علالت کے باعث ضعف ہوا اس بات کی تصدیق کی کہ حضرت خلیفہ اول نے یہ رقوم وصول فرمالی ہیں مولوی محمد علی صاحب یا ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کرتے رہے ہیں.(6) سو بفضلہ تعالی آغاز سے ہی محترم چوہدری صاحب خلافت ثانیہ کے سرگرم اور مخلصین مویدین میں سے تھے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا ہی بنائے.آمین.خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام میں پہلی شوری طلب کی گئی تھی.اس کے فیصلہ جات نہایت اہم اور دور رس (1) الوداعی پارٹی کا ذکر الفضل مورخہ ۲۶٫۴٫۵۸ ص ا میں درج ہے.

Page 223

216 تھے.اس کے نمائندگان میں آپ کا نام ۷۴ انمبر پر منشی برکت علی خاں صاحب ہیڈ کلرک دفتر محاسب الحکم کے پر چہ مذکورہ بالا میں درج ہے.قادیان میں تعمیر مکان : ☆ آپ نے قادیان میں ۱۹۲۰ء کے اختتام سے قبل محلہ دارالفضل میں اپنا مکان تعمیر کر لیا تھا.یہ محلہ ۱۹۱۵ء سے آباد ہونا شروع ہوا تھا.قادیان گائیڈ میں اس محلہ میں مکان بنانے والوں میں آپ کا نام یوں درج ہے.۲۹.چوہدری برکت علی خاں صاحب ہیڈ کلرک دفتر محاسب، (7) آپ کی ازدواجی زندگی چوہدری صاحب کی پہلی شادی دسمبر ۱۹۰۸ء میں محترمہ رحمن بی بی صاحبہ سے ہوئی جو ان کے ماموں چوہدری عالمگیر خاں صاحب ( ساکن موضع سروعہ ) کی دختر تھیں.دوماہ بعد آپ انہیں قادیان لے آئے.وہ نمازوں کی پابند اور موصیبہ تھیں.ان کو حضرت اقدس کے وصال کے بعد بہت جلد قادیان آنے اور برکات سے مستفیض ہونے اور نیک ماحول میں رہائش رکھنے کا موقع ملا.۱۹۱۸ ء کے انفلوئنزا میں فوت ہوئیں اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں.چوہدری صاحب کی دوسری شادی ۱۹۲۰ء میں مرحومہ کی بہن محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ سے ہوئی.وہ اپریل ۱۹۴۹ء کو وفات پا کر بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں.وہ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھیں اور ان کی طرف سے تقریباً ڈیڑھ صد رو پیدادا ہوا تھا.(8) چوہدری صاحب نے اپنی لڑکیوں کی شادی میں قومی رسوم کو جو اُن کی قوم کے رگ وریشہ میں صدیوں سے سرایت کر چکی تھیں یکسر ترک کر دیا.آپ اس بارہ تحریر فرماتے ہیں.مسلمان راجپوت قوم دو آبه بست جالندھر یعنی ہوشیار پور و جالندھر میں بکثرت پائی جاتی تھی اور ابتدا یہ لوگ ہندو راجپوتوں میں سے شاہجہان بادشاہ کے عہد میں مسلمان ہوئے تھے.ہندوراجپوتوں کی کثرت سے آبادی کو ہ شوالک کی پہاڑیوں میں جن کا دامن شملہ سے جموں تک چلا گیا ہے آباد ہے اور دوآبہ بست جالندھر کے مختلف مقامات پر بھی ہندو راجپوت پائے جاتے ہیں.ہندو راجپوتوں میں ایک رسم بیوہ کا نکاح ثانی نہ کرنا ہے خواہ شادی کے دوسرے دن اس کا خاوند فوت ہو جائے.دوسری رسم یہ تھی کہ یہ راجپوتوں (۱) تفصیل کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد ۲ ص ۳۷۶

Page 224

217 کے بڑے گاؤں چھت کہلاتے تھے اور چھوٹے گاؤں ”مکان‘.چھت والے لوگ راجپوت ”مکان والوں سے لڑکی لیتے تھے مگر دیتے نہ تھے جب راجپوت مسلمان ہوئے تو وو یہ دو رسوم بھی اپنے ورثہ میں لے آئے جس پر دو آبہ کے مسلمان راجپوت عامل رہے.“ دوآبہ کے مسلمان راجپوتوں میں یہ دستور تھا کہ جے پور راجپوتانہ کے ہندو بھاٹ مختلف اوقات میں آتے اور ہر مسلمان راجپوت کے مقام پر جا کر راجپوتی نسل کا شجرہ رکھتے جس راجپوت نے غیر قوم میں شادی کی ہوتی اس کا نام اپنے شجرہ میں نہ لکھتے بلکہ وہاں ہی شجرہ بند کر دیتے.چنانچہ میں کوئی بارہ سال کا ہوں گا کہ اس وقت بھاٹ گڑھ شنکر آئے تھے اور میرا نام ان کے شجرہ میں لکھا ہوا ہے وہ ایک روپیہ فی کس اندراج کی فیس لیتے تھے.چونکہ گڑھ شنکر اپنی جگہ ایک بڑا چھت، تحصیل گڑھ شنکر دنواں شہر میں ہے اس لئے اردگرد کے تمام راجپوت گاؤں سے لڑکیاں لیتا ہے.وہاں لڑکیاں دیتا نہیں.مگر میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل ورحم کے ساتھ احمدیت میں آکر تقوی اللہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی تینوں لڑکیوں کی شادی کا ٹھ گڑھ، پنام متصل گڑھ شنکر اور سر وعہ کے مکانات پر کر کے اس رسم کوتوڑ دیا.اپنی بڑی لڑ کی محترمہ حمیدہ بیگم (مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ ) کا نکاح مکرم چوہدری محمد اسمعیل خاں صاحب کا ٹھ گڑھی ( صحابی حال مقیم ربوہ) سے کر دیا.سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کا خطبہ ارجون ۱۹۳۴ء کو پڑھتے ہوئے فرمایا." گلے کی تکلیف کی وجہ سے میں زیادہ بول نہیں سکتا اور میں نے اس نکاح کا اعلان خود کرنا اس لئے منظور کر لیا تھا کہ میری نگاہ میں فریقین مخلص ہیں.چوہدری برکت علی صاحب جن کی لڑکی کا نکاح ہے بچپن سے قادیان آئے اور ان چند اشخاص میں سے ہیں جو محبت ، کوشش اور اخلاص سے کام کرنے والے ہیں اور جن کے سپرد کوئی کام کر کے پھر انہیں یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی.ان افراد میں سے ایک فرد عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلوی مرحوم تھے.وہ میرے ہم جماعت تھے نواب محمد علی خاں صاحب قادیان میں آمد کے ساتھ جن دولڑکوں کو لائے تھے ان میں سے ایک وہ تھے.میرا ان کے متعلق ہمیشہ یہ تجربہ رہا کہ جس کام پر وہ لگے اسے اس تندہی اور انہماک سے کیا کہ اس طرح اپنا کام بھی کم لوگ کرتے ہیں.کوئی کام بیاہ شادی کا یا پبلک سے تعلق رکھنے والا کسی کا ہوتا اس میں منتظم بن جاتے اور خوب سرگرمی سے کرتے.دوسرے اس رنگ میں کام کرنے والے شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی ہیں.رفاہ عام کا کوئی کام ہو نہایت بشاشت استقلال اور شوق سے کرتے ہیں.عام پبلک کاموں میں تو میں نے چوہدری برکت علی صاحب کو نہیں دیکھا.مگر جن کاموں پر ان کو لگایا گیا ان کے متعلق میرا ذاتی تجربہ اور افسروں کی رپورٹ یہی ہے کہ اخلاص اور سرگرمی سے کام کیا.

Page 225

218 دوسری طرف محمد اسمعیل صاحب ہیں جو قریباً ان پڑھ ہیں اور معماری کا کام کرتے ہیں.گوان کے کام کی نوعیت کی وجہ سے مجھے ان سے بھی واسطہ نہیں پڑا.مگر ان کا اخلاص مختلف نوعیت سے ظاہر ہوتارہا ہے.جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اخلاص کی بنا ایمان پر ہوتی ہے نہ کہ ظاہری تعلیم پر ، وہ بھی مخلص ہیں باوجود اس کے کہ آج میرے گلے سے بلغم زیادہ خارج ہو رہی ہے.میں نے اس نکاح کے اعلان کو اپنے ذمہ لیا میں امید کرتا ہوں کہ مجھے ان دونوں پر جو حسن ظنی ہے وہ اس نکاح کے بعد آپس کے حسن سلوک سے نہ صرف قائم رہے گی بلکہ ترقی کرے گی.اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ فقرہ لمبے خطبہ نکاح سے زیادہ معنی رکھتا ہے اور فریقین کی نصیحت کے لئے لمبے خطبہ سے زیادہ مفید ہوسکتا ہے.(9) چوہدری صاحب فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان اور فضل ہے کہ ہمارا آپس میں نہایت اچھا سلوک ہے اور یہ سلوک حضور کی دعا کی قبولیت کا ثبوت ہے.شوری میں شمولیت (10) اصحاب احمد کی جلد ۲ وغیرہ میں ۲۱ اپریل ۱۹۱۴ء کو منعقد ہونے والی شوری کا تفصیل سے ذکر آچکا ہے.یہ شوری خلافت کے استحکام کے لئے منعقد ہوئی تھی تا پیغامی فتنہ کی سرکوبی کی جاسکے.چنانچہ اس میں شامل ہونے والوں میں آپ کا نام منشی برکت علی خاں ہیڈ کلرک دفتر محاسب مرقوم ہے.بعد میں شوری کے با قاعدہ قیام پر آپ کو بہت سے مواقع پر بطور عہدہ دار شرکت کا موقع ملا.تقسیم ملک کے بعد کی کوئی رپورٹ اور پہلے کی بھی بعض رپورٹیں نہیں مل سکیں جو دستیاب ہوسکیں ان سے یہ معلوم ہوسکا ہے کہ (۱) شوری ۱۹۳۳ء میں آپ سب کمیٹی نظارت اعلی کے ممبر مقرر ہوئے.اس وقت آپ صدر انجمن (11) احمدیہ کے آڈیٹر تھے.اس سب کمیٹی میں صوبائی انجمنوں کے متعلق قواعد وضوابط کے متعلق فیصلے کئے گئے تھے.(۲) شوری ۱۹۳۴ء میں بطور آڈیٹر ایک سب کمیٹی کے ممبر بنے جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے مقرر فرمائی کہ ان اصحاب کو بجٹ میں آمد کی زیادتی اور خرچ کی کمی کے لئے جب دوران سال میں بلایا جائے تو ان کا فرض ہوگا کہ بغیر ناگزیر عذر کے آئیں، (12) اس پابندی سے اس سب کمیٹی کی اہمیت ظاہر کرنا مقصود ہے ورنہ روئے سخن قادیان سے باہر کے ممبران سب کمیٹی کی طرف تھا کہ جن کے آنے میں موانع ہوتے ہیں اور حضور کا ارشاد تھا کہ استعفیٰ دینے سے نیچے نیچے ہر کوشش کر کے بلانے پر آنا ضروری ہوگا.

