Ashab-eAhmad Vol 6

Ashab-eAhmad Vol 6

اصحاب احمد (جلد 6)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

حضرت مصلح موعود  ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ میں فرمایا : ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : <span class="quranic">اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ</span>۔ عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کامعاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے<span class="quranic"> اُذْکُرُوْا مَوْتیٰ بِالْخَیْرِ</span> نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے<span class="quranic"> مَوْتَاکُمْ</span> کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنی ہیں کہ آپؐ نے یہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں محترم ملک صلاح الدین صاحب نے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات شائع کئے جاتے تھے۔ رسالہ کانام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے تجویز فرمایا تھا۔ بعد ازاں بزرگانِ سلسلہ کی تجویز پر ان سوانح کو مفصل اور کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے جلسہ سالانہ میں آپ کی اس خدمت کاذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بعض ضروری نصائح فرماکر احباب جماعت کوصحابہ کرام کے حالات زندگی اور تاریخ کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ درجنوں صحابہ کے ابتدائی تعارف پر مشتمل زیر نظر یہ مجموعہ 12 جلدوں پر محیط ہے جو دیدہ زیب ٹائپ شدہ ہیں اور قریبا اڑھائی  ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مفید سلسلہ  کتب میں معزز مرحومین کی تصاویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری نقشے اور وضاحتی خاکے بھی بناکر شامل کئے گئے ہیں۔ صحابہ کی خود نوشت تحریرات یا مطبوعہ مواد پر مصنف کتاب کے شامل  کردہ حوالہ جات اور ضروری وضاحتی حواشی نے کتاب کی افادیت کو اور بڑھا دیا ہے اور بلاشبہ یہ صرف صحابہ کے حالات زندگی ہی نہیں بلکہ جماعت احمد یہ کی تاریخ کا اہم ذخیر ہ ہے اور مصنف کی طرف سے جماعت کی ابتدائی تاریخ کا قیمتی خزانہ محفوظ کرنے کی ایک نہایت ہی قابل قدر سعی ہے۔


Book Content

Page 1

ومبشرا وط رَابِرَسُولٍ يَّاتِى مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ، أَحْمَدُ (الصَّف) اصحاب احمد جلد مؤلفہ صلاح الدین ملک ایم.اے

Page 2

فہرست عناوین اصحاب احمد جلد ششم نمبر شمار -1 3 عرض حال نمبر شمار عناوین 18- عبدالحق غزنوی سے مباحثہ قاضی ضیاء الدین صاحب 19- دلیرانه تبلیغ 5 5 6 32 37 20 - رساله ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) کا اجراء 39 21- قادیان میں ہجرت اور ذریعہ معاش 22 اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق 47 ولادت 2 حلیہ 3 - والد ماجد -4 اولین زیارت حضرت اقدس اور آپ -5 کی قوت جاز بہ بیعت 6 10 23- تہجد گزاری، رقت قلب اور انکسار 24 نذرانہ اور چندہ اہلیہ کی وفات پر حضور کا تعزیتی مکتوب 13 25- مرض الموت اور انتقال -7 شجره رض سوانح مکرم قاضی عبد الرحیم صاحب 40 49 50 51 26- ولادت، پیشہ ۳۱۳ صحابہ میں شمار 27 حضرت اقدس اور قادیان سے محبت ، قادیان میں وجہ معاش ، ہجرت بطرف پاکستان 28- خلافت ثانیہ سے وابستگی 8- قادیان کے سفر مقدمات کے سفروں میں رفاقت 10 جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شمولیت 11- ۳۱۳ صحابہ میں آپ کا شمار 12- آپ بلند پایہ عالم تھے 13 - نشان بابت عبد اللہ آتھم 14- پیشگوئیوں کے گواہ 15 - شیخ محمد حسین بٹالوی کو خط 16- حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی کی مولوی محمد حسین کے متعلق پیشگوئی 15 16 18 18 20 21 22222 24 26 27 17- صبر واستقامت، وسعت تبلیغ اور اس کا اثر 30 29- منارة المسیح کی تکمیل 30- سلسلہ و بزرگان کی تعمیرات 31- مزید خدمات 32 انتقال پر ملال 3 4 محترمه صالح بی بی صاحبہ محترمہ امته الرحمن صاحبہ 59 59 65 75 79 72 2222 2 2 72 68 67

Page 3

2 نمبر شمار رض نمبر شمار حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب 48 قابل قدرا سوه 33 - ۳۱۳ صحابہ میں شمولیت، بیعت و زیارت 85 34- قادیان کے مدرسہ میں داخلہ 35- آپ کی اہلی زندگی 36 - خلافت ثانیہ کی اولین شوری خدمات سلسلہ 37 خدمت بسلسال لنگر خانه 38 - علاقہ ملکانہ میں تبلیغ 39 - بطور ہیڈ ماسٹر عین 40- انگلستان میں تبلیغ 41- پاک نصائح 42- الوداع 86 87 89 90 66 90 95 95 96 101 49- سلسلہ کے لٹریچر میں ذکر 50- خاندانِ قاضی پر برکات احمدیت 107 108 110 روایات 51- روایات حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب 111 52 روایات محتر مہ امۃ الرحمن صاحبه 117 53- روایات حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب 117 -54 روایات حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب 124 55- ایک شوخ پر دست بدست مواخذہ الہی 133 56- قاضی ظفر الدین صاحب اور اس کے خاندان پر غضب الہی کا نزول 57 چراغ دین جمونی کا عبرتناک انجام 43 - جناب قاضی محمد عبداللہ صاحب کی مراجعت 103 58- دوسرا ایمان افزانشان 44- کارگزاری کی ایک جھلک 45- مالی خدمات 46- خدمات شمیر 47 - قاضی کے طور پر تقرری 103 106 106 107 59- تیرانشان 60- خاتمہ الکتاب حوالہ جات 134 141 144 147 148 151

Page 4

3 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود عرض حال الحمد اللہ کہ اس جلد میں احباب کرام کی خدمت میں ایک جلیل القدر صحابی حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب اور آپ کے دوفرزندان اور ایک صاحبزادی اور ایک بہو کے تفصیلی سوانح پیش کرنے کی توفیق پارہا ہوں.ضمناً ۳۱۳ صحابہ میں سے قریباً پون در جن دیگر صحابہ کا ذکر بھی آتا ہے.رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین.حضرت قاضی صاحب کی عظمت کا اندازہ ذیل کے امور سے ہوتا ہے.آغاز بیعت سے چار سال قبل ۱۸۸۵ء میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستگی کا ا.موقع ملا.مارچ ۱۸۸۹ء میں بیعت کا آغاز ہونے پر چند دن کے اندر آپ نے بیعت کر لی.آپ اور آپ کے دونوں صاحبزادگان ہی نہیں بلکہ آپ کے ذریعہ بیعت کرنے والے اور متعدد اصحاب بھی ۳۱۳ صحابہ کے مقدس زمرہ میں شمار ہوئے.حضرت اقدس نے آپ کو قادیان ہجرت کر آنے کی تحریک فرمائی.حضرت اقدس کو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے آپ کے انتقال کی خبر دی.حضرت قاضی صاحب کے نبیرہ استاذی المحترم قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی صدر جماعت احمدیہ.نیروبی.مشرقی افریقہ نے میری درخواست پر مہربانی کر کے مواد مہیا فرمایا جسے ان کے بڑے بھائی مکرم قاضی بشیر احمد صاحب (احمد کمرشل کالج.راولپنڈی) نے ملاحظہ فرمایا.اور از راہ کرم حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی ( سابق ناظر ضیافت ) ربوہ نے مطالعہ کر کے مفید اضافے فرمائے.فجزاهم الله احسن الجزاء.خاکسار نے بوقت تالیف نئی پود کی خاطر بہت سے واقعات کا پس منظر بھی بیان کر دیا ہے.قارئین کرام! جلد ہذا میں بفضلہ تعالیٰ بہت سی ایسی معلومات پائیں گے.جو قبل از میں سلسلہ کے لٹریچر میں پہلی بار شائع ہورہی ہیں.جن کا ایک حصہ حضرت قاضی صاحب و قاضی عبدالرحیم صاحب کے روز نامچوں سے حاصل ہوا ہے.ایک روز نامچہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کی بھی تصدیق ہوئی ہے.

Page 5

4 جو ایک بعد کی روایت کی بناء پر تذکرہ میں درج ہوا ہے.اور اس بارہ میں خاکسار نے ایک اور تصدیقی روایت بھی شامل کی ہے.حضرت عرفانی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے مفید وجود سے محرومی کے باعث میں کتاب ہذا میں بہت سی خامیاں پاتا ہوں.جن کی اصلاح کا کوئی سامان نہیں ہو سکا.اس لئے معذرت خواہ ہوں.احباب دعاؤں سے امداد فرما ئیں.تا اللہ تعالیٰ باحسن طریق اور محسن نیت اصحاب احمد کے کام کی سرانجام دہی کے سامان مہیا فرماتا رہے.والله المستعان و عليه توكلت و اليه أنيب مجھے دو مشکلات کا خصوصاً سامنا ہے.ایک تالیفات کے خریدار ان کی کمی.دوسرے اپنے بزرگان کے سوانح بتانے سے اکثر افراد کا تغافل.مثلاً اصحاب احمد جلد پنجم کے حصہ دوم کی تکمیل کے لئے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب سے گہرا تعلق رکھنے والوں میں سے ایک کثیر تعداد کو خطوط لکھے گئے.تا آپ کی سیرۃ کے متعلق کسی نہ کسی واقعہ سے مطلع کریں.لیکن کسی ایک نے بھی توجہ نہیں کی.اللہ تعالیٰ ان مشکلات کو رفع فرمائے.آمین.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ (امیر صوبائی سابق صوبہ پنجاب ) سرگودھا.مکرم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈوکیٹ (امیر جماعت راولپنڈی) مکرم شیخ محمد احمد صاحب شیخ محمداحمد مظہر ایڈوکیٹ (امیر جماعت لائل پور ) اخویم چوہدری محمد شریف صاحب (سابق مبلغ بلا دعر بیہ ) ربوہ.اور اخویم مولوی غلام باری صاحب سیف شاہد (پروفیسر جامعتہ المبشرین) ربوہ کا بے حد ممنون ہوں کہ ان سب نے مختلف رنگوں میں میری امداد فرمائی.فجزاهم الله تعالیٰ احسن الجزاء في الدنيا و الآخرة.آمین.قارئین کرام! کتاب کے مطالعہ میں میری کوتاہیوں کا دامن جس قدر وسیع نظر آئے آپ براہ کرم اسی قدرا اپنے عفو اور درگذر کے دامن کو وسیع کر کے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس کام کو جاری رکھنے کا سامان اپنے فضل سے مہیا فرمائے.اور ایسی کتب کی جو غرض و غایت ہے.وہ باحسن طریق پوری ہو.اور خاکسار کیلئے بھی اور ان احباب کیلئے بھی جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں اس بارہ میں امداد فرمائی ہے.یہ امراجر و ذخر کا باعث ہو.آمین یا رب العالمین.۹ جنوری ۱۹۵۹ء ملک صلاح الدین ایم.اے قادیان دارالامان

Page 6

5 ولادت : بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم قاضی ضیاء الدین صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت قاضی ضیاءالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روز نامچہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت ۱۲۵۹ھ (مطابق ۱۸۴۳ء میں قاضی کوٹ (ضلع گوجرانوالہ) میں گیارہ لڑکیوں کے بعد ہوئی تھی.آپ اکلوتے بیٹے تھے.آپ کی پیدائش سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد ماجد کو بشارت دی تھی کہ آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا جس کا نام ضیاء الدین ہوگا.آپ کی دختر محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ بیان کرتی تھیں دادا جان کو اس بشارت کے پورا ہونے کا ایسا یقین کامل تھا کہ آپ کی ولادت سے قبل ہی وہ اپنی اہلیہ کو کبھی بھی ضیاء کی والدہ کے نام سے پکارتے تھے.قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھی تصدیق کرتے ہیں.چنانچہ یہ بشارت پوری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے نہ صرف انہی کو اسم با مسمی بنایا اور دین کی ضیاء سے منور کیا بلکہ آپ کی اولاد کو بھی.آپ کو اور آپ کے دو فرزند ان کو ۳۱۳ صحابہ میں سے بنایا اور آپ کے ذریعہ آپ کے ضلع میں دین کا نور پھیلا.اور آپ کے ایک فرزند کے ذریعہ انگلستان میں.ذالك فـضـل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم - اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو ہمیشہ صراط مستقیم پر قائم اور خلافت سلسلہ عالیہ احمدیہ کے انصار میں شامل رکھے.اور ہمیں بھی اور ہماری اولادکو بھی.آمین یا رب الع حليه : لعالمین.قاضی محمد عبد اللہ صاحب آپ کا حلیہ یوں بیان کرتے ہیں.آپ کا قد درمیانہ تھا.گول چہرہ اور روشن آنکھیں تھیں.رنگ چہرہ کا سانولا تھا.کشادہ پیشانی اور سر پر پگڑی گول سی ہوتی تھی.آپ کا لباس بالکل سادہ ہوتا تھا.اکثر تہ بند ہی زیر کمر باندھتے تھے.سادہ کرتہ کے اوپر سفید چادر اور سردیوں میں گرم لوئی اوڑھ لیتے تھے.کوٹ کا استعمال ان دنوں عام طور پر کوئی نہ ہوتا تھا.ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک کوٹ تبرک کے طور پر ان کو ملا تھا.اسے استعمال کرتے تھے.پاؤں میں سادہ دیسی جوتی ہوتی تھی.آپ کے روز نامچہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کے ساتھ غالباً کسی گروپ فوٹو میں آپ کی تصویر بھی تھی.غالبا یہ وہی ہوگی جو الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۵۸ء کے سرورق پر شائع ہوئی ہے.

Page 7

6 والد ماجد : آپ کے والد ماجد قاضی غلام احمد صاحب ( ولادت ۱۲۲۱ھ وفات ۱۲۹۳ھ مطابق سمه ۱۹۳۳ گویا بعمر ۷۲ سال) ایک عالم دین بزرگ تھے.قاضی ضیاء الدین صاحب کے روز نامچہ میں مندرجہ فہرست لائبریری میں ایک پنجابی سی حرفی کا نام درج ہے جو فضائل حضرت اویس قرنی پر لکھی گئی ہے اور اس کے آگے قاضی ضیاء الدین صاحب نے لکھا ہے." مؤلف اس کے قاضی غلام احمد مرحوم متوفی سمه ۱۹۳۳ بکرمی والد راقم آثم آپ اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ میرے جسمانی باپ کا نام بھی غلام احمد تھا اور روحانی باپ کا نام بھی غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام ( بیان قاضی عبدالرحیم صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ ) نیز موصوفہ کا بیان ہے کہ قاضی غلام احمد صاحب حاجی الحرمین شریفین تھے.اور حج کے سفر میں جاتے یا آتے ہوئے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب ( خلیفہ اول) کے ساتھ اکٹھے ایک ہی جہاز میں سفر کیا تھا.بعد میں اسی تعلق کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کے جموں کے قیام کے دوران میں وہاں جا کر آپ سے ملاقات کرتے تھے.اولین زیارت حضرت اقدس اور آپ کی قوت جاذبہ : حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کو بزرگوں اور اہل اللہ کی زیارت کا بے حد شوق تھا.حضرت عرفانی صاحب لکھتے ہیں کہ قاضی صاحب نے جس نیک اور صاحب دل انسان کا ذکر سُنا.وہ اس کی صحبت سے فائدہ اٹھانا اپنا فرض سمجھتے تھے.(1) ابتداء میں مولوی غلام رسول صاحب قلعہ والوں سے ملاقات رہی.پھر ان کی وساطت سے حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی سے ملاقات شروع ہوئی.جن کی رہائش امرتسر میں تھی.امرتسر کی آمد ورفت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا علم ہو ا.چنانچہ آپ ابتداء ماہ فروری ۱۸۸۵ء میں قادیان پہنچے.اس وقت قاضی صاحب کی عمر بیالیس سال کی تھی.سلسلہ احمدیہ کے لحاظ سے یہ بہت ہی ابتدائی زمانہ تھا.براہین احمدیہ کا حصہ اول و دوم ۱۸۸۰ء حصہ سوم ۱۸۸۲ ء اور حصہ چہارم ۱۸۸۴ء میں شائع ہو چکے تھے لیکن ابھی اور کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی.قاضی صاحب کی آمد سے صرف دو سال قبل ہی مسجد مبارک کی تعمیر عمل میں آئی تھی اور ایک سال قبل ہی سیده حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے حضرت اقدس کی شادی ہوئی تھی.اور ایک سال بعد ۱۸۸۶ء میں حضور نے بمقام ہوشیار پور چلہ کیا.اور ۱۸۸۷ء میں صاحبزادہ بشیر اول کی ولادت ہوئی.قاضی صاحب حضرت

Page 8

7 مرزا بشیر الدین محموداحمد ایدہ اللہ تعالیٰ (خلیفہ ثانی) کی ولادت اور آغا ز بیعت سے چارسال قبل قادیان آئے.گویا یہ بہت ہی ابتدائی زمانہ تھا.کم و بیش دو سال قبل ہی حضرت مولانا نورالدین صاحب (خلیفہ اول) اور حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے حضرت اقدس سے مراسم پیدا ہوئے تھے.ایسے قدیم زمانہ سے آمد و رفت اور تعلق اخلاص رکھنے والے احباب کا رنگ ہی بالکل نرالا تھا.جس کا سمجھنا بھی ہمارے لئے بہت دشوار ہے.یہ ایسے تیز نظر لوگ تھے کہ طلوع آفتاب سے بہت ہی پہلے گویا صبح صادق کے وقت سے ہی آفتاب کو شناخت کر چکے تھے.یہ امران کی جبلت صحیحہ و فطرت سلیمہ اور نور ایمان پر شاہد کامل ہے.سو پہلی بار آپ فروری ۱۸۸۵ء میں حضور کی زیارت سے مشرف ہوئے.اور پانچ روزہ قیام میں حضور کی صحبت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ واپس روانہ ہونے سے قبل ے فروری ۱۸۸۵ء کو مسجد اقصیٰ (حصہ قدیم ) کے محراب کے ساتھ سامنے کی دیوار پر کالی سیاہی سے مندرجہ ذیل عبارت خوش خط کر کے تحریر کر گئے.قَالَ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَ اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ*.مصداق این آیت شریفہ فی الوقت ذات بابرکات جناب مرزا غلام احمد است سلمہ اللہ الصمد - حقیر پنج روز بخدمتش مستفیض ماند - هر روز در ایمان خود نور تازہ مشاہدہ کر د علم ایں معلوم به بصارتیکه محل متابعت شریعت حقه متحل است مفہوم - ام بیچاره معتقد ترہات صوفیه این زمان از یں دولت محروم.ذات مبارکش مصداق.حسن و خوبی و دلبری بر تو تمام صحیح بعد از لقائے تو حرام حقیر را اگر خیال پائمالئی عیال و لحاظ بیماری والدہ ضعیف یہ خود عائد حال نشد ے گا ہے فرقت ایس آستان فیض نشاں برخود گوار انکر دے..ضرورت است وگرنه خدائے میداند کہ ترک صحبت جاناں نہ اختیار من است خداوند! بطفیل اخلاص این مرد بر راقم آثم ہم نصیبہ از اخلاص خاص عنایت کن اگر در دعائے خود ناخلصم تا نظر مرزا صاحب ممدوح بریں رقیمہ انداز تا اخلاص از ذات واحد تو برائے حقیر طلب کنند * تو به 119

Page 9

8 بملا زمان سلطان که رساند این دعا را که به شکر پادشاہی زنظر مراں گدا را راقم الحروف قاضی ضیاءالدین عفی عنہ از کوٹ قاضی تحصیل وزیر آباد (ضلع گوجرانوالہ ) محرره ۷ فروری ۱۸۸۵ء اس تحریر کا ذکر حضرت عرفانی صاحب نے بھی الحکم ۳۴-۵-۷ میں کیا ہے.قاضی عبدالسلام صاحب فرماتے ہیں کہ مندرجہ بالاتحریرہ میں نے بھی مسجد اقصیٰ میں دیکھی ہوئی ہے.وہ ایک مدت تک دیوار پر محفوظ رہی.پھر سفیدی کے نیچے دب گئی.گیارہ سال کے بعد دیوار ہی سے روز نامچہ میں نقل کرتے ہوئے حضرت قاضی صاحب تحریر کرتے ہیں.نقل کتبه طاقچه مسجد جامع قادیان که راقم الحروف مسکین ضیاء الدین عفی عنہ بتاریخ ۷ فروری ۱۸۸۵ء بار اول که در آنجا رسید حسب حال خود نوشته بود و فی الحال ۱۳/ جنوری ۱۸۹۶ نقل از آن برداشته شد.و هو هذا.حضرت قاضی صاحب کے دل سے نکلی ہوئی مخلصانہ خواہش کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا چنا نچہ آپ آخر پر تحریر فرماتے ہیں: بارے الحمد للہ الحمد للہ کہ حسب رضائے نکمی ، عاجز چند بار نظر حضرت ممدوح بدمیں رقیمہء سوزناک افتاد.چنانچہ از زبان بعض احبائے بوضوح پیوستہ.وایس شمه از اخلاص که به نسبت شرائع احکام در دل خود مشاہدہ میر دو برکت ہماں تو جہات عالیه است - در مجالس متعدد فرمودند که ما اورا اکثر یاد میداریم اودوست ماست- بریں مژده گرجان نشانم رواست که این مژده آسائیش جان است الحمد لله من احسانہ : قاضی عبدالرحیم صاحب سناتے تھے کہ ایک دفعہ والد صاحب نے خوشی سے بیان کیا کہ میں وضو کر رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے خادم حضرت حافظ حامد علی صاحب نے میرے متعلق دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں.تو حضور نے میرا نام اور پتہ بتاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کو ہمارے ساتھ عشق ہے.چنانچہ قاضی صاحب اس بات پر فخر کیا کرتے اور ( تعجب سے ) کہا کرتے تھے کہ حضور کو میرے

Page 10

9 دل کی کیفیت کا کیونکر علم ہو گیا.یہ اسی عشق کا ہی نتیجہ تھا کہ حضرت قاضی صاحب نے اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ میں بڑی مشکل سے تمہیں حضرت مسیح موعود کے در پر لے آیا ہوں.اب میرے بعد اس دروازہ کو کبھی نہ چھوڑنا.چنانچہ آپ کی اولاد نے اس پر کامل طور پر عمل کیا.حضور سے قاضی صاحب اور دیگر صحابہ کو عشق پیدا ہو جانے میں حضور کی توجہ الی اللہ اور قوت قدسیہ کار فرما تھی جس نے آپ میں ایک حیرت انگیز قوت جاذ بہ بلکہ مقناطیسی طاقت پیدا کر دی تھی کہ جو قلوب اپنی جبلت میں سعادت رکھتے تھے.اس طرح آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے کہ پھر ان پر جدائی بہت ہی شاق گزرتی تھی اور مفارقت کے ایام مرغ بسمل کی طرح تڑپتے گذرتے تھے.چنانچہ حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں: ” جب حضور کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ شائع ہوئی تو دنیا میں آپ کی شہرت ہونے لگی اور باہر کے مقامات سے لوگ اس عجیب و غریب کتاب کے عجیب مصنف کی ملاقات کے لئے آنے لگے.لیکن چونکہ قادیان کا گاؤں ایک طرف واقع تھا.اس لئے ایسے زائرین کم اور کبھی کبھار ہی آتے تھے.آپ کے پاس جب کبھی کوئی آتا تو وہ اپنا مقام قادیان کے قیام کو اپنی زندگی کے بہترین مسرت والے ایام پاتا اور آپ کی مفارقت کو نا پسند کرتا.میں جب ۱۸۹۷ء میں قادیان آیا تو جامع مسجد اقصی کی دیوار پر ایک تحریر قاضی ضیاء الدین صاحب سکنہ قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ کی دیکھی.....اگر میرا حافظ غلطی نہیں کرتا تو اس پر ۱۸۸۵ء کی تاریخ درج تھی.اور اس کا مضمون یہ تھا کہ ”اگر وطن میں میری والدہ جو بوڑھی اور ضعیفہ ہیں نہ ہوتیں تو میں حضرت مرزا صاحب کی معیت سے جدا نہ ہوتا.شاعر کے الفاظ صحبت بعد از لقائے تو حرام کسی اور کی نسبت آپ پر زیادہ صحیح طور پر صادق آتے ہیں.میں نے مذکورہ بالا الفاظ یہ ظاہر کرنے کے لئے بیان کئے ہیں کہ حضرت احمد سے جن کو قریب سے واسطہ پڑتا تھا وہ آپ کی محبت سے آپ کی طرف کھنچے آتے تھے.دیوار پر اوپر کی عبارت لکھنے کے کئی سال بعد قاضی صاحب موصوف نے جو کچھ مجھ سے بیان کیا وہ بھی ذکر کر دیتا ہوں.ان کو اپنے آقا سے اس قدر عشق تھا کہ دیگر متعدد احباب کی طرح وہ ہمیشہ کے لئے اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر اپنے بچوں سمیت قادیان ہجرت کر آئے تھے تا کہ اپنے آقا کی صحبت کی مسرت سے متواتر لطف اندوز اور آپ کے بچے قادیان کی زندگی کی برکات

Page 11

10 بیعت : سے متمتع ہوسکیں.آپ نے مجھ سے کہا کہ ایک روز جب میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر تھا میں نے عرض کی کہ اے میرے آقا! میں اپنے دل میں متضاد خیالات موجزن پاتا ہوں.ایک طرف تو میں بہت اخلاص سے اس امر کا خواہاں ہوں کہ حضور کی صداقت اور روحانی انوار سے بیرونی دنیا جلد واقف ہو جائے اور تمام اقوام وعقائد کے لوگ آئیں اور اس سر چشمہ سے سیراب ہوں.جو اللہ تعالیٰ نے یہاں جاری کیا ہے.لیکن دوسری طرف اس خواہش کے عین ساتھ ہی اس خیال سے میرا دل اند و بگین ہو جاتا ہے کہ جب دوسرے لوگ بھی حضور سے واقف ہو جائیں گے اور بڑی تعداد میں یہاں آنے لگیں گے.تو اس وقت مجھے آپ کی صحبت اور قرب جس طرح میسر ہے.اس سے لطف اندوز ہونے کی مسرت سے محروم ہو جاؤں گا.ایسی صورت میں حضور دوسروں میں گھر جائیں گے.حضور والا ! مجھے اپنے پیارے آقا کی صحبت میں بیٹھنے اور ان سے گفتگو کرنے کا جو مسرت بخش شرف حاصل ہے.اس سے مجھے محرومی ہو جائے گی.ایسی متضاد خواہشات یکے بعد دیگرے میرے دل میں رونما ہوتی ہیں.قاضی صاحب نے مزید کہا کہ حضرت مسیح موعود میری بات سُن کر مسکرا دئیے.“ حضرت مولوی شیر علی صاحب کہتے ہیں کہ اس قدیمی اور بزرگ مُرید کے خطرات جلد متحقق ہونے شروع ہو گئے یعنی حضور کی مخالفت کے باوجود کثرت سے لوگ حضور کے پاس آنے لگے (2) بیعت کا آغاز ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء میں ہوا قاضی صاحب کی یہ خوش بختی تھی کہ آپ تیسری بار حضرت اقدس کی زیارت کے لئے کے چیت سمہ ۱۹۴۵ بکر می کو قادیان کے لئے روانہ ہوئے چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ بٹالہ سے خبر ملی کہ حضرت صاحب لدھیانہ ہیں.پس وہاں سے واپس لدھیانہ جا کر بیعت سے مشرف ہوا.ایک علیحدہ کوٹھڑی میں ایک ایک کو بلا کر بیعت لیتے.شائد عاجز کا نمبر ۴۰ ( چالیس ہے ناقل ) بعد تو بہ ارشاد فرمایا کہ آپ کو بہت ابتلاء پیش آئیں گے.سوالیسا ہی وقوع میں آیا.“ (روزنامچہ) * * قاضی محمد عبد اللہ صاحب کی زبانی بیان کردہ روایات درج کرتے ہوئے الحکم مورخہ 36-2-14 کی تمہید میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب قادیان سے ہوکر لدھیانہ گئے تھے اور بیعت کا نمبر چالیسواں تھا ( باقی اگلے صفحہ پر )

Page 12

11 بعد میں حضور نے ایک مکتوب میں آپ کو تحریر کیا تھا کہ ابتلاء مستقیم الاحوال بندوں کی استقامت ظاہر کرنے اور صبر کرنے والوں کو بڑے بڑے اجر بخشنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت قاضی صاحب کو اس شدیدا ابتلاء میں استقامت عطا فرمائی اور یہ ابتلاءاصطفاء کا موجب ہی بنا.حضرت اقدس تریاق القلوب میں ۷۴ ویں نشان کے طور پر تحریر فرماتے ہیں: منجمله ان نشانوں کے جو پیشگوئی کے طور پر ظہور میں آئے.وہ پیشگوئی ہے جو میں نے اخویم قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوئی ضلع گوجرانوالہ کے متعلق کی تھی.اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس جگہ خود ان کے خط کی عبارت نقل کردوں.جو اس پیشگوئی کے بارے میں انہوں نے میری طرف بھیجا ہے اور وہ یہ ہے.مجھے یقینی یاد ہے کہ حضور علیہ السلام نے بماہ مارچ ۱۸۸۸ء * جب کہ اس عاجز نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی تو ایک لمبی دعا کے بعد اسی وقت آپ نے فرمایا تھا کہ قاضی صاحب آپ کو ایک سخت ابتلاء پیش آنے والا ہے.چنانچہ اس پیشگوئی کے بعد اس عاجز نے کئی اپنے عزیز دوستوں کو اس سے اطلاع بھی دیدی کہ حضور نے میری نسبت اور میرے حق میں ایک ابتلائی حالت کی خبر دی تھی.اب اس کے بعد جس طرح پر وہ پیشگوئی پوری ہوئی وہ وقوعہ بعینہ عرض کرتا ہوں کہ میں حضرت اقدس سے روانہ ہو کر بھی راستہ میں ہی تھا کہ مجھے خبر ملی کہ میری اہلیہ بعارضہ درد گردہ و قولنج و قے مفرط سخت بیمار ہے.جب میں گھر پہنچا اور دیکھا تو واقعی میں ایک نازک حالت طاری تھی اور عجیب تر یہ کہ شروع بیماری وہی رات تھی جس کی شام کو حضور نے اس ابتلاء سے اطلاع دی تھی.شدت درد کا یہ حال تھا کہ جان ہر دم ڈوبتی جاتی تھی.اور بے تابی ایسی تھی کہ باوجود کثیر الحیاء ہونے کے مارے درد کے بے اختیار ان کی چیخیں نکلتی تھیں اور گلی کوچے تک آواز پہنچتی تھی اور ایسی نازک اور درد بقیه حاشیه : معلوم ہوتا ہے کہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر نے یہ دونوں باتیں قاضی صاحب کی تقریر ہی سے اخذ کی ہیں.روز نامچہ سے ظاہر ہے وہ بٹالہ سے لدھیانہ چلے گئے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ تقر بر قلم بند کرنے والے نے قاضی صاحب سے نظر ثانی نہیں کروائی.اس لئے اس بارہ میں سہو ہو گیا.ورنہ قاضی صاحب کے بیان کا ماخذ روز نامچہ ہی سے ہوسکتا ہے جو یقینی اور تحریری ماخذ ہے.(مؤلف) * ۱۸۸۸ء میں سہو کا تب معلوم ہوتا ہے آغا ز بیعت کا سال ۱۸۸۹ء ہے.(مؤلف)

Page 13

12 ناک حالت تھی کہ اجنبی لوگوں کو بھی وہ حالت دیکھ کر رحم آتا تھا.شدت مرض تخمینا تین ماہ تک رہی.اس قدر مدت میں کھانے کا نام تک نہ تھا.صرف پانی پیتیں اور قے کر دیتیں.دن رات میں پچاس ساٹھ دفعہ متواتر قے ہوتی.پھر در دقدرے کم ہوا.مگر نادان طبیبوں کے بار بار فصد لینے سے ہزال مفرط کی مرض مستقل طور پر دامن گیر ہوگئی.ہر وقت جان بلب رہتیں.دس گیارہ دفعہ تو مرنے تک پہنچ کر بچوں اور عزیز اقرباء کو پورے طور پر الوداعی غم والم سے رلایا.غرض گیارہ مہینے تک طرح طرح کے دکھوں کی تختہ مشق رہ کر آخر کشادہ پیشانی بیہوش تمام کلمہ شریف پڑھ کر ۲۸ برس کی عمر میں سفر جاودانی اختیار کیا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا الَيْهِ رَاجِعُونَ ط اور اس حادثہ جانکاہ کے درمیان ایک شیر خوار بچہ رحمت اللہ نام بھی دودھ نہ ملنے کے سبب سے بھوکا پیاسا را ہی ملک بقا ہوا.بھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ عاجز کے دو بڑے بیٹے عبدالرحیم وفیض رحیم تپ محرقہ سے صاحب فراش ہوئے.فیض رحیم کو تو ابھی گیارہ دن پورے نہ ہونے پائے کہ اس کا پیالہ عمر کا پورا ہو گیا اور سات سالہ عمر میں ہی داعی اجل کو لبیک کہہ کر جلدی سے اپنی پیاری ماں کو جا ملا.اور عبدالرحیم تپ محرقہ اور سرسام سے برابر دو ڈھائی مہینے بے ہوش میت کی طرح پڑا رہا.سب طبیب لا علاج سمجھ چکے.کوئی نہ کہتا کہ یہ بچے گا لیکن چونکہ زندگی کے دن باقی تھے.بوڑھے باپ کی مضطربانہ دعا ئیں خدا نے سن لیں اور محض اس کے فضل سے صحیح سلامت بیچ نکلا.اگر چہ پٹھوں میں کمزوری اور زبان میں لکنت ابھی باقی ہے.وو یہ حوادث جانکاہ تو ایک طرف ادھر مخالفوں نے اور بھی شور مچا دیا تھا.آبرو ریزی اور طرح طرح کے مالی نقصانوں کی کوششوں میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا.غریب خانہ میں نقب زنی کا معاملہ بھی ہوا.اب تمام مصیبتوں میں یکجائی طور پر غور کرنے سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ عاجز راقم کس قدر بلیہ ء دل دوز سینہ سوز میں مبتلا رہا.اور سب اُنھی آفات ومصائب کا ظہور ہوا.جس کی حضور نے پہلے سے ہی مجمل طور پر خبر کر دی تھی.اسی اثناء میں حضرت مسیح موعود نے از راہ نوازش تعزیت کے طور پر ایک تسلی دہندہ چٹھی بھیجی.وہ بھی ایک پیشگوئی پر مشتمل تھی.جو پوری ہوئی اور ہورہی ہے لکھا تھا کہ واقعی میں آپ کو سخت ابتلا ء پیش آیا.یہ سنت اللہ ہے تا کہ وہ اپنے مستقیم الحال بندوں کی استقامت لوگوں پر ظاہر کرے.اور تا کہ

Page 14

13 صبر کرنے سے بڑے بڑے اجر بخشے.خدا تعالیٰ ان تمام مصیبتوں سے مخلصی عنایت کر دے گا.دشمن ذلیل و خوار ہوں گے.جیسا کہ صحابہ کے زمانہ میں ہوا.کہ خدا تعالیٰ نے ان کی ڈوبتی کشتی کو تھام لیا.ایسا ہی اس جگہ ہوگا.ان کی بددعائیں آخر ان ہی پر پڑیں گی.‘سو بارے الحمد اللہ کہ حضور کی دعا سے ایسا ہی ہوا.عاجز ہر حال استقامت وصبر میں بڑھتا گیا.با وجود بشریت اگر کبھی مداہنہ کے طور پر مخالفوں کی طرف سے صلح صفائی کا پیغام آیا تو بدیں خیال کہ پھر یہ انبیاء کی مصیبتوں سے حصہ کہاں.دل میں ایسی صلح کرنے سے ایک قبض سی وارد ہو جاتی.اور میں نے بچشم خود مخالفوں کی یہ حالت دیکھی اور دیکھ رہا ہوں کہ ان کی وہ خشک وہابیت بھی رخصت ہو چکی.کتاب وسنت سے تمسک کی کوئی پرواہ نہیں.اور دنیا بھی شب و روز ہاتھوں سے جارہی ہے.جس کے گھمنڈ سے غرباء کو تکلیفیں دی تھیں.غرض دنیا دین دونوں کھو رہے ہیں.خوار و شرمندہ ہیں.حضور کی وہ پیشگوئی جو ان کے ایڈووکیٹ کے حق میں فرمائی تھی کہ اِنّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَاهَانَتَگ.مناسبت کے لحاظ سے حسب قسمت سب برابر اس سے حصہ لے رہے ہیں.جیسا کہ تمام ہمعصر گواہ ہیں.راقم مسکین ضیاءالدین عفی عنہ قاضی کوئی ضلع گوجرانوالہ (3) اہلیہ محترمہ کی وفات پر حضور کا تعزیتی مکتوب: آپ کی زوجہ محترمہ کا نام امتہ الکریم تھا.وہ نو جوانی میں ۲۸ برس کی عمر میں (بمطابق بیان قاضی محمد عبد الله صاحب ۲۲ فروری ۱۸۹۰ء کو جب کہ قاضی صاحب مصرف سوا تین سال کے تھے ) اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف انتقال کر گئیں.قاضی صاحب روز نامچہ میں تحریر کرتے ہیں: نقل خط جناب مرزا صاحب غلام احمد جی مجدد وقت رئیس قادیان سلمه ر به آنچه در جواب عریضہ نیاز ایں احقر کہ بعد وفات اہلیہ خود عرض داشته بودم در پوست کارڈے مشرف فرمودند وهو هذا.

Page 15

14 مشفقی مکر می اخویم بسم الله الرحمن الرحيم.و نصلی علی رسوله الكريم.نحمده و نصلی * السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر بدریافت حادثہ واقعہ وفات اہلیہ مغفورہ مرحومہ آئمکرم سخت اندوه و حزن ہوا.” إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ “.مومنوں کے لئے یہ دنیا دار الابتلاء ہے.خاص کر ان مومنوں کے لئے جو خلوص اور اتحاد زیادہ پیدا کر لیتے ہیں.حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے.اس کو قضاء و قدر کی مصیبتوں کیلئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت رکھے اُس پر اس قدر مصیبتیں نازل ہوتی ہیں کہ جیسے پہاڑ کے اوپر سے نیچے جلد تر پتھر آتا ہے.سو آپ اللہ محبت و اخلاص رکھتے ہیں.ضرور تھا کہ آزمائے جاتے.سخت تر مصیبت یہ ہے کہ اس مرحومہ کے خورد سال بچے اپنی والدہ مہربان کا منہ دیکھنے سے محروم رہ گئے.خدا تعالیٰ ان کے دلوں کو غیب سے تسلی اور خوشی بخشے اور آپ کو نعم البدل عطا کرے.میرے نزدیک تلاش نکاح ثانی کی ضروری ہے.یہی سنت ہے.آپ کی عمر کچھ بڑی نہیں ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام.( غیر مطبوعہ ) ۲۳ مارچ ۱۸۹۰ء ** قاضی صاحب کے مرحومہ کے بطن سے تین بچے صحابی جن کا اس تذکرہ میں الگ الگ تفصیلی ذکر کیا گیا ہے.آپ نے ۱۵مئی ۱۸۹۱ء کو پھر نکاح کیا.لیکن تھوڑے عرصہ کے بعد اس زوجہ کو طلاق دینی پڑی.ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.* ( نقل مطابق روز نامچه ) ** یہ خط خاکسار پہلی بار شائع کر رہا ہے.الحکم 14/2/36 میں ” خط کا متن نہیں صرف اس کی تاریخ کا ذکر ہے.وہاں قاضی محمد عبداللہ صاحب کی تقریر ذکر حبیب شائع ہوئی ہے.وہاں سہوا تاریخ مکتوب 23 مارچ 1889ء تحریر ہے.حضرت قاضی صاحب نے 23 مارچ 1889ء کو آغاز بیعت کے روز بیعت کی.اس کے گیارہ ماہ بعد ان کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوا.جس پر حضوڑ نے تعزیتی مکتوب ارسال فرمایا.چنانچہ حضرت قاضی صاحب کے روزنامچہ میں یہ مکتوب نقل ہے اور وہاں تاریخ 23 مارچ 1890ء د۶۵ رج ہے.اور یہی روز نامچہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب کی اطلاع کا ماخذ ہے.(مؤلف)

Page 16

15 آمنہ بیگم زوجه قاضی نظیر حسین) ( زوجه نشی محمد دین) قاضی غلام احمد صاحب قاضی ضیاء الدین صاحب (صحابی) امته الرحمن ( صحابیہ ) قاضی عبدالرحیم (صحابی) مبارکہ بیگم فیض احمد بھٹی زوجہ قاضی عبد السلام قاضی محمد عبد الله ( صحابی ) امتہ الوہاب (زوجہ عبد اللطیف خان ولد محمد یحیی خان ) امتہ الحفیظ معظمی عبدالهادی خان امتہ النصير انیس احمد خان قاضی منصور احمد داد امته العزيز زوجہ چوہدری غلام محمد صاحب کھوکھر ایم اے مقصود احمد راشدہ شاہدہ مہر و ر احمد منظور احمد ساجده عبدالرحمن عبد الغفور عبد السميع فضل احمد عبدالحفيظ قاضی بشیر احمد قاضی عبدالسلام قاضی مبارک احمد مود ود احمد لینی بیگم محمد احمد محمد احمد سلیم احمد نعیمہ سلیمہ امته الرشید امتہ الحمید بشری صادقہ بشری ممتاز نعیم احمد مظفر احمد مبشر احمد منور احمد بشری ناصر احمد منیر احمد بشری سعیده امتہ العزیزہ مرحومہ نصیر احمد زکیہ کبیر احمد امتہ الحفیظ حمید احمد امتہ الودود امته الباسط رشید احمد ظاہر امتہ الکریم رشید احمد مودوده

Page 17

16 قادیان کے سفر : حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب نے اپنے روز نامچہ میں قادیان کے سفروں کی ایک جدول لکھی ہوئی ہے.جس کی پیشانی پر یہ سرخی مرقوم ہے.جریده یادداشت اسفار این فرسوده روزگار مسکین قاضی ضیاء الدین عفی عنہ بطرف دارالامان قادیان بغرض حصول شرف زیارت امام الزمان مربی ام جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان و مسیح موعود و مہدی معہود سلمہ الرحمن من ابتدائے ۱۵ ماگھ سمہ ۱۹۴۱ الی ما شاء الله کل تیرہ سفر آپ نے کئے ہیں اور ہر سفر کے اندراج کے سامنے یہ بھی لکھا ہے کتنے دن قیام کیا.اور آخر میں میزان دوسو پنتالیس دن قیام قادیان کے کل ایام کی درج فرمائی ہے.آپ جب بھی قادیان آتے حضور کی تازہ تصانیف خرید کر لے جاتے.جن کا مع قیمت روز نامچہ میں ذکر کرتے.ان سفروں کی تفصیل درج ذیل ہے: پہلاسفر ۱۵ ماگھ سمہ ۱۹۴۱ مطابق ابتدائے فروری ۱۸۸۵ء کو اختیار کیا گیا.پانچ دن قادیان میں قیام کیا اور جانے سے پہلے آپ نے نے فروری کو وہ عبارت مسجد اقصے کی دیوار پرلکھی جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے.دوسراسفر ۵/ پھاگن سمہ ۱۹۴۴ تا۱۹؎ پھا گن.تیسر اسفراز چیست سمه ۱۹۴۵ مطابق مارچ ۱۸۸۹ء اور ۱۹ / چیت کو واپس آئے.اس سفر میں لدھیانہ میں بیعت کی تفصیل بیعت کے ذکر میں درج ہوئی ہے.چوتھا سفر ۲۵/ ما گھر سمہ ۱۹۴۸ تا ۵ پھاگن.ان بارہ ایام میں سے دس یوم حضور کی خدمت میں حاضر رہے.لکھتے ہیں.لاہور ملاقات میسر آئی پھر ساتھ ہی سیالکوٹ گیا“ پانچواں سفر ۲ / پوه سمه ۱۹۴۹ تا ۲۷/ پوه چھٹا سفر ۲۶ ساون سمه ۱۹۵۱ تا ۲۹ بھادوں ان ۳۵ دنوں میں سے ۳۰ دن آپ حضور کی خدمت میں حاضر ر ہے.ساتواں سفر، امگھر سمہ۱۹۵۲ تا۲ ماگھ.ان اکاون ایام میں سے ۳۸ یوم حضور کی خدمت میں حاضر رہے.آٹھواں سفر ۱۲.پوہ سمہ ۱۹۵۳ تا ۲۰ما گھ ۳۹ یوم میں سے ۲۶ یوم حضور کی خدمت میں حاضر رہے.

Page 18

17 و.ا.۱۲.۱۳.نواں سفر ۹ پوہ سمہ ۱۹۵۴ تا ۱۵ ماگھ ۳۶ یوم میں سے ۳۰ یوم حضور کی خدمت میں رہے.دسواں سفر ۱۳ پوہ سمہ ۱۹۵۵ تا ۲۱ ماگھ.۳۸ دنوں میں سے ۳۴ دن حضور کے پاس رہے.گیارھواں سفر ۱۵ کتک سمہ ۱۹۵۶ تا ۲۸ مگھر.مرقوم ہے کہ ۴۴ دن میں سے ۳۹ یوم حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی کی خدمت میں بسر ہوئے.فالحمد للہ علی ذالک اور حضور علیہ السلام کی خدمت میں سات روپے ہدیہ پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.بارھواں سفر ۱۴ چیت سمه ۱۹۵۶ مارچ ۱۹۰۰ ء تا ۷ بیساکھ سمہ ۱۹۵۷-۲۴ دنوں میں سے سترہ دن حضور کی صحبت سے مشرف ہوئے.( قاضی محمد عبداللہ صاحب کے حالات میں اس سفر کا قدرے تفصیلی ذکر کیا گیا ہے) تیرھواں سفر ۲۱.سوج سمہ ۱۹۵۷ تا ۱۵.کا تک.۲۵ دنوں میں سے اکیس دن حضور کی خدمت میں حاضر ر ہے.اس سفر کے متن میں لکھتے ہیں : زیادہ محرک و باعث سفر عزیز محمد عالم قاضی کیلئے دعا کروانا تھی.اور نیز عبداللہ کو ملنا.اور دراصل باعث جملہ فیض صحبت سے مستفیض ہونا تھا.دیگر ہمہ بہانہء ملاقات تھے.اس 66 دفعہ حضرت نے تاکیداً فرمایا کہ یہاں چلے آؤ.اور عاجز نے بھی منظور کیا.“ خاکسار مؤلّف عرض کرتا ہے کہ جیسا کہ فہرست مبایعین مندرجہ الحکم میں مندرج ہے.قاضی محمد عالم انٹرنس پاس تھے.اور کوٹ قاضی محمد زاہد ضلع گوجرانوالہ کے باشندہ تھے.عبداللہ سے مراد قاضی محمد عبداللہ صاحب آپ کے فرزند ہیں.اس سفر کے اخراجات میں دس روپے ”بخدمت حضرت مرزا صاحب بابت چندہ منارہ پیش کرنا تحریر کیا ہوا ہے.جتنی بار بھی حضور علیہ السلام سے ملاقات کی ہے.روز نامچہ میں تفصیل خرج سفر میں ہمیشہ کچھ رقم بطور نذرانہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرنا درج کیا گیا ہے.چنانچہ ۲۴ نومبر ۱۸۹۵ء کے سفر کے متعلق لکھتے ہیں کہ گیارہ سیر پختہ مصری لاہور سے برائے نذرانہ حضرت اقدس خرید کی اور تفصیل خرچ میں لکھا ہے کہ رات کے گیارہ بجے بٹالہ پہنچے.اور مسجد بٹالہ میں آرام کیا.کرایہ ریل از لاہور تا بٹالہ پونے ۱۶ آنہ.بٹالہ سے صبح ۵ بجے چل کر ۹ بجے قادیان پہنچے.اور ” بوقت ظہر بعد ادائے نماز مشرف به زیارت شدم نذر نقد دوروپے.نور القرآن حصہ دوم کے آغاز میں حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر الوقت تمین ۳ اصحاب کے اسماء درج کئے ہیں.ان میں حضرت قاضی صاحب کا نام بھی مرقوم

Page 19

18 ہے.یہ کتاب ۲۰ دسمبر ۱۸۹۵ء کو شائع ہوئی تھی.آپ کے روز نامچہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۳ جنوری ۱۸۹۷ء کو قادیان کا جو سفر آپ نے کیا.اس میں سے پانچ دن لاہور جلسہ اعظم مذاہب میں شریک ہونے کے لئے ٹھہرے.یہ وہی جلسہ تھا جس میں حضور کا مضمون اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھا گیا تھا.یہ جلسہ ۲۶ تا ۲۹ دسمبر ۱۸۹۶ء کو منعقد ہوا تھا.اور اس میں الہام بالا رہا“ پورا ہوا تھا.اصحاب احمد عشاق احمد تھے.حضرت اقدس کی زیارت کے بغیر ماہی بے آب کی طرح تڑپتے تھے اور کثرت سے حضور کی ملاقات کے لئے آتے اور اکتساب فیض کے مواقع پاتے تھے.اللہ تعالیٰ ہم تابعین کو بھی حضرت امام جماعت ایدہ اللہ اور مرکز سے ایسا ہی عشق عطا کرے.آمین.مقدمات کے سفروں میں رفاقت : روز نامچہ کے اندراجات سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے مقدمات کے سلسلہ میں سفروں میں رفاقت کا بھی قاضی ضیاءالدین صاحب کو موقع ملتا رہا ہے.مثلاً ا.مقدمہ پر گیا ۱۹۰۱ء میں مرقوم ہے : "۱۵ / لغایت ۲۹ جنوری جہلم کے سفر میں جب کہ حضرت امام علیہ السلام کیساتھ " ۱۹۰۳ء میں درج ہے: ۱۶/ اکتوبر در گورداسپور جمعیت امام صاحب ** *** اور آگے چل کر لکھا ہے: ۱۲ لغایت ۱۸ نومبر در سفر گورداسپور بہمراہی امام علیہ السلام ** جلسه سالانه ۱۸۹۲ء میں شمولیت : ۲۷ تا ۲۹ / دسمبر ۱۸۹۲ء میں قادیان میں جلسہ سالانہ منعقد ہوا.پہلے روز حضرت مولوی نور الدین صاحب نے وفات عیسی اور نزول مسیح کے بارے میں تقریر کی اور حضرت اقدس نے علماء کی طرف سے جو تکفیر کی گئی تھی.اس کا جواب دیا اور آسمانی نشانوں سے اپنے مسیح موعود ہونے کا ثبوت دیا.اور جماعت کو باہمی محبت اور تقویٰ و طہارت کے متعلق نصیحت کی.اگلے روز ۲۸ / دسمبر کو حاضرین کی اظہار رائے کے بعد روز نامچہ میں یا وہاں سے نقل کرتے وقت سہو ہو گیا ہے.جہلم کا سفر ۱۹۰۳ء میں ہوا جیسا کہ دوسری جگہ قاضی عبدالرحیم صاحب کی ایک روایت میں تفصیل دی گئی ہے.** *** ۱۶ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو حضرت اقدس کے تشریف لے جانے کا ذکر الحکم ۱۰/۱۹۰۳/ ۱۷ص۲۳ میں ہے.۱۱ نومبر ۱۹۰۳ء کو حضرت اقدس کے گورداسپور تشریف لے جانے کا ذکر البدر ۱۶/۱۱/۳ ۱ص ۳۳۲ میں موجود ہے.

Page 20

19 یہ قرار پایا کہ اسلام کے متعلق ایک رسالہ تیار کر کے یورپ اور امریکہ ارسال کیا جائے اور قادیان میں قیام مطبع کے لئے تجاویز پیش ہونے کے بعد اعانت مطبع کے لئے چندہ کی فہرست مرتب ہوئی.یہ بھی طے ہوا کہ ایک اخبار جاری کیا جائے اور سید محمد احسن صاحب امروہی کو واعظ مقرر کیا جائے.اور وہ ہندوستان میں دورہ کریں.یہ بھی بتایا گیا کہ آئندہ بھی جلسہ سالانہ کے یہی مقاصد ہوں گے یعنی اشاعت اسلام اور ہمدردی نومسلمین امریکہ اور یورپ کے لئے تجاویز سوچنا.اور تقوی طہارت کو ترقی دینے اور اخلاق ورسوم قبیحہ کو قوم میں سے دور کرنے کی کوشش کرنا.ان اغراض کے پورا کرنے اور دیگر انتظامات کرنے کے لئے ایک کمیٹی تجویز کی گئی.جس کے صدر حضرت مولوی نورالدین صاحب قرار پائے.حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۲۸ دسمبر کو جو کارروائی تحریر کی ہے.اس میں رقم فرماتے ہیں: ایک صاحب نے صبح کو بعد نماز صبح عبداللہ صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خواب سنایا.جب کہ عبداللہ صاحب خیر دی گاؤں میں تشریف رکھتے تھے.عبداللہ صاحب نے فرمایا.ہم نے محمد حسین بٹالوی کو ایک لمبا گر تہ پہنے دیکھا اور وہ کر نہ پارہ پارہ ہو گیا.یہ بھی عبداللہ صاحب نے فرمایا تھا کہ کرتے سے مراد علم ہے.“ (4) حضرت عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں: حضرت میر ناصر نواب صاحب نے دوسرے ایک بزرگ کا ذکر کیا ہے.جنہوں نے اس جلسہ پر حضرت مولوی سید عبداللہ صاحب غزنوی کا ایک رؤیا مولوی محمد حسین صاحب کے متعلق بیان کیا تھا یہ بزرگ حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ کے ایک نہایت ہی مخلص اور حضرت اقدس کے فدائی تھے.مولوی عبداللہ غزنویؒ سے بھی انہوں نے بیعت کی ہوئی تھی.اور مولوی محمد حسین صاحب سے بھی تعلقات رکھتے تھے.اس لئے کہ خود مولوی محمد حسین صاحب بھی غزنوی کے خاص معتقدین میں سے تھے.“ (5) گذشته سال جلسہ پر صرف پچھتر افراد آئے تھے.اور اس دفعہ پانصد.جو احباب اور مخلص محض اللہ شریک جلسہ ہونے کیلئے دور دور سے تشریف لائے تھے.ان کی تعداد تقریباً سوا تین صد تھی اور ان کے اسماء آئینہ کمالات اسلام میں مرقوم ہیں.ان میں ضلع گوجر انوالہ کے صرف چھ سات افراد کے اسماء درج ہیں.جن میں سے ۱۰۴ نمبر پر

Page 21

20 قاضی ضیاءالدین صاحب کوٹ قاضی (ضلع گوجرانوالہ) ڈاکخانہ بوتالہ کا نام نامی بھی مرقوم ہے.چندہ مذکورہ بالا کے لئے بانوے افراد نے وعدہ کیا یا نقد ادائیگی کی.ان میں نمبر ۱۹ پر ” قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوئی ا ع مرقوم ہے.یعنی ایک آنہ چار پائی ماہوار گویا سالانہ ایک روپیہ چندہ قیام مطبع کے لئے ادائیگی کا آپ نے وعدہ کیا تھا.ان بانوے افراد میں سے چھبیس نے اتنی ہی مقدار کا چندہ لکھوایا ہے.اللہ تعالیٰ کی نظر تقویٰ کی روح پر ہوتی ہے وہ قادر تو ا نا خداریت کی مٹھی کو اک لشکر جرار کی شکست کا ذریعہ بنا سکتا ہے.حضرت اقدس نے ضمیمہ انجام آتھم میں جلسہ میں شمولیت کرنے والوں کی فہرست مندرجہ آئینہ کمالات اسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے والی قرار دیا ہے.پیشگوئی یہ تھی کہ ”مہدی اس گاؤں سے نکلے گا.جس کا نام کدعہ ہے.یہ نام در اصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے ) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا.اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا.جن کا شمار اہل بدر کے شمار سے برابر ہوگا.یعنی تین سو تیرہ ہوں گے.اور ان کے نام بقید مسکن و خصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے.‘ (6) حضور فرماتے ہیں: بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق وصفا رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی ء دین میں سبقت لے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضاء کی راہوں میں ثابت قدم کرے.(7) ۳۱۳ صحابہ میں آپ کا شمار : جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے.۲۷ قاضی ضیاء الدین صاحب ۳۱۳ صحابہ میں شمار ہوئے.آپ ان معدودے چند بزرگوں میں سے ہیں.جو دوسری بار بھی دوسری فہرست مندرجہ ضمیمہ انجام آتھم میں ۳۱۳ صحابہ میں شمار ہوئے.نہ صرف یہی بلکہ آپ کے دو فرزند اور آپ کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے والے دیگر گیارہ افراد بھی ان مبارک صحابہ میں شامل ہوئے.ان سب کے اسماء درج ذیل کئے جاتے ہیں : ا.قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوئی“ قاضی محمد یوسف صاحب قاضی کوٹ گوجرانوالہ قاضی فضل الدین صاحب قاضی کوٹ گوجرانوالہ نمبر ۳۵ نمبر ۱۴۲ نمبر ۱۴۳

Page 22

21 ۴.قاضی سراج الدین صاحب قاضی کوٹ گوجرانوالہ.و.ا..۱۲.نمبر ۱۴۴ " قاضی عبد الرحیم صاحب فرزند رشید قاضی ضیاء الدین صاحب کوٹ قاضی گوجرانوالہ نمبر ۱۴۵ حافظ محمد بخش مرحوم.کوٹ قاضی " قاضی چراغ الدین.کوٹ قاضی گوجرانوالہ ”میاں فضل الدین صاحب قاضی کوٹ قاضی میر محمد صاحب کوٹ کہلیاں“ ”میاں اللہ دتہ صاحب نت - گوجرانوالہ ”میاں سلطان محمد صاحب“ ” قاضی عبد اللہ صاحب کوٹ قاضی ، آپ بلند پایہ عالم تھے : * *** ** نمبر ۱۶۹ نمبر ۱۹۱ نمبر ۱۹۲ نمبر ۱۹۴ نمبر ۱۹۵ نمبر ۱۹۶ نمبر ۱ ۲۸ آپ عربی اور فارسی کے اعلیٰ پایہ کے عالم تھے.اپنے روز نامچہ میں آپ نے اپنی لائبریری کی ایک فہرست درج کی ہوئی ہے.سینکڑوں کتابیں ہیں.صحیح بخاری.شرح فقہ اکبر.فوز الکبیر فی اصول التفسیر.حجتہ اللہ البالغہ عربی (مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ) اور دیگر احادیث اور تفسیر کی مختلف کتب درج ہیں اور نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کی متعدد تصانیف کے نام ہیں.پہلے نمبر پر قرآن مجید کا ایک نسخہ کا اندراج یوں فرمایا ہے : قلمی قیمت پنجاه روپیه از تر که والد مرحوم ہمیں یک نسخه کامل الصفات است که بفقیر جانی فانی بطور وارث رسیدہ.دستخطی حافظ ا.قرآن مجید اکرم جی که بخوشخطی در ملک پنجاب مشهوراند مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتا لوئی بیان کرتے ہیں کہ قاضی صاحب کو عربی اور علوم دینیہ میں کافی مہارت تھی.اور انہوں نے زیادہ تر اپنا علم گھر میں ہی رہ کر اور مطالعہ کے ذریعہ حاصل کیا ہوا تھا.(8) ** *** رض قاضی عبدالرحیم صاحب بتاتے تھے کہ حضرت والد صاحب علم حدیث وفقہ و قرآن کریم کے بلند پایہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب ذکر کرتے ہیں کہ یہ کشمیری تھے.قاضی محمد عبد اللہ صاحب ذکر کرتے ہیں کہ نت متصل بوتالہ جھنڈا سنگھ ہے.قاضی محمد عبد اللہ صاحب ( خلف قاضی ضیاء الدین صاحب) خود مراد ہیں.مؤلف

