Language: UR
حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 1949ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ میں فرمایا : ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : <span class="quranic">اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ</span>۔ عام طور پر اس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مُردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کامعاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن درحقیقت اس میں قومی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے<span class="quranic"> اُذْکُرُوْا مَوْتیٰ بِالْخَیْرِ</span> نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے<span class="quranic"> مَوْتَاکُمْ</span> کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مُردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنی ہیں کہ آپؐ نے یہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں محترم ملک صلاح الدین صاحب نے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات شائع کئے جاتے تھے۔ رسالہ کانام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے تجویز فرمایا تھا۔ بعد ازاں بزرگانِ سلسلہ کی تجویز پر ان سوانح کو مفصل اور کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے جلسہ سالانہ میں آپ کی اس خدمت کاذکر کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور بعض ضروری نصائح فرماکر احباب جماعت کوصحابہ کرام کے حالات زندگی اور تاریخ کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ درجنوں صحابہ کے ابتدائی تعارف پر مشتمل زیر نظر یہ مجموعہ 12 جلدوں پر محیط ہے جو دیدہ زیب ٹائپ شدہ ہیں اور قریبا اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مفید سلسلہ کتب میں معزز مرحومین کی تصاویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری نقشے اور وضاحتی خاکے بھی بناکر شامل کئے گئے ہیں۔ صحابہ کی خود نوشت تحریرات یا مطبوعہ مواد پر مصنف کتاب کے شامل کردہ حوالہ جات اور ضروری وضاحتی حواشی نے کتاب کی افادیت کو اور بڑھا دیا ہے اور بلاشبہ یہ صرف صحابہ کے حالات زندگی ہی نہیں بلکہ جماعت احمد یہ کی تاریخ کا اہم ذخیر ہ ہے اور مصنف کی طرف سے جماعت کی ابتدائی تاریخ کا قیمتی خزانہ محفوظ کرنے کی ایک نہایت ہی قابل قدر سعی ہے۔
اصحاب احمد سیرت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مؤلف ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے
نام کتاب: مصنف: اصحاب احمد جلد پنجم ملک صلاح الدین ایم اے
۱۱۳ ۳۴۹ حصہ اوّل حصّہ دوم حصّہ سوم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَنُصَّلِيْ عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُود پیش لفظ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوانح آپ کے تصدیقی دستخطوں کے ساتھ محفوظ کرنے کا خاکسار کو ۱۹۴۷ء میں موقع مل گیا تھا.چنانچہ آپ کے سوانح کا خلاصہ خاکسار کی طرف سے جون ۱۹۴۷ء کے الفضل کی چند اشاعتوں میں چھپ چکا ہے اور اب تفصیلی حالات شائع کرنے کی بفضلہ تعالیٰ توفیق پا رہا ہوں.قارئین کرام کے علم کے لئے یہ گذارش ہے کہ جہاں کوئی حوالہ درج نہیں وہ امر حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ کا بیان کردہ ہے.آپ کا مقام رفیع : -1 آپ کا مقام رفیع ذیل کے امور سے ظاہر ہے :.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا داد فراست سے حضرت مولوی صاحب کو خاص فیضان کے قابل پایا.-۲ حضرت اقدس علیہ السلام کی نمائندگی میں آپ نے ۱۹۰۲ء میں بمقام مد مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے مباحثہ کیا جس کا حضور علیہ السلام نے اپنے اعجازی قصیدہ مندرجہ ” اعجاز احمدی“ میں ذکر فرمایا ہے.آپ اس مناظرہ میں کامیاب و کامران بطل جلیل ثابت ہوئے اور حضور نے رقم فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رُوح امین ( رُوح القدس) سے قوت دی اور حضور نے آپ کو دہاڑنے اور غرانے والا شیر قرار دیا.آپ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ آپ کی اقتدا میں بھی حضرت اقدس علیہ السلام نے نمازیں اور -٣ جمعے ادا کئے.۴.حضرت اقدس علیہ السلام کے عہد مبارک میں ہی آپ کی تفسیر رسالہ 'تعلیم الاسلام‘ اور پھر رسالہ ریویو آف ریلیجنز (اردو) میں شائع ہونی شروع ہوئی اور خلافت اولی کے دوران میں بھی شائع ہوتی رہی.
-۵ -Y سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالی بھی آپ کے شاگردوں میں سے ہیں.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سفر پر جاتے ہوئے بالعموم آپ کو امام الصلوۃ اور بعض دفعہ امام الصلوۃ کے علاوہ امیر جماعت بھی مقرر فرماتے تھے.-6 نظیم تھا.-^ آپ کا ایک بہترین کارنامہ عرصہ دراز تک بطور سیکرٹری بہشتی مقبرہ رہ کر وصایا کے صیغہ کا اہتمام و آپ ایک عرصہ تک مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر پھر جامعہ احمدیہ کے پرنسپل اور تا وفات سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مفتی رہے.- 1+ سید نا حضرت خلیفہ اسی اول کے فرزند مرحوم میاں عبدالحی صاحب آپ کے داماد تھے.آپ کے نواسے سید داؤ د مظفر صاحب ( خلف حضرت سید مودالله شاه برادر نسبتی سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ ) سید نا حضرت ممدوح سے شرف دامادی رکھتے ہیں اور سیدنا حضرت مدوح کے ایک اور برادر نسبتی محمد سعید صاحب آف جدہ حضرت مولوی صاحب سے دامادی کا تعلق رکھتے تھے.اس کتاب کے اخراجات مشرقی افریقہ کے مندرجہ ذیل محترم احباب کی طرف سے فراہم ہوئے ہیں :.استاذی المحترم قاضی عبد السلام صاحب بھٹی صدر جماعت احمدیہ نیروبی مکرم چوہدری مختار احمد صاحب ایاز احمد مکرم داؤد عثمان یعقوب صاحب، مکرم محمد اکرم صاحب غوری، مکرم عبدالعزیز صاحب بٹ ، مکرم عبدالرحمن صاحب قریشی ، محترمان محمد یوسف و محمد افضل صاحبان ، مولوی عبدالواحد صاحب جہلمی ، مکرم احمد دین صاحب اوورسیئر اور ڈاکٹر نذیر احمد صاحب خلف حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب ( مہر سنگھ ) نے خاص طور پر توجہ فرمائی ہے.علاوہ ازیں محمد عارف صاحب بھٹی، کبیر احمد صاحب بھٹی، لیق احمد صاحب ، چوہدری محمد شریف صاحب، سید محمد اقبال شاہ صاحب، بشیر احمد حیات صاحب مع اپنے پسر میاں رفیق احمد صاحب، قاری محمد یاسین صاحب، منظور حسن صاحب، محمد یا مین ندیم صاحب حسن محمد صاحب، محبوب صادق صاحب، افتخارا یا ز صاحب اور چوہدری بشارت احمد صاحب نے بھی اعانت فرمائی.فجزاهم الله احسن الجزاء في الدنيا والأخرة مجھے اس امر کا افسوس رہا کہ باوجود توجہ دلانے کے آپ کے شاگردوں میں سے کوئی بھی آپ کے متعلق قیمتی ،
جم تأثرات ارسال نہیں کر سکا.بعد ازاں جن کے تاثرات حاصل ہوئے ان کو طبع ثانی کے وقت شاملِ کتاب کر دیا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ قبل ازیں اصحابی کالنجوم کے مصداق قریباً سوا در جن صحابہ کرام کے سوانح شائع کر چکا ہوں.مقصود یہ ہے کہ نئی پود ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلے.صحابہ کرام سے یہ درخواست ہے کہ براہ کرم اپنے سوانح خاکسار کو شائع کرنے کے لئے ارسال فرما ئیں اور جو صحابہ وفات پاچکے ہیں ان کے اقارب ان کے سوانح محفوظ کرنے کے لئے بھجوائیں.احباب کی خدمت میں دعا کے لئے عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کام کو نیک نیت کے ساتھ باحسن طریق سرانجام دینے کی توفیق عطا کرے اور سارے سامان مہیا فرما دے.آمین.والله الـمـسـتـعـان وهو نعم المولى ونعم النصير خاکسار ملک صلاح الدین ایم.اے قادیان ۲۲ ستمبر ۱۹۵۷ء
فهرست عنوانات صفحہ نمبر σ 11 = ۱۲ ۱۳ 1 ۴ ۵ ۶ عناوین حصّہ اوّل سیرت حضرت سید سرور شاہ صاحب شجرہ نسب خاندانی جائیداد والد ماجد کوتحصیل علم کا شوق حضرت مولوی نورالدین صاحب کی شاگردی والد ماجد کی اہلی زندگی والد صاحب کا قادیان آنا اور بیعت کرنا آپ کا حلیہ قاعدہ شروع کرنا تعلیم چھڑا دینا تعلیم کا ایک اور محرک آپ کی پیدائش اور تعلیم حصول علم کے لئے گھر کو خیر باد کہنا تعلیم کے لئے الہی رہنمائی غیب سے مہمان نوازی آپ کی تلاش اور والد کی طرف سے پڑھائی کی اجازت
صفحہ نمبر L ۱۳ Im L ۱۴ ۱۵ ۱۶ 17 ۱۷ 1 1 1 1 5 > ۲۰ ۱۹ ۱۸ ۲۲ ۲۳ ۲۵ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۸ ۲۹ ¡¡ عناوین تحصیل علم کے لئے دانتہ چلے جانا غیر متقی استاد کو الوداع کہنا اللہ تعالیٰ کی رزاقیت کا نظارہ حصول علم کے لئے صبر واستقلال پشاور روانگی رزق غیب کا کرشمہ دوسرا کرشمه تیسر ا کرشمه ایک صاحب توجہ سے ملاقات ترک صحبت غیر صالح لاہور میں آپ کا قیام طب سیکھنا لاہور میں گزارہ کی صورت دہر یہ استاد کی وجہ سے لاہور چھوڑنا دیو بند میں کھانے کا انتظام تعلیم وتعلم دیو بند میں بعض مجلسی کام سالانہ امتحان امتحان میں کامیابی کے متعلق خواب نتیجه امتحان امیر گھرانے میں شادی کی پیشکش مراجعت وطن
صفحہ نمبر ۲۹ ۳۰ ۳۰ ۳۲ ۳۲ ٣٣ == عناوین ایک پرانا خواب اور اس کی تعبیر آپ کا تجر علم آپ کی اعلیٰ قابلیت اور مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کی مدرسی علماء زمانہ کی حالت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کہاں سے سُنا حضرت مولوی نورالدین کی خدمت میں حاضر ہونا حضرت مسیح موعود کے متعلق پہلا خواب مباحثه مابین حضرت مولوی نورالدین صاحب و مولوی محمد حسین بٹالوی حضرت مولوی صاحب کا سفر لدھیانہ اور مباحثہ لدھیانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اولین ملاقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق دوسرا خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق تیسرا خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق چوتھا خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پانچواں خواب آخری خواب کا اثر پھوپھی زاد بھائی کا بیعت کرنا علما پر آپ کے علم کا شدید رعب.ایک مولوی کا مباحثہ سے فرار اس بارہ میں رویا.حضرت اقدس کی تعبیر اور رویا کا پورا ہونا بیعت کے متعلق حضور سے استصواب آپ کا اعلان بیعت مخالفت پادری ڈے کا در پردہ مقصد ۳۴ ۳۷ ۳۹ ۴۰ ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ کے لالے کئے گئے حمام عام عالم لے لے کے کے گئے گنے کے حاله اي
صفحہ نمبر ۴۹ ۵۱ ۵۱ ۵۲ ۵۵ ۵۵ لا ۵۹ ۵۹ ۶۰ ۶۲ ۶۴ ۶۶ ۶۶ اے ۷۳ ۷۴ iv عناوین آپ کی بحث کے اثر سے پادری کا پاگل ہو جانا مشن کالج کی پروفیسری پشاوری میں ایک قابل قدر کام.اشتہار پیر مہر علی شاہ کا جواب پہلی دفعہ قادیان آنا نقشہ قادیان اور اسٹیشن خواب میں حضور علیہ السلام کا اپنی فراست سے مولوی صاحب رشد و سعادت پانا ایک مخالف کی یکطرفہ بد دعا.اس کا عبرتناک انجام آپ کے قتل کا منصو بہ اور الہی انتقام قادیان میں ہجرت قادیان میں واپسی اور ملازمت پہلی شادی دوسری شادی کے لئے تحریک نرینہ اولاد ہونا مباحثہ مد اور اس کی اصل وجہ مذ کو روانگی اور اس کی غرض مباحثه مد مباحثه مد دیگر کوائف مولوی ثناء اللہ کی لاف زنی مخالفین کی درندگی اور ہمارے احباب کا روح القدس سے تائید پانا مولوی سرور شاہ غراتا ہوا شیر.ثناء اللہ چیخنے والا بھیڑیا اور اس کی بہتان طرازی ثناء اللہ کی فساد انگیزی.اس کی بے عقلی کا مظاہرہ.ہمارے احباب کی دعائیں اور صبر
صفحہ نمبر LL ZA ΔΙ ۸۴ ۸۹ ۹۱ ۹۳ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۷ ۹۷ ۹۷ ۹۸ ۹۹ ۹۹ 10.: 10+ 1+1 ۱۰۲ ۱۰۴ V عناوین ثناء اللہ کو دعوت مباہلہ ثناء اللہ کی فریب دہی اور دشنام طرازی مباحثہ مد کے اعتراضات مجالس میں ذکر قصیدہ اعجاز احمدی کی تصنیف کا سبب اور تاریخ مباحثہ مد سفر میں عربی قصیدہ بنانا.منشی محمد یوسف سے خطاب اعجازی قصیدہ جس کا کوئی جواب نہیں لکھ سکتا دس ہزار روپے کا اشتہار اور دعوت مقابلہ اعجاز احمدی کا مزید ذکر اعجاز احمدی کے بعض شعر الہامی ہیں حضور کا اعجاز احمدی سنا اور مولوی صاحب و عرفانی صاحب کا اسے ثناء اللہ کوامرتسر پہنچانا سیر.اردسمبر ۱۹۰۲ء شحنۂ ہند کی لاف زنی عہد مبارک حضرت اقدس میں مولوی صاحب کی خدمات زیارت حضرت اقدس حضرت اقدس کی معیت میں سفر چنده مدرسہ سے تعلق امامت مسجد مبارک تشخیذ الا ذہان تفسیر قرآن وقف ایک نشان کے شاہد مولوی ثناء اللہ کا قادیان آنا
صفحہ نمبر ۱۰۵ 1+9 ۱۱۵ ۱۲۱ ۱۲۹ ۱۳۰ ۱۵۲ ۱۵۲ ۱۵۸ 171 ۱۶۳ ۱۶۳ ۱۶۸ ۱۶۸ ۱۶۸ 129 ۱۸۱ vi عناوین موضع مد کے متعلق پیشگوئی کا پورا ہونا حوالہ جات عرض حال نے تبصرے سیرت حضرت مولوی سید سر ورشاہ صاحب تاریخ ہائے بیعت و ہجرت و تقرری بطور مدرس نکاح ثانی محترمہ اہلیہ دوم کی خدمت دین حضرت خلیفہ اول کا سمدھی بننا دیگر اولا داور شجرہ نسب والد بزرگوار سید محمد صادق شاہ صاحب سید غلام حسین شاہ صاحب والد ماجد.اخوان واقارب میر جی سید سرور شاہ صاحب و اہلیہ محترمہ خدمات سلسلہ طائرانہ نظر میں در عہد مبارک حضرت مسیح موعود در عهد مبارک خلافت اولی در عهد مبارک خلافت ثانیه تقرری بطور امیر مقامی تقرر بطور امام الصلوۃ اور بالالتزام با جماعت ادا ئیگی نماز
صفحہ نمبر ۱۹۴ ۱۹۵ ۱۹۶ ۲۰۰ ۲۱۱ ۲۲۴ ۲۲۶ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۳۵ ۲۴۰ ۲۴۲ ۲۵۲ ۲۵۷ ۲۵۸ ۲۶۲ ۲۶۷ ۲۷۲ ۲۷۳ ۲۷۴ ۲۷۵ ۲۷۸ vii عناوین شرکت مرکزی و فود و اجلاس بابت ہندو مسلم اتحاد مالی خدمت تعلیمی خدمات جامعہ احمدیہ کا افتتاح افتتاح دار الاقامہ جامعہ احمدیہ ریٹائر منٹ جامعة الواقفین کا رئیس الاساتذہ مقرر ہونا خدمت بہشتی مقبرہ اور شوریٰ میں شمولیت لسانی خدمات آپ کا وقف اور تبلیغی و تربیتی مہمات قلمی خدمات تفسیر القرآن و درس الحديث والفرقان تائید و نصرت خلافت اور آپ کا قیام اطاعت فتنہ کے متعلق حضرت میاں صاحب کی رؤیا ان لوگوں کی از سر نو بیعت لیکن پھر بھی مخالفت پر قائم رہنا انجمن انصار اللہ کا قیام اور اس کی نصرت خلافت حضرت خلیفہ اول کا انتقال مکان اور ایک وصیت کا فرمان خلیفہ اول کی وفات انتخاب خلافت ثانیہ و اعلانات آپ کا اعلیٰ مقام یقین تائید خلافت میں آپ کی شہادت لسانی و قلمی تائید خلافت
صفحہ نمبر ۲۹۰ ۲۹۲ ۲۹۴ ۲۹۵ ۲۹۷ ۳۰۴ ۳۰۵ ۳۰۷ ۳۲۰ ۳۲۰ ۳۲۲ E ۳۲۴ ۳۲۴ ۳۲۴ ۳۲۵ ۳۲۶ ۳۳۵ ۳۳۷ viii عناوین انکشاف پیشگوئی مصلح موعود اور آپ کا اخلاص مرض الموت وفات حسرت آیات، جنازه و تدفین ایک قرار داد تعزیت وفات کے متعلق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی رؤیا آپ کی وفات پر شعرا کے منظوم کلام از اخویم عبداللطیف صاحب ظہور از اخویم مولوی ظفر محمد صاحب اذكروا ذكرموتاکم بالخير از غلام رسول صاحب را جیکی الفضل کے مرقومات ابتدائی حالات زندگی حضرت قمر الانبیاء کی نظر میں حضرت خلیفہ ثانی کی نظر میں ایک گوٹھ مولوی صاحب کے نام پر ایک تصنیف میں ذکر ایک خطبہ میں آپ کا ذکر اعلیٰ تقویٰ کا شوریٰ میں ذکر بعد وفات خطبه شان صحابه حوالہ جات
صفحہ نمبر ۳۵۱ ۳۵۳ ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۶ ۳۵۷ ۳۵۹ ۳۶۲ ۳۶۵ ۳۷۳ ۳۷۵ ۳۷۵ ۳۷۷ ۳۷۷ ۳۷۸ ۳۷۹ ۳۸۰ ۳۸۰ ix عرض حال تاثرات احباب از محترم مولوی محمد جی فاضل از اخویم سید محمد ہاشم صاحب بخاری از اخویم فیض الحق خان صاحب از محترم شیخ محمد دین صاحب پنشنر از اخویم شیخ اقبال الدین صاحب از حکیم محمد سعید صاحب از اخویم مولوی محمد اسماعیل صاحب از اخویم حاجی محمد ابراہیم صاحب خلیل از اخویم شیخ یوسف علی صاحب عرفانی از اخویم مولوی بشیر احمد صاحب بلا وجہ جمع نماز کی مخالفت شاگردوں کے حق میں دعائیں تو کل علی اللہ کا درس میرے لئے آپ کا استخارہ آپ کی مومنانہ فراست عناوین حصہ سوم حضرت خلیفہ امسیح الثانی سے آپ کی محبت اور قبل از وقت حضور کو مصلح موعود تسلیم کرنا ایک دیوانہ کے ساتھ خوش خلقی پبلک لیکچر پر میری حوصلہ افزائی قرآن مجید کے بہترین مفسر
صفحہ نمبر ۳۸۱ ۳۸۲ ۳۸۳ ۳۸۵ ۳۸۵ ۳۸۵ ۳۸۶ ۳۸۷ ۳۸۷ ۳۸۸ ۳۹۲ ۳۹۳ ۳۹۷ ۳۹۴ ۳۹۹ ۴۰۴ ۴۰۸ ۴۰۸ ۴۰۸ ۴۱۰ ۴۱۱ ۴۱۳ ۴۱۵ X عناوین حافظه و صحت بعض اہم نصائح از اخویم مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری فاضل از اخویم مولوی محمد احمد صاحب جلیل وضعداری کے ساتھ خاکساری انتہائی بے نفسی طالب علموں کی دلی خیر خواہی شاگردوں سے پدرانہ شفقت از اخویم مولوی عبد الکریم صاحب جہلمی از مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری از اخویم مولوی محمد سعید صاحب از اخویم مولوی عبدالواحد صاحب از محترم حکیم دین محمد صاحب از اخویم مولوی شریف احمد صاحب امینی فاضل از استادی المکرم مولانا ارجمند خان صاحب فاضل از مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل از لالہ دھرت رام صاحب از (آپ کے نواسے ) اخویم سید مسعود مبارک صاحب از اخویم مولوی محمد یسین صاحب از اخویم چوہدری ظہور احمد صاحب از اخویم مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل از اخویم مولوی عبدالمجید صاحب منیب ہلالپوری مربی ربوہ از اخویم مولوی صالح محمد صاحب فاضل
صفحہ نمبر ۴۱۷ ۴۲۰ ۴۲۰ ۴۲۳ ۴۲۴ ۴۲۶ ۴۲۷ ۴۲۸ ۴۳۰ ۴۳۵ ۴۳۵ ۴۳۶ ۴۳۷ ۴۳۷ ۴۳۹ ۴۴۰ ۴۶۸ ۴۶۹ ۴۶۹ ۴۷۰ ۴۷۲ ۴۷۵ xi عناوین از اخویم مولوی قمر الدین صاحب سیکھوانی فاضل از استادی المکرم حافظ مبارک احمد صاحب فاضل از اخویم محترم شیخ عبدالقادر صاحب از اخویم مرزا فتح الدین صاحب ربوه از (آپ کے نواسے ) اخویم کمال یوسف صاحب از ( آپ کے صاحبزادے) اخویم سید مبارک احمد صاحب سرور کھانے کا پروگرام وسمہ مہندی کا استعمال از اخویم مولوی سلیم اللہ صاحب فاضل عزم صمیم و غیره اخلاق فاضلہ بشیر آرچرڈ صاحب کا رویا نشانات دیکھنا شحنہ ہند کو دعوت جلسہ ندوۃ العلماء کے لیے وفد شیر به نظر غیر بطل جلیل و حریف ذلیل حضور کے سفروں میں رفاقت خاندان کی براتوں میں شمولیت ورزشی جسم حضرت خلیفہ اول کی نظر میں دورہ ہند حضرت صاحبزادہ صاحب کا شرف استادی حضور ایدہ اللہ کے سفروں میں رفاقت حضور کالندن سے مکتوب
صفحہ نمبر ۴۷۵ R ۴۷۹ ۴۸۰ ۴۸۱ ۴۸۲ ۴۸۳ ۴۸۸ ۴۸۸ ۴۹۴ ۵۰۳ ۵۰۷ ۵۳۹ ۵۴۰ ۵۴۱ ۵۴۶ ۵۴۷ ۵۴۷ ۵۴۸ xii عناوین تعبیر الرؤیا میں کمال بچیوں کی اعلیٰ تربیت مجلس عرفان کی بینچ ، آپ کی یادگار مصری صاحب کا بد انجام مکان کی خرید ، سلامتی کے فرشتے غیب سے آپ کی ایک خواہش کا پورا ہونا اللہ پر توکل اور اللہ کا تکلفل چھوٹی عمر میں خدمتِ جلیلہ از اخویم الحاج مولوی محمد سلیم صاحب فاضل از جناب مرزا عبدالحق صاحب از اخویم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب فاضل از اخویم چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه از مکرم عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ از اخویم چوہدری محمد شریف صاحب قبل ہجرت قادیان آمد ورفت دارا مسیح میں قیام حضرت اقدس کی صلوٰۃ روایات نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کے متعلق حدیث مولوی ثناء اللہ اور علماء کو اعجاز احمدی پہنچانا مولوی محمد سرور شاہ صاحب کی قسم پر اطمینان و فیصلہ حضور کا حلف اور ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی بیعت
صفحہ نمبر ۵۴۹ ۵۵۱ ۵۵۳ ۵۵۳ ۵۵۴ ۵۵۹ ۵۶۰ ۵۶۰ ۵۶۲ ۵۶۲ ۵۶۳ ۵۶۳ ۵۶۳ ۵۶۴ ۵۶۴ ۵۶۹ ۵۷۲ ۵۷۷ Xiii عناوین خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق رویا خواجہ کمال الدین صاحب کا مرض خواجہ کمال الدین صاحب کی مالی امداد قدرت الہی سے ایک بغیض کی بیعت حضرت منشی احمد جان صاحب کے متعلق اہل اللہ کا اثر مسیح سے مماثلت اور مہدویت کی برکت حضرت حسین کے متعلق بچوں کی تربیت نقص منہ پر بتا نا ضد کا باعث جب دوسروں کو بوجہ ممانعت گوشت نہ ملتا تھا تو حضور نے بھی اس عرصہ میں گوشت کھانا پسند نہ کیا اولاد کی خواہش کس حالت میں ہونی چاہیئے حسن اور رعب ہند و حضور سے حسن سلوک کی امید رکھتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال اطاعت نبوت حضرت مسیح موعود امام کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے چند ولال مجسٹریٹ کا ارادہ حبس اور حضور کا فرمانا کہ میں شیر ہوں، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ میں قید ہوں حضور کیسی جماعت تیار کرنا چاہتے تھے حضرت مسیح موعود کی نظر فیض اثر میں حضرت اقدس کا ارشاد
xiv عناوین مسح کے متعلق فتاوی حضرت مولوی صاحب بسم اللہ کی بجائے ۷۸۶ لکھنا بابت رہن سیونگ بنگ کے سود پر زکوۃ اور زیور کی زکوۃ کے متعلق فلاں کام کیا تو طلاق کیا مرہونہ مکان کا کرایہ لینا جائز ہے؟ کیا سارنگی فونوگراف وغیرہ سننا جائز ہے؟ خلیفہ وقت سے بھی پردہ لازم ہے؟ لائف انشورنس کمپنی کی ملازمت محکمہ آبکاری کی ملازمت مجزوم سے ضلع کیا بھڑوں وغیرہ کو تباہ کرنے کی غرض سے ان کے چھتے کو آگ سے جلانا جائز ہے؟ ایک ہی مسجد میں دوسری با جماعت نماز متوفی کی خاطر کھانا کھلانا کیا نا بالغ کا ولی طلاق دے سکتا ہے؟ کیا نابالغ لڑکے کا باپ طلاق دے سکتا ہے؟ کیا سونے کا دانت بنانا یا خول چڑھانا جائز ہے؟ کیا میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منانا جائز ہے؟ کیا یا رسول اللہ کہنا جائز ہے؟ کیا لڑکی والے شادی پر کھا نا دے سکتے ہیں؟ خلع کی درخواست کن کن حالات میں ہوسکتی ہے؟ صفحہ نمبر ۵۷۹ ۵۸۲ ۵۸۳ ۵۸۴ ۵۸۵ ۵۸۵ ۵۸۵ ۵۸۶ ۵۸۶ ۵۸۷ ۵۸۷ ۵۸۸ ۵۸۹ ۵۹۰ ۵۹۰ ۵۹۱ ۵۹۱ ۵۹۲ ۵۹۳ ۵۹۳ ۵۹۵
صفحہ نمبر ۵۹۶ ۵۹۷ ۵۹۷ ۵۹۸ ۵۹۹ ۵۹۹ ۶۰۰ ۶۰۱ ۶۰۳ ۶۰۳ ۶۰۴ ۶۱۱،۶۰۵ ۶۰۶ ۶۰۷ ۶۰۷ ۶۰۷ ۶۰۷ ۶۰۸ XV عناوین کیا منگنی نکاح کی قائمقام ہے؟ کیا عورتوں کی شہادت ہی کافی ہے؟ خلع و طلاق در جوع کیا مکان کی لاٹری جائز ہے؟ والدین کی علیحدگی میں اولا د کا حق حضانت کیسے حاصل ہے؟ پراویڈنٹ فنڈ اور سیونگ بنگ کا سود چا اور بھائی میں کون مقدم ولی ہے؟ لڑکیوں کو ورثہ کس وقت دینا چاہیئے ؟ کیا زیور مہر کا حصہ ہے؟ کیا غلطی سے گا بھن جانور کی قربانی ہونے پر کھانا جائز ہے؟ قرض کی زکوۃ کیا دو آدمیوں کا جمعہ جائز ہے؟ بابت رہن کیا ادھار کوسودا مہنگادینا جائز ہے؟ جس بیوی کو نان نفقہ نہ ملے تو کب نکاح ثانی کی اجازت ہے؟ حضرت عائشہ کی نیت سے نماز عورتوں کا مسجد میں نماز کے لئے آنا بطور حصول مرا دروزہ رکھنا عاشورہ کے دن کھانا کھلانا گیارہویں اور قبور پر کیئے ذبیح کا کھانا سجدہ تلاوت کے متعلق فتویٰ صف پر کپڑا وغیرہ بچھا کرنماز پڑھنا؟ کیا مسجد یا رفاہِ عام پر زکوۃ خرچ ہوسکتی ہے؟
xvi عناوین کیا مدعی بر قسم ہے؟ کیا نا جائز کمائی کا روپیہ نیک مصرف پر خرچ ہوسکتا ہے؟ کیا بندوق کا شکار حلال ہے؟ کیا نماز میں امام ادعیہ ماثورہ کے سواد عا ئیں باآواز بلند پڑھ سکتا ہے؟ کیا حرجانہ جائز ہے؟ کیا ز ررہن کے مطابق کرایہ لینا جائز ہے؟ عدت کا فلسفہ کیا خلیفہ وقت یا اس کا نمائندہ امامت کا زیادہ حقدار ہے؟ هُدًى لِلْمُتَّقِين اقتباسات تفسیر القرآن الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّانَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَاتُوا بِسُورَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ إِنَّ اللهَ يَسْتَحِي أَن يُضْرِب مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا يبَنِي إِسْرَاءِ يُلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِى نَفْسٌ عَنْ نَفَسٌ شَيْئًا لَا يُقْبَلُ.....وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ وَادْوَاعَدْنَا مُوسَى اَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذُ تُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَانْتُمْ ظَلِمُونَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلوى وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةِ.....وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ صحابہ کرام حوالہ جات تفصیل خا کہ مندرجہ برصفحه صفحہ نمبر ۶۰۹ ۶۱۰ ۶۱۱ ۶۱۲ ۶۱۲ ۶۱۳ ܬܙܖ ۶۱۹ ۶۲۶ ۶۳۰ ۶۳۳ ۶۴۳ ۶۴۶ ۶۴۷ ۶۴۹ ۶۵۲ ۶۵۳ ۶۵۹
اصحاب احمد حصّہ اوّل سیرت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مؤلف ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِ نَحْمَدُه وَنُصَّلِيْ عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ شجرہ نسب حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب آپ کا خاندان حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہے.اس خاندان کی شاخیں خانیار (کشمیر) ، داتہ ، سجیکوٹ، پیر کوٹ، پشاور، مظفر آباد ، جہانگیر آباد (دکن) ، گھنڈی ، نورسیری، کٹھائی، لباسی ،سند گراں، بوئی ، دینی ، ابنور اور سیالکوٹ میں پھیلی ہوئی ہیں.اس خاندان کے ایک درخشندہ گوہر اور مشہور بزرگ حضرت سید شاہ محمد غوث صاحب کا مزار لاہور میں ہے.مفتی غلام سرور لا ہور خزینۃ الاصفیاء جلد اوّل میں لکھتے ہیں کہ حضرت سید عبد القادر صاحب کی اولاد میں سے سید محمود البغدادی بغداد سے ٹھٹھہ کے علاقہ میں آئے.(صفحہ ۱۸۸) آپ کے دادا صاحب اور والدین کی قبور علی الترتیب مواضع کھوڑی اور گھنڈی میں معروف ہیں.آپ کے نانا سلطان محمد خاں کے بڑے بھائی قطب الدین خان سلطان تھے جو سکھوں کے ساتھ لڑائی میں مارے گئے.پھر چھوٹے بھائی محمد خاں سلطان ہوئے.محمد خان احمدی نہیں ہوئے البتہ ان کے بیٹے سلطان رحمت اللہ خان نے احمدیت قبول کی.قطب الدین خان کے دو بیٹے فتح محمد خاں اور ولی محمد خان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی سے قبل فوت ہو چکے تھے لیکن ان کی اولا د مخالف احمدیت تھی.ولی محمد خاں کے بیٹے اکرم خاں نے حضرت مولوی صاحب کو قتل کرانے کی کوشش کی تھی (اس کا ذکر بعد میں آئیگا ) حالات بالا اور حضرت مولوی صاحب کے والد ماجد تک شجرۂ نسب كتاب "القول الحكم في ثبوت السيادة وذر یہ غوث الاعظم مؤلفه سید مولوی فقیر شاہ بخاری ۱۳۳۷ھ سے حاصل کئے گئے ہیں.
شجرہ نسب سید عبدالقادر جیلانی سید میر حبیب شاہ منگلوری سید میروز میرالدین ما نگلوی سید تاج الدین ابوبکر عبدالرزاق سید عمادالدین میر ابوصالح نصر I سید زین العابدین مدفون سلطان پورضلع ہزارہ | سید محی الدین ابو نصر محمد سید عبدالله ( مدفون پشاور ) سید میر حاجی شاہ | سید میر شاکرشاہ سید محمد حسن شاہ سید ظہیر الدین ابوسعود میر شہاب الدین احمد ثانی سید ابوالبرکات محمود الحموی البغدادی سید حسن شاه سٹیڈسیف الدین ابوز کر یا یکی ثانی سیّد عبدالقادر ثانی I سید محمد صادق شاه ین ابو عبد الله محمد سید عبد الباسط سید علاؤ الدین علی سید شاہ حسین سید سرورشاه سید بدرالدین حسین سید شہاب الدین احمد ثانی | سید غلام حسین شاہ سید محی الدین میر شرف الدین یحیی ثالث سید شرف الدین قاسم سید حبیب اللہ شاہ
خاندانی جائیداد آپ کے خاندان کی جائیداد تین مقامات پر تھی.(۱) بمقام دانہ ضلع ہزارہ.یہ جائیداد کئی پشتوں سے چلی آتی تھی اور حضرت مولوی صاحب کے دادا صاحب نے اپنی دونوں لڑکیوں کو جو وہاں بیاہی ہوئی تھیں دیدی تھی.یہ جائیداد اس گاؤں کے پانچویں حصہ پر مشتمل تھی.(۲) بمقام لدرون (کشمیر) آپ کے پردادا صاحب نے ایک غیر سید غلام رسول نامی کو منہٹی بنایا ہوا تھا.جب انہوں نے لدرون کو چھوڑ کر گھنڈی میں مستقل طور پر رہائش اختیار کر لی تولد رون کا انتظام غلام رسول کے سپر د کر دیا.چونکہ وہ خاندانی نہیں تھا انتظام سنبھال نہ سکا اور کاشتکار اراضی پر قبضہ جماتے گئے اور خود مالک بن بیٹھے.جب حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کشمیر میں تھے تو آپ کے والد صاحب نے حضرت مولوی صاحب کے ذریعہ راجہ کو کہلوایا.راجہ نے کہا کہ اگر لدرون کے کا شتکار اس بات پر رضامند ہوں تو زمین دی جا سکتی ہے.چنانچہ سید محمد صادق صاحب جود نیوی رنگ میں ہوشیار تھے.سید جہانگیر اپنے بہنوئی کے ہمراہ وہاں گئے اور اس معاملہ کو اس طرح طے کیا کہ نصف زمین کا شتکاروں کو دے دی اور نصف اپنے قبضہ میں لے آئے.والد ماجد توتحصیل علم کا شوق دادا ان پڑھ تھے.اس لئے ان کے زمانہ میں خاندان کا سارا کتب خانہ ضائع ہو گیا.والد صاحب اکیلے بیٹے تھے اس محبت کی وجہ سے وہ آپ پر زیادہ بوجھ بھی نہیں ڈالنا چاہتے تھے.مگر ایک فارسی کا استاد گلستان پڑھانے کے لئے رکھا ہوا تھا جب اس شعر پر پہنچے.اول اندیشه و نگه گفتار پائے پیش آمد ست و پس دیوار تو استاد نے یہ ترجمہ کیا کہ پہلے سوچو اور پھر بات کرو.کیونکہ پاؤں آگے آتے ہیں اور دیوار پیچھے.مطلب پوچھنے پر استاد نے کہا کہ مطلب کوئی نہیں ہوتا.تم لفظوں کے معنے سیکھ لو.اس پر آپ نے کہا کہ اگر مطلب کچھ بھی نہیں تو میں پڑھتا ہی نہیں.میں تو مطلب کے واسطے پڑھتا ہوں.چنانچہ آپ نے پڑھنا چھوڑ دیا چھ ماہ کی انتظار کے بعد استاد نے سمجھ لیا کہ اب میرا یہاں رہنا بے فائدہ ہے.پڑھتے تو ہیں نہیں.والد صاحب کی عمر بائیس سال کی ہوئی اور ایک بیٹا بھی ہو چکا تھا اس وقت کا واقعہ ہے کہ اس علاقہ کے نواب جسے سلطان کہتے ہیں اس کا ایک وزیر امیر الملک نام تھا وہ بہت علم دوست تھا اور باوجود بڑھاپے کے کچھ
۴ نہ کچھ استاد سے پڑھتا رہتا تھا.اس نے یہ طریق اختیار کیا کہ جہاں بھی والد صاحب سے ملتے تو برسر مجلس کوئی مسئلہ پوچھتے.وہ جانتے تھے کہ آپ کو علم نہیں.جب آپ جواب سے عاجز رہتے اور شرمندہ ہوتے تو اور شرمندہ کرنے کے لئے کہتا کہ دیکھو جی.یہ ہمارے آلِ رسول ہیں جن کے گھر سے علم نکلا ہے.ہم اُمتی ہو کر اس علم کی قدر کرتے ہیں کہ اس بڑھاپے میں بھی پڑھتے ہیں اور یہ آلِ رسول ہو کر اور جوان ہو کر علم کی قدر نہیں کرتے.اس غیرت دلانے نے والد صاحب کو تحصیل علم پر آمادہ کیا.اس وقت دادا صاحب فوت ہو چکے تھے.کاروبار کا بوجھ آپ کے سر پر تھا.بایں ہمہ آپ ایک ایسے عالم کے پاس چند ماہ رہ کر پڑھتے رہے جو علاوہ کتابیں پڑھ لینے کے سات سال صرف فقہ اور اصول فقہ کے متن یا دکرنے کے واسطے اسی فن کے ماہر کے پاس رہے تھے اور پھر کچھ مہینے گھر پر کاروبار کے لئے گزارے.آخر استاد نے کہا کہ اب میں آپ کو نہیں پڑھا سکتا اور نہ اس ملک میں کوئی ایسا عالم ہے جو آپ کو پڑھا سکے مگر آپ کے شوق کی وجہ سے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خود کوئی استاد دے دے گا.حضرت مولوی نورالدین صاحب کی شاگردی چنانچہ آپ نے بہت تلاش کی کوئی عالم نہ ملا.آخر ایک دفعہ آپ جموں گئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری موجودگی میں حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میری طرف اشارہ کر کے سنایا کہ ان کے والد صاحب جیسا بے نفس عالم میں نے عمر بھر نہیں دیکھا اور یہ واقعہ بیان کیا کہ اس علاقہ کے سلطان جو حنفی تھے آئے ہوئے تھے اور میر صاحب (مولوی صاحب کے والد صاحب) بھی ساتھ تھے.میں اہل حدیث مشہور تھا.سلطان نے میرے ساتھ فاتحہ خلف الامام کے متعلق بحث کرنا چاہی.میر صاحب نے اس کی طرف سے بطور مناظر بات چیت شروع کی.ابھی کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تھی جس سے میں یہ محسوس کرتا کہ ان کا پہلو کمزور ہو گیا ہے کہ اسی اثنا میں میر صاحب نے کہا کہ آپ کے پاس بلوغ المرام ہے.میں نے سمجھا کہ کسی حدیث سے استدلال کرنے کے لئے کتاب درکار ہے اور کتاب منگوا دی.میر صاحب نے چادر کندھے سے اتار کر آگے رکھی اور اوپر کتاب کھول کر رکھ دی اور کہا کہ مولوی صاحب مجھے سبق پڑھائیے.میں نے سمجھا کہ تمسخر کرتے ہیں.مجھے غصہ میں دیکھ کر سمجھے کہ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا اور کہا کہ مولوی صاحب میں سچ سچ پڑھنا چاہتا ہوں.میں نے کہا.آپ تو بحث کر رہے تھے.کہنے لگے کہ بحث کرنے والے کرتے رہیں گے.مجھے تو استاد مل گیا ہے.میں اپنا کام کرونگا.چنانچہ آپ نے مجھ سے بلوغ المرام اور بخاری شریف پڑھی.
3 والد ماجد کی اہلی زندگی آپ کے والد صاحب کی پہلی شادی نور اللہ شاہ سکنہ ٹیٹھو اڑ ضلع مظفر نگر کی لڑکی سے ہوئی.دوسری شادی میرین صاحب سکنہ محلہ خانیار سرینگر کی لڑکی سے ہوئی.تیسری شادی سلطان قطب الدین خاں سکنہ موضع گھنڈی علاقہ مظفر آباد کی بیٹی سے ہوئی.چوتھی شادی خانمی کشمیری سکنہ گھنڈی سے ہوئی.پہلی شادی سے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے بڑے بھائی سید حسن شاہ صاحب پیدا ہوئے.قادیان کبھی نہیں آئے.خلافت ثانیہ میں بمقام گھنڈی فوت ہوئے.ان کی قبر معروف ہے.ان کی اولا د صرف ایک لڑکی رضیہ بیگم ہے جو حضرت مولوی صاحب کے بیٹے سید ناصر احمد صاحب سے بیا ہی ہوئی ہیں.دوسری والدہ سے کوئی اولا دزندہ نہیں رہی.تیسری اہلیہ سے سید محمد صادق صاحب اور حضرت مولوی صاحب اور سید غلام حسین شاہ صاحب ہیں.جب حضرت مولوی صاحب اپنے پھوپھی زاد بھائی سید سرور شاہ صاحب کی شادی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کشمیر گئے تو حضرت مولوی صاحب کی تبلیغ سے سید حسن شاہ صاحب وسید محمد صادق صاحب دونوں بھائیوں نے تحریری بیعت کی.سید محمد صادق صاحب خلافت ثانیہ میں ایک دفعہ قادیان آئے تھے اور جب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کشمیر تشریف لے جاتے رہے تو وہاں بھی ملاقات کے لئے آتے تھے.۱۹۴۶ء میں بمقام لدرون فوت ہوئے اور وہاں ان کی قبر معروف ہے.سید غلام حسین شاہ صاحب حضرت مولوی صاحب کی شادی کے جلد بعد قادیان آئے اور بیعت کر لی اور سوا سال کے قریب قادیان میں قیام کیا.اس کے بعد قادیان آنے کا موقع نہیں ملا.خلافتِ اولیٰ میں فوت ہوئے.ان کا ایک ہی لڑکا سید محمد امین ہے.جب حضرت مولوی صاحب کی والدہ فوت ہونے لگیں تو انہوں نے اپنے خاوند کو تاکید کی کہ میرے بچے چھوٹے ہیں گھر میں جو دائی کا کام کرتی ہے آپ اس سے شادی کر لیں تا کہ بچے پرورش پا سکیں.چنانچہ ان کی وفات کے تین دن بعد والد صاحب نے دائی سے شادی کر لی.اس سے سید حبیب اللہ شاہ صاحب پیدا ہوئے.یہ والدہ والد صاحب کی بیعت کے وقت زندہ تھیں.معلوم نہیں انہوں نے بیعت کی تھی یا نہیں.سید حبیب اللہ شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں قادیان آئے بیعت کی اور سید محمد امین صاحب قادیان میں زیر تعلیم تھے بھاگ کر لاہور غیر مبائعین کے پاس چلے گئے.پھر ان سے بھی علیحدہ ہو گئے تھے.مظفر آباد میں بطور سیاسی لیڈر کام کرتے رہے.طباعت کتاب ہذا سے چند ماہ قبل فوت ہو گئے ہیں.مولف
۶ حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ سے طب پڑھتے رہے.ان کی اولا د صرف ایک لڑکا سید عبد العزیز اور ایک لڑکی تھی.چار سال قبل (۱۹۴۳ء کے قریب ) موضع گھنڈی میں فوت ہوئے.افسوس ہے کہ غیر مبائع ہو گئے تھے.والدصاحب کا قادیان آنا اور بیعت کرنا آپ کے وطن میں ایک امیر شخص خواجہ محمد جو تھا.وہ بیمار ہوا.والد صاحب نے علاج کیا اور بعض پر ہیز کی باتیں بتا ئیں اور کہا کہ اگر پر ہیز توڑنے سے بیمار ہوئے تو پھر میں علاج نہیں کر سکونگا.بلکہ صرف حضرت مولوی نور الدین صاحب علاج کر سکیں گے.والد صاحب چونکہ احمدیت کے مخالف رہے تھے.ادھر حضرت مولوی نور الدین صاحب سے حد درجہ کی محبت رکھتے تھے.اس لئے اس بہانہ سے ملاقات کے خواہاں تھے.صحت ہونے پر اس شخص نے بد پرہیزی کی اور پھر بیمار ہو گیا اور والد صاحب کو بتائے بغیر علاقہ کے سلطان رحمت اللہ خاں صاحب اور مولوی صاحب کے ماموں زاد بھائی محمد اکرم کو لے کر پہلے کسی بہانہ سے پشاور گیا.پھر کہا چلو راولپنڈی ہو آتے ہیں.پھر کہا کہ امرتسر تجارت کا مرکز ہے وہاں چلتے ہیں اور امرتسر آئے.وہاں سے قادیان آنے کا ارادہ کیا.سلطان صاحب تو واپس چلے گئے باقی دونوں قادیان آئے اور حضرت مولوی سرور شاہ صاحب انہیں حضرت مولوی صاحب کے ہاں ہی لے گئے.حضرت مولوی صاحب نے سلطان صاحب کے امرتسر سے واپس چلے جانے کو نا پسند کیا (سلطان صاحب احمدی ہیں اور زندہ ہیں.راجہ عطا محمد صاحب یاری پورہ کے داماد ہیں راجہ صاحب انہیں رشتہ نہیں دیتے تھے.والد صاحب وہاں گئے اور راجہ صاحب نے ان کی بات مان لی اور رشتہ ہو گیا ) محمد اکرم سخت متعصب تھا.مولوی سرور شاہ صاحب نے اسے مسجد مبارک دکھائی لیکن حضور کو اس نے نہ دیکھا.نہ نماز میں شامل ہوا.خواجہ محمد جو اور محمد اکرم واپس وطن پہنچے اور والد صاحب سے قادیان ہو آنے کا ذکر کیا.تو انہوں نے بہت بُرا منایا اور کہا کہ مجھے کیوں ساتھ نہ لیا ؟ کیا تم خیال کرتے تھے کہ میں تمہارے کرایہ پر جاؤ نگا ؟ میں نے اپنے کرایہ پر جانا تھا اور بجائے موضع گھوڑی سے گھر جانے کے سیدھے دانہ گئے اور اپنے بھانجے سید سرور شاہ کو لے کر قادیان پہنچے ان دنوں بارشیں ہو رہی تھیں.مولوی سرور شاہ صاحب کے گھر سے قادیان میں نہیں تھے.آپ نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو والد صاحب کے آنے کی اطلاع دی.حضرت مولوی نورالدین صاحب کا معمول تھا کہ درس قرآن مجید میں کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے لیکن برابر تین دن نہ آپ نے مطب کیا اور نه درس دیا اور سارا دن مولوی سرورشاہ صاحب کے کوارٹر میں جو آپ کو بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے شمالی حصہ میں
ملا ہوا تھا والد صاحب کے پاس بیٹھے باتیں کرتے رہے.تیسرے روز ظہر کے وقت مولوی صاحب مدرسہ احمدیہ کے دفتر میں جو اس کے مغربی گیٹ سے ملحق جانب شمال ہے بیٹھے تھے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے دُور سے ہی آواز دی اور کہا مبارک ہو.میر صاحب بیعت پر آمادہ ہو گئے ہیں میں کھانا کھانے جاتا ہوں.آپ انہیں مسجد میں لے آئیں.چنانچہ والد صاحب کو کھانا کھلا کر مولوی صاحب مسجد مبارک میں لے گئے.نماز کے بعد حضرت مولوی صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مولوی سرور شاہ صاحب کے والد بیعت کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ بیعت ہوئی ایک روز مزید ٹھہر کر والد صاحب لاہور چلے گئے.اس کے اگلے روز حضور علیہ السلام لاہور آخری سفر پر تشریف لے گئے.وہاں والد صاحب حضور کے پاس ایک دن ٹھہر کر وطن چلے گئے.اور چند روز بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہو گیا.والد صاحب پھر قادیان نہیں آئے اور ۱۹۱۰ء میں اپنے گاؤں گھنڈی میں فوت ہوئے.وہاں ان کی قبر معروف ہے.آپ کا خلیہ ☆ نهایت با وقار خوبصورت سفید چہرہ.اس پر مشترع خضاب لگی داڑھی.قد گو قدرے چھوٹا تھا لیکن آپ کی سنجیدگی اور وقار اور ساتھ ہی انکسار اور حلیمی چال اور قال اور حال میں ہر طرح سے ظاہر تھی.جسم گٹھا ہوا مضبوط تھا.آخری چند سالوں میں زیادہ بڑھاپے کے باعث خضاب لگا نا ترک کر دیا تھا.قاعدہ شروع کرنا آپ کی پیدائش اور تعلیم حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کا بیان ہے کہ آپ ۱۹۴۷ء سے اندا ز آبا نوے سال قبل موضع ۵-۳-۴۷ کو خاکسار کے دریافت کرنے پر مکرم شیخ محمد نصیب صاحب نے بتایا کہ مجھے مولوی صاحب کے والد صاحب کا قادیان آنا یاد ہے لیکن بیعت کے متعلق یاد نہیں.اس کے بعد حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سے دریافت کیا آپ نے بتایا کہ ان کا قادیان آنا اور بیعت کرنا مجھے یاد ہے اور ۴۷-۳-۶ کو حضرت مولوی شیر علی صاحب نے پوچھنے پر بیان کیا کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے مولوی صاحب کے والد صاحب کا تعارف حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مسجد مبارک میں کرایا تھا.بیعت کے متعلق یاد نہیں.مؤلف
گھنڈی ضلع مظفر آباد کشمیر میں پیدا ہوئے.* قریباً ساڑھے چار سال کی عمر میں آپ کو پڑھنے کے لئے بٹھایا گیا.بغدادی قاعدہ کے بعد دس ماہ میں آپ نے قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیا.حالانکہ یہ استاد عام طور پر دو تین سال میں بچوں کو صرف بغدادی قاعدہ ختم کراتے تھے.یہ استاد مختار الدولہ وزیر کابل کے پوتے عبداللہ خان نام تھے.حضرت مولوی صاحب کے والد بزرگوار نے ان کی یتیمی کی حالت میں پرورش کی تھی اور خود ہی تعلیم دی تھی.والد صاحب نے عبد اللہ خان صاحب کو یہ نصیحت کی تھی کہ میرے اس بچہ کو بالکل نہ ماریں.میرے دوسرے بچوں کو آپ مارتے بھی ہیں پھر بھی وہ پڑھتے ہیں لیکن یہ نہیں پڑھے گا.کچھ دن تو انہوں نے اپنے تئیں ضبط کیا لیکن پھر مارنے کی عادت غالب آ گئی اور ایک دن انہوں نے غصہ میں آپ کی پیٹھ پر تسبیح ماری.اس کا یہ اثر ہوا کہ یہ تھا بچہ بالکل خاموش ہی ہو گیا.تین دن یہی حالت رہی.بالآ خر مجبور ہو کر استاد آپ کو والد صاحب کے پاس لے گئے.انہوں نے کہا کہ آپ نے ضرور بچہ کو مارا ہوگا.استاد نے واقعہ سنایا کہ مارا تو نہیں صرف تنبیہ کے لئے ایک تسبیح ماری تھی.والد صاحب نے کہا کہ میں نے تو پہلے ہی منع کیا تھا.آئیندہ کے لئے آپ یہ طے کر لیں کہ جب یہ سبق یاد کر لے چھٹی دے دیا کریں.خواہ چھٹی کا وقت ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو.تعلیم چھڑا دینا والد صاحب نے خیال کیا کہ دو بڑے بیٹے پڑھتے ہیں.اگر چھوٹے بچہ کو بھی تعلیم دلائی تو زمینداری کا کام کون سنبھالے گا.اس لئے انہوں نے آپ کو زمینداری کے کام کی خاطر پڑھائی سے ہٹا لیا اور غالبا یہ فیصلہ اس لئے بھی کیا کہ مولوی صاحب کی زبان میں اس وقت لکنت تھی.باوجود اس کے آپ اپنے بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر سبق سن لیتے تھے.وجہ یہ ہوئی کہ آپ کے بڑے بھائی کچھ گند ذہن تھے.انہیں جب تک تین چار بار سبق نہ کہلایا جاتا ، یاد نہ ہوتا اور والد صاحب اور استاد صرف ایک بار سبق کہلاتے.اس وجہ سے انہیں یاد نہ ہونے کی وجہ سے مار پڑتی لیکن مولوی صاحب کو ایک دفعہ کہلانے سے ہی سبق یاد ہو جاتا.بعض اوقات آپ کا بھائی کوئی چیز دے کر آپ کو پاس بیٹھنے پر آمادہ کرتا اور بعد میں آپ سے سبق دو ہرا لیتا.انہی ایام میں آپ کے والد ایک دفعہ ہزارہ گئے.ان کی غیر حاضری میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ مولوی عمر کے متعلق تحقیق انشاء اللہ تعالیٰ اس کتاب کے آخر میں دی جائیگی.مؤلف
۹ صاحب نے انہیں اس کی اطلاع دینی ضروری سمجھی لیکن آپ یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ اس کے مضمون سے کوئی دوسرا آگاہ ہومگر آپ نے لکھنا سیکھا نہیں تھا.گو اسباق کی وجہ سے اتنی فارسی آتی تھی کہ اپنا مافی الضمیر ادا کرسکیں اور فارسی میں ہی ان دنوں خطوط لکھنے کا رواج تھا.آپ نے یہ ترکیب کی کہ سامنے گلستاں کھول کر رکھ لی اور جو لفظ لکھنا ہوتا اس میں سے تلاش کر کے اس کی سی شکل کا غذ پر بنالیتے.اس طرح خط مکمل کر کے نوکر کے ہاتھ والد صاحب کے پاس بھیج دیا.انہوں نے آپ کے بھائیوں کو سرزنش کی کہ تمہیں استاد اور میں بھی با قاعدہ پڑھاتے ہیں لیکن تمہیں ابھی تک خط لکھنا نہیں آتا.لیکن جسے کوئی نہیں پڑھا تا اس نے ایسا عمدہ خط لکھا ہے بعد ازاں ایک اور واقعہ یہ ہوا کہ والد صاحب آپ کے بڑے بھائی سے مغرب کے بعد صرف میر کا سبق سنتے تھے.ایک روز وہ سبق سُناتے ہوئے ایک جگہ اٹکے.والد صاحب نے پھر شروع سے سُنانے کے لئے کہا لیکن وہ پھر بھی اسی جگہ اٹک گئے.پھر والد صاحب کے کہنے پر تیسری دفعہ جب شروع سے سُناتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تو مولوی صاحب کے منہ سے بے ساختہ وہ لفظ نکل گیا کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ اس دفعہ بھی بھائی رُک گئے تو مار پڑے گی.اس سے والد صاحب بہت متعجب ہوئے اور پوچھا کہ تمہیں کس طرح آ گیا.آپ نے کہا کہ مجھے سبق ایک دفعہ سُننے سے یاد ہو جاتا ہے اور جب آپ پڑھاتے ہیں تو میں پاس بیٹھ کر سن لیتا ہوں.اس پر انہوں نے سبق سُنانے کو کہا جو آپ نے سُنا دیا.اس سے انہیں اس طرف توجہ ہوئی کہ آپ کو تعلیم دلانی چاہیئے.آپ میں یہ قابلیت پائی جاتی ہے.چنانچہ انہوں نے وعدہ کیا کہ میں تمہیں تعلیم کے لئے باہر بھیج دوں گا لیکن میں نے تمہارے بڑے بھائیوں کو کشمیر کی سیر کرائی ہے.اس دفعہ موسم گرما میں تمہیں وہاں دو تین ماہ کے لئے لے چلوں گا.تعلیم کا ایک اور محرک آپ کے بڑے بھائی جو بدن کے مضبوط تھے انہوں نے والد صاحب سے پوشیدہ شیر شاہ نامی پہلوان گشتی سیکھنے کے لئے رکھ لیا.والد صاحب کو علم ہوا تو آپ نے کہا.میں ایسی طبیعت کا ہوں کہ کسی فن کے سیکھنے سے منع نہیں کرتا بلکہ خوش ہوتا ہوں.لیکن یہ چاہتا ہوں کہ جو بھی فن آدمی سیکھے اس میں کمال پیدا کرے اور مبالغہ کے طور پر کہا کہ چوری میں بھی اگر کوئی کمال پیدا کرے تو باوجود یکہ یہ بُری چیز ہے لیکن کمال کی وجہ سے اس کی بھی تعریف ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ میں میری عزت قائم کی ہوئی ہے اور یہاں کے سلطان ، خان وغیرہ رئیس اس وقت تک بیٹھتے نہیں جب تک میں نہ بیٹھ جاؤں اور پھر بھی برابر نہیں بیٹھتے.اس کی محض یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے علم دیا ہے.اگر کوئی مسئلہ دریافت طلب ہو تو میرے فتویٰ کے بغیر انہیں تسلی نہیں ہوتی.
1.اگر کوئی بیمار ہو تو با وجود بیسیوں طبیبوں کی موجودگی کے مجھ سے استمزاج کئے بغیر انہیں اطمینان نہیں ہوتا.یہ اس وجہ سے نہیں کہ میں سیڈ ہوں کیونکہ میرے رشتہ دار جو موضع دنول میں رہتے ہیں ان سے بیگار اور ذلیل سے ذلیل کام لیا جاتا ہے اور ان کی کوئی عزت نہیں ہوتی.والد صاحب کی اس بات سے مولوی صاحب پر یہ اثر ہوا کہ میرے بھائی تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ تو والد صاحب کا مقام حاصل کر لیں گے لیکن میں موضع دنوں کے لوگوں جیسا بن جاؤ نگا.حصول علم کے لئے گھر کو خیر باد کہنا اس بات سے ایسی تحریک ہوئی کہ ایک رات بھی بسر کرنا دشوار ہو گیا.اس وقت آپ تیرھویں سال میں تھے.دوسری طرف خاندانی طریق یہ تھا کہ کوئی کام بھی خادم کی معیت کے بغیر نہیں ہوتا تھا.کھیت میں جانا ہو.نماز کے لئے مسجد میں جانا ہو ہمیشہ ساتھ نو کر ہوتا تھا اور آپ کے لئے میاں بگا ( والد مولوی سلیم اللہ صاحب مولوی فاضل حال اوکاڑہ منٹگمری) ملازم رکھے گئے تھے.آخر آپ نے یہ سوچا کہ چونکہ میں اکیلا نہیں جاسکتا اس لئے اسے اپنا ہمراز بناؤں.چنانچہ وہ راضی ہو گیا اور تین دن تک واپس آ جانے کے وعدے پر چھ کوس کے فاصلہ پر والدہ کو ملنے گیا.حضرت مولوی صاحب نے سوچا کہ سفر میں کچھ پیسے بھی ہونے چاہئیں.آپ کی والدہ بہت ضعیف ہو چکی تھیں اور چل پھر نہیں سکتی تھیں اس لئے نوکروں یا بچوں سے کام لیتی تھیں اور آپ ہی والدہ کارو پیدا ور قیمتی چیزیں رکھتے تھے.آپ نے ان میں سے اٹھارہ روپے لے کر زمین میں دفن کر دیئے لیکن وہ ایک ہفتہ تک واپس نہ آیا.آپ نے مایوس ہو کر رقم زمین سے نکال کر والدہ کی رقم میں رکھ دی لیکن اس شام کو وہ آ گیا.بچپن کی نا مجھی اور سفر کی تکالیف سے ناواقف ہونے کی وجہ سے دونوں صبح ہی صرف تن کے کپڑوں میں خالی ہاتھ نکل کھڑے ہوئے.اب خیال آیا کہ جائے مقصود کے لئے دریائے کاغان کا پل عبور کرنا ضروری ہے اور ان دنوں پل عبور کرنے کا محصول ایک پیسہ ہر ایک سے لیا جاتا تھا.اس وجہ سے محافظ پل عبور کرنے سے روک دیں گے.کم از کم دو پیسے ہونے چاہئیں اور بھوک بھی لگی ہوئی تھی.قصبہ گھوڑی میں سلطان رہتا تھا اور وہ اس علاقہ کا بازار بھی ہے.وہاں آپ کے خاندان کی کچھ زمین اور مکانات اور ایک گھراٹ ( پن چکی ) تھا.آپ نے اس گھراٹ والے سے کچھ مکی حاصل کر کے کچھ دانے بھنا لئے اور کچھ ملکی بیچ کر اڑ ہائی پیسے رکھ لئے.اس سے آگے کئی میل تک ایک پہاڑ پر چڑھنا پڑتا ہے یہ خیال کر کے کہ شاید کوئی تعاقب میں یہاں تک آ جائے تو ہمیں بھاگنا پڑے گا دونوں نے لنگوٹ کس لئے اور کپڑے ایک گٹھڑی میں باندھ لئے لیکن کوئی بھی تعاقب میں نہ آیا.
11 تعلیم کے لئے الہی راہنمائی رات دونوں نے گڑھی حبیب اللہ میں گزاری اور یہی ارادہ تھا کہ صبح اس پل کے پار جانا ہے لیکن خواب میں آپ سے ایک بزرگ نے کہا کہ تم تحصیل علم کے لئے نکلے ہو بہت اچھا کیا ہے.مگر میری یہ بات یاد رکھنا کہ اس پل سے پارمت جانا بلکہ جس طرف سے دریا آتا ہے اُسی طرف دریا کے کنارے چل پڑنا.آگے تھوڑے فاصلہ کے بعد خدا تعالیٰ خود تمہیں استاد سے ملا دیگا، اسی سے پڑھنا.چنانچہ صبح اس پل پر پہنچنے کے بعد آپ نے یہ خواب سنایا لیکن آپ کے ساتھی کو اصرار تھا کہ پل کے پار چلنا چاہیئے.اس کے اصرار کی وجہ یہ تھی کہ والد صاحب کے ہمراہ وہ اس پل سے چند میل کے فاصلہ پر داتا نام گاؤں میں جاتا رہتا تھا اور اپنے ہمعصر لوگوں سے اس کی واقفیت تھی لیکن باوجود اس کے کہ آپ کی دو پھوپھیاں بھی وہاں تھیں اور وہ رئیس لوگ تھے لیکن خواب کے اثر کی وجہ سے آپ کا دل بھی ادھر جانے پر بالکل آمادہ نہ تھا.چنانچہ آپ نے دریا کے کنارے اس کے بہاؤ کے خلاف چلنا شروع کیا اور جو راستہ میں ملتا اس سے دریافت کرتے.آیا آگے کسی گاؤں میں کوئی مولوی ہے؟ تھوڑے ہی فاصلہ پر کھیت میں سے ایک زمیندار نے آپ کو دیکھ لیا اور بصد اصرار گھر پر لے گیا کہ ہمارے ہاں کھانا کھا کر جائیں.پُر تکلف کھانا لایا اور کہا کہ میں آپ کے والد کو جانتا ہوں.میں آپ کو اس لئے لے آیا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ بھاگ کر آئے ہیں اور میں آدمی بھیج کر انہیں اطلاع دیتا ہوں لیکن آپ نے بصد منت اس سے جان چھڑائی.اس زمیندار نے بتایا کہ آگے ایک گاؤں کشترے ہے وہاں ایک مولوی نیا نیا پڑھ کر آیا ہے اور تعلیم دیتا ہے.چنانچہ دونوں وہاں پہنچے.طالب علم مسجد میں پنج گنج، گلستان، بوستان اور قرآن مجید پڑھ رہے تھے.معلوم ہوا کہ مولوی صاحب مانسہرہ گئے ہوئے ہیں اور دو تین روز تک آئیں گے.ایک طالب علم کو حضرت مولوی صاحب نے کچھ سبق پڑھایا.وہ نمبر دار کا بیٹا تھا.آپ نے اسے کہا کہ مجھے پیاس لگی ہوئی ہے تو اس نے کہا کہ پاس ہی دریا بہ رہا ہے آپ وہاں جا کر پانی پی آئیں.آپ نے میاں بگا کو کہا کہ آؤ چلیں.اس گاؤں والوں کے اخلاق گرے ہوئے ہیں.اس لڑکے کا مکان ساتھ ہی ہے.باوجود یکہ اس نے مجھ سے سبق پڑھا لیکن معمولی سے اخلاق کا بھی اظہار نہیں کیا کہ وہاں سے پانی لے آتا.اگر ہم یہاں رہے تو ہم بھی ایسے ہی بن جائیں گے.دریافت کرنے پر ان لڑکوں نے بتایا کہ چھ ساتھ کوس پر ایک تلہٹہ نامی گاؤں سیدوں کا ہے اور وہاں ایک سید ا چھے عالم ہیں اور پڑھاتے ہیں.یہ گاؤں جب ایک میل فاصلہ طے کرنے پر ہی آ گیا تو آپ کو تعجب ہوا کہ ان لڑکوں نے کتنا جھوٹ بولا تھا.
۱۲ غیب سے مہمان نوازی اس گاؤں میں سید مولوی عبدالکریم شاہ ایک جید عالم تھے اور اس علاقہ میں بزرگ مشہور تھے.سید صاحب نے سمجھا کہ یہ گھر سے بھاگ کر آئے ہیں.چند دن تک کوئی آکر لے جائے گا اور حضرت مولوی صاحب کی طر ز بھی طالب علموں جیسی نہ تھی.نہ پاس کوئی کتاب تھی بلکہ دونوں نے ہاتھوں میں غلیلیں اور تھیلے میں غلے ڈالے ہوئے تھے.اس لئے سید صاحب نے سبق کے متعلق کہا کہ آپ چند دن ٹھہریں پھر دیکھا جائے گا.حضرت مولوی صاحب نے سفر کے ارادہ پر دریافت کر کے معلوم کیا تھا کہ طالب علم ساگ اور کسی پر گزارہ کرتے ہیں جو لوگ انہیں دے دیتے ہیں اور آپ نے اپنے تئیں انہی پر گزارہ کرنے کے لئے آمادہ کر لیا تھا.آپ نے یہاں دیکھا کہ طالب علموں کو مکئی اور کچھ روٹی کے ٹکڑے بھی لوگ دے دیتے ہیں.گو پوری روٹی نہیں دیتے لیکن طالب علم مٹی کے لوٹوں کے پیندے تھالی اور پیالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں.مگر گھر درا ہونے کی وجہ سے ان پر کسی اور ساگ جم جاتے ہیں اور طالب علم انہیں صاف بھی نہیں کرتے اس لئے ان کی شکل نہایت گھناؤنی نظر آتی ہے.آپ نے دل میں یہ ٹھانی کہ جب زیادہ بھوک لگے گی تو صرف خشک روٹی کھالوں گا اور ان برتنوں میں نہیں کھاؤں گا.لیکن آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ پہلا کھانے کا وقت آیا تو ان میں سے بڑی عمر کا طالب علم نہایت صاف برتنوں میں کھانا لایا.پہلے تو آپ نے یہ سمجھ کر انکار کیا کہ یہ اس کا اپنا کھانا ہے لیکن اس کے اصرار پر آپ نے کھالیا اور جب تک آپ کا اپنا انتظام (جس کا آگے ذکر آئیگا ) نہ ہو گیا کھانا اسی طرح آتا رہا.بعد میں اس طالب علم سے معلوم ہوا کہ وہ سب سے زیادہ آسودہ حال زمیندار کے ہاں بچوں کو پڑھاتا ہے.اس نے سمجھا مولوی صاحب ہمارا کھانا نہیں کھا سکیں گے اس لئے اس گھر سے ایک آدمی کا کھانا طلب کیا اور گھر کی بوڑھی مالکہ کے دریافت کرنے پر بتایا کہ مہمان میرا رشتہ دار نہیں بلکہ فلاں جگہ کے سید ہیں.اس عورت نے کہا کہ سید محمد حسین شاہ کا بیٹا تو نہیں؟ جب معلوم ہوا کہ انہی کا بیٹا ہے تو بہت خوش ہوئی کہ اس کی والدہ میری محسنہ ہیں اور بتایا کہ ایک زمانہ میں سکھوں کے مقابلہ میں لڑتے ہوئے اس کے نانا سلطان قطب الدین خاں یاغستان میں چلے آئے تھے.انہیں کچھ خدمت گار عورتوں کی ضرورت تھی.میرے والدین نے مجھے ان کے گھر چھوڑ دیا.اس کی والدہ میری ہم عمر تھی اور مجھ سے بہت احسان سے پیش آتی تھیں.بعد میں مجھے یہ علم ہوا کہ ان کی شادی سید محمد حسن شاہ صاحب سے ہو گئی تھی.ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے آسودہ حال کر دیا اور میری تمنا تھی کہ اس خاندان کا کوئی فرد ملے تو خدمت کروں.چنانچہ گھر سے خرچ آنے تک اسی بڑھیا کے ہاں سے آپ کا کھانا آتا رہا.
۱۳ آپ کی تلاش اور والد کی طرف سے پڑھائی کی اجازت مولوی سید عبدالکریم شاہ صاحب کو خیال تھا کہ جب کوئی شخص تلاش میں آیا تو یہ لڑکا واپس چلا جائے گا اس لئے انہوں نے پڑھانا شروع نہ کیا.تیسرے روز ان لوگوں میں سے ایک شخص وہاں آ پہنچا.جنہیں والد صاحب نے تلاش میں بھیجا تھا.اس نے والد صاحب کا یہ پیغام دیا کہ اگر سرور شاہ پڑھنا چاہتا ہے تو میری طرف سے اجازت ہے لیکن اگر اس ملک کے طلباء کی طرح اپنا وقت ضائع کرنا چاہتا ہے تو ابھی واپس آ جائے ور نہ میں اس ملک میں نہیں آنے دوں گا.آپ نے کہا کہ والد صاحب کو کہہ دو کہ میں انشاء اللہ پڑھونگا.یہ بات سُن کر استاد کو تسلی ہو گئی اور انہوں نے صرف میر اور زلیخا فارسی شروع کرادی.آپ کے آئندہ سارے علم کی بنیا داسی استاد کے ذریعہ رکھی گئی.وہ آپ کو حاشیہ شرح وغیرہ جو بھی مل جائے سب سُنا دیتے تھے اور آپ کے ساتھ یہ خاص مہربانی تھی کہ آپ سے حاشیہ زبانی سنتے تھے.اس سے یہ فائدہ ہوا کہ آپ ابتدائی زمانہ میں ہی شروح کے مطالعہ کرنے اور ان کے سمجھنے پر قادر ہو گئے اور چونکہ وہ سبق سنتے تھے اس لئے آپ کو یاد کرنا پڑتا تھا اس سے آپ کو صرف و نحو پر خاصا عبور حاصل ہو گیا اور شروع سے آخر تک قریباً تمام قرآن مجید کے انہوں نے آپ سے صیغے اور ترکیب پوچھی جس سے عبارت سمجھنے پر آپ کو ہر قسم کا اقتدار حاصل ہو گیا.کھانے کا انتظام یہ رہا کہ جب والد صاحب کو پیغام پہنچا کہ آپ پڑھائی کرینگے تو والدہ نے دو دن کے اندر ہی آپ کے لئے آٹا چاول گھی وغیرہ سامان بھیج دیا اور آپ کا کھانا استاد کے ہاں پکنے لگا اور تمام عرصہ استاد اور ان کا اکلوتا بیٹا اور آپ اکٹھے کھانا کھاتے رہے.تحصیلِ علم کے لئے دانہ چلے جانا جب آپ نے وہاں ہدایتہ النحو پڑھ لی تو یہ مشکل آپڑی کہ استاد کی بھانجی آپ پر فریفتہ ہوگئی اور شادی کرنا چاہتی تھی.اس لئے آپ اس جگہ کو چھوڑ کر دانہ آ گئے.یہاں آپ کی دو پھوپھیاں بیاہی ہوئی تھیں.آپ نے یہاں کا فیہ اور اس قسم کی چند کتابیں پڑھیں لیکن دس ماہ بعد ذیل کا واقعہ پیش آنے کی وجہ سے آپ کو دانہ چھوڑنا پڑا.غیر متقی استاد کو الوداع کہنا ایک روز گاؤں کے رئیس یعنی حضرت مولوی صاحب کے پھوپھا باہر گئے ہوئے تھے کہ ان کے کاردار عنایت اللہ جٹ کی لڑکی کا نکاح استاد صاحب نے ملا خیر اللہ ہیڈ کانسٹیبل سے پڑھ دیا.رئیس صاحب واپس
۱۴ آئے تو انہوں نے نکاح خواں ملاں کو بلوایا.ملاں نے کہلا بھیجا کہ میں وہاں آ کر بھی یہی بات کروں گا کہ عنایت اللہ جس نے آپ کی وجہ سے فلاں جگہ قرآن مجید اٹھا کر جھوٹی گواہی دی تھی میں اس کی لڑکی کا نکاح پڑھ چکا ہوں.رئیس کے چھوٹے بھائی نے ایک نوکر کو کہا کہ ملاں کو کہو کہ آتا ہے یا نہیں یا ہم خود آئیں.اس پر ملاں صاحب رئیس کے پاس چلے گئے.رئیس نے کہا کہ میں فلاں جگہ گیا ہوا تھا اور لوگ زمین پر کام کر رہے تھے اور عنایت اللہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس نے مجھے کہا کہ میری لڑکی اب جوان ہے میں اس کا اختیار آپ کو دیتا ہوں.جہاں مناسب سمجھیں رشتہ کر دیں تو میں نے اسی وقت محب اللہ جٹ سے اس کا نکاح کر دیا.مولوی صاحب نے کہا اچھا پھر یہ بات ہوئی نہ کہ وہ نکاح پہلے ہوا اور ہم نے پیچھے پڑھا.رئیس نے کہا کہ یہی بات تو میں کہتا ہوں.رئیس نے محب اللہ سے نکاح کے لئے پانچ روپے لے کر کسی اور کو بھی شامل کر کے ایک دو روپئے لے کر ملاں کو دیئے اور دونوں کا نکاح پڑھوایا.حضرت مولوی صاحب نے اسی وقت استاد سے کہا کہ میں نے حدیث تو نہیں پڑھی مگر والد صاحب سے سُنا ہوا ہے کہ العلم دين فانظروا عَمَّن تاخذونَ دِينَكُمْ اور والد صاحب کی نصیحت تھی کہ اس سے پڑھو جو دیندار ہو.بے دین سے نہ پڑھنا.اس لئے اس واقعہ کو دیکھ کر میں مجبور ہوں کہ آپ سے نہ پڑھوں.اتفاقاً استاد کہیں باہر چلے گئے.کئی روز بعد واپس آئے تو ان سے اجازت لے کر آپ ہزارہ چلے گئے.اللہ تعالیٰ کی رزاقیت کا نظارہ ہزارہ کے ایک گاؤں سیریاں میں ایک مشہور عالم مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس آپ پہنچے.ان کے والد حضرت مولوی صاحب کے والد کے نھیال میں امام مسجد تھے.اس لئے انہیں حضرت مولوی صاحب کا لحاظ تھا.آپ کے ہمراہ سات طالب علم اور تھے اور اتنے طالبعلموں کے لئے اس جگہ گنجائش نہ تھی.مولوی عبد الکریم صاحب نے کہا کہ اگر آپ اکیلے رہیں تو انتظام ہو سکتا ہے لیکن حضرت مولوی صاحب کو مد ین طالب علم کا اس کی نیکی اور خدمت کی وجہ سے بہت لحاظ تھا اور باقی طالب علم اس سے پڑھتے تھے.اس لئے آپ انہیں اپنے سے جدا کرنا نہیں چاہتے تھے.مولوی صاحب نے کہا کہ قریباً دو میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں بگڑا ہے اگر آپ وہاں رہیں اور یہاں آ کر مجھ سے سبق لے لیا کریں تو میں پڑھا دیا کرونگا.چنانچہ آپ اس جگہ پہنچے.اس وقت تک آپ پر ایسا دقت نہیں آیا تھا کہ دوسرے طالب علموں کی طرح مسجد کے مانگے ہوئے ٹکڑے کھا ئیں.تاہٹہ میں آپ کو والدہ صاحبہ چار آدمیوں کا خرچ بھیجتی رہیں.جب آپ داتہ میں تھے کہ وہ وفات پاگئیں.چونکہ صحیح مسلم کتاب المقدمه باب حسن بن ربیع حدثنا حماد بن زید.
۱۵ والد صاحب سے آپ کبھی کوئی خرچ طلب نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ان کو علم تھا کہ ان کے گھر سے خرچ جاتا ہے.اس لئے انہیں کبھی بھی اس طرف توجہ نہ ہوئی کہ آپ کو خرچ دیں.داتہ میں آپ اپنی پھوپھی کے ہاں رہتے تھے اس لئے وہاں تو کوئی امداد در کار نہ تھی لیکن اب مسجد کے ٹکڑوں پر گزارہ کرنے کے لئے مجبور تھے اور تحصیل علم کی خاطر آپ نے یہ کڑوا گھونٹ پینے پر اپنے تئیں آمادہ پایا.بگڑا میں معلوم ہوا کہ کوئی مسجد نہیں کہ جس میں طالب علم رہتے ہوں اور بتایا گیا کہ آپ نئی مسجد میں جائیں جو خان نے بنوائی ہے شاید وہاں کوئی انتظام ہو سکے.یہ مسجد ابھی ابھی تیار ہوئی تھی اور ابھی اچھی طرح چٹائیوں کا انتظام بھی نہیں ہوا تھا.اس میں ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا.اس سے آپ نے دریافت کیا کہ ہم طالب علم ہیں اس مسجد میں رہنا چاہتے ہیں.کیا اس کی کوئی صورت ہو سکتی ہے، اس نے خوب توجہ سے آپ کے چہرہ پر نظر ڈالی اور کہا ” تم سید ہو؟ آپ کے اثبات میں جواب دینے پر اس نے کہا کہ آپ کا کھانا ہمارے ہاں ہوگا اور آپ کے ساتھی طالب علموں کے لئے محلہ سے وظیفہ حاصل کرنے کا انتظام کر دینگے.یہ بوڑھا نور اللہ خان وہاں کے اصل خان عبداللہ خان کا چچا تھا اور عبداللہ خان پٹھانوں کے رواج کے مطابق اس علاقہ کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا.ایک سال سے زیادہ آپ وہاں رہے.نور اللہ خان کا بیٹا دونوں وقت آتا اور آپ کو گھر پر لے جاتا اور معزز مہمان کی طرح آپ کی تواضع کی جاتی.حصول علم کے لئے صبر واستقلال ان دنوں ماہ رمضان ابتدائے موسم گرما میں آتا تھا.سب طالب علم جب دانہ سے جو کہ بہت سر د جگہ ہے عید گذار کر ہزارہ میں جو اس کی نسبت بہت گرم ہے واپس آئے تو گرمی بھی نا قابل برداشت معلوم ہوئی اور ابھی گرمی نے زیادہ ہونا تھا.حضرت مولوی صاحب نے اپنا نوکر واپس بھیج دیا ہوا تھا اور محمد بیبین عمر میں سب سے بڑا تھا.وہ سمجھتا تھا کہ آپ میرے بغیرا کیلے نہیں رہ سکتے.اس لئے اس نے آپ پر اثر ڈالنے کے لئے قسم کھا کر کہا کہ اب میں یہاں نہیں رہونگا.گرمی نا قابل برداشت ہے تا کہ آپ بھی مجبور ہو کر متفق ہو جائیں.آپ نے بھی اسی طرح قسم کھا کر کہا کہ میں گرمی یا کسی اور تکلیف سے اس جگہ کو جہاں میر اسبق اچھا ہوتا ہے ہرگز نہیں چھوڑونگا تا وقتیکہ میرے سبق میں کوئی حرج واقع نہ ہونے لگے.وہ سب وہاں سے آپ کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے.آپ کو یاد ہے کہ پینے کے لئے پانی آپ کو مشکوں سے لینا پڑتا تھا جو دھوپ میں اس قدرگرم ہو جاتا تھا کہ وضو کے قابل نہ ہوتا جب تک کہ کچھ دیر اسے سایہ میں نہ رکھا جائے.
۱۶ چونکہ آپ روزانہ تین تین، چار چار سبق لیتے تھے اور ظہر سے پہلے دو سبق ہوتے تھے.اس لئے آپ کو دو پہر کی دھوپ میں کھانے کے لئے دو میل کے قریب جانا پڑتا اور کھانے کے بعد کڑکتی دھوپ میں دو میل طے کر کے سیریاں جا کر استاد سے باقی کے سبق لیتے.کچھ دنوں بعد ایسا اتفاق ہوا کہ آپ کا فیہ پڑھتے تھے.استاد نے کہا کہ یہ کتاب تمہیں آتی ہے.اس لئے شرح ملا جامی پڑھو.اس کے دو تین جزو پڑھانے کے بعد استاد نے کہا کہ یہ کتاب بھی تمہیں آتی ہے.اس کے بھی پڑھنے کی ضرورت نہیں اس کا حاشیہ عبدالغفور پڑھو.اس کے چند سبقوں کے بعد پھر استاد نے کہا کہ اس کا بھی تمہیں چنداں فائدہ نہیں جب تک اس کے دونوں حاشیے مولوی وغیرہ نہ پڑھو.چنانچہ آپ نے اسی طرح پڑھنا شروع کیا لیکن بعض اوقات پوری طرح حل نہیں ہوتے تھے.اپنے استاد سے زیادہ علم والے کی تلاش کے لئے آپ ضلع ہزارہ کے قریباً تمام مولویوں کے پاس گئے لیکن ان سے زیادہ بہتر استاد نہ ملا.اکثر نے مشورہ دیا کہ آپ اگر اسی طرح تحقیق سے پڑھنا چاہتے ہیں تو پشاور صدر میں مولوی رحمت اللہ صاحب کے پاس چلے جائیں.وہ اس فن کے ماہر ہیں لیکن وہاں طالب علموں کو فلاں مسجد میں رکھا جاتا ہے اور انہیں محلہ والوں اور مسجد کی خدمت کرنی پڑتی ہے جو تم نہیں کر سکو گے.یشاور کوروانگی بعض مولویوں نے اپنے واقفوں کے نام سفارشی خطوط آپ کو دئیے.ایک طالب علم محمد قابل تاہٹہ میں آپ سے صرف میر کے سبق میں آگے تھا اور حضرت مولوی صاحب پر ہنستا تھا کہ مجھ سے بڑے ہیں اور سبق میں پیچھے ہیں لیکن وہ بیمار ہو گیا اور آپ سبق میں اس سے آگے ہو گئے.یہ لڑکا بہت غریب گھرانے کا تھا.اس شکریہ میں کہ اس کے طعن کی وجہ سے آپ کی طبیعت میں شوق سبقت پیدا ہوا ورا اللہ تعالیٰ کی مدد سے آپ اس سے بڑھ گئے.آپ نے اسے پندرہ روپے کا کمبل اور ایک جوڑا نئے کپڑوں کا دیا.اس احسان کی وجہ سے صحت یاب ہونے پر وہ آپ کے پاس آ گیا تھا.اب آپ کے ساتھ ہی پشاور روانہ ہوا.رات کو حسن ابدال سے سوار ہو کر جب صبح صدر پشاور اترے اور مولوی رحمت اللہ کی مسجد میں پہنچے تو جماعت ہو چکی تھی.دونوں نے نماز پڑھنی شروع کی.اس وقت ایک طالب علم نے مشکوۃ مطالعہ کے لئے کھولی ہوئی تھی اور اندھیرے کی وجہ سے حروف نظر نہیں آتے تھے.اس لئے روشنی کے زیادہ ہونے کا انتظار کر رہا تھا.رزق غیب کا کرشمہ اس نے آپ کو دیکھ کر نبی شاہ نامی ایک اور طالب علم کو بلا کر کچھ پیسے دیئے اور بازار سے نان اور کباب
۱۷ منگوائے اور نماز سے فارغ ہونے پر دونوں کے آگے رکھ دیئے.آپ نے سمجھا کہ یونہی صلح کی ہے اس لئے اسے کہا کہ آپ کھائیں.اس نے کہا کہ یہ آپ کے لئے منگوایا ہے.چونکہ آپ نے رات کو گاڑی میں سفر کیا ہے اور راولپنڈی اور پشاور کے درمیان کوئی ایسا اسٹیشن نہیں جس پر کھانا مل سکے.اس لئے یہ سمجھ کر کہ آپ رات کو بھوکے رہے ہونگے آپ کے لئے کھانا منگوایا ہے.حضرت مولوی صاحب کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے جذبات تشکر اتنے موجزن ہوئے کہ آپ چاہتے تھے کہ چیخ مار کر رو پڑیں.اس پشاور میں جس کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ جب تک آپ نمازیوں کے لئے ڈھیلے تو ڑ کر رکھنے، کنوئیں سے پانی نکال کر سبیل بھرنے ، لوٹوں میں پانی ڈال کر نمازیوں کو دینے اور مسجد میں جھاڑو دینے اور صفیں بچھانے کا کام نہیں کریں گے.آپ کو کھانا نہیں ملے گا.کجا یہ کہ اسی پشاور میں ایک طالب علم کو جو خود مدد کا محتاج ہوتا ہے اور اس سے قطعا کوئی سابقہ معرفت نہیں تحریک ہوتی ہے کہ آپ کے لئے کھانا منگوا لے اور کھانا بھی بالکل تازہ تھا حالانکہ ایسے وقت میں تازہ کھانا دستیاب نہیں ہوتا.آپ ہاتھ دھونے کے بہانہ سے کنوئیں کی طرف طلباء سے اوجھل ہوئے اور یہ کہتے ہوئے کہ میرے خدا! تیرے ہوتے ہوئے مجھے ان سفارشی خطوں کی ضرورت نہیں.ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کنوئیں میں پھینک دیا اور واپس آ کر کھانا کھایا.دوسرا کرشمه مولوی رحمت اللہ صاحب سے ملے.انہوں نے پڑھانے کا وعدہ کیا بشرطیکہ آپ کھانے کا انتظام کر لیں.آپ نے ان سے بہتیرا کہا کہ آپ پڑھائیں اور کھانے کی فکر نہ کر میں لیکن وہ کہتے تھے کہ میں نے کوئی طالب علم نہیں دیکھا جو اپنے کھانے کا خود انتظام کرے لیکن حضرت مولوی صاحب کو یقین تھا کہ کھانے کا انتظام خود اللہ تعالیٰ کرے گا.آخر جب با وجود اصرار کے انہوں نے نہ پڑھایا تو تین دن کے بعد آپ نے تلاش کی کہ کوئی اور استاد مل جائے.معلوم ہوا کہ میر عبداللہ نحوی یکہ توت دروازہ کے قریب محلہ کالے کے کنوئیں کی مسجدوں اٹک اور خیبر آباد کے پاس رہتے ہیں.یہ دونوں مسجد میں آمنے سامنے ہیں.وہ نحو کے بڑے ماہر ہیں.ان کے پاس جاتے ہوئے جب آپ بازار قصہ خوانی کے آخر پر کالے کے کنوئیں کی طرف مڑے تو آپ کو ایک سفید ریش آدمی نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کر کے پوچھا کہ آپ طالب علم ہیں؟ آپ کے اثبات میں جواب دینے پر اس نے پوچھا آپ سید ہیں؟ آپ نے کہا ہاں.اس پر وہ آپ کو پاس کی ایک کباب کی دوکان پر لے گیا اور اسے کہا کہ اس لڑکے کو دونوں وقت میرے حساب میں دو آدمی کا کھانا اور کباب وغیرہ دے دیا کرو.پھر اس نے پوچھا کہ تم کس مولوی سے پڑھتے ہو؟ آپ نے کہا کہ میں ابھی آیا ہوں اور مولوی عبداللہ
۱۸ نحوی سے ملنا چاہتا ہوں.پھر اس نے پوچھا کہ رہو گے کس جگہ ؟ تو آپ نے کہا کہ طالب علم کی جگہ مسجد ہی ہوتی ہے.اس نے کہا کہ اٹک اور خیر آباد مسجدوں میں سے ایک کے ساتھ میرا ایک بالا خانہ ہے.آپ اسی میں رہیں اور روشنی وغیرہ ضروریات میں مہیا کر دونگا.مولوی عبداللہ صاحب ہمارے محلہ میں ہی رہتے ہیں اور ان کے پاس جانے کا راستہ بتایا.تیسرا کرشمہ جب آپ مسجد کے پاس پہنچے تو گھر سے پتہ لگا کہ مولوی صاحب گھر پر نہیں ہیں.ساتھ مسجد میں صرف ایک نو جوان تھا جو وظیفہ کر رہا تھا.اس کا نام مقبول شاہ تھا جس کے والد کا نام فقیر شاہ تھا (اور اس کو حضرت مولوی صاحب نے صرف پڑھانی شروع کی تھی اور جب آپ نے پشاور چھوڑا تو اسے اپنے استاد کے سپر د کر آئے اور اس نے علم پوری طرح سے حاصل کیا ) اب وظیفہ سے فارغ ہو کر اس نے پوچھا.کیا آپ کا وطن کشمیر ہے.آپ نے کہا ہاں.ساتھ ہی اس نے کہا کہ آپ کی شکل ہمارے کشمیر کے رشتہ داروں سے ملتی ہے اور دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ وہ گیلانی سید ہیں.آپ نے کہا کہ میں بھی گیلانی ہوں.یہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ ہمارے رشتہ دار ہیں یا نہیں.البتہ ہمارے دادا کے چھوٹے بھائی شاہ محمد غوث کی اولاد پشاور میں رہتی ہے.اس نے کہا کہ میں انہی کی اولاد میں سے ہوں اور جب میں بیٹھا ہوا تھا تو میری طبیعت پر اثر پڑ رہا تھا کہ آپ ہمارے رشتہ دار ہیں.اسی لئے میں نے آپ سے دریافت کیا.تعلیم کے لئے جب تک آپ پشاور میں قیام کریں کھانا ہمارے ہاں کھائیں.آپ نے کہا کہ اس طرح اس شکل کے آدمی نے جو اسی محلہ کا رہنے والا ہے ہمارا کھانا مقرر کر دیا ہے.اس نے کہا کہ اس کا نام حاجی غلام رضا ہے.اتنے میں حاجی صاحب بھی آگئے.اس نوجوان نے کہا کہ یہ ہمارے ہاں کھانا کھایا کریں گے.ہمارے رشتہ دار ہیں.حاجی صاحب نے کہا کہ اب میں انہیں نہیں چھوڑ سکتا.آخر فیصلہ ہوا کہ حضرت مولوی صاحب رشتہ دار کے ہاں کھانا کھایا کریں اور آپ کا ساتھی دوکان سے کھانا منگوایا کرے لیکن حاجی صاحب باوجود اصرار کے اس بات پر بھی راضی نہ ہوئے کہ ایک آدمی کا کھانا دوکان سے بند کر دیا جائے.بلکہ کہا یہ نہیں ہو سکتا.دو آدمیوں کا کھانا منگوانا پڑے گا.ہاں ایک کا کھانا کسی اور کو دے دیا کرو.چنانچہ ایک نوجوان کو کھانا دیا جاتا تھا جو حضرت مولوی صاحب سے پڑھتا تھا.چھ ماہ آپ کے یہاں ضائع ہوئے جس مولوی کا نام آپ سنتے اس سے سبق شروع کر دیتے لیکن سبق ٹھیک نہ ہوتا چھ ماہ بعد ضلع ہزارہ کے ایک سید مولوی نے جو وہابیوں کے سخت دشمن تھے اپنے استاد مولوی محمد ایوب کو کہا کہ ہمارے علاقہ کا ایک سید طالب علم ہے وہ فلاں مولوی کے پاس گیا لیکن اس کا سبق نہیں ہو سکا.
۱۹ اب مجھے ڈر ہے کہ وہ مولوی رحمت اللہ وہابی کے قابو آ جائے گا.چنانچہ جب اس نے استاد کو مجبور کیا تو اس نے کہا کہ میں نے پھل اور ہشت نگر دو علاقہ کے آدمیوں کو نہ پڑھانے کی قسم کھائی ہوئی ہے وہ غلط فہمی سے حضرت مولوی صاحب کو پکھل کا سمجھتے تھے ) پھر خود ہی کہا کہ میں قسم کا کفارہ دیدوں گا.چنانچہ آپ ان کے پاس گئے وہ واقعیہ میں عالم تھے.ان سے آپ کا سبق ہونے لگا.ایک دفعہ انہوں نے احسان کے طور پر کہا کہ تمہاری خاطر مجھے قسم کا کفارہ دینا پڑا.میں نے قسم اس لئے تو ڑی کہ تم ذہین ہو.اگر وہابیوں کے قابو آ گئے تب بھی ہمارا نقصان ہے اور اگر یونہی یہاں سے چلے گئے تو ہمارے شہر کی علمی بدنامی ہوگی.آپ نے کہا کہ افسوس آپ نے حصول ثواب کو ذرا بھی مد نظر نہیں رکھا.میں پکھل یعنی شہر مانسہرہ کے شمال کے علاقہ متصل یاغستان کا رہنے والا نہیں ہوں.استاد نے کہا ہم دریائے اٹک سے پار اور راولپنڈی سے درے کے علاقہ کو پھل کہتے ہیں.آپ نے کہا.میں اس علاقہ کا بھی نہیں.یہ استاد صاحب علم تھے.فیضی کی بے نقطہ تفسیر کا انہوں نے ہی فارسی میں ترجمہ کیا ہے لیکن انہیں فرقہ اہل حدیث سے اس قدر بغض تھا کہ نواب صدیق حسن خان کو ہمیشہ زندیق حسن خان کہتے تھے اور حضرت مولوی صاحب کو رفع سبابہ پر کہتے کہ کوئی تمہاری انگلی تو ڑ دے گا.ایک صاحب توجہ سے ملاقات آپ نماز جمعہ مولوی رحمت اللہ کی مسجد واقع صدر پشاور میں پڑھا کرتے تھے.ایک روز جو آپ وہاں گئے تو مسجد میں داخل ہوتے ہی آپ کو محسوس ہوا کہ کوئی شخص صاحب توجہ وہاں موجود ہے اور مولوی رحمت اللہ صاحب کو جو نقشبندی طریق کے عامل تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس توجہ سے متاثر پایا اور دیکھا کہ محراب کے سامنے ایک بوڑھا شخص بیٹھا توجہ کر رہا ہے.اس شخص کی ملاقات کے لئے آپ اس کی جائے قیام پر بمعہ اپنے شاگرد حافظ محمد غوث کے گئے.اس وقت یہ بزرگ استاد محمود اپنے مریدوں کو توجہ دے رہے تھے.آپ اور آپ کا ساتھی بھی اس حلقہ میں شریک ہو گئے.بعد ازاں معلوم ہوا کہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (والد سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ ) ان کے مرید تھے اور حضرت عبداللہ غزنوی ( جو کہ نقشبندی تھے ) کے بعد الہی بخش اکو نٹنٹ اور عبدالحق اکو نٹنٹ اور میجر امیر علی شاہ جو تینوں لاہور کے رہنے والے اور سخت معاندین احمدیت ہوئے ، اس بزرگ سے توجہ لیا کرتے تھے.استاد محمود بالکل ان پڑھ تھے.پہلے نجاری کا کام کرتے تھے اور اب ٹھیکہ داری کا کام کرتے تھے اور باوجود پیر ہونے کے مریدوں سے کچھ نہ لیا کرتے تھے اور مخیر اور مہمان نواز تھے.توجہ کا ایسا مشاق حضرت مولوی صاحب کے دیکھنے میں نہیں آیا.آپ اور آپ کا ساتھی حافظ عبد الرحمن صبح و شام ان کی مجلس میں شریک ہونے لگے کہ اس زمانہ میں آپ اسے کرامت اور ولایت سب
کچھ سمجھتے تھے.آپ کے ساتھی نے پہلے کسی کی بیعت نہیں کی ہوئی تھی.اس لئے اس نے بیعت بھی کر لی.حضرت مولوی صاحب نے خود دیوگراں کے پیر سید امیر کی بیعت وہاں جاکر کی ہوئی تھی.سید امیر کو ٹھے والے پیر کے مرید تھے اور نقشبندی تھے اور آپ کے والد صاحب بھی انہی کے مرید تھے.قصایہ کے ایک بزرگ کے استاد محمود مرید اور خلیفہ تھے اور کو ہاٹ کے رہنے والے تھے.چند دن کے لئے اپنے دادا پیر حضرت جی کے مزار پر جوا ٹک کے پل کے پاس ہے جانے کا ارادہ کیا اور حضرت مولوی صاحب اور آپ کے ساتھی نے بھی سفر میں ساتھ دیا.وہاں وہ بجائے تین دن کے دس دن رہے.اس عرصہ میں ان کی علم توجہ کے بہت سے کمالات کے ساتھ یہ امر بھی ظاہر ہوتا رہا کہ ان کے اخلاق معیار پر پورے نہیں اترتے.عرس کا دن قریب ہونے کی وجہ سے انہوں نے سرہند کا قصد کیا اور راستہ میں لاہور دو تین روز کے لئے ٹھہرے.ترک صحبت غیر صالح حضرت مولوی صاحب اور آپ کا ساتھی بھی ہمراہ تھے لیکن راستہ میں اس بزرگ سے ایسی حرکات سرزد ہوئیں کہ آپ نے ان سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا.اس لئے کہ ان کے ساتھ رہنے سے بجائے فائدہ کے نقصان کا احتمال تھا اور آپ کا ارادہ ہوا کہ اگر لاہور میں پڑھائی کا انتظام ہوا تو بہتر ورنہ پشاور واپس آجائیں گے.اس بزرگ کی بعض تکلیف دہ باتوں میں سے مثال کے طور پر ایک یہ ہے کہ وہ انٹر کلاس کے ڈبہ کے اسٹیشن والی طرف نہیں بلکہ دوسری طرف آخری سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے.ڈبہ میں کل چار آدمی تھے لیکن انہوں نے اٹک سے لاہور تک کسی اور شخص کو ڈبہ میں نہیں گھنے دیا.جہاں کوئی آنا چاہتا تو وہ دروازہ پر پہنچ کر با وجود پنجابی بولنے کے پشتو میں بے نقطہ گالیاں دینے لگتے اور گاڑی کے روانہ ہونے تک دروازہ روکے رکھتے.ایک اسٹیشن پر ایک بوڑھا شخص جس کی طرز سے معلوم ہوتا تھا کہ اس نے کبھی گاڑی کا سفر نہیں کیا اور یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ کونسی کلاس ہے.اس کے ہاتھ میں تیسرے درجہ کی ٹکٹ تھی اور وہ ہر دروازہ پر کہتا تھا کہ مجھے بٹھا لو اتفاق سے پیر صاحب کا ملازم دروازہ کھلا چھوڑ کر کمرہ سے باہر گیا تو وہ بوڑھا دروازہ کھلا دیکھ کر آ گیا.پیر صاحب کی توجہ دوسری طرف تھی.اس کے دروازہ پر کھڑا ہونے سے ادھر ہو گئی اور انہوں نے جوش میں آ کر گالیاں دیتے ہوئے اسے ایسا دھکا دیا کہ وہ پلیٹ فارم پر جاپڑا.اس نظارہ سے ہر ایک کی طبیعت پر بہت بُرا اثر ہوالیکن پیر صاحب نے پھر بھی اسے کمرہ میں داخل نہ ہونے دیا اور ایک ہندو نے اس بوڑھے مسلمان کو لے جا کر اپنے کمرہ میں بٹھایا.جب پیر صاحب شاہ محمد غوث کے مزار پر آ کر بیٹھے تو حضرت مولوی صاحب نے ان واقعات کی وجہ سے کہا کہ اب میں آپ سے علیحدہ ہوتا ہوں اور یہاں پڑھنے کا کوئی انتظام کرنا چاہتا ہوں.
۲۱ لاہور میں آپ کا قیام اس وقت آپ کی عمر قریباً اٹھارہ برس کی تھی.ایک طالب علم سے پڑھائی کا ذکر ہوا.وہ آپ کو مدرسہ رحیمیہ مسجد نیلا گنبد میں لے گیا کہ وہاں ایک بہت بڑے منطقی فلسفی مولوی ہیں.آپ نے دیکھا کہ مسجد کے ملحق کمرہ میں ایک مولوی صاحب چار پائی پر بیٹھے حقہ بھی پی رہے ہیں اور شاگرد کو جو نیچے بیٹھا تھا منطق کی کتاب قطبی بھی پڑھا رہے ہیں.آپ نے استاد کی وضع دیکھ کر اور پڑھائی سن کر سمجھ لیا کہ آپ ان سے نہیں پڑھ سکتے اور کوئی مدرسہ دریافت کرنے پر وہ طالب علم آپ کو مدرسہ نعمانیہ میں لے گیا جوان دنوں اندرون موچی دروازہ مسجد بکن خاں متصل مکان خلیفہ حمید الدین صاحب ( والد ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم صحابی مدفون بہشتی مقبرہ ) میں تھا.یہ طالب علم غلام رسول نام وہاں کے استاد مولوی غلام محمد کا بھتیجا تھا.حضرت مولوی صاحب نے بتایا کہ میں فلاں فلاں کتابیں پڑھ رہا ہوں.استاد نے کہا کہ یہ کتابیں یہاں نہیں پڑھائی جاتیں.البتہ ہماری اعلیٰ جماعت اس وقت فلاں فلاں کتاب پڑھ رہی ہے اور اس کے بعد صدرہ اور فلاں فلاں کتابیں پڑھیں گے.آپ اس میں شریک ہو سکتے ہیں.بشرطیکہ مہتم مدرسہ مفتی سلیم اللہ اجازت دیں.چنانچہ آپ نے اور ایک اور طالب علم نے جو سبق میں آپ سے کچھ آگے تھا درخواست دی.اگلے روز انہوں نے داخلہ کے لئے صدرہ کا امتحان لیا جو آئندہ کبھی پڑھائی جانی تھی ، دوسرے کو فیل کر دیا اور آپ سے صدرہ کا ایک مشہور مشکل مقام جہاں جزء لا يتجزأ کے ابطال میں اقلیدس کے بعض اشکال سے کام لیا گیا ہے آپ سے دریافت کیا.وہاں ذکر تھا کہ یہ جز عاصم ہے اور پوچھنے پر بتایا کہ عد دکو اپنے نفس میں ضرب دینے سے جو حاصل ضرب آتا ہے اسے جزء کہتے ہیں اور جس عدد کے واسطے کوئی دوسرا عدد ایسا نہ ملے کہ اگر اس عدد کو فی نفسه ضرب دیں تو اس کا حاصل ضرب یہ عدد ہو.اسے جزء اصم کہتے ہیں اور مثال غالباً ۱۳ کے عدد کی دی کہ ۳ × ۳ تیرہ سے نیچے اور ۴× ۴ تیرہ سے اوپر ہو جاتا ہے.اس لئے ۱۳ کا عدد جزء اصم ہے.اس پر مفتی صاحب بولے کہ طالب علم حاشیوں کے کافر ہوتے ہیں.ان کے اس فقرہ سے حضرت مولوی صاحب کی طبیعت چمک اٹھی اور جوش آ گیا.حاشیہ جودیکھا تو اس میں بعینہ یہی مثال مذکور تھی.آپ نے اور بیسیوں مثالیں سُنا دیں.طب سیکھنا مفتی صاحب نے آپ کی نسبت تو لکھ دیا کہ داخل کر لیا جائے لیکن اگلے روز ان کے مطب کے کمپونڈر
۲۲ نے کہا کہ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ اگر یہ مجھ سے طب پڑھے تو دوسرے طالب علموں کو طب پڑھنے پر میں سات روپے وظیفہ دیتا ہوں.اسے دس روپئے دوں گا.پہلی بار میں نے عربی کا ایک شریف اور ذہین طالب علم دیکھا ہے.شریف اس لئے کہ وہی الفاظ جو میں اور طالب علموں کو کہا کرتا ہوں اس کی طبیعت انہیں برداشت نہیں کر سکی اور ذہین اس لئے کہ جو کتاب اس نے پڑھی ہوئی نہیں اس کے مشکل ترین مقام کا صحیح مطلب بغیر مطالعہ کے اس نے بتا دیا اور حاشیہ سے باہر بہت سی صحیح باتیں بتائیں.مولوی صاحب نے کہا کہ میرے والد صاحب طبیب ہیں اور مجھے خود بھی طب کا شوق ہے.میں طب کا سبق ان سے پڑھوں گا لیکن وظیفہ نہیں لوں گا.چنانچہ آپ نے ان سے شرح اسباب پڑھی وہ واقع میں علم طب کے بڑے ہی ماہر تھے.لا ہور میں گزارہ کی صورت آپ مدرسہ نعمانیہ میں داخل ہو گئے.وہاں غالباً سوا یا ڈیڑھ پاؤ آٹا اور آدھا پیسہ فی وقت ہر طالب علم کا ملتا تھا.پاس ہی ایک نانبائی کی دوکان تھی.انجمن اسے کچھ مزدوری دیتی تھی.طالب علم آٹا گوندھ کر لے جاتے اور وہ روٹی لگا دیتا اور آدھے پیسہ کی دال دے دیتا.جب نقیب آٹا اور پیسہ دینے کے لئے آپ کا نام بھی پکارتا تو آپ لینے کے لئے نہ جاتے.وہاں ایک طالب علم غلام محمد ڈیرہ اسمعیل خاں کا رہنے والا تھا.وہ بعد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ سے طب پڑھنے کے لئے قادیان آیا اور چونکہ وہ یہاں کسی نو وارد فقیر کی لڑکی سے دھوکا فریب سے شادی کرنا چاہتا تھا.اس لئے اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں سے نکال دیا پھر وہ کبھی قادیان نہیں آیا.دوسرے طالب علموں کو تو حضرت مولوی سرورشاہ صاحب نے ٹال دیا لیکن غلام محمد بہت پیچھے پڑا کہ آپ پیسے کیوں ضائع کرتے ہیں لے لیں.کسی کام آجائیں گے.وہ آپ کی خدمت بھی کرتا تھا.آپ نے اسے کہا تم لے لیا کرو.اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے یہ سامان کر دیا کہ آپ کی ایک ماموں زاد بہن جو ایک جاگیردار کی بیوہ تھی.انہوں نے آپ کے والد صاحب کو کہا کہ سرور شاہ کے لباس اور کتابوں کے لئے میں روپیہ دیا کرونگی.چنانچہ وہ ایک سو سے دوسور و پئے تک سالا نہ بھیج دیا کرتی تھیں.دہر یہ اُستاد کی وجہ سے لاہور چھوڑنا آپ کے لاہور کے استاد صاحب بہت آزاد طبیعت واقع ہوئے تھے.اتنی آزادی آپ کی برداشت سے باہر تھی.عام طور پر وہ ایسی بات کرتے تھے جس سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ سننے والوں کو دہر یہ بنانا چاہتے
۲۳ ہیں.مثلاً چیف کورٹ میں گئے.اس کے کمروں میں پنکھے چل رہے تھے.خس کی ٹیاں لگی ہوئی تھیں پر فضا منظر تھا یہ دیکھ کر اس طالب علم کو جسے ایسی باتوں کا مخاطب بناتے تھے آواز دے کر کہا.محبوب عالما ! اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ یہ باتیں کچھ ایسی ہی ہیں.حدیث میں تو آیا ہے کہ جو طلب علم کے لئے نکلتا ہے فرشتے اس کے قدموں کے نیچے پر بچھاتے ہیں.تم اپنے کمرہ کو دیکھو ( اس میں حضرت مولوی صاحب بھی رہتے تھے اس میں کوئی پاؤ گز کے قریب وہ پتے پڑے رہتے تھے جن میں طالب علم بازار سے دہی یا دال وغیرہ ڈال کر لایا کرتے تھے اور اسی کمرہ میں پھینک دیتے تھے اور کبھی جھاڑو نہیں دیا جاتا تھا.غرضیکہ اس کی نہایت مکر وہ شکل تھی ) اور اپنے لباس اور خوراک کو بھی دیکھ کر جن کی نسبت قرآن مجید میں آتا ہے وَ مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا اسی طرح انار کلی میں سے گذرتے ہوئے بالا خانوں میں مورخش کو بن سنور کر بیٹھے دیکھ کر کہتے کہ محبوب عالم ! بار گورنمنٹ کا پتہ تو اس سے لگتا ہے کہ مجرموں کو پولیس آ کر پکڑ لیتی ہے اور اوپر کی طرف اشارہ کر کے.خدا کی ان مجرموں کو دیکھو کیسی بن سنور کر سر بازار بالائے بام تماشا کر رہی ہیں مگر انہیں کوئی بھی نہیں پوچھتا.اس کے معنے سوائے اس کے اور کچھ بھی نہیں کہ وہ خدا کے منکر تھے.نیز وہ مذہبی پیشواؤں کی نسبت ایسے طور پر گفتگو کرتے کہ جس سے ان کی بلکہ شریعت کی ہتک ہوتی تھی.مثلاً جب کسی امام یا ولی کی نسبت ایسی بات کرنے لگتے تو پہلے یہ کہہ دیتے کہ محبوب عالم ! ذرا دماغ تازہ کر لیں.کیونکہ قرآن مجید میں آیا ہے لَا يَغْتَبُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَّاكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ * جس سے معلوم ہوا کہ غیبت کرنا آدمی کا گوشت کھانا ہے اور طب میں لکھا ہے کہ سب گوشتوں سے آدمی کا گوشت زیادہ قوی ہے سود ماغ اس غذا سے تازہ ہو سکتا ہے اور اس کے بعد ان کا شکوہ شروع کر دیتے تھے.حضرت مولوی صاحب ایسے وقت میں ضرور بول پڑتے تھے اور آپ کی بات کا استاد جواب نہیں دے سکتے تھے اور بات کرنے سے رُک جاتے تھے.اسی وجہ سے انہوں نے آپ کا نام مرشد رکھ دیا تھا.جب وہ ایسی بات کرتے اور آپ وہاں پہنچ جاتے تو وہ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے کہ بھائی چُپ ہو جاؤ.مرشد آیا ہے.دیو بند میں کھانے کا انتظام چنانچہ آپ دیو بند چلے گئے.چونکہ رمضان کی وجہ سے تعطیلات تھیں اس لئے سوائے چند ایک کے تمام طالب علم گھر گئے ہوئے تھے.رمضان تو دعوتوں میں گذرا.اس کے بعد جو صورت ہوئی اس کے سمجھنے کے لئے ۱۲۵ : : الحجرات : ۱۳
۲۴ یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ وہاں طلباء کے دو قسم کے گزارے تھے.ایک تو یہ طالب علموں کی ایک تعداد کو فی کس چھ روپئے کھانے کے واسطے دئے جاتے تھے.دوسرے یہ کہ ایک سو کے قریب کھانے لوگوں کے ہاں مقرر تھے.بعض شہری دو تین طالب علموں کونوں وقت کھانا دیتے تھے.دفتر میں ریکارڈ رہتا تھا اور دفتر والے ہی مقرر کرتے تھے کہ فلاں لڑکا فلاں کے ہاں کھانا کھائے.بعض طالب علم ایسے بھی تھے کہ ایک ایک وقت کا کھانا مختلف گھروں سے کھا کر گزارہ کرتے تھے.طلباء کی کوشش ہوتی تھی کہ نقد وظیفہ مل جائے.اس لئے کہ دیو بند میں بہت سی ایسی مساجد تھیں کہ جن میں کوئی امام مقرر نہیں ہوتا تھا بلکہ لوگ مدرسہ کے کسی طالب علم کو امام بنا لیتے تھے اور اماموں کی طرح خدمت کرتے تھے کہ ان کا نقد وظیفہ مقرر ہو.اس لئے کہ کھانا تو مسجد کی طرف سے مل ہی جائے گا اور نقدی مفت میں بچے گی.دفتر والے اس امر سے واقف تھے اور جس پر وہ خوش ہوتے تھے بطور احسان نقد وظیفہ دینے کی نوازش کرتے تھے.آپ کے ایک ماہ وہاں رہنے سے دفتر کا ہیڈ آپ کا بہت معتقد ہو گیا اور اچھی محبت کرنے لگا.رمضان کے بعد جب داخلہ کے امتحان میں آپ پاس ہو گئے تو اس نے خوشی خوشی آ کر آپ کو سنایا کہ میں نے آپ کا وظیفہ نقد درج کر دیا ہے چونکہ ان وظائف میں بہت سا روپیہ زکوۃ اور صدقات کا ہوتا ہے جسے آپ اپنے لئے حرام سمجھتے تھے.اس لئے آپ نے کہا کہ میں نہیں لوں گا.اس بات سے وہ بہت رنجیدہ ہوا کہ میں نے احسان کیا یہ انکار کرتا ہے.پھر اس نے خود تو نہ کہا لیکن اطلاع بھیجی کہ آپ کا کھانا مقرر کر دیا گیا ہے.وہ خود لا کر دے جایا کریں گے.کھانا آپ کے لئے قریباً سال بھر آتا رہا مگر ہمیشہ اس روٹی میں چار چیزیں ہوتی تھیں ایک تو نہایت ناقص قسم کے چاولوں کا آٹا جس میں بعض اوقات دھان کے چھلکے بھی ہوتے تھے ، دوم چنوں کا کچھ آٹا، تیسرے ماش یا مونگی کا کچھ حصہ کہ جس کے چھلکے بھی اس میں شامل ہوتے تھے.چوتھے باجرہ یا جوار وغیرہ جسے پہچان نہیں سکے.جوتر کاری ہوتی تھی وہ آموں کا پانی ہوا کرتا تھا جسے یوپی کے لوگ بکثرت استعمال کرتے ہیں.آپ کو اس کھانے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی.اللہ تعالیٰ نے یہ سامان کر دیا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری جو آپ سے پہلے وہاں پڑھتے تھے اور رمضان کی تعطیلات میں گئے ہوئے تھے آپ کے چند روز بعد آگئے اور انہوں نے طلباء کے سامنے بیان کیا کہ آپ صرف و نحو اور منطق و فلسفہ کے بہت ماہر ہیں.اس کا اثر یہ ہوا کہ رمضان میں ہی بعض نے آپ سے پڑھنا شروع کر دیا اور رمضان کے بعد مدرسہ کھلنے پر اساتذہ نے صرف ونحو اور منطق پڑھانے کے لئے ایک جماعت آپ کے سپرد کر دی کہ جس میں اساتذہ کے رشتہ دار اور دوسرے لڑکے شامل تھے.آپ کے شاگردوں میں سے ایک سید تھے اور مدراس کے رہنے والے اور دولتمند گھرانے کے تھے.دو
۲۵ اور کا اور ان کا کھانا ایک شخص کے گھر سے آتا تھا جو حیدرآباد میں ایک معزز عہدہ پر رہ چکے تھے اور ایسے نیک دل انسان تھے کہ طلباء کے لئے اپنے نوکر کے ہاتھ وہی امیرانہ کھانا بھیجتے تھے جو وہ خود کھاتے تھے اور اتنا وافر کھانا ہوتا تھا کہ اس سید طالب علم اور آپ دونوں کے سیر ہو جانے کے بعد بھی قریباً ایک آدمی کا کھانا بچ جاتا تھا جو کسی اور کو دے دیا جا تا تھا.سو جتنی مدت آپ کا قیام دیو بند میں رہا وہ طالب علم خود ہی کھانا آپ کے کمرہ میں لے آتا اور آپ کو کھانے کے لئے کہتا.اس طرح دونوں اکٹھے کھانا کھاتے تھے.تعلیم وتعلم ایک مدراسی غالباً سید شریف نامی آپ سے پہلے پڑھتے تھے بڑے دولتمند تھے.ان کا حدیث کا کتب خانہ نہایت وسیع تھا جس میں صحاح کی قریباً سب شروح اور حواشی موجود تھے.مدرسہ کے دروازہ سے داخل ہوتے ہوئے بائیں جانب اوپر دو کمرے تھے ایک چھوٹا اور ایک بڑا.بڑے کمرہ میں کتب خانہ تھا اور چھوٹے میں مولوی صاحب کی رہائش تھی اور ان کتابوں سے آپ فائدہ اٹھاتے تھے.چونکہ زیادہ تر آپ نے مدارس سے باہر تعلیم پائی تھی اس لئے مدارس کے نصاب کے مطابق بعض فنون میں آپ کی کچھ کہتا ہیں باقی تھیں، حدیث کے دورہ میں جو طلبا شامل ہوتے ہیں انہوں نے مشکوۃ پڑھی ہوتی ہے.لیکن باوجود یکہ آپ نے نہیں پڑھی تھی چونکہ آپ امتحان داخلہ میں پاس ہو گئے اس لئے دورہ میں شریک کر لئے گئے.آپ نے تہیہ کر لیا کہ جن کتابوں کی پڑھائی کی کمی ہے وہ اسی سال پوری کریں گے.چنانچہ آپ نے تفسیر میں بیضاوی، اصول میں توضیح و تلویح اور مسلم الثبوت اور بعض اور کتابیں وہیں پڑھیں.مولوی محمودحسن کے چھوٹے بھائی حکیم محمد حسن حب طبیب بھی تھے اور طب پڑھاتے تھے اور طب کا شوق ہونے کی وجہ سے آپ ان سے طب پڑھنے لگے.چنانچہ فی ان سے پڑھی.جو جماعت اساتذہ نے سپرد کی تھی آپ انہیں دو تین سبق روزانہ پڑھاتے تھے.اس کے علاوہ بھی کچھ طلباء آپ سے پڑھتے تھے.آپ کا کوئی وقت خالی نہیں تھا.کھانا کھاتے ، وضو کرتے ،مسجد میں جاتے ہوئے آپ کسی نہ کسی کو پڑھاتے تھے.قریباً اس طرح سے آپ کل تیرہ سبق روزانہ پڑھاتے تھے.دیو بند میں بعض مجلسی کام اس سلسلہ تعلیم و تعلم کے علاوہ آپ کو وہاں بعض مجلسی کام بھی کرنے پڑے.مثلاً مولوی عبداللہ سکنہ موضع ہٹائی نزد بھیرہ خوش الحان ہونے کی وجہ سے قرآن مجید بہت اچھا پڑھتا تھا لیکن غربت کی وجہ سے حد سے زیادہ
۲۶ لالچی بھی تھا.گو اس کا نقد وظیفہ مقرر تھا لیکن کسی مسجد کے قابو کرنے کی تلاش میں تھا.چنانچہ ایک مسجد منتخب کر کے مغرب کے وقت وہاں جانا شروع کیا.وہاں پر دو پٹھان طالب علم رہتے تھے جو بھائی تھے.بڑا بھائی حدیث کے دورہ میں حضرت مولوی صاحب کی جماعت میں شریک ہوتا تھا.وہ اس مسجد میں نماز پڑھاتا تھا.پٹھانوں میں دستور ہے کہ اگر کوئی مولوی بطور مہمان آئے تو اسے امام بناتے ہیں.چنانچہ مولوی عبداللہ امام بنتے رہے اور ان کی خوش الحانی کی وجہ سے اہل محلہ نے انہیں پٹھان طالب علم کی بجائے رکھ لیا.ایک دن وہ مدرسہ کو آ رہے تھے کہ اس پٹھان نے گلے سے پکڑ کر زمین پر دے پڑٹکا اور اس زور سے گلا دبایا کہ قریب تھا کہ اس کی جان نکل جاتی مگر بازار کے لوگوں نے مشکل سے چھڑایا.اس طرح بعض اور پنجابی طالب علموں کو بھی اس قسم کی تکلیفیں پہنچنے لگیں.اس پر حضرت مولوی صاحب نے پنجابیوں کو جمع کر کے ایک انجمن بنائی اور اس کا بڑا کام یہ رکھا کہ جب تک نو وارد پنجابی طلباء کے گزراہ کی کوئی صورت نہ ہو جائے اس وقت تک ان کے قیام وطعام کا انتظام کیا جائے اور اگر گذراہ کا انتظام نہ ہو سکے تو انہیں کسی دوسرے مدرسہ میں پہنچا دیا جائے.دوم یہ کہ وہاں رہنے والے پنجابی طلباء کی ایسے طور پر نگرانی کی جائے کہ ان سے کوئی ایسی حرکت صادر نہ ہو جو فساد کا موجب بن جائے.چنانچہ اس انجمن میں آپ کو اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو بہت سے کام کرنے پڑے پھر ایک اور انجمن بنی جس کے محرک مولوی ثناء اللہ صاحب تھے.اس انجمن کا کام یہ تھا کہ جمعرات کو تو حید اور عمل بالحدیث کے متعلق تقریریں کی جائیں.پہلے دن میں اس انجمن میں صرف تین چار آدمی شامل ہوئے لیکن دو تین جمعراتوں کے بعد چھپیں تمہیں لوگ جمع ہوئے.اس سے استادوں کو یہ ڈر پیدا ہوا کہ اس طرح گروہ اہلحدیث ترقی کر جائے گا ابھی سے روک تھام چاہئے.چنانچہ ایک رقابت کے جھگڑے کی بناء پر مولوی ثناء اللہ صاحب کو مدرسہ سے خارج کر دیا گیا اور وہ کانپور چلے گئے لیکن دوسرے ممبران انجمن سے کوئی تعرض نہ کیا گیا.سالانہ امتحان سالانہ امتحان کے قریب طالب علم کتابیں پڑھنے لگے لیکن آپ کو وقت نہ ہونے کی وجہ سے بہت مشکل در پیش ہوئی.اس کا اثر آپ کی طبیعت پر یہ ہوا کہ امتحان سے پہلے ہفتہ میں نیند اور زبان کا ذائقہ دونوں مفقود ہو گئے.مرچ جیسی چیز کا زبان پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا اور دماغ بے کار ہوتا جاتا تھا.اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ جب سے آپ امتحان دینے لگے تھے فیل ہونا تو کجا آپ ہمیشہ اول رہتے تھے.لاہور میں سالانہ امتحان کے ممتحن مولوی عبداللہ ٹونکی ہوتے تھے.انہوں نے حمد اللہ کا ایک حاشیہ لکھا تھا.جس میں حمد اللہ کی چوٹی کی حمد مشکل بحث وجود رابطہ کا ایک نیا حل لکھا تھا.اتفاقاً آپ نے اس حل کے متعلق مولوی عبداللہ صاحب سے
۲۷ کچھ گفتگو کی جس سے ان کی طبیعت پر ایسا اثر پڑا کہ جب تک آپ لاہور میں رہے اور مولوی صاحب سالانہ امتحان کے وقت ممتحن ہوتے تو وہ آپ کو ۱۰۲/۱۰۲ نمبر دیتے.یعنی پرچہ کے پورے نمبر ۱۰۰ اور ایک نمبر عربی زبان میں اور ایک نمبر عربی خط میں لکھنے کی وجہ سے.گو اساتذہ نے حسن ظنی کی بناء پر آپ کو امتحان سے پہلے ہی قابل اعتماد مدرسہ کا استاد مقرر کر دیا تھا مگر آپ سمجھتے تھے کہ جب آپ نے کتا ہیں دیکھی ہی نہیں تو بظاہر فیل ہی ہونگے.امتحان میں کامیابی کے متعلق خواب امتحان کی پہلی رات کو آپ نے خواب دیکھا کہ آپ ایک باغ میں گئے ہیں اور اس کے کنارہ پر ایک سادہ قبر ہے.اس میں چھوٹا سا سوراخ ہے.آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ دیو بند کی قبر ہے.آپ قبر کے پاس کھڑے ہوئے اسی وقت مولانا اس سوراخ سے برآمد ہوئے.کھدر کا لمبا گر نہ اور کھڈ رکی ٹوپی پہنی ہوئی ہے.ایک گریبان کے چھاتی پر سے دونوں کنارے ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے کپڑے کو زیادہ سینک لگ جائے اور وہ قدرے جھلس جائے.آنکھیں بالکل سُرخ ہیں اور آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں.انہوں نے کوئی بات نہیں کی اور قبر سے نکلتے ہی دیو بند شہر کی طرف چل پڑے.ایک بہت بڑا عالی شان ہال جو لا ہور اسٹیشن کی طرز کا ہے اس میں کئی قطار میں چھوٹی میزوں کی لگی ہوئی ہیں اور ہر میز کے اوپر کاغذوں کا دستہ اور قلم و دوات اور ہر میز کے پاس ایک کرسی ہے اور قلم ایک نہیں بلکہ سرکنڈے کی کئی قلمیں ہیں.مولا نا چلتے چلتے اس ہال میں آگئے اور درمیانی قطار کے عین وسط کے قریب ایک میز کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے ہیں.اس سارے عرصہ میں مولوی سرورشاہ صاحب سے نہیں بولے لیکن اب آپ کی طرف دیکھ کر پو چھا کہ یہ تمہاری میز ہے؟ آپ نے کہا.ہاں.تو انہوں نے قلم لے کر دوات میں سے سیاہی لی اور ان کاغذوں کے آخر میں صرف’ پاس لکھ کر واپس چلے گئے.اس قدر نظارہ دیکھ کر آپ بیدار ہوئے.اس سارے ہفتہ میں آپ صرف چند منٹ ہی سوئے تھے اور ان میں یہ خواب دیکھا تھا.صبح امتحان شروع ہوا.وہاں کا دستور ہے کہ جس کے نمبر دوسروں سے زیادہ ہوں اور بخاری شریف کے امتحان میں خصوصیت کے ساتھ اول آئے اسے اوّل قرار دیتے ہیں.پہلے ہی دن بخاری کا امتحان تھا.سوالات کا پرچہ پڑھتے ہی آپ پر گہری نیند طاری ہوئی اور پرچہ ہاتھ سے گر پڑا.غم بکلی کا فور ہوا اور سوالات بالکل سہل معلوم ہونے لگے.آپ نے نگران کو کہا کہ میں ہفتہ بھر نہیں سو یا سخت نیند آ رہی ہے.اگر اجازت دیں تو میں پندرہ منٹ یہیں سو جاؤں.اس نے اجازت دے دی.چنانچہ پندرہ منٹ سو کر آپ نے پر چہ لکھا.
۲۸ نتیجه امتحان آپ سہارن پور سے اتفاقاً دیو بند گئے تو دوم مدرس مولوی خلیل الرحمن انبیٹھوی نے آپ کو سند دی جس میں مولوی محمود حسن اول مدرس نے تحریر کیا تھا کہ میں تئیس سال سے اس مدرسہ میں پڑھا تا رہا ہوں.اس عرصہ میں تین بے مثل طالب علم میرے پاس آئے ہیں.ایک مولوی محمد بنگالی کہ اسے اعتراض پیدا کرنے میں بہت کمال حاصل تھا.جس بات کے متعلق ہمارے وہم میں بھی یہ بات نہ آتی ہو کہ اس پر کوئی اعتراض ہوسکتا ہے اس میں بھی وہ کوئی اعتراض پیدا کر لیتے تھے.دوسرے ایک پنجابی مولوی کہ مشکل اور پیچیدہ عبارت کو بھی بہت صحیح طور پر حل کر لیتے تھے اور تیسرے سرور شاہ صاحب کہ ان کا ذہن کبھی غلط بات کی طرف جاتا ہی نہیں.جونئی بات کہتے ہیں وہ نہایت معقول ہوتی ہے لیکن حضرت مولوی صاحب نے یہ سند واپس کر دی اور کہا کہ آپ یہ دعا کریں کہ جوسند اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے وہ سند قائم رہے اور زبان پکڑ کر بتایا کہ یہ میری سند ہے.امیر گھرانے میں شادی کی پیشکش سہارن پور میں پڑھانے کے وقت مولوی وضع کا ایک شخص مدرسہ میں آ کر بیٹھ رہتا تھا.ایک دن عالی شان نوابی طرز کے مکان میں اپنے ہاں دعوت کے بہانہ سے لے گیا اور پُر تکلف کھانا کھلایا.آپ کو خیال ہوا کہ یہ اس کا مکان نہیں ہو سکتا.دوسرے روز اس نے کہا کہ یہ دعوت ایک رئیس کی طرف سے تھی جو ایک بڑے عہدہ پر مقرر ہے.اس کی اولا د صرف ایک ہی لڑکی ہے.تین گاؤں کا مالک ہے.وہ اس کی شادی کسی سید مولوی سے کرنا چاہتا ہے.اس نے تو آپ کو دیکھا ہوا تھا.دعوت میں مستورات نے بھی دیکھ کر پسند کر لیا ہے.اگر آپ تیار ہوں تو وہ نصف جائیداد نکاح کے روز ہی آپ کے نام لکھ دے گا.آپ نے محافظ دفتر سے مشورہ کیا.وہ بڑا نیک تھا اور آپ اکثر اس سے مشورہ لیا کرتے تھے.اس نے کہا کہ اگر آپ کا وطن جانے کا خیال ہے تو یہ شادی مفید نہیں.یہ لوگ معمولی قوم کے ہیں.بادشاہوں کے وقت میں غلام تھے.اس وقت کی جائیداد ان کے پاس چلی آتی ہے.یہاں شادی کریں گے تو اولاد اور دوسرے رشتہ داروں میں اجنبیت کی رہے گی لیکن اگر وطن جانے کا خیال نہ ہو تو خیر.چنانچہ آپ نے وہاں شادی نہ کی.یہ مولوی کیمیا گری کا بہت مشتاق تھا اور آپ کو بھی باوجود انکار کے زیادہ وثوق سے کیمیا گر یقین کرتا تھا.در حقیقت اس نے آپ کو دیو بند میں دیکھا تھا کہ آپ نے وظیفہ لینے سے انکار کیا تھا اور کہتا تھا کہ اگر آپ کیمیا گر نہیں ہیں تو بھلا طالب علم وظیفہ کا انکار کیسے کر سکتا ہے؟
۲۹ مراجعت وطن سہارن پور میں سال سوا سال پڑھانے کے بعد آپ ماہ رمضان کی تعطیلات میں وطن گئے.آپ کو وطن سے بے رغبتی تھی.اس لئے کہ پہاڑی علاقہ ہے اور لوگ جاہل ہیں.علم کو ضائع کرنے کا موجب ہو سکتے ہیں لیکن ترقی کا باعث نہیں ہو سکتے.بڑے بھائی نے اور اس کے بعد والد صاحب بزرگوار نے وطن میں اقامت گزین ہونے پر اصرار کیا تو آپ والد صاحب کے شوق علم اور اپنی ایک خواب کی بنا پر وطن میں ٹھہر گئے.ایک پرانا خواب اور اس کی تعبیر حضرت مولوی صاحب کے وطن میں مقیم ہونے کا باعث دوسری بات یہ ہوئی کہ والد صاحب نے کسی سے ذکر کیا کہ جس طرح مجھے حدیث پڑھنے کا شوق تھا اور حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ سے پڑھ کر پورا ہوا.اسی طرح قرآن مجید پڑھنے کا بھی مجھے شوق تھا اور مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ سید سرور شاہ قرآن مجید کا علم رکھتے ہیں.اس لئے میں ان سے پڑھوں گا.یہ بات سن کر آپ کو اپنا ایک پرانا خواب یاد آیا جو آپ نے ایک مولوی صاحب کو سُنا یا تھا جو کہ آپ کے گاؤں میں آپ کو پڑھانے کے واسطے رہتے تھے.یہ استاد بہت باخدا تھے اور اس کا علم صرف مولوی صاحب کو تھا.مولوی صاحب کو بچپن میں ہی تہجد کا شوق تھا اور اسے مخفی رکھنے کے لئے آپ نے مسجد میں جا کر جہاں رات کو کوئی نہیں ہوتا تھا نماز پڑھنی شروع کی.معلوم ہوا کہ اس اندھیری مسجد میں استاد نماز پڑھتے ہیں.بچوں جیسی عقل کی وجہ سے آپ نے چاہا کہ استاد صاحب سے پہلے آیا کریں مگر جس قدر پہلے آئیں وہ وہاں موجود ہوں آخر معلوم ہوا کہ وہ صرف جمعہ کی رات گھر جاتے ہیں اور کچھ زیادہ وقت گھر میں رہتے ہیں مگر پھر بھی آدھی رات کے وقت مسجد میں آجاتے ہیں اور دیگر ایام میں قریباً ساری رات مسجد میں رہتے تھے.وہ تعبیر بھی عمدہ کرتے تھے.آپ نے خواب دیکھا کہ گاؤں کے آگے جو دریا بہتا ہے اس پر شہناؤں کے ذریعہ والد صاحب اور بھائی اور دوسرے لوگ تیر رہے ہیں اور دریا بھی بڑا ہے لیکن آپ اس میں پیدل چلتے ہیں اور اس کا پانی گھٹنوں اور ٹخنوں تک رہتا ہے.آپ اسی حیرانی میں بیدار ہو گئے کہ اتنا بڑا دریا ہے اور آپ کے صرف گھٹنوں اور ٹخنوں تک آتا ہے.باوجود یکہ حضرت مولوی صاحب اس وقت نا بالغی کی عمر میں تھے اور آپ کو تعلیم نہیں دلائی جارہی تھی.استاد نے یہ تعبیر بتائی کہ اللہ تعالیٰ تجھے علم دے گا اور علم پڑھ کے جب تم گھر آؤ گے تو تمہارے والد تم سے پڑھیں گے اور جو مقامات اوروں کے لئے بہت مشکل ہوں گے وہ تمہارے لئے آسان ہوں گے.چنانچہ والد صاحب آپ کو دو سال تک سہارن پور سے واپس بلانے کا تقاضا کرتے
۳۰ رہے اور بالآ خر والد صاحب کے کہنے کے مطابق آپ مولوی سید احمد سکنہ حسن ابدال کو اپنا قائم مقام مقرر کرا کے چلے آئے.یہ صاحب دو سال تک وہاں پڑھاتے رہے.اس کے بعد آپ کے استاد مولوی خلیل احمد صاحب مدرس دوم دیو بند کو مقرر کر دیا گیا.وطن آئے تو والد صاحب نے آپ سے قرآن مجید پڑھا.آپ کا تجر علم آپ کے تجر علم کی جھلک زمانہ طالب علمی سے ہی نظر آتی تھی.جب کہ ابھی آپ نے انتہائی کتب پر عبور بھی نہیں کیا تھا.ان دنوں ہندوستان میں منطق و فلسفہ کے امام مولوی عبدالحق خیر آبادی تھے اور حضرت مولوی صاحب کے نزدیک آپ کے لاہور والے استاد کا علم مولوی عبدالحق صاحب سے بہت زیادہ تھا.گو انہوں نے یہ فن معمولی لوگوں سے پڑھا تھا لیکن وہ ہمیشہ مطالعہ میں لگے رہتے تھے.حتی کہ جو کتاب پڑھاتے تھے اس کا بھی رات کو مطالعہ کرتے تھے.مدرسہ نعمانیہ میں اس وقت کتابیں بہت کم ہوتی تھیں اور دو دو تین تین آدمیوں میں کتاب مشترک ہوتی تھی اور استاد صاحب بھی کسی طالب علم سے کتاب لے کر مطالعہ کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب کی طبیعت کو اس فن کے ساتھ خاص مناسبت ہونے کی وجہ سے استاد پر یہ اثر تھا کہ وہ کہتے کہ اس نے اول تو دو دفعہ یہ فن پڑھا ہوا ہے.نہیں تو ایک دفعہ کے متعلق تو کوئی شبہ ہی نہیں.اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک ہی کتاب پر ہم باری باری مطالعہ کرتے ہیں اور یہ ہم سے تھوڑا وقت لیتا ہے لیکن سب سے زیادہ اس کی بات کے متعلق فیصلہ ہوتا ہے.میں نے تین دفعہ ایسے مسئلہ میں جس میں میرا اور اس کا جھگڑا تھا مولوی عبدالحق خیر آبادی کو حکم بنایا تو اس نے اس کے مطابق فیصلہ دیا.اگر اس نے پڑھی ہوئی نہیں تو ایسا کیوں ہے.استاد صاحب نے حدیث مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی سے پڑھی ہوئی تھی اور ان کا خیال تھا کہ آپ حدیث بھی ان سے پڑھیں لیکن مذکورہ نقص کی وجہ سے آپ دینی علم ان سے پڑھنا مناسب نہیں سمجھتے تھے.اس لئے دیوبند جانے کا ارادہ ہوا.آپ کی اعلی علمی قابلیت اور مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپوری کی مدرسی مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور دیو بندی خیال کے مدارس میں سے پہلا مدرسہ ہے اسے ام المدارس کہتے ہیں.یہ دیو بند سے قریباً چھ ماہ قبل جاری کیا گیا تھا اور اس کی اعلیٰ نگران کمیٹی بھی وہی مجلس شوری ہے جس کے ماتحت مدرسہ دیو بند ہے.اس مجلس کے سامنے ایک وفد نے یہ معاملہ پیش کیا کہ مدرسہ مظاہر العلوم قریباً اجڑ چکا ہے.اس وجہ سے کہ دوم مدرس حاجی احمد علی صاحب مراد آبادی نے جو منطق وفلسفہ پڑھاتے تھے مدرسہ سے
۳۱ ناراض ہو کر سہارن پور کی ایک مسجد میں مدرسہ جاری کر دیا ہے اور تمام طلباء وہاں چلے گئے ہیں اور مظاہر العلوم خالی ہو چکا ہے.سو جب تک حاجی صاحب کے مقابلہ میں منطق و فلسفہ بہتر پڑھانے والا استاد نہ دیا جائے مدرسہ جاری نہیں رہ سکتا.اساتذہ سے مشورہ کے بعد شوری نے انہیں کہا کہ ہم ایسا استاد دیں گے لیکن امتحان ہو چکنے کے بعد.مگر نتیجہ کا انتظار کئے بغیر امتحان ختم ہوتے ہی بھیج دیں گے اور حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کا نام بتا یا اور کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ آپ حاجی صاحب سے بہتر استاد ثابت ہوں گے.آپ کو امتحان کے بعد وہاں جانے کے لئے کہا گیا اور آپ نے اسے منظور کر لیا.امتحان ہوتے ہی نتیجہ نکلنے سے قبل آپ کو سہارن پور بھیج دیا گیا.وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہاں کام کرنا بہت مشکل ہے.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں کے اول مدرس مولوی حبیب الرحمن جو مولانا محمد قاسم نانوتوی کے استاد مولانا احمد علی کے بیٹے تھے کسی نابکار عورت کی محبت میں سالہا سال تعلیم وتعلم سے بیگانہ ہو کر اس کے پاس رہے تھے اور اس وجہ سے علم بھول چکا تھا لیکن انہیں شوق تھا کہ ہر علم کی بڑی کتا بیں وہ خود پڑھایا کریں.سکیم کے لحاظ سے دوسرے استادوں کو بڑی کتابیں اور بڑی جماعتیں دینے کی بجائے انہیں چھوٹی جماعتیں دیتے تھے.اسی وجہ سے حاجی صاحب مذکور مدرسہ چھوڑ کر علیحدہ ہو گئے تھے اور علیحدہ مدرسہ جاری کر لیا تھا کیونکہ منطق وفلسفہ کی چھوٹی چھوٹی کتابیں مولوی حبیب الرحمن نے ان کے سپر د کر دیں اور بڑی کتا بیں خود پڑھانی شروع کر دیں.یہی سلوک حضرت مولوی صاحب کے ساتھ ہوا.اساتذہ نے کہا کہ آپ یہ کتا بیں نہ پڑھا ئیں اور بڑی کتابیں سپر د کر نے کے متعلق کہیں لیکن آپ نے کہا کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ بہت جلد ہی وہ خود میر امضمون میرے سپرد کر دیں گے.چنانچہ آپ نے یہ طریق اختیار کیا کہ طلباء سے کہدیا کہ میں قریباً فارغ ہی رہتا ہوں اور رہتا بھی مدرسہ کے اندر ہوں.اگر کوئی بات پوچھنا چاہو خواہ وہ کسی فن اور کسی کتاب کی ہوا اور کسی استاد کے متعلق ہو تو میں حتی الامکان کوشش کروں گا کہ آپ کی تسلی ہو جائے.آب طلباء آپ کے پاس آتے اور مشکلات حل کراتے اور تسلی پاتے.چند دنوں میں ہی انہوں نے شور ڈال دیا کہ ہم تو انہی سے پڑھیں گے.آپ نے کہا کہ جب تک مجھے مولوی حبیب الرحمن مقر ر نہیں کرتے از خود سبق نہیں لوں گا.بالآ خر وہ مہتمم مدرسہ کو جو بوجہ بڑا رکیں اور معمر ہونے کے کبھی مدرسہ میں نہیں آیا تھا.طلباء اسے مدرسہ میں کھینچ لائے اور اس نے مولوی حبیب الرحمن سے بات چیت کر کے منطق و فلسفہ کلیہ آپ کے سپر د کر دیا اور باقی علوم کی بھی بڑی کتب آپ کے سپرد کر دیں.جو طلباء مدرسہ چھوڑ کر حاجی صاحب کے پاس چلے گئے تھے واپس مدرسہ میں آگئے اور حاجی صاحب سہارنپور چھوڑ کر میرٹھ چلے گئے.جب حضرت میاں محمود احمد صاحب مع قافلہ مدارس
۳۲ دیکھتے ہوئے میرٹھ پہنچے تو ان کی کلاس میں بھی گئے.حدیث کا درس سُنا حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر تھا.اس پر حافظ روشن علی صاحب نے سوالات بھی کئے.علماء زمانہ کی حالت مولوی حبیب الرحمن کے متعلق ایک بات پہلے بیان ہو چکی ہے.وہ اتنے بڑے فاضل کے بیٹے تھے کہ جن کے ذریعہ حدیث کا علم ہندوستان پھیلا ہے.سب سے پہلے حدیث کی کتابیں ہندوستان میں مولانا احمد علی نے اپنا مطبع جاری کر کے مولانا محمد قاسم نانوتوی جیسے فاضل شاگرد کو ان کی تصحیح پر ملازم رکھ کر شائع کیں.اس زمانہ کے علماء کی حالت بیان کرنے کے لئے حضرت مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہی مولانا احمد علی کے بیٹے مولوی حبیب الرحمن کو جو کہ مدرسہ مظاہر العلوم کے اول مدرس تھے دھوکا بازی میں کمال حاصل تھا.وہ ایک دفعہ بمبئی گئے اور نوابی شان و شوکت کے ساتھ ایک عالیشان کوٹھی لے کر رہائش اختیار کی.پھر ایک بڑے جو ہری کی دوکان پر آئے اس نے آپ کی پسند کے مطابق زیورات دیئے کہنے لگے کہ ہمارے ساتھ چلو ہم بیگم صاحبہ کو بتا ئیں گے جو وہ پسند کریں گی لے لیں گے.مکان پر زیورات لے گئے اور آدھ گھنٹہ کے بعد زیورات واپس کر دئیے اور صرف ایک انگوٹھی لے لی کہ دوسرے ہمیں پسند نہیں.اس کے بعد پولیس میں رپورٹ کر دی کہ ہماری چوری ہوگئی ہے اور انہی زیورات کا پتہ دیا.تلاشی پر وہ تو بر آمد ہو جانے ہی تھے.پولیس کے پوچھنے پر کہا کہ میں ثبوت عدالت میں پیش کروں گا.عدالت میں جو ہری سے پوچھا کہ میرے پاس زیورات کتنی دیر رہے ہیں.اس نے کہا کہ آدھ گھنٹہ مولوی صاحب کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ آدھ گھنٹہ میں ان کے نگینے اکھاڑ کر اسی طرح ہر گز نہیں لگائے جا سکتے اور مجسٹریٹ نے بھی تصدیق کی کہ اکھاڑ کر لگانے سے پھر ایسے نہیں لگ سکتے.اب مولوی صاحب نے یہ ثبوت پیش کیا کہ ایک کاغذ پر اپنے طغرائی دستخط کئے اور کہا کہ اگر ان سب نگینوں کے نیچے میرے اس دستخط کے کاغذ موجود ہوں تو پھر ثابت ہوگا کہ یہ میرے ہیں.اب وہ جس نگینہ کو اکھاڑتے تھے اس کے نیچے سے دستخط نکلتے تھے چنانچہ وہ سارے زیورات مولوی صاحب کو مل گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کہاں سے سُنا طالب علمی کے زمانہ میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کہاں سُنا اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبول حق کی توفیق عطا کی ایک بہت ہی سبق آموز قصہ ہے.ہم اسے یہاں تفصیل سے
۳۳ بیان کرتے ہیں.اس سے معلوم ہوگا کہ اللہ تعالی پاک طبع لوگوں کو ضائع نہیں کرتا اور اپنی رحمت اور فضل سے انہیں چاہ ضلالت سے بچاتا ہے.حضرت مولوی نورالدین کی خدمت میں حاضر ہونا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر سنا.جستجو شروع ہوئی.لاہور میں طالب علمی کے زمانہ میں آپ نے معلوم کرنا چاہا کہ احمدیت کیا چیز ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچے ہیں یا نہیں ؟ لیکن مخالفین سے مخالفت کی وجہ سے پتہ نہ لگا.موافقوں سے بھی پورا علم نہ ہو سکا.حضور علیہ السلام ایک دفعہ لاہور تشریف لائے.مولوی صاحب نے ملاقات کی بہتیری کوشش کی.مگر نہ مخالفین حضور علیہ السلام کی جائے قیام کا پتہ دیتے تھے اور نہ ہی احتیاط کی وجہ سے احمدی.اس لئے ملاقات کا ان دنوں کوئی موقعہ نہ ملا.آپ کی طبیعت میں جستجو اسی زمانہ میں تھی.مخالفوں سے آپ عموماً احمدی بن کر باتیں پوچھتے اور احمدی عالم سے غیر احمدی کے طور پر دریافت کرتے تھے اور دعا بھی کرتے تھے.اگر چہ آپ کو یہ ڈر تھا کہ شاید نماز میں اپنی زبان میں دعا کی جائے تو قبول نہ ہو.جیسا کہ عام خیال تھا لیکن اپنی زبان میں دعا کرتے ضرور تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جاتے ہوئے حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ لا ہور اُترتے تھے اور مولوی سرور شاہ صاحب کو والد صاحب نے تاکید کی ہوئی تھی کہ حضرت مولوی صاحب آئیں تو ضرور ملا کرو.اس لئے آپ ملا کرتے تھے اور حضرت مولوی صاحب کی آمد سے باخبر رہنے کے لئے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ مولوی سرور شاہ صاحب کے ایک ہم جماعت مولوی محمد الدین بھیروی چینیاں والی مسجد میں نماز پڑھتے تھے ان سے کہا ہوا تھا کہ حضرت مولوی صاحب کے آنے پر اطلاع دیا کریں.کیونکہ آپ اس مسجد کے قریب مرزا امیر الدین کے مکان پر اترا کرتے تھے جو کہ پرانی کو توالی کے مغربی جانب ایک دو مکان کے فاصلے پر واقع تھا اور یہ مکان بھی مولوی محمد الدین کی رہائش کے قریب تھا.مرزا صاحب وہابی تھے اور حضرت مولوی صاحب کے وہاں ہونے کے زمانہ کے ان سے تعلقات تھے افسوس کہ احمدی نہیں ہوئے.حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اڑ ہائی شخص مجھ پر عاشق ہوئے ہیں.ایک شیر شاہ نام سید، ایک مولوی سرورشاہ صاحب کے والد اور ایک صاحب جن کا نام یقیناً حکیم محمد الدین سکنہ بھیرہ تھا.جو غالبا حکیم محمد جلیل صاحب احمدی کے والد تھے.حکیم محمد الدین آپ کے ہم عمر تھے اور راولپنڈی میں مطلب کیا کرتے تھے.آدھے عاشق اس لئے کہ وہ احمدی نہیں ہوئے تھے.باقی دوسرے دعوی سے قبل وفات پاچکے تھے.مولوی سرور شاہ صاحب کے والد واقعی
۳۴ حضرت مولوی صاحب کے عاشق معلوم ہوتے تھے کہ رات دن ان کے منہ سے ہر مجلس میں یہ بات نکلتی تھی کہ مولوی صاحب نے یوں فرمایا ہے.ایک دفعہ مولوی محمد الدین کے اطلاع دینے پر مولوی سرور شاہ صاحب انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ کی تقریر سننے گئے.آپ نے إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَام پر پورے چار گھنٹے تقریر کی.تقریر کے بعد لوگوں نے مصافحہ کرنا شروع کیا.حضرت مولوی صاحب مصافحہ بھی کرتے جاتے تھے اور مولوی سرور شاہ صاحب کی طرف بھی بڑھتے آتے تھے جو کہ آپ کے راستہ سے ایک طرف کچھ فاصلے پر کھڑے تھے اور آ کر آپ کو بغلگیر کیا اور زمین سے اٹھا لیا اور اپنے واقفوں سے کہا کہ یہ میرے دوست بلکہ عاشق کا بیٹا ہے.اس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت مولوی صاحب آپ کو جانتے ہیں.آپ نے حضرت مولوی صاحب سے اپنا تعارف نہیں کرایا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود کے متعلق پہلا خواب مولوی سرور شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق تہجد میں دعا کیا کرتے تھے.آپ نے خواب دیکھا کہ لکن خان کی مسجد میں جہاں مدرسہ نعمانیہ تھا اور آپ رہتے تھے آپ اور آپ کے والد ہیں.کسی نے آپ کو سنایا کہ مسجد وزیر خاں میں ایک شخص آیا ہوا ہے وہ اپنے تئیں نبی کہتا ہے اور وہاں بہت لوگ جمع ہیں.والد صاحب کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ چلو ہم بھی مل آئیں.راستہ میں آپ نے کہا کہ اب تو نبی کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں لیکن والد صاحب نے کہا کہ خدا اب بھی نبی بنا سکتا ہے ( جس کا مفہوم یہ تھا کہ ایسا نبی آسکتا ہے جو کہ خاتم النبین ہی ہو یعنی ایسا بروز آ سکتا ہے جس کی نبوت در حقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ہوگی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں اور ایک غلطی کا ازالہ میں اس امر کی بخوبی صراحت فرما دی ہے اور یہ امر بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب نبیوں کے جامع ہیں اور اسی واسطے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خطاب ملا ہے کہ جری اللہ فی حلل الانبیاء ) یہی بات کرتے ہوئے دونوں مسجد وزیر خاں کے مشرقی دروازہ پر پہنچے جس میں سے مولوی صاحب کبھی نہیں گذرے تھے.وہاں پہنچ کر ایسا معلوم ہوا کہ وہ نبی والد صاحب کا واقف ہے اور نبی کو بھی کسی نے بتا دیا تھا کہ والد سید محمد حسن شاہ صاحب آ رہے ہیں.چنانچہ وہ ملنے کے لئے اس دروازہ پر آگئے ہیں اور حمد آل عمران: ۲۰
۳۵ دونوں نے آپس میں مصافحہ کیا اور سید صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے پہلے دالان کے جنوبی جانب میں دیوار کے ساتھ پیٹھ لگا کر شمال کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے اور سید صاحب کو اپنی داہنی طرف بٹھا دیا اور مولوی صاحب اس کے سامنے دو تین گز کے فاصلہ پر شمال کی طرف پیٹھ کر کے اور نبی کی طرف منہ کر کے دوزانو بیٹھ گئے.یہ نبی ہو بہو حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ ہیں وہی قد بت ، وہی لباس ، وہی شکل ،مگر آنکھیں بند اور سر جھکایا ہوا ہے جیسے مراقبہ یا استغراق کی حالت ہوتی ہے.ساری مسجد آدمیوں سے بھری ہوئی ہے.مولوی سرور شاہ صاحب کو خیال آیا کہ اس نبی کی صداقت معلوم کرنی چاہیئے اور سوچا کہ شناخت کرنے کے لئے کیا ذریعہ اختیار کیا جائے.یہ بات سوجھی کہ آپ چند مسئلے خیال میں رکھیں.اگر یہ واقعہ میں نبی ہے.تو ان کے متعلق کچھ بتائے گا.اس خیال پر اس نبی نے سر اٹھایا اور آنکھیں بند ہی رکھیں اور ان تینوں مسئلوں پر تقریر شروع کر دی.اس وقت مولوی صاحب کے دل میں ایک یقین کی حالت پیدا ہوگئی کہ واقع میں یہ سچا نبی ہے اور آخر میں اس نے یہ الفاظ بھی کہے کہ جو خدا کی طرف سے آتے ہیں وہ اسی طرح آزمائے جاتے ہیں.مگر وہ آزمائشوں میں بچے نکلتے ہیں.اس کے بعد معا آپ کے دل میں خیال آیا کہ سوائے خدا کے اور کوئی نہیں بتا سکتا اور آپ اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور بلند آواز سے روتے ہوئے یہ دعا کرنا شروع کی کہ خداوند ! تو جانتا ہے کہ میں جاہل ہوں.مجھے معلوم نہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے یا مفتری ہے.اگر یہ تیری طرف سے ہے تو تو اس کی سچائی مجھ پر ظاہر کر دے اور میں اس کو ضرور مان لوں گا اور اگر یہ تیری طرف سے نہیں اور مفتری ہے تو اس کا افتراء مجھ پر ظاہر کر دے.خواہ ساری دنیامان لے میں اسے ہرگز نہ مانوں گا.خواب ہی میں اچانک آپ پر کشفی حالت طاری ہوئی اور مخروطی شکل کا ایک نور نظر آیا.اس کی موٹی طرف آسمان سے لگی ہوئی تھی اور باریک سرا اس نبی کے دل میں تھا.اس مجلس کے سب لوگوں کے دل مولوی صاحب کو نظر آتے تھے جو بالعموم نہایت ہی مگر وہ شکل کے تھے کہ انہیں دیکھ کر قے آتی ہے اور مختلف رنگ اور شکلوں کے تھے اور مقدار بھی ان کی مختلف تھی لیکن اس نبی کا دل بہت بڑا اور عقیق کے رنگ کا تھا اور اس میں سے نور جو نکلتا تھا وہ نہایت سفید براق لیکن اس کے اوپر کچھ سبزی مائل نشان تھا اور بہت خوبصورت نظر آتا تھا.یہ نظارہ دیکھتے ہوئے آپ کے دل نے نہایت پختہ طور پر یقین کر لیا کہ یہ نبی واقعہ میں اللہ تعالی کی طرف سے ہے.ابھی آپ ہاتھ اٹھائے دعا کر رہے تھے کہ پیچھے سے کسی نے آ کر آپ کے بائیں شانہ سے ذرا نیچے پیٹھ پر ہاتھ رکھا اور نہایت باریک چینی ہوئی آواز کے ساتھ اس نے اس تیزی کے ساتھ کہا کہ گمراہ ہے ، گمراہ ہے، گمراہ ہے کہ کوئی انسان اتنی تیزی سے اسے دُہرا نہیں سکتا.ہاتھ رکھنے سورۃ الاحقاف
۳۶ پر اسے دیکھنے کا ارادہ کیا اور اس کی آواز سے یہ خیال اور بھی زیادہ ہوا اور بہت جلدی مڑ کر دیکھا لیکن وہ غائب ہو گیا اور آپ اسے دیکھ نہ سکے.اس کے بعد بیدار ہو گئے.یہ خواب بہت صاف تھا مگر اس وقت دینی علم نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے خیال کیا کہ اپنے استاد سے تعبیر دریافت کروں کہ وہ تعبیر اچھی کرتے ہیں.صبح سبق شروع کرنے سے قبل آپ نے خواب سنایا تو انہوں نے کہا کہ بس اس کی تعبیر یہی ہے کہ وہ گمراہ ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ آپ خواب کو ہنسی میں ثلاتے ہیں.سنجیدگی سے اس کی تعبیر بتائیں لیکن وہ اس بات کو دوہراتے رہے.آپ کے لئے ابتلاء مقدر تھا اسی اثناء میں کہ آپ تعبیر کو بنی سمجھ رہے تھے مولوی محمد الدین جو حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کا پتا دیا کرتے تھے وہ بھی اس سبق میں شریک ہونے والے تھے لیکن ابھی آئے نہیں تھے وہ بھی آگئے اور انہوں نے کھڑے کھڑے کہا کہ شاہ صاحب ! آپ کے وہ مولوی صاحب آگئے ہیں اور ان کا چینیاں والی مسجد میں وعظ ہو گا.لوگ جمع ہیں اور واعظ شروع ہونے والا ہے.شاید آپ کے جانے تک شروع ہو جائے.استاد نے کہا دیکھو میری بات کی تصدیق ہو گئی کہ وہ یہی لوگ ہیں اور نور الدین ہی نے مرزے کو بھی گمراہ کیا ہے.مولوی سرور شاہ صاحب اجازت لے کر مسجد چینیاں والی میں پہنچے.اس وقت حضرت مولوی صاحب وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّاب * والا رکوع پڑھ رہے تھے.اس دن پُرانے رواج کے مطابق پہلے ہی آپ کو یہ بات گراں معلوم ہوئی کہ حضرت مولوی صاحب نے حمائل ایک ہاتھ میں درمیان میں انگوٹھا ڈال کر پکڑی ہوئی ہے اور بعض وقت قرآن مجید والا ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بھی چلا جاتا ہے.مولوی صاحب کو خیال ہوا کہ آپ قرآن مجید کا ادب نہیں کرتے.نیز آپ نے سارے رکوع کے نئی طرز کے معنے کئے اور آخر پر فرمایا کہ آپ لوگ تعجب کرتے ہوں گے کہ یہ وہی نورالدین ہے جس سے پہلے بھی ہم قرآن مجید سنتے رہے ہیں لیکن ان میں یہ معارف بالکل نہیں ہوتے تھے.مگر اب یہ ایسے نئے معارف بیان کر رہا ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ وہی معارف ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے لیکن یہ معارف مجھے خدا تعالیٰ کے مسیح کے طفیل ملے ہیں جس کو میں نے قبول کیا ہے.حضرت مولوی صاحب کے الفاظ سے آپ نے یہ مفہوم سمجھا کہ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معارف دیئے گئے تھے وہی ان کو بھی مل گئے اور اسے ایک بڑا دعوی خیال کر کے آپ نے سمجھ لیا کہ میری خواب کی یہی تعبیر ہے اور استاد کی بیان کردہ تعبیر صحیح ہے.چنانچہ اس ابتلاء کی وجہ سے دعا اور تحقیق آپ سے چھوٹ گئی.ل صفحه ۲۸ تا ۳۰
۳۷ مباحثه مابین حضرت مولوی نورالدین صاحب و مولوی محمد حسین بٹالوی اسی طرح ایک دن آپ کو حضرت مولوی صاحب کے مسجد چینیاں والی میں آنے کی اطلاع ملی حضرت مولوی صاحب نماز عصر کی جماعت ہو جانے کے بعد پہنچے تھے اور حوض پر وضو کر رہے تھے کہ مولوی سرورشاہ صاحب بھی وہاں پہنچے اور مولوی محمد حسین بٹالوی بھی وہاں آگئے اور آتے ہی کہا کہ مولوی صاحب ! آپ نے بہت غلطی کی ہے کہ مرزے کی بیعت کرلی ہے.حضرت مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے غلطی نہیں کی.میں نے سوچ سمجھ کر اور خوب غور کر کے اور اسے حق پا کر بیعت کی ہے.مگر مولوی محمد حسین بار بار اسی بات کو دوہراتے تھے کہ آپ نے غلطی کی ہے اور اسی تکرار میں ان کا پارہ بھی تیز ہوتا جاتا تھا.پہلے وہ مولوی صاحب کہہ کر خطاب کرتے تھے پھر حکیم جی کہنے لگے اور پھر تو کہنے پر اتر آئے اور آخر میں کہا کہ میرے ساتھ مباحثہ کر لو.آپ نے کہا بہت اچھا.کہاں پر ؟ مولوی محمد حسین نے کہا کہ جس جگہ آپ اُترے ہوئے ہیں یعنی مرزا امیر الدین کے مکان پر.آپ نے پوچھا کس وقت ؟ مولوی صاحب نے کہا صبح سویرے.چنانچہ صبح کی نماز پڑھتے ہی مولوی سرور شاہ صاحب مرزا صاحب کی بیٹھک میں پہنچ گئے اور مولوی محمد حسین کے آتے ہی مباحثہ شروع ہو گیا.مولوی محمد حسین نے چوبیس اصول نوٹ کر رکھے تھے اور وہ قریباً ایسے ہی تھے کہ ایک کو مان لو تو دوسرا خود ہی ماننا پڑتا تھا مثلاً یہ کہ حقیقت و مجاز کا جہاں احتمال ہو تو جب تک حقیقی معنے متعذر نہ ہوں اس وقت تک وہی لینے چاہئیں.اب اگر اسے مان لیں تو بہت سی احادیث اور آیات کے معنے کرنے میں ضرور دقت پیش آتی ہے.ہر ایک اصل کی دلیل دریافت کرنے پر مولوی محمد حسین قرآن مجید یا کوئی حدیث پیش نہ کر سکے اور ہر اصل پر یہی کہتے کہ اچھا آگے چلو مگر یہاں بھی یہی حال ہوتا تھا.چوتھی اصل حقیقت و مجاز والی تھی.اس پر بھی ان کا یہی جواب تھا.حضرت مولوی صاحب نے کہا مجھے تعجب ہے کہ آپ اہل حدیث کہلاتے ہوئے پھر جو بات پیش کرتے ہیں اس کی نسبت حدیث سے کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے.حقیقت و مجاز کے متعلق آپ قاعدہ پیش کرتے ہیں.کیا کسی حدیث سے آپ حقیقت و مجاز کا لفظ بھی بتا سکتے ہیں یا ان کی نسبت بعض مولویوں نے جو قاعدہ گھڑا ہوا ہے کیا اس کا ذکر حدیث سے بتا سکتے ہیں؟ اسی چوتھے اصل پر بحث ہو رہی تھی کہ بارہ بج گئے.مرزا صاحب کا نوکر بار بار آ کر کہتا تھا کہ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے کھا لیں.مگر حضرت مولوی صاحب کی توجہ اس طرف تھی.آخر مرزا صاحب نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا کہ مولوی صاحب بحث تو ہوتی رہے گی.آپ کھانا کھالیں اور بالا خانے میں لے گئے.مولوی محمد حسین کے پوچھنے پر کہ بحث پھر کس وقت ہو گی.آپ نے کہا کہ جس وقت آپ آجائیں.مولوی محمد حسین نے کہا کہ پھر دو بجے بحث شروع ہوگی.آپ نے کہا بہت اچھا.
۳۸ حضرت مولوی صاحب کا سفر لدھیانہ اور مباحثہ لدھیانہ مجلس تو برخواست ہوئی لیکن مولوی سرور شاہ صاحب وہیں بیٹھے رہے اور آپ کی موجودگی میں ایک تار مہا راجہ جموں کے سیکرٹری کا آیا کہ مہاراج کی طبیعت علیل ہوگئی ہے.وہ آپ کو یاد کرتے ہیں.آپ فوراوا پس آجائیں مگر حضرت مولوی صاحب نے مرزا امیر الدین کو کہا کہ میں تو حضرت مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے آیا ہوں.جب تک حضور سے نہ ملوں واپس نہیں جاؤں گا.حضرت صاحب لدھیانہ میں ہیں.میں لدھیانہ جاؤں گا اور پہلی گاڑی میں واپس آ جاؤں گا.چنانچہ ٹانگہ منگوا لیا تھا.آپ بہت جلد اترے اور ایک بجے کی گاڑی سے لدھیانہ روانہ ہو گئے.مولوی محمد حسین ڈیڑھ بجے سے بھی پہلے واپس آئے اور بازار میں ہی کھڑے ہو کر پوچھا کہ مرزے کا حواری کہاں گیا ؟ انہیں بتایا گیا کہ ایسا تار آیا تھا.اس کی وجہ سے وہ چلے گئے ہیں مگر انہیں پرا پیگینڈا کا خوب موقع مل گیا.اس زمانہ میں لاہور میں ان کا اثر بھی بہت تھا.وہ بازار میں کھڑے ہو گئے اور جوسواری ، ٹانگہ، فٹن، یکہ آتا اسے روک لیتے کہ ٹھہرو، اسٹیشن پر جاتے ہیں.مرزے کا حواری بھاگ گیا ہے اس کو پکڑنا ہے.چنانچہ پرانی کو توالی سے لے کر ڈبی بازار کے انتہا تک دو قطاروں میں سواریاں کھڑی تھیں.راستہ بند ہو گیا تھا.ہر سواری کو کھڑا ہونا پڑتا تھا اور مولوی محمد حسین برابر پکار رہے تھے کہ مرزے کا حواری بھاگ گیا.چلو اس کو پکڑتے ہیں.کوئی ایک گھنٹہ یہ سلسلہ جاری رہا.اڑھائی بجے کے قریب یہ قافلہ اسٹیشن کی طرف چلا اور راستہ میں بھی مولوی صاحب اور ان کے ساتھی یہ شور کرتے جاتے تھے کہ مرزے کا حواری بھاگ گیا ہے اسے پکڑنے چلے ہیں اور اسٹیشن پر جا کر مولوی صاحب نے شور مچایا کہ کہاں ہے مرزے کا حواری؟ اسٹیشن والوں نے بار بار انہیں سمجھایا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایک بجے گاڑی چھوٹتی ہے اور مولوی نورالدین آ کر ٹھیک ایک بجے گاڑی پر روانہ ہو چکے ہیں.اب وہ یہاں کہاں ہیں.مگر مولوی صاحب پھر بھی شور کرتے رہے.اس پرو پیگنڈا کے بعد مولوی محمد حسین نے وہیں سے حضرت صاحب کو لدھیانہ تا ر دیا کہ آپ کا حواری مباحثہ سے بھاگ آیا ہے.آپ اس کو واپس بھیجیں ورنہ میں آپ کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے لدھیانہ آتا ہوں.چنانچہ یہی تحریک مباحثہ لدھیانہ کی محرک بن گئی اور اس واقعہ کے پندرہ دن بعد اس مباحثہ کی صورت قرار پائی.
۳۹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اولین ملاقات رمضان کی ابتداء میں دیو بند جاتے ہوئے مولوی صاحب لدھیانہ اتر پڑے اور اپنے ہم جماعت مولوی ابراہیم کے پاس گئے جو کہ شہزادوں کی مسجد کے مدرسہ میں ملازم ہو گئے تھے.یہ مولوی ابراہیم بعد میں لائل پور کے قریب ایک قصبہ کی جامع مسجد کے امام بن گئے تھے.مشہور مخالف احمدیت مولوی ابراہیم سیالکوٹی اور ہیں.انہیں علم تھا کہ جس زمانہ میں وہ آپ کے ساتھ پڑھتے تھے.آپ حضرت صاحب کی نسبت تحقیق کیا کرتے تھے.انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہی دوسری بات یہ کہی کہ شاہ صاحب! آپ کے وہ مرزا صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں.آپ نے کہا کہ پہلے میں انہیں ملوں گا پھر آپ کے پاس بیٹھوں گا.اس نے کہا کہ میں تو یہاں مولوی ہوں.آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا.ہاں آپ کے ساتھ ایک طالب علم بھیج دیتا ہوں.وہ بھی آپ کے ساتھ اس مکان کے قریب نہیں جائے گا لیکن دور سے آپ کو مکان کا پتہ بتا دے گا.چنانچہ طالب علم ساتھ ہو لیا اور اس نے مکان کی گلی کے سرے پر ٹھہر کر بتایا کہ وہ نیا دروازہ اسی مکان کا ہے.اس کے اندر چلے جائیں.آپ جب اس دروازہ کے اندر گئے اس وقت حضرت صاحب باہر نکل رہے تھے.کیونکہ لاہور سے دو آدمی ملنے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے مولوی صاحب سے پہلے حضور کی خدمت میں اپنے متعلق اطلاع بھیجی ہوئی تھی.حضور ان کی ملاقات کے لئے تشریف لا رہے تھے.چنانچہ وہ آدمی بھی اُٹھ کھڑے ہوئے اور آگے بڑھے اور مولوی صاحب نے بھی آگے بڑھ کر مصافحہ کیا.حضور بیٹھ گئے.مولوی صاحب کوئی تین گھنٹے حضور کی خدمت میں بیٹھے رہے.اس عرصہ میں حضور نے آپ سے کوئی بات نہیں کی نہ آنکھیں کھولیں.ان دو آدمیوں میں سے ایک آدمی پاؤں دبارہا تھا اور دوسرا گورنمنٹ کی کچھ تعریف کر رہا تھا.حضور صرف ہاں یا نہ کوئی لفظ فرما دیتے تھے اور کوئی بات نہیں کرتے تھے.حضور اس وقت بہت ہی ضعیف معلوم ہوتے تھے.لدھیانوی لنگی باندھی ہوئی تھی.اس لنگی کے ساتھ مولوی صاحب نے حضور کی ایک ہی تصویر دیکھی ہے جو نشی سراج الدین یوپی والوں کے پاس ہے.تین گھنٹہ کے بعد مولوی صاحب رخصت لے کر مصافحہ کر کے حضور سے رخصت ہوئے.اس وقت حضور اتنے کمزور معلوم ہوتے تھے کہ مولوی ابراہیم نے واپس آنے پر جب یہ پوچھا کہ آپ کا ان کی نسبت کیا خیال ہے تو آپ نے کہا کہ اور خیال میں کیا بتاؤں وہ اتنے کمزور ہیں کہ اگر یہ کسی بیماری کا نتیجہ نہیں تو وہ چند دن کے مہمان ہی معلوم ہوتے ہیں.☆ افسوس منشی صاحب چند سال قبل مغربی پاکستان میں بحالت ہجرت وفات پاچکے ہیں.مؤلف
۴۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق دوسرا خواب سہارن پور میں آپ نے خواب دیکھا کہ آپ گاؤں کی مسجد کی طرف گئے.راستہ میں والد صاحب اور بہت سے اور آدمی مسجد کی طرف سے آتے ہوئے نظر آئے.آپ نے پوچھا کہ آپ کہاں گئے تھے یہ نماز کا وقت تو ہے نہیں.انہوں نے کہا کہ ایک بزرگ آئے تھے.انہیں رخصت کر کے واپس آ رہے ہیں.وہ سب آگے چلے گئے.آپ کو خیال آیا کہ میں بھی اس بزرگ سے ملوں.چنانچہ جس طرف بزرگ گئے تھے آپ بھی اس طرف گئے.کچھ فاصلہ پر نظر آیا کہ ایک آدمی آگے جا رہا ہے اور کوئی ساٹھ کے قریب آدمی اس کے پیچھے ہیں اور وہ گھوڑے کی رفتار سے بھی زیادہ تیز ہیں.آپ نے خیال کیا کہ میں کس طرح ان تک پہنچ سکوں گا.میں آہستہ چلتا ہوں اتنا تیز چل نہیں سکتا.مگر عجیب بات ہے کہ ان کی تیزی اور آپ کی آہستگی کے باوجود درمیانی مسافت کم ہونے لگی.چنانچہ ان سے جاملنے کا آپ نے پختہ ارادہ کر لیا.چھ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ پانی کا چشمہ اور اس کے پاس بڑی چٹان ہے وہاں جا ملے.آپ کے پہنچتے ہی باقی آدمی راستہ میں کھڑے ہو گئے.اس بزرگ نے اور ساتھ ہی مولوی صاحب نے چشمہ سے وضو کیا اور اس بزرگ کی اقتداء میں دو نفل پڑھے.اس کے بعد مولوی صاحب نے ساری سرگذشت سُنائی کہ نقشبندی خاندان میں بیعت سے کیا حاصل ہوا اور بتایا کہ آگے کوئی ایسی رکاوٹ آگئی ہے کہ میں مختلف صوفیوں کے پاس گیا ہوں مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا.اس بزرگ نے پہلے دعا کی اور پھر کہا کہ تم درود بہت پڑھا کرو اس سے تمہیں فائدہ ہوگا.آپ نے عرض کی کہ جن صوفیوں کے پاس میں جاتا رہا ہوں وہ بھی مجھے کچھ بتاتے رہے ہیں.جب ان پر لمبا عرصہ گذرنے تک عمل کرنے سے فائدہ نہیں ہوتا تھا تو میں اسے چھوڑ دیتا تھا.یا یوں کہنا چاہیئے کہ وہ خود ہی مجھ سے چھوٹ جاتے تھے.اس بزرگ نے کہا تم رات کو سوتے وقت درود پڑھتے سو جایا کرو.پھر تم سے یہ نہیں چھوٹے گا.وہ بزرگ وہاں ہی بیٹھے رہے اور مولوی صاحب نے جیب سے کاغذ نکالا اور ان لوگوں سے کہا کہ شاید مجھے پھر اس بزرگ کے پاس آنے کی ضرورت پیش آئے اس لئے ان کا نام و پتہ لکھوا د ہیں.انہوں نے کہا کہ ہم تو صرف حضرت صاحب کہا کرتے ہیں اور نام نہیں لیتے.آپ نے نام پوچھنا ہے تو اس سے پوچھو.مولوی صاحب پھر اس بزرگ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میں نے آپ کے ساتھوں سے آپ کا نام و پستہ دریافت کیا تھا تا کہ پھر آنے کی ضرورت ہو تو آ سکوں لیکن انہوں نے کہا ہم تو ادب کی وجہ سے حضرت صاحب کہتے ہیں اس لئے اگر آپ نے ان کا نام پوچھنا ہے تو ان سے آپ خود پوچھ لیں.چنانچہ آپ کے دریافت کرنے پر اس بزرگ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ تم اس کاغذ پر جس قدر لکیریں ڈال سکتے ہو ڈال لو اور پڑھو وہ میرا نام ہوگا.مولوی
۴۱ صاحب نے خیال کیا کہ اس سے تو ان کی کرامت بھی معلوم ہو جائے گی.اس لئے کاغذ کو نظر سے اوجھل کر کے اس پر بے تحاشا لکیریں ڈالنی شروع کیں اور اس قدر ڈالیں کہ آپ کو خیال ہوا کہ اب کوئی جگہ باقی نہیں رہی ہو گی.اب اس بزرگ کے کہنے پر آپ نے پڑھا تو دو انگل موٹی قلم کے ساتھ سنہری سیاہی سے نہایت عمدہ فارسی خط کے ساتھ غلام احمد لکھا ہوا تھا.اس کے بعد بیدار ہو گئے لیکن صبح آپ کو شک پیدا ہو کہ خواب میں نام غلام احمد تھا یا غلام محمد اور زیادہ طبیعت اسی طرف مائل ہوئی کہ غلام محمد تھا.آپ نے تحقیق شروع کی کہ کوئی غلام محمد نام بزرگ مشہور ہے لیکن ہندوستان میں معلوم نہ ہوا تو حاجیوں کے ذریعہ آپ نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی نسبت تحقیق کروائی لیکن معلوم نہ ہوا.صرف ایک صوفی نے اتنا بتایا کہ مکھڈ میں غلام محمد نام ایک بزرگ تھے لیکن اب وہ فوت ہو چکے ہیں شاید ان کی روحانیت متمثل ہوئی ہو مگر اس سے آپ کی تسلی نہ ہوئی.اس خواب سے آپ کے دل پر یہ گہرا اثر تھا کہ اس نام کے بزرگ سے ضرور ملاقات ہوگی اور اس سے فائدہ ہوگا.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق تیسرا خواب چند ماہ بعد آپ نے ایک اور خواب دیکھا.آپ بالعموم اہم اور سچا خواب دیکھیں تو اس میں کوئی محمد صادق نام شخص ہوتا ہے.اس خواب میں اپنے بڑے بھائی سید محمد صادق کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ویسی ہی پنسل اور کاغذ ہے کہ جیسی پہلی خواب میں آپ کے پاس تھی اور ملتے ہی کہتے ہیں کہ میں نے جفر ریل میں اس قدر کمال پیدا کیا ہے کہ جو تم نے خواب میں کوئی بزرگ دیکھا تھا اور اس کے نام میں تمہیں اشتباہ پیدا ہو گیا ہے میں اس علم کے ذریعہ سے بتا سکتا ہوں کہ ان دونوں میں سے کون سا نام ہے.چنانچہ انہوں نے اس کاغذ پر پنسل سے تین سطریں نقطوں میں ڈالیں.پہلی گیارہ نقطوں کی تیسری بھی قریباً اتنی ہی اور درمیانی کوئی پندرہ نقطوں کی اور اس کے نیچے اسی قلم اور اسی سیاہی کے ساتھ اسی خط پر غلام احمد نام لکھا گیا اور وہ آپ کو کہتے ہیں کہ تمہیں غلطی لگی ہے.وہ نام غلام احمد ہے غلام محمد نہیں جو خواب آپ نے لاہور میں دیکھا تھا.اس سے ایسا ابتلا ء پیش آیا کہ با وجود اس قدر وضاحت کے آپ یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے.حضور کے متعلق چوتھا خواب اس کے جلد بعد آپ ایبٹ آباد آگئے.وہاں آپ نے خواب دیکھا کہ ایک دریا مغرب سے مشرق کی طرف بہ رہا ہے اور اس کے دائیں کنارہ پر ایک دیوار قریباً سوگز اونچی اس کے ساتھ برابر چلی جاتی ہے.دیوار کے اوپر ایک نہر مشرق سے مغرب کی طرف بہہ رہی ہے اور اس کے کنارہ پر ایک نالی ہے اس کے آگے ایک
۴۲ سڑک اس کے آگے کھیت اور آگے پہاڑ ہیں اور ان کھیتوں میں عرب لوگ ہلوں میں بجائے بیل کے اونٹ جوت کر ہل چلا رہے ہیں.نہر کے دونوں کناروں پر مجنوں بید کے بڑے خوشنما درخت لگے ہوئے ہیں اور آپ بڑے بھائی محمد صادق اور بگا مذکور آپ کا ملازم تینوں نہر کے کنارے اس کے بہاؤ کی طرف جارہے ہیں.ایک جگہ دیوار ختم ہوئی تو اس پانی کو سڑک کے دوسری طرف کر دیا گیا ہے اور وہاں بہہ رہا ہے جہاں دیوار ختم ہوئی ہے اور وہاں آگے چلنے کا راستہ نہیں.بڑے بھائی چھلانگ لگا کر اس نالی سے پار ہو کر سڑک میں کھڑے ہو گئے جہاں دیوار ختم ہوئی.اس کی بلندی کے قریب وسط میں ایک سیڑھی بھی ہے.میاں بگا کو دکر اس پر جا کھڑا ہوا.مولوی صاحب دونوں کی طرف دیکھتے ہیں مگر کسی طرف بھی نہیں جا سکتے.آپ نے میاں بگا ملازم سے کہا کہ نہ میں چھلانگ لگا کر سیڑھی تک پہنچ سکتا ہوں اور نہ چھلانگ لگا کر بھائی صاحب کے پاس جا سکتا ہوں اب میں کیا کروں؟ اس نے کہا کہ آپ اس مجنوں بید کی ٹہنی پکڑ لیں.آپ کے دباؤ سے یہ نیچے جھکے گا تو میں آپ کو پکڑ کر سیڑھی پر کھڑا کر لوں گا.چنانچہ آپ اس ٹہنی کو پکڑ کر لٹک گئے مگر بجائے جھکنے کے وہ حرکت کر کے دریا کے اوپر اس کے عین وسط میں لٹک گئی.آپ نے سخت گھبرا کر اسے آواز دی.اس نے کہا کہ اب میں کیا کروں تمہیں تو امام صاحب نے بلا لیا ہے.یہ لفظ سن کر آپ کا خوف جاتا رہا اور آپ نے پوچھا کہ امام صاحب کہاں ہیں.اس نے کہا کہ نیچے دریا میں دیکھو.آپ نے دیکھا کہ ایک جالا ہے ( دریائے سندھ میں بڑی بڑی گیلیوں کو میخیں لگا کر مربع شکل کی چیز بنا لیتے ہیں اور اس پر بیٹھ کر سامان لاد کر کشتی کی طرح چلاتے ہیں اسے جالا کہتے ہیں ) اُس پر قریباً ساٹھ آدمی حلقہ باندھے بیٹھے ہیں.حلقہ کے انتہا پر ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور وہ امام ہے اور باوجود دریا کے تیز بہنے کے جالا وہیں کھڑا ہے.مولوی صاحب نے امام سے کچھ مسائل پوچھے اور وہ ان کا جواب دے رہے تھے کہ آپ کی آنکھ کھل گئی.اس وقت تک بھی باوجود غلام احمد اور امام کے بتائے جانے کے احمدیت کی طرف توجہ نہیں ہوئی.پانچواں خواب ایبٹ آباد میں آپ کے شاگردوں میں سے دو بھائیوں نے جو قریبا کتا بیں ختم کر چکے تھے آپ سے کہا که اصل چیز یعنی قرآن مجید پڑھے بغیر ہم گھر جارہے ہیں.تفسیروں کے خیالات پڑھتے ہیں لیکن صحیح مطالب سے نا آشنا ہیں.آپ ہمیں قرآن پڑھائیں.آپ نے کہا اس شرط پر پڑھاؤں گا کہ آپ جلد ختم کرنا نہ چاہیں.میں وقت دونگا اور تحقیق سے پڑھاؤں گا مگر ممکن ہے کہ اس تحقیق میں ایک آیت پر ایک ہفتہ یا ہفتے لگ جائیں.انہوں نے منظور کیا اور آپ پڑھانے لگے.اس دوران میں آپ نے خواب دیکھا کہ آپ مسجد کے
۴۳ برآمدہ میں قبلہ رو بیٹھے قرآن مجید پڑھ رہے ہیں.اس اثناء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ تشریف لائے اور مولوی صاحب کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور علیہ السلام بات کرنے کے لئے تلاوت ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں.مولوی صاحب کے دل میں کبھی خیال آتا ہے کہ ایک آدمی کے واسطے میں قرآن مجید کی تلاوت کیوں بند کر دوں.پھر خیال آتا ہے کہ یہ امر شرافت سے بعید ہے کہ ایک شریف آدمی انتظار میں کھڑار ہے اور میں اس کی پرواہ نہ کروں اور تلاوت میں مشغول رہوں اور یہی خیال غالب آیا اور آپ قرآن مجید بند کر کے کھڑے ہو گئے اور آپ کے سلام کرنے سے قبل حضور نے السلام علیکم کہا.مولوی صاحب نے وعلیکم السلام کہا اور حضور نے ہاتھ بڑھایا.مولوی صاحب نے مصافحہ کیا.حضور نے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا کہ اب تو وقت نزدیک آ گیا ہے.اب تو تم میری مخالفت چھوڑ دو.آپ کی طبیعت میں تر ڈر پیدا ہوا کہ اگر میں کہتا ہوں کہ میں خلاف نہیں کرتا تو یہ جھوٹ ہوگا اور اگر کہتا ہوں کہ خلاف کرتا ہوں تو یہ شرافت کے خلاف ہے کہ ایک معزز شخص کے منہ پر ہی ایسی بات کہوں.معا خیال آیا کہ گذشتہ کو جانے دو اور یہ جواب دو کہ میں آئندہ خلاف نہیں کروں گا اور آپ نے یہی جواب دیا.آخری خواب کا اثر اس خواب کی ملاقات کا آپ پر یہ اثر ہوا کہ وہی باتیں جن میں پہلے آپ کا خیال مخالف طرف جایا کرتا تھا.اب آپ سوچتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی پکڑ کر حضور کی باتوں کی طرف لے جاتا ہے اور وہ باتیں خود ہی صاف ہو جاتی ہیں.اس کے بعد مولوی صاحب نے قرآن مجید والے شاگردوں کو کہا کہ آجکل وفات و حیات مسیح اور مردوں کے دوبارہ زندہ ہو کر واپس آجانے پر بخشیں ہو رہی ہیں.قرآن مجید پڑھتے ہوئے ہمیں ان مسائل کے متعلق پوری تحقیق کر لینی چاہیئے.اب یہ التزام کر لیا گیا کہ ان تمام مسائل کی جن میں مولوی لوگ حضور سے مخالف طرف اختیار کرتے تھے تحقیق کرنی شروع کی.اتفاق سے ان دنوں وفات مسیح کے متعلق آیات زیر درس تھیں اور یہ مسئلہ خصوصیت سے زیر توجہ آ گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند دنوں میں ہی اُستاد اور شاگرد تینوں کا اس پر اتفاق ہو گیا کہ ان مسائل پر جو کچھ حضور بیان کرتے ہیں وہی حق ہے اور مولوی صاحب نے بیعت کا خط لکھنے کا تہیہ کر لیا.ان بھائیوں کا وطن موضع ہر ناڑہ ہے جوا یبٹ آباد کے قریب دامن کوہ میں ہے ان میں سے بڑے محمد عرفان ہیں.انہوں نے مولوی صاحب کو بتایا کہ آپ کی بیعت سے ہفتہ عشرہ قبل میں نے بیعت کر لی ہے.یہ صاحب قادیان کبھی نہیں آئے.احمدی کہلاتے ہیں.موسم گرما میں سرکاری دفاتر گلیات میں آجاتے ہیں.ان دنوں وہاں امراء کو پڑھانے وغیرہ کا کام کر لیتے ہیں اور موسم سرما میں گلیات کے
۴۴ کسی گاؤں میں مسجد کی امامت کراتے ہیں.چھوٹا بھائی عطاء اللہ احمدی نہیں ہوا بلکہ موڑہ شریف کے پیر کا خلیفہ بن گیا تھا.پھوپھی زاد بھائی کا بیعت کرنا ہم مولوی صاحب کے اعلان بیعت کا ذکر کرنے سے قبل اس سے پہلے کے چند واقعات ذیل میں درج کرتے ہیں.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے اپنی گرہ سے آئینہ کمالات اسلام وغیرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں آپ کے والد صاحب کو بھیجی تھیں اور آپ نے اور آپ کے پھوپھی زاد بھائی سید سرور شاہ صاحب نے پڑھی تھیں.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے اعلانِ بیعت سے قبل کا واقعہ ہے کہ سید سر ورشاہ صاحب نے بواسیر کے مسوں کا علاج کروایا اور کشتہ سم الفار کے زیادہ مقدار میں لگانے سے مقعد گل گئی اور کسی طرح چین نہیں آتا تھا.مولوی صاحب انہیں ایبٹ آباد لے آئے.ہسپتال میں کچھ عرصہ علاج ہوا.اتفاق سے ایک مسلمان ڈاکٹر ہری پور سے شہادت پر ایبٹ آباد آیا.مولوی صاحب کے کہنے پر اس نے معائنہ کیا اور کہا کہ وہ علاج کر سکے گا.چنانچہ مریض کو ہری پور لے گئے.اس بیماری کے دوران میں سید سرور شاہ صاحب نے بعض خواہیں دیکھیں اور اپنی بیعت کا خط مولوی سرور شاہ صاحب سے لکھوا دیا.علماء پر آپ کے علم کا شدید رعب ایک مولوی کا مباحثہ سے فرار حضرت مولوی صاحب کا علم جس اعلی پایہ کا تھا اور علماء ہمعصر پر جو اثر تھاوہ ذیل کے واقعہ سے ظاہر ہے.سید سرور شاہ صاحب کے علاج کے لئے آپ ہری پور میں مقیم تھے.ہسپتال کے قریب ایک پہلوان سے آپ نے دریافت کیا کہ یہ سامنے مولوی صاحب کون ہیں.اس نے کہا کہ کوٹ نجیب اللہ کے مولوی منہاج الدین ہیں.جو اپنے تئیں رئیس المناظرین کہتے ہیں اور آپ سے مباحثہ کرنا چاہتے ہیں.آپ کے دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ نئی بات جو آپ نے اختیار کر لی ہے اس کے متعلق اسی مقام پر کل اسی وقت دس بجے مباحثہ ہوگا.چنانچہ آپ اگلے روز انتظار کرتے رہے.مخالف مولوی نہ آئے.ہری پور بازار کے آخری سرے کے آگے کچھ حصہ خالی ہے اور پھر سکندر پور بازار شروع ہوتا ہے.ہری پور بازار کی طرف آپ روانہ ہوئے.وسط میں پہنچ کے دیکھا کہ مولوی صاحب اور اس کے ساتھی آ رہے ہیں لیکن آپ کو دیکھتے ہی واپس مڑے اور بھا گنا شروع کر دیا.مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں بھی ان کے پیچھے دوڑا.میرا خیال تھا کہ جامع مسجد میں پہنچے ہوں گے لیکن وہاں سے پتہ لگا کہ وہ ادھر نہیں آئے.
۴۵ چنانچہ میں دوسری طرف گیا تو دیکھا کہ مولوی صاحب ایک کیچڑ والے نالے میں سے گذر کر پار باغ کی طرف جا رہے ہیں.وہ پہلوان ورے کھڑا اتنے زور سے ہنس رہا تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے پہلوان نے بتایا مولوی منہاج الدین صاحب کل فلاں مولوی صاحب کے پاس سکندر پور گئے اور ان سے کتابیں لے کر مباحثہ کے لئے تیاری کرنے لگے.ساری رات ورق گردانی کرتے رہے.صبح دوسرے مولوی صاحب تہجد کے لئے آئے تو دریافت کیا کہ آپ کیا کر رہے ہیں کہ آپ ساری رات نہیں سوئے.انہوں نے کہا کہ میں مولوی سرورشاہ صاحب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے حوالے تلاش کرتا رہا ہوں لیکن جس تفسیر کو دیکھا اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی اور وفات دونوں کا ذکر پایا.اس لئے کوئی قاطع دلیل نہیں ملی.سکندر پوروالے مولوی صاحب استاذ الکل تھے اور حضرت مولوی سرور شاہ صاحب بھی استاد تھے اور ان کا لڑکا ان سے بھی بڑھ کر تھا.انہوں نے مباحثہ کے لئے تیاری کرنے والے مولوی کو کہا کہ مولوی سرور شاہ صاحب کے احمدی ہونے کی وجہ سے مجھے آپ سے زیادہ صدمہ ہوا ہے اور مجھے بھی لوگوں نے ان کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے آمادہ کیا ہے لیکن میں نے اس امر سے کنارہ کشی اختیار کی اس لئے کہ مولوی صاحب سارے ضلع کو آگے لگا لینے والے ہیں.ان سے مباحثہ کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمام ضلع کے علماء ان کے آگے آگے بھاگنے لگیں گے اور ان سے جتنی زیادہ باتیں کی جائیں گی اُتنا ہی زیادہ نقصان ہوگا اور علماء کی مٹی پلید ہوگی.سو پہلوان نے کہا کہ اسی وجہ سے مولوی صاحب مباحثہ کے لئے آپ کے پاس نہیں آئے اور اب آپ کو دیکھ کر بھاگ گئے ہیں.اس بارہ میں رویا.حضرت اقدس کی تعبیر اور رویا کا پورا ہونا اس مباحثہ سے قبل آپ نے خواب دیکھا کہ آپ اپنی جائے رہائش سے جو جامع مسجد کے شمالی جانب تھی مسجد کی طرف آ رہے ہیں.ایک راستہ مسجد کو مکان کی چھتوں پر سے بھی آتا تھا اور دوسرا ساتھ ایک اور تنگ سا راستہ بھی تھا.آپ پہلے راستہ سے آ رہے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پاگل کتوں کے کاٹنے سے جانور پرندے وغیرہ بے تحاشا بھاگ رہے ہیں لیکن یہی گتے مولوی صاحب سے بھاگتے ہیں اور ٹکرا کر گر پڑتے ہیں چنانچہ بغیر کسی گزند کے آپ مسجد میں پہنچ گئے.حضرت مولوی عبد الکریم نے آپ کو اطلاع دی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہاں کے مولوی آپ پر حملہ کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا اور مولوی بھاگ جائیں گے چنانچہ مذکورہ بالا واقعہ سے یہ خواب اور اس کی تعبیر پوری ہوگئی.فالحمد للہ علی ذالک
۴۶ { بیعت کے متعلق حضور سے استصواب ایبٹ آباد میں ایک دوست با بو غلام محی الدین احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں وفات پاگئے تھے.حضرت مولوی صاحب نے ان سے بیعت پر آمادگی کا اظہار کیا.انہوں نے مشورہ دیا کہ سر دست آپ بیعت نہ کریں.اس علاقہ کے لوگ ہنوز احمدیت سے بکلی نا آشنا ہیں اور آپ نے بیعت کر لی تو یہ لوگ آپ سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے بلکہ مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے لیکن اگر آپ اسی حالت میں رہ کر انہیں سمجھاتے رہیں گے تو جب آپ بیعت کریں گے تو سب نہیں تو اکثر آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں گے.مگر مولوی صاحب کی طبیعت اسے پسند نہیں کرتی تھی اور تاخیر برداشت سے باہر تھی.آخر آپ نے مناسب سمجھا کہ حضور سے مشورہ لے کر اس پر عمل کریں.چنانچہ آپ نے لکھا کہ یہ امر یقینی ہے کہ میرے اعلانِ احمدیت پر یہ لوگ میرے مخالف ہو جائیں گے اور اس ملازمت سے برخواست کر دیں گے.برخواستگی مجھے نا پسند ہے میں چاہتا ہوں کہ پہلے استعفا دوں اور پھر اعلان کروں.احمدی احباب مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ میں دو تین ماہ تک اسی حالت میں رہوں اور اس کے بعد بیعت کروں لیکن میں چاہتا ہوں کہ حق اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھول دیا ہے اور میں بیعت کرلوں.آپ کو حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ کی قلم سے حضور علیہ السلام کا جواب ملا کہ احمدی احباب کا مذکورہ مشورہ صحیح نہیں.کیونکہ اپنے نفس کا حق اپنے اوپر دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے.اس لئے اپنی اصلاح دوسروں کی اصلاح سے مقدم ہوتی ہے.پس آپ فورا بیعت کا اعلان کر دیں اور استعفاء کے متعلق خیال صحیح نہیں.شریعت کا حکم ہے.الا قَامَةُ فِيمَا أَقَامَ اللهُ اور اگر کوئی اس کے خلاف کرتا اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے گزارہ کو خود چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میں نے دیا تھا وہ تم نے چھوڑ دیا.اب تم خود اپنے لئے کچھ کرو اور انسان ابتلاء میں پڑ جاتا ہے لیکن اگر خدا خود چھڑا دیتا ہے تو پھر وہ خود کفیل ہوتا اور اس کے لئے کوئی صورت نکال دیتا ہے.پس آپ استعفاء مت دیں اور جب وہ نکال دیں گے تو اللہ تعالیٰ کوئی اور انتظام کر دے گا.آپ کا اعلان بیعت ظہر کی نماز پڑھ کر آپ حنفی طریق پر ہاتھ اٹھا کر دعا اللهُمَّ انْتَ السَّلَامُ پڑھ رہے تھے کہ کسی نے حضور کا مذکورہ خط آپ کے ہاتھ پر رکھ دیا.پہلا لفظ یہ تھا کہ آپ فوراً بیعت کا اعلان کر دیں.آپ نے اتنا پڑھ کر اگلا حصہ پڑھے بغیر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دیا کہ میری بیعت کی قبولیت کا خط قادیان سے آ گیا ہے اور آج سے میں احمدی ہو گیا ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ تم لوگوں نے میری امامت میں جتنی نمازیں پڑھی ہیں ان میں
۴۷ سے زیادہ قابل قدر اور لائق قبولیت وہ ہیں جو میرے احمدی ہونے کے بعد آپ نے میرے پیچھے پڑھی ہیں لیکن اگر تعصب کی وجہ سے کسی کو نماز دہرانے کا شوق ہو تو وہ اپنی نماز دہراسکتا ہے.مخالفت حضور علیہ السلام کے ارشاد کی تعمیل میں آپ نے استعفاء تو نہ دیا لیکن بیعت کے متعلق سارے شہر میں شور پڑ گیا اور جس انجمن کے آپ ملازم تھے گو اس کا یہ قاعدہ تھا کہ اتوار کے سوا کسی اور دن اجلاس نہ ہو اور اگر کسی خاص ضرورت کی وجہ سے سیکرٹری اجلاس بلائے تو اس وقت تک اس پر عمل نہ کیا جائے جب تک کہ اگلے اتوار کے اجلاس میں وہ منظور نہ ہو جائے.یسین خان رامپوری اس وقت ٹانگہ ایجنسی رکھتے تھے جو حسن ابدال تک چلتی تھی اور بعد میں وہ ایبٹ آباد کے رجسٹرار ہو گئے تھے.وہ اس انجمن کے ممبر، آپ کے افسر اور دوست بھی تھے.اسی دن عصر کے بعد آئے اور کہا کہ مولوی صاحب! آپ کی اور میری ایک عرصہ سے دوستی ہے اور میں نے آپ کو کبھی اپنی کسی خواہش کے پورا کرنے کے واسطے نہیں کہا لیکن آج میں ایک بات کہتا ہوں بشرطیکہ آپ اسے پورا کرنے کا وعدہ کریں.مولوی صاحب نے کہا کہ شریعت کے خلاف نہ ہوئی تو میں اسے پورا کروں گا.یہ وعدہ لے کر اس نے کہا کہ آپ کے اعلانِ بیعت پر ممبروں میں بڑا جوش پیدا ہوا ہے اور باوجود یکہ آج اتوار نہیں تھا انہوں نے سیکرٹری کو اجلاس بلانے پر مجبور کیا اور اس میں آپ کی برخواستگی کا معاملہ پیش کیا ہے گو مجھے علم تھا کہ میرے ہم خیالوں کی کثرت ہے اور ہم یقیناً اس میں جیت جائیں گے لیکن میں نے یہ خیال کیا کہ اب ان حالات میں یہاں پر آپ کی زندگی تلخ رہے گی اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو زور دے کر روکا اور کہا کہ ان لوگوں کی تائید کریں.چنانچہ ریزولیوشن پاس ہو گیا کہ آپ کو برخواست کر دیا جائے.پھر یسین خان نے پوچھا کہ کیا آپ کو میری بات پر یقین ہے اور میری بات کو آپ سچ سمجھتے ہیں اور پھر کہا کہ اب آپ کے پیر کی بات پوری ہو گئی.آپ کے پیر نے کہا تھا کہ خود استعفاء نہ دیں وہ برخواست کریں تو کر دیں اور آپ نے اس کی تعمیل کر دی اور انہوں نے برخواست کر دیا اور میں نے آپ کو سُنا دیا.میری طبیعت برداشت نہیں کرتی کہ آپ یہاں سے برخواست ہو کر جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سامان بھی ہے کہ وہ اتوار سے پہلے فیصلہ آپ کو نہیں بھیج سکتے.سو آپ مجھ سے دو ماہ کی رخصت لے کر چلے جائیں اور ایک گالی دیکر کہنے لگا کہ اب وہ ریز ولیوشن کو یہ کریں.اسی نے کاغذ دیا.آپ نے درخواست لکھی اور اس نے رخصت کی منظوری دے دی.شام ہو چکی تھی.آپ نے ارادہ کیا کہ صبح سامان سنبھال کر پہلے آپ ایک ماہ قادیان ٹھہریں گے اور پھر وطن
۴۸ چلے جائیں گے.صبح آپ نے تانگہ ایجنسی میں ایک سیٹ ریزرو کرانے کے لئے لکھا.تانگہ بارہ بجے روانہ ہوتا تھا.گیارہ بجے آپ طلباء کو کہہ رہے تھے کہ ایک ماہ خواہ تم یہاں گذار و یا اپنے گھروں کو چلے جاؤ.ایک ماہ بعد میں وطن آ جاؤں گا.پھر تم وہاں آ جانا.اسی اثناء میں آپ کو پادری ضیاء الدین کا پشاور سے ایک خط آیا کہ فرنٹیئر کے تمام انگریزی مشنوں کے افسر اعلیٰ پادری ڈے صاحب جو عربی کے اچھے ماہر ہیں مزید عربی پڑھنا چاہتے ہیں.کئی استاد انہوں نے رکھے مگر آخر انہیں چھوڑنا پڑا.میں نے ایبٹ آباد کے سابقہ تعارف کی وجہ سے آپ کا نام اچھا عالم سمجھتے ہوئے بتایا ہے.وہ چاہتے ہیں کہ آپ چودہ تاریخ تک پہنچ جائیں وہ ایک گھنٹہ روزانہ پڑھا کریں گے ( حضرت مولوی صاحب کو راتم خط کا ایبٹ آباد میں ملنا یاد نہیں تھا) سیدھا روانہ ہونے پر آپ وقت پر پہنچ سکتے تھے.چنانچہ آپ اسی تانگہ پر حسن ابدال اور وہاں سے ریل میں پشاور پہنچے اور پادری مذکور کو پڑھانا شروع کیا.پادری ڈے کا در پردہ مقصد اس نے بتایا کہ کئی استادوں کو وہ نا قابل سمجھ کر جواب دے چکا ہے.وہ خود قابل تھا اور اسے عربی پڑھنے کی چنداں ضرورت نہ تھی.دراصل وہ اسلام کے خلاف ایک ایسی کتاب لکھنا چاہتا تھا جس میں قرآن مجید سے عیسائیت کی تائید اور جو مسلمان اس کے خلاف کہتے ہیں اس کی تردید پیش کرے اور اس غرض کے لئے اسے اپنے ملک سے کافی روپیہ آ رہا تھا اور اس نے کئی مولوی ملازم رکھے ہوئے تھے جو خفیہ طور پر خاص وقت میں اس کے ملازم پیشہ لوگوں کے کوارٹروں میں مختلف کمروں میں بیٹھ کر ایسے حوالے تلاش کر کے دیتے تھے.جب اسے آپ کی قابلیت معلوم ہوگئی تو اس نے یہ طریق اختیار کیا کہ سبق کے وقت آپ سے کوئی آیت پوچھ لیتا یا کسی حدیث پر بحث شروع کر دیتا اور سبق نظر انداز کر دیتا اور اس طرح بجائے ایک گھنٹہ کے تین تین گھنٹے صرف ہو جاتے.حضرت مولوی صاحب کو ابھی تک ان باتوں کے پوچھنے کی وجہ معلوم نہ تھی.ایک دن آپ کو خیال آیا کہ اگر کسی سے سوال ہی کرتے چلے جائیں عالم الکل تو خدا ہی ہے کسی نہ کسی وقت اس سے کوئی کمزوری بھی ظاہر ہوسکتی ہے اور یہ ایک لمبے عرصہ سے سوال کر رہا ہے.مجھے بھی چاہیئے کہ اس سے کوئی مذہبی سوال پوچھوں.چنانچہ ایک دن بحث کے دوران میں آپ نے بائیل سے ۲۲ زبور مغنی کی کچھ عبارت پڑھی جس میں بعینہ وہ الفاظ تھے کہ جن میں حضرت مسیح جس دن پکڑے گئے دعائیں کرتے تھے اور دعائیہ الفاظ کے متعلق دریافت کیا کہ کس کے متعلق ہیں.پادری کا چہرہ دمک اٹھا اور کہنے لگا یہی تو ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان ما بہ النزاع کا
۴۹ فیصلہ کرنے والی آیات ہیں.مسلمان کہتے ہیں کہ مسیح پھانسی نہیں چڑھا اور یہ آیات صفائی سے بتا رہی ہیں کہ وہی دعا جو خداوند یسوع مسیح نے کی بطور پیشگوئی داؤد وہی کہہ رہے ہیں اور اس میں ایسے الفاظ ہیں جو صاف طور پر موت پر دلالت کرتے ہیں اور یقیناً خداوند یسوع مسیح کے متعلق ہیں.آپ نے تھوڑی دیر کے سکوت اور کچھ اس کی تصدیق کے بعد انگلی عبارت پڑھی جو یہ ہے وَعَندَ صُرَانِي إِيَّاهُ اسْتَمَعَ جس میں آگے ذکر ہے کہ اس کے شکریہ میں تیری کھوئی ہوئی بھیڑوں میں جاؤں گا اور تیری تقدیس بیان کروں گا اور تیری حمد اور شکریہ بجالاؤں گا اور تیرے نام پر قربانیاں کروں گا کہ تو نے اپنے بندہ کونجات دی.آپ کی بحث کے اثر سے پادری کا پاگل ہو جانا آپ نے دریافت کیا کہ یہ عبارت کس کے متعلق ہے؟ تو وہ گھبرایا اور کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کسی اور کی نسبت ہے.آپ سال ڈیڑھ سال میں اس کی طبیعت سے واقف ہو چکے تھے.آپ نے بحث کی بجائے کہا کہ اگر آپ کی کانشنس یہی کہتی ہے تو مجھے کوئی انکار نہیں.تو اس کا ہاتھ کانپنے لگا اور کہنے لگا کہ نہیں.میری کانشنس ہرگز یہ نہیں کہتی اور مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں آپ نے بتایا کہ میں احمدی ہوں.اس پر پادری نے کھل کر بتایا کہ میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں جس کے لئے میں نے بہت سے علماء ملازم رکھے ہوئے ہیں اور وہ مجھے قرآن مجید سے اسلام کے خلاف اور عیسائیت کی تائید میں حوالے نکال کر دیتے ہیں اور میں انہیں مرتب کرتا ہوں.مگر میں بے حد حیران ہوں کہ جو معنے آپ کرتے ہیں ان سے اسلام کی تائید ہوتی ہے میں نے وہ ساری آیتیں آپ سے پوچھنی شروع کیں اور اب صرف تین باقی ہیں.مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے مگر صدمہ بھی ایساز بردست ہوا کہ شاید میں اس سے پاگل ہو جاؤں اور وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے لئے مجھے میری قوم نے بے شمار روپیہ دیا ہے.اب میں کیا جواب دوں گا.چنانچہ واقعی وہ پاگل ہو گیا اور ولایت چلا گیا.اس کے بعد جب مولوی صاحب قادیان آگئے تو آپ بٹالہ کسی سفر پر گئے.گاڑی پر سوار ہونے لگے تو ایک انگریز آپ کی طرف بڑھا.اس کی داڑھی اور بھنویں سب سفید تھیں اور پوچھا کیا آپ مولوی سرور شاہ ہیں؟ آپ نے کہا ہاں تو اس نے کہا میں پادری ڈے ہوں اور اچھا ہو کر ولایت سے واپس آ گیا ہوں اور یہاں انار کلی ( بٹالہ ) ایک لیکچر کے لئے آیا تھا.گویا اس شدید صدمہ کی وجہ سے دو تین سال میں اس کے تمام بال سفید ہو گئے.
3 مشن کالج کی پروفیسری پشاور میں پادری ڈے کی رہائش انگریز پادری ہور مینجر مشن ہائی سکول کی کوٹھی پر تھی اور دونوں میں بہت دوستانہ تھا.ہائی سکول کو کالج بنانے کے ارادہ سے پادری ہور نے سکیم شائع کی تو اس کے عملہ میں حضرت مولوی صاحب کا نام بغیر پوچھے لکھ دیا چونکہ پادری ڈے عربی اور فارسی کا بڑا عالم سمجھا جاتا تھا اس لئے اس کا استاد ہونا ایک اعلیٰ سند تھی.اگلے روز آپ پڑھانے لگے تو پادری ڈے نے مبارک باددی اور ساتھ ہی افسوس کیا کہ اس تقریر میں اس کا کوئی حصہ نہیں.چاہئے تو یہ تھا کہ وہ سفارش کرتا اور منظوری ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس نے بار بار کہا کہ آپ انکار نہ کریں.مولوی صاحب پادری ڈے کو پڑھاتے رہے.شروع میں ہی آپ کالج میں بھی لگ گئے تھے.وہ بیمار ہو کر انگلستان چلا گیا.آپ قریباً اڑھائی سال تک مشن کا لج میں پڑھاتے رہے.پشاور میں ایک قابلِ قدر کام.اشتہار پیر مہر علی شاہ کا جواب اس عرصہ میں آپ کو وہاں تبلیغ کے اچھے مواقع میسر آتے رہے لیکن سب سے زیادہ قابل قدر کام ایک اشتہار تھا جس سے آپ کا تعارف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوا.حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ نے تین تحریری سوال پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے دریافت کئے تھے.اس وقت تک پیر صاحب کھل کر سامنے نہیں آئے تھے اور مولوی غازی کے ذریعہ سے تحریر شائع کرواتے تھے.چنانچہ مولوی غازی کے نام سے ان سوالوں کے جواب میں ایک اشتہار شائع ہوا جس میں حضرت مولوی صاحب کے سوالوں کے جواب تو ندارد تھے.مگر آپ پر چند سوال کئے گئے تھے کہ پہلے آپ ان کا جواب دیں.پھر ہم جواب دیں گے.قریباً نصف پشاور پیر صاحب کا مرید تھا.وہ لوگ یہ اشتہار لئے ہر احمدی کے پاس پہنچتے کہ پہلے ان سوالوں کا جواب دیں.پھر آپ کو سوال پوچھنے کا حق ہوگا.مولوی سرور شاہ صاحب بیعت کے بعد ابھی تک قادیان نہیں آئے تھے.مگر حضرت مولوی نور الدین صاحب کی طبیعت سے واقف ہونے کی وجہ سے آپ کو یقین تھا کہ وہ اس اشتہار کی طرف توجہ نہیں کریں گے.آپ نے ایک بڑے کاغذ پر دوطرفہ جواب شائع کیا.یہ ۱۸۹۹ء سے قبل کی بات ہے اور ایک اشتہار حضور علیہ السلام کی خدمت میں بھی بھیج دیا.جب آپ کی اہلیہ اول کی وفات کا تار آیا تو آپ نے ایک لاہور کے احمدی سے جو پاس تھا پڑھوایا اور آپ کی زبان سے بے اختیار نکلا کہ الْحَمْدُ لِله اس لئے کہ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھیں اور ان کی وجہ سے آپ قادیان نہیں آ سکتے تھے اور اب وفات سے تھوڑا عرصہ قبل مرحومہ کی خواہش پر انہیں ان کی والدہ کے پاس چھوڑ آئے تھے.
۵۱ 16 پہلی دفعه قادیان آنا آپ موسم گرما کی تعطیلات میں پہلی بار قادیان آئے اور مہمان خانہ میں اُترے.منتظمین نے بتایا کہ چونکہ مسجد چھوٹی ہے جگہ نہیں ملتی اس لئے مہمانوں کو پہلے جانا چاہئے.آپ نے وضو کیا ہی تھا کہ اذان ہوگئی اور آپ اذان ختم ہونے تک مسجد مبارک میں جا پہنچے.آپ نے سُنا ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک کھڑکی میں سے باہر آتے ہیں.اس لئے آپ اس طرف بڑھے.ابھی قریب ہی پہنچے تھے کہ حضور علیہ السلام باہر تشریف لے آئے.آپ نے مصافحہ کیا.حضور کے دریافت کرنے پر آپ نے بتایا کہ آپ پشاور سے آئے ہیں.فرمایا آپ مولوی سرور شاہ ہیں.آپ نے تصدیق کی.دوسرے روز جب حضور علیہ السلام سیر کے لئے تشریف لے گئے تو حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ پیچھے رہ گئے.حضور ٹھہر گئے اور حضرت مولوی صاحب کو بلایا اور آپ کے آنے پر فرمایا کہ جب ان کا اشتہار پہنچا تو میں نے معمولی اشتہار سمجھ کر ایک دو سطریں دیکھ کر رکھ دیا.دو پہر کو جب لیٹا تو پاس کوئی کتاب نہ تھی.یہ اشتہار تھا اسے اٹھا کر پڑھنا شروع کیا.ابھی چند سطریں ہی پڑھی تھیں کہ مجھے علم کی بو آئی اور پھر سارا پڑھا.انہوں نے ایسی گرفت کی ہے کہ پیر صاحب ہرگز اس کا جواب نہیں دے سکتے ہیں نقشہ قادیان اور اسٹیشن خواب میں جب آپ ابھی ایبٹ آباد میں تھے اور احمدیت پر غور کر رہے تھے تو آپ نے خواب دیکھا کہ آپ قادیان میں آئے ہیں اور مسجد مبارک والا چوک، مسجد مبارک، دار ا صیح کا وہ حصہ جو مسجد سے ملحق ہے دیکھا اور مسجد سے دارا مسیح میں جس دروازہ سے داخل ہوتے ہیں اس میں ایک نالی دیکھی جسے حسی نالی کہتے ہیں.یہ نالی دیوار کے اندر جاتی اور وہاں سے گذر کر نیچے ایک اور نالی میں گرتی دیکھی اور مرزا گل محمد والے مکان کے صحن میں ایک چارپائی پر ایک سرخ داڑھی والا ننگے سر کا شخص بیٹھا دیکھا.چار پائی کے پائے کے ساتھ ایک کتا بندھا تھا اور بسراواں کے قریب ایک چھوٹا سا منارہ اور ریلوے اسٹیشن قادیان اس کی موجودہ جگہ پر دیکھا.جب آپ قادیان آئے تو چوک میں پہنچتے ہی آپ نے چوک پہچان لیا.چوک کے مغربی جانب پھاٹک اور اس کے مؤلف کتاب ہذا کے دریافت کرنے پر حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بتایا تھا کہ انہوں نے بھی محولہ بالا اشتہا ر انہی ایام میں پڑھا تھا.مؤلف
۵۲ آگے صحن میں چار پائی کے پایہ کے ساتھ کتا بندھا ہوا اور چار پائی پر مرزا امام الدین صاحب کو جنگے سر بیٹھے دیکھا.مسجد مبارک کا نقشہ بھی خواب کے مطابق تھا.مسجد میں داخل ہو کر آپ کو خیال آیا کہ دار امسیح کے اس دروازہ کے اندر جو مسجد میں کھلتا ہے جو نالی آپ نے دیکھی تھی اسے بھی دیکھیں.چنانچہ جب آپ دروازہ کے اندر گئے تو وہ نالی پہلے نظر نہ آئی کیونکہ اس پر ایک تختہ بچھا ہوا تھا لیکن جب آپ اس تختہ کے اگلے سرے پر پہنچے تو وہ نالی نظر آنے لگی اور وہ اسی طرح دیوار میں داخل ہو کر نیچے گلی والی نالی میں جاگرتی تھی.پھر آپ نے موضع بسراواں کا ارادہ کیا لیکن اس کا علم نہ ہونے کی وجہ سے نہ گئے.جب حضور علیہ السلام سیر کے لئے اس طرف گئے تو آپ نے دیکھا کہ یہ ہے تو وہی خواب والی جگہ لیکن وہ منارہ نظر نہ آیا اور نہ ہی اسٹیشن دیکھا.اس لئے کہ قادیان میں اس کے بہت بعد دسمبر ۱۹۲۸ء میں گاڑی آئی.جب ریل جاری ہونے لگی تو قادیان کے ہندو سکھ اور غیر احمدی چاہتے تھے کہ اسٹیشن قادیان کے جنوبی جانب بنایا جائے کیونکہ اس طرف غیر مسلموں کی اراضی تھیں اور وہ زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن جماعت احمدیہ شمالی جانب پسند کرتی تھی کیونکہ وہاں تمام اراضی جماعت احمدیہ کی تھیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بعض دوستوں سے دریافت کیا کہ اگر کسی نے خواب یا کشف میں دیکھا ہو کہ اسٹیشن قادیان کے کس طرف بنا ہوا ہے تو اطلاع دے.چنانچہ آپ نے مندرجہ بالا خواب تحریر کر کے بھیجا اس وقت حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ بس اواں کی طرف جو منارہ آپ نے دیکھا تھاوہ اب بھی موجود ہے مگر کچھ شکستہ حالت میں ہے.حضور علیہ السلام کا اپنی فراست سے مولوی صاحب میں رشد وسعادت پانا ایک دفعہ موسم گرما کی تعطیلات میں آپ کے ساتھ نو اور آدمی قادیان آئے.ان میں سے ایک میر مدثر شاہ صاحب ( حال غیر مبائع) بھی تھے.مولوی صاحب کا ارادہ ایک ماہ ٹھہرنے کا تھا لیکن تین دن گذر نے پر میر صاحب نے واپس جانے پر اصرار شروع کیا اور آپ سمجھتے تھے کہ میر صاحب بہت اصرار کرنے والے شخص ہیں ان سے بچنا مشکل ہے.آپ نے کہا بھی کہ میر صاحب آپ چلے جائیں لیکن وہ آپ کو ساتھ لے جانے پر مصر تھے.آپ نے ارادہ کیا کہ ان کے ساتھ سر دست واپس چلے جائیں اور وہاں سے پھر قادیان واپس حضرت مولوی سرور شاہ صاحب نے فرمایا کہ اس کے علاوہ مرزا محمد اشرف صاحب (سابق محاسب صدر انجمن احمدیہ ) نے بھی اسی قسم کا خواب دیکھا تھا اور ہم صرف دو ہی ایسے آدمی تھے کہ جنہوں نے اسٹیشن کی جگہ کے متعلق خواب تحریر کر کے دیا تھا.(مؤلف)
۵۳ آجائیں.چنانچہ جمعرات کا دن تھا.صبح کی نماز کے بعد سب نے حضور سے واپسی کی اجازت چاہی.حضور نے حسب معمول کچھ دن اور ٹھہرنے کے لئے فرمایا مگر میر صاحب کے اصرار پر حضور نے اجازت دے دی اور سب نے مصافحہ کیا.حضور اندر تشریف لے گئے مگر پھر دروازہ سے باہر تشریف لائے.اس وقت مولوی صاحب کے کچھ ساتھی سیڑھیوں پر اور کچھ نیچے پہنچ گئے تھے لیکن مولوی صاحب ابھی مسجد میں ہی تھے.حضور نے فرمایا.میں اس لئے واپس آیا ہوں کہ بارش بہت ہو چکی ہے اور راستہ میں پانی کھڑا ہے.آپ کو سواری تو اس وقت کوئی ملے گی نہیں.پیدل جانا پڑیگا اور وہ بھی پانی میں اور دیر سے آپ بٹالہ پہنچیں گے اس لئے آپ کھانا کھا کر روانہ ہوں.مولوی صاحب نے عرض کیا بہت اچھا.اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے اور میر صاحب جو سیڑھیوں میں کھڑے تھے آپ سے سیڑھیوں سے اترنے پر کہنے لگے کہ حضور نے تو ہمارے فائدہ کے لئے ہی کہا ہے کہ ہم کھانا کھا کر روانہ ہوں مگر ہمارا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم اسی وقت روانہ ہوں.اس لئے کہ ہم بھوک برداشت کر سکتے ہیں مگر اس ملک کی دھوپ برداشت نہیں ہوتی.اگر ہم ابھی چلیں تو دھوپ نکلنے سے پہلے بٹالہ پہنچ سکتے ہیں لیکن مولوی صاحب نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ کھانا کھا کر ہی جائیں گے کیونکہ جو حکم ہمارے فائدہ کے لئے ہے اس کی ہم تعمیل نہیں کریں گے تو جو کم ایسا ہو کہ جس میں ہمیں کچھ تکلیف پہنچے یا نقصان اٹھانا پڑے اس کی تعمیل ہم کب کریں گے.چونکہ مولوی صاحب جانتے تھے کہ آپ کے دلائل میر صاحب کے اصرار کو نہیں روک سکتے اس لئے آپ نے میر صاحب کو کہا کہ آپ چلیں.میں نے کچھ کتابیں خریدنی ہیں اور سامان کے واسطے ایک گھوڑا کرائے پر کیا ہے اس لئے میں گھوڑے کے ساتھ آؤں گا تا کہ کتا بیں نہ بھیگیں.چنانچہ میر صاحب روانہ ہو گئے اور مولوی صاحب نے گھوڑے والے سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ وہ ایک گھنٹہ تک تیار ہو سکے گا.آپ نے مہمان خانہ میں آکر اپنے پرانے دوست ملک غلام حسین صاحب رہتا سی ( مرحوم) کو کہا کہ تنور سے جو پہلی روٹی اُترے وہ مجھے لا کر دیں.چنانچہ وہ لنگر خانہ کی طرف چلے گئے.ابھی چند منٹ ہی گذرے تھے کہ فجا معمار جو اس وقت چھوٹا لڑکا تھا اور حضور کے گھر میں کام کرتا تھا وہاں آیا اور آواز دینے لگا کہ شربت شاہ ! شربت شاہ ! مولوی صاحب نے سمجھ لیا کہ آپ کو ہی بلاتا ہے اور اس سے پوچھا کہ شربت شاہ کو کیا کہتے ہو.اس نے کہا کہ حضرت جی بلاتے ہیں.آپ نے اسی جگہ سجدہ شکر ادا کیا اور دل میں کہا کہ اگر میں چلا گیا ہوتا تو اس لڑکے سے یہ معلوم کر کے حضور یہی خیال کرتے کہ بڑے نافرمان ہیں کہ انہی کے فائدہ کی بات کہی اور وہ بھی نہیں مانی.
۵۴ فجے کے ساتھ آپ گئے.اس نے حضور کو اطلاع دی تو حضور نے اسے کہا کہ اندر بلا لاؤ.چنانچہ اس دن پہلی بار آپ دار ا مسیح کے اندر بڑے دالان میں گئے.حضور مہندی لگوانے کے لئے معمولی کپڑے بدل کر ایک گر نہ میں ننگے سر اس دالان میں کھڑے تھے.مولوی صاحب نے السلام علیکم کہا.حضور ایک چارپائی پر بیٹھ گئے اور پاس ہی آپ کو بھی بٹھا لیا اور فرمایا کہ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ جوان ، اچھا، تندرست آدمی ہوتا ہے اور اس کے مرنے کا خیال تک بھی نہیں ہوتا اور پھر یکدم سُنتے ہیں کہ وہ فوت ہو گیا.ہماری جماعت کے ایک نوجوان مولوی قائم الدین صاحب سیالکوٹ میں رہتے تھے.وہ شاعر بھی تھے اردو کے بھی فارسی کے بھی اور عربی کے بھی.بی اے میں پڑھتے تھے اور انہوں نے امتحان دیا اور امتحان میں پاس بھی ہو گئے.مگر ان کو سند اس وقت ملی جب کہ وہ نزع کی حالت میں تھے.اس لئے انسان کو جو کچھ حاصل کرنا چاہئے اسے مقدم رکھنا چاہیئے.اس کے بعد فرمایا کہ ہم لوگ جو خدا کی طرف سے آتے ہیں (اس وقت حضور کا چہرہ نہایت پر جلال نظر آتا تھا) ہمیں ایک فراست دی جاتی ہے اس فراست کے ساتھ ہم جان لیتے ہیں کہ اس شخص میں رشد اور سعادت کا مادہ ہے مگرلوگوں کو ایک غلطی لگی ہوئی ہے.وہ یوں سمجھتے ہیں کہ ولایت ایک ایسی چیز ہے جو ولیوں کی جیب میں ہے یا ان کے رومال کے ساتھ بندھی ہوئی ہے اور جس شخص پر وہ خوش ہوں اس شخص کو جیب سے نکال کر یا رومال سے کھول کر دے دیتے ہیں مگر یہ غلط ہے.اس میں شک نہیں کہ وہ ملتی انہی لوگوں سے ہے جو خدا کی طرف سے آتے ہیں.مگر ان سے ملنے کا یہ طریق نہیں کہ وہ جب چاہیں دے دیں بلکہ جس طرح پر نالہ کے ذریعہ بارش کا پانی ملتا ہے اسی طرح ولایت بھی انہی کے ذریعہ ملتی ہے.مگر اس کا طریق یہ ہے کہ ان لوگوں پر فیضان کے خاص وقت آتے ہیں.ان اوقات میں جور شد اور سعادت والے لوگ ہوتے ہیں اپنی استعداد کے مطابق اس فیضان سے حصہ حاصل کرتے رہتے ہیں.اس طرح فیضان کے مختلف وقتوں میں حسب استعداد وہ اس قدر فیضان حاصل کر لیتے ہیں کہ جسے ولایت کہتے ہیں.اس کے بعد فرمایا کہ اس خدا داد فراست کے ساتھ ہم لوگ جس میں اس رشد و سعادت کو دیکھ لیتے ہیں اگر وہ شخص فیضان کے نزول کے وقت موجود نہیں ہوتا تو ہمیں کچھ رنج اور افسوس ہوتا ہے کہ فلاں شخص موجود نہ تھا اگر ہوتا تو وہ بھی فائدہ اٹھا لیتا.اس کے بعد فرمایا کہ خدا نے مجھے جو فراست دی ہے اس کے ساتھ میں آپ میں وہ رشد اور سعادت دیکھتا ہوں.اس لئے میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کم از کم آٹھ نو مہینے میرے پاس رہیں.اس پر آپ نے عرض کی کہ حضور گو میرے ساتھی چلے گئے ہیں مگر میں رہنے کے واسطے تیار ہوں.اگر حضور اجازت
دیں تو میں ہمیشہ کے واسطے حضور کی خدمت میں رہنے کے لئے تیار ہوں.اس پر حضور نے فرمایا کہ اس وقت آپ کا رہنا مناسب نہیں.کیونکہ آپ پادریوں کے پاس ملازم ہیں اور وہ لوگ ہمارے دشمن ہیں.جب انہیں معلوم ہوگا کہ آپ ہمارے پاس رہ گئے ہیں تو وہ آپ پر کوئی مقدمہ بنا دیں گے.اس لئے سر دست آپ چلے جائیں اور پھر آٹھ نو ماہ کی رخصت لے کر آجائیں.اس پر آپ رخصت ہوئے.ایک مخالف کی یک طرفہ بددعا اور اس کا عبرتناک انجام قادیان ہجرت کر آنے سے قبل کا واقعہ ہے کہ آپ گھوڑی گئے ہوئے تھے کہ وہاں ایک مولوی سے وفات عیسی کے مسئلہ پر مباحثہ ہوا.اس میں علاقہ کے سلطان محمد خان جو آپ کے ماموں تھے اور موجودہ احمدی سلطان کے والد تھے، وہ بھی شامل ہوئے.دورانِ مباحثہ وہاں کی مسجد کے امام حافظ نے مباہلہ پر آمادگی کا اظہار کیا.حضرت مولوی صاحب نے کہا کہ مباہلہ کے لئے ہمیں حضور سے اجازت حاصل کرنی ہوتی ہے.اس لئے اس وقت تک میں مباہلہ سے معذور ہوں لیکن حافظ جوش میں اس قد را ندھا ہو رہا تھا کہ وہ اٹھا اور اس نے مباہلہ کے رنگ میں دعا کی.حضرت مولوی صاحب نے فوراً کہا کہ گو حافظ صاحب کے ساتھ میں نے مباہلہ نہیں کیا لیکن اس کی طرف سے یک طرفہ دعا ہو گئی ہے.چنانچہ حافظ صاحب کی بات پر سلطان صاحب کے بچوں نے مخول کیا وہ کئیوں والے پیر کا مرید تھا جو دراوہ ضلع مظفر آباد میں رہتا تھا.اس نے کہا کہ میں ابھی اپنے پیر کے پاس جاتا ہوں.سب کام ٹھیک ہو جائے گا.چنانچہ وہ گھوڑے پر بمعہ اپنی بیوی کے روانہ ہوا.پہاڑوں کے اوٹ میں بعض ایسے مقامات ہوتے ہیں کہ جہاں سارا یا اکثر حصہ سال کا برف جمی رہتی ہے.چنانچہ راستہ میں پہاڑ کا ایک ایسا حصہ تھا کہ جہاں چھ ماہ برف جمی رہتی تھی.جب وہاں سے گذرنے لگا تو فالج ہوا اور گھوڑے سے گر پڑا.بیوی اکیلی کیا کر سکتی تھی.اس نے اسے راستہ سے ایک طرف کر دیا اور قریب ہی اس کا گاؤں تھا وہاں پہنچی لیکن صبح کو جب لوگ واپس آئے تو دیکھا کہ حافظ ندارد.اس کی لاش جنگلی جانور ہڑپ کر چکے تھے.آپ کے قتل کا منصو بہ اور الہی انتقام اسی طرح آپ کے ہجرت کر کے قادیان آنے سے قبل کا ایک اور واقعہ ہے.جس سے ظاہر ہوگا کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اپنے بندوں کی غیر معمولی اسباب سے نصرت و حفاظت فرماتا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ
۵۶ خواجہ فتح جو نے ایک مباحثہ کا انتظام کیا وہ بہت بڑا مالدار تھا اور علاقہ کے سلطان کو بھی اس کا دست نگر رہنا پڑتا تھا.حضرت مولوی صاحب کے ماموں زاد بھائی اکرم خان کی مدد سے فتح ہو نے ایک بہت بڑی رقم مظفر آباد کی پولیس کو دینی کی تا کہ مولوی صاحب کو قتل کر دیا جائے اور پولیس دخل انداز نہ ہو.اس رقم کا ایک حصہ وہ پہلے دے چکا تھا اور دوسورو پیدا اور دینے کے لئے وہ روانہ ہوا اور بمقام مظفر آباد اپنی لڑکی کے ہاں ٹھہرا.صبح رمضان المبارک کی یکم تاریخ تھی.اس کی لڑکی چاہتی تھی کہ وہ روزہ نہ رکھے تاکہ سفر میں تکلیف نہ ہو.وہ ایک کمرہ میں گنڈی لگا کر سویا اور سحری کے وقت دروازہ کھٹکھٹایا گیا لیکن وہ بیدا ر نہ ہوا.لڑکی پہلے ہی چاہتی تھی کہ اس کا باپ روزہ نہ رکھے.اس لئے اس نے جگانے کی زیادہ کوشش کرنے سے منع کر دیا لیکن دن چڑھے تک وہ بیدار نہ ہوا تو تشویش ہوئی.آخر بزور دروازہ کھول کر کمرے میں گھسے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ مرا پڑا ہے.اس علاقہ میں لوگ سوتے وقت پگڑی اتار کر پاس رکھ لیتے ہیں اور بیدار ہوتے ہی سر پر رکھ لیتے ہیں اور پسوؤں کی وجہ سے پاجامہ اتار کر سوتے ہیں.وہ بیدار ہو کر پگڑی سر پر رکھ چکا تھا اور ایک پاؤں میں پاجامہ ڈال چکا تھا اور دوسرے میں ڈالنے کے لئے پکڑا ہوا تھا اور اسی حالت میں اس کی جان نکل گئی.منصوبہ یہ تھا کہ اسی دن اس نے بقیہ رقم پولیس کو دے کر گھوڑی واپس آکر مباحثہ میں شریک ہونا تھا.مباحثہ مولوی صاحب کے والد صاحب کے استاد مولوی محمدحسین پسر عبدالستار سکنہ گمٹ ضلع مظفر آباد سے قرار پایا تھا.ادھر سلطان صاحب اور فتح جو کا بیٹا محمد جو اور مولوی محمد حسین اور سامعین اور حضرت مولوی صاحب اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ فتح جو آئے اور مباحثہ شروع کیا جائے.اتنے میں اس کی موت کی خبر آئی.چنانچہ سلطان صاحب محمد جو کو مجمع میں پکڑ کر ایک طرف لے گئے اور کہا کہ تمہارے باپ نے ایک شخص کو مروانے کا منصو بہ کیا تھا اس کے سرانجام دینے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے اسے مار دیا اور حضرت مولوی صاحب کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ یہ سب شرارت اکرم خاں کی ہے اس نے اکسایا تھا.محمد جو کو اس منصو بہ کا علم تھا.سلطان صاحب کی بات سن کر اس کا رنگ فق ہو گیا اور کوئی بات نہ بن پڑی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ خاص سے اس منصو بہ کو خاک میں ملا دیا.سلطان صاحب مخالف علماء سے خائف ہونے کی وجہ سے اس سے پہلے کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتے تھے.حضرت مولوی صاحب کے والد آپ کے احمدی ہونے کے ابتدائی زمانہ میں حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کی محبت کی وجہ سے مخالف نہیں ہوئے تھے لیکن بعد میں دیگر علماء زمانہ کی طرح حد سے زیادہ مخالف ہو گئے تھے اور اس منصوبہ کے وقت فتح جو نے ان سے یہ ذکر کیا تھا کہ اگر ہم لوگ مولوی صاحب ( آپ کے بیٹے ) کو قتل کرا دیں تو پھر ہم پر مقدمہ ہو گا جس کی وجہ سے ہم میں اور آپ میں بھی مقدمہ ہوگا.اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ اس
۵۷ مقدمہ میں دخل نہ دیں.تو والد صاحب نے وعدہ کیا کہ میں اس کی تائید میں کھڑا نہ ہوں گا لیکن احمدیت سے اتنا بغض رکھنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور مولوی صاحب کی دعائیں اپنے والد صاحب کے حق میں قبول فرمائیں.چنانچہ اس امر کا ذکر پہلے آچکا ہے کہ انہوں نے احمدیت قبول فرمالی تھی اور ان کا احمدیت قبول فرمانا بھی ایک قسم کے معجزہ کا رنگ رکھتا تھا.قادیان میں ہجرت ایبٹ آباد میں آپ جامع مسجد کے مدرسہ میں پڑھاتے تھے اور پچیس روپے اور کھانا معاوضہ ملتا تھا لیکن جب آپ پشاور میں آگئے تو مشن کالج سے ایک سور و پیہ اور پادری ڈے سے اسی روپے ماہوار یعنی کل ایک سو اسی روپے ملتے تھے ( پادری ڈے نے چالیس روپے ماہوار ایک گھنٹہ کا مشاہرہ مقرر کیا تھا لیکن عملاً وہ ہمیشہ اسی روپے دیتا رہا) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت سے غالباً ۱۹۰۱ء میں آپ قادیان آگئے.اب آپ کا کوئی ذریعہ آمد نہ تھا جیسا کہ سابقاً ذکر ہو چکا ہے طالب علمی کے زمانہ میں بھی آپ نے والد صاحب سے کبھی کوئی مطالبہ نہ کیا تھا.اب آپ مہمان خانہ میں رہتے تھے اور وہیں سے کھانا کھاتے تھے.جب تعلیم سے فارغ ہو کر آپ وطن آئے تھے تو والدین اور ماموں کو افیون کا عادی دیکھ کر آپ کو بھی عادت ہوگئی تھی لیکن اب قادیان میں ایک طرف آپ کے پاس کوئی روپیہ نہ تھا.دوسرے حضور نے ذکر فرمایا تھا کہ ہمارے دوستوں کو نشہ آور اشیاء سے پر ہیز کرنا چاہیئے.اس لئے آپ نے ایک دفعہ اس عادت کو ترک کر دیا.پہلے تین دن تو ایسی حالت رہی کہ آپ میں اور مُردہ میں کوئی فرق نہ تھا.پھر اس کے بعد چالیس دن تک سخت تکلیف اٹھائی کی سفر کشمیر اسی اثناء میں آپ کے پھوپھی زاد بھائی سید سرور شاہ صاحب کا حضور کی خدمت میں خط آیا کہ میری پہلی کس کس سنہ میں آپ کی بیعت، ہجرت اور شادی ہوئی اس کے متعلق ابھی بعض امور قابل تحقیق ہیں.امید ہے اس بارہ میں ایک مفید و مفصل نوٹ کتاب کے آخر میں دے سکوں گا.مؤلف اس امر کی تصدیق حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بھی کرتے ہیں.نیز غالباً تتذکرۃ المہدی صفحہ پر بھی اس کا ذکر ہے.مؤلف
۵۸ بیوی فوت ہو چکی ہے اور اب راجہ عطا محمد خان سکنہ یاڑی پورہ (کشمیر) کے ہاں رشتہ کرنا چاہتا ہوں وہ انکار کرتے ہیں.مولوی سرور شاہ صاحب کی بات وہ مان لیں گے.اس لئے کہ آپ ان کے خالہ زاد بھائی ہیں ( راجہ صاحب کی والدہ بڑی تھیں اور مولوی صاحب کی والدہ چھوٹی تھیں ) اس لئے حضور مولوی صاحب کو دوماہ کی رخصت عنایت کریں.چنانچہ حضور کی طرف سے دوماہ کی اجازت ملی اور ترک افیون کے چالیسویں دن آپ نے دانہ کا سفر اختیار کیا اور سید صاحب اور محمد یا مین صاحب (صحابی ) کے ہمراہ حضرت مولوی صاحب سرینگر پہنچے.راجہ صاحب وہاں اپنے بڑے لڑکے کو لے کر آئے ہوئے تھے.یہ لڑکا ہیضہ سے بیمار تھا.راجہ صاحب نے کہا کہ دوسروں کا تو میں علاج کرتا ہوں لیکن اپنے لڑکے کے علاج کے لئے عقل ٹھکانے نہیں.آپ علاج کریں.مولوی صاحب کو یاد تھا کہ آپ کے والد صاحب نے ہیضہ ہونے پر آپ کو جنگلی پودینہ میں بقدر ضرورت نمک لاہوری ( یعنی اس کا چمکدار حصہ ) ڈال کر پیس کر گائے کی تازہ کسی کے ساتھ کھلایا تھا.دو خوراک سے آرام آجاتا ہے.چنانچہ اس نسخہ سے لڑکے کو آرام آ گیا.بعد ازاں راجہ صاحب کے ساتھ ان کے گاؤں یاڑی پورہ گئے اور سید صاحب کی ان کے ہاں شادی ہوگئی.راجہ صاحب اپنے طریق کے مطابق سید صاحب کو لمبے عرصہ کے لئے وہاں ٹھیر انا چاہتے تھے لیکن مولوی صاحب کچھ دن بعد وہاں کے قیام سے تنگ پڑ گئے اس لئے آپ لدرون چلے گئے وہاں آپ کے والد صاحب اور بھائی تھے.وہاں سے آپ گھنڈی آگئے.وہاں کے ساہوکار نے جس سے ہمیشہ لین دین ہوتا رہتا تھا.اس بغض کی وجہ سے کہ آپ احمدی ہو گئے ہیں آپ کو روپیہ دینے سے انکار کر دیا.پھر بھی حضرت مولوی صاحب نے ارادہ کر لیا کہ آپ راولپنڈی چلے با ئیں گے تاکہ وہاں غیر معروف ہونے کی وجہ سے محنت مزدوری کرسکیں اور اخراجات مہیا ہونے پر قادیان پہنچیں گے.چنانچہ گھنڈی میں جو او پر مکان ہے اس سے آپ اسی ارادہ سے روانہ ہوئے لیکن آپ جب نچلے مکان تک پہنچے تو وہاں آپ کے کاردار منگا نام نے کہا کہ فلاں شخص بہت اصرار کرتا ہے کہ دس روپے کا غلہ اسے دے دیا جائے.آپ کے گھر میں یہ طریق تھا کہ غلہ فروخت نہیں کرتے تھے بلکہ تمام کا تمام رکھتے تھے.اب یہ الہی سامان تھا کہ آپ کا اپنا غلہ اصرار سے مانگا جارہا تھا.چنانچہ آپ نے اسے کہا کہ اس شخص کے پاس غلہ فروخت کر دو.اس طرح دس روپے آپ کومل گئے.اتنے میں میاں بگا نے سید فتح علی شاہ صاحب کی طرف سے تمہیں روپے آپ کو دئیے.والد صاحب کی پہلی شادی اپنے ماموں کے ہاں ہوئی تھی.والد صاحب کے ماموں زاد بھائی اور برادر نسبتی سید احمد علی شاہ سکنہ پچھواڑ کے دو بیٹوں میں سے ایک سید فتح علی شاہ مذکور تھے.انہیں ایک ہندو بابو
۵۹ نے پرورش کے لئے لے لیا تھا اور تعلیم دلا کر معزز عہدہ پر ملازم کرا دیا تھا لیکن چونکہ انہیں شراب کی عادت تھی اس لئے انہوں نے میاں لگا کے ہاتھ ایک چٹھی بھیجی کہ آپ کو میری عادت کا علم ہے اس لئے میں حضرت صاحب کی خدمت میں قادیان حاضر نہیں ہو سکتا.تمہیں روپے ارسال ہیں.آپ قادیان کے سفر میں اپنے مصرف میں لائیں.قادیان میں واپسی اور ملازمت دو ماہ کا عرصہ یاڑی پورہ میں شادی پر صرف ہو چکا تھا.اب آپ چھ ماہ قادیان سے باہر رہنے کے بعد واپس آئے.آپ فرماتے تھے کہ اس توقف میں اللہ تعالیٰ نے میری یہ غرض بھی پوری کر دی کہ جب میں گذشتہ مرتبہ آیا تھا تو گوہجرت ہی کی نیت سے آیا تھا مگر تفصیلی نیت نہ کی تھی.اب اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع دیا کہ خالصا اللہ ولرسولہ ہجرت کی.پہلے تو سامان ایسے پیدا کر دیئے کہ میں بالکل بے کس و بے بس ہو گیا اور مزدوری تک کرنے کا ارادہ کر لیا لیکن پھر اس نے باعزت طور پر سارا سامان کر دیا.آپ فرماتے تھے کہ ان ایام میں دینیات کی جماعت مدرسہ تعلیم الاسلام کی شاخ تھی اور مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی اس میں تعلیم دیتے تھے.سیالکوٹ کی ایک مسجد کے مولوی صاحب متولی تھے.اس کے متعلق غیر احمدیوں سے مقدمہ ہوا.اس لئے مولوی صاحب ایک ماہ کی رخصت پر سیالکوٹ گئے.مولوی سرور شاہ صاحب نے مرزا خدا بخش صاحب ملازم حضرت نواب صاحب سے کہا کہ نواب صاحب سے کہہ کر مجھے مولوی مبارک علی صاحب کی جگہ لگوادیں.نواب صاحب کو چونکہ علم نہ تھا اس لئے مرزا صاحب کی بات سن کر مولوی سرورشاہ صاحب کی نسبت دریافت کیا کہ کیا وہ بھی مولوی ہیں.حضرت مولوی صاحب نے یہ بھی پیشکش کی کہ گومولوی مبارک علی صاحب ہیں روپے مشاہرہ پاتے ہیں مجھے پندرہ روپے مشاہرہ ہی قبول ہیں.چنانچہ آپ کے سپرد یہ کام کر دیا گیا.مولوی مبارک علی صاحب کو مزید ایک ماہ کی رخصت حاصل کرنی پڑی.ان کے واپس آنے پر حضرت نواب صاحب نے اس امر کو پسند کیا کہ چونکہ مولوی سرور شاہ صاحب تعلیم و تدریس کا کام مولوی مبارک علی صاحب سے بہتر رنگ میں سرانجام دے رہے ہیں وہی کام پر لگے رہیں.پہلی شادی حضرت مولوی صاحب کی پہلی شادی سید محمد اشرف سکنہ دانہ ضلع ہزارہ کی بیٹی سے ہوئی.سید صاحب
۶۰ آپ کے دادا صاحب کے چچا زاد بھتیجے تھے اور احمدیت کے زمانہ سے قبل ہی فوت ہو چکے تھے.آپ کی خوشدامن زندہ تھیں.آپ کے برادر نسبتی سید سرور شاہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.حضرت مولوی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ چونکہ ہمارے خاندان میں خواتین کا نام پکارنے کا رواج نہیں اس لئے بسا اوقات ان کا نام یاد ہی نہیں ہوتا.چنانچہ مجھے اپنی والدہ صاحبہ اور اہلیہ مرحومہ کا نام معلوم نہیں آپ کی اہلیہ تپ دق سے بیمار ہو گئیں.انہوں نے وفات سے تین ماہ پیشتر خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا حضور نے فرمایا میں تو چلتے چلتے تھک بھی گیا ہوں اور پھر دریافت فرمایا کہ کیا تم مجھے جانتی ہو اور ساتھ ہی فرمایا کہ میں مسیح موعود ہوں اور پھر میری اہلیہ کو فرمایا کہ بلند آواز سے کہو کہ میں مسیح موعود ہوں اور اسی اثنا میں خواب میں ہی بیعت بھی کی اور بلند آواز کے ارشاد پر میری اہلیہ نے اتنی بلند آواز سے کہا کہ وہ خود بھی اور میں بھی بیدار ہو گیا.چنانچہ اس خواب کی بنا پر انہوں نے بذریعہ خط بیعت کر لی.بیماری کے آخر میں موصوفہ کی خواہش کے مطابق مولوی صاحب انہیں ان کی والدہ کے پاس بمقام دانہ چھوڑ آئے.جہاں وہ دس ماہ کی بچی چھوڑ کر راہی مُلک بقا ہوئیں.انَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.اس بچی کا عقد پہلے صاحبزادہ میاں عبدائی صاحب ابن حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اسیح اوّل سے اور صاحبزادہ کی وفات کے بعد سید محمود اللہ شاہ صاحب ابن حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب سے ہوا.ان کے بطن سے سید صاحب کے ایک صاحبزادہ محترم سید داؤد مظفر شاہ صاحب سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی فرزندی میں آپ کی صاحبزادی محترمہ سیدہ امتہ احکیم بیگم صاحبہ سے شادی کر کے آچکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے اس گہرے تعلق میں جہاں دوسرے بزرگان کی بزرگی کا حصہ ہے وہاں مرحومہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کی نیکی اور طہارت کی جھلک بھی نظر آتی ہے.حضرت اقدس علیہ السلام کو خواتین مبارکہ کے دئے جانے کا وعدہ دیا گیا ہے.چنانچہ ایسی خواتین آپ کے خاندان میں آئی ہیں.ایسی خواتین کا وعدہ اولا دنرینہ کے متعلق ہونے کا باعث ہیں.اللہ تعالیٰ نے وفات سے قبل بیعت حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے خواب کے ذریعہ مرحومہ کی راہنمائی کی.وہ قادیان زیارت کے لئے نہ آ سکتی تھیں.اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کو محرومی سے محفوظ رکھا بلکہ ان کی لڑکی اور نواسے کو اپنے فضل خاص سے نوازا.فالحمد للہ علی ذالک دوسری شادی کے لئے تحریک اہلیہ موصوفہ کی وفات کے بعد آپ پشاور سے قادیان ہجرت کر آئے تھے.قیام قادیان میں ایک دفعہ
۶۱ طاعون کے ایام میں آپ کو دار مسیح کے اندر ٹھہرایا گیا.قدرت اللہ خانصاحب ڈیوڑھی بان معہ اہل وعیال اور آپ ایک ہی حصہ میں رہتے تھے.حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا (اعـلـى الله درجاتها في الجنة) چاہتی تھیں کہ مولوی صاحب کا رشتہ قدرت اللہ خان کے ہاں ہو جائے.چونکہ مولوی صاحب کی رائے تھی کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بغیر پوچھے از خود ہی ارشاد فرما ئیں تو مجھے کوئی عذر نہ ہوگا.اس لئے یہاں رشتہ نہ ہوا.ایک روز عبد اللہ صاحب عرب کے لئے رشتہ کا ذکر ہورہا تھا.حضور علیہ السلام نے بعض رشتے نا منظور کئے اور فرمایا ایسا رشتہ ہونا چاہئے جو ظاہری شکل و شباہت میں بھی اچھا ہو مثلاً میاں جیون بٹ صاحب امرتسری کے ہاں.مولوی صاحب میاں جیون بٹ صاحب سے واقف نہ تھے بلکہ ان کو دیکھا ہوا بھی نہیں تھا.رمضان میں ڈاکٹر عباد اللہ صاحب امرتسری آکر قادیان میں اعتکاف بیٹھے مولوی صاحب کے دریافت کرنے پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ عید کے لئے ٹھہرنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن میں نے میاں جیون بٹ صاحب کا پیغام حضرت مولوی نورالدین صاحب کو پہنچانا ہے اس لئے ٹھہر نا پڑے گا.ان کا پیغام یہ ہے کہ میں نے دو سال سے لڑکی کے رشتہ کے لئے لکھا ہوا ہے اس کا خیال رکھیں.مولوی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ دوسروں کا پیغام تو پہنچاتے ہیں لیکن میرا پیغام کسی کو بھی نہیں دیتے.میری شادی کا کسی جگہ انتظام کیا جائے.مولوی صاحب کے خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ کی شادی کے لئے حضرت مولوی صاحب سے ذکر کیا جائے گا.ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی.اے ( مہر سنگھ ) مرحوم ان دنوں حضرت مولوی صاحب کے پاس رہتے تھے اور طالب علم تھے.انہوں نے مولوی سرور شاہ صاحب کو مبارکباددی اور دریافت کرنے پر فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب نے میاں جیون بٹ صاحب کو خط لکھا ہے کہ آپ کی لڑکی کے لئے مولوی سرورشاہ صاحب کا رشتہ میں پیش کرتا ہوں اگر آپ کو یہ رشتہ منظور نہ ہو تو آپ مجھ سے بالکل نا امید ہوجائیں.میں پھر آپ کی لڑکی کے لئے کوئی رشتہ تجویز نہیں کرسکتا.اگر آپ کو یہ رشتہ منظور ہو تو جمعرات کے روز آجائیں.بابا جیون بٹ صاحب میاں غلام رسول حجام سکندر امرتسر (صحابی ) کے ہمراہ جمعرات کو قادیان آگئے.میاں غلام رسول بہت مخلص تھے.انہیں بابا جی نے یتیمی کی حالت میں پرورش کیا تھا.ظہر کی نماز کے وقت حضرت مولوی صاحب نے حضور سے استصواب کیا اور حضور نے اس رشتہ کی اجازت عنایت کی.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے حضور کی موجودگی میں نکاح پڑھا اور بغیر پوچھنے کے دوصد روپیہ مہر مقرر کیا.حضور بھی دعا میں شریک ہوئے.
۶۲ رخصتانہ اور بے سروسامانی سچ ہے کہ غناء غنا نفس کا نام ہے ورنہ ہزاروں دولتمند باوجود ہر قسم کی دولت سے مالا مال ہونے کے غرباء سے کہیں بدتر ہوتے ہیں.آپ نے نکاح کے موقع پر میاں غلام رسول صاحب حجام کے ذریعہ سے دریافت کیا کہ رخصتانہ کے موقع پر کیا کچھ لانا چاہئے.بابا جی نے کہلا بھیجا کہ ہم سب کچھ دیں گے اور آپ کچھ بھی ساتھ نہ لا ئیں اور پندرہ روز سے زیادہ تاخیر نہیں کریں گے.رخصتانہ کے لئے مولوی صاحب کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا.حضرت حکیم فضل الدین صاحب مہمان خانہ کے اوپر کے چوبارہ میں رہائش رکھتے تھے.نیچے آئے اور مولوی صاحب کو دیکھ کر کہا کہ معلوم ہوتا ہے آپ رخصتانہ کے لئے جا رہے ہیں اور دس روپے دیئے.حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ سے آپ ملے تو فرمایا کہ برات میں کسی کو ساتھ نہ لے جائیں.آج تیرہ دوست مجھ سے مل کر امر تسر گئے ہیں اور میں نے انہیں کہا ہے کہ امرتسر اسٹیشن پر ٹھہریں اور آپ کی برات میں شامل ہوں.چنانچہ یہ لوگ اسٹیشن پر موجود تھے.ان کے ہمراہ آپ ڈاکٹر عباداللہ صاحب کے مکان پر گئے اور چند اور دوست بھی شامل ہو گئے اور یہ برات بابا جی کے ہاں پہنچی.بابا جی پشمینہ بانی کا کام کرتے تھے ہیں مولوی صاحب کو ان سے سابقہ معرفت نہ تھی.یہ حضور علیہ السلام کا اثر برکت اور تاثیر فیض تھی کہ جس کی وجہ سے آپ نے سابقہ خاندانی روایات کے خلاف اس انکشاف کو صبر سے برداشت کیا.ورنہ عام حالات میں ممکن تھا کہ سرال سے واپس اُٹھ آتے.سچ ہے انبیاء کے ذریعہ ایک انقلاب بر پا ہوتا ہے جو روایات اور رواج و رسوم کی خس و خاشاک کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے.آپ کی بعد کی ازدواجی زندگی میں اپنے اہل بیت سے حسن معاشرت اس امر پر دال ہے.نرینہ اولا د ہونا ایک دفعہ حضرت خلیفتہ امسیح اول کی مجلس میں جموں کے تعلق میں اولاد کے سلسلہ کا ذکر چل پڑا.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے خاندان سے حضور کو سابقہ تعارف تھا.آپ نے عرض کیا کہ آپ والد صاحب بابا جی بہت مخلص ، سادگی پسند ، بریکار نہ رہنے والے، تبلیغ پیشہ، کفایت شعار اور تقوی شعار تھے.باوجود غریب ہونے کے اہل محلہ میں ان کی نیکی کی وجہ سے بہت اثر تھا.خاکسارا اپنے زمانہ طالب علمی میں اپنی ممانی صاحبہ کے ہاں کو چہ کلکتیاں میں جایا کرتا تھا اور بابا جی سے ملاقات کرتا.آپ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.مؤلف
۶۳ سے واقف ہیں.ہم پانچ بھائی ہیں اور کسی کے ہاں بھی نرینہ اولاد نہیں.حضور نے پھر کسی اور وقت آپ کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ آپ نے جو اس دن بات کہی تھی اس کا میرے دل پر ایسا اثر ہوا کہ جب میں سونے لگتا تو آخری خیال یہی ہوتا اور جب میں بیدار ہوتا تو پہلا خیال یہی ہوتا.آج تیسرا دن ہے کہ یہی حال ہے.آپ نرینہ اولاد کے لئے بہت دعا کریں.مولوی صاحب نے اسی وقت دل میں دعا شروع کر دی.اس دن یا ایک دو دن کے اندر آپ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھا کر گھر آئے.ایک پاؤں دروازہ کے اندر رکھا تھا اور ایک ابھی باہر ہی تھا کہ آپ کو الہام ہوا کہ ہم تمہیں اٹھارہ اکتوبر کولڑ کا دیں گے.گھر سے اس وقت سوئے ہوئے تھے انہیں جگا کر آپ نے یہ بات سُنا دی.اُن دنوں آپ عصر کے بعد مسجد اقصیٰ میں قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے.اس میں بھی آپ نے یہ بات سُنا دی.ایک دوست نے رقعہ لکھا کہ ایسی باتیں بڑے ابتلاء کا موجب ہو جاتی ہیں.اس لئے لوگوں کو نہیں سُنانی چاہئیں.آپ نے جواب دیا کہ میں نہ نبی ہوں اور نہ مامور.چاہے تو اللہ تعالیٰ میری بات کو پورا کرے چاہے نہ کرے، اس سے ابتلاء کیوں آنے لگا.ابتلاء تو نبی کی بات پر آتا ہے.بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات پوری ہوگی اس کے بعد آپ کے ذہن سے یہ الہام اتر گیا.۱۷۱۸ کتو بر کو آپ صبح کی نماز مسجد اقصیٰ میں پڑھا کر گھر آئے.عین اس وقت جبکہ آپ کا ایک قدم گھر کے اندر تھا اور ایک باہر.آپ کو الہام ہوا کہ آج ہمارا سلطان بھی آتا ہے اور تفہیم یہ ہوئی کہ لڑکا ہوگا.گھر میں آپ داخل ہوئے اور بھاگ بھری نام ہمسائی نے مبارکباد دی کہ لڑکا ہوا ہے.آپ نے حضرت خلیفتہ امسیح اول کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے گھر سے خواب دیکھا تھا کہ اگر تمہارے ہاں لڑکا ہو تو ناصر نام رکھنا حضور نے فوراً فرمایا کہ ناصر نام رکھ لیں.پھر مولوی صاحب نے اپنا دوسرا الہام سنایا تو فرمایا الہام خواب سے مقدم ہوتا ہے اس کا نام سلطان ناصر رکھ لیں اور فرمایا کہ سب کچھ ہوا لیکن سیدوں والی کوئی بات نہ ہوئی.یعنی علی یا حسین نام میں نہیں آیا اور تھوڑی دیر سوچ کر فرمایا کہ سلطان محمد ناصر نام رکھ لیں.آپ کے ہاں دوسرا بیٹا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ الہ تعالی کے عہد میں اس مکان میں پیدا ہوا جس میں آج کل آپ کی رہائش ہے اور جو دار الانوار کی سڑک پر جلسہ سالانہ کے لنگر خانہ کے سامنے ہے کہ آپ نے حضور کی خدمت میں نام کے لئے عرض کیا تو حضور نے دریافت کیا آپ کے کسی لڑکے کا نام صلاح الدین تو آج کل درویشی دور میں ۱۹۴۸ء سے یہ جگہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جلسہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے.مؤلف
۶۴ نہیں.آپ نے کہا نہیں.تو آپ نے فرمایا صلاح الدین نام رکھ لیں.حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا گھر تشریف لائیں اور بچہ کو دیکھ کرفرمایا کہ یہ ہو بہو مبارک احمد ہے.اس کا نام مبارک احمد رکھیں.چنانچہ عام استعمال میں مبارک احمد نام آتا ہے اور کاغذات میں صلاح الدین مبارک احمد.مباحثہ مڈ اور اُس کی اصل وجہ محترم ایڈیٹر صاحب الحکم تحریر کرتے ہیں کہ : - " حضرت مسیح موعود نے اپنی پاک فطرت کے موافق ابتداء میں علماء کو جب دعوت کی اور انہوں نے اسے نہایت تندہی اور تیزی سے رد کیا.نہ صرف رڈ کیا بلکہ اس کی مخالفت کے لئے اُٹھے تو آپ نے ان کو مباحثات کے لئے بلایا اور نہایت نرمی ، پیار اور محبت سے چاہا کہ وہ امر حق سمجھ لیں اور دوسروں پر اسے مشتبہ نہ کریں.مگر جب ان لوگوں کے حالات مکرو زور آپ پر کھلے اور ان کا ظلم و افتراء حد سے گذر گیا تو آپ نے اعلام الہی سے مباحثات کو خود بند کر دیا اور آسمانی نشانات اور تائیدات کے لئے دعوت کی.جب اس طرف بھی کوئی نہ آیا تو پھر آپ نے قلم کے ذریعہ ان غلط بیانیوں کی اصلاح کرنی چاہی جو مخالف پھیلا رہے تھے اور خدا کا شکر ہے کہ آپ اس میں پورے کامیاب ہوئے.مگر مخالفوں نے اپنی شرارت کو نہ چھوڑا وہ اس میں ترقی ہی کرتے رہے.ان کا شرارتوں میں ترقی کرنا ، اللہ تعالیٰ کی غیرت کا محرک ہوا.ادھر سے حقائق و معارف اور تائیدات کا ایک پُر زور سلسلہ شروع ہو گیا اور جماعت میں اس قدر ترقی شروع ہوئی کہ اب بیعت کے نام لکھنے والے بھی تھک گئے اور اب مخالفوں کو جب کوئی اور حیلہ ہاتھ نہ آیا تو یہ تجویز سوجھی کہ جہاں کوئی احمدی ہو اس کے خلاف لوگوں میں جوش پیدا کیا جاوے اور اشعال دلا کر اس کو ہر قسم کی تکلیف دی جاوے.چنانچہ مد پر بھی جو مباحثہ ہو اس کی تہہ میں اس قسم کی سازشیں اور شرارتیں کام کر رہی ہیں.منشی محمد یوسف صاحب اپیل نویس اکیلے اس گاؤں میں بیعت کر گئے تھے لیکن وہ مردان میں رہتے تھے اور ایک قانون پیشہ اور ذکی اور ذی وجاہت ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے اثر سے محفوظ تھے.پھر جب ان کے بھائی محمد یعقوب صاحب
نے بھی بیعت کر لی تو ان شریروں کو موقع مل گیا کہ ان کو تنگ کریں.گاؤں والے تو شایدان سے تعرض نہ کرتے مگر بعض شریروں کے اشتعال سے آخر جاہل لوگ تو تھے ہی ، مخالفت پر اُٹھے اور یہاں تک مخالفت سے کام لیا کہ اگر مقابل میں حضرت اقدس مسیح موعود کا مرید نہ ہوتا ( جوصبر اور برداشت کی تعلیم پر آپ کے حکم سے پابند کئے جاتے ہیں ) تو ممکن تھا کہ اشتعال طبع پیدا ہو کر نقص امن ہو جا تا مگر ہم منشی محمد یعقوب صاحب کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے مخالفوں کے ہر قسم کے جور و ستم سہہ کر اپنے طرز سے ثابت کر دکھایا کہ وہ ان تکلیفوں اور مشکلات کی ایک پر کاہ کے برابر بھی پرواہ نہیں کرتے.بہر حال جب ان کو حد سے زیادہ تنگ کیا گیا.یہاں تک تجویزیں کیں کہ سقہ ، دھوبی ، بھنگی وغیرہ لوگ ان کے کام نہ آئیں.تو انہوں نے منشی محمد یوسف صاحب اپیل نولیس کو اطلاع دی.انہوں نے مردان سے آکر ان مخالفوں کو مناسب طریق پر سمجھایا اور ان کی ان تکالیف پر جو وہ دے رہے تھے قانونی چارہ جوئی بھی کرنی چاہی لیکن آخر یہ فیصلہ فریقین کی طرف سے ہوا کہ مسائل متنازعہ کا فیصلہ ہو جائے.منشی محمد یوسف صاحب نے اس کو منظور کر لیا کیونکہ وہ شوق سے چاہتے تھے کہ کسی طرح پران لوگوں کو تبلیغ ہو جائے.وہ دارالامان آئے اور حضرت اقدس سے انہوں نے اپنے اس منشا کو عرض کیا.حضرت اقدس نے حسب معمول مخالف علماء کے مکر و حیل سے ان کو مطلع کیا اور فرمایا کہ ایسے مباحثات سے فائدہ نہیں ہوتا.مگر منشی صاحب کے اصرار پر حضرت اقدس نے منظور کر لیا کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب وہاں چلے جائیں اور جیسا کہ منشی صاحب نے ظاہر کیا کہ تبلیغ ہو جاوے گی.کچھ وعظ کریں گے.یہی غرض ان کی روانگی میں رکھی گئی.الحکم مورخه ۳۰ / نومبر ۱۹۰۲ء.نیز ۲۴ ا کتوبر ۱۹۰۲ء کے دربار شام میں مذکور ہے:.برادرم مکرم محمد یوسف صاحب اپیل نویس نے اپنے گاؤں میں بعض لوگوں کی شرارت رفع کرنے کے واسطے بعض احباب کو حضرت اقدس کے ایما سے لے جانا چاہا.اس کی یہ تجویز ہوئی کہ مولوی عبداللہ صاحب اور مولوی سید سرور شاہ صاحب کو بھیجا جاوے.‘ا
۶۶ مد کو روانگی اور اس کی غرض محمد یوسف صاحب اپیل نویس مردان کی درخواست پر حضرت اقدس نے ان کے ہمراہ ۲۶ اکتوبر کو سید سرور شاہ صاحب اور مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری کو ان کے گاؤں مد تحصیل اجنالہ میں اس لئے روانہ کیا کہ وہاں احمد یہ مشن کی تبلیغ کریں اور ضرورت پڑے تو مہذبانہ طریق سے مباحثہ کریں.“ ہے.مباحثه مد : میاں محمد یوسف صاحب کے والد پشاور کی طرف تحصیلدار رہے تھے.چونکہ میاں محمد یوسف صاحب کی ایک آنکھ میں نقص تھا اس لئے وہ زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے اور مردان میں اپیل نویسی کا کام کرنے لگے.ان کے دو چھوٹے بھائی تھے.مباحثہ مذ کے وقت ان میں سے بڑا بھائی غیر احمدی اور چھوٹا بھائی احمدی تھا.میاں صاحب اپنے منجھلے بھائی کو علاج کے لئے قادیان لائے تھے اور جن کا مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے بہت توجہ سے علاج کیا اور وہ صحتیاب ہو گئے.بعد میں چھوٹا بھائی بھی احمدی ہو گیا.میاں صاحب اپنے بھائیوں کو ملنے کے لئے مد جا رہے تھے.لاہور سے ان کے ساتھ ان کی برادری کا ایک شخص ہم سفر ہوا.اس نے کہا کہ احمدی اور غیر احمدی مولویوں کے درمیان مباحثہ کرایا جائے.وہ خود وہابی تھا.اس نے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے ساتھ مباحثہ کرانا چاہا اور مولوی صاحب کو لانے کا ذمہ لیا.میاں صاحب قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس کا ذکر کیا.تو حضور نے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کو مباحثہ کے لئے جانے کو کہا.چنانچہ مولوی صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب کشمیری نے یکہ پر قادیان سے امرتسر تک اور وہاں سے اجنالہ اور اجنالہ سے شاہدرہ کے پاس سے گذرتے ہوئے مد تک سفر کیا.مؤخر الذکر بطور منشی کے ہمراہ لئے گئے تھے.حضرت مولوی صاحب چونکہ زمانہ طالب علمی سے مولوی ثناء اللہ صاحب سے واقف تھے.علاوہ ازیں مولوی نظام الدین صاحب احمدی سے ان کا امرتسر میں مباحثہ ہوا تھا وہ حضرت مولوی صاحب کے سامنے ہوا تھا.آپ کو علم تھا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی عادت ہے کہ ہمیشہ اصول مناظرہ کی آڑ لیتے ہیں اور کبھی خود مدعی نہیں بنتے اور ہمیشہ یہی کوشش کرتے ہیں کہ فریق ثانی مدعی بنے تا کہ بار ثبوت اس کے ذمہ رہے.اصل
۶۷ موضوع زیر بحث وفات مسیح " تھا.حضرت مولوی صاحب نے اس کی تقسیم پانچ حصوں میں اس رنگ میں کی کہ پہلے حصوں میں حضرت مولوی صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب دونوں مدعی ہوں اور آخری مضمون زیر بحث میں حضرت مولوی صاحب مدعی ہوں تا کہ آخری تقریر آپ کی ہو.مثلاً پہلا مضمون وفات مسیح اور حیات مسیح کا تھا.اس میں وفات مسیح کے لحاظ سے حضرت مولوی صاحب مدعی اور حیات مسیح کے لحاظ سے مولوی ثناء اللہ صاحب مدعی تھے.دوسرا مضمون یہ تھا کہ جو مرتا ہے وہ زندہ ہو کر اس دنیا میں دوبارہ واپس نہیں آتا.اس میں دنیا بھی حضرت مولوی صاحب مدعی تھے.پانچواں اور آخری مضمون صداقت مسیح موعود علیہ السلام تھا.اس میں حضرت مولوی صاحب مدعی تھے اور آخری تقریر آپ ہی نے کرنی تھی.شرائط کے لحاظ سے مدعی کی پہلی اور آخری تقریر تھی اور پہلے دو اور آخری مضامین میں حضرت مولوی صاحب کی پہلی اور آخری تقریر تھی.اس طرح ہر مضمون کے تین پرچے ہوتے اور یہ بھی شرط تھی کہ پرچے لکھ کر پڑھے جائیں گے اور اگر تحریر میں کسی قسم کی کمی رہ جائے گی تو سُناتے وقت اس کمی کو زبانی تقریر کے ذریعہ پورا کرنے کی اجازت ہوگی.مولوی ثناء اللہ صاحب نے شرائط منظور نہ کیں.اس لئے کہ انہیں مدعی بنا پڑتا تھا اور یہ امران کی عادت کے خلاف تھا اور مباحثہ سے انکار کر دیا.حضرت مولوی صاحب واپسی کے لئے کھانا کھا کر فارغ ہوئے.مُدّ کے ساتھ ایک بڑا قصبہ پہلو وال ہے.وہاں کے رہنے والے احمد علی نام ایک دوست آئے.وہ غالبا گکے زئی تھے اور امرتسر میں بود و باش رکھتے تھے.انہوں نے مباحثہ کے متعلق دریافت کیا انہیں بتایا گیا کہ یہ شرائط ہیں اور مولوی صاحب نے انہیں نا منظور کر دیا ہے.احمد علی صاحب نے کہا کہ شرائط مجھے دیجئے میں مولوی صاحب کے پاس جاتا ہوں یہ شرائط بالکل قرین انصاف اور معقول ہیں.چنانچہ تھوڑی دیر میں واپس آ کر کہا کہ مبارک ہومولوی ثناء اللہ صاحب مان گئے ہیں.صرف ایک بات آپ سے منوانا چاہتے ہیں وہ آپ مان لیں اور بات بھی انصاف والی ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ ہار جائیں تو مولوی ثناء اللہ صاحب کی بیعت کر لیں.حضرت مولوی صاحب نے کہا کہ اگر چہ آپ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے لیکن دراصل بے رحمی کی ہے.میں حضرت مرزا صاحب پر اس شرط پر ایمان نہیں لایا کہ میں بڑا مولوی ہوں اور مباحثہ میں جیتوں تو وہ بچے ہیں بلکہ میں نے آپ کو اس لئے قبول کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.جب میرے نزدیک آپ ایک دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ثابت ہو چکے ہیں تو اب میں خواہ جیت جاؤں یا ہار جاؤں وہ بہر حال صادق ہیں.یہ بات احمد علی کو سمجھ آگئی اور ان کے دل لگی اور انہوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو کہا کہ یہ شرط غیر مناسب ہے
۶۸ اور انہیں اس کے چھوڑنے پر آمادہ کر لیا.یہ ایک قسم کا دنگل تھا.اب اس کا اکھاڑہ تیار ہوا.چٹائیاں بچھائی گئیں.ادھر چھ سات سو غیر احمدی سننے کے لئے جمع تھے اور ان میں بکثرت مولوی طبقہ کے لوگ بھی تھے اور دوسری طرف صرف یہ تین احمدی تھے.دو پہر سے قبل مباحثہ شروع ہوا.حضرت مولوی صاحب نے قریباً ایک گھنٹہ میں اپنا مضمون لکھوا کر سُنایا.اس سے قبل ایک موقع پر حضرت مولوی صاحب نے مولوی ثناء اللہ صاحب کا جواب لکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کوئی دوسری آیت دریافت کی تھی تو حضور نے فرمایا تھا کہ دوسری آیت جانے دیں آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی ہی کافی ہے اور اصل ہے.چنانچہ یہ بات آپ کو یا تھی اور اس موقع پر آپ نے یہی آیت پیش کی تھی.آپ کا مضمون سُنانا تقریر کا رنگ رکھتا تھا.پہلی بار جب آپ بول رہے تھے تو غیر احمدی مولوی دانت پیتے تھے اور چاہتے تھے کہ اس طرح مباحثہ نہ ہو بلکہ مولوی ثناء اللہ صاحب یہ کہہ دیں کہ احمدی کا فر ہیں اور اس طرح شور پڑ جائے اور مباحثہ ختم ہو جائے.اس کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب نے جواب تیار کیا اور پڑھا.اس میں یہ بھی کہا کہ مرزا صاحب نے فلاں کتاب میں لکھا ہے کہ مسیح زندہ ہیں اور کچھ زبانی تقریر کی.اس میں آتھم کی پیشگوئی کے نہ پورا ہونے کا ذکر کر کے اعتراض کیا.احمد علی صاحب مذکور نیچیری اور وہابی تھے اور جلسہ کے صدر تھے اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے قریب بیٹھے ہوئے تھے.چونکہ بعد میں صداقت مسیح موعود کا مضمون بھی زیر بحث آنا تھا.اس لئے تمہید کے طور پر حضرت مولوی صاحب نے نبی کی صداقت کے بائیس نشان بیان کئے تھے لیکن پیشگوئیوں کا ذکر بالکل نہیں کیا تھا کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب جھٹ آتھم کے معاملہ کو درمیان میں لے آئیں گے.صدر نے کہا کہ شرط یہ تھی کہ پر چہ میں جو کمزوری رہ جائے زبانی تقریر کے ذریعہ سے اسے پورا کیا جاسکتا ہے.مولوی سرورشاہ صاحب نے جو بیان کیا ہے اسے سن کر اب میں کفر سمجھتا ہوں کہ مسیح کو زندہ سمجھوں.انہوں نے پیشگوئیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا.اس لئے آپ کا زبانی اس کے متعلق کچھ کہنا غیر متعلق ہے.البتہ حیات مسیح کو ثابت کرنے میں جو کمی ہے اسے پورا کریں.مولوی ثناء اللہ صاحب نے کہا کہ میں ابھی ثابت کرتا ہوں اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى سے اگلی آیات پڑھ کر ترجمہ کر کے بیٹھ گئے اور کہا کہ اب نماز کا وقت ہو گیا ہے نماز پڑھ لیں حالانکہ ابھی بمشکل نماز کا وقت ہوا تھا.میاں محمد یوسف صاحب کے مکان کے ملحقہ باغ میں حضرت مولوی صاحب بیٹھے تھے کہ اسی گاؤں کا ایک شریف الطبع لو ہار آیا.وہ غیر احمدی تھا لیکن حضرت مولوی صاحب کی تائید کرتا تھا.اس نے آ کر کہا کہ اب
۶۹ مباحثہ نہیں ہو گا بلکہ جھگڑا اور فساد ہوگا.میں نے مولویوں کی باتیں سنی ہیں.کب تک مولوی ثناء اللہ انہیں روکیں گے مسئلہ نبوت کو درمیان میں لاکر فساد برپا کریں گے.مولوی ثناء اللہ صاحب حضرت مولوی صاحب کی شرافت کی وجہ سے لحاظ کرتے تھے.ان کے پرچہ کا جواب لکھتے ہوئے مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری کو ان کا اصل مضمون دیکھنے کی ضرورت پڑی تو مولوی ثناء اللہ صاحب کے ایک ساتھی نے پر چہ نہ دیکھنے دیا.مولوی صاحب کے کان میں بھی آواز پڑ گئی تو انہوں نے اپنے ساتھی کو کہا کہ مضمون دکھا دو.اگر مولوی سرورشاہ صاحب سارے پرچے بھی اپنے ہمراہ لے جائیں تب بھی ان میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا.حضرت مولوی صاحب نے اپنے ساتھیوں کو دعا کے لئے کہا.نماز کے سجدہ میں آپ کو ایک آیت سوجھی کہ جس سے آپ اس موقع پر استدلال کریں اور نماز کے بعد آپ نے کہا کہ مشکل کا حل سمجھ میں آ گیا ہے اور آپ نے یہ لکھوایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمُطَهَرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ * * غیر احمدیوں کے نزدیک وہی مسیح ناصری دوبارہ آئیں گے لیکن نبی نہ ہوں گے.مگر اس وعدہ الہی سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت تک ان کے نہ ماننے والے کافر ہوں گے.اس سے معلوم ہوا کہ وہ نبی ہی ہوں گے.اس دفعہ بھی آپ نے کوئی زبانی تقریر نہیں کی.اس کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب اُٹھے اور مولویوں نے انہیں بہت اکسایا کہ مسئلہ نبوت درمیان میں لا کر اس پر مباحثہ کیا جائے لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس امر سے انہیں کھلم کھلا طور پر باز رکھا اور اس کے بعد مباحثہ ترک کر دیا.حضرت مولوی صاحب نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو کہ دیا تھا کہ آپ نے احمدی اور آریہ لوگوں سے جو مباحثے کئے ہیں شائع کر دیئے ہیں لیکن اس مباحثہ کو آپ ہر گز شائع نہیں کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.مولوی ثناء اللہ مسئلہ نبوت پر بحث میں نہیں پڑنا چاہتے تھے ( جیسا کہ آگے ذکر آتا ہے ) مولوی اس مسئلہ کی آڑ لینا چاہتے تھے.معلوم ہوتا ہے مولوی ثناء اللہ کے نزدیک اس وقت پیشگوئیوں پر اعتراضات کا مسئلہ زیادہ جوش دلانے والا تھا اور اس بارہ میں اس نے کمی نہیں کی.لوہار نے اپنی سلیم الفطرتی سے یہ سمجھ لیا ہو گا کہ مولوی ثناء اللہ جو مسئلہ نبوت پر بحث سے انکار کرتا ہے اور مولویوں کو روکتا ہے اس کی غرض یہ ہے کہ فساد نہ ہو.لوہار کے نزدیک صرف یہی بات فساد کا موجب بن سکتی ہوگی لیکن ثناء اللہ جیسے ہوشیار شخص نے کسی اور بات کو موقع کے مطابق زیادہ مناسب سمجھا ہو گا.مؤلف آل عمران: ۵۶
پر چے نقل کر لئے جاتے تھے.وہ آپ نے حضور کی خدمت میں پیش کئے.حضور نے جیسا کہ پیر گولڑوی صاحب کے متعلق جو آپ نے جواب لکھا تھا اس کے متعلق فرمایا تھا.اسی طرح ان پر چوں کے متعلق فرمایا کہ میں دو پہر کو لیٹا، پڑھنے کے لئے اور کوئی چیز پاس نہ تھی.میں نے اس مباحثہ کے پرچے دیکھے اور حضرت مولوی صاحب کی تعریف کی کہ خوب لکھا ہے.یہ پرچے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے لے لئے تھے افسوس ہے کہ ان سے گم ہو گئے.دیگر کوائف مذکورہ بالا کوائف حضرت مولوی صاحب کی زبانی رقم کئے گئے ہیں.آئندہ صفحات میں اعجازی احمدی ، الحکم، البدر سے مزید کوائف درج کئے جاتے ہیں تا احباب پر مباحثہ مد کی اہمیت اور حضرت مولوی صاحب کی عظمت وعلو شان ظاہر ہو کہ جن کے مناظرہ کی کارروائی اعجاز احمدی جیسے عظیم الشان نشان کا موجب بن کر آپ کو زندہ جاوید بنا گئی.علاوہ ازیں حضور علیہ السلام دس بارہ روز تک اپنی مجالس میں اس کا ذکر اور اس پر تبصرہ فرماتے رہے.ان سے مباحثہ کی ساری تفصیل معلوم ہو جاتی ہے.یہاں مختصراً یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ مولوی ثناء اللہ چونکہ ایک چالاک مناظر تھا اس لئے اس نے یہ چالا کی کی کہ وقت مناظرہ ہیں ہیں منٹ قبول کرنے پر مجبور کیا.یہ ظاہر ہے کہ جماعت کے افراد صرف چند ایک تھے.اگر یہ شرط قبول نہ کی جاتی تو خیال آتا ہے کہ یہ سمجھا جاتا کہ فرار کی راہ اختیار کر لی ہے اور اکثریت پر مشتمل حاضرین مناظرہ کے موقع پر اس طرح فتح و شکست کا فیصلہ کرتے ہیں.مولوی ثناء اللہ کو ایسا موقع دینے کی بجائے معلوم ہوتا ہے بامر مجبوری اتنا قلیل وقت حضرت مولوی صاحب نے قبول کر لیا.دوسری چالا کی مولوی ثناء اللہ نے یہ کی کہ اصل مسائل زیر بحث سے گریز کر کے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر تمسخر کرنا شروع کیا اور گندہ پنی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.میاں محمد یوسف صاحب کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی سب کُتب مباحثہ مد کے سلسلہ میں اپنے ہمراہ لے گئے تھے.سے ذیل میں اعجاز احمدی کے پانصد تینتیس اشعار میں سے مباحثہ مد کے تعلق میں بہتر اشعار درج کئے جاتے ہیں.