Page 226

از بطن زوجه اول محترمہ رحمین بی بی صاحبہ شجرہ نسب چوہدری برکت علی خان از بطن زوجه دوم محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ | حمیدہ بیگم مرحومه زوجہ چوہدری محمد اسمعیل خاں کاٹھ گڑھی صحابی چوہدری محمد ابراہیم خاں صالحہ بشری بیگم سروری بیگم چوہدری چوہدری چوہدری چوہدری زوجہ چوہدری بشیر احمد خاں مبارک احمد خان کرامت احمد خاں بشارت احمد خاں سعادت احمد خاں ایم اے سکنہ پنام امته الحفيظ چوہدری زوجہ چوہدری عبدالرشید خان رفاقت احمد خاں سکنہ سٹرونہ سعید احمد خان رشید احمد خان امینہ صابرہ سخاوت احمد خان حلیمہ طاہرہ بشری بیگم مسعود الزمان تنویر الزمان

Page 227

219 (13) (۳) ۳۵ ۱۹۳۹ء ، ۱۹۴۰ میں بطور ایڈیٹر سب کمیٹی بیت المال کے ممبر مقرر ہوئے.) (۴) اپریل ۱۹۳۶ء میں بطور آڈیٹر سب کمیٹی بیت المال کے ممبر مقرر ہوئے.یہ تجویز پیش ہوئی کہ نادہندگان کے پاس وفود بھیجے جائیں.حضور نے فرمایا کہ اس تجویز پر مالی کمیٹی غور کرے گی.اس کے ممبران میں چوہدری صاحب کا نام بھی شامل فرمایا.(14) اس سال دوسری با را کتوبر ۱۹۳۶ء میں مشاورت کا انعقاد ہوا.اس میں اور شوری ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء میں بطور آڈیٹر شامل ہوئے.۱۹۳۸ ء کی شوریٰ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک سب کمیٹی تمام امور پر غور کرنے کے لئے مقرر فرمائی تھی جس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ نے بجٹ پر غور کرنا تھا.اور بعد میں (15) یکجائی طور پر ساری سب کمیٹی کا اجلاس ہونا تھا.چوہدری صاحب بطور آڈیٹر اس کے ممبر مقرر ہوئے تھے.5 (۵)۱۹۴۱ء ۱۹۴۴،۱۹۴۳ء کی مشاورتوں میں چوہدری صاحب بطور وکیل المال تحریک جدید شامل ہوتے رہے.قادیان سے ہجرت چوہدری صاحب لکھتے ہیں : سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفة لمسح الثانی ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز قادیان دارالامان سے ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء کو لاہور تشریف لائے.حکومت ہند اپنی بات پر مصر رہ کر زور دے رہی تھی کہ مسلمان مشرقی پنجاب سے نکل جائیں.حالات کا جائزہ لے کر حضور نے امیر جماعت قادیان کو ہدایت فرمائی کہ قادیان کا کوئی احمدی پیدل قافلہ میں ہرگز نہ آئے.مکرم امیر جماعت قادیان کو خاکسار کے بارہ میں بھی تین چار دفعہ فون میں فرمایا کہ ان کو جلد بھیجا جائے اور فرمایا کہ میں قادیان والوں کے لئے ٹرکوں کا انتظام کر رہا ہوں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہزار روپیہ خرچ کر کے ملٹری کے ٹرک لے کر قادیان بھیجے اس ہدایت کے ساتھ کہ جس طرح ٹرک آتے جائیں اسی طرح پہلے عورتوں اور بچوں کو بھیجا جائے اور بعد ازاں بوڑھے اور معذور لوگوں کو جو چلنے پھرنے سے معذور ہیں.اس کے بعد نوجوانوں کو اور ساتھ ہی یہ بھی ہدایت دی کہ قادیان کے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے ۳۱۳ احباب سر دھڑ کی بازی لگا کر مرکز میں رہیں.خواہ ان پر کتنی سختی کی جائے یا ان کو قتل وغارت کی دھمکی دی جائے یا بعض کو مارڈالا جائے مگر یہ ۳۱۳ مرکز میں رہیں.دوسری طرف

Page 228

220 یہ انتظام فرمایا کہ مشرقی پنجاب سے جو احمدی لاہور آئے اسے کھانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر سے ملے اور پاکستانی جماعتوں کو یہ ہدایت دی کہ ہم آپ لوگوں کے پاس مہاجروں کو بھیجتے جائیں گے.آپ ان کی رہائش و قیام کا انتظام کریں.یہ انتظام حضور کی زیر ہدایت و نگرانی ایک دفتر کے سپر د تھا.چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہایت احسن طریقے سے مہاجرین کو آباد کر دیا.فجزاه الله احسن الجزاء في الدنيا والآخرة _اے خدا! ایسے پاک وجود کو ہمارے سروں پر رہتی دنیا تک دائم وقائم رکھے آمین.جائنٹ ناظر بیت المال سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب کی آمدن تشخیص کرانے کے بعد جماعتوں کا چندوں کا بجٹ تجویز کرانے کے لئے علیحدہ علیحدہ حلقوں کے لئے الگ الگ جائنٹ ناظر بیت المال مقرر فرمائے.چنانچہ حضرات صاحبزادگان مرزا بشیر احمد صاحب ، مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت میر محمد الحق صاحب وغیر ہم کے ساتھ چوہدری برکت علی خانصاحب کو بھی جائنٹ ناظر بیت المال مقرر فرمایا.آپ کا حلقہ دہلی ،شملہ،انبالہ، رہتک ، حصار، گوڑ گاؤں اور علاقہ کشمیر تھا (16) سلسلہ کے ریکارڈ میں آپ کا نام ذیل میں آپ کی بعض دیگر خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے.نیز بعض اخبارات سلسلہ کے حوالے بھی درج کئے جاتے ہیں.(۱) سلسلہ عالیہ احمدیہ کے آغاز میں اکثر افراد کی مالی حالت بھی نہایت کمزور تھی.اس لئے وہ اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دیتے تھے جیسے آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں سے بعض بچو کی مٹھی یا چند کھجور میں دینے والے بھی تھے اور ان کے یہ قلیل ترین نظر آنے والے چندے بعد کے زر و جواہرات سے لاکھوں درجہ بیش قیمت اور مقبول تھے.ان کے تقویٰ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا نوازا کہ چند سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم وعدیم المثال انقلاب بر پا کر دیا.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک صحابہ کا تھا.ان کے چند پیسے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں جو قدرو قیمت رکھتے تھے وہ ان انقلابات سے ظاہر ہے جو تمام ممالک کی سعید روحوں میں ہمارے دیکھتے دیکھتے اللہ تعالیٰ پیدا فرما رہا ہے اور امراء یورپ آنحضرت کے در کے غلام بنتے جارہے ہیں اور تثلیت کے گڑھ صدائے اللہ اکبر سے گونجنے لگے ہیں.محترم چوہدری صاحب کو الحکم کے دفتر میں کام کرنے کا معاوضہ پانچ سے دس روپے تک ملتا تھا.الحکم

Page 229

221 ۱۷ار دسمبر ۱۹۰۵ء (ص۱۲اک ۲) میں چوہدری صاحب کا چندہ بابت مدرسہ تعلیم الاسلام یوں درج ہے.دو منشی برکت علی خاں صاحب محرر دفتر الحکم ۶٫۱ پائی اس چندہ کا اندازہ اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ ۵/ اکتوبرکوصرف اڑھائی روپے چندہ وصول ہوا.(۲) آپ کا چندہ درویشان کا ذکر الفضل ۱۴؍ جنوری ۱۹۵۳ء (ص ۸ ) پر آتا ہے.کچھ چندوں کا ذکر الفضل ۵۶-۲-۱اضمیمه (ک۱)۵۸-۳-۶ (ص۲۶) میں مرقوم ہے.(۳) آپ بفضل تعالیٰ موصی ہونے کے علاوہ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہیں.چنانچہ آپ نے ایک ہزار اٹھاسی روپے دس آنے چندہ دیا (17) (۴) آپ کی علالت یا آپ کی طرف سے دعا کے اعلانات (الحکم ۰۸-۳-۶ ص ۵ ک۳) الفضل ۵۸-۲-۴ ص اک ۱۵/۳/۵۸،۴ ( ص ۷ک ۴ اور ۴/۵۸ ۴۱ ص ۷ ک۳) میں اور وفات کے قریب کے چند ماہ میں الفضل میں مندرج ہیں.(۵) تحریک جدید کے متعلق آپ کے دو بہت عمدہ مضامین جو بلی نمبر ہائے الحکم والفضل بابت ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء میں شائع ہوئے تھے.(۲) محلہ دار الفضل قادیان کے آپ نائب صدر تھے جب کہ اس محلہ میں مسجد کی تعمیر کا اہتمام کیا گیا.یہ سارا انتظام چوہدری صاحب کے سپر د تھا.آپ نے اہالیان محلہ سے پانچ ہزار روپیہ فراہم کر کے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب زاد عمرہ کے زیر ہدایت اس کام کو باحسن طریق سرانجام دیا.خاکسار مؤلف کو اس محلہ کی سکونت کے باعث اچھی طرح یاد ہے کہ آپ نے نہایت جانفشانی سے اسے تکمیل کو پہنچایا.اس مسجد کے لئے قطعہ اراضی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالیٰ نے مفت عطا کیا تھا.اور اس کی بنیا دسیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے رکھی تھی.) (18) (۷) بعد ازاں یکم مئی ۱۹۴۴ء تا ۳۰ اپریل ۱۹۴۷ ء تین سال کے لئے آپ اس محلہ میں نائب صدر منتخب ہوئے.(19) ایک نشان کے گواہ حضرت مسیح موعود کو ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء کو یہ الہام ہوا.سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی.خوش آمدی نیک آمدی چنا نچہ صبح ہی قبل از وقوع تمام جماعت کو سنایا گیا.اس وقت ذرہ بھر بادل نہ تھا.