Page 23

22 عالم تھے.اور طبیب حاذق تھے.اور خاص شہرت رکھتے تھے.درس و تدریس میں شامل ہونے کیلئے لاہور تک کے طلباء آپ کے پاس آکر رہتے تھے.اور بعض وقت ان کی تعداد چالیس تک بھی پہنچ جاتی تھی.پادریوں کے ساتھ اسلام کی تائید میں بخشیں کرتے تھے.چنانچہ ایک مشہور پادری سے جس کا نام ذہن سے اتر گیا ہے.ان کا کامیاب مناظرہ بھی ہوا تھا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی سے پہلے کی بات ہے.۱۸۹۵ء میں آپ کا مباحثہ چوٹی کے مخالف علماء سے ہوا.اور ان سے سوائے راہ فرار اختیار کرنے کے اور کچھ نہ بن پڑا.اسی طرح آپ کے روز نامچہ کے اندراجات جو فارسی میں ہیں.اس زبان پر عبور حاصل ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور مباحثہ مذکورہ سے اور اپنے فرزند قاضی محمدعبداللہ صاحب کے تسمیہ کی تفصیل سے اعلیٰ پایہ کی کتب احادیث و تفاسیر وغیرہ سے آپ کی کامل واقفیت ظاہر ہوتی ہے.جس کی تفصیل دوسری جگہ دی ہے.تریاق القلوب میں مندرجہ آپ کے خط سے آپ کا صاحب علم ہونا مترشح ہوتا ہے.اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بیان کرتی تھیں کہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر قرآن شریف ترجمہ سے حضرت قاضی صاحب سے پڑھنا شروع کیا تھا.نشان بابت عبد اللہ آتھم : دجال کا عظیم فتنہ ہزاروں شاخیں رکھنے والا شجرہ ملعونہ ہے.اس کی جڑھ بگڑی ہوئی عیسائیت ہے.مادہ فاسدہ کی طرح جو جسم انسانی کے مختلف اعضاء میں مختلف عوارض کی شکل اختیار کرتا ہے.اس نے بھی ہزار ہا روپ دھارے ہیں.اس فتنہ کو ایک غیر معمولی فتنہ سے موسوم کریں تو بھی وہ غیر معمولی صفت اس کی وسعت اور ہمہ گیری کو ظاہر کرنے سے قاصر اور نا کافی ہے.انبیاء سابقین کے ازمنہ میں روحانی فتنے ایک قوم یا ملک تک محدود ہوتے تھے.لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام اقوام عالم کی طرف مبعوث ہوئے ہیں.اس لئے مقدریوں تھا کہ مسلمانوں کے انحطاط و زوال کے زمانہ میں یہ قیامت پیکر سیلاب امڈ کر تمام روئے عالم پر محیط ہو جائے گا اور اقوام و مذاہب اس کے پیدا کردہ نظریات اور تہذیب کو یوں اپنا لیں گے کہ گویا ان میں ذرا بھر بھی مضرت کا پہلو نہیں.بلکہ شیر مادر کی طرح اسے اپنی پرورش اور نمو کے لئے ضروری اور لا بدی قرار دے لیں گے.کل تک جو آل رسول اور علماء اسلام کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے.آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر نہایت گھناؤنے اور ننگ انسانیت الزامات عائد کرنے کو باعث صد افتخار اور عین کار ثواب یقین جاننے لگے.کروڑوں انسانوں نے اس مسخ شدہ مذہب کو قبول کر لیا.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تَكَادُ السَّمْوَاتُ يَتَفَطَّرُنَ مِنْهُ وَ * سورۃ مریم - آیت ۹۱-۹۲ -

Page 24

23 تَنْشَقُ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا - اَنْ دَعَوُ الِلرَّحْمَنِ وَلَدًا.* ایسے وقت میں کہ اس دیو عین کی مہیب اور خوفناک صدائے ھل من مبارز.ھل من مبارز سے قلوب دہل رہے.اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے.اور کوئی بھی اس کا حریف بننے کی طاقت نہ پاتا تھا.اور پھر اسلام کے ستارے ماند نظر آتے تھے.اور راسخ پہاڑ دھنگی ہوئی روئی کی طرح اڑ رہے تھے.اسلام پر جب ایسا نازک وقت آچکا تھا.تو حضرت مسیح موعود جیسے بطل جلیل نے اس دعوت مبارزت کو قبول کیا.اس سے قبل براہ راست عیسائیت سے میدان مناظرہ میں نمٹنے کا موقعہ اس روح القدس کی قوت سے تائید یافتہ پہلوان کو میسر نہیں آیا تھا.کہ جسے اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص نے اس مہم کے سر کرنے کے لئے پیدا کیا تھا.چنانچه مئی و جون ۱۸۹۳ء میں بمقام امرتسر یہ تقریب بھی پیدا ہوگئی.جب کہ پندرہ دن تک حضرت اقدس کا عیسائیت کے نمائندہ ڈپٹی عبداللہ آتھم کے ساتھ مباحثہ ہوا.یہاں تفصیل کا موقعہ نہیں.اس قدر ذکر کر دینا کافی ہے کہ پیشگوئی کے مطابق عبد اللہ آتھم ۲۷ جولائی کو بمقام فیروز پور طعمہ اجل بن گیا.یہ دلائل اور نشان الہی عیسائیت پر ضرب کاری تھے.اس مباحثہ کو احمدیت کی تاریخ میں خاص الخاص اہمیت حاصل ہے.دلائل کے میدان میں بُری طرح عاجز آنے کے باعث بعد ازاں عیسائی مناظرہ سے پہلو تہی کرنے لگے.اور حضور کو گزند پہنچانے کیلئے نا جائز وسائل اختیار کرنے پر اتر آئے.مثلاً ۱۸۹۷ ء میں ڈاکٹر مارٹن کلارک نے حضوڑ کے خلاف اقدام قتل کا خطرناک لیکن سرتا پا جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ حضور کو اس کے مکائد اور منصوبوں سے محفوظ ومصئون رکھا.معلوم ہوتا ہے کہ اس تاریخی جہاد کے مشاہدہ کا موقعہ اور شرف حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کو بھی میسر آیا تھا.حضور اس نشان کا نزول المسیح میں ذکر کر کے رقم فرماتے ہیں : عبد اللہ آتھم کے متعلق جو میں نے پیشگوئی کی تھی.اس کا ثبوت اس رسالہ مباحثہ میں موجود ہے.جس کا نام جنگ مقدس ہے.اور اس سے ثابت ہے کہ یہ پیشگوئی کیوں کی گئی.یعنی آتھم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کہا تھا.اور پھر پیشگوئی کوسُن کر قریباً ستر آدمیوں کے رو برو رجوع کیا.جن میں.....قاضی ضیاء الدین صاحب..وغیرہ اس پیشگوئی کے گواہ ہیں“ طرز بیان سے ظاہر ہے کہ حضور نے ستر حاضرین میں سے ہیں احباب کے اسماء درج فرمائے ہیں جو کہ اس موقعہ پر موجود تھے.ورنہ صرف پیشگوئی کی شہادت میں اسماء درج کرنے کی کوئی ضرورت معلوم نہیں ہوتی

Page 25

24 کیونکہ یہ پیشگوئی قبل از وقوع جنگ مقدس میں درج ہو چکی تھی.جیسا کہ حضور کی عبارت سے بھی ظاہر ہے.پیشگوئیوں کے گواہ: نزول مسیح میں حضرت اقدس نے بہت سی پیشگوئیاں درج کر کے ان کے گواہوں کے اسماء بھی درج فرمائے ہیں.چنانچہ چار میں قاضی صاحب کا نام بھی درج ہے.ان احباب کا حضرت اقدس کی طرف سے بطور گواہ ذکر کیا جانا ان احباب کی عظمت پر دال اور ان کے لئے باعث افتخار واکرام ہے.پیشگوئی نمبر ۴۶ تاریخ بیان پیشگوئی ۱۸۸۰ء میں حضور فرماتے ہیں : انی مهین من اراد اهانتک یعنی میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کریگا.یہ ایک نہایت پر شوکت وحی اور پیشگوئی ہے.جس کا ظہور مختلف پیرایوں اور مختلف قوموں میں ہوتا رہا ہے.اور جس کسی نے اس سلسلہ کو ذلیل کرنے کی کوشش کی وہ خود ذلیل اور نا کام ہوا.مثلاً مولوی محمد حسین نے کپتان ڈگلس کے روبرو میرے برخلاف گواہی دی.اور میری تو ہین چاہی تو اس کو کرسی کے مانگنے پر ڈپٹی کمشنر نے سخت جھڑ کا اور ذلیل کیا.جب مخالف مولوی لوگوں نے مجھے جاہل کہا.تو خدا نے مجھے ایسی عربی فصیح بلیغ کتابیں لکھنے اور مقابلہ کے لئے سب کو پہن کرنے کی توفیق دی کہ آج تک کوئی مولوی جواب نہیں دے سکا.پیر مہر علی شاہ نے میری اہانت چاہی تو اول اعجاز اسیح کا جواب عربی میں نہ لکھنے پر وہ ذلیل ہوا.اور پھر ایک مردہ کی تحریرات اپنے نام پر بطور سرقہ شائع کر کے ذلیل ہوا.اور کیسا ذلیل ہوا کہ چوری بھی کی اور وہ بھی نجاست کی چوری.کیونکہ محمد حسن مردہ کی کل تحریر غلط تھی اور مہر علی اس کا چور تھا.اس چوری سے کیا ذلتیں اُٹھا ئیں.(۱) اول مردہ کے مال کا چور (۲) دوسرا چونکہ مال سب کھوٹا تھا.اس لئے دوسری ذلت یہ ثابت ہوئی کہ علمی رنگ میں بصیرت کی آنکھ ایک ذرہ اس کو حاصل نہیں تھی (۳) تیسری یہ ذلت کہ سیف چشتیائی میں اقرار کر چکا کہ یہ میری تصنیف ہے.بعد ازاں ثابت ہو گیا کہ جھوٹا کذاب ہے.یہ اس کی تصنیف نہیں بلکہ محمد حسن متوفی کی تحریر ہے.جو مر کر اپنی نادانی کا نمونہ چھوڑ گیا.مہر علی نے خواہ مخواہ اس کی پیشانی کا سیاہ داغ اپنے ماتھے پر لگا لیا.لگا مولوی بنے اگلی حیثیت بھی جاتی رہی.یہی پیشگوئی تھی کہ انی مهین من اراداها نتک محمد حسن مردہ نے جبھی کہ میری

Page 26

25 کتاب اعجاز مسیح کا جواب لکھنے کا ارادہ کیا.اس کو خدا نے فورا ہلاک کیا.غلام دستگیر نے اپنی کتاب فتح رحمانی کے صفہ ۲۷ میں مجھ پر بددعا کی اس کو خدا نے ہلاک کیا.مولوی محمد اسماعیل علی گڑھ نے مجھے پر بددعا کی اس کو خدا نے مار دیا محی الدین لکھو کے والا نے مجھ پر بددعا کی اس کو خدا نے مار دیا.مہر علی نے مجھ کو چور بنانا چاہا وہ خود چور بن گیا.محمد حسن بھین نے میری کتاب کا رد لکھ کر مجھے ذلیل کرنا چاہا خود ایسا ذلیل ہوا کہ خدا نے اس کی سزا صرف اس کی موت تک کافی نہ سمجھی بلکہ ہر ایک غلطی میری جو اس نے نکالی وہ ان کی خود غلطی ثابت ہوئی.بد قسمت مہر علی کو بھی ساتھ ہی لے ڈوبا.“ اس پیشگوئی کی رؤیت کے زندہ گواہوں میں سے حضرت اقدس نے سات کے اسماء درج فرمائے ہیں.جن میں حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کا نام بھی شامل ہے.(9) پیشگوئی نمبر ۴۹ تاریخ بیان پیشگوئی یکم جنوری ۱۸۸۸ء میں حضور فرماتے ہیں: مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک لڑکے کے پیدا ہونے کی بشارت دی.چنانچہ قبل ولادت بذریعہ اشتہار کے وہ پیشگوئی شائع ہوئی پھر بعد اس کے وہ لڑکا پیدا ہوا.جس کا نام بھی رؤیا کے مطابق محمود احمد رکھا گیا اور یہ پہلا لڑکا ہے جو سب سے بڑا ہے.“ پیشگوئی نمبر ۵۰ تاریخ بیان پیشگوئی ۱۰ دسمبر ۱۸۹۶۲ء میں حضرت اقدس تحریر کرتے ہیں: پھر مجھے دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کی نسبت الہام ہوا کہ جو قبل از ولادت بذریعہ اشتہار شائع کیا گیا الہام یہ تھا سیولد لک الولدویدنی منک الفضل اور وہ الہام آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۲۶۶ میں بھی درج کیا گیا تھا.اور اس کے بعد دوسرا بیٹا پیدا ہوا.جس کا نام بشیر احمد ہے.“ پیشگوئی نمبر ۵ ( تاریخ بیان پیشگوئی ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء) میں حضور رقم فرماتے ہیں: پھر تیسرے بیٹے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی انا نبشرک بغلام.اور یہ پیشگوئی رسالہ انوار الاسلام میں قبل از وقت شائع کی گئی.چنانچہ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تیسرا بیٹا عطاء فرمایا.جس کا نام شریف احمد ہے.“ ہرسہ پیشگوئیوں کی روئیت کے گواہوں میں حضرت اقدس کی طرف سے چھ کے اسماء درج ہوئے ہیں.جن میں سے ایک قاضی ضیاء الدین صاحب بھی ہیں.(10)

Page 27

شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی کو خط : 26 حضرت اقدس نے ذیل کا خط شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی کو تحریر کیا تھا.بسم الله الرحمن الرحيم بخدمت شیخ محمد حسین صاحب ابوسعید بٹالوی نحمدہ و نصلے الـحـمـد الله والسلام على عباده الذین اصطفے.اما بعد میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ میں آپ کے فتو کی تکفیر کی وجہ سے جس کا یقینی نتیجہ احد الفریقین کا کافر ہونا ہے.اس خط میں سلام مسنون یعنی السلام علیکم سے ابتداء نہیں کر سکا.لیکن چونکہ آپ کی نسبت ایک منذر الہام مجھ کو ہوا.اور چند مسلمان بھائیوں نے بھی مجھ کو آپ کی نسبت ایسی خواہیں سنائیں.جن کی وجہ سے میں آپ کے خطر ناک انجام سے بہت ڈر گیا.تب بوجہ آپ کے ان حقوق کے جو بنی نوع کو اپنے نوع انسان سے ہوتے ہیں اور نیز بوجہ آپ کی ہم وطنی اور قرب و جوار کے میر ارحم آپ کی اس حالت پر بہت جنبش میں آیا.اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے آپ کی حالت پر نہایت رحم ہے.اور ڈرتا ہوں کہ آپ کو وہ امور پیش نہ آجائیں.جو ہمیشہ صادقوں کے مکذبوں کو پیش آتے رہے ہیں.اسی وجہ سے میں آج رات کو سوچتا سوچتا ایک گرداب تفکر میں پڑ گیا کہ آپ کی ہمدردی کے لئے کیا کروں.آخر مجھے دل کے فتویٰ نے یہی صلاح دی کہ پھر دعوت الی الحق کے لئے ایک خط آپ کی خدمت میں لکھوں.کیا تعجب کہ اسی تقریب سے خدا تعالیٰ آپ پر فضل کر دیوے.اور اس خطرناک حالت سے نجات بخشے.سو عزیز من آپ خدا تعالیٰ کی رحمت سے نومید نہ ہوں.وہ بڑا قادر ہے.جو چاہتا ہے کرتا ہے.اگر آپ طالب حق بن کر میری سوانح زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ پر قطعی ثبوتوں سے یہ بات کھل سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ کذب کی ناپاکی سے مجھ کو محفوظ رکھتا رہا ہے.یہاں تک کہ بعض وقت انگریزی عدالتوں میں میری جان اور عزت ایسے خطرہ میں پڑ گئی کہ بجز استعمال کذب اور کوئی صلاح کسی وکیل نے مجھ کو نہ دی.لیکن اللہ جلشانہ کی توفیق سے میں سچ کے لئے اپنی جان اور عزت سے دستبردار ہو گیا اور بسا اوقات مالی مقدمات میں محض سچ کے لئے میں نے بڑے بڑے نقصان اٹھائے اور

Page 28

27 بسا اوقات محض خدا تعالیٰ کے خوف سے اپنے والد اور اپنے بھائی کے برخلاف گواہی دی اور سچ کو ہاتھ سے نہ چھوڑا.اس گاؤں میں اور نیز بٹالہ میں بھی میری ایک عمر گذرگئی ہے.مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے.پھر جب میں نے محض اللہ انسانوں پر جھوٹ بولنا ابتداء سے متروک رکھا اور بار ہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا.اور اگر آپ کو یہ خیال گذرے کہ یہ دعویٰ کتاب اللہ اور سنت کے برخلاف ہے.تو اس کے جواب میں با ادب عرض کرتا ہوں کہ یہ خیال محض کم فہمی کی وجہ سے آپ کے دل میں ہے اگر آپ مولویا نہ جنگ و جدال کو ترک کر کے چند روز طالب حق بن کر میرے پاس رہیں تو میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کی تمام غلطیاں نکال دے گا اور مطمئن کر دے گا اور اگر آپ کو اس بات کی بھی برداشت نہیں تو آپ جانتے ہیں کہ پھر آخری علاج فیصلہ آسمانی ہے.مجھے اجمالی طور پر آپ کی نسبت کچھ معلوم ہوا ہے.اگر آپ چاہیں تو میں چند روز توجہ کر کے اور تفصیل پر بفضلہ تعالیٰ اطلاع پاکر چند اخباروں میں شائع کر دوں.اس شائع کرنے کیلئے آپ کی خاص تحریر سے مجھ کو اجازت ہونی چاہئے.میں اس خط کو محض آپ پر رحم کر کے لکھتا ہوں.اور یہ ثبت شہادت چند کس آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں.اور آخر دعا پر ختم کرتا ہوں.رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ.آمین.“ الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۳/ دسمبر ۱۸۹۲ء اس خط پر حضور نے پندرہ احباب کی گواہی درج کروائی جن میں حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بھی شامل ہیں.ایک گواہ قاضی ضیاء الدین ساکن کوٹ قاضی ضلع گوجر انوالہ بھی ہیں.(11) مولوی محمد حسین نے بہت ہی لچر اور دل آزار جواب دیا.جسے مع جواب حضور نے اس کتاب میں درج فرما دیا.حضرت مولوی عبد اللہ غز نوٹی کی مولوی محمد حسین کے متعلق پیشگوئی: مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت اقدس کے بچپن کے ہم سبق تھے.انہوں نے براہین احمدیہ پر

Page 29

28 اپنے رسالہ اشاعتہ السنہ میں ایک مفید اور طویل تبصرہ شائع کیا تھا.جس میں حضور کی مالی قالی اور حالی خدمت اسلام کو تیرہ سوسال میں بے نظیر قرار دیا تھا.لیکن بعد میں مخالفت کرنے لگے اور اپنے استاد سید نذیر حسین صاحب دہلوی پر زور دے کر فتوی کفر دلایا.حضرت اقدس کے الہام میں استاد و شاگرد دونوں کو فرعون وھامان کہا گیا ہے.(12) مولوی صاحب کی زندگی الہام انی مهین من ارادھانتک کا مرقع ہے.اس سے قبل حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی کو بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب کے علم کا پیراہن پارہ پارہ کر دیا جائے گا.اس بارہ میں قاضی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں ذیل کا عریضہ لکھا: ”بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم بخدمت حضرت اقدس بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ عرض آنکہ اس خط کو جو محمدحسین ( بٹالوی.ناقل ) کی طرف لکھا گیا ہے.بعض دوستوں نے خصوصاً صاحبزادہ صاحب نے بھی پسند فرمایا ہے.* لہذا چاہتے ہیں.چونکہ نور القرآن کے حاشیہ پر جگہ موجود ہے.اگر اجازت دیں مختصر چھاپ دیا جائے.کیونکہ اس کشف والے ولی کے یعنی عبداللہ غزنوی کے بہت معتقد محمد حسین کی جماعت میں موجود ہیں.اگر وہ فائدہ نہ اٹھائے گا تو دوسرے ہی سہی.ورنہ حجت ہوگی.فقط.جیسا کہ حکم ہو مطلع فرما دیں.والسلام والا کرام.عریضہ نیاز مسکین ضیاءالدین عفی عنہ محرره ۲۰/ دسمبر ۱۸۹۵ء اس کی پشت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا.بہتر ہے چھاپ دیں مگر خط میں لکھ دیں کہ چونکہ آپ کا اس کشف سے فائدہ اٹھا نا ظنی امر ہے.بالخصوص اس تعصب کے جوش میں جو آپ مسلمانوں کو کا فرمانتے ہیں.اس لئے میں نے نور القرآن میں اس خط کو چھپوا بھی دیا ہے.تا یہ خط مفید عام ہو جائے.“ ** * اس سے مراد حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ہیں جیسا کہ آگے ذکر آتا ہے اور اس کتاب پر بھی پیر صاحب کا نام درج ہے.(مؤلف) ** خط کے آخر پر حضور کے دستخط نہیں ہیں.

Page 30

29 چنانچہ کتاب مذکور سے ذیل کا اقتباس درج کیا جاتا ہے: حضرت عبداللہ صاحب مرحوم غزنوی کا ایک کشف شیخ محمد حسین بطالوی کی نسبت جس کو جناب قاضی ضیاء الدین صاحب ساکن قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ نے اپنے کانوں سے سنا اور شیخ صاحب کی طرف محض اصلاح روحانی کیلئے لکھ کر روانہ کیا.سو وہ ہم اس رسالہ میں درج کرتے ہیں.اگر چہ شیخ صاحب کی نسبت ہمارا یقین ہے کہ وہ اس سے متنبہ ہونے والے نہیں لیکن ہم ان کے بعض ہم خیال اور محبوں پر ایک قسم کا حسن ظن رکھتے ہیں کہ وہ اس سے فائدہ حاصل کریں گے.واللہ ولی التوفیق.وہ کشف ذیل میں درج ہے.ھوالھادی خاکسار.سراج الحق نعمانی نحمده ونصلے ”بسم الله الرحمن الرحيم فکر می مولوی محمد حسین صاحب.بعد شوق ملاقات آنکہ یہ جو آج کل آپ درباره تکفیر و تضلیل حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ( جن کو آپ پہلے مجدد وقت تسلیم کر چکے ہیں ) سرگرم ہیں اور یہاں تک سرگرمی ہے کہ آپ نے اپنے لکھے ہوئے مضمون کفر وکافر مندرجہ اشاعتہ کی بھی پرواہ نہیں کی.جس کی شامت سے اب صریح سوء خاتمہ کے آثار ظاہر ہیں.آپ کی اس حالت کو دیکھ کر عاجز کا دل بلحاظ محت بنی نوع پکھل آیا.لہذا بحكم الدينُ النَّصِيحَة میں نے چاہا کہ آپ کو اس شیمہ نامرضیہ سے اللہ متنبہ کروں.شاید اللہ تعالیٰ جو رحیم و کریم ہے رحم فرما دے.اور اس بارے میں یہ ایک الہام عبداللہ غزنوی مرحوم ہے.جو آپ کی نسبت ان کو ہوا تھا.اور اسی زمانہ میں آپ کو سنا بھی دیا تھا.شاید وہ آپ کو یاد ہو یا نہ ہو.اب میں آپ کو دوبارہ سناتا ہوں اور مجھے کئی بار تجربہ ہو چکا ہے که مولوی لوگ اپنے ہمعصر کی بات سے گو کیسی ہی مفید ہو کم متاثر ہوتے ہیں اب وہ مرحوم تو فوت ہو چکے شائد آپ ان سے علاقہ بیعت بھی رکھتے تھے.تعجب نہیں کہ آپ کو ان کے الہام سے فائدہ پہنچے.عاجز کی غرض سوائے خیر خواہی اور اتفاق بین المسلمین اور کچھ نہیں.میں حلفاً بیان کرتا ہوں.وکفی بالله شهیداً.کہ یہ الہام میں نے خود حضرت مرحوم سے سُنا ہے.خدا کے لئے جاگتے دل سے سنو وهو هذا.

Page 31

30 د می بینم که محمد حسین پیراہنے کلاں پوشیده است لاکن پاره پاره شده است.پھر آپ ہی یہ تعبیر فرمائی کہ آن پیراہن علم است که پاره پارہ خواہد شد.اور پارہ پارہ زبان سے کہتے تھے.اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سینہ سے لیکر پنڈلیوں تک بار بار اشارہ کرتے تھے پھر عاجز کو فر مایا که آنرا باید گفت که تو به کرده باشد - چنانچہ حسب الوصیت میں نے آپ کو یہ حال سنایا تھا.آپ نے عاجز کو چینیاں والی مسجد لاہور میں تمسخر آمیز الفاظ سے پیغام دیا تھا کہ ولی بنے جاتے ہیں.عبد اللہ کو کہنا کہ مجھے بھی بلاوے.اس پیغام کے بعد انہوں نے ملا سفر کے رو بروالہام مذکور فرمایا.اور میں نے امرتسر میں بمکان حافظ محمد یوسف صاحب جہاں حافظ عبدالمنان رہتا تھا.حرف بحرف آپ کو سنا دیا تھا.مجھے خوب یاد ہے کہ اس وقت آپ متاثر ہو گئے تھے.جس سے مطالعہ کتاب بھی چھوٹ گیا تھا.میں نے انہی دنوں اپنے گاؤں کے لوگوں کو بھی سنا دیا تھا.جو وہ اب گواہی دے سکتے ہیں غرض کہ یہ منذر الہام ان دنوں میں پورا ہوا.جس کا اثر اب ظاہر ہوا کہ مرزا صاحب کے مقابل پر آپ کی ساری علمیت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی.اور علم کے لاف و گزاف بھی بیچ محض ثابت ہوئے.لہذا یہ الہام بے شک سچا ہے.مولوی صاحب ! میں نے وقت پر آپ کو دوبارہ یاد دلایا ہے.آپ عبرت پکڑیں اور توبہ کریں.اور اس مصلح اور مسجد د اور امام کامل اور مسیح موعود ایدہ اللہ کی عداوت سے دست بردار ہو جائیں.ورنہ حسرت سے دانت پینا اور رونا ہوگا.آئندہ اختیار بدست مختار - شعر گرامروز ایں پند من نشنوی یقین داں کہ فردا پشیمان شوی الراقم المسکین ضیاءالدین عفاعنہ وما علينا الا البلاغ.صبر واستقامت وسعت تبلیغ اور اس کا اثر : ۲۰ دسمبر ۱۸۹۵ء قاضی عبدالرحیم صاحب بیان کرتے تھے کہ والد ماجد کو اپنے گاؤں کوٹ قاضی محمد جان میں مخالفوں نے قریباً تیرہ برس تک سخت تکالیف پہنچائیں.مقاطعہ کئے رکھا.نقب زنی بھی کرادی گئی.مگر آپ نے استقامت سے مقابلہ کیا.اور سب کام کاج چھوڑ کر اپنا سارا وقت تبلیغ میں صرف کرنا آپ نے اپنا معمول بنا رکھا تھا.قاضی محمد عبد اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ والد بزرگوار کو سارے ضلع میں پھر کر تبلیغ کرنے کا بڑا شوق

Page 32

31 تھا.اور کئی گاؤں کے لوگ آپ کے ذریعہ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے ۱۹۰۲ء میں جب آپ ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے اور میں قادیان میں زیر تعلیم تھا.تو موسم گرما کی تعطیلات میں آپ مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے.اور سارے ضلع میں پھر پھر کر اپنے قدیمی تعلقات والوں کو اقرباء کو مختلف گاؤں میں جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی اور صداقت کے دلائل اچھی طرح سے واضح کرتے تھے.مہا راجکے.دھیر نگے.درویش کے.کلا سکے.دینگے.نت.بوتالہ.کوٹ قاضی.گوجرانوالہ.سب جگہ جانا مجھے یاد ہے.جنڈیالہ میں اپنے بھانجے قاضی ظفر الدین ( پروفیسر) سے خوب مقابلہ ہوا کرتا تھا.اسے اپنے علم پر بڑا گھمنڈ تھا.ضلع گوجرانوالہ کے ایک صحابی مکرم مولوی فضل الدین صاحب ( مبلغ حیدرآباددکن وغیرہ) آپ کی تبلیغ کی وسعت کا ذکر کرتے ہیں.اور اس ضلع کے ایک اور صحابی مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ : ”ہمارے خاندان میں احمدیت کا بیج بونے والے بلکہ جہاں تک میرا خیال ہے سارے ضلع گوجرانوالہ میں احمدیت کے پودے لگانے والے یہی صاحب تھے.......( آپ ) اہل حدیث کا عقیدہ رکھتے تھے.نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالوی کی تصنیفات کا ان کے ہاں کافی ذخیرہ تھا.......” میرے والد صاحب مرحوم اس زمانہ کے علوم عربیہ مروجہ کے عالم تھے.اور اہل حدیث کا عقیدہ رکھتے تھے.چونکہ قاضی ضیاء الدین صاحب بھی اسی عقیدہ پر تھے.اور وہ ہمارے رشتہ دار بھی تھے اور ان کا گاؤں کوٹ قاضی بھی ہمارے نزدیک یعنی صرف تین میل کے فاصلہ پر تھا.اس لئے اکثر آتے جاتے رہتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات اور پیشگوئیاں اور الہامات وغیرہ سناتے رہتے......چنانچہ والد صاحب جن کی وفات ۱۸۹۶ء میں ہوئی وفات مسیح کے قائل ہو چکے تھے.اور عملاً سلسلہ احمدیہ کے کاموں میں حصہ لیتے تھے...غرض یہ کہ ہمارے گھر میں احمدیت کی تصدیق و تائید کا قاضی صاحب کی آمد ورفت سے ایسا ماحول پیدا ہو گیا جس کا بچپن میں ہی میرے دل پر نہایت خوشگوار اثر تھا.جو آخر کار کشاں کشاں مجھے ہدایت پر لے آیا.(13) آپ کے علاوہ اس ضلع کے ۳۱۳ صحابہ میں شمار ہونے کا شرف رکھنے والے اکیس صحابہ میں سے گیارہ آپ ہی کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے.ایسی سعادت شاید ہی کسی اور کے حصہ میں آئی ہو.

Page 33

32 ایں سعادت بزور باز و نیست تانه بخشد خدائے حضرت عرفانی صاحب لکھتے ہیں: بخشنده حضرت قاضی ضیاء الدین رضی اللہ عنہ ایک یکرنگ مخلص دوست تھے.وہ اخلاص و عقیدت میں ایسے ڈوبے ہوئے تھے کہ جب پہلی مرتبہ قادیان آئے تو انہوں نے مسجد اقصے کے محراب والی دیوار پر اپنے جذبات کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک شعر میں اس طرح پر کیا.حسن خلق و دلبری بر تو تمام حبت بعد از لقائے تو حرام خاکسار عرفانی کے ساتھ بھی انہیں بزرگانہ محبت تھی.آپ کے ذریعہ ضلع گوجرانوالہ میں سلسلہ کی بہت تبلیغ ہوئی اور اکثر لوگوں کو انکی وجہ سے ہدایت نصیب ہوئی.انکے خاندان کے سب لوگ اس سلسلہ میں بحمد للہ داخل ہو گئے.اس لئے (کہ ) وہ اپنے علاقے میں زہد و تقویٰ کے لئے مشہور تھے.“ (14) عبد الحق غزنوی سے مباحثہ : قاضی محمد عبد اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کوٹ قاضی جان محمد ) میں قاضیوں کے دو اہم فریق بن گئے تھے.اس وجہ سے با ہمی مخاصمت و مخالفت بڑے زور پر ہوگئی تھی.حضرت والد صاحب کی تبلیغ سے ایک پتی کے نمبر دار قاضی سراج دین صاحب مع اپنے دو بھائیوں قاضی فضل دین صاحب اور قاضی چراغ دین صاحب دوسری پتی کے نمبر دار کے بھائی قاضی محمد یوسف صاحب حق قبول کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو گئے تھے.ہر سہ ۳۱۳ صحابہ کبار میں شامل ہوئے.ان کے اسماء فہرست مندرجہ انجام آتھم میں نمبر ۱۴۴ ۱۴۳.۱۹۱.۱۴۲ پر درج ہیں.لیکن دوسری پتی کے نمبر دار قاضی محمد شریف صاحب اور تیسری پتی کے نمبر دار قاضی نظام الدین صاحب سخت مخالف تھے.اور وزیر آباد کے ایک حافظ نابینا عبدالمنان اور امرتسر کے غزنوی علماء کے زیر اثر تھے.ان کی تقلید میں اپنے بھائیوں کو حضرت اقدس کی بیعت کر لینے کے باعث کا فرمرتد اور خارج از اسلام کہتے رہتے تھے.انہی مخالفین نے حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کے بالمقابل نامی علماء بلانے کا انتظام کیا.اس کے بواعث کیا تھے.اس بارہ میں حضرت قاضی صاحب اس مباحثہ کی روئیداد مطبوعہ میں تحریر کرتے ہیں.

Page 34

33 ”ہمارے اس گاؤں......میں بعض اشخاص نے......حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو تقلید مولوی محمد حسین بٹالوی کا فر کا فر کہنا عبادت لازمہ کی طرح فرض وقت سمجھ رکھا ہے.ہر چند نیک نیتی کی راہ سے عاجز نے سمجھایا لیکن اس خیر خواہی کے صلہ میں...اس عاجز راقم کو بھی اسی اپنی کفر کی مد میں داخل کر دکھایا.یہاں تک نوبت پہنچا دی کہ اگر کوئی غریب سیدھا ساده بخوف خدا عاجز کی نماز جماعت میں مل گیا تو کل اسے اپنی نماز جماعت سے دھکے دے کر نکال دیا کہ بس اب تو ہم جیسے مسلمانوں کی جماعت کے لائق نہیں ہے.غرض جب اس متعصبانہ کارروائی سے بعض اہل انصاف نے انہیں ندامتیں دیں اور گرد و نواح کے مولائی مسلمانوں نے مذمتیں شروع کیں.تب ان صاحبوں نے بغرض منہ بند کر نے ان لوگوں کے اور طفل تسلی اپنے مقلدوں کے عاجز کے مقابل اس مباحثہ کی تقریب ڈالی.“ (ص۵۴) احمدیوں کے خلاف یہ تعصب اور یہ عناد الزام پھر بھی احمدیوں پر عائد کیا جاتا ہے کہ حضرت اقدس نے بلا وجہ اپنی جماعت کو دوسرے مسلمانوں کی اقتداء میں نمازیں پڑھنے سے منع کر دیا ہے حالانکہ اور کوئی وجہ نہ بھی ہوتی تو دو وجوہات اور وہ بھی بہت اہم اور وقیع موجود تھیں.ایک یہ کہ یہ لوگ جن میں ان کے پیر مولوی علماء اور امام الصلوۃ پیش پیش تھے.حضرت اقدس کو کافر وغیرہ کہتے تھے.حضور کے مرید بے غیرت بن جاتے.اگر ایسے نام رکھنے والوں کو بطور پیش امام قبول کئے رہتے.بھلا مسلمانوں کا کونسا فرقہ ہے.جو دیگر ایسے فرقوں کی امامت قبول کرتا ہے.جو انہیں کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں.ہرچہ خود مپسندی بر دیگراں ہم مپسند دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ ایسے شخص کو بھی اپنی جماعت نماز سے نکال دیتے تھے.جس نے اتفاقاً کسی احمدی کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لی ہو تو اگر حضرت مرزا صاحب نے اپنی جماعت کو الگ نمازیں ادا کرنے کی تلقین فرما دی تو کیا بُرا ہوا.کیا مساجد کو آماجگاہ فتنہ وفساد بنانا اسلام ہے.اور اس سے کنارہ کشی کرنا اس سے خروج ہے.کتاب اللہ میں الفتنة اشد من القتل.بتایا گیا ہے.احمدی ہزار ہا مقامات پر موجود تھے.اور ہر روز پنجگانہ نمازوں میں شرکت کرنا فرمان الہی ہے اور جب کہ نام نہاد سینکڑوں علماء نے جماعت احمدیہ پر کفر کا فتویٰ عائد کر دیا تھا.تو گویا روزانہ ہزار ہا مقامات پرلڑائی اور دنگے کا خطرہ پیدا ہو گیا.جس سے احتراز شرعاً.عقلاً ہر طرح واجب تھا.قاضی صاحب کے ذیل کے بیان سے جو روئیداد مباحثہ میں ہی درج ہے.ثابت ہوتا ہے کہ عرصہ دراز

Page 35

34 تک حضرت اقدس نے نمازوں کو الگ نہیں کیا.بلکہ فتنہ و فساد سے احتراز کی خاطر احمدی خود ہی کنارہ کشی کرتے تھے.اور بالآخر تمام حالات کے پیش نظر حضور کی طرف سے ممانعت کی گئی.قاضی صاحب لکھتے ہیں.پھر مولوی امام الدین......منصفانه مصلح قوم بن کر قاضی نظام الدین و محمد شریف کی جانب سے پیغام لائے کہ ہم مرزا جی کی تکفیر سے زبان کو نہ کر لیتے ہیں صلح کر لو.نمازیں اکٹھی اتفاق سے پڑھو.فضول جھگڑا اچھا نہیں.عاجز نے بمعہ رفقاء خود قاضی محمد یوسف صاحب و سراج الدین صاحب تھوڑی سی بات چیت کے بعد مان لیا.چنانچہ مصلح صاحب خوش واپس گئے.پھر چھ پہر کے بعد.....پیغام لائے کہ وہ صاحب بالمقطع صلح سے تو رہ گئے.اب کہتے ہیں کہ تم پہلے مرزا جی کی مریدی سے باز آؤ.بیعت توڑ دو اور ان کے تمام عقائد ورسائل سے تو بہ کرو پھر ہم بھی مرزا جی کو کا فرنہیں کہیں گئے، (ص 11) 1890ء میں مولویوں نے کفر کا فتویٰ دیا اور احمدیوں کی نماز جنازہ اور ان سے شادی بیاہ حرام قرار دیا.چنانچہ سید نذیر حسین دہلوی نے فتویٰ دیا.جس کی قریباً دوصد علماء نے تصدیق کی.(15) مولوی محمد حسین بٹالوی اور دہلی کے مولویوں نے ۱۸۹۱ء میں حضرت اقدس کے خلاف اشتہارات شائع کئے.جن میں آپ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا.سید نذیر حسین مذکور نے اپنے فتویٰ میں تحریر کیا: اب مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے دجال کذاب سے احتر از اختیار کریں اور اس سے دینی معاملات نہ کریں.جواہل اسلام میں باہم ہونے چاہئیں.نہ اس کی صحبت اختیار کریں اور نہ اس کو ابتداء سلام کریں اور نہ ان کو دعوت مسنون میں بلاویں.اور نہ اس کی دعوت قبول کریں اور نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں." قاضی عبید اللہ مدراس نے حضرت اقدس کے ماننے والے کا نکاح فسخ اور بعد کی اولاد کو معاذ اللہ ولد الزنا قرار دیا اور جنازہ کو قبرستان میں دفن کرنے سے منع کیا اور لکھا کہ ”بغیر غسل و کفن کے گتے کی مانند گڑھے میں ڈال دینا.(16) مولا نا عبدالاحد خان پوری کا ذیل کا اقتباس قابل مطالعہ ہے.اسے فخر کے ساتھ اقرار ہے کہ سب کارستانی ان مخالفین کی طرف سے عمل میں آئی اور ان کی طرف سے بہیمانہ سلوک روار کھے گئے.پھر بھی حضرت اقدس کا رویہ مصالحانہ رہا.لیکن اس مصالحانہ رویہ کو بھی دھو کہ قرار دیا گیا.انا اللہ.مولوی مذکور لکھتا ہے: جب طائفہ مرزائیہ امرتسر میں بہت ذلیل و خوار ہوئے.جمعہ جماعت سے نکالے گئے اور

Page 36

35 جس مسجد میں جمع ہو کر نمازیں پڑھتے تھے.اس میں سے بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں قیصری باغ میں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکماً رو کے گئے تو نہایت تنگ ہوکر مرزائے قادیانی سے اجازت مانگی کہ مسجد نئی تیار کریں تب مرزا نے ان کو کہا کہ صبر کرو.میں لوگوں سے صلح کرتا ہوں اگر صلح ہوگئی تو مسجد بنانے کی کچھ حاجت نہیں اور نیز اور بہت سی ذلتیں اٹھا ئیں.معاملہ و برتاؤ مسلمانوں سے بند ہو گیا.عورتیں منکوحہ مخطوبہ بوجہ مرزائیت کے چھینی گئیں.مردے ان کے بے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے.وغیرہ وغیرہ تو کذاب قادیانی نے یہ اشتہار مصالحت کا دیا.(17) مشہور مخالف عبد الحق غزنوی جس نے حضرت مسیح موعودؓ سے امرتسر میں مباہلہ کیا تھا.(18) اس کے ساتھ اواخر دسمبر ۱۸۹۸ء میں قاضی صاحب کا ایک مباحثہ اپنے گاؤں کوٹ قاضی میں ہوا.اس کے ساتھ مولوی محمد علی بو پڑی اور دیگر علماء بھی شریک تھے.( قاضی محمد عبد اللہ صاحب بتاتے ہیں کہ مخالف علماء گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت طمطراق سے وہاں آئے تھے اور گاؤں میں اس دن بڑی ہل چل تھی ) حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب نے اس مباحثہ کو ۱۸۹۵ء میں اپنے خرچ پر طبع کروایا.میاں مولا بخش صاحب سیکرٹری انجمن فرقانیہ لاہور نے اس کی تمہید لکھی ہے.یہ کتاب " کے سائز پر بیالیس صفحات پر مشتمل ہے.پہلے آٹھ صفحات تمہید مذکور بالا مختصر روئیداد منجانب قاضی صاحب پر مشتمل ہے.چھ صفحات میں درخواست برائے فیصلہ ثانی و فیصلہ ثالث اور آخری پانچ صفحات میں حضرت مسیح موعود کی نعت ۲۰×۳۰ ۱۶ چون ز من آید ثنائے سرور عالی تبار عاجز از مدحش زمین و آسمان و هردودار مرقوم ہے.گویا کہ پرچہ جات مباحثہ تئیس صفحات میں درج ہیں * حقیقت یہ ہے کہ فریق ثانی مباحثہ سے گریز کرتا رہا.مضمون بحث کو تبدیل کیا.ایک یہ شرط پیش کی کہ اگر تفسیروں میں اختلاف واقع ہو تو اعتبار کثرت کا ہوگا.“ (ص۹) حضرت قاضی صاحب نے جو دندان شکن اور مسکت جواب دیا اس کا اک حصہ درج ذیل ہے: تیسری شرط یہ کہ وقت اختلاف کثرت تفاسیر کا لحاظ ہوگا.چونکہ بلحاظ تحقیق مسائل مرجوعہ لغو مجہول الکنہ تھے.فضول سمجھے گئے.دیکھو امام ابن قیم...تصریح کر چکے ہیں کہ کسی قیم شخص کو مسلمانوں میں سے کافر کہنا حق خدا اور اس کے رسول کا ہے اور آپ کے امام فی چونکہ یہ رسالہ بہت تھوڑی تعداد میں ترسٹھ سال قبل شائع ہوا اور تقریباً سارا تقسیم کر دیا گیا تھا.اس لئے اسے محفوظ رکھنے کیلئے کسی کتاب کے ساتھ اسے چھاپ دیا جائے گا.

Page 37

36 الوقت مولوی محمد حسین بھی اشاعۃ السنہ کی جلد میں بصفحہ ۳۳۳ لکھتے ہیں.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مجتہد کے سوائے کوئی ملاں مولوی کسی کی تکفیر پر فتویٰ دینے کا مجاز نہیں.پس ان قیود سے ثابت ہوا کہ ہمارے ان مسائل مرجوعہ میں کثرت اقوال مفسرین معتبر نہیں راج وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم صریح سے مسند و مرجح ہو.ہاں اگر خواہ مخواہ یہ شرط بھی ضروری ہے.تو آپ کی خاطر مان لیتا ہوں.بشرطیکہ آپ پہلے کل دنیا کی تفاسیر جو آج تک تالیف ہوئی ہیں.نام بنام تعداد حصری لکھ بھیجیں تا کہ ترجیح دینے کے وقت دقت نہ ہو.فی الفور تفسیر میں گن کر کثرت رائے مفسرین سمجھی جائے“.(ص۱۹) فریق مخالف شرائط میں الجھتا رہا.اور قاضی صاحب ہر پر چہ میں دلائل منقولی و معقولی تحریر کر کے بھجوا دیتے تا تبلیغ کا موقعہ ضائع نہ جائے.روئداد مباحثہ کے تئیس صفحات میں سے بمشکل تین صفحات فریق مخالف کے ہیں.اور بقیہ قاضی صاحب کے.فریق مخالف کا ایک پرچہ صرف دوسطری ہے.اخلاقی پہلو اس مباحثہ کا یہ ہے کہ یہ لوگ تم جیسے الفاظ استعمال کرتے تھے.جس سے ان کی مبتذلانہ حالت اور بازاری پن عیاں ہے.لیکن قاضی صاحب نہایت بردباری سے ”آپ جیسے الفاظ ہی رقم کرتے رہے.اس مباحثہ کے متعلق دو امور خاص توجہ کے قابل ہیں.اول.میری دانست میں جماعت احمدیہ کے کسی فرد کا یہ اولین مطبوعہ مباحثہ ہے.دوم.قاضی صاحب نے جو کچھ لکھا وہ قلم برداشتہ لکھا.آپ کی علمیت قابل داد اور لائق صد تحسین ہے.چنانچہ مندرجہ ذیل امور سے آپ کے وسعت مطالعہ کا علم ہوتا ہے.قاضی صاحب نے قرآن شریف کے حدیث شریف پر مقدم رکھنے کے متعلق بحث کی اور تلویح کے حوالہ سے (1) مخالف فریق کو ملزم گردانتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کا ادعا اہل سنت کے اصول کے برخلاف ہے.(ص۱۰) (۲) قاضی صاحب نے دریافت کیا کہ کیا قرآن مجید اور احادیث احاد بخاری کا انکار مساوی درجہ رکھتا ہے.اثبات پر جواب پانے پر آپ نے عقائد کی کتب شرح مواقف وغیرہ کا حوالہ دے کر اور پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے اشاعۃ السنہ کا حوالہ دے کر اس امر کی تغلیط کی ہے.(ص۱۰) (۳) آپ نے ادلہ کی اقسام قطعی الثبوت والد لالہ قطعی الثبوت ظنی الدلالۃ ظنی الثبوت قطعی الدلالۃ اور ظنی الثبوت ظنی الدلالۃ کا ذکر کیا ہے.(ص۱۴) (۴) وفات مسیح کے ذکر میں امام مالک.امام ابن قیم اور حضر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ذکر کیا ہے.(ص۱۴).(۵) مسئلہ تکفیر کی بحث کے تعلق میں حدیث جبریل میں مذکور پیج بنائے اسلام کی طرف اشارہ کیا ہے.اور

Page 38

37 نواب صدیق حسن خاں نے بدور الاھلہ میں جو امام شوکانی" کی تفسیر بابت وَلكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْراً لکھی ہے.اس کو بطور دلیل پیش کیا ہے (ص ۱۵) (4).اسی تعلق میں امام ابن قیم کی ایک کتاب کا بھی حوالہ دیا ہے.اور اس کی تائید میں اشاعۃ السنہ کا حوالہ بھی درج کیا ہے.(ص۱۹) (۷) راجح مسند اور مریخ کی اصطلاحات کا بھی ذکر کیا ہے.(ص۱۹) دلیرانه تبلیغ: آپ نے یہ رسالہ چیدہ چیدہ مخالفین اور زیر تبلیغ افراد کو بھیجا.روز نامچہ میں لکھا ہے کہ مکرم حکیم فضل الہی صاحب سے لاہور سے ۱۴ جیٹھ سمہ ۱۹۵۲ (۲۶ مئی ۱۸۹۵ء) کو ایک سورسالہ پہنچا.اور گل چارسو چھپا تھا.جو تین سو تک ممبران انجمن فرقاضیہ لاہور کی معرفت اس کے نواح میں تقسیم ہوا.جن افراد کو آپ نے رسالہ دیا.ان کے اسماء بقید قوم و سکونت آپ نے تاریخ وار درج کئے ہیں.کیفیت کے خانہ میں مختلف نوٹ دیئے گئے ہیں.میاں نظام الدین صاحب کے سامنے یہ نوٹ دیا ہے: یہ صاحب اس مباحثہ میں ثالث بنے تھے.اور حق ”وَ إِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا * کا ادا کیا اور مولویوں کی شکست اور ناحق پر ہونا ثابت کیا.جَزَاهُ اللهُ عَنَّا“ اور اکثر ناموں کے سامنے وہ عبارت نقل کی ہے.جو رسالہ کے اوپر اپنے قلم سے فرداً فرداً بطور تبلیغ و تنیہ کے مختلف لوگوں کو ہر ایک کے حالات کے مطابق لکھ کر بھیجی.ایک نسخہ ۲/ اگست ۱۸۹۵ء کو جامع مسجد کوٹ قاضی کے تمام حضار“ کو بروز جمعہ روانہ کیا.قومیت کے خانہ میں اہل اسلام برائے نام لکھا ہے اور سکونت کے خانہ میں کوٹ قاضی نہ نہ بلکہ دارالحرب درج کیا ہے.جس سے شدت مخالفت کا اندازہ ہوتا ہے.کیفیت کے خانہ میں مندرجہ ذیل عبارت بھی مرقوم ہے: یہ رسالہ بروز جمعہ خاص اس موقعہ پر جواکثر دوست و دشمن جمع تھے.بغرض ابلاغ حق اپنے بیٹے عزیز عبداللہ کے ہاتھ بھیجا گیا.اس جمعہ سے پہلے جمعہ کے دن مخالفین نے ازراہ ظلم عاجز کو مع معاونین کے نماز جمعہ پڑھنے سے روک دیا اور تخلصم قاضی محمد یوسف کو مارا بھی.لاکن صبر کیا گیا.اور اس جمعہ میں لڑائی کے واسطے سب لوگ تیار تھے اور رسالہ کے سرورق پر * یہ عبارت لکھ بھیجی.سورۃ الانعام.آیت ۱۵۲

Page 39

38 هوا الهادى بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ - 66 مسکین ضیاء الدین عفی عنہ سے بخدمت جمیع حصار مجلس جمعہ جامع مسجد کوٹ قاضی بعد سلام مسنون عرض آنکہ ”ہورا مکی کام جنہال کا ہے یا جٹوں کا جوزمین کے فضول تنازعوں پر مرتے ہیں.علماء فضلاء کا کام قلم سے غالب آتا ہے.سوالحمد للہ یہ عاجز بفضلہ تعالیٰ تمہارے دعوتی مولویوں پر از راہ قلم غالب آ رہا ہے.اب ناحق کی کوششوں سے سورج چھپ نہیں سکتا.اور نہ چاند پر تھوکنے کا کچھ اثر.اور اگر کچھ شک و تنازع ہو تو بحکم نص قرآنی فان تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْيٌّ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَ الرَّسُولِ الخ کے خدا اور رسول کے فیصلہ پر راضی ہو جاؤ.اور وہ یہ ہے کہ جن آیتوں سے میں نے وفات مسیح و عدم تکفیر اہل کلمہ ثابت کی ہے.آپ خلاف اس کے حسب شروط مفصلہ رسالہ ہذا ثابت کر کے دکھلا دیں.اور اگر اس میدان میں اپنا لنگڑا اپن دکھلایا اور کچھ بن نہ پڑا.اور خدا چاہے کچھ بنا بھی نہیں.تو پھر سب صاحب اس تفریق جماعت و ایذاء اہلِ کلمہ سے باز رہیں.ایذاء غربا کچھ بہادری نہیں.غضب الہی سے ڈریں.جس کا تدارک مشکل ہوگا.شرم.شرم شرم.وما علینا الا البلاغ.مکرر آنکہ یہ سب خیر خواہی ہے.ورنہ راقم کو جو ایک آزاد روش ہے.بہر حال اس کا مولا کریم اس کو بس ہے.66 محرره ۹/ صفر ۱۳۱۳ھ بروز جمعه قبل جمعہ “ اس سے عیاں ہے کہ آپ دلیر طبع اور نڈر تھے.ورنہ جس وقت ہر چہار طرف مخالفت کی آگ مشتعل تھی اور اعداء در پے آزار تھے.خاص دل گردہ کا مالک جو نور ایمان سے منور ہوایسی بے باکی سے تبلیغ کرسکتا ہے.اس وقت ان کے گاؤں بلکہ علاقہ میں احمدی معدودے چند ہی ہوں گے.قاضی ظفر الدین کے سامنے لکھا ہے.یہ صاحب میرے بھانجہ حقیقی ہیں.عالم متجر ہیں.لیکن مسائل ضرور یہ اخلاقیہ میں خوض نہیں رکھتے.اس کم تو تجہی کی وجہ سے مرزا صاحب کے علوم کی برکات سے بے بہرہ ہیں.بلکہ کچھ.** بغض وحسد عالمانہ بھی ہے.“ * سورة النساء - آیت ۶۰ ** یہ لفظ پڑھا نہیں گیا - مؤلف

Page 40

39 حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کے سامنے لکھا ہے.یہ مولوی صاحب راقم 66 کے دوست جانی ہیں لڑکپن سے.“ ایک شخص ابراہیم حکیم کے سامنے لکھا ہے.”باشتیاق تمام گرفت و اظہارِ شوق ملاقات حضرت اقدس ہمراہ عاجز ظاہر کرد رسالہ ریویو آف ریجنز (انگریزی) کا اجراء: ایک انجمن اشاعت اسلام کا قیام عمل میں لایا گیا.اور اس مارچ ۱۹۰۱ء کو مسجد اقصیٰ میں جلسہ ہوا.جس میں حضرت اقدس نے دنیا کی مذہبی حالت اور اپنی بعثت کی غرض وغایت کا ذکر کر کے فرمایا.عرب اور یورپ میں اشاعت کی بہت ضرورت ہے.یورپ اخلد الی الارض کا مصداق ہو گیا ہے.اس نصف صدی میں اسلام کی توہین میں مقابلہ بہت زیادہ کتب وغیرہ شائع ہوئی ہیں اس لئے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا.جب تک اس میں غیرت نہ ہو.بے غیرت دیوث ہوتا ہے.اگر اسلام کی عزت کے لئے دل میں محبت نہیں تو عبادت بھی بے سود ہے.”ہمیں اتفاق نہیں ہوا کہ انگریزی میں لکھ پڑھ سکتے.اگر ایسا ہوتا تو ہم کبھی بھی اپنے دوستوں کو تکلیف نہ دیتے.مگر اس میں مصلحت یہ تھی کہ دوسروں کو ثواب کے لئے بلائیں.اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر خدمت دین میسر نہیں ہوسکتی.اور جو شخص خدمت دین کیلئے اٹھتا ہے.وہ اسے ضائع نہیں کرتا.ہمارا منشاء صرف یہ ہے کہ تبلیغ ہو جائے.احباب نے اسے تجارتی ڈھنگ پر چلانے کو سہل طریق سمجھا ہے.تجارت کے امورظن غالب ہی پر چلتے ہیں.بہر حال اصل کام تو ہو جائے گا.آپ غور کر لیں.دوسرے اجلاس میں یہ قرار پایا کہ کل سرمایہ رسالہ دس ہزار روپیہ کا ہو.جس کے ایک ہزار حصص ہوں.گویا فی حصہ دس روپے کا ہو.بورڈ آف ڈائریکٹرز کے صدر حضرت مولوی نورالدین صاحب نائب صدر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور سیکرٹری خواجہ کمال الدین صاحب مقرر ہوئے.رسالہ کا نام ریویو آف ریلیجنز تجویز ہوا.اس وقت اس کی اشاعت گاہ لاہور طے ہوئی تھی.بعد میں قادیان قرار پائی.فتنہء دجال کا استیصال حضرت مسیح موعود کی بعثت کی خاص غرض و غایت ہے.اور فتنہ دجال کا مرکز یورپ ہے.اور عرب اس لئے اہمیت رکھتا ہے کہ اس فتنہ کا استیلاء اور غلبہ تمام دنیا میں ہوا ہے.عرب میں عدم اشاعت قبولیت سلسلہ احمدیہ میں ایسی ہی روک بن سکتی ہے.جیسے مدینہ منورہ اور اردگرد کے علاقہ کی فتوحات کے با وجود مکہ مکرمہ کا اغیار کے قبضہ میں ہونا بھی ایک اعتراض کے طور پر پیش کیا جاتا تھا.اور اللہ تعالیٰ نے اس

Page 41

40 اعتراض کے رفع کرنے کا خاص طور پر وعدہ کیا تھا.دجالی فتنہ کے مقابلہ کیلئے ہر کوشش قابل قدر ہے.خواہ تحریری ہو یا غیر تحریری یا مالی ہو یا کسی اور رنگ کی ہو.اس موقعہ پر حضرت اقدس نے ایک لمبی تقریر فرمائی تھی.جو پونے نو کالم میں الحکم مورخہ ۱۷ اپریل 1901ء میں درج ہوئی.اس سے قبل حضور ایک اشتہار ” ایک ضروری تجویز“ کے عنوان سے ۱۵ جنوری ۱۹۹۱ء کو شائع فرما چکے تھے.اس سے ریویو کی اہمیت ظاہر ہے.کیونکہ اس فتنہ کی بیخ کنی کیلئے مساعی جاری رکھنا.اس کا مقصود تھا.اور حضور کے مضامین انگریزی میں اس کے ذریعہ دیگر ممالک میں کثرت سے اشاعت پذیر ہوئے تھے.سواس کارخیر میں حضرت قاضی صاحب اور آپ کے بعض رفقاء کو جو سارے۳۱۳ صحابہ میں شامل ہیں.شریک ہونے کا موقعہ ملا.سب نے ایک ایک حصہ خریدا.اسماء یوں درج ہیں : قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹ جان محمد قاضی محمد یوسف صاحب قاضی میر محمد صاحب کوٹ کیلاں" " " گوجرانوالہ“ (19) قادیان میں ہجرت اور ذریعہ معاش : آپ بے حد محنتی اور جفاکش تھے.اپنے گاؤں میں باوجود مخالف پارٹی کے قاضیوں کی طرف سے مقاطعہ کے خود ہی اپنی ساری ضرورت مہیا کر لیتے تھے.اور تبلیغی کاموں میں پورے طور سے سرگرم رہتے تھے.جب مخالف قاضیوں نے مولوی عبدالحق غزنوی اور مولوی محمدعلی بو پڑی کو گاؤں میں بلا کر آپ سے مباحثہ کرایا اور مولوی بُری طرح فیل ہوئے تو اس ناکامی کے باوجود انہوں نے آپ کے پورے طور سے مقاطعہ کا اعلان کر دیا اور مسجد سے نماز پڑھنے سے روک دیا.تو پھر بھی آپ نہایت مستعدی سے زیر اثر احباب کو حق کی طرف بلاتے رہے.گھر کے پاس ایک نئی کچی مسجد بنالی.جس میں گاؤں کے آپ کے کئی ہم خیال باشندے آپ کے ساتھ نماز ادا کرتے اور آپ کے وعظ ونصائح سے مستفید ہوتے.پھر جب آپ ہجرت کر کے قادیان آگئے.تو یہاں بھی خدمت سلسلہ میں مصروف رہے.اور نہایت تندہی سے سارے کام خود ہی کرتے تھے.( قادیان میں ) جلد بندی کے کام کے علاوہ مہمانوں اور نو واردین کے ساتھ میل ملاقات اور سلسلہ کے متعلق گفتگو کرنے کا موقعہ خوب ملتا رہا.جس سے آپ آخری وقت تک حسب ضرورت تبلیغ حق کے پہنچانے میں مشغول رہے.( بیان قاضی محمد عبد اللہ صاحب).آپ کی ہجرت کیونکر ہوئی اس پر روز نامچہ میں زیر ۲۱ / اسوج سمہ ۱۹۵۷ (مطابق ۶/ اکتوبر ۱۹۰۰ء) کے

Page 42

ذیل کے اندراج سے روشنی پڑتی ہے: 41 اس دفعہ حضرت نے تاکید فرمایا کہ یہاں چلے آؤ.اور عاجز نے بھی منظور کیا.“ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ حضرت اقدس آپ کو پہلے بھی ہجرت کی تحریک فرما چکے تھے.اس دفعہ تاکیداً تحریک فرمائی.جو آپ نے قبول کر لی.وطن واپس جا کر آپ نے خط لکھا.جس کے جواب میں ۳ دسمبر ۱۹۰۰ ء کو حضور نے رقم فرمایا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسولہ الکریم محتمی عزیزی اخویم قاضی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خیریت نامہ پہنچا.بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ تشریف لاویں.آپ کی بہو * کے لئے اگر ساتھ لے آویں.تین چار ماہ تک کوئی بوجھ نہیں.ایک یا دو انسان کا کیا بوجھ ہے.پھر تین چار ماہ کے بعد شاید آپ کے لئے اللہ تعالیٰ اس جگہ کوئی تجویز کھول دے.ومن يتوكل على الله فهو حسبه، سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ ہمارا اور آپ کی عمر کا آخری حصہ ہے.بھروسہ کے لائق ایک گھنٹہ بھی نہیں.ایسا نہ ہو کہ جدائی کی موت موجب حسرت ہو.موت انسان کیلئے قطعی.اور اس جگہ موت سے ایک جماعت میں نزول رحمت کی امید ہے.غرض ہماری طرف سے آپ کو نہ صرف اجازت بلکہ یہی مراد ہے کہ آپ اس جگہ رہیں.ہماری طرف سے روٹی کی مدد دو انسان کے لئے ہوسکتی ہے اور دوسرے بالائی اخراجات کیلئے آپ کوئی تدبیر کر لیں.اور امید ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی تدبیر نکال دے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار.مرزا غلام احمد عفی عنہ ۳ / دسمبر ۱۹۰۰ء (20) چنانچہ قاضی صاحب جلد بعد ۱۹۰۱ء میں قادیان ہجرت کر آئے.حضرت عرفانی صاحب فرماتے ہیں: اس ہجرت میں خاکسار عرفانی کو بہت بڑا دخل تھا.اور پھر قادیان سے جانے کا انہوں نے نام نہیں لیا.اور قادیان ہی میں فوت ہو کر دفن ہوئے.اللہ تعالیٰ ان پر بڑے بڑے فضل کرے اور اپنے قرب کے مقام پر انہیں اٹھائے.آمین.(21) اپنے والد ماجد کی ہجرت کے قریب ہی ( یعنی ستمبر 1901ء میں ) قاضی عبدالرحیم صاحب * مراد محتر مه صالحہ بی بی اہلیہ قاضی عبدالرحیم صاحب

Page 43

42 بھی قادیان ہجرت کر آئے.قاضی محمد عبد اللہ صاحب بیان کرتے ہیں: ”حضرت والد صاحب ۱۹۰۱ء میں مع بھا وجہ صاحبہ (اہلیہ محترمہ مرحومہ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب) اور ان کے بیٹے عزیز قاضی بشیر احمد صاحب کے قادیان ہجرت کر آئے.میں اس وقت بورڈنگ میں تھا.بھا وجہ صاحبہ مرحومہ کی رہائیش اس وقت الدار کے نچلے حصہ کے اس کمرہ میں رہی جو ڈیوڑھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب ہے.میں بھی اس میں پہنچ جایا کرتا تھا.عزیز بشیر احمد اس وقت چھوٹا تھا.اس کو کھلانے کیلئے باہر لے آتا تھا.شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ڈیوڑھی کے آگے دربان کے طور پر حضرت والد صاحب رہتے تھے.اور حضور انور کی اجازت سے جلد سازی کا کام بھی شروع کر دیا.کیونکہ فارغ رہنا پسند نہ کرتے تھے اور جلد سازی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی کتب کو مجلد کرنے کا کام اس جگہ میں جوڈیوڑھی کے آگے تھی.کرتے تھے.رسالہ الھدی کی بہت ساری جلدیں جو اس وقت مصر میں بھجوائی گئی تھیں.ان کی جلد بندی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ارشاد کی تعمیل میں آپ نے ہی کی تھی.بعد میں جب اخی المکرم (قاضی عبد الرحیم صاحب کا جموں سے آنے کا انتظام ہوا تو ایک مکان جو مائی جھیوری کے نام سے مشہور تھا.جوڈ پٹی والے مکان کے آگے تھا.* اس لئے اس میں رہائش کا انتظام ہو گیا.کیونکہ الزار میں مہمانوں کی کثرت ہوگئی تھی.مائی جھیوری والے مکان کے ایک حصہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کچھ عرصہ تک رہائش پذیر ر ہے.اور ایک حصہ میں ہم تھے.یہ مکان بعد میں گرایا جا کر قصر خلافت کی زمین میں شامل ہوا تھا.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے مکان کے غربی دروازے کے آگے گلی میں یہ مکان تھا.عزیز قاضی عبدالسلام صاحب کی پیدائش بھی اسی مکان میں ہوئی تھی.محترمہ ہمشیرہ امتہ الرحمن صاحبہ مرحومہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت * اس ڈپٹی کا نام پنڈت شنکر داس تھا جو غالبا جموں میں کوئی سرکاری افسر تھا.والدہ محترمہ بیان کرتی ہیں مسجد اقصی کے ساتھ جو بڑی حویلی ہے.یہ اس نے خاص شرارت سے بہت اونچی بنوائی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کی بے پردگی ہو.مگر خدا تعالیٰ نے ان کو نیست و نابود کر دیا اس ڈپٹی کی جوان اور نہایت خوبصورت لڑکی طاعون کا شکار ہوگئی تو اس کی ماں نہایت دلدوز آواز میں بین کرتی تھی.اب اس مکان میں صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں جن میں اشاعت احمدیت کے کام سرانجام پاتے ہیں.بیان قاضی عبدالسلام صاحب.