21 مولوی ثناء اللہ کی لاف زنی.مخالفین کی درندگی اور ہمارے احباب کا روح القدس سے تائید پانا! (1) (1) اے مد کی زمین ! ایک ہلاک شدہ نے تیری خستگی أيا ارض مـــد قـــد دفـاک مدمر کی حالت میں تجھے ہلاک کیا اور سخت گمراہ کرنے والے وارداک ضلیل و اغراک موغر نے تجھے مارا اور ایک غصہ دلانیوالے نے تجھے برانگیختہ کیا (۲) تو نے ایک جھوٹے مفسد میرے شکار کو بُلا لیا (۲) دعوت كذوبا مفسداً صیدی الذی جس کا پکڑ نا ڈھاب کی مچھلی کی طرح بڑا کام نہیں.کحوتِ غدير اخذة لا يعزر (۳) (۳) اور میرے دوست تیرے پاس آئے جو رجائك صحبــی ناصحین کاخوة بھائیوں کی طرح نصیحت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ يقولون لا تبغوا هزی و تصبروا ہوا و ہوس کی طرح میل مت کرو اور صبر کرو.(۴) (۴) پس تم میں سے وہ لوگ جو تعصب کے قیدی فظل اساری کم اساری تعصب تھے انہوں نے چاہا کہ ایسا شخص تلاش کریں جو يريدون من يعوی کذئب ويختر بھیڑیے کی طرح چینے اور فریب کرے.(۵) (۵) پھر بہت کوشش کے بعد ایک بھیڑیے کو لائے فجاء وابذئب بعد جهد اذا بھم اور مراد ہماری اس سے ثناء اللہ ہے اور ہم ظاہر ونعنی ث اء الله مــنـــه ونظھر کرتے ہیں.(Y) (1) پس جب ان کے پاس آیا تو لاف زنی سے فلما اتاهم سرهم من تصلف ان کو خوش کر دیا اور کہا تم خوش ہو جاؤ میں بہادر وقال افوحوا انّی کمی مظفر فتحیاب ہوں.(<) (۷) اور کہا کہ میرے آنے کی بات پوشیدہ رکھو کہ وقال استروا امری و انی ارودہم میں ان کو تلاش کر رہا ہوں اور میں ڈرتا ہوں کہ وہ اخاف عليهم ان يفرّوا ويُدبروا بھاگ نہ جائیں.
۷۲ (9) (۹) اس نے کمینوں کی طرح بغیر دانائی کے کلام کیا تکلّم کا لاجــلاف مـن غـيــر فـطـنة اور دیکھنے والوں سے تو خودسُن لے گا.و یأتیک بالا خبار من كان ينظر (11) (11) فَـلـمـا الـتـقـى الـجـمـعـان للبحث و الوغا پس جب دونوں فریق بحث کے لئے جمع ہو گئے اور ونودى بين الناس والخلق أحضروا لوگوں میں منادی کرائی گئی اور لوگ جمع ہو گئے.(۱۲) اور پوشیدہ طور پر میرے بعض رفیقوں کے (۱۲) و اوجس خيفة شرّه بعض رفقتی دلوں میں خوف ہوا.کیونکہ قوم کی درندگی انہوں نے لما عرفوا من خُبث قوم تنمروا معلوم کر لی تھی.(الله) فأنزل من ربّ السماء سكينة (۱۳) پس میرے اصحاب پر آسمان سے تسلی نازل على صحبتى و الله قد كان ينصر کی گئی اور خدا مد د کر رہا تھا.(۱۴) و اعطـا هـم الـرحـمـن مـن قـوة الوغى (۱۴) اور خدا نے ان کو قوت لڑائی کی دیدی اور وآيد هم روح امین فابشروا رُوح القدس نے ان کو مدد دی.پس وہ خوش ہو گئے.(۱۵) اور لوگ قریب آٹھ بجے کے بحث دیکھنے (10) وكان جدال يطرد القوم بالضحیٰ کے لئے روانہ ہوئے اس تکیہ کی طرف جس کی طرف الى خطة اومى اليها المعشر گروہ نے اشارہ کیا تھا.(14) (۱۶) اور بحث کے لئے ایک زمین اختیار کی گئی تحروا لهذا البحث ارضاً شجیر جس میں ایک درخت تھا اور وہ جگہ گاؤں سے باہر الى الجانب الغربي و الجند جمروا غربی طرف تھی اور ہمارے دوست وہاں ٹھہرائے گئے.
۷۳ مولوی سرور شاہ غراتا ہوا شیر.ثناء اللہ دینے والا بھیڑیا اور اس کی بہتان طرازی (۱۷) (۱۷) اور ثناء اللہ اس کی قوم کی طرف سے مقبول تھا فكان ثناء الله مقبول قومہ اور ہماری طرف سے مولوی سید محمد سرور شاہ پیش ومناتصـــد لــخــاصــم ســرور ہوئے.(۱۸) (۱۸) گویا مقام بحث ایک ایسے بن کی طرح تھا كأن مقام البحث كان كاجمة جس میں ایک طرف بھیڑیا چیختا تھا اور ایک طرف به الذئب يعوى والغضنفر يزور شیر غراتا تھا.(19) (۱۹) اور ثناء اللہ کھڑا ہوا اور اپنی جماعت کو اغوا وقام ثناء الله يُغوی جنودہ کر رہا تھا اور انہیں میرے دوستوں پر برانگیختہ کرتا ويُغرى على صحبى لنامًا ويحذر تھا.(۲۰) و كان طوی کشحًا على مستكنة (۲۰) اور اس نے کینہ کو اپنے دل میں ٹھان لیا اور و ماراد نهج الحق بل كان يهجر حق جوئی نہ کی.بلکہ بکو اس کرتا رہا.(۲۱) اس نے فتنہ انگیز آدمی کی طرح میری دعوت (۲۱) سعى سحى فتان لتکذیب دعوتی کی تکذیب کی کوشش کی اور وہ حق پوشی کر رہا تھا اور مکر وكان يُدسّى ما تجلّی ویمکر کر رہا تھا (۲۲) (۲۲) اور ایک مکر اس نے ظاہر کیا جو اس کے دل واظهر مكرا سولت نفسه له میں پیدا ہوا اور لمبی بحث سے انکار کیا اور قوم اس کے ولم يَرْضَ طول البحث فالقوم سُحروا فریب میں آگئی.(۲۳) (۲۳) میرے دوستوں پر وہ طریق گراں گذرا فشق عــلــى صـحبـى طـريـق ارادہ جس کا اس نے ارادہ کیا اور انہوں نے گمان کیا کہ وقد ظن ان الحقِّ يُخفى ويُستر اس سے حق پوشیدہ رہ جائیگا.
۷۴ (۲۴) (۲۴) انہوں نے بہتان کا قلعہ دیکھا جو بنایا جاتا ر أو ابرج بهان تشادو تعمر تھا.پس انہوں نے کہا خدا کی ملامت تجھ پر تو کیسا فقالو الحاك الله كيف تزوّر جھوٹ بول رہا ہے.(۲۵) (۲۵) کم سے کم بحث کا زمانہ ایک ساعت چاہیئے اقل زمان البحث مقدار ساعة پس احمقوں نے قبول نہ کیا اور میرے دوست اس فلم يقبل الحمقى وصحبى تنفّروا مقدار سے متنفر ہوئے.(۲۶) (۲۶) آخر اس بات پر کسی قدر تکرار اور بحث کے رضوا بعد تكرار و بحث بثلثها بعد راضی ہو گئے کہ ہیں بیس منٹ تک بحث ہو اور و في الصدر رحـزاز و نی القلب خنجر سینہ میں سوزش غضب تھی اور دل میں خنجر تھا.(۲۷) قوم کی جہالتوں نے ان کو خستہ کر دیا.موضع (۲۷) دفـاهـم عـمـايـات الانـاس و حمقهم ممد کو انہوں نے ایسی صورت میں دیکھا جو چھر میں رأوامد قوم والمدى قد شهروا نکالی ہوئی ہیں.(۲۸) (۲۸) پس میرے دوست محمد میں نیزوں کے فصاروا بمدللرماح دريّةً نشانے بن گئے اور اس بات کو احمد علی جو میر مجلس تھا ويعلمها احمد على المُدبّر خوب جانتا ہے.(۱۰۵) (۱۰۵) مجھے تعجب آیا کہ اس نے بحث کا زمانہ عجبت طبحثه الى ثلث ساعة ہیں منٹ مقرر کیا.کیا یہ بحث تھی یا کوئی قمار بازی ا أكان محل البحث اوکان میسر تھی؟ ثناء اللہ کی فساد انگیزی ، اس کی بے عقلی کا مظاہرہ ، ہمارے احباب کی (۲۹) (۲۹) دعائیں اور صبر وكان ثـــنــــاء الله في كل ساعة اور ثناء اللہ ہر ایک گھڑی فساد کی آگ بھڑکا تا رہا ياجج نيران الفساد ويسعر تھا.
(۳۰) ۷۵ (۳۰) اری منطقا ماینج الكلب مشۀ ایسی باتیں کیں کہ ایک گتا اس طرح آواز نہیں نکالے وفـــى قـــلبــــه كـــان الهوى يتزخر گا اور اس کے دل میں ہوا و ہوس جوش ماررہی تھی.(۳۱) (۳۱) و ان لسان المرء مالم یکن لہ اور انسان کی زبان جب تک اس کے ساتھ عقل نہ ہو أصلةً على عوراته هو مشعر اس کے پوشیدہ عیبوں پر ایک دلیل ہے.(۳۲) (۳۲) یکلم حتى يعلم الناس كلهم ایسا انسان کلام کرتا ہے یہاں تک کہ سب لوگ جان جهول فلا یدری و لا يتبصر لیتے ہیں کہ یہ جاہل آدمی ہے.نہ عقل ہے نہ بصیرت.(۳۳) (۳۳) ولولا ثــنــــاء الله مازال جاھل اور اگر ثناء اللہ نہ ہوتا تو ایک جاہل میرے بارے یشک ولا یدری مقامی ویحصر میں شک کرتا اور مجھے سوالوں سے تنگ کرتا.(۳۴) (۳۴) نهـذا عـلـيــنـــا مـنـة مــن ابی الوفا پس یہ مولوی ثناء اللہ کا ہم پر احسان ہے کہ ہر ایک ارای کل مــحــجــوب ضیائی فنشکر غافل کو ہماری روشنی سے اطلاع دی.سو ہم اس کا شکر کرتے ہیں.(۳۵) (۳۵) ارى الـــمـــوت يــعـــام المكفّر بعد اب کافر کہنے والا گو یا مر جائے گا.کیونکہ ہمارے بما ظهرت آى السماء وتظهرُ غلبہ سے خدا کا نشان ظاہر ہوا.(۳۶) (۳۶) ولما اعتدى الامرتسری بمكائد اور جب ثناء اللہ اپنے فریبوں سے حد سے گذر گیا و اغراى على صحبى لنا ما وكفروا اور لوگوں کو میرے دوستوں پر برانگیختہ کیا.(۳۷) (۳۷) فقالو اليوسف مائری الخیر ههنا پس انہوں نے منشی محمد یوسف کو کہا کہ اس قسم کی بحث ولكنه من قومه كان يحذر اور بیس منٹ مقرر کرنے میں ہمیں خیر نظر نہیں آتی.مگر وہ اپنی قوم سے ڈرتا ہے.
(۳۸) (۳۸) هناک دعواربا کریما مؤيدا تب انہوں نے خدا کی جناب میں دعائیں کیں اور وقالو احللنا ارض رجز فنصبر کہا کہ ہم پلید زمین میں داخل ہو گئے ہیں.پس ہم صبر کرتے ہیں.(۳۹) (۳۹) فما برحوها والرماح تنوشهم پس وہ اس زمین سے الگ نہ ہوئے اور نیزے ان کو ولا طعن رمح مثل طعن يُكرر خستہ کر رہے تھے اور کوئی نیزہ اس طعنہ کی طرح نہیں جو بار بار کہا جاتا ہے.(۴۰) (۴۰) وقام ثناء الله فی القوم واعظا اور ثناء اللہ نے قوم میں وعظ کیا پس ایک غول کے نصاروا بوعظ الغول قوما تنمّروا وعظ سے وہ پلنگ کی طرح ہو گئے.(۴۱) (۴۱) و ذكرهم صحبـی مکافات کفر ھم اور میرے دوستوں نے پاداش انکار یاد دلایا.مگر وهل ينفعن اهل الهوای مایدگر بھلا ہوا پر ستوں کو کوئی وعظ فائدہ دے سکتا ہے؟ (۴۲) (۴۲) تجنى علـى ابوالوفاء ابن الهوى ثناء اللہ نے میرے پر نکتہ چینی شروع کی جو ہوا و ہوس ليبعد حمقى من جنای ویزجر کا بیٹا تھا.تا احمقوں کو میرے پھل سے محروم رکھے.(۴۳) (۴۳) وخاطب من وافاه فی امر دعوتی اور ہر ایک جو اس کے پاس آیا اس کو اس نے مخاطب وقــال يـــميــن الله مکر تخیروا کیا اور کہا کہ خدا کی قسم یہ تو ایک مکر ہے جو اختیار کیا گیا.(۴۴) (۴۴) واقـســـــم بــــــال الله الغيور مكذبا اور اس نے خدائے غیور کی قسم کھائی پس تعجب ہے جبا من مفسد كيف يجسر مفسد سے کیسی دلیری کر رہا ہے.فياعجبا
(۴۷) 22 ثناء اللہ کو دعوت مباہلہ (۴۷) فلما اعتدى واحس صحبی انه پس جب وہ حد سے بڑھ گیا اور میرے دوستوں نے يُصرّ على تكذيبه لا يقصر معلوم کیا کہ وہ تکذیب پر اصرار کر رہا ہے اور باز نہیں آتا.(۴۸) (۴۸) دعوه ليبتهـــلـــن لــمـــوت مزوّر اس کو بلایا کہ جھوٹے کی موت کے لئے خدا کی مضلّ فلم يسكت ولم يتحسّر جناب میں تضر ع کرے وہ جھوٹا جو گمراہ کرتا ہے پس ثناء اللہ اپنے شور سے چُپ نہ ہوا اور نہ تھکا.(۴۹) (۴۹) وكذب اعجاز المسیح و آیه اور کتاب اعجاز مسیح جو میری کتاب ہے اس کی اس نے وغلطة كذبا وكان يزور تکذیب کی اور اس کے نشان فصاحت کی تکذیب کی اور جھوٹ کی راہ سے اس کو غلط ٹھہرایا اور جھوٹ بولا.(۵۰) (۵۰) وقيل لاملاء الکتاب کمثله پس اس کو کہا گیا کہ اعجاز المسیح کی طرح کوئی کتاب وقال كــاهــل الــعـجب اني ساسطر لکھ.پس اس نے خود نمائی سے کہا کہ میں لکھوں گا.(۵۱) (۵۱) وانکر ایاتی و انکر دعوتی اور میرے نشانوں سے انکار کیا اور میری دعوت سے الهامي وقال مزوّر انکار کیا اور میرے الہام سے انکار کیا اور کہا کہ ایک وانک (۵۲) جھوٹا آدمی ہے.(۵۲) وكـذبــنــي بـــالـبــخــل من كل صورة اور اس نے ہر ایک صورت سے مجھے کا ذب ٹھہرایا وخـــطـــانـــي فـــي كـل وعظ اذگر اور ہر ایک وعظ میں جو میں نے کیا مجھے خطا کی طرف منسوب کیا.
ZA ثناء اللہ کی فریب دہی اور دشنام طرازی (۱۳۵) (۱۳۵) أأرضعت من غول الفلايا ابا الوفا کیا تجھے جھوٹ کا دودھ پلایا گیا اے ثناء اللہ ! پس فمالك لا تخشى ولا تتفکر تجھے کیا ہوگیا کہ نہ ڈرتا ہے نہ فکر کرتا ہے.(۱۳۶) (۱۳۶) تركتم سبيل الحق والخوف والحیا تم نے حق کو چھوڑ دیا اور عدل سے باہر ہو گئے اور اللہ و جز تم حدود العدل والله ينظر دیکھتا ہے.(۱۳۷) (۱۳۷) و کیف تری نفس حقيقة وحينا ایسا آدمی ہماری وحی کی حقیقت کیا جانتا ہے جو جھوٹ يصر على كذب وبالسوع يجهز پر اصرار کرتا ہے اور کھلی بد گوئی کرتا ہے.(۱۴۰) (۱۴۰) عقرت بمد صحبتی یا ابا الوفا اے ثناء اللہ تو نے مد میں ہمارے دوستوں کو رنج بست و توهین فربی سیقھر پہنچایا گالی سے اور توہین سے.پس میرا خدا عنقریب (۱۴۳) سيقهـر غالب ہو جائے گا.(۱۴۳) وقــالــو عـلـى الـحسنین فصل نفسه اور انہوں نے کہا کہ اس شخص نے امام حسن اور حسین اقول نعم و الله ربي سيظهر سے اپنے تئیں اچھا سمجھا.میں کہتا ہوں کہ ہاں.اور میرا خدا عنقریب ظاہر کر دے گا.(۱۴۹) (۱۴۹) فلاتجعلوا كذبًا علیکم عقوبة پس تم جھوٹ کو اپنے لئے وبال کا ذریعہ مت ٹھہراؤ ودع ياثناء الله قولاً تزوّر اء الله قولا تزوّر اور اے شاء اللہ ! تو جھوٹ بولنا چھوڑ دے.
(۱۵۰) ۷۹ ง (100) ترکت طریق کرامپ قوم و خُلقهم تو نے شریفوں کے خلق اور طریق کو چھوڑ دیا اور تو هــجـــوت بــمـد عــامـدًا لتحقر نے موضع مد میں قصدا ہماری ہجو کی تا تو تحقیر کرے.(۱۵۲) (۱۵۲) ترکناک حتی قبل لا يعرف القلي ہم نے تو تجھے چھوڑ دیا تھا یہاں تک کہ تم لوگ کہتے فجئت خصيمًا أيها المستکبر تھے کہ اب کیوں کچھ لکھتے نہیں.پس تو خود مقابلہ کے لئے آیا ہے اے متکتمر ! (۱۵۳) (۱۵۳) الا ايها الــلــعـــان مالک تھجر اے لعنت کرنے والے تجھے کیا ہو گیا کہ بیہودہ بک وتلعن من هو مرسل ومزقر رہ ہے اور تو اس پر لعنت کر رہا ہے جو خدا کا فرستادہ اور خدا کی طرف سے عزت یافتہ ہے.(۱۵۴) (۱۵۴) شتمت وماتدرى حقيقة باطني تو نے مجھے گالیاں دیں اور میرا حال تجھے معلوم نہیں وكل امرء من قوله يُستفسر اور ہر ایک انسان اپنے قول سے پوچھا جائے گا.صبرنا (100) (100) اعلیٰ ست به اذیتنا ہم نے ان گالیوں پر تو صبر کیا جن کے ساتھ تو نے ولكن على ما تفترى لا نصبر ہمارا دل دُکھایا لیکن وہ جو تو نے ہم پر افتراء کیا اس پر (۱۷۳) ہم صبر نہیں کر سکتے.(۱۷۳) ذكرت بمُةٍ عند بحثک بالهوای تو نے مقام مد میں بحث کرنے کے وقت کہا تھا کہ احاديث والــقــران تلغی و تهجر ہمارے پاس یہ احادیث ہیں اور قرآن کو تو محض نکما اور باطل ٹھہرایا جاتا ہے.
(۱۷۴) ۸۰ (۱۷۴) نبذتم كلام الله خلف ظهور کم تم لوگوں نے کلام اللہ کو پس پشت ڈال دیا اور تم نے تركتم يقينا للظنون ففكّروا ظن کی خاطر یقین کو چھوڑ دیا.اب سوچ لو.(۱۷۸) (۱۷۸) كذبت بمُةٍ عامدًا فتمايلت تو نے موضع مد میں قصدا جھوٹ بولا.پس جاہل علیک شطایب جاهلين وثوروا لوگ تیری طرف جھک گئے اور شور ڈالا.(۱۸۶) (۱۸۶) لقوم هذى لا بارک الله مُد و هم اس شخص نے ایک قوم کی خاطر کے لئے بکواس کی.جهول فادی حق کذب فابشروا خدا ان کے مد کو برکت نہ دے یہ شخص جاہل ہے اس نے دروغگو ئی کا حق ادا کر دیا اس لئے وہ لوگ (۱۸۷) خوش ہو گئے.(۱۸۷) له جسد لا روح فيه ولا صفا یہ صرف ایک جسم ہے جسم میں جان نہیں اور نہ صفا اور كقدر يجوش ولیس فیہ تدبر ایک ہنڈیا کی طرح جوش مارتا ہے کچھ تد بر نہیں کرتا.(۱۹۲) (۱۹۲) فلا تبشر وابا لنقل یا معشر العدا پس اے مخالفو ! محض نقلوں کے ساتھ خوش مت ہو وكم من نقول قد فراها مُسحَر جاؤ اور بہترین نقلیں اور حدیثیں ہیں جو دھوکا باز نے بتائی ہیں.(190) (190) اعندک برهان ان قوی منقح کیا تیرے پاس مولوی محمد حسین کی فضیلت کی کوئی علی فضل شیخ عاب اوانت تهذر دلیل ہے جو میرے کلام کا عیب نکالتا ہے یا تو یونہی بکواس کر رہا ہے.(۱۹۶) (۱۹۶) أتحسب من حمق حسینا محققا کیا تو حق سے محمد حسین کو عالم سمجھتا ہے.اور اس کے وفي كفّه حمأ وماء مكترُ ہاتھ میں مٹی سیاہ اور گندہ پانی ہے.
(۴۸۴) ΔΙ (۴۸۴) الا لا نمى عار النساء ابا الوفا اے عورتوں کی عارثناء اللہ ! کب تک مردانِ جنگ إلا م ۵ كـفتـــــان الــوغـــى تـتـنـمر کی طرح پلنگی دکھلائے گا.(۴۸۷) (۴۸۷) اردت بـــــــة ذلتِـــى فــــرئيتها تو نے مقام مد میں میری ذلت کو چاہا.پس خود ومن لا يـــوقـــر صـادقا لا يُؤقر ذلت اٹھائی اور جو شخص صادق کی بے عزتی کرتا ہے وہ خود بے عزت ہو جائے گا.(۴۹۲) ! (۴۹۲) أتثبت عظمة ايتي بتقاعس کیا اب تو پیچھے ہٹنے سے میرے نشان کو ثابت کر دے وقد جئت مُدَّ اساعيا لتحقر گا اور تو مد میں دوڑتا ہوا آیا تھا تا میری تحقیر کرے.(۴۹۷) (۴۹۷) وكنت اذاخُيّرت للبحث والوغا اور جب تو مقام مد میں بحث کے لئے انتخاب کیا سطر علينـاشـاتـمًا لتوقر گیا.تو نے ہم پر حملہ کیا تا اس طرح تیری عزت ہو.مباحثہ مد کے اعتراضات اعجاز مسیح کے نشان پر اعتراض کے علاوہ بعض اور پیشگوئیوں وغیرہ پر بھی مولوی ثناء اللہ صاحب نے مباحثہ مد میں اعتراضات کئے تھے جن کے جوابات حضور علیہ السلام نے اعجاز احمدی میں رقم فرمائے ہیں.مثلاً -1 -۲ آتھم کی پیشکوئی کے متعلق ہے.لیکھرام کی پیشگوئی کے متعلق ۵ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :- کیا کیا اعتراض بنارکھے ہیں.مثلاً کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا دعویٰ کرنے سے 66 پہلے براہین احمدیہ میں عیسی علیہ السلام کے آنے کا اقرار موجود ہے 1 ۴.حضور فرماتے ہیں :- ” جب احمد بیگ کے داماد کا ذکر کرتے ہیں تو ہر گز لوگوں کو نہیں بتلاتے کہ ایک حصہ اس پیشگوئی کا میعاد کے اندر پورا ہو چکا ہے....ظاہر ہے کہ ایسی موت
۸۲ -۵ -Y کے بعد جو احمد بیگ کی موت تھی خوف دامن گیر ہونا ایک طبعی امر تھا.پس اسی خوف سے دوسرے حصہ کے پورے ہونے میں تاخیر ہو گئی.جیسا کہ وعید کی پیشگوئیوں میں عادت اللہ ہے.مگر یہ بد اندیش مخالف ان امور کا کبھی ذکر بھی نہیں کرتے اور یہودیوں کی طرح اصل صورت حال کو مسخ کر کے ایسے طور سے تقریر کرتے ہیں جس سے جاہلوں کے دلوں میں شبہات ڈالیں بلکہ ان لوگوں نے تو یہودیوں کے بھی کان کاٹے کیونکہ یہ لوگ تو بات بات پر افتراء سے کام لیتے ہیں جیسا کہ مولوی ثناء اللہ نے موضع مد کی بحث میں یہی کارروائی کی اور دھوکا دیکر کہا کہ دیکھو اس شخص نے اپنی ایک پیشگوئی میں لکھا تھا کہ لڑکا پیدا ہو گا مگر لڑ کی پیدا ہوئی اور بعد میں لڑکا پیدا ہو کر مر گیا اور پیشگوئی جھوٹی نکلی.“ کے اعتراضات نمبرا تا نمبر۴ کا جواب رقم فرما کر حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :- یہی باتیں مولوی ثناء اللہ نے مقام مد کے مباحثہ میں پیش کی تھیں“ A " آج اسی قسم کے اعتراض یہ لوگ پیش کر رہے ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ احمد بیگ کی لڑکی کے لئے ان کے تالیف قلوب کے لئے حیلوں سے کیوں کوشش کی گئی اور کیوں احمد بیگ کی طرف ایسے خط لکھے گئے.9 مولوی ثناء اللہ نے اسی مد کے مباحثہ میں اعتراض بھی پیش کیا ہے کہ جو ذلت کی پیشگوئی محمد حسین اور جعفر زٹلی اور ان کے دوسرے رفیق کی نسبت کی گئی تھی وہ پوری نہیں ہوئی." 10 ے.مولوی ثناء اللہ امرتسری کی دو تخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ میں اس طور کے فیصلہ کے لئے بدل خواہش مند ہوں کہ فریقین یعنی میں اور وہ یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ بچے کی زندگی میں مر جائے اور نیز یہ بھی خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ اعجاز امسیح کی مانند کتاب تیار کرے جو ایسی ہی فصیح بلیغ ہو اور انہی مقاصد پر مشتمل ہو.‘ 111 -^ جسقدر مولوی ثناء اللہ صاحب نے خلاف واقع اعتراضات اور جھوٹی قسموں سے موضع مد کے جلسہ میں میری توہین کی ہے وہ تمام میرے شکوے خدا تعالیٰ کے سامنے ہیں اور مجھے اس تکذیب کا کچھ رنج بھی نہیں کیونکہ جب کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی کذاب قرار دیتے ہیں.تو اگر مجھے بھی کذاب کہیں تو ان پر کیا افسوس کرنا چاہیئے.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ خدا کے اس سوال پر کہ کیا تو نے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے مانا کرو حضرت عیسیٰ“ نے جھوٹ بولا یعنی ایسا جواب دیا کہ سراسر جھوٹ تھا...اس شخص سے زیادہ کون
۸۳ کذاب ہو سکا ہے جو قیامت کے دن جب عدالت کے تخت پر خدا بیٹھے گا اس کے سامنے جھوٹ بولے گا.کیا اس سے بدتر کوئی اور جھوٹ ہوگا کہ وہ شخص جو قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئے گا اور چالیس برس دنیا میں رہے گا اور نصاری کے ساتھ لڑائیاں کرے گا اور صلیب کو توڑے گا.وہی قیامت کے دن ان تمام واقعات سے انکار کر کے کہے گا کہ مجھے خبر نہیں کہ میرے بعد کیا ہوا.۱۲ - پھر آپ لوگ اور مولوی ثناء اللہ جو اس آیت ( یعنی وَأوَيْنَهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِينٍ ) سے انکار کر کے دوسرے آسمان پر اس کو پہنچاتے ہیں.۱۳ - 1+ پھر کہتے ہیں کہ عیسی کی نسبت ہے وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ جن لوگوں کی یہ قرآن دانی ہے ان سے ڈرنا چاہیئے کہ نیم ملا خطرہ ایمان.اے بھلے مانسو! کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عِلْمٌ لِلسَّاعَةِ نہیں ہیں جو فرماتے ہیں ” بعثت انا والساعة....کھاتین “ اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقُّ الْقَمَرُ 11- مولوی ثناء اللہ نے موضع مد میں بحث کے وقت بھی کہا تھا کہ سب پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں.اس لئے ہم ان کو مدعو کرتے ہیں اور خدا کی قسم دیتے ہیں کہ وہ اس تحقیق کے لئے قادیان میں آویں...اور تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کریں.لیکن اگر میرے اس بیان کی طرف توجہ نہ کریں اور اس تحقیق کے لئے بپابندی شرائط مذکورہ جس میں بشرط ثبوت تصدیق ورنہ تکذیب دونوں شرط ہیں قادیان میں نہ آئیں تو پھر لعنت ہے اس لاف وگراف پر جو انہوں نے موضع مد میں مباحثہ کے وقت کی اور سخت بے حیائی سے جھوٹ بولا.۱۵ دو بعض کا یہ خیال ہے کہ اگر کسی الہام کے سمجھنے میں غلطی ہو جائے تو امان اٹھ جاتا ہے اور شک پڑ -۱۲ جاتا ہے کہ شاید اس نبی یا رسول یا محدث نے اپنے دعوی میں بھی دھوکا کھایا ہو.14 مولوی ثناء اللہ صاحب کو یہ بھی ایک دھوکا لگا ہوا ہے کہ وہ متناقض حدیثوں کو ہر ایک کے سامنے پیش کر دیتے ہیں.یہی دھو کا ان کے بزرگ مولوی محمد حسین صاحب کو لگا ہوا ہے اور ہر ایک مقام میں جب حیات و ممات حضرت عیسی کے متعلق کوئی ذکر آوے تو جھٹ حدیثوں کا ایک ڈھیر پیش کر دیتے ہیں کہ دیکھو صحیح بخاری، صحیح مسلم ، جامع تر مندی ، سُنن ابن ماجہ، سنن ابی داؤد، سنن نسائی ، مسند امام احمد، طبرانی مجم کبیر ، نعیم ابن حماد، مستدرک حاکم، صحیح ابن خزیمہ، نوادر الاصول ترندی، ابوداؤد طیالسی، احمد مسند الفردوس، ابن عساکر، کتاب الوفا ابن جوزی ،شرح السنہ بغوی، ابن جریر، بیہقی ، اخبار المهدی، مسند ابی یعلی وغیرہ کتب احادیث.ان میں یہی لکھا ہے کہ عیسی" نازل ہوگا گو بیت المقدس میں یاد دمشق میں یا افیق میں یا مسلمانوں کے لشکر میں.اس کا کوئی فیصلہ نہیں اور یہ ہوا ہے جو آجکل پیش کیا جاتا ہے اور عجیب تریہ کہ بعض ان کتابوں میں سے ایسی نایاب ہیں کہ ان
۸۴ حضرات کے باپ نے بھی نہیں دیکھی ہوں گی.مگر ان کے نام سُنا دیتے ہیں تا کم سے کم یہی سمجھا جائے کہ بڑے مولوی صاحب ہیں جو اتنی کتابیں جانتے ہیں.“ کا.-۱۴ د بعض چالاک مولوی کہتے ہیں کہ اگر کوئی آسمان سے بھی اُترے اور یہ کہے کہ فلاں فلاں حدیث جو تم جانتے ہو صحیح نہیں ہے تو ہم کبھی قبول نہ کریں گے اور اس کے منہ پر طمانچہ ماریں گے.۱۸ پھر مولوی ثناء اللہ صاحب کہتے ہیں کہ آپ کو مسیح موعود کی پیشگوئی کا خیال کیوں دل میں آیا.آخر وہ -10 حدیثوں سے ہی لیا گیا.پھر حدیثوں کی اور علامات کیوں قبول نہیں کی جاتیں.19 حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- میں اب خیال کرتا ہوں کہ جو کچھ مولوی ثناء اللہ صاحب نے مباحثہ موضع مد میں فریب دہی کے طور پر اعتراض پیش کئے تھے سب کا کافی جواب ہو چکا ہے.ہاں یاد آیا ایک یہ بھی خیال انہوں نے پیش کیا تھا کہ جو کسوف خسوف کی حدیث مہدی کے ظہور کی علامت ہے جو دار قطنی اور کتاب اکمال الدین میں موجود ہے اس -17 میں قمر کا خسوف تیرہ تاریخ سے پہلے کسی ایسی تاریخ میں ہوگا جس میں چاند کو قمر کہہ سکتے ہوں.“ ۲۰ ایک اور بات رہ گئی جس کا بیان کرنا لازم ہے اور وہ یہ کہ مد کے مباحثہ میں جب ہمارے مخلص دوست سید محمد سرور شاہ صاحب نے اعجاز اسیح کو جو میری عربی کتاب ہے بطور نشان کے پیش کیا کہ یہ ایک معجزہ ہے اور اس کی نظیر پر مخالف قادر نہیں ہوئے.تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے مولوی محمدحسین بٹالوی کا حوالہ دے کر کہا کہ انہوں نے اعجاز اسیح کی غلطیوں کے بارے میں ایک لمبی فہرست تیار کی ہے.ہم مانتے ہیں کہ تیار کی ہو گی مگر وہ ایسی ہی فہرست ہوگی جیسا کہ پہلے مولوی صاحب موصوف نے میرے ایک فقرے پر اعتراض کیا تھا کہ عجب کا لام صلہ نہیں آتا اور اس پر بہت زور دیا تھا اور جب ان کو کئی قدیم استادوں اور جاہلیت کے شاعروں کے شعر بلکہ بعض حدیثیں دکھلائی گئیں جن میں لام صلہ آیا ہے تو پھر مولوی صاحب چاہ ندامت میں ایسے غرق ہو گئے کہ ان کا ادیب رفیق بھی اس کنوئیں سے ان کو نکال نہ سکا.“ ۲۱ ایک اعتراض یہ تھا کہ مرزا صاحب محمد یوسف صاحب اپیل نویس کی آنکھ کیوں نہیں اچھی کر دیتے.۲۲ -12 مجالس میں ذکر حضرت اقدس علیہ السلام اپنی گیارہ مجالس میں اس کا ذکر فرماتے رہے.اس بارے میں اقتباسات درج ذیل ہیں :- ( عصر - ارنومبر ۱۹۰۲ء ) اس وقت حضرت اقدس نے نماز سے پیشتر مجلس فرمائی.سید سرور شاہ -1
۸۵ صاحب اور عبداللہ صاحب کشمیری جو کہ موضع مد میں تبلیغ اور مشاہدہ کے لئے تشریف لے گئے تھے بخیر و عافیت واپس آئے اور حضرت اقدس سے نیاز حاصل کی اور وہاں کے جلسہ مباحثہ کی مختصر تفصیل سُنانے لگے.حضرت اقدس نے اختصارا ان تمام باتوں کا اعادہ کیا جو کہ آپ نے سیر میں فرمائی تھیں کہ مباحثہ میں ہماری جماعت کو کیا پہلو اختیار کرنا چاہیئے اور پھر تمام کیفیت مباحثہ سننے کے لئے شام کا وقت مقرر ہوا.نماز پڑھی گئی اور حضرت اقدس تشریف لے گئے.“ -۲ 66 (مغرب و عشاء) ” بعد ادائے نماز مغرب حضرت اقدس نے جلوس فرماتے ہی حکم صادر فرمایا کہ مباحثہ موضع مد کی کارروائی سُنائی جاوے.چنانچہ عبداللہ کشمیری صاحب اُٹھ کر سُنانے لگے.سب سے اوّل حضرت اقدس کو اس امر پر کمال افسوس ہوا کہ فریقین نے صرف ہیں ہیں منٹ اپنے اپنے دعا دی کے متعلق دلائل لکھنے کے لئے قبول کئے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ایسی صورت میں ہرگز مباحثہ قبول نہیں کرنا چاہیئے تھا.یہ تو ایک قسم کا خون کرنا ہے.جب ہم مدعی ہیں تو ہمیں اپنے دعاوی کے دلائل کے واسطے تفصیل کی ضرورت ہے جو وقت چاہتی ہے اور جب دلائل لکھے جاتے ہیں تو توجہ ہوتی ہے.اس میں فیضانِ الہی ہوتا ہے.اس کا ہم کیا وقت مقرر کر سکتے ہیں کہ کب تک ہو.غرضیکہ حضرت اقدس نے اس بات کو بالکل نا پسند فرمایا کہ وقت میں کیوں تنگی اختیار کی گئی.پھر عبداللہ صاحب کشمیری نے وہ تمام تحریریں پڑھ کر سنائیں.ہماری جماعت کی طرف سے مذکورہ بالا دو اصحاب تھے اور فریق مخالف کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب تھے.مباحثہ اس طریق سے ہوا تھا کہ مصدق فریق نے وفات مسیح، نزول مسیح اور حضرت اقدس کے مسیح موعود ہونے کے دلائل اپنے ذمہ لئے تھے.اور مکذب فریق نے اس کی تکذیب کے دلائل اپنے ذمہ لئے تھے.ہر ایک فریق ہر ایک امر پر بیس بیس منٹ تک لکھتا تھا اور سُنا دیتا تھا.پھر ایک دوسرے کا دونوں جواب الجواب لکھتے تھے.بہر حال فریق مکذب نے اس مباحثہ میں قرآن کی طرف مطلق رجوع نہ کیا اور مصدق فریق نے جو جو معیار صداقت قرآن کریم سے پیش کئے تھے ان کا اس سے کوئی جواب بن نہ آیا.چنانچہ پریذیڈنٹ جلسہ نے اُٹھ کر اعلانیہ بیان کر دیا کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کا جواب مولوی ثناء اللہ صاحب سے کوئی بن نہیں آیا.اس کی روئداد سننے پر حضرت اقدس پھر انہی امور کا بار بار اعادہ فرماتے رہے جو کہ سیر میں مناظرہ اور مباحثہ کے متعلق فرمائے تھے تاکہ سامعین کے ذہن نشین وہ باتیں ہو جاویں (یعنی بحث کے لئے قواعد اور سوال مرتب ہوں اور کتاب اللہ مقدم رکھی جاوے.ناقل ) پھر اس کے بعد نماز عشا ءادا کر کے حضرت اقدس تشریف واپسی کا ذکر البدر مؤرخہ ۷/نومبر ۱۹۰۲ء میں بھی ہے.مؤلف
۸۶ 66 لے گئے.۲۳ ۳ - ( سیر ۲ / نومبر ۱۹۰۲ء) حضرت اقدس حسب معمول سیر کے لئے تشریف لائے اور آتے ہی پھر اس مناظرہ پر حضور نے گفتگو شروع کی جس کی کارروائی گذشتہ شب کو درج کی جاچکی ہے.آپ نے فرمایا کہ آجکل ان مولویوں کا دستور ہے کہ چالیس پچاس جھوٹ ایک دفعہ ہی بیان کر دیتے ہیں.اب ان کا فیصلہ تین چار منٹ میں دوسرا فریق کس طرح کرے.پادریوں کا بھی یہی طریق ہے کہ ایک دم اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں.ایسے وقت میں یہ طریق اختیار کرنا چاہئے کہ ایک اعتراض چن لیوے اور اول اس پر فیصلہ کر کے آگے چلے اور دوسرا لے لیوے.اوّل قواعد مقرر کئے جائیں.یہ امر بھی دیکھا جاوے کہ منہاج نبوت کو مانتا ہے کہ نہیں.اس نے بار بار عبد اللہ آتھم کی پیشگوئی کا تکرار کیا کہ وہ پوری نہ ہوئی.اگر منہاج نبوت کا فیصلہ اوّل کر لیا جاتا تو اس طرح کا دھوکا کب دے سکتا تھا.(اس کے بعد حضور نے بیان کیا کہ وعیدی پیشگوئیاں ٹل جاتی ہیں اور آتھم کی پیشگوئی کی تفصیل بتائی.ناقل ) (مغرب و عشاء) حضرت اقدس نے بعد مغرب حسب دستور جلوس فرما کر مباحثہ موضع مد کے حسن و قبح پر تذکرہ کیا کہ یہ مولوی لوگ عوام کے بھڑ کانے کے واسطے عجیب عجیب حیلہ گھڑتے ہیں اور حق رسی سے ان کو کوئی کام نہیں ہوتا.“ ( اس پر حضرت مولوی نور الدین اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنے ساتھ پیش آمدہ ایسے واقعات سنائے.۳ رنومبر کی صبح کو سیر میں بھی حضور نے طریق بحث کے متعلق بیان فرمایا.ناقل ) ۲۴ -۵ ظهر (۳ / نومبر ۱۹۰۲ء) ” اس وقت حضرت اقدس تشریف لائے اور تھوڑی دیر مجلس کی.مڈ کے مباحثہ کا ذکر ہوتا رہا کہ در حقیقت تو ہم نے فتح پالی ہے.صرف اتنی بات ہے کہ وہ دیہات کے لوگ تھے ان کو ان باریک باتوں کی سمجھ نہیں آئی مجھے خوشبو آتی ہے کہ آخر کار فتح ہماری ہے.دسمبر کے آخر تک جو نشان ظاہر ہونے والے ہیں شاید یہ بھی ان میں سے ایک عظیم الشان نشان ہو جاوے.یہ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے جیسے فرمايا و العاقبة للمتقین.آنحضرت صلح کو بھی ۱۳ برس تک مکروہات ہی پہنچتے رہے.پھر اس کے بعد حضرت اقدس تشریف لے گئے.“ -4 (عصر) اس وقت حضرت اقدس تشریف لا کر پھر مباحثہ مد کے متعلق ذکر کرتے رہے.خدا کے برگزیدوں کی بھی عجیب حالت ہوتی ہے کہ جب ایک بات کی طرف توجہ ہو جاوے تو پھر رات دن اسی کی طرف توجہ رہتی ہے گویا کہ بالکل اس میں مستغرق ہیں اور دنیا و مافیہا کی خبر نہیں.“
۸۷ -2 -^ (مغرب و عشاء) ” بعد ادائے نماز مغرب حضرت اقدس حسب معمول جلوس فرما ہوئے.....پھر حضرت اقدس مد کے مباحثہ پر ذکر اذکار کرتے رہے جس کی نسبت گذشتہ کالموں میں ذکر ہو چکا ہے پھر فرمایا کہ اس دن ہم نے مناسب سمجھا تھا کہ یہ مباحثہ کی کارروائی الحکم وغیرہ میں نہ چھپے.مگر خدا کو یہ منظور نہ تھا...سیر (۴ / نومبر ۱۹۰۲ء) ( بعد نماز فجر ) ” حضرت اقدس سیر کے لئے تشریف لائے....پھر سرورشاہ صاحب سے حضرت اقدس کچھ گفتگو ان کے سفر امرتسر کے متعلق کرتے رہے ایک مقام پر فرمایا کہ ہم نے مالی انعامات دے دے کر ان لوگوں کو اپنے مقابلہ پر بلایا مگر یہ لوگ نہ آئے.مگر ہم دینے سے تھکے نہیں ابھی اور دیویں گے اور اگر وہ اسے قبول نہ کریں گے تو گویا اپنے ہاتھوں سے ایک اور پیشگوئی ہمارے حق میں پوری کر دیں گے وہ یہ ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ صیح مال دے گا اور لوگ نہ لیں گے تو اگر انکار کرتے ہیں تو اپنے ہاتھ سے اسے پورا کرتے ہیں.“ و گفتگو میں ایسے مقامات پر ہونی چاہئیں جہاں رؤساء بھی جلسہ میں ہوں اور تہذیب اور نرم زبانی سے ہر ایک بات کریں کیونکہ دشمن جب جانتا ہے کہ محاصرہ میں آگیا تو وہ گالی اور درشت زبانی سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے.طالب حق بن کر ہر ایک بات کرنی چاہیئے اور یہ امریج ہے.ہمارے حق پر ہونے کی یہ علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا غُلبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی.اگر ہم حق پر نہیں ہیں تو ہم غالب نہ ہوں گے.ہم نے ان کو کئی بار لکھا ہے کہ سب متفق ہو جاویں کوئی عیب نہیں ہے.ہماری طرف سے ان کو اجازت ہے.ان تمام مولویوں میں سے بہت ایسے ہیں کہ عربی لکھتے ہیں بلکہ اشعار بھی کہتے ہیں مگر ہمارے مقابل پر خدائے تعالیٰ ان کی زبان بند کر دیتا ہے اور ان کو ایسا امر پیش آتا ہے کہ چپ رہ جاتے ہیں.پھر مکان قریب آ گیا اور حضرت اقدس السلام علیکم کہہ کر تشریف لے گئے.“ -9 - 1+ وو (ظہر ) " پھر انہیں امور کا ذکر ہوتا رہا جو کہ سیر میں بیان ہوئے.“ ۲۵ ۵/نومبر ۱۹۰۲ء سیر بعد صبح کے متعلق مرقوم ہے :- " محمد یوسف صاحب اپیل نویس نے بیان کیا کہ حضور محمد کے مباحثہ میں ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا تھا کہ مرزا صاحب تمہاری آنکھ کیوں نہیں اچھی کر دیتے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ جواب دینا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اندھا تھا.جیسے لکھا ہے عَبَسَ وَتولَّی ان جَآءَ هُ الْأَعْمَیٰ وہ کیوں اچھا نہ ہوا.حالانکہ آپ تو افضل الرسل تھے اور بھی اندھے تھے.ایک دفعہ سب نے کہا کہ یا حضرت ! ہمیں جماعت میں شامل ہونے کی بہت تکلیف ہوتی ہے.آپ نے حکم دیا کہ جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہے وہاں تک کے مؤطا امام مالک کتاب نداء الصلوۃ باب ما جاء فی القرآن
لوگوں کو ضرور آنا چاہیئے.“ مباحثہ کے ذکر پر فرمایا کہ شریر آدمیوں کا کام ہے کہ آنکھ ، کان ، ناک اور ٹانگ وغیرہ کاٹ کر پھر کلام کو ایک مسخ شدہ صورت میں پیش کرتے ہیں.یہ مباحثہ بھی ہمارے لئے ایک فتح حدیبیہ کی صلح کی طرح کسی فتح کی بنیاد ہی نظر آتا ہے.“ پھر فرمایا کہ ہماری جماعت جان و مال سے قربان ہے.اگر ہمیں ایک لاکھ کی ضرورت ہو تو وہ مہیا کر سکتے ہیں.اول بار عوام الناس نے علمی باتوں کو نہ سمجھا اس لئے اب اللہ تعالیٰ نشانوں سے سمجھاتا ہے.‘۲۶ بٹالہ میں میاں محمد یوسف صاحب سے سے نومبر ۱۹۰۲ء کو مباحثہ کے متعلق گفتگو فرمائی.۲۷ قصیدہ اعجاز احمدی کی تصنیف کا سبب اور تاریخ مباحثہ مدّ 11- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اعجاز احمدی میں تحریر فرماتے ہیں :- رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَانْتَ خَيْرَ الْفَاتِحِيْنَ (اے ہمارے خدا! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا سچا فیصلہ کر اور تو ہی ہے جو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ) ایھا الناظرون ارشد کم اللہ.آپ صاحبوں پر واضح ہو کہ اس مضمون کے لکھنے کی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ موضع مد ضلع امرتسر میں باصرار منشی محمد یوسف صاحب کے میرے دو مخلص دوست ایک مباحثہ میں گئے.ہماری طرف سے مولوی سرور شاہ صاحب مقرر ہوئے اور فریق ثانی نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو امرتسر سے طلب کر لیا.اگر مولوی ثناء اللہ صاحب اس بحث میں خیانت اور جھوٹ سے کام نہ لیتے تو اس مضمون کے لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی لیکن چونکہ مولوی صاحب موصوف نے میری پیشگوئیوں کی تکذیب کی.دروغگو ئی کو اپنا ایک فرض سمجھ لیا.اس لئے خدا نے مجھے اس مضمون کے لکھنے کی طرف توجہ دلائی تا سیہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد ۲۸ سفر میں عربی قصیدہ بنانا.منشی محمد یوسف سے خطاب قادیان میں فصیل کا ایک ٹکڑا نیلامی میں حضرت اقدس کے نام خرید کیا گیا تھا.ایک غیر مسلم نے اس کے ایک حصہ کی ملکیت کا دعویٰ دائر کر دیا.اس مقدمہ میں شہادت کے لئے حضور بٹالہ کے نومبر ۱۹۰۲ء کو تشریف لے گئے.چنانچہ اس سفر کے متعلق مرقوم ہے کہ : - آپ کی سواری ساڑھے نو بجے کے قریب بٹالہ پہنچ گئی...ہم نے دیکھا کہ حضرت کچھ کاغذ پر راستہ میں لکھتے بھی تھے.بٹالہ جا کر معلوم ہوا کہ آپ عربی قصیدہ کے
۸۹ کچھ شعر کہتے جاتے تھے...اس باغ میں جو کچہری کے سامنے ہے ڈیرہ کیا گیا.آپ بعض حوائج سے فارغ ہو کر حلقہ ، خدام میں اجلاس فرما ہوئے اور کاغذ طلب فرمایا کہ راہ میں چند شعر کہے ہیں ان کو لکھ لوں.چنانچہ مفتی صاحب نے اپنی نوٹ بک پیش کی اور 66 آپ لکھنے لگے.دد منشی محمد یوسف صاحب اپیل نویس مردان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ ایک دینی جہاد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے گا.میں نے ایڈ میٹر الحکم کوحکم دے دیا ہے کہ وہ سارا مباحثہ الحکم میں چھاپ دیں جو زائد کا پیاں آپ کو مطلوب ہوں ان سے لے لیں.زائد اخراجات آپ کو برداشت نہ کرنے پڑیں گے اور ثواب بھی ہو گیا اور فرمایا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جلدی اس سلسلہ کو پھیلا رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اس سلسلہ کو دنیا میں پھیلائے.“ ۲۹ نیز البدر میں یوں مرقوم ہے کہ :- دو منشی محمد یوسف صاحب کو حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ دلگیر نہ ہوں آپ ایک دینی جہاد میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ اس سلسلہ کو ایسا پھیلا دے گا کہ یہ سب پر غالب ہوں گے اور آجکل کے موجودہ ابتلاء دور ہو جاویں گے.خدا کی یہی سنت ہے کہ ہر ایک کام بتدریج ہو.کوئی درخت اتنی جلدی پھل نہیں لاتا جس قدر جلدی ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے.یہ خدا کا فعل ہے اور اس کا نشان.‘ ۳۰ اعجازی قصیدہ جس کا کوئی جواب نہیں لکھ سکتا حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:- اب یادر ہے کہ اگر چہ میں اب تک عربی میں سترہ کے قریب بے مثل کتابیں شائع کر چکا ہوں جن کے مقابل میں اس دس برس کے عرصہ میں ایک کتاب بھی مخالفوں نے شائع نہیں کی.مگر آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ وہ کتا بیں صرف عربی فصیح بلیغ میں ہی نہیں بلکہ ان میں بہت سے قرآنی حقائق و معارف ہیں اس لئے ممکن ہے کہ وہ لوگ یہ جواب دیں کہ ہم حقائق و معارف سے نا آشنا ہیں.اگر صرف عربی فصیح میں نظم ہوتی جیسے عام قصائد ہوتے ہیں تو ہم بلاشبہ اس کی نظیر بناسکتے اور نیز یہ بھی خیال آیا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب سے اگر صرف کتاب اعجاز امسیح کی نظیر طلب کی جائے تو وہ اس میں ضرور کہیں گے کہ کیونکر ثابت ہو کہ ستر دن کے اندر یہ
۹۰ کتاب تالیف کی گئی ہے اور اگر وہ یہ حجت پیش کریں کہ یہ کتاب دو برس میں بنائی گئی ہے اور ہمیں بھی دو برس کی مہلت ملے.تو مشکل ہوگا کہ ہم صفائی سے ان کو ستر دن کا ثبوت دے سکیں.ان وجوہات سے مناسب سمجھا گیا کہ خدا تعالیٰ سے یہ درخواست کی جائے کہ ایک سادہ قصیدہ بنانے کے لئے روح القدس سے مجھے تائید فرما دے جس میں مباحثہ مت کا ذکر ہو.تا اس بات کے سمجھنے کے لئے وقت نہ ہو کہ وہ قصیدہ کتنے دن میں تیار کیا گیا ہے.سو میں نے دعا کی کہ اے خدائے قدیر ! مجھے نشان کے طور پر توفیق دے کہ ایسا قصیدہ بناؤں اور وہ دعا میری منظور ہوگئی اور روح القدس سے ایک خارق عادت مجھے تائید ملی اور وہ قصیدہ پانچ دن میں ہی میں نے ختم کر لیا.کاش ! اگر کوئی اور شغل مجبور نہ کرتا تو وہ قصیدہ ایک دن ہی میں ختم ہو جاتا.یہ ایک عظیم الشان نشان ہے جس کے گواہ خود مولوی ثناء اللہ صاحب ہیں.کیونکہ قصیدہ سے خود ثابت ہے کہ یہ ان کے مباحثہ کے بعد بنایا گیا ہے اور مباحثہ ۲۹ / اور ۳۰ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو ہوا تھا اور ہمارے دوستوں کے واپس آنے پر ۸ نومبر ۱۹۰۲ء کو اس قصیدہ کا بنانا شروع کیا گیا اور ۱۲ نومبر ۱۹۰۲ء کو مع اس اردو عبارت کے ختم ہو چکا تھا.چونکہ میں یقین دل سے جانتا ہوں کہ خدا کی تائید کا یہ ایک بڑا نشان ہے تا وہ مخالف کو شرمندہ اور لا جواب کرے.اس لئے میں اس نشان کو دس ہزار روپیہ کے انعام کے ساتھ مولوی ثناء اللہ اور اس کے مددگاروں کے سامنے پیش کرتا ہوں پس اگر اس تاریخ سے کہ یہ قصیدہ اور اردو عبارت ان کے پاس پہنچے چوداں دن تک اسی قدرا شعار بلیغ فصیح جو اس مقدار اور تعداد سے کم نہ ہوں شائع کر دیں تو میں دس ہزار روپیران کو انعام دے دوں گا.ان کو اختیار ہو گا کہ مولوی محمد حسین صاحب سے مدد لیں یا کسی اور صاحب سے مدد لیں اور نیز اس وجہ سے بھی ان کو کوشش کرنی چاہیئے کہ میرے ایک اشتہار میں پیشگوئی کے طور پر خبر دی گئی ہے کہ اخیر دسمبر ۱۹۰۲ ء تک کوئی خارق عادت نشان ظاہر ہوگا.انہیں لازم ہے کہ اگر وہ میرے کا روبار کو انسان کا منصوبہ خیال کرتے ہیں تو مقابلہ کر کے اس نشان کو کسی طرح روک دیں....اس صورت میں مولوی ثناء اللہ صاحب اور ان کے رفیقوں کو ناحق کے افتراؤں کی حاجت نہیں رہے گی اور مفت میں ان کی فتح ہو جائے گی....اگر میں صادق ہوں اور خدا جانتا ہے کہ میں صادق ہوں تو بھی ممکن نہیں ہو گا کہ مولوی ثناء اللہ اور ان کے تمام مولوی پانچ دن میں ایسا قصیدہ بنا سکیں اور اردو مضمون کارڈ لکھ سکیں کیونکہ خدا تعالیٰ ان کی قلموں کو توڑ دے گا اور ان کے دلوں کو نبی کر دے گا اور مولوی ثناء اللہ کو اس بدگمانی کی طرف راہ نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ قصیدہ پہلے سے بنا رکھا تھا کیونکہ وہ ذرا آنکھ کھول کر دیکھے کہ مباحثہ مذ کا اس میں ذکر ہے.پس اگر میں نے پہلے بنایا تھا تب تو انہیں ماننا چاہیئے کہ میں عالم الغیب ہوں...اور واضح رہے کہ مولوی ثناء اللہ کے ذریعہ سے عنقریب تین نشان میرے ظاہر ہوں گے...اس اردو مضمون اور عربی قصیدہ کے مقابلہ سے عاجز رہ کر جلد تر ان کی روسیا ہی ثابت
ہو جائے گی.“ اسے ۹۱ دس ہزار روپے کا اشتہار اور دعوت مقابلہ تصنیف اعجاز احمدی کے متعلق حضور علیہ السلام یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ :- یہ اشتہا ر خدا تعالیٰ کے اس نشان کے اظہار کے لئے شائع کیا جاتا ہے جو اور نشانوں کی طرح ایک پیشگوئی کو پورا کرے گا.یعنی یہ بھی وہ نشان ہے جس کی نسبت وعدہ تھا کہ وہ اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک ظہور میں آ جائے گا اور اس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار اس بات کے لئے بطور گواہ کے ہے کہ اپنے دعوی کی سچائی کے لئے کس زور سے اور کس قد رصرف مال سے مخالفین کو متنبہ کیا گیا ہے.مولوی ثناء اللہ امرتسری نے موضع مد میں باآواز بلند کہا تھا کہ ہم کتاب اعجاز مسیح کو معجزہ نہیں کہ سکتے اور میں اس طرح کی کتاب بناسکتا ہوں اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر مخالف مقابلہ کر سکیں اور اسی مقرر مدت میں اسی طرح کی کتاب بناسکیں تو پھر وہ معجزہ کیسا ہوا.اس صورت میں تو ہم صاف جھوٹے ہو گئے لیکن جب ہمارے دوست مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب و مولوی عبداللہ صاحب ۲ نومبر ۱۹۰۲ء کو قادیان میں پہنچ گئے اور چند روز کے بعد مجھے خیال آیا کہ اگر اعجاز مسیح کی نظیر طلب کی جائے تو جیسا کہ ہمیشہ سے یہ مخالف لوگ حیلہ بہانہ سے کام لیتے ہیں اس میں بھی کہہ دیں گے کہ ہماری دانست میں کتاب اعجاز مسیح ستر دن میں طیار نہیں ہوئی.جیسا کہ تقریر جلسہ مہوتسو کی نسبت مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب نے یہ فرمایا تھا کہ یہ تقریر پہلے بنائی گئی ہے اور ایک مدت تک سوچ کر لکھی گئی ہے.پس اگر اب بھی کہہ دیں کہ یہ اعجاز مسیح ستر دن میں نہیں بلکہ ستر مہینے میں بنائی گئی ہے تو اب یہ امر عوام کی نظر میں مشتبہ ہو جائے گا اور میں چند روز اسی فکر میں تھا کہ کیا کروں.آخر ۲ نومبر ۱۹۰۲ء کی شام کو میرے دل میں ڈالا گیا کہ ایک قصیدہ مقام مد کے مباحثہ کے متعلق بناؤں کیونکہ بہر حال قصیدہ بنانے کا زمانہ یقینی اور قطعی ہے.کیونکہ اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ۲۹ / اور ۳۰ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو بمقام مد بحث ہوئی تھی اور پھر دوسری نومبر کو ہمارے دوست قادیان پہنچے اور سے نومبر ۱۹۰۲ء کو میں ایک گواہی کے لئے منشی نصیر الدین صاحب منصف عدالت بٹالہ کی کچہری میں گیا.شاید میں نے ایک یا دو شعر راہ میں بنائے.مگر ۸ نومبر کو قصیدہ پوری توجہ سے شروع کیا اور پانچ دن تک قصیدہ اور اردو مضمون ختم کر لیا.یہ امر شک و شبہ سے پاک ہو گیا کہ کتنی مدت میں قصیدہ بنایا گیا.اس قصیدہ میں اور نیز اردو مضمون میں واقعات اس بحث کے درج ہیں جو ۲۹ ر اور ۳۰ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں بمقام مد ہوئی تھی.پس اگر یہ قصیدہ اور اردو مضمون اس قلیل مدت میں تیار نہیں ہوا اور پہلے اس سے بنایا گیا.تو پھر مجھے
۹۲ عالم الغیب ماننا چاہیئے.جس نے تمام واقعات کی پہلے سے خبر دی.غرض یہ ایک عظیم الشان نشان ہے اور نہایت سہل طریق فیصلہ کا.یادر ہے کہ یہ تمام مدت قصیدہ پر ہی خرچ نہیں ہوئی بلکہ اس اردو مضمون پر بھی خرچ ہوئی ہے جو اس قصیدہ کے ساتھ شامل ہے اور وہ دونوں بہئیت مجموعی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہیں اور مقابلہ کے لئے اور دس ہزار روپیہا انعام پانے کے لئے یہ شرط ضروری ہے کہ جو شخص بالمقابل لکھے وہ ساتھ ہی اس اردو کا رڈ بھی لکھے.جس کی عبارت ہماری عبارت سے کم نہ ہو.ظاہر ہے کہ اردو عبارت بھی اس واقعہ ء بحث کے متعلق ہے اور اس میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے ان اعتراضات کا جواب ہے جو انہوں نے پیش کئے تھے.اس صورت میں کون شک کر سکتا ہے کہ وہ اردو عبارت پہلے سے بنارکھی تھی.پس میرا حق ہے کہ جس قدر خارق عادت وقت میں یہ اردو عبارت اور قصیدہ تیار ہو گئے ہیں.میں اسی وقت تک نظیر پیش کرنے کا ان لوگوں سے مطالبہ کروں کہ جو ان تحریرات کو انسان کا افتراء خیال کرتے ہیں اور معجزہ قرار نہیں دیتے...میں یہ بھی اجازت دیتا ہوں کہ وہ سب مل کر اردو مضمون کا جواب اور قصیدہ مشتملہ بر واقعات لکھ دیں...اگر انہوں نے قصیدہ اور جواب مضمون ملحقہ قصیدہ میعاد مقررہ میں چھاپ کر شائع کر دیا تو میں بے شک جھوٹا ٹھہروں گا اگر ہیں دن میں جو دسمبر ۱۹۰۲ء کی دسویں کے دن کی شام تک ختم ہو جائے گی.انہوں نے اس قصیدہ اور اردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یوں سمجھو کہ میں نیست و نابود ہو گیا اور میرا سلسلہ باطل ہو گیا.اس صورت میں میری تمام جماعت کو چاہیئے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کریں.“ ۳۲ ۱۱/ نومبر ۱۹۰۲ء کو حضور علیہ السلام نے مجلس میں فرمایا کہ:- قرآن شریف کا معجزہ ابدی معجزہ ہے.قلت مفاہم ہے ورنہ اگر سمجھانے والے ہوں تو اب بھی یہ اسی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے.یہ نشان کلام کا جو خدا نے مجھے دیا ہے یہ بھی ایک شوکت اپنے ساتھ رکھتا ہے.جب یہ معلوم ہو گا کہ اس کے ساتھ دس ہزار کا انعام ہے اور کسی نے اس کو قبول نہ کیا تو کس قدر اس کی عظمت ظاہر ہوگی.“ وو یہ عظیم الشان معجزہ ہے کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ اس میں ان واقعات کا تذکرہ ہے جو مباحثہ میں بمقام مد پیش آئے اور اس سے اس عرصہ کا پتہ لگ سکتا ہے.جس میں یہ لکھا گیا.دو باتوں میں سے ایک کا اعتراف ان کو کرنا پڑے گا یا اس کو معجزہ اور خارق عادت نشان مانیں گے یا اگر یہ کہیں کہ پہلے سے لکھ لیا تھا تو پھر مجھے عالم الغیب مانیں گے.“ غرض اس نشان کلام کے متعلق جو اس ہفتہ میں خدا نے اپنے برگزیدہ رسول کی تائید میں ظاہر فرمایا اس کا 66
۹۳ تذکرہ فرماتے رہے.“ ۳۳ اعجاز احمدی کا مزید ذکر ۱۲ نومبر ۱۹۰۲ء سے سیر ملتوی رہی اور آج بھی آپ باہر تشریف نہیں لے گئے.ظہر کی نماز میں اعجاز احمدی کے متعلق کچھ ذکر ہوتا رہا.۳۴ ( دربار شام) اعجاز احمدی کا تذکرہ مختلف صورتوں میں ہوتا رہا.۳۵ ( صبح کی سیر ۱۷/ نومبر ۱۹۰۲ء) اعجاز احمدی کے متعلق تذکرہ ہوتا رہا اور فرمایا کہ صرف یہی حیلہ کریں گے کہ اگر ہم چاہتے تو جواب لکھ سکتے ہیں.فرمایا ان کی مثال تو اس شخص کی سی ہے جس نے مشتہر کیا کہ میری بکری شیر کو مارتی ہے اور جب لوگوں نے اسے دیکھنا چاہا تو کہہ دیا جب اس کا ارادہ ہو اس وقت مارتی ہے.اس وقت اس کا ارادہ نہیں.بس اس قسم کے حیلے حوالے کریں گے.‘۳۶ے اعجازی احمدی کے بعض شعر الہامی ہیں ۵/ نومبر ۱۹۰۲ء کے دربار شام کے متعلق مرقوم ہے کہ :- جدید اعجازی تصنیف کے متعلق ذکر کر کے فرمایا کہ میں جس طرح کلمہ پر شہادت دیتا ہوں اسی بصیرت اور یقین کے ساتھ میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہے اور ایک عظیم الشان کلام معجزہ ہے جس کی نظیر لانے پر کوئی قادر نہیں ہو گا.بہت سے شعر ایسے ہیں کہ الہامی ہیں.میں اس طرز کو بیان نہیں کر سکتا جس طرح پر یہ خدا کی طرف سے آتے ہیں.کوئی فکر اور غور کی ضرورت نہیں پڑتی خود بخود چلے آتے ہیں اور دل میں ایک القاء ہوتا چلا جاتا ہے.وحی دو قسم کی ہوتی ہے ایک خفی اور ایک جلی.یہ وحی جو اس تصنیف میں ہو رہی ہے یہ وحئی خفی ہے.اس میں غیبت حسن نہیں ہوتی اور نہ قوة متفکرہ سے کام لینا پڑتا ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ امور میں کس طرح پر بیان کروں جو دوسرے اس کو سمجھ لیں.میں حلفا کہتا ہوں کہ جیسے ایک نالی چلتی ہے اسی طرح پر یہ مضامین آتے ہیں.خدا تعالیٰ اس وقت فوق العادت طاقت دے رہا ہے اور سارے سامان اس نے پہلے سے کر دیئے ہیں.قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت کے دعوئی پر بعض نادان آریہ اور عیسائی کہہ دیتے ہیں کہ مقاماتِ حریری وغیرہ بھی فصیح و بلیغ ہیں مگر وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ ان میں یہ دعوی کہاں کیا گیا ہے اور ان کتابوں میں کہاں پر بتصریح لکھا گیا ہے کہ قرآن کی تحدی کے مقابلہ میں ہیں اور علاوہ ازیں ان کو قرآن کے مقابلہ میں پیش کرنا بالکل لغو ہے کیونکہ قرآن شریف میں حقائق اور معارف کو بیان کیا گیا ہے اور ان کتابوں میں صرف لفظوں کا
۹۴ اتباع کیا گیا ہے.واقعات سے کوئی غرض ہی نہیں رکھی گئی ہے.‘ ۳۷ حضور کا اعجاز احمدی سننا اور مولوی صاحب و عرفانی صاحب کا اسے ثناء اللہ کو امر تسر پہنچانا ۱۵ نومبر ۱۹۰۲ء کی ڈائری میں مرقوم ہے کہ : - اعجاز احمدی جو خدائے برتر و قادر کے عظیم الشان نشانوں میں سے ایک نشان ہے آج بالکل طبع ہو کر شائع ہو گیا.آج کے دربار شام میں خاکسار ایڈیٹر الحکم نے حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ السلام کے حکم سے حاضرین دارالامان کو اس کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا اور بعد نماز عشاء در بارختم ہوا.‘ ۳۸ اس سے قبل الحکم مؤرخہ ۱۹۰۲-۱۱-۱۰ میں مرقوم تھا کہ : - حضرت اقدس ایک عظیم الشان تصنیف میں مصروف ہیں جو خدا تعالیٰ کا ایک بین نشان ثابت ہوگی.انشاء اللہ العزیز حضرت اقدس نے اعجاز احمدی میں تحریر فرمایا ہے کہ :- انشاء اللہ ۱/ نومبر ۱۹۰۲ء کو صبح کو میں یہ رسالہ اعجاز احمدی مولوی ثناء اللہ کے پاس بھیج دوں گا.جو مولوی سید محمد سرور صاحب لے کر جائیں گے.‘ ۳۹ نیز فرماتے ہیں ؎ و جئناک یا صيد الرّدى بهدية ونهدی الیک المرهفات و نعقر فابشرو بشر كل غول يُسبّني سیاتیک مــنــي بـالتـحـائـف سـرور (ترجمہ: اوراے وبال کے شکار ! ہم تیرے پاس ایک ہدیہ لے کر آئے ہیں اور ہم تیز تلواروں کا یعنی لا جواب قصیدہ کا تجھے ہدیہ دیتے ہیں.پس خوش ہو اور ہر ایک غول جو مجھے گالی دیا کرتا تھا اس کو بشارت دے.عنقریب میری طرف سے سید محمد سرور تحفہ لے کر تیرے پاس آئیں گے.‘) ۴۰ چنانچہ ۱۶ نومبر کی صبح کو حضور کے ارشاد کے مطابق مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم اعجاز احمدی لے کر اتمام حجت کی غرض سے امرتسر روانہ ہوئے“.(الحکم مورخہ
۱۷-۱۱-۱۹۰۲ صفحه ۷) ۹۵ ۱۹/ نومبر کو ” حضرت اقدس قریب ۸ بجے کے سیر کے لئے تشریف لائے.کل احباب ہمراہ تھے.اعجاز احمدی کے متعلق ذکر شروع رہا.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہا کہ وہ کہتے تھے کہ ہماری طرف سے کوئی استدعا نہ تھی.حضرت نے فرمایا کہ ”خود ان کا خط موجود ہے“.سیر - اردسمبر ۱۹۰۲ء شحنہ ء ہند کی لاف زنی (صبح کی سیر میں ) اعجاز احمدی کی نسبت ایڈیٹر صاحب الحکم نے سُنایا کہ شحنہ ء ہند نے لکھا ہے کہ شروع سال میں اس کا جواب اعجازی طور پر شائع ہو گا اور اس نے ۳ ہزار روپیہ لوگوں سے طلب کیا ہے کہ اس روپئے سے وہ کتاب تصنیف کر کے شائع کرے اور دس ہزار انعام لے لیوے.اس طرح سے ۱۳ ہزار روپیہ وہ لینا چاہتا ہے.حضرت نے فرمایا کہ کیمیا گر ، دھوکا باز اسی طرح نادانوں کو دھوکا دے کر لوٹا کرتے ہیں.مخالفت پر فرمایا کہ اس سے تحریک ہو کر نشان ظاہر ہوتے ہیں اور مخالفوں کی تحریک ایسی ہے جیسے کل (مشین ) سے ایک کنواں نکالا جاوے ورنہ موافقین جو امنا کہہ کر چپ کر گئے ان سے کیا تحریک ہو سکتی ہے.اعجاز احمدی سے خود لوگ اس نتیجہ پر پہنچ جاویں گے کہ قرآن دانی اور عربیت کی اصل جڑ انہیں لوگوں میں ہے ( یعنی احمد یہ مشن میں ) کیونکہ وہ نتیجہ نکال لیں گے.جن کی عربی دانی یہ ہے کہ اس کی مثل لوگ نہیں لا سکتے تو ضرور ہے کہ قرآن دانی بھی انہیں میں ہو.اعجاز احمدی میں بہت سی پیشگوئیاں بھی کی ہیں اور اِنْ كُنتُم فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَاتُوْابِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ.اس میں مثلہ کے یہ معنے بھی اکثر مفسرین نے کئے ہیں کہ اگر مقابلہ میں کوئی لکھ کر لاویں تو اس میں پیشگوئیاں بھی اسی طرح ہوں.جیسے قرآن شریف میں ہیں.اے مخالفین کا بجز مولوی محمد حسین بٹالوی ، مولوی ثناء اللہ، پیر مہرعلی گولڑوی ، مولوی اصغر علی روحی پر و فیسر عربی (اسلامیہ کالج لا ہور ) قاضی ظفر الدین پروفیسر اور کمینٹل کالج لاہور، مولوی علی حائری شیعہ مجتہد لا ہور کو حضرت اقدس علیہ السلام نے دعوت مقابلہ دی تھی.مدت گزر گئی کسی کا جواب شائع نہ ہوا.قاضی ظفر الدین نے (جو عربی رسالہ نسیم الصباء کے ایڈیٹر بھی تھے ) قصیدہ اعجاز احمدی کے جواب میں ابھی چند شعر ہی لکھے تھے کہ بیمار ہوکر اگلے جہان کو سدھارے.اس طرح یہ پیشگوئی بڑی آب و تاب سے پوری ہوئی.
۹۷ عہد مبارک حضرت اقدس میں مولوی صاحب کی خدمات ذیل میں اُن خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے جو حضرت مولوی صاحب محترم کو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں سرانجام دینے کا یا حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا.۱- زیارت حضرت اقدس آپ کو قادیان آنے کا موقع ملتا رہا.ایک بار کی آمد کے متعلق مرقوم ہے کہ : - دار الامان میں آکر فیض اٹھانے والے مسافروں کا سلسلہ اپنے زور پر ہے.اللهم زدفرد.مشہور و معروف آنے والوں میں مولوی سید سرور شاہ صاحب کا نام بھی درج ہے.۲.- حضرت اقدس کی معیت سفر میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آپ کو سفر کرنے کا موقع ملا.چنانچہ.(الف) ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور موسم گرما میں تشریف لے گئے.اس سفر میں مولوی سرورشاہ صاحب بھی ہمراہ تھے.۲۳ (ب) ۱۶ فروری ۱۹۰۲ء کو بمقدمہ کرم دین حضرت اقدس کی حاضری بعدالت چند ولال مجسٹریٹ بمقام گورداسپور تھی.مقدمہ کے لئے حوالے نکال کر تیار رکھنے کے لئے حضرت اقدس علیہ السلام نے مولوی سرور شاہ صاحب کو وہاں بھیج دیا تھا.۴۴ (ج) کرم دین نے حضرت اقدس علیہ السلام پر ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ جہلم میں دائر کیا تھا.حضور مع کم و بیش چالیس افراد کے ۱۵ جنوری ۱۹۰۳ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۱۹ ؍ جنوری کو واپس تشریف لائے.اس سفر میں گیارہ افراد نے حضور کی بیعت کی.اس سفر میں مولوی سرور شاہ صاحب مدرس مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان اور سید عبداللطیف شہید رضی اللہ عنہ بھی حضور کے ہمراہ تھے.۲۵ (1) زیر عنوان اکرام ضیف ۲۶ جنوری ۱۹۰۴ء مرقوم ہے کہ: -
۹۸ وو اعلیٰ حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمان نوازی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اعلیٰ اور زندہ نمونہ ہیں.جن لوگوں کو کثرت سے آپ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ کسی مہمان کو ( خواہ وہ سلسلہ میں داخل ہویا نہ داخل ہو.) ذراسی بھی تکلیف حضور کو بے چین کر دیتی ہے.مخلصین احباب کے لئے تو اور بھی آپ کی رُوح میں جوش شفقت ہوتا ہے اس امر کے اظہار کے لئے ہم ذیل کا ایک واقعہ درج کر دیتے ہیں.میاں ہدایت اللہ صاحب احمدی شاعر لا ہور ، پنجاب جو کہ حضرت اقدس کے ایک عاشق صادق ہیں اپنی اس پیرانہ سالی میں بھی چند دنوں سے گورداسپور آئے ہوئے تھے.آج انہوں نے رخصت چاہی.جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ جا کر کیا کریں گے.یہاں ہی رہیئے.اکٹھے چلیں گے.آپ کا یہاں رہنا باعث برکت ہے.اگر کوئی تکلیف ہو تو بتلا دو اس کا انتظام کر دیا جاوے.پھر اس کے بعد آپ نے عام طور پر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی کی ضرورت کا علم ( اہل عملہ کو ) نہ ہو اس لئے ہر ایک شخص کو چاہیئے کہ جس شے کی اسے ضرورت ہو وہ بلا تکلف کہہ دے.اگر کوئی جان بوجھ کر چھپاتا ہے تو وہ گنہگار ہے.ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلفی ہے.بعد ازیں حضرت اقدس نے میاں ہدایت اللہ صاحب کو خصوصیت سے سید سرور شاہ صاحب کے سپرد کیا کہ ان کی ہر ایک ضرورت کو بہم پہنچا دیں.۴۶ چنده حضرت اقدس کے زمانہ میں احباب جماعت حسب ضرورت سلسلہ وحسب توفیق اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنے اموال صرف کرتے تھے اور مرکز میں رقوم ارسال کرتے تھے جہاں تک مجھے مطالعہ سے معلوم ہوا ہے تمام آمد کا اندراج اخبارات سلسلہ میں نہیں ہوتا تھا.یہ ممکن بھی نہیں تھا.حضرت مولوی صاحب کے متعلق مجھے ذیل کے دواند راجات مل سکے ہیں.(الف) روز نامچه آمد مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان بابت جنوری ۱۹۰۱ء میں مولوی سرور شاہ صاحب ( یعنی پیشاور ) دوروپے ۴۷
۹۹ (ب) برائے امداد داخلہ امتحان طلبائے کالج آپ نے دو آ نے چندہ دیا.۲۸ -۴- مدرسہ سے تعلق آپ کا مدرسہ قادیان سے حضرت اقدس کے عہد مبارک میں مختلف طور پر تعلق رہا.چنانچہ (الف) ۱۹۰۱ء میں حضرت اقدس علیہ السلام نے طلباء میں تقاریر کا سلسلہ شروع کرایا تھا تا انہیں مذہبی واقفیت پیدا ہو جائے اور یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا.چنانچہ حضرت مولوی نور الدین صاحب ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کی تقاریر ہوئیں.‘ ۴۹ 66 (ب) آپ مدرسہ میں مستقل طور پر بطور مدرس متعین ہوئے (رسالہ تعلیم الاسلام سے ظاہر ہے کہ اس کی ایڈیٹری کے وقت آپ مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر تھے ) ۵۰ (ج) رسالہ تعلیم الاسلام میں مرقوم ہے کہ : - بورڈنگ کا انتظام مولوی سید محمد سرور شاہ کے سپرد ہے.چونکہ طلباء کی تعداد بہت بڑھتی جاتی ہے.لہذا تجویز ہے کہ ایک تجربہ کار دوسرا سپرنٹنڈنٹ امداد کے لئے رکھا جائے.او - امامت مسجد مبارک آپ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اگر حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب موجود نہ ہوتے تو مسجد مبارک میں نماز ہائے پنجگانہ اور امامت نماز جمعہ کیا کرتا تھا.حضرت مولوی نور الدین صاحب کی عدم موجودگی میں درس قرآن مجید دیتا تھا اور خلافت اولیٰ کے ابتداء میں بھی ایسا ہی رہا.چنانچہ (الف) بدر میں زیر عنوان ”مدینۃ المہدی مرقوم.الحکم مؤرخہ ۱۹۰۷-۴-۱۰ میں ذکر ہے.ایک جگہ جون ۱۹۰۶ ء کے آپ کے دستخط ہیں.مؤلف الفضل مؤرخه ۱۵ / مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۷.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ( درویش قادیان) اس کی تصدیق فرماتے ہیں.علاوہ ازیں روایت نمبر ۵۵۰ مندرجہ سیرۃ المہدی حصہ سوم میں ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے ان دس اصحاب کے نام بیان فرمائے ہیں جن کی اقتداء میں آپ نے حضرت اقدس کو نماز پڑھتے دیکھا تھا ان میں مولوی سرورشاہ صاحب کا نام بھی ہے.مؤلف
وو حضور رسالت مآب کی صحت اچھی ہے.آپ صبح و شام سیر کو تشریف لے جاتے ہیں.مسجد مبارک میں سید سرور شاہ صاحب نے جمعہ کی نماز پڑھائی.آپ نے فرمایا کہ نبی ایسے وقت آتے ہیں.جب قوم کے علماء وامراء واہلِ قلم اوروں کے محتاج ہو جاتے ہیں اور بوجہ دنیا پرستی کے نہ حق ظاہر کر سکتے ہیں نہ حق کی مدد بلکہ اپنی عزت قائم رکھنے کے لئے مخالفت میں حصہ لیتے ہیں.پہلے معمولی نشان دکھائے جاتے ہیں.جب انہیں نہیں مانتے تو پھر قہری نشانوں کے ذریعہ متنبہ کیا جاتا ہے.آخر ہلاک ہوتے ہیں.‘ ۵۶ (ب) ۶ / مارچ ۱۹۰۸ء کا جو خطبہ جمعہ حضرت مولانا مولوی سید سرور شاہ صاحب سلمہ ربہ“ نے قادیان میں پڑھا اس کا موضوع یہ ہے کہ انبیاء و اولیاء کے مخالفین پر جو عذاب ومصائب آئے ان سے درسِ عبرت حاصل کرنا چاہیئے.اس خطبہ جمعہ کا خلاصہ پونے دو کالموں میں الحکم مورخہ ۱۹۰۸-۳-۱۴ میں درج ہے.-- تلمیذ الا ذبان رسالہ تشخیف الا ذبان‘۱۹۰۶ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفة المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ ) نے جاری فرمایا تھا.اس میں بہت قابل قدر مضامین شائع ہوتے تھے اور نہ صرف یہ کہ سلسلہ کے اخبارات اس میں سے بعض مضامین نقل کرتے تھے بلکہ غیر از جماعت لوگوں نے بھی ( جیسا کہ الحکم مؤرخہ ۲۴-۵-۱۹۰۷ سے ظاہر ہے ) اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا.اس میں مسائل شرعیہ“ کے عنوان پر حضرت مولوی صاحب کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں کہیں ۷- تفسیر قرآن جولائی ۱۹۰۶ء میں رسالہ تعلیم الاسلام جاری کیا گیا.جس کے متعلق لکھا ہے کہ کمیٹی منظم تعلیم نے محض اشاعت کتاب اللہ کی غرض سے یہ رسالہ نکالا ہے (۵۳) مولوی صاحب ہی اس کے ایڈیٹر تھے.یہ امر مجھے صرف ایک جلد دستیاب ہوئی ہے.اس لئے میں اس کا ذکر کرتا ہوں.۱۹۰۷ء کے پرچہ ہائے فروری ، مارچ، جون اور جولائی میں عنوان بالا پر آپ کے مضامین شائع ہوئے ہیں.
1+1 آپ کے لئے باعث افتخار تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں اشاعت کتاب اللہ کے لئے آپ کی تفسیر کو مستند سمجھا جائے.یہ تفسیر ستمبر ۱۹۱۲ ء تک قریباً دو ہزار یک صد صفحات میں آٹھویں پارے کے یہ پانچویں رکوع تک شائع ہوئی.نہ معلوم پھر اس کا سلسلہ کیوں جاری نہ رہ سکا.اس میں سے قریباً ساڑھے سات صد صفحات حضرت اقدس علیہ السلام کے عہد میں شائع ہوئے.مولوی صاحب نے نہایت قابلیت سے نہ صرف حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی تفسیر محفوظ کی ہے بلکہ اس پر نہایت فاضلانہ اضافے محققانہ رنگ میں تحریر کئے ہیں اور جابجا انمول موتی بکھیرے ہیں.جن کا کچھ نمونہ قارئین کرام کے سامنے دوسرے حصے میں پیش کیا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ رسالہ تعلیم الاسلام کے بعد کچھ عرصہ تک ریویو آف ریلیجز میں تفسیر شائع ہوتی رہی.بعد ازاں مارچ ۱۹۰۸ء سے ایک سہ ماہی رسالہ تفسیر القرآن آپ کی ایڈیٹری میں محض اس تفسیر کی خاطر جاری کیا گیا جس میں ستمبر ۱۹۱۲ء تک تفسیر شائع ہوئی میں وقف ☆ گو حضرت مولوی صاحب ہجرت کر کے قادیان آئے یہ بھی وقف ہی تھا پھر بھی حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریک پر ۱۹۰۷ء میں آپ نے اپنے تئیں خدمات سلسلہ کے لئے وقف کر دیا.چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ :- ’۱۹۰۷ ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.اب سلسلہ کا کام بڑھ رہا ہے.اس بات کی ضرورت ہے کہ بعض نوجوان دور ونزدیک تبلیغ کا کام کرنے کے واسطے اپنی زندگیاں وقف کریں.اگر چہ اس وقت قادیان میں مقیم اکثر (الف) رسالہ تعلیم الاسلام جلد نمبرا تا نمبر 1 میں از جولائی ۱۹۰۶ ء تا اپریل ۱۹۰۷ء میں قریباً ساڑھے تین صد صفحات ہیں.اور پھر ریویو آف ریلیجنز جلد ۶ صفحه ۵ تا جلدے نمبر ا تک دوصد صفحات ہیں.اور پھر رسالہ تفسیر القرآن میں زائد از ڈیڑھ ہزار صفحات میں تفسیر شائع ہوئی.(ب) رسالہ تعلیم القرآن کے آپ ایڈیٹر تھے.جلد نمبر ( جولائی ۱۹۰۶ء) کے صفحہ ۳ سے اس کا علم ہوتا ہے.(ج) رسالہ تفسیر القرآن کے آپ ہی ایڈیٹر تھے.جس کا علم جلدے نمبر ۲ کے سرورق کے صفحہ ۲ سے ہوتا ہے.مؤلف
۱۰۲ مہاجرین ایسے تھے جو اس نیت سے قادیان میں آبیٹھے ہوئے تھے کہ دینی خدمات کے سرانجام دینے میں اپنی بقیہ زندگی بسر کر دیں تا ہم نو جوانوں کے علاوہ بعض اور دوستوں نے بھی زندگی وقف کرنے کے عہد کی درخواستیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں پیش کیں اور چونکہ حضور کی ڈاک کی خدمت اُن ایام میں میرے سپر تھی اس واسطے ان درخواستوں پر چند الفاظ لکھ کر حضور میرے پاس بھیج دیتے.میں نے ایک رجسٹر بنالیا اور اس میں ان کو درج کر دیتا.چنانچہ وہ رجسٹر اب تک میرے پاس محفوظ ہے.“ ان میں سے دس کے اسماء درج کئے ہیں اور یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ بعض کے اسماء درج رجسٹر ہونے سے رہ گئے.درج شدہ اسماء میں حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کا نام بھی درج ہے.آپ کی درخواست پر حضرت صاحب نے فرمایا: - آپ کو اس کام کے لائق سمجھتا ہوں.۵۴ ایک نشان کے شاہد آپ ایک پیشگوئی اور اس کے پورا ہونے کے شاہد تھے.حضرت اقدس علیہ السلام کے الفاظ میں یہ نشان درج ذیل کیا جاتا ہے :- (۷) ساتواں نشان - ۲۸ فروری ۱۹۰۷ ء کی صبح کو یہ الہام ہوا.” سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہو گی.خوش آمدی نیک آمدی.چنانچہ یہ پیشگوئی صبح کو ہی قبل از وقوع تمام جماعت کو سنائی گئی اور جب یہ پیشگوئی سنائی گئی.بارش کا نام ونشان نہ تھا اور آسمان پر ایک ناخن کے برابر بھی بادل نہ تھا اور آفتاب اپنی تیزی دکھلا رہا تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج بارش بھی ہوگی اور پھر بارش کے بعد زلزلہ کی خبر دی گئی تھی.پھر ظہر کی نماز کے بعد یک دفعہ بادل آیا اور بارش ہوئی اور رات کو بھی کچھ برسا اور اس رات کو جس کی صبح میں ۳ / مارچ ۱۹۰۷ء کی تاریخ تھی زلزلہ آیا جن کی خبریں عام طور پر مجھے پہنچ گئیں.پس اس پیشگوئی کے دونوں پہلو تین دن میں پورے ہو گئے.اس تحریر کے بعد ۵/ مارچ ۱۹۰۷ ء کی ڈاک میں دو خط مجھے ملے.ایک خط اخویم مرزا نیاز بیگ صاحب رئیس کلانور کی طرف سے تھا جس میں لکھا تھا کہ ۲ را در ۳ / مارچ
۱۰۳ کی درمیانی رات میں سخت دھنگا زلزلہ کا محسوس ہوا اور اس سے پہلے بارش بھی ہوئی اور اولے بھی پڑے اور وہ الہام کہ آسمان ٹوٹ پڑا سارا پورا ہو گیا اور اسی ڈاک میں ایک خط یعنی کار ڈا خویم میاں نواب خان صاحب تحصیلدار گجرات کا مجھ کو ملا جس میں لکھا تھا کہ دوسری اور تیسری مارچ ۱۹۰۷ء کی درمیانی جو رات تھی اس میں ساڑھے نو بجے رات کے ایک سخت دھکا زلزلہ کا محسوس ہوا جو نہایت خطر ناک تھا.اور اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور مورخہ ۵/ مارچ ۱۹۰۷ء میں اس زلزلہ کے متعلق مندرجہ ذیل خبر ہے : - ” ہفتہ کی شام کو ایک تیز دھگا زلزلہ کا محسوس ہوا جو چند سیکنڈ تک رہا.اس کی سمت شمال مشرقی تھی.“ اور اخبار عام لاہور مورخہ 4 مارچ ۱۹۰۷ء میں لکھا ہے کہ سرینگر (کشمیر) میں سینچر کی رات کو بوقت ساڑھے نو بجے ایک تیز زلزلہ محسوس ہوا چند سیکنڈ رہا.شمالاً شرقاً.اب کوئی ہمیں بتاوے کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں یہ بات داخل ہے کہ اپنی طرف سے یہ پیشگوئی شائع کرے کہ آج بارش ہوگی اور اس کے بعد زلزلہ آئے گا اور ایسے وقت میں خبر دی ہو جبکہ دھوپ نکلی ہوئی تھی اور بارش کا کوئی نشان ( نہ ) تھا اور پھر اسی طرح وقوع میں آجائے اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس کا ثبوت کیا ہے تو معزز گواہان روئیت کے نام ذیل میں لکھے جاتے ہیں جن کو یہ پیشگوئی اس وقت سنائی گئی تھی یعنی ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء کی صبح کے وقت جب کہ دھوپ صاف طور پر نکلی ہوئی تھی اور آسمان پر سورج چمک رہا تھا اور بادل کا نام ونشان نہ تھا.“ ان ایک سو سے زائد گواہوں میں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کا نام بھی درج ہے.اندراج اسماء کے بعد حضور تحریر فرماتے ہیں:.یادر ہے کہ اس پیشگوئی میں کہ ایک سخت زلزلہ آئے گا اور آج بارش بھی ہوگی ایک لطیفہ ہے اور وہ یہ ہے کہ زلزلہ زمین سے متعلق ہے اور بارش آسمان سے آتی ہے.پس یہ ایسی پیشگوئی ہے کہ اس میں زمین اور آسمان دونوں جمع کر دیئے گئے ہیں تا پیشگوئی دونوں پہلوؤں سے پوری ہو.کیونکہ یہ امر انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اپنی طرف سے پیشگوئی کرے جس میں زمین اور آسمان دونوں شامل کر دیئے جائیں.بلکہ خود یہ امر انسانی طاقت سے باہر ہے کہ عین دھوپ کے وقت جبکہ بارش کا خاتمہ ہو چکا
۱۰۴ ہو یہ پیشگوئی کرے کہ آج بارش ہوگی اور پھر بارش ہو جائے.“ ۵۵ مولوی ثناء اللہ کا قادیان آنا ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ء کے متعلق مرقوم ہے کہ مغرب کی نماز کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام اندرونِ خانہ تشریف لے جارہے تھے کہ ایک شخص نے مولوی ثناء اللہ کا رقعہ دیا.اور جب عشا کی نماز کے واسطے تشریف لائے تو فرمایا کہ ایک ہی مضمون کے دور قعوں کی کیا غرض تھی...غالبا دوسرا رقعہ یعنی رسید رقعہ لینے کے واسطے تھا....اور وہ رقعہ اس وقت سید سرور شاہ صاحب کے حوالے کیا گیا کہ وہ اسے پڑھ کر اہل مجلس کو سُنا دیں.“ ۵۶.اس رقعہ میں یہ ذکر ہے کہ آپ کی دعوت مندرجہ اعجاز احمدی صفحہ ، صفحہ ۲۳ کے مطابق آیا ہوں.امید ہے کہ آپ میری ہدایت و تفہیم میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں گے اور آپ مجھے اپنے وعدہ کے مطابق اجازت دیں گے کہ مجمع عام میں آپ کی پیشگوئیوں کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کروں.حضور نے جواب تحریر کیا کہ آپ کا جو بھی شک ہو دو تین سطر لکھ کر پیش کر دیں.میں آپ کا اعتراض لوگوں کو سُنا کر ایک گھنٹہ تک جواب دوں گا اور ہر گھنٹہ کے بعد آپ کا پھر اعتراض معلوم کر کے جواب دوں گا.۱۵ جنوری کو ایک مقدمہ کی وجہ سے جہلم جانا ہے.بوجہ کم فرصتی اور طبع کتاب تین گھنٹہ سے زیادہ وقت خرچ نہیں کر سکتا.آپ بغیر اطلاع دیئے آئے ہیں.نیز مباحثات سے کنارہ کشی کا اللہ تعالیٰ سے انجام آتھم میں وعدہ کر چکا ہوں.اس لئے آپ کو گفتگو کی اجازت نہیں تا مباحثہ کا رنگ نہ ہو جائے.رقعہ دے کر حضور نے کہلا بھیجا کہ رقعہ وہاں ان کو جا کر سُنا دیا جاوے اور پھر ان کے حوالے کر دیا جاوے.چنانچہ حسب الحکم حضرت صاحب مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اس رقعہ کو لے کر ثناء اللہ صاحب کے مکان پر گئے.یہ ایک کوٹھڑی تھی جس میں قادیان کی آریہ سماج کا جلسہ وغیرہ ہوا کرتا تھا وہاں مولوی صاحب کے پاس بہت سے آدمی اور تین پولیس میں بھی تھے.وہاں جا کر وہ رقعہ سُنا کر مولوی صاحب کے حوالے کیا گیا.مگر مولوی صاحب نے اس رقعہ کو غور سے نہ دیکھا اور خط دیکھ کر کہا کہ یہ مرزا صاحب کا لکھا ہوا نہیں ہے.مگر ان کو دکھلایا گیا کہ اس پر حضرت مرزا صاحب کی مہر اور دستخط ثبت ہیں.آخری حصہ رقعہ جو کہ بعد میں لکھا گیا تھا چونکہ اس پر حضرت کے دستخط نہ ہوئے تھے اس لئے وہ واپس پھر حضرت کی خدمت میں بھیجا گیا اور ایک صاحب اللہ دینہ نامی نے چاہا کہ اعجاز احمدی کی عبارت پر سید محمد سرور شاہ صاحب سے کچھ گفتگو کرے.مگر سید صاحب نے کہا میرے مخاطب مولوی ثناء اللہ ہیں نہ کہ آپ اور پھر پولیس مین نے بھی ان کو کہہ دیا کہ کوئی کلام زبانی نہ ہو.
۱۰۵ صرف رقعہ کا جواب رقعہ سے دیا جاوے اور باقی کل احمدی احباب کو کہہ دیا کہ وہ اب رقعہ دیے جانے کے بعد اپنے اپنے مقام پر چلے جاویں.اتنے میں رقعہ کا باقی حصہ دستخط ہو کر آ گیا اور مولوی صاحب کے حوالے کر دیا گیا.۵۷ ثناء اللہ نے مباحثہ کی طرح ڈالنی چاہی.جسے حضرت اقدس نے منظور نہ کیا.کیونکہ یہ آپ کے اپنے وعدہ کے خلاف تھا اور مباحثات ترک کرنے کا وعدہ بھی اسی لئے کیا تھا کہ اس سے فوائد کم ہی برآمد ہوتے ہیں اور مولوی ثناء اللہ کوتحقیق حق کی دعوت دی گئی تھی اور اس کے لئے کافی موقعہ دیا گیا تھا لیکن ان کوتو تحقیق منظور ہوتی تو بلا اطلاع آ کر مخالفین کے اڈہ میں قیام کیوں کرتے ؟ اور اس وقت کیوں آتے جب حضور ایک مقدمہ کے باعث قریب میں سفر پر جانے والے تھے.اسی وجہ سے مولوی ثناء اللہ نے مباحثہ کا رنگ دینے پر اصرار کیا اور جب اس شر انگیزی کا موقع نہ ملاتو واپس چلے گئے.اس سلسلہ میں بارشاد حضرت اقدس آخری چٹھی مولوی سید محمد احسن صاحب نے مولوی ثناء اللہ کولکھی کہ حضرت اقدس اللہ تعالیٰ سے وعدہ اجتباب مباحثات کر چکے ہیں.مامور من اللہ ہونے کے باعث وہ خلاف وعدہ نہیں کر سکتے.اس چٹھی پر مولوی سرور شاہ صاحب و ابوسعید عرب کی شہادت ثبت ہے.۵۸ موضع مد کے متعلق پیشگوئی کا پورا ہونا ایک سال کے قلیل عرصہ میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی اپنے پورے جلال اور کمال کے ساتھ پوری ہوئی.چنانچہ مرقوم ہے کہ:- ۱۵/ نومبر ۱۹۰۳ء کو کتاب اعجاز احمدی میں حضرت اقدس نے موضع مد کے متعلق اپنے عربی قصیدہ میں ایک پیشگوئی کی تھی جس میں صراحتا بتلایا گیا تھا کہ عنقریب مد کی زمین تباہ ہوگی.چنانچہ اس کتاب کے صفحہ ۴۵ پر اوّل شعر یہی ہے.ارای ارض مُةٍ قد أريد تبارها وغادرهم ربـی کـعُـصـن تـجـدر میں مد کی زمین دیکھتا ہوں کہ اس کی تباہی نزدیک آ گئی ہے اور میرے رب نے ان کو کٹی ٹہنی کی طرح کر دیا.) سو الحمد للہ ! کہ وہ بات پوری ہو کر رہی.مد ایسا مقام ہے کہ جس کی آبادی دو
1+7 ڈھائی سو آدمی سے زیادہ نہیں ہے اور اب ان میں سے ۱۰۸ طاعون....سے ہلاک ہو چکے ہیں اور ابھی طاعون نے اپنا خیمہ وہاں سے اٹھایا نہیں ہے.یہ ہلاکت وہاں نہ آتی اگر حضرت مسیح موعود کے اس بتائے ہوئے علاج پر عمل درآمد کیا جاتا اور اپنی شرارتوں سے توبہ کی جاتی جو کہ آپ نے اسی قصیدہ کے صفحہ ۶۳ پر لکھا ہے اور وہ یہ ہے.وليس علاج الوقت الا اطاعتى اطيعون فالطاعون يفنى ويُدحر ( علاج وقت میری اطاعت ہے.پس وہ یہی طاعون کہ ان کے ملک میں پہنچ گئی ہے تا ان کی آنکھیں کھلیں.) اور اس قصیدہ میں صفحہ ۵۶ پر مڈ کی نسبت دعا کے رنگ میں ایک اور پیشگوئی ہے.لقوم هذى لا بارك الله مُد هم جهول فادي حق كذب فابشروا ( اس شخص نے ایک قوم کی خاطر کے لئے بکواس کی.خدا ان کے مذ کو برکت نہ دے.یہ شخص جاہل ہے.اس نے دروغ گوئی کا حق ادا کر دیا.اس لئے وہ لوگ خوش ہو گئے ) کاش کہ سوچنے والے سوچیں اور دیکھنے والے دیکھیں کہ کیا یہ ایک نشان صداقت کا نہیں ہے.ابھی چند ماہ ہوئے کہ ہم نے اخباروں میں پڑھا تھا کہ ایک شخص نے بنگال میں دربار دہلی وغیرہ کی تقریب پر چند ایک پیشگوئیاں کی تھیں مگر ایک بھی پوری نہ ہوئی اور ادھر یہ پیشگوئی ہے کہ جس کا قائل اُسے اپنی صداقت کا معیار ٹھہراتا ہے اور اپنی زندگی میں اپنے کلام کے پورا ہونے کا ثبوت دیتا ہے.‘ ۵۹ (حضرت اقدس نے فرمایا مد سے خبر آئی ہے کہ اس جگہ آبادی کچھ اوپر دو سو آدمی کی ہے اور اب تک ایک سو تین آدمی مر چکے ہیں اور ابھی چار پانچ روز مرتے ہیں.اس پر حضرت اقدس نے حکم دیا کہ اخباروں میں مد کے متعلق پیشگوئی مندرجہ قصیدہ اعجاز احمدی کو شائع کر کے دکھائیں اور مولوی ثناء اللہ وغیرہ کو آگاہ کریں کہ وہی الفاظ جن پر وہ مقدمہ بنوانا چاہتا تھا.خدا تعالیٰ اب پوری کر رہا ہے.اب لوگ سوچیں
۱۰۷ کہ وہ حق تھایا نہیں.“ ۶۰ یہ پیشگوئی سات سال بعد دوبارہ پوری ہوئی.چنانچہ مخالفین دل اور زبان سے اس کا اقرار کر نے اور ملا ؤں کو بُرا بھلا کہنے لگے.مرقوم ہے کہ:- برادر محمد یعقوب صاحب اطلاع دیتے ہیں کہ موضع مد میں بیماری طاعون ترقی پر ہے.وہاں کی عورتیں ملانوں کو گالیاں دیتی ہیں کہ انہوں نے غیر احمدی ملاں بلوائے اور مرز اصاحب کے حق میں سخت گوئی کی.اس واسطے بیماری پھیلی.‘ 11
1+9 ا: حوالہ جات الحکم مورخه ۱۰/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵ البدر مورخه ۱۹۰۲-۱۰-۳۱ سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت ۵۰۸ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۰۸ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۰۹ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ - صفحه ۱۱۲ کے اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۱۶ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۱۷ : 9 : اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۱۸ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۱۸ ال اعجا ز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۲۱ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۲۵ ۱۳ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲۸ ۱۴ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۲۹ ها اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۳۱ ۱۳۲ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹- صفحه ۱۳۲ کا اعجا ز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۳۶ : ۱۸ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۳۹ ۱۹ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحه ۱۴۰ ۲۰ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴۰
11.اعجا ز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴۳ البدر مورخه ۱۳/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۲ ۲۳ البدر ۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۹ ۲۴: البدر مورخه ۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۹-۲۰ ۲۵ البدر مورخه ۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۱ البدر مورخه ۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۲ الحکم مورخہ ۱۴ نومبر ۱۹۰۲ء ۲۸ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۰۷ : الحکم مؤرخه ۱۰/ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۴ البدر مورخه ۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۳ اسے اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴۵ تا ۱۴۸ ۳۲ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹- صفحه ۲۰۲ تا ۲۰۵ : الحکم مؤرخہ ۱۷/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵ ۳۴ : الحکم مؤرخه ۲۴ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳ ۳۵ : الحکم ۲۴ / نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۳ الحکم مؤرخه ۲۴ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۳ ۳۷ : الحكم مؤرخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۲ء صفریم : الحکم مؤرخہ ۱۷/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ ۳۹ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحه ۲۰۴ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۱۹۷-۱۹۸ ات البدر ۱۵ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۵ ۲۲ : الحکم مؤرخہ ۱۶ جولائی ۱۹۰۰ ء زیر دارالامان کا ہفتہ :۲۳ بحوالہ روایت مندرجہ الفضل مؤرخه ۱۹۶۸-۱-۱۰ صفحه ۵ ۴۴ : بحوالہ روایت ۱۰۷ مندرجہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل طبع دوم ۲۵ البدر مورخہ ۲۳/۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء
الحكم مؤرخہ ۳۱ / جولائی و ۱۰ راگست ۱۹۰۴ء صفحه ۱۴ الحکم مؤرخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۵ ، صفحه ۱۱ الحکم مؤرخہ ۲۴ / جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۱۱ الحکم مؤرخه ۲۸ جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۳ ۵۰ الحکم مؤرخہ ۱۹۰۷-۳-۳۰ صفحه ۱۵ اه بابت اکتوبر ۱۹۰۶ ء صفحه ۱۶۸ ۵۲ : بدر مورخه ۱۲ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۳ ۵۳ : رسالہ تعلیم الاسلام جلد نمبر صفحه ی۲ ۵۴ : ذکر حبیب صفحه ۱۴۷ ۵۵ اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۲۲ - صفحه ۴۸۹ تا ۴۹۲ ۵۶ : البدر مؤرخہ ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۹۳ (مفهوماً) ۵۷ : البدر مورخه ۱۶/جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۹۴ ۵۸ : الحکم مؤرخہ ۷ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۸ ۵۹ البدر مورخه ۲۲ مئی ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۴۲ : الحکم مؤرخه ۱۷ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۲ ال بدر مورخه ۳ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۱
اصحاب احمد حصہ دوم سیرت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مؤلف ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے
۱۱۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَنُصَّلِيْ عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُود حمد وثناء عرض حال الحمد الله حمدًا كثيرًا کہ اس کے فضل و رحم کے ساتھ خاکسار کو اس وقت تک قریباً ڈیڑھ صد صحابہ کرام کے تفصیلی سوانح قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی توفیق حاصل ہوئی ہے.میری روح اس کے حضور سجدہ ریز اور دعا کناں ہے کہ اس کام کی تکمیل کی توفیق عطا ہو اور یہ امر اس کی رضا کا موجب بنے.آمین خاکسار کی طرف سے حضرت مولوی صاحب کے سوانح کا خلاصہ آپ کی وفات کے معا بعد الفضل میں جون اور جولائی ۱۹۴۷ء کی چار اشاعتوں میں شائع ہوا تھا.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی نظر فیض اثر ان پر پڑی اور حضور نے ایک امر کے متعلق ذکر بھی فرمایا ، جس کا کتاب میں ذکر بھی ہوگا.بابت تالیف ہذا تالیف ہذا اصحاب احمد جلد پنجم کا حصہ دوم ہے.حصہ اول میں استاذی المحترم والمعظم حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کا پہلو شامل نہیں کیا جا سکا تھا جواب تکمیل پذیر ہوا ہے.آپ کے جو شاگرد اپنے تاثرات ارسال نہیں کر سکے.ان کے تاثرات طبع دوم کے وقت شامل کئے جاسکتے ہیں اور ان کی ترسیل میں تا خیر نہ فرمائیں.کتاب ہذا میں حضرت مولوی صاحب کی عمر، تاریخ بیعت ، ہجرت و شادی کی تعیین کے متعلق قطعی قرائن جمع کئے گئے ہیں.نئی پود کے لئے تحریک احمدیت کی اولین نصف صدی کی تاریخ کے متعلق بفضلہ تعالیٰ مفید مواد جمع کیا گیا ہے.
شکر یہ احباب Σ ١١٦ میں تمام احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مشورہ کے رنگ میں یا خریدار مہیا کر کے غرضیکہ کسی نہ کسی رنگ میں میری مددکر کے حوصلہ افزائی فرمائی اور اسلام واحمدیت کی برکت سے حقیقی اخوت کا سلوک کیا.-1 اس طویل فہرست میں سے چند ایک کے اسماء درج ذیل کرتا ہوں :- خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام : حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ، حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ زا دمجد ہا، نوابزادہ عباس احمد خان صاحب ، محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب، محترمہ بیگم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (وکیل التبشیر ) سید داؤ د احمد صاحب ( پرنسپل جامعہ احمدیہ ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ( انچارج وقف جدید ).۲- قادیان مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی.اے، ( ناظر امور عامه و خارجہ ) چوہدری محمود احمد صاحب عارف ( معاون ناظر امور عامه ) مولوی محمد عبد اللہ صاحب ( معاون ناظر دعوۃ و تبلیغ.سابق سیکر ٹری بہشتی مقبرہ ).ربوه: مولانا جلال الدین صاحب شمس (ناظر اصلاح و ارشاد ) ، سید عبدالرزاق شاہ صاحب ( خلف حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب ، مولوی عبدالرحمن صاحب انور (پرائیویٹ سیکرٹری ) چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ مجاہد سوٹزرلینڈ (سابق امام مسجد لندن و وکیل الزراعت) چوہدری ظہور احمد صاحب (آڈیٹر)، چوہدری صلاح الدین احمد صاحب بی.اے.ایل ایل بی (ناظم جائداد) ، قریشی عبدالرشید صاحب ارشد بی.اے.ایل ایل.بی ) سابق وکیل المال اول) ، ملک سیف الرحمن صاحب ( مفتی سلسله و پروفیسر ماریشس ) ، مولوی بشارت احمد صاحب بشیر سندھی مجاہد مغربی افریقہ ( سابق نائب وکیل التبشیر ) ، چوہدری محمد شریف صاحب مجاہد گیمبیا مغربی افریقہ (سابق مبشر بلاد اسلامیہ ) چوہدری محمد صدیق صاحب (لائبریرین خلافت لائبریری) ، مولوی غلام باری صاحب سیف ( پروفیسر جامعہ احمدیہ ) ، عزیزم ملک منور احمد صاحب ایم.ایس.سی ( کارکن فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) مرزا فتح دین صاحب (سپرنٹنڈنٹ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ) چوہدری محمد انعام اللہ صاحب (خلف حضرت با بوا کبر علی صاحب).
۱۱۷ سرگودھا: - -۵ مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ (امیر صوبائی ) لاہور : چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر (امیر جماعت ) خواجہ محمد شریف صاحب ( مالک بنگال ٹیکسٹائل کارپوریشن.برانڈرتھ روڈ ) اور ان کے صاحبزادہ خواجہ محمد ظفر صاحب ، صلاح الدین صاحب بٹ ( نیا سلطان پوره ) ، ملک عبداللطیف صاحب ستکو ہی سیکرٹری اصلاح وارشاد ( مالک پیپر کارنر گنپت روڈ ) -7 لاسکپور: شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ (امیر جماعت ) الحاج شیخ عبداللطیف صاحب ( قائد خدام الاحمدیہ ) چوہدری احمد دین خان صاحب بی.اے (خلف حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام ) ، میاں مبارک علی صاحب لائکیورٹمبر سٹور.ے.سابق صوبہ سرحد : سلیم اللہ صاحب (صوبیدار ،پنشنز ، مقیم نوشہرہ چھاؤنی ) چوہدری محمد سعید احمد صاحب انجینئر (سابق قائد خدام الاحمدیہ لاہور.جلد میں کتابت کی غلطی سے انجینئر کا لفظ ایجنٹ میں تبدیل ہو گیا.کوئٹہ: شیخ محمد حنیف صاحب (امیر جماعت ) عبدالرحمن خان صاحب ایجنٹ اخبارات ( سابق در ولیش) - کراچی: مہر محمد عبد اللہ صاحب ، عبدالرحیم صاحب مدہوش رحمانی، تاثیر صاحب احمدی ( جلد میں کتابت کی غلطی سے ان کا نام کوئٹہ میں درج ہو گیا ) ۱۰- سابق سندھ : صوفی محمد رفیع صاحب ڈی.ایس.پی ریٹائرڈ (امیرا پر ڈویژن ) خان فضل الرحمن خان صاحب ( سول انجینئر ، ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری حیدر آباد پاک) چوہدری محمد اسمعیل صاحب خالد میجر محمد آباد اسٹیٹ (ضلع تھر پارکر) چوہدری فضل احمد صاحب مینجر بشیر آباد اسٹیٹ (ضلع حیدر آباد ) ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب، ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب نواب شاہ.
۱۱۸ 11- بھارت: منشی محمد شمس الدین صاحب ( سابق امیر جماعت کلکتہ ( الحاج مولانا محمد سلیم صاحب فاضل کلکتہ (سابق مبشر بلاد اسلامیہ ) الحاج مولوی محمد اسمعیل صاحب یادگیری وکیل یادگیر.سیٹھ محمد الیاس صاحب یادگیری.۱۲- اقارب میں سے چوہدری محمد حسین صاحب ( والد ماجد ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پروفیسر لندن ) اور ڈاکٹر صاحب، ملک حبیب الرحمن صاحب ڈویژنل اسٹنٹ انسپکٹر مدراس، عمویم حکیم دین محمد صاحب پنشن دار الرحمت ربوہ اور ان کی دختر نعمت اللہ صاحبہ ثروت، عمویم ملک غلام احمد خان صاحب مالک دارالفضل ڈسپنسری (بصیر پور ضلع منٹگمری ) اور ان کے صاحبزادہ ملک خلیل احمد صاحب مقیم لندن - اخویم ملک برکت اللہ صاحب بی.اے ایل ایل بی (منٹگمری) اخویم ملک حشمت اللہ و ملک ذکاء اللہ صاحبان مقیم شکا گو، امریکہ ) عمزاد ملک مبارک احمد صاحب ارشاد کراچی اور ان کی اہلیہ محترمہ.۱۳.بیرون ہند و پاک : حافظ صالح محمد الہ دین صاحب سکندر آباد (حال مقیم امریکہ ) حنیف جواہر صاحب (ماریشس ) نیاز احمد صاحب (بحرین) الحاج محمد شریف صاحب ( بمقام احمدی خلیج فارس)، چوہدری مختار احمد صاحب ایاز ( ٹانگانیکا، مشرقی افریقہ ) چوہدری محمد حسین صاحب کھوکھر ( بمقام جنجہ، یوگنڈا ، مشرقی افریقہ ) ، ڈاکٹر عبداللطیف صاحب ( عدن) مولوی عبد الکریم صاحب شرما ( مجاہد مشرقی افریقہ ( فجزاهم الله احسن الجزاء في الدنيا و الاخرة آمين ۱۴ دفتر بہشتی مقبره ربوه: قاضی عبدالرحمن صاحب سیکرٹری مجلس کار پرداز بہشتی مقبره ربوہ اور آپ کے عملہ کا بھی بہت ممنون ہوں جنہوں نے دفتر وصیت سے متعلق حضرت مولوی صاحب کی کارکردگی کے بارے میں خندہ پیشانی سے مجھے مواد مہیا کیا اور اس تعاون کو اپنا فرض منصبی سمجھا.فجزاهم الله احسن الجزاء.طریق اعانت بصورت خریداری یہ امر کسی سے مخفی نہیں کہ اس سلسلہ تصنیف کے لئے بہت سے اخراجات کرنے پڑتے ہیں جن سے استفادہ سالہا سال بعد ہوتا ہے لیکن اخراجات فوری طور پر کرنے پڑتے ہیں.نیز خط وکتابت پر کافی اخراجات
١١٩ سال بھر اٹھتے ہیں.مطالعہ کے لئے کتب و اخبارات سلسلہ کے علاوہ بھی لٹریچر خریدتا ہوں جن سے تالیف میں بھاری مددملتی ہے.چنانچہ اصحاب احمد جلد یاز دہم میں ایسے لٹریچر سے کافی استفادہ کیا گیا ہے.خاکسار کی تالیفات کو خرید کر اور مستقل خریدار بن کر حوصلہ افزائی کرنا اس کا م کو تند ہی سے جاری رکھنے میں بہت مد ہو سکتا ہے.صاحب توفیق احباب یکصد یا پچاس یا پچیس روپے یکمشت یا باقساط ادا کر کے ہمیں دس یا پانچ جلدیں ( سابقہ اور آئندہ ) حاصل فرما ئیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک تین ہزار سے زائد صفحات شائع کئے جاچکے ہیں اور قریباً ڈیڑھ صدصحابہ کے سواخ پیش کر چکا ہوں.درخواست دعا احباب دعا فرمائیں کہ صحابہ کرام خصوصاً سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی.سیدنا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی عمروں اور صحت میں اللہ تعالی خارق عادت برکت ڈالے اور صحابہ کے زمانہ کو بہت ممتد فرمائے اور خاکسار کو اصحاب احمد کے کام کی تعمیل کی اور احباب کرام کو حالات مہیا کرنے کی توفیق عطا کرے اور خاکسار کی قلمی خدمت اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہو اور جس دوست نے سب سے زیادہ اس کام میں اعانت کی ہے اللہ تعالیٰ اسے دینی و دنیوی برکات سے نوازے.آمین 11 جنوری یوم الجمعہ بیت الفکر.دار امسیح قادیان والسلام خاکسار ملک صلاح الدین ایم.اے ممبر و آڈیٹر ہر سہ انجمن ہائے ( صدر انجمن احمد یہ انجمن تحریک جدید و انجمن تحریک وقف جدید )
۱۲۰
۱۲۱ نئے تبصرے بہت سے بزرگانِ کرام کے تبصرے گذشتہ جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں.بعض احباب کے نئے تبصرے پیش کئے جاتے ہیں :- ۱- حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (صدر.صدر انجمن احمد یہ پاکستان) رقمطراز ہیں: -۲ ’اصحاب احمد کی گیارھویں جلد مؤلف ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے کو دیکھنے کا موقعہ ملا ہے بہت عمدہ مرقع ہے.مکرم چوہدری نصر اللہ خان صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ اور ان کے فرزندانِ گرامی سے متعلقہ جملہ ضروری حالات کو نہایت محنت سے یکجا کر دیا ہے.اور ہر واقع کی سند بھی ساتھ ہی درج کر دی گئی ہے اور ان کی مذہبی سیاسی اور ذاتی کارگزاریوں کا بہت خوبی سے ذکر کیا ہے جس سے مکرم چوہدری صاحب اور ان کے خاندان کے علو مرتبت کا نقشہ کھینچ جاتا ہے اور ان سب کے لئے دعا طبیعت اپنے آپ کو مجبور پاتی ہے.یہ کتاب انسائیکلو پیڈیا کا کام دیتی ہے.اس میں مکرم ملک صلاح الدین صاحب نے بہت محنت سے سلسلہ کے لٹریچر اور دیگر اخبارات اور کتب سے جملہ ضروری امور کو یکجا کر دیا ہے.فجزاه الله احسن الجزاء الفضل ۶۳-۱-۲۷ ) ۲ مکرم منشی محمد شمس الدین صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ کلکتہ تحریر فرماتے ہیں: " بے شک آپ نے بہت بڑا کام شروع کر رکھا ہے.اللہ تعالیٰ صحت و سلامتی وو کے ساتھ اس کام کی تکمیل میں بھی مددفرما دے.آمین.“ اخویم چوہدری نورالدین صاحب ایم.ایس سی.ریسرچ آفیسر.لا ہور ( خلف حضرت حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کریام ) تحریر فرماتے ہیں: آپ جس رنگ میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات جمع کر کے شائع فرما رہے ہیں وہ یقیناً قابل رشک ہیں اور احمدیت کی بڑی خدمت.
۱۲۲ - اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کی بیش از پیش جزائے خیر دے اللهم آمین.اور وہ آپ کی ہر طرح سے مددفرمائے.آمین مکرم مرزا احمد منان صاحب لندن سے رقم فرماتے ہیں: " آپ صحابہ اور اب تابعین کی تاریخ مکمل کرنے میں لگے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ جو کہ بے حد قدردان اور رحیم و کریم اور فضل کرنے والا ہے آپ کی محنت اور کوششوں کو بر لائے اور اس سے بڑھ کر آپ کو توفیق دیتا جائے.“ ایک اور مکتوب میں تحریر کرتے ہیں : ” مجھے آپ کی محنت کوشش اور اخلاص کا اچھی طرح علم ہے.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے ہماری جماعت میں آپ جیسے انسان پیدا کئے جن کو بزرگوں کی تاریخ میں خاص دلچسپی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاص.جد و جہد میں برکت ڈالے اور احباب جماعت کے دلوں میں تحریک پیدا کرے کہ وہ آپ کی مدد ہر طریقہ سے کریں.یقین جانیں آپ نے جو کام خود اپنے ذمہ لیا اور پھر نہایت احسن طریق سے با وجود مشکلات اور وہ بھی مالی مشکلات کے اسے سرانجام دے رہے ہیں آنے والی نسلیں آپ کو کبھی نہ بھولیں گی.جس نے بھی محنت کی تاریخ نے کبھی ایسی ہستیوں کو فراموش نہیں کیا.اللہ تعالیٰ برکت پر برکت دے.“ -۵- محترم اخویم حافظ صالح محمد الہ دین صاحب امریکہ سے تحریر فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ آپ کا کارساز رہے اور اس بابرکت کام کو احسن طور پر آپ جاری رکھ سکیں.آمین ثم آمین.“ -۶- محترم مولوی محمود الحسن صاحب ہیڈ مولوی مدرسہ بخشا ہی ، آگرہ لکھتے ہیں: -2 آپ کی مؤلفات مجھ کو مل گئی ہیں.جزاكم الله تعالى احسن الجزاء - بیساختہ ان کو پڑھ کر زبان پر تھا کہ ؎ اے وقت تو خوش کہ وقت ما خوش کر دی محترم خان فضل الرحمن خان صاحب سول انجینئر پاک ذیل سیمنٹ فیکٹری حیدر آبا دسندھ لکھتے ہیں : " آپ...( اس ) اہم کام کو اس ہمت اور جوانمردی سے ادا کر رہے ہیں.“
۱۲۳ -^ -9 محترم سیٹھ محمد یوسف صاحب بانی تاجر کلکتہ رقم فرماتے ہیں: آپ اس سلسلہ میں جماعت کی جو خدمت کر رہے ہیں اس وقت بھی ہم لوگ اس کی قدر و قیمت کا اعتراف کرتے ہیں مگر آنے والی احمد یہ نسلیں تو انشاء اللہ آپ کو بہت دعائیں دیں گی.“ اخویم مولوی عبدالرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی تحریر فرماتے ہیں : "آپ کی مصروفیتوں کا علم ہوتا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بہت بہت جزا دے.آپ کے جمع کر دہ خزینے ابدالاباد تک لوگوں کے لئے فائدہ کا موجب ہوتے رہیں گے.“ ۱۰- اخویم کریم الدین خان صاحب سابق صدر جماعت ساندھن (ضلع آگرہ.یو.پی ) میں آپ کی کتاب اصحاب احمد جلد نہم لئے ہوئے پڑھ رہا تھا کہ مجھے نیند آئی خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام و حضرت خلیفة أسبح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ میرے پاس تشریف لاتے ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ میرے سامنے کھڑے ہو کر مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اس کے برابر پیسے دو.پھر کہا اچھا آدھے دو.پھر کہا اچھا پڑھ کر دو.مگر دو اور جو ہو سکے سودو.“ -۱- محترم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل مہاجر قادیان ربوہ رقمطراز ہیں: 11- سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب کے حالات جو ان کے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہونے کے متعلق ہیں مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے شائع فرما رہے ہیں.حال ہی میں جلد دواز دہم.(یاز دہم مراد ہے.ناقل ) چھپی ہے جو چوہدری نصر اللہ خان صاحب کے حالات پر مشتمل ہے اس میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی پیدائش اور ان کی والدہ محترمہ کے ایمان افروز واقعات بھی ہیں.یہ سلسلہ نہایت مفید اور آئندہ آنیوالی نسلوں کے لئے دیس راہ اور حقائق آگاہ ہے.ضروری ہے کہ جہاں ہر سال ایک نہ ایک ضخیم جلد اکابر کے سوانح پر شائع ہوتی ہے وہاں دوسرے کئی ایک اصحاب کے جستہ حالات پر مبنی جلد بھی چھپے تا کہ سارا میٹریل جلد منصہ شہود پر آسکے.اس کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم ایک ہزار مستقل خریدار ہوں جن کو کتاب چھپتے ہی بھیجی جا سکے اور آئندہ دوسری جلد کے اخراجات مہیا ہوسکیں.بہتر ہے کہ شہروں اور
۱۲۴ -١٢ دیہات کے علاقے مقرر کر لئے جائیں اور ان میں رہنے والے احمدیوں کے بزرگوں یا خواص کے سوانح مرتب کر لئے جائیں اور ساتھ ہی اس علاقہ کی احمدی جماعتیں اور ور ثنا بالخصوص اس کتاب کی طباعت کا خرچ بھی جمع کر دیں جو بآسانی دیا جاسکتا ہے حالات اس طریق پر لکھے اور جمع کئے جائیں جیسا کہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب سابق سرحد نے احمدی اصحاب کے سوانح شائع کئے.یہ کام جلد سرانجام ہونا چاہیئے کیونکہ اصحاب کی تعدا درفتہ رفتہ بہت کم ہورہی ہے چنانچہ بدر میں چھپا ہے کہ خطہء کشمیر کے آخری صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انتقال ہو گیا ہے.(بدر۶۳-۱-۲۴) از مکرم جناب مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ سابق صوبہ پنجاب بشمول بہاولپور : اصحاب احمد کی گیارہویں جلد بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے شائع ہوگئی ہے.یہ جلد جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے والد بزرگوار حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور والدہ ماجدہ کے حالات زندگی پر مشتمل ہے.محترم ملک صلاح الدین صاحب ان کتابوں کی تدوین اور اشاعت کے لئے بہت محنت اور جانفشانی سے کام کر رہے ہیں.فجزاهم الله احسن الجزاء - یہ کتابیں تاریخ احمدیت کا ضروری حصہ ہیں اور آئندہ آنیوالی نسلوں کے لئے مشعل راہ کا کام دیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک صحبت میں بیٹھنے والوں نے اپنے اندر کیا کیا تبدیلی کی اور دین کے لئے کس کس رنگ میں قربانیاں کیں یہ سبق سیکھنے کے لائق ہے.مؤلف کتب ان کی اشاعت کی وجہ سے بہت زیر بار رہتے ہیں.ہمیں چاہیئے کہ ہم ان کے بوجھ کو ہلکا کریں اور ان کتابوں کی خریداری کو وسیع کریں تا کہ وہ اس کام کو آگے چلا سکیں موجودہ جلد کی فروخت ابھی تک اتنی کم ہوئی ہے کہ اصل لاگت کا بھی آٹھواں حصہ وصول ہوا ہے جو قابل افسوس ہے دوستوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیئے.“ (الفضل ۶۳-۱-۱۶) ۱۳ - مؤقر الفضل رقمطراز ہے: اصحاب احمد جلد یاز دہم.مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان ایک عرصہ سے اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات کو بڑی محنت و کوشش کے
۱۲۵ ساتھ جمع کر کے اصحاب احمد کے نام سے شائع کر رہے ہیں اور اس طرح ایک اہم اور قابل قدر جماعتی خدمت سر انجام دے رہے ہیں.حال ہی میں آپ نے اصحاب احمد کی جلد یاز دہم شائع کی ہے جو حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ اور ان کے فرزندانِ گرامی کے نہایت ایمان افروز حالات و واقعات پر مشتمل ہے جماعتوں اور احباب کو چاہیئے کہ اس کتاب کو بھی بکثرت خریدیں اور اس کی اشاعت میں ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کریں.(۶۳-۲-۵).۱۴- مکرم مولوی جلال الدین صاحب قمر مبشر بلاد اسلامیہ مقیم فلسطین رقم فرماتے ہیں: تابعین اصحاب احمد کے دو نسخے موصول ہو چکے ہیں جن میں الحاج محمد المغر بی کے حالات بھی درج ہیں جنہیں پڑھ کر خوشی ہوئی.نیز احباب جماعت کو بھی سنائے جنہیں سن کر وہ بھی خوش ہوئے.نیز آپ کی شائع کردہ اصحاب احمد کی احمد“ دسویں جلد تک کی تمام کتب مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہے ان میں روح کی تسکین و ترقی کے بیش قیمت واقعات و مضامین آگئے ہیں.میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ جب بھی طبیعت اند و بگیں ہوتی ہے (وما اكثرا لهموم في هذه الدنيا ) تو اصحاب احمد کی کسی جلد کا مطالعہ شروع کر دیتا ہوں اور طبیعت ان مادی علاقوں سے آزاد ہو کر کسی اور ہی عالم میں پہنچ جاتی ہے جہاں صفات الہی کی پُر جوش تجلیوں کے مناظر دل و دماغ پر چھا جاتے ہیں اور خدمت دین کے لئے ایک نئی امنگ پیدا ہوتی ہے حضرت اقدس کے اصحاب کے عشق و قربانیوں کے واقعات مردہ دلوں کو جلانے والے ہیں غرض ان کتب کے مطالعہ سے انسان دعا اور تعلق باللہ کی طرف مائل ہوتا ہے اور بار ہا آنکھیں اشکبار ہو کر گناہوں اور کمزوریوں کو دھونے کا باعث ہوتی ہیں ایسے اوقات میں آپ کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی خدمات کو اپنے فضلوں سے نوازے اور تمام مشاکل مالی وغیرہ کو اپنے فضلوں سے دور فرمائے.آمین.“ ( مکتوب مورخه ۶۲-۸-۱۴) ۱۵- اخویم الحاج مولوی محمد اسمعیل صاحب وکیل یادگیری ( دین ) لکھتے ہیں: ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے کو میں طالب علمی کے زمانہ سے جانتا ہوں اور ایک ذہین اور محنتی طالب علم تھے اور ہمیشہ ایک خاموش طبیعت....انسان
۱۲۶ رہے اور اپنی سخت محنت سے اپنے عزم کو ہمیشہ پورا کرنے کی کوشش کرتے رہے.طالب علمی کے زمانہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل نے ان کو حضرت امیر المؤمنین ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پرائیویٹ سیکرٹری بنے کی توفیق دی اور سلسلہ کے دوسرے کاموں میں وہ تن من دھن سے مشغول رہے.حضرت عرفانی صاحب کبیر کو ان سے بہت محبت تھی.وہ ان کے کاموں کی نہ صرف ہمیشہ تعریف کرتے تھے بلکہ تعاون کا ہاتھ بھی بڑھاتے اور ہمیشہ نیک مشورے دیتے رہے اور اصحاب احمد کے مسودات کی صحت بھی فرماتے اور اس میں اپنا قیمتی مشورہ بھی دیتے.میں پابندی سے اصحاب احمد پڑھتا ہوں.ان کا یہ کام رہتی دنیا تک انشاء اللہ زندہ جاوید رہے گا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے تمام کارناموں کو قبول فرما کر ملک صاحب کو اجر عظیم بخشے اور مزید احمدیت کی خدمت کی توفیق دے.میں نے اصحاب احمدکو ہر اعتبار سے مفید پایا تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا.اخویم مولوی دوست محمد صاحب شاہد کی تالیف تاریخ احمدیت حصہ سوم کے شائع ہونے پر آپ اظہار مسرت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: د شکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ تک کے واقعات آگئے.مگر یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ حوالہ اصحاب احمد کا ذکر جگہ بہ جگہ ہے.کتنا بڑا صدقہ جاریہ ہے جو آپ کے نامہ اعمال میں آ گیا.تاریخ احمدیت میں آپ جگہ بہ جگہ ہیں.“ (حصہ دوم وسوم اور حیات طیبہ تالیف اخویم شیخ عبد القادر صاحب میں پینسٹھ اور تذکر طبع ثانی میں اٹھارہ حوالے درج ہوئے ہیں ) مکرم سید بدرالدین صاحب معلّم وقف جدید بمقام سمولیہ ( علاقہ رانچی بہار تحریر کرتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو اس مبارک کام کی توفیق دے کر زندہ جاوید بنا دیا.ذَالِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاء اللہ تعالیٰ احباب کی حسن ظنی کو مبدل بہ حقیقت کر دے.آمین.و ما ذلک علی الله بعزیز.“ ۱۷- حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعتہائے پشاور ڈویژن نے تحریر فرمایا : - ( افسوس کہ آپ وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللہ تعالیٰ آپ کے مدارج بلند فرمائے آمین )
۱۲۷ " ” خدا تعالٰی آپ کو صحت دے.ہمت دے.استقامت دے.تا کہ آپ اصحاب احمد کے حالات کے قلمبند (کرنے) اور اشاعت میں کامیاب ہوں.66 خدا تعالیٰ آپ کا اور آپ کی اولاد کا حافظ و ناصر ہو...آمین.“ ۱۸ - مؤقر ماہنامہ ” خالد ربوہ رقطر از ہے: اصحاب احمد جلد یاز دہم.یہ مضخیم کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک صحابیہ اور دوصحابہ یعنی کے حالات زندگی پر مشتمل ہے.کتاب کے مؤلف مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے درویش قادیان کسی تعارف کے محتاج نہیں سالہا سال سے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے حالات جمع کرنے کا کام بڑی محنت و جانفشانی سے کر رہے ہیں.اس سلسلہ میں ” اصحاب احمد کی دس جلد میں اس سے قبل شائع کر چکے ہیں.یہ کتا بیں تاریخ احمدیت کا ایک ضروری حصہ ہیں اور آئندہ آنیوالی نسلوں اور قوموں کے لئے مشعلِ راہ کا کام دیں گی.سابقہ جلدوں کی طرح زیر نظر تالیف کے لئے بھی ملک صاحب نے سلسلہ کے لٹریچر، اخبارات ورسائل اور دیگر ہر ممکن ذریعہ سے جملہ ضروری معلومات نہایت محنت و قابلیت اور سلیقہ سے یکجا کر دی ہیں اور حتی الوسع ہر اہم واقعہ کی سند بھی ساتھ درج کر دی ہے جس سے کتاب کی تاریخی حیثیت بھی مسلم ہو جاتی ہے.ان دلچسپ اور ایمان افروز کتب کا مطالعہ نو جوانوں کے لئے خصوصاً بے حد مفید ہو گا.زیر نظر جلد بڑے سائز پر عمدہ کاغذ کے ۴۰۸ صفحات پر مشتمل ہے کتاب و طباعت بھی عمدہ ہے.بابت فروری ۱۹۶۳ء سر ورق ص آخر ) ۱۹.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ نے دو مکتوبات میں خاکسار کور تم فرمایا تھا:.” میں نے اپنے میاں مرحوم کی زندگی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ وہ ایک اونچی کرسی پر بیٹھے ہیں.جگہ بھی اونچی ہے جیسے تخت اور ایک جوان آدمی ( میں نے پشت ہی دیکھی ہے ) لمبا کوٹ یا اچکن پہنے ہاتھ میں ایک کتاب لئے آتا ہے اور مؤدب ہو کر گھٹنوں کے بل ان کے سامنے زمین پر بیٹھ کر جیسے نذرانہ دیتا ہے.وہ کتاب پیش کرتا ہے اور وہ کتاب پکڑ کر دیکھتے اور خوشنودی کی نظر سے اس جوان کی جانب دیکھ رہے ہیں.جب میں نے ان کے متعلق اصحاب احمد ( جلد دوم.ناقل ) کتاب دیکھی تو وہی سائز ، وہی تقطیع تھی اور مجھے وہ پرانا خواب یاد آ گیا.
۱۲۸ شاید چار روز ہوئے آپ کے خط سے پہلے میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ میرے کمرے میں آئے ہیں...میں اور حضرت منجھلے بھائی صاحب ہیں اور سامنے حضرت سید نا بڑے بھائی صاحب تشریف رکھتے ہیں.میں نے سفید پشمینہ کی چادر سر پر اوڑھ لی ہے کہ پردہ رہے اور آپ ہمارے دائیں جانب بیٹھ گئے ہیں.کوئی بات ہم لوگوں نے کی جو حضرت منجھلے بھائی صاحب نے سنی نہیں یا سمجھے نہیں.مگر حضرت صاحب سمجھ گئے.مسکرائے اور فرمایا کہ یہ کہہ رہی ہیں اصحاب احمد کے متعلق اور اخراجات کے متعلق.“ ( جلد یاز دہم.ص۸) ۲۰- مؤقر الفرقان ماہ فروری ۱۹۶۳ ء راقم ہے:.اصحاب احمد ( جلد یاز دہم) محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان نے عرصہ درویشی میں اس نہایت مبارک تالیف کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے.انہیں اس کے لئے بہت محنت اور عرقریزی سے کام کرنا پڑا ہے.اصحاب احمد کی زیر نظر گیارہویں جلد حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے حالات کا مجموعہ ہے یہ جلد چار صد صفحات سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے ایمان افروز واقعات پر مشتمل ہے...( ص ۴۳)..۲۱ - معزز مصباح کی فروری ۱۹۶۳ء کی اشاعت میں مرقوم ہے:.” اصحاب احمد جلدا.محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے درویش قادیان اپنے ذاتی شوق سے تاریخ سلسلہ کی یہ بڑی اہم خدمت سرانجام دے رہے ہیں.صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایمان افروز حالات اور ان کے بے مثال اخلاص کا تذکرہ پڑھ کر انسان وجد میں آ جاتا ہے اور اس کے قوائے عملی کو طاقت ملتی ہے اور ان برکات سے حصہ لینے کی اس کے دل میں تڑپ پیدا ہوتی ہے.خدا تعالیٰ محترم ملک صاحب کو جزائے خیر دے اور تمام احمدیوں کو یہ مفید کتب خریدنے کی توفیق بخشے تا کہ محترم ملک صاحب مالی مشکلات سے آزاد ہو کر اس مفید کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں.‘‘ (ص۳)
۱۲۹ سیرت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب تاریخنہائے بیعت و ہجرت و تقرری بطور مدرس حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء سے قبل کے عرصہ میں بیعت کی تھی اور اپریل یا مئی ۱۹۰۱ ء میں ہجرت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت سے ایک خانگی کام کے سرانجام دینے کے لئے آپ کو کشمیر جانا پڑا.جہاں سے آپ چھ ماہ بعد مراجعت فرما ہوئے کہیں سيرة سرور حصہ اوّل (اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اوّل) میں خاکسار حضرت مولوی صاحب کی بیعت و ہجرت و شادی کی تاریخوں اور عمر کی تعین نہیں کر سکا تھا.اب قرائن قطعیہ پیش کرنے کے قابل ہوا ہوں.انسانی دماغ کی بناوٹ عجیب قسم کی ہے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جیسے ذہین اور ذکی اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ روزانہ بہتیں دفعہ پڑھی جانے والی سورۃ فاتحہ کی تلاوت میں بھی بعض دفعہ مجھے نسیان ہو جاتا ہے.مجلس احرار کے لیڈر چوہدری افضل حق صاحب نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ اسمبلی کے انتخابات کے لئے فارم پُر کرتے وقت میں خود اپنا نام بھول گیا اور سخت پریشان تھا کہ اتنے میں کسی نے آ کر مجھے نام لے کر پکارا تو جان میں جان آئی اور فارم پُر کر سکا.حضرت مولوی صاحب کا حافظہ نہایت اعلیٰ تھا.لیکن سنین کے متعلق کمزور تھا.چنانچہ اپنی بیعت و ہجرت کی تاریخیں ایک اشتہار شائع کرنے اور تقرری بطور مدرس اور عرصہ ء ملازمت پشاور اور عرصہ عمر کے متعلق آپ کو ذہول ہوا ہے.اس ذہول کو مد نظر رکھنے کے علاوہ ہمیں یہ بھی خیال رکھنا پڑے گا کہ ایسے ذہول والے افراد کی بیان کردہ ہر تاریخ محل اشتباه ونسیان بھی نہیں ہوتی.سو اس بارہ میں قدم پھونک پھونک کر رکھنا ضروری ہے تا کہ آپ کی بیان کردہ ایسی تاریخوں کو ہم صحیح قرار دیں.جن کو دیگر قرائن قویہ قطعیہ کی تائید حاصل ہو.حاشیہ ھذا میں بغیر حوالہ کے جو صفحات درج کئے گئے ہیں.وہ اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اول میں مندرج آپ کے بیان سے متعلق ہیں.تاریخ بیعت: - ایبٹ آباد میں اعلانِ بیعت پر آپ کی شدید مخالفت ہوئی اور آپ اگلے روز ہی پشاور
نکاح ثانی * ہجرت کے بعد قیام قادیان میں ایک دفعہ طاعون کے ایام میں آپ کو در مسیج میں ٹھہرایا گیا.قدرت اللہ صاحب دار مسیح کی حفاظت کا وعدہ ۵ مئی ۱۹۰۲ء کے الہام اني أحَافِظ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ إِلَّا الَّذِيْنَ عَلَوْا بِاسْتِكْبَارٍ میں دیا گیا تھا ( الحکم ۰۲-۵-۱۰) اور حضور نے بالوضاحت اس کا ذکر کشتی نوح میں فرمایا ( ص۲) جو ۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو شائع فرمائی اور ۲۸ مارچ ۱۹۰۳ء کو شادی ہوئی.اس درمیانی عرصہ میں آپ کا قیام دار مسیح میں قبل شادی ہو گا.بقیہ حاشیہ چلے گئے جہاں مشن کالج میں آپ ملازم ہوئے اور پھر وہاں سے قادیان ہجرت کر آئے.(ص۶۰) (الف) بیعت سے قبل آپ نے آئینہ کمالات اسلام (جس کی تاریخ اشاعت فروری ۱۸۹۳ء ہے ) پڑھی تھی بعض کا خیال ہے کہ آپ کی بیعت ۱۸۹۳ء کی ہے جو حقیقت پر مبنی نہیں.خواہ آپ نے ہی کبھی یہ سن بیعت بتایا ہو.کیونکہ حضرت اقدس کے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ لدھیانہ والے مباحثہ ( جو جولائی ۱۸۹۱ء میں ہوا ) کے بعد آنے والے رمضان شریف میں ( جو ۳۰ / مارچ تا ۲۸ اپریل ۱۸۹۲ء تھا ) آپ لاہور سے دیو بند تعلیم کے لئے منتقل ہوئے تھے.(ص۳۰، ۴۷ ، ۴۸) تاریخ آغاز رمضان شریف بعد جولائی ۱۸۹۱ء عرصہ قیام دیو بند (ص ۳۰ تا ۳۴) عرصہ معلمی در سهار نپور ( ص ۳۷، ۳۸) (ص ۵۴) = = = ۳۰ / مارچ ۱۸۹۲ء ایک سال یعنی ۳۰ مارچ ۱۸۹۳ء (اندازاً) ۲ سال یعنی تا ۳۰ / مراچ ۱۸۹۵ء (اندازاً) بعد ازاں کچھ عرصہ وطن میں والد صاحب کو قرآن مجید پڑھانا ( ص ۳۸) ایبٹ آباد میں شاگردوں کو اس شرط پر قرآن مجید پڑھانا شروع کیا کہ وہ جلد ختم نہ کرنا چاہیں.آپ نے کہا کہ میں تحقیق سے پڑھاؤں گا.(ص۵۳،۵۲) آپ کے پھوپھی زاد بھائی کا بیمار ہو کر ایبٹ آباد میں داخل ہسپتال ہونا اور آپ کا وہاں ہونا.ایک سال یعنی تا ۳۰ / مارچ ۱۸۹۶ء (اندازاً) گویا آپ کا ۱۸۹۳ ء کا سن بیعت ہونا ناممکن ہے اور مزید ثبوت یہ بھی ہے کہ آپ کا بیان ہے کہ آپ اعلانِ بیعت کے دوسرے روز پشاور جا کر ملازم ہو گئے اور وہاں سے اڑھائی سال بعد ہجرت کی.اس طرح تو بیعت ۱۸۹۳ء سمجھتے ہوئے آپ کی ہجرت ۱۸۹۵ ء تا ۱۸۹۶ء بنتی ہے جو قطعا نا درست ہے بلکہ یقینی شواہد کی رو =
۱۳۱ ڈیوڑھی بان معہ اہل و عیال اور آپ ایک ہی حصہ میں رہتے تھے.حضرت ام المومنین (اعلی الله درجاتها في الجنة ) چاہتی تھیں کہ مولوی صاحب کا رشتہ قدرت اللہ خان صاحب کے ہاں ہو جائے.چونکہ مولوی صاحب بقیہ حاشیہ: - سے ۱۹۰۱ء ہے (اس کی تفصیل آگے آتی ہے ) (ب) ۱۹۳۴ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ایک مشتر کہ دعوتِ طعام کا عید کے موقعہ پر انتظام کیا جائے.چنانچہ ایسا ہی انتظام ۱۹۳۵ء میں عید الفطر کے لئے بھی کیا گیا.اس انتظام کی تفصیل طبع کی گئی.چنانچہ صحابہ کرام کی بلا ادائیگی قیمت شرکت طعام کا موقع دیا گیا تھا.اس لئے ان کی فہرستیں ناظم صاحب تعلیم و تربیت (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) نے اپنی ذاتی نگرانی میں محلہ جات قادیان کے صدر صاحبان سے اس مقصد کے لئے مطبوعہ وغیر مطبوعہ اوراق پر تیار کرائی گئیں.صحابہ کرام کے اسماء مع ولدیت اور تاریخ بیعت اور تاریخ زیارت حضرت اقدس انفرادا دریافت کر کے درج کی گئیں.عید پر باہر سے آمدہ مہمانوں میں سے جو صحابی تھے نام رقم کئے گئے.جن سے دریافت کرنے کا موقعہ نہیں ملا.یا ان سے پوری معلومات حاصل نہیں ہو سکیں ان کے خانے خالی چھوڑے گئے ہیں.اس فہرست میں آپ کے متعلق مرقوم ہے: ” میری بیعت کے بعد لیکھر ام مرا.“ ظاہر ہے کہ یہ بات خود آپ ہی بتا سکتے تھے.تاریخ ہلاکت لیکھرام ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء ہے.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی کے بیان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے جو فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب ۱۸۹۷ء میں مشن کالج پشاور میں ملازم تھے اور احمدی تھے.(الفضل ۵۴-۷-۲۹ صفحہ ۶ کالم۳) حضرت مرزا محمد رمضان علی خان صاحب سکنہ پشاور ” حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کشمیری کے ذریعہ ۱۸۹۷ء میں احمدی ہوئے ( تاریخ احمد یہ سرحد مؤلفہ حضرت قاضی صاحب موصوف صفحہ ۱۷) نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کو گو معین تاریخ بیعت یاد نہ تھی لیکن ہلاکت لیکھرام جیسا عظیم الشان روح فرسا اور وحشت ناک سانحہ ضرور یاد تھا اور یہ پر عظمت واقعہ اپنوں کو کیا بیگانوں کو پینسٹھ سال ہونے پر نہیں بھولا.آریہ سماجی برابر ہر سال جلسے کرتے اور سوگ مناتے ہیں گویا مولوی صاحب کو یہ بات یاد تھی کہ بیعت کے بعد قریب میں واقعہ لیکھر ام ہوا تھا.آپ کا حافظہ واقعات اور کتب کے متعلق آخر عمر تک قابل رشک طور پر اعلیٰ اور بے نظیر رہا.واقعات کی جزئیات تک کے بیان میں کبھی سرمو فرق نہ پایا جاتا تھا.سو اگر واقعہ لیکھرام سے بہت پہلے آپ نے بیعت کی
۱۳۲ کی رائے تھی کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بغیر پوچھے از خود ہی ارشاد فرما ئیں تو مجھے کوئی عذر نہ ہوگا.اس لئے یہاں رشتہ نہ ہوا کہ ایک روز عبداللہ صاحب عرب کے لئے رشتہ کا ذکر ہورہا تھا.حضور علیہ السلام نے بعض اہلیہ دوم حضرت مولوی صاحب نے ۳۰ /اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ایک مکتوب اپنی قلم سے تحریر کیا تھا اور بعد ازاں وہ اپنے فرزند سید مبارک احمد صاحب سے جوابات لکھواتی رہی ہیں.اس کتاب میں ان کے بیانات و روایات انہی خطوط سے ماخوذ ہیں.بڑھاپے کی عمر میں بھی آپ کا حافظہ بہت صحیح ہے جیسا کہ ان کے بیان کردہ حقائق سے ظاہر ہے.بقیہ حاشیہ: - ہوتی تو آپ اس زمانہ کی حضور کی کسی تصنیف کا ذکر کر سکتے تھے اور بھی بہت سے عظیم الشان واقعات ونشانات تھے کہ جن کو آپ جیسا بلند پایہ عالم نہیں بھول سکتا تھا.خواہ آپ کو تاریخ و سال نہ یاد ہوتے.مثلاً مباحثہ عبداللہ آتھم (۱۸۹۳ء) آنحضرت صلعم کی پیشگوئی کے مطابق ایک ہی رمضان شریف میں خسوف و کسوف (اپریل ۱۸۹۴ء).مذہبی مباحثات کے متعلق گورنمنٹ کو میموریل اور چولہ بابا نانک کے انکشاف والا سفر ڈیرہ بابا نانک (۱۸۹۵ء) تحریک تعطیل جمعہ کے متعلق حکومت کو میموریل.جلسہ اعظم مذاہب جس میں حضرت اقدس کا مضمون مطابق پیشگوئی تمام مذاہب کے مضامین پر غالب رہا.(۱۸۹۶ء) اگر آپ کی بیعت ۱۸۹۶ء کے اواخر میں ہوتی تو آپ جلسہ اعظم مذاہب کا ذکر فرماتے جو ۲۶ تا ۲۹ دسمبر منعقد ہوا تھا.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ نے نشان لیکھرام کی تاریخ 4 مارچ ۱۸۹۷ء سے قبل قریب میں ہی بیعت کی ہوگی.خلافت لائبریری ربوہ میں تین صد ترانوے صحابہ کرام کے کوائف ایک رجسٹر میں مرقوم ہیں جو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی تحریک پر ۱۹۳۸ء میں حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے جمع کئے تھے.اس میں حضرت مولوی صاحب کا نمبر ۱۷ ہے جہاں آپ کی تاریخ بیعت ۱۸۹۳ء اور تاریخ زیارت ۱۸۹۴ ء اور اس پر آپ کے۳۸-۱-۱۵ کے دستخط رقم ہیں.مجھے اس امر کی اطلاع مسودہ کا تب کے سپرد کرنے کے بعد ملی ہے اور میں اس حصہ کا اضافہ کر رہا ہوں جو اموراو پر پہلے درج ہو چکے ہیں ان سے اس بیان کے سہو ہونے کا علم ہو جاتا ہے.یہ ایک اور ثبوت ہے کہ آپ کا حافظہ سن وسال کے متعلق اچھا نہ تھا اور اس بیان کی عدم صحت ذیل کے خلاصہ سے ظاہر ہے.(الف) ۱۸۹۲ء میں رمضان شریف میں آپ نے دیو بند جاتے ہوئے حضور سے ملاقات کی ایک سال وہاں تعلیم پائی اور دو سال سہارنپور میں بطور مدرس قیام کیا.پھر کچھ عرصہ والد صاحب کو قرآن مجید پڑھایا پھر
۱۳۳ رشتے نا منظور کئے اور فرمایا ایسا رشتہ ہونا چاہئے جو ظاہری شکل و شباہت میں بھی اچھا ہو.مثلاً میاں جیون بٹ صاحب امرتسری کے ہاں.مولوی صاحب میاں جیون بٹ صاحب سے واقف نہ تھے بلکہ ان کو دیکھا ہوا بھی بقیہ حاشیہ - ایبٹ آباد ملازم ہوئے اور قرآن مجید کی تفسیر دوشاگردوں کو پڑھائی.گویا د یو بند اور سہارنپور کے قیام تک ہی ۱۸۹۵ ء ہو جاتا ہے.(ب) زیارت مسیح موعود آپ نے لدھیانہ میں ۱۸۹۲ء میں کی تھی ۳۸-۱-۱۵ کے بیان میں مرا د زیارت بعد بیعت ہوگی.وہ بھی ۱۸۹۴ء میں نہیں ہوئی جیسا کہ بیان زیر (الف) سے ظاہر ہے.(ج) بعد بیعت آپ نے زیارت بعد وفات اہلیہ اول کی تھی اور آپ کل عرصہ قیام پشاور (جہاں آپ بیعت کے دوسرے روز چلے گئے تھے ) اڑھائی سال بتلاتے ہیں.پھر وہاں سے آپ نے ہجرت کی.گویا پہلی بار زیارت بعد بیعت آپ نے پشاور سے آکر کی تھی اور آپ کے ۳۸-۱- ۱۵ کے بیان کو صحیح قرار دینے کی صورت میں کم از کم ۱۸۹۴ء قیام پشاور کا آغاز متصور کرنا ہوگا اور آپ کی ہجرت ۱۹۰۱ء کی ہے.یہ عرصۂ قیام علی الاقل سات سال بنتا ہے.سات سال کے عرصہ قیام کے متعلق عقل باور نہیں کرتی کہ کوئی شخص اسے اڑھائی سال قرار دے البتہ میرے حساب میں چار سال ایک ماہ بنتا ہے.اس میں ایسے سہو کا امکان ہے.(۲) تاریخ ہجرت: - شواہد قطعیہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپریل یا مئی ۱۹۰۱ ء میں ہجرت کی.(الف) آپ کا بیان ہے کہ آپ اڑھائی سال تک مشن کالج پشاور میں ملازم رہے اور بیعت کے معا بعد ہی آپ پشاور چلے آئے اور گویا اڑھائی سال بعد آپ نے ہجرت کی.تاریخ بیعت ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء سے قبل قریب کے عرصہ کی متعین ہونے پر حساب کی سہولت کے لئے ہم اسے یکم مارچ قرار دے لیتے ہیں گویا قیام پشاور یکم مارچ ۱۸۹۷ء تاریخ ہجرت ۲ سال یکم ستمبر ۱۸۹۹ء یا یوں سمجھ لیجئے کہ آپ کے بیان کی رو سے آپ نے ۱۸۹۹ء کے اواخر میں ہجرت کی.لیکن بیان ذیل کے شواہد قطعیہ سے نادرست قرار پاتا ہے:.-1 -۲ الحکم ۰۱-۲-۲۴ میں آپ کے پشاور سے چندہ بھجوانے کا ذکر ہے.(ص۱۶ک۳) ۳۱ مارچ اور یکم اپریل ۱۹۰۱ء کے اجلاسات بابت فروخت حصص ریویو آف ریلیجنز کی رودادوں میں آپ کا نام ( ”مولوی سید سرور شاہ صاحب) درج ہے.حصہ خریدنے والوں کی اس فہرست میں آپ کے نام سے پہلے ایک اور بعد میں دو احباب پشاور کے اسماء ہیں (الحکم ۰۱-۴-۷اص ۲ ک (۲) گویا اس وقت ابھی آپ پشاور میں تھے.
۱۳۴ نہ تھا.رمضان میں ڈاکٹر عباد اللہ صاحب امرت سری آکر قادیان میں اعتکاف بیٹھے.مولوی صاحب کے دریافت کرنے پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ عید کے لئے ٹھہرنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن میں نے میاں جیون بٹ صاحب کا پیغام حضرت مولوی نورالدین صاحب کو پہنچانا ہے.اس لئے ٹھہر نا پڑے گا.ان کا پیغام یہ ہے کہ بقیہ حاشیہ نتیجہ: یکم مارچ ۱۸۹۷ء تا یکم اپریل ۱۹۰۱ ء کا عرصہ قیام پشاور کم از کم چار سال ایک ماہ ثابت ہے.اس سے آپ کے اس بیان کا سہو ظاہر ہے کہ آپ کا قیام وہاں ۲ سال رہا.چار سال کے متعلق سہو ہو کر ۲ سال کہنا سمجھ میں آ سکتا ہے لیکن آٹھ نو سال کے عرصہ کے متعلق عقل باور نہیں کر سکتی کہ سہو ہو کر اڑ ہائی سال بیان کر دیا.یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بیعت ۱۸۹۳ء کی ثابت نہیں ہوتی.ورنہ اس کے بعد ۱۹۰۱ء میں ہجرت تک آٹھ نو سال کا عرصہ بنتا ہے نہ کہ ۲ سال سے ملتا جلتا عرصہ چار سال.(ب) مطبوعہ لٹریچر سے قیام پشاور کے تعلق میں مندرجہ بالا ( نمبر ۲ زیر الف ) ہی آخری اندراج ملا ہے جسے ہم قیام پشاور کی آخری تاریخ سمجھ کر صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں تو دیگر صورتوں سے ماخوذ نتائج سے قریباً مطابقت نظر آتی ہے.مثلاً آپ ہجرت کر کے آئے تو چند دن کے لئے نشہ لے کر آئے ہوں گے نشہ کے عادی سفر میں جاتے ہوئے کچھ دنوں انداز اپندرہ دن کا نشہ لے کر چلتے ہیں ترک افیون کا ایک باعث حضور کی نصیحت تھی اور دوسرا باعث روپیہ ختم ہونا تھا (ص ۵۷) یہ ظاہر ہے کہ پہلے ہی دن روپیہ ختم نہیں ہوا ہوگا.ترک افیون سے بیمارر ہے (ص۵۷) چالیس دن چھ ماہ سفر کشمیر (ص ۵۷) میزان : سات ماہ پچپیس دن تاریخ ہجرت اندازاً ۲ / اپریل ۱۹۰۱ء تاریخ وا پسی از کشمیر ۲۷ / نومبر ۱۹۰۱ء (ج) شحنہ ہند میرٹھ کو جو ایک صدا حباب کے دستخط سے حضرت اقدس سے مقابلہ کرنے کی دعوت دی گئی تھی ان میں آپ کا نام اٹھائیسویں نمبر پر مولوی سید سرور شاہ صاحب کشمیری مظفر آبادی مرقوم ہے ( الحکم ۱۴۳ ص اک (۲) اس وقت تک آپ یقینی طور پر سفر کشمیر سے واپس آچکے تھے.چنانچہ مزید ثبوت یہ بھی ہے کہ آپ کو
۱۳۵ میں نے دو سال سے لڑکی کے رشتہ کے لئے لکھا ہوا ہے.اس کا خیال رکھیں.مولوی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ دوسروں کا پیغام تو پہنچاتے ہیں لیکن میرا پیغام کسی کو بھی نہیں دیتے.میری شادی کا کسی جگہ انتظام کیا جائے.مولوی صاحب کے خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ کی شادی کے لئے حضرت مولوی صاحب سے ذکر کیا جائے گا.ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی.اے ( سابق مہر سنگھ ) ان دنوں حضرت مولوی صاحب کے پاس بقیہ حاشیہ: حضرت اقدس نے گورداسپور ۱۶ / فروری ۱۹۰۲ء کی پیشی سے قبل بھجوایا تھا (سیرۃ المہدی حصہ اوّل.روایت (۱۰۴) (ھ) آپ کے سفر کشمیر میں آپ کی تبلیغ سے آپ کے بھائیوں سید حسن شاہ صاحب وسید صادق شاہ صاحب نے بیعت کی تھی.( ص ۵) اور الحکم ۸۱-۹-۳۰ (ص ۶اک ۳ ) ، ۰۷-۱۲-۱۷ (ص۱۲ ک ۳) پر علی الترتیب دونوں کے اسماء سید حسن شاہ صاحب بمقام گھنڈی ضلع مظفر آبا دریاست کشمیر اور سید محمد صادق شاہ صاحب نمبر دار لدرون ریاست کشمیر مرقوم ملتے ہیں.اصل مقصود سفر سے پھوپھی زاد بھائی کی شادی تھی.جو آپ کی کوشش سے ہو گئی.آپ کی تبلیغ سے دو بھائیوں نے بیعت بھی کر لی.جن کی بیعت کا درمیانی عرصہ اڑھائی ماہ بنتا ہے.گویا کافی عرصہ آپ موضع گھنڈی وغیرہ اپنے وطن میں قیام پذیر ہے (جس کی آپ کے اس بیان سے تصدیق بھی ہوتی ہے کہ پیر خاندان ہونے کی وجہ سے بالواسطہ آپ نے تبلیغی اثر بھائیوں پر ڈالا.الفضل ۱۱-۸-۴۴ص۲) جس کے لئے کافی عرصہ درکار تھا اور یہ کافی عرصہ صرف ہونا الحکم میں بیعت کے اندراجات سے ثابت ہے.جلسہ سالانہ قریب تھا اور اب کوئی امر ایسا نہ تھا جس کے لئے آپ قادیان سے باہر ٹھہر تے آپ ہجرت کر چکے تھے.وہ بزرگ جو ہجرت کی خاطر اقارب.باہر کی اعلیٰ ملازمت اور قرب وطن ترک کر چکے تھے ان کے متعلق یہ امر بعید از فہم ہے کہ جلسہ سالانہ جیسی ایمان افزا اور روحانیت بخش تقریب میں شرکت سے اپنے تئیں محروم رکھیں.جبکہ حضرت اقدس کی خواہش تھی کہ آپ فیضان کے اوقات میں حضور کے پاس ہوں.اس لئے بہ نظر احتیاط ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ آپ ۲۵ / دسمبر ۱۹۰۱ء کو چھ ماہ کا سفر ختم کر کے مراجعت فرما ہوئے.گویا آپ ۲۵ جون کے لگ بھگ قادیان سے روانہ ہوئے تھے جبکہ اس سے چالیس دن قبل یعنی ۱۵ رمئی ۱۹۰۱ء کے قریب آپ ہجرت کر کے قادیان پہنچے تھے اور یہ امر یوں بھی قریب الفہم ہے کہ مدارس اور کالجوں میں اپریل یا مئی میں نے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے.اس موقع پر زیر تعلیم جماعتوں کی ذمہ داری بھی ختم ہو جاتی ہے.سو آپ اپریل یا مئی میں فراغت حاصل کر کے آئے ہوں گے.
۱۳۶ رہتے تھے اور طالب علم تھے انہوں نے مولوی سرور شاہ صاحب کو مبارک باد دی اور دریافت کرنے پر بتایا کہ حضرت مولوی صاحب نے میاں جیون بٹ صاحب کو خط لکھا ہے کہ آپ کی لڑکی کے لئے مولوی سرور شاہ صاحب کا رشتہ میں پیش کرتا ہوں اگر آپ کو یہ رشتہ منظور نہ ہو تو آپ مجھ سے بالکل نا امید ہو جائیں.میں پھر بقیہ حاشیہ: - یا یوں سمجھئے :- بیعت سید محمد صادق شاہ صاحب دوران سفر کشمیر....بروئے الحکم ۱۷ دسمبر ۱۹۰۱ء منہائی عرصہ ترک افیون وسفر کشمیر وغیرہ سات ماہ پچیس دن تاریخ ہجرت ۲۲ / اپریل ۱۹۰۱ء (د) یہ امر خاص توجہ کے قابل ہے اس لئے قدرے تفصیل سے بیان کرنا ضروری ہے کہ جب آپ ایک دفعہ موسم گرما کی تعطیلات میں قادیان آئے ہوئے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واپسی کی اجازت مرحمت فرمانے کے بعد پھر مہمانخانہ سے خاص طور پر بلوا کر یہ فرمایا تھا کہ میں خدا داد فراست سے آپ میں رُشد و سعادت پاتا ہوں.آپ کم از کم آٹھ نو ماہ میرے پاس رہیں تاکہ خاص فیضان سے حصہ پائیں.مولوی صاحب اسی وقت اور ہمیشہ کے لئے ٹھہرنے کو تیار ہو گئے لیکن حضور نے فرمایا کہ پادری ہمارے دشمن ہیں.ہمارے پاس رہنے کے باعث وہ آپ پر کوئی مقدمہ بنادیں گے.اس لئے آپ سر دست چلے جائیں اور پھر کسی وقت آٹھ نو ماہ کی رخصت لے کر آجائیں.(ص۵۵،۵۴) حضور کی ایسی تاکید اور مولوی صاحب کی ایسی آمادگی سے یہ سمجھنا بر حل ہے کہ آپ اولین موقع پر ہجرت کر آئے ہوں گے کیونکہ آپ ہمیشہ کے لئے آنا چاہتے تھے اس لئے آپ ملازمت سے سبکدوشی حاصل کر کے آئے ہوں گے اور تعلیمی اداروں میں تعلیمی سال کے اختتام پر سبکدوشی میں سہولت ہوتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۱۵ را پریل کے لگ بھگ جبکہ بعد سالانہ امتحانات موسم بہار کی تعطیلات ہوتی ہیں آپ ہجرت کر کے آئے ہوں گے یا رخصت لے کر آئے ہوں گے.ممکن ہے وہاں سے چند دن کے لئے آپ اپنے وطن گئے ہوں اور پھر قادیان آئے ہوں.سو ہجرت ( اپریل یا مئی ۱۹۰۱ء) سے قبل موسم گرما میں ہی یہ خاص ملاقات ہوئی ہوگی جس کا اوپر ذکر ہے چنانچہ ۱۹۰ء میں موسم گرما میں ماہ جولائی میں آپ کی قادیان میں آمد ثابت ہے.( بروئے الحکم ۱۶ جولائی.زیرہ دار الامان کا ہفتہ ) آپ کی اہلیہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ مولوی صاحب ہجرت سے پہلے ایک دفعہ چھ ماہ کی رخصت پر آئے تھے.گویا آپ نے سبکدوشی سے قبل تعلیمی سال نو کے آغاز پر چھ ماہ کی رخصت لی ہوگی.واللہ اعلم بالصواب.
۱۳۷ آپ کی لڑکی کے لئے کوئی رشتہ تجویز نہیں کر سکتا.اگر آپ کو یہ رشتہ منظور ہو تو جمعرات کے روز آ جائیں.بابا جیون بٹ صاحب میاں غلام رسول حجام سکنہ امرت سر ( صحابی) کے ہمراہ جمعرات کو قادیان آگئے.میاں غلام رسول بہت مخلص تھے.انہیں بابا جی نے یتیمی کی حالت میں پرورش کیا تھا.ظہر کی نماز کے وقت حضرت مولوی.بقیہ حاشیہ: - (ز) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آپ سے تعارف ایک اشتہار سے ہوا تھا.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے کچھ سوالات پیر مہر علی صاحب گولڑ وی سے دریافت کئے تھے اس وقت پیر صاحب کھل کر سامنے نہیں آئے تھے اور مولوی غازی کے ذریعہ سے تحریر کرواتے تھے.چنانچہ مولوی غازی کے نام سے ان سوالوں کے جواب میں ایک اشتہار شائع ہوا جس میں سوالات کے جوابات کی بجائے آپ پر چند سوالات کئے گئے تھے.مولوی سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں ابھی بعد بیعت قادیان نہیں آیا تھا.۱۸۹ ء سے قبل کی بات ہے کہ میں نے ان سوالات کا جواب بصورت اشتہار شائع کیا اور ایک اشتہار حضور کی خدمت میں بھیجد یا.جب میری اہلیہ کی وفات کا تار آیا تو میری زبان سے بے اختیار الحمدللہ نکلا.کیونکہ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھیں اور ان کی وجہ سے میں قادیان نہیں آ سکتا تھا.(ص۵۵) آپ کا بیان ہے کہ میں موسم گرما کی تعطیلات میں پہلی بار قادیان آیا.دوسرے روز سیر میں حضور نے میرے اشتہار کی تعریف فرمائی (ص ۵۱) آپ کا اس جوابی اشتہار کو ۱۸۹۹ء سے قبل بیان کرنا بھی تاریخی بھول ہے.کیونکہ غازی صاحب ( مرید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی) کے نام سے اشتہار ۱۹۰۰ء میں شائع ہوا تھا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) کے خط کے جواب میں شائع ہوا تھا جو آپ نے ۱۸ فروری ۱۹۰۰ء کو پیر صاحب کو ان کی کتاب دوشمس الہدایت فی اثبات حیاة امسیح ( شائع کردہ جنوری ۱۹۰۰ء) کے متعلق تحریر کیا تھا.(بحوالہ الحکم ۲۴ را پریل ۱۹۰۰ ء ص ۷ ) اور مولوی سرور شاہ صاحب جولائی ۱۹۰۰ء میں موسمی تعطیلات میں قادیان آئے تھے.( الحکم ۱۶ جولائی ص ۷ ) نتیجه: سونتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے ۱۹۰۰ء میں اشتہار شائع کیا.اسی سال آپ کی اہلیہ اول کی وفات ہوئی اور آپ پہلی بار قادیان آئے اور اسی زیارت کے دوران حضرت اقدس نے آپ کو لمبا عرصہ صحبت میں رہنے کی تلقین کی اور نتیجہ حضرت مولوی صاحب اگلے سال (۱۹۰۱ء میں ) ہجرت کر آئے.
۱۳۸ صاحب نے حضور سے استصواب کیا اور حضور نے اس رشتہ کی اجازت عنایت کی.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے حضور کی موجودگی میں نکاح پڑھا اور بغیر پوچھے کے دوصد روپیہ مہر مقرر کیا حضور بھی دعا میں شریک ہوئے.بقیہ حاشیہ: - (ج) آپ کی محترمہ اہلیہ صاحبہ نے ۱۹۵۰ء میں مجھے تحریر کیا کہ شادی مارچ ۱۹۰۳ء سے سال پہلے ہجرت کرنے کا مولوی صاحب نے مجھ سے ذکر کیا تھا.گویا ۱۹۰۱ء میں ( گو یہ ساری بات لکھ کر محترمہ نے سہؤ ۱۹۰۰۱ء تحریر کر دیا ہے.) (ط) مسودہ کے کتابت کے لئے سپر د کر دینے کے بعد یہ سطور سپرد قلم کر رہا ہوں جو خاکسار کے اخذ کردہ نتیجہ کی توثیق کرتا ہے.محترم مولوی محمد جی صاحب دا توی فاضل نے خاکسار کے عرض کرنے پر جو تاثرات ارسال کئے ہیں.ان میں تحریر کرتے ہیں.مولوی صاحب کشمیر میں راجہ عطا محمد خان صاحب کے ہاں پھوپھی زاد بھائی کا رشتہ طلب کرنے کے لئے گئے تھے.واپس پر دانہ آئے تو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ میں نے بیعت کر لی ہے اور فرمایا کہ آپ کا نام میں نے اخبار میں پڑھا تھا.“ آپ کی بیعت الحکم مورخہ ۳۱ اکتو برا ۱۹۰ء میں اس طرح مرقوم موجود ہے:.محمد جی صاحب.دا یہ تحصیل مانسہرہ ضلع ہزارہ “.( ص ۶اک ۳) گویا خاکسار نے جو نتیجہ نکالا تھا کہ حضرت مولوی صاحب ۱۹۰۱ء میں ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے.یہ اس بیان اور مطبوعہ ریکارڈ کے مجموعہ سے قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے اور اس سے آپ کی بیعت کی تاریخ اور قیام پشاور کے عرصہ کی تعیین کے متعلق استنباط کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے.فالحمد للہ علی ذالک.نیز دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ میں جو ریکارڈ ہے کہ مولوی محمد جی صاحب کی بیعت ۱۹۰۰ ء کی ہے اس کی تصیح بھی ہو جاتی ہے.(۳) تاریخ تقرری بطور مدرس : - (الف) مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے انتظام کے تعلق میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو مالیر کوٹلہ سے ہجرت کر آنے سے پہلے بھی وسیع اختیارات تفویض ہو چکے تھے اور آپ ۱۴/ نومبر ۱۹۰۱ء کو ہجرت کر آئے تھے.(برائے ہر دوا مور ملاحظہ کیجئے اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۵۳۲ - ۱۵۷) (ب) نواب صاحب کے سامنے مرزا خدا بخش صاحب نے مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی کی اسامی پر
۱۳۹ سچ ہے کہ غناء غناء نفس کا نام ہے بلکہ ہزاروں دولتمند باوجود ہر قسم کی دولت سے مالا مال ہونے کے غرباء سے کہیں بدتر ہوتے ہیں.آپ نے نکاح کے موقع پر میاں غلام رسول صاحب حجام کے ذریعہ سے دریافت کیا کہ رخصتانہ کے موقع پر کیا کچھ لانا چاہیئے.بابا جی نے کہا کہ ہم سب کچھ دیں گے اور آپ کچھ بھی ساتھ نہ لائیں اور پندرہ روز سے زیادہ تاخیر نہیں کریں گے.رخصتانہ کے لئے مولوی صاحب کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا.حضرت حکیم فضل دین صاحب مہمانخانہ کے اوپر کے چوبارہ میں رہائش رکھتے تھے.نیچے آئے اور مولوی صاحب کو دیکھ کر کہا کہ معلوم ہوتا ہے آپ رخصتانہ کے لئے جا رہے ہیں اور دس روپے دیئے.حضرت مولوی نور الدین صاحب سے آپ ملے تو فرمایا کہ برات میں کسی کو ساتھ نہ لے جائیں.آج تیرہ دوست مجھ سے مل کرامرت سر گئے ہیں اور میں نے انہیں کہا ہے کہ امرتسر اسٹیشن پر ٹھہریں اور آپ کی برات میں شامل ہوں چنانچہ یہ لوگ اسٹیشن پر موجود تھے ان کے ہمراہ آپ ڈاکٹر عباداللہ صاحب کے مکان پر گئے اور چند اور دوست بھی شامل بقیہ حاشیہ: ان کی رخصت کے ایام میں مولوی سرور شاہ صاحب کو متعین کرنے کے لئے کہا تو نواب صاحب نے پوچھا کیا وہ بھی مولوی ہیں.(کتاب ہذا صفحہ ۵۹) یہ جائے غور وفکر ہے.اس زمانہ میں معدودے چند صحابی قادیان میں قیام رکھتے تھے ہر ایک دوسرے سے گہرے طور پر متعارف ہوتا تھا.سب ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں استفاضہ کے لئے جمع ہوتے تھے اور علماء تو اور بھی کم یعنی دو چار ہی تھے.نواب صاحب کا استعجاب ظاہر کرتا ہے کہ اس رنگ میں زیادہ دن نہیں گذرے کہ نواب صاحب بھی قادیان میں ہوں اور مولوی صاحب بھی ورنہ ذاتی تعارف حاصل ہو کر نواب صاحب آپ کے علم سے واقف ہو جاتے.نتیجه ۱۴/ نومبر ۱۹۰۱ء کو نواب صاحب کے ہجرت کر آنے کے بعد ۲۵ دسمبر ۱۹۰۱ء تک ( جو کہ مولوی صاحب کی مراجعت از کشمیر کی آخری ممکن تاریخ بیان ہو چکی ہے) مولوی صاحب کا تقرر مدرسہ تعلیم الاسلام میں کیا گیا ہوگا.چونکہ یہ استعجاب بوقت تقر ر تھا اس لئے ہو سکتا ہے کہ تقرری کا فیصلہ قبل از تاریخہائے جلسہ سالانہ ۱۹۰ء کیا گیا ہوا اور عملاً آپ کو مقر ر جنوری ۱۹۰۲ء میں کیا گیا ہو.ریزولیوشن بابت پنشن (۹۱ ، مورخہ ۳۹-۳-۲۲ میں تاریخ آغاز ملازمت یکم مئی ۱۹۰۴ء درج ہے.یہ ریز ولیوشن مجھے بعد میں ملا ہے.
۱۴۰ ہو گئے اور یہ برات باباجی کے ہاں پہنچی.بابا جی پشمینہ بانی کا کام کرتے تھے مولوی صاحب سے ان کی سابقہ معرفت نہ تھی.یہ حضور علیہ السلام کا اثر ، برکت اور تاثیر فیض تھی کہ جس کی وجہ سے آپ نے سابقہ خاندانی روایات کے خلاف اس انکشاف کو صبر سے برداشت کیا ورنہ عام حالات میں ممکن تھا کہ سسرال سے واپس اُٹھ آتے.بیچ ہے.انبیاء کے ذریعہ ایک انقلاب برپا ہوتا ہے جو روایات اور رواج ورسوم کی خس و خاشاک کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے.آپ کی بعد کی ازدواجی زندگی میں اپنے اہلِ بیت سے حسن معاشرت اس امر پر دال ہے* آپ کا بیان ہے کہ ۲۸ / مارچ ۱۹۰۳ء کو شالا مار باغ والے چراغوں کے میلہ کے روز نکاح کے دس پندرہ دن بعد رخصتا نہ عمل میں آیا.میری عمر اس وقت ہیں سال تھی.حضرت مولوی نورالدین صاحب کے رشتہ معین کرنے پر رشتہ کرنے میں تا خیر اس لئے واقع ہوتی کہ تمام اقارب مخالف تھے چنانچہ ان میں سے فرد واحد نے بھی شادی کی تقریب میں شرکت نہیں کی.مولوی صاحب رخصتانہ کے لئے امرت سر آئے.تو ایک لمبے کرتے، لمبے چوغہ اور پگڑی غرضیکہ بہت سادہ لباس میں ملبوس تھے.رہائش کے لئے آپ نے سکھوں کی گلی میں مرزا مہتاب بیگ صاحب مرحوم کے شہر والے مکان کے قریب ایک مکان چھ آنے کرایہ پر لے لیا تھا.جس کی مکانیت دو کمرے اور کنال بھر صحن تھا.کچھ عرصہ بعد آپ بوجہ سپرنٹنڈنٹ ہونے کے مدرسہ احمدیہ والے مکان میں منتقل ہو گئے تھے.آپ کی تنخواہ اس وقت پندرہ روپے تھی اس سے پہلے بارہ روپے تھی.باوجود یکہ آپ دوصد روپیہ ماہوار آمد ترک کر کے آئے تھے آپ اپنے اخلاص کی وجہ سے کبھی تنگی محسوس نہیں کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی آپ کا بہت خیال رکھتے تھے.پھل آتا تو حضور ہمارے بابا جی بہت مخلص ، سادگی پسند، بے کار نہ رہنے والے، تبلیغ پیشہ کفایت شعارا اور تقویٰ شعار تھے.باوجود غریب ہونے کے اہل محلہ میں ان کی نیکی کی وجہ سے بہت اثر تھا.خاکسار مؤلف اپنے طالب علمی کے زمانہ میں اپنی ممانی صاحبہ کے ہاں کو چہ کلکتیاں میں جایا کرتا تھا اور بابا جی سے ملاقات کرتا.آپ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.* کتاب ہذا صفحہ ۶۰،۵۹.** مرزا مہتاب بیگ صاحب سیالکوٹی ( مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ ) صحابی تھے خلافت ثانیہ میں ہجرت کی.ان کی رہائش قصر خلافت کے شمال کی طرف کی گلی میں جو سکھوں والی گلی ہے اپنے مکان میں تھی.اس حصہ کو گلی قصر خلافت کی طرف چوک سے آنے والی گلی سے پھوٹتی ہے.بہت بعد اس حلقہ میں احمدیوں کے بہت سے مکانات ہو گئے تھے.گویا حضرت مسیح موعود کے دار اور مسجد مبارک وغیرہ سے مولوی صاحب والا مکان قریب تھا.
۱۴۱ گھر بھی بھیج دیا کرتے تھے بلکہ کئی بار کپڑے بھی حضور نے بھجوائے ہیں آپ یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ رخسانہ ہوکر میں قادیان پہنچی تو اس سے پہلے منارہ مسیح کی بنیاد رکھی جا چکی تھی اور مزدور وہاں کٹائی کرتے تھے جس کی آواز گھر میں سنائی دیتی تھی.آوازسن کر میں نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ یہ کیسی آواز ہے.تو انہوں نے بتایا کہ منارہ مسیح کی بنیاد پر مزدور کٹائی کر رہے ہیں.* حضور کی اولین زیارت کا موقع مجھے رخصتا نہ ہو کر قادیان آنے پر ہی ملا تھا.* منارة امسیح کے سنگ بنیادرکھا جانے کی تاریخ ۱۳/ مارچ ۱۹۰۳ء ہے.ڈائری حضرت اقدس بابت دوشنبه مورخه ۱۶ / مارچ ۱۹۰۳ء میں مرقوم ہے: قبل از عشاء.ایک صاحب ( جو کہ اپنا نام اظہار کرنا نہیں چاہتے ) کا نکاح امرت سر میں ایک احمدی بھائی کی دختر کے ساتھ پڑھا گیا جس پر حکیم نورالدین صاحب نے ایک خطبہ پڑھا اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.ہمارے احباب کو چاہیئے کہ اپنی شادی بیاہوں میں ان باتوں کو ضرور مد نظر رکھا کریں تا کہ ان کا ہر فعل الہی امر کی اطاعت کے رنگ میں ہو اور طبعی خواہشات پر مبنی نہ ہو.فقط خلاصہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تقویٰ اختیار کرو.شادی کرنے میں لوگوں کو کبھی مال کا لحاظ ہوتا ہے اور کبھی جمال کا لحاظ ہوتا ہے کبھی حسب و نسب کا خیال ہوتا ہے غرض بہت قسم کے نفسانی امور اور شہوانی اغراض مد نظر ہوتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جو نکاحوں کے معاملات بتلائے ہیں ان میں تقویٰ پر زور دیا ہے اور اس سے غرض یہ ہے کہ انسان شہوت کی نظر سے بچے بُری اور گندی گفتگوؤں سے بچے.دیکھا گیا ہے کہ تعد دازدواج کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے لوگ حکیمانہ طرز پر چلے جاتے ہیں مگر اصل اور صحیح بات کہ جس کے لیے تعد دازدواج کے جواز کی ضرورت ہے وہ تقویٰ ہے.صحیح اور سیدھی بات انسان کو جب ہی نصیب ہوتی ہے جب اسے تقویٰ کا خیال ہو.اس وقت خود خدا اعمال افعال میں تقویٰ عطا کرتا ہے.پھر ان آیات میں اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے کہ خَلَقَكُمْ مِنْ نَفَسٍ وَاحِدَةٍ کہ اللہ نے ایک ہی جی سے تم کو پیدا کیا اور دیکھو کہ اس سے کس قدر مخلوق بڑھی ہے رشتہ ناطہ ، لڑکے لڑکیاں وغیرہ کیسے تعلقات ہیں کہ آپس میں بڑھتے جاتے ہیں اور انہی کے لئے نکاح ہے تا کہ محبت ، امن اور باہمی تعلقات آپس میں پیدا ہوں.پھر اس سب سے اصل مقصود تقوی ہی ہے.متقی کا ہر ایک عمل قبول ہوتا ہے متقی ہر ایک تنگی سے بچایا جاتا ہے.متقی کو ایسی جگہ سے رزق ملتا ہے جہاں اس کو پتہ نہ ہو.یادرکھو کہ ان رشتہ داریوں کی بناء تقویٰ پر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تعلقات کا کہاں تک خیال تھا اس کی نسبت سن لو کہ ایک دفعہ اپنے وعظ میں فرمایا کہ مصر فتح ہوگی تو وہاں ہمارے رشتے کا خیال رکھنا.آخر جب صحابہ نے اسے فتح کیا تو اس پر عمل کیا اور جب وہاں کے
۱۴۲ مشرق شمال گلابی کمرہ ڈیوڑھی 1 گول کمرہ خاکہ بلا پیمائش مغرب اس طرف مکان حضرت مرز اسلطان احمد ملحق ہے کنواں بر آمده و دالان و کوٹھڑیاں جو خا کہ میں نہیں دکھائی گئیں.کوچه زیر مسجد مبارک و بطرف مسجد اقصیٰ کوچه بطرف قصر خلافت قصر خلافت مردانه و زنانه مکان حضرت میرزا بشیر احمد صاحب نوٹ: یہ خاکہ خاکسار نے قطعا بلا پیمائش بنایا ہے.ممکن ہے مشرقی و غربی کوٹھڑیوں کا تقابل پیمائش کے لحاظ سے درست نہ ہو.نمبرے سے ملحق جانب جنوب کو ٹھریوں اور خاکہ کے جنوبی حصہ کا دالان اور برآمدہ بھی نہیں دکھایا گیا اور تمام دروازے اور کھڑکیاں بھی ظاہر نہیں کی گئیں.یہ نقشہ محتر م اہلیہ دوم حضرت مولوی صاحب کو دکھا دیا ہے تا یہ ظاہر کیا جا سکے کہ جب ان کو مع حضرت مولوی صاحب دار امسیح میں قیام کا موقع ملا تو کون کون اس میں رہائش پذیر تھا.
۱۴۳ -1 -٣ -۵ -4 کمر متصل گول کمره تفصیل مشرقی ڈیوڑھی جہاں اکبر خاں صاحب دربان تھے اور اسی جگہ مع اہل عیال رہائش رکھتے تھے.کمرہ جو گلابی کمرہ کے نام سے معروف تھا.اس میں مرزا خدا بخش صاحب ملازم حضرت نواب محمد علی خانصاحب رہائش رکھتے تھے.ہمارے عرصہ قیام کے وقت مرزا صاحب اور ان کے اہل وعیال قادیان میں نہیں تھے.اس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب مع اپنی اہلیہ محترمہ و بچگان منظور احمد و عبد السلام وسعیدہ بیگم رہائش پذیر ہوئے.مفتی صاحب کی صاحبزادی سعیدہ بیگم ۱۹۰۵ء میں بڑے باغ میں پیدا ہوئی تھیں.مغربی ڈیوڑھی جس میں اس وقت قدرت اللہ خاں صاحب دربان تھے اور اسی ڈیوڑھی میں مع اہل و عیال مقیم تھے.کمرہ جس میں اس وقت بوجہ طاعون حضرت مولوی صاحب اور مجھے رہائش کے لئے جگہ لی..اس کا برآمدہ ہے.اس کمرہ میں سے بالا خانہ میں بیت الدعاوالے دالان کو سیڑھی جاتی ہے.نوٹ : جنوبی حصہ دالان کے متعلق فرماتی ہیں کہ ان دنوں عام طور پر مہمانوں کے لئے مخصوص تھا.چنانچہ سید ولی اللہ شاہ صاحب کی والدہ نے بھی اس میں قیام کیا تھا.بقیہ حاشیہ: پادریوں وغیرہ سے بہت احسان اور مروت کی گئی تو انہوں نے متحیر ہوکر باعث پوچھا تو بتایا گیا کہ ہمارے نبی کریم نے فرمایا تھا کہ وہاں ہمارا رشتہ ہے اس کو سن کر بڑے پادری نے کہا کہ اتنے دور دراز رشتے کا خیال سوائے ایک نبی کے اور کوئی رکھ نہیں سکتا.اس لئے وہ مسلمان ہو گیا.مجھے اس وقت حیرت ہوتی ہے جب کہ دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں کو اپنے باپ دادا کے نام سے بھی اطلاع نہیں ہوتی.شادی کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے سے سلوک کیا جاوے.جب انسان شادی کرتا ہے تو سالہ سالی اور بیوی کے دوسرے خویش واقارب کا اسے خیال رکھنا پڑتا ہے.ان سب کے ساتھ احسان اور نیکی
۱۴۴ خاکہ مدرسہ تعلیم الاسلام و کالج قدیم ( بلا پیمائش ) اصحاب احمد بعہد حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشرق شمال M ۱۴ ۱۲ ۱۳ N ۱۵ P 3- ۱۵ H 3 ۱۵ H ۱۶ شرقی صحن تفصیل برحاشیہ ۶۶۵ تا ۶۷۸ تفصیل کے مندرجہ بالا صفحات کتاب کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں.(مؤلف) S 21- JL 14 ۲۰ ۲۱ U ۲۲ لنگر خانه H H T ۳۳ کنواں ☑ رقی صحن Q BA ۲۹ ۲۷ U خانه QA مغربی صحن بورڈنگ H ۳۲ 7 H H H A ++ مہمان 0 AB 3 D ۳ B LL F 0 ய راسته
۱۴۵ حضرت مولوی صاحب جب امرت سر سے رخصتانہ لے کر مجھے قادیان لائے تو آپ نے سکھوں کی گلی میں ایک مکان جو دو کچی کوٹھڑیوں اور کنال بھر محن پر مشتمل تھا چھ آنے ماہوار کرایہ پر لے کر رہائش اختیار کی.بعد میں مرزا مہتاب بیگ صاحب کا جو مکان اس گلی میں تھا ہمارا مکان اس کے قریب تھا.میری پلوٹھی کی بچی به حاشیہ سے پیش آنا چاہیئے.دوسری غرض شادی سے یہ ہے کہ انسان کے اندر بہت سے قومی ایسے ہیں کہ ان کا نشو ونما ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ شادی نہ ہو.جن بعض لوگوں کے بیوی بچے سالہ وغیرہ نہیں ہوتے وہ ایسے بطال ہو جاتے ہیں کہ نفس پر حکومت کا ذریعہ ان کو مل ہی نہیں سکتا.اکیلے ہوتے ہیں جہاں سے ذرا طبیعت بگڑی.چل دیئے اور اسی قسم کی باتیں ان سے سرزد ہوتی ہیں.یہ موقعے نفس پر قابو پانے اور حکومت کرنے کے ہوتے ہیں.جو ان کو میسر نہیں آتے.جو شادی کرتا ہے تو اکثر اوقات ایک ان پڑھ، کمزور، نا آشنا عورت سے پالا پڑتا ہے.پھر اسے ایک مقام پر اپنے ساتھ رکھ کر باہم زندگی بسر کرنی ذرا سوچ کر دیکھو اس کے لئے کس قد رقوت درکار ہے.جب تک انسان اپنے قومی پر حکمران نہ ہو تو گزارہ ہو ہی نہیں سکتا.اپنے نفس کے خلاف عورت سے کلمات سننے پڑتے ہیں.وہ نا تربیت یافتہ ہوتی ہے.اس کو وسیع علم نہیں ہوتا.اس کی باتوں پر اور بعض خانگی نقصانوں پر صبر کرنا پڑتا ہے ایک سبق ہے جو کہ شادی کرنے سے انسان کو ملتا ہے.خدا طرفین کے دل میں یہی ڈالے کہ وحدت اور الفت اور تقویٰ کی نیت سے یہ رشتہ ہو اور سب دعا کرو کہ جو امور قرآن چاہتا ہے وہ پوری ہوں.اس کے بعد مولوی صاحب نے لڑکے سے پوچھا کہ فلاں شخص اپنی بیٹی بنام...به هر ۱۵ روپیہ آپ کے نکاح میں دیتا ہے آپ کو قبول ہے.لڑکے نے کہا ہاں.پھر لڑکی کے والد سے پوچھا کہ آپ کو قبول ہے.اس نے کہا ہاں قبول ہے اس کے بعد دعا کی گئی.‘1 گو اس خطبہ وغیرہ کوائف میں مولوی صاحب اور آپ کے خسر صاحب کے اسماء موجود نہیں لیکن خاکسار مؤلف بوجوہات ذیل یقین کرتا ہے کہ یہ آپ ہی کا نکاح ہے.آپ ایک اعلی پیر خاندان کے چشم و چراغ تھے جن کے مرید دور دراز کے علاقوں تک اور پشتہا پشت سے پھیلے ہوئے تھے.احمدیت سے قبل مسلمانوں میں بھی غیر مسلموں کے اونچ نیچ کے شدید اثرات سرایت کر چکے تھے.آپ کو یہ معلوم کر کے سخت دھکا لگا کہ آپ کے خسر پشمینہ کا کام کرتے ہیں.آپکا بیان اوپر درج ہے کہ آپ نے سابقہ خاندانی روایات کے خلاف اس انکشاف کو صبر سے برداشت کیا ورنہ عام حالات میں ممکن تھا کہ سسرال سے واپس اُٹھ آتے.
۱۴۶ حلیمہ بیگم مرحومہ اس مکان میں اپریل ۱۹۰۶ء میں پیدا ہوئیں.وہ تین ماہ کی تھیں کہ ہمارے ہمسایہ میں سکھوں میں طاعون سے موتیں ہونے لگیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے از خود ہمیں اپنے گھر میں بلوالیا اور ہمیں دارا مسیح کے نچلے حصہ کا مغربی کمرہ جو مغربی ڈیوڑھی کے ساتھ جنوب کی طرف ملحق ہے اور صحن حضرت مولوی صاحب نے مجھے مؤلف سے بیان کیا تھا کہ جو گلی قصر خلافت کو بازار کی طرف سے جاتی ہے اس کا ایک مکان چھوڑ کر دوسرے مکان میں ابتدائی زمانہ میں میں رہتا تھا اور اسی مکان سے بلوا کر حضور نے مجھے پہلی بار جمعہ پڑھانے کو ارشاد فرمایا تھا.بقیہ حاشیہ: سو مولوی صاحب کے بیان کردہ مندرجہ ذیل امور کی تصدیق ہوتی ہے:.قرائن تصدیق (الف) مجلس نکاح میں حضرت اقدس موجود (الف) یہ حضرت اقدس کی ڈائری کا حصہ ہے اور آپ کی اہلیہ صاحبہ بھی تصدیق کرتی ہیں کہ تھے.حضرت اقدس مجلس نکاح میں موجود تھے اور دعا میں شریک ہوئے.(ب) مولوی صاحب نے سُسرال کے پیشہ و (ب) تبھی یہ مرقوم ہے کہ ایک صاحب جو کہ اپنا روزگار کو اپنے خاندانی روایات کے خلاف سمجھا.نام اظہار کرنا نہیں چاہتے.گویا مولوی صاحب کی خواہش کے مطابق فریقین کے اسماء ڈائری میں سے حذف کئے گئے.(ج) خطبہ نکاح حضرت مولوی نورالدین صاحب (ج) ڈائری اس کی مصدق ہے اور آپ کی اہلیہ صاحبہ بھی تصدیق کرتی ہیں.نے پڑھا.(1) لڑکی جس کا نکاح ہوا امرت سر کی تھی.(د) ڈائری میں اس کا ذکر ہے.(ھ) لڑکا قادیان کا تھا.(ھ) اسماء حذف کر کے لڑکے کے خسر کا ہی صرف ذکر کیا ہے کہ امرت سر کے ہیں.اگر لڑ کا قادیان سے باہر کا ہوتا تو اس کے شہر کا بھی ذکر کیا جاتا.یہ خاموشی اسی لئے ہے کہ اس سے یہ سمجھ لیا جائے گا کہ لڑکا قادیان کا ہے.
۱۴۷ والے کنویں کے بالکل مغرب کی طرف ہے دیا گیا ہم دو ماہ وہاں ٹھہرے.ان ایام میں مرزا خدا بخش صاحب ملازم حضرت نواب محمد علی خان صاحب قادیان میں نہیں تھے اور ان کی رہائش والا کمرہ جو گلابی کمرہ“ کے نام سے معروف تھا حضرت مفتی محمد صادق صاحب مع اہل و عیال اس میں مقیم تھے.اس وقت مشرقی ڈیوڑھی کے بقیہ حاشیہ:- (و) لڑکی کے والد کا ذکر ہے کہ مجلس نکاح میں (و) البدر اس کا مصدق ہے.موجود تھے.(ز) یہ نکاح ۱۶ / مارچ ۱۹۰۳ء کو ہونا مرقوم ہے.(ز) آپ کے اور آپ کی اہلیہ صاحبہ کے بیان سے تصدیق ہوتی ہے کہ نکاح کے دس پندرہ روز بعد رخصتانہ ہوا جو ۲۷ یا ۲۸ مارچ کو ہوا ( تفصیل آگے آئے گی) (ح) رمضان شریف کے بعد قریب کے عرصہ میں (ح) اس کی تفصیل بھی آگے درج ہے جس سے تصدیق ہوتی ہے.نکاح ہوا.ایک آدھ امر کی تصدیق نہیں ہوتی لیکن مرور زمانہ کے باعث اس کے بیان میں سہو ہونا ممکن ہے اور وہ امور ذیل ہیں :- (1) البدر میں مہر ڈیڑھ صد مرقوم ہے.مولوی صاحب دوصد بیان کرتے ہیں آپ کی اہلیہ محترمہ ذکر کرتی ہیں کہ شاید دوصد تھا.گویا ان کو خود اقرار ہے کہ پوری طرح یاد نہیں.اسی پر قیاس ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کو بھی پوری طرح یاد نہیں رہا ہوگا.بیوی نے مہر حاصل کرنا ہوتا ہے اور خاوند کے ذمہ تا ادا ئیگی قرض ہوتا ہے.اس لئے قریب الفہم یہ امر نظر آتا ہے کہ بیوی کو زیادہ یادر ہنا چاہیئے لیکن چونکہ ہمارے ملک میں وصول جلد ہونے پر اصرار نہیں ہوتا.اس لئے یہ امر زیادہ یاد نہیں رہتا.(۲) مولوی صاحب ظہر کے وقت نکاح ہونا بیان کرتے ہیں اور یہ نکاح تو قبل عشاء پڑھا گیا اس بارہ میں خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرورِ زمانہ سے اس بارہ میں نسیان ہو جانا معمولی امر ہے.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب (نومسلم) کو اپنی والدہ کا نام بھول گیا تھا جو بات بار بار سامنے نہیں آتی اس کے نسیان کا زیادہ امکان ہوتا ہے.(۳) مولوی صاحب ذکر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عباداللہ صاحب قادیان میں اعتکاف بیٹھے اور عید قادیان میں
۱۴۸ در بیان اکبر خان صاحب اور مغربی ڈیوڑھی کے دربان قدرت اللہ خان صاحب جو دونوں اہل و عیال سمیت دار امسیح میں مقیم تھے.میری صحت بہت اچھی تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) بقیہ حاشیہ: اس لئے پڑھنے کا ارادہ تھا کہ دختر بابا جیون بٹ صاحب کے رشتہ کی تلاش کے لئے حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں عرض کریں گے اور حضرت مولوی صاحب نے مولوی سرور شاہ صاحب کے رشتہ کی تجویز کی اور یہ کہلا بھیجا کہ اگر آپ کو یہ رشتہ نا منظور ہو تو پھر مجھ سے کسی رشتہ کی تجویز سے مایوس ہو جائیں اگر منظور ہو تو جمعرات کے روز آ جائیں اور وہ جمعرات کو آگئے.(کتاب ہذا صفحہ ۶۱) ۲۱ دسمبر ۱۹۰۲ء کو ڈائری میں ڈاکٹر صاحب کا قادیان میں مختلف ہونا مذکور ہے ۲.عید یکم جنوری ۱۹۰۳ء کوتھی سے اور یہ جمعرات کا روز تھا.گویا حضرت مولوی نور الدین صاحب کا منشاء تھا کہ ایک ہفتہ تک اگلی جمعرات ( بتاریخ ۸ جنوری ) بابا جی نکاح کے لئے آجائیں.مولوی صاحب کی اہلیہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ رشتہ کرنے میں تاخیرا قارب کی مخالفت کی وجہ سے ہوئی اس لئے یہ عقدہ حل ہو گیا کہ نکاح دوشنبہ کو ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کہ جمعرات کو جیسا کہ اس بارہ میں بھی مولوی صاحب کو سہو ہوا ہے.محترمہ نے اپنے قلمی مکتوب مورخہ ۳۰ را کتوبر۱۹۵۰ء میں خاکسار کوتحریر کیا تھا کہ :- ” میری شادی ان کے ساتھ ۱۹۰۳ء کے ابتداء میں ہوئی تھی یعنی ۱۹۰۳ء ماہ مارچ کا آخری ہفتہ تھا اس دن شالا مار کا میلہ تھا.ذوالحج ۱۳۲۰ ہجری کی ۲۸ تاریخ تھی.“ اکتوبر ۱۹۶۲ء میں آپ نے مجھے اس بارہ میں اطلاع دی کہ :- نکاح ۱۹۰۳ء میں ہوا تھا....رخصتانہ ۲۷ / ذوالحجہ ۱۳۲۰ ہجری کو ہوا.اس دن چراغوں کا میلہ تھا.مارچ ۱۹۰۳ء کا آخری ہفتہ تھا.رخصتا نہ دس پندرہ دن بعد ہوا.“ آپ یہ بھی ذکر کرتی ہیں کہ مباحثہ مذ میری شادی سے قبل ہو چکا تھا.شاید ۱۹۰۲ء میں ہوا تھا.( یہ مباحثہ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ہوا تھا) اخبار البدر بھی پہلے جاری ہو چکا تھا ( تاریخ اجراء ۳۱ راکتو بر ۱۹۰۲ء) منارة امسیح کی بنیاد رکھی جا چکی تھی.(سنگ بنیاد ۱۳/ مارچ ۱۹۰۳ء کو رکھا گیا تھا) شالا مار باغ کا میلہ ابتداء میں اپریل کے کسی اتوار کو ہوتا تھا.مگر کافی عرصہ سے مارچ کے آخری ہفتہ میں ہوتا ہے اور اس کا تیسرا اور آخری دن ہمیشہ اتوار ہوتا ہے ، گویا ۱۹۰۳ء میں مارچ میں آخری جمعہ تا اتوار ۲۷ تا ۲۹ کو مطابق ۲۷ تا ۲۹ ذی الحجہ ۱۳۲۰ ہجری میں میلہ ہوا.
۱۴۹ کے حرم سیدہ ام ناصر صاحبہ کی طبیعت خراب تھی اور نصیر احمد مرحوم ان کا پہلا بچہ ان کی گود میں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے فرمایا:- آپ کی صحت بہت اچھی ہے.آپ نصیر احد کو دودھ پلایا کریں.“ چنانچہ ایک ماہ میں نے دودھ پلایا کہ آپ فرماتی ہیں کہ بمقدمہ کرم دین چونکہ حضرت مولوی صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ گورداسپور جایا کرتے تھے اور ابھی ہمارا کوئی بچہ نہیں تھا.میں سکھوں سے کرایہ پر لئے گئے مکان میں اکیلی رہتی تھی.اس لئے حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے اپنے پاس رہنے کے لئے فرمایا.مولوی محمد علی صاحب کی اہلیہ فاطمہ بیگم جو بہشتی مقبرہ میں دفن ہیں.پاس ہی بیٹھی تھیں انہوں نے کہا کہ میں اکیلی ہوں اور میرے متعلق کہا کہ انہیں میرے پاس رہنے دیں.حضرت ام المؤمنین نے اجازت دے دی اور میں اہلیہ صاحبہ مولوی محمدعلی صاحب کے پاس کچھ عرصہ ٹھہری ہیں آپ یہ بھی بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود سیالکوٹ تشریف لے جانے لگے تو حضرت ام المؤمنین نے حضور سے دریافت کیا کہ کیا مولوی سید سرور شاہ صاحب کی بیوی کو بھی ساتھ لے چلیں.فرمایا.ہاں ان کو الا تاریخ ولادت صاحبزادہ نصیر احمد ۲۶ مئی ۱۹۰۶ء ۵ ۱۹۰۶ ء میں چیت وساکھ ۱۶ / مارچ تا ۸ مئی تھا.گو تاریخ ولادت بعد کی ہے لیکن اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسی سال کی عمر میں بھی چھپن سال قبل کے واقع کے مہینوں کی تعیین بغیر تحریری یادداشت کے بتانا جس میں ایک دو ماہ کا فرق ہو اصولاً روایت کی درستی پر دلالت کرتا ہے.اپنی بچی اور صاحبزادہ نصیر احمد کی ولادت کے سن درست بتلائے ہیں.مولوی مد علی صاحب کا قیام مسجد مبارک کی آخری چھت سے ملحق دار مسیح کے بالائی حصہ میں تھا.بقیہ حاشیہ نتیجہ: کوائف بالا کا نتیجہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ ڈاکٹر عباداللہ صاحب نے یکم جنوری ۱۹۰۳ء کے لگ بھگ دختر بابا جیون بٹ صاحب کے رشتہ کے متعلق حضرت مولوی نورالدین صاحب سے ذکر کیا.۱۶ / مارچ ۱۹۰۳ء کو نکاح ہوا اور ۲۷ یا ۲۸ مارچ کو رخصتانہ عمل میں آیا.چونکہ ۲۷ کو جمعہ تھا اس دن قا دیان سے اور پھر حضرت مولوی صاحب جیسے بزرگ کے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی بزرگ اس کی اجازت دے سکتے تھے اور نہ ہی اس وقت کی قادیان سے تیرہ احباب اپنے کاموں کی خاطر جمعہ ترک کر کے امرت سر جاسکتے تھے اور نہ ہی کوئی مجبوری تھی.اس لئے ۲۸ / مارچ بروز آخری ہفتہ کی تاریخ درست قرار پاتی ہے اور آپ کی اہلیہ محترمہ نے ۱۹۵۰ء کے مکتوب میں یہی تاریخ رقم کی تھی اور یہی درست ہے.
بھی لے چلو.سیالکوٹ ہم آٹھ دن رہے.وہاں حضور کھانے پر سب کے متعلق دریافت فرماتے کہ سب کو کھانا مل گیا.میرے متعلق حضور کو علم تھا کہ میں سبز چائے پیتی ہوں حضور نے میرے لئے دودھ سبز چائے اور ایک انگیٹھی کا انتظام کروا دیا تا کہ مجھے چائے کی تکلیف نہ ہوئی نقشہ بلا پیمائش نوٹ: یہ نقشہ بلا پیمائش ہے.صرف اس لئے درج کیا ہے تا کہ سرسری رنگ میں معلوم ہو سکے کہ حضرت مولوی صاحب سکھوں کی گلی میں کون سے مکان میں رہائش رکھتے تھے اور ۱۹۲۹ء سے تا وفات کس مکان میں قیام رہا.شمال + الحکم سٹریٹ راستہ بطرف ڈاک خانہ 1 پل احمد یہ چوک ا.۱۳ راسته بطرف دارالانوار ۱۲ حضرت اقدس ۲۷ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو قادیان سے سیالکوٹ کے لئے روانہ ہو کر ۴ رنومبر کو مراجعت فرما ہوئے تھے.محترمہ اس سفر کی تاریخ اکتوبر ۱۹۰۵ء بتلاتی ہیں.اس عمر میں ۱۹۰۴ء کی بجائے ۱۹۰۵ء بتانا بھی قابلِ اعتراض نہیں بلکہ میں ان کے حافظہ کی داد دیتا ہوں.
-1 دار المسیح ۱۵۱ تفصیل نقشه -٣ مکان مردانہ وزنانہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب قصر خلافت مکان حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ۵- دفتر تحریک جدید -Y -۷ ĭ í مکان با بو سجان سنگھ جو سکھوں کی گلی میں واقع تھا.جس میں حضرت مولوی صاحب نے شادی کے بعد رہائش اختیار کی.یہ مکان پہلے کچا تھا اور اس وقت پختہ بن چکا ہے.گوردواره مکان حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جو کسٹوڈین کی طرف سے واگزار ہو چکا ہے.-^ -9 - 1+ 11- دار حضرت خلیفہ اول مدرسہ احمدیہ مهمان خانه ۱۲ مکان جس میں حضرت مولوی صاحب نے ۱۹۲۹ء سے رہائش اختیار کی اور بعد ازاں اسے خرید لیا اور تا وفات اس میں قیام کیا.موجودہ جلسہ گاہ.پہلے یہ زنانہ جلسہ گاہ ہوتی تھی.پھر تا تقسیم ملک ہینگر خانہ اندرون شہر کے طور پر زیر استعمال رہا.اس جلسہ گاہ کے شمال مغرب میں ایک بڑ کا درخت ہوتا تھا.جس کے نیچے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جنازے پڑھے جاتے رہے لیکن اب وہ موجود نہیں.
۱۵۲ محتر مہ اہلیہ دوم کی خدمت دین آپ نے حضرت مولوی صاحب سے کچھ حصہ قرآن مجید کا پڑھا.آپ موصیہ ہیں اور حسب توفیق مالی تحریکات میں حصہ لیتی رہی ہیں.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور زاد آخرت کا موجب بنائے کہیں حضرت خلیفہ اوّل کا سمدھی بننا آپ کو اللہ تعالیٰ نے اہلیہ اول کے بطن سے ایک بچی عطا فرمائی تھی جو کئی برکات کا باعث بنیں.بچی کی عمر والدہ صاحبہ کی وفات کے وقت دس ماہ کی تھی.اہلیہ دوم کا بیان ہے کہ دس گیارہ سال کی عمر تک وہ اپنے نھیال میں بمقام دانہ پرورش پاتی رہیں.پھر حضرت مولوی صاحب عزیزہ کو قادیان لے آئے.ان کی شادی محترم میاں عبدالحی صاحب ابن حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) سے ہوئی * الفضل میں مرقوم ہے:- بعض مالی خدمات کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:- (۱) آپ نے بتاریخ ۲۷-۸-۱۸ ایک صد روپیہ کے مالیتی زیور اور دوصد روپیہ مہر کی وصیت کی.آپ کا نمبر وصیت ۱۳۰۴ ہے.(۲) چندہ مسجد برلن.اس میں آپ نے تھیں روپے چندہ دیا.کے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس چندہ کی تحریک پر بادشاہ کی زہ والی مثال صادق آتی ہے.دوسروں کی مسجد میں تو اس لئے تعمیر ہوتی ہیں کہ جو ایمان لے آئے ہیں ان میں نماز پڑھیں لیکن ہماری مساجد کی تحریکوں کے باعث لوگ ایمان لے آتے ہیں.چونکہ اس مسجد کے لئے میری طرف سے یہ پابندی تھی کہ صرف احمدی خواتیں چندہ دے سکتی ہیں.اس لئے گیارہ خواتین نے صرف اس لئے احمدیت قبول کر لی کہ اس چندہ میں شرکت کر سکیں اور اس کے ثواب سے محروم نہ رہیں.یہ پہلا پھل ہے جو اس تحریک سے ہم نے چکھا.A (۳) ۱۹۲۵ء میں ایک لاکھ روپیہ چندہ خاص کی تحریک میں حضرت مولوی صاحب نے ایک ماہ کی تنخواہ دی تھی محترمہ نے چھ روپے چندہ دیا تھا.9 مؤقر الحکم رقمطراز ہے :- و آج حضرت خلیفہ مسیح کے بڑے صاحبزادہ عبدالحی سلمہ کا نکاح مولوی سید سرور شاہ صاحب کی دختر نیک اختر سے دو ہزار روپیہ مہر پر ہوا.الحکم کا ایک خاص پر چہ اس تقریب پر شائع ہوا.“ 10
۱۵۳ اس ہفتہ کا سب سے بڑا قابل ذکر مسرت خیز واقعہ عزیز عبدالحی کے نکاح کا ہے.مولوی محمد سرور شاہ صاحب مستحق مبارکباد ہیں جن کی دختر نیک اختر کا صہر نہ صرف خاندانی وجاہت کے لحاظ سے بلکہ علمی و عملی خوبیوں میں یکتائے روزگار ہے اور اس شخص سے بڑھ کر اعلی کفو کون ہوسکتا ہے جسے خدا نے اپنے جری اللہ فی حلل الانبیا میسیج کا خلیفہ مقررفرمایا.اس وقت اس کے ایڈیٹر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) آپ مزید تحریر فرماتے ہیں:.مبارک اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ اپنے بندوں پر ہمیشہ فضل کرتا ہے اور ہر مصیبت اور مشکل میں ان کا ساتھ دیتا ہے.ایک دریدہ دہن نے جب حضرت مسیح موعود پر اعتراض کیا کہ آپ بڑے معجزات کے مدعی ہیں آپ کے پاس آپ کے نہایت مخلص مولوی نور الدین (خلیفہ اسیح ) صاحب بیٹھے ہیں اور ان کے بیٹے مر مر جاتے ہیں کیوں نہیں ان کے اولاد ہو جاتی.اس اعتراض سے جو درد حضور کو پہنچا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت قدیم سے کام لے کر اپنے بندے پر سے اعتراض رفع کرنے کے لئے اطلاع دی کہ حضرت مولوی صاحب کے ایک لڑکا ہوگا جو زندہ رہے گا اور اس کے جسم پر پھوڑے ہوں گے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبدالحی رکھا گیا اور اس کے جسم پر پھنسیاں بھی نکلیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا کلام پورا ہوا اور اس کے مسیح کی تصدیق ہوئی.عزیزم عبد الحی خدا کا ایک نشان ہے اور اس کی زندگی کا ایک ایک سال بلکہ اس کی حیات کی ایک ایک گھڑی منکرین میسیج کے لئے مسکت ہے اور خدا کی قدرت پر دلالت کرتی ہے.۲۵ / جون ۱۹۱۳ ء زیر مدیریت امسیح » * تذکره صفحه ۲۱۳ طبع ۲۰۰۴ء بقیہ حاشیہ: - مؤقر بدر تحریر کناں ہے :- مبارک - مبارک – مبارک نہایت خوشی سے اس خبر کی اشاعت کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ تعالی کے فرزند ارجمند صاحبزادہ عبدالحی کا نکاح ۲۱ جون ۱۳ ء روز سبت کی صبح کو جناب مولوی سید سرور شاہ صاحب کی دختر نیک اختر فاطمہ کبری سے بعوض دو ہزار روپیہ حق مہر اعلان ہوا.ہماری دلی خواہش اور دعا ہے کہ اللہ تعالی اس تعلق کولڑکے لڑکی اور ان کے تمام متعلقین کے واسطے اپنی خاص رضا مندیوں کے حصول کا موجب بنائے.ال
۱۵۴ اس موقع پر اس واقع کے دُہرانے کی اس لئے ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عزیزم عبدالحئی اب چودہ سال کے ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ موقع دیا ہے کہ آج بتاریخ ۲۱ / جون ان کی شادی جناب مولوی سید سرور شاہ صاحب کی لڑکی فاطمہ سے بخیر وخوبی انجام پائی ہے خطبہ خود حضرت خلیفہ اسیح نے پڑھا.مہر دو ہزار روپیہ مقرر ہوا.یہ شادی بھی اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عزیزم عبدالی کو بلوغ کی عمر تک پہنچایا.خدا کرے یہ شادی بڑی بڑی برکتوں کا موجب ہو اور اس تعلق کا نتیجہ حضرت خلیفہ اسیح.خود میاں بیوی اور ساری قوم کے لئے مفید ہو.میں اس موقع پر تمام ناظرین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ خلوص دل سے اس شادی کے مبارک ہونے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کریں.والاجر من الله.محمود احمد (ص۱۶) نیز تحریر فرماتے ہیں:.سورہ نور کے بہت سے احکام کا عملدرآمد مسلمانوں سے چھوٹ گیا ہے ازاں جملہ ایک یہ بھی ہے کہ گھر علیحدہ علیحدہ ہوں.اگر مسلمان اس پر عمل کرتے تو ان کے گھر بہشت کا نمونہ ہوتے.حضور نے عزیز عبدالحی کے نکاح کے بعد اس کا مکان بنوانا شروع کیا ہے.‘۱۲ عزیز عبدالحی کا پختہ مکان بہت خوشنما تیار ہو جانے پر بنت مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا ۲ /اگست کو رخصتا نہ ہو گیا.یہ لڑ کی مولوی صاحب کی اگلی مرحومہ بیوی سے ہے.مگر اہلیہ مولوی صاحب نے جس محبت و فراخدلی سے اس کا جہیز تیار کیا ہے وہ ایسی ماؤں کے لئے قابل تقلید اسوہ ہے.جزاها الله احسن الجزاء مولانا خلیفہ اسیح نے فرمایا.ہم نے تو اپنی بہو اور بیٹے کو دو قرآن مجید ، دو صحیح بخاری اور ان کے لئے رحل اور حزب المقبول، فتوح الغیب اور براہین احمدیہ اور الماری اور تہجد کے لئے لالٹین اور لوٹادیئے ہیں اور بس.“ یہ پاک جذبات فانی فی اللہ اور باقی باللہ لوگوں ہی میں ہو سکتے ہیں.۱۳ افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی اور صاحبزادہ عبدالحئی صاحب میں روز کی علالت کے بعد ارنومبر ۱۹۱۵ء کو اس عالم فانی سے عالم جاودانی کو سدھارے اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.مؤقر الفضل تعزیت کرتے ہوئے راقم ہے کہ : - ہمیں اس صدمہ میں مولانا محمد سرور شاہ صاحب سے بھی ہمدردی ہے جن کو
۱۵۵ نسبت مہری کی وجہ سے دوہرا صدمہ ہوا ہے اور حضرت خلیفہ وقت اور تمام اہل بیت نبوی نے بوجہ تعلقات جسمانی وروحانی جو غم محسوس کیا وہ ایک لازمی بات ہے.۱۴ کچھ عرصہ بعد موصوفہ محترم سید محمود اللہ شاہ صاحب پسر حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب کے عقد میں آئیں قریباً ساڑھے چھ سالہ ازدواجی زندگی کے بعد محترمہ اس دار فانی سے کوچ کر گئیں.اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کے ایک نواسہ کی خانہ آبادی کا باعث حضرت مسیح موعود علیہ.السلام کی ایک پوتی ہیں.۱۸ رمئی ۱۹۱۷ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار روپیہ مہر پر نکاح کا اعلان فرمایا.۱۵ الحکم میں مرقوم ہے :- یہ خبر نہایت رنج سے پڑھی جاو گی کہ جناب مولانا مولوی سرور شاہ صاحب کی دختر کلاں جو عزیز مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب کے نکاح میں تھیں ایک عرصہ کی بیماری کے بعد وفات پاگئیں.انّا لِلَّهِ وَإِنا اليه راجعون.مرحومہ دو چھوٹے چھوٹے بچے اپنی نشانی چھوڑ گئی ہیں.عزیز محمود اللہ شاہ صاحب کو ولایت میں یہ خبر نہایت رنجدہ ہو گی مگر خدا کی مشیت ہی اس قابل ہے کہ مومن اس پر راضی ہو.حضرت مولا نا سرورشاہ صاحب اور مکرم سید ستار شاہ صاحب کے خاندان سے اس حادثہ میں عام ہمدردی ہے.اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنے فضل و کرم سے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے.آمین.بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئی.حضرت اقدس جنازہ کے ہمراہ تشریف لے گئے.۲۳-۱۱-۷ زیر دارالامان کا ہفتہ نیز الفضل ۲۳-۱۱-۴ میں بھی زیر مدینہ امسیح ، حضور کے جنازہ پڑھانے کا اور ۲۳-۸-۱۴ میں اس سے قبل اس عنوان کے تحت ان کی علالت کا ذکر ہے.صاحبزادگان سید مسعود مبارک شاہ صاحب ( نائب سیکرٹری بہشتی مقبرہ ربوہ ) اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب ہیں.سیدہ امته الحکیم صاحبه دختر سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ ) سید داؤد مظفر شاہ صاحب کی زوجیت میں ہیں.محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ کا یہی نام اعلان نکاح میں موجود ہے لیکن دفتر بہشتی مقبرہ سے معلوم ہوا کہ سید محمود اللہ شاہ صاحب کے عقد زوجیت میں آکر مرحومہ نے اپنا نام تبدیل کر کے محمودہ بیگم رکھ لیا تھا اور ان کی وصیت میں جو انہوں نے ۲۸ / جولائی ۱۹۲۳ء کو کی تھی یہی نام درج ہے.آپ کی قبر سے ( جو قطعہ نمبر ۲.قطار نمبر 1 میں تیسرے نمبر پر ہے ) کتبہ کی عبارت نقل کی جاتی ہے:.
دیگر اولا داور شجرہ نسب زوجہ ء دوم کے بطن سے آپ کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے سن بلوغ کو پہنچے.دوفرزند اور ایک دختر زندہ ہیں تمہیں ی تفصیل درج ذیل ہے :- (۱) حلیمہ بیگم صاحبہ ( ولادت اپریل ۱۹۰۶ ء وفات ۱۹۳۴ء ) آپ کی والدہ صاحبہ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر صاحبزادہ نصیر احمد صاحب ابن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالی) کو دودھ پلانے پر آپ ان کی رضاعی ہمشیرہ ہوئیں.نکاح کے متعلق الفضل ۲۵-۱-۱۷ میں زیر ” اخبار احمدیہ مرقوم ہے :- میاں محمد سعید صاحب پسر سیٹھ ابوبکر صاحب آف جدہ کا نکاح حلیمہ بیگم بنت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بقیہ حاشیہ: - بسم اللہ الرحمن الرحیم.مسماۃ محمودہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب قوم سید گیلانی سکنہ قادیان - عمر ۳۵ سال وفات ۲۳-۱۰-۳۱ وصیت ۷ ۲۰۸ عمر وصیت کے ریکارڈ میں درج نہیں.صرف کتبہ پر درج ہے جو یقیناً غلط ہے کیونکہ (۱) اس کا مطلب یہ ہے کہ مرحومہ کی ولادت ۱۸۸۸ء کے قریب کی ہے.حالانکہ مولوی صاحب کی عمر اناسی سال ۱۹۴۷ء میں تسلیم کرنے کی صورت میں ۱۸۸۸ء میں بیس سال تھی اور ابھی آپ لاہور میں زیر تعلیم ہوں گے.اٹھارہ سال کی عمر میں لا ہور حصول علم کے لئے آپ آئے تھے اور وہیں سے ۱۸۹۲ء میں دیو بند پہنچے تھے اور ایک سال کے بعد امتحان دیا تھا اور وہاں ایک رشتہ ملتا تھا لیکن آپ نے قبول نہیں کیا تھا ( ص ۲۲ تا ۲۶، ۳۹، ۱۸۹۳۴۰ ء تو یہاں تک ہو جاتا ہے.(۲) آپ کی اہلیہ اول کی وفات کے وقت فاطمہ صاحبہ دس ماہ کی تھیں اور خاکسار قرائن بیان کر چکا ہے جن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اہلیہ محترمہ کی وفات ۱۹۰۰ء میں ہوئی تھی تو ۱۹۲۳ء میں فاطمہ صاحبہ کی عمر ۲۴ سال کے قریب بنتی ہے.(۳) اہلیہ دوم بیان فرماتی ہے کہ میری شادی ( مارچ ۱۹۰۳ء) کے وقت فاطمہ صاحبہ کی عمر چار سال تھی.اس طرح ۱۹۲۳ء میں چوبیس سال بنتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ کتبہ کے لئے حضرت مولوی صاحب نے عمر پچیس سال بتائی لیکن کتبہ نویس نے ۳۵ سال تحریر کر دی.
۱۵۷ شجرہ نسب سید محمد حسن شاہ (صحابی- وفات ۱۹۱۰ء) ( از بین اہلیہ اول) (اہلیہ دوم.لاولد ) سید حسین شاہ ار بطن اہلیہ سوم) سید محمد صادق شاہ مرحوم حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب سید غلام حسین شاہ رضیہ بیگم ( پہلی بیوی کی اولا د چارلڑ کیاں فوت ہوگئیں (صحابی.مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) ( صحابی.وفات در عہد خلافت اولی ) اہلیہ سید محمد ناصر شاہ دوسری بیوی کی ایک لڑکی فوت ہوگئی دو زندہ ہیں ) ابن حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ حسین ( البطن اہلیہ اول) فاطمہ بیگم (جن کا نام بعد میں محمودہ بیگم ہوا ) اہلیہ سید محمود اللہ شاہ مرحوم ابن حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم سید عبد العزیز ( از بطن اہلیہ چہارم ) اللہ شاہ (وفات ۱۹۲۳ء) سید محمد امین شاہ گیلانی مقیم لاہور (متوفی.سابق رکن حکومت آزاد کشمیر ) سلمیٰ بیگم تمکین بیگم سجاد احمد لڑکا ار بطن اہلیہ دوم حلیمہ بیگم مرحومه اہلیہ سیٹھ محمد سعید صاحب اللہ شاہ) شیرانی عظیم ناگه خالد سلیمہ بیگم مرحومه سید محمد ناصر شاہ ناصرہ بیگم سید صلاح الدین اہلیہ خان عبد الرحیم خان اولاد :- اہلیہ مولوی عبد الرحیم مبارک احمد شاہ.ربوہ ابن حضرت سیٹھا ابو بکر یوسف صاحب صاحب رئیس حصاری) رشید سرور خان عادل لاہور ) اولاد :- سید مسعود مبارک شاہ بی.اے سید داؤ د مظفر شاہ بی.اے ( متون جده) اولاد:- مسعود احمد راحمد محمود احم محمودہ بیگم البطن سید امتة الحلیم بیگم صاحبہ دختر حضرت مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی اولاد - احمد - امة الرؤف جمال یوسف طارق - قاسم احمد اولاد - زین الهدای ثمینه خالد احمد مولو د احمد حلیمہ شاہینہ کمال احمد ابوسعید صدیقہ بیگم اولاد :- محمد یوسف خان حمید سرور منور احمد سرور عبد الصمد خاں منیره سرور شمینہ بیگم (اہلیہ کمال یوسف) صدیق یوسف رشیده یوسف کمال یوسف احسان خان ( سابق مجاہد سکنڈے نیو یا وڈنمارک) مبشر احمد سرور مظفر احمد
۱۵۸ والد ماجد - اخوان واقارب (۱) والد بزرگوار حصہ اوّل میں آپ کے والد ماجد کی اہلی زندگی اور ابتدا میں احمدیت کی وجہ سے مولوی صاحب کی شدید بقیہ حاشیہ کے ساتھ مبلغ دو ہزار و پیہ مہر پر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے مؤرخہ ۷/جنوری ۱۹۶۵ء بعد نماز عصر مسجد مبارک میں پڑھایا.(۲) محترمه سلیمہ بیگم صاحبہ (ولادت ۱۹۰۸ء) خان عبد الرحیم خان صاحب رئیس حصاری ضلع ہزارہ کے نکاح میں آئیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اعلان نکاح کے موقع پر ذیل کا خطبہ فرمایا:- اس میں کوئی شک نہیں کہ مردوں کو ایک فضیلت اور افسری حاصل ہے اور قرآن کریم اور رسول کریم کی تعلیم سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فوقیت ہے اور ان کو ایک درجہ دیا گیا ہے لیکن صرف ماتحتی اس امر پر دلالت نہیں کرتی کہ عورتیں محض ماتحتی کے لئے ہی پیدا کی گئی ہیں اور ان کا کوئی حق ہی نہیں ہے کیونکہ ماتختی بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک ماتحتی تو ماتحتی کے لئے ہوتی ہے اور اس کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ ماتحت ہی رہے.“ ” جیسے جانوروں کی ماتحتی گھوڑے ہیں، گدھے ہیں، گائے ہیں، بکریاں ہیں.ان کی ماتحتی کی اصل غرض ہی یہی ہے کہ وہ انسان کے ماتحت ہی رہیں تاکہ ان کی ماتحتی سے انسان سکھ اور آرام حاصل کریں.خدا نے ان کو انسانوں کا مسخر بنایا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم نے ان جانوروں کو تمہاری خدمت کے لئے پیدا کیا ہے اور تم کو ایسی طاقت دی ہے کہ تم ان پر حکومت اور افسری کر سکو اور ایک گھوڑا گدھا یا مرغی وغیرہ جانور اس لئے انسان کے ماتحت نہیں کئے گئے ہیں.اگر وہ جانورز کی بھی ہیں اور ان میں عقل بھی پائی جاتی ہے تو بھی اس لئے کہ ان کی عقل اور ان کا ز کی ہونا انسان کے کام آوے.مگر ایک ماتحتی مجبوری کی ماتحتی ہوتی ہے اصل مقصد اس سے ماتحتی نہیں ہوتا.کیونکہ اصل مقصد کے حصول میں بغیر اس کے کامیابی نہیں ہوسکتی.اس لئے وہ ماتحتی بطور علاج ہوتی ہے.نہ بطور اصل مقصد کے جیسے تربیت اولا د بغیر اولاد کی ماتحتی کے بالکل نہیں ہو سکتی.جب تک ماں باپ اولاد پر پورا تصرف نہ رکھیں.اولاد کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا.اب اولاد کی ماتحتی جانوروں کی ماتحتی کی طرح نہیں.کیونکہ جانوروں کی ماتحتی تو انسان کے فائدہ اور اس کے سکھ اور آرام کے لئے ہے لیکن اولاد کی ماتحتی ماں باپ کے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ اولاد کے فائدہ کے
۱۵۹ مخالفت بلکہ آپ کے ہلاک کرنے کی کوشش میں تعاون کا ذکر ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قلوب میں انقلاب پیدا کر دیتا ہے وہی والد جو بیٹے کے خون کا پیاسا تھا بالآ خر احمدیت کی صداقت کا شکار ہو گیا اور یہ بیان بقیہ حاشیہ: - لئے ہے.اسی طرح انتظام کی درستی ، تمدن اور باہم نیک معاشرت اور اشتراک کے قیام کے لئے جب تک پریذیڈنٹ یا کوئی امیر نہ ہو.سول اور سوشل تعلقات صحیح اور درست نہیں رہ سکتے.اب پریذیڈنٹ کی افسری کے یہ معنی نہیں زیادہ سے زیادہ اس کو یہ درجہ دیا جاتا ہے کہ اس کی رائے کو انتظامی معاملات میں فوقیت دی جاتی ہے.مگر اس کے شخصی حقوق دوسروں سے زیادہ نہیں ہو جاتے.مثلاً ایک تجارتی کمپنی کا ایک پریذیڈنٹ ہو.اس کی رائے کو بے شک وقعت دی جائے گی.مگر وہ اپنی اس افسری کی وجہ سے یہ حق نہیں رکھتا کہ دوسروں کے حصہ پر بھی قبضہ کرلے کیونکہ اس کی افسری اور دوسروں کی ماتحتی با ہم تعاون اور اشتراک کے قیام کے لئے ہے نہ اس لئے کہ دوسروں سے کام لے کر فائدہ اٹھائے.یہی ماتحتی ہے جو بیوی کی خاوند کے لئے مقرر کی گئی ہے جہاں آدمی زیادہ ہوں وہاں تو کثرت رائے پر بھی فیصلہ ہو جاتا ہے مگر میاں بیوی دو آدمیوں میں کثرت رائے کا سوال بھی اُٹھ جاتا ہے.کیونکہ نوے فی صدی ایسے ہیں کہ جو ایک بیوی سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتے.کیونکہ اگر غور کیا جائے تو مرد و عورت کی تعداد قریباً برابر ہے.ایک تو اس وجہ سے کہ معقول تعداد آدمیوں کی ایسی ہے کہ جو نکاح کی طاقت ہی نہیں رکھتے.مگر عورتیں باوجود کمزوری کے نکاح کر سکتی ہیں اور پھر پانچ فیصدی مردوں میں سے بھی جو ایک سے زیادہ بیویاں رکھ سکتے ہیں.چند ایسے ہوں گے جو دو ہی رکھ سکیں گے اور چند ہی ایسے ہوں گے جو چار بھی رکھ سکیں.قانون قدرت میں خدا تعالیٰ نے تعدا د نکاح میں خود ہی حد بندی کر دی ہے.ایک لیڈی نے انگلینڈ میں مجھ پر سوال کیا تھا کہ اس اجازت سے تو ضرورت کے بغیر ہی ہر کس و ناکس کثرت ازدواج کرنے لگ جائے گا.میں نے ان کو یہی جواب دیا کہ لوگ اس قدر عورتیں کہاں سے لائیں گے کہ ہر شخص ایک سے زیادہ نکاح کرنے لگے.اگر ملک میں عورتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر شخص ایک سے زیادہ نکاح کرسکتا ہے.تو پھر میرے نزدیک ہر شخص کا فرض ہے کہ ایسے کرے تا ملک کی طاقت ضائع نہ جائے.لیکن اصل بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے خود ہی قانونِ قدرت کے ذریعہ اس کی حد بندی کر دی ہے.جس سے کوئی تجاوز نہیں کر سکتا.یہ طریق افسری اور ماتحتی کا جو میاں بیوی کے درمیان رکھا گیا ہے.محض اس لئے ہے کہ تا وہ دونوں بغیر کسی قسم کی شکر رنجی کے ایک دوسرے کا تعاون کر سکیں.مرد کی اس افسری کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی وجہ سے عورت سے مرد کے حقوق کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں.
17.ہو چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری سفر لاہور (۲۷ را پریل ۱۹۰۸ء) سے دوروز قبل آپ نے قادیان میں دستی بیعت کی سعادت پائی اور ۱۹۱۰ء میں اپنے وطن موضع گھنڈی میں وفات پائی جہاں آپ کی قبر معروف ہے کہ آپ کی سات لڑکیاں بھی تھیں جن کے حالات مہیا نہیں ہو سکے.اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اوّل (ص ۷ ، ۵۷) حضرت مولوی صاحب کی اہلیہ محترمہ دوم نے بھی خاکسار سے تحریر ابیان کیا کہ مولوی صاحب کے والد صاحب نے ۱۹۱۰ء میں بعمر اسی سال وفات پائی تھی.بقیہ حاشیہ: اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے وَاتَّقُوا اللہ پہلے تو اصل منبع کی طرف توجہ دلائی کہ ایک انسان کی تم اولاد ہو.کیا مرد اور کیا عورت یہ نہیں فرمایا کہ مرد کو ہم نے افسری کے لئے پیدا کیا ہے اور عورت کو ماتحتی کے لئے.ایسا قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا.اگر کچھ آیا ہے تو دونوں کے لئے آیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَّ رَحْمَةً كرتم تسکین اور آرام حاصل کرو.اس طرح کہ تم بیوی سے محبت کرو اور بیوی تم سے محبت کرے.تم بیوی پر مہربانی کرو اور بیوی تم پر مہربانی کرے.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے عورتوں کو مردوں کے تقویٰ کے لئے بطور لباس بنایا ہے.حالانکہ صرف عورتیں مردوں کے لئے بطور لباس نہیں بنائی گئیں بلکہ مرد بھی عورتوں کے لئے بطور لباس بنائے گئے ہیں.هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ محض عورت مرد کے لئے لباس نہیں بلکہ مرد بھی عورت کے لئے لباس ہیں اور ذمہ داریاں دونوں کی برابر ہیں.ہاں درجوں میں تفاوت ہے.جیسے اشتراک اور تعاون کے قائم رکھنے کے لئے پریذیڈنٹ اور امیر کو درجہ دیا جاتا ہے.بڑے سے بڑا اگر اس کو کچھ فائدہ ہے تو یہی کہ اس کی رائے زیادہ سنی جائے گی.حقوق میں وہ کوئی زیادہ نفع حاصل نہیں کر سکتا.اِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس مسئلہ کو نہ سمجھو گے اور تقویٰ سے کام لے کر عورتوں کے حقوق کی حفاظت نہ کرو گے تو یاد رکھو کہ تم پر بھی ایک اور ہستی نگران ہے.آج اہلِ یورپ کہتے تو ہیں کہ ہم عورتوں کے حقوق ان کو دیتے ہیں حالانکہ انہوں نے دیئے نہیں بلکہ عورتوں نے اپنے حقوق ان سے چھینے ہیں لیکن اسلام نے نہایت خوشی کے ساتھ عورتوں کو حقوق دیئے ہیں اور اس وقت دیئے ہیں جب عورتوں نے اپنے حقوق مانگے بھی نہیں تھے.بلکہ اسلام نے تو حقوق اس وقت دیئے ہیں جب عورتیں حق مانگنا تو درکنار اپنا حق ہی کچھ نہ بجھتی تھیں اور ان کی زندگی نوکروں اور غلاموں بلکہ جانوروں کی طرح بسر ہوتی تھی.پس قبل اس کے کہ عورتیں اپنے حقوق مردوں سے طلب کریں.مردوں کو چاہئے کہ ان کے حقوق ان کو دے دیں.تا اللہ تعالیٰ کا منشاء جھگڑوں اور فسادوں کے ذریعہ پورا نہ ہو بلکہ اس کے حکم کے ماتحت ہم اس کے منشاء کو پورا کرنے والے نہیں کہ اس میں اسلام کی بھی عزت ہے.‘11
171 آپ کے بھائیوں اورا قارب کا مختصر تذکرہ حصہ اول میں آچکا ہے.مزید جو حالات دستیاب ہوئے ہیں یہاں درج کئے جاتے ہیں.(۲) سید محمد صادق شاہ صاحب سید محمد صاحب شاہ صاحب آپ کے سگے بڑے بھائی تھے اور جب مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کشمیر گئے تو آپ کی تبلیغ سے احمدی ہوئے تھے.خلافت ثانیہ میں ایک دفعہ قادیان آئے تھے حاشیہ موصوفہ حصاری سے قادیان آتے ہوئے ایبٹ آباد میں وفات پاگئیں.کل ۱۹۴۱ء میں خاکسار مؤلف نے حصاری میں چند دن قیام کیا تھا اور محترم خان عبدالرحیم خان صاحب کی مشفقانہ یا اب تک دل میں نقش ہے انہوں نے بتایا تھا کہ موصوفہ حصاری میں دفن ہیں.(۳) سید محمد ناصر شاہ صاحب.ان کی ولادت پر محترم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے تحریر کیا :.بہت مہینے پہلے آپ کو الہام ہوا کہ ۱۸ اکتو بر ہم تجھے ایک لڑکا بخشیں گے.وو یہ الہام مولانا موصوف نے اپنے شاگردوں کو بہت پہلے اور پھر اس کے بعد ایک دن درس قرآن دیتے وقت عوام الناس کو مسجد اقصیٰ میں سنا دیا تھا.“ پھر اس عشاء کو جس کی صبح لڑکا پیدا ہوجبکہ ابھی کوئی آثار ولادت نہ تھے اپنے گھر کے دروازے میں ایک غیبی آواز آپ کو آئی کہ ہمارا سلطان آتا ہے.صبح ۱۸ اکتو بر وہ لڑکا پیدا ہوا.۱۸ خاکسار مؤلف کے نزدیک ان کی ولادت سلطان یعنی دلیل تھی کہ پہلا الہام الہی تھا اور حضرت مولوی صاحب مقبولِ خدا ہیں.).(۴) عبدالقادر.ولادت ۱۳ ستمبر ۱۹۱۵ء (الفضل ۱۵-۹-۶ از میز مدینہ اسی ) قریباً سو سال کی عمر میں - از وفات پائی.(۵) ناصرہ بیگم (ولادت اکتوبر ۱۹۱۷ء) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مولوی عبدالرحیم صاحب عادل فاضل (پسر میاں عبد اللہ خان صاحب شصحابی درویش.مہاجر افغانستان ) کے ساتھ نکاح کا اعلان فرمایا.۱۹ (۲) سید مبارک احمد شاہ صاحب مقیم ربوہ (ولادت ۲۰-۱۰-۱۱ بحوالہ الحکم ۲۰-۱۰-۴) زیر سلسلہ کی خبریں و الفضل ۲۰-۱۰-۱۴ زیر مدینہ اسی.شادی ہونے پر ولیمہ الفضل ۴۳-۱۰-۲۷ زیر مدینہ (سیح) (۷) ایک بچے کی ولادت کی خبر زیر مدینتہ اسیح " الفضل ۲۳-۳-۱۲.یہ بچہ بھی زندہ نہیں رہا.
۱۶۲ اور جب حضرت خلیفہ اصسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کشمیر تشریف لے جاتے تو وہاں بھی ملاقات کے لئے آتے بمقام لدرون فوت ہوئے اور وہاں ان کی قبر معروف ہے.۲۰ مولوی صاحب سے تین سال بڑے تھے.بعمر اسی سال وفات پائی ہے آپ تحریر فرماتے ہیں :- ”میرے بڑے بھائی سید محمد صادق شاہ صاحب اپنے وطن کشمیر میں وفات پاگئے ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.میرے قادیان آنے کے تھوڑی مدت بعد مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشمیر بھیجا تو میں ان بھائی صاحب مرحوم سے ملنے گیا.چونکہ ہمارا خاندان پیروں کا خاندان ہے اس لئے میں نے اپنے خاندان میں بالواسطہ ماخوذ از مکتوب محتر مہ اہلیہ صاحب حضرت مولوی صاحب خاکسار کے نام.موصوفہ ان کو صحابی لکھتی ہیں.کیونکہ حضور کے عہد مبارک میں بیعت کرنے والوں کو بدوں زیارت بھی بعض افراد صحابی سمجھ لیتے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے خاکسار کے استفسار پر بالوضاحت بتا دیا تھا کہ بھائیوں میں سے کس کس نے حضور کی بیعت کے علاوہ زیارت بھی کی تھی.سید محمد صادق شاہ صاحب نے زیارت نہیں کر پائی تھی.ان کی بیعت کے الحکم و بدر کے اندراجات یوں ہیں :- (الف) ”سید محمد صادق صاحب نمبر دار لدره ون ریاست کشمیر ۲۱ (ب) "محمد صادق شاہ صاحب نمبر دار.لدره ون حال وارد گھنڈی تحصیل و ضلع مظفر آبا دریاست کشمیر ۲۲ (ج) سید صادق صاحب ولد محمد حسن شاہ صاحب ساکن لدرہ ون ڈاکخانہ ہندواڑہ علاقہ کشمیر تر مجھی پور ۲۳ پہلی بار تو بیعت اس وقت شائع ہوئی جب کہ حضرت مولوی صاحب کے ذریعہ وہ احمدی ہوئے.چونکہ وہ قادیان حضور کے زمانہ میں نہیں آئے اس لئے یہ امر تو خارج از امکان ہے کہ دستی بیعت کی وجہ سے سہؤا نیا اندراج ہوتا رہا.اور وجوہات ہوں گی.مثلاً بیعت کے لئے اخبارات کو اطلاع دینے والے صاحب نے سمجھا پہلے اطلاع نہیں دی.دوبارہ الحکم کو خط سے کوائف اخذ کر کے بھجوا دئیے.کسی وقت بدر کو بھجوا دئیے.جو سہؤا پڑے رہے اور سالہا سال کے بعد درج ہوئے.اسے تازہ اطلاع سمجھا گیا.اخبارات میں انہی بیعت کنندگان کے اسماء تکرار سے شائع ہونے کی کئی مثالیں ہیں.آپ کے ایک مسئلہ دریافت کرنے کا ذکر ۲۴ رسید زر محمد صادق صاحب لدراون ۲۵ سید صادق شاہ صاحب ہندواڑہ ۲۶
۱۶۳ تبلیغ شروع کی اور جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اسی سفر میں ان کو شرح صدر عطا کیا اور اسی وقت انہوں نے بیعت کر لی.مجھے مرحوم سے اور مرحوم بھائی صاحب کو مجھ سے خاص محبت تھی.ہمارے گاؤں میں احمدی تو ہیں مگر عموما باہر رہتے ہیں.مجھے مرحوم بھائی صاحب کے نواسے نے وفات کی اطلاع دی ہے اور لکھا ہے کہ اس نے مسلمانوں کے مجمع کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی.چونکہ ان کا وہ نواسہ حسن ظن رکھتا ہے مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے اس نے بیعت نہیں کی.اس لئے احباب سے درخواست ہے کہ مرحوم بھائی صاحب کا جنازہ پڑھتے ہوئے ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائیں.والا جر عند اللہ “ ۲۷ (۳) سید غلام حسین شاہ صاحب آپ اپنی والدہ ماجدہ سے تینوں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے.حضرت مولوی صاحب مجھلے تھے.مولوی صاحب کی شادی کے جلد بعد سید صاحب قادیان آئے اور بیعت کی اور سوا سال کے قریب یہاں قیام کیا.پھر آپ کو زیادہ دیار حبیب کا موقع نہیں ملا.ایام خلافت اولی میں وفات پائی 2 (5) میر جی سید سرور شاہ صاحب و اہلیہ محترمہ سید صاحب مولوی صاحب کے پھوپھا سید محمد اشرف صاحب کے بیٹے اور آپ کی پہلی اہلیہ کے بھائی تھے.سید محمد اشرف صاحب آپ کے دادا کے چچا زاد بھتیجے تھے اور احمدیت کے زمانہ سے قبل ہی فوت ہو چکے تھے.سید سرور شاہ صاحب نے اور آپ نے حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کی مرسلہ کتب آئینہ کمالات اسلام وغیرہ پڑھی تھیں جس سے متاثر ہو کر سید صاحب نے حضرت مولوی صاحب سے قبل بیعت کا اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اول ( ص ۱۰۰۹) اہلیہ دوم مولوی صاحب بیان کرتی ہیں کہ سید صاحب مولوی صاحب سے تین سال چھوٹے تھے اور ۱۹۰۳ء میں قادیان آئے تھے.دوسری جگہ تفصیل سے ذکر آتا ہے.مولوی صاحب کی شادی مارچ ۱۹۰۳ء میں ہی متعین ہوتی ہے.چونکہ یہ امر یقینی ہے کہ سید غلام حسین صاحب دوبارہ قادیان نہیں آسکے.اس لئے ان کی قادیان آمد کا زمانہ ۱۹۰۳ء کے بہت بعد معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ ان کا نام سید غلام حسین کشمیری۲۸ فروری ۱۹۰۷ء کو قبل وقوع پیشگوئی سنے والوں میں تھا کہ آج بارش ہوگی اور اس کے بعد زلزلہ آئے گا.۲۸
۱۶۴ خط آپ ہی سے لکھوا دیا تھا.آپ صحابی تھے ہیں میر جی سید سرور شاہ صاحب کے والد ماجد حضرت مولوی صاحب ساتھ اپریل ۱۹۰۸ء میں قادیان چنددن کے لئے آنے کے علاوہ قبل ازیں ۱۹۰۶ء میں مع اہلیہ اقبال بیگم صاحبہ دختر راجہ عطا محمد صاحب آئے تھے.اس وقت مولوی صاحب بورڈنگ میں بطور سپرنٹنڈنٹ مقیم تھے.سید صاحب نے بورڈنگ والے مکان میں قیام رکھا اور مولوی صاحب اپنے اہل وعیال سمیت سکھوں والے مکان میں آگئے.میر جی قریباً تین ماہ قیام کر کے مع اہل وعیال واپس چلے گئے گویا دونوں صحابی تھے میر جی موصوف کے متعلق الفضل میں مرقوم ہے :- اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اول ( ص ۶۰،۴۴) آپ کی اہلیہ محترمہ کی بیعت کے حوالے ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں.(الف) اہلیہ وسیّد سرور شاہ صاحب داتہ ہزارہ ۲۹ دوسری بار کالم ۲ میں ” سید محمد سرور شاہ صاحب“ نام بھی بغیر سکونت کے درج ہے.(ب) اہلیہ سید سرور شاہ صاحب داتہ ہزارہ ، مانسہرہ سے اسی کالم میں سید محمد سرور شاہ صاحب کی بیعت بغیر سکونت کے درج ہے.ہر دو حوالجات کی کم و بیش ایک کالم کی فہرست دونوں پر چوں میں ملتی جلتی ہے کسی جگہ ترتیب تبدیل بھی ہوئی ہے.جس سے ظاہر ہے کہ بیعت کی اطلاع دینے والے محرر نے دوبارہ فہرست بھجوا دی اور متعدد خطوط دوبارہ تیار کرنے کے باعث اسماء ملتے جلتے ہیں اور ترتیب میں تبدیلی بھی ہوئی ہے اور کچھ حصہ فہرستوں کا مختلف بھی ہے.سید محمد سرور شاہ صاحب کی بیعت حضرت مولوی صاحب کی بیعت سے بھی پہلے کی ہے.ممکن ہے کسی سہو سے فہرست تیار کرنے والے نے نام دے دیا یا ان کے خط سے ایسا مفہوم سمجھا کہ وہ پہلی دفعہ کر رہے ہیں.وغیرہ کئی امکانات ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ سید صاحب نے اپنی دوسری اہلیہ دختر راجہ عطا محمد خان صاحب کی بیعت کا خط لکھا ہوگا.ان کی اہلیہ اول کی وفات پر دوسرے نکاح کی تحریک کے لئے حضرت مولوی صاحب کشمیر گئے تھے اور جیسا کہ تعین تاریخ ہجرت میں تفصیل پیش کی گئی ہے.سفر کشمیر اپریل یا مئی ۱۹۰۱ء سے اواخر نومبرا ۱۹۰ ء تک ہوا تھا اور الحکم سے اندراجات مئی اور جولائی ۱۹۰۲ء کے ہیں.** ۱۹۰۶ء میں میر جی کی آمد کے متعلق سارا بیان اہلیہ دوم حضرت مولوی صاحب کا ہے اور وہ فرماتی ہیں کہ ۱۹۱۵ء تک ہم کئی بار بورڈنگ میں اور وہاں سے سکھوں والے مکان میں منتقل ہوتے رہے.۱۹۱۵ء میں
وو سید سرور شاہ صاحب دا توی غیر مبائع نے یکم جنوری کو کچھ سوال لکھ کر حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کی خدمت میں برائے جواب پیش کئے جن کے حضور نے بعد از عصر جواب دیئے.سید صاحب موصوف اچھا اثر لے کر گئے.اسے ابتداء میں غیر مبائعین کے زیر اثر آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو بیعت خلافت کی توفیق عطا کی.جب حضرت مولوی صاحب ہجرت کر کے قادیان آئے ہی تھے تو سید صاحب نے حضور کی خدمت میں بذریعہ خط عرض کیا کہ میری پہلی بیوی فوت ہو چکی ہے اور اب میں راجہ عطا محمد خان صاحب سکنہ یاڑی پورہ کے ہاں جو رشتہ کرنا چاہتا ہوں.وہ انکار کرتے ہیں.وہ مولوی محمد سرور شاہ صاحب کی بات مان لیں گے.اس لئے کہ مولوی صاحب ان کے خالہ زاد بھائی ہیں.اس لئے حضور مولوی صاحب کو دو ماہ کی رخصت عنایت فرمائیں.چنانچہ اجازت ملی اور آپ محمد یا مین صاحب سکنہ دانہ کو ہمراہ لے کر یاڑی پورہ پہنچے اور یہ رشتہ ہو گیا.(ص ۶،۵۷) خاکسار کے استفسار پر راجہ غلام محمد خان صاحب صدر جماعت چک ایمرچ نز دیاری پورہ (خلف حضرت راجہ عطا محمد خان صاحب) تحریر کرتے ہیں کہ مولوی صاحب محمد یا مین صاحب دا توی کی معیت میں تشریف لائے.اس موقع پر سرینگر کے ایک نامور مخالف عالم سے باڑی پورہ میں مباحثہ ہوا جس میں اللہ تعالیٰ نے اسے بقیہ حاشیہ مستقل طور پر بورڈ نگ والے مکان میں منتقل ہو گئے.ابتداء میں ہیڈ ماسٹر والا مکان جو بورڈنگ کے ملحق جنوب مشرق میں ہے ہمیں ملا ہوا تھا اور انداز ۱ ۱۹۱۹ء تک ہمارا قیام بورڈنگ میں ہونے کی صورت میں ہیڈ ماسٹر والے مکان ہی میں تھا.چنانچہ حضور کے وصال کے وقت بھی ہم اسی مکان میں رہائش رکھتے تھے.بعد میں ہماری رہائش تا انتقال مکان نزد زنانه جلسه گاه ( در سال ۱۹۲۹ء ) بورڈنگ کے شمالی حصہ میں باورچی خانہ کے بالکل ملحق جانب مغرب دو کچے کمروں میں رہی.(اب قریب میں باورچی خانہ باقی نہیں رہا اور یہ کچھ کمرے اب تبدیل ہو چکے ہیں اور مکان پختہ کر دیا گیا ہے اور زنانہ جلسہ گاہ کے قریب والے مکان کو نقشہ مندرجہ ضمیمہ اصحاب احمد جلد اوّل میں صفحہ 1 اپر دکھلایا گیا ہے.مؤلف ) ۱۹۲۰ء میں سید مبارک احمد صاحب کی ولادت آپ بورڈنگ کے شمالی حصہ والے مکان میں ہونا بیان فرماتی ہیں.۱۹۰۶ء میں سپر نٹنڈنٹ ہونے کی تصدیق رسالہ تعلیم الاسلام بابت اکتوبر ۱۹۰۶ ء سے ہوتی ہے.اس میں مرقوم ہے:.بورڈنگ کا انتظام مولوی سید سرور شاہ (صاحب) کے سپرد ہے.“ (ص ۱۶۸)
۱۶۶ بہت ذلیل کیا.حضرت مولوی صاحب کی سلسلہ جنبانی سے ہماری ہمشیرہ کا رشتہ میر جی سید سرور شاہ صاحب دا توی سے غالبا ۱۹۵۷ بکرمی میں ہو گیا.سید صاحب کی ہمشیرہ حضرت مولوی صاحب کی اہلیہ اول تھیں ہیں سید مبارک احمد صاحب سرور بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۳۰ء کے بعد سید صاحب نے وفات پائی.حضرت مولوی صاحب کے والد ماجد میر جی سید سرور شاہ صاحب کو لے کر قادیان آئے اور بیعت کی چار راجہ غلام محمد خان صاحب اور اہلیہ دوم مولوی صاحب کے بیانات سے مزید یہ مرقوم ہے کہ سید صاحب کی مرحومہ بیوی سید حیات علی شاہ صاحب دا توی کی ہمشیرہ تھی.ان کے بطن سے ان کا ایک ہی بیٹا سید محمد ایوب شاہ تھا.جو پندرہ سولہ سال کی عمر میں وفات پا گیا (خاکسار راقم کو بھی یاد ہے کہ وہ قادیان میں تعلیم پاتا تھا ) ہمشیرہ راجہ غلام محمد خان صاحب کے بطن سے ذیل کی اولاد ہے جو پاکستان ہی میں ہے: (۱) سید عبدالعزیز صاحب ڈی.ایف.اوضلع ہزارہ (۲) حکیم سید عبدالمجید صاحب (۳) مبارکہ بیگم مرحومه درویش صفت تھیں قرآن مجید با ترجمہ پڑھی تھیں.دوسال قبل وفات پائی.علالت کے باعث شادی نہیں ہوئی.(۴) رضیہ بیگم (اہلیہ سید محمد امین گیلانی.دیکھئے شجرہ نسب ) (۵) سید عبدالرشید صاحب سب حج.( آپ کی طبیعت میں سادگی تھی.( بیان سید مبارک احمد سردار )) بعض حوالے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں :- (الف) بدر ۰۶-۵-۱۰ میں سید سرور شاہ صاحب کی علالت پر دعا کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ آپ دین کی تائید ، نصرت اور خدمت کے لئے بڑے مستعد اور کام کے آدمی ہیں.(ص۹) (ب) ترجمۃ القرآن کے خریداروں میں نام.۳۲ (ج) ریویو آف ریلیجنز (اردو) کے لئے خریدار مہیا کرنے والوں میں نام.۳۳ (د) اعانت بدر کا وعدہ.۳۴ (ھ) اعانت ریویوار دو پانچ روپے چودہ آنے.۳۵ (1) چنده تمیر مدرسہ تعلیم الاسلام کی فراہمی کے لئے جن مخلصین کو توجہ دلائی گئی ان میں آپ کا نام.۳۶ (ز) علاقہ ہزارہ میں تبلیغی و تعلیمی اغراض کے لئے ایک بورڈ چھ افراد پر مشتمل مقرر کیا گیا تھا جس کے ممبر ” میر جی سرور شاہ صاحب سکنہ دانہ اور حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب کے داماد عبدالرحیم خان صاحب سکنہ حصاری بھی تھے.۳۷
172 روز ٹھہر کر والد صاحب وطن کے لئے روانہ ہوئے اس سے اگلے روز حضرت اقدس علیہ السلام آخری سفر لاہور پر روانہ ہوئے.(صے ) اس طرح میر جی سید سرور شاہ صاحب کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہو گیا.وصال سے قبل حضور بتاریخ ۲۷ ر ا پریل ۱۹۰۸ ء لا ہور روانہ ہوئے تھے.بقیہ حاشیہ - آپ کے بعض اقارب کا کتاب میں ذکر آتا ہے ان کے متعلق بعض حوالے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.(۱) سید حیات علی شاہ صاحب برادر نسبتی میر جی سید سرور شاہ صاحب، راجہ غلام محمد خان صاحب ذکر کرتے ہیں کہ وہ احمدی نہ تھے لیکن لٹریچر سے ان کا بلکہ ان کے بھائی کا احمدی ہونا ثابت ہے گو یہ معلوم نہیں کہ وہ صحابی تھے یا نہیں.مثلاً (الف) رسید ز ر بابت پونے پانچ روپے.۳۸ (ب) رسید ز ر پانچ روپے کی.۳۹ (ج) اعانت بدر ۴۰ (1) بابت دسمبر ۱۹۱۱ ء آپ کی معرفت کسی کا چندہ ادا ہونا.۴۱ (ھ) آپ نے تین خریدار مہیا کئے.۴۲ (و) ان مخلصین میں ذکر جنہیں تعمیر مدرسہ کے لئے فراہمی چندہ کے لئے خاص طور پر مخاطب کیا گیا.۴۳ ( ز ) الحکم کی اعانت کرنا.۴۴ (ح) البدر میں مرقوم ہے:- وفات سید میر گل شاہ صاحب احمدی جو سید حیات علی شاہ صاحب احمدی کے برادر عزیز تھے.افسوس کہ ۱۴ / اگست کو بعارضہ دق وسل فوت ہو گئے.ان کے بھائی حیات علی شاہ صاحب مرحوم کے لئے دعائے مغفرت اور نماز جنازہ کی درخواست احمدی جماعتوں سے کرتے ہیں.مرحوم ایک جوشیلا احمدی نوجوان تھا.خدا غریق رحمت کرے.۴۵
۱۶۸ خدمات سلسلہ طائرانہ نظر میں آپ کو ہر سہ زمانوں میں مندرجہ ذیل خدمات کی توفیق عطا ہوئی.(۱) در عهد مبارک حضرت مسیح موعود بطور مدرس مدرسہ تعلیم الاسلام مباحثہ بمقام مد ، قائم مقام نائب ناظم بہشتی مقبره ، بطور امام الصلوۃ و خطیب جمعه ، مضمون نگاری ، بطور ایڈیٹر رسالہ ” تعلیم الاسلام ورسالہ ” تفسیر القرآن‘ ( اس عہد میں پانصد باون صفحات میں آپ کی تفسیر شائع ہوئی ).(۲) در عهد مبارک خلافت اولی بطور مدرس و پروفیسر اعلی، تبلیغ ، شمولیت وفد جس نے ہندوستان کی درسگاہوں کا معائنہ و مطالعہ کیا.بطور امام الصلوة وخطيب جمعہ، رکن مجلس برائے تجویز نصاب مدرسہ احمدیہ، رسالہ ”تفسیر القرآن“ کی ادارت ( اس میں ضمیمہ ریویو آف ریچز میں اس مبارک عہد میں آپ کی تفسیر ایک ہزار پانصد اڑتالیس صفحات میں شائع ہوئی ) (۳) در عهد مبارک خلافت ثانیه رکن مجلس معتمدین ، بطور نائب افسر وافر مدرسہ احمدیہ، پروفیسر اعلیٰ ، قائم مقام وسیکرٹری بہشتی مقبرہ کچھ عرصہ بشمول صیغہ جات تعمیر و جائیداد، قائم مقام افسر صیغہ مساکین، یتامی و زکوۃ ، جنرل سیکرٹری و قائم مقام، اولین ناظر تعلیم و تربیت ( بعد میں اس عہدہ پر بطور قائم مقام فائز ہونے کا بھی آپ کو موقع ملا ) ، آپ سمیت تین علماء کے سپر دافتاء کا کام ہوا.سیکرٹری مجلس منتظمہ جلسہ سالانہ (گویا افسر جلسہ سالانہ ) ناظم جلسہ سالانہ اندرون شہر، افسر بیت المال، قائم مقام محاسب مہتم یک شعبه از شعبہ ہائے مقررہ برائے انسداد انفلوئنزا، رکن شوری و رکن سب کمیٹی ہائے شوری ، رکن شوری متعینہ برائے امیر صاحب ہندوستان دوران عرصہ سفر سیدنا
۱۶۹ حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بوئے بلاد غربیه در سال ۱۹۲۴ء ، افسر مساجد مرکزیه، رکن مجلس افتاء» مفتی سلسلہ، رکن مجلس ہائے برائے تعیین نصاب مدرسہ احمدیہ، پرنسپل جامعہ احمدیہ، پرنسپل جامعہ الواقفین قرآن مجید اور کبھی حدیث شریف کے درس کی توفیق پانا.دو کتب تالیف کرنا، اپنے خطوط مرقومه به تائید خلافت ایک کتاب کی شکل میں شائع کرنا اور متعدد مواقع پر اعلائے کلمتہ اللہ کی توفیق پانا.گورنروں ، وائسرائے اور شہزادہ ویلز سے ملاقی ہونے والے وفد کے رکن.ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اواخر ۱۹۱۸ ء میں صدر انجمن احمدیہ کے نظام کی از سر نو تنظیم کرتے ہوئے آپ کو حسن وار تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے.-1 -٣ - -۵- -Y از اواخر ۱۹۰۱ ء یا مئی ۱۹۰۲ء تا وفات، تعلیم و تدریس بطور مدرس ، پروفیسر اعلیٰ، نائب افسر، افسر مدرسہ احمدیہ، پرنسپل جامعہ احمدیہ ثم جامعتہ المبشرین.از جولائی ۱۹۰۶ ء تا اپریل ۱۹۰۷ء.ایڈیٹر رسالہ تعلیم الاسلام“.۱۹۰۷ء.ایک ماہ کے لئے تقر ر بطور قائم مقام نائب ناظم بہشتی مقبرہ.۱۹۰۸ء تا ۱۹۱۲ء ایڈیٹر رسالہ ”تفسیر القرآن“ ۱۹۰۹ء ۱۹۱۵ء ،۲۰- ۱۹۱۹ء رکن کمیٹی برائے تجویز نصاب مدرسہ احمدیہ.۱۹۱۲ ء ، رکن وفد جس نے استفادہ کے لئے ہندوستان کی درسگاہوں کا معائنہ و مطالعہ کیا.اس کے ایک رکن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) بھی تھے.۱۹۱۵ ء رکن مجلس علماء جنہوں نے پارہ اول قرآن مجید کا ترجمہ مع تفسیر فوائد تیار کیا اور شائع کیا گیا.۸ ۱۹۱۲ء تقرر بطور افسر بہشتی مقبرہ ، تائید خلافت میں ایک کتاب بجواب کتاب سید محمد احسن صاحب شائع کی.-9 +1- ۱۹۱۷ ء.رکن مجلس معتمدین وافر تعمیر، ایک اجلاس کے میر مجلس مقرر ہوئے.۱۹۱۸ ء رکن مجلس معتمدین افسر صیغہ تعمیر و بہشتی مقبرہ ، قائم مقام جنرل سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ نائب افسر مدرسہ احمدیہ بعد ہ افسر مدرسہ احمدیہ اور اس حیثیت سے رکن مجلس ناظم ، قائمقام مقام ناظر تعلیم و تربیت و قائم مقام افسر صیغہ مساکین ، یتامی وزکوۃ.
۱۷۰ اولین ناظر تعلیم و تربیت کا نہایت اہم عہدہ تفویض فرمایا.حضور نے اعلان میں فرمایا :- ضروریات سلسلہ کے پورا کرنے کے لئے قادیان اور بیرونجات کے احباب سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے یہ انتظام کیا ہے کہ سلسلہ کے مختلف کاموں کے بقیہ حاشیہ : ۱۱ - ۱۹۱۹ء.رکن مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ.قائم مقام جنرل سیکرٹری صدر انجمن - 11- احمدیہ.۱۹۱۸ء کے ملتوی شدہ جلسہ سالانہ منعقدہ ۱۹۱۹ء کے افسر منتظم اعلیٰ ، سیکرٹری مجلس منتظمہ برائے جلسہ سالانہ ۱۹۱۹ء ، افسر بیت المال، قائم مقام افسر مدرسہ احمدیہ ، رکن وفد جو لفٹنٹ گورنر پنجاب کو ملاقی ہوا.-۱۲ -١٣ ۱۹۲۰ء رکن مجلس معتمدین، سیکرٹری مجلس منتظم جلسہ سالانہ، قائم مقام جنرل سیکرٹری صدرانجمن ، قائم مقام افسر بہشتی مقبرہ، قائم مقام محاسب، انتظام برائے انسداد انفلوئنزا وغیرہ میں ایک شعبہ کے انچارج ، تائید خلافت میں اپنے دو خطوط کشف الاختلاف“ کے نام پر شائع کئے.۱۹۲۱ء.قائم مقام جنرل سیکرٹری صدر انجمن ، رکن وفد جس نے وائسرائے ہند سے ملاقات کی.۱۴ - ۱۹۲۲ ء تا ۱۹۴۷ء.رکن شوری، اس دوران میں سولہ بار اس کی ماتحت مجالس ( سب کمیٹیوں) کے رکن.۱۹۲۲ء.سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ، ناظم جلسه سالانه اندرونِ شہر، رکن وفد جن کی وساطت سے -10 -17 شہزاده و میلز کو تحفہ پیش کیا گیا یعنی تبلیغی کتاب.۱۹۲۳ء سیکرٹری صدر انجمن احمد پی رکن وفد برائے ملاقات گورنر پنجاب ۱۷ ۱۹۲۴ ء حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے سفر مغربی ممالک کے وقت مجلس شوری کے رکن ، یکے از نائبین افسر جلسہ سالانہ برائے اندرونِ قصبہ.-IA -19 - ۲۰ -۲۱ ۱۹۲۵ء قائم مقام افسر بہشتی مقبرہ اور پھر سیکرٹری بہشتی مقبرہ مقررہوئے اور تاوفات اس عہدہ پر فائز رہے.۱۹۲۷ء.قائم مقام ناظر تعلیم و تربیت.۱۹۳۰-۳۱ء ،۳۲-۱۹۳۱ء.افسر صیغہ جائداد بشمول صیغہ تعمیرات عمله صیغہ بہشتی مقبرہ ہی یہ کام سرانجام دیتا تھا.۱۹۳۱-۳۲ء.آپ سمیت پانچ بزرگوں نے اس عرصہ میں بطور قائم مقام ناظر تعلیم وتربیت کام کیا.۲۲ تا وفات افسر مساجد مرکزیہ.-۲۳ ۱۹۳۸ء شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی تردید میں ” خلافت حقہ نام کتاب تائید خلافت میں تالیف کی.