Page 230

222 ظہر کے بعد یک دفعہ بادل آیا اور بارش ہوئی اور رات کو بھی ہوئی اور ۳ / مارچ ۱۹۰۷ ء کی رات کو زلزلہ آیا (20) اس پیشگوئی کے قبل از وقوع سننے والوں کے اسماء درج کئے گئے ہیں ان میں برکت علی خاں چوہدری صاحب کا نام بھی ہے.وفات محترم چوہدری برکت علی خاں صاحب وکیل المال ( پنشنر ) وفات پاگئے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ربوده ۸ اپریل.نہایت رنج اور افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ محترم چوہدری برکت علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ وکیل المال پنشنر کل مورخہ ۷ اپریل ۱۹۶۰ء بروز جمعرات چار بجے سہ پہر قریب سے سال کی عمر میں وفات پاگئے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ محترم چوہدری صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں شمولیت کا شرف حاصل تھا.آپ ۱۹۰۲ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے.اس کے بعد آپ نے تمام عمر خدمت سلسلہ میں بسر کی اور نصف صدی سے زائد عرصہ تک صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے دفاتر میں شاندار خدمات بجالاتے رہے.۱۹۳۸ء تک آپ نے صدر انجمن احمدیہ میں مختلف عہدوں پر کام کیا اور آڈیٹر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے.۱۹۳۴ء میں تحریک جدید شروع ہونے پر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے مالی شعبے کا انچارج مقرر فرمایا.چنانچہ آپ نے ۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۸ء تک بیک وقت آڈیٹر صدر انجمن احمد یہ اور فنانشل سیکرٹری تحریک جدید کے طور پر خدمت سر انجام دیں.بعد میں صدر انجمن سے ریٹائر ہونے پر مسلسل تحریک جدید میں فنانشل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے اور نہایت محنت جانفشانی اور شغف کے ساتھ اپنے مفوضہ فرائض سرانجام دے کر تحریک جدید کے مالی نظام کو مستحکم بنانے میں نہایت قابل قدر خدمات سرانجام دیں اور بالآخر ۱۹۵۷ء میں وکیل المال کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے.ریٹائر ہونے کے بعد بھی آپ خدمت سلسلہ میں مصروف رہے اور خاص اپنی نگرانی میں تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین کے انیس سالہ حسابات پر مشتمل کتاب طبع کرائی اس طرح آپ نے قریباً تمام عمر خدمت سلسلہ میں بسر کر کے قربانی و ایثار وانتھک محنت اور سلسلہ کے ساتھ والہانہ عقیدت کی ایک شاندار مثال قائم کر دکھائی.نماز جنازہ آج مؤرخہ ۱۸ اپریل کو نماز جمعہ کے بعد ادا کی جائے گی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محترم چوہدری صاحب مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور آپ کو جنت الفردوس میں خاص مقام قرب سے نوازے اور

Page 231

223 (21) پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا کرتے ہوئے دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہوا اورمحترم چوہدری صاحب مرحوم کی اولا د کو اپنے بزرگ والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خدمت سلسلہ کی توفیق عطا فرمائے آمین.محترم چوہدری برکت علی خاں صاحب کی نعش مقبرہ بہشتی میں سپردخاک کر دی گئی نماز جنازہ میں ہزار ہا مقامی اور بیرونی احباب کی شرکت ربوه ۱/۸اپریل سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مخلص اور دیرینہ خادم محترم چوہدری برکت علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ وکیل المال (پنشنر ) کی نعش آج تیسرے پہر مقبرہ بہشتی ربوہ کے قطعہ خاص میں سپردخاک کر دی گئی.محترم چوہدری صاحب کل چار بجے سہ پہر اس جہان فانی سے رحلت فرما گئے تھے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آج بعد نماز جمعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالیٰ نے اپنے مکان کے سامنے والے میدان میں چوہدری صاحب مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور نعش کو کندھا دیا.اس نماز جنازہ کو یہ قابل رشک خصوصیت حاصل تھی کہ جمعہ کا مبارک دن تھا اور ہزار ہا مقامی احباب کے علاوہ احمدی جماعتوں کے وہ نمائندگان کرام بھی اس میں شامل ہوئے جو ملک کے طول و عرض میں مجلس مشاورت میں شریک ہونے کے لئے ربوہ تشریف لائے ہوئے تھے.نماز جنازہ کے بعد آپ کی نعش مقبرہ بہشتی میں لے جائی گئی جہاں پر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے قطعہ خاص میں اسے سپرد خاک کر دیا گیا.قبر کے تیار ہونے پر محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے دعا کرائی جیسا کہ کل شائع ہو چکا ہے محترم چوہدری صاحب مرحوم کو نصف صدی سے زائد عرصہ تک سلسلہ کی نمایاں اور ممتاز خدمت کرنے کی توفیق ملی.آڈیٹر صدر انجمن احمد یہ اور وکیل المال تحریک جدید کی حیثیت سے شاندار کام کرنے کے علاوہ آپ کو متعدد دیگر اہم دینی کاموں کی سرانجام دہی کا بھی موقع ملا.چنانچہ دارالفضل قادیان اور دار الرحمت ربوہ میں پختہ اور وسیع مساجد تعمیر کرائیں اور ان کے لئے بڑی جانفشانی سے چندہ جمع کیا.پھر سیکرٹری دارالانوار کمیٹی قادیان کے طور پر کام کرتے رہے.سیکرٹری کشمیر ریلیف کمیٹی کے عہدے پر تو آپ آخری دم تک فائز رہے.۳۱ ء میں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے آپ کو تحر یک خاص کا انچارج بنایا.چنانچہ آپ کو تین ماہ کی قلیل مدت میں ایک لاکھ روپیہ زائد جمع کرنے کی توفیق ملی.آپ کے اسی اخلاق اور خدمت سلسلہ میں انہماک کا یہ نتیجہ تھا کہ حضور نے ایک موقع پر آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.چوہدری برکت علی صاحب ان چند اشخاص میں سے ہیں جو محنت صاحب.کوشش اور اخلاص سے کام کرنے والے ہیں اور جن کے سپرد کوئی کام کر کے پھر انہیں یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی.“

Page 232

224 (22) احباب جماعت سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ چوہدری صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے.پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے اور مرحوم کی اولاد کو ( جو پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں پر مشتمل ہے ) مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خدمت سلسلہ کی زیادہ سے زیادہ تو فیق عطا فرمائے آمین 2 الفضل مورخہ ۱۴، ۲۷ اپریل ۱۹۶۰ء میں صدر انجمن احمد یہ قادیان وتحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان کی طرف سے قرار داد ہائے تعزیت شائع ہوئی ہیں.موخر الذکر تعزیت مساجد ( بیرون ) کی تعمیر کے لئے چوہدری صاحب کی غیر معمولی اور پر جوش خدمات کی بھی تعریف کی گئی ہے اور یہ امر جنت میں مکان بنانے کا موجب ہوتا ہے.محترم چوہدری برکت علی خاں صاحب از قریشی عبدالرشید صاحب آڈیر تحریک جدید) استاذی المکرم محترم چوہدری برکت علی خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ عالیہ کی خدمت کا لمبا موقعہ عطا فرمایا جس کا آغاز غالباً ۱۹۰۵ء میں آپ نے الحکم کے دفتر سے کیا.بعد ہ صدرانجمن احمدیہ کے مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے آپ آڈیٹر صدرا جمن احمد یہ کے عہدے پر پہنچے.۱۹۳۴ء میں تحریک جدید شروع ہونے پر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نظر انتخاب آپ پر پڑی اور حضور نے آپ کو تحریک جدید کے مالی شعبہ کا انچارج بنایا.جہاں آپ نے دن رات کی محنت شاقہ اور انتھک جدوجہد سے ایسے رنگ میں اپنے آپ کو اس انتخاب کا اہل ثابت کیا کہ بالآخر ۱۹۵۷ء میں تحریک جدید کی ۲۳ ساله شاندار خدمت کے بعد آپ کو ایک کامیاب و کامران وکیل المال کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کا فخر حاصل ہوا.سیدنا حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بار ہا آپ کے کام کی تعریف فرمائی.اور متعدد دفعہ خطبات اور مجلس مشاورت کے مواقع پرخوشنودی کا اظہار فرمایا.حضرت چوہدری صاحب مرحوم و مغفور سے میرا تعارف قادیان میں ۱۹۶۴ء میں ہوا بلکہ مجھے آپ کے ساتھ ایک لمبا عرصہ کام کرنے کی سعادت ملی.اس اثناء میں مجھے آپ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.حضرت چوہدری صاحب مرحوم بلا شبہ ایک بے لوث اور مسلسل سترہ سترہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے والے بزرگ تھے آپ کے کام کا طریق دو اصولوں پر مبنی تھا.اول یہ کہ تحریک جدید کے ہر وعدہ کرنے والے ست سے ایک ذاتی تعلق پیدا کرنے کی کوشش فرماتے اور اس وجہ سے روزانہ ڈاک کا جواب خود اپنے ہاتھ سے ہر دوست کو تحریر فرماتے.اور خط کو ایک ایسا ذاتی رنگ دیتے کہ قاری گہرا اثر لئے بغیر نہ رہ سکتا تھا.دوم روز کا دوست