Page 44

43 میں حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے پاس اندر رہتی تھیں.بعد میں حضرت مفتی صاحب کے اس حصہ سے چلے جانے پر اس مکان کو کشادہ کر لیا گیا تھا اور آخر تک حضرت والد صاحب اسی مکان میں مقیم رہے.اور اسی میں ان کی وفات ہوئی.مہاجرین کو مکانات کی دقت پیش آتی تھی اور غیر مسلم اس بے بسی سے ناجائز فائدہ اٹھانے سے قاصر نہیں رہتے تھے.اور تنگ کرتے تھے.چنانچہ حضرت اقدس نے مولوی عبداللہ صاحب سنوری کو ایک مکتوب میں نحمده و نصلّے.تحریر فرمایا کہ اس جگہ بڑی مشکل یہ ہے کہ مکان نہیں ملتا.اکثر لوگ شرارت سے دیتے نہیں.(22) قاضی صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا.جو آپ کے ذیل کے خط سے ظاہر ہے.بسم الله الرحمن الرحيم بحضور امامنا و حبيبنا بعد السلام عليكم ورحمة الله وبركاته عرض داشت آنکه مهدی حسین صاحب * رخصت سے واپس آگئے ہیں.اب عاجز کے واسطے کیا حکم ہے.یہاں کوچہ میں جلد بندی کی بہت چیزیں لڑکے بے خبر اٹھالے جاتے ہیں.کوئی چیز محفوظ نہیں رہتی.اس سے پہلے یہ عاجز چھاپہ خانہ کے مشرقی دروازہ میں حکیم صاحب کے حکم سے بیٹھتا رہا ہے.چونکہ اور کوئی ایسی جگہ موجود نہیں.لہذا سال بھر سے زیادہ وہیں گزارا ہوتا ہے کیا اب بھی وہیں اجازت دیتے ہیں یا کوئی اور جگہ جو عاجز کے حال کے موزون ہو؟ دراصل جگہ کے بارے میں عاجز از حد مضطر ہے.گھر کی نسبت یہ حال ہے کہ پرسوں ڈپٹی کے بیٹے نے بذریعہ ڈاک نوٹس دیا ہے کہ ایک ہفتہ تک مکان خالی کر دو.ورنہ تین روپیہ ماہوار کرایہ مکان واجب الادا ہو گا.اس وقت کے رفع کیلئے بھی حضور دعا فرما دیں کہ بے منتِ غیرے کوئی جگہ مولیٰ کریم میسر کرے و السلام مع والا کرام.عریضہ نیاز مسکین ضیاء الدین عفی عنہ کے جولائی ۱۹۰۲ء " اس خط کی پشت پر حضرت اقدس نے مندرجہ ذیل جواب تحریر فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حکیم فضل الدین صاحب سے دریافت کر لیجئے کہ مہمان خانہ میں آپ کیلئے جگہ نہیں اور عنقریب میرے اس دالان کے پیچھے ایک مکان بننے والا ہے.اس میں آپ رہ سکتے ہیں.* حضرت سید مهدی حسین صاحب مدفون بہشتی مقبرہ بہت مخلص بزرگ تھے حضور کے کتب خانہ کا کام بھی آپ کے سپر درہا ہے.(مؤلف)

Page 45

44 بالفعل گزارہ کر لیں.کوئی گھر تلاش کر لیں.والسلام (23) حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاص حالات کی وجہ سے مہمان خانہ کا وہ چھوٹا سا کمرہ جو جانب شمال مغرب تھا ان کو دیا.(بیان قاضی محمد عبد اللہ صاحب) کسب معاش کے ذرائع محدود ہونے کے باعث آپ جیسا بلند پایہ عالم اور حاذق طبیب جلد سازی اور سٹیشنری کی دکان برائے نام کرنے پر مجبور ہوا.کسی اکا دکا کتاب کی ایجنسی بھی آپ کے پاس تھی.(جیسا کہ الحکم /۱۰/۱/۰۲ ( ص ۷ (۲۴/۳/۰۲ ( ص ۱۲) (۲۴/۸/۰۲ ص ۱۵ میں مندرجہ اشتہارات سے صرف ایک کتاب کی ایجنسی آپ کے پاس ہونے کا علم ہوتا ہے ) حضرت اقدس اور اکثر علماء سلسلہ کی کتب سلسلہ کے ہی زیر انتظام فروخت ہوتی تھیں.اس لئے دراصل معمولی پیمانہ پر بھی کتب فروشی کا کوئی میدان نہ تھا.حضرت قاضی صاحب ستمبر 1901ء میں دفتر مدرسہ تعلیم الاسلام میں بطور محتر متعین کئے گئے.آپ کے بڑے فرزند قاضی عبدالرحیم صاحب کی اسامی جموں میں تخفیف میں آجانے کے باعث انہوں نے یہ موقع غنیمت جانا.اور وہ بھی قادیان اسی ماہ ستمبر میں ہجرت کر آئے.والد صاحب کی ملازمت پر ابھی پندرہ روز ہی گذرنے پائے تھے کہ آپ کو ان کی جگہ محر رمتعین کر دیا گیا.تنخواہ سات روپے ماہوار تھی.غالبا تبدیلی کا باعث یہ امر ہو گا کہ حضرت قاضی صاحب کو دفتری کام کا تجربہ نہ تھا اور اس بڑھاپے میں آپ سے دفتری کام کا بسہولت تمام سرانجام پانا ناممکن نظر آیا ہو گا اس لئے آپ کے فرزند کا جو جواں سال تھے.آپ کی جگہ تقرر عمل میں لایا گیا.جو بہر حال اس گھرانہ کی امداد کا رنگ رکھتا تھا.۱۶ / اکتوبر ۱۹۰۱ ء تک حضرت اقدس کے ہاں سے ہی اس خاندان کے تمام افراد کھانا کھاتے رہے.بعد ازاں بھی اس کا سلسلہ جاری رہا.البتہ (جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے) ۱۷ / اکتوبر سے اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب کا کھانا گھر میں تیار ہونے لگا.گو حضرت اقدس کی مہمان نوازی ان کیلئے بھی بدستور قائم تھی.چنانچہ قاضی عبدالرحیم صاحب اس تاریخ کے روز نامچہ میں تحریر کرتے ہیں:."آج پہلے روز روٹی گھر میں پکائی ہے.اس سے پہلے حضرت جی کے کھاتے رہے.ہم تو اب بھی حضرت جی سے ہی کھاتے ہیں.صرف اپنی زوجہ کی روٹی گھر میں پکنے لگی ہے.جس کو ہر روز صبح و شام حضرت جی کے گھر جانے میں تکلیف ہوتی ہے.“ حضرت مسیح موعود کو یہ امر زیادہ مرغوب خاطر تھا کہ مہاجرین خواہ وہ کسی کام پر متعین کر دیئے گئے ہوں.حسب سابق حضور کے ہاں (جہاں مدت دراز تک حضور کی براہ راست نگرانی میں لنگر خانہ کا انتظام رہا ) یا لنگر خانہ

Page 46

45 سے ( جب اس کا انتظام باہر دوستوں کی نگرانی میں دے دیا گیا تھا) کھانا حاصل کرتے رہیں.اس کا باعث یہ امر ہوگا کہ مہمان نوازی کی صفت جو انبیاء میں خاص طور پر پائی جاتی ہے.آپ میں بھی بکمال موجود تھی.یقیناً اس طور پر احباب میں محبت و مودت کے جذبات متموج ہو جاتے ہوں گے.نیز صحابہ وصحابیات کو سلسلہ کی برکات سے ستفیض ہونے کیلئے لازماً زیادہ فراغت بھی حاصل ہو جاتی ہوگی.قاضی محمد عبد اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ” جب تک دار اسیح کے نچلے حصہ میں والد صاحب کا قیام رہا.آپ جلد سازی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو مجدد کرنے کا کام اس جگہ میں جو ڈیوڑھی کے آگے تھی کرتے تھے.دکان کا کام بعد میں مہمان خانہ کی ایک چھوٹی کوٹھڑی میں جو جانب شمال مغرب تھی ہوتا تھا.جلد سازی کے ساتھ معمولی سٹیشنری کا کچھ سامان مدرسہ کے طلباء کے لئے بھی رکھا ہوتا تھا.بھائی مرحوم ( قاضی عبد الرحیم صاحب) کے جموں چلے جانے پر میں بھی بعض دفعہ بٹالہ یا امرتسر سے سامان سٹیشنری لے آتا تھا.جو زیادہ تر کاغذ قلم دوات، پنسل پر مشتمل ہوتا تھا اس کی معمولی سی آمد ہوتی تھی.غرض یہ تھی کہ بے کار نہ رہا جائے اور خانگی اخراجات میں کچھ تخفیف کی صورت ہو جائے.میں کھانا گھر میں کھاتا تھا.مگر انجمن سے مجھے تین روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا.جس میں سب اخراجات برداشت کرنے ہوتے تھے.“ علاوہ ازیں قادیان میں میاں اللہ یار صاحب ٹھیکیدار رضی اللہ عنہ کولکڑی کے ٹال کے کاروبار میں شرکت کیلئے دوصد روپیه با قاعدہ اشکام لکھ کر دیا گیا تھا.اس بارہ میں حضرت قاضی صاحب روز نامچہ میں لکھتے ہیں کہ ”مولانا نور الدین صاحب، حکیم فضل الدین صاحب و ( میاں ) معراج الدین صاحب ( عمر ) لاہور کی شہادت سے یہ لین دین ہوا.اسلامی طریق یہی ہے کہ وَلا تَسْتَمُوا اَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَو كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ.....إِلَّا انُ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً........(24)* بہت سے نقصانات اور تنازعات اس کی عدم تعمیل کے باعث ہوتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کے زمانہ میں قادیان میں صحابہ کرام میں یہ اسلامی طریق جاری ہو چکا تھا.قادیان میں اکتساب معیشت کے ذرائع بہت محدود تھے.محدود کیا بلکہ سرے سے موجود ہی نہ تھے.* سورة البقره آیت ۲۸۳

Page 47

46 قادیان میں ہند و بازار میں ایک ادنی سی دودھ کی دکان تھی.دودھ نہ بکتا تو دہی میں اور پھر دہی سے کسی اور شئی میں دکاندار تبدیل کرتا.ادنی سا کپڑا بھی بمشکل دستیاب ہو سکتا.آٹا لنگر خانہ کیلئے دھار یوال سے جو سات آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے لایا جاتا.معمولی ضروریات بھی کسی دکان سے حاصل نہ ہو سکتی تھیں.قریب ترین شہر بٹالہ تھا.جو بارہ میل دور تھا.اس زمانہ کی سواری یکہ تھا.جس پر سوار ہو کر گڑھوں کی کثرت والی کچی سڑک پر ہچکولے کھانے اور گرد پھانکنی پڑتی تھی.لوگ جاہل اور اجڈ تھے.علاقہ پسماندہ تھا ایسی صورت میں یہاں ذرائع آمد بھلا ہو ہی کیونکر سکتے تھے.تمام مہاجرین نہایت تقشف کی زندگی بسر کر رہے تھے.اور قادیان کا علاقہ وادٍ غیر ذی زرع“ سے مشابہت تام رکھتا تھا.وہ کسی دینوی لالچ کے زیر اثر کھنے نہیں آتے تھے.بلکہ مہاجر فی سبیل اللہ بن کرمخلصین لہ الدین کی حالت پیدا کر کے دنیا و مافیھا سے منہ موڑ کر اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے ناتا جوڑ کر ابتغاء لوجہ اللہ دیار حبیب میں دھونی رما کر بیٹھ جاتے تھے.قادیان میں حالت وحی الہی ضَاقَتِ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ رَبِّ إِنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرُ (25).والی تھی.حضرت مسیح موعود کے معاندا قارب اور ان کے زیر اثر غیر مسلموں سے بے حد اذیت ذہنی و جسمانی برداشت کرنی پڑتی تھی.قرآن مجید اور حضور کی وحی کے مطابق گزرعٍ أَخْرَجَ شطاه والی حالت تھی مہاجرین صبر ورضاء کے مجسمے تھے.ان کا منتہائے مقصود حصول رضاء الہی تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکات سے بھر پور اور انوار سے معمور مجالس میں شامل ہوکر اکتساب نور کرنا.آپ کی زبان مبارک سے تازہ بتازہ وحی الہی سننا.تائید و نصرت الہی کے نشانات دیکھنا ان کی روح کی غذا تھی.حضور کی علالت و سفر کے ایام میں وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپتے تھے.ایسے ہی مخلصین کو وحی الہی نے اصحاب الصفہ قرار دیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب الصفہ سے مماثل گردانا تھا اور ان سے حسن سلوک کی تلقین آغاز بیعت سے بھی سات سال قبل کی تھی.چنانچہ ۱۸۸۲ء کی وحی میں ہے: ولا تُصَعِرُ لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَسْتَمُ مِنَ النَّاسِ أَصْحَابُ الصُفَّةِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا أَصْحَابُ الصُفَّةِ.تَرَى أَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ يُصَلُّونَ عَلَيْكَ.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِياً يُنَادِي لِلْإِيمَان “ (26) گیارہ سال بعد ۱۸۹۳ء میں پھر اس بارہ میں وحی الہی ہوئی.اس میں اصحاب الصفہ“ سے قبل و اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُسْلِمِينَ ، کے اور آخر پر رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِینَ“ کے مزید الفاظ بھی شامل

Page 48

47 ہیں.(27).پھر مزید تیرہ سال بعد ۱۹۰۶ء میں وحی الہی ہوئی.اس میں مذکورہ پہلی وحی سے کچھ الفاظ زیادہ ہیں.وَلَا تَسْتَمُ مِنَ النَّاسِ کے بعد وَوَسِعُ مَكَانَكَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَرَبِّهِمْ.وَاتْلُ عَلَيْهِمْ مَا أُوحِيَ اَلِيْكَ مِنْ رَّبِّكَ کے الفاظ بھی ہیں.(28).تکرار وحی سے ان کا مقام رفیع بیان کیا گیا ہے تا کہ ایک تو دوسروں کو بھی ہجرت کرنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی تحریک ہو.دوسرے اصحاب الصفہ کے ایمان باللہ.تو کل علی اللہ.استقامت رزق کفاف اور تنگی معیشت پر صبر جیسے اوصاف حمیدہ میں مزید ترقی اور جلا پیدا ہو.اور اللہ تعالیٰ کی رضاء اور ثواب آخرت کی خاطر بہ صد جذبات تشکر و امتنان - اقارب کی طعن و تشنیع.اغیار کی انگشت نمائی اور ایذا دہی سبھی کچھ برداشت کرتے رہیں.علاوہ ازیں بیت اللہ شریف یا شائید دار امسیح کے متعلق ہی یہ الہام ہوا.“ الْبَيْتُ الْمُحَوَّفَةٌ مُلِئَتْ مِنْ بَرَكَاتٍ“ (29) یعنی وہ گھر جولوگوں کے ہجوم سے گھرا ہوا ہے.برکتوں سے بھرا ہوا ہے.یہ بھی الہام ہے کہ "وَكُحل هَالِكَ إِلَّا مَنْ قَعَدَ فِي سَفِينَتِي اعْزَازٌ - (30) حضرت مسیح موعود نے دار مسیح کو کشتی نوح کا مماثل قرار دیا ہے.گویا حضرت قاضی صاحب اور دیگر اصحاب و جن کو اس الدار میں قیام کا موقعہ ملتا تھا.یہ امر ان کے لئے باعث اعزاز واکرام تھا.وہ حضور کے قرب.معیت اور برکات سے حصہ وافر پاتے تھے.اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آنحضرت صلعم سے عشق : احکام شریعت کی پابندی اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و اخلاص قاضی صاحب کے روز نامچہ میں ہر قسم کے اندراجات سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہوتا ہے.سمہ ۱۹۵۶ کے شروع میں حساب آمد و خرچ لکھنے سے پہلے لکھا ہے: لکھا ہے: يا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک ،، اپنے فرزند فیض رحیم مرحوم کو مکتب میں تعلیم قرآن کیلئے بھیجا تو روزنامچہ میں ان الفاظ میں نوٹ الحمد لله و المنته که امروز تاریخ...ماه ربیع الاول ۱۳۰۱ھ بروز دوشنبه که روز تولد سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم و روز معراج آں خلاصہ موجودات است صلی اللہ علیہ

Page 49

48 وسلم.بوقت اشراق موافق ہر دہم ماہ نومبر ۸۸۵اء عزیزی ارجمندی فیض رحیم در مکتب بزانوئے ادب نشستہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ابتداء بہزار انشراح خاطر به خواند - الہی بطفیل اسماء حسنی خود آن نونہال باغ وجود حقیر و دل پیر را از عمر و جوانی کامیاب دارین داشته از علم و عمل خصوصا علوم کتاب و سنت رسول صلحم خود بزودے تمام بہرہ ور گر دانش آمین ثم آمین.......66 اپنی بیٹی آمنہ بی بی مرحومہ کے جو ان کے بھانجہ قاضی نظیر حسن صاحب مرحوم سے بیاہی ہوئی تھیں.شادی کے بعد دوسری بار اپنے گھر کو رخصت ہونے کے وقت روز نامچہ میں رقم فرماتے ہیں: بروز دوشنبه بوقت اشراق که از و اشرقت الارض بنور ربها یا میدارد......فروری ۱۸۸۷ء.......و الفاظ استودع الله دینکم و ایمانکم و خواتیم اعمالکم بر زبان ناتواں راندم و وصیت تقویٰ و اتباع کتاب و سنت و اطاعت ذوی الحقوق کرده بچشم گریاں و دل بریاں زار ونزار واپس استادم - والحق ما قال القائل از سنگ گریه آید وقت وداع باران من همچناں بگریم چوں ابر نو بہاراں في الآخر من عاجز بصدق دل وا خلاصے کہ بجناب تو مارا حاصل است دعا میکنم که آں عزیزہ وعزیز را سوائے اطاعت حکیم تو حکم رسول تو وظیفہ دائی ایشاں نباشد آمین ۱۷ ماگھ سمہ ۱۹۵۷ ( یکم دسمبر ۰ ۱۹۰ء) کی تاریخ میں روز نامچہ میں لکھا ہے: از پیشگاه حکیم فضل الہی لاہوری دو قطعه تصویر حضرت اقدس ایک میں اس عاجز نابکار کی تصویر بھی ایک کونے میں ہے.شیخ محمد جان وزیر آبادی کے داہنے بازو کے قریب.الہیا! مل کا طفیل اپنے مسیح موعود کی ظاہری معیت کے اور اس کی جماعت کے میرا بیڑا بھی پار کر یو.اور اپنے ابرار واخیار کے ساتھ حشر ہو.آمین مور عاجز ہو سے کرد که در کعبه رود دست در پائے کبوتر زد ناگاه رسید ایک تصویر حضرت اقدس مع صحابہ کرام الفضل جلسہ سالانہ نمبر بابت ۱۹۵۸ء کے سرورق پر شائع ہوئی ہے.غالباً یہی تصویر مراد ہوگی.کیونکہ آپ کی تصویر کونے میں ہے.ان صحابہ کرام میں جو اگلی صف میں بیٹھے ہیں.کوشش ہے کہ اسماء سمیت اسے کتاب ہذا میں درج کیا جائے.وباللہ التوفیق.

Page 50

49 تہجد گذاری رقت قلب اور انکسار : قاضی عبدالرحیم صاحب بیان کرتے تھے کہ والد صاحب نے بتایا تھا کہ میں نے تہجد کی نماز چھوٹی عمر میں پڑھنی شروع کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ناغہ بھی نہیں کیا.آپ کی طبیعت میں بے حد سوز و گداز ودیعت ہوا تھا.اور آپ بہت رقیق القلب تھے.جیسا کہ زیر عنوان سابقہ آپ کے اقتباسات سے ظاہر ہے اور اس عبارت سے بھی جو آپ نے پہلی بار حضور کی زیارت کے موقعہ پر ۱۸۸۵ء میں مسجد اقصی کی دیوار پر رقم کی تھی.آپ ہجرت کے بعد ستمبر ۱۹۰۲ ء میں ایک بار پھر اپنے وطن غالبا بقیہ سامان وغیرہ لینے گئے تھے.۴ رستمبر کی تاریخ میں لکھتے ہیں: اپنی قدیم حویلی کے صفہ کے دروازے کو جب روانہ ہوتے ہوئے عاجز نے قفل لگایا.اس خیال سے کہ اب مجھے کیا معلوم ہے کہ اس قفل کوکھولونگا.اس قدر رقت دل بیدل پر ہوئی کہ سوائے خدا کے اس غم کی لذت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا.“ آپ رقیق القلب ہونے کے علاوہ بہت منکسر المزاج بھی تھے.حقیقت یہ ہے اباء واستکبار ہی دین کی تباہی اور الہی سلسلہ کو نہ قبول کرنے کی جڑھ ہیں.آپ اپنے تئیں ہمیشہ مسکین ضیاء الدین“ لکھتے تھے.اور یہ انکسار کا اظہار بنی بر حقیقت تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کو بمقام گورداسپور دعاء کے جواب میں جو وحی فرمائی وہ یہ تھی.وو وہ بیچارہ فوت ہو گیا ہے“ (31) گویا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی مسکین کا مترادف لفظ بیچارہ استعمال فرمایا ہے.اس سے میں اندازہ کرتا ہوں کہ ان کے ایمان کی جڑھ یہ انکسار ہی تھی.جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعہ نمایاں فرمایا ہے.مجھے بوقت نظر ثانی حضرت عرفانی صاحب کے آپ کے متعلق مندرجہ ذیل الفاظ دستیاب ہوئے ہیں.آپ فرماتے ہیں.نہایت مسکین طبع اور منسکر المزاج تھے.ہمیشہ اپنے نام کے ساتھ مسکین“ کا لفظ لکھا کرتے تھے.“ (32) یوں تو ہر انسان اللہ تعالیٰ کی ذات کے اعتبار سے بیچارہ ہے.لیکن فـعـل الـحـكـيــم لا يخلوا عن الحكمة کے مطابق خاکسار مؤلف کے نزدیک الہام میں بیچارہ " کا لفظ بعض حکمتوں کے ماتحت ہی آیا ہے.

Page 51

50 *.ایک تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے ایسے سوز اور درد سے دعا کی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے تعزیت کے طور پر بتایا کہ اے مسیح ! جس کی شفایابی کیلئے آپ نے دعا کی ہے وہ بیچارہ تو فوت ہو چکا ہے.دوسرے تعزیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قاضی صاحب کے متعلق ترحم کا اظہار کیا ہے.محاورہ میں بیچارہ“ کا لفظ اظہار ترتم کے لئے مستعمل ہے.تیسرے قاضی صاحب کی طبیعت میں جو انکسار تواضع اور فروتنی پائی جاتی تھی.اس کا بھی اظہار ہوا ہے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کی دلداری کرتا ہے اور مقربین کے اقارب کی بھی دلداری کرتا ہے.تا ان کے نیک خاتمہ کے باعث وہ عباد شکور نہیں اور صبر جمیل کی توفیق پائیں اور بعد میں آنے والوں کے قلوب میں ایسے مراتب رفیعہ کے حصول کیلئے تڑپ پیدا ہو.واللہ اعلم بالصواب.نذرانہ اور چندہ اوراق سابقہ میں قاضی صاحب کے نذرانوں کا ذکر کیا جا چکا ہے.روز نامچہ میں یہ بھی مرقوم ہے کہ آپ نے دس روپیہ چندہ منارۃ اُسیح کے لئے دیا.آپ کے ذاتی روز نامچہ میں متعد دمقامات پر ہم یہ ذ کر پاتے ہیں.بخدمت امام الوقت.چنده " روز نامچه مدرسہ تعلیم الاسلام بابت مارچ ۱۹۰۱ء میں آپ کے چندہ کی وصولی درج ہے.(33) اور روز نامچہ اپریل 1901ء میں آپ کے اور آپ کی معرفت قاضی محمد یوسف صاحب کے چندہ کی وصولی مذکور ہے.(34).یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے گاؤں کے احمدیوں کا چندہ آپ کے زیرا ہتمام مرکز میں وصول ہوتا تھا.ہجرت کے بعد بھی بعض ہم وطن آپ کی معرفت چندہ ادا کرتے تھے.جیسے احکم کا چندہ مولوی احمد دین صاحب نے آپ کی معرفت ادا کیا.(35) احباب سے یہ امرمخفی نہ رہے کہ اس وقت جماعت کی اکثریت قلیل آمدنی والے افراد پر مشتمل تھی اور آغاز میں غرباء ہی کثرت سے الہی سلسلہ کو قبول کرتے ہیں.نیز اللہ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا ہے.لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاءُ هَا وَلَكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ *.اور یہی تقویٰ کی روح ہی حیرت انگیز انقلاب پیدا کرتی ہے اور اس کے اثرات بہت دیر پا اور دور رس ہوتے ہیں.اسلام جاں بہ لب تھا.جس کا احیاء حضرت اقدس کے ہاتھوں ہور ہا تھا.اس وقت جو جو کا ایک دانہ بھی زندگی بچانے کیلئے پیش کرتا.وہ جواہر کے دانہ بلکہ کروڑی جواہرات سے بھی زیادہ قابل قدر تھا.جو بعد میں کبھی پیش کئے جاتے.جب کہ اسلام کی ایسی حالت مبدل بہ خیر سورة الحج - آیت نمبر ۳۸

Page 52

51 * ہو چکی ہوتی.اسی وجہ سے حضرت اقدس نے اپنی بعض تصانیف میں اخلاص سے ادا کردہ قلیل ترین رقوم کا ذکر کیا ہے.مرض الموت اور انتقال : ** قاضی محمد عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں ” میرے والد صاحب ۱۲ مئی ۱۹۰۴ ء کو فوت ہوئے.حضرت اقدس ان ایام میں گورداسپور جایا کرتے تھے.میرے والد صاحب اس وقت اس کمرے میں جہاں اب میاں مولا بخش کی دکان ہے.** بیمار پڑے تھے.اس وقت وہاں مدرسہ کی ایک کلاس ہوتی تھی.ان ایام میں مدرسہ میں رخصتیں تھیں.والد صاحب کا دل چاہتا تھا کہ جب حضور اس گلی سے گذریں تو میں ان کو دیکھوں.چنانچہ جب حضرت گذرے تو ایک کھڑ کی کھلی تھی.اس میں سے انہوں نے مشکل سے حضرت صاحب کو دیکھا.اور اس کے کچھ عرصہ کے بعد ان کا انتقال ہو گیا.حضرت واپس تشریف لائے تو ایک دن وہ گھر میں بیٹھے ہوئے کچھ تحریر فرما ر ہے تھے.اس وقت میری ہمشیرہ نے والد صاحب کی اس خواہش کا ذکر کر دیا.اس پر فرمایا اگر وہ مجھے کہتے تو میں ضرور آتا.حضور کو اس وقت بڑی تکلیف ہوئی اور اس وقت تحریر لکھنی بند کر دی اور پھر ٹہلتے رہے.“ ” میرے والد صاحب کی وفات سے قبل حضور کو الہام ہوا تھا: وہ بیچارہ فوت ہو گیا ہے“ حضرت صاحب کو گورداسپور میں ان کی وفات کا علم ہوا تو بہت افسوس کا خط لکھا.میرے متعلق فرمایا تھا کہ لنگر کا کھانا جاری رہے.چنانچہ ۱۹۰۷ء تک جب تک میں ملازم نہیں ہو گیا لنگر سے کھانا کھاتا رہا.“ (36) قاضی عبدالسلام صاحب بیان کرتے ہیں کہ جہاں تک مجھے یاد ہے.ہماری پھوپھی امتہ الرحمن صاحبہ صحیح تاریخ پندرہ مئی ہے جیسا کہ بعد میں تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے.میاں مولا بخش صاحب باور چی لنگر خانہ (جواب درویشی زمانہ میں وفات پا کر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہو چکے ہیں) ایک وقت میں اس کمرہ میں دکان کرتے تھے.جو احمد یہ درزی خانه ( واقع چوک مسجد مبارک) کے قریب ان سیٹرھیوں کے جنوب کی طرف تھا.جور یو یو آف ریلینجز والے دفتر کو جاتی تھیں.یہ کمرہ اب مدت مدید سے مدرسہ احمدیہ کا ایک کمرہ ہے.مؤلف.

Page 53

52 نے ہمیں بتایا تھا کہ حضرت دادا صاحب کے ایام مرض الموت میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور به سلسلہ پیشی مقدمہ تشریف لے جانے والے تھے تو دادا صاحب نے خواہش کی کہ حضرت صاحب سے عرض کرو کہ میرا ملنے کو بہت دل چاہتا ہے.اس لئے تشریف لے جاتے ہوئے اس طرف سے گذر جائیں تا کہ مجھے کھڑکی میں سے دیکھنے یا ملاقات کا موقعہ مل جائے.مگر پھر روک دیا کہ حضور علیہ السلام کو تکلیف ہوگی.پھر کہتے.پھر روک دیتے.آخر یہی کہا کہ تکلیف نہ دی جائے.جب گورداسپور سے واپسی پر حضور علیہ السلام کو اس بات کا علم ہوا.ہماری پھوپھی صاحبہ نے ( جو حضور کی اہل بیت کی خادمہ ہونے کا شرف رکھتی تھیں.) حضور کو بتایا تو حضور نے سخت بے چینی اور اضطراب کا اظہار فرمایا اور اٹھ کر ٹہلنے لگے.اور بار بار فرماتے امتہ الرحمن ! تم نے مجھے کیوں نہ قاضی صاحب کا یہ پیغام دیا.میں ضرور روانہ ہونے سے پہلے ان کومل جاتا.قاضی عبد الرحیم صاحب بیان کرتے تھے کہ وفات سے قبل حضرت قاضی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے اپنی اولا دکو مسیح کے دروازے پر لا کر چھوڑا.یہ میری خواہش تھی اور کوئی خواہش باقی نہیں.اگر حضرت صاحب ملتے تو ان سے دو باتیں کرنی تھیں.آپ کا جنازہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھا تھا.بہشتی مقبرہ کا قیام ایک سال بعد عمل میں آیا.آپ کو روڑی نام قبرستان میں جو باب الانوار میں ڈھاب کے شمال مشرق کی طرف ہے.دفن کیا گیا.آپ کی قبر کے ارد گر دحد بندی کے طور پر پرانی چھوٹی اینٹیں لگی ہوئی ہیں.وہاں جو پرانی چار دیواری ابھی تک کھڑی ہے.اس کے بالکل متصل جنوب میں یہ قبر ہے.محترم قاضی عبدالسلام صاحب نے جب آپ چند سال قبل قادیان تشریف لائے تھے.مجھے دکھائی تھی.ابھی تک محفوظ ہے.حالات سازگار ہونے پر وہاں کتبہ لگوا دیا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.آپ کی وفات پر آپ کے روز نامچہ میں قاضی عبد اللہ صاحب نے ذیل کا اندراج کیا تھا: تاریخ وفات حضرت ابوی صاحب مرحوم و مغفور رحمۃ اللہ علیہ ۱۵ مئی ۱۹۰۳ء بشب دوشنبه بعد اذان مغرب.اس وقت عاجز راقم اور ہمشیرہ فاطمہ بی بی اور بھا وجہ صاحبہ صالحہ بی بی اور بشیر احمد عبد السلام (یعنی دونوں پوتے.ناقل ) موجود تھے کہ اس جہاں سے بغیر تکلیف بے ہوشی کے کلمہ توحید پڑھتے ہوئے اور عمدہ عمدہ نصائح کرتے ہوئے ایک ماہ بیمار رہ کر بعارضہ پیش ہچکی.قے.اس جہاں سے عالم بقا کو رحلت فرما گئے.انا للہ و انا اليه راجعون.اللهم اغفر له وارحمه و ادخله فى رحمتک انک انت ارحم الراحمين.

Page 54

53 * ** اس وقت مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی عمر ( بحساب سمسی ۶ ا دن کم ۶۱ سال کی تھی..افسوس صد افسوس کہ اس وقت برادرم عبد الرحیم صاحب قادیان میں موجود نہ تھے اور جموں تھے.دوروز کے بعد یعنی سے امئی کو جموں سے آئے.(آگے بیماری اور علاج کی تفصیل لکھی ہے اور آخر پر لکھا ہے کہ ) غرض ۱۵ مئی ۱۹۰۹ء کی صبح سے آپ کی رُوح پرواز ہونے لگی.دو پہر کے وقت نبض بالکل نہ رہی.اور ناخن سیاہ فام ہو گئے.اس وقت سے تھوڑے سے پہلے وصیت شروع کی.جو لوگ آتے ان کو اپنے کلمہء توحید کا گواہ بناتے اور مولوی صاحب ( حضرت مولوی نورالدین صاحب مراد ہوں گے.مولف ) کو فرمایا کہ میرا تجہیز و تکفین خود کرنا..( ورثاء کو کہا.مؤلف ) حصہ جائیداد شرعی ہو اور بہنوں کو حصہ دینا.میری روٹی با قاعدہ دیتے رہنا.اور صدقہ کرنا اور میری ۱۲ یا ۱۵ نمازیں قضاء ہوئی ہیں.ان کو پورا کرنا...حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سچا ماننا.اور وہ میرے بعد سے تم پر نظر شفقت کریں گے اور ان کا دامن نہ چھوڑنا.اور مجھے فرمایا.انٹرنس کے بعد ڈاکٹری کی تعلیم شروع کرنا.اور مولوی صاحب سے حدیث پڑھنا.اور شیخ غلام احمد صاحب* اور صالحہ بی بی اور ہمشیرہ اور عاجز سب سے معافی مانگی اور کلمہء توحید پڑھتے ہوئے شہید ہوگئے.انا للہ و انا اليه راجعون.اس سے پہلے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کیلئے کئی بار التجائیں کیں اور تین دن پہلے انہیں الہام ہوا.وہ بے چارہ فوت ہو گیا ہے“ ** شیخ غلام احمد صاحب واعظ ( مدفون بہشتی مقبرہ) جو ان دنوں قادیان میں شیر فروش تھے.زیہ الہام سلسلہ کے اخبارات میں حضرت اقدس کے عہد مبارک میں شائع نہیں ہوا.اس کا اولین تحریری ریکارڈ مندرجہ بالا ہے.جو خاکسار پہلی دفعہ شائع کر رہا ہے.اس کی ایک تصدیق اور بھی درج کرتا ہوں.محترم ڈاکٹر عطر الدین صاحب درویش کی بیعت ۱۸۹۹ء کی ہے.اور وہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب کے ہمزلف بھی ہیں.ان سے خاکسار مولف نے بوقت تالیف کتاب ہذا دریافت کیا کہ حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کے متعلق کوئی قابل ذکر بات بیان کریں.انہوں نے از خود مندرجہ بالا الہام بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت اقدس اس وقت بمقدمہ کرم دین گورداسپور میں تھے.اور میں بھی حضور کی خدمت میں گورداسپور میں تھا.اس وقت کا حضور سے سنا ہوا یہ الہام مجھے اب تک یاد ہے : تذکرہ طبع ثانی (ص۷۸۲) میں یہ الہام الحکم مورخہ ۲۱۱۴ فروری ۱۹۳۹ء کے حوالہ سے درج ہوا ہے.الحکم میں یہ ذکر ہے کہ نومبر ۱۹۳۳ء میں حضرت مولوی شیر علی صاحب نے ذیل کی روایت بیان کی تھی.جو ۱۲ دسمبر کو مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتا لوٹی نے سرگودھا میں بیان کی.اور اس وقت به ثبت شہادت ضبط تحریر میں لائی گئی.(باقی اگلے صفحہ پر )

Page 55

54 آخر ایک رقعہ اس مضمون کا ماسٹر عبدالرحمن صاحب * سے لکھوایا کہ میں استقلال سے ( ہوں ) اور مستقل ہوں.اور آپ کو سچا مانتا ہوں.میرے کلمہ کے گواہ رہیں.میں راضی بقضاء ہوں.....قاضی عبدالرحیم صاحب نے اپنے روز نامچہ میں ۲۲ مئی ۱۹۰۴ء کی تاریخ میں لکھا: 66 آج حضرت صاحب گورداسپور سے تشریف لائے.* * دعاء کے لئے عرض کی اور جنازہ کے لئے.ظہر کی نماز کے بعد حضرت نے جنازہ پڑھایا.بڑی لمبی دعا کی.ایسی آگے میں نے نہیں دیکھی.بعد ازاں مولوی عبد الکریم صاحب نے چند آدمیوں کو مخاطب کر کے کہا پرانے آدمیوں کی ایسی ہی قدر ہوتی ہے.“ حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ اول) نے قاضی عبدالرحیم صاحب کو ذیل کا تعزیتی مکتوب ارسال کیا: جو پیدا ہوا وہ جدا ہوگا.نماند کسے چو محمد نہ ماند - عیال کو ضر ور ساتھ رکھنا چاہئے.قادیان میں مکان بنالو.اور جب موقعہ لگے یہاں ضرور آیا کرو.آپ لاحول اور درود اور الحمد بہت پڑھا کریں.نورالدین ۷اجون ۱۹۰۴ء ( روز نامچہ ) چوہدری فیض احمد بھٹی ولد چوہدری محمد دین صاحب (صحابی ) نے جو ۱۹۴۷ء سے ہجرت کر کے بمقام گنری ( سندھ) مقیم ہیں.ذیل کے واقعات حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کے متعلق تحریر فرمائے ہیں : * بقيه حاشیه : اور بعد ازاں من وعن پر چہ مذکور میں شائع ہوئی ہے.حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بیان فرمایا : ”جب حضرت اقدس کو مقدمات تھے.اور عدالت میں حاضری کی تاریخیں نزدیک نزدیک آتی تھیں.تو حضرت اقدس علیہ السلام گورداسپور کچھ دیر مقیم رہے اور ادھر قاضی صاحب مذکور بیمار ہو گئے.انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک عریضہ نہایت انکساری کے الفاظ میں دُعا کی درخواست کرتے ہوئے لکھا.حضرت اقدس کو بھی ان سے بہت پیار تھا.کیونکہ انہوں نے آپ کی اس وقت بیعت کی جب کہ آپ کے مرید معدودے چند ہی تھے.اور آپ خود اپنے مریدوں کو گھر سے اپنے ہاتھوں کھانا لا کر دیتے.جس چیز کی کھاتے وقت ضرورت ہوتی.آپ خود اندر جا کر لاتے.حضرت اقدس علیہ السلام نے خط پہنچنے کے بعد دعا کی.اور آپ کو رات کے وقت جواب ملا وہ بیچارہ فوت ہو گیا ہے آپ نے صبح حاضرین سے کہا کہ میں نے اس طرح سے دعا کی تھی.اور یہ جواب ملا ہے.تھوڑی دیر بعد ڈاک میں خطہ آیا کہ قاضی صاحب فوت ہو گئے ہیں.“ ہو.مراد ماسٹر عبدالرحمن صاحب ( سابق مہر سنگھ ) ** ۸ سے ۱۲ مئی تک حضور کا قیام گورداسپور میں رہا.(ملاحظہ ہوا الحام۱۷/۵/۰۴اص ۵ والبدر ۱۶ / ۸ مئی ۳، ص ۱۵)

Page 56

55 پیدائش: اہلیہ ام مکر مہ نواب بیگم صاحبہ بنت میاں رکن الدین صاحب صحابی بیان کرتی ہیں کہ میری والدہ مکرمہ مریم بی بی صاحبہ صحابیہ جو حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کی بھانجی ہیں.ذکر کرتی تھیں کہ میں نے اپنے نتھیال موضع کوٹ جان بخش ضلع گوجرانوالہ میں ہی پیدائش اور پرورش پائی اور وہیں ہوش سنبھالا تھا.میری نانی صاحبہ ( والدہ حضرت قاضی صاحب) فرماتی تھیں کہ جب گیارہ بچیوں کے بعد ( جن میں سے چار نو عمری میں فوت ہو گئیں ) مجھے پھر امیدواری تھی.اور کچھ عرصہ گذرا تو ایک دن میرے خاوند حضرت قاضی غلام احمد صاحب جو ولی اللہ اور بڑے دعا گو مشہور تھے.صبح کی نماز کے بعد مسجد سے آ کر فرمانے لگے کہ آج خدا تعالیٰ نے اطلاع بخشی ہے کہ تمہیں ایک نیک لڑکا دیا جائے گا.اسی طرح دوسرے روز پھر آ کر بتایا کہ آج اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تم گیارہ دفعہ سورۃ اخلاص پڑھ کر دائیں جانب پھونکا کرو.تیسرے دن پھر آ کر فرمایا کہ مجھے تمہارے پیٹ پر ضیاء الدین لکھا ہوا دکھایا گیا ہے.چنانچہ آپ اپنے یقین کی بناء پر مجھے پہلے سے ہی ”ضیاء کی اماں ضیاء کی اماں“ پکارنے لگے.مگر میں اس خیال سے کہ کیا ایسا بھی ہوگا.شرم و حجاب کی وجہ سے آپ کو منع کر دیتی کہ بات اخفا میں رہے.مبادا شرم سار ہونا پڑے.لیکن خدا تعالیٰ کی بات اپنے وقت پر پوری ہوگئی اور ضیاء الدین نام رکھ دیا گیا.میں نے بھی اسی عرصہ میں خوب دعائیں کیں کہ خدا تعالیٰ لڑکا ہی دے.جو نہایت ہی پاک باز حاجی اور عمر والا ہو.مگر یہ دعانہ کی کہ وہ میرے پاس بھی رہے.چنانچہ وہ زیادہ تر باہر ہی علم دین وغیرہ حاصل کرتے رہے.قاضی محمد عبد اللہ صاحب تصدیق فرماتے ہیں.ولی اللہ کا ذکر : حضرت قاضی صاحب کے والد حضرت قاضی غلام احمد صاحب نے جو صاحب کشف اور رو یا صادقہ تھے.اپنے متعلق کوئی نظارہ دیکھا.آپ سبز پگڑی اور سبز ہی لمبا گر تہ پہنتے تھے.پاؤں میں سادہ جوتی اور ہاتھ میں ہمیشہ سونا (عصا) رکھتے تھے.اس نظارہ کی بناء پر موضع بھڑی شاہ رحمان جہاں ایک بھاری میلہ لگتا ہے.تشریف لے گئے.اور وہاں کئی لوگوں اور

Page 57

56 واقف کاروں سے اپنا حلیہ بیان کر کے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا آدمی دیکھا ہے.سب نے یہی کہا کہ ہم نے نہیں دیکھا.چنانچہ گھر آن کر بیان کیا کہ ہم اس سال اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جائیں گے.اس لئے کہ ایسا واقعہ پیش آیا ہے.چنانچہ غالباً آپ دو ماہ کے اندر ہی فوت ہو گئے.اور خدا کے پاس چلے گئے.(۲) چونکہ موضع کوٹ جان بخش ضلع گوجرانوالہ کے لوگ خاص طور پر حضرت ولی اللہ کے بڑے معتقد تھے.اس لئے وہ عجیب نظارے بیان کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ ایک جاٹ اپنے کھیت کے کیارہ کو پانی لگا کر جس کے نزدیک ہی ولی اللہ صاحب کی قبر تھی.اپنے اعتقاد کی بناء پر یہ کہہ کر پورا نچنت ہو کر سو گیا کہ جب کیا رہ بھر جائے گا.مقبول خدا اُٹھا دیں گے.اور جب کیارہ بھر کر اچھلنے والا تھا تو آپ خواب میں اس کے پاس آئے اور سونٹے سے ٹھوکر مار کر کہا.کہ اٹھ پانی ہمارے سپر د کر کے خود سو گیا.چنانچہ وہ اٹھا اور دیکھا تو واقعی اچھلنے والا تھا.مگر سونٹے کی ایسی ٹھوکر (بجھ ) لگی کہ صبح نماز کے بعد کئی لوگوں کو متورم جگہ دکھائی گئی.جو تین چار دن تک درد کرتی رہی.لوگ اعتقاد میں مزید بڑھ گئے.(اضافہ ) تبلیغ حضرت میاں رکن الدین صاحب سکنہ ہر چوکے ضلع گوجرانوالہ جنہوں نے غالباً ۱۸۹۸ء میں بذریعہ مکتوب بیعت کر لی تھی اور پھر کسی جلسہ کے موقعہ پر لاہور میں کپڑا پکڑ کر دستی بیعت کی.بیعت کے بعد اپنے علاقہ کی کسی بڑی سے بڑی مخالفت کی بھی کبھی پروانہ کی.احمدیت پر قائم رہے.اور جو ۱۹۴۰ء میں قادیان دارالامان میں بعمر ۸۴ سال وفات پاگئے.آپ حضرت قاضی صاحب کے رشتہ میں بھتیجا تھے.بیان کرتے تھے کہ حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کو تبلیغ کی ایک خاص دُھن اور عشق تھا.اور اس تبلیغی محبت میں وہ بہت سفر کرتے تھے.ایک جزدان گلے ڈالے پہلو میں رکھتے تھے.جس میں قلم دوات اور کتب اور تبلیغی حوالے موجود ہوتے تھے.ضلع گوجرانوالہ کے ہر قصبہ میں جاتے.اور تبادلہ خیالات کرتے.تمام رشتہ داروں کے ہاں بار بار جاتے اور تبلیغ کرتے تھے.گوجرانوالہ کے ضلع میں پہلے احمدی وہی تھے.ہمیں بھی انہی کے ذریعہ احمدیت نصیب

Page 58

57 ہوئی.قاضی ظفر الدین آف جنڈیالہ باغوالہ جن کا مخالفانہ ذکر حقیقتہ الوحی میں آتا ہے.وہ آپ کے بھانجے تھے جو مخالفت میں احمدیت اختیار نہ کر سکے.اور فوت ہو گئے.ان کا ایک لڑکا قاضی فیض احمد خان بذریعہ مباہلہ ہلاک ہو گیا.ایک اور لڑکا سیف اللہ خان تھا.وہ بھی بعد میں جوان ہو کر فوت ہو گیا.آج ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں.بچوں سے پیار : ”میری عمر غالبا ۴/۳ سال ہوگی.جب میں اپنی والدہ کے ساتھ موضع کوٹ قاضی جہاں میرے نانا حضرت قاضی صاحب بعد میں مقیم تھے گیا تو حضرت نانا جی مجھے بہلانے کیلئے خوش الحانی سے سناتے تھے کہ ابن مریم مر گیا حق کی قسم داخل جنت ہوا وہ محترم وغیرہ.کچھ دیر جب پڑھ کر آپ خاموش ہو جاتے تو میں پھر کہتا کہ ابا جی حق کہو آپ پھر وہی دوہراتے.جب پھر خاموش ہو جاتے تو میں پھر کہتا کہ حق کہو.اس پر میری والدہ کچھ کہتیں اور حضرت نانا جی کچھ جواب دیتے.بعد میں میری خالہ محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ اس موقعہ پر میں بھی وہیں تھی.تم واقعی ایسا ہی کہتے تھے.مگر تمہاری والدہ کہتی تھیں کہ یہ بچہ بار بار یہی کہتا ہے کہ حق کہو حق کہو خدا جانے اس کا مطلب کیا ہے.تو حضرت والد صاحب انہیں کئی رنگ میں سمجھاتے.اور واضح فرماتے کہ احمدیت بہر حال حق ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.ماتم پرسی : م 190 ء میں جب حضرت قاضی صاحب وفات پاگئے.ماتم پرسی کیلئے میرے والد صاحب والدہ صاحبہ اور قاضی صاحب کی بھانجی مریم بی بی صاحبہ اپنے وطن سے قادیان گئے.میں بھی بھر چھ سال ساتھ تھا.غالباً میرے والد صاحب نے اسی موقعہ پر دستی بیعت کی تھی.دوسرے یا تیسرے دن جب میری والدہ بنام خدیجہ بی بی صاحبہ جمعہ اپنی ماموں زاد بہن مکرمہ بی بی صاحبہ بغرض ملاقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور تشریف لے گئیں.تو آپ ایک کمرہ میں پلنگ پر پاؤں نیچے کر کے تشریف فرما تھے.آپ نے فرمایا کہ

Page 59

58 صف پر بیٹھ جائیں.خالہ امتہ الرحمن صاحبہ نے جو حضور کے ہاں پہلے ہی تھیں.تعارف کرایا کہ ایک میری حقیقی بہن خدیجہ ہیں اور ایک میری پھوپھی زاد بہن مریم صاحبہ ہیں اور مجھے کہا کہ یہ میرا بھانجہ ہے.میں پاس ہی کھڑا تھا.حضور نے فرمایا اچھا یہ قاضی صاحب کا نواسہ ہے.اور خوش قسمتی ! کہ میرے دائیں شانے پر پیچھے ہاتھ پھیر کر پیار دیا اور دعا بھی کی.جو مجھے یاد نہیں.میرے اس شانے کو جو خدا تعالیٰ نے برکت بخشی.یہ ایک الگ باب ہے.حضرت خاله مریم بی بی صاحبہ نے جو بعد میں میری خوشدامنہ بنیں.اس موقعہ پر حضرت صاحب کے حضور عرض کیا کہ یا حضرت! دو ہی لڑکے تھے دونوں ہی فوت ہو گئے ہیں.شائد شامت اعمال کا نتیجہ ہے.اور اب سوائے رونے اور گھبرانے کے کچھ نہیں سوجھتا.آپ نے نہایت ہی محبت آمیز لہجہ میں فرمایا.آہاں.دیکھیں.ایسا نہیں کہنا چاہئے.خدا تعالیٰ کو چیخا چاخی پسند نہیں.یہ چلتی سرائے ہے.اس مقام پر کسی کو چین نہیں.اگر صبر کریں گی تو اس کا بہت بڑا اجر ہوگا.اس پر خالہ صاحبہ نے اجازت مانگی کہ کیا میں پاؤں دباسکتی ہوں.حضور نے فرمایا.کہ ہاں.آپ فرماتی تھیں.کہ جب میں نے پنڈلیوں اور پیروں کو دبایا تو خیالات اور دل پر یوں معلوم ہوا جیسے کہ کسی نے زخموں پر مرہم رکھ دی.اور مجھے بے حد پسینہ آ گیا.آپ نے فرمایا.دل بہت نرم ہے.حق ادائیگی: حضرت قاضی صاحب نے اپنی وفات پر اپنا تر کہ بموجب شریعت تقسیم کر دیا تھا.میری والدہ کے حصہ میں بعض کتابیں بھی آئیں.بعد میں جب میں ۱۲/۱۱ سال کا تھا تو میں نے ایک کتاب پر لکھا ہوا پڑھا کہ ایک مجلد کتاب اپنی لڑکی خدیجہ بی بی کو دیتا ہوں.خدا تعالیٰ اس کے بچوں عزیزان.عزیز احمد اور فیض احمد طول العمر کو اس کے پڑھنے اور عمل کرنے کی توفیق بخشے.چنانچہ اسی وقت میں نے اس کے اردو حصہ کو پڑھ کر چھوڑا.اور دل میں ایک لگن لگ گئی.اس وقت اپنے گاؤں موضع مبارا چکے چٹھ.ضلع گوجرانوالہ میں احمدیت کا کوئی ماحول نہ تھا.والدین فوت ہو چکے تھے.مگر اس کلام کی برکت اور حضرت صاحب کے دست مبارک کی لمس نے مخالف حالات میں بچالیا.اور احمدیت سے نوازا.فالحمد للہ علی ذالک“

Page 60

59 قاضی عبد الرحیم صاحب رضی اللہ تعالی عنہ ولادت.پیشہ.۳۱۳ صحابہ میں شمار حضرت قاضی ضیاء الدین کے صاحبزادہ قاضی عبدالرحیم صاحب بمقام قاضی کوٹ ( ضلع گوجرانوالہ ) ۲۳ جون ۱۸۸۱ء کو پیدا ہوئے.اور بمقام ربوہ ۲۹ اکتوبر۱۹۵۳ء کو اس دار فانی سے رحلت فرما گئے.ابھی آپ صرف پونے آٹھ سال کے تھے کہ آغاز ہی میں آپ کے والد بزرگوار مارچ ۱۸۸۹ء میں حضرت مسیح موعود کی بیعت سے مشرف ہوئے.اس طرح گویا آپ اپنے والد ماجد کی بیعت کے طفیل ہی حضرت اقدس کی بیعت میں شامل ہو گئے.ابھی آپ ساڑھے پندرہ سال ہی کے تھے کہ اپنے والد ماجد کے تقوی وطہارت کے باعث ان کے ہمراہ خود بھی ۳۱۳ صحابہ میں شمار ہوئے.آپ کا نمبر انجام آتھم میں ۱۴۵ پر درج ہے.ڈائیری سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی قاضی نظیر حسن صاحب مرحوم سے جو جموں میں ہیڈ ڈرافٹسمین تھے.نقشہ نویسی کا کام ۱۸۹۸ء میں سیکھا اور وہیں جموں میں محکمہ پبلک ورکس میں ملازم ہو گئے.لیکن والد صاحب جون 1901 ء میں جب ہجرت کر کے قادیان چلے آئے تو آپ کی اسامی تخفیف میں آگئی تو آپ ستمبر 1991ء کی کسی تاریخ کو جو واضح طور پر پڑھی نہیں جاتی قادیان چلے آئے.چنانچہ آپ لکھتے ہیں : * آج بٹالہ سے یکہ پر سوار ہو کر قادیان پہنچا.شام کے وقت حضرت مسیح موعود سے ملاقات ہوئی.یہاں مکان کی نہایت تکلیف ہے.مگر دین کے واسطے یہ سب کچھ برداشت ہوسکتا ہے.“ یکم اکتو برا ۱۹۰ء کے نیچے لکھتے ہیں: آج ابوی صاحب کی بجائے جو مجھ سے ۱۵ ماہ * پہلے دفتر ( یعنی دفتر تعلیم الاسلام.ناقل ) میں محر رمقرر ہوئے تھے.نوکر ہوا.اس وقت سات روپے تنخواہ ہے.یہ ستر روپے کے برابر ہیں.نہایت شکر گزار اس رب العالمین کا ہوں.“ حضرت اقدس اور قادیان سے محبت قادیان میں وجہ معاش.ہجرت بطرف پاکستان قادیان میں وجوہ معاش جس قدر قلیل تھے.اس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے.والد ماجد والی محترری کی اسامی پر آپ متعین ہوئے تھے.آپ اس پر قانع تھے کہ اس طرح دیار حبیب میں قیام کرنے کا موقعہ ملتا ہے.چنانچہ اس تعیناتی کے چند دن بعد تاریخ ۱۸ اکتوبر ۱۹۰۹ء کے روز نامچہ میں مرقوم ہے.د سہو ہے.دن مراد ہیں.مولف

Page 61

60 آج ایک کارڈ بھائی صاحب (قاضی نظیر حسن.ناقل ) نے جموں سے روانہ کیا کہ اپنے ٹیفکیٹ روانہ کر دو تا کہ افسر نہر کو جو بھی آیا ہے سفارش کی جائے.میں چاہتا ہوں کہ تمہاری کوئی اچھی صورت بن جائے.یہ کیا ہے سات روپے کی نوکری؟ جزاهم الله -لیکن میرے خیال میں یہ نوکری اور جگہ کے پچاس سے بہتر ہے“ لیکن اس اسامی پر ابھی سوا سال گذرا تھا کہ آپ کی ملازمت جنوری ۱۹۰۳ء میں تخفیف میں آ گئی.چنانچہ آپ کی اہلیہ محترمہ سناتی تھیں کہ میں ریویو آف ریلیجز کی جسے اس وقت میگزین کہتے تھے.فرمہ شکنی کرتی تھی.اس کی کٹائی سے جو کتر نیں حاصل ہوتیں انہیں ایندھن کے بجائے کھانا تیار کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا.اسی دوران میں آپ کے ہاں دوسرے فرزند قاضی عبدالسلام صاحب کی پیدائش ہوئی.ڈائیری بابت ۲۴ دسمبر ۱۹۰۲ء میں مرقوم ہے: آج خدا کے فضل و کرم سے اس عاجز کے ہاں ایک فرزند نرینہ پیدا ہوا.خدا اس کو سعید 66 کرے.اور اس کی والدہ کو صحت یاب کرے.آمین.اور تیرا غلام بنے.آمین.“ پہلے ہی مشاہرہ قلیل تھا.اب اس ذریعہ آمد کے مسدود ہونے پر بھی تنگی ترشی اور صبر کرتے ایک سال بیت گیا.تو قاضی صاحب کا بیان ہے کہ والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملازمت کیلئے میرے باہر جانے کے متعلق دریافت کیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اچھی ملازمت ملے تو چلے جانا چاہئے.اس سے ہجرت میں کوئی نقص نہیں آتا.(اس وقت دو استاد ماسٹر عبدالرؤف صاحب بھیروی اور شیخ محمد نصیب صاحب ( حال بمقام خانقاہ ڈوگراں.پاکستان.مؤلف ) بھی تخفیف میں آگئے تھے.بالآ خر۱۳ جنوری ۱۹۰۴ء کو بادل ناخواستہ تیرہ روپے کا قلیل زاد سفر لیکر آپ جموں کیلئے روانہ ہوئے.ان دنوں کا کرایہ یکہ قادیان تا بٹالہ سات آنہ اور کرایہ ریل از بٹالہ تالا ہور پونے گیارہ آنہ اور اجرت مزدور برائے اسباب اٹھوائی ڈیڑھ آ نہ لکھا ہے.آپ لکھتے ہیں: ” بھائی صاحب قاضی نظیر حسن صاحب کے متواتر خط اس مضمون کے میرے نام پہنچے کہ جموں جلد پہنچ جاؤ.یہاں معقول روز گار بن جائے گا.اس پر حضرت صاحب سے اجازت حاصل کرلی اور ۱۳ جنوری ۱۹۰۴ء کو بوقت صبح یکہ پر سوار ہوکر بوقت شام لاہور پہنچا صبح رخصت ہو کر جموں پہنچا جموں پہنچا بھائی صاحب کے اپنے.دفتر میں بھی ایک آسامی تھی.مگر چونکہ میں بخار کی وجہ سے بہت کمزور ہو گیا تھا.اس واسطے

Page 62

61 بھائی صاحب نے توقف کیا اور آج کل میں ۲۵ / جنوری ہوگئی ہے.ابوی صاحب کا نوازش نامہ ملا ہے.کہ بڑی دیر ہوگئی ہے.اگر صورت نہیں بنی تو فور اواپس چلے آؤ.۲۶ کو میں نے ان کی طرف لکھ دیا کہ ابھی تو قف ہے.“ ۳۰ جنوری ۱۹۰۴ء آج خلیفه نور دین صاحب کی دکان پر گیا.خلیفہ صاحب سے ملاقات ہوئی.یہ قادیان سے آئے تھے.وہاں کی خیر خیریت بیان کرتے تھے.“ ۹ فروری ۱۹۰۴ء.آج رات خواب میں حضرت مسیح موعود سے مصافحہ کیا.“ ۱۷ / فروری ۱۹۰۴ء ( اسے روایات میں درج کر دیا ہے.حضرت اقدس کا اس میں بھی ذکر ہے.) ۲۳ فروری ۱۹۰۴ء آج پیر افتخار احمد صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا میرے خط کا جواب آیا.جو حضرت اقدس کی طرف دعاء کیلئے ارسال کیا تھا.لکھا ہوا تھا.حضرت صاحب نے دعا کی.نماز پنجگانہ میں خود بھی دعا کیا کرو.اور نیز نماز تہجد میں.خدا فضل کرے گا.“ بالآخر ۳۰ مارچ کو ڈویژنل انجینئر محکمہ نہر کے دفتر میں آپ پچیس روپے مشاہرہ پر ملازم ہو گئے./ ڈائیری کے اقتباسات مذکورہ سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ حضرت اقدس اور قادیان سے آپ کو کس قدر محبت اور تڑپ تھی اور دھیان ہر وقت ادھر ہی رہتا تھا اور آپ کے والد ماجد کی بھی یہی خواہش تھی کہ آپ کو قادیان میں ہی رہنے کا موقع حاصل رہے.ذیل کے اقتباسات بھی اسی مقصد کے پیش نظر درج کئے جاتے ہیں.آپ اواخر جولائی ۱۹۰۴ء میں قادیان آئے.اور ۲۹/ جولائی کو حضرت مسیح موعوڈ گورداسپور سے واپس تشریف لائے.ملاقات کی اور اگلے روز اہل وعیال کو جموں ساتھ لے گئے.تین ستمبر ۱۹۰۴ ء کے تحت لکھتے ہیں : آج لاہور بوقت کے بجے دن کے پہنچ کر حضرت صاحب کے لیکچر میں شامل ہوا.قادیان کی ساری جماعت سے ملاقات ہوئی.“ م اپریل ۱۹۰۵ء " آج بوقت ۶:۳۰ بجے سخت زلزلہ آیا.خدا نے اپنے فضل سے بچایا.کہتے ہیں کہ عرصہ ہوا.اس سے پہلے کبھی ایسا سخت زلزلہ نہیں دیکھا.اس شہر میں بھی کئی مکان گر گئے ہیں........کچھ عرصہ بعد آپ قادیان مستقل طور پر ہجرت کر آئے.اس وقت آپ سرکاری ملازمت میں خلیفہ صاحب ایک بہت مخلص بزرگ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.