121 سرانجام دینے کے لئے چند ایسے افسران مقرر کئے جائیں جن کا فرض ہو کہ وہ حسب موقع اپنے متعلقہ کاموں کو پورا کرتے رہیں اور جماعت کی تمام ضروریات کے بقیہ حاشیہ: - ۲۴- ۱۹۱۸ء میں افتاء کے لئے بشمول آپ کے تین علماء مقرر ہوئے لیکن بعد ازاں آپ ہی تا وفات مفتی سلسلہ احمد یہ رہے اور ۱۹۴۳ء میں سہ رکنی مجلس افتاء کے قیام پر آپ اس کے رکن -1 -۲ -✓ تھے اور ۱۹۴۶ء میں بیمہ زندگی کی متبادل سکیم پر غور کرنے والی مجلس کے بھی رکن تھے.ہر عہدہ سے متعلق حوالجات رقم کئے جاتے ہیں.تعلیم و تدریس کے علاوہ آپ کی تمام خدمات اعزازی تھیں.تعلیم وتدریں.اس بارہ میں ایک الگ عنوان " تعلیمی خدمات کے تحت تفصیل کتاب میں ہے.رسالہ تعلیم الاسلام اور رسالہ ”تفسیر القرآن کی ادارت.(اس کا بھی الگ تفصیلاً ذکر زیر عنوان تفسیر القرآن کیا گیا ہے) ۱۸ - ۱۹۱۷ ء تا ۲۰- ۱۹۱۹ء میں مجلس معتمدین کے رکن ( ہر سہ رپورٹ ہائے سالانہ ص ۲ رپورٹ سالانہ بابت ۱۸ - ۱۹۱۷ ء مندرجہ الفضل ۱۹-۱۰-۲۹ ص ۳ ک۳) اس وقت صدرانجمن کا سال یکم اکتو بر لغایت ۳۰ ستمبر شمار ہوتا تھا.اجلاس مجلس معتمدین صدر انجمن احمد یہ نمبر ۹ مورخه ۱۷-۷-۱۵ کے لئے آپ میر مجلس (صدر مجلس ) مقرر ہوئے.اس اجلاس میں پینتیس امور زیر فیصلہ تھے.سیکرٹری مجلس نواب محمد علی خان صاحب اور دیگر ارکان ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب، مولوی شیر علی صاحب و میر محمد الحق صاحب تھے.جنرل سیکرٹری صد را انجمن.نواب محمد علی خان صاحب صدر انجمن کے جنرل سیکرٹری تھے.ان کے قائم مقام میر محمد الحق صاحب اور پھر مولوی محمد دین صاحب ( حال ناظر تعلیم و تربیت ربوہ ) مقرر ہوئے بعد ازاں ۴ ستمبر ۱۹۱۸ء سے ۱۱/جنوری ۱۹۱۹ ء تک مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بطور قائم مقام فرائض انجام دیتے رہے.٤٦ میر مجلس مولوی شیر علی صاحب اور نائب سیکرٹری شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تھے.جنرل سیکرٹری اس زمانہ میں محاسبہ کمیٹی کا رکن ہوتا تھا.( ص ۱۳-۱۰) الفضل میں مرقوم ہے کہ: ”جناب ماسٹر محمد دین (صاحب) کے رخصت لینے پر جناب مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب سیکرٹری صد را انجمن احمدیہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں.۴۷
۱۷۲ پورا کرنے میں کوشاں رہیں.فی الحال میں نے اس غرض کے لئے ایک ناظر اعلیٰ ، ایک ناظر تالیف واشاعت، ایک ناظر تعلیم و تربیت، ایک ناظر امور عامہ اور ایک ناظر بیت بقیہ حاشیہ:- اجلاس مجلس معتمدین نمبرے مورخہ ۱۸-۹- ا کے فیصلہ نمبر ۳۰۷ میں ۴ ستمبر سے چار ماہ کے لئے تقرر کا ذکر ہے مطابق قائم مقام سیکرٹری ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی جگہ آپ کے سپرد یہ منصب بھی ہوا.۱۹۲۰ء میں آپ اور میر محمد اسحق صاحب قائم مقام جنرل سیکرٹری ہوئے.۴۸، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے قائم مقام آپ کے بطور جنرل سیکرٹری تقریر کا فیصلہ مجلس معتمدین ۳۸۱ مورخہ ۲۰-۹-۲۰ میں ہے.۱۹۲۱ء میں بھی بطور قائم مقام آپ نے یہ خدمت سر انجام دی.چنانچہ الفضل ۲۱-۱-۲۷ میں زیرہ مدینہ المسیح ، یہ امر مرقوم ہے.یہ معلوم نہیں کہ سابقا تقرری کے بعد مسلسل کام کیا یا کبھی کبھی تقر ر ہوتارہا.اسی طرح اپریل ۱۹۲۲ء سے نومبر ۱۹۲۳ء تک کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ آپ کا بار بار تقر ر ہوتا رہایا مسلسل اس عہدہ پر متعین رہے.اجلاس معتمدین صدر انجمن احمد یہ نمبر ا مورخہ۲۲-۴ - ۲۷ میں آپ کی تقرری کا بطور قائمقام کے فیصلہ ہوا.نیز جلسہ سالانہ ۱۹۲۲ء کے موقع پر آپ نے سیکرٹری کی حیثیت سے صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ پیش کی.۲۹ ۸/ نومبر ۱۹۲۳ء کو گورنر پنجاب سے جو وفد ملاقی ہوا.اس وقت آپ سیکرٹری تھے.۵۰ اس سال کی رپورٹ مشاورت میں بھی یہی عہدہ درج ہے.(ص۳۰) نائب افسر یا افسر بہشتی مقبرہ.اس کے متعلق الگ عنوان سے تفصیل درج ہے.کچھ عرصہ صیغہ تعمیر و صیغہ جائیداد بھی اس کے ساتھ شامل رہا.-Y افسر صیغہ تعمیر.۱۹۱۷ء اور ۱۹۱۸ء میں.۱۹۱۷ء میں بروئے اجلاس مجلس معتمدین صدرانجمن احمد یہ نمبر ا مورخہ ۲۵ جنوری ۱۹۱۷ء فیصلہ نمبر۱۷ اس سال کے لئے آپ افسر تعمیر مقرر کئے گئے.۱۹۱۸ء میں بھی آپ اس صیغہ کے افسر رہے.اس وقت تک یہ کام بہت مختصر تھا.عملہ کا خرچ ڈیڑھ صد روپیہ سالانہ سے بھی کم تھا اور سائز کا قریباً پونے پانچ ہزار ۵۱ خدمات بہشتی مقبرہ کے تعلق میں دوسری جگہ قدرے مزید تفصیل دی گئی ہے.قائم مقام افسرصیغہ مساکین ، یتامی و زکوۃ.۱۹۱۸ء میں.( رپورٹ سالانہ ۱۸-۱۹۱۷ ء ص ۱۵.و -L -^ رپورٹ ۱۹ - ۱۹۱۸ ء ص ۱۵.مؤخر الذکر میں صیغہ کا نام وظائف وصدقات“ لکھا ہے.) ناظر تعلیم و تربیت.متن میں ذکر کیا گیا ہے نظارتوں کی موجودہ تشکیل دسمبر ۱۹۱۸ء میں ہوئی اور پانچ نظارتوں پر چار بزرگوں کا تقر عمل میں آیا تھا.ناظر تعلیم و تربیت آپ مقرر کئے گئے.
۱۷۳ المال مقرر کیا ہے.ناظر اعلیٰ مکر می مولوی شیر علی صاحب، ناظر تالیف و اشاعت مگر می مولوی شیر علی صاحب، ناظر تعلیم و تربیت مکر می مولوی سید سرور شاہ صاحب، بقیہ حاشیہ جلسہ سالانہ ۱۹۱۹ء میں صیغہ تعلیم وتربیت کی رپورٹ آپ نے سنائی ۵۲ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر تعلیم وتربیت کے بیرون قادیان جانے پر آپ ۲۷-۸-۱۳ سے قائم مقام مقرر ہوئے۵۳ زیر مدینہ اسیح ، الفضل میں مرقوم ہے :- ” جناب مولوی سید سرور شاہ صاحب ناظر تعلیم و تربیت کا کام سرانجام دے رہے ہیں.۵۴ ۱۹۳۱-۳۲ء میں ناظر تعلیم و تربیت کی غیوبت میں پانچ افراد نے ان کا کام اپنی ذمہ داریوں کے علاوہ کیا.ان میں سے ایک مولوی صاحب تھے.(سالانہ رپورٹ ص ۴۰ ) چونکہ تمام عرصہ کی سالانہ رپورٹس طبع نہیں ہوئیں اس لئے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ دسمبر ۱۹۱۸ء میں ناظر تعلیم و تربیت مقرر ہونے پر آپ نے کتنا عرصہ اس فرض کو متواتر سرانجام دیا.تالیف و تصنیف.۱۹۱۶ ء ،۱۹۲۰ء ، ۱۹۳۸ء کی اس رنگ کی خدمات کا قلمی خدمات کے زیر -9 - 1+ عنوان ذکر کیا گیا ہے.افتاء.دسمبر ۱۹۱۸ء میں افتاء کے لئے مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل، حافظ روشن علی صاحب اور آپ کو مقرر کیا گیا.۵۵ نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے آپ کا اور حافظ صاحب کا مشترکہ فتویٰ شائع کیا گیا.۵۶، نظارت ہذا کی تجویز پر کہ ایسے مسائل میں جن میں علماء سلسلہ کا اختلاف ہو، ایک مجلس افتاء مقرر کی جائے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ اور میر محمد اسحق صاحب وغیرہ تین علماء پر مشتمل ایک مجلس کی منظوری عطا فرمائی.۵۷ ویسے غیر مختلف مسائل کے لئے آپ ہی تا وفات مفتی سلسلہ رہے.گو یہ معین طور پر معلوم نہیں ہو سکا کہ کب سے بطور مفتی آپ کے کام سپر د تھا.لیکن ۱۹۲۶ء سے تو آپ ضرور یہ خدمت سرانجام تھے.کیونکہ اس سال کی مشاورت میں حضور نے اس امر کا ذکر فرمایا ہے.۵۸ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے غربت کے مداوا کی خاطر بیمہ زندگی کے مروجہ طریق کی بجائے شرعا جائز طریقہ تعاون پر غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقررفرمائی تاوہ حضور کی مجوزہ سکیم پر غور کر سکے.اس کے دس ممبروں میں آپ بھی شامل تھے.۵۹
۱۷۴ ناظر امور عامه عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب، ناظر بیت المال مکرمی ماسٹر عبدالغنی صاحب.ان کے علاوہ جماعت کی ضروریات افتاء اور قضاء کو مد نظر رکھ کر افتاء کے لئے مکر می مولوی سید سرور شاہ صاحب، مکر می مولوی محمد اسمعیل صاحب اور مکرمی حافظ بقیہ حاشیہ:- ۱۱- انتظام جلسہ سالانہ (الف) جلسہ سالانہ 19 ء کے انتظام کے تعلق میں بشمول آپ کے پون درجن ذمہ دار افراد کا ذکر کرتے ہوئے مرقوم ہے:- ان احباب نے جس جانفشانی اور شبانہ روز محنت سے کام کیا اس کی جزائے خیر اللہ تعالیٰ ان کو دے.ان سب کو اس بات سے خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے کام لے کر ان کے بھائیوں کو ان کے ہاتھوں سے آرام پہنچایا.۶۰ (ب) جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ء میں شہر میں انتظام مکانات و اجراء پر چی خوراک کا ذمہ داری اور محنت کا کام آپ نے اور قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی نے باحسن طریق سرانجام دیا.11 (ج) جلسہ سالانہ ۱۹۱۸ ء جو ۱۹۱۹ء میں منعقد ہوا.اس کی مجلس منتظمہ کے آپ سیکرٹری ( گویا افسر جلسہ سالانہ ) مقرر ہوئے.۱۲ انتظام کے تعلق میں اعلان اور ایک روز بعد جملہ احباب کو تعاون کے لئے تحریک کرنا.۶۳ الحکم میں لکھا ہے :- حضرت نے حکم دیا ہے کہ مارچ میں جلسہ ہوگا.ایسے قلیل وقت میں انتظام کا مشکل ہو جانا ضروری تھا.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے نہایت مستعدی سے کام شروع کر دیا ہے احباب اپنے شہر کی فہرستیں....مولوی سید سرور شاہ صاحب کے نام فوراً ارسال کر دیں.۶۴ بہت محنت اور مصروفیت سے کام کر رہے 66 ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو بار آور فرمائے.“ ۶۵ آپ انتظامی امور کے سرانجام دینے میں شب و روز کوشاں ہیں.‘ ۶۶ انتظام جلسه حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کے سپرد ہوا...ناظمان جلسہ میں ایک خاص تعدا د اور ذمہ داری کے اہم کاموں پر ایسے لوگوں کی تھی ، جو بالکل نئے تھے.مگر خدا تعالیٰ کے خاص فضل و رحم سے اس مرتبه انتظام جلسه با وجودیکہ بہت ہی تھوڑی مدت میں کرنا پڑا.نہایت عمدگی سے کیا گیا..مہمانوں کے آرام
۱۷۵ روشن علی صاحب کو اور قضاء کے لئے مکرمی قاضی امیرحسین صاحب، مکر می مولوی فضل الدین صاحب اور مکرمی میر محمد اسحق صاحب کو مقرر کیا ہے...میں امید کرتا بقیہ حاشیہ اور آسائش کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی اور نہایت اطمینان کے ساتھ تمام امور سرانجام ہوتے رہے.اس عمدہ انتظام کے لئے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور ان کے سٹاف کو مبارک باد دیتا ہوں.“ (د) جلسہ سالانہ ۱۹۱۹ء.آپ کو اس کے انتظامات کے لئے سیکرٹری مقرر کیا گیا اور آپ نے اعانت کے لئے احباب کو توجہ دلائی.۶۸ آپ نے بطور منتظم اعلیٰ جلسہ سالانہ انتظام میں حتی الوسع کوشش کی.19 آپ کی ماتحتی میں حسب سابق بیرون و اندرون قصبہ کا انتظامی کام تقسیم کر دیا گیا تھا.بیرون کا انتظام حضرت مرزا شریف احمد صاحب ، حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اور حضرت چوہدری غلام محمد صاحب بی.اے کے سپرد تھا.کے (ھ) جلسہ سالانہ.۱۹۲۰ء.غالبا سالانہ جلسہ کے سیکرٹری حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ہی مقرر ہوئے ہیں.جو گذشتہ دو سال سے اس کام کو نہایت عمدگی سے سرانجام دے رہے ہیں اور انہوں نے اخراجات میں خاص طور پر بچت کر کے دکھائی ہے.اسے اس انتظام کی طرف خاص توجہ دے رہے ہیں.۷۲ شہر کی عام نگرانی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور آپ کے سپرد ہوئی.۷۳ے شہر کا انتظام آپ کے اور دار العلوم کا حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے سپر د ہوا اور مزید لکھا ہے:.وو انتظام زوروں پر ہے.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی مساعی بہت ہی شکریہ کے قابل ہیں.آپ باوجود بڑھاپے کے جوانوں کی طرح دوڑ دوڑ کر کام کرتے ہیں اور کسی قومی کام کرنے میں آپ کی طبیعت نہیں ہچکچاتی بلکہ اس خیال کو معزز خیال فرماتے ہیں.“ ۴ کے (و) جلسه سالانه ۱۹۲۲ء.مجموعی انتظام حضرت میر محمد الحق صاحب کے سپر د تھا.مہمانوں کا عام انتظام شہر میں مولوی سرور شاہ صاحب کے ماتحت تھا.جن کے معاون صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب ایم.اے شہر میں اور صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور خان عبد اللہ خان صاحب باہر کام کرتے تھے.‘ ۷۵ (ز) جلسه سالانه ۱۹۲۴ء.ناظم ( یعنی افسر ) جلسہ سالانہ حضرت میر محمد الحق صاحب اور نائب ناظم اندرون قصبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مولوی صاحب تھے.۶ کے
ہوں کہ احباب ان لوگوں کے کام میں پوری اعانت کریں گے.ابتدائی کام میں بعض ضروری معلومات حاصل کرنے کے لئے ان احباب کو بیرونجات کے احباب کی بہت مدد کی ضرورت ہوگی.جس کے لئے ان کو بہت سا وقت خرچ کرنا ہو گا.مگر اللہ تعالیٰ کی رضاء کے حصول اور اپنے قائم کردہ سلسلہ کے استحکام کے لئے مجھے یقین ہے کہ سب احباب اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کریں گے.اور ہر طرح ان کا ہاتھ بٹا کر ثواب کے مستحق ہوں گے اور ان کی تحریرات کو میری تحریرات سمجھیں گے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۲۴ء میں سفر یورپ پر روانگی سے قبل سفر کے عرصہ کے لئے ایک انتظام فرمایا.حضرت مولوی شیر علی صاحب کو جو قائم مقام ناظر اعلیٰ تھے.اس کام سے فارغ کر کے ریویو آف ریلیجنز (اردو) بابت دسمبر ۱۹۱۸ء (ص۴۶۲ ) و تشحیذ الا ذہان بابت فروری ۱۹۲۹ء ( سرورق صفحه ۲ ) بقیہ حاشیہ: ۱۲ افسر بیت المال ۱۹۱۹ء میں.( رپورٹ سالانہ بابت ۱۹۱۹ء.۱۹۱۸ء ص ۱۵) اس سال کے لئے تقرری بروئے فیصلہ نمبر ۵۶۳ مورخہ ۱۸-۱۲-۳۰ ہوئی.قائم مقام محاسب.۱۹۲۰ء میں بشمول آپ کے تین افراد نے بطور قائم مقام محاسب کام کیا.۱۴ انفلوئنزا کی وبا کے ہولناک ایام میں ان کے انسداد وغیرہ کا انتظام سلسلہ کی طرف سے قادیان میں کیا گیا تھا.۱۹۲۰ء میں ہندوستان میں یہ وبا پھر پھوٹی اور پنجاب میں اس کے پھیلنے کا خطرہ تھا.اس وقت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے منشاء سے نظارت امور عامہ میں فراہمی ادویہ تقسیم ادویہ، بھر سانی دودھ پھل وغیرہ.صفائی قصبہ وغیرہ کے لئے کام آٹھ شعبوں میں تقسیم کیا گیا.ایک شعبہ مولوی صاحب کے سپردکیا گیا.۷۸ -10 تا وفات آپ افسر مساجد مرکز یہ مبارک واقعی ) رہے.گو یقینی طور پر معلوم نہیں ہوسکا کہ کب آپ کے سپرد یہ کام ہوا لیکن جہاں تک میرا ذاتی تاثر ہے میری طالبعلمی کے زمانہ میں بھی آپ افسر مساجد تھے.رپورٹ ہائے سالانہ ۴۲ - ۱۹۴۱ء صفحہ ۴۴،۱۰۵ - ۱۹۴۵ء صفحہ ۴۴ میں آپ کے افسر مساجد ہونے کا ذکر ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۴۷-۸-۸ کے خطبہ جمعہ میں افسوس کے ساتھ فرمایا کہ آپ کی وفات کے بعد مسجدوں کا انتظام نہایت ہی ناقص ہوگیا ہے.۷۹
122 سارے ہندوستان کے لئے امیر مقرر کیا اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب زاد عزو کو مشورہ کے لئے نائب اور ذیل کے احباب پر مشتمل مجلس شوری تجویز فرمائی:- مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، قاضی امیر حسین صاحب، خلیفہ رشید الدین صاحب، مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل ، میر قاسم علی صاحب، سردار محمد یوسف صاحب (ایڈیٹر نور ) مولوی عبد الغنی صاحب (رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) اور قاضی محمد عبد اللہ صاحب، مولوی فضل دین صاحب وکیل ، قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل اور ستید ولی اللہ شاہ صاحب اور فرمایا :- دفتری معاملات کے علاوہ جو اور معاملات ہوں اور جن میں میں مشورہ لے لیا کرتا ہوں ان میں ان لوگوں سے مشورہ لے لیا جایا کرے...علمی کام کو جاری رکھنے کے لئے یہ تجویز ہے کہ مولوی شیر علی صاحب درس قرآن بھی دیں اور اس درس کے بعد مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بخاری کا درس دیں.یہ دونوں درس اسی مسجد اقصیٰ میں ہوں اور باری باری ہوں.میں امید کرتا ہوں کہ قادیان کے دوست اور بیرونجات سے آنے والے دوست ان درسوں سے فائدہ اٹھائیں گے اور درس دینے والوں سے امید ہے کہ وہ درسوں کو ایسے علوم پر مشتمل کریں گے جو عام طور پر مفید ہوں گے.بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر چاہیں تو ان کو درسوں میں شامل کر سکتے ہیں مگر عام لوگ انہیں سمجھ نہیں سکتے.اس وجہ سے میں دونوں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے امور پر اپنے درس مشتمل کریں.جنہیں عام لوگ سمجھ سکیں اور مختصر کریں تا کہ سننے والوں کو ملال پیدا نہ ہو.پس یہ درس عام فہم اور مختصر ہوں.وعظ ونصیحت کا رنگ غالب ہو.لوگوں کی ابتدائی تعلیم کو مدنظر رکھا جائے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کوئی نبی نہیں آتا جو ربانی نہیں ہوتا یعنی جو چھوٹے علوم پہلے نہیں پڑھاتا اور بڑے بعد میں.پس جب نبی کے لئے یہ شرط ہے کہ چھوٹے علوم پہلے پڑھائے اور بڑے بعد میں تو دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنا چاہئے چونکہ عام درسوں میں ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں جو موٹی باتیں سمجھ سکتے ہیں اس لئے ایسی باتوں پر ہی زیادہ زور دینا چاہیئے." یہ لوگ جو انتظام کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اپنی طرف سے سوچ سمجھ کر کئے گئے ہیں اور میرے ذہن میں اس سے بہتر انتظام اور کوئی نہیں آیا.“ شوری کے ہر ایک فرد کا الگ الگ ذکر کرتے ہوئے مولوی صاحب کے متعلق فرمایا : -
KA وو مولوی سید سرور شاہ صاحب علماء جماعت احمدیہ میں سے بڑے عالم ہیں اور میں سمجھتا ہوں بہت مخلص آدمی ہیں.میں امید رکھتا ہوں ان کے وجود سے بھی فائدہ پہنچے گا.مشاورت ۱۹۲۶ء میں یہ سوال کیا گیا کہ مرکز میں علماء مخالفین کی کتب کے جواب کیوں تالیف نہیں کرتے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا کہ: - جس طرح اور ملازم ۶،۵ گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں اسی طرح یہ بھی پڑھاتے ہیں.اگر ان سے یہ سوال کرنے کا حق ہے تو یہ بھی حق ہونا چاہیئے کہ ہم سوال کرنے والے سے ) پوچھیں کہ انہوں نے کتنی کتابیں تصنیف کی ہیں...سلسلہ کا کام کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کام کرنے والے کا دماغ ہر وقت تازہ اور کام کے قابل رہتا ہے اور انہیں آرام کی ضرورت نہیں ہوتی....وہ لوگ جو ایک مستقل کام پر مقرر ہیں وہ کوئی دوسرا مستقل کام نہیں کر سکتے اور جو کچھ ان کو ملتا ہے اس کے معاوضہ میں وہ ایسا ہی کام کرتے ہیں.جیسا آپ لوگ کرتے ہیں اس کے بعد کوئی حق نہیں رہتا کہ انہیں کہا جائے کہ اور وقت دو...مگر یہ علاوہ اس کے بھی کام کرتے ہیں...'' ( مثلا....مولوی سید سرور شاہ صاحب ہیں جو مدرسہ میں کارکن ہیں.وہ صیغہ وصایا کے انچارج بھی ہیں.افتاء کا کام بھی کرتے ہیں.اگر وہ مدرسہ میں پڑھانے کے بعد کہتے کہ میرا دماغ تھک گیا ہے جس طرح باہر کے لوگ کہتے ہیں مگر وہ وصایا کا کام بھی کرتے ہیں جس سے چندہ میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ آنریری کام کرتے ہیں.☆..احمد یہ گزٹ ۲۷-۲-۲۶ (ص ۱۵ ۱۶) صد را منجمن نے فیصلہ کیا: ”مولوی صاحب کی تحریر سن کر فیصلہ کیا گیا کہ مجلس شوری حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ کے ایثار کو عزت اور قدر کی نظر سے دیکھتی ہے.ناظر صاحب تالیف و اشاعت....حضرت مولوی صاحب کو ذاتی حیثیت سے کام کرنے کے لئے تحریک فرما ئیں جس کو وہ بلا معاوضہ منظور فرماتے ہیں اور نصاب تعلیم کو پورا کرنے کا ذمہ لیا ہے.۸۸
129 ۱- تقرری بطور امیر مقامی خلافت ثانیہ میں کئی مواقع پر آپ کو امیر مقامی مقررکیا گیا.۲۱ جون ۱۹۱۸ء کو ڈلہوزی روانہ ہوتے وقت حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تقریرا میر قادیان کے متعلق مختصر تقریر میں فرمایا :- میں نے اس وقت کچھ کہنے کا ارادہ نہیں کیا تھا.مگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق کہ جب آپ باہر تشریف لے جاتے تو کسی کو امیر مقرر فرماتے.امیر مقرر کرنا ہے.آج کل لوگوں کے خیال بہت وسیع ہو گئے ہیں اس سے وسعت حوصلہ مراد نہیں بلکہ ذراسی بات کا بتنگڑ بنالیتے ہیں...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ آپ ہمیشہ مختلف امیر مقرر کرتے اس کے یہ معنی نہیں کہ ایک جس کو ایک مرتبہ امیر مقرر کرتے دوبارہ اس کو اس کی نا قابلیت کی وجہ سے مقرر نہ فرماتے.بلکہ آپ کبھی ایک کو مقرر فرماتے پھر کبھی اسی کو.اس میں حکمت یہ تھی کہ کوئی خاص شخص مدنظر نہ ہوتا تھا اور دوسرے جس کو مقرر کیا جا تا اس میں عجب پیدا نہ ہو.ایک وقت حضرت ابو بکر امیر ہیں دوسرے وقت میں اسامہ بن زیڈ کے ماتحت ہیں.اس طریق سے عجب پیدا نہیں ہوتا اور دوسرے سب میں اطاعت کا مادہ پیدا ہوتا ہے.کبھی آپ نے ایسے شخص کو امیر بنا دیا کہ بظاہر اس کی کوئی حیثیت نہ ہوتی.اس میں یہی بستر تھا کہ آپ جماعت میں اطاعت اور انکساری پیدا کرنا چاہتے تھے اور عجب سے بچانا چاہتے تھے.آپس میں اطاعت مشکل ہوتی ہے اس لئے آپ نے اطاعت سکھانے کے لئے یہ طریق اختیار کیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر کام حکمت اور جماعت کی تعلیم اور تزکیہ پر مبنی تھا.پس یہ امر بہت روشن اور بابرکت ہے.اسی سنت کے موافق میں نے ارادہ کیا کہ اس مرتبہ اور امیر مقرر کروں.اس سفر کے دوران میں قادیان کی جماعت کے لئے میں ایک امیر مقرر کرتا ہوں.ابھی باہر میں نے اس سلسلہ کو رائج نہیں کیا.صرف قادیان کی جماعت کے لئے یہ امیر ہے.نہ کہ ساری جماعتوں کے لئے امیر.اس سے سبق ملے گا کہ ہر جگہ کے لئے امیر مقرر ہوں...فی الحال یہ قادیان کے متعلق اس دورانِ سفر کا انتظام ہے اور اس دورانِ سفر میں مولوی سید سرورشاہ صاحب امیر ہوں گے.جس قدر جماعت کے لوگ ہیں اور ذمہ دار لوگ.ضروری امور میں ان سے مشورہ کریں.آپس میں محبت اور آشتی سے رہیں.باہر مبلغ بھیجنے کا ان کا کام ہو گا.اس تقر را میر کے بعد حضور نے احباب کو مصافحہ کر کے رخصت کیا اور ٹانگہ پر سوار ہو کر روانہ ہوئے.“ ہیں ۲۱-۲-۱۸ کو حضور نے ڈلہوزی کے لئے روانہ ہونے سے پیشتر بعد عصر بہشتی مقبرہ میں احباب سمیت
۱۸۰ ۱۲ / فروری ۱۹۱۹ ء کو لاہور تشریف لے جاتے وقت بھی حضور نے فرمایا کہ:- بقیہ حاشیہ: - مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دعا کی اور پھر احمد یہ چوک میں سے گذر کر قصبہ کے باہر کھلے میدان میں مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھیں اور اس کے بعد مذکورہ بالا تقریر فرمائی.حضور ۱۸ اگست کو مراجعت فرما ہوئے.گویا مولوی صاحب قریباً پونے دوماہ امیر مقامی رہے.۸۱ کچھ عرصہ تک مبلغین کے اندرونِ ملک بھجوانے کی ذمہ داری امارت مقامی سے متعلق رہی ہوگی.ابتداء میں خلفاء کرام کی اجازت سے اندرونِ ملک میں مبلغ بھجوائے جاتے تھے.بعد میں کثرت کام کے باعث یہ طریق کار تبدیل ہو گیا.بلکہ براہ راست اور کلیۂ نظارت دعوۃ و تبلیغ کے سپرد یہ کام تھا.البتہ اہم مراکز ہند میں مبلغین کی تبدیلی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کی جاتی تھی.حضرت مولوی صاحب (امیر مقامی ) نے درس قرآن مجید کے بعد جماعت کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.اس لمبی تقریر کو سننے کے لئے قادیان کی تمام احمدی آبادی جمع تھی.پھر آپ نے تمام سمیت دعا کی.۸۲ ۱۷-۸-۱۸ کو قبل عشاء امیر جماعت نے جماعت کی معیت میں قادیان سے باہر جا کر پہلے نشانِ میل کے قریب حضور کی مراجعت فرمائی پر استقبال کیا.حضرت ام المؤمنین بھی اپنے لخت جگر کی آمد پر وہاں تشریف لائی ہوئی تھیں.احباب نے نماز مغرب اسی میدان میں انتظار میں ادا کی.حضور کی آمد پر اگلے روز زور دار بارانِ رحمت نازل ہوئی.حالانکہ کہا گیا تھا کہ مون سون نہیں.۸۳ بعض دیگر مواقع کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:.(۱) حضور ۲۰-۷-۳۱ کوطبی مشورہ کے مطابق دھرم سالہ پہاڑ پر تشریف لے گئے.روانگی سے قبل بیت الدعا میں دعا کی اور باہر احباب نے دعا میں شرکت کی.(۳۰/ جولائی کو جمعہ کے ) دوسرے خطبہ میں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو امیر صلوۃ اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کو امیرانتظامیہ مقر فر مایا اور جماعت کو اطاعت کی تعلیم دی.‘ ۸۴ (۲) چوہدری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ عنہ کے حج بیت اللہ سے مشرف ہو کر آنے پر حضرت مولوی صاحب جو امیر مقامی اور امام الصلوۃ تھے.احباب سمیت دو میل تک پیشوائی کے لئے تشریف لے گئے.۸۵
۱۸۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں میں بھی بدل بدل کر امیر مقرر کرتا ہوں.اس طرح ہر ایک میں فرمانبرداری کی عادت پیدا ہو جاتی ہے.‘ ۸۶ -۲ تقرر بطور امام الصلواۃ اور بالالتزام با جماعت ادا ئیگی نماز آپ کے اعلیٰ مقام تقویٰ پر یہ امر دال ہے کہ ابھی آپ کی عمر قریبا بتیس سال کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کی امامت میں نمازیں اور جمعے ادا فرمانے لگے.یہ شرف مولوی صاحب کو بقیہ حاشیہ: - (۳) حضور منصوری تشریف لے گئے تھے.۱۷ / اپریل ۱۹۳۱ء کو امیر مقامی حضرت مولوی شیر علی صاحب کے چند روز کے لئے وطن جانے پر حضور نے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کو قائم مقام مقرر فرمایا.۸۷ (۴) ۸-۳-۲۴ کو حضور نے بعد نماز ظہر اعلان فرمایا کہ میں چار پانچ دن کے لئے باہر جاتا ہوں اور حضرت مولوی صاحب کو امیر مقامی مقرر فرمایا.۸۸ (۵) ایک دفعہ حضور نے ذیل کا مکتوب تحریر فرمایا:- مکر می مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.انشاء اللہ ہم سب پیر کو ساڑھے پانچ بجے والی گاڑی قادیان واپس آجائیں گے.جب تار ملے تو موٹروں اور اگر ہو سکے تو گڈے ورنہ ٹانگوں کا انتظام کروا چھوڑیں.اسباب کے لئے گڑے میں زیادہ سہولت رہے گی.دو تین آدمی انتظام کے لئے بھی اسباب کے ساتھ مقرر کر چھوڑیں.انتظام اس طرح کیا جائے کہ مستورات پہلے موٹروں میں روانہ ہو جائیں.میں اس عرصہ میں دوستوں سے مصافحہ کرلوں گا.پھر میرے لئے موٹر واپس آجائیں.اگر براہ راست موثر قادیان آ سکتے ہوں تو پھر ہم اپنے موٹروں میں بٹالہ سے قادیان آجائیں گے.راستہ کا پتہ لے کر تار دلوا دیں کہ آیا موثر قا دیان آرام سے پہنچ سکتی ہے یا نہیں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد موٹروں کے براہ راست آنے کی صورت میں بھی گڑے وغیرہ کا اسٹیشن پر انتظام ضروری ہوگا.وقت کے متعلق آخری فیصلہ کی اطلاع آپ کو بذریعہ تار دی جائے گی.مرزا محمود احمد ( نوٹ از مؤلف ) ریل گاڑی دسمبر ۱۹۲۸ء میں جلسہ سالانہ کے بالکل قریب جاری ہوئی تھی اس لئے یہ مکتوب اس کے بعد کے عرصہ کا ہے.
۱۸۲ بار ہا حاصل ہوا.مؤلف بقیہ حاشیہ:- کوئی موسوی سید کردینے کا مقام ہے اللهم عليكم ورحمة الله وبركات - انشاء اللہ ہو میر کو ساڑھے پانی بیچے والی گاڑی قادریان در سوی آیا کرینگے جب تار ہے تو ٹوروں اور اگر ہے تو گئے ورنہ مانگوں کا انتظام کر دار ھیں ابا والا بھی انڈے کی زیادہ سہولت پر ہیگی.دو تین آوای انتظام 100 بین اسیا سو کے ساتھ تقریر کو چھو رہیں.انتظام اس طرح کیا جاتا کہ مستور اسے پیسے دوسروں میں روی نہ ہو جائیں کسی ایک مرد سی دوستوں کے معانی کو گونگا ہوں تجھے میرے لیے موٹر وار کو آجائیں - اثر براه راست های موثر قادیان آسکتے ہوں تو پھر ہم اپنے دوسروں اسی بنائر کیے قادیان ہوں تغیر
۱۸۳ سیرۃ المہدی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب زاد عز ، رقم فرماتے ہیں کہ آخری ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے مسجد مبارک میں جمعہ ہوتا اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب امام ہوتے تھے اور بڑی بقیہ حاشیہ:- باینکه روسته کاسته میکر تار دلوادین که آیا موٹر تا دریان راہ سے میچ میں ہے یا نہیں کے وار سلام کا شکر اورود 20 براه راسه آنیکی صورت می می کے مدیر کا سیشن پر انتظام فرسه الماسه ای ه د مسکن آخری قفسه ها اطلاع آمو تو تدریه تا کا جانشینی که میشد اگر و سله (1) بسم اللہ الرحمن الرحیم D/6549 14/1/37 محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم میں چونکہ سفر پر جارہا ہوں اس لئے میری واپسی تک مولوی سید سرور شاہ صاحب مقامی امیر ہوں گے.مرزا محمود احمد خلیفہ امسیح ثانی.قادیان 1 14 37
۱۸۴ مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب جمعہ پڑھاتے تھے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کر ا ا ا ا هو الاسهم کنور یعنی 076549 14142 الوانك میں چونکہ سفر پر جا رہایری اسنے میری داسی تنگ مولوی به سرورشاه چوب مقامی امیر ہونگے مد اسد و شکر خلیفه سیخ کی خاندان 1457 نوٹ از مؤلف:- (1) یہ عبارت اس وقت کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری مولوی عبداللہ صاحب اعجاز کی نوشتہ ہے.(۲) حضور ۳۷-۱-۱۴ کو لا ہور تشریف لے گئے اور اگلے روز مراجعت فرما ہوئے.۸۹
۱۸۵ کے بعد مسجد مبارک میں مولوی محمد احسن صاحب اور ان کی غیر حاضری میں مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب امام بقیہ حاشیہ: یا یا سرور را با این میری اپنی کارای اسید سران درب مقامی امیر ہونگے.فهذا العدو للر خلیفه ای ایرانی - مقاومات 16 اوکار (۷) میں آج سفر پر جا رہا ہوں.میری واپسی تک مولوی سید سرورشاہ صاحب مقامی امیر ہوں گے.16-1-37 مرزا محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی.قادیان نوٹ از مؤلف:- یہ عبارت بھی مولوی محمد عبد اللہ صاحب اعجاز ما صوف کی نوشتہ ہے.تونیک 2012 کو یں سفر پر چار ہا ہوں اسے تر میری واپسی تک مولوی عبید کردی یا خواب تمامی امیر ہونگے.من الله خلیفہ المسیح الثانی
۱۸۶ جمعہ ہوتے تھے.حضرت صاحب کی وفات تک یہی طریق رہا.ماخوذ از حصه اصل روایت: ۱۵) حصہ سوم ( روایت (۶،۸) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی تاریخ وفات اا/اکتوبر ۱۹۰۵ء سے.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے جن دس اصحاب کی امامت میں حضرت مسیح موعود کونماز با جماعت پڑھتے دیکھا ہے ان میں مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بھی ہیں.۹۰ البدر میں زیر عنوان ” سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خبریں مرقوم ہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب...زیادہ علیل ہوگئے.اس لئے حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب فرض امامت نماز کو بجالاتے رہے اور حکیم صاحب کی علالت میں بوجہ نا موجود ہونے سید محمد احسن صاحب امروہی کے سید سرور شاہ صاحب مدرس قادیان امامت کراتے رہے.21 ۶-۳-۱۸ کا خطبہ جمعہ جو حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب سلمہ ربہ نے قادیان میں پڑھایا اس کا موضوع یہ تھا کہ انبیاء و اولیاء کے مخالفین پر جو عذاب و مصائب آئے ان سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے.۹۲ بدر زیر عنوان مدینہ المہدی“ مرقوم ہے:.حضور رسالت مآب کی صحت اچھی ہے آپ صبح و شام سیر کو تشریف لے جاتے ہیں.مسجد مبارک میں سید سرور شاہ صاحب نے جمعہ کی نماز پڑھائی.آپ نے فرمایا کہ نبی ایسے وقت میں آتے ہیں جب قوم کے علماء و امراء و اہل قلم اوروں کے محتاج ہو جاتے ہیں اور بوجہ دنیا پرستی کے نہ حق ظاہر کر سکتے ہیں نہ حق کی مدد بلکہ اپنی عزت قائم رکھنے کے لئے مخالفت میں حصہ لیتے ہیں.پہلے معمولی نشان دکھائے جاتے ہیں جب انہیں نہیں مانتے تو پھر قہری نشانوں کے ذریعہ متنبہ کیا جاتا ہے.آخر ہلاک ہوتے ہیں.‘ ۹۳ بقیہ حاشیہ:- سید سرور شاہ صاحب کے الفاظ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی قلم سے اور باقی عبارت اعجاز صاحب موصوف کے قلم سے نوشتہ ہے.طریق یہ تھا کہ ایک چٹھی پر عبارت لکھ کر اور نام کے لئے جگہ خالی چھوڑ کر جس کے آخر پر ”صاحب“ کا لفظ بھی ہوتا تھا حضور کی خدمت میں پیش کر دی جاتی تھی.حضور دستخط فرما دیتے تھے.بعض امیر مقامی کا نام خود اپنی قلم سے رقم فرما دیتے اور بعض دفعہ زبانی بتا دیتے تھے.الفضل میں اس تاریخ کو سفر کرنامذکور نہیں.حضور در دنفرس سے زیادہ علیل تھے غالبا ایسی کسی وجہ سے سفر ملتوی ہو گیا ہوگا.(۹) ۳۸ - ۲ - ۲۸ کو موضع پھیر و پیچی نز دقادیان جاتے ہوئے آپ کو امیر مقامی مقرر کیا.حضور ۲ / مارچ
آپ نے ۱۹۴۷ء میں مجھے لکھوایا تھا کہ سکھوں والے مکان میں میری رہائش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے کوئی شخص پیغام لایا کہ حضور بلاتے ہیں.ان دنوں میں بخار سے بیمار تھا اور چلنا پھر نا حضرت مولوی نور الدین صاحب نے منع کیا ہوا تھا.میں حاضر ہوا تو حضور نے جمعہ پڑھانے کے لئے کہا.میں نے خطبہ میں سورۃ الکوثر پڑھی اور بیان کیا کہ چونکہ میں بیمار ہوں اس لئے خطبہ میں اختصار کروں گا.چنانچہ اختصار کے ساتھ اس کی تفسیر بیان کی اور نماز پڑھائی.حضور نے مجھے مسجد اقصیٰ کا امام مقرر کیا تھا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد حضور نے مجھے مسجد مبارک میں نمازیں پڑھنے کا ارشاد فرمایا.اس لئے کہ کبھی مجھے بھی مسجد مبارک میں نماز پڑھانی ہوتی تھی.چنانچہ میں نے بیسیوں جمعے اور نمازیں مسجد مبارک میں پڑھائیں کہ جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مقتدی ہوتے تھے.گذشتہ سال حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے مجھے سنایا کہ ایک دفعہ جمعہ میں نے پڑھایا تو حضور نے (حضرت ) اماں جان کے پاس میری تعریف کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کو عجیب دماغ دیا ہے.خلافت اولی میں حضرت خلیفہ اول کی علالت کے دوران میں مولوی صاحب ہی امام الصلوۃ تھے.البتہ آخری ایام میں حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ( ایدہ اللہ تعالیٰ ) کو امامت کرانے کا ارشاد فرمایا ۹۴ غالباً یہ حضرت صاحب کے جانشین ہونے کی طرف اشارہ تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں حضرت ابو بکر گوامام الصلوۃ مقررفرمایا تھا.حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے سفر کے ایام میں کبھی آپ کو امیر مقامی مقررفرماتے اور بوجہ امیر بقیہ حاشیہ کو واپس تشریف لے آئے.۹۵ امیر مقامی ہونے پر آپ بوجہ امیر امام الصلوۃ بھی تھے.سینکڑوں بارا پنی زندگی کے خلافتِ ثانیہ میں آپ امیر مقامی یا امیر الصلوۃ مقرر ہوئے.بعض دفعہ امیر مقامی کی شوریٰ کے رکن بھی مقرر ہوئے بطور مثال حوالے درج کئے جاتے ہیں.(۱) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ۱۹۲۴ء کے سفر یورپ کے موقع پر امیر ہند حضرت مولوی شیر علی صاحب کی شوری کے آپ بھی رکن تھے.(۲) طبی مشورہ کے مطابق دو ماہ کے لئے ڈلہوزی جاتے ہوئے حضرت مولوی شیر علی صاحب امیر مقامی اور آپ کی شوری مشتمل بر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مولوی محمد دین صاحب ( حال ناظر تعلیم ربوہ ) مقرر کی گئی.۹۶ پھر مرقوم ہے کہ مولوی شیر علی صاحب شوری کے مشورہ سے اہم امور سرانجام دے رہے ہیں.۹۷
۱۸۸ ہونے کے آپ امام الصلوۃ ہوتے اور کبھی صرف امام الصلوۃ مقررفرماتے.صرف امام الصلوۃ ہونے کی صورت میں جمعہ امیر مقامی پڑھاتے لیکن قریباً ایک چوتھائی صدی تو مجھے بھی یہ دیکھنے کا موقع ملا کہ حضور کی علالت وسفر کے ایام میں مولوی صاحب ہی مسجد مبارک میں امامت پر مقرر ہوتے تھے اور بہت لمبے عرصہ سے یہ امر د یکھنے میں آتا تھا کہ جن جنازوں کی نماز حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نہیں پڑھا سکتے تھے حضرت مولوی صاحب ہی پڑھاتے تھے.جو نماز میں اتباع امیر اور اتحاد ملت کے لطیف سبق پر مضمون میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر بعض خطبات وغیرہ کے حوالے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.گو۱۹۰۵ء سے ۱۹۴۷ء تک آپ نے کثیر تعداد میں خطبات دیئے: خطبات جمعہ وعیدین : (۱) ۳-۰۸ - ۶ کو جمعہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب سلمہ رتبہ نے پڑھایا ۹۸ بدر میں زیر دیۃ المہدی مرقوم ہے کہ حضرت مسیح موعود کی صحت اچھی ہے اور صبح و شام سیر کے لئے تشریف لے جاتے ہیں اور مسجد مبارک میں مولوی صاحب کے جمعہ پڑھانے کا ذکر کر کے خطبہ کا مختصر خلاصہ درج کیا ہے.۹۹ حضور کی صحت اچھا ہونے کے مد نظر یقین ہے کہ حضور بھی اس جمعہ میں موجود ہوں گے.حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ایک وعظ کا بھی ذکر ہے.غالباً انہوں نے مسجد اقصیٰ میں جمعہ پڑھایا ہوگا.ان ایام میں دو جگہ جمعہ ہوتا تھا اور وہ مسجد اقصیٰ میں جمعہ پڑھاتے تھے.(۲) ۱۳-۳-۰۸ کو وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُه پر خطبہ پڑھنا ۱۰۰ یہ خطبہ ۳ کالم میں الحکم ۱۸-۳-۰۸ میں درج ہے.(صفحہ ۶۵) (۳) غالبا ۱۴-۲-۲۷ کا جمعہ پڑھانا انا حضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) وزیر آباد گئے ہوئے تھے.۱۰۲ (۴ تا ۱۴) خطبات جمعہ ۱۷-۴-۳ (اسلام کی ترقی کے لئے مل کر دعائیں کرو) ۱۸-۴-۱۹ ، ۱۸-۴-۲۶ ( بابت استغفار ) ۱۸-۵-۱۰ ( بعثت نبی خدا کا فضل ہے ) ، ۱۸-۵-۱۷ (اپنی حالت پر غور کرو ) ۱۸-۵-۲۴ اولوالالباب وہ ہیں جو ذکر الہی میں لگے رہیں ) ، ۱۸-۵-۳۱ (خدا کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرنا چاہئے ) ، ۱۸-۶-۷ (اطاعت امیر ( ۱۸-۶-۱۴ ( روزوں کی فلاسفی ) ، ۱۸-۷-۵ (اپنی اصلاح کرو) ، ۶-۱۸ - ۲۸ ( مسیح کے حواری بننا چاہتے ہو یا نبی کریم کے صحابہ ) ۱۰۲
۱۸۹ فرماتے ہیں :- پرسوں مغرب کی نماز کے وقت چونکہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت ناساز تھی.اس لئے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے نماز بقیہ حاشیہ: - الحکم میں مرقوم ہے:- 66 حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے جمعہ کے خطبوں میں نہایت لطیف سلسلہ جماعت کی اصلاح اور تزکیہ نفوس کی راہوں کا شروع کیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں.‘ ۱۰۳ (۱۵) آپ نے ۱۸-۷-۱ کو نماز عید، عید گاہ میں پڑھائی اور خطبہ بڑ کے درخت کے نیچے دیا.۱۰۴ (۱۶ تا ۲۹) خطبات جمعه ۱۸-۱۱-۱۵ ( دنیا حاصل کر مگر دین کے لئے ، ۱۸-۱۱-۲۲ ( خدا کے رسول آیات اللہ ہوتے ہیں ) ، ۱۸-۱۲-۱۳ ( کامل معرفت پیدا کرو ) ، ۱۹-۱۱- ۷ ۲۱-۱-۱-۱۴، ۲۱-۲-۱۸ ( شریعت کی حرمت میں فرق نہ آئے )۲۱-۳-۲۱،۱۸-۴ - ۲۱،۲۹-۵-۱۳ ( روزے کا فلسفه ) ،۲۱ - ۵-۲۱،۲۰ -۵ - ۲۷ ( بابت تقوی ) ،۲۱-۲-۱۰ (امر بالمعروف و نہی عن المنکر ) ۲۱-۷-۱ ( مقامی حالات کے متعلق بہت مفید اور ضروری نصائح ) ۲۱-۹-۹ ( الفضل ۱۸-۱۱-۲۲، ۱۸-۱۲-۳ (ص۶)، ۱۸-۱۲-۲۱ (ص ۷ ) ، ۱۹-۱۱-۱۱، ۱۷-۱-۲۱ (زیر مدینة امسح ) ، ۲۱-۲-۲۸ (ص ۵) والحکم ۲۱ ، ۲۸ مارچ ۱۹۲۱ء (ص ۱۰) - الفضل " 6616 ۵-۵-۲۱ ( ص ۲۱۶-۵-۱۶ ( زیر مدینه ای ) ،۲۱-۵-۱۹ (ص ۲۱۸-۵-۲۳ ( زیر مدینه ای)، ۲۶ / جون ۱۹۲۱ء ( ص ۷ (۲۱-۶-۱۶ ( ص ۲۱۶-۷-۴ ( زیر مدینہ اسیح ) ،۲۱-۱۰-۶ ( ص ۸،۷) (۳۰) آپ کا ۲۰-۹-۱۷ کا خطبہ (الفضل ۲۰-۱۰-۴) (۳۱) حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۲۱ء کو مولاناسیدمحمد سرور شاہ صاحب نے پڑھا.حضرت خلیفہ ایسی نماز میں شریک تھے.‘ ۱۰۵ (۳۲) حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ناسازی طبع کی وجہ سے ۲۲ اپریل کو خطبہ جمعہ مولانا سید محمد سرورشاہ صاحب نے پڑھا.حضور مسجد میں رونق افروز تھے.نماز بھی مولانا موصوف نے پڑھائی.‘ ۱۰۶ (۳۳) ”مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب علاوہ امامت جماعت نماز پنجگانہ جمعہ کے دن ضروریات موجودہ کے مطابق موعظہ حسنہ و خطبہ سے سرفراز فرماتے ہیں.پچھلے جمعہ آپ نے قادیان کے غرباء کی طرف توجہ دلائی کہ جن میں سے بعض موجودہ گرانی غلہ سے بے حد متاثر ہیں.سو ان کے لئے آٹا ارزاں نرخ پر دینے کے لئے انتظام کیا جا رہا ہے.۱۰۷
190 پڑھائی اور بتقاضائے بشری تیسری رکعت میں دو سجدوں کی بجائے چار سجدے کر گئے.بعض قریب کے مقتدیوں نے سبحان اللہ کہہ کر اس غلطی کی طرف توجہ بھی دلائی مگر مولوی صاحب نے اس کا خیال نہ کیا اور اپنی یاد کو صحیح سمجھتے ہوئے چار سجدے پورے بقیه حاشیه - (۳۴) تا (۴۰) خطبات جمعه ۲۲-۳-۱۰ ، ۲۶-۷-۹ ، ۲۶-۷-۱۶ ، ۲۸-۴-۱۳ ، ۴-۱-۴ ، ۱۱-۱-۴۶ ، ۱-۴۶- ۱۸) (الفضل) ۲۲-۳-۱۳، ۲۶-۷-۱۳ ، ۱۰-۷-۲۰، ۲۸-۴- ۱۷، ۱۹-۱-۴۶،۱۲-۱-۴۶،۵-۱-۴۶.سب زیر مدینہ المسیح ) - امام الصلوۃ ہونا: (۱) ۱۸-۹-۳۸ کو سفر پر جاتے ہوئے حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو امیر مقامی اور حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کو امام الصلوۃ مقرر فرمایا.حضور ۳۸-۹-۲۳ کو واپس تشریف لائے.۱۰۸ (۲) ۲۰-۵-۳۹ کو سندھ جاتے ہوئے امیر مقامی حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اور امام الصلوۃ حضرت مولوی صاحب کو مقرر کیا گیا.حضور کی واپسی ۳۹-۶-۸ کو ہوئی.۱۰۹ (۳) تقرر بشرح صدر -۳۹-۴-۲۹ تا ۳۹-۴-۳۰ به سفر رہا.۱۱۰ (۴) تقرر بشرح صدر - سفر ۱۴ ، ۱۵ مئی ۱۹۳۹ ء - ۱۱۱ (۵) تقرر بشرح صدر.۱۱۲ ۳- امامت نماز ہائے جنازہ: (۱ تا ۲۲ الفضل ۱۶-۲-۱۲، ۲۴ - ۷-۳۱ ، ۲۹-۲-۱۲ ، ۳۰-۸-۲۸ ، ۳۱-۱۰-۲۹ ، ۳۷-۹-۳ ، ،۷-۱۱-۴۳،۶-۶-۳۹، ۳۱-۵-۳۹،۲۳ - ۵ - ۳۹ ،۲۰-۹-۳۸ ،۷-۶-۳۸ ،۲۷ - ۲-۳۸،۶-۱-۳۸ ۲۳-۶-۴۴ ، ۱۵-۱۱-۴۴ ، ۴۵ - ۱۲- ۷ ، ۴۵ - ۲۱-۱۲ ، ۱۴-۱-۴۶.(سارے زیر ير مدينة المسيح ، ۲۳-۶۰-۴۴ ص ۳۲ ۴ - امامت نماز استسقاء: ،(" ۳۱-۱-۴۶ کو ۱۱:۳۰ بجے دن مرد و خواتین کے بہت بڑے مجمع کے ساتھ تعلیم الاسلام کالج کے وسیع میدان میں آپ نے نماز استسقاء پڑھائی.۱۱۳
191 کر گئے اور جیسا کہ شریعت کا مسئلہ ہے ان کی اتباع میں ہم سب کو بھی چارسجدے ہی کرنے پڑے.“ ۱۱۴ مجھ مؤلف کو انہی دنوں مؤذن مسجد مبارک نے بتایا کہ حضرت مولوی صاحب بہت بیمار تھے اس لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تاکیدی طور پر مجھے فرمایا کہ اب مولوی صاحب کو امامت کے لئے نماز کی اطلاع نہ دیا کروں.ان کو تکلیف ہوتی ہے.ایک دوست نے خاکسار مؤلف کو بتایا کہ آپ مسجد میں تشریف لے آئے اور تھرما میٹر سے دیکھا تو ایک سو پانچ درجہ بخار تھا.خاکسار مؤلف وفات سے چند روز قبل تک کئی بار آپ کے سوانح کے تعلق میں آپ کے مکان پر حاضر ہوتا رہا.ایک دفعہ میں نے عرض کی کہ آپ کو ڈاکٹری ہدایت ہے کہ پوری طرح آرام فرما ئیں.آپ کو سخت ضعف ہے لیکن آپ پھر بھی مسجد میں تشریف لے جاتے ہیں ( یہ مرض الموت کا زمانہ تھا.وفات سے ڈیڑھ دو ہفتے قبل کی بات ہے.ضعف کے باعث آپ سارا دن لیٹے رہتے تھے اور نماز کے وقت اپنے بقیہ حاشیہ: - - سنگ بنیا درکھنا: (۱) دار الرحمت کے ایک مکان پر ذیل کی عبارت اس وقت تک بھی کندہ ہے ” هذا من فضل ربی “.اليس الله بکاف عبده - مورخہ ۲۷ ستمبر ۱۹۲۶ء کو حضرت مولوی سید محمد سر درشاہ صاحب و حضرت مولوی شیر علی صاحب نے سنگِ بنیا درکھا.یہ مکان منظور منزل مملوکہ منشی محمد عبد الحق صاحب قانونگو مہاجر کے بالکل متصل جانب غرب ہے معلوم نہیں کن صاحب کا ہے.(۲) ڈاکٹر سید رشید احمد صاحب مرحوم کے مکان کی دار البرکات میں بنیا د رکھی.۱۱۵ - متفرق (۱) ۱۹۱۸ء میں حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ علیل ہو گئے تھے اس تعلق میں مرقوم ہے.۲۲ را پریل کو احباب قادیان نے ظہر کے وقت مسجد اقصیٰ میں جمع ہو کر جناب مولوی سرور شاہ صاحب کی اقتداء میں دو نفل پڑھے اور بہت دیر تک حضور کی صحت کے لئے دعا کی گئی.۱۱۲ صدقہ بھی دیا گیا.(۲) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ قبول اسلام کرانے کے لئے غیر مسلموں کو آپ کے سپر دفرماتے تھے مثلاً الفضل ۶-۹-۲۷ میں زیرہ مدینہ اسیح ، ایک سکھ کے آپ کے ہاتھ پر قبول اسلام کا ذکر ہے.
۱۹۲ فرزند سید مبارک احمد صاحب کے ساتھ مسجد مبارک میں پہنچتے تھے کیونکہ ایک دو بار آپ راستہ میں گر گئے تھے.نہ معلوم آپ مسجد کی سیڑھیاں کس طرح چڑھتے تھے ) جواباً فرمایا." کوئی اور ہو تو اس حالت میں مسجد میں نہ جائے لیکن میں چلا جاتا ہوں.وفات سے دو تین دن پہلے تک آپ مسجد میں با قاعدگی سے آتے رہے.ایسی ہمت اور با قاعدگی دیکھنے میں نہیں آئی.شدید ضعف کے باعث جنازہ پڑھانے کے لئے بھی آپ کو اطلاع نہیں دی جاتی تھی لیکن ایک روز کسی نے غلطی سے اطلاع دے دی.صحن مہمان خانہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے نماز جنازہ ختم کی تو ہم نے دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب ، سید مبارک احمد صاحب کے ساتھ آپہنچے ہیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ” مسجدوں کی رونق بنو اور دعاؤں پر زور دو کے زیر عنوان واعظانہ مضمون میں احباب کو تلقین کرتے ہوئے رقم فرماتے ہیں :.حضرت مولوی صاحب کی طبیعت جنوری ۱۹۴۷ء میں تو ضرور نا ساز تھی.چنانچہ آخری بار ۲۰ /جنوری کو ایک تقریب میں شمولیت کا علم ہوتا ہے جہاں آپ نے چوہدری غلام مرتضی صاحب حال وکیل القانون کو تعلیمی اداروں کی طرف سے دی گئی الوداعی دعوت میں دعا کرائی اور ہم فروری کو آخری جنازہ پڑھایا جو حاجی محمد بخش صاحب چہلمی کا تھا.11 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب والے مضمون مرقومه ۲۱ فروری سے معلوم ہوا کہ پرسوں ( گویا ۱۹ / فروری کو ) مولوی صاحب سے نماز میں سہو ہوا.الفضل میں بھی ۱۸ فروری کو نقاہت بہت ہے.اور ۲۱ فروری کو " نقاہت بہت ہوگئی ہے.مرقوم ہے.(۲۲۱۹ فروری زیر مدینہ اسیح ) مؤذن نے مجھے بتایا تھا کہ اگلے روز حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر مولوی صاحب کو امامت کے لئے اطلاع دینا بند کر دیا گیا تھا.الفضل ۲۴، ۱۲۵ فروری و یکم مارچ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۴ کو مفتی محمد صادق صاحب امیر اور امام الصلوۃ مقرر ہوئے اور حافظ مختار احد صاحب شاہجہانپوری نے ایک جنازہ پڑھایا اور ۲۸ فروری کو مولوی صاحب کی طبیعت نقاہت کی وجہ سے زیادہ ناساز رہی.“ ( زیر مدینہ اسی ) اسی عنوان کے تحت ۷-۱۲،۸ / مارچ کے پرچوں میں آپ کی نقاہت کا ذکر ہے اور ۸/ اپریل کی اشاعت میں نقاہت بہت زیادہ ہو جانا مرقوم ہے.(۱۳، ۲۰ / مارچ کے پر چوں میں جو افاقہ لکھا ہے وہ نبتی امر ہے ) ۳ رمئی کو گذشتہ روز کے متعلق لکھا ہے :- " حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب شدید بیمار ہیں.کل سے غشی طاری ہے آج شام تک کوئی افاقہ نہیں ہوا.“ (زیر مدینہ اسی )
۱۹۳ اس حکیمانہ ارشاد سے یہی مراد ہے کہ نمازوں کی ادائیگی کے بعد بیشک مسجدوں سے باہر آؤ اور دین و دنیا کے کاموں میں حصہ لو اور حقوق اللہ کی طرح حقوق العباد میں بھی بہترین نمونہ بنو.مگر تمہیں خدا کی عبادت میں ایسا شوق و ذوق حاصل ہونا چاہیئے کہ گویا مسجد سے باہر آنے کے بعد بھی تمہارا دل مسجد میں ہی لٹکار ہے اور تم اس انتظار میں رہو کہ کب پھر حتی الصلواۃ کی آواز آئے اور کب تم دوبارہ خدا کی عبادت کے لئے مسجد کی طرف لپکتے ہوئے پہنچو.یہ وہی حقیقت ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان پیارے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ بسا اوقات رسول پاک گھر میں ہمارے پاس بیٹھے ہوئے اس طرح پیار و محبت کی باتیں کرتے تھے کہ گویا آپ کی توجہ کا مرکز ہم ہی ہیں.مگر جب اذان کی آواز آتی تھی تو آپ ہمیں چھوڑ کر اس طرح اُٹھ کھڑے ہوتے تھے کہ گویا آپ ہمیں جانتے ہی نہیں.“ اسی حقیقت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض اوقات ان الفاظ میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ :- وو دست با کار و دل بایار و یعنی ہاتھ تو کام میں لگا ہوا ہے.مگر دل کی تمام توجہ دوست کی طرف ہے.“ اس وقت یہ خاکسار مثال کے طور پر اپنے تین ایسے مرحوم دوستوں کا ذکر کرنا چاہتا ہے جو اس کیفیت کے حامل تھے جو اوپر بیان کی گئی ہے.میری مراد (۱) حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم اور (۲) حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب مرحوم اور (۳) حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب مرحوم سے ہے.یہ تینوں بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ممتاز صحابہ میں سے تھے اور انہیں خدا کے فضل سے وہ مقام نمایاں طور پر حاصل تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ :- " قلبه مُعلّق بالمسجد " د یعنی مبارک ہے وہ انسان جس کا دل گویا ہر وقت مسجد میں لٹکا رہتا ہے.“ بقیہ حاشیہ: - اس کے ایک ماہ بعد آپ انتقال فرماتے ہیں لیکن وفات سے دو تین دن قبل تک مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں اور اس سے دو تین دن رُکنا بھی ان کا اختیاری امر نہ تھا.وہ بیہوش ہو کر داخل شفاخانہ ہوئے اور وہیں واصل بحق ہوئے.الفضل سور جون میں گذشتہ روز کے متعلق مرقوم ہے.” شدید بیمار ہیں.کل سے غشی طاری ہے آج شام تک کوئی افاقہ نہیں ہوا.“ (زیر مدینہ اسی )
۱۹۴ یہ بزرگ اللہ تعالیٰ ان پر ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے ) بیوی بچے بھی رکھتے تھے.ان کے حقوق بھی ادا کرتے تھے.اپنے مفوضہ کام بھی سرانجام دیتے تھے.دوستوں کی مجلسوں میں بھی بیٹھتے تھے.حسب ضرورت بازار سے سودا سلف بھی لاتے تھے.بعض اوقات معصوم تفریحوں میں بھی حصہ لیتے تھے.الغرض ” دست با کار“ کا ایک نہایت عمدہ نمونہ تھے مگر باجود اس کے وہ مسجدوں کی رونق بھی تھے.اور ” دل بایار کی ایسی دلکش تصویر پیش کرتے تھے کہ اب تک ان کی یاد سے روح سرور حاصل کرتی اور زبان سے بے اختیار دعا نکلتی ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ ہم سب کے آقا اور سرور حضرت مسیح موعود عیہ السلام کا اپنا یہ حال تھا کہ آپ کی جوانی میں جب ایک شخص نے ہمارے دادا سے دریافت کیا کہ آپ کا ایک لڑکا تو اکثر نظر آتا ہے مگر کہتے ہیں کہ آپ کا ایک اور لڑکا بھی ہے وہ کہاں رہتا ہے.دادا نے فرمایا : - اس کا کیا پوچھتے ہو؟ مسجد میں دیکھو کسی صف میں لپٹا پڑا ہوگا.‘ ۱۱۸ - شرکت مرکزی و فو دو اجلاس بابت ہندو مسلم اتحاد ۷ دسمبر ۱۹۱۹ء کوسرایڈورڈمیکیکن لفٹنٹ گورنر پنجاب کو اور۲۳ جون ۱۹۲۱ء کولارڈ ریڈنگ وائسرائے ہندکو اور ۸/ نومبر ۱۹۲۳ء کو گورنر پنجاب کو سپاسنامے اور شہزادہ ویلیز کو حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا مؤلفہ تحفه شهزاده ویلز بذریعہ حکومت ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء کو پیش کرنے والے احمدیہ وفود میں آپ بھی شامل تھے.جیو الفضل ۱۹-۱۲-۲۲ (ص ۱۱) یہ وفدا کا ون افراد پر مشتمل تھا سپاسنامہ میں کہا گیا تھا کہ گوہم ترکی کے خلیفہ کو خلیفہ نہیں مانتے لیکن ہم مسلمانوں کے اس مطالبہ کے ہمنوا ہیں کہ ترکوں سے معاملہ کرتے وقت مسلمانوں کے احساسات کا لحاظ رکھا جائے.بروئے الفضل ۲۱-۷-۴ (ص۳) وائسرائے کو تمہیں افراد پر مشتمل وفد شملہ میں ملاقی ہوا.”مولوی سید سرور شاہ صاحب مدرس اول مدرسہ احمدیہ اس میں شامل تھے.( ریویو آف ریلیجنز انگریزی بابت جون ۱۹۲۱ء میں بھی اس کا ذکر ہے ) شہزادہ والے وفد میں آپ کا اسم گرامی ”مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب پر نسپل احمد یہ دینی کالج قادیان مرقوم ہے.۱۱۹ ۲۱ جنوری کو بعد نماز فجر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کا مسودہ سنانا تھا.مسجد مبارک میں بیرونی محلوں کے احباب بھی جمع تھے بلکہ کثرت کے باعث بہت سے احباب نے مسجد مبارک کی چھت پر نماز ادا کی اور مضمون سنانے سے قبل نو علماء بشمول مولوی صاحب ) کو اور انگلستان کے دونوں سابق مبلغوں کو مشورہ کے لئے آگے بُلایا.۱۲۰ ۲۳-۱۱-۸ کو گورنر پنجاب سرایڈورڈ میکلگین سے وفد نے درخواست کی کہ قادیان میں تار گھر کھولا جائے اور قادیان بٹالہ روڈ کو پختہ کیا جاوے.آپ اس وفد میں بطور سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ قادیان شامل تھے.۱۲۱
۱۹۵ دہلی کے لیڈروں کی دعوت پر جناب مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب.جناب مفتی محمد صادق صاحب اور جناب قاضی عبد اللہ صاحب اس میٹنگ میں شامل ہوئے جو ہندوستان کی تمام اقوام کے لیڈروں کی ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں منعقد ہو رہی تھی.مولوی صاحب اور مفتی صاحب دونوں سجکٹس کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے.۱۲۲ اس وقت گاندھی جی نے ہندو مسلم فسادات میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تین ہفتے کا برت رکھا تھا.صدر مجلس پنڈت موتی لال نہرو نے ایک تجویز میں جو متفقہ طور پر منظور ہوئی گاندھی جی کے برت پر فکر مندی کا اظہار کیا اور ضمیر ، عبادت اور قبول مذہب کی آزادی کو تسلیم کیا.مفتی کفایت اللہ صاحب نے قتل مرتد کی حمایت کی جس کی تردید مولانا ابوالکلام آزاد و غیرہ نے کی.مفتی موصوف کی باتوں سے غیر مسلموں پر اسلام کے متعلق بہت برا اثر پڑا.۱۲۳ ۴- مالی خدمت آپ موصی تھے.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہوئے اور دیگر کئی مواقع پر اسلام کے لئے مالی خدمات میں آپ نے شمولیت کی توفیق پائی.بعض مالی قربانیوں کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے :- (۱) چنده مدرسه تعلیم الاسلام مرسله از پشاور ایک روپیہ ساڑھے آٹھ آنے.۱۲۴ (۲) ۳۱ مارچ اور یکم اپریل ۱۹۰۱ء کو انجمن اشاعتِ اسلام سے متعلق اجلاسات منعقد ہوئے اور ریویو آف ریچر کے فروخت حصص کے بارے میں سابقہ روئداد سنائی گئی اور قواعد تجویز ہوئے.خرید حصص کی اطلاع دینے والے احباب میں ”مولوی سید سرور شاہ صاحب کا نام بھی ایک حصہ کی خریداری میں موجود ہے.۱۲۵ ایک تو مولوی لکھا ہے دوسرے آپ سے قبل ایک اور آپ کے بعد دو افراد پشاور کے ہیں.گویا یہ نام بھی پشاور کا ہے اور آپ پشاور میں پروفیسر تھے.آپ کے ہمنام رشتہ دار نہ مولوی کہلاتے تھے نہ پشاور میں قیام رکھتے تھے.(۳) دو آ نے چندہ برائے امداد داخلہ امتحان طلباء کالج.۱۲۶ (۴) آپ کی وصیت نمبر ۳۰۳ ہے.آپ نے سے جنوری ۱۹۰۸ءکو جائیداد کی اور ۱۹۴۲ء میں آمد کی وصیت کی تھی.(۵) ارتداد ملکانہ کے تعلق میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مشاورت ۱۹۲۳ء میں چندہ کا اعلان فرمایا.اولین پیش کش جنرل اوصاف علی خانصاحب مالیر کوٹلوی کی طرف سے ہوئی جنہوں نے پانصد روپیہ کا
۱۹۶ ۵- تعلیمی خدمات اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ آپ کے علوم میں کمال و تبحر کے باعث طالبعلمی میں دارالعلوم دیو بند اور سہارنپور اور ایبٹ آباد میں اور پشاور میں علماء آپ کا سکہ مان چکے تھے.مخالف علماء یا رائے مباحثہ و مکالمہ نہ پاتے تھے اور پشاور کے مشن کا چوٹی کا پادری تاب مقاومت نہ رکھتے ہوئے دماغی توازن کھو بیٹھا اور اس کا خاص مقصدِ سفر خاک وخون میں غلطان نظر آنے لگا اور اس کے سارے کئے کرائے پر آپ کی وجہ سے پانی پھر گیا.آپ کے والدِ ماجد نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے میں فخر و انبساط محسوس کیا.بقیہ حاشیہ:- چیک پیش کیا.کل پیشکش دس ہزار کی ہوئی.مولوی صاحب نے ایک صد روپیہ کی پیشکش کی.۱۲۷ گویا کل پیشکش کا سوواں حصہ آپ کی طرف سے تھا.(۶) ۱۹۲۴ء میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے چالیس ہزار روپیہ کی تحریک چندہ خاص کی تھی.یہ تحریک ایک ماہ کی تنخواہ کی ایک تہائی کی تھی.آپ نے تینتیس روپے ساڑھے پانچ آنے دیئے.گویا آپ کا مشاہرہ یک صد روپیہ تھا.اس فہرست میں اکہتر کارکنان صدر انجمن کی رقوم درج ہیں.ان میں سے صرف ایک کا چندہ آپ سے زیادہ اور تین کا آپ کے برابر ہے.۱۲۸ (۷) سلسلہ کی مالی مشکلات کے پیش نظر حضور کی طرف سے ایک لاکھ روپے چندہ خاص کی تحریک ہوئی تھی.جس میں تمام کارکنان نے ایک ایک ماہ کی تنخواہ پیش کر دی تھی.۱۲۹ (۸) ۱۹۳۱ء میں حضور کی طرف سے تحریک کی گئی کہ احباب ایک ایک ماہ کی آمد چندہ خاص کے طور پر دیں.۱۴۴ مولوی صاحب کا چندہ ایک صد سوا میں روپے دیگر کارکنان کی طرح یکمشت ادا ہوا.۱۳۰ (۹) تحریک وقف جائیداد پر آپ نے ساری جائیداد وقف کر دی.۱۳۱ اس وقت حضور کی طرف سے یہ اعلان تھا کہ صرف پیشکش کی جائے.جب بھی اسلام کے لئے ضرورت ہوگی کچھ فیصدی کا مطالبہ کیا جائے گا.(۱۰) آپ تحریک جدید کے مجاہدین میں شامل تھے.آپ تحریک کے چودھویں سال عالم جاودانی کو سدھار گئے.”حضرت مفتی سید محمد سرور شاہ صاحب “ نے چار صد بیاسی روپے کی رقم اس تحریک میں ادا کی.۱۳۲ (11) ذیل کے دواندرا جات بابت رسید زر موجود ہیں لیکن وہاں سکونت مرقوم نہیں اس لئے یہ علم نہیں ہوتا کہ آپ کے چندہ کا ذکر ہے یا آپ کے پھوپھی زاد بھائی کا.،، 66 (الف) نمبر ۱۹۲.سید سرور شاہ صاحب ساڑھے چار روپے ۱۳۳ 66 (ب) ” نمبر ۸۳۱.سید سرور شاہ صاحب ایک روپیہ.۱۳۴
۱۹۷ * سلسلہ احمدیہ میں بھی آپ کے علمی قدرو منزلت کا ویسا ہی احترام کیا گیا.افتاء کے باب میں آپ کا خاص مقام تھا.آپ بیان کرتے تھے کہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کے ساتھ مل کر مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور مولوی عبد اللہ کشمیری کتاب سیبویہ مجھ سے پڑھتے تھے اور مولوی عبدالکریم صاحب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو بھی ساتھ بٹھلا لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ " گوش زده اثری دارد ؟ آپ کے علم و تقویٰ کے باعث آپ قریب بتیس سال کی کم عمر میں حضرت مسیح موعود کی نظر میں امام الصلوۃ وخطیب جمعہ کے اہل قرار پائے اور آپ کی تفسیر مستند قرار پائی اور اس کی اشاعت کے لئے خاص اہتمام کیا جاتا رہا.ہونے والے عالی مقام خلیفہ ثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی تعلیم کا آپ کو شرف حاصل ہوا.مباحثہ ممد کا سامان کر کے اللہ تعالیٰ نے جری اللہ فی حلل الانبیاء کے قلم صداقت رقم سے آپ کا نام جریدہ عالم دوام پر ثبت کر دیا.چنانچہ آپ اسلام کے ایک بطل جلیل اور سرور غضنفر کے طور پر یا در ہیں گے.سلسلہ احمدیہ کو اس فقید المثال علامہ سے استفادہ کا موقعہ یوں ملا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے سیالکوٹ کی مسجد کی تولیت کے مقدمہ کی پیروی کے لئے رسہ تعلیم الاسلام سے رخصت حاصل کی.اس پر حضرت مولوی صاحب کو غالبا دسمبر ۱۹۰۱ء میں بطور قائم مقام مقرر کیا گیا.بالآ خر آپ وفات تک قریباً نصف صدی تک مختلف رنگوں میں تعلیمی خدمات سے وابستہ رہے.یہ کہنا مبنی بر حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود کے طفیل آپ کو اس قابل فخر.لاثانی اور عظیم الشان عمارت کے اولین اور معدودے چند عظیم معماروں میں ہونے کا شرف حاصل ہوا.حضور کے عہد مبارک میں آپ مدرسہ تعلیم الاسلام سے وابستہ کئے گئے.مدرسہ احمدیہ کے قیام پر اس کے اولین مدرسوں میں بلکہ نصاب مقرر کرنے والی کمیٹی کے پانچ افراد میں شامل تھے.مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر اور پھر مینجر اور جامعہ احمدیہ کے پہلے پرنسپل اور مدرسه * سیبو بہ کے متعلق بیان الفضل ۳۳-۰۳-۱۵ ص ۷ک ۳ میں درج ہے.ہجرت کی تاریخ کی تعیین میں گذشتہ اوراق میں تقرر بطور مدرس کی تاریخ کی تعیین کی جاچکی ہے یہاں آپ کی تعلیمی خدمات سے متعلق بعض حوالے پیش کئے جاتے ہیں :- ۱۷-۱۸ میں نائب افسر مدرسہ احمدیہ و پروفیسر اعلیٰ (سالانہ رپورٹ ص۱۵،۲.نیز رپورٹ ہائے سالانہ ۱۹ - ۱۹۱۸ ء ، ۱۹۲۰ء میں پروفیسر اعلیٰ ہونے کا ذکر ص ۲ - ۱۹۱۸ ء کے لئے نائب افسر مدرسہ احمدیہ مقرر کیا جانا.۱۳۵ بطور افسر مدرسہ احمد یہ رکن مجلس ناظم مقرر ہونا.۱۳۶
۱۹۸ اس سے سبکدوش ہونے پر تا وفات واقفین تحریک جدید کے جامعہ کے پرنسپل مقرر رہے.گویا مدرسہ احمدیہ کے قیام سے اپریل ۱۹۳۹ء تک مدرسہ احمد یہ اور جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء مبلغین اور اس کے بعد تقسیم ملک تک کے واقفین آپ سے بھی فیضیاب ہونے والوں میں سے تھے.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی آپ کے تلامذہ میں سے ہیں کی حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب بھیروی نے الحکم میں ایک مبسوط مضمون کے ذریعہ جماعت پر واضح کیا کہ سلسلہ کی اغراض کے لئے علماء کے تیار کرنے کی ضرورت ہے.جس کے لئے ایک مدرسہ دینیہ کا اجراءضروری ہے.صرف انگریزی مدرسہ ان اغراض کی تکمیل کے لئے کافی نہیں اور تحریک کی کہ اس بارہ میں حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں احباب تفصیلاً اپنی آراء ارسال کریں اور ایسی تعلیم کے لئے طلباء مہیا کئے جائیں اور ان کے اخراجات کو فراہم کیا جائے اشاعت سے قبل چودہ بزرگان کو یہ مضمون دکھا کر ان کی آراء بھی ساتھ ہی شائع کی گئیں.چنانچہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مدرس اول تعلیم الاسلام، رقم فرماتے ہیں :- ”جہانتک میرا خیال ہے حضرت اقدس علیہ السلام کے منشاء کے مطابق طریقہ تعلیم کا ہونا از بس ضروری ہے اور میں نہیں خیال کرتا کہ اس کی ضرورت سے کسی احمدی کو انکار ہوسکتا ہے.پر اس کی تکمیل حضرت اما منا خلیفہ المسیح علیہ السلام اور قوم کی توجہ کی محتاج ہے.محمد سرور ۱۳۷ مدرسہ احمدیہ ( جس کا یہ نام مجوزہ حضرت مولوی شیر علی صاحب منظور کیا گیا) کی سکیم مطابق فیصلہ مجلس معتمدین (نمبر ۵، ۷ مورخه ۰۹-۱-۳۱) ایک کمیٹی نے تیار کی جو مولوی شیر علی صاحب ، مولوی سرور شاہ صاحب، قاضی امیرحسین صاحب، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا) اور حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) سیکرٹری پر مشتمل تھی.ہفت سالہ نصاب تجویز کیا گیا اور حضرت خلیفہ اول کے منشاء کے مطابق ترمیم کے ساتھ اس سکیم کو منظور کر لیا گیا.۱۳۸ مدرسہ احمدیہ قادیان کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( ایدہ اللہ تعالی ) کے سپرد ہو چکا تھا.آپ کا خیال تھا کہ اس کا معیار مدارس عربیہ والہیات کے مماثل ہو اور آپ بعض علماء سمیت آپ سے پہلے مدرسہ احمدیہ کا انتظام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفة المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ ) اور آپ کے برادرانِ ذی شان کے سپر دہوتا رہا ہے.۱۳۹
۱۹۹ اسلامی مدارس کے طریقہ تعلیم ، نصاب اور انتظام کا مطالعہ کریں.حضرت خلیفہ امسیح اول کو اس امر کا پہلے ہی خیال تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب کو حضرت خلیفہ اول نے اجازت دیدی بلکہ آپ کے مشورہ سے حافظ روشن علی صاحب ، مولوی سرور شاہ صاحب اور سید امیر حسین صاحب اور عبدالحی صاحب عرب رفقاء سفر تجویز ہوئے اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو واقعات سفر قلمبند کرنے کے لئے مقرر کیا گیا.۲ را پریل ۱۹۱۲ء کو قبل عشاء یہ احباب حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا کوئی سفر بدوں امیر کے جائز نہیں، میں میاں صاحب کو امیر مقرر کرتا ہوں.وہ تقویٰ اور چشم پوشی سے کام لیں اور رفقاء پوری طرح امیر کی اطاعت کریں اور علم کا تکبر نہ کریں.کسی سے مقابلہ ہو.کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو دعاؤں سے کام لیں.بالآ خر آپ نے دعا فرمائی.قافلہ نے ہر دواز گیا.لکھنؤ کے مدارس دیکھے اور سید رشید رضا ایڈیٹر المنار مصر سے بھی ملاقات کی.کانپور، رامپور اور امروہہ گئے.دہلی ، دیوبند اور سہارنپور کے مدارس دیکھے اور قریباً دو ماہ کے بعد ۲۹ رمئی کو مراجعت فرما ہوا.۱۴۰ مبلغین کی تیاری کی طرف خلافت ثانیہ میں خاص طور پر توجہ دی گئی.چنانچہ مرقوم ہے :." حضرت خلیفہ اسی خلیفہ ثانی نے دونئی جماعتیں قائم ہیں.جو جماعتہائے مبلغین کے نام سے موسوم ہیں.ان کو تیار کرنے کے لئے آپ نے حضرت مولانا مولوی روشن علی صاحب ، مولانا مولوی قاضی امیرحسین صاحب، مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، میر محمد الحق صاحب، مولوی غلام نبی صاحب اور مولوی صوفی غلام محمد صاحب بی.اے کو مقرر فرمایا ہے اور یہ تمام بزرگ اپنے فرائض کو ادا کرنے میں بڑی جانفشانی سے کام لے رہے ہیں.“ ۱۴۱ 66 بموجب ارشا د حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کہ ایک سال کے اندر مبلغین تیار کئے جائیں.چیدہ علماء کی تقاریر کا انتظام کیا گیا اور پہلی سہ ماہی کا پروگرام شائع کیا گیا.ہر ہفتہ کے روز ایک تقریر رکھی گئی تا کہ بیرونی احباب بھی مستفید ہوسکیں.حضرت مولوی صاحب کے سپرد فضیلت قرآن شریف کا مضمون ہوا.دیگر مضامین سید نا حضرت امیر ایدہ اللہ تعالیٰ ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب و دیگر احباب کے سپرد ہوئے.۱۴۲ حضرت خلیفتہ اسی ثانی ادام اللہ برکانہ نے عربی مدرسہ احمدیہ کی طرف خاص توجہ فرمائی اور ایک سب کمیٹی نصاب تعلیم پر غور کرنے کے واسطے قائم کی.چنانچہ نیا نصاب مقرر کیا گیا اور مدرسہ کے انتظام میں بھی تبدیلی کی گئی.چنانچہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو مینجر اور حضرت مولوی سید امیرحسین صاحب کو
۲۰۰ اسٹنٹ مینجر اور ہیڈ ماسٹر کے فرائض تفویض کئے گئے (سالانہ نتیجہ اچھا رہا.فالحمد للہ مزید یہ بیان کیا گیا ہے کہ امسال مدرسہ احمدیہ میں بہت بڑا تغیر واقع ہوا ہے یعنی حضور نے جماعت کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر اور یہ محسوس کر کے کہ ان ضروریات کو سوائے مدرسہ احمدیہ کے اور کوئی ادارہ پورا نہیں کر سکتا.اس کی طرف خاص توجہ فرمائی اور اسے ترقی دینے اور زیادہ کارآمد بنانے کے لئے پہلی سکیم پر غور کرنے کے لئے آٹھ ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی تا کہ جو طلباء مدرسہ احمدیہ سے نکلیں وہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ تمام بیرونی ممالک میں تبلیغ کر سکیں اور ساتھ ہی ایک کالج بھی کھول دیا جائے.غور کر کے دوماہ میں ایک سکیم تیار کی گئی جو حضور کی منظوری سے جاری کر دی گئی.عربی علوم کے ساتھ میٹرک کے معیار کی انگریزی، حساب ، جغرافیہ، سائنس اور اردو کو نصاب میں شامل کیا گیا.مولوی فاضل کی جماعت پہلے سے جاری ہے.جس کا نصاب یو نیورسٹی والا ہے تو جامعہ احمدیہ کا افتتاح ۲۰ مئی ۱۹۲۸ء کو صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی اور خان محمد یوسف صاحب جہلمی امریکہ اور حافظ جمال رپورٹ سالانہ بابت ۲۰ - ۱۹۱۹ء (ص ۱۴ ، ۱۵) اس سے پہلے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب افسر تھے.( ص ۲۲ ، رپورٹ سالانہ بابت ۱۹ - ۱۹۱۸ء ص ۱۴) اور مولوی صاحب ۱۸-۱۹۱۷ء میں مدرس اعلیٰ تھے.اس وقت کل تیرہ اساتذہ اور ۶۷ طلباء تھے.(رپورٹ سالانہ ص ۲۳ ۲۴) آپ کو ۱۹۱۸ء میں نائب افسر مدرسہ احمدیہ اور ۱۹۱۹ ء میں عارضی طور پر افسر مدرسہ مقرر کیا گیا تھا.( رپورٹ سالانہ ۱۹- ۱۹۱۸ء ص ۱۵-۱۴) یہ بھی مرقوم ہے کہ آپ فارغ التحصیل مدرسہ دیوبند.تجربہ کار اور فاضل گر مدرس ہیں.“ ( ص ۴۱) حسب سابق یو نیورسٹی کی طرز سے امتحان لیا گیا.چنانچہ امتحان لینے کے لئے خلیفہ رشید الدین صاحب ، مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل پر مشتمل سب کمیٹی مقرر کی گئی تھی.جنہوں نے بھا گلپور، کٹک اور پشاور تک سے پرچے تیار کروائے.ہے حضرت مولوی صاحب ، حضرت میر محمد اسحاق صاحب ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت ماسٹر محمد دین صاحب ( حال ناظر تعلیم ربوہ ) بھی نصاب بنانے والی کمیٹی کے ارکان تھے.۱۴۳ فیصلہ مجلس معتمدین صدرا انجمن احمد یہ نمبر ۱۳۷اغ ، مورخ ۲۲-۴-۱۸ کی رو سے آپ طلباء مبلغین کو دو گھنٹے روزانہ پڑھانے پر مقرر ہوئے.
۲۰۱ احمد صاحب ماریشس بطور مبلغ روانہ ہونے والے تھے.ان کے الوداع اور جامعہ احمدیہ کے افتتاح کے متعلق طلباء جامعہ نے سپاسنامہ پڑھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ شریک تھے.اس سے قبل مٹھائی اور ولایتی پانی سے دعوت کی گئی.۱۴۴ اس سے قبل حضور ہائی سکول کی دعوت چائے میں شرکت فرما چکے تھے جو مولوی فرزند علی صاحب ، مولوی مطیع الرحمن صاحب بنگالی ، حافظ جمال احمد صاحب اور میاں محمد یوسف صاحب جہلمی کو ان کے تبلیغ کے لئے بیرونی ممالک میں جانے کی تقریب پر دی گئی تھی.حضور نے فرمایا:- وو آج کا دن شاید ہمارے لئے کوئی خصوصیت رکھتا ہے کہ اس دن بہت سی دعوتیں جمع ہو گئی ہیں.میرا خیال تھا کہ ہم اس جگہ اس لئے آ رہے ہیں کہ دعا کر کے جامعہ احمدیہ کا افتتاح کریں لیکن سامنے کے موڈ سے مڑتے ہی معلوم ہو گیا کہ یہاں بھی نفسانی مجاہدہ ہمارا انتظار کر رہا ہے اور ابھی یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا.شام کو پھر ایک دعوت میں مدعو ہیں اور ممکن ہے شام سے پہلے پہلے کوئی اور دعوت بھی انتظار کر رہی ہو.اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دن ہمارے لئے اکل و شرب کا دن بن گیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن کی یہی تعریف فرمائی ہے.سو جس طرح حدا تعالیٰ نے اس دن میں بغیر اس کے کہ ہم امادہ اور نیت کر کے پہلے سے انتظام کرتے خود اپنی طرف سے ہی ایسے انتظام کر دیئے ہیں کہ اس دن کو ہمارے لئے عید کی طرح بنا دیا ہے.اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ واقع میں ہمارے لئے اسے عید بنا دے.جب خدا تعالیٰ نے اس دن میں عید سے ظاہری مشابہت پیدا کر دی ہے اور بغیر کسی انسانی ارادہ کے دخل کے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں.تو یہ اس کی شان کے خلاف ہے کہ کوئی ایسی چیز دے جو کام کی نہ ہو.ہم اس کی شان کو مدنظر رکھ کر یہی امید رکھتے اور اس سے یہی التجا کرتے ہیں کہ اس ظاہری عید کو حقیقی عید بنا دے اور مردوں میں روح پھونک دے اس جسم میں سانس ڈال دے.اس بے بس مجسمہ کو چلتی پھرتی چیز بنادے تا کہ جس طرح ظاہری طور پر اس دن نے عید سے حصہ پایا ہے.اسی طرح باطن میں بھی عید کی خصوصیات حاصل کرے.ہمارے جو مبلغ باہر جا رہے ہیں ان کے متعلق تو میں پہلے کچھ نصائح بیان کر چکا
ہوں اور سمجھتا ہوں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.میں نے خود بھی ان کی نصائح کرنے میں فائدہ اٹھایا ہے اور وہ یہ کہ جب میں تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو بولنے کی طاقت نہ تھی ، حرارت تھی، متلی ہو رہی تھی اور سر درد کی شکایت تھی.مگر تقریر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور اب سوائے سر درد کے باقی آرام ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح میں نے نصائح کرنے میں فائدہ اٹھایا ہے اسی طرح مبلغین ان کے سننے سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن اس دوسری تقریب کے متعلق جو مدرسہ احمدیہ نے ترقی کر کے جامعہ قائم ہونے کی کی ہے، کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے کام وہ آپ ہی کرتا ہے اور ایسی راہوں سے وہ اپنا کام کرتا ہے کہ انسان کے ذہن ، فکر اور واہمہ میں بھی وہ نہیں آتیں.وہ وہاں سے سامان جمع کرتا ہے جہاں سے انسان کو امید ہی نہیں ہوتی اور وہاں سے نتائج پیدا کرتا ہے.جس طرف انسان کی نظریں نہیں اٹھ سکتیں.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ تمام کاموں کے لئے اس نے کچھ قواعد رکھے ہوئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کے کمال کے لئے ایک نظام کی بھی ضرورت ہوتی ہے.بہت لوگوں نے خدا تعالیٰ کے صفات پر غور کر کے صفات کے مفرد پہلو پر غور کیا ہے لیکن ان کے اجتماعی پہلو پر انہوں نے غور نہیں کیا.وہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ رب، رحمن، رحیم، مالک يوم الدین ہے مگر یہ غور نہیں کرتے کہ یہ تمام صفات ایک نظام کے اندر ہیں اور ہر ایک صفت دوسری صفت کے دائرہ کو قطع نہیں کرتی.جب یہ معلوم ہو گیا کہ ہر ایک صفت اپنے دائرہ میں چلتی ہے تو لازما یہ بھی مانا پڑتا ہے کہ کمال کی صفات میں سے ایک نظام کی صفت بھی ہے.یعنی نظام کا کامل ہونا بھی اس کی صفات میں سے ہے یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میری سنت تبدیل نہیں ہوتی اور جہاں خدا تعالیٰ باوجود طاقت کے فرماتا ہے میں ایسا نہیں کروں گا.پھر وہ نہیں کرتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفی میں بھی قدرت پائی جاتی ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ اپنے متعلق کیوں یہ فیصلہ کرتا کہ میں ایسا نہیں کروں گا.پس جس طرح کوئی بات کرنا خدا تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرتا ہے اسی طرح موقع اور محل کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی فعل نہ کرنا بھی خدا تعالیٰ کی قدرت پر
۲۰۳ دلالت کرتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے بھی قانون مقرر کئے ہوئے ہیں.ان قوانین میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی کام کے لئے اس نے جو رستے اور طریق مقرر کئے ہیں اگر ان پر چلا جائے تو ایسے بابرکت نتائج نکلتے ہیں جیسی امید رکھی جاتی ہے.پس اس میں شبہ نہیں کہ سب کام خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ مقررہ قانون کے مطابق انسان کے لئے کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا ہے.مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَ اللَّهَ رَمَى خدا تعالیٰ نے بدر کے موقع پر جو برکت نازل کی اور مخالفوں کو شکست ہوئی اس کے متعلق فرمایا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تم نے نہیں پھینکا تھا مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا جب کہ تم نے پھینکا تھا.اگر سارا کام خدا تعالیٰ نے ہی کرنا تھا تو پھر اذر میت کہنے کی کیا ضرورت تھی.اس موقع پر خدا تعالیٰ نے نصرت دی اور ایسی نصرت دی کہ اس کے متعلق کہا جاسکتا ہے ولكن الله رمی.سب کچھ خدا نے ہی کیا تھا.مگر اس کے ساتھ اِذْ رَمَيْتَ کہنا بتاتا ہے کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پھینکا خدا تعالیٰ نے بھی نہیں پھینکا تھا.بے شک نتیجہ خدا تعالیٰ کے پھینکنے سے نکلا.مگر اس وقت جب رَمَيْتَ ہوا.یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھینکا.اسی طرح خدا تعالیٰ نے بحر کو پھاڑا.مگر اس وقت جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے کہنے پر سوشا مارا.پھاڑا تو خدا نے مگر پھاڑنے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے وابستہ کر دیا.مطلب یہ کہ پہلے کوشش کرو.پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے نتائج نکلیں گے.غرض تمام کاموں کے لئے خواہ وہ روحانی ہوں یا جسمانی.یہ قاعدہ مقرر ہے کہ مقدور بھر کوشش کرو.اپنی طرف سے کوتا ہی نہ کرو.پھر جو کمی رہ جائے گی وہ خدا تعالیٰ پوری کر دے گا.6◉ اسی قانون کے ماتحت ضروری ہے کہ سلسلہ کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے ایسی جماعت تیار کی جائے جو ہمیشہ کے لئے سلسلہ کے مذہبی اور تبلیغی کاموں کی اپنے آپ کو الانفال: ۱۸
۲۰۴ حامل سمجھے.ایسی جماعت تیار کرنا بدعت نہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ ایک گمشدہ چیز ہے جسے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم کیا.قرآن کریم میں صاف الفاظ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور دوسری جگہ فرماتا ہے وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمُ إذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ * * کہ تمام کے تمام لوگ چونکہ مرکز میں نہیں پہنچ سکتے اس لئے چاہئے کہ وہ اپنے میں سے ایک جماعت اس کام کے لئے وقف کر دیں کہ جو دین سیکھے اور پھر جا کر دوسروں کو سکھائے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ یہ مدرسہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے قائم ہے اور قرآن نے قائم کیا ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر وسعت دی.بے شک آپ سے پہلے عربی مدارس قائم تھے.مگر وہ پرانے کالجوں کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں.یہ ایسے ہی کالج تھے جیسے اس وقت گورنمنٹ کالج ہیں.سو اگر موجودہ گورنمنٹ کی حالت گر جائے تو سو سال کے اندر اندر ان کالجوں کی وہی حالت ہو جائے گی جو عربی مدارس کی اب ہے.جن عربی کالجوں کی یہ بگڑی ہوئی شکلیں ہمارے زمانہ میں موجود ہیں وہ اسی طرح کے کالج تھے جس طرح کے حکومت کے اس وقت ہیں.یعنی دنیوی کا روبار کے لئے ان میں لوگوں کو تیار کیا جاتا تھا نہ کہ تبلیغ کے لئے تعلیم دی جاتی تھی.وہی تعلیم اب تک چلی جارہی ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان مدارس میں سے نکلے ہوئے اکثر لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن نہ جانتے ہوں گے.ایسے مولوی یوں تو زمین و آسمان کے قلابے ملائیں گے لیکن جب ان کے سامنے کوئی آیت پیش کر کے کہا جائے گا کہ اس کا مطلب بتاؤ تو کہیں گے اس کے لئے تفسیر دیکھنی چاہیئے.مطلب یہ کہ اس نے قران کریم پڑھا ہوا ہی نہ ہوگا اور قرآن کے معنی نہیں آتے ہوں حمد آل عمران: ۱۰۵ التوبة : ۱۲۳
۲۰۵ گے کسی نے اپنے شوق سے پڑھ لیا تو پڑھ لیا ورنہ ان مدارس میں پڑھا یا نہیں جاتا.غرض یہ مدارس تبلیغی نہ تھے بلکہ دنیوی کالج تھے جیسے گورنمنٹ کالج ، خالصہ کالج، ڈی.اے.وی کالج ہیں.ان مدارس میں پڑھنے والوں کو ملازمتیں ملتی تھیں.وہ دنیوی کاروبار میں اس تعلیم سے فائدہ اٹھاتے تھے.وہ مدرسہ جو تبلیغ اسلام کی خاطر اور اشاعت اسلام کو مد نظر رکھ کر قائم کیا گیا اور جس کی غرض و لتكن منكم امة يدعون الی الخیر کی مصداق جماعت پیدا کرنا تھی وہ یہی مدرسہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم کیا اور جو ترقی کر کے اب جامعہ بن رہا ہے.عربی مدارس میں بے شک حدیث پڑھائی جاتی تھی مگر اس لئے نہیں کہ ولتکن منكم امة يدعون الى الخير والی جماعت پیدا ہو.بلکہ اسے ایک علم سمجھا جاتا اور اس لئے پڑھایا جاتا کہ اس سے مفتی اور قاضی بننے میں مددمل سکتی تھی اور نوکری مل جاتی تھی.اسی طرح فقہ پڑھاتے مگر اس لئے نہیں کہ غیر مسلموں کو مسلمان بنا کر انہیں اسلامی امور سمجھا ئیں گے بلکہ اس لئے کہ مفتی اور قاضی نہ بن سکیں گے اگر یہ نہ پڑھیں گے.یہ ایسی ہی تعلیم تھی جیسے آج کل لاء کالج کی ہے.اس کی غرض یہ نہیں کہ قانون کے آگے تبلیغ کی جائے گی بلکہ یہ ہے کہ ملازمت حاصل ہو.پس ولـتـكـن مـنـكـم امـة يدعون الى الخير ويأمرون بالمعروف کو مسلمانوں نے کئی سوسال سے بھلا رکھا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا سکول جاری کیا تھا اور آپ اس میں پڑھاتے رہے بعد میں چند صحابہ نے اسے جاری رکھا.جب وہ قوم ختم ہوگئی تو وہ مدرسہ بھی ختم ہو گیا.پھر یہ دنیوی علوم بن گئے یعنی محض دنیوی فوائد کے لئے پڑھے جانے لگے.اشاعت اسلام ان کے پڑھنے کی غرض نہ رہی.اب اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ فضیلت اور رتبہ دیا اور ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیئے کہ تیرہ سو سال کے بعد ہمیں اس آیت پر عمل کرنے کی توفیق خدا تعالیٰ نے دی.خدا تعالیٰ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد اور ہدایت کے ماتحت مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا تا کہ اس میں ایسے لوگ تیار ہوں جو ولتكن منكم امة يدعون الی الخیر کے منشاء کو پورا کرنے والے لوگ ہوں بے شک اس مدرسہ سے نکلنے والے بعض نوکریاں بھی کرتے ہیں.مگر
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص ایک ہی کام کا اہل نہیں ہوتا.انگریزوں میں سے بہت سے لوگ قانون پڑھتے ہیں مگر لاء کالج سے نکل کر سارے کے سارے بیرسٹری کا کام نہیں کرتے بلکہ کئی ایک اور کاروبار کرتے ہیں.تو اس مدرسہ سے پڑھ کر نکلنے والے کئی ایسے ہوتے ہیں جو ملازمتیں کرتے ہیں.مگر یہ اس لئے نہیں بنایا گیا کہ اس سے تعلیم حاصل کرنے والے نوکریاں کریں بلکہ اصل مقصد یہی ہے کہ مبلغ بنیں.اب یہ دوسری کڑی ہے کہ ہم اس مدرسہ کو کالج کی صورت میں دیکھ رہے ہیں تبلیغ کے لحاظ سے یہ کالج ایسا ہونا چاہیئے کہ اس میں نہ صرف دینی علوم پڑھائے جائیں بلکہ دوسری زبانیں بھی پڑھانی ضروری ہیں.ہمارے جامعہ میں بعض کو انگریزی ، بعض کو جرمنی ، بعض کو سنسکرت ، بعض کو فارسی ، بعض کو روسی ، بعض کو سپینش وغیرہ زبانوں کی اعلیٰ تعلیم دینی چاہیئے.کیونکہ جن ملکوں میں مبلغوں کو بھیجا جائے ان کی زبان جاننا ضروری ہے.بظاہر یہ باتیں خواب و خیال نظر آتی ہیں.مگر ہم اس قسم کی خوابوں کا پورا ہونا اتنی بار دیکھ چکے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو باتوں کے پورے ہونے پر جس قدر اعتماد ہوتا ہے اس سے بڑھ کر ہمیں ان خوابوں کے پورے ہونے پر یقین ہے ہم نے دنیا کی صاف اور واضح باتوں کو اکثر جھوٹا ثابت ہوتا دیکھا ہے.مگر ان خوابوں کو ہمیشہ پورا ہوتے دیکھتے ہیں.انہی خوابوں میں سے ایک خواب یہ بھی تھا کہ اس میدان میں جہاں آج یہ جلسہ ہورہا ہے دن کے وقت کوئی اکیلا نہ آ سکتا تھا اور کہا جاتا تھا یہاں جن رہتے ہیں یہ جگہ جہاں یہ کوٹھی ہے جہاں یہ سرسبز باغ ہے جہاں سینکڑوں آدمی چلتے پھرتے ہیں یہاں سے کوئی شخص گذرنے کی جرات نہ کرتا تھا کیونکہ سمجھا جاتا تھا یہاں جن رہتے ہیں.مگر اس جگہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دکھایا کہ شہر بس رہا ہے.یہ اس وقت کی بات ہے جب قادیان کی دیواروں کے ساتھ پانی کی لہریں ٹکراتی تھیں.جب قادیان کی زندگی احمدیوں کے لئے اس قدر تکلیف دہ تھی کہ مسجد میں خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے آنے سے روکا جاتا.راستے میں کیلے گاڑ دیئے جاتے تھے تا کہ گذرنے والے گریں.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ مجھے دکھایا گیا ہے یہ علاقہ اس قدر آباد ہوگا کہ دریائے بیاس تک آبادی پہنچ
۲۰۷ جائے گی.اس وقت کس کے ذہن میں یہ بات آ سکتی تھی کہ قادیان کی بستی ترقی کر سکے گی؟ یہ ویران جنگل جہاں جنات پھرا کرتے تھے جن یہی تھے کہ چور چکار لوگوں کو لوٹتے مارتے تھے اور لوگوں نے سمجھ لیا تھا یہاں جنات رہتے ہیں.تو جہاں جنات پھرتے تھے کس کو توقع ہو سکتی تھی کہ یہاں فرشتے پھرا کریں گے.لوگوں میں مشہور ہے کہ ابلیس فرشتہ تھا جو بگڑ کر ابلیس بن گیا.یہ جھوٹ مشہور ہے مگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ وہ جو ابلیس تھے فرشتے بن گئے.فرشتے کا ابلیس بننا جھوٹی کہانی ہے.مگر اس میں شک نہیں کہ ہم نے جنوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ملائکہ بنتے اور ابلیس کو فرشتہ بنتے دیکھا ہے.ہم نے ان ویرانوں کو آباد ہوتے دیکھا ہے جن کی طرف آنے کا کوئی رُخ بھی نہ کرتا تھا.غرض ہم نے ایک ایسی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھی اور اس وقت کے لحاظ سے نہ کہ آئندہ کے لحاظ سے ترقی کی آخری کڑی جو ریل ہے وہ بھی عنقریب آنے والی ہے.اس کے آنے میں سب سے بڑا حصہ قادیان کا ہے.رپورٹ جو گورنمنٹ میں پیش کی گئی اس میں یہی لکھا تھا کہ قادیان میں اکثریت سے لوگ آتے ہیں اس لئے اس ریلوے لائن کا بننا مفید ہو گا.پس یہ ریل قادیان کے سبب اور قادیان کی وجہ سے بن رہی ہے.جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان کی ترقی کا اعلان کیا اس وقت ان چیزوں کا خیال کس کو ہو سکتا تھا اور ریل کا خیال تو ایسا ہے کہ پچھلے سال تک بھی کسی کو خیال نہ تھا کہ اتنی جلدی بننا شروع ہو جائے گی.زیادہ سے زیادہ یہ خیال تھا کہ چھ سات سال تک بن سکے گی.مگر خدا تعالیٰ نے آنا فانا اس کے بننے کے سامان کر دیئے.پس یہ خوا میں ہیں جو ہم نے پوری ہوتی دیکھیں اور بعض ایسی خواہیں ہیں جوا بھی پوری نہیں ہوئیں اور بعض ایسی ہیں جو مستقبل بعید سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے پورا ہونے کے متعلق اندازہ لگانے سے ہم قاصر ہیں.مگر خدا تعالیٰ نے ہمیں اس قدر خواہیں پوری کر کے دکھا دی ہیں کہ ہم پورے وثوق اور یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ جو ابھی پوری نہیں ہوئیں وہ بھی ضرور پوری ہوں گی.گو اس وقت اس بات کو بھی خواب و
۲۰۸ خیال ہی سمجھا جائے کہ اس کالج میں ہر زبان کے پروفیسر مقرر ہوں، جو مختلف ممالک کی زبانیں سکھائیں.اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ ہر ملک کے لئے مبلغ نکلیں لیکن یہ ایک دن میں پوری ہو جانے والی بات نہیں ہے.ابھی آج تو ہم اس کی بنیا درکھ رہے ہیں.مدرسہ احمدیہ کے ساتھ بھی مبلغین کی کلاس تھی.مگر اس میں شبہ نہیں کہ ہر چیز اپنی زمین میں ہی ترقی کرتی ہے.جس طرح بڑے درخت کے نیچے چھوٹے پودے ترقی نہیں کرتے اسی طرح کوئی نئی چیز دیرینہ انتظام کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتی.اس وجہ سے جامعہ کے لئے ضروری تھا کہ اسے علیحدہ کیا جائے.اس کے متعلق میں نے ۱۹۲۴ء میں صدر انجمن احمدیہ کو لکھا تھا کہ کالج کی کلاسوں کو علیحدہ کیا جائے اور اسے موقع دیا جائے کہ اپنے ماحول کے مطابق ترقی کرے آج وہ خیال پورا ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ یہی چھوٹی سی بنیاد ترقی کر کے دنیا کے سب سے بڑے کالجوں میں شمار ہوگی.اس موقع پر میں ان طلباء کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو اس میں داخل ہوئے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں.ان کے سامنے عظیم الشان کام اور بہت بڑا مستقبل ہے.وہ عظیم الشان عمارت کی پہلی اینٹیں ہیں اور پہلی اینٹوں پر ہی بہت کچھ انحصار ہوتا ہے ایک شاعر نے کہا تھا.خشت اول چوں نہد معمار کج تا ثریا ے رود دیوار کج اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھے تو ثریا تک دیوار ٹیڑھی ہی رہے گی.گو کالج میں داخل ہونے والے طالب علم ہیں اور نظام کے لحاظ سے ان کی ہستی ما تحت ہستی ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے اس جامعہ کی کامیابی یا نا کامی میں بہت بڑا دخل ہے یہ تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے کام ترقی کرتے جائیں گے.مگر ان طلباء کا ان میں بہت بڑا دخل ہو گا اس لئے انہیں چاہیئے کہ اپنے جوش اپنے اعمال اور اپنی قربانیوں سے ایسی بنیاد رکھیں کہ آئندہ جو عمارت تعمیر ہو اس کی دیوار میں سیدھی ہوں ان میں کجی نہ ہو.ان کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی غایت ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا علاء ہو.اس جامعہ سے پڑھ کر نکلنے والے سارے کے سارے دین کی خدمت میں نہیں
۲۰۹ لگائے جاسکیں گے.ان میں سے بعض ہی لگ سکیں گے لیکن ان میں سے ہر ایک اپنا یہ مقصد اور غایت قرار دے سکتا ہے کہ وہ جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد اسلام کی اشاعت کے لئے کام کرے گا.اس کے لئے ضروری نہیں کہ انسان مبلغ ہی ہو.پہلے بھی اسلام اسی طرح پھیلا تھا.حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر نے اپنا کاروبار نہ چھوڑ دیا تھا.وہ اپنے کام بھی کرتے اور ساتھ ہی اشاعتِ اسلام میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد بھی کرتے تھے.تو ہو سکتا ہے کہ جامعہ کے بعض طلباء کو تبلیغ کے کام پر نہ لگایا جا سکے ان میں بطور مبلغ تبلیغ کرنے کی قابلیت نہ ہو یا کوئی اور مجبوریاں ہوں.ان تمام صورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جامعہ کے طلباء کو ایک ہی مقصد اپنی زندگی کا قرار دینا چاہئے اور وہ تبلیغ اسلام ہے.خواہ عمل کے کسی میدان میں جائیں کوئی کام کریں.اپنے حلقہ میں تبلیغ اسلام کو نہ بھولیں ہو سکتا ہے کہ اس طرح کام کرنے والوں میں سے بعض سے زیادہ عمدہ طور پر تبلیغ کا کام کریں.پس ان کو ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہیئے اور وہ تبلیغ اسلام ہے اور ان کا یہی موٹو ہونا چاہیئے کہ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونِ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً ۖ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلَّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِى الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُو إِلَيْهِمُ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُون - میرے نزدیک ان آیتوں کو لکھ کر کالج میں لگا دینا چاہیئے تا کہ طالب علموں کی توجہ ان کی طرف رہے اور انہیں معلوم رہے کہ ان کا مقصد اور مدعا کیا ہے.اس کے بعد میں تمام دوستوں سے جو یہاں جمع ہوئے ہیں ، خواہش کرتا ہوں کہ میرے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اس جامعہ میں برکت دے اور ان طالب علموں کے لئے جن سے ہماری بہت سی امیدیں وابستہ ہیں.جن کے چہروں سے ہم اپنا مستقبل پڑھتے ہیں انہیں اس سفر میں جو ماریشس اور امریکہ جانے والے مبلغوں سے بھی لمبا ہے کیونکہ یہ چند دن کا سفر ہے مگر ان کا زندگی بھر کا بلکہ اس زندگی سے بعد کا بھی سفر ہے اس میں خدا تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو اور انہیں تو فیق عطا کرے کہ جو مقصد اور مدعا انہوں نے اس کے حکم کے ماتحت چنا ہے اور حکم بھی وہ جو آخری حکم ہے اور
۲۱۰ جس کے بعد کوئی حکم نازل نہیں ہو گا اس میں کامیاب کرے.‘ ۱۴۵ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ نے حضرت مولوی صاحب کے زیر انتظام خوب ترقی کی.جس کا کچھ اندازہ حاشیہ میں مندرج کوائف سے ہو سکتا ہے کیو ہر دو اداروں کے متعلق آپ کی جن مساعی وخدمات کا علم ہو سکا ہے ان کا خلاصہ ذیل میں درج کیا گیا ہے.سال.تعداد طلباء-حوالہ ( آغاز ۱۹۲۶ء) طلبه مدرسه احمد به ۴ ۲۵.( رپورٹ نظارت تعلیم و تربیت مندرجہ احمدیہ گزٹ بابت ۲۶-۰۵-۲۲ ص ۱۲) (۱۹۲۶-۲۷ء) طلبہ مدرسہ ۲۶۴ (سالانہ رپورٹ مندرجہ رپورٹ مشاورت ۱۹۲۷ء ( ص ۷۹ تا ۸۱) (1919-10) کوائف ورزش کے لئے کھیل کے میدان کا انتظام کیا گیا.رسالہ بنام وو طلباء جامعہ احمدیہ - مولوی جامعہ احمدیہ جاری ہوا.لائبریری کے لئے یونیورسٹی سے گرانٹ فاضل کلاس = ۴۲ مبلغین کلاس = ۸ (رپورٹ حاصل کی گئی.مشاورت ۱۹۳۰ء ص ۲۰ تا ۲۱۳) (۱۹۳۱-۳۲ء) طلباء جامعہ ۷۰.(۱) داخله مبلغین کلاس بذریعہ آزاد کمیشن مشتمل بر مولوی صاحب.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب وقاضی عبدالحمید صاحب وکیل امرتسر (سالانہ رپورٹ ۳۲-۱۹۳۱ء عمل میں آیا.ص ۴۳ تا ۴۵) (۲) پرنسپل (مولوی صاحب) کی زیر صدارت انتظامیہ کونسل کا قیام ہوا
۲۱۱ افتتاح دار الاقامہ جامعہ احمدیہ ۲۰-۱۱-۳۴ کو جامعہ حمدیہ کے دارالاقامہ ( ہوٹل کا افتتاح سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی بقیہ حاشیہ:- سال تعداد وطلباء-حوالہ کوائف (۱۹۳۲-۳۳ء) میر محمد اسحاق صاحب اس کے سیکر ٹری بنے.ہفتہ وار اجلاس منعقد ہوئے.(۳) حسب فیصلہ کونسل مذکورہ چونکہ مولوی فاضل کے بعد طلباء انگریزی کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اس لئے ۲/۳ نصاب انگریزی (میٹرک) مولوی فاضل کے دو سالوں میں ختم کرانے کا انتظام کیا گیا.اس سے کلاس مبلغین میں داخلہ کا رجحان بڑھ گیا.(۴) طلبات تبلیغ میں بھی حصہ لیتے رہے اور بعض طلباء سے نظارت دعوۃ و تبلیغ مناظرہ و تبلیغ کا م بھی لیتی رہی.(۵) لائبریری کے لئے اخبارات ورسائل منگوائے جاتے ہیں.(1) علوم مشرقیہ کے امتحان کے لئے یونیورسٹی کی طرف سے قادیان سنٹر مقرر کرا لیا گیا.تبلیغ طلباء ( ب نمبر ۴ بالا ) نیز حسب تحریک حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نواح قادیان طلبه جامعه ۵۰ میں تبلیغ کے لئے جاتے اور ہر جمعرات کو مہمان خانہ میں مختلف مضامین پر (سالانہ رپورٹ تقریر میں کرتے.ص ۳۰ تا ۳۳) اہتمام لائبریری (حسب نمبر ۵ بالا) جلسہ سالانہ پر رسالہ ” جامعہ احمدیہ شائع ہوا جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا مفتی سلسلہ ( جو خود پرنسپل صاحب ہیں ) ان طلباء مبلغین کلاس سے فتویٰ کا کام بھی لے کر مشق کرواتے ہیں.طلباء نے جالندھر، پھلور، لدھیانہ، سہارنپور، دہلی اور علی گڑھ کا دورہ کھیلوں کے لئے زیر اہتمام محترم مولانا ارجمند خاں صاحب پروفیسر کیا.سترہ مقابلوں
۲۱۲ کے بابرکت وجود کے ذریعہ عمل میں آیا.اس موقع پر افتتاح کرنے کی درخواست کرتے ہوئے حضرت مولوی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب کی وفات پر بقیہ حاشیہ:- سال تعدا د وطلباء- حوالہ کوائف (۱۹۳۳-۳۴ء) میں بارہ میں جیتے اور دو میں برابر رہے.پہلی بار قادیان میں یونیورسٹی کی طرف سے مشرقی علوم کا امتحان ہوا.یعنی ۱۹۳۲ء میں.۱۹۳۱ء میں ہماری جماعت آخری تھی جس نے باہر امتحان دیا تھا.مؤلف (1) داخله مبلغین کلاس بذریعہ کمیشن عمل میں آیا.جس کے ارکان پرنسپل طلبه جامعه ۴۸ صاحب.قاضی محمد اسلم صاحب اور ایک اور صاحب تھے.رپورٹ سالانہ (۲) کونسل جامعه و انتظام لائبریری ( مطابق نمبر ۲ ، ۵ کوائف بالا بابت ص ۲۱ تا ۳۵) (۱۹۳۴-۳۵ء) ۱۹۳۱-۳۲ء) (۳) تبلیغ طلباء بشرح صدر نواح قادیان میں طلبہ کی طرف سے تبلیغ زیر اہتمام حافظ مبارک احمد صاحب پروفیسر اور مہمانخانہ میں تقریریں زیر صدارت میر محمد اسحق صاحب ہوتیں.بشرح صدر.نیز کونسل جامعہ کا قیام بہت مفید ثابت ہوا.اس سے جامعہ طلباء جامعه ۳۹ کے انتظام میں باقاعدگی آئی ہے.نظارت دعوۃ و تبلیغ مبلغین کے طلباء کو رپورٹ سالانہ باری باری باہر مناظرات وغیرہ کے لئے بھجواتی رہی.ص ۱۳۹ تا ۱۴۱) (۱۹۳۵-۳۶ء) طلباء جامعہ.۴۰ رپورٹ سالانہ ص۱۱۲ تا ۱۱۴) بشرح صدر.نیز ذکر ہے کہ کونسل کے فیصلے کثرت رائے سے ہوتے ہیں.
۲۱۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ محسوس کر کے کہ ہماری جماعت میں عربی علوم کے علماء کی کمی ہو رہی ہے مشورہ بقیہ حاشیہ:- سال تعدا د وطلباء-حوالہ کوائف (۱۹۳۶-۳۷ء) طلباء جامعہ.۲۸ رپورٹ سالانہ بشرح صدر.نیز جامعہ میں طب کی تعلیم کا انتظام کیا گیا.جو ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب حال مقیم کوئٹہ پڑھاتے ہیں اور یہ تعلیم تبلیغ میں مفید ثابت ہوگی.ء انگریزی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں.ایک فارغ التحصیل نے طلباء ص۱۸۰ تا ۱۸۲) ایم.اے میں کامیابی حاصل کی ہے.( یہ خاکسار مؤلف اصحاب احمد کا ذکر بغیر نام کے کیا گیا ہے.خاکسار ۱۹۳۶ء میں یو نیورسٹی میں اول آیا تھا اور جہاں تک خاکسار کو علم ہے مجھ سے پہلے مدرسہ احمدیہ یا جامعہ کے (۱۹۳۷-۳۸ء) صرف ایک طالب علم نے ایم.اے کیا تھا.افسوس کہ وہ غیر مبائعین میں شامل ہو گیا تھا.) جملہ کوائف مطابق ۳۲-۱۹۳۱ء البته کمیشن داخله مبلغین کلاس پرنسپل طلباء جامعہ.۲۹ صاحب.قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر ، مولوی عبدالمغنی خان صاحب رپورٹ سالانہ مرحوم ناظر دعوة و تبلیغ وسید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ پر مشتمل تھا.ص۱۷۳ تا ۱۷۵) کونسل جامعہ کے سیکرٹری مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم فاضل تھے.تبلیغ و مزا دلت تقاریر زیر اہتمام مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی ہوا.مناظروں کی مزا دلت کا مزید ا ہتمام بھی کیا گیا.(۳۹ - ۱۹۳۸ء) جملہ کوائف ( عمومی اعتبار سے ) حسب بالا.طلباء جامعہ ۳۲ رپورٹ سالانہ ص۱۸۲ تا ۱۸۶) ضروری نوٹ: - مولوی فاضل و مبلغین کلاس میں تعداد طلباء کی کمی عدم حسن انتظام کے باعث نہ تھی.انتظام اور سٹاف بہت معیاری تھا اور علم وفضل و تقویٰ ہر لحاظ سے ویسے معیاری بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۲۱۴ کے بعد ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی.خلافت اولی میں سلسلہ کے منتظمین دلی شغف سے اس مدرسہ کے حامی نہ تھے اور پہلے ہی سال ان کی طرف سے یہ معاملہ معرض بحث میں لایا گیا کہ قومی محاصل اس کے اخراجات کے متحمل بقیہ حاشیہ کی صحبت و برکت سے پیدا ہوئے تھے.کمی کی وجہ یہ تھی کہ صدرانجمن بوجه مالی عدم استطاعت کے صرف دو تین طلباء کو ہر سال بطور مبلغ لیتی تھی.باقی ماندہ اکثریت کو نہ تو سرکاری ملازمت ملتی تھی.ٹرینگ بند ہو چکی تھی.شاذ و نادر ہی کوئی غیر سرکاری یعنی کسی اسلامی تعلیمی ادارہ میں ملازمت ملتی تھی نہ ہی اکثر کو مزید تعلیم انگریزی وغیرہ کی توفیق ہوتی تھی.اس طرح ان کو مستقبل بھیا نک نظر آتا تھا.اس لئے کم تعداد میں مدرسہ احمد یہ وجامعہ احمدیہ کی طرح رجوع ہوتا تھا.بعد میں حضور ایدہ اللہ تعالی کی سکیم تحریک جدید میں یہ سارے فارغ افراد جذب ہوتے گئے.آپ کے جن شاگردوں کا مجھے علم ہو سکا وہ ذیل میں درج کرتا ہوں.جن کے نام اس فہرست میں شامل نہ ہوں اطلاع ملنے پر طبع ثانی کے وقت شامل کر دیئے جائیں گے :- (۱) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.(۲ تا ۴) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب و حضرت مرزا شریف احمد صاحب پسران حضرت مسیح موعود علیہ السلام.(۵) حضرت میر محمد اسحاق صاحب ( ناظر ضیافت ) (۶) مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.امیر غیر مبایعین.(۷) مولوی مبارک علی صاحب سیالکوئی.(۸) حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب (سابق ناظر ضیافت و یکے از ۳۱۳ صحابه ) (۹) حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلی اوّل صدر انجمن احمدیہ پاکستان ( نبیرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ) (۱۰) حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ( ناظر امور عامه و خارجه و شارح بخاری شریف و سابق مجاہد شام ) (۱۱) حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ( سابق ہیڈ ماسٹر مدرسہ تعلیم الاسلام ) (۱۲) حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب (خسر سید نا مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی ) (۱۳) حضرت سید حبیب اللہ شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات مغربی پنجاب.(۱۴) حافظ عبید اللہ صاحب شہید مجاہد ماریشیس.
۲۱۵ نہیں اس لئے اسے بند کر دیا جائے.اس بحث میں صدر انجمن کے قریباً سب ممبر اور حاضرین میں سے اکثر اسی طرف مائل تھے کہ یہ مدرسہ بقیہ حاشیہ: - (۱۵) حافظ جمال احمد صاحب مجاہد ماریشیس.(۱۲) مولوی ارجمند خان صاحب فاضل ( سابق وائس پرنسپل جامعہ احمدیہ ) (۱۷) شیخ محمود احمد صاحب عرفانی (ایڈیٹر الحکم و مؤلف سیرت حضرت ام المؤمنین ) آپ اپنی شاگردی کا ذکر فخر سے الحکم ۲۸/ ۲۱ ستمبر ۱۹۴۲ء ص ۲ پر کرتے ہیں.(۱۸) مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل ناظر اعلی و امیر مقامی (سابق ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ و ناظم دارالقضاء و صدر عمومی قادیان) (۱۹) مولانا جلال الدین صاحب شمس فاضل ناظر اصلاح و ارشاد ( سابق مبشر بلا دا سلامیه و امام مسجد لندن ) وامام (۲۰) صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب فاضل ایم.اے ( آکسن ) صدرصد را مجمن احمد یہ پاکستان.پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ وصدر مجلس انصار اللہ (سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ) (۲۱) صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب فاضل بی.اے وکیل التبشیر انجمن تحریک جدید.پاکستان.(۲۲) مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل ایڈیٹر الفرقان ( سابق مبشر بلاد اسلامیه و پرنسپل جامعہ احمدیہ ) (۲۳) مولوی احمد حسین صاحب فاضل ایم.اے ( ضلع گوجرانوالہ ) (۲۴) مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری فاضل مجاہد انڈونیشیا ( سابق مجاہد ہالینڈ ) (۲۵) صوفی احمد شاہ صاحب فاضل ( سابق مجاہد مغربی افریقہ ) (۲۶) شیخ اقبال الدین صاحب فاصل او.ٹی.تاجر (سابق امیر بہاول نگر.علاقہ بہاولپور ) (۲۷) صاحبزادہ سید ابوالحسن صاحب قدسی فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ خلف حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید افغانستان (۲۷) مولوی احد اللہ صاحب فاضل سکنہ آ سنور ضلع اسلام آباد کشمیر.مدرس شوپیاں.(۲۸) مولوی احمد خان صاحب نسیم فاضل (انچارج مقامی اصلاح وارشاد ربوہ ) (۲۹) مولوی امام الدین صاحب فاضل مجاہد انڈو نیشیا ( سابق مجاہد سنگا پور ) (۳۰) سید اعجاز احمد صاحب فاضل ( مربی مشرقی بنگال ) (۳۱) مولوی برکت علی صاحب مرحوم ( انہوں نے مدرسہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران میں منشی فاضل کیا.
۲۱۶ بند کر دیا جائے لیکن اسی وقت خدا تعالیٰ کی قدرتِ خاص نے اپنا جلوہ دکھایا اور حضور باوجود نو عمری اور تقریر کی عادت نہ ہونے کے اور باوجود اس کے کہ مقابل میں بڑے بڑے لستان اور ظاہری علوم کے ڈگری یافتہ تھے، اس بقیہ حاشیہ - ہماری انجمن محبان الاسلام کے بانی اور سر پرست تھے اور اجلاسات کا ذکر الفضل میں موجود ہے.انجمن ارشاد میں آپ کی مسئلہ تناسخ پر تقریر الفضل ۲۳-۱۱-۶ میں زیرہ مدینہ امسیحی مذکور ہے.۱۹۲۷ء کے قریب عین عنفوانِ شباب میں داعی اجل کو لبیک کہا ) (۳۲) مولوی بشیر احمد صاحب سیالکوٹی فاصل (غالبا مدرس بمقام جا سکے ضلع سیالکوٹ) (۳۳) حافظ بشیر احمد صاحب جالندھری فاضل مدفون بہشتی مقبرہ قادیان ( پسر صوفی علی محمد صاحب مرحوم ) (۳۴) مولوی تاج الدین صاحب لائل پوری فاضل ناظم دار القضاء ربوہ (سابق مبلغ ) (۳۵) مولوی تاج الدین صاحب مدرس متفرق کلاس ربوہ.(۳۶) مولوی جلال الدین صاحب فاضل (۱۹۳۱ء میں میرے ساتھ مولوی فاضل کیا معلوم نہیں زندہ ہیں یا کہاں ہیں.) (۳۷) مولوی چراغ الدین صاحب فاضل ( مربی صوبہ سرحد ) (۳۸) مولوی حمید اللہ صاحب فاضل پینشنز مدرس ( برادر مولوی ارجمند خان صاحب فاضل) (۳۹) مولوی حمید اللہ صاحب فاضل سکنہ کڑی افغاناں ضلع گورداسپور مدرس بمقام گھر ضلع گوجرانوالہ.(۴۰) مولوی خلیل الرحمن صاحب فاضل مدرس پشاور شہر ( خلف عبدالرحیم خان صاحب مرحوم درویش ) (۴۱) حکیم دین محمد صاحب اکا ؤنٹنٹ پنشنز (صحابی ) مقیم دارالرحمت وسطی ربوہ.(۴۲) مولوی رحمت علی صاحب مرحوم ( مجاہد و بانی جماعتہائے انڈونیشیا) (۴۳) ملک رحمت اللہ صاحب فاضل مدرس نصرت گرلز سکول.قادیان ( مدفون بہشتی مقبرہ قادیان.خاکسار مؤلف کے برادر خورد) (۲۳) مولوی رشید احمد صاحب چغتائی فاضل ( سابق مجاہد بلاد اسلامیہ ) (۴۴) مولوی روشن دین صاحب فاضل مجاہد مسقط - (۴۵) سراج الحق خان صاحب سکنہ فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ( حال مجاہد مغربی افریقہ ) (۴۶) حافظ سلیم احمد صاحب سلیم اٹاری.ربوہ (۴۷) مولوی سلیم اللہ صاحب فاضل مدرس اوکاڑہ (ضلع منٹگمری ) (۴۸) مولوی سید احمد صاحب فاضل ربوہ ( خلف ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب)
۲۱۷ سپاہی کی طرح اس مدرسہ کے زندہ رکھنے کے لئے جنگ آزما ہوئے.جو یہ دیکھتا ہوا کہ میدان جنگ میں میرا کوئی ساتھی نہیں اپنے تمام تیر ایک ایک کر کے دشمن پر حملہ کرنے میں خرچ کر دیتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ اس نہتہ کو بقیہ حاشیہ: - (۴۹) ملک سیف الرحمن صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ مفتی سلسلہ عالیہ احمد یہ ورکن مجلس افتاء.(۵۰) مولوی شاہزادہ خان صاحب فاضل معلم سرگودھا.(۵۱) مولوی شریف احمد صاحب امینی فاضل ( انچارج دار التبلیغ مدارس) (۵۲) خلیفہ صلاح الدین صاحب فاضل مدفون بہشتی مقبره ربوه ( خلف حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب) (۵۲) مولوی صدرالدین صاحب فاضل ( سابق مجاہد ایران ) (۵۳) ملک صلاح الدین مولوی فاضل - منشی فاضل.ایم.اے (فرسٹ کلاس فرسٹ گولڈ میڈلسٹ ) ایم.او.ایل.مؤلف اصحاب احمد.قادیان.(۵۴) مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی فاضل.پنشنز مبلغ.(۵۵) مولوی ظفر الاسلام صاحب انسپکٹر بیت المال.ربوہ ( پنشنر ) (۵۶) مولوی ظہور حسین صاحب فاضل ( سابق مجاہد بخارا ) (۵۷) مولوی ظفر محمود صاحب فاضل پنشنز پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ.(۵۸) مولوی ظہور الحسن صاحب فاضل آکشنر سیالکوٹ شہر ( ان کی تصویر رسالہ ” جامعہ احمدیہ سالانہ نمبر بابت دسمبر ۱۹۳۰ء میں موجود ہے.) (۵۹) مولوی عبد الرحیم صاحب فاضل ( ان کی تصویر رسالہ ” جامعہ احمدیہ، سالانہ نمبر بابت دسمبر ۱۹۳۰ء میں موجود ہے.) (۶۰) عبدالرحیم خان صاحب سکنہ وزیر چک ضلع گورداسپور ( ان کی تصویر رسالہ ” جامعہ احمد یہ سالانہ نمبر بابت دسمبر ۱۹۳۰ء میں موجود ہے.) (۶۱) مولوی عبد الغنی صاحب امیر جماعت جہلم شہر ( یکے از ۳۱۳ صحابه ) (۶۲) ڈاکٹر عطر الدین صاحب در ولیش ( صحابی.قادیان) (۶۳) مولوی عبد القدوس صاحب مالا باری مرحوم.(۶۳) مولوی عبد الرحمن صاحب بھٹی فاضل بمقام کنری ( سندھ) (۶۴) مولوی عبد القادر صاحب بھاگلپوری فاضل.ایم.اے (صحابی حال مقیم شہر لاہور )
۲۱۸ اس کے دشمنوں پر غالب کر دیتا ہے یہی نقشہ حضور کے ساتھ اس بحث میں ہوا اور حضور نے اپنی پوری قوت اور خدا تعالیٰ کی نصرت و مدد سے اس مدرسہ کو بند ہونے سے بچالیا اور اس طرح وہ درس گاہ جو حضور کے بزرگ باپ اور مقدس پیشوا کی آخری خواہش تھی دنیا میں قائم رہ گئی.اس کے بعد خدا کے فضل و کرم سے اس مدرسہ کا انتظام بقیہ حاشیہ: - (۶۵) مولوی عطا محمد صاحب (پنشنز ہیڈ کلرک دفتر بہشتی مقبره ) (۶۶) ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب مرحوم فاضل مبلغ سلسلہ ( صحابی.مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ ) (۶۷) مولوی عبدالمجید خان صاحب فاضل آف کڑی افغاناں ( جو ۱۹۴۷ء میں شہید ہوئے ) (۶۸) مولوی عبدالسبوح صاحب ہزار وی.(۶۹) مولوی عبد القدوس صاحب ہزار وی.(۷۰) مولوی عنایت اللہ صاحب مالک نصیر بک ایجنسی قادیان ( مدفون بہشتی مقبره قادیان) (۷۱) مولوی عبد اللہ صاحب مالا باری فاضل ( مبلغ جنوبی ہند ) (۷۲) مولوی عبدالسلام صاحب کٹکی.(۷۳) حافظ عبدالرحمن صاحب فاضل مدرس ضلع منٹگمری ( متوطن ڈیرہ غازیخاں) (۷۴) مولوی عبد الکریم صاحب فاضل مدرس جہلم.(۷۵) مولوی عبد الکریم صاحب فاضل کراچی ( سابق نائب انسپکٹر مدارس.دکن ) (۷۶) ملک عبدالعزیز صاحب فاضل - نیروبی مشرقی افریقہ (خلف حضرت ملک غلام حسین صاحب رہتاسی) (۷۷) مولوی عبد الواحد صاحب فاضل سکنہ آسنور ضلع اسلام آباد کشمیر (سابق مبلغ و سابق امیر صوبائی.کشمیر ) (۷۸) ان کے بھائی مولوی عبدالجبار صاحب مرحوم معلم موضع رشی نگر.(۷۹) مولوی عبدالغفار صاحب ڈار فاضل سکنہ موضع آسنور مذکر حال راولپنڈی (سابق اڈیٹر اصلاح - سری نگر ) (۸۰) مولوی عبدالرحمن صاحب انور فاضل.پرائیویٹ سیکرٹری سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سابق مبلغ سلسلہ وانچارج تحریک جدید ) (۸۱) مولوی عطاء الرحمن صاحب فاضل ( گولڈمیڈلسٹ) لیکچرارد بینیات جامعہ نصرت ربوہ.(۸۲) شیخ عبد القادر صاحب فاضل سابق سود اگر مل ( مربی لاہور وشیخو پورہ مؤلف حیات طیبہ وغیرہ) (۸۳) مولوی عبدالمالک خان صاحب فاضل مجاہد مغربی افریقہ مربی کراچی ( خلف حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب گوہر رامپوری )
۲۱۹ حضور کے سپرد کیا گیا اور حضور نے صدر انجمن احمد یہ میں پورے زور سے ایک جنگ جاری رکھی....کہ انجمن اپنی توجہ اس مدرسہ کی طرف اسی طرح منعطف رکھے جس طرح وہ انگریزی مدرسہ کی طرف رکھتی ہے.“ بقیہ حاشیہ: - (۸۴) مولوی عبدالرشید صاحب زیروی فاضل مدرس بمقام ڈ چکوٹ ضلع لائک پور انہوں نے تذکرہ طبع اول کی تدوین میں مدد دی تھی) (۸۵) مولوی عبدالمجید صاحب زیروی (مولوی عبدالرشید صاحب کے بھائی) (۸۶) مولوی عبد الخالق صاحب فاضل ( سابق مجاہد ایران ) (۸۷) مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل مدفون بہشتی مقبره قادیان (پسر حضرت مولوی رحیم بخش صاحب تلونڈی جھنگلاں نز د قادیان) (۸۸) حافظ عبدالغفور صاحب فاضل کراچی ( سابق مجاہد جاپان) (۸۹) مولوی عنایت اللہ صاحب جالندھری فاضل.(۹۰) مولوی عبد الرحیم صاحب فاضل مقیم ضلع منٹگمری ( پسر حضرت مولوی شیر علی صاحب) (۹۱) مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل عرائض نویس مردان ( برادر مولوی) چراغ دین صاحب مربی صوبه سرحد ) (۹۲) مولوی عبد اللطیف صاحب فاضل ( پسر منشی عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی.صحابی ) (۹۳) مولوی عبداللطیف صاحب ٹھیکہ دار.ربوہ (۹۴) حکیم مرزا عبدالرحمن صاحب فاضل سند یافتہ طبیہ کالج دہلی مقیم کند کوٹ ضلع جیکب آباد علاقہ سندھ خلف مرزا مہتاب بیگ صاحب مرحوم سیالکوٹی صحابی.) (۹۵) شیخ عبدالواحد صاحب فاضل مجاہد جزائر فجی ( سابق مجاہد چین و ایران ) (۹۶) مولوی عزیز احمد صاحب فاضل.ہیڈ کلرک دفتر امانت ربوہ (۹۷) مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری فاضل.مجاہد انڈونیشیا.(۹۸) مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل ( مجاہد تحریک تجارت - لندن ) (۹۹) شیخ عبدالکریم صاحب شر ما فاضل (مجاہد مشرقی افریقہ ) (۱۰۰) مولوی عبد الرحیم صاحب عارف فاضل - مربی جھنگ شہر (۱۰۱) مولوی عبد الکریم صاحب فاضل خلف حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل مرحوم پروفیسر جامعہ احمدیہ قائد مجلس خدام الاحمدیہ لندن.سابق مجاہد مغربی افریقہ )
۲۲۰ اسی طرح حضور کی بعض دیگر تو جہات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ :- یہ حضور ہی کی تجویز اور توجہ کا نتیجہ ہے کہ مدرسہ احمدیہ سے کالج اور مبلغین کی بقیہ حاشیہ: - (۱۰۲) چوہدری علی قاسم صاحب انصر انسپکٹر پولیس مشرقی بنگال (خلف حضرت چوہدری ابوالہاشم خان صاحب بنگالی ) ( ان کی تصویر رسالہ ”جامعہ احمد یہ سالانہ نمبر بابت دسمبر ۱۹۳۰ء میں موجود ہے ) (۱۰۳) مولوی عبدالعزیز صاحب فاضل سکنہ موضع بھا مڑی نز دقادیان ( محتسب ربوہ) (۱۰۴) مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر فاضل مؤلف بشارات رحمانیہ (سابق امیر ڈیرہ غازی خان) (۱۰۵) مولوی عبدالرحمن صاحب لائلپوری.(۱۰۶) چوہدری عطاء اللہ صاحب فاضل بی.اے.ہیڈ ماسٹر ہائی سکول نز دکوئٹہ (خلف چوہدری اللہ بخش صاحب امرت سری مرحوم مالک سٹیم پریس.قادیان.(1) مولوی عبد القادر صاحب بلوچی فاضل ڈیرہ غازی خان حال مدرس مغربی پاکستان.(۱۰۷) مولوی عطاء اللہ صاحب مدرس ربوہ (خلف حضرت چوہدری بدرالدین صاحب مرحوم ) (۱۰۸) مولوی عنایت اللہ خان صاحب خلیل کا ٹھ گڑھی فاضل ( مجاہد مشرقی افریقہ ) (۱۰۹) مولوی محمد عبد اللہ صاحب فاضل ( پسر حضرت مولوی حبیب اللہ صاحب مرحوم صحابی سکنہ آسنور ضلع اسلام آباد کشمیر ) فاضل موصوف ۱۹۴۷ ء میں جموں میں شہید کر دیئے گئے تھے.(۱۱۰) مولوی عبد اللہ صاحب خورد فاضل سکنہ آسنور ضلع اسلام آباد کشیمر حال مدرس عربی خوش پور ضلع لاسکپور مغربی پاکستان ربیب حضرت مولوی حبیب اللہ صاحب موصوف) (1) ملک غلام فرید صاحب ایم.اے مترجم قرآن مجید (انگریزی) سابق مجاہد جرمنی و انگلستان - (ایڈیٹرنفت روزه سن رائز و ماهنامه ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) مینجر نصرت گرلز سکول قادیان و سیکرٹری مجلس انتظامیہ برائے تعلیم الاسلام کالج قادیان) (۱۱۲) مولوی غلام احمد صاحب بد و ملهوی فاضل ( سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ (جامعة المبشرین) (۱۱۳) مولوی غلام حسین صاحب ایاز فاضل مرحوم ( مجاہد سنگا پور ).(۱۱۴) مولوی غلام مصطفی صاحب بد و ملهوی فاضل مرحوم ( سابق درویش قادیان و نائب امیر گوجرانوالہ ) (۱۱۵) مولوی غلام احمد صاحب فرخ فاضل مربی علاقہ سندھ
۲۲۱ جماعتوں کو ایک الگ انتظام کے ماتحت کیا گیا ہے اور حضور نے انجمن کو اس تغیر کے لئے اس نقطہ نظر سے احکام صادر فرمائے کہ جب تک کالج کے طلباء چھوٹے بچوں میں به حاشیه - (۱۱۶) مولوی فیروز الدین صاحب جہلمی فاضل مرحوم (۱۱۷) مولوی فضل الدین صاحب اجمیری فاضل.پی.ایچ.ڈی گورنمنٹ ماڈل سکول لا ہور.(۱۱۸) مولوی قمر الدین صاحب سیکھوائی فاضل انسپکٹر نظارت اصلاح وارشاد.ربوہ (۱۱۹) حافظ قدرت اللہ صاحب فاضل مجاہد ہالینڈ (سابق مجاہد انڈونیشیا) (۱۲۰) بھائی محمود احمد صاحب ڈنگوی سکنہ دارالرحمت قادیان (حال مهاجر سرگودھا) (۱۲۱) مولوی محمد حسن صاحب فاضل مرحوم.(۱۲۲) مولوی محمد یار صاحب عارف فاضل مقیم سرگودھا ( سابق نائب امام مسجد لندن) (۱۲۳) حاجی ممتاز علی خان صاحب صحابی و درویش مدفون بہشتی مقبرہ (خلف حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب گوہر رامپوری ) (۱۲۴) مولوی محمد سعید صاحب انصاری فاضل ( مجاہد ملایا (۱۲۵) ملک محمد حسین صاحب خوشابی.فاضل (۱۲۵) مولوی محمد احمد صاحب فاضل سکنہ لکھا نوالی (۱۲۶) مولوی محمد احمد صاحب نعیم فاضل مربی کھاریاں (ضلع گجرات) (۱۲۷) سید محمد ہاشم صاحب بخاری فاضل او.ٹی مدرس ( حال مجاہد مغربی افریقہ ) (۱۲۸) مرزا منظور احمد صاحب فاضل ایم.ایس.سی پروفیسر گورنمنٹ کالج کو ہاٹ (۱۲۹) چوہدری محمدتقی صاحب.دارالرحمت قادیان ( حال مہاجرر بوہ ) (۱۳۰) مولوی محمد ابراہیم صاحب فاضل ( ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ قادیان) (۱۳۱) مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر فاضل ( انچارج شعبہ زود نویسی.ربوہ ) (۱۳۲) مولوی محمد سعید صاحب انسپکٹر بیت المال ربوہ (۱۳۳) مولوی محمد صادق صاحب کنجاہی فاضل ( سابق مجاہد انڈونیشیا سنگاپور ) (۱۳۴) مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل - مربی سلسلہ احمدیہ (۱۳۵) مولوی محمد حسین صاحب کاہلوں فاضل ( نائب امیر گوجرانوالہ ) (۱۳۶) الحاج مولانا محمد سلیم صاحب فاضل ( سابق مبشر بلاد اسلامیہ کلکتہ.برماو د ہلی)
۲۲۲ مل کر رہیں گے اور اپنے آپ کو ان سے الگ اور ذمہ دار خیال نہ کریں گے اس وقت تک ان کے دماغ پختہ نہ ہوں گے اور ذمہ داری کا احساس جیسا کہ کالج کے طلباء میں ہونا چاہیئے وہ پیدا نہ ہوگا.“ بقیہ حاشیہ: - (۱۳۷) چوہدری محمد شریف صاحب فاضل مجاہد گیمبیا ( سابق مبشر بلاد اسلامیہ وایڈیٹر البشرى فلسطين ) (۱۳۸) الحاج شیخ مبارک احمد صاحب (سابق رئیس التبليغ مشرقی افریقہ ) (۱۳۹) مولوی صالح محمد صاحب فاضل (مجاہد مغربی افریقہ ) ان کی تصویر رسالہ ”جامعہ احمدیہ سالانہ نمبر بابت دسمبر ۱۹۳۰ء میں موجود ہے.(۱۴۰) حکیم محمد اسمعیل صاحب انبالوی فاضل ( سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ ) (۱۴۱) ملک محمد عبداللہ صاحب سمبڑیالوی فاضل ( مدرس دینیات تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ) (۱۴۲) مولوی محمد دین صاحب فاضل شهید ( سابق مجاہد البانیہ وغیرہ) (۱۴۳) شیخ محبوب عالم صاحب خالد فاضل ایم.اے پروفیسر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ و معاون شخصی صدر صاحب صدر انجمن احمدیه ) (۱۴۴) مولوی محمد عبد اللہ صاحب اعجاز فاضل ( سابق اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری و مینجر اخبار الفضل) (۱۴۵) مولوی محمد سرور صاحب فاضل سکنہ موضع بیری نز و قادیان) (۱۴۶) چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ مجاہد سوئٹزرلینڈ (سابق امام مسجد لندن و وکیل الزراعت) (۱۴۷) مولوی مصلح الدین صاحب را جیکی مولوی فاضل و نشی فاضل مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ (پسر حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ) (۱۴۸) مولوی محمد احمد صاحب قمر گجراتی فاضل.( حال ایم.ای.الیس لا ہور صدر ) (۱۴۹) مولوی محمد احمد صاحب جلیل فاضل پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ ( خلف حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب فاضل حلالپوری مرحوم پروفیسر جامعہ احمدیہ.قادیان) (۱۵۰) مولوی رمضان علی صاحب فاضل ( مجاہد ارجنٹائن ) (۱۵۱) چوہدری محمد صدیق صاحب فاضل بی.اے (لائبریرین خلافت لائبریری ربوہ ورکن مجلس افتاء وصدرعمومی ) (۱۵۲) مولوی محمد اسمعیل صاحب یادگیری فاضل وکیل (دکن)
۲۲۳ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا کہ دار الاقامہ کا قیام میری دو سالہ مساعی کا نتیجہ ہے.جامعہ کی کامیابی کے لئے دار الاقامہ کا قیام ضروری ہے.تا صحیح اخلاق اور دینی خدمات کے لئے جوش پیدا ہو بقیه حاشیه :- (۱۵۳) مولوی محمد صدیق صاحب فاضل (مجاہد مغربی افریقہ ) (۱۵۴) مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل دیال گڑھی مربی لائکپور (۱۵۵) مولوی محمد صدیق صاحب فاضل سکنہ گوکھو والی ضلع لائلپور ( سابق در ولیش) (۱۵۶) مرزا منوراحمد صاحب فاضل مرحوم مجاہد امریکہ (خلف حضرت مرزا محمد شفیع صاحب مرحوم محاسب قادیان) (۱۵۷) مولوی محمد احمد صاحب ثاقب فاضل.پروفیسر جامعہ احمدیہ (رکن مجلس افتاء) (۱۵۸) مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری ( مدرس مدرسہ احمدیہ وایڈیٹر بد ر قادیان) (۱۵۹) مولوی محمود احمد صاحب سرگودهی فاضل مرحوم (۱۶۰) مولوی محمد ابراہیم صاحب فاضل سکنہ اٹھوال ضلع گورداسپور (۱۲۱) مولوی محمد ابراہیم صاحب فاضل سکنہ بھا مڑی ضلع گورداسپور مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ (۱۶۲) حافظ محمد رمضان صاحب واعظ مقامی ربوہ (۱۶۳) مولوی ناصر الدین عبداللہ صاحب فاضل مرحوم سکنه بگول متصل قادیان ( جنہوں نے سنسکرت کی اعلیٰ ڈگری بنارس سے حاصل کی اور کئی فاضلانہ کتب تالیق کیں اور قادیان جامعہ احمدیہ کے پروفیسر برائے سنسکرت تھے ) (۱۶۴) مولوی نوراحمد صاحب فاضل ہیڈ کلرک نظارت بیت المال ربوہ (۱۲۵) ابوالمنیر مولوی نورالحق صاحب فاضل ( ڈائرکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ ورکن مجلس افتاء) (۱۶۶) مولوی نذیر احمد صاحب فیروز پوری فاضل کا رکن نظارت امور عامہ ربوہ.(۱۶۷) مولوی نعمت اللہ صاحب فاضل مدفون بہشتی مقبره قادیان سکنہ موضع کھارا نز د قادیان (مینجر بک ڈپو.قادیان) (۱۶۸) مولوی نذیر احمد صاحب مبشر سیالکوئی فاضل نائب وکیل التبشیر ربوہ (آپ ۳۲-۱-۲، ۴۹-۱-۱۰ اور ۱-۵۵- ۲۷ کو اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے روانہ ہوئے اور گولڈ کوسٹ ( غانا مغربی افریقہ ) کے امیر اور مشنری انچارج رہے اور علی الترتیب ۴۷-۱- ۵۴۷-۳-۲ اور۶۱-۱۰-۳۰ کومراجعت فرما ہوئ)
۲۲۴ اور نو جوان ایمان وایقان میں اور قربانی اور ایثار کی روح میں دوسروں سے بڑھ کر ہوں.ان کی نمازیں اور دعائیں دوسروں کی نمازوں اور دعاؤں سے فرق رکھتی ہوں.ایسے برگزیدہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ خود علم سکھلاتا ہے.نئے نئے جواب سکھاتا ہے.ہمارے مبلغ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور داڑھی چھوٹی کرنے پر اتنا زور نہ دیں ان کے بزرگ اپنی بیبیوں کے کم محبوب نہ تھے ان کے اخلاق اعلیٰ ہونے چاہئیں.ان میں تواضع اور انکساری ہو.خود پسندی اور کبر و غرور سے بچیں کہ اس سے برکت اُٹھ جاتی ہے.۱۴۶ ریٹائر منٹ ناظر صاحب تعلیم و تربیت نے رپورٹ کی تھی جو منظور ہوئی کہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ آخر اپریل ۱۹۳۹ء کو ریٹائر ہو جائیں گے.مولوی صاحب موصوف یکم مئی ۱۹۰۲ء سے کارکن مقرر ہوئے تھے.ان کی تاریخ پیدائش ۱۰ ستمبر ۱۸۷۳ء ہے زمانہ پنشن بتفصیل مندرجه مسل ۹ ۱ سال ۵ ماہ ہے اور اس لحاظ سے ان کو (۸/ ۴۷ ) ماہوار پنشن کا حق ہے جو منظور فرمائی جائے.“ ( فیصلہ نمبر ۹ م مورخہ ۳۹-۳-۲۲ ( بقیہ عرصہ ملازمت کا پراویڈنٹ فنڈ دیا گیا ہوگا.مؤلف ) ملازمت سے آپ کے سبکدوش ہونے کے موقع پر آپ کو دعوت دی گئی.چنانچہ اس بارہ میں مرقوم ہے:.(۴ رمئی ) " آج بعد نماز عصر جامعہ احمدیہ کے ہوٹل میں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو پرنسپل 66 * آپ کی ریٹائر منٹ اور محترم صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کے پرنسپل جامعہ احمد یہ مقرر ہونے کا ذکر الفضل ۳۹-۵-۳ میں زیرہ مدینہ ای “ ہے.بقیہ حاشیہ: - (۱۲۹) مولوی نذیر احمد صاحب سیالکوئی فاضل ملازم لا ہور ( برادر مولوی بشیر احمد صاحب فاضل مدرس جاسکے ) (۱۷۰) مولوی نور محمد صاحب فاضل سکنہ کو ریل نزد آسنور ( ضلع اسلام آباد، کشمیر ) (۱۷۱) مولوی نور الحق صاحب فاضل ( سابق مجاہد امریکہ ) (۱۷۲) مولوی ولید اد خان صاحب شہید ( آپ حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی تحریک پر ایک طبیب کی حیثیت میں علاقہ یاغستان میں اعلائے کلمتہ اللہ میں مصروف تھے کہ شہید کر دئیے گئے )
۲۲۵ کے عہدہ سے ریٹائر ہونے اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مولوی فاضل بی.اے (آکسفورڈ ) کے پرنسپل جامعہ احمد یہ مقرر ہونے پر جامعہ احمدیہ کے اساتذہ طلبہ کی طرف سے ایک شاندار پارٹی دی گئی جس میں بہت سے احباب کو مدعو کیا گیا.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی از راه نوازش شمولیت فرمائی.اکل وشرب کے بعد مولوی محمد یا ر صاحب عارف پروفیسر جامعہ احمدیہ نے ایڈریس پیش کیا اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے ایک مختصر تقریر کی.بعد ازاں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب 66 نے علی الترتیب ایڈریس کے جواب دیئے.پھر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے تقریر فرمائی اور دعا پر یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی.۱۴۷ (۱۹ مئی ) '' آج بعد نماز مغرب مدرسہ احمدیہ کے صحن میں مدرسہ احمدیہ ( جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل ) اصحاب کی طرف سے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کے اعزاز میں دعوت دی گئی.اکل و شرب کے بعد زیر صدارت حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا رروائی شروع ہوئی.مولوی محمد سلیم صاحب نے تحریری ایڈریس پڑھا جس میں حضرت مولوی صاحب کی خدمات جلیلہ کا ذکر کیا.بعد ازاں مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری نے بزرگ اساتذہ کے احسانات اور طلباء سے ان کی مہربانیوں کا موثر طور پر ذکر کیا اور ان کا شکر یہ ادا کیا.پھر حضرت مولوی صاحب نے جواب ایڈریس دیا اور احادیث نبویہ کے واقعات کی روشنی میں تقویٰ کی تلقین کی.آخر میں حضرت مفتی صاحب نے حضرت مولوی صاحب کی بے لوث خدمات کی تعریف کی.‘۱۴۸۴ خاکسار مؤلف کے دریافت کرنے پر آپ نے مجھے لکھوایا تھا کہ پنشن پانے پر آپ کو گھر کے اخراجات چلانے میں بہت دقت پیش آئی.ایک روز آپ نے خواب دیکھا کہ ایک لڑکی چوبارہ پر آپ کی رہائش کے کمرہ میں آئی اور قلیوں کے ذریعہ سامان لائی اور طاق وغیرہ سامان کے ساتھ بھر دیے اس نے بتایا کہ وہ عملی شاہ کی بیٹی ہے.آپ نے اس خواب کا یہ مطلب سمجھا کہ کسی کام کے عوض میں آپ کو آمد ہو گی.چنانچہ اسی روز حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد پہنچا کہ آپ تحریک جدید کے واقفین کو تعلیم دیا کریں.چنانچہ اس کا معاوضہ ملنے لگا.نیز فرماتے تھے کہ خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے افراد میں سے کوئی ایسا نہیں کہ جو مالی طور پر آپ کی امداد نہ کرتا ہو.فجزاهم الله احسن الجزاء.اس طرح آپ بفضلہ تعالیٰ فارغ البالی سے گزارہ کرتے رہے.☆ علی حضرت نواب محمد علی خان صاحب بھی آپ کی خدمت کرتے رہتے تھے.۱۴۹
۲۲۶ جامعة الواقفین کا رئیس الاساتذہ مقرر ہونا جامعہ احمدیہ سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی آپ کی تعلیمی خدمات تا وفات جاری رہیں.چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر کہ ایک تبلیغی نصاب تیار کیا جائے وغیرہ.ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے حضرت مولوی صاحب پرنسپل صاحبان تعلیم الاسلام کالج و جامعہ احمدیہ و دیگر بعض اصحاب سے اس بارہ میں استمداد کی گئی.۱۵۰ آپ کو واقفین کی تعلیم و تدریس کے لئے حضور کی طرف سے مقرر کیا گیا اور دیگر اساتذہ بھی مقرر کر کے آپ کو ان کا پرنسپل بنایا گیا.یہ خاص واقفین جن کا ایک حصہ گریجویٹ تھا اور کچھ مولوی فاضل تھے ان کو جنگ کی وجہ سے باہر بھجوانا نا ممکن تھا.اس لئے ان کو خاص طور پر علوم اسلامیہ میں ٹریننگ دینے کا پروگرام بنایا گیا اور چونکہ حضور کو اس امر کا احساس تھا کہ قدیمی طرز پر علوم کے ماہر جوان علوم میں الراسخون فی العلم کا درجہ رکھتے ہیں ان میں سے اب صرف حضرت مولوی صاحب باقی ہیں.اس لئے نئے علماء کو بھی ان علوم میں کمال پیدا کرنے کا سامان ہونا چاہیئے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کی وساطت سے دیو بند کے ایک فاضل منطق و فلسفہ کو قادیان میں کچھ عرصہ کے لئے بلایا گیا تھا اور بعض کو دہلی وغیرہ اعلی علمی ترقی کے لئے بھجوایا گیا تھا کہ خاکسار مؤلف کو یاد ہے کہ ان صاحب کی ملاقات حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے مجلس علم و عرفان میں مسجد مبارک کی چھت پر مغرب وعشا کے درمیان ہوئی تھی اور حضور ان سے ان کی عمر وغیرہ کے متعلق دریافت فرماتے رہے اور ملک سیف الرحمن صاحب (حال مفتی سلسلہ ربوہ) مولوی محمد احمد صاحب جلیل اور مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ( کو جو تینوں جامعہ احمدیہ ربوہ میں پروفیسر ہیں) اور چوہدری محمد صدیق صاحب فاضل بی.اے (لائبریرین خلافت لائبریری ربوہ) کو جو چاروں مجلس افتاء کے بھی ارکان ہیں دہلی وغیرہ اسلامی علوم میں مزید دسترس حاصل کرنے کے لئے بھجوایا گیا تھا اور جن کو عالمگیر جنگ دوم کے اختتام پر فوری طور پر غیر ممالک میں بھیجوانا مقصود تھا ان کا نصاب کم کر دیا گیا تھا.یہ مجاہدین یورپ پر اسلامی یورش کے لئے تیار کئے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی مساعی کامیاب و بابرکت ہوئیں اور یورپ کا اسلام کے متعلق نظریہ تبدیل کرنے میں انہوں نے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے.اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو قبول فرمائے اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے اور اپنی رضا کا موجب بنائے.آمین.
۲۲۷ - خدمت بہشتی مقبرہ اور شوری میں شمولیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں ۱۹۰۷ء میں آپ پہلی بار قائم مقام ناظم بہشتی مقبرہ مقرر ہوئے.پھر ۱۹۱۲ء اور ۱۹۲۰ء میں بھی کچھ عرصہ کے لئے آپ اس کام پر بطور افسر بہشتی مقبرہ متعین ہوئے * * ۱۹۲۵ء میں اگست میں آپ قائم مقام افسر مقرر ہوئے اور اکتوبر میں مجلس کارپرداز بہشتی مقبرہ کے پہلے سیکرٹری کے طور پر آپ کا تقرر عمل میں آیا اور آپ تا وفات گویا اکیس بائیس سال تک اس خدمت پر مامور رہے.آپ اولین سیکرٹری تھے.آپ اس صیغہ کے فرائض اپنے اصل فرضِ منصبی تعلیم و تدریس کے ساتھ ادا کرتے تھے.بعض دفعہ تعلیم و بہشتی مقبرہ کے علاوہ بھی کئی کام آپ کے سپر د ہو جاتے تھے.آپ نے صیغہ بہشتی مقبرہ کے اعزازی فرائض کو ایسی انتہائی جانفشانی سے سرانجام دیا کہ آپ کی سعی بلیغ سے یہ صیغہ سال بہ سال اوج ترقی کی منازل طے کرتا رہا.آپ کی یہ خدمت ہمیشہ یادر ہے گی.اس دوران میں کچھ عرصہ تک صیغہ تعمیر و صیغہ جائیدا دوصیغہ بہشتی مقبرہ کے ساتھ منضم رہے.آپ بطور سیکرٹری وغیرہ شوری میں اولین شوری (۱۹۲۲ء) سے تا وفات شرکت فرماتے رہے.* اس وقت سید محمد احسن صاحب نے ایک ماہ کی رخصت حاصل کی تھی.فیصلہ مجلس معتمدین نمبر ۲۷۴ مورخہ ۲۶-۵-۰۷ - بدر مورخہ ۰۷-۶ - ۲۷ ص ۱۰ میں قائمقام کی حیثیت سے آپ کا اعلان شائع ہوا.** فیصله مجلس معتمدین نمبر ۴۷۷ مورخه ۱۶-۱۲-۲۸ والفضل ۱۷-۴ - ۲۸ ص ۵ ماہوار ر پورٹ صدرانجمن مندرجہ پر چہ ہذا و فیصلہ نمبر ۳۸ مورخہ ۲۰-۹-۲۰ جس کی رو سے قائم مقام افسر بہشتی مقبرہ کے علاوہ قائم مقام جنرل سیکرٹری صد را مجمن احمد یہ کے فرائض بھی آپ کے سپرد ہوئے.* ( الف ) حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحب کی جگہ بمنظوری حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہتعالی آپ کا قائم مقام افسر بہشتی مقبرہ مقرر ہونا (فیصلہ نمبر ۶۲۲ م مورخه ۲۵-۰۸-۱۹) اس حیثیت سے کام کرنے کا ذکر ۱۵۱ پھر ناظر اعلیٰ صاحب کی چٹھی نمبر ۲۷ مورخہ ۳۵-۱۰-۲۲ کی رو سے مجلس کار پرداز بہشتی مقبرہ کے صدر ناظر اعلیٰ اور سیکرٹری مولوی صاحب اور دور کن حضرت مولوی صاحب و حضرت مولوی اسمعیل صاحب فاضل مقرر ہوئے.(ب) ذیل میں آپ کی حسن کارکردگی کی ادنی سی جھلک پیش کرنے کے لئے آپ کے کام کا خلاصہ رقم کیا جاتا ہے.یہ امر متحضر رہے کہ ۱۹۲۵ء میں آپ کی تقرری کے وقت اس صیغہ کے قیام پر صرف انیس بیس سال کا عرصہ گذرا تھا گویا یہ ابھی عہد طفولیت میں تھا.اس لئے اس کثیر آمد پیدا کرنے والے صیغہ کے لئے سعی پیہم
۲۲۸ ے.لسانی خدمات آپ کو مندرجہ ذیل لسانی خدمات کی توفیق ملی :- مباحثہ مد - بقیہ حاشیہ: - در کار تھی اور اس کی اعلیٰ اور شاندار ترقی یقیناً آپ کی محنت ، توجہ اور استقلال کی مرہون منت ہے.(اعداد و کسور ترک کر دی گئی ہیں یا ان کو پورا کر دیا گیا ہے کچھ عرصہ کی رپورٹیں شائع نہیں ہوئیں ) سال مع حوالہ (۱) ۲۷-۱۹۲۶ء ( رپورٹ مشاورت ۱۹۲۷ء ص ۹۴، ۹۵) (۲) ۲۸-۱۹۲۷ء ڈاک آمد روانگی آمد سالانه روانگی.دو ہزار ڈیڑھ صد ساڑھے بیالیس ہزار روپے چٹھیاں روانگی.دو ہزار آٹھ صد تریسٹھ ہزار ایک صد روپے (رپورٹ مشاورت ۱۹۲۸ء ص ۲۶۶ چٹھیاں تا ۲۷۲ و سالانہ رپورٹ مندرجہ احمد یہ گزٹ بابت ۲۹-۱۱-۱۱ص۴) (۳) ۲۹-۱۹۲۸ء ( سوا بانوے ہزار ریز روفنڈ ) آمد - پونے انیس صد سڑسٹھ ہزار روپے (حضور (رپورٹ مشاورت ۱۹۲۹ء چٹھیاں کے ارشاد پر دو سال میں ص ۵ ۲۸۰،۲۷۶،۲۷) روانگی.سوا تین ہزار بتیس ہزار روپی ریز روفنڈ چٹھیاں کے طور پر جمع کیا گیا) روانگی.ساڑھے تین سڑسٹھ ہزار روپے (حضور (۴) ۳۰-۱۹۲۹ء رپورٹ مشاورت ۱۹۳۰ء ہزار چٹھیاں ص ۳۸۹ تا ۴۰۱) کے ارشاد پر دو سال میں بتیس ہزار روپیریز روفنڈ کے طور پر جمع کیا گیا ) روانگی پونے تین ہزار ساڑھے چھہتر ہزار روپے (۵) ۳۱-۱۹۳۰ء رپورٹ سالانہ ص ۹۳ تا ۱۰۲) چٹھیاں
۲۲۹ 79 تبلیغی و تربیتی تقاریر.سال مع حوالہ (۶) ۳۲-۱۹۳۱ء ( رپورٹ سالانہ ص ۱۲۰) (۷) ۳۳-۱۹۳۲ء ڈاک آمد روانگی آمد سالانه آمد - دو ہزار چٹھیاں پچاسی ہزار روپے روانگی.ساڑھے چار ہزار چٹھیاں آمد.تین ہزار چارصد سواا کا نوے ہزار روپے رپورٹ سالانہ ص ۸۲ تا ۸۴) چٹھیاں.روانگی.آٹھ اس وقت سولہ اعزازی (۸) ۳۴-۱۹۳۳ء ہزار چھ صد چٹھیاں انسپکٹر مقرر کر کے ان سے بھی کام لیا جار ہا تھا ) آمد - سترہ صد چٹھیاں نوے ہزار روپے رپورٹ سالانہ ص ۷۶ تا ۸۱) روانگی.چار ہزار بجٹ سے ساڑھے چھ ہزار ساڑھے تین صد چٹھیاں زیادہ) ایک لاکھ روپے آمد پونے دو ہزار (۹) ۳۵-۱۹۳۴ء رپورٹ سالانه ص ۲۰۸ تا ۲۰۹) چٹھیاں.(۱۰) ۳۶-۱۹۳۵ء روانگی ساڑھے تین ہزار چٹھیاں آمد دو ہزار پچاس چٹھیاں رپورٹ سالانہ ص ۱۷۰ ۱۷۱) روانگی آٹھ ہزار چھ صد ایک لاکھ تین ہزار روپے (۱۱) ۳۷-۱۹۳۶ء ( رپورٹ سالانہ ص ۲۴۹) چٹھیاں آمد دو ہزار نو صد چٹھیاں ایک لاکھ ساڑھے بائیں روانگی آٹھ ہزار چھ صد ہزار روپے چٹھیاں
-٣ درس قرآن وحدیث ۲۳۰ سال مع حوالہ (۱۲) ۳۸-۱۹۳۷ء ڈاک آمد روانگی آمد سالانه آمد سوا دو ہزار چٹھیاں ایک لاکھ ساڑھے بتیس ہزار رپورٹ سالانہ ص ۲۹۴۲۹۳) روانگی چھ ہزارنوصد روپے (اراضی کی قیمت کم چٹھیاں ہونے کے باعث موصی اراضی سپر د کر نے لگے.جن کی فروخت کی آمد صیغہ جائداد کی آمد میں درج ہوتی رہی ) (۱۳) ۳۹-۱۹۳۸ء آمد پونے دو ہزار چٹھیاں ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ رپورٹ سالانہ ص ۲۹۶ تا ۲۹۸) روانگی چھ ہزار تین صد بشرح صدر قیمت اراضی احاله 6- لده (اله) چٹھیاں صیغہ جائداد کی آمد میں درج ہوتی رہی ) آمد اڑھائی ہزار چٹھیاں ڈیڑھ لاکھ روپیہ رپورٹ سالانہ ص ۳۷ تا ۳۸) روانگی ساڑھے چھ ہزار بجٹ سے پندرہ ہزار زائد ) چٹھیاں آمد ایک ہزار نوصد ایک لاکھ باون ہزار روپیہ (۱۵) ۴۱-۱۹۴۰ء رپورٹ سالانہ ص ۸۶ تا ۸۶) چٹھیاں (۱۶) ۴۲-۱۹۴۱ء روانگی سات ہزار چھ صد چٹھیاں ( بجٹ سے قریباً سات ہزار زائد) آمد دو ہزار چٹھیاں پونے دولاکھ روپیہ رپورٹ سالانہ ص ۲۷ تا ۷۱ ) روانگی سواسات ہزار چٹھیاں
۲۳۱ خطبات جمعہ، عیدین، نکاح ، جلسہ سالانہ میں اور دیگر مواقع پر تقاریر.- بقیہ حاشیہ:- سال مع حوالہ (۱۷) ۴۳-۱۹۴۲ء ڈاک آمد روانگی آمد سالانه آمد دو ہزار چٹھیاں دولا کھ اٹھارہ ہزار روپیہ رپورٹ سالانہ ص ۷ ۷ تا ۸۱) روانگی سوا سات ہزار ( بجٹ سے پچپن ہزار زائد ) (۱۸) ۴۵-۱۹۴۴ء ( رپورٹ سالانہ ص ۱۰۱) چٹھیاں آمد ساڑھے چھ ہزار پونے چار لاکھ روپیہ چٹھیاں بجٹ سے قریباً ایک لاکھ روانگی پونے پندرہ ہزار روپیہ زیادہ) چٹھیاں اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمگیر جنگ دوم کے دوران میں خشیت اللہ قلوب پر زیادہ طاری ہوئی.اس مشتمل ہے.عرصہ میں احمدیت میں داخلہ اور موصیوں کی تعداد میں اضافہ تیز ہوا اور ادائیگیوں میں بہت زیادتی ہوئی لیکن جنگ کا آغا ز تو ستمبر ۱۹۳۹ء میں ہوا.مجھے صرف اس امر کی طرف توجہ دلانا ہے کہ ( گو بعض دیگر عوامل بھی کارفرما تھے اور ہمیشہ ہوتے ہیں ) آپ کی توجہ اور محنت سے اس صیغہ کی آمد یوم فیو ماً بڑھتی رہی.چنانچہ ۳۳-۱۹۳۲ء میں جو آمدا کا نوے ہزار تھی وہ چھ سال میں سال مختمہ اپریل ۱۹۳۹ء میں ایک لاکھ چالیس ہزار تک پہنچ گئی.حالانکہ اس زمانہ میں اجناس کی قیمت بہت گر گئی تھی اور جماعت احمدیہ کا اکثر حصہ زمینداروں پر مشتمل (ج) ۳۱-۱۹۳۰ء اور ۳۲-۱۹۳۱ء میں صیغہ تعمیر وصیغہ جائداد کے فرائض بھی صیغہ بہشتی مقبرہ کے سپر د تھے.افسر تعمیر حضرت سید ناصر شاہ صاحب تھے (۳۱-۱۹۳۰ء کی سالانہ رپورٹ میں صیغہ تعمیر کی رپورٹ صیغہ بہشتی مقبرہ کی رپورٹ کے معا بعد لیکن نظارت علیا کی رپورٹ سے قبل درج ہے ( ص ۱۰۲ ۱۰۳) گویا اس وقت بھی صیغہ تعمیر بہشتی مقبرہ سے ملحق تھا نہ کہ نظارت علیا سے اور رپورٹ ۳۲-۱۹۳۱ء میں بالوضاحت یہ امر مرقوم ہے کہ یہ صیغہ قائم ہوئے دوسرا سال ہے.صیغہ ہائے تعمیر و پراویڈنٹ فنڈ اس کے ساتھ شامل کر دیئے گئے تھے (ص۸۲) گویا بہشتی مقبرہ سے علیحدگی ہو چکی تھی ) (د) شوری میں شرکت: - آپ شوری کے آغاز (۱۹۲۲ء) سے تا وفات ہر ایک اجلاس میں شرکت فرماتے رہے.اولین شوری میں باون بیرونی اور تمہیں مرکزی نمائندگان نے شمولیت کی تھی.دراصل ہر صیغہ
۲۳۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں مسجد مبارک میں آپ کو خطبات جمعہ پڑھنے کا بار ہا شرف بقیہ حاشیہ کے افسر شریک ہوتے ہیں.آپ کے کئی عہدے تھے.اس لئے مختلف عہدوں کے ساتھ آپ کا نام مرقوم ہوتا رہا.اس دوران میں جن سالوں میں آپ کسی سب کمیٹی کے رکن مقرر ہوئے سالہائے متعلقہ کی رپورٹوں کے صفحات کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے:.(1) ۱۹۲۳ء سب کمیٹی اشاعت اسلام (ص ۶۸،۶۷) اس وقت آپ صدرانجمن کے سیکرٹری بھی تھے (ص۳۰) (۲) ۱۹۳۴ء سب کمیٹی نظام سلسله (ص ۲۷، ۲۸) (۳) ۱۹۲۵ء سب کمیٹی تعلیم وتربیت (ص۵۹) (۴) ۱۹۲۶ ء ایک سب کمیٹی کے رکن ( احمد یہ گزٹ ۲۷-۳-۱۱ ص۳۳) (۵) ۱۹۳۱ء سب کمیٹی بہشتی مقبرہ کے آپ سیکرٹری مقرر ہوئے.صدر چوہدری نعمت اللہ خان صاحب ڈسٹرکٹ و سیشن جج دہلی تھے.یہ امر زیر غور تھا کہ جو موصی حصہ جائیداد ادا کئے بغیر فوت ہو جائے اس کے حصہ کی وصولی کے لئے وقت پیش آتی ہے.(ص ۲۸) (1) ۱۹۳۲ء آپ نے رپورٹ پیش کی کہ وصیت کی رو سے جائیداد کا مفہوم کیا ہے.(ص۲۲) (۷) ۱۹۳۴ء سب کمیٹی تعلیم و تربیت کے رکن مقرر ہوئے.لڑکیوں کے نصاب کے متعلق چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی زیر صدارت سب کمیٹی نے رپورٹ تیار کی تھی جو پیش ہوئی.حضور نے فرمایا کہ حضور کے ساتھ مل کر سب کمیٹی نصاب کے متعلق غور کرے۱۳ جنوری ۱۹۳۵ء کو حضور نے اس بارہ میں فیصلہ جات فرمائے.(ص۱۲۶،۱۰۲) (۸) ۱۹۳۵ء وصیت کے متعلق اہم تجاویز پیش تھیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اکیس ارکان پر مشتمل ایک سب کمیٹی مقرر کی گئی جس میں مولوی صاحب صیغہ کے نمائندہ کے طور پر شامل کئے گئے.( ص ۱۲، ۲۰،۱۹) امور زیر غور یہ تھی کہ وصیت صرف مترو کہ جائیداد کی کافی نہیں بلکہ اس آمد کی بھی ہونی چاہئے جس پر موصی کا گزارہ ہے.دوسرے بعد وصیت اگر موصی کوئی جائیداد پیدا کرے یا جس جائیداد کی وصیت کی تھی ہر دو صورتوں میں بہہ بغیر ادا ئیگی وصیت کرنا چاہے تو صدر انجمن سے اس کی اجازت حاصل کرے.(ص۱۲، الف ) (۹) اکتوبر ۱۹۳۶ء یہ اجلاس ثانی خاص مالی امور کے لئے طلب کیا گیا تھا دوسب کمیٹیوں کا تقرر کیا گیا کہ آخر پر دونوں یکجائی مشورہ بھی کریں.آپ بھی ایک سب کمیٹی کے رکن مقرر ہوئے تھے.(ص۱۵)
۲۳۳ حاصل ہوا.اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کے دو نکاحوں کے بقیہ حاشیہ: - (۱۰) ۱۹۳۸ ء رکن سب کمیٹی نظارت علیا و نظارت بیت المال (ص۱۲) (۱۱) ۱۹۳۹ء سب کمیٹی بہشتی مقبرہ کے آپ سیکرٹری اور حضرت مولوی شیر علی صاحب صدر تھے.تجویز زیر غور یہ تھی کہ وصیت کے لئے جائداد کا معیار مقرر ہونا ضروری ہے.(ص۲۲٬۲۱،۱۹) (۱۲) ۱۹۴۰ ء سب کمیٹی بہشتی مقبرہ کے آپ سیکرٹری اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب صدر مقرر ہوئے.یہ امور زیر غور آئے کہ ایک شخص مقامی جماعت کے سپر داپنی وصیت کر دیتا ہے لیکن مقامی جماعت کی غفلت سے مرکز میں اس کی وفات تک نہیں پہنچتی.وصیت ہر طرح سے مکمل ہے.کیا اسے منظور کیا جائے یا نہ کیا جائے ( منظور کرنے کا فیصلہ ہوا ) پنشن کمپیوٹ ہونے پر اسے آمد قرار دیا جائے یا جائیداد.فیصلہ ہوا کہ اسے آمد سمجھا جائے اور اس کا حصہ آمد اسی وقت وصول کیا جائے سوائے اس کے کہ اس سے موصی کو نقصان پہنچتا ہو مثلاً جتنی رقم کمیوٹ ہو کر ملے اسی قدر رقم کی ڈگری قابل ادا ہو.ایسے حالات میں موصی دفتر وصیت سے سمجھوتا کر لے اور اتنا حصہ آمد اس کے ذمہ قرض ہوگا.(ص ۶۱ تا ۷۳ ) (۱۳) ۱۹۴۱ء بیت المال و بہشتی مقبرہ کی مشترکہ سب کمیٹی مقرر کی گئی آپ اس کے رکن تھے.(ص۶۳۱۰) تجویز پیش تھی کہ گھوڑی پال مربعے نہ ملکیت ہوتے ہیں نہ انہیں فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے اس لئے انہیں جائیداد قرار نہ دیا جائے.فیصلہ ہوا کہ یہ اور اس قسم کی دیگر ملکیتیں جن کے مالک کو ان کے منتقل کرنے کا اختیار نہ ہو وصیت کی اغراض کے لئے جائداد متصور نہ کی جائیں.(ص۶۸) (۱۴) ۱۹۴۲ء نظارت علیا، نظارت تالیف و تنصیف اور صیغہ بہشتی مقبرہ کے متعلق ایک مشتر کہ سب کمیٹی تجویز ہوئی جس کے آپ بھی رکن تھے.(ص۳) (۱۵) ۱۹۴۳ء نظارت بیت المال وصیغہ بہشتی مقبرہ کی ایک مشترک سب کمیٹی تجویز ہوئی جس کے آپ رکن تھے.(ص۱۳،۱۲) ایک تجویز یہ زیر غور آئی کہ موصی نصف سال تک چندہ ادا نہ کرے تو اس کی وصیت منسوخ کی جاتی ہے لیکن چندہ وصول کرنے والے یا تو کئی ماہ تک مرکز میں چندہ نہیں بھجواتے یا دیگر مدات میں بھجوا دیتے ہیں.عدم اطلاع کے باعث صیغہ بہشتی مقبرہ بقایا سمجھ کر نوٹس دے دیتا ہے جس سے پریشانی پیدا ہوتی ہے.سیکٹر یان مال کی اکثریت نے وعدہ کیا کہ وہ گذشتہ ماہ کا نقشہ وصولی از موصیان تیار کر کے بھجوا دیا کریں گے.(ص ۸۴ تا ۸۷ )
۲۳۴ پڑھنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی.وَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ - نمبر ۱ تا ۳ کا ذکر الگ کیا گیا ہے نمبر ۴ کے تعلق میں کچھ حوالجات ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں.البتہ خطباتِ جمعہ وعید کا بیان کسی اور عنوان کے تحت کیا گیا ہے.(الف) نکاح خوانی :- آپ نے صد با نکاح پڑھے.بعض کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے.66 (۱) ۷ فروری کی صبح کو مسجد مبارک کے اس حصہ میں جو حضرت مسیح موعود کے زمانے کا ہے کھڑکی کے پاس جو حضور کے حرم کے اندر کو جاتی ہے.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے سید نا خلیفہ اسیح ثانی کا تیسرا نکاح ایک ہزار روپیہ مہر پر حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاه (صاحب) کی دختر بلند اختر سیدہ مریم صاحبہ کے ساتھ پڑھا....حضرت صاحب نے لمبی دعا فرمائی.۱۵۲ الفضل رقم طراز ہے کہ یہ نکاح آپ نے ” نہایت لطیف اور دلکش انداز میں پڑھا“.۱۵۳ (۲) ۱-۲-۲۶ کو بعد نماز فجر مسجد اقصی میں مولوی صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کا نکاح محترمہ سیدہ عزیزہ بیگم صاحبه دختر حضرت سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب سے بعض ایک ہزار روپیہ ہر پڑھا.۱۵۴ ۳ تا ۱۰) الفضل ۱۹-۱۱-۱۸ ، ۳-۶-۴۴ (زیر مدینہ اسیح)، ۲۵-۷-۲۵، ۲۵-۸-۱۸ (هر دوص ۲ ک (۳) ۲۹-۷-۱۶ ص ۲ ک۱)، ۴۵-۱۲-۲۰ ص ۶ کا)، ۴۶-۱-۲ (ص۶)، ۳۱-۱۲-۴۵ ( ص ۶ ک (۴) (ب) تقارير جلسہ سالانہ :- (۱) جلسه ۱۹۱۴ء پر احباب کو الفضل میں بتایا گیا کہ وہ کس طرح مرکز سے استفادہ کریں.چنانچہ اس ضمن میں علماء (بشمول مولوی صاحب) سے ملاقات کرنے کی بھی تلقین کی گئی ہے (۱۴-۱۲-۲۷ - ص ۶ ک۱) بقیہ حاشیہ:- یہ تجویز بھی پیش تھی کہ وصیت منسوخ ہو یا موصی خود منسوخ کرالے اور پھر دوبارہ وصیت کرے تو منسوخی والے عرصہ کے بقایا کے متعلق کیا صورت اختیار کی جائے.آیا مطالبہ ہونا چاہئے یا نہیں.اس بارہ میں مزید غور کے لئے لئے ایک سب کمیٹی بنانے کا حضور نے فیصلہ فرمایا.(ص۸۸،۸۷) (ھ) متفرق بابت بہشتی مقبرہ : - آپ کی طرف سے اعلانات الفضل ۲۷-۲-۱۰ (ص۲)، احمد یہ گزٹ ۲۸ - ۵-۱۱ (ص۲)، ۲۸-۱۱-۱۱ (ص ۶، ۷ ) ، ۲۸-۱۲-۱۱ (ص۴) ۲۹-۱-۱۱ (ص۴).
۲۳۵ -- آپ کا وقف اور تبلیغی و تربیتی مہمات گوحضرت مولوی صاحب پروفیسری والی اعلیٰ اور زیادہ مشاہرہ والی ملازمت ترک کر کے دیار یار میں دھونی رما کر آ بیٹھے اور خدمات سلسلہ کے لئے اپنی تئیں وقف کر دیا.گویا آپ نے تن من دھن راہ یار میں نثار کر دیا.پھر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریک پر آپ نے ۱۹۰۷ء میں اپنے تئیں وقف بقیہ حاشیہ ان بزرگوں کی تقاریر کے متعلق لکھا ہے:.نیز مرقوم ہے:- وو حاضرین پر جو عالم طاری تھاوہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا.“ (زیر مدینہ اسی )....حقائق آگاہ مولانا محمد سرور شاہ صاحب کی تقریر....مسئلہ نبوۃ وکفر کے متعلق تھی.مولانا موصوف کی کئی تقریریں میں نے سنی ہیں.مگر یہ تقریر جدا گانہ طرز کی تھی اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ تقریر مولوی سرورشاہ صاحب کی نہیں تھی بلکہ آپ کی زبان پر روح القدس بول رہا تھا.(ص ۶ چار کالم میں خلاصہ درج ہے.ص ۶ تا ۸ ) (۲) ۱۹۱۵ء احمدی جماعت کا نصب العین کیا ہونا چاہئے اور اس کے رستہ میں کون سے خطرات ہیں.‘۱۵۵ (۳) ۱۹۱۸ء یہ جلسہ اگلے سال مارچ میں منعقد ہوا.بشمول آپ کے چار علماء کی متوقع تقریروں کا خاص پر اعلان - ۱۵۶ وو (۴) ۱۹۲۱ء اسلام اور اخلاق فاضلہ ۱۵۷ (۵) ۱۹۲۲ء نبوۃ مسیح موعود الحکم ۲۲-۱۲-۷، ص ۶ ، الفضل ۲۳-۱-۱ ص۲کا ، الفضل ۲۳-۱-۴ میں مرقوم ہے:.اس قدر مضمون بیان ہوا تھا کہ وقت ختم ہو گیا اور صدر جلسہ کو افسوس کے ساتھ رعایت پروگرام کی وجہ سے مضمون کو ختم کرانا پڑا.احباب کی طرف سے تقاضا تھا کہ دوسرے وقت میں مضمون ختم کیا جائے مگر منتظمین جلسہ نے معذرت کی کیونکہ اور بھی کئی تقریروں کا وقت تھا.“ (ص۴۳) جلسہ خواتین میں نظام سلسلہ اور اس کی کامیابی پر ۲ گھنٹے تقریر کی.(رپورٹ حضرت سیدہ امتہ الٹئی صاحبہ حرم حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی مندرجہ الفضل ۳-۰۱-۱۱ص۱) (۶) ۱۹۲۳ء نبوۃ مسیح موعود ۱۵۸
کر دیا اور اس عہد کو تادم واپسیں نہایت خوبی سے نبھایا.چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ذکرِ حبیب" میں تحریر فرماتے ہیں :- ’۱۹۰۷ ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.اب سلسلہ 6616 کا کام بڑھ رہا ہے اس بات کی ضرورت ہے کہ بعض نوجوان دور و نزدیک تبلیغ کا کام بقیہ حاشیہ : - (۷) ۱۹۲۴ء میں آپ نے وفات مسیح پر تقریر میں قرآن شریف سے اچھوتے استدلال فرمائے اور ایک حدیث پیش کی جو ایک نئی دلیل تھی.‘ ۱۵۹ (۸) ۱۹۲۵ء ضرورت وصیت ( الفضل ۲۶-۴-۲۰ اور ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) بابت فروری ١٩٢٦ ء ص ۲ (۹) ۱۹۲۷ء احباب کی ترغیب کے لئے بشمول مولوی صاحب گیارہ بزرگوں کی متوقع تقاریر کا اعلان ۱۶۰ تقریر بابت سیرۃ حضرت مسیح موعود 111 (ج) متفرق تقاریر :- (۱) حضرت مولوی نور الدین صاحب کی صدارت میں مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایک جلسہء عام میں مولوی سرورشاہ صاحب کی تقریر بھی ہوئی.۱۶۲ (۲) ۲۷-۷-۱۳ کو موسمی تعطیلات ہونے پر ایک جلسہ میں آپ نے اور بعد ازاں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( ایدہ اللہ تعالیٰ ) نے طلباء کو ان کے فرائض کے متعلق خطاب کیا.۱۶۳ (۳) حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے متعلق مبلغین کی اعلیٰ کلاس میں تقریر.۱۶۴ (۴) ۴-۸-۱۸ کو ایک جلسہ میں صرف آپ کی تقریر ہوئی.۱۶۵ (۵) ایک خوشی کی خبر پر مدارس میں تعطیل کی گئی اور مسجد مبارک میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا.اس میں صرف آپ کی تقریر ہوئی.۱۶۶ (1) حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مدرسہ تعلیم الاسلام میں ۱۹۲۰ء میں دینی تقریروں کا آغاز کیا تا کہ طلبہ کو دین سے واقفیت ہو اور فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اٹھارہ سال قبل یہ انتظام جاری کیا تھا اور حضرت خلیفہ اول ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی سرور شاہ صاحب نے لیکچر دیے تھے.۱۲۷ (۷) ذکر حبیب پر تقریر ہونا.۱۲۸
۲۳۷ کرنے کے واسطے اپنی زندگیاں وقف کریں.اگر چہ اس وقت قادیان میں مقیم اکثر مہاجر ایسے تھے جو اس نیت سے قادیان میں آبیٹھے ہوئے تھے کہ دینی خدمات کے بقیہ حاشیہ: - (۸) مقامی انجمن کے زیر انتظام مسلمانانِ کشمیر کے حقوق کی حفاظت کے تعلق میں تقریر، مزید صرف ایک اور تقریر ہوئی اور قراردادیں منظور کی گئیں.۱۶۹ بعض دیگر مواقع کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:.(۱) ۱۸۹۷ء میں جب آپ پشاور کالج میں پروفیسر تھے.حضرت مرزا رمضان علی خان صاحب سے احمدیت کے متعلق تبادلہ خیالات کرتے تھے.کا (۲) مؤقر الحکم راقم ہے :- ۲۰ فروری ۱۹۱۴ ء کی صبح کو دس بجے کے قریب احباب آپ ( یعنی حضرت خلیفہ اوّل.ناقل ) کے پاس موجود تھے اور ڈاکٹر صاحبان آپ کی غذا کا اہتمام کر رہے تھے.مولانا سید سرور شاہ صاحب اور حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ایک مناظرہ پر جانے والے تھے.آپ نے اس وفد کو با وجود اپنی بیماری کی حالت کے دعاؤں کے ساتھ ( شیعہ صاحبان سے مناظرہ کے بارے.ناقل ) مناسب ہدایات دے کر روانہ کیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حالت میں بھی جو چیز آپ کو پسند ہے وہ اشاعتِ دین ہے.“ اسکا (۳) ماسٹر عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ ) کی تبلیغ کے باعث موضع کھارا نز د قادیان کے احباب نے خواہش کی مولوی نواب الدین صاحب ستکو ہی سے مذہبی گفتگو ہو اور وعدہ حفظ امن پر ی گفتگو ہو اور وعدہ حفظ امن پر ” حسب انتخاب امیر ( یعنی حضرت خلیفہ اول) مولوی سرور شاہ صاحب ، حافظ روشن علی صاحب اور سید عبدائمی صاحب عرب تشریف لے گئے.۱۷۲ (۴) اٹاوہ (یو پی) میں تقریر کرنا اور مونگھیر (بہار) کے جلسہ کے لئے جانا (ماہوار رپورٹ مندرجہ ریویو آف ریلیچز ( اردو ) بابت ۱۹۱۰ ء (ص ۴۳۷) ۱۰-۱۰-۱۳ کو اٹاوہ میں آپ نے آریہ مذہب و دیگر مذاہب پر اسلام کی فضیلت کے بارے میں دو گھنٹے تقریر کی.۱۷۳ مفتی محمد صادق صاحب رقم فرماتے ہیں:.قادیان سے چلنے کے وقت ہم تین تھے.باتفاق مولوی سرور شاہ صاحب کو اپنا
۲۳۸ سرانجام دینے میں اپنی بقیہ زندگی بسر کر دیں.تاہم نوجوانوں کے علاوہ بعض اور دوستوں نے بھی زندگی وقف کرنے کے عہد کی درخواستیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ بقیہ حاشیہ - امیر تسلیم کیا جنہوں نے نہ صرف امارت کا حق ادا کیا بلکہ نمازوں میں امامت بھی کرا کر ہمارے لئے صدر دین بن گئے اور فیضانِ راہ کی خدمت بھی اس طرح ادا کرتے رہے کہ گویا اس سفر میں ان کا بڑا مقصد یہ تھا کہ ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد والی مثال کو عملی رنگ میں صحیح ثابت کر کے مخدوم صادق بن جائیں.“ (ص۲) المؤمن يَرَى وَيُری لَہ کا نظارہ ہمیں اس سفر میں نظر آتا ہے.مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ اٹاوہ میں نماز میں مولوی صاحب نے سورۃ اعراف کا وہ حصہ پڑھا جس میں آیتُ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ آتا ہے.بعد نماز میر صادق حسین صاحب اٹاوی نے اپنی نوٹ بک میں سے چار سال پرانی رؤیا دکھائی کہ قادیان سے اٹاوہ میں ایک جماعت احمدی برادران کی آئی.میں ان سے ملا.ایک صاحب نے یہ آیت پڑھی.(ص۹) مفتی صاحب اور مولوی صاحب کے اس سفر پر جانے کا ذکر کر کے لکھا ہے :- اللہ انہیں فائز المرام لائے.۴ کلا (۵) رپورٹ ہائے سالانہ بابت ۱۱-۱۹۱۰ء (ص ۴۳ ) ،۱۲-۱۹۱۱ء (ص ۶۵) میں واعظین ومبلغین میں جو مختلف مقامات پر تشریف لے گئے آپ کا نام بھی شامل ہے.(۶) عہد خلافت اولی میں حضرت مولوی عبدالواحد صاحب سکنہ برہمن بڑیہ ( بنگال ) کی درخواست پر کہ علماء کا ایک وفد تبلیغ کے لئے بھجوایا جائے.حافظ روشن علی صاحب، میر قاسم علی صاحب ، مولوی سرور شاہ صاحب، مولا نا غلام رسول صاحب را جیکی اور مولوی مبارک علی صاحب سیالکوئی بھجوایا گیا.۱۷۵ (۷) جب آپ اور بعض دیگر احباب اکتوبر ۱۹۱۲ء میں شملہ تقریریں کرنے گئے تو بدر نے لکھا: - ” خدا تعالیٰ ان کو سالما غانماً واپس لائے.‘ ۶ کا (۸) ۱۹۱۲-۱۳ ء میں آپ اور بعض دیگر احباب کو حسب اجازت حضرت خلیفہ اول بغرض تبلیغ بھجوانا.کا (۹) تا ۱۶) دیگر دو بزرگوں کے ہمراہ ملتان جانا.آپ اور میر محمد الحق صاحب کا دورہ پر جانا.بطور واعظ سفر پر ہونا.میر قاسم علی صاحب، چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور آپ کا شرکت جلسہ کے لئے میرٹھ جانا.جلسہ کے الاعراف: ۵۷
۲۳۹ والسلام کی خدمت اقدس میں پیش کیں اور چونکہ حضور کی ڈاک کی خدمت ان ایام میں میرے سپرد تھی.اس واسطے ان درخواستوں پر چند الفاظ لکھ کر حضور میرے پاس بھیج بقیہ حاشیہ: - لئے قصور جانا ، فیروز پور جانا ، آپ کا پٹنہ (بہار) جانا، آپ اور مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کا جماعت احمد یہ دکن کے سالانہ جلسہ میں شرکت کرنا اور مراجعت.۱۷۸ (۱۷) بیرون قادیان تبلیغی جلسوں میں شمولیت (۱۸) آپ جمعیت میر قاسم علی صاحب ہندوستان کے دورے پر گئے.الفضل ان کا ذکر کر کے راقم ہے کہ 'جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلتے ہیں خدا خودان کا حافظ و ناصر ہوتا ہے.“ مصلحت الہی سے اصل اسٹیشن سے یہ قافلہ دوائیشن آگے جاپہنچا.اصل اسٹیشن پر اتر جاتے تو قبل از وقت پہنچنے کے باعث وہاں نہ کوئی احمدی دوست پہنچے تھے نہ سواری کا انتظام تھا.موجودہ مقام پر سواری بھی مل سکتی تھی اور سڑک پختہ تھی.صوبہ مقدہ کی روئیداد میں میر صاحب بار بار حضرت امیر صاحب اور حضرت امیر سفر“ کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں :- حضرت امیر نے بتائید ا لہی رُوح القدس سے بھر کر ۸ بجے شب سے لے کر گیارہ بجے شب تک تبلیغ کی.“ وکا گویا آپ اس سفر میں امیر تھے.۱۸۰ (19) تبلیغ کے لئے قادیان کے علاقہ کو حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے منشاء کے مطابق چار حصوں میں تقسیم کیا گیا اور چار افراد بشمول مولوی صاحب کو ایک ایک حصہ سپر د کیا گیا.۱۸۱ (۲۰) سیالکوٹ میں عیسائیوں سے اور فیروز پور میں آریوں سے حافظ روشن علی صاحب اور آپ کا کامیاب مباحثے کر کے واپس آنا.۱۸۲ (۲۱) صوبہ اُڑیسہ کی ایک جماعت میں سالہا سال سے تنازع چلا آرہا تھا اور نا اتفاقی حد سے بڑھ چکی تھی اور پولیس اور مقدمات تک نوبت پہنچ چکی تھی.آپ کو وہاں بھیجا گیا.آپ کی کوشش سے بہت سے شاخسانے بند ہو گئے اور کئی جھگڑے خوش اسلوبی سے طے ہوئے.آپ نے وہاں کی جماعت اور علاقہ کے انتظام کی مضبوطی کے لئے رپورٹ پیش کی ہے.جو اہم فیصلے کرنے کے لئے زیر غور تھی.۱۸۳ بعض جلسے آپ کی صدارت میں منعقد ہوئے ان کا مثالاً ذکر کیا جاتا ہے:.(۱) جلسہ سالانہ ۱۹۱۷ء کا اولین اجلاس ۲۵ / دسمبر کو مسجد نور میں ۱۸۴
۲۴۰ دیتے.میں نے ایک رجسٹر بنا لیا.اور اس میں ان کو درج کر دیتا.چنانچہ وہ رجسٹراب تک میرے پاس محفوظ ہے.“ ان اسماء میں حضرت مولوی صاحب کا نام بھی شامل ہے.حضرت اقدس نے آپ کی درخواست پر فرمایا : - آپ کو اس کام کے لائق سمجھتا ہوں.“ (ص ۱۴۷) یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کا ہر قول و فعل واقفین کے لئے ایک نہایت اعلیٰ قابلِ تقلید اسوہ حسنہ اور ان کے لئے بہترین مشعل راہ تھا.آپ کا ہر لمحہ حصول رضائے الہی اور خدمتِ دین کے لئے وقف تھا.آپ ان ابتدائی چند بزرگ مجاہدین میں سے تھے.جنہیں تبلیغ یا تربیت کے لئے بھجوایا جاتا تھا.آپ کا شمار صف اول میں ہوتا تھا.مباحثہ مد کا ذکر حصّہ اوّل میں گزر چکا ہے.وقف جدید کے متعلق تحریک کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- پرانے زمانہ میں قاضی امیرحسین صاحب تھے.مولوی سید سرور شاہ صاحب تھے.مولوی برہان الدین صاحب تھے اور شیخ غلام احمد صاحب تھے.یہ لوگ باہر جاتے تھے اور تبلیغ احمدیت کرتے تھے.“ ۱۸۷ و قلمی خدمات آپ کی قلمی خدمات درج ذیل ہیں : - (۱) تفسیر القرآن (۲) خلافت کی تائید میں تصانیف و مضامین بقیہ حاشیہ: - (۲) جلسہ سیرۃ النبی کا پہلا اجلاس آپ کی صدارت میں منعقد ہوا جس سے قبل جلوس نعتیہ اشعار پڑھتے ہوئے دارالعلوم سے روانہ ہو کر قصبہ سے گذرا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سارا جلوس مسجد مبارک کی چھت پر سے دیکھا.۱۸۵ (۳) جلسہ سیرۃ النبی کے موقع پر جلوس کے بعد دار العلوم میں پہلا اجلاس آپ کی زیر صدارت ہوا.۱۸۶ (۴) خلافت جو بلی فنڈ کی فراہمی کے لئے حلقہ مسجد مبارک کا جلسہ جس میں حضرت میر محمد الحق صاحب و دیگر مقرروں نے تقاریریں کیں.۱۸۸
(۳) فتاوی (۴) مضامین ۲۴۱ آپ کے مضامین اہمیت کے حامل تھے.” مسائل شرعیہ کے زیر عنوان آپ کا مضمون تفخیذ الا ذہان کے سات پر چوں میں درج ہوا.آپ کے مضامین عالمانہ اور محققانہ رنگ رکھتے ہیں.آپ نے وفات مسیح" میں ایک نئی دلیل کا اضافہ کیا.اولین ایشوع میں ( جو مارچ ۱۹۰۶ ء کا ہے ) ایڈیٹر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) رقم فرماتے ہیں کہ :- اس سُرخی کے نیچے ہم جو مسائل شرعیہ درج کریں گے وہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کے لکھے ہوئے ہوا کریں گے اور درج کرنے سے پہلے حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام کو دکھائے جایا کریں گے.“ (ص (۱) نمبر ۱ تا ۳ کا تفصیلی ذکر منفر دانہ طور پر کتاب ہذا میں کیا گیا ہے.بعض مضامین کے حوالے یہاں درج کئے جاتے ہیں :- (اتا ۷ ) ” مسائل شرعیہ مذکورہ بالا تفخیذ الاذہان بابت مارچ، جون ستمبر ۱۹۰۶ ء.وفروری ، مارچ، جون ، جولائی ۱۹۰۷ء.( صفحات علی الترتیب ۲۱ ،۳، ۶، ۷، ۸، ۱۴،۱۳،۱۲،۱۰،۹، ۱۵، ۱۶) (۸) ایک خط اور اس کا جواب.“ سوا دس کالم کا مضمون.۱۸۹ (۹) ایک تبلیغی خط بعنوان خط.۱۹۰ (۱۰) مولویوں کے اعتراضوں کی حقیقت اور ایک سوال کا جواب.191 (۱۱) ایک خط کا جواب.شیعہ اور سنیوں میں فیصلہ کی راہ.ساڑھے بائیس کالم کا مضمون.۱۹۲ (۱۲) قرآن کریم کے اعجاز پر اس اعتراض کا کہ صرف دھو کے خلاف ہو کر کس طرح مجزا نہ ہوسکتا ہے فاضلانہ جواب.” بحکم حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح علیہا السلام “ ۱۹۳ (۱۳) ” ایک معترض کی چند باتوں کا جواب.چھ کالم کا مضمون.” بحکم حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح علیہما السلام ۱۹۴ ,, (۱۴) ” بیعت اور اس کی ضرورت‘ دس کام کا مضمون د حکم سید نا مولانا الیت مسیح علیہ السلام ۱۹۵ (۱۵) ایک مفصل مضمون احمدی احباب کے درمیان مباحثہ کی شرائط کے متعلق " بحکم حضرت خلیفہ امسیح ایده الله بنصره ١٩٦ وو
۲۴۲ -۱۰ تفسیر القرآن و درس الحديث والفرقان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے عہد مبارک میں ہی حضرت مولوی صاحب کی تفسیر قرآن کو شرف استناد حاصل ہو گیا تھا.اس مبارک زمانہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کی عدم حاضری میں آپ ہی قرآن مجید کا درس دیتے تھے.اور خلافتِ اولی میں بھی یہی صورت قائم رہی جب تک کہ آخری ایام میں حضرت خلیفہ اول نے امامت صلوٰۃ اور درس کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) کو مقرر نہیں فرما دیا.۱۹۷ حضرت اقدس کے زمانہ میں حضرت مولوی صاحب کی تفسیر کی اشاعت کے لئے خاص اہتمام کیا گیا تھا.پانصد باون صفحات حضور کے عہد مبارک میں شائع ہوئے.آپ نے اس تفسیر میں نہایت قابلیت سے نہ صرف حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تفسیر ہی محفوظ کی ہے بلکہ نہایت محققانہ اور فاضلہ انداز میں اس پر اضافے کئے ہیں اور جابجا انمول موتی بکھیرے ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس اہم خدمت کو بابرکت بنایا اور اسے سند قبول عطا ہوئی اور اس کے متعلق احباب جماعت بقیہ حاشیہ: - (۱۶) ایک سوال کا جواب.یہ مضمون افک کے بارے میں ہے.اس سے پہلے مرقوم ہے:- وو عالم حقائق آگاہ مولانا محمد سرور شاہ صاحب نے ایک سوال کا جواب اس عالمانہ اور محققانہ رنگ میں دیا ہے.جس کی ان سے توقع کی جاسکتی تھی.‘ ۱۹۸ (۱۷) وفات مسیح پر ایک نئی دلیل‘.199 صفحہ، اپر طبقات محمد بن سعد والی حدیث آپ ہی نے پیش کی اور احمد یہ لٹریچر میں شامل کی.(۱۸) عرفان الہی اور محبت باللہ کا عالی مرتبہ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو قائم کرنا چاہتے ہیں.‘۲۰۰ اس متوقع خاتم النبین نمبر کا اعلان کرتے ہوئے کچھ بزرگوں بشمول مولوی صاحب کے مضامین کا ذکر کیا گیا ہے.۲۰۱ (19) الحکم جو بلی نمبر ( دسمبر ۱۹۳۹ء) کے متعلق آپ کی نمایاں قابل قدر راور دقیع تقریظ.۲۰۲ (۲۰) درود ابراہیمی کے متعلق ایک سوال اور اس کا جواب.۲۰۳ (۲۱) لغات القرآن نام کتاب سید عبدائمی صاحب نے عربی میں تالیف کی ساتھ ہی حضرت مولوی صاحب کا ترجمہ شائع ہوا.۲۰۴
۲۴۳ کی طرف سے تقاضا ہوتا رہا لا يمسه الا المطهرون کے مطابق آپ ایک مطہر رسالہ 'تعلیم الاسلام کے پہلے شمارہ میں مرقوم ہے:- کمیٹی منتظمہ تعلیم نے محض اشاعت کتاب اللہ کی غرض سے یہ رسالہ نکالا ہے.“ ۲۰۵ اصل غرض اس رسالہ کی...قرآن مجید کی تفسیر ہے.تفسیر بھی وہ جو کہ نور الدین کے درس قرآن مجید کا مجموعہ ہے اور نور الدین بھی وہ جو کہ مرزا غلام احمد کی غلامی کو اپنا فخر جانتا ہے اور مدت دراز سے آپ کے قدموں میں رہنا اور اس کو اپنی ساری عمر کی گراں قیمت کمائی اور نعمت یقین کرتا ہے اور مرزا غلام احمد بھی وہ جس کی نسبت خداوند کریم فرماتا ہے هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مَنْهُمْ....وَاخَرِينَ مِنْهُمُ اور كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّم - الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآن - اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ أَوْ لَا دِی.يَحْمَدُكَ اللَّهُ مِنْ عَرْشِهِ جَرِيَ اللَّهُ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاء “ (ص۳) صدر انجمن کی طرف سے ایک ماہوار رسالہ تعلیم الاسلام اس تفسیر کی خاطر جاری کیا گیا.آپ ہی اس کے ایڈیٹر تھے.( جلد نمبر اص (۳) اس کے دس پرچے جولائی ۱۹۰۶ء تا اپریل ۱۹۰۷ء میں تین صد چونتیس صفحات میں تفسیر شائع ہوئی.( یہ رسالے اصل حالت میں نہیں مل سکے.معلوم ہوتا ہے کہ ہر بار چند صفحات میں تفسیر کے سوا بھی مواد درج ہوتا جیسا کہ بدر ۰۶-۸-۶ کے اقتباس سے جو آگے متن میں درج ہے تصدیق ہوتی ہے ) کل چار صد صفحات میں سے تفسیر کے تین صد چونتیس صفحات ہیں.ان شماروں کے بعد یہ رسالہ بند کر کے ریویو آف ریلیجنز (اردو ) میں بطور ضمیمہ اس تفسیر کی اشاعت کا انتظام مناسب سمجھا گیا.چنانچہ جلد نمبر ۵ تا جلدے نمبر ا میں مئی ۱۹۰۷ء تا جنوری ۱۹۰۸ ء ا یک صداسی صفحات اس بارہ میں اشاعت پذیر ہوئے.اس مرحلہ پر اس تفسیر کے لئے ایک سہ ماہی رسالہ ” تفسیر القرآن‘صدر انجمن نے جاری کیا.جو مارچ ۱۹۰۸ء تا ستمبر ۱۹۱۲ء جاری رہا اور اس میں ایک ہزار پانصد اڑتالیس صفحات میں تفسیر درج ہوئی.پہلا شمارہ ۳۱ مارچ ۱۹۰۸ء کو طبع ہوا لیکن اسے جلد ۳ کا پہلا شمارہ قرار دیا گیا ہے.غالباً رسالہ تعلیم الاسلام اور ضمیمہ ریویو میں شائع شدہ تفسیر کو دوجلدمیں قرار دیا ہوگا.سور سالہ تفسیر القرآن جلد ۳ نمبرا اسے جلد نمبر ۲ تک جاری رہ کر بند ہو گیا.جس کے لئے آپ کے تقرر بطور ایڈیٹر کا فیصلہ زیر نمبر ۲۸۴ مورخہ ۰۸-۶-۲ ہوا تھا.
۲۴۴ وو اس رسالہ میں عموماً حضرت مولانا حکیم الامتہ کے درس قرآن کے نوٹ ہوں گے اور بعض باتیں خاکسار ایڈیٹر کی طرف سے ہوں گی اور ہر دو کو امتیازی طور پر الگ الگ ظاہر کریں گے.“ (ص۳) مؤقر بدر میں لکھا ہے:.ر سالہ تعلیم الاسلام کا پہلا پرچہ بابت ماہ جولائی ۱۹۰۶ ء شائع ہو گیا.صفحہ میں سے قریب ۳۴ صفح تفسیر قرآن شریف پر مشتمل ہیں (جو.....سورہ فاتحہ سے شروع کی گئی ہے اور اس کے لکھنے والے فاضلِ اجل حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب اول مدرس عربی مدرسہ تعلیم الاسلام وایڈیٹر رسالہ تعلیم الاسلام ہیں.لیکن تفسیر کا اکثر حصہ وہ ہے جو حضرت مولوی نور الدین صاحب روزانہ درس قرآن میں بیان فرمایا کرتے ہیں.جہاں ایڈیٹر صاحب رسالہ پابندی کے ساتھ حاضر ہوکر ساتھ ساتھ نوٹ لکھتے رہتے ہیں.چونکہ ایڈیٹر صاحب خود بھی تحصیل علوم عربیہ با قاعدہ طور پر ہندوستان میں کر چکے ہوئے ہیں اور علوم عربیہ میں بڑی مہارت رکھتے ہیں اس واسطے انہوں نے اس تفسیر کے لکھنے میں صرف مولانا موصوف کے درس کے نوٹوں پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے علم و فضل اور دیگر کتب دینیہ کے مطالعہ سے بھی کام لیا ہے.اور تفسیر کے لکھنے میں اتنی احتیاط کی ہے کہ جہاں حضرت مولوی حکیم صاحب کے درس کو تحریر کیا ہے.وہاں حرف ح لکھدیا ہے.اور دوسری جگہ حرف م لکھدیا ہے.جس سے مراد محمد سرور شاہ ہے.رسالہ کے آخر میں مدرسہ کے متعلق اخبار بھی درج ہیں اور شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تازہ الہامات بھی درج ہیں.غرض ہر طرح سے رسالہ کو مفید اور دلچسپ بنانے کی کوشش کی گئی ہے.نفسِ مضمون رسالہ پر ریویو کرنے کی نہ مجھے لیاقت ہے اور نہ ضرورت.صاحب درس قرآن اور صاحب ایڈیٹر کے نام اس امر کے اظہار کے واسطے کافی ہیں کہ یہ رسالہ کیسا ہے اور آئندہ کیسا ہوگا....۲۰۶ اسی طرح تفسیر القرآن کے عنوان کے تحت مرقوم ہے :- بدر کے کسی گذشتہ پرچہ میں ہم نے معزز احباب کو اس تفسیر کی طرف توجہ دلائی تھی جو ہمارے مکرم حقائق آگاہ مولانا سید محمد سرور شاہ ایدہ اللہ لکھ رہے ہیں.اور جواب
۲۴۵ سہ ماہی بطور ضمیمہ ریویو آف ریلیجنز شائع ہوتی ہے.آج کے اخبار میں پھر اس کے متعلق تحریک کی جاتی ہے کہ اے تشنہ کا مانِ آب حیات قرآن دوڑو! اور جلد اپنے تئیں سیراب کرو.مجھے رہ رہ کر تعجب آتا ہے کہ احمدی جو قرآنی معارف سننے کے لئے ہر وقت بے تاب رہتے ہیں.اس تفسیر کے ساتھ کیوں دلچسپی نہیں دکھاتے زیادہ تر اس کی وجہ سے ہے کہ کئی حضرات اس کے شائع ہونے سے اب تک بے خبر ہیں.میں بڑے زور کے ساتھ اپنے ہر ایک بھائی اور بدر کے خریدار کی خدمت میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ ضروری ضمیمہ ریویو اپنے نام جاری کرائے تا اسے معلوم ہو کہ قرآنی مضامین کس قدر لطیف ہوتے ہیں.میرے لئے تو (سچ کہتا ہوں اور تہ دل سے کہتا ہوں ) تمام جہانوں کی لذتوں سے بڑھ کر اگر کوئی لذت ہے تو اس تفسیر میں ہے.واللہ زبان چٹخارے لے لے کر رہ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے لائق مفسر کو تو فیق دے کہ وہ اپنی زندگی میں اس تفسیر کو ختم کرسکیں.میں کہتا ہوں کہ اگر اس ضمیمہ کے آٹھ سوخریدار بھی مستقل طور پر ہو جائیں تو میں مینجر صاحب ریویو کو مجبور کر دوں کہ وہ بجائے سہ ماہی کے ماہوار اس کو علیحدہ نکالیں اور اس طرح پر پھر یہ تفسیر جلد شائع ہو سکے گی.اس گذارش کی طرف احباب کی فوری و پُر جوش توجہ درکار ہے.کیونکہ موجودہ صورت طبع تفسیر نے تو مفسر کا گلا گھونٹ دیا ہے اور یہ مجھے (بلکہ ) کسی صاحب ذوق سلیم کو پسند نہیں.میں ایک دفعہ پھر اس تفسیر کی طرف ناظرین کو توجہ دلاتا ہوا رخصت ہوتا ہوں اور منتظر ہوں کہ میرے بھائی اس کے متعلق کیا کارروائی کرتے ہیں.ہم مخدومی مولوی محمد علی صاحب کی خدمت مبارک میں بھی عرض کرنے کی جرات کرتے ہیں کہ وہ اس تفسیر کو عام ہاتھوں میں پہنچانے اور وسیع پیمانے پر زیادہ حجم کے ساتھ چھپوانے اور جلد شائع کروانے کی تدبیر کی طرف اپنے علمی اور قیمتی وقت کا کچھ حصہ خرچ کریں.“ ۲۰۷ آپ مرکز قادیان میں کبھی قرآن شریف اور کبھی حدیث شریف کا درس دیتے تھے.مؤ قر بدر میں مرقوم ہے:- حضرت خلیفہ المی" و دیگر بندگانِ ملت اپنے اپنے منصبی کام میں سرگرمی سے مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی روح القدس سے تائید کرے.
۲۴۶ درس قرآن.حقائق آگاه سید سرور شاہ صاحب فرماتے ہیں.مولانا کا طرز بیان نہایت دلچسپ اور وسیع واقع ہوا ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ربط اور فصاحت و بلاغت کے بارے میں ایک خاص علم دیا ہے.قادیان میں رہنے والے احباب کو قرآن سیکھنے کے لئے نہایت عمدہ موقع ہے.مولانا صاحب نہایت با قاعدہ درس دیتے ہیں.پہلے الفاظ کی تشریح کرتے ہیں.پھر آیت کے معنی بیان کرتے ہیں.پھر دوسری آیات سے اس کا ربط بتاتے ہیں اور مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں.اگر اول سے آخر تک توجہ رکھی جائے تو معلومات میں بہت سی ترقی ہو سکتی ہے.۲۰۸ جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء میں کانفرنس انجمن ہائے احمد یہ میں تین سوال پیش ہوئے :.” دوسرا سوال تفسیر القرآن کے متعلق تھا جو سہ ماہی انجمن کی طرف سے شائع ہوتی ہے.بجٹ ۱۹۰۹ء میں اس تفسیر کے لئے منظوری نہ رکھی گئی تھی مگر انجمن احمد یہ گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ نے اس کے جاری رکھنے کی تحریک کی.کانفرنس نے اس تحریک کی پُر جوش تائید کی اور باتفاق رائے یہ فیصلہ ہوا کہ تفسیر جاری رہے اور اس کا حجم زیادہ ہو کر قیمت بھی بڑھا دی جاوے اور اس کی اشاعت کو وسیع کرنے کے لئے سب انجمنیں کوشش کریں.‘ ۲۰۹ 66 تفسیر القرآن...یہ تفسیر مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب لکھتے ہیں.بجائے خود یہ تفسیر اعلیٰ پایہ کی ہے.قیمت بھی بہت کم رکھی گئی ہے.یعنی قریبا ۴۰۰ صفح سالانہ کی قیمت ایک روپیہ مع محصول ڈاک ہے.اس تفسیر میں حضرت خلیفہ ایج" کے درس قرآن کے سب نکات بھی عموماً آ جاتے ہیں اور علاوہ ازیں مولوی صاحب موصوف خود ایک جید عالم ہیں.تفاسیر پر بھی بہت وسیع نظر ہے اور حضرت خلیفۃ اسیح " جب درس نہ دیں تو مولوی سرورشاہ صاحب ہی درس قرآن بھی دیتے ہیں.“ ۲۱۰ اس تفسیر کی مقبولیت کا ذیل کی عبارت سے بھی علم ہوتا ہے:.تفسیر القرآن کا حجم اس سال زیادہ کر دیا گیا ہے.یعنی بجائے ساٹھ صفحے سہ ماہی کے قریباً نوے صفحے سہ ماہی ہوا کریں گے...چونکہ سالانہ جلسہ کے موقع پر اکثر احباب نے یہ شوق ظاہر کیا تھا کہ اس کے صفحوں کی تعداد بڑھائی جاوے تا کہ جلدی کوئی معتد بہ حصہ قرآن کریم کی تفسیر کا لوگوں تک پہنچ جاوے اس لئے یہ تبدیلی کی گئی.۲۱۱۴
۲۴۷ مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری صدرا انجمن احمد یہ وائیڈ میٹر یو یوتحریر کرتے ہیں :- ی تفسیر ایک اعلی پایہ کی علمی تفسیر ہے اہل علم اور کم علم اس سے برابر فائدہ اٹھا سکتے ہیں.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب علاوہ حضرت خلیفہ اسیح کے نکات درس قرآن کو شامل کرنے کے خود بھی نہایت خوبی سے اور تفاسیر پر وسیع نظر رکھ کر تفسیر لکھتے ہیں ( خریداری کے لئے ) انجمنوں کے سیکرٹری اپنی انجمنوں کے ممبران کو توجہ دلا دیں.حضرت مولانا غلام حسن صاحب پشاوری کے سامنے مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی وفات سے آٹھ روز پہلے مولوی سرور شاہ صاحب کی تفسیر کے باے میں بتایا تھا کہ :- ” جناب جو قد راس تفسیر کی میری نگاہ میں ہے وہ اور کسی کی نظر میں نہیں ہوسکتی.کیونکہ جب میں نے انگریزی ترجمہ کے لئے نوٹ لکھنے چاہے تو میں نے بہت تفسیروں " ریویو آف ریلیجنز بابت مارچ ۱۹۱۱ ء ص ۱۱۶.اسی پر چہ میں لکھا ہے :.بہت مدت سے میرا دل اس بات کو چاہتا تھا کہ ریویو آف ریلیجنز کا ایک حصہ قرآن شریف کی ایک تفسیر عام فہم اردو زبان میں ہوتا.کتاب الہی کا سچا علم اور تعلیم ہمارے احباب میں ترقی کرے مگر حالات اجازت نہ دیتے تھے...تھوڑے عرصہ سے رسالہ تعلیم الاسلام کا نکالنا تجویز ہوا.جس کی اہم غرض قرآن شریف کی ایک تفسیر کا مہیا کرنا تھا.اس رسالہ کو شروع ہوئے نو ماہ گذر چکے ہیں اور اس عرصہ میں تین سو سے زائد صفحات قرآن شریف کی تفسیر کے اس میں نکل چکے ہیں.میں نے جہاں تک اس تفسیر کو دیکھا ہے نہایت بیش قیمت پایا ہے اور حضرت مولوی صاحب ( یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب.مؤلف نے بھی اکثر اوقات اس کی بہت تعریف کی ہے.عام فہم ہے اور الفاظ اور ان کے معانی کی پوری تشریح کی جاتی ہے.احمدی قوم کی یہ ایک بڑی بھاری ضرورت ہے جو اس رنگ میں پوری ہوئی.اس وجہ سے کہ جماعت کو اس رسالہ کی اغراض اور اس کے مضامین سے کما حقہ، آگا ہی نہ ہوئی.اس کی اشاعت بھی اب تک محدود ہی...اس تفسیر میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے کہ جو جو اعتراضات قرآن شریف پر کئے گئے ہیں ان کا جواب بھی ساتھ ساتھ دیا جاوے گا.اس لئے کسی قدر لمبی بھی ہو جاوے گی.“ ۲۱۲ یہ بھی مرقوم ہے کہ رسالہ ” تعلیم الاسلام کی قیمت صرف ڈیڑھ روپیہ سالانہ تھی.اب ریویو آف ریلیجنز کے پرچوں میں بیس بیس صفحات میں بطور ضمیمہ شائع کرنے کی تجویز ہوئی ہے.احباب استفادہ کریں ضمیمہ اور ریویوالگ الگ منگوائے جاسکتے ہیں.گویا بمشکل لاگت ہی وصول ہوتی تھی.اس سے ظاہر ہے کہ یہ تفسیر کس 66 قد مستند بھی جاتی تھی.اور اسے اشاعت قرآن کا ذریعہ بنا کر خریداروں کو حد درجہ سہولت بہم پہنچائی گئی تھی.
۲۴۸ میں چند آیات مطالعہ کیں اور بالآخر سرور شاہ کی تفسیر کو دیکھا.تو میری طبیعت نے فیصلہ کیا کہ اس تفسیر کے ہوتے ہوئے کسی اور تفسیر کے دیکھنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے.چنانچہ میں نے ان پاروں میں فقط اسی کے مطالعہ پر اکتفاء کی ہے.جہانتک یہ شائع ہو چکی تھی اور اس کے بعد مجھے اور تفاسیر کے دیکھنے میں بڑی محنت اور مشقت کرنی پڑی ہے کیونکہ ایک بات ایک میں ملی تو دوسری کسی اور میں.پاره اول قرآن مجیدمع ترجمه فوائد تفسیر ی حسب ارشاد نگرانی حضرت خلیفہ مسیح الثانی اید اللہ تعالی اردواور انگریزی میں ۱۹۱۵ء میں انجمن ترقی اسلام کی طرف سے شائع ہوا تھا.یہ ترجمہ وغیر ہ علمائے جماعت احمدیہ کی حميد بابت اپریل ۱۹۰۷ ء ص ۱۵۵ ، ۱۵۶ بیان حضرت مولوی سرور شاہ صاحب ” قادیان میں درس حدیث کے زیر عنوان مرقوم ہے:.حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تجویز فرمایا ہے کہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ (جو سلسلہ کے تبحر عالم اور حدیث کے سند یافتہ ہیں) کو حدیث کے باقاعدہ درس کے لئے مقرر فرمائیں.چنانچہ ۶ جولائی ۲۴ ء سے با قاعدہ درس شروع ہو گیا ہے.حدیث شریف کے اس درس میں حضرت مولانا اس امر کا التزام رکھیں گے کہ احادیث کے مطالب بیان اور مفہوم کو ایسے رنگ میں بیان کریں کہ جس سے قرآن مجید کی عظمت و شان کا اظہار اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی کمالات کی صراحت ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصانیف میں جو اصول تعلیم فرمائے ہیں اور مسائل اسلامیہ کی جو حقیقت اور روح بیان کی ہے.احادیث کے مغز کو جس رنگ میں پیش کیا ہے.اس سے عوام کو آگاہ اور واقف کیا جاوے.پر درس برابر جاری رہے گا.اس لئے اگر باہر سے بھی احباب تشریف لے آئیں تو بہت مفید ہو گا.حضرت خلیفہ اسی کے ایام سفر یورپ میں بہت اچھا موقع ہے.“ مؤقر الحکم نے احباب کو یہ تلقین بھی کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کی طرح احباب باری باری آ کر علم دین سیکھنے کی کوشش کریں.اور درسوں سے استفادہ کریں.“ ۲۱۳ حضرت مولوی شیر علی صاحب احباب جماعت کو مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں تعلیم کے لئے بچوں کو بھجوانے کی تلقین کرتے ہوئے رقم فرماتے ہیں:.قادیان کے ہائی سکول کی جو خصوصیتیں ہیں وہ دوسرے اسلامی سکولوں سے بھی امتیاز رکھتی ہیں.حضرت خلیفتہ اسی" یا آپ کے ارشاد کے ماتحت دوسرے بزرگوں مثلاً حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب قبلہ کے درسِ قرآن کریم اور جمعہ کے خطبات اور
۲۴۹ ایک جماعت نے تیار کئے تھے.مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ( مترجم و مفسر قرآن مجید انگریزی) نے بتایا کہ حضرت مولوی صاحب بھی ان علماء میں شامل تھے اور آپ ہی کے خاص اثر اور تفسیر میں خاص مقام اور بقیہ حاشیہ: - مختلف دینی تحریکوں اور تقریروں میں شامل ہونے سے طلباء میں مذہبی روح اور پھر عملی روح پیدا ہوتی ہے.۲۱۴ محترم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل تحریر کرتے ہیں :.آپ...روح القدس کی تائید کے ساتھ....ایک تفسیر القرآن لکھ رہے ہیں جو اپنے اندر نکات معرفت وحقائق علمیت رکھنے کے لحاظ سے فاضلانہ نظر میں بڑی قدر سے دیکھی جاتی ہے.‘ ۲۱۵ سالانہ رپورٹ ۱۲-۱۹۱۱ء میں مرقوم ہے:." تفسیر القرآن ایڈیٹر تفسیر بوجہ دوسرے اشغال کے مضمون وقت پر نہیں دے سکتے اس لئے تفسیر کو موقت ایشوع رکھنے کی بجائے یہ انتظام نئے سال میں تجویز کیا گیا ہے کہ جب مضمون مل جایا کرے اس وقت ایک حصہ شائع ہو جایا کرے.“ ( ص ۶۰.یہی امر بالفاظ دیگر مندرج ۱۳-۱۹۱۲ء ص ۳۶) حضرت مولوی شیر علی صاحب قائم مقام سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ ماہوار ر پورٹ میں فرماتے ہیں:.ترجمه قرآن شریف اردو میں صدر انجمن احمدیہ کے اہتمام کے ماتحت سید مولوی محمد سرور شاہ صاحب 66 نے قرآن شریف کا ترجمہ اور نوٹ لکھنے کا کام شروع کر دیا ہے.ایک پارہ بمع نوٹوں کے مکمل ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ اس کام میں برکت ڈالے.آمین.۲۱۶ آپ کا تیار کردہ ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی محمد اسمعیل محمد عبد اللہ صاحبان ( جلد سازان ) تاجران کتب قادیان نے شائع کیا تھا.اس بارہ میں تفصیل تا ثرات اخویم چوہدری محمد شریف صاحب میں درج کی گئی ہے.نظارت تعلیم و تربیت نے ۱۹۲۲ء کے جلسہ سالانہ پر اپنی رپورٹ میں قادیان کی مقامی تربیت کے متعلق بیان کیا ہے کہ اول ذریعہ تربیت حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا درس ہے جو آپ کی علالت کے دوران حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب دیتے ہیں.۲۱۷ درس کے متعلق بعض حوالے درج کئے جاتے ہیں :- (۱) حضور نے مولوی سید سرور شاہ صاحب کو درس قرآن کا ارشاد فرمایا جو کہ عصر کے بعد مسجد اقصیٰ میں درس فرماتے ہیں.‘ ۲۱۸
۲۵۰ 66 بلند پایہ کے باعث آپ کی مخصوص تغییر بابت آیت وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَا ذُرَأْتُمْ فِيْهَا اس میں رقم کی گئی ہے.به حاشیه - (۲) مسجد اقصی میں مولانا مولوی سرورشاہ صاحب روزانہ درس قرآن دیتے ہیں.۲۱۹ (۳) حسب الارشاد حضرت خلیفتہ اسیح ثانی...بعد نماز عصر جناب مولوی سید سرور شاہ صاحب درس قرآن کریم دیتے ہیں.۲۲۰ (۴) تا (۶) قرآن کریم کا باقاعدہ درس حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب مد فیوضہ دے رہے ہیں رمضان میں نصف پارہ روزانہ آپ سنائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کی رُوح القدس سے مدد کرے.یہ درس ظہر اور عصر کے درمیان.....جاری ہے.۲۲۱ الفضل ۱۸-۰۶-۱ا زیر مدینۃ اسیح ذکر ہے کہ حضرت مولوی صاحب درس دیں گے.بیرونجات کے احباب ضرور شامل ہونے کی کوشش کریں.اور مورخہ ۱۸-۰۶-۱۵ زیر مدینہ اسیح “ آپ کے درس کے 66 شروع ہونے اور مورخہ ۱۸ - ۰۷-۲۷ زیر مدینہ اسی ، درس قرآن کے با قاعدہ ہونے کا ذکر ہے.(۷) درس القرآن از افادات حضرت مولانا محمد سرور شاہ صاحب زاد اللہ مجدہ کے کچھ نوٹ بطور نمونہ ہدیہء ناظرین کئے جاتے ہیں تا احباب اس مائدہ روحانی سے بہرہ ور ہوکر شاد کام ہوں.‘ ۲۲۲ (۸) مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب روزانہ قرآنِ پاک کا درس دیتے ہیں اور حاضرین سے مسجد اقصیٰ کا وسیع صحن پُر ہوتا ہے.اللهم زد فزد ۲۲۳ (۹) آپ کے رمضان شریف کے درس میں سے ” معارف قرآن.۲۲۴ (۱۰) مسجد اقصیٰ میں با قاعدہ صبح کے وقت آپ کا درس قرآن کریم دینا.۲۲۵ (۱۱) ۲۰ / اپریل.درس میں حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ نے اعلان فرمایا کہ جب تک حضور علالت کی وجہ سے درس نہ دے سکیں گے اس وقت تک مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب دیا کریں گے.تا کہ درس کا سلسلہ باقاعدہ چلتا ر ہے.۲۲۶ (۱۲) جناب مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے بعد نماز عصر مسجد مبارک میں حدیث کا درس دینا شروع فرمایا.“۲۲۷ (۱۳) مسجد اقصیٰ میں آپ کی طرف سے درس بخاری شریف جاری ہوا.‘ ۲۲۸ (۱۴ تا ۱۸) رمضان ۱۹۲۹ء کے متعلق مرقوم ہے:.” جناب مولا نا مولوی محمد سرور شاہ صاحب کو خدا تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائے کہ اس پیرانہ سالی میں آپ نے ماہ رمضان میں سارے قرآن کریم کا درس ختم کیا اور کلام الہی کے عاشقوں کے لئے روحانی مائدہ مہیا فرمایا “ ( حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آخری سورۃ کا درس دے کر لمبی دعا فرمائی.( الفضل ۲۹-۰۳-۹ازير مدينة أمسیح ،، اسی عنوان کے تحت ۲۹-۰۳-۱۵، ۲۹-۰۲-۱۹ ،۲۹-۰۳-۰۱ کے پرچوں میں آپ کے درس کا ذکر ہے.66
۲۵۱ فیصلہ نمبر ۱۰ غیر معمولی مورخہ ۲۲-۴-۱۱ کے ذریعہ صدر انجمن نے حضرت مولوی صاحب کو ریویو آف ریجنز (اردو) کے ساتھ بطور ضمیمہ تفسیر القرآن شائع کرنے کی منظوری دی تھی لیکن غالباً یہ شائع نہیں ہوسکی.مخزنِ معارف“ کی تالیف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے تفسیری نوٹوں کے علاوہ حضرت مولوی صاحب کی تفسیر سروری سے بھی استفادہ کیا گیا ہے.☆ اللہ تعالیٰ اخویم پیر معین الدین صاحب کی مساعی کو مشکور و مقبول فرمائے کہ انہوں نے ” مخزنِ معارف“ کا مبارک سلسلہ شروع کیا ہے.۱۹۶۲ء میں پہلے پانچ پاروں کی تفسیر انہوں نے شائع کی ہے.اس میں آیت مذکورہ متن کی دونوں تفاسیر درج کی ہیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ والی بھی اور مولوی صاحب والی بھی.خود حضور نے اس تفسیر کا ذکر تفسیر کبیر میں کیا ہے جہاں سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو اپنی تفسیر زیادہ پسند ہے لیکن تفسیر صغیر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہی مولوی صاحب والی تفسیر ہی درج فرمائی ہے.دراصل قرآن مجید کے کئی بطن ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو کبھی کوئی تفسیر زیادہ پسند ہوتی رہی اور کبھی کوئی.بقیه حاشیه - (۱۹) تا (۲۱) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شملہ جاتے ہوئے مولوی شیر علی صاحب کو مقامی امیر اور مولوی محمد سرور شاہ صاحب کو درس قرآن کے لئے مقرر فرمایا.یہ ذکر کہ حضور کے ارشاد پر بعد عصر درس دیا کریں گے.(الفضل ۳۰-۰۸-۲۶) آپ کا درس دینا.(۳۱-۰۴-۱۱) پرسه زیر مدینه ای ، (۲۳-۲۲) مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب رمضان المبارک میں قرآن کریم کا جو درس دے رہے تھے وہ بفضل خدا ۲۸ / رمضان المبارک کو ختم ہوا.بعد نماز عصر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ میں اس مقام پر کھڑے ہو کر جہان مولانا موصوف درس دیتے دیتے رہے معوذتین کی ایک گھنٹہ کے قریب تفسیر فرمائی تقریر کے بعد حضور نے محراب مسجد میں قبلہ رو بیٹھ کر دعا شروع فرمائی “ الفضل ۳۰-۰۳-۱۷.زیر مدینہ اسی.پرچہ جات مورخه ۳۰-۰۲-۳۰٬۰۴-۰۲-۳۰۱۸-۰۲ - ۲۸ میں بھی آپ کے درس کا ذکر ہے اور ر پورٹ مشاورت بابت ۱۹۳۰ء ص ۲۳۳ میں بھی.(۲۴) ۱۹۳۱ء کے رمضان مبارک میں آپ نے چھ پاروں کا درس دیا.الفضل ۳۱ -۰۱-۲۹.اس بارہ میں 66 66 66 انتظام کا ذکر ا۳ -۰۱-۲۴.زیر مدینہ اسی “.(۲۵) ۱۹۳۳ء میں آپ سمیت تین علماء رمضان شریف میں درس قرآن کے لئے مقرر ہوئے تھے اور لکھا ہے:- حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ابتدائی پاروں کا درس دے رہے ہیں جو روزانہ ظہر سے مغرب 66 تک مسجد اقصیٰ میں ہوتا ہے.‘ ۲۲۹ (۲۶) حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے آج صبح کی نماز کے بعد سے مسجد مبارک میں حدیث کا درس دینا شروع کیا ہے.۲۳۰
۲۵۲ ۱ تائید ونصرت خلافت اور آپ کا مقام اطاعت * ایام خلافت اولیٰ کے اواخر میں خلافت کے متعلق ایک طبقہ نے خیالات فاسدہ کی اشاعت کا آغا ز کیا.حضرت خلیفہ اسی اول نے پورے زور سے ان کے ابطال و تردید کی کوشش فرمائی.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اس جہاد میں شرکت کرنے والوں میں صف اول میں تھے.آپ کا مقام اطاعت بہت ارفع واعلیٰ تھا.اور آپ کو ہونے والے دوسرے خلیفہ کے متعلق بصیرت حاصل تھی.آپ بیان کرتے ہیں :- میں نے معلوم کر لیا تھا جب کہ لاہوری دوست جدا نہ ہوئے تھے کہ ہم میں کیا ہو گا.میرٹھ میں ہم لوگ گئے.خواجہ ( کمال الدین ) صاحب بھی ساتھ تھے.ان کی لیکچر کی تعریف ہوئی.انہوں نے کہا اب کسی کے لیکچر کی ضرورت نہیں کہ اب پہلا اثر بھی زائل نہ ہو جائے کیونکہ یہ لوگ غیروں سے ملنے کے خواہشمند تھے.اپنے اندر ان کو جذب کرنے کے متمنی نہ تھے.“ ۲۳۱ بعد میں خلافت سے منقطع ہونے والوں کی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کیسی تھی ، ذیل کے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے رقم فرماتے ہیں:.الوصیت حضرت اقدس نے ارقام فرمائی.مسودہ خواجہ صاحب اور مولوی وو صاحب دونوں کو پڑھنے اور قانونی نگاہ سے غور کرنے کو دیا.شیخ رحمت اللہ صاحب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ہمارے محترم حضرت مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اسی حجرہ میں جمع تھے.مسودہ پڑھا گیا اور سبھی نے سن لیا اور پھر اپنے مشاغل میں مصروف ہو گئے.خواجہ صاحب نے اس کو پھر پڑھا اور غور کیا.بار بار پڑھا اور گہری سوچ بچار کے بعد بول اُٹھے.” واہ اوہ مر زیا “ مولوی محمد علی صاحب کچھ لکھنے میں مصروف تھے وہ لکھتے اور اپنے کام میں لگے رہے.خواجہ صاحب سے نہ رہا گیا اور پھر بولے کہ :- خلافت کے تعلق میں اس عنوان کے تحت متعدد حصوں میں ایک بیان درج کر رہا ہوں جو آپ نے ملاحظہ فرمالیا تھا.ہر ایسے حصہ کے آخر پر میں نے م درج کر دیا ہے تا کہ تخصیص ہو سکے.اس عنوان کی تعمیل مطبوعہ حوالجات سے کر لی ہے.
۲۵۳ " مجھے سمجھ آگئی ہے اور ان کو ( مولوی محمد علی صاحب کو ) نہیں آئی.مرزا صاحب نے تمہاری سلطنت قائم کر دی نہ صرف ملکانہ بلکہ مالکانہ حقوق و اختیارات قائم کر دئیے ہیں اب اس سے فائدہ اٹھانا آپ کی عقلمندی اور حسن تدبیر پر منحصر ہے مرزا صاحب نے اپنا کام کر دیا.اب یہ آپ کا کام ہے کہ اس کو ورثہ وگڑی نہ بننے دیں اور کما حقہ فائدہ حاصل کریں.“ ۲۳۲ گویا ۱۹۰۵ء میں حضور کے وصال سے تین سال قبل یہ افراد حکومت اور اختیار و اقتدار کے خواب دیکھ رہے تھے اور یہ بھی سمجھتے تھے کہ حضور کی اولاد میں سے کوئی جانشین ہو گا اور یہ پس منظر یقیناً پیشگوئیوں کی وجہ سے تھا لیکن ادھر سے ان کے قلوب حسد و بغض کے باعث دوسری طرف منعطف ہو کر کچھ اور ہی سوچنے لگے تھے.بلکہ یہ لوگ حضور پر نکتہ چینی بھی کرتے تھے اور حضور ان سے آزردہ تھے.چنانچہ حضرت اقدس خود رقم فرماتے ہیں کہ فلاں شخص نے مجھے لکھا ہے کہ کئی قسم کا اسراف ہوتا ہے اس لئے فلاں جماعت یہ چاہتی ہے کہ حضور رو پید اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ ایک کمیٹی کے سپر د ہو جو اسے حسب ضرورت خرچ کرے.حضور فرماتے ہیں کہ میں اللہ تعالی کی قسم دیتا ہوں جس کا پورا کرنا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں کا چندہ بکلی بند کرتے ہیں اور فرمایا :- ان پر حرام ہے اور قطعا حرام ہے اور مثل گوشت خنزیر ہے کہ ہمارے سلسلہ کی مدد کے لئے اپنی تمام زندگی تک ایک جبہ بھی بھیجیں.جو شخص مدد دے کر مجھے اسراف کا طعنہ دیتا ہے وہ میرے پر حملہ کرتا ہے ایسا حملہ قابل برداشت نہیں....ایسا اعتراض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی تقسیم اموال غنیمت کے وقت کیا گیا تھا.‘ ۲۳۳ اس تحریر کی کسوٹی پر ہم ان لوگوں کو بآسانی پر کھ سکتے ہیں.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اپنے رسالہ ”کشف الاختلاف میں مولوی محمد علی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ گجرات سے موضع کڑیانوالہ کو جاتے اور واپس آتے ٹانگہ کے بتیس چھتیں میل کے سفر بھر میں خواجہ کمال الدین صاحب نے آپ کو مخاطب کر کے میری موجودگی میں حضرت اقدس پر مالی اعتراضات کرتے ہوئے کہا : - پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر کہ انبیاء اور صحابہ والی زندگی اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم اور خشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اللہ کی راہ میں دیا کرتے تھے.اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے.غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچاتے تھے اور پھر وہ قادیان بھیجتے تھے.لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آ کر ہماے سر چڑھ گئیں کہ تم بڑے جھوٹے ہو.ہم نے تو
۲۵۴ قادیان میں جا کر خود انبیاء اور صحابہ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے.جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے اس کا تو عشر عشیر بھی باہر نہیں.حالانکہ ہمارا رو پیدا پنا کمایا ہوا ہوتا ہے اور ان کے پاس جور و پیہ جاتا ہے وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے.لہذا تم جھوٹے ہو جو جھوٹ بول کر اس عرصہء دراز تک ہمیں دھوکہ دیتے رہے ہو اور آئندہ ہم ہر گز تمہارے جھوٹ میں نہ آویں گی.پس اب وہ ہم کو روپیہ نہیں دیتیں کہ ہم قادیان بھیجیں.اس پر خواجہ صاحب نے خود ہی فرمایا تھا کہ ایک جواب تم لوگوں کو دیا کرتے ہو.پر تمہارا وہ جواب میرے آگے نہیں چل سکتا.کیونکہ میں خود واقف ہوں اور پھر بعض زیورات اور بعض کپڑوں کی خرید کا مفصل ذکر کیا اور مجھے خوب یاد ہے کہ اس طویل سفر میں آتے اور جاتے ہوئے ان اعتراضات کے باعث مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ غضب خدا نازل ہو رہا ہے اور میں متواتر دعا میں مشغول تھا....”جناب کو یاد ہو گا جب میں نے جناب کو کہا تھا کہ آج مجھے پختہ ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام نے گھر میں بہت اظہار رنج فرمایا ہے کہ باوجود میرے بتانے کے کہ خدا کا منشاء یہی ہے کہ میرے وقت میں لنگر کا انتظام میرے ہی ہاتھ میں رہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو لنگر بند ہو جاوے گا.مگر یہ (خواجہ وغیرہ) ایسے ہیں کہ بار بار مجھے کہتے ہیں کہ لنگر کا انتظام ہمارے سپرد کر دو اور مجھ پر بدظنی کرتے ہیں.“ ۲۳۴ اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدس کا وصال ہوا.پہلے تو یہ لوگ حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خلافت پر متفق تھے.چنانچہ محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی تحریر فرماتے ہیں :- ”حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اکثر بیان فرمایا کرتے ہیں کہ حضور پر نور کے وصال کے بعد جب دوسرے روز صبح ۲۷ رمئی کو خواجہ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحبان وغیرہ قادیان آئے.سخت گرمی کے دن تھے.ان کی خدمت ، تواضع اور ناشتہ پانی وغیرہ کا کام میرے ذمہ لگایا گیا.چنانچہ میں مناسب طریق پر کہہ سن کر ان سب کو باغ سے شہر میں لے آیا.حضرت نواب صاحب کے مکان کے نچلے حصہ کے جنوب مغربی خام دلان میں بٹھایا.....اس موقع پر خواجہ کمال الدین صاحب نے کھڑے ہو کر نہایت ہی پُر سوز تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ
۲۵۵ خدا کی طرف سے ایک انسان منادی بن کر آیا جس نے لوگوں کو خدا کے نام پر بلایا.ہم نے اس کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے گرد جمع ہو گئے.مگر اب وہ ہم کو چھوڑ کر اپنے خدا کے پاس چلا گیا ہے.سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ خواجہ صاحب کا انداز بیان طریق خطاب اور تقریر کچھ ایسا درد بھرا ، رقت آمیز اور زہرہ گداز تھا کہ ساری اس پر ایک سناٹا چھا گیا.سکتہ کا عالم اور خاموشی طاری ہوگئی.آخر شیخ رحمت اللہ صاحب نے سکوت کو توڑا اور کھڑے ہو ( کر ) ٹھیٹھ پنجابی زبان میں جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ مطلب اردو میں یہ ہے کہ ” میں نے قادیان آتے ہوئے راستہ میں بھی بار بار یہی کہا ہے اور اب بھی اسی کو دُہراتا ہوں کہ اس بڑھے کو آگے کرو.اس کے سوا یہ جماعت قائم نہ رہ سکے گی.“ شیخ صاحب کے اس بیان پر خاموش رہ کر گویا سبھی نے مہر تصدیق ثبت کی اور سر تسلیم خم کر دیا کسی نے اعتراض کیا نہ انکار.اس اتفاق کے بعد انہی اصحاب نے مع دیگر اکابر صحابہ و بزرگان جناب سید نا نورالدین اعظم رضی اللہ عنہ کے حضور درخواست کی.جو باغ سے شہر تشریف لائے ہوئے تھے.مگر حضرت ممدوح نے کچھ سوچ اور تر ڈد کے بعد فرمایا کہ میں دعا کے بعد جواب دوں گا.چنانچہ وہیں پانی منگایا گیا.حضرت نے وضو کر کے دو نفل نماز ادا کی اور دعاؤں کے بعد فارغ ہو کر فرمایا.چلو ہم سب وہیں چلیں جہاں ہمارے آقا کا جسد اطہر اور ہمارے بھائی انتظار میں ہیں.چنانچہ یہ مجلس برخاست ہو کر پھر باغ پہنچی جہاں امر خلافت کے متعلق موجودہ جماعت کے تمام مردوں اور عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے انشراح بخش کر خلافت حلقہ پر متفق و متحد کر کے سلک وحدت میں پرو دیا.۲۳۵ وہی افراد جو حضور کے وصال پر حضرت مولوی نور الدین صاحب کے خلیفہ منتخب کئے جانے سے متفق تھے.چونکہ دیر سے ان کے قلوب میں مرض تھا.چھٹے روز ہی وہ اس پر پشیمان نظر آنے لگے.حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب اس روز کے متعلق بیان کرتے ہیں :- ” ہمارے کرتے دھر تے اور اصحاب حل و عقد پھر قادیان تشریف لائے شہر سے سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کو اور مولوی محمد علی صاحب اور بعض اور ہم خیال آدمیوں کو انہوں نے ساتھ لیا اور مزار سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جا کر دعا کی کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد شہر کو لوٹے.مگر باغ کے شمال مشرقی کونہ پر پہنچ کر خواجہ صاحب نے مغربی جانب رخ کر لیا اور ادھر ادھر ٹہلنے لگے ٹہلتے ٹہلتے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو مخاطب کر کے بولے :-
۲۵۶ وو میاں ! ہم سے ایک غلطی ہو گئی ہے جس کا تدارک اب سوائے اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم کسی ڈھنگ سے خلیفہ کے اختیارات کو محدود کر دیں.وہ بیعت لے لیا کریں.نماز پڑھا دیا کریں.خطبہ نکاح پڑھ کر ایجاب و قبول اور اعلان نکاح فرما دیا کریں.یا جنازہ پڑھ دیا کریں وبس.“ خواجہ صاحب کی بات حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے سنی اور جواب میں فرمایا :- خواجہ صاحب ! ہم کون ہیں جو خلیفہ کے اختیارات کو تقسیم کریں.خلیفہ بن جانے کے بعد وہ حاکم ہیں نہ کہ ہم.ان باتوں کا وقت وہ تھا جب آپ لوگ میرے پاس آئے تھے اور خلافت کے متعلق مجھ سے مشورہ طلب کیا تھا.آپ کو یا د ہوگا میں نے آپ سے کہا تھا کہ اول تو میری عمر ہی ایسے اہم امور میں کوئی مشورہ دینے کے لائق نہیں.دوسرے میرا دماغ بھی اس صدمہ عظیمہ کی وجہ سے کام نہیں کرتا.مگر باوجود اس کے میں اتنا کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے کیونکہ جب بیعت کر لی اور ہم بک گئے تو پھر سوائے اس کے کہ ہم ہر رنگ میں ان کی اطاعت کریں چارہ نہ ہوگا.مگر آپ لوگوں نے اس وقت اس بات پر اصرار کیا کہ خلیفہ ضرور ہونا چاہیئے.خلیفہ کے بغیر جماعت کا شیرازہ قائم نہ رہ سکے گا.آخر اس پر اتفاق ہو گیا اور ہم سب نے برضاء ورغبت ایک شخص کی بیعت کرلی اور اس کے ہاتھ پر پک چکے تو اب ہم کون ہیں جو اس کے اختیارات میں دخل دیں.یا ان کو محدود کریں؟ یہ جواب حضرت فضل عمر کا خواجہ صاحب نے سُنا اور خاموش رہ گئے.انہوں نے کسی امید پر بات بڑی حکمت اور موقع شناسی سے شروع کی تھی.مگر حضرت محمود کے جواب نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ان کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں اور آخر وہ چہل قدمی بھول کر ساتھیوں سمیت شہر میں آگئے.سید نا محمود الدار میں تشریف لے گئے اور خواجہ صاحب وغیرہ اصحاب مولوی محمد علی صاحب والے کمرہ مسجد میں داخل ہوئے تو خواجہ صاحب مولوی محمد علی صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے :- ”مولوی صاحب ! میاں سے تو نامید ہو جاؤ.وہ تو اب ہمارے ہاتھ سے گیا.یہ صلاح ٹھہری کہ خواجہ صاحب جماعتوں کا دورہ کریں اور مولوی صدرالدین صاحب قادیان کے لوگوں میں اپنے خیالات پھیلائیں اور جماعت کے خاص خاص نمائندوں کو بلا کر ایک دعوت دے کر ان پر اثر ڈالا جائے.خواجہ صاحب اور مولوی صدر الدین صاحب نے اپنا اپنا کام شروع کیا اور ۱۹۰۸ء کے جلسہ سالانہ پر بھی اپنی تقریروں میں انہی خیالات کا اظہار کیا.۲۳۶ الحکم جو بلی نمبر ص ۲۶.اس کا ذکر آئینہ صداقت، ص ۱۲۷.۱۲۸ میں حضور ایدہ اللہ نے کیا ہے.
۲۵۷ فتنہ کے متعلق حضرت میاں صاحب کی رؤیا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی رقم فرماتے ہیں:.میں نے دیکھا کہ ایک مکان ہے.اس کے دو حصے ہیں.ایک حصہ تو مکمل ہے اور دوسرا نامکمل.نامکمل حصہ پر چھت پڑ رہی ہے.کڑیاں رکھی جا چکی ہیں.مگر و پر تختیاں نہیں رکھی گئیں اور نہ مٹی ڈالی گئی ہے ان کڑیوں پر کچھ بھو سا پڑا ہے اور اس کے پاس میر محمد الحق صاحب...کھڑے ہیں.میر محمد الحق صاحب کے ہاتھ میں دیا سلائی کی ایک ڈبیہ ہے اور وہ اس میں سے دیا سلائی نکال کر اس بھوسے کو جلانا چاہتے ہیں.میں نے ان سے کہا کہ آخر یہ بھوسا جلایا تو جائے گا ہی مگر ابھی وقت نہیں.ابھی نہ جلائیں.ایسانہ ہو بعض کڑیاں بھی ساتھ ہی جل جاویں.اس پر وہ اس ارادہ سے باز رہے اور میں اس جگہ سے دوسری طرف چل پڑا.تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ مجھے کچھ شور معلوم ہوا.مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر صاحب بے تحاشہ دیا سلائیاں نکال کر جلاتے ہیں اور اس بھوسے کو جلانا چاہتے ہیں.ایک دیا سلائی جل گئی اور اس سے انہوں نے بھو سا کو آگ لگا دی.میں دوڑ کر آگ میں کود پڑا اور آگ کو بجھا دیا.مگر اس عرصہ میں کہ اس کے بجھانے میں کامیاب ہوتا چند کڑیوں کے سرے جل گئے.میں نے یہ رویا مگر می مولوی سید سرور شاہ صاحب سے بیان کی.انہوں نے مسکرا کر کہا کہ مبارک ہو کہ یہ خواب پوری ہوگئی ہے.کچھ واقعہ انہوں نے بتایا.مگر یا تو پوری طرح ان کو معلوم نہ تھایا وہ اس وقت بتا نہ سکے.میں نے پھر یہ رویا لکھ کر حضرت خلیفتہ ایسے" کی خدمت میں پیش کی.آپ نے اسے پڑھ کر ایک رقعہ پر لکھ کر مجھے جواب دیا کہ خواب پوری ہو گئی.میر محمد الحق صاحب نے چندسوال لکھ کر دیے ہیں.جن سے خطرہ ہے کہ شور نہ پڑے اور بعض لوگ فتنہ میں پڑ جا ئیں ہیں آئینه صداقت ص ۱۲۹-۱۳۰.مولوی سرور شاہ صاحب نے بھی میر محمد الحق صاحب والے اعتراضات کا ذکر کر کے بتایا تھا کہ میرے نزدیک یہی وہ آگ ہے جس کے نتیجہ میں بعض شہتیروں کا جل جانا لازمی ہے.اس بیان سے حضرت میاں صاحب کو سخت صدمہ ہوا جس کی وجہ سے آپ نے کتاب جو پڑھنے کے لئے کھولی ہوئی تھی بند کر دی اور کچھ نہ پڑھا.(بیان مولوی صاحب روایت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مندرجہ الحکم جو بلی نمبر ص ۲۹ ،۳۰) حضرت مولوی صاحب بتاتے تھے کہ حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ کی طرف کے بالا خانہ میں حضور نے یہ رویا سنا یا تھا.جب کہ میں حسب معمول صبح پڑھانے گیا تھا.اس وقت اس بالا خانہ کو باہر کی طرف سے سیڑھیاں چڑھتی تھیں.
۲۵۸ ان لوگوں کی از سرنو بیعت لیکن پھر بھی مخالفت پر قائم رہنا ان لوگوں کے پیدا کر دہ سوال کہ انجمن حاکم ہے یا خلیفہ کی وجہ سے ہی حضرت میر محمد اطلق صاحب نے اس مسئلہ کے متعلق کچھ سوالات حضرت خلیفہ اسیح اول کی خدمت میں لکھ کر پیش کئے تھے.حضور نے مولوی محمد علی صاحب کو یہ سوالات دیئے.انہوں نے جو جواب دیا اس سے حضور بہت حیران ہوئے.انہوں نے لکھا کہ خلیفہ کا کام سوائے بیعت لینے کے اور کچھ نہیں اور حضور نے قادیان اور باہر کے احباب کو جواب کے لئے یہی سوال بھجوائے.لاہور کے اکثر احباب نے اس بات کی تائید میں دستخط کئے کہ انجمن حاکم ہے اس کا علم ہونے پر قادیان کے بعض دوست شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے مکان پر جمع ہوئے.بیالیس میں سے چالیس نے خلیفہ کے حاکم ہونے کی تائید کی اور دو نے مخالفت.۳۱ / جنوری ۱۹۰۹ ء اس فیصلہ کے لئے مقرر ہوئی.خواجہ صاحب کے ہمنوا بھی کثرت سے آئے.باہر کے دوستوں کو ان لوگوں کی طرف سے یہ سمجھایا گیا تھا کہ اگر اس وقت تمہارا قدم پھسلا تو جماعت تباہ ہو جائے گی.اس لئے لوگوں میں بہت جوش تھا.حتی کہ بعض لوگ اس امر پر آمادہ تھے کہ حضرت خلیفہ اول نے خلاف فیصلہ کیا تو انہیں معزول کر دیا جائے گا.صبح کی نماز حضور نے پڑھائی.جوان تاثرات کی وجہ سے سوز و گداز سے پر تھی.بالخصوص جب آپ نے سورۃ البروج تلاوت کی اور آیت اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤ مِنتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ بقیہ حاشیہ مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ فاضل امیر مقامی قادیان نے خاکسار کے استفسار پر بتایا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے مردانہ حصہ کے نچلے صحن سے او پر مردانہ حصہ کی چھت تک جانے کے لئے چوبی زینہ تھا اور چھت پر پھر چوبی زینہ تھا.جس سے دار ا مسیح کے حصہ بیت العافیت“ کے نیچے واقع کمرہ میں جو حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کا سامان کا کمرہ تھا.داخل ہوتے تھے.یہ کمرہ خلافت ثانیہ کے آغاز میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دفتری کام کرنے کا کمرہ تھا اور ڈاک آنے پر حضور کی خدمت میں یہاں پیش کی جاتی تھی اور ہم بھی دوڑ کر آ جاتے تھے.نا معلوم کریں کن لوگوں نے خلافت کی بیعت کی ہے.مکرم صاحبزادہ مرز وسیم احمد صاحب بتلاتے ہیں کہ اسی کمرہ میں میری والدہ ماجدہ (حضرت سیدہ ام وسیم احمد صاحب) کو.کے وقت رکھا گیا تھا.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ اس کمرہ کا در جو بند کیا جا چکا ہے اب بھی دیوار میں نظر آتا ہے.اس کے متعلق خاکسار نے اصحاب احمد جلد اول میں حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی کے سوانح میں حاشیہ میں ذکر کیا تھا لیکن کتابت میں وہ حاشیہ نامکمل رہ گیا.
۲۵۹ تین بارڈ ہرائی تو آہ و بکا اور چیخ و پکار سے گہرام برپا ہو گیا اور تمام نیک لوگوں کے دل رحمت الہی کے نزول سے دھل گئے ان لوگوں کی حالت قابل ملاحظہ ہے کہ نماز کے بعد حضور گھر چلے گئے.تو خواجہ کمال الدین صاحب نے حضور کی خدمت میں یہ بات پہنچائی کہ حضور کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں.سب لوگ سمجھ گئے ہیں کہ انجمن حاکم ہے.حضور مسجد مبارک کی سقف پر تشریف لائے اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی کوٹھڑی کی دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں تمہاری بنائی ہوئی مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہوتا.تقریر کے بعد مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کی دوبارہ بیعت لی اور توبہ کرائی جسے یہ لوگ اپنی ذلت کو مٹانے کے لئے بیعت ارشاد قرار دیتے ہیں.بیعت کر کے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے مولوی محمد علی صاحب نے خواجہ صاحب سے کہا کہ آپ نے یہ ذلت کروائی ہے.اب میں یہاں نہیں رہ سکتا.باہر جا کر کسی جگہ گمنامی میں زندگی کے دن گزاروں گا.خواجہ صاحب کئی روز تک قادیان میں ٹھہرے رہے اور اپنے ساتھی کو سمجھا بجھا کر قادیان نہ چھوڑنے پر آمادہ کر لیا.حضرت خلیفہ اول جیسے شفیق نے ان لوگوں کی اصلاح کی خاطر حکم دیا کہ ان باتوں کا اخبار میں ذکر نہ کیا جائے اور متعلقہ کا غذات جلا دئیے جائیں.(م) مولوی محمد علی صاحب کو جواب دیتے ہوئے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا تھا کہ انجمن بطور مشیر کے ہوسکتی ہے نہ کہ خلیفہ پر حاکم اور وَشَاوِرُ هُمْ فِي الْأَمْرِ ۚ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ کی رو سے انجمن کا فیصلہ رد ہوسکتا ہے.ان دنوں لڑکی کی خلافت کی بات بھی چل رہی تھی.مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ میں سلسلہ احمدیہ کے متعلق دریافت کر رہا ہوں نہ کہ لڑکی کے متعلق.تو حضور نے فرمایا کہ لڑکی ہو یا غیر ٹر کی.جو قرآن مجید کے خلاف کرے گا تباہ ہو گا.مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ یورپ کی ترقی یافتہ اقوام اس نظریہ کو قبول نہیں کریں گی.تو حضور نے فرمایا کہ یورپ نہیں مانے گا تو اللہ تعالیٰ خود منوا لے گا.جس ذات نے ایسا حکم دیا ہے اسے اس کو منوانے کی طاقت بھی ہے.(م) حویلی کا واقع مشہور ہے کہ حکیم فضل الدین صاحب نے ایک حویلی کسی تنگدست ہندو سے ستے داموں سے خرید لی تھی.حکیم صاحب نے اسے وصیت میں دے دیا.اس ہندو نے یہ بات حضرت خلیفہ اسی اول کی خدمت میں عرض کی اور چاہا کہ رعایت کے ساتھ اسے واپس دے دی جائے.حضور نے فرمایا کہ اس پر ظلم ہوا تھا رعایت کے ساتھ اسے واپس دے دی جائے.لیکن وہ انجمن جو حضور کی اطاعت اور احکام کی تعمیل کا وعدہ کر چکی تھی باوجود حکم کے تعمیل کرنے سے رکی رہی اور اپنے تئیں زیادہ دیانتدار اور تقولی شعار بجھتی تھی اور کہتی تھی کہ الحکم جوبلی نمبر ۲۹-۳۰ میں بھی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کی طرف سے نیز آئینہ صداقت ۱۳۰ تا ۱۳۷ میں اس کا ذکر ہے.
۲۶۰ وہ سلسلہ کا مال ضائع نہیں کر سکتی.ان لوگوں کے اخراج کے لئے عید کا دن مقرر ہوا.(م) ستمبر ۱۹۰۹ء میں اس مکان کے تعلق میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کو تحریر کیا : - خلیفہ صاحب کا تلون طبع بہت بڑھ گیا ہے اور عنقریب ایک نوٹس شائع کرنے والے ہیں جس سے اندیشہ بہت بڑے ابتلاء کا ہے.ذرہ بھر بھی مخالف خلیفہ کی رائے سے ہو تو برافروختہ ہو جاتے ہیں.ان کا منشاء یہ ہے کہ انجمن کا لعدم ہو جائے اور ان کی رائے سے ادنی تخالف نہ ہو مگر یہ وصیت کا منشاء نہیں.“ اکتوبر ۱۹۰۹ ء میں ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب نے میر صاحب موصوف کی خدمت میں تحریر کیا : - وہ باغ جو حضرت اقدس نے اپنے خون کا پانی دے دے کر کھڑا کیا تھا ابھی سنبھلنے ہی نہ پایا تھا کہ باد خزاں اس کو گرایا چاہتی ہے.حضرت مولوی صاحب (خلیفہ اول.ناقل ) کی طبیعت میں ضد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دوسرے کی سن ہی نہیں سکتے.وصیت کو پس پشت ڈال کر خدا کے فرستادہ کے کلام کی بے پروائی کرتے ہوئے شخصی و جاہت اور حکومت ہی پیش نظر ہے.سلسلہ تباہ ہو تو ہومگر اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات نہ ملے پر نہ لے...حضرت مرزا صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کے مرتے ہی سب نے آپ کے احسانات کو بھلا.آپ کے رتبہ کو بھلا آپ کی وصیت کو بھلا دیا اور پیر پرستی جس کی بنیاد ا کھاڑنے کے لئے یہ سلسلہ اللہ نے مقر رکیا تھا قائم ہو رہی ہے.کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ بھائی یہ وصیت بھی کوئی چیز ہے یا نہیں؟ یہ تو اللہ کی وحی کے ماتحت لکھی گئی تھی کیا یہ پھینک دینے کے لئے تھی؟ اگر پوچھا جاتا ہے تو ارتداد کی دھمکی ملتی ہے.مولوی صاحب فرماتا ہے کہ بمب کا گولہ دس دن تک چھوٹنے کو ہے جو کہ سلسلہ کو تباہ و چکنا چور کر دے گا.تکبر اور نخوت کی کوئی حد ہوتی ہے.نیک ظنی ، نیک ظنی کی تعلیم دیتے دیتے بدظنی کی کوئی انتہاء نظر نہیں آتی.ایک شیعہ کی وجہ سے سلسلہ کی تباہی.“ ۲۳۷ خواجہ صاحب کو کشمیر میں اس امر کا علم ہوا.انہوں نے حضور کے رحم کے جذبات کو ابھارا اور اسی طرح میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے ان لوگوں کی طرف سے رحم کی درخواست کی اور حضور جو کہ ان لوگوں کی ٹھوکر کا موجب بنے سے بچتے تھے آپ نے ان کا معافی نامہ منظور کر لیا لیکن ان لوگوں کے دلوں میں جذبہء بغاوت نیز جذبہء عداوت حضرت میاں محمود احمد صاحب دن بدن زور پکڑ رہا تھا.مدرسہ احمدیہ کی ایک میٹنگ میں خواجہ صاحب نے یہاں تک کہدیا کہ ہم نے غلطی کی کہ آپ کو میاں میاں کہہ کر سر پر چڑھالیا.ہم آپ کو میاں کہہ کر پکارنا چھوڑ دیں گے.پھر دیکھیں گے کون آپ کی عزت کرتا ہے.ان لوگوں کا طریق یہ تھا کہ اگر حضرت میاں صاحب سلسلہ کا کوئی کام کرتے تو کہا جاتا کہ اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں اور اگر علیحدگی اختیار
۲۶۱ کرتے تو کہا جاتا کہ انہیں سلسلہ کا کوئی درد نہیں.(م) ہیں حضرت سید نامحمود ایدہ اللہ تعالیٰ ان معترفین کے جگر دوز اور روح فرسا اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے رقم فرماتے ہیں :- افسوس میں نے اپنے دوستوں سے وہ سُنا جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے نہ سنا تھا.میرا دل حسرت و اندوہ کا مخزن ہے اور حیران ہوں کہ میں کیوں اس قدر مورد عتاب ہوں بے شک وہ بھی ہوتے ہیں جو غم و راحت میں اپنی عمر گزارتے ہیں.مگر یہاں تو.چھاتی قفس میں داغ سے اپنے ہے رشک باغ جوش بہار تھا کہ ہم آئے اسیر ہو اگر میں تبلیغ دین کے لئے باہر نکلتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو پھسلانے کے لئے اپنی شہرت کے لئے.اپنا اثر ورسوخ پیدا کرنے کے لئے اپنی حمایتیں بنانے کے لئے نکلتا ہے اور اس کا باہر نکلنا اپنی نفسانی اغراض کے لئے ہے اور اگر میں اس اعتراض کو دیکھ کر اپنے گھر بیٹھ جاتا ہوں تو یہ الزام دیا جاتا ہے کہ یہ دین کی خدمت میں کوتاہی کرتا ہے اور اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے اور خالی بیٹھا دین کے کاموں میں رخنہ اندازی کرتا ہے.اگر میں کوئی کام اپنے ذمہ لیتا ہوں تو مجھے سنایا جاتا ہے کہ میں حقوق کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہتا ہوں اور قومی کاموں کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہوں اور اگر میں دل شکستہ ہو کر جدائی اختیار کرتا ہوں اور علیحدگی میں اپنی سلامتی دیکھتا ہوں تو یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ یہ قومی درد سے بے خبر ہے اور جماعت کے کاموں میں حصہ لینے کی بجائے اپنے اوقات کو رائیگاں گنواتا ہے.مگر مجھے جاننے والے جانتے ہیں کہ میں عام انسانوں سے زیادہ کام کرتا ہوں.حتی کہ اپنی صحت کا بھی خیال نہیں رکھتا.مگر اسے جانے دو مجھے تم خود ہی بتاؤ کہ وہ کون سا تیسرا راستہ ہے جسے میں اختیار کروں.خدا کے لئے مجھے اس طریق سے آگا ہی دو جس پر ان دونوں راستوں کو چھوڑ کر میں قدم زن ہوں.اللہ مجھے وہ سبیل بتاؤ جسے میں اختیار کروں.آخر میں انسان ہوں.خدا کے پیدا کئے ہوئے دوراستوں کے علاوہ تیسرا راستہ میں کہاں سے لاؤں؟ صبح شام ، رات دن ، اٹھتے بیٹھتے یہ باتیں سن سن کر میں تھک گیا ہوں زمین با وجود فراخی کے مجھ سے تنگ ہو گئی ہے اور آسمان با وجود نعمت کے میرے لئے قید خانہ کا کام دے رہا ہے اور میری وہی حالت ہے کہ ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحْبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمُ اَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَّا مَلْجَامِنَ اللَّهِ إِلَّا الیہ.افسوس کہ میرے بھائی مجھ پر تہمت لگاتے ہیں اور میرے بزرگ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں.لوگ کہتے مدرسہ والی بات کا ذکر بھائی جی نے الحکم جو بلی نمبر میں بھی کیا ہے.ص ۳۱.ک۲.