Page 233

225 کام روز ختم کرنا ضروری سمجھتے تھے اور روزانہ ڈاک کا جواب شام کو لکھ کر فارغ ہوتے تھے.اس وجہ سے دفتری اوقات آپ کے لئے نا کافی تھے.وعدہ جات کی تحریک کے دنوں میں میں نے آپ کو دفتر سے رات کے نو دس بجے سے قبل گھر جاتے ہوئے شاذ ہی دیکھا تھا.سب سے آخر میں وعدوں کی مکمل رپورٹ اور دن بھر کے کام کا خلاصہ ۹ - ۱۰ بجے رات کے قریب حضرت اقدس کے حضور بھجواتے اور کچھ دیر تک انتظار فرماتے کہ حضور کی طرف سے رپورٹ کے ملاحظہ کے بعد کوئی استفسار نہ آجائے.اس کے بعد گھر تشریف لے جاتے.با وجود تعلیم کی کمی کے آپ کو اخبار کے لئے نوٹ لکھنے کا خاص ملکہ حاصل ہو گیا تھا اور آپ کا اسلوب تحریر ایک منفر درنگ اختیار کر گیا تھا جو بعد میں کسی سے نقل نہ ہو سکا.آپ کے نوٹ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ با وجود اپنی سادگی کے وہ کس قدر گہرے اثر کے حامل ہوتے تھے اور چندہ تھا کہ اس کے نتیجے میں انڈا چلا آتا تھا.چندہ جمع کرنے میں آپ کو ایک خاص مہارت تھی.دو چار لاکھ روپیہ کی تحریک کے لئے جمع کرنا آپ بہت معمولی بات سمجھتے تھے.ریٹائرمنٹ کے بعد بقایا جات کی وصولی کا کام آپ کے سپر د کیا گیا.جن دوستوں کو چندہ جمع کرنے کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ بقایا جات بالخصوص طوعی چندوں کے بقائے وصول کرنا خاصہ مشکل کام ہے لیکن اس میں بھی مکرم چوہدری صاحب کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی اور آپ نے اس مد میں ایک کثیر رقم جمع کر کے تحریک جدید کو دی.ریٹائر منٹ کے بعد مرحوم کی تمام تر توجہ پانچ ہزاری فوج کے ۱۹ سالہ حساب کی تدوین و ترتیب اور بصورت کتاب طباعت کی طرف رہی.چنانچہ آپ کی مرتبہ یہ کتاب مخلصین کے ہاتھوں پہنچ کر خراج تحسین حاصل کر چکی ہے.۱۹۴۷ء کے قیامت خیز ہنگامے میں ہجرت کے وقت خدا کے اس مخلص بندے کو اگر فکر تھا تو صرف اس بات کا کہ مخلصین جماعت کے چندوں کے حساب کا ریکارڈ کسی طرح پاکستان محفوظ پہونچ جائے.چنانچہ اس غرض کے لئے متعدد بار فرمایا کہ اگر پیدل قافلہ جانے کی صورت ہو تو ایک ایک کھانہ ایک ایک کارکن کے سپرد کر دیا جائے تقسیم ( ملک) کے بعد جو دھامل بلڈنگ کے اسی کمرہ میں جو دفتر کے لئے الاٹ ہوا فروکش ہوئے.ان کے ساتھ رہنے والوں کا بیان ہے کہ رات جب کبھی ان کی آنکھ کھلتی تو وہ اکثر مرحوم کو چندہ جات کا کھاتہ لئے ہوئے کام کرتے ہوئے پاتے.غرضیکہ محترم چوہدری صاحب کی زندگی کام.کام.کام پر مشتمل تھی اور اسی دھن میں آپ نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور ایسے مخلص اور بے لوث کارکنان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوتا جارہا ہے وہ اپنے فضل سے پورا فرمائے (23)

Page 234

226 چوہدری برکت علی خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ از محترم جناب ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب) چوہدری برکت علی صاحب رضی اللہ عنہ وفات پاگئے.ہم اپنے رب کی رضا کے ساتھ راضی ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.بعض موتیں زندگی کے مترادف ہوتیں ہیں جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ کا تَقُولُو لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ - (24) یعنی اے ایمان والو تم ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں مارے گئے مردہ مت کہو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مرنے والا نیک نمونہ چھوڑ جاتا ہے اور اپنے ایمان کی شہادت پیش کر جاتا ہے تو وہ بھلایا نہیں جاسکتا وہ زندہ نظر آتا ہے پھر ایسے لوگ اپنی روحانیت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور جب ان کے نمونہ پر چلنے والے لوگ ان کی روحانیت سے فائدہ اٹھا کر روحانی آدمی بن جاتے ہیں تو مرنے والوں کا نمونہ نئے روحانی لوگوں کے ذریعے زندہ رہتا ہے پس ایسے لوگوں کو مردہ نہیں کہا جاسکتا.میرے نزدیک چوہدری صاحب ایسے ہی بزرگوں میں سے تھے.مجھے چوہدری صاحب مرحوم کو دیکھنے کا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے وقت میں موقعہ ملا جب ۱۹۱۸ء میں میں ہجرت کر کے قادیان آ گیا.پھر تو بار بار دیکھنے کا موقع ملتا رہا.میں نے ہمیشہ ہی آنمرحوم کو انہماک کے ساتھ دین کا کام کرتے پایا.وہ اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے میں خوب حظ اٹھاتے تھے.جس کی مثال اس منظر سے دی جاسکتی ہے جب چیونٹیاں کسی میٹھی چیز پر جمع ہوتی نظر آئیں.ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ جان جائے پر یہ چیز ہاتھ سے نہ جائے.یہی حال ان کا تھا جو کام ان کے سپر د ہو وہ دن رات اس میں منہمک ہو جاتے.میں نے ان کو کبھی بھی لغویات میں حصہ لیتے نہ دیکھا.وہ سلسلہ کے کام کو ہی اپنا بہشت سمجھتے تھے.یہی وجہ ہے کہ جب ان کو تحریک جدید میں لگایا گیا تو ایک بہادر سپاہی کی طرح موت فوت کے خوف سے بے نیاز ہو کر اپنے جو ہر دکھلاتے رہے اور بتلا دیا کہ سلسلہ کے بچے وفادار خادم اس طرح کے ہوا کرتے ہیں.تبھی تو جو ہر شناس جو ہری نے ان کو تحریک جدید کی دولت بنا کر تحریک میں رکھ دیا.کہتے ہیں دولت دولت کو کھینچتی ہے.سو چوہدری صاحب مرحوم نے تحریک کے لئے دولت کو خوب کھینچا.می دولت اب ہم سے واپس لے لی گئی ہے لیکن اس حال میں کہ کئی دولت گر اپنے پیچھے چھوڑ گئی.اللہ ان سے راضی ہو اور اپنی کنار عاطفت میں ان کو لے لے اور اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کی بھی پردہ پوشی فرمائے اور ہم پیچھے رہنے والوں کو ان کے نیک نمونوں پر عمل کرتے ہوئے انہیں زندہ رکھنے کی توفیق دے اور ہم محض قرار دادیں پاس کرنے والے نہ رہ جائیں (25)

Page 235

چوہدری برکت علی برکت علی خاں مرحوم 227 رقم فرمودہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی ) جیسا کہ احباب کو الفضل سے علم ہو چکا ہے چوہدری برکت علی خاں صاحب سابق وکیل المال وفات پاگئے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - چوہدری صاحب مرحوم جو غالبا گڑھ شنکر ( ضلع ہوشیار پور ) کے رہنے والے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.اولاً انہوں نے قادیان میں آ کر کچھ عرصہ اخبار الحکم میں کام کیا اور پھر صدرانجمن احمدیہ کے عملہ میں شامل ہو کر ہمیشہ کے لئے نوکر شاہی بن گئے اور اس خدائی نوکری کو انہوں نے زائد از پچاس سال اس اخلاص اور جان نثاری اور وفاداری اور محبت سے نبھایا جو ہر احمدی کے لئے قابل رشک ہے میں نے ایسے بے ریا اور جانفشانی سے کام کرنے والے بہت کم لوگ دیکھے ہیں.مجھے امید ہے کہ خدا انہیں اس پاک گروہ میں داخل فرمائے گا جن کے متعلق وہ فرماتا ہے مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَه، (26) وہ انتہائی عمر تک جب کہ وہ قریباً ۸۰ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے اس والہانہ جذبہ کے ساتھ کام کرتے تھے کہ دل سے دعا نکلتی ہے.ان کا آخری کارنامہ پانچ ہزار مجاہدین تحریک جدید کی کتاب کی تیاری اور اشاعت تھی.ابھی چار پانچ دن کی بات ہے جب کہ وہ بے حد کمزور ہو چکے تھے اور ان کے آخری سانس تھے.انہوں نے میاں عزیز احمد صاحب ایم اے ناظر اعلیٰ کی زبانی مجھے یہ پیغام بھجوایا کہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی وفات سے جو خلا تبلیغ کے میدان میں پیدا ہوا ہے اسے جس طرح بھی ممکن ہو پورا کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ سلسلہ کے تبلیغی کام میں روک نہ پیدا ہو.میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ چوہدری برکت علی خاں صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کی اولا د کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور جماعت کو ان کا بدل عنایت کرے آمین یا ارحم الراحمین.چوہدری صاحب کو جنازہ بھی ایسا نصیب ہوا جو بہت کم لوگوں کو میسر آتا ہے کیونکہ ایک تو جمعہ تھا اور دوسرے مشاورت کی وجہ سے بیرونی مہمان بھی بڑی کثرت سے آئے ہوئے تھے.( حضور کی پسندیدگی (27) سید نا حضرت خا یہ زمانہ ہمارے لئے نہایت نازک ہے مجھ پر بیسیوں راتیں ایسی آتی ہیں کہ لیٹے لیٹے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنون ہونے لگا ہے اور میں اٹھ کر ٹہلنے لگ جاتا ہوں.غرض یہی نہیں کہ واقعات نہایت خطر ناک پیش آرہے ہیں بلکہ بعض باتیں ایسی ہیں جو ہم بیان نہیں کر سکتے.مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول یاد آتا ہے.کسی نے ان سے کہا خالد کو آپ نے کیوں معزول کر دیا.آپ نے فرمایا تم اس کی وجہ پوچھتے ہو اگر میرے دامن کو بھی پتہ لگ ضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ الہ تعالی مشاورت منعقدہ ۱۹۳۵ء میں فرماتے ہیں.