Page 63

62 پچیس روپے مشاہرہ پاتے تھے.اور قادیان میں آپ کو غالباً ہمیں روپے مشاہرہ پر لگایا گیا تھا.آپ نے مکتوب مورخه ۳۰ جولائی ۱۹۵۱ء میں سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کیا: یہ خاکسار حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں قادیان میں سات روپیہ ماہوار پر ہائی سکول میں محتر رتھا اور اس ملازمت کو نعمت غیر مترقبہ خیال کیا کرتا تھا.اس وقت حضور (یعنی حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ.(مؤلف) سکول میں مع برادران پڑھتے تھے.لیکن ایک سال گزرنے کے بعد بوجہ عدم گنجائش محترر کی اسامی تخفیف ہونے پر مجھے سبکدوش ہونا پڑا.بعدہ دو تین سال کچھ تجارت اور کچھ فرمہ شکنی اور ریویو آف ریلیجنز کی سلائی اور کٹائی کر کے گزارہ کیا.اس کام میں میری اہلیہ شریک کار تھیں.خدا تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ایسی تنگی اور تنگ گذران کے وقت دل خوش اور اطمینان سے لبریز رہتا تھا.اس وقت میں خیال کیا کرتا تھا کہ اس مسیح کے قدموں میں دن گزار رہا ہوں.راہ تکتے تکتے جن کی کروڑوں ہی مر گئے پھر بادل گریاں حضور کے مشورہ سے خاکسار کو باہر جانا پڑ گیا.لیکن جتنی مدت میں باہر رہا.میرے دل میں ایک جلن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جدائی کی لگی رہتی تھی.آخر جب تعمیر ( قادیان میں.ناقل ) شروع ہوئی تو میں نے درخواست دی کہ اگر چپڑاسی کی جگہ مل جائے تو مجھے جگہ دی جائے.وہ درخواست اب تک میرے پاس محفوظ ہے.میں اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتا رہتا کہ اگر پھر مجھے قادیان جانا نصیب ہوا تو میں خواہ بھوکا رہوں.نکلنے کا نام نہ لوں گا.یہ ایک قسم کا عہد تھا.جو میں نے اللہ تعالیٰ سے کر رکھا تھا.اور میں انجمن کی ملازمت چھوٹنے کے بعد مدت تک سخت مالی تنگی میں مبتلا رہ کر بھی اس پر قائم رہا.* لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس رنگ میں ظاہر ہوئی کہ وہاں سے سب کو نکال دیا گیا اور میری بد عہدی کی سزا مجھے اس رنگ میں ملی.انا للہ و انا الیه راجعون.اس اخراج کے بعد * وقت کے لحاظ سے گنجائش نہیں.بوقت طبع ثانی انشاء اللہ تعالیٰ سن ہجرت کی تعیین کر لی جائے گی.تدفین حضرت مسیح موعود کے موقعہ پر مزار مبارک کی تکمیل یقینا آپ ہی کے ذریعہ سرانجام پائی تھی.ممکن ہے آپ اس موقعہ پر ہی آئے ہوں.یا ہجرت کر کے آچکے ہوں.آپ کے اس خط سے ظاہر ہے کہ قادیان میں تعمیر کا کام کھلنے پر آپ قادیان میں دوبارہ آگئے.میرے نزدیک تعمیر سے مراد پل بہشتی مقبرہ.کنواں بہشتی مقبرہ وغیرہ کی تعمیر مراد ہے.توسیع مسجد مبارک کا کام بھی حضرت اقدس کے زمانہ میں ہوا.غالباً آپ دوبارہ حضرت اقدس کی زندگی میں مستقل طور پر ہجرت کر کے آچکے تھے.

Page 64

63 اب تک شرمساری میں دن گزار رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے معافی کا متمنی رہتا ہوں.وہاں سے آ کر کسی جگہ اطمینان قلب میسر نہیں ہوا.،، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی دفعہ واپسی کے نظارے نظر آئے ہیں اور اب اس سال جولائی پر نظر تھی.لیکن موجودہ صورت میں اگر جنگ ہوگئی تو دونوں فریق احمدیت کو مٹانے میں یکساں ہیں جو کہ اچھے نہیں.اللہ تعالیٰ واپسی کے پر امن ذرائع پیدا کر سکتا ہے.مئی ۵۰ء میں میں نے دیکھا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی میں حکومتوں کی میٹنگ ہورہی ہے.اور شام کو وہ مجلس نا کام اٹھ گئی ہے اور بعد میں وہاں ڈاکو داخل ہو گئے ہیں اور سوسو روپیہ کے پاکستانی نوٹ باہر پھینک رہے ہیں.پھر میں ملحقہ کوٹھی کے دروازے پر دستک دیتا ہوں تو اندر سے آواز آئی خطرہ خطرہ خطرہ پھر کوٹھی کی طرف گیا تو کھڑ کی کھلی ہے اور ایک ڈاکو مجھے نظر آیا جو چینی لباس میں ہے.دو اور نظر نہیں آئے یعنی ڈاکو تین ہیں...اس خط کا جواب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لکھوایا کہ دشمن تو دونوں طرف ہیں.ایک دشمن ہمارے ہاتھ میں آنے والا ہے.ایک دشمن ضدّ کرنے والا ہے.باقی فتح تو یقینی ہماری ہے.““ * قاضی صاحب کے اس مکتوب سے آپ کی قادیان سے محبت اور تڑپ کا اندازہ ہوتا ہے.جو جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا.آپ نے تقسیم ملک کے بعد خاکسار مؤلف کو ایک خط میں تحریر کیا کہ : ۱۳۸ء میں میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے بیت اللہ میں دو نفل پڑھے اور ان میں صرف استغفار (۱) کرتا رہا اور روتا رہا.فراغت کے بعد اس شہر کو ایک طرف سے ہو کر بغور دیکھ رہا ہوں.اور کہتا ہوں.یہ شہر کیسا پُر امن (۲) ہے.کوئی صورت ایسی ہو کہ اس میں ہم رہائش اختیار کریں.(۳) یہ خواہش بار بار ہوتی ہے کہ اس شہر میں رہنا چاہئے.خیال کرتا ہوں کہ یہ پر امن ہے کیونکہ اس پر بم باری (۴) نہیں ہوگی.پھر سوچتا ہوں کہ کتنی بد قسمتی تھی کہ یہاں آنے پر تو صرف چھ روپے (۵) کرایہ لگتا ہے.پھر کیوں میں ہر سال یہاں نہ رؤیا وغیرہ کی زبان بالعموم تعبیر طلب ہوتی ہے اور بسا اوقات پیشگوئی پورا ہونے پر ہی اس کی تعبیر کھلتی ہے.ظفر سے مراد فتح وظفر ہے.اور فتح وظفر کے الفاظ حضرت اقدس کی وحی میں بکثرت موجود ہیں.احمدیت روحانی سلسلہ ہے اور اسکی فتح بھی روحانی ہے اور جہاد دلائل و براہین کا جہاد ہے.

Page 65

64 آیا.سنتے تھے کہ کئی سو روپے بیت اللہ جانے پر خرچ ہوتا ہے.لیکن کیا وجہ ہے کہ صرف چھ روپے کرایہ دیکر یہاں آ گیا ہوں.۵.۱۰ منٹ سوچنے کے بعد سمجھتا ہوں کہ یہ قائم مقام بیت اللہ ہندوستان میں ہے.بیدار ہونے پر جب وہ نقشہ سامنے آیا تو وہ قادیان ہی تھا.اس رویا میں مجھے دکھایا گیا.(۱).ایک وقت استغفار کرنے کا تم پر آئے گا.(۲) قادیان بوجہ بارڈر پر نہ آنے کے بم باری سے محفوظ رہے گا.کیونکہ اگر پاکستان میں آتا تو بارڈر پر ہوتا.(۳) ایک وقت آئے گا کہ تمہیں اس شہر میں بسنے کی خواہش ہوگی اور تم اس سے باہر ہوگے.(۴).بمباری نہ ہونے کی وجہ سے پر امن ہوگا.(۵).تم چھ روپے کرایہ کی مسافت پر یہاں سے دور پہنچ جاؤ گے.چنانچہ میں اب راولپنڈی میں ہوں.قادیان سے راولپنڈی آ گیا.بڑی کوشش کی کہ وہاں سے کہیں اور جگہ چلا جاؤں.لیکن کامیابی نہ ہوئی نمبر 4.ایک وقت ایسا آئے گا کہ قادیان ہندوستان میں آ جائے گا.میں نے یہ خواب اس لئے لکھی ہے کہ میری مشکل کے لئے دعا کریں اور کروائیں اگر قادیان.ہوتا دشمن قبر اکھاڑنے سے دریغ نہ کرتے.چنانچہ ۱۹۲۳ء میں مولوی ثناء اللہ امرتسری ) معہ پچاس ہزار افراد کے اس بد ارادہ سے قادیان میں آیا تھا.حضور کی قبر کی حفاظت میرے سپرد تھی.میں نے اس پر چار دیواری بنائی.اور دو چھت شھتیروں کے ڈال کر اس کو محفوظ کیا.تا کہ دشمن یکدم حملہ نہ کرسکیں.اس وقت تو گورنمنٹ کا رعب تھا.لیکن اب تو گورنمنٹ اپنی ہے.وہ اس وقت من مانی کاروائی کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام حضور کی نسبت فرمایا تھا کہ رسول اللہ پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں چنانچہ اب وہ پناہ گزین ہیں.اس وقت وہ دشمنان کی رسائی اور دست برد سے محفوظ ہیں.بابا کھڑک سنگھ نے پچاس ہزار کے مجمع کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے.اس وقت گورنمنٹ برطانیہ روک تھی.پھر جماعت احمدیہ کی موجودگی ان کے اس ارادہ کی تکمیل میں حائل تھی.خدا تعالیٰ نے یہ دونوں روکیں دور کر دیں اور قادیان کو ان کی جھولی میں ڈال دیا.تا کہ وہ اپنا ارادہ بلا روک آسانی سے پورا کر لیں.لیکن جس کی حفاظت اللہ تعالیٰ کر رہا ہو.اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا...میری تحریر احباب کو سناد میں تاکہ دعاء کی تحریک ہو.دوسری عرض ہے کہ ہم نو

Page 66

65 افراد ہیں.چار بڑے اور پانچ بچے قادیان میں آ کر رہنا چاہتے ہیں.یعنی منصور احمد معہ عیال اور میں معہ اہلیہ اس کی کیا صورت ہے.؟“ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جب اپریل ۱۹۵۲ء میں سیدہ حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا انتقال ہو گیا.قاضی صاحب جو حضرت ممدوحہ کے مزار کی تعمیر کر وار ہے تھے.آپ کو یہ احساس ہوا کہ ضروری نہیں کہ آپ کو قادیان جانا ضرور ہی نصیب ہو.آپ قبر کے کنارہ پر چشم گریاں کہنے لگے کہ جب حضرت موصوفہ " جیسی ہستی کیلئے قادیان واپسی کی تقدیر جاری نہیں ہوئی اور ان کا یہیں انتقال ہو گیا ہے تو ہماری کیا ہستی ہے.گویا اس دن سے آپ ربوہ میں ہی اپنے سفر آخرت کیلئے تیار ہو گئے.خلافت ثانیہ سے وابستگی : حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب نے بوقت وفات اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ آستانہ مسیح کو ہرگز نہ چھوڑیں.چنانچہ آپ کی اولا د نے اس پر پوری طرح عمل کیا.اور یہاں سے جانے کا نام تک نہ لیا.حتی کہ ۱۹۴۷ء کے خونیں دور میں مجبوراً ہجرت کر کے جانا پڑا.قاضی عبدالرحیم صاحب بہت ہی ہوشیار اوورسیئر تھے اور باہر نہیں اچھی اچھی ملازمتیں ملتی تھیں.مگر وہ قادیان سے نہیں ہلے.حالانکہ آپ پر قادیان میں بعض بڑے بڑے مشکل وقت تنگی کے آئے تھے.خلافت ثانیہ کی ابتداء میں سلسلہ کی مالی حالت سخت نا گفتہ بہ ہوگئی تھی.چنانچہ قاضی عبدالرحیم صاحب کی مہتم تعمیرات کی اسامی بھی تخفیف میں آگئی تھی.دوسری طرف مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے انہیں لاہور آجانے کے پیغام آنے لگے.مولوی صاحب کا قاضی صاحب سے سابقہ سلوک بھی اچھا تھا.لیکن الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے دی.اور آپ نے خلافت ثانیہ کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا.خلافت اولی کے آخری ایام میں اہل پیغام خلافت کے بارہ میں گونا گوں فتنے پیدا کر رہے تھے.کبھی حضرت خلیفہ اول کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کرتے.کبھی احکام کی خلاف ورزی کر کے خلافت کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتے.ایک بار آپ کو معزول کرنے کی سعی باطل بھی کی.حضرت خلیفہ اول خلافت کا مقام اور اس کی اہمیت ان لوگوں کے قلوب میں راسخ کرنے کی کوشش فرماتے تھے.حضرت خلیفہ اول کی دعاؤں اور مساعی اور جماعت کی دعاؤں اور سب سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کے ثمرات اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات

Page 67

66 میں خلافت ثانیہ کے قیام کی شکل میں ظاہر کئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کے بیشتر حصہ کو فتنہ سے محفوظ رکھا.اور بالآ خر اہل پیغام خود ہی تشئت و افتراق کی ایک منہ بولتی تصویر بن گئے.ان کی موجودہ حالت کو دیکھ کر خلافت اولی کے آخری ایام اور خلافت ثانیہ کے آغاز کے ہولناک حالات کا اندازہ کرنا ان لوگوں کیلئے مشکل ہے.جنہوں نے نہ وہ زمانہ پایا ہے اور نہ ہی اسبارہ میں تفصیلی لٹریچر ان کی نظر سے گذرا ہے.اب ان کے اثر و رسوخ کا فلک بوس قلعہ پیوند خاک ہو چکا ہے.انہوں نے اپنی کمین گاہ سے خفیہ ریشہ دوانیوں کا بھی ایک وسیع جال پھیلایا تھا.باوجود یکہ حضرت خلیفہ اول کی وصیت دربارہ انتخاب خلیفہ پر مولوی محمد علی صاحب کے بھی دستخط موجود تھے.لیکن انہوں نے پھر بھی مزاحمت کرنا چاہی.رض وحدت جماعت کے پارہ پارہ ہونے کا شدید خطرہ لاحق تھا.سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب اور اہل بیت آمادہ تھے کہ دوسرا فریق جسے چاہے ہم بھی اُسے ہی خلیفہ تسلیم کریں گے.تا وحدت قائم رہے.لیکن اہل پیغام در حقیقت سرے سے خلافت کا نظام ختم کرنے کے درپے تھے.اللہ تعالیٰ کی تقدیر جلوہ گر ہوئی اور نوشتے پورے ہوئے اور جماعت نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو خلیفہ منتخب کر لیا.اہل پیغام نے خلافت ثانیہ کے قیام کے بعد بھی اپنا پورا جتن کیا.کبھی شرائط بیعت کے متعلق غلط فہمی پھیلائی کہ اس میں ایک شرط یہ ہے کہ فلاں فلاں شخص کو منافق سمجھا جائے یا کہا جائے.یہ بھی الزام لگایا کہ حضور ایدہ اللہ کو مدت سے خلافت کی خواہش تھی وغیرہ.لیکن اللہ تعالیٰ نے بالآخر ان لوگوں کے کید و مکر کو خاک میں ملا کر ان کو خائب کر دیا اور خلافت ثانیہ کو جو عظمت وشان اور رفعت اور عالی مقام بخشا ہے.محتاج بیان نہیں.۱۲ / اپریل ۱۹۱۴ء کے لئے مولوی سید محمد احسن صاحب نواب محمد علی خان صاحب ، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور مولوی شیرعلی صاحب کے دستخطی اعلان سے حسب ارشاد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی شوری کیلئے نمائندگان مدعو کئے گئے.(37).اس میں آپ نے خلفاء کے کام کی تشریح کی.اور اس اعتراض کا جواب بتایا کہ خلیفہ پر مشورہ کی پابندی نہیں تو اس مشورہ کا فائدہ کیا ہوتا ہے اور تبلیغ کو وسعت دیکر تمام زبانوں کے جاننے والے مبلغ تیار کرنا اور ہندوستان میں تبلیغ کا جال پھیلانا اور دنیوی ترقی کیلئے اپنا کالج قائم کرنا اپنا پروگرام بتایا.حضور نے غور کیلئے یہ تجاویز پیش کیں کہ حضرت مسیح موعود کی ایک رویاء کی بناء پر ہر قسم کا چندہ میری معرفت بھیجیں.مجلس شوری کی ایسی صورت ہو کہ ساری جماعت کا اس میں مشورہ ہو.فی الحال دو تین علماء بطور ممبر انجمن میں زائد کئے جائیں تا کہ اختلاف کی وجہ سے دیتیں پیدا نہ ہوں.اس اجلاس میں جو سید محمد احسن صاحب امروہوی کی زیر صدارت منعقد ہوا ایک فیصلہ یہ ہوا کہ ” قواعد صدر انجمن کی دفعہ ۱۸ میں الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جگہ حضرت خلیفہ اسیح مرزا بشیر الدین محمود احمد

Page 68

67 خلیفہ ثانی درج کئے جائیں.با اتفاق آراء قرار پایا کہ یہ ریزولیوشن بخدمت مجلس معتمدین بذریعہ نواب محمد علی خان صاحب.سید محمد حسن صاحب.مرزا بشیر احمد خلیفہ رشید الدین صاحب.مولوی شیر علی صاحب پیش کرائے جائیں اور ان حضرات کی خدمت میں نہایت ادب سے التماس کی جائے کہ اس درخواست کو بہت جلد آئندہ کے اجلاس میں پیش کرانے کا انتظام فرما ئیں.چنانچہ مجلس معتمدین نے اپنے ۲۶/ اپریل کے اجلاس میں اسے منظور کرلیا.(38) اس شوری میں مقامی و بیرونی ایک صد نوے نمائندگان شامل ہوئے جن میں ۱۵۷ اور ۱ ۸ انمبر پر علی الترتیب قاضی محمد عبداللہ صاحب بی.اے ٹیچر ہائی سکول قادیان“ قاضی عبدالرحیم صاحب انچارج دفتر تعمیرات صد را مجمن احمد یہ قادیان کے اسماء مرقوم ہیں.منارة المسح کی تکمیل : : منارة امسیح کی تکمیل کے متعلق مصلحت الہی سے یوں مقدر تھا کہ گویا يسافر المسيح الموعود او خليفة مِنْ خُلفائه الى ارض دمشق کی پیشگوئی جس خلیفہ کے مبارک وجود کے ذریعہ پوری ہو.اس کے ذریعہ قادیان کے منارہ کی بھی تکمیل ہو.سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو اپنے متعلق الہاما بتایا گیا.انا المسيح الموعود مثيله وخليفة کہ آپ مثیل مسیح موعود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی میں بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق مسیحی نفس رضامندی کے عطر سے ممسوح“ کے الفاظ آئے ہیں.گویا منارہ مبارک کا آغاز ایک مسیح نے کیا اور تکمیل دوسرے مسیح نے کر دی اس لئے حسد کے باعث ڈاکٹر بشارت احمد صاحب وغیرہ اہل پیغام نے یہ تاویل کر لی کہ حضرت اقدس کی توجہ منارہ سے پھر گئی اور تصانیف کے شکل میں روحانی رنگ میں منارہ کی تکمیل ہوئی.یہ تاویل گو حضرت اقدس کے منارہ کے متعلق ساری کارروائی کو حرف غلط کی طرح یکسر مٹانا چاہتی ہے اور علی اعلان تغلیط بلکہ تکذیب کرتی ہے.افسوس اہل پیغام کو ایسی تاویل تو مرغوب ہے جس سے حضور کی تکذیب ہولیکن حضرت اقدس کے فرمودہ مقاصد کے تحت منارہ کی حضرت مصلح موعود کے ہاتھوں تکمیل ان کو تسلیم ہونا گویا ان کیلئے زہر ہلاہل کا رنگ رکھتا ہے.عجیب بات یہ ہے کہ جس بات میں بھی یہ لوگ حضرت مصلح موعود کی مخالفت کرتے ہیں.ان کو لازماً حضرت اقدس کے بہت سے اقوال تحریرات اور وحی سے منحرف ہونا پڑتا ہے.تکمیل منارہ کی سعادت قاضی صاحب کی قسمت میں تھی آپ نے خاکسار مولف کو ایک خط میں تحریر کیا کہ :

Page 69

68 دو ” جب مینار کی بنیاد پڑ رہی تھی تو مجھے خیال آتا تھا کہ کاش یہ منارہ میں بنوا تا.لیکن یہ خیال اور ایسی خواہش اس وقت ایک وہم سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی تھی.خلافت ثانیہ کے ابتداء میں پھر تعمیر جاری ہوئی.پہلے عمارت صحن مسجد سے سات فٹ اونچی ہو چکی تھی.اور بقیہ حصہ خاکسار کے ہاتھوں سے پورا ہوا.منارہ اور فرش صحن مسجد اور ٹنل (Tunnel) کنواں وغیرہ یعنی زمین دوز راسته بطرف کنوآں پر.۵۹۶۳.RS صرف ہوا تھا.میں اس مولا پر قربان جاؤں کہ اس نے میری خواہش کو کس طرح پورا کیا.یہ سراسر خدا کا فضل ہے کہ اس نے میرے ہاتھ سے یہ خدمت لی.“ سلسلہ و بزرگان کی تعمیرات : آپ فرماتے تھے کہ جب میں (۱۹۰۴ء میں ) جموں ملازمت کے لئے چلا گیا تو حضرت اقدس کی جدائی کی وجہ سے ہر وقت میرے دل میں ایک جلن سی رہا کرتی تھی.اور باہر کی ملازمت میرے لئے باعث مسرت نہ تھی.قادیان میں آجانے کے لئے میں سوچتا رہتا تھا کہ کوئی صورت پیدا ہو.لیکن سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا.اس مقصد کے پیش نظر میں نے کتابت کا کام بھی سیکھا کہ شاید اس کام کیلئے وہاں ضرورت ہو تو جاسکوں.آخر خدا تعالیٰ نے میری سنی اور مجھے عزیز برادر قاضی محمد عبد اللہ صاحب نے اطلاع دی کہ قادیان میں محکمہ تعمیرات جاری ہونے والا ہے.چنانچہ میں نے اپنی خدمات پیش کیں اور محر رتعمیرات کی اسامی میرے لئے تجویز ہوئی اور آخر مہتم تعمیرات تک نوبت پہنچی.اور آٹھ سال تک مجھے خدمت کا موقعہ ملا.میں اپنے ذوق کے مطابق خیال کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا سن کر ہی قادیان میں تعمیرات کا سلسلہ شروع کرایا اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ سلسلہ کی سب عظیم الشان بنیادی عمارات تعلیم الاسلام ہائی سکول.بورڈنگ ہائی سکول.ملحقہ کوارٹرز.مسجد نور.منارۃ المسیح اور مسجد اقصیٰ کا وہ حصہ جو ڈاٹوں والی چھت سے مستقف ہے اور نیز اس مسجد میں کنویں اور پانی کے انتظام کو فرش مسجد کے نیچے لے جانے کی صورت.سب میرے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے تعمیر کرائیں.نیز بہشتی مقبرہ کے راستہ کا پل جس کا ذکر الوصیت میں ہے اور چاہ بہشتی مقبرہ کی میری ہی نگرانی میں تعمیر ہوئی.اور بالآ خر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک کی تعمیر بوقت تدفین کا شرف بھی مجھے ہی ملا.اور آٹھ سال تک میں ہی نگران بہشتی مقبرہورہا " خلافت ثانیہ میں منارة امسیح کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا.جس میں آپ مصروف رہے.بعد ازاں حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے اپنی تعمیرات کا کام آپ کے سپر د کر دیا.پھر کچھ عرصہ تک قاضی صاحب *

Page 70

69 بلڈنگ کنٹریکٹر کے طور پر دیگر احباب کے مکانات تعمیر کراتے رہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی شاندار کوٹھی بیت الظفر آپ ہی کے ذریعہ تعمیر کروائی.آپ نے عمارتی سامان سیمنٹ لو ہاوغیرہ کی دکان بھی کھول لی تھی.جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت برکت دی تھی.آپ کے ہی ذریعہ مسجد مبارک و مسجد اقصی کی توسیع عمل میں آئی.قصر خلافت تعمیر ہوا.منارۃ امسیح کی تکمیل ہوئی.حضرت ام المومنین.حضرت خلیفہ اول حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہ اپنے سب عمارتی کام آپ ہی کے سپر دفرماتے تھے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ڈلہوزی کی کوٹھی موسومہ بیت الفضل آپ ہی کی زیر نگرانی تیار ہوئی تھی.حضرت خلیفہ اول نے آپ کے ایک کام سے خوش ہو کر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے تحریر فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ قاضی صاحب! نلکا پانی خوب نکلا ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے بعد آپ کی محنت پر جزاک اللہ احسن الجزاء.یہ دل سے دعا ہے اللہ تعالیٰ قبول کرے.نورالدین ۱۲ / جنوری ۱۹۱۴ء “ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے الہام الہی کے مطابق ربوہ میں جو میٹھا پانی اللہ تعالیٰ نے نکالا ہے.تو یہ برکت بھی قاضی صاحب کو ہی ملی.چنانچہ آپ حضور کی خدمت میں ۸ مئی ۱۹۵۱ء کو تحریر کرتے ہیں :."پمپ لگانے کی تجویز پیش کرنے کے موقعہ پر حضور نے پانی جمع رکھنے کیلئے ایک ٹینکی بنا کر کوٹھیوں اور مسجد میں بذریعہ نالیاں پانی پہنچانے کا خیال ظاہر فرمایا تھا اور جب پانی نکال کر حضور کو اطلاع دی تو حضور نے فرمایا کہ الہام پورا ہو گیا.(تیرے قدموں کے نیچے پانی بہا دیا ) اس وقت پانی کیلئے کامیاب پمپ لگ گیا.لیکن اگر اس پر واٹر ورکس کے طور پر انتظام کر لیا جائے تو بڑا آرام مل سکے گا.جو کام بعد میں کرنا ہے.وہ جلدی کر لیا جائے تو فائدہ جلد ہو سکتا ہے.پس اگر حضور پسند فرماویں تو میں تخمینہ بنا کر پیش کر دوں گا.اور بعد منظوری ایک مہینے کے اندر یہ کام کرا دینے کی امید رکھتا ہوں.انشاء اللہ تعالیٰ.“ حضور نے اپنے قلم مبارک سے اس خط پر تحریر فرمایا ہوا ہے: * کتاب کے آخر پر روایات میں چھموں کے ایک ٹھیکیدار سے آپ کا جو واقعہ ہوا وہ ۱۹۰۷ ء کا ہے.لیکن حضرت اقدس کی تدفین کے وقت حضور کا مزار آپ ہی نے تیار کروایا تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی زندگی میں ہی آپ مستقل طور پر پھر قادیان واپس آچکے تھے.اس وقت پل سڑک بہشتی مقبرہ اور کنو آں بہشتی مقبرہ کا کام شروع ہو چکا ہوگا.

Page 71

70 تخمینہ پیش کر دیں.مگر انجمن کی عمارات اس قدر دور ہیں کہ وہاں تک پانی کس طرح جائے گا.؟“ مسجد مبارک ربوہ کی تعمیر کا کام بھی آپ ہی کے ہاتھوں تکمیل پذیر ہوا.آپ نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ۲۱ اگست ۱۹۵۱ء کو ذیل کا خط تحریر کیا.اس سے آپ کے جذبات تشکر وامتنان کا علم ہوتا ہے.مودبانہ گذارش ہے کہ مسجد کا کام اب چند دنوں تک ختم ہونے والا ہے....الحمد للہ.اب لوگ کہتے ہیں کہ سب دیگر عمارتوں سے مسجد کی عمارت ممتاز ہے.میں ایک خطا کار انسان ہوں.یہ تو محض اللہ تعالیٰ کا کرم اور اس کی ذرہ نوازی ہے کہ اس نے قادیان میں بھی اور یہاں بھی اس قسم کی خدمت کے مواقع عطا کئے.اے خداوند کریم ! یه سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگاہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار اگر ہر موئے من گردد زبانے بتورا نم بہرا یک داستانے نیامد گوہر شکر تو سفتن سر موئے زِ احسان تو گفتن حضور کا بھی شکر گزار ہوں کہ ہمیشہ سے حضور کی توجہ خسروانہ میری دستگیری کرتی رہی.اللہ تعالیٰ حضور کو صحت بخشے.حضور کا ادنیٰ خادم قاضی عبدالرحیم مندرجہ بالا خط میں آپ نے کام کا ختم ہونا عرض کر کے راولپنڈی چند دن کے لئے جانے کی اجازت طلب کی تھی.حضور نے اپنے دست مبارک سے اس خط پر تحریر فرمایا ہوا ہے: ” اچھی بات ہے“ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کی حسن کارکردگی کے متعلق ہمیشہ اظہارِخوشنودی فرماتے.قادیان میں ایک خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا کہ جو کام قاضی صاحب نے کرایا ہے وہ نہایت ہی پائیدار اور روپوں کا کام آنوں میں کرایا ہے.اور جب میں کوٹھی دار الحمد کے اندر قدم رکھتا ہوں تو قاضی صاحب کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.حضور ایدہ اللہ نے جون ۱۹۵۱ء میں ایک خط میں قاضی صاحب کو لکھوایا کہ میرے مکانات جس مستری کی زیر نگرانی بن رہے تھے.اس کا کام تسلی بخش نہیں تھا.اس لئے ان کو علیحدہ کر کے چوہدری برکت علی خاں صاحب ( حال پنشر وکیل المال تحریک جدید.ربوہ) نے کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.لیکن چونکہ وہ اس فن کے

Page 72

71 ماہر نہیں ہیں.اس لئے کئی باتیں ہوں گی.جن میں غلطی کا امکان ہو سکتا ہے.جو سو سال تک اثر انداز ہوتی رہیں گی.اب آپ کا مسجد کا کام ہلکا ہو چکا ہے.اگر آپ مشورہ دے سکیں تو میں چوہدری صاحب کو کہہ دوں کہ آپ سے مشورہ لے لیا کریں.اور دوسرے تیسرے دن بنی ہوئی عمارت کو دیکھ کر اگر غلطی ہو آپ روک دیا کریں.اس کے جواب میں آپ نے تحریر کیا کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عرض ہے کہ......میں تو حضور کا غلام ہوں اور اس خاطر با وجود خانگی رہائشی بے اطمینانی کے حضور کے قدموں میں بیٹھا ہوا ہوں کہ خدمت کا موقعہ ملتا ہے......جب میں ربوہ میں حضور کے ارشاد پر آیا تھا تو اپنے دل میں حضور کی خدمت کے خیال کو ہی مد نظر رکھا تھا.اگر چہ حالات اب وہ نہیں.مگر میرا خلوص نیت سے یہی ارادہ تھا کہ حضور کی خدمت صرف خدمت کے خیال سے کروں.یہ حضور کی نوازش خاص ہے کہ حضور نے اب تک ثواب کے مواقع متواتر بہم پہنچائے ہیں.میں نے جو نظارے دیکھے ہیں.ان میں قادیان جانے کیلئے یہ بھی ایک زینہ تھا.انشاء اللہ اب قادیان کی واپسی قریب تر ہو رہی ہے.میں انشاء اللہ خلوص نیت سے حضور کے مکانات کی نگرانی کرونگا.وما توفیقی الا بالله - خاکسار عبدالرحیم ۵۱.۶.۱۰ مسجد مبارک ربوہ کی تعمیر کے متعلق آپ نے ۲۳/۹/۵۱ کو ذیل کا خط لکھا: بحضور حضرت خلیفۃ اسیح علیہ الصلوۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اب کئی دوست کہہ رہے ہیں کہ مسجد کے مینار بنے چائیں.اگر حضور اجازت بخشیں تو دو یا چار مینار صرف مسجد کا نشان ظاہر کرنے کیلئے معمولی قسم کے تعمیر کر دیئے جائیں.چونکہ یہ مسجد دو منزلہ بنی ہے.اس لئے حضور سے استصواب ضروری ہے.دوسری منزل کی تعمیر کے وقت میناروں کو گرانا ہوگا.خاکسار عبدالرحیم بھٹی حضور نے اس پر اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا ہوا ہے: منارضرور چاہئیں.مگر اس بارے میں پہلے اسٹیمیٹ پیش ہو.“ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ناظر اعلیٰ نے آپ کو لکھا:

Page 73

72 ”بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم مکرمی محتر می قاضی عبدالرحیم صاحب وعلى عبده المسيح الموعود السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مہربانی کر کے کسی وقت دفاتر صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد کا کام دیکھ لیں کہ کیسا ہے تا اگر کوئی نقص ہو تو اس کی اصلاح کرائی جاسکے.جزاکم اللہ خیر.فقط والسلام خاکسار 66 مرزا بشیر احمد ربوه - ۳۰/۱۰/۵۱ “ مذکورہ بالا تمام امور سے ظاہر ہے کہ آپ فن تعمیر میں بہت ہی تجربہ کار اور ماہر اور گویا استاد کامل تھے.اور قادیان اور ربوہ میں ان کی قابلیت مسلمہ تھی اور اللہ تعالیٰ کا یہ فضل واحسان تھا کہ اس حیثیت سے جو خدمت کی توفیق آپ کو ملی.آپ اس میں منفر د تھے.مسجد دار الفضل قادیان کی تعمیر میں بھی آپ نے قابل قدر مدددی تھی.(39) مزید خدمات : تعمیرات کے تعلق میں خدمات کے علاوہ آپ اولین موصوں میں سے تھے.تحر یک جدید دفتر اول میں اس کے آغاز سے باقاعدگی سے حصہ لے رہے تھے.ملکانہ تحریک میں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیر قیادت جماعت کے مخلصین نے جو کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے.وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں.اپنے خرچ پر احباب کئی کئی ماہ کیلئے میدان جہاد میں سرگرم عمل رہے اور اعداء اللہ کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا.جس کا بہت ہی وسیع اثر ہوا اور مدافعت عن الاسلام کی دھاک دنیا پر بیٹھ گئی.جس کی احرار تک کو تعریف و توصیف کرنی پڑی.چونکہ علاقہ ملکانہ کے لوگ راجپوت نسل کے تھے.اس لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحریک کی گئی تھی کہ راجپوت اقوام کے احمدی احباب بالخصوص اس تحریک میں شرکت کریں.چنانچہ قاضی عبدالرحیم صاحب اور آپ کے برادر قاضی محمدعبداللہ صاحب ہر دو نے اس تبلیغی مہم میں حصہ لیا.قاضی عبدالرحیم صاحب نے تین ماہ وقف کئے تھے.اور ان کو وہاں خوب کام کرنے کا موقعہ ملا تھا.انتقال پر ملال : جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا جا چکا ہے.حضرت ام المومنین اعلی اللہ در جانتہا کی غریب الوطنی کی وفات کا

Page 74

73 قاضی صاحب کو بہت صدمہ ہوا اور اس وقت سے آپ سفر آخرت کیلئے تیار ہو گئے.آخری عمر میں آپ دمہ کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے تھے اور اسی عارضہ سے ربوہ میں ۲۹ / اکتوبر ۱۹۵۳ء کو بعمر بہتر سال چار ماہ اس دار فانی سے عالم جاودانی کو انتقال فرما گئے.انا للہ و انا اليه راجعون.از راه شفقت سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہؓ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.المومن يرى و يُرى له کی حدیث نبوی کے بمصداق ربوہ کے ایک دوست نے خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑی برات آئی ہے.دولہا سفید پگڑی.اور سفید داڑھی والے سوار چلے آرہے ہیں اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی اس برات میں ساتھ ہیں.یا شاء ید استقبال کیلئے آئے ہیں.اگلی صبح اس دوست نے قاضی صاحب کے جنازہ کا نظارہ دیکھا.اور حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کو بھی ہمراہ تشریف لے جاتے دیکھا.تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے یقین کیا کہ یہ دولہا حضرت قاضی صاحب مرحوم ہی تھے.اس خواب سے ان کے خاتمہ بالخیر کی طرف اشارہ تھا.قاضی عبدالسلام صاحب کو والد صاحب کی وفات کی اطلاع ایک خواب میں ملی.آپ نے دیکھا کہ والدہ صاحبہ مرحومہ کا ایک باغ ہے.وہ اس باغ کے اندر ایک بنگلے کے برآمدے میں کھڑی ہیں.اور سامنے ایک درخت کو ارنڈ خربوزہ سا بڑا پھل لگا ہوا ہے.جس کا رنگ سبز ہے.آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پک گیا ہے اور اسے ہلا کر تو ڑ لیا ہے.اور والدہ صاحبہ کو دے دیا ہے.حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے آپ کے فرزند قاضی بشیر احمد صاحب کو تحریر فرمایا: ”اپنے قدیمی مہربان در فیق صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کی خبر پڑھ کر از حد افسوس ہوا.غفر الله له و اعلی الله مقامه في الجنه ، چندا شعار اسی کارڈ پر بنتے جارہے ہیں: حضرت احمد مسیح و مہدی کے ایک قدیمی صحابی فوت ہوئے پارسا.نیک بخت.خوش اخلاق جن کا اخلاص شہرہ آفاق خدمت دیں میں گذاری عمر ان کی اولاد مخلصین تمام وہ کمر بستہ پائے ساری عمر سب ہی خدام احمد والسلام قادیاں کی عمارتیں یکسر ان کی نگرانی میں بنیں اکثر

Page 75

74 یعنی " وسع مکان کا الہام * آپ کے ہاتھوں پا گیا ابرام ! داغ ہجرت کے بعد ربوہ کا شرف بنا ** انہی کو ملا ! ۱۳۷۲ھ آہ ہاتف نے دی صدا اکمل قاضی عبدالرحیم احمدی چل ایک خط کے جواب میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲ نومبر ۱۹۵۳ء میں قاضی عبدالسلام صاحب کو لکھوایا.حضور نے قاضی صاحب کے لئے دعا فرمائی اور ان کی وفات پر اظہار ہمدردی کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قاضی صاحب کو غریق رحمت فرمائے اور آپ لوگوں کو صبر جمیل عطا فرمائے.آمین.* الهام وسع مکانک ہے ضرورت شعری کی وجہ سے وسع مکان کیا ہے.(مؤلف) یعنی ابتدائی عمارت بالخصوص مسجد مبارک کی تعمیر کی نگرانی کے سپر د ہونے کے لحاظ سے.**

Page 76

75 محترمہ صالح بی بی رضی اللہ تعالی عنها پہلے بیان ہو چکا ہے کہ محترمہ صالحہ بی بی صاحبہ اہلیہ قاضی عبدالرحیم صاحب اپنے خسر حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کے جون 1901ء میں ہجرت کر کے قادیان آنے پر اپنے ننھے بچے قاضی بشیر احمد صاحب حال مقیم راولپنڈی سمیت حضرت قاضی صاحب کے ساتھ آگئی تھیں.حضرت قاضی صاحب کے نام مکتوب میں حضرت مسیح موعود نے ۳ دسمبر ۱۹۰۰ء کو تحریر فرمایا تھا: بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ تشریف لاویں.آپ کی بہو کیلئے اگر ساتھ لے آویں.66 تین چار ماہ تک کوئی بوجھ نہیں.ایک یاد وانسان کا کیا بوجھ ہے.“ بہو سے مراد موصوفہ ہی ہیں.چنانچہ کچھ عرصہ دار ایسے کے نچلے حصہ میں قیام رہا.حضرت قاضی صاحب کی دختر امتہ الرحمن کو حضرت ام المومنین اعلی اللہ درجاتہا کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل رہی.سارے حالات کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سلسلہ احمدیہ سے ہی وابستہ تھیں.لیکن ظاہر بیعت نہ کی تھی.جس کا قادیان میں موقعہ ملا.آپ کا بیان ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے غالباً ۱۹۰۲ء میں بیعت کی تھی.سردیوں کے دن تھے.شاید کتک کا مہینہ تھا.* حضور علیہ السلام کے مکان کے نچلے دالان میں جب کہ میرے ساتھ دو اور عورتوں نے بھی بیعت کی تھی.ایک والدہ خواجہ علی اور دوسری شیخ اصغر علی صاحب کی ساس.بیعت کے وقت حضور علیہ السلام کا چہرہ مبارک مشرق کی طرف.ہمارا مغرب کی طرف تھا.اور حضور چوکڑی طرز پر تشریف فرما تھے.اور فرمایا کہ کہو آج میں احمد کے ہاتھ پر ان تمام گناہوں سے تو بہ کرتی ہوں جن میں مبتلا تھی.یہ فقرہ تین دفعہ دہرایا.اس کے بعد فرمایا کہو شرک نہ کروں گی.چوری نہ کروں گی.جھوٹ نہ بولوں گی.خاوند کی خیانت نہ کروں گی.نماز پنج وقت اور وقت پر ادا کروں گی.خدا تعالیٰ اگر توفیق دے تو تہجد بھی پڑھوں گی.اور آپ جو نیک کام بتائیں گے.اس پر عمل کروں گی.اس کے بعد حضور نے ہاتھ اُٹھا کر دعا فرمائی اور ہم نے بھی دعا کی.”بڑے قاضی صاحب (یعنی قاضی ضیاء الدین صاحب) نے مجھے فرمایا تھا کہ جاؤ حضرت کتگ گویا مطابق نومبر ۱۹۰۲ ء تھا.

Page 77

76 صاحب کی بیعت کر آؤ اور انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں عریضہ بھی لکھ بھیجا تھا.“ آپ کی شادی غالبا ۹۹ - ۱۸۹۸ء میں ہوئی تھی.آپ کے والد میراں بخش سکنہ موضع مہاراجکے ضلع گوجرانوالہ حضرت قاضی صاحب کے زیر اثر ہونگے.لیکن یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے بیعت کر لی تھی یا نہیں.بیان قاضی محمد عبد الله ) قریباً چار ماہ کے اندر تمبر 1901ء کے لگ بھگ قاضی عبدالرحیم صاحب بھی ہجرت کر آئے.لیکن جنوری ۱۹۰۳ء میں آپ کی اسامی تخفیف میں آنے کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.چنانچہ آپ ریویو آف ریلیجنز کی فرم شکنی وغیرہ کرتے تھے اور آپ کی سعادت مند رفیقہ حیات ایسے کام میں آپ کا ہاتھ بٹاتی تھیں.اور صبر کا دامن تھامے بصد شکر ساری تنگی ترشی برداشت کر رہی تھیں.چونکہ یہاں کوئی مناسب صورت روزگار کی نہ تھی.حضرت اقدس نے اجازت مرحمت فرما دی تھی کہ اچھی ملازمت ملنے پر باہر جانے سے ہجرت میں کوئی حرج لازم نہیں آتا.چنانچہ ۱۳ جنوری ۱۹۰۴ء کو آپ تلاش روزگار کے لئے جموں چلے گئے.۳۰ مارچ کو ملازمت میسر آئی تھی کہ مئی میں والد ماجد رحلت فرما گئے.گویا نگران کوئی نہ رہا.دونوں بچے بالکل ننھے تھے.دوسرا بچہ قاضی عبد السلام دسمبر ۱۹۰۲ء میں پیدا ہوا تھا.حضرت مولوی نورالدین (خلیفہ اول) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو تلقین کی کہ آپ اپنے اہل و عیال کو اپنے پاس رکھیں.چنانچہ آپ اہل وعیال کو ۳۰ جولائی کو اپنے پاس جموں لے گئے.حضرت اقدس کے سانحہ ارتحال (۲۶ مئی ۱۹۰۸ء) سے قبل آپ کو مع اہل وعیال دوبارہ قادیان مستقل طور پر آجانے کا موقعہ مل گیا تھا.اس طرح گویا ان ۱۹ء سے ۱۹۴۷ء کے مابین کم و بیش بیالیس سال تک قادیان جیسی مقدس بستی کی برکات سے متمتع ہونے کا مرحومہ کو موقعہ ملا.ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ - آپ ابتدائی موصیوں میں سے تھیں.آپ کا وصیت نمبر ۳۷ تھا.نہایت عبادت گزار اور اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں کرنے والی اور بہ برکت غلامی مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام سچے خواب اور کشف والہام کی لذت سے آشنا تھیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے قادیان میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف قاضی عبدالرحیم صاحب کی کوئی رقم تھی اور کسی وجہ سے موصول نہیں ہورہی تھی.والدہ صاحب کو بتایا گیا کہ ہمارے گماشتہ کو کہو گماشتہ کے معنی نہیں جانتی تھیں.لیکن غالب تفہیم میں اشارہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف تھا.چنانچہ اگلے دن حضور کی خدمت میں قاضی صاحب کا عریضہ لے کر گئیں اور اس کے نتیجے میں اس دن یا اگلے دن رقم موصول ہوگی.ایک دن نماز جمعہ کے وقت گھر میں ظہر کی نماز ادا کر رہی تھیں کہ سجدہ سے سر اٹھاتے وقت حضرت خلیفتہ اسیح الثانی * الحدید - آیت نمبر ۲۲

Page 78

77 ایدہ اللہ تعالیٰ کی تصویر سامنے آگئی.اور حضور نے فرمایا: مجھے تن تنہا پر سلیمان کی طرح اتنا بوجھ ڈال دیا.اب اس کا کون ہے (یا کون ہوگا.ایسا ہی کوئی لفظ تھا) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سُن کر فرمایا کہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کے مطابق ہے.جس میں ہمیں آل داؤد فرمایا گیا ہے.آپ اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے عاشقانہ رنگ کی محبت رکھتی تھیں ایک دن گھر واپس آئیں تو کہنے لگیں کہ قصر خلافت کے پاس کی گلی سے نکلتے ہوئے مجھے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب( جو اس وقت بچے تھے ) ملے.میں نے السلام علیکم کہہ کر شاید ایک یا دو روپے جیب میں تھے.جو ان کو بطور نذر پیش کر دئیے اور انہوں نے قبول کر لئے.اور بڑی خوش تھیں.حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا جیسا کہ حضرت ممدوحہ کی عادت تھی بڑی بے تکلفی سے آپ کے ہاں کبھی کبھی تشریف لے آتیں تو آپ بے حد خوش ہو تیں اور ضرور کچھ نہ کچھ نذر کے طور پر پیش کرتیں اور پھر بہت خوش ہو تیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ برکت بخشی ہے.قرآن مجید کی تلاوت باقاعدگی سے کرتیں اور ان کا معمول تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی کتاب ”حزب المقبول سے دعائیں کرتیں.اور بڑے درد سے ان دعاؤں کو پڑھتیں.چنانچہ بچپن میں بچوں نے ان سے سن سن کر دعائیں یاد کر لی تھیں.آپ کو ڈرمین اور کلام محمود کی دعائیں بھی ترنم سے پڑھنے کی عادت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر میرے زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں میری فریادوں کوٹن میں ہو گیا زارونزار (40) لفظ ” ہو گیا“ کو ” ہوگئی“ سے بدل کر اپنی تکلیفوں کے وقت پڑھتی تھیں.۱۹۱ء کے قریب کی بات ہوگی کہ دار العلوم میں صدر انجمن احمدیہ کے کوارٹروں میں رہائش تھی.آپ کی شدید خواہش تھی کہ ہمارا اپنا مکان ہو.چنانچہ آپ مغرب کی نماز کے بعد بچوں کو مصلی پر جمع کرلیتیں اور ہاتھ اٹھوا کر اس مقصود کے پورا ہونے کیلئے دعا کرواتیں.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور مکان بلکہ کوٹھی عطاء کی.قادیان میں تنگی کے اوقات آپ نے سلیقہ مندی اور کفایت شعاری سے گزارے.نہایت صابر اور قانع طبیعت پائی تھی.بڑی عزت اور وضعداری کے ساتھ اپنے کنبہ کو سنبھالے رکھا.پھر اللہ تعالیٰ نے فراخی دی مگر طبیعت ویسی ہی غریبانہ رہی.گھر میں شروع ہی سے دو دھیل بھینس وغیرہ رکھنے کا شوق تھا.نہایت ہی سلیقہ سے جانور کو رکھتیں.بڑی محنت اور صفائی سے سب کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی عادت تھی.قادیان میں اللہ تعالیٰ نے انہیں رکھنے کیلئے اپنے کشادہ مکان دیئے تھے.جن کے ساتھ باغیچے تھے.ان کی دیکھ بھال کا انہیں خوب شوق تھا.آپ نے اپنی ایک پوتی محترمہ امتہ العزیز سعیدہ صاحبہ کو بیٹی بنا کر اپنے پاس رکھا ہوا تھا.یہ جواں سال

Page 79

78 ہونہار اور تعلیم یافتہ بچی اپنی شادی کے چند ماہ بعد وفات پاگئی.آپ کو خواب میں کسی نے کہا ” انسان کا کیا ہے.دو ماہ رہ گئے ہیں چنانچہ مرحومہ بچی کی وفات کے پورے ایک سال دس ماہ بعد یعنی جب دو سال ہونے میں دو ماہ باقی تھے.آپ کی وفات ہوئی.ایک دن شلغم کے سالن سے کھانا کھانے کے بعد دودھ پی لیا.جس سے پیٹ میں شدید درد ہوا.گیارہ دن فریش رہیں.سو نہ سکتی تھیں.حرکت قلب میں فرق آ گیا.اور آخر۱۳/۱۲ نومبر ۱۹۵۰ء کی درمیانی شب کو ہم مقام راولپنڈی جہاں ہجرت کے بعد سے قیام تھا.اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں.آپ کے خاوند دوسرے روز پہنچ سکے.انا للہ و انا الیه راجعون.اس وقت آپ کی عمر قریباً بہتر (۷۲) سال کی تھی.آپ کے پوتے اخویم نصیر احمد صاحب کے ایک اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحومہ کی وفات ۳ بجے صبح واقع ہوئی تھی.(41) قادیان کی یاد میں آپ یہاں تک بے تاب رہتی تھیں کہ وفات سے آدھ گھنٹہ پہلے انہوں نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی تھی.یا اللہ ! قادیان لے چل“ آپ کو تابوت میں راولپنڈی میں دفن کر دیا گیا تھا.جب جنوری ۱۹۵۴ء میں قاضی عبدالسلام صاحب مشرقی افریقہ سے پاکستان آئے تو تابوت نکلوا کر ربوہ لے گئے.اس وقت قاضی عبدالرحیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وفات پا کر وہاں بہشتی مقبرہ کے قطعہ صحابہ میں دفن ہو چکے تھے.ان کے بالکل پہلو میں مرحومہ محترمہ کی تدفین عمل میں آئی.مرحومہ کا دودفع جنازہ راولپنڈی میں پڑھا گیا.ایک دفعہ درویشان قادیان نے پڑھا.سب سے بڑھ کر یہ کہ سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ یکم دسمبر ۱۹۵۰ء کو بعد نماز جمعہ آپ کا جنازہ غائب کوئی ڈیڑھ ہزار کے مجمع سمیت پڑھا تھا.اور بڑی لمبی دعا فرمائی تھی.اب ربوہ میں تابوت لانے پر قاضی عبدالسلام صاحب کے عرض کرنے پر حضور نے از راہ ذرہ نوازی ظہر کی نماز کے بعد مسجد مبارک کے صحن میں جہاں تابوت تھا.دوبارہ جنازہ پڑھایا.حضور جیسے مظہر و مقدس وجود کی دو دفعہ کی دعائیں یقین ہے کہ آپ کی مغفرت اور رفع درجات کا باعث ہوئی ہوں گی.اللهم اغفر لها وارحمها وادخلها في جنة النعيم.آمين

Page 80

79 محترمہ امتہ الرحمن رضی اللہ تعالی معما حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کے ہاں محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ کی ولادت ۷ بھادوں سمہ ۱۹۳۵ کو ہوئی.پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ قاضی صاحب جب ہجرت کر کے قادیان چلے آئے تو یہ بھی ساتھ تھیں اور ان کو دارا مسیح میں سیدہ حضرت ام المومنین کی خدمت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا.آپ کا نام فاطمہ تھا.جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبدیل کر کے امتہ الرحمن کر دیا تھا.بیان کرتی تھیں کہ حضرت اقدس کے اندرون خانہ بستر وغیرہ کرنے کی ڈیوٹی میرے سپر دہی تھی.اکثر حضور کے بستر پر سے روپے ملتے.جونذ روغیرہ کی صورت میں آتے تھے.اور حضور کو بھول جاتے تھے.وہ میں اٹھا کر حضرت ام المومنین کو دیا کرتی تھی.نیز کئی ذوقی باتیں بیان کرتی تھیں.جون انشاء میں اپنی والدہ کے ہمراہ ہجرت کر کے آئیں اور ۵ دسمبر ۱۹۰۴ ء کو ان کا نکاح ہوا.گویا قریباً ساڑھے تین سال تک دارا مسیح میں قیام اور حضرت اقدس کے ہاں خدمت گزاری کی توفیق پائی.حضرت قاضی صاحب کی وفات کے بعد ان کے رشتہ کے متعلق مشورہ کیلئے قاضی عبدالرحیم صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں ذیل کا عریضہ ارسال کیا.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سیدی.حضور نے غلام کی ہمشیرہ امتہ الرحمن کے رشتہ کیلئے اپنے رشتہ داروں میں کوشش کرنے کیلئے فرمایا تھا.سو عاجز نے مطابق حکم حضور اپنے قبیلہ میں ہر چند کوشش کی ہے.کوئی صورت خاطر خواہ میسر نہیں آئی.جو خواہاں ہیں وہ حضور کے مخالف ہیں.مخالفوں سے تعلق قائم کرنا پسند نہیں.عاجز کی گزارش ہے کہ اس معاملہ کو زیادہ ملتوی نہ رکھا جائے.حضور جس جگہ مناسب سمجھیں تجویز فرما دیں.عاجز کو کل جناب نواب ( محمد علی خان.ناقل ) صاحب نے بھی جلدی کرنے کی تاکید کی ہے اور دیر کو بہت مکر وہ خیال کیا ہے.چند آدمیوں کا انہوں نے نام بھی لیا ہے اور ان کی شرافت کی بہت تعریف کی ہے.ان میں سے ایک اخویم احمد نور کا بلی بھی ہیں.احمد نور صاحب کی طرف کبھی کبھی والد صاحب مرحوم بھی خیال کیا کرتے تھے.مگر محض اللہ.حضور جیسا مناسب جانیں اور جہاں بہتر سمجھیں تجویز کر دیں.مگر جلدی

Page 81

80 فیصلہ ہونا ضروری ہے.عاجز کا اور ہمشیرہ امتہ الرحمان کا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ حضور کے فیصلہ میں نور اور برکت ہوگی.والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عبد الرحیم ولد قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم مورخہ ۳۰ جولائی * اس خط کی پشت پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دست مبارک سے مندرجہ ذیل جواب رقم فرمایا: ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.امتہ الرحمن کے معاملہ میں مجھے بہت حیرت ہے.کوئی صورت خاطر خواہ ظاہر نہیں ہوئی.احمد نور نیک بخت آدمی ہے.بہت مخلص ہے.مگر وہ پر دیسی ہے.زبان پنجابی اور اردو سے محض نا واقف ہے.اس صورت میں اصولِ معاشرت میں پہلے ہی یہ نقص ہے کہ ایک دوسرے کی زبان سے ناواقف ہیں.پھر وہ عنقریب ایک لمبے سفر کیلئے جاتا ہے جو خطرناک زمین کابل کا سفر ہے.معلوم نہیں کہ کیا ہو.میں نے کئی جگہ کہہ دیا ہے.اپنے اختیار میں نہیں.ایسی جلدی نہیں چاہئے.جس میں اور فساد پیدا ہو.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ** (42) بالآخر آپ کا نکاح منشی مہتاب علی صاحب سیاح جالندھری سے ۵ دسمبر ۱۹۰۴ء کو ہوا.یہ وہی منشی صاحب تھے.جن سے مشہور معاند قاضی ظفر الدین پروفیسر کے بیٹے فیض اللہ خان نے مباہلہ کیا تھا.اور حضرت مسیح موعود نے اس کے ہلاک ہونے کا مفصل ذکر حقیقۃ الوحی میں کیا ہے.جو آئندہ اوراق میں درج ہورہا ہے.( حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کی ڈائری کے مطابق منشی صاحب کا وطن موضع ہوگی.ڈاک خانہ خاص ضلع جالندھر تھا ) حضرت ام المومنین نے ہی اپنی بیٹیوں کی طرح محترمہ موصوفہ کی شادی کر کے انہیں رخصت فرمایا تھا.سناتی تھیں کہ جب میں رخصت ہونے لگی تو حضرت اماں جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے جیسا کہ یہ مکتوب ۱۹۰۴ء کا ہے.کیونکہ اس سن میں حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب فوت ہوئے.اور پھر اسی سن میں محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ کی شادی بھی ہوئی.** مکتوبات احمد یہ جلد ہفتم حصہ اول میں خاکسار نے اس کو مع بلاک شائع کیا ہے.