۲۶۲ ہیں کہ دنیا میں ڈیڑھ ارب آدمی بستا ہے مگر مجھے سوائے خدا کے اور کوئی نظر نہیں آتا.لوگ اس دنیا میں تنہا آتے اور یہاں سے تنہا جاتے ہیں.مگر میں تو تنہا آیا اور تنہا رہا اور تنہا جاؤں گا.یہ زمین میرے لئے ویران جنگل ہے اور یہ بستیاں اور شہر میرے لئے قبرستان کی طرح خموش ہیں.میرے دوست اس وقت مجھے معاف فرما ئیں.میں ان کی محبت کا شکر گزار ہوں لیکن میں کیا کروں کہ جہاں میں ہوں وہاں وہ نہیں ہیں.میں ان مہربانوں کے مقابلہ میں جو مجھے آئے دن ستاتے رہتے ہیں.ان کی محبت کی قدر کرتا ہوں ان کے لئے دعا کرتا ہوں.اپنے رب سے ان پر پر فضل کرنے کی درخواست کرتا ہوں.لیکن باوجود اس کے میں تنہا ہوں میری مثال ایک طوطے کی ہے جس کا آقا اس پر مہربان ہے اور اس سے نہایت محبت کرتا ہے اور طوطا بھی اس کے پیار کے بدلہ میں اس سے انس رکھتا اور اس کو پسند کرتا ہے.مگر پھر بھی اس کا دل کہیں اور ہے اور اس کے خیال کہیں اور ہیں.میرے آقا کا دل بند میرا مطاع امام حسین تو ایک دفعہ کر بلا کے ابتلاء میں مبتلا ہوا لیکن میں تو اپنے والد کی طرح یہی کہتا ہوں کہ کربلا نیست سیر هر آنم صد حسین است در گریبانم ۲۳۸ انجمن انصار اللہ کا قیام اور اس کی نصرت خلافت حضرت خلیفہ اول کے عہد مبارک میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( بعدۂ خلیفہ ثانی) کے ذریعہ ایک انجمن انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا.یوں کہ آپ نے ایک اعلان کیا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک بڑے محل کا ایک حصہ گرایا جارہا ہے اور ساتھ کے میدان میں ہزاروں تھیر سے اینٹیں تیار کر رہے ہیں.میرے پوچھنے پر ان لوگوں نے جنہیں میں فرشتے سمجھتا ہوں بتایا کہ یہ جماعت احمد یہ ہے کہ اس کے ایک حصہ سے پرانی اینٹیں خارج کرنی ہیں اس لئے اسے گرایا جارہا ہے اور کچی اینٹیں پکی کر دی جائیں گی اور مکان کو وسیع کر دیا جائے گا.آپ رقم فرماتے ہیں کہ مجھے اس خواب سے یہ سوجھا کہ اگر ہم ملائکہ کے کام میں مدد دیں کے تو ان سے ہمارا خاص تعلق ہو جائے گا اور ہمارے نفوس کی اصلاح بھی ہو جائے گی اور میرے دل میں ایک یہ تحریک ہوئی کہ ایک انجمن قائم کی جائے جس کے ممبران خصوصاً قرآن و حدیث اور احمدیت کی تبلیغ اور افراد جماعت میں صلح پیدا کرنے کی طرف توجہ رکھیں.گویا دنیوی امور میں مشغولیت کے باوجود بھی اپنے تئیں دین کے لئے وقف کر دیں.مبارک ہے وہ جو اپنے مولا کی راہ میں اپنی خواہشات پر موت وارد کر لیتا ہے.جو اشرف المخلوقات ہو کر
۲۶۳ سگِ دنیا بن کر طمع و حرص کے مردار پر گرتا ہے اسے کف افسوس ملنا پڑے گا.جس مسافر نے دور جانا ہو وہ اپنا بوجھ ہلکا کرتا ہے.عیش و عشرت کے بوجھ جنت کے دروازہ تک پہنچنے سے پہلے مسافر کی ہڈیاں توڑ دیں گے لیکن خدمت دین کی سواری جت بریں کی طرف اڑائے لئے جاتی ہے.کتنے دل ہیں جو اپنے بھائیوں کے لئے غمگین ہیں اور کتنی آنکھیں ہیں جو دنیا کی گمراہی کو دیکھ کر پُر آب ہیں وہاں کتنے جگر دین کی پراگندگی پر چاک چاک ہو رہے ہیں.ہمارے کروڑوں بھائی ضلالت میں ہیں.ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ کو جگانا چاہئے.کام تو اللہ تعالیٰ ہی نے کرنا ہے ہم بھی لہوں گا کر شہیدوں میں شامل ہو جائیں.اگر ہمت کی جائے تو اللہ تعالی مدد کرتا ہے.نیز فرمایا کہ میں بھی حضرت مسیح کی طرح من انصاری الی اللہ کہتا ہوں آپ بھی کمر ہمت باندھ کر میرے ساتھ شامل ہوں اور درگاہ الہی سے انعام پائیں.چونکہ یہ ایک عظیم الشان کام ہے اس لئے میں سات دن کے استخارہ کی پابندی لگاتا ہوں.میں نے بھی اس بارہ میں پہلے نہ صرف خود استخارہ کیا بلکہ کئی ایک صالح دوستوں سے بھی استخارہ کروایا اور کئی ایک کو بشارات ہوئیں اور حضرت خلیفہ اول سے اجازت لی اور انجمن کے قواعد بھی حضور نے منظور فرمائے ہیں.قواعد یہ ہیں کہ ممبران تبلیغ کیا کریں.قرآن مجید اور احادیث کے پڑھنے پڑھانے میں کوشاں رہیں لڑائی جھگڑوں سے بچیں اور احمدی افراد میں صلح و اتحاد کے لئے کوشش کرتے رہیں.ہرقسم کی بدظنیوں سے بچیں.ہر ماہ اپنے کام کی رپورٹ دیں.ممبران آپس میں رشتہء اتحاد پختہ کرنے کی سعی کریں اور اس کے واسطے دعا کریں تھا دو اتحابوا کے مطابق ایک دوسرے کی دعوت کریں اور بوقت مشکلات مدد کریں.آپس میں خصوصاً اور دوسروں سے عموماً ہمدردی کریں تسبیح و تحمید کرتے رہیں ، درود شریف پڑھا کریں.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی مدنظر رکھیں حضرت خلیفہ اول کی فرمانبرداری کریں.نمازیں پابندی اوقات سے ادا کریں، نوافل ، صدقہ اور روزہ کی بھی کوشش کریں.حمید آپ نے ابتدائی آٹھ ممبران ( بشمول مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا اعلان کرتے ہوئے رقم فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول نے اس امر کو اس قدر پسند فرمایا ہے کہ باوجود علالت کے میرا سارا مضمون بدر سے پڑھا اور مجھ سے فرمایا کہ میں بھی آپ کے انصار اللہ میں شامل ہوں.میرے خیال میں ایک پیر اپنے مریدوں کے کسی کام پر اس سے زیادہ پُر مسرت اور پر زور الفاظ میں پسندیدگی کا اظہار نہیں کر سکتا.مجلس انصار اللہ کی مخالفت کی گئی.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک مبسوط مضمون میں بتایا ہے کہ اس مجلس کے نیک مقاصد ہیں.اس کے ارکان کے ذریعہ دو تین صدا فراد احمدیت قبول کر چکے ہیں.ایک رکن ۲۱/۲۸ فروری ۱۹۱۱ء.ان میں پہلا نام مولوی سید سرور شاہ صاحب قادیان ضلع گورداسپور کا ہے.۲۳۹
۲۶۴ ( یعنی حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال) کو انگلستان تبلیغ کے لئے انصار اللہ کے خرچ پر بھیجا گیا ہے.بعض اور کو تبلیغ اور مدرسہ احمدیہ کی ترقی کے لئے مصر بھجوایا جا رہا ہے.چونکہ جماعت میں شور مچانے کی بجائے ہم نے آہستگی سے کام کرنا پسند کیا.غالباً اس لئے یہ شبہ ہوا کہ یہ ایک خفیہ انجمن ہے اور انصار اللہ کو یہ نقصان ہوا کہ عام افراد کی مالی مدد سے محرومی رہی.آئندہ اس کی کارگذاری سے جماعت کو اطلاع دی جایا کرے گی.حضور نے اعتراضات کے جواب دیئے ہیں :- (۱) اعتراض.کیا دوسرے احمدی انصار نہیں کہ صرف ان ارکان کا نام انصار اللہ رکھا گیا.فرمایا.جس کا نام محمد یا احمد رکھا جاتا ہے کیا وہ معاذ اللہ دوسروں کو ابو جہل سمجھتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے رہنے والوں کو انصار کا نام دیا تھا تو کیا بیرونی مسلمان معاذ اللہ اعداء اللہ تھے؟ (۲) اعتراض.یہ انجمن خواجہ کمال الدین صاحب کے بالمقابل کھڑی کی گئی ہے.خواجہ صاحب تبلیغ کر ہی رہے ہیں.فرمایا تبلیغ اسلام فرضِ کفایہ ہے تو خواجہ صاحب پہلے احمدی نہیں جنہوں نے تبلیغ شروع کی.پھر انہوں نے کیوں شروع کی؟ (۳) اعتراض.ایک الگ جماعت قائم کی جارہی ہے.جواب.حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ایک انجمن بنائی تھی.ایسے معترض خدا سے ڈریں اور بدظنی نہ کریں.مبادا اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئے اور ان کو ابتلاء آئے.(۴) اعتراض.اس انجمن سے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ہے.جواب.کیا عقائد یا شریعت میں تبدیلی کی گئی ہے؟ آنحضرت صلعم نے مہاجر و انصار دو جماعتیں بنا ئیں.حضرت خلیفہ اول نے ایک انجمن بارہ افراد کی بنائی ہوئی ہے.دیگر مقامات میں احمدیہ انجمنیں ہیں.کیا یہ سب کچھ تفرقہ کا موجب ہے؟ یہ اختلاف رحمت کا موجب ہوتے ہیں.۲۴۰ ۱۳ - ۱۸-۷ کے جلسہ انصار اللہ میں آپ نے بتایا کہ کس طرح عیسائی مشنری کثیر تعداد میں مصروف ہیں اور قربانی بھی کرتے ہیں.گویا جو ہمت و استقلال کی تعلیم اسلام میں تھی اس پر غیر بھی کار بند ہورہے ہیں.آپ نے بتایا کہ یہ درست نہیں کہ پہلے گھر کی خبر لینی چاہیئے.اس طرح تو قادیان سے باہر تبلیغ نہ ہو سکے گی اور دیگر ممالک محروم رہیں گے.جماعت کو جگانے کے لئے مختلف شہروں میں تقاریر کا سلسلہ جاری کرنے کی ضرورت ہے.رخصت لے کر یا وقت نکال کر مختلف شہروں میں انصار جا کر تبلیغ کریں اور اپنا نیک نمونہ پیش کریں.ٹریکٹ کی برائے نام قیمت رکھی جائے تا مفت لے کر لوگ ضائع نہ کریں قلیل تنخواہ پر واعظ مقررکئے جائیں.جوخصوصاتر بیت کا کام کریں.۲۴۱
۲۶۵ اب ان لوگوں نے خفیہ ریشہ دوانیاں شروع کر دیں.مثلاً اظہار الحق نامی ٹریکٹ لاہور سے گمنام شائع کیا.جس سے خلافت ، وصیت ، ظہور قدرت ثانیہ اور مصلح موعود کے متعلق منافقانہ انداز میں عتراضات اور وسوسہ اندازی کی گئی تھی.انجمن انصار اللہ کے چالیس ارکان کی طرف سے ” خلافت احمدیہ کے نام سے نہایت مسکت جواب دیئے گئے اور خلافت اور انجمن کے تعلق میں بارہ سوالات تجویز کئے گئے تا کہ صدرانجمن احمد یہ کے ارکان جوابات دیں تا یہ امر مشتبہ نہ رہے بلکہ صاف ہو جائے.سوالات کا خلاصہ یہ ہے کہ آیا آپ خلافت کے متعلق اپنے اعلان سے متفق ہیں.حضرت اقدس کی تحریر جو انجمن کے اجتہاد کو کافی قرار دیتی ہے کیا اس کا یہ مفہوم ہے کہ خلیفہ کی بجائے انجمن جماعت کی حاکم اعلیٰ ہے.کیا حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خلافت الوصیة کے مطابق ہے یا مخالف اور صدر انجمن حضور کی بوجہ خلیفہ ہونے کے اطاعت کرتی ہے یا بوجہ بزرگ ہونے کے.کیا گھبرا کر یا مجبوراً آپ نے حضرت مولوی صاحب کی بیعت کی تھی.یا اس خیال سے کہ جماعت بغیر خلیفہ کے قائم نہیں رہ سکتی.کیا انہوں نے خلیفہ بننے کی خواہش کی تھی یا سر کردہ احباب نے اس بارہ میں اصرار کر کے عرض کیا تھا.کیا حضور نے پہلی تقریر میں ہی یہ نہیں کہدیا تھا کہ بیعت کر کے میری کامل پیروی بلا چون و چرا کرنی پڑے گی.کیا حضور نے پیر پرستی کو رواج دینے کی کوشش کی ہے.کیا حضور نے سکھا شاہی کی طرز کا فتویٰ کسی فرد یا افراد کے اخراج کے متعلق دیا ہے.ان کے جوابات ارکان صدر انجمن کی طرف سے موصولہ ضمیمہ خلافت احمدیہ کے نام سے شائع کئے گئے ہیں اظہار الحق نمبر ۲ بھی گمنام شائع کیا گیا.جس میں اہلبیت حضرت مسیح موعود اور بزرگان سلسلہ پر نہایت رکیک اور گندے الزامات قائم کئے گئے.ان تمہیں مفتر یا نہ وساوس و اعتراضات کے کافی وشافی جوابات انجمن انصار اللہ نے اظہار حقیقت“ کے نام سے شائع کئے.* حضرت خلیفہ اول نے خلافت کے مخالف خیالات کے ابطال کے لئے سعی بلیغ فرمائی جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ء کے ذکر کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی رقم فرماتے ہیں :- Λ یہ ۳۴ صفحات کا کتابچہ ( سائز ۲۰×۲۶) انصار اللہ کی طرف سے ۲۳ نومبر ۱۹۱۳ء کو شائع ہوا.تیسرے نمبر سے۲۳ پر آپ کا نام ”سید سرور شاہ مدرس اعلیٰ مدرسہ احمدیہ درج ہے.(ص۳۴) یہ ضمیمہ اسی سائز پر بارہ صفحات کا ہے شائع کنندہ کا آخر پر نام غالبا سہواً طبع ہونے سے رہ گیا ہو گا.دو نسخوں پر قلمی سیاہی سے ” المشتہر حافظ روشن علی سیکر ٹری انصار اللہ کے الفاظ مرقوم میں نے دیکھے ہیں.یہ کتابچه مشتمل بر چوبیس صفحات ( سائز ۲۲×۲۰ ) ۱۳-۱۱-۲۸ کو چالیس ارکان کی طرف سے شائع ہوا خلافت احمدیہ کی طرح آپ کا نام تیسرے نمبر پر درج ہے.*
۲۶۶ جلسہ سالانہ کے چند ہی دن کے بعد مسند احمد کا سبق تھا.آپ نے پڑھاتے پڑھاتے فرمایا کہ مسند احمد حدیث کی نہایت معتبر کتاب ہے.بخاری کا درجہ رکھتی ہے.مگر افسوس ہے کہ اس میں بعض غیر معتبر روایات امام احمد بن حنبل صاحب کے ایک شاگرد اور ان کے بیٹے کی طرف سے شامل ہوگئی ہیں جو اس پا یہ کی نہیں ہیں میرا دل چاہتا تھا اصل کتاب کو علیحدہ کر لیا جاتا مگر افسوس کہ یہ کام میرے وقت میں نہیں ہو سکا.اب شاید میاں کے وقت میں ہو جاوے اتنے میں مولوی سید سرور شاہ صاحب آ گئے اور آپ نے ان کے سامنے یہ بات پھر دہرائی اور کہا کہ ہمارے وقت میں تو یہ کام نہیں ہو سکا.آپ میاں کے وقت میں اس کام کو پورا کریں.یہ بات وفات سے دوماہ پہلے فرمائی حمید ل آئینہ صداقت (ص۱۷۰) نیز حضور ایدہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں :- حضرت خلیفہ اول نے میری نسبت لکھا ہے کہ میں اسے مصلح موعود دیکھتا ہوں اور پھر آپ نے ایک بھری مجلس میں فرمایا کہ مسند احمد حنبل کی تصحیح کا کام ہم سے تو ہو نہ سکا.میاں صاحب کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ چاہے تو ہو سکے گا اور یہ جنوری ۱۹۱۴ء کی بات ہے.آخری بیماری سے ایک دو دن پہلے کی “ ۲۴۲ حضرت مولوی شیر علی صاحب تصدیق کرتے ہیں کہ میں نے مسند والا واقعہ حضرت مولوی شاہ صاحب سے سنا تھا.۲۴۳ خاکسار نے یہ واقعہ بہ تصدیق مولوی محمد سرور شاہ صاحب آپ کی زندگی میں الفضل میں شائع کر دیا تھا جو درج ذیل ہے:.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کے متعلق ایک روایت چوہدری بدر الدین صاحب مرحوم سکنہ راہوں سے بوساطت ان کے بیٹے چوہدری جمال الدین احمد صاحب ملی ہے اور اس کی تحریری تصدیق حضرت مولوی سرور شاہ صاحب نے کی ہے جو کہ میرے پاس موجود ہے.حضرت مولوی سرورشاہ صاحب کے الفاظ یہ ہیں :- حضرت خلیفہ ایسیح الاوّل اپنی مرض الموت کی ابتداء میں اپنے مکان میں ہی مطب فرماتے.بیٹھتے اور درس دیتے تھے.ایک دن میں حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کچھ بات کر رہے ہیں اور سب دوست توجہ سے سُن رہے تھے.تو میں بغیر بلند آواز کے سلام کرنے کے دبے پاؤں آگے بڑھا لیکن حضرت مولوی صاحب نے مجھے دیکھ لیا.تو آپ نے میری طرف رُخ کر کے اسلام علیکم فرمایا اور فرمایا کہ میں یہ بات کر رہا تھا کہ مسند امام احمد بڑی اعلیٰ پایہ کی کتاب ہے مگر آپ کے دوشاگردوں کی وجہ سے اس میں بعض غیر معتبر روایات شامل ہو گئی ہیں.میرا ارادہ تھا
۲۶۷ حضرت خلیفہ اول کا انتقال مکان اور ایک وصیت کا فرمان آپ بیان فرماتے تھے کہ: ان لوگوں نے حضرت خلیفہ المسیح اول کے مکان کا اس طور پر محاصرہ کیا ہوا تھا کہ غریب لوگوں کو عیادت کے لئے پاس پھٹکنے نہ دیا جاتا اور حضور تک صحیح حالات نہ پہنچنے دیئے جاتے.بعض انہی وجوہ کی بناء پر حضور نے نقل مکانی کو پسند فرمایا اس وقت بھی ان لوگوں کی انتہائی کوشش رہی کہ بورڈ نگ تعلیم الاسلام کے چوبارہ میں آپکو ٹھہرایا جائے تا کہ ان کا قبضہ بدستور قائم رہے لیکن حضور نے اسے پسند نہ کیا اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی دارالسلام میں نقل مکانی کی گئی.کوٹھی دار السلام میں آنے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح اول نے قلم دوات منگوائی.آپ کانے کی دیسی قلم استعمال کرتے تھے.میں اپنی لڑکی اہلیہ میاں عبدالحی صاحب کے پاس گیا اور ان سے قلم کے لئے کا نالیا.بقیہ حاشیہ: کہ میں صحاح کو سامنے رکھ کر ان کو چھانٹ کر کے اس کتاب کو اس نقص سے پاک کر دوں.مگر اب میرے سپر دایسا کام ہو گیا ہے کہ مجھے دوسرے کاموں کی فرصت کم ملتی ہے اور عمر کا تقاضا بھی ایسا ہی ہے پس اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا.اگر آپ (حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ) کو ان کے زمانہ اشارہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف تھا.جو آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ) اور میں (حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب) حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ) خداوند تعالیٰ توفیق دے تو اس کام کو ضرور کرنا.خدا آپ کو بہت بڑا اجر دے گا.اس بات پر مکرم چوہدری بدر بخش صاحب مرحوم ( اس وقت آپ کا نام بدر بخش تھا) جو حلقے میں بالکل میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، نے اٹھ کر حلقے کا نصف دائرہ طے کر کے میرے پاس آکر میرے کان میں کہا مولوی صاحب یہ بڑی قابلِ قدر بات ہے اس کو ضرور نوٹ کر لیں.چنانچہ ان کے کہنے پر میں نے کاپی نکالی اور حضرت مولوی صاحب کی یہ بات لکھ لی اور اس وقت میں نے اس مجلس کے آدمیوں کو شمار کیا جو ساٹھ آدمی تھے.حضرت خلیفہ اسیح اول اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور خاکسار کو چھوڑ کر ۲۴۴
۲۶۸ حکیم غلام محمد صاحب امرتسری نے اس کی دو قلمیں بنائیں اور میں نے حضور کی خدمت میں ایک قلم پیش کی.حضور نے وصیت تحریر فرمائی اور مولوی محمد علی صاحب کو بلوایا.مولوی صاحب سرہانے کی طرف کرسی پر بیٹھ گئے.حضور نے انہیں وصیت دی مولوی صاحب نے پڑھ لی تو دریافت فرمایا آیا درست ہے.مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے.پڑھی جاتی ہے حضور نے ان سے تین بار پڑھوائی اور پوچھا کوئی بات رہ تو نہیں گئی.انہوں نے کہا ٹھیک ہے کوئی بات باقی نہیں.پھر حضور نے یہ وصیت حضرت نواب صاحب کو دی اور فرمایا کہ یہ ہماری امانت ہے جو آپ کے پاس رہے گی.نواب صاحب کے عرض کرنے پر حضور نے اس پر دستخط کئے اور پھر نواب صاحب نے اس پر احتیاطا حضرت میاں صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور بعض اور دوستوں کے دستخط کروا کے لفافہ بند کر کے اپنے پاس رکھا.‘ (م) محترم مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ان ایام میں طبائع میں جوش اور فکر اور خلجان اور ہونے والے خلیفہ کے متعلق خیال زوروں پر تھا.ان دنوں میں حضرت میاں صاحب کو منطق پڑھاتا تھا.ابتداء میں ہم جنگل کی سیر کے لئے نکل جاتے اور وہاں بجائے سبق کے خلافت کے متعلق ذکر ہوتا رہتا.(م) ایک ایسی ہی سیر اور حضرت مولوی صاحب کی خلافت کے متعلق رائے کا ذکر حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتے ہیں:- چونکہ حضرت خلیفہ اسیح کی طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ علیل تھی اور لوگ نہایت افسوس کے ساتھ آنے والے اس بارہ میں الحکم مورخہ ۱۴-۳-۷ میں مرقوم ہے :- د ۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد نماز عصر یکا یک آپ کو ضعف محسوس ہونے لگا.اسی وقت آپ نے مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو حکم دیا کہ قلم دوات لاؤ.چنانچہ سید صاحب نے قلم دوات اور کا غذ لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیا.آپ نے لیٹے ہوئے ہی کاغذ ہاتھ میں لیا اور قلم لے کر لکھنا شروع کیا....اولا آپ نے مختصر سا حصہ وصیت کا لکھا لیکن چونکہ قلم درست نہ تھا.دیسی قلم منگوایا گیا.آپ نے ایک وصیت اپنے قلم سے تحریر کر دی اور مولوی محمد علی صاحب کو دی کہ اسے سنادیں.چنانچہ انہوں نے بآواز بلند اسے پڑھ کر سنا دیا.پھر آپ نے فرمایا کہ نواب صاحب کے سپرد کر دو.وہ اسے محفوظ رکھیں گے.نواب صاحب نے عرض کیا کہ اس پر دستخط کرالئے جاویں اور اس مطلب کے لئے وصیت پھر حضرت کی خدمت میں پیش کی گئی.آپ نے اس پر دستخط کر دیئے." (ص ۵) اس کا ذکر اصحاب احمد جلد دوم حاشیہ ص ۳۴۸، ۳۲۹، ۳۶۸ میں بھی ہے.
۲۶۹ خطرہ کو دیکھ رہے تھے.طبعا ہر ایک شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہورہاتھا کہ اب کیا ہوگا ؟ میں تو برابر دعاؤں میں مشغول تھا اور دوسرے دوستوں کو بھی دعاؤں کے لئے تاکید کرتا تھا.اس وقت اختلافی مسائل میرے سامنے نہ تھے بلکہ جماعت کا اتحاد مد نظر تھا اور اس کے زائل ہو جانے کا خوف میرے دل کو کھا رہا تھا.چنانچہ اس امر کے متعلق مختلف ذی اثر احمدیوں سے میں نے گفتگوئیں کیں.عام طور پر ان لوگوں کا جو خلافت کے مقر تھے اور نبوت مسیح موعود کے قائل تھے ، یہی خیال تھا کہ ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی جاسکتی جس کے عقائد ان عقائد کے خلاف ہوں.کیونکہ اس سے احمدیت کے مٹنے کا اندیشہ ہے.مگر میں اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اتحاد سب سے زیادہ ضروری ہے....چنانچہ میں نے اپنے دوستوں کو خاص طور پر سمجھانا شروع کیا کہ خدانخواستہ حضرت خلیفتہ اسیح کی وفات پر اگر فتنہ کا اندیشہ ہو.تو ہمیں خواہ وہ لوگ تھوڑے ہی ہیں ان میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کی لینی چاہئے کیونکہ میں نے ان سے کہا کہ اگر کوئی ہمارا ہم عقیدہ شخص خلیفہ ہوا تو وہ لوگ اس کی بیعت نہیں کریں گے اور جماعت میں اختلاف پڑ جائے گا اور جب میں ان میں سے کسی کی بیعت کرلوں گا تو امید ہے کہ میرے اکثر احباب اس کی بیعت اختیار کر لیں گے اور فساد سے جماعت محفوظ رہے گی.چنانچہ ایک دن عصر کے بعد جب کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب جو ہماری جماعت کے سب سے بڑے علماء میں سے ایک ہیں ، میرے ساتھ سیر کو گئے تو تمام سیر میں دو گھنٹہ کے قریب ان سے اسی امر پر بحث ہوتی رہی اور آخر میں نے ان کو منوالیا کہ ہمیں اس بات کے لئے پورے طور پر تیار ہونا چاہئے کہ اگر اس بات پر اختلاف ہو کہ خلیفہ کس جماعت میں سے ہو تو ہم ان میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.“ آئینه صداقت (ص۱۷۸/۱۷۹) بر روایت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی حضرت مولوی صاحب بیان فرماتے تھے.ان ایام میں حضرت میاں صاحب یعنی سید نا محمود منطق پڑھا کرتے تھے.اوّل اوّل ہم جنگل کو سیر کی غرض سے باہر نکل جایا کرتے.جہاں سبق کی بجائے امر خلافت کا ذکر رہتا.میری اپنی رائے یہی تھی اور میرے ساتھ میری خیال کی مؤید ایک بڑی جماعت تھی کہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء میں سے کسی کی بیعت ہرگز نہ کرنی چاہئے کیونکہ ایسا کرنے میں خصوصیات سلسلہ مٹ جائیں گی.جماعت کا وجود قائم نہ رہ سکے گا اور ہم لوگ اپنا امتیاز کھو کر غیروں میں مل کرنا بود و معدوم ہو جائیں گے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ غرض و غایت اور مقصد جو ہمیں دوسروں سے الگ اور ممتاز کے کے ایک جماعت قاہم کرنے میں پنہاں تھا ہم ضائع کر بیٹھیں گے.مگر حضرت صاحبزادہ صاحب میری رائے کے خلاف ہوتے اور فرماتے.
۲۷۰ حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے سارے خاندان کو جمع فرمایا اور سب کو اپنے نقطہ نگاہ سے متفق کر لیا.بعد نماز عصر آپ حضرت خلیفہ اول کے پلنگ کے قریب بیٹھے تھے.دل میں ابال اٹھا.تحریک دعا اور جوش ذکر پیدا ہوا.تنہائی اور علیحدگی کے لئے اندر سے اٹھ کر برآمدہ میں آئے اور مولوی محمد سرور شاہ صاحب سے فرمایا : - طبیعت بہت گھبرائی ہوئی ہے.میں کچھ دیر کے لئے علیحدہ ہونا چاہتا ہوں.آپ ایسا انتظام کریں کہ دوست میرے پیچھے نہ آئیں.“ مولوی صاحب نے عرض کیا میں احباب کو روک دوں گا.آپ تشریف لے جائیں.چنانچہ آپ تنہا حضرت مولوی صاحب کی کوٹھی سے جانب مشرق سید ھے باغ میں سے ہوتے ہوئے جارہے تھے کہ ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب نے جو کہ اپنے ساتھیوں سمیت کوٹھی کے شمال جانب لپ سڑک کوئیں پر کھڑے آپس میں مشورے کر رہے تھے.آپ کو باہر جاتے دیکھ کر ساتھیوں کو بتایا کہ میاں وہ جارہے ہیں.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے تیز قدم اور جلد جلد چل کر پہلے مشرق اور مشرق سے جنوب کو کوٹھی کے شرقی جانب کی سڑک پر حضرت کو آکر روک لیا اور اس وقت سے شام کی اذان تک دونوں اسی سڑک پر شمالاً جنو با ٹہلتے اور باتیں کرتے رہے.میں کوٹھی کے ورا نڈہ میں سے اور مولوی محمد علی صاحب کے رفیق شمالی کو ئیں سے دیکھتے رہے.نہ میں ہی آگے بڑھا اور نہ وہ آ کر مخل ہوئے.اذان سُن کر دونوں اپنے اپنے راستے واپس ہوئے.بقیہ حاشیہ: - مولوی صاحب ! یہ طریق ٹھیک نہیں ہو گا.وحدت قومی قائم نہ رہ سکے گی.اتحادٹوٹ جائے گا اور جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اس کا شیرازہ بکھر جائے گا کیونکہ ان میں کوئی ایک بھی ایسا آدمی نہیں جو ہم میں سے کسی کی بیعت کرے.تو دوسرے ساتھی اس کا ساتھ دیں اور کبھی بیعت کر کے ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں.بر خلاف اس کے مجھے نہ صرف اپنے خاندان پر بلکہ اپنے دوستوں اور سارے ہی ہمخیالوں کے متعلق یقین اور کامل وثوق ہے کہ اگر میں ان میں سے کسی ایک کی بیعت کرلوں تو وہ تمام کے تمام میرا ساتھ دیں گے اور بیعت کر کے متحد یکجان ہو جائیں گے اور اس طرح ہماری قومی وحدت کو جو خطرہ درپیش ہے ، جاتا رہے گا.جماعت بجائے منتشر اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے ایک ہاتھ پر جمع ہو کر متفق و مستحکم ہو جائے گی.رہا خصوصیات کا سوال سوان میں جب تک خلیفہ کوئی حکم نہ دے گا.ہمیں اجازت ہوگی کہ جس چیز کو ہم حق وصداقت یقین کرتے اور منشاء شریعت سمجھتے ہیں.قائم کرنے اور اس کے قائم رکھنے کی کوشش کریں.البتہ اگر خلیفہ بھی حکم دے کر ہمیں روک دے تو اس کا حکم ماننا اور فرمانبرداری کرنا ہمارے لئے ضروری ہوگا.اور اس حال میں پھر سلسلہ کا خود خدا حافظ ہوگا.ہم خاموش ہو ر ہیں گے.“ ۲۴۵
۲۷۱ حضرت کی واپسی پر میں کچھ آگے بڑھا جس پر آپ نے فرمایا : - مولوی محمد علی صاحب کہتے تھے کہ آپ جانتے ہیں کہ جماعت میں اختلاف موجود ہے دو گروہ بن گئے ہیں اور کوئی بھی دوسرے کے ہاتھ پر جمع ہونے اور بیعت کرنے کو تیار نہیں.اس لئے ہمیں چاہیئے کہ فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں.بلکہ چند ماہ تو قف کریں اور بیرونی جماعتوں کو اطلاع دے کر کسی مقررہ تاریخ پر جمع کرنے کا انتظام کر کے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا جائے وغیرہ.فرمایا میں نے مولوی صاحب کو یہ جواب دیا ہے کہ یہ بات درست نہیں کہ ہم میں ایسا اختلاف موجود ہے کہ کوئی فریق دوسرے کی بیعت کرنے کو تیار نہیں.آپ اپنے آدمیوں میں سے کسی ایک کو مقرر کر لیں.میں اس کی بیعت کرتا ہوں.میں نے ہر چند زور دیا، سمجھایا اور بار بار کہا.مگر مولوی صاحب انکار ہی کرتے اور کہتے رہے کہ ” آپ یونہی کہتے ہیں یہ بات ناممکن ہے.اور یہ سارا وقت اسی بحث اور تکرار میں خرچ ہوا.میں نے بار باران کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ میں آپ میں سے ہر کسی کی بیعت کرنے کو تیار ہوں جسے آپ منتخب کریں اور نہ صرف میں تنہا بیعت کروں گا بلکہ میرے سارے ساتھی میرے ساتھ ہی بیعت کر لیں گے.کوئی تخلف ہوگا نہ انکار.مگر مولوی صاحب آخر تک اسی بات پر اصرار کرتے رہے کہ یہ ممکن نہیں.ایسا ہرگز نہیں ہو سکے گا.اور آخر میں اپنی وہی تجویز دہرائی کہ فیصلہ میں جلدی نہ کیجائے.کیونکہ چند ماہ کا وقفہ دے کر مقررہ تاریخوں پر جماعت کو جمع کر کے مشورہ اور مشورہ کے بعد فیصلہ کیا جائے.سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب بار بار کہنے اور یقین دلانے کے باوجود مولوی صاحب اپنے ہی خیال پر جمے رہے اور میری پیشکش کو نا ممکن ، نا قابل عمل اور خیالی بتاتے رہے تب میں نے آخر میں ان سے یہ کہا کہ :- مولوی صاحب ! آپ اور میں دونوں جماعت کے فرد ہیں.ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم بطور خود کوئی فیصلہ کر کے قوم کو اس کا پابند ٹھہرائیں.لہذا بہتر ہے کہ آپ اپنے دوستوں سے مشورہ کر لیں اور میں اپنے احباب سے مشورہ کر لیتا ہوں.اگر میرے دوستوں نے آپ کی تجویز مان لی تو بس جھگڑا ختم.ہم آپ کی تجویز کے مطابق عملدرآمد کرلیں گے اور اگر نہ مانا تو ایک اختلاف کی صورت قائم رہے گی.اسی طرح آپ کے دوستوں نے اگر میری تجویز کے مطابق یہ قبول کر لیا کہ ایک واجب الاطاعت خلیفہ ہونا چاہئے اور فوری طور پر اس کا تقرر و انتخاب لازمی ہے تب بھی قصہ ختم اور معاملہ صاف اور اگر انہوں نے میری اس تجویز سے اتفاق نہ کیا اور آپ کی تجویز کے مطابق کسی دوسرے وقت جماعت کے اجتماع اور مشورہ پر معاملہ کو اٹھا رکھنے کا فیصلہ کیا تب بھی
۲۷۲ اختلاف قائم اور فیصلہ مشکل.پھر اس صورت میں ہم دونوں کل دس بجے مل کر غور و فکر کریں گے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے.چنانچہ مولوی صاحب آخر اس بات پر رضا مند ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے دوستوں سے مشورہ کر کے کل دس بجے پھر ملیں گے.حضرت نے اس سمجھوتہ کے ماتحت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو ایک فہرست دے کر حکم دیا کہ ان احباب کو رات کوٹھی دارالسلام میں جمع کرنے کا انتظام کیا جائے ساٹھ دوستوں کے نام اس فہرست میں تھے.رات کو اجتماع ہوا اور مشورہ ہو کر بالا تفاق یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک واجب الاطاعت خلیفہ کا انتخاب ہونا چاہئے اور پہلے خلیفہ کی تدفین سے پہلے ہونا چاہئے تاکہ خلیفہ ہی خلیفہ کا جنازہ پڑھے.اور تجہیز وتدفین کا انتظام کرے.اور اسی مجلس میں یہ بھی قرار پایا کہ رات کو تہجد میں دعائیں کی جائیں اور کل روزہ رکھ کر اس معاملہ کے لئے خاص طور سے دعائیں کی جائیں.خلیفہ اول کی وفات ☆..حضرت بھائی جی فرماتے ہیں کہ مجھے ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفہ اول کے لئے لاہور سے کستوری لانے کے لئے فرمایا.لاہور میں حضور کی وفات کا علم ہوا.ریل میں واپس روانہ ہوا.لاہور کے دوست ایک ٹریکٹ پڑھ رہے تھے.میں نے بھی ایک ٹریکٹ حاصل کیا اور بٹالہ پہنچ کر پیدل دوڑتے ہوئے قادیان پہنچا کہ ٹریکٹ جلد از جلد مرکز میں پہنچا سکوں.قادیان کی مقدس بستی ، تخت گاہِ رسول اور....اور دارالخلافہ کی گلی کوچوں میں سے ہوتا ہوا میں پہلے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں داخل ہوا جس کے ایک کوارٹر میں ان دنوں حضرت مولا نا مولوی محمد سرور شاہ صاحب رہا کرتے تھے.دستک دی.سلام عرض کی اور بہت جلد کوٹھی دارالسلام پہنچنے کی تاکیدی عرض کے بعد آگے بڑھا.“ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور مکرم شیخ محمد اسمعیل صاحب سرساوی کو بھی وہاں پہنچنے کے لئے کہا.دار السلام میں احباب کو نوافل میں مصروف پایا.حضرت میاں صاحب کی خدمت میں ٹریکٹ دیا.جس پر آپ نے احباب کو جمع کرنے کا حکم دیا.حضرت خلیفہ اول جیسی ہستی سے محرومی کے غم اور مشکلات میں اس ٹریکٹ سے اضافہ ہوا تھا.سید محمد احسن صاحب کا پیغام آنے پر کہ ان کا انتظار کیا جائے دس بجے کی بجائے ظہر الحکم جو بلی نمبر ص ۳۴.یہ سارا بیان مولوی صاحب کا ہے کیونکہ جیسا کہ آگے ذکر ہے بھائی جی اس روز صبح لاہور گئے اور اگلے روز واپس آئے تھے.
۲۷۳ کے وقت صدر انجمن احمدیہ کی ایک غیر رسمی شوری ہوئی اور زیادہ تر سید صاحب اور مولوی محمد علی صاحب میں گفتگو ہوئی.سید صاحب خلافت کی ضرورت اور فوری قیام پر زور دیتے تھے.بالآ خر سید صاحب نے یہ اعلان کر دیا کہ ہم بعد عصر انتخاب خلافت کریں گے.۲۴۶ انتخاب خلافت ثانیہ واعلانات انتخاب خلافت ثانیہ کے متعلق حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی فرماتے ہیں.عصر کی نماز پڑھ کر ڈیڑھ ہزار سے دو ہزار تک آدمیوں کے مجمع میں مکرمی خان محمد علی خاں صاحب جا گیر دار مالیر کوٹلہ نے بحیثیت حضرت خلیفہ اول کے وصی ہونے کے مجلس میں آپ کی وصیت پڑھ کر سنائی اور لوگوں سے درخواست کی کہ وہ آپکی وصیت کے مطابق کسی شخص کو آپ کا جانشین تجویز کریں.اس پر لوگوں نے میرا نام لیا.جس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب نے کھڑے ہو کر ایک تقریر کی اور کہا کہ میرے نزدیک بھی یہی خلیفہ ہونے چاہئیں.اس پر لوگوں نے شور کیا کہ بیعت لی جاوے.میں نے اس امر پر پس و پیش کیا اور با وجود لوگوں کے اصرار کے انکار کیا مگر لوگوں کا جوش اسی طرح زور پر تھا.جس طرح حضرت ابو بکر کے وقت میں اور وہ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے اور بعض لوگوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا کہ آپ بیعت لیں.میں نے پھر بھی پس و پیش کیا تو بعض لوگوں نے جو قریب بیٹھے تھے اصرار کیا کہ جماعت کی حفاظت اور بچاؤ کے لئے آپ ضرور بیعت لیں اور میں نے دیکھا کہ لوگ بیعت کے جوش سے اس قدر بھرے ہوئے تھے اور آگے کی طرف بڑھ رہے تھے کہ میں بالکل آدمیوں میں چھپ گیا اور اگر بعض لوگ ہمت کر کے میری پیٹھ کے پیچھے حلقہ نہ بنا لیتے تو قریب تھا کہ میں کچلا جاتا.مجھے بیعت کے الفاظ یاد نہ تھے اور میں نے اسی بات کو عذر بنانا چاہا اور کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد نہیں ہیں.اس پر مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہا کہ میں الفاظ بیعت دہراتا جاؤں گا.آپ بیعت لیں.تب میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہے اور اس کے منشاء کو قبول کیا اور لوگوں سے بیعت لی.۲۴۷ حضرت خلیفہ اول کے وصال پر ۱۵ر مارچ کو ایک اعلان کے ذریعہ جو ایک اشتہار کی صورت میں تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے منتخب ہونے اور نماز جنازہ پڑھانے اور حضرت خلیفہ اول کی تدفین کا ذکر کر کے احباب جماعت کو بیعت کی تلقین کی گئی تھی.یہ اعلان افراد خاندان حضرت مسیح موعود ہمبران صدر انجمن ، علماء سلسله، صدر و سیکرٹری صاحبان جماعت ہائے معززین و تجار، ایڈیٹر صاحبان، گریجویٹ افراد
۲۷۴ وغیرہم کی طرف سے تھا.اس میں سترہ علماء میں آپ کا نام نامی ” حضرت مولانا محمد سرور شاہ صاحب قادیان“ بھی مرقوم تھا.جو آپ کا اعلیٰ مقام یقین حضرت سید محد سرور شاہ صاحب سمجھتے تھے کہ حضرت میاں صاحب مصلح موعود ہیں اور مولوی حمد علی صاحب اور ان کے ساتھی بھی حضرت مولوی صاحب کے اس یقین کو جانتے تھے.حضرت خلیفہ اسی اول کی وفات سے کچھ عرصہ قبل مولوی صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مولوی سرور شاہ صاحب اکیلے ہیں لیکن ان کی وجہ سے سارا مدرسہ احمدیہ حضرت میاں صاحب کا طرفدار ہے تو مولوی صدر الدین صاحب نے کہا کہ خالی باتوں سے کچھ نہیں بنتا.کچھ خرچ کرنا چاہئے.چنانچہ اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی کے الاؤنس میں پندرہ روپے کی زیادتی کی گئی.جس سے وہ ان کا دم بھرنے لگے اور بیعت سے محروم رہے.ایک روز سحری کے وقت حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ حضرت میاں صاحب بچے خلیفہ ہیں اس لئے میں بیعت کے لئے ابھی آ گیا ہوں کہ شاید دیر ہونے سے کوئی اور اثر غالب نہ آجائے.چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی لیکن افسوس کہ پھر کسی معمولی بات کی وجہ سے وہ بیعت پر قائم نہ رہے.(م) بلکہ آپ حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں اس بارہ میں اعلیٰ مقام یقین پر پہنچ چکے تھے.چنانچہ آپ رقم فرماتے ہیں :- حمد اس اعلان کے دوسری طرف حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کی طرف سے ۱۴-۳-۲۱ کو مخالفین خلافت کے بعض افتراؤں کا جواب دیا گیا ہے.اعلان مذکورہ متن قریباً انہی الفاظ میں بہتر احباب کی طرف سے الحکم میں شائع کیا گیا.جس میں دسویں نمبر پر آپ کا اسم گرامی ” مولوی سید سرور شاہ فاضل درج ہے.۲۴۸ غسل وغیرہ کے متعلق لکھا ہے: - عشاء کے قریب حضرت خلیفہ المسیح کو مولوی شیر علی صاحب بی.اے نے غسل دیا اور مفتی فضل الرحمن صاحب و مولوی محمد سرور شاہ ، قاضی امیر حسین صاحب و میاں نجم الدین صاحب و مولوی غلام محمد و دیگر شاگردان 66 حضرت موجود تھے.“ ۲۴۹ ** اکبر شاہ خاں صاحب نے بیعت کر لی تھی.۲۵۰ لیکن وہ اس پر قائم نہیں رہے تھے بلکہ بعد میں بلکلی منقطع ہو کر دیگر مسلمانوں میں شامل ہو گئے تھے.غالباً حضرت مولوی صاحب کا یہی مطلب ہوگا.
۲۷۵ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی میرا یہی اعتقاد تھا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی مصلح موعود ہیں.میں نے انہی دنوں میں اس پیشگوئی پر اچھی طرح غور کیا تھا اس غور کے نتیجہ میں میں اس اعتقاد پر پہنچا تھا کہ مصلح موعود آپ ہی ہیں.“ ۲۵۱ ا خویم سیّد احمد علی صاحب فاضل مربی حال متعین لائل پور بیان کرتے ہیں :- میں جامعہ احمدیہ کی مبلغین کلاس میں پڑھا کرتا تھا اور حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ہمیں تفسیر القرآن پڑھایا کرتے تھے.حسب دستور ۱۵ جولائی ۱۹۳۵ء کو بھی جب آپ سبق پڑھا رہے تھے تو ضمنا آپ نے ایک بات کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ مجھ سے پڑھا کرتے تھے تو ایک دن میں نے کہا کہ میاں آپ کے والد حضرت مسیح موعود کو تو کثرت سے الہام ہوتے ہیں کیا آپ کو بھی خوا ہیں وغیرہ آتی ہیں تو میاں صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب خواہیں تو بہت آتی ہیں لیکن ایک خواب تقریباً میں روز ہی دیکھتا ہوں اور جو نہی میں تکیہ پر سر رکھتا ہوں اس وقت سے لے کر صبح اٹھتے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے میں اس کی کمان کر رہا ہوں اور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ میں سمندروں سے گذر کر آگے جا کر مقابلہ کر رہا ہوں اور کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں نے اگر پار گزرنے کے لئے اور کوئی چیز نہیں پائی تو کانے وغیرہ سے کشتی بنا کر پار گیا اور جا کر حملہ آور ہوا ہوں.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے فرمایا کہ جب یہ خواب میں نے آپ سے سنا میرے دل میں اس وقت سے یہ بات گڑ گئی کہ یہ شخص یقینا کسی وقت جماعت کی لیڈری کرے گا اور اس وجہ سے میں نے اس دن سے بوجہ ادب کے آپ کی کلاس میں ان کے سامنے کرسی پر بیٹھنا چھوڑ دیا اور آپ سے یہ خواب سننے کے بعد میں نے آپ سے یہ پختہ عہد لیا کہ میاں آپ بڑے ہو کر مجھ کو نہ بھلا دیں اور مجھ پر پھر بھی نظر شفقت رکھیں.حضرت مولوی صاحب نے ایسی ہی اور بھی چند خواہیں حضور کی سنائیں اور یہ اس زمانہ کی ہیں جب کہ آپ ہنوز سلسلہ تعلیم میں مشغول بلکہ چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے.مگر آخر وہ وقت آ گیا کہ جب خدا نے آپ کی ان خوابوں کو پورا کرتے ہوئے آپ کو ایک جماعت کا خلیفہ اور امام بنا کر ہندوستان اور ہندوستان سے باہر سمندر پار کے ممالک میں تبلیغ احمدیت پہنچانے کی توفیق دی.چنانچہ سمندر پار کی ترقی کا سہرا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سر پر ہے.‘ ۲۵۲ تائید خلافت میں آپ کی شہادت متعدد بار تائید خلافت میں آپ کی شہادت یا آپ کا وجود پیش کیا گیا چنانچہ
(1) مولوی محمد علی صاحب کا ادعا تھا کہ جماعت کے سب سے بڑے عالم سید محمد احسن صاحب کی تائید ان کو حاصل ہوگئی ہے اور یہ امر گویا ان کے حق پر ہونے پر شاہد ہے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اس کی تردید میں رقم فرماتے ہیں :- میں اس امر کے تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں کہ مولوی سید محمد احسن صاحب جماعت کے سب سے بڑے عالم آدمی ہیں.علم کا اس رنگ میں فیصلہ کرنا ہر شخص کے لئے آسان نہیں.میرے نزدیک مولوی سید سرور شاہ صاحب اور قاضی سید امیر حسین صاحب کسی صورت میں مولوی سید محمد احسن صاحب سے کم نہیں ہیں.....غرض نہ قدامت کے لحاظ سے اور نہ علم کے لحاظ سے ان کو دوسروں پر کوئی ایسی فضیلت حاصل ہے کہ ان کے قول کو حجت قرار دیا جاوے.ہاں بوجہ اس کے کہ وہ عالم آدمی تھے اور کبیر السن تھے ہماری جماعت کے علماء بھی اور دیگر لوگ ان کا احترام اور عزت واجبی طور پر کرتے تھے.۲۵۳ (۲) جلسه سالانه ۱۹۱۴ء میں حضور نے اپنی تائید میں آسمانی شہادتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا: - ’اس بات کو قریباً تین چار سال کا عرصہ ہوایا کچھ کم کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں گاڑی میں سوار ہوں اور گاڑی ہمارے گھر کی طرف جارہی ہے کہ راستہ میں کسی نے مجھے حضرت خلیفہ اسیح کی وفات کی خبر دی تو میں نے گاڑی والے کو کہا کہ جلدی دوڑاؤ تا میں جلدی پہنچوں.یہ رویا بھی میں نے حضرت کی وفات سے پہلے ہی بہت سے دوستوں کو سنائی تھی.جن میں سے چند کے نام یاد ہیں.نواب محمد علی خان صاحب ، مولوی سید سرور شاہ صاحب، شیخ یعقوب علی صاحب، حافظ روشن علی صاحب اور غالبا ماسٹر محمد شریف صاحب بی.اے پلیڈر چیف کورٹ لاہور کہ مجھے ایک ضروری امر کے لئے حضرت کی بیماری میں لاہور جانے کی ضرورت ہوئی اور چونکہ حضرت کی حالت نازک تھی میں نے جانا مناسب نہ سمجھا اور دوستوں سے مشورہ کیا کہ میں کیا کروں اور ان کو بتایا کہ میں جانے سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ میں نے رویا میں گاڑی میں سواری کی حالت میں حضرت کی وفات دیکھی ہے.پس ایسا نہ ہو کہ یہ واقعہ ابھی ہو جائے.پس میں نے یہ تجویز کی کہ ایک خاص آدمی بھیج کر اس ضرورت کو رفع کیا لیکن منشائے الہی کو کون روک سکتا ہے؟ چونکہ حضرت نواب صاحب کے مکان پر رہتے تھے میں بھی وہیں رہتا تھا اور وہیں سے جمعہ کے لئے قادیان آتا تھا.جس دن حضور فوت ہوئے میں حسب معمول جمعہ پڑھانے قادیان آیا اور جیسا کہ میری عادت تھی نماز کے بعد بازار کے راستہ سے واپس جانے کے لئے تیار ہوا کہ اتنے میں نواب صاحب کی طرف سے پیغام آیا کہ وہ احمدیہ محلہ میں میرے منتظر ہیں اور مجھے بلاتے ہیں کیونکہ انہوں نے مجھ سے بات کرنی ہے.میں وہاں گیا تو ان کی گاڑی تیار تھی.اس میں وہ بھی بیٹھ گئے اور
۲۷۷ میں بھی اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسٹنٹ سرجن بھی ہمارے ساتھ تھے.گاڑی آپ کی کوٹھی کی طرف روانہ ہوئی اور جس وقت اس سڑک پر چڑھ گئی.جو مدرسہ تعلیم الاسلام کی گراؤنڈز میں تیار کی گئی ہے تو آپ کا ایک ملازم دوڑتا ہوا آیا کہ حضور فوت ہو گئے.اس وقت میں بے اختیار ہو کر آگے بڑھا اور گاڑی والے کو کہا کہ گاڑی دوڑاؤ اور جلد پہنچاؤ اسی وقت نواب صاحب کو وہ رویا یاد آ گئی اور آپ نے کہا کہ وہ رویا پوری ہوگئی.“ ۲۵۴ (۳) ۱۹۱۵ء میں غیر مبایعین کے خیالات کے ابطال میں سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے کتاب حقیقۃ النبوة“ تالیف فرماتے ہوئے اس میں چھ شہادتیں درج کی ہیں کہ کتاب تریاق القلوب کی تالیف تک حضرت اقدس سمجھتے تھے کہ مجھے مسیح ناصری پر جزوی فضیلت حاصل ہے لیکن اس کی اشاعت دیر سے ہوئی.اس کی اشاعت سے قبل حضور یہ شائع کر چکے تھے کہ حضور مسیح ناصری سے افضل ہیں.چنانچہ مولوی صاحب کی شہادت درج ذیل ہے :- والله باللہ ثم تا اللہ کہ میں بخوبی جانتا ہوں اور مجھے بخوبی یاد ہے اور میرے سامنے کا واقعہ ہے کہ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو حکیم فضل الدین صاحب مرحوم نے شفا خانہ حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب میں آ کر حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اس وقت مطبع کوئی قریباً تیرہ سو روپیہ کا مقروض ہے اور باعث اس کا یہ ہے کہ تریاق القلوب اور اور چند کتابیں بالکل تیار پڑی ہوئی ہیں اور حضرت صاحب کو نہ ان کی اشاعت کا خیال آتا ہے اور نہ کوئی توجہ دلاتا ہے اور بعض تو مقدمات وغیرہ کے باعث رُکی پڑی ہیں اور ان سب پر بہت سا روپیہ لگا ہوا ہے اور جب تک وہ شائع نہ ہوں تب تک مطبع کا چلانا بہت ہی دشوار ہے جو ابھی نا تمام ہیں ان کو تو جانے دیجئے مگر تریاق القلوب وغیرہ تو بالکل ختم ہیں.فقط بعض میں ایک دوسطریں لکھ کر مضمون کو ختم کر دینا ہے اور بس.اس پر مولانا صاحب نے وہ حساب کا کاغذ بھی لے لیا اور حکیم صاحب کو فرمایا کہ میں حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دوں گا.چنانچہ اس کے بعد حضرت مولوی صاحب نے میرے سامنے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ تریاق القلوب کا مسودہ پیر منظور محمد صاحب سے لے کر میرے پاس بھیج دینا کہ میں اس کے آخری مضمون کو دیکھ کر چند سطریں لکھ کر مضمون کو ختم کر دوں گا.چنانچہ وہ مسودہ لایا گیا تو اس میں سے کوئی ایک صفحہ کا مضمون باقی تھا تو حضرت صاحب نے اس کے ساتھ چند سطر میں اور لکھ کر مضمون کو ختم کر دیا تو پہلے جو کتاب تریاق القلوب مدت دراز سے چھپی ہوئی موجود تھی اس کے آخر میں اس مضمون سے ایک ورق نیا چھاپ کر لگا دیا گیا اور کتاب شائع ہوگئی.چنانچہ اس عرصہ میں اور بہت سی کتابیں جو پہلے کی ہیں شائع کی گئی ہیں اور یہ ایسا مشہور واقعہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کو بھی معلوم ہوگا اور میں
۲۷۸ یقین نہیں کر سکتا کہ وہ اس سے انکار کرین.محمد سرور شاہ احمدی نقل خود ۱۴ فروری ۶۱۹۱۵ - ۲۵۵ (۴) خواجہ کمال الدین صاحب کے رسالہ اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب‘ کے جواب میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے رسالہ القول الفصل“ میں اس اعتراض کا بھی جواب دیا ہے کہ گویا حضرت خلیفہ اول کے نزدیک خود حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی مسئلہ کفر کو نہیں سمجھ سکے تھے.حضور نے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب ، حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت نواب محمد علی خان صاحب وغیرہ چار احباب کی شہادت پیش کی ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے کچھ اور فرمایا تھا نہ کہ وہ بات جو خواجہ صاحب نے بیان کی ہے.(ص ۴۵) لسانی قلمی تائید خلافت محترم بھائی عبد الرحمن صاحب مقادیانی تحریر کرتے ہیں:.حضرت مولانا مولوی محمد سرور شاہ صاحب خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ وسلامت ہیں.ان کے علم وفضل اور نیکی و تقویٰ اور بزرگی و پاکبازی میں کسی کو کلام نہیں.ان کو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی عزت اور جائز شرف بخشا ہے کہ جہاں وہ سیدنا حضرت محمود اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استاد اور علوم ظاہری کے معلم ہیں وہاں امیر قوم جناب مولانا مولوی محمد علی صاحب کو بھی پڑھاتے ، سکھاتے اور درس دیتے رہے ہیں.نہ صرف یہی بلکہ ان کے تو اتنے گہرے رفیق ، راز دار ورازداں رہے ہیں کہ ان کی مجالس کی رونق ہوتے.ان کے خیالات سے واقف اور نہاں در نہاں منصوبوں سے بھی آگاہ رہتے تھے.‘ ۲۵۶ 66 آپ ان لوگوں کے اسرار سے بخوبی واقف تھے لیکن ان سے کبھی بھی متفق نہیں ہوئے تھے اور اس واقفیت کے باعث آپ اہلیت نامہ رکھتے تھے کہ علی بصیرۃ ان کے سربستہ راز افشاء کریں.آپ نے فتویٰ ہائے مصری و غیر مبایعین کی تردید میں نہایت قابل قدر سانی و قلمی خدمات سرانجام دی ہیں.ان کے مطالعہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میدان کا رزار میں ایک بطل جلیل پے بہ پے نعرہ ہائے ھل من مبارز بلند کر رہا ہے لیکن اس کی باطل شکن اور حق پرست با نگ بلند سے اعداء کے ارسان خطا اور دل دہل رہے ہیں اور کسی کو مقابلہ پر آنے کی تاب و تواں کہاں.آپ کے مضامین نقلی و عقلی دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ سے بھر پور ہیں.علم کا ایک بحر ذخارنظر آتا ہے.آپ کی بعض ایسی خدمات کا یہاں ذکر کرنا مناسب ہے :.(۱) جلسہ سالانہ ۱۹۱۶ء پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے تبلیغی سفروں کے حالات میں بیان کیا کہ مجھے
حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور مکرم میاں محمد سعید صاحب سعدی لاہوری کی معیت میں علاقہ ہزارہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا.آپ نے سید مدثر شاہ صاحب غیر مبایع کے ساتھ مباحثہ کے حالات بیان کئے.آپ کے بعد جناب مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ( نے ) اکثر دوستوں کی خواہش پر حالات بیان کئے.آپ نے سید مدثر شاہ کی ایک بات بیان کی کہ اس نے لوگوں میں یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ حضرت مسیح موعود کے وقت میں اور آپ کے بعد خلیفہ اول کے وقت میں جب کبھی حضرت خلیفہ اول بیمار ہوتے تو مولوی محمد علی آپ کی جگہ قرآن کریم کا درس دیتے تھے.حالانکہ یہ ایک ایسا جھوٹ ہے جسے ہر ایک وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اول کے وقت یہاں آیا ہو آسانی سے معلوم کرسکتا ہے.مولوی محمد علی درس قرآن کریم دینا تو بڑی بات ہے اسے تو قادیان کے زمانہ قیام میں کبھی یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ اس نے کسی ایک شخص کو بھی قرآن کریم پڑھایا ہو.“ ۲۵۷ ” (۲) خلیفہ وقت کی بیعت ضروری ہے.تیئیس صفحات کا یہ نہایت جامع مانع مضمون مولوی محمد علی صاحب کے مقابل عالمانہ جوابات پر مشتمل ہے.۲۵۸ (۳) "القول الحمود فی شان الموعود نام کتاب ( صفحات ۱۷۸.سائز ۱۸۷۲۲ مطبوعه ۱۹۱۶ ء مولوی محمد احسن صاحب کے رسالہ القول المجد فی تفسیر اسم احمد کا مسکت خصم اور مدلل جواب عالم حقائق آگاہ مولا نا مولوی محمد سرور شاہ صاحب کی طرف سے دیا گیا.اس میں اسمہ احمد کی تفسیر کے متعلق بہت سے اعتراضات کے مسکت جوابات مرقوم ہیں.ظلی نبوۃ اور ختم نبوت کی تشریح مسیح موعود کہنے سے آنحضرت صلعم کی ہتک نہیں بلکہ شان بڑھتی ہے آخرین منھم سے آنحضرت صلعم کی بعثت ثانیہ اور مسیح موعود کی نبوت کا ثبوت." تثلیث فی التوحید کے الزام کی تردید، مسیح موعود کا حکم و عدل ہونا، مسئلہ نبوۃ کی تشریح پر مفید روشنی ڈالی گئی ہے.(۴) مولوی محمد احسن صاحب کی مذکورہ کتاب کا جواب بارہ کالم میں بعنوان سید محمد احسن امروہوی نازک حالت میں.۲۵۹ آپ نے مولوی محمد احسن صاحب پر کڑی تنقید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اب ان کے ہوش وحواس قائم نہیں رہے.(۵) نبوت و کفر پر تقریر بر جلسہ سالانہ - ۲۶۰ (1) نبوت مسیح موعود، تقریر جلسه سالانه ۱۹۲۲ء- ۲۶۱ (۷) نبوت مسیح موعود اور میں.اٹھارہ کالم کا مضمون.مولوی محمد علی صاحب نے ٹریکٹ اتمام حجت نمبرا“ میں یہ دعا کیا ہے کہ حقیقۃ النبوة“ کی تالیف سے قبل مصنفین سلسلہ نبوت کے بارے میں کچھ اور لکھتے تھے.
۲۸۰ اس تعلق میں سب سے اول حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کو مور د طعن گردان کر یہ طعنہ بھی دیا ہے کہ تفسیر قرآن مجید لکھی.مدرسہ احمدیہ کے پرنسپل ہیں.حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ کے استاد ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں امام الصلوۃ ہوتے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے دلائل قاطعہ سے جواب دیتے ہوئے اس اصولی امر کا بھی ذکر کیا ہے کہ سرور شاہ کیا کسی خلیفہ کی بات بھی کتاب اللہ ، حدیث نبوی اور تحریرات سید نا حضرت مسیح موعود کے خلاف ہو تو قابل قبول نہیں.۲۶۲ (۸) ” خلافت حقہ نام کتاب ( سائز ۱۸۷۲۶ صفحات ایک صد چار.تالیف جنوری ۱۹۳۸ء اشاعت ۱۲؍ دسمبر ۱۹۳۹ء) یہ بجواب دواشتہارات مصری صاحب کہ کیا تمام خلیفے خدا ہی بناتا ہے.خدا تعالیٰ کے حکم اور عدل کا فیصلہ.“ اور عزل خلفاء ۲۶۳ آپ کی طرف سے عرض حال میں مرقوم ہے:.یہ رسالہ فروری ۱۹۳۸ء کے پہلے عشرہ میں طبع ہو گیا اس کے ٹائٹل کا پروف جس دن میرے پاس آیا....اسی وقت جناب ناظر صاحب امور عامہ نے مجھ سے ذکر کیا کہ ایک افسر کیا اس خواہش پر کہ اگر کچھ عرصہ مصری کے مقابل تحریرات شائع نہ ہوں تو بہتر ہو.ہم نے کہہ دیا ہے کہ اگر دوسری طرف سے ہمارے خلاف کوئی تحریر شائع نہ ہوئی تو ہم اس کے خلاف کوئی تحریر شائع نہیں کریں گے.اس لئے آپ یہ رسالہ شائع نہ کریں.چنانچہ میں نے اسی وقت اس کا کام بند کر دیا.اس کے بعد جناب مصری صاحب کی تحریرات ہمارے خلاف شائع ہوتی رہیں.تو نومبر ۱۹۳۹ء میں میں نے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ معاہدہ مدت سے ختم ہو چکا ہے تو میں نے ٹائیٹل کا پروف پھر مطبع کو دیا...مصری صاحب کے ان اشتہارات کا شخص یہ ہے کہ جن خلفاء کو خدا تعالیٰ بناتا ہے ان کو انسان معزول کرنے کے مجاز نہیں لیکن اللہ تعالیٰ سب خلفاء کو نہیں بناتا بلکہ صرف پہلے کو بناتا ہے اور بعد کے خلفاء کو انسان بناتے ہیں کیونکہ نبی کی وفات پر ایک زلزلہ آتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے بعد میں ایسی حالت پیدا نہیں ہوتی.اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعد کے کسی خلیفہ کو نہیں بنایا جاتا.حضرت مولوی صاحب جواباً بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی تحریر کے الفاظ اس کے مصدق نہیں.الفاظ یہ ہیں :- جب کوئی رسول و مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آ جاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا کسی خلیفے کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سر نو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و
۲۸۱ 66 استحکام ہوتا ہے.۲۶۴ حضور نے فرمایا ہے کہ ہر نبی اور مشائخ کی وفات پر ایسا زلزلہ آتا ہے اور ہر ایک خلیفہ مشائخ میں شامل ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر بھی جماعت میں بہت بڑا زلزلہ آیا.مصری صاحب نے عبارت کو نقل کرتے ہوئے ” ومشائخ کو حذف کر کے دجل اور بد دیانتی سے کام لیا.مصری صاحب نے حضرت مسیح موعود کی تصنیف ”سر الخلافہ " (ص ۱۸) سے یہ استشہاد کیا ہے کہ صرف پہلا خلیفہ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے حضرت مولوی صاحب اس کی تردید میں فرماتے ہیں کہ یہ کتاب شیعہ خیالات کی تردید میں تصنیف ہوئی ہے شیعوں کا یہ ادعا ہے کہ پہلے تین خلفاء خلفاء نہ تھے.صرف حضرت علیؓ خلیفہ تھے.حضور اس ادعا کی تردید فرما رہے ہیں اور اس کتاب کے سیاق وسباق سے مولوی صاحب نے بتایا ہے کہ مصری صاحب کا استشہاد صریحاً غلط.مخالف قرآن اور مخالف عقیدہ حضرت اقدس ہے.اسی طرح عزل خلفاء کے خیالات کی بھی آپ نے دھجیاں خوب بکھیری ہیں.صحابہ سے مروی اقوال کا جائزہ لیا ہے اور جو غلط استنباط کئے گئے ہیں قوی قرائن و دلائل کے ساتھ ان کا بطلان ظاہر کیا ہے.(۹) "الفارق - عالم حقائق آگاہ" مولانا صاحب ادام اللہ مجدہ کی طرف سے غیر مبایعین کی تردید میں ایک نہایت مبسوط مضمون اس نام سے اکسٹھ صفحات میں تالیف ہوا ہے.جس میں آپ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلعم خاتم کمالات نبوت ہیں.انبیاء کی معرفت ابتداء میں اتنی ہی ہوتی ہے.جتنی باپ کو اپنے بیٹے کی.اپنے ایمان کو شکوک سے زائل نہ کرنا چاہئے ورنہ شبہات کا سلسلہ نا متناہی ہے اور فیصلہ کے لئے قرائن قویہ کافی ہوتے ہیں.چنانچہ یہاں یہ قرائن ہیں کہ الہام اِنِّی مَعَكَ وَ مَعَ اَهْلِک اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود اور حضور کے اہلبیت کے ساتھ ہے اور اھلک سے مراد یقیناً حضور کے اہلبیت ہیں.پس حق پر وہی ہے جو حضور کے اہلبیت کے ساتھ ہے.الوصیة کی رو سے مقبرہ بہشتی مومن و منافق میں فرق کرنے والا ہے.غیر مبایعین نے حضور کے قائم کردہ مقبرہ بہشتی سے قطع تعلق کیا بلکہ اس کے قرب و جوار میں زمین خرید کر اسے بہشتی مقبرہ قرار دے کر اصل بہشتی مقبرہ سے تمسخر کیا.حضور نے یہ کہیں قرار نہیں دیا کہ مقبرہ بہشتی کی قرب وجوار کی سب اراضی بہشتی ہوگئی ہیں اور خواہ کوئی گروہ یا شخص میرے مقررہ بہشتی مقبرہ کی متصلہ اراضی کو مقبرہ بنائے گا تو وہ بھی بہشتی مقبرہ بن جائے گا.البتہ حضور نے اس اضافہ کو بے شک بہشتی مقبرہ قرار دیا ہے جو اضافہ وہ انجمن کرے جسے خدا کے مسیح نے خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین قرار دیا اور جس کے لئے یہ ضروری قرار دیا کہ اس تذکرہ صفحہ ۳۵۷.جدید ایڈیشن
۲۸۲ کا مقام ہمیشہ قادیان رہے.یہ درست نہیں کہ وہ انجمن اب انجمن نہیں رہی ، نہ حضرت اقدس نے یہ لکھا ہے کہ جب آپ کے نزدیک اس انجمن میں کوئی نقص یا اعتراض وارد ہو تو یہ مقبرہ مقبرہ بہشتی نہ رہے گا.اور اس کے مقابل اور مقبرہ بہشتی تجویز کر لو.مقبرہ بہشتی نے حق و باطل میں امتیاز کر دیا ہے.غیر مبایعین کے وصایا کا سلسلہ اس کے لئے بند ہونا اور اس کی نسبت وصایا کو روکنا اور سابقہ وصایا کو ان لوگوں کا فسخ کرنا اور بالمقابل ایک اور بہشتی مقبرہ تجویز کرنا یہ سب امور غیر مبایعین کے باطل پر ہونے کے بین دلائل ہیں.حضور نے صدر انجمن کو خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین قرار دیا اور اسی کے فیصلہ کو غیر مبایعین رد کر رہے ہیں.کیونکہ اسی انجمن نے فیصلہ کیا تھا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ ہیں اور نئے اور پرانے احمدی ان کی بیعت کریں اور آئندہ آپ کا حکم ہمارے لئے ایسا ہو جیسا کہ حضرت مسیح موعود کا تھا اور صدرانجمن نے ایسا ہی فیصلہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی خلافت کے متعلق کیا جو غیر مبایعین نے قبول نہ کیا اور ایک انجمن بالمقابل قائم کر لی.پہلی انجمن کے ٹوٹ جانے کی جو وجہ بتائی جاتی ہے وہ غلط ہے.حضرت خلیفہ اول نے فیصلہ کیا کہ انجمن خلیفہ کے ماتحت ہے اور اس کے خلاف کہنے والوں سے دوبارہ بیعت لی.خدا کے رسول کی تخت گاہ سے بکلی منقطع ہونے والے حق پر نہیں ہو سکتے.قادیان کے چندہ کی پانچ مدات حضرت اقدس نے مقرر فرمائیں.جنہوں نے ان مدات میں چندہ دینا بند کر دیا.بلکہ دوسروں کو بھی روکا.وہ بھی حق پر نہیں ہو سکتے.ایک نبی یا مامور کے سارے اہلبیت اس کی وفات کے بعد گمراہ نہیں ہو سکتے.تاریخ وصحف انبیاء اس پر شاہد ہیں.پھر وہ نبی اور مہدی اور مسیح جس کے سانس سے کفار قتل ہوں.جو لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه کا مصداق ہو جو شیطان کے ساتھ آخری جنگ کرنے اور اس کے گروہ پر آخری اور دائمی غلبہ پانیوالا ہو اس کے سارے اہلبیت جس پر وہ آخر تک راضی رہا.اس کے رخصت ہوتے ہی بلا استثناء گمراہ ہو جا ئیں یہ ناممکن ہے.حضور ” آئینہ کمالات اسلام میں تحریر فرماتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء کی مبشر اولا دضرور صالح اور حق پر ہوتی ہے (ص ۵۷۸) اور حضرت اقدس کی ساری اولا د مبشر تھی.خلیفہ عثمانی مصلح موعود ہیں.حضرت اقدس کے بیٹے اگر ضال اور مضل ہیں تو کیا حضرت اقدس کی ساری دعائیں اکارت گئیں ؟ ہر نبی کی ایک دعا ضر ور مستجاب ہوتی ہے اور وہ حضور نے اپنی اولاد کے حق میں کی اور اس دعا کے قبول ہونے کا حضور کو الہام ہوا.انسی معک وَ مَعَ اَهْلِكَ کی رو سے اللہ تعالیٰ کی معیت بھی حاصل ہے.حضور کے الہام أُخْرِجَ مِنْهُ اليَزِيدِ يُونَ کی رو سے حضور اقدس کی اہلبیت کی یزیدیوں کی طرح مخالفت کرنے والے ضرور نا حق پر ہیں.ا تذکرہ صفحہ ۱۴۱.جدید ایڈیشن
۲۸۳ آپ اس کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول بار بار مولوی محمد علی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے تھے کہ یزید بہت ہی برا شخص ہوا ہے.خدا نے مجھے سالم سورۃ قرآن اس کے حق میں نازل فرمائی ہوئی بتائی ہے.اسی طرح بنی امیہ کے حق میں بھی ایک سالم سورۃ موجود ہے.آپ ضرور اس کے متعلق قرآن مجید کے نوٹوں سے زور سے لکھیں.یہ بہت ہی برا آدمی ہوا ہے اس لئے کہ اس نے بڑے پاک خاندان کا مقابلہ کیا ہے.ایک دن آپ نے بڑے زور کے ساتھ فرمایا اور پھر زار زار رو پڑے.ہم نے الگ اس بارہ میں گفتگو کی کہ حضور بڑے زور سے اور بار بار اور بالخصوص مولوی محمد علی صاحب کو ہی مخاطب کر کے کیوں فرماتے ہیں تو ایک معزز شخص نے کہا کہ حضرت خلیفہ اول یہ جانتے ہیں کہ یہ لوگ مخالفت اہلبیت کر کے یزیدی سنت بننے والے ہیں اور مولوی محمد علی صاحب ایسے لوگوں کے رئیس ہیں.نیز اس مضمون میں مولوی صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود کے الہامات نے پیش آمدہ واقعات کا نقشہ کھینچ دیا.خصوصاً حضور کے آخری سالوں کے ماہ مارچ کے اور پھر خصوصاً ۱۴،۱۳ اور ان کے قریب کی تاریخوں میں یہ الہامات ہیں جن میں بتایا کہ اس غیر مبایعین کے رئیس کا مرکز لاہور ہوگا.یہ لوگ اہلبیت پر افترا کریں گے.اہلبیت چونکہ صادقین میں سے ہوں گے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی تطہیر کرے گا.ایک سنجیدہ شخص مرتد ہو گا.مولوی محمد علی صاحب کو رڈیا میں کہ آپ بھی صالح تھے ، چنانچہ مولوی صاحب کی قادیان سے عشق والی بات جاتی رہی.انہوں نے ترجمۃ القرآن کے متعلق غیر صالح طریق اختیار کیا.خواجہ کمال الدین صاحب کے پاگل اور ننگا ہونے اور حضرت مسیح موعود اور حضرت مولوی نورالدین صاحب پر حملہ کرنے اور مسجد یعنی جماعت سے نکلنے کا حضور نے رؤیا دیکھا.غیر مبایعین نے قادیان، مقبرہ بہشتی ، قادیان میں چندہ دینا ، قادیان کی انجمن قادیان کے مہاجرین ، اصحاب الصفہ ، خدا کے مسیح کے اہلبیت اور دارا مسیح اور دار والوں ، خدا کے مسیح کے خلیفہ، اس کی جماعت اور مسیح موعود کی نبوت ان سب باتوں کو چھوڑا.یہ لوگ جماعت احمدیہ سے منافرت اور مخالفین سلسلہ سے پیار رکھتے ہیں.مولوی محمد علی صاحب کے خیالات ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی مرتد کے خیالات سے مشابہ ہیں.(۱۰) ”کشف الاختلاف‘ کتاب و صفحات ۵۲ سائز ۲۲ ۲۰ مطبوعہ ۲۰ فروری ۱۹۲۰ ء آپ کے دو خطوط پر مشتمل ہے جن میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کی قادیان سے علیحدگی کے حقیقی اسباب قلمبند ہیں.ایک خط مولوی صاحب کے نام اور ایک اپنے رشتہ دار کے خط کے جواب میں ہے.اس میں بھی آپ نے عجیب رنگ میں نہایت مسکت دلائل رقم فرمائے ہیں مثلاً تفرقہ کے موجب دوامور ہیں.فتویٰ تکفیر اور احمدیوں سے بیعت لینا.غیر مبایعین نے اپنی شوریٰ میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب
۲۸۴ ایدہ اللہ تعالیٰ کے امیر تسلیم کرنے کے لئے یہ شرط بالکل پیش نہیں کی کہ غیر احمدیوں کی نسبت فتویٰ تکفیر سے رجوع کریں.حالانکہ سب سے پہلی شرط یہی ہونی چاہیے تھی کیونکہ حقیقی مسلمان کو کافر کہنے والا ہرگز امیر نہیں ہوسکتا.بلکہ ان کو پاک نفس قرار دیا.جب یہ تجویز ہوئی کہ وفد حضرت میاں محمود احمد صاحب ( ایدہ اللہ ) کے پاس بھیجا جائے کہ اگر وہ لکھ دیں کہ پرانے احمدیوں سے بیعت نہ لیں گے اور صدر انجمن پر حکومت نہ کریں گے تو پھر ہم ان کو تسلیم کر لیں گے.اس میں بھی یہ شرط نہ کی کہ بشرطیکہ وہ تکفیر چھوڑ دیں.احمدیوں سے بیعت لینے کے متعلق آپ لکھ چکے ہیں کہ جو چاہے خلیفہ کی بیعت کرے لیکن اسے ضروری قرار نہ دیا جائے اس سے ثابت ہے کہ بیعت کرنا یا نہ کرنا دونوں آپ کے نزدیک جائز ہیں تو ایک جائز امر کے لئے تفرقہ جیسا نا جائز اور ممنوع اور حرام امر کا ارتکاب کرنا کس طرح جائزہ ہوسکتا ہے.اسی طرح حضرت مولوی سرور شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ابطال خلافت کے لئے کس جرات سے حضرت مسیح موعود کی نبوت ورسالت کی خاک اڑائی ہے اور کس دیدہ دلیری سے حضور کے ماننے کو غیر ضروری قرار دیا ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود نے ڈاکٹر عبدالحکیم کو جماعت سے خارج کر دیا اور اسی لئے خارج کیا تھا کہ وہ آنحضرت صلعم اور حضرت مسیح موعود کے ماننے کو مدار نجات قرار نہیں دیتا تھا.اسی طرح مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ آپ لوگ کس کس رنگ میں حضور پر یہ الزامات لگاتے تھے کہ کیسی غضب کی بات ہے کہ قومی مال ناجائز رنگ میں استعمال ہوتا ہے.شخصی خواہشات میں صرف ہوتا ہے اور روپیہ اچھی طرح نہیں سنبھالا جاتا.ان باتوں میں خواجہ کمال الدین صاحب پیش پیش تھے اور حضور کی ناراضگی کی ان کو مطلق پرواہ نہ تھی.حضور نے بار ہا خواجہ صاحب کے ضعف ایمان کا ذکر کیا مثلاً سعد اللہ لدھیانوی والے مضمون کے متعلق ( کہ اس مضمون میں تبدیلی کرانا چاہتے تھے.مؤلف ) اور جلسہ اعظم مذاہب والے مضمون کو سن کر خواجہ صاحب نے منہ بنا لیا.گویا جلسہ میں سُنانے کے قابل نہیں سمجھا.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کے اعلیٰ ہونے کی خبر دی تھی اور باوجود ( تاکید کے اس بارہ میں اشتہارات کی اشاعت نہ کی.یہ خواجہ صاحب کی ہی تدبیر تھی کہ غیر از جماعت لوگوں کا قرب حاصل کیا جائے.اگر احمدیوں کو چھوڑا تو متلون مزاج ٹھہریں گے اس لئے جماعت میں رہتے ہوئے غیر احمدیوں میں رسوخ حاصل کرنے میں موانع ، خلیفہ فتویٰ کفر، نمازوں کی علیحدگی اور نماز جنازہ میں عدم شرکت تھے.ان موانع کو دور کرنے کے لئے احمدیوں کے ایک با اثر جتھہ کی ضرورت تھی.جو آپ ( یعنی مولوی محمد علی صاحب) کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے انہوں نے آپ کو آلہ کار بنایا.آپ خواجہ صاحب کے اصولوں کے خلاف تھے اور آپ سے ان کے مباحثات ہوتے تھے اور آپ ان کو ”ہمارے پولوس کہا کرتے تھے بلکہ ایک دفعہ لاہور کے جلسہ میں بھی آپ کے منہ سے یہ لفظ نکل گیا
۲۸۵ تھا.خواجہ صاحب آپ کو اپنے موافق بنا کر آلہ کار بنانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے.آپ کے قادیان چلا آنے کو بے مثل قربانی قرار دیتے.کبھی اپنا پیر ومرشد ظاہر کرتے اور کبھی آپ کے علم و فضل اور معارف و حقائق کی داد دیتے.آپ کو مولانا کے خطاب سے یاد کرتے کبھی آپ کے پاس بیٹھ کر کسی دوسرے کو مخاطب کر کے کہتے کہ اگر قوم میں سے کئی افراد آگے بڑھنا چاہیں تو ان میں کشمکش پیدا ہوتی ہے اور کوئی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا.ہاں اگر ساری قوم ایک آگے بڑھے ہوئی شخص کو آگے بڑھانے لگے تو اس شخص کی شخصیت دوسروں کے نزدیک بھی ضرور مؤثر ہو جاتی ہے اور پھر آپ کی طرف اشارہ کر کے کہتے کہ ہم میں یہی ایک شخص ہے جو آگے ہے اور ہم سب کو مل کر اس کو اور آگے کرنا چاہئے.خواجہ صاحب نے آپ کے دو اوصاف کا خوب مطالعہ کر کے ہر ایک سے اچھی طرح فائدہ اٹھایا.ایک وصف مخالفت ، قوت انتقام اور غضب کی اور دوسری دوستی کی ، حضرت خلیفہ اول اور حضرت مرزا محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ ) سے آپ کو رنج تو ہو ہی چکا تھا.پس خواجہ صاحب ان کی مخالفت کا رنگ چڑھا کر آپ کو باتیں اور چالیس منوا لیتے مثلاً کہدیا کہ (حضرت) میاں محمود احمد صاحب کے اقتدار کی روک تھام کا سارا راز اسی میں بھرا پڑا ہے اور کبھی دوستانہ رنگ کی باتیں کر کے آپ کو ان کے قبول کرنے پر مائل کر دیا.سو اس طرح خواجہ صاحب نے آپ کو اپنا آلہء کار بنالیا.حضرت مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں :- جناب اس زمانہ پر غور فرما ئیں جب کہ اخبار وطن والی تجویز ہوئی.وہ ابتدائی زمانہ تھا اور وہ تجویز اس ( یعنی خواجہ صاحب) کی قائم کردہ سکیم کا آغاز تھا.مجھے وہ وقت خوب یاد ہے جب کہ اچانک حضرت مسیح موعود آپ کے حجرہ میں آگئے اور آتے ہی فرمایا کہ مولوی صاحب میں آپ سے ایک بات دریافت کرتا ہوں کہ اسلامی رسائل بہت کچھ شائع ہوئے مگر ان کا غیر مذاہب پر کوئی اثر نہیں ہوا اور آپ کے رسالہ کا اثر مخالفوں نے بھی مانا ہے اس کی کیا وجہ ہے کیا مردہ اسلام وہ نہیں پیش کرتے ؟ تو اگر آپ کے رسالہ میں بھی مجھے نہ پیش کیا گیا اور مردہ اسلام پیش کیا گیا تو اس کا کیا اثر ہوگا.تو آپ نے اس وقت یہی جواب دیا کہ حضور میں نے بھی خواجہ صاحب کو یہی کہا تھا اور میں تو اس تجویز کا مخالف ہوں.فقط خواجہ صاحب ہی نے اس کو پسند کیا ہے اور وہی اس پر زور دے رہے ہیں.تب حضور نے خواجہ صاحب کو خط آپ سے لکھوایا تھا.(ص۲۴) قرائن شاہد ہیں کہ ڈاکٹر عبدالحکیم مخرج بھی خواجہ صاحب کا زیر تربیت تھا.چنانچہ ڈاکٹر نے الذکر الحکیم نمبرم میں لکھا کہ جب ایڈیٹر وطن کی تحریک پر مولوی محمد علی صاحب و خواجہ صاحب وغیرہ نے یہ تجویز شائع کی کہ ریویو آف ریلیجنز قادیان میں عام اسلامی مضامین شائع ہوا کریں اور ( حضرت ) مرزا صاحب کے متعلق ابحاث علیحدہ ضمیمہ میں شائع ہوں جو مریدوں یا خواہشمندوں کے نام بھیجوائی جائیں.اس تجویز کی اشاعت سے میرا
۲۸۶ دل قد رٹھنڈا ہوا اور میں نے کہا کہ ہماری جماعت میں عالی خیال اور عالی ظرف لوگ بھی ہیں اور اب یہ کام قرآنی رنگ اور خدائی آئین پر چلے گا لیکن یہ تمام خوشی خاک میں مل گئی.جب پکے مرزائیوں نے اس تجویز کے خلاف شور مچانا شروع کیا اور یہ تجویز خاک میں مل گئی.خواجہ صاحب کی یہی سکیم تھی کہ حضرت مرزا صاحب نے ہمیں ایسا ضرور بنا دیا ہے کہ جہاں جائیں گے استاد اور پیر کا مقام پائیں گے لیکن غیر احمدی احمدیت سے بھاگتے ہیں اور دوسری طرف حضرت مرزا صاحب کا ذکر نہ ہو تو احمدی ” نادانی سے شور ڈالنا شروع کر دیتے ہیں اس لئے یہ ترکیب نکالی کہ اگر رسالہ یا اخبار سے حضرت مرزا صاحب کا نام نکال دیا جائے اور ضمیمہ میں حضور کا ذکر ہو یا اصل رسالہ یا اخبار غیر احمد یوں میں اشاعت پذیر ہو اور ضمیمہ میں حضور کے ذکر سے احمدی خوش ہوں اور اس طرح احمدیت کا ہمارا لیبل بھی قائم رہے اور ہم متلون مزاج اور مرتد بھی قرار نہ پائیں.ان کا منشاء یہ تھا کہ اگر حضرت مرزا صاحب کے وقت میں کسی ایک رسالہ یا اخبار سے ان کا نام نکال دیا جائے تو پھر سب سے اس کو آسانی سے نکال دیں گے.چنانچہ حضور کی تدفین سے قبل خواجہ صاحب نے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ دھن ہے مرزا کہ ہم نے بھی ناخنوں تک زور لگایا کہ سود کی کوئی ایک صورت تو تو حلال کر دے پھر باقی کو ہم خود درست کر لیں گے لیکن باوجود اس قدر ہیر پھیر اور کوشش کے تو نے ایک بھی نہ مانی.آئے دن شیخ رحمت اللہ صاحب کی معرفت سود کی کوئی پیچیدہ صورت پیش کر کے جواز کا فتویٰ مانگا جاتا تھا.جس ذات والا صفات کو تمام دنیا کے لئے امام اور حکم عدل اور ایمان کو ثریا سے اور قرآن کو جو آسمان پر اٹھ گیا تھا واپس لانے والا خواجہ صاحب یقین رکھتے تھے پھر اس سے سود جیسی حرام قطعی کو حلال قرار دلانے میں طرح طرح کے حیلوں سے کام لیتے تھے اور وہ بھی اس نیت کے ساتھ کہ باقی صورتوں کو خود ہی حلال اور درست قرار دیں گے.اللہ تعالیٰ نے خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں سے اصرار کرا کے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ بنوایا.تو جلد بعد خواجہ صاحب کو خلیفہ اپنی سکیم میں سب سے بڑا مانع نظر آیا اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم سے بڑی غلطی ہوگئی اب اس کے اختیارات محدود کر کے ہی تدارک ہوسکتا ہے اور پھر اس خیال کی تشہیر شروع کی کہ انجمن حضرت مسیح موعود کی جانشین ہے اور خلیفہ اس کے حکم کے ماتحت ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ اس کا صدرر ہے جس کا کام امامت صلوٰۃ و جنازہ اور نکاح خوانی اور بیعت لینا ہے وبس.چنانچہ حضور کے وصال کے بعد پہلے جلسہ سالانہ (۱۹۰۸ء) میں خلاف معمول تمام ممبران انجمن کی تقرریں ہوئیں اور مختلف عنوانوں سے موضوع یہی امر تھا.ماسوا تقاریر حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ( ایدہ اللہ تعالیٰ ) و سید محمد احسن صاحب.جب اس بارہ میں بطور سوال یہ معاملہ حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں پیش ہوا تو
۲۸۷ حضرت ممدوح نے اہل علم و رائے احباب سے تحریری جواب مانگا اور فیصلہ کے لئے ایک تاریخ مقرر کی.لاہور سے جو افراد مدعو تھے وہ ایک کثیر مجمع لے کر بہت جوش و خروش کے ساتھ قادیان آئے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب شعر فانی کے مکان پر منعقدہ ایک جلسہ کا حال آپ ( یعنی مولوی محمد علی صاحب ) کے کمرہ میں مجتمع احباب کو بتایا گیا جس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ حضرت خلیفتہ مسیح جو فیصلہ فرما ئیں گے ہمیں منظور ہوگا.اس پر شیخ رحمت اللہ صاحب ڈاکٹر محمد حسین صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے کہا کہ ہمیں بھی اس سے اتفاق ہے کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے جمہوریت پسند خلیفہ دیا ہے اور وہ کبھی فیصلہ نہیں کرے گا کہ خلیفہ حاکم اور انجمن اس کے ماتحت ہے.اس پر خواجہ صاحب نے کہا کہ اچھا پھر ایک بندہ ہی باقی رہ گیا اور استفسار پر کہا کہ میں اکیلا یہ کہتا ہوں کہ حضرت مولوی صاحب نے اگر یہ فیصلہ دیا کہ خلیفہ حاکم اور انجمن تابع ہے تو میں ہر گز نہیں مانوں گا کیونکہ الوصیۃ میں ہمیں وصی مقرر کیا گیا ہے اور ہم نے اس وقت اسے قبول کر کے گویا حضرت مسیح موعود کے ساتھ ایک معاہدہ یا اور قانون معاہدات کی رو سے بعد کا کوئی معاہدہ جو پہلے کے خلاف ہو لا زم الایفاء نہیں ہوتا.اگر یہ کہو کہ پھر چندہ کوئی نہیں دے گا یہ غلط ہے ہم خدا کے فضل سے ان کاموں کو خود چلا سکتے ہیں.گویا خواجہ صاحب اس بارہ میں ایسا عزم رکھتے تھے.اس دن جو بھی اس کے خلاف خیال رکھنے والا ملا گالیوں سے ان کی خوب خبر لی گئی حتی کہ حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب کو خوب گندی گالیاں دی گئیں اور اگر وہ بھاگ کر دار مسیح میں نہ جا گھستے تو شاید زدوکوب تک نوبت جا پہنچتی.پھر خواجہ صاحب کے عزم کا اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس موقع پر صبح کی نماز میں بطور القاء ربانی حضرت خلیفہ اول نے سورۃ البروج تلاوت کی اور حضور تمام مقتدیوں سمیت زار زار رور ہے تھے اور مسجد رونے سے گونج رہی تھی اور جب حضور نے یہ آیت تلاوت کی کہ انَّ الَّذين فتنوا المؤمنين و المؤمنات ثمّ لم يتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحريق - تو دل موم کی طرح پکھل گیا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب کسی دل میں خلافت کے خلاف کوئی منصو بہ باقی نہیں رہ سکتا لیکن حضور کے گھر جاتے ہی خواجہ صاحب نے تقریر کی اور اس میں کہا کہ اب حضرت خلیفہ اول کوئی اور تقریر نہیں فرمائیں گے.موجودہ تقریر کے قائم مقام یہی آیات ہیں جو حضور نے نماز میں تلاوت کی ہیں.حضور نے گویا یہ وعظ فرمایا ہے کہ دیکھو مومنوں کا ایک امر پر اتفاق تھا اور وہ یہ ہے کہ انجمن حضرت مسیح موعود کی جانشین ہے اور سب جماعت اور خلیفہ پر حاکم ہے اور خلیفہ اس کا مقرر کردہ اور اس کے ماتحت ہے مگر بعض شریروں نے اس کے خلاف بات چھیڑ کر مومنوں میں تفرقہ اور فتنہ ڈال دیا.تو اللہ تعالیٰ ان شریروں کی نسبت فرماتا ہے کہ ان کے لئے عذاب جہنم ہے.سو آپ لوگ اسی بات پر جم جائیں اور کسی شریر کے کہنے پر نہ جائیں.پھر خواجہ صاحب کے عزم کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب
۲۸۸ کے ذریعہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ( ایدہ اللہ تعالیٰ ) سے کہا کہ حضرت خلیفہ اول کو یہ پیغام دیں کہ حضور اب بالکل غم نہ کریں اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کر دیا ہے کہ آپ کی دعاؤں سے سب کا اس امر پر اتفاق ہو گیا ہے کہ انجمن ہی حضرت اقدس کی جانشین اور سب پر حاکم ہے اور خلیفہ اس کا بنایا ہوا اور اس کے ماتحت ہے.حضرت میاں صاحب بھلا یہ پیغام کب پہنچا سکتے تھے.ڈاکٹر صاحب پہنچے، غرض یہ تھی کہ نماز والا اثر تو بعد کی خواجہ صاحب کی تقریر سے مٹ گیا اور یہ امر یقینی ہے کہ حضرت خلیفہ اول کو ڈرا کر کہ گویا ساری قوم آپ کے خلاف متحد ہے آپ کو تقریر سے باز رکھا جائے اور اب تک گویا لوگوں پر آپ کا مقصد ظاہر نہیں ہوا بلکہ سب یہی سمجھتے ہیں کہ آپ ( خلیفہ اول) کا بھی یہی مقصد ہے کہ انجمن ہی حاکم ہے اور اس کے خلاف جو بعض نے کہا تو آپ کو شدید ہم و غم لاحق ہوا.حضرت خلیفہ اول نے پیغام سن کر فرمایا کہ یہ لوگ تو ہم کو بیوقوف سمجھتے ہیں مگر ہمارا خدا بھی وہ ہے جس نے ہمیں کہہ دیا ہے کہ تو تقریر کر.ہمارا فرشتہ تمہارے ساتھ ہوگا اور اس کا نشان ہوگا کہ کوئی بھی تیری تقریر کا خلاف نہیں کر سکے گا اور اگر کوئی کرے تو ہم اس کو ہلاک کر دیں گے.حضرت خلیفہ اول نے تقریر میں بتایا کہ ان لوگوں نے بڑا گناہ کیا ہے اور تو بہ کے لئے نئی بیعت کی شرط لگائی تو سب سے پہلے معانی کے خواستگار یہی خواجہ صاحب ہوئے اور مولوی محمد علی صاحب کی رکاوٹ کو محسوس کر کے فرمایا کہ مشورہ کر لو تو خواجہ صاحب مولوی محمد علی صاحب کو نئی بیعت کے لئے تیار کر کے ساتھ لے گئے اور بیعت کی.اس جلسہ کے بعد اپنے جوش کے باعث چند منٹ بھی تو ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب قادیان میں نہیں ٹھہرے اور اپنے کمرہ میں مولوی محمد علی صاحب نے خواجہ صاحب کو کہا کہ آپ نے تذلیل کرائی ہے.اب میں یہاں پر ہرگز نہیں رہوں گا.خواجہ صاحب مولوی محمد علی صاحب کو ہفتہ بھر سمجھاتے رہے کہ ایسے کاموں میں جلدی اور جوش سے نقصان پہنچتا ہے.تحمل سے موقع کا منتظر رہنا چاہئے اگر مقصد حل ہو جائے تو بہتر ورنہ عاجزی سے دوسرے موقع کا انتظار کرنا چاہئے.ہم نے زور لگا کر دیکھ لیا ہے.قوم خلیفہ کے ساتھ ہے لیکن وہ بوڑھا ہے آج کل میں گزرنے والا ہے اس وقت کا انتظار کرنا چاہئے.خواجہ صاحب کشمیر چلے گئے اس وقت حکیم فضل دین صاحب بھیروی کی حویلی کی فروخت کا معاملہ پیش آیا.حضرت خلیفہ اول ایک شخص کو دو ہزار میں دلوانا چاہتے تھے.(جس کی قوی وجو ہات تھیں.مؤلف ) مولوی محمد علی صاحب اس موقع پر مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہم حکیم صاحب کے بھائی سے چھ ہزار تک لے سکتے ہیں.مقصد یہ تھا کہ جماعت اس تفصیل کو سنے گی تو حضرت خلیفہ اول کی شہرت کو دھکا لگے گا اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ کو فتح حاصل ہوگی.مولوی سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت خلیفہ اول نے نماز کے بعد سب کو کہا کہ میں نے سمجھا تھا کہ فتنہ مر گیا ہے مگر اس نے پھر سر اٹھایا ہے.اس لئے دوست دعا
۲۸۹ کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے کچل دے اور وہ پھر کھڑا نہ ہو سکے.اس پر ہم چند اشخاص نے مشورہ کر کے مولوی عبدالحئی صاحب عرب کو بھیجا جنہوں نے مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ حضرت خلیفہ اول اس شخص سے وعدہ کر چکے ہیں اور خلیفہ اول ہزار ہا روپیہ انجمن کو دے چکے ہیں اور ایک کمرہ قریب میں بنوانے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں.وہ کبھی کسی کا احسان اپنے اوپر نہیں رکھتے.ممکن ہے وہ اس کمی سے دو چندانجمن کو دیدیں.وہ خلیفہ ہیں.آپ مخالفت کریں گے تو وہ جماعت سے آپ کو خارج کر دیں گے.اس پر مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ ہم کسی کا روپیہ نہیں لیتے اور نہ انجمن کا روپیہ چھوڑتے ہیں.میرا اخراج از جماعت سہل امر نہیں لندن اور امریکہ تک میرا نام پہنچ چکا ہے.خواجہ صاحب نے کشمیر سے تار دیا اور خط لکھا کہ ایسے رویہ سے باز رہیں ورنہ میں ساتھ نہ دوں گا.تب مولوی محمد علی صاحب باز آئے لیکن اس وقت تک حکیم صاحب مرحوم کے بھائی کو حضرت خلیفہ اول کی ناراضگی کا علم ہو چکا تھا اور انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اب اگر مجھے حویلی مفت بھی دیں تو بھی نہیں لوں گا.خواجہ صاحب کشمیر سے واپس آئے تو اس بات کی مولوی محمد علی صاحب کو تلقین کی کہ اب مقابلہ بالکل نہ کریں بلکہ آخری وقت کے منتظر رہیں.مگر یہ دیکھ کر بہت خطرہ محسوس کیا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ( ایدہ اللہ تعالیٰ ) کی ترقی روز افزوں ہے اور حضرت خلیفہ اول نے آپکو اپنی جگہ انجمن کا صدر اور امام الصلوۃ مقرر کر دیا ہے.چند مقامات پر حضرت صاحبزادہ صاحب تقریر کے لئے تشریف لے گئے تو بہت تعریف ہوئی.اس کی روک تھام خواجہ صاحب نے یوں کی کہ حضرت خلیفہ اول سے بڑی تڑپ سے عرض کی کہ حضور کو معلوم ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود جب کبھی باہر تشریف لے جاتے تو کس قدر مخلوق آپ کی خدمت میں ہوتی اور ایک شان نظر آتی تھی اور اب ان کے صاحبزادے ہیں اور ہم ان کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں اور حضور معمولی جیسے لوگوں کی درخواست پر بھی ان کو اکیلا باہر بھیج دیتے ہیں.جو کہ بالکل ہی ان کی شان کے خلاف ہے اور اس سے ہمیں صدمہ ہوتا ہے.دوسری طرف حضرت ام المؤمنین تک یہ بات پہنچائی کہ ہم کچھ کہہ نہیں سکتے.حضرت خلیفہ اول بے پرواہ ہیں.ساری دنیا دشمنوں سے بھری پڑی ہے.جو کہ بُرے سے بُرا ارادہ رکھتے ہیں خلیفہ اول میاں صاحب کو اکیلے باہر بھیج دیتے ہیں.جب تک وہ واپس نہ آجائیں ہمیں آرام نہیں آتا.اس طرح حضرت میاں صاحب کا باہر جانا بند کر کے خود تقریروں کے دورے پر باہر جانا شروع کر دیا اور ہر جگہ حضرت میاں صاحب کی نسبت طرح طرح کے افتراء سنا کر بدظنی پھیلاتے رہے.خواجہ صاحب کو کسی کے کام سے ولایت جانا پڑا تو ان کی صحبت اور تلقین صبر سے جدائی کے باعث ان کے رفقاء میں پھر جوش بھر آیا اور حضرت خلیفہ اول کی بقیہ چند روزہ زندگی بہت طویل نظر آنے لگی.وہ صبر نہ کر
۲۹۰ سکے اور اظہار حق ٹریکٹ شائع کر کے آپ کو خلافت سے اتارنے کا تہیہ کیا لیکن نا کام ر.انکشاف پیشگوئی مصلح موعود اور آپ کا اخلاص جنوری ۱۹۴۴ء میں بمقام لاہور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پر ایک عظیم الشان رویا کے ذریعہ اس امر کا انکشاف ہوا کہ آپ ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کے مصداق ہیں یا اس کے اعلان کے لئے ہوشیار پور، لاہور ، لدھیانہ اور دہلی کے شہروں میں عظیم الشان جلسے منعقد کئے گئے.ان مقامات سے اس پیشگوئی کا خاص تعلق تھا.ہوشیار پور میں چلہ کے دوران میں مصلح موعود کے متعلق وحی ہوئی تھی.لاہور میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ پر اس کا انکشاف ہوا.لدھیانہ میں بیعت کے آغاز سے سلسلہ احمدیہ کی بنیا درکھی گئی تھی.دہلی نہ صرف مملکت ہند کا مرکز تھا بلکہ حضرت ام المؤمنین اعلی اللہ در جانتہا کا وطن تھا.جو مبارک نسل کی والدہ تھیں.جماعت احمدیہ کے افراد اس مژدہ جانفراء پر پھولے نہ سماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے افضال کے شکر گزار تھے.۲۰ فروری کو اس پیشگوئی سے خاص تعلق ہے.اس تاریخ کو ہوشیار پور میں جلسہ منعقد ہوا.نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے حضرت میر محمد الحق صاحب امیر قافلہ مقرر ہوئے آپ نے ایک ہینڈ بل میں ہدایات طبع کرا کے ہر سفر کنندہ کو دے دیں جس میں تاکید تھی کہ یہ سفر نہایت تہذیب اور تقویٰ اور خشوع و خضوع سے ہونا چاہئے.یہ اڑھائی صد افراد پر مشتمل قافلہ ۱۹ کو روانہ ہو کر اگلے روز ہوشیار پور پہنچا.حضرت مولوی صاحب اس قافلہ میں شریک تھے.* لاہور والے جلسہ میں بھی آپ شریک ہوئے تھے اور لدھیانہ کے جلسہ میں بھی شرکت کے لئے مکرم ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان کی موٹر میں ان کی معیت میں قادیان سے تشریف لے گئے تھے.اس کتاب میں غیر مبایعین اور ڈاکٹر عبد الحکیم مرتد کے خیالات کا کمال تشابہ بھی بتایا ہے وغیرہ چونکہ خلاصے بھی طویل ہو گئے ہیں مزید کی گنجائش نہیں.۱-۲۴- ۲۸ کو قادیان میں خطبہ جمعہ میں حضور نے یہ رو کا بیان فرمائی ۲۶۵ یہ امر جماعت مؤمنین کے لئے جس قد رمسرت بخش تھا ظاہر ہے.خاکسار مؤلف کو یاد ہے کہ حضور کا یہ خطبہ سننے پر خاکسار نے عصر اور مغرب کی نمازیں اور غالبا عشاء بھی مسجد مبارک میں ادا کیں تا کہ اس مبارک روز بار بار حضور کی زیارت ہو سکے.حالانکہ خاکسار کا قیام دار الفضل کے محلہ میں تعلیم الاسلام کالج کے قریب تھا.فالحمد للہ علی ذالک.* قافلہ کے سفر کے حالات میں آپ کا اسم گرامی درج ہے.۲۶۶، خاکسار اس قافلہ میں شامل تھا بلکہ ہر چہار مقامات کے جلسوں میں شرکت کا موقع مالا.شرکت کرنے والوں کے اوقات ذکر اللہ سے معمور تھے.
۲۹۱ حضرت مولوی صاحب جیسے بزرگ کی مسرت و شادمانی کا اندازہ لگا نا سہل امر نہیں کہ ان کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے استاد ہونے کا شرف حاصل تھا نیز آپ نے خلافت اولی اور خلافت ثانیہ میں قیام و استحکام خلافت میں کا رہائے نمایاں سرانجام دیئے تھے.۲۶۷ احمدیت اور اس کی خلافت سے جیسی شدید قلبی وابستگی آپ کو تھی وہ تو ظاہر وباہر ہے.پھر بھی بعض حوالے یہاں درج کئے جاتے ہیں تا کہ قارئین کرام اس جذ بہ کی گہرائی کا قدرے اندازہ کر سکیں.(۱) بشمول آپ کے چھپیں احباب کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری کو دعوت مباہلہ دی گئی.۲۶۸ (۲) ایک معترض کے جواب میں مضمون میں لکھتے ہیں :- بالآخر میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں اور خدا خوب جانتا ہے کہ دردِ دل سے اور علی البصيرة کرتا ہوں.ہم لوگ نادان نہیں، خود غرض نہیں، فریب اور فریبی کے ہر گز محتاج نہیں اور پھر اپنی عزت اور دوستوں ، رشتوں اور خصوصاً اپنے ایمانوں کے ہرگز ہرگز دشمن نہیں اور نہ ہم لوگوں نے اپنے وطنوں اور روزگاروں سے بڑھ کر یہاں پر کسی سکہ کو دیکھا تھا اور نہ ہم نے دھوکا کھایا ہے.قرآن و حدیث سے خوب واقف ہیں.زمانہ کی حالت کو خوب جانتے ہیں اور خدا کے فضل سے پھر مردم شناس اور عاقبت اندیش ہیں.واللہ اللہ ثم اللہ کہ پھر ہم نے بڑا تجربہ کیا اور سالہا سال کیا.پھر مرزا صاحب کو کتاب اللہ ، سنت اللہ ، سنت الانبیاء اور احادیث نبویہ کے مطابق ہم نے راستباز ، خدا کا فرستاده ، خدا کا مسیح" اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فدائی غلام اور آپ کے دین کا سچا عاشق اور وفادار خادم پایا.۲۶۹ بقیہ حاشیہ:- جلسہ دہلی کے موقع پر خواتین والے حصہ کی بیرونی قناتوں پر میں پہرہ کے لئے متعین تھا.اس جلسہ میں اسلام کے علمبرداروں“ نے ” اسلامی تہذیب کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواتین والے حصہ پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے داماد میاں عبدالرحیم احمد صاحب مخالفین کے پتھراؤ سے شدید بیمار ہو گئے تھے اور باری باری تیمار داری جن کے سپرد تھی ان میں سے خاکسار بھی شامل تھا.ہمیں تیمار داری کی خاطر قادیان آنے سے روک لیا گیا تھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ خاکسار کی ڈیوٹی کے وقت جو اوائل شب میں تھی ان کو دیکھنے بھی آئے تھے اور ہم تیماردار بھی حضور کے مراجعت فرما ہونے پر ساتھ ہی قادیان واپس آئے تھے.راستہ میں ایک جگہ حضور کے چھوٹے صاحبزادگان کے متعلق جو تیسرے درجہ میں ہمارے ساتھ تھے حضور کی خدمت میں ایک اطلاع دینے گیا واپسی پر ایک اور ریل گاڑی کے نیچے آنے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بچالیا.مجھے اس کے آنے کا علم نہیں تھا.میں اطلاع دے کر دوسری پڑی پر چلتا ہوا واپس دوڑا آرہا تھا ایک لمحہ قبل ہی پٹڑی سے الگ ہوا تھا.فالحمد اللہ علی ذالک.
۲۹۲ (۳) آپ رقم فرماتے ہیں :- آپ نے....کے ایک خواب کا ذکر کیا ہے جسے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے کچھ عرصہ ہوا قادیان میں بورڈ پر لکھ کر چسپاں کیا تھا.وہ خواب محض نفسانی خیالات پر مشتمل ہے اور ہرگز رحمانی نہیں.جس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا یا خواب بنانے والا کہتا ہے کہ خاکسار محمد سرور شاہ اور چوہدری فتح محمد صاحب کے خیالات اور پراگندہ ہیں حالانکہ یہ سراسر خلاف واقع ہے.حقیقت یہ ہے کہ مصری صاحب کے فتنہ نے ہمارے عقائد کو پریشان کرنے کی بجائے اور بھی مضبوط کر دیا ہے اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ سیدنا امیر المؤمنین حضرت خلیفہ اسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے بارے میں اپنا اعتقاد اس خدا کی حلف کے ساتھ شائع کر دوں جو کہ سارے جہانوں کا خالق اور مالک ہے اور جس کے نام کی جھوٹی قسم کھانا لعنتوں کا کام ہے اور جس نے حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لئے اپنے نام کی قسم کو ذریعہ قرار دیا ہے.والله باللہ ثم اللہ میرا یہ اعتقاد ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ان تمام نا پاک الزاموں سے بری ہیں جو مستریوں یا مصری پارٹی نے آپ کی ذات کی طرف منسوب کئے.میں حضرت امیر المؤمنین مرزا بشیر الدین صاحب کو نہایت مقدس اور پاکباز انسان یقین کرتا ہوں.وہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ خلیفہء برحق ہیں اور آیت استخلاف کے ماتحت برگزیدہ خلیفہ ہیں.میں اپنے اس اعتقاد پر پھر ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کو جو عالم الغیب والشہادہ ہے گواہ ٹھہراتا ہوں.والله على ما اقول شھید.“ * 66 (۴) حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب افغانستان میں شہید کئے جانے پر بعض احباب نے بشمول حضرت مولوی صاحب سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں لندن ایک عریضہ ارسال کیا کہ اس واقعہء شہادت سے جماعت احمدیہ میں خوف و ہراس پیدا نہیں ہوا بلکہ اس نے اس خونخوار سرزمین میں حضرت اقدس کا نام بلند کرنے کے لئے جوش اور ولولہ بھر دیا ہے.ہم اس واقعہ سے متاثر ہو کر فوراً اس علاقہ میں جانے کے لئے اپنے تئیں پیش کرتے ہیں.۷۰ مرض الموت آپ کو کوئی مرض لاحق نہیں ہوا.البتہ پیرانہ سالی کے باعث آپ کو ضعف و نقاہت تھی.الفضل سے پہلی الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۳۸ء.اس پر چہ میں تاریخ تر قم ۱۲ راکتو بر درج ہے.جو دراصل ۳۸-۰۱-۱۲ ہے.جیسا کہ اس تحریر سے قبل کی عبارت اور بعد کی تحریر حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی ثابت کرتی ہے.
۲۹۳ بار زیادہ نقاہت ہونے کا علم ۱۸؍ فروری ۱۹۴۷ء کی بابت معلوم ہوتا ہے.ظاہر ہے نقاہت ایک ہی روز لاحق نہیں ہوئی ہوگی تسلسل اور زیادتی کے باعث اخبار میں ایک عرصہ بعد اس کا ذکر آیا.باوجود زیادہ نقاہت کے آپ ۱۸ فروری سے یکم جون تک گویا تین ماہ بارہ دن تک سیدنا حضرت صاحب کی مجلس عرفان میں شریک ہوتے رہے اور مجلس ہی میں آپ کو بیہوشی شروع ہوگئی اور پھر شفاخانہ میں داخل کرنا پڑا ہے محترم مولانا ارجمند خان صاحب فرماتے ہیں کہ وفات جمعہ کے روز ہوئی.مولوی صاحب کی اہلیہ محترمہ دوسرے کمرہ میں تھیں میں آپ کے کمرہ میں ہسپتال میں اکیلا تھا.قریب ڈیڑھ گھنٹہ تک قرآن مجید اور سورہ یس سنا تارہا اور میری موجودگی میں آپ کی وفات نہایت سکون کی حالت میں ہوئی.الفضل میں زیرہ مدینہ مسیح ، ذیل کی خبریں شائع ہوئیں: - (بابت ۴۷-۲-۱۸) طبیعت علیل ہے.نقاہت بہت ہے.‘ (مورخہ ۴۷-۲-۱۹) (بابت ۴۷-۲-۲۲) نقاہت بہت ہوگئی ہے.“ (۴۷-۲-۲۲) (بابت ۴۷-۳-۱) طبیعت نقاہت کی وجہ سے زیادہ ناساز رہتی ہے.“ (۴۷-۳-۱) بابت ۴۷-۳-۶) طبیعت نقاہت کی وجہ سے علیل ہے.“ (۴۷-۳-۷ ) بابت ۴۷-۳-۷ ، ۴۷-۳-۱۱) ” تاحال نقاہت کی وجہ سے علیل ہیں.“ (۱۲۸ / مارچ) بابت ۴۷-۳-۱۲ ، ۴۷-۳-۱۹) نسبتاً افاقہ ہے.“ (۴۷-۳-۱۳ ، ۴۷-۳-۲۰) (بابت ۴۷-۴-۷) حضرت مولوی سید محمدسرور شاہ صاحب کو نقاہت بہت زیادہ ہوگئی ہے.“ (۴۷-۴-۸) (بابت ۴۷-۶-۲) حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب شدید بیمار ہیں.کل سے غشی طاری ہے.آج شام تک کوئی افاقہ نہیں ہوا.“ (۴۷-۶-۳) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ میں آپ کے متعلق فرمایا: - دو سینکڑوں آدمیوں نے دیکھا ہوگا کہ وہ روزانہ بلا ناغہ مجلس عرفان میں شامل ہوتے تھے حتی کہ وفات سے صرف دورات پہلے وہ مجلس میں آئے اور بیٹھے رہے ان کو مجلس میں ہی بیہوشی شروع ہوگئی.اسی دن سے آپ پر بیہوشی طاری ہوئی اور آپ تیسرے دن فوت ہو گئے.“ ۲۷۱ ۲۰ جنوری کو ایک مجاہد کے لئے مدرسہ احمدیہ میں منعقدہ الوداعی تقریب میں آپ نے دعا کرائی اور ۴ فروری کو حاجی محمد بخش صاحب جہلمی کا جنازہ مہمانخانہ میں پڑھایا.حاجی صاحب بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.۷۲، غالبا یہ آخری تقریبات تھیں جن میں آپ نے شمولیت فرمائی.
۲۹۴ وفات حسرت آیات جنازه و تدفین آسمانِ احمدیت کا ایک درخشندہ ستارہ غروب ہو گیا.“ اور ” حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کی وفات حسرت آیات کے عنوانات کے تحت مؤقر الفضل رقمطراز ہے:.قادیان ۳ / ماہ احسان.یہ خبر نہایت ہی افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب آج سات بجے شام نور ہسپتال میں چند روزہ علالت کے بعد انتقال فرما گئے.انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.اس عالم بے بدل اور فرشتہ سیرت انسان کی ناگہانی وفات ایک ایسا قومی صدمہ ہے جس کا اظہار الفاظ میں نہیں ہوسکتا.ہم حضرت مولوی صاحب مرحوم کے خاندان سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے غم میں شریک ہیں.جنازہ کل صبح ۸ بجے ہوگا.۲۷۳ بیرون چار دیواری کی قبور میں سے آپ کی قبر حضرت اقدس کی قیمر مبارک سے قریب ترین ہے اور اسی قطار میں ہے آپ کے فرزند سید محمد ناصر شاہ صاحب کی اس بارہ میں ایک درخواست حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھجوائی اور حضور نے حضرت مولوی صاحب کی خواہش کے احترام میں آپ کی تدفین کے لئے اسی جگہ قبر بنانے کی اجازت مرحمت فرمائی جہاں آپ کی خواہش تھی یہ ریکارڈ حضرت مرحوم کے فائل وصیت میں محفوظ ہے اور دفتر وصیت ربوہ کی عنایت سے ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے:- سید نا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.هو الناصر حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب مرحوم کے متعلق حضور کا ارشاد ملا کہ (۱) قطعه خاص صحابہ میں قبر تیار کرالی جائے اور (۲) کل صبح آٹھ بجے جنازہ ہو.جنازہ کے متعلق اعلان کر دیا گیا ہے اور برف کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے.قبر کے متعلق مولوی صاحب مرحوم
۲۹۵ ایک قرارداد تعزیت جامعہ احمدیہ کی قرار داد تعزیت درج ذیل ہے :- آج اساتذہ وطلباء جامعہ احمدیہ کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس میں حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے پاکیزہ خصائل پر خاکسار نے مختصر تقریر کی اور ان کے پاک نمونہ کی پیروی کی طرف شیہ: کے لڑکے سید ناصر شاہ کی ایک درخواست لف ہذا ہے.وہ کہتے ہیں کہ یہ خواہش مولوی صاحب مرحوم کی اپنی تھی.جیسے انہوں نے کئی دفعہ ظاہر کیا اور مولوی عطا محمد صاحب ہیڈ کلرک دفتر مقبرہ بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں.یہ جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام والے قطعہ کے بالمقابل غربی جانب پہلے پلاٹ کا شمالی مشرقی کو نہ ہے.یہاں صاحبزادہ شہید مرحوم کے کتبہ کی وجہ سے ایک قبر کی گنجائش ہے.مولوی صاحب مرحوم کی خواہش تھی کہ مجھے اس جگہ دفن کیا جائے اور صاحبزادہ شہید مرحوم کا کتبہ ذرا ایک طرف کر کے لگ جائے.مولوی عطا محمد صاحب کہتے ہیں کہ دونوں کی گنجائش نکل آئے گی.کیونکہ ابتداء میں قبروں کے لئے جگہ زیادہ کشادہ رکھی جاتی تھی.پس اگر حضور کو شرح صدر ہو تو اس کی اجازت مرحمت فرمائی جاوے.ورنہ دوسری جگہ اس قطعہ میں ہے.جس میں میر عنایت علی شاہ صاحب مرحوم اور مولوی غلام حسن خان صاحب مرحوم پشاوری اور مولوی عبد الماجد صاحب مرحوم بھاگلپوری کی قبریں ہیں.فیصلہ سے مطلع فرمایا جائے.عزیز سید ناصر شاہ صاحب کی تحریر لف ہذا ہے.جس پر مولوی عطا محمد صاحب کی شہادت بھی درج ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۴۷-۶-۳ فرمایا کہ مولوی صاحب مرحوم کی خواہش کے مطابق کر لیا جائے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۴۷-۶-۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم بحضور سید نا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ حضرت والد صاحب فوت ہو چکے ہیں.حضور کے غلام زادہ کی خواہش ہے کہ جہاں پر حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کا کتبہ ہے وہاں پر حضرت والد صاحب کو دفن کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے.قبر کھدوانی پڑے گی.حضور جنازہ کے متعلق جو مناسب ارشاد ہو.غلام زادہ کو مطلع فرما دیں.خاکسار سیدمحمد ناصر شاہ.میں گواہی دیتا ہوں کہ مولوی صاحب مرحوم اس جگہ کی خواہش رکھتے تھے.عطا محمد ۴۷-۶-۳.
۲۹۶ توجہ دلائی اور جناب قاضی محمد نذیر صاحب نے حسب ذیل ریزولیوشن پیش کیا..اساتذہ وطلباء جامعہ احمدیہ حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات کو ایک قومی صدمہ محسوس کرتے ہیں.حضرت مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی سلسلہ کے ایک مخلص ، پُر جوش اور بے بدل عالم تھے اور عرصہ تک آپ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہ چکے ہیں اس لئے ہمیں طبعی طور پر ان کی وفات سے سخت صدمہ پہنچا ہے.اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں آپ کے مدارج کو بہت بلند کرے اور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرماوے.ہمیں حضرت مولوی صاحب کے اہلبیت سے اس صدمہ میں دلی ہمدردی ہے.اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو.خاکسار پرنسپل جامعہ احمد سید قادیان ۲۷۴ آپ کے کتبہ کی عبارت ذیل میں مرقوم ہے :- وصیت نمبر ۳۰۳ مزار حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب تاریخ وفات ۴۷-۶-۳ عمر ۹۰ سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور قادیان ہجرت کر کے سالہا سال حضور کی صحبت میں گزارے.نہایت بلند پایہ جید عالم تھے اور علوم اسلامی پر بڑی وسیع نظر رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی انہیں بہت قدر کی نظر سے دیکھتے تھے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی وفات کے بعد جب مولوی سید محمد احسن صاحب قادیان میں نہیں ہوتے تھے تو حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ہی مسجد مبارک میں نمازیں اور جمعہ پڑھایا کرتے تھے.سالہا سال جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے اور لمبے عرصہ تک صیغہ بہشتی مقبرہ کے سیکرٹری بھی رہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.خاکسار مرزا بشیر احمد.ربوہ تعین عمر : (۱) آپ کا بیان ہے کہ ۱۹۴۷ء میں آپ کی عمر بانوے سال تھی ( اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اول ص ۱۲) اس میں آپ کو شدید سہو ہوا ہے.اس بارہ میں ذیل میں شواہد رقم کئے جاتے ہیں.
۲۹۷ وفات کے متعلق حضور ایدہ اللہ تعالی کی رویا سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ذیل کارڈ یا بمقام ڈلہوزی اوائل تمبر ۱۹۴۵ء میں دیکھا:.فرمایا.۲۳-۲۴ رمضان کی درمیانی رات کو رویا میں دیکھا.کہ میں اپنے دفتر واقع قادیان میں ہوں اور ان سیٹرھیوں سے اتر رہا ہوں جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف جاتی ہیں سیڑھیوں کی شکل بھی اس شکل سے جو واقع میں ہے مختلف معلوم ہوتی ہے.موجودہ سیڑھیاں گول ہیں اور جن کو خواب میں دیکھتا ہوں وہ سیدھی ہیں اور اصل سیڑھیوں سے چھوٹی لگتی ہیں.جب میں نیچے آیا تو میں نے دیکھا کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب کھڑے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک سفید لمبا لفافہ ہے جیسے دفتری لفافے ہوتے ہیں اس وقت مولوی صاحب اپنی موجودہ عمر اور جسمانی صحت کی حالت کی نسبت بہتر معلوم ہوتے ہیں.کمر سیدھی ہے اور چہرے پر طاقت اور نضارت کے آثار ہیں.میں نے اس لفافہ کو لے کر کھولا اور دفتر کے پاس کی گلی میں سے ہوتا ہوا احمد یہ چوک کی طرف چل پڑا.اندر سے دو کاغذ نکلے ایک وصیت کا کاغذ ہے جو سفید خوبصورت اور فل سکیپ سائز سے کوئی اڑھائی گتے بڑا ہے.کاغذ موٹا اور اس طرح کا ہے جیسے بنک یا اسٹاموں کے کاغذ ہوتے ہیں اور مطابق ۱ ۲ ستمبر بقیہ حاشیہ: - عید پر تیار کردہ فہرست میں آپ کی بیان کردہ عمر = ۶۰ سال تاریخ فہرست (جنوری ۱۹۳۵ء) تا وفات (جون ۱۹۴۷ء) میزان = = ۲ سال ۷۲ سال (۲) حضور ایدہ اللہ نے ۱۹۴۴ء میں آپ کی عمر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ستر سال کے قریب ہے.۲۷۵ اور تین سال بعد آ پکی وفات ہوئی گو یا عمر ۷۳ سال بنی.نوٹ:.خاکسار کو اس امر کی خوشی ہے کہ ۱۹۴۷ء میں جو مختصر سوانح حضرت مولوی صاحب کے خاکسار کی طرف سے الفضل میں شائع ہوئے تھے وہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نظر خیر اثر سے بھی گذرے حضور نے فرمایا: - الفضل میں ایک مضمون چھپا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عمر 9 سال کی تھی.‘ ۲۷۶ حضور کی مراداس بیان سے تصدیق وغیرہ نہ تھی صرف حضرت مولوی صاحب کی ضعیف العمری کا بیان کر کے نماز باجماعت میں با قاعدگی پر اظہار تحسین تھا تا احباب جماعت اس اسوہ سے متاثر ہو کر اس طریق پر عمل پیرا ہوں.بانوے سال کی عمر حضرت مولوی صاحب کی طرف سے بیان کردہ میں نے درج کی تھی.
۲۹۸ ساتھ کا کاغذ حنائی فل سکیپ کا ہے.جس پر دفتر مقبرہ بہشتی کی کوئی رپورٹ ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ کاغذ مولوی Δ - بقیہ حاشیہ: - (۳) آپ لاہور میں تھے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے حضرت اقدس کا لدھیانہ میں مباحثہ ہوا.بتاریخ ۹۱-۷-۳۱.اس کے بعد دیو بند جاتے ہوئے ماہ ماه - سال رمضان میں حضرت اقدس سے لدھیانہ میں ملاقات ہوئی.(رمضان شروع ہوا ۹۲ - ۳۰-۳ کو ) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اول ( ص ۴۸) گویا عرصہ قیام لاہور بحساب بالا مباحثہ لدھیانہ سے جتنا عرصہ قبل حضرت مولوی نورالدین صاحب سے لاہور میں مباحثہ ہوا ( ص ۴۸) لاہور کے مباحثہ سے قبل حضرت مولوی نورالدین صاحب سے کم از کم دوبارہ مولوی صاحب ملاقات کر چکے تھے ( ص ۴۱ تا ۴۷).تمام ملاقاتوں کی تعداد معین طور پر مذکور نہیں.بطور طبیب شاہی گرانقدر مشاہرہ پاتے ہوئے یہ تو ممکن نہیں کہ حاضر باشی والی ڈیوٹی سے جلد جلد غیر حاضر ہو جایا کریں.اقل عرصہ دو ماہ کا شمار کر لیتے ہیں.جس کے بعد حضرت مولوی صاحب جموں سے آتے ہوں.ہم تین بار ملاقات قبل مباحثہ لدھیانہ شمار کرتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ پہلی ملاقات آپ کے تعلیم کے لئے لاہور آنے پر جلد ہو گئی تھی ( گو یہ بھی ممکن ہے کہ دیگر وجوہات سے جلد جلد آپ تشریف لائے ہوں ) عمر بوقت آمد لا ہور برائے تعلیم (ص ۲۷) عرصه ۹۲-۳-۳۰ تا اوائل جون ۱۹۴۷ء گویا عمر بنتی ہے میزان : ۱۸- -۳ 19 -1 ۵۲ - ۲ ۷۴ - ۲ (نوٹ) کسی وقت انجمن حمایت اسلام کی رپورٹیں دیکھنے کا موقع ملا تو اس سے مولوی صاحب کے قیام لاہور کے عرصہ کی قریب قریب تعیین کرنے میں مددمل سکے گی.(۴) خاکسار نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ سے استفسار کیا تھا کہ حضرت مولوی صاحب کی عمر آپ سے انداز آکتنی بڑی تھی.تو آپ نے تحریر فرمایا انداز پچیس سال.حضرت صاحبزادہ صاحب کی عمر جون ۱۹۴۷ء میں ( ولادت اپریل ۱۸۹۳ء) حضرت مولوی صاحب آپ سے بڑے تھے اندازاً ماه سال ۵۴ ۲۵ - ۷۹ ง میزان
۲۹۹ صاحب نے اس لئے پیش کیا ہے کہ میں کسی وفات یافتہ شخص کے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کی منظوری دوں جب میں اس کاغذ کو دیکھنے لگا تو مولوی سید سرور شاہ صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام وفات پا گئے ہیں ان کے دفنانے کی اجازت کے متعلق یہ کاغذ ہے.یہ بات سن کر مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا اور وصیت کے کاغذ پر جو در حقیقت ایک قسم کی سند معلوم ہوتی ہے جیسے حکومت کی طرف سے انعام کے طور پر سند ملا کرتی ہے ) جو عبارتیں لکھی ہوئی ہیں میں ان کے پڑھنے کے قابل نہ رہا.اس وقت یک دم مولوی سرور شاہ صاحب غائب ہو گئے اور میری لڑکی امتہ القیوم مجھے معلوم ہوا جیسا کہ میرے پہلو میں کھڑی ہے میں نے اسے کہا کہ مجھے تو لفظ نظر نہیں آتے تم مجھے بتاتی جاؤ جہاں دستخط کرنے ہیں میں دستخط کرتا بقیہ حاشیہ: - (۵) خاکسار مؤلف نے ۱۹۴۷ء میں الفضل کی اشاعتوں میں آپکے سوانح کا اختصار شائع کیا تھا.آپ کی اہلیہ محترمہ نے ۳۰ را کتوبر ۱۹۵۰ء کے اپنے مکتوب میں خاکسار کو رقم فرمایا: - ” اخبار الفضل کے پرچے میں آپ کا اعلان پڑھا.جس سے معلوم ہوا کہ ( آپ ) صحابیوں کے سوانح حیات لکھنے والے ہیں اور میں آپ کو واضح کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے ) جو سوانح حیات لکھی ہے اس میں ان کی عمر ۹۲ سال لکھی ہے.حالانکہ ان کی عمر ۸۰ سال سے کم تھی.یعنی جب میری شادی ہوئی ہے اس وقت حضرت مولانا صاحب نے خود ہی فرمایا تھا کہ اس وقت میری عمر ۳۲ سال ہے...اور میری شادی ان کے ساتھ ۱۹۰۳ء کے ابتداء میں ہوئی تھی...حضرت مولانا کی بوجہ کمزوری کے بات یاد نہ رہتی تھی.اس لئے ۹۲ سال غلط ہے.....حضرت مولانا صاحب ایک بڑے بھائی اخویم سید محمد صادق شاہ صاحب.....حضرت مولانا سے ۳ سال عمر میں بڑے تھے.حضرت مولانا صاحب سے ۳ سال پہلے اسی سال کی عمر پا کر فوت ہوئے...حضرت مولانا کی عمرا ناسی سال تھی جب کہ اپنے حقیقی مولا سے جاملے.“ خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے.سید محمد صادق شاہ صاحب کی وفت ۱۹۴۴ء میں آپ کی وفات ستر سال کی عمر میں ہوئی ( گو ہجرت کا سن ۱۹۰۱ ء ثابت ہوتا ہے تاہم یہ معلوم ہو گیا کہ ۹۳ سال عمر نہ تھی ) (۷) اس حصہ مسودہ کی ترسیل سے قبل بحمد اللہ آپ کی ریٹائرمنٹ کے متعلق فیصلہ انجمن ( نمبر 91 معمولی مورخہ ۲۲-۳-۳۹ ) میں آپ کی ولادت ۱۰ ستمبر ۱۸۷۳ء مرقوم مل گئی گویا بوقت وفات آپ کی عمر قریباً پونے چوہتر سال بنتی ہے اس سے ساری بحث ختم ہو گئی.یہ امر بھی معلوم ہو گیا کہ خاکسار کے نتائج بھی قریب قریب صحیح تھے.فالحمد اللہ علی ذلک.
جاؤں گا.ایک جگہ اس نے مجھے دستخط کرنے کے لئے کہا.میں نے وہاں دستخط کر دیے.اس کے بعد اس نے دوسری جگہ بتائی میں نے پوچھا یہاں کیا لکھا ہوا ہے اس نے کہا کہ یہ لکھا ہوا ہے کہ گذشہ دو سال کی آمد کیا تھی.اس کی تفصیل بتائی جائے.میں نے ہاتھ جھٹک کر حقارت سے کہا کہ میں اس پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں گویا مجھے یہ بات بُری معلوم ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دفن کرنے کے لئے ان کی گذشتہ آمد کا ریکارڈ دفتر کو معلوم ہونا چاہئے.پھر تیسری جگہ میری لڑکی نے اشارہ کیا اور میں نے وہاں دستخط کر دیئے.یہ جو میں نے کہا ہے کہ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ گیا اس سے یہ مراد نہیں کہ مجھے نظر نہیں آتا تھا بلکہ جیسے ضعف کی وجہ سے چکر آ جاتا ہے اور حروف اچھی طرح نظر نہیں آتے وہ حالت تھی.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.غور کرنے سے میں نے سمجھا کہ یہ کسی ایسے مخلص صحابی یا کسی مقامی جماعت کے اہم انسان کی موت کی خبر دی گئی ہے کیونکہ خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص موصی ہے پس کسی ایسے ہی شخص کے متعلق یہ خواب ہو سکتی ہے جس کے لئے وصیت کرنا ضروری ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ شخص اپنے اخلاص میں اتنا بڑھا ہوا ہے کہ باوجود موصی ہونے کے میں نے سمجھا کہ اس کے دفن ہونے کے لئے کسی رقم کی ادائیگی کی بحث فضول ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی خدمات سلسلہ کے لئے ایسی ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جانشین عام جماعت کے لحاظ سے یا پھر مقامی لحاظ سے سمجھا جا سکتا ہے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی وصیت کے گذشتہ دو سال کی ادائیگی کے متعلق کوئی سوال پیدا ہوسکتا ہے یا پیدا کیا جائے گا.اتفاق کی بات ہے کہ انہی دنوں سید بشارت احمد صاحب حیدر آبادوالوں کی بیماری کی تاریں آ رہی تھیں چونکہ وہ بھی حیدر آباد کی جماعت میں خاص پوزیشن رکھتے ہیں بڑی دیر سے ان کی خدمت کرنے کی توفیق ملی ہوئی ہے دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ خواب ان کی نسبت نہ ہو اور ان کے لئے خاص طور پر دعا کرنے کی توفیق مل گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل کر دیا چونکہ انذاری خوا ہیں بعض دفعہ مل بھی جاتی ہیں ممکن ہے وہی مراد ہوں اور خواب کو اللہ تعالی نے ٹلا دیا ہو.ممکن ہے کوئی اور دوست ہوں جو کہ جماعتی طور پر یا لوکل طور پر ایسی اہمیت رکھتے ہوں کہ اپنے رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہلانے کے مستحق ہوں.اگر یہ خواب ٹل نہیں گئی تو بھی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کو ٹلا دے کیونکہ جماعت کو اس وقت ایک ایک کارکن کی ضرورت ہے.یہ عجیب بات ہے کہ انہی ایام میں متعدد دوستوں کی خوا ہیں ایک ہی ڈاک سے نکلیں جن میں انہوں نے
میری وفات کے متعلق نظارہ دیکھا تھا.اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسا جماعت کا کارکن خطرہ میں ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم مقام اور امام جماعت کا قائم مقام کہا جا سکتا ہے.اس طرح بعض اور دوستوں نے یہ خواہیں بھی لکھی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے ہیں.یہ خواہیں گومیری خواب کے بعد کی ہیں لیکن چونکہ میری خواب اب تک شائع نہیں ہوئی یہ تو اتر معمولی نہیں کہا ا سکتا.حمد الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۴۵ ء ص ۲،۱.اس رویا میں متعدد ایسے قرائن ہین جو انفراداً اور مجموعاً حضرت مولوی صاحب کی تعیین پر دلالت کرتے ہیں جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں :.(۱) حضرت مسیح موعود کی وفات دکھائی گئی اور دیگر احباب کو بھی حضرت اقدس یا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی وفات کی خبر دی گئی.( اللہ تعالیٰ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو عمر دراز عطا کرے.آمین ) جس دوسرے بزرگ کا ذکر ہوا ہے ان کی تنقیض کا سوال نہیں.البتہ یہ ذکر کرتا ہوں کہ حضرت مولوی صاحب اپنے علم و فضل سے کم از کم بوقت وفات یکتا تھے اور حضرت مسیح موعود و خلفاء کرام کی قائم مقامی فرماتے رہے ہیں.رؤیا کے جلد بعد ایک اور بزرگ قادیان میں فوت ہوئے تھے ان کے بعض اقارب کا خیالات تھا کہ وہی مراد ہیں لیکن حقیقتاً وہ اپنی خدمات کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود اور خلیفہ وقت کے قائم مقام نہیں تھے.(۲) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ دستخط کئے.چنانچہ مولوی صاحب کے وصیت کے ریکارڈ سے (جو اس کتاب میں درج ہے ) یہ ثابت ہے کہ حضرت مولوی صاحب کی وصیت کے متعلق دوبارہ معاملہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش ہوا.دوسری بار قبر کے متعلق مولوی صاحب کی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پہلی دفعہ حضور کے موصولہ ارشاد کا اپنی چٹھی میں ذکر فرمایا ہے.(۳) رویا میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ جھٹک کر اس امر پر حقارت کا اظہار کیا کہ تدفین کے لئے دوسال کی آمد دریافت کی جائے.یہ حضرت مولوی صاحب کی رفع منزلت اور علو مقام کا مظہر ہے.رؤیا کے بعد مولوی صاحب کی وفات تک میرے علم میں کوئی ایسی شان کا جلیل القدر انسان فوت نہیں ہوا.جس میں مندرجہ بالا ہر سہ امور مجموعہ پائے جاتے ہوں.شاید کسی کو یہ خیال گذرے کہ رویا میں خود مولوی صاحب ہی دفتر بہشتی مقبرہ کی رپورٹ پیش کرنے والے ہیں.دراصل اس حصہ رویا میں آپ کے دکھائے جانے سے مراد بہشتی مقبر کا صیغہ ہے جس کے آپ بائیں سال سے افسر تھے اور آپ کا وجود اس سے الگ نہ تھا.اسی وجہ سے ساتھ ہی یہ بھی دکھایا گیا کہ مولوی صاحب
٣٠٢ خاکسار مؤلف کے نزدیک یہ رویا حضرت مولوی صاحب کے متعلق تھی.اللہ تعالیٰ نے انداری پہلو کو قریباً پونے دو سال تک ملتوی رکھا.آپ ان اصحاب میں سے آخری بزرگ تھے جن کی اقتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نمازیں ادا کیں.گویا حضور کی قائم مقامی میں اور بعد میں خلفاء کرام کی قائم مقامی میں امامت صلوٰۃ کا شرف آپ کو حاصل ہوتا رہا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی علالت کے زمانہ (۱۹۰۵ء) سے آپ کو امامت کا موقع ملا جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نیابت تھی اور یہ شرف بیالیس سال تک ممتد رہا.آپ کے علم و فضل کے پیش نظر بجاطور پر آپ کے متعلق یہ دکھلایا گیا کہ حضرت مسیح موعود یا حضرت خلیفہ اسیح الثانی (متعنا الله بطول حياته ) کی وفات ہوئی ہے.گویا یہ بتایا گیا ہے کہ بقیہ حاشیہ : یکدم غائب ہو گئے حالانکہ ابھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دستخط نہیں کئے تھے.اس میں بھی اشارہ ہے کہ پہلے حصہ میں مولوی صاحب کے رپورٹ پیش کرنے کی تعبیر صیغہ بہشتی مقبرہ کی طرف سے رپورٹ پیش ہونے کے ہیں اور گویا مولوی صاحب حضور کے دستخط فرمانے سے قبل غائب ہو چکے ہوں گے.اس رؤیا کے بعد تا وفات حضرت مولوی صاحب کسی ایسے بزرگ کی وفات نہیں ہوئی جن پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تعبیر کے الفاظ اپنی پوری شان کے ساتھ اور اعلیٰ اور اتم رنگ میں منطبق ہوتے ہوں.کسی ایسے مخلص صحابی یا کسی مقامی جماعت کے اہم انسان کی موت کی خبر دی گئی ہے...اس شخص کی خدمات سلسلہ کے لئے ایسی ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا جانشین عام جماعت کے لحاظ سے یا پھر مقامی لحاظ سے سمجھا جاسکتا ہے.“ اکتالیس بیالیس سال تک حضرت مسیح موعود خلفاء کرام کے مبارک زمانوں میں مولوی صاحب بطور امام الصلوۃ وخطیب جمعہ وعید بین قائم مقام ہوتے رہے.امیر مقامی ، خلافت ثانیہ میں مقرر ہوتے ہے.تفسیر قرآن مجید کے لحاظ سے حضرت اقدس کے زمانہ سے قائم مقام ہوتے رہے جماعت کے قریباً سارے مبلغین کی تیاری اور تعلیم میں آپ نے قریباً نصف صدی خدمات جلیلہ سرانجام دے کر گویا يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةِ کے فرض میں حضرت اقدس اور خلفاء کرام کی نیابت کی اور اس رؤیا کے بعد آپ کی وفات تک کوئی ایسی جلیل القدر شخصیت کی وفات واقع نہیں ہوئی کہ جس سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو ایسا شدید صدمہ ہوتا کہ گویا اس سے آپ کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آ جاتا اور یہ امر گواظہر من الشمس ہے.تب بھی یہ ذکر کر دیتا ہوں کہ مولوی صاحب کی وفات پر جو خطبہ آپ کی جلالت شان کے متعلق حضور ایدہ اللہ نے پڑھا تھا.وہی شاہد ناطق ہے کیونکہ اس رؤیا کے بعد مولوی صاحب کی وفات تک حضور نے کسی اور بزرگ کے متعلق ایسا خطبہ نہیں دیا.
٣٠٣ آپ کا مقام عام قواعد وضوابط سے بہت بالا تھا اور اپنے اور ایسا اختصاص رکھتا تھا کہ اگر ایسی صورت بھی ہوتی کہ کسی عام قاعدہ کی رو سے تکمیل امور درکار ہوتی تو آپ کی بزرگی کے پیش نظر ایسی تکمیل کو گو یا بنظر حقارت دیکھا جانا چاہیئے تھا.اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بزرگ جو اصحاب بدر اور عشرہ مبشرہ کا رنگ رکھتے ہوں اور فانی فی اللہ اور باقی باللہ ہوں وہ گویا اس عالم فانی سے عالم جاودانی کو سدھارنے سے قبل ہی رَضِيَ اللهُ عَنْهُمُ وَرَضُوا عَنْهُ اور مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَّنْتَظِرُ کے مصداق ہوتے ہیں.
۳۰۴ از اخویم عبداللطیف صاحب ظہور مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان آج کیوں مغموم ہے ہر ایک گھر آج کیوں گلشن ہوا ویران سا کل جو تھا موجود وہ روپوش ہے زندگی اور موت کا ہے بھید کیا پھول سے رخصت ہوئی بوئے وفا تو مجسم عشق کی تصویر تھا تو کہ تھا اک معدنِ علم و ہنر تو کہ تھا ہر دم سرور قادیاں تیری قربانی ہے دنیا میں مثال مسیح وقت کی جلوہ گری کھینچ کر لایا تھا تجھ کو کس کا پیار قادیاں آیا تو بس یہ قادیاں یا الہی ! کھول دے جنت کا در بخشدے رحمت سے ہو اپنی سکے مجھ سے جہاں وہ آج کیوں زخمی ہوئے قلب و جگر پھر رہا ہر ایک ہے حیران سا ہم کو تیری موت کا افسوس ہے لوٹ کر آیا نہیں جو بھی گیا ہم سے کیا رخصت ہوا درد آشنا تو سراپا حلم کی شمشیر تھا تو کہ تھا ہر ایک سے شیر وشکر تو کہ تھا اک احمدیت کا نشاں عشق ہے تیرا جہاں میں لازوال بخش دی تجھ کو خدا نے سروری دشمنوں پر ہے حقیقت آشکار بن گیا تیرے لئے دار الاماں آرہا تیری طرف ہے یہ بشر وہ مقام ہمکلام (الفضل ۴۷-۶-۲۳)
۳۰۵ اخویم مولوی ظفر محمد صاحب فاضل پنشنز پروفیسر جامعہ احمدیہ نے خاکسار مؤلف کی درخواست پر یہ ظم لکھی :- آرہی ہے یاد سرور شاہ کی عشق احمد جن کو لایا کھینچ کر آگئے وہ چھوڑ کر سارا جہاں ادعائے علم و ساداتی غرور حضرت احمد کے دیوانے ہوئے خدمتِ دیں کو بنا اپنا شعار پرداز بہشتی مقبرہ کار نامور احمدیت عالمان ماه رمضان درس قرآں آپ کا تھے مناظر اس قدر وہ کا مگار وہ مقام مد وہ تاریخی خصام مل گیا جس پر غضنفر کا خطاب فقه و منطق ، فلسفه دیگر علوم واہ! وہ لمبی نمازیں آپ کی ہم میں وہ ہمت کہاں طاقت کہاں آپ سا اب کوئی بھی عالم نہیں پاگئے حضرت استاذ عالی جاہ کی ہو گئے قربان حق جو سر بسر بھا گئی دل کو ادائے قادیاں ہو گئے کافور احمد کے حضور شمع نورانی کے پروانے ہوئے وقف کر دی زندگی مستعار نیز استاذ و عمید جامعه.آپ ہی کے فیض سے ہیں بہرہ ور اقصیٰ میں روحانی فضا مسجد مولوی تھے آپ کا ادنی شکار جب ثناء اللہ پہ کی حجت تمام دیکھئے اعجاز احمد حمید کی کتاب حاضر ذہن صفا تھے بالعموم شاہد ذوق و سرور سرمدی دل میں آتش ہو تو پیدا ہو دھو آں بے مثل تھے مفتی شرع جبیں وہ احمدیت میں مقام رحمت ہو خدا کی والسلام مراد حضرت اقدس کی کتاب اعجاز احمدی“.
۳۰۶
۳۰۷ اذكرُوا ذكر مَوْتاكُم بالخير نظمت هذه المرثية في بلدة فشاور حين نُعيتُ بوفات سيدى حضرة مولانا المولوى السيد محمد سرور شاه رضی الله تعالى عنه و رفع درجاته في الجنة الرفيعة العليّة بقلم احقر عباد اللہ ابو البرکات غلام رسول را جیکی نوٹ:.حضرت مولانا راجیکی صاحب مدظلہ العالی نے یہ نظم ارتجالاً تحریر فرمائی.اشاعت سے قبل بوجہ بیماری نظر ثانی نہیں کروائی جاسکی.(مؤلف) -۲۱ بامرِ اللَّهِ مَا نَزَلَ القَضَاءُ بقدر الله حَلّ الابتلاء وَإِنَّ الصَّبْرَ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَلِلنَّاسِ الْعَطَاءُ وَالْبَلاءُ قضاء اللہ کے حکم سے نازل ہوئی اور اللہ کی قدر کے ماتحت ابتلاء بھی آیا.صبر اللہ تعالیٰ کے حضور بہر حال بہتر ہے لوگوں کو عطاء بھی حاصل ہوتی ہے اور بلاء بھی حاصل ہوتی ہے.لعبد مؤمن صبر و اجر من الله الـقـضــاء لــه الـرضــاء مومن انسان پر صبر فرض ہے جس کے نتیجہ میں اجر حاصل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے قضاء آئے تو مومن کی شان ہے کہ اس پر راضی ہو.سمعنا قد توفى شيخ قوم وسيدنا التقى المُجْتَبَاء ہم نے حضرت شیخ قوم کی وفات کی خبر سنی اور وہ ایک چیدہ متقی اور سید تھے.لقد فَزِعَتْ قلوب عند نعي وهاج بذكر رحلته البكاء -۵ -Y موت کی خبر سے دل دہل گئے اور ان کی رحلت سے آہ و بکاء کا دریا اُمڈ آیا.بحــزن الـقـلـب مـع عـيـن حـزن بلوعة فرقة نار وماء غم رسیدہ آنکھیں غمگین اور سوگوار دل کے ساتھ آنسو بہاتی ہیں.فرقت اور جدائی کی جلن اپنے اندر آگ اور پانی کو جمع رکھتی ہیں.
۳۰۸ -6 -^ -9 بموت الحبر من احبار دين لأرضُ الله تبكى والسماء وہ دین کے عالموں میں سے ایک بڑے عالم تھے ان کی موت سے زمین و آسمان دونوں روتے ہیں.وَسَرُوَرُنَا لكان من الافاضل بانواع الفضائل مُرتضاء ہمارے سید سرور شاہ صاحب پسندیدہ اور خوشکن فضائل کے ساتھ بڑے بڑے لوگوں سے ممتاز ہیں.و من جرثومة السادات نسلاً کآل محمد لاح اصطفاء آپ نسلاً قوم سادات سے ہیں اور جیسے آل محمد کو برگزیدگی حاصل ہے ان کی برگزیدگی بھی ظاہر وباہر و في اصحاب مهدينا بشان عظيم ليس فيه اختفاء ہمارے مسیح موعود اور مہدی موعود کے اصحاب میں بھی بڑی عظمت وشان کے مالک تھے اور یہ بات کسی پر مخفی نہیں.11- وفي احبــــار دين الله ليت بمجد العلم خصصه العلاء وہ اللہ کے دین کے علماء میں شیر کی حیثیت رکھتے تھے اور علم کے مسجد کی فضیلت کی وجہ سے انہیں خصوصیت سے بلند مقامات حاصل تھے.-۱۲ وارسـل مـرتـيـن بـمـجـد عـلـم بارسال المسيح له اجتباء انہیں اسی علم کی بزرگی کی وجہ سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دومرتبہ مناظرہ کے لئے منتخب کر کے بھجوایا.أتِمَّتْ حُجَّةٌ من بعد ابلاغ بتحفته على من قد أساؤا -۱۴ -۱۵ آپ کے تحفہ پہنچانے سے بد اعمالوں اور بدعقائد والوں پر حجت تمام ہوگئی.فأرسل مرة لبلاغ ندوه مع الرُّسل الكرام به اقتداء ایک مرتبہ علماء ندوہ کے پاس تبلیغی مہم پر آپ کو اور آپ کی زیر سر کردگی کئی بزرگ علماء کو بھیجا گیا.كذلك مرة أخرى لبحث إلى مُد فباحثه القناء اسی طرح ایک دفعہ انہیں مد میں مولوی ثناء اللہ سے مباحثہ کے لئے بھیجا گیا تھا.ثناء الله كــا دبـكـيـد دجل فكيف ابوالوفاء ولا الوفاء مولوی ثناء اللہ نے بڑی بڑی مکاریوں اور فریب کاریوں سے کام لیا حالانکہ وہ اپنے تئیں ابوالوفاء کہلاتے ہیں مگر ان کے اندروفا کا مادہ ہی نہیں بلکہ مکر وفریب ہے.-17
۳۰۹ و في الاعجاز سُمّى باسم ذئب بما يعوى وللذئب العواء -12 -IA وسَرُ وَرُنَا لَأُكْرِ مَ مِنْ غَضَنُفَرِ وَاكْرَمَهُ المَسِيـح الـمـجبـاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعجاز امیج میں مولوی ثناء اللہ کو بھیٹرئیٹے کے نام سے یاد فرمایا ہے.اس وجہ سے کہ وہ بھیڑیے کی طرح آواز نکالتے تھے اور حضرت مولوی سرورشاہ صاحب کو شیر ببر کے معزز لقب سے ملقب فرمایا ہے.خدا کے برگزیدہ میسج کی طرف سے اعزاز احضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو فنفر کے لقب سے نوازا گیا ہے.و تحت نظامه جعلت وصايا -19 وللموصين منه الاهتداء حضرت مولوی صاحب سیکرٹری بہشتی مقبرہ بھی رہے ہیں اور یہ نظام آپ کے ماتحت بہت بہتر طریق پر چلتا رہا اور آپ موصیوں کو ہدایات سے نوازتے رہے.-۲۰ و مفتى القوم قاض للقضايا وان قضاء ة نعم القضاء اور آپ جماعت احمدیہ کے مفتی بھی تھے اور مقدمات کے فیصلہ کرنے والے تھے اور اپنے فیصلہ میں بہت ہی عمدہ فصل الخطاب رکھتے تھے.-۲۱ بعُمُقِ النّظر يكشف سِرَّ أَمرٍ فمن تكشيـفــه حــار الـدهـاء آپ اپنی نظر کی گہرائی اور عمق کی وجہ سے ہر پوشیدہ بھید کو ظاہر فرما دیتے تھے اور اس رنگ میں اس کا انکشاف فرماتے کہ عقل انسانی حیران رہ جاتی.وكان مفسرا في القوم خاصا فَفَسَّرَ مَا يكون له اقتضاء حضرت مولانا جماعت احمدیہ میں خصوصی مفسر کا درجہ رکھتے تھے اور آپ نے ایسی تفسیر لکھی جس کا لکھنا زمانہ کا مقتضی تھا.-٢٣ ويعبد ربه شوقا وذوقًا وشــغـــل عُـــد لــــــه الــغــذاء وہ نہایت ذوق اور شوق سے اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہتے تھے اور یہ ہی شغل عبادت ان کی روح کی غذا تھی.-۲۴ - ۲۵ يصلّى بالوقار و بالسكينه و ان دعاء ه نعم الدعاء وقار اور تضرع اور خشوع سے نماز ادا کیا کرتے تھے اور آپ کی دعا میں عجیب قسم کی تاثیر تھی.و بالتجويد اعلم بالمخارج لد صوتا ونُطقا مقتضاء
۳۱۰ آپ علم تجوید کو بھی اچھی طرح جانتے تھے اور مخارج حروف کو آواز اور نطق میں تجوید کے مقتضی کے مطابق ادا کیا کرتے تھے.-۲۶ يُرى بالصوت مخرجَ كُلّ حرف بفرق قد بدت تاء وطاء آپ اپنی آواز سے ہر حرف کے مخرج کو ظاہر کرتے تھے اور اس حد تک فرق ہوتا تھا کہ تا اور طا میں بخوبی امتیاز ہو جاتا تھا.-۲۸ -۳۰ قرائته بفرق القاء والسين يُعرف انها حــاء وهــاء آپ کی قرآت میں ث اوراس کا فرق بھی ممتاز ہوتا تھا اور حاء اور ھاء کا بھی تلفظ بخوبی واضح ہوتا تھا.و كان محققا في كل علم وكان مدققا وله الذكاء آپ ہر علم کے محقق اور مدقق تھے آپ کے مدفق ہونے کا باعث آپ کا ذہن ثاقب ہے.وفي بعض المحاسن كان فرداً و في بعض المكارم مر تضاء آپ کئی خوبیوں میں منفردانہ حیثیت رکھتے تھے کئی اخلاق کریمہ میں پسندیدہ شخص تھے.و في علم الحقائق كان بحرًا و في فهم الدقائق منتهاء علم حقائق کے سمندر تھے اور دقائق کے سمجھنے میں مقام انتہاء میں پہنچے ہوئے تھے.وعادة سيدى فى كل حال تبشم نضرة فيها البهاء آپ ہر حالت میں ایسی عادت رکھتے تھے کہ آپ سے رونق اور خوبصورتی سے بھر پور تر و تازہ تبسم ظاہر ہوتا تھا.يحــب مـسـيـحـنــا حبا شديدا له في قلبه نعم الهواء آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے انتہائی محبت رکھتے تھے اور آپ کا دل ان کی محبت سے لبریز رہتا تھا.-۳۳ کذلک حبه في ال احمد لــــه فــــــي كــــل امـــــراقـتـــداء اس طرح آل مسیح موعود اور آپ کے خاندان سے محبت رکھتے تھے خلاصہ یہ کہ ان تمام امور میں جماعت کے لئے مقتدا اور اسوہ کا مقام رکھتے تھے.له فـي الــديــن سعـى بعد سعي لة في الله جهد و انتهاء آپ دین اسلام کے قیام کے لئے متواتر کوشاں تھے.رضاء الہی کے حصول کے لئے انتہائی مجاہدہ -۳۴ کرتے تھے.
-۳۵ له كتــب أشـيـعـت والــرسـائل وفيهـا الـنـور عـلـمــا والضياء آپ کی بہت سی تصنیفات کتابوں اور رسائل کی صورت میں ہیں جن میں نو ر اور علمی ضیا درخشاں ہے اور وہ شائع شدہ ہیں.يُعَـلـم مــن عـلـوم طالبينا وكأسات له منها ارتواء آپ طالب علموں کو علوم عالیہ اور آلیہ کی تعلیم دیتے تھے اور معارف کے پیالے جو سیرابی کا موجب ہوتے تھے ، پلایا کرتے تھے.-۳۷ -۳۸ وان له تلا ميذا كثيرًا لهم منه الافاضة وارتقاء آپ کے کثیر تعداد میں شاگرد ہیں جن کو آپ نے اعلیٰ منازل کی طرف رہنمائی کی اور ترقی دی.لَنَعُى الشيخ للقوم ابتلاء وحسرتهم فليس لها انتهاء اس بزرگ احمدیت کی موت کی خبر سے قوم میں رنج والم پیدا ہو گیا اور وہ انتہائی افسوس میں پڑ گئے.حياة القوم من افراد قوم كأجزاء يقوم بها البناء قوموں کی زندگی قوموں کے افراد سے وابستہ ہے جیسے دیوا را جزاء سے مل کر مضبوط اور پکی ہوتی ہے.بموت الفرد اللقوم اختلال اذا لا يُملان منه الخلاء کسی قوم کے مرد کی وفات سے اس قوم میں ضعف اور اختلال پیدا ہو جاتا ہے جب تک کہ اس خلا کو پورا نہ کیا جائے.-۳۹ لد -M - ۴۲ - ۴۳ خلو القوم من غير التلافي تنزلهم ليوم والفناء کسی قوم کا بغیر اس خلاء کو پُر کئے اور بغیر تلافی کے رہنا ان کے فناء اور تنزل کا وقت ہوتا ہے.وان النسل يبقى بالتناسل وللأباء بالولد البقاء جیسے نسل توالد اور تناسل سے باقی رہتی ہے اور والدین کی بقاء بسبب بیٹے کے ہوتی ہے.و حزب الله ليسوا مثل ذلك بنصر الله خُص الانبياء اللہ تعالیٰ کا گروہ ایسے لوگ نہیں ہوتے.انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید سے مخصوص کئے جاتے ہیں.- ۴۴ فبعد محمد قد جاء احمد وبعد الرسل يخلف اصفياء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت احمد تشریف لائے اور ہمیشہ رسولوں کے بعد چیدہ اور نیک لوگ ان کے خلیفہ ہوتے ہیں.
۳۱۲ - ۴۵ وبعد مسیحنا للدین نور وبعد النور محمود ضياء ہمارے مسیح موعود کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ ہوئے اور حضرت مولوی صاحب کے بعد حضرت محمود ہوئے جن کی ضیا اور روشنی اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہے.وجدنا دور نورالدين حقًا قيام خلافة منه ابتداء حضرت مولوی صاحب کا زمانہ نہایت مبارک زمانہ تھا جس میں قیام خلافت کی ابتداء ہوئی.وللأقمار دور بـعـد شـمـس وبعد الليل قد طلعت ذكاء -32 جسمانی اور فلکی نظام میں سورج کے بعد چاند کا دور ہوتا اور رات کے بعد سورج نکلتا ہے.أرانـا النـور بـركـات الخلافه بغير خلافة ليس ارتقاء حضرت مولوی نور الدین نے خلافت کے برکات اچھی طرح سمجھا دیئے.یہ حقیقت واضح کر دی کہ ترقی بغیر خلافت کے ناممکن ہے.-۵۰ نظام القوم من غير الخلافه صلواة ليس فيها المقتداء جس قوم میں نظام خلافت نہ ہو اس کی مثال ایسی ہے جیسے بغیر مقتدا اور امام کے نماز ادا کی جاوے.و محمود بشیر فضل عمر له شان عظيم واصطفاء حضرت خلیفہ ثانی محمود ہیں ، بشیر ہیں، فضل عمر ہیں.ان کو بڑی شان حاصل ہے حقیقت یہ ہے کہ خدا کے برگزیدہ ہیں.-۵۱ ۵۲ له حسن النظام بوجه احسن له في كلّ يوم ارتقاء آپ نہایت بہترین طریق پر نظام کو چلاتے ہیں.اس لئے آپ ہر روز شاہر ہ ترقی پر گامزن ہیں.و فيه بشارة ينصر سريعا بنصر الله عزّزه العلاء آپ کے متعلق بشارت ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اللہ کی نصرت اور تائید سے وہ عزت دیا جائے گا.له في الدين من نصر عجيب تجلت مـن عـجـائـبـه الـذكـاء آپ نے دین کی عجیب طور پر مدد کی ہے اور ایسے عجائبات منکشف اور روشن ہوئے ہیں جن سے دین کا سورج چمک پڑا ہے.۵۳ -۵۴ بلاد الله مَرعَاهُ بَــلاغــا ودنيـا نـــالــة نـعـم الفضاء اللہ کے تمام شہر آپ کی تبلیغ کے آماجگاہ ہیں اور یہ ساری دنیا آپ کے لئے بہترین میدان ہے.
۳۱۳ -۵۵ له في كُلّ ليل نُورُ بَدْرٍ وبعد الليل شمس والضياء آپ کی ہر رات ایسی روشن ہے جیسے کہ چاند کی چودھویں رات ہو اور رات کے بعد ہمیشہ سورج اور روشنی کا آنا مقدر ہے.۵۶ -۵۷ فاعطاه الـمـهـيـمـن كـل نـور ويعطى مايريد وما يشاء خدائے مہیمن نے آپ کو ہر قسم کا نور عطا کیا ہے.خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے جب چاہتا ہے دیتا ہی رہتا ہے.فلما هَمَّ امرًا فيه عُسُرٌ فَيَسَّرَهُ لَهُ هُنَّ الرِّفَاءُ جب حضرت محمود کسی مشکل امر کا ارادہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو آپ کے لئے آسان بنا دیتا ہے یہاں تک کہ تمام آسانیاں اس کے لئے حرکت کرنے لگ جاتی ہیں.ففى الدنيا عَلَامِنُهُ البداء اراد نظام تبليغ بـوسـع حضرت محمود نے وسعت تبلیغ کے نظام کا ارادہ فرمایا.پس تمام روئے زمین میں آپ کی طرف سے -۵۸ آواز بلند کر دی گئی.-۵۹ وقام القوم للتبليغ جهدًا له ماعندهم كل فداءً تمام قوم مشقت کے ساتھ تبلیغ کے لئے کھڑی ہو گئی ہر ایک نے اپنا مال آپ کے قدموں میں لا ڈالا اور قربان کر دیا.- Yo به اعلام دين الله فَــاقَـتْ بمجد الحق في الدنيا علاء آپ کے سبب سے اللہ کے دین کے جھنڈے فوقیت لے گئے اور ایسی سچی بزرگی ان کو حاصل ہوئی ہے جس کو دنیا میں رفعت اور بلندی حاصل ہے.تَعَالَتْ مِلَّةُ الاسلام مجدًا عَلَا بِالاهْتِزَاز لها اللواء -71 -۶۲ ملت اسلام بزرگی میں بلند ہوگئی اور اس کا جھنڈا بلندی میں لہرانے لگا.جَزَى الله المهيمن كلّ ساع سعي في سبله فله الجزاء خدائے نگہبان ہر کوشش کرنے والے کو بدلہ دیتا ہے جو بھی اس کے راستے میں کوشش کرتا ہے بدلہ مل کر ہی رہتا ہے.-۶۳ ولـلـمـحـمـود فـضـل بعد فضل ومجد بعد مجد وارتقاء حضرت محمود کے لئے فضل کے بعد فضل اور بزرگی کے بعد بزرگی اور ارتفاء ہی حاصل ہے.
۳۱۴ -۶۴ علايومًا فيوما بالترقي بسرعة ما ارتقى حار الدهاء آپ دن بدن بلندی کی طرف ترقی کرتے رہے اور ایسی سرعت کے ساتھ ترقی کی کہ عقل بھی حیران رہ جاتی ہے.لاصلاح الــمــفــاســد قـام فـردا وفي حسن النظام له اقتداء آپ تن تنہا مفاسد کی اصلاح کے لئے کھڑے کئے گئے اور حسن نظام میں تو آپ مقدائی حیثیت رکھتے ہیں.وفي الدنيا لَـمُصْلِحُ كُلّ قومٍ لإصلاح لـــقـــد عـــم الـــــداء وہ دنیا کی ہر قوم کے لئے مصلح ہیں اور اصلاح کے لئے وہ عام منادی کرتے ہیں اور ہر ایک کی اصلاح کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.-72 - وَبُدِلَ كُلَّ قَوْمٍ بَعْدَ جُهْدِ ودنيانا كذالك والرجاء آپ نے جد و جہد کے بعد ہر قوم میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور ہماری دنیا اسی طرح چل رہی ہے اور ایسی ہی امید ہے.-71 -79 تجلّـت شــمــس مجد الله دينا به لاح الهدى والاهتداء اللہ کی مسجد اور حمد کا سورج چمک پڑا جس سے ہدایت اور اھتد اء کا راستہ چمک پڑا.و في الدنيا له من دور حشرٍ كيوم فيـــه لــلـنـاس الـجـزاء آپ کی وجہ سے دنیا میں دور حشر بپا ہو گیا یعنی ایسا دن کہ جس میں لوگوں کو جزاوسزا ملتی ہے.آرى للاحمدية انتظاماً لتنظيم الجماعة استواء میں احمدیت کے نظام کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ تنظیم جماعت کے لئے ایک مستوی اور سید ھے راستے کو حاصل کئے ہوئے ہے.-21 -۷۲ لأطفال وخدام وانصار فمابقى الرجال ولا النساء اطفال اور خدام اور انصار کی الگ الگ محافل ہیں نہ اصلاح سے مرد باہر رہ جاتے ہیں نہ عورتیں.ولليسوان لجنة انتظامًا نظام القوم اصلهم هداء عورتوں کی مجلس لجنہ اماءاللہ ہے اور یہ نظام نہایت اصلح اور احسن طریق پر قائم ہے.لِتَعْلِيم المدارس انتظام لاحبار الهدى يُرجى البقاء مدارس کی تعلیم کا انتظام ایسے طور پر منظم کیا گیا ہے کہ جہاں سے علماء تبلیغ نکلیں گے اور یہ ہمیشہ کام جاری رہے گا.
۳۱۵ ۷۴ -20 فبالتـعـلـيـم والتبليغ منهم اشاعة ديننا وله النداء تعلیم اور تبلیغ کے ذریعہ یہ علماء دین کی اشاعت کریں گے اور اس کی ندا اور پر چار لوگوں میں کریں گے.فبالتعليم حبر بعد حبرٍ وبالتبليغ نصر و ارتقاء تعلیم کے ذریعہ عالم پیدا ہوتے رہیں گے اور تبلیغ کی برکت سے نصرت الہیہ نازل ہو گی اور ترقی کا میدان کھلا رہے گا.-24 ومن دور المسيح لقد رَبَّيْنَا نظام الأمر جدّده التقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے اس امر کا نظام جاری ہے اور تقویٰ اور طہارت کے ذریعہ سے اس کی تجدید ہوتی رہتی ہے.-22 اتى عبـدالـكـريـم بشأن اجلى لعزة ديننا منه الجلاء حضرت مولوی عبد الکریم ایک بہت بلندشان کے آدمی تھے جن کی وجہ سے دین کی عزت میں جلاء اور روشنی پیدا ہو گئی تھی.-2^ کذلک جـاء نــا بــرهـان دینِ هما ركنان كُل مجتبَاءً اسی طرح مولوی برہان الدین صاحب بھی تھے اور یہ دونوں بزرگ سلسلہ کے رکن تھے اور دونوں ہی چیدہ و ممتاز علماء میں سے تھے.-29 وبعد هما لَسرُ وَرِنَا مَقَامٌ ورتبة عزة فيها العُلاء ان کے بعد مولوی سید سرور شاہ صاحب کا مقام اور مرتبہ ہے اور انہوں نے ایسا عزت کا مرتبہ حاصل کیا جس میں بلندی ہی بلندی ہے.کذلک سیدی اسحق حبي مُكَرَّم قومنا منه الضياء اسی طرح حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب ہماری قوم کے محبوب و مکرم ہیں اور ان سے بہت سی علمی روشنی پھیلی تھی.-AI -۸۲ کذلک حافظ القرآن اجلی لـه عـلـمـا عـلـو والثناء اسی طرح حضرت حافظ روشن علی صاحب تھے اور ان کا علم بلند اور حامل ثناء تعریف تھا.وجدنا بعد هم حِبَّا نظيفا نجيبا نخبة فيه اجتباء اور ان کے بعد ایک دوست ہیں جو اخلاق میں نظیف ہیں نسب میں شریف ہیں اور وہ چیدہ و منتخب ہیں
۳۱۶ -۸۳ وهذا سيد اسمعيل حبى له شان عجیب و اصطفاء یہ میرے دوست حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ہیں جن کی عجیب شان ہے اور عمدہ اور منتخب شخصیت ہیں.-۸۴ بَحْرَ وكُلُّ كان منهـم بـخـر عـلـمٍ وقُلْزَمُ حِكْمَةٍ منها ارتواء ہر ایک ان میں سے علم کا سمند ر تھا اور حکمت کے دریا تھے جن سے کہ لوگوں کے قلوب سیراب ہوئے.ونذكر هم بذكر الحزن دمعًا بلوعة فرقة نــــار ومـــــاء ہم ان بزرگوں کا ذکر غم کے آنسوؤں کے ساتھ کرتے ہیں اور یہ فرقت اور جدائی کی جلن حاملِ -۸۵ آتش و آب ہے.-^2 -^^ -19 وسلسلة من الاحبار تجرى بكثرتهم اذا ارتحلوا فَجَاوا علماء کا سلسلہ کثرت سے جاری ہو چکا ہے جب گذشتہ بزرگ چلے گئے تو یہ ان کے مقام پر کھڑے ہو گئے.فَنَابَ الأخرون السابقينا کذلک سنته فيها القضاء آنے والے گذرے ہوؤں کے نائب ہیں اور یہی سنت اللہ ہے جو قضا و قدر کے ماتحت چل رہی ہے.صروف الدهر تمحو كُلّ نقش وهل للفانيات يُرَى البقاء حادثات روزگار ہر ایک نقش مٹاتے چلے جارہے ہیں بھلا بتاؤ کیا فنا ہونے والی چیزوں کو بقاء دیکھی ہے؟ ونقش الحب لا يمحى لعصر وعشق الصب ليس له الفناء لیکن جو اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوئے ہیں ان کا نقش زمانہ نہیں مٹا سکتا اور عاشق صادق کے عشق کو فنا نہیں کر سکتا.-9+ - ۹۱ وفى دور الخلافة دور فضل بتنظيم الجماعة استواء یہ خلافت ثانیہ کا دور فضل و احسان کا دور ہے اس میں پوری طرح سے جماعت کی تنظیم کی گئی ہے.وَلِلْمَحْمُودِ حَمُدٌ من حميد بحمد الله جل له القناء محمود سلمہ اللہ الود و د خدائے حمید سے حمد حاصل کر چکے ہیں اور بجد اللہ اس کی ثناء بہت عظمت والی ہے.لسيدنا بنصر الله ظفر واسباب المغازله العطاء ہمارے خلیفہ و سردار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت و ظفر حاصل ہے اور کامیابی اور فلاح کے اسباب ان کو خدا کی طرف سے عطا کئے گئے ہیں.-۹۳ وللتبليغ أسس من نظام كسلسلة لها يُرجى البقاء نظام تبلیغ کی بنیاد ڈالی اور اس کا سلسلہ ایسا قائم کیا جس کے قائم و دائم رہنے کی امید کی جاتی ہے.
۳۱۷ -۹۴ -۹۵ -۹۶ اتِمَّت حجة ببلاغ حق على الاقوام ما وجب الاحاء تبلیغ حق کے ذریعہ تمام اقوام پر حجت قائم کر دی گئی ہے اور اس کے واجب حق کو ادا کیا گیا ہے.بشارات لِحَقِّ المؤمنينا بقهر الله عُذب اشقياء مومنوں کو بشارات دی گئی ہیں اور بدبختوں کو خدا کے قہر اور عذاب سے ڈرایا گیا ہے.وان المجرمين بَغَوا بكفر فاهلكهم وافـنـاهـم إبـاء مجرم اپنے کفر کے ذریعہ بغاوت کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے اس انکار میں ان کی ہلاکت اور تباہی رکھی ہے.-92 -۹۸ الا ان النوازل والصواكم لتنزل بعد ماتم الدعاء حوادثات زمانہ دعائے کامل کے میدان مجرموں پر نازل ہوتے رہتے ہیں.بدافی دور سید نالحشر كيوم الفصل حل له القضاء ہمارے حضرت امیر المؤمنین کے دور میں ایک حشر برپا ہے گویا فیصلہ کا دن آ گیا ہے اور قضا واجب ہوگئی ہے.-1++ جلال الله جل بـمـا تـجـلـى بجلوته لقد ضَاء الفضاء اللہ تعالیٰ کا جلال پوری تجلی سے ظاہر ہوا جس سے فضائے آسمانی بھر گئی.لارض الله اشراق بــــــور فهل للشمس رَيب و اختفاء اللہ کی زمین نور سے چمک اٹھی ہے کیا اس کے بعد بھی سورج کے دیکھنے میں کوئی شک اور پوشیدگی رہ سکتی ہے.- 1+1 -١٠٢ وللدنيا جمال الوجه اجلى ووجه الله ظاهر ولا خفاء دنیا کا جمال کا چہرہ خوب روشن ہے اور خدا کی ذات دلائل کے ساتھ ایسی ظاہر ہے کہ اس میں کوئی خفا نہیں.كان الله نزل من سماء من الغبراء قد تربت سماء اس لئے کہ اللہ نے پہلے فرمایا تھا کان الله نزل من السماء اور اب یوں سمجھو کہ آسمان زمین کے قریب آچکا ہے.جزى الله الخليفة حِبّ رَبِّي بقدر جهاده نعم الجزاء اللہ تعالیٰ موعود خلیفہ کو جو محبوب خدا ہے اس کی کوشش کے اندازے پر بہترین جزا د یوے.-١٠٣
۳۱۸ ۱۰۴- سعى سعيا بليغًا قدروسع لا صلاح الزمان له الفداء اس نے سعی بلیغ اپنی وسعت کے مطابق کی تاکہ زمانہ کی اصلاح ہو جاوے اس لئے تمام عقلمند آب قربان ہورہے ہیں.۱۰۵- بحـــمـــد الله فـــاز بـكـل فـوز له التبليغ جهد او الدعاء اللہ کی حمد ہے کہ موعود خلیفہ تمام کامیابیوں کو حاصل کر چکا ہے اور تبلیغ میں منہم کا نہ اور تبلیغ اور دعا میں انتہائی توجہ سے لگے ہوئے ہیں.-1+7 ونشكر عسكر المحمود سعيًا لتحـت نـظــامــه ذهبوا وجاء وا ہم لشکر محمود کی کوششوں کا شکر ادا کرتے ہیں جو آپ کے انتظام کے مطابق بیرونی ممالک میں آتے جاتے ہیں.-1.2 -1+1 -1+9 +11- -111 لوجه ودعوا اهواءَ نفس و اموال و اوطـــــــان فــــداء خدا کے لئے انہوں نے اپنی نفسانی خواہشات چھوڑ دیں اور مالوں اور وطنوں کو قربان کر دیا ہے.قد انتشر و ابلاغًا في جهات و في الــدنيـــا عَلَامِنُهُمُ نِداء وہ تمام اطراف عالم میں بغرض تبلیغ پھیل گئے ہیں اور دنیا میں انہوں نے تبلیغ کا شور بپا کر دیا ہے.هَدَوُ اخلقا كثيرًا من بلاغ فللدنيـــا هــدى واهتداء انہوں نے بہت سی مخلوق کو راہ راست دکھایا اور دنیا میں ہدایت کا جھنڈا بلند ہو گیا.وللاحبار بعد امام خلق تلاميذ علامتهم نداء امام خلق کے بعد اس کے علماء ہیں جن کے طلباء اور تلامیذ دنیا میں آواز بلند کر رہے ہیں.و سَرُ وَرُنا لكان من الافاضل له فضل المكارم واجتباء ان میں سے ہمارے سید سرور شاہ صاحب بڑے فاضل ہیں جو کہ اعلیٰ اخلاق کے مالک اور چنے ہوئے ہیں.-١١٢ تلاميذ كثير بين احبار بهذا الفضل عزّزة الهداء بہت سے تلامذہ اور طلباءعلم کو حاصل کر رہے ہیں لیکن یہ فضیلت سب کی سب مولوی سرور شاہ صاحب کو حاصل ہے.-١١٣ لهم من باقیات صالحات وبعد مماتهم يُرجى البقاء ان علماء کے واقعات صالحات دنیا میں قائم ہیں اور ان کے مرنے کے بعد بھی بقاء کی امید کی جاتی ہے.
۳۱۹ -110 -110 -117 محاسنهم فلا تنسى بذكر لنافيهـا النَّصيحة والشفاء ان کے محاسن بھلائے نہیں جا سکتے اور ہم ان کا ذکر کر کے اپنی بھلائی اور شفا چاہتے ہیں.وذكر الخير للأخيار يبقى وابقى الأنقِيَاءَ الإِتِقَاء چیدہ لوگوں کا ذکر خیر باقی رہتا ہے اور تقویٰ متقیوں کے باقی رہنے کا سبب ہے.ونـد عـوا الله يرحمهم جميعاً ويكرمهم كما يُرجى العطاء ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان تمام پر اپنا فضل کرے اور ان کو معزز بنائے جیسے کہ اس کی عطاء سے امید کی جاتی ہے.-112 غَنِيٌّ يُغْنِيَنُ بِفَيْضِ غَيْبٍ هُوَ المولى وسائله الوراء وہ ذات غنی ہے جو اپنے فیضانِ غیبی کے ساتھ لوگوں کو غنی کر دیتی ہے وہ حقیقی مولیٰ ہے باقی مخلوق اس کی محتاج ہے.-۱۱۸ انا الـقـدســى مـن تقـديــس رَبّي وارجو منه لى نعم الرجاء میں غلام رسول عرف قدسی اپنے رب کی تقدیس سے قدسی ہوں اور اللہ تعالیٰ سے بہترین امید کا طلب گار ہوں.-119 وأسأل كلَّ ما يُعطى بفضل جميع المنعمين فلى الطاء اور میں اللہ سے سوال کرتا ہوں جو ہر ایک کو اپنے فضل سے عطا کرتا ہے اور تمام تضمین او منعمین اور محسنین پر عطائیں کرتا ہوں.-۱۲۰ - ۱۲۱ امد يدى بين يديه سُولًا ومن باب الـكـريـم فلى ارتجاء میں اس کے سامنے اپنے سوال کے ہاتھ پھیلاتا ہوں اور اسی کریم خدا کے دروازے پر امید لے کر کھڑا ہوں.و ان الله ذو فضل عظيم فيعطى من يشاء وما يشاء بے شک اللہ بڑے فضلِ عظیم کا مالک ہے جس کو جو چاہتا ہے دیتا ہے.وهـذا الـنـظـم مـن مثلى عجيب اطـال الــنـظـم حـزنـي والرثاء ی نظم میرے جیسے سے ایک عجیب نادر الوقوع ہے نظم کو میرے غم اور مرثیہ نے لمبا کر دیا.فلاتنظر الى زحف و قدح فَإِنَّ الـنـظـم دمـعـى والـدمــاء اے پڑھنے والے تو اس کے شعروں کی کمزوری اور اس کے عیب کو نہ دیکھ.یہ نظم میرے آنسوؤں اور آہوں کے خون کا مجموعہ ہے.-١٢٢ -١٢٣
۳۲۰ الفضل کے مرقومات موت العالم موت العالم “ اور ” حضرت علامہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کا انتقال کے دوہرے عنوان کے تحت مؤقر الفضل رقمطراز ہے.قادیان ۴ ماہ احسان.جیسا کہ احباب کو علم ہو چکا ہے کہ عالم بے بدل فاضلِ اجل حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمد یہ کل سات بجے شام انتقال فرما گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - آج صبح ہی سے حضرت مولوی صاحب کے مکان پر بزرگانِ سلسلہ و احباب جمع ہونے شروع ہو گئے.آٹھ بجے آپ کا جنازہ اٹھایا گیا اور باغ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہنچا دیا گیا.جہاں پر تمام تعلیمی اداروں کے طلباء اور احباب اور خواتین بہت بڑی تعداد میں جمع تھے.سیدنا حضرت امیر المؤمنین اصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہزاروں مؤمنین کے ہمراہ نماز جنازہ ادا فرمائی اور نعش کو کندھا دیا.قبر کی تیاری تک حضور و ہیں تشریف فرما رہے.حضور نے اپنے دستِ مبارک سے قبر پر مٹی ڈالی اور دعا فرمائی اور پھر واپس تشریف لائے.حضرت مولوی صاحب کو صحابہ کے قطعہ خاص میں مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بالکل قریب دفن کیا گیا ہے.“ ابتدائی حالات زندگی حضرت مولوی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے آپ کے والد ماجد کا نام سید محمد حسن صاحب تھا.آپ کے پردادا سید زین العابدین صاحب تھے جو ضلع ہزارہ میں مدفون ہیں.سید زین العابدین صاحب کے بھائی شاہ محمد غوث صاحب ایک مشہور بزرگ تھے ان کا مزار لاہور میں دہلی گیٹ کے باہر ہے.حضرت مولوی صاحب تیرہ سال کی عمر میں ہی تحصیل علم کی خاطر اپنے وطن ہزارہ سے عازمِ سفر ہو گئے صرف و نحو کا علم آپ نے یکے بعد دیگرے تین اساتذہ سے حاصل کیا.ان تینوں کا نام عبدالکریم تھا.علوم منطق و فلسفه مولوی غلام احمد صاحب اول مدرس مدرسہ نعمانیہ لاہور سے پڑھا.مفتی سلیم اللہ صاحب لاہوری سے طب پڑھی.اس کے بعد آپ دیو بند تشریف لے گئے اور وہاں علوم حدیث کی تعلیم حاصل کی.تعلیم سے فارغ ہونے
۳۲۱ کے بعد آپ کچھ عرصہ سہارنپور میں مدرسہ مظاہر العلوم میں مدرس رہے.پھر آپ پشاور مشن کالج میں عربی کے پر وفیسر متعین ہوئے.آپ پشاور میں ہی تھے جب کہ آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر ملازمت ترک کر دی اور قادیان رہائش اختیار کر لی.قادیان میں حضور علیہ السلام کی مقدس صحبت میں رہ کر حقیقی علم سے یہاں تک استفادہ کیا کہ آپ مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جلیل القدر عہدہ پر فائز ہو گئے.آپ نے قریباً اسی برس عمر پائی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت مولوی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درجات کو بلند کرے اور اپنے قرب خاص میں جگہ عطا فرمائے.آمین.“ ۲۷۷ " ہر گز نہ میرد آنکه دلش زنده شد بعشق کے زیر عنوان مؤقر الفضل میں مرقوم ہے :- حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات حسرت آیات کی جانکاہ خبر تمام احباب نہایت رنج و غم کے ساتھ سنیں گے.علمائے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں مرحوم کا جو مرتبہ تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.آپ السابقون الاولون میں سے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متبرک زمانے کی یادگار.آپ کو دیکھ کر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس اور فدائیت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے.اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ کیا کبھی فرشتوں کو دیکھا ہے تو ہم بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے طفیل ہم نے کئی انسان فرشتے دیکھتے ہیں جن میں سے ایک حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ تھے.آپ کو دیکھتے ہی ایک روحانی مزا دل میں پیدا ہوتا تھا.آپ علم و انکسار اور فدائیت کا ایک متحرک مجسمہ تھے.آپ عاشق احمد علیہ السلام، عاشق خلفاء احمد یہ علیہ السلام اور عاشق سلسلہ عالیہ احمد یہ تھے.الغرض آپ ہمہ تن عشق تھے.آپ مدت تک مفتی سلسلہ اور سیکرٹری بہشتی مقبرہ، مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ معلم ، جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کے عہدوں پر فائز رہے.تمام شریعتی امور میں آپ کا فتویٰ لیا جاتا.آپ علم دینیہ میں بے نظیر قابلیت کے مالک تھے اور عالم باعمل ہونے کی وجہ سے اپنی نظیر آپ ہی تھے.آپ کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ آپ تقریباً سلسلہ کے تمام علماء اور مبلغین کے استاد ر ہے ہیں.یہاں تک کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی استادی کا شرف بھی آپ کو حاصل تھا اور آپ کا یہ شغل درس و تدریس آخر دم تک جاری رہا.سیدنا امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالیٰ کی غیر حاضری میں مدت تک آپ کے سوا مسجد مبارک میں کوئی امام الصلوۃ نہیں ہوا اور جب تک آپ نقاہت اور کمزوری کی وجہ سے بالکل معذور نہیں ہو گئے آپ پوری مستعدی کے ساتھ اس فرض کو مبالغہ کی حد تک نبھاتے چلے گئے یہاں تک کہ آپ کو آخر آرام کے لئے مجبوراً سبکدوش کرنا پڑا.
۳۲۲ آپ سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قربت کے اتنے والہ و شیفتہ تھے کہ آپ نے حتی الوسع اسکے حصول کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا.یہاں تک کہ آخری دنوں میں بھی گو آپ تقریبات میں بوجہ نقاہت و کمزوری حصہ لینے کے قابل نہ تھے مگر اپنی جان پر تکلیف برداشت کر کے بھی محض اس لئے حصہ لیتے کہ آپ کو اپنے حبیب کی قربت کے چند لمحے میٹر ہوں حقیقت یہ ہے کہ اگر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی گوناگوں مصروفیتیں مانع نہ ہوتیں تو آپ اپنی طرف سے ایک دم کے لئے بھی حضور سے جدائی گوارا نہ کرتے.ہم آپ کی پاک حیات سے کئی اعلیٰ سبق سیکھ سکتے ہیں جن میں سے کمال فدائیت اور انتہائے عشق نمایاں ترین ہیں آپ کی ہمت اور اولوالعزمی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ آپ نے باوجود انتہائی کمزوری کے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوئی مجلس نہیں چھوڑی اور وفات سے ایک دن پہلے بھی وہاں موجود تھے اور ہمیں یقین ہے کہ ضعیفی کے باوجود یہ ہمت اور اولوالعزمی اس عشق کی وجہ سے تھی جو آپ کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھا.ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے پاک بندوں کے ساتھ جوارِ رحمت میں بلند مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو مرحوم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.“ ۲۷۸ حضرت قمر الانبیاء کی نظر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی رقم فرماتے ہیں :.میں آپ کے ہر چہار استفساروں میں سے کسی کا جواب بھی معین طور پر بھجوانے کے قابل نہیں.کیونکہ مجھے ان کے متعلق کچھ یاد نہیں ہے.میرا اندازہ ہے کہ مولوی صاحب کی عمر مجھ سے بقدر چو بیس پچیس سال زیادہ تھی.واللہ اعلم مگر قومی خوب مضبوط تھے اور کاٹھی بہت اچھی تھی.البتہ آخری ایک دو سالوں میں کافی ڈھل گئے تھے.میرے خیال میں حضرت خلیفہ اول کے بعد احمدی علماء میں بلحاظ علم وفضل اور وسعت معلومات ان کا پایہ بہت بلند تھا اور حضرت مسیح موعود ا نہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے.چنانچہ مد کے مباحثہ میں ان کو جماعت کی طرف سے نمائندہ بنا کر بھیجا.اسی طرح نواب صاحب رامپور نے جب احمدی مسائل پر گفتگو کرانے کی خواہش کی تو حضرت مسیح موعود نے اس کام کے لئے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کو منتخب کیا.مجھے ان کا ایک خاص واقعہ خوب یاد ہے.ایک دفعہ انہوں نے مسجد مبارک قادیان میں جمعہ کی نماز پڑھائی.حضرت مسیح موعود بھی اس نماز میں شامل تھے اور حضور نے گھر میں آ کر حضرت ام المؤمنین سے
۳۲۳ فرمایا کہ آج مولوی سرور شاہ صاحب نے بہت اچھا خطبہ دیا.یہ بات میرے کانوں نے سنی اور مجھے اب تک یاد ہے.حضرت مولوی صاحب صاحب کشف ورؤیا تھے.ایک دفعہ مجھے انہوں نے جماعت کے آئندہ حالات کے متعلق ایک رؤیا علیحدگی میں سنایا جو میں سمجھتا ہوں بہت لطیف اور درست تھا.اس میں گویا ایک ڈرامہ کے رنگ میں اور تصویری زبان میں جماعت کے آئندہ حالات دکھائے گئے تھے اور خلافت احمدیہ کے مناظر پیش کئے تھے.اس عاجز کیساتھ مولوی صاحب بہت محبت کرتے تھے اور نہ صرف شفقت بلکہ عزت کے ساتھ پیش آتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ کے متعلق ان کے دل میں بڑا احترام تھا وار با وجودا سکے کہ وہ غالبا حضور کے استادرہ چکے تھے وہ حضور کی جلسہ سالانہ کی تقریروں میں کاغذ قلم لے کر بیٹھ جاتے تھے اور حضور کی تقریر کے نوٹ لکھتے جاتے تھے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور ان کے درجات بلند ہوں.“ آپ خاکسار کو رقم فرماتے ہیں:.بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبد المسيح الموجود مکرمی ملک صلاح الدین صاحب.قادیان السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا پیغام ملا.میں بھی حضرت مولوی سرور شاہ صاحب سے پڑھا ہوں.ایک خاص کتاب جو میں نے ان سے پڑھی تھی الحُجّة البالغة مصنفہ (حضرت ) شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی تھی.شاید کوئی اور کتاب بھی پڑھی ہوگی.حضرت مولوی صاحب کے علم کی گہرائی اور وسعت کا میرے دل پر بڑا گہرا اثر ہے.میرے خیال میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے بعد اس زمانہ میں علم میں حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کا مقام ہی تھا.ان کی نظر بڑی وسیع تھی اور مطالعہ بھی بڑا وسیع تھا اور رائے بھی بڑی صائب تھی.باوجود اس کے وہ مزید علم کے بڑے شائق رہتے تھے.چنانچہ میں نے بار ہادیکھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی جلسہ سالانہ کی تقریروں میں وہ کاغذ اور قلم دوات لے کر نوٹ لکھا کرتے تھے.ان کی تفسیر قرآن مجید بھی ان کے وسعت علم پر شاہد ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جب انہوں نے مسجد مبارک میں جمعہ پڑھایا تو حضور نے جمعہ کے بعد گھر میں آکر حضرت ام المؤمنین سے فرمایا کہ آج مولوی سرورشاہ (صاحب) نے بہت اچھا خطبہ دیا ہے.والسلام ۶۳-۳-۱۶
۳۲۴ حضرت عیسی کے متعلق جو قرآنی آیت آتی ہے کہ فاضربوه ببعضها اس کی حضرت مولوی صاحب یہی تفسیر فرمایا کرتے تھے کہ اس میں حضرت عیسی کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں صلیب پر چڑھا کر مقتول کی طرح کر دیا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ واقعہ کی تفصیلات پر غور کرو تو حقیقت کھل جائے گی.حضرت خلیفہ ثانی نے اس تفصیل سے اختلاف کیا مگر بعد میں اس سے متفق ہو گئے.مرزا بشیر احمد حضرت خلیفہ ثانی کی نظر میں ا ایک گوٹھ مولوی صاحب کے نام پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اراضی سندھ کے معائنہ کے ایام میں ”کریم نگر کی ایک گوٹھ کا نام سرور آباد تجویز فرمایا ۲۷۹ ۲- ایک تصنیف میں ذکر مولوی محمد علی صاحب کی تصنیف Split کا جواب دیتے ہوئے سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں :- میں اس امر کے تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں کہ مولوی سید محمد احسن صاحب جماعت کے سب سے بڑے عالم آدمی ہیں.علم کا اس رنگ میں فیصلہ کرنا ہر شخص کے لئے آسان نہیں.میرے نزدیک مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور قاضی سید امیر حسین صاحب کسی صورت میں مولوی سید محمد احسن صاحب سے کم نہیں ہیں.‘ ۲۸۰ -- ایک خطبہ میں آپ کا ذکر حضور نے ایک مبسوط خطبہ میں بیان فرمایا کہ ” ہماری جماعت کے پرانی طرز کے علماء میں سے صرف مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب باقی رہ گئے ہیں.“ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ماتحت مجھے یہ بات بھی سمجھا دی ہے کہ تحریک جدید کے ماتحت علماء کی تیاری کا خطوط وحدانی کے الفاظ خاکسار مؤلف کی طرف سے ہیں.
۳۲۵ کام کس قدر اہم ہے اور فرمایا: - اس عرصہ میں جماعت کی توجہ ایسے کاموں کی طرف رہی کہ اسے علماء پیدا کرنے کا خیال ہی نہ آیا اور اس نے ایسے علماء پیدا کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا جو ہر قسم کے دینی علوم کی تعلیم دے سکتے ہوں اور اس وقت حالت یہ ہے کہ اس قسم کے علماء میں سے صرف ایک باقی ہیں.یعنی سید محمد سرور شاہ صاحب اور وہ بھی اب نہایت ضعیف العمر ہو چکے ہیں.اس وقت ان کی عمر ستر سال کے قریب ہے.“ ۲۸۱ ۴ - اعلیٰ تقویٰ کا شوری میں ذکر شوری ۱۹۲۵ء میں بعض فتنہ پردازوں نے بعض ممبران شوری کو ورغلا کر ان سے نامناسب اعتراضات کروائے.چونکہ طریق نامناسب تھا اس لئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک طویل تقریر میں ایسے اعتراضات کے نقصانات واضح کرتے ہوئے بتایا کہ کسی نقص کی اصلاح کا کیا طریق ہے اور یہ کہ سوالات کی غرض اصلاح ہونی چاہئے اور فتنہ انگیزی سے ہر حالت میں بچا اور دشمن کی بات پر یقین نہ کرنا چاہئے.نیک ظنی ترک نہ کریں.جو اعتراض کرتے ہیں ان کے تقویٰ و طہارت کی حالت دیکھو اور یہ بتاتے ہوئے کہ الزام لگانے والے خود مجرم ہوتے ہیں.ایسے لوگ منافق ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی مالی امور کے متعلق اعتراض کیا گیا، حضرت عثمان پر نہایت بدکردار لوگوں نے اعتراض کئے.انجمن کے عہد یدار بیرونی احباب کی طرح چندے بھی دیتے ہیں.ان میں سے اکثر اعلیٰ ملازمتیں ترک کر کے قادیان چلے آئے.باہر وہ زیادہ تنخواہیں لے سکتے تھے اور لیتے رہے ہیں.مولوی محمد سرور شاہ صاحب کے متعلق فرمایا کہ قادیان میں ان کو پہلے ستر روپے ملتے تھے اب سو ملتے ہیں.سو حضور نے جو کچھ فرمایا وہ ان بزرگوں کے اعلیٰ مقام پر دال ہے.فرماتے ہیں :- بہت سے کام ایسے ہیں جو کسی ایک آدمی کے بطور خود کرنے کے نہیں بلکہ وہ کام ایک کمیٹی میں پاس ہوتے ہیں جس کے میاں بشیر احمد صاحب، قاضی امیر حسین صاحب مفتی محمد صادق صاحب، مولوی شیر علی صاحب، خلیفہ رشید الدین صاحب، ذوالفقار علی خان صاحب، چوہدری فتح محمد صاحب، چوہدری نصر اللہ خان صاحب، میر محمد الحق صاحب، مولوی سید سرور شاہ صاحب میر محمد اسمعیل صاحب، سید عبدالستارشاہ صاحب، ڈاکٹر کرم الہی صاحب ممبر ہیں.کیا یہ سب آدمی مل کر کوئی بددیانتی کریں گے.میری عقل تو اس بات کو نہیں مان سکتی..ان حالات کو مد نظر رکھ کر سوالات کو دیکھو گو یا بیل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں نرس جو آئی ہے اسے زیور بنا دیا
۳۲۶ جائے.اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ یہ عیاش اور اوباش ہیں تب تو اس قسم کا فیصلہ کر سکتے ہیں ورنہ ان کے متعلق کس طرح یہ سوال ہو سکتا ہے.“ ۲۸۲ ۵- بعد وفات خطبه حضور نے ۶ جون ۱۹۵۷ء کا خطبہ حضرت مولوی صاحب کے متعلق فرمایا.مرقوم ہے : کی سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- جہاں یہ مسلمہ امر ہے کہ جماعت کا فائدہ ہی اصل اور حقیقی چیز ہوتا ہے اور افراد جماعت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.وہاں یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جماعتیں افراد سے بنا کرتی ہیں اور جس قسم کے افراد کسی جماعت میں پائے جاتے ہیں اس کے مطابق ہی جماعت کی عزت اور مرتبہ ترقی کرتا ہے اس لئے جہاں جماعت کا شیرازہ بکھرنے سے افراد کی قیمت کم ہو جاتی ہے اور ان کا فائدہ اور ان کی نفع رسانی محدود ہو جاتی ہے وہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افراد کی قیمت کے مطابق جماعت کی قیمت لگائی جاتی ہے.اس وجہ سے جہاں جماعت کی شیرازہ بندی اور اس کا اتفاق اور اتحاد قائم رہنا ضروری ہوتا ہے وہاں افراد کا معیار ا خلاق اور معیار تقویٰ کو بلند رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ بلند مرتبہ انسانوں کے بغیر جماعت قائم نہیں رہ سکتی.یہی وجہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو جس طرح پہلے زمانہ میں ہوتا ہے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے چوٹی کا دماغ رکھنے والے آدمی دیئے.جہاں یہ سچ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اسلام نے حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عبدالرحمن بن عوف جیسے انسان پیدا کئے وہاں اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ ذکی اور فہیم انسان اللہ تعالیٰ نے اس لئے چن لئے کہ اسلام کی بہترین خدمت یہی لوگ کر سکتے تھے.یہ سچ ہے کہ اسلام نے ان لوگوں کے نام روشن کئے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان لوگوں کے ذریعہ اسلام کا نام روشن ہوا.حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، حضرت علیؓ کی جگہ اگر کوئی اور لوگ ہوتے جو اس قسم کا دماغ نہ رکھنے والے ہوتے تو ہم قطعی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وہ لوگ بھی اس قسم کے کارنامے کرتے جیسے ان لوگوں نے کئے.یہ الہی تدبیر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بہترین دماغ رکھنے یہ خطبہ ذیل کے سہ گونہ عنوانات کے ساتھ شائع ہوا ہے.افراد کی قیمت کے مطابق جماعت کی قیمت لگائی جاتی ہے.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی وفات سے جماعت کو ایک بہت بڑا نقصان ہوا ہے.وصیت کے انتظام کا کام ہمیشہ آپ کی یاد گار رہے گا.“ 9966
۳۲۷ والے انسان جو مذہب کی بہترین خدمت کر سکتے ہیں.مذہب کی بنیادوں کو مضبوط کر سکتے ہیں.انبیاء کو عطا کرتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک بہادری کا سوال ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین میں بھی بڑے بڑے تجربہ کار جرنیل تھے لیکن مسلمان بہادروں کے سامنے آ کر وہ رہ جاتے تھے.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں ہی ضروری ہیں یعنی ذاتی جوہر کے ساتھ جب آسمانی روشنی مل جاتی ہے تو وہ انسان بہت بڑے کام کرنے لگ جاتا ہے وہی ذاتی قابلیت رکھنے والے انسان جو کفار میں تھے تو وہ صرف قبائلی سردار آتے تھے.لیکن جب وہ مسلمان ہو گئے تو انہوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کر لی.یہ بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے انسان مثلاً عمر و بن عاص یا خالد بن ولید بچپن میں ہی اسلام نہیں لائے تھے بلکہ وہ ایسی عمر میں ایمان لائے جب کہ وہ کفار کی طرف سے کئی لڑائیوں میں شامل ہو چکے تھے.ان لڑائیوں کے اوقات میں بھی ان میں اچھے جو ہر موجود تھے اور وہ اس وقت بھی بہادر اور دلیر تھے لیکن ہر دفعہ مسلمانوں کے سامنے پیٹھ پھیر کر بھاگنے پر مجبور ہوتے تھے مگر جب وہ مسلمان لشکر میں آگئے تو انہوں نے ایسے کار ہائے نمایاں کئے کہ یورپ اور امریکہ میں ان کی سوانح حیات کے متعلق کتابیں لکھی گئیں.جب تک وہ قبائلی سرداروں کے ساتھ تھے وہ ایک قبائلی سردار تھے.اسلام لانے سے پہلے عمرو بن عاص اور خالد بن ولید کی حیثیت ایک قبائلی سردار کی سی تھی لیکن جب یہ لوگ اسلامی لشکر میں شامل ہوئے تو انہوں نے ایسی شہرت اور عظمت حاصل کی کہ آسمان کے ستاروں سے بھی آگے نکل گئے.وہ صرف معلومہ دنیا کے کناروں تک ہی مشہور نہیں ہوئے بلکہ ان کی شہرت دنیا کی زندگی اور وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتی چلی گئی اور آج تک ان کو نہایت عزت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے.پس افراد سے قو میں بنتی ہیں اور قوموں سے افراد بنتے ہیں.اعلیٰ دماغوں کے مالک ، ذہین اور نیک انسان قوموں کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں اور اعلیٰ اور نیک مقاصدا چھے اور ہوشیار لوگوں کے ہاتھ آ کر بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے یہی سلوک کیا کہ آپ کے دعوی کے ابتداء میں ہی بعض ایسے افراد آپ پر ایمان لے آئے جو کہ ذاتی جوہر کے لحاظ سے بہترین خدمات سرانجام دینے والے تھے اور اس کام میں آپ کی مدد کرنے والے تھے.جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سپرد کیا تھا اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ واقعہ میں وہ لوگ بہترین مددگار اور معاون ثابت ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی نبوت سے پہلے ہی حضرت خلیفہ اول مولوی نور الدین صاحب کی توجہ آپ کی طرف پھری اور آپ نے نقل مطابق اصل.یوں ہونا چاہئے.” نظر آتے تھے.“
۳۲۸ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنی شروع کیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی مسیحیت کیا تو نبوت کے متعلق بعض مضامین اپنی ابتدائی کتب فتح اسلام اور توضیح مرام میں بیان فرمائے.ایک شخص نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بدظنی رکھتا تھا.ان کتابوں کے پروف کسی طرح دیکھے تو وہ جموں گیا اور اس نے کہا کہ آج میں نے مولوی نورالدین صاحب گومرزا صاحب سے ہٹا دینا ہے.اس وقت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر چکے تھے.دعوئی میسحیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فتح اسلام اور توضیح مرام کی اشاعت کے زمانہ میں کیا.جو بیعت سے قریباً دو سال بعد ہوا اور انہیں میں مسئلہ اجرائے نبوت کی بنیاد رکھی.جب اس شخص نے آپ کی کتب میں نبوت کے جاری ہونے کے متعلق پڑھا تو اس نے کہا اب تو یقیناً مولوی نورالدین صاحب مرزا صاحب کو چھوڑ دیں گے.کیونکہ مولوی صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شدید محبت رکھتے ہیں جب وہ یہ سنیں گے کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی نبی آ سکتا ہے تو وہ مرزا صاحب کے مرید نہیں رہیں گے.چنانچہ اس شخص نے اپنے ساتھ ایک پارٹی لی اور خراماں خراماں حضرت مولوی صاحب کی طرف چلے.جب آپ کے پاس پہنچے تو اس شخص نے حضرت مولوی صاحب سے کہا میں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں آپ نے کہا فرمائیے کیا پوچھنا چاہتے ہیں.اس شخص نے کہا اگر کوئی شخص کہے کہ میں اس زمانہ کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت محمدیہ میں نبوت جاری ہے تو آپ اس کے متعلق کیا خیال کریں گے.اس شخص نے تو یہ خیال کیا تھا کہ میں ایک مولوی کے پاس جا رہا ہوں لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک مولوی کے پاس نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے پاس جا رہا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ اپنے سلسلہ کا کام لینا چاہتا ہے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.اس سوال کا جواب تو دعوی کرنے والے کی حالت پر منحصر ہے کہ آیا وہ اس دعویٰ کا مستحق ہے یا نہیں؟ اگر یہ دعویٰ کرنے والا انسان راستباز نہ ہوگا تو ہم اسے جھوٹا کہیں گے اور اگر دعویٰ کرنے والا کوئی راستباز انسان ہے تو میں یہ سمجھوں گا کہ غلطی میری ہے.حقیقت میں نبی آ سکتا ہے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے اس شخص نے جب میرا یہ جواب سنا تو وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا چلو جی.ایہہ بالکل خراب ہو گئے ہیں.اب ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے آپ فرمایا کرتے تھے.اس پر میں نے اس سے کہا مجھے یہ تو بتا دو کہ بات کیا تھی.تو اس نے کہا بات یہ ہے کہ آپ کے مرزا صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا الہام نازل ہوتا ہے اور میں ایک نبی کے مشابہ ہوں.حضرت خلیفہ اول نے اس کی یہ بات سن کر فرمایا بے شک مرزا صاحب نے جو کچھ لکھا ہے وہ درست ہے.مجھے اس پر ایمان ہے.حضرت خلیفہ اول اس زمانہ میں اچھی شہرت رکھتے تھے اور آپ دلیری اور بہادری کے ساتھ کام کرنے والے تھے.اس کے علاوہ
۳۲۹ آپ بہت مخیر انسان تھے.غریبوں کو تعلیم دلانے کا آپ کو بہت شوق تھا اور آپ غریب بیماروں کا علاج بھی مفت کرتے تھے.اس طرح شروع شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا ہمت والا اور عزت و شہرت رکھنے والا مددگار اور معاون عطا کر دیا جس کا ملنا محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کے مشہور مصنفین اور علمی طبقہ میں ایک مشہور ومعروف انسان کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی اور وہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی تھے.مولوی محمد احسن صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سُناتے تھے کہ میں شروع میں سخت مخالف تھا اور مولوی بشیر احمد صاحب بھوپالوی اور میں نواب صدیق حسن خاں کے ساتھ مل کر کام کیا کرتے تھے.مولوی بشیر احمد صاحب بھوپالوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت تائید کرتے تھے.ایک دن گفتگو کرتے کرتے یہ طے پایا کہ مرزا صاحب کی صداقت کے متعلق مباحثہ کیا جائے اور پہلے دونوں طرف کی کتابیں پڑھی جائیں اور ان کے دلائل معلوم کئے جائیں.مولوی بشیر احمد صاحب نے کہا کہ ہم اُلٹ کتابیں پڑھیں.مجھے چونکہ مرزا صاحب سے حسن ظنی ہے اس لئے میں آپ کی مخالف کتابیں پڑھوں گا اور آپ مرزا صاحب کے خلاف ہیں اس لئے آپ مرزا صاحب کی کتابیں پڑھیں.اس طرح ہمیں دونوں طرفوں کے دلائل سے واقفیت ہو جائے گی.اس بحث کی تیاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنی شروع کیں اور مولوی بشیر احمد صاحب نے آپ کے خلاف جو کتب لکھی گئی تھیں ان کا مطالعہ شروع کیا.چنانچہ جب مباحثہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ مولوی بشیر احمد صاحب بھوپالوی سختی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کرتے اور میں سختی سے آپ کی تائید کرتا.آخر نوبت یہاں تک پہونچی کہ میں نے بیعت کر لی اور مولوی بشیر احمد صاحب بھو پالوی احمد بیت سے بہت دور چلے گئے.تیسرے وجود اس زمانہ میں مولوی عبد الکریم صاحب تھے.جہاں تک ظاہری علوم کا تعلق ہے انہوں نے حضرت خلیفہ اول سے کچھ علوم پڑھے تھے لیکن ان کی خداداد ذہانت اور ذکاوت ایسی تیز تھی کہ وہ مضامین اور معارف کو یوں پکڑتے تھے جیسے باز چڑیا کو پکڑتا ہے اور جس بات کو عام آدمی گھنٹہ بھر میں سمجھتا ہے وہ اسے سیکنڈوں میں سمجھ جاتے تھے.وہ معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوتے تھے اور وہ دعویٰ جو کہ آپ نے کچھ عرصہ کے بعد کرنا ہوتا تھا وہ کچھ دن پہلے ہی ان کی زبان پر جاری ہو جاتا تھا اور پھر بولنے میں انہیں ایسی مہارت تھی اور ان کے کلام میں اتنی فصاحت تھی کہ ان کی تقریر سننے والا آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا.آواز اتنی سریلی تھی کہ جب آپ قرآت کرتے تھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ آسمان کے فرشتے اللہ تعالیٰ کی حمد گا ر ہے ہیں.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت سے اتنی شدید محبت تھی کہ اس محبت کا انداز ہ اس شخص کے علاوہ کوئی نہیں لگا سکتا جس نے آپ کو دیکھا اور آپ سے باتیں کی ہوں.جب آپ حضرت
۳۳۰ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کرتے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے جسم کے ذرے ذرے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت داخل ہوگئی ہے.لیکھرام کے قتل کے واقعہ کے متعلق ایک دفعہ وہ مسجد کے محراب میں کھڑے تقریر کر رہے تھے میں اس وقت چھوٹا تھا لیکن وہ نظارہ مجھے اب تک یاد ہے.ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سوٹا تھا جسے پنجابی میں کھونڈ کہتے ہیں.انہوں نے لیکھرام کی شوخیوں اور دیدہ دلیریوں کا ذکر کیا اور پھر کہا لیکھرام کی ان دیدہ دلیریوں کو دیکھ کر ایک دبلا پتلا انسان جو کہ ہر وقت بیمار رہتا ہے اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مقابلہ کے لئے نکلا اور اس نے لیکھرام پر ایسے زور کے ساتھ حملہ کیا کہ اس بھڑوے جیہا آدمی نوں چک کے ایس ماریا کہ اس دا نام ونشان وی نہ رہیا.یعنی اسلام کے اس دبلے پتلے سپاہی نے ہندوؤں کے موٹے گتے جیسے پہلو ان کو یوں اٹھا کر زمین پر گرایا کہ اس کا نام ونشان تک باقی نہ رہا.گویا انہوں نے اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے اس روحانی مقابلے کو ایک جسمانی مقابلہ سے تشبیہہ دی اور ایسے مزے کے ساتھ بیان کیا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ امیر حمزہ کی داستان بیان ہو رہی ہے انکے کلام کی فصاحت دلوں کو موہ لیتی تھی.حضرت مسیح موعود کا لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی انہوں نے ہی لاہور میں پڑھا تھا لیکچر سننے والوں نے کہا کہ بے شک لیکچر لکھنے والے کی خوبیوں اور علمی قابلیت کا کسی طرح بھی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ شخص جس نے یہ لیکچر پڑھا وہ بھی بہت قابل تعریف انسان تھا.اس کی آواز ایسی شیریں تھی کہ سامعین مسحور ہوئے جاتے تھے.جب مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہو گئے تو ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت گھبراہٹ ہوئی.کیونکہ آپ نے آریہ سماج کے جلسہ کے لئے جو کہ لاہور میں منعقد ہوا تھا ایک لیکچر تیار کیا.آپ کو یہ فکر لاحق ہوا کہ اب اسے سنائے گا کون؟ پہلے آپ نے یہ فیصلہ کیا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جا کر یہ لیکچر سنائیں.جب یہ لیکچر چھپ گیا تو آپ نے مسجد میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ آپ یہ مضمون پڑھ کرسنائیں.حضرت خلیفہ اول نے مضمون پڑھنا شروع کیا لیکن ابھی آپ نے چار پانچ منٹ ہی مضمون پڑھا ہو گا کہ آپ نے فرمایا.مولوی صاحب آپ رہنے دیں.اب کوئی دوسرا آدمی پڑھے اس کے بعد مرزا یعقوب بیگ صاحب نے پڑھنا شروع کیا مگر ان کو بھی تھوڑی دیر کے بعد روک دیا.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو آپ نے پڑھنے کے لئے فرمایا.شیخ صاحب نے ایک آدھ منٹ تو بہت بلند آواز سے پڑھا اور یہ خیال کیا گیا کہ وہ پڑھ لیں گے لیکن تھوڑی دیر میں ہی ان کا گلا بھرا گیا اور آواز بیٹھ گئی.مجھے یاد ہے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تو بڑی مشکل ہے مولوی عبدالکریم صاحب تو خوب پڑھا کرتے تھے.اب تو کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آتا.آخر خلیفہ اول کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ آپ اس مضمون کو پڑھ کر
۳۳۱ سنائیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اول اور آپ کے بعد غالبا مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم نے پڑھا لیکن لیکچر کا وہ اثر نہ ہوا جو مولوی عبد الکریم صاحب کے پڑھنے سے ہوتا تھا.اسی طرح اس زمانہ میں ہماری جماعت میں کوئی اچھے پائے کا فلسفی اور منطقی دماغ رکھنے والا آدمی نہ تھا.سو اللہ تعالیٰ نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو ہدایت دے دی اور وہ آپ پر ایمان لے آئے.اس کے بعد آپ پشاور میں پروفیسر مقرر ہوئے لیکن کچھ عرصہ کے بعد قادیان کی محبت نے غلبہ کیا اور آپ قادیان تشریف لے آئے اور دستی بیعت کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی صاحب سے فرمایا.آپ یہیں رہ جائیں چنانچہ آپ یہیں رہنے لگ گئے.بعض لوگوں نے زور دیا کہ مولوی صاحب کالج میں پروفیسر ہیں اور اچھی جگہ کام کر رہے ہیں.انکی ملازمت سے سلسلہ کو فائدہ ہوگا اور ان کے ذریعہ تبلیغ ہوگی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو واپس جانے کی اجازت دے دی.لیکن کچھ عرصہ کے بعد مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت لے کر واپس آگئے اور قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مولوی صاحب کامۃ کا مباحثہ مشہور ہے.اس زمانہ میں مولوی صاحب مدرسہ احمدیہ میں پڑھایا کرتے تھے.آپ نے کالج کی پروفیسری چھوڑ کر سکول کی مدرسی اختیار کی.اسوقت آپ کو پندرہ بیس روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی.میں بھی ان دنوں سکول میں پڑھتا تھا اور کچھ عرصہ میں نے بھی مولوی صاحب سے تعلیم حاصل کی ہے.گو میرے نزدیک ان کی تعلیم کا طریقہ سکول کے لڑکوں میں کامیاب نہ تھا.اس لحاظ سے میں نے ان کی سکول کی تعلیم سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا.البتہ قاضی امیر حسین صاحب اچھا پڑھاتے تھے.اور لڑکوں میں کنٹرول اور ضبط بھی اچھا کرتے تھے.لیکن مولوی صاحب چھوٹے لڑکوں پر کنٹرول نہیں رکھ سکتے تھے.چونکہ مولوی صاحب کی تعلیم کا رنگ فلسفیانہ تھا اس لئے وہ بچوں کے پڑھانے میں کامیاب نہ تھے.جب مدرسہ احمدیہ کالج کی شکل اختیار کر گیا تو خاکسار کے تایا محترم حکیم دین محمد صاحب نے جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہم جماعت تھے خاکسار کے استفسار پر تحریر کیا کہ حضرت مولوی صاحب نے ہمیں نویں اور دسویں جماعت میں ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۴ ء تک عربی کا نصاب اور حضرت مسیح موعود کی کتاب مواہب الرحمن پڑھائی تھی.میں نے مولوی صاحب سے مدرسہ میں کچھ عرصہ عربی پڑھی ہے.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ مدرسہ کے زمانہ کے بعد پھر حضور نے آپ سے تعلیم پائی اور فائدہ اٹھایا.حتی کہ آپ خلیفہ منتخب ہو گئے جیسا کہ دوسری جگہ بیان ہوا ہے.
۳۳۲ آپ کو اس کا پرنسپل مقرر کیا گیا.یہ حالت ان کی قابلیت کے معیار کے کسی حد تک مطابق تھی.ظاہری لحاظ سے مدرسی تعلیم میں مولوی صاحب سب سے زیادہ ماہر فن تھے.میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ درسی کتب کے بعض مشکل مقامات کے متعلق مولوی سید سرور شاہ صاحب سے فرماتے کہ آپ اس کا مطالعہ کر کے پڑھا ئیں مجھے اس کی مشق نہیں.چنانچہ مولوی صاحب وہ مشکل مقامات طالب علموں کو پڑھاتے.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے سیبویہ کتاب کے متعلق بھی مولوی صاحب کو فر مایا کہ اس کے بعض مقامات مجھ پر حل نہیں ہوئے.اس لئے آپ یہ کتاب طالب علموں کو پڑھائیں.ایسی ایک دو اور کتابوں کے متعلق بھی حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ مولوی صاحب آپ یہ طالب علموں کو پڑھا دیں اور جب مولوی صاحب طالب علموں کو پڑھاتے تو حضرت خلیفہ اول بھی سنا کرتے.غرض مولوی صاحب نے مدرسی تعلیم کو کمال تک پہنچا دیا تھا اور قدرتی طور پر ان کا دماغ بھی فلسفیانہ تھا.جس مسئلہ کے متعلق دریافت کیا جاتا خواہ وہ عام مسئلہ ہی ہوتا ، مولوی صاحب اسے فلسفیانہ رنگ میں خوب کھول کر بیان کرتے.یہ علیحدہ بات ہے کہ پوچھنے والے کو ان کے بیان کردہ فلسفہ سے اتفاق ہو یا نہ ہو مجھے یاد نہیں کہ کبھی ان سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا ہو اور انہوں نے اس کا فلسفیانہ رنگ میں جواب نہ دیا ہو.آپ صرف یہی نہیں بیان کرتے تھے کہ فلاں نے اس کے متعلق یہ لکھا ہے اور فلاں کی اس کے متعلق یہ رائے ہے.بلکہ یہ بھی بتاتے تھے کہ اس مسئلہ کی بنیاد کس حکمت پر مبنی ہے اور اس کے چاروں کو نے خوب نمایاں کرتے تھے اور پھر اس کی جزئیات کی بھی تشریح کرتے.اس میں شک نہیں کہ مولوی صاحب کو لمبی بات کرنے کی عادت تھی اور وہ جذبات کو اپیل نہیں کر سکتے تھے اسی لئے ان کا لیکچر کا میاب نہیں سمجھا جا تا تھا.تعلیم یافتہ طبقہ اور علم دوست طبقہ تو ان کی تقریر کو نہایت سکون کے ساتھ سنتا تھا لیکن پبلک دماغ ان کی تقریر سے متاثر نہیں ہوسکتا تھا.صرف علمی طبقہ کے لوگ ہی جانتے تھے کہ آپ کے علم میں کتنی وسعت ہے اور کتنا تبحر آپ کو حاصل ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے آخری ایام میں ایک وفد باہر گیا اس وفد نے بعض ایسی باتیں کیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان اور آپ کے درجہ کے منافی تھیں.چنانچہ جب وہ وفد واپس آیا تو یہ سوال میں نے اٹھایا کہ وفد کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان کے متعلق جو بیانات باہر دیئے گئے ہیں وہ آپ کی شان کے منافی ہیں اور آپ کے درجہ میں کمی کی گئی ہے.مولوی سید سرور شاہ صاحب بھی اس وفد میں شامل تھے.جب انہوں نے اس بات کو سُنا تو انہوں نے کہا واقع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کمی کی گئی ہے اور ہم سے چوک ہوئی ہے لیکن اس دن سے لے کر وفات تک مولوی صاحب
۳۳۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام بیان کرتے تو آپ کی طبیعت میں ایک خاص قسم کا جوش پیدا ہو جا تا تھا یہاں تک کہ ان کی آخری ملاقات جس کو آٹھ دس دن ہوئے ہیں مجھ سے اس سلسلہ میں ہوئی.مجھے اطلاع دی گئی کہ مولوی صاحب ملنے کے لئے آئے ہیں میں نے اوپر بلوالیا.تو مولوی صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کمی کی جاتی ہے اور آپ کو صرف مسیح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے حالانکہ مہدی کی شان مسیح کی شان سے کہیں بلند ہے جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر کئی جگہ اپنی کتب میں کیا ہے.صرف مسیح موعود لکھنے کا کہیں یہ نتیجہ نہ ہو کہ آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حقیقی مقام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے.میں نے مولوی صاحب کو کہا کہ آپ یہ بات مجھے لکھ کر بھیج دیں میں اس پر غور کروں گا چنانچہ اس کے تیسرے یا چوتھے دن مولوی صاحب کی طرف سے ایک تحریر اسی مضمون کی مجھے مل گئی.گویا مولوی صاحب کو اپنی وفات کے قریب بھی یہی فکر رہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کہیں کمی نہ ہو جائے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے میں مولوی صاحب کا شاگر درہا ہوں.عمر کے لحاظ سے مولوی صاحب مجھ سے بہت بڑے تھے اور میں ان سے بہت چھوٹا تھا لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ میرے استاد تھے باوجود اس کے کہ وہ عمر میں مجھ سے بڑے تھے.باوجود اسکے کہ وہ مدرسی تعلیم میں بہت زیادہ دسترس رکھتے تھے میں نے اکثر دیکھا کہ مولوی صاحب کا غذ پنسل لے کر بیٹھتے تھے اور باقاعدہ میرا لیکچر نوٹ کرتے رہتے تھے.ان میں محنت کی عادت اتنی تھی کہ میں نے جماعت کے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی.اگر مجھے کسی کی محنت پر رشک آتا تھا تو وہ مولوی صاحب ہی تھے بسا اوقات میں بیماری کی وجہ سے باہر نماز کے لئے نہیں آسکتا تھا اور اندر بیٹھ کر نماز پڑھنا شروع کر دیتا تھا لیکن مسجد سے مولوی صاحب کی قرآت کی آواز میرے کانوں میں آتی اور میرا نفس مجھے ملامت کرتا کہ میں جو عمر میں ان سے بہت چھوٹا ہوں میں تو گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہوں اور یہ اسی سال کا بڑھا مسجد میں نماز پڑھا رہا ہے.میرے زمانہ خلافت میں میری جگہ اکثر مولوی صاحب ہی نماز پڑھاتے تھے.صرف آخری سال سے میں نے ان کو نماز پڑھانے سے روک دیا تھا.کیونکہ گرمی کی شدت کی وجہ سے وہ بعض دفعہ بے ہوش ہو جاتے تھے اور مقتدیوں کی نماز خراب ہو جاتی تھی اس لئے میں نے ان کو جبر ہٹایا ورنہ وہ کام سے ہٹنا نہیں چاہتے تھے چنانچہ سینکڑوں آدمیوں نے دیکھا ہو گا کہ وہ روزانہ بلاناغہ مجلس عرفان میں شامل ہوتے تھے.حتیٰ کہ وفات سے صرف دورات پہلے وہ مجلس میں آئے اور بیٹھے رہے.ان کو مجلس میں ہی بیہوشی شروع ہوگئی اور میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب بیٹھے ہوئے بینچ پر جھکے جارہے ہیں.میں نے ان کے بعض شاگردوں سے کہا مولوی صاحب بیمار معلوم ہوتے ہیں.ان کا خیال رکھنا.اسی دن سے آپ پر بیہوشی طاری ہوئی اور آپ تیسرے دن فوت ہو گئے.
۳۳۴ ایسے عالم کی زندگی نوجوان علماء کے لئے بہت ہی کار آمد تھی.نو جوان علماء کی وہ نگرانی کرتے تھے اور نو جوان علماء ان سے اپنی ضرورت کے مطابق مسائل پوچھ لیتے تھے.مجھے کئی سال سے یہ فکر تھا کہ جماعت کے پرانے علما ءاب ختم ہوتے جارہے ہیں.ایسا نہ ہو کہ ایک دم جماعت کو مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور جماعت کا علمی معیار قائم نہ رہ سکے.چنانچہ اس کے لئے میں نے آج سے تین چار سال قبل نئے علماء کی تیاری کی کوشش شروع کر دی تھی.کچھ نو جوان تو میں نے مولوی صاحب سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے مولوی صاحب کے ساتھ لگا دیئے اور کچھ نو جوان باہر بھجوا دیئے تا کہ وہ دیو بند وغیرہ کے علماء سے ظاہری علوم سیکھ آئیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت کی بات ہے کہ ان علماء کو واپس آئے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے جب وہ واپس آگئے تو مولوی صاحب فوت ہو گئے.گویا اللہ تعالیٰ نے ان کو اس وقت تک وفات نہیں دی جب تک کہ علم حاصل کر کے ہمارے علماء واپس نہیں آگئے.اتنی دیر تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ رکھا تا کہ ظاہر ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی تائید و نصرت کرتا ہے اور خود اس کا قائم کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس دن تک ہماری جماعت کے ایک چوٹی کے عالم کو فوت نہیں ہونے دیا جب تک کہ نئے علماء کی بنیاد نہیں رکھی گئی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نو جوان ابھی اس مرتبہ کو نہیں پہنچے لیکن وہ جوں جوں علمی میدان میں قدم رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اتنا ہی وہ ان علماء کے قائم مقام ہوتے جائیں گے.مولوی صاحب جب کالج سے فارغ ہو کر آئے تھے اس وقت ان کی اور حالت تھی اور جب انہوں نے یہاں آکر لمبی لمبی دعائیں کیں اور روحانیت سے اپنا حصہ لیا تو وہ بالکل بدل گئے اور ایک نیا وجود بن گئے.اسی طرح ہمارے نو جوانوں کو علم تو حاصل ہو گیا ہے مگر اب وہ جتنا جتنا روحانیت کے میدان میں بڑھیں گے اور اپنے تقویٰ اور نیکی کو ترقی دیں گے اتنا ہی وہ بلند مقام کی طرف پرواز کریں گے.جہاں تک کام کرنے کا تعلق ہے مولوی صاحب میں کام کرنے کی انتہائی خواہش تھی لیکن تنظیم کے معاملہ میں وہ زیادہ کامیاب نہ تھے.ایک کام ہے جو ان کے سپرد ہوا اور انہوں نے اس میں کمال کر دیا اور وہ کام ان کی ہمیشہ یادگار رہے گا.جس طرح لنگر خانہ اور دارالشیوخ میر محمد الحق صاحب کے ممنون احسان ہیں اسی طرح وصیت کا انتظام مولوی سید سرور شاہ صاحب کا ممنونِ احسان ہے مولوی صاحب نے جس وقت وصیت کا کام سنبھالا ہے اس وقت بمشکل وصیت کی آمد پچاس ساٹھ ہزار تھی.مگر مولوی صاحب نے اس کام کو ایسے احسن طریق پر ترقی دی کہ اب وصیت کی آمد پانچ لاکھ روپیہ سالانہ تک پہنچ گئی ہے.آپ کو وصیت کے کام میں اس قدر شغف تھا کہ آپ بہت جوش و خروش کے ساتھ اس کام کو سر انجام دیتے تھے کیونکہ نظام وصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قائم کردہ ہے اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ اس میں کوئی کمزوری واقع ہو جائے.یہ آپ ہی کی
۳۳۵ محنت اور کوشش کا نتیجہ ہے کہ اب ہمارے چندہ عام سے چندہ وصیت زیادہ ہے.یہ کام ہمیشہ کے لئے آپ کی یادگار رہے گا.مجھے افسوس ہے کہ مولوی صاحب کے بچوں میں سے کسی نے علم دین میں وہ مقام حاصل نہیں کیا جو انہیں حاصل تھا.اسی طرح تعلیم میں بھی وہ مولوی صاحب کے مقام کو حاصل نہیں کر سکے لیکن اگر انسان کو کسی چیز کے حاصل کرنے کا فکر لاحق ہو جائے تو اس کے لئے مواقع ہر وقت میسر آ سکتے ہیں.یورپ کے ایک ستر سالہ بوڑھے نے لاطینی زبان سیکھی اور اسکے بعد اس نے کتا ہیں لکھیں.اسی طرح اگر مولوی صاحب کی اولاد میں احساس پیدا ہو جائے تو وہ ہر وقت ان علوم کو حاصل کر سکتے ہیں.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ وہ علوم کی طرف توجہ کریں.بہر حال مولوی صاحب کی وفات سے جماعت کا ایک بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور ان کی اولاد کا تو دو ہر انقصان ہے.بلحاظ اولاد ہونے کے بھی اور بلحاظ احمدی ہونے کے بھی.ان کو دوہرا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے.مولوی صاحب با وجود ۸۴ سال عمر پانے کے آخری دم تک کام کرتے رہے.(الفضل میں ایک مضمون چھپا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عمر ۹۲ سال کی تھی ورنہ عام طور پر لوگ پچاس ساٹھ سال کی عمر میں ہی ناکارہ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں.ایسے انسان شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں.جو اس عمر تک کام کرتے ہیں.ورنہ بالعموم لوگ پچاس ساٹھ سال کی عمر میں ہی کام کاج چھوڑ دیتے ہیں اور بہت سے لوگ تو مولوی صاحب کی عمر کو پہنچتے ہی نہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مولوی صاحب کے مدارج بلند کرے اور ان کے شاگردوں میں سے جو علماء اس وقت کام کر رہے ہیں ان کو توفیق دے کہ وہ ان کی علمی بنیادوں (کو) اور زیادہ بلند کرنے والے ہوں.ہماری جماعت میں اگر بلند پایہ کے علماء ہوں تبھی ہماری جماعت باقی دنیا پر غالب آ سکتی ہے.پس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ کسی مجلس میں ہمارا سر نیچا نہ ہونے دے اور ہمارے علماء کے علمی اور عملی پایہ کو بلند کرے اور دنیا پر ان کو غالب کرے.اگر علم کی بنیاد کمزور ہو جائیں تو عمل کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری ضرورتوں کو پورا فرما تا رہے اور علمی اور عملی میدان میں ہر لمحہ ہمارا قدم آگے کی طرف بڑھائے.کیونکہ علم و عمل کے بغیر روحانی اور اقتصادی ترقیات حاصل نہیں ہو سکتیں.‘‘ ۲۸۳ شان صحابه حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.میں پھر صحابہ کی حالت کو نظیر کے طور پر پیش کر کے کہتا ہوں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اپنی عملی حالت میں دکھایا کہ وہ خدا جو غیب الغیب ہستی
۳۳۶ ہے اور جو باطل پرست مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ اور نہاں ہے انہوں نے اپنی آنکھ سے ہاں آنکھ سے دیکھ لیا ہے.ورنہ بتاؤ تو سہی کہ وہ کیا بات تھی جس نے ان کو ذرا بھی پرواہ نہیں ہونے دی کہ قوم چھوڑی ، ملک چھوڑا، جائداد میں چھوڑیں.احباب اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کیا.وہ صرف خدا ہی پر بھروسہ تھا اور ایک خدا پر بھروسہ کر کے انہوں نے وہ کر کے دکھایا کہ اگر تاریخ کی ورق گردانی کریں تو انسان حیرت اور تعجب سے بھر جاتا ہے.ایمان تھا اور صرف ایمان تھا اور کچھ نہ تھا.ورنہ بالمقابل دنیا داروں کے منصوبے اور تدبیریں اور پوری کوششیں اور سرگرمیاں تھیں وہ کامیاب نہ ہو سکے، ان کی تعداد، جماعت ، دولت سب کچھ زیادہ تھا.مگر ایمان نہ تھا اور صرف ایمان ہی کے نہ ہونے کی وجوہ سے وہ ہلاک ہوئے اور کامیابی کی صورت نہ دیکھ سکے.مگر صحابہؓ نے ایمانی قوت سے سب کو جیت لیا.انہوں نے جب ایک شخص کی آواز سنی جس نے با وصفیکہ اُمی ہونے کی حالت میں پرورش پائی تھی.مگر اپنے صدق اور امانت اور راستبازی میں شہرت یافتہ تھا جب اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں یہ سنتے ہی ساتھ ہو گئے اور پھر دیوانوں کی طرح اس کے پیچھے چلے.میں پھر کہتا ہوں کہ وہ صرف ایک ہی بات تھی جس نے ان کی یہ حالت بنا دی اور وہ ایمان تھا.یا درکھو خدا تعالیٰ پر ایمان بڑی چیز ہے.“ ۲۸۴
۳۳۷ البدر ۰۳-۳-۲۷ ، ص ۷۶ البدر ۳۰-۱-۲، ص ۲۷۴ : الحکم ۳۰-۱-۱۰، ص۱ حوالہ جات بحوالہ کتاب لاہور بزبان انگریزی مولفہ سید محمد لطیف ایف.آر.ایس مطبوعہ ۵۷-۱۹۵۶ ص ۲۶۸ ۵ : الحکم ۰۶-۵-۳۱، ص۲ الحکم نومبر ص اک كو: الفضل ۲۳-۳-۵ :A الفضل ۲۳-۳-۷ و الفضل ۴۵-۲- ۲۸، ص ۲۸ : ا ۲۸ جون ۱۹۱۳ء میں ۳.زیرہ دارالامان کا ہفتہ ۱۲ ۱۴: بدر ۱۳-۶-۲۲، ص ۸ الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۱۳ وزیر مدین اسید ، 66 الفضل ۶ را گست ۱۹۱۳ ء زیر مدینه امسیح ،، الفضل ۱۵-۱۱-۱۴ بس الحمد :۱۵: الفضل ها مئی زیر مدینه امسیح ۱۶: الفضل ۲۵-۱-۳۱ " ، كل الفضل ۳۰-۱۱-۲۷ زیر مدينة المسيح بدر ۱۱-۱۱-۲ ص ۵ ک۲ ۱۹ : الحکم ۲۸/ ۲۱ ستمبر ۱۹۴۲ء ص ۲ ۲۰ اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اوّل ص الحکم ۰۱-۱۲-۱۷ ص ۶ اک ۳
۳۳۸ ۲۲ الحكم ۷-۲-۰۲ ص ۶اک ۳ ۱۳ بدر ۰۷-۴-۱۱ ص ۱اک ۴ ۲۴ البدر ۰۵-۲-۸ ص م ک ۳ ۲۵ البدر ۰۴-۹-۸ ص ۲۲ ۲۶ بدر ۰۵-۱۲-۸ ص ۳۷ الفضل ۴۴-۸-۱۱ ص۲ ۲۸ تتمہ حقیقۃ الوحی ساتواں نشان ۲۹ الحکم ۰۲-۰۵-۱۰ ص ۶ اک ۱ الحكم ۰۲-۷-۱۰ اس : الفضل ۱۷-۱-۲ زیر مدینه المسيح ، ۳۲ الحکم ۲۴ فروری ۱۹۰۰ ء ص اک ۳ ۳۳ ریویوار دو بابت جولائی ۱۹۰۵ ء سر ورق آخر ۳۴ بدر ۰۶-۵-۱۷ ص ۴۲ ک۳ ۳۵ پرچه بابت اکتوبر ۱۹۰۶ ء سر ورق صفحہ آخر ۳۶ پرچه بابت اکتوبر ۱۹۱۲ ء ص ۳۹۷ ۳۷ : الفضل ۲۶-۳-۱۲ ص ۲ ک۲ ۳۸: البدر بابت ۲۴ نومبر، یکم دسمبر ۱۹۰۴ء ص ۶ ب کالم ۴ ۳۹ بدر ۰۵-۱۲-۸ ص ۳۷ بدر ۰۶-۵-۱۷ ص ۴۲ ک۳ ا تشخیذ الا ذہان بابت جنوری ۱۹۱۳ء سر ورق صفحه ۲ تفخیذ الا ذہان بابت اپریل ۱۹۱۲ء سر ورق ص ۳۹۷ ۴۳: ریویو آف ریجنز (اردو) بابت اکتوبر ۱۹۱۲ء ، ص ۱۹۷۰ ۴۴ : الحكم ۱۲-۱۰-۲۱ ص۳ البدر ۰۴-۹-۱ ص۴ رپورٹ سالانہ بابت ۱۸ ۱۹۱۷ء ص ۴،۳ ، الفضل ۱۹-۳-۲۹ ص ۴ ک ۲ ، رپورٹ سالانہ بابت ۱۹ - ۱۹۱۸ء ص ۱۴۵
۳۳۹ مورخه ۱۸-۹-۱۰ زیر مدینه امسیح ، ۲۸ رپورٹ سالانہ بابت ۲۰-۱۹۱۹ء ص ۲ ۴۹: الفضل ۲۳-۱-۱ ص ۲ک ۳ ،۲۳-۰۱-۴ ص ۳۵۸ ۵۰ الفضل ۲۳-۱۱-۱۶ ص ۱۲ک۱ ۵۱ : رپورٹ سالانه ۱۸ - ۱۹۱۷ء ص ۱۵-۱۹ : الفضل ۲۰-۱-۱۲ ص ۳ک ۳ ۵۳ : احمدیہ گزٹ مورخہ ۲۷-۹-۱۱ ص ۷ ک ۲ ۹-۹-۲۷ : ۵۴ ۵۵ ریویو آف ریلیجنز (اردو) بابت دسمبر ۱۹۱۸ء ص۴۶۲ ۵۶ : الحکم ۲۱، ۲۸ /جنوری ۱۹۲۱ء ص۳ الفضل ۴۳-۱۲-۳ ص۲ ۵۸ : رپورٹ مشاورت ۱۹۲۶ء مندرجہ احمد یہ گزٹ ۲۷-۳-۲۶ ص ۱۵، ۱۶ وه الفضل ۲۶-۵-۴ ص ۱۲ ۲۰ ریویو آف ریلیجنز (اردو) بابت فروری ۱۹۱۲ء ص ۷۵ الفضل ۳۱-۱۲-۱۳ ص ۲کا ۶۲ : الحکام ۱۹-۱-۷ ص ۲ حاشیہ، الحام ۱-۱۹- ۲۸ ص ۱.زیر دارالامان کا ہفتہ.والفضل ۱۹-۱-۲۱ زیر مدینہ اسیح " الحکم ۱۹-۲-۱۱ ص ۱۹۹۸-۲-۱۸ زیر مدینه المسیح ۶۴ : الحکم ۱۹-۲-۲۱ ص۵ ۶۵ : الحکم ۱۹-۳-۷ صا : الفضل ۱۹-۳-۱ زیر مدينة المسيح الحكم ۲۸،۲۱ / مارچ ۱۹۱۹ء ص ۴،۳ الفضل ۱۹-۱۱-۱۸ ص ۵ ، ۶ ک۲ :۶۹: الفضل ۲۰-۱-۵ ص ۲۱ وی ریویو آف ریلیجنز (اردو) بابت جنوری ۱۹۲۰ء ص ۳۴
۳۴۰ الى الحكم ۲۰-۱۰-۱۴ ص ۲.زیرہ سلسلہ کی خبریں ص۲.٢ الحكم ۲۸ اکتو بر وی رنومبر ۱۹۲۰ء ص ۲ : الحكم ۷-۱۲-۲۰ ص۲ ۷۴ : الحکم ۲۰-۱۱-۱۴ ص۲ الفضل ۲۳-۱-۱ ص۲ ک۳ ك: الفضل ۶ /جنوری ۱۹۶۵ء ص۳ ک رپورٹ سالانہ بابت ۱۹۲۰ء ص ۲۴،۲۱ ۱۴-۵-۲۰ ص ۸ و الفضل ۴۷-۸-۴ : ۰ : خطبه جمعه ۲۴-۷-۱ مندرجه الفضل ۲۳-۷-۲۲ ( ص ۲،۵ ) والحکم ۲۴ - ۷-۲۱ ( ص ۳ ۴۰ ) الحکم ۱۸-۶-۲۸ ص ۲۱، ۱۸-۸-۲۱ ص ۱ والفضل ۱۸-۶-۲۹ زیر " مدينة اسبح “، ۲۰-۸-۱۸ ص۱ : احکام ۱۸-۸-۷ ص ۸، الفضل ۱۸-۸-۲ زیر مدینه المسح ،، ۸۳ : الحکم ۱۸-۸-۲۱ ص۲۰۱ ۵۴ : الحكم ۲۰-۸-۷ صا ۸۵: الحکم ۲۱-۹-۲۱ ص۱.زیرہ دارالامان کی خبریں ۸۶ : الفض ۱۸؍ فروری ۱۹۱۹ء ص ۵۰۴ ۵۷ : الحکم ۳۱-۴-۲۱ زیر مدینه است : 66 الفضل ۲۴-۳-۱۲ زیر مدينة امسیح ۸۹: الفضل ۳۷-۰۱-۱۷ 인 حصہ سوم.روایت ۵۵۰ البدر ۰۵-۱-اص ااکا ۹۲ الحکم ۰۸-۳-۱۴ یہاں پونے دو کالم میں اس کا خلاصہ درج ہے : ۱۲-۳-۱۸ ص۳ ٩٤ الفضل ۱۵ / مارچ ۱۹۲۳ء ص ۷
۳۴۱ 94 الفضل ۴۲ مارچ زیر مدينة اس : الفضل ۲۶-۷-۲۷ زیر مدينة اسح الفضل ۲۶-۸-۲۷ زیر مدیر اسبیح 66 ۹۸ الحکم ۰۸-۳-۱۴ (اس کا خلاصہ پونے دو کالم میں درج ہے ) : ۱۲-۳-۰۸ ص۳ بدر ۰۸-۳-۱۹ ص۲ اما الفضل ۱۴-۳-۴ ص ۱۵ کا : الفضل ۴ / مارچ ۱۹۱۴ء ص ۱ ک۲ ۱۰۲: الفضل ۱۷-۵-۱ ، ۱۸-۵-۴ ، ۱۸-۵-۱۱ ، ۱۸-۵-۱۸ ، ۱۸-۵-۲۵ ، ۱۸-۶-۴ ، ۲۷-۸-۱۸،۳-۸-۱۸ ،۲۹-۶-۱۸ ، ۱۵-۶-۱۸ ، ۱۱-۶-۲۸ ۱۰۳ : ۲۸، ۲۱ رمئی ۱۹۱۸ء ص ۲ زیر دارالامان کا ہفتہ ۱۰۴: الفضل ۱۳۱۵ جولائی ۱۹۱۸ ء زیر مدینہ اسی (خطبہ کے لئے دیکھئے پر چ۱۸-۸-۱۷ الفضل ۲۱-۴-۴ زیره مدينة ارسی 66 ١٠٦: الفضل ۲۱-۴-۲۵ زیر مدینة اسبح ، برائے خطبہ دیکھئے ۲۱-۴-۲۸ ص ۵ ۱۰۷: الحكم ۲۱-۹-۷ زیرہ دارالامان کی خبریں ۱۰۸ الفضل ۳۸-۹-۲۰ ، ۳۸-۹- ۲۵ زیر : ١٠٩ :11+ الفضل ۳۹ - ۵-۳۹،۲۴-۲-۱۱ زیر مدینتر اسی 66 الفضل ۳۹-۴-۳۹،۲۸-۵-۳ زیر لمدة ) الا : الفضل ۳۹ - ۵-۳۹،۱۶-۵-۱۷ زیر مدینه ای لمست ۱۱۲: الفضل ۴۵-۴-۲ زیر مدیترای 66 الفضل ۴۶-۲-۱ زیر مدينة أصبح " ۱۱۴: الفضل ۴۷-۲-۲۴ ص ۱ الفضل ۳۹-۵-۲۸ زیره مدیر است." 66 66 ، 66 الفضل ۱۸-۴-۲۷ زیر مدینه ایی 66 الفضل ۲۷-۱-۲۱، ۴۷-۲-۵ زیر مد المسیح ،، :
66 ۳۴۲ : الفضل ۵۹-۳-۳۱ ص۳ الفضل ۱۶-۳-۲۲ ص ۴،۳ ۱۲۰: الفضل ۲۲-۳-۲۰ ص۶ الفضل ۲۳-۱۱-۶ ص۱۲ الفضل ۲۴-۹-۳ زیر مدينة امس صحیب کالم.واپسی الفضل ۲۴-۱- زیر مدینہ السی : ۱۲۲ ۲۳ : الفضل ۲۲-۹-۳۰ صفحه ب کالم ۲-۲۴-۱۰-۷ ص۲ ۱۲۴: الحکم ۰۱-۲-۲۴ ص۳۱۶ ۱۲۵: الحکم ۰۱-۴-۱۷ ص ۲ک ۲ : الحکم ۰۵-۱-۲۴ ص ۱اک ۴ :۱۲۷ : رپورٹ مشاورت ص ۵۵ کالم ۲ ۱۳۸: الفضل ۲۴-۳-۴ ص ۳۶ ۱۲۹: الفضل ۴۵-۰۶-۱۷ ص۱ ۱۳: الفضل ۳۱-۹-۲۲- ضمیمه ص ۳ک ۱ ۱۳۹: الفضل ۳۱-۹-۲۰ ص ۲۸ ١٣٠ : الفضل ۳۱-۹-۲۲ ضمیمه ص ۳ک ۱ : الفضل ۴۴-۶-۲۳ ص ۳ک ۲ ۱۳۲ : پانچ ہزاری مجاہدین ص ۱۳۵ ۱۳۴ ۱۳۳ بدر ۰۶-۳-۹ ص۱۰ک۳ ۱۳۴ / ۲۶-۴-۰۶ ص۲۶ ۱۳۵ : فیصله مجلس معتمدین صدرانجمن احمد یہ نمبر ۴۸۶ مورخه ۲۹ دسمبر ۱۹۱۷ء ۱۳۶: فیصلہ نمبر ۵۷۶ مورخه ۱۸-۱۲-۳۰ ۱۳۷) : الحکم ۰۹-۱-۲۸ ص ۹ تا ۱۳ ۱۳۸: الحكم ۰۹-۳-۷ ص ۱۲ تا ۱۴ در یویو آف ریلیجنز (اردو) بابت مارچ ۱۹۰۹ء ص ۱۳۱ تا ۱۳۵ ۱۳۹: الحکم ۲۰-۱- ۷ صفحه ب کالم ۲ ۱۴۰: الحكم ۱۴-۴-۱۲ ص ۹ تا ۱۱ ۲۱/۲۸ اپریل ۱۴۰/ ۷ مئی ۱۹۱۲ء
۳۴۳ ۱۴۱: الحکم ۱۴-۵-۱۴ ص ۹ زیر دارالامان کا ہفتہ ۱۴۲: الحکم ۱۵-۱-۱۲ ص۶ ۱۴۳ : رپورٹ سالانه ۲۰- ۱۹۱۹ء ص ۵۹-۶۰ ۱۴۴: الفضل ۲۱، ۲۵-۵-۲۸ زیر مدینه المسيح ،، ۲۸ - زیر ۱۴۵: الفضل ۲۸-۸-۱۴ ۱۴۶: الفضل ۳۴-۱۱- ۲۷ الفضل ۵-۳۹- زیر مدينة البيع 66 ۱۳۸: الفضل ۳۹-۵-۶۱ زیر مدیره امسیح ،، ۱۳۹ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۴۰۷ ۱۵۰: الفضل ۴۴-۱۱-۳ زیر مدینه مسیح ،، اها : الفضل ۲۵-۷-۳۰ زیر مدينة اسبح ۱۵۲: الحکم ۲۱-۲-۱۴ ص۱ ۱۵۳: زیر مدینة اصبح ۲۱۴۰-۰۲-۱۰ ، ۲۱-۲-۱۴ 66 ۱۵۴: الفضل ۵، ۹ فروری ۱۹۲۶ء ص ۱۱ وزیر مدینه امسیح ، ۱۵۵: الفضل ۱۶-۱-۱ ص۳ ۱۵۶: الحکم ۱۹-۳-۱۴ ص۸ ۱۵۷: الحکم ۲۸ دسمبر ۱۹۲۱ء ، ۷ / جنوری ۱۹۲۲ء ، ص ۲ ک ۲ و الفضل ۲۶ / دسمبر ۱۹۲۱ / ۲ / جنوری ۱۹۲۲ء ص ۲ ، ۲ ۱۵۸ / ۱-۱-۲۴ ص ۱اک ۳ ، ۲۴-۱-۴ ص ۴ ک ۳ ،ص ۱اک ۱.ور یویو آف ریلیجنز : (انگریزی) بابت فروری ۱۹۲۴ء ص ۶۸ ۱۵۹: الفضل ۲۵-۱-۳ ص ۲ک ۱ ، ۲۵-۱-۷ ص ۶،۵، در یویو آف ریلیجنز (انگریزی) بابت مارچ ۱۹۲۵ء ص ۹ ۱۲۰: الفضل ۲۷-۱۲-۲۳ص۱ : // ۱۰-۱-۲۸ ص۴ ۱۶: الحکم ۰۶-۵-۲۴ ص ۶ کا
۳۴۴ 66 الفضل ۱۳-۷-۳۰ زیر مدينة المسيح ،، ۱۹۴ : الفضل ۱۳/۱۶مئی ۱۹۱۵ء ۱۶۵: الحكم ۱۸-۸-۷ ص۳ ۱۶: الفضل ۱۸-۱۱-۱۶ ص۱ ۱۹۷ : الحكام ۲۰-۱-۲۸ ص۳ ک۳ الفضل ۳۱-۱-۲۰ زیر" مدينة اسح 66 ۱۶۹: ۱/ ۱۴-۷-۳۱ زیر مدینه اصبح ،، كل الفضل ۵۴-۷-۲۹ ص ۶ ک۳ ال : ۱۴-۲- ۲۸ ص ۶ کلی : بدر ۲۱، ۲۸ جولائی ۱۹۱۰ ص۲ ۷۳ : بدر ۱۰-۱۰-۲۷ ص۷،۶ : // ۱۳-۱۰-۱۰ ص۲ ۱۷۵: حیات قدسی حصہ چہارم ص ۵۵ ۱۷ : ۱۰-۱۰-۱۲ ص۲ ۱۷۷ : رپورٹ سالانہ ص ۴۳ ۷۸ : الفضل ۱۳-۱۲-۳ ، ۱۴-۴-۱۸ ، ۱۴-۴-۲۰ ، ۱۷-۳-۱۰ ، ۱۷-۵-۲۶ ، ۱۷-۱۱-۲۴ ، 66 ۱۱-۸-۲۵، ۴-۱۰-۲۷ ، ۲۲-۱۱-۲۷ تمام حوالے زیر مدینه امسیح ، ولا: الفضل ۱۵-۶-۱۶ ص ۷،۶ ۱۸۰ مزید بابت دوره ۱۵-۶-۶ ص ۲ ۱۵-۵-۱۵،۲۵-۵-۳۰ زیر ۳۰-۵-۱۵ زیر مدینه المسيح ،، ۱ : الفضل ۲۲-۱-۱۲ ص۵،۴ ۱۸۲: الحکم ۲۳-۰۴-۲۱، ۱۵-۰۵-۳۰ زیر "دارالامان کا ہفتہ ۱۸۳ : رپورٹ نظارت تعلیم و تربیت بابت ۱۹۲۹ء ،۱۹۳۰ء مندرجہ رپورٹ مشاورت ۱۹۳۰ء ص ۲۳۲٬۲۲۸ ۱۸۴ : رپورٹ سالانہ بابت ۱۸ ۱۹۱۷ء (ص ۶، ۷ ، الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۱۷ ء و یکم جنوری ۱۹۱۸ء (ص ۵ اک۱) و ۵ /جنوری ۱۹۱۸ء (ص۱۳) الفضل ۳۰-۱۱-۲۸ ص۱ ۱۸۵
۳۴۵ ۱ : الفضل ۳۴-۱۱-۲۷ ص۱ ۱۸: الفضل ۵۸-۱-۱۱ ص۳ ۱۸: الفضل ۳۸-۵-۲۰ ص۲ ۱۸۹ بدر ۰۶-۲-۲ ص ۸ تا ۱۱ 190 : الحكم ۲۴-۶-۰۲ ص ۱ اوغیرہ.دس کالم میں شائع ہوا ۱۹۱ // ۹-۳-۰۶ ص ۴ تا ۷ ۱۹۲ : // ۳-۵-۰۶ ص ۴ تا ۱۱ ۱۹۳ : الحكم ۰۸-۷-۲۲ ص۳ ۱۹۴ بدر ۰۸-۸-۱۳ ص ۵۰۴ ۱۹۵ : // ۱۵-۱۰-۰۸ ص ۷ تا ۱۰ ١٩٦ : الفضل ۲۰،۱۸ مئی ۱۹۱۵ء ص ۱۳ ۱۹۷ : الفضل ۲۳-۳-۱۵ (ص ۷ ) بیان خود مولوی صاحب ۱۹۸ : تفخیذ الا ذہان بابت اکتوبر ونومبر ۱۹۱۵ء ص ۳۶ تا ۴۴ ۱۹۹ تشحذ الا ذہان بابت مئی ۱۹۲۰ء ص ۱ تا ۱۲ الفضل ۲۵-۱۰-۳۰ ص ۲۷ // ۱۱-۱۰-۳۰ ص۲۰۱ ۲۰۲ الحکم ۱۳/۲۱ نومبر ۱۹۴۰ء ص ۱۲ ۲۰۳ : الفضل ۴۶-۱۲-۲۷ ص۳ ۲۰۴ : الحكم ۰۶-۴-۳۰ صا ۲۰۵ رسالہ تعلیم الاسلام جلد نمبر ا بابت جولائی ۱۹۰۶ء سر ورق ص۲ ۲۰۶ : ۲-۸-۰۶ ص۴ ۲۰۷ : ۳-۴-۰۸ ص۹ -۲۵ زیر مدينة المسيح ، ص۱۳ ۲۵-۶-۰۸ : ۲۰۸ ۲۰۹ رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمدیه ۰۸-۱۹۰۷ء صفحه ب، ج یہ ۲۱۰ رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ بابت ۱۰-۱۹۰۹ء ص ۲۷ :
۳۴۶ ۲۱: رسالہ تفسیر القرآن بابت جنوری تا مارچ ۱۹۰۹ء سرورق ص ۲ ۲۱۲ بابت اپریل ۱۹۰۷ء ص ۱۵۶،۱۵۵ ۲۱۳ الحکم ۲۴-۷-۱۴ ص۲ ۲۱۴ : الحکم ۱۸-۸-۲۸ ص۱۰ ۳۱۵ : بدر ۱۱-۱۱-۲ ص ۵ کا ۲۱۶: ریویو آف ریلیجنز (اردو ) بابت ستمبر ۱۹۱۳ء ص ۳۴۴ ۲۱۷ : الفضل ۲۳-۱-۴ ص۱۰ کرا ۲۱ : الفضل ۱۵-۱-۱۰ زیر مدينة اسبی ۱۹ : الفضل ۲۷-۱-۲ زیر "مدينة اس ٢٢٠: الفضل ۱۸-۴-۲۷ زیر مدينة امسیح ۲۲۱ : الحکم ۱۸-۶-۱۴ ص ۱ 66 66 ۲۲۲ : الحکم ۱۸-۶-۲۸ ص ۷ ا محترم قاضی محمدظہور الدین صاحب اکمل : ۲۲۳ الفضل ۱۸-۸-۲۴ زير مدينة أصبح ، 66 ۲۲۴ : تشخید الا زبان بابت ستمبر ۱۹۱۸ء ص ۱۲ تا ۲۰ 66 ۲۲۵ : الفضل ۱۹-۳-۱ زیر مدینه است ، 66 ۲۲ : الفضل ۲۵-۰۴-۲۱ - زیر مدیا - اسی ، ۲۲۷ الففل ۲۴-۷-۱۱ زیر مدینه اصیح ، ۲۲۸ : الحکم ۲۴-۷-۲۸ ص ۲ 66 المسح ،، 66 ٢٢٩ : الفضل ۳۳-۱۲-۱۷ ، ۳۳-۱۲-۲۴- زیر مدینه است ، ۲۲۹ ۲۳۰ : الفضل ۳۸-۲-۱۸- زیر مدیسه اسبح ،، ۲۳۱ : الفضل ۲۱-۱۰-۶ ص ۸ ۲۳۲ : الحکم جوبلی نمبر (دسمبر ۱۹۳۹ء) ص۳۱ کا ۲۳۳ : الحکم ۰۵-۳-۳۱ ص۹،۸ ۲۳۴: رساله کشف الاختلاف ص ۱۳ ۱۴ : الحکم جوبلی نمبر ا ص ۲۸، ۲۹
۳۴۷ ۲۳۶ : الحکم جوبلی نمبر ص ۲۹ ۲۳۷ : اقتباسات از خطوط مندرجه آئینه صداقت ، انوار العلوم جلد ۶ ص ۲۲۳ ۲۲۴ ۲۳۸ : الفضل بحوالہ الحکم جوبلی نمبر ص۳۲ ۲۳۹ : الحکم ۱۱-۳-۱۴ ص۶ ٢٠ : الفضل ۱۳-۷-۲۳ ص ۱۵،۱۴ ۲۴۰ ۲۴۱: الفضل ۱۳-۷-۳۰ ص ۱۳ ۲۴۲ : القول الفصل ص ۵۶ ۲۴۳ : الفضل ۱۴-۴-۱ ص ۲۰ ک۳ ۱۷-۹-۴۶ : ۲۴۴ ۲۴۵ : الحکم جوبلی نمبر ص ۳۳ ۳۴۷ ۲۴۶ : الحکم جوبلی نمبر ص ۳۲ تا ۳۴ ۲۴۷ : آئینه صداقت ص ۱۹۱،۱۹۰ ، انوار العلوم جلد ۶ ص ۲۵۱،۲۵۰ ۲۴۸ : ۲۱-۳-۱۲ ص ۷کا نیز الفضل ۱۴-۳-۱۸ ص۱۶ 66 ۲۴۹ : الفضل ۱۴-۳- ۱۸ زیر "مدينة امسیح ،، ۲۵۰ ملاحظہ ہو الفضل ۱۴-۴-۱ ص اک ۳ و اصحاب احمد جلد اوّل ص۱۸۶ حاشیہ : ۲۵۱ رساله فرقان بابت اپریل ۱۹۴۵ء ص ۱۶ ۲۵۲ : الحکم جوبلی نمبر سر ورق صفحه ب کالم ۳ ۲۵۳ : آئینه صداقت ص ۱۰۶ ، انوار العلوم جلد ۶ ص ۱۶۷ ۲۵۴ : " برکات خلافت ص ۴۴، ۴۵ ۲۵۵ : الحکم جوبلی نمبر ص ۳۰،۲۹ ۲۵۶ : الحکم جوبلی نمبر ص۳۳ ک۴۰۳ ۲۵۷ : الفضل ۱۷-۱-۲ ص ۶،۵ ۲۵۸ : تشحید الا ذہان جون ۱۹۱۴ء ۲۵۹ : الفضل ۱۷-۱-۲۳، ۱۷-۱- ۲۷ الفضل ۱۴-۱۲-۲۷.چار کالم میں درج ہے
۳۴۸ ۲۶۱ : الفضل ۲۳-۱-۴ ص۴۳ ۲۶۲: الفضل ۲۳-۳-۱۵ ص ۸،۷ ، ۲۳-۳-۲۶ ص ۳ تا ۷ ۲۶۳ : مؤخر الذکر مورخہ ۲۱ - دسمبر ۱۹۳۷ء ۳۶۴ : الحكم ۰۸-۴-۱۴ ص۲ ۲۶۵ : الفضل یکم فروری ۱۹۴۴ء الفضل ۴۴-۲-۲۶ ص۱ ک۳ ۲۶۷ : جلسہ ہائے لاہور ولدھیانہ علی الترتیب ۱۳.اور ۲۳ / مارچ کو منعقد ہوئے تھے.(الفضل ۱۵-۳-۲۴ ص ۱ ، ۴۴-۳-۲۸ ص۱ ۲۶۸ : الحلم ۲۱/۲۸ مارچ ۱۹۲۱ء ص ۵ تا ۷ ۲۶۹ بدر ۰۸-۸-۱۳ ص ۵ ۲۰۷ : الفضل ۲۴-۱۱-۲۵ ص۷ ۲۷۱ : الفضل ۴۷-۶-۱۳ 66 الفضل ۲۱-۱-۴۷ ، ۵-۲-۴۷ زیر مدینه زیر نمدينة المسيح ۲۷۲ ۲۷۳ : الفضل ۴۷-۶-۴ ۲۷۴ : الفضل ۴ جون ۱۹۴۷ء ص ۴ ۷۵ : الفضل ۴۴-۱۱-۲۸ص۲ ٢٧٦ : الفضل ۴۷-۶-۱۳ ص ۵اک ۳ ۵-۶-۴۷ : ۲۷۷ ۵-۶-۴۷ : ۲۸ ۲۷۹ الفضل ۵۸-۳-۱۸ ص ۱ کم ۲۸۰ : آئینه صداقت ص ۱۰۶ الفضل ۲۸-۱۱-۴۴ ص ۲ ۲۸۲: رپورٹ مشاورت ص ۳۱ تا ۳۶ ۲۸۳ : الفضل ۴۷-۶-۱۳ ۲۸۴ : الحکم ۳۱/جنوری ۱۹۰۱ء
اصحاب احمد جلد سوم سیرت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مؤلف ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۳۵۱ نَحْمَدُه وَنُصَّلِيْ عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُود عرض حال حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے سواخ و سیرۃ جلد پنجم حصہ اول و دوم کے صفحات میں ہدیہ قارئیں کئے جاچکے ہیں.لیکن سیرۃ کا کچھ حصہ باقی تھا جو حصہ سوم میں پیش کیا جا رہا ہے.فَالحَمدُ لله عَلَىٰ ذَالِک.جن احباب کرام کا میں نے اعانت کے تعلق میں حصہ دوم میں ذکر کیا ہے ان کے لئے مکرر نیز ان کے لئے بھی دعا کی تحریک کرتا ہوں جنہوں نے آئندہ اعانت کا ارادہ ظاہر کیا ہے.جناب چوہدری نبی احمد صاحب کاہلوں مالک ماڈرن موٹرز ( نائب امیر کراچی) کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ انہوں نے نصف ہزار روپیہ کی رقم خطیر سے اعانت فرمائی.میں ان کے لئے نیز اپنے سگے بھائیوں ملک حشمت اللہ صاحب و ملک ذکاء اللہ صاحب مقیم امریکہ کے لئے جنہوں نے والدین اور مرحوم بھائی کے اہل وعیال کی مستقل امداد کے علاوہ ایک رقم خطیر سے اعانت کی تھی.اور باوجودیکہ ہر دو دس گیارہ سال کے بعد آئے.اور پاکستان میں شادیاں کر کے بیویوں کو لے جانے کا انتظام کیا.جس پر ظاہر ہے کہ زر کثیر صرف ہوا.پھر بھی وہ بہت زیادہ اعانت کا ارادہ رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب معاونین کے ایمان - اموال و اوالا د میں برکتیں عطا کرے اور شرور سے محفوظ رکھے.آمین ثم آمین.ایک کثیر تعداد یقیناً اس امر سے ناواقف ہے کہ یہ کام بحالات موجودہ کس قدر محنت طلب ہے.با قاعدہ پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے میں اس سہولت سے محروم ہوں کہ جس صحابی کے حالات حیطہ تحریر میں لانے ہوں ذاتی طور پر ان کی یا ان کے اقارب واحباب کی خدمت میں حاضر ہوں.یا خریداروں تک حسب ضرورت پہنچ سکوں اس لئے مجھے خط و کتابت کی طرف خاص توجہ دینی پڑتی ہے.اور چونکہ احباب جلد توجہ نہیں فرماتے اس لئے بار بار یاد دہانی کرانی پڑتی ہے.گزشتہ ایک سال میں خاکسار نے قریباً چھ ہزار خطوط تحریر کئے.دفتر کے
۳۵۲ مفوضہ کام کے بعد اتنی خط وکتابت مطالعہ اور تصنیف اور خریداروں کے حصول کی کوشش بہت بھاری کام ہے.احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کام کی تکمیل کی توفیق عطا کرے اور اپنے فضل سے بہترین اسباب مہیا کرے.عليه التكلان واليه أنيب.هو نعم المولى ونعم النصير - اللہ تعالیٰ کی توفیق سے توقع ہے کہ جلسہ سالانہ پر ضلع گورداسپور کے بعض صحابہ کے سوانح شائع کروں گا.وَلاحول ولاقوة الا بالله العلى العظيم والسلام ملک صلاح الدین ایم.اے (آڈیٹر ہرسہ انجمن ہائے.صدرانجمن احمد یہ.انجمن تحریک جدید وانجمن تحر یک وقف جدید )
۳۵۳ تاثرات احباب حضرت مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کے متعلق احباب کے تاثرات جوانمول اور ایمان افروز سوانح پر مشتمل ہیں ھدیہ قارئین کئے جاتے ہیں.ا- از محترم مولوی محمد جی صاحب فاضل سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان حال مقیم ربوہ.اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ہر خطہ اور ہر ملک کے بہترین چیدہ اشخاص بطور رفیق انتخاب کئے تھے.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب حضرت سید شاہ محمد غوث لاہوری کے بر دار کلاں سید شاہ میر زین العابدین بن سید حسن پشاوری کی اولاد سے ہیں.سید زین العابدین کو رجب ۱۱۹۵ھ میں آزاد خان درانی نے جبکہ ہزارہ صوبہ کشمیر میں شامل تھا لنگر کے لئے موضع سلطان پور مع ملحقات جاگیر میں دیا تھا.اور جب ہزارہ کشمیر کے صوبہ سے الگ ہوا تو صوبہ خاں والئے تناول نے ۲۳ صفر ۱۲۲۱ھ (مطابق ۱۳مئی ۱۸۰۶ء) کو مواضع ما نگل وغیرہ جاگیر میں دیئے.قبائل سرارہ کر لال.توکی و دیگر افغان قبائل اور شمال مغربی کشمیر کے قبائل کو آپ کے خاندان سے ارادت تھی.میرے بچپن کے زمانہ میں جب میرے وطن داتیہ ضلع ہزارہ میں جماعت احمدیہ کا پودا جڑھ پکڑ گیا تو آپ اپنے ہمنام پھوپھی زاد بھائی کے پاس آئے میں بھی ان کے پیچھے جا کھڑا ہوا.لوگوں نے ان کو ایک احمدی سے علمی بات کرنے کو کہا.آپ نے تحقیر کر کے بحث کو ٹال دیا.مگر آر کی قسمت میں سعادت تھی.آپ ان دنوں ایبٹ آباد کی جامع مسجد کے قاضی تھے.ان کا ایک طالب علم محمد عرفان نام تھا.دورانِ سبق میں اس نے آپ سے حیات مسیح پر گفتگو شروع کر دی.اس طالب علم کو موضع دانته سے بھی مدد ملنے لگی.جب مولوی صاحب لا جواب ہوئے تو وہ طالب علم قادیان پہنچا اور حضرت اقدس کے ہاتھ پر بیعت کر کے واپس ہوا اور مولوی صاحب سے نہ ملا.اور ناڑہ کے علاقہ میں کسی گاؤں کا قاضی (امام مسجد ) بن گیا.مولوی صاحب کی فطرت اب بیدار ہو چکی تھی.مولوی صاحب کشمیر میں راجہ عطا محمد خان صاحب کے ہاں پھوپھی زاد بھائی کا رشتہ طلب کرنے کے لئے گئے تھے واپسی پر دانہ آئے تو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے
۳۵۴ کہ میں نے بیعت کر لی ہے.اور فرمایا کہ آپ کا نام میں نے ( بیعت کنندگان میں ) اخبار میں پڑھا تھا.آپ پانچ بھائی تھے جن میں سے چار احمدی تھے.آپ کے والد حضرت اقدس کی کتابوں سے واقف تھے اور ان کا بڑالڑ کا بھی واقف تھا مگر یہ دونوں باپ بیٹا کھلے طور پر احمدی نہ تھے مولوی صاحب حضرت اقدس کے حکم سے جمعہ بھی پڑھایا کرتے تھے.مسجد مبارک میں خاکسار نے ان کا خطبہ سنا اور حضرت اقدس نے ان کی اقتداء میں جمعہ ادا کیا.حضرت اقدس ان سے بوجہ ان کے علم کے بہت محبت رکھتے تھے.افیم چھوڑنے سے یہ سخت بیمار ہو گئے تھے.ابھی نقاہت شامل حال تھی کہ مسجد مبارک میں نماز کے لئے تشریف لائے.حضرت اقدس نے ان کی حالت دیکھ کر فرمایا آپ آہستہ آہستہ چھوڑتے یکدم ایسا کیوں کیا.عرض کی.حضور ! جب ارادہ کر لیا تو یکدم ہی چھوڑ دی.ہزارہ اور شمالی کشمیر کے قبائل آپ کے خاندان کے پیرو تھے.جنہوں نے ان کے بزرگوں کو زمینیں نذر کی ہوئی تھیں.مولوی صاحب کا ان قبائل میں بڑا پایہ تھا.مگر آپ نے حق پہچان کر سب کچھ ترک کیا اور نوکری بھی چھوڑ دی.اگر چہ لوگوں نے آپ کو کہا کہ نوکری جاری رکھیں مگر آپ نے نہ مانا.پشاور جا کر قریباً سوروپیہ کی نوکری اختیار کر لی.مگر جب قادیان پہنچے تو حضرت اقدس کے منشاء کو مقدم رکھ کر یہ معقول مشاہرہ والی ملازمت بھی ترک کر دی.آپ قادیان میں ہائی سکول میں پڑھانے لگے.اور چودہ یا پندرہ روپے ماہوار تنخواہ لیتے تھے اور گوردوارہ کے جنوب کی جانب چار آنہ کرایہ کے ایک معمولی مکان میں رہائش تھی.سبحان اللہ نفس کشی اور انتہائی قربانی ( جو عوام کی نظروں میں گویا خود کشی کے مترادف تھی) ان بزرگوں کی تھی.اللہ تعالیٰ کے مامور کی صحبت میں رہنے کے لئے بہترین آرام چھوڑا.دنیوی فوائد اور عز تیں ترک کر دیں.اور ملک اور اراضی کو پیچ سمجھا.اللہ تعالیٰ ایسے بزرگوں پر بے شمار رحمتیں نازل کرے.آمین.۲- از اخویم سید محمد ہاشم صاحب بخاری فاضل بی.اے سیکنڈ ماسٹر پنشنر حال مجاھد کماسی ( غانا.مغربی افریقہ ) تحریر کرتے ہیں.یہ فخر میرے لئے بہت بڑا فخر ہے کہ میں نے اس فرید الدھر عالم دین سے جس کی تجر علمی کے قائل اس کے اساتذہ بھی تھے علم حاصل کیا.حضرت نے ایک مرتبہ خود مجھے سنایا کہ دارالعلوم دیوبند میں حضرت شیخ الہند مولانامحمود الحسن صاحب اسیر مالٹا نے قرآن مجید کے پرچے ایک امتحان میں دیکھے.پرچے کے نمبر ایک سو تھے.مولانا نے مولوی سرورشاہ صاحب کے پرچہ کے متعلق کہا کہ صرف ایک سو نمبر دینا مولوی صاحب کے
۳۵۵ پر چہ کی تو ہین ہے اس لئے انہوں نے اس سے بھی زیادہ نمبر دئے.یہ اعتراف علم تھا جو آپ کے اساتذہ کو آپ کے متعلق تھا.آپ جب کسی کام کو کرنا چاہتے تو بڑی مستعدی سے سرانجام دیتے.علاقہ مالکانہ میں تبلیغ کے لئے آپ تشریف لے گئے واپسی پر یہ خیال پیدا ہوا کہ سائیکل کی سواری وقت بچانے میں مدد دیتی ہے چلانا سیکھ لینا چاہئے.چنانچہ آپ نے رات کو مدرسہ احمدیہ کے صحن میں اس کے چلانے کو مشق بہم پہنچائی.آپ کو اپنے شاگردوں سے بہت ہمدردی اور محبت تھی.چنانچہ آپ کے تمام شاگرد یہی سمجھتے تھے کہ آپ اس سے بہت محبت فرماتے تھے آپ مستجاب الدعوات تھے.میں نے بارہا آپ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی اور ہرایسا کام بفضلہ تعالے پورا ہو گیا.-۳- از اخویم فیض الحق خان صاحب مجاہد بمقام جوس.نا یجیر یا ( مغربی افریقہ) ۰۵ ۱۹۰۴ء میں میں کمسن تھا.جب قادیان تعلیم پانے کے لئے آیا.غالبا ان دنوں حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سپرنٹنڈنٹ تھے اس وقت آپ کی صحت نہایت اچھی تھی.سر اور داڑھی کے بالوں میں حنا کا باقاعدہ استعمال کرتے آپ کے بال نہایت نرم تھے اور ان کا رنگ نہایت عمدہ ہوتا اور چمکیلے ہوتے.لوگوں کے بقول آپ کا چہرہ مبارک سیب کی طرح سرخ تھا.آپ بورڈنگ میں دفتری امور چار پائی پر بیٹھ کر ہی انجام دیتے تھے.نمازوں میں آپ کی باقاعدگی معروف ہے.کیا مجال جو کوئی نماز بغیر مسجد مبارک کے ادا ہو.بورڈران کو بھی آپ نہایت اہتمام کے ساتھ قطار میں بالعموم اپنی نگرانی میں مسجد اقصیٰ میں لے جاتے اور واپس لاتے.نظم وضبط میں سخت تھے اور ختی سے باز پرس فرماتے.آپ مسجد اقصیٰ کے امام الصلوۃ تھے.چونکہ آپ نہایت احتیاط سے قرآت فرماتے اس لئے نماز اکثر لمبی ہو جاتی اور طلباء جن کی اکثریت چھوٹی عمر کے بچوں پر مشتمل تھی تھک جاتے.اور کوشش کرتے کہ کسی طرح مسجد نہ جانے کی صورت نکل آئے مگر حضرت مولوی صاحب کم ہی ایسے عذرات پر توجہ فرماتے.آخر عمر تک آپ کی جسمانی صحت نہایت عمدہ رہی اور چہرہ کی وہی شگفتگی اور نماز با جماعت کا وہی اہتمام.آپ تقریر کے وقت عموماً ایک ٹانگ پر قیام کرنے کی عادت رکھتے تھے.ایک پاؤں دوسری ٹانگ کے گھٹنے پر رکھ لیتے اور آپ کی تقریر کے متعلق یہ عام مشہور تھا کہ دو گھنٹے سے کم نہ ہوگی.اور ایک گھنٹہ کے بعد دوسرا پاؤں بدلیں گے.قرآن مجید اور دیگر علوم سے اس قدر بہرہ وافر پایا تھا کہ آپ بحر بیکراں نظر آتے تھے اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے اور بلند درجات عطا فرمائے.آمین.
۳۵۶ -۴- از محترم شیخ محمد دین صاحب پنشنر مختار عام صدر انجمن احمد یہ مقیم ربوہ.مجھے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کے ساتھ دفتر بہشتی مقبرہ میں بہت عرصہ کام کرنے کا موقع ملا ہے.آپ نرم مزاج، حلیم الطبع تھے.لیکن صیغہ بہشتی مقبرہ میں صدر انجمن احمدیہ کے واجبات وصول کرنے میں بعض دفعہ بختی اختیار کرتے تھے.تانرمی کی وجہ سے انجمن کا نقصان نہ ہو.آپ اپنے ماتحتوں کے ساتھ گہری ہمدردی رکھنے والے بزرگ تھے.داڑھی سرخ مہندی سے رنگتے تھے.نماز باجماعت کی بہت با قاعدگی سے پابندی کرتے.صف اول میں بیٹھتے اور ٹھیک حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی پشت کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے والہانہ محبت تھی اور اچھی صحت رکھتے تھے.ایک دفعہ یہ واقعہ سنایا کہ حضت خلیفہ اصبح الاول کا زمانہ تھا اور حضرت صاحبزادہ مرزا حمود احمد صاحب (خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) مجھ سے پڑھتے تھے لیکن میری نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ آپ ایک دن اعلیٰ منصب پر سرفراز ہونے والے ہیں.تو میں نے آپ سے وعدہ لیا کہ آپ میرا خاص خیال رکھیں گے.ایک دفعہ آپ نے رویا سنایا جو کافی لمبا تھا.لیکن اس کا تھوڑا سا حصہ مجھے یاد ہے.اور وہ یہ تھا کہ جب سیاست کی دیوار گر جائے گی تو اس وقت احمدیت کا غلبہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ.ایک دفعہ آپ نے بحیثیت مفتی سلسلہ احمدیہ ایک صاحب کی درخواست پر درخواست دہندہ کے حق میں فتویٰ دے دیا.وہ فتوی ایک دوسرے کے خلاف پڑتا تھا.فریق اول کی تحریر پر رشتہ ہوا تھا.اور وہ تحریر قریباً دو تین سال پہلے کی فریق ثانی کے پاس محفوظ تھی.فریق ثانی نے مفتی صاحب کا پہلا فتویٰ اور فریق اول کی اصل تحریر پیش کر کے فتویٰ چاہا.تو حضرت مولوی صاحب نے پہلا فتویٰ منسوخ کر کے فریق ثانی کے حق میں فتویٰ دے دیا.اس پر فریق اول کے ایک رشتہ دار نے حضرت مولوی صاحب کو پھسلانے کے غرض سے پندرہ روپے تحفہ دینا چاہا تو مولوی صاحب نے روپے پھینک دئے اور فرمایا تم مجھے رشوت دینا چاہتے ہو؟ لے جاؤ.میں نے جو صحیح سمجھا فتویٰ دے دیا ہے.حضرت مولوی صاحب ایک دفعہ جبکہ افسر جلسہ سالانہ بھی تھے اور میں آپ کے ساتھ کام کرتا تھا جب جلسہ سالانہ کے اختتام کا آخری دن تھا.اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی آخری تقریر کے بعد دعا کے بعد جلسہ برخاست ہونا تھا تو با وجود سخت مصروفیت کے وقت نکال کر اور مجھے ساتھ لے کر اس اجتماعی دعا میں
۳۵۷ شرکت کے لئے تشریف لے گئے.اور مجھے فرمانے لگے اس دعا میں ضرور شامل ہونا چاہئے.کیونکہ اس اجتماع عظیم کی دعائیں خاص اثر اور قبولیت کا رنگ رکھتی ہیں.ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کو مجبور کیا کہ میرا ایک الاؤنس بند کرا دے.لیکن آپ نے اس ناجائز امر کو قبول کرنے سے سختی سے انکار کیا.بلکہ ایک خطبہ میں مناسب رنگ میں واعظانہ رنگ میں اس کا ذکر بھی کیا.حضرت مولوی صاحب کا قابلِ ذکر اور عملی کا رنامہ یہ ہے کہ آپ نے کئی شاگرد تیار کئے جو آج علماء سلسلہ کی صف اول میں شمار ہوتے ہیں.اور اپنے عملی نمونہ اور روحانیت سے ان کی ایسی تربیت کی کہ وہ علماء باعمل بن گئے اور ان کی ظاہری شکل بھی دینی علماء جیسی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے.آمین.-۵- از اخویم شیخ اقبال الدین صاحب مولوی فاضل.جنرل مرچنٹ ( سابق امیر جماعت بہاولنگر.سابق مغربی پنجاب) میں نے قادیان میں ۱۹۲۱ء تا ۱۹۳۰ء مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ میں تعلیم پائی.مجھے مدرسہ کی دوسری یا تیسری جماعت میں نوبتی بخار آنے لگا.کسی لڑکے نے کہا کہ حضرت مولوی صاحب کے تعویذ سے باری کا بخار رک جاتا ہے.چنانچہ ایک روز صبح میں آپ کے مکان کے پاس جا کھڑا ہوا.جب آپ نماز فجر ادا کر کے مسجد سے واپس آئے.تو میں نے سلام عرض کر کے مصافحہ کیا اور حال بتایا تو آپ نے مشفقانہ انداز میں فرمایا کہ ذرا ٹھہرو میں ابھی تعویذ لا دیتا ہوں.اس ملاقات کے اعلیٰ اثرات کے باعث ابھی میرا قلب مسرت آمیز کیفیت سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ آپ تشریف لائے.اور مجھے تعویذ دے کر فرمایا کہ گلے میں ڈال لو.چنانچہ اس سے بخار رک گیا.اور میں نے اسے کھول کر دیکھا تو اس میں ” یانار کونی بردًا وسلامًا مرقوم تھا.ہماری جماعت نے جامعہ احمدیہ میں آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا شرف پایا.جبکہ ہم نے آپ سے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۰ ء تک دوسال منطق و فلسفہ پڑھا.اس وقت آپ سے براہ راست اور زیادہ گہر ارابطہ پیدا ہوا اور میں آپ کی بزرگی.تقویٰ اور سادگی کا گہرا اثر محسوس کرنے لگا.آپ بڑے پر وقار طریق سے پڑھاتے اور جہاں تک مجھے یاد ہے آپ کبھی کسی لڑکے کو نام لے کر نہیں پکارتے تھے.چنانچہ مجھے یہ خیال رہا کہ آپ میرے نام سے واقف نہیں ہیں.جب میں مولوی فاضل میں کامیاب ہونے کے بعد قادیان گیا تو ایک نماز کے لئے مسجد مبارک میں پہنچا تو آپ سے کچھ فاصلہ پر بیٹھ گیا آپ نے مجھے دیکھ کر مولوی اقبال الدین
۳۵۸ صاحب“ کہہ کر بلایا.میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا مبارک ہو.میں پھولا نہیں سما تا تھا کہ آپ میرے نام سے واقف ہیں.مجھے اپنی مجبوریوں کی وجہ سے ٹریننگ کالج میں داخلہ لینا تھا.حضرت ماسٹر محمد طفیل صاحب نے مجھے درخواست تحریر کر دی.جس میں حضرت مولوی صاحب نے بحیثیت پرنسپل جامعہ احمد یہ میرے متعلق اپنے ریمارکس تحریر کرنے تھے.جمعہ کی نماز کے بعد میں نے درخواست آپ کے سامنے کر دی.آپ کی بزرگی کے باعث مجھے یا رائے گفتگو نہ تھا.آپ نے اسے پڑھا اور اس پر ریمارکس تحریر فرمائے جنہیں پڑھ کر حضرت ماسٹر صاحب بہت خوش ہوئے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نماز کے بعد مسجد میں تشریف فرما ہوتے تو مولوی صاحب اپنے رومال سے حضور کے جسم سے مکھیاں ہٹاتے رہتے.اگر حضور کسی کے استقبال کے لئے قادیان سے باہر تشریف لے جاتے تو مولوی صاحب با وجود ضعیف العمری کے رفاقت کرتے اور قدم کے چوتھائی کے قریب حضور سے آگے چلتے اور اپنا رخ حضور کی طرف رکھتے..جس سے حضور کی تکریم مقصود ہوتی گویا آپ حضور کے عاشق صادق تھے اور آپ کی مفارقت پسند نہ تھی.آپ داڑھی کو با قاعدگی سے حنا لگاتے.آپ ہمیشہ چوغا زیب تن کر کے اور ہاتھ میں سونٹی لے کر باہر تشریف لاتے.میں نے آپ کو کبھی بیمار ہوتے نہیں دیکھا.ایک جید عالم ہونے اور آسودہ حال خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود آپ پاکیزگی، انکسار اور سادگی کا مجسمہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن سے وابستہ ہوکر اور حضور کی غلامی کا جو اگر دن میں ڈال کر آپ نے دنیا طلبی کی خواہش ہی دل سے نکال دی.مدرسہ احمدیہ کی ملازمت کا سارا عرصہ ایک مختصر سے مکان میں گزار دیا.جو دراصل ایک چپڑاسی کے بھی لائق نہ تھا.جب حضور کے در کی غلامی کی خاطر دنیا بھر کو چھوڑا تو دنیوی چیزوں کی راحت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا.آپ ہمیشہ نماز با جماعت سے کافی وقت پہلے مسجد مبارک میں آتے اور صف اول میں بیٹھتے.آپ اپنا وقت یوں گزار تے گویا تعلیم و تدریس اور نمازوں کے سوا آپ کو اور کوئی کام نہیں.آپ کو اپنے آرام کے لئے تعلیمی درس گاہ سے رخصت لیتے نہیں دیکھا.ہمیشہ یوں معلوم ہوتا کہ آپ اس عالم رنگ بو میں ہوتے ہوئے دنیا و مافیہا سے ادنی وابستگی بھی نہیں رکھتے.بلکہ کسی کی شیریں یاد میں آپ زندگی گزارتے ہیں.اور آپ پر عالم بے خودی اور ر بودگی طاری ہے.اللهم اغفر له واكرم مثواه _ آئین.