Page 236

228 جائے کہ میں نے اسے کیوں ہٹایا تو میں دامن کو پھاڑ دوں تو سلسلہ کے خلاف ایسے سامان پیدا ہور ہے ہیں کہ جو میری ذات کے سوا کسی کو معلوم نہیں اور جو کچھ میں بتاتا ہوں وہ بھی بہت بڑا ہے اور اس سے بھی نیند حرام ہو جاتی ہے اور میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی نیند حرام کر دیا کرتا ہوں...پرسوں میں یہاں سے کام کر کے گیا تورات کے ساڑھے بارہ ایک بجے تک ڈاک پڑھی اور پھر صبح سویرے سے کام شروع کر دیا تو ہمارے ذمہ اتنے کام ہیں کہ انہیں چھوڑ ہی نہیں سکتے.کل رات کو جب میں یہاں سے گیا تو جسم مضمحل تھا اور صبح کو بخار بھی تھا.معلوم نہیں اب ہے یا نہیں.گو جسم کوفت محسوس کرتا ہے مگر وقت نہیں کہ اس کا خیال رکھیں.شریعت کہتی ہے کہ اپنے جسم کا بھی خیال رکھونگر پھر بھی مصروفیت ایسی ہے کہ جسمانی تکلیف کی کوئی پروانہیں کی جاسکتی اور میرے ساتھ کام کرنے والوں کی بھی یہی حالت ہوتی ہے.چوہدری برکت علی صاحب کو مہینوں رات کے ۱۲ بجے تک تحریک جدید کا کام کرنا پڑا.اسی طرح تحریک جدید کے دفتر کے کام کرنے کا وقت ۱۲ گھنٹے مقرر ہے اس سے زیادہ ہو جائے تو ہو جائے کم نہیں کیونکہ یہ اقل مقدار ہے.اختتام کتاب ہذا (29) ،، اس بے نفس پاک گروہ صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کو ان کلمات میں خبر دی تھی جو پوری ہوئی.(۱) أَصْحَابُ الصُّفَّةِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا اَصْحَابُ الصُّفَةِ.تَرَى اَ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ يُصَلُّونَ عَلَيْكَ.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مِنَّا دِيَا يُنَادِي لِلْإِيْمَانِ (29) (۲) إِذَا عَزَمَتْ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ.وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهِ يَدُ اللهِ فَوْق أَيْدِيهِمْ - (30) (۳) اَللَّهُمَّ إِنَّ أَهْلَكْتَ هَذِهِ العِصَابَةَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا (31) گویا یہی لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کی زیر ہدایت حضرت مسیح موعود کی بنائی ہوئی کشتی نوح میں سوار ہو کر طوفان کفر وضلال میں محفوظ رہے اصحاب جن کی دعاؤں میں تضرع اور ابتہال تھا اور اگر یہ پاک گروہ مثیل اصحاب بدر دنیا سے نا پید ہو جاتا تو اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی معدوم ہو جاتی حضور کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروه پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں

Page 237

229 لعلمين نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے، (32) سابقہ اوراق میں ہم اس وحی کی تصدیق پاتے ہیں.اے رحیم و کریم اور ذو الجلال خدا تو ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما.آمین یا رب اللهم صل على محمد وال محمد و بارک وسلم انک حمید مجید و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.

Page 238

1 الجمعة: ۵ 230 حواله جات 16 الفضل ۱۹ جون ۱۹۳۴ء ص ۸ ازالہ اوہام ص ۹۷، ۹۸ - روحانی خزائن جلد ۳ ص ۱۴۹ 17 تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین ص۷۰، ۷۱ 3 خطبہ جمعہ فرموده ۱۸/ نومبر ۱۹۳۸.الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۳۸ء ص ۱۴ 18 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء ص ۲۴۴ 19 الفضل ۷ ارجون ۱۹۴۴ء ص ۴ ک۳ 4 افتتاحی تقر مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ص ۱۷ 20 تذکره ۹۱ ۵ طبع ۲۰۰۴ ، ملخص ضمیمہ حقیقۃ الوحی ص ۵۵ پیغام صلح ۱۵/ اپریل ۱۹۱۴ء 21 الفضل ۹ راپریل ۱۹۶۰ء 6 الحکم ۲۱ / اپریل ۱۹۱۴ء ص ۸، ۹ 22 الفضل ۱۰ رابریل ۱۹۶۰ء 23 الفضل ۱۲ راپریل ۱۹۶۰ء البقره: ۱۵۵ 7 قادیان گائیڈ ص ۱۰۱ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین ص۷۱،۷۰ و الفضل ۷ ارجون ۱۹۳۴ ء ص ۵ 10 الحکم ۲۱ اپریل ۱۹۱۴ء ص ۸ک ۳، الفضل ۲۰ / اپریل ۱۹۱۴ء ص ۶ اک ۳ 11 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء ص ۲۲ 24 25 26 26 27 27 28 الفضل۱۰راپریل۱۹۶۰ءص۴ الاحزاب : ۲۴ ۱۲ / اپریل ۱۹۶۰ء ص ۳ ریورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء ص ۹۱،۹۰ 12 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء ص ۱۲۵ 29 (تذکر طبع ۲۰۰۴ صفحه ۱۹۷) 13 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء ص ۲۱ 30 ( تذکر طبع 2004، صفحہ 134) 14 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ص ۱۱۴ 31 ( تذکر طبع 2004 صفحه 352) 15 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ص ۳۹ 32 اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء مجموعہ اشتہارات جلداول

Page 239

۸۴،۶۸ ۸۴،۶۰ ۱۵۹ ۱۵۹ ۱۰۹ ۶۱ 1+9 اشاریہ اصحاب احمد جلد ہفتم مرتبہ.عبدالمالک اسماء برکت علی ، چوہدری برکت علی ، شیخ برکت علی خان صاحب ۱۷۵ ١٩٩ ،۱۹۶،۱۹۵ ثناء اللہ امرتسری ؛ مولوی جسونت سنگھ جلال الدین جمال الدین چراغ دین چراغ دین شیخ چراغ دین ؛ مولوی ۲۰۷ ،۲۰۶،۲۰۵ ،۲۰۴،۲۰۳،۲۰۱،۲۰۰ ۲۱۷ ،۲۱۶،۲۱۴ ،۲۱۳،۲۱۱،۲۰۹ ،۲۰۸ ۲۲۱،۲۲۰،۲۱۹،۲۱۸ ۲۰۲ دستی بیعت تحریک جدید کی انیس سالہ کتاب کی اشاعت حضرت اقدس سے مباہلہ کے نتیجہ میں تباہ و بربادہونا 11.۷۴ ง : ۱۲۹ ۹۶ 14.۱۵۵،۱۵۱ 1+4 ۱۷۶ ΙΛΥ ۲۱۷ ۲۰۷ ١٠،٩ IAL ۳۸ ۱۷۴ ۶۸ ۸۳ 3 ½ - ۲۱۵ ۲۲۳ تا ۲۲۷ آپ کی وفات پر مضامین برہان الدین جہلمی چیر جی ۱۸۵ بسرام ۸۳ بشارت احمد ، ملک ،۴۳،۳۱،۲۸ ۱۲۷ ،۵۱ حاکم علی سپاہی حامد علی ؛ حافظ حبیب اللہ شاہ ؛ سید بشارت علی خان حسام الدین حسین شاہ بشری ۳۱ ۳۰ بشیر احمد ۱۱۸ بشیر احمد پراچہ ۱۷۴ حسین کامی حلیمہ سعدیہ حمیدہ بیگم بشیر احمد ؛ سردار ،۹۶،۷۶،۷۵،۳۸،۳۰ بشیر احمد حضرت ؛ مرزا ۱۶۰،۱۳۵ ،۱۳۰،۱۲۹ ،۱۲۸،۱۰۵ ،۸۲،۷۹،۴۱ ۱۷۵،۱۶۵،۱۳۵ ،۱۳۰، ۱۲۸ ، ۱۰۶،۹۸ ،۹۶ حمیدہ بیگم خان میرخان خدا بخش جالندھری خدا بخش؛ مرزا خداداد خان رسانیدار خورشید احمد وڈ.رز داؤدعلیہ السلام درگاه پرشاد دسوندھا سنگھ ۲۲۰،۱۹۳،۱۹۲ ۲۲۱ ۳۰ 112 ۲۷ مسجد کے لئے زمین کا عطیہ پ - ت - ث - ج - چ - ح - خ پرتاپ سنگھ پیلاطوس تھمایا؛ جنرل < • ۶۹ 9° ۸۶،۶۸ ۱۷۳۱۶۳ ۱۰ ۲۰ ۱۶۳ ۶۲۶۰ ۷۰ ۱۲۵ ۱۰۵ ١٩٩ ۲۲ 170 ۱۲۸ ۱۵۰،۱۴۹ ۱۶۳ 121 ۱۶۳ ۱۲۸ ۱۹۹ ،۱۹۸ ۴۷ ) آدم علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام ابراہیم ؛ حافظ ابوجہل ابوالعطاء جالندھری اجمل خان ، حکیم اجیت سنگھ ڈھلوں احمد دین ارشد علی ،۶۳،۶۲،۶۰،۱۵ ،۱۴ ۱۳ ۱۲ ،۱۳۵ ،۷۱۰ ،۶۶،۶۵،۶۴ اسحاق علیہ السلام اسماعیل شہید الہ دین فلاسفر الہی بخش ، حکیم اللہ دتا بنشی امام الدین ؛ قاضی امام الدین ؛ مرزا امام الدین ؛ مولوی امة الحمید بیگم امة الرحمن امية العزيز امیرحسین ؛ قاضی امیرخان انعام اللہ ؛ ڈاکٹر با وانا تک بڑھا سنگھ