Page 82

81 لاڈ سے اپنے آقا سے کوئی کام کرانا ہوتا ہے ضد کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ اب کیا ہوگا.امتہ الرحمن تو جاتی ہے تو حضرت اقدس نے فرمایا فکر کی بات نہیں.ہم اس کا مکلا والمبا کر دیں گے.یعنی جب واپس آئے گی تو زیادہ دیر تک ٹھہرا لیں گے.آپ کے خاوند ٹک کر کوئی کام نہیں کر سکتے تھے.ابتدائے خلافت ثانیہ میں ان کے دماغ میں خلل آ گیا تھا اور ۱۹۳۰ء میں وہ فوت ہو گئے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مشورہ سے اور حضور کے ارشاد کی برکت سے آپ نے لاہور میوہسپتال میں داخل ہو کر مڈ وائیف کا امتحان پاس کیا.اور قادیان سے ہجرت تک متواتر خدمت خلق کی توفیق پائی.ان کے ہاتھ میں شفا تھی.بے شمار قریب الموت عورتیں ان کے ہاتھوں بچ گئیں.جان بچانے کی خاطر گند اور تعفن وغیرہ کی ہرگز پرواہ نہ کرتی تھیں اور ساتھ دعائیں کرتیں اور جو بہت ہی نازک حالت ہوتی تو یوں دعا کرتیں کہ اے خدا! یہ ہاتھ تیرے مسیح کو لگے ہوئے ہیں.تو اپنے پیارے کی برکت کے طفیل اس کو شفا دے دے.بے شمار ایسے واقعات سناتی تھیں کہ جن میں بالکل مایوسی کی حالت والے مریض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے بچادیئے.اس ہنر کے باعث متعد دبار آپ کو دار خلافت میں خدمت کے مواقع میسر آئے.بالخصوص حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کے ہر موقعہ پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خدمت کا شرف حاصل ہوتا رہا.آپ بہت عرصہ اپنی ملازمت کے سلسلہ میں بھیرہ کے شفا خانہ میں مقیم رہیں.وہاں بعض دفعہ افسروں سے جو متعصب غیر مسلم ڈاکٹر ہوتے واسطہ پڑتا.آپ کا انحصار اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کر کے اس کی مدد حاصل کرنے پر ہوتا.اور ہمیشہ اللہ تعالی ان کی نصرت فرما تا.نہایت ہی خلیق تھیں.دوسروں کی تکلیف میں ہمدردی سے ان کا دل پگھل جاتا تھا.اور مصیبت زدہ کی مد کیلئے مردانہ وار اُٹھ کھڑی ہوتی تھیں.قاضی عبدالرحیم صاحب کی یکم نومبر ۱۹۰۰ ء کی ڈائری سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحومہ نڈر اور دلی طبع تھیں.وہ تحریر فرماتے ہیں: آج یہ عاجز گھر ( قاضی کوٹ) گیا.والد صاحب قادیان گئے تھے.گھر میں صرف والدہ بشیر احمد اور میری بہن فاطمہ بی بی تھیں.چوروں نے گھر میں نقب لگائی اور قدم اندر رکھنے نہ پائے تھے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کو جاگ آگئی اور ہمشیرہ صاحبہ نے بڑی بہادری اور جرات سے کام لیا.انہوں نے چھت کے اوپر جا کر شور مچایا تھا.ناقل ) اور چور ناکام بھاگ گئے.“ تبلیغ کا انہیں جنون تھا.حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کی ”جھوک مہدی والی“ اور

Page 83

82 مولوی دلپذیر صاحب بھیروی کی پنجابی کی تبلیغی تنظمیں عورتوں کو سنا سنا کر سمجھا تیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان میں تاثیر بھی رکھی تھی.بہت سی عورتیں ان کے ذریعہ احمدی ہوئیں.مشرقی افریقہ میں اپنی بیٹی (اہلیہ محترم قاضی عبدالسلام صاحب) کی ملاقات کے لئے تین بار گئیں.نیروبی میں دو احمدی مخلص دوستوں کی بیٹیاں احمدی نہ تھیں.بلکہ کسی صورت میں احمدیت قبول نہ کرتی تھیں.وہ مرحومہ کی تبلیغ سے احمدی ہو گئیں.ان کی دعائیں قبول ہوتی تھیں.ایک دفعہ موضع جنڈیالہ (ضلع گوجرانوالہ ) میں برادری میں سے ایک رشتہ دار عظیم خاں کی ملاقات کیلئے گئیں.تبلیغی گفتگو شروع ہوگئی.رات کا وقت تھا.اور بادل امڈے ہوئے تھے.موسم سرما تھا.اور بارشیں ہوتی تھیں.عظیم خان نے تبلیغ سے تنگ آ کر کہا کہ اخبار میں موسم کی خبروں میں میں نے پڑھا ہے کہ کل بارش ہوگی.میں کہتا ہوں کہ اگر مرزا صاحب بچے ہیں تو کل بارش نہ ہو.اگر ایسا ہو گیا تو میں احمدی ہو جاؤں گا.آپ نے کہا منظور ہے.گھر کے سب لوگ تو لحاف اوڑھ کر سو گئے.لیکن آپ نے چار پائی پر ہی نوافل اور دعائیں شروع کر دیں.بہت رات گزر گئی تو سوئیں.صبح ہوئی تو عظیم خاں کی بیوی بولی.خاں صاحب اٹھئے.باہر نکل کر تو دیکھئے آسمان پر تارے نکلے ہوئے ہیں.اور بادل کا نام ونشان نہیں.عظیم خاں سخت شرمندہ ہوا.لحاف میں سے نہ نکلتا تھا.مگر بدقسمتی سمجھئے کہ منہ مانگانشان دیکھ کر بھی فائدہ نہ اٹھایا اور ٹال مٹول کر گیا.استخارہ کے لئے بھی احباب ان کو کہتے تھے.۱۹۳۶ء یا ۱۹۳۷ء کی بات ہے کہ آپ کے برادر زادہ قاضی مبارک احمد صاحب ( حال سٹیشن ماسٹر مشرقی افریقہ) نے قادیان میں درخواست کی کہ میرے افریقہ میں ملازم ہونے کیلئے دعا کریں.ان دنوں ملازمتیں نہیں ملتی تھیں.اور مشرقی افریقہ میں بہت ہی قحط سالی والی حالت تھی.آپ کو دعا کرنے پر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ایک ڈبیہ عزیز کیلئے آئی ہے.عزیز کے سر ڈاکٹر عمر الدین صاحب رضی اللہ عنہ (جو صحابی تھے ) مشرقی افریقہ میں میڈیکل ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے.دوسرے یا تیسرے روز ان کا تار عزیز کو آیا کہ آپ کیلئے ریلوے میں ملازمت کا انتظام ہو گیا ہے.چلے آؤ.ڈبیہ سے مراد تا رتھی.جو لفافہ میں بند موصول ہوتی ہے.اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ مرحومہ نے اپنی نواسی محترمہ امتہ الحمید صاحبہ کو قادیان میں اپنے پاس رکھا ہوا تھا.وہ جگر کی خرابی سے بیمار ہو گئیں.فکرمند ہوئیں تو مرحومہ کواللہ تعالیٰ کی طرف سے پنجابی میں بتایا گیا کہ ریوند دے سو.چنگی ہندی اے یعنی اسے ریوند کا استعمال کراؤ.یہ اچھی ہوتی ہے.مرحومہ اسے بڑے مزے لے کر بیان کرتیں کہ چنگی ہندی اے“ کو نہایت ہی لمبا کر کے ادا کیا گیا تھا.چنانچہ وہ اس علاج سے بالکل تندرست ہو گئیں.حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے بیان فرمایا کہ ”جن دنوں حضرت میر محمد اسحق

Page 84

83 صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناظر ضیافت تھے.ان ایام میں ایک دفعہ میں سخت بیمار ہو گیا تو ایک خاتون میرے کمرہ کے باہر آئیں اور دروازہ کھٹکھٹایا اور السلام علیکم کہا.میں نے جواب دیا.انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ ہی حافظ مختار احمد ہیں.میں نے کہا جی ہوں تو میں ہی.پھر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا آپ شاہجہانپور کے رہنے والے ہیں.میں نے اثبات میں جواب دیا.انہوں نے کہا میں نے بھائی جی سے سنا تھا کہ آپ علیل ہیں.اس لئے میں حال پوچھنے کو آئی ہوں.میں نے شکر ادا یہ کیا اور کہا کہ آپ نے اتنی تکلیف کیوں کی.بھائی صاحب سے ہی میرے متعلق دریافت کر لیتیں.کہنے لگیں کہ پوچھا تو تھا مگر تسلی نہ ہوتی تھی.میں نے خیال کیا کہ خود دریافت کر آؤں.اور کہنے لگیں کہ کیا آپ کو علم ہے کہ ہمارے خاندان کے ساتھ آپ کے کتنے پرانے تعلقات ہیں.میں نے کہا.نہیں.انہوں نے کہا کہ آپ نے ایک قصیدہ لکھا تھا.جو میرے والد صاحب مرحوم کو بہت پسند آیا تھا.اور انہوں نے ہمیں وہ زبانی حفظ کرایا تھا.اور یہ کہہ کر اس کے چند شعر بھی پڑھ دیئے.(یہ قصیدہ غالباً ۱۸۹۸ء میں الحکم میں شائع ہوا تھا.) تب سے آپ سے عقیدت تھی اور اسی وجہ سے میں خود دریافت حال کے لئے آ گئی ہوں.“ یہ خاتون محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ تھیں.حافظ صاحب نے فرمایا کہ ہم پرانوں کے آپس کے تعلقات بہت گہرے تھے اور چونکہ ہم ایک ہی شخص کے ہاتھ پر بکے ہوئے تھے.اس لئے اس ہستی کی محبت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ جو ہمارے محبوب کو ہماری طرح جانے والا ہے.اس سے بھی تعلق اخوت و برادری استوار رہے.آپ موصیہ تھیں.اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی انہیں بے حد تڑپ تھی.اپنے پاس وہ ہر وقت ایک سو روپیہ نقد رکھتی تھیں.تا کہ اگر وفات قادیان سے باہر ہو جائے تو نعش کو قادیان پہنچانے کے کام آئے.تقسیم ملک کے وقت وہ مقامی امیر صاحب کے زور دینے پر قادیان سے نکلی تھیں اور نہایت ہی بادل ناخواستہ نکلی تھیں.دراصل ان ایام میں ان کی کمزور صحت کی نگہداشت کے لئے کوئی صورت انتظام کی نہ میسر تھی.وہ تو مضر تھیں کہ قادیان میں ہی ٹھہری رہیں.اور شاید قادیان ہی کی جدائی کا صدمہ تھا کہ لاہور پہنچتے ہی فریش ہوگئیں اور رتن باغ جو ہجرت کے بعد سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی قیام گاہ اور صدر انجمن احمد یہ کا ہیڈ کوارٹر تھا.وہیں اپنے بھائی قاضی محمد عبد اللہ صاحب کے ساتھ آپ کا قیام تھا.وہاں ۱۹۴۷ء میں ہی ۱۲۱۱ دسمبر کی درمیانی شب کو بعمر سوا انتہر سال آپ عالم جاوداں کو سدھار گئیں.انا للہ و انا اليه راجعون.دسمبر کو اپنا وعدہ تحریک جدید یکمشت ادا

Page 85

84 کرنے کیلئے زور دیا.جو فی الفور ادا کر دیا گیا تھا.قاضی عبدالسلام صاحب کے ہمشیرہ زاد لئیق احد صاحب سناتے ہیں کہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ میں ان کی عیادت کو جانے والا تھا.جنازہ تیار ہونے پر اطلاع دی جائے.میں خود جنازہ پڑھاؤں گا.چنانچہ حضور ہی نے جنازہ پڑھایا.اور مرحومہ کو امانتاً لا ہور میں دفن کر دیا گیا.۱۹۵۴ء میں قاضی عبد السلام صاحب پاکستان آئے تو قبر کھدوا کر نئے صندوق میں ڈال کر لے گئے.جہاں اپنے والدین کے قرب میں قطعہ صحابہؓ بہشتی مقبرہ ربوہ میں ان کی تدفین عمل میں آئی.اللھم اغفرلها وارحمها و ادخلها برحمتک فی جنة النعیم.آمین.

Page 86

85 حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب آپ کی تاریخ ولادت ۹ نومبر ۱۸۸۶ء ہے.اس کا اندراج روز نامچہ میں کرتے ہوئے آپ کے والد ماجد نے آپ کا نام ”عبدالعزیز یعنی عبداللہ رقم فرمایا ہے.اور فارسی زبان میں نوٹ دیا ہے کہ اگر چہ بلحاظ حدیث طبراني اذا سَمَيْتُمُ فَعَبدُوا وحديث ابن مسعود احب الناس الی الله ما تعبد بہ “ میں نے اپنے اس عزیز کا نام عبد العزیز مقرر کیا تھا.لیکن اس کے بعد میرے نام نواب بھوپال کی طرف سے کتاب سراج الوهاج شرح تلخیص مسلم پہنچی.جس کو میں نے پڑھا اور اس میں باب احب اسماء كم الى الله عبدالله و عبدالرحمن پس میں نے اپنے عزیز کا نام عبدالعزیز سے بدل کر عبد اللہ کر دیا.اور اس تبدیلی کا موجب چار امور ہیں.اول یہ کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں وہ دو حدیثیں جو میں نے ابتداء میں لکھی ہیں.ان کو ضعیف کہا ہے اور جو تیسری حدیث میں نے درج کی ہے.وہ اصبح احیح مسلم میں سے ہے.اس لئے جیسا کہ طریق محدثین علماء کا ہے کہ ضعیف پر قومی کو ترجیح دو.میں نے مسلم کی حدیث کو ترجیح دی ہے.دوسرا امر یہ ہے کہ قرآن مجید میں سوائے اللہ “ اور ”رحمن کے اور کسی اسم الہی کو بندہ کے ساتھ اضافت نہیں دی گئی.جیسا کہ فرمایا " لِمَا قَامَ عَبْدُ اللهِ يَدْعُوهُ ، اور فرمایا ” وَعِبَادُ الرَّحْمنِ “ اور یہ بھی فرمایا کہ قِلُ اَدْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنِ “ اور تیسر امر یہ ہے کہ ”جناب نبوت صلعم کا ایک طریق یہ بھی تھا کہ تغیر و تبدل اسماء بطرف احسن فرماتے.اور میں امیدوار ہوں کہ یہ تبدیلی نام کی کر کے اس ذات کامل الصفات متبوع جملہ مخلوقات کی اتباع حاصل کرونگا.اور چوتھا امریہ کہ جناب عبد اللہ غز نوی جو میرے پیر طریقت ہیں.انہوں نے مجھے راقم آثم کا نام بدل کر عبدالرحمن فرمایا تھا.پس میں نے چایا کہ میں اس ولد سعید کا نام عبد اللہ رکھ دوں." ۳۱۳ صحابہ میں شمولیت بیعت و زیارت : چونکہ بوقت آغاز بیعت (اواخر مارچ ۱۸۸۹ء) آپ صرف دو سال ساڑھے چار ماہ کی عمر کے بچے تھے.اس لئے الگ بیعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.آپ کے والد ماجد کی بیعت میں ہی آپ کی بیعت بھی ہو گئی بلکہ آپ کو اور آپ کے برادر اکبر قاضی عبدالرحیم صاحب کو والد بزرگوار کے باعث ہی ۳۱۳ صحابہ میں جن کے اسماء ضمیمہ انجام آتھم ( تصنیف ۱۸۹۶ء جنوری ۱۸۹۷ء) میں درج ہیں.شمولیت کا شرف حاصل ہوا.اس وقت آپ کی عمر کم و بیش دس برس کی تھی.گو آپ کو پہلی بار ۲۹/ مارچ ۱۹۰۰ ء کو زیارت حضرت اقدس کا موقعہ حاصل ہوا.ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء.آپ کا نام وہاں یوں مرقوم ہے.

Page 87

86 ۲۸۱.قاضی عبد اللہ صاحب قاضی کوٹ آپ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے شرف ملاقات پہلی بار جمعۃ المبارک کے روز مسجد اقصیٰ میں بتاریخ ۲۹ مارچ ۱۹۰۰ ء ہوا.جب کہ خاکسار اپنے والد ماجد صاحب مرحوم کے ساتھ بٹالہ سے پیدل چلتے ہوئے قادیان جمعہ کے وقت پہنچا تھا.“ آپ اپنے تئیں ہمیشہ احمدیت سے وابستہ سمجھتے تھے.چنانچہ آپ کا بیان ہے کہ : ” مجھے یاد ہے جب عبد اللہ آتھم کی پیشگوئی کے بارہ میں ہمارے گاؤں کوٹ قاضی میں بہت چرچا تھا اور مخالفین جب یہ شور مچاتے کہ آتھم نہیں مرا تو اس وقت ہم سب کو تیر بہدف بناتے تھے.(اس وعیدی پیشگوئی کی معیادہ ستمبر ۱۸۹۴ء تک تھی اور وہ عبداللہ آتھم کے رجوع کے باعث مل گئی تھی.مؤلف ) نیز جب ہمارے گاؤں کوٹ قاضی میں مولوی بو پڑی اور عبدالحق غزنوی آئے اور (دسمبر ۱۸۹۴ ء میں.مؤلف ) مباحثہ کیا تھا.اس وقت خاکسار ہی اپنے والد صاحب مرحوم کی طرف سے مخالف مولویوں کو پیغام حق پہنچا تا تھا.اور سلسلہ عالیہ میں شمار کیا جاتا تھا.لیکن شروع میں براہ راست بیعت کرنے کا سن مجھے معلوم نہیں.“ قادیان کے مدرسہ میں داخلہ : جب والد ماجد" آپ کو مارچ ۱۹۰۰ء میں قادیان لائے تھے تو مدرسہ تعلیم الاسلام کی چھٹی جماعت میں آپ کو داخل کرادیا تھا.معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں وظیفہ کے باعث منتظمہ کمیٹی نے یہ عہد لینا چاہا کہ تعلیم ان کی منشاء کے مطابق دی جائے گی.اس بارہ میں حضرت قاضی صاحب نے منتظمہ کمیٹی کو ذیل کی چٹھی لکھی تھی : عرضداشت بحضور کمیٹی منتظمان مدرسہ تعلیم الاسلام.قادیان اما بعد جناب عالی گزارش التماس کمترین فدویان کی یہ ہے کہ میں اپنے بیٹے محمد عبد اللہ کو بغرض تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام میں داخل کرتا ہوں اور اپنی طرف سے عہد کرتا ہوں کہ اس کی تعلیم حضرات کمیٹی کی منشاء کے موافق و مطابق رکھی جائے گی.میری طرف سے کسی طرح کا خلاف وانحراف نہ ہوگا.اور فی الواقع خلاف ہو بھی کیوں.جبکہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ کمیٹی مذکور پختہ جماعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے.پھر کیا اپنی جماعت کے غرباء کے لڑکوں کی نسبت مضمون فیض مشحون آیت رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ

Page 88

87 حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ “ کے موافق دونوں جہانوں کی بھلائی کا خیال مدنظر نہ رکھیں گے.کیوں نہیں؟ ضرور رکھیں گے.سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ : مسکین قاضی ضیاءالدین عفی عنہ 9 جنوری ۱۹۰۱ء انجمن سے مجھے تین روپے وظیفہ ملتا تھا.جس میں سب اخراجات برداشت کرنے ہوتے تھے.کھانا میں گھر میں کھاتا تھا.والد ماجد کے ۱۵ / مئی ۱۹۰۴ء کو انتقال ہونے کا حضرت اقدس کو گورداسپور علم ہوا.تو حضور نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو فرمایا کہ میاں نجم الدین صاحب انچارج لنگر خانہ کو لکھا جائے کہ قاضی ضیاء الدین صاحب کے بعد ان کےلڑ کے قاضی عبداللہ صاحب کا کھانالنگر سے جاری کیا جائے اور کبھی بند نہ کیا جائے.یہ حکم نامہ بطور تبرک میرے پاس لمبے عرصہ تک رہا.کئی دوستوں نے اسے دیکھا افسوس ہے کہ قادیان سے (۱۹۴۷ء کی ہجرت کے موقعہ پر ) آتے ہوئے یہ غائب ہو گیا.جس کا مجھے بے حد رنج ہے.میں سمجھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے قدیم مخلص کی وفات پر اس کے بیٹے کیلئے ہمیشہ کیلئے انتظام فرما دیا تا کہ وہ عہد پورے طور پر پورا ہو جائے.جو حضور علیہ السلام نے اپنے خط میں ہجرت کی اجازت دیتے ہوئے تحریر فرمایا تھا.“ آپ کی اہلی زندگی : آپ کے رشتہ کیلئے مندرجہ ذیل خط کے ذریعہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے سید عزیز الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کو تحریک کی تھی.سید صاحب ایک بہت ہی بزرگ انسان تھے اور سلسلہ کیلئے انہوں نے بہت قربانی کی تھی.د مگر می اخویم سید عزیز الرحمن صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ.قاضی عبداللہ ہمارے ایک نو جوان دوست ہیں جو اس سلسلہ کے ایک بڑے مخلص قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم کے لڑکے ہیں.ان کے زیادہ حالات لکھنے کی مجھے ضرورت نہیں.کیونکہ غالباً آپ کو بھی کچھ معلوم ہوگا.اور زیادہ ضرورت ہو تو ** سورة البقره - آیت ۲۰۲

Page 89

88 معلوم ہوسکتا ہے.لیکن اس میں شک نہیں کہ جہاں تک ظاہر حالات ان کے دیکھے گئے ہیں.(اور وہ ایک مدت سے یہاں رہنے والے ہیں) ان کی طبیعت میں بڑی سعادت اور رشد پایا گیا ہے اور وہ ایک شریف اور صالح نو جوان ہیں.واللہ حسیبہ قادیان کو انہوں نے باہر کی ملازمت پر ترجیح دے کر اختیار کیا ہے.باہر ان کو اس وقت یہاں سے اچھی ملازمت اور بہت کچھ ترقی کی امید میں ملتی تھیں.مگر انہوں نے ایک قلیل تنخواہ پر اسی جگہ رہنے کو ترجیح دی ہے.آپ نے جس ہمت اور مردانگی کے ساتھ اپنی قوم سے قطع تعلق کر کے پہلے اس نئی قوم میں تعلق پیدا کیا ہے.اسی کی بناء پر میں یہ درخواست قاضی صاحب موصوف کی طرف سے آپ کی خدمت میں دوسری لڑکی کے رشتہ کے لئے کرتا ہوں.چونکہ والدین کو ان معاملات میں بہت احتیاط سے اور غور وفکر کے بعد کام لینا پڑتا ہے.اس لئے میں یہ بھی ساتھ ہی عرض کرتا ہوں کہ آپ بطور خود بھی ان کے حالات دریافت فرمالیں.اور اس معاملہ میں بڑی آزادی کے ساتھ کام کریں.میری طرف سے محض یہ درخواست ہے.کیونکہ قاضی صاحب کے نہ تو والد صاحب زندہ ہیں اور نہ ہی ان کے بڑے بھائی صاحب اس جگہ ہیں.اور انہوں نے اس جگہ ہمارے بچوں کی طرح پرورش پائی ہے.اس لئے میں ہی یہ درخواست بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.البتہ اتنا اور عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب سے بھی اس کا تذکرہ آیا تھا.وہ بھی میری طرح اس تعلق کو اگر آپ اسے منظور فرماویں.فریقین کیلئے بہت مبارک سمجھتے ہیں.ایک بات اور ہے.حضرت اقدس ان معاملات میں حکماً کارروائی نہیں کرتے.ہاں اگر پہلے فریقین کی رضامندی ہو جاوے تو پھر معاملہ حضور کی خدمت میں پیش کرنا مناسب ہوگا.اگر آپ بطور خود حضرت اقدس سے اجازت حاصل کرنا چاہیں تو آپ کو ہر طرح سے اختیار ہے.ورنہ آپ کی رضامندی کی اطلاع ہونے پر میں حضور کی خدمت میں عرض کر دوں گا.اور جو کچھ حضور کا ارشاد ہوگا اس سے آپ کو اطلاع دے دوں گا.والسلام خاکسار محمد علی از قادیان ۱۰ فروری کے قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ : خاکسار کی اہلیہ اول کا نام کلثوم با نو بنت سید عزیز الرحمن صاحب ہے.محترم سید صاحب

Page 90

89 مع اہل وعیال بریلی (یوپی) سے ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے.جب کہ ان کی بڑی صاحبزادی عائشہ بانو صاحبہ کی شادی ہمارے مکرم ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر سے ہو چکی تھی.پھر انہوں نے شروع فروری ۱۹۰۸ء میں اپنی دوسری لڑکی کلثوم بانو کا نکاح خاکسار سے کر دینے کی خواہش کا اظہار جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا تو حضور انور علیہ السلام نے پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے میرے متعلق فرمایا کہ وو ” بظاہر صالح نو جوان ہے“ سوفروری ۱۹۰۸ء میں حضرت مولانا مولوی نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد اقصیٰ میں اعلان فرمایا.الـحـمـد لله - (43) یہ بی بی صحابیہ ہیں.بڑی نیک اور پارسا تھیں.مگر دماغی عارضہ میں مبتلا ہوگئیں.ان کی آہ وزاری کوشن کر ہمارے وہاب مولا کریم نے اپنے خاص فضل اور رحم سے ۱۵ فروری ۱۹۲۸ء کو ان کے بطن سے خاکسار کو امتہ الوہاب نام بیٹی عطا کی.الحمد للہ ثم الحمدللہ.خاکسار کی اہلیہ ثانی کا نام امتہ الرشید بنت ڈاکٹر عطاء محمد خاں صاحب مرحوم سکنہ موضع کھرل ضلع ہوشیار پور ہے.۱۹۲۷ء میں شادی ہوئی تھی.ان سے کوئی اولا د نہیں.یہ صحابیہ نہیں.نہ ان کے والد مرحوم صحابی تھے.البتہ ان کی والدہ (میری ساس) نواب بی بی ہمشیرہ چوہدری محمد اسماعیل صاحب نمبر دار موضع بگول ضلع گورداسپور بہت مخلص صحابیہ ہیں.چوہدری محمد اسماعیل صاحب مرحوم اپنی ہمشیرہ کے ساتھ اکثر قادیان آیا کرتے تھے.نمبردار صاحب کے گاؤں بگول کا اکثر حصہ احمدی جماعت میں شامل تھا.مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب مرحوم فاضل سنسکرت ( پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان) جنہوں نے بنارس جاکر سنسکرت کی اعلی تعلیم حاصل کی تھی.وہ چوہدری صاحب کے ہی بھیجے تھے.“ خلافت ثانیہ کی اولین شوری قبل ازیں ذکر ہو چکا ہے کہ یہ دونوں بھائی خلافت ثانیہ کے قیام پر اپنے ایمانوں کو سلامت رکھتے ہوئے ہر فتنہ سے بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہے اور اولین شوریٰ میں جو نظام جماعت کے استحکام کیلئے طلب کی گئی تھی.شامل ہوئے.

Page 91

90 خدمت بسلسلہ لنگر خانه : خدمات سلسلہ قادیان کے قیام کے عرصہ میں دیگر اعلیٰ کا رکنان کی طرح آپ کو ہمیشہ ہی جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ذمہ داری کا کام سونپا جاتا تھا.مثلاً ۱۹۲۰ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور محترم چوہدری غلام محمد صاحب بی اے ( بعدہ مینجر نصرت گرلز سکول) کے ہمراہ دارالعلوم کی نظامت میں عام نگرانی آپ کے سپرد کی گئی.(44) اور ۱۹۴۲ء میں جلسہ سالانہ پر ناظم سپلائی وسٹور کا عہدہ آپ کے سپر درہا.(45).یہ حوالہ بطور مثال لکھا ہے ورنہ قاضی صاحب ناظر ضیافت کی عہدہ پر سالہا سال تک متعین رہے.یہ عہدہ نہایت اہم تھا.اور قریباً سارا سال اس کا کام جاری رہتا ہے.جلسہ سالانہ کے اختتام پر اس کا سامان محفوظ کرنا.حسابات کی تکمیل.پڑتال.نئے جلسہ سالانہ کیلئے فصلوں کے موقعہ پر اجناس کی خرید.ایندھن وغیرہ کی فراہمی.باور چیوں اور نان پزوں کا انتظام.غرضیکہ قیام و طعام کیلئے جملہ سامان کی فراہمی کا کام ناظم سپلائی وسٹور کے سپرد ہوتا ہے.اور انتظامات جلسہ سالانہ میں سب سے کٹھن کام یہی ہے.عہدہ پر ۱۹۴۴ء میں حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتقال پر قاضی صاحب ناظر ضیافت کے ر متعین ہوئے اور سالہا سال تک اس خدمت کو سرانجام دیتے ہوئے بعد ہجرت بطرف پاکستان بوجہ بڑھاپے کے کام سے فارغ ہوئے.علاقہ ملکانہ میں تبلیغ : ۱۹۲۳ء میں سیدنا حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالی نے جماعت کو ایک خاص خطرہ سے آگاہ کیا.وہ یہ کہ آریہ سماجی سولہ سال سے خفیہ رنگ میں یہ کوشش کر رہے تھے کہ ایسی اقوام جن میں اسلام برائے نام ہے ان کو مختلف تدابیر سے اسلام سے برگشتہ کر کے ہندو بنا لیا جائے.اس وقت ایک کروڑ ایسے مسلمان تھے.جن کا ایک حصہ ملکا نہ کہلاتا تھا اور یوپی کے اضلاع آگرہ.علی گڑھ.فرخ آباد متھرا وغیرہ میں آباد تھا.یہ لوگ راجپوت تھے.اور ساڑھے چار لاکھ کی ان کی تعداد تھی.مسلمانوں کی غفلت کے باعث ان میں اسلام نہیں رچا تھا.اسلامی رسوم کے ساتھ چوٹیاں بھی رکھتے تھے.گھروں میں بُت رکھتے اور ان پر نذریں چڑھاتے.اور مُردوں کو جلاتے بھی تھے.نکاح پنڈتوں سے بھی پڑھوا لیتے تھے.پنڈت نہرو نے ( جواب بھارت کے وزیر اعظم ہیں ) اس وقت شدھی اور سنگھٹن کی اس تحریک کے بارہ میں یہ بتایا تھا کہ اس کی تہہ میں سیاسی امور کارفرما ہیں اور انہوں نے بجا

Page 92

فرمایا تھا.چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں : 91 ”میرا خیال درجہ یقین کو پہنچ گیا تھا کہ اس تحریک کی غرض و منشا محض سیاسی ہے.اس لئے میں اس تحریک سے اتفاق نہیں کرتا.کیونکہ اس کا نتیجہ ایک اور محض ایک ہے.اور وہ یہ کہ یہ تحریک ہندوستان کی تمام قوتوں اور جماعتوں کی بر بادی و تباہی کا باعث ہوگی.(46) حضور نے شدھی کے انسداد کے لئے نظارت تالیف واشاعت کے ماتحت ایک صیغہ انسداد ارتداد قائم کیا.جس کے ناظر و نائب ناظر و مددگار علی الترتیب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب مقرر ہوئے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت میں یہ تحریک کی کہ احباب تین تین ماہ کیلئے اپنے اپنے خرچ پر وہاں جائیں.جماعت ان پر ایک پیسہ بھی خرچ نہ کریگی.البتہ دیگر اخراجات کیلئے جماعت سے روپیہ فراہم کیا گیا.میدان جہاد میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب اور حضرت عرفانی صاحب وغیرھم جیسی ہستیاں تشریف لے گئیں.دفتری اوقات کے علاوہ حضور رات کے گیارہ گیارہ بجے تک مشورے فرماتے اور ہدایات جاری فرماتے.بعض دفعہ چند گھنٹوں میں مجاہدین تیار کر کے بھجوادیے جاتے.اور حضور ان کو الوداع کہنے کیلئے بٹالہ کی سڑک کے موڑ تک تشریف لے جاتے.اسلام کے دور اول کے خلافت اولیٰ اور ثانیہ کے جہاد کے سے جوش کے نظارے نظر آتے تھے.اور جماعت میں تبلیغی جہاد کیلئے حیرت انگیز ولولہ تھا.قیام وطعام کی تکالیف کے علاوہ اپنوں اور اغیار کی طرف سے دی گئیں تکالیف مجاہدین نے برداشت کیں.چنانچہ جماعت احرار وغیرہ کو بھی جماعت احمدیہ کا یہ تبلیغی جہاد تسلیم کئے بغیر چارہ نہ رہا.۱۹۲۴ء میں اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے.اغیار پر بھی دھاک بیٹھ گئی.جماعت کی ایک خاص شان نظر آئی جس میں تبلیغی اور تنظیمی قابلیتوں کے مظاہرہ کے علاوہ فدائیت.جان نثاری قربانی کے ایمان افزا مناظر دیکھنے میں آئے.خواتین بھی قربانی میں مردوں سے پیچھے نہیں رہیں.بعض نے باوجود غربت کے اپنا سارا زیور اللہ تعالیٰ کی راہ میں نچھاور کر دیا.میں اس وقت طالب علم تھا.گیارہ بارہ سال کی عمر تھی.مجھے اب تک اس وقت کا جوش اور ولولہ یاد ہے.مسجد اقصیٰ میں لوگوں کے پاس جو کچھ تھا.اس وقت نچھاور کرتے تھے.قادیان کے بہت سے اساتذہ اور دکاندار اس مہم پر روانہ ہوئے.ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو ہندو بنالینے یا بعض اور طریقوں سے مغلوب کرنے اور ملکانہ اقوام کے بعد چمبہ سندھ کشمیر وغیرہ میں تہمتیں شروع کرنے کی تجویز تھی جو

Page 93

92 سب دھری کی دھری رہ گئیں.اس کے علاوہ ۱۹۲۴ء میں سفر یورپ کی مہم بھی در پیش ہوئی.وہاں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا کا نفرنس مذاہب میں مضمون پڑھا گیا.لنڈن میں حضور نے مسجد کی بنیا درکھی.الہی تقدیر سے اس سفر کے عرصہ میں حضرت مولوی نعمت اللہ خاں صاحب افغانستان میں شاہ امان اللہ خاں کے حکم سے شہید کئے گئے.ان سب واقعات سے اپنے ملک اور یورپ وغیرہ میں جماعت خاص طور پر روشناس ہوئی.اور حضرت مسیح موعود کا۹ جنوری ۱۹۰۴ء کا یہ الہام پورا ہوا.نصرت و فتح وظفر تا بست سال“ قاضی محمد عبد اللہ صاحب کو انسداد ارتداد کے سلسلہ میں علاقہ ملکانہ میں تبلیغ کے خاص مواقع حاصل ہوئے.تفصیلاً یہاں اندراج کا موقع نہیں.صرف نوجوانوں کے ازدیاد علم اور ان کی قربانی کی روح کو مہمیز کرنے کیلئے کچھ حالات درج کرتا ہوں.میں فرمایا: حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۲ مارچ ۱۹۲۳ء کو نماز فجر کے بعد موقع کی نزاکت کے باعث تقریر کی.جس ” میں نے جو ملکا نہ قوم میں تبلیغ کی تحریک کی تھی.آج رات میں نے آریہ اخباروں کا مطالعہ کیا.تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بہت سُرعت سے کام کر رہے ہیں اور جلد سے جلد وہ اس کام کو سرانجام دینا چاہتے ہیں.” میں نے جو سکیم تیار کی ہے.اس کے یکم اپریل سے جاری کرنے کا ارادہ تھا.لیکن اب اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ایک تو پہلے ہی ہم ایک مہینہ پیچھے کام کریں گے اور دوسرے ہمارے پاس ایسے آدمی بھی کوئی نہیں جو اس جگہ کی مقامی طرز تبلیغ سے واقف ہوں.......اس لئے میں نے مناسب خیال کیا کہ آج چوہدری فتح محمد صاحب جو جار ہے ہیں.کچھ لوگ آج ہی ان کے ساتھ روانہ ہو جائیں.تا کہ وہ اس عرصہ میں وہاں کے حالات کے مطابق کام کرنا سیکھ لیں اور پھر بعد میں آنے والوں کو دقت پیش نہ آئے.سوجن دوستوں نے درخواستیں دی ہیں.ان میں سے جو لوگ آج ہی تیار ہوں.وہ مجھے ظہر سے پہلے پہلے اپنے نام دے دیں.تاکہ میں انتخاب کر کے ظہر کے بعد ان کو روانہ کر سکوں...دنیا دار (لوگوں)......کی نظر میں وہی شخص زیادہ معزز ہوتا ہے جو ڈگری یافتہ ہو......اس لئے ایسے لوگوں کو زیادہ تر اس طرف توجہ کرنی چاہئے جو ڈگری یافتہ ہوں.جہاں تک ہو سکے جلدی کریں.ورنہ وقت ہاتھ سے جاتا رہے گا.خدمت دین کے موقعے ہمیشہ نہیں ملا کرتے.....چونکہ اس جگہ لوگ تھوڑے ہیں.

Page 94

93 اس لئے جو موجود ہیں.وہ اپنی اپنی جگہ جا کر دوسروں کو اطلاع دے دیں.“ ظہر کے وقت تک ہیں احباب تیار ہو گئے.جن میں پانچ گریجوایٹ تھے.ان میں قاضی صاحب بھی شامل تھے.چنانچہ مرقوم ہے کہ ظہر کی نماز کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایک بڑے مجمع کے ساتھ ان اصحاب کو روانہ کرنے کیلئے دو ڈیڑھ میل کے فاصلہ تک قصبہ سے باہر تشریف لے گئے.قادیان کی سڑک جہاں بٹالہ والی سڑک سے ملتی ہے.اور وہاں جو کنواں ہے.اس کے پاس جانے والے اصحاب کو سامنے بٹھا کر ایک ولولہ انگیز تقریر فرمائی.پھر دعا کی اور سب کے ساتھ مصافحہ کر کے رخصت فرمایا.“ روز نامہ الفضل نے مزید لکھا: اگر چہ اس مقام پر مبلغین کی روانگی کے وقت حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کا تقریر فرمانا بھی ایک خاص بات تھی.لیکن ایک اور خصوصیت جو اس موقعہ کو حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا پا پیادہ مع چند اور مستورات کے اس مقام تک تشریف لائیں.دعا فرمائی اور اپنے فرزندوں کو اپنی آنکھوں سے اعلائے کلمتہ اللہ کیلئے روانہ ہوتے ملاحظہ فرمایا.روانگی کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی تھوڑی دیر تک سیکوں کی طرف دیکھتے اور دل میں دعائیں فرماتے رہے.(47) وہاں قاضی صاحب کی نگرانی میں ایک دوسرا مرکز اچھنیر مضلع آگرہ میں قائم کیا گیا.(48) ضلع متھرا آریوں کا مرکز بن رہا تھا اس وقت بمقام تیرہ آپ کو کام کرنے کا موقعہ ملا.(49).اس ضلع میں ایک برہمن عورت آپ کے ذریعہ مسلمان ہوئی.آریوں کے ایک احمدی مبلغ پر مظالم کی رپورٹ آپ کی طرف سے بطور نائب امیر وفد المجاہدین شائع ہوئی.(50) قاضی صاحب ۲۶ جولائی ۱۹۲۳ء کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ ضلع متھرا کے ایک مقام پر نصف صد لوگ اس لئے حملہ آور ہو گئے کہ ایک بکری ذبح کی گئی تھی جس کا گوشت مرتدین نے بھی خفیہ طور پر لیا تھا.حملہ آوروں نے مبلغ پر جھونپڑی گرادی اور جب اسے اس کے نیچے سے باہر نکالا گیا تو دھکے دے کر گاؤں سے باہر نکال دیا گیا اور سامان تک بھی نہیں لینے دیا گیا.(51) آریہ اخبارات میں بار بار ذکر آتا تھا کہ جب تک ساندھن کے لوگ اسلام ترک نہ کریں گے تب تک

Page 95

94 ملکا نہ شدھ نہیں ہو سکتے.اس بارہ میں انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور پھر جنوری ۱۹۲۴ء میں اعلان کیا کہ ساندھن کا قلعہ بھی ٹوٹ گیا اور ہندو اخبارات نے آگرہ سے آمدہ ایک تار جلی حروف سے شائع کیا کہ مسلمان رؤساء نے کوشش کر کے دفعہ ۱۴۴ نافذ کرادی.پھر اس میں توسیع کرا دی تا کہ آریہ جلسہ نہ کرسکیں.لیکن شدھی سمجھا کی متواتر مساعی اور ملکانہ راجپوتوں کی زبر دست خواہشوں سے قریباً سارا علاقہ شدھ ہو گیا.اس غلط اطلاع کی تردید قاضی عبد اللہ صاحب نے بطور امیر المجاہدین کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ آریہ سماجیوں نے بہت جتن کئے مختلف دیہات سے مرتدین کو جمع کیا.ساہوکاروں کے اثر واقتدار کو کام میں لائے اور جو مذہب فروخت کرنا چاہتے تھے.ان کو سینکڑوں روپے پیش کئے.لیکن احمدی مبلغین نے ایسا مذہبی جوش پیدا کر دیا تھا کہ مخالفین کی ساری کارروائیاں ناکام ہوئیں.حکام نے دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی.آریوں نے کوشش کی کہ چند روز کیلئے یہ دفعہ معطل کر دی جائے تا وہ شدھی کر سکیں.اس سے مسلمانوں میں سخت جوش پھیلا اور نمبر دار کلکٹر سے ملے.چنانچہ ایک یورپی افسر کی زیر نگرانی ایک دستہ مسلح پولیس کا وہاں پہنچ گیا.سوآر یہ مایوس ہوئے اور ان کو ندامت اٹھانی پڑی اور نا کامی کو چھپانے کیلئے پر چارکوں نے دو افراد کی منتیں کیں.روتے ہوئے پاؤں پڑے اور کہا کہ اس وقت ہماری لاج رکھ لو.لیکن وہ صرف زنار پہننے پر راضی ہوئے.لیکن اسے بھی ایک نے ان کے سامنے تو ڑ دیا اور پھر ایک گھنٹہ بعد ہمارے ساتھ انہوں نے نماز ادا کی.(52) مخالف اخبارات غلط خبریں بھی شائع کرتے تھے مثلاً اخبار تیج نے شائع کیا کہ ایک اشدھ راجپوت سے قادیانی شرارتیں کر رہے ہیں.اس خبر کی قاضی صاحب نے تردید ارسال کی.(53) نام نہاد مولویوں نے تبلیغی جہاد میں اس موقعہ پر بھی فتنہ انگیزی میں کسر نہ اٹھا رکھی.گویا بقول اقبال.دینِ مُلا فی سبیل اللہ فساد.فروری میں فرخ آباد میں علماء کی تقاریر میں حضرت مسیح موعود کو گالیاں دی گئیں اور اشتعال انگیزی کے نتیجہ میں لوگ احمدی مبلغین کے مکان پر حملہ آور ہوئے.(54) آپ بطور قائم مقام امیر المجاہدین ۳۱/ جنوری ۱۹۲۴ ء کی رپورٹ میں لکھتے ہیں غیر احمدی مولوی صاحب یہ مشہور کر رہے ہیں کہ احمدی ان کے ساتھ مباحثہ سے بھاگتے ہیں.مولویوں کا یہ حال تھا کہ فرخ آباد میں ایک مولوی کے مریدوں نے ہمارے مبلغین پر حملے کئے تھے.۶ فروری ۱۹۲۴ء کی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ موضع منگھول کے متعلق ( جو فرخ آباد سے سولہ میل پر ہے ) اطلاع ارتداد ملنے پر احمدی مبلغین فورا وہاں پہنچے.البتہ کوئی غیر احمدی مولوی نہیں پہنچا.یہ مولوی اور کارکنان خلافت صرف احمدیوں کے خلاف لوگوں کو مشتعل کرنے اور

Page 96

95 مقاطعہ کرانے کے لئے دستخط کرانے میں مصروف ہیں جو دستخط نہ کرے یا تامل کرے تو ا سے زدوکوب بھی کرتے ہیں.غلط عقائید جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں.(55) ۳.بطور ہیڈ ماسٹر تعین : میدان ارتداد سے واپسی پر آپ کو مدرسہ تعلیم الاسلام کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا.چنانچہ مرقوم ہے: مکرمی قاضی محمد عبد اللہ خاں صاحب انسداد ارتداد کے صیغہ سے اپنے اصلی کام ہیڈ ماسٹری مدرسہ تعلیم الاسلام پر واپس ہو گئے ہیں اور قادیان تشریف لے آئے ہیں.۱۷/ اپریل ۲۴ء کو مسلم گروپ کے طلباء نے ان کو ایک ایڈریس دیا.جس میں ان کی خدمات کا اعتراف (تھا) طلباء نے نہایت عمدہ پیمانہ پر حاضرین کی روزہ کشائی کا بھی انتظام کیا ہوا تھا.حضرت اقدس بھی تشریف فرما تھے.“ (56) ۴.انگلستان میں تبلیغ : قاضی محمد عبد اللہ صاحب کو حضرت مسیح موعود کے حضور ۱۹۰۷ء میں زندگی وقف کرنے اور پھر بعد میں کم و بیش پانچ سال تک انگلستان میں تبلیغ کرنے کی توفیق ملی.اس وقت خواجہ کمال الدین صاحب خلافت ثانیہ سے بغاوت کر کے الگ ہو چکے تھے.آپ کے متعلق مؤقر الحکم رقمطراز ہے: وو...اب دوسرا مبلغ لنڈن کو روانہ کیا جارہا ہے...وہ نوجوان جس کے حصہ میں اس خدمت کی سعادت آئی ہے.قاضی عبد اللہ بی.اے بی.ٹی ہے...وہ بھی ایک نوجوان اور مدرسہ تعلیم الاسلام کا فرزند ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ انتخاب بھی بابرکت ہوگا.حضرت خلیفہ ثانی نے خدا تعالیٰ پر توکل کا عجیب نمونہ دکھایا ہے.اگر محض اسباب پر بھروسہ ہوتا تو شاءید قاضی عبد اللہ کی جگہ کوئی گرم و سرد روزگار چشیدہ بزرگ بھی مل جاتا.مگر جس نو جوان کو یہ جوان ہمت بھیج رہا ہے.اسے شاید پہلی مرتبہ لندن ہی میں تبلیغ واشاعت کیلئے زبان کھولنے کا اتفاق ہوگا.حضرت خلیفہ ثانی فرمایا کرتے ہیں کہ یہ ہمارا کام نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.وہ آپ ان لوگوں کو ہر قسم کی طاقت دے گا.غرض قاضی عبد اللہ جو * مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے ایک مدرس ماسٹر علی محمد صاحب مسلم نے بچوں کی ایک انجمن بنام مسلم گروپ قائم کی تھی جن میں بچوں کی تقریر کرنے کی مشق کروائی جاتی تھی.ماسٹر صاحب موصوف آج کل منٹگمری شہر ( موجودہ ساہیوال ) میں قیام رکھتے ہیں.

Page 97

96 اپنے ہم عصروں میں ہمیشہ ایک دین دار نوجوان کے رنگ میں دیکھا گیا ہے.اور قادیان کی سرزمین میں بچے سے جوان ہوا.اس پاک مقصد پر روانہ کیا گیا ہے.“ (57) پاک نصائح : کردیں.ذیل کی نصائح آپ کو...حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ولایت روانہ کرتے وقت لکھ اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم میں آپ کو اس خدا کے جو ایک اور صرف ایک ہی خدا ہے.نہ جس کا بیٹا نہ جو رو.سپر د کرتا ہوں.وہ آپ کا حافظ ہو.ناصر ہو.نگہبان ہو.ہادی ہو.معلم ہو.راہبر ہو.الھم آمین ثم آمین.آپ جس کام کیلئے جاتے ہیں.وہ بہت بڑا کام ہے.بلکہ انسان کا کام ہی نہیں.خدا کا کام ہے.کیونکہ دل پر قبضہ سوائے خدا کے اور کسی کا نہیں ہے.دلوں کی اصلاح اسی کے ہاتھ میں ہے.پس ہر وقت اس پر بھروسہ رکھنا اور کبھی مت خیال کرنا کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں.دل محبت الہی سے پُر ہو اور تکبر اور فخر پاس بھی نہ آئے.جب کسی دشمن سے مقابلہ ہو.اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے گرا دیں.اور دل سے اس بات کو نکال دیں کہ آپ جواب دیں گے.بلکہ اس وقت یقین کریں کہ آپ کو کچھ نہیں آتا.اپنے سب علم کو بھلا دیں.لیکن اس کے ساتھ ہی یقین کریں کہ میرے ساتھ خدا ہے.وہ خود آپ کو سب کچھ سکھائے گا.اور دعا کریں.اور ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہ کریں کہ آپ دشمن سے زیر ہو جاویں گے.بلکہ تسلی رکھیں کہ حق کی فتح ہوگی اور پھر ساتھ ہی خدا کے غناء پر بھی نظر رکھیں.خوب یا درکھیں وہ جو اپنے علم پر گھمنڈ کرتا ہے.وہ دین الہی کی خدمت کرتے وقت ذلیل کیا جاتا ہے.اور اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا.لیکن ساتھ ہی وہ جو خدمت دین کرتے وقت دشمن کے رعب میں آتا ہے.خدا تعالیٰ اس کی بھی مدد نہیں کرتا.نہ گھمنڈ ہو.نہ فخر ہونہ گھبراہٹ ہو نہ خوف.متواضع اور یقین سے پُر دل کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر یں.پھر کوئی دشمن اللہ تعالیٰ کی نصرت کی وجہ سے آپ پر غالب نہ آسکے گا.اگر کسی ایسے سوال کے متعلق

Page 98

97 بھی آپ کا مخالف آپ سے دریافت کرے گا.جو آپ کو معلوم نہیں.تو خدا کے فرشتے آپ کی زبان پر حق جاری کردیں گے.اور الہام کے ذریعے سے آپ کو علم دیا جائے گا.یہ یقینی اور سچی باتیں ہیں.اس میں ہر گز شک نہ کریں.آپ جس دشمن کے مقابلہ کے لئے جاتے ہیں.وہ وہ دشمن ہے کہ تین سوسال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے سے اسلام کی لہروں نے اس سے سر ٹکرایا ہے.مگر سوائے اس کے کہ وہ واپس دھکیلی گئیں.کوئی نتیجہ نہیں نکلا.اس دشمن نے اسلام کے قلعے ایک ایک کر کے فتح کر لئے ہیں.پس بہت ہوشیاری کی بات ہے لیکن مایوسی کی نہیں کیونکہ جس اسلام کو اس نے زیر کیا ہے وہ حقیقی اسلام نہ تھا.بلکہ اس کا ایک مجسمہ تھا.اور اس میں کیا شک ہے کہ رستم کے مجسمہ کو ایک بچہ دھکیل سکتا ہے.آپ حقیقی اسلام کے حربے سے ان پر حملہ آور ہوں.وہ خود بخود بھاگنے لگے گا.یورپ اس وقت مادیت میں گھرا ہوا ہے.دنیاوی علوم کا خزانہ سائنس کا دلدادہ ہے.اسے گھمنڈ ہے کہ جو اس کا خیال ہے وہی تہذیب اور اس کے سوا جو کچھ ہے بد تہذیبی ہے.وحشت ہے اس کے علم کو دیکھ کر لوگ اس کے دعوئی سے ڈر جاتے ہیں اور رعب میں آ جاتے ہیں.حالانکہ یورپ کے علم اس علم کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو قرآن کریم میں ہے.ان کے علوم روزانہ بدلنے والے ہیں اور قرآن کریم کی پیش کردہ صداقتیں نہ بدلنے والی صداقتیں ہیں.پس ایک مسلم جو قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہے.ایک سیکنڈ کیلئے بھی ان کے رعب میں نہیں آسکتا.اور جب وہ قرآن کریم کی عینک لگا کر ان کی تہذیب کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ تہذیب در حقیقت بدتہذیبیں نظر آتی ہے.اور چمکنے والے موتی سیپ کی ہڈیوں سے زیادہ قیمتی ثابت نہیں ہوں گے.پس اس بات کو خوب یا درکھیں اور یورپ کے علوم سے گھبرائیں نہیں.جب ان کی عظمت دل پر اثر کرنے لگے تو قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود کا بغور مطالعہ کریں.ان میں سے آپ کو وہ علوم مل جائیں گے کہ وہ اثر جاتا رہے گا.آپ اس بات کو خوب یا درکھیں کہ یورپ کو فتح کرنے جاتے ہیں نہ کہ مفتوح ہونے.اس کے دعووں سے ڈریں نہیں کہ ان دعووں کے نیچے کوئی دلیل پوشیدہ نہیں.یورپ کی ہوا کے آگے نہ گریں.بلکہ اہل یورپ کو اسلامی تہذیب کی طرف لانے کی کوشش کریں.مگر یا درکھیں آنحضرت کا حکم ہے.بَشِرُ وا وَلَا تُنَفِّر اوا یعنی لوگوں کو بشارت دینا.