۳۵۹ ۶- از اخویم حکیم محمد سعید صاحب سابق مبلغ سرینگر ( کشمیر ) حال مقیم پونچھ.مجھے بچپن ہی میں رؤیت الہی اور رویت نبی کا بے حد شوق تھا.بسا اوقات میں رو بھی پڑتا.جوانی سے قبل ہی رویا میں میری یہ خواہش پوری ہو گئی.ایک عرصہ تک مجھے اس بارہ میں شدید حسرت تھی کہ کسی نبی کے زمانہ میں کیوں پیدا نہیں ہوا.۱۹۴۵ء میں میں نے خواب میں ایک فرشتہ محلہ دارالفضل و دار البرکات کے درمیان میں معلق دیکھا.اس نے ایک بڑا میز رکھ کر مجھے آواز دی کہ آ، اس جگہ اپنا شوق پورا کر اور کچھ نصیحت سن.جیسے ماسٹر بورڈ پر سمجھاتے ہیں.وہ مجھے وہاں لا کر اس طرح سمجھانے لگا.کہا یہ جو سیح کا نزول من السماء لکھا ہے در اصل نزول علی الجبل مراد ہے.اور میز پر ڈلہوزی کا پہاڑ رکھ کر دکھایا کہ یہ وہ پہاڑ ہے.پہاڑ پر پہاڑ جتنی ہستی بیٹھی دکھائی دی کہ یہ وہ مسیح موعود و مہدی ہے.غور سے دیکھ لے.میں نے دیکھا تو بول اٹھا.یہ تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب (خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالی ) ہیں.اس پر اس نے ایسے دلائل دئے کہ میرا سینہ کھل گیا.وہ بیان کرنے لگا کہ ابن نبی ہے یہ خلیفتہ الرسول ہے.یہ اپنی ولادت سے قبل موعود تھا.اور اب مصلح موعود ہے.یہ ابن مریم بھی ہے اور مسیح موعود بھی.اور آخر پر یہ شعر بطور دلیل پڑھا ہے پس بخش رنگ دیگر شد عیاں زاد زاں مریم مسیح این زماں اور حضور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جاؤ یہ موقع پھر ہاتھ نہ آئے گا.اس کی بیعت کرو.پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی.اس دوران میں حضرت امیر المؤمنین سفید براق پگڑی پہنے برفانی پہاڑ پر پہاڑی وجود لئے فضا میں سمائے ہوئے نظر آتے ہیں.اور دوران تقریر حضور کے اس قسم کے جلوے سے میرے دل میں محبت کے دریا موجزن ہونے لگے اور اس وقت بھی وہ سفید چمکدار طرز ہ اور حضور کی گردن کاخم اور شملہ میرے دل پر گہرے طور پر گندہ ہے اور کیفیت نا قابل بیان ہے.یہ خواب کیا تھی میرے لئے بجلی کا کڑ کا تھی.میں بار بار آنکھیں بند کرتا کہ شاید پھر وہی نظارہ نظر آئے.صبح حضور کی خدمت میں خواب لکھا اور تعبیر کے لئے عرض کی.تیسرے روز مجھے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ اسیح نے بلوایا.اور فرمایا کہ حضور نے آپ کو ڈلہوزی بلایا ہے.اور ڈلہوزی آنے جانے کا خرچ پندرہ روپے دیا ہے.چنانچہ حضور اقدس کے در دولت میں ڈلہوزی پہنچا.مجھے کوٹھی کے سامنے خیمہ میں حضور ہاتھ
پکڑے لے آئے.اور دیگر احباب کی موجودگی میں میری بیعت لی.الحمد اللہ کئی واقف کاروں نے کہا کہ یہ کیا ؟ آپ آج تک احمدی نہ تھے.یہ بیعت کیسی ؟ وغیرہ.حضور نے تین دن ٹھہرنے کا ارشاد فرمایا.ان دنوں حضرت مولوی سرور شاہ صاحب بھی وہاں ہی تھے.تیسرے روز روانگی سے پہلے اجازت مانگنے گیا.حضور نے فرمایا کہ آپ کے علاقہ کشمیر کے ایک نوجوان شیخ حمید اللہ صاحب ساکن لولاب نے اس ہفتہ بیعت کی ہے وہ قادیان گئے ہیں ان کو بھی کشمیر کے لئے مبلغ تیار کرنا ہے.آپ کا ہموطن ہے.آپ جلدی جلدی اس کی سلسلہ سے واقفیت بڑھائیں اور اپنے ساتھ رکھیں.چنانچہ قادیان کے لئے میں روانہ ہوا.راستے میں مجھے شدید بھوک لگی.حالانکہ فاقہ رہنے کی ٹریننگ بھی لے چکا تھا.ایک ہوٹل پر اترا.ہوٹل والے نے پر تکلف کھانا پیش کیا.میں نے سمجھا کہ اتنی قیمت میرے پاس کہاں ہوگی مگر بھوک نے سوچنے نہ دیا.جب بعد ازاں بل ادا کرنے لگا تو اس نے کہا قیمت آپ کی آچکی ہے.میں نے کہا یہ کیسے؟ اس نے کہا یہ مسئلہ نہیں ہے.آپ کی روٹی کے پیسے مجھے مل گئے ہیں.تیسری بار میں نے کہا غلطی تو نہیں آپ مجھے جانتے بھی نہیں تو پھر قیمت کیسے مل گئی ؟ اس نے اس انداز سے جواب دیا کہ مجھے خاموش کرا دیا.کہا.میں تمہیں کیا تمہارے باپ کو بھی جانتا ہوں.اور بہت خوب جانتا ہوں.آگے چلو یہ کہہ کر مجھے دنگ کر دیا.آج تک معلوم نہ ہو سکا.یہ کون تھا نہ میرے والد کبھی اس طرف آئے تھے.حضرت مولوی عبد الغنی خان صاحب ناظر دعوت وتبلیغ نے شیخ حمید اللہ صاحب کے متعلق حضور کی تحریر کی تعمیل کی اور پھر انہیں ابتداء ۱۹۴۷ء میں لولاب بھجوا دیا اور خاکسار کے لئے یہ احکامات صادر ہوئے کہ میں آدھا دن حضرت سید سرور شاہ صاحب سے پڑھا کروں اور کچھ وقت ایک اور استاد سے پڑھنے کا حکم تھا.لیکن وہ صاحب بصد مشکل چند منٹ ہی دینے پر رضا مند تھے.اس لئے کہ وہ کہتے تھے میرے پاس وقت نہیں.بعد نماز ظہر میں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کے گھر پر جاتا کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ آپ کو میں اتنا وقت دے دیتا ہوں جتنا آپ کو ضرورت ہے اس لئے کہ آپ میرے ہموطن اور ہم ضلع ہیں وہاں سے بہت کم لوگ احمدی ہوئے ہیں.آپ تعلیم کے دوران میں اپنی تعلیم کے حصول کے واقعات اور خدا تعالیٰ کی قدرت کے نشانات بیان فرماتے.بہائیت کے متعلق آخر پر یہی فرمایا کرتے کہ بہائیت کوئی علمی مذہب نہیں صرف بزرگوں اور نیوں اور کلام پاک اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منہ چڑایا ہے.اس انداز سے فرماتے تھے کہ خود بھی ہنستے اور مجھے بھی ہنساتے اور خوب ہنتے.اللهم اغفر له.آپ کو پا کر میری وہ بھوک پیاس بھی ختم ہوگئی کہ میں نے کسی نبی کو نہ دیکھا اور نہ کسی ولی کو بلکہ اب میرے
۳۶۱ دل میں ایک فخر سا پیدا ہو گیا کہ میرے ضلع و تحصیل کے ایک عالم بے مثال اور صحابی کو جس نے خدا کے نبی کو دیکھا ہوا ہے.میں نے اس کو تو دیکھ لیا ہے.الحمد الله ثم الحمد للہ.آپ کی عبادت دیکھ کر شرمندہ ہوتا کہ ایسے بزرگوں کے نور سے کامل استفادہ میرے لئے ممکن نہیں اگر کسی نبی کے وقت میں ہوتا تو ان کے نور سے استفادہ کی مجھے کہاں طاقت ہوتی.آپ نے اس عرصہ میں مجھے بہائیت کی واقفیت کے ساتھ ساتھ مدرسہ نعمانیہ لاہور.دیوبند.ایبٹ آباد.پشاور.راولپنڈی.مظفر آباد.گھوڑی.گھنڈی.دانتہ اور مانسہرہ کے واقعات سنائے جو بے حد ایمان افروز تھے.میں خصوصاً اس امر سے متاثر ہوا کہ آپ مجھے نہایت شوق سے اور زور لگا کر اور محنت کر کے نہایت پیرانہ سالی میں پڑھاتے تھے.میرا دل تڑپ اٹھا.میں نے اسی اثنا میں ایک خواب دیکھا کہ کوہ مری پر حضرت مریم علیہا السلام کی قبر پر مولوی صاحب دوڑ کر جانب مغرب گئے ہیں اور میں نے کوشش کی ہے کہ ان کو پکڑوں مگر نہ پکڑ سکا.یہ خواب سن کر فرمانے لگے.سید سرور شاہ سے مراد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بھی ہیں اور میرا وجود بھی ہوسکتا ہے.کوشش کرو کہ اس وقت میں استفادہ کرو.ورنہ پھر یہ موقع ہاتھ نہ آئے گا.جو کہ بالکل صحیح تعبیر نکلی.ایک بار میں نے عرض کی کہ آپ کی ٹانگیں دباتے وقت پتھر کی طرح سخت معلوم ہوتی ہیں لیکن آپ کی آواز دبی ہوئی کیوں ہے.فرمایا غلطی سے بھلاوہ بنا کر کھا لیا.جو بعد ازاں معلوم ہوا کچارہ گیا ہے.اس کا زہر غلبہ کر آیا.بدن سوج گیا اور آواز بھی دب گئی.آپ نے اپنے دونوں ہاتھ کی پشت پر مجھے ہاتھ پھیرنے کو کہا.جب دیکھا تو واقعی جلد کھردری ہے.اور سفید چھلکے اترتے ہیں.فرمایا ابھی تک اس کا ہی یہ اثر ہے.مرتے مرتے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی ماہ بعد شفا پا کر مجھے دوبارہ زندگی ملی.ایک دفعہ نکاح کے فارم پر افسر صیغہ کے انگریزی کے دستخط دیکھ کر آپ سخت برہم ہوئے اور فرمایا کہ ہم نے عربی کی عزت کی تو اللہ تعالیٰ نے ہماری عزت فرمائی.گویا بلاضرورت اپنے مروجہ مذہبی رسم الخط کو ترک کر کے انگریزی رسم الخط کو اپنانے کو نہایت نا پسند فرمایا.اپنے ہی امام نے جماعت کے سامنے مسجد میں اعلان نکاح کرنا تھا پھر یہ فارم ایک دفتر میں بھی جمع ہو جاتے تھے.ایسا رجحان افسروں سے ماتحتوں میں اور پھر عوام میں جاری وساری ہو جاتا ہے جو نیچہ نقصان دہ ہے ایک بار خاکسار نے یہ کوشش کی کہ مجھے صدر انجمن مدرسہ حد یہ کا نا دار طالب علم ہونے کی وجہ سے وظیفہ دے.حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب ( مہر سنگھ ) نے فرمایا میں بحیثیت ماسٹر ضمانت نہیں دے سکتا مگر سفارش کرتا ہوں فارم لے کر اس پر حضرت سید سرور شاہ صاحب کے بطور ضامن دستخط کر والاؤ.میں نے عرض کی کہ حضرت مولوی صاحب مجھے جانتے نہیں اور نہ ہی میرا تعارف ان سے کسی نے کرایا ہے.ماسٹر صاحب نے
۳۶۲ فرمایا یہ تو اور بھی اچھا ہے آپ جا کر کہیں کہ میں آپ کے ضلع کا ہوں.غریب طالب علم ہوں وظیفہ کے لئے ضامن یہاں پر کوئی نہیں.چنانچہ میں آپ کی خدمت میں دفتر بہشتی مقبرہ میں پہنچا آپ یہ سن کر کہ یہ بچہ ضلع مظفر آباد کا ہے چونک پڑے مجھ سے تمام حالات سنے اور اس قدر تسلی دی کہ میں تازیست نہیں بھول سکتا.فارم پر اپنی ضمانت لکھ کر خود اٹھے اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں لے گئے.وہاں پر مکرم شیخ یوسف علی صاحب مرحوم پرائیویٹ سیکرٹری کو بلایا اور ان کو کہا کہ میں کوشش کروں گا اس بچہ کا وظیفہ لگ جائے میں خود حضور کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا تھا مگر حضور کو فرصت نہیں.آپ یہ کریں کہ یہ فارم حضور کی خدمت میں پہنچا دیں.انہوں نے فارم لے کر بھجوا دیا.پھر فرمایا وظیفہ لگتا رہے گا آپ اس کو کپڑے دو جوڑے اور ایک کمبل یہاں سے دے دیں.انہوں نے ایک کمرہ کھول دیا جو کپڑوں سے بھرا تھا.وہاں سے کپڑے اور کمبل لئے پھر حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے پاس مجھے لے گئے وہ مہمان خانہ میں تھے.خوب یاد ہے کہ مولوی صاحب کا سبز کوٹ ہوا میں لہراتا ہوا جاتا ہے.مجھے لے جا کر میر صاحب کو سفارش فرما کر وہی کچھ کہا جو شیخ صاحب کو کہا تھا.حضرت میر صاحب مجھے جانتے تھے.وہ پہلے ناراض سے ہونے لگے کہ اس نے مجھے کیوں نہیں کہا مگر جب حضرت مولوی صاحب نے حضرت میر صاحب کو یہ کہا کہ یہ میرے ضلع کا ہے اور ہموطن ہے.اس پر حضرت میر صاحب خوب ہنسے اور مجھے کہا.جاؤ بیٹا ! میں تمہارا خیال رکھوں گا.چنانچہ میرا خیال رکھتے رہے.آپ کی یہ شفقت میں کبھی بھول نہیں سکتا.میرے لئے یہ تا زیست ایک بہت قیمتی سبق تھا.اسی طرح ایک بار حضرت ماسٹر صاحب نے حضرت شاہ صاحب سے ان کا ہموطن لکھوا کر مجھے ساتھ لیا.اور مکرمی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کے پاس کوٹھی لے گئے میں خاموش رہا.مگر وہاں کچھ بات کی اور واپس آگئے بعد ازاں حضرت مولوی صاحب کو اطلاع بذریعہ پرائیویٹ سیکرٹری چوہدری صاحب سے آئی کہ آپ کی سفارش پر محمد سعید کشمیری کا دس روپے ماہوار وظیفہ جاری کیا گیا ہے.جو مجھے کچھ عرصہ مدرسہ احمدیہ کے پتہ پر ملتا رہا.فجزاهم الله احسن الجزاء في الدنيا والاخره از اخویم مولوی محمد اسمعیل صاحب مولوی فاضل وکیل ہائیکورٹ یاد گیر علاقہ میسور تحریر فرماتے ہیں.قادیان میں میرا تعلیم کا زمانہ ۱۹۲۳ء سے ۱۹۳۴ء تک گویا مسلسل گیارہ سال کا ہے.۱۹۳۳ء میں جامعہ احمدیہ سے میں نے مولوی فاضل اور ۱۹۳۴ء میں میٹرک کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی.میں نو برس کا یتیم بچہ تھا جب میں قادیان بھجوایا گیا.میرے والد محترم محمد ابراہیم صاحب اور والدہ محترمہ کا سایہ میرے سر سے اٹھا
۳۶۳ تو میں پانچ سال کا تھا.میرے چا پیر محمد صاحب لاڑ جی میری کفالت کرتے رہے بعد ازاں حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب احمدی یادگیری نے اپنی طرف سے وظیفہ مقرر کر کے قادیان بھجوایا.(اس کے بعد آہستہ آہستہ ۴۹ طالب علم اور بھی وظیفہ پر تعلیم کے لئے بھجوائے ) اس کامل عرصہ تعلیم میں مجھے یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ میرے والد اور والدہ فوت ہو چکے ہیں اور میں یتیم ہوں.اس لئے کہ قادیان میں ہماری کفالت اور نگرانی جس محبت شفقت اور حسن سلوک سے جن خاندانوں نے کی.انہوں نے ہمارے ساتھ بالکل ایسا ہی سلوک کیا جس طرح وہ اپنی اولاد کے ساتھ کرتے ہیں اور ہم ان خاندانوں میں بالکل اسی طرح رہے جس طرح کہ ہم ان خاندانوں کے ایک فرد ہیں.علاوہ خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد ذکورواناث کے جن کے ہم پر ہزاروں احسانات ہیں جن خاندانوں نے ہم پر رہتی دنیا تک یادگاری احسان کئے اور ہماری ایسی اعلیٰ درجہ کی نشو و نما کی جس کے باعث آج ہم خادم دین ہونے کو فخر محسوس کرتے ہیں ان میں خاص طور پر دو خاندان ہیں.پہلا خاندان محترم مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ (امیر جماعت احمدیہ قادیان و ناظر اعلی ) کا ہے جو ہمارے نہ صرف شفیق استاد تھے بلکہ وہ ہمارے عملاً نگران یعنی سپرٹنڈنٹ تھے.ان کے ذاتی اور ان کی اہلیہ مرحومہ اور خاندان کے ہم پر ایسے احسانات ہیں کہ ہم ان کو تادم زیست ہرگز بھلا نہیں سکتے.اور نہ ہماری نسلیں ان کو فراموش کر سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے.دوسرا خاندان حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کا ہے، جس نے ہماری ہر طرح کفالت ونگرانی کی اور ہم پر احسان عظیم فرمایا.نہ صرف ذاتی طور پر مولوی صاحب ہمارے شفیق استاد مربی اور محسن تھے بلکہ ان کی اہلیہ محترمہ اور ان کے بچے آپا حلیمہ بیگم صاحبہ مرحومہ اور آپا سلیمہ بیگم صاحبہ مرحومہ اور ان کے دوسرے بچے بھی.وہ ہمارے ساتھ ایسا حسن سلوک کرتے تھے جس طرح وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ کرتے تھے.ہماری ہر ضرورت کو پورا فرماتے.ہمارے دکھ میں ہمارے کام آتے.ہم کو حیدر آبادی طالب علم ہونے کے باعث بورڈنگ کا کھانا کبھی ناپسند ہوتا یا بھوک لگتی تو ہم بے تکلفی سے آپ کے ہاں چلے جاتے تو گھر سے روٹی پکوا دیتے.اور گھر میں اچھا کھانا پکتا تو بورڈ نگ سے ہمیں بلا کر کھلاتے.ہمارے پھٹے کپڑے خود اپنے ہاتھ سے سی کر دیتے.ہمیں سیر و تفریح کے لئے اپنے ساتھ دوسرے مکانات پر لے جاتے.ہمیں قرآن پڑھاتے اور ہم سے ہر طرح کا اچھا سلوک کرتے.آپ بالعموم سبز چائے استعمال فرماتے تھے.اور گھر کی چائے طالب علموں کو بھی ملا کرتی تھی.خصوصاً ان ایام میں جب آپ کسی وجہ سے اپنے گھر پر سبق پڑھاتے.ہم چار پائیوں یا بنچ پر بیٹھ جاتے اور آپ درس
۳۶۴ دیتے.آپ کا طریق تعلیم بہت عمدہ تھا.بعض دفعہ کہانیوں یا اچھی قسم کے لطائف سے آپ سبق کو آسان کر دیتے.آپ کی طرز تفہیم بہت اچھی تھی.آپ وقت کے بہت پابند تھے.اور طلباء پر آپ کا ضبط اچھا تھا.آپ کا علم کیا تھا قدرت کا عطیہ تھا.مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مولوی فاضل بی.اے وکیل التبشیر میرے ہم جماعت وہم جلیس تھے.ہمارے دیگر اساتذہ حضرت میر محمد الحق صاحب.حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل محترم مولوی ارجمند خان صاحب اور محترم حافظ مبارک احمد صاحب تھے.ان بزرگوں کی تعلیم و تربیت سے بہت سے طلباء اعلائے کلمتہ اللہ کے قابل بنے اور کئی ایک دنیوی اعزاز بھی حاصل ہوئے.آپ اپنی منفر دانہ نمازوں کے علاوہ فرض نمازیں بھی لمبی پڑھاتے تھے.آپ مسجد مبارک میں نماز کے وقت سے بہت پہلے آجاتے.اور نماز کے بعد بھی معلومات دینیہ اور مسائل کی افہام و تفہیم کے لئے آپ بہت دیر تک مسجد میں ٹھہرے رہتے.آپ پہلی صف میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے بالکل پیچھے ہوتے.جب حضور بعد نماز مسجد میں ٹھہرتے اور احباب کی طرف متوجہ ہوتے تو مولوی صاحب بالکل سامنے ہوتے.کبھی حضور آپ سے مخاطب ہوتے اور کبھی آپ کوئی بات حضور سے دریافت کر لیتے اور ایک رومال سے حضور کے چہرہ مبارک سے مکھیاں اڑاتے رہتے.آخری عمر میں آپ قرآن شریف حفظ فرماتے تھے.چنانچہ نماز فجر کے بعد مصر کا مطبوعہ چھوٹا قرآن مجید ہاتھ میں لئے عموما آپ بہشتی مقبرہ چلے جاتے.آپ کی بینائی آخری عمر تک بہت اچھی تھی.آپ لباس اچھا گرم پہنتے تھے.آپ مگدر کے ساتھ ورزش بھی کرتے تھے.گھر میں آپ کو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے بھی دیکھا ہے.آپ کو اپنی اولاد سے بہت محبت تھی اور ان کا بہت خیال رکھتے تھے.آپ کی دونوں صاحبزادیاں آپا حلیمہ بیگم اور آپا سلیمہ بیگم آپ سے قرآن مجید باتر جمہ اور با تفسیر پڑھتی تھیں.آپ دکن کے دورہ کے وقت یاد گیر بھی تشریف لائے.اس وقت بڑھاپے میں بھی آپ کے قومی بہت مضبوط تھے.چنانچہ آپ یاد گیر کے قلعہ پر بھی چڑھے تھے.جو بہت بلند ہے جس پر جوان آدمی کا چڑھنا بھی دشوار ہے.آپ جڑی بوٹیوں کے بہت ماہر تھے بوٹی کی کنہ تک پہنچتے اور اس کی تشریح فرماتے.فرماتے تھے کہ اس قلعہ پر بھی بعض ایسی جڑی بوٹیاں ہیں جو دوسری جگہ کم ملتی ہیں.میں مساجد قادیان کے لئے دکن سے نئی جانمازیں بنوا کر لے جاتا تھا.ایک دفعہ میں عمدہ قسم کی جائے نماز مسجد مبارک کے لئے لے کر گیا تو آپ بہت خوش ہوئے میں نے عرض کی کہ مسجد مبارک کا امام والا مصلے مجھے عنایت فرمائیے.تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اٹھا کر میرے حوالہ کر دیا.جو اس وقت بھی میرے پاس موجود ہے
۳۶۵ اور اس پر نہ معلوم کتنا عرصہ حضرت خلیفتہ امی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مولوی صاحب نے مسجد مبارک میں امامت کرائی ہے.فالحمد لله علی ذالک.- از اخویم حاجی محمد ابراہیم صاحب خلیل ( سابق مجاہد ائلی.افریقہ.حال ہیڈ ماسٹر احمد یہ سکول بشیر آباد.سندھ ) مجھے ۱۹۱۲ء سے ۱۹۲۲ء تک بطور طالب علم و معلم مدرسہ قادیان میں قیام کا موقع ملا.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب فرض نمازوں کی ادائیگی میں کوئی آدھ گھنٹہ لگاتے تھے.آپ خاندان حضرت مسیح موعود کے فدائی تھے.آپ کا زندگی کا ہر شعبہ قابل تعریف تھا.آپ کی دیانت.امانت.تقویٰ غرضیکہ ہر نیکی میں دوسروں کے لئے مثال تھے.اللہ تعالیٰ آپ کو اعلی علیین میں جگہ دے.آمین.- ازاخویم شیخ یوسف علی صاحب عرفانی ( مقیم بمبئی) حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو میں نے قادیان میں اس وقت سے دیکھا جب میں اپنی عمر کے لحاظ سے اس دور میں داخل ہو چکا تھا جب بچے گھر کی چاردیواری سے باہر نکل کر گلی محلوں میں کھیلنے کودنے کو نکلنا شروع کرتے ہیں.مولوی صاحب کا مقام رہائش بھی ہر چند ہمارے مکان کے قریب ہی رہا.اور گا ہے گاہے اپنی والدہ کے ساتھ حضرت مولوی صاحب کے گھر جانے کا مجھے بچپن میں اتفاق ہوا کرتا تھا.ماسوا آپ کے پیچھے نمازیں ادا کرنے یا جمعہ پڑھنے کے میرا اور کوئی ذاتی تعلق آپ سے نہیں رہا.لیکن آج سے پچاس سال قبل قادیان جیسی بستی جو یقیناً اس بستی سے زیادہ وسیع نہ تھی.جس میں حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام بود و باش رکھتے تھے.مختصری آبادی اور گنے چنے ہوئے لوگ جن کو ہر روز دیکھنے کا اتفاق ہو تو یہ بھی ناممکن ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو نہ جانتے ہوں.ایک دوسرے کے کردار اور شخصیت سے واقف نہ ہوں.چہ جائیکہ ایک ہی طبقہ یا جماعت کا تعلق بھی ہو.اگر لالہ ملا وامل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں اپنے تاثرات بتا سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ یوسف علی عرفانی حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کے بارے میں کچھ کہنے کا حق نہ رکھتا ہو.لہذا میں بھی اپنے اس حق کو نہیں چھوڑ سکتا اور نہ چھوڑنے کے لئے تیار ہوں.میں حضرت مولوی صاحب کو اپنی آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا دیکھتا تھا.اپنے پڑوس میں ان کو مقیم پاتا تھا
۳۶۶ ان کے کردار اور علمی رفعت کو اگر چہ سمجھ نہ سکتا تھا مگر اس ضمن میں اکثر سنتا ضرور تھا اس بعد و دوری کے باوجود بھی چند باتیں ان کے اور میرے درمیان وقوع پذیر ہوگئیں جو بظاہر معمولی باتیں ہیں مگر کون کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے اصحاب کی باتیں معمولی ہوتی ہیں.میرے سامنے یا ہمارے سامنے یا آپ کے سامنے حضرت شاہ صاحب با وجود ایک جید عالم.فقہیہ اور مفکر ہونے کے ایک متقی اور نیک انسان ہونے کے صرف ”سید سرور شاہ صاحب سے زیادہ کچھ نہیں.با ایں ہمہ ہر ایک صحابی اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے الگ کر کے دیکھا جائے کسی صحابی کی تصویر کشی کے لئے جن رنگوں کی ضرورت ہوگی یا جو رنگ استعمال ہو سکتا ہے تو وہ رنگ صرف اور صرف حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا رنگ ہے.صحابہ کرام کا حسن و جمال در حقیقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نورانی جمال کا پر تو اور عکس ہے.پس اصحاب احمد کے مقام رفیع اور درجات روحانی کو بلند کرنے اور جامۂ قدسی میں ان کو ملبوس کرنے کے لئے ہمیں سب سے اول اور سب سے آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان قدسی.پاکیزگی.روحانیت اور بزرگی کے سامنے دست سوال دراز کرنا ہوگا.کیونکہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے پاک اور بابرکت وجود کو اساس نہ سمجھا جاوے اور مقدم نہ رکھا جاوے تو وہ جنہیں ہم صحابہ کرام کہتے ہیں ان کا کردار ذاتی کردار ہے ان کا علمی تبحران کے لئے شخصی تفاخر کا باعث ہوسکتا ہے مگر یہ امتیاز یہ تفاخر یقینا فانی اور نابود ہو جانے والا ہوگا.کوئی مقام رفیع پیدا نہ کر سکے گا مگر یہاں صورت دیگر ہے.اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی خاص بندے کو اپنی مخلوق کی بہبودی کے لئے ایک خاص اور بلند مقام پر کھڑا کرتا ہے تو بندہ بظاہر یکہ و تنہا ہوتا ہے مگر پس پردہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد کی افواج ہوتی ہیں.مجھے اعتراف ہے کہ میں اصل موضوع سے ہٹ رہا ہوں.اور طوالت اختیار کر رہا ہوں.مگر میں اپنی کمزور قلم کو کیسے روکوں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر کے بغیر چلنا نہیں چاہتی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام و فر مایا تھا کہ انی انار بک اور یہ اس وقت فرمایا تھا جب آپ مشکلات میں گھرے ہوئے تھے.مسیح پاک نے تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ یقین کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ کی فوجیں آپ کے ساتھ ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو اس کے نزدیک اپنے اعمال کے باعث انعامات کے مستحق تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ ہی ان کو القاء فرمایا.کہ یہ ہے وہ میرا انعام جو میں نے تمہارے لئے پسند کیا اور مخصوص رکھا.پس یہ لوگ مسیح دوراں کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور اللہ تعالیٰ تزکره صفحه ۹۳ طبع ۲۰۰۴ء
نے ان کو نعمت پر رفعت عطا فرمائی.یہ بزرگ مسیح پاک کا پر تو تھے.روحانی فیض سے بہرہ ور ہوئے.اللہ اور اس کے پاک بندے کے نزدیک محبوب ہو گئے جنہیں ہم صحابہ کرام کے معزز لقب سے یاد کرتے ہیں.یہ ایک ظاہری کمک کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جلو میں رہنے لگے جو پہلے صفاتی طور پر بھی فانی تھے.مگر اس کے بعد وہ صفاتی طور پر لافانی ہوگئے کیونکہ سلسلہ عالیہ احمد یہ قیامت تک زندہ رہے گا قو میں اور نسلیں اس سر چشمہ حیات سے سیراب ہوتی رہیں گی.اور اصحاب احمد کا ذکر خیر بھی جاری وساری رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ساتھ اصحاب احمد بھی چلتے پھرتے نظر آئیں گے.حضرت خلیفتہ اسیح " اول کے بڑے صاحبزادے مولوی عبدالحی صاحب مرحوم کی شادی حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کی بڑی صاحبزادی سے ہوئی تھی.محترم شاہ صاحب اس وقت حضرت مرزا غلام اللہ صاحب مرحوم کے مکان کے پاس مقیم تھے.یہ گھر سکھوں کے گوردوارہ اور پرتاپ سنگھ کے گھر کے درمیان واقع تھا.جو آج بھی تبدیل شدہ صورت میں موجود ہے.شادی کی تقریب کے روز میں بھی اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ حضرت شاہ صاحب کے گھر گیا ہوا تھا.ہماری طرح اور بچے بھی اپنی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ گئے ہوئے تھے اس وقت قادیان کے گھروں کی طرز تعمیر بالکل معمولی اور دیہاتی تھی.مردوں کے لئے عام مکانوں میں الگ دیوان خانے نہ ہوتے تھے.چنانچہ شادی کے روز عورتوں کا ہی ہجوم ہوتا تھا.حضرت شاہ صاحب کے گھر پر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیدات اور اسی طرح دیگر احمدی مستورات سے ایک چہل پہل اور ہجوم تھا.اور ہم اس وقت بوجہ طفولیت کی عمر کے مستورات میں آجا سکتے تھے.مولوی عبدالحی صاحب مرحوم دولہا بن کر آئے اور عورتوں نے اپنے طریق کے مطابق دولہا کو اندر طلب کیا تو شاہ صاحب اس وقت باہر کھڑے تھے ڈولی دروازے پر رکھی ہوئی تھی.اور چند بچے اس کے گرد جمع تھے.میں بھی وہاں موجود تھا.وہاں پر محلے کے کچھ غیر احمدی اور سکھ بچے بھی تھے.کسی بات پر ایک سکھ لڑ کے نے ایک اور احمدی بچے کو گالی دیدی.احمدی بچے نے بھی وہی الفاظ دہرادئے.حضرت مولوی سرورشاہ صاحب نے سن لیا.اور پوچھا کہ بچے تم کس کے بیٹے ہو؟ مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا.پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ کس کا بچہ ہے.میں نے بتا دیا تو آپ نے فرمایا کہ بیٹا ! تم احمدی باپ کے بیٹے ہو گالی دے رہے ہو یہ اچھی بات نہیں تو بہ کرو.وہ کچھ سہم سا گیا تھا.اس نے کہا کہ اس نے پہلے مجھے گالی دی تھی.آپ نے فرمایا ہم احمدی ہیں تم ابھی بچے ہو تمہیں معلوم نہیں کہ لوگ ہمیں کس قدر گالیاں دیتے ہیں ہم صبر کرتے ہیں تم بھی صبر کرو.یہ بات بظاہر تو بہت معمولی سی تھی.مگر ذرا غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ حضرت شاہ صاحب نے کس
۳۶۸ عظیم الشان انسان کے کردار کی ترجمانی فرمائی.وہ لطیف اور پیاری بات جو اللہ تعالیٰ کا ایک پاکباز انسان ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) فرمایا کرتا تھا.بظاہر یہ بچوں کی بات تھی مگر آپ نے جو دو تین لفظ کہے تھے یہ ترجمانی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس مسیح دوراں کی جس نے حقیقت میں گالیاں سن کر بھی دشمنوں کے حق میں دعا کی.آپ جب اس مکان میں منتقل ہو گئے جو حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے مکان کے قریب پل کے ساتھ تھا جس میں آپ آخر وقت تک رہے جو موجودہ جلسہ گاہ کے متصل ہے اور ہم لوگ اکثر اس بڑ کے نیچے جو عہد مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شاہد ہے اور آج بھی اپنی شدید ضعیفی کے باوجود اپنے مقام پر کھڑا ہے (اس درخت کو ایک مرتبہ کاٹنے کا خیال پیدا ہوا تھا.والدی حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی الاسدی نے مخالفت کی تھی ) کھیلا کرتے تھے مولوی صاحب اکثر وہاں سے گزرتے تھے مگر کبھی اس طرف توجہ نہ کی.ایک مرتبہ مجھے باری کا بخار آنے لگا.کسی نے بتایا کہ حضرت شاہ صاحب بخار کا تعویذ دیتے ہیں.ہم لوگ فطرتی طور پر ان چیزوں سے ناواقف تھے تا ہم میں حضرت مولوی صاحب کے پاس گیا اور بتایا کہ مجھے باری کا بخار آتا ہے آپ نے دوسرے روز اعلی الصبح بلایا اور مجھے تین تعویذ تین دن باری باری استعمال کرنے کے لئے دے دئے اور مجھے شفا ہوگئی.پھر کچھ عرصہ کے بعد اپنے کسی بھائی یا بہن کی علالت پر گیا تو آپ نے فرمایا علاج کرو اور میں دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ شفا دے گا اور مجھے تعویذ نہ دیا.اس بات میں یہ راز مضمر تھا کہ حضرت مولوی صاحب نے محسوس کیا کہ ان چیزوں سے لوگ دعا کی طرف سے توجہ ہٹا لیں گے اور ان خرافات کی طرف ذہن منتقل ہو جائے گا.لہذا انہوں نے اس طریق علاج کو ختم کر دیا.یوں تو حضرت شاہ صاحب نے ہزاروں نکاح پڑھائے تھے مگر ایک نکاح میری سمجھ میں ان کی بزرگی کو نمایاں کرنے کے لئے قابل ذکر ہے.اور یہ وہ نکاح ہے جو حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ مرحومہ کے ساتھ پڑھا تھا.میں اس وقت ہائی سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں مقیم تھا.ہم سب لڑکوں کو شہر لایا گیا تھا.اور مسجد مبارک میں حضرت شاہ صاحب نے اس مبارک نکاح کی ایجاب وقبول کرانے کا شرف پایا.یہ ہیں ماضی کی چند باتیں.ماضی حسین و جمیل ماضی.مستقبل کی مشعلِ راہ ماضی جو دلوں کومحو حیرت کر دیتی ہے.کئی سالوں سے قادیان سیم زدہ ہے اس سے سارے بڑ کے درخت سوکھ گئے اور ایندھن کے طور پر کام آئے.چند سال تک صدر انجمن احمدیہ نے اس کا تنا بطور نشان قائم رکھا لیکن اس کے قائم رہنے کا امکان نہ رہا بہت بوسیدہ ہو گیا تھا اور ہر وقت گرنے کا خطرہ تھا.چنانچہ ۱۹۶۲ء میں اسے بھی فروخت کر دیا گیا (مؤلف)
۳۶۹ از اخویم محمد علی صاحب المعروف نجومی سابق ساکن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ) ہیں چھپیں سال پہلے کی بات ہے کہ ہم مغرب کی نماز کے انتظار میں مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھے تھے.میں حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا.خادم مسجد نے آکر حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھانے کی اجازت دے دی ہے.اس پر آپ نے نماز پڑھائی.نماز ختم ہوتے ہی علم ہوا کہ حضور نماز کے لئے تشریف لائے تھے.چنانچہ پچھلی صف میں بقیہ حصہ نماز پڑھ رہے ہیں.یہ معلوم ہونے پر مولوی صاحب کانپنے لگ گئے.اور میرے باز وکوزور سے پکڑ کر فرمانے لگے کہ آپ میرے پاس کھڑے تھے آپ کے سامنے آکر خادم نے اطلاع دی کہ حضور نے نماز کے لئے اجازت دی ہے.بندہ نے عرض کیا کہ درست ہے فرمایا کہ بغیر حضرت صاحب کے دریافت کرنے کے آپ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کریں کہ خادم نے آکر میرے روبرو کہا ہے کہ حضور نے مولوی صاحب کو نماز کی اجازت دے دی ہے.چنانچہ میں نے نہایت ہی ادب سے عرض کیا تو حضور نے سکون اور محبت سے فرمایا کہ مولوی صاحب کے لئے کسی شہادت کی ضرورت نہیں.اللہ اللہ ! حضرت مولوی صاحب کے دل میں حضور کے مقام خلافت کا کس قدر رعب اور ادب تھا.اور پھر حضور کے دل میں آپ کی کس قدر عزت تھی کہ فرمایا مولوی صاحب کے لئے کسی شہادت کی ضرورت نہیں.پھر ایک دفعہ حج کے دن حضور بوجہ تکلیف صبح کی نماز میں تشریف نہ لا سکے.تو حضرت مولوی صاحب نہایت افسوس سے فرمانے لگے.آج حج کا دن تھا بہت اشتیاق تھا کہ آج حضرت صاحب تشریف لا کر نماز پڑھاتے.۱- از اخویم مولوی خلیل الرحمن صاحب فاضل مدرس مقیم پیشاور ( جو میرے ہم جماعت ہیں ) حضرت مولوی صاحب مرحوم قرآن کریم کے علم تجوید و قرات سے بخوبی واقف تھے اور ہمیشہ قرآت کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھا کرتے تھے.اور آپ کی قرآت سے مقتدیوں کو ایک خاص وجد اور لطف آتا تھا.فرماتے تھے کہ جب میں دارالعلوم دیو بند میں تعلیم پاتا تھا.تو مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مجھ سے منطق فلسفہ اور فقہ کی کتب پڑھا کرتے تھے.پادری عبدالحق صاحب جو مشہور عیسائی عالم اور مناظر ہیں آپ کی علمیت اور قابلیت کے قائل ہیں.چنانچہ پادری صاحب علاقہ بیٹ کے موضع بھینی پسوال میں مولوی ابوالعطاء صاحب
جالندھری سے غالبا ۳۳ ۱۹۳۴ء میں مناظرہ کر کے حضرت مولوی صاحب مرحوم کی ملاقات کے لئے قادیان جانے لگے دریافت کرنے پر پادری صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب مرحوم ہی واحد عالم ہیں جن کے علم منطق وفلسفہ کا میں قائل ہوں اور ان کو استاد مانتا ہوں.اور ان کی علو مرتبت کے لئے کبھی کبھی ملاقات کے لئے جایا کرتا ہوں.میں نے خود پادری صاحب کو مولوی صاحب کے مکان پر ملاقات کرتے دیکھا ہے.بمصداق حديث نبوى حــب الــوطــن من الایمان حضرت مولوی صاحب کشمیر اور ہزارہ کے احمدیوں سے خاص الفت اور ہمدردی اور خاطر تواضع سے پیش آیا کرتے تھے اور جلسہ سالانہ کے موقع پر ان احباب کرام کی گھر پر مہمان نوازی فرماتے تھے.اور اکثر اوقات بردکان حکیم عبد الرحمن صاحب کا غانی اور دکان حکیم نظام جان صاحب شرف ملاقات عطا کرتے تھے اور وعظ ونصیحت سے ان کی دلجوئی کرتے اور کئی کئی گھنٹے ان کی مجلس میں تشریف فرما رہتے.جب احمد یہ نیشنل کور کا رکنان صدر انجمن میں جاری ہوئی تو سب کارکنان کو ہفتہ میں ایک بارخا کی وردی پہنی لازم ہوگئی تھی.با وجود ضعیف المعری اور پرانی طرز کا ہونے کے آپ نے خاکی وردی بنوائی اور زیب تن کر کے باہر جاتے اور واپس آتے اور اس امر کو برا نہیں منایا بلکہ اس کو خوشی سے پسند کیا.آپ مسجد مبارک میں ہمیشہ اول صف میں بیٹھا کرتے تھے.اور دورکعت نماز تحیۃ المسجد کے طور پر ضرور پڑھتے تھے.سخت سردی اور سخت گرمی اور بارش میں بھی باجماعت ادا ئیگی نماز میں روک نہ بنتی تھی.بلکہ بسا اوقات سخت بخار کی حالت میں بھی آپ مسجد میں تشریف لے آتے تھے.ایک مرتبہ آپ کو سخت بخار تھا تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر خاکسار کے والد محترم عبدالرحیم خان صاحب مرحوم درویش اور ایک اور دوست نے سہارا دے کر گھر پہنچایا.با وجود حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا استاد ہونے کے آپ حضور کی مجلسِ عرفان میں نہایت خاموشی اور کامل توجہ سے اور نظر نیچی کر کے بیٹھتے تھے.آپ کو کبھی نظر اونچی کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا.ایک مرتبہ مسجد مبارک میں لوگ باتیں کر رہے تھے کہ حضرت میر مہدی حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلند آواز سے آیت قرآنی لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِي * تلاوت کی.مولوی صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ امام کی موجودگی میں باتیں اور شور کرنا سوء ادبی اور سخت گناہ ہے.جامعہ احمدیہ مسجد نور کی مغربی جانب تھا.آپ اپنا فرض عین جان کر اور طلباء کی تعلیم کو لوظ رکھ کر نہایت پابندی وقت کے ساتھ آتے تھے.اور طلباء کی تعلیمی حالت کو بہتر بنانے میں کوشاں رہتے تھے.آخری عمر تک آپ کا یہ دستور رہا کہ آپ مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر قریباً روزانہ جا کر دعا کرتے تھے.جب کبھی آپ نماز جمعہ پڑھاتے تو نماز جمعہ کے بعد قادیان کے الحجرات :
ملحقہ دیہات سے آمدہ فقراء اور سانسی قوم کے افراد میں پیسے تقسیم فرماتے کیونکہ یہ لوگ جمعہ کے روز معمولاً جمع ہو جاتے تھے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا معمول تھا کہ ان کو نقدی دیتے.آپ بہت لمبی نماز پڑھاتے تھے.ایک دفعہ حضور کشمیر تشریف لے گئے تو واپسی پر شکایت ہوئی کہ سخت گرمی میں مولوی صاحب نے بہت لمبی نماز پڑھاتے تھے.اس پر حضور نے مجلس میں آپ کی موجودگی میں یہ واقعہ سنایا کہ جب ہم کشمیر کے ایک جنگلات والے علاقہ میں سیر کے لئے گئے تو ہمارا خیال ہوا کہ اب اس سے آگے کوئی آبادی نہیں ہوگی.اچانک شام کے وقت ایک کشمیری آیا.اس نے بتایا کہ وہ احمدی ہے اور اس نے قادیان کو دیکھا ہے مگر قافلہ والوں کو یقین نہ ہوا.میں نے اسے بلا کر پوچھا کہ قادیان کی مسجد میں کون امام ہیں اور کس طرح کی نماز پڑھاتے ہیں.اس پر اس کشمیری نے کہا کہ اس مسجد کے امام کی ایک وقت کی نماز تمام کشمیر کی سال بھر کی نمازوں کے برابر ہے.اس پر مجھے یقین آگیا کہ بالکل ٹھیک ہے اس نے قادیان کو دیکھا ہے.اور یہ شخص احمدی ہے.حضور نے مولوی صاحب کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے براہ راست کچھ نہ فرمایا.بلکہ ایک واقعہ بیان فرما کر ہلکی نماز پڑھانے کی طرف توجہ دلائی.آج جماعت کے بزرگ حضرت مولوی صاحب مرحوم کی لمبی اور دلگد از نماز کو یاد کرتے ہیں آپ کی امامت مسجد مبارک کے لئے زینت اور خوبصورتی کا باعث تھی.۱۲- از اخویم مولوی احمد خان صاحب نسیم فاضل انچارج اصلاح و ارشاد مقامی ربوہ ( آپ میرے ہم جماعت ہیں) میں ۱۹۱۲ء میں قادیان گیا تھا جبکہ میری عمر قریباً چار برس کی تھی.میں بچپن سے جب سے مجھے ہوش ہے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو جانتا تھا.میں نے آپ کے اخلاق و عادات کا جو نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسے آدمی کبھی کبھار پیدا ہوتے ہیں میں نے بارہا اس نہج پر سوچا ہے کہ جس قدر نماز با جماعت کی پابندی حضرت استاذی المکرم میں پائی جاتی تھی تاریخ اسلام میں شاید کم ہی لوگ آپ کے برابر ہوں گے.اور جس قدر نکاح اور نماز جنازہ آپ نے پڑھائے ہیں شاید تاریخ اسلام میں آپ کے برابر کوئی بھی نہیں ہوگا.آپ مصروف الاوقات تھے مگر کبھی بھی آپ نے کسی کام سے تنگی یا تر شروئی کا اظہار نہیں فرمایا.نماز اتنے شغف سے ادا فر ماتے تھے کہ مقتدی بعض دفعہ گھبرا جاتے تھے کہ مولوی صاحب بہت لمبی نماز پڑھاتے ہیں.مگر بار ہا میں نے مولوی صاحب کو حلفاً فرماتے سنا کہ میں تین سے زائد دفعہ تسبیح نہیں کہتا.ایک دفعہ میں نے حضرت مولوی صاحب کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھی.میں نے آہستہ آہستہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ گیارہ دفعہ پڑھی.تو آپ نے رکوع فرمایا.
آپ کا حافظہ بلا کا تھا بہت بچپن اور زمانہ طالب علمی کی باتیں آپ کو تفصیلات کے ساتھ یاد تھیں.اپنے شاگردوں کے ساتھ آپ بہت شفقت فرماتے.اگر کبھی کسی سے ناراضگی سے پیش آتے جو شاذونادر ہی ہوتا تھا تو بعد میں اس کی دلداری بھی فرماتے.بہت عبادت گزار تھے.اور قیام اللیل میں تو میرا مشاہدہ ہے کہ رمضان کے مہینہ میں مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا تو میں تو حضرت مولوی صاحب کو جب بھی میری آنکھ کھلتی نماز میں مشغول پاتا.آپ اپنے مکان کی چھت پر نماز پڑھ رہے ہوتے.جو محن بورڈ نگ مدرسہ احمدیہ کے ساتھ ملحق تھا اور یہ حال سارا رمضان کا مہینہ ہوتا تھا.حضرت مولوی صاحب صرف جامعہ احمدیہ یا مدرسہ احمدیہ کے وقت میں ہی تعلیم میں مشغول نہیں رہتے تھے.بلکہ اکثر اپنے مکان پر بھی کلاس کو وقت دیتے تھے اور اس میں خوشی محسوس فرماتے تھے.دینی علوم میں آپ بڑے متبحر عالم تھے مگر علم منطق اور فلسفہ میں تو آپ کا ثانی ملنا بہت مشکل تھا.آپ کو منطق اور فلسفہ کی بڑی سے بڑی کتاب پڑھانے میں مطالعہ کی ضرورت نہ پڑتی تھی.سب کتابیں آپ کو ازبر تھیں.آپ کا ہر شاگرد یہ سمجھتا تھا کہ حضرت مولوی صاحب کا میرے ساتھ سب سے زیادہ تعلق ہے.خود میں یہ سمجھتا تھا کہ حضرت مولوی صاحب میرے ساتھ خاص تعلق رکھتے ہیں اور واقع میں مجھ سے بہت شفقت فرماتے ہیں.میں جب جامعہ احمدیہ میں مبلغین کلاس میں تعلیم پاتا تھا تو مبلغین کلاس کا سیکرٹری بھی تھا.تمام اجلاس اور کلاس کے انتظامی امور مجھے سرانجام دینے ہوتے تھے.حضرت مولوی صاحب محترم سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مفتی تھے.مجھے فرمانے لگے کہ استفتاء باہر سے آتے ہیں وہ تمام طلباء میں تقسیم کر دیا کرو.اور وہ طالب علم مجھ سے مل لیا کریں.میں ان کو بتا دیا کروں گا کہ فلاں فلاں کتاب سے یہ فتویٰ دیکھ کر لکھ کر لاؤ.چنانچہ ایسا ہی ہوتا رہا.اور بعض دفعہ حضرت مولوی صاحب کسی خاص فتوے کے بارے میں مجھے ارشاد فرماتے کہ یہ تم خود فلاں کتاب کے فلاں مقام سے دیکھ کر اور تسلی کر کے لکھ کر لانا.چنانچہ طلباء فتوے لکھ کر لاتے اور آپ اسی میں کچھ ترمیم فرماتے یا اگر ٹھیک ہوتا تو اسی صورت میں اس فتویٰ پوچھنے والوں کو بھجوا دیتے فرمایا کرتے تھے کہ میں یہ اس لئے کرتا ہوں تا نو جوانوں کو رغبت پیدا ہو اوران میں تحقیقات کا مادہ بڑھے.آپ یہ شکایت فرمایا کرتے تھے کہ میرے شاگرد جب باہر تبلیغ کے لئے جاتے ہیں تو مجھے خط نہیں لکھتے.میں نے زمانہ طالب علمی میں ہی یہ دل سے عہد کیا ہوا تھا کہ جب میں باہر تبلیغ کے لئے جاؤں گا تو حضرت مولوی صاحب کو باقاعدگی سے خط لکھا کروں گا.چنانچہ جب مجھے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے برما میں تبلیغ کے لئے بھجوایا تو میں باقاعدگی سے آپ کی خدمت میں خط لکھتا تھا.جب میں جلسہ سالانہ
پر برما سے آتا تو آپ مجھے بہت پیار سے ملتے اور مجھے برما میں ہی احباب کی چٹھیوں سے بار ہا پتہ چلتا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب عصر یا مغرب کے بعد مجلس عرفان میں تشریف فرما ہوتے تو حضرت مولوی صاحب میرے خط کا کوئی واقعہ حضور کو سناتے اور دعا کے لئے بھی درخواست کرتے.آپ جب کوئی مضمون لکھتے تو وہ بہت لمبا ہو جاتا اور اس میں تکرار بھی ہو جاتی تھی.ایک دفعہ مجھے بلایا اور ایک مضمون دیا کہ حضرت صاحب نے قرآن کریم کے متعلق کسی کے کچھ اعتراض مجھے جواب کے لئے بھجوائے ہیں.میں نے جوابات لکھے ہیں مگر یہ مضمون بہت لمبا ہو گیا ہے.اور میری تحریر میں تکرار بہت ہوتا ہے تم اس مضمون کو پڑھ کر مختصر مضمون کی صورت میں کر دو.چنانچہ میں نے اور برادرم مولوی عبدالغفور صاحب فاضل نے اس سارے مضمون کو پڑھا اور پھر اس کو مختصر طور پر لکھا مگر جرات نہ پڑتی تھی کہ وہ مضمون آپ کی خدمت میں پیش کروں.ڈر یہ لگتا تھا کہ اگر مولوی صاحب کو مضمون پسند نہ آیا تو آپ ہمیشہ فرمایا کریں گے کہ بعض طالب علم اپنے استادوں کی غلطیاں نکالتے ہیں.ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.جب آپ نے وہ مضمون مجھ سے سنا تو مجھے بہت پیار کیا اور فرمایا.میاں بس میں یہی چاہتا تھا تم نے بالکل میری مرضی کے مطابق مضمون کر دیا ہے.۱۳- از اخویم مولوی بشیر احمد صاحب ( مبلغ وامیر جماعت کلکته ) آج سے ستائیس سال قبل ۱۹۳۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب اعجاز احمدی“ میرے مطالعہ میں آئی اور اس میں حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کا ذکر خیر پڑھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عر بی نظم میں فرماتے ہیں :.فكان ثناء الله مقبول قومه ومنـا تــصــدي لـلـتـخــاصــم ســرور كان مقام البحـث كـان كــاجـمة به الذئب يعوى و الغضنفر يزء ر * ۱۹۰۲ ء میں موضع مد کے مناظرہ میں غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب پیش ہوئے اور احمدیوں کی طرف سے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ پیش ہوئے اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور مندرجہ بالا اشعار میں فرماتے ہیں کہ ثناء اللہ غیر احمدیوں کی طرف سے پیش ہوئے جو اپنی قوم میں مقبول تھے اور ہماری اعجاز احمدی - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵۲
۳۷۴ طرف سے (مولانا) سرورشاہ پیش ہوئے.مقام بحث ایک ایسا بن (جنگل ) دکھائی دیتا تھا جس میں ایک طرف بھیڑ یا چیختا تھا اور دوسری طرف شیر غرا تا تھا.ان اشعار کو پڑھ کر میرے دل میں آپ کی عزت بہت بڑھ گئی.اور آپ کے علم وفضل کی بناء پر شدید خواہش پیدا ہوئی کہ آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا مجھے بھی فخر حاصل ہو.چنانچہ مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت میں کامیاب ہو کر خاکسار جامعہ احمدیہ کے درجہ اولیٰ میں داخل ہوا.آپ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے.درجہ اولیٰ سے درجہ رابعہ تک متواتر چار سال آپ سے قرآن مجید کی تفسیر علم منطق وفلسفہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنے کا زریں موقع ملا.آپ قرآن مجید کے اعلیٰ درجہ کے مفسر.منطق وفلسفہ کے ماہر.احمدیت کی متاع گراں اور بزم انس وقدس کے چراغ فروزاں تھے.آپ اپنے فیضان تعلیم وتربیت سے ایک دو نہیں کثرت سے ایسے شاگرد پیدا کر گئے جو آج احمدیت کی قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں اور جن کی اسلامی خدمات کی گونج ایشیا.یورپ.امریکہ اور افریقہ وغیرہ بہت سے ممالک میں سنی جارہی ہے.جہاں آپ بہت بڑے فاضل اور جید عالم تھے وہاں اخلاق عالیہ سے بھی مزین تھے.چنانچہ استغناء تواضع اور فروتنی.حسن کرم اور جو دوسخا.شفقت علی خلق اللہ.کمال خود داری اور مروت آپ کی فطرت کے خصوصی جو ہر تھے.مسجد مبارک میں آپ با قاعدگی کے ساتھ نماز باجماعت کے عادی تھے اور آخری عمر میں باوجود پیرانہ سالی کے نماز با جماعت اس پابندی سے ادا فرماتے تھے کہ وفات سے قبل سخت مجبوری کے باوجود نماز با جماعت ترک نہیں کی.نماز میں آپ کی محویت کا خاص عالم ہوتا تھا اور اسی محویت کی وجہ سے آپ کی نماز عام طور پر لمبی ہوتی تھی.استاذی المکرم حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی اس محویت کا تذکرہ یوں فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب پہلے تو سورۃ فاتحہ تلاوت فرماتے ہیں اس کے بعد اس کا لفظی ترجمہ کرتے ہیں ازاں بعد با محاورہ ترجمہ اور اس کے بعد وہ اس کی تفسیر میں محو ہو جاتے ہیں.آپ کی محویت اور انہاک کا عجیب عالم تھا.میں نے سینکڑوں نمازیں آپ کی اقتداء میں ادا کیں اور ان میں ایک خاص لطف پایا.آپ کی نماز کے لمبا ہونے کے سلسلہ میں ایک واقعہ یاد آیا.ایک مرتبہ کسی غلط فہمی کی بناء پر مسجد مبارک کے خادم نے آپ سے کہا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نماز کے لئے تشریف نہیں لائیں گے.اغلبا یہ عصر کی نماز کا واقعہ ہے حضرت مولوی صاحب نے نماز شروع کر دی.لیکن دوسری ہی رکعت میں حضور ایدہ اللہ تعالی تشریف لے آئے اور نماز میں شریک ہو گئے.نماز کے بعد حضور کی خدمت میں خادم مسجد کی غلطی کا ذکر کیا.حضور نے فرمایا نماز
۳۷۵ ذرا ہلکی پڑھایا کریں.اس پر مولوی صاحب نے حلفاً کہا کہ حضور میں تو سجدہ میں صرف تین دفعہ سبحان ربی الاعلیٰ کہتا ہوں.میں نے اپنے کانوں سے آپ کے یہ الفاظ سنے جبکہ اسی نماز میں میں نے خود بعض سجدوں میں لگ بھگ ایک سومرتبہ سبحان ربی الاعلیٰ پڑھا تھا تو آپ سجدہ میں سر اٹھاتے تھے.آپ کا یہ جواب سن کر مجھے حضرت میر محمد الحق صاحب کی بیان کردہ بات یاد آ گئی اور میں سمجھا کہ نماز میں حقیقتا آپ کا انہاک اور آپ کی محویت اس درجہ تھی کہ آپ سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کے بعد حضرت مرزا مظہر جان جاناں کی طرح اللہ تعالیٰ کی صفت سبوحیت پر غور فرماتے ہوں گے اور اس طرح آپ تین بار سبحان ربی الاعلیٰ کہہ کر سجدہ سے سراٹھاتے ہوں گے.بلا وجہ جمع نماز کی مخالفت آپ بلاوجہ دو نمازوں کو جمع کرنے کے سخت مخالف تھے ایک دفعہ برسات کا موسم تھا.جو نہی ظہر کی نماز کا آغاز ہوا بڑی شدت کی بارش شروع ہوئی اور نماز کے اختتام تک جاری رہی.نماز ظہر ختم ہونے پر بعض دوستوں نے عرض کیا کہ بارش ہو رہی ہے نماز جمع ہونی چاہئے.حضرت مولوی صاحب ان دنوں سلسلہ احمدیہ کے مفتی بھی تھے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دریافت فرمایا کہ کیا فتویٰ ہے.اب تک یہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ مولوی مسجد سے باہر سیٹرھیوں تک تشریف لے گئے.ابرآلود آسمان کو دیکھا اور واپس آکر عرض کیا کہ نماز جمع کر لی جائے.چنانچہ حضور نے نماز عصر پڑھائی جس کے اختتام تک بارش ختم ہو چکی تھی.اور ایک طرف سے مطلع بھی صاف ہو چکا تھا.اور دھوپ نمودار ہو چکی تھی.حضور نے خوش طبعی کے رنگ میں پوچھا کہ اب کیا فتویٰ ہے.مولوی صاحب مسکرائے اور عرض کی کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس رنگ میں بھی سہولت عطا فرما دیتا ہے.شاگردوں کے حق میں دعائیں آپ بے حد دعائیں کرنے والے بزرگ تھے.اور شاگردوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھا کرتے تھے.ایک دفعہ کلاس میں فرمایا کہ بعض طلباء تھوکنے ، ناک صاف کرنے وغیرہ کے بہانے سے کلاس سے باہر نکل جاتے ہیں اور دیر تک کلاس میں واپس نہیں آتے.ایسے طلباء یہ نہ سمجھیں کہ مجھے ان کے جانے کا علم نہیں ہوتا.میں ان کی نقل وحرکت سے بخوبی واقف و آگاہ ہوتا ہوں.پھر فرمانے لگے کہ جو طالب علم میرے درس میں باقاعدگی کے ساتھ شرکت کرے گا.اس کا درس میں شامل ہونا ہی اس کی کامیابی کے لئے ضمانت ہے.چنانچہ
ہم نے آپ کے اس فرمودہ کا بارہا تجربہ کیا اور دیکھا کہ جو طلباء آپ کے درس میں باقاعدگی کے ساتھ شریک ہوتے تھے وہ ضرور کامیاب ہو جاتے تھے.اور نتیجہ ہم یہ سمجھے کہ ایسے طلباء روزانہ درس میں شریک ہونے کی وجہ سے آپ کی نظروں کے سامنے رہتے تھے اور آپ کی دعاؤں کے مورد بنتے تھے.تو کل علی اللہ کا درس ۱۹۳۷ء میں خاکسار مولوی فاضل کے امتحان میں شریک ہوا.اس وقت پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے قادیان امتحان کا سنٹر بن چکا تھا.جامعہ احمدیہ کے آپ پرنسپل تھے.جماعت مولوی فاضل کو آپ منطق وفلسفہ پڑھاتے تھے.امتحانات تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں شروع ہوئے.آپ کا یہ دستور تھا کہ امتحان شروع ہونے سے قبل وہاں تشریف لاتے اور دعا کراتے.دعا کے بعد طلباء کمرہ امتحان میں جاتے.جس دن منطق وفلسفہ کا پرچہ تھا اس دن حسب دستور آپ نے دعا فرمائی اور اس کے بعد واپس گھر تشریف نہیں لے گئے بلکہ جامعہ احمدیہ میں تشریف لے آئے تاکہ پرچہ کے متعلق کچھ معلومات حاصل فرمائیں.طلباء کے خیال میں پر چہ کچھ سخت تھا.اس لئے نصف وقت گزرنے سے قبل ہی انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا.سپر وائزر سے کہا کہ ہمیں باہر جانے کی اجازت دی جائے.سپر وائزر نے اس شرط پر نصف وقت سے قبل جانے کی اجازت دی کہ سوالات کے پرچے ہمراہ نہ لے جائیں.چنانچہ کچھ طلباء چلے گئے اور بہت سے طلباء نصف وقت گزرنے پرنکل گئے.خاکسار اور منشی فاضل کے بعض طلباء رہ گئے.وقت ختم ہونے میں صرف چند منٹ باقی تھے جب خاکسار پر چہ تحریر کر کے باہر آیا.کیا دیکھتا ہوں یہ شفیق و مہربان استاذ حضرت مولوی صاحب طلباء کے جھرمٹ میں باہر کھڑے ہیں میں بھی جلدی سے وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ آپ اس امر پر اظہار ناراضگی فرمارہے ہیں کہ طلباء نصف وقت سے قبل کیوں اٹھے آئے.اور فرمارہے تھے کہ آخر وقت تک بیٹھنا اور غور وفکر کرنا چاہئے تھا.دوران گفتگو میں آپ نے دریافت فرمایا کہ کسی طالب علم نے پورے سوالات بھی کئے ہیں.خاکسار آگے بڑھا اور عرض کیا.حضور میں نے اپنی سمجھ کے مطابق سب سوالات کئے ہیں آپ نے مجھے تھپکی دی اور دعادی اور فرمایا تم کامیاب ہو جاؤ گے.چنانچہ اس سال جامعہ احمدیہ کے دس طلباء میں سے صرف دو کامیاب ہوئے.جن میں سے ایک خاکسار تھا.ہمارا نتیجہ یونیورسٹی کی معینہ مدت سے بھی دیر سے نکلا.ابھی نتیجہ نہیں نکلا تھا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک ہوائی جہاز قادیان آیا ہے جس سے ایک کاغذ نیچے پھینکا گیا ہے وہ کاغذ میں نے پکڑا.اس میں نتیجہ کا اعلان ہے اور دوطلباء کی کامیابی کا ذکر ہے اور ان دو میں میرا نام بھی ہے.ہوائی جہاز پر چہ پھینک کر چلا گیا لیکن
۳۷۷ تھوڑی دیر بعد پھر واپس آیا اور ایک پرچہ پھینکا گیا.اس میں لکھا تھا ایک ماہ بعد دو طالب علم اور کامیاب ہوں گے.حضرت مولوی صاحب نے اس کی تعبیر یہ بیان کی کہ دولڑ کے پاس ہوں گے جن میں ایک آپ ہوں گے اور دولڑکوں کے نمبروں میں کچھ کمی ہوگی جن پر دوبارہ غور ہوگا.ان کا نتیجہ ایک ماہ بعد آئے گا.اور وہ بھی کامیاب ہو جائیں گے.چنانچہ جب نتیجہ نکلا تو خاکسار اور مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ( پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ ) کامیاب ہوئے اور نتیجہ کے ایک ماہ بعد مولوی محمد ابراہیم صاحب بھا مڑی ( مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ ) اور ایک اور دوست کامیاب ہوئے.جب نتیجہ کا اعلان اخبار میں آیا تو آپ نے از راہ شفقت ایک آدمی بھیجوایا اور خاکسار کو بلوا کر کامیابی کی مبارک باد دی اور بعض ان طلباء کے متعلق جو جماعت میں اچھے طلباء میں شمار ہوتے تھے اور بہت محنتی بھی تھے.لیکن فیل ہو گئے تھے اظہار ہمدردی فرمایا.اور ساتھ ہی فرمایا در اصل اپنی محنت پر ہی ناز نہیں کرنا چاہئے.بلکہ خدا پر توکل کرنا ضروری ہے کیونکہ امتحان کے وقت ذہن کو جلا دینے والا وہی خدا ہے.میرے لئے آپ کا استخارہ خاکسار مبلغین کلاس میں داخل ہوا.دوسرا سال تھا کہ نظارت تعلیم وتربیت کی طرف سے سنسکرت کلاس کے اجراء کا اعلان ہوا.میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی سنسکرت کلاس میں داخلہ لے لوں.ایک طرف مبلغین کلاس کے کٹھن امتحان کا خیال تھا اور دوسری طرف سنسکرت ایسی کٹھن اور نئی زبان کے سیکھنے کا سوال تھا.میں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ میرے لئے استخارہ فرمائیں.ایک دن ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد آپ احمد یہ بلڈ پو کے پاس کھڑے تھے کہ خاکسار بھی مسجد سے نیچے اترا.مجھے بلا کر فرمایا کہ میں نے تمہارے لئے استخارہ کر لیا ہے.سنسکرت کلاس میں داخلہ کے لئے درخواست دے دو.چنانچہ خاکسار نے نظارت تعلیم وتربیت میں درخواست دے دی.اور خاکسار بھی انتخاب میں آگیا.اور آپ کی دعاؤں کے طفیل خاکسار نے سنسکرت کا نصاب بھی مکمل کیا.جبکہ خاکسار کے ساتھی اس نصاب کو مکمل نہ کر سکے.آپ کی مومنانہ فراست خاکسار مبلغین کلاس کے دوسرے سال میں تعلیم حاصل کر رہا تھا کہ جامعہ احمدیہ کے کلرک کی اسامی تخفیف میں آگئی.خاکسار کو دفتری کام سے کچھ شغف تھا اور اس وقت جب کبھی مکرم مولوی نوراحمد صاحب مولوی
۳۷۸ فاضل ( حال ہیڈ کلرک نظارت بیت المال ربوہ) جامعہ میں بطور کلرک کام کرتے تھے.خاکسار بھی ان کے پاس بیٹھا کرتا تھا.اغلباً اسی بناء پر جب اسامی تخفیف میں آگئی تو حضرت مولوی صاحب نے مجھے ایک دن یاد فرمایا.اور میرے حاضر ہونے پر اسامی کی تخفیف کا ذکر کر کے فرمایا کہ آپ کچھ دفتری کام بھی کر لیا کریں.میں نے بخوشی اس کو منظور کر لیا اور کچھ وقت جامعہ کے دفتر میں دینے لگا.جب میرا داخلہ سنسکرت کلاس میں ہو گیا اور مبلغین کلاس سے بھی میں فارغ ہو گیا.تو بوجہ اس کے کہ مجھے صرف سنسکرت ہی پڑھنی ہوتی تھی.میرے پاس وقت کافی تھا.اس لئے میں دفتر میں زیادہ وقت دینے لگا اور اس طرح مجھے نہایت ہی قریب سے آپ کے اخلاق عالیہ کو دیکھنے کا موقع ملا.اور آپ کے ان اخلاق کی بناء پر جامعہ کے جملہ پروفیسر صاحبان آپ کی بہت عزت کرتے تھے.آپ کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ دفتری کام کو زیادہ التوا میں نہ رکھا جائے.اس لئے آخری گھنٹیاں آپ اس کام کے لئے خالی رکھتے تھے.اور دفتری کا غذات ملاحظہ فرماتے اور ان کے بارے میں ہدایات دیتے تھے.کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ آپ کو کسی کام کی وجہ سے جلدی جامعہ سے تشریف لے جانا ہوتا تو مجھ سے دریافت فرما کر دستخط کرانے والی چٹھیوں پر دستخط فرما دیتے.اور بعض ضروری چٹھیاں ایسی ہوتیں جو اسی دن بھجوانی ضروری ہوتیں تو ان کے جواب کا مسودہ دیکھنے کے بعد اصلاح فرما دیتے اور مجھ سے سادہ کاغذ لے کر دستخط کر کے فرماتے چٹھی صاف لکھ کر اور مہر لگا کر بھیج دینا.ایک دن ایسا ہی واقعہ در پیش تھا.اور میرے دل میں ایکا ایک یہ خیال گزرا کہ اس رنگ میں ہر ایک پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے کہ آپ نے دستخط سادہ کاغذ پر کئے اور اس کے بعد مجھ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا.میاں اتقوا فراسة المؤمن سے میں بلا وجہ دستخط نہیں کر دیتا.میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری طبیعت نیک ہے اور اس میں شر نہیں.میں نے جزاکم اللہ عرض کیا اور اپنے اس وسوسے پر استغفار کیا.اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٹی میرے اس نیک اور بزرگ استاذ کی فراست کے مطابق مجھے نیکی پر قائم رہنے کی تو فیق عطا فرما.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ سے آپ کی محبت اور قبل از وقت حضور کو مصلح موعود تسلیم کرنا آپ نے کئی مرتبہ کلاس میں درس دیتے ہوئے فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام کی بناء پر حضرت محمود کو موعود فرزند سمجھتا ہوں کیونکہ حضور نے وہاں تحریر فرمایا ہے کہ :.
۳۷۹ ”خدا تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذریت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی.وہ آسمان سے اترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کر دے گا.وہ اسیروں کو رستگاری بخشے گا.اور ان کو جو شبہات کے زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دے گا.فرزند دل بند گرامی وار جمند.مظہر الحق والعلاء كان اللہ نزل من السماء".۲ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں یہ یقین رکھتا تھا اور یقین رکھتا ہوں کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں.اس لئے میں نے کبھی اس کلاس میں کرسی پر بیٹھ کر نہیں پڑھایا جس میں حضرت محمود تعلیم حاصل کرتے تھے.بلکہ یہاں تک فرماتے تھے کہ میں نے حضرت محمود ایدہ اللہ الود ود سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اللہ تعالی آپ کو بہت بلند روحانی مقام عطا فرمانے والا ہے.اس وقت ہم گنہ گاروں کا بھی خیال رکھیں.ہم نے بارہا دیکھا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سامنے اس روحانی مقام کے پیش نظر آپ دوزانو ہو کر بیٹھتے.اور جب کبھی حضور نماز کے بعد رونق افروز ہوتے تو آپ اپنے اس بڑے رو مال کو جوا کثر آپ کے کندھے پر ہوتا تھا حضور کے چہرہ مبارک سے مکھیاں ہٹانے کی غرض سے بار بار ہلاتے تھے.خلافت ثانیہ کی تائید اور احمدیت کی تبلیغ کے لئے آپ نے کئی دورے کئے اور اڑیسہ تک تشریف لے گئے.آج بھی جب کبھی میں اڑیسہ جاتا ہوں تو بعض پرانے احباب سے آپ کے سفر کے حالات سن کر ایک خاص لطف محسوس کرتا ہوں.ایک دیوانہ کے ساتھ خوش خلقی جب ہم مبلغین کلاس میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو جامعہ کے ایک طالب علم دیوانگی میں مبتلا ہو گئے.اس طالب علم کو آپ کے ساتھ بھی خاص انس تھا.اور اس انس کی وجہ سے دیوانگی کے دورہ میں رات کے ایک دو بجے آپ کے مکان پر پہنچ جاتے اور کواڑ کھٹکھٹاتے آپ کو جب معلوم ہوتا کہ فلاں ہے تو آپ کواڑ کھول دیتے اور اپنے بالائی کمرہ میں جہاں آپ آرام فرمایا کرتے تھے ان کو بٹھا لیتے.وہ دیوانگی میں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے.اور آپ نہاہت ہی محبت کے ساتھ ان کی باتوں کو سنتے رہتے حتی کہ وہ خود ہی اٹھ کر وہاں سے چلے جاتے اور آپ قسم کے ساتھ کو اڑ بند کر لیتے اور جامعہ احمدیہ میں آپ بڑے ہی محبت کے انداز میں ان کے واقعات بتاتے اور ان کی صحت کے لئے دعا بھی فرماتے.
۳۸۰ سیلک لیکچر پر میری حوصلہ افزائی پ خاکسار درجہ اولیٰ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس خاص تحریک کے ماتحت کہ جماعت احمد یہ ہر سال سیرۃ النبی کے جلسے سارے ملک میں منعقد کرے.قادیان میں بھی آپ کی زیر صدارت جلسہ منعقد کیا گیا.حاضرین کی تعداد ہزاروں کی تھی.میری بھی بیس منٹ کی تقریر ہوئی.یہ میری پہلی پبلک تقریر تھی اور جلسہ ختم ہوتے ہی میں گھر چلا گیا.اس خیال سے کہ معلوم نہیں تقریرکیسی ہوئی لیکن تھوڑی دیر کے بعد حضرت مولوی صاحب نے مجھے بلوا بھیجا.جب میں پہنچا تو مجھے مبارک باد دی اور کہا کہ تم نے آج اچھی تقریر کی.اگر تم اس طرف توجہ کرو گے تو اچھے مقرر بن جاؤ گے میں نے دعا کے لئے عرض کیا.آپ کی اس حوصلہ افزائی کا یہ نتیجہ ہوا کہ میں نے پبلک تقاریر میں حصہ لینا شروع کیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسلام واحمدیت کی خدمت کے کافی مواقع عطا فرمائے.قرآن مجید کے بہترین مفسر ۱۹۳۸ء میں خاکسار درجہ ثالثہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا کہ اس وقت صدرانجمن احمدیہ کے اداروں کی عام دیکھ بھال کے لئے ایک کمیشن حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوا.اس کے ایک رکن حضرت میر محمد اسمعیل صاحب بھی تھے.یہ کمیشن بغرض معائنہ جامعہ احمدیہ میں بھی آیا.حضرت مولوی صاحب درجہ ثالثہ اور درجہ رابعہ کو قرآن مجید کی تفسیر پڑھاتے تھے.نصاب کے لحاظ سے دو سالوں میں پورے قرآن مجید کی تفسیر ختم کرنا ہوتی تھی.آپ اس رنگ میں تفسیر بیان فرماتے تھے کہ ایک آیت کی تفسیر میں دسوں دیگر آیات کی تفسیر بیان کر دیتے تھے لیکن با قاعدہ ترتیب کے ساتھ قرآن مجید ختم نہیں کرواتے تھے.اس لئے درجہ ثالثہ اور درجہ رابعہ کے طلباء نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم کمیشن کے سامنے یہ معاملہ رکھیں گے کہ حضرت مولوی صاحب سارا قرآن شریف دوسالوں میں ختم نہیں کرواتے.چنانچہ کمیشن نے جب طلباء کو کچھ کہنے کا موقع دیا تو ایک طالب علم نے مندرجہ بالا معاملہ رکھا.کمیشن نے طلباء کے سامنے ہی مولوی صاحب سے اس کی بابت دریافت کیا.آپ نے جواب دیا کہ دراصل سارے قرآن مجید کی تفسیر تو دو سال کیا بیس سال میں بھی ختم نہیں ہوسکتی.اس لئے میں اصولی طور پر قرآن مجید کے بعض اہم نکتے بیان کر دیتا ہوں اگر چہ میں ترتیب کے ساتھ قرآن مجید کو ختم نہیں کرتا.لیکن اصولی لحاظ سے قرآن مجید کے جملہ اہم مقامات کی تفسیر بیان کر دیتا ہوں اور یہ طلباء خود اس کی شہادت دیں گے.چنانچہ سب طلباء نے اس کی تصدیق کی.
۳۸۱ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ جس رنگ میں قرآن مجید کی تفسیر بیان فرماتے تھے مکمل قرآن مجید ختم کرنے کے لئے بہت وقت کی ضرورت تھی.لیکن وہ تمام مشکل مقامات جہاں مفسرین نے ٹھوکریں کھائی ہیں ان کو نہایت ہی عمدگی سے حل فرما دیتے تھے.اور آج تک ہمارے ذہن میں آپ کے بیان کردہ نکات موجود ہیں جو آپ کے حقائق و معارف پڑھنا چاہیں وہ تفسیر سروری کو ملاحظہ فرماویں.افسوس ہے کہ آپ اس تفسیر کو مکمل نہ کر سکے.تاہم تفسیر سروری میں حقائق و معارف کا بہتا ہوا دریا نظر آتا ہے.حافظه و صحت آپ کا حافظہ غضب کا تھا.اس وقت جبکہ ہم آپ سے تعلیم پانے لگے آپ کافی معمر ہو چکے تھے.لیکن اس کے باوجود اپنے حافظہ پر آپ کو پورا کنٹرول تھا اور آپ کا حافظہ علوم وفنون کا مجموعہ اور واقعات پارینہ کا بہت بڑا ذخیرہ تھا.مولوی فاضل کے دوسرے سال میں ایک روز ہم آپ سے علم منطق کی کتاب بحر العلوم ایسی مشکل کتاب کا درس لے رہے تھے.گرمیوں کا زمانہ تھا.ہم جامعہ احمدیہ کی عمارت کے بیرونی حصہ میں ایک درخت کے نیچے بیٹھے درس لے رہے تھے کہ اتفاقا ایک چڑیا اس درخت کے اوپر آ کر چوں چوں کرنے لگی.آپ نے اوپر کو نظر اٹھا کر اس چڑیا کو دیکھا اور درس کے ضمن میں اس کا ایک واقعہ بیان فرما نا شروع کر دیا.ایک طالب علم کے پاس ایک پرانی کتاب میں ایک سابق طالب علم نے سبق والے حصہ کے سامنے حاشیہ میں لکھا ہوا تھا کہ حضرت مولوی صاحب اس موقعہ پر ایک چڑیا کی کہانی بیان فرماتے ہیں.لڑکوں نے سوچا کہ چڑیا تو آج اتفاقا آ گئی.اور آپ نے اس کا واقعہ بیان کر دیا.لیکن اب اس کتاب کو روزانہ سامنے رکھ کر دیکھنا چاہئے کہ آپ جو واقعات بیان فرماتے ہیں.کیا سابق طالب علم نے وہی نوٹوں میں درج کئے ہوئے ہیں.چنانچہ ہم نے ہر درس کے موقع پر اس کتاب کو زیر نظر رکھنا شروع کر دیا.اور ہم نے دیکھا کہ آپ نے جس موقع پر جومنطقی واقعات اور دیگر لطائف و حالات بیان فرمائے.اس سابق طالب علم کے نوٹوں کی رو سے اس کلاس کو بھی بعینہ ہراس موقع پر وہی سنائے تھے حالانکہ پڑھاتے وقت آپ کے سامنے اپنی کتاب نہیں ہوتی تھی بلکہ کسی طالب علم کی کتاب آپ اپنے سامنے رکھ لیتے تھے.آپ کی صحت آخر وقت تک اچھی رہی.ایک مرتبہ جب آپ کلاس میں درس دے رہے تھے.آپ نے اپنی جوانی کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا کہ جوانی میں مجھے ورزش کرنے اور شکار کھیلنے کا بہت شوق تھا.اس سلسلہ میں آپ اپنے بے حد دلچسپ واقعات بیان فرماتے تھے ایک دن اپنی ورزش کا ذکر کرتے ہوئے اس ناچیز خادم
۳۸۲ کو اپنے پاس بلایا.اور اپنا قمیص اوپر کر کے فرمایا کہ میری چھاتی کو ہاتھ سے دباؤ.میں نے از راہ ادب معمولی سا ہاتھ لگا کر چھوڑ دیا.فرمایا نہیں اچھی طرح دباؤ.دیکھو ہڈی مشکل سے ہاتھ لگے گی.چنانچہ واقعی آپ کی چھاتی کا حصہ گوشت سے پر تھا یہ گوشت بڑھاپے میں لٹکا ہوا نہیں تھا.بلکہ خوب سخت تھا اور آپ کے ورزشی جسم پر دلالت کرتا تھا.اپنی جوانی کے واقعات میں آپ نے ایک دفعہ یہ واقعہ بھی سنایا کہ ہمارے گاؤں کے باہر ایک اتنا بڑا درخت تھا کہ جب اس کو کاٹا گیا تو اس کے گھیر پر سات آدمی صف بنا کر نماز پڑھ سکتے تھے ہمارے گاؤں والوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اس پر جن رہتے ہیں اس لئے اس کو کاٹنا تو کجا کوئی اس کی شاخ بھی نہیں کا تھا تھا.چونکہ وہ ہماری زمین میں تھا.اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ اس کو کاٹا جائے تا کہ یہ باطل عقیدہ ختم ہو.سو میں نے دو نو جوانوں کو ساتھ لے کر اسے کاٹنا شروع کیا.دو پہر تک ہم نے کٹائی کا کچھ کام کیا.اتفاق یہ ہوا کہ دونوں میں سے ایک نو جوان جو میرے ساتھ کام کر رہا تھا دو پہر کو جب وہ اپنے گھر گیا تو اس کے گھر والے قفل لگا کر کہیں گئے ہوئے تھے اس لئے وہ ایک ہمسایہ کے مکان کی چھت سے جو درمیان میں چھوٹی سی گلی تھی اسے پھاند کر اپنے گھر جانے لگا تو اس کا پاؤں پھسل گیا.اور وہ گلی میں گر پڑا اور سخت زخمی ہو گیا لوگوں میں شور پڑ گیا کہ اس نے چونکہ اس درخت کو کاٹنے میں حصہ لیا.اس لئے جن بابا نے اس کو گرا دیا ہے.فرمایا کہ جب یہ خبر مجھے پہنچی تو میں نے اس کی جا کر مرہم پٹی کی اور میں نے عزم کر لیا کہ میں اس درخت کو کاٹ گراؤں گا.خواہ مجھے اکیلے کو یہ کام کرنا پڑے.ورنہ گاؤں میں یہ عقیدہ بالکل راسخ ہو جائے گا کہ اس درخت پر جن بابا رہتا ہے.چنانچہ میں نے کئی دن کی محنت شاقہ کے بعد اس درخت کو کاٹ دیا.اور اس کے کٹ جانے پر مجھے کسی جن بابانے نہیں ستایا اور لوگوں کا اس درخت کے متعلق غلط عقیدہ ختم ہوا.بعض اہم نصائح سنسکرت زبان کی تین سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب میں فارغ ہوا تو جامعہ احمدیہ کی طرف سے اس عاجز کو ایک الوداعی ایڈریس دیا گیا.اس میں حضرت مولوی صاحب بھی شریک تھے.تقریب کے خاتمہ پر آپ بڑی محبت اور شفقت سے ملے اور فرمایا.میاں اب تم باہر جارہے ہو تین باتوں کا التزام رکھنا.۱.قرآن شریف با قاعدگی سے روزانہ پڑھنا.۲.نماز با جماعت کا پورا پورا خیال رکھنا.۳.کتنا ہی مشکل اور اہم معاملہ پیش آجائے اس میں گھبرانا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس معاملہ کے حل
۳۸۳ کرنے کے لئے دعا کرنا.کیونکہ اس سے بڑھ کر اور کوئی بھی معاون اور مددگار نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اعلی علیین میں جگہ مرحمت فرمائے اور ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین -۱۴ از اخویم مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری فاضل ایڈیٹر ہفت روزہ بدر قادیان عالم باعمل - مفتی سلسلہ.فقیہہ.خطیب.مناظر.عاشقِ قرآن.صائب الرائے.سادہ مزاج.زہد و تقویٰ میں مثالی شخصیت.یہ ہیں چند خصوصی صفات اس بلند پایہ وجود کی جس کی مجلس میں چند روز اس عاجز کو بھی زانوئے تلمذ تہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.حضرت مرحوم کے اوصاف خاصہ میں ایسا وصف آپ کی سیرت کے بیان میں ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتا ہے اور ممکن نہیں کہ ایک ہی مضمون میں ان سب کو جمع کیا جا سکے.ہر شخص جو کچھ بھی بیان کرے گا اس کا ایک حصہ ہی ہوگا.اس لئے اختصار اچند باتوں کا تذکرہ محض احسان مندی کے رنگ میں حصول ثواب کی خاطر پیش ہے.مسلم شریف میں روایت آتی ہے کہ سات ایسے آدمی ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں اپنے خاص سایہ میں جگہ دے گا.ان سات خوش نصیب افراد میں سے ایک وہ بھی ہے جس کے متعلق فرمایا.ورجل قلبه معلق بالمساجد، یعنی وہ شخص جو مساجد میں اس کثرت اور تواتر کے ساتھ آتا ہے اور اتنی دیر وہیں بیٹھ کر ذکر الہی میں مشغول رہتا ہے گویا اس کا دل مساجد ہی کے ساتھ لٹکا ہوا ہے اگر ایک بار مسجد سے نکلا ہے تو اس کے بعد جلد ہی لوٹ آتا ہے.الفاظ نبوٹی کا صحیح مصداق اگر دیکھا تو حضرت مولانا مرحوم کا وجود تھا.مسجد مبارک قادیان میں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے بعد دوسرے درجہ پر سالہا سال تک امامت کی پنجگانہ نمازوں کے لئے مسجد میں تشریف لانے کا ایسا اہتمام والتزام کہ خواہ امام بننا ہو یا مقتدی ہمیشہ ہر نماز کے لئے اول وقت میں تشریف لاتے اور نماز کھڑی ہونے تک اول صف میں بیٹھ کر ذکر الہی میں مشغول رہتے.اس التزام پر نگاہ کرنے والا خیال کرتا کہ ایک نماز ادا کرنے کے بعد شاید آپ اپنے گھر تشریف ہی نہیں لے گئے.قرآن کریم کے عاشق تھے.ایک لمبے عرصے تک مسجد اقصیٰ میں درس دیتے رہے جامعہ احمدیہ میں پرنسپل رہے جامعہ کی بلڈنگ مسجد نور کے قریب مغرب میں تھی اور آپ کا مکان اندرون شہر تھا.میں نے بار ہادیکھا کہ جامعہ کے کھلنے کا وقت ہو گیا ہے آپ اپنا مخصوص لباس زیب تن فرمائے ایک مضبوط اور خوبصورت درمیانہ قسم
۳۸۴ کا عصا ہاتھ میں لئے بڑے ہی وقار سے گھر سے نکلتے ایک ہاتھ میں باریک ٹائپ کا مصری قرآن کھولے تلاوت کرتے یا آیات کریمہ کے معانی پر غور وفکر فرماتے جارہے ہیں.طلبہ کو بڑی محبت اور شفقت سے پڑھاتے مگر پڑھانے کا انداز کچھ مخصوص قسم ہی کا تھا.اس عاجز کو آپ سے منطق وفلسفہ پڑھنے کا موقع ملا.بظاہر سبق ایسے ہی خشک مضامین کا ہوتا مگر بڑی قابلیت اور خوبی سے اس میں ایسی دلچسپی پیدا کر دیتے کہ سبق پر لمبا وقت گزر جانے کے باوجود ذرا اکتاہٹ پیدا نہ ہوتی.دورانِ سبق میں ذاتی مشاہدات و تجربات کو زیادہ تفصیل سے بیان فرماتے اور انداز بیان ایسا کہ ہر بات کو بخوبی ذہن نشین ہو جاتی.زمانہ طالب علمی میں اپنی نا تجربہ کاری کے باعث ہم لوگ آپ کی طول طویل تشریحات کو بعض اوقات سبق سے غیر متعلق خیال کرتے مگر اب عملی زندگی میں قدم رکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ سب باتیں بڑی ہی کارآمد اور مفید تھیں جن کا نہایت گہرا تعلق نہ صرف ہمارے نصاب میں داخل مسائل یا کتب کے ساتھ تھا بلکہ ہماری آئندہ کی عملی زندگی میں انہی باتوں نے کام آنا تھا.فجزاه الله احسن الجزاء.با وجود علم وفضل میں بہت بلند مقام رکھنے کے اس زمانہ کے دیگر نام نہاد علماء کے برعکس آپ کی طبیعت میں سادگی اور تواضع اس قدر تھا کہ اگر کسی وقت چھوٹے بچے نے بھی آپ سے بات کرنی چاہی تو بلا جھجک آپ سے ہم کلام ہوسکتا.آپ بڑی محبت سے اس کی بات سنتے اور تسلی بخش طریق پر اس کے سوال کا جواب دیتے اس عاجز کو خود اپنے بچپن کا ایک ایسا واقعہ کبھی نہیں بھولتا.جبکہ اس عاجز کے کسی قریبی رشتہ دار کے ہاں بچہ پیدا ہوا.خط کے ذریعہ ایسی اطلاع ملنے پر میں نے حضرت مولوی صاحب سے نو مولود کا نام تجویز کرانے کا ارادہ کیا آپ شاید مسجد اقصیٰ میں درس دینے کے لئے جارہے تھے یا واپس تشریف لا رہے تھے.میں آگے بڑھا اس عاجز کو اپنی طرف آتا دیکھتے ہی رک گئے بڑی محبت سے التفات سے فرمایا اور میری درخواست پر نومولود کا نام تجویز فرما کر اس کے حق میں دعا فرمائی.کسی مسلمان کی وفات پر نماز جنازہ کی ادائیگی جہاں میت اور اس کے لواحقین کے لئے بہترین دعا ہے.وہاں اسلام نے بڑے ہی پر حکمت طریق پر اہل محلہ کی طرف سے اس موقع کو لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی اور تعزیت کا ذریعہ بنا دیا ہے حضرت مولانا صاحب میں یہ وصف بطور خاص اور نمایاں رنگ میں پایا جاتا تھا.آپ کسی ایسے موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے حتی کہ بار ہا نوزائیدہ بچہ کے جنازہ کی اطلاع ملنے پر بھی با وجود اپنی شدید مصروفیات کے وقت پر پہنچ جاتے اور نماز جنازہ پڑھانے کے ساتھ عملی رنگ میں میت کے لواحقین سے دلی تعزیت کا نمونہ پیش فرماتے.باوجودیکہ سلسلہ کے مختلف ذمہ داری کے کاموں کے باعث آپ ہمیشہ ہی معمور الاوقات رہے
۳۸۵ آپ روزانہ مغرب کی نماز سے کچھ وقت پہلے بہشتی مقبرہ میں مزار حضرت مسیح موعود پر دعا کے لئے تشریف لے جاتے.-۱۵ از اخویم مولوی محمد احمد صاحب جلیل ( پروفیسر جامعه احمد یہ ربوہ ) مجھے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب سے شرف تلمذ پانچ چھ سال حاصل رہا.تین سال جامعہ احمدیہ کی مولوی فاضل اور مبلغین کلاس میں اور قریباً اتنا ہی عرصہ دارالواقفین تحریک جدید میں حصول ثواب کی خاطر کچھ باتیں تحریر کرتا ہوں.وضعداری کے ساتھ خاکساری حضرت مولوی صاحب نہایت باوقار اور بارعب بزرگ تھے.آپ کی گفتگو میں ہمیشہ متانت ہوتی.کبھی ابتذال کا رنگ پیدا نہیں ہوا.آپ کے روز مرہ کے تمام کاموں میں ایک سلیقہ پایا جاتا تھا.حتی کہ آپ کا لباس بھی خاص طرز کا ہوتا جس میں کبھی تبدیلی نہیں آئی.راستہ چلتے ہوئے آپ ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے اور نہ چلتے ہوئے باتیں کرنا پسند کرتے.وقار اور وضعداری کا اس قدر خیال رکھنے کے باوصف اگر کوئی شخص راستہ میں آپ سے کوئی دینی مسئلہ یا فتویٰ دریافت کرتا تو آپ اسے گھر پر ملنے یا دفتر میں حاضر ہونے کی ہدایت نہ فرماتے بلکہ وہیں کھڑے ہو جاتے اور پوری وضاحت کے ساتھ مسئلہ پر روشنی ڈالتے.بسا اوقات دیکھنے میں آیا کہ آپ نصف گھنٹہ تک کھڑے باتیں کر رہے ہیں اور سائل کو سمجھا رہے ہیں.انتہائی بےنفسی حضرت مولوی صاحب متبحر عالم دین ہونے کے علاوہ تعلیم و تدریس کا وسیع تجر بہ او تعلیمی امور کے متعلق صائب رائے رکھتے تھے.آپ لمبا عرصہ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے.جامعہ احمدیہ سے سبکدوش ہونے کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کو تحریک جدید کے زیر انتظام بیرونی ممالک میں تبلیغ کے لئے تربیت حاصل کرنے والے واقفین کی تعلیم کا انچارج مقرر فرمایا.اس وقت تمہیں چالیس کے قریب واقفین زندگی آپ کے زیر تعلیم تھے.جن میں سے اکثر مولوی فاضل یا گریجویٹ تھے.آپ کے ماتحت کئی اساتذہ کام کرتے تھے.کالج کی طرح با قاعدہ نصاب اور تعلیم کا پروگرام مقرر تھا اور امتحان بھی لیا جا تا تھا.
۳۸۶ اس زمانہ کی بات ہے کہ واقفین کی تعلیم سے تعلق رکھنے والے کسی امر پر اساتذہ میں اختلاف رائے ہوا اور کئی روز تک وہ امرا سا تذہ اور طلبہ میں زیر بحث رہا.حضرت مولوی صاحب بھی اکثر اپنی رائے کا اظہار فرماتے اور اس کے دلائل و وجوہ بڑے زور دار الفاظ میں بیان کرتے.جب وہ معاملہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش ہوا تو حضور نے جو فیصلہ فرمایا وہ حضرت مولوی صاحب کی رائے کے مطابق نہ تھا.حضور کی رائے اور فیصلہ کا علم ہوتے ہی حضرت مولوی صاحب اس پر بالکل خاموش ہو گئے.اور اس کے بعد اس معاملہ کے متعلق اپنی رائے کا بھول کر بھی کبھی ذکر نہیں کیا.حضور کے فیصلہ پر تنقید یا تبصرہ تو کجا اپنے موقف کی تطبیق اور تو جیہہ کے طور پر یا اعتذار کے رنگ میں بھی کوئی کلمہ زبان پر نہ لائے بلکہ سمعا وطاعة کا کامل نمونہ پیش کیا اور اپنی رائے کو کلینتہ چھوڑ کر حضور کے ارشاد کے مطابق بشاشت سے عملدرآمد شروع کر دیا.جو دوست حضرت مولوی صاحب سے تعارف رکھتے ہیں اور آپ کی خود داری اور خوداعتمادی والی طبیعت سے واقف ہیں وہی اس واقعہ کی اہمیت اور حضرت مولوی صاحب کی انتہائی بے نفسی کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں.طالب علموں کی دلی خیر خواہی حضرت مولوی صاحب جامعہ احمدیہ میں مولوی فاضل کلاس کو منطق وفلسفہ پڑھایا کرتے تھے.جامعہ کے مقررہ وقت میں عموما نصاب ختم نہیں ہوتا تھا.اس لئے آپ جلسہ سالانہ کے بعد تعلیمی سال کے آخر تک صبح سویرے اپنے مکان پر بھی درس دیتے.اکثر ایسا ہوتا کہ تقریر کی روانی میں آپ کو وقت کا خیال نہ رہتا لڑکوں کو گھر یا ہاسٹل میں جا کر کھانا کھانے اور پھر تیاری کر کے جامعہ میں حاضر ہونے کا فکر ہوتا.زیادہ وقت ہو جانے پر بعض لڑکے آپس میں سرگوشیاں کرنے لگتے کہ حضرت مولوی صاحب کو توجہ دلائی جائے.لیکن آپ کی تقریر کے دوران میں بات کرنے کی جرات کرنا مشکل تھا.ایک دفعہ جب کچھ زیادہ وقت ہو گیا تو لڑ کے ایک دوسرے کو اشارے کرنے لگ گئے.ایک لڑکے نے مجھ سے وقت پوچھا ( سوء اتفاق سے صرف میرے پاس گھڑی تھی ) میں نے آپ کے ادب اور ڈر کی وجہ سے اسے جواب دینے کی بجائے گھڑی جیب سے نکال کر اس کی طرف کر دی.آپ کی نظر پڑ گئی.آپ نے سمجھا کہ میں نے اسے گھڑی اس لئے دکھلائی ہے کہ وہ آپ کو درس ختم کرنے کے لئے کہے.آپ سخت ناراض ہو گئے اور مجھے کلاس سے نکل جانے کا حکم دیا.اس وقت آپ کے مزاج کی برہمی دیکھ کر عذر خواہی یا صفائی پیش کرنا میں نے نامناسب خیال کیا.اور اسی میں خیر سمجھی کہ کلاس سے چلا جاؤں اس کے بعد دو تین دن خفت کے احساس سے میں کلاس میں حاضر نہ ہوا.اور حضرت مولوی صاحب
۳۸۷ کے سامنے ہوتے ہوئے ڈر بھی آتا تھا.تیسرے روز حضرت مولوی صاحب جامعہ میں مجھ سے ملے اور نہایت شفقت سے فرمانے لگے.”میاں تم نے آنا ہی چھوڑ دیا.میں نے تمہیں ہمیشہ کے لئے تو نہیں نکالا تھا.آیا کرو.میں نے تمہارے لئے بہت دعا کی تھی.جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت مولوی صاحب نے یہ بھی فرمایا 66 کہ جب میں طالب علم سے خفا ہوتا ہوں یا سزا دیتا ہوں تو اس کے لئے ضرور دعا کرتا ہوں.شاگردوں سے پدرانہ شفقت جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد کی بات ہے کہ ایک دفعہ مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مولوی صاحب کی طبیعت علیل ہے، میں عیادت کے لئے حاضر ہوا.میرے ساتھ ایک اور دوست بھی تھے جو حضرت مولوی صاحب کے ماتحت دفتر میں کام کرتے تھے.مزاج پرسی کے بعد وہ دوست حضرت مولوی صاحب کے پاؤں دبانے لگ گئے انہیں دیکھ کر میں بھی آگے بڑھا لیکن حضرت مولوی صاحب نے مجھے روک دیا اور فرمایا یہ تمہارا کام نہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے.”اکرموا اولادکم“ کہ اولاد کی عزت کیا کرو.شاگر د بھی بمنزلہ اولا د ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درجات جنت الفردوس میں بلند کرے.اور آپ کی اولاد اور شاگردوں کو آپ کے نقش قدم پر چلنے اور آپ کی نیک صفات کے وارث بنے کی توفیق بخشے.آمین.-۱۶ از اخویم مولوی عبد الکریم صاحب جہلمی فاضل انگلش ٹیچر بمقام ڈومیلی ضلع جہلم.۱۹۲۵ ء یا ۱۹۲۶ء کی بات ہے کہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے مدرسہ احمدیہ کے اپنے تین طلباء کو یعنی مجھے اور غالباً مولوی سلیم اللہ صاحب ( حال اوکاڑہ) اور مولوی ناصرالدین صاحب کو اپنے مکان پر بلوایا اور ایک عریضہ پڑھ کر سنانا شروع کیا.جو آپ نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا تھا.اس کا مفہوم اب تک مجھے اچھی طرح یاد ہے اور عریضہ سناتے ہوئے حضرت مولوی صاحب نے اپنی قلبی کیفیت اور عقیدت کا جو منظر پیش کیا تھاوہ کبھی فراموش نہیں ہوسکتا.حضرت مولوی صاحب کی تحریر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ مولوی صاحب کو یہ معلوم ہوا تھا کہ بعض شرانگیز افراد نے حضرت صاحب تک یہ رپورٹ پہنچائی ہے کہ مولوی صاحب نظام سلسلہ اور مقام خلافت کے وقار کے منافی باتیں کرتے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے اس الزام کے جواب میں جس والہانہ محبت اور مخلصانہ
۳۸۸ عقیدت کا اظہار کیا تھا اس کا اندازہ اس قلبی کیفیت سے لگایا جا سکتا ہے.جو ہمیں عریضہ سناتے ہوئے آپ سے بے اختیار ظاہر ہوئی.ایک ساٹھ سالہ باوقار عالم باعمل اور فاضل اجل اپنے شاگردوں کے سامنے اپنے واجب الاحترام امام کی ناراضگی کے خیال کو ایسے درد و کرب سے محسوس کرتا ہے کہ عریضہ پڑھتا جاتا ہے اور ایک معصوم بچے کی طرح بے اختیار زار زار روتا جاتا ہے.یہاں تک کہ آپ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر بتر ہوگئی.ساتھ ہی یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مولوی صاحب کے متعلق اس قسم کی رپورٹس پہنچانے میں شیخ عبد الرحمن صاحب مصری پیش پیش تھے.وہ اپنے ذاتی مفاد اور وقار کی خاطر ایسی کاروائیوں میں ید طولیٰ رکھتے تھے سو اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی صاحب کی زندگی میں اس شخصیت کی حقیقت سے پردہ اٹھا کر یہ ثابت کر دیا کہ حقیقی مخلص کون ہے اور یہ کہ حقیقی مخلص ہی نیک انجام پاتے ہیں.خدا تعالیٰ ہزاروں برکتیں اور رحمتیں نازل فرمائے.ہمارے بزرگ استاد کی روح پر جن کے سینکڑوں شاگرد چہارا کناف عالم کو نو راحمدیت سے منور کر رہے ہیں.آمین.۱۷- از مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ایڈیٹر الفرقان.ربوہ شیر خدا حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کا وصال“ اور ”علم وعرفان الٰہی کا مواج سمندر سکون پذیر ہو گیا !‘ کے دوہرے عنوان کے تحت مرقوم ہے.کل چار احسان ۹ بجے صبح ایک عظیم الشان نشان ربانی انسانی نظروں سے اوجھل ہو گیا.جبکہ ہمارے مشفق و مہربان استاد علامہ دہر حضرت مولانا سید محمد سرورشاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی تدفین ہوئی.حضرت مولوی صاحب اپنے علم اپنے زہد و تقاء اپنے عشق ومحبت سلسلہ احمدیہ اور اپنی قربانیوں کے لحاظ سے ایک بے مثال وجود تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا اور دنیا و آخرت کے خاص فضلوں کا وارث بنایا.آپ سے علم دین سیکھنے والوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے اور یہ فیض عمیم حضرت مولوی صاحب مرحوم کے درجات کو ہمیشہ بلند کرتا رہے گا.انشاء اللہ ۱۹۰۲ء یعنی آج سے پنتالیس برس پہلے کی بات ہے کہ جب حضرت مولانا سید محمد
۳۸۹ سرور شاہ صاحب کو معہ چند ساتھیوں کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے موضع مد ضلع امرتسر میں ایک مباحثہ کے لئے بھیجا اور پھر اسی مباحثہ کے حالات کی بناء پر حضور نے بتائید ایزدی رسالہ اعجاز احمدی انعامی دس ہزار روپیہ شائع فرمایا.اس رسالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.جی ترجمہ:.پس میرے اصحاب پر آسمان سے تسلی نازل کی گئی اور خدا مدد کر رہا تھا اور خدا نے ان کو قوت لڑائی کی دے دی اور روح القدس نے ان کو مدددی پس وہ خوش ہوگئے اور ثناء اللہ اس کی قوم کی طرف سے مقبول تھا اور ہماری طرف سے مولوی سید محمد سرور شاہ پیش ہوئے.گویا مقام بحث ایک ایسے بن کی طرح تھا جس میں ایک طرف بھیڑیا چیختا تھا اور ایک طرف شیر غراتا تھا گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ پاکیزہ کلمات ہمیشہ کے لئے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے روحانی وعلمی بلند مقام کو بیان کرتے رہیں گے.اور اس سے زیادہ ایک احمدی حضرت مولوی صاحب مرحوم کی کیا تعریف کر سکتا ہے.اتنے مسلسل لمبے عرصہ تک اور پورے استقلال و تندہی سے دینی خدمات بجالانا حضرت مولوی صاحب موصوف کا خاص امتیاز ہے.فتنہ پیغامیت کے آغاز میں حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ نے جو شاندار کام کیا ہے وہ رہتی دنیا تک تاریخ احمدیت میں زریں حرفوں میں نقش رہے گا.خلافت ثانیہ کی ترقیات اور خلافت ثانیہ کے دشمنوں کی ناکامی و نامرادی کے ایمان افروز نظاروں کو دیکھنے کے بعد حضرت مولوی صاحب کا وصال ہوا ہے.بیسیوں مبلغین سلسلہ نے ابتدائی ایام سے حضرت مولوی صاحب مرحوم سے شرف تلمذ حاصل کیا.اور موجودہ مبلغین میں سے کوئی بھی اس حلقہ سے باہر نہیں ہوگا.ان تمام نو جوانوں کو جنہیں حضرت مولوی صاحب کے شاگرد ہونے پر فخر ہے.سلسلہ کے مختلف کاموں پر متعین دیکھ کر حضرت مولوی صاحب کو بہت خوشی اور مسرت ہوتی تھی.اور آپ ہمیشہ اپنے شاگردوں کے لئے دعائیں فرماتے تھے.بسا اوقات ان میں سے بعض سے آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے لئے اتنے عرصہ سے مسلسل دعا کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور انہیں اس بارے میں ہر طرح سے خوشی عطا فرمائی.آپ کے تفسیری حقائق و معارف اپنے اندر ایک خاص رنگ رکھتے تھے.خاکسار کو مدت مدید سے حضرت مولوی صاحب سے شاگردی کی نسبت حاصل ہے اور اب تک بھی مختلف طریقوں سے استفادہ کرنے کا موقعہ ملتا رہا یہاں عربی اشعار چھوڑ دیئے گئے ہیں.(مؤلف)
۳۹۰ ہے اب یہ سلسلہ اپنی ظاہری شکل میں بند ہو گیا ہے.انا لله وانا اليه راجعون.اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے آمین ثم آمین.حضرت مولوی صاحب کو امام ہمام سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے جو عشق و محبت تھی جو رابطہ قلبی حاصل تھا.وہ لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتا.حضور کے ہر ارشاد کی حرفی تعمیل کو آپ لازمی جانتے تھے.اور یہی روح اپنے حلقہ احباب میں پیدا کرتے تھے.عشق میں چوں و چرا کا سوال ہی نہیں ہوتا اور یہ نظارہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی زندگی کا طغرائے امتیاز ہے.سفر وحضر میں اپنے محبوب آقا کی مجلس میں شرکت اور آپ کے دلنواز کلام کا سننا آپ کا اہم ترین مقصد ہوتا تھا.اور بڑھاپے کے باوجود راہ خدا میں قربانی کے لحاظ سے جوانوں سے ہر رنگ میں آگے تھے.اخلاص اور تقویٰ کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں.جفا کشی اور محنت میں بھی آپ جوانوں سے بڑھ کر تھے.آخری دنوں تک مطالعہ فرماتے رہے اور تدریس کا شغل جاری رکھا.آہ ! آج وہ بحر ذخار سکون پذیر ہو گیا.اور آج وہ مقدس وجود ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا.اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ اپنے پیارے بندے کے درجات کو بلند سے بلند فرمائے.اور اپنے سلسلہ کی ترقی کے لئے بیش از پیش سامان مہیا فرماۓ وهو على كل شيء قدير “ آپ میری تحریک پر مزید تحریر کرتے ہیں : یہ ہماری خوش بختی ہے کہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ایسے بزرگ اساتذہ سے ہمیں شرف تلمذ حاصل ہوا.حضرت مولوی صاحب بالعموم مدرسہ احمدیہ کی تین آخری کلاسوں ( چھٹی ساتویں اور مولوی فاضل ) میں منطق و فلسفہ اور تفسیر بیضاوی پڑھاتے تھے.آپ کا طریق تدریس نہایت امتیازی رنگ رکھتا تھا طلبہ سے انتہائی ہمدردی سے پیش آتے تھے.آپ کو طالب علم کی یہ بات سخت ناگوار ہوتی تھی کہ وہ دوران درس میں توجہ اور باتوں کی طرف کرے.آپ چاہتے تھے کہ طلبہ ان کے علم سے پوری طرح استفادہ کریں.مدرسہ کے اوقات کے علاوہ بھی آپ زائد وقت دے کر طلبہ کو پڑھاتے تھے.ان دنوں اساتذہ کے ذہن میں یہ بات ہرگز نہ آیا کرتی تھی کہ اپنے شاگردوں سے ٹیوشن فیس بھی لی جایا کرتی ہے.ان کا سارا کام محض اللہ ہوا کرتا تھا.حضرت مولوی صاحب بہت معمور الاوقات بزرگ تھے.اگر چہ آپ کی صحت بڑی اچھی تھی اور آخر تک اچھی رہی مگر سلسلہ کے متعدد کام آپ کے سپرد تھے اس لئے آپ کو فرصت کم ہوتی تھی.تدریس کے علاوہ آپ
۳۹۱ افسر مدرسہ کے فرائض بھی ادا فرماتے تھے.پھر سلسلہ کے مفتی بھی تھے.کم ہی سال ایسے ہوئے ہیں کہ آپ مدرسہ یا یو نیورسٹی کا مجوزہ نصاب پورے کا پورا ختم کر اسکے ہوں مگر آپ کی توجہ اور دعاؤں کا نتیجہ ہوتا تھا کہ آپ کے شاگرد عموماً اچھے نمبروں پر کامیاب ہوتے تھے.جس سال ہم نے مولوی فاضل کا امتحان دینا تھا.اس سال ایک غلط فہمی کے باعث یہ سمجھا گیا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کا منشاء ہے کہ علماء کے لئے مولوی فاضل کی ڈگری کی کیا ضرورت ہے وہ سیدھے مبلغین کلاس میں جایا کریں.چنانچہ ہم چند ماہ تک مولوی فاضل کلاس چھوڑ کر حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کے پاس مبلغین کلاس میں پڑھتے رہے.ایک دن مجلس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے برسبیل تذکرہ فرمایا کہ ہمارے علماء کی عمریں چھوٹی ہوتیں ہیں.اگر ان کے پاس یونیورسٹی کی سند نہ ہوا کرے تو ان کو دوسرے لوگ جلدی عالم تسلیم نہ کیا کریں.اس پر عرض کیا گیا کہ مدرسہ احمدیہ میں تو مولوی فاضل کلاس اس لئے بند کر دی گئی ہے کہ سمجھا گیا تھا کہ حضور کا منشاء ہے کہ سندوں کی کوئی ضرورت نہیں.حضور نے فرمایا کہ میرا ہر گز یہ منشاء نہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے.ہم جب دوسرے دن دوبارہ مولوی فاضل کلاس میں داخلہ کے لئے گئے تو شیخ عبد الرحمن صاحب مصری نے جو ان دنوں مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر تھے اس بناء پر داخل کرنے سے انکار کر دیا کہ اب تیاری کے لئے وقت تھوڑا ہے تم لوگ فیل ہو جاؤ گے اور مدرسہ کی بدنامی ہوگی.جب حضرت مولوی صاحب سے یہ ذکر ہوا تو آپ نے ہمیں فرمایا کہ میں بھی باہر وقت دے کر نصاب ختم کراؤں گا.تم لوگ بے شک اپنی ذمہ داری پر داخلہ لے لو.چنانچہ دوسرے روز میں نے سب طلبہ کی طرف سے یہی درخواست دے دی.شیخ صاحب مجبور ہو گئے اور پڑھائی جاری ہوگئی حضرت مولوی صاحب دیگر اساتذہ کی طرح مدرسہ کے بعد بھی ہمیں پڑھاتے رہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اور ہمارے اساتذہ کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ ہم ساتوں کے ساتوں کامیاب ہو گئے اور میں اس سال پنجاب یو نیورسٹی میں اول نمبر پر پاس ہوا.الحمد للہ.حضرت مولوی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غضنفر ( شیر ) کا خطاب عطا فرمایا تھا.غیر احمدی علماء بالخصوص مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو میں نے حضرت مولوی صاحب کا بڑے احترام سے ذکر کرتے سنا ہے.میں بہت کچھ لکھتا مگر وقت کی تنگی کے باعث صرف یہ چند سطور جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے کی خدمت میں ثواب کی نیت سے لکھ رہا ہوں.شاید حضرت مولوی صاحب کے ذکر خیر میں شریک ہو سکوں.میرا ارادہ ہے کہ جس طرح میں اس سے قبل رسالہ الفرقان کا حضرت میر محمد اسحق نمبر اور حضرت
۳۹۲ حافظ روشن علی صاحب نمبر شائع کر چکا ہوں اسی طرح مستقبل قریب میں اس تیسرے عظیم استاد کے مفصل حالات پر بھی رسالہ کا ایک خاص نمبر شائع کروں گا.انشاء اللہ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کے لئے بھی جلد توفیق بخشے.آمین.۱- از اخویم مولوی محمد سعید صاحب انسپکٹر بیت المال ربوہ.حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب سے ہم کئی سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے.آپ نہایت محبت اور پیار سے تعلیم دیتے.آپ طلباء کو ہمیشہ میاں کے لفظ سے مخاطب فرماتے.ایک دفعہ آپ نے مسجد اقصیٰ میں دوران درس میں فرمایا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی جس دن خلیفہ مقرر ہوئے اس سے ایک روز پیشتر تک میں حضور کو تعلیم دیتا رہا مگر آج یہ حالت ہے کہ حضور کے علم قرآن کے مقابلہ میں میراعلم دریا کے مقابل ایک قطرہ کی حیثیت رکھتا ہے.آپ کا حضور سے جذبہ محبت اس امر سے ظاہر ہے کہ بعد نماز حضور مسجد میں تشریف فرما ہوتے تو مولوی صاحب حضور کے چہرہ مبارک کے سامنے اپنا رومال ہلاتے رہتے تا کہ کوئی مکھی چہرہ مبارک پر نہ بیٹھ جائے.حضور بھی آپ کا بہت احترام فرماتے تھے.مجلس عرفان میں اپنے پاس بٹھلاتے تھے.آپ عام طور پر منطق.فلسفہ اور علم معانی جیسے مشکل اور خشک مضامین پڑھایا کرتے تھے.مگر آپ کے علمی تبحر کا یہ حال تھا کہ کبھی مطالعہ کرتے نہیں دیکھا.جب بھی کلاس میں تشریف لاتے کتاب کا مطالبہ کر کے دریافت فرماتے.میاں آج کہاں سے پڑھنا ہے اور اس کے بعد پڑھانا شروع کر دیتے.آپ کا معمول تھا کہ جب پڑھاتے پڑھاتے خیال فرماتے کہ اب لڑکے تھک گئے ہیں.تو بعض واقعات لطائف کے رنگ میں بیان کرتے اور لطائف بھی سبق آموز اور اس طرح سے طلباء کے دماغ تازہ دم ہو جاتے.حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے بعض واقعات بھی بیان فرماتے.مثلاً مناظرہ مد کے واقعات اور حضرت مسیح موعود کا آپ کو مولوی ثناء اللہ صاحب کے مقابلہ میں بھیجنا.اور پھر کامیابی پر حضرت مسیح موعود کے اشعار کا ذکر فرماتے.مثلاً فكان ثناء الله مقبول قومه ومنا تصدى للتخـاصـم ســرور اور اس طرح بہت خوشی محسوس فرماتے.
۳۹۳ حضرت مسیح موعود نے جب عید الاضحیٰ کا خطبہ عربی زبان میں دیا تو مولوی صاحب نے بیان کیا کہ میں بھی اس عید کے خطبہ میں حاضر تھا.حضرت مسیح موعود نے حضرت مولوی نورالدین صاحب، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور تیسرے شاید مولوی محمد احسن صاحب امروہی کو خطبہ لکھنے کے لئے مقرر فرمایا اور حضور گویا کھڑے ہو کر سامنے کسی عبارت کو پڑھتے جاتے تھے.حضور نے لکھنے والوں کو یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی مشکل لفظ ہو تو ابھی مجھ سے دریافت کر لینا بعد میں شاید میں بھی نہ بتا سکوں.آپ کی عادت تھی کہ بات ذرا لمبی بیان فرماتے جب بھی کوئی شخص کوئی سوال کرتا تو اسے خوب کھول کر نہایت تشریح سے جواب دیتے.گویا ہر پہلو پر روشنی ڈالتے.آپ کی بات کو جو شخص غور سے سنتا وہ بہت کچھ حاصل کر لیتا.چنانچہ آپ خود فرماتے کہ میاں میری بات ذرا لمبی ہوتی ہے مگر جوشخص میری بات کوغور سے سنے گا اس کا اعتراض باقی نہ رہے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے اور ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے.آمین.۱۹ از اخویم مولوی عبدالواحد صاحب فاضل مبلغ پیشنر ( ساکن موضع آسنور سابق امیر صوبائی کشمیر ) مرفوع الی اللہ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب ہمارے محبوب استاد تھے.مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ قادیان کے علاوہ پرائیویٹ تعلیم میں بھی ہم نے آپ سے استفادہ کیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد اور تمام متعلقین کا حافظ و ناصر ہو اور انہیں حسنات دارین سے نوازے.حضرت مولوی صاحب مجسم شفقت و رحمت اور صاحب وجاہت تھے.خاکسار ۱۹۲۰ء میں بحالت یتیمی قادیان پہنچا تھا.میرے بڑے بھائی صاحب مکرم مولوی عبدالجبار صاحب مرحوم نے آپ کا ذکر خیر کیا تھا.حضرت مولوی صاحب کی سفارش سے خاکسار کا تعلیمی وظیفہ مقرر ہوا.آپ نہایت محنت اور جانفشانی سے اپنے جملہ فرائض منصبی ادا کرنے میں پہلوان حضرت رب جلیل تھے.بدن کے بڑے مضبوط قومی اور امین تھے.حُبّ الوطن من الايمان ۵ کے مطابق وطنی محبت سے سرشار بھی تھے.جلسہ سالانہ کے موقع پر ضلع ہزارہ مظفر آباد وغیرہ کے مہمان آپ کے حصہ مکان میں فروکش ہوتے.کشمیر کے احباب اور عزیز طلبہ سے آپ کا رحمت و شفقت کا سلوک تھا.آپ کی خواہش ہوتی تھی کہ کشمیر سے آئے ہوئے مزدور پیشہ لوگ بھی عمدہ حالت میں رہیں.آپ کی اس خواہش کو اللہ تعالیٰ نے یوں پورا کیا ہے کہ اب کچھ عرصہ سے آپ کے مکان کے ہی متصل سالانہ جلسہ گاہ کے کمروں میں
۳۹۴ احباب کشمیر کی رہائش کا خاطر خواہ انتظام ہوتا ہے.جہاں وہ آسائش اور عزت سے سرمائی ایام گزارتے ہیں.کاغان کے حکیم عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ اور استاذی المکرم مولوی عبد الرحمن صاحب حال ناظر اعلیٰ و امیر مقامی جماعت احمدیہ قادیان دوست اور شاگرد تھے.تقدس تقویٰ و طہارت میں حضرت پیراں پیر کی روح آپ میں موجزن تھی.جن کی آپ اولاد تھے.احب الاعمال عند اللہ الصلواۃ 1 کے تحت آپ کی نمازیں سید ولد آدم حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان نمازوں کا عکس تھیں جن کے متعلق حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں لاتسأل عن طولهن وحسنهن كے تادم آخر آپ نے مسجد مبارک میں امام الصلوۃ کا فریضہ جس حسن و خوبی اور دلربائی سے سرانجام دیا.جاننے والے جانتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حصول معراج کے بغیر تسکین نہیں پائیں گے.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ والوں کی محبت کا وہ دلکش پہلو کیا ہی دلربا تھا کہ آپ جان خلافت سیدنا حضرت امیر المومنین عافاه اللہ تعالیٰ وائید کے وجود باجود پر کسی اڑتی ہوئی مکھی کا سایہ پڑنا بھی برداشت نہ کرتے تھے.دوران مجلس عرفان آپ اپنے رومال سے اس کو فورا ہٹاتے.خدمت وطن کے سلسلہ میں حضور امیر المومنین خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے تحت آپ نے اخیر عمر میں ایک لمبا پہاڑی سفر کیا اور مظفر آباد پہنچ کر میاں احمد یا ر صاحب وکیل کو شیخ محمد عبداللہ صاحب کے ساتھ آزادی وطن کی جد و جہد میں تعاون کرنے کا پیغام دیا.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ حضور کی طرف سے مفوضہ فرائض کی بجا آوری میں آپ ہمیشہ کامیاب رہتے.چنانچہ اس موقع پر بھی کشمیر کے ان دوراہنماؤں میں سمجھوتہ ہو گیا.آپ ستر سال سے متجاوز عمر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے درسوں میں باقاعدہ شامل ہونے کے علاوہ ان کے نوٹ بھی رقم فرماتے اور آخری عمر میں انگریزی پڑھنے کا شوق بھی فرمایا.علم وعرفان کے اس بحر عظیم کا جنہوں نے دارالعلوم دیو بند اعلیٰ شان سے پاس کرنے کے علاوہ حضرت مسیح موعود وعلی مطاعہ محمد العربی المکی المد فی الصلوۃ والسلام کے فیض و برکت سے حصہ وافر حاصل کیا ، شوق تعلم قیامت تک پیدا ہونے والے متعلمین کے لئے اسوہ حسنہ ہے.۲۰ از اخویم مولوی شریف احمد صاحب امینی فاضل ( مبلغ مدراس) خاکسار کو استاذی المکرم حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شاگرد ہونے کا شرف دفخر حاصل ہے.خاکسار نے اپنے عرصہ تعلیم ۱۹۳۶ء تا ۱۹۳۹ء جامعہ احمدیہ قادیان میں آپ سے منطق وفلسفہ اور تفسیر کے علوم پڑھے.ان ایام میں حضرت مولانا صاحب موصوف جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے.جملہ
۳۹۵ شاگردوں کے ساتھ آپ کا نہایت ہی محبت و ہمدردی اور پدرانہ شفقت کا سلوک تھا.۱۹۳۸ء میں ہمارا امتحان ” مولوی فاضل“ قریب تھا.فلسفہ کا نصاب ختم نہ ہوا تھا.ہم نے آپ سے صورتِ حال عرض کی آپ نے بکمال شفقت ہماری درخواست کو قبول فرماتے ہوئے ہم کو زائد وقت دے کر پہلے مسجد مبارک میں اور بعد ازاں اپنے مکان پر کافی دنوں تک درس فلسفہ دیا جس سے ہم طلباء کو امتحان میں کافی مدد لی.کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ دوران سبق میں کوئی بات سمجھ نہ آئی تو جامعہ کا وقت ختم ہونے پر حاضر خدمت ہو کر اس مشکل بات کو مزید سمجھنے کی خواہش کی.آپ گھر کی طرف روانہ ہوتے تو خاکسار کو ہمراہ لیتے اور جامعہ احمدیہ سے شہر تک راستہ میں ہی درس کی مشکلات کو سمجھاتے.اور اس امر کو کبھی برا نہ مناتے بلکہ خوش ہوتے کہ درس میں دلچسپی لی گئی ہے اور شکوک کا ازالہ کروایا گیا ہے.۱۹۳۷ء میں محلہ دارالعلوم میں جامعہ احمدیہ کا ہوٹل نیا نیا قائم ہوا تو اس میں طلباء کے لئے بعض سہولتیں میسر نہ تھیں اور کچھ انتظامی خرابیاں بھی تھیں.ہم چند طلباء آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی مشکلات کو پیش کیا.آپ نے نہایت محبت و ہمدردی سے ہماری گزارشات کو سنا اور ہماری مشکلات اور انتظامی دقتوں کو رفع کرنے کے لئے فوری اقدام فرمایا.اور اس طرح ہم بچوں کو اپنی پدرانہ شفقت سے نوازا.خلافت اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی سے آپ کو والہانہ عقیدت تھی.حضور بھی آپ کا بے حد اعزاز و اکرام فرماتے.۱۹۳۷ء میں جب شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو ان کی خلافت سے عدم عقیدت بلکہ نا واجب الزامات اور غیر وفادارانہ سرگرمیوں کی وجہ سے جماعت سے خارج کیا گیا تو جامعہ احمدیہ میں ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس میں طلباء و اساتذہ کرام کی طرف سے شیخ مصری صاحب کی معاندانہ سرگرمیوں پر اظہار نفرت کرتے ہوئے ایک قرارداد پاس کی گئی.اس قرارداد کے بارے میں ایک پروفیسر صاحب نے قدرے تذبذب کا اظہار کیا تو آپ نے اور استاذی المکرم حضرت میر محمد اسحق صاحب نے غیرت دینی کی وجہ سے ان کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور طلباء نے بھی برملا اس پروفیسر کے رویہ سے برأت کا اظہار کیا.ہمارے یہ بزرگان کرام انتہائی کوشش فرماتے تھے کہ طلباء میں خدمت دین.پابندی نظام اور عقیدت واطاعت خلافت کا جذبہ خاص طور پر پیدا کیا جائے.کیونکہ مستقبل میں انہی نو جوانوں پر خدمت دین اور اشاعت اسلام کا فریضہ عائد ہونے والا ہے.۱۹۳۸ء میں خاکسار مولوی فاضل کے امتحان میں جامعہ احمدیہ میں اول اور پنجاب یونیورسٹی میں دوم آیا.نتیجہ کے وقت میں بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے کوارٹر میں محترم مولانا ملک سیف الرحمن صاحب فاضل ( حال مفتی سلسلہ ربوہ ) کے ہمراہ رہتا تھا.امتحان میں کامیاب ہونے کی خوشی میں ایک مختصر سی دعوت چائے کا انتظام
۳۹۶ کیا.چند بزرگوں اور دوستوں کو بغرض دعا مد عو کیا جن میں حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت میر محمد الحق صاحب بھی شامل تھے.میرے یہ دونوں بزرگ استاد میری درخواست پر غریب خانه پر تشریف لائے.کامیابی پر خوشی کا اظہار فرمایا.مبارک باد دی اور مزید علمی اور دینی ترقیات کے لئے دعا فرمائی.ان بزرگوں کی دعاؤں کی ہی برکت ہے کہ آج خاکسار کو خدمت دین کی توفیق وسعادت مل رہی ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء ماہ اپریل ۱۹۳۹ء میں خاکسار مبلغین کلاس کے آخری سال میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو معلوم ہوا کہ ہم سے سینئر طلباء کو جو آخری کلاس میں تعلیم قریباً مکمل کر چکے تھے.ان کی درخواست پر امتحان دینے کے لئے چھ ماہ کی مزید مہلت نظارت تعلیم وتربیت کی طرف سے مل گئی ہے اصولاً خاکسار کو ۱۹۴۰ء میں مبلغین کلاس کا آخری امتحان دینا تھا.مگر خاکسار نے اپنی عمر اور دیگر حالات کو دیکھتے ہوئے نظارت تعلیم وتربیت کی خدمت میں یہ درخواست دی کہ خاکسار کو بھی سینئر طلباء کے ساتھ اسی سال ماہ ستمبر میں امتحان میں شریک ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے.حضرت مولانا صاحب نے درخواست پر پُر زور سفارش کی.نظارت تعلیم نے ان کی سفارش کے پیش نظر استثنائی طور پر اجازت دے دی.جب جامعہ احمدیہ میں یہ اجازت موصول ہوئی تو حضرت مولانا موصوف نے خاکسار کو یاد فرمایا اور نہایت مسرت سے یہ خوش خبری سنائی اور ساتھ ہی فرمایا.اب میں ماہ مئی سے ریٹائر ہورہا ہوں.جامعہ احمدیہ میں میری یہ آخری سفارش تھی.مجھے خوشی ہے کہ یہ آپ کے حق میں منظور کر لی گئی ہے.آپ کے اس ہمدردانہ سلوک کا خاکسار کے دل پر ایک گہرا نقش باقی ہے.خاکسار نے اسی وقت آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کی کہ امتحان میں شرکت کی اجازت تو مل گئی ہے میرے لئے وقت کم اور نصاب زیادہ ہے.اس لئے آں مکرم خاکسار کی کامیابی کے لئے درد دل سے دعا فرمائیں.آپ نے اس وقت بھی دعا کی اور آئندہ بھی دعا کرنے کا وعدہ فرمایا.میں بھی بعد میں وقتا فوقتا دعا کے لئے عرض کرتا رہتا.ماہ ستمبر ۱۹۳۹ء میں یہ امتحان ہوا.بفضلہ تعالیٰ اور بزرگان کی دعاؤں کے برکت سے خاکسار اس امتحان میں نمایاں طور پر کامیاب ہوا.فالحمد للہ علی ذالک.خاکسار جب مبلغین کلاس میں تعلیم حاصل کرتا تھا تو ان ایام میں مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر استاذی المکرم حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے.ان سے بھی خاکسار کو شرف تلمذ حاصل ہے.ان کی مہربانی سے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں بطور ٹیوٹر کام کرتا تھا.جب مبلغین کلاس میں کامیابی کا نتیجہ شائع ہوا تو حضرت میر صاحب مرحوم نے خاکسار کو طلب فرمایا اور خواہش فرمائی کہ میں ان کے ماتحت مدرسہ احمدیہ میں بطور استاد کام کروں.میں نے ان کی خواہش کے احترام میں اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا.دودن میں ہی
۳۹۷ نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے مدرسہ احمدیہ میں میری تقرری کی منظوری آگئی اور خاکسار یکم نومبر۱۹۳۹ء سے وہاں بطور استاد کام کرنے لگا اور تقسیم ہند کے وقت یعنی اگست ۱۹۴۷ء تک اس خدمت پر مامور رہا.اس کے بعد تین سال تک مرکزی نظارتوں میں کام کرتا رہا اور ا۱۹۵ ء سے تبلیغ اسلام کے اہم فریضہ کی ادائیگی کی توفیق مل رہی ہے فالحمداللہ علی ذالک.چونکہ ہمارے دینی اور علمی پودہ کی آبیاری انہی بزرگوں کی فیض رسانی کا نتیجہ ہے اس لئے بارگاہ رب العزت میں دعا گو ہوں کہ وہ ہمارے ان بزرگان کرام کے مدارج کو بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں ان کے پاکیزہ نمونہ پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.۲۱- از محترم حکیم دین محمد صاحب پنشنرا کا ؤنٹنٹ مقیم دارالرحمت وسطی ربوہ ) حضرت مولانا بالفضل اولانا مولوی محمد سرور شاہ صاحب اپنے دستخط محمد سرور کے طور پر کرتے تھے اور سید سرور شاہ صاحب یا مولوی سرور شاہ صاحب آپ کا نام زبان زد خلائق تھا.آپ کو میں نے ۱۹۰۲ء میں قادیان میں دیکھا.مباحثہ مد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آپ کو بھجوانا اور بطور منشی مولوی عبداللہ صاحب کشمیری کو بھجوانا یاد ہے.مجھے آپ کی شاگردی کا فخر حاصل ہے.میں نے مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں نویں اور دسویں جماعت میں آپ سے عربی پڑھی.آپ نے ہمیں علم نحو کے نوٹ زبانی لکھوادئے تھے جن سے بغیر اعراب کے عربی عبارت پڑھنے کی قابلیت ہمیں حاصل ہو گئی تھی.اس وقت قادیان کے علماء بشمولیت حضرت خلیفتہ امسیح مولوی نورالدین صاحب آپ کو فاضل علوم عربیہ خاص طور پر ماہر علم خو تسلیم کرتے تھے.میں نے بچشم خود دیکھا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب.مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور مولوی محمد علی صاحب ایم.اے مسجد مبارک ابتدائی میں ( جبکہ ابھی وسیع نہیں کی گئی تھی ) حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب سے نحو کی کتاب سیبویہ جو علم نحو کے امام سیبویہ کی تصنیف ہے روزانہ پڑھا کرتے تھے.اس سے آپ کے تبحر علم کا اندازہ ہوتا ہے.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ حضرت میر محمد اسحق صاحب ابھی عہد طفولیت میں تھے اور حضرت حافظ روشن علی صاحب قرآن حفظ کرتے تھے ۱۹۰۵ء میں تعلیم الاسلام کا لج بنے پر آپ کو عربی کا پروفیسر بنا دیا گیا تھا.حضرت مولوی صاحب کی تقریر مدلل ہوتی تھی.گو آواز دھیمی تھی اور گر جدار تقریروں کے عادی تو نہیں البتہ علمی مذاق والا طبقہ اسے توجہ سے سنتا اور ذہن نشین کر لیتا تھا."
۳۹۸ آپ کے پہاڑی علاقہ کے لوگ شکاری ہوتے ہیں.آپ کے والد صاحب بھی شکاری تھے آپ بھی غلیل کے نشانچی تھے.چنانچہ ۱۹۰۳ء میں ایک دفعہ موسم گرما میں جبکہ غیر وسیع شدہ مسجد مبارک کے شہ نشین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس دربار شام میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جانب گوشہ جنوبی بیٹھے تھے تو سر شام ہی ایک چغد نے آپ کے سر پر جھپٹا مارا اور آپ کی ململ کی دوکی کی ٹوپی پنجہ میں پھنسا کرلے گیا.مجلس میں اس چغد کی جرات دیکھ کر سناٹا چھا گیا.دوسرے روز بوقت چاشت کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت محمد سرورشاہ صاحب کے دائیں ہاتھ میں غلیل ہے اور بائیں ہاتھ میں وہی ظالم چغد شکارشدہ لٹک رہا ہے اور حضرت سید صاحب اپنے خاص انداز میں مسکرا رہے ہیں اس چغد کا ٹھکانا دن کے وقت ایک بڑ کے درخت پر ہوتا تھا جو میرزا نظام الدین وامام الدین صاحبان والے مکان کے گیٹ کے باہر بائیں طرف کے چبوترہ پر تھا جو بعد میں کٹو ایا گیا اور وہاں پر چوک احمدیہ کی دکانیں بنائی گئیں.۱۹۰۳ء میں ایک دفعہ میرے والد صاحب نے اطلاع دی کہ میری والدہ صاحبہ بیمار ہیں میں دعا کرنے کے لئے بوقت تہجد مسجد مبارک میں پہنچا تو حضرت مولوی صاحب کو نہایت عاجزی اور توجہ الی اللہ کے ساتھ و تَبَبَّلُ إِلَيْهِ تَبْتِيلا A کے رنگ میں نوافل میں مشغول پایا.جب آپ نے سلام پھیرا تو مجھے دیکھ کر آپ مسکرائے اور میں نے والدہ صاحبہ کے لئے دعا کے لئے عرض کیا.اس زمانہ میں آپ کا معمول تھا کہ رات کا آخری حصہ مسجد مبارک میں نوافل کی ادائیگی میں گزارتے تھے.آپ کو میں نے ”شو“ یعنی تسموں والا بوٹ پہنتے دیکھا ہے آپ شو کے تسموں کو اتناڈھیلا رکھ کر باندھتے تھے کہ آپ کا پیر بوٹ میں سے بآسانی نکل سکے اور آسانی سے بوٹ پہنا جا سکے بار بار تسمے کھولنے باندھنے نہ پڑیں.آپ کے لباس میں سادگی تھی لیکن آپ اس بات کی پابندی رکھتے تھے کہ گھر سے باہر گھٹنوں سے نیچے تک لمبا کوٹ اور پگڑی زیب تن کئے بغیر نہ نکلتے تھے.آپ مہندی سے داڑھی مبارک رنگتے تھے.جوانی میں آپ کے گورے رنگ کے چہرے پر سکے بالوں والی داڑھی عجیب رنگ کی اور دلکش نظر آتی تھی.آپ شکل و شباہت سے ایک پر رعب بزرگ معلوم ہوتے تھے لیکن گفتگو کے وقت آپ کی شیریں کلامی ہر ایک کا دل موہ لیتی تھی.آپ کا جذبہ حیا اس امر سے ظاہر ہے کہ آپ سے میں نے سنا کہ آپ بند غسل خانہ میں بھی دھوتی باندھ کر فسل کرتے تھے.اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ حضرت سید صاحب پر تا قیامت اس کی رحمت کی بارش ہو اور آپ کا رفع اعلیٰ علیین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہو اور آپ کے شاگردان رشید اور اولا دعزیز کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ سلسلہ کی خدمت کی توفیق دے اور نظام سلسلہ اور خلافت کے نور سے منور کرے.آمین.
۳۹۹ -۲۲ از استاذی المکرم مولا نا ارجمند خان صاحب فاضل سابق وائس پرنسپل جامعہ احمدیہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذكر وامواتكم بالخير 9 کے مطابق استاذی المکرم حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے متعلق کچھ تاثرات درج ذیل کرتا ہوں.1911ء میں راقم الحروف پشاور شہر کے ایک عربی مدرسہ میں تعلیم پارہا تھا.اس دوران میں مکرمی جناب صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب احمدی سکنہ بازید خیل ( جو شہر پشاور سے چار میل پر واقع ہے ) کے ساتھ احمدیت کے متعلق گفتگو اور سوال وجواب کا سلسلہ کچھ مدت جاری رہا.آخر کار صاحبزادہ موصوف کی ترغیب پر میں قادیان میں اس جلسہ سالانہ پر حاضر ہوا جو بجائے دسمبر کے مارچ کے آخر یا اپریل کے ابتداء میں منعقد ہوا تھا.صاحبزادہ صاحب موصوف بھی اس جلسہ سالانہ پر قادیان میں موجود تھے.ان کی ملاقات اور تبلیغ بلیغ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفتہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور بیعت کے وقت صاحبزادہ موصوف کے علاوہ کا بل سے آمدہ بعض دوست بھی شریک بیعت تھے.اس وقت میں نے صاحبزادہ صاحب سے عرض کیا کہ میں ایک دو ماہ قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ٹھہر نا چاہتا ہوں.چنانچہ ان کی درخواست اور سفارش پر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب سے تحصیل علم کی سعادت نصیب ہوئی.میں نے آپ سے کتاب ” شرح عقائد نسفی “ پڑھنا شروع کی.میں اس وقت اردو زبان سے ناواقف تھا.آپ نہایت شفقت سے پڑھاتے اور فارسی زبان میں اچھی طرح سمجھاتے تھے.عام طور پر رسالہ تفخیذ الا ذہان کا دفتر پڑھانے کے لئے مقرر تھا لیکن بعض اوقات اگر خاکسار کی طرف سے کچھ دیر ہو جاتی تو حضرت مولانا از راه رحمت خود مہمان خانہ میں پڑھانے کے لئے تشریف لے آتے.جہاں خاکسار مقیم تھا.اللہ اللہ ! کیا بے نفسی کیا للہیت اور کیا شفقت تھی جو آپ کو اپنے ایک ادنیٰ غریب الوطن شاگرد کے ساتھ تھی.اس کیفیت کی یاد سے اب بھی دل میں ایک سرور کی حالت پیدا ہوتی ہے.دار الامان میں دوماہ گزار کر حضرت مولانا صاحب کی اجازت سے میں پشاور چلا گیا اور چند روز کے بعد صاحبزادہ صاحب کے گاؤں بازید خیل میں پہنچا اور ان سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا کہ اب میرا پڑھنا پیشاور والے مدرسہ میں بہت مشکل ہے.اگر میں اب احمدیت کا اظہار کرتا ہوں تو مدرسہ والے مجھ کو کا فرسمجھ کر داخل نہیں ہونے دیتے.اور اگر احمدیت کے عقیدہ کو چھپاتا ہوں تو یہ بزدلی میں برداشت نہیں کر سکتا.اس لئے آپ
Y مجھے مشورہ دیں کہ اب میں کیا کروں.اور حصول علم کی مرغوب خواہش کو کس طرح جاری رکھوں ورنہ پھر اپنے وطن ( جو سرحد پار کے آزاد قبائل میں سے مہمند کا آزاد قبیلہ ہے ) بادلِ نا خواستہ واپس چلا جاؤں.مکرم صاحبزادہ صاحب نے جو میرے استاد بھی ہیں تسلی دی کہ آپ صبر کریں اور دعا کریں.اللہ تعالیٰ اس پریشانی کو دور فرمائے گا کیونکہ وہ صادقوں کو ضائع نہیں کرتا.تین دن بعد حضرت مولانا صاحب کا ایک مکتوب صاحبزادہ صاحب کے نام قادیان سے آیا کہ افسر نگران اعلی مدرسہ احمدیہ ) حضرت میاں صاحب ( یعنی حضرت مرزا محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) نے فرمایا ہے کہ اپنے بھائی (یعنی خاکسار ) کو قادیان واپس بھیج دیں ہم ان کی تعلیم اور اخراجات کا انتظام کریں گے.صاحبزادہ صاحب موصوف نے خاکسار کو مبارک باد دی اور فرمایا کہ کارساز خدا تعالیٰ نے آپ کی پریشانی اور فکر مندی کو اپنے فضل وکرم سے دور فرما دیا ہے اور اب دار الامان میں پاک زندگی گزارنے کا موقع عطا فرمایا ہے.چنانچہ نہایت تسلی کے عالم میں ایک ماہ بعد واپس قادیان آیا اور مدرسہ احمدیہ کی جماعت سوم میں داخلہ لیا.اس وقت خاکسار کی عمر قریباً اٹھارہ سال کی تھی.اگر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت جناب صاحبزادہ صاحب کے طفیل مجھے نصیب ہوئی تھی تو مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے کی برکت حضرت مولانا صاحب کی باپ جیسی مشفقانہ اور ہمدردانہ توجہ سے حاصل ہوئی.حضرت مولانا صاحب کی شفقت اور اعلیٰ تربیت کے طفیل اور حضرت خلیفتہ المسیح اول اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی صحبتوں اور ذرہ نوازیوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اخلاقی اصلاح اور علمی ترقی کی توفیق عطا فرمائی.جب میں ۱۹۱۶ء میں مدرسہ احمدیہ کی جماعت ہفتم سے فارغ ہوا ( اور یہ سعادت اس سال اپنی جماعت میں صرف خاکسار کو نصیب ہوئی تھی) اس وقت مدرسہ احمدیہ کے ساتھ مولوی فاضل کلاس کا الحاق نہیں ہوا تھا اس لئے مولوی فاضل پاس کرنے کے لئے مجبور لا ہور اور مینٹل کالج میں داخل ہو گیا.چونکہ اس وقت ایک دو طالب علم سابق صوبہ سرحد کی احمد یہ بلڈنکس میں رہتے تھے جو جناب مولوی محمدعلی صاحب کے معتقد تھے اور وہ طالب علم میرے واقف تھے ان کی تحریک پر میں نے احمد یہ بلڈنگس میں مولوی فاضل کے امتحان تک رہائش اختیار کی اور اور مینٹل کالج کی طرف سے مجھ کو کچھ وظیفہ بھی ملتا تھا جس سے میرا گزارہ ہوتا تھا.اس وقت اگر چہ میں الگ تھلگ رہتا تھا اور امتحان کی تیاری کی وجہ سے وہاں بڑے لوگوں سے ملنے کا موقع نہیں ملتا تھا لیکن بالآخر انہوں نے مراسم پیدا کرنے کی کوشش کی.مولوی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب میری دعوتیں بھی کرتے اور میری درخواست دینے کے بغیر از خود معقول وظیفہ انجمن اشاعتِ اسلام نے مشروط طور
لد ۱۰ پر منظور کیا لیکن میں نے اس وظیفہ کو قبول کرنے سے انکار کیا.پھر ایک موقع پر تصنیف مولوی محمد علی صاحب النبوة فی الاسلام مجھ کو بطور تحفہ دی گئی.حسن اتفاق سے احمد یہ بلڈنگ کے قریب ایک مخلص مبائع طالب علم رہتا تھا جو اکثر اوقات میرے پاس آیا کرتا تھا.اس وقت مجھے ان کا نام یاد نہیں ان کو ان حالات کا علم تھا.وہ کسی کام کے لئے ان دنوں قادیان گیا.اور باتوں باتوں میں حضرت مولانا صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سامنے میرے متعلق ان حالات کا ذکر کیا.ان ہر دو بزرگوں کو ی فکر دامنگیر ہوئی کہ کہیں یہ ہمارا تربیت یافتہ عزیز کسی لالچ سے لغزش نہ کھا جائے.حضرت مفتی صاحب کی طرف سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تصنیف ” حقیقتہ النبوۃ اور حضرت مولانا کی طرف سے درد مند نصائح سے پر مکتوب گرامی ملے.اگر چہ میرا دل مطمئن اور حقانیت خلافت پر مضبوطی سے قائم تھا.لیکن پھر میں نے ان بزرگوں کی خواہش کے مطابق اپنے ایمان کی سلامتی کو مدنظر رکھ کر احمد یہ بلڈنگس سے نقل مکانی کا ارادہ کیا اور چونکہ حضرت مولانا صاحب نے یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ آپ قادیان آجائیں.ہم نے اب مدرسہ احمدیہ کے ساتھ مولوی فاضل کلاس کو ملحق کر لیا ہے.اور دو تین طالب علم اس میں داخل بھی ہو گئے ہیں اس طرح ان بزرگوں نے میرے ایمان کی حفاظت کی نہایت مشفقانہ کوشش کی.ایک ہفتہ کے اندر اندر خاکسار قادیان دارالامان چلا آیا اور جماعت مولوی فاضل میں داخل ہو گیا.یہ ۱۹۱۷ء کی بات ہے.اس وقت مولوی فاضل کلاس میں جو طالب علم پڑھتے تھے وہ صاحب غرض قسم کے تھے جب ان کا داخلہ یونیورسٹی کو بھجوایا گیا اور ان کو یقین ہو گیا کہ اب ہم لاہور جا کر امتحان مولوی فاضل میں شریک ہوسکیں گے تو وہ فرار ہو گئے اور پتہ نہیں لگا کہ کہاں چلے گئے.امتحان کے ایام میں وہ تینوں مجھے کو لاہور میں ملے.میں نے ان کو شرمندہ کیا خدا کی قدرت وہ تینوں بے وفاء اس سال امتحان مولوی فاضل میں فیل ہو گئے.امتحان کے بعد میں نتیجہ کے انتظار میں مہمان خانہ میں اقامت پذیر تھا ان دنوں میں بعارضہ بخار بیمار پڑا ہوا تھا کہ اچانک لاہور سے کسی دوست کا کارڈ میرے نام مدرسہ احمدیہ میں آیا.کسی طالب علم نے وہ کارڈ پڑھ لیا اور چونکہ اس خط میں میری کامیابی کا ذکر تھا.حضرت مولانا کو جو مدرسہ میں پڑھا رہے تھے، خط دکھایا تو اپنے ایک شاگرد کی کامیابی کی خوشی میں سرشار ہو کر اپنے عمامہ کو میز پر چھوڑ کر ننگے سر چند طلباء کی معیت میں خاکسار کے پاس از راہ محبت و شفقت کمرہ میں اچانک تشریف لے آئے اور محبت آمیز لہجہ میں مبارک باد دی کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو گئے ہیں.ایک طرف تو خدا تعالیٰ کے فضل واحسان کے جذ بہ سے متاثر ہو کر اور دوسری طرف باپ سے بڑھ کر ایک مہربان بزرگ استاد کی شفقت کا نظارہ ہمدردی دیکھ کر میری آنکھیں پرنم
۴۰۲ ہو گئیں.آپ کی شفقت کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس موزوں الفاظ نہیں.جب آپ کسی شاگرد میں اپنی صحیح فراست کی بناء پر کوئی قابلیت ار علمی صلاحیت محسوس کرتے ہیں تو اس کی بڑی قدردانی اور حوصلہ افزائی فرماتے.چنانچہ جون ۱۹۱۸ء میں میری درخواست کے بغیر سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت بابرکت میں آپ نے سفارش فرمائی کہ اس عاجز کو مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ کرام کے پاک زمرہ میں شامل فرمایا جائے.چنانچہ حضور کے ارشاد پر مدرسہ احمدیہ میں مدرسہ کی خدمت پر میں مامور ہوا اور بائیس روپے میرا مشاہرہ منظور ہوا.اس وقت دیگر مدارس میں گریڈ پینتیس روپے سے شروع ہوتا تھا.میں نے مولانا صاحب سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے مجھے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ جب میں احمدی ہوا تو میں مشن کالج پشاور میں سوروپیہ کا ملازم تھا.مگر میں نے یہ ملازمت ترک کر کے قادیان میں مدرسہ تعلیم الاسلام کی چودہ روپیہ ماہوار کی نوکری نہایت بشاشت سے قبول کر لی کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ مرکز سے وابستہ ہونے کے مقابل روپے کی حیثیت ہی کیا ہے مجھے گھر کے اخراجات کا کبھی فکر نہیں ہوا.چنانچہ حضرت مولانا صاحب کی اس نصیحت کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ پھر مجھے کسی اور ملازمت کا خیال ہی پیدا نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ نے بھی میری تنخواہ میں اتنی برکت ڈالی کہ میں نے قادیان میں اپنا مکان بھی تعمیر کر لیا اور جب عرصہ تک پہلی شادی سے اولاد نہ ہوئی تو دوسری شادی کی توفیق بھی پائی اور اولاد ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے تمام اخراجات کا کفیل ہوا.فالحمد اللہ علی ذالک.خاکسار ۱۹۲۹ء میں اساتذہ کرام خصوصاً حضرت مولانا صاحب کی شفقت و تربیت کی برکت سے مدرسہ احمدیہ سے جامعہ احمدیہ میں بطور ترقی تبدیل ہوا.آپ اس وقت پرنسپل تھے.دیگر سینئر اساتذہ کے موجود ہونے کے باوجود کئی امور میں آپ کی نظر انتخاب مجھ پر پڑی اور آپ نے میری معمولی علمی صلاحیت کی قدردانی فرمائی جو میری علمی ترقی کا باعث ہوئی.نومبر ۱۹۳۲ء میں جامعہ احمدیہ سے ایک کامیاب تفریحی اور تبلیغی وفد قادیان سے روانہ ہوکر متعدد شہروں میں دورہ کر کے علی گڑھ گیا تھا اور اس وقت سلسلہ احمدیہ کے اکثر کامیاب مبلغین اس وفد میں شامل تھے.مفصل حالات الفضل اور رسالہ ”جامعہ احمدیہ دسمبر ۱۹۳۲ء میں چھپ چکے ہیں ) حضرت مولانا صاحب نے اس ادنی شاگرد کو از راہ ذرہ نوازی حضرت سیدنا خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے اس اہم وفد کا نگران اعلیٰ مقررفرمایا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل اور آپ کی دعاؤں اور حسن ظنی کی برکت سے اس وفد کا دورہ گوناگوں برکتوں اور تبلیغی تجربوں کا باعث ثابت ہوا تھا.الغرض حضرت مولانا صاحب صاحب علم اور صاحب فراست تھے اور آپ اپنے کسی شاگرد کی معمولی صلاحیت کے بھی قدردان ہوتے تھے جس سے وہ شاگرد
۴۰۳ حوصلہ پا کر اپنی علمی اور اخلاقی ترقی میں قدم آگے بڑھاتا چلا جاتا تھا.آپ کی طبیعت میں بے حد نرمی تھی اور آپ اپنی اولاد کے لئے تو مجسم محبت تھے.ماہ اگست ۱۹۲۸ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن مجید کا درس دینا شروع فرمایا تھا جس میں احباب قادیان کے علاوہ سینکڑوں قرآن کے شیدائی قادیان کے بیرون سے آکر بھی شامل ہوتے تھے.حضور سامعین سے روزانہ امتحان بھی لیا کرتے تھے.دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے بحکم سیدنا ޏ حضرت صاحب زود نویسوں اور علماء کی جماعت متعین ہوئی تھی کہ وہ حضرت اقدس کے بیان فرمودہ درس - نوٹ لیا کریں اور وہ کا پیاں آئندہ کے لئے محفوظ رکھی جائیں.ان کا پی نویسوں میں حضرت مولانا صاحب شامل تھے اور خاکسار کو بھی اس جماعت میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا تھا اور غالبا وہ کا پیاں اب تک محفوظ ہوں گی.چونکہ حضرت مولانا صاحب آہستہ آہستہ لکھا کرتے تھے اور تیز لکھنے کی عادت اور مشق نہ تھی.ایک دفعہ میں نے اختتام درس پر حضرت مولانا صاحب سے عرض کیا کہ آپ لکھنے کی توفیق کیوں اٹھاتے ہیں آپ کو قرآن مجید کے علوم سے واقفیت اور پورا عبور حاصل ہے.آپ نے جواباً فرمایا ایک تو میں حضرت صاحب کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں دوم یہ کہ اگر چہ میں حضور کو خلافت سے قبل پڑھا تا رہا ہوں لیکن منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ پر معارف اور حقائق قرآنیہ کا ایسا دروازہ کھولا ہے کہ میر افہم ان علوم سے قاصر تھا اور اب میں حضور کا شاگرد ہوں ، استاد نہیں ہوں.مسجد مبارک میں نماز ظہر یا نماز عصر کے بعد جب حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تشریف فرما ہوتے تو حضور کے پُر مغز اور پُر معارف کلام کو سننے کے لئے سامعین مؤدبانہ طور پر ہمہ تن گوش ہوتے تھے اور حضرت مولانا صاحب کی یہ عادت تھی کہ آپ کے ہاتھ میں رومال ہوتا تھا جس سے کسی مکھی کو آپ حضور کے جسم مبارک پر نہیں بیٹھنے دیتے تھے.اس سے مجھ پر یہ اثر تھا کہ آپ کو منصب خلافت کی عظمت کا بہت خیال ہے.اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم بھی آپ کے اس نیک نمونہ سے سبق حاصل کریں.آپ کا تعلیمی طریق بالکل نرالا تھا.آپ پڑھاتے وقت ہمیشہ سبق زیر بحث کے متعلق ضرور بلا ناغہ کچھ واقعات یا اپنے تجربات بیان فرمایا کرتے تھے گو اس سے درسی کتب کے پڑھانے کی رفتار میں کمی واقع ہوئی تھی اور بعض طلباء تو مؤدبانہ طور پر عرض خدمت بھی کرتے تھے کہ آج بجائے چار صفحات کے صرف دو صفحے پڑھے گئے.لیکن ایک لمبے تجربہ کی بناء پر خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ طریقہ تعلیم طلبہ کے لئے غیر شعوری طور پر بہت مفید تھا.کیونکہ جس سبق کی تقریب اور مناسب تعلق کی وجہ سے واقعات اور ذاتی تجربات کا ذکر ہوتا تھا اس سے
۴۰۴ سبق کا ایک گونہ تجز یہ ہوتا تھا اور وہ پورے طور پر ذہن نشین ہو جاتا تھا اور اس طرح طلباء میں خود اعتمادی اور وسعت نظر کا ملکہ پیدا ہوتا تھا.جب میری پہلی شادی پر پندرہ سال گزر گئے اور کوئی اولاد نہ ہوئی تو آپ نے خاکسار کو نکاح ثانی کا مشورہ دیا اور ایک جگہ دعا کے ساتھ تحریک بھی فرمائی اور بعد ازاں محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ( سابق حج ہائی کورٹ مغربی پاکستان ) کی سعی بلیغ کی برکت سے کامیابی ہوئی اور خاکسار کی خواہش پر حضرت مولانا صاحب ایک شفیق باپ کے رنگ میں میرے ساتھ پشاور تشریف لے گئے.نکاح پڑھا اور لنڈی کوتل کی سیر بھی کی اور بعد رخصتانہ ہمراہ مراجعت فرما ہوئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسری اہلیہ کے بطن سے خاکسار کو الیسی اولا د عطا ہوئی جو ہمارے لئے قرۃ العین ثابت ہوئی.آپ کو ہر علم میں مہارت تامہ اور تبحر حاصل تھا.اگر قرآن مجید اور حدیث شریف کے متعلق کوئی بات دریافت کی جاتی یا صرف و نحو یا فصاحت و بلاغت کے متعلق کوئی بحث ہوتی یا منطق و فلسفہ کا پیچیدہ مسئلہ بیان کیا جاتا تو ہر ایک فن کے متعلق آپ کی وسعت معلومات اور حسنِ مہارت کی داد دینی پڑتی.مناظرہ مد کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عربی اشعار اور وہ دلآویز اشعار جن میں حضور نے حضرت مولانا صاحب کی تعریف و توصیف فرمائی ہے اور آپ کی وسعت علمی پر مہر تصدیق ثبت کی ہے، قیامت تک آپ کے لئے باعث صد افتخار رہیں گے.آپ کی روحانی اولاد لائق شاگردوں کی شکل میں باقیات صالحات ہیں جن کا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا.اللہ تعالیٰ آپ کو اعلی علیین میں بلند درجات عطا فرمائے.آمین.از مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمد یہ وناظر اعلی قادیان میں ۱۹۰۴ء یا ۱۹۰۵ء میں قادیان میں تعلیم پانے کے لئے آیا تھا.اس وقت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مدرسہ تعلیم الاسلام میں مدرس تھے اور پندرہ روپے یا اس کے قریب مشاہرہ پاتے تھے.ان دنوں قرآن مجید.حدیث اور عربی کے مضامین چوتھی جماعت سے شروع ہو جاتے تھے.پرائمری یعنی پانچویں درجہ تک مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری یہ مضامین پڑھاتے تھے اور اس سے اوپر کی جماعتوں کو حضرت مولوی صاحب.انتظامی طور پر مڈل تک کے ہیڈ ماسٹر حضرت مفتی محمد صادق صاحب تھے اور اعلیٰ جماعتوں کے حضرت مولوی شیر علی صاحب.اس وقت بورڈنگ میں حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی سپر نٹنڈنٹ تھے لیکن بعد میں حضرت
۴۰۵ مولوی سید سرور محمد شاہ صاحب مقرر ہو گئے تھے اور اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی بطور نائب یا کلرک کے متعین تھے.ان دنوں دور دور سے احمدیوں کے بچے پڑھنے کے لئے آتے تھے.چنانچہ حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب کے دو بچے ممتاز علی خان صاحب، ہادی علی خان صاحب بھی ریاست رامپور (یو پی) سے آکر زیر تعلیم تھے اور بورڈنگ میں داخل تھے گرمیوں کا موسم تھا.ڈھاب خوب بھری ہوئی تھی.ہمیں حضرت مولوی سرورشاہ صاحب نے اس میں نہانے کی اجازت نہ دی.گو ہم لوگ لنگر لنگوٹ باندھ کر تیار تھے لیکن بوجہ عدم اجازت مجبور تھے.اس اثناء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) اپنی کشتی لے کر سیر کرنے کی نیت سے بورڈنگ کی طرف آگئے اور بعض اپنے دوستوں کو باری باری کشتی پر سیر کرانے لگے.اسی اثناء میں میں کا تب سے تفخیذ الاذہان کی کتابت شدہ کاپی لے کر صاحبزادہ صاحب کے پاس آیا تو آپ کشتی سے اتر کر کاپی دیکھنے لگے.موقع غنیمت جان کر بہت سے لڑکے کشتی میں سوار ہو گئے اور باوجود منع کرنے کے نہ اترے ان میں ہادی علی خان صاحب بھی تھے.جب کشتی تھوڑی دور گئی تو ڈولنے لگی اور لڑکے گھبرائے.جب اس کی ایک طرف نیچی ہوتی تو اس کی دوسری طرف سب لڑکے بوجھ ڈال دیتے.اس طرح کرتے کرتے وہ الٹ گئی ان میں سے بعض لڑکے مثلاً ہادی علی خان صاحب و شیخ عبد الرحمن صاحب مرحوم برا در کلاں حکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم رئیس التبلیغ مغربی افریقہ اور ایک پہاڑی لڑکا عبدالجبار نام بھی تھے.جو نہی کشتی ڈوبی ہم سب نے ڈھاب میں چھلانگیں لگا دیں تاکہ ڈوبنے والوں کو نکالیں.چنانچہ شیخ عبدالرحمن صاحب کو ڈاکٹر فضل الدین صاحب یوگنڈا ( مشرقی افریقہ ) والوں نے اور ہادی علی خان صاحب کو مولوی محمد سرور شاہ صاحب نے نکالا اور عبدالجبار بڑا مضبوط تھا جو اس کو ہاتھ لگا تا اس کو بھی ساتھ لے کر ڈوب جاتا تھا.اس لئے اس کی طرف کوئی جرات نہ کرتا.آخر ابوسعید عرب صاحب نے ایک شہتیری پانی میں ڈال کر حکمت عملی سے اس کو پکڑا کر اس کے سہارے اس کو نکالا.آخر کار حضرت مسیح موعود نے اس حادثہ کی تحقیقات کروائی اور مولوی غلام حسین صاحب پشاوری ( پسر حضرت میاں محمد یوسف صاحب مرحوم مقیم مردان ) کی غلطی ثابت ہوئی اور حضور نے انہیں معاف کر دیا.رض مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب کا بیان الحکم ۳۸-۲-۲۸ میں شائع ہوا تھا اس میں مرقوم ہے کہ پروف دیکھنے کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب کشتی سے اترے تو بعض بچے اس میں سوار ہو گئے اور ایک طالب علم نے ان کو ڈرانے کے لئے کشتی کو ہلایا تو وہ ڈوب گئی.حضرت مولوی سرورشاہ صاحب کو پتہ لگا تو وہ بھی نیز تیراک لڑکے بھی ڈھاب میں کود پڑے اور بچوں کو نکالا.(صفحہ ۵)
۴۰۶ ایک دفعہ حضرت مفتی صاحب نے حکم جاری کر دیا کہ جس زبان کی گھنٹی ہوطلبہ اسی زبان میں گفتگو کریں اس وقت میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا.سبق حدیث یاد نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں مولوی عبداللہ صاحب نے حضرت مفتی صاحب ہیڈ ماسٹر کے پاس پیش ہونے کے لئے مانیٹر کے ساتھ بھیج دیا.چونکہ گھنٹی عربی کی تھی.حکم کے باعث وہ عربی بولنے پر مجبور تھا.اس نے بجائے ” قال قال مولوی عبد اللہ “ کے کہا.” کالا.کالا مولوی عبداللہ.اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا.کیونکہ پانچویں جماعت پرائمری کے طالب علم کے لئے عربی میں گفتگو کرنا مشکل تھا.مولوی عبداللہ صاحب کا رنگ بھی کشمیریوں کی طرح سفید نہ تھا.مفتی صاحب کالا کالا کا لفظ سن کر ہنس پڑے اور ساتھ ہی لڑکے بھی ہنس پڑے اور آپ نے یہ کہہ کر معافی دے دی کہ آئندہ شکایت نہ آئے.میں حضرت مولوی صاحب کو اس وقت سے جانتا ہوں جب آپ گلی اکال گڑھ میں ایک سکھ کے مکان میں بطور کرایہ دار ہائش رکھتے تھے.اس کے بعد مجھ کو اور بعض دوسرے طلباء کو دینیات کی کلاس کی طرف منتقل کر دیا گیا اور حضرت مولوی صاحب ہمارے انچارج مقرر ہوئے ایک یا دوسال تک یہ کلاس جاری رہی جو انتظامی طور پر ہیڈ ماسٹر مدرسہ تعلیم الاسلام کے ماتحت تھی.اس اثناء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی اور دینیات کی کلاس مدرسہ احمدیہ میں تبدیل ہوگئی اور افسر مدرسہ احمدیہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) مقرر ہوئے.چنانچہ میں نے جو علم بھی حاصل کیا وہ قریباً سارا صرف حضرت مولوی صاحب اور حضرت قاضی امیر حسین صاحب سے حاصل کیا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد حضور کی یادگار میں مدرسہ احمدیہ کو مدرسہ تعلیم الاسلام سے علیحدہ کر دیا گیا اور بورڈنگ بھی علیحدہ علیحدہ کر دئے گئے تو مدرسہ احمدیہ کے افسر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مقرر ہوئے اس وقت مدرسہ تعلیم الاسلام کے ہیڈ ماسٹر مولوی صدرالدین صاحب ( حال امیر غیر مبائعین ) تھے اور مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر حضرت مولوی سید محمد سرورشاہ صاحب تھے.دونوں سکول شہر میں تھے.حضرت صاحبزادہ اس وقت صدر انجمن احمدیہ کے صدر بھی تھے اور میں مدرسہ احمدیہ کے ابتدائی داخل ہونے والوں میں سے تھا میں دیکھتا تھا کہ وہ تمام ذمہ دار افراد جو بعد میں غیر مبائع ہو گئے وہ ایسی ایسی باتیں کرتے رہتے تھے جن کے نتیجے میں علماء بھر نہ سکیں اور مدرسہ احمدیہ کے وجود کو بھی اچھی نظروں سے نہ دیکھتے تھے.چنانچہ مولوی صدر الدین صاحب کا وطیرہ یہ تھا کہ وہ مدرسہ احمدیہ کے طلباء اور اسا تذہ کو بدنام کرنے کی تدابیر سوچتے رہتے تھے.جب مدرسہ تعلیم الاسلام کا بورڈنگ باہر چلا گیا تو دونوں مدر سے اور بورڈنگ مدرسہ احمدیہ شہر میں ہی تھے مولوی صدرالدین صاحب اور ان کے ہمنواؤں کا یہ طریقہ تھا
۴۰۷ کہ دونوں سکولوں کے طلباء آپس میں نہ ملیں.لیکن مطلب کے وقت خود اور دیگر اساتذہ کے ذریعہ مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو خود بلواتے اور ان سے اپنی غرض پوری کرنے کے بعد پھر ان کو بری نظروں سے دیکھنے لگ جاتے مثلاً جب ٹورنامنٹ کے دن قریب آتے اور اس وقت ٹیموں کو پریکٹس کرانی ضروری ہوتی تو چونکہ مدرسہ احمدیہ کے طلباء عام طور پر فٹ بال اور ہاکی میں ہائی سکول کے طلباء سے بہتر کھلاڑی تھے.مولوی صدرالدین صاحب میرے پاس اور دوسرے طلباء کے پاس آتے اور ہمیں کھیلنے کی تلقین کرتے اور انچارج گیمز وغیرہ دیگر اساتذہ کے ذریعہ ہماری آؤ بھگت کرتے لیکن جب وہ وقت گزر جاتا.تو اپنے لڑکوں کو ہمارے ساتھ بولنے تک سے روک دیتے.ایک دفعہ باہر بورڈنگ میں محض مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے لئے انہوں نے یہ حکم دے دیا کہ کوئی غیر بورڈنگ میں نہ آئے.لیکن چونکہ مدرسہ تعلیم الاسلام ابھی شہر میں ہی تھا.اس کے طلباء اور اساتذہ بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں خالی گھنٹی وغیرہ میں آرام کرتے اور اس طرح ہماری کئی اشیاء وغیرہ کا نقصان ہوتا.جس کے متعلق ہم حضرت صاحبزادہ صاحب اور حضرت مولوی صاحب کو وقتا فوقتا اطلاع دیتے رہتے.چنانچہ ہم نے بھی ایک بورڈ لکھ کر لگا دیا کہ کوئی غیر بورڈر بورڈنگ میں داخل نہ ہو.برادرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے جو اس وقت مدرسہ احمدیہ کے طالب علم تھے.مولوی صدرالدین صاحب کو کہا کہ یہ اعلان آپ لوگوں کے لئے ہے.اس پر ان کو غصہ آیا اور انہوں نے صاحبزادہ صاحب کو کہا کہ دونوں مدارس کو جمع کر کے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.چنانچہ انہوں نے ایک طویل تقریر میں کہا کہ میں طلباء کی اصلاح کے مدنظر حکم دیا تھا کہ غیر بورڈ رنہ آویں اور مدرسہ احمدیہ کی اعلیٰ جماعتوں کے طلبا کے (بشمول میرے ) نام لے کر کہا کہ ان کے حالات اچھے نہ تھے.ان کی آمد ورفت بند کرنا مقصود تھا اور میرے اس حکم کے رد عمل میں یہ بورڈ لگا یا گیا ہے جس سے ایک نفاق وانشقاق اور تعلقات کو خراب کرنے کی طرح ڈالی گئی ہے وغیرہ وغیرہ.اس پر حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے بڑے جوش سے تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سب کچھ مدرسہ احمدیہ اور اس کے طلباء کو بدنام کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے ان کے بیسیوں لڑ کے قابل اصلاح ہیں.اس کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب افسر مدرسہ احمدیہ نے اپنی تقریر میں بلایا کہ یہ سب کچھ میرے حکم و منشاء کے ماتحت ہوا ہے نہ کہ انشقاق کی خاطر.حضرت مولوی صاحب کا سلوک میرے ساتھ تو زندگی بھر مشفق باپ جیسا رہا.اگر آپ کسی وقت ناراض بھی ہوتے تو اس میں بھی میری بہتری مدنظر ہوتی تھی اور مجھے یاد نہیں کہ اگر وقتی طور پر آپ ناراض بھی ہوتے تو اول تو اسی روز ور نہ دوسرے دن ناراضگی کا ازالہ نہ کر دیتے.
۴۰۸ ۲۴- از لالہ دھرت رام صاحب سابق ملازم میونسپل کمیٹی قادیان میرا ایک بیٹا مدراس کے علاقے میں انجینئر ہے میں نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں مدرسہ تعلیم الاسلام میں تعلیم حاصل کی.ہم نے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب سے دینیات پڑھی.آپ کا علم کیا تھا بحر بیکراں تھا.سال بھر بسم اللہ کی تفسیر کرتے رہیں تو بھی ختم نہ ہو.آپ غیر مسلم طلباء سے بھی نہایت محبت سے پیش آتے تھے نہایت کم گو تھے اور عام باتوں سے واسطہ نہیں رکھتے تھے.۲۵.آپ کے نواسے اخویم سید مسعود مبارک شاہ صاحب خلف حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں جب بھی حضرت نانا جان کے گھر جاتا آپ مجھے مٹھائی وغیرہ ضرور دیتے.میرے علم طفولیت کے بعد بھی آپ کا یہ مشفقانہ اور بزرگانہ سلوک برابر جاری رہا حتی کہ میری شادی بھی ہو چکی تھی.آپ جب بھی ملتے ضرور کچھ نہ کچھ دیتے.بازار میں بھی ملاقات ہو جاتی تو دور سے دیکھ کر جیب میں ہاتھ ڈال لیتے اور بٹوہ نکال کر مصافحہ کرتے اور کچھ رقم عنایت فرماتے.مجھے والد صاحب مرحوم نے کئی بار سنایا کہ میری والدہ صاحبہ مرحومہ جب بھی حضرت مولوی صاحب کے کمرے میں کسی کام کے لئے جائیں.آپ کھڑے ہو جاتے حالانکہ آپ باپ تھے میں نے آپ کی والدہ سے اس کا سبب پوچھا تو کہنے لگیں کہ میں نے ابا جی کو کئی بار کہا ہے کہ آپ کیوں کھڑے ہوتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ اولا د جب بڑی ہو جائے تو والدین پر لازم ہے کہ ان کی عزت کریں.گویا اگر موا اولادکم کے ارشاد نبوی پر آپ پوری طرح عامل تھے.۱- از اخویم مولوی محمد بیبین صاحب سابق محر ر ضیافت.حال مقیم ربوہ لنگر جلسہ سالانہ اور سٹور جلسہ قادیان کی ملازمت کے تعلق میں میں نظارت ضیافت سے منسلک تھا.سٹور بالآخر منتقل ہوتے ہوتے سابق زنانہ جلسہ گاہ کی عمارت میں آگیا اور پھر ۱۹۳۶ء میں جلسہ سالانہ کا اندرونِ شہر کا لنگر بھی اسی احاطہ میں تعمیر ہو گیا.میں ۱۹۳۴ء سے ۴۶.۱۹۴۵ء تک کے عرصہ کا عینی شاہد ہوں کہ آپ بلا ناغہ رات کو ایک بجے کے بعد نماز تہجد کے لئے اٹھ بیٹھتے تھے.آپ کے کمرہ میں روشنی ہونے سے اس کا علم ہو
۴۰۹ جاتا تھا.۱۹۲۸ء سے ۱۹۴۷ء میں آپ کی وفات تک میں نے آپ کا یہ معمول دیکھا کہ آپ جس کا جنازہ پڑھاتے اس کی معیت قبر تک کرتے اور قبر پر مٹی پڑ جانے کے بعد آخری دعا کر کے واپس آتے.اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ آپ نہایت با قاعدگی سے روزانہ بعد عصر بہشتی مقبرہ تشریف لے جاتے اور وہاں پھر پھرا کر معائنہ فرماتے اور ملازمین کو ہدایات دے کر نماز مغرب کے لئے سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے مراجعت فرماتے.ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک جنازہ لاہور سے آیا اور مہمان خانہ میں رکھا گیا اور بعد نماز ظہر جنازہ پڑھا گیا اور میت کو بہشتی مقبرہ کے کنوئیں کے قریب کے قطعہ میں رکھا گیا.قبر کے اندر کی مٹی کی آخری صفائی ہورہی تھی اور میت کو اٹھا کر قبر میں دو چار منٹ کے بعد ہی رکھا جانے والا تھا کہ موضع لیل کلاں والی سٹرک پر سے ایک شخص بہت زور سے آواز میں دیتا ہوا بھا گا آرہا تھا کہ اواحمدی بھائیو! اس میت کو بہشتی مقبرہ میں دفن نہ کرنا.مجھے اس کی ایک بات ایسی معلوم ہے کہ یہ شخص بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے لائق نہیں.غرضیکہ شور سن کرمیت کو قبر میں اتارنے سے رک گئے.پھر اس شخص نے حضرت مولوی صاحب سے سارا ذکر کیا.اس کے بعد آپ نے کھڑے کھڑے مختصر سی تقریر فرمائی اور کہا کہ اس مقبرہ کے متعلق حضرت مسیح و مہدی“ کا فرمان ہے کہ غیر صالح شخص اس جگہ دفن نہ ہوگا.اب دیکھو کہ ایک غیر از جماعت شخص کو کس طرح اللہ تعالیٰ نے تحریک فرمائی کہ وہ اس کی سچی بات کے اظہار کے لئے اپنا کام کاج چھوڑ کر قادیان آیا اور اس میت کی زندگی کے حالات ہمیں بتائے اور اپنے ایک محرم راز مرے ہوئے دوست کا نا گفتہ راز ہم تک پہنچایا.غرض وہ شخص دوسرے قبرستان میں دفن ہوا ہے ایک دفعہ جبکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ڈلہوزی تشریف فرما تھے.حضرت مولوی صاحب نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ جماعت کے لوگ اپنی بول چال اور گفتگو میں حضرت صاحب کو صرف حضرت مسیح موعود کے ذکر سے ہی پکارتے ہیں.حالانکہ جہاں تک میں نے اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ حضرت صاحب کا مہدی ہونا بوجہ بروز محمدیت کے مسیح موعود کے درجہ سے افضل ہے اس لئے احباب کو چاہئے کہ وہ حضرت صاحب کے نام کے ساتھ مہدی کے عہدہ کی نفی نہ کریں.یہ بڑی ضروری بات ہے اگر اسی طرح رہا تو آئندہ نسل میں خرابی پیدا ہو جاوے گی.اس لئے پوری توجہ سے میری اس بات کو یا درکھیں اور مہدی کے نام کو اپنائیں.ایک ایسا واقعہ حضرت مولوی صاحب سے خاکسار نے متعدد مرتبہ سنا تھا (مؤلف)
۴۱۰ ۱۹۵۷ء میں ضلع ہزارہ میں ایبٹ آباد کے ایک مولوی صاحب نے باتوں باتوں میں مجھے کہا کہ مولوی سرورشاہ صاحب احمدیوں میں بہت بڑے عالم ہیں ان کے پائے کا عالم مجھے تو اب کوئی بھی نظر نہیں آتا.افسوس کہ وہ احمدی ہو گئے تھے.ایک دفعہ مشہور پادری عبدالحق صاحب ماہ جون میں اپنے دوساتھیوں کے ہمراہ قادیان آئے.احمد یہ سکول کے طلباء کو میں نے اطلاع دی کہ پادری عبدالحق صاحب مہمان خانہ میں آئے ہوئے ہیں ان سے باتیں کرو.پادری صاحب نے کہا کہ تم بچے ہو.بچے ہر قوم کی اپنی اپنی امانت ہوتے ہیں اور بچوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا.تم ابھی طالب علم ہوا بھی تمہارا بھی صحیح مذہب تا بلوغت کوئی نہیں اس لئے نامکمل سوالات اور نا تمام جوابات سے تمہارے پلے کیا پڑے گا.اس لئے میں تم کو ایک ضروری بات کہتا ہوں توجہ سے سنو کہ تمہارے پاس ایک شخص مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کے نام سے موجود ہیں.وہ گوہر ہے نہایت قیمتی ہیرا ہے تم اس سے جوت لگاؤ اور اس سے علم سیکھو اس درجہ کا عالم میں نے ہندوستان بھر میں نہیں دیکھا.دیکھو بچو ا میں مسیحی مبلغ ہوں اور گلگت تاراس کماری اور کوئٹہ تا مانڈے مناظرے کرتا رہا ہوں.ایک دفعہ سیالکوٹ کے ضلع میں مولوی صاحب سے میرا مناظرہ ہوا.دوسرے لوگوں پر بہت ممکن ہے میرا اثر اچھا ہوا ہو.مگر بچو! میری اس بات کو یا درکھو کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ علمی رنگ میں مولوی صاحب نے میری جو گت بنائی اس کو میں ہی جانتا ہوں.ان جیسا متبحر عالم میں نے ہندوستان بھر میں نہیں دیکھا.۲۷ از اخویم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمد یہ ربوہ ہم بچپن سے ہی حضرت مولانا سیدمحمد سرور شاہ صاحب کو دیکھتے چلے آئے تھے.مولانا کی دیگر اوصاف کے علاوہ آپ کی ایک وصف بہت ہی نمایاں تھی ، آپ ہر کام میں انتہائی طور پر با قاعدہ تھے.آپ کی مساجد میں حاضری کی باقاعدگی تو ضرب المثل تھی.آپ مجلس کارپرداز مصالح قبرستان کے آنریری سیکرٹری تھے.اس کام کے لئے آپ نے ظہر کی نماز کے بعد سے لے کر عصر کی نماز تک کا وقت مقرر کر رکھا تھا.اس وقت میں اتنی با قاعدگی ساتھ آپ حاضری دیتے اور سارا کام سرانجام دیتے تھے کہ تنخواہ دار کارکن بھی اتنے با قاعدہ نہیں ہوتے.آپ کا یہ دستور تھا کہ ہر نماز جنازہ میں ضرور شرکت کرتے چاہے جنازہ بیرون قادیان سے آیا ہو یا قادیان کا ہو.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی غیر حاضری میں نماز جنازہ بھی پڑھاتے اور پھر قبرستان تک میت کے ساتھ ضرور جاتے.
۴۱۱ آپ نے اپنے کھانے کے اوقات بھی مقرر کر رکھتے تھے.ان کے علاوہ بالکل نہ کھاتے میں نے ایک دو دعوتوں میں دیکھا کہ دعوت میں تو شریک ہیں لیکن کھانا نہیں کھاتے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ احباب کے زور دینے پر دعا کی غرض سے دعوت میں تو شریک ہو جاتے ہیں مگر اپنے مقررہ اوقات کے علاوہ کچھ نہیں کھاتے.آپ گن کا اور لاٹھی چلانا خوب جانتے تھے.ایک دفعہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں کچھ ورزشی مقابلے ہوئے آپ نے بھی اس میں حصہ لیا اور نو جوانوں کو لکارا کہ دو تین آئیں اور ایک ساتھ لاٹھیوں سے مجھ پر حملہ کریں.میں ہر ایک کا وار روکنے کے ساتھ ہی وار لوٹا تا جاؤں گا.پہلے تو ادب کے پیش نظر کوئی نوجوان سامنے نہ آیا.لیکن آپ کے زور دینے پر ایک ساتھ تین نوجوانوں نے حملہ کیا اور مولوی صاحب نے نہایت مستعدی سے ان کے حملوں کو روکا بلکہ ان پر جوابی حملے کئے.آپ کا سارا جسم اس پھرتی اور تیزی سے کام کرتا تھا کہ معلوم ہوتا مشین چل رہی ہے.آپ لمبے عرصے تک قادیان میں افسر مساجد ر ہے جب آپ کی عمر زیادہ ہوگئی تو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے جو ان دنوں ناظر تعلیم و تربیت تھے.مولانا عبدالرحمن صاحب جٹ کو آپ کا نائب مقرر کر دیا.آپ نے اس بات کو پسند نہ فرمایا اور فرمایا کہ مجھے بوڑھا کیوں سمجھا جاتا ہے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نو جوانوں سے زیادہ تکلیف برداشت کر سکتا ہوں.آپ کے دل میں اپنے آقا کا اسقد را حترام تھا کہ میں نے آپ کو بیسیوں مرتبہ حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی مجالس میں دیکھا کہ آپ کبھی حضور کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتے تھے اور گفتگو کرتے وقت ہمیشہ نظریں نیچی رکھتے.عصر کی نماز کے بعد حضور عموماً مسجد میں تشریف فرما ہوا کرتے تھے.آپ نمازوں میں حضور کے بالکل پیچھے کھڑے ہوتے.نماز کے اختتام پر جب حضور مجلس میں بیٹھ جاتے تو آپ حضور کے سامنے ہوتے تھے.نظریں نیچی رہتیں.گفتگو بھی اسی حال میں فرماتے کبھی کبھی اگر مکھی آجاتی اور حضور کی طرف بڑھنے لگتی تو اپنے لمبے چوڑے رومال سے اسے دور کر دیتے لیکن نظریں پھر بھی نیچی ہی رہتیں.آپ اطاعت اور احترام امام میں اسوہ حسنہ تھے.-۲۸ از اخویم مولوی عبد الرحمن صاحب انور فاضل پرائیویٹ سیکرٹری سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ایک نہایت درخشندہ ستارہ تھے اور بہت ہی خوبیوں
۴۱۲ والے بزرگ تھے.کئی سال تک مجھے آپ کی شاگردی کا فخر حاصل ہوا.بہت متحمل مزاج.گہرے غور و فکر کرنے والے.پختہ علم والے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جس قدر مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا.انہوں نے بہت اچھی سندات دیں.ایک موقع پر جبکہ ایک شخص نے طعنے کے طور پر مجھے کہا کہ آپ کو اپنی بہترین سندات پر ہی ناز ہے اس کے اس قول کو سن کر مجھے بہت تکلیف ہوئی اور فور میں نے ان سندات کو لا کر اس کے سامنے پھاڑ دیا اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے میں نے کہا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ زبان بولتی ہے اور قائم ہے مجھے یقین ہے کہ ان سندات کی مجھے کوئی ضرورت نہ ہوگی.حضرت مولوی صاحب اوقات کی پابندی کے عادی تھے.سکول میں مساجد میں اور دیگر تقاریب میں جن میں آپ کو مدعو کیا جاتا وہاں ٹھیک وقت پر پہنچ جاتے تھے.اگر چہ آپ کی رہائش محلہ باب الانوار میں تھی لیکن آپ نے اپنا تعلق حلقہ مسجد مبارک سے ہی رکھا اور پانچوں نمازوں کو مسجد مبارک ہی میں ادا کر تے تھے.خواہ آندھی ہو بارش ہو.ضعیف العمری میں بھی جو انا وار وقت پر پہنچ کر پہلی صف میں امام کے عین پیچھے تشریف رکھتے تھے.نماز کو نہایت امن وسکون اور اطمینان قلب سے ادا کرتے تھے اور چونکہ اکثر قیام و سجود میں خاصہ وقت لگ جاتا تھا.اکثر مرتبہ ایک شاگرد نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ سجدہ میں کتنی مرتبہ تسبیح پڑھتے ہیں تو فرمایا کہ میں تو صرف تین مرتبہ ہی پڑھتا ہوں لیکن اس کے مفہوم کو سوچ کر پڑھتا ہوں.منطق اور فلسفہ جیسے دقیق مضمون پر آپ کو کامل عبور تھا.حتی کہ آپ کو روزانہ مطالعہ کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہ ہوتی تھی اور طلبہ کے شوق کو محسوس کر کے ان کو گھر پر پڑھانے کا بھی موقع آپ نہایت بشاشت سے دیتے تھے اور خوشی محسوس کرتے تھے کہ طلباء کو علم حاصل کرنے کا شوق ہے.مختلف علوم کی طرف آپ کو رغبت آخری عمر تک رہی.چنانچہ آخری عمر میں انگریزی بھی پڑھنی شروع کی تھی.چنانچہ جب میں مبلغین کلاس میں تعلیم حاصل کرتا تھا تو ارادہ کیا کہ ساتھ ساتھ میٹرک کا امتحان بھی دے دوں.آپ سے بوجہ پرنسپل جامعہ احمدیہ ہونے کے اجازت کے لئے عرض کی تو فرمایا کہ انگریزی پڑھنی چاہئے.میں اس عمر میں بھی انگریزی پڑھنے کا شوق رکھتا ہوں اور پڑھنی شروع کی ہے.اس سے میری ہمت بندھی اور میں نے چار ماہ ہی میں تیاری کر کے میٹرک کا امتحان صرف انگریزی کا دیا اور اچھے معیار پر کامیاب ہو گیا.یہ حضرت مولوی صاحب کے اخلاص اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شدید محب کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے تین نکاحوں کے اعلان کے لئے منتخب
۴۱۳ فرمایا.چنانچہ آپ نے سیدہ امتہ الحی صاحبہ کا نکاح ۳۱ مئی ۱۹۱۴ء کو اور حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کا نکاح ے فروری ۱۹۲۱ء کو اور حضرت سیدہ ام وسیم صاحبہ کے نکاح کا اعلان یکم فروری ۱۹۳۶ء کوفر مایا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب کبھی قادیان سے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے تو بار ہا آپ کو ہی امیر مقامی مقرر فرمایا کرتے تھے.یہ اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ آپ حضور کے کامل معتمد علیہ شخص تھے.آپ کا بھی یہ معمول تھا کہ جہاں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے کسی ارشاد کا علم ہوا فوراً اس کی لفظ بہ لفظ تعمیل کرنے میں ہی کامل راحت محسوس کرتے تھے.جیب میں ہر وقت قلم سیاہی سے بھرا ہوا تیار رہتا تھا تا کہ جہاں بھی بوجہ مفتی سلسلہ ہونے یا اور کسی ذمہ داری کی وجہ سے کچھ لکھنے کی ضرورت پیش آئے تو کوئی روک پیدا نہ ہو.-۲۹ از اخویم مولوی عبدالمجید صاحب منیب ہلالپوری مربی ربوہ ۱۹۴۴ء کے لاہور کے مصلح موعود کے جلسے سے واپسی پر میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو ملنے کے لئے امرتسر میں ان کے دفتر پہنچا تا تفسیر ثنائی خرید لوں.وہ اتفاقاً اکیلے ہی اپنے دفتر میں بیٹھے کچھ تحریر کا کام کر رہے تھے.مجھ سے دریافت کیا کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جا رہا ہوں.جواب کے بعد میں نے کہا کہ آپ کی خدمت میں تفسیر ثنائی خریدنے کے لئے حاضر ہوا ہوں ہنس کر کہنے لگے کہ اب آپ کو تفسیر ثنائی سے وہ چیز نہیں ملے گی جس کی آپ کو ضرورت ہے.وہ حوالہ (لَوْ تَقَولَ نا کے ماتحت جولکھا تھا کہ جھوٹا نبی دنیا میں کبھی سرسبز نہیں ہوتا.الخ ) میں نے اب نکال دیا ہے اور مصنف کو اپنی زندگی میں ترمیم کا ہر طرح حق حاصل ہوتا ہے پھر کسی اور بات کے ضمن میں کہا کہ بڑے مرزا صاحب جفا کش تھے ناز پروردہ نہ تھے.پھر مجھ سے دریافت کیا کہ ہمارے شاہ صاحب کا کیا حال ہے میں نے کہا کون سے شاہ صاحب؟ کہنے لگے ہمارے سید سرورشاہ صاحب میں نے کہا خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کی صحت بہت اچھی ہے پھر دریافت کیا کہ شاہ صاحب عینک لگاتے ہیں میں نے کہا کہ میں نے آپ کو عینک لگاتے کبھی بھی نہیں دیکھا اور بعض اوقات الفضل عینک کے بغیر ہی پڑھتے دیکھا ہے پھر کہنے لگے شاہ صاحب کو ملنے کے لئے دل بہت چاہتا ہے.اس پر میں نے کہا کہ آپ قادیان تشریف لے چلیں میں سفر میں آپ کی ہر طرح خدمت کے لئے تیار ہوں جس طرح آپ چاہیں گے میں انشاء اللہ تعالیٰ حتی الامکان اسی طرح کرنے کی کوشش کروں گا.پھر تھوڑے سے تامل کے بعد کہنے لگے کہ دراصل آپ اشتہاری لوگ ہیں.اچھا میری طرف سے السلام علیکم ضرور کہہ دینا میں نے کہا بہت اچھا.اگلے
۴۱۴ دن مسجد مبارک سے صبح کی نماز پڑھا کر جب حضرت شاہ صاحب اپنے دولت خانہ کی طرف روانہ ہوئے تو میں نے آگے بڑھ کر السلام علیکم عرض کیا اور مصافحہ کے بعد میں نے مولوی ثناء اللہ کی ملاقات کا حال بیان کیا.فرمایا میں اس شخص کو شروع سے جانتا ہوں.جب ہم دیو بند میں پڑھتے تھے.یہ شہرت پسند ہے اور ہر طرف سے واہ واہ اور شاباش کا خواہش مند ہے.حالانکہ یہ شخص ہم کو مسلمان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کو دل سے مانتا ہے واستيقنتها انفسهم لله والا اس کا حال ہے.چنانچہ ۱۹۲۴ء میں جب ہمارے بھائی مولوی نعمت اللہ صاحب کو کابل میں سنگسار کر کے شہید کر دیا گیا تھا تو امیر کابل کو تمام مسلمان اخبارات میں داد تحسین دی گئی کہ آپ نے مرتد کو اس کی سز ا سنگساری دے کر مردہ سنت کر زندہ کیا ہے.اس پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے اہلحدیث ۱۳ اکتوبر ۱۹۲۴ء کے پرچہ میں صفحہ ۴۲۳ پر ایک مضمون لکھا جس سے ثابت کیا کہ قتل اور سنگسار کرنا مرتد کی یہ سزا ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی احمدی مرتد ہیں اور احمدی امام کی اقتداء میں نماز کے جواز کا بھی ان کا فتویٰ موجود ہے.وغیرہ ذالک.لہذا یہ شخص زیادہ مجرم ہے ہم اس کو نہیں ملنا چاہتے.مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کے جلسہ ہوشیار پور (۱۹۴۴ء میں شمولیت کے لئے ہمارا ایک وفد قادیان ☆ سے جو غالبا ۵ یا ۷ افراد پر مشتمل سائیکل سوار تھا.میں نے اپنے رفقاء کی خدمت میں درخواست کی کہ میری خواہش ہے کہ راستہ کے ہر ایک گاؤں میں بلا استثناء تبلیغ کرتے جائیں.چنانچہ ایک گاؤں میں سے جب ہم گزر رہے تھے تو ایک جگہ ایک مجلس تعزیت قائم تھی.جو شخص ہاتھ اٹھا کر فاتحہ خوانی نہ کرے وہ ان لوگوں کی نگاہ میں بڑا مبغوض ہوتا ہے میں نے بھی مصلحنا فاتحہ خوانی کے لئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور پھر تبلیغ کی.میرے بعض رفقاء نے اس امر کو نا پسند کیا میں نے کہا کہ تبلیغ کی خاطر میں نے ایسا کیا تھا.یہ واقعہ کسی نے حضرت شاہ صاحب کے سامنے جو مفتی سلسلہ تھے پیش کر دیا.آپ کے دریافت فرمانے پر میں نے صحیح صحیح واقعہ بیان کر دیا تو اس پر آپ نے فرمایا کہ تبلیغ کا راستہ تو اس طرح بھی نکل سکتا تھا کہ وہ لوگ جب اعتراض کرتے کہ آپ نے فاتحہ خوانی کی رسم کیوں نہیں ادا کی تو آپ کہہ دیتے کہ یہ طریق بدعت ہے اس کا کوئی ثبوت قرآن مجید اور احادیث میں نہیں ملتا.اس طرح تو آپ نے ان کے ساتھ اس بدعت میں شرکت کر لی.مولوی ثناء اللہ صاحب تحریر کرتے ہیں.”ہم علی الاعلان کہتے ہیں کہ صورت موجودہ میں سنگسار کرنے کا حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں نہ کتب فقہ حنفیہ میں نہ شافعیہ وغیرہ میں.اگر اس کا نام سیاسی حکم رکھا جائے تو ہمیں اس پر بحث نہیں.“ (صفحہ ۳) مؤلف.
۴۱۵ ایک دفعہ میں نے آپ سے عرض کیا کہ بعض صحابہ ربَّنَا کو غنیت کے ساتھ رہناں.اتنا کواتناں اور اهدنا کو اهدناں پڑھتے ہیں کیا یہ جائز ہے.آپ نے تحریر فرمایا اس کو بلاغنیت پڑھنا چاہئے اور غنیت کے ساتھ پڑھنا ہرگز جائز نہیں اور صحابہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام شارع نہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ و تعبیر الرویا کا خاص علم بخشا ہوا تھا.چنانچہ میں نے آپ سے متعدد بار تعبیر رویا کے متعلق دریافت کیا ہر دفعہ ہی آپ کی تعبیرات پر واقعات نے مہر تصدیق ثبت کردی.اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وعلى عبده المسيح الموعود وعلى اله وخلفائه وانصاره واعوانه الى يوم الدين امين يارب العلمین.-۳۰ از اخویم مولوی صالح محمد صاحب فاضل مجاہد مغربی افریقہ ( آپ میرے ہم جماعت ہیں ) میری عمر تقریباً نو دس سال کی تھی جب قادیان کی مقدس بستی میں آکر میں نے سکونت اختیار کی.چوتھی کلاس ہائی سکول سے پاس کر کے میں احمد یہ سکول میں داخل ہو گیا اور پھر جامعہ میں مولوی فاضل پاس کر کے دو سال مبلغین میں لگائے.اس لمبے عرصہ میں جو میں نے استاذی المکرم جناب سید محمد سرور شاہ صاحب کے متعلق جو تاثر اپنے دل و دماغ میں لیا اس کا خلاصہ اور نچوڑ یہ ہے کہ آپ تقوی وطہارت پاکیزگی و پاکدامنی کے مجسمہ تھے ان اوصاف حمیدہ کا ایک سمندر تھا جو آپ کے دل میں موجیں مار ہا تھا اور ان لہروں کے باہمی ٹکراؤ سے نور کی کرنیں آپ کے چہرہ مبارک سے پھوٹ پھوٹ کر ضیا باری کرتیں تھیں.میں نے ایک لمبا عرصہ آپ کے زیر سایہ گزارا.میں نے ایک لمبا عرصہ آپ سے فیض حاصل کیا.میں نے کبھی آپ کو اوپر نظر کر کے چلتے نہیں دیکھا.مجھے آپ کے تجر علم کے متعلق کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں اسے ہرا پنا اور پر ایا جانتا ہے.جس چیز کا میرے دل پر سب سے زیادہ اثر ہے وہ آپ کی پاکیزگی و پاکدامنی.تقوی وطہارت اور خشیت اللہ تھا جو باطن میں چمکتا اور اس کی نورانی کرنیں چہرے سے بھی ظاہر ہوتیں تھیں.اس چیز پر ان کو بھی بجاطور پر فخر تھا.ایک شادی کا موقع تھا لڑ کے کی عمرلڑ کی سے بہت زیادہ تھی.اس پر لڑ کی کے بعض رشتہ داروں کو اعتراض پیدا ہوا اور وہ آپ کے پاس مشورہ کے لئے گئے.آپ نے مسکرا کر فرمایا جس نے اپنی جوانی کو پاکدامنی و پاکیزگی سے گزارا ہو اس پر عمر کی زیادتی کا زیادہ اثر نہیں ہوتا.ایک دفعہ ٹھیکری والے کے سکھوں اور احمدیوں میں کسی وجہ سے لڑائی ہوگئی.میں نے دیکھا کہ لمبی سی لاٹھی
لے کر آپ بھی وہاں پہنچ گئے باوجود اس کے کہ آپ بوڑھے تھے مگر جب مرکز اور جماعت کے وقار کا سوال سامنے آیا تو آپ بہادر سپاہی کی طرح میدان میں پہنچ گئے.ہم مبلغین کے دوسرے سال میں تھے اور تفسیر کا درس جاری تھا.مسیح علیہ السلام کے صلیب والے واقعہ کی آیت کی تفسیر آپ فرما رہے تھے اور جماعت احمدیہ کے زاویہ نگاہ سے اس کی تفصیل سمجھا رہے تھے.میں نے اس پر اعتراض کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ تک ہزاروں علماء گزرے ہیں اس مفہوم کی جو آپ بیان فرمارہے ہیں پہلے کسی عالم کو سمجھ نہ آئی تھی کہ اس کا اب آکر انکشاف ہوا.اس پر آپ نے تفسیر کی کتاب الٹی کر کے میز پر رکھ دی.نورانی چہرہ مسکرایا یہ نظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے بالکل اسی طرح ہے جس طرح اس وقت مسکرائے اور فرمایا.میاں ! تم نے کبھی بھیٹروں کا ریوڑ دیکھا ہے.اگر ایک ریوڑ میں دوسو بھیڑ میں ہوں اور ان میں سے آپ ایک کو رسی پکڑ کر کودنے لگا ئیں.اس کے بعد آپ رسی ہٹا لیں تو باوجود اس کے کہ رسی ہٹا لی گئی ہے پھر بھی باقی بھیڑریں وہاں سے کو دکود کر ہی گزریں گی.اسی طرح علماء کا حال ہوا کہ ایک نے غلطی کی اور باقی بغیر سوچے سمجھے اس کی پیروی کرتے چلے گئے.پھر فرمایا میاں ! تم دنیا کی کسی زبان کی کسی کتاب کی کوئی ایک مثال دو کہ جس میں ضمیر کسی ایسے فرد کی طرف راجع ہو جس کا ذکر اس عبارت میں نہ ہو.پس جب دنیا کی کسی زبان کا بھی یہ قاعدہ نہیں تو کیا اکمل اور اتم کتاب میں ہی یہ کمزوری ہوئی تھی کہ ضمیر ایسے فرد کی طرف راجع کی جائے جس کا نہ اس عبارت میں ذکر ہے اور نہ سارے قرآن کریم میں اس موہوم فرد کا ذکر ہے کہ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کو مسیح علیہ السلام کی سی صورت دے دی گئی اور مسیح علیہ السلام کی جگہ انہیں سولی چڑھا دیا گیا تھا.پس جب دنیا کی ہر زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ ضمیر ہمیشہ اس فرد کی طرف راجع ہوتی ہے جس کا اس عبارت میں ذکر ہو تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہاں ضمیر ایسے فرد کی طرف راجع سمجھی جائے جس کا وہاں کوئی نام ونشان ہی نہیں.آپ کے خطبات میں طوالت کا پہلو ہوتا تھا مگر روحانی اور مذہبی امور کو نظام عالم کے ساتھ تشبیہ دے کر اور فطرت انسانی کی وضاحت فرما کر ہر بات کو واضح فرماتے تھے.ایک بات اکثر بیان فرمایا کرتے تھے کہ بچہ اگر لڑکا ہوگا تو وہ مردانہ کام ہی بچپن سے شروع کر دے گا.کبھی سپاہی کا کھیل کھیلے گا کبھی کسان کا سا کام کرے گا اور کبھی کوئی اور اسی طرح کا کام کرے گا جو مرد بڑے ہو کر کرتے ہیں.اسی طرح بچہ اگر کوئی لڑکی ہوگی تو وہ گڑیوں سے کھیلے گی اور کبھی کھانا پکائے گی اور کبھی کوئی اور اسی طرح کا کام کرے گی جو عورتیں کرتی ہیں.میں نے ایک لمبا عرصہ آپ کی صحبت میں گزارا اور آپ سے فیض حاصل کیا.احمد یہ سکول میں کئی سال.جامعہ احمدیہ میں کئی سال اور پھر آپ کے دولت کدہ پر بھی جا کر آپ سے تعلیم حاصل کی.اتنے طویل
۴۱۷ اور لمبے عرصہ میں میں نے ایک بار بھی آپ کے نورانی چہرے پر غصے اور ناراضگی کے آثار کبھی نہ دیکھے.کبھی کوئی سوال یا اعتراض بھی کبھی کسی مسئلہ کے بارے میں کیا تو آپ نے ہمیشہ نورانی مسکراہٹ ہی سے اس کا جواب دیا.پس آپ نور تھے مجسم نور.باطن و ظاہر میں نور ہی نور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں سے ان کو حصہ وافر عطا فر مایا تھا.یہ کیا کم فضل تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح پاک علیہ السلام کی نیابت کا شرف عطا فرمایا اور سلسلہ کی خدمت میں اچھی طرح حصہ لینے کا فخر آپ کو بخشا.آپ سے وجود دنیا میں کم آتے ہیں مگر جب جاتے ہیں تو ہزاروں کا سا کام تنہا کر جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا قرب اعلی علیین میں آپ کو حاصل ہو آمین.۳۱- از اخویم مولوی قمر الدین صاحب سیکھوانی فاضل ( انسپکٹر نظارت اصلاح ربوہ) حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ہمارے استاد تھے.مدرسہ احمدیہ میں آپ کے ذمہ منطق اور فلسفہ کا مضمون ہوتا تھا.چنانچہ مدرسہ احمدیہ کی چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت میں ہم نے آپ سے یہ مضمون پڑھا.آپ کا علم سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا تھا ور تمام چھوٹے بڑے سب آپ کے علم کی وجہ سے آپ کی عزت کرتے تھے.حضرت خلیفتہ اسیح الاول کے زمانہ میں جن نوجوانوں نے حضور سے تعلیم وتربیت پائی وہ نو جوان حضرت مولانا صاحب کے بھی شاگرد تھے اور مختلف علوم آپ سے پڑھتے تھے.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غضنفر (شیر) قرار دیا ہے.چنانچہ دیکھنے والے جانتے ہیں کہ آپ کی آنکھیں شیر کی آنکھوں جیسی تھیں اور جسم نہایت مضبوط تھا.پادری عبدالحق صاحب سے پہلے پادری جوالا سنگھ صاحب پنجاب کے پادریوں میں مشہور پادری تھے اور پادری صاحب اپنی تقاریر میں منطقیانہ اصطلاحات استعمال کرتے تھے اور مسلمان علماء کو دعوت مقابلہ دیتے تھے.پادری صاحب کو ناز تھا کہ ان کی تقاریر کو عام علماء سمجھ بھی نہیں سکتے.ایک دفعہ گوجرانوالہ کے مقام پر پادری جوالا سنگھ صاحب کی تقریر تھی اس تقریر میں بھی پادری صاحب نے منطقیانہ اصطلاحات استعمال کیں اور اپنے لیکچر کے متعلق بہت تعلیاں کیں اور مسلم علماء کو دعوت پر دعوت اور چیلنج پر چیلنج دیا.اس پر ہر طرف سناٹا چھا گیا اور کسی کو دعوت مقابلہ قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی.اتفاق سے حضرت مولوی صاحب اس لیکچر میں موجود تھے.آپ اٹھے اور پادری صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ میں آپ کے سوالات کا جواب دیتا ہوں.پادری صاحب حیران ہوئے کہ یہ کون صاحب ہیں کیونکہ غیر احمدی علماء میں سے پادری صاحب کے مقابلہ کے
۴۱۸ لئے کبھی کوئی کھڑا نہیں ہوتا تھا.پادری صاحب نے کہا کہ جواب بعد میں دیں پہلے میرے سوال کو دہرا دیں.اگر آپ نے میرا سوال دہرا دیا تو میں سمجھ لوں گا کہ آپ جواب دے سکیں گے.آپ نے پادری صاحب کی اس تعلی پر پہلے سوال دہرایا اور پھر جواب دیا تو پادری صاحب نے جو آپ کے سوال دہرانے پر دنگ رہ گئے تھے کہا کہ میں آپ کو استاد مانتا ہوں.گویا حضرت مولوی صاحب کے تبحر علمی کا نہ صرف موافقین میں چرچا تھا بلکہ مخالفین بھی آپ کے علم کا لوہا مانتے تھے.قادیان میں درجنوں مولوی فاضل تھے اور بڑے سحر بیان تھے مگر مخالفین کے نزدیک چند ایک مسلمہ اور چوٹی کے عالم تھے جن میں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بھی شمار ہوتے تھے.قادیان میں پیر شاہ چراغ صاحب ایک پیر تھے ایک دفعہ جبکہ احرار کے چند مولوی بھی قادیان میں آئے تھے یعنی مولوی عنایت اللہ صاحب شیخ عمر الدین صاحب محمد حیات صاحب عرف کھودا وغیرہ ان مولویوں کو رحمت اللہ صاحب کمہار کے خلاف شکایت پیدا ہوئی کہ گاہے گاہے وہ امامت کراتے ہیں اور قرآن شریف غلط پڑھتے ہیں.انہوں نے پیر صاحب موصوف کے سامنے ذکر کیا اور کہا کہ رحمت اللہ کو امامت سے روک دیا جائے.ان کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ رحمت اللہ صاحب حروف کو مخارج سے نہیں نکال سکتے اور ان کا تلفظ بھی درست نہیں.پیر صاحب نے کہا کہ میرے ایک استاد ہیں میں ان سے اس بارے میں پوچھوں گا اور فتویٰ لوں گا پھر کوئی کارروائی کروں گا.چنانچہ انہوں نے حضرت مولوی صاحب سے درخواست کی کہ اگر آپ ہمارے محلہ میں تشریف لے آئیں تو سارا محلہ استفادہ کرے گا ورنہ ہم دو چار آدمی رہ جائیں گے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا آپ احباب محلہ کو جمع کر لیں میں وہاں آ جاؤں گا.چنانچہ پیر صاحب کی دعوت پر حضرت مولوی صاحب گلی سیداں میں تشریف لے گئے اور پیر صاحب نے نہایت اعزاز سے چار پائی پر بٹھایا باقی سب لوگ فرش پر بیٹھے تھے.آپ نے پیر صاحب کو اپنے ساتھ بٹھایا.رحمت اللہ صاحب کا معاملہ پیش کیا گیا.آپ نے فرمایا رحمت اللہ ! آپ قرآن شریف پڑھیں اس نے تلاوت کی.حضرت مولوی صاحب نے بعض سوالات کئے کہ یہ لفظ کیا ہے اور اس لفظ کو تم کیسے ادا کرتے ہو.رحمت اللہ نے جواب دیا.دراصل رحمت اللہ صاحب کی زبان میں کچھ سقم تھا اور اچھی طرح چلتی نہ تھی.اس کی وجہ سے اعتراض ہوتا تھا.راوی مرزا شریف احمد صاحب آف قادیان بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب نے رحمت اللہ صاحب کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ اس کی امامت میں کوئی چیز روک نہیں اور احادیث اور صحابہ کے واقعات میں سے بہت سی باتیں بیان فرما ئیں اور بطور سند پیش کیں.جس پر سب لوگ خاموش رہے گویا یہ لوگ مخالف تھے مگر حضرت مولوی صاحب کے علم کے قائل تھے.اس لئے حضرت مولوی صاحب کی بات کو مان لیا اور سب نے سرتسلیم خم کر دیا اور رحمت اللہ صاحب کی امامت بحال رہی.
۴۱۹ جن دنوں میں محترم جلال الدین صاحب شمس ولایت میں امام مسجد لندن تھے اور مشنری انچارج کے فرائض سر انجام دیتے تھے اور ان کے کام کی رپورٹیں الفضل میں چھپتی تھیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ شرک کے مرکز میں ان کو کامیابی دے رہا ہے تو حضرت مولوی صاحب خوشی کا اظہار فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ جبکہ ایک مکان کی بنیا درکھ کر گھر واپس جارہے تھے تو مجھ سے ذکر فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک پیشگوئی آخری زمانہ متعلق طلوع الشمس من مغربها ۱۲ کی ہے کہ آخری زمانہ میں سورج مغرب کی طرف سے طلوع کرے گا.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ اس سے مراد جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے یہ ہے کہ مغربی اقوام اسلام میں داخل ہوں گی اور اس سلسلہ میں فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ شمس صاحب کی معرفت اللہ تعالیٰ نے یہ پیش گوئی پوری فرما دی ہے یہ پہلی بار میں نے حضرت مولوی صاحب سے سنا.پھر جب مکرم شمس صاحب ولایت سے واپس آئے تو آپ کے اعزاز میں دی گئی ایک دعوت میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اس پیشگوئی کو شمس صاحب پر چسپاں فرمایا.بہر حال حضرت مولوی صاحب ایک بہت بڑے عالم اور روحانی انسان تھے اور نہایت باوقار تھے اور مسجد مبارک میں جس باقاعدگی سے آپ باجماعت نماز ادا فرماتے تھے.وہ قابل رشک تھی با وجود بڑھاپے کے کبھی تساہل نہ ہوتا تھا.آپ نے ریکارڈ توڑ دیا تھا.ایک دفعہ فرمانے لگے کہ قرآن کریم کے پہلے پارہ میں آیت ہے وَاِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخشِعِينَ ۱۳ کہ نماز بہت بوجھل ہے مگر جو خشوع خضوع رکھتے ہیں ان پر بوجھل نہیں.فرماتے تھے کہ سردی کے دن ہوں اور گرم لحاف میں انسان بیٹھا یا لپٹا ہوا اور ادھر مؤذن کہتا ہو.حتی علی الصلوۃ کہ آؤ نماز کے لئے اس وقت اگر دل میں خشیت اللہ نہ ہو تو کون گرم لحاف چھوڑ کر نماز کے لئے جاسکتا ہے.بہر حال نماز کے معاملہ میں آپ نہایت درجہ پاکیزہ نمونہ رکھتے تھے.۱۹۲۹ء کے موسم گرما میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سرینگر میں ہاؤس بوٹوں میں ٹھہرے ہوئے تھے.دریا کے کنارے ایک چھولداری لگائی گئی تھی جس میں نمازیں ہوتی تھیں اور عصر کی نماز کے بعد حضور خدام میں بیٹھا کرتے تھے.میرے سامنے کا واقعہ ہے کہ ایک دن ایک شخص آیا جس کا لباس پیروں کا ساتھا اور دراصل وہ امداد کا خواہش مند تھا.اس نے کہا کہ حضور میں یہاں سے قریب ہی کا رہنے والا ہوں مجھے معلوم نہ تھا کہ حضور تشریف لائے ہوئے ہیں میں قادیان گیا تھا وہاں سے علم ہوا کہ حضور یہاں تشریف رکھتے ہیں.قادیان کے ذکر پر کسی نے سوال کیا کہ وہاں آپ نے کیا کیا دیکھا اس نے بیان کیا کہ میں نے وہاں مسجد مبارک ،مسجد اقصی مینار، بہشتی مقبرہ، ہسپتال، سکول وغیرہ دیکھے.کسی نے کہا اور کوئی بات بیان کریں.اس نے کہا کہ مجھے یاد ہے وہاں مسجد مبارک میں ایک حضرت مولوی صاحب ہیں جو نہایت مبارک
۴۲۰ وجود ہیں ان کے پیچھے میں نے نماز پڑھی تھی وہ نماز کیا تھی بس ان کی امامت میں ایک نماز پڑھ لینی کافی ہے.حاضرین نے سن کر کہا اب ٹھیک ہے آپ ضرور قادیان ہو آئے ہیں.جو -۳۲ از استاذی المکرم حافظ مبارک احمد صاحب فاضل حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے تلامذہ میں سے بہت سے ہیں.خاکسار کو بھی آپ کے تلمذ کا شرف حاصل ہے.حضرت مولوی صاحب کامل استادوں میں سے تھے اور طالب علموں کے ساتھ نہایت شفقت اور انس سے پیش آیا کرتے تھے.مجھے یہ بھی فخر حاصل ہے کہ میں کئی سال تک آپ کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں میں علی وجہ البصیرت یہ کہ سکتا ہوں کہ آپ عالم جید اور متقی اور متورع تھے.تقویٰ، ورع ، زہد اور خشوع اور تواضع ان صفات سے متصف تھے اور قناعت ، توکل، شکر، یقین اور صبر و استقامت اور اخلاص اور صدق وذکر اور فتوت وفراست اور خصوصاً دعا میں آپ ملکہ تامہ رکھتے تھے فقیر منش انسان تھے.حرص و آز سے پاک تھے.حکامِ الہیہ کے پابند تھے اور حقوق العباد کے آپ پوری طرح ادا کرنے والے تھے.آپ مفسر، محدث منطقی فلسفی ادیب غرض وہ تمام علوم مروجہ سابقہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے.جماعت احمدیہ کے ممتاز عالم تھے.تقریباً تمام علماء جماعت آپ کی شاگردی اور آپ کے فیوض سے مستفیض تھے.اللہ تعالیٰ آپ کو غریق رحمت فرما دے اور آپ کی اولاد پر اپنا فضل و کرم کرے.ہم لوگ آپ کی کیا تعریف کر سکتے ہیں جس کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہو.از اخویم محترم شیخ عبدالقادر صاحب ( سابق سود اگر مل ) مربی لاہور (مصنف حیات طیبہ وغیرہ) حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ہمارے استاد تھے.جب ہم نے مدرسہ احمدیہ سے فارغ ہوکر خاکسار مؤلف کو یاد پڑتا ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سرینگر کے ایک ایسے واقعہ کا ایک خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا کہ ایک کشمیری صاحب بیعت کرنا چاہتے تھے اور حضور نے ان کو حضرت حافظ روشن علی صاحب کے سپرد کیا تھا اور حافظ صاحب نے پاس واپس آکر ہنستے ہوئے بتایا کہ وہ بیان کرتا ہے کہ میں نے قادیان میں ایک ایسے بزرگ کی امامت میں نماز پڑھی ہے کہ اس بزرگ کی ایک نماز ساکنان کشمیر کی ساری عمر کی نمازوں کے برابر ہے ،سواس بات سے پتہ لگا کہ وہ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کی اقتداء میں نماز پڑھ آیا ہے اور واقعی قادیان گیا تھا.
۴۲۱ جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا تو آپ وہاں پرنسپل تھے.حضرت علامہ میر محمد اسحاق صاحب حضرت علامہ مولانا محمد اسمعیل صاحب جلالپوری جیسے قابل اساتذہ اس زمانہ میں پروفیسر تھے.حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کا قد گو قدرے چھوٹا تھا مگر چہرہ بھاری اور سر بڑا تھا.میں نے کبھی آپ کو پورے لباس کے بغیر مسجد یا جامعہ میں جاتے نہیں دیکھا.ہمیشہ بجبہ زیب تن رکھتے تھے.پگڑی بڑی ہوتی تھی لمبا کرتہ اور ایک پاجامہ پہنتے تھے.جسم ورزشی تھا.شیر کی مانند دلیر تھے.شروع شروع میں چونکہ قادیان کی آبادی کم تھی اس لئے آس پاس کے دیہاتی لوگ بعض اوقات چوری کی وارداتیں بھی کرتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک سے زیادہ مرتبہ آپ نے بعض چوروں کو پکڑا اور جب سکھوں سے بعض اوقات مقابلہ ہوتا تھا تو آپ ہمیشہ صف اول میں نظر آتے تھے.آپ کی چلنے کی رفتار بہت باوقا تھی.حضرت میر محمد الحق صاحب کی طرح بارش ہو یا آندھی آپ کے چلنے کی رفتار میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میاں ! میں نے کبھی چھٹی نہیں لی.آپ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل بھی تھے.سلسلہ کے مفتی بھی تھے اور دفتر بہشتی مقبرہ کے سیکرٹری بھی اور یہ سارے کام پوری توجہ اور تند ہی سے سرانجام دیتے تھے.جس زمانہ کا میں ذکر کر رہا ہوں اس زمانہ میں ٹیوش وغیرہ پر پڑھانے کا نہ کبھی کسی استاد کو خیال آیا تھا نہ شاگرد کو جب کسی شاگرد کو پڑھنے کی ضرورت پیش آتی تو وہ استاد کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کر دیتا اور استاد کہتا میاں ! جامعہ سے فارغ ہو کر کسی موزوں وقت میرے گھر آجایا کرو.میں تمہیں پڑھا دیا کروں گا.مجھے یا د ہے مولوی فاضل کے امتحان سے قبل آپ ساری کلاس کو منطق اور فلسفہ پڑھانے کے لئے نماز ظہر کے بعد اپنے مکان پر بلایا کرتے تھے اور زنانہ جلسہ گاہ میں جو آپ کے مکان کے سامنے ہی تھا پڑھایا کرتے تھے.آپ چونکہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے بھی استاد تھے اور نہایت ہی کارآمد وجود تھے.اس لئے حضرت خلیفتہ اسیخ آپ کی ذاتی طور پر بھی نقدی اور تحائف وغیرہ سے امداد فر مایا کرتے تھے.میاں محمد یوسف صاحب جو آج کل ربوہ میں کباب فروش ہیں ان کی دودھ دہی کی دکان تھی وہاں سے روزانہ ایک پیالہ ملائی کا آپ کے ہاں جاتا تھا اور اس کے بعد آپ دن میں دو تین مرتبہ قہوہ پیا کرتے تھے.سخت دو پہر کے وقت بھی ہم آپ کو قہوہ پیتے دیکھتے تھے.چونکہ آپ قادیان کے خاص بزرگوں میں سے تھے اور سید بھی تھے.اس لئے بعض عورتیں اور مرد آپ سے دم کروانے کے لئے آپ کے پاس اپنے بچوں کو بھی لایا کرتے تھے اور بعض اوقات پانی یا کسی اور چیز پر بھی
۴۲۲ دم کروا کر لے جایا کرتے تھے مگر پھر اس زمانہ میں آپ نے فرمایا کہ چونکہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دم کی نسبت دعا کو زیادہ پسند فرماتے ہیں اس لئے اب میں لوگوں کو یہی کہتا ہوں کہ دم کی ضرورت نہیں.میں تمہارے لئے دعا کروں گا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے آپ اس قدر فدائی تھے کہ باوجود استاد ہونے کے جب حضور عصر کی نماز کے بعد کچھ دیر کے لئے مسجد میں ہی تشریف فرما ہوتے تو آپ ہمیشہ سامنے بیٹھ کر رومال ہلاتے رہتے تھے.جس سے غالباً آپ کی منشاء یہ معلوم ہوتی تھی کہ حضور کوتازہ ہوا پہنچتی رہے.حضور جب کبھی علالت کی وجہ سے نماز کے لئے مسجد میں تشریف نہ لا سکتے تو عموماً حضور کے ارشاد کے ما تحت آپ ہی امام الصلوۃ ہوا کرتے تھے.نماز آپ اس قدر بی پڑھاتے تھے کہ مجھے خوب یاد ہے.ایک مرتبہ سخت گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز کے چار فرضوں پر پورے پنتالیس منٹ صرف ہوئے.مگر جب بعض بوڑھوں اور معذروں کو تکلیف ہوئی تو حضور نے حضرت مولوی صاحب کو تاکید کی کہ آپ نماز ذرا مختصر کیا کریں.آپ نے اس کی تعمیل کی مگر چار فرضوں میں پندرہ منٹ تو پھر بھی صرف ہو جایا کرتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میاں! میں تو تسبیحات سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلیٰ تین تین دفعہ ہی پڑھتا ہوں مگر پھر بھی اتنا وقت لگ جاتا ہے پتہ نہیں دوسرے لوگ اتنی جلدی کیسے نماز پڑھ لیتے ہیں.آپ نے بڑی مصروف زندگی گزاری.نماز فجر کے بعد آپ عموماً روزانہ بہشتی مقبرہ تشریف لے جا کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر دعا کیا کرتے تھے پھر شدید مصروفیات کی وجہ سے جو جنازے حضور نہیں پڑھا سکتے تھے وہ جنازے بھی آپ ہی پڑھاتے اور عمو مأموصیوں کے جنازوں کے ساتھ بہشتی مقبرہ تک بھی تشریف لے جاتے تھے.بعض اوقات خطبات جمعہ بھی آپ پڑھتے تھے.مختلف قسم کی تقاریب میں بھی آپ شامل ہوتے تھے اور جامعہ احمدیہ اور دیگر دفاتر سے فارغ اوقات میں آپ طالب علموں کو زائد وقت دے کر بھی پڑھایا کرتے تھے.آپ کا حافظہ بھی غضب کا تھا اپنے نہایت ہی چھوٹی عمر کے واقعات جب سناتے تھے تو ہم حیران رہ جاتے تھے.اپنے شاگردوں سے بڑی ہی محبت سے ملا کرتے تھے.اگر کسی شاگرد کے متعلق یہ سنتے کہ اس نے کوئی نمایاں دینی خدمت کی ہے تو آپ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا.آپ ہمت و استقلال کے پتلے تھے.مجھے خوب یاد ہے قادیان کے آخری سالانہ جلسہ (۱۹۴۶ء) کے
۴۲۳ موقع پر جب بارش ہو رہی تھی تو میں نے حضرت نواب محمد دین صاحب مرحوم و مغفور سے عرض کی کہ آپ حضرت مولوی صاحب سے کہیں کہ باہر سے اکثر زمیندار لوگ جلسہ میں شمولیت کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں اور ان کے پاس صرف وہی کپڑے ہیں.جو انہوں نے پہنے ہوئے ہیں اور سخت سردی کا موسم ہے.اگر یہ کپڑے گیلے ہو گئے تو یہ بے چارے بیمار ہو جائیں گے.لہذا بارش کے وقت جلسہ بند ہو جانا چاہئے تا ہائی سکول اور بورڈنگ میں جا کر احباب بارش کا وقت گزار لیں.حضرت نواب صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو یہ عرض کرنے کی جرات نہیں.آپ خود کہیں میں نے نہایت ہی ڈرتے ڈرتے جب عرض کی تو فرمایا.اگر ہماری جماعت کے لوگ یہ معمولی بارش بھی برداشت نہیں کر سکتے تو پھر آئندہ زمانہ میں جو بڑی بڑی تکلیفیں آنے والی ہیں انہیں کیسے برداشت کریں گے؟ ۳۴- از اخویم مرزا فتح الدین صاحب ربوہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ۱۹۴۴ء میں ڈلہوزی میں تشریف رکھتے تھے حضور نے مجلس میں ذکر فرمایا کہ حضور ایک دفعہ سرینگر میں تھے ایک کشمیری صاحب وہاں آئے اور کہا کہ میں قادیان سے ہوکر آیا ہوں کہ حضور وہاں نہ تھے.حضور نے دریافت کیا.کیا مولوی شیر علی صاحب سے ملے اس نے کہا کہ نہیں پھر پوچھا کیا مولوی محمد سرور شاہ صاحب سے ملے اس نے کہا نہیں پھر مسجد اقصیٰ وغیرہ کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کہا کہ مجھے ان کا علم نہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ آپ وہاں کی کوئی بات بتا ئیں تو اس نے کہا کہ وہاں ایک مولوی صاحب ہیں جو سارے سال کے برابر نمازیں ایک ہی دفعہ پڑھا دیتے ہیں.اس پر حضور کو اطمینان ہو گیا کہ وہ قادیان ہو آیا ہے اور وہاں مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی امامت میں نماز پڑھی ہے.مولوی صاحب چونکہ ترتیل کے ساتھ اور ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرماتے تھے.مقتدی بعض دفعہ سمجھتے تھے کہ آپ بھول گئے ہیں آپ ہمیشہ فرماتے تھے کہ مجھے لقمہ نہ دیا کرو بلکہ انتظار کیا کرو.میں بھولتا نہیں کسی نے یہ اعتراض کیا کہ آپ تلاوت زیادہ لمبی کرتے ہیں تو فرماتے تھے کہ میں بھی مولوی ہوں مجھے علم ہے کہ کتنی تلاوت کرنی چاہئے.آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ ۱۹۳۱ء سے سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں گویا بتیس سال سے خدمت کی توفیق پارہے ہیں.اور اس وقت سپر نٹنڈنٹ ہیں اور اس سارے عرصہ میں حضور کے سفروں میں بالعموم رفاقت کا موقع پاتے رہے ہیں.
۴۲۴ ۱۹۴۵ء میں حضرت مولوی صاحب حضور کے ہمراہ ڈلہوزی میں مقیم تھے.آپ کو جڑی بوٹیوں کی بہت شناخت تھی.چنانچہ آپ تلاش کر کے لاتے تھے اور کمرے میں جمع کرتے تھے اور بتلاتے تھے یہ فلاں فلاں بوٹیاں ہیں.آپ اس عمر میں بھی بہت مستعد نظر آتے تھے.۳۵- آپ کے نواسے اخویم کمال یوسف صاحب سابق مجاہد ڈنمارک ( نبیرہ حضرت سیٹھ ابوبکر جمال یوسف صاحب ) ربوہ خاکسار کو اپنی پیدائش کے پہلے سال سے حضرت نانا جان کی وفات تک آپ ہی کی خدمت میں جو کہ تقریباً پندرہ سال کا عرصہ ہے رہنے کا موقع ملا.اس سارے عرصہ میں خاکسار سے آپ صرف ایک دفعہ ناراض ہوئے.مجھ پر شفقت کا یہ حال تھا کہ میں بجائے نانا ابا کے ہمیشہ ابا جان ہی کہتا.گھر میں کبھی شکایت ہوتی تو آپ خاکسار کے پاس اس کا ذکر کرتے گھر میں کبھی ایک دفعہ بھی کسی کی غیبت نہیں کی کبھی مالی امور میں پریشانی نہیں دیکھی نہ ہی کبھی کسی عہدے مال یا دولت کے حصول کی خواہش کا اظہار کیا.مسجد مبارک میں امامت کو ایک خاص تعہد سے ادا کرتے.ایک دن اپنے گھٹنے پر مجھ سے مرہم لگوائی.( راستہ میں نماز کے لئے جاتے ہوئے گرنے پر سخت چوٹ آئی تھی) فرمانے لگے گھر یعنی اپنی نانی اماں کو نہ بتانا.وہ مجھے نماز پر جانے سے روک دیں گی.آپ کو اس بات کی بڑی ہی خواہش تھی کہ آپ کی اولاد میں سے اور آپ کے آبائی وطن سے کوئی شخص قادیان میں علم دین حاصل کر کے دین کی خدمت میں وقف ہو اور اس ضمن میں آپ ہر ممکن مالی اور قولی کوشش کرتے رہتے.خاکسار نے وقف زندگی بغیر کسی سے مشورہ کرنے اور اطلاع کرنے کے کیا تھا.جب میں آٹھویں جماعت کے امتحان میں کامیاب ہوا تو مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ ( امیر مقامی قادیان) کی طرف سے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے کی تحریک ہوئی جس پر خاکسار نے بغیر کسی کے مشورہ کے لبیک کہہ دیا اس پر بعض عزیزوں نے ہمدردی کے طور پر افسردگی کا اظہار کیا کہ میں مستقبل میں گویا سلسلہ کے چندوں اور زکوۃ پر گزارہ کروں گا اور لنگر خانہ کی روٹی کھانی پڑے گی.مگر جب حضرت مولوی صاحب کو میرے اقدام کی اطلاع ہوئی تو آپ خوشی سے باغ باغ ہو گئے اس وقت آپ کا دمکتا ہوا چہرہ اب تک مجھے یاد ہے.اخویم مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر ہیڈ زودنویس جڑی بوٹیوں کے تعلق میں بیان میں ان کی تصدیق کرتے ہیں اور یہ بھی بتلاتے ہیں کہ ان دنوں میں نے دیکھا کہ آپ کی جماعت میں مقبولیت کی وجہ سے آپ کو بکثرت رقوم منی آرڈروں کے ذریعہ وصول ہوتی تھی.
۴۲۵ آپ سلسلہ کی خدمت کو اتنا بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ آپ اپنی اولاد اور عزیزوں کو اسی راہ پر چلتے دیکھ کر خوش ہونا چاہتے تھے جو آپ کی اس بارہ میں سنجیدگی کا ثبوت تھا.گھر میں جب میں اکیلا ہوتا تھا آپ ہمیشہ مجھے کوئی نہ کوئی نصیحت کرتے فرمایا کرتے تھے کہ چھوٹی سی چھوٹی نیکی کو بھی کبھی نظر انداز نہ کرو.ایک تو اس کنچنی کی نیکی کا ذکر کرتے تھے.جس نے پیاسے کتے کو اپنی جوتی میں پانی پلایا اور خدا تعالیٰ کو اس کی یہ نیکی اتنی پسند آئی کہ اس کو تو بہ کی توفیق ملی اور وہ اصحاب الجنتہ میں سے بنی اور یہ کہ ایک شخص قلم سے لکھ رہا تھا کہ ایک پیاسی مکھی قلم کے نب پر سیاہی چوسنے کے لئے بیٹھ گئی تو اس نے لکھنے سے ہاتھ روک لیا تا کہ وہ پیاس دور کر لے چنانچہ اس کے نتیجہ میں اس کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگئی.فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے والد صاحب کو نصیحت کا خاص ڈھنگ آتا ہے اور وہ ہر پیشے اور ہر دماغ کے آدمی کو نصیحت کر سکتے تھے.فرماتے تھے کہ بچپن میں مجھے ایک غنڈہ چوری چھپے ایک گلی میں ملا اور کہنے لگا میں تمہیں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں اس پر مجھے تعجب ہوا وہ کہنے لگا کہ میں بھی ابتداء میں شریف انسان تھا.مگر ایک دفعہ بدکاری کی پھر تو بہ کی پھر بدکاری کی پھر تو بہ کی اب یہ حالت ہے ک تو بہ کی توفیق نہیں ملتی.میری نصیحت یہی ہے کہ اس گناہ کے قریب نہ پھینکیں.ایک دفعہ گناہ ہو گیا تو پھر اس سے چھٹکارا مشکل ہے.وفات سے قریب ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب کو مسجد مبارک میں ایک دوست کے سامنے یہی قصہ بیان کرنے کے بعد یہ قسم کھاتے دیکھا کہ خدا کی قسم اللہ تعالی نے مجھے ہمیشہ زنا سے محفوظ رکھا.میں نے حضرت مولوی صاحب کے منہ سے بھی یہ نہیں سنا میں نے سلسلہ کے لئے یہ قربانی کی یادہ قربانی کی یا میں نے سلسلہ کی یہ خدمت کی یادہ خدمت کی.سلسلہ کی طرف سے جو بھی فرض آپ کے سپر د ہوا.وہی آپ کا سب سے بڑا اعزاز تھا اور وہی آپ کی زندگی.حضرت مولوی صاحب جب جامعہ احمدیہ کی پرنسپل شپ سے سبکدوش ہوئے تو میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ جناب صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب آپ سے ملتے تو آپ ادب سے فورا کھڑے ہو جاتے اور محترم میاں صاحب کو دیکھ کر آپ کا چہرہ بشاشت سے کھل جاتا.بعض دفعہ میرے ساتھ جب میں اکیلا ہوتا.آپ لاہوری جماعت کے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتراضات کے متعلق بیان فرماتے اور آپ کی آواز غیرت سے بلند ہو جاتی اور جوش سے آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا اور دیر تک آپ ذکر کرتے رہتے گو اس وقت میرے علم میں اتنی وسعت نہیں تھی کہ معاملہ کو سمجھتا.مگر آپ کا حضرت اقدس کی ذات سے عشق کا مجھ پر بہت اثر پڑتا.میں نے کبھی آپ سے وطن واپس جانے کی خواہش کا اظہار نہیں سنا.وفات کے وقت (میرے علم میں ) کوئی پونچی جمع نہ تھی.البتہ کچھ قرضہ تھا صرف مکان جس میں آپ رہائش رکھتے تھے.اور ایک چھوٹا سا قطعہ زمین کا آپ کی ملکیت تھی وبس.وفات سے قریب خاکسار
۴۲۶ جب نور ہسپتال پہنچا تو آپ نزع کی حالت میں تھے.اس وقت مجھے وہاں ٹھہرنے کی ہمت نہ ہوئی گھر میں آکر میں نے اپنی سمجھ کے مطابق جو دعا کی وہ یہ تھی کہ خدایا ! میری زندگی لے لے اور انہیں زندہ رکھ.خدا اگر چاہے اور فضل کرے تو اس صورت میں بھی دعا قبول کر سکتا ہے کہ خاکسار کو اس رنگ میں دین کی خدمت کی توفیق دے جس کے نتیجہ میں ان کے نیک نمونہ کوزندگی حاصل ہو.( خدا کرے ایسا ہی ہو ) آمین.-۳۶ آپ کے صاحبزادہ اخویم سید مبارک احمد صاحب سرور تحریر کرتے ہیں حضرت والد صاحب مسائل کے بارے میں سائل کو جواب دینے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے.استفسار پر آپ فورا جواب بیان کر دیتے اور کبھی یہ نہ کہتے کہ پھر کسی وقت بتاؤں گا.مجھے اس وقت فرصت نہیں یا گھر پر آکر دریافت کر لینا بلکہ اسی وقت تفصیل سے جواب بیان کر کے سائل کو مطمئن فرماتے.چنانچہ بعض اوقات راستہ میں مسئلہ بیان کرتے دوسری نماز کا وقت ہو جاتا اور آپ گھر آنے کی بجائے وہیں سے مسجد واپس تشریف لے جاتے.آپ کی طبیعت میں سختی نہیں تھی.ایک روز سخت گرمی کے موسم میں ایک دوست نماز جنازہ کی اطلاع دینے آئے گرمی سے گھبرائے ہوئے تھے والد صاحب کے پوچھنے پر اسی گھبراہٹ میں انہوں نے کہا ” حضور آپ کا جنازہ تیار ہے.والد صاحب ہنس دئے اور فرمایا میں آتا ہوں.آپ کی خانگی زندگی بہت پر سکون تھی.میں نے عمر بھر میں کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے والدہ صاحبہ سے سختی سے بات کی ہو یا چڑ چڑے پن کا اظہار کیا ہو یا ناراض ہوئے ہوں مجھے شادی کے موقع پر نصیحت فرمائی کہ :- قرآنی دعا رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کثرت سے پڑھا کرو.اب تم پر ذمہ داری پڑنے والی ہے کیا کبھی مجھے تم نے اپنی والدہ سے لڑتے جھگڑتے دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں.فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہماری شادی ہوئی تو میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ ہم ایک سے جذبات رکھتے ہیں ہر ایک کو غصہ بھی آسکتا ہے.گھروں میں معمولی باتوں سے معاملہ بڑھ جاتا ہے اس لئے جب مجھے کسی بات پر غصہ آتا دیکھیں تو دوسرے کمرے میں چلی جایا کریں اور جب آپ کو غصہ میں دیکھوں گا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں دوسرے کمرے میں چلا جایا کروں گا تا کہ بات نہ بڑھنے پائے.دیکھنے میں آیا ہے کہ معمولی معاملہ طول پکڑ جاتا ہے.بیوی خاوند کو جواب دینا شروع کرتی ہے اور باہمی تلخ کلامی بعض اوقات خلع اور طلاق پر منتج ہوتی ہے یا اس وجہ سے گھر یلو سکون اور امن تباہ ہو جاتا ہے.اس نصیحت سے میری اہلی
۴۲۷ زندگی اٹھارہ سال سے نہایت خوشگوار رنگ میں گزر رہی ہے.میں نے اپنی تمام عمر میں آپ کو فرض نماز گھر پر ادا کرتے نہیں دیکھا.آپ ہمیشہ مسجد میں نمازیں پڑھتے تھے البتہ سنتیں گھر پر ادا کرتے تھے.ہجرت سے وفات تک آپ اس اصول پر کار بند رہے کہ حضرت مسیح موعود یا خلیفہ وقت کی اجازت کے بغیر قادیان سے باہر نہ جاتے.مجھے اپنی ہوش میں صرف دو بار آپ کا جانا یاد ہے.ایک بار تو آپ نے میرے بڑے بھائی کی شادی کے موقع پر اپنے وطن کشمیر جانا تھا تحریرہ عرض کر کے آپ نے اجازت حاصل کی.اسی طرح بڑے بھائی کی امرت سر ڈرافٹسمین کے کام کی ٹریننگ کے لئے لے جاتے وقت اجازت حاصل کی تھی.وہاں مکرم عبدالرشید صاحب کے ہاں ایک یوم قیام کیا.میاں صاحب موصوف نے بہت تواضع کی.بھائی جان کا ان کے ہاں ہی دو تین سال قیام رہا.والد صاحب اپنے قیام میں مسجد میں بھی تشریف لے گئے.مقامی جماعت کے اصرار کے باوجود آپ نے نماز کی امامت نہ کرائی اور فرمایا کہ میں اس اصول کا پابند ہوں کہ نماز پڑھانے کا اسی کو حق ہے جو مقامی امام الصلوۃ ہو.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ پر مصلح موعود کے تعلق میں انکشاف پر آپ نے اس بارہ میں ہوشیار پور، دہلی اور لاہور کے جلسوں میں شرکت کی.سفر ہوشیار پور میں میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے.فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے مسیح کے منہ سے جو بشارت ہم نے اپنے کانوں سے سنی تھی.وہ اپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھ رہے ہیں.لاہور کے جلسہ مصلح موعود کے موقع پر مجھے ٹانگہ پر انارکلی میں واقع ” دہلی مسلم ہوٹل میں لے گئے اور کھانے سے فارغ ہونے پر آپ نے اس ہوٹل کے احاطہ میں وہ چھوٹی سی مسجد دکھائی جس میں آپ پڑھتے رہے ہیں اور اس زمانہ کی اپنی تعلیمی مشکلات بھی سنائیں.کھانے کا پروگرام آپ نماز فجر کے بعد صرف خالی سبز چائے کا قہوہ نوش فرماتے تھے.بعدہ نو بجے صبح آپ انڈے اور نشاستہ کا حلوہ کھاتے تھے جو ایک انڈے کو پاؤ بھر دودھ میں حل کر کے ایک چمچہ نشاستہ ڈال کر اور کبھی کا تڑکا ( بگھار ) لگا کر پکا لیا جاتا تھا لیکن یہ حلوہ آپ صرف آخری عمر میں کھانے لگے تھے ورنہ نماز فجر کے بعد قہوہ اور نو بجے صرف خالی سبز چائے پیتے تھے.درس گاہ سے واپس آکر آپ بارہ بجے دوپہر کا کھانا کھاتے تھے.اتنے میں ظہر کی اذان ہو جاتی اور آپ نماز ظہر ادا کر کے دفتر بہشتی مقبرہ تشریف لے جاتے.عصر کی نماز کے بعد آپ سبز چائے کا قہوہ پیتے.آخری عمر میں آپ شیرہ بادام بھی استعمال کرتے.جو دس پندرہ بادام گھوٹ کر ایک پاؤ
۴۲۸ دودھ اور ایک چمچہ نشاستہ ڈال کر گھی کا بگھار لگا کر تیار کیا جاتا.اور یہ دماغ کی تقویت کے لئے سنتا اور بہترین نسخہ ہے رات کا کھانا ہمیشہ عشاء کے بعد کھاتے.آپ کھانا صرف وقت مقررہ پر کھاتے تھے بعد میں کسی کی طرف سے کوئی چیز آتی تو آپ نہیں کھاتے تھے.اگر کھانی ہوتی تو دوسرے وقت کھانے کے موقع پر کھاتے.آپ کھانا چبا چبا کر اور آہستہ آہستہ کھاتے تھے.وسمہ مہندی کا استعمال پہلے آپ کا یہ طریق رہا کہ ہر جمعہ کو پہلے تو آپ مہندی لگا لیتے اور تھوڑی دیر بعد دہی میں وسمہ ڈال کر لگاتے.ترپھلہ ( ہلیلہ.بلیلہ اور آملہ ) کوئی دو دو آنے کے لے کر ایک لوہ چینی کے بڑے پیالے میں ڈال رکھتے تھے.اور ساتھ ہی لوہے کا ٹکڑہ اور مناسب مقدار میں پانی ڈال دیتے تھے.اس پانی کے ساتھ مہندی لگا لیتے تھے.آپ تہجد کی نماز دو بجے شروع کرتے لیکن با وجود ایسی متواتر شب زندہ داری کے آپ نماز فجر کے بعد کبھی نہیں سوتے تھے.لیکن بہشتی مقبرہ میں دعا کے لئے اور سیر کے لئے تشریف لے جاتے تھے.البتہ موسم گرما میں دو پہر کو قیلولہ فرماتے.آپ بچوں کو بچپن سے نماز کی عادت ڈالتے تھے.جب میں ابھی پانچ چھ سال کا تھا.آپ مجھے گود میں اٹھا کر مسجد مبارک میں لے جاتے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ کی نماز اتنی لمبی ہوتی کہ میں آدھی نیند مسجد میں ہی پوری کر لیتا.مجھے ساتھ لے جانے سے مقصود یہ تھا کہ مجھے اس عمر سے نماز اور نماز بھی مسجد میں اور باجماعت ادا کرنے کی عادت ہو جائے.بعد نماز آپ مجھے سوئے ہوئے کو اٹھا کر گھر لے آتے.لیکن مسجد میں ضرور لے جاتے تھے.اس طرح بفضلہ تعالیٰ مجھے نماز کی عادت پڑ گئی.ہمیں آپ خاص طور پر دو باتوں کی تاکید فرماتے تھے ایک یہ کہ خلافت سے ہمیشہ وابستہ رہو اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل کو اپنا نصب العین جانو.تایا جان حضرت سید محمد صادق صاحب مرحوم نے حضرت والد صاحب کو خط لکھا کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں.میری دولڑکیاں جوان ہیں.میں چاہتا ہوں کہ میری بڑی بیٹی کی شادی عزیزم سید مبارک احمد سے کر دوں.آپ عزیز کو میرے پاس کشمیر بھیج دیں تا کہ وہ بھی یہاں کے حالات دیکھ لے.موسمی تعطیلات میں میں موضع لدرون میں ان کے پاس پہنچا.آپ نے علیحدگی میں باتوں باتوں میں رشتہ کے متعلق بھی ذکر کیا اور اپنے خانگی حالات بتاتے ہوئے فرمایا کہ اب میری عمر کا آخر ہے.نرینہ اولا دکوئی نہیں.میری یہ خواہش ہے کہ
۴۲۹ آنعزیز کو بطور خانہ داماد “ یہاں رکھوں.اس طرح میری جائیداد خاندان سے باہر جانے سے محفوظ رہے گی اور تم مستقل طور پر یہاں رہائش رکھو تا کہ میرے بعد جائیداد کے مالک بنو.میں نے بلایا تھا تا کہ تم خود حالات دیکھ سکو.میں نے خط میں خانہ دامادی کا ذکر نہیں کیا تھا کہ مولوی صاحب اس بات کو نہیں مانیں گے.میں نے سوچا کہ اس میں کسی قسم کا خسارہ نہیں اور تایا جان کی خدمت بھی ہو جائے گی.میں اس امر پر آمادہ ہو گیا لیکن حضرت والد صاحب کے عدم اتفاق کا خوف بھی تھا.اس لئے عرض کیا کہ میں مفصل احوال والد صاحب کی خدمت میں تحریر کرتا ہوں.میں تو متفق ہوں لیکن ان کی رضامندی بھی ضروری ہے.مجھے توقع ہے کہ حالات کے پیش نظر وہ بھی متفق ہو جائیں گے.حضرت والد صاحب کا جواب آیا تو سخت غصہ سے بھرا ہوا تھا.جس کا لب لباب یہ تھا کہ تم کو شرم آنی چاہئے کہ تمہارے والد نے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے مسیح کی خاطر اپنا وطن اور اقارب کو چھوڑ چھاڑ کر قادیان ڈیرہ آجمایا اور دنیوی حرص و آز کو خیر آباد کہتے ہوئے پشاور کالج کی اعلیٰ ملازمت ترک کر دی اور قادیان میں پندرہ روپے کی ملازمت قبول کرلی اور آج تک اپنے بھائیوں سے جدی جائیداد کا حصہ یا اراضی کا غلہ نہیں لیا.حالانکہ میرا بھی ویسا ہی حق تھا جیسا کہ ان کا تھا لیکن مجھے تم پر افسوس ہے کہ تم دین چھوڑ کر دنیا کی طرف جانا چاہتے ہو.حالانکہ تمہیں میری طرح دین کو دنیا پر مقدم رکھنا چاہئے تھا تم فوراً قادیان واپس آجاؤ.تایا جان جو میرے آنے سے جو ان نظر آتے تھے کہ انہیں ایک سہارا مل گیا ہے.خط پڑھ کر ایک کملائے ہوئے پودے کی طرح ہو گئے اور اپنے آنسو ضبط نہ کر سکے اور باوجود یکہ ابھی ڈیڑھ ماہ کی تعطیلات باقی تھیں میں دوسرے روز ہی وہاں سے قادیان کی طرف روانہ ہو گیا.تقسیم ملک کے باعث ہمیں قادیان ترک کرنا پڑا.بالآخر ۱۹۵۲ء میں میں نے اپنے وطن موضع گھنڈی پیراں ( کشمیر ) میں مستقل قیام کا عزم کر لیا اور اہل و عیال سمیت وہاں جا پہنچا.ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ ایک رات خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں کمرے میں چار پائی پر لیٹا ہوا ہوں کہ اچانک حضرت والد صاحب کمرے میں داخل ہوئے لیکن آپ نہایت غصہ کی حالت میں ہیں آتے ہی آپ نے بڑے غصہ سے مجھے فرمایا کہ تمہیں جو میں نے کہا تھا کہ مرکز کو نہ چھوڑ نا تم پھر یہاں آگئے یہ کہہ کر آپ نے مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور کمرے سے باہر نکال دیا.چنانچہ میں اپنا ارادہ ترک کر کے ربوہ چلا آیا اور یہاں قیام کر لیا.اس سے ظاہر ہے کہ مرکز میں قیام کے متعلق حضرت والد صاحب کا جذبہ کس قدر شدید تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے آپ کی وفات کے بعد نہ چاہا کہ آپ کی نصیحت پر میں کار بند نہ ہوں.اور آپ کا یہ شدید جذ بہ اور آپ کی روحانی برکت مجھے پر پھر مرکز میں واپس لانے کا موجب ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک.
۴۳۰ آپ کو خاندان حضرت مسیح موعود اور بالخصوص حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بہت محبت تھی اور یہ امر کسی سے مخفی نہیں اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب آپ کا بہت خیال رکھتے تھے.قادیان والا مکان حضرت صاحبزادہ صاحب کی توجہ سے ہی والد صاحب کو ملا تھا.فتنہ مصری کے ایام میں موسم گرما میں والد صاحب نے ایک خطبہ جلالی رنگ میں پڑھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ڈلہوزی تشریف لے گئے ہوئے تھے.خطبہ میں فرمایا کہ ہم لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر قادیان چلے آئے.ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود کو دیکھا اور حضرت میاں صاحب ( خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کے بچپن اور جوانی کے زمانے دیکھے.میں حلفاً کہتا ہوں کہ میں نے کوئی ایسی بات جو سلسلہ کے وقار یا اسلام کے خلاف ہو نہیں دیکھی.پھر آپ نے بڑے جلال سے فرمایا کہ میں اپنی مثال آپ لوگوں کے سامنے رکھتا ہوں.میں ایک پیر خاندان کا فرد ہوں.میں نے ان کی بیعت اس لئے کی کہ میں ان کو اپنے سے زیادہ بزرگ اور خلیفتہ اللہ یقین کرتا ہوں.آج مصری صاحب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ پر گھناؤ نے الزام لگا رہے ہیں.میں ان کو یہ کہتا ہوں اور اسی مسجد اقصیٰ میں منبر پر کھڑے ہو کر اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سرور شاہ نے آج تک بد کاری نہیں کی.پھر اس کا مقتدا خلیفہ کیوں کر اس فعل بد کا مرتکب ہوسکتا ہے.یہ سب کذاب و افترا ہے.مصری صاحب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیئے ایک دن انہوں نے اس کے حضور حاضر ہونا ہے.یہ الفاظ آپ نے نہایت بلند جلالی آواز سے کہے اور اس وقت آپ کا چہرہ غصہ سے سرخ تھا.از اخویم مولوی سلیم اللہ صاحب فاضل پنشنز مدرس اوکاڑہ ضلع منٹگمری ) مجھے ۱۹۱۱ء سے ۱۹۲۷ ء تک قادیان میں قیام کا موقع ملا.آپ کی شاگردی کا شرف بھی حاصل کیا.آپ کو با جماعت نماز کا جس قدر احساس تھا.وہ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ آپ کی صاحبزادی حلیمہ بیگم نزع کی حالت میں تھیں کہ اذان ہوگئی.آپ نے بچی کا ماتھا چوما اور سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے سپر د خدا کر کے چلے گئے بعد نماز جلدی سے اٹھ کر واپس آنے لگے تو کسی نے ایسی جلدی کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ نزع کی حالت میں بچی کو چھوڑ موصوف حضرت مولوی صاحب کے موضع دانہ کے ذاتی خادم میاں بگا کے بیٹے ہیں.دوران تعلیم قادیان میں آپ ہی کے مکان میں قیام رکھتے تھے اور حضرت مولوی صاحب کی شفقت سے حصہ وافر پاتے تھے.
۴۳۱ آیا تھا.اب فوت ہو چکی ہوگی.اس کے کفن دفن کا انتظام کرنا ہے.چنانچہ بعض دوسرے دوست بھی گھر تک ساتھ آئے اور بچی وفات پاچکی تھی.ایک دفعہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ علیل تھے مولوی صاحب با وجود خود شدید انفلوائنزا کے بخار میں مبتلا ہونے کے مسجد مبارک میں باقاعدگی سے نماز کے لئے آتے تھے.گھر میں آپ کے سونے کا کمرہ علیحدہ تھا.وہاں بھی نوافل میں آپ منہمک ہوتے.قیام وجود طویل ہوتے.ایک دفعہ میں بعد عشاء آپ کے پاس ایک شکایت لے کر آیا تو آپ کو نوافل میں مصروف پایا.باہر منتظر رہا.بورڈ نگ کے طلباء بعد مطالعہ سو گئے لیکن آپ کے نوافل میں قریباً دو گھنٹے صرف ہو گئے.میرے کچھ عرض کرنے کے بغیر ہی آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے التحیات میں مجھے اس لڑکے کے متعلق ایک آیت قرآنی الہام کر کے مجھے اس کے متعلق دعا کی تحریک ہوئی ہے کہ دعا سے اس کی اصلاح ہو جائے گی.اس کے بعد پھر آپ نے لمبی دعا کی.چنانچہ جلد ہی اس لڑکے کی اصلاح ہو گئی.آپ راضی برضائے الہی رہتے تھے لیکن آپ نے کبھی کسی کے سامنے آنسو نہیں بہائے اور نہ ہی گھبراہٹ کا اظہار کیا.آپ کے ایک ڈیڑھ سالہ بچے کے متعلق آپ کو خواب میں بتلایا گیا کہ یہ امرت سر گیا تو فوت ہو جائے گا.غالبا دوسرے ہی دن آپ کی اہلیہ محترمہ نے امرت سر والدین کی ملاقات کے لئے جانے کا ارادہ کیا.آپ نے اپنا خواب سنایا اور وہ رک گئیں لیکن تین چار دن کے بعد اصرار کیا.آپ نے اجازت دے دی اور مجھے ہمراہ بھجوا دیا.چنانچہ میں چھوڑ آیا.تیسرے دن خط آیا کہ بچہ نمونیہ میں مبتلا ہو کر سخت علیل ہے.آپ امرت سر گئے بچہ وہیں وفات پا گیا.واپس آنے پر میں نے آپ کی اہلیہ محترمہ سے دریافت کیا کہ آپ حضرت مولوی صاحب کی خواب سننے کے باوجود امرت سرکیوں گئیں تو فرمایا کہ ان کو کچھ نہ کہو.مولیٰ کی یہی مرضی تھی.آپ شاگردوں کے مشفق استاد تھے.ہر تکلیف میں ان کی ہمدردی اور امداد کرنا چاہتے تھے.ایک دفعہ ایک طالب علم کی کسی غلطی کی شکایت افسر صاحب مدرسہ (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کے پاس پہنچی تو آپ اس کی امداد کے ارادہ سے گھر سے نکلے لیکن آپ کو الہام ہوا.لاتـكـن لـلـمـجرمین ظهیرا جس سے آپ سمجھ گئے کہ وہ قصور وار ہے.آپ نے یہ واقعہ حضرت قاضی امیرحسین صاحب سے بیان کیا اور کہا کہ آپ اس کی سفارش کریں.چنانچہ قاضی صاحب کی سفارش پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس طالب علم کو معمولی تنبیہہ کر کے معاف کر دیا.جن ایام میں آپ بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے سپر نٹنڈنٹ تھے تو نماز فجر کے لئے آپ بورڈران کے پاؤں کا انگوٹھا دبا کر فرماتے تھے.میاں اٹھو نماز کا وقت ہو گیا ہے یہ حکم آپ کی زبان سے اتنا پیارا معلوم ہوتا کہ سب لڑکے فوراً بیدار ہو جاتے.جب لڑکے ہنسی مذاق کی باتیں کرتے آپ کبھی ان کے پاس سے گزرتے تو ایسی
۴۳۲ صورت میں گزرتے گویا آپ نے کوئی بات نہیں سنی اور آپ کبھی یہ نہ جتلاتے کہ میں نے تمہاری یہ بات سن لی تھی یا تم شور کرتے تھے تا کہ لڑکے شرمندہ نہ ہوں.البتہ ان کونصیحت حاصل ہو جائے.اس پر لڑ کے خود ہی شرمندہ ہو جاتے تھے جو طالب علم جھوٹ بولتا تو اسے سختی سے تنبیہ کرتے کہ جھوٹ نہ بولو اور اگر کوئی بچہ سچ بولتا اور کچی بات بتا دیتا تو آپ اسے سزا نہ دیتے بلکہ محبت اور پیار سے سمجھاتے اور نصیحت فرماتے.آپ شاگردوں کو نصیحت فرماتے کہ روزانہ با قاعدگی سے مطالعہ کرنا چاہئے اور بار بار اس امر کی تاکید ی تفصیل فرماتے تھے اور بیان کرتے کہ میں اپنے اساتذہ کے پاس بغیر مطالعہ کے کبھی نہیں جاتا تھا.آپ پوری تف سے پڑھاتے اور ہر پہلو کو پوری طرح واضح کرتے.چنانچہ ایک دفعہ آپ نے دولفظوں کی تشریح پر ایک ہفتہ صرف کر دیا تھا.مجھے یاد ہے کہ خلافت اولیٰ میں آپ حضرت صاحبزادہ صاحب کو گول کمرے میں سبق پڑھاتے تھے اور میں وہاں آپ کے لئے قہوہ لے کر جاتا.جب میں دروازه پر دستک دیتا تو صاحبزادہ صاحب اٹھ کر دروازہ کھولتے اور قہوہ کی ٹرے پکڑ لیتے اور مولوی صاحب کے سامنے رکھ دیتے.مولوی صاحب نے مجھے فرمایا کہ جب قہوہ لاؤ.السلام علیکم کہو اور آواز دو تا کہ میں آواز پہچان کر خود اٹھ کر ٹرے لے لیا کروں لیکن باوجود اس کے بعض دفعہ صاحبزادہ صاحب ہی قہوہ پکڑ لیتے.اس پر مولوی صاحب نے مجھے قہوہ وہاں پہنچانے سے منع کر دیا اور فرمایا کہ چونکہ صاحبزادہ صاحب بعض دفعہ ٹرے پکڑ لیتے ہیں مجھے اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے.آپ عالی شان وجود ہیں اور انبیاء کی پیشگوئیوں کے مصداق ہیں.آپ دیگر صاحبزادگان کا بھی بہت احترام کرتے تھے.ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے آپ سے پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے اس پر خوشی سے آمادگی کا اظہار کیا لیکن صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ میں خود آپ کے پاس آیا کروں گا لیکن آپ اس پر رضامند نہ ہوئے اور بالآخر اس امر پر آمادہ کر لیا کہ آپ ان کی کوٹھی پر پہنچ کر پڑھایا کریں گے.چنانچہ آپ عصر کے بعد صاحبزادہ صاحب کی کوٹھی پر پہنچتے اور پڑھاتے.حالانکہ کوٹھی تعلیم الاسلام کالج کے قریب آپ کے مکان سے جو شہر میں تھا بہت دور تھی.ایک دفعہ جبکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب افسر مدرسہ احمد یہ تھے ہم کھیل کے معاملہ میں آپ کو ناراض کر کے واپس چلے آئے.حضرت مولوی صاحب کو علم ہوا تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ اس شخص کی کیا شان ہے اور یہ کون ہے تم نے سخت غلطی کی.آپ کو اتنا نا گوار گزرا کہ ہم آپ کے سامنے آنکھ بھی نہ اٹھا سکتے تھے.اگلے روز ہمیں حضرت صاحبزادہ صاحب نے دفتر میں بلوایا.قبل اس کے کہ آپ ہمیں کچھ کہتے ہم سب رونے لگے اس پر آپ کی آنکھیں بھی ڈبڈبا آئیں اور فرمایا کہ میں تو آپ سے
۴۳۳ بھائیوں جیسا سلوک کرتا.ان الفاظ سے ہم اور بھی زیادہ رونے لگے.جس پر آپ نے از راہ شفقت فرمایا کہ جاؤ اپنی جماعتوں میں کوئی بات نہیں.میں نے اس تفصیل کا ذکر حضرت مولوی صاحب سے کیا تو آپ نے ایک خاصی لمبی تقریر فرمائی جس میں فرمایا.میاں تمہیں معلوم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے لئے کس قدر دعائیں کی ہیں.یہ آیت اللہ میں ان کی جتنی عزت کرو کم ہے اور پھر بتایا کہ میں حضرت صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ) والی جماعت میں آپ کے احترام کی وجہ سے کرسی پر بھی نہیں بیٹھتا تھا.آپ بیان کرتے تھے کہ تفسیر قرآن مجید جو میں لکھتا تھا اور شائع ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد لکھنی بند کر دی.ایک دن حضرت خلیفتہ الاول نے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ آپ سے کسی آیت کی تفسیر میں اختلاف ہوتا تھا اس کا بھی میں ذکر کر دیتا تھا لیکن چونکہ آپ اب خلیفہ ہیں اور میں آپ سے بیعت ہوں اس لئے اختلاف نہیں کر سکتا اور تفسیر لکھنا بند کر دیا ہے.آپ نے فرمایا مولوی صاحب! آپ تفسیر ضرور لکھیں اور جس جگہ مجھ سے اختلاف ہو وہاں ضرور بالوضاحت ذکر کریں آپ کے حکم سے میں نے پھر تفسیر لکھنا شروع کر دیا.ہم دیکھتے ہیں کہ اختلاف کی صورت میں بھی آپ نہایت ادب سے اس کا ذکر کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول بعض دفعہ فرماتے تھے کہ میں حافظ روشن علی صاحب کی تسلی نہیں کر اسکا.آپ ان کو یہ سبق پڑھا دیں.آپ یہ عرض کرتے کہ آپ یوں نہ فرمائیے بلکہ پڑھانے کا حکم دے دیا کریں.آپ بچوں اور بچیوں سے ایک جیسا سلوک کرتے.برابر مقدار میں پیسے دیتے.اولاد کے ساتھ بہت محبت اور پیار کرتے تھے.کوئی بیمار ہو جاتا تو اسے گود میں لے کر بہت بہت دیر تک ٹہلتے رہتے تھے.میں نے اپنے سترہ سالہ قیام میں اپنے اہل بیت سے کبھی لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا.آپ حیا اور چشم پوشی کے باعث کسی شخص کو بالمشافہ اس کی شکایت کے بارے میں کچھ نہیں فرماتے تھے بلکہ نام لئے بغیر سب کے سامنے بات بیان کر دیتے تا کہ ایسا شخص اپنی اصلاح کرلے.چونکہ حضرت مسیح موعود کی خواہش پر کہ آپ زیادہ عرصہ قادیان میں قیام رکھیں بالآخر حضور کی اجازت سے ہجرت کر آئے تھے.اس لئے آپ نے اپنے وطن کا خیال ہی دل سے نکال دیا تھا.صرف بڑے بیٹے کی شادی پر اور ایک دفعہ اپنی پھوپھی صاحبہ کی وفات پر آپ وطن گئے.فرماتے تھے کہ جب حضرت صاحبزادہ مرزامحموداحمد صاحب (خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی) مدرسه تعلیم الاسلام میں تعلیم حاصل کرتے تھے تو میں آپ کی جماعت میں آپ کے احترام کی وجہ سے کرسی پر نہیں بیٹھتا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی علومشان کے متعلق اطلاع دے دی تھی.
۴۳۴ جو شخص آپ کی مخالفت کرتا آپ اس کو جواب نہ دیتے اور فرماتے کہ فرشتے میری طرف سے اس کو جواب دیں گے میں نہیں دوں گا.اس کی ایک مثال شیخ عبد الرحمن صاحب مصری ہیں جو ہمیشہ آپ کی شدید مخالفت پر کمر بستہ رہتے تھے لیکن آپ ایسی چشم پوشی کرتے کہ اس پر یہ بھی ظاہر نہ ہوتا کہ آپ کو اس کی کارروائیوں کا علم ہے.مصری صاحب کی اہلیہ نے خواب دیکھا کہ مصری صاحب کو مکان کے باہر کھڑا کر کے گولی ماردی گئی جس سے ان کا سینہ چاک ہو گیا.چنانچہ انہوں نے غرباء میں کھانا بطور صدقہ تقسیم کیا.حضرت مولوی صاحب نے مغرب کی نماز کے بعد اپنے گھر آتے ہوئے کھانا کھانے والوں کا اجتماع دیکھا تو اس کی وجہ دریافت کی.میں نے بیان کی تو فرمایا کہ خواب کی تعبیر یہ ہے کہ مولوی صاحب کے دل کی باتیں ظاہر ہو جائیں گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ منافقانہ باتیں جو وہ دل میں عرصہ سے چھپائے بیٹھے تھے نہ صرف دوسروں کے ذریعہ بلکہ خود اپنے خطوط سے طشت از بام ہوگئیں اور حضرت مولوی صاحب کی تعبیر صحیح نکلی.ایک دفعہ جبکہ آپ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی جگہ قائم مقام سیکرٹری صدرانجمن تھے.مرزا محمد اشرف صاحب محاسب نے ایک چیک قیمتی چھ ہزار روپیہ چوہدری برکت علی خان صاحب مرحوم کو ( جو بعد میں وکیل المال ہو گئے تھے ) دیا کہ لاہور سے اس کی رقم لے آئیں.اتفاقا یہ رو پیراستہ میں ضائع ہو گیا.اس پر صدرانجمن نے ہر دو کو معطل کر دیا.اس موقع پر شیخ مصری صاحب نے غلط واقعات حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کئے.گویا کہ مولوی صاحب کی اس نقصان کے متعلق ذمہ داری ہے.حضور نے اس بارہ میں استفسار کیا.آپ چونکہ بے قصور تھے اس اچانک استفسار سے آپ نے بہت صدمہ محسوس کیا.خصوصاً حضور کی ناراضگی کے باعث آپ نے خلوت اختیار کر لی اور کمرے میں علیحدگی میں دعائیں کرتے رہتے.صرف قہوہ منگواتے کھانا بھی چھوٹ گیا.البتہ نمازیں مسجد میں باجماعت ادا کرتے.پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے حضور کے استفسار کا جواب طلب ہوتا رہا.آپ نے کہلا بھیجا کہ میرے مکان پر کسی کو نہ بھیجا جائے میں جواب دے دوں گا.چنانچہ آپ نے چھ صفات پر مشتمل ایک خط میں حضور کی خدمت میں جملہ پر حالات تحریر کئے.اس میں یہ بھی لکھا کہ حضرت مسیح موعود نے ایک بار محض میری واحد شہادت پر فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ایک دفعہ ایک ہی صحابی کی شہادت پر فیصلہ فرما دیا تھا اس پر مصری صاحب کے بیان کردہ امور کی تغلیط ہوکر معاملہ صاف ہو گیا.۳۸.خاکسار مؤلّف اپنے تاثرات مختصر اذیل میں عرض کرے گا.کیونکہ بیشتر حصہ دیگر احباب کی طرف سے بیان ہو چکا ہے اپنے بیان میں راقم نے بعض حوالے بھی شامل کر دئے ہیں.
۴۳۵ عزم صمیم و غیره اخلاق فاضله.آپ عزم صمیم کے مالک تھے اور یہ امر آپ کے ترک افیون کے واقعہ سے ظاہر ہے.آپ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی نصیحت سنی اور اس پر عمل پیرا ہونے میں متر در نہیں ہوئے.حالانکہ ایک دم ترک کرنے سے شدید تکلیف برداشت کرنی پڑی لیکن موت و حیات کی کشمکش آپ نے بطبیب خاطر قبول کی.منشی اشیاء کی عادت چھوڑ نا سہل امر نہیں کہ قریباً پچھتر سال کی پیرانہ سالی کی عمر تک نہایت با قاعدگی سے تہجد گزاری اور بے مثال با جماعت ادا ئیگی نماز بھی آپ کی عدیم النظیر قوت ارادی پر دال ہے.آپ جس وقت ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود کے عہد میں امامت صلوۃ کرتے تھے تو صرف بتیس سال کی عمر کے تھے.اس وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سینتالیس سال کے تھے اور سید محمد احسن صاحب بھی بہت زیادہ عمر کے تھے.آپ میرے شفیق استاد اور سلسلہ کے بہت بڑے بزرگ تھے اور میں آپ کا ادنی شاگر د تھا.میرے فائدہ کی ایک بات آپ کو سو جبھی آپ مجھے اپنے پاس بلوا سکتے تھے لیکن خاکسار کے پاس بنفس نفیس لائبریری میں تشریف لائے.آپ اپنے شاگردوں پر استاد ہونے کا فخر نہیں جتاتے تھے بلکہ انکسار اور فروتنی سے ہی ملاقات فرماتے اور یہ خلق جمیل آپ سے کبھی الگ ہوتے نہیں دیکھا.میں بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں چھ سات سال مقیم رہا.حضرت مولوی صاحب کا قیام بھی بورڈنگ کے کوارٹر میں تھا.بسا اوقات ہم اس کوارٹر کے پاس ہی کھیلتے یا بہت وقت گزارتے لیکن میں نے کبھی بھی آپ کو اہل بیت سے بآواز بلند یا غصہ سے مخاطب ہوتے نہیں پایا.بشیر آرچرڈ صاحب کا رویا بشیر آرچرڈ صاحب ہندوستان میں فوج میں ملازم تھے.جبکہ ان کو قبول احمدیت کی توفیق ملی اور تقسیم ملک کے وقت حصول علم دین کے لئے وہ قادیان میں مقیم تھے اور آج کل جزیرہ ٹرینڈ اڈ میں مجاہد ہیں.انہوں نے ذکر تذکرۃ المہدی حصہ اول میں حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں.”جناب مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب جب قادیان حضرت امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت سے مشرف ہوئے تو ایک دم افیون ترک کر دی.وہ افیون بھی معتاد سے زیادہ کھاتے تھے ان کو کوئی نقصان نہ ہوا بلکہ اور زیادہ تندرست اور قوی ہو گئے.“ (صفحہ ۱۰) ترک افیون سے آپ کی شدید علالت کا تفصیلی ذکر سیرۃ سرور حصہ اول میں آچکا ہے.