Page 240

۱۰۶،۱۰۵ ،۱۶۳،۱۴۶ ۱۹۲،۱۷۹،۱۶۶ ،۱۴،۱۲،۱۱،۹ عبدالرحمن عبدالرحمن انور عبدالرحمن جالندھری ؛ ماسٹر ،۴۲،۳۸،۳۵ ،۳۳،۳۲،۳۰،۲۹،۲۰۱۷ ،۷۲،۷۱ ، ۶۷ ،۶۶ ۶۵ ۶۴ ۶۳ ۶۲۶۰ ،۹۳٬۸۷،۸۴،۸۳٬۸۲٬۸۰۰۷۸ ،۷۵ ،۱۱۸،۱۱۷،۱۰۴ ۱۰۳ ۱۰۲ ۱۰۱ ۱۰۰ ۹۷ ۱۴۰،۱۳۴،۱۳۰،۱۲۶ ،۱۲۵ ،۱۲۴ اصحاب مہدی معہود میں شامل ہونے کی خواہش ۲ گھر سے ہجرت کرنے کا ارادہ ۵ صراط مستقیم کے حصول کے لئے دعا قبولیت اسلام ۱۳۳ ۴۷ ΙΔΡ ۱۲۲ ZA ۱۵۱ ۱۵۰ ۱۷۳ ۵۰ ۱۲۰،۸۷ ،۱۳۰۷۹ ۲۲۱،۲۲۰،۱۹۰ ،۵۶ ،۴۱ ،۲۴ ۱۸۶،۱۰۲،۹۸،۷۸ سلطان احمد پیر کوئی سلطان شبوطی سندر سنگھ سومراج سورن سنگھ سید احمد سید احمد شاہ شاہنواز ، ڈاکٹر شرمیت جی لاله شریف احمد حضرت ؛ مرزا شیر علی ، مولوی صدر الدین ضیاءالدین ؛ قاضی ۱۴۷ ۱۴۸ ،۱۴۷ ، ۱۸۴،۱۷۷ ، ۱۷۶،۱۵۴ ۱۵۳ ۱۵۰، ۱۴۹ ۱۸۹،۱۸۷،۱۸۵ حضرت اقدس کی اولین زیارت آپ کے بارہ میں حضرت اقدس کے مکتوبات 1.۱۶،۱۵ خواب میں آپ کو امتحانی پرچہ دکھایا جانا ۱۹ آپ کی وفات کے بارے میں حضرت مسیح موعود آپ کے الہامات وكشوف ۱۸۶ ۷۳،۳۱ ،۲۰ ۱۳۵،۱۳۳۹۹۹۵ ،۹۴۷۴ ۴۳ اہل وعیال کے لئے وصیت آپ کے قلمی کارنامے بذریعہ تبلیغ عمر میں اضافہ پورٹ بلیئر میں ہیڈ ماسٹری ۵۱ ۱۳۱ ،۷۳ و آپ کے جوش تبلیغ کے بارہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا بیان ۱۳۶۹۸ مسجد کے لئے زمین کا وقف کرنا حضرت مسیح موعود کا آپ کے نام مکتوب تین سو تیرہ صحابہ میں شمولیت آپ کی قبولیت دعا عبدالرحمن ، ڈاکٹر عبدالرحمن قادیانی ۹۹ ۱۲۹ ۱۳۱ ۱۳۵ ZA ۲۱۷ ۱۵ عبدالرحمن لکھو کے ۱۲۲۵۰ ۱۶۲ ۲۱۱ ۲۱۶،۲۰۱،۱۹۸ ۱۵ ۱۷۵ ،۱۷۴ ۱۷۳ ۱۷۵ ۴۶،۴۵ ۱۱۶،۷۴ 19.کا الہام ظفر احمد صاحب بنشی ظفرالدین؛ قاضی ظہور الدین اکمل عالمگیر خان عبدالحق غزنوی عبدالحق ایڈووکیٹ ، مرزا عبدالحق ،منشی عبدالحمید S.E عبدالحمید ابراہیم مصری عبدالحمید ایم.اے عبدائی ، میاں ۱۰۴ ،۹۵،۹۴ ۱۶ ۱۵ ،۱۱۶،۱۱۵،۸۲،۸۰۷۹ ۱۳۵،۱۳۳۱۱۷ ۲۱۶ ۱۷۵،۱۰۲ ۲۰۱ 140 ۹۸ ۴۷ ۸۳ ۱۰۷ ،۳۹ ۱۱۸ ۱۵۲،۱۴۹ ۱۵۳ 1 ۱۶۰،۲۰ ۹۸،۴۱ ۱۷۹ ۱۴۶ 1+4 ۱۲۵ ۱۶۳ ۱۲۸ ۲۰۰ دھرم پال دیا رام دیانند ڈگلس ، کیپٹن رحمان بی بی رحمت اللہ ، شیخ رحمت اللہ؛ میاں رحیم بخش رشیدالدین ؛ خلیفہ رفیع احمد مرزا رفیق احمد ، ڈاکٹر رنجیت سنگھ روشن دین ؛ میاں روشن علی ؛ حافظ زین العابدین زین العابدین ؛ مولوی س ش ص ض.ظ سا گر چند سد لینڈ ، ڈاکٹر سراج الحق نعمانی سرورشاه ؛ مولوی سعد الله سعد اللہ حافظ سعد اللہ لدھیانوی سعید احمد بریلوی سعیدہ بیگم سکندر علی ؛ ماسٹر سلطان احمد حضرت مرزا سلطان بخش

Page 241

۸۴ 1..۱۰۲ مولوی ثناء اللہ امرتسری کو دعوت حق آپ کا سفر جہلم خطبہ الہامیہ کا پڑھنا سعد اللہ لدھیانوی کے ابتر ہونے کے بارہ میں الہام 1+4 حضرت مسیح موعود کے بغیر اسلام کا مردہ ہونا ۱۱۲ مقدمہ میں جھوٹ بولنے سے انکار 112 آپ کی دعا سے مولوی محمد علی صاحب کا طاعون سے نجات پانا 119 رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم“ کی تصنیف ۱۲۰ آپ کی دعا سے حضرت میر محمد الحق صاحب کا طاعون سے نجات پانا ۱۲۴ ہندوستان میں جمعہ کی چھٹی کے لئے آپ کی طرف ۱۴۸ ۱۳۳۸۴ ۱۵۰ ۸۶،۸۵ ۲۰۰ Σ ۶۶ ۱۱۱،۳۳،۳۱،۳۰ ۱۷۴ ۱۵۰ ۱۶ ۷۴۴۳ ۱۲۸ ۱۵۳ ۲۰۰ ۱۶۴ ۴۶ ۲۱۶ ۶۴۴۱ سے حکومت کو مموریل غلام جیلانی ہیڈ ماٹر ۴۷ ۴۸ ۱۸۵ ۴۹ ۴۷ ۱۷۵ ،۹۶ ۶۰ ۱۷۳ 170 4 ÷ ÷ ± ۴۷ ۴۷ ۹ ام عبداللہ شبوطی ۱۱۸،۶۴،۲۸ عبداللہ عبدوش ،۱۱۰،۳۸ ۲۰۴،۱۴۷ عبداللہ غزنوی ۲۰۹ ۳۱ عبداللہ الہ دین عبدالطیف ؛ ڈاکٹر عزیز احمد؛ صاحبزادہ مرزا ۲۰۶،۲۰۵،۱۷۵ ،۱۲۸ ۱۲۵ ۱۹۱ عصمت اللہ عطاء الحق عطاء الله ۷۵ عطاء اللہ شاہ بخاری 22 علاؤ الدین ۲۱۷ علاؤ الدین کیلانی شامی ۶۶۰۶۱ ۱۱۵ علاؤ الدین کیلانی شامی علاؤ الدین موحد ۱۷۵ عنایت اللہ سلیم ۲۷ لا عمران بیگم عیسی علیہ السلام عبدالرحمن مصری ؛ شیخ عبدالرحمن ، مولوی عبدالرحیم بھٹی ؛ قاضی عبدالرحیم چیمہ عبدالرحیم ؛ خلیفہ عبدالرحیم درد عبدالرحیم سرساوی عبدالرحیم ؛ شاہ عبدالرحیم عارف عبدالرحیم قادیانی عبدالرحیم مالیر کوٹلوی عبدالرحیم نیر عبدالرشید ( سوداگر چرم ) عبدالسلام اختر عبدالسلام؛ ڈاکٹر عبدالسلام ایم.اے عبدالعزیز عبدالعلی ؛ حافظ عبدالقادر عبدالکریم حیدر آبادی عبدالکریم ، مولوی عبدالکریم صاحب؛ واعظ عیدامتی ؛سید ۱۴۹ ۱۰۲ ۱۴۹ 1.2 ،۶۰،۳۱،۱۶ ۲۰۲،۲۰۱،۱۱۵،۱۰۵،۱۰۲ ۱۰۱ ۲۰۰ 01201009 ۱۲۵،۱۲۴،۱۲۳،۱۱۷ ، ۱۰۷ ،۸۲،۸۱،۶۹ غ غلام احمد غلام احمد ؛ حاجی غلام احمد ، شیخ ۱۷۵ ۳۲ ۸۷ غلام حسین احمدی تمام دستگیر ؛ مولوی غلام رسول غلام رسول و زیر آبادی غلام فاطمه غلام فرید ایم.اے غلام احمد قا دیانی ؛ مرزا ( مسیح موعود و مہدی معہود علیہ غلام قادر ؛ ہیڈ ماسٹر و سلام) ،۱۵،۱۱،۱۰،۹ غلام محمد امرتسری، حکیم غلام محمد صوفی غلام محمد بنشی غلام مصطفی ، مولوی غلام نبی خان غلام نبی ،منشی ،۷۱ ، ۶۳،۵۰،۴۸ ، ۴۵ ، ۴۴ ،۳۶،۳۳،۲۰ ۱۸۸ ۹۸ ،۱۰۳،۱۰۱ ،۹۹ ،۹۱،۸۹ ،۸۸۰۸۷،۸۵ ۲۰۵ ، ۱۱۴،۱۱۱ ، ۱۱۰،۱۰۹ ، ۱۰۸ ، ۱۰۷ ، ۱۰۵ ، ۱۰۴ ۱۴۹ ۱۴۹،۱۴۰ ،۱۳۰،۱۲۸ ،۱۲۲،۱۱۸ ،۱۱۶ ،۱۱۵ ۲۰۰ ،۱۸۴،۱۸۳،۱۷۶ ، ۱۷۱ ، ۱۷۰ ، ۱۶۲ ۱۵۷ ۴۶ ۲۲۱،۲۱۱ ،۲۰۲،۲۰۱ ،۱۹۶،۱۸۶،۱۸۵ ماسٹر عبدالرحمن صاحب کے بارہ میں آپ کے مکتوبات مولوی نذیر حسین کے ساتھ دہلی میں مباحثہ آپ کی ایک دعا ۱۵ ۳۵ ۴۳ فارووق فاطمه بی بی فرزند علی ، مولوی فق ۱۵۰،۱۴۹،۱۴۸ ،۱۱۱،۱۰۸ ۲۰۰ ۱۲ عبد المغنی ، ماسٹر عبد المغنی ؛ مولوی عبدالمنان عبدالواحد خان عبدالله (امیر اردن) عبد اللہ آتھم عبداللہ ؛ حاجی عبداللہ خان عبداللہ سنوری