Page 99

98 ڈرانا نہیں.ہر ایک بات نرمی سے ہونی چاہئے.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ صداقت کو چھپائیں.اگر آپ (ایسا) کریں گے.تو یہ اپنے آپ کو تباہ کرنے کے برابر ہوگا.حق کے اظہار سے کبھی نہ ڈریں.میرا اس سے یہ مطلب ہے کہ یورپ بعض کمزوریوں میں مبتلا ہے.اگر عقاء ید صحیحہ کو مان کر کوئی شخص اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے.لیکن بعض عادتوں کو چھوڑ نہیں سکتا.تو یہ نہیں کہ اس کو دھکا دے دیں.اگر وہ اسلام کی صداقت کا اقرار کرتے ہوئے اپنی غلطی کے اعتراف کے ساتھ اس کمزوری کو آہستہ آہستہ چھوڑنا چاہے تو اس سے درشتی نہ کریں.خدا کی بادشاہت کے دروازوں کو بند نہ کریں.دو لیکن عقاید صحیحہ کے اظہار سے کبھی نہ جھجکیں.جو حق ہوا سے لوگوں تک پہنچا دیں اور کبھی یہ نہ خیال کریں کہ اگر آپ حق بتائیں گے تو لوگ نہیں مانیں گے.اگر لوگ خود نہ مانیں تو نہ مانیں.لوگوں کو ایماندار بنانے کے لئے آپ خود بے ایمان کیوں ہوں؟ کیا احمق ہے وہ انسان جو ایک زہر کھانے والے انسان کو بچانے کیلئے خود زہر کھالے.سب سے اول انسان کیلئے اپنے نفس کا حق ہے.پس اگر لوگ صداقت کو سُن کر قبول نہ کریں تو آپ نفس کے دھو کے میں نہ آئیں کہ آؤ میں قرآن کریم کو ان کے مطلب کے مطابق بنا کر سناؤں.ایسے مسلمانوں کا اسلام محتاج نہیں.یہ تو مسیحیت کی فتح ہوگی نہ کہ اسلام کی.جس نقطہ پر آپ کو اسلام کھڑا کرتا ہے.اس سے ایک قدم آگے پیچھے نہ ہوں اور پھر دیکھیں کہ فوج در فوج لوگ آپ کے ساتھ ملیں گے.وہ شخص جو دوسرے کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے حق چھوڑتا ہے.دشمن بھی اصل واقعہ پر اطلاع پانے پر اس سے نفرت کرتا ہے.کھانے پینے پہننے میں اسراف اور تکلف سے کام نہ لیں.بے شک خلاف دستور بات دیکھ کر لوگ گھبراتے ہیں.لیکن ان کو جب حقیقت معلوم ہو اور وہ سمجھیں کہ یہ سب انقاء کی وجہ سے نہ کہ غفلت کی وجہ سے ہے.تو ان کے دل میں محبت اور عزت پیدا ہو جاتی ہے.”ایسا مارا ہوا جانور جس کو گردن کے اوپر تلوار مار کر مارا گیا ہو یا دم گھونٹ کر مارا گیا ہو.کھانا جائز نہیں قرآن کریم میں آیا ہے اور مسیح موعود سے ولایت جانے والوں نے پوچھا تو آپ نے منع فرمایا.پس اسے استعمال نہ کریں.ہاں اگر یہودی یا عیسائی گلے کی طرف سے ذبح کریں تو وہ بہر حال جائز ہے.خواہ تکبیر کریں یا نہ کریں.آپ بسم اللہ کہہ کر اسے کھالیا

Page 100

99 کریں.یہودی ذبح کرنے میں نہایت محتاط ہیں.ان کے گوشت کو بے شک کھائیں لیکن مسیحی آج کل جھٹکا کرتے ہیں یا دم کھینچ کر مارتے ہیں.اس لئے بغیر تسلی ان کا گوشت مسیحی کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا جائز ہے.انسان ناپاک نہیں.ہاں ہر ایک ناپاکی سے ناپاک ہے.عورتوں کو ہاتھ لگانا منع ہے.احسن طریق سے لوگوں کو بتا دیں.حضرت مسیح موعودؓ سے جب ایک عورت ملنے آئی تو آپ نے اسے یہی بات کہہ دی تھی.رسول کریم سے بھی عورتوں کا ہاتھ پکڑ کر بیعت لینے کا سوال ہوا.تو آپ نے اس سے منع فرمایا.یہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.اس میں عورتوں کی بہتک نہیں.کیونکہ جس طرح مرد کو عورت کو ہاتھ لگانا منع ہے.اسی طرح عورت کو مرد کو ہاتھ لگا نا منع ہے.پس اگر ایک کی ہتک ہوتی ہے تو دوسرے کی بھی ہتک ہے.لیکن یہ ہتک نہیں بلکہ اسلام گناہ کو دور کرنے کیلئے اس کے ذرائع کو دور کرتا ہے.یہ نفس کی چوکیاں ہیں.یہاں سے اسے حملہ آور دشمن کا پتہ لگ جاتا ہے.ہمیشہ کلام نرم کریں.اور بات ٹھہر ٹھہر کر کریں.جلدی سے جواب نہ دیں.اور ٹالنے کی کوشش نہ کریں.اخلاص سے سمجھا ئیں.اور محبت سے کلام کریں.اگر دشمن سختی بھی کرے تو نرمی سے پیش آویں.ہر ایک انسان کی خواہ کسی مذہب کا ہو خیر خواہی کریں حتی کہ اسے معلوم ہو کہ اسلام کیسا پاک مذہب ہے.جو لوگ آپ کے ذریعہ ہدایت پاویں ( انشاء اللہ ) ان کی خبر رکھیں.جس طرح گڈریا اپنے گلے کی پاسبانی کرتا ہے.ان کی پاسبانی کریں.ان کی دینی یا دنیاوی مشکلات میں مدد کریں.ہر ایک تکلیف میں.ہرا بتلاء میں محبت سے شریک ہوں.ان کے ایمان کی ترقی کیلئے دعا کریں.انگریزی زبان سیکھنے کی طرف خاص طور سے توجہ کریں اور چوہدری صاحب کے کہنے کے مطابق عمل کریں.وہ آپ کے امیر ہوں گے.جب تک وہاں ہیں ان کی تمام باتوں کو قبول کریں.جہاں تک اسلام آپ کو اجازت دیتا ہے.محبت سے ان کا ساتھ دیں.اور ان کے راستے میں روک نہ ثابت ہوں.بلکہ ان کا ہاتھ بٹائیں.تحریر کا کا آپ کریں.تاکہ ان کی آنکھوں کو آرام ملے.آپ دونوں کی محبت دیکھ کر وہاں کے لوگ حیران ہوں.قرآن کریم اور احادیث کا کثرت سے مطالعہ کریں.حضرت مسیح موعود کی کتب سے پوری واقفیت ہو.مسیحی مذہب کا کامل مطالعہ ہو.فقہ کی بعض کتب زیر نظر رہیں کہ وہ نہایت

Page 101

100 ضروری کام ہے.آخر وہاں کے لوگوں کو آپ لوگوں کو ہی مسائل بتانے پڑیں گے.جماعت احمدیہ کی وحدت اور اس کی ضرورت لوگوں پر آشکارا کریں.اسلام اور احمدیت کو جو اس زمانہ میں دو مترادف لفظ ہیں.صفائی کے ساتھ پیش کریں اور ایک مذہب کے طور پر پیش کریں اور لوگوں کے دلوں سے یہ خیال مٹائیں کہ یہ بھی ایک سوسائٹی ہے.خدا تعالیٰ کی مرضی کے مقابلے میں اپنی مرضی کو چھوڑ دینے کی تعلیم اہل یورپ کو دیں.اب تک وہ خدا تعالیٰ پر بھی اعتراض کر لینا جائز سمجھتے ہیں.اور اپنے خیال کے مطابق مذہب کو رکھنا چاہتے ہیں.ان کو بتائیں کہ سب دنیا کی حکومت کرو مگر خدا کی حکومت کو اپنے نفس پر مقدم کرو.اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ کس قدر لوگ آپ کی بات مانتے ہیں.اسلامی سادگی ان لوگوں میں پیدا کرنے کی کوشش کریں.لفظوں سے کھینچ کر روحانیت پیدا کرنے کی کوشش ( کرنے کی طرف متوجہ ہوں.آپ تو ایک گھوڑے پر بھی سوار نہیں ہو سکتے.لیکن ایک شیر پر سوار ہونے کیلئے جاتے ہیں.بہت ہیں جنہوں نے اس پر سوار ہونے کی کوشش کی.لیکن بجائے اس کی پیٹھ پر سوار ہونے کے اس کے پیٹ میں بیٹھ گئے.آپ دعاء سے کام لیں تا کہ یہ شیر آپ کے آگے اپنی گردن جھکا دے.ہر مشکل کے وقت دعاء کریں اور خط برابر لکھتے رہیں.میرا خط جائے نہ جائے.آپ ہر ہفتہ مفصل خط جس میں سب حال مفصل ہو لکھتے رہیں.اگر کوئی تکلیف ہو تو خدا تعالیٰ سے دعا کریں.اگر کوئی بات دریافت کرنی ہو اور فوری جواب کی ضرورت ہو خط لکھ کر ڈال دیں اور خاص طور پر دعا کریں.تعجب نہ کریں.اگر خط کے پہنچتے ہی یا پہنچنے سے پہلے ہی جواب مل جائے.خدا کی قدرت وسیع اور اس کی طاقت بے انتہاء ہے.اپنے اندر تصوف کا رنگ پیدا کریں.کم خوردن.کم گفتن کم خفتن عمدہ نسخہ ہے.تہجد ایک بڑا ہتھیار ہے.یورپ کا اثر اس سے محروم رکھتا ہے.کیونکہ لوگ ایک بجے سوتے ہیں.آٹھ بجے اٹھتے ہیں.آپ عشاء کے ساتھ سوجائیں.تبلیغ میں حرج ہوگا.لیکن ی نقصان دوسری طرح خدا تعالیٰ پورا کر دیگا.دن کو سننے والے لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے.چھوٹے چھوٹے گاؤں میں غریبوں اور زمینداروں کو اور محنت پیشہ لوگوں کو جا کر تبلیغ کریں.یہ لوگ حق کو جلدی قبول کریں گے.اور جلد اپنے اندر روحانیت پیدا

Page 102

الوداع 101 کریں گے.کیونکہ نسبتاً بہت سادہ ہیں اور گاؤں کے لوگ حق کو مضبوطی سے قبول کیا کرتے ہیں.کسی چھوٹے گاؤں میں کسی سادہ علاقہ میں لنڈن سے دور جا کر کبھی ایک دو ماہ رہیں.اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے تبلیغ کریں.پھر اس کا اثر دیکھیں.یہ لوگ سختی بھی کریں گے.لیکن سمجھیں گے اور خوب سمجھیں گے.ان کی سختی سے گھبرایئے نہیں.بیمار کبھی خوش ہو کر دودھ نہیں پیتا.ہمیشہ بڑے کام مجھ سے پوچھ کر کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اور ہر ایک شر سے محفوظ رکھے.اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشے.زبان میں اثر پیدا کرے.کامیابی کے ساتھ جائیں اور کامیابی سے واپس آئیں.ہاں یاد رکھنا اس ملک میں آزادی بہت ہے.بعض خبیث الفطرت لوگ گورنمنٹ برطانیہ کے خلاف منصوبہ کرتے ہیں.ان کے اثر سے خود بچیں.اور جہاں تک ہو سکے.دوسروں کو بھی بچائیں.وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمُدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ چوہدری صاحب کو السلام علیکم کہ دیں.اور سب نومسلموں کو اور سیلون کی جماعت کو بھی اور بھی جو احمدی ملے.كَانَ اللهُ مَعَكُمُ اَيْنَ مَا كُنتُم - آمین.(58) وو آپ کی الوداعی تقریب اور روانگی کے متعلق مرقوم ہے: مرز امحمود احمد ۶ ستمبر ۱۵ء ۵ ستمبر کی رات کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء نے قاضی صاحب کی روانگی کا الوداعی جلسہ کیا اور معلمین اور متعلمین نے انگریزی اور اردو میں اخلاص سے بھری ہوئی تقریریں کیں.جلسہ کے آخر میں قاضی صاحب کی کامیابی اور سلسلہ عالیہ کی ترقی کیلئے دعائیں مانگی گئیں.نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ.ستمبر کو بعد نماز ظہر قاضی محمدعبداللہ صاحب بی.اے بی ٹی بغرض تبلیغ ولایت کو روانہ ہوئے.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ مع صدہا مخلص خدام کے جن میں مقامی عملہ ودفاتر کے اہلکار بزرگانِ دین اور ا کثر طلبائے مدارس بھی شامل تھے.قاضی صاحب کو رخصت کرنے کے لئے ڈیڑھ دو میل تک تشریف لے گئے.اثنائے راہ میں حضور نے قاضی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اس وقت خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو تمام روحانی بیماریوں کا علاج قرار دے کے بھیجا ہے.اسی میں اس

Page 103

102 وقت جمیع امراض دنیا کی شفا ہے.اس لئے ہر موقعہ پر حضرت مسیح موعود کو ضرور پیش کریں.سڑک بٹالہ کے موڑ پر پہنچ کر حضرت مع احباب ٹھہر گئے اور کھڑے ہو کر ایک لمبی دعا کی اور اس کے بعد حضرت صاحب نے قاضی صاحب کو رخصت فرمایا.بہت سے احباب نے چلتے وقت قاضی صاحب سے مصافحہ کیا اور ماسٹر عبدالرحیم صاحب و شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی امرتسر تک ساتھ گئے.خدا کی نصرتیں ان کے شامل حال ہوں.ان کی خدمات دین حق کیلئے بہت سی فتوحات کا موجب ہوں اور انہیں کامیابی اور سرخروئی کے ساتھ پھر احباب واقارب سے ملائے.آمین.“ (59) آپ کی روانگی کے متعلق مؤقر الحکم میں تحریر ہے کہ : ستمبر کو بعد نماز ظہر ٹھیک ۳ بجے حضرت خلیفہ ثانی قاضی عبداللہ صاحب کو روانہ کرنے کیلئے نکلے.اور سڑک پر جو کنواں آتا ہے.وہاں تک مشایعت کیلئے تشریف لے گئے.قادیان کی مقیم جماعت آپ کے ہمراہ تھی.آپ نے قاضی صاحب کو اپنے ہاتھ سے نصائح لکھ کر دیں.جو نہایت قیمتی اور قابل قدر ہیں.....حضرت خلیفہ ثانی نے ان نصائح میں کام کرنے کے عملی طریق اور تو کل علی اللہ اور دعاؤں پر زور دینے اور کفایت شعاری اور سادگی کی تعلیم دی ہے.اور سب سے بڑھ کر....ایسے لوگوں سے الگ رہنے کی ہدایت کی ہے جو آزادی کا بے جا استعمال کرتے ہیں.آپ نے مشکلات پر غالب آنے کے اصول بھی بتائے ہیں.غرض وہ نصائح پڑھ کر معلوم ہوگا کہ جولوگ خلیفہ ثانی کو بچہ کہتے ہیں.ان کے وہم میں بھی وہ باتیں نہیں آسکتیں.اور اگر ان نصائح سے کوئی اندازہ کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ ہدایات دینے والا بڑا مد بر خدا پرست.متوکل دعاؤں کا عادی اور مختلف طبقوں میں طریق تبلیغ کا تجربہ کار ہے.زبانی بھی آپ ہدایات دیتے گئے اور وہاں پہنچ کر آپ نے ایک لمبی دعا کی اور قاضی صاحب کو رخصت کر کے واپس آئے.مومن کے ایمان بڑھانے کیلئے ہر بات ایک معرفت کا نکتہ ہوتی ہے اور ظالم معترض کے نزدیک وہی ٹھوکر کا پتھر.جب قادیان سے نکلے تو سخت دھوپ تھی.ماسٹر عبدالرحیم صاحب ( یعنی حضرت نیر صاحب.مولف ) نے کہا کہ حضرت صاحب ( یعنی مسیح موعود ) کے ساتھ ایک بادل ہوا کرتا تھا.اس کے ساتھ ہی ایک بادل کا ٹکٹڑ انمودار ہوا.اور سڑک تک جانے

Page 104

103 اور واپس آنے تک وہ رہا.مرزا نظام الدین صاحب کے باغ کے پاس پہنچے تو دھوپ نکل آئی.غرض حضرت نے بڑی محبت اور دعاؤں کے ساتھ اپنے خادم کو روانہ کیا ہے.امرتسر تک شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی اور ماسٹر عبدالرحیم صاحب بھی ہمراہ گئے........وہ مدراس سے سیلون جائیں گے.اور وہاں سے لنڈن.......(60).جناب قاضی عبد اللہ صاحب کی مُراجعت : میدان مجاہدہ سے واپسی کے متعلق الفضل ( مورخہ ۱/۱۲/۱۹) میں مرقوم ہے: احباب کرام یہ سُن کر نہایت خوش ہوں گے کہ ۲۸ نومبر ۱۹۱۹ء بروز جمعہ جناب قاضی عبداللہ صاحب بی اے.بیٹی مبلغ اسلام ولایت سے بخیر و عافیت قادیان دارالامان پہنچ گئے ہیں.چونکہ جناب قاضی صاحب کی ولایت سے روانگی کے متعلق کوئی پختہ اطلاع نہیں مل سکی تھی.اور نہ ہی بمبئی آکر انہوں نے جو تار حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو دیا.وہ پہنچا.اس لئے ان کی آمد بالکل اچانک تھی.اور اس کا علم اس وقت ہوا جب کہ جناب قاضی صاحب نے مسجد اقصیٰ میں آکر باآواز بلند مجمع کو اسلام علیکم کہا.نماز جمعہ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی مسجد میں دیر تک جناب قاضی صاحب سے گفتگو فرماتے رہے.اس خوشی کے موقعہ پر ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ میں دو دن کی تعطیل کی گئی.کارگذاری کی ایک جھلک : قریباً پانچ سالہ تبلیغ کا ملخص درج کرنے کا یہ موقعہ نہیں.البتہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رپورٹ مرسلہ ۲ مئی ۱۹۱۸ء سے ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے.جس سے معلوم ہوگا کہ کس طرح پہلی جنگ عظیم میں گرانی وغیرہ کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا تھا.اس وقت قاضی صاحب دو سال سے مفتی صاحب ایک سال سے لنڈن میں مقیم تھے.مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں: ” میرے رفیق قاضی عبداللہ صاحب اس موسم سرما میں نہ صرف سردی کی تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے بلکہ خوف ناک ہوائی حملوں کے نیچے سر دئے صبر کے ساتھ لنڈن میں جمے رہے.اور اپنے تبلیغی کام میں مصروف رہے.خواجہ صاحب کو بھی مباحثہ اور مباہلہ کے واسطے چیلنج دیتے رہے.مگر جب کبھی خواجہ صاحب نے عرب صاحب کے اصرار سے کوئی وقت

Page 105

104 مقرر بھی کیا.اور قاضی صاحب عرب صاحب کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے خواجہ صاحب روپوش ہو گئے.قاضی صاحب نے اس عرصہ میں کئی لیکچر دیئے.بعض لوگوں کے ساتھ مباحثات کئے.سائلین کے خطوط کے جواب لکھے.اور مکان پر آنے والوں کو تبلیغ کی.اور مناسب خاطر داری کی.اپنا مکان ہونے سے مہمان نوازی کا ایک اور خرچ بڑھ گیا ہے.یہاں کے دستور کے مطابق جب کوئی ملاقات کے واسطے آوے.اور کھانے کا وقت ہو.تو ضروری ہوتا ہے کہ اسے کھانے میں شامل کیا جائے......اور کھانے کے اوقات یہاں دن میں کم از کم چار ہیں.باوجود اکیلا ہونے کے قاضی صاحب نے ان تمام کاموں کو پورا کیا اور پھر بڑی کفایت شعاری سے جس کے وہ خاص مشاق ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ان کا اجر ہو.اور ان کی جوانی.عمر.نیکی اور صحت میں برکات نازل کرے.آمین.‘ (61) قاضی صاحب نے ۳۰ / نومبر 1919ء کومسجد اقصیٰ میں لنڈن مشن کے ذیل کے حالات سنائے.” میرے احباب جانتے ہیں کہ میں یہاں ایک خاموش زندگی بسر کرتا تھا اور میرے لئے لیکچر دینے کا کبھی موقع پیش نہ آیا تھا.مگر یہ خدا کا فضل ہے کہ میرے ولایت میں بھیجنے کا خیال حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ کے دل میں پیدا ہوا.جب آپ نے مجھے اس کام پر لگانے کی اطلاع دی تو میں بہت حیران ہوا.اور ڈرا کہ مجھ سانا کارہ اور نالائق انسان وہاں جا کر کیا کریگا.اس پر میں نے خدا کے حضور نہایت الحاج سے دعا کرنی شروع کر دی کہ مولا تو جانتا ہے کہ میں نالائق ہوں اور کوئی قابلیت اپنے اندر نہیں رکھتا تو ہی مدد فرما.میں نے بہت دعا کی تو مجھے القاء ہوا اِنْ يَنصُرُ كُمُ اللهُ فَلا غَالِبَ لَكُمُ.....چنانچہ میں نے اس بشارت کا یہ نتیجہ دیکھا کہ اس ملک میں جا کر مسیحیوں کے بڑے بڑے آدمیوں سے بخشیں ہوئیں اور ان کے بشپوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے اصول مذہبی کی صداقت کا ثبوت دیں.لیکن خدا کے فضل سے کوئی سامنے نہ آسکا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ جب کسی سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو خواہ وہ کتنا ہی نالائق کیوں نہ ہو.اس کو اتنی لیاقت دے دیتا ہے کہ دنیا کی لیاقتیں اس کے آگے پیچ ہو جاتی ہیں.پس میں نے جو کچھ کام کیا ہے.اس کے لئے وہی خدا مستحق حمد ہے.جو نالائقوں سے کام لیتا ہے.وو...میں اواخر ۱۹۱۵ء میں یہاں سے روانہ ہوا.وہ زمانہ جنگ کا تھا.بمبئی سے سوار

Page 106

105 ہونے میں وقتیں تھیں.اس لئے میں کولمبو کی راہ سے گیا.اگر چہ جرمنوں نے اس وقت یہ اعلان تو نہیں کیا تھا کہ ہمیں جو جہاز ملے گا.اس کو ضرور غرق کر دیں گے.مگر ان کی سب میر نیز Submarines پھیلی ہوئی تھیں.اس لئے جہاز راستہ میں چکر کھا تا ہوا جاتا تھا.رات کو تمام روشنیاں گل کر دی جاتی تھیں کہ کہیں دشمن اچانک حملہ نہ کر دے اور ہر شخص کے پاس ایک ایک لائف بیلٹ ہوتا تھا.جو سوتے وقت بھی پاس ہی رہتا تھا.جہاز غالباً دو ہفتہ کی مسافت کے بعد مارسیلز میں پہنچا اور وہاں جنگی قانون سے پالا پڑا.ان دنوں چونکہ جناب چوہدری فتح محمد صاحب کی آنکھیں دکھتی تھیں.اس لئے وہ لندن سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ رہتے تھے.مجھے بھی وہاں رہنا پڑا.ہمارا قیام ایک گھر میں تھا.اس وقت ہماری تبلیغ بالکل پرائیویٹ حیثیت کی تھی.وہاں جانے کے چار مہینہ بعد برائٹن میں میرا ایک لیکچر ہوا اور محض خدا کے فضل سے نہایت کامیاب ہوا.کچھ دنوں کے بعد چوہدری صاحب تو واپس آگئے اور میں اکیلا رہ گیا.میں نے مکان تبدیل کر لیا.لیکن جس مکان میں میں گیا.اس کی لینڈ لیڈی سخت متعصب نکلی اور وہاں رہنے سے مجھے یہ نقصان ہوا کہ جو کوئی ملنے کیلئے آتا اُسے کہتی کہ یہ انٹی کرائسٹ (رجال) ہے اس کے بعد میں نے مناسب خیال کیا کہ لنڈن کو اپنا ہیڈ کوارٹر بناؤں.چنانچہ اب میں نے برٹش میوزم کے پاس رسل سٹریٹ میں ایک مکان لیا.وہیں مسٹر کور یو بھی رہتے تھے.جو چوہدری صاحب کے ذریعہ مسلمان ہوئے تھے.وہ ایک قابل شخص ہیں.ان کا کام یہ ہے کہ انگریزی اخباروں کے تراجم اٹلی میں پہنچاتے ہیں اور اٹلی کے اخباروں کے تراجم انگریزی اخباروں میں دیتے ہیں.ان سے مل کر کام شروع کیا.اس طرح میں نے اس جگہ ایک مرکز قائم کر لیا اور مکان پر موٹا لکھ کر لگا دیا گیا.احمد یہ موومنٹ اس کو دیکھ کر بہت لوگ آتے تھے.بعض اخبارات کے قائم مقام بھی آتے تھے.بعض تو وہی باتیں شائع کرتے جو ہم انہیں بتاتے اور بعض ہنسی بھی کرتے.لیکن ان کی ہنسی بھی ہمارے لئے مفید ہوتی تھی.اس وقت میرا کام یہ تھا کہ خط و کتابت کے ذریعہ تبلیغ کرتا تھا اور جو لوگ پہلے مسلمان ہو چکے تھے.ان کی تعلیم وتربیت کرتا تھا.وہاں ایک بڑا ذریعہ مشنری کے اشتہار کا یہ ہے کہ وہاں کا پورالباس اختیار نہ کرے.بلکہ

Page 107

106 ان سے کچھ امتیاز رکھے.کیونکہ اگر بالکل ان جیسا ہی لباس پہن لے تو پھر ان کیلئے کوئی توجہ کرنے کی وجہ نہیں ہوتی.میں وہاں پگڑی رکھتا تھا.لیکچروں اور ملاقات کے وقت پگڑی ہی ہوتی تھی.البتہ جب کسی دکان میں کچھ خریدنے کیلئے جاتا تو اس وقت ٹوپی پہن لیتا تھا.کیونکہ اگر پگڑی رکھے ہوئے دکان میں جائیں تو وہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ کوئی راجہ یا مہا راجہ ہے جو اپنے طرز کو نباہ رہا ہے اور اس پر مطلق ہمارے لباس وغیرہ کا اثر نہیں ہوا.اس پر ہوا.اس غلط فہمی میں اندیشہ ہوتا تھا کہ شاید وہ اشیاء کی قیمت معمولی سے زیادہ نہ وصول کر لیں.پس میرا یہ طریق تھا کہ خرید وفروخت کے وقت ٹوپی اور باقی وقتوں میں پگڑی رکھتا تھا.وہاں جو کچھ کام ہوتا تھا اس کی میں با قاعدہ رپورٹ حضرت خلیفہ اسیح کے حضور بھیجتا رہتا تھا.مگر جب ۱۹۱۷ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب پہنچ گئے تو پھر حالت ہی بدل گئی.کام بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا.اور خدا کے فضل سے ہمیں دن بدن کامیابی ہونے لگی.اور ہندوستان کے اخبارات میں ہماری رپورٹیں با قاعدہ شائع ہونے لگیں.اب خدا کے فضل سے ہمارا ذاتی مکان وہاں ہو گیا ہے.مکان کے باہر موٹا لکھا ہوا ہے.المسجد اور پر لکھا ہے اِنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الْإِسلام.پھر اس کے نیچے لکھا ہے.اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُه.یہ بھی ہمارے اشتہار کا ذریعہ ہے.بہت سے لوگ ملاقات کیلئے آتے ہیں.کچھ ان میں سے ہدایات پاتے ہیں اور کچھ قریب ہو جاتے ہیں اور کچھ جیسے آتے ہیں ویسے کے ویسے ہی واپس چلے جاتے..وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو ہدایت ہوتی ہے.“ (62).ہیں.مالی خدمات : آپ کو بفضلہ تعالی بہت سی مالی خدمات سلسلہ کا بھی موقعہ ملا ہے.مثلاً (1) آپ کی خوش قسمتی ہے کہ منارہ مسیح کی تعمیر کا چندہ دینے کے باعث آپ کا نام وہاں اس طرح کنندہ ہے.’۱۴۹.قاضی عبد اللہ بی.اے قادیان“ (۲) تشخیذ الاذہان کی خدمت کا بھی موقع ملا.مثلا رسیدات زرکیلئے دیکھئے سرورق ہائے ص۲ رسالہ جات بابت اگست د ستمبر ۱۹۰۹ ء - دسمبر ۱۹۱۳ ء و جولائی ۱۹۱۴ ء.سرورق ص ۴ رساله اپریل مئی ۱۹۰۹ ء سر ورق ص ۳ رساله

Page 108

107 اکتوبر ۱۹۰۹ء.(۳) آپ بفضلہ تعالیٰ موصی ہیں.علاوہ ازیں تحریک جدید دفتر اول کی پانچ ہزاری فوج میں شامل ہیں.(۴) دفتر انصاراللہ مرکز یہ ربوہ کی تعمیر کیلئے آپ نے ایک سور و پیہ چندہ دیا.(63).(۵) تحریک وقف جدید کا اعلان سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ ء پر فرمایا.السابقون الاولون میں قاضی صاحب کا نام درج ہے.(64).خدمات کشمیر : کشمیر کمیٹی کا قیام کن حالات میں عمل میں آیا اور مہاراجہ کے مظالم سے اس مظلوم قوم کو آزاد کرانے کے لئے حضرت امام جماعت احمدیہ نے بنفس نفیس کیا کچھ کا رہائے نمایاں سرانجام دیئے.اس کے تذکرہ کا یہ موقعہ نہیں.اس دوران میں خاص وجوہات کی بنا پر آپ کو اس کمیٹی سے الگ ہونا پڑا لیکن پھر بھی ایک حد تک اس علاقہ کی بیوگان و یتامیٰ اور غریب طلباء کی پرورش صحیح را نمائی کے لئے اخبار اصلاح سرینگر کے جاری رکھنے اور ان امور کے لئے رقوم مہیا کرنے کا کام کشمیر ریلیف فنڈ کمیٹی ے پر تھا.تقسیم ملک تلک قاضی صاحب سالہا سال سے اس کے سیکرٹری تھے.آپ ہی سالانہ بجٹ تیار کر کے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے اس کی منظوری حاصل کرتے تھے اور اخبار اصلاح کے طریق کار کی نگرانی رکھتے تھے.قاضی کے طور پر تقرری: سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے آپ سالہا سال تک بطور قاضی بھی کام کرتے رہے.مثلا ر پورٹ صیغہ جات صدر انجمن احمد یہ بابت ۴۳-۱۹۴۲ ص ۱۱۰ پر آپ کا ذکر آتا ہے.) قابل قد راسوه: اپنی تبلیغی مساعی اور قربانیوں کے باعث قاضی صاحب ایک قابل قدر نمونہ ہیں چنانچہ حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالی عنہ نے تحریر فرمایا: میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی تعمیل میں (جو حضور نے ڈلہوزی سے مجھے بھیجا ہے ) آپ کو مدرسہ تعلیم الاسلام کی طرف توجہ دلاتا ہوں.یہ کوئی مخفی امر نہیں کہ اس مدرسہ کو حضرت مسیح موعود نے ایک خاص تحریک کے ماتحت جاری فرمایا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی توجہ اور دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ یہ......آج اللہ تعالیٰ

Page 109

108 کے فضل سے ایک کامیاب ہائی سکول ہے.اس مدرسہ میں جماعت کے سینکڑوں بچوں نے تعلیم پائی.اور ان میں بہت بڑی تعداد دنیا کی زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں.اور دینی حیثیت سے انگلستان اور ماریشس کے مشنری قاضی عبداللہ صاحب اور مولوی غلام محمد صاحب بھی اسی سکول کے طالب علم ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اور چوہدری فتح محمد صاحب ایم اے سلسلہ کی خدمت کیلئے جو کام کر رہے ہیں وہ بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں.یہ واقعات میں نے مدرسہ کی عظمت اور اس کے نتائج کی عمدگی کیلئے پیش کئے ہیں“.(65).وو.اسی طرح شیخ محمود احمد صاحب عرفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں: تم نے صرف اپنے نفسوں سے ہی جنگ نہیں کرنی.بلکہ شیطان کی فوج کو شکست دینی ہے.تمہارا مقابلہ صرف ایک مذہب سے نہیں بلکہ دنیا کے ادیان سے ہے.بلکہ خود اپنے گھر کے اندر مسلم کہلانے والوں کی اصلاح کی از حد ضرورت ہے.......ہم کو ایک سیال.ایک نیر.ایک صادق.ایک قاضی عبد اللہ یا ایک صوفی مبارک علی.غلام محمد.عبید اللہ پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے.بلکہ جب تک تم ہزاروں.نہ پیدا کرلو.تم یقین جانو کہ تم نے کچھ بھی کام نہیں کیا.‘ (66) سلسلہ کے لٹریچر میں ذکر : جماعت احمدیہ کا ممتاز رکن ہونے کے باعث ہمیشہ ہی سلسلہ کے اخبارات میں آپ کا ذکر آتا رہا ہے.اس موقعہ پر چند ایک حوالے درج کرتا ہوں.(1) رپورٹ محکمہ زراعت جماعت احمدیہ بابت ۱۹۱۹ ص۸ (۲) راجپال نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بے حد گستاخانہ کتاب شائع کی تھی.جسٹس دلیپ سنگھ نے اسے بری کر دیا.کہ وہ قانون کی زد میں نہیں آتا.یہ فیصلہ مسلمانوں کی حد درجہ دل آزاری کا موجب ہوا.اس بارہ میں مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر وغیرہ نے احتجاج کیا تو وہ گرفتار کر لئے گئے کہ ہائی کورٹ کے جج کی ہتک ہوئی ہے اس موقعہ سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فائدہ اٹھا کر کئی ایک مفید تحریکات مسلمانوں میں کیں.جن کے نتائج بہت دُور رس تھے.اور ان کی افادیت شک وشبہ سے بال تھی.اس کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں.ایک اور جلد میں جو عنقریب شائع ہوگی.زیادہ تفصیل درج کی جائیگی.

Page 110

109 ان ایام میں تمام مسلمان حضرت امام جماعت احمدیہ کی آواز پر کان دھر نے لگ گئے تھے.اور حضرت نے ان ایام میں مسلمانوں کو ان کی اقتصادی بدحالی و دیگر اقسام کی پسماندگی کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی اور ور صلعم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے سامان بھی حکومت کو مجبوراً کرنے پڑے.اور حضور کی تجاویز کے مطابق صدائے احتجاج مؤثر ثابت ہوئی.حضور اس تعلق میں ۲۲ جولائی ۱۹۲۷ء کو ہندوستان بھر میں احتجاجی جلسے کئے گئے.قادیان کا جلسہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی صدارت منعقد ہوا.جس میں تیرہ قرار داد میں منظور ہوئیں.ایک کے مؤید قاضی صاحب تھے.(۳) سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے نمائندہ کے طور پر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے مسجد جرمنی کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی.اور یورپ کے احمدی مشغوں کا معائنہ کرنے اور دیگر نو یورپین ممالک میں اسلام کی اشاعت کے وسیع تر امکانات کا جائزہ لے کر واپس آنے پر ربوہ میں پُر جوش استقبال ہوا.اس موقعہ پر جو بزرگ شامل تھے.ان میں قاضی صاحب کا نام بھی مرقوم ہے.(67).(۴) مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب و مکرم سید محمود احمد صاحب ناصر کی لندن سے مراجعت پر ۴/اکتوبر ۱۹۵۷ء کور بوہ ریلوے سٹیشن پر استقبال کرنے والوں میں قاضی صاحب کا اسم گرامی بھی درج ہے.(68).(۵) آپ کا ایک اعلان الفضل مورخہ ۱۵/۶/۵۸ ص ۴ پر ) درج ہے.(۱) ۲۵ / ستمبر ۱۹۵۵ء کو جب سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سفر یورپ سے مراجعت فرمائے ربوہ ہوئے تو اس تعلق میں مرقوم ہے.حضور کیسا تھ مصافحہ کا شرف حاصل کرتے ہوئے ضعیف العمر صحابہ کی حالت غیر ہوئی جاتی تھی.جوش مسرت سے ان پر رقت کا عالم طاری تھا.ان میں سے بعض بے اختیار ہو کر ہاتھ پھیلاتے ہوئے حضور کی طرف دوڑ پڑے.مسیح پاک کے ان حواریوں کا اپنے اس امام کی طرف بے تابانہ بڑھنا جو حسن و احسان میں خود مسیح پاک کا نظیر ہے ایک عجیب روح پرور منظر کا حامل تھا کہ جس کی یاد کبھی نہیں بھول سکتی.حضور نے صحابہ کرام کو شرف دید دیا.اور شرف مصافحہ سے نوازتے ہوئے ان سے ان کا احوال پوچھا.“ یہ سولہ صحابی تھے.جن میں محترم قاضی محمد عبد اللہ صاحب افسر لنگر خانہ بھی شامل تھے.(69) ایک جنازہ میں شمولیت اور آخری دعاء کرانے کا ذکر الفضل ۳/۱/۵۹اص اپر درج ہے.

Page 111

110 خاندان قاضی صاحب پر برکاتِ احمدیت : حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے آپ سے دلی محبت و اخلاص رکھنے والوں کے بارے میں بمقام ہوشیار پور ۱۸۸۶ء میں بذریعہ وحی خوشخبری دی تھی کہ : میں تیرے خالص اور دتی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا.اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا.اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا.اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے.“ (70) اس پیشگوئی کو ہم تمام صحابہ میں پورا ہوتے دیکھتے ہیں بلکہ ان کی اولاد بھی برکات کی وارث ہورہی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسلام کے اس دور ثانی میں خدمات اسلام و اعلائے کلمۃ اللہ کے بے شمار و بے نظیر مواقع میسر فرمائے ہیں.حضرت مسیح و مہدی کے ہاتھوں ایسے خزائن ہمیں دیئے جار ہے ہیں کہ خزائن کی وسعت کی کوئی حد نہیں.لینے والے اپنی طاقت و مساعی کے مطابق جس قدر چاہیں قبول کریں.ورنہ دینے والے کی طرف سے کوئی حد و بست نہیں.یہ مواقع ہمارے آباؤ اجداد کو میسر نہیں آئے.سو حضرت اقدس کا الہام يَنْقَطِعُ ابَاؤُكَ وَيُبْدَءُ مِنكَ (71) حضور کی اتباع کے باعث آپ کے اتباع میں بھی پورا ہو کر فی بُيُوتِ اذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ الخ کے وجد آفرین اور ایمان افروز مناظر پیش کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولا دور اولا دکو خلافت کے دامن سے ہمیشہ وابستہ رہنے کی توفیق عطا کرے.تا ان برکات اور روحانی خزائن کے ہمیشہ وارث اور انوار وافضال الہیہ کے مورد بنتے رہیں.آمین یا رب العالمین.یہ امر باعث مسرت ہے کہ حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کی ساری اولا د بھی خلافت سے وابستہ ہے اور خدمات کے مواقع پارہی ہے.قاضی عبدالرحیم صاحب.قاضی محمد عبداللہ صاحب اور محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ کی خدمات کا ذکر اوراق سابقہ میں ہو چکا ہے.آپ کی اولاد میں سے قریباً سارے مردوزن جو پانچ در جن کے لگ بھگ ہونگے.موصی ہیں اور تحریک جدید اور دیگر مالی خدمات میں بالعموم شرکت کرتے ہیں.قاضی عبدالسلام صاحب عرصہ سے جماعت احمد یہ نیروبی مشرقی افریقہ کے صدر ہیں.مشرقی افریقہ کے تبلیغی تذکرہ میں ( جو صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ بابت ۳۸ - ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا ہے.) آپ کا شماران افراد میں ہوا ہے جو خاص طور پر انفرادی تبلیغ کرتے ہیں.(ص۶۹) علاوہ ازیں ریویو آف ریلیجنز (اردو) بابت دسمبر ۱۹۲۴ء جولائی * سورۃ النور آیت ۳۷

Page 112

111 ۱۹۲۵ء.فروری ۱۹۲۶ء اور مئی ۱۹۲۶ ء وغیرہ سے ظاہر ہے کہ آپ قلمی خدمت میں بھی نمایاں حصہ لیتے ہوئے اہم مضامین کے تراجم قارئین کے لئے مہیا کرتے رہے ہیں.روایات ذیل میں روایات درج کی جاتی ہے.گویہ زمانہ روایات محفوظ کرنے کا ہے.تاہم حتی المقدور چھان بین کر لی جاتی ہے.پہلے حضرت عرفانی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ کرتا رہا ہوں.اور اب بعض روایات پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالیٰ نے از راہ شفقت اپنا قیمتی مشورہ عنایت فرمایا ہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء (۱) روایات حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب (۱) حضرت عرفانی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتے ہیں: حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب.۱۹۰۰ ء میں ایک مرتبہ یہاں آئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے.انہوں نے بہت سی مفید باتیں اور آپ کے کلمات طیبات ایک مخلص دوست کو تحریر فرمائے.منجملہ ان کے آج ایک کا ذکر کرتا ہوں.آپ نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: زندگی کی زیادہ خواہش اکثر گنا ہوں اور کمزوریوں کی جڑ ہے.ہمارے دوستوں کو لازم ہے کہ مالک حقیقی کی رضا میں اوقات عزیز بسر کرنے کی ہر وقت کوشش رکھیں.ورنہ آج چل دینے اور مثلاً پچاس سال کے بعد کوچ کرنے میں کیا فرق ہے.جو آج چاند سورج ہے وہی اس دن ہو گا.جو انسان نافع الناس اور اس کے دین کا خادم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ خود بخود اس کی عمر اور صحت میں برکت ڈال دیتا ہے.اور شر الناس کی کچھ پرواہ نہیں کرتا.آپ سب کام ہر حال خدا میں ہو کر کریں.خود اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے گا.یہ الفاظ بھی فرمائے کہ میں سال سے زیادہ عرصہ گذرتا ہے.مجھے اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرمایا کہ تیری عمر اسی برس یا دو چار اوپر نیچے ہوگی.اس میں بھی یہی بھید ہے کہ جو کام مجھے سپر د کیا ہے.اس قدر مدت میں تمام کرنا منظور ہوگا.لہذا مجھے اپنی بیماری میں کبھی

Page 113

112 موت کا غم نہیں ہوتا.“ (72).(۲) حضرت قاضی صاحب اپنے روز نامچہ میں ۱۴/ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں تحریر کرتے ہیں.’ از حضرت اقدس بابت جلد چار عدد کشتی نوح.ایک روپیہ.بوقت انکار کہا کیا اجرت حرام ہے.پس میں نے چپ کر کے لے لیا.“ خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ قاضی صاحب نے چار عدد کتاب کشتی نوح کی جلد بندی کی.جس کی اجرت حضرت اقدس نے ایک روپیہ دی.تو قاضی صاحب نے حضور کی ذات بابرکات کے احترام کے پیش نظر اجرت نہ لینا چاہی اس پر حضور نے فرمایا ” کیا اجرت حرام ہے؟ پر.(۳) مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہوتا لوی لکھتے * ہیں کہ قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے سنایا کہ سردار فضل حق صاحب ساکن دھرم کوٹ کے اسلام لانے کا واقعہ ہمارے سامنے ہوا تھا.جب سردار صاحب عید کے دن قادیان آ کر مسلمان ہوئے اور اس کے بعد کچھ دن قادیان ٹھہرے تھے.ان کے دیگر رشتہ داران اس عرصہ میں چڑھائی کر کے آئے اور ان کو اسلام سے ہٹا کر واپس سکھ مت میں لانے کی کوشش کرتے رہے.چنانچہ ایک دن ایک جتھ سکھوں کا آیا.جس میں بوڑھے بوڑھے اور اپنے مذہب کے واقف لوگ بھی تھے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں فروکش تھے.وہ لوگ بھی مسجد مبارک میں ہی آگئے.اور غیظ و غضب سے بھرے ہوئے معلوم ہوتے تھے.انہوں نے اسلام پر اعتراض کرنے شروع کر دئیے.چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ مرجاجی ! ہمیں یہ بتاؤ کہ جس ملک میں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے.وہاں مسلمان کیا کریں گے اور چھ مہینہ کا روزہ کس طرح رکھ سکیں گے.اور نمازوں کے وقت کس طرح معلوم کریں گے.یہ سوال انہوں نے اپنے خیال میں عقده لا نجل سمجھ کر پیش کیا.لیکن حضرت اقدس نے نہایت آسانی کے ساتھ فوراً جواب دیا کہ اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں کہ جو انسانی طاقت سے باہر ہو.لہذا اگر انسان چھ مہینے کا روزہ * مولوی صاحب کی روایات نمبر۳ تا ۷ ہیں.جو انہوں نے قاضی صاحب سے سُن کر قلم بند کر رکھی تھیں.اور اب خاکسار مؤلف کو مولوی صاحب کے صاحبزادہ اخویم مولوی عبدالرحمن صاحب انور اسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری سید ناخلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوئی ہے.

Page 114

113 نہیں رکھ سکتا.تو نہ رکھے.اس صورت میں اس پر کوئی گناہ نہیں.رہا نماز کے وقتوں کا سوال سو آج کل تو گھڑیوں کے ذریعہ نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں اور دن اور رات کا اندازہ بھی اس مقام پر شرق اور غرب کے لحاظ سے کیا جاسکتا ہے.اس پر وہ سکھ خاموش اور لاجواب ہو گئے.اور جو اعتراض کا پہاڑ بنا کر وہ لائے تھے.وہ حضور نے ذراسی پھونک سے ہی اُڑا دیا.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ سردار فضل حق صاحب سابق سند رسنگھ موصوف ۱۲ نومبر ۱۸۹۹ء کوسیدنا حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر اسلام قبول کر کے جماعت میں داخل ہوئے.(73) (۴) مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہوتا لوی لکھتے ہیں کہ : قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے مجھ سے ذکر فرمایا کہ اگر چہ حضرت مولوی نورالدین صاحب علم طب میں بہت کمال رکھتے تھے لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات کسی طبی مسئلہ میں ان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اختلاف ہو جاتا تو تبادلہ خیالات کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دلائل کے لحاظ سے مولوی صاحب پر غالب ہی آجاتے تھے اور مولوی صاحب کو لا جواب ہو کر آخر قائل ہی ہونا پڑتا تھا.“ (۵) مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتا لوی لکھتے ہیں کہ : قاضی ضیاء الدین صاحب احمدیت سے پہلے اہل حدیث کا عقیدہ رکھتے.اور مولوی عبداللہ صاحب غزنوی اور ان کی اولاد سے عقیدت رکھتے تھے.ان کے ذریعہ سے ان کے گاؤں کے مالکان بھی اہل حدیث ہو گئے تھے.چنانچہ قاضی صاحب ہی ان کے امام اور استاد اور طبیب بھی تھے.اور اس وجہ سے وہ لوگ ان کی بہت عزت اور خدمت کرتے تھے.احمدیت کی وجہ سے وہ لوگ سخت مخالف ہو گئے.اور قاضی صاحب سے اپنے تمام تعلقات قطع کر لئے.جب قاضی صاحب نے اس طور کے مقاطعہ کا اظہار حضرت اقدس سے کیا تو حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ قاضی صاحب اچھا ہوا کہ یہ بھی ایک بت تھا جو ٹوٹ گیا.“ (1) مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی تحریر کرتے ہیں کہ : قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے خاکسار راقم سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم مہمانان قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستر خوان پر حضور کے ہمراہ کھانا کھا رہے

Page 115

114 تھے.مولوی برہان الدین صاحب جہلمی جو کہ نہایت اعلیٰ درجہ کے فاضل تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا کر اخلاص میں بہت ہی بڑھ گئے ہوئے تھے وہ بھی اس دستر خوان پر کھانا کھا رہے تھے.چونکہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کے دانت نکل چکے ہوئے تھے.اس لئے کسی قدر تکلیف سے کھانا کھاتے تھے.اور میں بھی دانت نکل جانے کی وجہ سے تکلیف سے روٹی کھا رہا تھا.حضور نے ہم دونوں کی اس تکلیف کو دیکھ کر کھانا پکانے والے خادم سے جو وہیں موجود تھا.فرمایا کہ قاضی صاحب کو روٹی چبانے میں تکلیف ہورہی ہے.اس لئے ایسے مہمانوں کے لئے چاولوں کا یا نرم روٹی کا انتظام کر دیا کریں اور ساتھ ہی مولوی برہان الدین صاحب کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مولوی صاحب کے بھی دانت تو نہیں.لیکن یہ تجربہ کار معلوم ہوتے ہیں.اور اپنے تجربہ کے ذریعہ سے کسی قدر سہولت پیدا کر لیتے ہیں.لیکن قاضی صاحب ابھی نا تجربہ کار ہیں.“ مولوی محمد عبد اللہ صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ اس واقعہ سے ایک تو یہ پایا جاتا ہے کہ حضرت اقدس کو اپنے مہمانوں کی خاطر مدارت اور ان کی ذرا ذراسی تکلیف کا کس قدر احساس ہوتا تھا کہ بغیر کسی کے اظہار تکلیف کے خود بخود ان کی آسانی اور آرام کا انتظام فرما دیتے.دوسرے یہ کہ مولوی برہان الدین صاحب چونکہ خوش طبع انسان تھے.اس لئے ان کی تکلیف کا اظہار بھی خوش طبعی کے رنگ میں فرمایا.اور بعض اوقات ( حضور ) اپنے احباب کے ساتھ بے تکلفانہ مذاق کر کے ان میں بھی شگفتگی پیدا کر دیتے تھے.(۷) مولوی عبد اللہ صاحب بوتا لوی تحریر کرتے ہیں کہ : قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے خاکسار سے خطبہ الہامیہ کے سنانے کا واقعہ اپنے مشاہدہ کے رُو سے مفضل سنایا تھا.اگر چہ یہ واقعہ مشہور ہے اور روز روشن میں کئی لوگوں کے سامنے ظہور میں آچکا ہے.لیکن ہر ایک دیکھنے اور سننے والا اپنے مذاق کے مطابق اس سے فائدہ اٹھاتا ہے.اور پھر اپنے مذاق کے رنگ میں ہی دوسروں کے آگے بیان کرتا ہے.اس لئے قاضی صاحب مرحوم کا بیان کردہ حال جہاں تک میرے ذہن میں محفوظ ہے.اس جگہ تحریر کر دیتا ہوں.ممکن ہے کہ کوئی حصہ اس کا شائع شدہ حالات سے زائد ہو.اور اس کا اظہار دوسروں کیلئے مفید ہو.

Page 116

115 قاضی صاحب نے فرمایا کہ وہ واقعہ عید الاضحیٰ کا تھا.جس کی وجہ سے ہم اور کئی دیگر مشتاقین حضور کی زیارت اور ارشادات سے فیض یاب ہونے کیلئے دور دور سے آئے ہوئے تھے.اگلے دن عید تھی.لیکن حضرت اقدس اچانک دورہ اسہال سے سخت بیمار ہو گئے.احباب جماعت کو بہت فکر تھا کہ حضرت اقدس کی بیماری کی وجہ سے ہمیں حضور کی صحبت اور ارشادات سے محروم نہ رہنا پڑے.چنانچہ رات کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت اقدس کی عیادت اور مزاج پرسی کے واسطے جب اندر تشریف لے گئے تو انہوں نے آئے ہوئے مہمانوں کے جذبات اور اشتیاق کی ترجمانی کرتے ہوئے عرض ( کر کے دریافت کیا کہ کیا حضور کل عید پر تشریف لے جائیں گے.اس پر حضور نے فرمایا کہ مفتی صاحب.آپ دیکھ رہے ہیں کہ بیماری کے دورہ سے کس قد ر ضعف ہورہا ہے.اس حالت میں میں کس طرح جا سکتا ہوں.چنانچہ جب حضرت مفتی صاحب نے حضرت اقدس کا یہ حال اور یہ فرمان باہر آ کر مشتاقین اور منتظرین کو سنایا تو سب پر افسردگی چھا گئی اور حضرت اقدس کی صحت و عافیت کیلئے دعائیں ہونے لگ گئیں.رات گزر گئی.اگلے دن یعنی عید کی صبح کو جب حضرت مفتی صاحب کو حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا تو حضور نے ان کو دیکھتے ہوئے نہایت خوشی کے لہجہ میں فرمایا کہ مفتی صاحب ہم نے تو کل آپ کو جواب ہی دے دیا تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی درخواست کو منظور فرمالیا ہے.لیکن ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے الہا ما ارشاد ہوا ہے کہ اس موقعہ پر ہم کچھ تقریر کریں.سواگر چہ اس وقت تک ہم اپنے ضعف کی وجہ سے اس قابل نہیں ہیں کہ باہر جاسکیں.یا کچھ سنا سکیں.لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے.اس لئے ہمیں یقین ہے کہ وہ اس کی طاقت اور توفیق بھی عطا کر دے گا.” جب حضرت مفتی صاحب باہر تشریف لائے تو انہوں نے حاضر آمدہ مہمانان کو حضرت اقدس کی طرف سے یہ بشارت سُنا دی اور لوگوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی.اس کے بعد جب حضور مسجد اقصیٰ میں عید کی نماز کے لئے تشریف لے گئے.تو ضعف کی وجہ سے احباب کے سہارا دینے سے حضور نے راستہ طے کیا.لیکن خطبہ پر کھڑا ہوتے ہی حضور کو اللہ تعالیٰ نے خاص طاقت اور توانائی عطا فرمائی.چنانچہ حضور نے پہلے اردو میں تقریر فرمائی

Page 117

116 اس وقت گاؤں کے کچھ ہندو اور آریہ بھی آ کھڑے ہوئے تھے.اس لئے حضور نے اپنی اس تقریر میں ان کو بھی تبلیغ فرمائی.اس کے بعد فرمایا کہ اب ہماری حالت الہام کی طرف منتقل ہونے لگی ہے.اس لئے دو اصحاب کاغذ اور قلم دوات لے کر بیٹھ جائیں اور جو کچھ ہم بولتے جائیں وہ لکھتے جائیں.اگر کوئی لفظ پوچھنا ہو تو اسی وقت پوچھ لیں.پھر نہیں بتایا جاسکے گا.چنانچہ حضرت اقدس نے عربی زبان میں فصیح و بلیغ تقریر کرنی شروع کر دی اور حضرت مولوی نور الدین صاحب اور حضرت عبد الکریم صاحب لکھنے لگ گئے اور جہاں کہیں کسی لفظ کا اشتباہ ہوتا تھا دہرا کر پوچھ لیتے تھے.اور حضرت اقدس انہیں بتلا کر پھر آگے اصل مضمون بیان کرنا شروع کر دیتے تھے.قاضی صاحب کا بیان ہے کہ مولوی عبدالکریم صاحب کو زیادہ الفاظ پوچھنے پڑتے تھے.اور مولوی نور الدین صاحب کو ان کی نسبت کم الفاظ دریافت کرنے کی ضرورت پڑتی.لیکن باوجود اس قدر علم وفضل کے بعض ایسے الفاظ بھی انہوں نے دریافت کئے کہ مثلاً یہاں س ہے یاض.ز ہے یا ظ.وغیر وغیرہ.لیکن حضرت اقدس اس طرح آسانی کے ساتھ بتاتے جاتے تھے کہ گویا حضور کے سامنے لکھا ہوا موجود ہے.اور حضور اس کو پڑھتے جارہے ہیں.حضور کا چہرہ اس وقت نہایت تاباں و درخشاں تھا.اور جلال آ گیا تھا.وہ بیماری کا ضعف اور رنگ کی زردی دور ہو گئی تھی.جب خطبہ ختم ہوا تو حضور اس طرح بیٹھے کہ جیسے ایک کمزور اور ضعیف انسان تھک کر بیٹھتا ہے.اور حضور کے جسم کو دبانا شروع کیا گیا.حضور کی وہ حالت ربودگی اور بے خودی کا رنگ رکھتی تھی.اور حضور بے اختیار ہو کر بول رہے تھے.یہاں تک کہ حضور نے خاتمہ تقریر کے بعد اس لکھی ہوئی تقریر کو ملاحظہ کے واسطے طلب فرمایا.اور نہایت خوشی سے اس کو دوبارہ پڑھا.اور اس کو خوش خط لکھوانے اور کوشش سے چھپوانے کے واسطے انتظام فرمایا.چنانچہ غالبا صفحہ ۳۸ تک کا حصہ مطبوعہ خطبہ میں وہی ہے جو اس وقت حضرت اقدس نے کھڑے کھڑے بصورت الہام فرمایا.اور اما بعد سے آگے کا حصہ تصنیف بعد میں تحریر فرمایا.“ خاکسار مؤ لف عرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ والی عیدا/ اپریل ۱۹۰۰ء کو ہوئی تھی.

Page 118

117 (۲) روایات محترمہ امته الرحمن صاحب (1) قاضی محمد عبد اللہ صاحب نے بیان کیا کہ ” میری ہمشیرہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور کیلئے یخنی پکائی گئی.غفلت سے اس میں لکھیاں پڑ گئیں.دادی نے شور ڈال دیا کہ لکھیاں پڑ گئیں ہیں.فرمایا اب ہم نہیں پئیں گے.اس نے کہا اور کسی کو پلا دیں گے.فرمایا جس کو ہم نہیں پیتے کسی کو بھی نہیں پینے دیں گے.چنانچہ حضور کے حکم سے وہ یخنی گرادی گئی.“ (74) خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ منشی شادی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ محترمہ جو حضوراقدس کے گھر میں خدمت کرتی تھیں.دادی کے نام سے مشہور تھیں.(۲) ایک دن حضور علیہ السلام بڑی بے تابی سے ادھر ادھر کوئی کپڑا سر پر باندھنے کیلئے ڈھونڈھ رہے تھے.شاید پگڑی کہیں ملتی نہ تھی اور نماز کیلئے جلدی تھی تو حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا دوپٹہ ہی پڑا مل گیا.جلدی سے وہ لے کر سر پر لپیٹ لیا اور نماز ادا فرمائی (۳) ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب غالبا کرم دین کے مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے جانے والے تھے تو مجھے ارشاد فرمایا کہ امتہ الرحمن تم بھی اس مقدمہ کے متعلق استخارہ کرو.تو میں نے عرض کیا کہ حضور! مجھے تو استخارہ کی دعا نہیں آتی.تب حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ تم سونے سے پہلے گیارہ دفعہ درود پڑھ لوتو یہی دعائے استخارہ کا کام دے گا.چنانچہ اس ارشاد پر میں نے عمل کیا اور اس کے بعد میں ہمیشہ اسی طرح درود پڑھ کر استخارہ کرتی ہوں.اور جب بھی کرتی ہوں تو مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور ہی استخارہ کا جواب مل جاتا ہے.“ (75) ۳.روایات حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب * شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مدیر الحکم تحریر فرماتے ہیں.قاضی محمد عبد اللہ صاحب اپنے والد کے ساتھ بغرض حصول تعلیم مارچ ۱۹۰۰ء میں قادیان آئے اور * آپ نے ۲۰/۴/۳۱ کو ذکر حبیب کی مجلس میں روایات بیان کی تھیں.جو الحکم ۱۴/۲/۳۶ میں چھپ گئیں.لیکن قلمبند ہونے کے بعد آپ سے ان کی نظر ثانی نہیں کروائی گئی تھی.چنانچہ خاکسار مؤلف کے عرض کرنے پر آپ نے نظر ثانی کر کے ان کی افادیت میں اضافہ کر دیا ہے.

Page 119

118 چھٹی جماعت میں داخل ہوئے قاضی صاحب نے صحبت کا لمبا عرصہ پایا.چونکہ وہ زمانہ طالب علمی کا تھا.اس لئے زیادہ روایات یاد نہ رکھ سکے.تاہم بہت کچھ اس زمانہ کے متعلق آپ کے ذہن میں نقشہ موجود ہے.(76) (1) ۱۰ / اپریل ۱۹۰۰ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خطبہ الہامیہ مسجد اقصیٰ کے درمیانی در میں کھڑے ہو کر دیا تھا.اور حضور کے دونوں طرف حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بیٹھے ہوئے لکھتے جاتے تھے.آخر میں حضور نے سجدہ شکر کیا تھا اور جماعت بھی اس سجدہ میں شامل ہوئی تھی.الحمد للہ کہ خاکسارک بھی خطبہ الہامیہ سنے اور سجدہ شکر میں شامل ہونے کا موقعہ ملا تھا.* (۲) مارچ ۱۹۰۰ء میں جب میں قادیان آیا اسی سال ۲۰ جون کو میری بڑی ہمشیرہ آمنہ بیگم زوجه قاضی نظیر حسین صاحب فوت ہو گئیں.*.والد صاحب نے میرے خط میں حضرت مسیح موعود کے نام بھی ایک خط ارسال کیا تھا.میں نے وہ لے جا کر حضور کی خدمت میں پیش کیا تو حضور نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری کتنی بہنیں ہیں.میں نے عرض کیا کہ تین.پھر فرمایا کہ کہاں کہاں بیاہی ہوئی ہیں.میں نے تفصیل عرض کی.فرمایا اچھا اب دو بہنیں ہیں.پھر فرمایا سب نے مرنا ہے.اچھا میں قاضی صاحب کو خط لکھوں گا.اس طرح سے حضور نے میرے ساتھ بھی تعزیت فرمائی.اور والد صاحب سے بھی.”میری ہمشیرہ امتہ الرحمن حضرت مسیح موعود کے دار میں حضرت ام المومنین کی خدمت میں رہتی تھیں.میں کبھی کبھی ہمشیرہ صاحبہ کی ملاقات کیلئے جاتا تھا.سیڑھیوں کے پاس ہی اندر جانے کا راستہ تھا.میں وہاں دروازے پر کھڑا ہوکر آواز دیتا.بہن جی ! کبھی وہ سُن کر آجاتیں اور کبھی کوئی اور جواب دیتا.کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی وہاں نہ ہوتا تو کوئی جواب نہ دیتا.حضرت اقدس جو برآمدے میں ٹہل رہے ہوتے یہ معلوم کر کے کہ کوئی نہیں سنتا.تشریف لے آتے اور حضور خود میری بہن کو بلاتے اور فرماتے امتہ الرحمن تمہارے بھائی آئے ہیں.باوجود اس کے میں بچہ تھا حضور تو کا لفظ نہیں استعمال فرماتے تھے.(۴) " جن ایام میں مسجد مبارک کے نیچے گول کمرے کے غربی جانب مخالفین نے دیوار قاضی صاحب کا بیان ہے قاضی نظیر حسین صاحب مرحوم صحابی نہیں تھے.بعد میں احمدی ہو گئے تھے.

Page 120

119 چن دی تھی.جس کی وجہ سے مہمانان اور طلباء کو مسجد میں آمد ورفت میں بڑی تکلیف ہوتی تھی اور اوپر سے دور کا چکر کاٹ کر آنا پڑتا تھا.حضور نے اس تکلیف کا احساس فرماتے ہوئے اپنے گول کمرے کا شرقی دروازہ اور سیڑھیوں کے پاس والا دروازہ دونوں کھول دیئے تھے.تا احباب وہاں سے گذر جایا کریں اور ان کو تکلیف نہ ہو.(۵) ہم بچوں میں بھی حضور کی خدمت کا بڑا شوق تھا.ایک دفعہ میں اور میرے ہم جماعت مرحوم ملک محمد حسین ولد ملک غلام حسین صاحب رہتا سی مرحوم نے ارادہ کیا کہ ہم حضرت اقدس کو جبکہ حضور کو ایک اہم تصنیف کے کام کیلئے رات بھر مصروف رہنا تھا.عشاء کے وقت سے دباتے رہیں گے.چنانچہ جب حضور روشنی کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھے لکھنے میں مصروف تھے.تو ہم دبانے لگ گئے اور دیر تک دباتے رہے.جب حضور کو ہماری طرف توجہ ہوئی اور خیال آیا کہ بہت دیر ہوگئی ہے تو فرمایا.اب تم جاؤ.ہم نے عرض کیا کہ نہیں حضور.ہم ٹھہریں گے.مگر حضور نے ہمیں بھیج ہی دیا.“ خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ ملک محمد حسین صاحب مرحوم کی دنیوی ترقی کے متعلق حضرت اقدس کی ایک پیش خبری محمد حسین ڈپٹی کمشنر بنے گا“ (77).جو غیر معمولی حالات میں پوری ہوئی جبکہ وہ مشرقی افریقہ چلے گئے.(۶) ان ایام میں حضور احباب کے ساتھ دو پہر کا کھانا بیت الفکر میں اور شام کا کھانا مسجد مبارک کی چھت پر تناول فرماتے تھے.اور مجھے بھی ہر دو مقامات پر حضور کی معیت میں کھانا کھانے کا کئی بار موقعہ ملا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.(۷) مسجد مبارک ابھی چھوٹی تھی اور اس کی توسیع نہیں ہوئی تھی.موسم گرما میں نماز مغرب کے بعد مسجد کے شاہ نشین پر سامنے مغرب کی طرف درمیان میں حضور علیہ السلام تشریف فرما ہوتے اور حضور کے دائیں اور بائیں طرف کونوں میں حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بیٹھتے اور دیگر احباب حلقہ کر کے بیٹھ جاتے.اور حضور کی ایمان پرور گفتگو سے لطف اندوز ہوتے.(۸) ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے تین سوروپے کا سوال کیا.اور اس پر بڑا اصرار کیا.اور قرآن شریف حضور کے زانو پر رکھ دیا.حضور نے فرمایا ہم اس طرح نہیں دے سکتے.

Page 121

120 آپ لوگ قرآن کریم اٹھانا جانتے ہیں.اور ہم اس کے مطابق عمل کرتے ہیں.پھر فرمایا تم ہی بتاؤ دو بیمار ہوں ایک شدید اور دوسرا معمولی کس کو مدد کی زیادہ ضرورت ہوگی.اس کو جس کی جان جانے کا خطرہ ہو یا دوسرے کو.مگر اس نے پھر بھی اصرار کیا.مجھے یاد نہیں رہا کہ حضور نے اسے کچھ دیا تھایا نہیں.(۹) '' حضرت مفتی محمد صادق صاحب انگریزی اخبارات کے واقعات حضور کو مجلس میں سناتے تھے.ایک دفعہ انہوں نے امریکہ کے ایک اخبار میں سے سنایا کہ ڈوئی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرے الفاظ سے یاد کیا ہے.حضور نے یہ بات سنی.تو اس وقت اسے چیلنج بھیجا.جس کے آخر میں اپنے متعلق پرافٹ آف گاڈ کے الفاظ لکھوائے.(۱۰) حضور فرماتے تھے کہ دعاء کے ساتھ تدبیر بھی کرنی چاہئے مثلاً روشنی کیلئے دعاء کرنے کے علاوہ کھڑ کی بھی کھول دینی چاہئے.ایک دفعہ جیسا کہ مسجد مبارک کے قریب مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین کے بیرونی صحن سے بڑا شور و غوغا ہور ہا تھا اور اس کی آواز میں مسجد میں سنائی دے رہی تھیں تو حضور نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص چاہے کہ میرے کان میں آواز نہ آئے تو اسے چاہئے کہ وہ کھڑکی کو بھی بند کر دے.(11) دعاؤں کے تذکرہ میں حضور اپنی کامیابی اور فتح کا ذکر فرمایا کرتے تھے.اور فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ بڑے وعدے کئے ہیں.یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ کب اور کس وقت یہ وعدے پورے ہونگے.مگر كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِى * کے مطابق یہ سنت اللہ ہے اور یہ وعدے ضرور پورے ہوں گے.میرے معاملہ میں میرے مخالف جلد بازی نہ کریں.(۱۲) ایک دفعہ جون کے مہینہ میں غالبا ۲۸ جون کو جمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ کی بجائے مسجد مبارک میں ادا کی اور یہ امر خلاف معمول تھا.(۱۳) حضور کا معمول تھا کہ اگر کوئی خاص روک نہ ہو تو صبح کو سیر کیلئے تشریف لے جاتے.مسجد مبارک کے قریب احباب انتظار میں ہوتے.حضور آتے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کو بلانے کا ارشاد فرماتے.چنانچہ ان کے * المجادله آیت ۲۲

Page 122

121 * آجانے پر سیر کیلئے روانہ ہوتے.شہتوت کے موسم میں بڑے باغ متصل بہشتی مقبرہ میں تشریف لے جاتے اور شہتوت منگوا کر وہیں احباب کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے.کبھی بعض دوست سیر میں نظمیں بھی سناتے تھے.مجھے جہاں تک یاد ہے.۱۹۰۱ء میں میر مہدی حسین صاحب نے ایک دفعہ موضع بڑ کے راستہ میں سیر کے دوران نظم پڑھ کر سنائی تھی.ہم طالب علم سیر میں حضور کے دائیں بائیں اور کبھی آگے نکل جاتے تھے اور میں بار ہا حضوڑ کے عمامہ مبارک کا شملہ اپنی آنکھوں سے یہ یقین کر کے لگایا کرتا تھا کہ اس کی برکت سے میری آنکھیں نہیں دیکھیں گی.(۱۴) میں نے منشی عبدالحق صاحب سے سنا تھا کہ جب وہ تحقیق حق کیلئے قادیان میں آئے تھے اور وہ حضرت اقدس سے کوئی سوال یا اعتراض پیش کر کے جواب مانگتے تو حضور پیش کردہ سوال کا جواب بھی دیتے اور اس سوال کا جواب بھی دیتے جوا بھی میرے دل میں ہوتا.اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ حضور حق پر ہیں اور میں عیسائیت ترک کر کے مسلمان ہو گیا.* (۱۵) اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوی - پر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنے اعضائے جسمانی سے بھی عدل کا معاملہ کرو اور ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہیں لینا چاہئے.(۱۲) پہلے حضور قلم سے لکھا کرتے تھے پھر ٹیڑھی نب سے لکھنا شروع کر دیا تھا.(۱۷) ایام طاعون میں حضور صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے اور دارا مسیح میں بہت سی گندھک جلانے کا انتظام فرماتے تھے.(۱۸) ایک دفعہ حضور کو درد گردہ کی تکلیف ہوئی.ہم طالب علم ریتی چھلہ کے بڑ کے پیٹر کے نیچے میروڈ بہ کی کھیل کھیل رہے تھے کہ ہمیں اس بات کا علم ہوا اور ہم کھیل چھوڑ کر حضور کی خدمت میں عیادت کیلئے حاضر ہوئے.حضور نے ہمیں دیکھ کر فرمایا کہ دعا کرو.(۱۹)’ ملک نور خاں صاحب جو بعد ازاں کچھ عرصہ شفاخانہ نور قادیان میں ڈسپنسر کے طور پر منشی صاحب کا اس بارہ میں اپنا بیان الحکم ۱۰/۱/۰۲ پر درج ہے.حضرت ملک مولا بخش صاحب کی ایک تائیدی روایت اصحاب احمد جلد اول ص ۲۹ اپر مرقوم ہے.قاضی صاحب فرماتے ہیں الحکم ۱۴/۲/۲۶ میں سہو ا نام عبدالحق کی بجائے عبدالرحیم شائع ہوا تھا.