۴۳۶ کیا تھا کہ مجھے حضرت مولوی صاحب کے متعلق کسی قسم کا خیال پیدا ہوا تو مجھے خواب آیا جس سے مجھے اطمینان ہو گیا مجھے دکھایا گیا کہ مولوی صاحب بغیر کسی ظاہری سامان سیڑھی وغیرہ کے بلند ہوتے ہوتے اوپر مسجد مبارک میں پہنچ رہے ہیں.گویا آپ کا روحانی مقام رفیع اور ترقی دیکھائی گئی تھی.محترم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل تحریر فرماتے ہیں:.اول تو مولوی صاحب کی شخصیت آپ کا تجر علم و فضل حضرت اقدس علیہ السلام آپ پر کمال درجہ شفقت رکھتے.نمازوں میں امام بناتے اور جب کوئی علمی مسئلہ قابل تحقیق ہوتا یا عربی کتاب کا پروف تو یہ خدمت آپ کے سپر د بھی ہوتی تھی.اخویم مرزا عبداللطیف صاحب انچارج لنگر خانہ قادیان سناتے ہیں کہ میرے ہاں دو تو اُم بچیاں پیدا ہوئیں.ایک بیمار ہو کر وفات پاگئی.اطلاع ملنے پر حضرت مولوی صاحب نے جنازہ پڑھایا اور دوسری بچی کا حال دریافت کیا.میں نے عرض کیا کہ وہ تو تندرست ہے.فرمایا کہ جڑواں بچوں میں سے جو تکلیف ایک کو ہو وہ دوسرے کو بھی ہو جاتی ہے.تدفین کے بعد گھر پہنچا تو دوسری کی بھی حالت غیر پائی اور وہ بھی تھوڑی دیر میں راہی ملک بقا ہوئی.اسی وقت تجہیز و تکفین کی اور بعد جنازہ دفن کر کے لوٹ رہا تھا تو حضرت مولوی صاحب سے ملاقات ہوگئی.میں نے دوسری بچی کی وفات کا ذکر کیا.فرمایا میاں مجھے کیوں اطلاع نہ دی.میں نے عرض کیا کہ اسی وجہ سے کہ آپ کو دوسری بار کیا تکلیف دینی ہے.مرزا صاحب بتاتے ہیں کہ مولوی صاحب تدفین تک جنازے کے ساتھ رہتے تھے.نیز روزانہ شام کو مزار حضرت اقدس پر دعا کے لئے تشریف لے جاتے.نشانات دیکھنا آپ کو حضور کی صحبت میں نشانات دیکھنے کے مواقع بھی حاصل ہوئے اور یقیناً یہ امر آپ کے لئے برکت واز دیاد ایمان کا موجب ہوا ہوگا.چنانچہ ۰۷-۲-۲۸ کو حضوڑ کو جو الہام ہوا کہ د سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی.خوش آمدی نیک آمدی.“ اس پیشگوئی کو قبل از وقوع آپ نے بھی سنا اور یہ پیشگوئی تین دن کے اندر پوری ہوئی 72 قبل از وقوع سننے والے ایک صدا حباب کے اسماء حقیقتہ الوحی صفحہ ۶ ۵ تا ۵۸ میں درج ہیں.”محمد سرور حنفی عنہ آپ کا نام وہاں موجود ہے.(صفحہ ۵۷)
۴۳۷ ہوا ہے.اس طرح ۲۰ جون ۱۹۰۳ء کے متعلق حضرت مسیح موعود نے اپنے قلم مبارک سے ایک کاپی پر رقم فرمایا عمر دراز - إِنَّا النَّالَكَ الْحَدِيدَ - إِنِّي تَعَلَّقْتُ بِأَهْدَابِكُمْ - رَجُلٌ كَبِيرٌ یاد داشت.جب یہ الہام ہوا.انى تعلّقت باهدابكم.رجل کبیر.اس کے بعد قلات کے بادشاہ معطل کی طرف سے خط آیا کہ میں آپ کے دامن سے وابستہ ہو گیا.اس کے گواہ مفتی محمد صادق ، مولوی مبارک علی ،سید سرور شاہ ، مولوی محمد علی صاحب ایم.اے مولوی عبد الکریم صاحب، مولوی حکیم نور دین صاحب، نواب محمد علی خان صاحب.مولوی شیر علی صاحب بی اے وغیرہ اصحاب ہیں جو چالیس کے قریب ہوں گے.‘ ۱۳ شحنہ ہند کو دعوت شحنہ ہند میرٹھ کوحضور کے ساتھ قرآن مجید کے کسی حصہ کی تغییر فصیح و بلیغ عربی میں لکھنے کے لئے جن ایک سواحباب کی طرف سے دعوت مقابلہ دی گئی تھی ان میں مولوی صاحب بھی شامل تھے.ان احباب نے یہ اقرار کیا تھا کہ ہماری طرف سے ہمارے وکیل حضرت مسیح موعود ہوں.اور ان کی فتح وشکست ہماری فتح و شکست ہوگی میمیرد جلسئہ ندوۃ العلماء کیلئے وفد ندوۃ العلما کا جلسہ بمقام امرتسر ۹ تا ۱۱ اکتوبر ۱۹۰۲ء منعقد ہونے والا تھا.حافظ محمد یوسف صاحب نے یہ اشتہار دیا کہ ابو اسحاق محمد دین نے قطع الوتین نامی رسالہ لکھا ہے جس میں ایسے مدعیان کا ذب کے اسماء مع تاریخی حوالوں کے درج ہیں.جنہوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم جیسے دعوی الہام کے بعد تئیس سال زندگی پائی.مرزا صاحب (علیہ السلام) اس جلسہ میں شریک ہوں اور یہ تحریر کر دیں کہ اگر ندوہ کے منتخب علماء ان نظائر کو درست تسلیم کر لیں تو آپ جلسہ میں ہی تائب ہو جائیں گے.حضور نے تحفتہ الندوہ نامی رسالہ تصنیف فرمایا.جس میں آپ نے حافظ صاحب کے مسلک کی تردید کی اور یہ بھی بتایا کہ دینی مسئلہ میں میں اٹھائیسویں نمبر پر آپ کا نام ”مولوی سید سرورشاہ صاحب کشمیری مظفر آبادی“ موجود ہے (الحکم ۰۲-۲-۱۴ صفحه اک۲)
۴۳۸ ندوۃ العلماء کوحکم قرار نہیں دے سکتا.البتہ ندوۃ العلماء حافظ صاحب سے حلفاً ایسے مدعیان نبوت کا ثبوت طلب کریں جن کی وحی کا ذب تیئیس سال تک قرآن مجید کی وحی کی طرح جاری رہی اور ان لوگوں نے قسمیہ بیان کیا ہو کہ وہ نبی ہیں اور قرآن مجید کی طرح ان کی وحی قطعی یقینی ہے کیا ان لوگوں نے ان کے ہمعصر مولویوں کو کافر ٹھہرایا یا نہیں.اگر نہیں تو کیوں؟ کیا وہ مسلمانوں کی قبروں میں دفن کئے گئے یا الگ کیا ان کو اسلامی سلطنت میں قتل کیا گیایا قتل سے مامون رہے اور علماء ندوہ میں سے بعض منتخب افراد قادیان آئیں اور مجھ سے معجزات و دلائل لیں.( تحفتہ الندوہ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی صاحب سمیت پانچ افراد پر مشتمل ایک وفد جلسہ میں شمولیت کے لئے بھجوایا.وہاں معلوم ہوا کہ بدوں مشورہ علماءند وہ حافظ صاحب نے اشتہار دے دیا تھا.سو وفد نے انفرادی رنگ میں ہر سہ روز پیغام احمدیت پہنچایا اور تحفتہ الندوہ اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا منظوم رسالہ دعوۃ الندوہ تقسیم کیا.۱۵ حضور ابتدائی عربی عبارت میں ان افراد کو اپنے رسول ( یعنی پیغامبر ) کے نام سے موسوم فرماتے ہیں.رقم فرماتے ہیں.وهذه رسالة منى اهديت لكم يا اهل الندوة لعلكم تفتحون عيونكم اوتتم عليكم حجة الله فلا تعتذرون بعدها ولا تختصمون.واني سميتها تحفة الندوة واني ارسل الیکم رسلی و انظر كيف يرجعون تحفہ گولڑویہ میں ذکر آپ کے واسطہ سے حضرت اقدس نے مرزا محمد اسمعیل صاحب سابق انسپکٹر مدارس پشاور کی شہادت تحفہ گولڑویہ میں درج فرمائی ہے کہ حضرت پیر صاحب کو ٹھہ والوں نے یہ کہا تھا کہ مہدی آخر الزمان پیدا ہو گئے ہیں اور اب اس کا زمانہ ہے اور ہمارا زمانہ جاتارہا اور کہ مہدی کی زبان پنجابی ہے (صفحہ ۵۵ حاشیہ ) ترجمہ: اے اہل ندوہ میں آپ کو یہ رسالہ بطور ہدیہ بھیج رہا ہوں تا آپ اپنی آنکھیں کھولیں یا آپ پر اللہ تعالیٰ کی حجت تمام ہو.اور اس کے بعد عذر نہ کر سکو اور نہ مخاصمت کرو اور میں نے اس کا نام تحفہ الندوہ رکھا ہے اور میں اپنے ایچی آپ کی طرف بھیج رہا ہوں اور دیکھوں گا کہ وہ کیا جواب لاتے ہیں.14
۴۳۹ شیر به نظر غیر بطل جلیل و حریف ذلیل وہ کون سا مباحثہ تھا کہ جس کے ذکر سے فریق مخالف عمر ترساں ولرزاں اور اس کے خلاف اس واقعہ ہائلہ کا ذکر کرنے سے بدکتے ہیں؟ یہ تھا مباحثہ مد! اس میں آپ کا حریف کون تھا؟ چوٹی کے علماء ہند کا مایہ ناز شاگرد، جو علوم دینیہ ومعقول و منقول کی انتہائی تعلیم حاصل کر چکا تھا.پانچ سال زیادہ مطالعہ کا موقع پانے والا.دستار فضیلت جس کے زیب سر ہو چکی تھی.فن مناظرہ میں اپنے اساتذہ اور اپنے فرقہ کے نزدیک نہایت صاحب کمال و یکتا ! دیکھا اس اکھاڑے کا رنگ کیا رہا؟ ایسے غیر معمولی قوتوں کا مالک گویا رستم کو پہلوان حضرت رب جلیل کے ایک علمبر دار نے یوں سرمیدان چاروں شانے چت گرایا کہ اس شکست فاش کے اثرات مرور زمانہ سے نہ مٹنے تھے اور نہ مٹے.احمدیت کے بطل جلیل کے سامنے اس کا حریف ثناء اللہ مخذول و ذلیل ہوا.م سیرت ثنائی مولوی ابوالوحید عبدالحمید خادم سوہدروی نے سیرۃ ثنائی کے نام سے مولوی ثناء اللہ صاحب کی سوانح حیات چار صد سولہ صفحات پر مشتمل ۱۹۵۲ء میں شائع کی.مؤلف سیرۃ مولوی صاحب کے پرست ایک استاد کا نواسہ ہے اس نے مولوی صاحب کی یادگار کو قائم رکھنے کے لئے ان کا اخبار اہلحدیث بھی از سر نو جاری کر رکھا ہے اور بھی بہت کچھ کر رہا ہے.ان کی مدح و توصیف میں رطب اللسان ہے نہایت قریب کا تعلق رکھنے والا ہے اپنے فرقہ میں معتمد و معتبر ہے.اس حاشیہ کے آخر پر جو مفید نتائج ہم پیش کریں گے وہ اسی سیرۃ میں مندرجہ واقعات سے ماخوذ ہوں گے اور دو اور دو چار کی طرح یقینی اور قطعی اور شبہات سے بالا ہوں گے.سیرت نگار کا احمدیت سے بغض اور مبالغہ آرائی لیکن یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ سیرت نگار کو احمدیت سے اس قدر بغض ہے کہ اس کے متعلق وہ دیانت کی تمام حدود کو پھاند گیا ہے اور اس تعلق میں اسے نہ خوف خدا ہے نہ فکر عقبی.متعدد مقامات پر اس کی علمی کم مائیگی بھی ظاہر ہوتی ہے مثلاً (1) دعوت مباہلہ کے متعلق کہتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے ”سبز اشتہار شائع کیا.گویا اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ سبز اشتہار کیا تھا.(صفحہ ۱۷۲)
۴۴۰ حضور کے سفروں میں رفاقت آپ کو حضرت اقدس کے بعض سفروں میں رفاقت بھی میسر آئی.چنانچہ ۱۵ جنوری ۱۹۰۳ ء کو حضور بمقدمه کرم دین جہلم تشریف لے گئے اور آپ بھی ہمراہ تھے.یہ اسی مقدمہ میں آپ گورداسپور بھی جاتے رہے اور کئی خدمات مثلاً حوالے نکالنے اور کھانا پیش کرنے کی توفیق پاتے رہے ۲۶ جنوری کی بابت البدر میں مندرج ہے.رفقاء میں حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید بھی تھے.حضور ۱۹ جنوری کو مراجعت فرما ہوئے.کلے ہلے ہی ۴۰-۲-۱۴ کو اسی مقدمہ کے سلسلہ میں مولوی صاحب کا گورداسپور جانا روایات میں میں نے درج کیا ہے.بقیہ حاشیہ: - (ب) یہی سیرت نگار لکھتا ہے کہ بارہا مولوی صاحب کے مضامین کی بدولت کئی مرزائی تائب ہو جاتے یا کم از کم ”مرزائیت سے نفرت کرنے لگ جاتے.(صفحہ ۲۶۷) لیکن یہ کذب بیانی اس امر سے ثابت ہے کہ چار صد سولہ صفحہ کی سوانح حیات میں اس ”فتح“ کی ایک معین مثال ہی’ اہلحدیث یا کسی ہمعصر لٹریچر سے پیش نہیں کی.(ج) ایک مقام پر لکھا ہے کہ ضلع شیخوپورہ میں حافظ روشن علی صاحب جماعت احمدیہ کی طرف سے مناظر تھے.کسی نے کہا کہ اگلے ہی روز مالیر کوٹلہ میں حافظ صاحب نے مولوی ثناء اللہ سے مناظرہ میں شکست کھائی ہے.آج کس منہ سے آرہے ہیں.مولوی مذکور نے کہا کہ وکیل ایک مقدمہ میں ہار جائے تو اس کی اپیل میں یا کسی دوسرے مقدمہ میں پیش ہو سکتا ہے حافظ صاحب نے کہا درست ہے.اس مناظرہ میں چھ افراد نے احمدیت ترک کی.(صفحہ ۳۳۵ تا ۳۳۷) اس کا غلط ہونا ظاہر وباہر ہے.مناظر ایسا اقرار کر کے پھر مناظرہ ہی کیوں کرے گا.(1) احمدیت کو اسلام کے لئے آریہ سماج سے کہیں زیادہ نقصان پہنچانے والا قرار دیتا ہے صفحہ ۱۶۸ تا ۱۶۹) حالانکہ ثناء اللہ کے استاد کے استاد مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت مرزا صاحب کو مسلمان قرار دیا ہے.(ھ) احمدیت کی طرف ایسے عقائد منسوب کئے ہیں جو سرے سے غلط ہیں.احباب کرام اسی سے اندازہ کر لیں کہ افتر اپردازی اور کذب بیانی میں سیرت نگار کس قدر ید طولیٰ رکھتا ہے.مثلاً
اعلیٰ حضرت حجتہ اللہ سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمان نوازی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح بقیہ حاشیہ: (1) اللہ تعالیٰ ہی خالق نہیں.میرزا بھی خلاق وضاع ہے.اس نے آدم کو بنایا.ارض وسماء پیدا کئے کائنات اور مخلوق بنائی.اور اس طرح تخلیق عالم میں وہ خدا کا شریک وحصہ دار ہے.(صفحہ ۱۲۷ تا ۱۲۸) (۲) آپ کی کتب صحف آسمانی کی حیثیت رکھتی ہیں.ان کا درجہ قرآن کے برابر ہے.خدا نے جو عرفان مرزا کو دیا وہ دیگر انبیاء و مرسلین کو نہیں دیا گیا.“ (صفحہ ۱۶۸) (۳) ”جناب نبی کریم علیہ السلام کو روحانی معراج ہوئی.لیکن مرزائے قادیان اس جسم عنصری کے ساتھ عرشِ عظیم پر گیا“.(صفحہ ۱۶۷) (۴) " تو حید کا مسئلہ غلط ہے سورہ اخلاص عبث، نا قابل قبول اور بے بنیاد ہے.اور قـل هـو الله احد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد کی آیات بینات بے سروپا ہیں.اس لئے کہ مرزا خدا کا شریک اور ساجھی ہے خدا کا باپ اور بیٹا ہے.اس نے خدا کو جنا.خدا نے اس کو جنا.وہ خدا کی نسل سے ہے خدا اس کے خاندان سے ہے“.(صفحہ ۱۶۷) مولوی صاحب جیسے ” مامور “ کا جسے ان کی سیرت میں مسیحا بھی ایک نظم میں کہا گیا ہے ان کی مسیحائی اس سے ظاہر ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی ۱۴ اپریل ۱۹۲۰ء کو امرتسر میں زیر صدارت محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر تھی کہ حضور کوٹو کا گیا.گالیاں دی گئیں اور شور برپا کیا گیا.حضور نکلے تو اینٹ ماری گئی اور سخت گندی گالیاں دی گئیں اور قیام گاہ میں لوگ دیوار پھاند کر آ گھسے.حضور اس وقت جاچکے تھے.ان لوگوں نے اشیاء تو ڑ دیں اور لوگوں نے مولوی ثناء اللہ کو مبارک باد دی کہ ان کے شاگرد نے خوب کام کیا.۱۸ (1) مولوی صاحب کو بہت صاحب اثر ورسوخ بتانے کے لئے سیرت نگار نے جھوٹ جیسی غلاظت کو کھایا چنانچہ لکھا ہے.(1) بارہا ایسا بھی ہوا کہ ان مضامین کی بدولت کئی مرزائی تائب ہو کر اسلام قبول کر لیتے یا کم از کم مرزائیت سے نفرت کرنے لگ جاتے.“ (صفحہ ۲۶۷) (۲) ۱۹۳۵ء میں میرٹھ میں کامیاب مباحثہ سے اس علاقہ میں ایک حد تک احمدیت کا قلع قمع ہو گیا.( صفحه ۳۶۲) کذب بیانی میں ہٹلر کے دست راست گوبلز کو بھی مات دکھائی ہے.تقسیم ملک تک ہزار ہارو پیہ بطور چندہ بشمول میرٹھ اس علاقہ سے آتا رہا.اس پر جماعت کا مطبوعہ ریکارڈ شاہد ہے.وہ کون دیتا تھا؟ اردگرد کے
۴۴۲ اعلیٰ اور زندہ نمونہ ہیں جن لوگوں کو کثرت سے آپ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ وو بقیہ حاشیہ: - علاقہ میں موجودہ وقت میں بھی بہت سے مقامات پر جماعت ہائے احمد یہ قائم ہیں اور ان کا چندہ مرکز قادیان میں پہنچ رہا ہے.(۳) مبالغہ نہ سمجھا جائے تو ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ حضرت مولا نا اگر اس زمانہ میں پیدا نہ ہوتے تو یہ جو تھوڑی بہت تو حید ہمیں نظر آتی ہے اور یہ جو بقدر قلیل کتاب وحدیث کا شوق مسلمانوں میں دکھائی دیتا ہے اس کا صرف نام ہی باقی رہ گیا ہوتا‘ (صفحہ ۱۱۶) یہاں کسی فرقہ کا ذکر نہیں بلکہ علی العموم مسلمانوں میں کتاب وحدیث کا جو شوق باقی ہے اس کا باعث مولوی ثناء اللہ صاحب کو قرار دیا ہے اور یہ امر جس قدر مبالغہ بلکہ کذب سے پر ہے کسی سے مخفی نہیں.(۱) ثناء اللہ کا طلب علم سیرت ثنائی سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱) مولوی ثناء اللہ صاحب ۱۸۶۸ء میں پیدا ہوئے (صفحہ ۶۹) گویا حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب سے عمر میں پانچ سال بڑے تھے اس لئے قدر تا آغاز میں ہی اتنی مدت زیادہ مطالعہ وحصول علم کا موقع پایا تھا.(ب) مولوی ثناء اللہ صاحب نے چوٹی کے علماء سے تحصیل علم کی تھی.چنانچہ ا.مولوی احمد اللہ صاحب امرت سری سے شرح جامی و قطبی پڑھی جو کہ مسجد غزنوی کے خطیب تھے انہوں نے درس قرآن جاری کیا تھا.امرتسر کی مسجد مبارک بنوائی تھی.مولوی غلام علی صاحب قصوری کے شاگرد تھے.(صفحہ ۸۷) (۲) پھر حافظ اہلحدیث مولوی حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی سے سند حدیث حاصل کی.جنہوں نے ساٹھ مرتبہ صحاح ستہ کا درس دیا اور ہندوستان کے علاوہ تبت، کابل ، شام ، نجد اور یمن تک کے احباب آپ کے شاگردوں میں شامل تھے.حافظ صاحب نے ابوسعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور میاں نذیر حسین صاحب محدث دہلوی سے علم حدیث پڑھا تھا.(صفحہ ۹۶) (۳) پھر شمس العلماء میاں نذیر حسین صاحب دہلوی سے تدریس حدیث کی اجازت حاصل کی.میاں صاحب نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی، حضرت شاہ شہید اور حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب سے تحصیل علوم کی تھی اور عمر بھر میں سینکڑوں مرتبہ صحاح ستہ کا دور کیا.(صفحہ ۹۷)
۴۴۳ کسی مہمان کی (خواہ وہ سلسلہ میں داخل ہو یا نہ داخل ہو ) ذراسی بھی تکلیف حضور کو بے چین کر دیتی ہے مخلصین بقیہ حاشیہ: - (۴) پھر مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے سند حاصل کی.(صفحہ ۹۷) (۵) مدرسہ دیوبند کے مدرس اعلی شیخ الہند مولوی محمود الحسن اسیر مالٹا سے معقول و منقول کی کتب درسیہ پڑھ کر سند حاصل کی وہاں ریاضی بھی پڑھی.مولوی محمود الحسن صاحب کی بیالیس سال تک کی تدریس کا علم ہوتا ہے.عرصہ دراز تک وہاں کے صدر مدرس رہے.مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا سید انورشاہ،مولانا حسین احمد مدنی ، مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمدعلی لاہوری آپ کے اجل شاگردوں میں سے تھے.(صفحہ ۹۸) (1) معقولات میں مشہور عالم مولانا احمد حسن کانپوری صدر مدرس فیض عام کانپور سے جملہ کتب نصاب پڑھیں اور مدرسہ کے درس حدیث میں بھی شمولیت کی وہاں آپ کو سند عطا ہوئی اور آپ کی دستار بندی بھی ہوئی.(صفحہ ۱۰۰،۹۹) (ج) فن مناظرہ میں کمال چودہ سے سولہ سال کے درمیان مولوی صاحب پادریوں وغیرہ سے مناظرے کرنے لگے تھے اور مسکت سوال و جواب سے ان کے منہ پر مُہر خموشی ثبت کر دیتے تھے.(صفحہ ۷ ۸ تا ۸۹) "مناظرہ (کے) فن شریف کو کمال تک پہنچایا.“ ( صفحه ۱۲) یہ فن شریف آپ کو آغاز ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا تھا.‘‘ (صفحہ ۸۹ ) آپ کے استاد نے آپ کو میدان مناظرہ کے لائق سمجھا ( صفہ ۱۰۴) آپ کو ۱۹۰۴ء میں بہترین مناظر سمجھا جاتا تھا.(صفحہ ۳۱۲) قدرت نے مولانا کوطبعا وفطرتاً ایسادماغ دیا تھا اور حاضر جوابی کا وہ ملکہ عطا فرمایا تھا کہ عوام نہیں ، خواص بھی یہ کہہ اٹھتے تھے کہ آپ مناظرہ ہی کے لئے پیدا ہوئے ہیں.تعلیم سے فارغ ہوتے ہی آپ نے چوڑخہ لڑائی لڑنی شروع کر دی.“ ( صفحه ۳۰۹) (د) خدمت فرقہ اہلحدیث آپ نے ملک ہند کے طول و عرض میں انجمن ہائے اہلحدیث قائم کیں.پھر صوبائی جمعیت اہلحدیث کا قیام عمل میں لایا اور آل انڈیا اہلحدیث کا نفرنس قائم کی بلکہ جمعیت علماء ہند کے قیام کی تحریک کی ۱۹۲۶ء میں حج کے موقع پر مؤتمر اسلامی میں شمولیت کے لئے آل انڈیا اہلحدیث کی طرف سے آپ سمیت تین علماء تجویز
۴۴۴ احباب کے لئے تو اور بھی آپ کی روح میں جوش شفقت ہوتا ہے.اس کے اظہار کے لئے ہم ذیل کا واقعہ درج کر دیتے ہیں.حاشیہ: - ہوئے.مولا نا وہاں شاہی مہمان بنے.(صفحہ ۲۲۰ تا ۲۳۵ ،۲۹۳) (د) اجراء اخبارات انہوں نے ۱۹۰۰ ء میں اخبار مسلمان ماہوار اور پھر ہفت روزہ اور ۱۹۰۳ء میں ہفت روزہ اہلحدیث اور ۱۹۰۷ء ماہنامہ ” مرقع قادیان جاری کئے.اہلحدیث ۱۹۴۷ء تک جاری رہا.(صفحہ ۲۶۲ ۲۷۰،۲۶۳) ۲- تفسیر القرآن اور فتاوی کفر مؤلف سیرۃ لکھتا ہے کہ ۱۹۰۳ء میں مولوی صاحب نے تفسیر القرآن بکلام الرحمن لکھی.جو ان کی اولین علمی تصنیف تھی.جو بیرونی دنیا میں بہت مقبول ہوئی اور آپ کو مصر، عرب، عراق اور شام میں مشہور کر دیا.لیجئے سنیئے مقبولیت کا کچا چٹھا! جماعت اہلحدیث میں اس کی اشاعت سے مخالفت کی ایک لہر دوڑ گئی اور مولوی کو ملحد ، زندیق، خارج از اہلحدیث اور کا فرقرار دیا گیا.حضرت مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی نے (جنہیں مؤلف سیرۃ نے اولیاء اللہ میں شمار کیا ہے ) ایک کتاب "الاربعین فی ان ثناء اللہ لیس علی مذهب المحد ثین میں مولوی صاحب کے معتزل یا نیچری ہونے کا فتویٰ دیا اور ملک کے چیدہ چیدہ علماء سے تصدیق کرا کے اسے شائع کر دیا.مولوی صاحب کے استاد حافظ عبدالمنان صاحب جن سے مولوی صاحب نے حدیث کی سند حاصل کی تھی.اپنے شاگردرشید کے متعلق یہ سمجھتے تھے کہ ضد پر قائم ہیں (بالفاظ دیگر ناحق پر ہیں اور علماء حق پر ہیں ) ( صفحہ ۳۶۷ تا ۳۷۰) مولوی صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ یہ مسئلہ علماء کی ایک مجلس کے سپر د کیا جائے.چنانچہ ۱۹۰۵ء میں علماء نے ان چالیس اغلاط میں سے جو مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی نے تفسیر میں سے قائم کی تھیں چودہ کو درست قرار دیا لیکن یہ فیصلہ کیا کہ ان کی وجہ سے وہ جماعت اہلحدیث سے خارج نہیں ہو سکتے.مولانا ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ ( جنہیں مؤلف سیرۃ زہد و تقویٰ میں کمال رکھنے والے قرار دیتا ہے اور وہ مولوی صاحب کے استاد حافظ عبدالمنان صاحب کے بھی استاد تھے ) مولانا فقیر اللہ مدراسی ( جنہوں نے بنگلور
۴۴۵ ”میاں ہدایت اللہ صاحب احمدی شاعر لاہور پنجاب جو کہ حضرت اقدس کے ایک عاشق صادق ہیں.اپنی اس بقیہ حاشیہ: میں ایک مدرسہ نصرۃ الاسلام اور مدراس میں مدرسہ احیاء الاسلام کھولے اور ساری عمر تدریس میں گزاری اور بے شمار کتابیں لکھیں ) اور قاضی عبدالاحد خانپوری نے ( جو صاحب علم وفضل تھے اور جنہوں نے خدمت جماعت اہلحدیث اور تبلیغ اسلام میں عمر بسر کر دی تھی ) مولوی ثناء اللہ کے خلاف بہت کچھ لکھا اور کئی کتابیں شائع کیں فیصلہ بالا کے بعد مولانا محمد حسین صاحب نے فیصلہ کے خلاف اپیل بھی کی گومستر دہوئی.علماء کے فیصلہ کے بعد مئی ۱۹۱۸ء میں مدراس کے ایک جلسہ کے موقع پر پھر یہ مسئلہ چھڑ گیا اور بالآخر ایک مصالحت نامه مابین مولوی ثناء اللہ ”جناب مولانا مولوی حاجی محمد فقیر اللہ صاحب پنجابی اور جناب مولانا قاضی عبدالاحد خانپوری‘ مرتب ہوا.جس میں مولوی ثناء اللہ نے اقرار کیا.ہم مقام آرہ میرے حق میں میری تفسیر القرآن الکلام الرحمن کے بعض مضامین کی وجہ سے علمائے اہلحدیث ہندوستان نے جو فیصلہ صادر فرمایا ہے میں اس کو مانتا ہوں اور میر اعملدرآمد اسی پر رہے گا.اگر اس کے علاوہ کبھی میری کوئی غلطی جو خلاف اصول محدثین اہل سنت بالجماعت ثابت کی جائے گیا تو مجھ کو اس کے مان لینے اور رجوع کرنے میں تامل و عذر نہ ہو گا.“ گویا اس مخالفت پر یہاں تک پندرہ سال بیت چکے تھے اور خواری پر خواری نصیب ہو رہی تھی اور خاک مذلت میں لوٹ پیٹ کی جارہا تھا لیکن کسی طرح پیچھا نہیں چھوٹتا تھا.علم کی پردہ دری کی جارہی تھی کن کے ہاتھوں ؟ اپنے ہی فرقہ کے چوٹی کے علماء کے ہاتھوں جو اسی فرقہ میں اہل علم وفضل شمار ہوتے تھے.مولوی عبد الواحد غزنوی ( جو سیرۃ نگار کے نزدیک نہایت صالح مخلص ، متقی اور خدا رسیدہ انسان تھے.نماز نہایت خشوع خضوع سے پڑھا کرتے جس سے خشیت الہی طاری ہو جاتی اور دعا میں تو اکثر تضرع اور زاری ہوا کرتی جس سے حاضرین پر بھی خاص اثر پڑتا ) مولا نا عبدالمجید ہزاروی مؤلف سیرۃ کے نزدیک ” نہایت مخلص متقی اور شب زندہ دار عالم ہیں.آپ کی مخالفت میں بھی خلوص نظر آتا ہے ریاء نہیں ہے اللہ تا دیر سلامت رکھے.مولانا ابوتراب عبدالحق امرت سری سہارنپور مظاہر العلوم میں مولانا ثناء اللہ صاحب کے ہم سبق تھے...طب میں حکیم اجمل خاں مرحوم کے ہم سبق رہے.حافظ قرآن تھے عالم دین تھے.مولانا ثناء اللہ صاحب کے خلاف الحق الیقین نامی ایک کتاب بھی لکھی اور اخبار اہلسنت و الجماعت جو آپ نے ۱۹۱۵ء میں جاری کیا تھا گا ہے گا ہے ( مخالف )
۴۴۶ پیرانہ سالی میں بھی چند دنوں سے گورداسپور آئے ہوئے تھے.آج انہوں نے رخصت چاہی جس پر حضرت بقیہ حاشیہ: - مضامین بھی لکھ دیا کرتے.مولانا حافظ عبداللہ روپڑی نے متعدد اساتذہ سے تحصیل علوم کی.عربک کالج دہلی سے مولوی فاضل کیا.اخبار تنظیم اہلحدیث بھی شائع کرتے رہے.طبیعت زہد و ورع کی طرف زیادہ مائل ہے.فتاوی بہت تحقیق اور علمی انداز سے لکھتے ہیں مشکوۃ کی شرح بھی لکھ رہے ہیں خدا تکمیل کی توفیق ارزانی کرے.“ فیصلہ شاہ ابن سعود وعلماء ان علماء کرام نے جن کے زہد و ورع.عدم ریاء علم وفضل اور تقویٰ کا اعتراف خود مولوی ثناء اللہ صاحب کے سیرۃ نگار کو ہے اور وہ لکھتا ہے کہ یہ سب اس معاملہ کو طول دیتے رہے اور حافظ عبداللہ نے مذکورہ اربعین کو عربی جامہ پہنایا اور سلطان ابن سعود اور علماء نجد سے داد خواہی چاہی.غزنوی صاحبان کی سعی مشکور سے سلطان نے اس بارہ میں ایک مجلس طلب کی جس میں عام علماء کے علاوہ علامہ سید رشید رضا مصری ، شیخ عبداللہ قاضی القضاة (چیف جسٹس حجاز ) امام حرم و غیرہ پانچ خاص علماء بھی مدعو تھے.مولوی ثناء اللہ بھی موجود تھے.شاہ ابن سعود نے فیصلہ میں لکھا کہ اس امر پر اتفاق ہوا کہ ثناء اللہ آیات صفات میں سلف کی طرف رجوع کریں.چنانچہ انہوں نے اقرار کیا کہ وہی حق ہے.میں آئندہ اپنی تفسیر میں یہ لکھ دوں گا اور یہ بھی طے ہوا کہ شیخ عبدالواحد غزنوی اور ان کے ساتھیوں نے جو طعن و تشنیع لکھی ہے اس سے رجوع کریں اور اربعین جو جلا دیں سب نے تجدید اخوت کا اقرار کیا.سيرة نگار جو آئندہ مناقشات و مصالحات سے بکلی واقف ہے بلکہ اس بارہ میں کوشاں رہا ہے بیان کرتا ہے.اس فیصلہ کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ یہ جھگڑا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا...دوسر ا گر وہ جس کے قائد مولوی اسمعیل بن مولانا عبد الواحد غزنوی تھے اپنی ضد پر ڈٹا رہا اور آتے ہی فیصلہ مکہ کے نام سے ایک رسالہ لکھا جس نے جلتی پر تیل کا کام دیا...( صفحه ۳۷۹ تا ۳۸۰) ثناء اللہ کی ضد مولوی ثناء اللہ صاحب ضدی تھے.ان کے استاد حافظ عبدالمنان صاحب کی یہی رائے تھی.چنانچہ سیرت نگار لکھتا ہے.
۴۴۷ اقدس نے فرمایا کہ آپ جا کر کیا کریں گے یہاں ہی رہئے.اکٹھے چلیں گے آپ کا یہاں رہنا باعث برکت بقیہ حاشیہ: - "بات ٹلی نہیں بلکہ بڑھتی چلی گئی اور دونوں طرف ضدسی قائم ہوگئی....میرے نانا مرحوم استاد پنجاب حافظ عبدالمنان صاحب....فرمایا کرتے تھے کہ کاش شاء اللہ ضد چھوڑ دے....صرف اتنی سی بات پر سب اس کے مخالف ہورہے ہیں.“ (صفحہ ۳۷۰) نیز لکھا ہے.اگر سلطانی فیصلہ کے مطابق اربعین جلا دی جاتی اور مولوی ثناء اللہ بھی تفسیر کے دوسرے ایڈیشن میں مسئلہ کی اصلاح کر دیتے تو قصہ ختم ہو جاتا مگر اربعین والوں نے نہ اربعین جلائی نہ ثناء اللہ کا قصور معاف کیا بلکہ واپس آنے پر علماء نجد و حجاز کے مزید فتاوی حاصل کر کے شائع کئے جس کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے بھی لکھا کہ یہ عقیدہ صرف میرا ہی نہیں فلاں فلاں امام کا بھی یہی عقیدہ ہے.(صفحہ ۳۸۰) پھر اس کے بعد جب مولانا حافظ عبداللہ صاحب روپڑی فریق ثانی کے ہائی کمانڈ کی حیثیت سے آپ کے سامنے آئے اور اس جھگڑے نے جماعت میں بہت اختلاف پیدا کر دیا اور جماعت کے مختلف افراد نے مختلف حیثیتوں سے بار بار اسے مٹانے کی کوشش کی کبھی نیاز مند نے جدو جہد کی کبھی مولانا محمد دہلوی ،مولانا ابوالقاسم بنارسی بیچ آئے کبھی امرت سر معاہدہ ہوا اور کبھی بٹالہ میں کبھی اہلحدیث کا نفرنس فتح گڑھ میں مولانا عبدالقادر صاحب قصوری نے کوشش کی اور کبھی خواجہ عبدالحی صاحب مگر نتیجہ ہر بار ہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلا.66 ۱۹۴۰ء میں مولوی صاحب نے تسلیم کیا کہ میں حدیث صحیح کی تفسیر اور تفسیر صحابہ کو تشریح محدثین مقدم جانتا ہوں.“ گویا آپ کے ہم فرقہ علماء کے ایک طبقہ کی نظر میں آپ پہلے اس پر عمل پیرا نہ تھے.۱۹۰۳ء سے ۱۹۴۰ء تک سینتیس سالہ کچا چٹھا احباب پڑھ چکے.اس تنازع کا مستقل اثر نہایت نقصان دہ نکلا جس کا ذکر آگے آئے گا.اس تنازع کے دوران اس ” مامور“ کا یہ حال تھا کہ تفسیری مسائل (کے) باعث مولانا ابوالوفاء اور خاندان غزنویہ کا مسلک ایک تھا اور دونوں ایک ہی لڑی کی موتی تھے مگر باہمی رنجش کچھ ایسی صورت اختیار کر چکی تھی کہ بعض اوقات ان کے درمیان سلسلہ کلام و سلام بھی منقطع ہو جاتا تھا.جماعت اہلحدیث کے اکثر ارکان واکابر کواس کی خبر تھی کئی بار انہوں نے اس
۴۴۸ ہے.اگر کوئی تکلیف ہو تو بتلا دو.اس کا انتظام کر دیا جاوے.پھر اس کے بعد آپ نے عام طور پر جماعت بقیہ حاشیہ: - کدورت کو دور کرنے کی کوشش کی اور باہم صلح کرائی لیکن یہ اکثر عارضی ہوتی تھی.“ ( صفحہ ۲۱۲) اے سیرت نگار ! کوئی ایسا مصلح اور مامور بتاؤ.جو اپنے ہی ”موتی “ جیسے ہم مسلک اور ہم فرقہ اکابر سے ”سلسلہ کلام و سلام بھی منقطع کرتا ہو.اور پھر ہم فرقہ اکابر کی مصالحت کی مساعی بھی ناکام رہتی ہوں البتہ 19 علماء هم شرمن تحت دیم السماء کا ایک طبقہ ہے ان کے مامور ایسے ہی ہوتے ہیں.سیرت نگار لکھتا ہے.بدقسمتی سے مسلمان علماء کا ایک گروہ خود بھی گمراہی میں مبتلاء ہے.دوسروں کو بھی قعر ضلالت میں دھکیل رہا ہے.یہ علماء اسلام کے صحیح علم و عمل سے واقف تو ہیں لیکن دیدہ دانستہ اہل اسلام میں شر وفساد.نفاق و افتراق پھیلاتے اور دین اللہ کے بنیادی و اصولی مسائل و احکام کو توڑ موڑ کر پیش کرتے ہیں یہ علمائے سوء ہیں.“ ( صفحہ ۱۱۴) ثناء اللہ مصلح،، مولوی ثناء اللہ صاحب کا سیرۃ نگار انہیں دنیائے اسلام کے سامنے کس رنگ میں پیش کرتا ہے؟ ایک مامور مصلح اور مجتہد کے طور پر ان کی برکات بھی بیان کرتا ہے.لکھتا ہے:.(1) وہ ریفام تھے.(صفحہ ۴) (ب) اللہ تعالی تبارک و تعالے نے ان کو مامور فرمایا تھا.(صفحہ ۲۴۹ بالفاظ دیگر صفحه ۳۸۴) (ج) مولانا بھی ایک پُر آشوب و نازک دور ہی میں پیدا ہوئے.اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی خدمت اسلام اور احیاء و بقائے کتاب وسنت کے لئے مامور فرمایا.“ (صفحہ ۶۱) (د) ”وہ مصلحین و مجتہدین کی صف میں شامل تھے.(صفحہ ۲۱) (ھ) فاتح قادیان.یہ تھے وہ پُر آشوب حالات ! جن کی تعمیر و اصلاح نگرانی و نگہداری کے لئے حق سبحانہ نے حضرت مولانا ثناء اللہ کو مامور فرمایا مرزائیت پر تو آپ نے خاص توجہ مرکوز فرمائی.“ (صفحہ ۱۷۰) (ر) آپ ہی کی مساعی جمیلہ کے طفیل آج جماعت اہلحدیث میں زندگی اور حرکت کے آثار پائے جاتے ہیں.آہ ! اس جماعت میں جس نے آپ کے نام اور کام کو آج فراموش کر دیا ہے بالکل فراموش ! ( صفحه ۱۳) اور دشمن اسلام انگریز نے مسلمانوں کو دین حنیف سے منحرف کرنے اور ان کو مٹانے کے لئے زہر میں
۴۴۹ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی کی ضرورت کا علم ( عملہ کو ) نہ ہو.بقیہ حاشیہ: - بجھے ہوئے اس قدر کانٹے بور کھے تھے.جن کو مردانہ وار کا ٹنا صرف آپ ہی کا کام تھا.ہندوستان کے کفار و مشرکین کی تقلید میں اپنا دین و ایمان برباد کر لیا تھا.اگر مولا نا مامور نہ ہوتے تو اسلامیان ہند و پاک کا مقدس مذہب کبھی کا مٹ چکا ہوتا.“ (صفحہ ۱۲) (ح) اخویم مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ اور اخویم چوہدری محمد صدیق صاحب لائبریرین خلافت لائبریری سناتے ہیں کہ ۱۹۴۴ء کے مصلح موعود کے جلسہ سے دہلی سے واپسی پر ہم نے امرتسر میں مولوی ثناء اللہ صاحب سے ملاقات کی.اور سیف صاحب نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو کبھی سچی خواب آئی تو کہا کہ المؤمن یرای و یرای له ایک شخص کو خواب آئی تھی کہ فلاں مسئلہ ثناء اللہ سے پوچھ لو.لیکن اپنی کوئی خواب نہیں سنائی.اتنے میں مولوی صاحب کا ایک پوتا آیا اور اس نے نہایت سختی سے ہمیں نکل جانے کو کہا اور مولوی صاحب کے منع کرنے پر بھی منع نہ ہوا.اس کے سیرت نگار نے یہ کہہ کر مولوی صاحب کے تقویٰ کا بھانڈہ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے کہ:.حاصل کلام یہ کہ مرحوم نے دین و دنیا میں جو بھی نام پا یا مال و دولت کے ذریعہ پایا.ورنہ آج بھی مسلمانوں میں ایسے علماء موجود ہیں.جو تبحر فاضل ہیں مگر ان کو کوئی اس لئے نہیں پوچھتا کہ وہ قلاش ہیں.“ (صفحہ ۸۵) گویا دیگر ایسے علماء میں صرف دولت کی کمی ہے اگر کوئی ان کو ملازم رکھ لے یا مال و منال سے مالا مال کر دے تو وہ بھی مولوی صاحب ایسے مصلح ، مامور اور ریفارمر‘ بن سکتے ہیں.انا للہ وانا اليه راجعون.ذلت وخواری مولوی ثناء اللہ کو خس کم جہاں پاک کا مصداق اس کے فرقہ نے تصور کیا.چنانچہ (۱) سیرت نگار آٹھ نو صفات میں بصد حسرت اس امر کا نوحہ کناں ہے کہ زندگی میں مولوی صاحب کی بے حد قدر کی گئی لیکن جونہی اس شیر بیشہ ملت کی آنکھیں بند ہوئیں وہ یکسر بھلا دیا گیا فراموش کر دیا گیا.اس کا نام زندہ رکھنے کا فرض جن افراد قوم جن احباب، جن معتقدین اور جن اکابر جماعت پر عائد ہوتا تھا، انہوں نے تجاہل عارفانہ سے نہیں تغافل مجرمانہ سے کام لیا.وہ اصحاب جن پر امید تھی کہ اس کے کام اور اس کے مشن کو مرنے نہیں دینگے.اس کے رخصت ہوتے ہی بیگانے بن گئے اور اس طرح چپ سادھ لی جیسے وہ اس بزرگ سے بھی واقف ہی نہ تھے.
۴۵۰ اس لئے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ جس شے کی اسے ضرورت ہو وہ بلا تکلف کہہ دے.بعد ازیں حضرت جی حاشیہ: یہ مہر و وفا کا پتلا تھا بھی اسی لائق کہ ساری عمر مذ ہب وقوم کی خدمت کر کے پنجاب کے ایک ایسے گمنام گوشے میں دفن ہو جائے جہاں اس کا کوئی یار و غم خوار دعائے مغفرت کے لئے بھی نہ پہنچ سکے.کیا قائم کرنی ہے کسی نے اس کی یادگار ؟...آج تو یہ حالت ہے کہ مرحوم کی سوانح عمری لکھنا تو ایک طرف.غالبا اسے کوئی پڑھنا بھی پسند نہ کرے گا.انا للہ ہم نے کئی ماہ تک اپنے جریدہ اہلحدیث میں اعلان شائع کیا اور احباب و بزرگان جماعت کو خصوصیت سے دعوت دی...مگر حیف اور صد حیف ! ابوالوفاء کے احباب و یاران غار نے کوئی توجہ نہ دی چندا حباب نے جو مضامین ہمیں ارسال فرمائے.مختصر اور نا کافی تھے.“ (صفحہ ۵ تا۶) اخویم شیخ ارشد علی صاحب ایڈووکیٹ مقیم سیالکوٹ نے سنایا کہ میں نے ۱۹۴۰ء سے قبل خواب دیکھا ( جو انہوں نے اس وقت کا نوشتہ مجھے ایک کاپی سے اتفاقاً ملاقات ہونے پر دکھایا کہ ایک گھوڑ دوڑ کے میدان میں رکھیں تیزی سے دوڑ رہی ہیں کہ اتنے میں ایک آدمی ان کے نیچے آ کر مر گیا.دیکھا تو مولوی ثناء اللہ تھے.میں نے اس کی اطلاع حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو دی تو فرمایا ایسے کئی مرتے ہیں.اس کی لاش باہر پھینک دو.-۵- موازنه مابین سید محمد سرور شاہ صاحب و مولوی ثناء اللہ صاحب ہر دو کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب بوقت مباحثہ مد چونتیس برس کے تھے اور مولوی سرور شاہ صاحب سے پانچ سال بڑے تھے.گویا پانچ سال زیادہ مطالعہ کا موقع پاچکے تھے.علوم عقیلہ و نقبیلہ میں خوب منجھے ہوئے تھے.نہایت بلند پایہ علماء فضلا سے حصول علم کے علاوہ بد وشیاب سے مناظرہ میں جو ہر دکھانے شروع کئے تھے.ان کے اساتذہ ان کے اس جوہر کی داد دیتے تھے.سیرۃ نگار کے نزدیک اپنے حریف کا ناطقہ بند کر دیتے تھے اور مناظرین میں ان پر نظر انتخاب اٹھتی تھی.ان کی قوم ان کی ہمنوا تھی.ان حالات میں سید محمد سرور شاہ صاحب کے ساتھ مناظرہ ہوا.یوں تو ہر فریق کہے گا کہ حریف شکست فاش کھا گیا.یہ مقابلہ جسمانی دنگل نہ تھا کہ جس کی فتح و شکست ظاہری آنکھ سے دیکھنا بالکل سہل امر ہو.یہ مقابلہ احمدیت کے پہلوان اور غیر احمدیوں کے پہلوان میں تھا اور روحانیت کے میدان میں تھا.فتح نصیب
۴۵۱ نے میاں ہدایت اللہ صاحب کو خصوصیت سے سید سرور شاہ صاحب کے سپرد کیا کہ ان کی ہر ایک ضرورت بقیہ حاشیہ : ہم اسی کو قرار دے سکتے ہیں.جسے اللہ تعالیٰ فاتح قرار دے.فتح و قبولیت ذلت وشکست آسمان سے آتی ہے.اس لئے اسی کے سلوک کی طرف ہماری نگاہ حق جو اٹھنی چاہئے تا اس مناظرہ کے نتائج میں ہم اللہ تعالیٰ کا فیصلہ دیکھ سکیں.حضرت اقدس کی باتیں پوری ہوئیں فیصلہ ونشان نمبر ۱ تا ۱۴ حضرت اقدس نے اعجاز احمدی میں ثناء اللہ کی فطرت کے متعلق اور اس کے مستقبل کے متعلق جو کچھ رقم فرمایا.وہ بپا یہ ثبوت پہنچ چکا ہے اور اس حاشیہ میں مندرج سوانح سے اس کا علم ہوتا ہے.حضور نے جو کچھ فرمایا وہ درج ذیل ہے.(۱) ضليل،يغوى جنوده مغوی (صفحه ۵۶،۵۱،۴۱،۳۹، ۵۷.اپنی جماعت کو بہت گمراہ کرنے والا ) ومارادنهـج الـحـق.تركتم سبيـل الـحـق يـدســى، وما مسه نور من العلم والهدى ( صفحه ۴۱،۵۱،۴۱ ۴۳۰) حق جو نہیں حق پوش ہے جسے علم و ہدایت کے نور سے ذرہ مس نہیں فاين التقى ( تقویٰ کہاں ہے.صفحہ ۶۵) (۲) غدار ( صفحہ ۷۷) (۳) یہودی کے مشابہ، بہت جھوٹ بولنے والا، مفتری ، دھوکہ باز، یختر یعنی فریب دینے والا.(صفحہ ۷۷، ۱۱،۱۰،۵،۳۹) غول -أأرضعت من غول الفلا.جھوٹا جسے جھوٹ کا دودھ پلایا گیا ہو.(صفحہ ۵۱) وما ان رئينا مثله من يُزَوّر ( صفحہ ۴۸ ) اس جیسا فریبی نہیں دیکھا.ثبوت اس کے استاد کے استاد نے اور علماء اہلحدیث نے جن کا زہد وعلم میں کمال اس فرقہ کو مسلم ہے.اسے کا فرو زندیق، معتزلی وغیرہ قرار دیا.مدت العمر اپنے فرقہ میں فتنہ کا موجب بنارہا.شاہ ابن سعود وعلماء کے سامنے تفسیر میں جس اصلاح کا وعدہ کیا اس میں بھی دھو کہ کیا اور عمل نہ کیا گویا یہود نا مسعود کی طرح کذب کی نجاست پر منہ مارا.دھوکہ بازی، کذب بیانی ، عدم ایفاء، قول و قرار سیرۃ ثنائی سے ثابت ہے اور چونکہ اسے عدیم المثال لیڈر بلکہ ” مامور“ اور مصلح قرار دیا گیا ہے.اس لئے فریب دہی ثابت ہونے پر وہ اس صفت میں بھی لازماً بے مثال ٹھہرا.
۴۵۲ کو وہ بہم پہنچا ویں.“ (البدر ۰۴-۷-۲۴ صفحه ۲ کالم۳) بقیہ حاشیہ: خلیل ہونے کی ایک بین مثال یہ ہے کہ مولوی صاحب آل انڈیا کانگریس میں شامل ہوئے.( صفحہ ۲۹۴) قائد اعظم نے ۱۹۳۴ء میں مسلم لیگ کی نئی تنظیم کی تو مولانا مسلم لیگ میں شامل ہوئے (صفحہ ۳۰۰،۲۹۷) دو وجہ سے میں اس پر اعتراض کرتا ہوں.اول مولوی صاحب ” مامور اور مصلح تھے اور ایسے بزرگوں کو تو رشد و ہدایت، فراست اور دور بینی حاصل ہوتی ہے نہ کہ دنیا دار کی طرح ایسی فراست سے محروم رہتے ہیں.دوم اگر وہ کانگریس میں سوچ سمجھ کر شامل ہوئے تھے تو اس پر قائم رہتے سیرت نگار تو لکھتا ہے کہ بہترین سیاست دان بھی تھے.آپ سیاست میں بھی ماہر و کامل تھے اور اس میں ایسی فراست وزیر کی دکھاتے اور ایسے فہم وتدبر کا اظہار کرتے کہ اچھے اچھے سیاسی مدبر آپ کی صائب رائے پر صادر واتفاق کر لیتے.“ (صفحہ ۲۸۱) (۴) تصلّف، ابن تصلّف (صفحه ۳۹ ۸۴۰.لاف زنی کرنے والا ) (۵) فتان.يأحج نيران الفساد ويسعر ( صفحه ۴۱ ۴۲.فساد کی آگ بھڑ کانے والا ) (1) کالاجلاف (صفحہ ۴۰.کمینوں کی طرح) (۷) يهجر (صفحہ ۴۱.بکواس کرنے والا ) (۸) اس میں ایمانداری ، طلب حق اور خوف خدا نہیں (صفحہ ۶ ، ۱۱) (۹) تعصب رکھتا ہے (صفحہ ۳۹) (١٠) من غير فطنة ( صفحه ۴۰ عقل سے کورا ہے ) جھول ( صفحہ ۴۲.بہت جاہل) له جسد لا روح فيه ولاصــفـــا كقـدر يـجـوش وليس فيه تدبّر (صفحه ۴۵) اس کا جسم تو ہے مگر اس میں روح اور صفائی نہیں.ہنڈیا کی طرح جوش مارتا ہے.تدبر سے خالی ہے.وان لسان المرء مــالــم يـكـن لـــه اصالة على عوراته هو مشعر (صفحه ۴۲) انسان کی زبان جب تک اس کے ساتھ معقل نہ ہو اس کے پوشیدہ عیبوں پر ایک دلیل ہے.
۴۵۳ گوحضرت مولوی صاحب ہجرت کر کے قادیان آئے.یہ بھی وقف ہی تھا پھر بھی حضرت اقدس علیہ بقیہ حاشیہ:- ثبوت لاف زنی کی کہ حافظ روشن علی صاحب نے اقرار کیا کہ فلاں مناظرہ میں ان کو شکست ہوئی.حضرت مرزا صاحب کو مقابلہ کی تاب نہ رہی.حالانکہ خود اعجاز احمدی کا مثل نہ لا کر وہ عاجز ہوا.۴۵ سال تک اپنی تفسیر کی وجہ سے اپنے فرقہ میں فتنہ وانشقاق کا باعث بنارہا.ضد بھی فتنہ کے جاری رکھنے کا موجب بنی.فتنہ و انشقاق پیدا کرنا.پھر اپنی ضد سے جاری رکھنا.ضد کم عقلی عدم شرافت پر دال ہے.اصلاح تفسیر کا وعدہ کر کے پھر عدم ایفاء ظاہر کرتا ہے کہ یا تو اس کا وعدہ شریفانہ قول نہ تھا بلکہ نفاق تھا یا عدم ایفاء کے حق میں دلائل پیش کرنا لغو اور بکواس ہے اور وہ عقل سے کورا ہے.یہ اصول پرستی نہیں.ہنڈیا کے اُبال کی طرح پہلے وعدہ اصلاح کرلیا پھر جوش ٹھنڈا ہوا تو اس پر عمل نہ کیا.یہ سارے امور اس کے مخفی عیبوں سے پردہ اٹھاتے ہیں.(11) الالائمي عار النساء ابا الوفاء ( صفحہ ۸۳.اے مجھے ملامت کا نشانہ بنانے والے ثناء اللہ ! جو کہ عورتوں کی نظر میں بھی عار ہو ) ثبوت مباحثہ مد کے چند ماہ کے اندر اس کی دواڑھائی صد کی آبادی میں سے ایک سو میں افراد طاعون سے لقمہ اجل بن گئے اور پھر ۱۹۱۰ء میں دوبارہ طاعون کا شدید حملہ ہوا تو عورتوں تک نے محسوس کیا کہ ملانوں نے ثناء اللہ کو بلوا کر حضرت مرزا صاحب کو گالیاں دلوائیں یہ اس کی پاداش ہے.چنانچہ وہ ملانوں کو کوستی تھیں.ثبوت (۱۲) مدمّر (ہلاک شدہ صفحہ ۳۹) صیدالر دی ( ہلاکت کا شکار - صفحه ۸۴) اس کے کا فروزندیق مخالف مذہب محمد ثین گویا روحانی مردہ اسے اس کے فرقہ کے متقی اور عالم بزرگوں نے قرار دیا.(۱۳) در بدر گدائی کرنے والا.دو دو آنے کے لئے وہ در بدر خراب ہوتا پھرتا ہے.اور خدا کا قہر نازل ہے اور مردوں کے کفن یا وعظ کے پیسوں پر گزارہ ہے (صفحہ ۲۳)
۴۵۴ السلام کی تحریک پر ۱۹۰۷ء میں آپ نے اپنے تئیں خدمات سلسلہ کے لئے وقف کر دیا.چنانچہ حضرت مفتی محمد بقیہ حاشیہ: مالی حالت کے زیر عنوان سیرت نگار راقم ہے کہ مولوی صاحب کی مالی حالت وہی تھی جو ایک یتیم ومسکین کی ہوتی ہے.سات سال کی عمر میں والد اور جلد بعد تایا اور والدہ نے وفات پائی.لے دے کے بڑے بھائی تھے.جو خود بمشکل گزارہ کرتے تھے اور نہ کوئی مولوی صاحب کی برادری تھی نہ کنبہ جس کی معاونت مالی پریشانیوں کا علاج کرتی.ان کا نہ کوئی اثاثہ تھا نہ ترکہ پدری جبکہ وہ تعلیم و تعلم ، درس و تدریس اور نشر واشاعت میں مصروف ہوئے تو دولت و ثروت ان کے پاؤں چومنے لگی.حتیٰ کہ وہ صاحب جائیداد ہو گئے.چنانچہ کرایہ کے مکان کی بجائے آٹھ نو مکان اور کئی دکانیں انہوں نے خریدیں اور بنوائیں نقدی کی بھی کمی نہ تھی طلائی وفقر کی زیوارت کے علاوہ ہزار ہا روپے جمع تھے (صفحہ ۸۲۸۱) ثنائی پریس قائم کر کے ایک مشین لگائی پھر دوتین اور مشینوں کا اضافہ کیا اور انگریزی ٹائپ بھی منگوالیا اور مہر سازی کا کام بھی شروع کرا دیا ( صفحه ۲۸۰ ) مولوی صاحب نے اپنا مال اشاعت دین، اجراء اخبارات طباعت کتب، امداد غرباء ، محتاجين ، بیوگان، یتامی و مساکین طلباء و اسلامی ادارہ جات پر صرف کیا ( صفحه ۱۵۴٬۸۳) بہت مہمان نواز اور فیاض تھے.اکثر دو چار دس ہیں مہمان آپ کے پاس آتے رہتے.ایک دفعہ چارصد مدعوافراد جماعت کا تین دن قیام وطعام کا خرچ برداشت کیا.بسا اوقات جلسوں، جلوسوں اور جماعتی اجتماعوں کے اشتہارات پوسٹر وغیرہ اپنے خرچ پر چھپوائے.ایک دفعہ پندرہ ہزار ٹریکٹ کئی سو روپے خرچ کر کے طبع کرائے.ایک دفعہ دوصد رو پیدا اس پر صرف کیا.جماعت کے اکثر نادار طلبہ ان کے خرچ پر علوم دینیہ پڑھتے ، مساکین ، بیوگان اور محتاج ان کی خاص توجہ کے مورد تھے (صفحہ ۲۴۲،۲۴۱،۱۲۲،۱۱۷) سیرت نگار لکھتا ہے کہ بوقت تقسیم ملک مولوی مسلم رؤساء میں سے تھے.لاکھوں روپے کا ان کا سامان تھا.ہزاروں روپے نقد اور ہزار ہا روپے کے زیورات صدوقوں میں بند تھے ہزار ہا روپیہ کا کتب خانہ تھا.پار چات کی کمی نہ تھی.مولوی صاحب نے بوجہ شدید خطرہ مکان سے منتقل ہوتے وقت کسی چیز کو نگاہ حسرت آمیز سے بھی نہیں دیکھا نہ آپ کچھ اٹھایا نہ کسی کو اٹھانے دیا صرف پچاس روپے جیب میں تھے جب پاکستان پہنچے (صفحه ۳۹۳،۳۹۰،۳۸۹) حضرت مسیح موعود نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو در بدر گدائی کرنے والا اور مردوں کے کفن یا وعظ کے پیسوں پر گزارہ کرنے والا لکھا ہے.اس کا سیرت نگار ان الفاظ میں تو اس کا اقرار ہرگز نہیں کر سکتا لیکن میں نے وہ قرائن پیش کر دئے ہیں جس سے اس کی دنیا طلبی اور حرص و آز کا بالبداہت اقرار ہے.بھلا کس کی عقل باور
۴۵۵ صادق صاحب تحریر فرماتے ہیں: بقیہ حاشیہ: - کرے گی کہ محض ایک آدھ مذہبی ہفتہ وار اخبار چلانے والا جو ایک فرقہ کا اخبار ہے اور چند کتب فروخت کرتا ہے اور ساتھ ہی اس قدر عظیم اخراجات خیرات وغیرہ پر کرنے کا ادعا ہے کیا ایسی صورت میں اور ایسے اخراجات کے بعد جائز رنگ میں وہ حلال وجائز طریق سے لاکھوں روپے کی جائیداد بنا سکتے تھے یقیناً نہیں ! ہرگز نہیں !! بعد حصول علم کسی اور ذریعہ سے کسب معاش نہیں کیا اور حصول اموال کا ذریعہ جس سے چھاپہ خانہ وغیرہ لگانے کی توفیق پائی.وعظ وامامت وغیرہ ہی تھا.سو اس کی بدولت ساری دولت آئی جو وعظ وامامت نیک نیتی سے نہ کرے حتی کہ اس کے ہم فرقہ عابد و عالم لوگ اس پر کفر زندقہ کا فتویٰ لگائیں تو یقیناً اس کا وعظ وامامت کا کام در بدر گدائی کے مشابہ ہے جس میں نہ حسن نیت ہے نہ عمل صالح بلکہ یہ عمل قبرالٹی کا موجب ہے اور یقیناً اس کی کمائی کسب حرام ہے.یہ بات قطع غلط ہے کہ مولوی صاحب نے تقسیم ملک کے وقت مکان چھوڑتے وقت گویا بہت صبر دکھایا اور کسی چیز کو نگاہ حسرت آمیز سے نہیں دیکھا.زیورات وغیرہ وہیں چھوڑ دئے یہ مبالغہ ہی نہیں کذب بیانی کی عجیب مثال ہے.مجھے اخویم شیخ ارشد علی صاحب ایڈووکیٹ مقیم سیالکوٹ نے سنایا کہ ایک عام مجلس میں خواجہ فیروز الدین صاحب بٹ ایڈووکیٹ سیالکوٹ نے ( جو مشہور لیڈ ر حسام الدین صاحب کے اقارب میں سے تھے ) بتایا کہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے محلہ کا باشندہ تھا.جب فرقہ وارانہ فساد ۱۹۴۷ء میں وہاں بہت تیز ہو گیا تو مولوی صاحب میرے پاس ایک گھڑی گھر کے زیورات کی مجھے یہ کہہ کر دے گئے کہ آپ کا گھر زیادہ محفوظ ہے.آپ پاکستان لے جائیں لیکن ہمارا گھر بھی محفوظ نہ رہا اوران کے زیورات اور ہما را قیمتی سامان سب لٹ گیا.(۱۴) ذئب (صفحہ ۳۹، ۷۸ ) الذئب يعوى (صفحہ ۴.وہ چھینیں مارنے والا بھیڑیا ہے) ثبوت حضرت اقدس نے حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کو ان کی جرات اور حمایت حق اور وکالت صداقت کے باعث غضنفر ( شیر ببر ) قرار دیا ہے لیکن ثناء اللہ کو چیخنے چلانے والا بھیڑیا.بھیڑیے کو جنگل میں غلبہ نہیں ہوتا.اور الـحـق يـعـلـوا و لا یعلیٰ کے مطابق ثناء اللہ مغلوب ہی تھا اور ساری عمر مغلوب رہا.گرگ آشتی مشہور ہے کہ شدید موسم گرما میں برفانی علاقوں میں بھیڑئیے جمع ہو جاتے ہیں شکار کر نہیں سکتے.ان میں سے جوذ را اونگھا باقی
۴۵۶ ۱۹۰۷ ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اب سلسلہ کا کام بڑھ رہا ہے.اس بات بقیہ حاشیہ: اس پر پل پڑتے ہیں اور چٹ کر جاتے ہیں.یہی حال ثناء اللہ کا تھا کہ اپنے اہل فرقہ کے صاحب تقویٰ اور علم وفضل افراد کے خلاف ساری عمر لٹھ لئے پھرا اور اتفاق و اتحاد کو پارہ پارہ کئے رکھا.نیز چیختے چلاتے اور اپنے ان افراد کے خلاف شکوے ہی کرتے اس کی عمر گزری.اس کی آواز اپنے رفقاء میں بھی مغلوب ہی رہی.کبھی اس کے خلاف کسی جگہ سماعت ہوتی.کبھی کسی جگہ اس کی تفسیر پر نکتہ چینی ہوتی.وہ حق بات کہنے سے ہمیشہ متامل رہا.شیر جیسی جرات سے عدم قبول حق کے باعث وہ محروم تھا.فیصله ونشان نمبر ۱۵ حضور فرماتے ہیں.اگر میرے معجزات اور پیشگوئیاں ان کے نزدیک صحیح نہیں تو ان کو تمام انبیاء علیہم السلام سے انکار کرنا پڑے گا اور آخر ان کی موت کفر پر ہوگی.“ (صفحہ ۱) یہ تو ظاہر ہے کہ تمام انبیاء پر ایمان لانے والا کا فرنہیں ہوتا.اور ایک نبی کا کفر بھی قرآن مجید کی رو سے تمام انبیاء کا کفر قرار دیا گیا ہے.یہ امر ثابت ہے کہ انہوں نے حضور کے معجزات اور پیشگوئیوں کو تا دم آخر صیح نہیں سمجھا.دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان کی موت کفر پر ہوئی.ضرور ہوگی کیونکہ حضرت مرزا صاحب ایک عظیم الشان مامور کی تکفیر وانکار پر مولوی ثناء اللہ کی موت ہوئی.دوم.خود مولوی صاحب کے اہل فرقہ علماء ہند و نجد نے ان کی تکفیر کی اور تکفیر کرنے والوں نے اپنے فتاویٰ کی کبھی تردید نہیں کی.سوم.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مولوی ثناء اللہ صاحب کے استاد کے استاد تھے.اور ان کو فرقہ اہلحدیث صاحب زہد و تقاء اور صاحب علم و فضل تسلیم کرتا ہے اور مولوی ثناء اللہ صاحب کو بھی یہ سب کچھ تسلیم تھا تبھی انہوں نے بٹالہ پہنچ کر ان کا جنازہ پڑھا ( دیکھیئے سیرۃ ثنائی صفحہ ۳۷۲ حاشیہ ) مولوی محمد حسین صاحب حضرت مسیح موعود پر فتولی کفر عائد کرنے والوں کے بانی تھے لیکن بالآخر انہوں نے اس سے رجوع کیا اور ۱۹۱۲ء میں ایک عدالت میں جماعت احمدیہ کے مسلمان ہونے کا اقرار کیا.کا اب دوصورتیں ہیں یا تو مولوی ثناء اللہ صاحب اپنے استاد کے استاد گویا روحانی علمی دادا کے فتویٰ سے
۴۵۷ کی ضرورت ہے کہ بعض نوجوان دور دراز تبلیغ اسلام کرنے کے واسطے اپنی زندگیاں وقف کر یں.اگر چہ اس بقیہ حاشیہ: - متفق ہو گئے تھے تب تو کفر پر موت والا امر وقوع پذیر نہیں ہونا تھا.اور اگر وہ اس سے متفق نہیں ہوئے تھے تو انہوں نے گویا اس شخص کا جنازہ پڑھا جو ایک مامور من اللہ کو مسلمان قرار دیتا تھا اور مولوی صاحب جنازہ پڑھنے والے اسے کا فرقرار دیتے تھے.اہل فرقہ کے نزدیک مولوی محمد حسین صاحب بہر حال ان کے استاد کے استاد تھے.اس لئے ان کا درجہ بڑا تھا اور ان کا فتویٰ بھی قابل قبول ہوگا.اس لئے طبعی نتیجہ تو یہی اخذ ہوتا ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کفر کی موت مرے کیونکہ حدیث کی رو سے بوجہ ایک مسلمان کو ( جوان کے استاد کے استاد کے فتویٰ کی رو سے مسلمان تھا) کافر کہنے کے کفر خود ان پر لوٹ کر پڑ گیا.چہارم.دسمبر ۱۹۰۶ء کو جلسہ احمد یہ منعقدہ آرہ کے موقع پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے تبلیغ واشاعت وغیرہ کی تلقین کی (صفحہ ۲۱۳ ۲۱۴) جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کے نزدیک جماعت احمدیہ کا فرنہ تھی.جیسا کہ وہ دیگر مواقع پر کہتے تھے اور اگر کا فرتھی تو اس جلسہ میں انہوں نے منافقت سے کام لیا اور منافق کا درجہ کا فر سے بھی نچلا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الْمُنفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۲۰ اس صورت میں بھی ان کی کفر کی موت ثابت ہوتی ہے.فیصله ونشان نمبر ۱۶ بطل احمدیت دلائل سے آراستہ بیان دیتا تھا اور مولوی ثناء اللہ حج قاطعہ و براہین ساطعہ کا جواب پھبتیوں اور استہزاء سے دیتے تھے.اگر بطل احمدیت کے دلائل قاطعہ اور مسکت نہ ہوتے تو حریف ابطال کے لئے دلائل کی بجائے زبان درازی کی طرف رجوع کیوں کرتا ؟ یہ گویا اس کا اعتراف شکست تھا.فیصلہ ونشان نمبر ۱۷ جماعت احمدیہ سے متعدد مناظرات کا سیرت نگار نے ذکر کیا ہے لیکن مباحثہ مد کا ذکر تک کرنے سے احتراز کیا ہے حالانکہ اعجاز احمدی کا سیرت ثنائی میں ذکر کیا ہے.( مثلا صفحہ ۱۷ تا۱۷۲ ) اور اس پر یہ امرمخفی نہیں کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب جماعت احمدیہ کے نہایت بلند پایہ عالم تھے اور حضرت مسیح موعود نے اس مباحثہ کے لئے ان کو بھجوایا تھا اور ان کی شکست کی زد براہ راست حضرت اقدس پر پڑتی تھی لیکن اس مباحثہ کے ذکر سے کنی کترائی ہے.اس سے بڑھ کر اعتراف شکست کیا ہوگا.یوں نظر آتا ہے کہ جیسے کوئی پتلا ، دبلا منحنی ، بونا،
۴۵۸ وقت قادیان میں مقیم اکثر مہاجرین ایسے تھے جو اس نیت سے قادیان میں آبیٹھے ہوئے تھے کہ دینی خدمات بقیہ حاشیہ: - ضعیف القلب کسی رستم سے مار کھائے تو رستم کا نام سنتے ہی اس کو دل کا دورہ پڑنے لگے اور متمنی ہو کہ کوئی اس کا نام تک نہ لے.یہی حال مولوی ثناء اللہ صاحب کا ہوا.حتی کہ ان کے سیرت نگار تک کو بھی اس مباحثہ کے ذکر کرنے کا حوصلہ نہ ہوا.فیصله ونشان نمبر ۱۸ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب کو اس موقع پر فتح نصیب ہوئی تھی تو انہوں نے مناظرہ کے پرچے کیوں شائع نہ کئے.وہ یہ نہ بھی مانیں کہ محترم ایڈیٹر صاحب الحکم سے پرچے ضائع ہو گئے لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب کے نزدیک تو مناظر احمدیت کو شکست ہوئی اور شکست خودرہ فریق کبھی اپنی شکست کی کارروائی ظاہر نہیں کرتا لیکن فاتح قادیان مولوی ثناء اللہ صاحب نے یہ مناظرہ کیوں شائع کرنے سے پہلو تہی کی ؟ کیا اس پہلو تہی کے آئینہ میں صاف ان کی ذلت و شکست نظر نہیں آتی ؟ فیصلہ ونشان نمبر ۱۹ چونکہ اہل مد نے مصلح ربانی کو مولوی ثناء اللہ صاحب کو بلوا کر گالیاں دلوائیں.اس لئے غضب الہی بھڑ کا اور پانچ چھ ماہ بعد ہی طاعون کے شدید حملہ سے وہاں کی دو اڑھائی صد آبادی میں سے ایک سو میں افراد لقمہ اجل ہو گئے اور سات سال بعد ۱۹۱۰ء میں پھر طاعون نے حملہ کر دیا.وہاں کی عورتوں نے بھی اعتراف کیا کہ یہ عذاب حضور کو گالیاں دلوانے کا نتیجہ ہے اور انہوں نے ملانوں کو کوسا کہ انہوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو بلوایا تھا.(الحکم ۰۳-۵-۱۷ ( صفحه ۲ تا ۳) و بدر ۱۰-۳-۳ صفحه ۱) فیصله ونشان نمبر ۲۰ تا ۲۲ اعجاز احمدی میں حضور رقم فرماتے ہیں.عنقریب تین نشان ظاہر ہوں گے (۱) وہ قادیان میں تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کے لئے میرے پاس ہرگز نہیں آئیں گے اور کچی پیشگوئیوں کی اپنی قلم سے تصدیق کرنا ان کے لئے موت ہوگی.(۲) اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کا ذب صادق سے پہلے مرجائے تو وہ ضرور پہلے مریں گے.(۳) اور سب سے پہلے اس اردو مضمون اور عربی قصیدہ کے مقابلہ سے عاجز رہ کر جلد تر ان کی روسیاہی ثابت ہو جائے گی.“(صفحہ ۳۷)
۴۵۹ کے سرانجام دینے میں اپنی بقیہ زندگی بسر کر دیں.مگر نو جوانوں کے علاوہ بعض اور دوستوں نے بھی زندگی وقف بقیہ حاشیہ: وہ شریر جو گالیاں دینے سے باز نہیں آتا اور ٹھٹھا کرنے سے نہیں رکتا اور توہین کی عادت کو نہیں چھوڑتا اور ہر ایک مجلس میں میرے نشانوں سے انکار کرتا ہے اس کو چاہئے کہ میعاد مقررہ میں اس نشان کی نظیر پیش کرے ورنہ ہمیشہ کے لئے اور دنیا کے انقطاع تک مفصلہ ذیل لعنتیں اس پر آسمان سے پڑتی رہیں گی.بالخصوص مولوی ثناء اللہ جو خود انہوں نے میری نسبت دعوی کیا ہے کہ اس شخص کا کلام معجز نہیں ہے ان کو ڈرنا چاہئے کہ خاموش رہ کر ان لعنتوں کے نیچے کچلے نہ جائیں.“ (صفحہ ۳۸) فیصله ونشان نمبر ۲۰ سیرۃ نگار لکھتا ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب جنوری ۱۹۰۳ء میں قادیان گئے لیکن حضرت مرزا صاحب نے مناظرہ کرنے سے انکار کر دیا بعد میں بھی حضرت مولانا نے مرزا صاحب سے خط و کتابت میں تصانیف میں ، تقاریر میں ، مناظرات میں، جلسوں اور وعظوں میں کسی نہ کسی رنگ میں مباحثہ جاری رکھا...قوم نے آپ کو اسی خدمت کے عوض فاتح قادیان کے خطاب سے سرفراز کیا.جب مرزائے قادیان اپنی امت و ذریت کے ساتھ...مناظرات سے عاجز آگئے تو مباہلہ فرمایا مولانا ثناء اللہ بفضلہ تعالیٰ ان کے بعد چالیس تک زندہ رہے.“ (صفحہ ۱۷۲،۱۷۱) حقیقت یہ ہے کہ حضور کے بیان کردہ تینوں نشانات ظاہر ہوئے.اول: مولوی ثناء الله قبل از وقت اطلاع دئے بغیر دوتین سپاہیوں کے ساتھ قادیان آئے اور سید ھے آریہ سماجیوں کی گود میں پہنچے.گویا جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف شب و روز دشنام طرازی کرتے ہیں ان کو ترجیح دی.غیرت مند مومن ہوتے تو یوں کیوں کرتے.(بحوالہ بدر ۰۵-۶-۲۲ صفحه۴ ) پھر مولوی صاحب نے مجمع میں پیشگوئیوں کی نسبت خیالات ظاہر کرنے کا موقع حاصل کرنا چاہا ( بحوالہ البدر۰۳-۱-۶ صفحه ۹۳ک اوالحکم ۰۳-۲- ۷ صفحه ۷ ) حضور نے یہ رقعہ مولوی سرور شاہ صاحب کو دیا کہ احباب کو سنادیں ) اس سے ظاہر ہوا کہ حضور کی دعوت قبول کرنے کے باعث نہیں آئے اور ان کو حضور سے اتنا بغض تھا کہ انہوں نے اعداء الرسول کو ترجیح دی.وہ مناظرہ کرنے آئے تھے نہ کہ تمام پیشگوئیوں کی تحقیق کے لئے.کیونکہ انجام آتھم میں حضور ہمیشہ کے لئے مناظرہ سے دستکش ہونے کا اعلان فرما چکے تھے.مولانا کے سیرۃ نگار کو بھی اقرار ہے کہ مولانا مناظرہ کے لئے گئے تھے جیسا کہ اوپر اقتباس کے علاوہ ذیل کی عبارت میں جو زیر عنوان ” مناظرہ قادیان درج ہے مرقوم ہے.
کرنے کے عہد کی درا خوستیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی خدمت اقدس میں پیش کیں اور چونکہ بقیہ حاشیہ: - مولانا کب چوکنے والے تھے فوراً قادیان پہنچ گئے اور مرزا صاحب کو اطلاع بھجوا دی کہ بندہ حاضر ہے مناظرہ کے لئے میدان میں آئے.“ ( صفحہ ۳۱۷) حضور نے مولوی صاحب کو لکھا کہ میں طالب حق کے شبہات دور کرنے کو ہر وقت تیار ہوں میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ میں مباحثات نہیں کروں گا.آپ لوگ ہر بات کو لغو مباحثات کی طرف لے آتے ہیں فرمایا.سودہ طریق جو مباحثات سے بہت دور ہے وہ یہ ہے کہ آپ اس مرحلہ کو صاف کرنے کے لئے اول یہ اقرار کریں کہ آپ منہاج نبوۃ سے باہر نہیں جائیں گے اور وہ اعتراض نہ کریں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یا حضرت عیسی یا حضرت موسیٰ " پر حضرت یونس پر عائد ہوتا ہے.اور اس کی حدیث اور قرآن کی پیشگوئیوں پر زدنہ پڑتی ہو.دوسری شرط یہ ہوگی کہ آپ زبانی بولنے کے ہرگز مجاز نہ ہوں گے صرف آپ مختصر ایک سطر یا دوسر تحریر دیں دے کہ میرا یہ اعتراض ہے پھر آپ کو عین مجلس میں مفصل جواب سنایا جائے گا.....تیسری شرط یہ ہے کہ ایک دن میں صرف ایک ہی اعتراض آپ پیش کریں گے.کیونکہ آپ اطلاع دے کر نہیں آئے...اور ہم ان دنوں میں باعث کم فرصتی اور کام طبع کتاب کے تین گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں دے سکتے.آپ کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر آپ سچے دل سے آئیں ہیں تو اس کے پابند ہو جائیں اور ناحق فتنہ وفساد میں عمر بسر نہ کریں.“ ۲۱ مولوی صاحب نے کوئی شرط بھی منظور نہ کی حتی کہ یہ امر بھی تحریر التسلیم نہ کیا کہ وہ دعویٰ کی جانچ کے لئے منہاج نبوۃ سے باہر نہیں جائیں گے بلکہ مناظرہ کی طرح ڈالنی چاہی اور مطالبہ کیا کہ میں اپنی دو تین سطریں مجمع میں کھڑا ہو کر سناؤں گا اور ہر ایک گھنٹہ کے بعد تین سطریں پانچ نہایت دس منٹ تک آپ کے جواب کی نسبت رائے ظاہر کروں گا.۲۲ اس سے مناظرہ کی روش ظاہر تھی اس لئے حضور نے منظوری نہ فرمائی ۲۳ گویا حضور کا فرموده نشان اول پورا ہو گیا.تفصیل فیصله ونشان نمبر ۲۱ دوسرانشان تب ظاہر ہوتا جب مولوی صاحب اس چیلنج کو قبول کرتے کہ " کا ذب صادق سے پہلے
۴۶۱ حضور کی ڈاک کی خدمت ان ایام میں میرے سپر دتھی.اس واسطے ان درخواستوں پر چند الفاظ لکھ کر 66 بقیہ حاشیہ: - مرجائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے.لیکن انہوں نے کبھی بھی دعوت مقابلہ قبول نہ کی.جس کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے: (1) اس سے پہلے بشمول مولوی ثناء اللہ صاحب علماء وغیرہ کو حضور آخری فیصلہ کی دعوت دے چکے تھے (انجام آتھم صفحہ ۱۶۵) لیکن اس نے جواب نہ دیا.اب جو حضور نے اعجاز احمدی میں لکھا کہ مولوی ثناء اللہ امرت سری کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ میں اس طور سے فیصلہ کے لئے بدل خواہش مند ہوں کہ فریقین یعنی میں اور وہ یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ بچے کی زندگی میں ہی مرجائے.“ (صفحہ ۱۴) 66 اگر وہ اس چیلنج پر مستعد ہوئے کہ کاذب صادق کے پہلے مرجائے تو وہ ضرور پہلے مریں گے.“ ( صفحہ ۳۷ ) لیکن مولوی صاحب نے لکھا چونکہ یہ خاکسار نہ واقعہ میں ، نہ آپ کی طرح نبی یا رسول یا ابن اللہ یا الہامی ہے اس لئے ایسے مقابلہ کی جرات نہیں کر سکتا لیکن افسوس کرتا ہوں کہ مجھے ان باتوں پر جرات نہیں.“ ( الہامات مرزا.صفحہ ۸۵ طبع دوم - صفحہ اطبع ششم ) (ب) اس پر مولوی ثناء اللہ صاحب پر لعن طعن ہوئی لازمی تھی.اس نے پھر آمادگی کا اظہار کیا اور لکھا میں اب بھی ایسے مباہلہ کے لئے تیار ہوں.جو آیت مرقومہ سے ثابت ہوتا ہے جسے مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے.“ ( اہلحدیث ۰۶-۶-۲۲ صفحه ۱۴) مرزائیو! بچے ہو تو آؤ اور اپنے گرو کو ساتھ لاؤ جب تک پیغمبر جی سے فیصلہ نہ ہو.سب امت کے لئے کافی نہیں ہو سکتا.“ ( ۰۷-۳-۲۹ صفحہ ۱۰) مؤخر الذکر تحریر سے قبل حضوڑا اپنی زیرتصنیف حقیقتہ الوحی میں تحریر فرما چکے تھے کہ میں بخوشی قبول کروں گا اگر وہ مجھ سے درخواست مباہلہ کریں.۲۴۴ بدر ۰۷-۴-۴ کے ذریعہ بھی اعلان کیا گیا کہ حضور نے یہ چیلنج منظور کر لیا ہے.بے شک قسم کھا کر بیان کرو کہ مسیح موعود اپنے دعوی میں جھوٹا ہے اور اگر میں جھوٹا ہوں تو لعنة الله علی الکاذبین.اسی آیت قرآنی پر مباہلہ کی بنیاد ہے.اور اس میں لعنۃ اللہ علی الکاذبین آیا ہے.(ج) لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب نے پھر فرار کیا اور لکھا:.
۴۶۲ حضور میرے پاس بھیج دیتے.میں نے ایک رجسٹر بنا لیا.اور اس میں ان کو درج کر دیتا.چنانچہ وہ رجسٹراب بقیہ حاشیہ: میں نے آپ کو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا.مباہلہ نہیں کہا قسم اور ہے مباہلہ اور ہے.“ (اہلحدیث ۰۷-۴-۱۹ صفحریم ) (د) مندرجہ بالا ثنائی قرارا بھی سامنے نہیں آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے علم پا کر حضور نے ”مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری کے ساتھ آخری فیصلہ کے عنوان سے ۰۷-۴-۱۵ کو دعائے مباہلہ“ شائع کر دی جس میں اپنی طرف سے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ بچے کی زندگی میں جھوٹے کو ہلاک کر دے اور لکھا کہ مولوی ثناء اللہ اشتہار کو اہلحدیث میں شائع کر کئے جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں.اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.“ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اہلحدیث ۰۷-۴-۲۶ میں حضور کا یہ اشتہا رشائع کر کے اس کے نیچے لکھا 66 اول اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا.“ میرا مقابلہ تو آپ سے ہے اگر میں مر گیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ہو سکتی ہے.“ خدا کے رسول چونکہ رحیم و کریم ہوتے ہیں اور ان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت میں نہ پڑے.مگر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں.“ خدا تعالیٰ جھوٹے ، دغا باز ، مفسد اور نا فرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کرلیں.“ مختصر یہ کہ یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے.“ مولوی ثناء اللہ کو اقرار ہے کہ حضور کی طرف سے دعوت مباہلہ ہی تھی چنانچہ وہ لکھتا ہے و کرشن قادیانی نے پندرہ اپریل ۱۹۰۷ء کو میرے ساتھ مباہلہ کا اشتہار شائع کیا تھا.(مرقع قادیان جون ۱۹۰۸ ء صفحه ۱۸) (ھ) مولوی ثناء اللہ بعد میں بھی ہمیشہ فرار کرتے رہے.چنانچہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے ۱۹۲۳ء میں ان کے لئے دس ہزار روپیہا انعام رکھا کہ اگر وہ حضرت اقدس کی صفات کے تعلق میں حلف اٹھا کر ایک سال تک زندہ رہے اور حلف اٹھانے کے وقت نصف ہزار روپیہ نقد دے دیا جائے گا.بلکہ دوصد روپیہ اس شخص کو دیا جائے گا جو مولوی ثناء اللہ صاحب کو حلف اٹھانے پر آمادہ کرے لیکن وہ آمادہ نہ ہوئے.(احمدیہ پاکٹ بک مرتبہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی صفحه ۶۱ ۵ تا ۵۶۸) اسی طرح قریباً ڈیڑھ ماہ تک ۱۹۴۵ء میں ایک غیر احمدی مولوی سراج الدین صاحب گجراتی نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو بوعدہ انعام مذکور
۴۶۳ تک میرے پاس محفوظ ہے.“ بقیہ حاشیہ - آمادہ کرنے کی بہتیری کوشش کی لیکن مولوی صاحب کبھی اقرار کرتے اور کبھی انکار اور کبھی کہہ دیتے کہ میں نے آمادگی کا اقرار نہیں کیا تھا.ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی ( ملاحظہ ہو مضمون مولوی سراج الدین صاحب الفضل ۱۴،۱۲ جولائی ۱۹۴۷ء) بابت فیصله نشان نمبر ۲۲ تیسرانشان مندرجه اعجاز احمدی اس کے مقابلہ میں عاجز رہ کر روسیاہی نصیب ہونے کے متعلق ہے.اس بارہ میں تفصیل اسی حاشیہ میں الگ درج کر دی ہے.ثناء اللہ کا انجام مولوی ثناء اللہ صاحب کے سوانح حیات کا لب لباب درج ذیل ہے تا کہ ان کے مداح ان کی ملت کی ان خدمات کو جو نا قابل فراموش اور ان کے نام اور مشن کو حیات جاوید بخشنے والی ہوں.” آب زر سے لکھنے کے لائق ، پاکر آب زر سے لکھ سکیں." جب تم اگلے جہان کو سدھا رو تو تمہاری باقیات صالحات کے طور پر تمہارے فرقہ اہلحدیث میں زندگی اور حرکت کے آثار موجود ہوں“.زندگی اور حرکت کے آثار پیدا کرنے والے مصلح اور مامور کو اس کا فرقہ حد درجہ ممنونیت کے باعث ” فراموش کر دے.”مامور کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر ان کے اہل فرقہ نہایت کوشش سے افراد میں افتراق و انتشار پیدا کریں اور اس حد تک پیدا کریں کہ آپس میں سلام کلام بھی ایسی شدت کے ساتھ بند ہو کہ اکابر فرقہ کی مصالحت پیدا کرنے کی کوششیں بھی رائیگاں جائیں.تمہیں لوگ زندیق وکا فراور معتزلی قرار دیں بار بار تمہیں تنگ کیا جائے.مجرموں کی طرح بیانات ہوں کبھی ایک اقرار نامہ لیا جائے کبھی دوسرا مصالحت نامہ طے ہو.شاہ ابن سعود جیسے عالی مقام کے سامنے بھی اقرار اصلاح کرو تو وطن واپس آکر سب قول و قرار کو یوں بھلا دو کہ جیسے کبھی ہوئے ہی نہ تھے اور ایسی ضد کرو کہ تمہارا استاد بھی تمہیں ضدی کہنے پر مجبور ہو جائے.ان مناقشات کو عمر بھر اتنا بڑھاؤ کہ لوگ تمہیں ساری عمر انگاروں پر لوفتا رکھیں اور مرکز ہی ان سے نجات حاصل کرو.تمہارے پیدا کردہ جھگڑے نہیں نہیں بلکہ رگڑے ” سے جماعت کو بہت نقصان پہنچے اس کا نظم ونسق تباہ
۴۶۴ ان میں سے دس کے اسماء درج کئے ہیں اور یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ بعض کے اسماء درج رجسٹر ہونے سے بقیہ حاشیہ: - و برباد ہو جائے.”جو کام ہونا چاہئے تھا وہ نہ ہو سکے اور اس جماعتی نقصان کا باعث تمہارے جھگڑنے کو یقین جانے والا سیرت نگار بھی باوجود ساری عقیدت اور ہمدردی کئے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے پر مجبور ہو جائے.خواہ تم کوئی ایسا حلال ذریعہ نہ رکھتے ہو.جس سے دولت کی فروانی ہو سکے لیکن یہ اسوۂ مامور ثناء اللہ یا درکھو تمہاری جائیداد بہر حال لاکھوں روپیہ کی ہونی چاہئے اور ایسے چیلے چانٹے بھی تیار کرو کہ پیراں نمی پرند و مریداں مے پرانند کے مطابق حد درجہ مبالغہ آرائی کرانے والے ہوں تم مامور تو نہ ہو.اور بلاسے نہ ہو عمر بھر بھی اس کا ادعانہ کیا ہو.حالانکہ تمہارا مقابلہ ایک اور مامور ہونے کا دعویٰ رکھنے والے سے ہو اور اس وقت فرض ہو جاتا ہے کہ دوسرے کے دعوی کا بطلان ظاہر کرنے کے ساتھ اپنے روحانی مقام کا بھی اظہار کرو جس پر بطور ” مامور تمہیں کھڑا کیا ہو.سیرت و سوانح کی ایسی ترتیب دی گئی ہو کہ تمہاری تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاوے لیکن دراصل وہ اس حقیقت سے ناواقف نہ ہو کہ ا کا بر فرقہ اور دیگر افراد کے قلوب خس کم جہاں پاک“ کا نعرہ لگاتے ہوئے جشن مسرت منارہے ہیں اور سیرت نگار کو بصد حسرت و یاس یہ کہنا پڑے؟ _ (اس کے ) نام اور کام کو آج فراموش کر دیا ہے.“ ( صفحہ ۱۳) جونہی آنکھیں بند ہوئیں یکسر بھلا دیا گیا.فراموش کر دیا گیا.اس کا نام زندہ رکھنے کا فرض جن...معتقدین اور جن اکابر جماعت پر عائد ہوتا تھا انہوں نے تجاہل عارفانہ سے نہیں تغافل مجرمانہ سے کام لیا.وہ اصحاب جن پر امید تھی کہ اس کے کام اور اس کے مشن کو مرنے نہیں دیں گے اس کے رخصت ہوتے ہی بیگانے بن گئے...کیا قائم کرنی ہے کسی نے اس کی یادگار؟...آج تو یہ حالت ہے کہ مرحوم کی سوانح عمری لکھنا تو ایک طرف غالباً اسے کوئی پڑھنا بھی پسند نہ کرے گا.اللہ ہم نے متواتر کئی ماہ تک اپنے جریدہ اہلحدیث میں اعلان شائع کیا اور احباب و بزرگان جماعت کو خصوصیت سے دعوت دی مگر حیف اور صد حیف! کہ ابوالوفاء کے احباب و یاران غار نے کوئی توجہ نہ دی.‘“ (صفحہ ۶،۵) تفصیل فیصله ونشان نمبر ۲۲ نشان اعجاز احمدی اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی تصدیق کے لئے مباحثہ مد کے ذریعہ ایک چمکتا ہوا نشان اعجاز احمدی کے رنگ
رہ گئے.درج شدہ اسماء میں حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کا نام بھی درج ہے.آپ کی درخواست بقیہ حاشیہ: میں نازل فرمایا.اور حضور نے دس ہزار روپیہ کا انعام مقرر کیا.اگر مولوی ثناء اللہ صاحب خواہ دوسروں سے مدد لے کر پانچ دن کے عرصہ میں جتنے عرصہ میں اعجاز احمدی کا اردو حصہ اور قصیدہ عربی لکھا گیا وو تھا ایسا ہی جواب بنا کر شائع کر دیں اور چھپوائی وغیرہ کے لئے کل عرصہ بیس دن مقرر فرمایا تھا اور فرمایا:.دیکھو میں آسمان اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے اس نشان پر حصر رکھتا ہوں.اگر میں صادق ہوں....تو کبھی ممکن نہیں ہو گا کہ مولوی ثناء اللہ اور ان کے تمام مولوی پانچ دن میں ایسا قصیدہ بنا سکیں اور اردو مضمون کار دلکھ سکیں.کیونکہ خدا تعالیٰ ان کی قلموں کو توڑ دے گا.اور ان کے دلوں کو نبی کر دے گا.(صفحہ ۲۵) د اگر....انہوں نے اس قصیدہ اور اردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یوں سمجھو کہ میں نیست و نابود ہو گیا.اور میرا سلسلہ باطل ہو گیا.اس صورت میں میری تمام جماعت کو چاہئے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کریں.“ (صفحہ ۹۰) یہ لوگ جواب شائع کرنے سے قاصر رہے بلکہ اخبار محنہ ہند میرٹھ نے شروع ۱۹۰۳ء میں جواب شائع کرنے کی تعلی کی اور اس بناء پر لوگوں میں تین ہزار روپیہ چندہ کی تحریک کی ( البدر ۰۲-۱۲-۱۲ ) لیکن مدت گذرنے پر بھی وہ جواب نہ تیار کر سکا.اور مینٹل کالج لاہور کے ایک پروفیسر قاضی ظفر الدین احمد صاحب نے اعجاز احمدی کے جواب میں چند عربی شعر لکھے ہی تھے کہ موت نے ان کو آدبوچا اور ساڑھے چار سال بعد ان کا بیٹا ایک احمدی سے مباہلہ کے نتیجہ میں لقمہ اجل ہو گیا.۳۶) حضور فرماتے ہیں:.ارى الموت يعتام المكفّر بعده اب کا فر کہنے والا گو یا مر جائے گا.صفحہ ۴۲) فألفت هذا النظم اعنى قصيدتي ليُخزى ربّى كُلّ من كان يهذر (صفحہ ۴۲.میں نے یہ قصیدہ اس لئے تالیف کیا ہے تا بکو اس کرنے والوں کو میرا رب رسوا کرے.وقال ثناء الله انت كاذب فقلت لك الويلات انت ستحسر (صفحہ ۴۶.ثناء اللہ نے مجھے جھوٹا کہا میں نے کہا تجھ پر واویلا ہے تو عنقریب ننگا کیا جائے گا) و فرج کروبی یا الهی و نجنی و مزق خصیمی یا نصیری و عفر (صفحہ ۲۸.اے میرے اللہ میرے غم دور کر دے ان سے مجھے نجات دے اوراے میرے مددگار ! میرے دشمن کو پارہ پارہ کر اور خاک میں ملا )
۴۶۶ پر حضرت صاحب نے فرمایا.بقیہ حاشیہ: - تركتم سبيل الحق والخوف والحيا وجُزتم حدود العدل والله ينظر (صفحہ ۵۱.تم نے حق خدا خوف خدا اور حیا کا راستہ ترک کر دیا اور عدل کی حدود پھاند گئے.لیکن اس پر اللہ تعالیٰ کی نظر تو ہے ) عقرت بمدٍ صحبتی یا ابا الوفا بست و توهین فربى سيقهر (صفہ ۵۲.اے ثناء اللہ تو نے مد میں ہمارے دوستوں کو گالی اور توہین سے رنج پہنچایا پس میرا رب ! عنقریب غالب ہو جائے گا ) فلا تجعلو اكذبا عليكم عقوبة ودع ياثناء الله قولا تزوّر ترکت طريق كرام قوم وخلقهم هجوت بمُدّعامد التحقر (صفحه۵۳٬۵۲ تم جھوٹ کو اپنے لئے ذریعہ وبال مت بناؤ.اور اے ثناء اللہ! تو جھوٹ بولنا چھوڑ دے.تو نیک لوگوں کا طریق اور خلق چھوڑ دیا ہے اور موضع مد میں قصد اہماری تحقیر کے لئے ہجو کی ) وخف قهررب قال لاتقف فاحذر ومن لا يوقر صادقًا لا يُوقر أمكفّر مهلاً بعض هذا التحكم (صفحہ ۶۵.اے مجھے کافر کہنے والے.اس غم و غصہ کو کچھ کم کر اور خدا سے ڈر...اردت بمدذلّتى فرئيتها (صفحہ ۸۳ تو نے مقام مد میں میری ذلت چاہی لیکن خود ہی ذلت اٹھائی اور جومر دِصادق کی بے عزتی کرتا ہے خود بے عزت ہوتا ہے) لعمرى لقد شجّت قفاک رسالتی وان مت لایأتیک عون معزّر ( صفحہ ۸۴.مجھے قسم ہے کہ میرے رسالہ نے تیرا سر توڑ دیا ہے اور اب اگر تو مر بھی جائے تو تجھے ایسی مدد نہیں پہنچے گی جو تجھے عزت دے سکے ) تريدون ذلتنا ونحن هوانكم ولله حكم نافذ فسيأمر ( صفحہ ۸۶ تم ہماری اور ہم تمہاری ذلت کے خواہاں ہیں اور حکم نافذ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہ عنقریب حکم جاری کرے گا ) اذا ما غضبناک یغضب الله صائلا على معتد يؤذى وبالسوء يجهر (صفحہ ۵۸.جو شخص حد سے تجاوز کرتا ہے اور کھلی کھلی بدی پر آمادہ ہو جاتا ہے.جب ہم اس پر غضب میں آجائیں تو اللہ تعالیٰ بھی غضب ناک ہو کر حملہ آور ہو جاتا ہے)
۴۶۷ آپ کو اس کام کے لائق سمجھتا ہوں.۲۱۴ بقیہ حاشیہ:- عبرتناک انجام حضرت اقدس کی ہر بات کیسی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی.دیکھئے گا کہ 'مامور“ کی مساعی کا کیا نتیجہ نکلا.اس جھگڑے.نہیں نہیں بلکہ رگڑے نے جماعت کو بہت نقصان پہنچایا.اس کا نظم ونسق تباہ و برباد ہو گیا.مجموعی طور پر جو کام ہونا چاہئے تھا وہ نہ ہو سکا.اور نہ ہی جماعتی نقطہ نگاہ سے جماعت اہلحدیث کو ملک میں وہ جماعتی پوزیشن مل سکی یا ملکی اور سیاسی مفاد حاصل ہو سکے جن کی توقع تھی یا جن کے حصول کا اسے حق حاصل تھا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.(صفر ۳۸۴،۳۸۳).گویا جسے اللہ تعالیٰ نے خدمت اسلام اور احیائے و بقائے کتاب وسنت کے لئے مامور فرمایا.“ (صفحہ ۶۱) وہ حسرت و یاس ، نا کامی و نامرادی اور جماعتی نقصان وخسران اور تبار واد بار کی جیتی جاگتی اور منہ بولتی تصویر ثابت ہوا اور جو اپنے فرقہ کو منظم رکھنا چاہتا تھا پنتالیس سال تک فتان ثابت ہوا.( بحوالہ اعجاز احمدی - صفحہ ۴۱) یہ سب کچھ کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ ثناء اللہ حضرت رب جلیل کی طرف سے مبعوث بطل جلیل حضرت مسیح موعو د ایدہ اللہ الودود کی مخالفت پر کمر بستہ ہوا.اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو ولی ہوتا ہے اسے اہل دنیا میں قبولیت دی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ شیطان کے مظاہر کو لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی کے مطابق مغلوبیت و خواری ہوتی ہے ایک طرف اس سے یہ سلوک اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا حضرت صاحب اور آپ کی جماعت سے وہ اعلیٰ سلوک کہ دشمن بھی انگشت بدندان ہیں.ثناء اللہ اور بیچو قسم کے اعداء کی منظم مساعی اکارت گئیں اور احمدیت کا جوالٹی سلسلہ ہے بال تک بریکا نہیں کرسکیں.یہ سیرت نگار آنکھوں کو چندھیانے والی تابناک احمدیت کی ترقی سے نہایت بیکل ہو کر لکھتا ہے؛ ”اے کاش! مسلمان پھر جماعت مرزائیہ کی ریشہ دوانیوں اور دسیسہ کاریوں پر متوجہ ہوں.جس کے فتنے پاکستان میں قیامت بنتے ہیں اور جس کے مفسدات قوم میں نفاق وافتراق پیدا کر رہے ہیں.“ ( صفحه ۲۷۲،۷۲۱) مباحثہ مد کے بعد قریباً نصف صدی تک ثناء اللہ کے رفقاء نے اسے چین نہیں لینے دیا.اس نے کہا تھا کہ جھوٹے ،مفسد اور نا فرمان لوگوں کو لمبی عمریں ملتی ہیں تا اور بھی برے کام کر لیں.چنانچہ یہ بات پوری ہوئی
۴۶۸ آپ نے وقف کو عمر بھر نبھایا اور دنیوی امور کی طرف قطعاً توجہ نہیں دی اور ۱۹۰۱ء میں ایک سواسی روپے ماہوار کی آمد ترک کر کے قادیان میں بارہ پندرہ روپے کا قلیل مشاہرہ قبول کر لیا.اڑ میں سال بعد تک بھی جبکہ آپ ملازمت سے سبکدوش ہوئے آپ کا مشاہرہ ایک صد اسی کو نہیں پہنچا بلکہ صرف ڈیڑھ صد پر اکتیس سال بعد اختتام پذیر ہوگیا.خاندان کی براتوں میں شمولیت آپ کو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دام عزہ کی براتوں میں دہلی اور پشاور جانے کا عز و شرف حاصل ہوا کہ صدر انجمن احمدیہ کے مطبوعہ بجٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ۳۱.۱۹۳۰ء میں اور اگلے سال آپ ایک سو سینتیس روپے پاتے تھے اور گریڈ ۱۱۰.۵.۱۳۵ تھا.جو۳۳.۱۹۳۲ء میں ۱۵۰ تک ہو گیا اور یکم جولائی ۱۹۳۲ء سے تا سبکدوشی آپ ڈیڑھ صد روپیہ ہی پاتے تھے.اور یکم مئی ۱۹۳۹ء سے آپ کی پنشن ساڑھے سینتالیس روپے مقرر ہوئی.بدر میں مرقوم ہے.حضرت میر ناصر نواب صاحب بتقریب شادی اخویم ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ہندوستان کو تشریف لے گئے ہیں ان کے ساتھ میر سرور شاہ صاحب بھی ہیں.“ (۰۶-۷-۱۹ - صفحہ ۲.واپسی کا ذکر ۰۶-۷-۲۶ صفحہ ۷ ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی شادی کی برات میں نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب حضرت مرزا محمود احمد صاحب ( خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) حضرت مرزا عزیز احمد صاحب اور حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب وغیرہ ہم کچھ احباب ۰ امئی ۱۹۰۶ء کو پشاور گئے اور ۶ امئی کو مراجعت ہوئی (الحکم ۰۶-۵-۱۷ (صفحه ۲ ) و بدر ۱۷-۵-۰۶ (صفه ۲) ۰۶-۵-۲۴ صفحه ۸ و تاریخ احمدیہ ( سرحد ) مؤلفه حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی صفحه (۳۱) بقیہ حاشیہ: اور حضرت اقدس کی وفات کے بعد چالیس برس تک وہ اپنے ساتھیوں کی لعن طعن اور پھٹکار کا مورد بنا رہا.اس کا سیرت نگار جو اس کے ایک استاد کا نواسہ ہے.ثناء اللہ کے ذلیل کرنے والوں کی درازی عمر کا خواہاں ہے.وہ اور اس کا فرقہ ان عذاب کے ملائکہ غلاظ و شداد کی نیکی اور تقویٰ کی تشہیر کرتا ہے گویا اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص کارفرما تھی.بھلا وہاں شاہ ابن سعود وغیرہ کیوں کر سدراہ ثابت ہو سکتے تھے.کیا اس کے
۴۶۹ ورزشی جسم دوسری جگہ ذکر کیا گیا ہے کہ آپ گنتے میں اور پیرا کی میں ماہر تھے.آپ غلیل کے بھی نشانچی تھے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب فرماتے تھے.مجھے یاد ہے کہ مولوی عبد الکریم صاحب سر پر ہلکی سی ایک کپڑے کی ٹوپی پہنا کرتے تھے اور مجلس میں موجود ہوتے تھے.ایک چغد کو کچھ ایسی ضد پڑ گئی کہ وہ پنجہ مار کر ان کی ٹوپی لے جانے کی کوشش کیا کرتا تھا.چنانچہ لوگوں نے اسے مارنے کی بھی کوشش کی لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ آپ ہی آپ ہٹ گیا.مولوی سرور شاہ صاحب غلیل لے کر تیار رہا کرتے تھے.‘۲۶ حضرت خلیفہ اول کی نظر میں آپ حضرت خلیفہ اول کا بے حد احترام کرتے تھے اور حضرت مدوح کی نگاہ میں آپ اس وجہ سے بھی قابل عزت تھے کہ آپ چوٹی کے علماء فقہاء میں سے تھے.چنانچہ حضور فرماتے تھے.مد زکو بایں کہ زکوۃ کا مصرف قرآن میں بہت ہی مفصل موجود ہے مگر پھر بھی قاضی امیر ☆..حسین ،مولوی سرورشاہ اور سید محمد احسن صاحب سے با وجو د عدم ضرورت مشورہ کر لیتا ہوں.آپ کے دل میں حضرت خلیفہ اول کا جو اعزاز و اکرام تھا وہ ان الفاظ سے بھی عیاں ہوتا ہے جن سے آپ حضور کا ذکر تفسیر میں کرتے تھے.مثلاً حکیم الامت سلام اللہ ورحمتہ وبرکاتہ علیہ (رسالہ تعلیم الاسلام جلدا نمبر ۵ صفحه۱۹۲) حضرت سیدی حکیم الامتہ رضی اللہ عنہ وسلم واوصله الى ما يحب ويرضہ “ (رسالہ تعلیم الاسلام جلد نمبر ۶ صفحہ ۲۲۸) حضرت سیدی حکیم الامتہ رضی اللہ عنہ “ (رسالہ تعلیم الاسلام جلد انمبرے صفحہ ۲۴۵) حکیم الامت رضی اللہ عنہ (رسال تعلیم الاسلام جلد نمبر ے صفحہ ۲۷) سیدی و مولائی حضرت مولوی صاحب.“ (رسالہ تعلیم الاسلام جلد انمبر ۸ صفحه ۳۰۰) حضرت مولانا خلیفتہ اسیح علیہما السلام.( جلد نمبر ۴ صفحہ ۱۸۱) بقیہ حاشیہ: - ساتھیوں کے ہاتھوں اس کی تضحیک و تذلیل و مخذولیت کے آئینہ میں حضرت مرزا صاحب کے اس الہام کو ہم پورا ہوتے نہیں دیکھتے.(1) إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَ اهَانَتَكَ (۲) مَنْ عَادَى وَلِيًّا لِي فَقَدْ أذَنْتُهُ لِلْحَرُب ۲۸ کہ جو تیری تذلیل کا ارادہ کرے گا میں اس کی اہانت کروں گا اور یہ کو جو شخص میرے ولی سے دشمنی رکھے میں لڑنے کے لئے اسے متنبہ کرتا ہوں.فاعتبروایااولی الابصار.
فرماتے تھے کہ مرض الموت میں میں نے جو خدمت حضرت خلیفہ اول کی کی تھی اس کی تعریف کرتے ہوئے حضور کے آنسو جاری ہو گئے تھے.دورہ ہند حضرت خلیفہ المسیح اول نے جب حضرت صاحبزادہ مرزامحموداحمد صاحب کو مدرسہ احمدیہ کاہیڈ ماسٹر مقرر کیا تو میاں صاحب سے کہا کہ اس کام کو کامیاب طور پر چلانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ ہندوستان کے مدارس کا دورہ کریں اور کچھ سوالات بھی بتائے اور رفقاء سفر بھی تجویز کئے.فرماتے تھے.محترم میاں صاحب کی امارت میں ایک وفد روانہ ہوا.کانپور میں رشید رضا ایڈیٹرالمنار مصر سے ملاقات کی.میاں صاحب نے وہاں ایک پبلک تقریر کی جو کہ بے نظیر تھی اور لوگ اس سے حیران ہوئے.مولانا شبلی اور مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ علماء سے ملاقات ہوئی ان میں سے بعض احدیت کے سخت خلاف تھے.احمدیت اور تعلیم وغیرہ مختلف امور پر گفتگو ہوتی تھی.مولویوں سے بالعموم حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم گفتگو کرتے.مولانا شبلی صاحب سے حضرت میاں صاحب نے خود گفتگو کی.مولانا احمدیت کی بعض باتوں کی تعریف بھی کرتے تھے اور بعض باتوں کی مخالفت بھی کرتے تھے.انہوں نے سنایا کہ طلبہ کو نمازوں کی پابندی وغیرہ کے متعلق میں نے نصیحت کی.میں نے دیکھا کہ صرف ایک احمدی طالب علم نماز کا پابند ہے، دوسرے پر واہ نہیں کرتے.اس احمدی طالب علم سے بہت متاثر تھے.وہ سیالکوٹ کے ایک گدی نشین کا لڑکا تھا لیکن افسوس ہے کہ بعد میں مرتد ہو گیا.وہاں مدرسہ کے الہیات کے ایک استاد مولانا آزا دسبحانی سے بھی ملاقات ہوئی.لکھنو میں علماء سے ملاقات کی.مولانا عبدالحئی صاحب کے بعد فرنگی محل میں اول درجہ کے جو استاد تھے شاید مولوی عبدالباری نام تھا ان کی تدریس کا کام دیکھا.محترم میاں صاحب ان کے کام سے بہت خوش ہوئے.وہ ملاقات میں بھی اچھی طرح پیش آئے تھے وہاں پر ایک انگریزی دان مولوی تھے.جب قافلہ مدرسہ کے قریب ایک بزرگ کے مزار پر دعا کرنے گیا تو یہ صاحب بھی وہاں آگئے اور قبر پر انہوں نے سجدہ کیا.قافلہ نے رامپور میں علماء سے ملاقات کی.پھر دیوبند پہنچے.باوجود جمعہ کی تعطیل کے خلاف معمول وفد کی خاطر مدرسہ لگایا گیا.میرے استاد میرے احمدی ہونے کی وجہ سے ملاقات نہیں کرنا چاہتے تھے.اس لئے اپنی جگہ تدریس کے لئے مولانا انور شاہ صاحب کو مقرر کر بھیجا.انہوں نے حدیث شریف کا سبق پڑھایا.میاں صاحب نے پہلے ہی کچھ سوالات انہیں بتائے ہوئے تھے.مولانا صاحب نے کہا کہ درس کے بعد ان کا جواب
دوں گا.لیکن درس کے آخری الفاظ ا بھی منہ میں ہی تھے کہ سوالات کا جواب دئے بغیر اٹھ کھڑے ہوئے.مہتمم صاحب مدرسہ نے دعوت کی اور دعوت کے موقع پر تقریر میں کہا کہ مولوی محمد سرور شاہ صاحب کے استاد مولانا محمودالحسن صاحب اس لئے دعوت میں شریک نہیں ہوئے کہ ان کا خیال ہے کہ دیو بند کا تعلیم یافتہ بھی کسی فرقہ میں نہیں جا سکتا.مولوی سرور شاہ صاحب واحد شخص ہیں جو ایک استثنائی مثال ہیں جو کہ دوسرے فرقہ میں شامل ہو گئے ہیں.اس لئے میں ان سے ملنا نہیں چاہتا.وہاں بقہ علاقہ پکھر صوبہ سرحد کے رہنے والے ایک پٹھان مولوی غلام رسول صاحب منطق کے استاد تھے کسی وقت ان کا جائیداد کا مقدمہ عدالت میں تھا.ان ایام میں مولوی محمد سرور شاہ صاحب ایبٹ آباد ہوتے تھے.اور آپ کی وساطت سے اس نے کامیابی حاصل کی تھی.درس حدیث کے بعد وفد باہر نکلا تو سامنے یہی پٹھان مولوی صاحب نظر پڑے.مولوی سرور شاہ صاحب ان سے ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ کاش میرے پاس تلوار ہوتی تو میں تیری خبر لیتا.حضرت صاحبزادہ صاحب کا شرف استادی حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ( ایدہ اللہ تعالی ) مسندِ خلافت پر (۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو متممکن ہونے تک آپ سے تعلیم پاتے رہے.وجودایت سید احمد علی صاحب فاضل جب حضرت صاحبزادہ صاحب ہنوز چوتھی جماعت میں زیر تعلیم تھے اس وقت کی خواہیں حضرت مولوی صاحب کو سنائیں لیکن بیان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا آیا سنانے کے وقت آپ چوتھی جماعت میں ہی پڑھتے تھے.یقیناً نہیں کیونکہ حضرت مولوی صاحب ۱۹۰۱ء میں ہجرت کر کے آئے تو حضرت صاحبزادہ صاحب بارہ سال کی عمر کے تھے اس وقت یقیناً آپ چوتھی جماعت میں زیر تعلیم نہیں تھے.خاکسار کو مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ امیر مقامی سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت مولوی صاحب حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں مدرسہ تعلیم الاسلام میں چھٹی سے دسویں جماعت تک دینیات کی تعلیم دیتے تھے نچلی جماعتوں کو مولوی عبداللہ صاحب کشمیری پڑھاتے تھے خاکسار کے تایا جان مکرم حکیم دین محمد صاحب پنشنر مقیم دارالرحمت وسطی ربوہ استفسار پر تحریر کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) میرے ہم جماعت تھے ہمیں حضرت مولوی صاحب نے ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۴ء تک نویں اور دسویں جماعت میں عربی نصاب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”مواہب الرحمن پڑھائی تھی.
۴۷۲ آپ کی خلافت سے قبل رسالہ تفخیذ الاذہان کے متعلق آپ مشوروں سے قابل قدر را مداد فرماتے تھے کہوں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفروں میں رفاقت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت کی سعادت مولوی صاحب کو متعد دسفروں میں حاصل ہوئی جن میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے.(۱) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد.صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کشمیر تشریف لے گئے ہیں.مولوی سرورشاہ صاحب کوصاحبزادگان ممدوح کے ساتھ بھیجا گیا ہے.نیکی اور بھلائی کے فرشتے ہر جگہ ان کی حفاظت اور نصرت کریں اور ان کا یہ سفر بہت بہت سی دینی خوبیوں اور بھلائیوں کا موجب ہو.(آمین ) فرمایا.سید حیات علی شاہ صاحب اس امر کے شدید متمنی تھے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب سفر کشمیر سے انجمن تشحی الاذہان کی طرف سے امداد کرنے والوں کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ.در شیخ یعقوب علی صاحب ہمفتی محمد صادق صاحب اور مولوی سرور شاہ صاحب قابل شکریہ ہیں جنہوں نے رسالہ تشخیذ الاذہان کے متعلق اپنے اپنے مفید ریویو کئے اور اپنے مفید مشوروں سے انجمن کی مدد کرتے رہے.۲۴ الحکم ۰۹-۷- ے صفحہ ۶ از میر دار الامان کی خبریں“.و بالفاظ دیگر مورخه ۰۹-۷-۱۴ صفحه ۴ زیر دارالامان کا ہفتہ.بدر ۰۹-۷-۱۵ ( صفحہ اک (۳) تشخیذ الا ذبان بابت اگست ستمبر ۱۹۰۹ء (سرورق صفحہ ۴۲.سفر مراجعت کی خبریں ) والحکم جو بلی نمبر صفحہ ۶۹ ک۴) آپ بیان کرتے تھے کہ اس سفر میں میر محمد الحق صاحب بھی ساتھ تھے سفر راولپنڈی کے راستہ دو یکوں کے ذریعہ کیا تھا.یکے والے گوڈوگرے تھے جو ظالم ہوتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ انہوں نے بہت اچھا سلوک کیا.ایک یکہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب اور میں اور دوسرے میں دیگر دونوں رفقاء نے سفر کیا.سری نگر میں ملک شیر محمد صاحب نائب وزیر مال یا نائب گورنر کے ہاں قیام رہا.ملک صاحب قادیان میں ہیڈ ماسٹر کے طور پر کام کر چکے تھے ملک صاحب نے ایک ہاؤس بوٹ کا بھی انتظام کیا پھر پہلگام گئے.حضرت صاحبزادہ صاحب کو سبزہ بہت پسند آیا.بقیہ حاشیہ - آپ نے مجھ مؤلف سے بیان کیا تھا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی زندگی میں حضرت مولوی نورالدین صاحب سے تعلیم حاصل کرتے تھے اور آ حاصل کرتے تھے اور آپ نے خود ہی مجھ سے صرف پڑھنی شروع کی لیکن یہ صرف چند سبق ہی تھے.البتہ ایام خلافت اولی میں حضرت خلیفہ اسی اول کی
۴۷۳ واپسی پر دانہ آئیں.چنانچہ انہوں نے مانسہرہ میں سٹرک پر ایسا انتظام کیا کہ علم ہوئے بغیر قافلہ گزرنے نہ پائے اور خود بھی مانسہرہ آگئے اور حضرت میاں صاحب کے وہاں پہنچنے پر اس خواہش کا اظہار کیا جب میاں صاحب سفر پر روانہ ہوئے تھے تو آپ نے خاندان کے افراد سے دریافت کیا تھا کہ ان کے لئے کیا کیا تحائف لا ئیں.نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اپنے لئے بگو گوشے بطور تحفہ پسند کئے تھے.چونکہ یہ زیادہ دیر تک رکھنے سے خراب ہو جاتے ہیں.اس لئے آپ نے اس شرط پر دانہ جانا منظور کیا کہ صبح آپ کے واپس آنے کا انتظام کر دیا جائے.اس علاقہ کے لوگ شہسواری میں مشہور ہیں اور سید حیات علی شاہ بالخصوص اس فن کے ماہر تھے.ان کے پاس ایک گھوڑا بارہ صد روپیہ کا تھا اس پر انہوں نے صاحبزادہ صاحب کو سوار کیا اور خود اس کی باگ تھامی اور حسب وعدہ اگلے روز صبح ہی گھوڑوں پر واپسی کا انتظام کیا.حضور کو وہاں سید حیات علی شاہ صاحب نے اپنے مکان پر جو ان کی بیٹھک بنگلہ کے نام سے مشہور ہے ٹھہرایا تھا.(ب) حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ وزیر ہند مسٹر مانٹیگو کی ملاقات کے لئے دہلی تشریف لے گئے ان کی وفات کا واقعہ مولوی صاحب یوں بیان کرتے ہیں کہ انہیں گھڑ دوڑ کے لئے مدعو کیا گیا جب روانہ ہوئے بارش کی وجہ سے راستہ میں جو نالہ آتا ہے وہ پانی سے بھر چکا تھا اس میں سے گزرتے ہوئے انہوں نے پانی کی وجہ سے دونوں پاؤں زمین پر رکھ لئے اور کنارہ پر پہنچ کر چھلانگ لگا کرختگی پر پہنچنا چاہا لیکن ندی میں گر پڑے اور اگلے روز لاش پانی کے اوپر آئی تو ملی.سید حیات علی شاہ صاحب آپ کی بڑی پھوپھی کے بیٹے تھے آپ بیان کرتے ہیں کہ: ” میرے پھوپھی زاد بھائی سید حیات علی شاہ صاحب ابتداء میں بہت مخلص تھے اور موضع دانہ کے نمبر دار تھے.ان کے والد سید فتح علی شاہ صاحب پیر تھے اور با اثر شخص تھے لیکن احمد بیت قبول کرنے سے محروم رہے.اس وقت سید حیات علی شاہ صاحب کے اخلاص اور عقائد میں پختگی کا یہ حال تھا کہ والد کا جنازہ تیار ہوا.لوگ بقیہ حاشیہ: - وفات تک آپ مجھ سے پڑھتے رہے.پہلے صرف و نحو اور پھر منطق اور فقہ میں ہدا یہ پڑھتے تھے.ہدایہ تو حضرت خلیفہ اول کی وفات تک پڑھتے اور حضور کی مرض الموت کے ایام میں میں نے آپ سے کہا کہ منطق کا سبق سیر کے دوران میں ہوا کرے.چنانچہ ہم دونوں موضع منگل کی طرف سیر کے لئے جاتے لیکن اکثر منطق کے سبق کی بجائے لاہوری جماعت کا تذکرہ ہوتا رہتا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے مکانوں کے درمیان کی گلی مسقف تھی جو حرم اول حضرت ام ناصر احمد صاحب والا حصہ ہے اس کے شمال کی طرف آیا.سیڑھی ہوتی تھی جس سے اوپر جا کر صبح دس بجے کے قریب آپ کو سبق دیتا تھا.
تو رفقاء سفر میں مولوی صاحب بھی تھے.جو (ج) حضور نے ۷ اپریل ۱۹۲۰ء کو سیالکوٹ کے سفر پر بعد عصر روانہ ہونا تھا.چوک میں ہجوم انتظار میں تھا کہ معلوم ہوا کہ حضور نے بیت الدعاء میں دعا شروع فرمائی ہے.چنانچہ سب احباب نے بھی دعا میں شرکت کے لئے ہاتھ اٹھا دئے.دعا قریب نصف گھنٹہ تک جاری رہی.پھر احباب سمیت تھوڑی دور پیدل چلنے کے بعد ان سے مصافحہ کر کے تانگہ پر سوار ہوئے لیکن موڑ پر تانگہ کا کچھ حصہ ٹوٹ گیا.اس پر حضور نے حضرت نواب صاحب کا تانگہ منگوایا جو سات بجے شام پہنچا اور قافلہ نو بجے کے قریب بٹالہ پہنچا.حضرت شیخ فضل حق صاحب کے ہاں کھانا تناول فرمایا اور دہلی دروازہ تک پیدل آکر تانگے پر سوار ہو کر ریلوے اسٹیشن پر پہنچے اور وہاں قیام کیا.صبح گاڑی کو تاخیر ہوگئی اس لئے سیالکوٹ تار دیا گیا کہ شام کو وہاں پہنچیں گے.سیالکوٹ میں 9 اپریل کو نماز فجر کے بعد حضور نے سید سرور شاہ صاحب، مولوی ذوالفقار علی خان صاحب و صاحبزادگان کو فرمایا کہ چلو میر حامد شاہ صاحب کے مزار پر دعا کر آئیں.چنانچہ وہاں پیدل گئے اور لمبی دعا فرمائی.دیگر رفقاء حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وغیر ہم تھے.(الفضل ۱۷-۱۱-۱۷ زیر مدینة اسبیح و ۲۰-۱۱-۱۷ صفحہ اک۱) مولوی سرور شاہ صاحب کو دہلی سے فیروز پور جلسہ میں شمولیت کے لئے بھجوادیا گیا تھا.ار الحكم ۲۰-۴-۷(صفحہ ۱تا۲) والفضل ۲۰-۴-۸ میں زیرہ مدینہ اسی یہ بھی ذکر ہے کہ بیرون “ ☆☆ رض سے مولوی سرورشاہ صاحب اور بعض دیگر افرادسیالکوٹ میں حضور سے آملیں گے.بقیہ حاشیہ نماز کے لئے جمع ہوئے اور انتظار کرنے لگے کہ سید حیات علی شاہ صاحب آئیں اور جنازہ پڑھا جائے لیکن وہ نہ آئے.آخر ان کے ایک گہرے دوست نے کہلا بھیجا پھر بھی نہ آئے.پھر اس نے کہلا بھیجا کہ اگر آپ اب بھی نہ آئیں گے تو میرا اور آپ کا تعلق منقطع ہو جائے گا.لیکن پھر بھی وہ جنازہ میں شریک نہ ہوئے لیکن افسوس ہے کہ اختلاف کے وقت محمد یا مین صاحب غیر مبائع سکند دانہ کے زیر اثر وہ متاع ایمان جیسی عزیز چیز کھو بیٹھے اور غیر مبایعین میں شریک ہو گئے اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ ادنی کمینہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیتے تھے.ان کے جنازوں میں شریک ہو جاتے.افسوس کہ ان کی اولاد بھی ان کی طرح خلافت ثانیہ کی بیعت سے محروم ہے اور ان کا بھائی غیر احمدی تھا.محمد یا مین صاحب کو قادیان آنے کے لئے میں نے انہیں کئی بار کرایہ دیا.اور وہ قادیان آتے رہے.غیر مبائع ہونے کی حالت میں بھی ایک دفعہ کرایہ دیا وہ آئے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ حسب معمول کھڑے ہو کر ان سے ملے.بعد ملاقات محمد یا مین صاحب روتے تھے اور آپ کا ذکر کرتے تھے کہ بہت خلیق ہیں لیکن بیعت سے محروم ہیں.“
۴۷۵ (۱) حضور ۲۰-۲-۱۳ کو لاہور تشریف لے گئے.آپ بھی ہمراہ تھے.حضور کا مکتوب لندن سے آپ سفر یورپ کے عرصہ میں امیر جماعت نہیں تھے پھر بھی آپ کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ذیل کا مکتوب رقم فرمایا جس سے حضور کا مقصودا اپنی محبت و احترام کا اظہار ہوگا.۱۷ ستمبر ۱۹۲۴ء مکرمی معظمی مولوی صاحب ! السلام علیکم.الحمد للہ کہ انگلستان میں بھی اللہ تعالیٰ کامیابی دے رہا ہے بعض ایسے لوگ جن کا اثر ہزاروں لوگوں پر ہے اور سب ملک میں ان کی عزت ہے.سلسلہ سے دلچسپی لے رہے ہیں.اس رنگ میں نہیں کہ اسلام لائیں بلکہ اس رنگ میں کہ یہ سلسلہ بھی ایک مذہب ہے اور اس امر کا حق دار ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے.انگلستان میں سب سے پہلا مقام یہی ہے.آج رات کو شہید کا بل کے واقعہ کے متعلق جلسہ اظہار نفرت تھا.انگلستان کا ایک بہت مشہور عالم ڈاکٹر ولش اس کا پریذیڈنٹ تھا.میری تقریر کے بعد جو اس نے ریمارک کئے ایسے زوردار تھے کہ ایک احمدی اس سے زیادہ نہیں کہ سکتا تھا.اس نے کہا کہ یہ سلسلہ ضرور پھیل کر رہے گا اور میں اس کی روحانی طاقت پر حیران ہوں.آئندہ وہ دن آئے گا جب سب دنیا میں پھیل کر اس کی آئندہ نسل اپنے آباء کی قربانیوں کو فخر سے دیکھے گی.امن کی تعلیم جسے دنیا زبان سے بیان کرتی ہے انہوں نے اس کو عمل سے ثابت کر دیا ہے.عبداللطیف کی شہادت ایک پیج تھا جسے نعمت اللہ نے پانی دیا ہے.یہ پودا ضرور بڑھ کر رہے گا اور کوئی دنیا کی طاقت اس کو روک نہیں سکتی.ایک اور بڑے پادری نے کہا کہ یقیناً یہ سلسلہ الہامی ہے.ایک دوسرے نے کہا ان کی قربانیاں بالکل ابتدائی مسیحیوں سے مشابہ ہیں اور ہمیں ان کی ہر طرح مدد کرنی چاہئے اور ان کی عزت کرنی چاہئے.خواجہ کے لڑکے نے فساد کرنا چاہا مگر پریذیڈنٹ نے ہوشیاری سے اس فتنہ کو دبایا اور دوسرے لوگ جن میں سے اکثر انگریز تھے.جوش میں آگئے بعض انگریز جن کو اس نے شروع میں ورغلا نا چاہا تھا وہ بھی ہمارے ہی ساتھ ہو گئے.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب طرف سلسلہ کی ہیبت قائم ہو رہی ہے اور اب لوگ اسے ایک معمولی جماعت نہیں سمجھتے بلکہ ایک دنیا کو کھا جانے والی جماعت سمجھتے ہیں.خاکسار مرزا محمود احمد - ۲۹ تعبیر الرویا میں کمال آپ تعبیر الرؤیا میں بھی کمال رکھتے تھے.سیدنا حضرت خلیفہ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ۴۴-۵-۴ کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں مجلس عرفان میں ایک رؤیا اور اس کی تعبیر بیان کی.اور فرمایا.
در گفتگو کے بعد مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے ذکر کیا کہ شاید ام طاہر سے یہ مراد ہو کہ گووہ شخص کتم ایمان کا مرتکب ہو اور اس وجہ سے اپنی جان بھی کھو بیٹھے مگر اس کے بعد اس کی نسل طاہر ثابت ہو اور احمدیت کی خادم بنے اور اس طرح وہ شخص ام طاہر کا لقب پانے کامستحق ہو.یہ تعبیر بہت درست معلوم ہوتی ہے اور اس سے بظاہر خواب کی پیچیدگی دور ہو جاتی ہے.‘۳۰ بچیوں کی اعلیٰ تربیت بچیوں کی تربیت آپ نے نہایت عمدہ طریق پر کی.جس پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوا.آپ حضرت خلیفہ اول کے سمدھی بنے اور تین بچیوں کی شادیاں آپ نے جن معززین سے کیں.ہرسہ کی ہمشیرگان حضرت خلیفتہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زوجیت میں آئیں.محترم قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے رقم فرمایا ؛ اپنی لڑکیوں کو جس محبت کے ساتھ آپ نے تربیت فرمایا.اس کی مثال بھی بہت کم دیکھنے میں آتی ہے اور عملاً اپنی قلبی کیفیت پر یہ شاہد عدل پیش کر رہے تھے کہ باوجود اس بڑی عمر کے لڑکیوں کے پیدا ہونے کو نعمت الہی سمجھتے ہیں اور ذرا بھی خلجان نہیں.مجلس عرفان کی بینچ آپ کی یادگار بعد از مغرب ۱۸ مارچ ۱۹۴۴ء کی مجلس عرفان کے تعلق میں مرقوم ہے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے عرض کیا کہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ حضور کی آواز تو سب تک پہنچ جاتی ہے مگر چونکہ لوگ حضور کی زیارت کے بھی خواہش مند ہوتے ہیں اس لئے اگر اجازت ہو تو یہاں محراب میں کوئی اونچی سی جگہ بنادی جائے.جس پر حضور تشریف رکھیں تا کہ لوگ حضور کی باتیں سننے کے ساتھ ساتھ حضور کی زیارت سے بھی مشرف ہوتے رہیں.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.بدر ۱۱-۱۱-۲ ص ۵ ک۱) خاکسار مؤلف کو یاد ہے ایک دفعہ آپ نے خطبہ میں کسی تعلق میں یہ فرمایا تھا کہ جن تین خاندانوں میں میں نے اپنی بچیوں کی شادیاں کیں بعد میں ہرسہ میرے دامادوں کی ہمشیرگان سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عقد کیا.مراد سیدہ امتہ الحی ، سیدہ ام وسیم ، سیدہ ام طاہر رضی اللہ عنہا تھیں بعد میں انہی خاندانوں میں سے سیدہ مہر آپا صاحبہ ہیں اور حضور کے داما دسید داؤ د مظفر صاحب بھی.
ایک بیچ بنوا لیا جائے تاکہ اس پر میں بھی بیٹھ جاؤں اور کچھ اور آدمی بھی بیٹھ جائیں.مصری صاحب کا بدانجام آپ نے مجھ سے بیان کیا کہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمد یہ مجھے جائز ناجائز تنگ کرتے تھے اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے حسن ظن سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ان کے کان مولوی صاحب کے خلاف بھرتے رہتے تھے اور ان کے خلاف پراپیگنڈا کرتے تھے.ایک دفعہ میں نے اولڈ بوائز ایسوسی ایشن ( Old Boys Association) قائم کی اور اس کے اجلاس میں تقریر کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں قرآن مجید کی تفسیر ہے انہیں پڑھا کریں.اس پر مصری صاحب نے کہا کہ معاذ اللہ میں غیر مبایعین کے اعتقاد کا ہو گیا ہوں.ایک دفعہ سیالکوٹ میں عیسائیوں کے مامور اور مایہ ناز مناظر پادری عبدالحق صاحب کے ساتھ میرا بہت ہی کامیاب مناظرہ ہوا اور انہوں نے مجھے کہا کہ میں ہار گیا ہوں اور جس الفضل ۴۴-۴- و یه پیچ یعنی چوکیاں سات عدد افسر مساجد حضرت مولوی صاحب کے زیرانتظام بنوائی گئیں اور مجلس عرفان میں محراب کے سامنے حضور والی چوکی ہوتی جس پر ایک روئی دار گریلا رکھ دیا جاتا.قریشی فضل حق صاحب در ولیش مؤذن مسجد مبارک کے زیرانتظام یہ گری اور چوکیاں مسجد مبارک میں بوقت تالیف کتاب ہذا محفوظ ہیں.مستری محمد حسین صاحب درویش جوان مجالس میں شریک ہوتے رہے ہیں.بتاتے ہیں کہ یہ چوکیاں اس طرز پر پچھائی جاتی تھیں کہ اطراف سے مغرب کی طرف ترچھی ہوتیں تا کہ دیگر احباب کے چوکیوں پر بیٹھنے سے شمال و جنوب کی اطراف کے احباب کی نظروں سے حضور اوجھل نہ ہوں.خاکسار مؤلف کو حضرت مولوی صاحب کے علاوہ حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کا بھی ان چوکیوں پر بیٹھنا یاد ہے.چار پائے والی چوکیاں دیار کی لکڑی کی ہیں اور بالکل سادہ تراشیدہ ہیں پائے کا طول ۵ ہے اور ڈیڑھ انچ مربعہ موٹائی ہے.ذیل میں بغیر سکیل کے خاکہ بنا کر طول و عرض دیا گیا ہے ہر چوکی کی سطح پر پھٹیوں کے جتنے ٹکڑے پیوست ہیں اسی رخ درمیان میں اتنے خطوط ڈال دئے گئے ہیں.V ۲۸ ۲۸ " ۱۸ MF ۲۸ ۵ ۲۲ ۲۲۰ 12 ۳۲ JA
عیسائی انجمن نے مباحثہ کرایا تھا اس کے ممبروں نے بھی کہا کہ پادری صاحب سے کچھ بن نہیں آیا اور پادری صاحب نے ہمیں بدنام کیا ہے لیکن باوجود اس کے مصری صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب نے مناظرہ میں زک اٹھائی ہے اور ٹھیک طور پر مباحثہ نہیں کیا.میں مصری صاحب سے ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آتا تھا.مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم سال ٹاؤن کمیٹی کا ممبر بننا چاہتے تھے اور میرے رشتہ دار بھی تھے لیکن میں نے حسن سلوک کی خاطر مصری صاحب کا نام پیش کیا اور میری وجہ سے وہ منتخب ہو گئے.مصری صاحب نے دارالانوار اور دار البرکات شرقی کے درمیان ایک کوٹھی میں رہائش اختیار کر لی تھی.میں ان کے بچوں کے بیمار ہونے پر عیادت کے لئے شہر سے اتنی دور جا تا لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا.( خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ ہمیں بھی طالب علمی میں اس امر کا علم ہوتا تھا کہ مصری صاحب کی طرف سے آپ کی شدید مخالفت کی جاتی ہے لیکن آپ کی طرف سے طلباء میں کبھی کسی بات کا اظہار نہیں ہوتا تھا ) میرے پاس مولوی سلیم اللہ صاحب رہتے تھے.ایک دن مصری صاحب فٹ بال گراؤنڈ کے پول میرے ہاں پڑے ہوئے دیکھ کر میرے مکان کے اندر آگئے اور کہا کہ یہ چوری کے ہیں گویا مجھ پر چوری کا الزام لگایا.چونکہ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے کہ اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَانَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ.اسے میں نے سوچا کہ میں نے تو اس پر عمل کیا ہے لیکن مصری صاحب پر ذرا بھر اثر نہیں ہوا.معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کوئی گہر انقص ہے اس لئے بغیر کسی خواب کے آنے کے ( گویا مومنانہ فراست سے ) میں نے مصری صاحب کے اخراج سے چھ سال قبل انہیں چوری کا الزام لگانے پر کہا کہ یہ چوری ہوتی تو پول ایسی جگہ کیوں رکھے جاتے کہ آپ باہر سے دیکھ کر اندر آجائیں اور مولوی سلیم اللہ صاحب فٹ بال ٹیم کے کیپٹن ہیں یہ ان کی تحویل میں ہیں لیکن مصری صاحب میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ آپ قادیان میں نہیں رہیں گے بلکہ قادیان سے نکال دئے جائیں گے.چنانچہ جب مصری صاحب کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت سے نکال دیا تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت میر محمد الحق صاحب مرحوم اور مجھے حضور نے بلوایا اور مصری صاحب کے تین خطوط دکھائے جو مصری صاحب نے حضور کو لکھے تھے اور حضور نے جو جواب لکھا تھا وہ بھی بتایا اور فرمایا کہ جو لوگ ایسے ہوتے تھے ان کے متعلق ہمیشہ قبل از وقت پتہ لگ جاتا رہا ہے لیکن صرف مصری صاحب ہی ایک ایسے شخص ہیں کہ جن کے متعلق مجھے قبل از وقت علم نہیں ہوا اور اب خود انہی کے خطوط سے مجھے علم ہوا ہے.
۴۷۹ مکان کی خرید سلامتی کے فرشتے آپ دارالانوار کو جانے والی سڑک پر ایک مکان میں مقیم تھے اور ۱۹۴۷ء میں آپ کے سوانح کی خاطر یہیں حاضر ہوا کرتا تھا.اس وقت نچلے حصے میں بیٹھک میں آپ فروکش ہوتے تھے.ڈاکٹری مشورہ تھا کہ آپ آرام کریں سخت ضعف ہے.البتہ آپ ممانعت کے باوجود پانچوں نمازوں اور مجلس عرفان میں شمولیت کے لئے تشریف لے جاتے تھے.یہ مکان آپ نے خرید لیا تھا آپ خود چوبارہ میں اس کے مغربی کمرہ میں رہائش رکھتے تھے.آپ نے ایک چھینکا چوبارہ میں رکھا ہوتا تھا کوئی چٹھی وغیرہ دینے آتا تو لٹکا دیتے اور اس کے ذریعے سے چٹھی حاصل کر لیتے اس طرح بار بار ا تر نا چڑھنا نہ پڑتا ہوں آپ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے اس مکان کی تعمیر شروع کی.اس نے مزدوروں کے لئے تھوڑی اجرت مقرر کی اور انہیں کہا کہ وہ کھانا لنگر خانہ میں کھا لیا کریں.ایک روز حضرت میر ناصر نواب صاحب نے ان لوگوں کو وہاں کھانا کھاتے دیکھ پایا.پوچھنے پر اس بات کا علم ہوا.آپ صاحب مکان کو بہت ناراض ہوئے.انہوں نے اس بات کو برا منایا ابھی چوبارہ نہیں بنا تھا انہوں نے اس کی تعمیر روک دی.حکیم غلام غوث صاحب امرت سر کے خاندان حکیماں کے ممبر مخلص احمدی تھے ان کے بہنوئی آبادان.ایران میں کام کرتے رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی جگہ جائیدادخرید کریں.حکیم صاحب نے انہیں قادیان کا پتہ دیا.وہ یہاں آئے اور بیعت کر لی اور اس مکان کو خرید لیا.کچھ عرصہ بعد انہیں روپیہ کی ضرورت پڑی تو انہوں نے خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی سابق جائنٹ ناظر بیت المال کے پاس فروخت کر دیا.ایک دفعہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب اس مکان کے قریب سے گزرے.مولوی صاحب اس وقت مکان میں کرایہ پر رہتے تھے اور آپ سے کہا کہ آپ دور مکان نہ لیں.آپ مسجد میں نماز پڑھاتے ہیں.جب موقع ملے تو یہی مکان خرید لیں.کچھ عرصہ بعد مولوی صاحب کے پراویڈنٹ فنڈ میں دو ہزار روپیہ جمع ہو گیا.ادھر شی صاحب نے اہلیہ کی اور اپنی وصیت میں یہ مکان دفتر وصیت کو دے دیا مولوی صاحب نے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے اس مکان کے خریدنے کی اجازت چاہی.حضور کے ذہن سے بات اتر گئی.اور دوسال تک کوئی جواب نہ ملا.اور نہ ہی مولوی صاحب نے دوبارہ ذکر کرنا مناسب سمجھا.دو سال کے بعد ایک روز آپ کے گھر سے عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا گل محمد صاحب کے ہاں گئیں اور مکان کے متعلق بھی ذکر کیا آپ کی اہلیہ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ حضور بھی وہاں تشریف رکھتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ مجھے یہ بات بھول گئی تھی مولوی صاحب لکھ بھیجیں.چنانچہ لکھ کر دینے پر حضور نے اجازت دے دی اور سودا ہو گیا.
۴۸۰ غیب سے آپ کی ایک خواہش کا پورا ہونا اللہ تعالیٰ کے بعض پیارے بندے بعض دفعہ کسی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لئے غیر معمولی طور پر اس کے پورا کرنے کا سامان کر دیتا ہے.مروی ہے کہ شدید موسم گرما میں ایک روز حضرت علی نے خواہش کی کہ اولے ڈال کر ستو پینے کو جی چاہتا ہے.بادل کا نام ونشان تک نہ تھا کہ اچانک بادل آیا.اولے برسے اور راوی نے مسجد میں سے جمع کر کے ستو میں ڈال کر آپ کو پلائے.آپ کی خواہش کے پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے جوش میں آنے پر حضرت علی کا قلب مطہر جذبات تشکر وامتنان کے ساتھ اس کے حضور سجدہ ریز ہو گیا.اسی طرح کا ایک واقعہ محترم خواجہ عبدالغنی صاحب نے بیان کیا کہ ۱۹۳۲ء کے لگ بھگ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ہمارے گاؤں میں تشریف لائے.سید قطب الدین صاحب نے جو گو صحابی نہ تھے لیکن صوفی منش بزرگ اور بہت ہی متوکل انسان تھے، آپ کی دعوت کرنا چاہی.مولوی صاحب نے فرمایا آپ کس محترم خواجہ صاحب سکنہ موضع اون گام ( نزد باڑی پور ضلع بارہ مولا.کشمیر ) تقسیم ملک کے بعد کچھ عرصہ امیر صوبائی بھی رہے.بہت دعائیں کرنے والے بزرگ ہیں.یہ واقع انہوں نے دسمبر ۱۹۵۲ء میں اپنے گاؤں میں خاکسار کی طرف سے حالات دریافت کرنے پر موجود گی اخویم محمد سعید صاحب سابق مبلغ سرینگر بتایا تھا.بقیہ حاشیہ: - بعد میں حضور کو خیال آیا کہ مولوی صاحب دفتر وصیت کے کارکن ہیں اس لئے کہیں اس بات پر اعتراض نہ ہو کہ قیمت کم لگائی گئی ہے.اس لئے آپ نے قیمت کا اندازہ لگانے کے لئے ایک شخص کو مقرر کیا.اس نے دو ہزار قیمت ڈالی.پھر حضور نے دوسرا آدمی مقرر کیا.اس نے اکیس سو روپیہ قیمت لگائی پھر حضور نے قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی کو مقرر کیا وہ مکان دیکھنے آئے.چوبارہ دیکھ کر کہنے لگے.مولوی صاحب آپ فرشتوں کو کیوں تکلیف دیتے ہیں میرے پوچھنے پر بتایا کہ یہ مکان اس قدر بوسیدہ ہے کہ میں اس کے اندر جانا نہیں چاہتا اور آپ اس میں رہتے ہیں.انہوں نے اس کی قیمت کا اندازہ پونے دو ہزار لگایا تو حضور نے فرمایا کہ مکان کے متعلق پورا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا.فرق ضرور ہوتا ہے اور پونے دو ہزار پر مکان مجھے دے دیا.قاضی صاحب کی بات درست تھی اس لئے کہ ایک روز میں چوبارہ میں تھا کہ زور سے السلام علیکم کی آواز آئی میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا کوئی نہیں تھا پھر دوسری بار اور پھر تیسری بار یہی الہام ہوا با وجود اس قدر بوسیدہ ہونے کے اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا یہاں تک کہ دوبارہ تعمیر کرانے کا موقع مل گیا.
۴۸۱ طرح دعوت کریں گے میں تو چکور کھانا چاہتا ہوں انہوں نے کہا کہ آپ قبول تو فرمائیے جو اللہ تعالیٰ چاہے گا حاضر خدمت کر دیا جائے گا.سید قطب الدین صاحب واپس آگئے اور دریچہ کھول کر اپنے کمرہ میں جا بیٹھے.اتنے میں دریچہ سے ایک چکور اندر آ گیا جو آپ نے پکڑ لیا اور دعوت کے لئے پکوالیا.حضرت مولوی صاحب تشریف لائے اور دیکھا تو چکور موجود ہے اور بہت ہی حیران ہوئے.یہ واقعہ ہر دو بزرگوں کی بزرگی پر شاہد ہے.رضی اللہ عنہما.اللہ پر توکل اور اللہ کا تکفل آپ فرماتے تھے کہ پنشن پانے پر مجھے گھر کے اخراجات چلانے میں بہت دقت پیش آئی.ایک روز میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک لڑکی چوبارہ پر میری رہائش کے کمرہ میں آئی اور قلیوں کے ذریعہ سامان لائی اور طاق وغیرہ سامان کے بھر دئے.اس نے بتایا کہ وہ عملی شاہ کی لڑکی ہے.میں نے اس خواب کا یہ مطلب سمجھا کہ کسی کام کے عوض میں مجھے آمد ہوگی.چنانچہ اسی روز حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد پہنچا کہ میں تحریک جدید کے واقفین کو تعلیم دیا کروں.چنانچہ اس کا معاوضہ ملنے لگا.علاوہ ازیں خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد میں سے کوئی ایسا نہیں کہ جو مالی طور پر میری مدد نہ کرتا ہو.فــجـــزاهـم الله احسن الجزاء.اس طرح میں بفضلہ تعالیٰ فارغ البالی سے گزارہ کر رہا ہوں.آپ جیسے بزرگ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذیل کی رؤیا کے مصداق ہیں.حضور فرماتے ہیں:.میں نے خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دیکھا.جو ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھاوہ نان اس نے مجھے دیا اور کہا کہ یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے.“ یہ اس زمانہ کی خواب ہے جبکہ میں نہ کوئی شہرت اور نہ کوئی دعویٰ رکھتا تھا اور نہ میرے ساتھ درویشوں کی کوئی جماعت تھی.مگر اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنا دیا ہے اور اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیحدہ ہو کر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میں آآباد ہوئے ہیں.“ ”اور نان سے میں نے یہ تعبیر کی تھی کہ خدا ہمارا اور ہماری جماعت کا آپ متکفل ہوگا.اور رزق کی پر یشا نگی ہم کو پراگندہ نہیں کرے گی.‘۳۲
۴۸۲ چھوٹی عمر میں خدمات جلیلہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص الخاص فضل تھا کہ نسبتاً بہت کم عمر میں آپ کے علم کا لوہا مانا گیا.قریباً بیس سال کی عمر میں آپ نے دیوبند کی درسگاہ میں امتحان دیا.سہارنپور کے مدرسہ مظاہرالعلوم کے منطق وفلسفہ کے ایک استاد چونکہ الگ ہو گئے اور ایک مسجد میں انہوں نے درس تدریس شروع کر دی اور وہ اتنے قابل تھے کہ مدرسہ اجڑ گیا اور اس کو آباد رکھنے کا فکر ہوا.اور ایسے قابل اور ماہر فن استاد کی ٹکر کی شخصیت مجلس منتظمہ اور اساتذہ کو حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب نظر آئی.اور وعدہ کیا گیا کہ بعد امتحان ان کو بھجوا دیا جائے گا.حالانکہ آپ نہایت کم عمر نو جوان تھے آپ کسی تجربہ سے بے بہرہ تھے لیکن آپ کے اساتذہ و مجلس منتظمہ نے اس گوہر نایاب کی شناخت کی اور آپ نے ہیں اکیس سال کی عمر میں ایسے قابل و ماہرفن استاد کو مات دکھائی جس سے مظاہر العلوم کے تمام اساتذہ عاجز آچکے تھے اور آپ اس ادارہ کی ازسرنو آبادی کا موجب ہوئے.اندازاً ۱۸۹۶ء میں جبکہ آپ کی عمر صرف ۲۳ سال کی تھی ایبٹ آباد کے علماء آپ کے علم کا سکہ مانتے تھے اور آپ سے حقیقہ بھاگتے تھے.1900ء میں جبکہ آپ کی عمر ستائیس سال کی تھی.حضور نے اپنی فراست سے آپ کو خاص فیضان کے قابل پایا.ایک دفعہ آپ کے علم کی بھی تعریف کی تھی.۱۹۰۲ء میں جبکہ آپ کی عمر صرف انتیس سال کی تھی کہ علماء ندوہ کے لئے ایک وفد میں اور مد والے نہایت ہی اہم مباحثہ کے لئے آپ کو حضور نے بھجوایا.۱۹۰۵ء میں بعمر بتیس سال آپ مسجد مبارک کے امام الصلوۃ اور خطیب جمعہ مقرر ہوئے اور اگلے سال جبکہ آپ کی عمر صرف تینتیس سال کی تھی حضور کے عہد مبارک میں ہی آپ کی تفسیر کا مقام نہایت مستند قرار پانے لگا اور اس کے شائع کرنے کے لئے خاص طور پر ایک رسالہ کا اجراء عمل میں آیا.و ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء ذیل میں بعض متفرق حوالے سے بھی پیش کئے جاتے ہیں.(۱ تا ۳) رسید ز ر چار روپے آٹھ آنے.ایک روپیہ.دو روپے چار آنے ( بدر ۰۶-۳-۹ صفحه ۱۰اک ۳) (۲۶-۴-۰۶ صفحه ۶ ک ۲) ۰۶-۵-۱۷ صفحه ۶ ک۲) صرف ”سید سرور شاہ صاحب ان مقامات پر مرقوم ہے.مقام درج نہیں اس لئے یہ تعین نہیں ہوسکتا کہ آپ اور میر جی سید سرور شاہ صاحب دونوں میں سے کس کا ذکر ہے.(۴) ایک حادثہ سے بچ جانا ( الفضل ۱۲-۷-۲ مدنیتہ اسی ) (۵) قادیان کی ترقی کے تعلق میں نو تعمیر شدہ مکانات میں ذکر ہے کہ آپ بھرتی ڈلوانے کا کام شروع کر چکے ہیں.( تشحذ الاذہان بابت اکتوبر ۱۹۱۶ء صفحه ۵۲) آپ کی اہلیہ محترمہ بتلاتی ہیں کہ لنگر خانہ کے سامنے جانب شرق
۴۸۳ از اخویم الحاج مولوی محمد سلیم صاحب فاضل سابق مبشر بلا داسلامیہ، کلکتہ، دہلی و بر ما.آپ میرے ہم جماعت ہیں.بقیہ حاشیہ: - ڈھاب کے کنارے نز د مکان محمد یا مین صاحب تاجر کتب نے ایک کنال زمین حاصل کر کے بھرتی ڈلوائی تھی لیکن پھر وہاں مکان تعمیر نہیں کروایا.(1) ” قادیان گائیڈ مؤلفہ محمد یا مین صاحب تاجر کتب قادیان مطبوعه ۱۹۲۰ء میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی قائم مقامی میں بھی آپ کے نمازیں پڑھانے مینجر مدرسہ احمد یہ رکن صدرانجمن بشمول آپ کے تین افراد کے سپرد افتاء کا کام ہونے کا اور بطور عالم ذکر (صفحہ ۵/۸۸،۴/۷۰،۳/۵۳،۵۴،۲/۴۹،۱/۲۹) (۷) مولوی شیر علی صاحب، چوہدری نصر اللہ خان صاحب ، مولوی سرورشاہ صاحب اور مولوی ذوالفقار علی خان صاحب کی طرف سے مشترکہ اعلان کہ جلسہ سالانہ (بابت ۱۹۲۴ء) پر احباب کثرت سے آئیں اور غیر مبایعین اور دیگر مذاہب کے افراد کو بھی لائیں.ممکن ہے حضور مغرب میں تبلیغ اسلام کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں (الفضل ۲۴-۱۲-۲۵) (۸) حضرت حافظ روشن علی صاحب کی وفات پر جامعہ احمدیہ کی طرف سے تعزیتی قرارداد مطبوعہ الفضل ۲۹-۷-۵ - صفحه ۸) (۹) مظفر آباد کے سفر سے واپسی (لفضل ۳۲-۲-۲- زیر مدینہ المی) (۱۰) چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب کے اعزاز میں دی گئی دعوت میں شرکت.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بھی شریک ہوئے تھے ( الحکم والفضل ۳۵-۴-۱۴) (۱۱ تا ۱۵) تقریبات شادی میں شرکت (الفضل ۳۹-۵-۳۹،۲۸-۶-۱۱ ، ۲۴-۶-۳، ۴۴-۱۰-۱۴، ۹-۴-۴۵- زیر مدینه مسیح) (۱۲ تا ۱۷) آپ کی علالت (الفضل ۳۹-۶-۶ ۴۳۲-۱۲-۴- زیر مدینہ (اسخ) (۱۸) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی لمبی نمازوں کا ذکر ( الفضل ۴۴-۳-۴ صفحہ ۹،۸) (۱۹) حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب بھی موجو د تھے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک کشف بیان کیا تھا کہ مجھے کشفی طور پر بتایا گیا ہے کہ کھیعص میں میرا نام بیان کیا گیا ہے ( الفضل ۴۷-۴-۳۰ صفحه ۳ ک۲)
۴۸۴ استاذی المکرم حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب مرحوم و مغفور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان بزرگ و بلند پایہ اساتذہ میں سے تھے جن کے بارہ میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ ان کا مقام ومرتبہ جسمانی آباء سے بھی اونچا ہوتا ہے کیونکہ ظاہری باپ تو ایک روح کو آسمان سے زمین پر لانے کا موجب ہوتا ہے مگر ایک استاد کامل اپنی تعلیم و تربیت اور فیض صحبت سے اسے پھر آسمان پر پہنچا دیتا ہے.بقیہ حاشیہ: - (۲۰) حیات طیبہ ( تالیف اخویم شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگرمل ) بابت مباحثه مد (۲۱) تاریخ احمدیت حصہ سوم ( تالیف اخویم مولوی دوست محمد صاحب شاہد ) بابت مباحثه مد (۲۲) حضرت میر ناصر نواب صاحب مولوی صاحب، میر قاسم علی صاحب،حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی قادیان سے ماسٹر علی محمد صاحب بی.اے بی ٹی و ڈاکٹر ) عبدالرحمن صاحب نو مسلم ( بعدہ المعروف کامٹی.حال مہاجر کراچی ) کی شادی میں شرکت کے لئے سیالکوٹ تشریف لے گئے.جو حضرت مولوی فیض الدین صاحب کے ہاں ہورہی تھی.مولوی صاحب و میر قاسم علی صاحب حضور ایدہ اللہ تعالی کے حسب الحکم تقریروں کے لئے دو تین روز کے لئے ٹھہر گئے.(الفضل ۱۵-۹-۱۵،۱۲-۹-۱۴- زمیر مدینه امیخ) (۲۳) حضور کے سفر لا ہور کے تعلق میں مرقوم ہے.سیدنا خلیفتہ اسیح الثانی مع اہل وعیال ۳ مئی کو عصر اور مغرب کے درمیان یہاں سے روانہ ہوئے.حضور مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ کے سہارے سے اتر کر پہلے پالکی میں سوار ہوئے.بیرون قصبہ جا کر تکلیف کی وجہ سے حضرت نواب صاحب کی بگھی میں لیٹ گئے ( الفضل ۱۸-۸-۷.زمیر مدینتہ اسیخ) (۲۴) سیرة احمد ( مرتبہ مکرم مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ) صفحہ ۲۸۷.(۲۵) هدى للمتقین کی تفسیر (رسالہ جامعہ احمدیہ بابت جولائی و اکتوبر ۱۹۳۰ء (صفحات ۲۵ /۱، ۶،۴۸ تا ۸ ) (۲۶، ۲۷) فتاوی ( تشحذ الا ذبان مئی ۱۹۱۹ء صفحہ ۳۶، ۳۷ و الفضل ۴۳-۱۱-۲- مؤخر الذکر کا ذکر الفضل ۱۰-۱۱-۴۳ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مضمون میں بھی ہے) (۲۸) افسر مساجد کی حیثیت سے مسجد اقصیٰ کے لئے سائبان کی فراہمی کے لئے احباب کو تحریک کرنا (الفضل ۲۰-۵-۱۳- صفحه ۱۰) (۲۹) رسالہ جامعہ احمدیہ میں جائنٹ ایڈیٹر مولانا محمد سلیم اللہ صاحب ( حال مبلغ مقیم کلکتہ نے سٹاف جامعہ احمدیہ کے زیر عنوان آپ کے متعلق تحریر کیا تھا جو آپ ہی سے دریافت کر کے لکھا ہوگا )
۴۸۵ حضرت مولانا مرحوم جسمانی و روحانی خصائل و فضائل اور ظاہری و باطنی محاسن و محامد کے اعتبار سے اپنے امثال واقران میں ممتاز درجہ رکھتے تھے اور حق تو یہ ہے کہ ہمارے سارے اساتذہ کرام ایسے نگینے تھے جن کو کسی ماہر کاریگر نے بڑی چابکدستی سے مختلف انگشتریوں میں جڑ دیا ہو اور ہر نگینہ اپنی تراش خراش ، وضع قطع اور آب و تاب کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہو.حضرت مولانا مرحوم کے درس و تدریس میں صرف ظاہری اور کسی علوم کا خوان نعما ہی نہیں بچھتا تھا بلکہ روحانی فیوض کے خزانے بھی لٹائے جاتے تھے اور آپ سے نسبت تلمذ رکھنے والے منطق و فلسفہ وغیرہ مروجہ علوم بقیہ حاشیہ: - آپ کے آباء میں سے حضرت سید عبداللہ صاحب جو حضرت سید عبدالقادر جیلانی کی اولاد سے ہیں اس ملک میں آئے اور حجرہ شاہ مقیم جو ایک مشہور جگہ ہے میں سکونت پذیر ہوئے آپ کے دو بیٹے تھے.بڑے بیٹے سیدابوالحسن صاحب جن کا مزار پشاور میں ہے اور چھوٹے فرزند سید شاہ فاضل جن کا مزار محلہ خانیار شہر سرینگر میں حضرت مسیح ناصری کی قبر کے قرب وجوار میں واقع ہے.سید ابوالحسن صاحب کے فرزند اکبر کا نام زین العابدین ہے.آپ کا مزار ضلع ہزارہ میں ہے.فرزند اصغر شاہ محمد غوث ہیں جو ہمقام لا ہور مدفون ہیں.آپ کے والد سید محمد حسن صاحب انہی سید زین العابدین صاحب کے پوتے ہیں آپ تیرہ سال کی عمر میں تحصیل علم کی خاطر عازم سفر ہوئے اور یکے بعد دیگرے تین اساتذہ سے کہ تینوں کا نام ”عبدالکریم ، تھا کتب صرف ونحو کا درس شروع کیا.بعد ازاں پشاور میں مولوی محمد ایوب صاحب سے شرف تلمذ حاصل کیا پھر لاہور آکر مولوی غلام احمد صاحب اول مدرس مدرسہ نعمانیہ سے زانوئے ادب تہ کیا اور علوم منطقیہ وفلسفیہ میں خوب مہارت پیدا کی.ساتھ ہی ساتھ مفتی سلیم اللہ صاحب لاہوری سے طب کا شغل بھی رہا.بعدۂ دیو بند میں مولوی محمد حسن صاحب دیو بندی سے علوم حدیث کی تعلیم پائی.تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کچھ عرصہ سہارنپور میں مدرسہ مظاہر العلوم میں مدرس رہے اور کچھ مدت پشاور مشن کالج میں عربی پروفیسر رہے.ازاں بعد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ مہدی دوراں حضرت مسیح موعود کے ایماء سے ملازمت کو ترک کر کے دارالامان میں رہائش اختیار کی.اور آپ کی صحبت میں رہ کر حقیقی علم سے یہاں تک استفادہ کیا کہ آج آپ علاوہ دیگر فرائض سلسلہ کی انجام دہی کے مفتی سلسلہ احمدیہ کے عظیم الشان عہدہ پر فائز ہیں.“ ( دسمبر ۱۹۳۰ ء صفحه ۷۴ ) (نوٹ.رسالہ جامعہ احمدیہ بابت دسمبر ۱۹۳۰ء میں آپ کی تصویر مع عملہ کا لج بھی موجود ہے)
۴۸۶ کے علاوہ قرآنی حقائق و معارف سے بھی اپنا دامن مراد بھر لیا کرتے تھے اور چونکہ آپ نے نبی کوقت کی صحبت اٹھائی تھی اور آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی تھے اس لئے آپ کی ہمنشینی جلاء العیون اور صفاء القلوب کا موجب ہوتی تھی.حضرت مولانا مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی بالغ نظری اور فہم رسا سے نوازا تھا.آپ اکثر بیان فرماتے تھے کہ دارالعلوم دیو بند کے زمانہ طالب علمی ہی میں آپ کے اساتذہ آپ کی اس بے نظیر خوبی کے قائل تھے ان کا کہنا تھا کہ سرور شاہ کا دماغ غلط نتائج کی طرف جاتا ہی نہیں.چنانچہ جب بھی کوئی الجھا ہوا مسئلہ درپیش ہوتا تو تبصرہ کے لئے آپ کے سپرد کر دیا جاتا اور پھر آپ اس کا جو حل پیش کرتے اسے قبول کر لیا جاتا.آپ کا سلوک اپنے تلامذہ کے ساتھ بہت ہی مشفقانہ اور مربیانہ ہوتا تھا.ہم لوگ جامعہ احمدیہ کے درسی اوقات کے علاوہ اکثر آپ کے در دولت پر حاضر ہو کر آپ سے پڑھا کرتے تھے اور ہماری تعداد بالعموم ہیں پچیس نفر تک ہوتی تھی.چونکہ حضرت مولانا مرحوم کو چائے کا شوق تھا اس لئے آپ چائے نوش فرماتے تو بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ ہمیں بھی سبز چائے پلایا کرتے اور اس پر کافی خرچ اٹھنے کے باوجود آپ دلی راحت محسوس فرماتے تھے اور بالکل یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ایک شفیق باپ اپنے بچوں کے ساتھ بے تکلف خوردونوش میں مصروف ہو.مزید برآں ساتھ ہی ساتھ منطق و فلسفہ کی گتھیاں بھی سلجھائی جاتیں اور درس و تدریس کی ایسی خوشگوار فضاء قائم ہو جاتی کہ روحوں میں بالیدگی آجاتی.ایک دفعہ حضرت مولانا مرحوم شیخ عبدالرشید صاحب مرحوم بٹالوی کی دعوت پر بٹالہ تشریف لے گئے وہاں کوئی جماعتی کام تھا.نا چیز راقم کو بھی ہمرکابی کا شرف بخشا.دن بھر درس تدریس اور وعظ ونصیحت کا سلسلہ جاری رہا اور اسی روز شام کو واپس آگئے.جب ریلوے اسٹیشن قادیان سے باہر نکلے تو آپ نے بڑی شفقت اور محبت سے مجھے ایک روپیہ عنایت فرمایا پہلے تو میں رکا لیکن پھر تبرک سمجھ کر لے لیا جو عرصہ تک میرے پاس محفوظ رہا لیکن بعد میں کہیں ادھر اُدھر ہو گیا غالبا دوسری نقدی کے ساتھ مل کر خرچ میں آ گیا.جس زمانہ میں مولانا مرحوم جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے تنظیمی اعتبار سے کبھی کبھارطلباء کو کچھ شکایت بھی پیدا ہوئی لیکن جو نہی معاملہ حضرت مولانا مرحوم کے نوٹس میں لایا گیا.آپ نے فوراتدارک فرمایا اور تلامذہ کی دلجوئی فرمائی.اور یہ صرف اس لئے کہ آپ کے تلامذہ کو بخوبی یہ احساس تھا کہ آپ اس اہم درس گاہ کے ناظم اعلیٰ ہی نہیں بلکہ ایک عالم باعمل میچ پاک کے رفیق خلیق اور نمونے کے بزرگ تھے.جنہیں ظاہر داری کے بجائے باطن آرائی کا زیادہ خیال رہتا ہے اور یہ چیز ان کی تعظیم و تکریم کو چار چاند لگادیتی ہے اور ان کی اطاعت وفر ما نبرداری کی بنیاد عام دنیا داروں کی طرح منافقت پر نہیں بلکہ صدق دلی پر مبنی ہوتی ہے.
۴۸۷ ناچیز راقم کا ایک ذاتی واقعہ ہے جو کبھی فراموش نہیں ہوتا بلکہ حضرت مولانا مرحوم کی پیاری یاد کو ہمیشہ تازہ رکھتا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جن دنوں خاکسار جامعہ احمدیہ کی مبلغین کلاس میں پڑھتا تھا.نا چیز راقم کی شادی کا موقع آگیا.جمعہ کے دن پچھلے پہر برات کی روانگی کا پروگرام تھا اور چونکہ برات قادیان سے باہر مقام سٹھیالی جانے والی تھی.اس لئے وہاں رات بھر قیام کے بعد دوسرے دن ہی وا پسی ہوسکتی تھی.مجھے اور میرے دوست نواز ہم کلاس احباب ( بارک اللہ فی حیاتہم) کو ایک عرصہ سے اس دن کا انتظار تھا.چنانچہ اس تقریب کے لئے کئی پروگرام بنے بدلے اور طے ہوئے.مگر عین وقت پر ہماری خوشیاں ٹھر کر رہ گئیں جب یہ اعلان ہوا کہ شنبہ کو جامعہ احمدیہ کے امتحانات شروع ہورہے ہیں.آخر یہ طے ہوا کہ جمعہ کے روز عصر کی نماز کے بعد برات کی روانگی عمل میں آئے اور میرے ہم جماعت احباب سائیکلیں ساتھ لے لیں.رات بھر سٹھیالی میں رہیں اور دوسرے دن صبح سویرے قادیان آجائیں اور امتحان کا پرچہ دے کر دو پہر تک پھر سٹھیالی پہنچ جائیں اور پھر اسی روز شام کو برات کے ساتھ واپس قادیان چلے آئیں.بایں ہمہ اور یہ افراتفری سب کو نا گوار تھی.جمعہ کی نماز کے بعد نا چیز راقم مسجد اقصیٰ میں منارۃ مسیح کے چبوترے کے پاس کھڑا اپنے دوستوں کا انتظار کر رہا تھا کہ حضرت مولانا مرحوم کو نماز کے بعد گھر واپس جاتے ہوئے اپنی طرف آتے دیکھا.مرحوم نے میرے سلام کا جواب دیا اور ساتھ ہی مسکرا کر پوچھا.آج آپ کی شادی ہے؟ میں نے اداس لہجے میں عرض کیا کہ حضرت شادی تو ضرور ہے مگر بدمزہ سی.فرمایا کیوں؟ عرض کیا کہ چونکہ کل سے جامعہ احمدیہ میں امتحان شروع ہو رہے ہیں اس لئے میرے ہم جماعت دوستوں کے لئے برات میں شامل ہونا گویا ناممکن ہے.ورنہ پروگرام تو یہ تھا کہ ہم سب اکٹھے جاتے اور ا کٹھے آتے.سن کر مسکرائے اور فرمایا.کوئی کاغذ ہے آپ کے پاس؟ میں نے فوراً کاغذ اور قلم پیش کر دیا.آپ نے اسی وقت بذریعہ تحریر خاص امتحان ملتوی کر دیا اور فرمایا کہ یہ خط جامعہ احمدیہ کے دفتر میں پہنچا دیا جائے اور آپ طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنے دوستوں کو برات میں ساتھ لے جائیں.پھر کیا تھا میرے دوست نچنت اور بے فکر ہوکر اس تقریب میں شامل ہوئے.یہ تھا نمونہ حضرت مولانا مرحوم کی شفقت اور ذرہ نوازی کا اور مجھے تو گویا آپ نے خرید لیا اور اگر چہ اس واقعہ پر کم و بیش تمیں برس گزر چکے ہیں.مگر میرے دل و دماغ میں اس کی یاد ایسی تازہ ہے کہ گویا کل کی بات ہے.
۴۸۸ از جناب مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ مقیم سرگودھا (امیر صوبائی سابق پنجاب مغربی پاکستان ) حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ان بزرگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں لا کر خدمات کی توفیق عطا فرمائی.آپ خدا کے فضل سے ایک متبحر عالم تھے.قرآن کریم ، حدیث ، فقہ، کلام ، فلسفہ سب علوم میں آپ کو ایسی دسترس حاصل تھی کہ مشکل سے مشکل مسئلہ کو بھی آپ اسی وقت با قاعدہ سندات بیان کر کے حل فرماتے تھے.قرآن کریم کی تفسیر فرماتے تو پرانے مفسرین کے حوالے کثرت سے دیتے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو حافظہ ایسا دیا تھا کہ کئی سال کے وقفہ کے بعد بھی جب کسی بات کو دوبارہ بیان کرتے تو قریباً انہی الفاظ میں کرتے جو پہلے استعمال کئے ہوتے.آپ کا بڑھاپا بھی اس حافظہ پر بہت کم اثر انداز ہوا.آپ تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر تھے.عبادت الہی میں آپ کو خاص شغف تھا.پانچوں نمازیں با قاعدگی کے ساتھ مسجد مبارک ( قادیان ) میں باجماعت ادا فرماتے.عموماًنماز سے بہت پہلے مسجد میں آکر صف اول میں امام کے پیچھے بیٹھتے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اگر کسی وقت خود تشریف نہ لا سکتے تو امامت حضرت مولوی صاحب کے سپرد ہی ہوتی.آپ نماز بہت لمبی پڑھتے.گویا یہ آپ کی اصل غذا تھی.نماز کی امامت کرتے وقت بھی آپ اسے چھوٹی نہ کر سکتے.آپ اس معاملہ میں معذور معلوم ہوتے تھے.آیات کی تلاوت میں حروف اور الفاظ کی ادائیگی کا خاص خیال رکھتے.آپ کی وفات سے پہلے ہفتہ کے روز شام کو یہ عاجز حسب معمول قادیان میں تھا مغرب یا عشاء کی نماز پڑھاتے پڑھاتے حضرت مولوی صاحب بیمار ہو گئے.بخار کی حالت میں ہی گھر واپس تشریف لے گئے.فجر کی نماز کے بعد یہ عاجز حضرت مولوی صاحب کے مکان پر آپ کا حال دریافت کرنے کے لئے گیا.فرمانے لگے رات نیند بہت کم آئی اور میں نے کئی گھنٹے چارپائی پر نوافل ادا کرنے میں ہی گزارے.اسی ہفتہ کے دوران میں آپ کی وفات ہوگئی.سبحان اللہ کیا کیفیت ان بزرگوں کی تھی کہ آخر وقت تک اپنے رب کے ساتھ عہد کو وفاداری کے ساتھ نبھایا.از اخویم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب فاضل ( پروفیسر جامعه احمد یہ ربوہ ) حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے اس لئے ان امور کو جو
۴۸۹ آپ کے متعلق متعارف ہیں، بیان کرنے کو تحصیل حاصل سمجھتا ہوں اور اپنے اس مضمون کو صرف ان واقعات تک محدود رکھوں گا جو میری ذاتی معلومات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.حضرت مولوی صاحب کے ساتھ میرے تعلقات کچھ اس قسم کے تھے کہ آپ کے خسر حضرت بابا جیون بٹ صاحب مرحوم امرت سر کے رہنے والے تھے.میری والدہ صاحبہ بھی امرت سر میں ان کے قریب ہی رہتی تھیں اور ان کے ہاں اکثر آنا جانا تھا.یہ آمد و رفت رفتہ رفتہ نہایت ہی گہرے اور قریبی تعلقات کا پیش خیمہ ہوگئی اور بابا جیون والدہ صاحبہ کو بھی اپنی بیٹی قرار دینے لگے.اس طرح حضرت مولوی صاحب کی اہلیہ صاحبہ محترمہ جو کہ اب بھی زندہ ہیں گویا بہنیں بن گئیں اور ان کا باہمی تعلق اتنا شدید ہوگیا کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہ رہ سکتی تھیں.حضرت مولوی صاحب کی شادی کے بعد بھی والدہ صاحبہ کی آمد ورفت اہلیہ صاحبہ مولوی صاحب کے پاس اسی طرح جاری رہی.میں حضرت مولوی صاحب کی اہلیہ صاحبہ کو خالہ کہتا اور اکثر و بیشتر آپ کے گھر آتا جاتا رہتا تھا.حضرت مولوی صاحب میرے ساتھ نہایت محبت اور شفقت کا برتاؤر کھتے تھے.جب میں مدرسہ احمدیہ میں پڑھتا تھا تو آپ مجھے اکثر محنت کرنے اور اساتذہ کا ادب کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے.جب میری تعلیم کچھ زیادہ ہوئی تو بعض اوقات آپ مجھے کسی فتوی کے سلسلہ میں حدیث کی کتاب سے کوئی حدیث تلاش کرنے کے لئے دے دیتے تھے.آپ بالعموم فقہ کی کتاب میں سے ردالمختار شامی کا مطالعہ کرتے تھے اور زیر نظر فتاوی کے جواب کے سلسلہ میں اس کے حوالہ جات کی تلاش کرتے تھے.اس کے علاوہ نیل الاوطار کو بھی بہت زیر مطالعہ رکھتے تھے کیونکہ ردالمختار شامی ایک مخصوص مکتب فکر کی حامل کتاب ہے اور نیل الاوطار میں کسی خاص مکتب فکر کی تقلید کے بغیر عمومی بخشیں پائی جاتی ہیں.اس لئے آپ ان دونوں کتابوں کو ملحوظ رکھ کر فتوی دیا کرتے تھے.میں نے آپ کو گھر میں کبھی فارغ نہیں دیکھا.نظر کسی قدر کمزور ہونے کے باوجود آپ ہر وقت باریک مصری ٹائپ کی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے تھے.گھر میں بچوں کے ساتھ بہت کم گفتگو کرتے تھے.خالہ صاحبہ ( آپ کی اہلیہ محترمہ ) آپ کے آرام کا ہر وقت خیال رکھتی تھیں اور جب آپ گھر میں ہوتے تو کبھی ادھر اُدھر نہ جاتی تھیں نہ ان کے مطالعہ کے کمرہ میں کسی بچے وغیرہ کو جانے دیتی تھیں.آپ چونکہ علمی مطالعہ بہت کرتے تھے اور ضعیف العمر بھی تھے.اس لئے اپنی صحت اور دماغی قوت کو برقرار رکھنے کے لئے آپ بلا ناغہ بادام کا حریرہ استعمال کرتے تھے.جہاں تک مجھے یاد ہے بادام الا بچی خورد پیں کر اور پھر گھی کا تڑکہ لگا کر دودھ ملا کر پیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ میرا معمول ہے اور دماغی کام کرنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اس قسم کی مقوی دماغ غذا استعمال کرتے رہیں.یہ حریرہ نہایت پابندی
۴۹۰ کے ساتھ محترمہ خالہ صاحبہ آپ کو تیار کر کے دیتی تھیں.اور آپ بالعموم عصر کے بعد اس کا استعمال کرتے تھے.آپ کو دیکھ کر یہ یقین ہوتا تھا کہ آپ اپنے ماحول سے یکسر بے تعلق ہیں اور ہر وقت کسی سوچ میں ہیں بعض اوقات بچے آپ کے کمرے میں آتے تھے کھیلتے تھے اور چلے بھی جاتے تھے لیکن آپ کو کچھ علم نہ ہوتا تھا کہ کون آیا ہے اور کون گیا ہے.آپ جب بازار میں سود اوغیرہ خریدنے کے لئے جاتے تو آپ کی طبیعت سے واقف ہونے کے باعث خاله صاحبه عزیز کمال یوسف صاحب کو یا اپنے بڑے بیٹے سید ناصر احمد صاحب کے لڑکے کو آپ کے پیچھے بھیج دیتی تھیں اور ان بچوں کو ہدایت کر دیتی تھیں کہ جب آپ سودا خرید لیں تو دھیان رکھنا کہیں آپ بٹوا جیب میں ڈالنے کی بجائے رستے میں ہی گرا نہ دیں یا دوکان پر ہی نہ چھوڑ آئیں اور محتر مہ خالہ صاحبہ کی یہ احتیاط بے جانہ ہوتی تھی.کیونکہ بسا اوقات آپ ہوا جیب میں ڈالنے کی بجائے گریبان میں ڈال دیتے اور وہ نیچے گر جاتا یا دوکان پر ہی چھوڑ آتے تو یہ بچے وہاں سے اٹھا کر لے آتے.آپ نہایت متوکل مزاج تھے.تنخواہ بہت کم تھی لیکن اس کے باوجود گھر کے اخراجات بہت زیادہ تھے.کیونکہ سید ناصر احمد صاحب آپ کے بڑے بیٹے اور ان کے بیوی بچوں کا خرچ بھی آپ کے ذمہ تھا اور وہ برائے نام ایک دفتر میں کام کرتے تھے اور سید مبارک احمد صاحب آپ کے چھوٹے بیٹے بھی اس وقت کوئی کام نہ کرتے تھے اور ان کے مع اہل و عیال اخراجات بھی آپ کے ذمہ تھے.بڑی لڑکی ( اہلیہ سیٹھ محمد سعید صاحب پسر حضرت سیٹھ ابوبکر یوسف جمال صاحب جو فوت ہو چکی تھیں، ان کے دونوں بچے کمال یوسف صاحب اور جمال یوسف صاحب بھی آپ کے پاس تھے اور چھوٹی لڑکی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کی ابھی شادی نہ ہوئی تھی.اتنا بڑا کنبہ تھا تنخواہ قلیل تھی لیکن گھر کے اخراجات اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھے مگر تو کل اس قد ر تھا کہ آپ کبھی اس وجہ سے گھبراتے نہیں تھے اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کثیر اخراجات کا انتظام ہوتا جاتا تھا اور اس معاملہ میں محترمہ خالہ صاحبہ کے حسن تدبیر کا بھی بہت حد تک دخل تھا.کیونکہ محترمہ کا ضبط گھر میں بڑا موثر اور نگرانی بڑی کڑی ہوتی تھی.جس کی وجہ سے گھر کا کوئی فردان کی مرضی کے خلاف نہیں چل سکتا تھا.آپ اپنے شاگردوں کے لئے بھی دعا کرتے رہتے تھے.مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تمہارے لئے بہت دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمایا ہے.جامعہ احمدیہ میں میں نے آپ سے بحرالعلوم فلسفہ کی کتاب اور سلم العلوم منطق کی کتاب پڑھی ہے.سارے سال میں غالباً آپ نے چند صفحات بحر العلوم کے اور چند صفحات سلم العلوم کے پڑھائے ہوں گے آپ کے پڑھانے کا دستور یہ ہوتا کہ آپ ایک مسئلہ بیان فرماتے اور پھر اس کے ضمن میں ایک واقعہ بیان کرنے لگ جاتے اور پھر اس واقعہ کے ختم ہونے سے قبل ہی ضمناً کوئی
۴۹۱ اور واقعہ بیان کرنے لگتے یہاں تک کہ گھنٹی گزر جاتی.ہماری کلاس میں جو کہ مولوی فاضل کی آخری کلاس تھی چودہ لڑکے پڑھتے تھے.ان میں سے اکثر لڑ کے ایک ایک کر کے چپکے سے کلاس روم سے باہر نکل جاتے اور جب گھنٹی ختم ہو جاتی اور آپ تشریف لے جاتے تو وہ ایک ایک کر کے واپس آ جاتے.حضرت مولوی صاحب یہ سب کچھ دیکھتے رہتے لیکن کسی کو کچھ نہ کہتے تھے.لڑکے یہ مجھتے تھے کہ آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کون آتا ہے اور کون جاتا ہے.پہلے خود میرا بھی یہی خیال تھا کہ حضرت مولوی صاحب کو پتہ نہیں لگتا کہ لڑکے آپ کی کلاس سے کھسک جاتے ہیں لیکن جب خود حضرت مولوی صاحب نے میری اس غلط فہمی کو دور فرمایا تو اس وقت میری حیرت کی حد نہ رہی کہ حضرت مولوی صاحب کس طرح ہمارے اعمال پر نگاہ رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود عفو سے کام لیتے ہیں.واقعہ یوں ہوا کہ ہماری کلاس کا ایک لڑکا بڑا ذہین تھا اسے اپنی کامیابی پر اتنا یقین تھا کہ وہ فخر سے کہا کرتا تھا کہ میں اس سال یو نیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کروں گا.اس کے علاوہ ایک دو اور لڑ کے بھی زیادہ ہوشیار تھے باقی سب متوسط درجہ کے تھے.میں ان لڑکوں میں تھا جن کی حالت بین بین ہوتی ہے یعنی نہ ان کو اپنی کامیابی کا یقین ہوتا ہے نہ نا کامی کا.عام طور پر دستور یہ ہوتا ہے کہ جب امتحان قریب ہوتے ہیں تو لڑکے حضرت صاحب اور بزرگوں کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتے ہیں.مسجدوں میں دعا کے لئے اعلان کرواتے ہیں وغیرہ.ان ایام میں لڑکے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں بھی دعا کے لئے خاص طور پر عرض کرتے تھے.ایک دن میں آپ کے گھر گیا ہوا تھا تو آپ نے مجھے بلا کر کہا کہ محمد احمد ! میں آج تمہیں ایک بات بتاتا ہوں لیکن یہ بات کسی کو نہ بتانا.فرمانے لگے کہ سابقہ جماعتوں کا یہ طریق رہا کہ جب امتحان قریب ہوتا تو میرے پاس اجتماعی صورت میں بھی اور انفرادی صورت میں بھی آتے اور دعا کے لئے کہتے.حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے لکھتے اور دوسرے بزرگوں کو بھی کہتے لیکن تمہاری کلاس نے نہ کبھی مجھے دعا کے لئے کہا ہے نہ مسجد میں کبھی دعا کا اعلان کروایا ہے اور نہ ہی پڑھائی کی طرف توجہ ہے.جب میں کلاس میں آتا ہوں اور پڑھانا شروع کرتا ہوں تو طالب علم ایک ایک کر کے باہر نکل جاتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے پتہ نہیں لگتا.حالانکہ مجھے سب کچھ پتہ ہوتا ہے اور میں درگزر سے کام لیتا ہوں اسی طرح وہ کہتے پھرتے ہیں کہ سرورشاہ پڑھا تا نہیں ہے.قصے کہانیاں بیان کرتا ہے حالانکہ اگر وہ غور سے پڑھیں اور فائدہ اٹھانے کی نیت کر لیں تو یہ چند اوراق جو میں نے کتاب کے پڑھائے ہیں ان میں میں نے ساری منطق اور فلسفہ بیان کر دیا ہے.فرمانے لگے کہ یہ لڑ کے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.وہ لڑکا جس کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں کہ وہ بڑا ہوشیار تھا اور اسے یو نیورسٹی میں اعلیٰ پوزیشن کا خیال تھا.اس کے متعلق فرمانے لگے کہ وہ لڑکا بڑا مغرور ہے وہ یہ سجھتا ہے کہ میں پڑھائی کے زور سے کامیاب ہو جاؤں گا اور اسے دعا کی کوئی ضرورت نہیں ہے.یہ بات یا درکھو کہ اس
۴۹۲ لڑکے کو ضرور ٹھوکر لگے گی اور پھر اسے پتہ لگے گا کہ محض پڑھائی کام نہیں آتی.میں تمہارے لئے دعا کرتا رہتا ہوں تم خود بھی حضرت صاحب کی خدمت میں اور بزرگوں کو دعا کے لئے کہتے رہا کرو.میں نے آپ کی اس نصیحت پر عمل شروع کر دیا اور اس کے بعد نتیجہ امتحان تک متواتر حضرت صاحب اور مولوی صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے لکھتا رہا.جب نتیجہ نکلا تو میں سخت حیران ہوا کہ کیونکہ اس کلاس میں چودہ میں سے صرف دولڑ کے کامیاب ہوئے.ایک میں اول اور دوسرے مولوی بشیر احمد صاحب حال مبلغ کلکتہ دوم آئے اور وہ لڑکا جس کے متعلق مولوی صاحب نے فرمایا تھا کہ وہ ضرور ٹھوکر کھائے گا.وہ بھی فیل ہو گیا اور باقی لڑکے بھی سب کے سب فیل ہو گئے.اس کے بعد مجھے یاد ہے کہ اس لڑکے کو سخت قلق ہوا.وہ روتا تھا اور شرم کے مارے کسی کو منہ نہیں دکھاتا تھا.میں نے اسے تاکید کی کہ وہ حضرت مولوی صاحب کو اب بھی دعا کے لئے کہے اور جا کر معافی مانگے.چنانچہ وہ بار بار مولوی صاحب کے پاس جاتا تھا اور دعا کے لئے کہتا تھا کچھ دنوں کے بعد اخبارات میں شور مچ گیا کہ مولوی فاضل کے پرچے بہت مشکل تھے اور نتیجہ بھی بڑا سخت نکلا ہے.اس میں کچھ نرمی کرنی چاہئے.غالبا اس سال اور نینٹل کالج لاہور کا کوئی لڑکا مولوی فاضل کے امتحان میں کامیاب نہ ہوا تھا.انہوں نے خاص طور پر اخبارات میں شور مچایا.چنانچہ یونیورسٹی نے اس شور سے متاثر ہوکر دولڑ کے مزید جامعہ احمدیہ قادیان کے اور دولڑکے اور منٹل کالج کے کامیاب قرار دئے.جامعہ احمدیہ کے ان کامیاب طالب علموں میں سے ایک لڑکا وہ بھی تھا جس کا ذکر میں اوپر کر آیا ہوں.یہ واقعہ ۱۹۳۷ء کا ہے.حضرت مولوی صاحب کا مقام میرے دل میں پہلے ہی بہت زیادہ تھا لیکن اس واقعہ کے بعد میرا اعتقاد آپ کے متعلق اور بھی پختہ ہو گیا اور میں نے آپ کی زندگی کے آخری ایام تک آپ سے نیاز مندانہ تعلق قائم رکھا.مولوی فاضل کلاس کا ایک اور واقعہ جو میری ذات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے بیان کر دیتا ہوں.ان دنوں طالب علموں کو کوئی باقاعدہ وظیفہ نہیں ملتا تھا بلکہ لڑکے اپنے اپنے خرچ پر پڑھتے تھے.صرف مبلغین کلاس میں جولڑ کے جماعتی طور پر منتخب ہوتے تھے ان کو پانچ روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا.البتہ بعض غریب طالب علموں کو امتحان مولوی فاضل میں داخلہ کی رقم بطور قرضہ حسنہ ملتی تھی مگر اس کا طریق یہ تھا کہ پہلے لڑکوں کا آزمائشی امتحان لیا جاتا تھا جو کافی مشکل ہوتا تھا جولڑ کے اس ٹیسٹ میں کامیاب ہو جاتے تھے ان کو داخلہ امتحان بطور قرضہ حسنہ ملتا تھا اور ان سے اسٹامپ پر اس رقم کا اقرار نامہ لکھوالیا جاتا تھا.ہماری کلاس کا بھی اس غرض کے لئے امتحان لیا گیا.حضرت مولوی صاحب نے چونکہ منطق کی کتاب سلم العلوم اور فلسفہ کی کتاب بحر العلوم کے چند اوراق ہی پڑھائے تھے اس لئے ان کتابوں کی تیاری کے لئے میں نے برادرم ملک رحمت اللہ صاحب مرحوم جو کہ مؤلف اصحاب احمد کے چھوٹے بھائی تھے، سے امداد حاصل کی انہوں نے بڑی محنت سے یہ کتابیں مجھے پڑھا دیں.میں
۴۹۳ سلم العلوم کی عربی عبارت لکھ دیتا اور پھر اس کے بعد مختصر تشریح کر دیتا.غرض میں نے حضرت مولوی صاحب سے تعلق کی بناء پر کوشش کی کہ آپ کے پرچے میں کسی قسم کی کوئی کمی باقی نہ رہ جائے.اس کے بعد ایک روز آپ کلاس میں فرمانے لگے کہ میرے ایک استاد کا یہ طریق تھا کہ جب کوئی لڑکا ان کے سوالات کا صحیح جواب اردو میں بیان کرتا تو اسے ۱۰۰/۱۰۰ نمبر دیتے تھے لیکن اگر کوئی لڑکا صحیح جواب عربی میں بیان کرتا تو اسے وہ ۱۰۲/۱۰۰ نمبر دیتے تھے.میں نے بھی آج اپنے استاد کی تقلید میں ایک لڑکے کو۱۰۲/۱۰۰ نمبر دئے ہیں کیونکہ اس نے سوالات کا جواب عربی میں دیا ہے اور صحیح جواب دیا ہے مجھے یاد ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے میرے اس پرچے کا ذکر حضرت میر محمد الحق صاحب مرحوم کے ساتھ کیا اور آپ نے بڑے زور کے ساتھ اس امر کی سفارش فرمائی کہ محمد احمد کو داخلہ امتحان بطور قرضہ حسنہ نہ دیا جائے بلکہ بطور امداد دیا جائے.چنانچہ حضرت میر صاحب مرحوم کی سفارش پر مجھے یہ داخلہ بطور امداد دیا گیا.فالحمد للہ علی ذالک.واقفین کے ابتدائی گروپ کی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذاتی نگرانی میں تعلیم و تربیت ہوتی تھی.اس وقت یہ گروپ گرمیوں میں حضور کے ہمراہ ڈلہوزی جاتا تھا.ان دنوں اس گروپ کے ذمہ علم صرف و نحو کی بعض کتب کی تعلیم مقرر کی گئی تھی.بعض اساتذہ کرام جوان کتب کی تدریس پر متعین تھے.وہ بھی حضور کے ہمراہ ڈلہوزی جاتے تھے اور وہ واقفین کو پڑھاتے تھے.مختلف کتب کے لئے عرصہ تعلیم اور پاس ہونے کے لئے نمبروں کی علیحدہ علیحدہ تعین کر دی گی تھی.مقررہ عرصہ کے بعد ان کتب کا امتحان ہوتا تھا اور جو فیل ہو جاتا اسے مزید دودفعہ امتحان دینے کا موقع ملتا تھا.اگر کوئی فرد تین دفعہ اس امتحان میں فیل ہو جاتا تو اسے وقف سے فارغ دیا جا تا تھا.حضرت مولوی صاحب ان اساتذہ کے انچارج تھے.جو اس وقت اس کام پر متعین تھے.آپ حضور کی خدمت میں تعلیمی رپورٹیں ہفتہ وار بھجواتے تھے.آپ دن دنوں شرح جامی پڑھا رہے تھے.میرے ذمہ اس وقت کتاب التهذيب والتوضيح کا امتحان دینا باقی تھا.اس کتاب کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے شرح جامی کی کلاس کی باقاعدہ شمولیت کرنی تھی.ویسے میں اپنے طور پر کلاس میں شامل ہو جایا کرتا تھا.کتاب” التهذيب والتوضیح کے امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے ۸۵/۱۰۰ نمبروں کی تعین کی گئی تھی اور عرصہ تعلیم غالباً تین ماہ تھا.کتاب کافی ضخیم اور مشکل ہے اور کامیابی کا معیار بہت کٹھن اور بلند تھا.اس لئے اس میں فیل ہونے کے ڈر سے طبعاً بڑی گھبراہٹ محسوس ہوتی تھی.اس لئے مجھے اس کی تیاری کے لئے کافی محنت کرنی پڑی.اور میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کتاب میں سے ۹۹/۱۰۰ نمبر حاصل کئے.ممتحن صاحب نے اس پر چہ پر یہ نوٹ بھی دیا تھا کہ ایک نمبر متحن نے صرف اپنا حق سمجھتے ہوئے کاٹ لیا ہے.ویسے یہ طالب علم ۱۰۰/۱۰۰ نمبر لینے کا مستحق ہے.کسی نے حضرت مولوی صاحب کے حسن انتظام
۴۹۴ تعلیم کے متعلق حرف گیری کی تو آپ نے میری اس اعلیٰ کامیابی کو حسن انتظام کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا.انہی دنوں ہندوستان کی علمی درس گاہوں میں بعض واقفین کو اعلیٰ تعلیم کے لئے بھجوانے کا پروگرام بن رہا تھا.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے اس ضمن میں خاص طور پر میری سفارش کی.چنانچہ آپ کی سفارش پر مجھے بھی اس گروپ میں شامل کر لیا گیا اور بھجوایا گیا.فالحمد للہ علی ذالک.آپ سیکرٹری بہشتی مقبرہ ہونے کی حیثیت سے ہر روز دفتر بہشتی مقبرہ میں تھوڑی دیر کے لئے تشریف لے جاتے تھے.دفتر کی ڈاک پر دستخط فرمایا کرتے تھے.میں نے بھی کچھ عرصہ اس دفتر میں بطور کلرک کام کیا ہے.اس دوران میں میں نے دیکھا ہے کہ آپ عام طور پر ان چٹھیوں پر بغیر پڑھے دستخط فرما دیا کرتے تھے.جو عام دفتری خط و کتابت کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں لیکن جہاں کسی موصی کے حق پر کوئی خاص اثر پڑنے کا سوال ہوتا تھا اس کے متعلق حضرت مولوی صاحب کی ہدایت تھی کہ موصی کی چٹھی پڑھ کر مجھے سنائی جاوے.چنانچہ ایسا کیا جاتا اور بعض جگہوں پر آپ مضمون کی درستی کرواتے تھے اور پھر دوبارہ وہ جواب صاف طور پر لکھوا کر دستخط فرمایا کرتے تھے اور اس بارہ میں خاص احتیاط فرماتے تھے.حضرت مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے جماعت میں جو مقام بخشا تھاوہ سب پر عیاں ہے.میں نے یہ چند سطور اس لئے نہیں لکھیں کہ اس سے آپ کے درجہ میں کچھ اضافہ ہوگا بلکہ صرف اس لئے لکھ دی ہیں تا کہ آپ کے اس ذکر خیر سے اللہ تعالیٰ میری کمزوریوں کو ڈھانپ لے اور محض اپنے فضل سے ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے.آمین.از اخویم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی.اے.ایل.ایل بی ( مجاہد سوئزرلینڈ سابق امام مسجد لندن و وکیل الزراعت انجمن تحریک جدیدر بوه) سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی اطال الله بقاءه واطلع شموس طالعہ نے ۱۲ ستمبر ۱۹۳۸ء کو مجھے میری درخواست وقف کے سلسلہ میں شرف باریابی بخشا اور لمبی روح پرور گفتگو کے بعد جو شاید ایک گھنٹہ تک جاری رہی، وقف بھی قبول فرمایا.فالحمد للہ.ان دنوں واقفین بڑی حد تک حضور کی ذاتی نگرانی میں تھے.حضور نے ہر ایک واقف کو چوبیس گھنٹے کی ڈائری رکھنے کی ہدایت فرما رکھی تھی اور ان کا ایک جگہ رہنا ضروری تھا.ہماری زندگی اس سخت ڈسپلن کے ماتحت خاصی مشینی انداز اختیار کر گئی تھی.اس دوران میں ایک دن حکم ملا کہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ استاد مقرر فرمائے گئے ہیں.حضرت مولوی صاحب سلسلہ احمدیہ میں ایک بلند مقام رکھتے تھے اور مدرسہ اور کالج کے ایام میں بھی
۴۹۵ میرے دل میں ان کی عظمت تھی لیکن میں آپ کو صرف ایک بزرگ اور ایک عالم کے طور پر جانتا تھا.اس جبہ کے اندر جو عظیم الشان شخص قادیان کی مقدس بستی کے اندر چلتا پھرتا تھا اس سے واقف نہ تھا.اب چند یوم کے بعد میں نے محسوس کیا کہ حضرت مولوی صاحب ایک عالم اور بزرگ ہی نہیں ہیں بلکہ آپ ایک محبت اور قدر کرنے والا حساس قلب رکھتے ہیں.مجھے آپ سے ذاتی عقیدت پیدا ہوگئی.آپ کے کلام میں روحانیت ہوتی تھی.آپ کا حافظہ غضب کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات اور سلسلہ کی تاریخ کے بعض واقعات کئی دفعہ آپ سے سنے اور بڑی دلچسپی سے سنے اور میں نے محسوس کیا کہ آپ کی روایت کے الفاظ میں فرق نہیں پیدا ہوتا وہی الفاظ رہتے ہیں لیکن آپ نے خود ہی بتایا کہ آپ کا تاریخ کا حافظہ اچھا نہیں آپ نے جس ماحول میں پرورش پائی اس میں سکوں اور اس طرح اعداد سے کوئی سروکار نہ تھا اس لئے عدد آپ کو یاد نہیں رہتا فرمایا.قریباً روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر جاتا ہوں لیکن مجھے حضور کی تاریخ وفات یاد نہیں.فرمایا کہ مجھے اڑھائی سال کی عمر تک سے واقعات یاد ہیں.میں آیا کی گود میں تھا.وہ مجھے باہر لے جانے لگی.میرے والد صاحب ( یا دادا صاحب مجھے راوی کوٹھیک یاد نہیں رہا) نے کہا کہ بچہ کو اندر لے جاؤ.اسے آج جلاب دیا ہے.میں نے بڑے ہوکر یہ واقعہ بتایا تو والد صاحب (یا دا دا صاحب) نے بتایا کہ یہ میری اڑھائی سال کی عمر کا واقعہ ہے.آپ فرمایا کرتے کہ مجھے یہ یاد رہتا ہے کہ یہ حوالہ کتاب کے دائیں صفحہ پر ہے یا بائیں پر اور کس جگہ پر ہے اور چونکہ یہ بزرگ خدا میں فنا تھے.اس لئے خود اللہ تعالیٰ بھی حوالہ جات کے بارہ میں ان کی مدد فرماتا تھا.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ لاہور میں کسی غیر مبائع کا سوال پیش ہوا.آپ نے تذکرہ طلب فرمایا.پیش کیا گیا کھولا حاشیہ میں جواب درج تھا.میں حیران ہوا.پوچھا تو فرمایا اس طرح اللہ تعالی مدد کر دیتا ہے.ایک دن مسجد مبارک قادیان میں میں نے خود حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کو فرماتے سنا کہ مجھے ایک سوال کے جواب کی ضرورت تھی.میں نے کئی نوجوان علماء سے دریافت کیا.کتابیں دیکھنے کے باوجود وہ نہ بتلا سکے.حضرت مولوی صاحب سے پوچھا آپ نے زبانی جواب دے دیا اور حوالہ بھی بتا دیا.میرے لئے حضرت مولوی صاحب کی تعلیم و تدریس بڑی، پُر لطف ہوتی تھی.یہ نہیں کہ آپ کے پڑھانے سے کا فیہ یا شرح جامی میں خاص لطف پیدا ہو جاتا بلکہ اس لئے کہ درس کے درمیان آپ کوئی نہ کوئی واقعہ ضمناً سنادیتے جو بڑا روحانیت بخش ہوتا.آپ کا اپنے تمام شاگردوں سے محبت و شفقت کا سلوک ہوتا تھا.اس سارے عرصہ میں مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھی کسی معاملہ میں آپ سے کسی کی بدمزگی پیدا ہوئی ہو.آپ کا انداز اصلاح بھی لطیف ہوتا تھا.کسی نے
۴۹۶ ایک واقف زندگی رفیق کے بارے میں کوئی ایسی بات کی جو گویا اس کی ذہانت پر طنز تھی.آپ نے فرمایا دیکھو میاں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے."أهل الجنة بلة “ یعنی جنتی سادہ لوح ہوتے ہیں.طنز سے جو بعض چہروں پر مسکراہٹ آگئی تھی ایک دم غائب ہو گئی اور اس کی جگہ سنجیدگی نے لے لی کہ کہیں ایک جنتی کی دل شکنی نہ ہو گئی ہو.آپ سے اللہ تعالیٰ نے جو عظیم الشان خدمات لیں.ان میں سب سے عظیم الشان تاریخی خدمت مباحثہ مد ہے.آپ نے کئی دفعہ یہ واقعہ سنایا کہ مباحثہ سے واپسی پر میں اپنے گھر میں تھا کہ کسی نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا دیکھا تو حضرت میاں محموداحمد صاحب (خلیفہ الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ) تھے.آپ نے مجھ سے فرمایا.مولوی صاحب! مبارک ہو.آپ تاریخی شخصیت ہو گئے.حضرت مسیح موعود نے آپ کے متعلق ایک اعجازی قصیدہ رقم فرمایا ہے.ہمارے عرصہ تلمذ میں آپ کو احباب ” حضرت مولوی صاحب“ کہتے تھے لیکن آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود مجھے شاہ صاحب کے الفاظ سے خطاب فرماتے تھے.فرماتے تھے ایک دن حضرت مسیح موعود نے فرمایا شاہ صاحب امرت سر سے ایک دری لے آئیے اور جیب میں ہاتھ ڈالا اور روپے بغیر گنے میرے ہاتھ میں رکھ دے.یہ تقریبادری کی ہی قیمت تھی.میں خرید کر لایا تو حساب عرض کرنے لگا.حضور نے فرمایا ہم اپنے دوستوں سے حساب نہیں کیا کرتے.آپ کو خود آل رسول تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کا احترام بہت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ میرے شاگرد تھے.اور قریباً سب لڑ کے فرش پر بیٹھا کرتے اور استاد کے لئے کرسی ہوتی لیکن یہ جماعت میں ہوتے تو میں احتراماً کرسی پر نہ بیٹھتا کھڑا ہو کر ہی پڑھاتا.فرمایا.حضرت صاحب ( ایدہ اللہ تعالیٰ ) بچپن میں مجھے اپنی خواہیں سنایا کرتے تھے آپ کی بہت سی خواہیں ایسی ہوتیں کہ فوج ہے اور آپ اس کی قیادت کر رہے ہیں.فرمایا حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس میں بات کر رہے ہوں تو کبھی کوئی مخاطب ہوتا ہے اور کبھی کوئی لیکن حضور اپنی کوئی خواب سنانے لگیں تو میری طرف رخ پھیر لیتے ہیں اور مجھے مخاطب کر کے سناتے ہیں.اللہ ! اللہ !! استاد کوشاگرد سے محبت تھی تو شاگر د بھی کیسے وفا شعار تھے ! بچپن کے رخ کود وامی تسلسل بخشا.حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے قلب میں حضرت مولوی صاحب کا جو احترام تھا اس کا کبھی نہ کبھی اظہار ہو جا تا.واقفین کی تدریس کے لئے اور بھی کئی اساتذہ مقرر کر دئے گئے تھے.جن کے آپ پرنسپل بنادئے گئے تھے.ایک دفعہ اساتذہ کسی مشورہ کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر تھے میں تو موجود نہ تھا لیکن بعد میں معلوم
۴۹۷ ہوا کہ ایک استاد صاحب نے حضور کی خدمت میں حضرت مولوی صاحب کے متعلق کچھ عرض کرتے ہوئے صرف ”مولوی صاحب“ کے الفاظ کہے.حضور نے فرمایا کون ”مولوی صاحب“؟ مولوی تو سب ہی ہیں.ان استاد صاحب نے فوراً عرض کیا کہ حضرت مولوی صاحب.“ ہمارے واقفین کے گروپ کو کسی جامعہ میں داخل نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کی قابلیتوں اور آئندہ ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر نصاب بنائے جاتے رہے.حضور کا منشاء شروع میں زیادہ لمبی تعلیم دلانے کا نہ تھا بلکہ جلد بیرونی ممالک میں بھجوانے کا تھا.چنانچہ کئی ایک کے پاسپورٹ تیار کروالئے گئے تھے کہ اچانک دوسری عالم گیر جنگ شروع ہوگئی اب حضور نے مناسب سمجھا کہ ان واقفین کی مختلف لائنوں میں تربیت کی جائے.حضور نے حضرت مولوی صاحب کے ساتھ مشورہ سے مختلف لائنیں مثلاً حدیث ، فقہ، تفسیر ، تصوف مقرر فرما دیں اور فرمایا کہ طلباء کو کہیں کہ ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنی اپنی لائن منتخب کر لے.بایں ہمہ حضرت مولوی صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مشتاق احمد ( راقم الحروف) کے لئے فقہ تجویز کرنا مناسب ہوگا.حضور فرما ئیں تو ان کو فقہ کی تعلیم پر لگا دیا جائے.اس میں انہیں دلچسپی ہے.حضور یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور جو حکم طلباء کے لئے مضامین انتخاب کرنے کا آیا اس میں میرے لئے فقہ کا مضمون مقرر کیا ہوا تھا.حضور نے حضرت مولوی صاحب کی رائے کو حالانکہ آپ میرے فقہ کے استاد نہ تھے اس قدر اہمیت دی کہ میرے بعض بزرگوں سے بھی اس کا اظہار فرمایا تعیین میرے لئے قابل فخر و مسرت تھی.اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.مسجد مبارک میں ایک روز حضور نے عصر کی نماز پڑھا کر رخ بدلا اور حضرت مولوی صاحب کی طرف جو عین حضور کے پیچھے ہوتے تھے متوجہ ہو کے فرمایا.مولوی صاحب! ان واقفین کواب جلد باہر بھجوانا چاہئے.اس لئے موجودہ نصاب کی بجائے مختصر نصاب تجویز کیا جائے اور حضور نے فوراً کا غذ قلم لے کر ہر مضمون کی جو کتا ہیں ضروری سمجھیں تحریر فرما دیں.اور یہ نیا نصاب حضرت مولوی صاحب کے سپر د فرمایا اور آپ نے اس کے مطابق واقفین کو تعلیم دلا دی اور پھر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اطال اللہ بقاءه واطلع شموس طالعہ کی توقعات کے مطابق یہ مجاہدین باہر جانا شروع ہو گئے.میں ابتداء میں ۱۹۴۵ء میں جانے والوں میں سے تھا.سارے قادیان کے علاوہ خود حضور اور حضرت مولوی صاحب ریلوے اسٹیشن قادیان پر الوداع کہنے کے لئے تشریف لائے اور ہار پہنا کر بغلگیر ہو کر اور لمبی دعا کے بعد رخصت کیا.یہ شیریں یا دسرمایۂ حیات ہے معلوم نہ تھا کہ حضرت مولوی صاحب سے پھر اس دنیا میں ملاقات ہی نہ ہوگی.آپ مسجد مبارک کی زینت تھے.آپ نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوتے.مہمان احباب آتے.مصافحہ کرتے اور وہ اور قادیان کے احباب بھی اس وقت آپ سے علمی اور روحانی استفادہ کرتے.ایک دن حضور
۴۹۸ ایدہ اللہ تعالیٰ معمول سے جلد نماز کے لئے تشریف لے آئے اور حضرت مولوی صاحب نماز با جماعت میں شامل نہ ہو سکے اور بعد میں پہنچے اور آ کر نماز پڑھنے لگے.ایک لمحہ بعد ہمارے موجودہ مفتی سلسلہ اخویم محترم ملک سیف الرحمن صاحب تشریف لائے.ہم نے ملک صاحب کو بتایا کہ کہ حضرت مولوی صاحب نے ابھی نماز شروع کی ہے آپ بھی ساتھ شامل ہو جائیں تا کہ باجماعت نماز ہو جائے.وہ فقیہ تھے ان کے دل کو یہ بات پسند آگئی اور حضرت مولوی صاحب کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ساری نماز آپ کی اقتدا میں پڑھی لیکن حضرت مولوی صاحب نے کوئی تکبیر بلند آواز سے نہیں کہی.خاموشی سے تمام نماز پوری کی.اور سلام پھیر نے کے بعد ملک صاحب سے فرمایا کہ آپ کو نیت کا ثواب ملے گا.حضرت صاحب نے مسجد مبارک میں دوسری جماعت کرنا منع فرمایا ہوا ہے.اس لئے حضور کے ارشاد کی تعمیل میں میں نے جماعت نہیں کروائی اللہ! اللہ ! اطاعت امام میں آپ کا مقام کس قدر بلند تھا!!! حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دور دیکھا.پھر خلافت اولیٰ کا اور پھر خلافت ثانیہ کا.تینوں دوروں کے ایمان افروز واقعات سنانا آپ کا معمول تھا.آپ نے وہ واقعہ بھی سنایا کہ کس طرح ایک ہند و مجسٹریٹ نے آریوں سے وعدہ کیا کہ آئندہ پہلی پیشی میں وہ معاذ اللہ حضور کو قید کر یگا تا کہ لیکھرام والا بدلہ لیا جا سکے.اور حضور نے یہ واقعہ مجھ سے سن کر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ نے کس رنگ میں اس کے شر سے آپ کو محفوظ رکھا اور وہ واقعہ بھی سنایا کہ باوجود یہ معلوم ہونے کے کہ حضور کے لئے آم رکھوائے گئے ہیں اور کئی وقت کے بعد حضور نے آم کے ساتھ روٹی تناول فرمائی تھی.خواجہ کمال الدین صاحب نے آم اپنے گھر بھجوا دیئے اور حضور کی علالت کی بھی پرواہ نہیں کی.آپ نے فرمایا کہ جب حضرت مولوی نورالدین صاحب مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو میں نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ یہ تین مسائل ہیں.جن میں حضور کا اور میرا اختلاف تھا.اب حضور خلیفہ ہیں اور حضور کے مسلک کے خلاف بولنا مناسب نہیں اس لئے آپ ان مسائل کے بارے میں اپنا نظریہ بیان فرما دیں.حضور نے تینوں میں مجھ سے اتفاق فرمالیا.فرماتے تھے کہ خلافت ثانیہ کے آغاز میں مخالفین خلافت زوروں پر تھے.اور جماعتوں میں ان کا پرو پیگنڈا جاری تھا.میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.اور اس پروپیگنڈا کے ازالہ کے لئے اپنی خدمات پیش حضور نے فرمایا میرے پاس روپیہ کوئی نہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور روپیہ کی پرواہ نہ کریں.میں یہ دونوں واقعات روایات میں تفصیلا درج ہیں.(مؤلف)
۴۹۹ مولوی بھی ہوں اور سید بھی جوصرف مولوی ہو یا صرف سید ہو وہ روپیہ جمع کر لیتا ہے میں تو مولوی بھی ہوں اور سید بھی.سلسلہ کے لئے روپیہ بہت جمع کرلوں گا.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے بھی تائید خلافت میں کا رہائے نمایاں سرانجام دیئے.آپ حضور کے ہمیشہ خاص مصاحب رہے.میں نے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں تعلیم پائی تھی.میں تو جب اس زمانے کا تصور ذہن میں لاتا ہوں تو مختلف تقاریب میں حضرت مولوی صاحب حضور کے پہلو میں نظر آتے ہیں.حضور نے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ کے طلبہ کے لئے انصار اللہ کی مجلس قائم ☆ فرمائی.حضور خطاب فرمایا کرتے لیکن اس میں بھی حضرت مولوی صاحب حضور کے ساتھ موجود ہوتے ہو باوجود بڑھاپے کے آپ کی صحت بہت اچھی تھی.آپ سنتیں بڑی لمبی ادا فرماتے اور اگر نماز پڑھانے کا موقع ملا تو وہ بھی بھی ہوتی.نوجوان اپنی عمر کے باعث بعض دفعہ اکتا جاتے لیکن ہمارے بعض بزرگ فرماتے کہ اس نماز کا بڑا ہی لطف آتا ہے.تہجد کے لئے آپ دو بجے صبح اٹھتے تھے.ایک دن باتوں باتوں میں اس کا تذکرہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ میں عشاء کے بعد کھانا کھاتا ہوں.آپ کی زندگی انتہائی مصروف زندگی تھی.آپ مسجد سے نکلتے تو بعض علم کے پیاسے ساتھ ہو لیتے اور کوئی سوال پوچھ لیتے.آپ اطمینان سے بات کرتے جاتے اور وقفہ وقفہ کے بعد فرماتے.” آیا خیال شریف میں.آپ نے کبھی کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ میرے پاس اس وقت فراغت نہیں.آپ تشنہ کاموں کو سیراب کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوتے تھے.بعض دفعہ بات ختم نہ ہوتی اور آپ گھر پہنچ جاتے تو ٹھہر جاتے اور بات مکمل کئے بغیر اندر نہ تشریف لے جاتے.ہم واقفین کے اصل مربی چونکہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ہی تھے.حضور پہاڑ پر تشریف لے جاتے تو ہمیں بھی بعض اوقات ہمراہ جانے کا حکم ہو جاتا.ہم نے رہائش کے لئے ڈلہوزی کے بازار میں ایک فلیٹ حاصل کی.ہمارے اساتذہ جن میں حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی بھی تھے.ہمارے ساتھ ہی قیام فرما ہوئے لیکن حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو حضور نے اپنے قریب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب والی کوٹھی میں ٹھہرا لیا.آپ کی اہلیہ محترمہ قادیان میں آپ کی غذا کا بہت خیال رکھتی تھیں.آپ حریرہ با قاعدہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بورڈنگ مدرسہ احمدیہ یا قصر خلافت کے صحن میں دونوں مدارس کے طلباء کو جمع کر کے وعظ فرمایا کرتے تھے تحریک جدید اور مجلس خدام الاحمدیہ کی تحریکات والے مقاصد ہی مختصراً ان انصار اللہ کے سامنے حضور پیش فرماتے تھے مثلاً محنت کی عادت کفایت شعاری وغیرہ.خاکسار بھی اس میں شامل تھا یہ ۱۹۲۶ء کے قریب کی بات ہے (مؤلف)
۵۰۰ پیا کرتے تھے.یہ تھوڑی سی سوجی بھون کر بادام پیس کر دودھ میں ڈال کر تیار کیا جاتا تھا.پہاڑ پر ایک باور چی تھا اور بہت سے احباب کا اس نے کھانا پکانا ہوتا.آپ کی طرف توجہ میں اس سے غفلت ہونے لگی.آپ کی اس دقت کا مجھے احساس ہوا اور میں حریرہ کے لئے ضروری سامان بازار سے لے آیا لیکن باورچی کے پاس اس کے لئے وقت نہ تھا.آخر حضرت مولوی صاحب نے مجھے بے تکلفی سے بتایا کہ یہ دقت ہے.اس قیمتی وجود کے بارے میں کسی قسم کی غفلت میرے نزدیک گوارا کی جانے کے قابل نہ تھی لیکن بجائے افسروں کے پاس جانے یا باور چی سے الجھنے کے میں نے اسے علیحدگی میں بلایا.اور اس پر اپنے بزرگ کی خدمت کی اہمیت واضح کی اور اس کے لئے خاص خدمت کے معاوضہ میں ماہوار انعام مقرر کر دیا پھر حضرت مولوی صاحب کو ملا تو معلوم ہوا کہ اب باور چی آپ کی تواضع کا ہر طرح خیال رکھتا ہے اور حریرہ تیار کر کے دیتا ہے میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے میری لاج رکھ لی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مفتی سلسلہ مقرر فرمایا ہوا تھا.حضرت مولوی صاحب علم کے ایک سمندر تھے.اس لئے عام مسائل میں آپ کو زیادہ محنت نہ کرنی پڑتی لیکن بعض اوقات ایسے مسائل در پیش ہوتے جن میں آپ حنفی مسلک سے مختلف مسلک اس بنا پر اختیار کرتے کہ خود حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس بارہ میں ارشاد موجود ہے ایسی صورتوں میں آپ طویل تحقیق فرماتے اور مدلل بیان تحریر فرماتے.حضور نے قادیان میں اپنی نیابت میں قضاء کے مرافعہ جات کی سماعت کے لئے ایک بورڈ کا تقرر فرمایا تھا جس کا صدر حضور نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو مقرر فرمایا تھا.بعض واقفین کو بھی ٹریننگ کی خاطر اس بورڈ کا رکن حضور نے مقرر کیا تھا.ایک دفعہ حضرت مولوی شیر علی صاحب محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور ( سابق حج ہائیکورٹ مغربی پاکستان ) اور خاکسار کے سامنے بطور بورڈ شفعہ کا ایک مقدمہ پیش ہوا.اس میں حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا ایک فتوی پیش ہوا.اس میں آپ نے فقہ حنفیہ کے خلاف حدیث نبوی کی بناء پر یہ مسلک اختیار فرمایا تھا کہ اگر مکان تقسیم ہو جائے.حدود معین ہو جائیں تو ہمسایہ کے لئے محض ہمسائیگی کی بناء پر شفعہ کا کوئی حق نہیں.اس فتویٰ پر فریق مخالف کی طرف سے بڑی جرح کی گئی لیکن بورڈ نے اس فتویٰ کے مطابق فیصلہ صادر کیا اور پھر جب حضور اطال اللہ بقاءہ کے سامنے یہ فتویٰ پیش ہوا تو حضور نے اسے اتنا پسند فرمایا کہ جماعت کے مسلک کے طور پر جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی تقریر میں اس کا اعلان فرمایا.گویا آپ کی بطور مفتی جدید تحقیق کو سب سے بڑا خراج تحسین تھا جو امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے پیش فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے پیش نظر آپ فقہ حنفیہ کو بڑے احترام کی نظر سے دیکھتے لیکن آپ فرماتے تھے ” یک من علم راده من عقل باید آپ اندھا دھند کسی مسئلہ کو چسپاں نہ کرتے.حالات پر غور
۵۰۱ کرتے.انسانی حالات اور طبعی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے اور موجودہ دور کے فطری تقاضوں کو بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے اور بلاخوف لومۃ لائم فتویٰ صادر فرماتے.اندھادھند مسئلہ بیان کرنے کی آپ ایک دلچسپ مثال بیان فرمایا کرتے.آپ دیو بند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کچھ عرصہ ایبٹ آباد میں مقیم رہے.فرماتے تھے کہ وہاں پر ایک امیر شخص تھا جو نہ صرف خود جواُ کھیلتا تھا بلکہ اس نے قمارخانہ کھول رکھا تھا.اس کی عمارت میں جو کھیلا جاتا اور وہ قمار بازوں سے فیس وصول کرتا اس لئے وہ خاصہ دولت مند تھا.میں اس کی اس عمارت کے راستہ سے گزرا کرتا.میں دیکھتا کہ میں آ رہا ہوتا تو ایک لڑکا بھاگا بھاگا اس مکان کی طرف جاتا اور وہ میرے گزرنے سے قبل رستہ سے ہٹ جاتا.مجھے معلوم ہوا کہ اس نے خاص طور پر اس غرض کے لئے لڑ کا متعین کیا ہوتا ہے لیکن میں نے آہستہ آہستہ اس سے ربط پیدا کیا.اور اس کو ان بری باتوں کے چھوڑنے کی ترغیب دی اس نے توجہ کی اور اپنی اصلاح کرلی.اور اپنی دولت کو یتامیٰ اور غرباء کے لئے صرف کرنے لگا.جو اُترک کر دیا.شراب چھوڑ دی.ایک دن ایبٹ آباد کی جامع مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لئے پہنچا تو خطیب خطبہ دے رہا تھا.یہ شخص ایک کونے میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا.خطیب نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث سنائی کہ قیامت کے دن فلاں فلاں پر اور ولد الحرام پر خدا کا سایہ نہ ہوگا.میں نے دیکھا کہ وہی شخص جس کی اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اصلاح کی تھی کانپتا کانپتا کھڑا ہو گیا.وہ شخص در حقیقت ولد الحرام تھا.اس نے تھرائی ہوئی آواز میں خطیب سے پوچھا کہ مولوی صاحب! کیا یہ ٹھیک ہے کہ ولد الحرام خواہ وہ کتنا ہی نیک ہو اس پر قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کا سایہ نہ ہوگا ؟ خطیب نے جواب دیا.ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے.یہ سن کر اس شخص نے اپنی چادر سنبھالی اور مسجد سے باہر نکل گیا.لوگوں نے نماز کے بعد تعجب کیا کہ وہ کہاں گیا.اور کہاں ملے گا.میں نے کہا کہ وہ شراب خانے کی طرف گیا ہو گا.وہیں ملے گا.بعض ہمدرد وہاں پہنچے اور اسے شراب سے مدہوش پایا.اور اسے ہوش آتی تو وہ اور شراب طلب کرتا اور پی لیتا.وہ ہوش میں آنا ہی نہ چاہتا تھا.آپ نے بتایا کہ میں نے پھر آہستہ آہستہ کوشش کی.اسے سمجھایا.اس حدیث کے صحیح معنے بتائے اور وہ پھر اصلاح یافتہ ہو گیا.یاس وقنوط کی کیفیت نے اسے برباد کر دیا تھا.آپ نے فرمایا کہ اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ ولد الحرام کے لئے اس کے ورثہ اور ماحول کے باعث خراب ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں.اور اس کی تربیت میں خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو کر ایک بدکارانسان بن جاتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ قیامت کو اللہ تعالیٰ کے سایہ سے باہر ہوگا.آپ قرآن کریم کے اعلیٰ پایہ کے مفسر تھے اور اس لحاظ سے جماعت میں آپ کا مقام بہت ہی بلند ہے.
۵۰۲ آپ کو بائیبل پر بھی کامل عبور حاصل تھا.اور آپ اپنی تفسیر میں اس سے بھی استفادہ فرماتے تھے.انسی اخلق لكم من الطين كهيئة الطير ۳۳ کی یہ غیر کہ میں پرندہ کے انداز پر اپنے ماننے والوں کو پروں کے نیچے لے کر ان کی تربیت کرتا ہوں اور ان میں صفت پرواز پیدا ہو جاتی ہے.آپ فرماتے تھے کہ میں نے یہ تفسیر محترم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے سامنے بیان کی.ڈاکٹر صاحب نے حضور کی خدمت میں پیش کی.حضور نے اسے ازحد پسند فرمایا اور جلسہ کے موقع پر یہ تفسیر بیان فرمائی اور پھر حضور کی تفسیر میں بھی یہ تفسیر موجود ہے.ممکن ہے تو ارد ہو اس صورت میں بھی حضرت مولوی صاحب کی عظمت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لطیف نکات سے آپ کو آگاہ کرتا تھا.آپ محض ظاہری کتابی عالم نہ تھے بلکہ ربانی عالم تھے.اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے رشد و ہدایت آپ نے پائی تھی.آپ صاحب الہام تھے.آپ نے اپنا ایک الہام بتایا.رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنْبَغِي لَاحَدٍ منْ بَعْدِى الالواحد ، فرمایا ! اللہ تعالیٰ نے میری نسل میں سے ایک کی استثناء کی ہے.اور فرمایا کہ میں نے یہ الہام اس سے قبل سوائے حضرت میاں بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی ) کے کسی کو نہیں بتایا.معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں حضرت مولوی صاحب نے بعض اور احباب سے بھی اس کا ذکر کیا.چنانچہ اخویم مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر ہیڈ زود نویس ربوہ نے بتایا کہ اخویم مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ نے مجھے آپ کا یہ الہام بار ہا سنایا.اور ابوالمنیر صاحب نے خاکسار مؤلف کے استفار پر تصدیق کی ہے کہ اخویم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب پروفیسر جامعہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ میں نے یہ الہام حضرت مولوی صاحب سے سنا تھا ) یہ الہام نہ صرف حضرت مولوی صاحب کی للہیت پر روشن دلیل ہے.بلکہ پورا ہونے پر احمدیت کا درخشندہ نشان ہو گا.اس میں آپ کی اولاد کے لئے ایک حوصلہ افزائی اور تبشیر کا پہلو ہے تا آپ کی اولا دایک دوسرے سے بڑھ کر کوشش کریں.اخویم چوہدری محمد صدیق صاحب فاضل بی.اے لائبریرین خلافت لائبریری بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جبکہ مکرم کمال یوسف صاحب آپ کے نواسے جو بالکل چھوٹے تھے کھڑے تھے کہ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے عزیز کمال یوسف کے متعلق بشارت دی ہے کہ اسے خدمت دین کی توفیق ملے گی.اور اس میں کیا شک ہے کہ محترم کمال یوسف صاحب کو بطور مجاہد سکنڈے نیویا اور ڈنمارک میں اعلائے کالمہ اللہ کی توفیق ملی ہے اللہ تعالی تا زندگی مزید خدمات کی تو فیق عطا کرے.آمین
۵۰۳ آپ ایک عظیم الشان جامعیت کے حامل تھے.آپ کا علم وسیع.آپ کی فراست گہری ، آپ کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مسیح سے عشق بے پایاں.آپ کی اطاعت امام کامل ، آپ کے قلب صافی میں مخلوق کے لئے بے پناہ ہمدردی.آپ کا قلب انوار الہیہ کا مورد.آپ کی گفتگو میں شیرینی اور خلوص ، آپ کی علمی عظمت اور اس کے باوجود طبیعت میں انکسار اور آپ کے اخلاق اعلیٰ و اکمل یہ تمام صفات حسنہ شاذ ہی کسی انسانی جامہ میں مجتمع ہو کر صدیوں کے بعد ظاہر ہوتی ہیں.باوجود ضعیف العمری اور پیرانہ سالی کے بلندی عزم کے باعث آپ میں اس قدر زندگی تھی کہ جب لندن میں مجھے آپ کی وفات کی اطلاع ملی تو مجھ پر سناٹا چھا گیا.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی ہمیشہ ان پر بارش ہوتی رہے اور اللہ تعالیٰ ان کی اولا د اور رفیقہ حیات کا حافظ و ناصر ہو اور احمدیت کو ایسے وجودوں سے مؤید فرماتا رہے.آمین.(۴۲) از مکرم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ ( سابق امیر جماعت راولپنڈی حال وارد مانٹریال کینیڈا) محترم جناب ملک صلاح الدین صاحب نے اس عاجز سے بھی حضرت مولانا صاحب مرحوم کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرنے کا ارشاد فرمایا ہے.کسی دوسرے کے علم و عمل کے اندازے کے لئے خود اپنے اندر بھی کچھ ہونا ضروری ہوتا ہے.اس لحاظ سے میں محسوس کرتا ہوں کہ محترم ملک صاحب نے ایک نہایت درجہ نا اہل وجود سے حضرت مولانا کے متعلق بیان کرنے کو فرمایا ہے.بایں ہمہ میں تعمیل ارشاد میں یہ چند سطور لکھ رہا ہوں تا کہ ثواب میں شامل ہو جاؤں.میں نے ۱۹۰۵ء کے اپریل کے آخر یا مئی کے ابتدائی نصف میں پہلی مرتبہ حضرت مولانا کومشن ہائی سکول گوجرانوالہ کے ہال میں دیکھا.اس سال عیسائی پادریوں کے ایک گروہ نے جن کا سرخیل پادری جوالاسنگھ لکھنوی تھا گوجرانوالہ کے مسلمانوں پر ایک منظم تبلیغی حملہ کیا تھا.پادری مذکور بڑا چرب زبان اور بڑا پر فنون و پُر حیل مناظر تھا.علوم منطق و فلسفہ سے آگاہ تھا لیکن جاننے سے بہت زیادہ اس کا اظہار کرتا تھا.یہاں تک کہ با واقف یہی سمجھنے لگ جاتے کہ شاید وہ وحید عصر ویگانہ روزگار ہے.اس کا حوصلہ اتنا بڑا ہوا تھا کہ اصطلاحات منطق و فلسفہ میں تثلیث و کفارہ جیسے بعید از عقل مسائل کو اس طرح لپیٹ کر بیان کرتا کہ لوگ اس باطل کو بھی وقتی طور پر حق سمجھنے میں مبتلا ہونے لگتے مسلمانان گوجرانوالہ کو احساس ہوا کہ اس بلا کا درماں صرف قادیان دارالامان میں ہے اس لئے وہ جماعت احمد یہ گوجرانوالہ کے امیر حضرت حکیم محمد دین صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ قادیان سے مبلغین منگواد ہیں.شہر میں ایک ہنگامہ بر پا تھا کہ قادیان سے مبلغین
۵۰۴ کا ایک وفد زیر امارت حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ پہنچا.جس کے دیگر ممبران مندرجہ ذیل تھے.ایک جوان عمر پاک رو پاک دل پاک دماغ حضرت میر محد الخلق صاحب رضی اللہ عنہ، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اور حضرت مولوی فضل دین صاحب پلیڈر مشیر قانونی تھے.جب پادری مذکور نے اپنی تقریر ختم کی اور اپنے منطق و فلسفہ کی ساری نمائش کر چکا تو حضرت مولانا مرحوم کی باری آئی.پادری مذکور کو علم نہ تھا کہ حضرت مولانا اس علم کے صرف فاضل ہی نہ تھے بلکہ فاضل گر تھے.اور اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ مولوی فاضل کلاس کو آپ یہ مضمون پڑھاتے رہے تھے.آپ کے اس علم کی فضیلت کے اس زمانہ کے بڑے سے بڑے دعویدار حتی کہ مولوی عبد اللہ ٹونکی جیسے لوگ بھی قائل تھے.مولانا نے پادری مذکور کے دجل کا جامہ کچھ اس طرح پارہ پارہ کیا اور اس کی علوم منطق و فلسفہ سے جہالت کو اتنا واضح کیا کہ سامعین حیران ہو گئے.حضرت نے بتایا کہ پادری مذکور صرف اصطلاحات از بر کئے ہوئے ہے ان کے معنی اور تعریفات کو بھی نہیں جانتا.آپ کے انداز بیان میں وقار اور سادگی تھی.میں اس وقت ابھی پندرہ سال کے قریب عمر کا تھا.بڑے علمی دقائق کو نہ سمجھ سکتا تھا لیکن یہ صاف پتہ لگ رہا تھا کہ پادری کا دل اس علمی پردہ درری پر گھٹ رہا تھا.ابھی اس ضرب سے پادری کو ہوش نہ آیا تھا کہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے اس کی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ۲۸ یا ۲۵ عربی الفاظ کی غلطیاں سٹیج پر کھڑے ہوکر سنا دیں.اب تو اسے سر چھپانے کو جگہ نہ ماتی تھی.اور پسینے پر پسینے آتے تھے لیکن ابھی ایک فولاد باز جوان عمر کی ضرب کلیمی باقی تھی.حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ ابھی اپنے عنفوانِ شباب میں تھے.آپ کا نہایت خوبصورت و تبسم چہرہ اور اس سے بھی زیادہ خوبصورت دل آویز کلام دلوں میں گھر کرتا جارہا تھا.آپ نے تثلیث وکفارہ کے تارو پود کو اپنے مخصوص نہایت دل نشین انداز میں اس طرح بکھیرا اور اپنے دلائل کو اس طرح شمار کیا کہ لوگ نئے علوم سے اپنی جھولیاں بھر کر گھروں کو لوٹے.کوئی دل نہ تھا جو جذبات شکر و امتنان سے لبریز نہ تھا.میں اس کی تفصیل حضرت میر صاحب مرحوم کے مضمون میں بیان کروں گا.انشاء اللہ.میں نے حضرت مولانا کے متعلق اس بچپن میں ہی یہ محسوس کیا کہ آپ خود داری ، عزت نفس اور وقار کا ایک پہاڑ ہیں.آپ کے تجر علمی کا اندازہ کرنا میری استعداد سے بہت ہی بالا امر تھا.میں ۱۹۱۵ء میں قادیان تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہو گیا.اسی زمانہ میں حضرت فضل عمر ایدہ اللہ الودود خود درس قرآن بعد عصر دیا کرتے تھے لیکن اپنی مصروفیات اور صحت کے مدنظر جلد ہی حضرت مولانا کو ارشاد فرمایا
کہ آپ درس دیا کریں.اور میری خوش قسمتی آپ نے پہلے پارہ سے درس شروع فرمایا.آپ کی آواز بہت بلند نہ تھی اور چونکہ آپ ضلع ہزارہ کے پہاڑی علاقہ کے رہنے والے تھے.لہجہ خالص پنجابی نہ تھا.آپ اردو بولتے تھے لیکن بہت دفعہ تلفظ نامانوس معلوم ہوتا تھا.فن قرآت میں مہارت تامہ حاصل تھی.حروف کے تحارج کا اتنا خیال تھا کہ وہ ارادہ نہیں بلکہ عادتاً حروف کو اپنے مخارج سے نکالتے تھے.اور اصل چیز علم قرآن ہے.میں پیدائشی احمدی ہوں.قرآن کریم کے علوم کا شوق گھر سے لے کر آیا تھا یہی وجہ تھی کہ عصر کے درس میں شامل ہو کر مغرب بھی وہیں پڑھتا اور پھر حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے درس میں بھی شامل ہوتا.اور پھر واپس بورڈنگ ہاؤس جاتا.آپ چونکہ علوم عقیلہ میں مہارت خاص رکھتے تھے اور حافظہ بے پناہ تیز تھا اور قرآن کریم پر بہت ہی زیادہ محنت کی ہوتی تھی.آپ کا قرآن کریم کی تفسیر کا علم بلا مبالغہ بے پایاں تھا.ہر آیت کی تفسیر حضرت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان فرمودہ تفسیر اور صحابہ کی تفسیر سے شروع فرماتے.اور تمام نامور مفسرین کے نقطہ ہائے نگاہ کو بیان کرتے جاتے اور ان پر ضروری تنقید بھی فرماتے جاتے.یہاں تک کہ حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات تک لے آتے.پھر عاشق قرآن اپنے استاد حضرت علامہ نورالدین رضی اللہ عنہ کا نقطہ نگاہ بیان فرماتے.اور اس پر بس نہ کرتے بلکہ اپنا نقطہ نگاہ بھی نہایت دلیری سے بیان کرتے فرماتے اور پھر حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ امسیح الثانی کا نقطہ نگاہ بھی بیان فرماتے.ظاہر ہے کہ بات لمبی ہو جاتی.والا معاملہ ہو جاتا.اگلے دن سیاق وسباق کلام کو سمجھنے کے لئے کسی حد تک دوہرانا بھی پڑتا.اس طرح تفسیر کی رفتار بہت سست رہتی لیکن تفصیل میں مزہ لینے والوں کوضرور مزہ آ جاتا.اور کیفیت.لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم.کی ہو جاتی.حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے متعلق ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے آپ بھی یقیناً قرآن کریم کے علوم کے بحر میں بہت ہی عمیق غوطہ زنی فرماتے تھے وَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يشَاء مجھے خوش قسمتی سے میٹرک پاس کرنے سے پہلے یا غالبا معاً اس کے بعد حضرت مولانا کی تحریر فرمودہ ساڑھے چھ سپاروں کی تفسیر موسومہ بہ تفسیر سروری مل گئی تھی اور میں نے اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس سے استفادہ کیا.مجھے تسلیم ہے کہ اپنی علمی فرمائیگی کے باعث اس سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکا.لیکن وہ ایک نہایت بے نظیر تفسیر ہے.کاش اس زمانہ کے سیکرٹری صدرانجمن احمد یہ قادیان اپنے مصالح کے ماتحت رسالہ تعلیم القرآن کو بند نہ کرتے اور سارے قرآن کریم کی تفسیر مکمل ہو جاتی.مجھے یقین ہے کہ وہ ایک عظیم الشان
علمی چیز ہوتی.لیکن اب مولوی محمد علی صاحب بھی فوت ہو چکے اور مولا نا بھی.ماضی کے اس تلخ واقعہ کی تفصیل میں پڑ نا صرف تلخی ہی کا موجب ہوگا.حضرت مولانا کو جو مقام تفسیر میں حاصل تھا.اس کا اندازہ کرنے کے لئے صرف ایک آیت کی طرف اشارہ کرتا ہوں.میں نے بچپن میں حضرت خلیفتہ اسیح الاول جیسے بے نظیر عالم و مفسر قرآن کا پہلے پارہ کا بڑی تقطیع پر شائع شدہ ترجمہ دیکھا اس میں وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادْرَهُ تُمْ فيها ۳۴ پر حضور نے لکھا ہوا تھا اس آیت کے معنی ابھی تک مجھ پر نہیں کھلے.یہ علامہ نورالدین کی شان کو ظاہر کرنے والی.ایک نہایت ہی دلربا بات تھی.میں نے جب تفسیر سروری پڑھی تو اس میں نفساً سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام لی گئی تھی اور نہایت ہی لطیف دلائل اس کے ثبوت میں دئے گئے تھے.میرے نزدیک محبت قرآن کا یہ بھی ایک نہایت پیارا رنگ تھا اور آج جماعت احمد یہ آیت مذکورہ بالا کے یہی معنی لیتی ہے.طالب علمی کے زمانہ میں میری چھٹیاں اکثر و بیشتر قادیان میں ہی گزرا کرتی تھیں اس کے علاوہ بھی جو وقت فراغت کا ملتا تھا.قادیان میں ہی گزرتا.اس عرصہ میں کوشش یہ ہوتی کہ نمازیں مسجد مبارک میں ادا ہوں.مجھے ہمیشہ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی کہ حضرت مرحوم اپنی ضعیف العمری کے باوجود وقت کی نہایت درجہ پابندی کے ساتھ گرمی ہو یا سردی صبح کی نماز سے لے کر عشاء کی نماز تک ہر وقت اپنی مقررہ جگہ پر موجود ہوتے.میں نہیں سمجھتا کہ کوئی جوان ہمت نوجوان بھی اس سے زیادہ التزام کے ساتھ نمازوں میں اس طرح حاضر رہ سکتا ہے.حقوق اللہ کی ادائیگی کی یہ ایک نادر مثال ہے.آپ نے سینکڑوں خطبات نکاح پڑھے اور ان میں نہایت لطیف علمی اور عملی نکات بیان فرمائے آپ سلسلہ احمدیہ کے مفتی تھے.کئی مرتبہ بورڈ قضاء میں جس کا کچھ عرصہ میں بھی ممبر رہا.آپ بحیثیت مفتی تشریف لاتے تو مسائل کے بیان میں صرف وسعت نظر اور روشن دماغی ہی ظاہر نہ ہوتی تھی بلکہ اسرار شریعت اس طرح بیان فرماتے کہ دل و دماغ روشن ہو جاتا.آپ کی جواں ہمتی نہایت درجہ قابل دادتھی.۴۵ ۱۹۴۴ء کی بات ہے حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ڈلہوزی میں اپنی عالی شان کوٹھی واقعہ بکر وٹہ میں قیام فرما تھے اور حضور نے حضرت مولانا کو بھی اپنے پاس بلوایا ہوا تھا کہ واقفین زندگی نے بیلون میں جو کوٹھی مذکورہ سے قریباً تین چار میل اترائی میں ہے.ایک جلسہ منعقد کیا.میں نے حضرت مولانا کو دیکھا کہ آپ بھی یہ ساری اترائی اتر کر آئے اور پھر شام کو اتنی چڑھائی اس بڑھاپے میں چڑھ کر واپس تشریف لے گئے.اور اس طرح اپنے مبارک وجود سے جلسہ کو برکت بخشی.میں و ہم بھی نہ کر سکتا کہ حضرت مولانا بھی ایک معمولی سے جلسہ کے لئے اتنی تکلیف برداشت کر سکیں گے.
۵۰۷ میرے قلب کا یہ تاثر ہے کہ مولانا مرحوم کے مرتبہ کا علوم عقیلہ بالخصوص منطق و فلسفہ کا فاضل ( جو علوم کے شکوک و فنون کی پیدائش گاہ ہیں اور عمل کی قوت کا خون جونک کی طرح چوس لیتے ہیں ) قرآن کا ایسا بڑا عاشق اور محبت الہی میں اتنا گرم دل کہ اسی نوے سال کی عمر میں بھی کوئی با جماعت نماز ضائع نہیں کی.یہ حضرت مسیح موعود علیہ والصلوۃ والسلام کی قوت قدسیہ کا ایک عظیم معجزہ ہے یہ حضور علیہ السلام کی سچائی کا ایک نشان ہے اور علامہ نورالدین رضی اللہ عنہ اور حضرت فضل عمر ایدہ اللہ کی صحبت فیض اثر کا ایک نہایت شاندار ثبوت.میں نے حضرت فضل عمر ایدہ اللہ کے درسوں میں آپ کو دیکھا کہ با قاعدہ نوٹ بک اور پنسل ساتھ لاتے اور درس کے نوٹ لکھتے جاتے.علم اور انسانیت کی صحیح ترین علامت انکسار ہے ورنہ اپنے علم کا احساس ہی حجاب بن سکتا تھا.ایسے لوگ اب کہاں پیدا ہوں گے.کب پھر کوئی مسیح آئے اور ایسے لوگ پیدا کر جائے.(۴۳) از اخویم چوہدری محمد شریف صاحب رئیس التبلیغ و انچارج احمد یہ مسلم مشن گیمبیا مغربی افریقہ ) سابقہ مبشر بلاد اسلامیہ ہمارے سب سے بڑے استاد ( الشیخ الاکبر ) حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک بہت بڑے مسلمہ عالم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خاص محبوب اصحاب ( دوستوں ) رضی اللہ عنہم میں سے تھے.اور نیکی، تقویٰ، طہارت و وجاہت میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ ایسے پاک وجود جن سے خداشناسی اور معرفت الہی حاصل ہو، بہت بہت لمبے وقفے کے بعد پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے آپ کو اثناء زمانہ مبارکہ اقامت قادیان دارالامان (۱۹۱۹ء تا ۱۹۳۸ء) بیس سال تک متواتر دیکھنے کا موقع ملا.1919ء میں میری عمر سات آٹھ سال تھی.اور آپ اس وقت کمال عالم شباب میں تھے.اس وقت سے لے کر جب تک کہ میں نو جوان ہو کر براہ راست آپ کے حلقہ شاگردی میں داخل نہ ہوا.مجھے عام طور پر اپنے ماحول ( احمدی و غیر احمدی) سے یہی سننے کا موقع ملا کہ آپ بہت بڑے عالم اور بہت نیک و بزرگ سید آل رسول ہیں.بچپن کے زمانہ میں دیکھنا یا نہ دیکھنا میرے خیال میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا.اس لئے ان ایام کی یادداشتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس وقت کے کچھ حالات لکھتا ہوں جب نوجوانی کی عمر میں براہ راست آپ کی شاگردی میں داخل ہو کر اور نہایت اچھی طرح اور گہری نظر سے آپ کو دیکھنے اور آپ سے فیوض حاصل کرنے کا موقع ملا.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِالله
۵۰۸ ۱۹۲۷ء تک آپ مدرسہ قادیان کے مینیجر رہے.ان دنوں آپ کا مکان بھی مدرسہ احمدیہ کے احاطہ میں بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے سامنے بجانب شمال بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے باورچی خانہ کے ساتھ ملحق دو کچی کوٹھڑیاں تھیں.جہاں سے آپ مدرسہ احمدیہ میں پڑھانے یا نمازوں کے لئے مسجد میں جانے کے لئے تشریف لاتے تھے.اور ہم بوجہ مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پانے کے اکثر آپ کو دیکھتے تھے دائیں بائیں جھانکنا آپ کا طریق نہ تھا.ایسے معلوم ہوتا تھا کہ آپ کسی کی طرف دیکھتے نہیں گو بچپن کی عمر بے پرواہی کی عمر ہوتی ہے مگر اس وقت بھی ہم ( طلباء مدرسہ احمدیہ ) آپ کو کسی طرف سے آتے ہوئے دیکھ کر آپ کی بزرگی کے احساس کے باعث بالکل خاموش ہو جاتے تھے..حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے سفر یورپ سے واپس آنے اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد ۱۹۲۸ء میں مدرسہ احمدیہ کی مولوی فاضل و مبلغین جماعتوں کو الگ کر کے جامعہ احمدیہ قائم کر دیا اور آپ کو جامعہ احمدیہ کا پرنسپل مقرر فرما دیا.اور آپ ریٹائر ہونے تک اسی عہدہ پر سرفراز رہے.جامعہ احمدیہ کے قائم ہونے کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی.اور آپ نے اپنا پختہ مکان دارالانوار کی طرف جانے والی سڑک پر خرید لیا اور مدرسہ احمدیہ کے کچے کوٹھوں سے اس میں منتقل ہو گئے.چونکہ آپ مدرسہ احمدیہ میں اعلیٰ جماعتوں کو ہی پڑھایا کرتے تھے.اس لئے مدرسہ احمدیہ میں ہمیں آپ سے کچھ پڑھنے کا موقع نہیں ملا.۱۹۲۹ء میں ہم بھی مدرسہ احمدیہ سے ساتویں جماعت پاس کر کے جامعہ احمدیہ میں پہنچ گئے.اور مولوی فاضل کلاس کا پہلا سال (درجہ اولی ) پاس کر کے آج سے بتیس سال قبل ۱۹۳۰ء میں براہ راست آپ کی شاگردی میں داخل ہوئے.مولوی فاضل کے اس درجہ ( ثانیہ ) میں آپ ہمیں منطق و فلسفہ پڑھایا کرتے تھے.اس زمانہ میں مولوی فاضل کلاس ایک پین یا پل صراط ہوا کرتی تھی.جہاں یک سالہ، دو سالہ ، سہ سالہ اور چہارم سالہ طالب علم بھی موجود ہوتے تھے کیونکہ نصاب مولوی فاضل یا پنجاب یونیورسٹی کے مخنین اصحاب ہی کچھ ایسے واقع ہوئے تھے کہ کسی طالب علم کا پہلے سال کامیاب ہو جانا ایک غیر معمولی اتفاقی بات سے کم شمار نہیں کیا جاتا تھا.مولوی فاضل کلاس پہلے سال میں ہمارے منطق و فلسفہ کے استاد حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل مرحوم اور حضرت مولوی ارجمند خان صاحب فاضل تھے.مدرسہ احمدیہ میں تو گزشتہ سات سال کے عرصہ میں اس کا ایک حرف بھی نہ پڑھا تھا.اب جامعہ احمدیہ میں آتے ہی اس کی دلدل میں پھنس گئے.ہمارے مولوی فاضل کے امتحان میں فیل ہونے والے اکثر نوجوان طالب علم منطق وفلسفہ اور انشاء ( جواب مضمون به زبان عربی کے ) مضامین میں ہی فیل ہوتے تھے.انشاء میں کامیاب ہونے کا زیادہ تر انحصار صرف ونحو اور علم
۵۰۹ مفردات یعنی خزینۂ الفاظ (VOCAVBULARY) پر ہے.اور عربی صرف و نحو با وجود نہایت آسان ہونے کے ہمارے ملک میں ایک بلاء یا ابتلاء بتلائی جاتی ہے.اور اس کی تعلیم کے لئے کتابیں بھی وہ منتخب کی جاتی ہیں جو گزشتہ زمانہ کے علماء کرام نے اپنا خشک علم جتلانے یا علماء کے لئے بطور خلاصہ یا معجزن مرکب کے لکھی ہیں اور نو عمر طالب علموں کے ساتھ ان کا دور کا بھی تعلق نہیں.گزشته علم منطق و فلسفہ بھی ایک خشک علم ہے جس کا وجود ومشہود سے یا موجودہ زمانہ سے کوئی تعلق نہیں.پھر اس کلاس میں منطق و فلسفہ کی وہ کتابیں تھیں جو شیخ ابو علی سینا ء نے بطور اشاروں کے لکھی ہیں اور اشاروں کو صرف گونگا سمجھ سکتا ہے یا گونگے کی ماں یا حد درجہ کے زیرک انسان.عوام اشاروں سے مستفید نہیں ہو سکتے اور نہ اشارات کلام کا کام دے سکتے ہیں.یہ خشک اور غیر مستعمل علم حضرت مولوی صاحب کے بوجہ اس کا بہت بڑا مسلمہ عالم ہونے کے سپر د تھا.اور یہ ہماری سمجھ سے بالا تھا.اور بالا ہونا چاہئے تھا کیونکہ کسی علم کی انتہائی کتب پڑھنے سے پہلے اگر اس علم کی کوئی شد و بود بھی نہ ہو تو وہ علم یقیناً عالم طالب علموں کی سمجھ سے بالا اور وبال جان ہوگا.مگر آپ بڑے استقلال اور بڑی تفصیل سے پڑھایا کرتے تھے.اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ اس علم کی بلند فضاؤں میں پرواز کر رہے ہیں اور پڑھاتے پڑھاتے ہمیں دیوبند، دہلی، لاہور وغیرہ کے مدارس و مساجد اور کشمیر ، ہزارہ اور کاغان کے پہاڑوں کی چوٹیوں اور چشموں اور وادیوں کی سیر اور پرندوں کی شناخت بھی ساتھ ساتھ کروار ہے ہیں.یقیناً عجیب تھا وہ زمانہ ! اور عجیب تھے وہ دن !! کالجوں میں چونکہ طالب علموں پر بوجہ ان کے نوجوان باشعور اور اپنے نفع و نقصان سے واقف ہونے کے جم کر بیٹھے رہنے یا استاد کی اجازت کے بغیر باہر نہ جانے کی پابندی نہیں ہوتی صرف حاضری لگوانا ہی ضروری ہوتا ہے.اس لئے عام طور پر اس منطق و فلسفہ کی بلاء سے نجات پانے کے لئے کلاس آہستہ آہستہ مدھم پڑ جاتی تھی.مگر آپ کے پائے استقلال میں کوئی جنبش نہیں آتی تھی.خود آپ کو بھی احساس تھا کہ اس مضمون میں فیل ہونے میں طالب علموں کا اس قدر قصور نہیں جتنا اس کے بہت طول طویل مقررہ نصاب اور متحنین کی خشک دماغی اور ہچو ما دیگرے چیست والی ذہنیت ہے.مگر آپ چاہتے تھے کہ ناممکن کو مکن کر دکھا ئیں.ایک دفعہ آپ نے فرمایا ”میاں ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے شاگردوں کو کس قدر منطق و فلسفہ آتا ہے.میں تو یہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ اے خداوند کریم جو طالب علم میری کلاس میں حاضر رہتے ہیں اور کلاس چھوڑ کر باہر نہیں جاتے تو ان کو ضرور بالضرور اپنے فضل سے پاس کر دے.اور خداوند کریم میری یہ دعا قبول کر لیتا ہے.اور ان کو جو غیر حاضر نہیں ہوتے پاس کر دیتا ہے.اور تم بے شک خود اس کا تجربہ کر کے دیکھ لو.“
۵۱۰ میں نے آپ کی یہ نصیحت یا موعظ یا درکھی.اور آپ کے وقت میں حتی الوسیع کلاس سے نہ کھسکا کیا ( گو ہمارے دوسالہ یاسہ سالہ دوست شاید بوجہ ان کتابوں پر عبور رکھنے کے اس وقت باہر جا کر ملحقہ گراؤنڈ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں کرکٹ سے بھی تسلی پایا کرتے تھے ) اور میں بھی آپ کی دعا کی برکت سے ہی پہلے سال ہی پنجاب یونیورسٹی کے مولوی فاضل کے امتحان میں کامیاب ہو گیا اور اس وقت مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی تاریخ میں سب سے چھوٹی عمر کا طالب علم تھا جس نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کر لیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ * آپ کی دعا کی برکت سے ان ایام میں مجھے اخویم مولوی تاج دین صاحب سیالکوٹی فاضل بصورت ایک نہایت ہی شفیق و محب کے مل گئے.جن کی راہنمائی سے میں نے ”قطبی“ اور مفصل“ وغیرہ کو پڑھا.پھر تہذیب واشارات اور سُلَّمُ العلُوم کو بھی امتحان سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل ( تا کہ امتحان سے پہلے بھول نہ جائیں ) زبانی حفظ کیا.یقیناً اگر آپ کی دعا ئیں نہ ہوتیں تو میرے جیسے ایک کم عمر طالب علم کا منطق وفلسفہ اور انشاء وغیرہ مضامین میں کامیاب ہو جانا ناممکن تھا.فَجَزَاهُمَا اللَّهُ اَحْسَن الجَزَاء مولوی فاضل کے امتحان کے لئے میں نے اپنا سنٹر مجبوراً تبدیل کر لیا تھا.جس سنٹر میں میں نے امتحان دیا.اس میں چند بڑی بڑی ڈاڑھیوں والے اور مجھ سے عمر میں بہت بڑے سرحدی ملاں بھی مولوی عالم ومولوی فاضل کے امتحان دے رہے تھے.ایک دن ان سے ہال امتحان میں داخل ہونے سے پہلے رہا نہ گیا.اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کون سا امتحان دے رہے ہیں؟ میں نے کہا مولوی فاضل کا ! کہنے لگے کیا آپ نے مولوی کا امتحان پاس کر لیا تھا؟ میں نے کہا نہیں ! کہنے لگے کیا آپ نے مولوی عالم کا امتحان پاس کر لیا ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں! کہنے لگے آپ پہلے دو امتحان پاس کر لینے کے بغیر کیسے مولوی فاضل کا امتحان دے رہے ہیں.میں نے کہا.یونیورسٹی کی طرف سے اجازت ہے.پہلے مولوی یا مولوی عالم کا امتحان پاس کرنا اخویم چوہدری صاحب محرر مضمون ہذا خاکسار کے ہم جماعت ہیں.گر مجھے یہ یاد نہیں کہ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا تھا یا نہیں لیکن میں شاہد ہوں اس بات کا کہ مجھے منطق وفلسفہ کے سارے نصاب میں سے شاید ہی مجموعہ دو تین صفحات یاد ہوئے ہوں اور اس وجہ سے میں ایک سال تاخیر سے امتحان دینے کا بھی عزم کر چکا تھا لیکن پھر امتحان دیا اور میں حیران ہوں کہ اس پر چہ میں کس طرح کامیاب ہو گیا بلکہ ساری یونیورسٹی میں سوم آیا.البتہ یہ درست ہے کہ میں جماعت سے یا حضرت مولوی صاحب کے تدریس کے وقت غیر حاضر نہیں ہوتا تھا.(مؤلف)
۵۱۱ شرط نہیں.کہنے لگے کیا آپ کامیاب ہو جائیں گے؟ میں نے کہا انشاء اللہ ! اس پر وہ ہنس پڑے.اور ایک صاحب نے کہا ہمیں تو امید نہیں! میں نے جواب دیا.وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ هُ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرای ۳۵ اس وقت بوجہ امتحان کا وقت ہو جانے کے ہال کے دروازے کھل گئے اور ہم اپنی اپنی جگہوں پر چلے گئے اور کوئی بات نہ ہوئی.چند دن کے بعد امتحان ختم ہو گیا.اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ان بیچاروں میں.سوائے ایک کے اور کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا اور میں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے کامیاب ہو گیا.ہماری مولوی فاضل کلاس بہت بڑی کلاس تھی.اس میں بائیں طالب علم تھے.جن میں سے سولہ کامیاب ہو گئے.اور اخویم مکرم ملک صلاح الدین صاحب ( مؤلف اصحاب احمد ) ہم میں اول آئے اور پھر انگریزی زبان کی طرف منتقل ہو گئے اور پھر ایم.اے بن گئے.جامعہ احمدیہ قادیان جس عمارت میں کھولا گیا تھا.وہ ایک کو ٹھی تھی جس میں خلافت اولی کے ایام میں کسی زمانہ میں صالح اور نیک ارادہ رکھنے والے احمدی مولوی محمد علی صاحب ایم.اے سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ قادیان رہا کرتے تھے.اس کے تین چار پختہ کمروں کے علاوہ اس کے اردگرد قلعہ کی چاردیواری (فصیل) کی طرح ان کے نوکروں چاکروں اور جانوروں کے لئے کچی کوٹھڑیاں تھیں جو بوجہ مرور زمانہ دیمک وغیرہ کا شکار ہو کر خراب خستہ ہو چکی تھیں اور نہایت ہی برا منظر پیش کرتیں تھیں.ان کو گرانے اور جگہ صاف کرنے کا کام ہمارے اور ہمارے دوستوں کے حصہ میں آیا.اور جامعہ احمدیہ کی کچھ شکل وصورت نظر آنے لگی.پھر اس کے بعد ہمارے حضرت مولوی صاحب کی زیر نگرانی و ہدایت جامعہ احمدیہ کی روشیں اور گیٹ وغیرہ بن کر حقیقتہ جامعہ احمدیہ ایک دینی کالج کی حیثیت اختیار کر گیا.اور پھر اس کا الحاق بھی پنجاب یونیورسٹی سے منظور ہو گیا.آپ نے جب ہماری کلاس کا اپنے مضمون (منطق و فلسفہ ) سے شغف دیکھا اور خود کلاس بھی ان سب کلاسوں سے بڑی تھی جو آپ کی شاگردی میں اس وقت تک آئی تھیں.اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب استاد کے سامنے بہت سے جوان شاگرد بیٹھے ہوں تو اس وقت اسے جو لطف ان کو پڑھانے میں آتا ہے وہ اس صورت میں کبھی حاصل نہیں ہوتا.جب صرف ایک یا دوشاگرد اس کے سامنے طوعا یا کر ہا بیٹھے ہوں.اس لئے آپ نے ہمارے شغف کو دیکھ کر مقررہ نصاب پورا کر دینے کا عزم صمیم فرمالیا.( کیونکہ اس وقت سے پہلے کبھی نصاب ختم نہیں ہوا کرتا تھا) اور باوجود اپنے دیگر جماعتی اہم مشاغل کے آپ ہمیں زائد وقت بھی اپنے مکان پر تعلیم دیتے رہے اور آپ نے اس قدر جد و جہد فرمائی کہ امتحان سے پہلے ہی نصاب ختم کرا دیا.آپ کی اس بے لوث جد و جہد سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کو اپنے عزیز شاگردوں کی بہتری کا کس قدر خیال تھا.فَجَزَهُ اللهُ
۵۱۲ عَنَّا اَحْسَن الجَزَاء كلاس سے غیر حاضر نہ ہونا اور نہایت توجہ اور جاں فشانی سے پڑھانا بھی آپ کا طرہ امتیاز تھا ( جس کی دوسری زندہ مثال ہمارے بزرگ استاد حضرت مولوی ارجمند خان صاحب فاضل بھی ہیں ) جب ہم ۱۹۳۱ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کر کے مبلغین کلاس میں داخل ہوئے تو اس وقت بھی ہماری کلاس سب سے بڑی مبلغین کلاس تھی یعنی تیرہ چودہ نو جوانوں پر مشتمل تھی.ہم میں سے چند ایک مستحق طلباء کوصدرا انجمن احمد یہ قادیان کی طرف سے اس وقت پورا وظیفہ ( یعنی بارہ روپیہ ماہوار) اور چند ایک کو نصف وظیفہ ملتا تھا اور بعض کو اپنے خرچ پر اس شرط پر مبلغین کلاس میں داخل ہونے اور تعلیم حاصل کرنے کی پر اجازت دی گئی تھی کہ آخری فیصلہ یا حقیقی امتحان مبلغین کلاس کا آخری امتحان ہوگا.جو نظارت تعلیم و تربیت خود لے گی.اس آخری امتحان میں جو طالب علم کا میاب اور قابل ترین ثابت ہوں گے ان میں سے حسب قاعدہ مقررہ تعداد یعنی تین کو صدرانجمن احمد یہ بطور با تنخواہ مبلغین رکھ لے گی.باقی مبلغین کلاس پاس علما ء اپنے مستقبل کے متعلق خود مختار ہوں گے.ہماری مبلغین کلاس میں آپ کا مضمون تفسیر قرآن شریف اور اس سے متعلقہ مضامین تھے جن کا نام دینیات (یا علمی اصطلاح میں الہیات) رکھا جاسکتا ہے.مثلاً جمع قرآن ، ترتیب قرآن ، اعجاز قرآن ، فضائل قرآن، ناسخ و منسوخ ، قرآن مجید کی آیات پر مخالفین اسلام کے اعتراضات کے جوابات ،اصول تفسیر القرآن اور تین پرانی تفاسیر ( کبیر امام رازی، در منثور جلال الدین السیوطی اور کشاف زمخشری) کے سوسو دو دوسوصفحہ کا مطالعہ وغیرہ.آپ ہمیں دو سال تک یہ مضامین پڑھاتے رہے.قرآن مجید خود کلمات اللہ ہے اور کلمات اللہ کبھی ختم نہیں ہو سکتے.خواہ سارے جہان کے درخت قلمیں بن جائیں اور کائنات عالم کا سارا پانی اور اس کے ساتھ اس جیسے سات اور پانی (سمندر اور اس کے توابع) سیاہی بن جائیں ! اور ایک ایسی کتاب ہے جس کی بے شمار تفسیر میں اس وقت تک لکھی جاچکی ہیں.علاوہ ازیں آپ خود قرآن مجید کے ایک ایسے محقق تھے کہ ایک ایک حرف اور آیت پر برسوں غور کیا ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ عنہ کی صحبت بھی پائی ہوئی تھی.اور وہ مشہور پانچ آیتیں بھی جن کے متعلق حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب مجد دمحدث دہلوی نے اپنے رسالہ الفَوْزُ الْكَبِیرُ میں یہ صراحت سے لکھا ہے کہ یہ منسوخ ہیں.وہ بھی آپ نے ہمیں بڑی تفصیل سے غیر منسوخ ثابت کر کے دکھلائیں.اور جن اصحاب کو خوش بختی سے مسجد اقصیٰ قادیان دار الامان میں آپ کے درس قرآن شریف کو کبھی سنے کا موقع ملا ہو گا.وہ خوب جانتے ہیں کہ مقررہ وقت ختم ہو جایا کرتا تھا لیکن آپ کی تفسیر کا ابھی تھوڑا سا حصہ بھی ختم نہیں ہوا کرتا تھا.پھر دو سال میں اور روزانہ دو گھنٹوں یعنی چالیس
۵۱۳ پچاس منٹ میں سارے قرآن شریف کی تفسیر کب مکمل ہو سکتی تھی لیکن آپ کا عقد ہمت اور عزم ایسا تھا کہ آپ تفسیر اور اس سے متعلقہ مضامین پڑھاتے رہتے تھے لیکن باوجود بسیار کوشش اور جدو جہد کے آپ ہمیں دو سال کے عرصہ میں سورہ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کے صرف چھپیں رکوع یعنی دوسو دس آیتوں کی تفسیر ہی پڑھا سکے، ہمارا دل بھی چاہتا تھا کہ آپ ہمیں سارے قرآن شریف کی تفسیر پڑھا دیں ( بلکہ جب میں بلاد عربیہ میں تھا تو اس وقت بھی میری یہ تمنا تھی کہ واپس جانے پر آپ سے پھر تفسیر پڑھوں گا مگر مرضی کمولی از ہمہ اولی ) اور آپ کی بھی یہی خواہش تھی مگر سمندر کوزہ میں کیسے بند ہوسکتا تھا ؟ اور غیر محدود حقائق و معارف اپنے اندر رکھنے والی کتاب دو سال کی (جن میں دس ماہ کی عام و خاص تعطیلات ہوتی ہیں ) روزانہ دوگھنٹیوں میں کس طرح ختم ہو سکتی ہے؟ اس لئے آپ نے ہمیں ساتھ ساتھ بعض ایسے اصول و پر حکمت قواعد بتلائے جن کی مدد سے اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت بھی شامل حال ہو تو سارے قرآن شریف کی تفسیر کی جاسکتی ہے.مثلاً قرآن شریف میں حضرت مسیح عیسی ابن مریم کے متعلق اللہ تعالى ك تَبْرِيُّ الْأَكْمَهَ وَالْاَبْرَسَ فرمانا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کے متعلق فَهُوَ يَشْفِينِ فرمانا نیز اللہ تعالیٰ کا شہد کے متعلق فِيهِ شِفَاء لِلنَّاس اور قرآن مجید کے متعلق شِفَاء لِلْمُؤمِنِین اور شِفَآءٌ لِمَا فِي الصُّدُور فرمانا اور حضرت مسیح کے ذکر میں کسی جگہ بھی شفاء کا ذکر نہ کرنا بلکہ ابراء ( بری کرنا ، الزام سے نجات دینا ) فرمانا اور توریت کا اندھوں اور مبر وصوں کو مجرم قرار دینا اور ان سے چھوت چھات کرنے کا حکم دینا ہر جگہ استعمال کرنا بتلا رہا ہے کہ ابراء اور شفاء دو علیحدہ علیحدہ لفظ ہیں اور حضرت مسیح ابراء کرتے تھے نہ کہ اندھوں کو آنکھیں دیتے پھرتے تھے وغیرہ.اثناء تعلیم میں تو بحر قلزم کی دلدلیں اور مد و جز ریا دریائے نیل کا ہی دوٹکڑے ہو جانا ، من و سلوی کا نزول ، وَاذْقَتَلْتُمُ نَفْسًا فَادَّارَأَتُمُ فِيهَا ، مقطعات و حکمات اور متشابہات پر ہی کئی کئی دن صرف کرنے لا بدی تھے.پھر اس کے ساتھ تجوید و ترتیل القرآن کے قواعد بھی آجاتے تھے ( کیونکہ تجوید القرآن بھی تفسیر القرآن کے ساتھ ہی متعلق تھا) اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ ”میاں اکثر لوگوں کو تو سورۃ فاتحہ بھی پڑھنی نہیں آتی.وہ پڑھتے ہیں.بِسمِ الا.هِـرَّحُمَا نِرَّحِیم حالانکہ یہ تینوں لفظ عربی کے لحاظ سے غلط ہیں.نہ بِسمِلا عربی کا لفظ ہے نہ هِرَّ حُمَاعربی کا لفظ ہے اور نہ نِرَّحِیم.پھر پڑھتے ہیں.اھدِنَا الصِّرَاطَلُ مُسْتَقِيمَ حالانکہ صِرَاطَلُ عربی کا لفظ نہیں.الصِّرَاط علیحدہ لفظ ہے اور المُسْتَقِيمَ علیحدہ لفظ ہے.اور دونوں لفظوں کو اکٹھا ملانا چاہئے.درمیان میں وقفہ نہیں ہونے دینا چاہئے تا غلط نہ ہوں.اور خود بڑے اطمینان سے سورہ فاتحہ کی تلاوت فرما کر عامة الناس کی
۵۱۴ غلطیوں کی طرف توجہ دلاتے تا آپ کے شاگرد جو کسی دن عالم کا خطاب پائیں گے قرآن شریف کی صحیح تلاوت بھی کرسکیں.پھر کبھی فرماتے تھے.”میاں اگر " پچریں (حضرت مولانا یہ لفظ استعمال فرمایا کرتے تھے ) نہ لگائی جائیں تو قرآن شریف پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا.اور اپنے شاگردوں کو مخالفین اسلام اور مخالفین احمدیت علماء کی بعض ” پچروں کی مثالیں بھی دے کر سمجھایا کرتے تھے.مثلاً قصہ آدم و ملائکہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف فرشتوں سے مشورہ کرنے کی پیچر لگانا.اور شُبَهَ لَهُمُ میں کسی غیر مذکور شخص کی طرف ضمیر کو پھیر نا حالانکہ اِضْمَارِ قَبْلَ الذِكر سب کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے.وغیرہ الغرض آپ نہ صرف منطق و فلسفہ کے ہی عالم تھے بلکہ قرآن شریف کے بھی متبحر عالم تھے اور اسی لئے تفسیر القرآن سے بھی آپ کو حصہ وافر ملا تھا.اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر کیا کہ ہم آپ سے نہ صرف خشک علم منطق و فلسفہ ہی کی تعلیم پائیں.بلکہ دنیا میں حقیقی علم قرآن شریف سے بھی حصہ وافر پائیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ ☆ رَبِّ الْعَالَمِينَ * صرف و نحو، علم حدیث اور علم فقہ ( جو در حقیقت علم قرآن اور علم حدیث اور بوقت ضرورت استعمال عقل (استنباط ) کا ہی دوسرا نام ہے ) پر بھی آپ کو ایسا کامل عبور تھا کہ سلسلہ احمدیہ کے سب مخالف علماء بھی ان علوم میں آپ کے تبحر کے قائل تھے.جامعہ احمدیہ میں آپ کو جو فارغ وقت ملتا تھا وہ بھی آپ قرآن مجید پر غور کرنے یا حفظ کرنے میں ہی صرف فرماتے تھے ہاتھ میں عموماً ایک چھوٹا سا ( مصر میں طبع شدہ) قرآن مجید ہوتا.جس کی آپ نے بہت اچھی جلد کروائی ہوئی تھی.اور آپ چہل قدمی کرتے ہوئے اس میں تدبر کر رہے ہوتے.بہشتی مقبرہ کو روزانہ تشریف لے جاتے اور آتے جاتے بھی راستہ میں قرآن مجید پر ہی ( جو عموماً آپ کے ہاتھ میں ہوتا ) تذبر ہورہا ہوتا.چونکہ آپ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے.اس لئے آپ کو نہ صرف جامعہ احمدیہ کے سب اساتذہ کرام کے ہی ہر طرح اطمینان و ترقی کا خیال ہوتا بلکہ اپنے شاگردوں کی بھی ترقی کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے.اور مجھے امید نہیں کہ آپ کے کسی شاگرد یاما تحت کارکن نے آپ سے کوئی سفارش چاہی ہو اور آپ نے کرنے سے حتی الوسع ۱۹۳۴ء کے سالانہ امتحان میں میں دینیات کے مضمون میں اول آیا.اور ناظر تعلیم و تربیت حضرت میرزا بشیر احمد صاحب کے دستخط سے نظارت کی طرف سے مجھے بطور انعام کتاب چشمہ معرفت ملی جواب تک میرے پاس بطور تبرک محفوظ ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محمد شریف )
۵۱۵ دریغ کیا ہو یا آپ اپنے کسی شاگرد یا ما تحت کارکن کی کوئی کسی قسم کی بھلائی کر سکتے ہوں اور آپ نے اس میں تخلف کیا ہو.جب میری تالیف کردہ اسلام کی پہلی کتاب اور اس کے بعد اسلام کی دوسری کتاب شائع ہوئی تو آپ نے ایک دن خود اخویم مکرم مولوی عنایت اللہ صاحب مرحوم و مغفور ( مالک نصیر بک ایجنسی قادیان ) کو جنہوں نے انہیں شائع کیا تھا.فرمایا کہ مولوی صاحب مجھے اسلام کی پہلی اور دوسری کتاب لا کر دینا، میں ان پر تبصرہ لکھ کر دوں گا.چنانچہ انہوں نے دونوں کتابیں آپ کی خدمت میں مسجد مبارک میں پیش کیں اور آپ نے مسجد مبارک میں ہی ملا حظہ فرما کر بیٹھے بیٹھے جبکہ آپ حسب دستور نماز با جماعت کا انتظار کر رہے تھے ، تبصرہ لکھ کر مولوی عنایت اللہ صاحب کو عنایت کر دیا اور یہی وہ حوصلہ افزائی کی روح ہے جس سے نو جوان ترقی کی طرف جلد جلد قدم بڑھا سکتے ہیں.فَجَزَاهُمَا اللهُ اَحْسَن الجَزَاء اور ہماری کلاس کا تو آپ کو خاص خیال رہتا تھا اور ہم سے ایسی محبت و شفقت اور عزت کے ساتھ پیش آتے تھے کہ آپ پر جاں شمار کرنے کو دل چاہتا تھا.آپ کے منہ سے کبھی کوئی لغو کلمہ یابات سننے کا اتفاق نہیں ہوا.اور نہ آپ کا کوئی شاگرد بوجہ آپ کی غیر معمولی خدا داد عزت اور ہیبت تقویٰ کے آپ کے ساتھ بے تکلف دیکھا گیا بلکہ کلاس میں بھی کوئی سوال و جواب کرتے نہیں دیکھا گیا.اور الطَّرِيقَةُ كُلُّهَا اَدَب پر خود بخود عمل ہوتا تھا.فَسُبْحَانَ اللَّهِ أَحْسَنِ الْخَالِقِينَ ۱۹۲۹ء میں علامہ حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ وارضاہ کی وفات کے بعد مفتی سلسلہ احمدیہ کا منصب بھی ، حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف سے آپ کو عطا فرما دیا گیا تھا.اس لئے آپ ان ایام میں جب ہم آپ سے مبلغین کلاس میں تعلیم پاتے تھے جو مسائل بغرض استفتاء آتے ہمیں بھی یہ کام سکھلانے کے لئے یا بہ لفظ دیگر تعلیم دینے کے لئے بغرض جواب عطا فرماتے.اور ساتھ ہی راہنمائی بھی فرماتے اور کہتے.”میاں !فلاں کتاب دیکھ لینا اور اس کے بعد جواب لکھ کر مجھے دینا.سبحان اللہ کیا نیک روح تھی.پھر جب جواب لکھ کر پیش کیا جاتا اور آپ اسے بغور ملاحظہ فرماتے اور وہ درست ہوتا تو آپ بہت خوشی کا اظہار فرماتے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تعلیم دینے اور وسعت نظر پیدا کرنے کا یہ بھی ایک نہایت عمدہ طریق ہے کہ شاگرد اپنے استاد کی راہنمائی اور نگرانی میں بھی کام کر کے تجربہ حاصل کرے.انہی ایام میں جب ہم جامعہ احمدیہ کی مبلغین کلاس ( درجہ ثالثہ ورابعہ ) میں تعلیم پاتے تھے یہ مسئلہ بھی زیر بحث تھا کہ کیا امام الصلوۃ جب اپنے مقتدیوں کو نماز پڑھا رہا ہو.اثناء نماز اپنی زبان میں بلند آواز سے دعائیں بھی مانگ سکتا ہے؟ چونکہ ہمارے محلہ دار الرحمت میں حضرت حافظ صوفی غلام محمد صاحب بی.اے رضی اللہ عنہ سابق مبلغ ماریشس امام الصلوۃ تھے اور وہ ایسی دعا ئیں بھی نماز میں جماعت کرواتے وقت بلند آواز سے کرتے تھے.یا الہی ہمارے تمام امتحان دینے والے طالب علموں کو امتحان میں کامیاب کر دے وغیرہ وغیرہ.اس لئے
۵۱۶ یہ مسئلہ خاص دلچسپی کا موجب بن گیا تھا.استاذی المکرم حضرت مولوی صاحب نے مجھے اس کے متعلق تحقیق کرنے کا ارشا د فر مایا اور میں نے آپ کی خدمت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد پیش کیا کہ سوائے ان دعاؤں کے جو قرآن شریف میں ہیں اور وہ دعائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں اور کوئی دعا امام الصلوۃ اپنی زبان میں بالجبر ( بلند آواز سے ) نہیں کر سکتا.اس پر آپ بہت خوش ہوئے اور پھر وقتا فوقتاً مجھے استفسارات کا جواب لکھنے کی سعادت عطا فرماتے رہے.فَجَزَا اللَّهُ أَحْسَن الجَزَاء مبلغین کلاس میں اثناء تدریس آپ ہمیں بعض ایسے امور کی طرف بھی توجہ دلایا کرتے تھے.جو من حیث المجموع ہماری لئے ضروری مفید اور ہماری علمی ترقی کا موجب ہوں.چنانچہ ایک دفعہ فرمایا.میاں ( آپ اپنے شاگردوں کو کلاس میں عموماً اسی لفظ سے مخاطب فرمایا کرتے تھے ) ایک مبلغ صرف مبلغ ہی نہیں ہوا کرتا.وہ اپنی جگہ پر مفسر بھی ہوتا ہے.وہ محدث بھی ہوتا ہے اس لئے ان سب علوم کی اسے پوری واقفیت ہونی چاہئے.اگر وہ واقفیت حاصل نہیں کرے گا تو اگر اس سے کوئی کسی آیت کی تفسیر پوچھے گا یا کسی حدیث کا مطلب یا کوئی مشکل مسئلہ پیش کر کے اس کا حل چاہے گا تو وہ کیا کہے گا کہ میں تو مبلغ ہوں مرکز کو لکھتا ہوں.وہاں سے جواب آنے پر بتلاؤں گا اور خدا جانے کہ وہ مرکز سے کتنی دور ہو.اور جواب اس کو وقت پر پہنچ بھی سکے یا نہ پہنچ سکے.“ آپ کا یہ ارشاد آب زر سے لکھنے کے قابل ہے اور اگر دینی امور میں بخل جائز ہوتا تو میں یہ بات کبھی بھی یہاں نہ لکھتا.آپ کے اس ارشاد نے مجھے اس قدر فائدہ دیا ہے کہ میں وہ الفاظ نہیں پاتا.جن سے آپ کا شکر یہ ادا کر سکوں.صرف یہی کہتا ہوں اَللَّهُمَّ اجْزِهِ عَنَّا أَحْسَنَ الْجَزَاءِ وَارْفَعُ دَرَجَاتِهِ بِالْجَنَّةِ ہاں نہ صرف یہ کہ کتابی علوم اور نظارت تعلیم و تربیت صدر انجمن احمد یہ قادیان کے مقرر کردہ نصاب کا پڑھانا آپ کا مح نظر یا مقصود نہ ہوتا.بلکہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی روایات اور خاص امتیازات کا بھی آپ کو خاص خیال رہتا تھا.اثناء تدریس کبھی آپ فرماتے.”میاں ! اب صرف سرور شاہ ہی ایک ایسا آدمی باقی رہ گیا ہے جس کے پیچھے اس دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نمازیں پڑھتے رہے ہیں.اور اس بات کے بیان کرنے کے وقت آپ کا چہرہ خوشی سے گلاب کے پھول کی طرح سرخ نظر آیا کرتا تھا.ایں تا سعادت بزور بازو نیست بخشد خدائے بخشنده
۵۱۷ کبھی فرماتے جب حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ( ایدہ اللہ تعالیٰ ) ابھی بچے ہی تھے اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں تعلیم پاتے تھے اور میں بھی مدرسہ تعلیم الاسلام میں پڑھایا کرتا تھا.اس وقت میں نے خواب دیکھا (جس کا مفہوم یہ ہے خواب میں کشتی وغیرہ بنانے اور اس کا ناخدا نے کا ذکر تھا) کہ آپ کی بہت بڑی شان ہوگی.اس وقت سے لے کر آخر تک میں جب آپ والی کلاس میں جاتا.اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی وہاں موجود ہوتے تو میں کرسی پر نہیں بیٹھتا تھا بلکہ کھڑا ہو کر ہی پڑھایا کرتا تھا.اور اس بات کو سوء ادب خیال کرتا تھا کہ آپ کے سامنے کرسی پر بیٹھوں اور یہ خواب میں نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو انہی دنوں میں سنا دیا تھا اور کہا تھا کہ صاحبزادہ صاحب! اس وقت ہمارا بھی خیال رکھنا ہو اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خلافت ثانیہ میں بھی ہم نے تمام بزرگوں کو حضرت مولوی صاحب کا احترام کرتے دیکھا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو آپ سے خاص محبت و عزت واحترام کرتے پایا.حضور نے شروع سے لے کر آخر تک آپ کا خاص خیال رکھا اور نہایت اعزاز و تکریم کے ساتھ پیش آتے رہے اور متعدد مرتبہ آپ کو اپنی غیر حاضری میں قادیان کا امیر مقررفرمایا اور بوقت ضرورت عموماً آپ کو امامت نماز کا بھی ارشاد فرماتے رہے.پھر آپ کبھی وہ باتیں زبانی بیان فرماتے جو آپ نے اپنے رسالہ ” کشف الاختلاف میں تحریر فرما کر شائع فرما دی ہوئی تھیں اور فرماتے کہ سب سے پہلے میں نے ہی ان باتوں کو خواجہ ( کمال الدین ) صاحب کے منہ سے سنا کہ ہم اپنی بیویوں کو کس طرح قناعت اور سادگی کی تعلیم دیں...او لنگر خانہ کی آمد وخرج وغیرہ پر اعتراضات...الخ کبھی فرماتے کہ مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب میرے شاگرد تھے.اور مجھ سے قرآن شریف پڑھتے رہے ہیں.جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قرآن شریف کی تفسیر لکھنی شروع کی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے مقبول ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسے بہت پسند فرمایا اور حضور کی زندگی میں رسالہ ”تفسیر القرآن کے نام سے شائع ہوتی رہی تو پہلے مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ رسالہ ”تفسیر القرآن علیحدہ شائع کرنے کی بجائے ریویو آف ریلیجنز کے ضمیمہ کے طور پر شائع کیا جایا کرے.اور اس طرح میری تفسیر ریویو آف ریلیجنز کے ساتھ بطور ضمیمہ شائع ہوتی رہی.پھر جب مولوی محمد علی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے.آپ حضرت خلیفہ مسیح ثانی کے لئے ”میاں صاحب یا ”میاں“ کے الفاظ استعمال نہیں فرمایا کرتے تھے.حضرت صاحب ، حضرت خلیفتہ اُسیح ثانی یا صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے.واللہ اعلم (محمد شریف)
۵۱۸ صاحب خود انگریزی میں تفسیر لکھنے لگے تو کہنے لگے کہ تفسیر مختصر ہونی چاہئے.پھر جب ان کے دلوں میں وسوسہ پڑ گیا اور اختلافی مسائل کا ذکر ہونے لگا.اور میرے خیالات کا ان کو اچھی طرح علم تھا تو پھر اور قسم قسم کی روکیں ڈالنے لگے اور تفسیر کو اور زیادہ مختصر کرنے پر زور دینے لگے اور میرے لکھے ہوئے مضمون میں دخل دینے لگے.تب میں نے کہا کہ مولوی صاحب ! اگر تفسیر القرآن کا ضرور ہی گلا گھونٹنا ہے تو پھر ایسی تفسیر لکھنے اور شائع کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ اس پر میں نے تغیر لکھنی بند کر دی!.“ آپ کی یہ تفسیر بھی خاکسار نے شروع سے لے کر آخر تک خدا تعالیٰ کے فضل سے پڑھی ہوئی ہے یہ تفسیر القرآن آٹھویں سیپارہ کے شروع تک ہے پہلے چار پانچ سیپاروں تک کی تفسیر نہایت مفصل اور جامع ومانع ہے اور حقائق و معارف کے سمندر اس میں موجزن ہیں.اور رسالہ ”تفسیر القرآن‘ کے سرورق پر جو آیت لکھی جاتی تھی.وَلَا يَاتُوْنَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِتُنكَ بِالْحَقِّ وَاحْسَنَ تَفْسِيرًا ٣٦ کی مصداق ہے.ایسے ایسے مسائل جو پیچیدہ شمار کئے جاتے ہیں.اس میں نہایت شرح وبسط سے ان پر بحث کر کے طالبان تفسیر القرآن پر ایک عظیم الشان احسان کیا گیا ہے.آخری دو تین سیپاروں سے حضرت مولوی صاحب کے ارشاد کی تصدیق ہوتی ہے.مزید برآں یہاں یہ لکھنا بھی نا مناسب نہ ہوگا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کی اردو تفسیر ترجمہ القرآن یعنی ”بیان القرآن کے دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جس قدر تفسیر القرآن اس کی اشاعت تک صدر انجمن احمد یہ قادیان پاره اول اردو و انگریزی از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور تفسیر القرآن از حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور ترجمۃ القرآن یعنی قرآن مجید کے پہلے اڑھائی پارے درمیانی دو پارے اور آخری سات سیپاروں کی تفسیر جو حضرت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ عنہ کے درسوں سے مرتب کی گئی ہے اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹرالحکم کی طرف سے شائع ہو چکی تھی.مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کی تغییر " ترجمۃ القرآن * * یعنی بیان القرآن بھی ان سیپاروں میں کچھ مفصل ہے مگر جو تفسیر اس کے علاوہ ہے وہ بہت ہی مختصر اور نہایت ہی مجمل ہے بلکہ بعض جگہوں پر تو عمد احضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کے خلاف بھی لکھا گیا ہے اور اپنی انگریزی تفسیر کے متعلق خود مولوی محمد علی صاحب نے اس کے آخری ایڈیشن کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ وہ نہایت ہی مختصر اور مجمل ہے اور بیان القرآن کے متعلق مثلاً یہ آیت سرورق رسالہ تفسیر القرآن جلدے نمبر ا بابت جنوری لغایت جون ۱۹۱۲ء پر درج ہے.(مؤلف) یہ نام بھی ( ترجمه القرآن ) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی نقل ہے رض
۵۱۹ لکھا ہے کہ اردو میں مفصل تفسیر ہے ( دیکھیں دیباچہ صفہ مطبوعہ ۱۹۵۱ء) مگر وہ مفصل بھی ہماری طرف سے شائع شدہ تفسیر کی ہی بدولت مفصل ہے.اور پہلے سیپارہ کی تفسیر میں تو مولوی صاحب کو بہت ہی کدوکاوش اور جد و جہد یا جان مارنی پڑی ہے کیونکہ نہ تو وہ صدرانجمن احمد یہ قادیان کی طرف سے شائع شدہ پارہ اول از قلم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تبصرہ العزیز کو بعینہ نقل کر سکتے تھے اور نہ اس پر کچھ اپنی طرف سے زیادتی کی طاقت رکھتے تھے.اس کے بالتقابل مولوی محمد علی صاحب کے خسر ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے آخری پارہ قرآن کریم ( عَمَّ يَتَسَاءَ لَونَ ) کی تفسیر ملاحظہ کرنے اور پھر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اس پارہ کی تفسیر کبیر پڑھنے سے حق کو شناخت اور ظاہری علم اور باطنی علوم و فیوض کو چشم خود دیکھا جاسکتا ہے.اور لا يَمَسَّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی تصدیق کی جا سکتی ہے.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي آرَانَا الْحَقَّ حَقًّا والْبَاطِلَ بَاطِلاً - بیعت خلافتہ ثانیہ کے حالات بھی آپ ہمیں تفصیل سے سنایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ پہلا (یا دوسرا شخص) جس نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی بیعت خلافت کی تھی وہ میں تھا.مجھے اب اچھی طرح یاد نہیں رہا.شاید فرماتے تھے کہ پہلے مولوی سید محمد احسن صاحب نے بیعت کی تھی اور پھر ان کے بعد میں نے ، اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ مولوی سید محمد احسن صاحب کے ان مضامین سے جو انہوں نے خلافت ثانیہ سے منحرف ہونے کے بعد لکھے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے ہی سب سے پہلے بیعت کی تھی.واللہ اعلم اور پھر میرے بعد جب مسجد (نور) کے ہر طرف سے ”میاں صاحب“ ”میاں صاحب“ کی آواز میں آنے لگیں اور لوگ بیعت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کوشش کرنے لگے تو حضرت صاحب نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا.”مولوی صاحب! مجھے تو بیعت کے الفاظ یاد نہیں آپ کہتے جائیں مسجد نور میں پہلی دفعہ بیعت خلافت ثانیہ کے انتخاب کے بعد اجتماعی ہوئی تھی نہ کہ انفرادی اور تمام حاضرین مسجد نور نے بیک وقت بیعت کی تھی.سید محمد احسن کا یہ کہنا کہ وہ اول المبایعین تھے.اس کا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے تقریر میں حضور ایدہ اللہ کے خلیفہ منتخب کرنے کو پیش کیا تھا.گویا ان کی تائید میں حضرت مولوی سرورشاہ صاحب نے بھی تائید میں کوئی بات کہی ہوگی.یہاں جو تفصیل درج ہے اس سے بھی ظاہر ہے اجتماعی بیعت ہی ہوئی تھی.(مؤلف)
۵۲۰ اور میں دہراتا جاؤں گا.چنانچہ میں بیعت کے الفاظ کہتا گیا اور حضرت صاحب دہرا کر بیعت کرنے والوں سے بیعت لیتے رہے.کبھی غیر مبایعین کے خلافت ثانیہ کی بیعت سے انحراف کے اسباب اور وسوسہ پڑ جانے کے موجبات کا ذکر فرماتے کبھی حضرت خلیفہ اُمسیح الاول رضی اللہ عنہ کے آپ سے تعلقات محبت وقرابت اور آپ کی نیابت میں درس قرآن بھی دیتے رہنے اور مسائل کا جواب لکھنے کا تذکرہ فرماتے کبھی دیو بند کا ذکر کبھی مباحثہ رامپور کے واقعات کبھی کوٹھ والے پیر صاحب کے حالات کبھی مباحثہ مد کے حالات کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آپ سے محبت اور قدردانی کا شیریں تذکرہ کبھی وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے.‘والا واقعہ جو لالہ چند ولال مجسٹریٹ کے تعلق میں سیرۃ المہدی حصہ اول مؤلفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب میں آپ کے ہی الفاظ میں درج ہے.(روایت ۱۰۴) بیان فرماتے.کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ ماموریت اور پھر سنت انبیاء کے مطابق ماموریت کی تشریح و تفصیل مجدد، محدث مثیل مسیح مسیح موعود یا مہدی معهود، کرشن اوتار، محمد مهدی ،ظل و بروزی و محمدی نبوت وغیرہ کا نہایت شرح وبط سے ذکر فرماتے.کبھی پنجگانہ نمازوں کی باقاعدہ ادائیگی کے متعلق ہمیں اس طرح ترغیب دلاتے کہ نماز سے زیادہ کوئی آسان عبادت نہیں.وضو ہاتھ منہ پاؤں وغیرہ ہی دھونے کا نام ہے اور یہ کون سا مشکل کام ہے؟ اگر پانی میسر نہ ہو تو تیم کیا جاسکتا ہے.اگر کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکیں تو بیٹھ کر پڑھی جاسکتی ہے.اگر زیادہ بیمار ہو اور بیٹھ نہ سکتا ہو تو لیٹے لیٹے ہی پڑھی جاسکتی ہے.اور بوقت ضرورت نمازیں جمع بھی کی جاسکتی ہیں اور خوف وخطر کے وقت چلتے چلتے بھی پڑھی جاسکتی ہیں.اور تہجد کے متعلق بڑے مشفقانہ انداز میں فرماتے کہ بڑی بابرکت ہے کم از کم دو رکعتیں ہی پڑھ لی جائیں.صبح کی نماز سے پہلے استغفار کا اچھا موقع ہوتا ہے.اگر تہجد نہ پڑھی جا سکے تو کم از کم کچھ استغفار ہی نماز فجر سے پہلے کر لیا جائے.کبھی فرماتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس قدر دلائل وفات مسیح پرہل سکتے تھے سب جمع کر دئے ہیں اور ہر لحاظ سے وفات مسیح کو ثابت کر دکھلایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد صرف ایک بات ہی نئی ملی ہے اور وہ خداوند کریم کے فضل سے مجھے ملی ہے اور وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا وہ خطبہ ہے جس میں انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے اعلان کیا.لَقَدْ قَبِضَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِى عُرِجَ فِيْهَا بِرُوحِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۳۷ کہ جس رات حضرت عیسی ابن مریم کی روح اٹھائی گئی.اسی رات آپ کی یعنی حضرت علی کی روح قبض کی گئی ( طبقات ابن سعد ) کبھی مناظرات میں ہماری راہنمائی کرنے کے لئے فرماتے.”میاں اصل مضمون کو ہاتھ سے نہیں جانے
۵۲۱ دینا چاہئے.اور اسی پر ہی ساری توجہ مرکوز رکھنی چاہئے.جب ملاں تنگ آجاتا ہے اور اپنی ناکامی کو سامنے دیکھنے لگتا ہے تو پھر وہ منطق و فلسفہ کے جنگل یا صرف ونحو کے بن میں گھسنا چاہتا ہے.اور شکار اگر بن میں گھس جائے تو پھر اس کا پکڑنا مشکل ہوتا ہوتا ہے کہ اس لئے اس کو میدان ( یعنی اصل مضمون ) میں ہی رکھو بن میں گھنے نہ دو.“ یہ بھی تاکید فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آیت (فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی) سے وفات مسیح علیہ السلام پر جو استدلال کیا ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لو اور پھر اس کی تفصیل بیان فرماتے.اور فرماتے کہ اکثر لوگ اس استدلال کو نہیں سمجھتے اور مخالف کے اعتراضات کا نشانہ بن جاتے ہیں.آپ نے اس استدلال کی تفصیل اپنی تفسیر القرآن میں بھی شرح وبسط کے ساتھ بیان فرمائی ہوئی ہے.اور يُقِيمُونَ الصَّلواة (سورۂ بقرہ) کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس طریق پر نماز ادا فرماتے تھے.اس کو بھی بیان کیا ہے.اور آپ کے اس بیان کردہ طریق نماز سے اس بات کا اندازہ لگ سکتا ہے کہ آپ کس طرح ہر چیز کو باریک نظر سے دیکھا کرتے تھے.غرضیکہ آپ ہماری تعلیم کو ہر لحاظ سے مکمل اور جامع و مانع بنانے کی فکر میں ہر وقت لگے رہتے اور دل سے چاہتے تھے کہ ہم صحیح معنوں میں حقیقی عالم بن جائیں.میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مشیت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سایہ عاطفت میں پرورش پانے والے لوگ علماء کرام کو ہماری تعلیم کے لئے مقرر فرما کر اپنا ایک بہت بڑا احسان ہم پر فرما دیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَجَزَاهُمُ اللهُ أَحْسَن الجَزَاء ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۸ء تک کے دس سال جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک خاص امتیازی شان رکھتے ہیں.انہی دنوں دس سالوں کے اندر جماعت احمدیہ نے بین الاقوامی (انٹرنیشنل ) جماعت ہونے کی حیثیت حاصل کی.ہندوستان کی آزادی کے لئے خاص جد و جہد انہی ایام میں شروع ہوئی.ہندومسلم فسادات تحریک کشمیر، مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کی نبرد آزمائی.تحریک احرار تحریک جدید کا آغاز ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی تنظیمات کا قیام.دوسری عالمگیر جنگ کی (جس نے صلیب پرستوں کی شان وشوکت کو خاک میں ملا دیا ) بنیاد وغیرہ وغیرہ.انہی دس سال کے عرصہ میں پڑی اور انہی ایام کے وسط میں جبکہ آپ بھی اور آپ کے رفقاء دومرتبہ ہوتا ہوتا حضرت مولوی صاحب ایسے الفاظ استعمال کر لیا کرتے تھے ( محمد شریف ) اور آپ کے منہ سے یہ بہت ہی بھلے معلوم ہوتے تھے.(مؤلف)
۵۲۲ عمل ہمارے دیگر اساتذہ کرام جامعہ احمدیہ بھی اپنے کمال علم کو پہنچے ہوئے تھے ہمیں آپ کی شاگردی کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے شرف حاصل ہوا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کسی نے سچ کہا ہے ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده آپ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے اور جامعہ احمدیہ کو آپ کے عہد میں جو عروج آپ کی کوششوں، کاوشوں اور دعاؤں سے حاصل ہوا.وہ اب تک سب کے نزدیک مسلم ہے.-1 اب ان ایام کی دلکش یاد کو یہاں پر ختم کر کے آپ کی زندگی کے دوسرے حصہ کا کچھ تذکرہ اپنے نقطہ نظر سے کرتا ہوں.کیونکہ آپ کی زندگی دو دائروں میں تقسیم تھی.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک بہت بڑے عالم باعمل اور مرکزی کارکن.اور مدرسہ احمدیہ کے مینجر اور پھر جامعہ احمدیہ کے پرنسپل.آپ سالہا سال تک بہشتی مقبرہ قادیان دارالامان کے سیکرٹری (سیکرٹری مجلس کار پرداز مصالح قبرستان ) رہے.اور بہشتی مقبرہ اور خوش قسمتوں کو اس کے نصیب ہونے کے اسباب یعنی وصیت اموال منقولہ و غیر منقوله مع ضروری شرائط تقوی و بیداری اور حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پر کامل ایمان کے کام کو جس خوبی سے آپ نے نبھایا اور ترقی دی اور بہشتی مقبرہ کے انتظام وخوبصورتی کو جس طرح آپ نے کمال تک پہنچایا وہ بے نظیر ہے اور اس کے بے نظیر ہونے کا ثبوت حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا وہ خطبہ ہے جو حضور ایدہ اللہ نے آپ کی وفات پر پڑھا اور آپ کی شاندار خدمات کو بہت ہی اچھے الفاظ میں سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں مثبت فرما دیا.۲- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اقتداء میں ختم نبوت یا خاتم النبیین کے وہ معنی اور تفسیر جو ہمارا مسلک ہے اور جس کی بناء پر ہم تقریباً ساری غافل دنیا سے ( جو مجاہدات و ریاضات سے اللہ تعالیٰ کے قرب کے انعامات اور فیوض سے خود بھی حصہ لینے کے لئے کوشش کرنے کی بجائے روحانی ترقیات کے دروازے ہی کسی خاص حضرت مولوی صاحب کے اس زمانہ کے رفقاء کار کے اسماء مع دینی وعربی مضامین کے جو ان کے سپر د تھے درج ذیل ہیں.حضرت میر محمد الحق صاحب علم کلام، حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل.حدیث وادب عربی ، حضرت مولوی محمد جی صاحب ( آپ بھی ہمیں مولوی فاضل کلاس میں کچھ دیر تک عربی پڑھاتے رہے ہیں محترم مولوی ارجمند خان صاحب.فقہ و مناظره ( منطق و فلسفہ) محترم حافظ مبارک احمد صاحب.حدیث وادب عربی.بارک الله فيهم جميعًا.آمین.