Page 242

۳۹ ۷۵،۶۷ ، ۴۳ ۴۲ ۴۰ ۴۶ لا ۲۰۶ ۱۵۱،۱۰ محمد رمضان : ڈاکٹر محمد سعید ، حکیم محمد سلیم ؛ مولوی محمد شریف ؛ چوہدری محمد شریف ؛ میاں محمد شفیع محمد صاحب ، مولوی محمد صادق ، مفتی ،۹۸ ،۴۱،۵ ۱۸۹،۱۸۷ ،۱۷۰،۱۳۱ ، ۱۲۵ ، ۱۱۹ ، ۱۰۲ ۱۰۱ محمد ظفر اللہ خان؛ چوہدری ۱۶۵ ،۴۱ محمد عابد ریحان محمد عبدالسبحان KY ۸۴،۸۲ محمد عبد اللہ بوتالوی ،۱۶۲،۱۶۱،۱۶۰،۱۵۸،۱۵۵،۱۵۳،۱۴۸ ۱۷۴ ۱۷۳،۱۷۲،۱۷۱ ، ۱۶۹ ، ۱۶۸ ،۱۶۳ حضرت مسیح موعود کو خط برائے بیعت ۱۸۹،۱۸۷ ،۱۸۶،۱۸۵ ،۱۷۹،۱۷۸ ،۱۷۶،۱۷۵ ۱۵۹ آپ کی ایک مثنوی ۱۵۶ شوری ۱۹۲۳ء میں آپ کی ایک عمدہ تجویز حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے نام خط ۱۶۵ ۱۶۷ ۱۹۳ ۱۹۲ ۱۴۷ ،۹۸٬۸۳ ۱۳۴ ،۳۸،۳۷،۲۹ ۲۱۷ ،۱۷۳،۱۷۲ ۳۷،۳۱ آپ کی وفات ونماز جنازہ محمد عبد اللہ ؛ قاضی محمد عبد اللہ ، مولوی محمد علی خان صاحب؛ نواب محمد علی شاہ محمد علی ؛ مولوی ،۱۰۲،۱۰۵ ،۱۰۲،۳،۳۶ ۱۱۹ ،۱۱۸،۱۱۲،۱۰۶ ۱۷۳ 11 ۱۳۴ ۱۱۳ محمد نواز محمد یا مین ( تاجر کتب) محمد یعقوب ؛ راجہ محمد یعقوب طاہر ۱۱۲۱۰۳,۹۹,۹۰ ۷۲ ۲۱۵،۲۰۶ ،۲۰۵ ،۲۰۴ ۴۷ ۱۵۱ ۲۲۰،۱۶۵ ،۹۸،۴۱ محمد ابراہیم خلیل محمد احمد اشرف محمد احمد کٹڑک محمد اسحاق حافظ محمد اسحاق؛ میر حضرت اقدس کی دعا سے طاعون سے نجات محمد اسماعیل ، حکیم محمد اسماعیل خاں ؛ ڈاکٹر ۱۲۳ ۹۵ ،۱۹۸ ،۱۹۷ ۲۰۱ ،۱۹۹ ۳۸ ۲۱۸،۲۱۷ ۹۸ ۱۷۰،۶۱،۳۹،۱ ۱۶۱ ۱۷۵ ۱۰۶ ۲۰۷ ۴۵ ۲۰۴ ۲۹ ۳۰ محمد اسماعیل سیالکوٹی محمد اسماعیل خان کا ٹھر گڑھی محمد اسماعیل ، مولوی محمد اسماعیل ؛ میر ختم کرنے کے لئے پاک مٹی کے لئے ڈبہ بنوانا ۱۳ 17.۱۱۳ ۱۱۲ ۵۶ ۸۴ ۱۴۷ ۱۶۴ ۱۸۶،۱۶۳ ۲۹ محمد اقبال پراچہ محمد اقبال ؛ علامہ محمد امین؛ قاری محمد بدیوی؛ شیخ محمد جلال الدین بلانوی محمد چراغ محمد حسن تاج محمد حسین بٹالوی محمد حسین پھلو کے محمد حسین قریشی ، حکیم محمد حسین ، میاں محمد خان ، ڈاکٹر محمد دین محمد دین بنشی محمد رشید ؛ قاضی محمد رمضان ؛ حکیم ΛΥ ۳۳ ۱۵۰ ۱۸۴،۸۷ ۱۷۴ ۱۱۹،۱۱۸،۳۷ ،۱۶ ۹۸ ۱۱۶ ۱۲۷ ،۱۲۶،۱۱۰ ۱۰۹،۱۰۸ ،۱۰ ۱۶۲ ۹۸ ،۱۶۳،۱۴۶ ۱۹۳،۱۷۸ ۱۲۷ ۸۳ ۹۹ ۱۲۹،۱۰۷ ، ۱۰۰ فرعون فضل بی بی فضل الہی حکیم فضل حق ؛ سردار فضل دین ؛ بابو فضل الدین؛ حکیم فضل الدین ؛ مولوی فضل دین ؛ مولوی (وکیل) فضل الرحمن ، مفتی فضل شاہ ؛ سید فیض الله قاسم علی ؛ میر قدرت اللہ حافظ قطب الدین ؛ مولوی کینگ کرشن کرم بخش کرم دین کمال الدین ؛ خواجہ کمال الدین ؛ مرزا گلاب سنگھ گل محمد گوبند سنگھ ( گورد) گیڈگل ( گورنر پنجاب) لم لطیف احمد لکھاں بی بی لحرام موت لیکھو بڑی کرامت ہے مارٹن کلارک مامون خان ؛ ماسٹر 1+4 ۱۲۸ ۳۰ ۱۶۰ ۱۴ ۲۷ ۹۶ ۱۹۵ ۱۱۴،۱۱۳ ،۱۱۱،۱۰۸ ،۸۷ ،۸۵،۵۱ ۱۲۰ ۱۱۶،۱۱۵،۸۰ ۷۲ ،۸۶،۶۸،۶۷ ،۶۱۵۶،۲ محمد ( علي )

Page 243

۳۹ ۱۹ نور بخش ؛ ڈاکٹر نورخان؛ ملک نورالدین حکیم (حضرت خلیفة المسیح الاول) ۳۳ ۷۴ ZA ،۵۶،۵۰،۳۶،۳۰،۲۰،۱۶ ،۱۵،۱۲،۱۱،۱۰ ، ۱۲۷ ، ۱۲۶،۱۰۵ ، ۱۰۴ ،۱۰۳ ، ۱۰۱ ،۹۴،۷۸ ،۱۸۴،۱۸۲،۱۷۷ ، ۱۷۲ ۱۷۱ ، ۱۶۱ ۱۶۰ ۲۱۵،۱۹۰،۱۸۹،۱۸۸ ،۱۸۷ ، ۱۸۶،۱۸۵ ۴۶ ۲۱۴ ۱۲۴،۷۰،۶۸ ۴۱ حضرت مسیح موعود کا آپ کے نام مکتوب ۹ ۳۵ ۳۱،۳۰ Σ ۲۶ 1.۱۶۰،۹۸ ۲۰۰ ۶۸ ۸۶ ۱۲۵،۱۲۴ ۱۷۲ ، ۲۵ ،۲۱ ،۹ آپ کا جذبہ اطاعت اور توکل اللہ نورالدین جمونی ؛ خلیفہ نیاز نخوری ۲۰۳۱۸۴۱۲۲ 4.۷۴ ۷۳ 17.۸۲ وکٹوریہ ملکہ و.ھی ولی اللہ شاہ ؛ سید زین العابدین ہادی خان ہارون علیہ السلام هامان یکی علیہ السلام یعقوب بیگ ؛ مرزا 1 ۱۸۵ ۱۲۵ ۱۳۳۷۸ ،۶۴۴۲،۱۰ ،۹ ،۱ ۱۲۹،۱۲۸،۱۰۰ ۳۰ 1..۱۲۳ ۲۰۰ ۶ ممتاز بیگم ممتاز علی منگل سنگھ ۳۸ ۹۸،۹۳۷۸ บ محمد یوسف ؛ پیر محمد یوسف شیخ محمود احمد عرفانی محمود احمد ؛مرزا (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) منیر الحسنى السيد ، ۱۰۹ ،۱۰۶،۱۰۴۷ ، ۴۷ ، ۴۴ ، ۲۹ ، ۲۰ ،۱۶۵،۱۶۴،۱۴۰،۱۳۶،۱۳۰،۱۲۵،۱۲۴ ،۲۱۲،۲۱۰،۲۰۹ ،۲۰۷ ، ۱۷۱ ، ۱۷۰ ،۱۶۶ ۲۲۷ ،۲۱۸،۲۱۷ ،۲۱۳ منعم الحسن ؛ سید موسیٰ علیہ السلام مولا بخش ملک مهتاب بی بی ماسٹر عبدالرحمن صاحب کی نماز جناز و پڑھانا مہدی حسن ؛ میر مهر چند مہر سنگھ ۱۳۳۳۳ ۶۷ مبلغین کو طب پڑھانے کی تحریک ماسٹر عبدالرحمن صاحب کی قبولیت دعا کا ذکر مہر علی شاہ گولڑوی میا سنگھ ناصر شاہ ؛ سید ناصر نواب صاحب؛ میر نبی بخش نتھا سنگھ نذیر احمد ، ڈاکٹر نذیرحسین ؛ سید ، ۴۸ ،۴۷ ، ۴۴ ،۳۹،۳۲،۳۱ ۱۳۰،۱۲۶،۱۱۶،۹۶ ،۷۹،۵۰ ۱۰ ۷۵ ۹۸ ۱۷۵،۱۷۴ ۲۰۵ ۹۶ ۱۲۸ ۱۳۰ ۳۳ ماسٹر عبدالرحمن صاحب کے جوش تبلیغ کا ذکر ربوہ کا افتتاح چندہ خاص کی تحریک محمود اللہ شاہ ؛ سید محمدی بیگم محمود و بیگم مرجان صاحبه مریم ۸۲،۸۱ مستقیم ماسٹر عبدالرحمان صاحب کا آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنا معراج دین معین الدین خواجہ مظفر خان بیٹھان ملا وامل ؛ لاله 121 ۲۰۷ ۲۰۴ ۱۲۰،۸۷ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ( حرم حضرت مسیح موعود علیه یعقوب علی صاحب عرفانی السلام) نظام الدین نمرود نوح علیہ اسلام نوراحمد نوراحمد ؛ ماسٹر ۱۹۲۱۷۳،۱۷۱،۱۲۶ ،۱۰۹ ،۱۰۵ ۱۶۰ AY ۱۵۱ ۸۲ یوسف یوسف جمال الدین یوسف علی بنشی یہودا اسکر یوطی