Page 123

122 بھی کام کرتے رہے ہیں اور چند سال ہوئے فوت ہو چکے ہیں قادیان میں میرے ہم جماعت تھے.انہیں اور مجھے حضرت اقدس کے ساتھ لاہور اور گورداسپور کے بعض سفروں میں جانے کے مواقع بھی حاصل ہوئے ہیں.“ (۴) روایات محترمہ صالحہ بی بی صاحبہ رض (۱)’ ایک دفعہ مجھے قاضی ضیاء الدین صاحب نے جب کہ میرالڑ کا بشیر احمد جوا بھی بالکل بچہ ہی تھا اور بوجہ بیماری کے کمزور تھا.حضور کو دکھانے کیلئے بھیجا.حضور نے دیکھ کر فرمایا کہ اوہو! یہ تو بہت کمزور ہو گیا ہے اور سر پر ہاتھ بھی پھیرا.پھر حضور نے ایک بوتل عرق گاؤزبان کی اور ایک چینی کی پیالی دی اور ایک خوراک اسی وقت حضور نے ڈال کر بچہ کے منہ سے پیالی لگا کر پلائی.جب میں پیالی واپس کرنے لگی تو حضور نے فرمایا کہ نہیں.یہ پیالی بھی لے جاؤ اور یہ بوتل بھی اور دن میں دو دفعہ پلانا اور مولوی صاحب ( یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب) کو بھی دکھانا.قاضی صاحب کو کہہ دینا.میں دعا کروں گا.یہ اچھا ہو جائے گا.فکر نہ کرنا.(۲) حضرت اقدس جب کرم دین والے مقدمہ والے سفر جہلم سے واپس تشریف لائے تو حضرت اُم المومنین سے مخاطب ہو کر اپنے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے متعلق فرمایا کہ آپ کو معلوم ہے کہ سلطان احمد ڈپٹی ہو گیا ہے؟ اس نے دعا کرائی تھی.ہم نے دعا کی تھی.(۳) ”ہندوؤں والے بازار میں سے جو اب بڑا بازار کہلاتا ہے.اور اس وقت چھوٹا سا تھا.ایک دفعہ حضور گذر کر سیر کے لئے شمال کی طرف جہاں اب حضرت مولوی شیر علی صاحب کا گھر ہے.تشریف لے گئے.ہم دس پندرہ عورتیں حضور کے ہمراہ ہونگی.واپسی پر اسی بازار میں سے گذرتے ہوئے چوک میں جو مسجد اقصیٰ کے متصل شمال میں ہے.کنویں کے پاس ٹھہر گئے.اور سوٹی کی نوک زمین میں لگا کر فرمایا کہ یہ عنقریب احمدی بازار کہلائے گا.اور یہاں احمدی ہی احمدی ہونگے.اور پھر حضور بڑی مسجد ( یعنی مسجد اقصیٰ ) میں آئے اور وہاں پانی پیا.پھر حضور نے اپنے والد ماجد کے مزار پر دعاء فرمائی.یہ گرمیوں کے دن

Page 124

تھے.“ 123 خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے حضور کا فرمودہ تقسیم ملک سے سالہا سال قبل پورا ہو گیا تھا.جب کہ اس کے دکانداروں کی اکثریت احمدی احباب پر مشتمل ہوگئی تھی.(۴) ایک دفعہ حضرت اقدس نے گھر میں تھوڑے سے چاول بطور پلاؤ پکوائے اور حضرت اقدس کے ارشاد سے حضرت ام المومنین نے قادیان کے تمام احمدی گھرانوں میں تھوڑے تھوڑے بھیجے.وہ چاول برکت کے چاول کہلاتے ہیں.اور حضور کا حکم تھا کہ گھر میں جتنے افراد ہیں.سب ان کو کھا ئیں.چنانچہ بڑے قاضی صاحب نے اپنے بڑے بیٹے (یعنی میرے خاوند ) قاضی عبدالرحیم صاحب کو جو ان دنوں جموں میں ملازم تھے.چند دانے کاغذ کے ساتھ چپکا کر لفافہ میں بھیج دیئے اور خط میں لکھ دیا کہ اتنا کونہ جس پر چاول چپکائے ہوئے ہیں کھا لینا.(78).(۵) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کی شادی کے موقعہ پر ایک میراشن ڈھول لے کر حضور کے گھر آ گئی اور بجانا شروع کر دیا تا کہ کچھ نہ کچھ حاصل کر سکے.جب حضور نے ڈھول کی آواز سنی تو فوراً اس طرف متوجہ ہو گئے اور فرمایا کہ اس کو کہو کہ ڈھول نہ بجائے اور بند کراؤ.اور جو کچھ یہ مانگتی ہے اس کو دے دو.چنانچہ ڈھول بند کر دیا گیا اور اس کو چار پانچ روپے دیدیئے گئے.پھر وہ کہنے لگی ' جی مینوں سردی لگدی اے پالے دے دن آگئے نے تب حضور نے اسے رضائی بھی دلوادی.(۶) ایک دفعہ میں حضور کے پاؤں دبا رہی تھی.گرمیوں کے دن تھے.کوئی دس گیارہ بجے رات کا وقت ہوگا.حضور نے اس وقت ایک بھاری کپڑا طلب فرمایا.غالبا وہ نزول وحی کا وقت ہوگا کیونکہ سخت گرمی میں بھی بوقت نزول وحی بدن ٹھنڈا ہو جاتا تھا.ایک ہلکی سی رضائی لائی گئی.تھوڑی دیر کے بعد حضور اٹھ کر بیٹھ گئے اور مجھ سے فرمایا لڑکی جزاک اللہ.بس جاؤ.بچہ نہ روئے.بچہ سے مراد بشیر احمد ہے جو اُس وقت بہت ہی چھوٹا تھا.(۷) ایک دفعہ سخت گرمی کے موسم میں ایک عورت جو آلے بھولے (مٹی کے کھلونے) بیچنے والی تھی.حضرت اقدس کے گھر میں آئی.اور صحن کے کنویں کے پاس سر سے ٹوکرا اتار کر بیٹھ گئی.سلطا نو اہلیہ کر مداد کو جو حضور کے گھر میں خادمہ تھیں.مخاطب کر کے کہنے لگی.

Page 125

124 ”بی بی بھکھ لگی ائے یعنی بی بی مجھے بھوک لگی ہے.اس پر خادمہ نے اس کو دوروٹیاں دال ڈال کر دے دیں.اس نے اس میں سے ایک لقمہ تو ڑا.لیکن جب منہ کے قریب لے جانے لگی تو ادھر ادھر مکان میں نظر دوڑائی اور کہا کہ ”بی بی ایہ عیسائیاں دا گھر تے نہیں ؟“ خادمہ نے پوچھا ” تو کون ایں تو اس نے جواب دیا.”میں بندہ خدا دا تے امت حضرت محمد رسول اللہ دی.جب یہ آواز اس کی حضرت اقدس نے سنی تو اسی وقت حضور جو برآمدہ میں ٹہل رہے تھے.اس کے الفاظ پر جھٹ اس طرف متوجہ ہوئے اور اُس طرف منہ کر کے فرمایا کہ ان کو تسلی دو کہ یہ گھر مسلمانوں کا ہے اور یہی گھر تو مسلمان کا ہے اور اسے ایک روپیہ بھی دیا.اور فرمایا کہ اس نے میرے پیارے کا نام لیا ہے.اور باوجود اس کے کہ اس کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی اس نے تقویٰ سے کام لیا کہ لقمہ تو ڑ کر منہ میں نہیں ڈال لیا.پھر اس عورت نے روٹی کھائی اور خوش خوش چلی گئی.*" (5) روایات حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب قاضی عبدالرحیم صاحب کی روایات (۱۰ تا ۱۳) آپ کی ڈائری سے نقل کی گئی ہیں.نمبر ۱۵ خاکسار کے نام ایک خط سے درج کی گئی ہے.بقیہ روایات آپ نے ۱۹۴۱ء میں قاضی عبد السلام صاحب کو لکھوائی تھیں.(۱) '' میرے والد صاحب مرحوم و مغفور نے ایک دن صبح کے وقت مجھے تلاوت قرآن کریم میں با قاعدگی کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاص طور پر اس امر پر زور دیا ہے کہ آنے والی تباہی میں ان لوگوں کو میں دین و دنیا کے لحاظ سے سخت تباہی میں دیکھتا ہوں جو قرآن کریم سے وابستگی اور اس کی تلاوت کے التزام سے غافل ہیں.صرف وہی لوگ بچائے جائیں گے.جو قرآن کریم سے وابستگی رکھتے ہوں گے.یہی اس مصیبت سے بچنے کا ذریعہ ہے.* (۲) ”میاں محمد بخش عرف میاں مہندا والد میاں عبداللہ احراری جو خوجوں والی مسجد کا (جو وچہ الحکم میں واقع ہے.مؤلف ) ملاں تھا.قادیان میں قصائیوں کے جانور ذبح کیا کرتا تھا.جب مرزا امام الدین صاحب فوت ہوئے تو میاں مہندا نے ان کا جنازہ پڑھایا.اس پر نام نہاد مسلمان خصوصاًد یہاتی عدم صفائی اور غلاظت کیلئے بدنام تھے اور ہندوستان میں عیسائیت قبول کرنے والے حتی کہ چوڑھے چہار تک بھی صفائی پسند ہو جاتے تھے.مکان میں اُس عورت کو صفائی نظر آئی اسی سے اس کو غلط نبی پیدا ہوگئی ہوگی.(مؤلف)

Page 126

125 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کیلئے یہ انتظام فرمایا کہ بجائے مہندا کے آئندہ میاں کرم داد احمدی جانور ذبح کیا کریں اور ایک قصاب کو احمد یہ چوک میں بٹھایا گیا.جس سے میاں کرم داد کا ذبیحہ گوشت خریدا جاتا تھا.اس کی وجہ یہ تھی کہ مرزا امام دین شریعت اسلام اور اللہ تعالیٰ کی نسبت تمسخرانہ رویہ رکھتے تھے.اور دہر یہ خیالات کے تھے.ایسے شخص کا جنازہ پڑھانے والا شریعت کے احکام کا استخفاف کرنے والا سمجھا گیا.“ خاکسار مؤلف اصحاب احمد یہ عرض کرتا ہے کہ مرزا امام الدین حضرت اقدس کے چچا زاد بھائی تھے.ان کی مجلس میں چرس اور بھنگ پینے والے جمع ہوتے تھے.یہ لوگ اباحتی فقیروں کی طرح دین کا تمسخر کرتے تھے.یہ معلوم ہونے پر کہ لیکھرام نے حضرت اقدس سے خط و کتابت شروع کی ہوئی ہے.نومبر ۱۸۸۵ء میں مرزا امام الدین خود جا کر لیکھرام کو قادیان لائے اور آریہ سماج کی تجدید ہوئی اور مرزا صاحب مذکور اور اس کے زیر اثر بعض نام نہاد مسلمان آریہ سماج قادیان کے ممبر بنے.جس کا مقصد صرف اور صرف حضرت اقدس کی مخالفت تھا.احباب کو یہ امر بھی یادر ہے کہ مرزا نظام الدین مرزا امام الدین دونوں بھائی ملحد و بے دین تھے اور ان کی اور ان کے اقارب کی ایسی بے با کی ہی محمدی بیگم والے عظیم نشان کے ظہور میں آنے کا موجب ہوئی تھی.ان کی حالت حضرت اقدس نے تفصیلاً آئینہ کمالات اسلام میں عربی میں رقم فرمائی ہے.جس کا ایک حصہ اردو میں پیش کرتا ہوں.فرماتے ہیں: ایک شخص میرے پاس روتا ہوا آیا.میں اس کے رونے سے ڈر گیا.اور اس سے کہا کہ کیا تو کوئی موت کی خبر لایا ہے.اس نے کہا بلکہ اس سے بڑھ کر.اور بتایا کہ میں ان لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا.جو دین اللہ سے مرتد ہو گئے ہیں.ان میں ایک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت سخت غلیظ گالی دی جو میں نے اس سے پیشتر کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی.اور میں نے انہیں دیکھا کہ قرآن کو اپنے پاؤں کے نیچے رکھتے ہیں اور ایسے کلمات منہ سے نکالتے ہیں کہ زبان ان کے نقل کرنے سے قاصر ہے.اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی وجود نہیں اور نہ دنیا کا کوئی معبود ہے.صرف مفتریوں نے جھوٹی باتیں بنارکھی ہیں.”انہوں نے ایک اشتہار لکھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوگالیاں دیں اور کلام اللہ کو اس میں گالیاں دیں.اور اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس کتاب میں مجھ سے میری سچائی اور ہستی باری تعالیٰ کا نشان طلب کیا اور اپنے اس اشتہار کو

Page 127

126 انہوں نے تمام لوگوں میں مشتہر کیا.اور اس کے ذریعہ سے ہندوستان کے کافروں کو امداد پہنچائی اور بہت بڑی سرکشی اختیار کی جس کی مثال پہلے فرعون کے زمانہ میں بھی نہیں سنی گئی.اس میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ایسی گالیاں دیکھیں جن سے مومنوں کے دل پھٹ جائیں اور مسلمانوں کے کلیجے چیرے جائیں.میں نے دیکھا کہ اس میں ایسے کلمات ہیں جن سے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں.....پس میں نے دروازوں کو بند کر لیا.....اور نہایت تضرع کے ساتھ اس کی مدد طلب کی.....میں نے پکارا اے رب ! اپنے بندہ کی نصرت فرما.اور اپنے اعداء کو ذلیل ورسوا کر...پس رحم کیا میرے رب نے میری تقرعات پر اور فرمایا کہ میں نے ان کی عصیان اور سرکشی دیکھی ہے.جلدی ہی میں ایسی آفات کا عذاب ان پر وارد کروں گا.جو آسمان کے نیچے سے انہیں پہنچے گا.میں اُن کی عورتوں کو رانڈ اور اُن کے بیٹوں کو یتیم بنادوں گا اور اُن کے گھروں کو ویران کر دوں گا.بے شک میری لعنت نازل ہونے والی ہے.اُن پر اور ان کے گھروں کی دیواروں پر اور ان کے چھوٹوں پر اور اُن کے بڑوں پر اور ان کی عورتوں پر اور ان کے مردوں پر اور ان کے مہمانوں پر جو ان کے گھروں میں داخل ہوں اور وہ سب کے سب ملعون ہیں.سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اور ان سے تعلقات منقطع کر لیں اور ان کی مجالس سے دور ہو جائیں“.(79) ظاہر ہے کہ مرزا امام الدین ایسے شخص کا جنازہ پڑھنے والا بھی اسی قماش کا ہوگا.(۳) ایک دفعہ مسجد مبارک میں تشریف رکھتے ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز تہجد کی پابندی کی تاکید فرمائی اور اسے نہایت ضروری بیان فرمایا اور بار بار تاکید فرمائی.اور فرمایا کہ اگر کوئی شخص اس وقت اٹھنے کی طاقت نہ رکھے تو وہ چار پائی پر ہی پڑھ لے.یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹے لیٹے ہی اس وقت خدا کی یاد اور استغفار کر لے.(۴) '' ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کوشش کرنی چاہئے کہ نماز کھڑے ہو کر ہی ادا کی جائے اور فرمایا کہ میں بیماری میں بھی حتی الوسع یہی کوشش کرتا ہوں کہ نماز کے فرض کھڑے ہو کر پڑھوں.(۵) ایک دفعہ ہم نے سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر سجدہ والی جگہ

Page 128

127 پاک ہو تو نماز ہو جاتی ہے.یعنی اگر چٹائی یا دری وغیرہ پاک نہ ہو یا مشتبہہ ہوگئی ہو تو کوئی ایسا پاک کپڑا ڈال کر نماز ہو جاتی ہے جو صرف سجدہ والی جگہ کو ڈھانپ سکے.” میں نے اس وقت اس فتویٰ کی حکمت پر غور کیا تھا.اور مجھے یہ سمجھ آیا تھا کہ حضرت صاحب نے یہ استنباط بعض وقت جوتی سمیت نماز پڑھ لینے کے جواز سے فرمایا ہوگا.(۶) ” جب مولوی ثناء اللہ صاحب مع اپنے شاگردوں کے قادیان آئے تو لالہ بڑھامل کے مکان پر ٹھہرے.ظہر کے وقت ان کے چند شاگرد اور ان کا لڑکا مسجد مبارک میں آئے اور نماز ظہر ہمارے ساتھ پڑھی.نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ایک تقریر فرمائی.جس میں بتایا کہ مولوی شاء اللہ کوتحقیق حق کیلئے آنے کیلئے میں نے لکھا تھا.لیکن اب وہ اسلام کے ایک دشمن کے پاس آ کر ٹھہرے ہیں.اگر تحقیق حق مقصود ہوتا تو میرے پاس آتے.پس ان کا آنا صرف الزام دینے کیلئے ہے.ورنہ وہ اس طرح نہیں آئے.جیسا کہ میں نے ان کو بلایا تھا.اور اس لئے ہماری یہ بات بدستور قائم ہے کہ وہ تحقیق حق کیلئے نہیں آئیں گے.(۷) جب کرم دین کا مقدمہ جہلم میں تھا.تو میرے والد صاحب نے حضور علیہ السلام کے ہمراہ جہلم جانے کی اجازت مانگی.حضور علیہ السلام نے اجازت دی.اور چونکہ سردی کے دن تھے.حضور علیہ السلام نے از خود ہی والد صاحب مرحوم کیلئے اپنا ایک گرم کوٹ اور ایک گرم پائجامہ ہمارے گھر بھجوا دیا.میرے والد صاحب دیہاتی دستور کے مطابق پائجامہ نہیں پہنا کرتے تھے.تہہ بند ر کھتے تھے.لیکن حضور علیہ السلام کا وہ عطیہ پاجامہ انہوں نے پہنا.اور کوٹ بھی پہنتے رہے.اس کے بعد وہ کوٹ میں پہنتا رہا.اور کبھی کبھی میرے چھوٹے بھائی (قاضی محمد عبد اللہ صاحب.ناقل ) نے بھی پہنا ہے.لیکن زیادہ اسے میں نے ہی استعمال کیا ہے.اور جو گرم پائجامہ تھا.اس میں سے اپنے دو بچوں بشیر احمد اور عبدالسلام کیلئے پاجامے قطع کر کے بنوا دیئے جو یہ پہنتے رہے.یہ نہایت عمدہ کپڑا تھا اور بہت قیمتی تھا.یہ عجیب بات تھی کہ آخر تک اُسے کیڑا نہ لگا تھا.چار پانچ سال کے استعمال کے بعد یہ کپڑا پھٹا تھا.“ خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ البدر مورخہ ۲۳/۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء میں ایک نامکمل فہرست انتالیس

Page 129

128 افراد کے اسماء پر مشتمل درج ہے.یہ دوست قادیان و نواح سے حضور کے رفیق سفر ہوئے تھے.ان میں حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کا نام بھی درج ہے.(۸) ''طاعون کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک الہامی نسخہ جس کا نام تریاق الہی رکھا گیا تھا.اور قیمتی اجزاء کستوری.مروارید اور جدوار وغیرہ حضور نے اس میں ڈالے اور خود گھر میں تیار کیا.اور بہت بڑی مقدار میں بنایا اور اپنے خدام میں تقسیم کیا.اور جہاں تک مجھے یاد ہے میری اہلیہ لینے کیلئے حضور علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئیں تو حضور نے پورا ہاتھ کھول کر جس قدر ہاتھ میں آیا بھر کر عطا کر دیا.جس کا کچھ حصہ اب تک ہمارے پاس محفوظ ہے.حضور علیہ السلام اسی طرح جس کو دیتے تھے دل کھول کر دیتے تھے.“ خاکسار مؤلف اصحاب احمد عرض کرتا ہے کہ ۱۸۹۶ء میں طاعون ہندوستان میں آئی تھی.بظاہر انسدادی تدابیر سے رُک گئی تھی کہ 4 فروری ۱۸۹۸ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ حضرت اقدس نے اعلان کیا کہ میں نے خواب میں فرشتوں کو پنجاب کے مختلف مقامات میں بد شکل اور سیاہ پودے لگاتے دیکھا ہے اور فرشتوں نے بتایا کہ یہ طاعون کے پودے ہیں.حضور نے یہ بھی تحریر کیا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ایام طاعون میں بستی سے باہر نکلنا حرام ہے.البتہ وبا والے شہر سے دوسرے شہر میں جانا شرعاً منع ہے.لیکن کھلے میدان میں رہائش اختیار کرنا ہی عقلاً بھی مناسب ہے.جیسا کہ حکومت کہتی ہے.(80) اس پر لوگوں نے حضرت اقدس پر استہزا کیا.لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد طاعون پنجاب میں اس شد ومدّ سے پھیلی کہ خدا کی پناہ! دوسری طرف دیہات کے جاہل لوگ حکومت کی انسدادی تدابیر کو جو محض خیر خواہی پر مبنی تھیں.سخت مشکوک سمجھتے تھے.چنانچہ بلوے ہوئے ضلع سیالکوٹ میں ایک نائب تحصیلدار قتل ہو گیا.اس پر حکومت نے دست اعانت کھینچ لیا.اور یہ ہدایت دی کہ جو لوگ امداد حاصل کرنا چاہیں.صرف انہی کو طبی امداد دی جائے.ان حالات میں حضور نے از راہ ہمدردی و شفقت ۲۲ اپریل ۱۸۹۸ء کے اشتہار کے ذریعہ حکومت سے استدعا کی کہ لوگوں کی جہالت سے ناراض ہو کر وہ اپنی مدد نہ روک لے بلکہ انسدادی تدابیر جاری رکھے اور عید الاضحی کے موقعہ پر احباب کو جمع ہونے کی تاکید کی جس میں حضور نے حکومت کی انسدادی تدابیر کے فوائد اور شرعی اور طبی نقطہ ہائے نگاہ بیان فرمائے.علاوہ ازیں ۲۳ جولائی ۱۸۹۸ء کو ایک اشتہار دیگر احباب سے اڑھائی ہزار روپیہ جمع کر کے قیمتی اجزاء سے مرکب ایک دوا جس کا نام آپ نے تریاق الہی رکھا.تیار کی.(81) یہ دوائی مفت تقسیم کی

Page 130

129 گئی.اس دوا کا مندرجہ بالا روایت میں ذکر آیا ہے.(۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب خموش بیٹھے ہوتے تھے تو آہستہ آواز میں سبحان اللہ کا ورد زبان مبارک پر جاری رہتا.مگر وہ شخص سُن سکتا تھا.جو بہت قریب ہو.اور غور سے سُنے.چنانچہ میں نے خود کئی دفعہ سُنا.(۱۰) ایک دفعہ اکھنور ریاست جموں میں بسلسلہ ملازمت میں مقیم تھا اور اس زمانہ میں وہاں کوئی احمدی نہ تھا.عید قریب تھی.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ ایسے موقعہ پر نماز عید ادا کرنے کیلئے کیا کیا جائے تو حضور کی طرف سے مجھے جواب آیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی.عید گھر میں پڑھ لو.( ڈائری ) (11) ڈائری میں ۱۲ جنوری ۱۹۰۲ء کے تحت عید الفطر کے متعلق تحریر کرتے ہیں: آج عید کا دن ہے.مسجد جامع ( مراد مسجد اقصیٰ.ناقل ) میں حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ نماز ادا کی گئی.اور مولوی نورالدین صاحب نے بڑا عجیب وعظ فرمایا.(۱۲) ڈائری ۱۳/ مارچ ۱۹۰۲ء آج حضرت نے فرمایا کہ یہ دن خدا کے غضب کے ہیں.سب لوگ رات کو اُٹھیں اور دعائیں کریں اور کل طاعون کے متعلق تقریر ہوگی.سب لوگ حاضر ہوں.“ (۱۳) ڈائری ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ء آج بروز جمعہ عید الاضحی کی تقریب پر مولوی محمد احسن صاحب نے وعظ فرمایا اور پھر جمعہ پر مولوی عبدالکریم صاحب نے خطبہ پڑھا.اس دفعہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ کوئی شخص آلودہ اور طاعون زدہ شہروں سے نہ آوے.اس واسطے اس تقریب پر بہت تھوڑے آدمی پہلے کی نسبت آئے.“ (۱۴) ڈائری ۱۲ اکتوبر ۱۹۰۳ء پتاشه از خانه حضرت به تقریب آمد دلہن محمود.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ (حرم اوّل سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے انتقال پر اس بارہ میں غلط فہمی ہوئی ہے.آیا ۱۹۰۲ء میں نکاح کے ساتھ رخصتانہ بھی عمل میں آیا تھایا نہیں.چنانچہ مجد داعظم کا مؤلف بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوا ہے.(ملاحظہ جو جلد ۲ ص۸۷۶) لیکن

Page 131

130 حضرت عرفانی صاحب کی اس وقت کی ذیل کی تحریر سے یہ غلط فہمی دور ہوتی ہے.اس سے پیشتر آپ کی تقریب نکاح سے واپسی پر بھی ہم کو عرض مبارکباد کا موقع ملا تھا.اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ دوسرا موقعہ بھی نصیب ہوا...اکتوبر کی شام کو صاحبزادہ صاحب مع الخير دار الامان پہنچ گئے...ڈاکٹر صاحب ( یعنی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ناقل) چونکہ آگرہ میں مقیم تھے.اس لئے یہ تقریب رخصت آگرہ سے ہی ہوئی ہے (82).اس کی تائید البدر مورخہ ۲۳ / اکتوبر ۱۹۰۳ء سے نیز حضرت قاضی صاحب کی مندرجہ بالا ڈائری سے بھی ہوتی ہے.(۱۵) منارۃ مسیح ( کے متعلق ) مستری فضل دین صاحب نے مجھے ایک تحریر لکھ کر دی تھی.جس میں بنیادی اینٹ کا حال تھا جو کہ شائد ضائع ہو چکی ہے.قادیان سے نکلتے وقت بہت قیمتی مواد وہاں رہ گیا تھا.جس کا ہر وقت افسوس رہتا ہے.انا للہ و انا اليه راجعون.مستری فضل دین صاحب معمار اس وقت منار پر کام کرتے تھے.انہوں نے مجھے لکھ کر دیا تھا کہ ایک اینٹ حضور نے منگوا کر اس کو اپنی جھولی میں رکھ کر بڑی دیر دعا کی اور فرمایا کہ اس اینٹ کو اسی طرح منار کی بنیاد میں رکھ دو.اس کو الٹا نہ کرنا.“ مستری صاحب کہتے تھے کہ اس اینٹ کے نچلے طرف کچھ لکھا ہوا تھا.اس وقت یہ قیاس کیا گیا تھا کہ حضور نے پہلے اینٹ پر کچھ لکھا.اور پھر جھولی میں رکھ کر دعا کی.پھر لکھا ہوا حصہ نیچے کا نیچے رکھ کر بنیاد میں لگانے کیلئے دے دیا.پھر اسی طرح لاکر اس اینٹ کو بنیاد میں لگا دیا گیا تھا.یعنی اس اینٹ کو الٹا کر کے کسی نے نہ دیکھا.بلکہ اسی طرح لگا دیا.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں بنیاد کی اینٹ رکھوانے کا رواج نہ تھا.” منارة اسبیح کا اصل نقشہ میرے پاس محفوظ ہے.میر محمد رشید صاحب برا در خورد میر حامد علی شاہ صاحب سیالکوٹی نے نقشہ بنایا اور دس ہزار روپیہ تخمینہ بنایا.جو نقشہ پر درج ہے.اور اینٹ کے لئے ایک بھٹہ چالو کیا.جب مینار بننا شروع ہوا تو قادیان کے اہل ہنود کی طرف سے درخواست گذری کہ مینار بننے سے ہمارے گھروں کی بے پردگی ہوگی.اس پر تحصیل دار صاحب بٹالہ قادیان میں آئے اور بعد تحقیقات اس کا جاری رکھنا برقرار رکھا تھا.لیکن حضور نے اس کو اس وقت ملتوی فرما دیا تا کہ ہمسایہ کے احساسات کو صدمہ نہ پہنچے.اور پھر بعد میں حالات تبدیل ہونے پر تعمیر ہو جائے گا.یہ روایت خاکسار مؤلف کے نام قاضی صاحب کے بعد تقسیم ملک ایک مکتوب سے ماخوذ ہے.ممکن ہے

Page 132

131 التواء تعمیر کی متعدد وجوہات ہوں.اور ان میں سے ایک یہ بھی ہو.لیکن اہم وجہ اس وقت روپیہ کا نہ ہونا تھا.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ اس بارہ میں الحکم میں مرقوم ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آخر منارہ اسیح کا بنیادی پتھر ۱۳/ ذی الحجہ ۱۳۲۰ھ مطابق ۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء بروز جمعہ رکھا گیا.بعد نماز جمعہ حضرت حجتہ اللہ مسیح الموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور ہمارے مکرم دوست حکیم فضل الہی صاحب لاہوری - مرزا خدا بخش صاحب.شیخ مولا بخش صاحب.قاضی ضیاء الدین صاحب وغیرہ احباب نے عرض کی کہ حضور منارۃ اسیح کی بنیادی اینٹ حضور کے دست مبارک سے رکھی جاوے.تو بہت ہی مناسب ہے.فرمایا کہ ہمیں تو ابھی تک معلوم بھی نہیں کہ آج اس کی بنیا د رکھی جاوے گی.اب آپ ایک اینٹ لے آئیں میں اس پر دعا کروں گا.اور پھر جہاں میں کہوں وہاں آپ جا کر رکھ دیں.چنانچہ حکیم فضل الہی صاحب اینٹ لے آئے.اعلیٰ حضرت نے اس کو ران مبارک پر رکھ لیا.اور بڑی دیر تک آپ نے لمبی دعا کی.معلوم نہیں کہ آپ نے کیسی کیسی اور کس کس جوش سے دعا ئیں اسلام کی عظمت و جلال کے اظہار اور اس کی روشنی کے کل اقطاع و اقطار عالم میں پھیل جانے کی ہونگی.وہ وقت قبولیت کا وقت معلوم ہوتا تھا.جمعہ کا مبارک دن اور حضرت مسیح موعود منارة امسیح کی بنیادی اینٹ رکھنے سے پہلے اس کے لئے دلی جوش کے ساتھ دعائیں مانگ رہے ہیں.یعنی دعا کے بعد آپ نے اس اینٹ پر دم کیا.اورحکیم فضل الہی صاحب کو دی کہ آپ اس کو منارۃ اُسیح کے مغربی حصہ میں رکھ دیں.حکیم صاحب موصوف اور دوسرے احباب اس مبارک اینٹ کو لے کر جب مسجد کو چلے تو راستہ میں مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نماز جمعہ پڑھا کر (اور کچھ عرصہ مسجد میں ملاقاتیوں کی خاطر ٹھہر کر.ناقل ) واپس آرہے تھے.....راستہ میں جب یہ حال آپ کو معلوم ہوا تو رقت سے آپ کا دل بھر آیا اور اس اینٹ کو لے کر اپنے سینہ سے لگایا اور بڑی دیر تک انہوں نے دعا کی اور کہا کہ یہ آرزو ہے کہ یہ فعل ملائکہ میں شہادت کے طور پر رہے.آخر وہ اینٹ فضل دین صاحب معمار احمدی کے ہاتھ سے منارۃ اسیح کی بنیاد کے مغربی حصہ میں لگائی گئی (83)

Page 133

132 (۱۶) والد صاحب مرحوم نے ایک سفید قطعہ زمین پرائمری سکول کے پاس فصیل پر خرید لیا لیکن وہ خواہش رکھتے تھے کہ کاش کوئی جگہ حضرت مسیح موعود کے قرب میں مل جاتی.ان کی وفات کے بعد میں نے اس جگہ پر مکان بنوانا شروع کیا.خندق کی کچھ زمین شاملات سمجھتے ہوئے مکان میں شامل ہو گئی.یہ مکان آج کل میرے شہر والے مکان سے ملحق ہے اور میری ہمشیرہ امتہ الرحمن صاحبہ مرحومہ کا مکان کہلاتا ہے.جب وہ مکان بن رہا تھا تو مرزا اکرم بیگ صاحب نے آ کر روک دیا.میں نے حضرت خلیفہ اول سے جا کر عرض کیا آپ نے ان کو سمجھایا لیکن کامیابی نہ ہوئی.پھر میں نے حضرت عرفانی صاحب سے ذکر کیا.وہ مجھے لے کر نواں پنڈ (یعنی موضع احمد آباد نزد کوٹھی دارالسلام.مولف ) مرزا صاحب کے پاس پہنچے.عرفانی صاحب نے ان سے بہت کچھ کہا اور اپنی طرف سے پورا زور لگایا.لیکن وہ نہ مانے.ہم نا امید ہو کر بیٹھے رہے کہ اتنے میں حضرت خلیفہ اسیح اوّل کا ایک شاگرد وہاں آپہنچا.اس نے حضرت مسیح موعود کا ایک رقعہ بنام مرزا غلام اللہ صاحب مرحوم مختار مرزا اکرم بیگ صاحب ان کو دیا.مرزا غلام اللہ صاحب نے خود پڑھ کر مرزا اکرم بیگ صاحب کو وہ رقعہ دے دیا.انہوں نے رقعہ پڑھا اور کہا اب اس خط کے بعد میں بول نہیں سکتا.اب ہماری مجال نہیں کہ کچھ کہیں.جاؤ مکان بنالو.رقعہ خاصہ لمبا تھا.اور اس میں لکھا ہوا تھا کہ مرزا اکرم بیگ صاحب کے والد (مرزا اعظم بیگ صاحب) مخلص تھے.اور مرزا اکرم بیگ صاحب بھی احمدی ہیں.آپ ان کو سمجھائیں کہ باہر سے آنے والوں کے ساتھ ہمیں نرمی کرنی چاہئے.ان کو مکان بنانے سے روکنا مناسب نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے حضرت اقدس سے ذکر کیا ہوگا.جس پر حضور نے رقعہ لکھ کر حضرت خلیفہ اول کے پاس بھجوایا.اور پھر انہوں نے اپنے کسی شاگرد کے ہاتھ یہ رقعہ نواں پنڈ بھجوا رض دیا تھا.حضور کا وہ رقعہ مدت تک میرے پاس رہا.لیکن اب پتہ نہیں شاید قادیان میں ہی رہ گیا ہوگا.“ نوٹ :.یہ روایت خاکسار مولف کے نام قاضی صاحب کے ایک خط اور قاضی عبد السلام کی ان سے شنیدہ ایک روایت کا مرکب ہے.قاضی عبدالسلام صاحب بتاتے ہیں کہ یہ پہلا مکان کچی اینٹ کا تھا.جو حضرت عرفانی صاحب والی گلی میں احمد یہ چوک سے نکل کر شہر سے جانب شمال جاتے ہوئے.اس گلی کے دائیں ہاتھ کا

Page 134

آخری مکان تھا.133 (۱۷) آپ ۱۷ / فروری ۱۹۰۴ء کی ڈائری میں لکھتے ہیں: آج حضرت ابویم صاحب کا قادیان سے کارڈ آیا کہ گھر میں خیریت ہے.آپ حضرت اقدس کے ساتھ گورداسپور مقدمہ پر جاتے ہیں.مقدمہ کے آثار بظاہر سخت رڈی ہیں.الہام مبشر ہوتے ہیں.جیسے تر نصراً عند الله آج رات حضرت نے خواب بیان فرما یا کسی نے کہا کہ 66 جنگ بدر کا قصہ مت بھولو “ * ۱۸.ایک شوخ و گستاخ پر دست بدست مواخذه الهی : قاضی عبدالرحیم صاحب بیان کرتے تھے کہ : اہلیہ چراغ دین جمونی کی تذلیل) واقعہ * * کے قریباً ایک سال بعد ( گویا ۱۹۰۷ء میں ) یہ واقعہ ہوا کہ خاکسار عام طور پر عشاء کے بعد اپنے مکان کے آگے محلہ والوں کو تبلیغ کیا کرتا تھا.اور ایک مجلس لگ جایا کرتی تھی.ایک دن ایک ہند و جو پرلے درجے کا مفتن تھا.اس نے ایک ایسی بات کہی.جس کے جواب میں مجھے مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی مثال کسی نبی کی مثال سے دینی پڑی.اس پر اس شخص نے مجلس کے مسلمانوں کو اشارہ کیا.اور اس میں سے ایک ملاح نے جو وہاں جموں کے ایک گھاٹ کا ٹھیکیدار تھا.اور بڑا زبان دراز تھا.یہ کہنا شروع کر دیا کہ مرزا کی مثال نبیوں سے دیتا ہے اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اور مجھے سخت گندی گالیاں دینی شروع کر دیں اور مجھے گلے سے پکڑ لیا.اور اس کشمکش میں میرا نہ بند بھی کھل گیا.اگر چہ رات کے اندھیرے کی وجہ سے ستر پوشی قائم رہی.اس وقت مجھے اپنی کسی رسوائی اور تکلیف کی تو حسن نہ تھی.مگر حضور علیہ السلام کی شان میں اس کی بدزبانی سے سخت درجہ دکھ ہوا.اور اکثر حصہ رات کا بے چینی میں گذرا.خدا تعالیٰ کی شان دیکھیئے کہ رات کو یک دم بارش ہوئی اور زور کی بارش ہوئی.اور انگلی صبح کے اول * عربی الهام آخر دسمبر ۱۹۰۳ء کا ہے.( تذکر ص ۵۰۹) اردو الہام خاکسار مؤلف پہلی دفعہ شائع کر رہا ہے.** یہ واقعہ قاضی صاحب کی روایت نمبر ۲۰ میں درج ہے.

Page 135

134 وقت اس ملاح کے دروازے کے سامنے تھانیدار اور سپاہی کھڑے ہوئے سخت گندی گالیاں دے رہے تھے.اور اس کو گھر سے نکلنے کیلئے بلا رہے تھے.جب وہ نکلا تو اس کو ہتھکڑی لگا کر تھانے میں لے گئے.یہاں اس بات کا ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ ریاست کے تھانیدار گورنمنٹ انگلشیہ کے تھانیدار کی طرح نہیں ہوتے.اس وقت کے رواج کے مطابق وہ جابر سخت گیر اور بے باک ہوا کرتے تھے.اس سے اندازہ ہوسکتا.کہ انہوں نے کس قدر مخش کلامی کی ہوگی.ہے واقعہ یوں ہوا کہ ٹھیکیدار پابند ہوتے ہیں کہ رات کے وقت دریا سے کسی کو کشتی پر عبور نہ کرائیں.لیکن عام طور پر اس حکم کی خلاف ورزی ٹھیکیدار اپنے مفاد کیلئے کرتے رہتے ہیں اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہو سکتی.کیونکہ رات کے وقت چوری چوری یہ کام ہوتے رہتے ہیں.اس رات نواحی علاقے کے چند گوجر اس کے ٹھیکہ کے گھاٹ سے اس کے نوکروں کی معرفت دریا عبور کر رہے تھے کہ بارش کی وجہ سے پہاڑی علاقوں کی طرز پر دریا توی میں یک دم طوفان آ گیا.اور وہ کشتی قابو سے نکل کر غرق ہوگئی.اور جیسا کہ سنا گیا.دو گوجر عورتیں غرق ہو گئیں.اس جرم کی پاداش میں وہ ٹھیکیدار پکڑا گیا.اور (اس نے ) اپنی شوخی اور گستاخی کا دست بدست مزہ چکھ لیا.“ ۱۹.قاضی ظفر الدین صاحب اور اس کے خاندان پر غضب الہی کا نزول : خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ غضب الہی کے نزول کا ایک حیرت انگیز نظارہ ہم حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کے معاندا قارب میں بھی دیکھتے ہیں.آپ کے قبول احمدیت پر آپ کا خاندان جو بہت بڑا اور ذی وجاهت افراد پر مشتمل تھا مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا.ان میں آپ کے حقیقی بھانجے قاضی ظفر الدین ( پروفیسر اور مینٹل کالج.لاہور ) پیش پیش تھے.یہ ان سر کردہ معاندین میں سے تھے.جو صاحب علم و فضل سمجھے جاتے تھے.اور ادب عربی کے رسالہ نیم الصبا کے ایڈیٹر بھی تھے.جب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو حضرت اقدس نے ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء کے اشتہار کے ذریعہ تفسیر قرآن مجید فصیح عربی میں لکھنے کے مقابلہ کی دعوت دی تھی اور فرمایا تھا کہ پیر صاحب ہی تین علماء تجویز کر دیں.جو ان کے مرید نہ ہوں.جو حلفاً اپنی رائے ظاہر کریں کہ کس کی تفسیر اور عربی اعلیٰ درجہ کی اور تائید الہی سے ہے.اس اشتہار کے ضمیمہ میں چھیاسی سجادہ نشین علماء کو بھی دعوت مقابلہ دی تھی.ان

Page 136

135 میں سے نمبر ۴۷ پر قاضی ظفر الدین صاحب پروفیسر کا نام بھی درج ہے.(84).اعجاز احمدی کا جواب لکھنے کی دعوت میں حضور نے پروفیسر صاحب مذکور کا نام بھی خاص طور پر لیا تھا.چنانچہ حضور فرماتے ہیں: امکفر مهلاً كلّما كنت تذكر وامل كمثلي ثم انت مظفّر ! رضیت بان تختار في النمق رفقةً وأنا على املاء هم لا نعير فما الخوف في هذا لو غايا ابا الوفا ليمل حسين أو ظفرأا واصغر ! وانی ارى في رأسهـم دُودٍ نخوة فان شآء ربّى يخرجَنَّ و يجذر * (85) نیز فرماتے ہیں: اگر اب مولوی ثناء اللہ اور دوسرے میرے مخالف پہلو تہی کریں اور بدستور مجھے کافر اور دجال کہتے رہیں تو یہ ان کا حق نہیں ہوگا کہ مغلوب اور لاجواب ہوکر ایسی چالا کی ظاہر کریں.اور وہ پبلک کے نزدیک جھوٹے ٹھہریں گے.اور پھر میں یہ بھی اجازت دیتا ہوں کہ وہ سب مل کر اردو مضمون کا جواب اور قصیدہ مشتملہ بر واقعات لکھ دیں اگر.....انہوں نے اس قصیدہ اور اردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یوں سمجھو کہ میں نیست و نابود ہو گیا.اور میر اسلسلہ باطل ہو گیا.اس صورت میں میری تمام جماعت کو چاہئے کہ مجھے چھوڑ دیں.اور قطع تعلق کریں.لیکن اگر اب بھی مخالفوں نے عمد ا کنارہ کشی کی تو نہ صرف دس ہزار روپے کے انعام سے محروم رہیں گے.بلکہ دس لعنتیں ان کا ازلی حصہ ہوگا.اور اس انعام میں سے ثناء اللہ کو پانچ ہزار ملے گا.اور باقی پانچ کو اگر فتح یاب ہو گئے ایک ایک ہزار ملے (86)" پیشگوئی بالا کے مطابق قاضی ظفر الدین اور اس کے خاندان کا استیصال ہوا.قاضی عبدالرحیم صاحب ترجمہ:اے میرے کافر کہنے والے( ثناء اللہ ! گذشتہ سب باتیں چھوڑ دے اور میری مانند قصیدہ لکھ.پھر تو فتح یاب ہے.میں نے یہ بھی قبول کیا کہ اگر تو مقابلہ سے گرے تو اپنے رفیق بنالے اور ہم ان کے لکھنے میں کوئی سرزنش تجھے نہیں کرینگے.پس اے ابوالوفا ( ثناء اللہ ) اس لڑائی میں تجھے کیا خوف ہے؟ چاہئے کہ (مولوی) محمد حسین بٹالوی ( ایڈووکیٹ فرقہ اہلحدیث ) اس کا جواب لکھے.یا قاضی ظفر الدین یا اصغر علی.اور میں ان کے سر میں تکبر کے کیڑے دیکھتا ہوں.اگر خدا چاہے تو وہ کیڑے نکال دے گا.اور جڑھ سے اکھاڑ دے گا.

Page 137

136 کی زبانی اس کی تفصیل درج کرنے سے قبل حضرت اقدس کا اقتباس درج کیا جاتا ہے.فرماتے ہیں: اس کتاب کے ختم کرنے کے بعد ایک اور نشان مباہلہ کے رنگ میں اور دوسرا نشان پیشگوئی کے طور پر ظاہر ہوا.جس سے دو سو آٹھ نمبر نشانوں کا پورا ہوتا ہے.لہذا ان نشانوں کیلئے دو اوراق کتاب میں بڑھانے پڑے.66 وَهَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّى.إِنَّ رَبِّى ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ.وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَ الْآخِرَةِ وَ هُوَا لْمَوْلَى الْكَرِيم “ بعده حضور فیصلہ بذریعہ مباہلہ کا ایک اور تازہ نشان“ کے عنوان کے تحت رقم فرماتے ہیں: نشان ۲۰۷.ذیل میں وہ مباہلہ درج کیا جاتا ہے.جو ہماری جماعت کے ایک ممبر منشی مہتاب علی صاحب نے فیض اللہ خاں بن ظفر الدین احمد سابق پروفیسر اور نینٹل کالج لاہور کے ساتھ ۱۲ جون ۱۹۰۶ء کو کیا تھا.اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فیض اللہ خاں اپنی خواہش کے مطابق مرض طاعون میں گرفتار ہو کر ۱۳ اپریل ۱۹۰۷ء مطابق یکم بیساکھ سمہ ۱۹۶۳ میں نہ صرف خود ہی ہلاک ہوا.بلکہ اپنے بعض دیگر عزیزوں کو بھی لے ڈوبا.اس جگہ اس بات کا ذکر بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ اس شخص فیض اللہ خاں کا باپ قاضی ظفر الدین بھی ہمارے سلسلہ کا سخت مخالف تھا.اور جب اس نے اس سلسلہ کے برخلافا یک عربی نظم لکھنی شروع کی.* تو ہنوز اسے پورا نہ کر چکا تھا.اور مسودہ اس کے گھر میں تھا.چھاپنے تک نوبت نہ پہنچی تھی کہ وہ مرگیا.اب اس مباہلہ کی تحریر کی عبارت طرفین کی نقل کی جاتی ہے.دونوں فریق کی د تخطی تحریر میں ہمارے پاس موجود ہیں.تحریر دستخطی فیض اللہ خاں بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم الحمد لله الذي لا يضر مع اسمه شئى فى الارض ولا في السماء وهوا السميع العليم.بعد حمد وصلوت برسول رب العلمین کے میں قاضی فیض اللہ خاں بن قاضی ظفر الدین احمد مرحوم ایک مسلمان حنفی سنت نبویہ کا پورا تابعدار اس بات کا قائل ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ * نوٹ از حضور علیہ السلام: ” ایک قصیدہ میں نے عربی میں تالیف کیا تھا.جس کا نام اعجاز احمدی رکھا تھا اور الہامی طور پر بتلایا گیا تھا کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا.اور اگر طاقت بھی رکھتا ہوگا تو خدا کوئی روک ڈال دے گا.(باقی اگلے صفحہ پر)

Page 138

137 علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو کہ خاتم النبیین ہو چکے ہیں.وحی کا نازل ہونا خلاف مذہب قرآن و حدیث ہے.اور مرزا صاحب کے اس دعوی کی تردید کرتا ہوں کہ وہ مثیل و مسیح موعود ہیں اور منشی مہتاب علی صاحب خلف الرشید منشی کریم بخش صاحب سکنہ شہر جالندھر جو کہ مرزا صاحب موصوف کے تابع ہیں.دعوی کرتے ہیں کہ جو شخص ان کے اس دعوی کی تردید کرے.اس پر عذاب الہی نازل ہوگا.لہذا میں دعا کرتا ہوں کہ ہم دونوں فریقوں میں سے جو شخص جھوٹا ہے اس پر عذاب الہی نازل ہو.مثل موت یا بیماری طاعون یا مقدمہ میں گرفتاری.اور میں بمطابقت سنت نبوی کے ایک سال کی معیاد ٹھہراتا ہوں.اور یہ شرط کرتا ہوں کہ اگر یہ عذاب میرے یا منشی مہتاب علی کے بغیر کسی اور شخص قرابتی پر ہو تو یہ شرط میں داخل نہ ہوگا.و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين و صلى الله تعالى على خیر خلقه محمد و آله واصحابه اجمعین برحمتک یا ارحم الرحمین قاضی فیض اللہ خاں سکنہ جنڈیالہ باغوالہ تحریر و تخطی منشی مهتاب علی ”بسم الله الرحمن الرحيم ضلع گوجرانوالہ مورخه ۱۲ جون ۱۹۰۶ء نحمدہ و نصلّے میں حضرت اقدس حضرت مرزا غلام احمد کو سا مسیح سمجھتا ہوں اور ان کا ہر ایک دعوئی جو دین کے متعلق ہے.بلا کسی شک و شبہ کے صحیح مانتا ہوں.مگر میرے مقابلہ پر قاضی فیض اللہ خلف الرشید قاضی ظفر الدین مرحوم یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ مرزا صاحب جھوٹا اور ان کا دعویٰ بالکل گھڑا ہوا.اور خود تراشیدہ ہے.اس لئے میں قاضی صاحب کے مقابلہ میں مباہلہ کرتا ہوں.اور پورا پورا اور کامل یقین مجھے ہے کہ جو ہر دو میں سے جھوٹا ہوگا.اللہ تعالیٰ اس پر عذاب الیم نازل کرے گا.زمین آسمان ٹل جائیں گے.لیکن یہ عذاب یقینا نہیں ملے گا.اور وہ اپنی چمکا ر دکھا کر رہے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ قانون جاری ہے.اور آخری و بہتر اور اولی طریق کذب اور راستی میں تفریق کرنے کا ہے.پس خدا سے میری دعا ہے کہ بقیه حاشیه : پس قاضی ظفر الدین جو نہایت درجہ اپنی طینت میں خمیر انکار اور تعصب اور خود بینی رکھتا تھا.اس نے اس قصیدہ کا جواب لکھنا شروع کیا تا خدا کے فرمودہ کی تکذیب کرے پس ابھی وہ لکھ ہی رہا تھا کہ ملک الموت نے اس کا کام تمام کر دیا.

Page 139

138 وہ جلد تر نتیجہ پیدا کرے.اے خدا اے خدا تجھ سے کوئی انہونی بات نہیں اگر تو چاہے تو ایک آن میں عذاب نازل کر سکتا ہے لیکن میں سُنت نبوی کے مطابق ایک سال کی معیاد تجویز کرتا ہوں اور وہ عذاب محض مجھ عاجز پر اور یا قاضی صاحب پر نازل ہونا چاہئے.مثلاً موت یا طاعون یا کسی مقدمہ میں ماخوذ ہو جانا یہی شرط ہے اور کسی قرابتی اور اپنے کسی متعلق پر کوئی عذاب نازل ہونا یا اس کا مرجانا شرط میں داخل نہ ہوگا اور وہ عذاب صرف ہم دونوں سے مخصوص سمجھا جائے گا.خاکسار عاجز مہتاب علی سیاح.جالندھری مورخه ۱۲ جون ۱۹۰۶ء ان بالمقابل تحریروں کے بعد جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ قاضی فیض اللہ خاں مرض طاعون کے ساتھ جیسا کہ جھوٹے کیلئے بدعا کی گئی تھی.اور نیز سال کے اندر جیسا کہ شرط تھی.بمقام جموں ہلاک ہو گیا اور بموجب آیت کریمہ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِاِذْنِ اللهِ * مہتاب علی کو خدا نے طاعون سے بچالیا کیونکہ وہ اپنے دعوئی میں صادق تھا اور فیض اللہ خاں طاعون کا شکار ہو گیا.کیونکہ وہ اپنے دعوی میں کا ذب تھا.“ (87) حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بیان فرماتے تھے کہ قاضی ظفر الدین اور اس کی اہلیہ دونوں میری دو حقیقی پھوپھیوں کی اولاد تھی.مگر اللہ تعالیٰ نے قہری نشان کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ہمارے ان عزیزوں کے حق میں ظہور پذیر ہوئے بیان کرنے میں اپنی کوئی ذلت نہیں سمجھتا.حضرت اقدس نے اعجاز احمدی میں قاضی مذکور وغیرہ کو متکبر قرار دیکر یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ غرور کا سر نیچا ہوگا اور ان کا استیصال ہوگا اور ان پر لعنت پڑے گی.چنانچہ وہ اور اس کا خاندان بار بار لعنت کا شکار ہوا اور اس کی عزت و ناموس خاک میں مل گئی اور یہ سب کچھ خارق عادت طور پر ہوا.حضرت قاضی صاحب کا بیان ذیل میں درج کیا جاتا ہے.اس میں صرف نمبر شمار خاکسار مؤلف کی طرف سے ہے.(اول) اعجاز احمدی کے جواب میں قاضی ظفر الدین نے مسودہ تیار کیا.لیکن اس کی تکمیل نہ کر سکے.اور سال کی بیماری میں مبتلا ہو گئے اور ایک لمبا عرصہ اس موذی مرض کی تکلیف میں مبتلارہ کرنا کام مر گئے.* * سورة آل عمران - آیت نمبر ۱۴۶

Page 140

139 (دوئم تا چهارم) چونکہ اپنی اولاد میں بھی انہوں نے احمدیت کے خلاف سخت معاندانہ خیالات راسخ کئے ہوئے تھے.اس لئے ان کے بڑے لڑکے فیض اللہ خاں نے جو نائب تحصیل داری کا امید وار تھا.وہ مسودہ شائع کرنے کی کوشش کی.اور ساتھ ہی منشی مہتاب علی صاحب مرحوم کے ساتھ مباہلہ کیا.یہ مباہلہ بمقام جنڈیالہ باغوالہ (ضلع گوجرانوالہ) میں ہوا تھا.قاضی ظفر الدین کا بھانجا عظیم اللہ اس مباہلہ کا گواہ بنا تھا.یہ بھی سخت مخالف تھا.مباہلہ کی میعاد ایک سال مقرر کی گئی تھی.اب غضب الہی کا ظہور اس طرح پر ہوا کہ پہلے سیف اللہ خان جو قاضی ظفر الدین کا چھوٹا لڑکا تھا.طاعون میں مبتلا ہوا.اس کی اطلاع جنڈیالہ (ضلع گوجرانوالہ ) سے جموں قاضی نظیر حسن صاحب کو کی گئی.جو قاضی ظفر الدین کے چھوٹے بھائی اور وہاں محکمہ انجینئر نگ ( انہار ) میں ہیڈ ڈرافٹسمین تھے.وہ جموں سے جنڈیالہ پہنچے.لڑکا تو بچ گیا.لیکن عظیم اللہ گواہ مباہلہ ) کو طاعون ہوگئی.اور وہ آنا فانأمر گیا.اس کو دفنا کر آئے تو قاضی ظفر الدین کی چھوٹی لڑکی کو طاعون ہوگئی اور وہ بھی فور أہلاک ہوگئی.اسے دفنا کر آئے تو فیض اللہ خاں بن قاضی ظفر الدین کو (جس نے منشی مہتاب علی صاحب سے مباہلہ کیا ہوا تھا).طاعون نے آدبایا.اس کو اسی حالت میں مع دیگر افراد خاندان جموں لے گئے.وہاں پہنچ کر نہایت تکلیف اور کرب و اضطراب میں کئی دن مبتلا رہنے کے بعد مباہلہ کے پورے دس ماہ بعد یہ شخص طاعون سے ہلاک ہوا.“ ضمناً قاضی عبدالرحیم صاحب فرماتے تھے کہ اگر چہ یہ ہمارا قرابتی تھا.مگر میں نے مصمم ارادہ کر رکھا تھا کہ میں اس کا جنازہ نہیں پڑھوں گا.جب صندوق میں ڈال کر اسے قبرستان میں لے گئے تو یہ عصر کا وقت تھا.مجھے انہوں نے اندھیرا ہو جانے کے خیال سے واپس شہر میں لیمپ لانے کیلئے بھیج دیا.اور میرے پیچھے یک دم بارش ہوگئی اور قبرستان میں کوئی جائے پناہ بھی نہ تھی.اس لئے انہوں نے جلدی سے جنازہ پڑھ پڑھا کر میرے واپس آنے تک اسے دفن کر دیا.جب میں پہنچا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں پتہ تھا کہ آپ نے جنازہ * قاضی بشیر احمد صاحب اپنی والدہ صاحبہ سے روایات کرتے ہیں کہ قاضی ظفر الدین طاعون میں مبتلا ہو گئے تھے.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے اگر یہ امر درست ہو کہ وہ لمبے عرصہ تک بیمار رہے تو پھر سلن کی مرض ہوگی.جوطول بھی پکڑ لیتی ہے.طاعون کی مرض طول نہیں پکڑتی.قاضی عبدالرحیم صاحب کے روز نامچہ میں قاضی ظفر الدین کی تاریخ وفات یکم دسمبر ۱۹۰۴ ء مرقوم ہے

Page 141

140 نہیں پڑھنا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے میرے ارادہ کے کامیاب ہونے کے سامان پیدا کردئیے.“ (پنجم ) ” بعد ازاں قاضی نظیر حسن صاحب کی اپنی بھا وجہ ( بیوہ قاضی ظفر الدین ) سے ناچاقی ہوگئی.وہ اپنے بیٹے فیض اللہ خاں کا تابوت اپنے گاؤں جنڈیالہ لے جانا چاہتی تھی.لیکن قاضی نظیر حسن صاحب اس طرف توجہ نہیں کرتے تھے.آخر اس نے تنگ آ کر خود ہی کسی کو اپنے بیٹے کا تابوت لانے کیلئے بھیج دیا.وہ شخص تابوت نکال کر لے گیا.لیکن وہ بہت وزنی تھا.اس لئے راستہ میں اس نے اسے کھولا.اور ہڈیاں وغیرہ نکال کر کپڑے میں باندھ کر جنڈیالہ جا پہنچا.اور تابوت میں مٹی اور کچھ ہڈیاں پیچھے چھوڑ آیا.یہ اس شخص کی لاش کا انجام ہوا جس نے مباہلہ کیا تھا.(ششم) ” قاضی ظفر الدین کا چھوٹا لڑکا سیف الدین جو طاعون سے بیچ رہا تھا.اس نے بی.اے پاس کیا اور تعلیم ختم کر چکا تو سوزاک کے خبیث مرض میں مبتلا ہو گیا.تب اس کا یہ شغل تھا کہ اپنے باپ کی لائبریری میں سارا دن طبلہ اور سارنگی سننے سنانے میں گزارتا.گاؤں کے عمر رسیدہ لوگ تعجب کرتے.اور اسے کہتے تمہارا باپ کتنا بڑا عالم تھا.اور تمہارا یہ شغل ہے.تو وہ کہتا کہ طبیبوں نے میرے مرض کا مجھے یہی علاج بتایا ہے.آخر اسی عبرت ناک حالت میں وہ بھی مر گیا.(ہفتم ) قاضی ظفر الدین کی بیوی بوجہ اس کے کہ یہ خاندان بڑا ذی وجاہت تھا.پردہ کی سخت پابند تھی.مگر بیوہ ہوگئی تو خاوند کے بھائی قاضی نظیر حسن صاحب کے ساتھ ناچاقی ہوگئی تھی.اس لئے اسے اپنی اراضی کی نگرانی وغیرہ کیلئے غیروں کا دست نگر ہونا پڑا.اور لاہور کے ایک ڈاکٹر سے استمداد کے بہانے سے میل جول شروع کیا.اس سے لوگوں میں اس کی بدنامی کی شہرت ہوگئی اور ایک عرصہ تک ایسی خواری کی زندگی بسر کرنے کے بعد وہ بھی طاعون کا شکار ہوئی.قاضی نظیر حسن صاحب اپنے برادر زادہ فیض اللہ خاں کا انجام دیکھ کر احمدی ہو گئے تھے.اور قاضی عبدالرحیم صاحب سے شکوہ کیا کرتے تھے کہ فیض اللہ خاں کے مباہلہ کا مجھے کیوں علم نہ دیا گیا.ورنہ میں اسے سمجھا تا اور توبہ کر لیتا.اور اس کی جان بچالیتا.قاضی نظیر حسن صاحب خلافت ثانیہ سے