۵۲۳ مقام یا زمانہ پر بند کر دینا چاہتی ہے ) نبرد آزما ہیں.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی خاتم النبیین اور حدیث لا نبی بعدی پر مفصل بحث کی ہے اور میرے خیال میں آپ ہماری جماعت میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے امت محمدیہ میں فیوض نبوت محمدیہ تا قیامت جاری رہنے کا نہایت شرح وبسط سے غالباً ۱۹۰۵ء میں الحکم میں ذکر کیا ہے.وَإِنَّ الْفَضْلِ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاء.آپ سلسلہ کے سب کام بہشتی مقبرہ ، قادیان کی خدمت و تعہد، دار الافتاء میں کام وغیرہ بغیر کسی الاؤنس لینے کے بجالاتے تھے اور صرف اسی تنخواہ پر زندگی بسر کرتے تھے جو آپ کو مدرسہ احمدیہ اور بعد میں جامعہ احمدیہ سے ملتی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں پندرہ روپیہ سے شروع ہوئی تھی.گویا آپ اپنے واجب کام سے جو کام زائد کرتے تھے وہ بغیر کسی معاوضہ کے ہی کرتے تھے اور کسی قسم کا ظاہری یا خفیہ فائدہ ان سے حاصل نہیں کرتے تھے.وَالله يتولَّى الصَّالِحِین.لیکن اس بات کے ذکر کرنے سے میرا یہ مقصد نہیں کہ بوقت ضرورت زائد الاؤنس دینا یا لینا منع یا نا جائز ہے.۴- مستری فضل دین صاحب معمار رضی اللہ عنہ جنہوں نے منارہ مسیح قادیان کی بنیادی اینٹ رکھی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس اینٹ پر دعا فرمائی تھی اسے حضرت کے حکم کے مطابق اپنے ہاتھ سے منارة امسیح کی بنیاد میں رکھا اور پھر منارہ مسیح کی تعمیر کا کام بھی کیا یہ انہوں نے جب وہ ۳۳..۱۹۳۲ء میں محلہ دارالرحمت قادیان میں ہمارے مکان کی تعمیر کا کام کرتے تھے اور دارالرحمت میں ہی مستری امین اللہ صاحب مرحوم اور ان کے بڑے بھائی صاحب منشی محمد اسمعیل صاحب مرحوم کے مکان میں رہتے تھے.بتلایا کہ میں ( مستری فضل دین صاحب) نے میر قاسم علی صاحب اور مولوی سرورشاہ صاحب نے متینوں نے ایک ہی دن اکٹھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.میر صاحب کو اور مجھے حقہ پینے کی عادت تھی اور مولوی محمد سرور شاہ صاحب افیون کھانے کے عادی تھے مگر بیعت کرتے ہی مولوی سرورشاہ اس بارہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ ( بعد ہ خلیفہ اسی اول) کے ارشادات بھی ملتے ہیں مگر وہ نہایت مختصر اور بسا اوقات چند سطروں سے زیادہ نہیں لیکن حضرت مولوی سر ورشاہ صاحب کا مضمون تین چار صفحات مشتمل اور مفصل ہے.( محمد شریف) یہ میرے خاندان کی خوش قسمتی ہے کہ میرے سب سے بڑے بھائی چوہدری غلام رسول صاحب ٹھیکیدار حال مقیم ربوہ نے بھی خلافت ثانیہ کے شروع میں منارۃ المسیح کی تکمیل کے وقت تعمیر کا کام تا تکمیل کرنے کا شرف وزیر ہدایت و نگرانی حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ حاصل کیا.( محمد شریف )
۵۲۴ صاحب نے افیون یک لخت ترک کر دی.اس کی وجہ سے مولوی صاحب کی آواز پر اس کا اثر پڑ گیا.مگر آپ نے اس کو کوئی پر اوہ نہ کی.واللہ اعلم * اس روایت سے حضرت مولوی صاحب کے عزم اور نفس کشی کے تعلق ☆☆ میں صبر و استقامت کا اندازہ ہوتا ہے.۵- حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ جس بات ( دینی مسئلہ کو صحیح سمجھتے تھے.اس پر مضبوطی سے قائم رہتے تھے.اور کسی کی مخالفت یا و جاہت آپ کے پایہ ثبات میں تزلزل بر پا نہیں کر سکتی تھی.مشاورت کی ایک رپورٹ میں ( یہ سلسلہ سکیم امداد پسماندگان بیمہ وغیرہ کے طریق پر ) حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا یہ ارشاد بھی درج ہے کہ چونکہ مولوی سرور شاہ صاحب اس بات ( بیمہ وغیرہ کی نقل کرنے ) کے خلاف تھے.اس لئے اس کو چھوڑ دیا گیا.- جب جناب صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب نے قرآن شریف ( حافظ ریل صاحب اور حافظ سلطان احمد صاحب ملتانی سے ) حفظ کر لیا تو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے آپ کو حضرت مولوی صاحب کا شاگرد بنادیا.اور محترم صاحبزادہ صاحب آپ سے عربی وغیرہ پڑھ کر ہمارے ساتھ مدرسہ احمدیہ کی پانچویں جماعت میں داخل ہوئے.پھر آپ نے مزید تعلیم جاری رکھنے کی وجہ سے جلدی چھٹی وساتویں پاس کی اور ایک دفعہ جامعہ احمدیہ میں پہنچ گئے گویا جس طرح حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم سے حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کی خاص شاگری حاصل ہوئی.اسی طرح محترم صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حکم سے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی خاص شاگردی بھی مولوی فاضل تک حاصل ہوئی.اور جب حضرت مولوی فضل الدین صاحب معمار ولد محمد بخش صاحب نے ۱۹۳۵ء میں لکھوایا کہ میری بیعت و زیارت ۱۸۹۵ء کی ہے.اور اسی سال میر قاسم علی نے بھی لکھوایا کہ میری تحریری و دستی بیعت ۱۹۰۲ء کی ہے.اور مولوی صاحب کی بیعت ۱۸۹۷ء کی ہے.اور مولوی صاحب پہلی بار قادیان ۱۸۹۸ء میں آئے تھے.سوان سب کی پہلی بیعت اکٹھی نہیں ہوسکتی.اس لئے فضل الدین صاحب کے بیان کے اتنے حصہ میں سہو ہے.احباب پھر بھی بیعت کرتے رہتے تھے.ممکن ہے کسی وقت بیعت میں یہ سب جمع بھی ہو گئے ہوں.(مؤلف) سابقاً بیان ہو چکا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے بیعت بذریعہ خط کی تھی.اور ترک افیون آپ نے اس وقت کی جب کئی سال بعد آپ ہجرت کر کے قادیان چلے آئے تھے یعنی ۱۹۰۱ء میں ( شرح وبسط سے جلد اول میں تحریر کیا جا چکا ہے ).(مؤلف)
۵۲۵ محمد سرورشاہ صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے تو آپ کی جگہ محترم صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب جامعہ احمدیہ کے پرنسپل مقرر ہوئے.اس موقع پر حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ کے اعزاز میں جو الوداعی تقریب جامعہ احمدیہ میں منعقد ہوئی.اس کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ حضرت مولوی صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب کے اس تقرر سے بہت خوش ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ میری جگہ صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب جامعہ احمدیہ کے پرنسپل مقرر ہور ہے ہیں.آپ کی زندگی درویشانہ تھی.نام ونمود، عجب وریاء یا خود پسندی وتکبر.جو بہت بڑے علم کی ایک لازمی صفت سمجھی جاتی ہے.آپ میں ہرگز نہ تھا.ستی اور کاہلی آپ کے پاس تک نہ پھٹکتی تھی.پانچوں نمازیں مسجد مبارک میں ادا فرماتے تھے.مینہ ہو آندھی ہو ، اندھیری رات ہو ، سخت دھوپ ہو،جلسہ ہو،جلوس ہو،مشاعرہ ہو، مناظرہ ہو، عام تعطیل ہو یا خاص آپ نماز کھڑی ہونے سے بہت دیر پہلے اپنے مقررہ وقت پر اپنی مقررہ جگہ پر موجود ہوتے تھے.-۷ آپ کی نمازوں میں جو خشوع و خضوع ہوتا تھا اس کو وہی لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں.جو اس کو چہ یار ازل سے کچھ آشنائی رکھتے ہوں.فجر کی نماز میں مسجد مبارک میں ( جب کبھی آپ کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی طرف سے نماز پڑھانے کا حکم ہوتا ) آپ پہلی رکعت میں سورۃ اعراف کی پانچ آیات (إِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ قَفَ يُخْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيئًا وَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنَّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِاَمْرِهِ - أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْآمُرُ ط تَبْرَكَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ - اُدْعُوا رَبَّكُمْ تُضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ.كَذلِكَ نُصَرِفَ الْآیتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ - کی ایسے انداز سے تلاوت فرماتے تھے کہ میرے کان اس پاک کتاب کی پاک آیات کی اس بے نظیر تلاوت کو سننے کے لئے آج بھی باوجود تقریبا تمیں سال گزر جانے کے اسی طرح بے تاب ہیں جیسے زمانہ اقامت قادیان دارالامان میں تھے.جو انسانی روح کو زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دے اور پھر عرش الہی کے سامنے.اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً کا اعلان کرتے ہوئے سجدہ کرا دے.اور شکر گزار بنا کر در بارالہی سے واپس لائے.دوسری رکعت میں بھی کچھ ایسی ہی آیات کی تلاوت فرمایا کرتے تھے.جو مجھے اب یاد نہیں رہیں ممکن ہے آپ کے کوئی اور محبت یا در کھتے ہوں.
۵۲۶ جس مکان میں آپ.اپنا مکان آخری عمر میں خرید لینے سے قبل رہائش رکھتے تھے وہ مدرسہ کے ساتھ ملحق اور بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے شمالی حصہ میں باورچی خانہ کے متصل جانب مغرب دو کچی کوٹھڑیاں ہیں جن میں یہ لعل بے بہا سالہا سال تک رہا اور اف تک نہ کی.اگر دیگوں کی دن رات کھڑ کھڑ.باورچی خانہ کی لکڑیوں اور ہندوستانی اپلوں کے دھوئیں باورچیوں کے شور، بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے بورڈروں کا شورا ور کھیلیں.دن کے وقت مدرسہ احمدیہ کے طالب علموں کا بھی شور، مدرسہ احمدیہ کے صحن میں رات دن جنازوں کی آمد ورفت کے نظارہ کو سامنے لایا جائے اور پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ عملاً آپ اور آپ کے اہل بیت صرف ایک ہی کچی کوٹھڑی میں رہتے تھے.کیونکہ دوسری کوٹھڑی میں آپ کا کوئی نہ کوئی شاگرد جوسر حد یا کشمیر وغیرہ کا باشندہ ہور ہا کرتا تھا.تو آپ اور آپ کے اہل بیت يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ “ کا مصداق ثابت ہوں گے اور یہ حقیقت ایک آفتاب بن کر سامنے آجائے گی کہ یہ لعل بے بہا صرف اور صرف اپنے محب ومحبوب آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیر معمولی قوت جذب کی وجہ سے ہی اپنے آبائی وطن سے ہجرت کر کے اور ساری عزتوں کو جو سادات کے لئے ان کے آبائی وطنوں میں موجود ہوتی ہیں.لات مار کر اپنے محبوب کے دروازے پر بڑی خوشی سے ” دھونی رمائے بیٹھا ہے الصفة اے محبت تو عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرهم به ره یار تو یکساں کردی ہمارے خداوند پاک نے اپنے مسیح پاک کو الہاما کیا خوب فرمایا؛ أَصْحَبُ الصَّفَةِ وَمَا أَدْرَكَ مَا أَصْحَبُ - ☆ آپ کی زندگی نہایت سادہ تھی.لباس عموماً بند گلہ کا کوٹ ( جسے پنجابی شیروانی کہتے ہیں ) اور اس پر بسا اوقات جبہ.کلاہ دار پگڑی، پاجامہ اور گر گابی پہنتے تھے لیکن تکلف یا کبریا نہ لباس میں تھا نہ طبیعت میں ! اپنے بچوں کے متعلق فرماتے تھے کہ ہمارے خاندان کا یہ طریق ہے کہ بڑے ہو کر اچھے ہو جایا کرتے ہیں.اپنے بڑے صاحبزادہ سید ناصر احمد شاہ صاحب کو آپ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تعلیم دلائی تھی اور چھوٹے صاحبزادہ سید مبارک احمد شاہ صاحب کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کیا تھا.اثنائے اقامت ربوہ تذکر طبع ۲۰۰۴ء ( صفحه ۵۴،۱۹۷)
۵۲۷ - (۱۹۵۶ء تا ۱۹۶۰ء ) میں میرا دل آپ کے صاحبزادہ اخویم مکرم مبارک احمد شاہ صاحب کو بار بار دیکھنے کو چاہتا تھا کیونکہ ان کی شکل وصورت ، قدوقامت اور خدو خال بعینہ حضرت مولوی صاحب کی شکل و شباہت، قدوقامت اور خدو خال نظر آتے ہیں اور رفتار و گفتار سے حضرت مولوی صاحب کی یاد تازہ ہو جاتی ہے.فَتَبَارَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِينَ تجسس کی ( یعنی کسی شخص کی مخفی کمزوریوں ، گنا ہوں یا جرموں کا اس ارادہ نیت اور خاص کوشش سے پتہ لگاتے رہنا کہ ان کو ایسے شخص تک پہنچا کر جو اسے سزا دے سکتا ہے یا اس کے مال، جان ، عزت یا قوم یا خاندان کو کس قسم کا نقصان پہنچا سکتا ہے ) آپ کو ہر گز عادت نہ تھی بلکہ آپ کو ادھر ادھر جھانک کر دیکھنے کی بھی عادت نہ تھی اپنے کام سے غرض ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ ۱۹۳۳ء میں جب جامعہ احمدیہ کے کچھ طالب علموں وغیرہ نے اپنے ناظر تعلیم و تربیت کو انگلستان کے لئے بطور مبلغ قادیان سے روانہ ہوتے وقت ریلوے اسٹیشن قادیان پر یورپین طرز پر الوداع کہا تو آپ کو باوجود یکہ آپ ہمارے پرنسپل تھے اور روزانہ ہمیں پڑھایا کرتے تھے اور ہمارے اور آپ کے درمیان کوئی حجاب نہ تھا.اس پروگرام کا علم بھی نہ ہو سکا.اور اللہ تعالیٰ نے بوجہ آپ کی معصومیت کے اس واقعہ کے طبعی نتیجہ سے بھی آپ کو محفوظ رکھا.سچ ہے مَنْ كَانَ لِلَّهِ ، كَانَ اللَّهُ لَهُ * - آپ کی اپنے شاگردوں ، ماتحت کارکنوں اور دوستوں سے لٹمی ہمدردی اور خیر خواہی کی ایک مثال یہاں درج کرتا ہوں.چونکہ حضرت مولوی صاحب کا دستور تھا کہ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ٣٨ پر عمل کرتے تھے.اور حکایات و واقعات کے ذریعہ مشکل باتوں کو جلد سمجھانے کی کوشش کیا کرتے تھے اس لئے یہ ذیل کی تین مثالیں آپ کی سیرت پر انشاء اللہ بہت اچھی روشنی ڈالیں گی.(۱) ہمارے ایک دوست ہمارے ہم جماعت مولوی فاضل ہیں اور ہماری طرح حضرت مولوی صاحب کے بھی شاگرد ہیں.مولوی فاضل کا امتحان پاس کر لینے کے بعد ان کو کوئی خاطر خواہ کام نہ ملا اور یہ بھی طبعی بات ہے ہمیں اس واقعہ پر جو اپنی نوعیت کا اول اور آخری تھا اور سلسلہ کی روایات کے بالکل خلاف تھا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک جلالی خطبہ دیا اور خود تحقیقات فرمائی ان غلط کاروں نے معافی طلب کی اور حضور نے از راہ ترحم معاف فرما دیا.مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ امیر جماعت قادیان ذکر کرتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کو سخت صدمہ پہنچا تھا اور آپ نے حضور کی خدمت میں تحریر کیا کہ مجھے آپ کی ناراضگی آگ سے زیادہ سخت معلوم ہوتی ہے اور مولوی صاحب کو تب چین آیا جب معلوم ہوا کہ حضور آپ سے ناراض نہیں.آپ کے شاگردوں سے غلطی ہونے کے باعث آپ کو تکلیف پہنچنالازمی امر تھا لیکن آپ کو اس کا علم تک نہ تھا.(مؤلف)
۵۲۸ کہ مولوی فاضل کے معنی ( یو نیورسٹی کی زبان میں) ایسا شخص ہے جو عربی زبان کا فاضل ہو مگر اس امتحان یا ڈگری کا معشیت یعنی گزر اوقات کے کام تجارت، صنعت و حرفت یا حکومت کے کسی دفتر میں ملازمت ( مزدوری) یا زراعت وغیرہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.تجارت کے لئے رأس المال اور خرید وفروخت کے تجربہ کی ضرورت ہے.صنعت و حرفت کا خواہ کوئی کام بھی ہو.صنعت و حرفت کے استادوں یعنی سناروں ، لوہاروں، مستریوں ، ترکھانوں ، معماروں، گلکاروں ، بافندوں اور پاپوش سازوں وغیرہ سے سیکھنے سے ہی آسکتا ہے.سرکاری ملازمت کے لئے انگریزی حساب و ہندسہ وغیرہ آنا چاہئے.عام مزدوری کرنے کے لئے جسم طاقتور ہونا چاہئے.اس لئے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد یا تو مولوی فاضل کی دوڑ مسجد کی طرف ہوگی یا اگر کسی پسماندہ علاقہ میں کوئی غیر متعصب اسلامیہ سکول یا ڈسٹرکٹ بورڈ سکول وغیرہ باقی رہ گیا ہو.اور اس میں کسی عربی پڑھانے والے کی ضرورت شاذ و نادر کے طور پر پڑ جائے اور مولوی فاضل صاحب خوش قسمتی سے اور ٹی بھی پاس کر چکے ہوں ( یو نیورسٹی کی طرف سے یہ کلاس بھی عرصہ ہوا بند کر دی گئی تھی ) تو اس میں نہایت معمولی تنخواہ پر کام کر سکتا ہے احمد یہ مساجد میں تو کسی مولوی صاحب کی خواہ مولوی فاضل ہو یا غیر مولوی فاضل امامت کے لئے ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ہمارے ہاں امامت مسجد کوئی پیشہ نہیں.مقتدی جس کو چاہیں اپنا امام الصلوۃ بنالیں غیر احمدی مساجد میں احمدی امام کے لئے جگہ کہاں؟ زراعت پر بھی متحدہ ہندوستان میں صرف دلیش ذات کی اجارہ داری یا ملکیت تھی.جس کا باپ دادا یا لکڑ دادا آج سے ایک صدی قبل ۱۸۶۴ ء کے انگریزی بندوبست میں بطور زمیندار درج نہ ہوتا وہ زرعی زمین خرید نہیں سکتا تھا اور اگر کسی طرح خریدنے میں کامیاب بھی ہو جا تا تو سرکاری کاغذات میں اس کے نام وہ زرعی لگ نہیں سکتی تھی اور زمین تو کیا ملنی ہے ہر وقت اپنا محنت سے کمایا ہوا روپیہ بھی آنا فانا ضائع ہو جانے کا ڈر لاحق رہتا تھا.ایسے حالات میں یہ مولوی فاضل اصحاب کو جن کے والدین بہت بڑے دولت مندوں میں سے نہ ہوں جو مشکلات پیش آسکتی ہیں وہ عیاں ہیں.جب ہمارے حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ فی الحال ان کے عزیز شاگرد کوگز راوقات کے لئے کوئی کام ملنا مشکل ہے اور او.ٹی کلاس بھی بند ہے تو آپ نے انہیں دار الافتاء میں صدر انجمن احمد یہ * مَوْلَوِی فَاضِل کے معنی عربی زبان کے لحاظ سے ” خدا رسیدہ بزرگ“ کے ہیں.یا ”خدا کا برگزیدہ بندہ عربی زبان کا جاننا یا نہ جانا ضروری نہیں اور نہ خدا رسیدہ ہونے کے لئے کسی یونیورٹی کا امتحان پاس کرنا ضروری ہے اور غالبا یہی وجہ ہے کہ اب پنجاب یونیورسٹی نے اس ڈگری کا نام فَاضِلُ الْعَربيّة رکھ دیا ہے.(محمد شریف)
۵۲۹ سے منظوری لے کر دس روپیہ ماہوار الاؤنس پر بطور پارٹ ٹائم کلرک رکھ لیا اور اسی طرح مستقل دار الافتاء کی بنیاد پڑ گئی.اللہ تعالیٰ بھی بہت رحیم و کریم و شکور ہے اور اپنے بندوں کی سچی محنت اور قربانی کو کبھی ضائع نہیں کرتا.اس لئے اب ہمارے وہی دوست اللہ تعالیٰ کے فضل سے صدر انجمن احمد یہ پاکستان میں ایک نظارت میں ہیڈ کلرک کی اچھی اسامی پر اور معقول مشاہرہ کے ساتھ کام کر رہے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ دل سے حضرت مولوی صاحب کی ترقی مدارج کے لئے ضرور بالضرور دعا کرتے ہوں گے.وھـــل جـزاء الاحسان الا الاحسان (ب) میرے خالہ زاد بھائی منشی محمد حمید الدین صاحب ( بی.اے.بی.ٹی ) مرحوم ومغفور نے اپنے بچپن کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت مہد میں، پھر خلافت اولی کے ایام میں بھی تا اوائل خلافت ثانیہ اپنے والدین محترم کے ہمراہ قادیان میں پرورش پائی تھی اور تعلیم الاسلام ہائی سکول سے ہے میٹرک کا امتحان پاس کر لینے کے بعد نیز مختلف علوم وفنون ضرور یہ (سکنیلری ٹیلیگرافی.ٹائپنگ.نقشہ نویسی اوور سیری وغیرہ) سیکھ کر ریاست بہاولپور میں ضلعدار نہر لگ گئے تھے.چونکہ خوددار اور دلیر بہت تھے.اور یہاں یہ ذکر بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ حیفا ( فلسطین) میں انگر یز پادریوں کا ایک ہائی سکول تھا اس سکول کے سٹاف کا یہ فرض تھا کہ تعطیلات موسم گرما میں ( جو عموماً وہاں تین ماہ کی ہوتی ہیں ) اپنی اعلیٰ جماعتوں کے طلباء کے لئے مختلف کمپنیوں اور حکومت کے ادروں میں تین ماہ کے لئے عارضی کام تلاش کر کے انہیں اچھے الاؤنسوں پر لگوائیں تا اس طرح جہاں طلباء کو عملی طور پر کام کا تجربہ ہو اور مالی طور پر بھی ان کے والدین کو سہولت ہو سکے اور طلباء اپنی تعلیم کو اپنے والدین پر غیر معمولی بوجھ ڈالے بغیر جاری رکھ سکیں.اور میں نے دیکھا کہ حکومت فلسطین ( جو اسرائیل کے نام سے موسوم ہے ) غیر معمولی یا اتفاقی کام ( مثلا مردم شماری، راشن کارڈوں یا شناختی کارڈوں کا اجراء فہرست ہائے رائے دہندگان کی تیاری وغیرہ ) عام طور پر مدارس کی تعطیلات موسم گرما میں ہی کیا کرتی تھی.تا مدارس کی اعلیٰ جماعتوں کے طلباء کی مالی امداد کے علاوہ حکومت کا کام بھی بغیر مستقل عملہ رکھنے کے ( جو خزانہ پر غیر معمولی بوجھ بن جاتا ہے اور ٹیکسوں میں اضافہ کا موجب ہو جاتا ہے ) اور سالوں کام جاری رکھنے کی بجائے فوراً دو تین ماہ کے اندر ہو جائے ممکن ہے یوروپین ممالک میں بھی یہی رواج ہو.واللہ اعلم وكلمة الحكمة ضالة المؤمن اخذها حيث وجدها ( محمد شريف) والدین بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں ان کے اسماء با بو فضل الدین صاحب اوورسیر و مہتاب بی بی صاحبه ( بنت حضرت مولوی وزیر الدین صاحب یکے از ۳۱۳ صحابہ ) ہیں.
۵۳۰ جسمانی لحاظ سے بھی پہلوان سے کم نہ تھے اور اس زمانہ میں ریاستوں میں صرف ”جی حضوری یا مردہ بدست زندہ قسم کے لوگ ہی کام کر سکتے تھے.اس لئے آپ کے افسروں کا ناک میں دم آگیا.ان کی خود داری اور عزت نفس کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ان کے ایس.ڈی.اونے ان کے نام ایک خط بھیجا اور لفافہ پر صرف حمید الدین ضلع دار نہر لکھ کر اپنے اردلی کے ہاتھ بھیجا تو آپ نے لفافہ اپنے ہاتھ میں لیتے ہی پیغام بر سے پوچھا کہ یہ کس نے لکھا ہے؟ اس نے جواب دیا.”صاحب بہادر نے“ آپ نے لفافہ واپس اس کے ہاتھ دے دیا اور کہا کہ جاؤ.لے جاؤ اسے اور جس کا نام حمید الدین ہے اس کو دے دو! میرا نام حمیدالدین نہیں.میرا نام محمد حمید الدین ہے.“ آپ کا طرہ امتیاز اپنے مفوضہ کام کو نہایت توجہ، محنت، دیانتداری اور جلد سے جلد ادا کرنا ہوا کرتا تھا.چاپلوسی یا مداہنت یا کمزور دلی آپ کے پاس بھی نہ پھٹکی تھی.اس لئے آپ ضلعداری سے استعفاء دے کر ۱۹۲۶ء میں قادیان آگئے.اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میں بطور کلرک کام کرتے رہے.تین چار سال تک وہاں کام کرنے کے بعد آپ کا تبادلہ دفتر بہشتی مقبرہ میں ہو گیا.ہمارے حضرت مولوی صاحب سیکرٹری مقبرہ بہشتی تھے.ہمارا بھائی ایک عجیب طبیعت و ہمت کا مالک تھا.جس کام کو عام کلرک تین دن میں کرتے ہیں.وہ تین گھنٹہ میں کر دیتے تھے.اور اپنی معیشت کے لئے کسی کام کے کرنے کو عار نہیں سمجھتے تھے.اس لئے کسی وقت بھی افسر کی کسی رعایت کے طالب ہونے یا خوشامدی بننے کا سوال ان کے لئے پیدا نہیں ہوتا تھا وہ کہتے تھے کہ میں وہی کام کروں گا جس کا کرنا میرے ذمہ ہوگا.کسی دوسرے کام کا کرنا میرا فرض نہیں.اور یہ بات بھی عجیب ہے کہ آپ نے میٹرک کے بعد منشی فاضل، اور منشی فاضل کے بعد ایف.اے اور پھر بی.اے اور اس کے بعد علی گڑھ یو نیورسٹی سے بی.ٹی کا امتحان بھی اپنے ایک افسر صاحب سے ناراض ہو کر ہی کیا تھا.۱۹۲۶ء سے ۱۹۳۸ ء تک ( یعنی جب تک میں قادیان میں تھا ) کبھی انہیں یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ بی.اے وغیرہ کے امتحانات کوئی چیز ہیں جن کے بغیر دنیا کے کام نہیں چل سکتے یا ان سے لیاقت میں زیادتی پیدا ہو جاتی ہے اس لئے یہ امتحان پاس کر لینے چاہئیں.جب برادرم محمد حمید الدین صاحب حضرت مولوی صاحب کے ماتحت کام کرنے لگے تو آپ ان کے کام اور لیاقت کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ادھر ہمارے بھائی صاحب کے اندر بھی حضرت مولوی صاحب کی صحبت سے جن کے چہرہ سے شرافت و نجابت ٹپکتی معلوم ہوا کرتی تھی.وہ انقلاب آیا کہ وہ پہلامنشی محمد حمید الدین نہ رہا اور طبیعت کے اندر جذبہ انکساری اور تواضع اللہ پیدا ہو گیا.اس زمانہ میں انہوں نے (جبکہ صدر انجمن احمدیہ کی مالی حالت بہت خراب ہو چکی تھی ) صدر انجمن احمدیہ کی جائیدادوں کو یکجا کرنے اور قادیان میں ریتی چھلہ
۵۳۱ وغیرہ میں صدر انجمن احمدیہ کی زمینوں کو پلاٹ وغیرہ بنا کر فروخت کرنے اور قادیان کی آبادی کو ریلوے لائن سے دوسری طرف آباد کرنے وغیرہ کا کام بھی کیا.اور حضرت مولوی صاحب آپ کے کام سے آپ پر اس قدر خوش ہوئے کہ آپ کو صدر انجمن احمدیہ کا مختار عام بنا دیا گیا.اور آپ کے ماتحت کارکن صدرانجمن احمد یہ کا پہلا مختار عام منتخب ہوا.حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ جیسے بزرگوں کے متعلق ہی کسی نے کہا ہے آنا نکہ بیک نظر خاکسار کیمیا کنند ( ج ) ہمارے بعض بزرگان کرام کی قادیان میں یہ عادت تھی کہ وہ کچھ وقت نکال کر احمد یہ بازار کی دکانوں میں بھی بیٹھا کرتے تھے.میرے خیال میں اس کے دو فائدے تھے.اول یہ کہ قادیان کے عام احمدی احباب ان سے بلا تکلف مل کر باتیں کرسکیں.کیونکہ مساجد میں تو کوئی دنیاوی بات کرنا منع ہے.اور گھروں یا دفتروں میں ملنے سے دونوں کو تکلیف کا امکان ہوتا ہے.دوم یہ کہ باہر سے جو مہمان وغیرہ آئے ہوں وہ بھی آتے جاتے ان سے مل سکیں.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب، حضرت میر قاسم علی صاحب احمد یہ کتاب گھر میں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب حکیم نظام جان صاحب کی دکان میں اور حضرت مولوی سید محمد سرورشاہ صاحب حکیم عبد الرحمن صاحب کا غانی کے دواخانہ میں عموماً تشریف فرما ہوا کرتے تھے.حکیم عبدالرحمن صاحب کاغانی مرحوم و مغفور اچانک نسبتا چھوٹی عمر میں انتقال کر گئے.بوقت وفات ان کے بچے ابھی بہت چھوٹے تھے لیکن آپ نے ان کے اہل وعیال کو مشورہ دیا کہ وہ دوا خانہ جاری رکھیں.جس پر مرحوم کے فرزند ( حکیم ) عبدالقدیر صاحب نے عمل کیا اور دواخانہ جاری رکھا اور حضرت مولوی صاحب نے ان کے دواخانہ میں زیادہ رونق افروز رہنا شروع کر دیا.اور چونکہ حضرت مولوی صاحب کو علم طب میں بھی دسترس حاصل تھی اور آپ اس کا باقاعدہ مطالعہ کرتے رہتے اور طبعی رسائل بھی منگواتے رہتے تھے اس لئے اس لحاظ سے بھی ان کی مدد فرماتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے حکیم عبدالرحمن صاحب کا غانی مرحوم و مغفور کا دواخانہ بھی جاری رہا.اور ان کے اہل وعیال کی معیشت کا سامان بھی ہوتا رہا.یہ تین مثالیں حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ کی سیرت پر نہایت اعلیٰ درجہ کی روشنی ڈالتی ہیں.اور محض اللہ تعالیٰ کی خاطر بنی نوع انسان کی ہمدردی کا ایک اچھا نمونہ ہیں اور اِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَالَّذِيْنَ هُمْ مُحْسِنُونَ 19 کی عملی تفسیر ہیں.فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۹) جب حضرت خلیفہ اسی اول رضی الہ عنہ بھی علیل ہوتے یا آخری ایام میں گھوڑے سے گرنے کے سبب سے مستقل طور پر علیل ہو گئے تو آپ حضرت خلیفتہ امسیح اول کے ارشاد کے مطابق مسجد اقصیٰ میں آپ کی نیابت میں قرآن شریف کا درس دیتے تھے.آپ کے اس درس کے نوٹ اخبار بدر میں چھپے ہوئے موجود ہیں.
۵۳۲ اور شائع شدہ ” درس القرآن میں بھی حضرت خلیفتہ اسیج اول رضی اللہ عنہ کے درسوں میں آپ کے نام سے موجود ہیں.اور ہماری جماعت میں مکمل قرآن مجید کا تحت اللفظ اردو ترجمہ بھی سب سے پہلے آپ کا ہی برادران میاں محمد اسمعیل صاحب ومحمد عبد اللہ صاحب جلد سازان قادیان کے ذریعہ شائع ہوا اور ایک نہایت ہی قیمتی ترجمہ ہے.جس کی قدرو قیمت کا اندازہ علماء کرام ہی لگا سکتے ہیں.مقدرات نکالنے یا اپنی طرف سے ایزادیاں کرنے کی اس میں کوشش نہیں کی گئی اور یہی حضرت مولوی صاحب کا امتیاز تھا.آپ فرماتے تھے کہ میں نے لکھنا بھی (خط) کسی سے نہیں سیکھا.اور قرآن شریف پر بھی خود ہی تدبر کیا ہے.کسی استاد سے رسمی طور پر تفسیر نہیں پڑھی ہیں (۱۰) حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ خلافت کے مرتبہ اور امام کے عالی مقام کو خوب سمجھتے تھے اور کسی صورت میں بھی حضرت خلیفتہ اسیح پر تقدم نہیں کرتے تھے.یہ مترجم حمائل شریف ۲۰ / دسمبر ۱۹۲۶ء کو شائع ہوئی ” عرض حال میں ناشر نے لکھا ہے.مدت سے میں محسوس کر رہا تھا کہ جماعت احمدیہ کو ایک مستند اردو ترجمہ کی اشد ضرورت ہے.پس میں نے سلسلہ احمدیہ کے ممتاز اور جلیل القدر، محقق ، علوم ظاہری و باطنی سے باخبر ، عالم باعمل، فاضل بے بدل عمدة المتكلمين ، زبدة العارفین ، رئیس المفسرین ، حضرت مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مدظلہ العالی کو ہی اس کار خیر اور عظیم الشان کام کی انجام دہی کے لئے بہترین اہل پایا.اس عمر میں باوجود سلسلہ احمدیہ کے مہن بالشان کاموں میں مصروف ہونے کے انہوں نے بفضلہ تعالیٰ اس کام کو بہت خوبی سے حد تکمیل تک پہنچایا ہے.حضرت مولوی صاحب کا اسم گرامی ہی کافی دلیل ہے کہ مترجم حمائل کن خوبیوں کی مالک ہے..تفسیری نوٹ بھی شایقین کی خاطر درج کئے گئے ہیں.“ حضرت مولوی صاحب نے ذیل کا دیباچہ رقم فرمایا جو اس ترجمہ کی خوبیوں کی وضاحت کرتا ہے.اس وقت عام طور پر دو قسم کے قرآن مجید کے ترجمے ملتے ہیں.اول تحت الفاظ جن میں الفاظ عربیہ کا ترجمہ دوسری زبان میں کیا گیا ہے مگر اس دوسری زبان کی ترکیب اور ساخت کو ترک کر کے عربی ترکیب اور ساخت اختیار کی گئی ہے یا بلفظ دیگر الفاظ تو اردو فارسی وغیرہ ہیں مگر ڈھانچہ اور قالب عربی ہے.اور یہی وہ گلابی اردو ہے جس کا آج کل بجا طور پر تمسخر اڑایا جاتا ہے کیونکہ جب بھی الفاظ ایک زبان کے ہوں اور ڈھانچہ اور قالب دوسری زبان کا.اس کا مطلب نہ اس زبان والے سمجھیں گے کہ جس کے الفاظ ہیں اور نہ اس زبان والے کہ جس کا ڈھانچہ ہے.
۵۳۳ ایک مرتبہ مجد مبارک میں آپ بھی اور ہم سب حاضرین بھی مغرب کی نماز کے لئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی انتظار میں بیٹھے تھے.حسب دستور وحکم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی موذن دوتین مرتبہ حضور کی خدمت میں بھیجا گیا.جس نے ہر بار آ کر غلط فہمی کی وجہ سے یہی پیغام دیا کہ حضور ا بھی تشریف لاتے ہیں.اندھیرا بہت زیادہ ہو گیا.آخری بار جب مؤذن حضرت اقدس کی خدمت میں گیا تو حضور نے بقیہ حاشیہ: - دوم با محاورہ.تو اس کو اگر چہ لوگ سمجھ لیتے ہیں مگر اس میں دو بڑے عظیم الشان نقص پائے جاتے ہیں.اول یہ کہ مترجمین اپنا فقرہ چست کرنے اور محاورہ درست کرنے کے لئے جو چاہتے ہیں.قرآن مجید کے الفاظ کے معانی میں کمی اور بیشی کر دیتے ہیں.جو ایک قسم کی تحریف ہے اور قرآن مجید میں کسی قسم کی تحریف جائز نہیں.دوم یہ با محاورہ ترجمہ فی الحقیقت اس مفہوم کا دوسری زبان میں ادا کرنا ہے جو کہ مترجم صاحب نے اس آیت یا جملہ اور فقرہ سے سمجھا ہوتا ہے نہ کہ اس آیت کے واقعی معنی.اگر میرے احباب میرے اس معروضہ کے بعد کسی ترجمہ با محاورہ کو اور کسی جگہ سے پڑھیں گے تو ان کو میری بات کی ضرور تصدیق کرنی پڑے گی.پس پہلی اور نہایت اہم بات جو اس ترجمہ میں میں نے ملحوظ رکھی ہے وہ یہ ہے کہ الفاظ قرآنی کے معانی اردو زبان میں بلا کم و کاست بیان ہوں اور اس کا ڈھانچہ اور قالب بھی حتی الا مکان اردو ہی کا ڈھانچہ اور قالب ہو نہ کہ عربی کا تاکہ دونوں قسم کے تراجم کے بیان شدہ نقائص سے پاک ترجمہ احباب کے ہاتھ آئے.اور اس بھی شک نہیں کہ تراجم اور تفاسیر کی بیان کردہ معانی اور مطالب ایسے ہیں کہ ان میں اکثر پر مخالفین کی طرف سے اعتراض وارد کئے گئے اور وہ اسی وجہ سے وارد ہوئے ہیں کہ وہ معانی اور مطلب غلط ہیں.کئی ایک ایسے ہیں جو کہ خدا وند کریم کی فعلی کتاب کے یعنی واقعات کے بالکل خلاف ہیں.مثلاً اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ٤٠ کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ اس نے آسمان سے پانی اتارا ہے اور بعض اس کے ایسے مفسر بھی ہیں کہ ان کا بیان ہے کہ آسمان پر چند نہریں ہیں اور بارش کے فرشتہ کے ہاتھ میں ایک چھلنی ہے جن میں ان نہروں سے پانی بھر کر ٹپکا دیتا ہے پس یہ ترجمہ اور یہ تفسیر یقیناً واقعات کے خلاف ہے.بلکہ قرآن مجید کے بھی خلاف ہے وہ فرماتا ہے فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِللِه ا یعنی بارش کی بوندیں بادل کے اندر سے نکلتی ہیں اور کثرت کے ساتھ ایسے تراجم اور مطالب بیان شدہ ہیں اور بعض مقامات پر ایسے تراجم ہیں جو لغت کے خلاف ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ وہ دوسری آیات کے ہیں اور بعض کی رو سے خدائے قدوس پر اس کے پاک گروہ انبیاء علیہم السلام پر بدترین نقائص اور الزام عائد ہوتے ہیں.
۵۳۴ تعجب سے فرمایا کہ ابھی تک نماز کیوں نہیں پڑھی گئی؟ حضور تشریف لائے نمازیں پڑھائیں اور آمدہ جمعہ میں خطبہ ارشاد فرمایا کہ ایسی صورت میں نماز پڑھ لینی چاہئے.مگر ہمارے مولوی صاحب نے باوجود ز و دطبیعت نمازیوں کے اصرار کے جو ذکر الہی کرتے رہے یا خاموش ہو کر بیٹھے رہنے کی بجائے گھڑیوں کی سوئیوں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور تنگ پڑ جاتے ہیں.امام پر تقدم نہ کیا.اور یہی فرماتے رہے کہ جب حضور نے فرما دیا ہے کہ میں آتا ہوں تو پھر میں نماز نہیں پڑھا سکتا.سبحان اللہ یہ ہے اطاعت امام اور یہ ہے مقام فنا جس کے بعد ملتا ہے انعام بقاء! نیز آپ اپنی موجودگی میں کوشش کرتے تھے کہ کوئی دشن انسان تو کیا.کوئی کبھی بھی حضرت خلیفہ المسینے کے پاس پھٹکنے نہ پائے.اور اس غرض کے لئے اپنا رومال ہلاتے رہتے تھے.اس نظارہ الفت ومحبت کا بیان کرنا زبان قلم کا کام نہیں.شنیدہ کے بود مانند دیده (11) الحکم والفضل اور سلسلہ احمدیہ کے دیگر رسائل میں بھی آپ کے بہت سے علمی مضامین وفتاولی شائع شدہ ہیں.ممکن ہے اللہ تعالی برادرم مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے مؤلف اصحاب احمد کو اصحاب احمد کی بقیہ حاشیہ : خدا تعالیٰ کا کلام تو ان سب خرابیوں سے منزہ تھا مگر ان مترجمین اور مفسرین کے غلط تراجم اور غلط تفاسیر کی وجہ سے تیرہ صدیوں میں جو خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں.ان کو سوائے خدا تعالیٰ کے اس موعود کے کہ جس کی نسبت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے سے فرما رکھا تھا کہ وہ حکم و عدل ہوگا.اور کہ لوکان الايمان معلقًا بالثريالناله رجلٌ من ال فارس ۲۲ گرایمان ثریا کے ساتھ لٹکا ہوا ہوگا.تو آل فارس سے ایک شخص اس کو لے آئے گا ) اور کوئی رفع اور دفع نہیں کر سکتا تھا.پس میں نے حتی الامکان اس حکم و عدل یعنی سید نا حضرت مسیح موعود کی خوشہ چینی سے خواہ وہ حضور سے بلا واسطہ زبانی یا آپ کی تحریروں سے یا آپ کی تحریروں سے یا حضور کے ہر دو خلیفوں کے واسطہ سے حاصل کیا تھا اس کے مطابق اس ترجمہ کولکھا ہے اور اس کے بعض مشکل مقامات پر کہ جہاں کوئی اعتراض وارد کیا تھا یا کوئی غلطی واقع ہوئی تھی مختصر نوٹ بھی لکھے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ جو ان کو غور سے توجہ سے پڑھے گا.انشاء اللہ اس پر قرآن مجید کے دوسرے مشکل مقامات بھی حل ہو جائیں گے اور دوسرے اعتراضات کو بھی رفع کر سکے گا اور خداوند کریم کے فضل وکرم سے اس ترجمہ میں اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں جن کو اس مختصر تحریر میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں پڑھنے والے خود معلوم کر لیں گے.
۵۳۵ اسی جلد میں یا اپنے کسی اور خاص بندہ کو انہیں بھی شائع کر کے جماعت کی ایک بہت بڑی علمی خدمت سرانجام دینے کی توفیق عطا فرما دے.خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا (۱۲) مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی جاں نثاروں محبوں اور خدمت گاروں میں سے تھے اور اپنے رسائل ” اغلامُ النَّاسِ وغیرہ اور خطبات و مضامین وغیرہ سے (جن کو سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید کرتے رہے ہیں.اور حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بھی اس لحاظ سے ان سے کسی رنگ میں پیچھے نہیں بلکہ پیچھے آکر ان سے اور بہتوں سے سبقت لے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس عزت اور محبت سے آپ کا ذکر اپنی اعجازی کتاب اعجاز احمدی میں ( جس کا مدت معینہ کے اندر اندر جواب لکھنے والے کو دس ہزار روپیہ انعام دینے کا وعدہ بھی دیا گیا تھا ) فرمایا ہے وہ قیامت تک نہ مٹنے والی یادگار ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ جو ہر شناس کون ہوسکتا ہے.جس نے خودفرمایا.وَمَا أَمْدَحُ الْمَخْلُوقَ إِلَّا لِجَوْهَرِ“ کہ میں کسی مخلوق (انسان ) کی صرف اس کے کسی خاص جو ہر کی وجہ سے ہی تعریف و مدح کرتا ہوں.اعجا ز احمدی میں سے اس جگہ صرف یہی دو شعر آپ کے شان کو دیکھنے کے لئے کافی ہوں گے.فَكَانَ تَنَاءُ اللَّهِ مَقْبُولَ قَوْمِهِ وَمِنَّا تَصَدُّى لِلتَخَاصُمِ سَرُوَرُ كَاَنَّ مَقَامَ الْبَحْثِ كَانَ كَاجُمَةٍ بِهِ الدِّتُبُ يَعْوِى وَالْغَضَفَرُ يَزُار ٤٣ کہ مولوی ثناء اللہ اپنی قوم کا نمائندہ تھا اور ہماری طرف سے اس کے مقابلہ کے لئے مولوی سید محمد سرورشاہ صاحب نکلے.دوسرے شعر میں اول الذکر کو بھیڑیے سے جو عوعو کرتا ہے تشبیہہ دی گئی ہے اور حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو شیر ببر سے جو د ہاڑ رہا ہو قرار دیا گیا ہے.یقیناً اگر مسیح محمدی علیہ السلام خدا کا شیر اور جری اللہ فی حلل الانبیاء ہے تو سرور شاہ مسیح محمدی کا شیر اور سرور علماء ہے اور قیامت تک اعجاز احمدی کے ذریعہ آپ کا وجود مخلص دوست“ اور ”سید محمد سرور شاہ صاحب“ کے پیارے اور محبت بھرے نام کے ساتھ زندہ رہے گا.ثبت است بر جریده عالم دوام شاں
۵۳۶ افسوس ہے کہ مولوی سید محمد احسن صاحب لخت جگر مسیح موعود محمود علیہما السلام کا مقام محمود دیکھ کر اور علیٰ رءُوس الاشهاد لوگوں کو دکھلا کر اور سورہ نور کی آیت استخلاف کے مطابق مسجد نور قادیان میں بیعت کر کے بھی اپنی کمزوری اور غیر معمولی بڑھاپے کی وجہ سے اس پر علی الاعلان ثابت قدم نہ رہ سکے.مگر مسیح محمدی علیہ السلام کے شیر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے صدق و وفا اور محبت و رضا کا وہ شاندار نمونہ دکھلایا جس کی ایک عارف باللہ سے توقع رکھی جاتی ہے.فَطُوبىٰ لَكَ يَا سَرُ وَرُشَاهُ! (۱۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وصیت ( رسالہ الوصیت ) میں تحریر فرمایا ہے کہ مقبرہ بہشتی قادیان میں صرف بہشتی ہی دفن ہوں گے اور کوئی منافق یا نا قص الایمان بعد موت اس میں ہرگز داخل نہیں ہو سکے گا.صرف وہی پاک لوگ اس میں جگہ پائیں گے.جو خدا تعالیٰ اور اس کے مرسل مسیح موعود پر کامل ایمان رکھتے ہیں.اور پاک وصاف مسلمان ہیں.ہمارے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ایک لمبا عرصہ تک بہشتی مقبرہ قادیان کے سیکرٹری رہے.اور ایسے وقت میں جبکہ سرزمین ہند میں ایک قیامت برپا ہونے کے قریب تھی.اور رشتہ دار اور دوست اور اہل وطن ایک دوسرے سے ایسے طور پر جدا ہونے والے تھے کہ گویا دونوں کے درمیان ایک سمند ر یا سد سکندری حائل ہو گیا ہے.اس وقت آپ اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اور ان سے قبل حضرت میر محمد اسحق صاحب ( رضی اللہ عنہم ) جن کے متعلق غیر مبایعین کے دلوں اور تحریروں میں خاص طور پر بد گمانیاں تھیں.یکے بعد دیگرے خلاف توقع اپنے مولی حقیقی کی طرف انتقال کر گئے.اور بہشتی مقبرہ قادیان میں اپنے محبوب مرشد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب خاص صحابہ کرام میں جگہ پائی اور قیامت تک آنے والے احمدیوں کی خاص دعاؤں سے انشاء اللہ تعالیٰ حصہ پاتے رہیں گے.اور احمدیت کی آنے والی نسلیں ان کے صدق و ثبات محبت و وفا ، زہدو تقاء کو دیکھ کر اپنے ایمان تازہ کرتی رہیں گی کہ یہی کامل الایمان لوگوں کے بعد وفات بھی ایک جگہ جمع کرنے کا مقصد ہے.وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَّشَاء وَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ - خلاصہ کلام یہ کہ ہمارے محسن اور سب سے بڑے استاد حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نسب کے لحاظ سے بھی سید آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حسب کے لحاظ سے بھی سید، علامہ زمان ،سب کے ہمدرد انسان ، عارف باللہ اور مجسم نیکی و احسان اور ہمہ تن زہد و انتقاء تھے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اور آپ کی جو امید میں اور توقعات ہمارے ساتھ وابستہ تھیں.اللہ تعالیٰ ان کی
۵۳۷ ان نیک تمناؤں اور توقعات کو بھی پورا فرمائے کہ مابدال بمنزل عالی تو نتوانیم رسید ہاں مگر لطف تو پیش نہد گامے چند اور آپ کے درجات اپنی جنت و جناب میں مع دیگر اصحاب مسیح موعود علیہ السلام بلند فرماتار ہے این دعا از من وز جملہ جہاں آمیں باد اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ كُلُّهُ لِرَبِّ كَرِيمٍ قَادِرٍ وَمَيَسِر -
۵۳۹ روایات نوٹ : جوروایات سابقہ عنوانات سے متعلق نہیں تھیں یہاں درج کر دی گئی ہیں.-1- قبل ہجرت قادیان میں آمد و رفت آپ اپنی طبیعت اور قادیان میں آمد کے متعلق فرماتے تھے کہ آپ ایک دفعہ موسم گرما کی تعطیلات میں پشاور سے قادیان آئے اور ایک ماہ رہ کر وطن گئے.دوسرے سال پھر موسم گرما کی تعطیلات میں آئے اور ایک ماہ رہ کر چلے گئے.تیسرے سال پھر موسم گرما کی تعطیلات میں آئے اور ایک ماہ رہنے کا ارادہ تھا.اس وقت آپ کے ہمراہ سید مدثر شاہ وغیرہ نو دیگر اشخاص بھی تھے.سید مدثر شاہ صاحب کے حد سے زیادہ اصرار کی وجہ سے جلد واپس آنا پڑا.تیسری دفعہ جب آپ آئے تو مسجد مبارک کا راستہ دیوار بننے کی وجہ سے رکا ہوا تھا اور مولوی صاحب نے وہ دیوار دیکھی تھی آپ نے لیکھرام کے قتل کا واقعہ ایبٹ آباد میں سنا تھا اور اس کے ایک ماہ کے اندر بیعت کا خط لکھا تھا.میں نے دونوں حصوں میں جو باتیں حضرت مولوی صاحب کی طرف بلا حوالہ منسوب کی ہیں وہ سب آپ کے دستخط سے میرے پاس محفوظ ہیں بیان بالا کے مندرجہ متن پر آپ کےے مارچ ۱۹۴۷ء کے دستخط ثبت ہیں.افسوس کہ یہ تحریر مجھ سے اوجھل رہی اور تاریخوں کی تعیین کے متعلق مجھے بہت تگ و دو کرنی پڑی.۱۹۳۵ء میں عید کے لئے انتظام طعام کے لئے جو صحابہ کی فہرست و کوائف تیار کئے گئے تھے ان میں آپ نے لکھوایا تھا کہ ” میری بیعت کے بعد لیکھر ام مرا.‘“ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ میں نے حضور کی خدمت میں اطلاع دی کہ احباب مشورہ دیتے ہیں کہ کچھ عرصہ بیعت نہ کروں لیکن میں چاہتا ہوں کہ پہلے استعفاء دوں اور پھر اعلان بیعت کروں.اس پر حضور کا جواب کہ آپ فوراً بیعت کا اعلان کر دیں، آپ کے ہاتھ میں پہنچا ہی تھا کہ آپ نے اعلان کر دیا.(حصہ اول ۴۶ ۴۷ ) گویا متن والے بیان میں جو یہ ذکر ہے کہ لیکھرام کے واقعہ (۱۸۹۷-۳-۶) کے ایک ماہ کے اندر بیعت کی اس سے مراد وہی خط معلوم ہوتا ہے جس کا جواب آنے پر آپ نے اعلان کیا.اور چونکہ آپ
۵۴۰ ۲- دارا مسیح میں قیام حضور نے خود طاعون کے دنوں میں اپنے گھر میں بلایا.“ روایت مذکور متن ۱۹۳۵ء میں آپ نے لکھوائی جبکہ نظارت تعلیم وتربیت نے انتظام عید کے لئے فہرست بقیہ حاشیہ: - اعلان بیعت کے اگلے روز ہی ایبٹ آباد کو ترک کر کے پشاور چلے گئے تھے.اس لئے ان تمام بیانات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کی بیعت ۶ فروری تا ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کے مابین عرصہ کی ہے.اور خاکسار پہلے بھی اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ بیعت ۶ / مارچ ۱۸۹۷ ء سے پہلے قریب کے عرصہ کی ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَی ذَالِک.(الف) چونکہ آپ اپریل یا مئی ۱۹۰۱ء میں ہجرت کر آئے تھے ( جیسا کہ سابقہ اوراق میں راقم ثبوت فراہم کر چکا ہے ) اس لئے بیان مندرجہ متن سے یہ معلوم ہوا کہ آپ تیسری بار موسمی تعطیلات میں ۱۹۰۰ء میں قادیان آئے تھے.(اور اس سال جولائی میں آنا مرقوم ہے.الحکم ۱۶ جولائی زیرہ دارالامان کا ہفتہ ) یہ سال اس لئے بھی متعین ہوتا ہے کہ آپ بیان کرتے ہیں کہ تیسری دفعہ موسمی تعطیلات میں آنے پر آپ نے دیوار تعمیر شدہ لکھی اور اپریل یا مئی ۱۹۰۱ ء میں آپ ہجرت ہی کر آئے تھے اس لئے ہر سہ زیارتیں اس سے قبل کے سالوں کی موسمی تعطیلات میں ہی ممکن ہیں ) اور یہ دیوار ۵ جنوری ۱۹۰۰ء کو تعمیر ہوئی.اور ۱۰ اگست ۱۹۰۱ ء کو اس کے گرانے کا عدالت نے فیصلہ دیا تھا.(ب) حضور کا آپ کو خاص فیضان کے قابل پانے کا اظہار کرنا بھی ۹۰۰اء والی آمد کے دوران کا واقعہ ہے.( یہ واقعہ حصہ اول صفحہ ۶۳ تا ۶۶ میں مرقوم ہے) (ج) دوسری بار آپ قادیان گویا ۱۸۹۹ء میں آئے.(1) پہلی بار گویا آپ کو زیارت قادیان کا موقع ۱۸۹۸ء میں موسمی تعطیلات میں ملا.(ھ) چونکہ پہلی بار آپ اہلیہ اول کی وفات کے بعد آئے تھے تو معلوم ہوا کہ وہ بھی موسمی تعطیلات میں یا اس سے قبل قریب میں فوت ہوئی ہوں گی.بحوالہ حصہ اول معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھیں.اس لئے آپ ان کی وجہ سے قادیان نہیں آسکتے تھے.(صفحہ ۶۱) (و) بوقت وفات اہلیہ اول آپ کی صاحبزادی صاحبہ (بعدہ زوجہ سید محمود اللہ شاہ صاحب) کی عمر دس ماہ تھی اور صاحبزادی موصوفہ ۲۸ جولائی ۱۹۲۳ء کو فوت ہوئیں اس لئے ان کی عمر پچیس سال کے قریب ہی نکلتی ہے نہ کہ پینتیس سال جیسا کہ کسی غلطی سے کتبہ پر مرقوم ہے.
۵۴۱ صحابہ قادیان تیار کرائی.خاکسار حصہ اول میں آپ کی یہ روایت درج کر چکا ہے کہ آپ کی دوسری شادی سے قبل بھی حضور نے آپ کو دار اُسیح میں قیام کا موقع عطا کیا تھا (صفحہ ۶۱ ) اور یہ امر یقیناً مولوی صاحب کی طہارت قلب اور علوم رتبت پر دال ہے.آپ کی اہلیہ محترمہ کی روایت حصہ دوم میں درج ہو چکی ہے کہ ۱۹۰۲ء میں حضور نے ہمیں دارا مسیح میں رہائش کے لئے بلوایا تھا.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ روایت مذکورہ متن معلوم نہیں دونوں میں سے کس بار کے متعلق ہے.۱- حضرت اقدس کی صلوٰۃ صلواۃ کی تفسیر میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نماز کا بھی ذکر کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں.خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ صلوۃ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے لیکن یہاں یہ حالت ہے کہ ادائے صلوٰۃ کر کے مسجد سے قدم باہر رکھتے ہی منکر وفحشاء میں مبتلا ہو جاتے ہیں.ظاہر ہے کہ حضور دعا کے وقت پیدا ہوتا ہے اور مسلمانوں نے یا تو دعا کو بالکل جواب دے دیا ہوا ہے اور اگر بعض دعا کرتے بھی ہیں تو طوطے کی مانند عربی الفاظ دہرا دیتے ہیں.رہے معنی اور مطلب تو اول تو کوئی ان کو جانتا ہی نہیں اور اگر کوئی شاذ و نا در جانتا ہے تو ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا اور اگر کوئی کرتا بھی ہے تو غیر زبان ہونے کے باعث وہ جوش پیدا نہیں ہوتا بقیہ حاشیہ: - (ز) آپ کا بیان ہے کہ ایک اشتہار کی وجہ سے حضرت مسیح موعود سے آپ کا تعارف ہوا.تفصیل یہ ہے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے تین سوالات کئے تھے.پیر صاحب کی طرف سے حضرت مولوی نورالدین صاحب پر چند سوالات کئے گئے کہ آپ جواب دیں پھر ہم جواب دیں گے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ان کے جوابات ایک اشتہار میں دئے.اور یہ ۱۸۹۹ء سے قبل کی بات ہے اور پھر اہلیہ کی وفات کے بعد آپ کے قادیان آنے پر حضور نے اس اشتہار کی تعریف کی.(حصہ اول.صفحہ ۵۱) حضرت مولوی نورالدین صاحب کا مکتوب مشتمل بر سوالات ۱۸ فروری ۱۹۰۰ء کا ہے(دیکھئے الحکم ۲۴ اپریل صفحه ۱۷) اس لئے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے بیان میں سہو ہے کہ انہوں نے ۱۸۹۹ء میں جواب اشتہار لکھا.اس لئے مولوی صاحب نے جواب بھی ۱۹۰۰ ء میں لکھا ہوگا اور ۱۹۰۰ء میں موسمی تعطیلات میں عند الملاقات حضرت اقدس نے تعریف کی ہوگی.
۵۴۲ جو کہ قبولیت دعا یا حضور پیدا کرنے کا موجب ہو اس ضرورت کو محسوس کر کے حضرت امام ہمام علیہ السلام اس امر کی سخت تاکید فرماتے ہیں کہ نماز میں اپنی زبان میں بہت کثرت کے ساتھ دعا کرنی چاہئے.“ اس کے بعد آپ یہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں روحانیت معدوم ہونے پر تکفیر بازی شروع ہو گئی اور شدید اختلافات پیدا ہو گئے جن کے رفع کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ کے مطابق ایک عظیم الشان امام کو معبوث فرمایا اور اب شیعہ سنی حنفی اور وہابی فرقوں میں سے آئے ہوئے لوگ ایک ہی امام کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے ہیں اور کوئی بھی دوسرے پر پہلے کی طرح اعتراض و تحقیر نہیں کرتا اسی تسلسل میں رقم فرماتے ہیں.” جب خداوند کریم نے اپنے برگزیدہ بندہ کو معبوث فرما دیا اور رنگارنگ.قوی ترین اور براہین اور روشن ترین آیات ونشانات سے اس کا منجانب اللہ ہونا ثابت کر دیا....تو اس سے یہ امر بھی قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ جو کچھ خدا کا یہ برگزیدہ کرتا ہے.وہ سب خداوند کریم کو پسند اور اس کی مرضی کے مطابق ہے (اور ) اس کے اعمال و عبادات کے لئے الہی سر ٹیفکیٹ ہے.عبادت وہ چیز ہے کہ جس پر انسان کی نجات کی ساری بناء کھڑی ہوتی ہے.لہذا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ خدا کی رضا مندی کا بین ثبوت ہو.میں نے یہ معیار اعمال و عبادات اس لئے یہاں پر بیان کیا ہے کہ میں یہاں پر صلوۃ کی کیفیت بیان کرنا چاہتا ہوں اور جو کچھ میں بیان کروں گا.وہ اکثر سنت مطہرہ اور احادیث صحیحہ کے مطابق ہو گا لیکن اثبات اور رفع نزاع احادیث اور ان کی ترجیح کے قواعد سے نہ کروں گا.کیونکہ یہ طریق انسانی دست اندازی سے خالی نہ ہونے کی وجہ سے نہ کافی اثبات کر سکتا ہے اور نہ مادہ نزاع کو کاٹ سکتا ہے بلکہ یہاں پر میں اس قدر بیان کروں گا کہ خدا کا برگزیدہ اس عبادت کو اس طریق پر ادا کرتا ہے تا کہ یہ طریق عقل مندوں کے نزدیک اثبات کے لئے کافی اور رفع نزاع کے لئے وافی ہو.اور بجائے اس کے کہ میں ہر ایک مسئلہ کے ساتھ یہ لکھوں کہ حضرت اقدس کا یہی معمول بھا ہے.ابتداء ہی میں میں یہ بتادیتا ہوں کہ صلوۃ کی جو کیفیت میں یہاں پر لکھوں گا وہ حضرت اقدس کے عمل کے مطابق ہوگی.اور وہ یہ ہے کہ جب صلوٰۃ پڑھتے ہیں تو کعبہ کی طرف رخ کر کے اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھاتے ہیں یہاں تک کہ انگلیاں دونوں کانوں کے برابر ہو جاتی ہیں اور پھر دونوں کو نیچے لا کر سینہ یعنی دونوں پستانوں کے اوپر یا ان کے متصل نیچے اس طور پر باندھ دیتے ہیں کہ بایاں ہاتھ نیچے اور دایاں اوپر ہوتا ہے اور عموماً ایسا ہوتا ہے کہ داہنے ہاتھ کی تینوں درمیانی انگلیوں کے سرے بائیں کہنی تک یا اس سے کچھ پیچھے بٹے ہوئے ہوتے ہیں اور انگوٹھے اور کنارے کی انگلی سے پکڑا ہوتا ہے اور اگر اس کے خلاف او پر یا نیچے یا آگے
۵۴۳ بڑھا کر یا پیچھے ہٹا کر یا ساری انگلیوں سے کوئی پکڑ کر ہاتھ باندھتا ہے تو کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا.ہاتھ باندھ کر سُبحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَىٰ جَدُّكَ وَلَا إِلهُ غَيْرُكَ.....يا اللهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الابْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلُ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالتَّلْجِ وَالْبَرَد....اس کے بعد اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ (تا) وَلَا الضَّالِّين.آمین پڑھنے کا ذکر کر کے لکھتے ہیں.مؤلف ) اس کے بعد کوئی سورۃ یا قرآن مجید کی کچھ آیتیں پڑھتے ہیں اور فاتحہ میں جواهــدنــا کی دعا ہے اس کو بہت توجہ سے اور بعض دفعہ بار بار پڑھتے ہیں اور فاتحہ کے اول یا بعد سورۃ کے پہلے یا پیچھے.غرض کھڑے ہوتے ہوئے اپنی زبان میں یا عربی زبان میں علاوہ فاتحہ کے اور اور دعائیں بڑی عاجزی وزاری اور توجہ سے مانگتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جاتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں گھٹنوں کو انگلیاں پھیلا کر پکڑتے ہیں اور دونوں بازوؤں کو سیدھا رکھتے ہیں اور پیٹھ اور سر کو برابر رکھتے ہیں اور سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ...يا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي...تین یا تین سے زیادہ دفعہ پڑھتے ہیں.اور رکوع کی حالت اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا کرنا چاہیں کرتے ہیں اس کے بعد سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَه.....کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کھڑے کھڑے ربَّنَا لَکَ الحَمْدُ...يا اَللهُمَّ رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ....يا اللهُمَّ رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ حَمُدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيْهِ كَمَا يُحِبْ رَبُّنَا وَيَرْضی یا اس کے سوا اور کوئی ماثور کلمات کہتے ہیں اور اس کے بعد جو دعا کرنی چاہتے ہیں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں کرتے ہیں.اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے نیچے جاتے ہیں.اور پہلے گھنٹے اور پھر ہاتھ اور پھر ناک اور پیشانی یا پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے اور پھر ناک اور پیشانی زمین پر رکھ کر سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى......يا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي...یکم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ طاق پڑھتے ہیں اور چونکہ صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ سجدہ میں بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ سجدہ میں دعا بہت قبول ہوتی ہے.لہذا سجدہ میں اپنی زبان یا عربی زبان میں بہت دعائیں کرتے ہیں.اور سجدہ کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کو کھڑار کھتے ہیں اور ان کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف متوجہ رکھتے ہیں.اور دونوں ہاتھوں کے درمیان سر رکھتے ہیں اور دونوں بازوؤں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا کر کے اور دونوں کہنیوں کو زمین سے اٹھا کر رکھتے ہیں.ہاں جب لمبا سجدہ کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں تو اپنی دونوں کہنیوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھ کر سہارا لے لیتے ہیں.اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے سراٹھا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں.اس طور پر کہ داہناں پاؤں
۵۴۴ کھڑارکھتے ہیں اور بایاں پاؤں بچھا کر اس کے اوپر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے ہیں.اور بیٹھ کر اللهُمَّ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي وَارْفَعُنِي وَاجْبُرْنِي وَارْزُقْنِي.....يا اللهُمَّ اغْفِرْ لِی.تین دفعہ پڑھتے ہیں.اس کے علاوہ اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا چاہتے ہیں دعا مانگتے ہیں.اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے پہلے سجدہ کی مانند سجدہ کرتے ہیں.اور پہلے سجدہ کی مانند اس میں وہی کچھ پڑھتے ہیں اور دوسرے سجدہ میں بھی دعائیں مانگتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں.اور سوائے پہلی تکبیر اور سُبحَانَکَ اللہ اور اَعُوذُ بِاللہ کے بعینہ پہلی رکعت کی مانند دوسری رکعت پڑھتے ہیں.اور دونوں سجدوں کے بعد اس طرح بیٹھ جاتے ہیں جیسا کہ دوسجدوں کے درمیان بیٹھا کرتے ہیں.ہاں اس قدر فرق ہوتا ہے کہ پہلے سجدہ کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طور پر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں.اور دونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں.اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب اٹھتے ہیں تو اپنے بائیں ہاتھ کو تو ویسا ہی رکھتے ہیں اور دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو ہتھیلی سے ملالیتے ہیں اور درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ باندھ لیتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان کی انگلی کو سیدھار کھتے ہیں اور پھر التحیات پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے.اَلتَّحِيَّاتُ للهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتِهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِيْنَ اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا الله ) اور یہ کہتے ہوئے اس انگلی کو اٹھا کر اشارہ کرتے ہیں اور پھر ویسی ہی رکھ دیتے ہیں جیسی کہ پہلے رکھی ہوئی تھی ) وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ...پس اگر تین چار رکعتیں پڑھنی ہوتی ہیں تو اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر باقی رکعتوں کو ویسا ہی پڑھتے ہیں جیسا کہ دوسری رکعت کو پڑھا تھا اور پھر ان کوختم کر کے اخیر میں پھر اسی طریق سے یا داہنے پاؤں کو کھڑا کر کے اور بائیں پاؤں کو داہنے کی طرف نکال کر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور یہی التَّحِيَّات پڑھتے ہیں.اور اگر دو ہی رکعت والی نماز ہوئی تو یہی آخری بیٹھنا ہوتا ہے اور آخری بیٹھنے میں التحیات مذکورہ کے بعد پڑھتے ہیں.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى ابْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ....اس کے بعد پھر کوئی دعا مقرر نہیں بلکہ جو چاہتے ہیں وہ دعا مانگتے ہیں اور ضرور مانگتے ہیں اس کے بعد داہنے طرف منہ پھیر کر کہتے ہیں السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله..اور پھر بائیں طرف بھی اسی طرح منہ پھیر کر کہتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ وَرَحْمَةُ الله -
۵۴۵ پس اللہ اکبر سے نماز شروع ہوتی ہے اور اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله پر ختم ہو جاتی ہے یہ وہ نماز ہے جو کہ حضرت مسیح موعود اور ان کے اہل علم اور مخلص مہاجر اور رات دن ساتھ رہنے والے اصحاب پڑھتے ہیں.جیسا میں نے بیان کیا ہے کہ ہاتھ باندھنے میں اختلاف ہے اور حضرت مسیح موعود اور ان کے مذکورہ بالا خدام فلاں طرز پر باندھتے ہیں.اسی طرح یہ بھی جاننا چاہئے کہ رفع یدین میں بھی اختلاف ہے.(یعنی رکوع کو جاتے ہوئے اور اٹھنے کے بعد نیچے جاتے ہوئے اور دوسری رکعت کے بعد بیٹھ کر پھر اٹھتے ہوئے تکبیر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھوں کو اس طرح اٹھانا جیسا کہ پہلی تکبیر کے وقت اٹھاتے ہیں ) اور اختلاف یہ ہے کہ بعض ان مقاموں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں اور بعض نہیں اٹھاتے اور حضرت مسیح موعود اور ان کے مذکورہ بالا خدام ان مقاموں پر رفع یدین نہیں کرتے.ہاں اگر کوئی ان کے سامنے کرے تو اس پر اعتراض بھی نہیں کرتے.امام ہمام کے ساتھ نماز پڑھنے کی حالت میں ایک اور مسئلہ میں بھی بہت کچھ نزاع ہے اور وہ ہے بلند آواز سے آمین کہنے کا لیکن حضرت مسیح موعود کا عمل درآمد ( جو کہ ترجیح اور ثبوت کے لئے حجت قاطعہ ہے.اور حجت قاطعہ بھی ایسی کہ جس پر ہر ایک عقل مند مومن حلف کھا سکتا ہے کہ خدائے علیم کو یہ پسند ہے ) یہی ہے کہ آپ بلند آواز سے آمین نہیں کہتے اور نہ کسی کہنے والے پر کوئی اعتراض کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو سخت تاکید فرماتے ہیں کہ وہ کسی غیر احمدی کے پیچھے صلوٰۃ ادا نہ کریں...نماز کے مسائل تو بہت سے ہیں لیکن میں نے ان کا ذکر یہاں پر مناسب خیال کیا ہے کہ جو اکثر لوگ دریافت کیا کرتے ہیں یا ان میں عموماً تساہل کیا جاتا ہے یا ان میں اختلاف ہے.چنانچہ آگے بھی کچھ متفرق طور پر ایسے مسائل کا ذکر کرتا ہوں.نماز میں بعض اوقات انسان کو یاد نہیں رہتا کہ کس قدر رکھتیں میں نے پڑھی ہیں تو ایسی صورت میں اول سوچنا چاہئے کہ اگر کسی طرف زیادہ گمان ہو گیا تو وہ کرلے ورنہ کم رکعتیں قرار دے کر باقی اور پڑھ لے اور آخر میں سجدہ سہو کر لے.اسی طرح نماز میں جب کوئی بھول ہو جائے مثلا دورکعتوں کے بعد بیٹھنا بھول جائے تو اس صورت میں نماز ختم کر کے سجدہ سہو کر لے.اور اگر سجدہ بھول جائے تو پھر حکم ہے کہ نماز ختم کر کے یہ سجدہ بھی کر لے اور اس کے بعد سجدہ سہو بھی کر لے.سجدہ میں سہو یوں ہوتا ہے کہ آخری التحیات ختم کر کے سلام پھیر کر یا سلام سے پہلے اللہ اکبر کہ کر نماز کے دوسجدوں کی مانند دو سجدے کر لے اور پھر سلام دے.عام طور پر حنفی لوگ ایسا کرتے ہیں کہ اگر نماز میں امام سے کوئی بھول ہوگئی اور نماز ختم کر کے کوئی بات ہوگئی تو پھر نئے سرے نماز پڑھتے ہیں اور باتوں کے بعد سجدہ سہو کافی نہیں سمجھتے خواہ وہ اس سہو ہی کے متعلق ہوں لیکن یہاں پر حدیث کے موافق سہو کے متعلق بات چیت ہو کر بھی نماز کو دہراتے نہیں بلکہ سجدہ سہو کر لیتے ہیں.
۵۴۶ سفر میں سوا مغرب کی نماز کے اور سب نمازیں دو رکعت پڑھتے ہیں اور سنتیں نہیں پڑھتے ہاں وتر پڑھتے ہیں.اور سفر میں اکثر اوقات ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے ہیں یعنی ایک ہی وقت میں پہلے ایک اور پھر دوسری نماز پڑھ لیتے ہیں.اور جب جمع کرتے ہیں تو اذان ایک ہی ہوتی ہے.اور اقامت دو دفعہ اور کبھی سخت بارش یا بیماری کی وجہ سے بھی جمع کرتے ہیں.جیسی سفر میں جمع کرتے ہیں اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ( یعنی اذان واقامت اور ایک نماز کے وقت میں دونوں نمازیں پڑھنے کے لحاظ سے ورنہ حضر میں جمع صلوتین کی صورت میں چار رکعتوں والی نمازوں کی چار ہی رکعتیں پڑھتے ہیں نہ کہ دو.مؤلف ) سفر میں بارہا ایسا اتفاق ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود بہت دن ایک مقام پر رہے ہیں.اور حضرت سے دریافت کرتے رہے ہیں کہ سفری نمازیں پڑھیں یا پوری تو حضور نے فرمایا کہ چونکہ ہمارا خو د ر ہنے کا مصمم ارادہ نہیں تو ایسے تردد کی حالت میں خواہ بہت دن رہیں تو بھی قصر یعنی سفری نماز پڑھنی چاہئے.حد سفر کی نسبت بہت دفعہ سوال ہوا ہے تو حضور نے یہی فرمایا ہے کہ شریعت میں کوئی حد مقرر نہیں جس کو عرف عام میں سفر کہا جاتا ہے.اس میں قصر کرنا چاہئے.چنانچہ حضور کا معمول یہی دیکھا ہے کہ گورداسپور ، بٹالہ کو جب تشریف لے جاتے ہیں تو سفری نماز پڑھتے ہیں وتروں کی نسبت بہت سوال ہوتا رہتا ہے کہ ایک پڑھا جائے یا تین اور یہ بھی کہ اگر تین ہوں تو پھر کس طرح پڑھے جائیں تو ان میں حضور کا حکم یہ ہے کہ ایک رکعت تو منع ہے اور تین اس طور پر پڑھتے ہیں کہ دور کعتوں کے بعد التحیات پڑھ کر سلام پھیر دیتے ہیں اور پھر اٹھ کر ایک رکعت پڑھتے ہیں اور کبھی دو کے بعد التحیات پڑھتے ہیں اور سلام پھیرنے سے پہلے اٹھ کر تیسری رکعت پڑھتے ہیں.-۴ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کے متعلق حدیث حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رقم فرماتے ہیں.و بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی سیدمحمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے پاس کسی کا خط آیا کہ کیا نماز میں ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی ہے؟ حضرت مولوی صاحب نے یہ خط حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا اور عرض کیا کہ اس بارہ میں جو حدیثیں ملتی ہیں وہ جرح سے خالی نہیں.حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی کیونکہ باوجود اس کے کہ شروع عمر میں بھی ہمارے اردگر دسب حنفی تھے مجھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کبھی پسند نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ طبیعت کا میلان ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی طرف رہا ہے.اور ہم نے بار ہا تجربہ کیا ہے کہ جس بات کی طرف ہماری طبیعت کا میلان ہو وہ تلاش کرنے سے ضرور حدیث میں نکل آتی ہے.خواہ ہم کو پہلے اس
۵۴۷ کا علم نہ ہو.پس آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی.مولوی سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس پر حضرت مولوی صاحب گئے اور کوئی آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ خوش خوش ایک کتاب ہاتھ میں لئے آئے اور حضرت صاحب کو اطلاع دی کہ حضور حدیث مل گئی ہے اور حدیث بھی ایسی کہ جو علی شرط استیخین ہے جس پر کوئی جرح نہیں پھر کہا کہ یہ حضور ہی کے ارشاد کی برکت ہے.‘۴۴ - مولوی ثناء اللہ اور علماء کو اعجاز احمدی پہنچانا آپ نے مجھے تحریر کروایا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اور بعض دوسرے مولویوں کو اعجاز احمدی“ کے نسخے دینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے اور شیخ یعقوب علی صاحب شعر فانی کو امرت سر بھیجا.پہلے ہم میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرت سری کے پاس گئے.وہ ان صحابہ میں سے تھے جن سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خوش تھے.اور وہ حضور سے بات کر لیتے تھے اور مخلص تھے.چنانچہ ہم مولوی ثناء اللہ صاحب کو کتاب دینے گئے.وہ عرفانی صاحب کے بھی پہلے سے واقف تھے.اسی بناء پر باتیں کرتے رہے کتاب کے متعلق کچھ نہیں کہا.دوسرے بعض مولویوں کو بھی ہم نے کتا ہیں پہنچائیں.- مولوی محمد سرور شاہ صاحب کی قسم پر اطمینان و فیصلہ ایک امر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور سید محمد احسن صاحب، نواب محمد علی خان صاحب اور مرزا خدا بخش صاحب کے ذریعہ تحقیقات کروائی لیکن حضور نے پھر تحقیقات کرنے کو کہا.اپنے طور پر اس بارہ میں حضرت مولوی سرورشاہ صاحب تحقیقات کر کے اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے اور آپ نے اپنی تحقیقات کا ذکر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے کر دیا تھا.مؤخر الذکر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جس نتیجے پر پہنچے تھے اس کے متعلق دلائل پیش کئے اور ساتھ ہی یہ بھی عرض کیا کہ مولوی محمد سرور شاہ صاحب نے یوں اپنی تحقیق بیان کی ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ اگر مولوی سرور شاہ صاحب گواہی دے دیں تو میں ان اکیلے کی گواہی پر فیصلہ تسلیم کرلوں گا.حضور کی طرف سے ایک لڑکا آپ کو بلانے آیا.آپ پہنچے تو حضور اور مولوی عبد الکریم صاحب اندر گھر کے دالان میں ایک چارپائی پر بیٹھے تھے.آپ کو بھی حضور نے اسی چارپائی پر بیٹھنے کو کہا.چوتھا کوئی شخص وہاں نہیں تھا.مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور نے میرے سامنے الزام کی نوعیت اور اس کی تحقیقات کرانے اور ان لوگوں کے فیصلہ کا ذکر کر کے اپنے شبہ کا اظہار کیا کہ کہیں رعایت نہ ہو.اور فرمایا کہ چونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے
۵۴۸ فراست دی ہوئی ہے اس سے مجھے یقین ہے کہ آپ میرے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ایک صحابی کی گواہی پر فیصلہ کیا تھا.اور آپ جو کچھ قسمیہ بیان کریں گے اسے صحیح تسلیم کروں گا.میں نے قسمیہ طور پر ساری تفصیل کہہ سنائی کہ کس طرح مجھے علم ہوا اور کیا کچھ میں نے تحقیقات کی.حضور سن چکے تو فرمایا کہ اب اس کو کہو کہ اس نے بر ملاطور پر ایک شخص پر الزام لگایا ہے وہ میری مجلس میں بیان کرے کہ میں نے غلط کہا تو وہ بری ہے ورنہ اس کا گناہ سب اس پر ہے.چنانچہ مرزا خدا بخش صاحب اور میں نے مہمان خانہ میں لوگوں کو جمع کیا اور....صاحب کے پاس گئے اور حضور کے ارشاد سے اطلاع دی.وہ میرے ساتھ آئے اور دروازہ کی اوٹ میں چپ کر کے بیٹھے رہے اور کوئی بات نہ کی.میرا خیال ہے کہ شرمندگی کی وجہ سے بات نہیں کہہ سکے.اور پھر اس مجلس سے چلے گئے اس بات کی اطلاع میں نے حضور کو دے دی...خود ہی قادیان سے چلے گئے اور کئی سال تک قادیان نہیں آئے ہیں ۷- حضور کا حلف اور ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب کی بیعت بیدانہ کے موسم میں حضور باغ والوں کو کہلا بھیجتے کہ بیدا نہ کے ٹوکرے بھر کر تیار رکھیں اور حضور مہمانوں کو لے جا کر اکٹھے مل کر کھاتے.ایک دفعہ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب والد حضرت ام طاہر مرحومہ قادیان آئے ہوئے تھے.باغ کے راستہ میں حضور نے ان سے یہ بات شروع کی کہ جہاں تک میری یاد جاتی ہے.مجھے عیسائیت سے بچپن سے ہی سخت دشمنی ہے اور یہ عداوت میری فطرت میں ودیعت ہوئی ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ باغ کی طرف مڑنے کے لئے سڑک بہشتی مقبرہ سے جامن کے درخت کے پاس سے اتر تے ہوئے حضور نے جوش سے بیان کیا کہ عیسائیت کی مخالفت میرے رگ وریشہ میں بھری ہوئی ہے.ڈھاب کے کنارے سڑک سے جانب غرب مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم کا مکان ہے اس کے قریب جامن مذکور ہے.ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کیا اس پر حضور قسم کھا سکتے ہیں.حضور نے قسم کھائی اور یہ تم ہی ڈاکٹر صاحب کا کام کر گئی.بیدا نہ کھانے کے بعد باغ میں ہی ڈاکٹر صاحب نے بیعت کی ہو یہ صاحب فوت ہو گئے ہیں اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا سامان کر دیا ان کا انجام بخیر ہوا.میں طبع ثانی کے وقت یہ روایت انشاء اللہ تفصیل کے ساتھ شائع کر دوں گا.جامن کا یہ درخت ۱۹۶۲ء میں پختہ چار دیواری بہشتی مقبرہ کی تعمیر کے تعلق میں کاٹ دیا گیا تھا.مکان مفتی فضل الرحمن صاحب موجود ہے.اس تعلق میں سیرۃ المہدی کی ذیل کی روایت درج کی جاتی ہے جس سے روایت
۵۴۹ خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق رویا ۱۸ستمبر ۱۹۰۷ ء سے چند روز قبل حضور نے رو یاد دیکھا فرمایا ” چند روز ہوئے میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا تھا کہ وہ مرتدین میں داخل ہو گیا ہے.میں اس کے پاس گیا وہ ایک سنجیدہ آدمی ہے میں نے اس سے بقیہ حاشیہ: حضرت مولوی صاحب کے ایک حصہ کی تصدیق ہوتی ہے.اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ۱۹۰ء کا ہے.۱۹۰۰ء میں حضرت مولوی صاحب پہلی بار قادیان آئے تھے.دوسری جگہ اس بات کا ذکر کیا گیا ہے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک راوی کو ایک بات کا ایک حصہ یا درہتا ہے اور دوسرے کو ایک دوسرا حصہ یا درہتا ہے.بدر ۰۷-۹-۱۹ (صفحہ ۵) جب میں ۱۹۰۰ء میں پہلی دفعہ قادیان میں آیا تو حضور ان دنوں میں صبح اپنے باغ کی طرف سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے.چنانچہ جب حضرت صاحب باغ کی طرف تشریف لے گئے تو میں بھی ساتھ گیا اور حضور نے شہتوت منگوا کر درختوں کے سائے کے نیچے خدام کے ساتھ مل کر کھائے اور پھر مخاطب فرما کر اپنے دعوی کی صداقت میں تقریر فرمائی.میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ کی صداقت کے متعلق تو کوئی شبہ نہیں رہا لیکن اگر بیعت نہ کی جاوے اور آپ پر ایمان رکھا جاوے کہ آپ صادق ہیں تو کیا حرج ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایسے ایمان سے آپ مجھ سے روحانی فیض حاصل نہیں کر سکتے.بیعت سنت انبیاء ہے اور اس بیعت میں بہت بڑے فوائد اور حکمتیں ہیں.چنانچہ سب سے زیادہ فائدہ یہ ہے کہ انسان کے نفسانی درخت کا جو کڑوا پھل اور بدذائقہ اثر ہے اسے دور کرنے کے لئے ایک پیوند کی ضرورت ہے اور وہ پیوند بیعت کامل ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسی کسی کڑوے ، ترش اور بد ذائقہ پھل دار درخت کو اگر میٹھا اور لذیذ بنانا ہو تو پھر کسی عمدہ ، خوش ذائقہ شیریں پھل دار درخت کے ساتھ اسے پیوند کرتے ہیں.اور اس طرح اس کے بد ذائقہ اور کڑوے پھل خود بخودشیر میں اور عمدہ ہو جاتے ہیں اسی طرح جب کسی انسان کا نفسانی پھل خواب ، گندہ اور بدمزہ ہو تو ایک پاک نفس کی بیعت یعنی اس کے روحانی تعلق اور توجہ اور دعا وغیرہ سے پیوند ہو کر یہ بھی حسب استعداد پاک نفس اور مظہر وظل انبیاء ہو جاتا ہے اور یہ بغیر اس بیعت اور تاثیر روحانی کے اس کا روح محروم رہتا ہے.۴۵ آپ فرماتے تھے." حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے.يَاتِي عَلَيْكَ زَمَنْ كَمِثْلِ زَمَنِ مُوَسَى - الحکم جلد ۶ نمبر ۴۶ صفحه ۱۱ تا۱۴ والبدر جلد انمبر ، اصفحہ ۷۶ ) اکثر لوگ اس کے مفہوم سے ناآشنا ہیں.ا تذکرہ صفحه ۳۶۶ جدید ایڈیشن
۵۵۰ پوچھا کہ یہ کیا ہوا اس نے کہا کہ مصلحت وقت ہے.۴۶۴ بقیہ حاشیہ: میرے نزدیک اس کا یہ مطلب ہے کہ تمام انبیاء میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی ایسے نبی تھے کہ جنہوں نے ایک کمیٹی مقرر کی اور اس کے سرکردہ ممبر قوم میں فتنہ کا موجب ہوئے.حضور کے الہام کا بھی یہی مفہوم ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو دریا کے پارلاتے ہیں اور ان کے سامنے فرعون جیسا دشمن غرق ہوتا ہے لیکن سامری جو کہ سر کردہ ممبر تھا اس امر کو بھانپ چکا ہے کہ وہ تبھی بڑا بن سکتا ہے کہ قوم کی توجہ کسی اور ایسے امر پر مرتکز کر دے کہ جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ سے ان کی توجہ ہٹ جائے.چنانچہ اس کی فتنہ انگیزی کا نتیجہ تھا کہ فَاتَوُا عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَّهُمْ قَالُوا يَمُوسَى اجْعَلُ لَنَا إِلَهَا كَمَا لَهُمُ الهَة - - انہوں نے کہا کہ جیسے ان خوش نصیبوں کے پاس بہت سے بت ہیں.ہمیں ایک ہی بنادیں.جب قوم جنگل میں رہنے لگی تو سامری نے یہ کہلوا دیا کہ ہمیں کتاب دی جائے اور اس طرح حضرت موسی قوم سے غیر حاضر ہو گئے.چنانچہ حضرت موسیٰ نے دعا کی اور آپ کو تین دن کے لئے پہاڑ پر خلوت میں جانے کا حکم ہوا.مصر سے نکلتے ہوئے عید منانے کے لئے بنی اسرائیل نے مصریوں سے زیورات عاریتہ لئے تھے.چونکہ اب ان کے استعمال کی اجازت نہ تھی.اس لئے وہ تمام ایک جگہ سامری کی تحویل میں رکھ دیئے گئے تھے.اب اسے موقعہ ملا اور اس نے ایک بچھڑا بنایا جو آواز بھی نکالتا تھا.ادھر حضرت موسی کو اللہ تعالیٰ نے مزید دس دن ٹھہرنے کا حکم دیا.آپ کے ساتھ ستر نقباء بھی پہاڑ پر گئے تھے لیکن حضرت موسی“ ان سے الگ تھے.اور آپ کو ان کے پاس جانے کی اور ان کو آپ کے پاس یا نیچے قوم کے پاس جانے کی اجازت نہ تھی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب حضرت موسی با وجود تمیں دن گزرنے کے نہ آئے اور مذکورہ صورت کی وجہ سے دس دن کے مزید توقف کی اطلاع بھی نہیں مل سکتی تھی.اس موقع کو سامری نے از بس غنیمت سمجھ کر بچھڑا بنی اسرائیل کے سامنے لا کھڑا کیا اور کہا کہ هذَا الهُكُمْ وَإِلهُ مُوسى فَنَسِی - ۲۸ اور اس طرح اس کو قوم کو گمراہ کرنے کا موقع مل گیا.سامری اور اس کے ساتھیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَا لُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا - ۴۹ اور ایسے ہی سرکردہ لوگوں میں سے قارون تھا جو تباہ ہوا.“ حضرت مولوی صاحب کا یہ مطلب نہیں کہ کمیٹی یا انجمن بنانا نا پسندیدہ ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت موسی“ والی کمیٹی یا انجمن کی طرح یہاں بھی انجمن کے بعض افراد اپنی اور دوسروں کی روحانی تباہی کا موجب ہوں گے.اور یہ بات سر کردہ غیر مبایعین کے متعلق تھی جو انجمن کے کرتا دھرتا تھے اور یہ پوری ہوچکی ہے.
۵۵۱ آپ قسمیہ طور پر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور سے رویا سنا تو معا مجھے یقین ہوا کہ یہ خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق ہے بعد میں خواجہ کمال الدین صاحب کے رویہ نے اس امر کی تصدیق کردی.مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق ان کا رویہ غیر احمدیوں کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے لئے حضرت خلیفتہ اسیح اول سے اجازت لینا اور انگلستان میں ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار جیسے معاند کی امامت میں نماز پڑھنا اور ایک ایڈیٹر سے ریویو آف ریلیجنز کے متعلق سمجھوتہ کرنا کہ اس میں حضرت مسیح موعود کا ذکر نہ ہوگا.سب اس الہام کی تائید کرتے ہیں.خواجہ کمال الدین صاحب کا مرض کرم دین کے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ گورداسپور گئے.ان دنوں حضور کے سامنے کھانا میں پیش کرتا تھا.حضور نے فرمایا کہ میں نے تین وقت سے کھانا نہیں کھایا.اگر اچھی قسم کے آم مل جائیں تو شاید ان سے کھانا کھا سکوں.میں اور حکیم فضل الدین صاحب بھیروی مرحوم بازار گئے.ہمیں معلوم تھا کہ حضور ایسا آم پسند کرتے ہیں جس میں زیادہ ترشی نہ ہو اور اس کا رس پتلا ہو گا ڑھا نہ ہو.بازار سے ایسے آم نہ ملے.پھر ہم سارے باغوں میں گئے صرف ایک باغ میں ایک درخت تھا جس پر آٹھ دانے تھے.وہ تمام ہم نے خرید لئے اور واپس آئے اور اس وقت صبح کے کھانے میں پیش کئے.حضور نے آم پسند کئے اور صرف ایک کھایا اور کھانا بھی اچھی طرح کھا لیا.ہم نے ذکر کیا کہ صرف آٹھ ہی دانے تھے جو ہم نے لے لئے ہیں.حضور نے خوشی کا اظہار کیا.حضور او پر جہاں مقیم تھے وہاں دارالامان کی ایک الماری میں باقی سات دانے میاں شادی خان صاحب نے رکھوادئے.جو ایسی چیزوں کے محافظ ہوتے تھے.چونکہ مجھے بقیہ حاشیہ: - مدرسہ تعلیم الاسلام کے چلانے کے لئے ایک کمیٹی مولوی محمد علی صاحب نے بنائی تھی جس کے ممبر وہ خود اور مولوی عبدالکریم صاحب تھے اور صدر حضرت مولوی نورالدین صاحب تھے یہ کمیٹی ایک قسم کا وبال تھی.اگر کوئی شکایت ہوتی تو اس کے کام حضرت مولوی صاحب کی طرف منسوب ہوتے.اس دن بیدانہ کھانے کے لئے حضور بیٹھے تو میں نے عرض کیا کہ مدرسہ کے متعلق اگر کوئی فروگزاشت ہو تو بعض لوگ حضرت مولوی صاحب کی مذمت کرنے لگتے ہیں سننے والا ان کا معتقد ہوتا ہے اور اسے اس سے صدمہ پہنچتا ہے.حضور کا ارادہ تھا کہ اس امر کی تحقیقات کرائیں لیکن پھر حضور نے اس کمیٹی کی جگہ نواب محمد علی خان صاحب کو مقرر کر دیا.
۵۵۲ تجربہ تھا کہ خواجہ کمال الدین صاحب جب آتے ہیں تو ایک ایک الماری کی تلاشی لیتے ہیں.اس لئے میں نے قفل بھی لگوا دیا.پچھلے پہر میں نے دیکھا کہ قفل نہیں.پوچھنے پر میاں شادی خان صاحب نے بتایا کہ خواجہ صاحب آئے تھے.اور الماریوں کو دیکھنے لگے قفل دیکھ کر سمجھے کہ میں نے لگایا ہے اور مجھ سے چابی کا تقاضا کیا لیکن میں تو قف کیا اور انہیں بتایا کہ یہاں حضور کے لئے آم رکھے ہیں اور حضور نے انہیں بہت پسند کیا ہے لیکن وہ سختی سے پیش آئے اور میں نے انہیں چابی دے دی.انہوں نے ان موٹے موٹے آموں میں سے ایک چوس لیا اور ٹوکری بند کر کے بقیہ آم اپنی بیوی کے نام پارسل کر دئے.رات کو حضور کے سامنے کھانا رکھا گیا اور آم نہ ہونے کی وجہ سے ہم ادھر ادھر ہو گئے.حضور نے آم طلب کئے لیکن ہم خاموش رہے اور حضور نے کھانا چھوڑ دیا اور نہ کھایا.ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب گوڑیا نوی اپنے وطن کے آم حضور کے لئے بھجوایا کرتے تھے.اگلے روز ان کی طرف سے گوڑ گاؤں سے کچھ آم آئے.اور ان کا خط بھی آیا کہ اس دفعہ آم کم ہوئے ہیں اور اس جگہ کے جو آم حضور کو پسند ہیں ان کے یہی چند دانے ہیں جو میں بھیج رہا ہوں یہ پیل والے آم تھے.میاں شادی خان صاحب نے ان آموں کو بھی الماری میں رکھا اور قفل لگا دیا لیکن خواجہ صاحب نے یہ تالا توڑ کر نکال لئے.سی روایت خاکسار نے لکھی تھی اور آپ سے زبانی بھی سنی تھی.معمولی تالا ہوگا اور ایسے تالے معمولی زور آزمائی سے کھل جاتے ہیں یہ کہنا مقصود نہیں کہ قفل شکنی کی.بلکہ یہ بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی پرواہ نہ کی.اور یہ امر کسی مخفی مرض پر دلالت کرتا تھا جو بالآخر خلافت ثانیہ میں ظاہر ہو گیا لیکن اس وقت کینسر کی طرح لا علاج ہو چکا تھا اور روحانی موت کا باعث ہوا.ا خویم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق امام مسجد لندن اس روایت کا ذکر کر کے بتاتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب فرماتے تھے کہ حضرت اقدس کم خور اور از حد نازک مزاج تھے اور آم کے ساتھ جب حضور نے روٹی تناول فرمائی تو سب احباب بہت خوش ہوئے.چوہدری صاحب ذکر کرتے ہیں کہ آپ سے یہ واقعہ سن کر میری طبیعت میں بڑا بیچ وتاب پیدا ہوا.میں نے عرض کیا کہ آپ نے کیوں خواجہ کمال الدین صاحب کو ایسا کرنے دیا کیوں نہ روکا حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.میاں ! اس وقت مولویوں کو پوچھتا کون تھا ؟ ان کا زور تھا.یہ تو خلافت ثانیہ میں آکر ان کی قدر ہوئی.حضرت مولوی صاحب کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ علماء سلسلہ کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے اور بالآخر اپنے کبر و نخوت کا شکار ہو کر خلافت اور جماعت سے منقطع ہو گئے.
۵۵۳ خواجہ کمال الدین صاحب کی مالی امداد حضور نے مولوی عبد الکریم صاحب ذریعہ ایک سو ا حباب کو تحریک کی کہ مقدمہ کرم دین کے لئے چندہ دیں اور ان کے ذمہ مختلف حیثیت کے مطابق رقم لگائی گئی.چنانچہ ان میں میری بڑی پھوپھی کے لڑکے سید حیات علی شاہ بھی تھے اور حضور نے سنایا تھا کہ انہوں نے چالیس روپے بھیجے ہیں.ایک دفعہ پیشی سے واپس آکر خواجہ صاحب نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ میں اور میرے بھائی خواجہ جمال الدین صاحب دود وسور و پیر والد صاحب کو بھیجتے ہیں اور گھر کے اخراجات سے جو روپیہ بچتا ہے اس سے والد صاحب جائیداد خرید لیتے ہیں میں نے ٹھیکہ تو نہیں لیا کہ میں یہاں مقدمات میں مفت پیروی کروں اور میرا بھائی روپیہ بھیجتا رہے اور میں نہ بھیجوں.یہ تمام چندہ مولوی محمد علی صاحب کے پاس جمع تھا اور وہی خرچ کرتے تھے.اور اس وقت آٹھ صد روپیہ باقی تھا.جو خواجہ صاحب نے اصرار کر کے مولوی محمد علی صاحب لے کر گھر بھیج دیا.- قدرت الہی سے ایک بغیض کی بیعت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں.بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مردان کا کوئی آدمی میاں محمد یوسف صاحب مردانی کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کے علاج کے واسطے یہاں قادیان آیا.یہ شخص سلسلہ کا سخت دشمن تھا اور بصد مشکل قادیان آنے پر رضامند ہوا تھا مگر اس نے میاں محمد یوسف صاحب سے یہ شرط کر لی تھی کہ قادیان میں مجھے احمدیوں کے محلہ سے باہر کوئی مکان لے دینا اور میں کبھی اس محلہ میں داخل نہیں ہوں گا.خیر وہ آیا اور احمدی محلہ سے باہر ٹھہرا.اور حضرت مولوی صاحب کا علاج ہوتا رہا جب کچھ دنوں کے بعد اسے کچھ افاقہ ہوا تو وہ واپس جانے لگا.میاں محمد یوسف صاحب نے اس سے کہا کہ تم قادیان آئے اور اب جاتے ہو.ہماری مسجد تو دیکھتے جاؤ.اس نے انکار کیا.میاں صاحب نے اصرار سے اسے منایا تو اس نے اس شرط پر مانا کہ ایسے وقت میں مجھے وہاں بقیہ حاشیہ: اخویم مولوی عبدالمجید صاحب منیب ہلالپوری مربی ربوہ سناتے ہیں کہ یہ روایت سناتے ہوئے حضرت مولوی صاحب نے بڑے جلال سے فرمایا کہ آموں کا ٹوکرا نہیں تھا بلکہ خواجہ صاحب کا ایمان تھا جو نکل گیا تھا.
۵۵۴ لے جاؤ کہ وہاں کوئی احمدی نہ ہو اور نہ مرزا صاحب ہوں.چنانچہ میاں محمد یوسف صاحب ایسا وقت دیکھ کر اسے مسجد مبارک میں لائے.مگر قدرت خدا کہ ادھر اس نے مسجد میں قدم رکھا اور ادھر حضرت مسیح موعود کے مکان کی کھڑ کی کھلی اور حضور کسی کام کے لئے مسجد میں تشریف لے آئے.اس شخص کی نظر حضور کی طرف اٹھی اور وہ بے تاب ہوکر حضور کے سامنے آ گرا اور اسی وقت بیعت کر لی.“ ۱۲ حضرت منشی احمد جان صاحب کے متعلق اسی طرح آپ رقم فرماتے ہیں.د بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ جب منشی احمد جان صاحب مرحوم لدھیانوی پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے تو حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے جس طریق کو اختیار کیا ہے اس میں خاص کیا کمال ہے.منشی صاحب نے کہا میں جس شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ بے تاب ہوکر زمین پر گر جاتا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا تو پھر نتیجہ کیا ہوا؟ منشی صاحب موصوف کی طبیعت بہت سعید اور ذہین واقع ہوئی تھی بس اسی نکتہ سے ان پر سب حقیقت کھل گئی اور وہ اپنا طریق چھوڑ کر حضرت صاحب کے معتقد ہو گئے.حمد سیرۃ المہدی حصہ اول ( روایت اے ) یہ روایت در منثور تقریر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب پر جلسہ سالانہ ۱۹۶۰ء کے جز ۲۲ میں قدرے تغیر کے ساتھ مندرج ہے.حضرت میاں محمد یوسف صاحب وفات پاچکے ہیں.محمد سیرت المہدی حصہ اول ( روایت (۱۴۰) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تقریر والے مضمون در منثور میں بھی اسے درج فرمایا ہے.( جز ۲۴) حضرت ممدوح سیرت المہدی میں اس روایت کے بعد رقم فرماتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرون اولیٰ کے بعد اسلام میں صوفیوں کے اندر توجہ کے علم کا بڑا چرچا ہو گیا اور اس کو روحانیت کا حصہ سمجھا گیا.حالانکہ یہ علم علوم میں سے ایک علم ہے جسے روحانیت یا اسلام سے کوئی خاص تعلق نہیں اور مشق سے ہر شخص کو خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم اپنی استعداد کے مطابق حاصل ہوسکتا ہے اور تعلق باللہ اور اصلاح نفس کے ساتھ اس کا کوئی واسطہ نہیں لیکن چونکہ نیک لوگ اپنی قلبی توجہ سے دوسرے کے دل میں ایک اثر پیدا کر دیتے تھے جس سے بعض اوقات وقتی طور پر وہ ایک سرور محسوس کرتا تھا.اس لئے اسے روحانیت سمجھ لیا گیا اور چونکہ فیح اعوج کے زمانہ میں حقیقی تقوی وطہارت اور اصلاح نفس اور تعلق باللہ بالعموم معدوم ہو چکا تھا اور
۵۵۵ ۱۳- اہل اللہ کا اثر حضرت ممدوح بیان کرتے ہیں.بسم الله الرحمن الرحیم.مولوی قطب الدین صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سلسلہ بیعت سے قبل بقیہ حاشیہ: - علمی طور پر توجہ کے فلسفہ کو بھی دنیا ابھی عام طور پر نہیں سمجھتی تھی اس لئے یہ باتیں طبقہ صوفیاء میں رائج ہو گئیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کا اثر اتنا وسیع ہوا کہ بس انہی کو روحانی کمال سمجھ لیا گیا اور اصل روح جس کی بقاء کے واسطے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا سمجھ کر اس جسم کو ابتداء میں اختیار کیا گیا تھا.نظر سے اوجھل اور دل سے محو ہو گئی لیکن مسیح موعود کے زمانہ میں جو اخرین منھم کا زمانہ ہے حقیقت حال منکشف کی گئی.چنانچہ جب حضرت مسیح موعود نے منشی صاحب کو یہ فرمایا کہ اگر آپ نے کسی شخص کو اپنی توجہ سے گرا لیا تو اس کا نتیجہ یا فائدہ کیا ہوا.یعنی دینی اور روحانی لحاظ سے اس توجہ نے کیا فائدہ دیا.کیونکہ یہ بات تو مشق کے ساتھ ایک دہر یہ بھی اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے تو منشی صاحب کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو پتہ لگ گیا کہ خواہ ہم علم توجہ میں کتنا بھی کمال حاصل کر لیں لیکن اگر لوگ حقیقی تقوی وطہارت اور تعلق باللہ کے مقام کو حاصل نہیں کرتے تو یہ بات روحانی طور پر کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتی.واقعی منہاج نبوۃ کے مقابلہ میں جس پر حضرت مسیح موعود کو قائم کیا گیا اور جس نے روحانیت کا ایک سورج چڑھا دیا.یہ درد آمیز.مکدر اور عارضی روشنی جسے بسا اوقات ایک چور بھی لوگوں کے قلوب سے ایمان و اسلام کا اثاثہ چرانے کی نیت سے اپنی سیاہ کاری میں ممد بنا سکتا ہے کب ٹھہر سکتی تھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے منشی احمد جان صاحب لدھیانوی ایک بڑے صوفی مزاج آدمی تھے.اور اپنے علاقہ کے ایک مشہور پیر سجادہ نشین تھے.مگر افسوس حضرت صاحب کے دعوئی میسحیت سے پہلے ہی فوت ہو گئے.ان کو حضرت مسیح موعود سے اس درجہ عقیدت تھی کہ ایک دفعہ انہوں نے آپ کو مخاطب کر کے یہ شعر فر مایا.ہم مریضوں کی تم مسيحاً مسیحا بنو تمہیں ہے خدا کے لئے منشی صاحب موصوف کی لڑکی سے حضرت خلیفہ اول کی شادی ہوئی اور حضرت مولوی صاحب کی سب نرینہ اولا دانہی کے بطن سے ہے منشی صاحب کے دونوں صاحبزادے قادیان میں ہی ہجرت کر کے آگئے ہوئے ہیں اور منشی صاحب کے اکثر بلکہ قریباً سب متبعین احمدی ہیں نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب منشی صاحب مرحوم سے خود نہیں ملے.لہذا انہوں نے کسی اور سے یہ واقعہ سنا ہوگا.“
جب صرف مجددیت کا دعویٰ تھا.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میں حضور کو صدق دل سے سچا سمجھتا ہوں اور مجھے قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جس رنگ کا اثر اہل علم کی صحبت میں سنا جاتا ہے وہ میں حضور کی صحبت میں بیٹھ کر اپنے اندر نہیں پاتا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ملک کا ایک چکر لگائیں اور سب دیکھ بھال کر دیکھیں کہ جس قسم کے اہل کتاب آپ تلاش کرتے ہیں اور جو اثر آپ چاہتے ہیں وہ دنیا میں کہیں موجود بھی ہے یا نہیں یا صرف کہنے کی باتیں ہیں.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ پھر میں سے اسی غرض سے تمام ہندوستان کا ایک دورہ کیا اور سب مشہور مقامات کراچی، اجمیر، ممبئی ، حیدر آباد دکن ، کلکتہ وغیرہ میں گیا اور مختلف لوگوں سے ملا اور پھر سب جگہ سے ہو کر واپس پنجاب آیا.اس سفر میں مجھے بعض نیک آدمی بھی ملے لیکن وہ بات نظر نہ آئی جس کی مجھے تلاش تھی.پھر میں وطن جانے سے پہلے حضرت صاحب کی ملاقات کے لئے قادیان کی طرف آیا.مگر جب بٹالہ پہنچا تو اتفاقاً مجھے ایک شخص نے اطلاع دی کہ حضرت صاحب تو یہیں بٹالہ میں ہیں.چنانچہ میں حضرت کی ملاقات کے لئے گیا.اس وقت آپ مولوی محمد حسین بٹالوی کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے.میں جب گیا تو آپ باہر سیر سے واپس مکان کو تشریف لا رہے تھے.چنانچہ میں حضور سے ملا اور حضور نے مجھ سے سفر کے حالات دریافت فرمائے.جو میں نے عرض کئے اور پھر میں بٹالہ سے ہی واپس وطن چلا گیا.اس سفر میں نصیر آباد جو اجمیر کی طرف ایک جگہ ہے مجھے ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو حضرت صاحب کے بہت معتقد تھے اور حضرت کے ساتھ خط و کتابت رکھتے تھے.ان لوگوں نے مجھے اپنے پاس مستقل طور پر ٹھہرانا چاہا اور میرے لئے ایک معقول صورت گزارے کی بھی پیش کی لیکن مجھے شرح صدر نہ ہوا.بعد میں جب حضرت صاحب نے مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تو یہ لوگ مرتد ہو گئے اور تب یہ بات مجھے سمجھ آئی کہ مجھے وہاں ٹھہرنے کے لئے کیوں شرح صدر نہیں ہوا تھا.اگر میں ٹھہر جاتا تھا تو ممکن ہے خود بھی کسی ابتلاء میں پڑ جاتا.خیر اس کے بعد کچھ عرصہ گزرا اور میں قادیان نہ آیا.اسی دوران میں سلسلہ بیعت بھی شروع ہو گیا اور مسیحیت کا دعوی بھی ہو گیا لیکن گو میں بدستور معتقد رہا اور کبھی مخالفوں کی مخالفانہ باتوں کا میرے دل پر اثر نہیں ہوا.کیونکہ میں خود اپنی آنکھوں سے حضرت صاحب کو دیکھ چکا تھا لیکن میں بیعت سے رکا رہا.اس کے بعد ایک دفعہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول نے مجھ سے تحریک فرمائی کہ بیعت میں داخل ہو جانا چاہئے.میں نے عرض کیا کہ مجھے ہرگز کوئی اعتراض نہیں ہے.اور میں دل سے سچا سمجھتا ہوں لیکن اتنا بڑا دعویٰ بھی ہو اور میں اثر سے محروم رہوں اور اپنے اندر وہ بات نہ پاؤں جو اہل اللہ کی صحبت میں سنی جاتی ہے تو پھر مجھے کیا فائدہ ہوا؟ یہ سن کر حضرت صاحب نے فرمایا ایسی صورت میں آپ کو واقعی بیعت میں داخل نہیں ہونا چاہئے.ہاں آپ کچھ عرصہ میرے پاس قیام کریں.پھر اگر تسلی اور تشفی
۵۵۷ ہو تو آپ کو اختیار ہے چنانچہ میں کچھ عرصہ یہاں ٹھہرا رہا.اور پھر بیعت سے مشرف ہو کر چلا گیا.جب میں نے بیعت کی درخواست کی تو حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ کیا آپ کو اطمینان ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کی صداقت کے متعلق تو مجھے کبھی بھی شک نہیں ہوا.ہاں ایک خلش تھی سو وہ بھی بڑی حد تک خدا نے دور فرما دی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے مجھ سے یہ بیان کیا تھا کہ بعض لوگوں نے ان کے سامنے بھی بعض اوقات حضرت صاحب کے متعلق اسی قسم کے خیال کا اظہار کیا تھا کہ آپ کی صداقت کے دلائل تو لا جواب ہیں اور آپ کی بزرگی بھی اظہر من الشمس ہے لیکن جواثر اہل اللہ کی صحبت کا سنا جاتا ہے وہ محسوس نہیں ہوتا.چونکہ ممکن ہے اسی قسم کے خیالات بعض اور لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوئے ہیں اس لئے اپنے علم کے مطابق خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خیال دو وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور یہ کوئی نیا خیال نہیں ہے.بلکہ ہمیشہ سے انبیاء ومرسلین کے زمانہ میں بعض لوگوں کے اندر پیدا ہوتا چلا آیا ہے.دراصل اگر غور سے دیکھا جاوے تو انبیاء کے متعلق لوگوں کے چار گروہ ہو جاتے ہیں.اول وہ منکرین جو نہ انبیاء کے دعوی کی صداقت کو مانتے ہیں اور نہ ان کی ذاتی بزرگی اور روحانی اثر کے قائل ہوتے ہیں.دوسرے وہ منکرین جو بوجہ میل ملاقات اور ذاتی تعلقات کے انبیاء کی بزرگی اور ان کے روحانی اثر کے تو ایک حد تک قائل ہوتے ہیں لیکن پرانے رسمی عقائد کی بناء پر دعوی کی صداقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے منکر رہتے ہیں تیسرے وہ مصدقین اور ماننے والے جن پر انبیاء کے دعوی کی صداقت بھی روشن و ظاہر ہوتی ہے اور ان کے روحانی اثر کو بھی وہ علی قدر مراتب محسوس کرتے اور اس سے متمتع ہوتے ہیں اور چوتھے وہ مصدقین جوان کے دعوی کی صداقت کو تو دل سے تسلیم کرتے ہیں اور عمومی رنگ ہیں ان کی بزرگی کو بھی مانتے ہیں اور اس لئے بالعموم ان کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں لیکن اپنے اندر کوئی روحانی اثر محسوس نہیں کرتے اور اسی لئے اس جہت سے کچھ شکوک میں مبتلا رہتے ہیں.اس جگہ ہمیں چوتھے گروہ سے کام ہے.جوصداقت کا تو قائل ہوتا ہے اور بزرگی کو بھی تسلیم کرتا ہے لیکن اپنے اندر روحانی اثر جیسا کہ چاہتا ہے محسوس نہیں کرتا.سو جانا چاہئے کہ بعض اوقات اپنی غفلتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے انسانی روح کے وہ دروازے اور کھڑکیاں جن میں سے کسی بیرونی روح کا اثر ان تک پہنچ سکتا ہے بند ہو جاتی ہیں.اور اس لئے وہ فیضان جوان تک پہنچ سکتا تھا ان تک پہنچنے سے رکا رہتا ہے اور بعض وقت غفلت ایسی غالب ہوتی ہے کہ انسان یہ خیال نہیں کرتا کہ خود میری کھڑکیاں اور دروازے بند ہیں بلکہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ باہر سے روشنی ہی نہیں آ رہی ہے اور اس طرح بجائے اپنی اصلاح کی فکر کرنے کے منبع فیض رسانی پر جو حرف گیری کرنے لگ جاتا ہے.حالانکہ ایسے وقت میں چاہئے کہ انسان
۵۵۸ اپنی فکر کرے اور اپنے دل کی کھڑکیاں کھولے تا کہ آفتاب ہدایت کی روشنی اور دھوپ اس کے اندر داخل ہو کر اس کی تاریکیوں کو دور اور اس کی آلائشوں کو صاف کر سکے مگر کیا ہی بدقسمت ہے وہ شخص جس نے یہ تو دیکھا اور سمجھا کہ سورج طلوع کر چکا ہے لیکن اس نے اپنے دل کی کھڑکیاں نہ کھولیں اور اسی خیال میں اپنی عمر گزار دی کہ سورج کی روشنی میں کچھ نقص ہے کہ وہ مجھ تک نہیں پہنچتی.دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک طرف تو لوگ منہاج نبوت سے ناواقف ہوتے ہیں.اور بوجہ بعد از زمانہ نبوت نبیوں کے حالات اور ان کے طرز وطریق اور ان کے فیض رسانی کی صورت سے نا آشنا ہوتے ہیں.اور دوسری طرف فقیروں اور ولیوں کے متعلق انہوں نے ایسے ایسے قصے اور حالات سنے اور پڑھتے ہوتے ہیں.جو گومحض فرضی اور جھوٹے ہوتے ہیں مگر وہ ان کے اندر ولایت کا ایک معیار قائم کر دیتے ہیں جس کے مطابق وہ دوسروں کو پر کھتے ہیں.اور اس کے مطابق نہ پانے پر شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے لگ جاتے ہیں.مثلاً فرض کرو کہ کسی نے یہ سنا ہو کر شیر وہ جانور ہے جس کا رنگ سرخ ہوتا ہے.اور گردن لمبی ہوتی ہے اور دم بہت چھوٹی ہوتی ہے.اور قد دس فٹ یا اس سے بھی زیادہ بلند ہوتا ہے.وغیر ذالک تو وہ جب کوئی اصل شیر دیکھے گا تو لا محالہ یہی خیال کرے گا کہ یہ تو شیر نہیں ہے.کیونکہ جو نقشہ اس کے ذہن میں شیر کا ہے اس کے مطابق وہ اسے نہیں پائے گا پس نبوت و ولایت کا ایک غلط نقشہ دل میں قائم ہو جانا بھی انسان کو اسی قسم کے شبہات میں مبتلا کر دیتا ہے پس ایسے حالات میں انسان کو چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات زندگی کا بغور مطالعہ کرے.اور منہاج اور سنت نبوی کو اپنے سامنے رکھے.اور زید دبکر کے متعلق جو محض فرضی اور جھوٹے قصے مشہور ہوں ان پر نہ جاوے.اور اپنے معیار کو اس روشنی میں قائم کرے.جو قرآن شریف اور سرور کائنات کے سوانح کے مطالعہ سے اسے حاصل ہو.ایک مسلمان کے واسطے بہر حال قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت مسلم ہے.پس کیا وجہ ہے کہ زید و بکر کے متعلق وہ ایسی باتوں کو سچا تسلیم کرے جو قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی نہیں پائی جاتیں.مسلمانوں میں ولیوں اور بزرگوں کے متعلق ایسے مبالغہ آمیز اور لایعنی قصے اور خوارق مشہور ہیں کہ سن کر حیرات آتی ہے.اور تعجب ہے کہ یہ قصے صرف زبانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بدقسمتی سے مسلمانوں کے لٹریچر میں بھی راہ پا چکے ہیں.اس دھو کے کے پیدا ہونے کی ایک یہ وجہ بھی ہے کہ جیسا کہ میں نے اس کتاب کے حصہ اول میں لکھا تھا علم توجہ نے بھی مسلمانوں کو بہت تباہ کیا ہے.یہ علم ایک مفید علم ہے.اور اس سے کئی صورتوں میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.لیکن اس کا غلط استعمال بھی اپنی نقصان رسانی میں کچھ کم نہیں مسلمانوں میں جب روحانیت کم ہوئی اور لامذہبی اور مادیت کا رنگ پیدا ہونے لگا تو جو لوگ نیک اور متقی تھے ان کو اس کا فکر پیدا ہوا لیکن وہ اپنی
۵۵۹ روحانی حالت کو بھی ایسا قوی نہ پاتے تھے کہ ضلالت کے اس طوفان کو دبا سکیں.پس انہوں نے عوام کو تباہی سے بچانے کے لئے یہ راہ نکالی کہ علم توجہ سے جسے انگریزی میں Hypnotism کہتے ہیں، کام لینا شروع کیا.اور مذہب کی آڑ میں اس علم سے لوگوں کو مسخر کرنا چاہا.چنانچہ وقتی طور پر اس کا فائدہ بھی ہوا اور لوگ مادیت اور جھوٹی آزادی کی رو میں بہہ جانے ایک حد تک بچ گئے.مگر یہ خطر ناک نقصان بھی ثابت ہوا کہ آہستہ آہستہ ایک طرف تو خود توجہ کرنے والے بزرگ اس امر کی اصلی حقیقت سے نا آشنا ہوتے گئے اور دوسری طرف عوام اس نشہ میں ایسے مخمور ہوئے کہ بس اسی کو دین و مذہب اور اسی کو روحانیت اور اسی کو جذب واثر قرار دینے لگے.اور ولایت کا ایک نہایت غلط معیار ان کے اندر قائم ہو گیا.حالانکہ علم توجہ دنیا کے علموں میں سے ایک علم ہے جسے مذہب کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے.بلکہ ہر شخص اپنی محنت اور استعداد کے مطابق اسے کم و بیش حاصل کر سکتا ہے.گویا جس طرح ایک رونے والے بچے کو ماں اپنے آرام کے لئے افیم کی چاٹ لگا دیتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ بچہ افیون کو ہی اپنی غذا سمجھنے لگ جاتا ہے اور اس کے ملنے پر تسکین وراحت پاتا ہے اور اس کے بغیر روتا اور چلاتا اور تکلیف محسوس کرتا ہے.اسی طرح مسلمانوں کا حال ہوا یعنی علم توجہ کے نتیجہ میں جو ایک خمار اور سرور کی حالت عموماً معمول کے اندر پیدا ہو جاتی ہے.اسی کو وہ اپنی روحانی غذا سمجھنے لگ گئے اور خوراک کو جوان کی روح کا حصہ بن سکتی اور اس کی بقا کا موجب ہے.بھلادیا فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ -۱۴ مسیح سے مماثلت اور مہدویت کی برکت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے ایک خطبہ جمعہ میں بیان کیا." ہم نے مسیح موعود کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.آپ میں وہ تمام باتیں تھیں جو سی ناصری میں پائی جاتی تھیں اسی طرح آپ کی جماعت مشابہ ہے مسیح ناصری کی جماعت کے.اس لئے خیال کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی جماعت کو بھی وہی حالات پیش آئیں گے جو مسیح کی قوم کو پیش آئے.اس کے متعلق حضرت خلیفہ ایسی اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ جب حضرت اقدس نے اپنے مسیح ہونے کا اشتہار لکھا تو اس کا مسودہ قبل از اشاعت آپ کو دکھایا.آپ نے پڑھا تو آپ کو خیال پیدا ہوا کہ جس طرح مسیح ناصری کی آمد بنی اسرائیل میں سلسلہ موسوی کے اختتام کی نشان تھی.اسی طرح آپ کی آمد امت محمدیہ کے لئے یہی بات پیدا کرنے والی نہ ہو.آپ نے یہ خیال حضرت مسیح موعود کے حضور پیش کیا تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ مولوی صاحب آپ کا خیال خوب پہنچا.مگر بات یہ ہے کہ میں محض مسیح نہیں ،مہدی بھی ہوں.پس جو مہدویت کے ماتحت جماعت ہوگی اور وہی زیادہ حصہ ہوگی.وہ سلامت رہے گی کیونکہ مہدویت جو محمد بیت کا بروز ہے وہ مجھے
میں مسیحیت سے زیادہ ہے میری جماعت میں مسیحیت کی شان کے ماتحت جولوگ آئیں گے وہ کم ہوں گے.یہ ایک بشارت ہے کہ ہما را کثیر حصہ پہلوں کی ٹھوکروں سے بچے گا مگر آپ جانتے ہیں جس کم حصہ کے لئے بھی یہ بات ہو وہ تو ہلاک ہوا.“ ۱۵- حضرت حسین کے متعلق حضرت مسیح موعود کے وقت میں ایک زمانہ میں مہمان خانہ میں ایسے لوگ جمع ہو گئے تھے جو دیر تک بحث ومباحثہ میں لگے رہا کرتے تھے.اسی عرصہ میں کہیں امام حسین علیہ السلام کے متعلق بحث چل پڑی.حضور کو معلوم ہوا تو آپ نے اشتہار لکھا اور بتایا کہ ہم امام حسین کے متعلق کیا اعتقادر کھتے ہیں.اسی طرح بعض لوگ حدیث کی بے قدری کرنے لگے تو حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود کے سامنے جماعت کو اس غلطی سے روکا تھا.“ ۱۶- بچوں کی تربیت ہمیں اپنے بچوں کو نصیحت کرنی چاہئے اور سمجھانا چاہئے مگر جبر نہیں کرنا چاہئے.مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود کوکسی شخص نے کہا کہ حضور اپنے صاحبزادوں کو ( جوا بھی بہت چھوٹے تھے ) نماز کے لئے فرمائیں.حضرت نے ایک صاحب کا نام لے کر جواب بیٹھے ہیں اور جن کا نام میں اس وقت نہیں لینا چاہتا.فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ جس طرح فلاں صاحب کا فلاں لڑکا ان کی نماز پڑھتا ہے یہ میری نماز پڑھیں.ہاں ترغیب ضروری ہے.☆..۱۷- نقص منہ پر بتانا ضد کا باعث -12 ایک خطبہ جمعہ میں آپ بیان فرماتے ہیں.ایک بدوی نے رسول کریم کے وقت ( میں) مسجد میں پیشاب کیا.آپ دیکھتے رہے مگر نہ روکا.اسی ۱۴ تا ۱۶ مندرجه خطبه ۱۸ فروری ۱۹۲۱ء مندرجه الفضل ۲۱-۲-۲۸ ( صفحہ ۵ تا ۷ ) یہ عبارت مسلسل نہیں ہے بلکہ ہر پیرا خطبہ میں سے الگ الگ اقتباس کے طور پر نقل کیا گیا ہے پہلے پیرے کے آخر پر الفاظ یہ ایک بشارت ہے ( تا ) ہلاک ہوا.اور آخری پیرے میں الفاظ ” ہاں ترغیب ضروری ہے.حضرت مولوی صاحب کے الفاظ معلوم ہوتے ہیں.
۵۶۱ طرح ایک مسلمان نا درست نماز پڑھنے والے کو دیکھ کر خاموش رہے اور جب اس نے نماز پڑھ لی تو فرمایا پھر پڑھو.اسی طرح صحابہ نے جب بعض کو عید گاہ میں نفل پڑھتے دیکھا تو اس وقت نہیں بلکہ بعد میں روکا.پھر کوئی نہیں بتا سکتا کہ مسیح موعود نے کبھی کسی کا نقص دیکھ کر اس کے منہ پر بتایا ہو.بعد میں واعظانہ رنگ میں سمجھاتے اور سمجھنے والا سمجھتا.مگر منہ پر نہ کہتے کیونکہ اس طرح ضد پیدا ہو جاتی ہے اور بہت کم لوگ پھر فائدہ اٹھاتے ہیں.۱۸- جب دوسروں کو بوجہ ممانعت گوشت نہ ملتا تھا تو حضور نے بھی اس عرصہ میں کھانا پسند نہ کیا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں.و بسم اللہ الرحمن الرحیم.مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا مولوی سید سرور شاہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ قادیان کے قصابوں نے کوئی شرارت کی تو اس پر حضرت صاحب نے حکم دیا کہ ان سے گوشت خرید نا بند کر دیا جائے.چنانچہ کئی دن تک گوشت بند رہا.اور سب لوگ دال وغیرہ کھاتے رہے.ان دنوں میں نے (مولوی سید سرور شاہ صاحب نے ) حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میرے پاس ایک بکری ہے وہ میں حضور کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.حضور اسے ذبح کروا کے اپنے استعمال میں لائیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمارا دل اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ہمارے دوست دالیں کھائیں اور ہمارے گھر میں گوشت پکے.سیرۃ المہدی حصہ دوم ، روایت ۴۰۲.اس پر حضرت مؤلف رقم فرماتے ہیں کہ : - اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ حضرت صاحب اس بات کے قائل تھے کہ سب مومنوں کے گھر میں ایک سا کھانا پکنا چاہئے اور سب کا تمدن اور طریق ایک سا ہونا چاہئے بلکہ منشاء صرف یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ گوشت خریدنے کی ممانعت کی گئی تھی آپ کے اخلاق نے یہ گوارا نہیں کیا کہ آپ اپنے لئے تو کوئی خاص انتظام کر لیں اور دوسرے ذی استطاعت احباب جو گوشت خریدنے کی طاقت تو رکھتے تھے مگر بوجہ ممانعت کے ڑکے ہوئے تھے، دالیں کھائیں.والا ویسے اپنے گھر میں ہر شخص کو اختیار ہے کہ اعتدال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق جس طرح کا چاہے کھانا کھائے.“
۵۶۲ - اولاد کی خواہش کس حالت میں ہونی چاہئے محترمہ سیدہ ام طاہر صاحبہ کا نکاح حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب ( خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کے ساتھ پڑھتے وقت حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب نے بیان کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان مبارک سے میں نے خود یہ الفاظ سنے ہیں.ایک شخص نے آکر بڑے الحاح سے عرض کی کہ میرے کوئی اولاد نہیں.حضور دعا کریں کہ اولادہو.اس پر حضور نے تقریر فرمائی اور بتایا کہ اولاد کیا ہوتی ہے.آدمی کی جانشین اور قائم مقام ہوتی ہے اور جیسا کہ آتا ہے.الولد سر لابیه ۵۰ اولا د باپ کے خواص کے نمونہ کو ظاہر کرنے والی ہوتی ہے.وہ چیزیں جن کا شخصی قیام نہیں ہوسکتا.ان کا انہی باتوں میں جوان میں پائی جاتی ہیں جو قائم مقام ہو اس کو ولد کہتے ہیں.اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ عیسائی حضرت مسیح کو خدا کا ولد کہ کر غلطی کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ فنا نہیں ہوتا.اس لئے اسے ولد کی بھی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اولاد کا یہ مفہوم ہے کہ وہ باپ کی صفات اور خصائل کو ظاہر کرنے والی ہو.پس جب کوئی شخص اولا دطلب کرے تو اس کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس میں کوئی ایسی صفات ہیں جن کو وہ پیچھے چھوڑ نا چاہتا ہے.اگر ہیں تو اس کا اولاد کی خواہش کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن اگر اس میں شرارت اور بدی کے سوا کچھ نہیں تو وہ کیوں اولاد کے ذریعہ شر اور بدی پھیلانا چاہتا ہے.۲۰.حسن اور رعب حسن اور رعب دو متضاد باتیں ہیں اور ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ دونوں باتیں موجود تھیں.آپ کے دشمن آپ سے کانپتے تھے اور دوست فدا تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی یہ دونوں باتیں پائی جاتی تھیں.بڑے آدمی عموماً اپنے غریب ماں باپ سے بھی بیگانگی برتتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق تھا کہ آپ اپنے معمولی خدام سے بھی نہایت محبت اور شفقت سے گفتگو فرماتے تھے.اور بعض اوقات ایسی معمولی باتیں پوچھتے تھے کہ ہم حیران ہو جاتے تھے.ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں میری بیوی سے پوچھا کہ شاہ صاحب روزے رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ سارے رکھے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا کہ ہم تو نہیں رکھ سکے تین چار چھوٹ گئے ہیں.غرضیکہ آپ اپنے خدام سے بھی نہایت پیار کی باتیں کرتے تھے.اور ہم نے کسی شخص کو ایسا نہیں دیکھا کہ دشمن بھی اس سے دوستوں جیسے سلوک کی ہی امید رکھیں.
۵۶۳ ۲۱ - ہند و حضور سے حسن سلوک کی امید رکھتے تھے قادیان کے ہندوؤں پر آپ نے بہت بڑے احسان کئے مگر انہوں نے ہمیشہ آپ کو دکھ دیا.مگر پھر بھی یہ لوگ ہمیشہ آپ سے ایسے ہی سلوک کی امید رکھتے تھے.جس کی احمدیوں کو تھی.-۲۲ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمال اطاعت ایک دفعہ آپ گورداسپور تشریف لے گئے.سخت گرمی کا موسم تھا.میں نے مکان کی چھت پر چار پائی بچھا کر بستر کر دیا.آپ کسی ضرورت سے اوپر تشریف لے گئے تو میں نے عرض کی کہ حضور کے لئے یہاں بستر بچھایا ہے اس پر بستر کو دیکھ کر اس طرح پیچھے ہے جس طرح کوئی کسی خطرناک چیز سے خوف کھا کر پیچھے ہٹتا ہے.اور فرمایا کہ میں ہرگز ہرگز اس جگہ سونہیں سکتا.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس چھت پر منڈیر نہ ہو اس پر نہیں سونا چاہئے.چنانچہ حضور اند ر سو گئے حالانکہ گرمی غضب کی تھی.ہم لوگ باری باری پنکھا ہلاتے رہے.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کو کس وقعت کی نظر سے دیکھتے تھے.“ ۲۳- نبوت حضرت مسیح موعود حضرت مسیح موعود.....کوانہی الفاظ سے یاد کیا گیا ہے جن الفاظ سے آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کے انبیاء و مرسلین سے خطاب کیا گیا ہے.ایک زمانہ میں میرے دل میں ایک کھٹکا تھا.اور وہ یہ کہ الفاظ تو وہی ہیں مگر حضرت صاحب ان کے ساتھ قیود لگاتے ہیں.جب میں یہاں قادیان آیا تو یہاں پر مولوی عبد اللہ کشمیری جو میرے دوست اور شاگرد تھے میں نے ان سے کہا تو انہوں نے کہا کہ چونکہ لوگ سمجھتے نہیں اس لئے ان کو سمجھانے کے لئے یہ الفاظ ہیں والا حضرت مسیح موعود نبی ہیں اور پھر مولوی عبدالکریم صاحب سے ملاقات کی.ان سے عرض کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تو آپ کو مولوی خیال کرتا تھا آپ بھی عوام کی سی باتیں کرتے ہیں.حضرت صاحب نبی ہیں یہ محض لوگوں کے سمجھانے کے لئے الفاظ استعمال کرتے ہیں.اس کے بعد مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک خطبہ پڑھا اور اس میں حضرت صاحب کے لئے نبی اور رسول کے الفاظ استعمال کئے.یہ خطبہ چھپ کر شائع ہو چکا ہے.اس خطبہ کو سن کر سید محمد احسن صاحب امروہی
۵۶۴ نے بہت پیچ و تاب کھائے.جب یہ بات مولوی عبد الکریم صاحب کو معلوم ہوئی تو پھر انہوں نے ایک خطبہ پڑھا.اور اس میں حضرت مسیح موعود کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر میں غلطی کرتا ہوں تو حضور مجھے بتلائیں.میں حضور کو نبی اور رسول مانتا ہوں.جب جمعہ ہو چکا اور حضرت صاحب جانے لگے تو مولوی صاحب نے پیچھے سے حضرت صاحب کا کپڑا پکڑ لیا.اور درخواست کی کہ اگر میرے اس اعتقاد میں غلطی ہے تو حضور درست فرمائیں.میں اس وقت موجود تھا.حضرت صاحب مڑ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا مولوی صاحب ! ہمارا بھی یہی مذہب اور دعوی ہے جو آپ نے بیان کیا.یہ خطبہ سن کر مولوی محمد احسن صاحب غصہ میں بھر کر واپس آئے اور مسجد مبارک کے اوپر ٹہلنے لگے اور جب مولوی عبد الکریم صاحب واپس آئے تو مولوی محمد احسن صاحب ان سے لڑنے لگے.آواز بہت بلند ہوگئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مکان سے نکلے اور آپ نے یہ آیت پڑھی.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرُ فَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ال“ - اه ۲۴.امام کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے آپ نے مجھ مؤلف سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز باجماعت ادا کی اور بعض دوستوں سے باتیں کرنے لگے.دوسرے بعض دوست سنتیں ادا کر نے لگے.ان دنوں بعض اوقات مسجد مبارک میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے نمازی بیت الفکر میں کھڑے ہو جاتے تھے.میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور پھر سنتیں پڑھنے لگا.دوسری صف میں تھا.حضور باتوں سے فارغ ہو کر گزرنے لگے تو میں نے نماز توڑ دی.حضور بیت الفکر سے باہر چلے گئے تو میرے پاس کے نمازی نے کہا کہ آپ نے یہ کیا کیا حضور یہ بات سن کر اندر سے واپس بیت الفکر میں تشریف لے آئے.اور فرمایا شاہ صاحب آپ نے درست کیا.امام کا وقت دوسرے لوگوں کی نمازوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے.اتنا کہہ کر حضور واپس تشریف لے گئے.حضور مجھے شاہ صاحب کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے.۲۵ - چند ولال مجسٹریٹ کا ارادہ حبس اور حضور کا فرمانا کہ میں شیر ہوں اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ میں قید ہوں آپ کا ایک مقدمہ گورداسپور میں پیش ہونے والا تھا.آپ نے مجھے ایک دن ضروری انتظام کے لئے
۵۶۵ پہلے بھیج دیا.مجھے وہاں معلوم ہوا کہ آریوں نے ایک پرائیویٹ میٹنگ میں مجسٹریٹ پر زور دیا ہے کہ یہ شخص ہمارے ایک لیڈر کا قاتل ہے اس کو ضرور سزا دو اور اس کو کہا ہے کہ شکار پھنسا ہوا ہے جانے نہ پائے.اور اس نے بھی وعدہ کر لیا ہے کہ وہ ضرور کچھ نہ کچھ کرے گا.مجسٹریٹ کو اختیار ہے کہ فوجداری مقدمہ میں ملزم کو حوالات میں بھیج دے.اور یہ بات عام مشہور ہو چکی تھی کہ مرزا صاحب کو حوالات میں بھیج دیا جائے گا.خواہ ایک دن کے لئے ہی کیوں نہ ہو.دوسرے دن حضور گورداسپور پہنچ گئے.میں نے تمام واقعات من وعن بیان کر دئے جس وقت میں بیان کر رہا تھا حضور لیٹے ہوئے تھے.یہ بات سن کر اٹھ بیٹھے اور اس وقت حضور کی آنکھوں میں ایک خاص بات تھی جو میں نے کبھی کسی انسان کی آنکھ میں نہیں دیکھی.پہلے آپ کی آنکھ میں بھی نہ دیکھی تھی.میں رات کو جنگل میں شیر کے پاس سے بھی گزرا ہوں مگر اس کی آنکھوں میں بھی وہ بات نہیں دیکھی.جو مجھے اس وقت نظر آئی.آپ نے فرمایاوہ کہتے ہیں شکار پھنسا ہوا ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ یہ شیر کا شکار ہے اور شیر بھی خدا کا.وہ ہاتھ ڈالیں گے تو ان کو معلوم ہوگا.میں نے تو اپنے ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے دئے ہوئے ہیں.اور کہہ دیا ہے کہ میں تیری راہ میں ہتھکڑیاں پہنے کو بھی تیار ہوں.مگر میں کیا کروں وہ کہتا ہے کہ تو بری ہوگا.اور میں یقیناً بری ہو جاؤں گا.“ اس بارہ میں آپ کی ذیل کی مفصل روایت بھی درج کی جاتی ہے.مؤلف سیرۃ المہدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں.و بسم اللہ الرحمن الرحیم.بیان کیا مجھ سے حضرت مولوی سید محمد سرورشاہ صاحب نے کہ جن دنوں میں گورداسپور میں کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا اور مجسٹریٹ نے تاریخ ڈالی ہوئی تھی اور حضرت صاحب قادیان آئے ہوئے تھے.حضور نے تاریخ سے دو روز پہلے مجھے گورداسپور بھیجا کہ میں جا کر وہاں بعض حوالے نکال کر تیار رکھوں کیونکہ اگلی پیشی میں حوالے پیش ہونے تھے.میرے ساتھ شیخ حامد علی اور عبدالرحیم نائی باورچی کو بھی حضور نے گورداسپور بھیج دیا.جب ہم گورداسپور مکان پر آئے تو نیچے سے ڈا کٹر محمد اسمعیل خان صاحب مرحوم کو آواز دی کہ وہ نیچے آویں اور دروازہ کھولیں.ڈاکٹر صاحب موصوف اس وقت مکان میں اوپر ٹھہرے ہوئے تھے.ہمارے آواز دینے پر ڈاکٹر صاحب نے بے تاب ہو کر رونا اور چلانا شروع کر دیا.ہم نے کئی آوازیں دیں مگر وہ اسی طرح روتے رہے.آخر تھوڑی دیر کے بعد وہ آنسو پونچھتے ہوئے نیچے آئے.ہم نے سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس محمد حسین منشی آیا تھا.مولوی صاحب کہتے تھے کہ محمد حسین مذکور گورداسپور میں کسی کچہری میں محرر یا پیشکار تھا اور سلسلہ کا سخت مخالف تھا.اور مولوی محمد حسین بٹالوی کے ملنے والوں میں سے تھا.خیر ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا کہ محمد حسین منشی آیا اور اس نے مجھے کہا کہ آج کل یہاں آریوں کا جلسہ ہوا ہے
بعض آرئیے اپنے دوستوں کو بھی جلسہ میں لے گئے تھے.چنانچہ اسی طرح میں بھی وہاں چلا گیا.جلسہ کی عام کارروائی کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ اب جلسہ کی کارروائی ہو چکی ہے.اب لوگ چلے جاویں.کچھ ہم نے پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں.چنانچہ سب غیر لوگ اٹھ گئے میں بھی جانے لگا مگر میرے آریہ دوست نے کہا کہ اکٹھے چلیں گے آپ ایک طرف ہو کر بیٹھ جاویں یا باہر انتظار کریں.چنانچہ میں وہاں ایک طرف ہوکر بیٹھ گیا.پھر ان آریوں میں سے ایک شخص اٹھا اور مجسٹریٹ کو مرزا صاحب کا نام لے کر کہنے لگا کہ یہ شخص ہمارا سخت دشمن اور ہمارے لیڈر لیکھرام کا قاتل ہے.اب وہ آپ کے ہاتھ میں شکار ہے اور ساری قوم کی نظر آپ کی طرف ہے اگر آپ نے اس شکار کو ہاتھ سے جانے دیا تو آپ قوم کے دشمن ہوں گے اور اسی قسم کی جوش دلانے کی باتیں کیں.اس پر مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ میرا تو پہلے سے خیال ہے کہ ہو سکے تو نہ صرف مرزا کو بلکہ اس مقدمہ میں جتنے بھی اس کے ساتھی اور گواہ ہیں سب کو جہنم میں پہنچادوں.مگر کیا کیا جاوے کہ مقدمہ ایسی ہوشیاری سے چلایا جارہا ہے کہ کوئی ہاتھ ڈالنے کی جگہ نہیں ملتی.لیکن اب میں عہد کرتا ہوں کہ خواہ کچھ ہواس پہلی پیشی میں ہی عدالتی کارروائی عمل میں لے آؤں گا.مولوی صاحب کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ محمد حسین مجھ سے کہتا تھا کہ آپ یہ نہیں سمجھے ہوں گے کہ عدالتی کارروائی سے کیا مراد ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجسٹریٹ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ شروع یا دوران مقدمہ میں جب چاہے ملزم کو بغیر ضمانت قبول کئے گرفتار کر کے حوالات میں دے دے.محمد حسین نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کے سلسلہ کا سخت مخالف ہوں.مگر مجھ میں یہ بات ہے کہ میں کسی معزز خاندان کو ذلیل و بر باد ہوتے خصوصاً ہندوؤں کے ہاتھ سے ذلیل ہوتے نہیں دیکھ سکتا.اور میں جانتا ہوں کہ مرزا صاحب کا خاندان ضلع میں سب سے زیادہ معزز ہے.پس میں نے آپ کو یہ خبر پہنچا دی ہے کہ آپ اس کا کوئی انتظام کر لیں.اور میرے خیال میں دو تجویزیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ ہے کہ چیف کورٹ لاہور میں یہاں سے مقدمہ تبدیل کرانے کی کوشش کی جاوے.اور دوسرے یہ کہ خواہ کسی طرح ہو مگر مرزا صاحب اس آئندہ پیشی میں حاضر عدالت نہ ہوں اور ڈاکٹری سرٹیفکیٹ پیش کر دیں.مولوی صاحب نے بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا تو ہم سب بھی سخت خوفزدہ ہو گئے اور فیصلہ کیا کہ اسی وقت قادیان کوئی آدمی روانہ کر دیا جاوے.جو حضرت صاحب کو یہ واقعات سنادے.رات ہو چکی تھی ، ہم نے یکہ تلاش کیا اور گوگئی یکے موجود تھے مگر مخالفت کا اتنا جوش تھا کہ کوئی یہ نہ ملتا تھا.ہم نے چار گنے کرایہ دینا کیا مگر کوئی یکہ والا راضی نہ ہوا.آخر ہم نے شیخ حامد علی اور عبدالرحیم باورچی اور ایک تیسرے شخص کو قادیان پیدل روانہ کیا.وہ صبح کی نماز کے وقت قادیان پہنچے اور حضرت صاحب سے مختصراً عرض کیا.
حضور نے بے پروائی سے فرمایا.خیر ہم بٹالہ چلتے ہیں خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب لاہور سے واپس آتے ہوئے وہاں ہم کو ملیں گے.ان سے ذکر کریں گے اور وہاں پتہ لگ جائے گا کہ تبدیل مقدمہ کے متعلق ان کی کوشش کا کیا نتیجہ ہوا ہے.چنانچہ اسی دن حضور بٹالہ آگئے.گاڑی میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب بھی مل گئے.انہوں نے خبر دی کہ تبدیل مقدمہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی.پھر حضرت صاحب گورداسپور چلے آئے اور راستہ میں خواجہ صاحب اور مولوی صاحب سے اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں کیا.جب آپ گورداسپور مکان پر پہنچے تو حسب عادت الگ کمرے میں چار پائی پر جالیٹے مگر اس وقت ہمارے بدن کے رونگٹے کھڑے تھے کہ اب کیا ہوگا.حضور نے تھوڑی دیر کے بعد مجھے بلایا.میں گیا اس وقت حضرت صاحب نے اپنے دونوں ہاتھوں کے پنجے ملا کر اپنے سر کے نیچے دئے ہوئے تھے اور چت لیٹے ہوئے تھے.میرے جانے پر ایک پہلو پر ہو کر کہنی کے بل اپنی ہتھیلی پر سرکا سہارا دے کر لیٹ گئے.اور مجھ سے فرمایا میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ وہ سارا واقعہ سنوں کہ کیا ہے.اس وقت کمرے میں کوئی اور آدمی نہیں تھا.صرف دروازے پر میاں شادی خان کھڑے تھے.میں نے سارا قصہ سنایا کہ کس طرح ہم نے یہاں آکر ڈاکٹر اسمعیل خان صاحب کو روتے ہوئے پایا.پھر کس طرح ڈاکٹر صاحب نے منشی محمد حسین کے آنے کا واقعہ سنایا اور پھر محمد حسین نے کیا واقعہ سنایا.حضور خاموشی سے سنتے رہے.جب میں شکار کے لفظ پر پہنچا تو یک نخت حضرت صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کی آنکھیں چمک اٹھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا.اور آپ نے فرمایا میں اس کا شکار ہوں ! میں شکار نہیں ہوں.میں شیر ہوں.اور شیر بھی خدا کا شیر.وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ ایسا کر کے تو دیکھے.یہ الفاظ کہتے ہوئے آپ کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ کمرے کے باہر کے بھی سب لوگ چونک اٹھے اور حیرت کے ساتھ ادھر متوجہ ہو گئے مگر کمرے کے اندر کوئی نہیں آیا.حضور نے کئی دفعہ خدا کے شیر کے الفاظ دہرائے اور اس وقت آپ کی آنکھیں جو ہمیشہ جھکی ہوئی اور نیم بند رہتی تھیں واقعی شیر کی آنکھوں کی طرح کھل کر شعلہ کی طرح چمکتی تھیں اور چہرا اتنا سرخ تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا.پھر آپ نے فرمایا میں کیا کروں.میں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پاؤں میں لوہا پہننے کو تیار ہوں.مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں میں تجھے ذلت سے بچاؤں گا اور عزت کے ساتھ بری کروں گا.پھر آپ محبت الہی پر تقریر فرمانے لگ گئے اور قریباً نصف گھنٹہ تک جوش کے ساتھ بولتے رہے لیکن پھر یکلخت بولتے بولتے آپ کو ابکائی آئی اور ساتھ ہی تے ہوئی جو خالص خون کی تھی.جس میں کچھ خون جما ہوا تھا اور کچھ بہنے والا تھا.حضرت نے قے سے سراٹھا کر رومال سے اپنا منہ پونچھا اور آنکھیں بھی پونچھیں جو قے کی وجہ سے پانی لے آئی تھیں.مگر آپ کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ قے میں کیا نکلا ہے.کیونکہ آپ نے یکلخت جھک کر
۵۶۸ قے کی اور پھر سر اٹھالیا.مگر میں اس کے دیکھنے کے لئے جھکا تو حضور نے فرمایا کیا ہے؟ میں نے عرض کیا حضور قے میں خون نکلا ہے.تب حضور نے اس کی طرف دیکھا.پھر خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے سب لوگ کمرے میں آگئے اور ڈاکٹر کو بلوایا گیا.ڈاکٹر انگریز تھا.وہ آیا اور قے دیکھ کر خواجہ صاحب کے ساتھ انگریزی میں باتیں کرتا رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ اس بڑھاپے کی عمر میں اس طرح خون کی قے آنا خطرناک ہے.پھر اس نے کہا کہ یہ آرام کیوں نہیں کرتے ؟ خواجہ صاحب نے کہا آرام کس طرح کریں.مجسٹریٹ صاحب قریب قریب کی پیشیاں ڈال کر تنگ کرتے ہیں.حالانکہ معمولی مقدمہ ہے.جو یونہی طے ہو سکتا ہے.اس نے کہا اس وقت آرام ضروری ہے.میں سرٹیفکیٹ لکھ دیتا ہوں.کتنے عرصہ کے لئے سرٹیفکیٹ چاہئے ؟ پھر خود ہی کہنے لگا.میرے خیال میں دو مہینے آرام کرنا چاہئے.خواجہ صاحب نے کہا کہ فی الحال ایک مہینہ کافی ہو گا.اس نے فوراً ایک مہینہ کے لئے سرٹیفکیٹ لکھ دیا اور لکھا کہ اس عرصہ میں میں ان کو کچہری میں پیش ہونے کے قابل نہیں سمجھتا.اس کے بعد حضرت صاحب نے واپسی کا حکم دیا.مگر ہم سب ڈرتے تھے کہ اب کہیں کوئی نیا مقدمہ نہ شروع ہو جاوے.کیونکہ دوسرے دن پیشی تھی اور حضور گورداسپور آکر بغیر عدالت کی اجازت کے واپس جارہے تھے.مگر حضرت صاحب کے چہرہ پر بالکل اطمینان تھا.چنانچہ ہم سب قادیان چلے آئے.بعد میں ہم نے سنا کہ مجسٹریٹ نے سرٹیفکیٹ پر بڑی جرح کی اور بہت تلملایا.اور ڈاکٹر کو شہادت کے لئے بلایا.مگر اس انگریز ڈاکٹر نے کہا کہ میرا سرٹیفکیٹ بالکل درست ہے اور میں اپنے فن کا ماہر ہوں.اس پر میرے فن کی رو سے کوئی اعتراض نہیں کر سکتا اور میرا سرٹیفکیٹ تمام اعلیٰ عدالتوں تک چلتا ہے.مجسٹریٹ بڑ بڑا تا رہا مگر کچھ پیش نہ گئی.پھر اسی وقفہ میں اس کا گورداسپور سے تبادلہ ہو گیا.اور نیز کسی ظاہر انہ معلوم وجہ سے اس کا تنزل بھی ہو گیا.یعنی وہ ای.اے سی سے منصف کر دیا گیا.مؤلف سیرۃ المہدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اس کے آخر میں رقم فرماتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالباً اس مجسٹریٹ کا نام چند ولال تھا.اور وہ تاریخ جس پر اس موقع پر حضرت صاحب کو پیش ہونا تھا ا لیا 4 افروری ۱۹۰۴ تھی.“ ( حصہ اول.روایت ۱۰۴) بوجه درخواست انتقال مقدمہ کا رروائی ۱۴ فروری تک ملتوی ہوئی (الحکم ۰۴-۲-۰اصفه ۳ ک۲) ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے درخواست انتقال ۱۲ فروری کو نا منظور کر دی.جس پر انتقال کی درخواست چیف کورٹ میں دی گئی مزید مرقوم ہے.
۵۶۹ -۲۶ حضور کیسی جماعت تیار کرنا چاہتے تھے حضرت مولوی صاحب بیان فرماتے تھے.مجھے بخوبی یاد ہے کہ جب مسجد مبارک کی تعمیر کا بل مولوی محمد علی صاحب نے روک دیا اور حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم کو اس سے تکلیف ہوئی تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بقیہ حاشیہ: - " مقدمہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی عدالت سے واپس چندو لال کی عدالت میں ۱۶ فروری کو پیش ہوا.اعلیٰ حضرت کی طبیعت اس روز سخت ناساز ہو گئی.اور آپ سول سرجن صاحب بہادر گورداسپور کے ہی سرٹیفکیٹ کی وجہ سے اس روز واپس چلے آئے.۱۶ / فروری کو جگر ۲۰ منٹ گزرے مقدمہ عدالت میں پیش ہوا عدالت میں جانے سے پہلے گورداسپور کا ایٹما سفیر (ATMOSPHERE) ہماری خطرناک مخالفت کی آوازوں سے گونج رہا تھا اور مقدمات کے متعلق عجیب عجیب افواہیں اڑائی جارہی تھیں.بہت سی ردو کد کے بعد مجسٹریٹ نے ایک ہفتہ کی مزید مہلت چیف کورٹ سے حکم لانے کے واسطے دی اور ۲۳ فروری ۱۹۰۴ء مقرر کی.‘ ۵۲ ۲۲ فروری کو چیف کورٹ میں بھی درخواست نامنظور ہوئی اور ۲۳ اور ۲۴ فروری کو حضور کے وکلاء بعدالت چندو لال پیش ہوئے.۵۳ بدر ۰۴-۳- اصفحه ۵اک امیں مزید مرقوم ہے کہ حضرت اقدس بوجہ علالت طبع بر سرٹیفکیٹ سول سرجن ضلع گورداسپور تشریف نہ لے گئے.پھر ۸ مارچ کو پیشی میں خواجہ کمال الدین صاحب حاضر ہوئے.۱۴ مارچ کو پیشی تھی.حضور کی طبیعت ناساز تھی.۱۳ مارچ کو گورداسپور کے سول سرجن قادیان آئے اور انہوں نے حضور کو چھ ہفتہ تک سفر کرنے کے قابل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا.( مقدمہ ) ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ پر ۱۵ مارچ ۱۹۰۴ء کے لئے ملتوی ہوا کہ ڈاکٹر صاحب آ کر شہادت دیں کہ واقعی اعلیٰ حضرت بیمار ہیں یا نہیں.خواجہ کمال الدین صاحب وکیل نے عدالت کو توجہ دلائی کہ یہ شہادت ایکٹ شہادت کے ماتحت غیر متعلق ہے.اور اس کے علاوہ پیر مہر علی شاہ کے متعلق جب سرٹیفکیٹ پیش ہوتے رہے ہیں تو عدالت نے کبھی یہ تجویز نہیں کیا کہ ڈاکٹر خود آ کر شہادت حلفی دے.مگر مجسٹریٹ صاحب نے اپنا فیصلہ بحال رکھا اور ۱۵ / مارچ ۱۹۰۴ء کو ڈاکٹر صاحب کی شہادت لی.جنہوں نے اپنے سرٹیفکیٹ کی تصدیق کی.آخر عدالت نے اس مقدمہ کو ۱۰ اپریل پر ملتوی کیا“.۵۴
۵۷۰ خدمت میں یہ شکایت کی تو جب مولوی محمد علی صاحب کو اس شکایت کا علم ہوا تو وہ بہت طیش میں آگئے یہاں تک کہ انہوں نے قادیان سے جانے کا ارادہ کر لیا اور تیاری شروع کر دی.جناب خواجہ کمال الدین صاحب یہاں آئے ہوئے تھے انہوں نے بہت سمجھایا مگر مولوی صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا.اور وہ روانگی پر زیادہ ہی مصر ہوتے گئے.بقیہ حاشیہ لالہ چند ولال مجسٹریٹ تبدیل ہو گئے ہیں (الحکم ۰۴-۴-۱۰ صفحه ۲۶) گورنمنٹ گزٹ مورخہ ۱۰-۳-۰۴ کی رو سے لالہ چند و لال بی.اے کی تنزلی ہوئی اور ملتان میں بطور منصف تعینات ہوئے.“ ۵۵ مندرجہ بالا روایت کے مطالعہ سے ذیل کے امور مستنبط ہوتے ہیں.۱- مولوی محمد سرورشاہ صاحب گویا ۱۴ فروری ۱۹۰۴ء کو گورداسپور بھجوائے گئے یعنی پیشی سے دو روز پہلے ( مولوی صاحب کے دو بیانات ہیں.ایک میں ایک روز اور ایک میں دوروز قبل جانے کا ذکر ہے) حضور ۱۵ر فروری کو گورداسپور تشریف لے گئے.اس وقت تک یعنی ۱۲ فروری کو انتقال مقدمہ کی درخواست ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ہاں سے نامنظور ہو چکی تھی.چیف کورٹ میں اس بارہ میں درخواست ۲۲ فروری کو نا منظور ہوئی.روایت کا یہ حصہ قابل توجہ ہے کہ بعض احباب کو مجسٹریٹ کی بدنیتی کے متعلق اطلاع دینے کے لئے قادیان بھجوایا گیا تو.حضور نے فرمایا ہم بٹالہ چلتے ہیں خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب لاہور سے واپس آتے ہوئے وہاں سے ہم کو ملیں گے.ان سے ذکر کریں گے اور وہاں پتہ لگ جائے گا کہ تبدیل مقدمہ کے متعلق ان کی کوشش کا کیا نتیجہ ہوا ہے.چنانچہ اسی دن حضور بٹالہ گئے.گاڑی میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب بھی مل گئے.انہوں نے خبر دی کہ تبدیل مقدمہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی.“ گویا اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ وکلاء نے کوشش کی ہوگی کہ ۱۶ / فروری کی پیشی سے قبل چیف کورٹ میں درخواست انتقال دائر ہو جائے یا تاریخ بھی مل جائے تا ۶ ار فروری کی پیشی ملتوی ہو جائے اور حضرت اقدس کو پیش نہ ہونا پڑے لیکن اس میں کامیابی نہ ہوئی..مولوی صاحب کا بیان ہے کہ گورداسپور میں ڈاکٹری سرٹیفکیٹ دینے پر سول سرجن کی شہادت لالہ چند ولال نے طلب کی اور جرح کی اور بہت تلملایا لیکن اس میں سہو ہے.جیسا کہ اوپر الحکم کے حوالہ سے لکھا گیا ہے ۱۳ مارچ کو قادیان آکر سول سرجن نے مزید چھ ہفتے کا سرٹیفکیٹ دیا.اور اس بناء پر حضرت اقدس ۱۴۴ ر مارچ کی پیشی پر حاضر نہ ہوئے.اس پر عدالت نے ۱۵ / ما رچ کو اس کا بیان سرٹیفکیٹ کے متعلق لیا.
۵۷۱ آخر اس کی اطلاع حضور کو پہنچی اور حضور مولوی محمد علی صاحب والی کوٹھی میں تشریف لائے.بات چیت شروع ہوئی تو مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ ہم اس لئے یہاں پر آئے ہیں کہ حضور سے دعائیں اور جب ہماری شکایتیں حضور کے پاس جاتی ہیں تو آخر آپ بھی انسان ہیں کسی وقت ان سے متاثر بھی ہو سکتے ہیں.تو اس پر حضور نے فرمایا کہ میری حالت یہ ہے کہ ایک ہی خیال ہے جو کہ ہر وقت مجھے اپنی طرف متوجہ رکھتا ہے.اور دوسری طرف مجھے متوجہ ہونے ہی نہیں دیتا.میں باہر آپ لوگوں میں بیٹھتا ہوں آپ سمجھتے ہیں یہ ہم میں بیٹھا ہوا اور ہماری باتیں سنتا ہے.مگر میرا ذہن اسی ایک خیال کی طرف لگا ہوا ہوتا ہے.گھر میں جاتا ہوں تو گھر والے سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس ہے مگر میرا دھیان صرف ایک ہی بات کی طرف ہوتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے دعوئی کے دلائل بھی دئے اور لوگوں کے اعتراضوں کے جواب بھی دئے اور خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے زبردست نشان بھی دکھائے مگر یہ کچھ بھی نہیں.اگر اصل کامیابی نہ ہو اور وہ یہ ہے کہ ہم ایک عمدہ جماعت تیار کر لیں.جو ہمارے بعد عمدگی کے ساتھ اس کام کی تعمیل کر سکے کہ جس کو ہم نے شروع کیا ہے لیکن جب میں جماعت پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ شاید خدا نے میرے لئے بھی پہلے مسیح اور موسئے اور دیگر بہت سے نبیوں کی طرح یہی مقدر کیا ہے کہ میں بھی ان کی طرح ناکامی کا منہ دیکھوں اور خیال آتا ہے کہ شاید خدا نے صرف ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہی یہ مقدر کیا تھا کہ وہ اپنی سب مرادوں کو پورا ہوا دیکھ کراپنے خدا کی طرف روانہ ہوں.حضرت موسے کو دیکھو کہ قوم کو یہ کہ کر مصر سے روانہ ہوئے کہ تم کو ارض مقدس میں داخل کروں گا.مگر اسی قوم کے سامنے ارض مقدسہ کے راستہ ہی میں فوت ہو گئے.حضرت عیسی بقیہ حاشیہ: - ۴.مولوی صاحب کے بیان سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ گویا گورداسپور والے سرٹیفکیٹ کی رو سے حاصل شدہ ایک ماہ کے وقفہ میں لالہ چند ولال کا تبادلہ ہوگیا.اس سہو کی بھی تصحیح ہو جاتی ہے.نوٹ:حضرت مولوی صاحب کی روایت کی تکمیل بھائی مددخاں صاحب کی روایت مندرجہ الحکم مورخه ۱۴ تا ۲۸ مارچ ۱۹۳۸ء (صفحہ۶،۵) سے ہوتی ہے.گورداسپور سے وہ بھی دو دیگر افراد کے ہمراہ قادیان یہ اطلاع دینے کے لئے آئے تھے.حضور نے بات سن کر فرمایا کہ میں بیمار تو ہوں اور سرٹیفکیٹ لینے کا ارادہ تھا لیکن اب میں گورداسپور جا کر ہی سرٹیفکیٹ لوں گا.بھائی مددخاں صاحب اپنے ہمراہ شیخ حامد علی صاحب اور غالبا کے لفظ کے ساتھ عبدالمجید صاحب برادر منشی عبد الغنی صاحب اوجلوی جانے کا ذکر کرتے ہیں اور حضرت مولوی صاحب کی روایت میں بھی تین افراد کے قادیان بھجوانے کا ذکر ہے ایک تو شیخ صاحب ہی دوسرے عبدالرحیم صاحب باور چی اور تیسرے ایک اور صاحب جن کا نام آپ نے بیان نہیں کیا.
۵۷۲ کو دیکھو جس قوم کو ہدایت دینے کے لئے آئے تھے وہی ان کو صلیب دلاتی ہے اور اپنے حواریوں پر ان کو اعتماد تھا.انہی میں سے ایک چند کھوٹے روپے لے کر پکڑواتا ہے.اور ان میں سے جو بڑا تھا وہ ان پر لعنت بھیجتا ہے.حضور نے اس وقت ایسے پُر در دطریقہ سے اس کو بیان فرمایا کہ حضور پر بھی ایک رقت طاری تھی اور جس قدر حضور کے خدام موجود تھے ان میں سے اکثر کی آنکھیں پُر نم تھیں اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اس (امر ) نے میری توجہ کو اس قدر کھینچا ہوا ہے کہ میر صاحب نے بے شک میرے پاس آکر کچھ کہا تھا.میرے کان میں کچھ آواز پڑ رہی تھی مگر اس کی طرف اس قدر بھی متوجہ نہیں ہو سکا کہ مجھےسمجھ آتا کہ انہوں نے کیا کہا ہے.‘ ۵۶ حضرت مسیح موعود کی نظر فیض اثر میں آپ کو مہمان خانہ سے دار المسیح میں بلوا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا (اس وقت مولوی صاحب کی عمر ستائیس سال کی تھی اور حضور کا چہرہ مبارک پر جلال نظر آتا تھا) ہم لوگ جو خدا کی طرف سے آتے ہیں ہمیں ایک فراست دی جاتی ہے.اس فراست کے ساتھ ہم جان لیتے ہیں کہ اس شخص میں رشد اور سعادت کا مادہ ہے.ان لوگوں پر فیضان کے خاص وقت آتے ہیں ان اوقات میں جو رشد اور سعادت والے لوگ ہوتے ہیں اپنی استعداد کے مطابق اس فیضان سے حصہ حاصل کرتے رہتے ہیں.اس طرح فیضان کے مختلف وقتوں میں حسب استعداد وہ اس قدر فیضان حاصل کر لیتے ہیں کہ جسے ولایت کہتے ہیں.اس خدا داد فراست کے ساتھ ہم لوگ جس میں اس رشد و سعادت کو دیکھ لیتے ہیں اگر وہ شخص فیضان کے نزول کے وقت موجود نہیں ہوتا تو ہمیں کچھ رنج اور افسوس ہوتا ہے کہ فلاں شخص موجود نہ تھا.اگر ہوتا تو وہ بھی فائدہ اٹھالیتا.خدا نے مجھے وہ فراست دی ہے اس کے ساتھ میں آپ میں وہ رشد اور سعادت دیکھتا ہوں اس لئے میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کم از کم آٹھ نو مہینے میرے پاس رہیں.“ چنانچہ آپ حضور کے فیضان خاص سے خوب فیض یافتہ ہوئے.اللہ تعالیٰ کے فضل نے آپ کو ایک خاص الخاص عظیم الشان اور دائمی شرف قبول سے نوازا.حضور نے نوے صفحات کی کتاب رقم فرمائی جس میں اردو کے اکتالیس صفحات ہیں اور عربی کے پانچ صد چونتیس نہایت فصیح و بلیغ عربی اشعار ہیں.ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشائے خصوصی اور تقدیر خاص کارفرما تھی.حضور نے اس کتاب میں " مخلص دوست“ ”ہمارے دوست مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ” اور ”ہمارے مخلص دوست سید محمد سرور شاہ صاحب کے پیارے الفاظ سے اور سات کتاب ہذا صفحه ۵۴
۵۷۳ ☆ دفعہ صاحب ( دوست ) اور دو بار رفیق کے پُر محبت الفاظ سے یاد فرمایا ہے.حدیث قدسی میں جو آتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ تقریب الہی حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ یوضع له القبول في الارض ۵۷ یعنی بارگاہ الہی سے اپنے پیارے بندے کی دنیا میں قبولیت عطا کرنے کا حکم صادر ہوتا ہے.مباحثہ مد کے نتیجہ میں تصرف الہی سے یہ اعجازی قصیدہ معرض وجود میں آیا.جس کے متعدد اشعار الہامی ہیں.حضور فرماتے ہیں کہ اگر چہ میں اب تک عربی میں سترہ کے قریب بے مثل کتاب شائع کر چکا ہوں مگر آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ وہ کتا ہیں صرف فصیح و بلیغ عربی میں ہیں بلکہ قرآنی حقائق ( معارف) پر بھی مشتمل ہیں.ممکن ہے کہ یہ لوگ جواب دیں کہ ہم حقائق سے نا آشنا ہیں.اگر صرف فصیح عربی میں منظوم کلام ہوتا تو ہم بھی نظیر بنا سکتے.اور یہ بھی خیال آیا کہ اگر صرف کتاب اعجاز مسیح کی نظیر کا مطالبہ کیا جائے تو مخالف کہیں گے کہ یہ کیوں کر ثابت ہو کہ یہ کتاب ستر دن میں تالیف کی ہے.یہ کتاب تو دو برس میں بنائی گئی ہے اور صورت میں صفائی سے ستر دن کا ثبوت دینا ہمارے لئے مشکل ہوگا.سومنا سب سمجھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور درخواست کی جائے کہ ایک قصیدہ بنانے کی روح القدس سے تائید فرمائے جس میں مباحثہ مد کا ذکر ہوتا یہ سمجھنا مشکل نہ رہے کہ یہ قصیدہ کتنے دنوں میں تیار کیا گیا ہے.سو میں نے دعا کی کہ اے خدائے قدیر! مجھے نشان کے طور پر توفیق دے کہ ایسا قصیدہ بناؤں اور وہ دعا میری منظور ہوگئی اور روح القدس سے مجھے ایک خارق عادت تائید ملی اور پانچ دن میں ہی میں نے یہ قصیدہ مکمل کر لیا.فرماتے ہیں: ” پس تائید الہی کا یہ ایک بڑا نشان ہے تا مخالف کو شرمندہ اور لا جواب کرے میں اس نشان کو مولوی ثناء اللہ اور اس کے مددگاروں کے سامنے پیش کرتا ہوں.وہ دوسروں کی مدد حاصل کریں.اگر وہ چودہ دن میں اسی قدر اشعار فصیح و بلیغ شائع کر دیں تو میں دس ہزار روپیہا انعام دوں گا.ان کو مقابلہ پر اکساتے ہوئے حضور تحدی سے فرماتے ہیں کہ مولوی مذکور اور اس کے رفقاء کو مفت میں فتح ہو جائے گی.اگر میں صادق ہوں اور اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ صادق ہوں تو ناممکن ہے کہ یہ لوگ پانچ دن میں ایسا قصیدہ بناسکیں اور اردو مضمون کار دلکھ سکیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی قلموں کو توڑ دے گا اور ان کے دلوں کو نبی کر دے گا.‘ ۵۸ ☆ فرمایا: میں جس طرح کلمہ پر شہادت دیتا ہوں اسی بصیرت اور یقین کے ساتھ میں اس صحی اور صحبتی کے الفاظ جو صاحب کی جمع ہیں ( ص ۴۳،۴۲،۴۱،۴۰،۳۹) رفقتی (میرے رفیق اور رفقہ ( یہ الفاظ رفیق کی جمع ہے ) ( ص ۴۹،۴۰ ) کے الفاظ سے یاد فرمایا.
۵۷۴ بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہے اور ایک عظیم الشان کلام معجزہ ہے جس کی نظیر لانے پر کوئی قادر نہیں ہوگا.بہت سے شعر ایسے ہیں کہ الہامی ہیں.میں اس طرز کو بیان نہیں کر سکتا جس طرح پر یہ خدا کی طرف سے آتے ہیں کوئی فکر اور غور کی ضرورت نہیں پڑتی.خود بخود چلے آتے ہیں اور دل میں ایک القاء ہوتا چلا جاتا ہے.پانچ صد سے اوپر اشعار میں سے چند اشعار یہاں درج کئے جاتے ہیں کہ جن میں حضور کی زبان فیض ترجمان سے یہ بیان ہے کہ مولوی صاحب کو روح القدس کی تائید حاصل ہوئی اور آپ کو شیر ببر قرار دیا ہے فرماتے ہیں.-٣ -۵ و جانک صحبى ناصحين كاخوة اور (اے ارض مد!) میرے دوست تیرے يقولون لا تبغواهوی و تصبروا پاس آئے جو بھائیوں کی طرح نصیحت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہوا و ہوس کی طرف میل مت کرو اور صبر کرو.فجاء وبذنب بعد جهد اذا بهم پھر بہت کوشش کے بعد ایک بھیڑیے کو لائے ونعنی ثناء الله منه ونظهر اورمراد ہماری اس سے ثناء اللہ ہے اور ہم ظاہر کرتے ہیں.الحکم ۰۲-۱۱-۱۷ (صفحیم) حضور نے مولوی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ذریعہ یہ کتاب مولوی ثناء اللہ صاحب و دیگر علماء کو بھجوائی (الحکم صفحہ ۷) حضور نے کتاب میں رقم فرمایا تھا.انشاء اللہ ۱۶ نومبر ۱۹۰۲ء کی صبح کو میں یہ رسالہ اعجاز احمدی مولوی ثناء اللہ کے پاس بھیج دوں گا جو مولوی سید محمد سرور صاحب لے کر جائیں گے.“ (صفحہ ۹۰) نیز فرماتے ہیں.و جتناک یاصيد الردى بهدية ونهدی الیک الــمــر هـفـات ونعقرُ فابشـــروبشـــركـــل غـول يسبنی سیاتیک مــنـــی بـالتـحـائـف ســرور ترجمہ: اور اے وبال کے شکار! ہم تیرے پاس ایک ہدیہ لے کر آئے ہیں اور ہم تیز تلواروں کا یعنی لاجواب قصیدہ کے تجھے ہدیہ دیتے ہیں.پس خوش ہو اور ہر ایک غول جو مجھے گالی دیا کرتا تھا اس کو بشارت دے.عنقریب میری طرف سے سید محمد سرور تحفہ لے کر تیرے پاس آئیں گے.
-۲۸ ۳۶ { ۳۸ ۳۹ فصاروا بمدللرماح دریة پس میرے دوست مد میں نیزوں کے نشانے ويعلمها احمد علی المدبر بن گئے اور اس بات کو احمد علی جو میر مجلس تھا خوب جانتا ہے.ولما اعتدى الامرتسری بمكائد اور جب ثناء اللہ اپنے فریبوں سے حد سے واغراى على صحبى لثاماً وكفروا گزرگیا اور لوگوں کو میرے دوستوں پر برانگیختہ کیا اور انہیں کا فرٹھہرایا.هناک دعوا ربا كريمًا مؤيّدًا تب انہوں نے خدا کی جناب میں دعائیں وقالوا حللنا ارض رجز فنصبر کیں اور کہا کہ ہم پلید زمین میں داخل ہو گئے ہیں پس ہم صبر کرتے ہیں.فما برحوها والرماح تنوشهم پس وہ وہاں سے ہے نہیں ( بلکہ ڈٹے رہے ) ولا طعن رمح مثل طعن یکرّر اور بار بار کے طعنے نیزہ کی مار سے کہیں بڑھ کر ( آزار پہنچانے والے ) ہوتے ہیں.وقام ثناء الله في القوم واعظاً اور ثناء اللہ نے لوگوں میں وعظ کیا جو ایک غول فصاروا بوعظ الغول قوماً تنمروا کے وعظ کے نتیجے میں چیتے کی طرح ( غضبناک اور وحشت آلود ) ہو گئے.وذكرهم صحبی مکافات كفرهم میرے دوستوں نے انہیں پاداش انکاریا وهل يـنـفـعــن اهل الهوای مایدگر و دلایا مگر ہوا و ہوس کے بندونکو وعظ کا کیا فائده؟ فلما اعتدى واحس صحبى انه پس جب وہ حد سے تجاوز کر گیا اور میرے يُصرّ على تكذيبه لايقصر دوستوں نے محسوس کیا کہ وہ تکذیب پر مصر دعوه ليبتهــلــن لــمــوت مزوّر ہے اور باز نہیں آتا تو اسے دعوت دی کہ مضـل فـلــم يـسـكــت ولم يتحسّر کا ذب اور گمراہ کن کی موت کے لئے وہ مباہلہ کرلے لیکن شاء اللہ نے پھر بھی خاموشی اختیار نہ کی اور نہ ہی تھکا.-M -12 - ۴۸
۵۷۶ ۱۳۶ - ۱۴۰ تركتم سبيل الحق والخوف والحيا تم حق خوف خدا اور حیا کا راستہ ترک کر کے وجُـزتــم حدود العدل والله ينظر عدل کی حدود بھی پھاند گئے لیکن اللہ تعالیٰ کی نظروں سے تم اوجھل نہیں ہوسکتے جو ) دیکھ رہا ہے.عقرت بمد صحبتی یا ابا الوفا اے ثناء اللہ ! تو نے مد میں ہمارے دوستوں بست و توهين فــربـی سـيـقهـر کو گالیوں اور توہین سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر کیا لیکن میرا خدا تعالیٰ عنقریب غالب آئے گا.۱۵۳ - الا ايها اللعان مالک تهجر اے لعنت کرنے والے! تجھے کیا ہو گیا کہ تو وتلعن من هو مُرسل وموقر بیہودہ گوئی کرتا ہے اور تو اس پر لعنت کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کا رسول اور اس کی جناب میں عزت یا فتہ ہے.۴۸۷- اردت بــمـد ذلّتـــى فــــرئيتها تو نے وہاں میری ذلت چاہی لیکن خودخوار ومن لايــو قـــر صـادقا لایؤقر ہوا اور جو مرد صادق کی عزت و توقیر نہیں کرتا.جومر واوجس خيفة شــره بعض رفقتى (جب دونوں فریق بحث کے لئے جمع لما عرفوا من خبث قوم تنمروا ہو گئے ) تو پوشیدہ طور پر میرے بعض رفیقوں کے دلوں میں خوف ہوا کیونکہ قوم کی درندگی -۱۲ -١٣ -۱۴ انہوں نے معلوم کر لی تھی.فانزل من ربّ السَّماء سكينة پس میرے اصحاب پر آسمان سے تسلی نازل کی علـى صحبتـي والله قد كان ينصر ى والله قد كان ينصر گئی اور خدا تعالی مدد کر رہا تھا.وأعطاهم الرحمن من قوة الوغى اور خدا تعالیٰ نے ان کو لڑائی کی قوت دے دی وايدهم روح امین فابُشَرُوا اور روح القدس نے ان کی تائید کی.پس وہ خوش ہو گئے.
۵۷۷ -12 -IA فكان ثناء اللہ مقبول قومہ اور ثناء اللہ اپنی قوم کی طرف سے مقبول تھا ومنا تصدى لـلـتـخــاصـم ســرور اور ہماری طرف سے مولوی سید محمد سرور شاہ پیش ہوئے.كأن مقام البحث كان كاجمة گویا مقام بحث ایک بن کی طرح تھا جس به الذنب يعوى والغضنفریزر میں ایک طرف بھیڑیا چیخ رہا تھا اور دوسری طرف شیر ببرغرا تا تھا.مباحثہ میں تائید سماوی کے اصل مؤرد حضرت مولوی صاحب ہی تھے جو کہ مباحثہ کر رہے تھے.قصیدہ کی عظمت شان کے متعلق حضور فرماتے ہیں.اگر ہمیں دن میں انہوں نے اس قصیدہ اور اردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یوں سمجھو کہ میں نیست ونابود ہو گیا.اور میر اسلسلہ باطل ہو گیا.اس صورت میں میری تمام جماعت کو چاہئے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کریں.‘ ۵۹ مسیح زمان ، مهدی دوران ، جری اللہ فی حلل الانبیاء ، موعود اقوام عالم، ہاں جو ثریا سے ایمان واپس لایا.جس کو حضرت خاتم النبین علیہ السلام نے سلام بھیجا.جس ذات بابرکت پر یہ وحی نازل ہوئی انت منی بمنزلة توحیدی و تفریدى انت منى بمنزلة لا يعلمها الخلق.انت منى وانا منک لولاک لما خلقت الافلاک.اس ذات والا صفات نے جس بزرگ میں اپنی خدا داد فراست سے رشد و سعادت پائی تھی.اور وہ ان پاک نفس وجودوں میں سے آخری زندہ تھا جن کی اقتداء میں حضور نے نماز میں ادا کی تھیں.یہ پاک و مطہر وجود ہمیشہ کے لئے ہم کے لئے ہمیں داغ مفارقت دے گیا اس فنفر سے یہ عالم فانی دائماً محروم ہوگیا.آہ صد آہ! سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ایک صحابی کا ذکر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں.ان کی زندگی نیکی اور تقویٰ کی ایک مثال تھی.ایسے لوگوں کا گزر جانا قوم کے لئے ابتلاء کا موجب ہوتا ہے اور آنے والی نسلوں کا فرض ہوتا ہے کہ ان کی یاد کو اپنے دلوں میں تازہ رکھیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں.اور ان کے روحانی وجود کو دنیا میں قائم رکھیں.‘۶۰ حضرت اقدس کا ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں یقیناً منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن روسیاہ ہوگا.اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں
۵۷۸ گے.کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا.اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کر دیا ہے کہ گویا اس نے ہزاروں نشان دیکھ لئے ہیں.سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی اور مجھے غمگین دیکھا اور میرے غم خوار ہوئے اور نا شناسا ہوکر پھر آشناؤں کا سا ادب بجالائے خدا تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو.اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا.اور حضرت عزت میں اس کی عزت کیا ؟ مجھے در حقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے جنہوں نے دقیق نظر سے مجھے دیکھا اور فراست سے میری باتوں کو وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا.اور میرے کلام کو سنا.اور اس میں غور کی.تب اسی قدر قرائن سے حق تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا.اور میرے ساتھ ہو گئے.میرے ساتھ وہی ہے جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے.اور اپنے نفس کو ترک اور اخذ کے لئے مجھے حکم بناتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اور اطاعت میں فانی ہے اور انانیت کی جلد سے باہر آ گیا ہے.مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اور عزت کے لائق مرتبے میرے خداوند کی جناب میں نہیں پاسکتے جو ان راستبازوں کو ملیں گے.جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہچان لیا.اور جو اللہ جل شانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہوا بندہ تھا.اس کی خوشبو ان کو آ گئی.انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کرے.با کمال وہ آدمی ہے جو گداؤں کے پیرانہ میں اس کو پاوے اور شناخت کر لیوے مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زمیر کی کسی کو دوں.ایک ہی ہے جو کسی کو دیتا ہے وہ جس کو عزیز رکھتا ہو ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے.‘ 41
۵۷۹ فتاویٰ حضرت مولوی صاحب ذیل میں آپ کے پچپن فتاوی درج کئے جاتے ہیں.مقصود یہ نہیں کہ احباب کو اشتہار کی سہولت بہم پہنچائی جائے.وہ تو دارالافتاء سے فتویٰ حاصل کرنے یا نقل حاصل کرنے سے یا ان کی طرف سے فتاویٰ شائع کرنے پر میسر آسکتی ہے.یہاں صرف حضرت مولوی صاحب کا تجر علم ظاہر کر نا مطلوب ہے.ا مسح کے متعلق ذیل کا استفتاء حضرت قاضی امیر حسین صاحب کی طرف سے ہے.لکھتے ہیں.بخدمت شریف جناب مفتی سلسلہ احمدیہ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.مہربانی کر کے فتویٰ عنایت کریں کہ بیمار آدمی دائم المریض جو ہمیشہ بیمار ہے وہ وضو کے واسطے کیا کرے آیا اس کے واسطے تیم جائز ہے یا نہیں.میں نے اس مسئلہ کی بہت پڑتال کی ہے لیکن بہر مقصود نہیں پہنچا حضور اس کا توجہ سے جواب دیں.والسلام جواب ( قاضی) امیرحسین از قادیان ۳۰-۷-۲۶ از حضرت مولوی سید محمد سرور شاه صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ پرنسپل جامعہ احمد یہ قادیان.مکرم محترم جناب قاضی صاحب رضی اللہ عنکم وارضکم.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کانت.جناب نے مریض کے تیم کے متعلق استفتاء فرمایا ہے.سو اس کے متعلق عرض ہے.مریض تیم کر سکتا.اور اس آیت کریمہ میں کہ وَاِنْ كُنتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ اَوْجَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِّنَ الْغَائِطِ أَوْلَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَيَتَمَمُّوا ۱۲.جو یہ اشکال پیش آتا ہے ( کہ بظاہر عدم وجدان مآء کی قید سب کو معلوم ہوتی ہے اور اس صورت میں جس طرح مسافر کا تیم عدم وجدان ماء کے ساتھ مشروط ہے اسی طرح مریض کا تیتیم بھی عدم وجدان ماء کے ساتھ مشروط ہوگا اور بدوں اس شرط کے محض مریض ہونے
۵۸۰ کے باعث تیم جائز نہیں ہوگا عدم وجدان ماء کی قید کو فقط مسافر ہی کے ساتھ لگایا ہے.انہوں نے اس تخصیص کی کوئی وجہ نہیں بتائی.اور یونہی دعوی بلا دلیل کر دیا ہے جو قابل قبول نہیں ہوسکتا ) میرے نزدیک یہ اشکال ہر گز وارد نہیں ہوتا.بلکہ جس بنیاد پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے وہی غلط ہے اور قلت تدبر کا نتیجہ ہے.پس اس آیت کا صحیح مطلب سمجھنے کے لئے پہلی بات تو سوچنے کے قابل ہے کہ جب ولـــم تـجـدوماء كومــرضــی اور علیٰ سفر کی قید بنائیں گے تو پھر اسباب تیم میں مرضی اور سفر کوکوئی دخل نہیں رہتا.بلکہ صرف عدم وجدان ماء ہی سبب تیم رہ جائے گا.پس اس صورت میں کنتم مرضیٰ اور علی سفر کا لفظ بھی لغو اور بے کار ہو جاتا ہے.کیونکہ اگر انسان بیمار بھی نہ ہو اور سفر پر بھی نہ ہو بلکہ تندرست غیر مسافر اور مقیم ہو اور پانی نہ پائے تو اس حالت میں بھی بالیقین اور بالاتفاق تیم ہی کرے گا تو جب بغیر مرض اور سفر کے بھی عـــــــدم وجدان ماء کی صورت میں یقیناً تیم ہی کرنا ہوگا تو عدم وجدان مآء کے ساتھ مریض اور مسافر ہونے کی قید کیوں ذکر کی.کیونکہ عدم وجـدان مـاء تو خود ایک مستقل سبب تیم ہے اس کے ساتھ مرض اور سفر کے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں.بلکہ تندرستی اور اقامت کی حالت میں بھی عدم وجدان ماء تمیم کا مجوز سبب ہے.پس اس سے ثابت ہوا کہ عدم وجدان ماء کو علیٰ سفرا کیلے کا یا اس کے ساتھ کنتم مرضی کا بھی قید اور شرط بنانا صریح طور پر غلط اور نا جائز ہے.دوسری بات جو یہاں پر قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور حدیث نے جہاں جہاں بھی مرض اور سفر کو کسی شرعی فرض کا عذر مرخص کیا ہے قرار دیا ہے تو تنہا ہی مرض اور سفر کوسبب مرخص قرار دیا ہے.اور اس کے ساتھ کسی اور قید کو اعتبار نہیں کیا.مثلاً روز ہ جو کہ وضو اور غسل کی لوح کسی دوسری عبادت کے ضروری شرائط اور توابع سے نہیں.بلکہ نماز کی طرح بذات خود ایک مستقل فرض عبادت ہے.اس روزہ میں بھی مرض اور سفر کو عذر مرخص قرار دیا ہے تو کیلے مرض اور سفر ہی کو قرار دیا ہے اور ان کے ساتھ کسی اور قید کا اضافہ نہیں کیا.چنانچہ فرمایا وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ - اسی طرح عدم فرضیت صلوۃ جمعہ میں قصر صلوۃ وغیرہ میں اکیلے مرض یا سفر کو سبب بنایا ہے.اور اس کی وجہ معقول ہے اور وہ یہ ہے کہ ان عبادات کے لئے قوت میسرہ کا شریعت نے اعتبار کیا ہوا ہے ورنہ سفر میں کہاں پوری نماز پڑھنی انسان کے لئے ناممکن ہو جاتی کہ وقت کی ضروری سفر کی وجہ سے ترک صلوٰۃ کر کے جمع صلواتین کی رخصت ہوگئی.اور قوت میسرہ کا اعتبارا کیلے مرض اور اکیلے سفرکو ایسے اہم اور مستقل فرائض میں جب سبب مرخص بنا دیتا ہے تو پھر وضو اور غسل جیسے میں جو دوسری عبادت کی شرائط میں سے اور اس کے توابع میں سے ہے کیوں سبب مرخص نہیں بنائے جائے گا اور اس میں ذرہ بھی شک نہیں کہ بیمار اور مسافر کے لئے وضو اور غسل یسر
۵۸۱ کے ساتھ حاصل نہیں ہو سکتے.شریعت نے ان عبادات میں دوسروں کی امداد کو نظر انداز کیا ہوا ہے کیونکہ ہر ایک کے لئے ہر ایک وقت میں دوسروں کی امداد حاصل نہیں ہو سکتی.جیسے امیر کوسفر میں آسائش ہو سکتی ہے مگر ہر ایک کو حاصل نہیں ہوسکتی.اس لئے سفر کو عام طور روزے کا مرخص بنا دیا.اسی طرح بیمار کو گو دوسروں کی امداد سے وضو اور فنسل آسان بھی ہو.مگر ہر ایک کو ہر ایک وقت میں حاصل نہیں ہو سکتی.اور بیمار کو خو داٹھ کر پانی لینا اور پھر خود بیٹھ کر وضو کرنا آسانی کے ساتھ میسر نہیں ہو سکتا اسی طرح مسافر کو بھی آسانی سے میسر نہیں ہو سکتے.قرآن مجید عربی میں نازل ہوا ہے اور عرب میں سفر عموما قافلہ ہی کے ساتھ ہوسکتا تھا.اب قافلہ چل رہا ہے.زید کو نسل کی ضرورت ہے اب قافلہ کوٹھہر الینا اس کے اختیار سے باہر ہے اور قافلہ سے علیحدہ ہو کر غسل کرتا ہے تو قافلہ سے بچھڑ جانے کا خطرہ ہے اسی طرح سے اور کئی طرح کی مشکلات پیش آتی ہیں جو کہ قوت میسرہ کے خلاف ہیں اس لئے مرض اور سفر کو بدوں کسی مزید قید کے غنسل اور وضو کے لئے سبب مرخص قرار دے دیا ہے.تیسری بات جو یہاں غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ فلم تجدوا ماء سے پہلے صرف دو ہی امر نہیں بلکہ تین امور مذکور ہیں.پہلا کنتم مرضی.دوسرا او علیٰ سفر اور تیسرا اوجاء احد منكم من الغائط اولا مستم النساء اور تیسرے امر کو بھی لفظ اؤ کے ساتھ ہی ذکر کرنا صاف دکھاتا ہے کہ جو درجہ پہلے دونوں کا ہے.وہی اس تیسرے امر کا بھی ہے.حالانکہ بظاہر ایسا نہیں کیونکہ پہلے دونوں یعنی مریض ہونا اور مسافر ہونا نواقص وضو یا موجب غسل نہیں.بلکہ وضو اور غسل کی جگہ نیم کے باعث اور سبب ہیں.لیکن امر سوئم یعنی پاخانہ پھر نایا عورتوں کو چھونا نواقص وضو اور موجب غنسل ہیں.اور وضو اور غسل کی جگہ تیم کے سبب مرخص نہیں.پس واقعہ اور عبارت دونوں آپس میں مخالف ہیں.عبارت بتاتی ہے کہ تینوں بلکہ چاروں تیم کے مرخص ہیں.یعنی مرض اور سفر اور پاخانہ پھرنا اور عورت سے ملنا ایسے امور ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کے ساتھ تیم جائز ہو جاتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ مرض اور سفر تو تیم کے جواز کے سبب ہیں.مگر مریض اسی وقت تیم کرے گا.جبکہ پیشاب یا پاخانہ پھرنے سے وضو نہ رہے یا عورت کے ملنے سے جب دار ہو جائے اور پاخانہ پھرنے سے وضوٹوٹے گا یا عورت کے ملنے سے جب دار ہو گا مگر مجرد ان سے تمیم کرنا جائز نہیں ہوگا.پس یا تو عبارت کو واقعہ کے مطابق کیا جائے یا واقعہ کو عبارت کے مطابق بنایا جائے اور ظاہر ہے کہ لغت اور قواعد زبان کو ملحوظ رکھتے ہوئے عبارت واقعہ کے مطابق ہو نہیں سکتی.لیکن واقعہ سوائے کسی تکلیف کے عبارت کے مطابق ہو سکتا ہے.اور یہ اس طرح ہے کہ تیم کے اسباب مرخص حقیقت میں تین ہیں.(۱) مرض (۲) سفر (۳) عـدم وجدان ماء اور قرآن مجید کا یہ طریق ہے کہ جہاں ایک چیز کے ساتھ دوسری چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے.
۵۸۲ اگر وہ دوسری چیز ظاہر ہو تو اس کو اکثر اوقات نہیں ذکر فرماتا.مثلاً فرمایا اَيُّهَا الَّذِينَ امنوا اذا قمتم الى الصلواة فاغسلوا وجوهكم ۶۳ نماز کے لئے وضو کرنا ہے پر کب ؟ جب وضو نہ ہو یا یوں کہو کہ جب پیشاب اور پاخانہ کیا.مگر یہ ظاہر تھا.اس لئے ذکر نہیں کیا.اسی طرح مرض ، سفر، عدم وجدان ماء کے وقت تیم کرنا پر کب ؟ جب وضو کرنے یا نہانے کی ضرورت ہو.پس پہلے دونوں سبوں کو بغیر ان کے ذکر کر دیا.اور فرمایا کہ وان كنتم مرضی او علی سفر...فتیممُوا.اور تیرے سبب کے ساتھ ان دونوں کا محض اس لئے اظہار فرما دیا تا کہ یہ سمجھ آ جائے کہ وضو اور غسل جنابت ہر دو کی جگہ ان اسباب کے وقت ہوسکتا ہے تو فرمایا.اوجاء احد منكم من الغائط او لامستم النّساء فلم تجدو اماءً فتيمموا.پس مطلب یوں ہو گیا کہ اگر تم کو وضو یا غسل جنابت کی ضرورت ہے اور تم بیمار ہو تو تیم کر لو اور اگر تم کو وضو کی یا غسل جنابت کی ضرورت ہے اور تم پانی نہیں پاتے تو تیم کرلو.پس اب اس آیت کے معنے سوائے کسی ہیر پھیر اور اشکال کے صاف ہو گئے.ہاں ان لوگوں کے لئے ضرور مشکل ہے کہ جو بیمار کے لئے یہ قید لگاتے ہیں کہ پانی کا استعمال اس کو ضر ر دیتا ہو وغیرہ وغیرہ لیکن کلام الہی میں ان قیود کا کوئی نام ونشان نہیں.اسی طرح ان کے لئے بھی مشکل ہے جو مسافر کے لئے عدم وجدان مآء مشروط رکھتے ہیں مگر شریعت غراء کے اصول اور قرآن مجید کی عبارت اس سے پاک ہے.۶۴ - بسم اللہ کی بجائے ۷۸۶ لکھنا استفتاء خطوط پر جو بجائے بسم اللہ الخ کے ۷۸۶ عد دلکھ دیتے ہیں.کیا اس سے اس ارشاد کی تعمیل ہو جاتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بسم اللہ الخ کے ساتھ شروع کرنے کی نسبت فرمایا ہے یا کہ ان کا لکھنا ایک بدعت ہے.الجواب ۷۸۶ کے اعداد کا خطوط کے شروع میں اس خیال سے لکھنا کہ اس سے ارشاد نبوی کی تعمیل ہوگی جو کہ بسم اللہ کے ساتھ شروع کرنے کی نسبت ہے یقیناً بدعت ہے.کیونکہ بدعت وہی ہوتی ہے کہ اس کو دینی امر سمجھ کر کیا جائے حالانکہ وہ دین سے نہ ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضور کے صحابہ سے ان اعداد کا شروع میں لکھنا ہرگز ثابت نہیں ہے اور پھر یہ ایسی بری بدعت ہے کہ اس سے اصل سنت نبوی کا جو کہ سم اللہ کا لکھنا ہے ترک لازم آتا ہے.
۵۸۳ مذکورہ معنوں والی بدعت تو ہر ایک ہی بدعت سیئہ ہے مگر جس سے صریح طور پر سنت نبوی کا ترک لازم آتا ہو وہ تو حد درجہ کی سئیہ ہوتی ہے.۶۵ ۳- بابت رہن استفتاء.رہن کا محض وجود جائز ہے یا حرام.ایسی چیز کا رہن جوروزمرہ کے استعمال میں آنے والی ہو یا جس سے ماہوار.ششماہی یا سالانہ فائدہ ہوتا ہے جائز ہے یا حرام.جبکہ ایسی چیزوں کی حفاظت یا اپنے نفع کے حاصل کرنے کے کوشش اور مالیہ وغیرہ کا ادا کرنا مرتہن کے سپرد ہے.قرآن مجید، حدیث و آثار سے ثبوت پیش ہو.جولوگ رہن کو حرام قرار دیتے ہیں وہ قرآن مجید یا حدیث سے کیا ثبوت پیش کرتے ہیں اور جواز کے قائل ان کی کیا تعبیر و تاویل کرتے ہیں.ائمہ اربعہ میں سے کوئی بھی جواز رہن کا قائل ہے یا چاروں رہن کی حرمت کے قائل ہیں اور ان کی کیا دلیل ہے.فتوی: رہن جائز ہے اور اس کے جواز میں کسی امام یا فرقہ اسلامیہ کا اختلاف نہیں.قرآن کریم میں ہے فَرِهنَّ مَّقْبُوضَ....اور اس کے ہوتے ہوئے کسی مسلمان کے لئے قطعاً کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں.نمبر ۲ کا جواز بھی اسی آیت کریمہ سے ثابت ہے کیونکہ اس میں نہ تو کسی خاص چیز کے رہن کا ارشاد ہے کہ اس کے سوائے باقی چیزوں کے رہن کا جواز ثابت نہ ہو.اور نہ ہی عام چیزوں سے کس چیز کا استثناء کیا گیا ہے.بلکہ اس کو ایسا مطلق رکھا ہے جو کہ کل اشیاء پر شامل ہے.اور ایسی چیزوں کے رہن کا بکثرت احادیث اور احادیث اور آثار میں ذکر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دنیا سے سفر فرمایا تو آپ کی زرہ گر تھی.نیز حدیث میں آیا ہے.الظهر يركب بنفقته والضرع تُحلَّبُ بنفقتها - ۲۶ (سواری کے جانور پر اس کے نفقہ کے بدلہ میں سواری کی جاسکتی ہے اور لوبیری کا دودھ پیا جا سکتا ہے اس کے نفقہ کے بدلہ میں ) اور جس طرح نفس رہن کے جواز میں کسی مسلمان کو اختلاف نہیں.اسی طرح ایسی اشیاء کے رہن میں بھی کسی مسلمان کو اختلاف نہیں.ہاں اس میں اختلاف ہے کہ ایسی اشیاء کے رکھنے کی صورت میں مرتبہن ان مرہونہ اشیاء سے نفع اٹھا سکتا ہے یا نہ.جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر ان اشیاء پر مرتہن کو کچھ خرچ کرنا نہیں پڑتا بلکہ جو کچھ خرچ ہوتا ہے.وہ راہن کے ذمہ ہے یا وہ چیز ہی ایسی ہے کہ وہ نفع دیتی ہے مگر اس پر نہ کوئی خرچ ہوتا ہے اور نہ ہی نفع اٹھانے کے لئے محنت اور مشقت ہوتی ہے تو پھر مرتہن کے لئے اس سے نفع اٹھانا حرام صا در ممنوع
۵۸۴ ہے کیونکہ اس صورت میں وہ نفع اگر مرتہن لے گا تو محض قرض دینے کی وجہ سے لے گا اور قرض سے نفع ہونا سود ہے اور حرام ہے.صاف حدیث میں آیا ہے کہ كُلّ قرضِ جَرَّ نفعًا فھو رہی.۱۷ ( جو قرض بھی نفع دے وہ سود ہے ) اور اگر اس پر خرچ ہوتا ہے اور بذمہ مرتہن ہے تو اس میں ہمارا مذہب یہی ہے کہ مرتہن کو رہن سے نفع اٹھانا جائز اور حلال ہے.اور یہ اس نفقہ کی وجہ سے ہے جو مرتہن کو خرچ کرنا پڑا.جیسا کہ صاف حدیث میں آیا ہے الظهریر کب بنفقته - مگر فقہ حنفیہ والے اس صورت میں بھی مرتہن کے لئے نفع اٹھانا منع قرار دیتے ہیں.اور دلیل کے طور پر وہی حدیث پیش کرتے ہیں کہ کل قرض جرنفا...اور یہ نہیں سوچتے کہ یہ نفع قرض کا نہیں بلکہ نفقہ کے عوض ہے.جیسا کہ حدیث میں اور کے الفاظ کے ساتھ خود ظاہر فرما دیا ہے.-۳- قرض کو نہ کوئی حرام قرار دیتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل ہے.ائمہ اربعہ اور دوسرے سب علماء اسلام رہن کے جواز پر متفق ہیں کوئی بھی اس کو حرام نہیں کہہ سکتا.-✓ (۷-۱-۳۳) (بالفاظ دیگر یہی فتویٰ اس استفتاء کے جواب میں دیا ہے کہ اراضی کا گروی رکھنا اور خود یا کسی مزارع کے ذریعہ کاشت کرا کے اس کا مفاد اٹھانا جائز ہے یا نہیں) - سیونگ بنگ کے سود پر زکوۃ اور زیور کی زکوۃ کے متعلق استفتاء.ا.سیونگ بنگ میں جمع شدہ روپیہ پر زکوۃ واجب ہے یا کہ نہیں.جبکہ اس کی تعداد سینکڑوں تک ہے اور جبکہ اس کا سودا شاعت اسلام میں دیا جاتا ہو.۲.ایک شخص کے پاس کچھ زیور اور روپیہ سیونگ بنگ میں جمع شدہ ہے.ہر دو قابل زکوۃ ہیں لیکن زیور اور اس روپیہ کی مالیت واجب الادا مہر کی مالیت سے کم ہے.اور مہر بھی ایک ضروری قرض ہے.اندریں حالات اس زیور اور روپیہ پر ز کوۃ واجب ہے یا نہیں؟ فتوی: ۱.جور و پیر سیونگ بنگ میں جمع ہے.اور اس کی تعدا د نصاب زکوۃ یا اس سے زیادہ ہے تو اس پر زکوۃ فرض ہے اور سود کا روپیہ اشاعت اسلام میں دینے سے اس مال پر سے زکوۃ ساقط نہیں ہوتی.کیونکہ سود تو مال حرام ہے.اس واسطے وہ ملکیت نہیں ہوسکتا اور مسلمان اس کو خود استعمال نہیں کر سکتا.اس واسطے اس کو اشاعت اسلام میں دے دیا.زکوۃ تو اپنے مال پر ہوگی جو اصل مال ہے.اس واسطے جو مال سیونگ بنگ میں جمع ہو اس پر زکوۃ ہوگی.بشرطیکہ وہ بقدر نصاب ہو.۲.قرضہ مہر ہو.زیور اور مال کی مالیت پر حاوی ہے.یہ عذر بھی جائز نہیں اور اگر وہ روپیہ ہرادا کرنے کی
۵۸۵ خاطر جمع کیا ہے تو اس کو بیوی کے پاس ادا کر دینا چاہئے.اور اس زیور اور روپیہ پر بیوی سے زکوۃ لی جاوے گی جبکہ وہ روپیہ بقدر نصاب ہوگا.پس روپیہ کو اپنے پاس روکے رکھنا کہ زکوۃ نہ دی جاوے جائز نہیں ہے اور پھر مہر کی رقم ادا کرنے کے بعد روپیہ بیچ رہے تو بصورت نصاب زکوۃ واجب ہوگی.(۳۲-۰۳-۰۶) ۵- فلاں کام کیا تو طلاق استفتاء.زید نے اپنی زوجہ کو کہا کہ اگر فلاں برتن کو استعمال کرے گی تو تجھے دو طلاقیں ہیں.عورت نے کئی یوم کے بعد سہواً استعمال کر لیا کیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہ اگر ہوئی تو کون سی؟ فتوی: اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی.اور رجعی طلاق ہے عدت کے اندر صرف رجوع ہی کافی ہے اور انقضاء عدت کے بعد نیا نکاح اس عورت سے کر سکتا ہے بشر طیکہ وہ عورت پھر زید کے ساتھ نکاح پڑھانے پر راضی نہ ہو تو پھر وہ عورت زید سے جدا ہو گئی.(۳۱-۰۸-۲۲) کیا مر ہو نہ مکان کا کرایہ لینا جائز ہے استفتاء.کیا رہن رکھے ہوئے مکان کا کرایہ لینا جائز ہے.اور کیا کر یہ مکان اصل رقم سے وضع ہوگا یا نہیں؟ فتویٰ: رہن رکھے ہوئے مکان کا کرایہ لینا جائز ہے.اور وہ کرایہ اصل رقم سے وضع نہ ہوگا.بشرطیکہ وہ مکان راہن کے پاس نہ رہے.قرآن کریم میں فَرِهن مقبوضہ آیا ہے کہ رہن کے بعد مرتہن کا مرہونہ پر قابض ہونا ضروری ہے.بشرطیکہ مکان مرہونہ کی مرمت وغیرہ بھی مرتہن کے ذمہ ہو.حدیث میں آیا ہے کہ الظهرير کب بنفقته کہ اگر نفقہ نہ ہو تو اس صورت میں سود ہو جائے گا.پس اگر راہن کے پاس مکان رہے تو اس دن سے جس دن سے اس نے رہن کیا ہے کرایہ شروع ہو جائے گا تو اس صورت میں سود ہوتا ہے.برخلاف اس کے کہ مرتهن خود فیصلہ کرے تو ہو سکتا ہے کہ چھ ماہ کے بعد وہ مکان کرایہ پر چڑھے.اس واسطے اس صورت میں نقصان کا بھی احتمال ہے تو یہ سود نہیں ہوگا.کیونکہ صرف نفع ہی نفع نہیں.اس واسطے قبضہ اور نفقہ کی شرط رہن میں ضروری ہے.(۳۲-۰۳-۰۲) - کیا سارنگی فونوگراف وغیرہ سننا جائز ہے استفتاء طنبوره، سارنگی وغیرہ کا راگ سننا جائز ہے؟ کیا فونوگراف کے ذریعہ ان آوازوں کا سننا جائز ہے؟ فتوی: فونوگراف کی مثال انسانی زبان کی ہے یا یوں سمجھو کہ آلہ نقل ہے اس لئے اس کا کوئی حکم شریعت
۵۸۶ میں نہیں ہے.بلکہ منقول کے مطابق اس کا حکم ہوگا.اگر منقول جھوٹ بخش غیبت اور لغو محرکات ہیں تو وہ آواز بھی حرام ہوگی اور جھوٹ فحش اور غیبت کا حکم رکھے گی.اس طرح اگر سارنگی ، باجہ، بینڈ وغیرہ سنا جاوے تو فونوگراف کی آواز کا اس وقت سارنگی اور باجہ وغیرہ کا حکم ہوگا.اس واسطے کسی آواز کا مستقل حکم نہیں ہے.بلکہ منقول منہ کو دیکھیں گے.جس قسم کا وہ ہو گا اسی قسم کا حکم اس وقت فونوگراف پر لگادیں گے.مثلاً اگر سارنگی و باجہ وغیرہ کی آواز ہے تو وہ منع ہوگی.اور اگر اس میں قرآن مجید پڑھا جاوے یا نعت یا حضرت مسیح موعود کے اشعار ہیں یا کسی قسم کا لیکچر ہے تو جائز ہوگا.پس جائز چیز کی نقل جائز ہے.اور نا جائز کی نقل نا جائز ہے.(۰۲-۰۴-۳۲) - خلیفہ وقت سے بھی پردہ لازم ہے استفتاء.خلیفہ وقت سے عورتوں کا پردہ کرنا جائز ہے یا جائز اگر جائز ہے تو کیوں اور کس حد تک ؟ اور اس کی سند کیا ہے.اگر نا جائز ہے تو اس کی کیا وجوہات ہیں ؟ فتوی: شرعاً خلیفہ وقت سے پردہ کرنا ایسے ہی ضروری ہے.جیسا کہ دوسرے مسلمانوں سے.سورہ نور کی آیت وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ..پارہ ۱۳ (۳۶) سے ثابت ہے کیونکہ اس آیت میں جن لوگوں سے پردہ کرنے کا حکم ہے ان میں خلیفہ وقت کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ سے پردہ نہ کرو.اور خلفائے راشدین سے بھی اس زمانہ کی عورتیں پردہ کرتی تھیں اس واسطے خلیفہ وقت سے پردہ کرنا ضروری ہے.(۰۶۲۳۲-۱۴) (نوٹ) نہ معلوم یہ فتوی کس نے کیوں حاصل کیا.کیونکہ نہ جماعت احمدیہ کے کسی خلیفہ کی طرف سے یہ اظہار کیا گیا کہ پردہ نہیں ہونا چاہئے.نہ خواتین کی طرف سے عدم پردہ کا اظہار ہوا ہے اور طاہر ومطہر خلیفہ وقت خلاف شریعت کوئی امر نہیں کر سکتا.البتہ منافق طبع لوگوں کی طرف سے ہر زمانہ میں مختلف رنگوں میں اپنے خبث باطن کا اظہار اور اس کی اشاعت ہوئی ہے.(مؤلف) ۹ - لائف انشورنس کمپنی کی ملازمت -9 استفتاء لائف انشورنس کمپنی کی ملازمت جائز ہے.فتویٰ : انشورنس گونا جائز ہے مگر اس میں ملازمت نا جائز نہیں.جیسے بنکوں کا کاروبارسود کی وجہ سے ناجائز ہے مگر ملازمت ان کی بھی جائز ہے.(۳۲-۰۷-۰۶)
۵۸۷ ۱۰- محکمہ آبکاری کی ملازمت استفتاء - آبکاری کے محکمہ کی ملازمت کرنا یا کارنیوال کمپنی کی ملازمت کرنا کیا شرعاً جائز ہیں.جبکہ اس کی کمائی سے ملازموں کی تنخواہیں دی جاتی ہیں.فتوئی شراب کا پینا اور فروخت کرنا شرعاً ممنوع ہیں لیکن ان میں ملازمت کرنی ممنوع نہیں جائز ہے اور نا جائز ذرائع سے جو مال حاصل کیا جاتا ہے.وہ ناجائز طریق سے حاصل کرنے والے کے لئے حرام یا ممنوع ہوتا ہے مگر اس مال کی ذات میں کوئی حرمت وغیرہ داخل نہیں ہو جاتی کہ وہ اور وں کے لئے بھی حرام یا ممنوع ہو جائے.بلکہ دوسروں کے لئے اس کا استعمال جائز طریق پر لینا یا استعمال کرنا ممنوع نہیں بلکہ جائز ہے.(۳۲-۰۸-۰۲) - مجزوم سے ضلع استفتاء.ایک شخص کا نکاح اس کے چا کی لڑکی سے قریب ۱۱/۱۲ سال سے ہوا ہے.وہ چند دفعہ عورت کے پاس بھی گیا لیکن عورت کی حاجت کو کامل طور پر پورا نہیں کر سکا.اور کچھ عرصہ سے مرض جذام میں بھی مبتلا ہو چکا ہے.عورت بھی اس سے متنفر ہے.اور اب وہ لا علاج ہے اور بیماری کا علاج بھی نہیں کروا تا.اورلڑ کی کو طلاق بھی نہیں دیتا.اور اس کا خیال ہے کہ اس کی شادی اپنے بھائی سے کر دے لڑکی ماں باپ کے گھر ہے.فتویٰ : قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَإِنْ خِفْتُمُ الَّا يُقِيمَا...فِيْمَا افْتَدَتْ بِهِ - اگر خاوند اور بیوی خدا کے حدود کو قائم نہ رکھ سکیں.اور جو ان کے حقوق ہیں ان کو ادا نہ کرسکیں تو پھر آپس میں جدا ہونے میں کوئی حرج نہیں.اور عورت مرد کو اس کا مال مہر وغیرہ دے کر خلع کروا سکتی ہے.اور اس سے علیحدہ ہوسکتی ہے.چنانچہ ثابت بن قیس کی بیوی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خلع کی درخواست کی تھی.اور وجہ یہ تھی کہ وہ اسلام نہ لایا تھا.اس پر رسول مقبول نے فرمایا کہ اس کا لیا ہوا مال واپس کر دو اور خلع کر والو.پس اس سے ظاہر ہے کہ ضلع عند الحاجب ہو سکتا ہے.اور شریعت اس کو جائز قرار دیتی ہے.حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک عورت نے اپنے پہلے خاوند سے طلاق لے کر عبد الرحمن بن الزبیر سے شادی کر لی تھی.آنحضرت کے پاس آئی تھی اور کہا کہ میں نے عبد الرحمن سے شادی کی.مگر وہ نامرد ہے اور میری حاجت پوری نہیں کر سکتا تو رسول مقبول نے فرمایا کہ مباشرت کے بعد ضلع ہو سکتا ہے.یہ حدیث متفق علیہ ہے.پس جب خاوند کو کوئی لاعلاج اور مہلک مرض لاحق ہو یا وہ نامرد ہو یا عورت مجبوری پیش کرے تو ایسے
۵۸۸ حالات میں عورت کو اجازت ہے کہ وہ خلع کروائے.اور یہ ضلع عدالت یا قاضی کر سکتا ہے.عورت کو چاہئے کہ اپنی درخواست خلع عدالت یا قاضی کے سامنے پیش کرے.اور اپنا تعلق اس مرد سے منقطع کر والے.اور یہ جوتحریر کیا گیا ہے کہ خاوند اس عورت کی شادی اپنے بھائی سے کرنا چاہتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس عورت کو اس امر پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جبکہ عورت اپنی رضا مندی کا اظہار نہ کرے.اس کا نکاح کسی جگہ نہیں ہوسکتا.جذام یا نا مردی کی بیماری کے لئے قضا اور عدالت کو شرعاً یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پہلے علاج کے لئے کچھ مہلت دے اس کے بعد بیماراگرا اچھا ہو جائے تو بہتر اور اگر تندرست نہ ہو تو قاضی اور حاکم نکاح کو فسخ کر سکتا ہے.(۳۲-۱۱-۲۳) ۱۲- از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر تعلیم و تربیت استفتاء.بھڑوں وغیرہ کو جو گھروں میں چھتے بنالیتی ہیں اور جن کا ڈنگ سخت تکلیف دہ ہوتا ہے تباہ کرنے کی غرض سے انہیں یا ان کے چھتے کو آگ سے جلانا جائز ہے.اگر جائز ہے تو حدیث لا يـعـب بــالنـار الاّ رب النار ۲۸ کی کیا تشریح ہے.فتویٰ : احادیث پر غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے سوا دوسری موزی چیزوں کا جلانا جائز ہے.سوال میں حدیث کا جوٹکڑا درج ہے.جس سے تعذیب بالنار کی ممانعت معلوم ہوتی ہے جس کو اس کے با قبل کے ساتھ ملایا جائے تو انسان کی تخصیص معلوم ہو جاتی ہے.کیونکہ واقعہ یوں ہے کوئی دو شخص تھے جن کی نسبت آنحضرت نے فرمایا تھا اگر وہ ہاتھ آئیں تو ان کو جلا دینا مگر جب صحابہ اس طرف روانہ ہونے لگے تو اس وقت حضور نے ان کو فرمایا کہ میں نے جن دو شخصوں کے جلانے کو کہا تھا.ان کو نہ جلانا کیونکہ لا يــعــذب الـنـار الارب النار.اور ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ایک نبی کو نملہ نے کاٹا تو اس نے ان کے سوراخ میں آگ جلا کر سب کو جلا دیا تو اس کو وحی ہوئی کہ ملا واحدةً.اور پہلی تشریع کی جب تک تنسیخ وغیرہ مذکور نہ ہو تو وہ قابل تمسک ہوتی ہے.توریت میں مفتوح بلاد کے سب غنائم کے جرم کرنے ( جلا دینے ) کے مؤکد احکام موجود ہیں.نیز حدیث میں تعذیب بالنار کی ممانعت ہے نہ کہ کسی موذی چیز کے اضرار سے بچنے کے لئے اس کو کسی خاص آلہ سے قتل کرنے کی بلکہ اقتلوا الموذيات قبل الايذاء کا ارشاد ہے.جس میں ذریعہ قتل کو عام رکھا ہے.اور ظاہر ہے کہ بیماریوں سے بچنے اور صحت حاصل کرنے کے لئے جو جرم دواؤں کے ذریعہ یا جو اعضا اپریشن کے ذریعہ مارے یا کاٹے جاتے ہیں اس میں خواہ قتل و امانت اور دکھ اور تکلیف ہے مگر تعذیب نہیں.اور یہ فرق اور ارادہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس حدیث میں تعذیب بالنار کی ممانعت ہے.پس ان وجوہات سے بھڑوں وغیرہ موذی چیزوں کا جلانا جائز ہے.
۵۸۹ ۱۳- ایک ہی مسجد میں دوسری با جماعت نماز استفتاء.ایک خاص احمدی محلہ کا امام الصلوۃ مقرر ہے اور وہ پنجگانہ اوقات میں با قاعدہ امام الصلوۃ ہوتا ہے.ایسی حالت میں ایک شخص یا اشخاص تساہل یا غفلت کی وجہ سے نماز میں شامل نہیں ہو سکتے تو کیا ان کے لئے جائز ہے کہ وہ دوسری دفعہ نماز جماعت کریں.یہاں تک کہ یہ حالت عمومیت اختیار کرے.اگر یہ طریق جائز ہے تو کیا پھر امام الصلوۃ کے مقرر کرنے کی بھی ضرورت رہتی ہے اور آنحالیکہ محلہ میں سے نوے فیصد ایسے ہوں جو جماعت کرا سکتے ہیں.۲- اگر امام الصلواة بعد نماز درس قرآن مجید دے رہا ہو اور زید آکر دوسری نماز شروع کر دے ایسی حالت میں کہ درس سننے والوں کو قرآت سنائی دے اور قرآت سننے والوں کو درس سنائی دے.جس سے قرآت اور درس دونوں خلط ملط ہو جائے.کیا ایسی حالت میں نماز جائز ہے یا کہ نہیں؟ فتوی: مسجد میں دو قسم کی ہوتی ہیں.محلہ جات اور مساجد گزرا....پس قسم اول کی بنیاد ہی ایک ایک جماعت کے لئے ہے.اور قسم دوم کی بنیاد متعدد جماعتوں کے لئے ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں ایک ہی نماز جماعت ہوا کرتی تھی.دوسری جماعت جو کہ وہاں کے رہنے والوں کے لئے ہو اس کا کہیں ذکر نہیں.ہاں حدیث میں اس کا ذکر ہے کہ جماعت ہو چکی تھی کہ ایک باہر کا آدمی آیا جس نے نماز ابھی تک ادا نہیں کی تھی تو جب وہ نماز کے لئے اٹھا تو حضور نے ان صحابہ کو جو کہ آپ کے ساتھ (نماز) پڑھ چکے تھے.فرمایا تم میں سے کوئی ہے جو اپنے بھائی کے اجر میں زیادتی کا موجب بنے یعنی اس کے ساتھ مل کر اس کو باجماعت نماز کا ثواب دلائے.پس یہ تو ایک صاف عذر کی صورت ہے.اور جو اس کے ساتھ وہاں کے رہنے والے ملے.وہ باجماعت نماز ادا کر چکے تھے.اور اس کے ساتھ جو نماز مل کر پڑھی وہ نفل تھی لیکن وہاں کے رہنے والے پہلی جماعت میں شریک نہ ہوئے ان کی نسبت تو حضور فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اقامت کہلا کر جماعت کھڑی کر دوں.اور جو لوگ جماعت میں شریک نہ ہوں تو میں جا کر ان کے گھر جلا دوں یعنی ان کو مکان کے اندر بند کر کے ان کو آگ لگا دوں.پس اگر وہاں کے رہنے والے دوسری جماعت کرتے ہوتے تو یا شرعا یہ جائز ہوتی تو پھر (جو) پہلی جماعت میں شامل نہ ہوتا رک جماعت ہوئے.اور حضور پہلی جماعت (میں) ان لوگوں کو شریک نہ ہونے پر ان کو اور ان کے مکانوں کے جلانے کا اہتمام کرتے ؟ پس یہ حدیث صاف بتاتی ہے کہ اس جگہ کے لوگ دوسری جماعت نہیں کر سکتے.اور پھر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صاف فتویٰ ہے کہ دوسری جماعت نہیں ہوسکتی.قرآن مجید میں تو اس مسجد کو مسجد
۵۹۰ ضرار قرار دیا ہے کہ جس سے تفریق بین المسلمین ہوتی ہو.اور مسجد ضرار گرانے کے قابل ہوتی ہے کیونکہ مسجد اور نماز باجماعت مومنوں اور اتحاد پیدا کرنے کے لئے ہے تو جب ان سے بجائے اتحاد کے تفریق ہوتی ہو تو یہ ممنوع اور نا جائز ہو جاتی ہے.۲- حدیث میں ہے لَا ضَرَرَوَلَا ضَرَار فِی الْاِسلام 19 اور اس میں شک نہیں کہ درس کے نزدیک جب نماز بالجبر ہوگی تو ضرور ضرر پہنچائے گی.اور ایسے مضر افعال اسلامی افعال نہیں ہوتے جیسے کہ حدیث مندرجہ بالا سے ظاہر ہوتا ہے بلکہ وہ کسی اور نقص کا نتیجہ ہوتے ہیں.چونکہ یہاں پر درس باجماعت نماز کے بعد ہے لہذا درس ہوتے ہوئے جو نماز با جماعت درس کے پاس ہی شروع ہوگی.وہ ضرور دوسری جماعت ہوگی.اور دوسری جماعت ممنوع اور غیر اسلامی فعل ہونے کے اس تختلف عن الجماعة کا نتیجہ ہے جس پر رحمة للعالمين متخلفین.کے گھر ان کے اوپر چلانا چاہتے تھے.اور وہ متخلفین طفل تسلی کے طور پر اپنے تخلف کے قصور کا احساس غیر شرعی جماعت ثانیہ کے ساتھ مٹانا چاہتے ہیں لیکن اگر وہ اس ناجائز جماعت ثانیہ کا ارتکاب نہ کرتے.جبکہ امیر معاویہ نے اس تخلف کے بعد اس کا ارتکاب نہیں کیا تھا تو اس تخلف کے قصور کا احساس ان کو ان کے دلوں میں حضرت امیر معاویہ کے احساس کی طرح پیدا ہوتا اور وہ احساس ان کے لئے بھی اسی طرح از دیا راجراء اور عفو کا موجب بنتا.جیسا کہ حضرت امیر معاویہ کے لئے تھا.(۳۷-۰۳-۲۲) ۱۴- متوفی کی خاطر کھانا کھلانا استفتاء کسی متوفی کے لئے مساکین کو کھلانا کھلانا یا کپڑے پہنانا یا کچھ دینا جائز ہے.اور اس سے اس متوفی کو کچھ فائدہ ہوتا ہے یا نہیں اور خاص طور پر چالیسویں دن کھانا کھلا نا زیادہ بہتر ہے؟ فتوی: کسی وفات شدہ کے لئے مساکین اور غرباء کو کھانا کھلانا ، پہنانا اور دینا جائز ہے اور مفید ہے لیکن چالیسویں دن یا اور خاص دنوں میں ( جو کہ لوگوں نے مقرر کر رکھے ہیں ) کھانا کھلانا ایک بدعت ہے جو شرعاً ناجائز ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا فرمان یا خلفاء یا صحابہ کا ایسا کرنا ہرگز ثابت نہیں.۱۵.کیا نا بالغ کا ولی طلاق دے سکتا ہے استفتاء.زید نے اپنی شیر خوار بچی ہندہ کا نکاح عمرو کے بیٹے خالد کے ساتھ جس کی عمر اس وقت سات سال تھی کر دیا اور خالد کے والد نے اس نکاح کو خالد کے لئے منظور کیا.لیکن اس نکاح سے چھ ماہ بعد زید و عمرو دونوں اس نکاح کو فسخ کرنا چاہتے تھے با بلفظ دیگر عمر اپنے بیٹے خالد کی طرف سے ہندہ کو طلاق دینا چاہتا ہے
۵۹۱ اور ہندہ کا باپ بھی اس کو پسند کرتا ہے تو کیا شرعا یہ طلاق صحیح اور فافذ ہوگی.فتویٰ : فقہاء تو یہی فتویٰ دیتے ہیں کہ نابالغ کا ولی طلاق نہیں دے سکتا لیکن ان کا یہ فتولی کوئی شرعی ثبوت اپنے ساتھ نہیں رکھتا بلکہ محض خیالی بات پر مبنی ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فتویٰ ہے کہ نابالغ کا ولی طلاق دے سکتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ نابالغ جب تک بالغ ہوکر اس نکاح نابالغی کوخودمنظور نہیں کر لیتا.تب تک یہ نکاح پختہ اور لازمی قرار پاتا ہی نہیں اس وجہ سے نابالغہ کو خیار بلوغ شرعاً حاصل ہے کہ وہ بالغ ہو کر اپنے نابالغی کے نکاح کو نا منظور اور رد کر سکتی ہے تو جب یہ نکاح پختہ اور لا زم ہی نہیں تو پھر نا بالغ کا ولی اس کو فتح کر سکتا ہے.(۳۳-۰۹-۰۹) کیا نابالغ لڑکے کا باپ طلاق دے سکتا ہے استفتاء.کیا نابالغ لڑکے کی طرف سے اس کا باپ طلاق دے سکتا ہے.فتوی: دوسرے مذاہب نے نابالغ کی طلاق یا اس کے ولی کی طلاق کو نا جائز اور غیر واقع قرار دیا ہے.مگر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نابالغ کے والد کو طلاق دینے کو جائز اور درست قرار دیا ہے.اور دوسرے مذاہب کی غلطی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کی صحت اس قدر واضح اور ثابت ہے کہ اس کے لئے کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں بلکہ صحیح فہم کی ضرورت ہے.یہ سب جانتے ہیں کہ نابالغ کو اپنے معاملات میں اسلام نے اختیار نہیں دیا.بلکہ اس کے ولی کو اختیار دیا ہے یعنی جو جو معاملات ایک عاقل بالغ خود کر سکتا ہے.وہ تمام معاملات نابالغ خود نہیں کر سکتا.بلکہ وہ معاملات بوساطت ولی طے ہوں گے.پس اس مسلم قاعدہ سے صرف اس امر کو باہر کیا جاسکتا ہے کہ جس کو قرآن کریم یا صحیح حدیث اس سے مستثنیٰ کرے.اور جس کو قرآن یا حدیث نہ نکالیں اس کے نکالنے کا اختیار نہ کسی عالم کو ہے اور نہ کسی امام کو.اور نا بالغ کا نکاح اس کی بیع و شری کی طرح ایک معاملہ ہونے کی وجہ سے اس مسلمہ شرعی قاعدہ کے نیچے داخل ہے اور کسی آیت یا حدیث صحیح نے اس کو اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں کیا.لہذا جس طرح اس کا ولی اس مسلمہ قاعدہ کی رو سے نکاح اور بیع و شرکی کر سکتا ہے اسی طرح طلاق بھی دے سکتا ہے.(۳۶-۰۶-۲۵) ۱۷.کیا سونے کا دانت بنانا یا خول چڑھانا جائز ہے استفتاء.کیا علاج کے طور پر یا بعض ضرورتوں کی وجہ سے کسی کا سونے کا دانت بنانا اور لگانا یا اس پر سونے کا خول چڑھانا جائز ہے یا نہیں؟
۵۹۲ فتویٰ : سونے اور ریشم کا استعمال مردوں کے لئے ممنوع ہے.مگر استعمال کرنے والے کے لئے نہ کہ اس کے قابل استعمال بنانے والے کے لئے.ریشم کا کرتہ استعمال کرنا مرد کے لئے ممنوع اور حرام ہے مگر درزی کا اس ریشمی کرتے کو کاٹنا اور سینا ممنوع نہیں ہے.اسی طرح سونے کی انگوٹھی کا استعمال مرد نہیں کرسکتا.مگرسنار کے لئے اس کا بنانا ممنوع نہیں.بطور زینت کے سونے چاندی کا استعمال مرد کے لئے ممنوع ہے لیکن اگر زینت نہ (جیسے کوئی اپنی گرم قمیض کا استر ریشمی لگائے تو پھر ممنوع نہیں ) اور علاج اور بعض خاص ضرورتیں تو ممنوع کو بھی جائز کر دیتی ہیں.اس کے لئے تو برانڈی جیسی چیز کا استعمال بھی جائز ہو جاتا ہے.اگر علاج کے لئے کوئی سونے کو استعمال کرے اور اس کے ساتھ بالتبع زینت بھی ہو جائے تب بھی اس کا استعمال جائز ہی رہے گا.(۳۳-۰۹-۱۷) -۱۸ کیا نماز جنازہ بعد میں آنے والا مکمل کرے؟ استفتاء.نماز جنازہ کے لئے جب ہم کھڑے ہوں اور امام ایک یا دو تکبیریں پڑھ چکا ہو ہم امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دیں یا نماز کی طرح بعد میں تکبیروں کو پورا کرنا چاہئے.فتویٰ : تکبیروں کا پورا کر لینا بہتر ہے.(۳۹-۰۴-۲۰) -۱۹ کیا میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا جائز ہے؟ استفتاء ( از نظارت دعوت وتبلیغ ) کیا اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی روشنی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے تعامل کی رو سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا منانا درست ہے اور جائز ہے اگر نہیں تو اس کی کیا سند ہے.کیا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین یا خلفائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا ابتدائی زمانہ کے مسلمان میلاد کے جلسے کیا کرتے تھے.فتوی: حدیث میں بدعت کی یہی تعریف آئی ہے کہ من احدث فـي امـرنـا هـذا ماليس منـه فهـورد ۷۰ کہ جو ہمارے اس امر میں کوئی ایسا کام پیدا کرے جو اس سے نہیں ہے.پس ایسا کام مردود ہے.اور بدعت کے متعلق حکم یوں فرمایا ہے.الاوكل محدث بدعة وكل بدعة ضلالة وَكُلُّ ضلالة في النار ا کے دینی امروہ ہے کہ نہ کرنے پر مذمت ہو اور عذاب ہوا اور کرنے پر ثواب ہو یا یوں کہئے کہ جس کام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا یا فرمایا یا آپ کے سامنے کیا گیا ہو اور آپ نے منع نہ فرمایا
۵۹۳ ہو.اسی طرح وہ کام جو خلفاء کی سنت میں داخل ہو.یہ دین ہے اگر بعد میں ہم کوئی ایسا کام کریں کہ ہم سمجھیں کہ اگر ہم کام کریں تو ثواب ہے اگر نہ کریں تو عذاب ہے یہ بدعت ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے حالات معلوم کرنے یا معلوم نہیں تو سن لینے یا پڑھ لینے یہ اچھا کام ہے لیکن یہ کہ کوئی خاص دن میں اس کا پڑھنا یا سننا موجب ثواب ہو جائے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایسا کیا گیا یا خلفاء کے سامنے ایسا کیا گیا ہو.اس کا حدیث سے قطعاً کوئی ثبوت نہیں.خیرالقرون کے گزرنے کے بعد اس کام کو موجب ثواب سمجھ کرنا اور خاص دن میں کرنا یہ بدعت ہے اور بدعت کا حکم پہلے میں لکھ چکا ہوں.۷۵ ۲۰ کیا یارسول اللہ کہنا جائز ہے استفتاء - رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو 'یا' کے لفظ سے پکارنا جیسا کہ میں احمدی ہونے سے پہلے کہا کرتا تھا یعنی چھوٹے چھوٹے درود شریف میں یا کہیں اور جگہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ فتویٰ : درود میں یا خطاب کے لفظ جیسے صلے اللہ علیک یا السلام علیک یہ اس مفہوم کے لحاظ سے جائز ہے جو کہ ہم خط لکھتے ہوئے دور دراز آدمی کو کہ جس کو ہماری آواز نہیں پہنچ سکتی.ہم اس کو کہتے ہیں کہ آپ ایسا کریں یا نہ کریں جائز ہے.کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ جو مجھ پر سلام اور درود بھیجتا ہے تو خدا کے مقرر شدہ فرشتے اس کو سلام اور درود بھیجتے ہیں.پس اس کی مثال خط کی ہوئی کہ خط اس کے پاس چلا جاتا ہے اور اس میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ کام اس طرح سرانجام دو یا نہ کرو.حالانکہ کاتب و مکتوب ایک دوسرے کے پاس نہیں ہوتے لیکن جو لوگ نبی کریم کو خدا کی طرح ہر جگہ حاضر و ناظر جان کر یا عالم الغیب سمجھ کر ایسا کرتے ہیں غلطی پر ہیں.(۳۹-۰۸-۲۶) -۲۱ کیا لڑکی والے شادی پر کھانے کی دعوت دے سکتے ہیں استفتاء (از نظارت تعلیم و تربیت) کیا لڑکی والے شادی پر کھانے کی دعوت از روئے شریعت دے سکتے ہیں یا کہ نہیں.سوائے اس صورت کے کہ وہ باہر سے آنے والی برات کو مہمان کی حیثیت سے کھانا دیں لیکن وہ برات جو دوسرے شہر سے آ رہی ہے کیا اس کے آنے پر بیرون کے دوستوں کو کھانے پر مدعو کر سکتے ہیں کیا لڑکی کے والد بڑے پیمانے پر دعوت دے سکتے ہیں.
۵۹۴ فتویٰ یہ غلط ہے دعوت دے سکتے ہیں.حضرت مولوی صاحب اہل حدیث میں سے آئے تھے اور ان کا یہی مذہب تھا.وہ دعوت نہیں دیتے تھے لیکن یہاں پر ایک شادی ہوئی اس میں با قاعدہ اس آدمی نے دعوت کے رقعے بھیجے اور سب آدمیوں نے دستخط بھی کئے اور رقعے بھی لے لئے جن میں میں خود بھی تھا.کیونکہ میرا اپنا یہ اعتقاد تھا کہ یہ بدعت نہیں.جب ہم شام کے وقت کھانا کھانے کے لئے پہنچے اور کھانا لانا شروع ہوا تو حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم بھی اس میں مدعو تھے.انہوں نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے ہمیں کھانا نہیں کھانا چاہئے تو داعی نے جواباً کہا پھر دعوت کا خرچہ مجھے دے دیں.کیونکہ میں نے باقاعدہ آپ کے پاس دعوت نامے بھیجے جس پر آپ نے دستخط کئے اور وصول کئے جس کی وجہ سے میں نے اس کو جائز خرچ کیا.آخر مجھ سے بوجہ مفتی ہونے کے پوچھا گیا کہ آپ بتائیں کہ کیا یہ جائز ہے یا نہیں تو میں نے ان کو اس پر یہ جواب دیا.(کہ) اگر میرا اپنا علم پوچھتے ہو تو بتا سکتا ہوں.مگر خلیفہ کے فتویٰ کے بعد کسی دوسرے کا فتویٰ نہیں ہو سکتا.انہوں نے میرا علم پوچھا جس پر میں نے بتایا کہ بدعت اس کو کہتے ہیں جس کو دینی کام اور کار ثواب سمجھ کر کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سے اس امر کی نسبت ثبوت نہ ملتا ہو.اس کو بدعت کہتے ہیں.اور وہ ممنوع ہو جاتی ہے.اور شریعت میں ہر نئے کام کو بدعت نہیں کہتے اور نہ وہ ممنوع ہے.حدیث میں آتا ہے اور یہی بدعت کی تعریف ہے..کہ جو ہمارے دین میں کوئی نئی بات پیدا کرے.جو اس میں سے نہیں وہ متروک ہے.چونکہ یہ دعوت کوئی ثواب سمجھ کر نہیں کی جاتی.کوئی اس کو فرض یا سنت نہیں سمجھتا.یہ تو ایک عرف ہے.اور قرآن مجید میں فرمایا ہے و امر بالعرف.ہاں عرف ممنوع ہے جو کہ شریعت کے خلاف ہو.اس کے بعد کچھ تھوڑے دن گزرے تو حافظ روشن علی صاحب مرحوم کی لڑکی کی شادی ہوئی.اس میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اور چند اور دوست بھی مدعو تھے تو حافظ صاحب نے میٹھی کچھی لسی پیش کی تو حضور نے فرمایا کہ حافظ صاحب میں تو نہیں پی سکتا.یہ اس واسطے نہیں کہ میں اس کو نا جائز سمجھتا ہوں بے شک حضرت مولوی صاحب کی وجہ سے جو کہ میرے استاد بھی تھے میں بھی یہی کہا کرتا تھا کہ لڑکی والوں کی طرف سے جائز نہیں مگر میں نے تحقیق کی ہے اور مجھے بعض موقعوں پر شہادتوں سے معلوم ہوا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض دعوتوں میں شریک ہوئے ہیں اور واقعہ بھی یہی ہے کہ یہ بدعت نہیں ہوسکتی.کیونکہ یہ کوئی دینی امر نہیں.بلکہ میں اس لئے نہیں پیتا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں دودھ والی چیز استعمال نہیں کرتا.اور اس وقت مجھے زکام بھی ہے.چنانچہ حضور کے حکم سے باقی تمام احباب نے اس کو پیا باقی یہاں پر ایسی عام دعوتیں ہوتی رہتی ہیں.( ۲۸-۷-۲۰) نوٹ : جہاں تک خاکسار کو علم ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس خاطر کافی عرصہ سے بعض ایسی ہدایات جاری ہوئی ہیں تا کہ ایسے مواقع پر اسراف نہ ہونے لگے.اس وقت جماعتی ترقی اور افراد جماعت کی
۵۹۵ ترقی کے لئے کفایت بے حد ضروری ہے.(مؤلف) خلع کی درخواست کن کن حالات میں ہو سکتی ہے استفتاء- ا - عورت خلع کی درخواست کن کن حالات میں کر سکتی ہے؟ آیا عورت جب چاہے اپنے حق مہر کا مطالبہ اپنے خاوند سے کر سکتی ہے.یا حق مہر کی ادائیگی خاوند کی مرضی پر منحصر ہے یعنی جب چاہے اور جس طرح چاہے ادا کر دے؟ ۳- اگر عورت خاوند سے حق مہر کی یکمشت ادائیگی کا مطالبہ کرے اور خاوند اس کے مطالبہ کو پورا نہ کر سکے تو اس کے معاوضہ میں عورت خاوند سے کوئی اور شرط منوا سکتی ہے.جس سے حق مہر نہ ادا ہونے کی تلافی ہو جائے.مثلاً ایک عورت ملازم ہے اس کا خاوند اس سے ملازمت ترک کروانا چاہتا ہے تو کیا عورت یہ مطالبہ کر سکتی ہے کہ جب تک میرا حق مہر ادا نہ ہوگا میں ملازمت ترک نہیں کروں گی.-۴- آیا عورت اپنے خاوند سے رہائش کے لئے علیحدہ مکان کا مطالبہ کر سکتی ہے.اور آیا خاوند کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کے ایسے مطالبہ کو پورا کرے؟ فتوی: 1- اس کا فتوی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.فتویٰ تو کسی خاص اور معین صورت میں ہو سکتا ہے.اس کے متعلق تو فقہ کی کتب کا مطالعہ فرمائیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت سوائے اس کے کہ کوئی عورت مسئلے جانتی ہو.جب خاوند سے علیحدگی چاہتی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں وہ وجبہ بیان کر کے ضلع کا مطالبہ کرتی تھی.اگر وہ وجہ ایسی ہوتی کہ جس پر خلع ضرور ہونا چاہئے اس پر خلع کا حکم فرما دیتے.-۲ ان مسائل کو قاضی کا جاننا ضروری ہوتا ہے.درخواست کنندہ کے لئے ضروری نہیں ہے.کر سکتی ہے بشرطیکہ اگر ادائیگی کی کوئی تاریخ معین نہ کی ہو.اگر معین ہو تو پھر معاہدہ کے خلاف مطالبہ نہیں کر سکتی.اگر مہر مطلق ہے تو جب چاہے مطالبہ کر سکتی ہے.کیونکہ مہر خاوند کے ذمہ ایک قرض ہے اور قرض خواہ جب چاہے اپنے مقروض سے قرض کے متعلق مطالبہ کر سکتا ہے.-۳- یہ تراضی سفریقین سے ہوتا ہے.شریعت مجبور نہیں کرتی کہ عورت خاوند سے کوئی شرط منوائے.خاوند کی مرضی ہے کہ وہ شرط کو تسلیم کرے یا نہ کرے.شریعت اتنا کہتی ہے کہ عورت کا حق مہر ادا ہونا چاہئے.۴.عورت ایسا مطالبہ کر سکتی ہے.نوٹ:.علیحدہ مکان سے مراد خاوند کے رشتہ داروں سے علیحدہ رہنا ہے.(۳۸-۰۸-۰۳)
۵۹۶ ۲۳ - کیا منگنی نکاح کی قائم مقام ہے استفتاء.کیا منگنی نکاح کی قائم مقام ہے یا نہیں اور منگنی کی حالت میں مسلمان انسان اس عورت سے محبت کر سکتا ہے.فتویٰ منگنی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک تو یوں ہوتی ہے کہ جو مختلف قوموں میں رواج ہیں جن کو منگنی کہتے ہیں جب وہ رواج پورا کر دیا تو منگنی ہوگئی.جیسے ہمارے ملک میں خصوصاً ہمارے خاندان میں یہ رواج ہے.جب ایک آدمی کے گھر میں لڑکا پیدا ہوتو وہ برادری میں لڑکی پیدا ہونے کا منتظر رہتا ہے جب کسی پسندیدہ گھر میں لڑکی پیدا ہوئی ہو تو اس کو کپڑاٹو پی یعنی بچے کے کپڑے ان کے گھر میں بھیج دیتے ہیں.اگر وہ قبول کریں تو منگنی ہو گئی.اب اس قسم کی منگنی کوئی نکاح نہیں اور نہ اس کے ساتھ محبت جائز ہے.البتہ دوسری قسم کی جومنگنی ہے وہ یوں بھی ہوتی ہے کہ لڑکے والے مرد یا عورت لڑکی والے کے پاس جاتے ہیں اور لڑکی والوں کو بھی علم ہوتا ہے کہ یہ منگنی کے واسطے آیا ہے.وہ برادریوں کے آدمیوں کو جمع کرتا ہے یا اور لوگ جو مناسب ہوں ان کے سامنے لڑکے والا لڑکی والوں سے زبانی درخواست کرتا ہے کہ فلاں کو تم اپنا بیٹا بنا لو یا یہ کہ فلاں کے لئے تم فلاں لڑکی ہمیں دے دو یا اس کی مانند اور الفاظ جو اس پر دال ہوتے ہیں کہ یہ فلاں لڑکی کے لئے فلاں لڑکے کے واسطے رشتہ مانگتا ہے.اور حاضرین بھی اس کی اس بات کو سنتے ہیں تو لڑکی والا کوئی ایسے الفاظ بول دیتا ہے جو اس بات پر دال ہوتے ہیں کہ وہ لڑکے والے کی درخواست کو منظور کرتا ہے.اور اس کے الفاظ کو بھی حاضرین سنتے ہیں اس کے بعد ان میں جو رواج ہوتا ہے.فاتحہ وغیرہ یا مٹھائی یا کپڑے و دیگر اس رسم کو ختم کر دیتا ہے تو یہ منگنی یقیناً نکاح ہے اب رہا ایسی منگنی جو کہ نکاح ہے اس کے بعد قبل اس کے کہ وہ رخصت نہ ہو.جس کو بیاہ یا شادی کہتے ہیں.اگر مرد اس لڑکی سے محبت کرے تو اس کو زنا نہیں کہتے.مگر اس رواج کے جو کہ ساری عمر کا سنت مؤکدہ ہے خلاف ورزی کہیں گے.کیونکہ قرآن بھی یہ حکم دیتا ہے کہ وأمر بالعرف کہ جو قوموں کے صحیح رواج ہیں ان کو قائم رکھو اور اس پر عمل کرو.اور یہ سب امت محمدیہ خواہ پہلے ہوں یا بعد کے مشرقی ہوں یا مغربی ، شمالی ہوں یا جنوبی.اوپر کے ہوں یا نیچے کے ، خواہ کسی قوم کے بھی ہوں اور ان کے رواج خواہ کس قدر مختلف ہوں.جیسا کہ دولہا برات لے کر لڑکی والوں کے پاس نہیں جاتا.بلکہ لڑ کی کوعورتیں ساتھ لے کر مرد کے پاس پہنچا آتی ہیں.بخلاف عجمیوں کے ان میں مرد برات لے کر کے لڑکی کو لینے کے لئے جاتا ہے اور پھر ساتھ لے کر اپنے گھر آتا تھا لیکن اس بات پر سب کا عمل ہے کہ لڑکی کو نکاح کے بعد رشتہ دار مرد کے پاس پہنچاتے اور حوالے کرتے ہیں.اس کے بعد مرد اس کے ساتھ محبت کرتا ہے.تو جو شخص خلاف کرتا ہے.محض نکاح ہو گیا ہوا ہے اور اہل اسلام کے
۵۹۷ اس متفق امر کی خلاف ورزی کرتا ہے کہ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ اور تبع تابعین اور ساری امت کا بلا استثناء عمل چلا آیا ہے.لہذا ایسا کرنا بدترین بے حیائی اور گناہ ہے.(۳۸-۰۳-۱۵) -۲۴ کیا عورتوں کی شہادت ہی کافی ہے استفتاء - ایک مقدمہ میں چار عورتیں گواہ ہیں اور وہ معاملہ صرف عورتوں کا ہی ہے.اور عورتوں کا ہی آپس میں لین دین ہوا ہے.آیا اس معاملہ میں چار عورتیں گواہی کی تکمیل کے لئے کافی ہو سکتی ہیں.فتویٰ : جن معاملات میں عورتوں کی گواہی لی جا سکتی ہو ان معاملوں میں عورتوں کی گواہی لینی کافی ہے.(۲۰-۰۲-۳۹) ۲۵- خلع وطلاق اور رجوع استفتاء.میں نے اپنی عورت کے تنگ کرنے پر ایک روپیہ کے کاغذ پر ضلع لکھ کر دے دیا.اس نے زیور مجھے واپس دے دئے.میں نے لکھ دیا کہ دوصد روپیہ مہر بھی ماہواری قسط سے ادا کروں گا.بعد میں اس نے کاغذ جلا دئے.ہمارے درمیان صلح ہوگئی.ہم مل جل کر رہنے لگے.اس کے ایک ماہ بعد پھر جھگڑا شروع ہو گیا.میں نے طلاق نامہ لکھ دیا.اور رجسٹری نکاح منسوخ کرا دی.عورت نے مجھے زیور واپس کر دیا.میں نے اس کو لکھ دیا کہ بیس روپے ماہوار کے حساب سے مہر ادا کروں گا.اس کے بعد عورت پھر زاری کرنے لگی.دس دن کے اندر پھر میں رجوع کرلیا.اور زیور میں نے اس کو واپس کر دیا.-1 ا.کیا شرعا میری بیوی مطلقہ ہوگئی ہے جبکہ میری نیت ایک طلاق کی تھی.اور عدت کے اندر واپس کر لی گئی.کیا زیور مہر میں مجرا ہو سکتا ہے یا زیور بھی دینا ہوگا.اور مہر بھی؟ فتویٰ : آپ نے لکھا ہے کہ پہلے آپ نے ضلع لکھ دیا.اور عورت نے زیور واپس کر دیا اور آپ نے مہر کی ادائیگی کے لئے تحریر لکھ دی مگر اس کے بعد صلح ہوگئی.اور دوسری دفعہ آپ نے طلاق لکھ دی اور رجسٹری نکاح منسوخ کرا دی.اور زیور واپس ہو گیا.اور مہر کی ادائیگی کی تحریرلکھ دی.پھر دس دن کے اندر اندر رجوع کرلیا.حدیث کی رو سے خلع طلاق نہیں کہ اس سے رجوع ہو سکے.بلکہ فسخ نکاح ہے.اور فسخ نکاح کے بعد رجوع نہیں.ہاں فریقین راضی ہوں تو دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے.اور بعض ائمہ دین کے نزدیک خلع طلاق ہے.مگر ایسی نہیں کہ اس کے بعد رجوع کر لیا جائے بلکہ بائن ہے کہ جس کے بعد نکاح ثانی ہو سکتا ہے.
۵۹۸ مگر آپ کی تحریر میں جو خلع کی صورت لکھی ہوئی ہے.اس میں کسی ایسے مال کا ذکر نہیں.جو عورت کا ہو (خواہ خاوند نے اس کو دے دیا ہو.یا کسی اور طریق سے اس کو ملا ہو ) اور ضلع میں اس عورت نے وہ اپنا مال خاوند کو دیا ہو یا خاوند نے اس مال پر خلع کیا ہو.رہا زیور کا واپس دینا تو وہ عورت کا مال معلوم نہیں ہوتا ہے کیونکہ دوسری دفعہ جو طلاق دی ہے اس میں بھی اس زیور کی واپسی کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاوند نے اپنا مال سمجھا ہوا ہے.جو عورت کے پاس امانت ہے.اور دونوں صورتوں میں امانت واپس لی ہے تو اگر ایسا ہے کہ خلع کیا ہے مگر اس میں عورت سے کوئی مال لینا نہیں مقرر کیا تو پھر بھی یہ طلاق بائن ہے.کتب فقہ میں لکھا ہے.اگر مال کا ذکر نہ ہو اور خاوند خلع کرے تو اس کے ساتھ طلاق بائن ہوتی ہے.بہر حال پہلی تحریر میں اگر خلع کیا ہے تو وہ نسخ نکاح یا طلاق بائن ہے.اور دونوں صورتوں میں رجوع نہیں ہوسکتا.بلکہ نئے نکاح کی ضرورت ہے جو نہیں ہوا.اس لئے دوبارہ طلاق یا اس سے رجوع کچھ نہیں.اور یہ عذر کہ عورت نے خلع قبول نہیں کیا کیونکہ اس نے فور اوہ تحریر جلادی) کچھ فائدہ نہیں دیتا.کیونکہ خلع سے فسخ نکاح یا طلاق بائن واقع ہونے کے لئے عورت کا قبول کرنا کوئی ضروری نہیں.اگر وہ نہ بھی قبول کرے تو میں نکاح فسخ ہو جائے گا.ہاں جس مال سے خلع ہو گا اس صورت میں اس کا دینا عورت پر لازم نہیں آئے گا.اور اگر پہلی تحریر میں بھی طلاق ہی ہوتی تو پھر یہ دونوں رجعی طلاقیں ہوتیں اور ہر ایک کے بعد عدت کے اندر رجوع کرنا صحیح اور درست ہوتا.تب بھی بجائے تین کے ایک ہی رجعی طلاق ہوتی کیونکہ جو طلاقیں ایک وقت میں دی جائیں وہ از روئے حدیث ایک ہی رجعی طلاق ہوتی ہیں نہ تین.-۲- کا جواب یہ ہے کہ جو زیور یا چیز عورت کو دی جائے خواہ نکاح کے وقت یا بعد وہ عورت کی ملک ہو جاتی ہے.ہاں اگر دیتے وقت تصریح کر دی جائے کہ یہ مہر نہیں ہے یہ کہ یہ میری چیز ہے تم رکھو یا استعمال کرو تو پھر تصریح کے ماتحت ہوگا یا کسی قوم میں کوئی خاص رواج ایسا ہو کہ جب بھی کوئی زیور یا کوئی اور چیز دی جائے تو وہ ضرور مہر میں ہی ہو یا مردہی کی ہو.تو پھر رواج کے مطابق ہوگا.اور اگر دونوں نہ ہوں تو پھر وہ یقیناً عورت کی ملک ہے.اور مہر اس کے علاوہ دینا لازم ہے.(۳۳-۱۰-۱۴) ۲۶- کیا مکان کی لاٹری جائز ہے؟ استفتاء.( از نظارت تعلیم وتربیت) کیا مکان کی لاٹری ڈالنی جائز ہے؟ فتوی: جس طرح باقی لاٹریاں نا جائز ہیں اسی طرح مکان کی لاٹری بھی ناجائز اور حرام ہے.