Page 244

، ۱۰۰،۹۷ ، ۳۰،۱۶ ،۱۵ ،۱۱ ۲۱۶،۱۱۰،۱۰۹ ٢٩،٢٨ ١٦٢،١٦٠ ۱۰۷ ، ۱۰۰ الده ۲۱۷ ۱۶۲،۱۶۱ ۲۷ الده ۷۲۲۱ ۱۷۵ ،۱۷۴ ۱۵۰ الله لدمالد ولد ولد لد ۲۲۰ ۴۶ ۱۹ ۲۹ ۱۸۴ ۲۲۰،۶۴،۴۶،۳۵،۱۲،۱۰ ۴۷ ۲۴ ۲۵ 1.اله 616 جموں جنید جنڈیالہ جھنگ جے پور چاوه ( موضع ) چندی گڑھ چھنی محمد قاضی چین چنیوٹ حافظ آباد جبشه حصار خرطوم دکی دھار یوال دھرم کوٹ دہلی دیری دوا ڈلہ (موضع ) ڈھپی ڈومیلی راجپوره راولپنڈی ۱۹ الد الده ۶ بلوچستان مقامات بوتالہ جھنڈا سنگھ ،۱۷۲،۱۶۲،۱۶۱،۱۶۰ ، ۱۵۷ ،۱۵۳ ۱۵۲ ۱۵۱ ۲۸ ۲۴ ۲۷ ،۲۶ ۲۵ الله له 17 ۱۵۵،۱۵۲،۱۴۹ الدم ،۱۵۶،۶۶،۱۸،۱۷ ،۱۶ ،۱۰ ۱۶۱ ۱۶۰ ۱۵۹ ۱۵۸ ۱۰۹،۶۷ ،۲۶ الله له بور نیو بوڑھی صاحب بھارت بھامڑی بھیٹ (موضع ) بھٹیاں بھلوال بھوانی داس بھڑی شاہ رحمان بھینی بانگر ( گورداسپور ) بیری ۱۷۸،۱۷۴ ،۱۶۶ ،۷۵ ، ۷۲،۲۸ ۲۰۹،۱۰ له الله الله الله الله ۲۲۰،۲۱۹ ،۸۳٬۸۲،۸۱،۸۰۷۹ الله الله 711 ۲۰۱۱ 17.۴۲ ۱۰۶ ۱۱۸ ۲۱۶،۱۹۹ ،۳۲،۲۴ ،۹ ،۷ ،۱ ۲۸ ۱۹۳ پاکستان پٹیالہ پنجاب پورٹ بلیئر پھگواڑہ پھلو کے پھیرونی ترکی تھ غلام نبی جالندھر جرمنی جکارتہ الله الله له لدله ۴۶ ۴۵ 조금 수수 ۴۷ ۴۸ ۲۸ ۴۵ ،۴۴ ۷۲ ۳۱ ،۷۴،۷۲،۶۷ ، ۳۱،۱۲،۸ ۲۰۱،۹۷،۸۶،۸۵،۸۴ ۴۶ ،۲۸ ۲۲۰،۹۵ ،۲۹ ۱۹۳،۱۷۸،۱۶۳۱۴۶،۲۸ ۱۳۳۱۱۷ ،۸۳۷۹ ،۷۲،۴۱ ،۳۸ ۱۴۷ ،۱۱۷،۸۳ ۲۵ ،۲۴ ۲۹ ۲۴ ₹ Λ ۲۰۱ ،۶۷ ،۶۰،۳۵ ،۲۵ ،۲۳ ۲۰۴،۲۰۲،۲۰۱،۱۲۹ ، ۱۲۲ ، ۱۱۱ ،۹۷ ،۹ ۲۶ ۲۱ = ۳۹ ۲۶،۲۵ ۲۱ ابى سينيا احمد نگر اٹلی ادیس ابابا اردن اسبا تفری ارٹیریا آسٹریلیا اطالیہ افریقہ آگرہ امرتسر امریکہ انبالہ انڈونیشیا انڈیمان انگلستان اولکھ ایبٹ آباد بابا بکالا باغبانپوره باغانوالہ بٹالہ یمینی بخارا بر ما برائے بغداد

Page 245

۱۷۷ ،۱۶۹،۱۶۲ ۱۶۱ ۱۶۰ ۱۷۴ ،۱۲۹ ،۱۱۰،۶۲ ۶۱ ۶۰،۲۳ ۲۲۰،۱۹۸ ۲۵ ۱۹۸ گورداسپور گوڑ گاؤں گھوڑے واہ گوڑیانی ،۶۰،۴۳،۳۶،۲۰،۱۹۸ ،۱۱۰،۱۰۵ ،۹۷ ،۸۹ ،۸۴،۸۳،۷۳ ۷۲،۶۱ ،۱۵۲۱۵۰،۱۴۹،۱۱۶،۱۱۴ ۱۱۳ ۱۱۲ ۱۱۱ ۲۱۹،۲۰۷ ، ۱۷۵ ،۱۷۴ ۱۶۳ ۱۶۲ ۱۶۰ ۱۵ ۱۶۳،۱۳۳،۲۸،۲۱ 1 ۷۴۲۸ ۱۷۲،۲۹ ،۲۸ ۱۶۲ ۸۴ ۴۶۰۴۵ ۱۵۹ ا اله الله ۵۰،۴۶،۲۸ 14.۲۵ ،۲۴ Plat دلد V7 7 ۷۲ ۱۶۲ ۲۲۰،۲۰۵،۸۴،۸۱ ۸۳ ۸۴ ۱۵۱ ۱۵۰ 771 الله الله 17'07 ۱۳۴۲۵ ۵۰ ،۲۰۰،۱۹۹ ،۱۹۸ ،۱۹۶،۱۹۵ ۲۱۷ ،۲۰۳،۲۰۱ والدها الداله 661 قلعہ دیدارسنگھ قلعہ مہمان سنگھ کابل کا ٹھ گڑھ کالا پانی کالو وال ریحاناں کا ہلواں کپورتھلہ کرہ بھنگیاں ۲۶ ۱۹۹ ،۸۲،۷۲،۶۷ ،۴۹ ،۳۹ ،۲۸ رام پور بٹر کلاں الله الله الله له الله الله الله 0676601 ،۲۰۰،۱۹۶،۱۸۶،۱۷۸ ، ۱۷۶ ، ۱۷۵،۱۶۶ ۲۲۲،۲۱۷ ۲۱۶ V7 ۲۲۰ ۲۸ را ہوں ربوه ریتی چھلہ رہتک سپین سرگودہا سیش ،۱۶۴ ۱۶۳ ۱۶۲ ۱۶۰ ۱ ۱۸۷،۱۸۲۱۸۰،۱۷۹ ،۱۷۸ ،۱۶۵ الله ۱۰۹،۲۵ ۸۴ ۷۵،۶۷ ، ۴۰ ۲۱۶،۲۰۰،۱۹۸ ۴۸ الدلم ۷۲ ۱۶۲ ۲۸ ۶۶،۶۰،۳۱،۶ ۷۲،۳۸ ۱۵۶،۱۷ کراچی کرتار پور کریام کڑانہ کشمیر کلکتہ كولمبو کولو تارڑ کوٹ قاضی کوٹ مومن کونٹ موضع کھجالہ کینیا گڑھ شکر گوجرانوالہ ۴۶ ۲۲۰،۲۹ VVI مرسه سری گوبند پور سری لنکا سری نگر سروعہ سکندر آباد سمالی لینڈ سندھ سوات سوئٹزرلینڈ سیالکوٹ ،۲۳،۲۱،۲۰،۱۶ ،۱۲،۱۱،۱۰،۶ ،۳۵،۳۱،۳۰،۲۹ ، ۲۸ ،۲۷ ، ۲۶ ۲۵ ۲۴ ،۶۴،۶۱ ،۴۹ ،۴۲،۴۱ ،۴۰ ،۳۹ ،۳۸ ،۳۷ ،۷۹،۷۸ ،۷۴ ۷۳ ۷۲ ۷۱ ، ۶۷ ،۶۶ ،۹۷ ،۹۵ ،۹۳ ،۹۱،۹۰،۸۷ ،۸۵،۸۴،۸۰ سیلون شام شملہ قادیان

Page 246

۹۸٬۸۲،۴۷ ۲۱۶،۲۰۳۶۶ ۲۲۰،۱۷۸ ،۹۸ ،۴۵ ۲۴ ہندوستان ہوشیار پور یورپ یوپی ۱۷۸،۱۶۳،۱۴۶ ۲۵ ،۲۴ ۱۳ ۴۷ ھی ہالینڈ ہر چووال (ضلع گورداسپور ) ہردوار ہرا ۱۷۴ ۲۶ ۲۹ 122 وا بگه وڈالہ گرنتھیاں وڈیوالی وزیر آباد

Page 246