Page 142

141 وابستہ تھے.صحابی نہ تھے.۱۹۳۰ء کے قریب ان کا انتقال ہوا.اللهم اغفر لہ.اللہ! اللہ ! کیسا عبرت آموز قصہ ہے.قاضی ظفر الدین اور اس کے اہل وعیال کا لعنت و نکبت یوں یکے بعد دیگرے تعاقب کرتی ہے کہ جس میں صاف طور پر خدائی ہاتھ کا رفر مانظر آتا ہے.فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ (۱۹) چراغ دین جمونی کا عبرت ناک انجام : پہلا نشان چراغ دین جمونی پہلے احمدی تھا.پھر شقاوت ازلی نے اسے آگھیرا اور اس نے رسول ہونے کا دعویٰ کیا.اور اپنا کام یہ بتایا کہ تا عیسائیوں اور مسلمانوں میں صلح کرا دے.اور قرآن و انجیل کا باہمی تفرقہ دور کر دے اور ابن مریم کا ایک حواری بن کر یہ خدمت سرانجام دے.اسے بار بار یہ شیطانی الہام ہوئے کہ حضرت اقدسن (معاذ اللہ ) دجال ہیں.جن کو نیست و نابود کرنے کیلئے وہ مبعوث ہوا ہے.اس نے اپنی کتاب ” منارۃ اصبح “ میں یہی باتیں لکھیں.اس کی تالیف کے ایک سال بعد اس نے ایک دوسری کتاب اسبارہ میں تالیف کی.جس میں مباہلہ کی دعا بھی لکھی.جب مضمون مباہلہ اس نے کاتب کے حوالہ کیا تو وہ کا پیاں ابھی پتھر پر نہیں جمی تھیں کہ پہلے اس کے دونوں لڑکے اور پھر وہ خود واصل جہنم ہوا.حضور کو الہا مآ بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے فنا اور غارت کر دے گا.اور اس پر غضب نازل کرے گا.حضور نے اس کا ذ کر اپنی کتاب دافع البلاء میں کیا ہے.اور پیشگوئی پورا ہونے کا ذکر حقیقتہ الوحی صفحات ۳۷۲٬۲۲۰ ۳۷۸ میں کیا ہے.اور دعائے مباہلہ کا عکس بھی حقیقتہ الوحی میں درج کیا ہے.اس کے عبرتناک انجام کی خبر اور مباہلہ کی دعا کی اطلاع حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب نے دی تھی جیسا کہ ذیل کی تفصیل سے احباب کو علم ہوگا.آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں تحریر کیا : وو سیدی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چراغ دین ساکن جموں مصداق الهام نَزَلَ بِهِ جَبِيرٌ (88) نے دافع البلاء کی اشاعت کے بعد جن جن پیرایوں میں حضور سے عداوت شروع کی تھی وہ چھٹی نہیں.چنانچہ اس نے ایک کتاب موسوم بہ منارة امسیح شائع کی.جس میں اس نے اپنے اندرونی بغض کے انگار اُگلے ہیں.آج کل وہ ایک اور کتاب چھاپنے کا اہتمام کر رہا تھا.جواوّل الذکر سے بدرجہا بدتر تھی.زبانی تو ہین کا بھی اس نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا ہوا تھا.غرض اس نے اپنے آپ کو ہر طرح سے ملزم ٹھہرالیا.اور آخرالامر خدا تعالیٰ کے مرسل کے فرمودہ کے مطابق زیر

Page 143

142 دفعه إنِّى أُذِيبُ مَنْ يُرِيبُ مرقومه دافع البلاء گرفتار ہوکر اپنی پاداش کو پہنچا.اس کے دو ہی لڑکے تھے.جو یکے بعد دیگرے طاعون سے فنا ہوئے.چھ سات روز کے بعد ۵ اپریل ۱۹۰۶ء وہ خود بھی اس مرض میں مبتلا ہو کر غارت ہوا.الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ کے مرسل کا فرمایا حرف بحرف پورا ہوا.اور ہمارے لئے ایک تازہ نشان ظاہر ہوا.آج کل شہر میں طاعون کثرت سے ہے.عاجز کیلئے دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ کشتی نوح میں سوار ہونے کے قابل بنا دے.دعا کا خواستگار قاضی عبدالرحیم از جموں“ (89) اس پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے دریافت کر کے مزید حالات بھجوانے کیلئے تحریر کیا تو قاضی صاحب نے لکھا ہے: دبسم الله الرحمن الرحیم محمد ، فصلی علیٰ رسولہ الکریم مکر می جناب مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ”جناب کا نوازش نامہ شرف صدور لایا.نہایت خوشی ہوئی.چراغ دین کے حالات دریافت کرنے کے واسطے آج میں اس کے مکان کی طرف جارہا تھا کہ راستہ میں یعقوب مسیحی امریکن مشن کے پادری سے ملاقات ہوئی.یہ شخص اس کا بڑا انیس تھا.چراغ دین عموماً اس سے مجلس رکھتا تھا.یعقوب مسیحی اس کی تصانیف کا از حدثنا خواں ہے.چراغ دین نے نور الہدی منارة اسبح چھپوا کر شائع کی تھی اور ایک کتاب اعجاز محمدی کے چھپوانے کے درپے تھا.کچھ کا پیاں بھی لکھی گئیں تھیں اور کتاب چھاپہ خانہ میں جا چکی تھی.مگر اجل نے اسے فرصت نہ دی.وہ کامیاب نہ ہوا.اعجاز محمدی میں چکڑالوی اور سرسید احمد صاحب اور حضرت مرزا صاحب کا تذکرہ ہے.یعقوب کہتا ہے کہ اگر کوئی مرزائی اسے بغور دیکھے تو اس کے دیکھنے کے بعد وہ مرزائی نہیں رہ سکتا.کتاب کیا موتیوں کی لڑی ہے.وہ خواہشمند ہے کہ یہ کتاب کسی طرح چھپ جائے حتی کہ اپنی جیب سے چھپوانے کو تیار ہے.منارة المسبح اکبر مسیح نے چھپوائی تھی.اس نے دوصد پچاس روپے اپنی گرہ سے صرف کئے تھے.اس کی کتابیں ایسی ہیں کہ کسی شخص کو اس کی طرز تحریر گراں نہیں گزرتی.اس نے ایک

Page 144

143 اور کتاب لکھی ہے.جس کا نام اغراض مرزا رکھا ہے.اسے اعجاز محمدی کے چھپنے کے بعد چھپوانے کا ارادہ رکھتا تھا.وہ کہتا ہے کہ اگر یہ شخص زندہ رہتا تو کچھ کا کچھ کر کے دکھا دیتا.مگر خدا نے اسے مہلت نہیں دی.غرض یعقوب اس کا نہایت مداح ہے.”میرے خیال میں یہ شخص مس اپنی بیسنٹ کی طرح بار یک پالیسی پر چلتا تھا.زندگی میں اس کی حالت نہایت رڈی اور ذلیل تھی.اس کی عورت پر لوگ یاری آشنائی کا الزام لگاتے تھے.ممکن ہے کہ وہ اس کی زندگی میں ہی خراب ہو.یہ شخص مقروض تھا.اس کی حالت یہاں تک گری ہوئی تھی کہ اس کی اور اس کے بچوں کی تکفین پر چندہ کیا گیا تھا.یعقوب مسیحی سے مل کر بعد ازاں میں چراغ دین کے مکان پر پہنچا.وہاں اس کی عورت اور دو ایک محلہ دار عورتیں موجود تھیں.ان سے دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ بروز ہفتہ چراغ دین کے دونوں لڑکے فوت ہوئے.سوموار دس بجے کے قریب وہ اپنے بچوں کا افسوس کر رہا تھا کہ بخار میں مبتلا ہو گیا.عورتوں کا خیال ہے کہ اسے طاعون نہیں ہوا.بلکہ وہ بچوں کے غم والم سے مرا ہے.بخار کے بعد اس نے کھانا چھوڑ دیا تھا.گاہے گاہے ساگودانہ کے چند کا شک کھلائے گئے.بعد میں وہ بھی نہیں.بیماری کے دوسرے روز مسہل کرایا.مگر پاخانہ نہ آیا.پھر تیسرے روز مسہل کرایا گیا.اور قبض کشانہ ہوئی.اس کی زبان سیاہ ہوگئی تھی.چوتھے روز اس نے الہام میں سنگترہ اور گلاب کے پھول دیکھے.صبح اس نے اپنی خواب کے مطابق ایک سنگترہ اور دو غنچہ گلاب کے منگائے.اتفاق سے گلاب کے پھول دستیاب نہ ہوئے.سنگترہ کی کوئی ایک پھاڑی اس نے کھائی.اس کے بعد کے روز اس نے انار منگایا اور اس کے بھی چند دانہ کھائے.ساتویں روز اسے نمونیا ہو گیا.سینہ پر بہت سا بلغم جم کر بعض دفعہ سانس رکتا تھا.نویں روز بدھوار ۴ را پریل ۱۹۰۶ ء کو وہ مر گیا." مرنے سے پیشتر اس سے پوچھا کہ کسی چیز کی خواہش ہے.تو اس نے برف مانگی.چنانچہ لا کر تھوڑی سی کھلائی گئی.دورانِ بیماری میں اس نے ایک دو گھونٹ دودھ پیا.عام رائے یہی ہے کہ اس نے کچھ نہیں کھایا اور پاخانہ مطلق نہیں آیا.ڈاکٹر کہتا ہے کہ شروع میں اسے پلیگ فیور تھا.اور ساتویں روز اسے نمونیا پلیگ ہو گیا.کل نو روز بیمار رہا ہے.دوران بیماری میں اس کا پیٹ پھول گیا تھا.مرنے کے بعد تو اچھا خاصہ سوج گیا تھا.لوگ کہتے ہیں کہ اگر

Page 145

144 رات رکھا جاتا تو پیٹ شاید پھول کر پھٹ جاتا.بدھ کو وہ چار بجے مرا ہے.اور اسی وقت دفن کیا گیا تھا.بیماری سے پہلے بہت لوگوں کے روبرو اُس نے بچوں کے افسوس میں کہا کہ اب خدا بھی میرا مخالف ہو گیا ہے.ایام بیماری میں بھی گاہے گا ہے ایسے لفظ بولتا رہا.ڈاکٹر کے رو برو کہا کہ اب خدا پر مجھے کوئی امید نہیں.یہ کہنے پر کہ خدافضل کرے گا.اس سے فضل مانگو.عموماً وہ ایسے الفاظ بولتا تھا.جو کچھ میں نے تحریر کیا ہے.نہایت تحقیقات سے دریافت کیا ہے اور بالکل راست ہے.دوسرا ایمان افزانشان : راقم عاجز قاضی عبدالرحیم.نقشہ نویس محکمہ نہر.جموں مورخہ / اپریل ۱۹۰۶ء (90) چراغ دین کے متعلق نشان بالا کے بعد ایک اور ایمان افزانشان ظاہر ہوا اس میں بھی دست غیب کارفرما نظر آتا ہے.افسوس کہ دل کے اندھے نشان کے بعد نشان دیکھتے ہیں.اور عبرت نہیں پکڑتے.خط بالا کے شائع ہونے پر معاندین نے ایک مقدمہ کھڑا کر دیا.جس کا نتیجہ اگر ان کے حسب مراد نکلتا تو گویانشان بالا مشتبہ ہو جاتا.لوگ سمجھتے کہ اگر ایک بار چراغ دین کی تذلیل ہوئی ہے تو دست بدست حضرت اقدس کے مرید کی بھی تذلیل ہوئی ہے.(معاذ اللہ ) اللہ تعالیٰ جس نے اپنے محبوب مسیح کو چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ مبعوث کیا تھا.اس کی عزت کو محفوظ و مامون رکھنے کے لئے ملائکہ کی افواج ہر وقت چوکس رہتی تھیں.تا إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهَا نَتَكَ وَ نِّي مُعِيُنٌ مَنْ اَرَاد إِعَانَتَكَ کا نظارہ ہر لمحہ ظاہر ہوتا رہے.اور معاند ہمیشہ ناکام و نامراد خائب و خاسر اور مخذول و مردود ثابت ہوں.اس کی تفصیل آپ قاضی صاحب کی قلم سے سُنیے کہ یہ قصہ کس قدر ایمان افزا اور ساتھ ہی کس قدر عبرت انگیز ہے.(یہ تفصیل پہلی بار شائع کی جارہی ہے ) آپ نے حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا.”بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم " سيدى.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ”خاکسار نے ایک عریضہ چراغ دین کی وفات پر حضور پر نور کی خدمت میں ارسال کیا تھا.اس کے جواب میں مفتی صاحب نے لکھا کہ چراغ دین کے متعلق چند باتیں تحقیقات سے دریافت کر کے لکھو.جو کچھ مجھے دریافت کرنے سے معلوم ہوا میں نے تحریر کر دیا.لیکن مجھے یہ و ہم بھی نہ تھا کہ یہ خط اخبار میں چھاپا جائے گا.میں نے اس خیال پر کہ شاید چراغ دین

Page 146

145 کے متعلق کوئی مضمون لکھا جائے گا.وہ کل حالات صرف پرائیویٹ طور پر تحریر کئے تھے کہ اس مضمون کیلئے مصالحہ درکار ہوگا.اس لئے اس خط میں میں نے بعض باتیں بے تعلق بھی درج کر دی تھیں.جن کا اصل غرض کے ساتھ کوئی لگاؤ نہ تھا.اگر اخبار کیلئے مضمون لکھتا تو طرز تحریر بدل دیتا.جیسا کہ پہلے خط میں میں نے قابل گرفت الفاظ کا لحاظ رکھا ہے.ایسے ہی اس خط میں بھی ان باتوں کو مدنظر رکھتا.میں نے تو صرف حضور کے واسطے لکھا تھا نہ اخبار کیلئے.مفتی صاحب کی طرف اس لئے لکھا تھا کہ شاید مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی جابجا مفتی صاحب خط و کتابت کا کام کرتے ہیں.کیونکہ حضرت کی خدمت میں جو خط لکھا تھا.اس کا جواب مفتی صاحب نے دیا تھا.اور نیز میں نے اجازت نہیں دی کہ اس خط کو اخبار میں شائع کیا جائے.جیسا کہ پہلے خط میں دی تھی.اگر میں لکھ بھی دیتا کہ اس کو شائع کیا جائے تو بھی ایڈیٹر صاحب اور مینجر صاحب کا فرض تھا کہ چھپنے سے پہلے مضمون کے ہر ایک پہلو پر غور کر لیتے اور بعد قانونی تصحیح کے چھاپتے.کیونکہ کرم دین کے مقدمہ نے پورا پور اسبق سکھا دیا تھا.جن مخالفوں نے ایک لٹیم کے لفظ پر اس قدر زور مارا کیا اب وہ کچھ کم کریں گے؟ آئندہ ماشاء اللہ.ان کو تو خدا خدا کر کے ایسے موقعے ہاتھ لگتے ہیں.اب بھلا وہ کس طرح در گذر کریں؟ اصل مضمون میں یہ لفظ ہیں.دو اس کی عورت پر لوگ یاری آشنائی کے الزام لگاتے ہیں.ممکن ہے کہ وہ اس کی زندگی میں بھی خراب ہو.یعقوب مسیحی سے میں نے یہ سنا تھا لیکن اب وہ انکاری ہے.اور ثبوت طلب کرتا ہے.یہی عیسائی اور مسلمان اس پر تلے ہوئے ہیں کہ عورت کی طرف سے فوجداری مقدمہ کروایا جائے.آج کل میں مقدمہ دائر کرنے والے ہیں.پیروی کے واسطے ایک بڑی کمیٹی مقرر ہوئی ہے.بظاہر ان کے باز رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.۱۹ / فروری کا الہام..عورت کی چال.ایلی ایلی لماستانی“ (91) شاید یہی چال نہ ہو.میں دین کے کام میں لڑنے اور تکلیف سے نہیں ڈرتا.صرف ناداری اور عیالداری کی وجہ سے خوف ہے.اس وقت میرے پاس کوئی سرمایہ نہیں جو مقدمہ میں کام آسکے.اور مقدمہ کی ایک پیشی بھی سرمایہ بغیر بھگتی نہیں جاسکتی.اس لئے یہ مقدمہ میرے

Page 147

146 لئے سخت ابتلاء ہے.حضور خاص توجہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عورت کی شر سے بچالے.بھروسہ ہے تو صرف اس کی ذات بابرکات پر ہے.نرے ماڈی اسباب کارگر نہیں ہوا کرتے.بواپسی جواب (سے) سرفراز فرما دیں کہ کیا تجویز کی جائے.کیونکہ آج کل میں مقدمہ جاری ہونے والا ہے.د, دیگر عرض ہے کہ شیخ رحیم بخش صاحب کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ چراغ دین کی کتاب چھپوانے کے واسطے حضور نے سخت تاکید کی ہے.سو عرض ہے کہ میں مہتمم چھا پہ خانہ کے پاس اس غرض سے کئی دفعہ گیا ہوں.اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اب چھپنے کی تجویز ملتوی ہوگئی ہے.ان کے پاس روپیہ نہیں اور میں خود اس لئے نہیں چھاپتا کہ کوئی مفید کتاب نہیں.جو دست بدست فروخت ہو سکے.آخر میں نے اسے بہت کچھ طمع و ترغیب دے کر چھاپنے پر آمادہ کر لیا ہے.کل لاگت کوئی ۵۰ یا ۶۰ روپیہ تک ہوگی.جس کے ادا کر دینے کے واسطے میں نے اس سے عہد کر لیا ہے.کچھ کتب حق تصنیف میں دی جائیں گی.اور کچھ کتب مہتم چھاپہ خانہ کے نذر ہوں گی.اگر خریدار پیدا ہو جائیں تو باقی ماندہ کتب فروخت کر کے لاگت کا کچھ حصہ وصول ہو سکتا ہے.وہ نقلیں جو حضور کی خدمت میں ارسال کی گئی تھیں.وہ کاپی میں آگئی ہیں.کچھ مسودہ ادھر ادھر منتشر ہے.مہتم چھاپہ خانہ اس کے جمع کرنے کی فکر میں ہے.فیصلہ ہو جانے کے بعد ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیا جائے گا.دعا کریں کہ جیسے پہلے نقل حاصل کرنے میں خدا نے مجھے کامیاب کیا تھا.ایسا ہی اب بھی کامیاب کرے.جواب سے ممنون فرماویں.عاجز کا بڑا بچہ اور منجھلے سے چھوٹا بیمار ہے.اور عاجز کی اور عاجز کی بیوی کی صحت بھی درست نہیں ہے.حضور خاص توجہ سے دعا کریں کہ شافی مطلق پوری پوری صحت بخشے.والسلام عاجز قاضی عبدالرحیم.نقشہ نویس محکمہ نہر.جموں“ مورخہ ۲۶ مئی ۱۹۰۶ء میں نے اس میں کسی کی شکایت نہیں کی.اور نہ ایڈیٹر صاحب پریشا کی ہوں.جو کچھ مقدر ہوتا ہے.ہو گزرتا ہے.صرف اصلیت امر ظاہر کیا ہے.“ حضور علیہ السلام نے اس خط پر اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا:

Page 148

147 اس خط کو بہت محفوظ رکھا جائے اور اس کا جواب لکھ دیا جاوے کہ اب صبر سے خدا تعالیٰ پر توکل مرزا غلام احمد عفی عنہ“ * کریں.دعا کی جائے گی.والسلام اس مقدمہ کے متعلق یوں ہوا کہ عین اس تاریخ کو جس دن دعویٰ دائر ہونا تھا اور سب تیاری ہر طرح سے مکمل ہو چکی تھی.اس دن علی اصح پتہ لگا کہ وہ عورت اپنے آشنا کے ساتھ * غائب ہو گئی اور اس طرح ان مخالفوں کی ساری کارستانی پر پانی پھر گیا.اور میرے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت دعا اور حضور کی توجہ کی برکت کا ایک روشن نشان ظاہر ہوا.کیونکہ شہر کے تمام غیر احمدی مخالفوں نے بڑی کامیابی کی امید رکھتے ہوئے.اس منصو بہ کو کھڑا کیا تھا.اور مقدمہ ازالہ حیثیت عرفی دائر کرنے کے لئے قریباً پانچ صد روپیہ بھی فراہم کر لیا تھا.لیکن وہ سب لوگ مع عیسائی معاون کے خائب و خاسر ہوئے.فاعتبرو آیا اولی الابصار حضرت مسیح موعود کیا خوب فرماتے ہیں: میں یقینا کہتا ہوں کہ ہمارا خدا وہ خدا نہیں جو اپنے صادق (بندہ) کی مدد نہ کر سکے.بلکہ ہمارا خدا قادر خدا ہے.جو اپنے بندوں اور...غیروں میں ما بہ الامتیاز رکھ دیتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو پھر دعا بھی ایک فضول شے ہو.“ (92) تیسرانشان : چراغ دین اور اس کے اہل وعیال کی تباہی کے یہ نشانات حضرت اقدس کی مبارک زندگی میں ظاہر ہوئے.ایک اور نشان اس کے چالیس بیالیس سال بعد ۱۹۴۷ء میں ظاہر ہوا.آپ کے فرزند قاضی بشیر احمد صاحب سناتے ہیں کہ ہمارا مکان جو دار البرکات شرقی میں تھا.۱۳ کتوبر ۱۹۴۷ء کو حملہ کے باعث اسے چھوڑ کر ہمیں بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پناہ گزین ہونا پڑا.دوسرے دن ایک سکھ نے جو میرا واقف تھایہ پیشکش کی کہ کوئی ضروری چیز گھر سے لانی ہو تو میں آپ کی رفاقت کرتا ہوں.آپ چلیں اور لے آئیں.چنانچہ میں گیا.اور جلدی میں وہ بستہ جس میں حضرت اقدس کا یہ مکتوب اور دیگر مکتوبات اور دادا جان اور والد ماجد کے روز نامچے تھے اُٹھالایا.گویا حضرت اقدس کے قلم مبارک سے جو یہ لفظ نکلے تھے کہ اس خط کو بہت محفوظ رکھا جاوے“ مکتوبات احمد یہ جلد ہفتم حصہ اول میں خاکسار نے اسے اول بار شائع کیا ہے.بلکہ بلاک بھی درج کیا ہے.

Page 149

148 اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص قدرت سے پورے کر دئیے.اور گوسارا گھر تو ہاتھ سے جاتا رہا.لیکن عجیب قدرت خداوندی نه صرف یہ مکتوب بلکہ اس کے باعث دیگر مکتوبات اور روز نامچے بھی ضائع ہونے سے محفوظ رہے.سبحان اللہ.اللہ تعالیٰ کیسی عجائب در عجائب قدرتوں کا مالک ہے.اس کے اذن کے بغیر ایک پتہ تک حرکت نہیں کرسکتا.جب محلہ جات خالی ہو گئے تو آنا فانا غیر مسلم مکانات میں ٹھس گئے اور لاکھوں میں سے ایک مکان بھی بمشکل تھا کہ کوئی ایسی چیز محفوظ رہتی.اور پھر ان قیامت سا اور روح فرسا حالات میں کون کسی سکھ پر اعتبار کر کے گھر جا سکتا تھا.یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی کہ اس نے ایک طرف وہ بستہ محفوظ رکھا.دوسری طرف اس سکھ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ ایسی پیشکش کرے.تیسری طرف قاضی صاحب کے دل کو تقویت دی.اور ان کو تحریک کی کہ یہ پیشکش قبول کر لیں.میں اسے اللہ تعالیٰ کی خاص قدرت اس لئے کہتا ہوں کہ قاضی بشیر احمد صاحب گھر لوٹے اور صرف یہی بستہ اٹھا کر واپس آئے.جس میں مکتوب مذکور تھا.گویا اسے محفوظ رکھنے کے اسباب اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے.جو مسبب الاسباب اور تمام قدرتوں کا مالک ہے.سوذ والعجائب خداوند کریم نے چراغ دین کے تعلق میں ایک جدید رنگ میں ہمارے ازدیاد ایمان کا سامان پیدا کر دیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.خاتمة الكتاب : قیام جماعت سے تین سال قبل ۱۸۸۶ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بمقام ہوشیار پور اسلام کی سربلندی اور ترقی کیلئے بہت دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول کرتے ہوئے آپ کی اولاد کے ذریعے اعلائے کلمتہ اللہ ہونے کی پیش خبری دی اور نہ صرف آپ کی اولا د بلکہ آپ کے خالص محبوں کو بھی برکات دینے اور معاندین کو نا کام کرنے کا وعدہ فرمایا.چنانچہ اس وحی الہی کا ایک حصہ یہ ہے.اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے نا کام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور نا کامی اور نا مرادی میں مریں گے......میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا.اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا.اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے.جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا.اور فراموش نہیں کرے گا.اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے.“ (93)

Page 150

149 قارئین کرام ! اس کتاب کے ختم کرنے سے پہلے میں اس پر عظمت و جلال وعدہ اور پُر ہیبت وعید کی طرف آپ کی توجہ منعطف کرتا ہوں جو آپ اور اق سابقہ میں مطالعہ فرما چکے ہیں.كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی اوراِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اِهَا نَتَكَ وَ إِنِّي مُعِيُنٌ مَنْ اَرَادَ إِعَانَتَكَ کے نشانات کس طرح حیرت انگیز طور پر پورے ہوئے.خود حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کے خاندان میں قاضی ظفر الدین اور ان کے اقارب معاندین میں شامل تھے.حضرت اقدس نے قاضی ظفر الدین اور بعض دیگر دشمنان سلسلہ کے متعلق اپنی عربی نظم میں تحریر فرمایا تھا کہ میں ان کے سر میں تکبر کے کیڑے دیکھتا ہوں اور اگر خدا چاہے تو وہ کیڑے نکال دے گا.اور ان کو جڑھ سے اکھاڑ دے گا.(94) نیز فرمایا تھا کہ : اگر اب بھی مخالفوں نے عمداً کنارہ کشی کی تو نہ صرف دس ہزار روپے کے انعام سے محروم رہیں گے بلکہ دس لعنتیں انکا از لی حصہ ہوگا.‘ (95) یہ نشان آپ کے ملاحظہ میں آچکا ہے کہ کس طرح قاضی ظفر الدین کے خاندان کے ایک ایک فرد کو ذلت وخواری سے سابقہ پڑا.اور وہ مور دقبر و عتاب الہی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ کا مقابلہ کرنے کی پاداش میں اس گھرانہ کا استیصال کر کے اس کا نام ونشان تک صفحہ ہستی سے مٹادیا.اور انہیں گذشتہ انبیاء کے مکد بین کی طرح فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةٌ کا عبرت انگیز مرقع بنا دیا.فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ! اس خاندان کا جو حصہ حضرت اقدس کے خالص اور دلی محبوں میں شامل ہوا.اللہ تعالیٰ نے اس کو خاص برکات و فیوض عطا کئے.اور خدمات اسلام کی نمایاں توفیق عطا کی.اس گروہ میں ہمیشہ خشیۃ اللہ تقوی اللہ الہیت عشق الہی.الحُبُّ وَ الْبُغْضُ لِلَّهِ - مسابقت فى الخیرات.انفاق فی سبیل اللہ.دنیا سے بے رغبتی.غرضیکہ اسلامی مناقب اور اخلاق اور اللہ تعالیٰ کا زندگی بخش تعلق اور اس کے نشانات اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے سے إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ کے مطابق شاندار نمونے سامنے آتے ہیں.حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ حضور کے دعویٰ سے بھی چارسال پہلے وابستہ ہو چکے تھے.اور انتہائی عقیدت رکھتے تھے.پھر دعوئی کے آغاز ہی پر السَّابِقُونَ الْأَوَّلُون میں شامل ہونے کا آپ کو شرف حاصل ہوا.آپ اور آپ کے دونوں بیٹوں کو ۳۱۳ صحابہ کے مقدس گروہ میں شمار ہونے کی فضیلت حاصل ہوئی اور مالی اور تبلیغی جہاد کی توفیق پائی.حضور نے بتا کید آپ کو ہجرت کی تلقین فرمائی.چنانچہ آپ

Page 151

150 ہجرت کر آئے اور دارالامان کی بابرکت بستی اور حضرت امام الزمان کی روح پرور اور ایمان افزا مجالس سے مستفیض ہوتے رہے اور آپ کی روحانی حالت روز بروز ترقی کرتی گئی.اور آپ کی وفات سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی نیک عاقبت اور اللہ تعالیٰ کی رضاء کے حصول کی اطلاع دی گئی.چنانچہ حضور اپنی کاپی میں 9 / جنوری ۱۹۰۴ء کے تحت ذیل کی رؤیا لکھتے ہیں: میں نے دیکھا کہ گویا مبارک کے بدن پر کچھ لرزہ ہے.میں اس کو گولی دینا چاہتا ہوں اور باہر قاضی ضیاء الدین کھڑا ہے.میں چاہتا ہوں اس کو ایک روپیہ شیرینی لانے کے لئے دوں.(96) اس رویا میں بتایا گیا تھا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی عمر ابھی باقی تھی.گویا ان کی صحت کیلئے دوائی دی جاسکتی تھی.(چنانچہ صاحبزادہ صاحب اس کے بعد قریباً پونے چار سال تک زندہ رہے.اور ۶ استمبر ۱۹۰۷ء کو فوت ہوئے) لیکن قاضی صاحب کو صحت اور زندگی کے لئے کوئی گولی نہ دی گئی.کیونکہ ان کی زندگی کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا.ہاں یہ خبر دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کو حلاوتِ ایمان حاصل ہے.اور آپ کا انجام خیر (شیریں) اور عاقبت نیک اور محمود ہوگی.چند ماہ بعد قاضی صاحب مرض الموت میں مبتلا ہوئے.تو آپ کی درخواست دعا موصول ہونے پر حضرت اقدس نے آپ کی صحت کیلئے دعا فرمائی.اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ آپ وفات پاچکے ہیں.یہ خبر ایسے الفاظ میں ہے کہ جن سے ترحم اور شفقت مترشح ہوتی ہے.یہ مقدس اور پاک گروہ خالص اور دلی مجنوں کی وحی الہی کا اولین مصداق تھا اور حضوران کی تطہیر و تزکیہ کیلئے دست بدعا ر ہتے تھے اور ان کی تربیت بھی فرماتے تھے.یہ احباب برگزیده مسیح سے تازہ بتازہ وحی الہی سنتے اور زندہ معجزات و خوارق کا مشاہدہ کرتے تھے.بلکہ ان کے اپنے نفوس.خاندانوں اور وطنوں میں بھی ایسے معجزات ظاہر ہوتے تھے.اور ان کے ازدیاد ایمان اور اغیار پر محبت کا باعث ہوتے تھے.یہی وہ بزرگ تھے جو وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ کی آیت کے مصداق تھے.ان کی قربانیاں اور بے غرضانہ خدمات اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ والہانہ عشق ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا مثیل ثابت کرتا ہے.ان کا پاک نمونہ قیامت تک راہ سلوک طے کرنے والوں کیلئے مشعل راہ کا کام دے گا.اے اللہ ! تو اس پاک گروہ پر اپنے بے شمار فضل نازل فرما.اور ہمیں ان کا سچا جانشین بنا.آمین.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكُ وَ سَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ آمِيْن ثُمَّ آمِين.

Page 152

ا) الحکم ۳۴.۵.۷ 151 حوالہ جات (۲ (۳ (۴ (۵ (4 و) (1• 11) الله ترجمه از ریویو آف ریلیجنز انگریزی بابت ستمبر ۱۹۲۸ء طبع اول ص ۱۵۴٬۱۵۳ آئینہ کمالات اسلام حیات احمد ۲۴۸-۲۴۹ ضمیمه انجام آتھم ص ۴۱ ضمیمہ انجام آتھم ص ۴۱ الفضل ۵۲ ۵۴-۱۴ نزول اسیح ص۱۹۰.۱۹۱ ال, نزول ایح ص ۱۹۰ آئینہ کمالات اسلام ص ۲۸۹.۲۹۱ تذکر طبع ۱۹۶۹ ء حاشیہ ص ۹۱٬۹۰ ۱۳) الفضل ۱۴ / مئی ۱۹۵۲ء ۱۴) الحام ۷ مئی ۱۹۳۳ء (۱۵ رسالہ اشاعۃ السنة نمبر ۴ تا ۱۲ بابت ۱۸۹۰ء (۱۲) فتوی در تکثیر منکر عروج جسمی ونزول حضرت عیسی علیہ السلام.مطبوعہ اس ای در مطبع محمدی واقع مدراس طبع اول ص ۲۶ - ۷۷ ۱۷) اظہار خاوعه مسلمه قادیانی جواب اشتہار مصالحت پولیس ثانی الملقب به کشف الغطاء من ابصار اہل العمی ۱۳۱۹ھ ۱۹۰ء (١٨ حقیقته الوحی ص ۲۳۸ (۱۹) الحكم ١٩٠١ء /۴/ ۱۷ (۲۰) مکتوبات احمد یہ جلد ہفتم حصہ اول ۲۱) الحكام ۷/۵/۳۴ (۲۲) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم مکتوب نمبر ۶۶ ص ۱۸۹ ۲۳) مکتوبات احمد یہ جلد ہفتم حصہ اول

Page 153

(۲۴ (۲۵ سوره البقره آیت ۲۸۳ تذکر طبع ۱۹۶۹ء ص ۶۶۱ (۲۶) تذکر طبع ۱۹۶۹ء ص ۲۴۲ (۲۷) تذکر طبع ۱۹۶۹ء ص ۲۴۲ (۲۸ (۲۹ تذکر طبع ۱۹۶۹ء ص ۶۳۱ تذکر طبع ۱۹۶۹ء ص ۲۰۴ ۳۰) تذکر طبع ۱۹۶۹ء ص ۷۱۳ (۳۱ تذکر طبع ۱۹۶۹ء ص ۷۸۶ 152 ۳۲) الحکم ۷/۵/۳۴ ۳۳) الحالم ۴/۱۹۰۱/ ۱۷ ص ۱۶ ۳۴) الحكم ۱۹۰۱/ ۷ / ۷ اص ۱۹ (۳۵) الحکم ۵/۱۹۰۲/ ۳۱ ص ۲ حاشیه ۳۶) الحکم ۲۱ فروری ۱۹۳۶ء ۳۷) الحکم جلد ۱۸ نمبرا (۳۸) منصب خلافت و الفضل جلد انمبر ۴۵ ب ۳۹) الفضل ۱/۱۹۳۱/ ۲۷ ۴۰) در مشین.مناجات اور تبلیغ حق ۴۱) ہفت روزہ الرحمت مورخه ۲۰/۱۱/۵۰ ص ۱۲ (۴۲) مکتوبات احمد یہ جلد ہفتم حصہ اول ۴۳) نکاح کا اعلان الحکم مورخہ ۱۴ فروری ۱۹۰۸ء میں مندرج ہے.۴۴) الحکم ۷/۱۲/۱۹۲۰ ص ۲ (۴۵) رپورٹ صیغہ جات صد را نجمن احمد یه بابت ۴۳ - ۱۹۴۲ء ص ۵۵ (۴۶) الفضل ۱۲۳ کتوبر ۱۹۲۳ء ۴۷) الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۲۳ء (۴۸) الحکم مورخه ۳/۲۳/ ۲۸

Page 154

153 ۴۹) الحکم ۷ تا ۱۴ / اپریل ۱۹۲۳ء ۵۰) الفضل ۱۴/۸/۲۳ (۵۱ ملخص از الفضل ۱۴/۸/۲۳ ۵۲) الحکم ۲۱/۱/۲۴ ۵۳) الحکم ۲/۲۴/ ۲۱ ص ۷ ۵۴ رپورٹ قاضی صاحب مندرجہ الحکم ۱۴/۳/۲۴ ص ۵ ۵۵) الحکم ۱۴ فروری ۱۹۲۴ء ۵۶) الحام ۲۱/۴/۲۴ ص ۶ ۵۷) الحکم ۲۸/ اگست و ستمبر ۱۹۱۵ء ۵۸) الحکم ۲۱ اکتوبر ۱۹۱۵ء ۵۹ الفضل ۹/۱۵/ ۹ زیر مدینه امسیح (۶۰ (41 الحکم ۲۸/ اگست و ۷ ستمبر ۱۹۱۵ء الحكم ۱۸/ ۷ / ۲۸ ٦٢) الفضل ۴/۱۲/۱۹ ۶۳) الفضل ۱۳/۷/۵۷ ۶۴) الفضل ۲۶/۱/۵۸ ۶۵ الحام ۲۸/۸/۱۸ ۲۲) الحکم ۲۱ / ۲۸ مئی ۱۹۲۳ء ص۳ (۶۶ (72 ۶۷) الفضل ۱۷/۹/۵۷ (۶۸) الفضل ۵/۱۰/۵۷ ۶۹) الفضل ۲۷/۹/۵۵ص۲ (۷۰) اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ص ۱ (۱) تذکر طبع ۱۹۶۹ء ص ۶۷ (21 ۷۲) الحكم ۷/۵/۳۴ ص ۳ (۷) الحکم مورخه ۱۱/۱۸۹۹/ ۱۷ ص ۶

Page 155

154 ۷۴) الحکم ۲۱ فروری ۱۹۳۶ء (۷۵ بروایت قاضی عبدالسلام صاحب (۷۶ الحکم ۱۴/۲/۳۶ ۷۷) تذکر طبع ۱۹۶۹ ء صفحه ۸۱۶ ) سیرۃ المہدی روایت نمبر ۱۴۴ (۷۹) آئینہ کمالات اسلام ص ۵۶۹۵۶۸ ۸۰ اشتہار وغیرہ بحوالہ ایام صلح اُردو ص ۱۱۹ تا۱۲۲ 1) مکتوبات جلد پنجم حصہ اول ص ۱۳ جلد ص۱۳ ۸۲) الحکم مورخه ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۳ء ۸۳) الحکم ۱۷/۳/۱۹۰۳ ۸۴ تبلیغ رسالت حصه نهم (۸۵) اعجاز احمد می ص ۴۹ ۸۶) اعجاز احمدی ص۹۰ ۸۷ تتمہ حقیقت الوحی ص ۱۶۴ تا ۱۶۶ (۸۸) تذکره مطبوعه ۱۹۶۹ء ص ۴۲۴ (۸۹) بدر مورخه ۱۲ / اپریل ۱۹۰۶ء ۹) بدر مورخه ۱۹ / اپریل ۱۹۰۶ء تذکر طبع ۱۹۶۹ء ص۵۹۰-ص ۶۰۵ (۹۱ ۹۲) الحکم ۱۰ جولائی ۱۹۰۲ء ۹۳ اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ۹۴) اعجاز احمدی صفحه ۴۹ (۹۵ (97 ايضا صفحه ۹۰ تذکرہ ص ۵۰۳ طبع ۱۹۶۹ء

Page 156

۱۱۴،۳۹ ۶۷ ،۷۵،۷۳،۴۲ (0) اشاریہ اصحاب احمد جلد ششم مرتبہ - عبدالمالک اسماء پیر مہرعلی شاہ گولڑوی کوعربی تفسیر القرآن لکھنے کی دعوت آتھم (پادری عبد اللہ آتھم ) ۸۶،۲۳،۲۲ قاضی ظفر الدین کو اپنی کتاب ۱۳۴۷ میر ہان الدین صاحب تجلمی بشارت احمد ، ڈاکٹر اعجاز احمدی‘ کا جواب لکھنے کی دعوت ۱۳۵ بشیر اوّل، صاحبزاده ۱۴۸،۱۴۷ ، ۱۳۹ ،۱۲۷ ،۷۲،۷۱،۶۹،۲۵ ۱۱۱،۱۰۸ ،۹۱ ،۷۳ ۱۳۴،۱۲۲،۶۴ ۳۲،۲۱ چراغ دین جھونی کے عبرتناک انجام کی پیشگوئی ۱۴۱ بشیر احمد صاحب ، قاضی احمد دین صاحب احمد نور ، کابلی اصغر علی اصغر علی، شیخ ۵۰ ۷۹ ۱۳۵ ۷۵ ۱۳۲ بشیر احمد صاحب، مرزا ثناء اللہ امرتسری ، مولوی چ چراغ دین صاحب ، قاضی چراغ دین جمونی صاحب ۱۴۳،۱۴۲،۱۴۱، ۱۴۷ ،۱۴۶،۱۴۴ ۱۳۰ ۱۳۱ ۵۸،۵۷ ۷۵ ΔΙ ۲۴ ۱۲۰ ۱۰۸ ۱۲ ۱۴۶ حامد علی صاحب ، حافظ حامد علی شاہ صاحب خ , خدا بخش صاحب ،مرزا خدیجه بی بی صاحبة خواجه علی دلپز بر مولوی ڈگلس ، کپتان ڈوئی ( ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی ) راجپال رحمت اللہ رحیم بخش ، شیخ ۶۱ = ۱۳۲ ۲۱ ۴۵ ۱۲۶ ،۱۲۴،۱۲۰ ،۲۵ ۳۴ ۹۲ ۸۲ ،۵۸،۵۷ ،۵۱،۴۲،۵ ۸۲،۸۱،۸۰ ،۷۹ ،۷۵ ۱۱۸،۱۱۷ ، ۱۱۰،۸۳ ۸۹ ۱۴،۱۳ ΔΙ ۱۲۹ ۱۴۳ ۱۲۷ 2.۴۸ ۱۱۸ ۳۹ ۸۵ ٣٧،٣٦ آمنہ بی بی صاحبہ آمنہ بیگم ابراہیم، حکیم ابن حجر ابن قیم ، امام احمد ( حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود مهدی موعود ) ۸،۶، ۱۲،۱۱،۱۰،۹، اعظم بیگ، مرزا ، ۲۸ ،۲۵ ،۲۴،۲۳،۱۹، ۱۸ ، ۱۷ ، ۱۶ ، ۴۵ ،۴۲،۴۱ ، ۳۸ ،۳۴،۳۳،۳۲ ،۶۱،۶۰،۵۹،۵۴،۵۲،۵۱،۴۹ ،۸۹،۸۵،۸۰ ،۷۶ ،۷۵ ، ۶۴ ،۱۲۶،۱۲۵ ،۱۲۲،۱۲۱ ،۱۱۴ ، ۱۱۱ ،۹۵ ۱۵۰،۱۴۷ ،۱۴۴ ، ۱۴۲،۱۲۹ ، ۱۲۷ حضرت مسیح موعود کی قوت قدسیہ ۹ افتخار احمد صاحب پیر اکرم بیگ، مرزا اللہ دتا صاحب ،میاں اللہ یار ٹھیکیدارمیاں امام الدین ، مرزا امام الدین ، مولوی امان اللہ خان امتہ الحمید صاحبة امة الرحمن صاحبة امۃ الرشید صاحبه امية العزيز سعیده امة الكريم صاحبة ام طاہر صاحبہ ، سیدہ ام ناصر صاحبه، سیده اپنی بیسنٹ.مس بڑھائل ، لالہ برکت علی خان صاحب ، چو ہدری دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی وجہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز کا اجراء آپ کے مزار مبارک کی تعمیر ۳۹ ۶۸ دھوپ میں آپ کے ساتھ بادل کا ہونا ۱۰۲ آپ کی طبیبا نہ صلاحیتیں عید الاضحی پر خطبہ الہامیہ دینا ڈاکٹر ڈوئی کے نام خط میں اپنے نام کے ۱۱۵ ۱۲۰ ساتھ پرافٹ آف گاڈ لکھوانا کسی شخص کے دل میں چھے سوال کا جواب دینا ۱۲۱ قرآن کریم سے وابستگی ۱۲۴ ۱۲۸ ۱۳۰ طاعون کے متعلق پیشنگوئی مینارۃ ابیح کی بنیادی اینٹ رکھنا

Page 157

۵۷ ۵۳ ۵۵ ،۶ ۱۳۲ 11.۲۵ ۶ ΔΙ ، ۱۰۸ ،۹۰ و عیسی ( حضرت عیسی علیہ السلام ) غ غلام احمد ، شیخ غلام احمد صاحب، قاضی غلام اللہ صاحب، مرزا غلام حسین رہتاسی غلام دستگیر - حضرت مسیح موعود کو بد دعا ۸۱،۵۲ ۱۳۱،۳۸ ،۳۷ ۱۰۸،۱۰۵،۱۰۱۹۹ ۱۱۳،۱۱۲ ۴۵،۴۳ دینے کے نتیجہ میں ہلاکت غلام رسول غلام رسول صاحب، را جیکی غلام محمد صاحب - بی.اے فاطمه فاطمه بی بی فضل الہی صاحب ، حکیم فتح محمد ، چوہدری ۳۲،۲۰ ۳۱ ١٣١،١٣٠ ۵۴ ۵۷ ۱۴۰،۱۳۸،۱۳۷ ،۱۳۶ ۴۸ ، ۴۷ ،۱۲ ۱۲۵ ۱۲۷ ،۱۲۲،۱۱۷ ۱۸۹،۱۸۸ ۱۰۴،۱۰۳،۳۹ ۱۰۵ ۶۴ ۱۲۵ ۸۴ ۲۳ ۸۲ ۱۴۹ ،۱۴۸ ،۱۴۰ ، ۱۳۹،۱۳۸ ۶۳ ۸۹ ۳۴ ظفر اللہ خان صاحب چوہدری عائشہ بانو ۸۶،۴۰،۳۵،۳۲ ۱۲۱ ۸۵ ۵۶ ۱۳۰ ۳۲،۲۱ رکن الدین صاحب،میاں رشید الدین ،خلیفہ، ڈاکٹر سراج الدین ، قاضی سراج الحق صاحب نعمانی ، پیر ۱۷، ۲۸، ۲۹ عبدالاحد خانپوری ، مولانا سلطان احمد صاحب، حضرت مرزا ۱۲۲،۴۲ عبد الحق غزنوی عبد الحق صاحب منشی عبد الرحمن عبد الرحمن شیخ ۲۱ ۱۲۳ ۵۴ ۶۰ ،۲۱،۱۸ ،۱۲،۳ عبد الرحمن صاحب ، ماسٹر عبدالرؤف صاحب عبد الرحیم صاحب، قاضی ۱۱۳ ۱۴۲ ۱۴۰ ،۵۹،۵۳،۴۹ ،۴۴،۴۲،۴۱ ، ۳۰،۲۲ ۵۷ ،۶۸،۶۷ ،۶۵ ، ۶۴ ۶۳ ۶۲ ۶۱ ۶۰ ، ۷۶ ۷۵ ، ۷۴ ۷۳ ۷۲ ۷۱ ۷۰ ۶۹ ،۱۳۳،۱۲۴،۱۲۳،۱۱۰،۸۵ ،۸۱،۷۹ 112 ۱۴۶،۱۴۴ ،۱۴۲،۱۳۹،۱۳۵ ۹۱،۹۰، ۲۵ سلطان محمد صاحب، میاں سلطانو سلیمان سندر سنگھ سید احمد خان ، سر سیف الدین ، قاضی سیف اللہ خان ش شادی خان صاحب منشی شریف احمد صاحب ، مرزا شیر علی صاحب مولوی ۶۶،۵۴،۵۳،۱۰،۹، عبدالرحیم صاحب ، ماسٹر شوکانی ، امام صالحه بي بي صاحبة ۱۲۲،۱۰۷ ۳۷ ،۵۳،۵۲،۴۸ ، ۴۰ ۷۸ ،۷۷ ۷۶ ۷۵۰۵۵ صدیق حسن خان بھوپالی ، نواب ۳۱،۲۱، ۳۷ صدیق حس خان بھوپالی، نواب عبدالرحیم صاحب نیئر عبدالستار شاہ صاحب ، سید ۱۰۳،۱۰۲،۵۴ ۱۰۲،۸۹ ۲۲ فضل الحق صاحب ، سردار فضل الدین صاحب، حکیم فضل الدین صاحب، قاضی فضل الدین صاحب ، مولوی عبد السلام صاحب، قاضی ۶۰،۵۲،۵۱،۴۲، فضل دین صاحب ،مستری ۱۳۲،۱۲۷ ، ۱۲۴،۱۱۰،۸۴،۷۸ ،۷۴ ۷۳ عبد العزيز ۸۵ فیض احمد بھٹی فیض احمد خان فیض اللہ خان عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ، مولوی ۳۹،۲۷، ۱۴۵ ،۱۳۱ ،۱۲۹، ۱۱۹ ، ۱۱۸ ،۵۲ ۳۲ عبدالمنان ، حافظ ضیاء الدین صاحب، قاضی ۸،۷،۶،۵، ۹، ، ۲۰ ، ۱۹ ، ۱۸ ،۱۶ ،۱۴،۱۳ ،۱۲،۱۱،۱۰ ، ۳۰،۲۹ ،۲۸ ،۲۷ ،۲۳ ۲۲ ۲۱ عبد الله عبد اللہ صاحب سنوری ۸۵ فیض رحیم کرم داد کرم دین ،۴۰،۳۸ ،۳۷ ،۳۶،۳۵،۳۲ ، ۴۹ ،۴۸ ، ۴۷ ، ۴۵ ، ۴۴ ۴۳ ۴۲ ،۵۹،۵۸،۵۵،۵۴،۵۳،۵۱،۵۰ ،۱۱۰،۸۷ ،۸۶،۸۵،۸۰ ،۷۵،۶۵ ، ۱۲۷ ، ۱۲۳، ۱۱۹ ، ۱۱۵ ،۱۱۳ ، ۱۱۲ ۱۱۱ ۱۵۰،۱۴۹ ،۱۴۱ ، ۱۳۹ ، ۱۳۴ ، ۱۳۱،۱۲۸ b ظ ۱۰۹ عبداللہ غزنوی صاحب ۱۹،۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹، کلثوم با نو ۱۱۳٬۸۵،۳۰ مولوی محمد حسین بٹالوی کے متعلق خواب ۱۹، ۲۸ عبید اللہ ، قاضی عزیز الرحمن صاحب ۳۴ کمال الدین ، خواجہ کوریو کھڑک سنگھ عطاء محمد خان ،ڈاکٹر عطر الدین ، ڈاکٹر عظیم خان علی محمد مسلم عمر الدین ، ڈاکٹر ظفر الدین ، قاضی ۱۳۶،۵۷،۳۸، ۱۳۷، ۸۸۰۸۷ ۸۹ ۵۳ ۸۲ ۹۵ ۸۲ ال لیکھرام، پنڈت لیق احم مارٹن ، کلارک مبارک احمد ، قاضی

Page 158

ناصراحمد صاحب، مرزا ( حضرت خلیفہ اسیح الثالث) ۷۷ ناصر الدین عبداللہ صاحب ۸۹ ۴۴ ۴۳،۱۹ AL ۲۸ ۳۴،۳۲ ۱۲۵،۱۲۰،۱۰۳ ،۶۰،۵۹،۴۸ ۱۴۰،۱۳۹،۱۱۸ ۸۹ ناصر نواب صاحب ، میر ۹۱ ۸۶،۴۰،۳۵ ،۶۸،۶۶ ۱۲۰ ، ۹۱ ،۷۹ III محمد عبد اللہ خان محمد علی بو پڑی محمد علی خان صاحب ، نواب محمد علی صاحب ، مولوی ۶۶،۶۵، ۸۷، ۸۸ مجم الدین صاحب ، میاں ۳۰ نذیر حسین دہلوی ، سید نظام الدین ، قاضی نظام الدین ، مرزا نظیر حسن صاحب، قاضی نواب بی بی نورالدین صاحب، حکیم ( حضرت خلیفة المسح الاول) ،۶۱،۵۴،۴۵ ،۳۹ ، ۲۷ ، ۱۹ ، ۱۸ ،۷ ، ،۱۱۸ ،۱۱۶،۱۱۳۸۹ ،۷۶ ،۶۹ ،۶۶ نعمت اللہ خاں ، مولوی نور محمد خان ۱۲۹،۱۲۲،۱۲۰ ،۱۱۹ ۹۲ ۱۲۱ نہرو، پنڈت ولی اللہ شاہ ۳۷ ،۲۱ ،٣٢،١٩،٨،٦ ۱۱۱،۹۱،۴۹ ،۴۱ ۱۴۵ ،۱۴۲ ی یعقوب علی صاحب عرفانی یعقوب مسیحی ، پادری ،۳۷ ،۳۲،۲۰ ۵۰،۴۶ ،۴۰ ۶۰ محمد یوسف ، حا فظ محمد یوسف صاحب ، قاضی محمد نصیب صاحب محمود احمد صاحب ، مرزا ( حضرت خلیة السیح الثانی) مبارک احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا ۱۵۰،۱۰۹ محمد احسن امروہی ، سید محمد اسحاق صاحب، میر ۱۳۹،۶۶،۱۹ ۹۰،۸۲ ۸۹ ۱۲۵ ،۱۲۴ ۲۵ ۲۴ ،۲۷ ،۲۶،۲۴،۱۹ محمد اسماعیل محمد بخش عرف میاں مہندا محمد حسن بھین محمد حسن مرده محمد حسین بٹالوی ، مولوی ۱۳۵،۳۶،۳۳،۳۲،۳۰ ،۲۹ ،۲۸ محمد حسین ، ملک محمد خان وزیر آبادی، شیخ محمد رشید صاحب ، میر مینارة المسیح کا میر، نقشہ بنانا محمد شریف ، قاضی محمد صادق صاحب، مفتی ،۷۳،۷۱،۶۹،۶۶ ،۶۲،۲۵ ، ۷ 119 ،۹۳ ،۹۲،۹۱،۸۳ ،۸۱،۷۸ ،۷۴ ۴۸ ۱۳۰ ،۱۰۶ ،۴۳،۴۲ ۱۴۵ ،۱۴۲،۱۲۰ ، ۱۱۵ ، ۱۰۸ محمد ظہور الدین صاحب اکمل محمد عالم ، قاضی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی ۷۳ ۱۷ ،۵۳،۳۱،۲۱ ۱۱۴،۱۱۳،۱۱۲ ۱۲۳،۱۰۹ ،۱۰۷ ، ۱۰۱ ،۹۶ محمود احمد صاحب عرفانی محمود احمد صاحب، میر مختار احمد شاہجہانپوری مریم بی بی صاحبہ معراج الدین صاحب مکرمہ بی بی صاحبہ مولا بخش مولا بخش ، ملک ۱۱۷ ، ۱۰۸ ،۱۱ 1+9 ۸۳٬۸۲ ۵۸،۵۷،۵۵ ۴۵ ۵۷ ۱۲۱،۵۱،۳۵ ۱۳۱ محمد عبد اللہ صاحب ، قاضی ۱۴،۱۳،۵ ، ۲۱،۱۷، مہتاب علی خان ۱۳۶،۱۳۱،۸۰، ۱۳۷، ۱۳۹ ،۵۱،۴۵ ، ۴۴ ۴۲،۴۰ ، ۳۵ ،۳۲،۳۰،۲۲ ،۸۶،۸۵،۸۳،۷۲،۶۸ ،۶۷ ، ۵۳،۵۲ ،۱۰۳،۱۰۱ ،۹۵ ،۹۴ ،۹۲،۹۰،۸۹ ،۸۷ ، ۱۱۰ ، ۱۰۹ ، ۱۰۷ ، ۱۰۶ ، ۱۰۵ ،۱۰۴ ۱۱۸،۱۱۷ مهدی حسین صاحب، میر مہر علی شاہ گولڑ وی ، پیر محی الدین لکھوے والا میراں بخش میر محمد صاحب، قاضی ۱۰۱،۴۳ ۱۳۴،۲۵ ،۲۴ ۲۵ ۷۶ ۴۰

Page 159

،۲۹ ،۲۷ ،۲۱ ، ۱۹ ، ۱۷ ،۱۱ ،۹ ،۸ ،۵ گوجرانوالہ ۱۳۹،۱۳۷ ،۱۰۷ ،۵۹،۵۷ ،۵۶،۵۵ ، ۴۰ ،۳۱ ،۵۴ ۵۳ ۵۲ ۵۱،۲۹ ،۲۷ ،۱۸ گورداسپور الله الله الله له 167711 ،۵۶،۴۵ ،۳۹،۳۰،۲۲،۱۸ ،۱۶ الله الله له الله له له ٠٨١٨١٧٧ ۱۶،۱۰ ۱۰۹،۱۰۵ ۱۰۴ ۱۰۳ ۱۰۱۹۵،۹۲ ۱۰۵ ۱۰۸ ٩٣٩٠ الله الله له ۳۹ ۱۱۹ ،۱۱۰،۸۲،۷۸ ۳۹ ۹۳ ،۹۲۹۰۷۲ ۹۵ ۹۴ 70'17 ۱۳۲ ۱۱۰،۸۲ ۳۲۸ الله الله له الدام ۱۴۸،۱۱۰،۸۹،۶ ۵۶ ۱۰۹ ، ۱۰۰،۹۸ ،۹۷ ،۹۲،۳۹ ،۱۹ لاہور لدھیانہ لنڈن مارسلیز ماریشس متھرا مدراس مدینه منوره مشرقی افریقہ مکه مکرمه ملکانه منٹگمری منگھوال مہارا چکے چٹھہ نواں پینڈ نیروبی وزیر آباد ہندوستان ہوشیار پور ہر چوکے یوپی ۴۶ ۱۱۲ 102.79 IV مقامات ۷۸ ،۷۵ ،۷۰،۶۴ ،۷۲ ۷۱ ۷۰ ۶۹،۶۵،۵۹ ۱۰۹،۱۰۷ ،۸۴ ،۷۸ ،۷۳ ۹۴ ،۹۳ ۹۵ ۹۱،۵۴ ۱۲۸،۱۶ ۱۰۳ ۸۳ 3 ۳۹ 9° حاله 6 ۲۳ دھار یوال دھرم کوٹ ڈلہوزی راولپنڈی ربوه ساندھن ساہیوال سندھ سیالکوٹ سیلون شاہجہانپور علی گڑھ فرخ آباد فیروز پور ق قادیان ،۲۰،۱۹،۱۸ ،۱۷ ،۱۳،۱۰،۹۷ ، ولد لده 'لد لد لدله لدا ولده الله فا له له لهدا ()) ۱۳۰،۹۴ ،۹۳۹۰ ۱۳۲ ۱۰۵ ۹۲ ۱۲۹ ۱۰۳۱۰۲،۳۵،۳۴،۳۲،۳۰،۲۳،۶ ۱۲۰،۱۹ ۰۷ ۱۳۰،۹۳٬۸۶،۶۰ ، ۴۶ ، ۱۷ ، ۱۰ ۱۰۵ ۸۹ ۸۹ ۱۰۴۱۰۳ ۳۱،۲۰ ۵۵ ۸۵ Al ۹۰،۸۴،۷۸،۶۴۶۰ ۹۳ ،۶۲،۶۱،۶۰،۵۹ ،۵۷ ،۵۶،۵۴،۵۳٬۵۲ ،۷۶،۷۵ ، ۷۲،۷۱ ،۷۰ ، ۶۹ ،۶۸ ،۶۷ ،۶۵،۶۴ ،۸۹،۸۸ ،۸۶،۸۳٬۸۲،۸۱ ،۷۹ ،۷۸ ،۷ ،۱۱۲،۱۰۹،۱۰۳،۱۰۲،۹۶،۹۵ ،۹۳ ۹۱،۹۰ الله ٠٧٦ 1+9 ،۷۶،۶۸،۶۱،۶۰،۵۹،۵۳۶ آگرہ احمد آباد اٹلی افغانستان اکھنور امرتسر امریکہ انگلستان اوگی بٹالہ برائٹن بریلی بگول موضع بمبئی بوتالہ بھڑی شاہ رحمان بھوپال بھیرہ پاکستان جالندھر جرمنی جموں جنڈیالہ باغوالہ الله الله الله له الله الله الله له الله الله الله الله الله له الله الله ۱۴۰،۱۳۹،۱۳۷،۸۲،۵۷ ۱۲۷ ،۱۲۲،۱۸ الده الدله الله الله االلہ اللہ اللہ فااللہ اللہ ،۲۹ ،۲۷ ،۲۱،۲۰،۱۹ ،۱۳،۱،۸،۵ ۸۶،۵۹،۴۰،۳۸،۳۷ ،۳۵،۳۱،۳۰ 16701 ۸۹ ۴۰ ۲۱ ۵۴ > ³ ³ ³ ۱۰۵ ک قاضی کوٹ شمیر کدعہ کنری کوٹ کہلیاں کوٹ کیلاں کولمبو کھرل موضع ۹۱ ۹۳ ۳۱ ? 2 ۱۹ ۶۰ , Σ ۳۱ حیدرآباد (دکن) خیردی خانقاہ ڈوگراں دکن

Page 159