۵۹۹ ۲۷- والدین کی علیحدگی میں اولاد کا حق حضانت کسے حاصل ہے استفتاء.خاوند بیوی میں علیحدگی کی صورت میں اولا دکس کے پاس رہے گی.جبکہ عورت کے پاس رہنے میں تربیت میں نقص ہونے کا ڈر ہو.فتوی: نابالغ بچوں کے متعلق دو حق ہوتے ہیں.اول حق ولدیت.یہ والد کو حاصل ہے.دوم حق حضانت.یہ شریعت اسلام نے والدہ کو دیا ہے.ہاں قضا میں والد یہ ثابت کر دے کہ والدہ کے پاس رہنے سے بچوں کو جسمانی یا اخلاقی کوئی نقص پہنچنے کا خطرہ ہے تو پھر قضا والدہ سے حق حضانت لے کر کسی ایسی قریبی عورت کو حق حضانت دے گی.جہاں یہ خطرہ نہ ہو.(ان سب صورتوں میں اخراجات کا متکفل والد ہوگا ) اور اگر کوئی ایسی عورت نہ ہو.تب والد کو دے گی.اور سوائے قضا کے فیصلہ کے والد اس خطرہ سے عورت کو اس حق سے محروم نہیں کرسکتا.(۳۴-۰۶-۱۲) ۲۸ - پراویڈنٹ فنڈ اور سیونگ بنگ کا سود استفتاء.(۱) پراویڈنٹ (۲) جنرل پراویڈنٹ فنڈ کا سود جائز ہے یا نہ.(۳) سیونگ بنگ (۴) دوسرے بنکوں کا سودا اپنے لئے جائز ہے یا نہ.فتویٰ : کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم نے سود کے متعلق دو اصول بتائے ہیں.اول یہ ہے کہ کل قرض جر نفعًا فهو ربی ۷۲ ( ہر ایک قرض جو نفع لائے وہ سود ہے ) دوئم یہ کہ سات چیزوں کو حضور نے بیان فرمایا جن میں سے سونا چاندی اور کچھ پھل اور نمک ہیں اور پھر فرمایا کہ ان میں سے ایک اپنی جنس سے جب تبادلہ ہوتو يدا بيد وسواء بسواء دالفضل ربی (ہاتھ یہ ہاتھ ہو وہ برابر ہوا ور زیادتی سود ہے ) پس سود کی یہی دوصورتیں ہیں.تیسری کوئی نہیں اور قرض کی بنیاد لینے والے کے ارادہ پر ہوتی ہے.جس کا اظہار کبھی الفاظ سے اور کبھی اغراض اور عمل درآمد سے ہوتا ہے.پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم سے روپیہ قرض نہیں لیا جا تا.بلکہ گورنمنٹ ملازم کے فائدہ اور اس کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے لئے پہلے قانون بناتی ہے.اور پھر اس قانون کے ذریعہ ملازم کا کچھ روپیہ اپنے پاس جمع کر کے واپسی کے وقت اپنی طرف سے کچھ روپیہ حسب قانون اس کو دیتی ہے.اور یہ شرعاً سود نہیں.جنرل پراویڈنٹ فنڈ کی تفصیل سوال میں درج نہیں.اگر مذکورہ بالا ہی طریق پر وہ بھی ہے تو پھر اس کا بھی
یہی حکم ہے اور اگر اس پر نہیں تو پھر تفصیل لکھنے پر جواب دیا جائے گا.(۳)، (۴) کا جواب یہ ہے کہ بنک خواہ گورنمنٹ کے ہوں یا اوروں کے ہوں بانیوں کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنے مقاصد میں روپیہ صرف کرنے کے لئے بوعدہ واپسی اور ادائیگی لوگوں سے روپیہ حاصل کریں.اور اس کو قرض کہتے ہیں.خواہ نام تکثیر تحصیل کے لئے بدل بدل کر کچھ رکھیں.اور قرض پر نفع لینا سود اور ممنوع ہے.ہاں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے کہ ایسے روپیہ کا سوداگر ملے تو وہ صرف اور صرف اشاعت اسلام پر صرف ہوسکتا ہے.(۳۴-۱۰-۰۱) -۲۹ چا اور بھائی میں سے کون مقدم ولی ہے استفتاء.ایک لڑکی بالغ مختلع جس کا والد فوت ہو چکا ہے.اس کی والدہ زندہ موجود ہے اس کا ایک بھائی بعمر بارہ سال موجود ہے.اس کا ایک حقیقی چا بھی موجود ہے لیکن چا اور لڑکی اور اس کی والدہ کے تعلقات کشیدہ ہیں.لڑکی جہاں رشتہ کرنا چاہتی ہے.چاروک بنتا ہے.جہاں چا چاہتا ہے وہاں لڑکی رضامند نہیں ہوتی.اب اس صورت میں کیا چچا کی ولایت ضروری ہے یا کہ نہیں.فتوی: ثیبہ ہو یا بکر.نکاح بغیر رضا کے نہیں ہو سکتا.ہاں دونوں کی رضا کے اظہار میں فرق ہے.چچا مقدم ولی ہے لیکن جب ولی اور لڑکی میں اختلاف ہو جائے یا دو ولیوں میں اختلاف ہو تو پھر خلیفہ وقت کی اجازت فیصلہ کن ہوتی ہے.(۳۵-۰۱-۱۲) - لڑکیوں کو ورثہ کس وقت دینا چاہئے استفتاء.ہم احمدی لوگوں کو لڑکیوں کو حصہ کس وقت دینا چاہئے.آج کل جائیداد میں سے لڑکی کا کیا حصہ ہے کیا شادی کر دینے کے بعد ہی حصہ ادا کر دینا چاہئے یا والد کی زندگی کے بعد ادا کر دینا چاہئے.اگر والد کی زندگی کے بعد لڑکی کو حصہ دیا جاتا ہے تو قبل از زندگی کی جائیداد کی پیداوار دینا چاہئے یا نہیں.جو والدین لڑکی کو جائیداد نہیں دیتے کیا ان کو جماعت سے خارج کیا جاتا ہے؟ فتوی: اسلام میں لڑکیوں کے لئے جو حصہ مقرر کیا گیا ہے اور جسے ورثہ مقرر کیا گیا ہے وہ میت کی وفات کے بعدا دا کیا جاتا ہے.اور والدین اپنی زندگی میں جو جائیداد یا اور کوئی مال لڑکیوں کو دے دیں وہ ورثہ نہیں سمجھا جاتا کیونکہ وہ عطیہ یا ہبہ ہے جو والدین کو اجازت ہے کہ وہ اپنی اولا دکوخواہ وہ لڑ کے ہوں یا لڑکیاں ہبہ اور عطیہ دیں.لڑکیوں کی شادی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ان کو اس وقت حصہ ملے گا.جبکہ ان کے والدین یا دونوں سے
۶۰۱ کوئی ایک فوت ہو جائے.اگر باپ فوت ہوتا ہے تو باپ کی وفات پر باپ کی جائیدا دمتروکہ سے لڑکوں اور لڑکیوں اور دیگر اقرباء اور ورثاء میں تقسیم کیا جاوے گا.ماں فوت ہوتی ہے تو ماں کے مال کو تقسیم کیا جائے گا.اور اگر دونوں فوت ہوتے ہیں تو دونوں کا مال تقسیم ہو گا.اور یہ تقسیم اس وقت کی جاتی ہے جبکہ میت کی تجہیز وتکفین کی جاوے اور بعدہ اس کے قرضہ جات کو اس کے مال سے بیباق کیا جاوے اور ان کے بعد اگر اس نے کوئی اور بھی وصیت کی ہو.( جو کہ زیادہ سے زیادہ ۱/۳ مال کی ہو سکتی ہے ) ان تینوں کے بعد جو میت کا مال بچے گا اس سب مال کو ان کے ورثاء میں اس نسبت سے تقسیم کیا جاوے گا جو کہ اسلام نے مقرر کی ہے.اور اس وقت لڑکیوں کو بھی حصہ ملے گا.ہر ایک وارث کا حصہ متعد دصورتوں کے لحاظ سے مقرر شدہ ہے.اس لئے ضروری ہے کہ میت کے حصہ داروں میں وارثوں کا پتہ دیا جائے کہ فلاں شخص فوت ہوا ہے اس کے یہ یہ وارث زندہ موجود ہیں.خواہ وہ بچہ ہو یا بوڑھا اور جتنے جتنے ہوں ان کی تعداد سے آگاہ کیا جائے تو پھر حصہ بتلایا جا سکتا ہے.کیونکہ بعض حصہ داروں کی موجودگی میں بعض حصوں میں کمی بیشی ہو جایا کرتی ہے.اور اگر وہ نہ ہوں تو اور صورت ہو جایا کرتی ہے.اس لئے سب وارثوں کا پتہ دیا جائے اور ان کی تعدا دا الگ بھی بتلائی جاوے کہ اس کے اتنے بیٹے اتنی بیٹیاں، اتنی بھتیجیاں، اتنے بھیجے یا پوتے وغیرہ ہیں.باقی اس امر کا جواب کہ لوگ لڑکیوں کو جائیداد نہیں دیتے ان کو جماعت سے خارج نہیں کیا جاتا یہ ہے کہ لڑکیوں کو حصہ نہ دینا بہت بڑی غلطی بلکہ گناہ ہے.کیونکہ جب اسلام نے حکم دیا ہے کہ جب کوئی مرجائے تو اس کے وارث انصاف و عدل سے اس کا ورثہ شریعت کے موافق تقسیم کریں.اگر لڑکیاں ہیں تو جو ان کا حصہ ہے وہ ان کو دینا چاہئے.خواہ وہ کنواری ہوں یا شادی شدہ خواہ ایک ہو یا زیادہ.اس میں والدین کا کوئی قصور نہیں.کیونکہ ورثہ وفات کے بعد ہی تقسیم ہوگا اور والدین فوت ہو گئے ہیں.البتہ رشتہ داروں کا ہی گناہ ہے ایسے رشتہ داروں کو جماعت سے خارج نہیں کیا جاتا وہاں اگر آپ دفتر میں اطلاع دیں تو ایسے لوگوں کی وصایا منظور نہ کی جائیں.(۳۳-۰۵-۲۰) ۳۱- کیا زیور مہر کا حصہ ہے استفتاء.زید کی لڑکی کی شادی بکر کے لڑکے سے ہوئی شادی کے وقت زید نے اپنی لڑکی کو کچھ زیور دیا اور کچھ زیور سے سسرال کی طرف سے بھی ملا.بعد ازاں لڑکی سسرال میں کچھ دن گزار کر اپنے زیورات پہن کر میکے گئی.اور وہاں جا کر کچھ دن کے بعد سارا زیور علاوہ گھر کے اور کچھ سامان کے چوری ہو گیا اس کے بعد لڑکی کو اس کا خاوند اپنے گھر لایا.چند ماہ بعد ایسے حالات رونما ہوئے کہ لڑکی خلع کر لینے پر مجبور ہوئی.ایسی
۶۰۲ صورت میں اگر مسروقہ زیور کا سسرال کی طرف سے مطالبہ ہو تو شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ فتوی شریعت اسلام نے عام صورتوں میں سخت ممانعت فرمائی ہے کہ مرد عورت کو جدا کرتے ہوئے کوئی چیز اس میں سے لے جو کہ اس نے اس کو دی تھی.سورہ نساء ع۳ میں فرمایا ہے.وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ ج ط زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَ اتَيْتُمُ إِحْدَاهُنَّ قِطَارًا فَلَا تَاخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَاخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَّ إِثْمًا مُبِينًا وَكَيْفَ تَاخُذُونَهُ وَقَدْ اقْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَّ اَحْذَنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا عَلِيْظًا -٣ یعنی اگر تم ایک عورت کو علیحدہ کر کے اس کی جگہ دوسری شادی کرنی چاہتے ہو اور ایسے وقت میں تمہیں مال کی ضرورت بھی ہوگی تاکہ اس کے ذریعہ سے دوسری شادی کر سکو.اور یہ مزید خرچ پہلی کی جدائی ہی کی وجہ سے پیش آیا ہے..اور تم نے اس کو ڈھیروں ڈھیر مال دیا ہوا ہو.تو اس میں سے کوئی چیز بھی مت لو.کیا تم بہتان اور کھلے کھلے گناہ کے طور پر مال لیتے ہو.حالانکہ تم ایک دوسرے تک پہنچ چکے ہو جس کی وجہ سے تم نے مال دیا تھا.اور انہوں نے تم سے مضبوط عہد لیا ہوا ہے.سورۂ بقرہ میں طلاق کے ذکر کے بعد فرمایا ہے.وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَاخُذُوا مِمَّا اتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَّخَا فَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَا اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ - ۸۴ یعنی بیوی کو جو کچھ بھی تم نے دیا ہے جدا کرتے ہوئے تمہارے لئے حلال نہیں کہ اس میں سے کچھ بھی لو.ہاں صرف ایک صورت ہے کہ بیوی خاوند دونوں ڈریں کہ اب اگر تم جدا نہ ہوئے اور ساتھ رہے تو تم اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکو گے.پھر خالی ان دونوں کے اس ڈر سے عورت سے کچھ لینا مرد کے لئے کچھ جائز نہیں ہوسکتا.بلکہ قوم کے نمائندوں قاضی اور ثالثوں کو بھی یہ خوف پیدا ہو جاوے کہ اب یہ دونوں خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر ان دونوں پر آپس میں کوئی گناہ نہیں جو کہ عورت نے اپنے آزاد کرنے میں بطور فدیہ اور بدل کے دیا ہے.ان آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خاوند کو یہ حق تو ہرگز حاصل نہیں کہ جو کچھ اس نے دیا ہوا ہے اس کو واپس لے.بلکہ ضلع اس پر ہوگا کہ جو عورت بطور فدیہ دے خواہ سب کچھ ہو جو خاوند نے دیا ہے یا اس کے برابر ہو یا اس کا کچھ حصہ یا اس کے کسی حصہ کے برابر ہو.ہاں عورت اگر اس سے زائد دے جو کہ مرد نے اس کو دیا ہے تو مرد کو زائد لینا شرعاً نا پسند کیا گیا ہے.یہ اس صورت میں ہے جبکہ آپس میں خلع کا فیصلہ ہو.اور اگر قاضی یا حکم خلع کا فیصلہ کریں تو پھر قاضی اور حکم جو فد یہ مقرر کریں اس پر خلع ہوگا.حدیث میں آتا ہے کہ ایک عورت کی شادی ہوئی تو اس نے نبی کریم کی خدمت میں خاوند کے متعلق ایک ایسی شکایت کی.جس کی تحقیق کی کوئی ضرورت نہ تھی تو حضور نے فرمایا کہ کیا تو وہ باغ اس کو
۶۰۳ واپس دے دے گی جو اس نے تجھے دیا ہے تو اس نے اثبات میں جواب دیا تو حضور نے اس کے خاوند کو فرمایا کہ تو باغ لے لے اور اس کو علیحدہ کر دے.اب ظاہری حالات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس خاوند نے باغ دیا تھا ضرور اس نے کچھ اور بھی دیا ہو گا.خواہ بہت ہی کم قیمت کا ہومگر سوائے باغ کے اور کوئی چیز واپس نہیں کرائی اور نہ ہی اس کے متعلق دریافت فرمایا ہے.پس صورت مندرجہ استفتاء میں مرد کا کوئی حق نہیں کہ جو کچھ زید کی لڑکی کو دیا ہے اس کو واپس لے.ہاں اگر قرآن کریم کی بیان کردہ شرطیں موجود ہوں تو پھر زید کی لڑکی بطور فدیہ جو کچھ اس کو دے اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں.اور اگر قضاء نے فیصلہ کرنا ہے تو پھر قاضی جو فدیہ دینا ضروری سمجھے وہ دلا کر خلع کا حکم دے سکتا ہے.خواہ اس فدیہ میں اس زیور کو وہ شامل کرے یا وہ اس کو شامل نہ کرے.یہ اس کی رائے ہی ہے.قاضی صاحب اگر اپنی رائے قائم کرنے کے لئے مجھ سے دریافت فرمائیں گے تو میں بطور فتوی نہیں بلکہ بطور مشورہ جو موید بکتاب و حدیث رسول اللہ ہوگا دے دوں گا.(۳۵-۰۵-۲۸) -۳۲ کیا غلطی سے گا بھن جانور کی قربانی ہونے پر کھانا جائز ہے؟ استفتاء.شریعت اسلام میں قربانی کے ایسے جانوروں کی قربانی کا حکم ہے جو کہ گا بھن ہوں؟ مثلاً گائے، بھیڑ ، بکری وغیرہ.کیا گا بھن جانور قربانی کے لئے ذبح کیا جاسکتا ہے یا نہیں.اور کیا ایسے جانور کی قربانی جائز ہوگی یا نہیں.کیا اس کا گوشت حلال ہوگا یا نہیں.فتوی: شریعت اسلام میں ایسے جانوروں کی قربانی کے لئے جو گا بھن ہوں یہ حکم ہے کہ ان کو قربانی کے لئے ذبح نہ کیا جائے.بلکہ عام طور پر ذبح نہ کیا جائے.لیکن عدم علم کی وجہ سے کوئی جانور ذبح ہو ہی جاوے تو اس کی قربانی قبول ہو جاوے گی.اور ایسے جانور کا گوشت کھانا حلال ہوگا لیکن احتیاط یہی کی جاوے کہ گا بھن جانور بطور قربانی یا عام طور پر ذبح نہ کیا جاوے.اگر باوجود احتیاط کے ذبح ہو جاوے تو اس کا کوئی گناہ نہیں.(۰۵-۰۳-۳۹) ۳۳- قرض کی زکوۃ استفتاء ( از نظارت تعلیم وتربیت) زید ایک رقم الیمن کے پاس اس شرط پر امانت رکھتا ہے کہ انجمن اس کو اپنے استعمال میں لاسکتی ہے مگر جب وہ شخص واپس طلب کرے تو اس کو ادا کر دی جائے.دوسری یہ صورت ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص ایک معین
۶۰۴ مدت مقرر کر کے امانت رکھے کہ اتنے عرصہ تک انجمن استعمال کر سکتی ہے کیا ایسی صورت میں زکوۃ کی ادائیگی ضروری ہوگی یا زیورات کی طرح کو جو غرباء کے استعمال کے لئے دیا جاتا ہو اس پر بھی کوئی زکوۃ نہیں ہوگی.فتوی: زکوۃ صرف ان زیورات پر نہیں ہوتی جو کسی کے اپنے استعمال کے ہوں.اگر وہ استعمال کے زیورات کسی دوسرے کو بھی عاریتا دئے جائیں.تب بھی ان پر زکوۃ نہیں لیکن جب زیورات اپنے استعمال -۲ سے زائد ہوں وہ اگر دوسروں کو استعمال کے لئے دئے جائیں.تب بھی ان پر زکوۃ ادا کرنی ہوگی.جب قرض کی رقم پر بھی زکوۃ کی ادائیگی ضروری ہے حالانکہ واپسی قرض کی معیاد عموما معلوم بھی نہیں ہوتی.سوائے اس قرضہ کے جس کی وصولی کی امید نہ ہو.پس ایسے قرضے جن کی واپسی کی معیاد مقرر ہو وہ زکوۃ سے کسی طرح چھوٹ سکتے ہیں.اسی طرح وہ امانت بھی جو کسی کے پاس رکھی جائے اور امین کو خرچ کرنے کی بھی اجازت دے دی جائے.وہ بھی زکوۃ سے مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا.زکوۃ ہر صورت میں ادا کرنی ہوگی.۳۴- کیا دو آدمیوں کا جمعہ جائز ہے استفتاء - کیا دو آدمیوں سے جمعہ ہو سکتا ہے یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ الحکم ۱۲۱ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ پر ہے کہ دو آدمیوں سے جمعہ ہو سکتا ہے؟ فتوی: اس وقت غالباً (سید محمد احسن صاحب یا حضرت خلیفہ المسح اول تشریف رکھتے تھے.آپ نے دریافت کیا کہ یہ مسئلہ کس طرح ہے انہوں نے اسے اختلافی مسئلہ بتایا پھر آپ نے فرمایا کہ دو آدمیوں کی جماعت ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہو سکتی ہے.آپ نے فرمایا پھر جمعہ بھی ہوسکتا ہے.( مجموعہ فتاویٰ احمد یہ جلد اول).مسئلہ پیش ہوا کہ دو آدمی کسی گاؤں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی محمد احسن صاحب سے خطاب فرمایا تو انہوں نے عرض کی کہ دو سے جماعت ہو جاتی ہے.اس لئے جمعہ بھی ہو جاتا ہے.آپ نے فرمایا ہاں پڑھ لیا کریں فقہاء نے تین آدمی لکھے ہیں.اگر کوئی اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیرہ کو پیچھے کھڑا کر کے تعداد پوری کر سکتا ہے.حضرت شاہ ولی اللہ شاہ صاحب کا خیال.شاہ صاحب نے اپنی کتاب حجتہ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ جمعہ کا لفظ اجتماع پر دال نہ ہو.قانون نے تین پر جمعہ فرض کیا.مگر یہ صحیح نہیں جماعت میں بھی اجتماع پر دال ہے.لیکن تین کیا دو سے بھی جماعت ہو جاتی ہے پس ہمارا فتویٰ یہی ہے کہ دو احمد یوں کو جمعہ پڑھنا چاہئے.
-۲ 1 عورت پر جمعہ فرض نہیں.لہذا اگر ایک مرد اور اس کے ساتھ ایک عورت ہو تو ان پر جمعہ ضروری اور فرض تو نہیں لیکن اگر پڑھ لیں تو ادا ہو جائے گا.جیسا کہ مسافر کے لئے فقہاء نے لکھا ہے.۳۵- بابت رہن استفتاء (از دار القضاء - قادیان) کیا ضروری ہے کہ رہن میں میعاد ہو.کیا یہ شرط درست ہے کہ میں جب چاہوں زر رہن دے کر فک کراسکتا ہوں.۲- اگر راہن یہ شرط لے کر اتنے عرصہ میں اگر فک نہ کر والوں تو پھر مرتہن اس چیز کو اتنے عرصہ کے لئے رہن کر سکتا ہے تو یہ جائز ہے؟ ۳- اگر مر ہونہ چیز کی قیمت کم ہو جائے تو کیا مرتہن یہ کر سکتا ہے کہ اس چیز کو فروخت کر کے بقیہ قیمت کا مطالبہ راہن سے کرے.فتوی: 1- رہن میں معیاد کا ہونا ضروری نہیں.اور یہ شرط کہ جب چاہوں زرر ہن دے کر فک کرالوں گا.یہ درست ہے.۲- اس اس قسم کی شرط رہن کے وقت کر لینا جائز ہے.-۳- اگر راہن اور مرتہن آپس میں فروخت کرنے کا معاہدہ کر لیں تو مرتہن فروخت کر سکتا ہے ورنہ اسے قضاء میں جانا چاہئے.اس پر قاضی جو فیصلہ کرے اس پر عمل ہوگا.اور اگر فروخت کرنے کا معاہدہ ہو چکا ہو تو بھی مرتهن خود مطالبہ نہیں کر سکتا.ہاں اگر قاضی فیصلہ کر دے تو ہوسکتا ہے.(۳۵-۰۷-۱۵) کیا ادھارکوسودا مہنگا دینا جائز ہے استفتاء ( از صد رعمومی صاحب انجمن مقامی قادیان) کیا یہ جائز ہے کہ وہ دوکاندار نقد خریدنے والے کو سستا سودا دے اور ادھار خریدنے والے کو مہنگا دے.فتویٰ صحیح حدیث میں آتا ہے ( اور اسی حدیث میں سود کی تعریف کی گئی.اور سید نا حضرت مسیح موعود نے اسی حدیث کو لے کر فرمایا ہے کہ سود کی یہی تعریف ہے) کہ کُل قرض جرنفعًا فھوربی اور یہ ظاہر ہے کہ ادھار دینا قرض ہے اور ادھار دے کر گراں فروخت کرنے میں قرض نفع لاتا ہے لہذا یہ صریحا سود ہے.(۱۳-۰۳-۳۷)
۶۰۶ ۳۷.جس بیوی کو نان نفقہ نہ ملے تو کب نکاح ثانی کی اجازت ہے استفتاء.خاوند اگر اپنی بیوی کو نان اور نفقہ نہ دے بلکہ وعدہ ہی کرتا چلا جائے اور اپنی حالت بھی درست نہ کرے.بیوی اپنے والدین کے گھر میں بود و باش رکھے.شریعت کے رو سے کتنے عرصہ کے بعد عورت دوسرے سے نکاح کرنے کے لئے آزاد ہو جاتی ہے.قریباً سات سال سے مسلسل یہ حالت در پیش ہے.اس عرصہ میں خاوند نے کبھی بھی ایک کوڑی کا سلوک نہ کیا.فتویٰ : جو خاوند اپنی بیوی کو نان نفقہ نہ دے یا نہ دے سکتا ہو.اس پر ایک سال کی مدت گزار نے پران کے درمیان تفریق کی جاسکتی ہے.حدیث میں آیا ہے اور حضرت عمرؓ اور حضرت علی کا بھی یہی مذہب تھا اور حضرت عمر کی خلافت میں اس پر عمل تھا اور حضرت خلیفہ اول کا بھی یہی مذہب تھا.اور آپ کے اس فتویٰ پر کئی ایسی مصیبت زدہ عورتوں کا نکاح ثانی کیا گیا لیکن عدالتوں میں شرع محمدی کے مطابق ( جو کہ فقہ حنفیہ کے مطابق سید امیر علی کی تصنیف ہے ) فیصلے ہوتے ہیں جو کہ اس کے خلاف ہیں.اس واسطے فتویٰ کے مطابق عدالتوں میں دعوی دائر کر کے فیصلہ نہیں کیا جاسکتا.اس لئے اگر کوئی عورت دوسرے آدمی سے نکاح کرلے گی تو اس پر فوجی مقدمہ ہوسکتا ہے.اس واسطے اس فتویٰ پر عمل کرنا خطرہ سے خالی نہیں.اس کا ایک طریق یہ ہو سکتا ہے کہ نصف مہرا اور خرچہ کا دعویٰ عدالت میں دائر کر کے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے.کیونکہ اس میں ڈگری ضرور مل جاتی ہے اور اس کے خوف سے مرد خود طلاق دینے پر یا آباد کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے.(۳۷-۰۳-۱۴) ۳۸ سوال حضرت عائشہ کی نیت سے نماز جائز ہے یا نہیں؟ جواب : حضرت عائشہ کی نیت سے کوئی نماز پڑھنی درست نہیں.۳۹.سوال عورتوں کا مسجد میں نماز کے لئے آنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب: عورتوں کا مسجد میں نماز کے لئے اس طور پر آنا کہ پردہ قائم رہے اور نا جائز خلط نہ ہو.جائز ہے.
۴۰- سوال ۶۰۷ بطور نذر کے کسی مراد کے حصول کے لئے روزہ رکھنا جائز ہے یا نہیں.جواب: ( یعنی بطور نذرکسی مراد کے حصول کے لئے روزہ رکھنا ) جائز ہے.۴۱- سوال عاشورا کے دن کھانا کھلانا اور شربت پلانا جائز ہے یا نہیں؟ جواب : عاشورا کا شربت اور کھانا بدعت ہے.جس سے اجتناب چاہئے.۴۲- سوال انبیا ءاولیاء کو حاضر ناظر جان کر ان سے مدد مانگنا جائز ہے یا نہیں.جواب: انبیاء اولیاء کو حاضر ناظر جاننا اور ان سے مدد مانگنا جیسا رواج ہے یہ حرام اور نا جائز ہے اور مسلم کی شان سے بعید.۴۳- سوال گیارھویں اور قبور پر ذبح کیا ہوا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ جواب: گیارھویں اور قبور پر ذبح کیا ہوا جانور نہ کھایا جاوے یہ اول بدعت اور دوئم حرام ہے.۷۵ ۴۴.سجدہ تلاوت کے متعلق فتویٰ قرآن مجید میں جو سجدہ کی آیات آتی ہیں.جن پر سجدہ کیا جاتا ہے حتی کہ نماز پڑھتے ہوئے نماز کے اندر سجدہ کرنا پڑتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام و خلفائے راشدین و تا بعین وائمہ دین اور سب مسلمان سجدہ کرتے رہے.اور باوجود اس کے ایک شخص مسلمان احمدی کہلا تا ہوا ان سب کے خلاف یہ کہتا ہے کہ سجدہ نہ کرو.جو کہ نہایت ہی قابل افسوس امر ہے اگر احمدی کہلاتے ہوئے اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ مسلمانوں کے مجمع علیہ کا یہ عمل اور اعتقاد ہے اور مرکز میں بھی آیات سجدہ پر سجدہ کرتے ہیں.اور اگر یہ معلوم ہوکر پھر بھی اپنے اندر مذکورہ ڈھکو سلے کو اس پر ترجیح دیتا ہے.اور سجدہ نہیں کرتا تو پھر اس کی جرأت و نادانی پر نہایت ہی تعجب اور افسوس ہے.اور یہ بعینہ شیطان کے اس فعل کی طرح ہے جو قرآن مجید میں مذکور ہے جہاں اللہ تعالیٰ
۶۰۸ لا سب فرشتوں کو آدم کے سجدہ کا حکم دیتا ہے فَسَجَدَ الْمَلَئِكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ هُ إِلَّا إِبْلِيسَ - ۶ کے یہاں پر فرشتوں نے جو کہ خدا تعالیٰ کے ہر وقت فرمانبردار ہیں.سجدہ کے حکم پر آدم کے لئے سجدہ کیا.مگر ایک شیطان طبع نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا.جس کی اس نے اپنی طرف سے وجہ بھی بنالی.یہاں پر بھی ایسا ہی نمونہ دکھایا گیا ہے.حالانکہ خود رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے خلفاء راشدین وصحابہ کرام و تابعین و جملہ مسلمان و حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے خلفاء وصحابہ کرام و جملہ احمدیان آیات سجدہ پر سجدہ کرتے ہیں.سوائے سیکرٹری مال کے.اور خدا اور رسول کے حکم کے خلاف جو تو جیہ بیان کی.بعینہ اسی طرح کی توجیہ ابلیس نے آدم کے سامنے پیش کر کے حضرت آدم کو غلطی میں ڈال کر جہاں خدا نے رکھا تھا اس دنیوی جنت سے نکلوا دیا.خدا نے ان کو حکم دیا تھا کہ لَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ مَگر سورہ اعراف میں خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ شیطان نے آدم کو اپنے اخلاص اور خیر خواہ ہونے کا اعتبار د لا کر کہا مَا نَهَكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخَلِدِينَ.( کہ نہیں روکا تم دونوں کو تمہارے رب نے سوائے اس کے کہ تم دونوں طاقتور یا بادشاہ یا ہمیشہ رہنے والے بن جاؤ گے ) مگر پھر آدم صاحب نے خدا تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی اور جنت سے نکالے گئے.پس یہ شخص بھی اسی طرح کہتا ہے کہ یہ تو فرما نبرداری کے لئے حکم دیا گیا ہے اور ہم تو مجسم ہی فرمانبردار ہیں.یہ کہہ کر سجدہ سے انکاری ہے.خدا تعالیٰ تو حکم دیتا ہے فاسجدوا کہ سجدہ کرو مگر یہ شخص غلط تو جیہہ کر کے شیطنت میں پڑ کر دوسروں کو بھی اس میں ڈالتا ہے.اور پھر سب سے زیادہ اس سے تعجب ہے کہ ایک مقتدر شخص مذہبی جماعت کا عہدیدار ہوتے ہوئے ایسی جرات کرتا ہے اور دوسروں کو بھی مذہب کے خلاف چلانا چاہتا ہے.-۴۵ صف پر کپڑا وغیرہ بچھا کر نماز پڑھنا - یہ امام صاحب اور امیر صاحب کی شریعت میں ہوگا کہ کپڑا وغیرہ بچھا کر نماز پڑھنی جائز نہیں ہے جماعت کے اکثر افراد میں یہ نہایت خطرناک عیب پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مفتی سمجھ کرفتو کی دینا شروع کر دیتے ہیں بلکہ جرأت کر کے اس پر لڑائی شروع کر دیتے ہیں.اور پھر مرکز کے عمل کو بھی نہیں دیکھتے.اور اپنی شریعت پر چلانے کا اصرار کرتے ہیں.ایسے لوگوں کو خدا سے ڈرنا چاہئے.اور جماعت میں تفرقہ ڈالنے کی بجائے اتحاد پیدا کرنا چاہئے جو کہ خدا تعالیٰ کا حقیقی حکم ہے کہ لا تفرقوا کہ آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو.اس پر عمل پیرا ہونا چاہئے خصوصاً مرکز کے عمل کو اپنے لئے اسوہ بنانا چاہئے.۷۸
۶۰۹ -۴۶ کیا مسجد یا رفاہ عام پر زکوۃ خرچ ہو سکتی ہے استفتاء.کیا مسجد کے لئے پانی کا نلکہ یا اور مسجد کے متعلق کوئی اور رفاہ عام کے کام میں زکوۃ کا پیسہ خرچ کیا جاسکتا ہے یا نہیں.فتوی: زکوۃ کے مصارف جو قرآن مجید نے خود بیان فرمائے ہیں ان میں مصارف مساجد اور دیگر امور رفاہ عام نہیں ہیں.دوئم زکوۃ تبھی ادا ہوتی ہے.جب وہ کسی کو دی جائے.اور اپنی ملکیت سے نکال کر کسی دوسرے کی ملک بنادی جائے اور جہاں یہ تملیک نہ ہو وہاں زکوۃ کوئی ادا نہیں ہوتی مگر دینے والے کے اپنی ملکیت سے نکال دینے اور مساجد کی ضرورت پر صرف کرنے میں تملیک نہیں.پس اس سے زکوۃ قطعاً ادا نہیں ہوتی.(۳۷-۰۵-۰۶ ) ۴۷.کیا مدعی بر قسم ہے استفتاء.کیا رسید کے ہوتے ہوئے قسم کا کھلانا جائز ہے یا نہیں.فتوی: حدیث میں آتا ہے کہ البينة على المدعى واليمين علیٰ من انکر.جب مدعی کے پاس ثبوت موجود ہو تو اس صورت میں قسم کا دلا نا مدعی پر لازم نہیں آتا.بلکہ مستم اس شخص کو دلائی جاوے گی جو کہ انکاری ہو.(۳۷-۵-۱۱) ۴۸ کیا نا جائز کمائی کا روپیہ نیک مصرف پر خرچ ہو سکتا ہے استفتاء.سودخور، مرتی، گا بجا کر مانگنے والا اگر تعمیر مسجد کے لئے کچھ دے تو اس کا دینا اور مسجد میں تعمیر میں اس کا لگانا جائز ہے یا نہیں.فتوی: اس مسئلہ میں پہلے بعض علماء کو غلطی لگی ہے اور پچھلے ان کی تقلید میں وہی غلط فتویٰ دیتے چلے آئے ہیں.انہوں نے یہی سمجھا ہے کہ نا جائز ذریعہ سے جو روپیہ حاصل کیا جاوے وہ نجس حرام ہو جاتا ہے.اس لئے اگر وہ شخص کسی طرح بھی دوسرے شخص کو وہ روپیہ دے جس شخص کو یہ علم ہے کہ اس کا مال نا جائز کمائی کا ہے تو اس شخص کو اس سے نہ لینا چاہئے.یہاں تک کہ امرت سر میں ایک مولوی ٹوپیوں کا تاجر تھا.میں اس کی دوکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنٹلمین نوجوان نے ایک رومی ٹوپی خریدی جب وہ ٹوپی کو اس کے خانہ میں بند کر کے چلنے لگا تو دوکاندار نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے وہ خانہ لے لیا اور یہ کہتے ہوئے قیمت اس کو واپس کرنے لگا کہ میں
۶۱۰ تمہیں ہرگز نہیں دوں گا.جنٹلمین نے کہا کہ مولانا کیوں؟ تو مولانا نے جواب دیا کہ تم کنجر ہو اور میں کنجروں کا حرام روپیہ نہیں لے سکتا تو جنٹلمین نے کہا مولا نا ! آپ کو شبہ ہوا ہے.میں تو آپ کے فلاں دوست کا بیٹا ہوں.لیکن اصل بات یہ ہے کہ حرام ذریعہ سے جو نقد یا جنس لے لی جاویں اور اس کی ذات میں نجاست و حرمت داخل نہیں ہو جاتی کہ دوسروں کے لئے بھی وہ حرام ہو جائے.خواہ وہ اسے ناجائز طریقہ پر بھی حاصل کریں بلکہ نا جائز ذریعہ سے حاصل کرنا فعل حرام ہے اور اس کے ذریعہ جو شخص حاصل کرتا ہے.اس کے لئے یہ حرام نہیں ہوتی.اس نقدی کو جو شخص خرید کرتا ہے تو وہ حلال چیز اس کی حرام ہوتی ہے.مگر یہ حرام روپیہ جوشخص جائز طریق پر اپنی حلال چیز دے کر حاصل کرتا ہے.اس کے لئے یہ روپیہ حلال ہے.اسی طرح حرام ذریعہ سے کمایا ہوا روپیہ جو کمانے والے کے لئے حرام ہے جب وہ فی سبیل اللہ دیتا ہے تو اس کے لئے حرام ہونے کی وجہ سے اس کے لئے موجب ثواب نہیں ہوتا مگر لینے والوں کو حرام نہیں.پس استثناء کا جواب یہ ہے کہ ان لوگوں کا وہ روپیہ جو حرام ذرائع سے کمایا ہوا ہو ان کے لئے حرام ہے.لہذا یہ تعمیر مسجد کے لئے حرام مال دینا ان کے لئے موجب ثواب نہیں مگر لینے والے اور مسجد کے لئے حرام نہیں.(۳۷-۰۹-۱۱) ۴۹ - کیا بندوق کا شکار حلال ہے؟ استفتاء - فتاویٰ حضرت مرزا غلام احمد صاحب میں مذکور ہے اگر تکبیر پڑھ کر بندوق چلائی جائے اگر جانور ذبح کرنے سے پیشتر مرجاوے تو وہ بغیر ذبح جائز ہے اس کے متعلق کون سی سندات موجود ہیں؟ فتوی: آپ نے گولی کے شکار کے متعلق دریافت کیا ہے تکبیر پڑھ کر گولی سے جوشکار مارا جائے اگر مجبوراً ذبح کرنے سے پہلے مرجاوے تو اس کے قرآن وحدیث سے حلال ہونے کا حسب ذیل ثبوت ہے.قرآن مجید کے نزول کے وقت اور احادیث کے جمع کے وقت تک بندوق نہ تھی کہ بالخصوص اس کا ذکر ہوتا.مگر قرآن مجید اور احادیث میں ایسی چیزوں کے ساتھ شکار کر کے حلال ہونے کا ذکر ہے کہ جن پر تکبیر پڑھ کر چلایا جاوے مثلاً شکاری جانوروں پر پرندوں کے متعلق قرآن مجید میں ہی آتا ہے جس کا يَسْتَلُوْنَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ط قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَتُ لا وَمَا عَلَّمْتُمُ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ.وی (وہ پوچھتے ہیں تجھ سے کہ کیا چیز حلال ہے ان کے لئے کہہ کہ تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں.اور جو تم نے سکھلایا ہو شکاری جانوروں میں سے اس حالت میں کہ تم ان کو اپنے لئے شکار کرنا سکھلانے والے ہو.پھر کھا لوتم میں سے جو کہ انہوں نے تمہارے لئے روکا ہے.اور اس پر اللہ کا نام لے لیا کرو ) اس آیت میں اس بات کا ذکر ہے کہ شکاری جانوروں کو جب شکار کے لئے تعلیم دی گئی ہو تو ان کو تکبیر پڑھ کر جب چھوڑ دو تو جس شکار کو شکار کریں تو وہ
۶۱۱ ہمارے لئے حلال ہے خواہ ہم نے اس کو ذبح کیا ہو یا پہلے ہی مر گیا ہو.اسی طرح احادیث میں تیر کمان کے ساتھ ذکر آیا ہوا ہے.پس اس پر قیاس کر کے گولی کے شکار کو بھی حلال بیان کیا گیا ہے.اور یہ صرف فتویٰ احمد یہ ہی نہیں بلکہ ان فقہ کی کتب میں بھی ہے جو کہ بندوقوں کے زمانہ میں بھی لکھی گئی ہیں.مثلاً شامی شرح در المختار جوٹر کی کے ایک بڑے فاضل کی تصنیف ہے جو اس وقت مشرق و مغرب کے حنفی علماء کی مستند کتاب ہے اس میں بھی اس مسئلہ کو بالوضاحت لکھا ہے.(۳۷-۱۱-۱۶) ۵۰- بابت رہن استفتاء - (از نظارت تعلیم وتربیت) جماعت کے لوگ عموماً رہن کر کے خود ہی کرایہ دار ہوتے ہیں اور کرایہ مکان کی حیثیت کو مد نظر رکھ کر مقرر نہیں کیا جاتا بلکہ روپیہ کی مقدار پر ہوتا ہے.جو شرعاً جائز نہیں.اگر وہی مکان را ہن سے لے کر کسی دوسرے کو کرایہ کے طور پر دیا جاوے تو شاید مقررہ کرایہ کا تیسرا حصہ بھی نہ ملے اس بارہ میں فتوئی مطلوب ہے.فتوی: حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں یہی ہم سنتے رہے ہیں.اور یہی فتویٰ دیتے رہے کہ رہن سے نفع اٹھانا اس صورت میں جائز ہے کہ جب مرتہن اس پر قبضہ کرے.کیونکہ قبضہ کرنے کی صورت میں اس کی معمولی مرمت یا زمین ہو تو اس کی تیاری اور مالیہ پر کچھ خرچ کرنا پڑے گا.تو اس کے عوض ہی نفع اٹھا سکے گا.اور ساتھ ہی یہ بھی سنتے رہے ہیں.اور اس کے مطابق فتویٰ بھی دیتے رہے ہیں کہ مرتہن کو اگر راہن قبضہ نہ دے بلکہ خود ہی قابض رہے تو پھر نفع اٹھانا جائز نہیں کیونکہ اس صورت کے بموجب اس پر خرچ کرنا راہن کا کام ہے نہ کہ مرتہن کا.اور جبکہ مرتہن کا اس پر خرچ نہیں.اب اگر یہ اس قرض کی وجہ سے ) نفع اٹھائے گا جو اس نے راہن کو دیا ہوا ہے.اور رہن کے بدلہ میں نفع اٹھانا سود ہے اور یہی سود کی تعریف ہے.(۳۸-۰۴-۰۳) -۵۱ کیا نماز میں امام ادعیہ ماثورہ کے سوا دعائیں بآواز بلند پڑھ سکتا ہے سوال: کیا ادعیہ ماثورہ کے علاوہ امام نماز کے اندر اپنی زبان میں بلند آواز سے دعائیں کر سکتا ہے؟ جواب: حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ فرض نماز میں امام اونچی آواز سے اردو میں دعا کر سکتا ہے یا نہیں فرمایا اس طریق کو میری طبیعت نہیں مانتی اس موقع پر مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتوی ہے کہ اس طرح دعا کرنا جائز نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ حسب ذیل ہے.
۶۱۲ ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور امام اگر اپنی زبان میں مثلاً اردو آواز میں بآواز بلند دعا مانگتا جائے اور پیچھے آمین کرتے جائیں تو کیا یہ جائز ہے.جبکہ حضور کی تعلیم ہے کہ اپنی آواز میں دعائیں نماز میں کیا کرو.فرمایا دعا کو بآواز بلند پڑھنے کی ضرورت کیا ہے خدا تعالیٰ نے تو فرمایا تضرعًا وخفية اور دون الجهر من القول.عرض کیا کہ قنوت تو پڑھ لیا کرتے ہیں.فرمایا ہاں ادعیہ ماثورہ جو قرآن وحدیث میں آچکی ہیں وہ بے شک پڑھ لی جاویں باقی دعائیں جو اپنے ذوق و حال کے مطابق ہیں وہ دل ہی میں پڑھنی چاہئیں.‘ ۸۰ ۵۲- کیا حرجانہ جائز ہے استفتاء.اگر پرچی کے نیچے یہ عبارت لکھی ہوئی ہو کہ اس پر چی کی رقم ایک ہفتہ تک ادا کروں گا.بصورت عدم ادائیگی دو آنے فی ہزار خشت ہفتہ واری تجارتی ہرجانہ عند الطلب ادا کروں گا.کیا اس قسم کی رقم وصول کرنا اسلام نے جائز رکھا ہے.فتوی: حدیث شریف میں آیا ہے کہ كُلُّ قرض جرنفعًا فھورہی.( جو قرض کسی قسم کا نفع قارض کو دے وہ سود ہے ) صورت مندرجہ استفتاء میں گو اس زائد رقم کا نام تجارتی ہرجانہ رکھا گیا ہے لیکن یہ نام اس زائد رقم کو اس سے باہر نہیں کرتا کہ یہ قرض نے قارض کو بطور نفع دلایا ہے.اور یہ نا جائز ہے.ہاں اگر یہ رقم انجمن وغیرہ کو بطور ہر جانہ ادا کرنی ہوتی تو پھر یہ جائز ہوتا.(۳۸-۰۳-۰۴) ۵۳ کیا ز ررہن کے مطابق کرایہ لینا جائز ہے استفتاء مرتین سے مکان مر ہونے کا کرایہ کی حیثیت پر لینا درست ہے یارو پیر کی حیثیت پر ؟ فتویٰ : سیدنا حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ ارشاد اخبار میں شائع شدہ ہے کہ مکان کا اس طریق پر رہن کرنا اسی صورت میں جائز ہے کہ رہن نامہ میں یہ لکھا جائے کہ فریقین ( راہن ومرتہن ) میں سے ہر ایک کو کرایہ کے بڑھانے اور کم کرنے کا اختیار ہو گا یعنی اگر حالات منتقفی ہوں گے کہ موجودہ کرایہ سے کرایہ بڑھا دیا جائے تو مرتہن راہن سے زیادہ کرایہ کا مطالبہ کرے اور اگر موجودہ کرایہ سے کچھ کم کرنے کے متلقفی ہوں تو راہن مرتہن سے کم کرایہ دینے کا تصفیہ کر سکتا ہے.پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ کرایہ کی بناء مکان کی حیثیت اور گردو پیش کے حالات پر ہے نہ کہ رہن کی مقدار پر.اور اگر رہن کی مقدار پر کرایہ مقرر ہو تو پھر یہ صریح سود ہے جو کہ قطعاً حرام ہے.(۳۸-۰۵-۱۷)
۶۱۳ ۵۴- عدت کا فلسفہ استفتاء ( از پرائیویٹ سیکرٹری صاحب حضور ایدہ اللہ تعالی ) ۱- ایک عورت جو عرصہ تین سال سے اپنے خاوند سے علیحدہ رہتی ہے اگر اس قدر عرصہ علیحدہ رہنے کے بعد اسے طلاق دی جاوے تو بعد از طلاق عدت گزارنے کی ضرورت ہے یا بعد از طلاق نکاح کر سکتی ہے.( کیونکہ عدت حمل کے لئے ہے اور وہ ہے نہیں) -۲ عورت کا ذبیحہ کھانا حلال ہے یا حرام؟ فتویٰ یہ بالکل غلط ہے کہ صرف حمل کے واسطے عدت ہوتی ہے.اگر حمل کے واسطے ہی عدت ہوتی تو صرف ایک ہی حیض سے پتہ چل سکتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ لونڈی کے بارے میں صرف ایک حیض کی ضرورت ہے.اور اس کا نام استبراء رکھا گیا ہے.یعنی رحم کا حمل سے پاک ہونا لیکن طلاق یا وفات کے بعد جو چیز ہے اس کا نام شریعت نے استبراء نہیں رکھا کہ جس کے معنے رحم کے حمل سے پاک ہونے کے ہوں.بلکہ اس کا نام عدت رکھا گیا ہے اور عدت کے معنے شمار کے ہیں نہ کہ حمل سے پاک ہونے کے.پس یہ ایسی بات ہے جو کہ خود اپنے آپ ہی تردید کرتی ہے کہ عدت صرف حمل کے واسطے ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ شریعت نے اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ جب کوئی عورت کسی خاندان میں بیا ہی جاتی ہے اور پھر آزاد ہونے کے بعد جب وہ کسی دوسرے خاندان میں شادی کرنا چاہتی ہے تو پہلے خاندان کو ایسا کرنا نا گوار معلوم ہوتا ہے اور یہ فطرتی اور طبعی بات ہے جو ہر ایک قوم میں پائی جاتی ہے اور اس کا یہ کرشمہ ہے کہ بہت سی خوام بیوہ کی شادی کو نا پسند کرتی ہیں اور اپنے قومی وقار کی تو ہین سمجھتی ہیں.پس اس قوم کے جذبات کا تقاضا یہ ہے کہ آزادی کے بعد شادی نہ کرے.لیکن اس عورت کی فطرت اور طبیعت کا تقاضا یہ ہے کہ آزاد ہوتے ہی اور حیض آنے سے پہلے ہی یہ نکاح ثانی کرے.اس لئے عورت میں مرد سے ملنے کا جذ بہ جب پوری انتہاء کو پہنچتا ہے.وہ خاص ایام کے ختم ہونے کے بعد ہوتا ہے یا خاص ایام سے ہی شروع ہو جاتا ہے.کیونکہ وہی زمانہ استقرار حمل کا ہوتا ہے.اور اس حمل ہی کی وجہ سے یہ جذبہ اس میں رکھا گیا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جانوروں کے حمل کے جو ایام ہیں.جب وہ ایام آجاتے ہیں تو ان میں ایک بے چینی اور حد سے بڑھا ہوا اضطراب پایا جاتا ہے.چنانچہ بھینس زنجیر رسہ وغیرہ تڑا کر کے بھاگ جاتی ہیں.بلی کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ سارے شہر اور محلے میں شور مچادیتی ہے اور عورت میں ایسا ہی جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن قدرت نے اس میں حیا رکھا ہے.جو اسے ایسی حرکات کے ارتکاب سے روک دیتا ہے.
۶۱۴ مگر خاص ایام کے بعد ہر قوم میں عورت اپنی زیب و زینت اختیار کرتی ہے اور یہی اس کے جذ بہ کا اظہار ہے.پس عورت کے اس طبعی جذبے کا تقاضا تو یہی ہے کہ ایسی حالت پیش آنے سے پہلے اس جذبہ کو پورا کرنے کا سامان ان ایام کے آنے سے پیشتر ہی کرے.اور وہ سامان نکاح ہے.پس پہلے خاوند کے خاندان کا جذ بہ اور اس آزاد شدہ عورت کا جذبہ آپس میں بالکل متضاد ہیں وہ تو چاہتا ہے کہ یہ عورت اب شادی نہ کرے.اور یہ چاہتا ہے (عورت کا جذبہ ) کہ خاص ایام کے آنے سے پہلے پہلے یا ان کے ختم ہونے سے پہلے یہ نکاح کر لے.لیکن وہ خدا جوان دونوں کا رب ہے اور دونوں کے جذبات کو جانتا ہے.اور قدر کرتا ہے کیونکہ اس نے ہی ان میں یہ جذبات رکھے ہیں.اس نے خاوند کے خاندان کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے عورت کو حکم دیا ہے کہ تم اپنے جذبہ کو پہلے ایام میں اس قوم کی وجہ سے جس کے ساتھ پہلے تمہارا تعلق تھا روک دو.پھر دوسرے ایام میں پیدا ہونے والے جذبہ کو بھی حکم دیا کہ روک دو.پھر تیسرے ایام میں پیدا ہونے والے جذبہ کو بھی حکم دیا کہ روک دو جب تین دفعہ اس نے اپنے اس مغلوب کن جذبہ کو اپنے مولیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے پہلے خاوند کے جذبات پر شار کر دیا تو خداوند تعالیٰ نے اب اس کے جذبہ کا بھی پاس کیا اور اس کو اجازت دی اور پہلے خاوند کو حکم دیا کہ اب اس کو نکاح سے مت روکو اس نے تمہارے جذ بہ کا پورا لحاظ کیا ہے.آزادی دوطرح سے حاصل ہوتی ہے خاوند زندہ ہے اور اس نے عورت کو طلاق دے دی یا عورت نے خود خلع کرایا.اور دوسری صورت یہ ہے کہ قدرت نے اس کے خاوند کو وفات دے دی ان دونوں صورتوں میں ایک فرق ہے.پہلی صورت میں خاوند اس کو خود جدا کرتا ہے اس واسطے اس کے خاوند کے خاندان کا مذکورہ جذبہ اتنا تیز نہیں ہوتا.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے رشتہ دار نے خود اس کو علیحدہ کیا ہے لیکن دوسری صورت میں جبکہ قدرت نے اس خاوند کو وفات دے کر اس کو آزاد کر دیا ہے تو اس صورت میں ان کا مذکورہ جذ بہ بہت تیز ہونا چاہئے اور ان کا مذکورہ جذ بہ روکنے کے واسطے کوئی عذر سامنے پیش نہیں ہوتا.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جو نہی خاوند فوت ہوا تو اس وقت سے خاوند تلاش کرنے لگ پڑے گی.اس واسطے شریعت نے یہاں قوم کے جذ بہ کا لحاظ کیا ہے.اور اس وقت تک ہی عورت کو اور نکاح کرنے کی اجازت نہیں کہ جس وقت کے بعد وہ اپنے جذ بہ مذکورہ کو جو ایام خاص میں پیدا ہوتا ہے دبانے سے معذور ہو چکی ہے اور اس معذوری کا پتہ اس حدیث سے لگتا ہے کہ حضرت عمر اپنے خلافت کے زمانہ میں تجسس حالات کے واسطے جب مدینہ میں پھر رہے تھے تو انہوں نے ایک گھر سے ایک عورت کی زبان سے ایک ایسا شعر سنا کہ جو اس جذبہ کا اظہار کر رہا تھا تو حضرت عمر اس عورت کے پاس چلے گئے اور آپ نے اس سے دریافت کیا.اس نے بتایا کہ میرا خاوند ایک عرصہ سے جہاد پر گیا ہوا ہے.اور مجھے اس کی جدائی کی تکلیف ہے تو حضرت عمرؓ اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ کے پاس تشریف لے گئے اور
۶۱۵ ان کو کہا کہ خدا حق سے نہیں شرماتا.میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں ٹھیک ٹھیک بتلاؤ آپ نے پوچھا کہ عورت خاوند کے بغیر کتنی مدت گزار سکتی ہے تو حضرت حفصہ نے فرمایا کہ چار مہینے.پس اس سے معلوم ہوا کہ یہ انتہائی حد ہے.اس کے بعد جب وہ چار مہینے تک اپنے مذکورہ جذبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے جذبات کو دباتی رہی ہے.اب وہ معذور ہے.اب وہ اس کے دبانے سے قاصر ہے.مگر ظاہر ہے کہ چار مہینے کے بعد فورا ہی انتظام نہیں ہو جا تا مثلاً اس عورت کے خاوند کو چار مہینے کے بعد بلایا جائے گا تو سفر کے لئے بھی کچھ وقت چاہئے.اس لئے ان ضرورتوں کی اوسط کو مد نظر رکھتے ہوئے چار ماہ پر دس دن زائد مقرر کر دئے تو فرمایا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو وہ چار ماہ دس دن تک کسی اور سے نکاح کرانے کا کھلا کھلا اظہار نہ کرے.اس کے بعد اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح کرے.پس عدت کا اصل فلسفہ یہ ہے ورنہ حمل کا جاننا کہ حمل ہے یا نہیں.اس کا نام استبراء ہے.دوئم.اس کا ایک ہی حیض سے پتہ معلوم ہو جاتا ہے کہ حمل ہے یا نہیں.تین حیض یا چار ماہ دس دن گزارنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں.پس حمل سے رحم کا پاک ہونا عدت طلاق یا عدت وفات کی وجہ قرار دنیا مولویا نہ ڈھکوسلہ ہے ورنہ حقیقتا یہ بالکل غلط ہے شریعت نے اس کا بھی اعتبار کیا ہے.لیکن اس کا نام استبراء رکھا ہے اور وہ لونڈی کے بارہ میں ہے.(۳۸-۰۵-۳۰) -۵۵- کیا خلیفہ وقت یا اس کا نمائندہ امامت کا زیادہ حق دار ہے استفتاء ( از پرائیویٹ سیکرٹری صاحب) خلیفہ وقت یا اس کا نمائندہ جس جگہ جائے تو کیا وہ وہاں کے مقامی لوگوں سے امامت اور جمعہ پڑھانے کا زیادہ حق دار ہے بعض فتنہ پرداز خلیفہ وقت کے نمائندہ کو لا يؤمن الرجل الخ.پیش کر کے حق امامت سے بیدخل کرنا چاہتے ہیں.فتوی: بعد دعا دور و در قمطراز ہے جبکہ حدیث میں آیا ہے کہ لا یــومــن الـرجل الرجل في اهله و من زار قوماً فلا يو مهم وليو مهم رجل منهم - تو کیا خلیفہ وقت یا اس کا نمائندہ کہیں جائے تو وہ ان لوگوں کا امام الصلوۃ بن سکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں وہ امام الصلوۃ بن سکتا ہے.بلکہ ضروری ہے وہی امام الصلوۃ بنے اور اس کی موجودگی میں کسی اور شخص کا امام الصلوۃ بننا شرعاً درست ہی نہیں اس کی وجہ یہ ہے.اول تولا يؤمن الرجل الرجل فی اھلہ کسی کے گھر میں امام الصلوۃ بننے کے متعلق ہے مسجد کے متعلق نہیں.ومن زار قومًا فلا يؤمهم وليؤمهم رجلٌ منهم.اس شخص کے متعلق ہے جو کہ اپنے طور پر ان لوگوں کی ملاقات کے لئے گیا ہو.نہ نبی یا خلیفہ نبی یا ان کے بھیجے ہوئے نمائندہ کے متعلق ہے.کیونکہ ان کی
۶۱۶ آمد ملاقات کے لئے نہیں ہے.یہ کہنا ہر گز صحیح نہیں ہو سکتا کہ وہ ان کو ملنے آئے ہیں.وہ ان کی ہدایت تعلیم دین یا اسلامی کام کے لئے آئے ہیں نہ کہ لوگوں کو ملنے کے لئے.پس ان دونوں حدیثوں کے الفاظ میں ان کو شامل نہیں کیا گیا.دوم اگر کوئی فی بیتہ اور زار کے الفاظ کی پیدا کی ہوئی تخصیص کو از خودا ڑ اکر ان کو عام کر دے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوبھی لفظ ر جل اور لفظ رزاں میں شامل کرتے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اس تیم کو باطل ٹھہراتا ہے.کیونکہ حضور جہاں جہاں بھی تشریف لے گئے حضور نے خود ہی نماز پڑھائی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جن لوگوں میں آپ تشریف لے گئے ہوں ان میں سے کسی کو امام بنایا ہو.اور آپ خود مقتدی بنے ہوں اسی طرح آپ کے خلفاء بھی شامل ہوں گے.مگر ان کا عمل بھی وہی رہا ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رہا ہے.سوئم یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس طرح لا يؤمن الرجل الرجل في اهله يا في بيته فرمايا ہے اس طرح فی سلطانہ فرمایا ہے بعض حدیثوں میں اس کو فی بیتہ کے ساتھ ملایا ہے اور بعض نے فی اھلہ کے ساتھ ملایا ہے.چنانچہ ابوداؤد کی روایت میں ہے لا يؤم الرجل في بيته ولا سلطانہ اور مسلم وغیرہ میں ہے کہ لا يؤمن الرجل فى اهله ولا في سلطانه - لیکن جس حدیث کو سب نے روایت کیا ہے اور جو امامت کے بارہ میں بطور اصل اور قاعدہ کے ہے اس میں صرف فی سلطانہ ہے.اور وہ یہ ہے عن ابى مسعود عتيته ابن عمر قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم القوم اقرؤهم لكتاب الله فان كانوا فى القرأة سواءً فاعلمهم بالسُنَّة فان كونوا في السنة سواءً فاقد مهم هجرة فان كانوا فى الهجرة سواءً فاقد مهم سُنا فلا يومن الرجل الرجل في سلطانه فلا يقعد في بيته على تكته الا باذنه ۱۰۴ صحیح مسلم کے شارح نودی نے اس کی شرح میں لکھا ہے مضاه ان صاحب البيت والمجلس وامام المسجد احق عن غیرہ لیکن قاضی شوکانی نے نیل الاوطار میں نو دی کے ان معنوں کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے والظاهر ان المراد به السلطان الذي اليه ولاية امور النّاس لاصاحب البيت نحوه يدلّ على ذلك مافی روایۃ ابی داود بلفظ لا يؤم الرجل في بيته ولا فى سلطانه والظاهر أنَّ للسّطان تقدّم على غيره وان كان اكثر منه قرانا وفقها وورعا وفضلاً فيكون مخمصالما قبله ۱ پس فی سلطانہ کے معنے یہ ہوئے کہ کسی کی ولایت اور حکومت پر اس کے اذن کے سوا کوئی امام بن کر جماعت نہ پڑھائے.اور گھر والے کی اس کے گھر اور اہل بیت پر ولایت اور حکومت ہوتی ہے اس لئے اس کے گھر میں اس کی کوئی امامت نہ کرائے اور قوم کو اپنی
۶۱۷ بستی یا محلہ پر ولایت اور حکومت ہوتی ہے.اس لئے جو ان کی ملاقات کے لئے باہر سے آئے وہ ان کی امامت نہ کرائے.چنانچہ ابن سیف نے لوڈی کے بیان کردہ معنوں پر لکھا ہے کہ کسی گھر والے کو باہر کا کوئی آدمی امامت نہ کرائے.لانه موضع سلطنہ.پس کسی کے گھر اور اہل میں یا کسی قوم میں باہر کے آدمی کے لئے امامت کرانی اس لئے ممنوع ہے کہ وہاں پر اس کی یا ان کی ولایت رکھنے والے کا حق ہے.ہاں امامت اور حکومت ،سلطنت ، ولایت کے معنے اس جگہ وہی ہیں جو کہ الا كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته ۱۲ میں آنحضرت نے راعی کو دئے ہیں.پس گھر والا اور اہل والا چونکہ اپنے گھر اور اہل کا سلطان ہے اس لئے گھر میں اور اہل میں امامت کا حق اسی کو حاصل ہے.دوسرا اس کی سلطنت میں امامت نہیں کراسکتا.قوم اپنے علاقہ کی سلطان ہے.لہذا وہاں پر امامت کا حق اس کو ہے لہذا دوسرا کوئی وہاں پر امامت نہیں کر سکتا.پھر گھر والے کا اور اہل والے کا اور قوم کا اگر کوئی سلطان ہو وہ وہاں پر موجود ہو تو پھر ان سب احادیث کی وجہ سے امامت ان کے سلطان کا حق ہوگا.ان کا حق نہیں کہ اپنے سلطان کے امام بہنیں اور ظاہر ہے کہ نماز اور امامت دینی امور ہیں لہذا ان کا تعلق دینی سلطنت ، دینی حکومت اور دینی ولایت سے ہے اور یہ سلطنت ،ولایت اور حکومت خلیفہ وقت اس کے نواب اور نمائندوں کو حاصل ہے قاضی شوکانی نے لکھا ہے.قال اصحاب الشافعى وبقدم السطان اونائية على صاحب اليبت وامام المسجد وغيرهما لان ولايته وسلطنتۂ عامہ.چنانچہ اسلام میں اس کے بیان کردہ اصل کے ماتحت امامۃ الصلواۃ جاری ہے.جب قاعدہ یہ ہوا کہ اقراء کتاب اللہ امام ہو تو اس سے صاف ثابت ہوا کہ غیر اقرا.اقرآ کو امامت نہیں کر اسکتا.اسی طرح پر اعلم بالسنّة كو غير اعلم بالسنة امامت نہیں کر سکتا.اسی طرح اقدم بالهجرة اور اقدم سنا کا حال ہے کہ غیر اقدم ان کو امامت نہیں کر سکتا.مگر جنگ وغیرہ امور میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا خلفاء راشدین کسی کو امیر مقرر کر دیتے تھے تو پھر وہ امیر امام الصلوۃ ہوتا تھا.اور بار ہا ایسا ہوتا تھا کہ اس کے نیچے اس سے اقرا علم اور اقدم بالهجرة یا اقدم سنا ہوتے تھے.پس وہی امیر جس کو ان پر سلطنت اور ولایت حاصل ہے باوجود بعض ماتحتوں کی نسبت غیر اقرا.غیر اعلم بالسنة غيرا قدم ہونے کے امام الصلوۃ ہوتا تھا.یہ ایسا واضح مسئلہ ہے کہ کسی کا اس میں اختلاف نہیں اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی روایت ہے.جس میں یہ بیان ہو کہ فلاں امیر تھا مگر غیر اقر آ ہونے وغیرہ کے باعث امام الصلوۃ نہ ہوتا تھا.بلکہ فلاں اقرا امامت کراتا تھا.یہاں تک کہ حضرت عمر نخوجی سپاہی اور حضرت اسامہ امیر جیش مقرر ہوئے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آنحضرت کے خلفاء راشدین نے جس جس کو بطور نمائندگی باہر بھیجا ہے ان
۶۱۸ میں سے ایک کی نسبت بھی کوئی روایت نہیں ملتی کہ جس قوم میں وہ گیا ہے اس قوم کا ایک شخص امامت کراتا تھا.اور وہ نمائندہ مقتدی ہوتا تھا.امام نہ ہوتا تھا.استمرار و تو کیا ایک نماز کی امامت بھی نمائندہ کو غیر نمائندہ نے بغیر کسی عذر کے کرائی ہو.بلکہ ثبوت ملتا ہے تو یہی کہ جو نمائندہ باہر گیا ہے تو وہی امام الصلوۃ ہوا ہے.مثلاً طبرانی نے ابو مسعود انصاری سے روایت ہے اوّل من قدم المدينة من المهاجرين مصعب بن عمير وهو اول من جمع بها يوم الجمة قبل ان يقدم النبي صلى الله عليه وسلم وهو اثنا عشر رجل ۸۳ اور یہ وہی زمانہ ہے کہ ابھی محض دینی حکومت تھی اور دنیاوی سلطنت نہ تھی.چنانچہ امام بخاری نے قری میں جمعہ ثابت کرنے کا باب باندھا ہے.اور چونکہ جو قریٰ میں جمعہ منع کرتے ہیں کہ وہاں پر کوئی امیر نہیں ہوتا تو الجمعة في القریٰ کے باب میں یہ حدیث درج کی ہے.الا کلکم راع وكلكم مسئول عن رعیتہ.اور پھر وہ حدیث بھی وہاں پر ہی درج کی ہے کہ جس میں زریق عامل اہل قرئی جمعہ پڑھنے کی نسبت ابن شہاب سے دریافت کرتے ہیں.اور ابن شہاب قریٰ میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیتے ہیں اور وہ بطور سند ساتھ یہ حدیث لکھتے ہیں الا کلکم کہ اور یہ حدیث اس لئے لکھتے ہیں کہ قریٰ میں امیر کوئی نہیں ہوتا.جمعہ اور عیدین کے لئے امیر کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے اور الا کلکم بتاتی ہے کہ ہر ایک امیر ہے.یعنی نماز جمعہ وغیرہ عبادات جہاں سلطان امیر حاکم وغیرہ کا ذکر آتا ہے اس سے یہی سلطنت ، امامت وغیرہ مراد ہے جو کہ الا کلکم.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اور بالکل ظاہر ہے کہ احمد یہ جماعت کے ہر رجل پر.ہر اہل بیت پر ہر خاندان، قوم اور گروہ اور بستی پر یہ سلطنت ، امامت اور حکومت خلیفہ وقت اور ان کے نمائندوں کو حاصل ہے اس لئے امام الصلوۃ انہی کا حق ہے.اور جہاں پر یہ موجود ہوں شرعاً کوئی دوسرا ان کے لئے امام الصلواۃ نہیں ہو سکتا.(۳۶-۰۴-۰۱)
۶۱۹ اقتباسات تفسیر القرآن حضرت مولوی صاحب کا تجر علم سامنے لانے کے لئے آپ کی تفسیر سے کچھ اقتباسات بطور نمونہ ہدیۂ ناظرین کئے جاتے ہیں.آپ کی تمام تفسیر ہی احمدیت کی برکت سے موتیوں کی لڑی ہے.مطالعہ سے احباب یقین کریں گے کہ حضرت مولوی صاحب کو لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ۱۴ کے مطابق فیضان اور کلام الہی پر عبور حاصل ہوا تھا.خاکسار نے عنوانات بھی قائم کر دئے ہیں.جو پہلے ہی متقی ہیں ان کے لئے ہدایت دعوت عالمہ نہ رہی ا هُدًى لِلْمُتَّقِینَ کی تفسیر میں آپ تحریر فرماتے ہیں.-1 یہاں پر بعض نے اعتراض کیا ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید خاص متقیوں ہی کے لئے ہدایت ہے نہ اوروں کے لئے.اور اس میں دو نقص ہیں اول یہ کہ اس کی دعوت عامہ نہ رہ گئی.حالانکہ اہل اسلام عموم کے مدعی ہیں اور دوم یہ کہ اس میں تحصیل حاصل لازم آتی ہے.اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ....ہدایت بھی اس نے انہی امور کی کرنی ہوئی جو کہ تقویٰ میں داخل ہیں مثل ایمان اور اعمال صالح اور اطلاق فاضلہ کے جو کہ متقی کو پہلے سے حاصل ہیں...مفسرین کا ایک جواب اس اعتراض کے جواب میں مفسرین نے دوراہیں اختیار کی ہیں.ایک یہ کہ متقی کے معنوں میں تغیر کیا جائے اور دوم یہ کہ تخصیص کو اڑا کر عموم ہی قائم رکھا جائے اور جو تخصیص بظاہر معلوم ہوتی ہے اس کی بناء کسی اور وجہ پر رکھی جائے.اول کی تفصیل یہ ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ متقی کے دو معنی ہیں.اول یہ کہ وہ متقی بن چکا ہو یعنی متقی کی صفات اس میں موجود ہو چکی ہوں اور اس نے شرک و کفر اور ہر ایک قسم کی بدی سے اجتناب اور اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ پر استقامت کر لی ہو.دوم یہ کہ وہ خوف خدا رکھتا ہے.اور بمعنی مذکور متقی بننا چاہتا ہے، پرابھی راستہ نہ ملنے اور علم نہ ہونے یا کسی اور وجہ سے بنا نہیں.پس یہ بھی ایک معنوں میں متقی ہوتا ہے.جیسا کہ جو شخص سفر میں چلا جاتا ہے وہ تو ضرور مسافر کہلانے کا مستحق ہوتا ہے لیکن جو شخص سفر کا مصمم ارادہ رکھتا ہے
۶۲۰ عرف میں اس کو بھی مسافر کہہ دیتے ہیں اور اس کو علمی اصطلاح میں مجاز باعتبار مایول کہتے ہیں یعنی جس لحاظ سے اس پر وہ لفظ بولا گیا ہے وہ ابھی تو اس میں موجود نہیں ہے لیکن آئندہ ہونے والا ہے جیسا مثلاً حدیث میں آتا ہے من قتل قتيلا فله سلیه ۸۵ ( جو کسی مقتول کو قتل کرے تو اس کے لئے اس کا سب اسباب ہے ) پس اس میں قتیل آئندہ کے لحاظ سے بولا گیا ہے ورنہ قتیل یعنی مقتول کے قتل کے کیا معنے تو جب متقی کے یہ معنے ہوئے تو اب اعتراض رفع ہو گیا.پہلے جواب کی عدم صحت لیکن غور سے دیکھا جائے تو باوجود اس قدر تکلیف کے اس جواب میں دو نقص تا حال باقی ہیں.اول یہ کہ متقی کے جو معنے اس جواب میں لئے گئے ہیں وہ اس تفسیر کے بالکل خلاف ہیں جو کہ یہاں پر خداوند کریم نے متقی کی بیان کی ہے.اور وہ یہ ہے الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ الخ.کیونکہ جواب میں متقی کے جو معنے لئے گئے ہیں.ان میں ایمان بالغیب، اقامت صلوۃ ، انفاق وغیرہ کی نفی ہے.اور خدا کی بیان کردہ اس تفسیر میں امور کا اثبات ہے اور ایک شئی کی نفی اور اثبات دونوں جمع نہیں ہو سکتے.پس خدا کی بیان کردہ تفسیر ان معنوں کی تردید کرتی ہے جو کہ جواب میں لئے گئے ہیں.اور دوم یہ کہ اگر چہ یہ معنے لینے سے تحصیل حاصل کا اعتراض رفع ہو جاتا ہے.کیونکہ ان معنوں کے لحاظ سے متقی میں وہ امور حاصل نہیں ہیں کہ جن کی ہدایت یہ کتاب کرتی ہے لیکن دعوت کی تخصیص کا سوال اب تک باقی ہے.اس لئے کہ جو لوگ ان معنوں کے لحاظ سے متقی نہیں ان کے لئے یہ کتاب ہدایت نہ ہوگی.اور یہی تخصیص ہے اور پہلے معنوں پر بھی ایک ایک اعتراض یہی تھا.پس یہ جواب پر تکلف ہونے کے نہ صحیح ہے اور نہ فی الحقیقت کافی ہے.مفسرین کا دوسرا جواب اور دوسرے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس بارہ میں بہت مقاموں پر ذکر آیا ہے چنانچہ سورہ لقمان میں آیا ہے هُدًى وَرَحْمَةً لِلْمُحْسِنِي....اور سورہ نحل میں ہے.هُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ( قرآن مجید مومن لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے ) اور سورہ بر...(میں) ہے هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتِ منَ الهدى....پس اگر بعض مقام پر نظر کرنے سے تخصیص کا وہم گزرسکتا ہے تو هُدًى لِلنَّاسِ سے صاف صاف تعمیم ثابت ہے.پھر خاص کر جبکہ ایسی آیات کریمہ پھر بھی نظر کی جائے جو آنحضرت کی دعوت اور بعثت کے عموم پر قطعی دلیل ہیں جیسے يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم جَمِيعًا ۶ تو...اب عموم
۶۲۱ کے قائل ہونے سے چارہ نہیں اور جب عموم ہے تو پھر کوئی اعتراض نہیں.ہاں اب یہ بات قابل غور ہے کہ هُدًى لِلْمُتَقِيْنَ.اور لِلْمُحْسِنِيْنَ.اور لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ.میں بظاہر تخصیص تو ضرور ہے تو جب هُدًى لِلنَّاسِ میں تقسیم ہے اور وہی مراد ہے تو ان آیات کریمہ میں تخصیص کیوں کی ہے جو کہ عموم کے خلاف ہے تو اس کا جواب یہ دیا ہے کہ تمیم تو نفس دعوت کے لحاظ سے ہے اور تخصیص محض فائدہ کے رو سے ہے.یعنی قرآن مجید سب کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا گیا ہے لیکن رہا یہ کہ اس سے فائدہ کون اٹھائیں گے اور کون لوگ اس کی ہدایت پر چلیں گے تو خداوند علیم نے ان آیات میں یہ بتادیا کہ فائدہ خاص خاص متقیوں ،محسنوں ،مومنوں کو ہی ہوگا.اور یہاں پر اس امر کا قرینہ بھی موجود ہے کہ تخصیص دعوت کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ فائدہ کی رو سے ہے اور وہ یہ ہے کہ متقیوں کے بیان کے آگے خداوند کریم نے فرمایا ہے اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ اءَ نُذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ.پس اگر دعوت عام نہ ہوتی تو غیر متقیوں کے لئے عذاب عظیم کا کیوں وعید ہوتا.کیونکہ اس صورت میں وہ تو مکلف ہی نہیں ٹھہرتے تو جب مکلف ہی نہ ہوئے تو نہ ماننے سے عذاب عظیم کیا.اس کے بعد منافقوں کا حال بیان کرتے ہوئے بھی فرمایا کہ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمُ لا يَرْجُونَ....جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ منافقوں کو بھی اس کتاب کی ہدایت سے کچھ فائدہ نہیں پہنچا لہذا ثابت ہوا کہ هُدًى لِلْمُتَقِینَ میں ( جو کہ ان دونوں کے مقابل پر ہے ) ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس کتاب کی ہدایت سے فائدہ اٹھائیں گے تو پھر یہ تخصیص محض فائدہ اٹھانے کے لحاظ سے ہے نہ نفس دعوت کے لحاظ دوسرے جواب پر عدم اطمینان یہ جواب (۲) اگرچہ پہلے کی نسبت بہت سے تکلف پر مشتمل نہیں اور فی نفسہ صحیح اور کافی ہے لیکن اس میں اس قدر نقص ضرور ہے کہ هُدًى لِلْمُتَقِيْنَ اور هُدًى لِلنَّاسِ ایک ہی طرز کے دو جملے ہیں.اور اس جواب میں ان دونوں میں یہ فرق رکھا ہے.(جو اوپر بیان ہوا ہے.ناقل...پس با وجود دونوں فقروں کے یکساں ہونے کے ان دونوں میں فرق کرنا اطمینان خاطر کے خلاف ہے اور جو جواب اس فرق پر مبنی ہے وہ بھی تسلی بخش نہیں ہوسکتا.کیونکہ ان دونوں جوابوں کی حالت یہ تھی جو ناظرین کی خدمت میں عرض کر دی ہے.لہذا میرے دل میں بہت شوق تھا کہ اصل اعتراض کا کوئی عمدہ جواب ہاتھ آئے.چنانچہ میں نے بہت سے اہل علم سے دریافت بھی کیا اور بہت سی تفسیروں کو بھی دیکھا مگر ہاتھ میں کچھ نہ آیا.لیکن دسمبر ۱۹۰۵ء کو دارالامان میں سالانہ
۶۲۲ جلسہ ہوا تو ایک دن حضرت اقدس مہدی معہود اور مسیح موعود علیہ السلام نے (فداہ ابی وامی وروحی و مالی و عرضی ) سورہ بقرہ کے اسی پہلے رکوع کا وعظ فرمایا اور هُدًى لِلْمُتَقِینَ پر ایسی تقریر فرمائی کہ جس سے علاوہ سوال مذکور کے پورے طور پر حل ہونے کے علوم حقہ اور معرفت صحیحہ کا دروازہ کھل گیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَالصّلواة وَالسَّلَامُ عَلَى سَيّدِ المُرْسَلِين خَاتَمَ النَّبِيِّين وآلهِ وخُلَفَائِهِ الرَّاشِدِين المَهْدِيِّين تقریر حضرت مسیح موعود سے حل آیت تقریر کا خلاصہ یہاں پر درج کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی ہدایت اس پر بند نہیں ہے که چند معدودہ امور پر ایمان بالغیب لانے کا حکم لاوے اور نماز، زکوۃ، حج ،صوم وغیرہ چند امور کے کرنے کا حکم دے دے.اور چند معدودہ امور سے منع کر دے.اگر کوئی شخص...(ایسا) خیال کرتا ہے تو وہ یقیناً قرآن......مجید سے نا آشنا ہے.اور وہ قرآن مجید کی سخت بے قدری اور ہتک کر رہا ہے.اور قرآن مجید کو بے مثل کتاب ہونے کے اعلیٰ مقام سے اتار کردید اور توریت و انجیل کے مرتبہ پر اتار کر قرآن مجید کی عظمت کو خاک میں ملاتا ہے.نیز...اس کو ماننا پڑے گا کہ خواص امت اور خصوصاً آنحضرت کے لئے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا عبت تھی.کیونکہ جب قرآن مجید کی ہدایت کا خلاصہ یہ ہوا کہ چند امور پر اعتقا در کھا جائے اور چند احکام معلوم ہو جا ئیں تو جب کسی شخص کو یہ حاصل ہوا تو پھر اس کے لئے اهْدِنَا کی دعا محض عبث ہوئی لیکن ظاہر ہے کہ ایسا خیال تو بالکل غلط اور سخت غلط ہے.پس ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی ہدایت کو مذکورہ بالا امور پر محصور سمجھنا بالکل غلط ہے بلکہ قرآن مجید کی ہدایت کا دائرہ اس سے بہت وسیع ہے اس قدر ہدایت تو دنیا کے سب مذاہب میں موجود ہے مثلا ھدی للمتقین کے بعد جو متقی کی تفسیر بیان ہوئی ہے وہ اسی قدر ہے کہ ایمان بالغیب ہو تو ہر ایک مذہب میں بعض غیب امور پر ایمان رکھنا پڑتا ہے.پھر اس کے بعد بیان ہوا ہے کہ اقامة الصلواۃ ہوتو ہر ایک مذہب والے کچھ نہ کچھ پوجا کیا کرتے ہیں.پھر ان کے بعد ہے کہ ہمارے دئے ہوئے سے کچھ خرچ کریں.اور دنیا جانتی ہے کہ ہر ایک مذہب میں کچھ نہ کچھ خرچ بھی کرنا پڑتا ہے.وغیر ذالک.پس اگر قرآن مجید کی ہدایت اسی قدر ہے تو قرآن مجید اور اور کتابوں میں کچھ فرق نہیں ہے مگر اس قدر کہ کوئی کہہ دے کہ قرآن مجید نے ان کا اچھا طریق بیان کیا.اور اوروں نے ناقص.لیکن جیسا ایک مسلمان کا یہ دعوئی ہے ویسا ہی ایک آریہ وید کی نسبت دعوی کرتا ہے.اور یہودی توریت کی نسبت.پس اس صورت میں قرآن مجید اور باقی کتابوں میں کچھ متعد بہ اور بین فرق نہیں رہتا.پس اس ساری تحقیق سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی
۶۲۳ ہدایت مذکورہ بالا امور میں ہرگز محصور نہیں ہے بلکہ ان سے وسیع ہے.انعامات الہیہ غیر محدود ہیں اور فطرت انسانی دائما ترقی پسند ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن مجید نے ایسا خدا پیش کیا ہے جو قادر مطلق ہے اور اس کے انعامات کے خزانے غیر متناہی ہیں جو کہ کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور نہ انسان کی ترقی طلب فطرت ترقی کے کسی زینہ پر ٹھہر سکتی ہے.اگر کوئی یہ خیال کرے کہ خدا کے انعام کسی حد پر پہنچ کر ختم ہو جاتے ہیں.اور اس سے آگے خدا میں دینے کی طاقت یا گنجائش نہیں ہوتی تو اس نے اسلام کے خدا بلکہ یوں کہو کہ حقیقی خدا کو ہرگز نہیں پہچانا.اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ترقی کی فلاں حد تک پہنچ کر آگے انسان میں ترقی کی قابلیت نہیں رہتی یا خواہش نہیں رہتی تو وہ انسانی فطرت سے نا آشنا ہے.اور وہ نسل انسانی کے ہم عمر تجربہ اور صحیح مشاہدات کے خلاف کرتا ہے...حضرت سید المرسلین خاتم انہیں اپنی ساری عمر میں اهْدِنَا کی دعا مانگتے رہے.اور آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ اهْدِنَا کی دعا ترک کر دیں.اور ظاہر ہے کہ جب خاتم الانبیاء باجود اس رفعت شان کے اھدِنَا کی دعا مانگتے ہیں جو کہ صاف بتاتی ہے کہ ابھی کمالات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی کچھ مدارج کمالات ایسے بھی ہیں کہ جن کی تحصیل کی را ہیں مانگی جارہی ہیں تو اور دوسرا کون ہوایا ہے یا ہوگا کہ جس نے ان مدارج کو ختم کیا تھا یا کیا ہے یا کرے گا اور قرآن مجید چونکہ اکمل کتاب ہے اور سب صداقتوں کی جامع اور مہیمن ہے لہذا وہ ہر ایک مرتبہ کمال کے بعد دوسرے درجہ کی طرف کامل ہدایت کرتا ہے اور کوئی درجہ کمال ایسا نہیں کہ جس کی طرف یہ را ہنمائی نہ کرتا ہو.اور ان بے شمار مدارج میں سے جو کوئی کچھ حاصل کرتا ہے تو اس سے آگے کے لئے وہ قرآن مجید کی ہدایت کا محتاج ہوتا ہے.اور یہ نہیں کہ پیراں نے پرند مریداں سے پرانند کے مطابق ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں.بلکہ قرآن مجید خود یہ دعویٰ کرتا ہے چنانچہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ میں بھی یہی دعویٰ ہے کہ متقیوں کے لئے ہر ایک مرتبہ کمال کی طرف راہنمائی کرنے والی کتاب ہے اور پھر محض دعویٰ ہی دعویٰ نہیں بلکہ ہزار ہا لوگوں کو اعلیٰ مدارج پر پہنچا کر اپنے لئے عملی شہادت قائم کی ہے اور پھر یہ نہیں کہ پہلے ایسا کیا کرتا تھا اور اب عملی شہادت قائم کرنے سے قاصر ہے.اب بھی ویسی ہی عملی شہادت تیار کرتا ہے اور کرتا رہے گا.پس اس تحقیق کے مطابق هُدًى لِلْمُتَقِینَ کا یہ مطلب ہے کہ خداوند کریم فرماتا ہے کہ یہ کتاب یہی نہیں کہ اور کتابوں کی طرح اس معنی سے متقی بناتی ہو کہ غیب پر ایمان لے آئیں اور نماز کو قائم کریں اور اللہ کے دئے ہوئے سے کچھ خرچ کریں.بلکہ یہ ایسے لوگوں کو بھی ہدایت کر کے آگے لے جانا چاہتی ہے.چنانچہ ایمان بالغیب سے مشاہدہ تک پہنچاتی ہے.مثلاً پہلے خدا پر ان کا ایمان بالغیب تھا تو یہ قرآن ایسی راہ بتاتا ہے کہ جس
۶۲۴ سے خداوند ذوالجلال خود اس کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے.اور اپنے مشاہدہ کے انوار سے اس کو رنگین کر دیتا ہے.اسی طرح پہلے فرشتوں پر اگر ایمان بالغیب تھا تو یہ وہ طریق بتاتا ہے کہ جس پر چل کر انسان اس مقام پر پہنچتا ہے کہ فرشتے اس پر نازل ہو کر بشارتیں دیتے ہیں.جیسا کہ فرمایا اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۱۷، اور اسی طرح جنت پر اگر ایمان بالغیب تھا تو قرآن اس راستہ پر چلانا چاہتا ہے کہ جس پر قدم مارنے سے اسی دنیا میں جنت پالیتے ہیں.جیسا کہ مذکورہ بالا آیات میں آیا ہے.یا ولمن خاف مقام ربه جنتان میں آیا ہے.یعنی ایسے لوگوں کو ایک جنت اسی عالم دنیا میں ملتا ہے.اور دوسرا آخرت میں.غرضیکہ جن امور پر انسان ایمان بالغیب رکھتا ہے.قرآن مجید اس کو ایسی راہ بتاتا ہے کہ اس پر قدم مارنے سے وہ اس کے مشاہدہ میں آجاتے ہیں.اور جو لوگ اقامت الصلوۃ کرتے ہیں ان کو ایسی راہ بتاتا ہے جس سے ان کی نماز قائم ہو جاتی ہے.یعنی جن لوگوں کی نماز ابھی پہرہ پر قائم ہونے کے قابل نہیں اور نماز کے سپاہی کی ڈیوٹی جو کہ قرآن مجید نے تنهى عن الفهشاء والـمـنـكـر (نماز بے حیائیوں اور نا جائز امور سے روکتی ہے ) میں بتائی ہے ابھی وہ نہیں بجالا سکتی.اور نمازی بار بار اس کو کھڑا کرتا ہے اور وہ بار بار گر جاتی ہے تو قرآن مجید ان کو ایسے راستہ کی ہدایت کرتا ہے کہ جس سے ان کی نماز قائم ہوکر پہرہ دینے کے قابل ہو جاتی ہے.اور انسان کو فحشاء اور منکر سے بالکل روک دیتی ہے اور اس وقت نماز دنیا کی سب چیزوں سے لذیذ اور دل کا سرور اور آنکھوں کی ٹھنڈک اور روح کی غذا ہو جاتی ہے.اور اسی طرح جو لوگ پہلے اللہ کے دئے ہوئے سے بڑی مشکل کے ساتھ کچھ خرچ کرتے ہیں تو قرآن مجید ان کو ایسی ہدایت کرتا ہے کہ جس سے وہ ان تؤدوا الا منت الى اهلها کے موافق خدا کا سب کچھ دیا ہوا اس کے راہ میں خرچ کرتے ہیں.اور جو جو چیزیں اور طاقتیں کہ خدا وند کریم نے ان کو امانت دی ہوئی ہیں وہ خداوند تعالیٰ کو واپس دے دیتے ہیں اور یہ سب کچھ بڑے شوق اور اخلاص سے کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی پیاری جان بھی بڑی خوشی سے دینے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں.هُدًى لِلْمُتَّقِينَ تحصيل حاصل نہیں بلکہ یہ ایک بے مثل کمال ہے غرض معترض نے چونکہ قرآن مجید کی ہدایت کو اسی قدر میں محصور یقین کیا ہوا تھا جو کہ متقی کی تفسیر میں یہاں پر بیان ہوا ہے لہذا اس نے اعتراض کر دیا کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ میں تحصیل حاصل ہے....خلاصہ جواب یہ ہے کہ معترض کا یہ خیال محض غلط ہے کہ قرآن مجید نے انہی امور کی ہدایت کرنی ہے جو کہ متقی کو پہلے سے حاصل
۶۲۵ ہیں.بلکہ جو امور کہ متقی کو حاصل ہیں ان سے آگے اور کمالات کے حاصل کرنے کا طریق قرآن مجید بتا تا ہے جو کہ قرآن مجید کے ساتھ مخصوص ہے اور دنیا کی کسی کتاب میں موجود نہیں اور یہ ایک ہی کمال ایسا ہے کہ اس کتاب کے منجانب اللہ ہونے کے لئے کافی برہان اور حجت ہے اور نیز اس امر کے لئے بھی کافی ثبوت ہے کہ جو دین یہ کتاب لائی وہ فطرتی مذہب ہے اول تو اس وجہ سے کہ تصنیف مصنف کی ایک عکسی تصویر ہوتی ہے.پس اگر کوئی مصنف کو نہ جانتا ہو تو تصنیف سے اس کے حال کو بخوبی جان لیتا ہے اور اگر مصنف کو جانتا ہو تو اس سے تصنیف کے حال کو بخوبی دریافت کر لیتا ہے.پس چونکہ ہم خدا کو جانتے ہیں کہ وہ ذات میں،صفات میں قدرت میں اور سب کمالات میں غیر محدود ہے تو اس سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ایسے غیر محدود قادر مطلق خدا کی تصنیف اور کتاب کی ہدایت بھی ضروری ہے کہ غیر محدود ہو.اور اگر محدود ہوتو ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ یہ غیر محدود کی تصنیف نہیں.بلکہ محدود خدا کی تصنیف ہے جو غلطی سے خدا کی طرف منسوب کی جاتی ہے.پس چونکہ ہم ابھی ثابت کر آئے ہیں کہ قرآن مجید ہی وہ ایک کتاب ہے کہ جس کی ہدایت غیر محدود ہے لہذا یہ کسی محدود مخلوق کی کتاب نہیں بلکہ یقیناً یقیناً غیر محدود خدا کی کتاب ہے اور دوم اس وجہ سے کہ سب دنیا جانتی ہے کہ انسان کی طبیعت ایسی ترقی طلب ہے کہ ترقی کے معراج میں کسی خاص زینہ اور پایہ پر ہرگز نہیں ٹھہر سکتی بلکہ آگے ہی آگے چلی جاتی ہے.جیسا کہ تمدنی وغیرہ ترقیات اس کی شاہد ناطق ہیں.پس جب انسان کی فطرت غیر محدود ترقی کی قابل اور طالب ہے تو اس کے لئے فطرتی مذہب وہی ہوسکتا ہے جو کہ غیر محدود ترقی کی ہدایتوں کا جامع ہونہ وہ جو کہ ایک محدود ترقی پر پہنچ کر انسانی فطرت کی غیر محدود قابلیت اور غیر متناہی طلب کا خون کر دینے والا ہو.لَا رَيْبَ فِيهِ اور هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کا تعلق یہاں سے ناظرین کو یہ معلوم ہو گیا کہ لَا رَيْبَ فِيهِ اور هُدًى لِلْمُتَّقِينَ میں یہ تعلق ہے کہ جس کی وجہ سے ایک کو دوسرے کے بعد متصل ذکر کیا گیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ هُدًى لِلْمُتَقِيْنَ ذَلك الكتب لا ريب فیه کی دلیل ہے.جیسا کہ بھی میں نے بیان کیا ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ میں اس کتاب کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل ہے اور نیز میں نے پہلے یہ بھی بتایا ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ علت غائی ہے.اور لاريب فيه علت صوری اور ذلک الکتب علت مادی اور الم علت فاعلی ہے.اور ظاہر کہ جس طرح علت فاعلی کے بعد علت مادی کا ہونا ضروری ہے اور مادی کے بعد علت صوری کا ہونا ضروری ہے اسی طرح صوری کے بعد غائی کا ہونا بھی ضروری ہے.پس یہ دوسری وجہ ہے هُدًى لِلْمُتَقِینَ کے لاریب فیہ کے بعد متصل لانے کی.
۶۲۶ -۲- الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ.(پارہ اول) کی تفسیر میں فرماتے ہیں.ایمان کم و بیش ہوتا ہے یا نہیں ایمان پر بڑی بڑی بحثیں علماء کے درمیان واقع ہوئی ہیں منجملہ بحثوں کے ایک بحث یہ ہے کہ ایمان کم و بیش ہوتا ہے یا نہیں.اہل حدیث اور شوافع اس طرف گئے ہیں کہ کم و بیش ہوتا ہے.اور احناف اس طرف گئے ہیں کہ کم و بیش نہیں ہوتا.اور فی الحقیقت اس بحث کی بناء اس امر پر ہے کہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ ایمان میں داخل اور اس کی جزو ہیں یا خارج ہیں جنہوں نے ان کو جز و قرار دیا ہے ان کے نزدیک ایمان کم و بیش ہوگا.کیونکہ جس قدر اعمال و اخلاق میں کمی ہوگی اسی قدر ایمان کے اجزاء کی کمی ہوگی اور جس قد را جزاء میں کمی ہوگی اسی قدر ایمان ناقص اور کم ہوگا.اور جس قدر اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ زائد ہوں گے تو ایمان کے اجزاء زائد ہوں گے اور.....اسی قدر ایمان بھی زائد ہوگا.نزاع لفظی تو اب ساری بحث کا دار ومدار اس پر آ گیا کہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ ایمان میں داخل ہیں یا نہیں.اس پر فریقین نے بڑا بڑا از وردیا ہے.میں جب فلسفہ پڑھتا تھا اور اس میں بار بار یہ فقرہ پڑھتا تھا کہ حقین کے درمیان نزاع حقیقی نہیں ہوتا بلکہ لفظی ہی ہوتا ہے تو یہ بات میری سمجھ میں نہ آتی تھی.کیونکہ جب لفظی نزاع محققین نزاع لفظی اس کو کہتے ہیں کہ حقیقت میں ہر ایک فریق دوسرے کی بات کا منکر نہ ہولیکن بظاہر ہر ایک کی بات دوسرے کے خلاف ہو اور یہ اسی طرح ہوتا ہے کہ چونکہ ایک اور معنوں کے لحاظ سے بات کرتا ہے اور دوسرا دوسرے معنوں کی رو سے.لہذا حقیقت میں ان میں کچھ اختلاف نہیں ہوتا.مثلاً ایک شہر کے دونوں طرف نہریں ہوں ایک شہر سے ایک میل کے پاس ہو اور ایک دو میل پر تو زید کہے کہ نہر میل کے فاصلہ پر ہے اور عمر کہے کہ دو میل پر ہے تو یہ دونوں قول اگر چہ بظاہر ایک دوسرے کے خلاف ہیں لیکن حقیقت میں کوئی خلاف نہیں کیونکہ زید نے اور نہر کے خیال سے کہا ہے اور عمر نے اور نہر کے لحاظ سے پس اگر زید سے دوسری نہر کی نسبت دریافت ہو تو وہ بھی وہی کہے گا جو کہ عمر نے کہا تھا اور اسی طرح عمر سے دوسری کے نسبت سوال ہو تو وہ بھی وہی کہے گا جو کہ زید نے کہا تھا.پس ایسے نزاع کو نزاع لفظی کہتے ہیں یعنی اگر چہ بظا ہر لفظوں میں خلاف ہے لیکن حقیقت میں کوئی خلاف نہیں.
۶۲۷ میں اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ تحقیق کے بعد نزاع لفظی والی صورت میں نزاع نہیں رہ سکتا....کیونکہ محقق تو وہ ہوا جو تحقیق کر کے حق و حقیقت تک پہنچ جائے.اور ظاہر ہے کہ حق ایک ہی ہوتا ہے نہ دو.پس جب حقیقی نزاع میں دو متخالف امور ہوتے ہیں تو ضروری ہے کہ دو میں سے ایک حق ہوا اور ایک ناحق اور جو ناحق کا قائل ہو وہ کہاں کا محقق ہوا پھر نزاع حقیقی بطریق اولی ان میں نہیں ہو سکتا جو کہ یقیناً ایک غیر محقق قرار دیتا ہے.یہ خیال میں ہمیشہ اپنے استادوں پر ظاہر کرتا تھا یہاں تک کہ ایک دفعہ میرے ایک نئے استاد نے شیخ ابن عربی صاحب کے حوالہ سے بیان کیا کہ محققین میں نزاع حقیقی کبھی نہیں ہوتا.بلکہ جب ان میں نزاع ہوتا ہے تو ضرور لفظی ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ اولویت.غیر اولویت میں ہوتا ہے تو اس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی پھر اس کی تائید میں نے اس سے بھی پائی ہے کہ بڑے بڑے فاضلوں نے محققین کے نزاعوں میں جمع اور اتفاق کی بڑی بڑی کوششیں کی ہیں اور آخران نزاعوں کو نزاع لفظی ہی بنایا ہے.ایمان کی چار اقسام چنانچہ حضرت مجددشاہ ولی اللہ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب حجة الله البالغة میں اس نزاع کو بھی نزاع لفظی قرار دے کر دونوں مذہبوں میں جمع کر دیا ہے.اور نزاع لفظی قرار دینے کے لئے انہوں نے بیان کیا ہے کہ ایمان چار قسم کا ہے یا یوں کہو کہ ایمان دو قسم ہے ایک دنیوی اور ایک اخروی اور جواخروی ایمان ہے وہ تین معنے رکھتا ہے پھر انہوں نے بتایا ہے کہ.ایمان قسم اول دنیوی ایمان احادیث ذیل میں یا ان کی مشکلوں میں دنیوی ایمان کا ذکر ہے اور وہ حدیثیں یہ ہیں.ا.آنحضرت نے فرمایا ثلث من اصل الايمان من قال لا اله الا الله لا تكفره بذنب ولا تخرجه من الاسلام بعمل ۸۸، فرمایا ایمان کے تین اصول ہیں.جو لا اله الا اللہ کہے کسی گناہ کے ساتھ اس کو کا فرنہ کہہ اور نہ کسی عمل کے ساتھ اس کا اسلام سے خارج کر.-۲ اور فرمایا امرت ان اقاتل الناس حتى يشهدوا ان لا اله الا اللهُ وَأَنَّ محمَّدًا رسول الله و يقيموا الصلواة ويوتوا الزكوة فاذا فعلوا ذلِكَ عصموا مِنّى دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمُ الابحق الاسلام وحِسَابُهُمُ على الله - ۸۹ فرمایا مجھے اجازت ملی ہے کہ ان لوگوں سے جنگ کروں ہاں اگر وہ شہادت دے دیں کہ اللہ ہی معبود ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو قائم کریں اور زکوۃ دیں تو پھر انہوں
۶۲۸ نے پھر اپنے مال و جان مجھ سے بچالئے.سوا اس کے جو اسلام نے ان پر لازم کیا ہے اور باقی حساب ان کا اللہ خود کرے گا.-٣- اور فرمایا مَنْ صَلَّى صَلوتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قَبْلَتَنَا واكل ذَبِيحَتَنَا فَدَالِكَ المسلم الذي لَهُ ذمة الله وذمه رسوله فلا تخفروا الله في ذِمَّتِه ۹۰ فرمایا جو ہماری جیسی نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ نہ پھیرے اور ہماری ذبح کی ہوئی شے کھائے پس یہ وہ مسلمان ہے جس کے اللہ اور رسول اللہ ذمہ دار ہیں.لہذا تم اللہ کی ذمہ داری میں رخنہ مت ڈالو.ایمان اخروی قسم اول اور ایمان اخروی کے تین معنے یہ بیان کئے ہیں.ا.وہ ایمان ہے جو کہ کفر والے خلود فی النار سے بچاتا ہے یعنی ایک وہ ایمان ہے کہ جب وہ حاصل ہو جائے تو پھر اس کو اس قدر لمبا عذاب نہ دیا جائے گا.جس قدر کہ کا فر کو دیا جائے گا اور اس ایمان میں فقط عقائد حقہ ہیں اعمال صالحہ یا اخلاق فاضلہ اس میں داخل نہیں اور یہ کم وبیش اس طور پر نہیں ہوتا کہ کبھی اس کے اجزاء زیادہ ہو جا ئیں اور کبھی کم.ایمان اخروی قسم دوم ۲.وہ ایمان ہے کہ دخول فی النار سے بالکل بچاوے یعنی دوسرا وہ ایمان ہے کہ جب وہ حاصل ہو جاوے تو پھر انسان بالکل دوزخ میں داخل ہی نہ ہو.بلکہ اس کو خلود نی الجنتہ مل جائے.پس یہ وہ ایمان ہے کہ جس میں علاوہ عقائد حقہ کے اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ بھی داخل ہیں.اور یہ کم وبیش بھی بمعنے مذکور ہوتا ہے.ایمان اخروی قسم سوم -٣.وہ ایمان ہے جو بمعنے سکینت اور نور ایمان کے ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا کہ رات کے وقت میں نماز پڑھ رہا تھا تو ایک روشنی اوپر سے ظاہر ہوئی جس سے قریب تھا کہ میرا گھوڑا بھاگ جاتا تو آپ نے فرمایا یہ سکینت ہے.پھر اور حدیث میں آیا ہے کہ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.لایزنی الزانی حین یزني وهو مؤمن - ۹۱ یعنی زانی جب زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا.اور دوسری روایت میں آیا ہے کہ ایمان اس کا نکل کر اس کے سر پر سایہ
۶۲۹ بان کی مانند ہوتا ہے.یعنی اس میں نو رایمان نہیں رہتا بلکہ نکل جاتا ہے.رفع اختلاف غرضیکہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں پر دونوں مذہبوں میں اس طرح رفع نزاع کیا ہے کہ بتا دیا کہ جو کہتے ہیں کہ ایمان کم و بیش ہوتا ہے انہوں نے ایمان اخروی کے دوسرے معنے لئے ہوئے ہیں.اور جن معنوں کے لحاظ سے پہلے مذہب والے کم و بیش ہونے کا انکار کرتے ہیں دوسرے مذہب والے بھی ان کے لحاظ سے کم و بیش ہونے کے قائل ہیں اور جن کے رو سے دوسرے مذہب والے کم و بیش ہونے کے قائل ہیں.ان کے لحاظ سے پہلے بھی ان کے منکر نہیں...میں نے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا قول نقل کر کے ناظرین کو بتا دیا کہ ایمان کے چار معنے ہیں تو اب ناظرین پر کوئی اشکال باقی نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ خود ہر ایک حدیث میں وہ ایمان لے سکتے ہیں جس کا حال اس حدیث میں مذکور ہوگا.مثلاً جس حدیث میں آیا ہے کہ فلاں فلاں کام کرنے کے وقت انسان مومن نہیں رہتا بلکہ ایمان اس سے نکل کر سایہ بان کی مانند اس کے اوپر ہوتا ہے.اور اس کے چھوڑنے پر پھر لوٹ آتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں وہ ایمان مراد ہے جو کہ بمعنے سکینتہ اور نور ایمان کے ہے.اسی طرح جس حدیث میں آیا ہے کہ ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں تو ظاہر ہے کہ اس میں وہ ایمان مراد ہے کہ جس میں اعمال و اخلاق داخل ہیں ورنہ موذی چیز کے راستہ سے دور کرنے اور حیا کے خلق کی شاخیں بننے کے کیا معنے ہو سکتے ہیں.پس یہ بالکل سچی بات ہے کہ ان احادیث میں ایمان کے ایک ہی معنے نہیں لئے گئے.بلکہ ایک میں ایک لئے گئے ہیں اور دوسرے میں دوسرے.ایمان و اسلام کے معانی میں نزاع لفظی ناظرین پر یہ خفی نہ رہے کہ علماء میں یہ بھی اختلاف ہوا کہ ایمان اور اسلام ایک ہی ہیں یا جدا جدا ہیں.اور دونوں فریق نے اپنے اپنے دعوے کے اثبات میں بہت زور دیا ہے لیکن چونکہ فریقین محققین سے ہیں جیسے حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام شافعی اور ائمہ حدیث لہذا میرے خیال میں یہاں پر بھی نزاع حقیقی نہیں بلکہ لفظی ہے.یعنی ایمان اور اسلام کے معنے میں سے بعض نے کچھ معنے لے کر کہہ دیا کہ دونوں ایک ہی ہیں.اور بعض نے اور معنی لے کر کہ دیا ہے دوسرے بھی ان کے لحاظ سے تغائز کے قائل نہیں ہیں اور جن کے لحاظ سے بعض نے ان میں تغائز کا قول کیا ہے.ان کے لحاظ سے دوسرے اتحاد کے قائل نہیں.پس فریقین میں
۶۳۰ فی الحقیقت کوئی نزاع نہیں ہے ہاں بظاہر نزاع کی صورت نظر آتی ہے.تفصیل اس کی یہ ہے کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ ایمان اصل میں یقین اور تسلیم کے مجموعہ کو کہتے ہیں.اور یہ کہ شریعت میں اس کے چار معنے آئے ہیں.اور ایک معنوں کے لحاظ سے اس میں عقائد حقہ اور اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ داخل ہیں اور اب یہ جاننا چاہئے کہ اسلام حقیقت میں ایسے قول و فعل کو کہتے ہیں جو کہ تسلیم پر آگاہی دیتے ہوں.آگے عام ہے کہ خواہ حقیقت میں بھی اس کے دل میں بھی ایسی کچی اور حقیقی تسلیم ہو جس کے جوش سے یہ قول وفعل صادر ہوتے ہوں.جیسا کہ اس کے قول و فعل سے ظاہر ہوتا ہے یا کہ حقیقت میں ایسی تسلیم نہ ہو.محض ظاہری نظر اور عرف پر اس کے قول وفعل سے تسلیم ظاہر ہوتی ہو.پس اگر اسلام اور عرف کا لحاظ کیا جائے تب تو حقیقی تسلیم اس میں داخل نہیں جو کہ ایمان کے لئے ضروری ہے.اور اگر اس بات کا لحاظ کیا جائے کہ معتبر اور مفید اور حقیقی اور واقعی اسلام وہی ہوتا ہے کہ جس کے ساتھ حقیقی تسلیم بھی ہو تو تب ایسے اسلام میں حقیقی تسلیم ضرور ہی داخل ہے.پس جنہوں نے اسلام کے نفس مفہوم کا لحاظ کیا ہے.جس میں تسلیم حقیقی داخل نہیں انہوں نے تو کہہ دیا کہ ایمان اور چیز ہے کہ جس میں اعتقاد عمل ، خلق داخل ہیں.اور اسلام اور چیز ہے جس میں فقط قول اور بعض اعمال داخل ہیں جو کہ تسلیم پر دلالت کرتے ہوں اور حقیقی تسلیم اس کی جزو نہیں ہے.اور جنہوں نے اس طور پر خیال کیا کہ اگر چہ اسلام کا مفہوم عام ہے اور ایسی تسلیم کا ہونا نہ ہونا دونوں اس میں مساوی ہیں لیکن چونکہ مفید اور معتبر وہی اسلام ہے جس میں حقیقی تسلیم یعنی سچا اعتقاد بھی ہو لہذا انہوں نے کہہ دیا کہ ایمان اور اسلام ایک ہی شے ہیں.کیونکہ جس طرح ایمان میں اعتقاد اور اعمال و اخلاق داخل ہیں اسی طرح اسلام میں بھی یہ تینوں داخل ہیں.اور ان دونوں مذہبوں میں جمع کا جو طریق ہم نے بیان کیا ہے.یہ از خود تو پوشیدہ نہیں ہے بلکہ یہ قرآن واحادیث صحیحہ سے نکالا ہوا ہے.اور ہم یقین کرتے ہیں کہ جو شخص ان آیات و احادیث پر غور و تدبر کی نگاہ کرے گا.ضرور اس کو یقین ہو جائے گا کہ یہ طریق بالکل حق اور واقعی ہے.مرکز تقومی کون سا ہے دل یاد ماغ؟ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا - ( پارہ اول) کی تفسیر میں آپ تحریر کرتے ہیں.ناظرین کو یاد ہوگا کہ میں نے ایک محل پر وعدہ کیا تھا کہ جو نزاع دل اور دماغ کے مرکز قوی ہونے میں ہے اس کا فیصلہ آئندہ پیش کروں گا تو چونکہ یہاں پر قلوب کا ذکر آیا ہے.بلکہ قلوب ہی کو نفاق کا مرکز گردانا گیا ہے.لہذا میں مختصر طو پر یہاں بیان کر دیتا ہوں.مقند میں فلاسفروں کا اعتقاد اور آج کل کی نئی تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ قومی کا مرکز دماغ ہے اور کل انبیاء اور صوفیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قومی کا مرکز قلب ہے.اس گروہ کے
۶۳۱ متاخرین بعض اتباع نے گوفریق ثانی کے دلائل اور اعتراضوں سے دب کر قلب کے کچھ ایسے معنے بتائے ہیں جو کہ پہلے مذہب سے تطبیق کھاتے ہیں لیکن یہ بہت بعید تاویل ہے جو کہ نقل صحیح اور لغت کے خلاف ہے.فریقین اپنے اپنے مذہب کے دلائل بیان کئے ہیں.فریق اول نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دماغ کے خلل سے قویٰ میں خلل آتا ہے.اور دماغ کی درستی سے قومی کا درست ہونا اس بات کا شاہد ناطق ہے کہ مرکز قوی دماغ ہے.نیز چونکہ قومی کے حامل پیٹھے ہیں.اور ان کا مرکز دماغ ہے.لہذا مرکز قولی بھی دماغ ہونا چاہئے.فریق ثانی کے متاخرین اتباع نے ایک تو یہ وجہ بیان کی ہے کہ سب انبیاء علیہم السلام کا اس پر اتفاق ہے کہ قلب مرکز ہے.اور انبیاء کے علوم کی بناء کسی انسانی من گھڑت پر نہیں ہوتی.بلکہ براہ راست عالم الغیب اور حکیم خدا سے لیتے ہیں.اس لئے ممکن نہیں ان کے علوم اور ( خصوصاً متفق علیہ علوم میں کس طرح کی غلطی ہو.پھر انبیاء کے سوا ہم اور دنیا کو دیکھتے ہیں کہ حب و بغض و غیرہ امور کو قلب ہی سے متعلق بیان کرتے ہیں.اور تجربہ بھی گواہ ہے کہ ان امور کے باعث جو کیفیات عارضی ہوتی ہیں.وہ بھی قلب پر ہی عارضی ہوتی ہیں اور دنیا بھی ان کو قلوب ہی کی طرف منسوب کرتی ہے اور دماغ کے خلیل اور صحت سے قومی کا خلل ناک یا درست ہونا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ ان کا مرکز دماغ ہے کیونکہ آلات وغیر ہا میں نقص آنے سے بھی فعل میں نقص آجایا کرتا ہے.مثلاً آنکھ کے ذریعہ سے جو علوم حاصل ہوتے ہیں فلاسفروں کے نزدیک ان کا مرکز آنکھ کا کوئی پردہ یا پانی نہیں ہے لیکن آنکھ کے اجزاء کے خلل سے ان علوم میں خلل آجاتا ہے.اور ان کی صحت سے یہ علوم صحیح ہوتے ہیں.الغرض کہ فریقین کی طرف سے اس قسم کی بہت کچھ لے دے ہوئی ہے لیکن جس طرح میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ محققین کے مابین نزاع حقیقی نہیں ہوتا بلکہ لفظی ہی ہوتا ہے.جو فقط لفظوں کی تشریح سے ختم ہو جاتا ہے.اسی طرح عقل صحیح او نقل صحیح میں بھی حقیقی نزاع اور مخالفت نہیں ہوتی.اور جہاں کہیں بظاہر تخالف نظر آتا ہے تو وہ مخالف لفظی ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ نا کبھی کا نتیجہ ہوتا ہے.اور بس اور یہاں پر بھی ایسا ہی ہے.ایک طرف تو سب انبیاء علیہم السلام قلب کو مرکز قرار دیتے ہیں.اور ایک طرف پرانی اور نئی تحقیق اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ دماغ مرکز ہے اور بظاہر دونوں نہایت متخالف امور ہیں حالانکہ نقل اور عقل صحیح کا قاعدہ چاہتا ہے کہ ان کے درمیان تخالف ہرگز نہ ہونا چاہئے.اور حقیقت میں ایسا ہی ہے کہ ان دونوں میں بالکل تخالف نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی ایک عام لفظ ہے جو کہ قویٰ جسمانیہ اور قومی روحانیہ کے سب اقسام پر بولا جاتا ہے.ہاں اس میں شک نہیں کہ جسمانی لوگ ( جو کہ جسمانی قومی سے بحث کرنے والے ہوتے ہیں ) جب قویٰ کا لفظ مطلق سواکسی بحث کے بولتے ہیں اور روحانی لوگ ( جو کہ روحانی امور اور روحانی قومی سے بحث کرتے ہیں ) جب اس لفظ کو
۶۳۲ مطلق بغیر کسی قید کے ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد قوی روحانیہ ہوتے ہیں.اور انبیاء اور صوفیاء چونکہ روحانی لوگ ہوتے ہیں لہذا ان کے کلام میں قومی سے مراد قومی روحانیہ ہوتے ہیں.پس اس قاعدہ کے موافق ان دونوں قولوں کا مطلب یہ ہوا کہ فلاسفر کہتے ہیں کہ قومی جسمانیہ کا مرکز دماغ ہے.اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کہتی ہے کہ قومی روحانیہ کا مرکز قلب ہوتا ہے.اور ان دونوں میں کوئی تخالف نہیں کیونکہ فلاسفروں نے قویٰ جسمانیہ کا حال بیان کیا ہے اور قومی روحانیہ سے سکوت کیا.اور اس کی نسبت کچھ بھی نہیں بتایا اس لئے کہ ان کو روحانی قوی سے کچھ سروکار نہیں ہے اور نہ وہ ان کے زیر بحث ہیں.ان کے زیر بحث فقط جسمانی قوی تھے.اور ان کی نسبت بتا دیا کہ ان کا مرکز دماغ ہے اور انبیاء نے روحانی قویٰ کا مرکز قلب کو قرار دیا ہے اور قومی جسمانیہ سے سکوت اختیار کیا ہے.اس لئے کہ ان کے زیر بحث فقط روحانی قوی ہیں.جن کا حال انہوں نے بیان کر دیا.اور جسمانی قومی سے چونکہ ان کو کچھ سرور کار نہیں.لہذا انہوں نے ان کو چھیڑا تک نہیں.الغرض کہ جن کا مرکز دماغ بتایا گیا ہے.انبیاء نے ان کے اس مرکز سے انکار نہیں کیا.اور جن کا مرکز قلب قرار دیا ہے فلاسفروں ان کے لئے قلب کے مرکز ہونے سے انکار نہیں کیا.اور یہ بالکل صحیح بات ہے کیونکہ جس طرح جسمانیوں کا تجربہ اور مشاہدہ شہادت دیتا ہے کہ قومی جسمانیہ کا مرکز دماغ ہے اسی طرح سب روحانیوں کا تجربہ اور مشاہدہ بالا تفاق شہادت دیتا ہے کہ روحانی قوی کا مرکز قلب ہے اور کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ جس امر کا وہ اہل نہ ہو اس امر کے متعلق اہل مشاہدہ اور اصحاب تجربہ کے تجربہ اور مشاہدہ کا انکار کرے نیز جس طرح یہ امر سیح ہے کہ حس و حرکت کا تعلق پٹھوں سے ہے اور پٹھوں کا مرکز دماغ ہے اسی طرح یہ بھی سچی بات ہے کہ روحانی امور کا تعلق روح انسانی سے ہے اور روح انسانی کا مرکب روح طبی ہے جس کا اصل تعلق قلب سے ہے.پس اس طریق سے بھی یہی فتویٰ دینا پڑتا ہے کہ یہ دونوں دعوے بجائے خود صحیح ہیں اور ان میں کسی قسم کا تخالف تعارض ہرگز نہیں ہے.یہاں پر اسی قدر لکھنا کافی خیال کرتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ کسی دوسرے محل پر اس کی اور توضیح کروں گا اس بحث سے ناظرین یہ فائدہ قاعدہ کلیہ کے طور پر ملحوظ رکھیں کہ جہاں کہیں عقل صحیح اور نقل صحیح میں تخالف دیکھیں وہاں پر جلدی سے کسی ایک طرف کی تکذیب و تغلیط نہ کریں.بلکہ تو وقف کریں اور ان کے اتفاق اور جمع کی راہ بڑی غور سے تلاش کریں.اسی قاعدہ قویہ کے ملحوظ رکھنے سے جلد باز لوگوں نے سائنس کے دباؤ کے نیچے آکر مذہب بلکہ صحیح اور قولی مذہب کو جواب دے دیا ہے اور اگر وہ اس قاعدہ کو اپنا دستور العمل بناتے تو اول ضرور ان پر تطبیق کی راہ کھل جاتی اور نہ کم از کم اس شدید ٹھوکر کے شکار جادوانی ہونے سے بچ جاتے.اور اپنی جلد بازی سے ہلاکت کے گڑھے بلکہ سیاہ گڑھے میں نہ گرتے.
۶۳۳ لا ریب دعوی کے شواہد - وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ (البقرہ ۳۶) کی تفسیر میں فرماتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ خواہ کیسی ہی کھلی اور ظاہر چیز ہو.جس میں مشاہدہ یا غور وفکر کے بعد بالکل شک نہ رہ سکتا ہو.اس پر بھی اگر کوئی شخص توجہ نہ کرے گا اور نہ اس کو دیکھے گا تو ضرور ہی وہ شک میں پڑے گا.مثلاً سورج کا وجود اور طلوع نہایت ہی کھلی اور واضح چیز ہے یہاں تک کہ وضاحت میں ضرب المثل ہے لیکن اس کی وضاحت اسی وجہ سے ہے کہ انسان اس کو اور اس کے نور کو مشاہدہ کرتا ہے لیکن جب ایک انسان اندھیری کوٹھڑی کے اندر دروازے بند کر کے بیٹھا یا لیٹا ہوا ہو.اور سورج اور اس کی روشنی کو مشاہدہ نہ کرے تو اس کو سورج کے طلوع میں بھی شک ہوسکتا ہے.پس جب لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ سورج کے طلوع کے بعد اس کے طلوع میں کسی کو ہرگز شک نہیں ہوتا تو اس کے یہ معنی ہر گز نہیں ہوتے کہ خواہ کوئی اندھیرے مکان میں ہو تو بھی اس کو شک نہیں ہوسکتا.بلکہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جب سورج کا طلوع ہوتا ہے.اور صحیح الحواس اس کے آثار کو مشاہدہ کر لیتے ہیں تو بوجہ وضوح آثار کے اس کے طلوع میں وہ شک نہیں کر سکتے ہیں بخلاف ان اشیاء کے جو خطی الآثار ہوتی ہیں کہ ان کے آثار کے مشاہدہ کرنے کے بعد ان کے وجود میں شک پڑسکتا ہے.پس اس اصل سے لاریب فیہ کے معنے خوب کھل جاتے ہیں.اور وہ یہ ہیں کہ قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کے آثار و شواہد اور دلائل اور قرائن اس قدر کثرت اور وضاحت کے ساتھ ہیں کہ ان کے مشاہدہ اور ان کی طرف توجہ کرنے کے بعد ممکن نہیں کہ کسی کو اس کے منجانب اللہ ہونے میں شک ہو سکے نہ یہ کہ جولوگ اس کے شواہد و آثار اور دلائل و قرائن سے بالکل غافل اور بے خبر ہوں.ان کو بھی اس میں شک نہیں ہوسکتا....خداوند کریم کے ذمہ تو اسی قدر ہو سکتا ہے کہ وہ قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کے لئے نہایت قویٰ اور واضح ترین آثار و شواہد قرار دے اور لوگوں کو وہ حواس و قوی دے جن کے ساتھ وہ ان کو مشاہدہ کر سکے اور موقعہ بھی دے.اور یہ لوگوں کا فرض ہے کہ خداوند قولی سے ان آثار کا مشاہدہ کریں.اور اگر وہ نہ کریں گے تو یہ ان کا نہایت سخت اور مضر تر قصور ہے تو جب لوگوں کا یہ فرض ہے کہ وہ قرآن مجید میں اور اس کے منجانب اللہ ہونے کے شواہد میں غور و فکر کریں تو جب اس کے منجانب اللہ ہونے کی نسبت ، ریب، عدم ریب کا ذکر ہوگا تو ان دونوں فرضوں کو ادا شدہ ملحوظ رکھ کر بات کی جاوے گی.اور یہ بالکل سچا اور عام قاعدہ ہے.مثلاً جب کسی نسخہ طبی کی عمدگی کے متعلق یہ بحث ہوگی کہ اس کے عمدہ ہونے میں کچھ شک نہیں تو ضروری ہوگا کہ اس کی عمدگی
۶۳۴ کے لاریب فیہ ہونے میں بیمار کے فرض کو ادا شدہ قرار دیا جاوے.اور وہ ہے اس نسخہ کا استعمال کرنا اور اس کے مطابق پر ہیز رکھنا تو جب یہ کہیں گے کہ اس کا مفید ہونا لاریب فیہ ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ بیمار جب اس کو استعمال کرتا ہے تو ضرور یہ مفید پڑتا ہے نہ یہ کہ استعمال اور پر ہیز کے سوا ہی اس کا مفید ہونا لا ریب فیہ ہے.اسی تعلق میں مزید فرماتے ہیں کہ.اس سورۃ کا اصل دعوی ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فيه ہے.اس کے بعد اس کی غرض اور فائدہ کا اور اس کے متعلقہ چندا مور کا بیان ہے اور یاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا.الخ میں اصل مدعا کے حاصل کرنے کا جوطریق عنایت فرمایا ہے.اس کی نسبت وہ یہ عذر بیان کرتے تھے کہ جب تک انسان کو اس امر کا یقین حاصل نہیں ہوتا کہ جو طریق فلاں امر یا غرض کے حاصل کرنے کے لئے بیان کیا گیا ہے.فی الحقیقت اس سے یہ مقصد ضروری ہی حاصل ہو جاوے گا تو تب تک وہ نہ اس طریق کو استعمال کرتا ہے اور نہ ارادت سے اس کے اختیار کرنے کے لئے اس کی طرف قدم اٹھاتا ہے.اور جو طریق يَأَيُّهَا النَّاسُ میں بیان ہوا ہے اس کے مفید ہونے کا یقین تب ہو کہ پہلے اس کتاب کے منجانب اللہ ہونے کا ہمیں یقین حاصل ہو کہ جو کہ اب تک نہیں ہے..وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ.الخ سے وہ کام لئے ہیں.اول تو ان کے عذر مذکور کا رفع کرنا اور اس کی تصریح وَإِنْ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ اور اِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ کے ساتھ فرمائی ہے.دوم یہ کہ اس سورۃ کا جو اصل دعوئی اور مدعا ہے اور وہ ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فيه ہے اس کے ثابت کرنے کے لئے یہ پہلی وہ دلیل ہے.یہ دلیل چونکہ عقلی ہے اور مسلمات پر مبنی نہیں.لہذا اس کو کسی قوم سے خصوصیت بھی نہیں ہے.اور اصل دعوی دلیل ہونے کی طرف فِی ریب میں اشارہ ہے.کیونکہ جب انسان اصل دعوی میں لا ریب پر اور یہاں پرفی ریب پر نظر کرے گا اور وانُ كُنتُمُ الخ کی صورت سے اس کے ذہن میں یہ بات بھی ضرور آچکی ہوگی کہ یہ کلام کسی امر اور دعویٰ کی دلیل ہے تو لا ریب ضرور ہی اس کے ذہن میں یہ بات جانشین ہو جاوے گی.دعوی لا ریب پر دائمی یقینی دلیل لاريب والا کلام دعوئی ہے اور فِی رَيْبِ والا دلیل ہے.اور یہ دلیل علاوہ ایک عظیم الشان دائمی معجزہ ہونے کے ایسے کلی اور نہایت اعلیٰ درجہ کے قومی اور یقینی اصول پر مبنی ہے کہ جن کے باعث یہ قرآن مجید کے منکروں کے لئے ایسی حجت ملزمہ ہے کہ اس کے آگے کچھ چون و چرا نہیں کر سکتے.دائی معجزہ ہونا تو بالکل ظاہر ہے.کیونکہ انبیاء کے سب معجزات ایسے ہیں کہ ان کے ساتھ ہی وہ بھی اس جہان فانی کو الوداع کہہ گئے ہیں
۶۳۵ اور یایوں کہو کہ ان کے ساتھ ہی مدفون ہو گئے ہیں.مثلاً حضرت موسیٰ“ کا عصا اور ید بیضا بڑے عظیم الشان معجزے تھے لیکن آپ کے انتقال کے ساتھ ہی وہ بھی اس جہان سے انتقال کر گئے.قرآن مجید دائمی معجز مثل لانے کے لئے دعوت مقابلہ لیکن آنحضرت کا یہ معجزہ ایسا ہے کہ قیامت تک اس کے لئے فنا نہیں ہے.بلکہ جس قدر زمانہ زیادہ ہوتا جاتا ہے اسی قدر اس کی عظمت زیادہ ہوتی جاتی ہے.ناظرین غور تو کریں کہ آج سے ۱۳۲۴ سال پہلے جبکہ عرب کی ساری ہمت حسن کلام اور جودت بیان کی طرف مصروف تھی ایک ایسے شخص نے خدا کے نام پر ایک کتاب ان کے آگے پیش کی کہ جس پر مخالفوں نے رنگا رنگ کے افتراء کئے ہیں پر کسی نے آپ پر شاگردی اور تلمیذی کا اتہام تک بھی نہیں لگایا.یعنی کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ فلاں مجلس مشاعرہ یا فلاں محفل شعر وسخن میں کبھی شریک ہوئے تھے تو جب قوم نے اس کتاب کے منجانب اللہ ہونے میں اپنے شک کا اظہار کیا تو اس نے علی رؤس الشہا د پکار کر یہ کہ دیا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اگر تم سچے ہو تو پھر کوئی سورۃ اس کی مثل لاؤ.اور اس کام میں مدد لینے کے لئے اپنے سب مددگار بلالو اور یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ جو سورۃ تم لائے ہو وہ بے شک قرآن کی مانند ہے.تم اپنے ہی آدمیوں میں سے کسی کو منصف بنالو.پھر اس نے اپنے صدق و کذب کا سارا دارو مدار اسی فیصلہ پر رکھ دیا.پھر ناظرین عذر کر سکتے ہیں کہ عربوں جیسی غیور قوم کو ایسے امر میں اپنے مقابلہ پر للکارا ہے کہ جس میں ان کو دعویٰ اور ناز ہے.پھر اس للکارنے والے کے مقابلہ پر بھی وہ اس قدر برافروختہ ہوئے ہیں کہ اس کی تباہی ،اس کی تکذیب کے لئے وہ اپنے اقارب ، اپنی اولاد، اپنی جانیں دینے پر تیار ہی نہیں بلکہ بہت سے دے چکے اور باقی دے رہے تھے.اور جس غرض کے لئے وہ یہ کچھ دے رہے تھے وہ غرض ایک چھوٹی سی چھوٹی سورۃ پیش کرنے سے حاصل ہوتی ہے.پر کوئی پیش نہیں کرتا اور جب شرمندہ کیا جاتا ہے تو عذر گناہ بدتر از گناہ کے مطابق یہ جواب دیتے ہیں کہ لو نشاء لقلنا مثل هذا.( اگر ہم چاہتے تو اس کی مثل کہہ دیتے ) اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اگر مخاطب نے ہم سے یہ سوال کیا کہ پھر تم کیوں نہیں چاہتے تو اس وقت ہمارا ناطقہ ضرور ہی بند ہو جاوے گا.کیونکہ ہم وہی ہیں جو کہ مال و جان اس غرض کے حاصل کرنے کے لئے خرچ کر رہے ہیں جو کہ اس بات سے بآسانی حاصل ہو سکتی ہے.پھر یہ مطالبہ اس وقت سے لے کر آج تک بدستور چلا آیا ہے.اور اس کتاب کی مخالفت پر بڑی بڑی طاقت ور قو میں پانی کی طرح اپنے مال اور خون بہاتی رہیں ہیں لیکن کسی نے بھی کسی چھوٹی سی چھوٹی سورۃ کے برابر بھی کوئی عبارت پیش نہ کی کہ لوہم نے فلاں سورۃ کی مثل ایک سورۃ بنا کر پیش کر دی ہے.
۶۳۶ عیسائی امام زبان عربی اور معترضین کا عجز ” ہمارے زمانہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا جائے تو سب قوموں نے عموماً اور عیسائی قوموں نے خصوصاً قرآن مجید کی کس قدر مخالفت کی ہے.یہاں تک کہ اس کے برباد کرنے کے لئے کروڑوں روپے خاک کی مانند اڑا دئے ہیں.اور اب بھی اڑا رہی ہیں اس کی تردید کے لئے انبار در انبار کتابیں اور رسالے شائع کئے گئے ہیں اور کئے جاتے ہیں.اور ان میں لاکھوں ایسے ہیں کہ ان کی مادری زبان عربی ہے بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں جو شخص ساری دنیا میں عربی زبان کا امام تسلیم کیا گیا ہے.وہ ایک عیسائی ہے اور عیسائی نے علاوہ اور علوم وفنون کے عربی زبان پر بھی بڑی بڑی ضمیم اور لطیف کتابیں لکھی ہیں لیکن باوجود اس عناد اور اس تبحر علمی اور کمال اور بے حد کوشش کے کسی نے کسی ایسی چھوٹی سورۃ کی مثل بھی شائع نہیں کی کہ جس کے آہستہ آہستہ پڑھنے پر بھی آدھ منٹ خرچ نہیں ہوتا.عیسائیوں نے بسم اللہ سے لے کر والناس تک بالالتزام اعتراض لکھے ہیں.اور...سب جانتے ہیں کہ اعتراض ایک ایسی چیز ہوتی ہے کہ ہر ایک مذہب والے دوسرے مذہب پر کیا کرتے ہیں.اور اس کے پیروان کا جواب بھی ضرور ہی دے دیا کرتے ہیں.اور یہ بھی کہ اس سے نہ وہ مذہب تباہ ہوتا ہے نہ مرتا ہے اور نہ اس پر کوئی اور معتد بہا فائدہ مرتب ہوتا ہے لیکن قرآن مجید کی کسی سورۃ کی مثل پیش کرنے میں نہ وقت ہوتی ہے اور نہ زیادہ وقت صرف سکتا ہے.اور نہ اس کا کوئی جواب دے سکتا ہے اور پھر بات ایسی زبر دست ہے کہ اس کے بعد یہ مذہب کبھی سراٹھا سکتا ہی نہیں اور بالکل مرجاتا ہے.اور اس کے پیروکار ہمیشہ کے لئے مغلوب ہو جاتے ہیں.اور پھر یہ بھی نہیں کہ وہ اس کو جانتے نہیں خوب جانتے ہیں اور اہل اسلام ہمیشہ اس زندہ معجزہ کو پیش کر کے ان کی رگ حمیت اور خون غیرت کو جوش بھی دلاتے رہے ہیں لیکن اب تک کسی نے ادنی سی ادنیٰ سورۃ کی مثل بھی پیش نہیں کی.چہ جائیکہ ان کے منصف اس کے مثل ہونے کا فیصلہ دیں.پس یہ ہے اس کا ہمیشہ کے لئے زندہ معجزہ ہونا.اعجاز قرآن کی دو بناء رہا اس کا اعلیٰ درجہ کے قومی اور یقینی اصول پر مبنی ہونا تو اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے.کیونکہ اس دلیل کی بنیاد دو باتوں پر ہے ایک یہ کہ خداوند تعالیٰ چونکہ اپنی ذات میں بے مثل ہے لہذا وہ اپنے صفات و افعال میں بھی بے مثل کیا ممتنع المثل ہے.اور انسان چونکہ اپنی ذات میں بے مثل نہیں ہے بلکہ اس کی ضرور مثل ہے لہذا اس کی صفات اور افعال میں بھی مثل ہونی چاہئے.بلکہ ضروری ہے پھر ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ انسان اور خداوند
۶۳۷ کریم کے افعال میں تماثل اور تشابہ نہیں ہے.یعنی جو بندہ کرتا ہے وہ خدا نہیں کرتا.اور جو خداوند تعالیٰ کرتا ہے وہ بندہ نہیں کر سکتا.مثلاً انسان کپڑے بناتا ہے تو خدا وند تعالیٰ وہ نہیں بناتا.اور خداوند تعالیٰ روئی بناتا ہے تو انسان ہرگز وہ نہیں بنا سکتا.انسان روٹی پکاتا ہے تو خدائے عزوجل کبھی روٹی نہیں بناتا اور خدواند تعالی گیہوں بناتا ہے جس کو انسان کبھی نہیں بنا سکتا.رفع اشتباہ کے تین اصول تو چونکہ افعال صفات کے آثار ہوتے ہیں اور صفات ذات کے آثار ہوتے ہیں.لہذا مذکورہ بالا مشاہدہ سے ثابت ہوا کہ انسان کے صفات اور ذات خدا تعالیٰ کی صفات اور ذات کی مانند نہیں.اور خدائے عزوجل کے صفات اور ذات انسان کے صفات اور ذات جیسے نہیں ہیں اور جہاں کہیں بظاہر صفات میں اس کے خلاف کا شبہ پیدا ہوسکتا ہے.وہاں پر جب بجائے سرسری نظر کے کسی قدر نظر کو گہرا کر دو تو یہ شبہ رفع ہو جاتا ہے اور دونوں میں بین امتیاز نظر آ جاتا ہے.مثلاً انسان عالم ہے اور خدائے عز وجل بھی عالم ہے لیکن خدا وند تعالیٰ تو عالم غيب السموات والارض ہے اور انسان بے چارہ اپنے جسم کے اندر کی چیزوں کو بھی نہیں جانتا.اسی طرح انسان بھی سننے والا ہے اور خداوند تعالیٰ بھی سنے والا ہے پر دونوں میں بین امتیاز ہے تو جب ہمارے ہاتھ میں نہایت سچے اور واضح اور بڑے پکے یہ تین اصول ہیں تو اب اگر کسی امر کی نسبت یہ اشتباہ واقع ہو گا کہ یہ کس کا ہے تو ان تین اصول کی معرفت ہم بہت جلد اور نہایت عمدگی سے صحیح طور پر فیصلہ کر لیویں گے.اور وہ فیصلہ یوں ہوگا کہ ہم دیکھیں گے کہ اس امر کی مثل کسی اور انسان میں ملتی ہے یا نہیں اگر مل گئی یامل سکی تو ہم یقین کر لیں گے اور ہمارا یہ یقین بالکل صحیح ہوگا کہ وہ امر خدائے عزوجل کا نہیں بلکہ انسان کا ہے اور اگر نہ ملی اور نیل سکتی ہو تو پھر یقین کر لیویں گے اور علیٰ درجہ البصیرت کہیں گے کہ یہ امر خدائے عزوجل کا ہے اسی طرح تیسرے قاعدہ کے مطابق جب دیکھنا ہو تو بھی یونہی دیکھا جائے گا کہ اس کی مثل انسان کر سکتا ہے یا اس میں ہے تب تو یقیناً وہ امر انسان کا ہے.ورنہ تو پھر ضرور اور یقیناً خدائے وحدہ لاشریک لہ کا ہے.اور یہ دلیل جس کو ہم بیان کر رہے ہیں.انہی اصول پر مبنی کی گئی ہے جو کہ بالکل بچے اور یقینی ہیں یعنی اگر تمہیں اس کتاب کی نسبت شک ہے کہ یہ خدائے وحدہ لا شریک لہ کی ہے یا کہ محمدؐ کی ہے جو کہ خود پکار پکار کر کہتا ہے ما انا الأبشر مثلكم میں تمہارے ہی جیسا بشر ہوں ) تو اول تو بات ہی درست نہیں کہ تمہیں اس میں شک ہے.کیونکہ جس طرح خدائے یکتا کے اور امور میں شک نہیں ہو سکتا کہ یہ خدا کے ہیں یا کسی انسان کے ہیں کیونکہ ان امور میں خود ایسے امور موجود ہیں جو کہ اس بات کی بین شہادت دیتے ہیں کہ یہ خدائے حکیم وقدیر کے ہیں نہ انسان عاجز
۶۳۸ کے.لیکن اگر فرض کیا جائے کہ تم کو اشتباہ ہو گیا ہے تو ان اصول کے ذریعہ سے تم فیصلہ کر لو کہ خدا اپنی ذات وصفات اور افعال میں بے مثل ہے لہذا اس کے ان تینوں امروں میں سے کسی ایک کی بھی کبھی کوئی مثل نہیں لا سکتا.اور انسان اپنی ذات وصفات و افعال میں مثل رکھتا ہے لہذا اس کے ہرسہ امور میں سے ہر ایک کی مثل کثرت سے لا سکتے ہیں.اور یہ کہ خداوند کریم جو کرتا ہے وہ انسان نہیں کر سکتا.اور جو انسان کرتا ہے وہ خداوند تعالیٰ نہیں کرتا.پس ان سب اصول کے مطابق جو امتیاز اور شناخت کا معیار ہے وہ اس کی مثل کالا نا اور نہ لانا ہے.پس تم سب کی یا کسی ایک سورۃ کی مثل لاؤ اور اس میں اپنے سب مدد گاروں سے بھی مددلواور منصف بھی کوئی اپنا ہی بنالو.پس اگر تم اس کی کوئی مثل نہ لا سکو تو یقینا سمجھ لو کہ یہ اسی خدائے وحدہ لاشریک لہ کا کلام ہے.جو اپنی ذات وصفات اور افعال میں ليس كمثله شي في الارض ولا في السماء ۹۲ (زمین و آسمان میں اس کی مثل کوئی شے نہیں ہے ) اور کیا معجزہ ہونے کے لحاظ سے اور کیا دلیل ہونے کے لحاظ سے اس کا جواب اور اس کی تردید فقط ایک ہی طریق سے ہے.اور وہ یہ ہے کہ اس کی یا اس کی کسی سورۃ کی مثل لے آویں اور بس اور اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے.اور ساری دنیا گواہ ہے کہ چودھویں صدی تک کے اربوں مخالفوں نے اپنے عجز کے ہاتھوں سے اس معجزہ اور اس دلیل کی صداقت اور قرآن مجید کے منجابب اللہ اور لاریب فیہ ہونے پر دستخط کر دئے ہیں لیکن ان لوگوں کے دل و دماغ اور ایمان وانصاف پر سخت افسوس ہے کہ ایسے معجزہ اور ایسی دلیل اور برہان قاطع کے موجود ہوتے ہوئے بھی قرآن مجید سے منکر اور دید اور انجیل جیسی کتابوں کے قائل ہیں.اعجاز قرآن کی مماثلت کس امر میں مطلوب ہے رہا یہ کہ وہ سورۃ کسی امر میں قرآن مجید کی مثل ہو تو اس میں بہت سے اقوال ہیں.اول یہ کہ یہ قص ماضیہ پر مشتمل ہے.حالانکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امی تھے.دوم یہ کہ اپنے مطیعوں کے لئے وعدوں اور بشارتوں پر اور اپنے نافرمانوں کے لئے وعیدوں اور انذاروں پر مشتمل ہے اور وہ وعدے اور وعید انسانی طاقت سے بالاتر ہیں.سوم یہ کہ یہ کتاب الہیہ سابقہ کے مطالب عالیہ پر مشتمل ہے.حالانکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امی تھے.چہارم یہ کہ یہ جوامع الکلم پر مشتمل ہے.پنجم یہ کہ اغبار غیب پر مشتمل ہے.ششم یہ کہ تا ثیر بلیغ رکھتی ہے جو کہ انسانی کلام میں کیا کسی دوسری آسمانی کتاب میں بھی نہیں ہے.ھفتم یہ کہ یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی فصاحت و بلاغت پر مشتمل ہے جو کہ انسانی قدرت سے باہر ہے.ہشتم یہ کہ ایسا نہیں کہ ہر ایک سورۃ میں کوئی ایسی بات ہے کہ جس کی وجہ سے اس کی مثل انسان نہیں بنا سکتا.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ
۶۳۹ خداوند کریم نے لوگوں کی ہمت اس کی کسی سورۃ کی مثل لانے سے پھیر دی ہے.اور یہ ایک عظیم الشان اعجاز ہے کہ مثل لانی تو انسانی اقتدار میں ہے پر کوئی لائے گا نہیں.لیکن پہلے پانچ اقوال پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ امور سب کی سب سورتوں میں نہیں.اور یہ تحدی ملکہ میں بھی کی گئی ہے حالانکہ مکہ میں تا شیر بلیغ کا نام ونشان تک نہ تھا.اور ساتویں قول پر یوں اعتراض کیا ہے کہ قرآن مجید نے مثل کو عام اور مطلق رکھا ہے کسی قید کے ساتھ مقید نہیں کیا.اور فصاحت و بلاغت میں مثل مانگنا ان دو سے از خود مقید کرنا ہے جو کہ جائز نہیں ہے..کمالات کلام قرآن محمد سرور.میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ جس قدر ان اقوال میں امور آئے ہیں جیسا فصیح و بلیغ ہونا، تاثیر بلیغ اور اخبار غیب اور جوامع الکلم وغیرہ پر مشتمل ہونا.یہ سب قرآن کے منجملہ کمالات میں سے ہیں.اور ان کے علاوہ اور بہت سے ہیں اور ایسا تو نہیں ہے کہ ہر ایک آیت اور ہر ایک سورۃ میں وہ سب کے سب کمالات جمع کئے گئے ہوں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی سورۃ ان کے معتد بہ مجموعہ سے خالی ہو بلکہ ہر ایک سورۃ میں ان کمالات سے اس قدر ضر ور جمع ہوتے ہیں کہ انسانی طاقت سے باہر ہے.اور ہرگز اس کی وسعت میں نہیں ہے کہ وہ اپنے کلام میں اس مقدار اور کیفیت کے وہ کمالات نبھا سکے.اور قرآن مجید کی بہت سی آیات سے صاف صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی ذات میں کوئی ایسے کمالات ہیں کہ جن کی مثل انسان اپنے کلام میں لانے سے بالکل عاجز ہے نہ یہ کہ اس کی مثل کالا نا اس کی قدرت میں تو ہے اور وہ لاسکتا ہے لیکن خداوند کریم اس کو یونہی روک دیتا ہے.اور اس کی ہمت کو پھیر دیتا ہے یا ارادہ کرتے ہی اس کو ہلاک کر دیتا ہے یا انسان جانتا ہے کہ اگر میں نے اس کی مثل بنائی تو ضرور تباہ ہو جاؤں گا.پس اس خوف سے مثل بنانے کا ارادہ ہی نہیں کرتا.جیسا کہ سورہ یونس میں فرمایا ہے.وَ مَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أَنْ يُفْتَرَى مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتبِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِینَ ۹۳ اور قرآن مجید کی شان سے نہیں ہے کہ وہ افترا کیا جائے اللہ کے غیر سے لیکن وہ تصدیق ہے اس کی جو اس سے پہلے ہے اور اس کتاب کی تفصیل ہے اس میں شک نہیں یہ رب العالمین کی طرف سے ہے ) پس آیت کریمہ میں صاف صاف بتا دیا ہے کہ دوسرا کوئی قرآن بنا سکتا ہی نہیں نہ یہ کہ بنا تو وہ سکتا ہے لیکن ہم نہ بنانے دیں گے یا بنا تو وہ سکتا ہے پر اس کا ارادہ کرتے ہی ہم اس کو تباہ کر دیں گے پھر آگے بعض ان کمالات کا بھی اظہار کیا ہے کہ جن کے باعث دوسرا نہیں بنا سکتا.اور وہ یہ بتائے ہیں کہ یہ پہلی کتابوں کا مصدق ہے کہ حق کو حق اور باطل کو باطل قرار دیتا ہے.اور پھر مفصل الکتاب ہے پھر ربوبیت عامہ کے آثار اس قدر اس میں موجود ہیں جن کے باعث اس کے
۶۴۰ منجانب رب العالمین ہونے میں ذرہ بھر بھی شک نہیں ہے.پھر سورہ ہود میں فرمایا ہے.آمَ يَقُولُونَ افْتَرلَهُ ط قُلْ فَا تُوْا بِعَشْرٍ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيْتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ فَإِنَّمَ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللهِ وَ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۹۴.یہاں سے بھی صاف یہی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ایسے امور ہیں جن کے انسانی طاقت سے بالا ہونے کے باعث کوئی انسان اس کی مثل نہیں لاسکتا.جیسا کہ فَإِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مخالفوں کے سب مددگار اس کی مثل لانے سے بالکل عاجز ہیں اور اس عجز کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں علوم الہیہ کے انواع واقسام بھرے پڑے ہیں.اور چونکہ انسانوں کا علم خدا کے علم کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتا.لہذا کوئی انسان اس کتاب کی مثل بھی نہیں بنا سکتا جو کہ علوم الہیہ پرمشتمل ہو.پس خلاصہ مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں بہت سے ایسے امور ہیں کہ سب کے سب کو کوئی انسان اپنے کلام میں نہیں لاسکتا.اور بعض ایسے بھی ہیں کہ ان میں سے ایک کو بھی کوئی انسان اپنے کلام میں نہیں لا سکتا.جیسے اخبار غیب اور قدرت مطلقہ اور لوازم ربوبیت وغیرہ اور کچھ ایسے ہیں کہ ایک حد تک تو انسان ان کو اپنی تقریر و تحریر میں لاسکتا ہے.لیکن اس سے آگے ان کے وہ مراتب بھی ہیں کہ وہ عادتا انسان کی طاقت سے بالا ہوتے ہیں.اور بعض اگر چہا کیلے اکیلے تو انسان کی مقدرت میں ہوتے ہیں لیکن جب ان میں سے چندمل جاتے ہیں تو پھر انسان کی مقدرت سے برتر ہو جاتے ہیں.اور قرآن مجید میں یہ سب اقسام موجود ہیں.لہذا اس کی ہر ایک سورۃ کی مثل لانے سے انسان عاجز ہے.اور جہاں تک میں نے غور کیا ہے مجھے قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت نہیں ملی جس سے اس بات کا اشارہ تک بھی نکلتا ہو کہ انسان قرآن مجید کی مثل یا کسی سورۃ کی مثل تو بنا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کی ہمت پھیر دے گا تا کہ وہ نہ بنا ئیں یا یہ کہ بنانے کا ارادہ کرتے ہی ان کو ہلاک کر دے گا یا مثل بنانے کے بعد ان کو ہلاک کر دے گا.بلکہ جہاں پایا ہے تو یہی کہ قرآن مجید کی مثل بنانا کسی انسان کی مقدرت اور طاقت میں ہے ہی نہیں.رہا یہ کہ کیوں نہیں تو اس کا جواب بھی قرآن مجید سے جو کچھ مجھے معلوم ہوا ہے پہلے عرض کر چکا ہوں جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید چونکہ علوم الہیہ اور لوازم ربوبیت عامہ اور آثار قدرت مطلقہ پر مشتمل ہونے کے باعث بہت سی ایسی خصوصیات کا جامع ہے کہ بعض ان میں سے اکیلی اکیلی اور بعض دوسروں کے ساتھ مل کر انسان کی مقدرت سے باہر ہوتا ہے کہ ان کو اپنے اپنے کلام میں لا سکے.لہذا کوئی اس کی مثل نہیں لاسکتا اور چونکہ قرآن مجید کی ہر ایک سورۃ کچھ نہ کچھ ایسی خصوصیات پر مشتمل ہوتی ہے جو کہ انسانی قدرت سے باہر ہوتی ہیں.لہذا کسی صورت کی مثل بھی نہیں بن سکتی.یہ دلیل حقیقت میں بہت عظیم الشان اور بڑا بھاری معجزہ ہے کہ چودھویں صدی جارہی ہے اور اس طول
۶۴۱ و طویل عرصہ میں بڑی بڑی طاقت والی اور سخت سے سخت عناد اور بغض رکھنے والی قو میں گزری ہیں اور انہوں نے اسلام کی تباہی کے لئے کوئی تدبیر اور حیلہ اور کوئی داؤ اور کوئی کوشش پیچھے نہیں چھوڑی اور اپنے پیارے مال اور عزیز جانیں اس کی تباہی کے لئے تباہ کر دی ہیں.لیکن باوجود اس کثرت اور اس طاقت اور اس کوشش اور اس عناد اور بغض اور اس عرصہ دراز کے اب تک کوئی بھی کسی چھوٹی سے چھوٹی سورۃ کی مثل نہیں لایا حالانکہ قرآن مجید نے اپنے صدق و کذب کا سارا دارو مدار مثل کے لانے نہ لانے پر رکھ دیا تھا لیکن عنا بھی ایسا سخت مرض ہے کہ خواہ کیسے ہی روشن اور قوی ترین دلائل اور نشان بتاؤ کچھ بھی اثر نہیں ہوتا.اور اپنے انکار پر جمے رہتے ہیں اور ان دلائل کے ٹالنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تراش ہی لیتے ہیں.خواہ وہ عذر کیسا ہی رکیک کیوں نہ ہو.اور وہ دلائل کیسے ہی لاجواب کیوں نہ ہوں.اس برہان قاطع اور اعجاز ساطع کے ساتھ بھی (کہ جس کی تردید کی کوئی سبیل بجز اس کے متصور ہوسکتی ہی نہیں کہ وہ کسی سورۃ کی مثل بنا کر پیش کر دیں.اور چودھویں صدی گزر رہی ہے اور اب تک کروڑ ہا سخت سے سخت اور قوی سے قومی مخالفوں میں سے کوئی بھی اس کی ایک سورۃ کی مثل نہیں لا سکا ) انہوں نے یہی کارروائی کی ہے.اس وقت کے ویدوں نے تو یہ جواب دیا تھا کہ لو نشاء لقلنا مثل هذا ـ ( اگر ہم چاہتے تو ہم بھی ایسا ہی کہ دیتے ) اور یہ خیال نہ کیا کہ اگر کوئی ہم سے یہ سوال کرے گا کہ جب تم قرآن مجید اور محمد رسول اللہ کی تکذیب چاہتے ہو اور اس کے لئے ہر ایک منصوبہ ہر ایک تدبیر ہر ایک حیلہ کر رہے ہو.اور رات دن اسی کوشش میں لگے رہتے ہو اور اپنے آرام کو بے آرامی سے بدل دیا ہوا ہے اور اپنے پیارے مالوں کو اس غرض کے حاصل کرنے کے لئے خاک کی طرح اور اپنے عزیز ترین رشتہ داروں کے ہزار ہا گراں مایہ خونوں کو پانی کی مانند بہار ہے ہو اور دنیا میں کوئی ایسا مقصد نہیں کہ جس کے لئے تم میں سے کوئی فرداً فرداً بھی اس قدر کوشش کرتا یا مالی اور جانی نقصان یا تکلیف برداشت کرتا ہو جس قدر کہ تم بحیثیت مجموعی اس مقصد کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہو.اور پھر قرآن جیسا کلام بولنا نہ مذہب کے لحاظ سے تمہارے نزدیک ناجائز ہے اور نہ عرف کے لحاظ سے اور نہ ایسا بولنے سے تمہاری عزت و شرافت میں کوئی فرق آتا ہے اور نہ کوئی نقص لازم آتا ہے.جو اس کے بولنے سے مانع ہوسکتا ہو.بلکہ ظاہر ہے کہ جو شخص ایسا کلام پیش کر کے قرآن مجید کے اس برہان واعجاز کو تو ڑ کر قوم کے متفق علیہ اور اہم اور اعظم ترین مقصد کو حاصل کر دے گا کہ جس کے حاصل کرنے سے قوم کے سردار قوم کے بہادر قوم کے دانا قوم کے مال دار بلکہ ساری کی ساری قوم عاجز تھی اور قوم کو ان سب مشقتوں اور تکلیفوں اور نقصانوں اور پریشانیوں سے نجات دے گا کہ جن میں وہ اس مقصد کے حاصل کرنے میں مبتلا تھی تو اس میں ذرہ بھی شک نہیں کہ وہ ساری کی ساری قوم کے نزدیک سب سے زیادہ بہادر اور دانا اور لائق فائق اور نامی گرامی اور سب کی نظروں میں زیادہ کامل اور محسن
۶۴۲ قوم ہو جاوے گا.غرضیکہ اس کے ساتھ وہ ایسا عظیم الشان اور عزیز الوجود انسان ہو جاوے گا کہ اور کسی طریق کے ساتھ ایسا ہر گز نہ ہو سکے گا.اور ظاہر ہے کہ ایسے امر کو ہر ایک چاہتا ہے.پس کیا وجہ ہے کہ تم نہیں چاہتے اور ان کے بعد ان کے معاندوں نے اسی جواب کو ایک اور رنگ میں پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ دنیا میں بہت سی کتابیں ہیں اور ان کے مصنفین نے ان پر ناز بھی کیا ہے.اور پھر بھی لوگوں نے ان کی مثل نہیں بنائی.بلکہ شیخ سعدی نے تو اپنے شعروں کی نسبت یہ بھی کہا ہوا ہے کہ شاعران گفتہ شعر ہائے پر نمک.کس نہ گفتہ شعر ہمیچوں سین و عین دال و یے.اور پھر بھی کسی نے اب تک ان کے شعروں کی مثل نہ بنائی اور نہ اس کی طرف توجہ کی ہے تو کیا اس سے ثابت ہو گیا کہ وہ کتا بیں یا شیخ سعدی کے شعر خدا کے کلام ہیں یا یہ کہ حقیقت میں ان کی مثل بن سکتی ہی نہیں.اور خدا تعالیٰ کی چیزوں کی مانند یہ بھی بے مثل ہیں ہرگز نہیں.پس اسی طرح قرآن نے اگر یہ دعویٰ کیا.اور ایک عرصہ دراز تک کسی نے اس کی مثل نہ بنائی اور نہ بنانے کا ارادہ کیا تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ خدا کا کلام ہے اور یہ خدا کی چیزوں کی طرح بے مثل ہے.اور اس کی مثل بنانے سے سب دنیا عاجز ہے.یہ جواب بھی بعینہ پہلا ہی جواب ہے.فقط اس میں شیخ سعدی وغیرہ کی مثال پیش کر دی ہے.پس چونکہ اس کا مطلب اور مضمون وہی ہے جو پہلے کا ہے.لہذا اس کا جواب بھی وہی ہے جو پہلے کا ہے ہاں اس میں مثال ایزاد کی ہے لیکن جیسا کہ ہم نے بتایا ہے کہ اصل مضمون غلط ہے.اسی طرح ہم بتاتے ہیں کہ یہ مثال بھی بالکل غلط ہے بلکہ اس کے پیش کرنے والے کی جہالت اور نادانی ثابت کرنے کے لئے یہی مثال کافی کیا کافی سے بھی زائد ہے کیونکہ جاہل بھی جانتا ہے کہ اول تو ان مصنفین نے ایسا عظیم الشان دعوی ہی نہیں کیا کہ خدا کا کلام ہے اور نہ کسی نے یہ دعوی کیا ہے کہ میری کتاب کی کسی جز کی مثل بھی نہیں لا یا بالا ؤ اور اپنے مددگاروں کو بھی بلالو اور شیخ سعدی نے اگر کہا ہے یہ کہا ہے کہ کسی نہ گفتہ جس کے معنی یہ ہیں کہ گزشتہ زمانہ کے شاعروں میں سے کسی نے میرے شعروں جیسے شعر نہیں کہے اور یہ اس کی ایک بڑ ہے گزشتہ گئے گزر چکے اور اگر اس وقت ہوتے بھی تو پہلے کہے ہوئے شعروں کو ثابت کرتے کہ یہ سعدی کے شعروں جیسے ہیں نئے شعر تو وہ بھی نہ کہہ سکتے تھے.کیونکہ شیخ سعدی نے تو ان کے پہلے کہے ہوئے شعروں کی نسبت کہا کہ وہ میرے شعروں جیسے نہیں ہیں نہ یہ کہ کوئی شاعر میرے شعروں جیسے شعر بنالائے.اور کہ وہ ہرگز نہ بنا سکے گا.پھر ان کی یا شیخ سعدی کی مخالفت پر کس نے اپنا مال و جان صرف کیا اور پھر ان کا یا شیخ صاحب کا کون سا مرتبہ تھا کہ جس کا سارا دارو مدار انہوں نے مثل لانے اور نہ لانے پر رکھ دیا تھا.اور لوگوں کو محمد رسول اللہ کی رسالت کی طرح ان کا مرتبہ نا پسند اور مضر معلوم ہوتا تھا تا کہ لوگ اس مرتبہ سے گرانے کے لئے ان کے کلام کی مثل لاکر ان کے مرتبہ کی اس بنیاد کو اکھاڑ دیتے جس پر کہ اس کا سہارا تھا.پھر ان معاندوں کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ ان کے کلام کی کوئی مثل نہیں لایا.بلکہ ضرور لایا
۶۴۳ اور مثل کیا اس سے بڑھ کر لاتے رہے ہیں.پہلے زمانہ کا ایک مصنف یا منشی یا شاعر یا کاریگر ہوتا ہے.جو بڑا لائق و فائق اور بے عدیل و بے مثل خیال کیا جاتا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد اور آ جاتا ہے جس کو لوگ اس سے بھی زیادہ ماننے لگتے ہیں.پرانے فلاسفر اپنے اپنے زمانہ میں خود بھی شیخ سعدی کی مانند اپنے آپ کو ہم بھی کچھ ہیں بلکہ جو کچھ ہیں ہم ہی ہیں خیال کرتے تھے.اور لوگ بھی ان کو بے مثل و بے بدل یقین کرتے تھے لیکن جب نئے فلسفہ کا زمانہ آیا تو لوگ پہلے فلاسفروں اور ان کے فلسفہ کو اس کے مقابل میں لاشئی محض اور قابل شرم غلطیوں کا طومار یقین کرتے ہیں.اسی طرح مصنفین کا بھی حال ہے ہاں یہ صحیح ہے کہ بعض تصنیفیں زیادہ شہرت اور رواج پکڑ جاتی ہیں.اور جو ان سے ہزار ہا درجہ بہتر ہوتی ہیں ان کو عام لوگ جانتے تک نہیں.یہ سب باتیں بالکل واضح ہیں.لیکن عناد اور تعصب کا کیا علاج ہو میں اس سے بڑھ کر سناتا ہوں.جب خدا وند کریم نے اپنے پیارے خاتم الانبیاء کے معجزات اور برکات کو دوبارہ دنیا میں تازہ کرنا چاہا تا کہ آپ کی صداقت کی دنیا پر از سرنو حجت پوری کرے تو خداوند نے اس زمانہ میں اپنے ایک پیارے برگزیدہ بندے کو مسیح موعود اور مہدی معہود اور بروز محمدی بنا کر دنیا میں معبوث فرمایا.اور علاوہ اور منجزات ونشانات کے ایک معجزہ یہ بھی آپ کو عنایت کیا کہ آپ نے بہت سی کتابیں عربی میں پُر از حقائق و معارف قرآنیہ لکھیں اور بڑی تعدی سے ان میں سے ہر ایک کی مثل عرب و عجم سے طلب کی اور قرآنی مطاع کی مانند ان کو اختیار دیا کہ اپنے سب مددگاروں کو بلالیں.اور پھر ساتھ ہی یہ پیشگوئی بھی کر دی کہ ہر گز کوئی ان کی مثل نہ لا سکے گا.چنانچہ ان کتابوں کو شائع ہوئے سالہا سال گزر چکے اور عرب و عجم ان میں سے ایک کی مثال بھی نہ لا سکے.حالانکہ مخالفت کی کوئی حد نہیں.اور آپ کی تکذیب کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور ہزار ہا مخالف ہیں کہ ان کا رات دن میں بجز اس کے کوئی شغل ہی نہیں اور طوماروں کے طومار اور انباروں کے انبار آپ کی تردید میں شائع کر چکے ہیں.جس سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہوسکتا.لیکن ان کی مثل کا لانا بہت ہی مفید امر تھا کیونکہ آپ نے اپنے صدق و کذب کا سارا دارو مدار مثل لانے نہ لانے پر رکھ دیا تھا.لیکن اب تک کوئی بھی نہیں لایا.“ - إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيَ أَنْ يَضُرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا.(البقرہ ع۳) کی تفسیر میں آپ فرماتے ہیں.است حیاء کے معنوں میں نفس اور انقباض کے لفظ کو دیکھ کر یہ خیال کر لینا ( کہ اگر انہی معنوں کی نسبت خدائے عزوجل کی طرف کی جائے تو پھر لازم آئے گا کہ خدائے قدوس کے لئے انسانوں کے نفس کی مانند نفس ہو اور پھر ان کے نفس کے انقباض کی طرح خدا کے نفس کا انقباض بھی ہو.حالانکہ خدائے قدوس اس سے پاک ہے ) درست نہیں ہے.اس لئے کہ اگر چہ خداوند تعالیٰ کے لئے نفس انسانی اور اس کے انقباض کی مانند نفس اور
۶۴۴ انقباض کا ہونا درست نہیں ہے ان کی اس بات کو ہم بسر و چشم تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں مانتے کہ استحیاء کے مذکورہ بالا معنوں کے خدائے عزوجل کی طرف نسبت کرنے سے یہ لا زم بھی آتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کثرت کے ساتھ الفاظ اخس اور اشرف اور ادنیٰ اور اعلیٰ پر بولے جاتے ہیں.اور ان دونوں میں ان معنوں کے مصداق ایک رنگ کے ہر گز نہیں ہوتے بلکہ ان میں اس قدر عظیم الشان تفرقہ ہوتا ہے کہ وہ دونوں آپس میں ہم رنگ اور ہم مثل اور مشابہ بالکل نہیں ہوتے تو جب یہ حال ہے کہ بہت سی مثالوں میں ظاہر کیا گیا ہے تو پھر یہاں پر کس طرح یہ لازم آوے گا.خصوصاً جبکہ خداوند کریم نے صاف صاف اپنی نسبت بتا دیا ہوا ہے کہ لیس كَمِثْلِهِ شَيْ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِى السَّمَاء وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِیم.(اس کی مانند نہ زمین میں کوئی چیز ہے اور نہ آسمان میں اور وہ کامل سننے والا اور جاننے والا ہے ) اور باوجود اس کے پھر بعض ایسے صفات وغیرہ کو اپنی طرف نسبت بھی کرتا ہے جو کہ اس کے سوا مخلوق کی طرف بھی منسوب ہوتے ہیں تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نسبت میں اشتراک ہونے سے تشابہ اور تماثل نہیں لازم آتا.ورنہ تو پھر اپنے صریح قول لَيْسَ كَمِثْلِهِ شی کے خلاف خود ایسے صفات وغیرہ کو اپنی طرف کیوں نسبت کر دیا جو کہ مخلوق کی طرف بھی نسبت ہوتے ہیں.حالانکہ اس سے تشابہ حاصل ہوتا تھا.مثلاً یہاں پر بھی ایک طرف تو لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی فرمایا اور پھر اس کے اخیر پر اپنے آپ کو سمیع اور علیم قرار دیا.حالانکہ انسان کو بھی خود ہی سمیع وغیرہ فرمایا ہوا ہے.پس جہاں تک میرا خیال ہے یہ اس لئے کہا ہے تا کہ اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہو جائے کہ اس سے تشابہ لازم نہیں آتا.اس لئے میں ایک طرف اپنے آپ کو لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی بتا تا ہوں اور ساتھ ہی اپنے آپ کو سمیع کہتا ہوں.اب میں ناظرین کو اس کی جڑ بتا تا ہوں کہ یہ غلطی کہاں سے لگی ہے تو واضح ہو کہ اہل لغت کا یہ طریق ہے کہ عرف عام میں جہاں پر یا جس چیز پر ایک لفظ زیادہ بولا جاتا ہے وہ اس کی کیفیات اور خصوصیات کو اس لفظ کے معنوں میں ذکر کر دیتے ہیں.مثلاً لفظ کا لفظ ہے جو کہ عرف عام میں عموماً انسانوں کے بولے ہوئے لفظ پر بولا جاتا تھا تو اہل لغت نے انسانی خصوصیت کو اس کے معنوں میں ملحوظ رکھ کر یہ کہ دیا کہ اللفظ ما يتلفظ به الانسان ( لفظ وہ ہے جس کو انسان بولتا ہے ) حالانکہ اوروں کے بولے ہوئے کلمہ کو بھی لفظ ہی کہا جاتا ہے.اسی طرح انسانی صفت مثل سمع رؤیت بطش قبض بسط وغیرہ کے معنے کے بیان میں کیفیات انسانی کو لے لیتے ہیں بلکہ عموماً ان کے معنی بیان کرنے کے وقت اسی طریق کو بیان کر دیتے ہیں.جس سے وہ معنی انسان میں حاصل ہوتے ہیں مثلا سمع کی تعریف میں یہ بیان کر دینا کہ وہ ایک آواز ہے جو کہ کان کے اندر ایک پٹھے میں اس طور سے پیدا ہوتی ہے کہ خارجی ہوا میں جو آواز سے متکلیف ہوتی ہے.لہر پیدا ہوکر کان کے طبلہ تک پہونچتی ہے اور طبلہ کے ٹھکورنے سے سماع کے پٹھے میں وہی آواز حاصل ہو جاتی ہے یا رحمت کے معنوں میں کہا کرتے
۶۴۵ ہیں کہ رقت قلب کو کہتے ہیں تو اس سے عوام یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ جو کچھ بیان ہوا ہے وہ اس مضمون کے ضروری اجزاء ہیں.حالانکہ وہ ان کے لئے ضروری اجزاء نہیں ہوتے بلکہ وہ انسان میں ان معنوں کے حاصل ہونے کا طریق ہے اور وہ لفظ اور اس کے معنے عام ہوتے ہیں.اور انسان کے سوا اوروں میں بھی پائے جاتے ہیں اور اوروں میں ان معنوں کے حاصل ہونے کا اور ہی طریق ہوتا ہے جو کہ بیان شدہ طریق سے بالکل متفائر ہوتا ہے.پس اس ساری غلطی کی جڑ پہلے تو اہل لغت کا یہ طریق ہے اور اس کے بعد یہ خیال کر لینا ہے کہ ان معنوں کے ضروری اجزاء ہیں کہ جن کے سوا اس لفظ کے معنے حاصل ہو سکتے ہیں ہی نہیں.حیا اور استحیاء میں بھی بعینہ ایسا ہی ہوا ہے کہ اہل لغت نے کہ اس کی تفسیر انقباض من النفس کے ساتھ کی ہوئی ہے وہ اس کے اصل معنے نہیں بلکہ اس کے معنوں کا انسان میں حاصل ہونے کا طریق بیان ہوا ہے اور بس.اور اس صورت میں ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ جہاں کہیں یہ لفظ استعمال ہو وہاں پر نفس اور نفس کا انقباض بھی ضرور ہونا چاہئے.بلکہ ان کی ضرورت خاص انسان ہی میں ہے نہ اوروں میں، اور یہ طریق اگر چہ مضر ہے.لیکن اہل لغت کو عموماً اس مجبوری سے اختیار کرنا پڑا ہے کہ کیفیات اور بعض صفات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو لوگ جانتے تو ہیں پر لفظ کے ساتھ وہ بیان نہیں ہوسکتیں.مثلاً رحمت ایک کیفیت کا نام ہے اور اس کیفیت کو عموماً لوگ جانتے ہیں لیکن الفاظ کے ساتھ اس کا بیان نہیں ہوسکتا.پس اس مجبوری سے انہوں نے بجائے ان کے معنے بیان کرنے کے ان کے حصول کا طریق بیان کر دیا ہے یا ان کے اور آثار و عوارض بیان کر دئے ہیں لیکن جو کیفیات وصفات مختلف اشیاء میں پائی جاتی ہیں.ان کے حصول کے طریق وغیرہ بھی جدا جدا ہوتے ہیں.اور استعمال اور زیادہ ضرورت جس کی وہ دیکھتے ہیں اسی کی بیان کر دیتے ہیں تو اس سے عوام الناس یہ خیال کر لیتے ہیں کہ یہ اس کے معنے ہیں جس سے غلطی میں پڑ جاتے ہیں.حالانکہ وہ اس کے معنے نہیں بلکہ اس کے حصول کا طریق وغیرہ ہے.اور وہ بھی کسی خاص شے میں نہ عام طور پر.مثلاً رحمت کی اصل حقیقت تو بیان ہو سکتی نہ تھی لہذا انہوں نے اس کے عوض اس کے حصول کا طریق بیان کر دیا.اور وہ بھی خاص انسان کی نسبت نہ عام طور پر اور وہ طریق یہ بتایا کہ رحمت رفت قلب کو کہتے ہیں اور اسی طرح غضب کی تفسیر میں کہہ دیا کہ انتقام کے لئے خون کے جوش مارنے کو کہتے ہیں.اس بحث کو میں نے اس لئے طول دیا ہے کہ ایسے الفاظ بہت کثرت کے ساتھ ہیں.جو مختلف اشیاء پر بولے جاتے ہیں یہاں تک کہ مخلوق اور خالق دونوں پر اطلاق پاتے ہیں.اور جوان کے معنے بتائے جاتے ہیں وہ بعض اشیاء میں تو ٹھیک پائے جاتے ہیں اور بعض میں نہیں پائے جاتے تو اس سے بڑے بڑے اعتراض اور بڑی بڑی بحثیں واقع ہوتی ہیں جن کا فیصلہ ہونے میں آتا ہی نہیں.تو میں نے مناسب سمجھا کہ ناظرین کی خدمت میں اس سارے نزاع کی اصلیت عرض کردوں تا کہ جہاں کہیں یہ مشکل پیش آئے تو وہ آسانی سے حل
۶۴۶ ہو جائے پس حق یہ ہے کہ حیاء ایک حالت کا نام ہے جس کو سب انسان بخوبی جانتے ہیں.اگر چہ اس کی حقیقت کو بیان نہیں کرتے.اور امام راغب نے جو اس کی انقباض النفس کے ساتھ تفسیر کی ہے یہ اس کے معنے نہیں بلکہ انسانوں میں اس کے معنے حاصل ہونے کا طریق بتایا ہے تو جو اصل معنے ہیں وہ جیسے انسان میں پائے جاتے تو ہیں ویسے ہی خدائے قدوس میں بھی پائے جاتے ہیں اور جو نہیں پائے جاتے وہ ان کے انسانوں میں حاصل ہونے کے طریق یا ان کے عوارض میں سے ہیں پس خداوند کریم کی طرف استحیاء کے نسبت کرنے میں نہ کوئی اعتراض ہے اور نہ تاویل کی ضرورت ہے.“ ٢ - يُبَنِي إِسْرَاءِ يُلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِى اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَإِنِّى فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ.(البقرہ ع۶) کے متعلق تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ یہاں پر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس نعمت کو ابھی بنی اسرائیل کو یاد دلایا تھا تو پھر عنقریب ہی دوبارہ اس کے یاد دلانے کی کیا وجہ ہے پس واضح ہو.تین طور پر اس کا ذکر ہو سکتا ہے یا ہونا چاہئے تھا...اول.اس بات کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ دیکھو اور یاد کرو کہ یہ عظیم الشان فضل تم پر اسی وجہ سے تو ہوا کہ تم خدا کے فرستادوں کے متبع تھے.لہذا خداوند کریم نے اس اتباع اور صادقوں کی معیت سے تم پر دینی اور روحانی فضل....اور دنیوی اور جسمانی فضل کیا تم خوب جانتے ہو کہ خداوند کریم نے تم سے یہ عہد کیا تھا کہ جب ایک وقت میں تمہاری ایمانی اور اخلاقی اور اعمالی حالت بہت خراب ہو جاوے گی تب یہ نبوت اسرائیلی گھرانے سے نکال کر تمہارے بھائی اسمعیل کے گھرانے میں رکھی جاوے گی تو جو بنی اسمعیل میں میرا برگزیدہ مبعوث ہو اس کی اگر تم اتباع کرو گے تو تم پر بڑے بڑے فضل میں کروں گا تو پہلی دفعہ ان کو یہ نعمت یاد دلا کر اس فضل و برکت کی ترغیب دی ہے جو کہ خداوند تعالیٰ کے فرستادہ کی اتباع اور معیت میں ان کو ملنے کا وعدہ تھا اور اس کے ملنے کی تصدیق ان کے گھر میں وہ نعمت تھی جو کہ خداوند کریم نے اس موقعہ پر ان کو یاد دلائی ہے.اور دوئم اس طور پر کہ جس طرح ان کو انبیاء کی اتباع سے یہ فضل...ملا تھا اسی طرح کچھ لوگ انبیاء کی مخالفت کے باعث بڑے عذابوں اور لعنتوں کے مورد بھی بنے تھے پس دوسری دفعہ اس انعام کو اور فضیلت کو اس وجہ سے ذکر فرمایا ہے تا کہ ان کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے کہ جب فرستادوں کی اتباع اور معیت سے سب کچھ ملا ہے تو پھر ان کی مخالفت سے یہ سب کچھ چھن بھی جاوے گا.اور اسی طرح تم مورد عذاب ٹھہر و گے کہ جس طرح فرعون وغیرہ ان کی مخالفت سے اس وقت مورد عذاب الیم بنے تھے وہ خوب جانتے تھے کہ یہ نعمت محض فضل کے طور پر ہمیں ملی تھی اور کہ فضل الہی لینے کے لئے ضروری ہے کہ خداوند تعالیٰ کے ساتھ معاملہ اچھا ہو.اور ہماری قوم کا معاملہ خداوند کریم سے ساتھ اچھا کیا بلکہ بہت بگڑا ہوا ہے اور اسی وجہ سے کئی
۶۴۷ صدیوں سے اس فضل کی دونوں شاخیں ہماری قوم سے چھن چکی ہیں.اور روز بروز ہم خدا سے دور ہوتے جاتے ہیں.اور اپنی حالت میں کوئی تبدیلی ہم ایسی نہیں پیدا کرتے جس سے اس فضل کے دوبارہ پانے کی پھر امید ہو سکے.لیکن تاہم وہ سید الرسل سے اسی وجہ سے مخالفت کرتے تھے کہ وہ اسرائیلی نہیں.اور ہونا بنی اسرائیل سے چاہئے.اور اپنے اس خیال کی تائید میں کہا کرتے تھے کہ حضرت یعقوب کی دعا ہے کہ ہمیشہ نبوت میرے ہی خاندان میں رہے تو ان کے اس خیال کی تردید کے لئے خداوند کریم اس نعمت کو بار ثالث یاد دلا کر یہ بتائے گا کہ حضرت یعقوب کے جد امجد ابوالحفاء ابراہیم نے بھی اس فضل کی نسبت خدا وند کریم سے دعا کی تھی کہ میری ذریت میں رہے تو جواب یہی ملا تھا کہ لَا يَنَالُ عَهْدِی الظَّلِمِینَ.۹۵ یعنی میں اس فضل کا عہد کرتا ہوں پر ظالم لوگ اس سے محروم رہیں گے.تین ہی محل پر پہلے ان کو ندا سے متوجہ کیا ہے اور پھر بنی اسرائیل سے ان کو یا دفرمایا ہے.جس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ تم تو خدا کے اس بہادر سپاہی کے بیٹے ہو جو کہ خدائے قدوس کے فضل کے حاصل کرنے اور کرانے میں اور عذاب اور قہر الہی سے بچنے اور بچانے میں اور دلائل اور نشانات کے بعد حق کے ماننے اور منوانے میں بڑی بہادری سے شیطان اور نفس اور قوم اور رسم وعادت کا مقابلہ کرنے والا اور وحدہ لاشریک کے سوا کسی دوسرے کا ہرگز ہرگز خوف اور ڈر نہ رکھتا تھا.پس جب اپنے سب معاملات میں اسرائیلیت کو مد نظر رکھتے ہو تی کہ سید الرسل کا انکار بھی اسی وجہ سے کر رہے ہو کہ وہ اسرائیل کے گھرانے سے نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ خدا کے فضل کے لینے اور اس کے عذاب شدید اور مہین سے بچنے میں اور باوجود روشن ترین دلائل اور نشانات پانے کے بعد حق کے مان لینے اور لوگوں کے خوف اور دنیا کے قلیل منافع کے رکنے کے خطرہ کی نہ پرواہ کرنے میں تم اسرائیل کے نقش قدم پر نہیں چلتے ہو.حالانکہ وہ انہی امور میں بہادری اور جوانمردی دکھانے کے باعث خداوند کریم کے دربار میں اسرائیل ( خدا کا بہادر سپاہی) کے نام سے پکارا گیا تھا.-2 وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِى نَفْسٌ شَيْئًا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَا عَةٌ وَّ لَا يُؤْخَذْ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَاهُمْ يُنصَرُون - (البقرہ ع۶) کی تفسیر میں آپ فرماتے ہیں.وَاتَّقُوا يَوما کی تفسیر میں سب مفسرین نے لکھا ہے کہ یوم یعنی دن سے بچنے کے کچھ معنے نہیں ہو سکتے.لہذا یہاں پر عذاب کا لفظ مقدر ماننا چاہئے.گویا اصل عبارت یوں ہے کہ وَاتَّقُوا عَذَابَ يَوْمِ لیکن یہ نہیں لکھا کہ پھر خدائے حکیم نے بجائے عَذَابَ يَوْم يَوْمًا کیوں فرمایا اصل بات یہ ہے کہ بعض مقام تو ایسے ہوتے ہیں کہ زبان عرب میں عام طور پر وہاں پر کوئی چیز مقدر ہوتی ہے ایسے کلام میں جو تقدیر ہوتی ہے وہ تو کلام
۶۴۸ عرب کے لحاظ سے ہوتی ہے.لیکن جو کلام ایسا نہ ہو وہاں پر اگر کوئی چیز مقدر معلوم ہو تو پھر وہاں پر ضرور غور کر لینا چاہئے کہ جب ایک چیز یہاں پر ذکر ہونی چاہئے تھی.پس وہ کیوں ذکر نہیں کی.اور اس کے ذکر کو کیوں ترک کیا گیا ہے.جو نکتہ اس کے متعلق میرے خیال میں آیا ہے.وہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم خدائے کریم کے غضب اور عذاب کا طریق اختیار کرتی ہے تو پہلے ایک عرصہ تک خداوند کریم معاف کرتا رہتا ہے جیسا کہ خدا وند کریم نے قرآن مجید میں بیان فرما دیا ہے کہ يَعْفُوا عَنْ كَثِير ( اور بہت معاف کرتارہتا ہے ) لیکن جب وہ قوم با وجود نصیحت سننے اور عبرتیں ملاحظہ کرنے کے پھر بھی باز نہیں آتی تو پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ اس دن اس پر فرد جرم خدائے رحیم کی طرف سے لگ جاتا ہے کہ فلاں دن یہ قوم فلاں عذاب کے ساتھ تباہ وغیرہ ہوگی.اور فرد جرم لگنے کے دن میں اور عذاب کے دن میں بھی اچھا وسیع زمانہ ہوتا ہے.اور جس طرح عذاب کے دن میں کسی رشوت اور بدلے اور سفارش وغیرہ سے وہ عذاب نہیں مل سکتا.اسی طرح جب فرد جرم لگ جاتا ہے تو پھر بھی سفارش وغیرہ اس عذاب ٹلا نہیں سکتی.اور شریر لوگوں میں سے بہت سے لوگ عموماً ایسے ہوتے ہیں کہ حق ان کو بخوبی معلوم ہو چکا ہوتا ہے.جیسا کہ فرعون اور اس کی قوم کی نسبت قرآن مجید میں آیا ہے.وَ جَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنتَهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوا - ۹۶ (انہوں نے انکار کیا ظلم اور تکبر کے لئے حالانکہ ان کے دل ان پر یقین رکھتے تھے یا انہی بنی اسرائیل کے لئے آیا ہے.يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاء هُمْ - ۹۷ ( یہ اس کو اپنے بیٹوں کی طرح جانتے ہیں) لیکن باوجود اس کے پھر بھی حق کو فور التسلیم نہیں کرتے اور اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں کہ زبان سے خواہ کچھ ہی کیوں نہ کہیں پر دل میں عذاب کا ڈر ہوتا اور حق کی تسلیم کا خیال بھی پیدا ہوتا ہے.لیکن قومی اور دنیوی موانع پر نظر کر کے رک جاتے ہیں اور تاریخیں ڈالتے ہیں کہ فلاں شخص مر جائے یامان جائے یا فلاں امر ہو جائے تو مان لیں گے اور ابھی ان کی تاریخیں ختم نہیں ہوتیں کہ فرد جرم لگنے کا دن آ جاتا ہے.اور ابھی ان کی تاریخوں کا دائرہ وسیع ہی ہوتا ہے کہ عذاب کا دن آجاتا ہے.اور تباہ ہوتے ہوئے امَنتُ وغیرہ کہتے ہیں پر آلانَ وَقَدْ عَصَيْتَ مِنْ قَبْل - ) کیا تو اب ایمان لاتا ہے اور پہلے نافرمان بنارہا) ہی کا جواب سننا پڑتا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ یہاں پر دو دن ہیں.اول فرد جرم کا دن جس میں یہ امور کام نہ دیں گے اور جس طرح پہلے ہی دن سے یہ امور کام نہیں آسکتے اسی طرح پہلے ہی دن سے توبہ کا دروازہ ایسا ہی بند ہو جاتا ہے.جیسا کہ عذاب کے دن بند ہوتا ہے.جیسا کہ قرآن مجید میں صاف طور پر آیا ہے کہ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَى أَكْثَرِهِمْ فَهُمُ لا يُؤْمِنُون - ۹۸ بے شک اکثروں پر فرد جرم لگ گیا ہے لہذا وہ ایمان نہ لاویں گے.اِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَ تُهُمُ كَلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَاب الأليم - 99 ) بے شک جن پر فرد جرم لگ چکا وہ ایمان نہ لاویں گے.اگر چہ وہ ایک نشان
۶۴۹ بھی دیکھ لیویں یہاں تک کہ عذاب الیم کو مشاہدہ کر لیویں ) ہاں ایک تو اس قاعدہ سے خداوند کریم نے یونس کی قوم کو مستثنیٰ کیا ہے.دوسرا یہ فرق ہے کہ پہلے دن کے بعد تو کوئی ایمان لاتا نہیں پر قوم یونس کی طرح اگر کوئی ایمان لے آئے تو وہ قبول ہو سکتا ہے.اور دوسرے دن ایمان تو عموماً لاتے ہیں پر اس دن ایمان ہرگز قبول نہیں ہوتا.جیسا کہ ان دونوں باتوں کو مذکورہ بالا آخری آیت کے بعد سورۃ یونس میں خداوند تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے.کہ فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيْمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ ۱۰۰ (پس کیوں کوئی ایسی بستی نہ ہوئی جو ایمان لاتی ( فرد جرم کے بعد ) پھر اس کو ایمان نفع بھی دیتا بجز یونس کی قوم کے ) پس وَاتَّقُوا يَوْمًا کو وَاتَّقُوا عَذَابَ يَوْم اس لئے اختیار فرمایا ہے کہ اگر عذاب یوم فرما تا تو خاص عذاب سے بچنا مفہوم ہوتا اور ان کی تاریخ بازی کی گنجائش رہتی لیکن جب وَاتَّقُوا يَوْمًا فرمایا تو دونوں دنوں کو شامل ہو گیا.گویا ان کو یہ فرمایا کہ عذاب کے دن سے بچو جس کے بعد بھی یہ امور ہر گز کام نہ آئیں گے.پس جہان تک ہو سکے ان شرارتوں کے چھوڑنے اور حق کو تسلیم میں جلدی کرو تا کہ ایسا نہ ہو کہ فرد جرم لگ جائے اور پھر توبہ کی تو فیق چھن جائے.“ وَإِذْ وَا عَدْنَا مُوسَى اَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذُ تُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَانْتُمْ ظَلِمُونَ - (البقرہ ع۶) کی تفسیر میں آپ لکھتے ہیں.دو واعدنا مواعدة سے ہے اور مواعدہ، وعدہ سے ہے جس کے معنے وعدہ کرنے کے ہیں اور مواعدہ کے معنے اصل میں ہیں ایک دوسرے سے بالمقابل وعدہ کرنے کے.پس اس کے مطابق واعدنا موسیٰ کے معنے ہونے چاہئے ہم نے موسیٰ سے اور موسیٰ نے ہم سے وعدہ کیا پر مفسرین کو چونکہ یہاں پر خداوند کریم کا ہی وعدہ معلوم ہوا اور حضرت موسیٰ کی طرف سے کوئی وعدہ معلوم نہ ہوا.لہذا ان کو اس کا اصل معنوں میں استعمال کرنا مشکل معلوم ہوا.پس بعض نے تو کہا کہ واعدنا یہاں پر بمعنے وعدنا ہے یعنی ایک ہی طرف سے وعدہ کرنے پر دلالت کرتا ہے.اور بعض نے کہا کہ یہ ہے تو اصلی معنوں میں یعنی دونوں طرف سے ہونے پر دلالت کرتا ہے.لیکن بمعنے وعدہ نہیں کہ دونوں طرف سے یہاں پر نہ ہو سکے.بلکہ بمعنے ملاقات ہے جو کہ ضرور ہی دونوں طرف سے ہوا کرتی ہے جیسا کہ موعدک میں یہ معنے اکثر لئے جاتے ہیں.پس اس صورت میں واعدنا کے معنے ہوں گے کہ ہم نے موسیٰ اور اس نے ہم سے ملاقات کی یا مقرر کی.اور بعض نے کہا کہ جس طرح ایسے لفظ کے یہ اصل معنے ہیں کہ دونوں طرف سے فعل ہو.اسی طرح یہ بھی اصل معنے ہیں کہ ایک طرف سے فعل ہو اور دوسری طرف سے اس کا قبول کرنا ہو.جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عالجت المريض ( میں نے مریض کا علاج کیا اور اس نے اس کو قبول کیا.اور اس سے متاثر ہوا تو اس صورت میں یہاں پر یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے موسیٰ سے وعدہ کیا اور اس نے اس کو قبول کیا.لیکن جہاں تک میں نے سوچا ہے.اول تو قبول وعدہ عموماً فریق ثانی
سے ایک وعدہ ہوتا ہے.بخلاف علاج کے کہ اس کا قبول کرنا علاج نہیں ہوسکتا تو جب قبول وعدہ بھی عمو م وعدہ ہے تو پھر طرفین سے وعدہ کیوں نہ کیا جائے.دوم جہاں تک میں نے سوچا ہے یہاں پر طرفین سے وعدہ ہو جاتا ہے.گو ایک طرف سے اصل مقصود اور صریح ہو.اور دوسری طرف سے ایسا نہ ہو پر ہے ضرور اس لئے کہ جب خدا وند تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو وعدہ دیا کہ جب تم چالیس راتیں پہاڑ پر آکے رہو گے تب ہم تم کو کتاب دیں گے.اور حضرت موسیٰ“ نے اس کو قبول کیا تو گویا بالفاظ دیگر آپ نے یہ وعدہ کیا کہ پہاڑ پر آکر چالیس راتیں گزار دوں گا.پس جب طرفین سے وعدہ ہو سکا.یا ہو گیا تو اب کسی تاویل اور تکلف کی ضرورت نہیں.مفسرین نے اَرْبَعِينَ لَيْلَةً و وَاعَدْنَا کا مفعول بہ بنایا ہے.جس پر یہ معنے کہ ہم نے موسیٰ کو چالیس راتوں کا وعدہ دیا اور چونکہ چالیس راتوں کا وعدہ کرنا درست نہ ہو سکتا تھا لہذا کہا کہ اس کے پہلے لفظ عــطـاء مقدر ہے جو کہ اس کی طرف مضاف ہے یعنی ہم نے موسیٰ کو چالیس راتوں کے دینے کا وعدہ کیا.اور پھر راتوں کا دینا چونکہ کچھ معنے نہ رکھتا تھا لہذا ابتایا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے موسیٰ سے اس اعطاء اور بخشش کا وعدہ کیا جو کہ چالیس راتوں والی یعنی ان کے گزرنے پر مانی تھی.اور بعض نے یہ تقدیر نکالی کہ أَمْرًا كائنا في أَرْبَعِينَ لیلة یعنی ہم نے موسیٰ کو ایسے امر کا وعدہ دیا جو کہ چالیس راتوں میں ہونے والا تھا اور بعض نے مواعدہ اربعین نکالی یعنی ہم نے موسیٰ سے وعدہ کیا وہ وعدہ کرنا جو کہ چالیس راتوں میں ہونے والا تھا پر اصل بات یہ ہے کہ یہ سب تقدیر میں واقعہ کے خلاف اور طبیعت کے نا ملائم ہیں.اصل واقعہ تو اسی قدر ہے جس میں بالکل خلاف نہیں کہ خداوند کریم نے حضرت موسی کو یہ فرمایا تھا کہ اگر تو پہاڑ پر آکر چالیس راتیں رہے تو میں تجھے شریعت کی لوحیں دے دوں گا.اور حضرت موسیٰ نے کہا کہ میں آکر رہوں گا.الفاظ اور ترکیب الفاظ خواہ کچھ ہوں پر اصل مطلب یہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خداوند نے شریعت کی لوحیں دینے کا وعدہ فرمایا تھا لیکن مطلق نہیں بلکہ اس شرط پر کہ موسی" پہاڑ پر چالیس راتیں رہیں جیسا کہ ہم آگے بتائیں گے اور حضرت موسیٰ نے اس شرط کو منظور کرلیا تھا.جو بلفظ دیگر ان کی طرف سے یہ وعدہ تھا کہ میں اس قدر را تیں وہاں آکر رہوں گا تو واقعہ کے لحاظ سے چالیس راتیں خداوند کریم کے وعدہ کی شرط ہے.اور حضرت موسیٰ کی نسبت وہ چیز ہیں جس کا انہوں نے وعدہ کیا ہے.اور چونکہ خداوند کریم یہاں صراحتاً اپنا وعدہ ذکر فرماتا ہے لہذا اس کلام میں اربعین لیلہ وعدہ خداوندی کی شرط ہی قرار دینا چاہئے نہ وہ چیز کہ جس کا خداوند کریم نے وعدہ دیا تھا.پس بجائے اور تقدیر اور تاویلوں کے یہ ترجمہ ٹھیک ہے کہ جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں پر کچھ وعدہ کیا اور جس چیز کا (کتاب کا ) وعدہ کیا تھا اس کو ذکر نہ کر کے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہاں پر کتاب کے دینے یا اس کے وعدے کا انعام بیان کرنا نظر نہیں کیونکہ وہ آگے آتا ہے بلکہ یہاں پر تو اصل مقصد ان کی گوسالہ پرستی کا ذکر
۶۵۱ ہے اور اس وعدہ کا ذکر محض اس بات کے ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ باوجود موسی" کی اس قدرلمبی صحبت کثرت مواعیظ توحید اور مذمت شرکت کے اور پھر کثرت کے ساتھ ایسے نشانات دیکھنے کہ (جو کہ معرفت الہیہ کے چشمے تھے اور موسیٰ کی صداقت اور منجانب اللہ ہونے کے لئے مصفاء ترین آئینہ تھے ) پھر بھی موسی“ اپنے صادق الوعد رب کے ایک وعدہ کی بناء پر جب چند مقر ر اور معین ایام ( چالیس دن ) کے لئے تم سے علیحدہ ہوا تو تم سے گوساله پرستی جیسا گنده جرم سرزد ہوا.اور اگر کتاب کا یہاں پر ذکر ہوتا.جس کا وعدہ کیا تھا تو ضرور انعام ہی کا خیال آتا اور اصل مقصد فوت ہو جاتا.مفسرین نے لکھا ہے کہ خداوند کریم نے یوم پریل کو کیوں اختیار فرمایا ہے حالانکہ جیسا رات میں وہاں پر رہنا تھا ایسا ہی دن میں بھی وہاں پر ہی رہنا تھا.اور لیل کا لفظ تو دن کو شامل نہیں پر یوم کا لفظ رات کو بھی شامل ہو سکتا ہے.کیونکہ یوم جیسا اس دن پر بولا جاتا ہے جو کہ رات کے مقابل ہے ایسا ہی اس دن پر بھی بولا جاتا ہے جو رات اور دن کا مجموعہ ہے.پس بعض نے تو کہا کہ عربی مہینے قمری ہونے کی وجہ سے چونکہ رات سے شروع ہوتے تھے.اس لئے معیادوں کی ابتداء راتوں سے ہوتی تھی.بعض نے کہا کہ ظلمت چونکہ نور پر مقدم ہے لہذا رات دن پر مقدم ہے.جیساواية لهم اللیل میں رات کو پہلے ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے.بعض نے کہا ہے کہ لیل فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ روزوں میں وصال کرنا تھا.یعنی رات کے وقت بھی روزہ ہی رکھا جاتا تھا.اور بعض نے کہا کہ اس میں قیام لیل کی طرف اشارہ تھا.یہ وہ وجوہات ہیں جو مفسرین نے لکھے ہیں.لیکن میرے خیال میں نہیں آسکتا کہ عقل مند انسان کو تسلی تو کیا اپنی طرف متوجہ بھی کر سکتی ہوں.پہلی دوو جھوں کی صحت کا پتہ تو اس سے لگ سکتا ہے کہ ان کا درست ہونا اس امر کو ستلزم ہے کہ زبان عرب میں کوئی میقات و میعاد دن سے نہ ہو.بلکہ رات سے ہو.حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں کہیں رات اور دن دونوں ہوتے ہیں وہاں پر میعاد بیان کرتے ہوئے عموماً یوم ہی بولا جاتا ہے.اور تیسری چوتھی وجہ کا پتہ اس سے لگ جاتا ہے کہ لیل سے یا پہاڑ پر لیل گزارنے سے نہ صوم یا وصال صوم کی طرف انتقال ذہن ہوتا ہے.اور نہ اس کے ساتھ قیام لیل ہی لازم ہے کہ اس سے وہ مفہوم ہو.بات تو بالکل ظاہر تھی معلوم نہیں کہ اس قدر دور جانے کی کیا ضرورت پیش آئی اور وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پہاڑ پراکثر جایا کرتے تھے.جیسا کہ توریت سے ثابت ہے پر یہی معمول تھا کہ دن کو گئے اور رات کو اپنے ڈیرے پر واپس آگئے.ایسا نہ ہوتا تھا کہ رات بھی وہیں کاٹیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ پہاڑ پر مسافر کے لئے رات گزارنی بھی مشکل ہوتی ہے.اور خداوند تعالیٰ کا ایک تو یہ کلام ہے جس میں بنی اسرائیل کو اس وعدہ کی خبر دیتا ہے دوم وہ کلام تھا جو کہ حضرت موسیٰ سے وعدہ کرتے ہوئے بولا تھا.اس بات کا تو ہم کو علم نہیں کہ حضرت موسیٰ سے کیا کلام بولا تھا پر اگر اس میں بھی لیل کا ہی ذکر ہوا ہو.پس اس کی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ
۶۵۲ خداوند کریم نے موسیٰ پر ظاہر کیا کہ کتاب لینے کے لئے بڑی تکلیف اٹھانی پڑے گی جو کہ نہایت ہی دشوار ہے.اور وہ پہاڑ پر چالیس راتیں رہنا.الغرض اس وقت تو محض شرط وعدہ کے مشکلات کے اظہار کے لئے تھا اور جو بنی اسرائیل کو وہ واقعہ یاد دلانے کے وقت قرآن مجید میں لایا گیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ لیل فرما کر خداوند کریم اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ موسیٰ پہلے اگر دن کو تم سے جدا ہوتا تھا تو رات کو ضرور تم میں واپس آجاتا تھا.اور اس کے وعظ ونصیحت اور دعاؤں سے تم ثابت رہتے تھے لیکن جو نہی تھوڑے عرصہ کے لئے رات کے وقت تم سے جدا کیا تو معا تم اس شرک میں جا پڑے.جس سے بچانے کے لئے بہت سے انبیاء تمہارے خاندان میں آئے اور اس سے بچنے کی وصیت کرتے رہے.اور موسیٰ“ بھی عرصہ دراز تک کوشش کرتا رہا.ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ.ثُمَّ لایا گیا ہے جو دیر اور ڈھیل پر دلالت کرتا ہے.حالانکہ یہاں پر یہ معنے ٹھیک نہیں بن سکتے کہ اس وعدہ کے بعد بہت دیر کر کے پھر انہوں نے بچھڑا بنایا.پس واضح ہو کہ قسم بعض وقت مرتبہ کی دوری کے لئے بھی آتا ہے.اور یہاں پر بھی یہی مراد ہے.پس اس کے ساتھ ان کو اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ دیکھو موسیٰ کے اس قدر لمبا عرصہ تمہارے ساتھ رہنے اور کوشش کرنے اور پھر اس قدر نشانات دیکھنے اور اپنی نجات اور دشمن کی ہلاکت ملاحظہ کرنے اور پھر موسیٰ" کی چالیس روز غیبت میں تمہارے بچھڑا بنا لینے میں کس قدر بعد اور دوری ہے اور یہ کہ دیکھو کہ کس قدر خلاف اور دور از امیدا مرتم سے ظاہر ہوا ہے کہ موسیٰ تو یہ امید کر کے کہ اب میری قوم شریعت پر استقامت دکھانے کے قابل ہو گئی ہے ( جو کہ بہت سے اوامر ونواہی کا مجموعہ ہوتی ہے ) ایک بڑی مشکل شرط منظور کر کے کتاب لینے جاتا ہے.اور تم اس کے جانے کے بعد اس ایک حکم کی بھی خلاف ورزی اختیار کر لیتے ہو جس کی پابندی کی تاکید نسل به نسل تمہارے مسلمہ انبیاء سے تم تک پہنچتی تھی.اور جس کی پابندی کی آج کے دن تک موسیٰ کوشش کرتا رہا.“ سلوی ٩ - وَأَنْزَلَنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ والسَّلُوی.(البقرہ ع۶) میں سلوی کی تفسیر میں حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں.و سلویٰ کی نسبت ہمارے مفسروں نے تو لکھا ہے کہ وہ آسمان سے آتے تھے اور بعض نے لکھا ہے کہ وہ پکے ہوئے آتے تھے.لیکن محققین اور تورات دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ہوا اٹھتی تھی اور بٹیریں ان کے پڑاؤ کے گرد جمع کر دیتی تھی.تب وہ ان کو پکڑ لیتے تھے.بعض لوگ ایسے واقعات کو بعید خیال کر کے انکار کی راہ اختیار کرتے ہیں.لیکن ہمیں تو اب تک انکار کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوئی.کیونکہ جب خداوند تعالیٰ کی قدرت
۶۵۳.کو دیکھتے ہیں تو وہ اس سے بھی لاکھوں کوس آگے نظر آتی ہے.پھر انبیاء کے ساتھ جو خداوند تعالیٰ کا معاملہ ہوتا ہے وہ اس کی نسبت نرالا اور بالا ہوتا ہے جو کہ عامتہ الناس سے رکھتا ہے.مثلاً ایک سے کلام کرتا ہے.دوسرے سے نہیں کرتا.ایک کو اپنے بعض غیوں پر اطلاع بخشتا ہے.اور دوسرے کو نہیں بخشا.ایک سے مادی نظر سے بالا نصرت شامل کرتا ہے.اور دوسرے کو ایسی نصرت نہیں دیتا.پھر شخصی اضطرار رب العالمین کے فیض کو کھینچ لاتا ہے تو جب بڑی بھاری قوم اضطرار میں ہو.اور قوم بھی وہ جس میں خدا کا کلیم اور مستجاب الدعوات موجود ہو.اس کا اضطرار اگر رب العالمین کے فیض کو جذب کرے اور باہمحتاج کے لئے وہ کوئی خاص چیز پیدا کر دے یا بھیج دے تو اس میں کیا تعجب ہے.پنجاب کے عام لوگوں سے میں نے سنا ہے کہ وہ کسی مشہور قحط کی نسبت سناتے ہیں کہ اس میں ایک خاص بوٹی کثرت کے ساتھ پیدا ہوگئی تھی.جس کو لوگ کھایا کرتے تھے.پھر مسافروں اور سیاحوں سے اکثر ایسی خدا کی عجیب دستگیریوں کی مثالیں سننے اور پڑھنے میں آتی ہیں.اور پھر مثل مشہور ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کیونکہ اضطرار سے ایک طرف خدا کا فیض جوش میں آتا ہے جو کہ حقیقی موجد ہے.اور دوسری طرف انسان کچی سعی بھی کرتا ہے.جو کامیابی کا ذریعہ ہے.پس بعد میں اگر وہ جاری رہی تو تعجب انگیز نہیں ہوتی.اور اگر بعد میں اس کا اجرا نہ ہوا تو باعث تعجب ہو جاتی ہے.مثلاً جن لوگوں نے اضطرار کی حالت کے وقت بیابان میں ایک ایسی جڑھ پائی جو کہ مدت دراز تک ان کے لئے روٹی کا کام دیتی رہی.جب وہ آبادی میں آئے تو کاشت کے لئے اس کو ساتھ لائے اور اس کو ترقی دی یہاں تک کہ وہ عام ہو گئی.جس کو آلو کہتے ہیں تو اب یہ امر کچھ تعجب انگیز نہیں کہ فلاں فوج نے جنگل میں آلو پائے اور مدت تک کھائے.لیکن اگر وہ ساتھ نہ لاتے اور ان کی کاشت کا رواج نہ ہوتا تو اب اگر یوں ذکر کیا جاتا کہ فلاں فوج نے فلاں جنگل میں ایسی تنگی کے وقت میں جبکہ خوراک کے نہ ملنے سے قریب تھا کہ وہ ہلاک ہو جائے.ایک جڑھ پائی جو کہ انڈے کی سی شکل اور لذت رکھتی تھی.اور ایسی تھی ویسی تھی.ایسا ہوا ویسا ہوا تو بنی اسرائیل کے من سلوی سے یہ کچھ کم تعجب خیز نہ ہوتا اور پرندوں کا ساحلوں اور ریگستانوں میں ہوا سے جمع ہونا اور ان کا بے طاقت سا ہو جانا یہ تو ایک معمولی بات ہے.“ ١٠ وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدَاوَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُوْلُوْا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطيكُمْ وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِينَ ( البقرہ ع۶) کی تفسیر میں آپ فرماتے ہیں.عبداللہ بن عباس ، عبد اللہ بن مسعود، قتادہ، سدی، ربیع و غیر هم سے مروی ہے کہ اس قریہ سے بیت المقدس مراد ہے اور یہ مشہور ہے.اس صورت میں یہ بات مشکل فیصلہ ہوسکتی ہے کہ یہ امر اور وہ امر جو کہ یا قوم ادخلوا الارض المقدسة.میں مذکور ہے کہ ایک ہی ہیں یا جدا جدا ہیں اکثروں نے تو جدا ہی قرار دئے ہیں
۶۵۴ اور کہا ہے کہ یہ یتیھون کے بعد ہوا تھا.حضرت موسیٰ کے زمانہ میں یا یوشع بن نون کے عہد میں اور و دیتیھون کے وعید سے بھی پہلے ہوا تھا.اور یہ کہ محض اباحت کے لئے ہے وجوب کے لئے نہیں.جیسا کہ کلوا کا ساتھ ملا نا بتاتا ہے اور وہ وجوب کے لئے تھا جیسا کہ لاترتدوا کا ملانا دلالت کرتا ہے.اور بعض نے کہا کہ دونوں امر ایک ہی ہیں.اور تبدیل سے مراد فقط نہ ماننا ہے.اور دونوں وجوب کے لئے ہیں.لیکن میں کہتا ہوں یہ سب مشکل تو اسی وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے ایک ہی محل کے دخول کا حکم دونوں سے سمجھا.پر اصل بات یہ ہے کہ ارض مقدسہ عام اور بیت المقدس خاص ہے.پس یہ امر تو خاص میں داخل ہونے کے لئے ہے اور وہ عام ارض مقدس میں داخل ہونا لازم کرتا ہے.اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے اریحا مراد ہے جس کو بائیل میں بریکو کہا گیا ہے جو کہ حضرت موسیٰ کے بعد یوشع بن نون نے پہلے پہل فتح کی تھی.اور مولانا حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ اسیح علیہما السلام نے فرمایا ہے کہ ھذہ کے ساتھ اشارہ کرنے اور مخاطبوں کو ملزم ٹھہرانے سے میرے خیال میں یہ آتا ہے کہ اس سے مدینہ منورہ مراد ہے.اصل بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو بائیل سے اور پہلے انبیاء کی زبانی روایتوں سے نبی کریم کی بعثت کا بخوبی علم تھا.اور یہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ آپ بنی اسمعیل سے معبوث ہوں گے.اور یہ بھی کہ ان بنی اسمعیل سے جو کہ مکہ میں رہتے ہیں اور یہ بھی کہ پھر آپ ہجرت فرما کر مدینہ کو منور فرمائیں گے.اور پھر ان دینی اور دنیوی ترقیات کی بشارات کو بھی جانتے تھے جو کہ حضور کے اصحاب کی نسبت تھیں تو موعود انبیاء کی نسبت مقرر نہ ہونے کے باعث ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ بشارت کے کچھ عرصہ بعد ہر ایک زمانہ میں لوگ ان کی آمد کے امیدوار ہی رہتے ہیں اسی طرح حضور کی آمد کا جب کچھ بنی اسرائیل کو خیال پیدا ہوا تو وہ اپنے وطنوں کو چھوڑ کر مدینہ منورہ اور اس کے قرب وجوار میں آگئے تھے تو ان کو حکم ہوا تھا کہ وہاں پر جاتے ہو تو پھر سنبھل کر رہنا لیکن انہوں نے اس حکم کا کچھ پاس نہ کیا.” میں نے اس بات کا پتہ لگانے کے لئے سفرات بنی اسرائیل کو پڑھا کسی خاص نسبت اور نہ کسی خاص دروازہ کی نسبت کوئی تصریح پائی پھر قرآن مجید پر نظر کی تو کہیں اس کے متعلق کوئی تسلی بخش قرینہ نہ پایا.ہاں بعض باتیں جو مجھے معلوم ہوتی ہیں.وہ کہ دیتا ہوں.اول جہاں کہیں اس بات کا ذکر آیا ہے.وہاں ضرور هذه القرية ہی آیا ہے جو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جن کو داخل ہونے کا حکم دیا تھا وہ بستی ان کے نزدیک تھی.اور وہ اس کو جانتے تھے.دوم جہاں کہیں اس کا ذکر ہے اس کے پہلے من اور سلوٹی کا بھی ذکر ہے جس سے کم از کم یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس کو اس سے کچھ تعلق ضرور ہے.سوم جہاں کہیں اس کا ذکر ہے وہاں پر دخول اور سکونت کے بعد کـلـوامـنـهـا حيث شئتم کا بھی ذکر ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ من اور سلویٰ کھاتے تھے.اور اس کی نسبت ان کو شکایت ہوئی ہے تو خداوند کریم کسی بستی میں ان کو داخل کر کے حسب منشاء
ان کو کھانا دینا چاہتا ہے.جیسا کہ صراحتاً بھی اس کا ذکر آگے آئے گا.جہاں فرمایا ہے وَإِذْ قُلْتُمْ يَمُوسَى لَنْ نَّصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَّاحِدٍ.اور جواب ملا کہ اهبطوا مصرًا فان لكم ما سألتم چہارم یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کو کچھ حکم دیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تم کو زیادہ ملے گا اور نہ تو سزا ہوگی.لیکن انہوں نے خلاف ہی کیا.پنجم یہ کہ خلاف ورزی پر جو سز املی اور رجز یعنی وہاتھی جس سے ظالم تباہ ہوئے.ان امور کو ایک طرف ملحوظ رکھ کر پھر ہم تو رات کے بیان کردہ واقعات پر نظر رکھتے ہیں تو وہاں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو من اور سلویٰ ابتدائے سفر میں ملنے لگے.لیکن ذخیرہ کرنے سے ان میں و با پڑی اور سلوٹی بند ہو گیا.اور من حضرت ہارون اور موسیٰ کے بعد یوشع کے عہد میں بھی اریحا کے فتح ہونے تک (جو کہ بیرون دریا کے پار پہلا شہر ملا تھا اور یوشع نے بھی پہلے یہی فتح کیا تھا ) ملتا رہا ہے.اور اس کی فتح سے بند ہوا.اور اس اثنا میں بہت دفعہ انہوں نے من کے کھانے سے نفرت اور گھبراہٹ کا اظہار کیا تھا لیکن بجز اس کے اور کیا جواب ہوسکتا تھا کہ بیابان میں تو ہماری مطلوبہ اشیاء مہیا نہیں ہوسکتیں.پس اگر وہ اشیاء مطلوب ہیں تو پھر دشمن سے لڑو اور اس ملک کو فتح کرو جو کہ خدا نے تمہیں عنایت کیا ہے.یوشع سے پہلے اور حضرت ہاورن کے بعد حضرت موسیٰ نے بھی بیرون دریا کے ورلی طرف کچھ فتوحات کی تھیں جن کے نام کتاب گنتی کے مطابق یہ ہیں.(۱) سب سے پہلے عراد کنعانی کو قتل کر کے اس کا ملک فتح کیا.جس کا پایہ تخت دکن کے اطراف میں تھا.(۲) اس کے بعد نہر ارنوں کے پارا موریوں کے بادشاہ سیمون کو قتل کر کے اس کے سب علاقوں پر اسرائیل قابض ہوا.جس کا پایہ تخت جسون شہر تھا.(۳) اس کے بعد بسن کے بادشاہ عوج کو قتل کر کے اس کے سارے ملک کو فتح کیا.(۴) اس کے بعد دریان کے پانچ بادشاہوں کو قتل کر کے ان کا ملک فتح کیا.یہ ہیں حضرت موسیٰ کی فتوحات.عراد کنعانی کے ساتھ جنگ سے پہلے متصل یہ لکھا ہے کہ پھر خداوند نے موسیٰ اور ہارون کو کہا.اس لئے کہ تم مجھ پر اعتقاد نہ لائے تا کہ بنی اسرائیل کے حضور میری تقدیں کرتے.سو تم اس جماعت کو اس زمین میں جو میں نے انہیں دی ہے نہ لاؤ گے تب موسیٰ نے قادس سے اودم کے بادشاہ کو پیچی کے ہاتھ یوں کہلا بھیجا اور عراد کنعانی کی فتح کا بیان باب ۲۱ کی ابتدائی آیتوں میں ہے اور اس کے بعد آیت ۵، ۶ میں لکھا ہے اور لوگوں نے خدا اور موسیٰ سے بگڑ کے یوں کہا کہ تم کیوں ہم کو مصر سے نکال لائے کہ ہم بیابان میں مریں.یہاں تو نہ روٹی ہے نہ پانی ہمارے جی کو اس ہلکی روٹی سے کراہیت آتی ہے تب خداوند نے ان لوگوں میں جلانے والے سانپ بھیجے.انہوں نے لوگوں کو کاٹا اور بہت سے بنی اسرائیل مرمٹے.اس کے بعد پھر سیمون بادشاہ اور عوج پر جب فتح پائی تو اس کے بعد لکھا ہے کہ بلق بن صفور بادشاہ نے بلعام بن عور کو بلا کر بنی اسرائیل کے لئے بددعا کرانے کی کوشش کی اور پھر انجام یہ ہوا کہ اسرائیلیوں نے حوابیوں کی بیٹیوں سے حرام کاری
شروع کی.اور ان کے بتوں کی قربانیوں کی دعوتوں میں شریک ہوئے اور ان کے معبودوں کو سجدہ کیا.اور لعل فعور کو ملے.تب خداوند کا قہر بنی اسرائیل پر بھڑ کا اور وبا نازل کی اور موسیٰ نے بنی اسرائیل کے حاکموں کو حکم دیا کہ تم میں سے ہر ایک اپنے ان لوگوں کو قتل کرے جو لعل فعور کو ملے.اوروبا میں چوبیس ہزار مرے.اس کے بعد خداوند نے بنی اسرائیل کی مردم شماری کا حکم دیا اور وہ ہیں سال سے اوپر شمار کئے گئے.اور جو لوگ مصر سے نکل کر دشت سینا میں دوسرے سال کے دوسرے مہینہ کی پہلی تاریخوں میں شمار کئے گئے تھے.ان میں سے سوائے یوشع بن نون اور کالب لغینہ کے ایک بھی شمار میں نہیں آیا.کیونکہ وہ خدا کے فرمانے کے مطابق سب مر چکے تھے.اس بیان سے اس قدر ثابت ہوا کہ سیمون اور عوج کے شہروں کے لینے سے پہلے تو بنی اسرائیل نے جن کی روٹیوں سے کراہیت کا اظہار کر کے خداوند اور موسیٰ کا مقابلہ کیا تھا.اور ان کے فتح کرنے اور ان پر قابض ہونے کے بعد انہوں نے خداوند کی سخت حکم عدولی کی اور بجائے شکر کے سخت کفر کیا.تب خداوند نے ان پر وہ رجز نازل کیا جو کہ پہلے کبھی ایسا نازل نہ ہوا تھا.جس سے وہ سب نا فرمان جماعت تباہ ہو کر ختم ہوگئی اور اس کے بعد جس قد رفتوحات ہوئیں وہ ان کی ذریت نے کی تھیں.پس قرآن مجید سے ثابت شدہ قرائن اور توریت کے بیان کردہ واقعات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیمون یا عوج کا شہر مراد ہے توریت کے پڑھنے سے پتہ لگتا ہے کہ قریباً ہر ایک سفر پر ان کو بار بار تاکید سے کہا جاتا تھا کہ اگر تم میری شریعت اور میرے حکموں کی فرمانبرداری کرو گے تو میں تم پر بڑے بڑے فضل کروں گا.لیکن اگر تم میری نا فرمائی کرو گے تو پھر میں تم کو سخت سزا دوں گا.پھر یہ بھی ثابت ہے کہ ایک طرف تو خدا نے وہ ملک ان کو دینے کا وعدہ کیا ہوا تھا دوسری طرف مصر سے نکلتے ہوئے لوگوں سے جو بیس سال سے اوپر تھے ان سب کو بیابان میں ہی ہلاک کرنا تھا.اور جس طرح حضرت آدم کو بہت سے احکام کے پابند کرنے سے پہلے ایک معمولی سا حکم دے کر خلاف ورزی کی عبرتناک نظیر پیش کر دی تھی.اسی طرح خداوند کریم ہمیشہ کیا کرتا ہے.پس ان سب امور پر نظر کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فاتح اولاد کے لئے ہلاک ہونے والے باپ دادوں سے ایک نظیر قائم کرنے کے لئے خداوند کریم نے ہلاک ہونے والوں کو تھوڑ اسا ملک دے کر اپنے احکام کی خلاف ورزی سے سخت ڈرایا اور پیروی کرنے پر انعام کا وعدہ دیا اور ہلاک ہونے والوں نے حکم عدولی کی تو ان کو اپنے وعدہ کے مطابق ہلاک کر کے ان کی مشاہدہ کرنے والی ذریت کی آنکھوں کے سامنے بڑی بھاری عبرتناک نظیر کھڑی کر دی تا کہ وہ کم از کم ایک دفعہ اس ملک کو فتح کر کے خدا کے وعدہ کو پورا کر دیں.اور هذه القرية اور الباب فرما کر یہ بتایا کہ اس تھوڑی اور حقیر چیز پر بھی جب تم شکر گزار اور فرمانبردار ہو گے تو ہم اس میں بڑی برکت ڈالیں گے کہ اول تو یہی کافی سے زائد ہو جائے گا.اور پھر ہم اس سے زائد بھی دیں گے.اور اس حقیر و ذلیل چیز پر بھی تم تکبر وسرکش اور شہوت پرست
و بدمست اور روگردان و زود مست ہو گئے تو پھر تم اس موعود ملک کے قابض کیسے بنو گے جو کہ بڑا عظیم الشان اور ہزاروں شہروں اور قریوں پر مشتمل ہے.صحابہ کرام حضرت مسیح موعود کو وحی سے بتایا گیا کہ (۱) ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء -۲- أَصْحَبُ الصُّفَةِ وَمَا أَدْرَكَ مَا أَصْحَبُ الصُّفَّةِ تَرَى أَعَيْنَهُمْ تُفِيضُ مِنَ الدَّمُعِ يُصَلُّونَ عَلَيْكَ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِ يَايُنَادِى لِلِايْمَان رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِين - قرآن مجید میں فرماتا ہے.ان الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا تتنزل عليهم الملئكة ( كـ جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے اور پھر استقامت دکھاتے ہیں ان پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے ) اعلیٰ پایہ کے صحابہ کرام ان کے کامل مصداق ہیں.اور حضرت مولوی صاحب بھی ان میں سے تھے.اللهم اغـفـر لـه و ارحمه واكرم مثواه_آمین ثم آمین.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّم إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ تذکره طبع ۲۰۰۴ء ( صفحه ۵۴۱) ترجمہ.جو صفہ میں رہنے والے ہیں اور تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صفہ میں رہنے والے.تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے وہ تیرے پر درود بھیجیں گے.اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا! ہم نے ایک منادی کرنے والے کی آواز سنی جو ایمان کی طرف بلاتا ہے.اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے پس ہمیں بھی گواہوں میں لکھ.
میں ممنون ہوں ایک صاحب جو انجینئر ہیں انہوں نے مشورہ طلب کئے بغیر یہ مشورہ بھیجا ہے کہ مالی مشکلات ہیں تو اصحاب احمد کا کام بند کر دینا چاہئے.میں ان کا ممنون ہوں.لیکن یہ مشورہ انہوں نے اس وقت دیا کہ جب ان کے بزرگوں کے حالات شائع ہو چکے ہیں.اصحاب احمد کے متعلق تحریک حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے ۱۹۶۳ء کی مشاورت میں فرمایا.قادیان کے ملک صلاح الدین صاحب نے رسالہ اصحاب احمد کے گیارھویں نمبر میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے والد ماجد محترم چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم کے حالات زندگی شائع کئے ہیں جو کہ خاص مخلصین میں سے تھے.یہ کتاب بھی اگر دوست خریدیں اور پڑھیں تو انشاء اللہ بہت مفید ثابت ہوگی.اصحاب احمد کی یہ جلد میں بڑی ایمان افروز ہیں.ملک صاحب موصوف کو یہ شکایت ہے کہ دوست با وجود بار بار توجہ دلانے کے اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات تحریر کر کے انہیں نہیں بھجواتے جو بہت بری بات ہے.صحابہ کے حالات جماعت کے لئے روحانی زندگی کا باعث ہیں دوستوں کو چاہئے کہ اس بارے میں تساہل نہ کریں.اور جس کسی کو بھی کسی صحابی کے حالات کا علم ہو وہ ضرور ان حالات کو لکھے.اپنے پاس بھی محفوظ رکھے اور ملک صاحب کو بھی بھجوادے تاکہ ریکارڈ میں محفوظ ہو جائیں.“
۶۵۹ حوالہ جات سنن الترندی کتاب تفسیر القرآن باب تفسیر سورة الحجر ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۰ ے سن ابودا و د کتاب الادب باب بر الولد والاحسان الى البنات :[ :A : 9 اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵۲۱۵۱ موضاعات کبیر از ملا علی قاری.زیر حرف "ح" کنز العمال جلدے حدیث نمبر ۱۸۸۹۳ : مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر ۲۳۳۵۷ - کتاب باقی مسند الانصار حدیث عائشہ المزمل : ۹ سنن الترمزی الكتاب الجنائز عن رسول اللہ باب آخر الحاقة : ۴۵ النمل : ۱۵ صحیح مسلم کتاب الفتن في خروج الدجال و مكثه في الارض ۱۳: البقره : ۴۶ ۱۴: البقره : ۲۰۲ ها : الحکم ۱۷ تا ۲۳ اکتوبر ۱۹۰۲ء تحفة الندوة روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۹۰ کا: البدر ۲۳ تا ۳۰ / جنوری ۱۹۰۳ء.صفحہ ۸،۷ الفضل ۲۶ ر ا پریل ۱۹۲۰ء صفحه ۵ :IA : ۱۹ سنن الدارمي في الفتن جلد ۳ صفحه ۴۳۵ ۲۰ : النساء : ۱۴۶
۶۶۰ : الحکم ۷ رفروری ۱۹۰۳ صفحه ۶، ۷ :۲۳ ،۲۲ الحکم ۵ فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۸،۷ ۲۴ : تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۶۲ ۲۵ اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۱۴۸ تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن ۲۲ صفحه ۶۰۴ ذکر حبیب - الفضل ۲ / جنوری ۱۹۵۸ء صفحہ ۳ کالم ۱ ۲۸ : تذکره صفحه ۱۶۱ اطبع جدید ۲۹ : تذکره صفحه ۵۴۹ طبع جدید ۳۰: الفضل ۱۱ اکتوبر ۱۹۲۴ ء ۳۱ : الفضل ۱۱ مئی ۱۹۴۲ء صفحه ۳ ۳۲ : حم السجدة : ۳۵ ۳۳ : تذکره صفحه ۱۴ طبع جدید ۳۴ : ال عمران : ۵۰ ۳۵ : البقره : ۷۲ ۳۶ : النجم : ۴۱،۴۰ ۳۷ : الفرقان : ۳۴ طبقات ابن سعد جلد نمبر ۳ صفحه ۲۲۱ (اردو ایڈیشن) ۳۹ الاعراف : ۱۷۷ النحل : ۱۲۹ ات طه : ۵۴ ۴۲ : النور : ۴۴ ۲۳ صحیح البخاری کتاب التفسير باب سورة الجمعة :۴۴: اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵۲ ۴۵ سیرت المہدی حصہ اوّل روایت ۱۱۲
۶۶۱ سیرت المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۳۸۶ ۴۷ : تذکره صفحه ۶۱۹ طبع جدید : الاعراف : ۱۳۹ ۴۹ : طه : ۸۹ ۵۰ الاعراف : ۱۵۳ ۵۱: تحفة الاحوذی شرح جامع الترمذی کتاب التفسير - تفسیر سورۃ اعراف ۵۲ : الحجرات : ۳ :۵۳: الحکم ۱۷ / فروری ۱۹۰۴ء صفحه ۴ کالم۳ ۵۴ : الحکم ۲۴ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۳ کالم ۳۰۲ ۵۵: الحکم ۱۷ مارچ ۱۹۰۴ ، صفحہ ۲ کالم۲ ۵۶ : البدر ۲۴ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۵ کالم ۲ ۵۷ کشف الاختلاف صفحه ۲۱ ۲۲ ۵۸ صحیح البخاری کتاب بدء الخلق باب ذكر الملئكة صلواة الله عليهم : ۵۹ اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴۵ تا ۱۴۸ مفهوماً اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۰۵ ال : الفضل ۲ رمئی ۱۹۴۷ء صفحه ۲ : مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحه ۵۱،۵۰ ۶۳ : النساء : ۴۴ ۱۴: المائده : ۷ ۲۵ رسالہ جامعہ احمد یہ سالانہ نمبر یکیم تمبر ۱۹۳۰ صفحه ۴ تا ۶ ۱۶: الفضل ۲۳ / جولائی ۱۹۴۶ء کنز العمال جلدا حدیث نمبر ۱۵۷۴ ۶۸ کنز العمال جلد حدیث نمبر ۱۵۵۱۶ ۱۹ سنن ابو داود كتاب الجهاد باب فى كراهية حرق العدو بالنار
۶۶۲ ك: نصب الراية للزيلعي جلدم ای صحیح بخاری.کتاب الصلح باب اذا اصلحوا على صلح جورٍ فاصلح مردود : سنن النسائی کتاب الصلواة العيدين باب كيف الخطبه ۷۳ : سنن الکبری نسائی کتاب البیوع باب بيع الشعير بالشعير (مفهوماً) ۴ : النساء : ۲۱ ۷۵ : البقره : ۲۳۰ : تفخیذ الاذہان مئی ۱۹۱۹ء صفحه ۳۳ : ص: ۷۴ : الاعراف : ۲۱ وک : ۱۲ / دسمبر ۱۹۴۶ء ۸۰ : المائده : ۵ : بدر یکم اگست ۱۹۰۷ ء - الفضل ۱۰ارجون ۱۹۳۷ء.الفضل ۳ را پریل ۱۹۶۳ء صفحه ۳ ۲ نیل الاوطار جلد ثالث صفحہ ۳۷ ۸۳ : صحیح البخاری - کتاب النکاح باب المرأة راعية في بيت زوجها مجمع الزوائد جلد ۲ - كتاب الصلواة باب في أوّل من صلى الجمعة بالمدينة ۸۵ : الواقعة : ۸۰ مسند احمد بن حنبل جلد ۲.حدیث نمبر ۱۲۲ : الاعراف : ۱۵۹ حم السجدة : ٣٢،٣١ ۸۹ کنز العمال جلد ۱۵.حدیث نمبر ۴۳۲۲۶ ۹۱ صحیح البخاری کتاب الایمان - باب فان تابوا واقاموا الصلواة وآتوا الزكاة فخلوا سبيلهم صحیح بخاری کتاب الصلواة باب فضل استِقْبَالِ الْقِبْلَةِ صحیح مسلم کتاب الایمان باب نقصان الایمان بالمعاصی ۹۳ یونس : ۳۸
۶۶۳ ۹۴ یونس : ۳۹ ۹۵ : البقرة : ۱۲۵ 94 النمل : ۱۵ ۹۷: الانعام : ۲۱ ۹۸: پس : ۸ 29 : یونس : ۹۷ ١٠٠: یونس : ٩٩ انا : البقرة : ٦٢
تفصیل خاکہ مندرجہ بر صفحه ۱۴۴ تیار کردہ خاکسار مؤلف اصحاب احمد بتاریخ ۲۸ جولائی ۱۹۶۳ء) نوٹ نمبرا: چونکہ بعض پیمائشیں کمروں کے اندر سے لی گئی ہیں اور بعض باہر سے.اس لئے خاکہ پوری طرح سکیل کے مطابق نہیں.جو حصے موجود نہیں ان کا مقام نقطوں سے ظاہر کیا گیا ہے.نوٹ نمبر ۲: خاکسار مؤلف نے قریباً دو ماہ کی تگ و دو سے یہ فصیلی معلومات حاصل کی ہیں اور ان کے مطابق خاکہ بھی خود ہی تیار کیا ہے اس پر اتنا عرصہ صرف اس خاطر صرف کیا ہے تا کہ یہ ریکارڈ محفوظ ہو جائے کہ بعد میں جو تعلیمی اداروں کی شاندار عمارات تعمیر ہو رہی ہیں اور ہمیشہ ہوتی رہیں گی اُن کا آغاز رکس بے سروسامانی کی حالت میں ہوا تھا.تمام کمرے خالی اینٹوں کے بنے ہوئے تھے.اتنا امن بھی میسر نہ تھا کہ قادیان میں حضرت مسیح و مہدی علیہ السلام اپنی مملوکہ اراضی میں کوئی عمارت تعمیر کراسکیں.ایسے کچے کمروں میں کالج کا افتتاح بھی ہوا.باوجود ان حالات کے جو روحانی سکیت و اطمینان حاصل تھا اس پر ہزاروں راحتیں اور سامان قربان ! اس سکینت واطمینان کے دور کی یاد ہمیشہ ہمیش تڑپاتی رہے گی.بلکہ یہ تڑپ روز افزوں ہوتی جائے گی.حضور فرماتے ہیں ؎ امروز قوم من نه شناسا مقام من روزی به گریه یاد کنند وقت خوشترم نوٹ نمبر ۳: اس خا کہ میں صرف وہ عمارات دکھائی گئی ہیں جن کے متعلق یہ یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ وہ حضور اقدس کے عہد میں تعمیر ہو چکی تھیں.اس مبارک عہد کے بعد تعمیر کئے گئے حصے خاکہ میں یا تفصیل میں ترک کر دیئے گئے ہیں.مثلاً نمبر ت کے جنوب میں اس وقت دستی بلکہ ہے جہاں اس سے قبل کنواں ہوتا تھا.یہ کنواں اور بعدہ ملکہ حضرت محمد الحق صاحب نے خلافت ثانیہ میں لگوایا تھا اور ۲ ، ۱۷ کے درمیان کے کمرے.مشرقی پھاٹک ،مغربی پھاٹک اور نمبر ۲۷ کے درمیان میں کمرے حضرت اقدس کے عہد مبارک کے بعد کسی وقت تعمیر ہوئے تھے.کمرہ نمبر ت سے نمبر ۵ تک جودو کمرے تعمیر شدہ ہیں جس میں نمبر ۳ والی دکان کی جگہ بھی شامل کر لی گئی تھی ( گومولوی صاحب کو نمبر ۳ کی دکان اور نمبر ۵ کا ہونا یا تعمیر شدہ ہونا یاد نہیں) اور مشرقی صحن والا کنواں اور نمبر ۷، ۸ سے جانب شرق نمبر ۹ تک کے درمیان کی جگہ میں تعمیر شدہ کمرے اور نمبر ۵ کے متصل جانب
۶۶۶ جنوب مشرق کمرہ جو بطور دفتر سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ کے ہے.یہ چاروں خلافت ثانیہ میں تعمیر ہوئے تھے.نوٹ نمبر ۴: یہ ظاہر کر دیا گیا ہے کہ پیمائش کمروں کے اندر سے کی گئی ہے یا با ہر سے.پیمائش کی کئی بار پڑتال کر لی گئی ہے.مکمل صورت میں کوئی کمرہ اپنی اصلی حالت میں نہیں.البتہ بعض دیوار میں اپنی اصلی حالت میں ہیں.جن کا آئیندہ تفصیل میں ذکر کر دیا گیا ہے.صرف بعض کے متعلق کسی صحابی سے علم ہوا ہے.اکثر کے متعلق خود موقعہ پر دیکھ کر اندازہ کیا ہے کہ اولین شکل پر ہیں.بعض کو غلافی یعنی باہر سے پکی کر دیا گیا ہے اور اندر کی طرف سے کچی یعنی اصلی حالت میں ہیں.نوٹ نمبر ۵: پہلے یہ عمارت مدرسہ تعلیم الاسلام اور اس کے بورڈنگ کی تھی اور کچھ عرصہ بعد اس عمارت میں ایک شاخ ( جماعت ) دینیات کی بھی کھول دی گئی تھی اور اسی عمارت میں حضرت مسیح و مہدی کے مبارک عہد میں تعلیم الاسلام کا لج بھی جاری کیا گیا تھا.خلافت اولی میں مدرسہ تعلیم الاسلام اور اس کا بورڈنگ بیرون قصبہ کی نئی عمارات میں منتقل ہو گیا اور صرف مدرسہ احمدیہ اور اس کا بورڈ نگ اندرون قصبہ والی عمارت میں باقی رہ گیا.دینیات کی شاخ کی بجائے مدرسہ احمدیہ خلافت اولی میں جاری ہو چکا تھا.مدرسہ کے مغربی گیٹ پر بھی تاریخ اجراء ۱۹۰۹ء مرقوم ہے.حضور کے عہد میں شرائط کڑی ہو جانے پر دو سال بعد کالج بند کرنا پڑا.تفصیل بالا و ذیل خاکسار مؤلف نے ذیل کے صحابہ کرام سے معلوم کی ہے.جہاں تفصیل کا سب کو علم نہیں وہاں بالوضاحت ذکر کیا گیا ہے.دروازے مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل کی یادداشت پر درج کئے گئے ہیں.بعض کمروں کے دروازے ان سے بوجہ قلت وقت اور ان کی عدم موجودگی کے باعث دریافت نہیں کر سکا اور نہ یہ دریافت کر سکا ہوں کہ نمبر ۱۶ سے ۷ ا تک شمالی دیوار بھی تھی یا نہیں اس کمی کو انشاء اللہ پھر کسی وقت پورا کروں گا.(الف) استاذی المکرم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل (امیر جماعت و ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ قادیان ) آپ بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۰۴ء یا ۱۹۰۵ء میں آپ پہلی بار قادیان آئے اور حضرت اقدس کے وصال سے چندروز قبل بوجہ بیمار ہونے کے آپ اپنے گاؤں چلے گئے تھے.(از مؤلف ) آپ کی اولین زیارت قادیان کی تعیین کی کوشش انشاء اللہ تعالیٰ میں آپ کے سوانح شائع کرتے وقت کروں گا.سر دست اتنا ذکر کرتا ہوں کہ ۱۹۰۵ء سے قبل آپ کا قادیان آنا یقینی ہے.میرے استفسار پر آپ نے بتایا کہ آپ نے حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کو قادیان میں خوب اچھی طرح دیکھا تھا ( قاضی صاحب کی تاریخ وفات ۱۲ مئی ۱۹۰۴ ء ہے.بحوالہ اصحاب احمد جلد ششم صفہ ۵۳)
(ب) محترم ڈاکٹر عطر الدین صاحب درویش قادیان اولین زیارت ۱۸۹۸ء بمقام امرتسر بیعت ۱۸۹۹ء،۱۹۰۰ء سے قادیان میں تعلیم پانے لگے.جہاں سے ۱۹۰۶ء میں لاہور میں تعلیم پانے کے لئے چلے گئے.( بحوالہ اصحاب احمد جلد دہم صفحه ۳ تا ۵ ) (ج) محترم بھائی محمود احمد صاحب حال مہاجر سر گودھا- اولین زیارت ۱۸۹۹ء بمقام قادیان بیعت ۱۹۰۱ء.۱۹۰۱ء میں ہی آپ مدرسہ تعلیم الاسلام میں بطور طالبعلم داخل ہوئے اور تا وصال حضور آپ قادیان میں ہی رہے.شفا خانہ نور میں آپ ڈسپنسر تھے.بعدہ آپ نے ریتی چھلہ کے قریب احمد یہ میڈیکل ہال کھول لیا تھا اور دارالرحمت میں قیام تھا.آپ زیارت قادیان کے لئے ۲۷ جولائی ۱۹۶۳ء کو قادیان آئے اور یکم اگست کو واپس تشریف لے گئے.اس عرصہ میں مجھے استفادہ کا موقعہ ملا.( پھاٹک) بیان مولوی صاحب.حضرت اقدس کے عہد مبارک میں مشرقی پھاٹک موجود نہیں تھا.ہر دو طرف پاتھی خانے تھے.درمیان کی جگہ آمد و رفت کے لئے خالی تھی.البتہ وسطی اور غربی پھاٹک تھے.جو چوبی تھے نہ کہ گول پختہ گیٹ جو اس وقت بنے ہوئے ہیں.یہ خلافت ثانیہ میں حضرت میر محمد الحق صاحب نے اپنی ہیڈ ماسٹری کے دور میں تعمیر کرائے تھے جبکہ قریباً سارا مدرسہ آپ نے غلافی کرا دیا تھا.شمال کی طرف حضرت اقدس کے زمانہ میں وضوخانہ ( نمبر ۱۷) اور کمرہ نمبر ۱۹ کے درمیان خالی جگہ تھی.نہ پھاٹک تھا نہ دروازہ.(نمبر ۱ ۲) یہ دونوں کمرے بطور بورڈنگ استعمال ہوتے تھے.بیان مولوی صاحب) نمبر ا جو اس وقت دو حصوں میں منقسم ہے اس کے اور نمبر کی درمیانی دیوار میں بھی آمد و رفت کے لئے ایک یا زیادہ دروازے تھے.( موقعہ پر دیکھنے سے دروازوں کے نشان نہیں ملے شاید لپائی وغیرہ سے چھپ گئے ہوں.مؤلف ) پیمائش کمرہ نمبر ا شرقا غربا (باہر سے اڑتالیس فٹ (اندر سے ) پینتالیس فٹ.شمالاً جنوبا ( با ہر سے ) چودہ فٹ.کمرہ نمبر۲: شرقا غربا (اندر سے ) پنتالیس فٹ.شمالاً جنوبا ( با ہر سے ) پندرہ فٹ.نمبرا کی شمالی اور نمبر ۲۰ کی مغربی دیوار میں اس وقت غلافی ہیں.باقی سب دیوار میں ابھی تک خام ہیں اور اولین حالت میں ہیں.(۳) بیان بھائی محمود احمد صاحب.یہ بہت مختصر سی دکان تھی جواب موجود نہیں.نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب کچھ عرصہ یہاں دکان کرتے رہے.چنانچہ میں نے آپ سے اس دکان سے ایک ولایتی استرا
۶۶۸ پون روپیہ میں خرید کیا تھا جو اس وقت تک میں نے بطور یادگار سنبھال کر رکھا ہوا ہے.(بیان ڈاکٹر صاحب ) اس چھوٹی سی کوٹھڑی میں حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کو میں نے جلد سازی اور سٹیشنری کی دکان کرتے دیکھا ہے.بھائی جی اور ڈاکٹر صاحب کے بیانات کی تصدیق یوں ہو جاتی ہے کہ ۰۲-۷-۱۷ کو ایک عریضہ کے ذریعہ قاضی صاحب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ اب میں جلد بندی کا کام کہاں کروں اور رہائش کہاں رکھوں.ڈپٹی شنکر ( داس.مؤلف ) نے بذریعہ ڈاک نوٹس دیا ہے کہ ایک ہفتہ میں مکان خالی کر دو ورنہ تین روپے ماہوار کرایہ دو.حضور نے حضرت حکیم فضل الدین صاحب سے معلوم کرنے کو کہا کہ آیا مہمان خانہ میں جگہ ہے اور یہ کہ میرے مکان کے نچلے حصہ میں مکان تعمیر ہونے والا ہے.اس میں آپ رہ سکتے ہیں بالفعل کوئی مکان تلاش کر لیں.آپ کے پسر حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ : حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاص حالات کی وجہ سے مہمان خانہ کا چھوٹا سا کمرہ جو جانب شمال مغرب تھا ان کو دیا“.( اصحاب احمد جلد ششم صفحه ۴۵، ۴۶ ) معلوم ہوتا ہے کہ اول اس دکان والے کمرہ کا کچھ تعلق حضرت نانا جان سے تھا اور نہ مہمان خانہ میں جگہ ہونے کا حضرت حکیم فضل الدین صاحب سے دریافت کرنے کو حضرت اقدس نے تحریر فر مایا تھا.دوم.رہائش کے متعلق حضرت اقدس نے بالفعل ( یعنی تا تعمیر حصہ دار مسیح) کوئی مکان تلاش کرنے کا مشورہ دیا.اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہمان خانہ والا مشورہ دکان سے متعلق تھا.حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب کے بیان مندرجہ اصحاب احمد جلد ششم صفحہ ۵۳ میں مرقوم ہے کہ بوقت وفات حضرت والد صاحب احمدی درزی خانہ ( نمبر (۲۹) کے جنوب کے ملحقہ ( نمبر ۲۸) میں دکان کرتے تھے.( خاکسار مؤلف کو مکرم عبد الاحد خاں صاحب افغان درویش نے بتایا کہ میں نے سنا ہے کہ اس جگہ سید احمد نور صاحب کا بلی مرحوم بھی حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں دکان کرتے رہے ہیں اور مغرب کی طرف اس کا دروازہ تھا) (۴) حضرت اقدس کی اپنی اراضی میں بھی بوجہ مخالفت مرزا نظام الدین صاحب تعمیر کا کام نہیں ہونے دیتے تھے.ایک روز جب کہ وہ قادیان سے باہر ( بطرف گورداسپور - بیان بھائی صاحب) گئے ہوئے تھے.ان کی غیر حاضری میں ڈائرکٹر مدرسہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے جنہوں نے کہ سامان پہلے ہی جمع کرا رکھا تھا اپنے چاروں معماروں سے ایک ہی رات میں یہ لمبا چوڑا کمرہ تیار کروا دیا.چونکہ رات کو اور پھر جلدی
۶۶۹ میں کام ہوا تھا اس لیے دیوار میں کچھ ٹیڑھی بنی تھیں.کچھ اینٹوں سے جو بہت لمبی چوڑی تھیں موٹی موٹی دیوار میں تعمیر ہوئیں.ہم طلباء معماروں کو اینٹیں گارا وغیرہ دیتے تھے.اگلے روز مدرسہ میں تعطیل کر دی گئی تا طلباء آرام کر سکیں.بورڈ رران کی تعداد زیادہ ہو جانے کی وجہ سے یہ کمرہ ان کے لئے تعمیر ہوکر بطور حصہ بورڈنگ استعمال ہونے لگا.بیان بھائی صاحب ) دو دو معماروں کی جوڑی نے نصف نصف رات کام کیا تھا.اس رات چھت تک کام ہوا تھا چھت کی تعمیر اور لمبائی کے کام بعد میں چند روز کے اندر دن کے وقت مکمل کئے گئے تھے.مرزا نظام الدین صاحب نے سفر سے واپس آکر کمرہ نو تعمیر شدہ دیکھا تو سخت برافروختہ ہوئے لیکن تعمیر شدہ مکان کو گراتے تو فوجداری بن جاتی اس لئے کچھ نہ کر سکے.یہ کمرہ اب بھی اسی طول و عرض میں موجود ہے.خلافت ثانیہ میں حضرت میر محمد الحق صاحب نے اپنے ہیڈ ماسٹری کے زمانہ میں کچھ حصہ غلافی بنوادیا تھا.(از مؤلف ) یہ کمر ۱۹۰۴ تا ۱۹۰۶ ء کے عرصہ میں کسی وقت تعمیر ہوا ہوگا.کیونکہ مولوی صاحب کا تعلیم کے لئے ۱۹۰۴ء میں آنا اور ڈاکٹر صاحب کا ۱۹۰۶ء تک قادیان میں تعلیم پانا اور ۱۹۰۶ء میں لا ہور تعلیم کے لئے جانا ثابت ہے اور ہر دو اس کی تعمیر میں شریک طالبعلموں میں شامل تھے.پیمائش شرقا غربا ( اندر سے) سوا چھبیس فٹ شمالاً جنوبا (اندر سے ) ساڑھے ستائیس فٹ.اس وقت اس کی مشرقی اور شمالی دیواریں پکی ہیں.دیگر دونوں کچی ہیں اور اصلی حالت میں ہیں.کولے بھی موجود ہیں.( کمرہ نمبر ۵) عبدالاحد خاں صاحب افغان درویش جو تابعی ہیں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت سید عبدالستار صاحب المعروف بزرگ صاحب نے بتایا تھا کہ جب حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید قادیان آئے تو آپ کے رفقاء کے قیام کے لئے حضرت مسیح موعود نے یہ کمرہ دیا تھا یا بنوایا تھا دونوں میں سے ایک بات بزرگ صاحب نے بتائی تھی.میں اس کمرہ میں حضرت خلیفہ اول کی وفات سے دو تین سال قبل سے اس وقت تک مقیم ہوں.اس وقت بھی اسی طرح اس کی جنوبی دیوار میں دو دروازے تھے.پیمائش.شرقاغر با اندر سے ) سوا چودہ فٹ.شمالاً جنوباً ( اندر سے ) پونے دس فٹ.اس وقت اس کی صرف جنوبی دیوار پختہ ہے بقیہ تینوں خام ہیں.(4) ) بیان بھائی محمود احمد صاحب.حضرت بزرگ صاحب موصوف حضرت اقدس کے زمانہ سے کمرہ نمبر 4 میں مقیم تھے.جس کے جنوب کی طرف صحن تھا اور یہ محن بھی حضور کے زمانہ میں بنایا گیا تھا اور اب مہمان خانہ کے احاطہ اور گذرگاہ کا حصہ بن چکا ہے.
۶۷۰ بیان مولوی صاحب ) حضرت بزرگ صاحب کا انتقال اسی مکان میں ہوا تھا.اس کا جانب جنوب صحن ( نمبر ۶) اب مہمان خانہ کے احاطہ اور اس کی گذرگاہ کا حصہ بن چکا ہے.یہ کمرہ اب بھی اس پیمائش میں موجود ہے.یاد نہیں آیا حضرت بزرگ صاحب کے قیام کا آغاز اس مکان میں حضور کے زمانہ میں ہوا تھا یا بعد میں.خاکسار مؤلف کو حضرت بزرگ صاحب کی خدمت میں والد صاحب محترم کی معیت میں اور الگ بھی اس مکان میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا.ان کی وفات کے بعد یہ محن منہدم کیا گیا تھا.پیمائش نمبر 4.شر قاغر با (اندر سے ) دس فٹ پانچ انچ.شمالاً جنوبا (اندر سے ) ساڑھے نوفٹ.اس وقت نمبر 4 کی صرف جنوبی دیوار پختہ ہے.دیگر ساری خام ہیں اور اپنی اولین حالت میں ہیں.نمبر ۷ ۸ (۱) یہ حافظ حامد علی صاحب کا مکان تھا جس کا صحن جو جانب جنوب تھا اب موجود نہیں.بیان مولوی صاحب) نمبر۷، ۸ دونوں کمروں و نمبر 4 صحن کا رقبہ انداز آتین چار یا حد پانچ مرلہ ہوگا.حضرت مسیح موعود نے میرے ماموں حضرت حافظ حامد علی صاحب سے فرمایا تھا کہ میری زندگی میں ہی اس جگہ پر قبضہ کر لو.میرے بعد کوئی نہ دے گا.چنانچہ انہوں نے حضور کے زمانہ میں ہی یہ دو کچے کمرے تعمیر کر لئے.جو ابھی تک اصلی حالت میں ہیں.البتہ یہ تغیر ہوا ہے.اوّل گذشتہ سال ملحقہ حصہ مدرسہ کے از سر نو تعمیر ہونے پر ان دونوں کمروں کی مشرقی دیوار پختہ بن چکی ہے.دوم.نمبر ۶ ۷ کمروں کے درمیان بعد میں جب انجمن نے حافظ صاحب کا مکان لے لیا تھا.ایک دروازہ بنا دیا گیا تھا.سوم.کمرہ نمبر ۸ کی مغربی دیوار میں خلافت ثانیہ میں دروازہ بنایا گیا.جبکہ صدر انجمن نے یہ مکان میری ممانی جان سے خرید لیا تھا اور یہ بعد کا بنایا ہوا دروازہ اس وقت بھی موجود ہے.حضرت حافظ صاحب کے ہاں حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے بعد شادی ہونے پر اُن کی خواہش پر میں بھی اسی مکان میں رہائش پذیر ہو گیا تھا اور ان کے کمروں کے اوپر چوبارہ تعمیر کرالیا تھا.صحن ( نمبر 4 ) صدر انجمن احمدیہ کے قبضہ میں آنے پر منہدم کر کے مہمان خانہ کے احاطہ اور گذرگاہ کا حصہ بنادیا گیا تھا.نمبر ۸ کی جنوبی دیوار میں ابتداء میں دو دروازے تھے وہ اصل حالت میں موجود ہیں.خاکسار مؤلف نے اپنی طالب علمی ( آغاز ۱۹۲۲ء) میں یہ کمرے اور احاطہ اور چوبارہ دیکھے ہیں.ہم طلباء بچپن میں یہاں آتے رہتے تھے.نمبر ۷، ۸ کا درمیانی دروازہ اس وقت بند کیا جا چکا ہے لیکن اس کا نشان موجود ہے.پیمائش نمبرے شرقا غربا (اندر سے ) پونے تیرہ فٹ شمالاً جنوباً (اندر سے ) سوانوفٹ.پیمائش نمبر ۸ شرقا غرباً (اندر سے) پونے تیرہ فٹ شمالاً جنوبا ( اندر سے ) سوا دس فٹ.نمبر ۷، ۸ کی غربی دیوار اس وقت غلافی ہے.نمبر ۷، ۸ کی بقیہ تمام دیواریں سچی ہیں اور اولین حالت میں ہیں.
۶۷۱ (۹) یہ ہیڈ ماسٹر کا کوارٹر تھا جس کے دو کمرے جنوبی دیوار کے ساتھ بنے ہوئے تھے.حضور کے عہد مبارک میں پہلے حضرت مولوی شیر علی صاحب جو ان دنوں ہیڈ ماسٹر تھے اور پھر حضرت مولوی سید محمد سرورشاہ صاحب کا بطور سپر نٹنڈنٹ بورڈنگ اس کوارٹر میں قیام رہا.۹ ۴ بیان مولوی صاحب) جس قدر کمرے اور صحن طول و عرض میں ابتداء میں تھے.اسی قدراب بھی ہیں یعنی دو عدد (نمبر ، 7) حضور کے زمانہ میں مشرقی طرف کے کمرہ نمبر) کے ساتھ کر کے صحن ( نمبر) کی طرف معمولی سا باورچی خانہ بصورت چھپر سا تھا.اس کوارٹر میں حضور اقدس کے زمانہ کے بعد نمبر سے ملحق جانب مغرب ایک بیٹھک تعمیر کر دی گئی تھی.جس کا مغربی دروازہ بورڈ نگ کے کمرہ میں کھلتا تھا.(اور جیسا کہ ابتداء میں درج کیا گیا ہے بورڈنگ کے کئی کمرے بھی حضور کے زمانے کے بعد تعمیر ہوئے تھے.مؤلف ) بیان مولوی صاحب) نمبر تا بہ ہر سہ کے دروازے شمالی دیواروں میں جو ایک ایک ہیں اسی طرح ابتداء میں تھے اور ابتداء میں کی ٹی شمال مشرقی کونے میں تھی اور 4 ، 1 کے درمیان تھوڑی دور تک گلی تھی (جو پیمائش سے پونے چھ فٹ چوڑی نکلی.مؤلف ) جہاں سے خاکروب اس کی صفائی کرتا تھا.رہائش گاہ ہیڈ ماسٹر صاحب (4) تا 4) کی جانب شرقی ( نمبر 2 ( 1 ) جہاں بعد میں ٹیوٹر کی رہائش ہوئی تھی اس بارہ میں یاد نہیں کہ حضور کے زمانہ میں یہاں کیا تھا.ممکن ہے ہیڈ ماسٹر کے کوارٹر میں یہ حصہ بھی شامل ہو گیا یا تین کمرے ہوں اور بعد میں کسی وقت کوارٹر ہیڈ ماسٹر کا مشرقی کمرہ ( نمبر ) الگ کر کے ٹیوٹر کا کوارٹر بنا دیا گیا ہو (از مؤلف) خاکسار نے نمبر یہ اندر جا کر دیکھا تو ، کی درمیانی دیوار میں دروازہ موجود پایا جس سے مکرم مولوی صاحب کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ ممکن ہے کہ کمرہ پہ پہلے ہیڈ ماسٹر کے کوارٹر کا حصہ ہو.خاکسار نے ایک تئیس سال قبل کے مدرس مدرسہ احمدیہ اور ایک دیرینہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سے بھی دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ دروازہ اس عرصہ سے قبل کا ہے) اس وقت نمبر ۹ تا میں سے ماسوات کی مشرقی اور جنوبی اور تہ کی درمیانی اور کی مشرقی و شمالی دیواروں کے باقی سب خام ہیں.البتہ 9 کی غربی دیوار چند دن تک پختہ کی جارہی ہے.پیمائش ( نمبر ۹) شرقا غربا (اندر سے ) پونے چھتیس فٹ شمالاً جنوبا اندر سے ) ساڑھے تئیس فٹ پیمائش ( نمبر ) شرقا غربا (اندر سے ) سولہ فٹ شمالاً جنوباً (اندر سے) بارہ فٹ پیمائش (نمبر ) شرقا غربا (اندر سے) ساڑے سترہ فٹ شمالاً جنوباً (اندر سے ) بارہ فٹ پیمائش (نمبر ) شرقا غربا (اندر سے ) سواسترہ فٹ شمالاً جنوباً (اندر سے ) بارہ فٹ پیمائش (نمبر ) شرقا غربا (اندر سے ) انیس فٹ شمالاً جنوباً ( اندر سے) چھپیں فٹ
۶۷۲ نوٹ.نمبر 9 کی غربی دیوار اب پختہ کی جارہی ہے.(نمبر ۱۱۰) بیان مولوی صاحب.حضور کے زمانہ میں دو کمرے پاتھی خانہ کہلاتے تھے جن میں بورڈنگ کے باورچی خانہ اور تنور کے لئے اُپلے رکھے جاتے تھے یہ دونوں اب موجود نہیں.ان میں سے ایک کا محل وقوع نمبر 2 کے شمال کی طرف اور دوسرے کاٹی خانہ (نمبر11) کے جنوب کی طرف تھا.(نمبر ۱۱ تا ۱۳) بیان مولوی صاحب و بھائی صاحب.ٹیاں ( نمبر۱۱) ڈائیٹنگ ہال ( نمبر ۱۲) باورچی خانہ (نمبر ۱۳) اور نان پز کا کمرہ (۱۴) جس میں تنور ہوتا تھا یہ سب منہدم ہو چکے ہیں.غلام حسین صاحب جہلمی مرحوم نان پز اور مسیح اللہ صاحب شاہجہانپوری مرحوم باورچی تھے.ملک غلام حسین صاحب رہتاسی مرحوم دوسرے صاحب تھے جو لنگر خانہ میں نان پر تھے.(بیان مولوی صاحب ) مجھے یاد نہیں آیا ڈائینگ ہال ، باورچی خانہ اور تنور کا کمرہ حضور کے زمانہ میں تعمیر ہوئے تھے یا بعد میں.بیان بھائی صاحب ) میں اسی ڈائیٹنگ ہال میں کھانا کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے وصال کی خبر سنی.اس لئے بھی مجھے بخوبی یاد ہے کہ یہ ڈائیٹنگ ہال اور کچن اور تنور والے کمرے حضور کے زمانہ میں تعمیر ہو چکے تھے.مسیح اللہ صاحب شاہجہانپوری کا حضور کے سفر جہلم پر جانا مجھے اچھی طرح یاد ہے.میں بھی اس سفر میں شریک تھا.بیان مولوی صاحب) ٹیٹیوں کی مشرقی اور شمالی دونوں دیوار میں اندازاً اپنی اولین جگہ پر ہیں کیونکہ نوٹیفائڈ کمیٹی کی ۱۹۳۸ء میں قیام کے بعد گلیوں میں کمی نہیں کی جاسکتی تھی ( ڈاکٹر صاحب کو نمبر ۱۱ تا ۱۴ کے متعلق کچھ یاد نہیں.مولوی صاحب اور بھائی صاحب نے ان کا یہی محل وقوع بتایا ہے خاکسار نے اپنے زمانہ طالبعلمی قادیان کے آغا ز۱۹۲۲ء سے سالہا سال تک یہ ڈائیٹنگ ہال اور کچن اور تنور کے کمرے اپنی اصلی شکل میں دیکھے ہیں.چھ سال میں اس بورڈنگ میں مقیم رہا.ان کے جو دروازے خاکہ میں دکھائے گئے ہیں ان کا مجھے بخوبی علم ہے یعنی نمبر ۱۲ ۱۴۰ کی غربی دیواروں میں ایک ایک نمبر ۱۳ کی شمالی و جنوبی دیواروں میں ایک ایک اور ۱۲ ۱۳ کی درمیانی دیوار مین ایک خاکہ میں نمبر تا والا کی مشرقی دیوار اور نمبر ۱۱ ۱۲ ۱۴۰ کی شمالی دیوار سیدھی کر دی گئی ہیں.کیونکہ بعد تقسیم ملک کچھ کمی بیشی کے سابقہ دونوں از سر نو تعمیر ہوئے ہیں.(مؤلف) (نمبر ۱۵، ۱۶) یہ دونوں کو ارٹر بھی جو بالکل خام تھے حضرت مسیح و مہدی کے زمانہ میں تعمیر ہوئے تھے.خلافت ثانیہ میں افسر مدرسہ مقرر ہونے پر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ان میں رہائش پذیر ہوئے.پھر یہاں سے باب الانوار والے مکان میں آپ منتقل ہوئے جو بعد میں آپ نے خرید لیا تھا.
۶۷۳ ۱۶-۱۵ بیان مولوی صاحب) یہ کوارٹر اپنی اولین شکل میں تقسیم ملک کے بعد تک قائم رہے ہیں.اب چند سال سے وہاں معمولی تغیر ہوا ہے.کمروں ( نمبر ۱۵ ، ۱۶) اور دروازوں ( 4 ) اور سٹور و باورچی خانوں ( نمبر ، کی پیمائش ابھی تک وہی ہے.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں نمبر ۵ تا ۳-۱۵ میں ڈاکٹر عبداللہ صاحب نو مسلم مرحوم انچارج شفاخانہ (جن کا نمبر ۳۰ میں تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے.مؤلف ) اور نمبر ۱۶ تا میں حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی مرحوم بھی اس وقت بورڈنگ کے ٹیوٹر تھے.رہائش پذیر تھے دونوں کمروں کی شمالی اور جنوبی دیواروں میں ایک ایک کھڑکی تھی.نمبر ۱۵ کا صحن (۱۹) جانب مشرق اور نمبر ۱۶ کا صحن ( نمبر ۱۶) جاب غرب تھا اور دونوں صحنوں کے شمال و جنوب میں ایک ایک دروازہ تھا اور یہ چاروں اب بھی موجود ہیں.نمبر ۱۵ ۱۶ کی درمیانی دیوار میں ایک دروازہ اور ۱۵ کی شرقی اور ۱۶ کی غربی دیواروں میں ایک ایک دروازہ تھا یہ سب اب بھی موجود ہیں.نمبر ۱۵ والے کوارٹر میں صحن کے مشرق میں ایک کمرہ نمبر ۱۵) تھا.یہی صورت نمبر ۱۶ والے کوارٹر میں تھی کہ صحن کی مغربی دیوار کے ساتھ سٹور اور باورچی خانہ کے طور پر استعمال ہونے والا کمرہ (نمبر 1) تھا اور اس سے ملحق شمالی دیوار سے قریب با ہر نکلا ہوا بیت الخلا ( نمبر ) تھا.پیمائش نمبر ۱۶۰۱۵ منفرداً.شرقاً غرباً (اندر سے) بارہ فٹ شمالاً جنوباً (اندر سے) ساڑھے سولہ فٹ.نمبر 19 7 امنفرداً.شرقاً غرباً (اندر سے) سوا اُنہیں فٹ شمالاً جنوب ( اندر سے ) ساڑھے سترہ فٹ.نمبر ا ا منفرداً شرقاً غرباً (اندر سے ) پونے نوفٹ.شمالاً جنوباً (اندر سے ) ساڑھے سولہ فٹ (باہر سے) انس فٹ.نمبر ۱۵ ، ۲ اصلی حالت میں موجود نہیں خاکہ میں ان کا محل وقوع بتادیا گیا ہے گواب بھی اسی طرح اور انہی مقامات پر ٹکیاں ہیں.۵۱ تا ۱۳ ۱۶ تا تا میں سے ۱۶،۱۵ کی غربی دیوار گرائی جا چکی ہے تا کہ پختہ کر دی جا ہے.شام کی جنوبی اور 7 کی شمالی اور جنوبی دیوار میں تقسیم ملک کے بعد غلافی کر دی گئی ہیں اور ا کی شرقی دیوار اور 4 4 ا کی درمیانی دیوار میں ابھی کچی ہیں اور اولین حالت میں ہیں.( نمبر ۱۷) بیان مولوی صاحب یہاں وضو اور غسل کرنے کا کمرہ تھا.نمبر سے نمبر ۷ کے درمیان جگہ خالی 14 تھی.نمبر ۱۷ میں صرف غسل خانہ کا فرش پختہ تھا.باقی سارا کمرہ کچا تھا.وضو کے لئے ٹینکیاں رکھی ہوئی تھیں.اسی میں نشانِ سگ گزیدگی والے عبدالکریم صاحب حیدر آبادی وضو کر رہے تھے کہ پانی سے ڈر گئے.(اس نشان کا ذکر حقیقۃ الوحی میں درج ہے.موصوف کے سواغ اصحاب احمد یہ جلد اول میں تفصیلاً مرقوم ہو چکے ہیں.مؤلف)
۶۷۴ ( نمبر ۱۸) بیان مولوی صاحب اس جگہ اور ساتھ کی خالی جگہ میں حضرت نانا جان جزی کاشت کرواتے تھے.پھر آپ نے یہ کمرہ تعمیر کروایا جس کا ایک دروازہ مغرب کی طرف ایک کھڑ کی جنوب کی طرف اور غالبا دو کھڑکیاں یا دروازے مشرق کی طرف تھے.اسی کمرہ میں مدرسہ تعلیم الاسلام کی شاخ (جماعت) دینیات کا حضرت اقدس کے زمانہ میں افتتاح ہوا تھا.ابتداء میں اس جماعت کے چھپیں ستائیس طالبعلم تھے بالآ خر صرف دو یعنی میں اور مولوی احمد بخش صاحب مرحوم ساکن ضلع گجرات باقی رہ گئے تھے غالباً حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب ہمیں پڑھاتے تھے.اب یہ کمرہ موجود نہیں.البتہ خلافت ثانیہ میں قریباً اس ساری زرعی قطعہ پر عمارت تعمیر ہوئی جس میں دار الشیوخ کے تیامی وغیرہ قیام رکھتے تھے.خلافت ثانیہ میں کچھ عرصہ اس کے بالا خانہ میں الفضل کا دفتر بھی رہا.دینیات کی شاخ ۱۹۰۶ء میں جاری ہوئی تھی.مؤلف ) ( نمبر ۱۹، وسطی پھاٹک سے ملحق جانب شمال یہ ایک لمبا کمرہ تھا جو بوقت تحریر دو کمروں میں منقسم ہو چکا ہے.بیان مولوی صاحب) حضرت اقدس کے زمانہ میں میرے والی جماعت بھی اس میں تعلیم پاتی تھی.بعد میں حضور کے زمانہ میں یہ کمرہ بطور بورڈ نگ استعمال ہونے لگا چنانچہ میں بھی بطور بور ڈر اس میں مقیم رہا ہوں.اس کے تین تین دروازے جانب مشرق و غرب تھے.جواب بھی موجود ہیں.اصحاب احمد جلد دوم میں حضرت مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم ربوہ کا کالج کے متعلق بیان درج ہے.پرانے صحن مدرسہ کا شرقی کمرہ بھی استعمال ہوتارہا (صفحہ ۱۸۲) پیمائش شرقا (باہر سے) سولہ فٹ دو انچ (اندر سے ) ۲ افٹ شمالاً جنوبا (باہر سے) تینتیس فٹ (اندر سے ) تمیں فٹ.نمبر 19 کی شرقی وغربی اور جنوبی دیوار میں غلافی ہیں اور ۲۰۱۹ کی درمیانی دیوار ابھی تک اولیس حالت میں ہے یعنی خام ہے.(نمبر ۱،۲۰) بیان مولوی صاحب.یہ دونوں کمرے بھی حضور کے زمانہ کے ہیں اور مدرسہ کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں.پیمائش نمبر ۲۰.شرقا غربا (ندر سے) ساڑھے بارہ فٹ شمالاً جنوبا (با ہر سے ) ساڑھے چالیس فٹ.پیمائش نمبر ۱۹.شرقا غربا اندر سے بارہ فٹ (اندر سے ) سوا بائیس فٹ.نمبر ۲۰ کی شرقی و شمالی دیواریں اور نمبر ۲۱ کی شمالی دیوار پختہ بن چکی ہیں.ہر دو کی بقیہ دیوار میں ابھی خام اور اولیس حالت میں ہیں.
۶۷۵ ( نمبر ۲۲ ،۲۳) حضور کے زمانہ میں یہ دونوں کمرے کالج کی جماعتوں کے لئے استعمال ہوتے تھے.دونوں میں حضرت مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بھی تعلیم دینے تشریف لاتے تھے.از مؤلف.ہر دو بزرگوں کے کالج میں تعلیم دینے کے متعلق حضرت مولوی محمد دین صاحب ( حال ناظر تعلیم ربوہ ) کا بیان خاکسار کی طرف سے اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۱۸۲ پر شائع ہو چکا ہے) پیمائش نمبر ۲۲ - شرقا غرباً ( اندر سے) اٹھارہ فٹ دس انچ.شمالاً جنوبا (اندر سے ) بارہ فٹ آٹھ انچ.نمبر ۳۲ کی غربی دیوار غلافی.شمالی پختہ بن چکی ہیں.دیگر دونوں دیوار میں جو دیگر کمروں سے مشترک ہیں اور ابھی تک قائم اور اُسی حالت میں ہیں.نمبر ۲۳ (از مؤلف ) خاکسار کے زمانہ تعلیم میں بھی یہ کمرہ اصلی شکل میں موجود تھا.ایک سال ہماری جماعت نے بھی اس میں تعلیم پائی اور چند روز کے لئے بطور بور ڈنگ بھی ہم اس میں مقیم رہے.تقسیم ملک کے بعد یہ کمرہ منہدم ہوا.اس کی بنیادوں وغیرہ سے انداز پیمائش لی گئی ہے.پیمائش شرقا غر با چھتیس فٹ اور شمالاً جنوبا ہ ہم فٹ ہے.اس کے جنوب کی طرف گلی جو اس کے اور ۲۰ تا ۲۲ کے درمیان ہے اس کی چوڑائی تو 4 فٹ ہے.( نمبر ۳۴ تا ۳۵) یہ تمام کمرے حضور کے عہد میں مدرسہ کے لئے استعمال ہوتے تھے.نمبر ۳۸ ( بیان مولوی صاحب ) حضور کے زمانہ میں یہاں دو کمرے تھے جن کو بعد میں ایک کر دیا گیا.اس وقت دونوں کی درمیانی دیوار میں دروازہ تھا اور مغرب کی طرف کوئی دروازہ تھا اور اس کے جنوبی حصہ والے کمرہ کا دروازہ جنوبی دیوار میں تھا.حضور کے زمانہ کے بعد جب حضرت حافظ حامد علی صاحب صدر انجمن کی ملازمت کے سبکدوش ہو گئے تو آپ نے شمالی حصہ والی دکان میں کچھ عرصہ کریانہ کی دکان کھولے رکھی.خاکسار مؤلف نے زمانہ طالبعلمی میں یہ کمرہ بشکل دکان دو حصوں میں منقسم دیکھا ہے.نیز او پر زیر نمبر۳ ذکر کیا گیا ہے کہ اس کے ایک حصہ میں حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب دکان کرتے تھے.نمبر ۲۹ ( بیان مولوی صاحب) اس کے تین دروازے اس زمانہ میں تھے جواب بھی ہیں.یعنی مشرق ، مغرب اور شمال میں اور حضور کے زمانہ کے بعد اس میں احمد یہ درزی خانہ ہوتا تھا جو تاتقسیم ملک رہا.پیمائش نمبر ۲۴ شرقاً غرباً (اندر سے) سوا تینتیس فٹ.شمالاً جنوباً (اندر سے ) پونے بارہ فٹ.پیمائش نمبر ۲۵ شرقا غربا (اندر سے ) بارہ فٹ.شمالاً جنوباً (اندر سے ) سترہ فٹ.پیمائش نمبر ۲۶ شرقا غربا (اندر سے ) سترہ فٹ.شمالاً جنوباً (اندر سے ) ساڑھے بارہ فٹ.پیمائش نمبر ۲۷ شرقا غرباً ( اندر سے سترہ فٹ.شمالاً جنوباً ( اندر سے ) ساڑھے بارہ فٹ.
پیمائش نمبر ۲۸ شرقا غربا (اندر سے ) گیارہ فٹ دو انچ.شمالاً جنوبا (اندر سے ) تئیس فٹ آٹھ انچ.پیمائش نمبر ۲۹ شرقاً غرباً (اندر سے) سوا چھبیس فٹ.شمالاً جنوباً (اندر سے) سوا پندرہ فٹ.نمبر ۲۴ تا ۲۹ کی دیواروں میں سے نمبر ۲۵ کی جنوبی.۲۸ کی غربی اور ۲۹ کی شرقی غربی اور شمالی دیوار میں غلافی اور ۲۶، ۲۷ کی جنوبی دیوار میں پختہ ہو چکی ہیں.بقیہ دیوار میں قائم ہیں یعنی اولین حالت میں ہیں.نمبر ۲۲ ، ۲۹ میں کالج کی کلاسوں کے لگنے کا ذکر کیا جاچکا ہے.اصحاب احمد جلد دوم میں حضرت مولوی محمد دین صاحب کا بیان شائع ہوا تھا.غالبا درزی خانہ والا کمرہ کلاس روم تھا.(صفحہ ۱۸۲) ممکن ہے کبھی اس میں بھی کلاس لگتی رہی ہو.(نمبر ۳۰) یہ ڈسپنسری تھی جس کے انچارج ڈاکٹر شیخ عبداللہ صاحب نومسلم تھے.( بیان بھائی جی ) وہ ڈاکٹر کے علم سے معروف گوکمپونڈر تھے.قادیان ہجرت کر آنے سے قبل انجمن حمایت اسلام لاہور کے پاس بطور کمپونڈ ر ملازم تھے.۱۹۰۷ء میں میں اور مکرم عبدالمجید خان صاحب شاہجہانپوری حال مقیم قلات شیخ صاحب مکرم سے ڈسپنسری کا کام اسی ڈسپنسری میں سیکھتے تھے.(از مؤلف) شیخ صاحب کا نام ۳۱۳ اصحاب کی فہرست مندرجہ ضمیمہ انجام آتھم میں ۲۱۱ نمبر پر شیخ عبداللہ دیر نچند صاحب کمپونڈر کے الفاظ میں مرقوم ہے اور سکونت لا ہور درج ہے.آپ تقسیم ملک کے وقت مغربی پاکستان ہجرت کر کے جانے پر مجبور ہوئے اور کئی سال قبل وہاں وفات پائی.یہ کمرہ ۳۰ بعد میں تا تقسیم ملک بطور احمد یہ بلڈ پواستعمال ہوتا تھا.اصحاب احمد جلد دوم میں کالج کے تعلق میں ایک صحابی کا یہ بیان درج ہے کہ نواب صاحب نے مدرسہ کی ڈسپنسری کا علیحدہ انتظام اور ڈاکٹر عبداللہ صاحب ( نومسلم ) کو ملازم رکھا جو بورڈنگ کے ٹیوٹر بھی تھے.(صفحہ ۱۸۲) پیمائش نمبر ۳۰.شرقا غربا (با ہر سے ) ہیں فٹ دس انچ.شمالاً جنوبا با ہر سے ) پندرہ فٹ ۴ اینچ نمبر ۲۹، ۳۰ کی درمیانی گلی ساڑھے آٹھ فٹ چوڑی ہے.اس وقت اس کی مشرقی دیوار پکی اور غربی غلافی بن چکی ہے.دیگر دونوں دیوار میں ابھی تک خام اور اُسی حالت میں ہیں.(نمبر ۳۱) یہ کنواں حضرت مہدی ومسیح موعود کے عہد مبارک میں بنایا گیا تھا.(نمبر ۳۲) بیان مولوی صاحب ابتداء میں صرف یہ صحن بطور بورڈنگ ہاؤس استعمال ہوتا تھا اور اس کے ہر دو طرف چوبی پھاٹک ہوتے تھے.پیمائش صحن مغربی شرقا غر باسوا اٹھارہ فٹ.شمالاً جنوباً پونے چھیالیس فٹ.
722 (نمبر (۳۲) مغربی صحن کے شرقی پھاٹک سے جانب شرق قریباً ہمیں چھپیں فٹ کے فاصلہ پر کھیل کی ایک سیکھی لکڑی نصب تھی.جس پر چو خودی کی طرف پر لکڑی لگی ہوئی تھی اور اس چر خوی کے چاروں سروں پر کنڈے تھے جس میں سے رسے لٹکائے جاتے تھے اور رسوں سے لٹک کر طلباء چکر لگاتے ہوئے ورزش کرتے تھے.نصب شدہ لکڑی یا پول پر چڑھ کر رسے لٹکانے کے لئے لکڑی کے ٹکڑے ارد گرد لگے ہوئے تھے جس پر پاؤں ٹکا کر رسے لٹکانے والا اوپر چڑھ سکتا تھا ( از مؤلف ) اس لکڑی کے پول کا ۱۹۰۲ء میں تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کی کارروائی میں ذکر آتا ہے.اس کے لئے الفاظ لمبا ستون” البدر نے اور لمبی لکڑی کے الفاظ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے استعمال فرمائے جس کی تشریح اصحاب احمد جلد دوم میں خاکسار نے ورزش کی لکڑی سے کی ہے.(صفحہ ۱۷۵،۱۷۳ متن و حاشیہ) بیان مولوی صاحب) حضرت حافظ نبی بخش صاحب سکنہ فیض اللہ چک کے فرزند شیخ عبد الرحمن صاحب جو حکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم مجاہد جنوبی افریقہ سے بڑے تھے.ہمارے ساتھ مدرسہ میں زیر تعلیم تھے.۱۹۰۵ء میں جب کہ حضرت مسیح موعود بڑے باغ میں مقیم تھے شیخ عبد الرحمن صاحب طاعون سے بیمار ہو گئے.وہ بورڈنگ میں رہتے تھے.بوجہ طاعون اُن کو مشرقی صحن میں ایک چھولداری میں رکھا گیا جو انداز موجودہ کنویں کے پاس لگائی گئی تھی.شیخ صاحب فوت ہو گئے اور روڑی قبرستان میں دفن کئے گئے یہ کنواں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے بعد بنا ہے.یعنی شرقی صحن والا.( از مؤلف ) مشرقی صحن میں کنوئیں کے وسط مقام پر × (ایکس) رقم کیا گیا ہے تا فاصلہ کا علم ہو سکے.پیمائش از جنوب مغربی کونہ تا جنوبی دیوار (بشمول چوڑائی دیوار یعنی Q تا QA) فاصلہ چوڑائی صحن ساڑھے سترہ فٹ ہے.نمبر (۳۴) درزی خانہ کا اوپر والا کمرہ بھی بعض دفعہ لیکچروں اور بعض دفعہ کالج کے بورڈروں کی رہائش کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے.صفحہ ۲ ۱۸.بیان حضرت مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم ربوہ بابت کالج.پیمائش.شرقا غربا (اندر سے) پونے اُنیس فٹ (باہر سے) ساڑھے اکیس فٹ شمالاً جنوبا اندر سے )۱۱ فٹ ایک انچ (باہر سے) ساڑھے پندرہ فٹ.چاروں دیوار میں اس وقت غلافی ہیں اس کی سیڑھیاں نمبر ۲۸ کے قریب تھیں.( مطابق بیان مولوی عبدالرحمن صاحب) پہلے چوبی ہوتی تھیں.اور خاکسار مؤلف نے بھی دیکھی ہوئی ہیں ) بعد میں تقسیم ملک سے بہت پہلے پختہ بنادی گئی تھیں.
(AB to BA) YZA تفصیل پیمائش: (AB to B)(A to T)(A to AB) ستتر فٹ (CD) بتیس فٹ (Dto E) چھبیس فٹ دس انچ (F to E) پونے پندرہ فٹ G to H) ایک صد تہتر فٹ تین انچ (1 to ) سوا تیرہ فٹ ( It ) سوا چھبیس فٹ (J to M ) یہاں رد و بدل ہو چکا ہے.to L ) چھپن فٹ ) دیوار میں بعد میں ردو بدل ہوا ہے.بلکہ تقسیم ملک کے بعد پھر رڈو بدل ہوا ہے.اس لئے یہ دیوار محض اندازا درج کی گئی ہے.O to P) انیس فٹ (P to Q ) سواسترہ فٹ to R ) بہتر فٹ Q to QA) ساڑھے ستتر فٹ (S to T) ساڑھے تہتر فٹ (S to U) سوا ۷۵ فٹ T to X) سواے فٹ (U to (A) اٹھہتر فٹ ایک انچ (to Y ) ساڑھے ۴۴ فٹ Z to ZA) ساڑھے میں فٹ.